Language: UR
اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مختلف فقہی معاملات پر فتاویٰ اورشریعت اسلام کو سمجھنے کے لئےآپ کے عطا فرمودہ بنیادی اصولوں پر مشتمل ارشادات و اقتباسات کو آپ ؑ کی تحریرات و ملفوظات وغیرہ سے باحوالہ جمع کرکے ایک جگہ پیش کیا گیا ہے۔ کیونکہ آنے والے مسیح محمدی کے بارہ میں خبر دی گئی تھی کہ وہ اسلام کے مختلف فرقوں اور تمام دنیا کے لئے حکم ہوکر آئے گا اور اپنے تمام قول وفعل میں عادل ہوگا۔ یوں اس کتاب کی شکل میں احباب جماعت کے لئے دینی اور فقہی مسائل کے بارہ میں یکجائی طور پر موادمہیا ہوگیا ہے تا وہ اس قیمتی اور گرانقدر سرمایہ سے کماحقہ اور آسانی سے استفادہ کرسکیں اور یہ ان کے لئے روزمرہ معاملات میں مشعل راہ ہوسکے اور سب احمدی احباب و خواتین کے لئے اللہ تعالیٰ کی کتاب کے احکامات اور اسوۃ رسول ﷺ کی پیروی و اطاعت اور ان کے متعلق مامورزمانہ کی تعلیمات کو جاننے، سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی راہیں کشادہ ہوتی جائیں۔
فقه المسيح
فقه المسيح Fiqhul-Masih (Urdu) A compilation of the sayings of Hazrat Mirza Ghulam Ahmad, on whom be peace, the Promised Messiah and Imam Mahdi on matters relating to religious law and jurisprudence First Published in Qadian, India, Oct, 2019 Copies: 1000 O Islam International Publications Ltd.Published by Nazarat Nashro Isha'at Qadian 143516 District Gurdaspur (Punjab), India Printed in India at Fazl-e-Umar Printing Press Qadian - 143516 (Punjab), For further information, please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-126-4 109876543
بسم الله الرحمن الرحيم خدا کے فضل اور رقم کے ساتھ ھوالناصر“ فقه المسيح شریعت کے اصول اور فقہی مسائل سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات
عرض ناشر کتاب ”فقہ المسیح شریعت کے اصول اور فقہی مسائل سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات پر مشتمل ہے.جو پہلی بار قادیان سے شائع ہو رہی ہے.اس کی پرنٹ ریڈی فائل ایڈیشنل وکالت تصنیف سے اشاعت کی کلیئرنس کے ساتھ ہمیں موصول ہوئی ہے.فجر اھم اللہ تعالی.انہیں کی ذمہ داری پر نظارت نشر و اشاعت قادیان سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ UK تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے اسے شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے مبارک کرے اور اس کی تیاری کے سلسلہ میں کام کرنے والے جملہ معاونین کو جزائے خیر عطا فرمائے.ناظر نشر واشاعت قادیان
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عرض حال حضرت خلیفہ اسی الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت واجازت سے حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فتاویٰ جو مختلف مواقع پر ارشاد فرمائے گئے حضور علیہ السلام کی کتب اور ملفوظات میں مندرج ہیں ان کو یکجا کر کے کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے.مسیح موعود کے لئے پہلے سے خبر دی گئی ہے کہ وہ اسلام کے مختلف فرقوں اور تمام دنیا کے لئے حکم ہو کر آئے گا اور اپنے تمام قول اور فعل میں عادل ہوگا.حضرت امام الزماں فرماتے ہیں:.اب تم خود یہ سوچ لو اور اپنے دلوں میں فیصلہ کر لو کہ کیا تم نے میرے ہاتھ پر جو بیعت کی ہے اور مجھے مسیح موعود، حکم، عدل مانا ہے تو اس ماننے کے بعد میرے کسی فیصلہ یا فعل پر اگر دل میں کوئی کدورت یا رنج آتا ہے تو اپنے ایمان کا فکر کرو.وہ ایمان جو خدشات اور توہمات سے بھرا ہوا ہے کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہوگا.لیکن اگر تم نے بچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح موعود واقعی حکم ہے تو پھر اس کے حکم اور فعل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دو اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک باتوں کی عزت اور عظمت کرنے والے ٹھہر و.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کافی ہے.وہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہوگا.وہ حکم عدل ہوگا.اگر اس پر تسلی نہیں ہوتی تو کب ہوگی.(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۵۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاویٰ کی الگ کتابی صورت میں اشاعت سے غرض یہ ہے
که تا احباب کو دینی اور فقہی مسائل کے بارہ میں یکجائی طور پر ارشادات پڑھنے اور جاننے میں آسانی ہو اور بوقت ضرورت اس کی تلاش کی سہولت میسر ہو.یہ ایک قیمتی اور گرانقدر سرمایہ ہے جو مشعل راہ ہے.اگر اس سے کما حقہ استفادہ کیا جائے تو کتاب اللہ کے احکامات اور اسوہ رسول کی پیروی واطاعت اور مامور زمانہ کی تعلیمات کو جانے ، سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی راہیں کشادہ ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان ہدایات کو دلنشیں کرنے اور حرز جان بنانے کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے کی سعادت بخشے.آمین
فهرست عناوین فقه المسيح عناوین حرف آغاز.حکم عدل کا فقہی اسلوب کچھ کے بارے میں فقہ احمدیہ کے مآخذ کے قرآن کریم اور حدیث بطور حجت شرعیہ ہر قسم کی احادیث کے لئے قرآن محک ہے احادیث صرف مفیدظن ہیں بخاری اور مسلم کی احادیث ظنی طور پر مسیح ہیں مذا ہب اربعہ کا اختلاف احادیث کی بنیاد پر ادب کی راہ سے حدیث کی تاویل کی جائے بخاری اور مسلم محد ثین کا اجتہاد ہے صفحہ 1 5 6 7 7 9 10 سنن متوارثه متعامله صفحہ عناوین بخاری اور مسلم کے صحیح ہونے پر اجماع نہیں اجماع کی تعریف از فقہاء خبر واحد سے قرآن پر زیادت ہوسکتی ہے حدیث سے کیا مراد ہے؟ حدیث ، جو معارض قرآن نہ ہو قابل قبول اجماع کی تعریف از حضرت مسیح موعود اجماع صرف صحابہ کے زمانہ تک تھا قرآن مجید کے خلاف اجماع نا قابلِ قبول صحابہ کا پہلا اجتماع تمام انبیاء کی وفات پر بخاری اور مسلم کی احادیث پر اجماع ہونے کی دلیل 11 حیات مسیح پر اجماع نہیں ہوا 18 18 19 12 19 19 20 20 22 23 23 23 24 24 24 24 25 25 25 25 25 26 26 26 27 28 بخاری مسلم کی صحت پر ہر گز ا جماع نہیں ہوا کیا بخاری مسلم کی کوئی حدیث موضوع ہے سلف صالحین میں سے آپ کا امام کون ہے؟ الہام ملہم کے لئے حجت شرعی کے قائمقام کسی حدیث کے صحیح ہونے کا مطلب 12 13 اجماع کے معنوں میں اختلاف اجماع صحابہ کی اتباع ضروری ہے 13 ایک صحابی کی رائے شرعی حجت نہیں 14 شرعی حجت صرف اجماع صحابہ ہے 14 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد احکام صوم وصلوٰۃ کو ظنی کیوں نہ سمجھا جائے؟ 15 کیا خبر واحد واجب العمل ہے؟ احادیث کے دو حصے 16 مخالف قرآن احادا حادیث نا قابل قبول مراتب صحت میں تمام حدیثیں یکساں نہیں 17 قیاسات مسلمہ مجتہدین واجب العمل ہیں! تعامل حجت قوی ہے! تعامل کے درجے 17 17 جماعت کے لئے لائحہ عمل ہماری مسلمہ کتابیں
فهرست عناوين صفحہ نمبر 45 45 5555 46 46 47 48 48 49 50 50 50 50 51 فقه المسيح ii عناوین صفحہ نمبر عناوین بخاری اور مسلم کا مقام 29 شافعی فرقے کے طور اطوار علم فقہ اور فقہاء کے تفقہ فی الدین کی ضرورت 31 جزئی مسائل میں مباحثے پر نا پسندیدگی 31 فقہی اختلافات کی بنیاد پر کافر نہ کہو ائمہ اربعہ اسلام کے لئے چار دیواری 31 حضرت مولوی نورالدین کا خفی ہونے کا اعلان 52 53 54 54 54 54 55 55 56 56 56 56 56 56 57 58 ائمہ اربعہ برکت کا نشان تھے 32 اہل حدیث طریق کی نا پسندیدگی حضرت امام ابوحنیفہ کا عالی مقام 32 کتب فقہ پر نظر ثانی کی ضرورت فخر الأئمه، امام اعظم ابو حنيفة 34 نماز کی حکمتیں حنفی مذہب پر عمل کی مشروط ہدایت 34 اوقات نماز کی فلاسفی مسیح موعود کے خفی مذہب پر ہونے سے مراد 34 با جماعت نماز کی حکمت مجددین ضرورت وقت کے مطابق آتے ہیں 35 ارکان نماز پر حکمت ہیں 35 شراب کے پانچ اوقات کی جگہ پانچ نمازیں 36 اذان کے 36 اذان خدا کی طرف بلانے کا عمدہ طریق 37 اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں دینا غیر مقلدین سے بھی تعصب نہ رکھو خانہ کعبہ میں چاروں مذاہب فقہ کے مصلے تقلید کی بھی کسی قدرضرورت ہے اختلاف فقهاء سنت صحیحہ معلوم کرنے کا طریق جائز قیاس جو قرآن وسنت سے مستنبط ہو 38 اذان کے وقت خاموش رہنا لازمی نہیں 38 بچے کے کان میں اذان قیاس کی حجت 39 کیا اذان جماعت کے لئے ضروری ہے مقلدوں اور غیر مقلدوں کے اختلافات عبداللہ چکڑالوی کے خلاف وجوہ کفر 40 40 اور وضو كم ظاہری پاکیزگی کا اثر باطن پر وہابیوں کی ظاہر پرستی وہابیوں اور چکڑالویوں کا افراط و تفریط احناف کا احوال 41 وضو کی حقیقت اور فلاسفی 43 وضو کے طبی فوائد 44 وضو میں پاؤں دھونا ضروری ہے
فهرست عناوين صفحہ نمبر 76 76 78 78 78 79 79 880 81 81 81 62 82 83 83 83 83 ळ 84 84 86 86 98 85 85 88 !!! فقه المسيح صفحہ نمبر عناوین مضر صحت پانی کو استعمال نہ کریں 58 سینے پر ہاتھ باندھنا عناوین گندے جو ہڑ کے پانی سے وضو درست نہیں 59 نماز میں ہاتھ ناف سے اوپر باندھنا کنوئیں کو پاک کرنے کا مسئلہ 59 نماز با جماعت کی حضرت مسیح موعود کے وضو کا طریق 60 امام کہاں کھڑا ہو؟ موزوں پر مسح 61 امام مقتدیوں کا خیال رکھے پھٹی ہوئی جراب پر مسح کرنا 61 بیماری کے باوجود حکیم فضل دین کو امام بنانا بیمار کا مسلسل اخراج ریح ناقض وضو نہیں 61 غسال کے پیچھے نماز شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا کپڑے صاف نہ ہونے کا شک 62 امامت کو بطور پیشہ اختیار کرنا جائز نہیں 62 اجرت پر امام الصلوۃ مقرر کرنا سجدہ والی جگہ پاک ہو تو نماز ہو جاتی ہے 63 پیشہ ور امام کے پیچھے نماز درست نہیں ارکان نماز ارکان نماز کی حقیقت تکبیر تحریمہ بسم الله جهرا یا سِرًّا دونوں طرح جائز ہے رفع یدین ضروری نہیں فاتحہ خلف الامام 64 دوسری جماعت 64 بعض صورتوں میں دو جماعتوں کی ممانعت 65 بغیر وجہ جماعت الگ الگ ٹکڑوں میں نہ ہو 65 امام الصلوۃ کے لئے ہدایت 66 امام بطور وکیل کے ہوتا ہے 68 مکفرین و مکذبین کے پیچھے نماز پڑھنا حرام ہے مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری 69 غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھو رکوع میں ملنے والے کی رکعت ہو جاتی ہے 73 غیروں کے پیچھے نماز جائز نہ ہونے کی وجہ تشہد کے وقت انگلی اُٹھانا 74 غیروں کی مساجد میں نماز تشہد میں انگلی اُٹھانے کی حکمت 75 اکیلے احمدیوں کے لئے ہدایت رکوع و سجود میں قرآنی دعا کرنا 75 صرف تصدیق کرنے والوں کے پیچھے نماز پڑھو رکوع و سجود میں تسبیحات کے بعد اپنی زبان میں دعا 76 متفرق مسائل نماز
فقه المسيح iv فهرست عناوين صفحہ نمبر عناوین صفی نمبر عناوین نمازوں کی ترتیب ضروری ہے 88 تعداد رکعات نماز با جماعت کھڑی ہونے پر سنتیں پوری کرنا ؟ 89 نماز کے بعد تشبیح سنتوں کے متعلق حضرت مسیح موعود کا معمول 91 غیر معمولی اوقات والے علاقوں میں نماز مسجد کے ستونوں کے درمیان نماز 92 نماز جمع کرنے کی صورت میں سنتیں معاف 102 103 104 105 طلوع فجر کے بعد سورج نکلنے تک نوافل جائز نہیں 92 نماز میں قرآن شریف کھول کر پڑھنا مناسب نہیں 107 امام کے سلام پھیرنے سے قبل سلام پھیرنا بآواز بلند اپنی زبان میں دعا جهرا دعا میں پڑھنا 92 امام وقت کے بلانے پر نماز توڑنا 93 ضرورتا نماز توڑنا 94 سخت مجبوری میں نماز توڑنا جائز ہے سجدہ میں قرآنی دعائیں پڑھنا منع کیوں؟ 95 جوتا پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے 96 پان منہ میں رکھ کر نماز ادا کرنا الہامی کلمات نماز میں بطور دعا پڑھنا الہامی دعائیں واحد کی بجائے جمع کے صیغہ میں پڑھنا 96 عورت مرد کے پیچھے الگ صف میں نماز پڑھے حالات کے مطابق دعا کے الفاظ میں تبدیلی 97 نماز میں عورتوں کی الگ صف قرآنی دعاؤں میں تبدیلی مناسب نہیں 97 نماز میں مجبور عورت کو ساتھ کھڑا کرنا دعا میں رقت آمیز الفاظ کا استعمال وتر کیسے پڑھے جائیں بہتر ہے اول وقت وتر پڑھ لیں 98 امام کا جھرا بسم اللہ پڑھنا اور قنوت کرنا 98 نمازوں میں قنوت کی دعائیں 98 مخصوص حالات میں قنوت پڑھنا حضرت مسیح موعود کا وتر پڑھنے کا طریق 99 نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا وتر اور دعائے قنوت تہجد کی نماز کا طریق تہجد کا اول وقت ایک رکعت میں قرآن ختم کرنا نماز اشراق پر مداومت ثابت نہیں 99 نماز میں اپنی زبان میں دعا کرنا جائز ہے 100 نماز میں اپنی زبان میں بھی دعا کرو 101 نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کروانا چھوڑ دیا 101 نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بدعت ہے 101 کسی اور زبان میں نماز پڑھنا درست نہیں 107 108 108 109 109 109 110 110 111 111 112 113 114 115 116 118 122
فقه المسيح صفحہ نمبر عناوین نمازیں جمع کرنا ) 123 V عناوین فهرست عناوين صفحہ نمبر قصر نماز ) 140 مسیح موعود کے لئے نمازیں جمع کی جائیں گی 123 سفر کی تعریف بیماری کی وجہ سے نمازیں جمع کرنا جمع بین الصلوٰ تین مہدی کی علامت ہے 123 سفر کی حد کیا ہے؟ 124 مرکز میں نمازوں کا قصر جائز ہے مسیح موعود کیلئے نمازیں جمع کئے جانے کی پیشگوئی 126 کتنے دنوں کے سفر میں نماز قصر کی جاسکتی ہے؟ جمع بین الصلوتین کی رخصت سے فائدہ اٹھانا 127 ملازمت پیشہ دوران سفر قصر نہ کرے تُجْمَعُ لَهُ الصَّلوة کے نشان کا ظہور 127 سفر سے پہلے نمازوں کا جمع کرنا جمع صلو تین میں افراط اور تفریط سے بچنا چاہئے 128 مقیم پوری نماز ادا کرے کس قدر مسافت پر نماز جمع کی جائے 129 || سفر میں قصر کی حد 130 قصر نماز کا تعلق خوف اور ہر سفر کے ساتھ ہے 140 140 141 142 144 145 145 146 147 سخت تنگی کے وقت نمازیں جمع کرنا غزوہ خندق کے موقع پر کتنی نمازیں جمع کی گئیں 130 حضرت مسیح موعود کا طریق نماز 148 نماز استخاره استخارہ کی اہمیت سفر سے پہلے استخارہ کا طریق ہرا ہم کام سے پہلے استخارہ کرنا نماز عصر میں استخارہ استخارہ میں کونسی سورتیں پڑھیں 132 حضرت مسیح موعود کی نماز کا تفصیلی نقشہ 132 132 جمعہ کا اہتمام نماز جمعہ اور عید 133 نماز جمعہ سے قبل دو منتیں پڑھنا 134 کیا دوا فراد کا جمعہ ہو سکتا ہے؟ 134 جمعہ کے لئے جماعت ضروری ہے حضرت مسیح موعود کا طریق استخاره 135 اپنا جمعہ الگ پڑھو استخارہ کا ایک آسان طریق 136 نماز جمعہ کے بعد احتیاطی نماز کھلے نشانات دیکھ استخارہ کرنا جائز نہیں 137 جمعہ دو جگہوں پر نماز استسقاء 138 || قادیان میں دو جمعے اور اس کی وجہ نماز کسوف 139 | سفر میں نماز جمعہ 152 157 157 157 158 159 159 159 161 162 163
فقه المسيح عناوین جمعہ پڑھنے کے لئے تعطیل کی تجویز تعطیل جمعہ کے لئے حکومت کو میموریل بھیجنا اگر جمعہ کا خطبہ ثانیہ نہ آتا ہو صفحہ نمبر vi عناوین 164 قبرستان میں جا کر منتیں مانگنا 164 میت کو گاڑی پر قبرستان لے جانا فهرست عناوين صفح نمبر 167 صبح کے وقت زیارت قبور سنت ہے قضاء عمری 167 قبر پر جا کر کیا دعا کرنی چاہئے؟ عورتوں کے لئے جمعہ کا استثناء 168 حفاظت کے خیال سے پختہ قبر بنانا جائز ہے قادیان میں عید الفطر 168 قبروں کی حفاظت اور درستگی کروانا عیدین کی تکبیرات 169 کیا فاتحہ خوانی جائز ہے خطیب اور امام الگ الگ ہو سکتے ہیں 169 کھانے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے مساجد کی 170 میت کی طرف سے صدقہ کرنا اور قرآن پڑھنا ؟ مساجد کیسی ہوں مسجد کا ایک حصہ مکان میں ملانا 170 جس کے ہاں ماتم ہو اُس کے ساتھ ہمدردی 171 کسی احمدی کا طاعون سے مرنا ایک مسجد کے لئے چندہ کی درخواست سورۃ یسین کی سنت پر عمل کرنا 171 احمدی شہید کا جنازہ فرشتے پڑھتے ہیں نماز جنازہ اور تدفین کے 172 غیر احمدیوں کی نماز جنازہ پڑھنا 172 طاعون سے مرنے والے مخالفین کا جنازہ وفات کے متعلق عوام کے بعض غلط تصورات 172 غیر احمدیوں کا جنازہ پڑھنے کا مسئلہ غسل میت.بیری کے پتوں کا استعمال 173 مشتبہ الحال شخص کا جنازہ سب کا جنازہ پڑھ دیا حضرت مسیح ناصری کا جنازہ خاندانی قبرستان میں دعا 173 کشفی قوت کے ذریعہ میت سے کلام 174 | مُردوں سے استفاضہ 174 نعش کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا چہلم کی حکمت 175 امامیا دفن شدہ میت کا چہرہ دیکھنا مزاروں کی زیارت 175 تدفین کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا مردہ سے مدد مانگنا جائز نہیں 176 روزہ اور رمضان کے 177 177 178 179 180 181 182 182 183 184 185 185 186 187 187 190 191 192 192 192 193 194
فقه المسيح vii صفحہ نمبر عناوین رؤیت ہلال عناوین 194 کم عمری میں روزہ رکھنے کی ممانعت چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے تو کیا کریں؟ 195 شوال کے چھ روزوں کا التزام چاند دیکھنے کی گواہی سحری میں تاخیر 195 روزہ کی حالت میں آئینہ دیکھنا فهرست عناوين صفر نمبر سحری کے وقت احتیاط کی ایک مثال سفر میں روزہ حکم ہے اختیار نہیں مسافر اور مریض روزہ نہ رکھیں ظہر کے وقت روزے کھلوا دیئے 196 | روزہ کی حالت میں سر یا داڑھی کو تیل لگانا 198 روزہ کی حالت میں آنکھ میں دوائی ڈالنا 198 روزہ دار کا خوشبو لگانا 199 روزہ دار کا آنکھوں میں سرمہ ڈالنا 202 نماز تراویح عصر کے بعد روزہ کھلوا دیا 202 || تراویح کی رکعات سفر میں روزہ رکھنے پر روزہ کھلوا دیا 202 تراویح دراصل نماز تہجد ہی ہے سفر میں روزہ کھول دینا 214 215 216 216 216 216 217 217 217 218 203 نماز تراویح میں غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر لقمہ دینا 218 سفر میں رخصت.ملامت کی پرواہ نہ کی 204 بے خبری میں کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹو تھا 205 رسول اللہ علی کے وصال کے دن روزہ رکھنا مسافر کا حالت قیام میں روزہ رکھنا بیمار ہونے پر روزہ کھول دینا 208 || کیا محرم کے روزے ضروری ہیں؟ معمولی بیماری میں روزہ رکھنے کی اجازت 208 || اعتکاف بیماری میں روزہ کے متعلق حضور کا معمول 209 || اعتکاف کے دوران بات چیت کرنا مسافر اور مریض فدیہ دیں 210 اعتکاف کے متعلق بعض ہدایات فدیہ دینے کی کیا غرض ہے؟ 210 اعتکاف میں مقدمہ کی پیشی پر جانا ؟ فدیہ دینے سے روزہ ساقط نہیں ہوتا فدیہ کیسے دیں؟ مزدور بھی مریض کے حکم میں ہے روزہ کس عمر سے رکھا جائے و زکوة کم 212 روزے، حج اور زکوۃ کی تاکید 212 | زکوۃ کا نام رکھنے کی وجہ 211 212 ☆☆☆ 219 219 219 219 220 220 220 221 221 221
فهرست عناوين صفی نمبر فقه المسيح viii عناوین صفحہ نمبر عناوین زیور پر زکوة 221 دلوں کی پاکیزگی کچی قربانی ہے قرض پر زکوة 222 قربانی میں دیگر مذاہب پر اسلام کی فضیلت معلق مال پر زکوۃ واجب نہیں 222 قربانی صرف صاحب استطاعت پر واجب سید کے لئے زکوة ؟ 222 غیر احمدیوں کے ساتھ مل کر قربانی کرنا زکوۃ مرکز میں بھیجی جائے مکان اور جواہرات پر زکو نہیں زکوۃ کی رقم سے حضور کی کتب خرید کر تقسیم کرنا 223 بکرے کی عمر کتنی ہو؟ صاحب توفیق کے لئے زکوۃ جائز نہیں 223 ناقص جانور قربانی کے لئے ذبح نہ کیا جائے 224 عید الاضحی کا روزہ 224 عقیقہ کس دن کرنا چاہئے صدقہ کا گوشت صرف غرباء کا حق ہے 224 حضور کا ایک دوست کی طرف سے عقیقہ کرنا صدقہ کی جنس خریدنا جائز ہے 225 عقیقہ کے واسطے کتنے بکرے مطلوب ہیں؟ حضور نے اپنی اولاد کے لئے صدقہ لینا جائز قرار نہ دیا 225 عقیقہ کی سنت دو بکرے ہی ہیں ر حج 226 حج کی تاکید نکاح 226 | نکاح کی اغراض ارکان حج کی حکمتیں 226 عورتوں کو کھیتی کہنے کی حکمت حج کی شرائط 228 منگنی نکاح کے قائم مقام نہیں حضور کے حج نہ کرنے کی وجوہات 229 | نکاح میں لڑکی کی رضامندی ضروری ہے حج کی مشکلات سے نہ گھبراؤ مسیح موعود کی زیارت کو حج پر ترجیح دینا 233 غیر احمدی کو لڑکی دینے میں گناہ ہے 231 احمدی لڑکی کا غیر احمدی سے نکاح جائز نہیں مامور من اللہ کی صحبت کا ثواب نفلی حج سے زیادہ ہے 233 مخالفوں کو لڑکی ہرگز نہ دو 234رشتہ کے لئے لڑکیوں کا دکھانا وفات یافتہ کی طرف سے حج بدل قربانی کی حکمت قربانی کے مسائل 235 ہم کفورشتہ بہتر ہے لیکن لازمی نہیں 235 | نکاح طبعی اور اضطراری تقاضا ہے 235 235 236 236 237 237 237 238 238 239 239 240 240 241 242 242 243 243 243 244 245 245
فقه المسيح صفحہ نمبر عناوین کم عمری کی شادی جائز ہے ix فهرست عناوين صفر نمبر عناوین 246 سکھ عورت مسلمان کے نکاح میں رہ سکتی ہے حضرت عائشہ کی شادی پر اعتراض کا جواب 248 صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کا کم عمری میں نکاح تعدد ازدواج میں عدل کے تقاضے 249 طلاق کے بعد دوبارہ نکاح 270 271 271 اسلام نے کثرت ازدواج کا راستہ روکا ہے 251 حلالہ حرام ہے تعد دازدواج کی ضرورت اور حکمت 251 نکاح خواں کو تحفہ دینا 272 274 تعددازدواج.حکم نہیں بلکہ اجازت ہے 256 | حیض کے دنوں میں عورتوں سے کیسے تعلقات ہوں 275 بیویوں کے درمیان اعتدال ضروری ہے 257 وٹے سٹے کی شادی اگر مہر دے کر ہو تو جائز عورتوں کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے 258 نکاح متعہ کی ممانعت تعدد ازدواج برائیوں سے روکنے کا ذریعہ ہے 260 اسلام میں متعہ کا کوئی حکم نہیں پہلی بیوی کی موجودگی میں رشتہ کرنا مہر کی مقدار 261 اسلام نے متعہ کو رواج نہیں دیا 261 متبنی حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہوتا حق مہر خاوند کی حیثیت کے مطابق ہو 262 متبنی کی مطلقہ سے نکاح کا جواز واجب الادا مہر کی ادائیگی لازمی ہے 262 طلاق مہر کی ادائیگی سے قبل مہر کی معافی نہیں ہوسکتی 263 طلاق کی اجازت دینے میں حکمت اعلان نکاح ضروری ہے ولیمه شادی کے موقعہ پرلڑکیوں کا گانا 263 طلاق کا اختیار مرد کو کیوں دیا ؟ 265 عورت نکاح توڑنے کی مجاز کیوں نہیں؟ 265 طلاق کا موجب صرف زنا نہیں نکاح پر با جا اور آتش بازی مہر نا مہ رجسٹری کروانا نکاح کے موقع پر زائد شرط رکھنا 266 | طلاق کے بعد مہر عورت کا حق ہے 267 || طلاق کا قانون باعث رحمت ہے 268 | طلاق کی ضرورت حضور کا ایک لڑکی کی طرف سے ولی بننا 268 وجوہ طلاق ظاہر کرنا ضروری نہیں بیوگان کا نکاح کر لینا بہتر ہے 269 کیا بوڑھی عورت کو طلاق دی جا سکتی ہے؟ 275 276 276 278 279 282 284 284 284 285 286 286 287 287 289 289
فقه المسيح صفحہ نمبر عناوین X عناوین فهرست عناوين صفی نمبر طلاق میں جلدی نہ کرو شرطی طلاق طلاق اور حلالہ طلاق وقفے وقفے سے دی جائے ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دینا نا جائز ہے طلاق کے بعد دوبارہ نکاح 291 امہات المومنین کا پردہ 292 پر دے میں بے جا سختی نہ کی جائے 293 نامحرم عورتوں سے مصافحہ جائز نہیں 294 اضطرار میں پردہ کی رعایت 308 308 309 309 295 خرید و فروخت / کاروباری امور ) 311 296 ذخیرہ اندوزی نا جائز ہے نابالغ کی طرف سے اس کا ولی طلاق دے سکتا ہے 297 بیع و شراء میں عرف کی حیثیت 311 311 خلع عورت کو ضلع کا اختیار حاصل ہے 298 بیچنے والے کو اپنی چیز کی قیمت مقرر کرنے کا اختیار ہے 312 298 تجارتی روپیہ پر منافع حاکم وقت کے ذریعے خلع حاصل کرنے کی وجہ 299 نیک نیتی میں برکت ہے خلع میں جلدی نہیں کرنی چاہئے 299 رہن رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اُٹھانا جائز وراثت کی 301 رہن میں وقت مقرر کرنا فاسقہ کا حق وراثت 301 رہن با قبضہ ہو اور تحریر لینا بھی ضروری ہے متدینی کو وارث بنانا جائز نہیں یتیم پوتے کا مسئلہ 301 تمیں سال کے لئے باغ رہن رکھوانا 302 زمین کی تقسیم کے لئے قرعہ ڈالنا 312 313 313 314 315 315 317 لڑکی کو نصف حصہ دینے کی حکمت 303 مجبور لوگوں کو مہنگے داموں غلہ فروخت کرنا جائز نہیں 318 مجبورلوگوں ظور پرده کی 304 | آبکاری کی تحصیلداری پردہ کی فلاسفی 304 نوٹوں پر کمیشن پردہ پر ہونے والے اعتراض کا جواب خاص حالات میں پردہ کی رعایت پردہ میں حد درجہ تکلف ضروری نہیں 305 306 306 سود، انشورنس ، بینکنگ ) سور سود در سود پردہ کی حدود 307 پراویڈنٹ فنڈ 318 319 320 320 320 321
فقه المسيح عناوین صفحہ نمبر xi فهرست عناوين صفر نمبر عناوین تجارت کے لئے سودی روپیہ لینے کی ممانعت 321 حکام اور سب مذاہب والوں سے نیکی کرو بینکوں کا سودا شاعت اسلام کے لیے خرچ کرنا 323 رشوت کی تعریف انشورنس یا بیمه لائف انشورنس 327 گورنمنٹ کے حقوق تلف نہ ہوں 327 قومی اور حکومتی زبان سیکھو سیونگ بنگ اور تجارتی کارخانوں کے سود 328 پٹواریوں کیلئے زمینداروں کے نذرانے کسی قیمت پر سودی قرضہ نہ لے 329 شہر کے والی حاکم کے لئے دعائیہ نوافل قرضہ واپس نہ کرنے والے سے ہرجانہ وصول کرنا 330 گورنمنٹ کے قوانین کی اطاعت کرو سود کی مصیبت سے بچنے کے لئے سود لینا بیمه زندگی اخبار کی پیشگی قیمت کم اور مابعد زیادہ حضرت مسیح موعود کے پانچ اصول حکام برادری سے حسن سلوک 330 حکومت کی مخالفت میں ہڑتال کی ممانعت 331 حلت و حرمت 332 پاک چیزیں حلال ہیں حکومت کی اطاعت ) 333 دریائی جانوروں کی حلت کا اصول 333 اصل میں اشیاء حلال ہیں 333 خرگوش حلال ہے انگریزوں کی حکومت میں رہنے کا مسئلہ 334 شراب اور جوئے کی حرمت اولوالامر کون ہے اولو الامر کی اطاعت 336 دوسری قوموں سے سود لینا بھی حرام ہے 337 شراب کی حرمت دو انگریزوں کے قتل ناحق پر اظہار ناراضگی 338 شراب کے مضر اثرات حکومت کی طرف سے دی گئی آزادی کیا ہندوستان دارالحرب ہے؟ ہر قسم کی بغاوت سے بچو طلباء کو ہڑتال ختم کرنے کی نصیحت ہڑتال میں شمولیت پر سخت تنبیہ 340 حرمت خنزیر اور اس کی وجوہات 341 | تورات وانجیل میں سور کی حرمت 344 حلت و حرمت میں زیادہ تفتیش نہ کرو 348 رضاعت سے حرمت 349 رشوت کی تعریف 351 352 352 353 353 353 355 355 356 356 356 356 357 357 357 358 358 359 360 361 362 363
فقه المسيح عناوین xii عناوین فهرست عناوين صفر نمبر 363 صوفیاء کے طریقوں کو حسن ظنی سے دیکھنا صفحہ نمبر زنا تضييع نسل کا موجب ہے تکبیر پڑھ کر پرندہ شکار کرنا جانور کو ذبح کرنا ضروری ہے 364 عورتوں کو خصوصی نصائح 364 | محرم میں رسومات سے بچو نجاست خور گائے کا گوشت حرام ہے 365 فوت شدگان کے نام پر روٹی تقسیم کرنا علاج کے طور پر ممنوع چیزوں کا استعمال 365 نقشبندی صوفیاء کے ذکر واذکار کے طریق 379 381 386 387 387 نشہ آور چیزیں مضر ایمان ہیں تمام نشہ آور اشیاء کے استعمال کی ممانعت 366 بعض رسوم فوائد بھی رکھتی ہیں 366 بدعات سے روکنے کے لئے ناجائز طریق اختیار کرنا 389 نشہ آور اشیا کا استعمال عمر کو گھٹا دیتا ہے 367 | فاتحہ خوانی اور اسقاط افیون کے مضر اثرات نشہ آور چیزوں سے بچنے کا عملی نمونہ تمباکونوشی کے مضر اثرات حقہ نوشی پر ناپسندیدگی کا اظہار معمر مہمان کو حقہ پینے کی اجازت حقہ آہستہ آہستہ چھوڑ دو تمباکور زردہ کا استعمال 367 میت کے لئے اسقاط 367 قل خوانی 368 میت کے لئے فاتحہ خوانی 369 ختم اور فاتحہ خوانی 370 جہلم کی رسم نا جائز ہے 370 مسجد کی امامت اور ختم پر اجرت لینا 371 طاعون سے محفوظ رہنے کے لئے زیارتیں لیکر نکلنا مقوی صحت ادویات کا استعمال جائز 372 یا شیخ عبدالقادر جیلانی کہنا کیسا ہے طیبات کا استعمال تصویر کی حرمت کا مسئلہ سماع مزامیر نظر بجو 373 || مولود خوانی 374 گدی نشینوں کی بدعات بدعات اور بد رسومات کے 377 سرود کی رسم 377 فقراء کے نت نئے طور طریقے 377 | بہترین ریاضت 379 آج کل کے پیر 389 390 390 391 391 391 392 392 393 394 395 397 398 399 401 401
xiii عناوین فهرست عناوين صفی نمبر فقه المسيح صفحہ نمبر عناوین جھنڈ یا بودی رکھنا 402 || فوٹوگرافی میت کے نام پر قبرستان میں کھانا تقسیم کرنا 402 تصویر مفسد نماز نہیں محرم پر تابوت بنانا اور اس میں شامل ہونا 403 حضرت مسیح موعود کی تصویر کارڈ پر چھپوانا دسویں محرم کو شربت اور چاول کی تقسیم 403 | فوٹو بنوانے کی غرض ذکرار ہ کرنا کیسا ہے؟ تسبیح کا استعمال کیسا ہے؟ 403 فوٹو گرافی کا جواز اور اس کی ضرورت سورہ فاتحہ کے تعویذ کی برکت تعویذ گنڈوں کے فوائد تصوراتی ہیں دلائل الخیرات کا ورد بابا تھے شاہ کی کافیاں بسم اللہ کی رسم 404 | ضرورت کیلئے تصویر کا جواز 405 || حضور کی نظموں کی ریکارڈنگ 407 | کفار کی مصنوعات کا استعمال جائز ہے 408 ریل کا سفر ہمارے فائدہ کے لئے ہے 419 420 422 424 425 426 426 427 427 408 امور معاشرت، رہن سہن، باہمی تعاون 428 409 وحدت قومی سے وحدت اقوامی تک کلام پڑھ کر پھونکنا کشف قبور کا دعوی بے ہودہ بات ہے خود ساخته و ظائف واذکار تصور شیخ 410 مخالفین کے ساتھ معاشرت کیسے کریں 410 غیر تہذیب یافتہ لوگوں کیساتھ برتاؤ 410 شادی پر عورتوں کا مل کر گیت گانا 413 بعض مواقع پر غیر معمولی خوشی کا اظہار کرنا قلب جاری ہو جانے کا مسئلہ 414 | ایک ہندو مہمان کے ساتھ خوش خلقی جبس دم 417 | ہندوؤں سے ہمدردی نصف شعبان کی رسوم 417 اہل کتاب کا کھانا برآمدگی مراد کے لئے ذبیحہ دینا 417 وجودی فرقے کا ذبیحہ کھانا نئی ایجادات ، فوٹوگرافی ، ٹیکہ ، ریل 418 خواب کو پورا کرنا اسباب سے استفادہ جائز ہے 418 | طبیب ہمدردی کرے اور احتیاط بھی خادم شریعت فن جائز ہے 418 طاعون سے مرنے والے کو غسل کیسے دیں؟ 428 431 431 432 432 433 434 434 437 437 437 438
فقه المسيح عناوین صفحہ نمبر xiv عناوین فهرست عناوين صفر نمبر طاعون زدہ علاقوں کے احمدیوں کیلئے حکم نشان کے پورا ہونے پر دعوت دینا جائز مجالس مشاعرہ نسل افزائی کیلئے سانڈ رکھنا 438 آتش بازی با جا 440 سکھوں اور ہندوؤں کا اذان دلوانا 441 سونے ، چاندی اور ریشم کا استعمال 441 رشوت کے روپیہ سے بنائی گئی جائیداد بدامنی کی جگہ پر احمدی کا کردار 442 طاعون زدہ علاقہ میں جانے کی ممانعت تشبه بالكفار 442 بھاجی قبول نہ کرنا کھانے کے لئے چھری کانٹے کا استعمال 443 بچے کی ولادت پر مٹھائی بانٹنا اپریل فول ایک گندی رسم ہے 444 بیعت کے موقعہ پر شیرینی تقسیم کرنا عیسائیوں کے کنوئیں کا پانی نہ لیا دینی غیرت کا اظہار مٹھائی نہیں کھائی بد گومخالفین سے معانقہ نا جائز ناول لکھنا اور پڑھنا غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دینا عیسائیوں کا کھانا جائز ہے ہندوؤں کے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا 445 بچے کی پیدائش پر شکرانہ کے لڈو 445 گانے بجانے کی مجلس سے علیحدگی 446 ٹنڈ کروانے کی نا پسندیدگی 447 حضرت مسیح موعود کے مصافحہ کا طریق 447 لباس میں سادگی 447 لباس.سبز پگڑی پہننا 448 حضرت مسیح موعود کی بعض عادات مبارکہ ہندو رئیسہ کی دعوت اور نذ رقبول کرنا 448 حضرت مسیح موعود کا وسمہ اور مہندی استعمال کرنا ہندوساہوکار کی دعوت میں شرکت 449 متفرق ) ہندوؤں کے ساتھ لین دین / معاشرت 450 | قرآن شریف کی جامعیت مقدمات میں مصنوعی گواہ بنانا 450 قرآن کریم میں سب قوانین موجود ہیں اشعار اور نظم پڑھنا 451 قرآن کریم اور سائنس شعر کہنا 451 قرآن کا صرف ترجمہ پڑھ لینا کافی نہیں آتش بازی 452 نماز اور قرآن شریف کا ترجمہ جاننا ضروری 453 454 454 455 455 456 456 457 458 458 459 461 461 463 463 465 466 466 466 467 467 467
فقه المسيح عناوین صفحہ نمبر XV عناوین فهرست عناوين صفحہ نمبر تکلف سے قرآن پڑھنے کی نا پسندیدگی 468 زلزلہ کے وقت سجدہ ریز ہو جانا کلام پڑھ کر پھونکنا 468 برتھ کنٹرول قرآن شریف پڑھ کر بخشا ثابت نہیں 468 لونڈیاں کیوں بنائی گئیں؟ قرآن شریف سے فال لینے کی ناپسندیدگی 469 زنا کی گواہی تلاوت کے دوران اگر وضو ساقط ہو جائے 469 مہندی لگانا سنت ہے ایام حیض میں قرآن کریم نہ پڑھیں قرآن شریف کے اوراق کا ادب آمین کی تقریب پر تحدیث نعمت تعظیم قبلہ 469 والدین کی فرمانبرداری کس حد تک ؟ 470 داروغہ نہ بنو 470 بڑی عمر میں ختنہ کروانا ضروری نہیں 471 | حضرت مسیح موعود کی بعض خصوصیات سورۃ فاتحہ کا دم تعویذ اور دم 471 حضرت مسیح موعود کی اولاد کیلئے صدقہ نا جائز 472 رسول اللہ علہ کے لئے سلامتی کی دعا شکرانہ کی نیت سے نذر ماننا درست ہے 473 ہر نومسلم کے نام کی تبدیلی ضروری نہیں چندہ دینے کی نیت سے نذر ماننا قسم توڑنا 474 حضرت مسیح موعود کا تبرک دینا 476 حضرت صاحبزادہ عبداللطیف کا تبرک ایک خواب کی بنیاد پر کیا جانے والا وظیفہ 477 داڑھی رکھنا انبیاء کا طریق ہے دین اسلام کے پانچ مجاہدات سخت مجاہدات کرنے پر نا پسندیدگی 478 داڑھی تراشنے کا جواز 479 داڑھی کیسی ہو؟ اپنی عمر دوسرے کو لگا دینے کی دعا کا جواز 479 حرام مال اشاعت اسلام میں خرچ کرنا مسمریزم اعمل الترب متعدی بیماریوں سے بچاؤ کرنا چاہئے متعدی بیماری سے بچاؤ کی تدبیر طاعون زدہ علاقہ سے باہر نکل جاؤ 480 حاکم پر رعب ڈالنے کا وظیفہ 482 | کھانے کے لئے خاص طریق اختیار کرنا 482 ایک پیر کے بعد دوسرے کی بیعت کرنا 482 خدا کی طرف سے بیعت لینے کا حکم 483 483 484 486 486 487 490 491 491 492 492 493 494 495 495 495 496 497 498 499 500 500
فهرست عناوين صفحہ نمبر عناوین 517 518 520 522 523 526 527 530 532 537 541 541 541 542 542 543 544 545 547 548 552 553 xvi فقه المسيح صفحہ نمبر عناوین بیعت کا طریق ارواح سے کلام 500 || خدا کی طرف سے مقابلہ کی اجازت 501 جہاد کا موجودہ غلط تصور خدا کے حکم سے مجاہدات بجالانا 502 اب جہاد کیوں حرام ہو گیا ؟ اپنی تجویز سے شدید ریاضتیں نہ کرو 503 | صحابہ کے صدق اور صبر کے نمونے سینہ پر دم کر دیا 504 موجودہ تصور جہاد نفسانی اغراض پر مبنی اگر حیلہ خدا سمجھائے تو شرع میں جائز ہے 505 اپنی جماعت کو نصیحت ریڈیو کے ذریعے گانا سننا 505 اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے زندوں کا توسل جائز ہے 506 حکمران علماء کے ذریعہ عوام کو سمجھائیں تعبیر کرنے والے کی رائے کا اثر ؟ کسی نام سے فال لینا کسی کتاب سے فال لینا 506 محسن گورنمنٹ کی خدمت میں گزارش 506 حضرت اقدس کا التوائے جہاد کا فیصلہ 507 جلسہ سالانہ کا انعقاد کسی نام سے بُری فال لینا جائز نہیں 507 جلسہ سالانہ کا انعقاد بدعت نہیں ہم تعویذ گنڈے نہیں کرتے سجدہ تعظیمی کی ممانعت غیر ضروری تفتیش کرنا منع ہے تو ریہ کا جواز اور اس کی حقیقت 508 اس زمانہ کے علماء کی حالت 508 جلسہ سالانہ کے انعقاد کا پس منظر 509 لاہور کی ایک مسجد کے امام کا عجیب فتویٰ 509 طلب علم دین کے لئے سفر کی فضیلت 513 مختلف اغراض کے لئے سفر جہاد کی حقیقت کے 514 قرآن وحدیث میں مختلف سفروں کی ترغیب مذہبی آزادی ضروری ہے جہاد بالقتال کی ممانعت کا فتوی لفظ جہد کی تحقیق انبیاء کی مخالفت کے اسباب 514 جلسہ کے لئے خاص تاریخ کیوں مقرر کی ؟ 514 تبلیغ کے لئے حسن انتظام بدعت نہیں 515 ہر زمانہ انتظامات جدیدہ کو چاہتا ہے کفار کی جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں 516 حضرت عمر کے محدثات
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب بسم اللہ الرحمن الرحیم حرف آغاز حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت امت مسلمہ کی اصلاح کے لئے حکم عدل بنا کر بھیجا جب امت مسلمہ با ہمی افتراق و انتشار کا شکار تھی اور تمام غیر مذاہب اسلام پر حملہ آور تھے اور وہ مسلمانوں کی سیاسی اور مذہبی پستی کا فائدہ اُٹھا کر مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کر رہے تھے.وہ امت واحدہ جو جسد واحد کی طرح تھی لیکن باہمی اختلافات کی وجہ سے بہتر فرقوں میں بٹ چکی تھی اور عجیب بات یہ تھی کہ اختلاف کی وجوہ بنیادی اصول میں نہیں بلکہ فروعی مسائل تھے.خدا کا کلام قرآن کریم اللہ کی رسی کی شکل میں موجود تو تھا مگر با ہمی تنازعات کی وجہ سے ہر فرقہ الگ الگ تفسیر کرتا تھا.فقہی اور مسلکی اختلافات میں شدت آچکی تھی.باوجود اس کے کہ گزشتہ بارہ تیرہ سو سال سے فقہی مذاہب نہروں کی شکل میں ساتھ ساتھ بہہ رہے تھے اوران میں باہمی بحث مباحثے اور مناظرے بھی ہوتے تھے تاہم اس دور میں ہر کوئی اپنے آپ کو اپنے اپنے مؤقف میں قلعہ بند کر چکا تھا اور دوسروں کی بات سنے کا بھی روادار نہیں تھا.اس صورتحال کو حضرت مسیح موعود نے یوں بیان فرمایا ہے:.افْتَرَقَتِ الْأُمَّةُ، وَتَشَاجَرَتِ الْمِلَّةَ فَمِنْهُمْ حَنُبَلِيٌّ وَشَافِعِيٌّ وَ مَالِكِيٌّ وَحَنَفِيٌّ وَحِزْبُ الْمُتَشَيِّعِيْنَ - وَلَا شَكٌّ أَنَّ التَّعْلِيمَ كَانَ وَاحِدًا وَلَكِنِ اخْتَلَفَتِ الْأَحْزَابُ بَعْدَ ذَالِكَ فَتَرَوْنَ كُلَّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحِيْنَ - وَ كُلُّ فِرْقَةٍ بَنِى لِمَذْهَبِهِ قَلْعَةٌ وَلَا يُرِيدُ أَنْ يَخْرُجَ مِنْهَا وَلَوْ وَجَدَ أَحْسَنَ مِنْهَا صُورَةً وَكَانُوا لِعَمَاسِ إِخْوَانِهِمْ مُتَحَصِنِيْنَ 1
حرف آغاز حکم عدل کا فقہی اسلوب فَاَرْسَلَنِيَ اللَّهُ لِأَسْتَخْلِصَ الصَّيَاصِي وَأَسْتَدْنِيَ الْقَاصِي، وَانْذِرَ الْعَاصِي وَيَرْتَفِعَ الْاِخْتِلَافُ وَيَكُونَ الْقُرْآنُ مَالِكَ النَّوَاصِي وَ قِبْلَةَ الدين.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 560،559) ترجمہ: امتِ مسلمہ افتراق و انتشار کا شکار ہوگئی ہے ان میں سے بعض حنبلی ، شافعی ، مالکی ، حنفی اور شیعہ بن گئے ہیں.اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا میں تعلیم تو ایک ہی تھی لیکن بعد میں کئی گروہ بن گئے اور ہر گروہ اپنے نقطہ نظر پر خوش ہو گیا.ہر فرقہ نے اپنے اپنے مذہب کو ایک قلعہ بنا رکھا ہے اور وہ اس سے باہر نکلنا نہیں چاہتے ، خواہ دوسری طرف انہیں بہتر صورتحال ملے اور وہ اپنے بھائیوں کی بے دلیل باتوں پر ڈٹ جاتے ہیں.پس اللہ نے اس صورتحال میں مجھے بھیجا تا کہ میں ایسے قلعوں سے انہیں باہر نکالوں اور جو دور ہو چکے ہیں انہیں نزدیک لے آؤں اور نافرمانوں کو ہوشیار کر دوں اور اس طرح اختلاف رفع ہو جائے اور قرآن کریم ہی پیشانیوں کا مالک اور دین کا قبلہ بن جائے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام امتِ مسلمہ کے افتراق اور انتشار اور گمراہی کے دور میں خدا کی طرف سے مامور بن کر آئے.چنانچہ آپ نے خدا کے حکم سے یہ دعویٰ فرمایا کہ میں ہی وہ موعود مسیح اور مہدی ہوں جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کر رکھی ہے.بخاری کتاب الانبیاء کی یہ مشہور حدیث در اصل آپ کے بابرکت وجود کے بارہ میں ہی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :.وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يُنْزِلَ فِيُكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا ، فَيَكْسِرُ الصَّلِيْبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضُ الْمَالُ حَتَّى لَا 2
حرف آغاز حکم عدل کا فقہی اسلوب يَقْبَلُهُ أَحَدٌ حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا “ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم حدیث نمبر 3448) ترجمہ: اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریب ہے کہ ابن مریم حکم عدل بن کر تم میں نازل ہوں ، وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ کو موقوف کر دیں گے اور مال اس کثرت سے ہوگا کہ اسے کوئی قبول نہیں کرے گا حتی کہ ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہو جائے گا.اسی طرح سنن ابن ماجہ کی روایت میں حَكَمًا مُقسِطًا اور اِمَامًا عَدْلًا کے الفاظ آئے ہیں یعنی منصف مزاج حکم اور عادل امام.(سنن ابن ماجه كتاب الفتن باب فتنة الدجال وخروج عيسى بن مريم ) پیشگوئی کے عین مطابق آپ نے دعویٰ فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور حکم ہو کر آیا ہوں.ابھی بہت زمانہ نہیں گزرا کہ مقلد غیر مقلدوں کی غلطیاں نکالتے اور وہ اُن کی غلطیاں ظاہر کرتے اور اس طرح پر دوسرے فرقے آپس میں درندوں کی طرح لڑتے جھگڑتے تھے ایک دوسرے کو کافر کہتے اور نجس بتاتے تھے.اگر کوئی تسلی کی راہ موجود تھی تو پھر اس قدر اختلاف اور تفرقہ ایک ہی قوم میں کیوں تھا؟ غلطیاں واقع ہو چکی تھیں اور لوگ حقیقت کی راہ سے دور جا پڑے تھے.ایسے اختلاف کے وقت ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ خود فیصلہ کرتا.چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور ایک حکم ان میں بھیج دیا.“ الحكم 30 ستمبر 1904 ، صفحہ 3،2) امت مسلمہ کے مسلکی اور فقہی اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لئے ضروری تھا کہ حکم غیر جانبدار ہو.اگر حکم پہلے سے کسی فرقہ کی طرف منسوب ہو یا اپنے آپ کو مطیع اور مقلد کہتا ہو تو پھر اس کا فیصلہ کون تسلیم کرتا.فرمایا 3
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب ہم بطور حکم کے آئے ہیں کیا حکم کو یہ لازم ہے کہ کسی خاص فرقہ کا مرید بن جاوے.بہتر فرقوں میں سے کس کی حدیثوں کو مانے.حگم تو بعض احادیث 66 کومردود اور متروک قرار دے گا اور بعض کو صحیح.“ ایک اور جگہ فرمایا (الحکم 10 فروری 1905 صفحه ۴ ) آنے والے مسیح کا نام حکم رکھا گیا ہے.یہ نام خود اشارہ کرتا ہے کہ اس وقت غلطیاں ہوں گی اور مختلف الرائے....لوگ موجود ہوں گے.پھر اُسی کا فیصلہ ناطق ہوگا.اگر اسے ہر قسم کی باتیں مان لینی تھیں تو اس کا نام حگم ہی کیوں رکھا گیا ؟ الحکم 17 نومبر 1902 ، صفحہ 2) آپ نے بتایا کہ حکم در اصل حرم کے مشابہہ ہے جس کا کام لوگوں کو اختلافات سے بچا کر امن دینا ہے.فرمایا اللہ نے اپنے ایک بندے کو بھیجا ہے تا کہ وہ ان کے درمیان حکم بن کر فیصلہ کر دے جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے تھے اور تا کہ وہ اسے فاتح قرار دیں اور وہ اس کی ہر بات اچھی طرح تسلیم کر لیں اور اس کے فیصلوں پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور یہ وہی حکم ہے جو ( خدا کی طرف سے ) آیا ہے.....اے لوگو! تم مسیح کا انتظار کرتے تھے اور اللہ نے جس طرح چاہا اُسے ظاہر کر دیا.پس اپنے چہروں کو اپنے رب کی طرف پھیر لو اور اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو.تم احرام کی حالت میں شکار نہیں کرتے تو اب تم اپنی متفرق آراء کی پیروی کس طرح کر سکتے ہو جبکہ تمہارے پاس حکم موجود ہے.☆ حاشیہ متفرق آراء پرندوں کے مشابہہ ہیں جو ہوا میں ہوتے ہیں اور حگم اس امن والے حرم کے مشابہہ ہے جو غلطیوں سے امن دیتا ہے جس طرح اللہ کی 4
حرف آغاز حکم عدل کا فقہی اسلوب مقدس سرزمین کی عزت کی خاطر حرم میں شکار منع ہے اسی طرح متفرق آراء کی پیروی...اس حکم کی موجودگی کی وجہ سے حرام ہے.وہ حکم جو معصوم ہے اور خدائے عزوجل کی طرف سے حرم کی جگہ پر ہے.اب ادب کا تقاضا ہے کہ ہر بات اس کے سامنے پیش کی جائے اور اُسی کے ہاتھوں سے ہی اب ہر چیز وصول کی جائے.) (الهدى والتبصرةُ لِمَن يَرى - روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 339،338.عربی سے ترجمہ ) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امت مسلمہ کی ہر پہلو سے رہنمائی فرمائی اور جن عقائد اور اعمال میں بگاڑ پیدا ہو چکا تھا ان کی اصلاح فرمائی.آپ کی بعثت کے وقت امت مسلمہ مختلف فرقوں اور جماعتوں میں بٹی ہوئی تھی اور فقہی اختلافات کے لحاظ سے بھی بہت شدت آچکی تھی اور برصغیر پاک و ہند میں حنفی اور غیر حنفی کی تقسیم واضح صورت اختیار کر چکی تھی.حنفی اپنے حنفی ہونے پر فخر کرتے تھے اور دین میں اجتہاد کے راستے کو از خود بند کر چکے تھے اور اپنے ائمہ کی فخریہ تقلید کرتے تھے.جبکہ دوسری طرف اہلحدیث فرقہ ،حنفیوں کی سخت مخالفت کرتا تھا اور فروعی مسائل میں باہمی مباحثے ہوتے تھے.اہلحدیث موحد کہلاتے تھے اور حدیث کی اہمیت اور درجے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے اور بخاری اور مسلم کو عملاً قرآن کے برابر قرار دیتے تھے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر دوگروہوں کی اصلاح فرمائی اور انہیں صحیح راستہ دکھایا.فرمایا ” جب ہم اس امر میں غور کریں کہ کیوں ان کتابوں ( بخاری ومسلم.ناقل ) کو واجب العمل خیال کیا جاتا ہے تو ہمیں یہ وجوب ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے حنفیوں کے نزدیک اس بات کا وجوب ہے کہ امام اعظم صاحب کے یعنی حنفی مذہب کے تمام مجتہدات واجب العمل ہیں! لیکن ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ یہ وجوب شرعی نہیں بلکہ کچھ زمانہ سے ایسے خیالات کے اثر سے اپنی طرف سے یہ وجوب گھڑا گیا ہے جس حالت میں حنفی مذہب پر آپ لوگ یہی اعتراض کرتے ہیں کہ وہ نصوص ہینہ شرعیہ کو چھوڑ 5
حرف آغاز حکم عدل کا فقہی اسلوب کر بے اصل اجتہادات کو محکم پکڑتے اور ناحق تقلید شخصی کی راہ اختیار کرتے ہیں تو کیا یہی اعتراض آپ پر نہیں ہو سکتا کہ آپ بھی کیوں بے وجہ تقلید پر زور مار رہے ہیں؟ حقیقی بصیرت اور معرفت کے کیوں طالب نہیں ہوتے ؟ ہمیشہ آپ لوگ بیان کرتے تھے کہ جو حدیث صحیح ثابت ہے اس پر عمل کرنا چاہئے اور جو غیر صحیح ہو اس کو چھوڑ دینا چاہئے.اب کیوں آپ مقلدین کے رنگ پر تمام احادیث کو بلا شرط صحیح خیال کر بیٹھے ہیں؟ اس پر آپ کے پاس شرعی ثبوت کیا ہے؟“ الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 21،20) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مامور زمانہ کی حیثیت سے ایک نیا فقہی اسلوب دیا جو فقہ احمدیہ کی بنیاد بنا.آپ کے فقہی اسلوب کے بنیادی خد وخال ، آپ کی تحریرات اور ملفوظات میں ہمیں ملتے ہیں.آپ نے اصول اور مسائل فقہ میں ہر پہلو سے ہماری رہنمائی فرمائی اور میزان اور اعتدال کا راستہ دکھایا اور صراط مستقیم پر ہمیں قائم فرمایا.آپ کے فقہی اسلوب کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں.1- قرآن کریم هی اصل ميزان معیار اورمحک هے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں شریعت کی اصل بنیاد پر نئے سرے سے قائم فرمایا اور خدا کی اس رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی ہدایت کی جسے لوگ چھوڑ چکے تھے.چنانچہ آپ نے باہمی اختلافات کو دور کرنے کے لئے یہ رہنمائی فرمائی کہ قرآن کریم ہی میزان ، معیار اور محك ہے.فرمایا: کتاب وسنت کے حجج شرعیہ ہونے میں میرا یہ مذہب ہے کہ کتاب اللہ مقدم اور امام ہے.جس امر میں احادیث نبویہ کے معانی جو کئے جاتے ہیں کتاب اللہ کے مخالف واقع نہ ہوں تو وہ معانی بطور حجت شرعیہ کے قبول کئے جائیں گے لیکن جو معانی 6
حرف آغاز حکم عدل کا فقہی اسلوب نصوص بینہ قرآنیہ سے مخالف واقع ہوں گے ان معنوں کو ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے.بلکہ جہاں تک ہمارے لئے ممکن ہوگا ہم اس حدیث کے ایسے معانی کریں گے جو کتاب اللہ کی نص بین سے موافق و مطابق ہوں اور اگر ہم کوئی ایسی حدیث پائیں گے جو مخالف نص قرآن کریم ہوگی اور کسی صورت سے ہم اس کی تاویل کرنے پر قادر نہیں ہوسکیں گے تو ایسی حدیث کو ہم موضوع قرار دیں گے“ الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 12،11) 2 سنت اور تعامل کی حجیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حدیث کی صحت کو پر کھنے کے لئے قرآن کریم کو معیار قرار دیا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے اس موضوع پر آپ کا ایک مباحثہ ہوا جو الحق مباحثہ لدھیانہ کے نام سے روحانی خزائن جلد 4 میں موجود ہے.آپ نے حدیث کے صحیح مقام کو واضح کیا اور بتایا کہ سنت اور حدیث میں فرق ہے.سنت الگ چیز ہے اور حدیث الگ چیز.سنت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش کا نام ہے جو تعامل کے رنگ میں امتِ مسلمہ میں مسلسل جاری رہی ہے اس لئے ہم اسے نہایت اہمیت دیتے ہیں اور اس کے بارہ میں یہ معیار قرار نہیں دیتے کہ اسے قرآن کریم پر پرکھا جائے.ہاں حدیث کو قرآن کریم پر پرکھنے کی ضرورت ہے.سنت اور حدیث کا فرق واضح کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.ہم حدیث اور سنت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے جیسا کہ رسمی محدثین کا طریق ہے بلکہ حدیث الگ چیز ہے اور سنت الگ چیز ہے.سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اور ابتداء سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ ہی رہے گی.یا بہ تبدیل 7
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا کا قول ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل.نیز فرمایا 66 ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 210،209) ان لوگوں کو یہ غلطی لگی ہوئی ہے کہ سنت اور حدیث کو ایک ہی قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ دونوں الگ ہیں اور اگر حدیث جو آپ کے بعد ڈیڑھ سو دوسو برس بعد لکھی گئی نہ بھی ہوتی تب بھی سنت مفقود نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ یہ سلسلہ تو جب سے قرآن نازل ہونا شروع ہوا ساتھ ساتھ چلا آتا ہے اور حدیث وہ اقوال ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے اور پھر آپ کے بعد دوسری صدی میں لکھے گئے.“ (الحکم 17 نومبر 1902 ، صفحہ 2) حضرت مسیح موعود نے حدیث کے مقابلے میں سنت اور تعامل کو بڑی اہمیت دی اور فرمایا:.یہ ایک دھوکہ ہے کہ ایسا خیال کر لیا جائے کہ احادیث کے ذریعہ سے صوم وصلوٰۃ وغیرہ کی تفاصیل معلوم ہوئی ہیں بلکہ وہ سلسلہ تعامل کی وجہ سے معلوم ہوتی چلی آئی ہیں اور درحقیقت اس سلسلہ کو فن حدیث سے کچھ تعلق نہیں وہ تو طبعی طور پر ہر ایک مذہب کو لازم ہوتا ہے.“ الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 26 ) آپ نے سنت اور تعامل کے باہمی تعلق کو واضح کر کے دکھایا اور سنت کی زیادہ اہمیت کی وجہ بتائی کہ اُسے سلسلہ تعامل نے حجت قوی بنا دیا ہے.فرمایا احادیث کے دو حصّہ ہیں ایک وہ حصہ جو سلسلہ تعامل کی پناہ میں کامل 8
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب طور پر آ گیا ہے یعنی وہ حدیثیں جن کو تعامل کے محکم اور قومی اور لا ریب سلسلہ نے ت دی ہے اور مرتبہ یقین تک پہنچا دیا ہے جس میں تمام ضروریات دین اور عبادات اور عقو داور معاملات اور احکام شرع متین داخل ہیں.“ الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 35) 3.انسانی اجتهاد پر حدیث فضیلت رکھتی ھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک طرف قرآن کریم کو حدیثوں کے پرکھنے کے لئے معیار قرار دیا اور سنت اور تعامل کو حدیث پر فوقیت دی اور اسے قطعی اور یقینی درجہ دیا.دوسری طرف محدثین کے خود ساختہ معیار کے مطابق ضعیف قرار دی جانے والی احادیث کو بھی انسان کے اجتہاد اور فقہ پر ترجیح دی کیونکہ بہر حال وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہیں اس حوالے سے آپ نے اپنی جماعت کو مندرجہ ذیل نصیحت فرمائی.فرمایا: ”ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں.“ ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 212) 4.شریعت کی اصل روح کا احیاء حضرت مسیح موعود کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا: يُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ ترجمہ: وہ دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 79) 9
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب اس الہام میں یہ پیغام دیا گیا کہ آپ کے ذریعے دین کا احیاء ہوگا اور شریعت کو اصل شکل میں قائم کیا جائے گا.چنانچہ آپ نے شریعت کے منافی تمام باتوں کی مناہی فرمائی اور انہیں بدعات قرار دے کر اپنی جماعت کو ان سے بچنے کی نصیحت کی.فرمایا دکتاب اللہ کے برخلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ سب بدعت ہے اور سب بدعت فی النار ہے.اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجز اس قانون کے جو مقرر ہے ادھر اُدھر بالکل نہ جاوے.کسی کا کیا حق ہے کہ بار بار ایک شریعت بناوے.ہمارا اصول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کتاب قرآن کے سوا اور طریق سنت کے سو انہیں.اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا ( البدر 13 مارچ 1903 ، صفحہ 59) پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال خیر کی راہ چھوڑ کر اپنے طریقے ایجاد کرنا اور قرآن شریف کی بجائے اور وظائف اور کافیاں پڑھنایا اعمال صالحہ کی بجائے قسم قسم کے ذکر اذکار نکال لینا یہ لذت روح کے لئے نہیں ہے بلکہ لذت نفس کے لئے ہے.“ (الحکم 31 جولائی 1902 صفحہ 8) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو ہر طرح کی بدعات سے منع کرتے ہوئے اصل سنت کو اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی.چنانچہ آپ نے قل خوانی ، فاتحہ خوانی ، چہلم ، مولود خوانی، تصور شیخ، اسقاط ، ختم ، دسویں محترم کی رسوم سمیت سب بد رسوم سے اپنی جماعت کو بیچنے کی نصیحت فرمائی اور خدا اور رسول کی محبت کو دل میں پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی اور صرف ظاہری مسائل پر ہی ضرورت سے زیادہ توجہ دینے کے انداز کو نا پسند فرمایا.آپ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے ایمان دلوں میں قائم کرنے کے لئے بھیجا.10
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب صرف ظاہری مسائل پر ہی عمل کرنا اور حقیقت کو نہ سمجھنا یہ بڑی غلطی ہے.مجھے خدا نے مجدد بنا کر بھیجا ہے جو وقت کی ضرورت کے مطابق رہنمائی کرتا ہے.فرمایا مجد د جو آیا کرتا ہے وہ ضرورت وقت کے لحاظ سے آیا کرتا ہے نہ استنجے اور وضو کے مسائل بتلانے.“ اسی طرح آپ نے اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا (الحکم 19 مئی 1899 ، صفحہ 4) یہ عاجز شریعت اور طریقت دونوں میں مجد د ہے.تجدید کے یہ معنے نہیں ہیں کہ کم یا زیادہ کیا جاوے.اس کا نام تو سیخ ہے بلکہ تجدید کے یہ معنے ہیں کہ جو عقائد حقہ میں فتور آ گیا ہے اور طرح طرح کے زوائد اُن کے ساتھ لگ گئے ہیں یا جو اعمال صالحہ کے ادا کرنے میں سُستی وقوع میں آگئی ہے یا جو وصول اور سلوک الی اللہ کے طرق اور قواعد محفوظ نہیں رہے اُن کو مجددا تا کید ابالاصل بیان کیا جائے.“ ( الحکم 24 جون 1900 صفحہ 3) 5- قياسات مسلّمه مجتهدين واجب العمل ھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حکم عدل کی حیثیت سے باہمی تنازعات کا فیصلہ فرمایا اور جن امور میں امتِ مسلمہ میں اختلاف پایا جاتا تھا اور باہمی بحث مباحثے بھی ہوتے تھے اُن میں آپ نے صحیح اور معتدل راستہ دکھایا.اس کے علاوہ مسلّمہ اور متداول فقہی مسائل میں امتِ مسلمہ کے اجتہاد کو بھی بڑی اہمیت دی.خاص طور پر ایسے مسائل کو جو مطہر بزرگان امت کے اجتہاد پرمبنی ہیں اور امت مسلمہ ان پر صدیوں سے عمل کر رہی ہے.فرمایا میں تمام مسلمانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے کسی ایک حکم میں بھی دوسرے مسلمانوں سے علیحدگی نہیں جس طرح سارے اہل اسلام احکام بینه قرآن کریم و 11
حرف آغاز حکم عدل کا فقہی اسلوب احادیث صحیحہ و قیاسات مسلّمہ مجتہدین کو واجب العمل جانتے ہیں اسی طرح میں بھی جانتا ہوں.66 الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 82) 6 بزرگان سلف کا احترام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حکم عدل کی حیثیت سے بہت سے اختلافی مسائل میں اپنا فیصلہ دیا اور اپنا وزن کسی خاص موقف کے حق میں ڈالا تو اس پر بعض لوگوں نے ایسے سوال کئے جن سے بعض مسلّمہ بزرگان دین پر اعتراض ہوتا تھا.ایسی صورت حال میں آپ نے زیادہ تفصیل میں جانے سے منع فرمایا.مثلاً ذکر آیا کہ بعض بزرگ راگ سنتے ہیں آیا یہ جائز ہے؟ فرمایا اس طرح بزرگان دین پر بدظنی کرنا اچھا نہیں ،حسن ظن سے کام لینا چاہئے.حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اشعار سنے تھے.“ البدر 17 نومبر 1905 صفحہ 6) اسی طرح ایک مرتبہ کسی نے نقش بندی صوفیاء کے بعض خاص طریقوں کے حوالے سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہم ایسے طریقوں کی ضرورت خیال نہیں کرتے.اس پر اس نے کہا کہ اگر یہ امور خلاف شرع ہیں تو بڑے بڑے مسلّمہ اور مشاہیر جن میں حضرت احمد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ جیسے اولیاء بھی ہیں جنہوں نے مجد دالف ثانی ہونے کا دعوی بھی کیا ہے.یہ سب لوگ بدعت کے مرتکب ہوئے اور لوگوں کو ایسے امور کی ترغیب و تعلیم دینے والے ہوئے.اس پر حضور نے فرمایا اسلام پر ایک ایسا زمانہ بھی آیا ہے کہ فتوحات کے بڑھ جانے اور دنیاوی دولت اور سامان تعیش کی فراوانی سے لوگوں کے دلوں سے خدا کے نام کی گرمی سرد پڑتی جارہی تھی.اس وقت اگر ان بزرگوں نے بعض ایسے اعمال اختیار 12
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب کئے ہوں جو اُن کے خیال میں اس وقت اس روحانی وبائی مرض میں مفید تھے تو وہ ایک وقتی ضرورت تھی اور بوجہ اُن کی نیک نیتی کے اس کو خدا کے حوالے کر دینا مناسب ہے.66 (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 70،69) بزرگان سلف کے بعض معتقدات سے اختلاف کے باوجود آپ نے اُن کی عزت اور قبولیت کو بہت اہمیت دی اور اُن کے عالی مقام کا بھی تذکرہ کیا.خاص طور پر یہ شرف حضرت امام ابو حنیفہ کو حاصل ہوا جن پرگزشتہ بارہ تیرہ سو سال سے اُن کے مخالف علماء اہل الرائے ہونے کا الزام لگاتے تھے اور اہل حدیث تو بار بار اس بات کو پیش کرتے تھے کہ امام صاحب نے قیاس سے کام لے کر گویا شریعت میں دخل دیا ہے.الحق مباحثہ لدھیانہ میں ایک ایسے ہی موقعہ پر حضرت مسیح موعود نے مولوی محمد حسین بٹالوی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ”اے حضرت مولوی صاحب آپ ناراض نہ ہوں آپ صاحبوں کو امام بزرگ ابوحنیفہ سے اگر ایک ذرہ بھی حسن ظن ہوتا تو آپ اس قدر سبکی اور استخفاف کے الفاظ استعمال نہ کرتے آپ کو امام صاحب کی شان معلوم نہیں وہ ایک بحراعظم تھا اور دوسرے سب اس کی شاخیں ہیں اسکا نام اہل الرائے رکھنا ایک بھاری خیانت ہے! امام بزرگ حضرت ابوحنیفہ کو علاوہ کمالات علم آثار نبویہ کے استخراج مسائل قرآن میں ید طولیٰ تھا خدا تعالیٰ حضرت مجدد الف ثانی پر رحمت کرے انہوں نے مکتوب صفحہ ۳۰۷ میں فرمایا ہے کہ امام اعظم صاحب کی آنیوالے مسیح کے ساتھ استخراج مسائل قرآن میں ایک روحانی مناسبت ہے.“ الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 101) حضرت امام ابوحنیفہ کو استخراج مسائل قرآن میں خاص دسترس تھی اس وجہ سے آپ 13
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب بعض احادیث کی تاویل کرتے تھے یا انہیں چھوڑ دیتے تھے.اس پر آپ کے مخالفین کی طرف سے اعتراض کیا جاتا تھا.حقیقت میں آپ کے فتاوی قرآن وحدیث کے منافی نہیں تھے.اس بات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فہم و فراست میں ائمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل و اعلیٰ تھے اور اُن کی خداداد قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدد کہ کو قرآن شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور اُن کی فطرت کو کلام الہی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے.اسی وجہ سے اجتہاد و استنباط میں اُن کے لئے وہ درجہ علیا مسلم تھا جس تک پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے.سبحان اللہ اس زیرک اور ربانی امام نے کیسی ایک آیت کے ایک اشارہ کی عزت اعلیٰ وارفع سمجھ کر بہت سی حدیثوں کو جو اس کے مخالف تھیں رڈی کی طرح سمجھ کر چھوڑ دیا اور جہلا کے طعن کا کچھ اندیشہ نہ کیا.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 385 ) 7 احکام شریعت پر حکمت ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے زور کے ساتھ ان مفاسد کو دور کر دیا جو اس زمانے میں اسلام کے مخالفین کی طرف سے پھیلائے جارہے تھے اور اسلام کی تعلیم پر طرح طرح کے اعتراضات کئے جارہے تھے.آپ نے اسلام کی مدافعت کا حق ادا کر دیا.آر.کی معرکۃ الآراء کتاب کا تعارف تو اس کے نام سے ظاہر ہے.الْبَرَاهِينُ الْاَحْمَدِيَّةُ عَلَى حَقِيَّةِ كِتَابِ اللهِ الْقُرْآنِ وَالنَّبُوَّةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ 66 14
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب یعنی کتاب اللہ کی سچائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر احمدی دلائل اور برا ہین.اس کتاب میں آپ نے اسلام کی پاکیزہ تعلیم کے بچے اور برحق ہونے کے ناقابل تردید شواہد پیش فرمائے اور یہ ثابت فرمایا کہ اسلام کی تعلیم عین فطرتی تعلیم ہے اس کے تمام مسائل انسان کی بھلائی اور انسانی فطرت اور زندگی کے عین مطابق ہیں گویا تمام احکام حق محض ہیں.آپ نے فرمایا آج رُوئے زمین پر سب الہامی کتابوں میں سے ایک فرقان مجید ہی ہے کہ جس کا کلام الہی ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہے.جس کے اصول نجات کے ، بالکل راستی اور وضع فطرتی پر مبنی ہیں.جس کے عقائد ایسے کامل اور مستحکم ہیں جو براہین قویہ ان کی صداقت پر شاہد ناطق ہیں جس کے احکام حق محض پر قائم ہیں جس کی تعلیمات ہر یک طرح کی آمیزش شرک اور بدعت اور مخلوق پرستی سے بکلی پاک ہیں جس میں تو حید اور تعظیم الہی اور کمالات حضرت عزت کے ظاہر کرنے کے لئے انتہا کا جوش ہے جس میں یہ خوبی ہے کہ سراسر وحدانیت جناب الہی سے بھرا ہوا ہے اور کسی طرح کا دھبہ نقصان اور عیب اور نالائق صفات کا ذاتِ پاک حضرت باری تعالیٰ پر نہیں لگاتا اور کسی اعتقاد کو زبر دستی تسلیم کرانا نہیں چاہتا بلکہ جو تعلیم دیتا ہے اس کی صداقت کی وجوہات پہلے دکھلا لیتا ہے اور ہر ایک مطلب اور مدعا کو حجج اور براہین سے ثابت کرتا ہے.اور ہر یک اصول کی حقیت پر دلائل واضح بیان کر کے مرتبہ یقین کامل اور معرفت تام تک پہنچاتا ہے.اور جو جو خرابیاں اور ناپاکیاں اور خلل اور فسادلوگوں کے عقائد اور اعمال اور اقوال اور افعال میں پڑے ہوئے ہیں، ان تمام مفاسد کو روشن براہین سے دور کرتا ہے اور وہ تمام آداب سکھاتا ہے کہ جن کا جانا انسان کو انسان بننے کے لئے نہایت ضروری ہے اور ہر یک فساد کی اسی زور سے مدافعت کرتا ہے کہ جس 15
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب زور سے وہ آج کل پھیلا ہوا ہے.اس کی تعلیم نہایت مستقیم اور قوی اور سلیم ہے گویا احکام قدرتی کا ایک آئینہ ہے اور قانونِ فطرت کی ایک عکسی تصویر ہے اور بینائی دلی اور بصیرت قلبی کے لئے ایک آفتاب چشم افروز ہے.66 براهین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 82،81) اپنے موقف کے حق میں آپ نے زور دار دلائل بیان فرمائے.تعدد ازدواج ہو یا ورثہ کی تعلیم جہاں عورتوں کے لئے نصف حصہ جائیداد میں مقرر ہے سب کے عقلی جواب دیئے.متعہ کا اعتراض ہو یا متبنی بنانے کا مسئلہ ہر ایک بات کی حقیقت کھول کر رکھ دی.نیوگ پر آپ کی طرف سے اُٹھائے جانے والے اعتراضات ہوں یا اُن کے جواب میں حلالہ کے مسئلہ کی آڑ لے کر دشمنوں کا جوابی اعتراض ہو ہر مسئلہ کو نکھار کر رکھ دیا.آپ نے ارکانِ نماز کی حکمتیں بیان فرمائیں اور وضو اور نماز کے باطنی فوائد کے علاوہ ظاہری طبعی فوائد بھی بیان فرمائے.اوقات نماز کی فلاسفی بیان فرمائی اور ثابت فرمایا کہ نماز کے متفرق اوقات زندگی کے حقائق اور حالات کے مطابق ہیں.بچے کے کان میں اذان دینے کا مسئلہ ہو یا نماز با جماعت میں ظاہری مضمر فوائد ہوں اور حج کی حکمتیں سب مسائل کو عقلی دلائل سے پیش فرمایا.آپ نے اپنی تحریرات اور تقاریر میں منقولی اور معقولی ہر دو طرح کے دلائل پیش فرماتے ہوئے اعتراضات کے جواب دیئے.اور ایسے معترضین کو جو منقولی دلائل کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے عقلی دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کی.فرمایا یہ بات اصلی بدیہات ہے جو سر گشتہ عقل کو عقل ہی سے تسلی ہو سکتی ہے اور جو عقل کا ر ہندہ ہے وہ عقل ہی کے ذریعہ سے راہ پر آ سکتا ہے.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 67) پردہ کے مسئلہ کو معقول اور فطرت کے عین مطابق قرار دیتے ہوئے آپ نے انسانی ضرورتوں کی مثال پیش فرمائی.فرمایا: 16
حرف آغاز حکم عدل کا فقہی اسلوب جیسے بہت سے تجارب کے بعد طلاق کا قانون پاس ہو گیا ہے اسی طرح کسی دن دیکھ لو گے کہ تنگ آکر اسلامی پردہ کے مشابہ یورپ میں بھی کوئی قانون شائع ہوگا.ورنہ انجام یہ ہوگا کہ چارپایوں کی طرح عورتیں اور مرد ہو جائیں گے اور مشکل ہوگا کہ یہ شناخت کیا جائے کہ فلاں شخص کس کا بیٹا ہے.“ (نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 434) 8.آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کی عزت و تکریم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شریعت کی بعض ایسی رخصتوں اور سہولتوں پر عمل فرمایا جنہیں خدا نے جائز قرار دیا ہے لیکن لوگوں نے از خود ایسی باتوں پر عمل چھوڑ دیا تھا.مثلاً نمازوں کا جمع کرنا انسانوں کی سہولت کے پیش نظر جائز رکھا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علاوہ سفروں اور موسمی خرابیوں کے خالص دینی ضروریات کے لئے بھی نمازیں جمع کرنی پڑیں اور بعض اوقات کئی مہینے تک نمازیں جمع ہوتی رہیں.بعض معترضین نے اس پر اعتراض کیا تو آپ نے بڑی نرمی اور محبت سے اس بات کو سمجھایا کہ میں شریعت کے حکم کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم پیشگوئی کو پورا کرنے کی خاطر نمازیں جمع کرتا ہوں اور نماز موقوتہ کے مسئلہ کو خدانخواستہ استخفاف کی نظر سے نہیں دیکھتا.فرمایا: اس وقت جو ہم نمازیں جمع کرتے ہیں تو اصل بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تفہیم ، القاء اور الہام کے بدوں نہیں کرتا بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ میں ظاہر نہیں کرتا مگر اکثر ظاہر ہوتے ہیں.جہاں تک خدا نے مجھ پر اس جمع بین الصلوتین کے متعلق ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے تُجْمَعُ لَهُ الصَّلواةُ کی عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جو اب پوری ہورہی ہے.“ الحکم 24 نومبر 1902 ءصفحہ 1) 17
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب ایک اور موقعہ پر فرمایا دیکھو ہم بھی رخصتوں پر عمل کرتے ہیں.نمازوں کو جمع کرتے ہوئے کوئی دو ماہ سے زیادہ ہو گئے ہیں.بہ سبب بیماری کے اور تفسیر سورۂ فاتحہ کے لکھنے میں بہت مصروفیت کے ایسا ہو رہا ہے اور ان نمازوں کے جمع کرنے میں تُجمَعُ لَهُ الصَّلوة کی حدیث بھی پوری ہو رہی ہے کہ مسیح کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی.اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود نماز کے وقت پیش امام نہ ہوگا، بلکہ کوئی اور ہوگا اور وہ پیش امام مسیح کی خاطر نمازیں جمع کرائے گا.سواب ایسا ہی ہوتا ہے جس دن ہم زیادہ بیماری کی وجہ سے بالکل نہیں آسکتے.اس دن نمازیں جمع نہیں ہوتیں اور اس حدیث کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیار کے طریق سے یہ فرمایا ہے کہ اُس کی خاطر ایسا ہوگا.چاہیے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کی عزت و تحریم کریں اور ان سے بے پرواہ نہ ہو دیں ورنہ یہ ایک گناہ کبیرہ ہوگا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو خفت کی نگاہ سے دیکھیں.خدا تعالیٰ نے ایسے ہی اسباب پیدا کر دئیے کہ اتنے عرصے سے نمازیں جمع ہورہی ہیں ورنہ ایک دو دن کے لئے یہ بات ہوتی تو کوئی نشان نہ ہوتا.ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ لفظ اور حرف حرف کی تعظیم کرتے ہیں.‘“ الحكم 17 فروری 1901 ، صفحہ 13، 14 ) 9.شریعت کی رخصتوں پر بھی عمل ضروري هي حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی شریعت کی حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا اور احکام کی غرض و غایت پر زور دیا.خدا تعالیٰ نے انسان کو شریعت کے احکام 18
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب دے کر تنگی اور تکلیف میں نہیں ڈالا بلکہ بعض جگہ رھتیں اور رعایتیں بھی دی ہیں لیکن لوگ عموما تنگی والے راستے کو اختیار کرتے ہیں.آپ نے اپنی جماعت کو سمجھایا کہ خدا کی طرف سے دی گئی رخصتیں بھی اس کے احکام کی طرح اہم ہیں اور اُن پر عمل کرنا بھی ضروری ہے.ایک ایسے ہی موقع پر جبکہ ایک مہمان کی مہمان نوازی کے بارہ میں آپ نے ہدایت فرمائی اور اس سے آپ نے پوچھا کہ آپ مسافر ہیں آپ نے روزہ تو نہیں رکھا ہوگا.اس نے کہا کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے.اس پر آپ نے فرمایا اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقوی ہے.خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پر بھی تو عمل رکھنا چاہئے.میں نے پڑھا ہے کہ اکثرا کا بر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالتِ سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے نہ اپنی مرضی اور اللہ تعالیٰ کی رضا فر ما نبرداری میں ہے جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے.“ الحام 31 جنوری 1907 صفحہ 14 ) خدا تعالیٰ کی رخصتوں پر عمل کرنے کے ضمن میں آپ نے شریعت کے اس نقطہ کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ نے دین میں کوئی حرج اور تنگی نہیں رکھی.فرمایا شریعت کی بناء نرمی پر ہے سختی پر نہیں ہے.“ 66 الحکم 10 اگست 1903 صفحہ 20 ) 10.شعائر الله کا احترام اور دینی غیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاویٰ میں ہمیں یہ خصوصی انداز نظر آتا ہے کہ آپ مسائل کی صرف ظاہری صورتوں پر ہی نظر نہیں رکھتے تھے بلکہ تحدیث نعمت اور اظہار شکر گزاری کا 19
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب جذ بہ ہمیشہ پیش نظر رہتا تھا.اسی وجہ سے بعض دفعہ آپ نے اپنی پیشگوئیوں کے پورا ہونے پر شکر گزاری کے اظہار کے طور پر پر تکلف دعوت بھی کی.حضور علیہ السلام اپنے بچوں کو بھی شعائر اللہ میں سے سمجھتے تھے.اسی حوالے سے یہ واقعہ قابلِ ذکر ہے کہ جون 1897ء میں آپ نے اپنے صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی آمین کی تقریب منعقد کی جس میں آپ نے اپنے احباب کو پر تکلف دعوت دی اور اس موقعہ پر آپ نے ایک نظم لکھی حمد وثناء اسی کو جو ذات جاودانی یہ نظم آمین کی تقریب میں پڑھ کر سنائی گئی اندر زنانہ میں خواتین پڑھتی تھیں اور با ہر مرد تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 612،611) اور بچے پڑھتے تھے.اس کے بعد دسمبر 1901ء میں حضور نے اپنے بچوں صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ، صاحبزادہ مرزا شریف احمد اور صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی تقریب آمین منعقد کی.اس موقعہ پر حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت مسیح موعود کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حضور کے ہاں جو بشیر، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین ہوئی ہے اس میں جو تکلفات ہوئے ہیں وہ گو خاص صورت رکھتے ہیں کیونکہ مخدوم زادگان پیشگوئیوں کے ذریعے پیدا ہوئے.ان کے ایسے مواقع پر جو اظہار خوشی کی جائے وہ کم ہے مگر ہم لوگوں کے لئے کیونکہ حضور بروز محمد ہیں اس لئے ہمارے لئے سنت ہو جائیں 66 گے.اس پر سیر میں کچھ فرمایا جائے.“ اس پر حضرت اقدس نے سیر کرتے ہوئے تقریر فرمائی کہ الاعمال بالنیات ایک مسلمہ مسئلہ اور صحیح ترین حدیث ہے.اگر کوئی ریاء 20 20
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب سے اظہار علی الخلق اور تفوق علی الخلق کی غرض سے کھانا وغیرہ کھلاتا ہے تو ایسا کھانا وغیرہ حرام ہے یا معاوضہ کی غرض سے جیسے بھاجی وغیرہ.مگر اگر کوئی تشکر اور اللہ کی 66 رضا جوئی کی نیت سے خرچ کرتا ہے بلا ریا ومعاوضہ تو اس میں حرج نہیں.“ ( اصحاب احمد جلد 2 صفحہ 551.سیرت حضرت نواب محمد علی خان صاحب.نیا ایڈیشن ) اسی طرح ایک موقع پر آپ نے فرمایا 66 سمجھتا ہوں “ میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کے لا انتہاء فضل اور انعام ہیں.ان کی تحدیث مجھ پر فرض ہے پس میں جب کوئی کام کرتا ہوں تو میری غرض اور نیت اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہار ہوتی ہے.ایسا ہی اس آمین کی تقریب پر بھی ہوا ہے.یہ لڑ کے چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کا زندہ نمونہ ہیں اس لئے میں اللہ تعالیٰ کے ان نشانوں کی قدر کرنی فرض (الحکم 10 اپریل 1903 ، صفحہ 2) اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام دینی غیرت اور حمیت کے جذبہ کو پیش نظر رکھتے تھے.چنانچہ آپ نے اسی جذبہ کے پیش نظر اسلام کی طرف سے مدافعت کا خوب حق ادا کیا.جب دشمنانِ اسلام، اسلام پر حملہ آور ہورہے تھے آپ نے تحریری اور تقریری ہر دو ذریعوں سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے جواب دیئے اور بعض مواقع پر آپ کے ہندوؤں اور عیسائیوں کے ساتھ مباحثات بھی ہوئے.ایک ایسے ہی موقع پر جب آپ کا پادری عبداللہ آتھم کے ساتھ مباحثہ ہوا تو وہ گرمی کا موسم تھا.حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی کی روایت ہے کہ ”پانی کی ضرورت پڑتی تھی لیکن پانی اپنے ساتھ لے جایا جاتا تھا.عیسائیوں کے چاہ ( کنوئیں ) کا پانی نہیں لیا جاتا تھا کیونکہ عیسائی قوم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے والی ہے لہذا ان کے چاہ کا پانی پینا 21
حرف آغاز 66 حضور پسند نہ فرماتے تھے.“ وو حكم عدل کا فقہی اسلوب ( سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 198 ) عام طور پر عیسائیوں ، ہندوؤں اور دیگر اقوام کے ساتھ معاشرت کے لحاظ سے تعلقات رکھے جاتے تھے لیکن جہاں دینی غیرت کا معاملہ آتا تھا وہاں اس حد تک ان سے قطع تعلق کیا جاتا تھا جب تک کہ وہ اپنے طریق عمل کو نہ بدل لیں.ایک ایسے ہی موقعہ پر حضور سے دریافت کیا گیا کہ عیسائیوں کے ساتھ کھانا اور معانقہ کرنا جائز ہے؟ حضور نے فرمایا: ” میرے نزدیک ہرگز جائز نہیں یہ غیرت ایمانی کے خلاف ہے کہ وہ لوگ ہمارے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور ہم اُن سے معانقہ کریں.قرآن شریف ایسی مجلسوں میں بیٹھنے سے بھی منع فرماتا ہے جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر جنسی اُڑائی جاتی ہے اور پھر یہ لوگ خنز بر خور ہیں.ان کے ساتھ کھانا کھانا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ الحکم 17 راگست 1902 صفحہ 10 ) 11- خشک مسائل سے اجتناب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو اسلام کی سچی اور حقیقی تعلیم پر عمل کرنے کی ہدایت دی.عام طور پر لوگ جزوی ، فروعی اور خشک مسائل پر زیادہ توجہ دیتے تھے اور حقیقت سے دور جا پڑتے تھے.حضور نے ایسے بعض پیش آمدہ مسائل میں غیر حقیقی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی.روایتی کتب فقہ میں چونکہ ایسے مسائل موجود تھے جنہیں پڑھ کر بعض لوگ سمجھتے تھے کہ ہمیں بہت علم حاصل ہو گیا ہے اور اب ہم فقہ کے ماہر بن گئے ہیں اس لئے وہ ان مسائل کی ظاہری صورتوں پر ہی زور دیتے رہتے تھے.خاص طور پر حنفیوں میں ہے کمزوری تھی اور اپنے اس طرز عمل پر وہ بے جا فخر بھی کرتے تھے اور اپنے آپ کو مقلد کہتے تھے.اسی لئے آپ نے بعض ایسے روایتی فقہی مسائل سے احتراز فرمایا.مثلاً 22 22
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب آپ سے سوال کیا گیا کہ یہ جو مسئلہ ہے کہ جب چوہا یا بتی یا مرغی یا بکری یا آدمی کنوئیں میں مر جائیں تو اتنے ڈلو (ڈول) پانی نکالنا چاہئے.اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ کیونکہ پہلے تو ہمارا یہی عمل تھا کہ جب تک رنگ ، بو، مزانہ بدلے پانی کو پاک سمجھتے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا ”ہمارا تو وہی مذہب ہے جو احادیث میں آیا ہے یہ جو حساب ہے کہ اتنے دلو نکالو اگر فلاں جانور پڑے اور اتنے اگر فلاں پڑے، یہ ہمیں تو معلوم نہیں اور نہ اس 66 پر ہمارا عمل ہے.“ عرض کیا گیا کہ حضور نے فرمایا ہے جہاں سنت صحیحہ سے پتا نہ ملے وہاں فقہ حنفی پر عمل کرلو.فرمایا ”فقہ کی معتبر کتابوں میں بھی کب ایسا تعین ہے ہاں نجات المومنین میں لکھا ہے.سواس میں تو یہ بھی لکھا ہے.سر ٹوٹے وچ دے کے بیٹھ نماز کرے کیا اس پر کوئی عمل کرتا ہے اور کیا یہ جائز ہے جبکہ حیض و نفاس کی حالت میں نماز منع ہے.پس ایسا ہی یہ مسئلہ بھی سمجھ لو.میں تمہیں ایک اصل بتا دیتا ہوں کہ قرآنِ مجید میں آیا ہے وَالرُّجُزَ فَاهْجُرُ (المدثر: ۶) جب پانی کی حالت اس قسم کی ہو جائے جس سے صحت کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو صاف کر لینا چاہئے.مثلاً پتے پڑ جاویں یا کیڑے وغیرہ.( حالانکہ اس پر یہ ملاں نجس ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے ) باقی یہ کوئی مقدار مقر ر ہیں.جب تک رنگ و بو ومزانجاست سے نہ بدلے وہ پانی پاک ہے.“ ( بدر یکم اگست 1907 صفحه 12 ) 23 23
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب اسی طرح آپ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ میرا بھائی فوت ہو گیا ہے میں اس کی قبر یگی بناؤں یا نہ بناؤں؟ اس پر آپ نے فرمایا اگر نمود اور دکھلاؤ کے واسطے پکی قبریں اور نقش و نگار اور گنبد بنائے جاویں تو یہ حرام ہیں لیکن اگر خشک ملا کی طرح یہ کہا جاوے کہ ہر حالت اور ہر مقام میں کچی ہی اینٹ لگائی جاوے تو یہ بھی حرام ہے.اِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ عمل نیت پر موقوف ہیں.“ ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 253) 12- اشد ضرورتوں میں حکم بدل جاتے ہیں شریعت نے جہاں ہمیں زندگی کے ہر اہم پہلو کے لئے مفصل تعلیم دی ہے وہاں انسانی مجبوریوں اور معذوریوں کا بھی لحاظ رکھا ہے اور اضطرار کے حالات میں رعایت اور سہولت کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے.افریقہ سے ڈاکٹر محمد علی خان صاحب نے استفسار کیا کہ اگر ایک احمدی بھائی نماز پڑھ رہا ہو اور باہر سے اس کا افسر آ جائے اور دروازہ کو ہلا ہلا کر اور ٹھونک ٹھونک کر پکارے اور دفتر یا دوائی خانہ کی چابی مانگے تو ایسے وقت میں کیا کرنا چاہئے ؟ اسی وجہ سے ایک شخص نوکری سے محروم ہو کر ہندوستان واپس چلا گیا ہے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ایسی صورت میں ضروری تھا کہ وہ دروازہ کھول کر چابی افسر کو دے دیتا.( یہ ہسپتال کا واقعہ ہے.اس لئے فرمایا ) کیونکہ اگر اس کے التواء سے کسی آدمی کی جان چلی جاوے تو یہ سخت معصیت ہوگی.احادیث میں آیا ہے کہ نماز میں چل کر دروازہ کھول دیا جاوے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی.ایسے ہی اگرلڑ کے کو کسی خطرہ کا اندیشہ ہو یا کسی موذی جانور سے جو نظر پڑتا ہو ضرر پہنچتا ہو تو لڑکے کو بچانا اور جانور کو ماردینا اس حال میں کہ نماز پڑھ رہا ہے گناہ نہیں ہے اور نماز فاسد نہیں ہوتی بلکہ بعضوں نے یہ بھی لکھا 24
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب ہے کہ گھوڑا کھل گیا ہو تو اُسے باندھ دینا بھی مفسد نماز نہیں ہے.کیونکہ وقت کے اندر البدر 24 نومبر، یکم دسمبر 1904 ، صفحہ 4) نما زتو پھر بھی پڑھ سکتا ہے.“ سونے چاندی اور ریشم کا ضرور تا استعمال تو معروف مسئلہ ہے.اسی حوالے سے آپ سے سوال کیا گیا کہ چاندی وغیرہ کے بٹن استعمال کئے جاویں ؟ اس پر آپ نے فرمایا تین ، چار ماشہ تک تو حرج نہیں لیکن زیادہ کا استعمال منع ہے.اصل میں سونا چاندی عورتوں کی زینت کے لیے جائز رکھا ہے.ہاں علاج کے طور پر ان کا استعمال منع نہیں.جیسے کسی شخص کو کوئی عارضہ ہو اور چاندی سونے کے برتن میں کھانا طبیب بتلاوے تو بطور علاج کے صحت تک وہ استعمال کر سکتا ہے.ایک شخص آنحضرت ﷺ کے پاس آیا.اُسے جوئیں بہت پڑی ہوئی تھیں.آپ نے حکم دیا کہ تو ریشم کا کرتہ پہنا کر اس سے جوئیں نہیں پڑتیں.(ایسے ہی خارش والے کے لیے ریشم کا لباس مفید ہے).“ البدر 24 اگست 1904 ، صفحہ 8) 13.عُرف کا خیال رکھنا ضروری هے احکام شریعت میں موقع محل کی رعایت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور بہت سے ایسے مسائل ہیں کہ اگر ان میں معروضی حالات کو مد نظر نہ رکھا جائے تو احکام شریعت پر عمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے.مثلاً شریعت نے بیمار اور مسافر کے لئے روزہ رکھنے میں رخصت دی ہے تاہم بیماری کی تفاصیل اور سفر کی حدود کا ذکر نہیں کیا.اسی طرح سفر میں نماز قصر کرنے کی اجازت دی ہے لیکن سفر کی حد بیان نہیں فرمائی.اس بارہ میں فقہاء کی آراء کی روشنی میں یہ بحثیں ہوتی تھیں کہ کتنا سفر ہو تو سفر کہلائے گا.حضرت مسیح موعود نے عرف کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ مسئلہ بڑی آسانی سے حل فرما دیا.ایک شخص نے پوچھا کہ مجھے دس پندرہ کوس تک ادھر ادھر جانا پڑتا ہے.میں کس کو سفر 25
حرف آغاز سمجھوں اور نمازوں میں قصر کے متعلق کس بات پر عمل کروں؟ فرمایا حكم عدل کا فقہی اسلوب ”میرا مذ ہب یہ ہے کہ انسان بہت دقتیں اپنے اوپر نہ ڈال لے.عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں ، خواہ وہ دو تین کوس ہی ہو.اس میں قصر وسفر کے مسائل پر عمل کرے.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں، مگر کسی کے دل میں خیال نہیں آتا کہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھری اُٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتا ہے.شریعت کی بنا دقت پر نہیں ہے.جس کو تم عرف میں سفر سمجھو، وہی سفر ہے.“ الحکم 17 رفروری 1901 ءصفحہ 13 ) اسی طرح خرید و فروخت کے معاملات میں بھی عرف کا خیال رکھنا ضروری ہے جو مروجہ قانون ہو اور سب لوگ اس پر عمل کر رہے ہوں اور کوئی لڑائی جھگڑا بھی نہ ہو تو اس عرف پر بھی عمل کرنا چاہئے.ایک شخص نے سوال کیا کہ ریلی برادرز وغیرہ کارخانوں میں سرکاری سیراتی روپیہ کا دیتے ہیں اور لیتے اکاسی روپیہ کا ہیں کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا جن معاملات بیع و شراء میں مقدمات نہ ہوں ، فسادنہ ہوں تراضی فریقین ہو اور سر کا ر نے بھی جرم نہ رکھا ہو عرف میں جائز ہو وہ جائز ہے.“ (الحکم 10 اگست 1903 صفحہ 19) 14.حکومت وقت کی اطاعت کی تعلیم مسلمانوں کے جس ادبار اور پستی کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے اس دور میں مسلمان سیاسی ، سماجی ، مذہبی ، ہر لحاظ سے پسماندہ ہو چکے تھے.اپنے سابقہ شاندار ماضی کو یاد کرتے ہوئے محکومی اور کمزوری ان کے لئے بھاری ہو رہی تھی.جس دور 26 26
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب میں خلافت بنوامیہ، بنوعباس اور عثمانی حکومتیں بڑے بڑے علاقوں پر حکومت کرتی تھیں اس دور میں مذہبی مسائل میں بھی بہت سی جگہوں پر بادشاہ وقت کا ذکر ہوتا تھا اور بعض مسائل میں امامت کا حق دار بادشاہ وقت کو قرار دیا جاتا تھا.برصغیر پاک و ہند میں بھی مسلمان صدیوں تک حکمران رہے لیکن بعد میں پستی اور ذلت بھی دیکھنی پڑی.چونکہ ماضی میں دار الاسلام“ اور ”دار الحرب جیسی اصطلاحیں رائج ہو چکی تھیں اس لئے برصغیر میں مسلمانوں کو اپنی حکومت نہ ہونے سے یہ احساس تھا کہ یہ دارالاسلام نہیں بلکہ دارالحرب ہے اور خصوصا 1857ء کے غدر کے پس منظر میں یہ غلط تصور بھی کارفرما تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو ہر قسم کی بغاوت، فساد، اور نافرمانی سے بچنے اور سچے دل سے حکومت وقت کی اطاعت کرنے کی تعلیم دی.آپ نے یہ مسئلہ بار بار اور کھول کر واضح کیا کہ چونکہ انگریزی حکومت میں مسلمانوں کی نہ صرف جان و مال محفوظ ہے بلکہ مذہبی آزادی اور امن بھی حاصل ہے.اس لئے اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہر قسم کی بغاوت اور فساد سے بچنا چاہئے اور حکومت کے ساتھ پورا تعاون کرنا چاہئے.آپ نے فرمایا کہ میرے پانچ بڑے اصول ہیں.ان اصولوں میں سے چوتھے اصول کی یوں تفصیل بیان فرمائی کہ یہ کہ اس گورنمنٹ محسنہ کی نسبت جس کے ہم زیر سایہ ہیں یعنی گورنمنٹ انگلشیہ کوئی مفسدانہ خیالات دل میں نہ لانا اور خلوص دل سے اس کی اطاعت میں مشغول رہنا.“ (كتاب البرية - روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 348) اسی طرح حکومت کی اطاعت کے بارہ میں فرمایا حکام کی اطاعت اور وفاداری ہر مسلمان کا فرض ہے.وہ ہماری حفاظت کرتے ہیں اور ہر قسم کی مذہبی آزادی ہمیں دے رکھی ہے.میں اس کو بڑی بے ایمانی 27
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری سچے دل سے نہ کی جاوے.“ الحکم 31 جولائی، 10 اگست 1904 ء صفحہ 13 ) قرآن کریم نے اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُم کا جو حکم دیا ہے بعض لوگ اس کی یہ تشریح کرتے تھے کہ اللہ ، رسول اور اپنے حکام کی اطاعت کرنی چاہئے یعنی صرف مسلمان حکمران کی اطاعت کرنی جائز ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی حکم کا حوالہ دے کر مِنكُمُ “ میں ان تمام حکمرانوں کو بھی شامل فرمایا جو خلاف شریعت حکم پر عمل کرنے پر مجبور نہیں کرتے.فرمایا: اولی الامر کی اطاعت کا صاف حکم ہے اور اگر کوئی کہے کہ گورنمنٹ مِنكُمُ “ میں داخل نہیں تو یہ اس کی صریح غلطی ہے.گورنمنٹ جو بات شریعت کے موافق کرتی ہے.وہ مِنكُمُ میں داخل ہے.جو ہماری مخالفت نہیں کرتا وہ ہم میں داخل ہے.اشارۃ النص کے طور پر قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کی 66 اطاعت کرنی چاہئے اور اس کی باتیں مان لینی چاہئیں.“ (رساله الانذار صفحہ 15- تقریر حضرت اقدس فرمودہ 2 مئی 1898ء - ملفوظات جلد 1 صفحہ 171 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کی پاکیزہ تعلیم کی حقیقت واضح کرنے کے لئے تحریری اور تقریری ہر طرح سے زور دار کوششیں کیں.خاص طور پر آپ نے ایک رسالہ لکھا گورنمنٹ انگریزی اور جہاؤ جو روحانی خزائن کی جلد 17 میں موجود ہے.اس میں آپ نے جہاد کی تعلیم کی پوری تفصیل بیان فرمائی اور انگریزوں کے ساتھ جہاد کرنے اور ان کی حکومت کے خلاف باغیانہ روش اختیار کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی اور آپ نے اس مسئلہ کو اپنے منظوم میں بھی پیش فرمایا.فرماتے ہیں: اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال 28
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب اب آ گیا مسیح جو دیں کا امام ہے دیں کی تمام جنگوں کااب اختتام ہے 15.نئی ایجادات سے فائدہ اُٹھانا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب زمانہ اپنے رنگ ڈھنگ بدل رہا تھا.انیسویں صدی عیسوی میں سائنسی ایجادات میں اس قدر تیزی آئی جو اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی.نت نئی ایجادات نے زندگی کا منظر نامہ بالکل بدل کر رکھ دیا.تار، ریل، چھاپہ خانے ، فوٹوگرافی، فونوگراف، ٹیکہ، وغیرہ ایسی ایجادات تھیں جس کا خاص تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ تھا.حضور نے بار بار فرمایا کہ اس دور میں روحانی اور جسمانی ہر دو برکات کی بارش ہورہی ہے.نئی ایجادات نے دنیا کو قریب تر کر دیا.پریس کی ایجاد نے ہر مذہب کے ماننے والوں میں ایک جوش پیدا کر دیا کہ وہ اپنے مذہب کی خوب اشاعت کریں.اس ایجاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عیسائی پادریوں نے اسلام کے خلاف کثرت کے ساتھ کتابیں لکھ کر شائع کروائیں اور انہیں سارے ہندوستان میں پھیلا دیا.اسی طرح ہندوؤں نے بھی اسلام کو اپنا تختہ مشق بنایا اور کثرت سے اعتراضات سے بھری ہوئی کتا میں لکھیں لیکن دوسری طرف مسلمانوں کی پستی کا یہ حال تھا که مدا فعت تو در کنار ایسی ایجادات کو بھی خلاف اسلام قرار دینے پر تل گئے.خاص طور پر فوٹو گرافی پر بہت اعتراض کئے گئے اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فوٹواتر وائی تو ایک شور مچ گیا کہ دیکھو اس نے ایک حرام کام کیا ہے.آپ نے قرآن کریم اور حدیث کی روشنی میں دلائل کے ساتھ اس مسئلہ کو واضح فرمایا کہ حدیث میں جن تصویروں کی ممانعت آئی ہے اس کا موجودہ دور کی فوٹوگرافی سے تعلق نہیں.فوٹو تو ایک عکس ہے جیسے آنکھ میں تصویر بنتی ہے، پانی میں عکس بنتا ہے.فرمایا 29 29
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب یہ آلہ جس کے ذریعہ سے اب تصویر لی جاتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایجاد نہیں ہوا تھا اور یہ نہایت ضروری آلہ ہے جس کے ذریعہ سے بعض امراض کی تشخیص ہو سکتی ہے ایک اور آلہ تصویر کا نکلا ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی تمام ہڈیوں کی تصویر کھینچی جاتی ہے اور وجع المفاصل و نقرس وغيره امراض کی تشخیص کے لئے اس آلہ کے ذریعہ سے تصویر کھینچتے ہیں اور مرض کی حقیقت معلوم ہوتی ہے.ایسا ہی فوٹو کے ذریعہ سے بہت سے علمی فوائد ظہور میں آئے ہیں.“ ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 366) اسی طرح ریل کی سواری کی ایجاد سے بھی آپ نے فائدہ اُٹھایا اور اسے اپنے لئے نشان قرار دیا.فونوگراف میں نظم ریکارڈ کی گئی جو آپ نے خاص اس مقصد کے لئے لکھی تھی جس کا پہلا شعر یہ تھا آواز آ رہی ہے یہ فونوگراف سے ڈھونڈ وخدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے ہر نئی ایجاد اور فن کو حضور نے اس شرط پر درست اور جائز قرار دیا کہ اگر اسے شریعت کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے تو ایسا کام جائز ہے.ایک شخص نے سوال کیا کہ عکسی تصویر لینا شرعا جائز ہے؟ فرمایا کہ یہ ایک نئی ایجاد ہے پہلی کتب میں اس کا ذکر نہیں.بعض اشیاء میں ایک منجانب اللہ خاصیت ہے جس سے تصویر اتر آتی ہے.اگر اس فن کو خادم شریعت بنایا جاوے تو جائز ہے.“ 30 30 ( بدر 24 ، 31 دسمبر 1908 ء صفحہ 5)
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب 16.نئے اجتھاد کی ضرورت هے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ایک ایسے وقت پر ہوئی جب دنیا میں بڑی تیزی کے ساتھ تغیرات برپا ہو رہے تھے.رہن سہن اور تمدن کی صورتیں بدل رہی تھیں.حکومتوں کے انداز اور لوگوں کے باہمی تعلقات میں تبدیلیاں ہو رہی تھیں.قومیت کی جگہ بین الاقوامیت کا تصور ابھر رہا تھا.ملکوں کی جغرافیائی حدود میں تبدیلیاں ہو رہی تھیں اور غیر اقوام کے محکوم عوام میں آزادی کے خیالات پیدا ہورہے تھے.خرید وفروخت کے انداز میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہو چکی تھیں جو گزشتہ حالات سے بالکل مختلف تھیں.اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت کی جگہ کرنسی نوٹوں نے لے لی اور لباس اور خوراک میں بھی ایسی تبدیلیاں ہوئیں جن سے نئے سوالات نے جنم لیا.سو د جسے اسلام نے قطعی حرام قرار دیا ہے کئی ملکوں میں قانونی شکل اختیار کر گیا اور مختلف ممالک میں بینکنگ کا تصور عملی شکل میں سامنے آیا جہاں سارا لین دین ہی سود کی بنیاد پر ہو رہا تھا.ایسے بدلے ہوئے حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کی راہنمائی فرمائی اور انہیں آئندہ کے لئے لائحہ عمل دیا.بعض ایسے مسائل تھے جن میں واضح طور پر سود لیا اور دیا جا تا تھا اور بعض ایسے مسائل تھے جن میں سود کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اگر یقین نہ بھی ہو تو شک ضرور پایا جاتا تھا.ایک ایسے موقعہ پر جب آپ سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا اس ملک میں اکثر مسائل زیروز بر ہو گئے ہیں.کل تجارتوں میں ایک نہ ایک 66 حصہ سود کا موجود ہے اسی لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے.“ ( البدریکیم و 8 نومبر 1904 ء صفحہ 8) 31
حرف آغاز حكم عدل کا فقہی اسلوب 17 - احمدى علماء اجتهاد کریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت ابو حنیفہ کے ساتھ ایک طبعی وفطرتی مناسبت تھی اور فقہ حنفی کے مسائل کو آپ نے اہمیت بھی دی ہے لیکن اس کے باوجود آپ نے فرمایا کہ چونکہ زمانہ میں تغیرات ہو چکے ہیں اس لئے بہت سی جگہوں پر فقہ حنفی کے مسائل سے بھی فائدہ نہیں ہوگا.ایسی صورت میں احمدی علما ء اپنے خدا دا دا اجتہاد سے کام لیں.فرمایا : ”ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اُس کو ترجیح دیں اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنّت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کریں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار ہیں کہ مولوی عبد اللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اُس حدیث کو چھوڑ دیں.“ ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 212) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس ہدایت کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل پر اجتہاد کے لئے جماعت احمد یہ میں علماء کی ایک مجلس " مجلس افتاء " قائم ہے جو فور اور تحقیق کے بعد اپنی رائے حضرت خلیفتہ امیج کی خدمت میں بھجواتی ہے.اس پر حضرت خلیفتہ امسیح جو فیصلہ فرماتے ہیں وہ جماعت احمدیہ کی فقہ کا حصہ قرار پاتا ہے اور تمام احمدی اس پر عمل کرنے کے پابند ہو تے ہیں.32 32
حرف آغاز " 66 کچھ کے بارہ میں کچھ فقه المسيح “ کے بارے میں سید نا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکم عدل اور مامور زمانہ بنا کر بھیجا اور آپ کے سپر دعظیم دینی مہمات کی گئیں.آپ کا مقام ایک عام مفتی کا مقام نہیں تھا بلکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے زمانے کی اصلاح کے لئے بھیجا تھا.مرورِ زمانہ سے اور فقہی مسالک کی کثرت اور باہمی تنازعات کی وجہ سے مسلمان جہاں جہاں راہِ سداد سے ہٹ چکے تھے حضور نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی پاکر اُن کو دوبارہ انہی اصولوں پر قائم کرنے کی کوشش کی جو شریعت حقہ کا مقصود ہے.آپ نے قرآن شریف ، سنت اور تعامل نیز حدیث کا حقیقی مرتبہ واضح کرتے ہوئے تمام معاملات کا اصل مرجع قرآن کریم کو ٹھہرایا اور فروعی معاملات میں اختلافات کو زیادہ ہوا نہ دینے کی تلقین فرمائی.بعض مسائل میں آپ نے ایک طریق کو اولیت دی مگر دوسرے رائج طریقوں کو بھی رڈ نہ فرمایا کیونکہ آپ کے فقہی انداز میں وسعت تھی اسی لئے آپ نے امتِ مسلمہ کے تعامل کو بہت اہمیت دی.حضور علیہ السلام کی زندگی میں یہ دستور تھا کہ باہر سے آنے والے مہمان آپ کی مجالس میں سوالات کرتے اور آپ ان کے جواب دیتے.اسی طرح سیر کے دوران بھی گفتگو اور سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہتا اور خطوط سے آمدہ سوالات کے جوابات بھی آپ لکھواتے تھے.عام طور پر فقہی مسائل سے متعلق سوالات کے آپ خود بھی جواب دیتے تھے اور کبھی حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مولوی سید محمد احسن امروہی صاحب کو بھی جواب دینے کے لئے ارشاد فرماتے.چنانچہ الحکم اور بدر میں جہاں حضرت مسیح موعود کے فتاوی چھپتے وہاں بعض دفعہ ان ہر دو بزگان کے فتاویٰ بھی چھپتے تھے.بعض دفعہ حضور کی مجلس میں سوال پوچھا جاتا اور آپ ان بزرگان میں سے کسی کی طرف اشارہ کرتے اور وہ جواب دے دیتے اور پھر آپ اس کی توثیق فرما دیتے.33
حرف آغاز کچھ کے بارہ میں اس کتاب کی تیاری میں یہ بات مد نظر رکھی گئی ہے کہ نہ صرف حضرت مسیح موعود کے فقہی مسائل کے بارہ میں جملہ ارشادات کو جمع کیا جائے بلکہ اصول فقہ اور شریعت کی حکمتوں پر مشتمل آپ کے ارشادات بھی اس میں شامل کئے جائیں کیونکہ حضور نے جہاں اسلام کی تعلیم کو دیگر مذاہب کے مقابلے میں پیش فرمایا ہے وہاں شریعت کے احکام کا پُر حکمت ہونا اور عین فطرت کے مطابق ہونا قرار دیا ہے.حضرت مسیح موعود کی جملہ کتب مکتوبات ، اشتہارات اور ملفوظات جو ساتھ ساتھ الحکم اور بدر میں چھپتے تھے.اسی طرح کتب سیرت اور اصحاب احمد اور صحابہ کی روایات سے مواد جمع کیا گیا ہے تا کہ حضور علیہ السلام کے اصل کام کو نمایاں کیا جاسکے.سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ کر کے کوشش کی گئی ہے کہ کوئی اہم حوالہ رہ نہ جائے تاہم اضافوں کی گنجائش موجود ہے.اس کتاب میں تمام حوالہ جات کو اصل مآخذ سے لیا گیا ہے.اسی وجہ سے ملفوظات کی بجائے الحکام اور بدر سے براہِ راست حوالہ جات اخذ کئے گئے ہیں.الحکم یا بدر میں بعض جگہوں پر ایسی لفظی غلطیاں ملتی ہیں جن کی تصحیح ملفوظات میں کر دی گئی ہے ایسی صورت میں ملفوظات کی تصحیح کے مطابق الفاظ درج کئے گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں قادیان سے دو اخبار نکلتے تھے.الحکم 1897 میں چھپنا شروع ہوا اور البدر 1902ء میں.ان دونوں اخباروں میں حضور علیہ السلام کے ملفوظات چھپتے تھے.اخبار بدر 13 را پریل 1905 ء تک البدر کے نام سے چھپتا رہا جبکہ 20 اپریل 1905ء سے یہ بدر کے نام سے چھپنا شروع ہوا.حوالہ جات میں اسی کے مطابق کہیں البد را ور کہیں بد رلکھا گیا ہے.اس کتاب کی تدوین میں خاکسار کو بہت سے احباب کا خصوصی تعاون میتر رہا جن کا ذکر کر نا شکر گزاری کے اظہار کے طور پر ضروری سمجھتا ہوں.(1) سب سے پہلے خاکسار مکرم فضل احمد ساجد صاحب مربی سلسلہ دار الافتاء کا خصوصی طور پر شکر گزار ہے کہ انہوں نے ” “ کے مسودے کو دو مرتبہ بالاستیعاب 66 34
حرف آغاز کچھ کے بارہ میں پڑھا اور انتہائی مفید مشورے دیئے.اہم امور پر وہ مکرم مولا نا مبشر احمد صاحب کا ہلوں مفتی سلسلہ سے مشورہ بھی کرتے رہے.اس کے علاوہ انہوں نے بعض ضروری حوالہ جات بھی مہیا فرمائے جو اس کتاب میں شامل ہیں.(2) مکرم وحید احمد رفیق صاحب مربی سلسله استاد فقہ جامعہ احمدیہ کا تعاون بھی خاکسار کو مہیا رہا.اسی طرح جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم طلباء عزیزان حافظ فہیم احمد قریشی، محمد دانیال اور بحیل احمد شفیق نے پروف ریڈنگ کے کام میں خصوصی معاونت کی.نیز سید عامر پرویز شاہ صاحب کا رکن لائبریری جامعہ نے بھی گاہے گا ہے خصوصی تعاون کیا.(3) اس کتاب کی کمپوزنگ اور ابتدائی سیٹنگ مکرم محمد آصف عدیم صاحب مربی سلا پر خلوص محنت اور دلی شوق کے ساتھ کی اور آخری سیٹنگ مکرم کلیم احمد صاحب طاہر مربی سلسلہ نے بڑی محبت اور لگن سے کی.ہر دو مربیان سلسلہ خاکسار کے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ سب معاونین کو اجر عظیم عطا کرے اور اس خدمت کو قبول فرمائے.آمین بعض بزرگان کی حوصلہ افزائی اور اس کتاب کی تدوین میں خصوصی دلچسپی پر خاکسار جذبات تشکر سے معمور ہے.اس فہرست میں مکرم ملک خالد مسعود صاحب ناظر اشاعت مکرم نصیر احمد صاحب چوہدری نائب ناظم دارالقضاء ربوہ ، مکرم عبدالسمیع خانصاحب ایڈیٹر الفضل ربوہ ، مکرم نصیر احمد صاحب قمر ایڈیشنل وکیل اشاعت لندن اور مکرم شبیر احمد صاحب ثاقب صدر شعبہ حدیث جامعہ احمد یہ ربوہ شامل ہیں.فجز اھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء خاکسار انتصار احمد نذر مربی سلسلہ احمدیہ صدر شعبہ فقہ جامعہ احمد یہ ربوہ 15 / اپریل 2015ء 35
فقه المسيح 1 بسم اللہ الرحمن الرحیم فقہ احمدیہ کے مآخذ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: فقہ احمدیہ کے مآخذ میرا مذ ہب یہ ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ جو تمہاری ہدایت کے لئے خدا نے تمہیں دی ہیں.(1) سب سے اوّل قرآن ہے جس میں خدا کی توحید اور جلال اور عظمت کا ذکر...سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اُٹھاؤ.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26) قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کر ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے.وہ شک اور طن کی آلائشوں سے پاک ہے.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 209) (عربی سے ترجمہ ) خدا کا کلام لفظا لفظا تواتر سے ثابت ہے.وہ وحی متلو قطعی اور یقینی ہے اور اس کی قطعیت میں شک کرنے والا ہمارے نزدیک کافر مردود اور فاسق ہے اور یہ صرف قرآن کریم کی ہی صفت ہے اور اس کا مرتبہ ہر کتاب اور ہر وحی سے بلند ہے.( تحفہ بغداد.روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 31) (2) دوسرا ذریعہ ہدایت کا جو مسلمانوں کو دیا گیا ہے سقت ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی کارروائیاں جو آپ نے قرآن شریف کے احکام کی تشریح کے لئے کر کے دکھلا ئیں مثلاً قرآن شریف میں بظا ہر نظر پنجگانہ نمازوں کی رکعات معلوم نہیں ہوتیں کہ صبح
فقه المسيح 2 فقہ احمدیہ کے مآخذ کس قدر اور دوسرے وقتوں میں کس کس تعداد پر لیکن سنت نے سب کچھ کھول دیا ہے.یہ دھوکہ نہ لگے کہ سنت اور حدیث ایک چیز ہے کیونکہ حدیث تو سو ڈیڑھ سو برس کے بعد جمع کی گئی مگر سنت کا قرآن شریف کے ساتھ ہی وجود تھا مسلمانوں پر قرآن شریف کے بعد بڑا احسان سنّت کا ہے.خدا اور رسول کی ذمہ واری کا فرض صرف دو امر پر تھے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ قرآن کو نازل کر کے مخلوقات کو بذریعہ اپنے قول کے اپنے منشاء سے اطلاع دے یہ تو خدا کے قانون کا فرض تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرض تھا کہ خدا کے کلام کو عملی طور پر دکھلا کر بخوبی لوگوں کو سمجھا دیں.پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گفتنی با تیں کر دنی کے پیرا یہ میں دکھلا دیں اور اپنی سنت یعنی عملی کا رروائی سے معضلات اور مشکلات مسائل کو حل کر دیا.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 61) جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن شریف کی اشاعت کے لئے مامور تھے ایسا ہی سنت کی اقامت کے لئے بھی مامور تھے.پس جیسا کہ قرآن شریف یقینی ہے ایسا ہی سُنّتِ معمولہ متواترہ بھی یقینی ہے.یہ دونوں خدمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے بجالائے.ر یویو بر مباحثہ چکڑالوی و بٹالوی.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 210) سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تو اتر رکھتی ہے اور ابتداء سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور قدیم سے عادت اللہ یہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کے لئے لاتے ہیں تو اپنے عملی فعل سے یعنی عملی طور پر اس قول کی تفسیر کر دیتے ہیں تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 209-210) ہیں.
فقه المسيح 3 فقہ احمدیہ کے مآخذ (3) تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے کیونکہ بہت سے اسلام کے تاریخی اور اخلاقی اور فقہ کے امور کو حدیثیں کھول کر بیان کرتی ہیں اور نیز بڑا فائدہ حدیث کا یہ ہے کہ وہ قرآن کی خادم اور سنت کی خادم ہے.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 61) سنت اور حدیث میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ سنت ایک عملی طریق ہے جو اپنے ساتھ تو اتر رکھتا ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے جاری کیا اور وہ یقینی مراتب میں قرآن شریف سے دوسرے درجہ پر ہے اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن شریف کی اشاعت کے لئے مامور تھے ایسا ہی سُنّت کی اقامت کے لئے بھی مامور تھے.پس جیسا کہ قرآن شریف یقینی ہے ایسا ہی سُنّتِ معمولہ متواترہ بھی یقینی ہے.یہ دونوں خدمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے بجالائے اور دونوں کو اپنا فرض سمجھا.مثلاً جب نماز کے لئے حکم ہوا تو آنحضرت نے خدا تعالیٰ کے اس قول کو اپنے فعل سے کھول کر دکھلا دیا اور عملی رنگ میں ظاہر کر دیا کہ فجر کی نماز کی یہ رکعات ہیں اور مغرب کی یہ اور باقی نمازوں کے لئے یہ یہ رکعات ہیں.ایسا ہی حج کر کے دکھایا اور پھر اپنے ہاتھ سے ہزار ہا صحابہ کو اس فعل کا پابند کر کے سلسلہ تعامل بڑے زور سے قائم کر دیا.پس عملی نمونہ جواب تک اُمت میں تعامل کے رنگ میں مشہود و محسوس ہے اسی کا نام سنت ہے.لیکن حدیث کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رو برو نہیں لکھوایا اور نہ اس کے جمع کرنے کیلئے کوئی اہتمام کیا.....پھر جب وہ دور صحابہ رضی اللہ عنہم کا گذر گیا تو بعض تبع تابعین کی طبیعت کو خدا نے اس طرف پھیر دیا کہ حدیثوں کو بھی جمع کر لینا چاہئے تب حدیثیں جمع ہوئیں.اس میں شک نہیں ہوسکتا کہ اکثر حدیثوں کے جمع کرنے والے بڑے متقی اور پر ہیز گار تھے انہوں نے جہاں تک اُن کی طاقت میں تھا حدیثوں
فقه المسيح 4 فقہ احمدیہ کے مآخذ کی تنقید کی اور ایسی حدیثوں سے بچنا چاہا جو اُن کی رائے میں موضوعات میں سے تھیں اور ہر ایک مشتبه الحال راوی کی حدیث نہیں لی.بہت محنت کی مگر تا ہم چونکہ وہ ساری کارروائی بعد از وقت تھی اس لئے وہ سب ظن کے مرتبہ پر رہی بائیں ہمہ یہ سخت نا انصافی ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور لکھی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ ان حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی.یہودیوں میں بھی حدیثیں ہیں اور حضرت مسیح کے مقابل پر بھی وہی فرقہ یہودیوں کا تھا جو عامل بالحدیث کہلاتا تھا لیکن ثابت نہیں کیا گیا کہ یہودیوں کے محدثین نے ایسی احتیاط سے وہ حدیثیں جمع کی تھیں جیسا کہ اسلام کے محدثین نے.تاہم یہ غلطی ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جب تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں اُس وقت تک لوگ نمازوں کی رکعات سے بیجبر تھے یا حج کرنے کے طریق سے نا آشنا تھے کیونکہ سلسلہ تعامل نے جو سنت کے ذریعے سے ان میں پیدا ہوگیا تھا تمام حدود اور فرائض اسلام ان کو سکھلا دیئے تھے اس لئے یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اُن حدیثوں کا دنیا میں اگر وجود بھی نہ ہوتا جو مدت دراز کے بعد جمع کی گئیں تو اسلام کی اصلی تعلیم کا کچھ بھی حرج نہ تھا کیونکہ قرآن اور سلسلہ تعامل نے اُن ضرورتوں کو پورا کر دیا تھا.تا ہم حدیثوں نے اس نور کو زیادہ کیا گویا اسلام نور علی نور ہو گیا اور حدیثیں قرآن اور سنت کے لئے گواہ کی طرح کھڑی ہو گئیں اور اسلام کے بہت سے فرقے جو بعد میں پیدا ہو گئے اُن میں سے سچے فرقے کو احادیث صحیحہ سے بہت فائدہ پہنچا.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 211،210) (مندرجہ بالا تین رہنما محکم اصولوں کے بعد جن پر تمام شریعت حقہ کی بنیاد ہے اگر کوئی مسئلہ حل طلب رہ جائے یا اس کے حل میں مزید روشنی اور راہنمائی کی ضرورت ہو یا کوئی نیا
فقه المسيح 5 فقہ احمدیہ کے مآخذ مسئلہ پیدا ہو جائے تو ان مسائل کے حل کے لئے جماعت کے مجہتدین اور راسخین فی العلم کو حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی حسب ذیل ہدایت ہے.) ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو ، اس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کریں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتوئی نہ دے سکے تو اس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اُس حدیث کو چھوڑ دیں.( ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 212) قرآن کریم اور حدیث بطور حجت شرعیہ کتاب وسنت کے حجج شرعیہ ہونے میں میرا یہ مذہب ہے کہ کتاب اللہ مقدم اور امام ہے.جس امر میں احادیث نبویہ کے معانی جو کئے جاتے ہیں کتاب اللہ کے مخالف واقع نہ ہوں تو وہ معانی بطور حجت شرعیہ کے قبول کئے جائیں گے لیکن جو معانی نصوص بینہ قرآنیہ سے مخالف واقع ہوں گے ان معنوں کو ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے.بلکہ جہاں تک ہمارے لئے ممکن ہوگا ہم اس حدیث کے ایسے معانی کریں گے جو کتاب اللہ کی نص بتین سے موافق و مطابق ہوں اور اگر ہم کوئی ایسی حدیث پائیں گے جو مخالف نص قرآن کریم ہوگی اور کسی صورت سے ہم اس کی
فقه المسيح 6 فقہ احمدیہ کے مآخذ تاویل کرنے پر قادر نہیں ہوسکیں گے تو ایسی حدیث کو ہم موضوع قرار دیں گے کیونکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللهِ وَ آيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ (الجاليه: 7) یعنی تم بعد اللہ اور اس کی آیات کے کس حدیث پر ایمان لاؤ گے.اس آیت میں صریح اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر قرآن کریم کسی امر کی نسبت قطعی اور یقینی فیصلہ دیوے یہاں تک کہ اس فیصلہ میں کسی طور سے شک باقی نہ رہ جاوے اور منشاء اچھی طرح سے کھل جائے تو پھر بعد اس کے کسی ایسی حدیث پر ایمان لانا جو صریح اس کے مخالف پڑی ہو مومن کا کام نہیں ہے.پھر فرماتا ہے.فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (الاعراف: 186 ) ان دونوں آیتوں کے ایک ہی معنی ہیں اس لئے اس جگہ تصریح کی ضرورت نہیں.سو آیات متذکرہ بالا کے رو سے ہر ایک مومن کا یہ ہی مذہب ہونا چاہئے کہ وہ کتاب اللہ کو بلا شرط اور حدیث کو شرعی طور پر حجت شرعی قرار دیوے اور یہی میرا مذ ہب ہے.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 12،11) قولی فعلی اور تقریری احادیث کے لئے بھی محک قرآن کریم ہے جوا مرقول یا فعل یا تقریر کے طور پر جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف احادیث میں بیان کیا گیا ہے.ہم اس امر کو بھی اسی محک سے آزمائیں گے اور دیکھیں گے که حسب آیہ شریفہ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ وہ حدیث قولی یا فعلی قرآن کریم کی کسی صریح اور بین آیت سے مخالف تو نہیں.اگر مخالف نہیں ہوگی تو ہم بسر و چشم اس کو قبول کریں گے اور اگر بظاہر مخالف نظر آئے گی تو ہم حتی الوسع اس کی تطبیق اور توفیق کیلئے کوشش کریں گے اور اگر ہم باوجود پوری پوری کوشش کے اس امر تطبیق میں ناکام رہیں گے اور صاف صاف کھلے طور پر ہمیں مخالف معلوم ہوگی تو ہم افسوس کے ساتھ اس حدیث کو ترک کر دیں گے.کیونکہ
فقه المسيح 7 فقہ احمدیہ کے مآخذ حدیث کا پایہ قرآن کریم کے پایہ اور مرتبہ کو نہیں پہنچتا.احادیث صرف مفید ظن ہیں الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 12) حدیثیں غایت کا رظنی ہیں اور جب کہ وہ مفید ظن ہیں تو ہم کیونکر روایت کی رو سے بھی ان کو وہ مرتبہ دے سکتے ہیں جو قرآن کریم کا مرتبہ ہے.جس طور سے حدیثیں جمع کی گئی ہیں اس طریق پر ہی نظر ڈالنے سے ہر یک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ہرگز ممکن ہی نہیں کہ ہم اس یقین کے ساتھ انکی صحت روایت پر ایمان لاویں کہ جو قرآن کریم پر ایمان لاتے ہیں مثلاً اگر کوئی حدیث بخاری یا مسلم کی ہے لیکن قرآن کریم کے کھلے کھلے منشاء سے برخلاف ہے تو کیا ہمارے لئے یہ ضروری نہیں ہوگا کہ ہم اسکی مخالفت کی حالت میں قرآن کریم کو اپنے ثبوت میں مقدم قرار دیں؟ پس آپ کا یہ کہنا کہ احادیث اصول روایت کی رو سے ماننے کے لائق ہیں، یہ ایک دھوکا دینے والا قول ہے کیونکہ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ حدیث کے ماننے میں جو مرتبہ یقین کا ہمیں حاصل ہے وہ مرتبہ قرآن کریم کے ثبوت سے ہموزن ہے یا نہیں؟ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ مرتبہ ثبوت کا قرآن کریم کے مرتبہ ثبوت سے ہم وزن ہے تو بلا شبہ ہمیں اسی پایہ پر حدیث کو مان لینا چاہئے مگر یہ تو کسی کا بھی مذہب نہیں تمام مسلمانوں کا یہی مذہب ہے کہ اکثر احادیث مفید ظن ہیں.وَالظَّنُّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 14) بخاری اور مسلم کی احادیث ظنی طور پر صحیح ہیں آپ خود مانتے ہیں ( مراد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں) کہ حدیثیں اپنے روایتی ثبوت کی رو سے اعلیٰ مرتبہ ثبوت سے گری ہوئی ہیں اور غایت کار مفیدظن ہیں تو آپ اس بات پر کیوں زور دیتے ہیں کہ اسی مرتبہ یقین پر انہیں مان لینا چاہئے جس مرتبہ پر قرآن کریم مانا جاتا
فقه المسيح 8 فقہ احمدیہ کے مآخذ ہے.پس صحیح اور سچا طریق تو یہی ہے کہ جیسے حدیثیں صرف ظن کے مرتبہ تک ہیں بجز چند حدیثوں کے.تو اسی طرح ہمیں ان کی نسبت ظن کی حد تک ہی ایمان رکھنا چاہئے.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 15) آپ خود اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں لکھ چکے ہیں کہ احادیث کی نسبت بعض اکابر کا یہ مذہب ہوا ہے.کہ ایک ملہم شخص ایک صحیح حدیث کو بالہام الہی موضوع ٹھہراسکتا ہے اور ایک موضوع حدیث کو بالہام الہی صحیح ٹھہرا سکتا ہے.اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جب کہ یہ حال ہے کہ کوئی حدیث بخاری یا مسلم کی بذریعہ کشف کے موضوع ٹھہر سکتی ہے تو پھر کیونکر ہم ایسی حدیثوں کو ہم پایہ قرآن کریم مان لیں گے ؟ ہاں یہ تو ہمارا ایمان ہے کہ ظنی طور پر بخاری اور مسلم کی حدیثیں بڑے اہتمام سے لکھی گئی ہیں اور غالباً اکثر ان میں صحیح ہوں گی.لیکن کیونکر ہم اس بات پر حلف اٹھا سکتے ہیں کہ بلاشبہ وہ ساری حدیثیں صحیح ہیں جب کہ وہ صرف ظلنی طور پر صحیح ہیں نہ یقینی طور پرتو پر یقینی طور پران کا صیح ہونا کیونکر مان سکتے ہیں! الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 15) مذاہب اربعہ کا اختلاف احادیث کی بنیاد پر ہی ہے میرا مذہب یہی ہے کہ البتہ بخاری اور مسلم کی حدیثیں فنی طور پر صیح ہیں.مگر جو حدیث صریح طور پر ان میں سے مبائن و مخالف قرآن کریم کے واقع ہوگی وہ صحت سے باہر ہو جائے گی.آخر بخاری اور مسلم پر وحی تو نازل نہیں تھی بلکہ جس طریق سے انہوں نے حدیثوں کو جمع کیا ہے اس طریق پر نظر ڈالنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ بلا شبہ وہ طریق ظنی ہے اور ان کی نسبت یقین کا ادعا کرنا ادعائے باطل ہے.دنیا میں جو اس قدر مخالف فرقے اہل اسلام میں ہیں خاص کر مذاہب اربعہ ان چاروں مذہبوں کے اماموں نے اپنے عملی طریق سے خود گواہی دے دی ہے کہ یہ
فقه المسيح 9 فقہ احمدیہ کے مآخذ احادیث ظنی ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اکثر حدیثیں ان کو ملی ہوں گی مگر ان کی رائے میں وہ حدیثیں صحیح نہیں تھیں.بھلا آپ فرما دیں کہ اگر کوئی شخص بخاری کی کسی حدیث سے انکار کرے کہ یہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ اکثر مقلدین انکار کرتے ہیں تو کیا وہ شخص آپ کے نزدیک کافر ہو جائے گا؟ پھر جس حالت میں وہ کافر نہیں ہوسکتا تو آپ کیونکر ان حدیثوں کو روایتی ثبوت کے رو سے یقینی ٹھہر اسکتے ہیں؟ (الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 15-16) پہلے ادب کی راہ سے حدیث کی تاویل کی جائے جس کو خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے فہم قرآن عطا کرے اور تفہیم الہی سے وہ مشرف ہو جاوے اور اس پر ظاہر کر دیا جائے کہ قرآن کریم کی فلاں آیت سے فلاں حدیث مخالف ہے اور یہ علم اس کا کمال یقین اور قطعیت تک پہنچ جائے تو اس کیلئے یہی لازم ہوگا کہ حتی الوسع اول ادب کی راہ سے اس حدیث کی تاویل کر کے قرآن شریف سے مطابق کرے.اور اگر مطابقت محالات میں سے ہو اور کسی صورت سے نہ ہو سکے تو بدرجہ نا چاری اس حدیث کے غیر صحیح ہونے کا قائل ہو.کیونکہ ہمارے لئے یہ بہتر ہے کہ ہم بحالت مخالفت قرآن شریف حدیث کی تاویل کی طرف رجوع کریں.لیکن یہ سراسر الحاد اور کفر ہوگا کہ ہم ایسی حدیثوں کی خاطر سے کہ جو انسان کے ہاتھوں سے ہم کو ملی ہیں اور انسانوں کی باتوں کا ان میں ملنا نہ صرف احتمالی امر ہے بلکہ یقینی طور پر پایا جاتا ہے قرآن کو چھوڑ دیں !!! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تفہیم الہی میرے شامل حال ہے اور وہ عزاسمہ جس وقت چاہتا ہے بعض معارف قرآنی میرے پر کھولتا ہے اور اصل منشاء بعض آیات کا معہ اُن کے ثبوت کے میرے پر ظاہر فرماتا ہے اور میخ آہنی کی طرح میرے دل کے اندر داخل کر دیتا ہے اب میں اس خدا دا د نعمت کو کیونکر چھوڑ دوں اور جو فیض بارش کی طرح میرے پر ہورہا ہے کیونکر اس
فقه المسيح سے انکار کروں! 10 10 بخاری اور مسلم محد ثین کا اجتہاد ہے فقہ احمدیہ کے مآخذ الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 21) آپ کا سوال ( مراد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں.ناقل ) جو اس تحریر اور پہلی تحریروں سے سمجھا جاتا ہے یہ ہے کہ احادیث کتب حدیث خصوصا صحیح بخاری و صحیح مسلم صحیح و واجب العمل ہیں یا غیر صحیح و نا قابل عمل اور معلوم ہوتا ہے کہ آپ میرے منہ سے یہ کہلانا چاہتے ہیں کہ میں اس بات کا اقرار کروں کہ یہ سب کتابیں صحیح اور واجب العمل ہیں.اگر میں ایسا کروں تو غالباً آپ خوش ہو جائیں گے اور فرمائیں گے کہ اب میرے سوال کا جواب پورا پورا آ گیا.لیکن میں سوچ میں ہوں کہ میں رکس شرعی قاعدہ کے رو سے ان تمام حدیثوں کو بغیر تحقیق و تفتیش کے واجب العمل یا صحیح قرار دے سکتا ہوں؟ طریق تقویٰ یہ ہے کہ جب تک فراست کا ملہ اور بصیرت صحیحہ حاصل نہ ہو تب تک کسی چیز کے ثبوت یا عدم ثبوت کی نسبت حکم نافذ نہ کیا جاوے اللہ جل شانه فرماتا ہے.لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُوَّادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (بنی اسرائیل: 37) سواگر میں دلیری کر کے اس معاملہ میں دخل دوں اور یہ کہوں کہ میرے نزدیک جو کچھ محدثین خصوصاً امامین بخاری اور مسلم نے تنقید احادیث میں تحقیق کی ہے اور جس قد را حادیث وہ اپنی صحیحوں میں لائے ہیں وہ بلاشبہ بغیر حاجت کسی آزمائش کے صحیح ہیں تو میرا ایسا کہنا کن شرعی وجو ہات و دلائل پر مبنی ہو گا؟ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ یہ تمام ائمہ حدیثوں کے جمع کرنے میں ایک قسم کا اجتہاد کام میں لائے ہیں اور مجہتد کبھی مصیب اور کبھی مخطی بھی ہوتا ہے.جب میں سوچتا ہوں کہ ہمارے بھائی مسلمان موحدین نے کس قانون قطعی اور یقینی کی رو سے ان تمام احادیث کو واجب العمل ٹھہرایا ہے؟ تو میرے اندر سے نور قلب یہی شہادت دیتا ہے کہ صرف یہی اک وجہ ان کے واجب العمل ہونے کی پائی جاتی ہے کہ
فقه المسيح 11 فقہ احمدیہ کے مآخذ یہ خیال کر لیا گیا ہے کہ علاوہ اس خاص تحقیق کے جو تنقید احادیث میں ائمہ حدیث نے کی ہے.وہ حدیثیں قرآن کریم کی کسی آیہ محکمہ اور بینہ سے منافی اور متغائر نہیں ہیں اور نیز اکثر احادیث جو احکام شرعی کے متعلق ہیں تعامل کے سلسلہ سے قطعیت اور یقین تام کے درجہ تک پہنچ گئی ہیں.ورنہ اگر ان دونوں وجوہ سے قطع نظر کی جائے تو پھر کوئی وجہ ان کے یقینی الثبوت ہونے کی معلوم نہیں ہوتی.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 19،18) کیا بخاری اور مسلم کی احادیث پر اجماع ہو جانے کی دلیل قابل قبول ہے حضرت مسیح موعود نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ بخاری اور مسلم کی احادیث کے یقینی الثبوت ہونے کی ایک یہ وجہ پیش کی جائے گی کہ اس پر اجماع ہو گیا ہے اس کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا ” آپ ہی ریویو براہین احمدیہ کے صفحہ ۳۳۰ میں اجماع کی نسبت لکھ چکے ہیں کہ اجماع اتفاقی دلیل نہیں ہے“ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ :.اجماع میں اولاً یہ اختلاف ہے کہ یہ ممکن یعنی ہو بھی سکتا ہے یا نہیں بعضے اس کے امکان کو ہی نہیں مانتے.پھر ماننے والوں کا اس میں اختلاف ہے کہ اس کا علم ہوسکتا ہے یا نہیں.ایک جماعت امکان علم کے بھی منکر ہیں.امام فخر الدین رازی نے کتاب محصول میں یہ اختلاف بیان کر کے فرمایا ہے کہ انصاف یہی ہے کہ بجز اجماع زمانہ صحابہ جب کہ مومنین اہل اجماع بہت تھوڑے تھے اور ان سب کی معرفت تفصیلی ممکن تھی اور زمانہ کے اجماعوں کے حصول علم کی کوئی سبیل نہیں.اسی کے مطابق کتاب حصول المامول میں ہے جو کتاب ارشاد الفحول شوکانی سے ملخص ہے اس میں کہا.”جو یہ دعویٰ کرے کہ ناقل اجماع ان سب علماء دنیا کی جو اجماع میں معتبر ہیں معرفت پر قادر ہے وہ اس دعوی میں حد سے نکل گیا اور جو کچھ اس نے کہا انکل سے کہا.خدا امام احمد حنبل پر رحم کرے کہ انہوں نے صاف فرما دیا ہے کہ جو دعویٰ اجماع کا مدعی ہے وہ جھوٹا ہے.فقط.
فقه المسيح 12 فقہ احمدیہ کے مآخذ اب میں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ بخاری اور مسلم کی احادیث کی نسبت جو اجماع کا دعویٰ کیا جاتا ہے یہ دعویٰ کیونکر راستی کے رنگ سے رنگین سمجھ سکیں ؟ حالانکہ آپ اس بات کے قائل ہیں کہ صحابہ کے بعد کوئی اجماع حجت نہیں ہوسکتا.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 19 ،20) بخاری اور مسلم کی صحت پر ہرگز اجماع نہیں ہوا بہت سے فرقے مسلمانوں کے بخاری اور مسلم کی اکثر حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھتے.پھر جب کہ ان حدیثوں کا یہ حال ہے تو کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ بغیر کسی شرط کے وہ تمام حدیثیں واجب العمل اور قطعی الصحت ہیں ؟ ایسا خیال کرنے میں دلیل شرعی کونسی ہے؟ کیا کوئی قرآن کریم میں ایسی آیت پائی جاتی ہے کہ تم نے بخاری اور مسلم کو قطعی الثبوت سمجھنا؟ اور اس کی کسی حدیث کی نسبت اعتراض نہ کرنا ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی کوئی وصیت تحریری موجود ہے جس میں ان کتابوں کو بلا لحاظ کسی شرط اور بغیر تو سط محمک کلام الہی کے واجب العمل ٹھہرایا گیا ہو؟ جب ہم اس امر میں غور کریں کہ کیوں ان کتابوں کو واجب العمل خیال کیا جاتا ہے تو ہمیں یہ وجوب ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے حنفیوں کے نزدیک اس بات کا وجوب ہے کہ امام اعظم صاحب کے یعنی حنفی مذہب کے تمام مجتہدات واجب العمل ہیں ! لیکن ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ یہ وجوب شرعی نہیں بلکہ کچھ زمانہ سے ایسے خیالات کے اثر سے اپنی طرف سے یہ وجوب گھڑا گیا ہے جس حالت میں حنفی مذہب پر آپ لوگ یہی اعتراض کرتے ہیں کہ وہ نصوص پینہ شرعیہ کو چھوڑ کر بے اصل اجتہادات کو محکم پکڑتے اور ناحق تقلید شخصی کی راہ اختیار کرتے ہیں تو کیا یہی اعتراض آپ پر نہیں ہو سکتا کہ آپ بھی کیوں بے وجہ تقلید پر زور ماررہے ہیں؟ حقیقی بصیرت اور معرفت کے کیوں طالب نہیں ہوتے ؟ ہمیشہ آپ لوگ بیان کرتے تھے کہ جو حدیث صحیح ثابت ہے اس پر عمل کرنا چاہئے اور جو غیر صحیح ہو اس کو چھوڑ دینا چاہئے.اب کیوں آپ مقلدین کے رنگ پر تمام احادیث کو بلاشرط صحیح خیال کر بیٹھے ہیں؟ الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 21،20)
فقه المسيح 13 فقہ احمدیہ کے مآخذ کیا بخاری اور مسلم کی کوئی حدیث موضوع ہے؟ یہ بات جو آپ نے ( مراد مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب ہیں.ناقل ) مجھ سے دریافت فرمائی ہے کہ اب تک کسی حدیث بخاری یا مسلم کو میں نے موضوع قرار دیا ہے یا نہیں.سو میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ میں نے اپنی کتاب میں کسی حدیث بخاری یا مسلم کو ابھی تک موضوع قرار نہیں دیا.بلکہ اگر کسی حدیث کو میں نے قرآن کریم سے مخالف پایا ہے تو خدا تعالیٰ نے تاویل کا باب میرے پر کھول دیا ہے.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 22،21) صحت احادیث کا معیار ٹھہرانے میں سلف صالحین میں سے آپ کا امام کون ہے؟ اور آپ نے ( مراد مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب ہیں.ناقل ) یہ سوال جو مجھ سے کیا ہے که صحت احادیث کا معیار ٹھہرانے میں سلف صالحین سے آپ کا کون امام ہے.میری اس کے جواب میں یہ عرض ہے کہ اس بات کا بار ثبوت میرے ذمہ نہیں.بلکہ میں تو ہر ایک ایسے شخص کو جو قرآن کریم پر ایمان لاتا ہے خواہ وہ گذر چکا ہے یا موجود ہے اسی اعتقاد کا پابند جانتا ہوں کہ وہ احادیث کے پر کھنے کیلئے قرآن کریم کو میزان اور معیار اور محک سمجھتا ہوگا کیونکہ جس حالت میں قرآن کریم خود یہ منصب اپنے لئے تجویز فرماتا ہے اور کہتا ہے فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (الاعراف: 186) اور فرماتا ہے قُلْ إِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدَى (البقرہ: 121) اور فرماتا ہے وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا (آل عمران: 104) اور فرماتا ہے هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الهدى (البقره: 186) اور فرماتا ہے اَنْزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ (الشورى: 118) اور فرماتا ہے.اِنَّهُ لَقَولٌ فَصْلٌ (الطارق:14) لَا رَيْبَ فِيهِ (البقره:3) تو پھر اس کے بعد کون ایسا مومن ہے جو قرآن شریف کو حدیثوں کے لئے حکم مقرر نہ کرے؟ اور جب کہ وہ خود فرماتا ہے کہ یہ کلام حکم ہے اور قول فصل ہے اور حق اور باطل کی شناخت کیلئے فرقان ہے اور
فقه المسيح 14 فقہ احمدیہ کے مآخذ میزان ہے تو کیا یہ ایمانداری ہوگی کہ ہم خدا تعالیٰ کے ایسے فرمودہ پر ایمان نہ لائیں؟ اور اگر ہم ایمان لاتے ہیں تو ہمارا ضرور یہ مذہب ہونا چاہئے کہ ہم ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول کو قرآن کریم پر عرض کریں تا ہمیں معلوم ہو کہ وہ واقعی طور پر اسی مشکوۃ وحی سے نور حاصل کر نیوالے ہیں جس سے قرآن نکلا ہے یا اس کے مخالف ہیں.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 22) الہام نہم کے لئے حجت شرعی کے قائمقام ہے ( مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ) صاف تسلیم کر آئے ہیں کہ الہام مہم کیلئے حجت شرعی کے قائم مقام ہوتا ہے علاوہ اس کے آپ تو صاف طور پر مان چکے ہیں بلکہ بحوالہ حدیث بخاری به تصریح بیان کر چکے ہیں کہ الہام محدث کا شیطانی دخل سے منزہ کیا جاتا ہے.ماسوا اس کے میں اس بات کیلئے آپ کو مجبور نہیں کرتا کہ آپ الہام کو حجت سمجھ لیں مگر یہ تو آپ اپنے ریویو میں خود تسلیم کرتے ہیں کہ ملہم کیلئے وہ الہام حجت ہو جاتا ہے.سو میرا دعویٰ اسی قدر سے ثابت ہے.میں بھی آپ کو مجبور کرنا نہیں چاہتا.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 24) کسی حدیث کے صحیح ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ من كل الوجوه مرتبہ کمال تک پہنچی گئی ہے ائمہ حدیث جس طور سے صحیح اور غیر صحیح حدیثوں میں فرق کرتے ہیں اور جو قاعدہ تنقید احادیث انہوں نے بنایا ہوا ہے وہ تو ہر ایک پر ظاہر ہے کہ وہ راویوں کے حالات پر نظر ڈال کر باعتبار اُن کے صدق یا کذب اور سلامت فہم یا عدم سلامت اور باعتبار اُن کے قوت حافظہ یا عدم حافظہ وغیرہ امور کے جن کا ذکر اس جگہ موجب تطویل ہے کسی حدیث
فقه المسيح 15 فقہ احمدیہ کے مآخذ کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کی نسبت حکم دیتے ہیں مگر ان کا کسی حدیث کی نسبت یہ کہنا کہ یہ صحیح ہے اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ حدیث من كل الوجوه مرتبہ ثبوت کامل تک پہنچ گئی ہے جس میں امکان غلطی کا نہیں بلکہ ان کا مطلب صحیح کہنے سے صرف اس قدر ہوتا ہے کہ وہ بخیال ان کے ان آفات اور عیوب سے مبرا ہے جو غیر صحیح حدیثوں میں پائی جاتی ہیں اور ممکن ہے کہ ایک حدیث باوجود صحیح ہونے کے پھر بھی واقعی و حقیقی طور پر صحیح نہ ہو.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 26،25) اگر احادیث کا مرتبہ ظنی ہے تو احکام صوم و صلوۃ کو بھی قطنی کیوں نہ سمجھا جائے علم حدیث ایک فنی علم ہے جو مفید ظن ہے.اگر کوئی اس جگہ یہ اعتراض کرے کہ اگر احادیث صرف مرتبه طن تک محدود ہیں تو پھر اس سے لازم آتا ہے کہ صوم وصلوٰۃ و حج وزکوۃ وغیرہ اعمال جو محض حدیثوں کے ذریعہ سے مفصل طور پر دریافت کئے گئے ہیں وہ سب ظنی ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بڑے دھوکے کی بات ہے کہ ایسا سمجھا جائے کہ یہ تمام اعمال محض روایتی طور پر دریافت کئے گئے ہیں وبس.بلکہ ان کے یقینی ہونے کا یہ موجب ہے کہ سلسلہ تعامل ساتھ ساتھ چلا آیا ہے اگر فرض کر لیں کہ یہ فن حدیث دنیا میں پیدا نہ ہوتا پھر بھی یہ سب اعمال و فرائض دین سلسله تعامل کے ذریعہ سے یقینی طور پر معلوم ہوتے.خیال کرنا چاہئے کہ جس زمانہ تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں کیا اس وقت لوگ حج نہیں کرتے تھے؟ یا نماز نہیں پڑھتے تھے؟ یا ز کوۃ نہیں دیتے تھے؟ ہاں اگر یہ صورت پیش آتی کہ لوگ ان تمام احکام و اعمال کو یک دفعہ چھوڑ بیٹھتے اور صرف روایتوں کے ذریعہ سے وہ باتیں جمع کی جاتیں تو بے شک یہ درجہ یقینی ثبوت تام جواب ان میں پایا جاتا ہے ہرگز نہ ہوتا سو یہ ایک دھوکہ ہے کہ ایسا خیال کر لیا جائے کہ احادیث کے ذریعہ سے صوم وصلوٰۃ وغیرہ کی تفاصیل معلوم ہوئی ہیں بلکہ وہ سلسلہ تعامل کے ذریعہ سے معلوم ہوتی چلی آئی ہیں اور در حقیقت
فقه المسيح 16 فقہ احمدیہ کے مآخذ اس سلسلہ کوفن حدیث سے کچھ تعلق نہیں وہ تو طبعی طور پر ہر ایک مذہب کو لازم ہوتا ہے.احادیث کے دوحصے الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 26) احادیث کے دو حصہ ہیں ایک وہ حصہ جو سلسلہ تعامل کی پناہ میں کامل طور پر آ گیا ہے.یعنی وہ حدیثیں جن کو تعامل کے محکم اور قومی اور لاریب سلسلہ نے قوت دی ہے اور مرتبہ یقین تک پہنچا دیا ہے.جس میں تمام ضروریات دین اور عبادات اور عقود اور معاملات اور احکام شرع متین داخل ہیں.سوایسی حدیثیں تو بلاشبہ یقین اور کامل ثبوت کی حد تک پہنچ گئے ہیں اور جو کچھ ان حدیثوں کو قوت حاصل ہے وہ قوت فن حدیث کے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوئی اور نہ وہ احادیث منقولہ کی ذاتی قوت ہے اور نہ وہ راویوں کے وثاقت اور اعتبار کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے بلکہ وہ قوت برکت و طفیل سلسلہ تعامل پیدا ہوئی ہے.سو میں ایسی حدیثوں کو جہاں تک ان کو سلسلۂ تعامل سے قوت ملی ہے ایک مرتبہ یقین تک تسلیم کرتا ہوں لیکن دوسرا حصہ حدیثوں کا جن کو سلسلۂ تعامل سے کچھ تعلق اور رشتہ نہیں ہے اور صرف راویوں کے سہارے سے اور ان کی راست گوئی کے اعتبار پر قبول کی گئی ہیں ان کو میں مرتب ظن سے بڑھ کر خیال نہیں کرتا اور غایت کار مفید ظن ہوسکتی ہیں کیونکہ جس طریق سے وہ حاصل کی گئی ہیں وہ یقینی اور قطعی الثبوت طریق نہیں ہے بلکہ بہت سی آویزش کی جگہ ہے.وجہ یہ کہ ان حدیثوں کا فی الواقع صحیح اور راست ہونا تمام راویوں کی صداقت اور نیک چلنی اور سلامت فہم اور سلامت حافظہ اور تقویٰ و طہارت وغیرہ شرائط پر موقوف ہے.اور ان تمام امور کا کما حقہ اطمینان کے موافق فیصلہ ہونا اور کامل درجہ کے ثبوت پر جو حکم رویت کا رکھتا ہے پہنچنا حکم محال کا رکھتا ہے اور کسی کو طاقت نہیں کہ ایسی حدیثوں کی نسبت ایسا ثبوت کامل پیش کر سکے.الحق مباحثه لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 35)
فقه المسيح 17 فقہ احمدیہ کے مآخذ مراتب صحت میں تمام حدیثیں یکساں نہیں ہیں جس قدر حدیثیں تعامل کے سلسلہ سے فیض یاب ہیں وہ حسب استفاضہ اور بقدر اپنی فیضیابی کے یقین کے درجہ تک پہنچ گئی ہیں لیکن باقی حدیثیں ظن کے مرتبہ سے زیادہ نہیں.غایت کار بعض حدیثیں ظن غالب کے مرتبہ تک ہیں.اس لئے میرا مذ ہب بخاری اور مسلم وغیرہ کتب حدیث کی نسبت یہی ہے جو میں نے بیان کر دیا ہے یعنی مراتب صحت میں یہ تمام حدیثیں یکساں نہیں ہیں.بعض بوجہ تعلق سلسلہ تعامل یقین کی حد تک پہنچ گئی ہیں اور بعض بباعث محروم رہنے کے اس تعلق سے ظن کی حالت میں ہیں.لیکن اس حالت میں میں حدیث کو جب تک قرآن کے صریح مخالف نہ ہو موضوع قرار نہیں دے سکتا.اور میں سچے دل سے اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ حدیثوں کے پر کھنے کیلئے قرآن کریم سے بڑھ کر اور کوئی معیار ہمارے پاس نہیں.تعامل حجت قوی ہے! الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 36،35 ) میری غرض تو صرف اس قدر ہے کہ حدیث کو قرآن کریم سے مطابق ہونا چاہئے ، ہاں اگر سلسلہ تعامل کے رو سے کسی حدیث کا مضمون قرآن کے کسی خاص حکم سے بظاہر منافی معلوم ہو تو اس کو بھی تسلیم کر سکتا ہوں کیونکہ سلسلہ تعامل حجت قوی ہے.تعامل کے درجے الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 42) تعامل کے متعلق جو احکام ہیں وہ سب ثبوت کے لحاظ سے ایک درجہ پر نہیں جن امور کی مواظبت اور مداومت بلافتور واختلاف چلی آئی ہے وہ اول درجہ پر ہیں اور جس قدر احکام اپنے ساتھ اختلاف لے کر تعامل کے دائرہ میں داخل ہوئے ہیں وہ بحسب اختلاف اس پہلے نمبر سے کم
فقه المسيح 18 فقہ احمدیہ کے مآخذ درجہ پر ہیں مثلاً رفع یدین یا عدم رفع یدین جود و طور کا تعامل چلا آتا ہے ان دونوں طوروں سے جو تعامل قرن اول سے آج تک کثرت سے پایا جاتا ہے اس کا درجہ زیادہ ہوگا اور با ایں ہمہ دوسرے کو بدعت نہیں ٹھہرائیں گے بلکہ ان دونوں عملوں کی تطبیق کی غرض سے یہ خیال ہوگا کہ باوجود مسلسل تعامل کے پھر اس اختلاف کا پایا جانا اس بات پر دلیل ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہفت قراءت کی طرح طرق ادائے صلوٰۃ میں رفع تکلیف امت کیلئے وسعت دیدی ہوگی اور اس اختلاف کو خود دانستہ رخصت میں داخل کر دیا ہوگا تا امت پر حرج نہ ہو.غرض اس میں کون شک کر سکتا ہے کہ سلسلۂ تعامل سے احادیث نبویہ کو قوت پہنچتی ہے اور سنتِ متوارثہ متعاملہ کا اُن کو لقب ملتا ہے.سنن متوارثه متعامله الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 87) سلسلۂ تعامل کی حدیثیں یعنی سفن متوارثہ متعاملہ جو عاملین اور آمرین کے زیر نظر چلی آئی ہیں اور علی قدر مراتب تاکید مسلمانوں کی عملیات دین میں قرنا بعد قرن وعصر أبعد عصر داخل رہی ہیں وہ ہرگز میری آویزش کا مورد نہیں اور نہ قرآن کریم کو ان کا معیار ٹھہرانے کی ضرورت ہے اور اگر ان کے ذریعہ سے کچھ زیادت تعلیم قرآن پر ہو تو اس سے مجھے انکار نہیں.ہر چند میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن اپنی تعلیم میں کامل ہے اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 81،80) کیا بخاری اور مسلم کے صحیح ہونے پر اجماع ہو چکا ہے! آپ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بخاری اور مسلم کے صحیح ہونے پر اجماع ہو چکا ہے! اب ان کو بہر حال آنکھیں بند کر کے صحیح مان لینا چاہئے! لیکن میں سمجھ نہیں سکتا کہ یہ اجماع کن لوگوں نے کیا ہے اور کس وجہ سے واجب اعمل ہو گیا ہے؟ دنیا میں حنفی لوگ پندرہ کروڑ کے قریب
فقه المسيح 19 فقہ احمدیہ کے مآخذ ہیں وہ اس اجماع سے منکر ہیں.ماسوا اس کے آپ صاحبان ہی فرمایا کرتے ہیں کہ حدیث کو بشرط صحت ماننا چاہئے اور قرآن کریم پر بغیر کسی شرط کے ایمان لانا فرض ہے.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 41) خبر واحد سے قرآن پر زیادت ہوسکتی ہے میرا مذہب امام شافعی اور امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے مذہب کی نسبت حدیث کی بہت رعایت رکھنے والا ہے کیونکہ میں صحیحین کی خبر واحد کو بھی جو تعامل کے سلسلہ سے مؤکد ہے اور احکام اور حدود اور فرائض میں سے ہو نہ حصہ دوم میں سے اس لائق قرار دیتا ہوں کہ قرآن پر اس سے زیادتی کی جائے اور یہ مذہب ائمہ ثلاثہ کا نہیں مگر یادر ہے کہ میں واقعی زیادتی کا قائل نہیں بلکہ میرا ایمان......تِبْيَانَ لِكُلِّ شَيْءٍ پر ہے جیسا کہ میں ظاہر کر چکا ہوں.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 100 ) حدیث سے مراد.واقعات ماضیہ واخبار گزشتہ و آئندہ ایسی احاد حدیثیں جو سنن متوارثہ متعاملہ میں سے نہیں ہیں اور سلسلۂ تعامل سے کوئی معتد بہ تعلق نہیں رکھتیں وہ اس درجہ صحت سے گری ہوئی ہیں.اب ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ ایسی حدیثیں صرف اخبار گزشتہ و قصص ماضیہ یا آئندہ ہیں....اور ظاہر ہے کہ سنن متوارثہ متعاملہ اور احکام متداولہ کے نکالنے کے بعد جو احادیث بکلی فرضیت تعامل سے باہر رہ جاتے ہیں وہ یہی واقعات واخبار و قصص ہیں جو تعامل کے تاکیدی سلسلہ سے باہر ہیں.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 82) حدیث ، جو معارض قرآن نہ ہو قابل قبول ہے اگر نہایت ہی نرمی کریں تو ان حدیثوں کو ظن کا مرتبہ دے سکتے ہیں اور یہی محدثین کا
فقه المسيح 20 فقہ احمدیہ کے مآخذ مذہب ہے اور ظن وہ ہے جس کے ساتھ کذب کا احتمال لگا ہوا ہے.پھر ایمان کی بنیاد محض ظن پر رکھنا اور خدا کے قطعی یقینی کلام کو پس پشت ڈال دینا کونسی عقلمندی اور ایمانداری ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام حدیثوں کو رڈی کی طرح پھینک دو بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اُن میں سے وہ قبول کرو جو قرآن کے منافی اور معارض نہ ہوں تا ہلاک نہ ہو جاؤ.اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 138 ) اجماع کی تعریف (کتب اصول فقہ کی روشنی میں) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتب اصول فقہ میں مندرج اجماع کی مختلف تعریفوں کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا:.الْإِجْمَاعُ إِتِفَاقُ مُجْتَهِدِينَ صَالِحِيْنَ مِنْ أُمَّةٍ مُحَمَّدٍ مُصْطَفَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِى عَصْرٍ وَاحِدٍ وَالْأَوْلَى أَنْ يَكُونَ فِي كُلِّ عَصْرٍ عَلَى اَمْرٍ قَوْلِي اَوْ فِعْلِي.یعنی اجماع اس اتفاق کا نام ہے جو امت محمدیہ کے مجہتدین صالحین میں زمانہ واحد میں پیدا ہو اور بہتر تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں پایا جائے اور جس امر پر اتفاق ہو برابر ہے کہ وہ امر قولی ہو یا فعلی.اور اجماع کی دو نوع ہیں ایک وہ ہے جس کو عزیمت کہتے ہیں اور عزیمت اس بات کا نام ہے کہ اجماع کر نیوالے صریح تکلم سے اپنے اجماع کا اقرار کریں کہ ہم اس قول یا فعل پر متفق ہو گئے.لیکن فعل میں شرط ہے کہ اس فعل کا کرنا بھی وہ شروع کر دیں.دوسری نوع اجماع کی وہ ہے جس کو رخصت کہتے ہیں اور وہ اس بات کا نام ہے کہ اگر اجماع کسی قول پر ہے تو بعض اپنے اتفاق کو زبان سے ظاہر کریں اور بعض چپ رہیں اور اگر اجماع کسی فعل پر ہے تو بعض اسی فعل کا کرنا شروع کر دیں اور بعض فعلی مخالفت سے دستکش
فقه المسيح 21 فقہ احمدیہ کے مآخذ رہیں.گو اس فعل کو بھی نہ کریں اور تین دن تک اپنی مخالفت قول یا فعل سے ظاہر نہ کریں یا اس مدت تک مخالفت ظاہر نہ کریں جو عادتاً اس بات کے سمجھنے کیلئے دلیل ہوسکتی ہے کہ اگر کوئی اس جگہ مخالف ہوتا تو ضرور اپنا خلاف ظاہر کرتا اور اس اجماع کا نام اجماع سکوتی ہے اور اس میں یہ ضروری ہے کہ کل کا اتفاق ہے.مگر بعض سب کے اتفاق کو ضروری نہیں سمجھتے تا مَنْ شَدَّ شُدَّ کی حدیث کا مورد باقی رہے اور حدیث باطل نہ ہو جائے.اور بعض اس طرف گئے ہیں کہ مجتہدین کا ہونا ضروری شرط نہیں بلکہ انعقاد اجماع کیلئے عوام کا قول کافی ہے جیسا کہ باقلانی کا یہی مذہب ہے.اور بعض کے نزدیک اجماع کیلئے یہ ضروری شرط ہے کہ اجماع صحابہ کا ہونہ کسی اور کا.اور بعض کے نزدیک اجماع وہی ہے جو عترت یعنی اہل قرابت رسول اللہ کا اجماع ہو.اور بعض کے نزدیک یہ لازم شرط ہے کہ اجماع کرنے والے خاص مدینہ کے رہنے ☆ والے ہوں.اور بعض کے نزدیک تحقیق اجماع کیلئے یہ شرط ہے کہ اجماع کا زمانہ گذر جائے.چنانچہ شافعی کے نزدیک یہ شرط ضروری ہے وہ کہتا ہے کہ اجماع تب متحقق ہوگا کہ اجماع کے زمانہ کی صف پیٹی جائے اور وہ تمام لوگ مر جائیں جنہوں نے اجماع کیا تھا اور جب تک وہ سب نہ مریں تب تک اجماع صحیح نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے قول سے رجوع کرے اور یہ ثابت ہونا ضروری ہے کہ کسی نے اپنے قول سے رجوع تو نہیں کیا اور نقل اجماع پر بھی اجماع چاہئے.یعنی جو لوگ کسی امر کے بارہ میں اجماع کے قائل ہیں ان میں بھی اجماع ہو.اور اجماع لاحق مع اختلاف سابق جائز ہے یعنی اگر ایک امر پہلے لوگوں نے اجماع نہ کیا اور پھر کسی دوسرے زمانہ میں اجماع ہو گیا ہو تو وہ اجماع بھی معتبر ہے اور بہتر اجماع میں یہ
فقه المسيح 22 22 فقہ احمدیہ کے مآخذ ہے کہ ہر زمانہ اس کا سلسلہ چلا جائے.یا اور بعض معتزلہ کا قول ہے کہ اتفاق اکثر سے بھی اجماع ہوسکتا ہے بدلیل مَنْ شَدَّ شُدَّ فِي النَّارِ ☆ اور بعض نے کہا ہے کہ اجماع کوئی چیز نہیں اور اپنی جمیع شرائط کے ساتھ متحقق نہیں ہوسکتا.دیکھو کتب اصول فقہ ائمہ اربعہ.اب اس تمام تقریر سے ظاہر ہے کہ علماء کا اس تعریف اجماع پر بھی اجماع نہیں اور انکار اور تسلیم کے دونوں دروازے کھلے ہوئے ہیں.(الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 116 تا 118) حضرت مسیح موعود کے نزدیک اجماع کی تعریف میرے نزدیک اجماع کا لفظ اس حالت پر صادق آ سکتا ہے کہ جب صحابہ میں سے مشاہیر صحابہ ایک اپنی رائے کو شائع کریں اور دوسرے باوجود سننے اس رائے کے مخالفت ظاہر نہ فرماویں تو یہی اجماع ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ اسی صحابی نے جو امیر المومنین تھے ابن صیاد کے دجال معہود ہونے کی نسبت قسم کھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو اپنی رائے ظاہر کی اور آنحضرت نے اس سے انکار نہیں کیا اور نہ کسی صحابی نے اور پھر اسی امر کے بارے میں ابن عمر نے بھی قسم کھائی اور جابر نے بھی اور کئی صحابیوں نے یہی رائے ظاہر کی تو ظاہر ہے کہ یہ امر باقی صحابہ سے پوشیدہ نہیں رہا ہوگا ، سو میرے نزدیک یہی اجماع ہے.اور کون سی اجماع کی تعریف مجھ سے آپ دریافت کرنا چاہتے ہیں؟ اگر آپ کے نزدیک یہ اجماع نہیں تو اور جس قدرا بن صیاد کے دجال معہود ہونے پر صحابہ نے قسمیں کھا کر اس کا دجال معہود ہونا بیان کیا ہے یا بغیر قتم کے اس بارے میں شہادت دی ہے دونوں قسم کی شہادتیں بالمقابل پیش کریں اور اگر آپ پیش نہ کرسکیں تو آپ پر حجت من کل الوجوہ ثابت ہے کہ ضرور اجماع ہو گیا ہوگا کیونکہ اگر انکار پر قسمیں کھائی جاتیں تو ضرور وہ بھی نقل کی جاتیں آنحضرت صلعم کا قسم کوسن کر چپ رہنا ہزارا جماع
فقه المسيح 23 23 سے افضل ہے اور تمام صحابہ کی شہادت سے کامل تر شہادت ہے.اجماع صرف صحابہ کے زمانہ تک تھا فقہ احمدیہ کے مآخذ الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 43) اجماع صرف صحابہ کے زمانہ تک تھا پھر فیح اعوج کا زمانہ شروع ہوگیا اور لوگ صراط مستقیم سے بھٹک گئے اور اس وجہ سے ضرورت محسوس ہوئی کہ رحمان خدا کی طرف سے ایک حکم الجة النور.روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 415-416 ترجمه از عربی عبارت) مبعوث ہو.قرآن مجید کے خلاف کوئی اجماع قابل قبول نہیں وَلَا نَقْبَلُ إِجْمَاعًا يُخَالِفُ الْقُرْآنَ وَحَسُبُنَا كِتَابُ اللَّهِ وَلَا نَسْمَعُ قَوْلَ الْآخَرِينَ ترجمہ: اور ہم کسی ایسے اجماع کو قبول نہیں کریں گے جو قرآن کریم کے مخالف ہو اور ہمارے لئے تو اللہ کی کتاب کافی ہے اور ہم (اس کے مقابلے میں ) دوسروں کے اقوال نہیں سنیں گے.( انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحه 133 ترجمه از عربی عبارت ) صحابہ کا پہلا اجماع تمام انبیاء کی وفات پر ہوا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اس امت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس کا شکر نہیں ہو سکتا اگر وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو مسجد نبوی میں اکٹھے کر کے یہ آیت نہ سناتے کہ تمام گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں تو یہ امت ہلاک ہو جاتی.کیونکہ ایسی صورت میں اس زمانے کے مفسد علماء یہی کہتے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسی زندہ ہیں.مگر اب صدیق اکبر کی آیت مدوحہ پیش کرنے سے اس بات پر کل صحابہ کا اجماع ہو چکا کہ کل گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں بلکہ اس اجماع پر شعر بنائے گئے.ابوبکر کی روح پر خدا تعالیٰ ہزاروں
فقه المسيح 24 24 فقہ احمدیہ کے مآخذ رحمتوں کی بارش کرے اُس نے تمام روحوں کو ہلاکت سے بچالیا اور اس اجماع میں تمام صحابہ شریک تھے.ایک فرد بھی ان میں سے باہر نہ تھا.اور یہ صحابہ کا پہلا اجماع تھا اور نہایت قابل شکر کارروائی تھی.( براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 285-286 حاشیہ) حیات مسیح پر اجماع نہیں ہوا اگر یہ سوال ہو کہ اس امر پر اجماع ہوا ہے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب کے خلاف عمل نہ کیا جائے تو ہم اجماع کی حقیقت خوب کھول چکے ہیں...امام احمد بن حنبل جو خدا سے ڈرتے تھے اور اس کی اطاعت کرتے تھے اُن کے اس قول کو یاد کرو کہ جو اجماع کا دعوی کرے وہ کا ذب ہے.بہت سے اختلافات جزئیہ ائمہ اربعہ میں موجود ہیں اور ائمہ کے اجماع سے خارج ہیں اور اگر تم سمجھتے ہو کہ حیات عیسی" پر سند صحیح سے اور واضح بیان سے اجماع ہو چکا ہے تو یہ تمہارا اور تم جیسے دوسرے لوگوں کا افتراء ہے.( اتمام الحجة - روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 280 ترجمه از عربی عبارت) اجماع کے معنوں میں اختلاف خود اجماع کے معنوں میں ہی اختلاف ہے.بعض صحابہ تک ہی محمد و در کھتے ہیں بعض قرون ثلاثہ تک بعض ائمہ اربعہ تک مگر صحابہ اور ائمہ کا حال تو معلوم ہو چکا اور اجماع کے توڑنے کے لئے ایک فرد کا باہر رہنا بھی کافی ہوتا ہے.چہ جائیکہ امام مالک رضی اللہ عنہ جیسا عظیم الشان امام جس کے قول کے کروڑہا آدمی تابع ہوں گے حضرت عیسی کی وفات کا صریح قائل ہو اور پھر یہ لوگ کہیں کہ ان کی حیات پر اجماع ہے.( اتمام الحجة _روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 295 ) اجماع صحابہ کی اتباع ضروری ہے ہماری جماعت میں وہی داخل ہو گا جو دینِ اسلام میں داخل ہو اور کتاب اللہ اور سنتِ رسول
فقه المسيح 25 فقہ احمدیہ کے مآخذ کا متبع ہو اور اللہ اور اس کے رسول اور حشر و نشر اور جنت و دوزخ پر ایمان رکھے اور یہ وعدہ اور اقرار کرے کہ وہ اسلام کے علاوہ کوئی اور دین نہیں چاہتا اور وہ اس دین پر مرے جو دینِ فطرت ہے اور اللہ کی کتاب کو پکڑے رکھے اور سنت اور قرآن اور اجماع صحابہ سے جو ثابت ہو، اس پر عمل کرے اور جس نے ان تین چیزوں کو چھوڑا تو اس نے گویا اپنے نفس کو آگ میں چھوڑا.(مواہب الرحمان.روحانی خزائن جلد 19 صفحه 315 ترجمه از عربی عبارت) ایک صحابی کی رائے شرعی حجت نہیں یہ مسلم امر ہے کہ ایک صحابی کی رائے شرعی حجت نہیں ہو سکتی.شرعی حجت صرف اجماع صحابہ ہے.سو ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس بات پر اجماع صحابہ نہو چکا ہے کہ تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں.( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 410) شرعی حجت صرف اجماع صحابہؓ ہے صاحب تفسیر ( تفسیر ثنائی.ناقل ) لکھتا ہے کہ ابو ہریرہ فہم قرآن میں ناقص ہے اور اس کی درایت پر محدثین کو اعتراض ہے.ابو ہریرہ میں نقل کرنے کا مادہ تھا اور درایت اور فہم سے بہت ہی کم حصہ رکھتا تھا.“ کئی مقام میں محدثین نے ثابت کیا ہے کہ جوا مور فہم اور درایت کے متعلق ہیں اکثر ابو ہریرہ گان کے سمجھنے میں ٹھوکر کھاتا ہے اور غلطی کرتا ہے.یہ مسلم امر ہے کہ ایک صحابی کی رائے شرعی حجت نہیں ہوسکتی.شرعی حجت صرف اجماع صحابہ ہے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 410) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم...کا اجتہاد سب اجتہادوں سے اسلم اور اقوئی اور اصح ہے.“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 169 )
فقه المسيح 26 46 فقہ احمدیہ کے مآخذ کیا خبر واحد واجب العمل ہے؟ حنفیوں کا ہرگز یہ مذہب نہیں کہ مخالفت قرآن کی حالت میں خبر واحد واجب العمل ہے اور نہ شافعی کا یہ مذہب ہے بلکہ فقہ حنفیہ کا تو یہ اصول ہے کہ جب تک اکثر قرنوں میں تواتر حدیث کا ثابت نہ ہو گو پہلے قرن میں نہیں مگر جب تک بعد میں اخیر تک تو اتر نہ ہو تب تک ایسی حدیث کے ساتھ قرآن پر زیادت جائز نہیں اور شافعی کا یہ مذہب ہے کہ اگر حدیث آیت کے مخالف ہو تو با وجود تواتر کے بھی کالعدم ہے.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 94) احا داحادیث مخالف قرآن ہوں تو قابل قبول نہیں علماء حنفیہ خبر واحد سے گووہ بخاری ہو یا مسلم قرآن کریم کے کسی حکم کو ترک نہیں کرتے اور نہ اس پر زیادت کرتے ہیں اور امام شافعی حدیث متواتر کو بھی بمقابلہ آیت کا لعدم سمجھتا ہے اور امام مالک کے نزدیک خبر واحد سے بشرط نہ ملنے آیت کے قیاس مقدم ہے.دیکھو صفحہ ۱۵۰ کتاب نور الانوار اصول فقہ.اس صورت میں جو کچھ ان اماموں کی نظر میں درصورت قرآن کے مخالف ہونے کے احادیث کی عزت ہو سکتی ہے عیاں ہے خواہ اس قسم کی حدیثیں اب بخاری میں ہوں یا مسلم میں.یہ ظاہر ہے کہ بخاری اور مسلم اکثر مجموعہ احاد کا ہے اور جب احاد کی نسبت امام مالک اور امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کی یہی رائے ہے کہ وہ قرآن کے مخالف ہونے کی حالت میں ہرگز قبول کے لائق نہیں تو اب فرمائیے کیا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان بزرگوں کے نزدیک وہ حدیثیں بہر حال واجب العمل ہیں ؟ اول حنفیوں اور مالکیوں وغیرہ سے ان سب پر عمل کرائے اور پھر یہ بات منہ پر لائے.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 99) قیاسات مسلّمہ مجتہدین واجب العمل ہیں! میں تمام مسلمانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے کسی ایک حکم میں بھی دوسرے مسلمانوں سے
فقه المسيح 27 فقہ احمدیہ کے مآخذ علیحدگی نہیں جس طرح سارے اہل اسلام احکام بینہ قرآن کریم و احادیث صحیحہ و قیاسات مسلمہ مجہتدین کو واجب العمل جانتے ہیں اسی طرح میں بھی جانتا ہوں.صرف بعض اخبار گزشتہ و مستقبلہ کی نسبت الہام الہی کی وجہ سے جس کو میں نے قرآن سے بکلی مطابق پایا ہے بعض اخبار حدیثیہ کے میں اس طرح پر معنی نہیں کرتا جو حال کے علما ء کرتے ہیں کیونکہ ایسے معنے کرنے سے وہ احادیث نہ صرف قرآن کریم کے مخالف ٹھہرتی ہیں بلکہ دوسری احادیث کی بھی جو صحت میں ان کے برابر ہیں مغائر ومبائن قرار پاتی ہیں.جماعت کے لئے لائحہ عمل الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 82) ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہوتو خواہ کیسے ہی ادنی درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اُس کو ترجیح دیں اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کر لیں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتوی نہ دے سکے تو اس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اُس حدیث کو چھوڑ دیں.یادرکھیں کہ ہماری جماعت بہ نسبت عبداللہ کے اہلحدیث سے اقرب ہے اور عبداللہ چکڑالوی کے بیہودہ خیالات سے ہمیں کچھ بھی مناسبت نہیں.ہر ایک جو ہماری جماعت میں ہے اُسے یہی چاہئے کہ وہ عبد اللہ چکڑالوی کے عقیدوں سے جو حدیثوں کی نسبت وہ رکھتا ہے بدل منتظر اور بیزار ہو اور ایسے لوگوں کی صحبت سے حتی الوسع نفرت رکھیں کہ یہ دوسرے مخالفوں کی نسبت زیادہ برباد شدہ فرقہ ہے اور چاہئے کہ نہ وہ مولوی محمد حسین کے گروہ کی طرح
فقه المسيح 28 فقہ احمدیہ کے مآخذ حدیث کے بارہ میں افراط کی طرف جھکیں اور نہ عبداللہ کی طرح تفریط کی طرف مائل ہوں بلکہ اس بارہ میں وسط کا طریق اپنا مذ ہب سمجھ لیں یعنی نہ تو ایسے طور سے بکلی حدیثوں کو اپنا قبلہ وکعبہ قرار دیں جس سے قرآن متروک اور مہجور کی طرح ہو جائے اور نہ ایسے طور سے اُن حدیثوں کو معطل اور لغو قراردیدیں جن سے احادیث نبویہ بکلی ضائع ہو جائیں.ہماری مسلمہ کتابیں ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 212 ،213) ہماری کتب مسلّمہ مقبولہ جن پر ہم عقیدہ رکھتے ہیں اور جن کو ہم معتبر سمجھتے ہیں تفصیل ذیل ہیں.اوّل ، قرآن شریف.مگر یا در ہے کہ کسی قرآنی آیت کے معنے ہمارے نزدیک وہی معتبر اور صحیح ہیں جس پر قرآن کے دوسرے مقامات بھی شہادت دیتے ہوں.کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر ہیں اور نیز قرآن کے کامل اور یقینی معنوں کے لئے اگر وہ یقینی مرتبہ قرآن کے دوسرے مقامات سے میسر نہ آ سکے یہ بھی شرط ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل بھی اس کی مفسر ہو.غرض ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے ہرگز جائز نہیں.پس ہر یک معترض پر لازم ہوگا کہ کسی اعتراض کے وقت اس طریق سے باہر نہ جائے.دوم، دوسری کتا ہیں جو ہماری مسلم کتابیں ہیں اُن میں اول درجہ پر صحیح بخاری ہے اور اس کی وہ تمام احادیث ہمارے نزدیک حجت ہیں جو قرآن شریف سے مخالف نہیں اور اُن میں سے دوسری کتاب صحیح مسلم ہے اور اس کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیح بخاری سے مخالف نہ ہو.اور تیسرے درجہ پر صحیح ترمذی ، ابن ماجہ ، موطا، نسائی ، ابوداؤد ، دار قطنی کتب حدیث ہیں جن کی حدیثوں کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیحین سے مخالف نہ ہوں.یہ کتابیں ہمارے دین کی کتابیں ہیں اور یہ شرائط ہیں جن کی
فقه المسيح.ہے.رو سے ہمارا عمل ہے.بخاری اور مسلم کا مقام 29 29 فقہ احمدیہ کے مآخذ آریہ دھرم - روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 87،86) آپ بخاری کا مقام بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:......ایسا مسلمانوں کے لئے صحیح بخاری نہایت متبرک اور مفید کتاب ہے.....ایسا ہی مسلم اور دوسری احادیث کی کتابیں بہت سے معارف اور مسائل کا ذخیرہ اپنے اندر رکھتی ہیں.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 65) مزید فرمایا بخاری کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں برکت اور نور ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ باتیں رسول اللہ کے منہ سے نکلی ہیں.آپ نے صحیح مسلم کے بارہ میں فرمایا الحکم 17 اگست 1902 ، صفحہ 11) صحیح مسلم اس شرط سے وثوق کے لائق ہے کہ جب قرآن یا بخاری سے مخالف نہ ہو اور بخاری میں صرف ایک شرط ہے کہ قرآن کے احکام اور نصوص صریحہ بینہ سے مخالف نہ ہو اور دوسری کتب حدیث صرف اس صورت میں قبول کے لائق ہوں گے کہ قرآن اور بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث سے مخالف نہ ہوں..( آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 60 حاشیہ ) حضرت مسیح موعود نے قرآن کریم کے مقابل پر صحیح بخاری اور مسلم کے بارے میں فرمایا میرا مذہب یہی ہے کہ البتہ بخاری اور مسلم کی حدیثیں ظنی طور پر صحیح ہیں.مگر جو حدیث صریح طور پر ان میں سے مبائن و مخالف قرآن کریم کے واقع ہوگی وہ صحت سے باہر ہو جائے گی.آخر بخاری اور مسلم پر وقتی تو نازل نہیں تھی.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 15 ) مزید فرمایا:.امام بخاری اور مسلم کی عظمت شان اور ان کی کتابوں کا امت میں قبول کیا جانا اگر مان بھی لیا جاوے تب بھی اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ وہ کتا بیں قطعی اور یقینی ہیں.کیونکہ امت نے ان
فقه المسيح کے مرتبہ قطع اور یقین پر ہرگز اجماع نہیں کیا.30 50 فقہ احمدیہ کے مآخذ الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 98) بخاری کتاب الطب باب السحر میں یہ ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تھا.جس کے نتیجہ میں نعوذ باللہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یادداشت متاثر ہو گئی تھی.حضرت مسیح موعود کے سامنے جب اس کا ذکر کیا گیا تو حضور نے فرمایا:.آنکھ بند کر کے بخاری اور مسلم کو مانتے جانا یہ ہمارے مسلک کے برخلاف ہے.یہ تو عقل بھی تسلیم نہیں کر سکتی کہ ایسے عالی شان نبی پر جادو اثر کر گیا ہو، ایسی ایسی باتیں کہ اس جادو سے (معاذ اللہ ) آنحضرت کا حافظہ جاتا رہا یہ ہو گیا اور وہ ہو گیا کسی صورت میں صحیح نہیں ہوسکتیں.معلوم ہوتا ہے کہ کسی خبیث آدمی نے اپنی طرف سے ایسی باتیں ملا دی ہیں.گو ہم نظر تہذیب سے احادیث کو دیکھتے ہیں، لیکن جو حدیث قرآن کریم کے برخلاف، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت کے برخلاف ہو، اس کو ہم کب مان سکتے ہیں.اُس وقت احادیث جمع کرنے کا وقت تھا گو انہوں نے سوچ سمجھ کر احادیث کو درج کیا تھا.مگر پوری احتیاط سے کام نہیں لے سکے.وہ جمع کرنے کا وقت تھا.لیکن اب نظر اور غور کرنے کا وقت ہے.آثار نبی جمع کرنا بڑے ثواب کا کام ہے لیکن یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جمع کرنے والے خوب غور سے کام نہیں لے سکتے.اب ہر ایک کو اختیار ہے کہ خوب غور اور فکر سے کام لے جو ماننے والی ہو وہ مانے اور جو چھوڑنے والی ہو وہ چھوڑ دے.(الحکم 10 نومبر 1907 صفحہ 8) قرآن شریف کی اور احادیث کی جو پیغمبر خدا سے ثابت ہیں اتباع کریں.ضعیف سے ضعیف حدیث بھی بشرطیکہ وہ قرآن شریف کے مخالف نہ ہو، ہم واجب العمل سمجھتے ہیں.اور بخاری اور مسلم کو بعد کتاب اللہ اصح الکتب مانتے ہیں.(البدر 8 ستمبر 1904 صفحہ 8)
فقه المسيح 31 علم فقہ اور فقہاء تَفَقَّهُ فِی الدین کی ضرورت فرمایا علم فقہ اور فقہاء ہماری جماعت کو علم دین میں تفقہ پیدا کرنا چاہئے.مگر اس کے وہ معنے نہیں جو عام ملاں لوگوں نے سمجھ رکھے ہیں کہ استنجاء وغیرہ کے چند مسائل آگئے وہ بھی تقلیدی رنگ میں فقیہ بن بیٹھے.بلکہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ وہ آیات قرآنی واحادیث نبوی اور ہمارے کلام میں تدبر کریں.قرآنی معارف و حقائق سے آگاہ ہوں.(بدر 25 اپریل 1907ء صفحہ 4) ائمہ اربعہ اسلام کے لئے چار دیواری حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک مولوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور الگ ملاقات کی خواہش ظاہر کی.جب وہ آپ سے ملا تو باتوں باتوں میں اس نے کئی دفعہ یہ کہا کہ میں حنفی ہوں اور تقلید کو اچھا سمجھتا ہوں وغیرہ ذالک.آپ نے اس سے فرمایا کہ ہم کوئی حنفیوں کے خلاف تو نہیں ہیں کہ آپ بار بار اپنے حنفی ہونے کا اظہار کرتے ہیں.میں تو ان چار اماموں کو مسلمانوں کے لئے بطور ایک چار دیواری کے سمجھتا ہوں جس کی وجہ سے وہ منتشر اور پراگندہ ہونے سے بچ گئے ہیں.پھر آپ نے فرمایا کہ ہر شخص اس بات کی اہلیت نہیں رکھتا کہ دینی امور میں اجتہاد کرے.پس اگر یہ ائمہ نہ ہوتے تو ہر اہل و نا اہل آزادانہ طور پر اپنا طریق اختیار کرتا.اور امت محمدیہ میں ایک اختلاف عظیم کی صورت قائم ہو جاتی مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان چار اماموں نے جو اپنے علم و معرفت اور تقویٰ و طہارت کی وجہ سے اجتہاد کی اہلیت رکھتے تھے.
فقه المسيح 32 42 علم فقہ اور فقہاء مسلمانوں کو پراگندہ ہو جانے سے محفوظ رکھا.پس یہ امام مسلمانوں کے لئے بطور ایک چار دیواری کے رہے ہیں اور ہم ان کی قدر کرتے اور ان کی بزرگی اور احسان کے معترف ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں تو سارے اماموں کو عزت کی نظر سے دیکھتے تھے مگر امام ابو حنیفہ کو خصوصیت کے ساتھ علم و معرفت میں بڑھا ہوا سمجھتے تھے اور ان کی قوت استدلال کی بہت تعریف فرماتے تھے.ایک موقع پر فرمایا:.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 334) امام شافعی اور حنبل وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہوگئی تھیں.اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہلِ حق اور ناحق میں تمیز نہ ہوسکتی.ہزا ر ہا گندے آدمی ملے جلے رہتے.یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چار دیواری کے تھے.اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تو اسلام ایسا مشتبہ مذہب ہو جاتا کہ بدعتی اور غیر بدعتی میں تمیز نہ ہو سکتی.ائمہ اربعہ برکت کا نشان تھے ( بدر 3 نومبر 1905 ، صفحہ 4) میری رائے میں ائمہ اربعہ ایک برکت کا نشان تھے.اُن میں رُوحانیت تھی، کیونکہ روحانیت تقویٰ سے شروع ہوتی ہے اور وہ لوگ در حقیقت متقی تھے اور خدا سے ڈرتے تھے اور اُن کے دل کلاب الدنیا سے مناسبت نہ رکھتے تھے.(احکام 24 ستمبر 1901 صفحہ 2) حضرت امام ابو حنیفہ کا عالی مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت امام ابوحنیفہ کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا بعض ائمہ نے احادیث کی طرف توجہ کم کی ہے جیسا کہ امام اعظم کو فی رضی اللہ عنہ جن کو اصحاب الرائے میں سے خیال کیا گیا ہے اور ان کے مجتہدات کو بواسطہ دقت معانی احادیث
فقه المسيح 33 33 علم فقہ اور فقہاء صحیحہ کے بر خلاف سمجھا گیا ہے.مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فہم و فراست میں ائمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل واعلیٰ تھے اور اُن کی خداداد قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدرکہ کو قرآن شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور اُن کی فطرت کو کلام الہی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے.اسی وجہ سے اجتہاد واستنباط میں اُن کے لئے وہ درجہ علیا مسلم تھا جس تک پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے.سبحان اللہ اس زیرک اور ربانی امام نے کیسی ایک آیت کے ایک اشارہ کی عزت اعلیٰ وارفع سمجھ کر بہت سی حدیثوں کو جو اس کے مخالف تھیں رڈی کی طرح سمجھ کر چھوڑ دیا اور جہلا کے طعن کا کچھ اندیشہ نہ کیا.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 385) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ 1891ء میں ایک مباحثہ ہوا جس کے دوران آپ نے محسوس کیا کہ مولوی محمد حسین صاحب حضرت امام ابو حنیفہ کے بارہ میں استخفاف سے کام لے رہے ہیں اس پر آپ نے فرمایا :.اے حضرت مولوی صاحب آپ ناراض نہ ہوں آپ صاحبوں کو امام بزرگ ابوحنیفہ سے اگر ایک ذرہ بھی حسن ظن ہوتا تو آپ اس قدر نیکی اور استخفاف کے الفاظ استعمال نہ کرتے آپ کو امام صاحب کی شان معلوم نہیں وہ ایک بحر اعظم تھا اور دوسرے سب اس کی شاخیں ہیں اسکا نام اہل الرائے رکھنا ایک بھاری خیانت ہے! امام بزرگ حضرت ابوحنیفہ کو علاوہ کمالات علم آثار نبویہ کے استخراج مسائل قرآن میں ید طولیٰ تھا خدا تعالیٰ حضرت مجدد الف ثانی پر رحمت کرے انہوں نے مکتوب صفحہ ۳۰۷ میں فرمایا ہے کہ امام اعظم صاحب کی آنیوالے مسیح کے ساتھ استخراج مسائل قرآن میں ایک روحانی مناسبت ہے.(الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 101)
فقه المسيح 34 =4 علم فقہ اور فقہاء فخر الأئمه، امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار میں تحریر فرمایا کہ اُن کے 76 صفحے کے مضمون میں بجز بے تعلق باتوں اور بد زبانی اور افتراء کے اور خاک بھی نہیں تھا اور بد زبانی سے یہاں تک انہوں نے کام لیا کہ ناحق بے وجہ امام بزرگ حضرت فخر الائمہ، امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی شان بلند میں سخت تحقیر کے الفاظ استعمال کئے.“ حنفی مذہب پر عمل کی مشروط ہدایت فرمایا :.( مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 196) شریعت کے عملی حصہ میں سب سے اوّل قرآن مجید ہے.پھر احادیث صحیحہ جن کی سنت تائید کرتی ہے.اور اگر کوئی مسئلہ اِن دونوں میں نہ ملے تو پھر میرا مذ ہب تو یہی ہے کہ حنفی مذہب پر عمل کیا جائے کیونکہ اس کی کثرت اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کی مرضی یہی ہے مگر ہم کثرت کو قرآن مجید و احادیث کے مقابلہ میں بیچ سمجھتے ہیں.اس کے بعض مسائل ایسے ہیں کہ قیاس صحیح کے بھی خلاف ہیں.ایسی حالت میں احمدی علماء کا اجتہا داولی بالعمل ہے.ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 209) مسیح موعود کے حنفی مذہب پر ہونے سے کیا مراد ہے؟ مولوی بہاء الدین صاحب احمد آبادی نے پوچھا کہ مکتوبات امام ربانی میں مسیح موعود کی نسبت لکھا ہے کہ وہ حنفی مذہب پر ہوگا.اس کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا: اس سے یہ مراد ہے کہ جیسے حضرت امام اعظم قرآن شریف ہی سے استدلال کرتے تھے.اور قرآن شریف ہی کو مقدم رکھتے تھے.اسی طرح مسیح موعود بھی قرآن شریف ہی کے
فقه المسيح 35 علم فقہ اور فقہاء علوم اور حقائق کو لے کر آئے گا.چنانچہ اپنے مکتوبات میں دوسری جگہ انہوں نے اس راز کو کھول بھی دیا ہے اور خصوصیت سے ذکر کیا ہے کہ مسیح موعود کو قرآنی حقائق کا علم دیا جائے گا.(الحکم 10 اگست 1901 ، صفحہ 8) مجددین ضرورتِ وقت کے مطابق آتے ہیں فرمایا: مجد د جو آیا کرتا ہے وہ ضرورت وقت کے لحاظ سے آیا کرتا ہے نہ استنجے اور وضو کے مسائل بتلانے “ غیر مقلدین سے بھی تعصب نہ رکھو حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں : (احکم 19 مئی 1899 ء صفحہ 4) ایک روز حضرت اقدس علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور یہ وہابی غیر مقلد نا پاک فرقہ ( میں اس وقت سخت متعصب حنفی تھا) جو ہے اس کی نسبت آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ سُن کر اور ہنس کر خاموش ہو گئے اور کچھ جواب نہ دیا.دوسرے روز پھر میں نے ذکر کیا.فرمایا کہ یہ فرقہ بھی خدا کی طرف سے ہے بُرا نہیں ہے.جب لوگوں نے تقلید اور حفیت پر یہاں تک زور دیا کہ ائمہ اربعہ کو منصب نبوت دے دیا تو خدا نے اپنی مصلحت سے اس فرقہ کو پیدا کیا تا که مقلد لوگ راہ راست اور درمیانی صورت میں رہیں.صرف اتنی بات ان میں ضرور بُری ہے کہ ہر ایک شخص بجائے خود مجتہد اور امام بن بیٹھا اور ائمہ اربعہ کو بُرا کہنے لگا.ایک اور موقعہ پر حضور نے فرمایا (تذکرۃ المہدی صفحہ 214،213) ایک عرب ہمارے ہاں آیا اور وہ وہابیوں کا سخت مخالف تھا یہاں تک کہ جب اس کے
فقه المسيح 36 36 علم فقہ اور فقہاء سامنے وہابیوں کا ذکر بھی کیا جاتا تو گالیوں پر اتر آتا.اس نے یہاں آکر بھی سخت گالیاں دینی شروع کیں اور وہابیوں کو بُرا بھلا کہنے لگا.ہم نے اس کی کچھ پروا نہ کر کے اس کی خدمت خوب کی اور اچھی طرح سے اس کی دعوت کی اور ایک دن جبکہ وہ غصہ میں بھرا ہوا وہابیوں کو خوب گالیاں دے رہا تھا کسی شخص نے اس کو کہا کہ جس کے گھر تم مہمان ٹھہرے ہو وہ بھی تو وہابی ہے.اس پر وہ خاموش ہو گیا اور اس شخص کا مجھ کو وہابی کہنا غلط نہ تھا کیونکہ قرآن شریف کے بعد صحیح احادیث پر عمل کرنا ہی ضروری سمجھتا ہوں.بدر 4 جولائی 1907 صفحہ 7) خانہ کعبہ میں چاروں مذاہب فقہ کے الگ الگ مصلے یہ تو ظاہر ہے کہ انجام کارانہی اصولوں یا مدارات کی طرف لوگ آجاتے ہیں.جب دیکھتے ہیں کہ ایک فریق دنیا میں بکثرت پھیل گیا ہے جیسا کہ آج کل حنفی ، شافعی ، مالکی، حنبلی با وجود اُن سخت اختلافات کے جن کی وجہ سے مکہ معظمہ کی ارضِ مقدسہ بھی ان کو ایک مصلے پر جمع نہیں کرسکی ایک دوسرے سے مخالطت اور ملاقات رکھتے ہیں.تقلید کی بھی کسی قدرضرورت ہے ( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 498) ایک دفعہ ایک واعظ ایسے طرز پر حضرت کے سامنے گفتگو کرتا تھا کہ گویا اس کے نزدیک حضرت بھی فرقہ وہابیہ کے طرفدار ہیں اور اپنے تئیں بار بار حنفی اور وہابیوں کا دشمن ظاہر کرتا تھا اور کہتا تھا کہ حق کا طالب ہوں.اس پر حضرت نے فرمایا: اگر کوئی محبت اور آہستگی سے ہماری باتیں سنے تو ہم بڑی محبت کرنے والے ہیں اور قرآن اور حدیث کے مطابق ہم فیصلہ کرنا چاہتے ہیں.اگر کوئی اس طرح فیصلہ کرنا چاہے کہ جو امر قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کے مطابق ہو، اُسے قبول کر لے گا اور جوان کے برخلاف ہوا سے رد کر دے گا.تو یہ
فقه المسيح 37 علم فقہ اور فقہاء امرعین سرور، عین مدعا ہے اور عین آنکھوں کی ٹھنڈک ہے.ہمارا مذہب وہابیوں کے برخلاف ہے.ہمارے نزدیک تقلید کو چھوڑنا ایک اباحت ہے.کیونکہ ہر ایک شخص مجتہد نہیں ہے.ذرا سا علم ہونے سے کوئی متابعت کے لائق نہیں ہو جاتا.کیا وہ اس لائق ہے کہ سارے متقی اور تزکیہ کرنے والوں کی تابعداری سے آزاد ہو جاوے.قرآن شریف کے اسرار سوائے مطہر اور پاک لوگوں کے اور کسی پر نہیں کھولے جاتے.ہمارے ہاں جو آتا ہے.اُسے پہلے ایک حنیفیت کا رنگ چڑھانا پڑتا ہے.میرے خیال میں یہ چاروں مذہب اللہ تعالیٰ کا فضل ہیں اور اسلام کے واسطے ایک چار دیوار.اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حمایت کے واسطے ایسے اعلیٰ لوگ پیدا کئے جو نہایت متقی اور صاحب تزکیہ تھے.آج کل کے لوگ جو بگڑتے ہیں اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اماموں کی متابعت چھوڑ دی گئی ہے.خدا تعالیٰ کو دو قسم کے لوگ پیارے ہیں.اوّل وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے خود پاک کیا اور علم دیا.دوم وہ جوان کی تابعداری کرتے ہیں.ہمارے نزدیک ان لوگوں کی تابعداری کرنے والے بہت اچھے ہیں.کیونکہ ان کو تزکیہ نفس عطاء کیا گیا تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے قریب کے ہیں میں نے خود سُنا ہے کہ بعض لوگ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے حق میں سخت کلامی کرتے ہیں.یہ اُن لوگوں کی غلطی ہے.( ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 277 278) اختلاف فقهاء فرمایا: آج کل علماء کے درمیان باہم مسائل میں اس قدر اختلاف ہے کہ ہر ایک مسئلہ کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اس میں اختلاف ہے.جیسا کہ لاہور میں ایک طبیب غلام دستگیر نام تھا.وہ کہا کرتا تھا کہ مریضوں اور اس کے لواحقین کی اس ملک میں رسم ہے کہ وہ طبیب سے
فقه المسيح 38 علم فقہ اور فقہاء پوچھا کرتے ہیں کہ یہ دوا گرم ہے یا سرد؟ تو میں نے اس کے جواب میں ایک بات رکھی ہوئی ہے.میں کہہ دیا کرتا ہوں کہ اختلاف ہے.اوّل تو اس اختلاف کے سبب کئی فرقے ہیں.پھر مثلاً ایک فرقہ حنفیوں کا ہے ان میں آپس میں اختلاف ہے.پھر خود امام ابو حنیفہ کے اقوال میں اختلاف ہے.جائز قیاس وہ ہے جو قرآن وسنت سے مستنبط ہو ( بدر یکم اگست 1907 صفحہ 3) ایک شخص نے مسئلہ پوچھا.مرغی کی گردن بلی اتار کر لے گئی.مرغی پھڑک رہی ہے ذبح کر لی جائے؟ فرمایا:.ایسے مسائل میں اصول کے طور پر یا درکھو کہ دین میں صرف قیاس کرنا سخت منع ہے.قیاس وہ جائز ہے جو قرآن وحدیث سے مستنبط ہو.ہمارا دین منقولی طور سے ہمارے پاس پہنچا ہے.پس اگر آنحضرت ﷺ سے کوئی ایسی حدیث ثابت ہو جائے ورنہ کیا ضرورت ہے دو چار آنے کے لئے ایمان میں خلل ڈالنے کی.وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلَالٌ وَهَذَا حَرَامٌ (النحل : 117) ( بدر 24 مئی 1908 ء صفحہ 4) سنت صحیحہ معلوم کرنے کا طریق جب اسلام کے فرقوں میں اختلاف ہے تو سنتِ صحیحہ کیسے معلوم ہو؟ اس کے جواب میں فرمایا کہ:.قرآن شریف، احادیث اور ایک قوم کے تقویٰ اور طہارت اور سنت کو جب آپس میں ملایا جاوے تو پھر پتہ لگ جاتا ہے کہ اصل سنت کیا ہے.“ ( البدر یکم مئی 1903ء صفحہ 114)
فقه المسيح 39 علم فقہ اور فقہاء قیاس کی حجت....ان ساری باتوں کے علاوہ میں اب قیاس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر چہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ میرے ساتھ ہیں.اجماع صحابہ بھی میری تائید کرتا ہے.نشانات اور تائیدات الہیہ میری موید ہیں.ضرورت وقت میرا صادق ہونا ظاہر کرتی ہے لیکن قیاس کے ذریعہ سے بھی حجت پوری ہوسکتی ہے.اس لیے دیکھنا چاہیے کہ قیاس کیا کہتا ہے؟ انسان کبھی کسی ایسی چیز کے مانے کو تیار نہیں ہو سکتا جو اپنی نظیر نہ رکھتی ہو.مثلاً اگر ایک شخص آ کر کہے کہ تمہارے بچے کو ہوا اڑا کر آسمان پر لے گئی ہے یا بچہ کتا بن کر بھاگ گیا ہے تو کیا تم اس کی بات کو بلا وجہ معقول اور بلا تحقیق مان لو گے؟ کبھی نہیں ، اس لیے قرآن مجید نے فرمایا: فَاسْتَلُوا أَهْلَ الذِكرِانُ كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (النحل: 44) اب مسیح علیہ السلام کی وفات کے مسئلہ پر اور اُن کے آسمان پر اڑ جانے کے متعلق غور کرو.قطع نظر ان دلائل کے جو ان کی وفات کے متعلق ہیں.یہ پکی بات ہے کہ کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان پر چڑھ جانے کا معجزہ مانگا.اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو ہر طرح کامل اور افضل تھے ان کو چاہیے تھا کہ وہ آسمان پر چڑھ جاتے مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی وحی سے جواب دیا.قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا (بنی اسرائیل: 94) اس کا مفہوم یہ ہے کہ کبد واللہ تعالیٰ اس امر سے پاک ہے کہ وہ خلاف وعدہ کرے جبکہ اس نے بشر کے لیے آسمان پر مع جسم جانا حرام کر دیا ہے اگر میں جاؤں تو جھوٹا ٹھہروں گا.اب اگر تمہارا یہ عقیدہ صحیح ہے کہ مسیح آسمان پر چلا گیا ہے اور کوئی بالمقابل پادری یہ آیت پیش کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرے تو تم اس کا کیا جواب دے سکتے ہو.پس ایسی باتوں کے ماننے سے کیا فائدہ جن کا کوئی اصل قرآن مجید میں موجود نہیں.اس طرح پر تم اسلام کو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے والے ٹھہرو گے.پھر پہلی کتابوں
فقه المسيح 40 علم فقہ اور فقہاء میں بھی تو کوئی نظیر موجود نہیں اور ان کتابوں سے اجتہاد کرنا حرام نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ (الاحقاف: 11) اور پھر فرمایا كَفَى بِاللهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ (الرعد: 44) اور ایسا ہی فرمایا يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَ هُمُ (البقره : 147) جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت کے لیے ان کو پیش کرتا ہے تو ہمارا ان سے اجتہاد کرنا کیوں حرام ہو گیا ؟ لیکچرلدھیانہ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 297،296) مقلدوں اور غیر مقلدوں کے اختلافات ابھی بہت زمانہ نہیں گذرا کہ مُقلّد غیر مقلدوں کی غلطیاں نکالتے اور وہ ان کی غلطیاں ظاہر کرتے اور اس طرح پر دوسرے فرقے آپس میں درندوں کی طرح لڑتے جھگڑتے تھے.ایک دوسرے کو کافر کہتے اور نجس بتاتے تھے.اگر کوئی تسلی کی راہ موجود تھی ، تو پھر اس قدر اختلاف اور تفرقہ ایک ہی قوم میں کیوں تھا ؟ غلطیاں واقع ہو چکی تھیں اور لوگ حقیقت کی راہ سے دور جا پڑے تھے.ایسے اختلاف کے وقت ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ خود فیصلہ کرتا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور ایک حکم ان میں بھیج دیا.اب بتاؤ کہ میں نے کیا زیادتی کی ہے یا کیا قرآن شریف سے کم کر دیا ہے جو میری مخالفت کے لیے اس قدر جوش (الحکم 30 ستمبر 1904 صفحہ 3 ) پیدا ہوا ہوا ہے.مولوی عبداللہ چکڑالوی کے خلاف وجوہ کفر حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کی کہ مولوی محمد حسین صاحب کا ایک رسالہ آیا ہے جس میں چینیاں والی مسجد میں قیامت کے عنوان سے اس نے ایک مضمون لکھا
فقه المسيح 41 علم فقہ اور فقہاء ہے جو مولوی عبداللہ چکڑالوی کے خلاف ہے.لکھتے لکھتے ایک مقام پر لکھتا ہے کہ ہم اس کو پرافٹ آف قادیان کے ساتھ ملاتے ہیں.یعنی کفر کا فتوی دیتے ہیں چنانچہ اس کے نیچے پھر کفر کا فتویٰ مرتب کیا ہے.اس پر حضرت اقدس نے دریافت فرمایا کہ: وجوہ کفر کیا ہیں؟ مولوی چکڑالوی کہتا ہے کہ حدیث کی کچھ ضرورت نہیں بلکہ حدیث کا پڑھنا ایسا ہے، جیسے کہ گتے کو ہڈی کا چسکا ہو سکتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ قرآن کے لانے میں اس سے بڑھ کر نہیں جیسا کہ ایک چپڑاسی یا مذکوری کا درجہ پروانہ سرکاری لانے میں ہوتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا:.ایسا کہنا کفر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بے ادبی کرتا ہے.احادیث کو ایسی حقارت سے نہیں دیکھنا چاہیے.کفار تو اپنے بتوں کے جنتر منتر کو یاد رکھتے ہیں.تو کیا مسلمانوں نے اپنے رسول کی باتوں کو یاد نہ رکھا.قرآن شریف کے پہلے سمجھنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور اس پر آپ عمل کرتے تھے اور دوسروں کو عمل کراتے تھے.یہی سنت ہے اور اسی کو تعامل کہتے ہیں اور بعد میں ائمہ نے نہایت محنت اور جانفشانی کے ساتھ اس سنت کو الفاظ میں لکھا اور جمع کیا اور اس کے متعلق تحقیقات اور چھان بین کی.پس وہ حدیث ہوئی دیکھو بخاری اور مسلم کو ، کیسی محنت کی ہے.آخر انہوں نے اپنے باپ دادوں کے احوال تو نہیں لکھے.بلکہ جہاں تک بس چلا صحت وصفائی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال الحکم 17 راگست 1902 ، صفحہ 11) وافعال یعنی سنت کو جمع کیا.وہابیوں کی ظاہر پرستی حضرت اقدس نے ان وہابیوں کے اخلاق اور ادب رسول پر اپنا ایک ذکر سنایا کہ ایک دفعہ جب آپ امرتسر میں تھے تو غزنوی گروہ کے چند مولویوں نے آپ کو چائے دی چونکہ حضرت
فقه المسيح 42 علم فقہ اور فقہاء اقدس کے دائیں ہاتھ میں بچپن میں ضرب آئی ہوئی ہے اور ہڈی کو صدمہ پہنچا ہوا ہے.آپ نے بائیں ہاتھ سے پیالی لی تو اس پر غزنوی صاحبان نے فور ابلا وجہ دریافت کئے کہنا شروع کیا کہ یہ خلاف سنت ہے.آپ نے ان کو سمجھایا کہ آداب اور روحانیت بھی سنت ہیں پھر ان کو اصل وجہ بتلائی گئی اس کے بعد ان لوگوں نے آپ پر یہ اعتراض کیا کہ آپ نے اپنی تصنیفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تعریف کی ہے اس قدر نہ چاہیے تھی ہم تو ان کو اسی قدر مانتے ہیں.جس قدر حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ یونس بن متی سے بھی زیادہ نہیں ہے.جسمانی طور پر جس قدر ترقیات آج تک ہوئی ہیں کیا وہ پہلے زمانوں میں تھیں؟ اسی طرح روحانی ترقیات کا سلسلہ ہے کہ وہ ہوتے ہوتے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا.خاتم النبین کے یہی معنے ہیں جب ان (وہابیوں) کی یہ حالت ہے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کونسی سچی محبت کر سکتے ہیں اور کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ فرمایا کہ میرا دل ان لوگوں سے کبھی راضی نہیں ہوا اور مجھے یہ خواہش کبھی نہیں ہوتی کہ مجھے وہابی کہا جاوے اور میرا نام کسی کتاب میں وہابی نہ نکلے گا.میں ان کے مجلسوں میں بیٹھتا رہا ہوں.ہمیشہ لفاظی کی بو آتی رہی ہے یہی معلوم ہوا کہ ان میں نرا چھلکا ہے مغز بالکل نہیں ہے.مولوی محمد حسین نے خود حدیث کی نسبت اپنی اشاعت السنہ میں یہ بات لکھی ہے کہ ایک صاحب الہام یا اہل کشف صحیح حدیث کو ضعیف یا ضعیف کو صحیح قرار دے سکتا ہے کیونکہ وہ کشفی حالت میں آنحضرت ﷺ سے اس کی تصحیح کرالیتا ہے مگر تاہم میں نے یہ التزام رکھا ہے کہ میں اپنے کشوف یا الہامات پر تحمل نہیں کرتا جب تک قرآن اور سنت اور صحیح حدیث اس کے ساتھ نہ ہو.محمد حسین سے پوچھا جائے کہ جب عبداللہ غزنوی احادیث میں اس طرح دخل دے سکتے تھے تو
فقه المسيح 43 پھر حکم نے کیا گناہ کیا کہ اسے ہر ایک رطب و یابس ماننے پر مجبور کیا جاتا ہے.وہابیوں اور چکڑالویوں کا افراط و تفریط علم فقہ اور فقہاء ( البدر 21 نومبر 1902 ء صفحہ 30 ) چکڑالوی کا ذکر آنے پر معلوم ہوا کہ اس نے نماز میں بھی کچھ ردو بدل کی ہے التحیات اور درود شریف کو نکال دیا ہے اور بھی بعض تبدیلیاں کی ہیں.حضرت اقدس نے چکڑالوی کے فتنہ کو خطرناک قرار دیا اور آپ کی رحمت اور حمیت اسلامی نے تقاضا کیا کہ اس کے متعلق ایک اشتہار بطور محاکمہ کے لکھا جاوے جس میں یہ دکھایا جائے کہ مولوی محمد حسین نے اور اس نے افراط اور تفریط کی راہ اختیار کی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو صراط مستقیم پر رکھا ہے.فرمایا:.نبی ہمیشہ دو چیزیں لے کر آتے ہیں.کتاب اور سنت.ایک خدا کا کلام ہوتا ہے اور دوسرے سنت.یعنی اس پر عمل کر کے دکھا دیتے ہیں.دنیا کے کام بھی بغیر اس کے نہیں چل سکتے دقیق مسائل جو استاد بتاتا ہے پھر اس کو حل کر کے بھی دکھا دیتا ہے پس جیسے کلام اللہ یقینی ہے سنت بھی یقینی ہے.خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں صراط مستقیم پر کھڑا کر رکھا ہے وہابیوں نے افراط کی ، قرآن پر حدیث کو قاضی ٹھہرایا اور قرآن کو اس کے آگے مستغیث کی طرح کھڑا کر دیا اور چکڑالوی نے تفریط کی کہ بالکل ہی حدیث کا انکار کر دیا.اس سے فتنے کا اندیشہ ہے.اس کی اصلاح ضروری ہے ہم کو خدا نے حکم ٹھہرایا ہے اس لئے ہم ایک اشتہار کے ذریعہ اس غلطی کو ظاہر کریں گے اور مضمون پیچھے لکھیں گے.اول خویش بعد درویش جس راہ پر خدا تعالیٰ نے ہم کو چلایا ہے اس پر اگر غور کی جاوے تو ایک لذت آتی ہے قرآن شریف نے کیا ٹھیک فیصلہ فرمایا فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ اور دوسری جگہ فرمایا
فقه المسيح 44 علم فقہ اور فقہاء فَبَايَ حَدِيثٍ بَعْدَ اللهِ وَ آيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ (الجاليه : 7) یہ ایک قسم کی پیشگوئی ہے جو ان وہابیوں کے متعلق ہے اور سنت کی نفی کرنے والوں کے لئے فرمایا إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران : 32) احناف کا احوال ( البدر 28 نومبر.5 دسمبر 1902 صفحہ 46)....رہے حفی ، ان میں بدقسمتی سے اقوال مردودہ اور بدعات نے دخل پالیا ہے.حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ تو اعلیٰ درجہ کے متقی تھے ،مگر اُن کے پیروؤں میں جب رُوحانیت نہ رہی تو انہوں نے اور بدعتوں کو داخل کر لیا اور تقلید میں انہوں نے یہاں تک غلو کیا کہ ان لوگوں کے اقوال کو جن کی عصمت کا قرآن دعویٰ نہیں کرتا ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال پر بھی فضیلت دے دی اور اپنے اغراض اور مقاصد کو مد نظر رکھ کر امام صاحب کے اقوال کی جس طرح چاہا تاویل کر لی.لدھیانہ میں میں ایک دفعہ تھا تو نوابوں کے خاندان میں سے ایک شخص میرے پاس آیا اور باتوں ہی باتوں میں انہوں نے کہا کہ میں پکا حنفی ہوں اور یہ بھی کہا کہ میرے چچا صاحب کو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے بڑی حسن عقیدت تھی رض یہانتک کہ جب انہوں نے مالا بد منہ میں امام صاحب کا یہ قول دیکھا کہ صرف جو اور انگور اور دو اور یعنی چار قسم کی شراب حرام ہے، تو انہوں نے ولایت کی شرا میں منگوا کر اسی ہزار روپیہ کی شراب پی تا کہ امام صاحب کی بچی پیروی ہو جاوے.استغفر الله ثم استغفر الله غرض اس قسم کی تاویلیں کر لیتے ہیں.عام طور پر شکایت کی جاتی ہے کہ جس قسم کا فتویٰ کوئی چاہے ان سے لے لے.حلالہ کا مسئلہ بھی انہوں نے ہی نکالا ہے کہ اگر کوئی عورت کو طلاق دے دے تو پھر جائز طور پر رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرے اور وہ پھر اس کو طلاق دے، حالانکہ قرآن شریف میں کہیں اس کا پتہ نہیں ملتا اور احادیث میں حلالہ کرنے والے پر لعنت آئی ہے.(احکام 30 ستمبر 1901 ، صفحہ 3)
فقه المسيح 45 علم فقہ اور فقہاء شافعی فرقے کے طور اطوار ایک اور فرقہ شافعی مذہب والوں کا ہے.وہ تو وحشیوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں.ان کے ہاں ایک مقولہ ہے.شافعی سب کچھ معافی ، یعنی نہ حلت وحرمت کی ضرورت ہے نہ کچھ اور.چنانچہ ہمارے ملک میں خانہ بدوش لوگ جو پھرا کرتے ہیں یہ اپنے آپ کو شافعی کہتے ہیں.ان کے اطوارا در چال چلن کو دیکھ لو.امرتسر میں ایک موحد رنڈی کی مسجد میں نماز پڑھایا کرتا تھا.اس نے میرے پاس ذکر کیا کہ وہ ایک مرتبہ بمبئی چلا گیا اور اتفاق سے شافعیوں کی مسجد میں چلا گیا.صبح کی نماز کا وقت تھا.اس سے جب دریافت کیا تو اس نے کہہ دیا کہ میں شافعی ہوں اور جب انہوں نے اس کو نماز کے لئے امام بنایا اور اس نے شافعی مذہب کے موافق صبح کی نماز میں قنوت نہ پڑھی تو وہ لوگ بڑے ہی برافروختہ ہوئے آخر بمشکل وہاں سے بچ کر نکلا.الغرض مذہب اسلام میں اندرونی طور پر ایسے ایسے بہت سے فساد اور فتنے ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے اور بیرونی فسادوں کو آدمی دیکھے تو اور بھی حیران ہو جاتا ہے.ایک پادریوں کے ہی فتنہ کو دیکھ تو گھبرا جاؤ.مختصر یہ کہ ان سارے فسادوں کا اجتماع بالبداہت بتا رہا ہے کہ اس وقت ایک آسمانی سلسلہ کی ضرورت ہے اور اگر خدا اس وقت کوئی سلسلہ قائم نہ کرتا تو پھر خدا پر اعتراض ہوتا مگر خدا کا شکر ہے کہ اس نے وقت پر ہماری دستگیری کی اور اس سلسلہ کو اپنی تائیدوں کے ساتھ قائم کیا.فالحمد لله على ذلك.جزئی مسائل میں مباحثے پر نا پسندیدگی ( الحام 30 ستمبر 1901 صفحہ 3) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے تحریر کیا کہ مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگروال ضلع گورداسپور نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ایک اشتہار
فقه المسيح 46 46 علم فقہ اور فقہاء دیا.جس میں رفع یدین آمین وغیرہ کے مسائل تھے اور جواب کے لئے فی مسئلہ دس روپیہ انعام مقرر کیا تھا.دس مسائل تھے.حضرت صاحب نے مجھے سنایا اور فرمایا کہ دیکھو یہ کیسا فضول اشتہار ہے.جب نماز ہر طرح ہو جاتی ہے تو ان باتوں کا تنازعہ موجب فساد ہے.اس وقت ہمیں اسلام کی خدمت کی ضرورت ہے نہ کہ ان مسائل میں بحث کی.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 541) فقہی اختلافات کی بنیاد پر کافر کہنا درست نہیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حافظ نورمحمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہمارے گاؤں میں ایک کشمیری مولوی جو حافظ قرآن بھی تھے تشریف لائے اور کئی روز تک وہ اپنے وعظ میں غیر مقلدین یعنی اہل حدیث کے خلاف تقریریں کرتے رہے.ہم بھی غیر مقلد تھے.مولوی صاحب اعلانیہ کہا کرتے کہ اپنے فوت شدہ بزرگوں سے مدد طلب کرنا جائز ہے اور جس قدرنمازیں تم نے غیر مقلدوں کے پیچھے پڑھی ہیں سب کی سب دوبارہ پڑھنی چاہئیں اور ثبوت میں قرآنی آیات يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ (المائده: 36 ) پیش کرتے تھے.میں نے اُن مولوی صاحب سے پوچھا کہ اس وسیلہ سے آپ کون سا وسیلہ مراد لیتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ نیک عملوں اور فوت شدہ بزرگوں کا وسیلہ.میں نے کہا کہ آپ لوگوں کو مشر کا نہ تعلیم نہ دیں.اس بات پر اس نے میرے ساتھ سخت کلامی کی اور گاؤں کے لوگوں کو برانگیختہ کیا.جس پر گاؤں کے لوگ ہم سے الگ نماز پڑھنے لگے.صرف میں اور میرے والد ہی اکٹھی نماز پڑھتے تھے.میرے والد صاحب نے قادیان جا کر حضرت صاحب سے کہا کہ جناب میں نے تو اپنا لڑکا مسلمان بنانے کے لئے آپ کی خدمت میں چھوڑا تھا لیکن اب تو لوگ اس کو کافر کہتے ہیں.آپ نے اس وقت ایک سرخ کاغذ پر فتویٰ لکھوا کر میرے والد صاحب کو دیا کہ جولوگ آمین بالجبر ،الحمدللہ ، رفع یدین اور فاتحہ خلف الامام کے پڑھنے پر کسی کو کافر کہے، وہ امام ابوحنیفہ کے
فقه المسيح 47 علم فقہ اور فقہاء نزد یک خود کافر ہے.مگر چند روز کے بعد عام لوگ خود بخود ہی میرے پیچھے نماز پڑھنے لگ گئے.اس کے بعد جب میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میاں نور محمد ! تم کولوگ وہابی کہتے ہیں.تم جواب دیا کرو کہ میں حضرت پیرانِ پیر کا مرید ہوں اور ان کی کتاب ม غنیۃ الطالبین پڑھ کر اُن کو سنایا کرو اور حضرت صاحب ہمیشہ جناب پیرانِ پیر اور امام غزالی کی تعریف فرمایا کرتے تھے.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 12 ، 13 ) حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب کا حنفی ہونے کا اعلان حضرت مرزا بشیر احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ حافظ روشن علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کسی دینی ضرورت کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو یہ لکھا کہ آپ یہ اعلان فرما دیں کہ میں حنفی المذہب ہوں حالانکہ آپ جانتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب عقید تا اہل حدیث تھے.حضرت مولوی صاحب نے اس کے جواب میں حضرت صاحب کی خدمت میں ایک کار ڈارسال کیا جس میں لکھا بہ سے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید که سالک بے خبر نبود ز راه و رسم منزلها اور اس کے نیچے ” نورالدین حنفی کے الفاظ لکھ دیئے.اس کے بعد جب مولوی صاحب حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت صاحب نے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ مولوی صاحب حنفی مذہب کا اصول کیا ہے؟ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور اصول یہ ہے کہ قرآن شریف سب سے مقدم ہے.اگر اس کے اندر کوئی مسئلہ نہ ملے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل وقول کو دیکھنا چاہیے.جس کا حدیث سے پتا لگتا ہے اور اس کے بعد اجماع اور قیاس سے فیصلہ کرنا چاہیے.حضرت صاحب نے فرمایا تو پھر مولوی صاحب آپ کا کیا مذہب ہے؟ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور میرا بھی یہی
فقه المسيح 48 علم فقہ اور فقہاء مذہب ہے.اس پر حضرت صاحب نے اپنی جیب سے مولوی صاحب کا وہ کارڈ نکالا اوران کی طرف پھینک کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ پھر اس کا کیا مطلب ہے؟ مولوی صاحب شرمندہ ہو کر خاموش ہو گئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے جو شعر لکھا تھا اس کا یہ مطلب تھا کہ اگر چہ میں اپنی رائے میں تو اہل حدیث ہوں لیکن چونکہ میرا پیر طریقت کہتا ہے کہ اپنے آپ کو حنفی کہو.اس لئے میں اس کی رائے پر اپنی رائے کو قربان کرتا ہوا اپنے آپ کو حنفی کہتا ہوں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ احمدیت کے چرچے سے قبل ہندوستان میں اہلِ حدیث کا بڑا چرچا تھا اور حنفیوں اور اہل حدیث کے درمیان ( جن کو عموما لوگ وہابی کہتے ہیں ) بڑی مخالفت تھی اور آپس میں مناظرے اور مباحثے ہوتے رہتے تھے اور یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے گو یا جانی دشمن ہورہے تھے اور ایک دوسرے کے خلاف فتوی بازی کا میدان گرم تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام گودر اصل دعوی سے قبل بھی کسی گروہ سے اس قسم کا تعلق نہیں رکھتے تھے جس سے تعصب یا جتھہ بندی کا رنگ ظاہر ہو لیکن اصولاً آپ ہمیشہ اپنے آپ کو حنفی ظاہر فرماتے تھے اور آپ نے اپنے لئے کسی زمانہ میں بھی اہل حدیث کا نام پسند نہیں فرمایا.حالانکہ عقائد و تعامل کے لحاظ سے دیکھیں تو آپ کا طریق حنفیوں کی نسبت اہل حدیث سے زیادہ ملتا جلتا ہے.اہل حدیث طریق کی ناپسندیدگی (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 333 334) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خواجہ عبدالرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ میرے والد میاں حبیب اللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ مجھے نماز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کھڑے ہونے کا موقعہ ملا اور چونکہ میں احمدی ہونے سے قبل وہابی (اہلحدیث ) تھا.میں نے اپنا پاؤں
فقه المسيح 49 علم فقہ اور فقہاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاؤں کے ساتھ ملانا چاہا مگر جب میں نے اپنا پاؤں آپ کے پاؤں کے ساتھ رکھا تو آپ نے اپنا پاؤں کچھ اپنی طرف سر کا لیا جس پر میں بہت شرمندہ ہوا اور آئندہ کے لئے اس طریق سے باز آ گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ فرقہ اہل حدیث اپنی اصل کے لحاظ سے ایک نہایت قابلِ قد رفرقہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سے مسلمان بدعات سے آزاد ہو کر اتباع سنت نبوی سے مستفیض ہوئے ہیں مگر انہوں نے بعض باتوں پر اس قدر نا مناسب زور دیا ہے اور اتنا مبالغہ سے کام لیا ہے کہ شریعت کی اصل روح سے وہ باتیں باہر ہوگئی ہیں.اب اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ نماز میں دو نمازیوں کے درمیان یونہی فالتو جگہ نہیں پڑی رہنی چاہئے بلکہ نمازیوں کو مل کر کھڑا ہونا چاہیے تا کہ اول تو بے فائدہ جگہ ضائع نہ جاوے.دوسرے بے ترتیبی واقع نہ ہو.تیسرے بڑے آدمیوں کو یہ بہانہ نہ ملے کہ وہ بڑائی کی وجہ سے اپنے سے کم درجہ کے لوگوں سے ذرا ہٹ کر الگ کھڑے ہوسکیں.وغیر ذالک.مگر اس پر اہل حدیث نے اتناز ور دیا ہے اور اس قدر مبالغہ سے کام لیا ہے کہ یہ مسئلہ ایک مضحکہ خیز بات بن گئی.اب گویا ایک اہلِ حدیث کی نماز ہو نہیں سکتی جب تک وہ اپنے ساتھ والے نمازی کے کندھے سے کندھا اور ٹخنہ سے ٹخنہ اور پاؤں سے پاؤں رگڑاتے ہوئے نماز ادا نہ کرے حالانکہ اس قدر قرب بجائے مفید ہونے کے نماز میں خواہ مخواہ پریشانی کا موجب ہوتا ہے.کتب فقہ پر نظر ثانی کی ضرورت (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 313 314) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا " کتب فقہ پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے.“ (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 279)
فقه المسيح اوقات نماز کی فلاسفی فرمایا: 50 50 نماز کی حکمتیں نماز کی حکمتیں پنجگانہ نمازیں کیا چیز ہیں وہ تمہارے مختلف حالات کا فوٹو ہے تمہاری زندگی کے لازم حال پانچ تغیر ہیں جو بلا کے وقت تم پر وارد ہوتے ہیں اور تمہاری فطرت کے لئے اُن کا وارد ہونا ضروری ہے.(۱) پہلے جب کہ تم مطلع کئے جاتے ہو کہ تم پر ایک بلا آنے والی ہے مثلاً جیسے تمہارے نام عدالت سے ایک وارنٹ جاری ہوا یہ پہلی حالت ہے جس نے تمہاری تسلی اور خوشحالی میں خلل ڈالا سو یہ حالت زوال کے وقت سے مشابہ ہے کیونکہ اس سے تمہاری خوشحالی میں زوال آنا شروع ہوا اس کے مقابل پر نماز ظہر متعین ہوئی جس کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے.(۲) دوسرا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے جب کہ تم بلا کے محل سے بہت نزدیک کئے جاتے ہومثلاً جب کہ تم بذریعہ وارنٹ گرفتار ہو کر حاکم کے سامنے پیش ہوتے ہو یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارا خوف سے خون خشک ہو جاتا ہے اور تسلی کا نور تم سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے سو یہ حالت تمہاری اُس وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب سے نور کم ہو جاتا ہے اور نظر اُس پر جم سکتی ہے اور صریح نظر آتا ہے کہ اب اس کا غروب نزدیک ہے.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عصر مقرر ہوئی.(۳) تیسرا تغیر تم پر اس وقت آتا ہے جو اس بلا سے رہائی پانے کی بکلی امید منقطع ہو جاتی ہے مثلاً جیسے تمہارے نام فرد قرار داد جرم لکھی جاتی ہے اور مخالفانہ گواہ تمہاری ہلاکت کے لئے گزر جاتے ہیں یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارے حواس خطا ہو جاتے ہیں اور تم اپنے تئیں ایک قیدی
فقه المسيح 51 نماز کی حکمتیں سمجھنے لگتے ہو.سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب غروب ہو جاتا ہے اور تمام امیدیں دن کی روشنی کی ختم ہو جاتی ہیں اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز مغرب مقرر ہے.(۴) چوتھا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے کہ جب بلاتم پر وارد ہی ہو جاتی ہے اور اس کی سخت تاریکی تم پر احاطہ کر لیتی ہے مثلاً جب کہ فرد قرار داد جرم اور شہادتوں کے بعد حکم سزا تم کوسنایا جاتا ہے اور قید کے لئے ایک پولس مین کے تم حوالہ کئے جاتے ہو سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ رات پڑ جاتی ہے اور ایک سخت اندھیر اپڑ جاتا ہے اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عشاء مقرر ہے.(۵) پھر جب کہ تم ایک مدت تک اس مصیبت کی تاریکی میں بسر کرتے ہو تو پھر آخر خدا کا رحم تم پر جوش مارتا ہے اور تمہیں اُس تاریکی سے نجات دیتا ہے مثلاً جیسے تاریکی کے بعد پھر آخر کار صبح نکلتی ہے اور پھر وہی روشنی دن کی اپنی چمک کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے سواس روحانی حالت کے مقابل پر نماز فجر مقرر ہے اور خدا نے تمہارے فطرتی تغیرات میں پانچ حالتیں دیکھ کر پانچ نمازیں تمہارے لئے مقرر کیں اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ نمازیں خاص تمہارے نفس کے فائدہ کے لئے ہیں پس اگر تم چاہتے ہو کہ ان بلاؤں سے بچے رہو تو تم پنجگانہ نمازوں کو ترک نہ کرو کہ وہ تمہاری اندرونی اور روحانی تغیرات کا ظلّ ہیں.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 70،69) با جماعت نماز کی حکمت نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب رکھا ہے اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پاؤں بھی مساوی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں.اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کر سکیں وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے.یہ خوب یا درکھو کہ انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ
فقه المسيح 52 62 نماز کی حکمتیں دوسرے کے انوار کو جذب کرتا ہے.پھر اسی وحدت کے لئے حکم ہے کہ روزانہ نمازیں محلہ کی مسجد میں اور ہفتہ کے بعد شہر کی مسجد میں اور پھر سال کے بعد عیدگاہ میں جمع ہوں اور کل زمین کے مسلمان سال میں ایک مرتبہ بیت اللہ میں اکٹھے ہوں.ان تمام احکام کی غرض وہی وحدت ہے.لیکچر لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 281 282) ارکان نماز پر حکمت ہیں دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشت خاک کو کیمیا کر دیتی ہے اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے.اُس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرت احدیت پر گرتی ہے.وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے.اور اسی کی ظل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھلائی ہے اور روح کا کھڑا ہونا یہ ہے کہ وہ خدا کے لئے ہر ایک ہیبت کی برداشت اور حکم ماننے کے بارے میں مستعدی ظاہر کرتی ہے اور اس کا رکوع یعنی جھکنا یہ ہے کہ وہ تمام محبتوں اور تعلقوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھک آتی ہے اور خدا کے لئے ہو جاتی ہے اور اُس کا سجدہ یہ ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر گر کر اپنے خیال بکھی کھو دیتی ہے اور اپنے نقش وجود کو مٹا دیتی ہے.یہی نماز ہے جو خدا کو ملاتی ہے اور شریعت اسلامی نے اس کی تصویر معمولی نماز میں کھینچ کر دکھلائی ہے تا وہ جسمانی نماز روحانی نماز کی طرف محرک ہو کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کے وجود کی ایسی بناوٹ پیدا کی ہے کہ روح کا اثر جسم پر اور جسم کا اثر روح پر ضرور ہوتا ہے.جب تمہاری روح غمگین ہو تو آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور جب روح میں خوشی پیدا ہوتو چہرہ پر بشاشت ظاہر ہو جاتی ہے.یہاں تک کہ انسان بسا اوقات بہنے لگتا ہے ایسا ہی جب جسم کو کوئی تکلیف اور درد پہنچے تو اس درد میں روح بھی شریک ہوتی ہے اور جب جسم کسی ٹھنڈی ہوا سے خوش ہو تو روح بھی اس سے کچھ حصہ لیتی ہے پس جسمانی عبادات کی غرض یہ ہے کہ روح اور جسم کے باہمی تعلقات کی وجہ سے روح میں حضرت احدیت کی طرف حرکت پیدا ہو اور وہ روحانی قیام اور سجود میں مشغول ہو جائے کیونکہ
فقه المسيح 53 نماز کی حکمتیں انسان ترقیات کے لئے مجاہدات کا محتاج ہے اور یہ بھی ایک قسم مجاہدہ کی ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ جب دو چیزیں باہم پیوست ہوں تو جب ہم اُن میں سے ایک چیز کو اٹھا ئیں گے تو اُس اُٹھانے سے دوسری چیز کو بھی جو اس سے ملحق ہے کچھ حرکت پیدا ہوگی.لیکن صرف جسمانی قیام اور رکوع اور سجود میں کچھ فائدہ نہیں ہے جب تک کہ اس کے ساتھ یہ کوشش شامل نہ ہو کہ روح بھی اپنے طور سے قیام اور رکوع اور سجود سے کچھ حصہ لے اور یہ حصہ لینا معرفت پر موقوف ہے اور معرفت لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 223 ، 224) فضل پر موقوف.شراب کے پانچ اوقات کی جگہ پانچ نمازیں یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ عرب کے ملک میں بھی عیسائی لوگ ہی شراب لے گئے اور ملک کو تباہ کر دیا.معلوم ہوتا ہے کہ بت پرستی کے خیال کو بھی عیسی پرستی کے خیال نے ہی قوت دی اور عیسائیوں کی ریس سے وہ لوگ بھی مخلوق پرستی پر زیادہ جم گئے.یادر ہے کہ عرب کے جنگلی لوگ شراب کو جانتے بھی نہیں تھے کہ کس بلا کا نام ہے مگر جب حضرات عیسائی وہاں پہنچے اور انہوں نے بعض نو مریدوں کو بھی تحفہ دیا.تب تو یہ خراب عادت دیکھا دیکھی عام طور پر پھیل گئی اور نماز کے پانچ وقتوں کی طرح شراب کے پانچ وقت مقرر ہو گئے.یعنی جاشریہ صبح قبل طلوع آفتاب کی شراب ہے.صبوح جو بعد طلوع کے شراب پی جاتی ہے.غبوق جو ظہر اور عصر کی شراب کا نام ہے.قیل جو دو پہر کی شراب کا نام ہے.فحم جو رات کی شراب کا نام ہے.اسلام نے ظہور فرما کر یہ تبدیلی کی.جو ان پانچ وقتوں کے شرابوں کی جگہ پانچ نمازیں مقرر کر دیں اور ہر یک بدی کی جگہ نیکی رکھ دی اور مخلوق پرستی کی جگہ خدا تعالیٰ کا نام سکھا دیا.( نور القرآن.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 351 352 حاشیہ)
فقه المسيح 54 اذان اذان اذان خدا کی طرف بلانے کا عمدہ طریق ہے اذان ہورہی تھی اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کیسی عمدہ شہادت ہے.جب یہ ہوا میں گونجتی ہوئی دلوں تک پہنچتی ہے تو اس کا عجیب اثر پڑتا ہے.دوسرے مذاہب کے جس قدر عبادت کے لئے بلانے کے طریق ہیں وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.انسانی آواز کا مقابلہ دوسری مصنوعی آواز میں کب کر سکتی ہیں.الحکم 10 نومبر 1902 ءصفحہ 8،7) اذان کے وقت خاموش رہنا لازمی نہیں ایک شخص اپنا مضمون اشتہار در بارہ طاعون سُن رہا تھا اذان ہونے لگی تو چُپ ہو گیا.اس پر حضرت مسیح موعود نے فرمایا وو پڑھتے جاؤ.اذان کے وقت پڑھنا جائز ہے.ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 296 ) اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں دینا ایک شخص نے عرض کیا کہ اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں کیوں دیتے ہیں؟ فرمایا اس میں حکمت یہ ہے کہ کان میں انگلی دینے سے آواز کو قوت ہو جاتی ہے.پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اذان بغیر کانوں میں انگلی دیئے دیا کرتے تھے.ایک روز حضرت بلال کی آواز میں آپ نے ضعف پا یا تو فر ما یا بلال کانوں میں انگلی دے کر اذان کہو سو بلال نے ایسا کیا تو آواز میں قوت پیدا ہوگئی اور ضعف جاتا رہا پھر یہ فعل حسب فرمودہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سنت ٹھہر گیا.پھر فرمایا کہ اکثر گویوں اور کلامتوں کو دیکھا گیا
فقه المسيح 55 اذان ہوگا کہ وہ گانے کے وقت جو اونچی اور بلند آواز اُٹھاتے ہیں تو کان پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں تا کہ آواز کی کمزوری جاتی رہے اور قوت پیدا ہو جائے.(تذکرۃ المہدی حصہ اول صفحہ 70) بچے کے کان میں اذان حکیم محمد عمر صاحب نے فیروز پور سے دریافت کیا کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو مسلمان اس کے کان میں اذان کہتے ہیں.کیا یہ امر شریعت کے مطابق ہے یا صرف ایک رسم ہے؟ فرمایا :.یہ امر حدیث سے ثابت ہے اور نیز اس وقت کے الفاظ کان میں پڑے ہوئے انسان کے اخلاق اور حالات پر ایک اثر رکھتے ہیں لہذا یہ رسم اچھی ہے اور جائز ہے.“ کیا اذان جماعت کے لئے ضروری ہے سوال: کیا اذان جماعت کے لئے ضروری ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: ( بدر 28 مارچ 1907 ءصفحہ 4) ہاں اذان ہونی چاہئے لیکن اگر وہ لوگ جنہوں نے جماعت میں شامل ہونا ہے وہیں موجود ہوں تو اگر اذان نہ کہی جائے تو کچھ حرج نہیں.لوگوں نے اس کے متعلق مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے مگر میں ایک دفعہ حضرت صاحب کے ہمراہ گورداسپور کو جارہا تھا راستہ میں نماز کا وقت آیا عرض کیا گیا کہ اذان کہی جائے؟ فرمایا کہ احباب تو جمع ہیں کیا ضرورت ہے.اس لئے اگر ایسی صورت ہو تو نہ دی جائے ورنہ اذان دینا ضروری ہے کیونکہ اس سے کسی دوسرے کو بھی تحریک نماز ہوتی ہے.روزنامه الفضل 19 جنوری 1922 صفحہ 8
فقه المسيح 56 60 ظاہری پاکیزگی کا اثر باطن پر وضو فرمایا :.انسان کی دو حالتیں ہوتی ہیں جو شخص باطنی طہارت پر قائم ہونا چاہتا ہے وہ ظاہری پاکیزگی کا بھی لحاظ رکھے.پھر ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (البقرة:322) یعنی جو لوگ باطنی اور ظاہری پاکیزگی کے طالب ہیں میں اُن کو دوست رکھتا ہوں.ظاہری پاکیزگی باطنی طہارت کی ممد اور معاون ہے.اگر انسان اسے ترک کر دے اور پاخانہ پھر کر بھی طہارت نہ کرے، تو باطنی پاکیزگی پاس بھی نہیں پھٹکتی.پس یا درکھو کہ ظاہری پاکیزگی اندرونی طہارت کو مستلزم ہے.اس لئے ہر مسلمان کے لئے لازم ہے کہ کم از کم جمعہ کے دن ضرور غسل کرے.ہر نماز میں وضو کرے.جماعت کھڑی ہو تو خوشبو لگائے.عیدین اور جمعہ میں جو خوشبو لگانے کا حکم ہے وہ اسی بنا پر قائم ہے.اصل وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے اجتماع کے وقت عفونت کا اندیشہ ہوتا ہے.اس لئے غسل کرنے اور صاف کپڑے پہنے اور خوشبو لگانے سے سمیت ( زہر ) اور عفونت سے روک ہوگی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی میں یہ قانون مقرر کیا ہے ویسا ہی قانون مرنے کے بعد بھی رکھا ہے.(رسالہ الانذار بحوالہ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 164) وضو کی حقیقت اور فلاسفی پادری فتح مسیح کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود نے فرمایا آپ کا یہ کہنا کہ وضو کرنے سے گناہ کیونکر دور ہو سکتے ہیں.اے نادان ! الہی نوشتوں پر کیوں غور نہیں کرتا...وضو کر نا تو صرف ہاتھ پیر اور منہ دھونا ہے.اگر شریعت کا یہی مطلب وضو
فقه المسيح 57 وضو ہوتا کہ ہاتھ پیر دھونے سے گناہ دور ہو جاتے ہیں تو یہ پاک شریعت ان تمام پلید قوموں کو جو اسلام سے سرکش ہیں ہاتھ منہ دھونے کے وقت گناہ سے پاک جانتی کیونکہ وضو سے گناہ دور ہو جاتے ہیں.مگر شارع علیہ السلام کا یہ مطلب نہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کے چھوٹے چھوٹے حکم بھی ضائع نہیں جاتے.اور ان کے بجالانے سے بھی گناہ دور ہوتے ہیں.( نور القرآن حصہ دوم.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 420) وضو کے طبی فوائد فرمایا :.نماز کا پڑھنا اور وضو کا کرنا طبی فوائد بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے.اطباء کہتے ہیں کہ اگر کوئی ہر روز منہ نہ دھوئے تو آنکھ آجاتی ہے ( آنکھ دُکھنے لگتی ہے.ایڈیٹر ) اور یہ نزول الماء کا مقدمہ ہے اور بہت سی بیماریاں اس سے پیدا ہوتی ہیں.پھر بتلاؤ کہ وضو کرتے ہوئے کیوں موت آتی ہے.بظا ہر کیسی عمدہ بات ہے.منہ میں پانی ڈال کر کلی کرنا ہوتا ہے.مسواک کرنے سے منہ کی بدبو دور ہوتی ہے.دانت مضبوط ہو جاتے ہیں اور دانتوں کی مضبوطی غذا کے عمدہ طور پر چبانے اور جلد ہضم ہو جانے کا باعث ہوتی ہے.پھر ناک صاف کرنا ہوتا ہے ناک میں کوئی بدبو داخل ہو، تو دماغ کو پراگندہ کر دیتی ہے.اب بتلاؤ کہ اس میں برائی کیا ہے.اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی حاجات لے جاتا ہے اور اس کو اپنے مطالب عرض کرنے کا موقع ملتا ہے.دُعا کرنے کے لئے فرصت ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ نماز میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے اگر چہ بعض نمازیں تو پندرہ منٹ سے بھی کم میں ادا ہو جاتی ہیں.پھر بڑی حیرانی کی بات ہے کہ نماز کے وقت کو تضیع اوقات سمجھا جاتا ہے.جس میں اس قدر بھلائیاں اور فائدے ہیں اور اگر سارا دن اور ساری رات لغو اور فضول باتوں یا کھیل اور تماشوں میں ضائع کر دیں تو اس کا نام مصروفیت رکھا جاتا ہے.اگر قوی ایمان ہوتا ، قوی
فقه المسيح 58 وضو تو ایک طرف اگر ایمان ہی ہوتا، تو یہ حالت کیوں ہوتی اور یہاں تک نوبت کیوں پہنچتی.وضو میں پاؤں دھونا ضروری ہے (الحلم 31 جنوری 1901 ء صفحہ 2) حضرت مسیح موعود اپنے ایک دوست کے نام مکتوب میں تحریر کرتے ہیں :.وو ’ پاؤں کے مسح کی بابت یہ تحقیق ہے کہ آیت کی عبارت پر نظر ڈالنے سے نحوی قاعدہ کی رو سے دونوں طرح کے معنی نکلتے ہیں.یعنی غسل کرنا اور مسح کرنا اور پھر ہم نے جب متواتر آثار نبویہ کی رو سے دیکھا تو ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پاؤں کو دھوتے تھے.اس لئے وہ پہلے معنے غسل کرنا معتبر سمجھے گئے.“ (مکتوبات احمد جلد 2 صفحہ 543) مضر صحت پانی کو استعمال نہ کریں اخبار بدر نے لکھا کہ قادیان کے اردگر دنشیب زمین میں بارش اور سیلاب کا پانی جمع ہوکر ایک جو ہر سا بن جاتا ہے جس کو یہاں ڈھاب کہتے ہیں.جن ایام میں یہ نشیب زمین (ساری یا اس کا کچھ حصہ ) خشک ہوتی ہے تو گاؤں کے لوگ اس کو رفع حاجت کے طور پر استعمال کرتے رہتے ہیں اور اس میں بہت سی نا پا کی جمع ہو جاتی ہے جو سیلاب کے پانی کے ساتھ مل جاتی ہے.آج صبح حضرت اقدس بمع خدام جب باہر سیر کے واسطے تشریف لے گئے تو اس ڈھاب کے پاس سے گذرتے ہوئے فرمایا کہ:.پھر فرمایا:.66 ایسا پانی گاؤں کی صحت کے واسطے مضر ہوتا ہے.“ اس پانی میں بہت سا گند شامل ہو جاتا ہے اور اس کے استعمال سے کراہت آتی ہے.اگر چہ فقہ کے مطابق اس سے وضو کر لینا جائز ہے کیونکہ فقہاء کے مقرر کردہ وہ در دہ
فقه المسيح 59 وضو (10x10 - ناقل) سے زیادہ ہے تاہم اگر کوئی شخص جس نے اس میں گندگی پڑتے دیکھی ہو ، اگر اس کے استعمال سے کراہت کرے تو اس کے واسطے مجبوری نہیں کہ خواہ مخواہ اس سے یہ پانی استعمال کرایا جائے جیسا کہ گوہ کا کھانا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز رکھا ہے مگر خود کھانا پسند نہیں فرمایا.گندے جو ہڑ کے پانی سے وضو درست نہیں ( بدر 26 ستمبر 1907 صفحہ 6) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دار الفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن کا ذکر ہے حضور اپنی عادت کے طور پر سیر کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے.بہت دوست باہر دروازہ پر حضور کا انتظار کر رہے تھے.اس روز حضور موضع بھینی کی طرف تشریف لے چلے.جب ایک چھپڑ پر جو قصبہ قادیان کے متصل بر لب راہ موضع بھینی کی جانب ہے اس کے کنارے پر ایک بڑا بڑھ کا درخت تھا.حضور اس کے نیچے کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ اس چھپڑ کا پانی اچھا نہیں ہے اس سے وضو کر کے نماز نہیں پڑھنی چاہئے.چنانچہ میں نے کئی دفعہ دوستوں کو وہاں سے وضو کر نے سے روکا تھا.اور وہ دوست مجھے محول کرتے تھے.اس روز وہ دوست بھی وہاں ہی تھے انہوں نے اپنے کانوں سے سُنا کہ حضور نے اس چھپڑ کے پانی سے وضو کر نا اور اس کو استعمال کرنا منع فرمایا.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 304) کنوئیں کو پاک کرنے کے مشہور مسئلہ کے بارہ میں رہنمائی سوال ہوا کہ یہ جو مسئلہ ہے کہ جب چوہا یا بلی یا مرغی یا بکری یا آدمی کنوئیں میں مر جاویں تو اتنے ڈلو ( ڈول.ناقل ) پانی نکالنے چاہئیں.اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ پہلے تو ہمارا یہی عمل تھا کہ جب تک رنگ بو مزا نہ بدلے پانی کو پاک سمجھتے.
فقه المسيح فرمایا : 60 60 وضو ہمارا تو وہی مذہب ہے جو احادیث میں آیا ہے.یہ جو حساب ہے کہ اتنے ڈلو نکالو ، اگر فلاں جانور پڑے اور اتنے اگر فلاں پڑے.یہ ہمیں تو معلوم نہیں اور نہ اس پر ہمارا عمل ہے.عرض کیا گیا کہ حضور نے فرمایا ہے جہاں سنتِ صحیحہ سے پتہ نہ ملے وہاں حنفی فقہ پر عمل.کرلو.فرمایا: فقہ کی معتبر کتابوں میں بھی کب ایسا تعین ہے ہاں نجات المومنین میں لکھا ہے سو اس میں تو یہ بھی لکھا ہے : سرٹوئے وچ دے کے بیٹھ نماز کرے.کیا اس پر کوئی عمل کرتا ہے اور کیا یہ جائز ہے جبکہ حیض و نفاس کی حالت میں نماز منع ہے.پس ایسا ہی یہ مسئلہ بھی سمجھ لو.میں تمہیں ایک اصل بتا دیتا ہوں کہ قرآن مجید میں آیا ہے وَالرُّجُزَ فَاهْجُرُ (المدثر :6) جب پانی کی حالت اس قسم کی ہو جائے جس سے صحت کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو صاف کر لینا چاہئے.مثلاً پتے پڑ جاویں یا کیڑے وغیرہ.(حالانکہ اس پر یہ ملاں نجس ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے ) باقی یہ کوئی مقدار مقرر نہیں.جب تک رنگ و بو ومزانجاست سے نہ بدلے وہ پانی پاک ہے.حضرت مسیح موعود کے وضو کا طریق ( بدر یکم اگست 1907 ءصفحہ 12 ) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی روایت کرتے ہیں: اکثر حضور کو وضو کرانے کے مواقع بھی میسر آتے رہے.وضو حضور بہت سنوار کر فرمایا کرتے.ہر عضو کو تین تین دفعہ دھوتے ،سر کے صرف اگلے حصہ کا مسح فرمایا کرتے.ریش مبارک میں خلال فرماتے اور جرابوں پر مسح.کبھی جرا ہیں اتار کر بھی پاؤں
فقه المسيح 61 وضو دھوتے تو انگلیوں میں خلال فرماتے.دانتوں کو انگلی سے اچھی طرح ملتے اور مسوڑھوں کو بھی صاف فرماتے تھے.موزوں پر مسح سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 387 ) موزوں پر مسح کا ذکر ہوا تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ سوتی موزہ پر بھی مسح جائز ہے اور آپ نے اپنے پائے مبارک کو دکھلایا جس میں سوتی موزے تھے کہ میں ان پر مسح کر لیا کرتا ہوں.البدر 2 جنوری 1903 ، صفحہ 77) پھٹی ہوئی جراب پر مسح کرنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں : میں نے حضرت صاحب کو دیکھا ہے کہ جراب میں ذرا سا سوراخ ہو جاتا تو فورا اس کو تبدیل کر لیتے مگر میں اب دیکھتا ہوں کہ لوگ ایسی پھٹی ہوئی جرابوں پر جن کی ایڑی اور پنجہ دونوں نہیں ہوتے مسح کرتے چلے جاتے ہیں یہ کیوں ہوتا ہے؟ شریعت کے احکام کی واقفیت نہیں ہوتی.اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ رخصت اور جواز کے صحیح محل کو نہیں سمجھتے.منصب خلافت.انوار العلوم جلد 2 صفحہ 45) بیمار کا مسلسل اخراج ریح ناقض وضو نہیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کسی وجہ سے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نماز نہ پڑھا سکے.حضرت خلیفہ اسیج اول بھی موجود نہ تھے تو حضرت صاحب نے حکیم فضل الدین صاحب مرحوم کو نماز پڑھانے کے لئے ارشاد فرمایا.انہوں نے عرض کیا کہ حضور تو جانتے ہیں کہ مجھے
فقه المسيح 62 وضو بواسیر کا مرض ہے اور ہر وقت ریح خارج ہوتی رہتی ہے.میں نماز کس طرح سے پڑھاؤں؟ حضور نے فرمایا حکیم صاحب! آپ کی اپنی نماز باوجود اس تکلیف کے ہو جاتی ہے یا نہیں؟ انہوں نے عرض کیا ہاں حضور.فرمایا کہ پھر ہماری بھی ہو جائے گی.آپ پڑھائیے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیماری کی وجہ سے اخراج ریح جو کثرت کے ساتھ جاری رہتا ہو ، نو اقض وضو میں نہیں سمجھا جاتا.شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹونا (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 615،614) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم نے حضرت صاحب سے دریافت کیا یہ جو حدیث میں مرقوم ہے کہ اگر انسان اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے.یہ کیا مسئلہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ شرمگاہ بھی تو جسم ہی کا ایک ٹکڑا ہے.اس لئے یہ حدیث قوی نہیں معلوم ہوتی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر یہ روایت درست ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول درست نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلی ہوئی معلوم نہیں ہوتی اور حدیث میں روایتا کوئی ضعف ہوگا.واللہ اعلم کپڑے صاف نہ ہونے کا شک (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 320) حضرت منشی برکت علی صاحب شملوی روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود بہت کم نماز پڑھایا کرتے تھے.نماز اکثر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ
فقه المسيح 80 63 وضو پڑھایا کرتے تھے.ایک دفعہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے عذر کیا کہ مجھے شک ہے کہ میرے کپڑے صاف نہیں.اس لئے میں نماز نہیں پڑھاتا.نماز کوئی اور پڑھاوے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا ان کپڑوں میں کیا آپ کی نماز ہو جائے گی ؟ مولوی صاحب نے عرض کیا ہاں نما ز تو ہو جائے گی.اس پر حضور نے فرمایا کہ اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ کی نماز ان کپڑوں میں ہو جائے گی تو پھر نماز پڑھائیں.آپ کی اقتداء میں ہماری نماز بھی ہو جائے گی.(اصحاب احمد جلد 3 صفحہ 189 نیا ایڈیشن روایت حضرت منشی برکت علی صاحب شملوی) سجدہ والی جگہ پاک ہو تو نماز ہو جاتی ہے حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے سنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر سجدہ والی جگہ پاک ہو تو نماز ہو جاتی ہے.یعنی اگر چٹائی یا دری وغیرہ پاک نہ ہو یا مشتبہ ہوگئی ہوتو کوئی ایسا پاک کپڑا ڈال کر نماز ہو جاتی ہے جو صرف سجدہ والی جگہ کو ڈھانپ سکے.میں نے اس وقت اس فتویٰ کی حکمت پر غور کیا تھا اور مجھے یہ سمجھ آیا تھا کہ حضرت صاحب نے یہ استنباط بعض وقت جوتی سمیت نماز پڑھ لینے کے جواز سے فرمایا ہوگا.اصحاب احمد جلد 6 صفحہ 126 ، 127 روایت قاضی عبد الرحیم صاحب نیا ایڈیشن)
فقه المسيح ارکان نماز کی حقیقت 64 ارکان نماز ارکان نماز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ارکان نماز کی حکمتیں بیان کرتے ہوئے فرمایا : ارکان نماز در اصل روحانی نشست و برخاست....ہیں.انسان کو خدا تعالیٰ کے روبرو کھڑا ہونا پڑتا ہے اور قیام بھی آداب خدمتگاران میں سے ہے.رکوع جو دوسرا حصہ ہے بتلاتا ہے کہ گویا تیاری ہے کہ وہ تعمیل حکم کو کس قدر گردن جھکاتا ہے اور سجدہ کمال ادب اور کمال تذلل اور نیستی کو جو عبادت کا مقصود ہے ظاہر کرتا ہے.یہ آداب اور طرق ہیں جو خدا تعالیٰ نے بطور یادداشت کے مقرر کر دیئے ہیں.اور جسم کو باطنی طریق سے حصہ دینے کی خاطر ان کو مقرر کیا ہے.علاوہ ازیں باطنی طریق کے اثبات کی خاطر ایک ظاہری طریق بھی رکھ دیا ہے.اب اگر ظاہری طریق میں (جو اندرونی اور باطنی طریق کا ایک عکس ہے.) صرف نقال کی طرح نقلیں اتاری جاویں اور اسے ایک بار گراں سمجھ کر اُتار پھینکنے کی کوشش کی جاوے تو تم ہی بتاؤ اس میں کیا لذت اور حظ آ سکتا ہے؟ اور جب تک لذت اور سرور نہ آئے اُس کی حقیقت کیونکر متفق ہوگی اور یہ اس وقت ہوگا جبکہ روح بھی ہمہ نیستی اور تذلل تام ہو کر آستانہ الوہیت پر گرے اور جو زبان بولتی ہے روح بھی بولے.اُس وقت ایک سرور اور نور اور تسکین حاصل ہو جاتی ہے.میں اس کو اور کھول کر لکھنا چاہتا ہوں کہ انسان جس قدر مراتب طے کر کے انسان ہوتا ہے یعنی کہاں نطفہ بلکہ اس سے بھی پہلے نطفہ کے اجزاء یعنی مختلف قسم کی اغذیہ اور اُن کی ساخت اور بناوٹ.پھر نطفہ کے بعد مختلف مدارج کے بعد بچہ ، پھر جوان ، بوڑھا.غرض ان تمام عالموں میں جو اس پر مختلف اوقات میں گزرے ہیں.اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا معترف ہو اور وہ نقشہ ہر آن اس کے ذہن میں کھنچا
فقه المسيح 65 ارکان نماز رہے.تو بھی وہ اس قابل ہوسکتا ہے کہ ربوبیت کے مد مقابل میں اپنی عبودیت کو ڈال دے.غرض مدعا یہ ہے کہ نماز میں لذت اور سرور بھی عبودیت اور ربوبیت کے ایک تعلق سے پیدا ہوتا ہے.جب تک اپنے آپ کو عدم محض یا مشابه بالعدم قرار دے کر جور بوبیت کا ذاتی تقاضہ ہے نہ ڈال دے اُس کا فیضان اور پر تو اس پر نہیں پڑتا اور اگر ایسا ہو تو پھر اعلیٰ درجہ کی لذت حاصل ہوتی ہے جس سے بڑھ کر کوئی حظ نہیں ہے.تکبیر تحریمہ ( الحکم 12 اپریل 1899 صفحہ 5) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خواجہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے والد صاحب بیان کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کی نیت باندھتے تھے تو حضور اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کو کانوں تک پہنچاتے تھے یعنی یہ دونوں آپس میں چھو جاتے تھے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 745،744) نماز میں بسم الله جهرا یا میرا دونوں طرح جائز ہے بسم.حضرت خلیفۃ اصیح الاول نے فرمایا : بسم اللہ جہڑا اور آہستہ پڑھنا، ہر دو طرح جائز ہے.ہمارے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ( اللهم اغفره وارحمه ) جو شیلی طبیعت رکھتے تھے ، بسم اللہ جھرا پڑھا کرتے تھے.حضرت مرزا صاحب جھرا نہ پڑھتے تھے ایسا ہی میں بھی آہستہ پڑھتا ہوں.صحابہ میں ہر دو قسم کے گروہ ہیں.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کسی طرح کوئی پڑھے ، اس پر جھگڑا نہ کرو.ایسا ہی آمین کا معاملہ ہے، ہر دو طرح جائز ہے.بعض جگہ یہود اور عیسائیوں کو مسلمانوں کا
فقه المسيح 66 99 ارکان نماز آمین پڑھنا بُرا لگتا تھا تو صحابہ خوب اونچی پڑھتے تھے.مجھے ہر دوطرح مزہ آتا ہے، کوئی اونچا پڑھے یا آہستہ پڑھے.(بدر 23 مئی 1912 ء صفحہ 3) رفع یدین فرمایا :.ضروری نہیں اور جو کرے تو جائز ہے.“ ( بدر 31 اکتوبر 1907 صفحه (7) رفع یدین کے متعلق فرمایا کہ :.اس میں چنداں حرج نہیں معلوم ہوتا ، خواہ کوئی کرے یا نہ کرے.احادیث میں بھی اس کا ذکر دونوں طرح پر ہے اور وہابیوں اور سینیوں کے طریق عمل سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کیونکہ ایک تو رفع یدین کرتے ہیں اور ایک نہیں کرتے.معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وقت رفع یدین کیا اور بعد ازاں ترک کر دیا.البدر 3 را پریل 1903 صفحہ 85) اس موضوع پر مندرجہ ذیل روایت بھی ملتی ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مسئلہ دریافت کیا کہ حضور فاتحہ خلف امام اور رفع یدین اور آمین کے متعلق کیا حکم ہے.آپ نے فرمایا کہ یہ طریق حدیثوں سے ثابت ہے اور ضرور کرنا چاہئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ فاتحہ خلف امام والی بات تو حضرت صاحب سے متواتر ثابت ہے مگر رفع یدین اور آمین بالجہر والی بات کے متعلق میں نہیں سمجھتا کہ حضرت صاحب نے ایسا فرمایا ہو کیونکہ اگر حضور اسے ضروری سمجھتے تو لازم تھا کہ خود بھی اس پر ہمیشہ عمل کرتے
فقه المسيح 67 ارکان نماز مگر حضور کا دوامی عمل ثابت نہیں بلکہ حضور کا عام عمل بھی اس کے خلاف تھا.میں سمجھتا ہوں کہ جب حافظ صاحب نے حضور سے سوال کیا تو چونکہ سوال میں کئی باتیں تھیں.حضور نے جواب میں صرف پہلی بات کو مد نظر رکھ کر جواب دے دیا یعنی حضور کے جواب میں صرف فاتحہ خلف امام مقصود ہے.واللہ اعلم.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 564) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ اوائل میں میں سخت غیر مقلد تھا اور رفع یدین اور آمین بالجہر کا بہت پابند تھا اور حضرت صاحب کی ملاقات کے بعد بھی میں نے یہ طریق مدت تک جاری رکھا.عرصہ کے بعد ایک دفعہ جب میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی تو نماز کے بعد آپ نے مجھ سے مسکرا کر فرمایا میاں عبداللہ اب تو اس سنت پر بہت عمل ہو چکا ہے اور اشارہ رفع یدین کی طرف تھا.میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے میں نے رفع یدین کرنا ترک کر دیا بلکہ آمین بالجہر کہنا بھی چھوڑ دیا اور میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب کو کبھی رفع یدین کرتے یا آمین بالجہر کہتے نہیں سنا اور نہ کبھی بسم اللہ بالجهر پڑھتے سُنا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق عمل وہی تھا جو میاں عبد اللہ صاحب نے بیان کیا لیکن ہم احمدیوں میں حضرت صاحب کے زمانہ میں بھی اور آپ کے بعد بھی یہ طریق عمل رہا ہے کہ ان باتوں میں کوئی ایک دوسرے پر گرفت نہیں کرتا بعض آمین بالجہر کہتے ہیں بعض نہیں کہتے بعض رفع یدین کرتے ہیں اکثر نہیں کرتے ، بعض بسم الله بالجهر پڑھتے ہیں اکثر نہیں پڑھتے اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ دراصل یہ تمام طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں مگر جس طریق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت کے ساتھ عمل کیا وہ وہی طریق ہے جس پر
فقه المسيح حضرت صاحب کا عمل تھا.فاتحہ خلف الامام 68 80 ارکان نماز (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 148،147) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑی سختی کے ساتھ اس بات پر زور دیتے تھے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ پڑھنی ضروری ہے.مگر ساتھ ہی یہ بھی فرماتے تھے کہ با وجو د سورۃ فاتحہ کو ضروری سمجھنے کے میں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی.کیونکہ بہت سے بزرگ اور اولیاء اللہ ایسے گذرے ہیں جو سورۃ فاتحہ کی تلاوت ضروری نہیں سمجھتے تھے اور میں ان کی نمازوں کو ضائع شدہ نہیں سمجھ سکتا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حنفیوں کا عقیدہ ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو خاموش کھڑے ہو کر اس کی تلاوت کوسننا چاہئے اور خود کچھ نہیں پڑھنا چاہئے.اور اہلِ حدیث کا یہ عقیدہ ہے کہ مقتدی کے لئے امام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے اور حضرت صاحب اس مسئلہ میں اہلِ حدیث کے مؤید تھے مگر باوجود اس عقیدہ کے آپ غالی اہلِ حدیث کی طرح یہ نہیں فرماتے تھے کہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی.) سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 335،334) حضرت منشی رستم علی صاحب کے ایک سوال کے جواب میں حضرت اقدس علیہ السلام نے خط میں انہیں تحریر فرمایا کہ نماز مقتدی بغیر سورۃ فاتحہ بھی ہو جاتی ہے مگر افضلیت پڑھنے میں ہے.اگر کوئی امام جلد خواں ہو تو ایک آیت یا دو آیت جس قدر میسر آوے آہستہ پڑھ لیں جو مانع سماعت قراءت امام نہ
فقه المسيح 69 ارکان نماز ہوا اور اگر میسر نہ آسکے تو مجبوری ہے نماز ہو جائے گی مگر افضلیت کے درجہ پر نہیں ہوگی.(مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 471) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضور کی خدمت میں سورۃ الحمد خلف امام پڑھنے کے متعلق سوال کیا.فرمایا کہ ” قراءت سورۃ الحمد خلف امام بہتر ہے.“ میں نے عرض کی کہ اگر نہ پڑھا جائے تو نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ نماز تو ہو جاتی ہے مگر افضل تو یہی ہے کہ الحمد خلف امام پڑھا جاوے.یہ بھی فرمایا کہ اگر بدوں سورۃ الحمد خلف امام نماز نہ ہوتی ہو تو حنفی مذہب میں بڑے بڑے صالح لوگ گزرے ہیں وہ کس طرح صالح ہو جاتے.نماز دونوں طرح سے ہو جاتی ہے فرق صرف افضلیت کا ہے.ایسا ہی آمین بالستر پر آمین بالجبر کو تر جیح دی جاتی تھی.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 153 ) مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے حضرت خلیفہ امسیح الثانی فرماتے ہیں:.سورۃ فاتحہ ہر نماز میں اور ہر رکعت میں پڑھنی ضروری ہے.سوائے اس کے کہ مقتدیوں کے نماز میں شامل ہونے سے پہلے امام رکوع میں جاچکا ہو.اس صورت میں تکبیر کہہ کر بغیر کچھ پڑھے رکوع میں چلے جانا چاہئے.امام کی قراءت ہی اس کی قراءت سمجھ لی جائے گی.سورہ فاتحہ کی نماز میں پڑھنے کی تاکید مختلف احادیث میں آتی ہے.صحیح مسلم میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ نے روایت کی ہے کہ قَالَ مَنْ صَلَّى صَلوةٌ لَمْ يَقْرَءُ فِيْهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ (مسلم کتاب الصلوة باب وجوب قراءة الفاتحة) یعنی جس نے نماز ادا کی مگر اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے اور بخاری، مسلم
فقه المسيح 70 ارکان نماز میں عبادہ بن الصامت کی روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لَا صَلوةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَءُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ (بخارى كتاب الصلوة باب وجوب قراءة الامام والماموم في الصلواة كلها) یعنی جس نے فاتحہ الکتاب نہ پڑھی اس کی نماز ہی نہیں ہوئی......ایک جگہ حضرت عبادہ امام الصلوۃ تھے.ایک دفعہ وہ دیر سے پہنچے اور ابو نعیم نے نماز شروع کرادی.نماز شروع ہو چکی تھی کہ عبادہ بھی آگئے ، میں بھی ان کے ساتھ تھا.ہم صفوں میں کھڑے ہو گئے.ابو نعیم نے جب سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع کی تو میں نے سنا کہ عبادہ بھی آہستہ آہستہ سورۃ فاتحہ پڑھتے رہے.جب نماز ختم ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ جبکہ ابونعیم بالجھر نماز پڑھا رہے تھے آپ بھی ساتھ ساتھ سورہ فاتحہ پڑھتے جارہے تھے یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ہمیں نماز پڑھائی اور سلام پھیر کر جب بیٹھے تو پوچھا کہ جب میں بلند آواز سے نماز میں تلاوت کرتا ہوں تو کیا تم بھی منہ میں پڑھتے رہتے ہو.بعض نے کہا ہاں، بعض نے کہا نہیں.اس پر آپ نے فرمایا لَا تَقْرَءُ وُا بِشَيْءٍ مِنَ الْقُرْآنِ إِذَا جَهَرْتُ إِلَّا بِأَمِّ الْقُرْآنِ (ابوداؤد كتاب الصلوة باب من ترك القراءة في صلوته ) جب میں بلند آواز سے قرآن کریم نماز میں پڑھوں تو سوائے سورۃ فاتحہ کے اور کسی سورۃ کی تلاوت تم ساتھ ساتھ نہ کیا کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ سورۃ فاتحہ امام کے پیچھے بھی پڑھنی چاہئے.خواہ وہ جہر انما ز پڑھ رہا ہو.سوائے اس کے کہ مقتدی رکوع میں آکر ملے.اس صورت میں وہ تکبیر کہہ کر رکوع میں شامل ہو جائے اور امام کی قراءت اس کی قراءت سمجھی جائے گی.یہ ایک استثناء ہے.استثناء سے قانون نہیں ٹوٹتا.اسی طرح یہ بھی استثناء ہے کہ کسی شخص کو
فقه المسيح 71 ارکان نماز سورۃ فاتحہ نہ آتی ہو مثلا نو مسلم ہے جس نے ابھی نماز نہیں سیکھی یا بچہ ہو جسے ابھی قرآن نہیں آتا تو اس کی نماز فقط تسبیح و تکبیر سے ہو جائے گی.خواہ وہ قرآن کریم کا کوئی حصہ بھی نہ پڑھے.( تفسیر کبیر جلد اول - تفسیر سورۃ فاتحه صفحه 7 تا9) سورۃ فاتحہ بھی نہ پڑھے.حضرت منشی برکت علی صاحب شملوی روایت کرتے ہیں :.ایک روز موسم گرما میں حضور چھت پر شاہ نشین پر رونق افروز تھے.اس بات پر گفتگو شروع ہوگئی کہ امام کے پیچھے الحمد جائز ہے یا نہیں.حضرت مولوی نورالدین صاحب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب مرحوم بھی مجلس میں موجود تھے.مخالف و موافق آراء کا اظہار کیا جارہا تھا.کوئی کہہ رہا تھا کہ ہر حالت میں الحمد کا پڑھنا ضروری ہے اور اگر امام اونچی آواز سے پڑھ رہا ہو تو مقتدی ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ پڑھتا رہے یا وقفہ میں پڑھ لے.اور کوئی کہتا تھا کہ جب امام اونچی آواز سے پڑھ رہا ہو تو خاموش رہنا چاہئیے.جہاں تک مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر اس طرح کر لیا جائے کہ جب امام بلند آواز سے الحمد پڑھے تو مقتدی خاموشی سے سنتا ر ہے اور جب ظہر اور عصر کی نمازوں میں خاموشی سے پڑھے تو مقتدی بھی اپنے طور پر آہستہ پڑھ لے.اس طرح دونوں باتوں پر عمل ہو جائے گا.( اصحاب احمد جلد 3 صفحہ 190.نیا ایڈیشن روایت حضرت منشی برکت علی صاحب شملوی) حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی روایت کرتے ہیں :.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم ایک دفعہ فرماتے تھے کہ ایک شخص سیالکوٹ یا اس کے گردونواح کا رہنے والا تھا اور ہر روز ہم اس کو امام کے پیچھے نماز میں الحمد پڑھنے کو کہتے تھے اور ہم اپنی دانست میں تمام دلیلیں اس بارہ میں دے چکے مگر اس نے نہیں مانا اور الحمد للہ امام کے پیچھے نہ پڑھی اور یوں نماز ہمارے ساتھ پڑھ لیتا ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں قادیان شریف آگیا ایک روز اسی قسم کی باتیں
فقه المسيح 72 ارکان نماز ہونے لگیں.صرف حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ نماز میں الحمد شریف امام کے پیچھے پڑھنی چاہئے اور کوئی دلیل قرآن شریف یا حدیث شریف سے بیان نہیں کی.وہ شخص اتنی بات سُن کر امام کے پیچھے نماز میں الحمد شریف پڑھنے لگا اور کوئی حجت نہیں کی.ایک شخص نے سوال کیا کہ حضرت صلی اللہ علیک و علی محمد جو شخص نماز میں الحمد امام کے پیچھے نہ پڑھے اس کی نماز ہوتی ہے یا نہیں.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ سوال نہیں کرنا چاہئے کہ نماز ہوتی ہے یا نہیں.یہ سوال کرنا اور دریافت کرنا چاہئے کہ نماز میں الحمد امام کے پیچھے پڑھنا چاہئے کہ نہیں.ہم کہتے ہیں کہ ضرور پڑھنی چاہئے ہونا نہ ہونا تو خدا تعالیٰ کو معلوم ہے حنفی نہیں پڑھتے اور ہزاروں اولیاء حنفی طریق کے پابند تھے اور خلف امام الحمد نہیں پڑھتے تھے.جب ان کی نماز نہ ہوتی تو وہ اولیاء اللہ کیسے ہو گئے.چونکہ ہمیں امام اعظم سے ایک طرح کی مناسبت ہے اور ہمیں امام اعظم کا بہت ادب ہے ہم یہ فتویٰ نہیں دے سکتے کہ نماز نہیں ہوتی.اس زمانہ میں تمام حدیثیں مدون و مرتب نہیں ہوئی تھیں اور یہ بھید جو کہ اب کھلا ہے نہیں کھلا تھا.اس واسطہ وہ معذور تھے اور اب یہ مسئلہ حل ہو گیا.اب اگر نہیں پڑھے گا تو بے شک اس کی نماز درجہ قبولیت کو نہیں پہنچے گی.ہم یہی بار بار اس سوال کے جواب میں کہیں گے کہ الحمد نماز میں خلف امام پڑھنی چاہئے.ایک روز میں نے دریافت کیا کہ حضرت صلی الله عليك و على محمد الحمدكس موقع پر پڑھنی چاہئے.فرمایا جہاں موقع پڑھنے کا لگ جاوے.میں نے عرض کیا کہ امام کے سکوت میں؟ فرمایا :.جہاں موقع ہو پڑھنا ضرور چاہئے.(تذکرۃ المہدی حصہ اول صفحہ 180،179) فاتحہ خلف الامام کے بارے میں ایک موقع پر آپ نے فرمایا دو ضروری ہے“ ( بدر 31 اکتوبر 1907 ، صفحه (7)
فقه المسيح 73 ارکان نماز رکوع میں ملنے والے کی رکعت ہو جاتی ہے اس بات کا ذکر آیا کہ جو شخص جماعت کے اندر رکوع میں آکر شامل ہو، اس کی رکعت ہوتی ہے یا نہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دوسرے مولویوں کی رائے دریافت کی.مختلف اسلامی فرقوں کے مذاہب اس امر کے متعلق بیان کئے گئے.آخر حضرت صاحب نے فیصلہ دیا اور فرمایا: ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ لَا صَلوةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ آدمی امام کے پیچھے ہو یا منفرد ہو، ہر حالت میں اس کو چاہئے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے.مگر ٹھہر ٹھہر کر پڑھے تا کہ مقتدی سن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے.یا ہر آیت کے بعد امام اتنا ٹھہر جائے کہ مقتدی بھی اس آیت کو پڑھ لے.بہر حال مقتدی کو یہ موقعہ دینا چاہئے کہ وہ سن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے.سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے کیونکہ وہ ام الکتاب ہے.لیکن جو شخص باوجودا اپنی کوشش کے جو وہ نماز میں ملنے کے لئے کرتا ہے.آخر رکوع میں آکر ملا ہے اور اس سے پہلے نہیں مل سکا تو اس کی رکعت ہوگئی.اگر چہ اُس نے سورۃ فاتحہ اس میں نہیں پڑھی.کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس نے رکوع کو پالیا اس کی رکعت ہوگئی.مسائل دوطبقات کے ہوتے ہیں.ایک جگہ تو حضرت رسول کریم نے فرمایا اور تاکید کی کہ نماز میں سورۃ فاتحہ ضرور پڑھیں.وہ ام الکتاب ہے اور اصل نماز وہی ہے.مگر جو شخص باو جودا اپنی کوشش کے اور اپنی طرف سے جلدی کرنے کے رکوع میں ہی آکر ملا ہے تو چونکہ دین کی بنا آسانی اور نرمی پر ہے.اس واسطے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی رکعت ہوگئی.وہ سورۃ فاتحہ کا ذکر نہیں ہے بلکہ دیر میں پہنچنے کے سبب رخصت پر عمل کرتا ہے.میرا دل خدا نے ایسا بنایا ہے کہ ناجائز کام میں مجھے قبض ہو جاتی ہے اور میرا جی نہیں چاہتا کہ میں اُسے کروں اور یہ صاف ہے کہ جب نماز میں ایک آدمی نے تین حصوں کو پورا پا لیا اور ایک حصہ میں بسبب
فقه المسيح 74 ارکان نماز کسی مجبوری کے دیر میں مل سکا ہے تو کیا حرج ہے.انسان کو چاہئے کہ رخصت پر عمل کرے ہاں جو شخص عمد استی کرتا ہے اور جماعت میں شامل ہونے میں دیر کرتا ہے تو اُس کی نما ز ہی فاسد ہے.تشہد کے وقت انگلی اُٹھانا ( الحام 24 فروری 1901 صفحہ 9) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خواجہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھے میرے والد صاحب نے بتایا کہ جب حضور علیہ السلام نماز کے وقت تشہد میں بیٹھتے تو تشہد پڑھنے کی ابتدا ہی میں دائیں ہاتھ کی انگلیوں کا حلقہ بنا لیتے تھے اور صرف شہادت والی انگلی کھلی رکھتے تھے.جو شہادت کے موقع پر اٹھاتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ خواجہ عبدالرحمن صاحب کے والد چونکہ اہل حدیث میں سے آئے تھے.اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں کو غور کی نظر سے دیکھتے تھے.مگر مجھ سے مکرم ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب نے بیان کیا ہے کہ ابتداء سے ہی ہاتھ کی انگلیوں کے بند کر لینے کا طریق انہیں یاد نہیں ہے.ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کبھی ایسا ہوا ہو.واللهُ أَعْلَم.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 568،567) حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قعدہ میں بیٹھنے اور شہادت کی انگلی اٹھانے کے طریق کو یوں بیان کرتے ہیں : ( حضرت مسیح موعود ) دونوں سجدوں کے بعد اس طرح بیٹھ جاتے ہیں جیسا کہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھا کرتے ہیں.ہاں اس قدر فرق ہوتا ہے کہ پہلے سجدہ کے بعد جب بیٹھتے ہیں تو دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر اس طور پر رکھتے ہیں کہ دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں اور دونوں کی انگلیاں قبلہ کی طرف سیدھی ہوتی ہیں اور دوسری رکعت کے دونوں سجدوں کے بعد جب بیٹھتے ہیں تو اپنے بائیں ہاتھ کوتو ویسا ہی رکھتے ہیں اور دائیں ہاتھ کی تین انگلیوں کو ہتھیلی
فقه المسيح 75 ارکان نماز سے ملا لیتے ہیں اور درمیانی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ باندھ لیتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان کی انگلی کو سیدھا رکھتے ہیں اور پھر التحیات پڑھتے ہیں اور وہ یہ ہے التَّحِيَّاتُ لِلَّـهِ وَالصَّلَواتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِيْنَ.اَشْهَدُ أَن لَّا إِلهَ إِلَّا اللهُ (اور یہ کہتے ہوئے اس انگلی کو اُٹھا کر اشارہ کرتے ہیں اور پھر ویسی ہی رکھ دیتے ہیں جیسی کہ پہلے رکھی ہوئی تھی.) پھر وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ پڑھتے ہیں.رسالہ تعلیم الاسلام مطبوعہ قادیان ماہ جولائی 1906ء جلد اول نمبر اول صفحہ 178 179) تشہد میں انگلی اُٹھانے کی حکمت ایک شخص نے سوال کیا کہ التحیات کے وقت نماز میں انگشت سبابہ ( شہادت کی انگلی ) کیوں اُٹھاتے ہیں؟ فرمایا: لوگ زمانہ جاہلیت میں گالیوں کے واسطے یہ اُنگلی اُٹھایا کرتے تھے اس لئے اس کو ستا بہ کہتے ہیں یعنی گالی دینے والی.خدا تعالیٰ نے عرب کی اصلاح فرمائی اور وہ عادت ہٹا کر فرمایا کہ خدا کو واحد لا شریک کہتے وقت یہ اُنگلی اُٹھایا کرو تا کہ اس سے وہ الزام اُٹھ جاوے.ایسے ہی عرب کے لوگ پانچ وقت شراب پیتے تھے.اس کے عوض میں پانچ وقت نما ز رکھی.رکوع و سجود میں قرآنی دعا کرنا البدر 20 مارچ 1903 صفحہ 66) مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی نے سوال کیا کہ رکوع و سجود میں قرآنی آیت یا دعا کا پڑھنا کیسا ہے؟ فرمایا : سجدہ اور رکوع فروتنی کا وقت ہے اور خدا تعالیٰ کا کلام عظمت چاہتا ہے.ماسوا اس کے حدیثوں سے کہیں ثابت نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رکوع یا سجود میں کوئی قرآنی دعا پڑھی ہو.الحکم 24 را پریل 1903 ، صفحہ 11)
فقه المسيح 76 ارکان نماز رکوع و سجود میں تسبیحات کے بعد اپنی زبان میں دعا کرنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور سیدنا مسیح موعود نے فرمایا کہ ’ دعا نماز میں بہت کرنی چاہیے، نیز فرمایا ”اپنی زبان میں دعا کرنی چاہیے لیکن جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اس کو انہیں الفاظ میں پڑھنا چاہئے مثلاً رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلیٰ وغیرہ پڑھ کر اور اس کے بعد بیشک اپنی زبان میں دعا کی جائے نیز فرمایا کہ رکوع و سجدہ کی حالت میں قرآنی دعا نہ کی جائے کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے اور اعلیٰ شان رکھتا ہے اور رکوع اور سجدہ تذلل کی حالت ہے.اس لئے کلام الہی کا احترام کرنا چاہئے.“ سینے پر ہاتھ باندھنا (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 166 ، 167) محمد اسماعیل صاحب سرساوی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں کہ میں جو سینہ پر ہاتھ باندھتا تھا ایک دن مجھ سے پوچھا کہ حضرت صاحب یعنی مسیح موعود علیہ السلام کہاں ہاتھ باندھتے تھے؟ میں نے کہا سینہ پر.پس اسی روز سے میاں اسمعیل نے بھی سینہ پر بلا خوف ہاتھ باندھنے شروع کئے.“ (تذکرة المهدی صفحہ 296) نماز میں ہاتھ ناف سے اوپر باندھنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کے پاس کسی کا خط آیا کہ کیا نماز میں ناف سے او پر ہاتھ باندھنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث بھی ملتی ہے؟ حضرت مولوی صاحب نے یہ خط
فقه المسيح 77 ارکان نماز حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا اور عرض کیا کہ اس بارہ میں جو حدیثیں ملتی ہیں وہ جرح سے خالی نہیں.حضرت صاحب نے فرمایا مولوی صاحب آپ تلاش کریں ضرور مل جائے گی کیونکہ باوجود اس کے کہ شروع عمر میں بھی ہمارے ارد گر دسب حنفی تھے مجھے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا کبھی پسند نہیں ہوا.بلکہ ہمیشہ طبیعت کا میلان ناف سے او پر ہاتھ باندھنے کی طرف رہا ہے اور ہم نے بارہا تجربہ کیا ہے کہ جس بات کی طرف ہماری طبیعت کا میلان ہو وہ تلاش کرنے سے ضرور حدیث میں نکل آتی ہے.خواہ ہم کو پہلے اُس کا علم نہ ہو.پس آپ تلاش کریں ضرور مل جائے گی.مولوی سرور شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس پر حضرت مولوی صاحب گئے اور کوئی آدھا گھنٹہ بھی نہ گذرا تھا کہ خوش خوش ایک کتاب ہاتھ میں لئے آئے اور حضرت صاحب کو اطلاع دی کہ حضور حدیث مل گئی ہے اور حدیث بھی ایسی کہ جو علی شرط الشیخین ہے جس پر کوئی جرح نہیں.پھر کہا کہ یہ حضور ہی کے ارشاد کی برکت ہے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 92) حضرت حاجی غلام احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ نماز میں ہاتھ کس جگہ باندھیں.آپ نے فرمایا کہ ظاہری آداب بھی ضروری ہیں مگر زیادہ توجہ اللہ تعالی کی طرف نماز میں رکھنی چاہئے.(اصحاب احمد جلد 10 صفحہ 246 نیا ایڈیشن) حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری روایت کرتے ہیں : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ میں نے نماز جمعہ سے پہلے دو رکعت سنت پڑھتے ہوئے دیکھا.آپ کا رکوع، قیام ، قومہ، جلسہ درمیانہ تھا.ہر ایک رکن میں اطمینان اور تسلی ہوتی تھی.پھر میں نے ہاتھ باندھنے کی کیفیت دیکھی کہ سینے پر ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر تھا اور دائیں ہاتھ کے انگو ٹھے اور چھنگلی سے بازو پکڑا ہوا تھا اور تینوں درمیانی انگلیاں باز و پر تھیں اور کہنیوں کے جوڑ سے ورلی طرف ملی ہوئی تھیں.( اصحاب احمد جلد 10 صفحہ 257 نیا ایڈیشن)
فقه المسيح امام کہاں کھڑا ہو؟ 78 نماز با جماعت نماز با جماعت ذکر ہوا کہ چکڑالوی کا عقیدہ ہے کہ نماز میں امام آگے نہ کھڑا ہو بلکہ صف کے اندر ہو کر کھڑا ہو.فرمایا: امام کا لفظ خود ظاہر کرتا ہے کہ وہ آگے کھڑا ہو.یہ عربی لفظ ہے اور اس کے معنے ہیں وہ شخص جو دوسرے کے آگے کھڑا ہو.معلوم ہوتا ہے کہ چکڑالوی زبان عربی سے بالکل جاہل ہے.امام مقتدیوں کا خیال رکھے ( بدر 28 مارچ 1907 صفحہ 9) سوال پیش ہوا کہ ایک پیش امام ماہِ رمضان میں مغرب کے وقت لمبی سورتیں شروع کر دیتا ہے.مقتدی تنگ آتے ہیں کیونکہ روزہ کھول کر کھانا کھانے کا وقت ہوتا ہے.دن بھر کی بھوک سے ضعف لاحق حال ہوتا ہے.بعض ضعیف ہوتے ہیں.اس طرح پیش امام اور مقتدیوں میں اختلاف ہو گیا ہے.حضرت نے فرمایا: پیش امام کی اس معاملہ میں غلطی ہے.اس کو چاہئے کہ مقتدیوں کی حالت کا لحاظ رکھے اور نماز کو ایسی صورت میں بہت لمبا نہ کرے.“ ( بدر 31 اکتوبر 1907 صفحه (7) حضرت مفتی محمد صادق صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ :.کسی شخص نے ذکر کیا کہ فلاں دوست نماز پڑھانے کے وقت بہت لمبی سورتیں پڑھتے ہیں.فرمایا: امام کو چاہئے کہ نماز میں ضعفاء کی رعایت رکھے.“ نوٹ :.مرحوم مولوی عبداللہ صاحب سنوری کی وفات سے تھوڑا عرصہ قبل اتفاقاً ایک
فقه المسيح 79 نماز با جماعت دفعه مسجد مبارک میں عاجز راقم کو امامت نماز کا موقعہ ہوا.جب نماز ختم ہوئی تو مولوی عبداللہ صاحب ہنستے ہوئے آگے بڑھے اور فرمانے لگے.حضرت صاحب ( مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) بھی نماز ایسی ہی مختصر پڑھاتے تھے جیسی آپ نے پڑھائی.یہ ذکر نماز میں امامت کا تھا.ورنہ جو نمازیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بطور خود علیحدگی میں پڑھتے تھے انہیں بہت لمبا کرتے تھے.چونکہ حضرت مولوی عبداللہ صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی سے بہت قبل وقت سے حضرت کی خدمت میں آنے والے تھے اور اُن ایام میں کثرت سے قادیان میں رہتے تھے.انہیں حضرت صاحب کی اقتداء میں بہت نمازیں پڑھنے کا موقعہ ملتا رہا.ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صفحہ 131 ،132) بیماری کے باوجود حکیم فضل دین صاحب کو امام بنانا حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیروی کو آخری عمر میں بواسیر کا مرض لاحق ہو گیا تھا اور وضو قائم نہیں رہتا تھا.اس لئے وہ ایک دفعہ وضو کر کے نماز میں کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور پھر درمیان میں باوجود ریح کے بار بار خارج ہونے کے نماز پڑھتے رہتے تھے اور ہر نماز کے لئے تازہ وضو کر لیتے تھے.ان کی اس بیماری کے ایام میں ایک دفعہ حضرت صاحب نے ان کو فر مایا کہ حکیم صاحب آپ ہی نماز پڑھائیں.انہوں نے عرض کی.حضور کو معلوم ہے کہ میرا تو وضو نہیں ٹھہرتا.حضور نے تقسیم کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کی نماز تو ہو جاتی ہے یا نہیں ہوتی.انہوں نے عرض کیا کہ نماز تو ہو جاتی ہے.مسئلہ ایسا ہی ہے.فرمایا آپ کی نماز ہو جاتی ہے تو ہماری بھی ہو جائے گی.آپ پڑھا دیں.“ غتال کے پیچھے نماز ؟ ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 23 ،24) ایک شخص نے حضرت سے سوال کیا کہ غسال کونماز کے واسطے پیش امام بنانا جائز ہے؟
فقه المسيح فرمایا: 80 60 نماز با جماعت یہ سوال بے معنے ہے.غسال ہونا کوئی گناہ نہیں.امامت کے لائق وہ شخص ہے جو متقی ہو، نیکوکار، عالم باعمل ہو.اگر ایسا ہے تو غسال ہونا کوئی عیب نہیں جو امامت سے روک سکے.امامت کو بطور پیشہ اختیار کرنا جائز نہیں ( بدر 23 مئی 1907 صفحہ 10) وہ جو امامت کا منصب رکھتے ہیں.......اگر اُن کا اقتدا کیا جائے تو نماز کے ادا ہو جانے میں مجھے شبہ ہے کیونکہ علانیہ طور پر ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے امامت کا ایک پیشہ اختیار کر رکھا ہے اور وہ پانچ وقت جا کر نما ز نہیں پڑھتے بلکہ ایک دوکان ہے کہ ان وقتوں میں جا کر کھو لتے ہیں اور اسی دوکان پر اُن کا اور اُن کے عیال کا گزارہ ہے چنانچہ اس پیشہ کے عزل و نصب کی حالت میں مقدمات تک نوبت پہنچتی ہے اور مولوی صاحبان امامت کی ڈگری کرانے کے لئے اپیل در اپیل کرتے پھرتے ہیں.پس یہ امامت نہیں یہ تو حرام خوری کا ایک مکروہ فتح اسلام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 26 حاشیہ ) طریقہ ہے.اجرت پر امام الصلوۃ مقرر کرنا ایک مخلص اور معزز خادم نے عرض کی کہ حضور میرے والد صاحب نے ایک مسجد بنائی تھی.وہاں جو امام ہے اس کو کچھ معاوضہ وہ دیتے تھے ، اس غرض سے کہ مسجد آبادر ہے.وہ اس سلسلہ میں داخل نہیں میں نے اس کا معاوضہ بدستور رکھا ہے اب کیا کیا جاوے؟ حضور علیہ السلام نے فرمایا: خواه احمدی ہو یا غیر احمدی جو روپیہ کے لئے نماز پڑھتا ہے اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے.نماز تو خدا کے لئے ہے اگر وہ چلا جائے گا تو خدا تعالیٰ ایسے آدمی بھیج دے گا جو محض خدا کے لئے نماز پڑھیں اور مسجد کو آباد کر یں.ایسا امام جو محض لالچ کی وجہ سے نماز
فقه المسيح 81 نماز با جماعت پڑھتا ہے میرے نزدیک خواہ وہ کوئی ہو احمدی ہو یا غیر احمدی، اس کے پیچھے نماز نہیں ہوسکتی.امام اتقی ہونا چاہئے.بعض لوگ رمضان میں ایک حافظ مقرر کر لیتے ہیں اور اس کی تنخواہ بھی ٹھہرا لیتے ہیں یہ درست نہیں.ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی محض نیک نیتی اور خدا ترسی سے اس کی خدمت کر دے تو یہ جائز ہے.(الحکم 10 نومبر 1905 صفحہ 6) پیشہ ور نماز پڑھانے والے کے پیچھے نماز درست نہیں میرے نزدیک جو لوگ پیشہ کے طور پر نماز پڑھاتے ہیں ان کے پیچھے نماز درست نہیں وہ اپنی جمعرات کی روٹیوں یا تنخواہ کے خیال سے نماز پڑھاتے ہیں، اگر نہ ملے تو چھوڑ دیں.معاش اگر نیک نیتی کے ساتھ حاصل کی جاوے تو عبادت ہی ہے.جب آدمی کسی کام کے ساتھ موافقت کرے اور پکا راہ اختیار کرلے تو تکلیف نہیں ہوتی وہ سہل ہو جاتا ہے.البدر 9 جنوری 1903 ، صفحہ 85) دوسری جماعت حضرت مفتی محمد صادق صاحب روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا: مسجد میں جب ایک جماعت ہو چکے، تو حسب ضرورت دوسری جماعت بھی جائز ہے.“ ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 83) بعض صورتوں میں دو جماعتوں کی ممانعت حضرت مسیح موعود کے ملفوظات کے ڈائری نو لیس لکھتے ہیں : سفر گورداسپور میں نماز کے متعلق ذیل کے مسائل میری موجودگی میں حل ہوئے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت اقدس ابھی وضو فرما رہے تھے اور مولانا محمد احسن صاحب بوجہ علالت طبع نماز کے لئے کھڑے ہو گئے.اُن کا خیال تھا کہ میں معذور ہوں.الگ پڑھ لوں،
فقه المسيح 82 =2 نماز با جماعت چند ایک احباب ان کے پیچھے مقتدی بن گئے اور جماعت ہوگئی.حضرت اقدس کو علم ہوا کہ ایک دفعہ جماعت ہو چکی ہے اور اب دوسری ہونے والی ہے تو آپ نے فرمایا: ایک مقام پر دو جماعتیں ہرگز نہ ہونی چاہئیں.“ 66 (البدریکم اگست 1904ء صفحہ 4) حضرت مصلح موعودؓ کے مندرجہ ذیل ارشاد سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایک جگہ پر دو نمازیں پڑھنے کی ممانعت کی کیا وجہ ہے؟ حضرت مصلح موعودؓ سے ایک صاحب نے ایک دوسرے دوست کے حوالہ سے عرض کی که حضور ! یہ کہتے تھے کہ ایک جماعت کے بعد دوسری نہیں ہونی چاہئے.فرمایا : یہ تو منع نہیں نا پسندیدہ ہے وہ بھی مسجد میں.کیونکہ اس طرح اگر الگ الگ نمازیں ہونے لگیں تو چند آدمی آئیں اور نماز پڑھیں اور چل دیئے.پھر اور چند آئے اور جماعت کو کر کے چل دیئے.تو اس طرح جماعت کی اصل غرض جو ہے وہ مفقود ہو جاتی ہے اور حضرت مسیح موعود نے اس کو نا پسند فرمایا ہے.- الحکم 28 مارچ 1920 ء صفحہ 3 ) بغیر وجہ کے جماعت الگ الگ ٹکڑوں میں نہ ہو ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضورِ اقدس اپنی کوٹھڑی میں تھے اور ساتھ کی کوٹھڑی میں نماز ہونے لگی.آدمی تھوڑے تھے.ایک ہی کو ٹھڑی میں جماعت ہو سکتی تھی.بعض احباب نے خیال کیا کہ شاید حضرت اقدس اپنی کوٹھڑی میں ہی نماز ادا کر لیں گے، کیونکہ امام کی آواز وہاں پہنچتی ہے.اس پر آپ نے فرمایا جماعت کے ٹکڑے الگ الگ نہ ہونے چاہئیں بلکہ اکٹھی پڑھنی چاہئے.ہم بھی وہاں ہی پڑھیں گے یہ اس صورت میں ہونا چاہئے جبکہ جگہ کی قلت ہو.“ 66 (البدر یکم اگست 1904 صفحہ 4)
فقه المسيح 83 نماز با جماعت امام الصلوۃ کے لئے ہدایت کسی شخص نے ذکر کیا کہ فلاں دوست نماز پڑھانے کے وقت بہت لمبی سورتیں پڑھتے ہیں.فرمایا: امام کو چاہئے کہ نماز میں ضعفاء کی رعایت رکھے.“ امام بطور وکیل کے ہوتا ہے کسی کے سوال پر فر مایا: ( بدر - 20 را پریل 1905 صفحه (2) پر ہیز گار کے پیچھے نماز پڑھنے سے آدمی بخشتا جاتا ہے نماز تو تمام پر کتوں کی گئی ہے.نماز میں دعا قبول ہوتی ہے.امام بطور وکیل کے ہوتا ہے اُس کا اپنا دل سیاہ ہو تو پھر وہ دوسروں کو کیا برکت دے گا.(الحام 31 جولائی 1901 ، صفحہ 4) مکفرین و مکذبین کے پیچھے نماز پڑھنا حرام ہے تکفیر کرنے والے اور تکذیب کی راہ اختیار کرنے والے ہلاک شدہ قوم ہے اس لئے وہ اس لائق نہیں ہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے کیا زندہ مردہ کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے؟ پس یا درکھو کہ جیسا خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی ملکفر اور مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو.اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ اِمَامُكُمْ مِنْكُم - ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 64 حاشیہ)
فقه المسيح 84 نماز با جماعت غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حافظ محمد ابراہیم صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ غالبا 1904ء کا واقعہ ہے کہ ایک شخص نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے مسجد مبارک میں سوال کیا کہ حضور اگر غیر احمدی با جماعت نماز پڑھ رہے ہوں تو ہم اس وقت نماز کیسے پڑھیں؟ آپ نے فرمایا.تم اپنی الگ پڑھ لو.اس نے کہا کہ حضور جب جماعت ہو رہی ہو تو الگ نماز پڑھنی جائز نہیں.فرمایا : کہ اگر ان کی نماز با جماعت عند اللہ کوئی چیز ہوتی تو میں اپنی جماعت کو الگ پڑھنے کا حکم ہی کیوں دیتا.ان کی نماز اور جماعت جناب الہی کے حضور کچھ حقیقت نہیں رکھتی.اس لئے تم اپنی نمازا الگ پڑھو اور مقررہ اوقات میں جب چا ہوا دا کر سکتے ہو.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس وقت کسی مسجد میں دوسروں کی جماعت ہورہی ہو ، ضرور اسی وقت نماز پڑھی جائے کیونکہ اس سے بعض اوقات فتنہ کا احتمال ہوتا ہے بلکہ غرض یہ ہے کہ ایک احمدی بہر حال الگ نماز پڑھے اور دوسروں کے پیچھے نہ پڑھے.سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 527،526) غیروں کے پیچھے نماز جائز نہ ہونے کی وجہ کسی نے سوال کیا کہ جو لوگ آپ کے مرید نہیں ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے آپ نے اپنے مریدوں کو کیوں منع فرمایا ہے.حضرت نے فرمایا: جن لوگوں نے جلد بازی کے ساتھ بدظنی کر کے اس سلسلہ کو جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے، رڈ کر دیا ہے اور اس قدرنشانوں کی پروا نہیں کی اور اسلام پر جو مصائب ہیں اس سے لا پروا پڑے ہیں.ان لوگوں نے تقویٰ سے کام نہیں لیا اور اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے.إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (المائدة: 28) خدا صرف متقی لوگوں کی نماز
فقه المسيح 85 نماز با جماعت قبول کرتا ہے.اس واسطے کہا گیا ہے کہ ایسے آدمی کے پیچھے نماز نہ پڑھو جس کی نماز خود قبولیت کے درجہ تک پہنچنے والی نہیں.( الحکم 17 مارچ 1901 صفحہ 8 ) دو آدمیوں نے بیعت کی.ایک نے سوال کیا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا : وہ لوگ ہم کو کافر کہتے ہیں.اگر ہم کا فرنہیں ہیں تو وہ کفر لوٹ کر اُن پر پڑتا ہے.مسلمان کو کافر کہنے والا خود کا فر ہے.اس واسطے ایسے لوگوں کے پیچھے نماز جائز نہیں.پھر اُن کے درمیان جولوگ خاموش ہیں وہ بھی انہیں میں شامل ہیں.اُن کے پیچھے بھی نماز جائز نہیں کیونکہ وہ اپنے دل کے اندر کوئی مذہب مخالفانہ رکھتے ہیں جو ہمارے ساتھ بظاہر شامل نہیں ہوتے.( بدر 15 دسمبر 1905 صفحه (2) اپنی جماعت کا غیر کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے متعلق ذکر تھا.فرمایا: صبر کرو اور اپنی جماعت کے غیر کے پیچھے نماز مت پڑھو.بہتری اور نیکی اسی میں ہے اور اسی میں تمہاری نصرت اور فتح عظیم ہے اور یہی اس جماعت کی ترقی کا موجب ہے.دیکھو دُنیا میں رُوٹھے ہوئے اور ایک دوسرے سے ناراض ہونے والے بھی اپنے دشمن کو چار دن منہ نہیں لگاتے اور تمہاری ناراضگی اور رُوٹھنا تو خدا کے لئے ہے.تم اگر ان میں رلے ملے رہے تو خدا تعالیٰ جو خاص نظر تم پر رکھتا ہے ، وہ نہیں رکھے گا.پاک جماعت جب الگ ہو تو پھر اس میں ترقی ہوتی ہے.غیروں کی مساجد میں نماز (الحکم 10 راگست 1901 ، صفحہ 3) ایک شخص نے بعد نماز مغرب بیعت کی اور عرض کیا کہ الحکم میں لکھا ہوا دیکھا ہے کہ غیر از
فقه المسيح 86 9 نماز با جماعت جماعت کے پیچھے نماز نہ پڑھو.فرمایا: ٹھیک ہے اگر مسجد غیروں کی ہے تو گھر میں پڑھ لو، اکیلے پڑھ لو حرج نہیں اور تھوڑے سے صبر کی بات ہے.اکیلے احمدیوں کے لئے ہدایت (البدر 28 نومبر 1902 ءصفحہ 36) بعض احباب نے سوال کیا کہ نماز تنہا پڑھ لیا کریں؟ فرمایا : ہاں الگ اور تنہا پڑھ لیا کرو.یہ سلسلہ خدا کا ہے وہ چاہتا ہے کہ ان سے الگ رہو.عنقریب وہ وقت آتا ہے کہ خدا جماعت کر دیوے گا.(البدر 16 جنوری 1903 صفحہ 90) صرف تصدیق کرنے والوں کے پیچھے نماز پڑھو سید عبداللہ صاحب عرب نے سوال کیا کہ میں اپنے ملک عرب میں جاتا ہوں.وہاں میں ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں.فرمایا : مصدقین کے سوا کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھو.“ عرب صاحب نے عرض کیا وہ لوگ حضور کے حالات سے واقف نہیں ہیں اور ان کو تبلیغ نہیں ہوئی.فرمایا : ان کو پہلے تبلیغ کر دینا پھر یا وہ مصدق ہو جائیں گے یا مکذب.“ عرب صاحب نے عرض کیا کہ ہمارے ملک کے لوگ بہت سخت ہیں اور ہماری قوم شیعہ ہے.فرمایا: وو تم خدا کے بنو.اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس کا معاملہ صاف ہو جائے.اللہ تعالیٰ آپ
فقه المسيح 87 نماز با جماعت اس کا متولی اور متکفل ہو جاتا ہے.“ (الحکم 24 ستمبر 1901 صفحہ 6) عجب خان صاحب تحصیلدار نے حضرت اقدس سے استفسار کیا کہ اگر کسی مقام کے لوگ اجنبی ہوں اور ہمیں علم نہ ہو کہ وہ احمدی جماعت میں ہیں یا نہیں تو اُن کے پیچھے نماز پڑھی جاوے کہ نہیں ؟ فرمایا: نا واقف امام سے پوچھ لو.اگر وہ مصدق ہو تو نماز اس کے پیچھے پڑھی جاوے ور نہ نہیں.اللہ تعالیٰ ایک جماعت الگ بنانا چاہتا ہے اس لئے اس کے منشاء کی کیوں مخالفت کی جاوے جن لوگوں سے وہ جُدا کرنا چاہتا ہے بار بار اُن میں گھسنا یہی تو اس کے منشاء کے مخالف ہے.(البدر 20 فروری 1903 صفحہ 34 ، 35) سوال ہوا کہ اگر کسی جگہ امام نما ز حضور کے حالات سے واقف نہیں ، تو اس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں.فرمایا: پہلے تمہارا فرض ہے کہ اُسے واقف کرو.پھر اگر تصدیق کرے تو بہتر ، ورنہ اُس کے پیچھے اپنی نماز ضائع نہ کرو اور اگر خاموش رہے نہ تصدیق کرے اور نہ تکذیب ، تو وہ بھی منافق ہے.اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو.ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 299)
فقه المسيح 88 متفرق مسائل نماز متفرق مسائل نماز نمازوں کی ترتیب ضروری ہے حضرت خلیہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ اگر امام عصر کی نماز پڑھا رہا ہو اور ایک ایسا شخص مسجد میں آجائے جس نے ابھی ظہر کی نماز پڑھنی ہو یا عشاء کی نماز ہورہی ہو اور ایک ایسا شخص مسجد میں آجائے جس نے ابھی مغرب کی نماز پڑھنی ہوا سے چاہئے کہ وہ پہلے ظہر کی نماز علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو یا مغرب کی نماز پہلے علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو.جمع بین الصلواتین کی صورت میں بھی اگر کوئی شخص بعد میں مسجد میں آتا ہے جبکہ نماز ہو رہی ہو تو اس کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہی فتویٰ ہے کہ اگر اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ امام عصر کی نماز پڑھا رہا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ پہلے ظہر کی نما ز علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو.اسی طرح اگر اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ امام عشاء کی نماز پڑھا رہا ہے تو وہ پہلے مغرب کی نماز علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو.لیکن اگر اسے معلوم نہ ہو سکے کہ یہ کونسی نماز پڑھی جا رہی ہے تو وہ جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے.ایسی صورت میں جو امام کی نماز ہوگی وہی نماز اس کی ہو جائے گی بعد میں وہ اپنی پہلی نماز پڑھ لے.مثلاً اگر عشاء کی نماز ہو رہی ہے اور ایک ایسا شخص مسجد میں آجاتا ہے جس نے ابھی مغرب کی نماز پڑھنی ہے تو اگر اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ عشاء کی نماز ہے تو وہ مغرب کی نماز پہلے
فقه المسيح 89 متفرق مسائل نماز علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو.لیکن اگر اسے معلوم نہ ہو سکے کہ یہ کونسی نماز ہورہی ہے تو وہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے.اس صورت میں اس کی عشاء کی نماز ہو جائے گی.مغرب کی نماز وہ بعد میں پڑھ لے.یہی صورت عصر کے متعلق ہے.اس موقع پر عرض کیا گیا ہے کہ عصر کے بعد تو کوئی نماز جائز ہی نہیں.پھر اگر عدم علم کی صورت میں وہ عصر کی نماز میں شامل ہو جاتا ہے تو اس کے بعد ظہر کی نماز اس کے لئے کس طرح جائز ہوسکتی ہے.حضور نے فرمایا ہے یہ تو صحیح ہے کہ بطور قانون عصر کے بعد کوئی نماز جائز نہیں مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اگر اتفاقی حادثہ کے طور پر کوئی ایسا واقعہ ہو جائے تو پھر بھی وہ بعد میں ظہر کی نماز نہیں پڑھ سکتا.ایسی صورت میں اس کے لئے ظہر کی نماز عصر کی نماز کے بعد جائز ہوگی.میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ مسئلہ سنا ہے اور ایک دفعہ نہیں سنا دو دفعہ سنا ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب دوبارہ اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میں اس کے متعلق وضاحت کر چکا ہوں کہ ترتیب نما ز ضروری چیز ہے.لیکن اگر کسی کو معلوم نہ ہو سکے کہ امام کونسی نماز پڑھا رہا ہے عصر کی نماز پڑھا رہا ہے یا عشاء کی نماز پڑھا رہا ہے تو وہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے.جو امام کی نماز ہوگی وہی اس کی نماز ہو جائے گی.بعد میں وہ اپنی پہلی نماز پڑھ لے.الفضل 27 جون 1948 صفحہ 3)
فقه المسيح 90 90 متفرق مسائل نماز سنتیں پڑھنے کے متعلق حضرت مسیح موعود کا معمول حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول شروع سے یہ تھا کہ آپ سُنن اور نوافل گھر پر پڑھا کرتے تھے اور فرض نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھا کرتے تھے.یہ التزام آپ کا آخر وقت تک رہا.البتہ جب کبھی فرض نماز کے بعد دیکھتے کہ بعض لوگ جو پیچھے سے آکر جماعت میں شریک ہوئے ہیں اور ابھی انہوں نے نماز ختم نہیں کی اور راستہ نہیں ہے تو آپ مسجد سنتیں پڑھا کرتے تھے یا کبھی کبھی جب مسجد میں بعد نماز تشریف رکھتے تو سنن مسجد میں پڑھا کرتے تھے.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عام عادت تھی ایک زمانہ میں بعض طالب علموں نے اپنی کوتاہ اندیشی سے یہ سمجھ لیا کہ شاید سنن ضروری نہیں.اس پر طاله حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے 27 / ذی الحجہ 1326 ہجری کے درس قرآن مجید میں میں فرمایا : حضرت صاحب ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) کی عادت تھی کہ آپ فرض پڑھنے کے بعد فوراً اندرونِ خانہ چلے جاتے تھے اور ایسا ہی اکثر میں بھی کرتا ہوں.اس سے بعض نادان بچوں کو بھی غالبا یہ عادت ہو گئی ہے کہ وہ فرض پڑھنے کے بعد فورا مسجد سے چلے جاتے ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ وہ سنتوں کی ادائیگی سے محروم ہو جاتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت صاحب (علیہ الصلوۃ والسلام ) اندر جا کر سب سے پہلے سنتیں پڑھا کرتے تھے.ایسا ہی میں بھی کرتا ہوں.کوئی ہے جو حضرت صاحب کے اس عمل درآمد کے متعلق گواہی دے.اس پر صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جو حسب العادت مجلس درس میں تشریف فرما تھے کھڑے ہوئے اور بآواز بلند کہا بے شک حضرت صاحب کی ہمیشہ عادت تھی کہ آپ مسجد جانے سے پہلے گھر میں سنتیں پڑھ لیا کرتے تھے اور باہر مسجد میں جا کر
فقه المسيح 91 متفرق مسائل نماز فرض ادا کر کے گھر میں آتے تو فوراً سنتیں پڑھنے کھڑے ہوتے اور نما ز سنت پڑھ کر پھر اور کوئی کام کرتے.ان کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی یہی شہادت دی اور ان کے بعد حضرت میر ناصر نواب صاحب نے اور ان کے بعد صاحبزادہ میر محمد اسحاق صاحب نے اور پھر حضرت اقدس (علیہ السلام ) کے پرانے خادم حافظ حامد علی صاحب ( آج مرحوم) نے بھی اپنی عینی شہادت کا اظہار کیا.(ایڈیٹر ) ( سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صفحه 67765) مسجد کے ستونوں کے درمیان نماز پیل پایوں کے بیچ میں کھڑے ہونے کا ذکر آیا کہ بعض احباب ایسا کرتے ہیں.فرمایا اضطراری حالت میں تو سب جائز ہے.ایسی باتوں کا چنداں خیال نہیں کرنا چاہئے.اصل بات تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضامندی کے موافق خلوص دل کے ساتھ اسی کی عبادت کی جائے.ان باتوں کی طرف کوئی خیال نہیں کرتا.( بدر 13 فروری 1908 ، صفحہ 10) طلوع فجر کے بعد سورج نکلنے تک نوافل جائز نہیں ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ نماز فجر کی اذان کے بعد دوگانہ فرض سے پہلے اگر کوئی شخص نوافل ادا کرے تو جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا نماز فجر کی اذان کے بعد سورج نکلنے تک دو رکعت سنت اور دو رکعت فرض کے سوا اور بدر 7 فروری 1907 ، صفحہ 4) کوئی نماز نہیں ہے.امام کے سلام پھیرنے سے قبل غلطی سے سلام پھیر لینا نماز مغرب میں آدمیوں کی کثرت کی وجہ سے پیش امام صاحب کی آواز آخری صفوں تک نہ پہنچ سکنے کے سبب درمیانی صفوں میں سے ایک شخص حسب معمول تکبیر کا بآواز بلند تکرار کرتا جاتا تھا.آخری رکعت میں جب سب التحیات بیٹھے تھے اور دعائے التحیات اور
فقه المسيح 92 92 متفرق مسائل نماز درود شریف پڑھ چکے تھے اور قریب تھا کہ پیش امام صاحب سلام کہیں مگر ہنوز انہوں نے سلام نہ کہا تھا کہ درمیانی مکبر کو غلطی لگی اور اس نے سلام کہہ دیا جس پر آخری صفوں کے نمازیوں نے بھی سلام کہہ دیا اور بعض نے سنتیں بھی شروع کر دیں کہ امام صاحب نے سلام کہا اور درمیانی مکبر نے جو اپنی غلطی پر آگاہ ہو چکا تھا دوبارہ سلام کہا.اس پر ان نمازیوں نے جو پہلے سے سلام کہہ چکے تھے اور نماز سے فارغ ہو چکے تھے مسئلہ دریافت کیا کہ آیا ہماری نماز ہوگئی یا ہم دوبارہ نما ز پڑھیں؟ صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب نے جو خود بھی پچھلی صفوں میں تھے اور امام سے پہلے سلام کہہ چکے تھے فرمایا کہ یہ مسئلہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے دریافت کیا جا چکا ہے اور حضرت نے فرمایا ہے کہ:.آخری رکعت میں التحیات پڑھنے کے بعد اگر ایسا ہو جائے تو مقتدیوں کی نماز ہو جاتی ہے.دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں.بآواز بلند اپنی زبان میں دعا ( بدر 2 مئی 1907 ء صفحہ 2) ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور امام اگر اپنی زبان میں (مثلاً اُردو میں ) بآواز بلند دُعا مانگتا جائے اور پچھلے آمین کرتے جاویں تو کیا یہ جائز ہے جبکہ حضور کی تعلیم ہے کہ اپنی زبان میں دعائیں نماز میں کر لیا کرو.فرمایا :.دعا کو بآواز بلند پڑھنے کی ضرورت کیا ہے.خدا تعالیٰ نے تو فرمایا تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً (الاعراف : 56 ) اور دُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ (الاعراف : 206) عرض کیا کہ قنوت تو پڑھ لیتے ہیں.فرمایا :.ہاں ادعیہ ماثورہ جو قرآن و حدیث میں آچکی ہیں وہ بے شک پڑھ لی جاویں.باقی دعا ئیں جو اپنے ذوق و حال کے مطابق ہیں وہ دل ہی میں پڑھنی چاہئیں.بدر یکم اگست 1907 ، صفحہ 12)
فقه المسيح جهرا دعائیں پڑھنا 93 33 متفرق مسائل نماز حضرت مفتی محمد صادق صاحب تحریر کرتے ہیں کہ جب ابتدا میں میں قادیان گیا اور مسجد مبارک میں صرف تین چار نمازی ہوا کرتے تھے اور حافظ معین الدین صاحب مرحوم نماز پڑھایا کرتے تھے.جب حضرت مولوی نورالدین صاحب ہجرت کر کے...قادیان آگئے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں اپنی مساجد میں پیش امام بنایا اور وہی نمازیں پڑھاتے رہے.لیکن اُس کے بعد جب حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم بھی ہجرت کر کے قادیان آگئے تو حضرت مولوی نورالدین صاحب نے انہیں نماز کے واسطے آگے کر دیا اور پھر جب تک وہ زندہ رہے وہی پیش امام رہے.لیکن گا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام طبیعت کی کمزوری کے سبب مسجد مبارک میں ہی جمعہ بھی پڑھ لیتے تھے اور چونکہ مسجد مبارک میں سب لوگ سما نہ سکتے تھے.اس واسطے جمعہ مسجد اقصیٰ میں بھی بدستور ہوتا اور مسجد اقصیٰ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب جمعہ پڑھاتے تھے اور مسجد مبارک میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جمعہ پڑھاتے تھے اور گا ہے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب باہر گئے ہوئے ہوتے اور حضرت مولوی محمد احسن صاحب قادیان میں موجود ہوتے تو مسجد مبارک میں وہ جمعہ پڑھاتے.جب حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم ہجرت کر کے قادیان چلے آئے تو وہی پیش امام نماز کے ہوتے رہے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اپنی قراءت میں ہمیشہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ سے پہلے بالجبر پڑھتے تھے اور فجر اور مغرب اور عشاء کی آخری رکعت میں بعد رکوع عموما بلند آواز میں بعض دُعائیں مثلًا رَبَّنَا افْتَحُ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِيْنَ اور رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا الحَ اور اَللَّهُمَّ انْصُرُ مَنْ نَصَرَ دِيْنَ مُحَمَّدٍ الحَ اور اللَّهُمَّ ايْدِ الْإِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِيْنَ بِالْإِمَامِ الْحَكَمِ الْعَادِلِ وغیرہ پڑھا کرتے تھے اور حضرت مولوی صاحب کی عدم موجودگی میں جب کہ وہ سفر پر ہوں یا
فقه المسيح 94 متفرق مسائل نماز نماز میں کسی وجہ سے نہ آسکیں.مولوی حکیم فضل الدین صاحب مرحوم اور گا ہے عاجز راقم کو یا کسی اور صاحب کو امامت کے واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حکم فرماتے تھے.حضور خود کبھی پیش امام نہ بنتے تھے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول ہمیشہ پیش امام رہے.( ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 22 ، 23 ) سجدہ میں قرآنی دعائیں پڑھنا کیوں منع ہے؟ سوال :.سجدہ میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا کیوں ناجائز ہے جبکہ سجدہ انتہائی تذلل کا مقام ہے؟ حضرت خلیفہ المسیح الثانی اس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:.میرا تو یہی عقیدہ رہا ہے کہ سجدہ میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا جائز ہے لیکن بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ایسا حوالہ ملا جس میں آپ نے سجدہ کی حالت میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا ناجائز قرار دیا ہے.اسی طرح مسند احمد بن حنبل میں بھی اسی مضمون کی ایک حدیث مل گئی لیکن اگر میرے عقیدے کے خلاف یہ امور نہ ملتے تب بھی یہ دلیل میں معقول قرار نہ دیتا کہ سجدہ جب انتہائی تذلل کا مقام ہے تو قرآنی دعاؤں کا سجدہ کی حالت میں پڑھنا جائز ہونا چاہئے.امام مالک کا عقیدہ تھا کہ سمندر کی ہر چیز حلال ہے ایک دفعہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا سمندر میں سور بھی ہوتا ہے کیا اس کا کھانا بھی جائز ہے.آپ نے فرمایا سمندر کی ہر چیز کھانی جائز ہے مگر سور حرام ہے.اس نے بار بار یہی سوال کیا مگر آپ نے فرمایا میں اس سوال کا یہی جواب دے سکتا ہوں کہ سمندر کی ہر چیز حلال ہے مگر سؤ رحرام ہے.یہی جواب میں دیتا ہوں
فقه المسيح 95 95 متفرق مسائل نماز کہ سجدہ بے شک تذلل کا مقام ہے مگر قرآن کریم کی چیزیں، اس کی دعائیں سجدہ کی حالت میں نہیں پڑھنی چاہئیں.دعا انسان کو نیچے کی طرف لے جاتی ہے اور قرآن انسان کو اوپر کی طرف لے جاتا ہے.اس لئے قرآنی دعاؤں کا سجدہ کی حالت میں مانگنانا جائز ہے.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک بات مل گئی تو پھر اس کے خلاف طریق اختیار کرنا درست نہیں گو وہ ہماری عقل میں نہ ہی آئے.الفضل 16 را پریل 1944 ، صفحہ 1-2) الهامی کلمات نماز میں بطور دعا پڑھنا آج جو مجھے خواب میں الہام سے کلمات بتلائے گئے ہیں ( مراد ہے رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِي وَانْصُرْنِي وَارْحَمُنِی.ناقل ) میں نے ارادہ کیا ہے کہ ان کو نماز میں دعا کے طور پر پڑھا جاوے اور میں نے خود تو پڑھنے شروع کر دیئے ہیں.(البدر 12 دسمبر 1902ء صفحہ 54 کالم 3) الہامی دعائیں واحد متکلم کے صیغہ کو بصورت جمع پڑھنا حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے ایک شخص کا خط پیش کیا جس میں سوال تھا کہ دعا الهاميه رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِي وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِي لَوصِيغه جمع متکلم میں پڑھ لیا جاوے یانہ.حضرت اقدس نے فرمایا کہ:.اصل میں الفاظ تو الہام کے یہی ہیں ( یعنی واحد متکلم میں ہیں.) اب خواہ کوئی کسی طرح پڑھ لیوے.قرآن مجید میں دونوں طرح دعا ئیں سکھائی گئی ہیں.
فقه المسيح 96 96 متفرق مسائل نماز واحد کے صیغہ میں بھی جیسے رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ (نوح : 29) اور جمع کے صیغہ میں بھی جیسے رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة 202) اور اکثر اوقات واحد متکلم سے جمع متکلم مراد ہوتی ہے جیسے اس ہماری الہامی دعا میں فَاحْفَظُنِی سے یہی مراد نہیں ہے کہ میرے نفس کی حفاظت کر بلکہ نفس کے متعلقات اور جو کچھ لوازمات ہیں سب ہی آجاتے ہیں جیسے گھر بار ، خویش واقارب، اعضاء اور قومی وغیرہ.حالات کے مطابق دعا کے الفاظ میں تبدیلی البدر 26 دسمبر 1902 صفحہ 69) میر ناصر نواب صاحب نے حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ یہ دعا رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُک والی جو الہام ہوئی ہے اگر اس میں بجائے واحد متکلم کے جمع متکلم کا صیغہ پڑھ کر دوسروں کو بھی ساتھ ملا لیا جائے تو حرج تو نہیں؟ حضرت اقدس نے فرمایا کوئی حرج نہیں ہے.“ قرآنی دعاؤں میں تبدیلی مناسب نہیں (البدر 19 دسمبر 1902 ء صفحہ 58) ایک دوست کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں ایک مسجد میں امام ہوں بعض دعائیں جو صیغہ واحد متکلم میں ہوتی ہیں یعنی انسان کے اپنے واسطے ہی ہوسکتی ہیں میں چاہتا ہوں کہ ان کو صیغہ جمع میں پڑھ کر مقتدیوں کو بھی اپنی دعا میں شامل کر لیا کروں اس میں کیا حکم ہے؟ فرمایا: جو دعائیں قرآن شریف میں ہیں ان میں کوئی تغیر جائز نہیں کیوں کہ وہ کلام الہی ہے وہ
فقه المسيح 97 متفرق مسائل نماز جس طرح قرآن شریف میں ہے اسی طرح پڑھنا چاہیے.ہاں حدیث میں جو دعائیں آئی ہیں.ان کے متعلق اختیار ہے کہ صیغہ واحد کی بجائے صیغہ جمع پڑھ لیا کریں.دعا میں رقت پیدا کرنے والے الفاظ کا استعمال دعا کے متعلق ذکر تھا ، فرمایا: (بدر 4 اپریل 1907 صفحہ 6) دعا کے لئے رقت والے الفاظ تلاش کرنے چاہئیں.یہ مناسب نہیں کہ انسان مسنون دُعاؤں کے ایسا پیچھے پڑے کہ اُن کو جنتر منتر کی طرح پڑھتا رہے اور حقیقت کو نہ پہچانے.اتباع سنت ضروری ہے، مگر تلاش رقت بھی اتباع سنت ہے.اپنی زبان میں جس کو تم خوب سمجھتے ہو، دعا کرو.تا کہ دعا میں جوش پیدا ہو.الفاظ پرست محد ول ہوتا ہے.حقیقت پرست بنا چاہئے.مسنون دعاؤں کو بھی برکت کے لئے پڑھنا چاہئے.مگر حقیقت کو پاؤ.ہاں جس کو زبان عربی سے موافقت اور فہم ہو وہ عربی میں پڑھے.وتر کیسے پڑھے جائیں (الحام 10 ستمبر 1901 صفحہ 9) ایک صاحب نے سوال کیا کہ وتر کس طرح پڑھنے چاہئیں.اکیلا بھی جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:.اکیلا وتر تو ہم نے کہیں نہیں دیکھا.وتر تین ہیں خواہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر کر تیسری رکعت پڑھ لو.خواہ تینوں ایک ہی سلام سے درمیان میں التحیات بیٹھ کر پڑھ لو.ایک وتر ٹھیک نہیں.الحکم 10 را پریل 1903 ، صفحہ 14 )
فقه المسيح 98 متفرق مسائل نماز بہتر ہے اول وقت وتر پڑھ لیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جبکہ مولوی کرم دین والا مقدمہ تھا اور گورداسپور میں اس کی پیشی تھی تو وہاں پر میں نے ایک شیشم کے درخت کے نیچے حضرت صاحب کے حضور عرض کی کہ حضور عشاء کی نماز کے بعد اگر وتر نہ پڑھے جائیں اور پچھلے وقت بھی رہ جاویں تو پھر ان کو کس وقت پڑھا جاوے.تب حضور نے فرمایا کہ ”بہتر یہی ہے کہ پہلے وقت ہی پڑھ لئے جاویں.“ یعنی نماز عشاء کے بعد ہی پڑھ لینے چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وتر پڑھنے کا طریق (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 172) سوال: - حضرت مسیح موعود علیہ السلام و تر دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر تے تھے یا تین پڑھ کر ؟ اس کے جواب میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:.66 عموما دو پڑھ کر.مولوی سید سرور شاہ صاحب نے کہا جس قدر واقف لوگوں سے اور روا میتیں سنی ہیں ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ دو پڑھ کر سلام پھیرتے تھے پھر ایک پڑھتے.الفضل 12 / جون 1922 صفحہ 7) وتر اور دعائے قنوت حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی روایت کرتے ہیں کہ ایک روز میں نے حضرت اقدس سے پوچھا وتر کی کتنی رکعت ہیں اور کس طرح پڑھنا چاہئے فرمایا وتر تو ایک ہی رکعت ہے.وتر ایک کو کہتے ہیں لیکن ایک رکعت جائز نہیں ہے.اس لئے دو رکعت نفل اور اس کے ساتھ لگا دی گئی ہیں اور دوطریق سے پڑھنے چاہئیں.ایک طریق کہ جس طرح حنفی پڑھتے ہیں اور دوسرا طریق یہ ہے کہ دو
فقه المسيح 99 66 رکعت پڑھ کے سلام پھیر دے اور ایک رکعت چپکے سے اُٹھ کر پڑھ لے.متفرق مسائل نماز پھر میں نے عرض کیا کہ قنوت پڑھنی چاہئے فرمایا ہاں ضرور پڑھنی چاہئے.پھر میں نے عرض کیا کہ بعض مولوی اس دعائے قنوت کو کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں فرمایا وہ بڑی غلطی کرتے ہیں یہ دعائے قنوت اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِيْنُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ وَنَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ وَنَخْلَعُ وَ نَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ اللهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ وَنَرْجُوا رَحْمَتَكَ وَ نَخْشَی عَذَابَكَ إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقِّ بڑی عجیب اور تو حید کی بھری ہوئی دعا ہے ایسے الفاظ تو حید کے سوائے اس سید المرسلین سید الموحدین صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے سے ادا نہیں ہو سکتے ہیں اور یہ خاص الہبی تعلیم ہے ان پاک الفاظ کے بھی قربان اور اس منہ کے بھی قربان جس منہ سے یہ الفاظ نکلے.( تذکرۃ المہدی صفحہ 116 ) تہجد کی نماز کا طریق عبدالعزیز صاحب سیالکوٹی نے لائل پور میں یہ مسئلہ بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز اس طرح سے جیسا کہ اب تعامل اہل اسلام ہے بجا نہ لاتے بلکہ آپ صرف اُٹھ کر قرآن پڑھ لیا کرتے اور ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا کہ یہی مذہب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے......حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں بوساطت منشی نبی بخش صاحب اور مولوی نورالدین صاحب یہ امر تحقیق کے لئے پیش کیا گیا جس پر حضرت امام الزمان علیہ السلام نے مفصلہ ذیل فتویٰ دیا.میرا یہ ہرگز مذہب نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ کر فقط قرآن شریف پڑھ لیا کرتے تھے اور بس.میں نے ایک دفعہ یہ بیان کیا تھا کہ اگر کوئی شخص بیمار ہو یا کوئی اور ایسی
فقه المسيح 100 متفرق مسائل نماز وجہ ہو کہ وہ تہجد کے نوافل ادا نہ کر سکے تو وہ اُٹھ کر استغفار ، درود شریف اور الحمد شریف ہی پڑھ لیا کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ نوافل ادا کرتے ، آپ کثرت سے گیارہ رکعت پڑھتے آٹھ نفل اور تین وتر.آپ کبھی ایک ہی وقت میں ان کو پڑھ لیتے اور کبھی اس طرح سے ادا کرتے کہ دو رکعت پڑھ لیتے اور پھر سو جاتے اور پھر اُٹھتے اور دورکعت پڑھ لیتے اور سو جاتے.غرض سو کر اور اُٹھ کر نوافل اسی طرح ادا کرتے جیسا کہ اب تعامل ہے اور جس کو اب چودھویں صدی گزر رہی ہے.( البدر 16 نومبر 1903 ، صفحہ 335) تہجد کا اول وقت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ رمضان شریف میں تہجد پڑھنے کے متعلق حضور سے کسی نے سوال کیا یا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ تہجد کے لئے اول وقت اُٹھنا چاہئے نہ کہ عین صبح کی نماز کے ذرا قبل....خاکسار عرض کرتا ہے کہ اول وقت سے رات کا حصہ مراد نہیں بلکہ تہجد کے وقت کا اول حصہ مراد ہے یعنی نصف شب کے جلد بعد.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہ طریق ہوتا تھا کہ تجد ایسے وقت میں پڑھتے تھے کہ لمبی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو صبح کی اذان سے قبل کسی قدر استراحت کا موقعہ مل جاتا تھا لیکن نو جوان بچے اگر تہجد کی عادت ڈالنے کے لئے صبح کی اذان سے کچھ وقت پہلے بھی اُٹھ لیا کریں تو ہرج نہیں.ایک رکعت میں قرآن ختم کرنا (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 671، 672) ذکر ہوا کہ ایک رکعت میں بعض لوگ قرآن کو ختم کرنا کمالات میں تصور کرتے ہیں اور ایسے حافظوں اور قاریوں کو اس امر کا بڑا فخر ہوتا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ:.یہ گناہ ہے اور ان لوگوں کی لاف زنی ہے.جیسے دنیا کے پیشہ والے اپنے پیشہ پر فخر
فقه المسيح 101 متفرق مسائل نماز کرتے ہیں.ویسے ہی یہ بھی کرتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریق کو اختیار نہ کیا.حالانکہ اگر آپ چاہتے تو کر سکتے تھے مگر آپ نے چھوٹی چھوٹی سورتوں پر اکتفا کی.نماز اشراق پر مداومت ثابت نہیں (البدر 19 جون 1903 صفحہ 169) مکرم میر عباس علی صاحب لدھیانوی کے نام مکتوب میں آپ تحریر فرماتے ہیں :.اس عاجز نے پہلے لکھ دیا تھا کہ آپ اپنے تمام اور اد معمولہ کو بدستور لا زم اوقات رکھیں صرف ایسے طریقوں سے پر ہیز چاہئے.جن میں کسی نوع کا شرک یا بدعت ہو.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے اشراق پر مداومت ثابت نہیں تہجد کے فوت ہونے پر یا سفر سے واپس آکر پڑھنا ثابت ہے.لیکن تعبد میں کوشش کرنا اور کریم کے دروازہ پر پڑے رہنا عین سنت ہے وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ( الجمعة : 11) مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 528) تعداد رکعات پوچھا گیا کہ نمازوں میں تعدا در کعت کیوں رکھی ہے؟ فرمایا: اس میں اللہ تعالیٰ نے اور اسرار رکھے ہیں.جو شخص نماز پڑھے گا.وہ کسی نہ کسی حد پر تو آخر رہے گا ہی.اور اسی طرح پر ذکر میں بھی ایک حد تو ہوتی ہے.لیکن وہ حد وہی کیفیت اور ذوق و شوق ہوتا ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے.جب وہ پیدا ہو جاتی ہے تو وہ بس کر جاتا ہے.دوسرے یہ بات حال والی ہے قال والی نہیں.جو شخص اس میں پڑتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے.اصل غرض ذکر الہی سے یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے اور اسے اپنے سامنے دیکھتا رہے.اس طریق پر وہ گناہوں سے بچار ہے گا.تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک تاجر نے ستر ہزار کا سودا لیا اور ستر ہزار کا دیا مگر وہ ایک آن میں بھی خدا سے جدا نہیں
فقه المسيح 102 متفرق مسائل نماز ہوا.پس یا درکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے.لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ (النور: 38) جب دل خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں.اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے، کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا.اسی طرح پر جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں.وہ کسی حال میں بھی (الحکم 24 جون 1904 صفحہ 1) خدا تعالیٰ کو فراموش نہیں کرتے.نماز کے بعد تشبیح ایک صاحب نے پوچھا کہ بعد نماز تسبیح لے کر 33 مرتبہ اللہ اکبر وغیرہ جو پڑھا جاتا ہے.آپ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ حسب مراتب ہوا کرتا تھا اور اسی حفظ مراتب نہ کرنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو مشکلات پیش آئی ہیں اور انھوں نے اعتراض کر دیا ہے کہ فلاں دو احادیث میں باہم اختلاف ہے حالانکہ اختلاف نہیں ہوتا بلکہ وہ تعلیم بلحاظ مل اور موقعہ کے ہوتی تھی.مثلاً ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ نیکی کیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہے کہ اس میں یہ کمزوری ہے کہ ماں باپ کی عزت نہیں کرتا.آپ نے فرمایا کہ نیکی یہ ہے کہ تو ماں باپ کی عزت کر.اب کوئی خوش فہم اس سے یہ نتیجہ نکال لے کہ بس اور تمام نیکیوں کو ترک کر دیا جاوے یہی نیکی ہے.ایسا نہیں ، اسی طرح پر تسبیح کے متعلق بات ہے.قرآن شریف میں تو آیا ہے.وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرَ العَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (الانفال:46) اللہ تعالیٰ کا بہت ذکر کرو تا کہ تم فلاح پاؤ.اب یہ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا نماز کے بعد ہی ہے تو 33 مرتبہ تو کثیر کے اندر نہیں
فقه المسيح 103 متفرق مسائل نماز آتا.پس یا درکھو کہ 33 مرتبہ والی بات حسب مراتب ہے، ورنہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو سچے ذوق اور لذت سے یاد کرتا ہے، اسے شمار سے کیا کام.وہ تو بیرون از شمار یاد کرے گا.ایک عورت کا قصہ مشہور ہے کہ وہ کسی پر عاشق تھی.اس نے ایک فقیر کو دیکھا کہ وہ تسبیح ہاتھ میں لیے ہوئے پھیر رہا ہے.اس عورت نے اس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے؟ اس نے کہا کہ میں اپنے یار کو یاد کرتا ہوں.عورت نے کہا یار کو یاد کرنا اور پھر گن گن کر؟ در حقیقت یہ بات بالکل سچی ہے کہ یار کو یاد کرنا ہوتو پھر گن گن کر کیا یا دکرنا ہے اور اصل بات یہی ہے کہ جب تک ذکر الہی کثرت سے نہ ہو وہ لذت اور ذوق جو اس ذکر میں رکھا گیا ہے حاصل نہیں ہوتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو 33 مرتبہ فرمایا ہے وہ آئی اور شخصی بات ہوگی.کوئی شخص ذکر نہ کرتا ہوگا تو آپ نے اسے فرما دیا کہ 33 مرتبہ کر لیا کر.اور یہ جو تسبیح ہاتھ میں لے کر بیٹھتے ہیں یہ مسئلہ بالکل غلط ہے.اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے آشنا ہو تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ آپ نے کبھی ایسی باتوں کا التزام نہیں کیا.وہ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا تھے.غیر معمولی اوقات والے علاقوں میں نماز کیسے پڑھیں؟ مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتا لوی لکھتے ہیں کہ (الحكم 24 جون 1904 ، صفحہ 1) قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے سنایا کہ سردار فضل حق صاحب ساکن دھرم کوٹ کے اسلام لانے کا واقعہ ہمارے سامنے ہوا تھا.جب سردار صاحب عید کے دن قادیان آکر مسلمان ہوئے اور اس کے بعد کچھ دن قادیان ٹھہرے تھے.ان کے دیگر رشتہ دار اس عرصہ میں چڑھائی کر کے آئے اور ان کو اسلام سے ہٹا کر واپس سکھ مت میں لانے کی کوشش کرتے رہے.چنانچہ ایک دن ایک جتھ سکھوں کا آیا.جس میں بوڑھے بوڑھے اور اپنے مذہب کے واقف لوگ بھی تھے.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک
فقه المسيح 104 متفرق مسائل نماز میں فروکش تھے.وہ لوگ بھی مسجد مبارک میں ہی آگئے.اور غیظ وغضب سے بھرے ہوئے معلوم ہوتے تھے.انہوں نے اسلام پر اعتراضات کرنے شروع کر دیئے.چنانچہ انہوں نے سوال کیا کہ مرجاجی ! ہمیں یہ بتاؤ کہ جس ملک میں چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے.وہاں مسلمان کیا کریں گے.یہ سوال انہوں نے اپنے خیال میں عقدہ لا ینحل سمجھ کر پیش کیا.لیکن حضرت اقدس نے نہایت آسانی کے ساتھ فورا جواب دیا کہ اسلام کا کوئی حکم ایسا نہیں کہ جو انسانی طاقت سے باہر ہو.لہذا اگر انسان چھ مہینے کا روزہ نہیں رکھ سکتا.تو نہ رکھے.اس صورت میں اس پر کوئی گناہ نہیں.رہا نماز کے وقتوں کا سوال.سو آج کل تو گھڑیوں کے ذریعہ نمازیں پڑھی جاسکتی ہیں اور دن اور رات کا اندازہ بھی اس مقام پر شرق اور غرب کے لحاظ سے کیا جا سکتا ہے.اس پر وہ سکھ خاموش اور لاجواب ہو گئے اور جو اعتراض کا پہاڑ بنا کر وہ لائے تھے.وہ حضور نے ذراسی پھونک سے ہی اُڑا دیا.(اصحاب احمد جلد 6 صفحہ 112 ، 113 روایت قاضی ضیاء الدین صاحب.نیا ایڈیشن ) نماز جمع کرنے کی صورت میں سنتیں معاف ہو جاتی ہیں سوال:.نماز جمع کرنے کی صورت میں سنتیں پڑھنی چاہئیں یا نہیں؟ اس سوال کے جواب میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے تو اس بات کے متعلق علماء میں اختلاف تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عمل سے ہم نے جو کچھ تواتر سے دیکھا ہے اور پوچھنے والوں کے جواب میں آپ نے ہمیشہ جو کچھ فرمایا ہے وہ یہی ہے کہ نماز میں جمع کرنے کی صورت میں فرضوں سے پہلی سنتیں بھی اور بعد کی سنتیں بھی معاف ہو جاتی ہیں.سوال:.اگر نماز جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز جمع کی جائے تو کیا پھر بھی سنتیں معاف ہیں؟ جواب:.نماز جمعہ سے قبل جو سنتیں پڑھی جاتی ہیں وہ دراصل جمعہ کے نفل ہیں اور جمعہ کے
فقه المسيح 105 ساتھ مخصوص ہیں اس لئے نماز جمعہ سے قبل سنتیں بہر حال پڑھنی چاہئیں متفرق مسائل نماز الفضل 14 اکتوبر 1946 صفحہ 4) حضرت مفتی محمد صادق صاحب تحریر کرتے ہیں کہ غالبا یہ واقعہ مارچ 1899ء کا ہے جبکہ میں لاہور سے چند روز کے واسطے قادیان آیا ہوا تھا.چونکہ میں اُس کمرے میں ٹھیرایا گیا جو مسجد مبارک اور حضرت مسیح موعود کے کمرے کے درمیان ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نمازوں کے واسطے اُسی کمرے میں سے گذر کر آتے تھے اور اس کے علاوہ بھی کئی دفعہ دروازہ کھولتے اور مجھے کوئی شے کھانے کی دے جاتے مثلاً آم یا کوئی اور شے.عاجز کے حال پر حضور کی نہایت مہربانی اور شفقت تھی.انہیں ایام میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: آج نماز ظہر وعصر ہر دو جمع کر کے پڑھی جائیں گی.عموما ایسی جمع کے دن ظہر کی نماز اپنے وقت سے ذرا پیچھے اور عصر اپنے وقت سے قبل پڑھی جاتی تھی.یا عصر کو ظہر کے وقت ساتھ ملا لیا جاتا تھا.یا ظہر میں دیر کر کے ہر دو نمازیں عصر کے وقت پڑھ لی جاتی تھیں ) میں چار رکعت سنت پڑھنے کے واسطے اُسی کمرے میں کھڑا ہوا جیسا کہ ظہر کی نماز کے چار رکعت فرض سے قبل سنتیں پڑھی جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ اپنے کمرے میں ہی وضو کر کے اور پہلی سنتیں پڑھ کر مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے مگر پچھلی دو رکعت سنت عموما مسجد ہی میں پڑھا کرتے تھے اور اس کے بعد تھوڑی دیر کے واسطے و ہیں مسجد میں خدام کی ملاقات اور بات چیت کے واسطے بیٹھ جایا کرتے تھے.غرض میں چار رکعت سنت کی نیت کر کے ابھی کھڑا ہی ہوا تھا اور چند احباب اور بھی کمرے میں تھے کیونکہ مسجد مبارک میں کمی گنجائش کے سبب بعض احباب ساتھ کے کمروں میں نماز میں شامل ہو جاتے تھے.حضرت صاحب نے مسجد جانے کے واسطے دروازہ کھولا..
فقه المسيح 106 متفرق مسائل نماز جب میرے پاس سے گذرنے لگے اور مجھے سنتیں پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : نماز جمع ہوگی سنتوں کی ضرورت نہیں.یہ فرما کر آگے کو بڑھے اور پھر پیچھے پھر کر دیکھا کہ میں نماز میں مشغول تھا تو پھر فرمایا: نماز جمع ہوگی سنتیں پڑھنے کی ضرورت نہیں.یہ فرما کر مسجد کے اندر داخل ہو گئے اور میں نے کھڑے کھڑے سلام پھیر دیا اور سنتیں نہیں پڑھیں.جتنے آدمی کمرے میں موجود تھے.اُن سب پر اس بات کا خاص اثر ہوا کہ حضرت صاحب نے نماز کے جمع ہونے کے وقت سنتوں کا پڑھا جانا پسند نہیں فرمایا.( ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 64،63) نماز میں قرآن شریف کھول کر پڑھنا مناسب نہیں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ قرآن شریف کی لمبی سورتیں یاد نہیں ہوتیں اور نماز میں پڑھنے کی خواہش ہوتی ہے.کیا ایسا کر سکتے ہیں کہ قرآن شریف کو کھول کر سامنے کسی رحل یا میز پر رکھ لیں یا ہاتھ میں لے لیں اور پڑھنے کے بعد الگ رکھ کر رکوع سجود کر لیں اور دوسری رکعت میں پھر ہاتھ میں اُٹھا لیں.حضرت صاحب نے فرمایا:.اس کی کیا ضرورت ہے.آپ چند سورتیں یا د کر لیں اور وہی پڑھ لیا کریں.“ ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 174 ) امام وقت کے بلانے پر نما ز تو ڑنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں مسجد مبارک میں ظہر کی نماز سے پہلی سنتیں پڑھ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیت الفکر کے اندر سے مجھے آواز دی.میں نماز توڑ کر حضرت کے پاس چلا گیا اور حضرت سے عرض کیا کہ حضور میں نماز توڑ کر حاضر ہوا ہوں.آپ نے فرمایا اچھا کیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیت الفکر اس حجرہ کا نام ہے جو
فقه المسيح 107 متفرق مسائل نماز حضرت کے مکان کا حصہ ہے اور مسجد مبارک کے ساتھ شمالی جانب متصل ہے.ابتدائی ایام میں حضرت عموما اس کمرہ میں نشست رکھتے تھے اور اسی کی کھڑ کی میں سے نکل کر مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے.میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ یہ ابتدائی زمانہ کی بات ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ رسول کی آواز پر نماز توڑ کر حاضر ہونا شرعی مسئلہ ہے.دراصل بات یہ ہے کہ عمل صالح کسی خاص عمل کا نام نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا نام ہے.ضرورتا نماز توڑنا (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 163 ) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مسجد مبارک میں نماز ظہر یا عصر شروع ہو چکی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام درمیان میں سے نماز تو ڑ کر کھڑکی کے راستہ گھر میں تشریف لے گئے اور پھر وضو کر کے نماز میں آملے اور جو حصہ نماز کا رہ گیا تھا وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد پورا کیا.یہ معلوم نہیں کہ حضور بھول کر بے وضو آ گئے تھے یا رفع حاجت کے لئے گئے تھے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 783) سخت مجبوری میں نماز توڑنا جائز ہے افریقہ سے ڈاکٹر محمد علی خاں صاحب نے استفسار کیا کہ اگر ایک احمدی بھائی نماز پڑھ رہا ہو اور باہر سے اس کا افسر آجاوے اور دروازہ کو ہلا ہلا کر اور ٹھونک ٹھونک کر پکارے اور دفتر یا دوائی خانہ کی چابی مانگے تو ایسے وقت میں اسے کیا کرنا چاہیے؟ اسی وجہ سے ایک شخص نوکری سے محروم ہو کر ہندوستان واپس کیا گیا ہے.
فقه المسيح حضرت اقدس نے فرمایا: 108 متفرق مسائل نماز ایسی صورت میں ضروری تھا کہ وہ دروازہ کھول کر چابی افسر کو دے دیتا ( یہ ہسپتال کا واقعہ ہے اس لئے فرمایا ) کیونکہ اگر اس کے التوا سے کسی آدمی کی جان چلی جاوے تو یہ سخت معصیت ہوگی.احادیث میں آیا ہے کہ نماز میں چل کر دروازہ کھول دیا جاوے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی.ایسے ہی اگر لڑکے کو کسی خطرہ کا اندیشہ ہو یا کسی موذی جانور سے جونظر پڑتا ہو ضرر پہنچتا ہو تو لڑکے کو بچانا اور جانور کو مار دینا اس حال میں کہ نماز پڑھ رہا ہے گناہ نہیں ہے اور نماز فاسد نہیں ہوتی ، بلکہ بعضوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ گھوڑ اکھل گیا ہو تو اُسے باندھ دینا بھی مفسد نماز نہیں ہے کیونکہ وقت کے اندر نماز تو پھر بھی پڑھ سکتا ہے.نوٹ :.یا د رکھنا چاہئے کہ اشد ضرورتوں کے لئے نازک موقع پر یہ حکم ہے.یہ نہیں کہ ہر ایک قسم کی رفع حاجت کو مقدم رکھ کر نماز کی پرواہ نہ کی جاوے اور اسے بازیچۂ طفلاں البدر 24 نومبر 1904 صفحہ 4) بنا دیا جاوے ورنہ نماز میں اشغال کی سخت ممانعت ہے اور اللہ تعالیٰ ہر ایک دل اور نیت کو بخوبی جانتا ہے.جوتا پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں ) ذکر تھا کہ امیر کا بل اجمیر کی خانقاہ میں بوٹ پہنے ہوئے چلا گیا تھا اور ہر جگہ بوٹ پہنے ہوئے نماز پڑھی اور اس بات کو خانقاہ کے کارندوں نے بُرا منایا.حضرت نے فرمایا اس معاملہ میں امیر حق پر تھا جوتی پہنے ہوئے نماز پڑھنا شرعاً جائز ہے.پان منہ میں رکھ کر نماز ادا کرنا 66 ( بدر 11 اپریل 1907 ء صفحہ 3) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے
فقه المسيح 109 متفرق مسائل نماز مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کو سخت کھانسی ہوئی.ایسی کہ دم نہ آتا تھا.البتہ منہ میں پان رکھ کر قدرے آرام معلوم ہوتا تھا.اس وقت آپ نے اس حالت میں پان منہ میں رکھے رکھے نماز پڑھی تا کہ آرام سے پڑھ سکیں.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 606،605) عورت مرد کے پیچھے الگ صف میں نماز پڑھے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جالندھر میں قیام پذیر تھے.تو میں اوپر کو ٹھے پر گیا.حضور تنہائی میں بہت لمبی نماز پڑھتے تھے اور رکوع و سجود لمبے کرتے تھے.ایک خادمہ غالبا مائی تابی اس کا نام تھا جو بہت بڑھیا تھی.حضور کے برابر مصلے پر کھڑے ہو کر نماز پڑھ کر چلی گئی.میں دیر تک بیٹھا رہا.جب حضور نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے یہ مسئلہ پوچھا کہ عورت مرد کے ساتھ کھڑی ہو کر نماز پڑھ سکتی ہے یا پیچھے.حضور نے فرمایا اُسے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے.میں نے کہا حضور تابی تو ابھی حضور کے برابر نماز پڑھ کر چلی گئی ہے.آپ نے فرمایا کہ ہمیں تو خبر نہیں.وہ کب کھڑی ہوئی اور کب چلی گئی.نماز میں عورتوں کی الگ صف حضرت میر محمد اسحاق صاحب فرماتے ہیں:.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 122 بچپن میں بیسیوں دفعہ ایسا ہوا کہ حضور نے مغرب وعشاء اندر عورتوں کو جماعت پڑھا ئیں.میں آپ کے دائیں طرف کھڑا ہوتا تھا.عورتیں پیچھے کھڑی ہوتیں.(ماہانہ الفرقان ستمبر، اکتوبر 1961 ، صفحہ 49) نماز میں مجبور اعورت کو ساتھ کھڑا کرنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے
فقه المسيح 110 متفرق مسائل نماز مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کومیں نے بارہا دیکھا کہ گھر میں نماز پڑھاتے تو حضرت ام المومنین کو اپنے دائیں جانب بطور مقتدی کے کھڑا کر لیتے حالانکہ مشہور فقہی مسئلہ یہ ہے کہ خواہ عورت اکیلی ہی مقتدی ہو تب بھی اُسے مرد کے ساتھ نہیں بلکہ الگ پیچھے کھڑا ہونا چاہئے.ہاں اکیلا مرد مقتدی ہو تو اسے امام کے ساتھ دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے.میں نے حضرت ام المومنین سے پوچھا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حضرت صاحب نے مجھ سے یہ بھی فرمایا تھا کہ مجھے بعض اوقات کھڑے ہو کر چکر آجایا کرتا ہے.اس لئے تم میرے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھ لیا کرو.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 636 ،637) امام کا جھرا بسم اللہ پڑھنا اور قنوت کرنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اکثر طور پر امام صلوۃ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ہوتے تھے اور وہ بالجبر نمازوں میں بسم اللہ بالجبر پڑھتے اور قنوت بھی کرتے تھے اور حضرت احمد علیہ السلام ان کی اقتداء میں ہوتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسے مسائل میں حضرت صاحب کسی سے تعرض نہیں فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ سب طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں مگر خود آپ کا اپنا طریق وہ تھا جس کے متعلق آپ سمجھتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اکثر اختیار کیا ہے.نمازوں میں قنوت کی دعائیں ( سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 735) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں جب تک مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم زندہ
فقه المسيح 111 متفرق مسائل نماز رہے وہ ہر فرض نماز میں قنوت پڑھتے تھے اور صبح اور مغرب اور عشاء میں جہر کے ساتھ قنوت ہوتا تھا.قنوت میں پہلے قرآنی دعائیں پھر بعض حدیث کی دعائیں معمول ہوا کرتی تھیں.آخر میں درود پڑھ کر سجدہ میں چلے جاتے تھے.جو دعائیں اکثر پڑھی جاتیں تھیں ان کو بیان کر دیتا ہوں.رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة : 202) رَبَّنَا وَ اتِنَا مَا وَعَدُتَنَا عَلَى رُسُلِكَ......(ال عمران:195) رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرُ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (الاعراف : 24) رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان :75) رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا......(البقرة: 287) رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَاماً...(الفرقان: 66) رَبَّنَا افْتَحُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ (الاعراف: 90) رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (يونس : 86) رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا (ال عمران:9) رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِياً يُنَادِي لِلإِيْمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا ( ال عمران: 194) اللَّهُمَّ اَيْدِ الْإِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِينَ بِالْإِمَامِ الْحَكَمِ الْعَادِلِ اللهُمَّ انْصُرُ مَنْ نَصَرَ دِينَ مُحَمَّدٍ وَاجْعَلْنَا مِنْهُمْ وَاخْذُلُ مَنْ خَذَلَ دِينَ مُحَمَّدٍ وَّلَا تَجْعَلْنَا مِنْهُمْ
فقه المسيح 112 متفرق مسائل نماز خاکسار عرض کرتا ہے کہ آخری سے پہلی دعا میں دراصل مسیح موعود کی بعثت کی دعا ہے مگر بعثت کے بعد اس کے یہ معنے سمجھے جائیں گے کہ اب مسلمانوں کو آپ پر ایمان لانے کی توفیق عطا کر.مخصوص حالات میں قنوت پڑھنا فرمایا: (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 805،804) " آج کل چونکہ وبا کا زور ہے اس لئے نمازوں میں قنوت پڑھنا چاہئے.“ فرمایا: البدر یکم مئی 1903 ء صفحہ 115 کالم 2) قرآن شریف کا منشاء یہ ہے کہ جب عذاب سر پر آپڑے پھر تو یہ عذاب سے نہیں چھڑا سکتی.اس سے بیشتر کہ عذاب الہی آکر تو بہ کا دروازہ بند کر دے تو بہ کرو.جبکہ دنیا کے قانون سے اس قدر ڈر پیدا ہوتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قانون سے نہ ڈریں.جب بلا سر پر آپڑے تو پھر اس کا مزہ چکھنا ہی پڑتا ہے.چاہیے کہ ہر ایک شخص نہر میں اٹھنے کی کوشش کرے اور پانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملا دیں.ہر ایک قسم کی خدا کو ناراض کرنے والی باتوں سے تو بہ کریں.الحکم 24 جولائی 1901 ، صفحہ 1 ،2) نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا حضرت مفتی محمد صادق صاحب تحریر کرتے ہیں : ہندوستان میں عموما مسلمانوں کا یہ خیال ہے کہ نماز کے اندر تکبیر اولیٰ کے بعد اور سلام پھیرنے سے قبل سوائے مسنون دعاؤں کے جو عربی زبان میں پڑھی جاتی ہیں اور کوئی دعا
فقه المسيح 113 متفرق مسائل نماز اپنی زبان اُردو یا فارسی یا انگریزی وغیرہ میں کرنا جائز نہیں ہے اور عموما لوگوں کی عادت ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد پھر ہاتھ اُٹھا کر اپنی زبان میں دُعائیں کرتے ہیں اور اپنے دلی جذبات اور خواہشات کا اظہار کرتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بارہا فرمایا: ”نماز کے اندر سجدہ یا رکوع کے بعد کھڑے ہوکر یا کسی دوسرے موقعہ پر مسنون دعا کہنے کے بعد اپنی زبان میں دعا مانگنا جائز ہے کیونکہ اپنی زبان میں ہی انسان اچھی طرح اپنے جذبات اور دلی جوش کا اظہار کر سکتا ہے.کسی نے عرض کی کہ مولوی لوگ تو کہتے ہیں کہ نماز کے اندر اپنی زبان میں دعا کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے.فرمایا ” اُن کی نماز تو پہلے ہی ٹوٹی ہوئی ہے کیونکہ وہ سمجھتے نہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں.دعا خواہ کسی زبان میں کی جائے.اس سے نماز نہیں ٹوٹتی.فرمایا: جو لوگ نماز عربی میں جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں.اس کے مطلب کو نہیں سمجھتے اور نہ انہیں کچھ ذوق اور شوق پیدا ہوتا ہے اور سلام پھیرنے کے بعد لمبی دعائیں کرتے ہیں.اُن کی مثال اُس شخص کی ہے جو بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا.اور تخت کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی عرضی پیش کی جو کسی سے لکھوالی تھی اور بغیر سمجھنے کے طوطے کی طرح اُسے پڑھ کر سلام کر کے چلا آیا اور دربار سے باہر آ کر شاہی محل کے باہر کھڑے ہو کر پھر کہنے لگا کہ میری یہ عرض بھی ہے اور وہ عرض بھی ہے.اُسے چاہیے تھا کہ عین حضوری کے وقت اپنی تمام عرضیں پیش کرتا.فرمایا: ”ایسے لوگوں کی مثال جو نماز میں دعا نہیں کرتے اور نماز کے خاتمہ کے بعد لمبی دعائیں کرتے ہیں.اُس شخص کی طرح ہے جس نے اتنے کی چوٹی کو الٹا کر 66 زمین پر رکھا اور پیتے اوپر کی طرف ہو گئے اور پھر گھوڑے کو چلایا کہ اُس اگے کو کھینچے.( ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 197 ،198 )
فقه المسيح 114 متفرق مسائل نماز نماز میں اپنی زبان میں دعا کرنا جائز ہے فرمایا : یہ ضروری بات نہیں ہے کہ دعا ئیں عربی زبان میں کی جاویں، چونکہ اصل غرض نماز کی تضرع اور ابتہال ہے، اس لئے چاہیے کہ اپنی مادری زبان میں ہی کرے.انسان کو اپنی مادری زبان سے ایک خاص اُنس ہوتا ہے اور پھر وہ اس پر قادر ہوتا ہے.دوسری زبان سے خواہ اس میں کس قدر بھی دخل ہو اور مہارت کا مل ہو، ایک قسم کی اجنبیت باقی رہتی ہے.اس لئے چاہیے کہ اپنی مادری زبان ہی میں دعائیں مانگے.ایک اور موقعہ پر حضرت اقدس نے فرمایا: الحکم 24 دسمبر 1900 ءصفحہ 2) سب زبانیں خدا نے بنائی ہیں.چاہیے کہ اپنی زبان میں جس کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے.نماز کے اندر دعائیں مانگے ، کیونکہ اُس کا اثر دل پر پڑتا ہے تا کہ عاجزی اور خشوع پیدا ہو.کلامِ الہی کو ضرور عربی میں پڑھو اور اس کے معنی یا د رکھو اور دُعا بے شک اپنی زبان میں مانگو.جو لوگ نماز کو جلدی جلدی پڑھتے ہیں اور پیچھے لمبی دُعائیں کرتے ہیں وہ حقیقت سے نا آشنا ہیں.دعا کا وقت نماز ہے.نماز میں بہت دعائیں مانگو.(الحکم 24 مئی 1901 صفحہ 9) نماز میں مسنون دعاؤں کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دعا کرو فرمایا: نماز کے اندرا اپنی زبان میں دعا مانگنی چاہیے کیونکہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے پورا جوش پیدا ہوتا ہے.سورۃ فاتحہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے.وہ اسی طرح عربی زبان میں پڑھنا.
فقه المسيح 115 متفرق مسائل نماز چاہئے اور قرآن شریف کا حصہ جو اس کے بعد پڑھا جاتا ہے وہ بھی عربی زبان میں ہی پڑھنا چاہئے.اور اس کے بعد مقررہ دعائیں اور تسبیح بھی اسی طرح عربی زبان میں پڑھنی چاہئیں.لیکن ان سب کا ترجمہ سیکھ لینا چاہئے اور ان کے علاوہ پھر اپنی زبان میں دعائیں مانگنی چاہئیں تا کہ حضور دل پیدا ہو جائے کیونکہ جس نماز میں حضور دل نہیں وہ نماز نہیں.آج کل لوگوں کی عادت ہے کہ نماز تو ٹھونگید ار پڑھ لیتے ہیں جلدی جلدی نماز کو ادا کر لیتے ہیں جیسا کہ کوئی بیگار ہوتی ہے، پھر پیچھے سے لمبی لمبی دعائیں مانگنا شروع کرتے ہیں.یہ بدعت ہے.حدیث شریف میں کسی جگہ اس کا ذکر نہیں آیا کہ نماز سے سلام پھیرنے کے بعد پھر دُعا کی جائے.نادان لوگ نماز کو تو ٹیکس جانتے ہیں اور دُعا کو اس سے علیحدہ کرتے ہیں.نماز خود دُعا ہے.دین و دنیا کی تمام مشکلات کے واسطے اور ہر ایک مصیبت کے وقت انسان کو نماز کے اندر دعائیں مانگنی چاہئیں.نماز کے اندر ہر موقع پر دُعا کی جاسکتی ہے.رکوع میں بعد تسبیح.سجدہ میں بعد تسبیح.التحیات کے بعد کھڑے ہوکر.رکوع کے بعد بہت دعائیں کرو تا کہ مالا مال ہو جاؤ.چاہیے کہ دعا کے وقت آستانہ الوہیت پر روح پانی کی طرح بہہ جائے.ایسی دُعا دل کو پاک وصاف کر دیتی ہے.یہ دُعا میسر آوے، تو پھر خواہ انسان چار پہر دعا میں کھڑا ر ہے گناہوں کی گرفتاری سے بچنے کے واسطے اللہ تعالیٰ کے حضور میں دُعائیں مانگنی چاہئیں.دعا ایک علاج ہے جس سے گناہ کی زہر دور ہو جاتی ہے.بعض نادان لوگ خیال کرتے ہیں کہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے.یہ غلط خیال ہے.ایسے لوگوں کی نما ز تو خود ہی ٹوٹی ہوئی ہے.ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 202 203)
فقه المسيح 116 متفرق مسائل نماز ایک اور موقعہ پر سوال ہوا کہ نماز کے بعد دُعا کرنی یہ سُنتِ اسلام آئی ہے یا نہیں ؟ فرمایا:.ہم انکار نہیں کرتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا مانگی ہوگی مگر ساری نماز دعا ہی ہے اور آج کل دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نماز کو جلدی جلدی ادا کر کے گلے سے اُتارتے ہیں.پھر دُعاؤں میں اس کے بعد اس قدر خشوع و خضوع کرتے ہیں کہ جس کی حد نہیں اور اتنی دیر تک دُعا مانگتے رہتے ہیں کہ مسافر دو میل تک نکل جاوے.بعض لوگ اس سے تنگ بھی آجاتے ہیں تو یہ بات معیوب ہے.خشوع خضوع اصل جز و تو نماز کی ہے.وہ اس میں نہیں کیا جاتا اور نہ اس میں دُعا مانگتے ہیں.اس طرح سے وہ لوگ نماز کو منسوخ کرتے ہیں.انسان نماز کے اندر ہی ماثورہ دعاؤں کے بعد اپنی زبان میں دُعا مانگ سکتا ہے.(البدر یکم مئی 1903 ، صفحہ 114) نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کروانا چھوڑ دیا ย حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک کے شروع میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کراتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ہاتھ اُٹھا کر دعا کر لیا کرتے تھے.لیکن بعد میں آپ نے نہایت نرمی کے ساتھ یہ مسئلہ سمجھا دیا اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے ایسا کرنا چھوڑ دیا.اس حوالے سے حضرت پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی کی مندرجہ ذیل روایت قابلِ غور ہے.وہ لکھتے ہیں :.خدا کی مہربانی سے مجھے وہ وقت یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے ہم خدام بیٹھے ہوئے تھے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بھی تھے جبکہ حضور نے نماز کے اندر دعا کرنے کے متعلق تقریر فرمائی.جس کا مطلب میری عبارت میں یہ ہے کہ یہ رسم پڑگئی ہے کہ نماز کے اندر دعا نہیں کرتے.نماز کو بطور رسم و عادت جلدی
فقه المسيح 117 متفرق مسائل نماز جلدی پڑھ لیتے ہیں اور جب سلام پھیر چکتے ہیں تو لمبی لمبی دعائیں بڑی تضرع سے مانگتے ہیں.حالانکہ نماز کے اندر دعا چاہئے.نماز خود دعا ہے ،نماز اس لئے ہے کہ بندہ اس میں اپنے رب سے دین دنیا کے حسنات طلب کرے اس کی مثال یہ ہے کہ جب بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے تو اپنی کوئی حاجت پیش نہ کی اور جب دربار سے رخصت ہوکر باہر آئے تو درخواست کرنی شروع کر دی.یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز پنجگانہ کی جماعت کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کیا کرتے تھے.حضور علیہ السلام کی اس تقریر سے پہلے برابر پانچ وقت کی جماعت کے بعد بالالتزام ہاتھ اُٹھا کر دعا کی جاتی تھی.امام نماز حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ، حضرت اقدس ، سب مقتدی نماز فرض کا سلام پھیر کر ہاتھ اُٹھا کر دعا کیا کرتے تھے.مجھے اس طریق پر سب کا مل کر ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا یاد ہے.کیونکہ میں بھی سب کے ساتھ ہاتھ اُٹھا کر دعا کیا کرتا تھا.اس تمام تقریر میں حضرت اقدس نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو اس بات کا اشارہ تک بھی نہیں کیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں یا آئندہ ایسا نہ کیا کریں.لیکن حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے جس وقت حضور کی یہ تقریر سنی اس کے بعد نماز کے سلام کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنی چھوڑ دی.اور اس وقت سے یہی طریق جاری ہے.افتخار الحق از حضرت صاحبزادہ افتخار احمد صاحب لدھیانوی صفحہ 495،494) نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بدعت ہے مسئلہ پوچھا گیا کہ ہم لوگ عموماً بعد نماز دعا مانگتے ہیں لیکن یہاں نوافل تو خیر دعا بعد نماز نہیں مانگتے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا: اصل یہ ہے کہ ہم دعا مانگنے سے تو منع نہیں کرتے اور ہم خود بھی دعا مانگتے ہیں اور صلوٰۃ بجائے خود دعا ہی ہے.بات یہ ہے کہ میں نے اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے کہ ہندوستان
فقه المسيح 118 متفرق مسائل نماز میں یہ عام بدعت پھیلی ہوئی ہے کہ تعدیل ارکان پورے طور پر ملحوظ نہیں رکھتے اور ٹھونگے دار نماز پڑھتے ہیں.گویا وہ نماز ایک ٹیکس ہے جس کا ادا کرنا ایک بوجھ ہے.اس لیے اس طریق سے ادا کیا جاتا ہے، جس میں کراہت پائی جاتی ہے حالانکہ نماز ایسی شے ہے کہ جس سے ایک ذوق ، انس اور سرور بڑھتا ہے مگر جس طرز پر نماز ادا کی جاتی ہے اس سے حضور قلب نہیں ہوتا اور بے ذوقی اور بے لطفی پیدا ہوتی ہے.میں نے اپنی جماعت کو یہی نصیحت کی ہے کہ وہ بے ذوقی اور بے حضوری پیدا کرنے والی نماز نہ پڑھیں بلکہ حضورِ قلب کی کوشش کریں جس سے اُن کو سرور اور ذوق حاصل ہو.عام طور پر یہ حالت ہو رہی ہے کہ نماز کو ایسے طور سے پڑھتے ہیں کہ جس میں حضور قلب کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ جلدی جلدی اس کو ختم کیا جاتا ہے اور خارج نماز میں بہت کچھ دعا کے لیے کرتے ہیں اور دیر تک دعا مانگتے رہتے ہیں حالانکہ نماز کا ( جو مومن کی معراج ہے ) مقصود یہی ہے کہ اس میں دعا کی جاوے اور اسی لیے اُمُّ الْاَدْعِيَه، اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ دعا مانگی جاتی ہے.انسان کبھی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرتا جب تک کہ اقام الصلوٰۃ نہ کرے.اقِیمُوا الصَّلوةَ اس لیے فرمایا کہ نماز گری پڑتی ہے مگر جو شخص اقام الصلوۃ کرتے ہیں.تو وہ اس کی روحانی صورت سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو پھر وہ دعا کی محویت میں ہو جاتے ہیں.نماز ایک ایسا شربت ہے کہ جو ایک بارا سے پی لے اُسے فرصت ہی نہیں ہوتی.اور وہ فارغ ہی نہیں ہوسکتا.ہمیشہ اس سے سرشار اور مست رہتا ہے.اس سے ایسی محویت ہوتی ہے کہ اگر ساری عمر میں ایک بار بھی اسے چکھتا ہے تو پھر اس کا اثر نہیں جاتا.مومن کو بے شک اٹھتے بیٹھتے ہر وقت دعائیں کرنی چاہئیں مگر نماز کے بعد جو دعاؤں کا طریق اس ملک میں جاری ہے وہ عجیب ہے.بعض مساجد میں اتنی لمبی دعائیں کی جاتی ہیں کہ آدھ میل کا سفر ایک آدمی کر سکتا ہے.میں نے اپنی جماعت کو بہت نصیحت کی ہے کہ
فقه المسيح 119 متفرق مسائل نماز اپنی نما ز کو سنوارو ، یہ بھی دعا ہے.کیا وجہ ہے کہ بعض لوگ تمہیں تمہیں برس تک برابر نماز پڑھتے ہیں.پھر کورے کے کورے ہی رہتے ہیں.کوئی اثر روحانیت اور خشوع و خضوع کا ان میں پیدا نہیں ہوتا.اس کا یہی سبب ہے کہ وہ ، وہ نماز پڑھتے ہیں جس پر خدا تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے ایسی نمازوں کے لیے ویل آیا ہے.دیکھو جس کے پاس اعلیٰ درجہ کا جو ہر ہو تو کیا کوڑیوں اور پیسوں کے لیے اسے اس کو پھینک دینا چاہیے.ہرگز نہیں.اول اس جو ہر کی حفاظت کا اہتمام کرے اور پھر پیسوں کو بھی سنبھالے.اس لیے نماز کو سنوار سنوار کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھے.سائل: الحمد شریف بیشک دعا ہے مگر جن کوعربی کا علم نہیں ان کو تو دعامانگنی چاہیے.حضرت اقدس : ہم نے اپنی جماعت کو کہا ہوا ہے کہ طوطے کی طرح مت پڑھو.سوائے قرآن شریف کے جو رب جلیل کا کلام ہے اور سوائے ادعیہ ماثورہ کے ، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھیں نماز بابرکت نہ ہوگی جب تک اپنی زبان میں اپنے مطالب بیان نہ کرو.اس لیے ہر شخص کہ جو عربی زبان نہیں جانتا ضروری ہے کہ اپنی زبان میں اپنی دعاؤں کو پیش کرے اور رکوع میں سجود میں مسنون تسبیحوں کے بعد اپنی حاجات کو عرض کرے.ایسا ہی التحیات میں اور قیام اور جلسہ میں.اس لیے میری جماعت کے لوگ اس تعلیم کے موافق نماز کے اندر اپنی زبان میں دعائیں کر لیتے ہیں اور ہم بھی کر لیتے ہیں، اگر چہ ہمیں تو عربی اور پنجابی یکساں ہی ہیں مگر مادری زبان کے ساتھ انسان کو ایک ذوق ہوتا ہے.اس لیے اپنی زبان میں نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ اپنے مطالب اور مقاصد کو بارگاہ رب العزة میں عرض کرنا چاہیے.میں نے بارہا سمجھایا ہے کہ نماز کا تعہد کرو.جس سے حضور اور ذوق پیدا ہو.فریضہ تو جماعت کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں.باقی نوافل اور سنن کو جیسا چاہو طول دو اور چاہیے کہ اس میں گریہ و بکا ہوتا کہ وہ حالت پیدا ہو جاوے جو نماز کا اصل مطلب
فقه المسيح 120 متفرق مسائل نماز ہے.نماز ایسی شے ہے کہ سیات کو دور کر دیتی ہے.جیسے فرمایا إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ (هود : 115) نما ز کل بدیوں کو دور کر دیتی ہے.حسنات سے مراد نماز ہے مگر آج کل یہ حالت ہو رہی ہے کہ عام طور پر نمازی کو مکار سمجھا جاتا ہے کیونکہ عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں.یہ اسی قسم کی ہے جس پر خدا نے واویلا کیا ہے کیونکہ اس کا کوئی نیک اثر اور نیک نتیجہ مترتب نہیں ہوتا.نرے الفاظ کی بحث میں پسند نہیں کرتا.آخر مر کر خدا تعالیٰ کے حضور جانا ہے.دیکھو ایک مریض جو طبیب کے پاس جاتا ہے اور اس کا نسخہ استعمال کرتا ہے.اگر دس ہیں دن تک اس سے کوئی فائدہ نہ ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ تشخیص یا علاج میں کوئی غلطی ہے.پھر یہ کیا اندھیر ہے کہ سالہا سال سے نمازیں پڑھتے ہیں اور اس کا کوئی اثر محسوس اور مشہور نہیں ہوتا.میرا تو یہ مذہب ہے کہ اگر دس دن بھی نماز کو سنوار کر پڑھیں تو تنویر قلب ہو جاتی ہے مگر یہاں تو پچاس پچاس برس تک نماز پڑھنے والے دیکھے گئے ہیں کہ بدستور رو بہ دنیا اور سفلی زندگی میں نگونسار ہیں اور انہیں نہیں معلوم کہ وہ نمازوں میں کیا پڑھتے ہیں اور استغفار کیا چیز ہے.اس کے معنوں پر بھی انہیں اطلاع نہیں ہے.طبیعتیں دوستم کی ہیں.ایک وہ جو عادت پسند ہوتی ہیں جیسے اگر ہند و کا کسی مسلمان کے ساتھ کپڑا بھی چھو جاوے تو وہ اپنا کھانا پھینک دیتا ہے حالانکہ اس کھانے میں مسلمان کا کوئی اثر سرایت نہیں کر گیا.زیادہ تر اس زمانہ میں لوگوں کا یہی حال ہو رہا ہے کہ عادت اور رسم کے پابند ہیں اور حقیقت سے واقف اور آشنا نہیں ہیں.جو شخص دل میں یہ خیال کرے کہ یہ بدعت ہے کہ نماز کے پیچھے دعا نہیں مانگتے بلکہ نمازوں میں دعائیں کرتے ہیں.یہ بدعت نہیں.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ادعیہ عربی میں سکھائی تھیں جو اُن لوگوں کی اپنی مادری زبان تھی اسی لیے ان کی ترقیات جلدی ہو ئیں.لیکن جب دوسرے ممالک میں اسلام پھیلا تو وہ ترقی نہ
فقه المسيح 121 متفرق مسائل نماز رہی.اس کی یہی وجہ تھی کہ اعمال رسم و عادت کے طور پر رہ گئے.ان کے نیچے جو حقیقت اور مغز تھا وہ نکل گیا.اب دیکھ لو مثلاً ایک افغان نماز تو پڑھتا ہے ،لیکن وہ اثر نماز سے بالکل بے خبر ہے.یا درکھور سم اور چیز ہے اور صلوٰۃ اور چیز صلوۃ ایسی چیز ہے کہ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے قرب کا کوئی قریب ذریعہ نہیں.یہ قرب کی کنجی ہے.اسی سے کشوف ہوتے ہیں.اسی سے الہامات اور مکالمات ہوتے ہیں.یہ دعاؤں کے قبول ہونے کا ایک ذریعہ ہے لیکن اگر کوئی اس کو اچھی طرح سے سمجھ کر ادا نہیں کرتا تو وہ رسم اور عادت کا پابند ہے اور اس سے پیار کرتا ہے.جیسے ہندو گنگا سے پیار کرتے ہیں.ہم دعاؤں سے انکار نہیں کرتے.بلکہ ہمارا تو سب سے بڑھ کر دعاؤں کی قبولیت پر ایمان ہے جبکہ خدا تعالیٰ نے ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمُ (المؤمن : 61) فرمایا ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ نے نماز کے بعد دعا کرنا فرض نہیں ٹھہرایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی التزامی طور پر مسنون نہیں ہے.آپ سے التزام ثابت نہیں ہے.اگر التزام ہوتا اور پھر کوئی ترک کرتا تو یہ معصیت ہوتی.تقاضائے وقت پر آپ نے خارج نماز میں بھی دعا کر لی اور ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ آپ کا سارا ہی وقت دعاؤں میں گزرتا تھا.لیکن نما ز خاص خز مبینہ دعاؤں کا ہے جو مومن کو دیا گیا ہے اس لیے اس کا فرض ہے کہ جب تک اس کو درست نہ کر لے اور اس کی طرف توجہ نہ کرے کیونکہ جب نفل سے فرض جاتا رہے تو فرض کو مقدم کرنا چاہیے.اگر کوئی شخص ذوق اور حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو پھر خارج نماز میں بے شک دعائیں کرے ہم منع نہیں کرتے.ہم تقدیم نماز کی چاہتے ہیں اور یہی ہماری غرض ہے.مگر لوگ آج کل نماز کی قدر نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے بہت بعد ہو گیا مومن کے لیے نماز معراج ہے اور وہ اس سے ہی اطمینان قلب پاتا ہے، کیونکہ نماز میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور اپنی عبودیت کا اقرار، استغفار ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود غرض وہ سب امور جو روحانی ترقی کے لیے
فقه المسيح 122 متفرق مسائل نماز ضروری ہیں.موجود ہیں.ہمارے دل میں اس کے متعلق بہت سی باتیں ہیں جن کو الفاظ پورے طور پر ادا نہیں کر سکتے.بعض سمجھ لیتے ہیں اور بعض رہ جاتے ہیں مگر ہمارا کام یہ ہے کہ ہم تھکتے نہیں.کہتے جاتے ہیں.جو سعید ہوتے ہیں اور جن کو فراست دی گئی ہے وہ سمجھ (الحكم 24 اکتوبر 1902ء صفحہ 12،11) لیتے ہیں.عربی کی بجائے کسی اور زبان میں نماز پڑھنا درست نہیں سوال : ایک شخص نے رسالہ لکھا تھا کہ ساری نماز اپنی ہی زبان میں پڑھنی چاہیے.جواب از حضرت اقدس: وہ اور طریق ہو گا ، جس سے ہم متفق نہیں.قرآن شریف بابرکت کتاب ہے اور رب جلیل کا کلام ہے.اس کو چھوڑ نا نہیں چاہیے.ہم نے تو ان لوگوں کے لیے دعاؤں کے واسطے کہا ہے، جو امی ہیں اور پورے طور پر اپنے مقاصد عرض نہیں کر سکتے ان کو چاہیے.کہ اپنی زبان میں دعا کر لیں.ان لوگوں کی حالت تو یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ فتح محمد ایک شخص تھا.اس کی چی بہت بڑھی ہوگئی تھی.اس نے کلمہ کے معنے پوچھے تو اس کو کیا معلوم تھا کہ کیا ہیں.اس نے بتائے تو اس عورت نے پوچھا کہ محمد مر د تھا یا عورت تھی.جب اس کو بتایا گیا کہ وہ مرد تھا ، تو وہ حیرت زدہ ہو کر کہنے لگی کہ پھر کیا میں اتنی عمر تک بیگانے مرد ہی کا نام لیتی رہی؟ یہ حالت مسلمانوں کی ہو گئی ہے.(الحكم 24 اکتوبر 1902 ، صفحہ 12 )
فقه المسيح 123 نمازیں جمع کرنا نمازیں جمع کرنا مسیح موعود کے لئے نمازیں جمع کی جائیں گی فرمایا:.ہزار شکر کا مقام ہے کہ اس موقعہ پر (ستر دنوں میں تفسیر سورۃ فاتحہ لکھنے کے موقع پر.ناقل ) ایک پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی پوری ہوئی اور وہ یہ ہے کہ اس ستر دن کے عرصہ میں کچھ باعث امراض لاحقہ اور کچھ باعث اس کے بوجہ بیماری بہت سے دن تفسیر لکھنے سے سخت معذوری رہی ان نمازوں کو جو جمع ہو سکتی ہیں جمع کرنا پڑا اور اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو در منثور اور فتح باری اور تفسیر ابن کثیر وغیرہ کتب میں ہے کہ تُجمَعُ لَهُ الصَّلوةُ یعنی مسیح موعود کے لئے نماز جمع کی جائے گی.اب ہمارے مخالف علماء یہ بھی بتلا دیں کہ کیا وہ اس بات کو مانتے ہیں یا نہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہو کر مسیح موعود کی وہ علامت بھی ظہور میں آگئی اور اگر نہیں مانتے تو کوئی نظیر پیش کریں کہ کسی نے مسیح موعود کا دعوی کر کے دوماہ تک نمازیں جمع کی ہوں یا بغیر دعوی ہی نظیر پیش کرو.بیماری کی وجہ سے نمازیں جمع کرنا ( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 497) نوٹ از ایڈیٹر تشحیذ:- چونکہ کچھ مدت سے حضرت کی طبیعت دن کے دوسرے حصہ میں اکثر خراب ہو جاتی ہے.اس لئے نماز مغرب اور عشاء گھر میں باجماعت پڑھ لیتے ہیں.باہر تشریف نہیں لا سکتے.ایک دن نماز مغرب کے بعد چند عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا جو سننے کے قابل ہے.فرمایا:.کوئی یہ نہ دل میں گمان کر لے کہ یہ روز گھر میں جمع کر کے نماز پڑھا دیتے ہیں اور باہر
فقه المسيح 124 نمازیں جمع کرنا نہیں جاتے.یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی کہ آنے والا شخص نماز جمع کیا کرے گا.سو چھ مہینہ تک تو باہر جمع کروا تا رہا ہوں.اب میں نے کہا کہ عورتوں میں بھی اس پیشگوئی کو پورا کر دینا چاہئے چونکہ بغیر ضرورت کے نماز جمع کرنا نا جائز ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے مجھ کو بیمار کر دیا اور اس طرح سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کر دیا.ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو پورا کرے.کیونکہ وہ پورا نہ ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ جھوٹے ٹھہرتے ہیں.اس لئے ہر ایک کو وہ بات جو اس کے اختیار میں ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے کے موافق پوری کر دینی چاہئے اور خدا تعالیٰ خود بھی سامان مہیا کر دیتا ہے جیسا کہ مجھ کو بیمار کردیا تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو پورا کر دے.جیسا کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی سے فرمایا کہ تیرا اس وقت کیا حال ہوگا جبکہ تیرے ہاتھ میں کسری کے سونے کے کڑے پہنائے جائیں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب کسری کا ملک فتح ہوا.تو حضرت عمرؓ نے اس کو سونے کے کڑے جو ٹوٹ میں آئے تھے پہنائے.حالانکہ سونے کے کڑے یا کوئی اور چیز سونے کی مردوں کے لئے ایسی ہی حرام ہے جیسا کہ اور حرام چیزیں.لیکن چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے یہ بات نکلی تھی اس لئے پوری کی گئی.اسی طرح ہر ایک دوسرے انسان کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.جمع بین الصلو تین مہدی کی علامت ہے (بدر 7 جون 1906 صفحہ 5) سب صاحبوں کو معلوم ہوا ایک مدت سے خدا جانے قریباً چھ ماہ سے یا کم وبیش عرصہ سے ظہر اور عصر کی نماز جمع کی جاتی ہے.میں اس کو مانتا ہوں کہ ایک عرصہ سے جو مسلسل نما ز جمع کی جاتی ہے ایک نو وارد یا نو مرید کو جس کو ہمارے اغراض و مقاصد کی کوئی خبر نہیں ہے یہ شبہ
فقه المسيح 125 نمازیں جمع کرنا گزرتا ہو گا کہ کاہلی کے سبب سے نماز جمع کر لیتے ہوں گے ، جیسے بعض غیر مقلد ذرا ابر ہو یا کسی عدالت میں جانا ہوا تو نماز جمع کر لیتے ہیں اور بلا مطر اور بلا عذر بھی نماز جمع کرنا جائز سمجھتے ہیں مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم کو اس جھگڑے کی ضرورت اور حاجت نہیں نہ ہم اس میں پڑنا چاہتے ہیں کیونکہ میں طبعاً اور فطرتاً اس کو پسند کرتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے اور نماز موقوتہ کے مسئلے کو نہایت عزیز رکھتا ہوں بلکہ سخت مطر میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے اگر چہ شیعوں اور غیر مقلدوں نے اس پر بڑے بڑے مباحثے کئے ہیں مگر ہم کو ان سے کوئی غرض نہیں صرف نفس کی کاہلی سے کام لیتے ہیں سہل حدیثوں کو اپنے مفید مطلب پا کر ان سے کام لیتے ہیں اور مشکل کو موضوع اور مجروح ٹھہراتے ہیں ہمارا یہ مدعا نہیں بلکہ ہمارا مسلک ہمیشہ حدیث کے متعلق یہ رہا ہے کہ جو قرآن اور سنت کے مخالف نہ ہو وہ اگر ضعیف بھی ہو تو تب بھی اس پر عمل کر لینا چاہیے.اس وقت جو ہم نمازیں جمع کرتے ہیں تو اصل بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تفہیم القا اور الہام کے بدوں نہیں کرتا بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ میں ظاہر نہیں کرتا مگر اکثر ظاہر ہوتے ہیں جہاں تک خدا تعالیٰ نے مجھ پر اس جمع صلوتین کے متعلق ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے تُجْمَعُ لَهُ الصَّلَوةُ کی بھی عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جواب پوری ہو رہی ہے میرا یہ بھی مذہب ہے کہ اگر کوئی امر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے مثلاً کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت کے متعلق تو گو علماء ظواہر اور محدثین اس کو موضوع یا مجروح ہی ٹھہر اویں گے مگر میں اس کے مقابل اور معارض کی حدیث کو موضوع کہوں گا.اگر چہ خدا تعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پر ظاہر کر دی ہے جیسے لا مهدی إلا عيسى والی حدیث ہے محدثین اس پر کلام کرتے ہیں مگر مجھ پر خدا تعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور میرا یہ مذہب میرا ہی ایجاد کردہ مذہب نہیں بلکہ خود یہ مسلّم مسئلہ
فقه المسيح 126 نمازیں جمع کرنا ہے کہ اہل کشف یا اہل الہام لوگ محدثین کی تنقید حدیث کے محتاج اور پابند نہیں ہوتے.خود مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے رسالہ میں اس مضمون پر بڑی بحث کی ہے اور یہ تسلیم کیا ہے کہ مامور اور اہل کشف محدثین کی تنقید کے پابند نہیں ہوتے ہیں.تو جب یہ حالت ہے پھر میں صاف صاف کہتا ہوں کہ میں جو کچھ کرتا ہوں خدا تعالیٰ کے القاء اور اشارہ سے کرتا ہوں.یہ پیشگوئی جو اس حدیث تُجْمَعُ لَهُ الصَّلَوةُ میں کی گئی ہے یہ مسیح موعود اور مہدی کی ایک علامت ہے.یعنی وہ ایسی دینی خدمات اور کاموں میں مصروف ہوگا کہ اس کے لئے نماز جمع کی جائے گی.اب یہ علامت جبکہ پوری ہوگئی ہے اور ایسے واقعات پیش آگئے پھر اس کو بڑی عظمت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے نہ کہ استہزاء اور انکار کے رنگ میں.الحکم 24 نومبر 1902 صفحہ 1-2) مسیح موعود کی خاطر نمازیں جمع کئے جانے کی پیشگوئی جیسا کہ خدا کے فرائض پر عمل کیا جاتا ہے.ویسا ہی اُس کی رُخصتوں پر عمل کرنا چاہیے.فرض بھی خدا کی طرف سے ہیں اور رخصت بھی خدا کی طرف سے.دیکھو ہم بھی رخصتوں پر عمل کرتے ہیں.نمازوں کو جمع کرتے ہوئے کوئی دو ماہ سے زیادہ ہو گئے ہیں.یہ سبب بیماری کے اور تفسیر سورۂ فاتحہ کے لکھنے میں بہت مصروفیت کے ایسا ہو رہا ہے اور ان نمازوں کے جمع کرنے میں تُجمَعُ لَهُ الصَّلَوةُ کی حدیث بھی پوری ہو رہی ہے کہ مسیح کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی.اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے که مسیح موعود نماز کے وقت پیش امام نہ ہوگا، بلکہ کوئی اور ہوگا اور وہ پیش امام مسیح کی خاطر نمازیں جمع کرائے گا.سو اب ایسا ہی ہوتا ہے جس دن ہم زیادہ بیماری کی وجہ سے بالکل نہیں آسکتے.اس دن نمازیں جمع نہیں ہوتیں اور اس حدیث کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیار کے طریق سے یہ فرمایا ہے کہ اُس کی خاطر
فقه المسيح 127 نمازیں جمع کرنا ایسا ہو گا.چاہیے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کی عزت و تحریم کریں اور ان سے بے پرواہ نہ ہو دیں ورنہ یہ ایک گناہ کبیرہ ہوگا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو خفت کی نگاہ سے دیکھیں.خدا تعالیٰ نے ایسے ہی اسباب پیدا کر دئیے کہ اتنے عرصے سے نمازیں جمع ہو رہی ہیں ورنہ ایک دو دن کے لئے یہ بات ہوتی تو کوئی نشان نہ ہوتا.ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ لفظ اور حرف حرف کی تعظیم کرتے ہیں.الحكم 17 فروری 1901 صفحہ 13 ،14 ) جمع بین الصلاتین کی رخصت سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے فرمایا : یہ عاجز صرف چند روز تک مسافرانہ طور پر علیگڑھ میں ٹھہرا تھا اور جو کچھ مسافروں کے لئے شریعت اسلام نے رخصتیں عطا کی ہیں اور اُن سے دائمی طور پر انحراف کرنا ایک الحاد کا طریق قرار دیا ہے ان سب امور کی رعایت میرے لئے ایک ضروری امر تھا سو میں نے وہی کیا جو کرنا چاہیئے تھا اور میں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ میں نے اُس چند روزہ اقامت کی حالت میں بعض دفعہ مسنون طور پر دونمازوں کو جمع کر لیا ہے اور کبھی ظہر کے اخیر وقت پر ظہر اور عصر دونوں نمازوں کو اکٹھی کر کے پڑھا ہے مگر حضرات موحدین تو کبھی کبھی گھر میں بھی نمازوں کو جمع کر کے پڑھ لیتے ہیں اور بِلا سَفَرٍ وَمَطَرِ پر عمل درآمد رہتا ہے.میں اس سے بھی انکار نہیں کر سکتا کہ میں نے ان چند دنوں میں مسجدوں میں حاضر ہونے کا بکتی التزام نہیں کیا مگر باوجود اپنی علالت طبع اور سفر کی حالت کے بکلی ترک بھی نہیں کیا.(فتح اسلام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 25 حاشیہ ) تُجْمَعُ لَهُ الصَّلوة کے نشان کا ظہور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں ایک دفعہ
فقه المسيح 128 نمازیں جمع کرنا قادیان میں زیادہ عرصہ تک نمازیں جمع ہوتی رہیں.مولوی محمد احسن صاحب نے مولوی نورالدین صاحب کو خط لکھا کہ بہت دن نمازیں جمع کرتے ہو گئے ہیں.لوگ اعتراض کریں گے تو ہم اس کا کیا جواب دیں گے.حضرت مولوی صاحب نے جواب دیا کہ اُسی - سے پوچھو ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ) مولوی انوار حسین صاحب شاہ آبادی اس خط و کتابت میں قاصد تھے.اُن سے مجھے اس کا حال معلوم ہوا.تو میں نے حضرت صاحب سے جا کر عرض کر دی.اس وقت تو حضور نے کچھ نہ فرمایا لیکن بعد عصر جب حضور معمولاً مسجد کی چھت پر تشریف فرما تھے تو آپ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ ایسے اعتراض دل میں کیوں اُٹھتے ہیں.کیا حدیثوں میں نہیں آیا کہ وہ نماز جمع کرے گا.ویسے تو نماز جمع کا حکم عام ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے کاموں میں اس قدر منہمک ہوگا کہ اس کو نمازیں جمع کرنی پڑیں گی.اس وقت سید محمد احسن صاحب زار زار رو ر ہے تھے اور تو بہ کر رہے تھے.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 119) جمع صلوتین میں افراط اور تفریط دونوں سے بچنا چاہئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے جب لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تو میں نے اُس خلوت کو غنیمت جان کر حضور سے استفسار کیا کہ خاکسار نقش بندیہ طریق میں بیعت ہونے سے قبل فرقہ اہل حدیث جس کو عام لوگ وہابی کے لفظ سے یاد کرتے ہیں ، میں بھی شامل رہا ہے.اُس وقت سے نمازوں کو جمع کرنے کی عادت پڑ گئی ہے.اس بارہ میں حضور کا کیا ارشاد ہے.حضور نے فرمایا کہ جمع صلاتین کے بارہ میں میرے نز دیک مخالف و موافق ہر دو فریق نے افراط و تفریط سے کام لیا ہے.ایک طرف اس پر عاملین کا تو یہ حال ہے کہ بلا عذر شرعی یا
فقه المسيح 129 نمازیں جمع کرنا جائز ضرورت کے نمازیں جمع کر لیتے ہیں.یہاں تک کہ حقہ ذرا اچھا چل رہا ہے.یا تاش وغیرہ کھیل رہے ہیں.اذان ہوئی تو ان کو چھوڑ کر کون جائے.جھٹ نماز جمع کرنے کی ٹھان لیتے ہیں چاہے دوسری نماز بھی ادا ہو جائے یا دونوں ضائع ہو جائیں.فرمایا: یہ بہت بُری بات ہے.نماز جیسے ضروری فرض میں کوتاہی اور غفلت ایمان کی کمزوری پر دال ہے اور دوسری طرف حنفی صاحبان کا یہ حال ہے کہ کیسی ہی ضرورت اور عذر جائز ہو نماز قضاء تو کردیں گے مگر اہلِ حدیث کی ضد اور مخالفت میں جمع نہ کریں گے.فرمایا کہ کوئی ان لوگوں سے پوچھے کہ حج کے موقعہ پر ایک نماز ہر حاجی کو ٹھیک ادائے رسوم حج کے وقت لازمی طور پر جمع کرنی پڑتی ہے.اگر یہ فعل ایسا ہی ممنوع ہوتا.جیسا آپ لوگوں کے عمل سے ہویدا ہے تو ایسے مقدس مقام پر اس کی اجازت کیسے ہوتی.دراصل ضرورت اور عدم ضرورت کا سوال ہے اور یہی اس بارہ میں معیار ہے.کس قدر مسافت پر نما ز جمع کی جائے (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 87) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ سے کپورتھلہ تشریف لائے تو صرف ایک دن قیام فرما کر قادیان کو تشریف لے گئے.ہم کرتار پور کے اسٹیشن پر پہنچانے گئے.یعنی منشی اروڑا صاحب، محمد خاں صاحب اور میں.اگر کوئی اور بھی ساتھ کرتار پور گیا ہو تو مجھے یاد نہیں.کرتار پور کے اسٹیشن پر ہم نے حضرت صاحب کے ساتھ ظہر وعصر کی نماز جمع کی.نماز کے بعد میں نے عرض کی کہ کس قدر مسافت پر نماز جمع کر سکتے ہیں اور قصر کر سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا انسان کی حالت کے اوپر یہ بات ہے.ایک شخص ناطاقت اور ضعیف العمر ہو تو وہ پانچ چھ میل پر بھی قصر کر سکتا ہے اور مثال دی کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزدلفہ میں نماز قصر کی.حالانکہ وہ مکہ شریف
فقه المسيح سے قریب جگہ ہے.130 سخت تنگی کے وقت نمازیں جمع کرنا نمازیں جمع کرنا (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 34 ،35) ایک صاحب نے ذکر کیا کہ ان کا ایک افسر سخت مزاج تھا روانگی نماز میں اکثر چیں بجبیں ہوا کرتا تھا.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ضرورتوں کے وقت جمع صلوتین رکھا ہے ظہر اور عصر کی نمازیں ایسی حالت میں جمع کر کے پڑھ لیں.البدر 9 جنوری 1903 صفحہ 82) غزوہ خندق کے موقع پر کتنی نمازیں جمع کی گئیں؟ مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :.آپ کا یہ شیطانی وسوسہ کہ خندق کھودتے وقت چاروں نمازیں قضا کی گئیں.اوّل آپ لوگوں کی علمیت تو یہ ہے کہ قضا کا لفظ استعمال کیا ہے.اے نادان! قضا نماز ادا کرنے کو کہتے ہیں.ترک نماز کا نام قضا ہر گز نہیں ہوتا.اگر کسی کی نماز ترک ہو جاوے تو اس کا نام فوت ہے.اسی لئے ہم نے پانچ ہزار روپے کا اشتہار دیا تھا کہ ایسے بیوقوف بھی اسلام پر اعتراض کرتے ہیں جن کو ابھی قضا کے معنی بھی معلوم نہیں.جو شخص لفظوں کو بھی اپنے محل پر استعمال نہیں کر سکتا.وہ نادان کب یہ لیاقت رکھتا ہے کہ امور دقیقہ پر نکتہ چینی کر سکے.باقی رہا یہ کہ خندق کھود نے کے وقت چار نمازیں جمع کی گئیں.اس احمقانہ وسوسہ کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین میں حرج نہیں ہے یعنی ایسی سختی نہیں جو انسان کی تباہی کا موجب ہو.اس لئے اس نے ضرورتوں کے وقت اور بلاؤں کی حالت میں نمازوں کے جمع کرنے اور قصر کرنے کا حکم دیا ہے.مگر اس مقام میں ہماری کسی معتبر حدیث میں چار (نمازیں) جمع کرنے کا ذکر نہیں بلکہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ واقعہ صرف یہ ہوا تھا کہ ایک نماز یعنی صلوٰۃ العصر معمول سے تنگ وقت
فقه المسيح 131 نمازیں جمع کرنا میں ادا کی گئی.اگر آپ اس وقت ہمارے سامنے ہوتے تو ہم ذرا آپ کو بٹھا کر پوچھتے کہ کیا یہ متفق علیہ روایت ہے کہ چار نمازیں فوت ہوگئی تھیں.چار نمازیں تو خود شرع کے رو سے جمع ہو سکتی ہیں یعنی ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء.ہاں ایک روایت ضعیف میں ہے کہ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء اکٹھی کر کے پڑھی گئیں تھیں لیکن دوسری صحیح حدیثیں اس کو رد کرتی ہیں اور صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ عصر تنگ وقت میں پڑھی گئی تھی.( نور القرآن.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 389 390)
فقه المسيح استخارہ کی اہمیت فرمایا: 132 نماز استخاره نماز استخاره آج کل اکثر مسلمانوں نے استخارہ کی سنت کو ترک کر دیا ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیش آمدہ امر میں استخارہ فرما لیا کرتے تھے.سلف صالحین کا بھی یہی طریقہ تھا.چونکہ دہریت کی ہوا پھیلی ہوئی ہے اس لیے لوگ اپنے علم و فضل پر نازاں ہو کر کوئی کام شروع کر لیتے ہیں اور پھر نہاں در نہاں اسباب سے جن کا انہیں علم نہیں ہوتا نقصان اٹھاتے ہیں.اصل میں یہ استخاره ان بد رسومات کے عوض میں رائج کیا گیا تھا جو مشرک لوگ کسی کام کی ابتدا سے پہلے کیا کرتے تھے لیکن اب مسلمان اُسے بھول گئے حالانکہ استخارہ سے ایک عقل سلیم عطا ہوتی ہے.جس کے مطابق کام کرنے سے کامیابی حاصل ہوتی ہے.بعض لوگ کوئی کام خود ہی اپنی رائے سے شروع کر بیٹھتے ہیں اور پھر درمیان میں آکر ہم سے صلاح پوچھتے ہیں.ہم کہتے ہیں جس علم و عقل سے پہلے شروع کیا تھا اسی سے نبھائیں.اخیر میں مشورے کی کیا ضرورت؟ سفر سے پہلے استخارہ کا طریق ( بدر 13 جون 1907 صفحہ 3) حضرت اقدس نے ایک مہمان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ:.آپ استخارہ کر لیویں.استخارہ اہل اسلام میں بجائے مہورت کے ہے چونکہ ہندو شرک وغیرہ کے مرتکب ہو کر شگن وغیرہ کرتے ہیں اس لئے اہل اسلام نے ان کو منع کر کے استخارہ رکھا.اس کا طریق یہ ہے کہ انسان دورکعت نماز نفل پڑھے.اول رکعت میں سورة قُل يَأَيُّهَا الْكَفِرُونَ پڑھ لے اور دوسری میں قُلْ هُوَ اللهُ - التحیات میں یہ دعا کرے.
فقه المسيح 133 نماز استخاره یا الہی ! میں تیرے علم کے ذریعہ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت سے قدرت مانگتا ہوں کیونکہ تجھ ہی کو سب قدرت ہے مجھے کوئی قدرت نہیں اور تجھے سب علم ہے مجھے کوئی علم نہیں اور تو ہی چھپی باتوں کو جانے والا ہے.الہی اگر تو جانتا ہے کہ یہ امر میرے حق میں بہتر ہے بلحاظ دین اور دنیا کے ، تو تو اسے میرے لئے مقدر کر دے اور اسے آسان کر دے اور اس میں برکت دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ امر میرے لئے دین اور دنیا میں شہر ہے تو مجھ کو اس سے باز رکھ.اگر وہ امر اس کے لئے بہتر ہوگا تو خدا تعالیٰ اس کے لئے اس کے دل کو کھول دے گا ورنہ طبیعت میں قبض ہو جائے گی.دل بھی عجیب شے ہے جیسے ہاتھوں پر انسان کا تصرف ہوتا ہے کہ جب چاہے حرکت دے.دل اس طرح اختیار میں نہیں ہوتا.اس پر اللہ تعالیٰ کا تصرف ہے.ایک وقت میں ایک بات کی خواہش کرتا ہے پھر تھوڑی دیر کے بعد اسے نہیں چاہتا.یہ ہوائیں اندر سے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے چلتی ہیں.ہرا ہم کام سے پہلے استخارہ کرنا حضرت مولوی شیر علی صاحب روایت کرتے ہیں : البدر 2 جنوری 1903 صفحہ 78 ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ طریق عمل تھا.کہ ہر ایک اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے ضرور دعا کیا کرتے تھے اور دعا بطریق مسنون دعائے استخارہ ہوتی تھی.استخارہ کے معنی ہیں خدا تعالیٰ سے طلب خیر کرنا.استخارہ کے نتیجے میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ کوئی خواب آجائے جیسا کہ آج کل کے بعض صوفی استخارہ کرتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ سے خیر طلب کرتے ہیں یہ طریق مسنون نہیں.اصل مقصد تو یہ ہونا چاہئے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے خیر حاصل ہوا اور دعائے استخارہ سے اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے کہ جو کام ہمارے لئے بہتری اور بھلائی کا ہو وہ آسان ہو جاتا ہے.بغیر دقتوں کے حاصل ہو جاتا ہے اور قلب
فقه المسيح 134 نماز استخاره میں اس کے متعلق انشراح اور انبساط پیدا ہو جاتا ہے.عموما استخارہ رات کے وقت بعد نماز عشاء کیا جاتا ہے.دو رکعت نماز نفل پڑھ کر التحیات میں درود شریف اور دیگر مسنون دعاؤں کے بعد دعائے استخارہ پڑھی جاتی ہے اور اس کے بعد فورا سو رہنا چاہئے اور باتوں میں مشغول ہونا مناسب نہیں ہوتا لیکن حسب ضرورت دوسرے وقت بھی استخارہ کیا جا سکتا ہے.(سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 508-509) نماز عصر میں استخارہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دورانِ ایام مقدمہ کرم دین میں ایک صاحب ابوسعید نامی کو جو ابوسعید عرب کے نام سے مشہور تھے.لاہور سے بعض اخباروں کے پرچے لانے کے واسطے بھیجا گیا.انہیں کہا گیا کہ آپ سفر سے قبل استخارہ کر لیں.اس وقت نما ز عصر ہونے والی تھی اور بیت مبارک میں احباب جمع تھے.وہاں ہی ان کے سفر کے متعلق تجویز قرار پائی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ابو سعید صاحب سے فرمایا کہ آپ نماز عصر میں ہی استخارہ کر لیں.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.اور پھر لا ہور چلے گئے اور جس مقصد کے واسطے بھیجے گئے.اس میں کامیاب ہو کر واپس آئے.) سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 509) استخارہ میں کونسی سورتیں پڑھیں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شخص کو استخارہ کا یہ طریق بھی بتلایا کہ پہلی رکعت میں سورۃ قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ پڑھیں.دوسری رکعت میں قُلْ هُوَ اللهُ اور التَّحِيَّات میں اپنے مطلب کے واسطے دعا کریں.(ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 231)
فقه المسيح 135 نماز استخاره حضرت مسیح موعود کا طریق استخاره حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کے نام مکتوب میں حضرت مسیح موعود نے تحریر کیا: امید کہ بعد تین دن کے استخارہ مسنونہ جو سفر کے لئے ضروری ہے، اس طرف کا قصد فرماویں.بغیر استخارہ کے کوئی سفر جائز نہیں.ہمارا اس میں طریق یہ ہے کہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز کے لئے کھڑے ہو جائیں.پہلی رکعت میں سورة قُلُ يايُّهَا الْكَافِرُونَ پڑھیں یعنی الـحـمـد تمام پڑھنے کے بعد ملالیں جیسا کہ سورۃ فاتحہ کے بعد دوسری سورۃ ملایا کرتے ہیں اور دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھ کر سورۃ اخلاص یعنی قُلُ هُوَ اللهُ اَحَدٌ ملا لیں اور پھر التحیات میں آخر میں اپنے سفر کے لئے دعا کریں کہ یا الہی ! میں تجھ سے کہ تو صاحب فضل اور خیر اور قدرت ہے، اس سفر کے لئے سوال کرتا ہوں کیونکہ تو عواقب الامور کو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو ہر ایک امر پر قادر ہے اور میں قادر نہیں.سو یا الہی ! اگر تیرے علم میں یہ بات ہے کہ یہ سفر سرا سر میرے لئے مبارک ہے، میری دنیا کے لئے میرے دین کیلئے اور میرے انجام امر کیلئے اور اس میں کوئی شر نہیں تو یہ سفر میرے لئے میسر کر دے اور پھر اس میں برکت ڈال دے اور ہر ایک شر سے بچا.اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ سفر میرا میری دنیا یا میرے دین کے لئے مضر ہے اور اس میں کوئی مکروہ دہ امر ہے تو اس سے میرے دل کو پھیر دے اور اس سے مجھ کو پھیر دے آمین.یہ دعا ہے جو کی جاتی ہے.تین دن کرنے میں حکمت یہ ہے کہ تا بار بار کرنے سے اخلاص میسر آوے.آج کل اکثر لوگ استخارہ سے لا پرواہ ہیں حالانکہ وہ ایسا ہی سکھایا گیا ہے جیسا کہ نماز سکھائی گئی ہے.سو یہ اس عاجز کا طریق ہے کہ اگر چہ دس کوس کا سفر ہو تب بھی استخارہ کیا جاوے.سفروں میں ہزاروں بلاؤں کا احتمال ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ استخارہ کے بعد متولی اور متکفل ہو جاتا ہے اور اس کے فرشتے اس کے نگہبان رہتے ہیں جب تک اپنی منزل
فقه المسيح 136 نماز استخاره تک نہ پہنچے.اگر چہ یہ دعا تمام عربی میں موجود ہے لیکن اگر یاد نہ ہو تو اپنی زبان میں کافی 66 ہے اور سفر کا نام لے لینا چاہئے کہ فلاں جگہ کے لئے سفر ہے.“ استخارہ کا ایک آسان طریق مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 349-350) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کے پاس میری آمد و رفت اچھی طرح ہو گئی اور میں آپ سے پڑھنے بھی لگ گیا.تو حضور نے مجھے حکم دیا کہ ہر دو گھروں میں یعنی بخانہ مرز اغلام مرتضے صاحب اور بخانہ مرزا غلام محی الدین صاحب کہہ دیا کرو کہ سب لوگ ہر روز سوتے وقت استخارہ کر کے سویا کریں اور جو خواب آئے وہ صبح ان سے پوچھ لیا کرو اور مجھ سے بھی استخارہ کراتے تھے.استخارہ یہ سکھایا تھا کہ سوتے ہوئے ” يَا خَبِیرُ أَخْبِرُنِي “ پڑھا کرو اور پڑھتے پڑھتے سو جایا کرو اور درمیان میں بات نہ کیا کرو.میں صبح سب گھر والوں میں پھر کر خواہیں پوچھتا تھا اور حضرت صاحب کو آکر اطلاع دیتا تھا.پھر حضرت صاحب سب کی تعبیر بتاتے اور میں سب کو جا کر اطلاع دیتا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا غلام مرتضے صاحب اور مرزا غلام محی الدین صاحب حقیقی بھائی تھے.مرزا غلام مر تضیٰ صاحب حضرت صاحب کے والد تھے اور مرزا غلام محی الدین صاحب چچا تھے.اس زمانہ میں بس انہی دو گھروں میں سارا خاندان تقسیم شدہ تھا.اب مرزا غلام محی الدین صاحب کی اولاد میں سے صرف مرزا گل محمد ہیں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ استخارہ کی اصل مسنون دُعا تو لمبی ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ مرزا دین محمد صاحب کی سہولت کے لئے آپ نے انہیں یہ مختصر الفا ظ سکھا دیئے ہوں گے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 629،628)
فقه المسيح 137 نماز استخاره کھلے نشانات کو دیکھ کر استخارہ کرنا جائز نہیں ایک شخص کا خط آیا کہ میں آپ کے متعلق استخارہ کرنا چاہتا ہوں کہ آیا آپ حق پر ہیں یا نہیں؟ فرمایا: ایک وقت تھا کہ ہم نے خود اپنی کتاب میں استخارہ لکھا تھا کہ لوگ اس طرح سے کریں.تو خدا تعالیٰ ان پر حق کو کھول دے گا.مگر اب استخاروں کی کیا ضرورت ہے جب کہ نشانات الہی بارش کی طرح برس رہے ہیں اور ہزاروں کرامات اور معجزات ظاہر ہو چکے ہیں.کیا ایسے وقت میں استخاروں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے؟ کھلے نشانات کو دیکھ کر پھر استخارہ کرنا خدا تعالیٰ کے حضور میں گستاخی ہے.کیا اب جائز ہے کہ کوئی شخص استخارہ کرے کہ اسلام کا مذہب سچا ہے یا جھوٹا اور استخارہ کرے کہ آنحضرت ﷺ خدا کی طرف سے سچے نبی تھے یا نہیں تھے.اس قدر نشانات کے بعد استخاروں کی طرف توجہ کرنا جائز نہیں.( بدر 2 مئی 1907 ، صفحہ 2)
فقه المسيح 138 نماز استسقاء نماز استسقاء سخت گرمی پڑنے اور برسات کے نہ ہونے کا ذکر تھا.اس پر آپ نے فرمایا: ایسے موقع پر نماز استسقاء کا پڑھنا سنت ہے.میں جماعت کے ساتھ بھی سنت ادا کروں گا مگر میرا ارادہ ہے کہ باہر جا کر علیحدگی میں نماز پڑھوں اور دعا کروں.خلوت میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کرنے اور دعامانگنے کا جولطف ہے وہ لوگوں میں بیٹھ کر نہیں ہے.( بدر 10 اگست 1905 ء صفحہ 2) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ نماز استسقاء ہوئی تھی جس میں حضرت صاحب بھی شامل ہوئے تھے اور شاید مولوی محمد احسن صاحب مرحوم امام ہوئے تھے.لوگ اس نماز میں بہت روئے تھے مگر حضرت صاحب میں چونکہ ضبط کمال کا تھا اس لئے آپ کو میں نے روتے نہیں دیکھا اور مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد بہت جلد بادل آکر بارش ہو گئی تھی بلکہ شاید اسی دن بارش ہو گئی تھی.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 393) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اس موقع کے بارہ میں ایک روایت تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک مرتبہ نماز استسقاء ہوئی تھی.یہ نماز اس بڑ کے درخت کے نیچے ہوئی تھی جہاں گزشتہ سالوں میں جلسہ گاہ مستورات تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس بڑ کے نیچے اور اس کے ساتھ والے میدان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کئی دفعہ عید بھی ہوئی تھی اور جنازے بھی اکثر یہیں ہوا کرتے تھے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 623،622)
فقه المسيح 139 نماز کسوف نماز کسوف حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب اپنے بھائی کے ساتھ رمضان میں چاند گرہن لگنے کے بعد اس شوق میں قادیان آئے کہ سورج گرہن کا عظیم نشان حضرت اقدس کے ساتھ دیکھیں اور نماز کسوف ادا کریں.اس حوالے سے وہ ذکر کرتے ہیں کہ صبح حضرت اقدس کے ساتھ کسوف کی نماز پڑھی جو کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے مسجد مبارک کی چھت پر پڑھائی اور قریبا تین گھنٹہ یہ نماز وغیر ہ جاری رہی.کئی دوستوں نے شیشے پر سیاہی لگائی ہوئی تھی جس میں سے وہ گرہن دیکھنے میں مشغول تھے ابھی خفیف سی سیاہی شیشے پر شروع ہوئی تھی کہ حضرت مسیح موعود کوکسی نے کہا کہ سورج کو گرہن لگ گیا ہے.آپ نے اس شیشہ میں سے دیکھا تو نہایت ہی خفیف سی سیاہی معلوم ہوئی.حضور نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ گرہن کو ہم نے تو دیکھ لیا مگر یہ ایسا خفیف ہے کہ عوام کی نظر سے اوجھل رہ جائے گا اور اس طرح ایک عظیم الشان پیشگوئی کا نشان مشتبہ ہو جائے گا.حضور نے کئی بار اس کا ذکر کیا تھوڑی دیر بعد سیا ہی بڑھنی شروع ہوئی حتی کہ آفتاب کا زیادہ حصہ تاریک ہو گیا.تب حضور نے فرمایا کہ ہم نے آج خواب میں پیاز دیکھا تھا اس کی تعبیر غم ہوتی ہے.سوشروع میں سیاہی کے خفیف رہنے سے ظہور میں آیا.(اصحاب احمد جلد 1 صفحہ 93، 94.نیا ایڈیشن)
فقه المسيح سفر کی تعریف 140 قصر نماز قصر نماز ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہوا کہ مجھے دس پندرہ کوس تک ادھر اُدھر جانا پڑتا ہے.میں کس کو سفر سمجھوں اور نمازوں میں قصر کے متعلق کس بات پر عمل کروں.حضرت اقدس نے فرمایا:.میرا مذ ہب یہ ہے کہ انسان بہت وقتیں اپنے اوپر نہ ڈال لے.عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں، خواہ وہ دو تین کوس ہی ہو.اس میں قصر و سفر کے مسائل پر عمل کرے إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں ،مگر کسی کے دل میں خیال نہیں آتا کہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھری اُٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتا ہے.شریعت کی بنا دقت پر نہیں ہے.جس کو تم عرف میں سفر سمجھو، وہی سفر ہے..سفر کی حد کیا ہے؟ الحلم 17 فروری 1901 صفحہ 13 ) سوال پیش ہوا کہ اگر کوئی تین کوس سفر پر جائے تو کیا نمازوں کو قصر کرے؟ فرمایا:.ہاں، دیکھو اپنی نیت کو خوب دیکھ لو.ایسی تمام باتوں میں تقویٰ کا بہت خیال رکھنا چاہئے.اگر کوئی شخص ہر روز معمولی کا روبار یا سفر کے لئے جاتا ہے تو وہ سفر نہیں بلکہ سفر وہ ہے جسے انسان خصوصیت سے اختیار کرے اور صرف اس کام کے لئے گھر چھوڑ کر جائے اور عرف میں وہ سفر کہلا تا ہو.دیکھو.یوں تو ہم ہر روز سیر کے لئے دو دو میل نکل جاتے ہیں مگر یہ سفر نہیں.ایسے موقعہ پر دل کے اطمینان کو دیکھ لینا چاہئے کہ اگر وہ بغیر کسی خلجان کے
فقه المسيح 141 قصر نماز فتوی دے کہ یہ سفر ہے تو قصر کرے.اِسْتَفْتِ قَلْبَكَ (اپنے دل سے فتویٰ لو.) پر عمل چاہئے.ہزار فتولی ہو پھر بھی مومن کا نیک نیتی سے قلبی اطمینان عمدہ شے ہے.عرض کیا گیا کہ انسانوں کے حالات مختلف ہیں.بعض نو دس کوس کو بھی سفر نہیں سمجھتے.بعض کے لئے تین چار کوس بھی سفر ہے.فرمایا:.شریعت نے ان باتوں کا اعتبار نہیں کیا.صحابہ کرام نے تین کوس کو بھی سفر سمجھا ہے.عرض کیا گیا.حضور بٹالہ جاتے ہیں تو قصر فر ماتے ہیں:.فرمایا :.ہاں کیونکہ وہ سفر ہے.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی طبیب یا حاکم بطور دورہ کئی گاؤں میں پھرتا رہے تو وہ اپنے تمام سفر کو جمع کر کے اسے سفر نہیں کہہ سکتا.( بدر 23 جنوری 1908ء صفحہ 2) حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے عرض کیا که نماز قصر کتنی دور کے لئے کرنی چاہئے.فرمایا ایک تو سفر ہوتا ہے اور ایک سیر ہوتی ہے سفر کی نیت سے اگر تین کوس جانا ہو جیسے لودھیا نہ سے پھلور تو نماز قصر کرنی چاہئے.یہی حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا معمول تھا اور بعض ضعیف پیر فرتوت اور حاملہ عورتیں ہیں.ان کے لئے تو کوس بھر ہی سفر ہو جاتا ہے.ہاں سیر کے لئے تو چاہے آٹھ کوس چلا جائے تو نماز قصر نہیں ہے.( تذکرۃ المہدی حصہ اول صفحہ 116 ، 117 ) مرکز میں نمازوں کا قصر جائز ہے نماز کے قصر کرنے کے متعلق سوال کیا گیا کہ جو شخص یہاں آتے ہیں وہ قصر کریں یا نہ ؟ فرمایا:.جو شخص تین دن کے واسطے یہاں آوے اس کے واسطے قصر جائز ہے میری دانست میں جس سفر میں عزم سفر ہو پھر خواہ وہ تین چار کوس ہی کا سفر کیوں نہ ہو اس میں قصر جائز ہے.یہ ہماری سیر سفر نہیں ہے.ہاں اگر امام مقیم ہو تو اس کے پیچھے پوری ہی نماز پڑھنی پڑے گی.
فقه المسيح 142 قصر نماز حکام کا دورہ سفر نہیں ہو سکتا.وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنے باغ کی سیر کرتا ہے.خواہ نخواہ قصر کرنے کا تو کوئی وجود نہیں.اگر دوروں کی وجہ سے انسان قصر کر نے لگے تو پھر یہ دائمی قصر ہو گا جس کا کوئی ثبوت ہمارے پاس نہیں ہے حکام کہاں مسافر کہلا سکتے ہیں.سعدی نے بھی کہا ہے منعم بکوه و دشت و بیاباں غریب نیست ہر جا کہ رفت خیمه زد و خوابگاه ساخت کتنے دنوں کے سفر میں نماز قصر کی جاسکتی ہے؟ سوال:.نما ز کسی وقت تک قصر کی جاوے؟ الحلم 24 اپریل 1903 ، صفحہ 10 ) اس سوال کے جواب میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں:.جب تک سفر ہو قصر کر سکتے ہیں اور اگر کہیں ٹھہر نا ہو اور پندرہ دن سے کم ٹھہرنا ہو تو بھی قصر کریں اور اگر زیادہ ٹھہر نا ہو تو پوری پڑھیں.الفضل 18 مارچ 1916 صفحہ 15) ایک سفر کے موقعہ پر نماز قصر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:.میں نماز قصر کر کے پڑھاؤں گا اور گو مجھے یہاں آئے چودہ دن ہو گئے ہیں مگر چونکہ علم نہیں کہ کب واپس جانا ہو گا.اس لئے میں نماز قصر کر کے پڑھاؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ گورداسپور میں دو ماہ سے زیادہ عرصہ تک قصر نماز پڑھتے رہے کیونکہ آپ کو پتہ ہی نہیں تھا کہ کب واپس جانا ہو گا.الفضل 25 مئی 1944 ءصفحہ 4) چودہ دن تک قیام کے ارادہ کی صورت میں نماز قصر کی جاتی ہے.اس حوالے سے مندرجہ ذیل فتوی میں حضرت مسیح موعود کے ایک فیصلے کا ذکر ملتا ہے.یہ فتویٰ محترم ناظر صاحب تعلیم و تربیت قادیان نے 2 دسمبر 1937 ء کو
فقه المسيح 143 حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب مفتی سلسلہ سے پوچھا تھا.) قصر نماز سوال:.سفر کے متعلق جناب حافظ صاحب مرحوم نے (حضرت حافظ روشن علی صاحب مراد ہیں.ناقل ) 14 دن قیام تک قصر کرنے کا فتویٰ دیا ہے.اور حضرت اقدس حضرت مسیح موعود علیہ السلام وخلیفہ اول سے مروی ہے کہ صرف تین دن کے واسطے قصر ہے.چار دن کے قصد سے مسافر مقیم ہو جاتا ہے.حافظ صاحب ہمارے مفتی تھے ان کے قول کا رڈ ہم نے نہیں پڑھا.ہم کس پر عمل کریں.بعض کا قول ہے مفتی کا قول تو ڑا نہیں جاسکتا ، یہ تو فتویٰ ہے.فرمان تو فتویٰ کے مطابق ہی ہو گا مگر نبی اور خلیفہ سے اختلاف کرتے ہوئے کیا حجت رکھتے ہیں.ہم بہر حال نظام کے پابند ہیں.مگر اس اختلاف کا کیا ازالہ ہے.اگر ہم سے کوئی پوچھے ہم تو مجبور ہیں.اس سوال کے جواب میں حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب نے مندرجہ ذیل فتویٰ دیا.جواب:.جس طرح خلیفہ کے فیصلہ اور مفتی کے فتویٰ میں اختلاف ہو جائے تو خلیفہ کے فیصلہ پر عمل ہونا چاہئے کیونکہ در حقیقت اصل مفتی خلیفہ وقت ہی ہوتا ہے اور مفتی اس کا مقرر کردہ مفتی اور افتاء میں اس کا نائب ہوتا ہے.اسی طرح خلیفہ اور بانی سلسلہ میں اگر لاعلمی کی وجہ سے اختلاف ہو جائے تو ترجیح بانی سلسلہ کے قول کو دی جاتی ہے.کیونکہ اصل وہی ہے اور خلیفہ اس کا نائب اور نائب اصل کا تابع نہ متبوع اور نہ مساوی.حضرت خلیفہ اسیح اول احمدیت سے پہلے اہلحدیث گروہوں میں شامل تھے اور اہلحدیث کا یہ مذہب ہے کہ تین دن کے ارادہ اقامت سے مسافر مقیم ہو جاتا ہے.اس لئے آپ کا احمدی ہونے کے بعد بھی یہی فتویٰ تھا لیکن جن دنوں میں سیدنا حضرت مسیح موعود کا لیکچر لاہور میں ہوا تھا.ان دنوں میں حضور کرم دین والے مقدمہ کی وجہ سے گورداسپور میں رہتے تھے اور محض تبدیلی آب و ہوا کے لئے لاہور تشریف لے گئے اور مسافر ہونے کی وجہ سے عموما نمازیں جمع کی جاتی تھیں اور قصر کی جاتی تھیں.غالباً تیسرے دن لاہور کی جماعت نے حضور سے لیکچر کی درخواست کی اور
فقه المسيح 144 قصر نماز حضور نے منظور فرمائی.بعد ازاں جناب خواجہ کمال الدین صاحب جناب ڈپٹی کمشنر کے پاس اجازت لینے کے لئے اور دعوت شرکت دینے کے لئے گئے تو صاحب بہادر نے اجازت تو دے دی مگر کہا کہ فلاں وجہ سے میں اس اتوار کو شامل نہیں ہو سکتا اور اگر آئندہ اتوار کو ہوتا تو میں خود بھی اور سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی ضرور شامل ہوتے.تو خواجہ صاحب نے حضور کی خدمت میں صاحب بہادر کے جواب اور خواہش شرکت کا ذکر کیا تو حضور نے فرمایا تاریخ مقدمہ دور ہے، لہذا ہم ٹھہر سکتے ہیں.تو اس لحاظ سے حضور کو دس دن قیام کرنا پڑا.جس وقت حضور نے ٹھہرنے کا فیصلہ فرمایا اس وقت حضور کی طبیعت علیل تھی اندر ہی سے اس فیصلہ کی اطلاع دے دی تھی اور باہر تشریف نہیں لائے.اس کے بعد ظہر کی اذان ہوئی تو حضور نے کہلا بھیجا کہ نماز میں نہیں آسکتا، نماز پڑھ لو.چنانچہ اقامت ہوئی اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی اقتداء میں دورکعتوں کے بعد کے قعدہ میں عَبدُهُ وَرَسُولُهُ تک پڑھ چکے تو صف میں سے کسی نے سبحان اللہ کہا یعنی پوری نماز پڑھو اور ایک اور سلام پھیرنے کے بعد حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو کہا میاں جا کر اپنے ابا جی سے دریافت کریں کہ یہاں پر اگلے اتوار تک ٹھہرنے کے فیصلہ کے بعد ہمیں نماز پوری پڑھنی چاہئے یا کہ دوگانه؟ چنانچہ گئے اور واپس آکر فرمایا ابا جی کہتے ہیں کہ دو رکعت ہی پڑھیں ، ہم نے کوئی پندرہ دن ٹھہرنے کا کوئی ارادہ نہیں کیا.چنانچہ اسی وقت عصر کی نماز جمع کرتے ہوئے دو رکعت نماز پڑھی گئی.حضرت مسیح موعود کے اس فیصلہ کے بعد سلسلہ احمدیہ میں یہی فتویٰ قائم ہو گیا کہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ کے قیام کے ارادہ سے مسافر مقیم ہو جاتا ہے اور اس سے کم ارادہ کے قیام سے مسافر ہی رہتا ہے.دستخط حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب مفتی سلسلہ فتوی نمبر 1937-12-55/2 منقول از رجسٹر فتاوی دار الافتاء ربوه) ملازمت پیشہ دوران سفر قصر نہ کرے ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ جو شخص بسبب ملازمت کے
فقه المسيح 145 قصر نماز ہمیشہ دورہ میں رہتا ہو اس کو نمازوں میں قصر کرنی جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا : جو شخص رات دن دورہ پر رہتا ہے وہ اسی بات کا ملازم ہے.وہ حالت دورہ میں مسافر نہیں کہلا سکتا.اس کو پوری نماز پڑھنی چاہئے.بدر 7 فروری 1907 ء صفحہ 4) ایک صاحب محمد سعید الدین کا ایک سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں اور میرے بھائی ہمیشہ تجارت عطریات وغیرہ میں سفر کرتے رہتے ہیں کیا ہم نماز قصر کیا کریں.فرمایا :.سفر تو وہ ہے جو ضر ور تا گا ہے گا ہے ایک شخص کو پیش آوے نہ یہ کہ اس کا پیشہ ہی یہ ہو کہ آج یہاں کل وہاں اپنی تجارت کرتا پھرے.یہ تقویٰ کے خلاف ہے کہ ایسا آدمی آپ کو مسافروں میں شامل کر کے ساری عمر نماز قصر کرنے میں ہی گذار دے.سفر سے پہلے نمازوں کا جمع کرنا ( بدر 28 مارچ 1907 ءصفحہ 4) آج ظہر اور عصر کی نماز جمع کر کے حضرت اقدس گورداسپور کے لئے روانہ ہوئے.آپ کے ہمراہ صاحبزادہ میاں بشیر الدین محمود بھی تھے.سٹیشن کے قریب جو سرائے تھی.اس میں حضور علیہ السلام نے نزول فرمایا.مغرب اور عشاء کی نمازیں یہاں جمع کر کے پڑھی ( البدر 28 اگست 1903 ، صفحہ 250) مقیم پوری نماز ادا کرے ڈاکٹر محمد اسمعیل خان صاحب گورداسپور میں مقیم تھے اور احمدی جماعت نزیل قادیان بہ باعث سفر میں ہونے کے نماز جمع کر کے ادا کرتی تھی.ڈاکٹر صاحب نے مسئلہ پوچھا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ: مقیم پوری نماز ادا کریں وہ اس طرح ہوتی رہی کہ جماعت کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نماز ادا کرتے.جماعت دو
فقه المسيح 146 قصر نماز رکعت ادا کرتی ، لیکن ڈاکٹر صاحب باقی کی دو رکعت بعد از جماعت ادا کر لیتے.ایک دفعہ حضرت اقدس نے دیکھ کر کہ ڈاکٹر صاحب نے ابھی دور کعت ادا کرنی ہے.فرمایا کہ:.ٹھہر جاؤ.ڈاکٹر صاحب دو رکعت ادا کر لیویں.“ پھر اس کے بعد جماعت دوسری نماز کی ہوئی.ایسی حالتِ جمع میں سنت اور نوافل نہیں ادا کئے جاتے.سفر میں قصر کی حد (البدر یکم اگست 1904 ء صفحہ 4) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر ذکر کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قصر نماز کے متعلق سوال کیا.حضور نے فرمایا.جس کو تم پنجابی میں وانڈھا کہتے ہو.بس اس میں قصر ہونا چاہئے.میں نے عرض کیا کہ کیا کوئی میلوں کی بھی شرط ہے.آپ نے فرمایا نہیں.بس جس کو تم وانڈھا کہتے ہو وہی سفر ہے جس میں قصر جائز ہے.میں نے عرض کیا کہ میں سیکھواں سے قادیان آتا ہوں.کیا اس وقت نماز قصر کر سکتا ہوں.آپ نے فرمایا.ہاں.بلکہ میرے نزدیک اگر ایک عورت قادیان سے نگل جائے تو وہ بھی قصر کرسکتی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیکھواں قادیان سے غالبا چار میل کے فاصلہ پر ہے اور منگل تو شاید ایک میل سے بھی کم ہے.منگل کے متعلق جو حضور نے قصر کی اجازت فرمائی ہے.اس سے یہ مراد معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان سفر کے ارادہ سے قادیان سے نکلے تو خواہ ابھی منگل تک ہی گیا ہو اس کے لئے قصر جائز ہو جائے گا.یہ مراد نہیں ہے کہ کسی کام کے لئے صرف منگل تک آنے جانے میں قصر جائز ہو جاتا ہے.یا یہ بھی ممکن ہے کہ منگل تک آنے جانے کو صرف عورت کے لئے سفر قرار دیا ہو کیونکہ عورت کمزور جنس ہے.واللہ اعلم.) سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 552،551)
فقه المسيح 147 قصر نماز قصر نماز کا تعلق صرف خوف کے ساتھ نہیں بلکہ ہر سفر کے ساتھ ہے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا ہم سے قاضی امیرحسین صاحب نے کہ میں اوائل میں اس بات کا قائل تھا کہ سفر میں قصر نما ز عام حالات میں جائز نہیں بلکہ صرف جنگ کی حالت میں فتنہ کے خوف کے وقت جائز ہے اور اس معاملہ میں مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّل) کے ساتھ بہت بحث کیا کرتا تھا.قاضی صاحب نے بیان کیا کہ جن دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا گورداسپور میں مقدمہ تھا ایک دفعہ میں بھی وہاں گیا.حضرت صاحب کے ساتھ وہاں مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّل) اور مولوی عبدالکریم صاحب بھی تھے.مگر ظہر کی نماز کا وقت آیا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ قاضی صاحب آپ نماز پڑھائیں.میں نے دل میں پختہ ارادہ کیا کہ آج مجھے موقعہ ملا ہے میں قصر نہیں کروں گا.بلکہ پوری پڑھوں گا تا اس مسئلہ کا کچھ فیصلہ ہو.قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ ارادہ کر کے ہاتھ اُٹھائے کہ قصر نہیں کروں گا.حضرت صاحب میرے پیچھے دائیں طرف کھڑے تھے.آپ نے فورا قدم آگے بڑھا کر میرے کان کے پاس منہ کر کے فرمایا قاضی صاحب دو ہی پڑھیں گے نا ؟ میں نے عرض کیا حضور دو ہی پڑھوں گا.بس اس وقت سے ہمارا مسئلہ حل ہو گیا اور میں نے اپنا خیال ترک کر دیا.سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 24 ،25)
فقه المسيح 148 حضرت مسیح موعود کا طریق نماز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق نماز حضرت مفتی محمد صادق صاحب تحریر کرتے ہیں : شروع میں جب قادیان میں نماز کے وقت تین چار آدمی سے زیادہ نہ ہوا کرتے تھے.مسجد مبارک میں حافظ معین الدین صاحب مرحوم اور مسجد اقصیٰ میں میاں جان محمد صاحب کشمیری نماز کے پیش امام ہوا کرتے تھے.سنا گیا ہے کہ کبھی کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود بھی نماز میں پیش امام ہوتے تھے مگر یہ میرے یہاں آجانے سے قبل ہوا.زندگی کے آخری سالوں میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عموما با ہر تشریف نہ لا سکتے تھے.اس وقت اندر عورتوں میں نماز مغرب اور عشاء جمع کر کے پڑھایا کرتے تھے.حضور امامت کے وقت بسم اللہ بالجبر نہ پڑھا کرتے تھے اور رفع یدین بھی نہ کرتے تھے.مگر ہاتھ سینہ پر باندھتے تھے.اور تشہد میں سبابہ کی انگلی اٹھاتے تھے.باقی نماز ظاہری طریق میں حنفیوں کے طرز پر ہوتی تھی.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم ہمیشہ نماز میں بسم اللہ بالجبر پڑھتے تھے اور آخری رکعت میں بعد رکوع کھڑے ہوکر بآواز بلند دعائیں (قنوت) کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور دیگر بزرگانِ دین نے سالہا سال حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی اقتداء میں نمازیں پڑھیں اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے بعض اصحاب جیسا کہ صوفی غلام محمد صاحب واعظ ماریشس ابتک یہی رویہ رکھتے ہیں.“ ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 24 ) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ جب میں شروع شروع میں قادیان آیا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز
فقه المسيح 149 حضرت مسیح موعود کا طریق نماز کے وقت پہلی صف میں دوسرے مقتدیوں کے ساتھ مل کر کھڑے ہوا کرتے تھے.لیکن پھر بعض باتیں ایسی ہوئیں کہ آپ نے اندر حجرہ میں امام کے ساتھ کھڑا ہونا شروع کر دیا اور جب حجرہ گرا کر تمام مسجد ایک کی گئی تو پھر بھی آپ بدستور امام کے ساتھ ہی کھڑے ہوتے رہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اوائل میں مسجد مبارک بہت چھوٹی ہوتی تھی اور لمبی قلمدان کی صورت میں تھی جس کے غربی حصہ میں ایک چھوٹا حجرہ تھا.جو مسجد کا حصہ ہی تھا لیکن درمیانی دیوار کی وجہ سے علیحدہ صورت میں تھا.امام اس حجرہ کے اندر کھڑا ہوتا تھا اور مقتدی پیچھے بڑے حصہ میں ہوتے تھے.بعد میں جب مسجد کی توسیع کی گئی تو اس غربی حجرہ کی دیوارا ڑ ا کر اسے مسجد کے ساتھ ایک کر دیا گیا.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 271،270) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پانچ وقت کی نماز اور جمعہ کی نما ز تو مولوی عبدالکریم صاحب پڑھاتے تھے.مگر عیدین کی نماز ہمیشہ حضرت مولوی نورالدین صاحب پڑھایا کرتے تھے.الا ماشاء اللہ اور جنازوں کی نماز عموما حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود پڑھاتے تھے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 440) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فریضہ نماز کی ابتدائی سنتیں گھر میں ادا کرتے تھے اور بعد کی سنتیں بھی عموماً گھر میں اور کبھی کبھی مسجد میں پڑھتے تھے.خاکسار نے دریافت کیا کہ حضرت صاحب نماز کو لمبا کرتے تھے یا خفیف؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ عموما خفیف پڑھتے تھے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 5،4)
فقه المسيح 150 حضرت مسیح موعود کا طریق نماز حضرت منشی برکت علی صاحب شملوی روایت کرتے ہیں ایک دفعہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مسجد اقصی میں نماز جعہ ادا کرنے کا موقعہ ملا.جمعہ کی نماز غالبا حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفتہ اسیح اول نے پڑھائی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام قبر کے قریب بیٹھ گئے.میں بھی موقعہ غنیمت سمجھتے ہوئے آپ کے پاس بیٹھ گیا اور دیکھتا رہا کہ حضور کس طرح نماز ادا فرماتے ہیں.میں نے دیکھا کہ آپ نے اس طرح سینہ پر ہاتھ باندھے کہ انگلیاں کہنی تک نہیں پہنچتی تھیں.آپ کی گردن ذرا دائیں طرف جھکی رہتی تھی.جب آپ قعدے میں ہوتے تو دائیں ہاتھ کی انگلیاں بند رکھتے اور جب کلمہ شہادت پڑھتے تو شہادت کی انگلی کھڑی کرتے.جہاں تک مجھے یاد ہے.آپ آمین بالجبر کرتے تھے.اسی دن دوسری بات یہ پیش آئی کہ جب نماز جمعہ پڑھ چکے غالبا موسم اچھا نہیں تھا.یا اور کوئی بات تھی.تو یہ سوال پیدا ہوا کہ آیا عصر کی نماز جمعہ کے ساتھ جمع ہوسکتی ہے یا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحب سے دریافت فرمایا.آپ نے کیا جواب دیا.وہ مجھے یاد نہیں رہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عصر کی نماز جمع کر کے پڑھ لو.چنانچہ وہ دونوں نمازیں جمع کر کے ادا کی گئیں.روایت حضرت منشی برکت علی صاحب شملوی اصحاب احمد جلد 3 صفحہ 192، 193) حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی روایت کرتے ہیں سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نماز با جماعت کے علاوہ سنن ونوافل اندرون خانہ ادا کرتے تھے.پہلی سنتیں عموما گھر سے پڑھ کر تشریف لاتے اور پچھلی سنتیں گھر میں تشریف لے جا کر ادا فرماتے تھے.البتہ ابتدائی زمانہ میں جبکہ حضور شام کی نماز کے بعد عشاء کی نماز تک مسجد ہی میں تشریف فرمایا کرتے تھے.حضور شام کی نماز کی سنتیں مسجد ہی میں ادا
فقه المسيح 151 حضرت مسیح موعود کا طریق نماز کرتے تھے.دوسنت ادا فرماتے تھے جو ہلکی ہوتی تھیں مگر سنوار کر پڑھی جاتی تھیں.کوئی جلدی یا تیزی ان میں نہ ہوتی تھی.بلکہ ایک اطمینان ہوتا تھا مگر وہ زیادہ لمبی نماز نہ ہوتی تھی.ان کے علاوہ بھی کبھی کبھار حضور کو مسجد مبارک میں سنت ادا کرتے دیکھا مگر ہمیشہ حضور کی نما ز آسان اور ہلکی ہوا کرتی تھی.چند مرتبہ حضور کی اقتداء میں نماز باجماعت ادا کرنے کا شرف ملا ہے اور اس کے لئے ابتدائی زمانہ میں ہی ہمیں خاص اہتمام کی ضرورت پڑا کرتی تھی اور ہم میں سے اکثر کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ حضور کے ساتھ مل کر کھڑے ہونے کی جگہ حاصل کریں.حضور کو میں نے نماز میں کبھی بھی رفع یدین کرتے نہیں دیکھا.اور نہ ہی آمین بالجبر کرتے سنا.تشہد میں حضور شہادت کی انگلی سے اشارہ ضرور کیا کرتے تھے مگر میں نے کبھی نہ دیکھا کہ حضور نے انگلی کو اکٹڑا یا یا پھرایا ہو.صرف ہلکا سا اشارہ ہوتا تھا جو عموما ایک ہی مرتبہ اور بعض اوقات دو مرتبہ بھی ہوتا تھا.جو میرے خیال میں امام کے تشہد کو لمبا کرنے کی وجہ سے حضور کلمہ شہادت دوہراتے ہوئے کیا کرتے ہوں گے.حضور نماز میں ہاتھ ہمیشہ سینہ پر باندھتے تھے.زیر ناف بلکہ ناف پر بھی میں نے کبھی حضور کو ہاتھ باندھے نماز ادا کرتے نہیں دیکھا.حضور پُر نور خود امام نہ بنا کرتے تھے بلکہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم و مغفور کو حضور نے نمازوں کی امامت کا منصب عطا فرمایا ہوا تھا.نماز جمعہ بھی حضور خود نہ پڑھاتے تھے بلکہ عموما مولوی صاحب موصوف ہی پڑھایا کرتے تھے اور شاذ و نادر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھایا کرتے تھے اور کبھی کبھی مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی بھی پڑھاتے تھے.ایک زمانہ میں دو جگہ جمعہ کی نماز ہوتی تھی.مسجد اقصیٰ میں بھی جو کہ جامع مسجد ہے اور مسجد مبارک میں بھی.مگر دونوں جگہ امام الصلوۃ حضور نہ ہوتے تھے.عیدین کی نماز بھی
فقه المسيح 152 حضرت مسیح موعود کا طریق نماز سوائے شاذ کے حضور خود نہ پڑھاتے تھے.نماز جنازہ عموماً حضور خود پڑھاتے تھے.اور حضور کو میں نے نماز جنازہ کسی کے پیچھے پڑھتے نہیں دیکھا یا کم از کم میری یاد میں نہیں.روایت حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اصحاب احمد جلد 9 صفحہ 155 ، 156 نیا ایڈیشن) حضرت مسیح موعود کی نماز کا تفصیلی نقشہ حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب رسالہ تعلیم الاسلام میں حضرت مسیح موعود کی نماز کی ادائیگی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: یہاں پر میں اس قدر بیان کروں گا کہ خدا کا برگزیدہ اس عبادت کو اس طریق پر ادا کرتا ہے تا کہ یہ طریق عقل مندوں کے نزدیک اثبات کے لئے کافی اور رفع نزاع کے لئے وافی ہو اور بجائے اس کے کہ میں ہر ایک مسئلہ کے ساتھ یہ لکھوں کہ حضرت اقدس کا یہی معمول بھا ہے.ابتدا ہی میں میں یہ بتا دیتا ہوں کہ صلوۃ کی جو کیفیت میں یہاں پر لکھوں گا وہ حضرت اقدس کے عمل کے مطابق ہوگی.اور وہ یہ ہے کہ جب صلوۃ پڑھتے ہیں تو کعبہ کی طرف رخ کر کے اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو اوپر اُٹھاتے ہیں یہاں تک کہ انگلیاں دونوں کانوں کے برابر ہو جاتی ہیں اور پھر دونوں کو نیچے لا کر سینہ یعنی دونوں پستانوں کے اوپر یا ان کے متصل نیچے اس طور پر باندھ دیتے ہیں کہ بایاں ہاتھ نیچے اور دایاں اوپر ہوتا ہے اور عموما ایسا ہوتا ہے کہ داہنے ہاتھ کی تینوں درمیانی انگلیوں کے سرے بائیں کہنی تک یا اس سے کچھ پیچھے ہٹے ہوئے ہوتے ہیں اور انگو ٹھے اور کنارے کی انگلی سے پکڑا ہوتا ہے اور اگر اس کے خلاف او پر یا نیچے یا آگے بڑھا کر یا پیچھے ہٹا کر یا ساری انگلیوں سے کوئی پکڑ کر ہاتھ باندھتا ہے تو کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا.
فقه المسيح 153 حضرت مسیح موعود کا طریق نماز ہاتھ باندھ کر سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ....يا اَللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَ بَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى التَّوبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالتَّلْجِ وَالْبَرَدِ.....(اس کے بعد اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ تا وَلَا الضَّالِّينَ.پڑھنے کا ذکر کر کے لکھتے ہیں.ناقل ) اس کے بعد کوئی سورۃ یا قرآن مجید کی کچھ آیتیں پڑھتے ہیں اور فاتحہ میں جو اهــدنـا کی دعا ہے اس کو بہت توجہ سے اور بعض دفعہ بار بار پڑھتے ہیں اور فاتحہ کے اوّل یا بعد سورۃ کے پہلے یا پیچھے.غرض کھڑے ہوتے ہوئے اپنی زبان میں یا عربی زبان میں علاوہ فاتحہ کے اور اور دعا ئیں بڑی عاجزی وزاری اور توجہ سے مانگتے ہیں اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع میں جاتے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں گھٹنوں کو انگلیاں پھیلا کر پکڑتے ہیں اور دونوں بازوؤں کوسیدھا رکھتے ہیں اور پیٹھ اور سر کو برابر رکھتے ہیں اور سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ....يا سُبْحَانَكَ اللهُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِكَ اَللّهُمَّ اغْفِرْ لِي.....تین یا تین سے زیادہ دفعہ پڑھتے ہیں اور رکوع کی حالت میں اپنی زبان میں یا عربی زبان میں جو دعا کرنا چاہیں کرتے ہیں اس کے بعد سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ.....کہتے ہوئے سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کھڑے کھڑے رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ....يا اَللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ....يا اللهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ حَمُدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى یا اس کے سوا اور کوئی ماثور کلمات کہتے ہیں.اس کے بعد جو دعا کرنی چاہتے ہیں اپنی زبان میں یا عربی زبان میں کرتے ہیں اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے نیچے جاتے ہیں اور پہلے گھٹے اور پھر ہاتھ اور پھر
فقه المسيح 154 حضرت مسیح موعود کا طریق نماز ناک اور پیشانی یا پہلے ہاتھ اور پھر گھٹنے اور پھر ناک اور پیشانی زمین پر رکھ کر سُبْحَانَ رَبِّيَ الأغلى....يا سُبحَانَكَ اللهُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي....کم سے کم تین دفعہ یا اس سے زیادہ طاق پڑھتے ہیں اور چونکہ صحیح حدیثوں میں آیا ہے کہ سجدہ میں بندہ اپنے رب سے بہت قریب ہوتا ہے اور یہ بھی آیا ہے کہ سجدہ میں دعا بہت قبول ہوتی ہے.لہذا سجدہ میں اپنی زبان یا عربی زبان میں بہت دعائیں کرتے ہیں اور سجدہ کی حالت میں اپنے دونوں پاؤں کو کھڑا رکھتے ہیں اور ان کی انگلیوں کو قبلہ کی طرف متوجہ رکھتے ہیں اور دونوں ہاتھوں کے درمیان سر رکھتے ہیں اور دونوں بازوؤں کو اپنے دونوں پہلوؤں سے جدا کر کے اور دونوں کہنیوں کو زمین سے اٹھا کر رکھتے ہیں.ہاں جب لمبا سجدہ کرتے ہوئے تھک جاتے ہیں تو اپنی دونوں کہنیوں کو دونوں گھٹنوں پر رکھ کر سہارا لے لیتے ہیں.اس کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے سر اٹھا کر گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے ہیں.اس طور پر کہ داہناں پاؤں کھڑا رکھتے ہیں اور بایاں پاؤں بچھا کر اس کے اوپر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لیتے ہیں اور بیٹھ کر اللَّهُمَّ اغْفِرْلِی وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَعَافِنِي وَارْفَعُنِى وَاجُبُرُنِي وَارْزُقْنِي....يا اللَّهُمَّ اغْفِرْلِی تین دفعه پڑھتے ہیں.اس کے علاوہ اپنی زبان میں یا عربی زبان میں جو دعا چاہتے ہیں دعا مانگتے ہیں اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے پہلے سجدہ کی مانند سجدہ کرتے ہیں اور پہلے سجدہ کی مانند اس میں وہی کچھ پڑھتے ہیں....اور دوسرے سجدہ میں بھی دعائیں مانگتے ہیں اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور سوائے پہلی تکبیر اور سُبحَانَكَ اللَّهُ اور اَعُوذُ بِاللَّهِ کے بینم پہلی رکعت کی مانند دوسری رکعت پڑھتے ہیں اور دونوں سجدوں کے بعد اس طرح بیٹھ جاتے ہیں
فقه المسيح 155 حضرت مسیح موعود کا طریق نماز جیسا کہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھا کرتے ہیں.ہاں اس قدر فرق ہوتا ہے کہ پہلے سجدہ کے بعد جب بیٹھتے ہیں تو دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر اس طور پر رکھتے ہیں کہ دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں اور دونوں کی انگلیاں قبلہ کی طرف سیدھی ہوتی ہیں اور دوسری رکعت کے دونوں سجدوں کے بعد جب بیٹھتے ہیں تو اپنے بائیں ہاتھ کو تو ویسا ہی رکھتے ہیں اور دائیں ہاتھ کی تین انگلیوں کو ہتھیلی سے ملا لیتے ہیں اور درمیانی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ باندھ لیتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان کی انگلی کو سیدھا رکھتے ہیں اور پھر التحیات پڑھتے ہیں اور وہ یہ ہے اَلتَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَواتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِيْنَ اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلهَ إِلَّا اللهُ (اور یہ کہتے ہوئے اس انگلی کو اٹھا کر اشارہ کرتے ہیں اور پھر ویسی ہی رکھ دیتے ہیں جیسی کہ پہلے رکھی ہوئی تھی ) وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.پس اگر تین چار رکعتیں پڑھنی ہوتی ہیں تو اس کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پھر باقی رکعتوں کو ویسا ہی پڑھتے ہیں جیسا کہ دوسری رکعت کو پڑھا تھا اور پھر ان کو ختم کر کے اخیر میں پھر اسی طریق سے یا داہنے پاؤں کو کھڑا کر کے اور بائیں پاؤں کو داہنے کی طرف نکال کر زمین پر بیٹھ جاتے ہیں اور یہی التحیات پڑھتے ہیں اور اگر دو ہی رکعت والی نماز ہوئی تو یہی آخری بیٹھنا ہوتا ہے اور آخری بیٹھنے میں التحیات مذکورہ کے بعد پڑھتے ہیں اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ عَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ...اس کے بعد پھر کوئی دعا مقرر نہیں بلکہ جو چاہتے ہیں وہ دعا مانگتے ہیں اور ضرور ما نگتے ہیں اس کے بعد داہنے
فقه المسيح 156 حضرت مسیح موعود کا طریق نماز طرف منہ پھیر کر کہتے ہیں اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ....اور پھر بائیں طرف بھی اسی طرح منہ پھیر کر کہتے ہیں اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَةُ اللهِ.پس اللہ اکبر سے نماز شروع ہوتی ہے اور اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَةُ اللهِ پرختم ہو جاتی ہے یہ وہ نماز ہے جو کہ حضرت مسیح موعود اور ان کے اہل علم اور مخلص مہاجر اور رات دن ساتھ رہنے والے اصحاب پڑھتے ہیں جیسا میں نے بیان کیا ہے کہ ہاتھ باندھنے میں اختلاف ہے اور حضرت مسیح موعود اور ان کے مذکورہ بالا خدام فلاں طرز پر باندھتے ہیں.اسی طرح یہ بھی جاننا چاہئے کہ رفع یدین میں بھی اختلاف ہے.( یعنی رکوع کو جاتے ہوئے اور اٹھنے کے بعد نیچے جاتے ہوئے اور دوسری رکعت کے بعد بیٹھ کر پھر اُٹھتے ہوئے تکبیر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھوں کو اس طرح اُٹھانا جیسا کہ پہلی تکبیر کے وقت اُٹھاتے ہیں ) اور اختلاف یہ ہے کہ بعض ان مقاموں پر ہاتھ اُٹھاتے ہیں اور بعض نہیں اُٹھاتے اور حضرت مسیح موعود اور ان کے مذکورہ بالا خدام ان مقاموں پر رفع یدین نہیں کرتے.ہاں اگر کوئی ان کے سامنے کرے تو اس پر اعتراض بھی نہیں کرتے..امام کے ساتھ نماز پڑھنے کی حالت میں ایک اور مسئلہ میں بھی بہت کچھ نزاع ہے اور وہ ہے بلند آواز سے آمین کہنے کا لیکن حضرت مسیح موعود کا عمل درآمد ( جو کہ ترجیح اور ثبوت کے لئے حجت قاطعہ ہے اور حجت قاطعہ بھی ایسی کہ جس پر ہر ایک عقل مند مومن حلف کھا سکتا ہے کہ خدائے علیم کو یہ پسند ہے ) یہی ہے کہ آپ بلند آواز سے آمین نہیں کہتے اور نہ کسی کہنے والے پر کوئی اعتراض کرتا ہے (رسالہ تعلیم الاسلام قادیان ماہ جولائی 1906ء جلد 1 نمبر 5 صفحہ 171 تا 182)
فقه المسيح جمعہ کا اہتمام 157 نماز جمعہ اور عید نماز جمعہ اور عید حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن خوشبو لگاتے اور کپڑے بدلتے تھے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 61) نماز جمعہ سے قبل دو سنتیں پڑھنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضور علیہ السلام کو جمعہ کے روز مسجد اقصیٰ میں دو رکعت ہی پڑھتے ہوئے بار ہا دیکھا ہے.عام طور پر لوگ قبل از نماز جمعہ چار رکعت پڑھتے ہیں لیکن حضور علیہ السلام کو دو رکعت ہی پڑھتے دیکھا ہے شاید وہ دو رکعت تحیۃ المسجد ہوں کیونکہ باقی نمازوں میں سنتیں گھر میں ہی پڑھ کر مسجد مبارک میں تشریف لاتے تھے.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 258) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جمعہ کی پہلی سنتوں کے متعلق ایک دفعہ فرمایا کہ یہ تَحِيَّةُ الْمَسْجِدُ ہیں.اس لئے آپ دو رکعت پڑھا کرتے تھے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 804) جمعہ سے قبل دو سنتیں پڑھنے کے بارہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں:.بے شک یہ حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں آکر جمعہ کی نماز سے
فقه المسيح 158 نماز جمعہ اور عید قبل دو رکعت پڑھیں لیکن ایک اور حدیث ہے جو حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت گھر میں پڑھ کر آتے تھے گو بخاری ومسلم نے چار سنتوں والی روایات کو ترجیح دی ہے لیکن دو سنتیں پڑھنا بھی جائز ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ظہر کی جماعت سے پہلے ہمیشہ چارسنتیں پڑھا کرتے تھے.میں بھی چار ہی پڑھتا ہوں کیونکہ اللہ نے طاقت دی ہے تو کیوں نہ پڑھیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے سینکڑوں دفعہ دیکھا ہے اور متواتر دیکھا ہے.آپ ظہر سے پہلے ہمیشہ دو رکعت سنت پڑھا کرتے تھے.دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دو رکعت ہماری ہزاروں رکعتوں کے برابر تھیں.گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حدیث سے جو اقل سنتیں ثابت ہیں وہی پڑھی ہیں تا کہ باقی وقت آپ تبلیغ اسلام میں صرف کریں.کیا دو افراد کا جمعہ ہو سکتا ہے؟ الفضل 10 دسمبر 1929 ، صفحہ 7) یہ مسئلہ پیش ہوا کہ دو احمدی کسی گاؤں میں ہوں تو وہ بھی جمعہ پڑھ لیا کریں یا نہ؟ مولوی محمد احسن صاحب سے خطاب فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ دو سے جماعت ہو جاتی ہے.اس لئے جمعہ بھی ہو جاتا ہے فرمایا : ہاں پڑھ لیا کریں.فقہاء نے تین آدمی لکھے ہیں اگر کوئی اکیلا ہو تو وہ اپنی بیوی وغیرہ کو پیچھے کھڑا کر کے تعداد پوری کر سکتا ہے.“ ( بدر 14 مارچ 1907 ء صفحہ 5) اسی طرح ایک دوسرے موقع پر سوال پیش ہوا کہ نماز جمعہ کے واسطے اگر کسی جگہ صرف ایک دو مرد احمدی ہوں اور کچھ عورتیں ہوں تو کیا یہ جائز ہے کہ عورتوں کو جماعت میں شامل کر کے نماز جمعہ ادا کی جائے.
فقه المسيح 159 نماز جمعہ اور عید حضرت نے فرمایا ”جائز ہے.“ جمعہ کے لئے جماعت ضروری ہے ( بدر 5 ستمبر 1907 صفحہ 3) ایک صاحب نے بذریعہ خط استفسار فرمایا تھا کہ وہ صرف اکیلے ہی اس مقام پر حضرت اقدس سے بیعت ہیں جمعہ تنہا پڑھ لیا کریں یا نہ پڑھا کریں حضرت اقدس نے فرمایا: جمعہ کے لئے جماعت کا ہونا ضروری ہے.اگر دو آدمی مقتدی اور تیسرا امام اپنی جماعت کے ہوں تو نماز جمعہ پڑھ لیا کریں.والا نہ ( سوائے احمدی احباب کے دوسرے کے ساتھ جماعت اور جمعہ جائز نہیں.) البدر 9 جنوری 1903 ء صفحہ 83) اپنا جمعہ الگ پڑھو سوال پیش ہوا کہ بعض مساجد اس قسم کی ہیں کہ وہاں احمدی اور غیر احمدی کو اپنی جماعت اپنے امام کے ساتھ الگ الگ کرالینے کا اختیار قانونا یا با ہمی مصالحت سے حاصل ہوتا ہے تو ایسی جگہ جمعہ کے واسطے کیا کیا جاوے؟ کیونکہ ایک مسجد میں دو مجمعے جائز نہیں ہو سکتے.فرمایا:.جو لوگ تم کو کافر کہتے ہیں اور تمہارے پیچھے نماز نہیں پڑھتے وہ تو بہر حال تمہاری اذان اور تمہاری نماز جمعہ کو اذان اور نماز سمجھتے ہی نہیں اس واسطے وہ تو پڑھ ہی لیں گے اور چونکہ وہ مومن کو کافر کہہ کر بموجب حدیث خود کا فر ہو چکے ہیں.اس واسطے تمہارے نزدیک بھی ان کی اذان اور نماز کا عدم وجود برابر ہے.تم اپنی اذان کہو اور اپنے امام کے ساتھ اپنا جمعہ نماز جمعہ کے بعد احتیاطی نماز (219072) ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ بعض لوگ جمعہ کے بعد احتیاطی پڑھتے ہیں.اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا:.
فقه المسيح 160 نماز جمعہ اور عید قرآن شریف کے حکم سے جمعہ کی نما ز سب مسلمانوں پر فرض ہے جبکہ جمعہ کی نماز پڑھ لی تو حکم ہے کہ جاؤ اب اپنے کاروبار کرو.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ انگریزوں کی سلطنت میں جمعہ کی نماز اور خطبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ بادشاہ مسلمان نہیں ہے تعجب ہے کہ خود بڑے امن کے ساتھ خطبہ اور نماز جمعہ پڑھتے بھی ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ نہیں ہوسکتا پھر کہتے ہیں کہ احتمال ہے کہ جمعہ ہوا یا نہیں.اس واسطے ظہر کی نماز بھی پڑھتے ہیں اور اس کا نام احتیاطی رکھا ہے.ایسے لوگ ایک شک میں گرفتار ہیں.ان کا جمعہ بھی شک میں گیا اور ظہر بھی شک میں گئی.نہ یہ حاصل ہوا اور نہ وہ.اصل بات یہ ہے کہ نماز جمعہ پڑھو اور احتیاطی کی کوئی ( بدر 6 جون 1907 صفحہ 8) ضرورت نہیں.اہل اسلام میں سے بعض ایسے بھولے بھالے بھی ہیں کہ جمعہ کے دن ایک تو جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں پھر اس کے بعد اس احتیاط سے کہ شاید جمعہ ادا نہ ہوا ہو.ظہر کی نماز بھی پوری ادا کرتے ہیں اس کا نام انہوں نے احتیاطی رکھا ہے.اس کے ذکر پر حضرت اقدس نے فرمایا: یہ غلطی ہے اور اس طرح سے کوئی نماز بھی نہیں ہوتی کیونکہ نیت میں اس امر کا یقین ہونا ضروری ہے کہ میں فلاں نماز ادا کرتا ہوں اور جب نیت میں شک ہوا تو پھر وہ نماز کیا ہوئی ؟ (البدر مؤرخہ 11 ستمبر 1903 صفحہ 366) ایک اور موقعہ پر فرمایا احتیاطی نماز کیا ہوتی ہے.جمعہ کے تو دو ہی فرض ہیں.احتیاطی فرض کچھ چیز نہیں.فرمایا : لدھیانہ میں ایک بار میاں شہاب الدین بڑے پکے موحد نے جمعہ کے بعد احتیاطی نماز پڑھی.میں نے ناراض ہو کر کہا کہ یہ تم نے کیا کیا ؟ تم تو بڑے پکے موحد تھے.اُس نے کہا کہ میں نے جمعہ کی احتیاطی نہیں پڑھی بلکہ میں نے مارکھانے کی احتیاطی پڑھی ہے.(الحکم 10 راگست 1901 صفحہ 7)
فقه المسيح 161 نماز جمعہ اور عید حضرت مفتی محمد صادق صاحب روایت کرتے ہیں کہ شروع زمانہ میں جبکہ احمدیوں کی تعداد بہت کم تھی.1893 ء یا اس کے قریب کا واقعہ ہے ایک غریب احمدی کسی گاؤں کی مسجد میں بطور درویش کے رہا کرتا تھا اور کبھی کبھی قادیان آتا تھا.اُس نے عرض کی کہ جمعہ کے دن لوگ دو رکعت نماز جمعہ پڑھتے ہیں اور اس کے علاوہ چار رکعت نماز ظہر بھی پڑھتے ہیں.اس کا نام احتیاطی رکھتے ہیں.اس کا کیا حکم ہے.فرمایا: ”نماز جمعہ کے بعد ظہر پڑھنے کی ضرورت نہیں.جو لوگ محبہ میں ہیں اُن کا جمعہ اور ظہر اور ہر دوشبہ میں گئے ، نہ یہ ہوا نہ وہ ہوا.احتیاطی ایک فضول بات ہے مگر تم غریب اور کمزور آدمی ہو تم اس نیت کی احتیاطی پڑھ لیا کرو کہ کوئی شخص ناحق ناراض ہو کر تمہیں مارنے نہ لگ ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 41،40) جائے.“ جمعہ دو جگہوں پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ہی اذان کہا کرتے تھے اور خود ہی نماز میں امام ہوا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعد میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب امام نماز مقرر ہوئے اور سنا گیا ہے کہ حضرت صاحب نے دراصل حضرت مولوی نورالدین صاحب کو امام مقرر کیا تھا لیکن مولوی صاحب نے مولوی عبدالکریم صاحب کو کروا دیا.چنانچہ اپنی وفات تک جو 1905ء میں ہوئی مولوی عبدالکریم صاحب ہی امام رہے.حضرت صاحب مولوی عبد الکریم صاحب کے ساتھ دائیں طرف کھڑے ہوا کرتے تھے اور باقی مقتدی پیچھے ہوتے تھے.مولوی عبد الکریم صاحب کی غیر حاضری میں نیز ان کی وفات کے بعد مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے.جمعہ کے متعلق یہ طریق
فقه المسيح 162 نماز جمعہ اور عید تھا کہ اوائل میں اور بعض اوقات آخری ایام میں بھی جب حضرت صاحب کی طبیعت اچھی ہوتی تھی جمعہ بڑی مسجد میں ہوتا تھا جس کو عموما لوگ مسجد اقصیٰ کہتے ہیں اور مولوی عبد الکریم صاحب امام ہوتے تھے.بعد میں جب حضرت کی طبیعت عموما ناساز رہتی تھی.مولوی عبدالکریم صاحب حضرت صاحب کے لئے مسجد مبارک میں جمعہ پڑھاتے تھے اور بڑی مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب جمعہ پڑھاتے تھے.مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کے بعد مسجد مبارک میں مولوی محمد احسن صاحب اور ان کی غیر حاضری میں مولوی محمد سرور شاہ صاحب امام جمعہ ہوتے تھے اور بڑی مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے.حضرت صاحب کی وفات تک یہی طریق رہا.عید کی نماز میں عموما مولوی عبد الکریم صاحب اور ان کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے.جنازہ کی نماز حضرت مسیح موعود جب آپ شریک نماز ہوں خود پڑھایا کرتے تھے.قادیان میں دو جمعے اور اس کی وجہ (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 148) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری ایام میں نماز جمعہ دو جگہ ہوتی تھی.ایک مسجد مبارک میں جس میں حضرت صاحب خود شریک ہوتے تھے اور امام صلوۃ مولوی سید محمد احسن صاحب یا مولوی سید سرور شاہ صاحب ہوتے تھے اور دوسرے مسجد اقصیٰ میں جس میں حضرت خلیفہ اول امام ہوتے تھے.دو جمعوں کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود بوجہ طبیعت کی خرابی کے عموما مسجد اقصیٰ میں تشریف نہیں لے جا سکتے تھے اور مسجد مبارک چونکہ بہت تنگ تھی اس لئے اس میں سارے نمازی سمانہیں سکتے تھے.لہذا دو جگہ جمعہ ہوتا تھا.واقعہ مندرجہ روایت مذکورہ بالا ان دنوں کا ہے.جبکہ مسجد مبارک میں توسیع کے لئے عمارت لگی ہوئی تھی.ان ایام میں مسجد
فقه المسيح 163 مبارک والا جمعہ میرے موجودہ مکان کے جنوبی دالان میں ہوا کرتا تھا.نماز جمعہ اور عید سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 589،588) حضرت مصلح موعودؓ اسی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.بعض حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک ہی وقت میں مسجد مبارک میں بھی جمعہ کی نماز پڑھی جاتی تھی اور مسجد اقصیٰ میں بھی اور یہ اس صورت میں ہوتا تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی تکلیف وغیرہ کی وجہ سے مسجد اقصیٰ میں تشریف نہیں ( روزنامه الفضل 18 ستمبر 1930 ء صفحہ 5) لے جا سکتے تھے.سفر میں نماز جمعہ حضرت خلیفہ امسیح الثانی فرماتے ہیں:.سفر میں جمعہ کی نماز پڑھنا بھی جائز ہے اور چھوڑ نا بھی جائز ہے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سفر میں پڑھتے بھی دیکھا ہے اور چھوڑتے بھی دیکھا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقدمہ کے موقعہ پر گورداسپور تشریف لے گئے ہوئے تھے اور آپ نے فرمایا کہ آج جمعہ نہیں ہوگا کیونکہ ہم سفر پر ہیں.ایک صاحب جن کی طبیعت میں بے تکلفی ہے وہ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ سنا ہے حضور نے فرمایا آج جمعہ نہیں ہوگا.حضرت خلیفتہ امسیح الاول یوں تو ان دنوں گورداسپور میں ہی تھے مگر اس روز کسی کام کے لئے قادیان آئے تھے.ان صاحب نے خیال کیا کہ شائد جمعہ نہ پڑھے جانے کا ارشاد آپ نے اسی لئے فرمایا ہے کہ مولوی صاحب یہاں نہیں ہیں.اس لئے کہا حضور مجھے بھی جمعہ پڑھانا آتا ہے.آپ نے فرمایا ہاں آتا ہو گا مگر ہم تو سفر پر ہیں.ان صاحب نے کہا کہ حضور مجھے اچھی طرح جمعہ پڑھانا آتا ہے اور میں نے بہت دفعہ پڑھایا بھی ہے.آپ نے جب دیکھا کہ ان صاحب کو
فقه المسيح 164 نماز جمعہ اور عید جمعہ پڑھانے کی بہت خواہش ہے تو فرمایا کہ اچھا آج جمعہ ہو جائے.تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سفر کے موقع پر جمعہ پڑھتے بھی دیکھا ہے اور چھوڑتے بھی اور جب سفر میں جمعہ پڑھا جائے تو میں پہلی سنتیں پڑھا کرتا ہوں اور میری رائے یہی ہے کہ وہ پڑھنی چاہئیں کیونکہ وہ عام سنن سے مختلف ہیں اور وہ جمعہ کے احترام کے طور پر ہیں.(الفضل 24 جنوری 1942 صفحہ 1) جمعہ پڑھنے کے لئے تعطیل کی تجویز حضرت مفتی محمد صادق صاحب تحریر کرتے ہیں: 1895,96ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گورنمنٹ میں ایک تحریک کرنی چاہی تھی کہ سرکاری دفاتر کے مسلمانوں کو نماز جمعہ کے ادا کرنے کے واسطے جمعہ کے دن دو گھنٹہ کے لئے رخصت ہوا کرے.اس کے لئے حضرت صاحب نے ایک میموریل لکھا جس پر مسلمانوں کے دستخط ہونے شروع ہوئے.مگر مولوی محمد حسین صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا کہ یہ کام تو اچھا ہے.لیکن مرزا صاحب کو یہ کام نہیں کرنا چاہئے.ہم خود اِس کام کو سرانجام دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بذریعہ اعلان مشتہر کر دیا کہ ہماری غرض نام سے نہیں بلکہ کام سے ہے.اگر مولوی صاحب اس کام کو سرانجام دیتے ہیں تو ہم اس کے متعلق اپنی کا رروائی کو بند کر دیتے ہیں.چنانچہ حضرت صاحب نے اپنی کارروائی بند کر دی مگر افسوس ہے مولوی محمد حسین صاحب یا کسی دوسرے مسلمان عالم نے اس کے متعلق کچھ کا رروائی نہ کی اور یہ کام اسی طرح درمیان میں رہ گیا.ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 43،42) تعطیل جمعہ کے لئے حکومت کو میموریل بھیجنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جمعہ کے روز تعطیل رکھنے کے لئے متعدد کوششیں کیں.اس غرض کے لئے آپ نے وائسرائے ہند لارڈ کرزن کی خدمت میں میموریل بھی
فقه المسيح 165 نماز جمعہ اور عید بھیجا اور اُن کی سلطنت کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ نے تحریر فرمایا : یہ سلطنت اسلام کے لئے در حقیقت چشمہ فیض ہے اور نہایت خوشی کی بات ہے کہ حضور لارڈ کرزن بالقابہ نے ایسی نمایاں کارروائیاں کی ہیں کہ مسلمانوں کو کبھی نہیں بھولیں گی جیسا کہ لاہور کے قلعہ کی مسجد کا مسلمانوں کو عطا کرنا اور ایک باہر کی مسجد جس پر ریل والوں کا قبضہ تھا مسلمانوں کو عنایت فرمانا اور نیز اپنی طرف سے لاہور کی شاہی مسجد کے لئے ایک قیمتی لالٹین اپنی جیب سے مرحمت فرمانا.ان فیاضانہ کارروائیوں سے جس قدر مسلمان شکر گزار اور گرویدہ ہیں اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا لیکن ایک تمنا ان کی ہنوز باقی ہے اور وہ امید رکھتے ہیں کہ جن ہاتھوں سے یہ مرادیں پوری ہوئی ہیں وہ تمنا بھی انہیں ہاتھوں سے پوری ہوگی اور وہ آرزو یہ ہے کہ روز جمعہ ایک اسلامی عظیم الشان تہوار ہے اور قرآن شریف نے خاص کر کے اس دن کو تعطیل کا دن ٹھہرایا ہے اور اس بارے میں خاص ایک سورۃ قرآن شریف میں موجود ہے جس کا نام سورۃ الجمعہ ہے اور اس میں حکم ہے کہ جب جمعہ کی بانگ دی جائے تو تم دنیا کا ہر ایک کام بند کر دو اور مسجدوں میں جمع ہو جاؤ اور نماز جمعہ اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرو اور جو شخص ایسا نہ کرے گا وہ سخت گنہ گار ہے اور قریب ہے کہ اسلام سے خارج ہو اور جس قدر جمعہ کی نماز اور خطبہ سننے کی قرآن شریف میں تاکید ہے اس قدرعید کی نماز کی بھی تاکید نہیں.اسی غرض سے قدیم سے اور جب سے کہ اسلام ظاہر ہوا ہے جمعہ کی تعطیل مسلمانوں میں چلی آئی ہے اور اس ملک میں بھی برابر آٹھ سو برس تک یعنی جب تک کہ اس ملک میں اسلام کی سلطنت رہی جمعہ میں تعطیل ہوتی تھی.اسی وجہ سے ریاست پٹیالہ میں جمعہ کی تعطیل ان دنوں تک ہوتی رہی اور اس ملک میں تین قومیں ہیں.ہندو، عیسائی ،مسلمان.ہندوؤں اور عیسائیوں کو ان کے مذہبی رسوم کا دن گورنمنٹ نے دیا ہوا ہے یعنی اتوار جس میں وہ اپنے مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں جس کی تعطیل عام طور پر ہوتی ہے لیکن یہ تیسرا فرقہ یعنی مسلمان اپنے تہوار کے دن سے یعنی جمعہ سے محروم ہیں.برٹش انڈیا میں کون مسلمان ہے جو آہ مارکر
فقه المسيح 166 نماز جمعہ اور عید یہ نہیں کہتا کہ کاش جمعہ کی تعطیل ہوتی لیکن اس کرزنی دور میں جبکہ لارڈ کرزن اس ملک کے وائسرائے ہیں مسلمانوں کو اس تمنا کے پورے ہونے میں بہت کچھ امید بڑھ گئی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ جبکہ لارڈ موصوف نے دلی فیاضی اور ہمدردی سے ان کی مساجد واگذار کرادی ہیں تو پھر وہ امر جو مسجدوں کی علت غائی ہے یعنی نماز جمعہ، یہ امر بھی انہی ہاتھوں سے انجام پذیر ہوگا.مسجد تو مثل دستر خوان یا میز کے ہے جس پر روٹی رکھی جاتی ہے مگر نماز جمعہ اصل روٹی ہے.تمام مساجد کی بڑی بھاری غرض نماز جمعہ ہے پس کیا ہمارے عالی ہمت وائسرائے لارڈ کرزن یہ روا رکھیں گے کہ وہ ہمیں دستر خوان تو دیں مگر روٹی نہ دیں.ایسی دعوت تو ناقص ہے اور امید نہیں کہ ایسا فیاض دل جوانمرد ایسی کمی کو اپنے پر گوارا کرے اور اگر ایسا ہمدرد وائسرائے جس کے بعد کم امید ہے کہ اس کی نظیر ملے اس فیاضی کی طرف توجہ نہ فرمادے تو پھر اس کے بعد عقل تجویز نہیں کر سکتی کہ مسلمانوں کے لئے کبھی وہ دن آوے کہ دوسرے وائسرائے سے یہ مراد پاسکیں.یہ ایک ایسی مراد ہے کہ اس کا انجام پذیر ہونا مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ برطانیہ کی محبت کی طرف ایک زبر دست کشش سے کھینچ لے گا اور ان احسانوں کی فہرست میں جو اس گورنمنٹ نے مسلمانوں پر کئے ہیں اگر یہ احسان بھی کیا گیا کہ عام طور پر جمعہ کی تعطیل دی جائے تو یہ ایسا احسان ہوگا کہ جو آب زر سے لکھنے کے لائق ہوگا.....اگر گورنمنٹ اس مبارک دن کی یادگار کے لئے مسلمانوں کے لئے جمعہ کی تعطیل کھول دے یا اگر نہ ہو سکے تو نصف دن کی ہی تعطیل دے دے تو میں سمجھ نہیں سکتا کہ عام دلوں کو خوش کرنے کے لئے اس سے زیادہ کوئی کارروائی ہے مگر چونکہ گورنمنٹ کی فیاضی کا تنگ دائرہ نہیں ہے اور اگر توجہ پیدا ہو تو اس کی کچھ پروا نہیں ہے اس لئے صرف نصف دن کی تعطیل ایک ادنی بات ہے.یقین ہے کہ گورنمنٹ عالیہ اس مبارک یادگار میں پورے دن کی تعطیل عنایت فرمائے گی اور یہی مسلمانوں کو توقع ہے.الحکم 24 جنوری 1903 صفحہ 5-6)
فقه المسيح 167 نماز جمعہ اور عید اگر جمعہ کا خطبہ ثانیہ نہ آتا ہو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے بعد میں قادیان جاتا رہا.بہت دفعہ ایسا ہوتا رہا کہ جمعہ کی نماز میں پڑھاتا اور حضرت صاحب اور حافظ حامد علی صرف مقتدی ہوتے.میں نے کہا مجھے خطبہ پڑھنا نہیں آتا.حضور نے فرمایا: کوئی رکوع پڑھ کر اور بیٹھ کر کچھ درود شریف پڑھ دو.انہی دنوں الہی بخش اکا ؤنٹنٹ ، عبدالحق اکا ؤنٹنٹ اور حافظ محمد یوسف سب اوور سیئر تینوں مولوی عبدالحق صاحب غزنوی کے مرید تھے.یہ بہت آیا کرتے تھے.اکثر ایسا موقعہ ہوا ہے کہ میں قادیان گیا ہوں تو یہ بھی (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 29) وہاں ہوتے.قضاء عمری ایک صاحب نے سوال کیا کہ یہ قضاء عمری کیا شے ہے جو کہ لوگ ( عید الاضحی ) کے پیشتر جمعہ کو ادا کرتے ہیں.فرمایا: میرے نزدیک یہ فضول باتیں ہیں.ان کی نسبت وہی جواب ٹھیک ہے جو کہ حضرت علی نے ایک شخص کو دیا تھا جبکہ ایک شخص ایک ایسے وقت نماز ادا کر رہا تھا جس وقت میں نماز جائز نہیں.اس کی شکایت حضرت علی کے پاس ہوئی تو آپ نے اسے جواب دیا کہ میں اس آیت کا مصداق نہیں بننا چاہتا.أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى عَبْدًا إِذَا صَلَّى (العلق : 10-11) یعنی تو نے دیکھا اس کو جو ایک نماز پڑھتے بندے کو منع کرتا ہے.نما ز جو رہ جاوے اس کا تدارک نہیں ہوسکتا ہاں روزہ کا ہوسکتا ہے.اور جو شخص عمد أ سال بھر اس لئے نماز کو ترک کرتا ہے کہ قضا عمری والے دن ادا کرلوں گا وہ تو گنہگار ہے اور جو شخص نادم ہو کر تو بہ کرتا ہے اور اس نیت سے پڑھتا ہے کہ آئندہ
فقه المسيح 168 نماز جمعہ اور عید نماز ترک نہ کروں گا تو اس کے لئے حرج نہیں.ہم تو اس معاملہ میں حضرت علی ہی کا جواب دیتے ہیں.البد ریکم مئی 1903 ، صفحہ 114) ایک شخص نے سوال کیا کہ میں چھ ماہ تک تارک صلوۃ تھا.اب میں نے تو بہ کی ہے کیا وہ سب نمازیں اب پڑھوں؟ فرمایا نماز کی قضاء نہیں ہوتی.اب اس کا علاج تو بہ ہی کافی ہے.“ عورتوں کے لئے جمعہ کا استثناء بدر 24 31 دسمبر 1908 صفحہ 5 ایک صاحب نے عورتوں پر جمعہ کی فرضیت کا سوال کیا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ:.اس میں تعامل کو دیکھ لیا جاوے اور جو امر سنت اور حدیث سے ثابت ہے.اس سے زیادہ ہم اس کی تفسیر کیا کر سکتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جب مستثنیٰ کر دیا ہے تو پھر یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہی رہا.( البدر 11 ستمبر 1903 ، صفحہ 366) قادیان میں عید الفطر اخبار البدر قادیان نے عید الفطر کی تقریب سعید کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لنگر خانہ میں نماز عید سے پیشتر احباب کے لئے میٹھے چاول تیار کروائے اور سب احباب نے تناول فرمائے.مدرسہ تعلیم الاسلام کے ایک دو ماسٹروں نے مدرسہ کے مکین اور یتیم طلباء کے واسطے صدقہ فطر جمع کیا جو کہ عید کی نماز سے پیشتر ہی ہر ایک مومن کو ادا کر دینا چاہئے.گیارہ بجے کے قریب خدا کا برگزیدہ جرى اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ سادے لباس میں ایک چوغہ زیب تن کئے ہوئے مسجد اقصیٰ میں تشریف لایا جس قدر احباب تھے انہوں نے دوڑ دوڑ کر حضرت اقدس کی دست بوسی اور عید کی مبارک باد دی.اتنے میں حکیم نورالدین صاحب تشریف لائے اور آپ نے نماز عید کی
فقه المسيح 169 نماز جمعہ اور عید پڑھائی اور ہر دو رکعت میں سورۃ فاتحہ سے پیشتر سات اور پانچ تکبیریں کہیں اور ہر تکبیر کے ساتھ حضرت اقدس علیہ السلام نے گوش مبارک تک حسب دستو را اپنے ہاتھ اُٹھائے.عیدین کی تعمیرات (البدر 9 جنوری 1903 صفحہ 85) حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب " پیارے احمد کی پیاری پیاری باتیں“ کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیں:.مجھے خوب یاد ہے نماز عیدین تو حضرت خلیفہ اول ہی پڑھایا کرتے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے بڑ کے درخت کے نیچے جا کر فرمایا کہ ہمیشہ تو مولوی نورالدین صاحب نماز پڑھاتے ہیں.آج سید محمد احسن صاحب کو کہہ دیں کہ یہ نماز پڑھادیں اور خطبہ بھی یہی پڑھا دیں.میں نے یہ بات خلیفہ اول سے کہہ دی، انہوں نے فرمایا کہ بہتر ہے.پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب (امروہی) آج تم نماز پڑھاؤ.پس مولوی صاحب نے نماز پڑھائی.نماز سے پہلے مولوی صاحب نے عرض کیا کہ بخاری میں اول رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ تکبیریں بھی آئی ہیں.ارشاد ہو تو کروں؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ کیا مضائقہ ہے، بے شک اب ایسا ہی کرو.بات یہ ہے کہ ہمیشہ اسی طرح سے عید کی نماز پڑھی جاتی تھی جیسے کہ حنفی تین تکبیر میں کہتے ہیں.مگر اس سال سے سات اور پانچ تکبیر یں عام رائج ہو گئیں.الحکم مورخہ 14 تا 21 مئی 1919 صفحہ 6) خطیب اور امام الگ الگ ہو سکتے ہیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ میں پہنچ کر حسب معمول محد ومنا حضرت مولا نا مولوی عبدالکریم صاحب کی اقتداء میں نماز عید ایک خاصے مجمع سمیت ادا فرمائی مگر خطبہ عید حضرت اقدس نے دیا.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 367)
فقه المسيح 170 ماجد مساجد کیسی ہوں فرمایا: مساجد اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے.یہ خانہ خدا ہوتا ہے جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہوگئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی.اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنادینی چاہیے پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو محض لِلهِ اُسے کیا جاوے.نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہر گز دخل نہ ہو، تب خدا برکت دے گا.یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد مرصع اور پکی عمارت کی ہو.بلکہ صرف زمین روک لینی چاہیے اور وہاں مسجد کی حد بندی کر دینی چاہیے اور بانس وغیرہ کا کوئی چھپر وغیرہ ڈال دو کہ بارش وغیرہ سے آرام ہو.خدا تعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا.آنحضرت علے کی مسجد چند کھجوروں کی شاخوں کی تھی اور اسی طرح چلی آئی پھر حضرت عثمان نے اس لیے کہ ان کو عمارت کا شوق تھا اپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا.مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت سلیمان اور عثمان کا قافیہ خوب ملتا ہے.شاید اسی مناسبت سے ان کو ان باتوں کا شوق تھا.غرضیکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہیے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے اور جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز با جماعت ادا کیا کریں.جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے.پراگندگی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہیے اور ادنی ادنی سی باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں.البدر 24 را گست 1904 ، صفحه 8
فقه المسيح 171 ماجد مسجد کا ایک حصہ مکان میں ملانا ایک شخص نے سوال لکھ کر بھیجا تھا کہ میرے دادا نے مکان کے ایک حصہ ہی کو مسجد بنایا تھا اور اب اس کی ضرورت نہیں رہی تو کیا اس کو مکان میں ملا لیا جاوے؟ فرمایا ہاں ، ملا لیا جاوے.“ ایک مسجد کے لئے چندہ کی درخواست (الحکم 17 /اکتوبر 1902ءصفحہ 11) کہیں سے خط آیا کہ ہم ایک مسجد بنانا چاہتے ہیں اور تبر گا آپ سے بھی چندہ چاہتے ہیں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا : ہم تو دے سکتے ہیں اور یہ کچھ بڑی بات نہیں مگر جبکہ خود ہمارے ہاں بڑے بڑے اہم اور ضروری سلسلے خرچ کے موجود ہیں جن کے مقابل میں اس قسم کے خرچوں میں شامل ہونا اسراف معلوم ہوتا ہے تو ہم کس طرح سے شامل ہوں.یہاں جو مسجد خدا بنا رہا ہے اور وہی مسجد اقصٰی ہے وہ سب سے مقدم ہے.اب لوگوں کو چاہئے کہ اس کے واسطے روپیہ بھیج کر ثواب میں شامل ہوں.ہمارا دوست وہ ہے جو ہماری بات کو مانے نہ وہ کہ جو اپنی بات کو مقدم رکھے.حضرت امام ابوحنیفہ کے پاس ایک شخص آیا کہ ہم ایک مسجد بنانے لگے ہیں.آپ بھی اس میں کچھ چندہ دیں.انہوں نے عذر کیا کہ میں اس میں کچھ نہیں دے سکتا.حالانکہ وہ چاہتے تو بہت کچھ دیتے.اس شخص نے کہا کہ ہم آپ سے بہت نہیں مانگتے صرف تبر گا کچھ دے دیجئے.آخر انہوں نے ایک دونی کے قریب سکہ دیا.شام کے وقت وہ شخص دونی لے کر واپس آیا اور کہنے لگا کہ حضرت! یہ تو کھوٹی نکلی ہے.وہ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا خوب ہوا.دراصل میرا جی نہیں چاہتا تھا کہ میں کچھ دوں.مسجدیں بہت ہیں اور مجھے اس میں اسراف معلوم ہوتا ہے.(الحکم 24 مئی 1901 ء صفحہ 9)
فقه المسيح 172 نماز جنازہ اور تدفین سورۃ یسین کی سنت پر عمل کرنا نماز جنازہ اور تدفین حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ بشیر اول کی پیدائش کے وقت میں قادیان میں تھا.قریباً آدھی رات کے وقت حضرت مسیح موعود مسجد میں تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا میاں عبد اللہ اس وقت ہمارے گھر میں دردزہ کی بہت تکلیف ہے.آپ یہاں یسین پڑھیں اور میں اندر جا کر پڑھتا ہوں اور فرمایا کہ ین کا پڑھنا بیمار کی تکلیف کو کم کرتا ہے.چنانچہ نزع کی حالت میں بھی اسی لئے بیبین پڑھی جاتی ہے کہ مرنے والے کو تکلیف نہ ہو اور لیبین کے ختم ہونے سے پہلے تکلیف دور ہو جاتی ہے.اس کے بعد حضور اندر تشریف لے گئے اور میں یسین پڑھنے لگ گیا تھوڑی دیر کے بعد جب میں نے ابھی بین ختم نہیں کی تھی.آپ مسکراتے ہوئے پھر مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا ہمارے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے.اس کے بعد حضرت صاحب اندر تشریف لے گئے اور میں خوشی کے جوش میں مسجد کے اوپر چڑھ کر بلند آواز سے مبارک باد مبارک باد کہنے لگ گیا.وفات کے متعلق عوام کے بعض غلط تصورات فرمایا: (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 66) جمعہ کے دن مرنا، مرتے وقت ہوش کا قائم رہنا یا چہرہ کا رنگ اچھا ہونا.ان علامات کو ہم قاعدہ کلیہ کے طور سے ایمان کا نشان نہیں کہہ سکتے کیونکہ کئی دہر یہ بھی اس دن مرتے ہیں.ان کا ہوش قائم اور چہرہ سفید رہتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ بعض امراض ہی ایسے ہیں مثلاً دق وسل کہ ان کے مریضوں کا اخیر تک ہوش قائم رہتا ہے بلکہ طاعون کی بعض قسمیں بھی ایسی ہی
فقه المسيح 173 نماز جنازہ اور تدفین ہیں.ہم نے بعض دفعہ دیکھا کہ مریضوں کو کلمہ پڑھایا گیا اور یسین بھی سنائی.بعد ازاں وہ بیچ گیا اور پھر وہی برے کام شروع کر دیئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صدق دل سے ایمان نہیں لایا.اگر بچی تو بہ کرتا تو کبھی ایسا کام نہ کرتا اصل میں اس وقت کا کلمہ پڑھنا ایمان لانا نہیں.یہ تو خوف کا ایمان ہے جو مقبول نہیں.( بدر 16 جنوری 1908 صفحہ 3) غسل میت.بیری کے چنوں کا استعمال حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت میں لاہور میں تھا اور خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں رہا کرتا تھا.جب آپ فوت ہوئے تو میں اور ایک اور احمدی نوجوان حضرت صاحب کے غسل دینے کے لئے بیری کے پتے لینے گئے.مجھے یہ یاد نہیں کہ کسی بزرگ نے پتے لانے کے لئے کہا تھا.میں روتا جارہا تھا اور اسلامیہ کالج کے پشت پر کچھ بیریاں تھیں وہاں سے پتے تو ڑ کر لایا تھا.گرم پانی میں ان پتوں کو کھولا کر اس پانی سے حضور کو غسل دیا گیا تھا.سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 749) سب کا جنازہ پڑھ دیا قاضی سید امیر حسین صاحب کا ایک چھوٹا بچہ فوت ہونے پر جنازے کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی تشریف لے گئے اور خود ہی جنازہ پڑھایا.عموما جنازے کی نمازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر موجود ہوتے تو خود ہی امامت کرتے.اس وقت نماز جنازہ میں شامل ہونے والے دس پندرہ آدمی ہی تھے.بعد سلام کسی نے عرض کی کہ حضور میرے لئے بھی دعا کریں.فرمایا : میں نے تو سب کا ہی جنازہ پڑھ دیا ہے.مراد یہ تھی کہ جتنے لوگ نماز جنازہ میں شامل ہوئے تھے ، اُن سب کے لئے نماز جنازہ کے اندر حضرت صاحب نے دعائیں کر دی تھیں.( ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 161 -162)
فقه المسيح 174 نماز جنازہ اور تدفین حضرت مسیح ناصری" کا جنازہ ڈاکٹر سید عبدالستار صاحب رعیہ نے عرض کی کہ ایک شخص منشی رحیم بخش عرضی نو لیس بڑا سخت مخالف تھا مگر اب تحفہ گولڑویہ پڑھ کر اس نے مسیح کی موت کا تو اعتراف کر لیا ہے اور یہ بھی مجھ سے کہا کہ مسیح کا جنازہ پڑھیں؟ میں نے تو یہی کہا کہ بعد استصواب واستمزاج حضرت اقدس جواب دوں گا.فرمایا :.وو ” جنازہ میت کے لئے دعا ہی ہے کچھ حرج نہیں.وہ پڑھ لیں.“ خاندانی قبرستان میں دعا (الحکم 10 نومبر 1902 صفحہ 7) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب ایک دفعہ غیر معمولی طور پر غرب کی طرف سیر کو گئے تو راستے سے ہٹ کر عید گاہ والے قبرستان میں تشریف لے گئے اور پھر آپ نے قبرستان کے جنوب کی طرف کھڑے ہو کر دیر تک دعا فرمائی.خاکسار نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے کوئی خاص قبر سامنے رکھی تھی ؟ مولوی صاحب نے کہا میں نے ایسا نہیں خیال کیا اور میں نے اس وقت دل میں یہ سمجھا تھا کہ چونکہ اس قبرستان میں حضرت صاحب کے رشتہ داروں کی قبریں ہیں اس لئے حضرت صاحب نے دعا کی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ وہاں ایک دفعہ حضرت صاحب نے اپنی والدہ صاحبہ کی قبر پر دعا کی تھی.مولوی صاحب نے یہ بھی بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کی لڑکی امتہ النصیر فوت ہوئی تو حضرت صاحب اسے اسی قبرستان میں دفنانے کے لئے لے گئے تھے اور آپ خود اسے اٹھا کر قبر کے پاس لے گئے.کسی نے آگے بڑھ کر حضور سے لڑکی کو لینا چاہا مگر آپ نے فرمایا کہ میں خود لے جاؤں گا اور حافظ روشن علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس وقت حضرت صاحب نے وہاں اپنے کسی بزرگ کی قبر بھی دکھائی تھی.سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 204،203)
فقه المسيح 175 نماز جنازہ اور تدفین چہلم کی حکمت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ یہ ذکر تھا کہ یہ جو چہلم کی رسم ہے یعنی مُردے کے مرنے سے چالیسویں دن کھانا کھلا کر تقسیم کرتے ہیں غیر مقلد اس کے بہت مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کھانا کھلانا ہو تو کسی اور دن کھلا دیا جائے.اس پر حضرت نے فرمایا کہ چالیسویں دن غربا میں کھانا تقسیم کرنے میں یہ حکمت ہے کہ یہ مردے کی روح کے رخصت ہونے کا دن ہے.پس جس طرح لڑکی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ دیا جاتا ہے اسی طرح مردے کی روح کی رخصت پر بھی غرباء میں کھانا دیا جاتا ہے تا اسے اس کا ثواب پہنچے.گویا روح کا تعلق اس دنیا سے پورے طور پر چالیس دن میں قطع ہوتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ صرف حضرت صاحب نے اس رسم کی حکمت بیان کی تھی ورنہ آپ خود ایسی رسوم کے پابند نہ تھے.مزاروں کی زیارت (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 167 168) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ محتر مہ کنیز فاطمہ صاحبہ اہلیہ میر قاسم علی صاحب نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب 1905ء میں دہلی میں تھے اور وہاں جمعہ کو میری بھی بیعت لی.اور دعا فرمائی.باہر دشمنوں کا بھاری ہجوم تھا.میں بار بار آپ کے چہرے کی طرف دیکھتی تھی کہ باہر اس قدرشور ہے اور حضرت صاحب ایک شیر کی طرح بیٹھے ہیں.آپ نے فرمایا ' شیخ یعقوب علی صاحب کو بلا لا ؤ.گاڑی لائیں.میر صاحب نے کہا حضور گاڑی کیا کرنی ہے؟ آپ نے فرمایا ” قطب صاحب جانا ہے.میں نے کہا حضور اس قدر خلقت ہے.آپ ان میں سے کیسے گزریں گے؟ آپ نے فرمایا دیکھ لینا میں ان میں سے نکل جاؤں گا.میر صاحب کی اپنی فٹن بھی 66
فقه المسيح 176 نماز جنازہ اور تدفین تھی ، دو گاڑیاں اور آگئیں.ہم سب حضرت صاحب کے خاندان کے ساتھ گاڑیوں میں بھر کر چلے گئے.پہلے حضرت میر ناصر نواب صاحب کے والد کے مزار پر تشریف لے گئے اور بہت دیر تک دعا فرمائی اور آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہے.اس کے بعد آپ حضرت نظام الدین اولیاء کے مقبرہ پر تشریف لے گئے.آپ نے تمام مقبرہ کو خوب اچھی طرح سے دیکھا.پھر مقبرہ کے مجاوروں نے حضور سے پوچھا.آپ حضرت نظام الدین صاحب کو کیا خیال فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”ہم انہیں بزرگ آدمی خیال کرتے ہیں.“ پھر آپ نے مقبرہ کے مجاوروں کو کچھ رقم بھی دی جو مجھے یاد نہیں کتنی تھی.پھر آپ مع مجاوروں کے قطب صاحب تشریف لے گئے.وہاں کے مجاوروں نے آپ کو بڑی عزت سے گاڑی سے اتارا اور مقبرہ کے اندر لے گئے کیونکہ مقبرہ نظام الدین اولیاء میں تو عورتیں اندر چلی جاتی ہیں لیکن قطب صاحب میں عورتوں کو اندر نہیں جانے دیتے.ان لوگوں نے حضور کو کھانے کے لئے کہا.66 حضور نے فرمایا ”ہم پر ہیزی کھانا کھاتے ہیں.آپ کی مہربانی ہے.وہاں کے مجاوروں کو بھی حضور نے کچھ دیا.پھر حضور علیہ السلام وہاں سے شام کو واپس گھر تشریف لے آئے.مجاور کچھ راستہ تک ساتھ آئے.مردہ سے مدد مانگنا جائز نہیں فرمایا: (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 200،199) مردوں سے مدد مانگنے کا خدا نے کہیں ذکر نہیں کیا بلکہ زندوں ہی کا ذکر فرمایا.خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا جو اسلام کو زندوں کے سپرد کیا.اگر اسلام کو مر دوں پر ڈالتا تو نہیں معلوم کیا آفت آتی.مردوں کی قبریں کہاں کم ہیں.کیا ملتان میں تھوڑی قبریں ہیں گر دوگر ما گداو گورستان“ اس کی نسبت مشہور ہے.میں بھی ایک بار ملتان گیا.جہاں کسی قبر پر جاؤ مجاور کپڑے اتارنے کو گرد ہو جاتے ہیں.پاک پیٹن میں مردوں کے فیضان سے دیکھ لو کیا ہورہا ہے؟ اجمیر میں جا کر
فقه المسيح 177 نماز جنازہ اور تدفین دیکھو بدعات اور محدثات کا بازار کیا گرم ہے.غرض مردوں کو دیکھو گے تو اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ ان کے مشاہد میں سوا بدعات اور ارتکاب مناہی کے کچھ نہیں.خدا تعالیٰ نے جو صراط المستقیم مقرر فرمایا ہے وہ زندوں کی راہ ہے، مردوں کی راہ نہیں.پس جو چاہتا ہے کہ خدا کو پائے اور تی و قیوم خدا کو ملے ، تو وہ زندوں کو تلاش کرے کیونکہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے نہ مردہ ، جن کا خدا مردہ ہے، جن کی کتاب مردہ ، وہ مردوں سے برکت چاہیں تو کیا تعجب ہے لیکن اگر سچا مسلمان جس کا خدا زندہ خدا، جس کا نبی زندہ نبی ، جس کی کتاب زندہ کتاب ہے اور جس دین میں ہمیشہ زندوں کا سلسلہ جاری ہو اور ہر زمانہ میں ایک زندہ انسان خدا تعالیٰ کی ہستی پر زندہ ایمان پیدا کرنے والا آتا ہو.وہ اگر اس زندہ کو چھوڑ کر بوسیدہ ہڈیوں اور قبروں کی تلاش میں سرگرداں ہو تو البتہ تعجب اور حیرت کی بات ہے!! قبرستان میں جا کر منتیں مانگنا سوال: - قبرستان میں جانا جائز ہے یا نا جائز ؟ الحكم 24 جولائی 1902 صفحہ 10، 11 ) جواب : نذرونیاز کے لیے قبروں پر جانا اور وہاں جا کر منتیں مانگنا درست نہیں ہے ہاں وہاں جا کر عبرت سیکھے اور اپنی موت کو یاد کرے تو جائز ہے.“ میت کو گاڑی پر قبرستان لے جانا فرمایا: (الحام 31 مئی 1903 ، صفحہ 9 حاشیہ) جوخدانخواستہ اس بیماری ( یعنی طاعون.ناقل ) سے مرجائے وہ شہید ہے.اس کے واسطے ضرورت غسل کی نہیں اور نہ نیا کفن پہنانے کی ضرورت ہے.اس کے وہی کپڑے رہنے دو اور ہو سکے تو ایک سفید چادر اس پر ڈال دو اور چونکہ مرنے کے بعد میت کے جسم میں زہریلا اثر زیادہ
فقه المسيح 178 نماز جنازہ اور تدفین ترقی پکڑتا ہے اس واسطے سب لوگ اس کے ارد گرد جمع نہ ہوں.حسب ضرورت دو تین آدمی اس کی چار پائی کو اُٹھا ئیں اور باقی سب دور کھڑے ہو کر مثلاً ایک سوگز کے فاصلہ پر جنازہ پڑھیں.جنازہ ایک دعا ہے اور اس کے واسطے ضروری نہیں کہ انسان میت کے سر پر کھڑا ہو.جہاں قبرستان دور ہو مثلاً لاہور میں سامان ہو سکے تو کسی گاڑی یا چھکڑے پر میت کو لا د کر لے جاویں اور میت پر کسی قسم کی جزع فزع نہ کی جاوے.خدا تعالیٰ کے فعل پر اعتراض کرنا گناہ ہے.صبح کے وقت زیارت قبور سنت ہے بدر 4 اپریل 1907 صفحہ 6) حضرت مسیح موعود کے سفر دہلی کا ذکر کرتے ہوئے ایڈیٹر صاحب اخبار بدر لکھتے ہیں: صبح حضرت مسیح موعود مردانہ مکان میں تشریف لائے.دہلی کی سیر کا ذکر درمیان میں آیا.فرمایا: لہو و لعب کے طور پر پھر نا درست نہیں البتہ یہاں بعض بزرگ اولیاء اللہ کی قبریں ہیں.ان پر ہم بھی جائیں گے.فرمایا: ایسے بزرگوں کی فہرست بناؤ تا کہ جانے کے متعلق انتظام کیا جائے.حاضرین نے یہ نام لکھائے.(1) شاہ ولی اللہ صاحب (2) خواجہ نظام الدین صاحب (3) جناب قطب الدین صاحب (4) خواجہ باقی باللہ صاحب (5) خواجہ میر در دصاحب (6) جناب نصیر الدین صاحب چراغ دہلی.چنا نچہ گاڑیوں کا انتظام کیا گیا اور حضرت بمع خدام گاڑیوں میں سوار ہو کر سب سے اوّل حضرت خواجہ باقی باللہ کے مزار پر پہنچے.راستہ میں حضرت نے زیارت قبور کے متعلق فرمایا: قبرستان میں ایک روحانیت ہوتی ہے اور صبح کا وقت زیارت قبور کے لیے ایک سنت ہے.یہ ثواب کا کام ہے اور اس سے انسان کو اپنا مقام یاد آ جاتا ہے.انسان اس دنیا میں مسافر ہے.آج زمین پر ہے تو کل زمین کے نیچے ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب انسان قبر پر
فقه المسيح 179 نماز جنازہ اور تدفین جاوے تو کہے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُورِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَلَاحِقُونَ “ قبر پر جا کر کیا دعا کرنی چاہئے؟ ( بدر 31 اکتوبر 1905 ، صفحہ 1) حضرت مسیح موعود کے سفر دہلی کا ذکر کرتے ہوئے ایڈیٹر صاحب اخبار بدر لکھتے ہیں: خواجہ باقی باللہ کے مزار پر جب ہم پہنچے تو وہاں بہت سی قبریں ایک دوسرے کے قریب قریب اور اکثر زمین کے ساتھ ملی ہوئی تھیں.میں نے غور سے دیکھا کہ حضرت اقدس نہایت احتیاط سے ان قبروں کے درمیان سے چلتے تھے تا کہ کسی کے اوپر پاؤں نہ پڑے.قبر خواجہ صاحب پر پہنچ کر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور دعا کولمبا کیا.بعد دعا میں نے عرض کی کہ قبر پر کیا دعا کرنی چاہیے تو فرمایا: ” صاحب قبر کے واسطے دعائے مغفرت کرنی چاہیے اور اپنے واسطے بھی خدا تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے.انسان ہر وقت خدا کے حضور دعا کرنے کا محتاج ہے.“ قبر کے سرہانے کی طرف ایک نظم خواجہ صاحب مرحوم کے متعلق لکھی ہے.بعد دعا آپ نے وہ نظم پڑھی اور عاجز راقم کو حکم دیا کہ اس کو نقل کرلو.ایک اور موقع پر اخبار بدر کے ڈائری نویس لکھتے ہیں : (بدر 31 اکتوبر 1905 ء صفحه (1) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مع خدام سیر کرنے کے واسطے صبح باہر نکلے تو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی قبر پر تشریف لے گئے جہاں آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی.بعد دعا کے ایک شخص نے چند سوال کئے جو اس کالم میں درج کرنے کے لائق ہیں.سوال.قبر پر کھڑے ہو کر کیا پڑھنا چاہئے؟
فقه المسيح 180 نماز جنازہ اور تدفین جواب.میت کے واسطے دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اس کے ان قصوروں اور گناہوں کو بخشے جواُس نے اس دنیا میں کئے تھے اور اس کے پس ماندگان کے واسطے بھی دعا کرنی چاہئے.“ سوال.دعا میں کونسی آیت پڑھنی چاہئے؟ جواب.یہ تکلفات ہیں.تم اپنی ہی زبان میں جس کو بخوبی جانتے ہو اور جس میں تم کو جوش پیدا ہوتا ہے.میت کے واسطے دعا کرو.“ حفاظت کے خیال سے پختہ قبر بنانا جائز ہے ( بدر 19 جنوری 1906 ء صفحہ 6) ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ میرا بھائی فوت ہوگیا ہے میں اس کی قبر کی بناؤں یا نہ بناؤں.فرمایا: اگر نمود اور دکھلاوے کے واسطے پکی قبریں اور نقش و نگار اور گنبد بنائے جائیں تو یہ حرام ہے لیکن اگر خشک ملا کی طرح یہ کہا جائے کہ ہر حالت اور ہر مقام میں کچی ہی اینٹ لگائی جائے تو یہ بھی حرام ہے.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ عمل نیت پر موقوف ہے.ہمارے نزدیک بعض وجوہ میں پکی کرنا درست ہے مثلاً بعض جگہ سیلاب آتا ہے ، بعض جگہ قبر میں سے میت کو کتے اور بجو وغیرہ نکال لے جاتے ہیں.مردے کے لئے بھی ایک عزت ہوتی ہے.اگر ایسے وجوہ پیش آجائیں تو اس حد تک کہ نمود اور شان نہ ہو بلکہ صدمے سے بچانے کے واسطے قبر کا پکا کرنا جائز ہے.اللہ اور رسول نے مومن کی لاش کے واسطے بھی عزت رکھی ہے.ورنہ عزت ضروری نہیں تو غسل دینے ، کفن دینے ، خوشبو لگانے کی کیا ضرورت ہے.مجوسیوں کی طرح جانوروں کے آگے پھینک دو.مومن اپنے لئے ذلت نہیں چاہتا، حفاظت ضروری ہے.جہاں تک نیت صحیح ہے خدا تعالیٰ مؤاخذہ نہیں کرتا.دیکھو مصلحت الہی نے یہی چاہا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کے پختہ گنبد ہو اور کئی بزرگوں کے مقبرے پختہ ہیں مثلاً نظام الدین فرید الدین،
فقه المسيح 181 قطب الدین، معین الدین رحمۃ اللہ علیہم.یہ سب صلحاء تھے.قبروں کی حفاظت اور درستگی کروانا نماز جنازہ اور تدفین (الحکم 17 مئی 1901 ، صفحہ 12 ) حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بعض قبروں کی درستگی کے لئے ایک خط لکھا جس میں آپ نے لکھا: مقبرہ بہشتی میں قبروں کی بری حالت ہے ایک تو قبروں میں نالیوں کی وجہ سے سیلاب ویسے ہی رہتا ہے اور یہ نالیاں درختوں کے لئے ضروری ہیں پھر اس پر یہ زیادہ ہے.پانی جو آیا کرتا ہے اس کی سطح سے یہ قبریں کوئی دوفٹ نیچی ہیں.اب معمولی آب پاشی ہے اور ان بارشوں سے اکثر قبریں دب جاتی ہیں.پہلے صاحب نور اور غوثاں کی قبریں دب گئی تھیں ان کو میں (نے) درست کرا دیا تھا.اب پھر یہ قبریں دب گئی ہیں اور یہ پانی صاف نظر آتا ہے کہ نالیوں کے ذریعہ گیا ہے.پس اس کے متعلق کوئی ایسی تجویز تو میر صاحب فرما ئیں گے کہ جس سے روز کے قبروں (کے) دینے کا اندیشہ جاتا رہے مگر میرا مطلب اس وقت اس عریضہ سے یہ ہے کہ ابھی تو معمولی بارش سے یہ قبریں دبی ہیں پھر معلوم نہیں کوئی رو آگیا تو کیا حالت ہوگی.اس لئے نہایت ادب سے عرض ہے کہ اگر حضور حکم دیں تو میں اپنے گھر کے لوگوں کی قبر کو پختہ کر دوں اور ایک ( دو ) دوسری قبریں بھی یا ( جیسا) حضور حکم دیں ویسا کیا جائے.اس کے جواب میں حضور نے تحریر فرمایا : ”میرے نزدیک اندیشہ کی وجہ سے کہ تا سیلاب کے صدمہ کی وجہ سے نقصان ( نہ ہو ) پختہ کرنے میں کچھ نقصان نہیں معلوم ہوتا کیونکہ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّات باقی رہے مخالف لوگوں کے اعتراضات تو وہ تو کسی طرح کم نہیں ہو سکتے.“ (مکتوبات احمد جلد دوم صفحه 310)
فقه المسيح 182 نماز جنازہ اور تدفین کیا فاتحہ خوانی جائز ہے سوال پیش ہوا کہ کسی کے مرنے کے بعد چند روز لوگ ایک جگہ جمع رہتے اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں.فاتحہ خوانی ایک دعائے مغفرت ہے پس اس میں کیا مضائقہ ہے؟ فرمایا: ہم تو دیکھتے ہیں وہاں سوائے غیبت اور بے ہودہ بکواس کے اور کچھ نہیں ہوتا.پھر یہ سوال ہے کہ آیا نبی کریم یا صحابہ کرام و ائمہ عظام میں سے کسی نے یوں کیا ؟ جب نہیں کیا تو کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ بدعات کا دروازہ کھولنے کی؟ ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ اس رسم کی کچھ ضرورت نہیں، ناجائز ہے.جو جنازہ میں شامل نہ ہوسکیں وہ اپنے طور سے دعا کریں یا جنازہ غائب پڑھ دیں.“ کھانے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے (بدر 9 مئی 1907 ، صفحہ 5) ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہوا کہ محرم کے دنوں ، اِمامین کی روح کو ثواب دینے کے واسطے روٹیاں وغیرہ دینا جائز ہے یا نہیں.فرمایا: عام طور پر یہ بات ہے کہ طعام کا ثواب میت کو پہنچتا ہے لیکن اس کے ساتھ شرک کی رسومات نہیں چاہئیں.رافضیوں کی طرح رسومات کا کرنا نا جائز ہے.“ (الحکم 17 مئی 1901 صفحہ 12 ) ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ اگر کوئی شخص حضرت سید عبدالقادر کی روح کو ثواب پہنچانے کی خاطر کھانا پکا کر کھلا دے تو کیا یہ جائز ہے؟ حضرت نے فرمایا: طعام کا ثواب مردوں کو پہنچتا ہے.گذشتہ بزرگوں کو ثواب پہنچانے کی خاطر اگر طعام پکا کر کھلایا جائے تو یہ جائز ہے لیکن ہر ایک امرنیت پر موقوف ہے.اگر کوئی شخص اس طرح کے
فقه المسيح 183 نماز جنازہ اور تدفین کھانے کے واسطے کوئی خاص تاریخ مقرر کرے اور ایسا کھانا کھلانے کو اپنے لیے قاضی الحاجات خیال کرے تو یہ ایک بت ہے اور ایسے کھانے کا لینا دینا سب حرام ہے اور شرک میں داخل ہے.پھر تاریخ کے تعین میں بھی نیت کا دیکھنا ہی ضروری ہے.اگر کوئی شخص ملازم ہے اور اُسے مثلاً جمعہ کے دن ہی رخصت مل سکتی ہے تو ہر ج نہیں کہ وہ اپنے ایسے کاموں کے واسطے جمعہ کا دن مقرر کرے.غرض جب تک کوئی ایسا فعل نہ ہو جس میں شرک پایا جائے صرف کسی کو ثواب پہنچانے کی خاطر طعام کھلانا جائز ہے.(بدر 8 اگست 1907 ، صفحہ 5) میت کی طرف سے صدقہ خیرات کرنا اور قرآن شریف کا پڑھنا سوال.کیا میت کو صدقہ خیرات اور قرآن شریف کا پڑھنا پہنچ سکتا ہے؟ جواب.میت کو صدقہ خیرات جو اس کی خاطر دیا جاوے پہنچ جاتا ہے لیکن قرآن شریف کا پڑھ کر پہنچانا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ثابت نہیں ہے.اس کی بجائے دعا ہے جو میت کے حق میں کرنی چاہئے.میت کے حق میں صدقہ خیرات اور دعا کا کرنا ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کی سنت سے ثابت ہے لیکن صدقہ بھی وہ بہتر ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے دے جائے کیونکہ اس کے ذریعہ سے انسان اپنے ایمان پر مہر لگا تا ہے.( بدر 19 جنوری 1906 صفحہ 6) حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب ”پیارے احمد کی پیاری پیاری باتیں“ کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ صبح کی نماز کے بعد مسجد مبارک میں حسب دستور حضرت اقدس علیہ السلام تشریف رکھتے تھے.ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ حضرت یہ لوگ جو قرآن شریف پڑھ کر مردوں کی روح کو ثواب پہنچاتے ہیں، اس کا ثواب پہنچتا ہے یا نہیں ؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا:
فقه المسيح 184 نماز جنازہ اور تدفین پہلے علماء میں اختلاف ہے....کلام اور کلام اللہ کا ثواب ہمارے نز دیک مُردوں کو نہیں پہنچتا.قرآن شریف عمل کرنے کے واسطے آیا ہے نہ کہ طوطے کی طرح پڑھنا....ثواب پہنچانے کے واسطے اگر یہ ہوتا بھی تو قرآن شریف میں ذکر ہوتا.دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن پر یہ قرآن شریف نازل ہوا ہے وہ اس کے اَوَّلُ الْمُسْتَحِقِین تھے.آپ کی نسبت اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِین تو آ گیا ہے اور دیکھو قرآن شریف میں آیا ہے إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب : 57) یعنی اللہ اور اس کے ملائکہ نبی پر رحمت بھیجتے ہیں، ایمان والو تم بھی درود بھیجو اور سلام بھیجو.درود کے معنی دعا ہی کے ہیں اور سلام کے معنی دعا ہی کے ہیں.دعا ہی آئی ہے.یہ نہیں آیا کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر قرآن پڑھ پڑھ کر ثواب پہنچاتے ہیں اے ایمان والو تم بھی قرآن پڑھ پڑھ کر نبی کی روح کو سلام پہنچایا کرو....قرآن کا ثواب نہیں پہنچتا، دعا کرنی چاہئے اور دعا ہی حدیثوں میں آئی ہے.چنانچہ السَّلَامُ عَلَيْكُمُ يَا اَهْلَ الْقُبُورِ الخ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درود شریف اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ الخ یہ عمل کرنے کے واسطے ہے تا کہ اس پر عمل کر کے خدا تک انسان پہنچ جاوے اور خدا سے پختہ پیوند و تعلق ہو جاوے اور منازل سلوک طے ہو جاویں وغیرہ وغیرہ.ہاں صدقات و الحکم مورخہ 14 تا 21 مئی 1919 صفحہ 8) خیرات کا ثواب پہنچتا ہے.جس کے ہاں ماتم ہو اُس کے ساتھ ہمدردی حضرت کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ کیا یہ جائز ہے کہ جب کا رقضا کسی بھائی کے گھر میں ماتم ہو جائے تو دوسرے دوست اپنے گھر میں اس کا کھانا تیار کریں.فرمایا نہ صرف جائز بلکہ برادرانہ ہمدردی کے راہ سے یہ ضروری ہے کہ ایسا کیا جاوے.“ (بدر 11 جولائی 1907 ، صفحہ 3)
فقه المسيح 185 نماز جنازہ اور تدفین کسی احمدی کا طاعون سے مرنا فرمایا: مخالفین کا یہ اعتراض کہ بعض ہماری جماعت کے آدمی طاعون سے کیوں مرتے ہیں بالکل نا جائز ہے.ہم نے کبھی کوئی ایسی پیشگوئی نہیں کی کہ ہمارے ہاتھ پر بیعت کرنے والا کوئی شخص کبھی طاعون میں گرفتار نہ ہوگا.ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ اول طبقہ کے لوگ اس قسم کی بیماری میں گرفتار ہو کر نہیں مرتے.کوئی نبی ، صدیق ، ولی کبھی طاعون سے ہلاک نہیں ہوا.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی طاعون ہوئی تھی.مگر کیا حضرت عمر پر بھی اس کا کوئی اثر ہوا تھا ؟ عظیم الشان صحابہ میں سے کوئی طاعون میں گرفتار نہیں ہوا.ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر گزرے ہیں.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی طاعون سے مرا ہے؟ ہاں اس میں شک نہیں کہ ایسی بیماری کے وقت بعض ادنی طبقہ کے مومنین (طاعون.ناقل ) میں گرفتار ہوتے ہیں مگر وہ شہید ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ ان کی کمزوریوں اور گناہوں کو اس طرح سے غفر کرتا ہے جیسا کہ ان جہادوں میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے ساتھ کئے.اگر چہ پہلے سے پیشگوئی تھی کہ ان جہادوں میں کفار جہنم میں گرائے جائیں گے.تاہم بعض مسلمان بھی قتل کئے گئے مگر اعلیٰ طبقہ کے صحابہ مثلاً حضرت ابوبکر حضرت عمرؓ جیسوں میں سے کوئی شہید نہیں ہوا، نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوئے.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے جنگ میں شہادت میں اعلیٰ درجہ کے لوگ شامل نہیں ہوتے اسی طرح طاعون میں بھی اگر ہماری جماعت کا کوئی آدمی گرفتار ہو جائے تو یہ اس کے واسطے شہادت ہے اور خدا تعالیٰ اس کا اس کو اجر دے گا.(بدر 16 مئی 1907 صفحہ 3) احمدی شہید کا جنازہ فرشتے پڑھتے ہیں ذکر تھا کہ بعض جگہ چھوٹے گاؤں میں ایک ہی احمدی گھر ہے اور مخالف ایسے متعصب ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی احمدی مرجائے گا تو ہم جنازہ بھی نہ پڑھیں گے.حضرت نے فرمایا کہ
فقه المسيح 186 نماز جنازہ اور تدفین ایسے مخالفوں کا جنازہ پڑھا کر احمدی نے کیا لینا ہے.جنازہ تو دعا ہے.جو شخص خود ہی خدا تعالیٰ کے نزدیک مَغْضُوبِ عَلَيْهِم میں ہے.اس کی دعا کا کیا اثر ہے؟ احمدی شہید کا جنازہ خود فرشتے پڑھیں گے.ایسے لوگوں کی ہرگز پروانہ کرو اور اپنے خدا پر بھروسہ کرو.غیر احمدیوں کی نماز جنازہ پڑھنا فرمایا:.(بدر 16 مئی 1907 ء صفحہ 3) اگر متوفی بالجهر مکفر اور مکذب نہ ہو تو اس کا جنازہ پڑھ لینے میں حرج نہیں کیونکہ علام الغیوب خدا کی پاک ذات ہے.فرمایا.جو لوگ ہمارے مکفر ہیں اور ہم کو صریحا گالیاں دیتے ہیں.اُن سے السلام علیکم مت لو اور نہ اُن سے مل کر کھانا کھاؤ.ہاں خرید وفروخت جائز ہے اس میں کسی کا احسان نہیں.جو شخص ظاہر کرتا ہے کہ میں نہ اُدھر کا ہوں اور نہ ادھر کا ہوں اصل میں وہ بھی ہمارا مکذب ہے اور جو ہمار ا مصدق نہیں اور کہتا ہے کہ میں ان کو اچھا جانتا ہوں.وہ بھی مخالف ہے ایسے لوگ اصل میں منافق طبع ہوتے ہیں.اُن کا یہ اصول ہوتا ہے کہ با مسلماں اللہ اللہ با برهمن رام رام ان لوگوں کو خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ہوتا.بظاہر کہتے ہیں کہ ہم کسی کا دل دکھانا نہیں چاہتے.مگر یا درکھو کہ جو شخص ایک طرف کا ہوگا اس سے کسی نہ کسی کا دل ضرور دُ کھے گا.ایک اور موقعہ پر آپ نے فرمایا البدر 24 اپریل 1903 ، صفحہ 105) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منافق کو گر تہ دیا اور اس کے جنازہ کی نماز پڑھی ممکن ہے اس نے غرغرہ کے وقت تو بہ کر لی ہو، مومن کا کام ہے کہ حسن ظن رکھے اسی لئے
فقه المسيح 187 نماز جنازہ اور تدفین نماز جنازہ کا جواز رکھا ہے کہ ہر ایک کی پڑھ لی جاوے ہاں اگر کوئی سخت معاند ہو یا فساد کا اندیشہ ہے تو پھر نہ پڑھنی چاہئے ہماری جماعت کے سر پر فرضیت نہیں ہے بطور احسان کے ہماری جماعت دوسرے غیر از جماعت کا جنازہ پڑھ سکتی ہے وَصَلَّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلوتَكَ سَكُن لَّهُمْ (التوبة : 104) اس میں صلوٰۃ سے مراد جنازہ کی نماز ہے اور سَكَن لَّهُمُ دلالت کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا گنہگار کو سکینت اور ٹھنڈک بخشتی تھی.طاعون سے مرنے والے مخالفین کا جنازہ البدر 14 نومبر 1902 ، صفحہ 19) ایک صاحب نے پوچھا کہ ہمارے گاؤں میں طاعون ہے اور اکثر مخالف مکدّ مرتے ہیں ان کا جنازہ پڑھا جاوے کہ نہ ؟ فرمایا: یہ فرض کفایہ ہے اگر کنبہ میں سے ایک آدمی بھی چلا جاوے تو ہو جاتا ہے مگر اب یہاں ایک تو طاعون زدہ ہے کہ جس کے پاس جانے سے خدا روکتا ہے.دوسرے وہ مخالف ہے خواہ نخواہ مداخل جائز نہیں ہے.خدا فرماتا ہے کہ تم ایسے لوگوں کو بالکل چھوڑ دو اور اگر وہ چاہے گا تو اُن کو خود دوست بنا دے گا یعنی مسلمان ہو جاویں گے.خدا تعالیٰ نے منہاج نبوت پر اس سلسلہ کو چلایا ہے.مداہنہ سے ہرگز فائدہ نہ ہوگا بلکہ اپنا حصہ ایمان کا بھی گنواؤ گے.- غیر احمدیوں کا جنازہ پڑھنے کا مسئلہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں:.البدر 15 مئی 1903 صفحہ 130 ) ایک سوال غیر احمدی کے جنازہ پڑھنے کے متعلق کیا جاتا ہے.اس میں ایک یہ مشکل پیش کی جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض صورتوں میں جنازہ پڑھنے کی اجازت دی
فقه المسيح 188 نماز جنازہ اور تدفین ہے.اس میں شک نہیں کہ بعض حوالے ایسے ہیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے اور ایک خط بھی ملا ہے جس پر غور کیا جائے گا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عمل اس کے برخلاف ہے.چنانچہ آپ کا ایک بیٹا فوت ہو گیا جو آپ کی زبانی طور پر تصدیق بھی کرتا تھا جب وہ مرا تو مجھے یاد ہے آپ ٹہلتے جاتے اور فرماتے کہ اس نے کبھی شرارت نہ کی تھی بلکہ میرا فرمانبردار ہی رہا ہے.ایک دفعہ میں سخت بیمار ہوا اور شدت مرض میں مجھے غش آ گیا.جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ میرے پاس کھڑا نہایت درد سے رورہا تھا.آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ میری بڑی عزت کیا کرتا تھا لیکن آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا حالانکہ وہ اتنا فرمانبردار تھا کہ بعض احمدی بھی اتنے نہ ہوں گے......قرآن شریف سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص جو بظاہر اسلام لے آیا ہے لیکن یقینی طور پر اس کے دل کا کفر معلوم ہو گیا ہے تو اس کا جنازہ بھی جائز نہیں.پھر غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے.انوار خلافت.انوار العلوم جلد 3 صفحہ 148-149 ) ایک اور موقع پر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ فلاں غیر احمدی کا جنازہ حضرت مسیح موعود نے پڑھایا تھا.ممکن ہے آپ نے کسی کی درخواست پر پڑھایا ہولیکن کوئی خدا کی قسم کھا کر کہہ دے کہ میں نے حضرت مسیح موعود کو کہا تھا کہ فلاں غیر احمدی فوت ہو گیا ہے.آپ اس کا جنازہ پڑھ دیں.اصل بات یہ ہے کہ آپ کو کہا گیا کہ فلاں کا جنازہ پڑھ دیں اور آپ نے یہ سمجھ کر کہ وہ احمدی ہوگا پڑھ دیا.اس طرح ہوا ہوگا.میرے متعلق تو سب جانتے ہیں کہ میں کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں سمجھتا.لیکن مجھے بھی اس طرح کی ایک بات پیش آئی تھی اور وہ یہ کہ یہاں ایک طالب علم ہے.اس نے مجھے کہا کہ میری والدہ فوت ہو گئی ہے اس کا جنازہ پڑھ دیں.میں نے پڑھ دیا بعد میں معلوم
فقه المسيح 189 نماز جنازہ اور تدفین ہوا کہ وہ غیر احمدی تھی.وہ لڑکا مجھ سے اپنی والدہ کے لئے دعا بھی کراتا رہا کہ وہ احمدی ہو جائے لیکن اس وقت مجھے یاد نہ رہا.اسی طرح اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی کا جنازہ پڑھ دیا تو وہ ہمارے لئے حجت نہیں ہے.ہاں اگر چند معتبر آدمی حلفیہ بیان کریں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود کو کہا تھا کہ فلاں غیر احمدی فوت ہو گیا ہے.آپ اس کا جنازہ پڑھ دیں اور پھر آپ نے پڑھ دیا تو ہم مان لیں گے.کیا کوئی ایسے شاہد ہیں؟ پس جب تک کوئی اس طرح نہ کرے یہ بات ثابت نہیں ہوسکتی کہ آپ نے کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز قرار دیا ہے اور ہمارے پاس غیر احمدی کا جنازہ نہ پڑھنے کے متعلق ایک بہت بڑا ثبوت ہے اور وہ یہ کہ یہاں حضرت مسیح موعود کے اپنے بیٹے کی لاش لائی گئی اور آپ کو جنازہ پڑھنے کے لئے کہا گیا تو آپ نے انکار کر دیا.پھر سرسید کے جنازہ پڑھنے کے متعلق مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کا خط موجود ہے کہ آپ نے اس کا جنازہ نہیں پڑھا.کیا وہ آپ کو کافر کہتے تھے ہر گز نہیں.ان کا تو مذہب ہی یہ تھا کہ کوئی کا فرنہیں ہے.جب ان کے جنازہ کے متعلق خط لکھا گیا تو جیسا کہ مولوی عبد الکریم صاحب مندرجہ ذیل خط میں ایک دوست کو تحریر فرماتے ہیں آپ نے اس پر خفگی کا اظہار فرمایا:.متوفی کی خبر وفات سن کر خاموش رہے.ہماری لا ہور جماعت نے متفــاز ورشور سے عرضداشت بھیجی کہ وہاں جنازہ پڑھا جائے اور پھر نوٹس دیا جائے کہ سب لوگ جماعت کے ہر شہر میں اسی تقلید پر جنازہ پڑھا جائے اور اس سے نوجوانوں کو یقین ہوگا کہ ہمارا فرقہ صلح گل فرقہ ہے.اس پر حضرت صاحب کا چہرہ سرخ ہو گیا.فرمایا اور لوگ نفاق سے کوئی کارروائی کریں تو بچ بھی جائیں مگر ہم پر تو ضرور غضب الہی نازل ہو.اور فرمایا ہم تو ایک محرک کے تحت میں ہیں.بغیر اس کی تحریک کے کچھ نہیں کر سکتے نہ ہم کوئی کلمہ بد اس کے حق میں کہتے ہیں اور نہ کچھ اور کرتے ہیں.تفویض الی اللہ کرتے ہیں.فرمایا جس تبدیلی کے ہم منتظر بیٹھے ہیں.اگر ساری دنیا
فقه المسيح 190 خوش ہو جائے اور ایک خدا خوش نہ ہو تو کبھی ہم مقصود حاصل نہیں کر سکتے.“ پس ہم کس طرح کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز سمجھ سکتے ہیں.نماز جنازہ اور تدفین الفضل 28 / مارچ 1915 ، صفحہ 8 تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1916 ء.انوار العلوم جلد 3 صفحہ 422-423) مشتبہ الحال شخص کا جنازہ سوال ہوا کہ جو آدمی اس سلسلہ میں داخل نہیں اس کا جنازہ جائز ہے یا نہیں؟ حضرت مسیح موعود نے فرمایا: اگر اس سلسلہ کا مخالف تھا اور ہمیں بُرا کہتا اور سمجھتا تھا تو اس کا جنازہ نہ پڑھو، اور اگر خاموش تھا اور درمیانی حالت میں تھا تو اس کا جنازہ پڑھ لینا جائز ہے.بشرطیکہ نماز جنازہ کا امام تم میں سے کوئی ہو ورنہ کوئی ضرورت نہیں.“ سوال ہوا کہ اگر کسی جگہ نماز کا امام حضور کے حالات سے واقف نہیں تو اس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں.فرمایا: پہلے تمہارا فرض ہے کہ اُسے واقف کرو.پھر اگر تصدیق کرے تو بہتر ورنہ اُس کے پیچھے اپنی نماز ضائع نہ کرو.اور اگر کوئی خاموش رہے ، نہ تصدیق کرے نہ تکذیب کرے تو وہ بھی منافق ہے اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو.اگر کوئی ایسا آدمی مر جائے جو تم میں سے نہیں اور اس کا جنازہ پڑھنے اور پڑھانے والے غیر لوگ موجود ہوں اور وہ پسند نہ کرتے ہوں کہ تم میں سے کوئی جنازہ کا پیش امام بنے اور جھگڑے کا خطرہ ہو تو ایسے مقام کو ترک کرو.اور اپنے کسی نیک کام میں مصروف ہو جاؤ.(الحکم 30 اپریل 1902 صفحہ 7) حضرت علیدہ اسبیع الثانی رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں مجلس افتاء نے حضرت مسیح موعود
فقه المسيح 191 نماز جنازہ اور تدفین علیہ السلام کے مندرجہ ذیل فتویٰ کی روشنی میں سفارش پیش کی جسے حضور نے منظور فرمایا.مجلس کے نزدیک اس خط میں مشتبہ الحال شخص سے مراد ایسا شخص ہے جو اگر چہ با قاعدہ طور پر جماعت احمدیہ میں داخل نہ ہو مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مکذب بھی نہ ہو بلکہ احمدیوں سے میل جول رکھتا ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق ان کی ہاں میں ہاں ملا کر ایک گونہ تصدیق کرتا ہوا ایسے شخص کے جنازہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظاہرا کوئی حرج نہیں سمجھا.اگر چہ انقطاع کو بہتر قرار دیا ہے.جماعت احمدیہ کا عمل ایسے شخص کے بارہ میں بھی حضور کے ارشاد کے آخری حصہ پر ہے.یعنی انقطاع کو بہر حال بہتر خیال کیا گیا ہے.مناسب حالات میں پہلے حصے پر بھی عمل کرنے میں کچھ حرج نہیں (جس کی اجازت لی جاسکتی ہے ) بشر طیکہ امام احمد یوں میں سے ہو.اگر نماز جنازہ میں امام احمدی نہ ہو سکتا ہو تو پھر ایسے شخص کے جنازہ کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خط مورخہ 23 فروری 1902ء ” جو شخص صریح گالیاں دینے والا ، کافر کہنے والا اور سخت مکذب ہے اس کا جنازہ تو کسی طرح درست نہیں مگر جس شخص کا حال مشتبہ ہے گویا منافقوں کے رنگ میں ہے.اُس کے لئے کچھ ظاہر حرج نہیں ہے کیونکہ جنازہ صرف دعا ہے اور انقطاع بہر حال بہتر ہے.“ فرمودات مصلح موعود صفحه (119) کشفی قوت کے ذریعہ میت سے کلام ہو سکتا ہے حضرت مفتی محمد صادق صاحب روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود فرمایا کرتے تھے.ارواح کا قبور سے تعلق ہے اور ہم اپنے ذاتی تجربہ سے کہتے ہیں کہ مردوں سے کلام ہو سکتا ہے.مگر اس کے لئے کشفی قوت اور حس کی ضرورت ہے.ہر شخص کو یہ بات حاصل نہیں.روح کا تعلق قبر کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور رُوح کا تعلق آسمان سے بھی ہوتا ہے.جہاں اُسے ایک مقام ملتا ہے.“ ذکر حبیب حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 187 )
فقه المسيح 192 نماز جنازہ اور تدفین مردوں سے استفاضہ ایک شخص نے سوال کیا کہ زندگی میں کسی مردے سے تعلق ہو یا مرید کا اپنے پیر سے ہو.کیا وہ بھی اس سے فیض پالیتا ہے؟ فرمایا: صوفی تو کہتے ہیں کہ انسان مرنے کے بعد بھی فیض پاتا ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ زندگی میں ایک دائرہ کے اندر محدود ہوتا ہے اور مرنے کے بعد وہ دائرہ وسیع ہو جاتا ہے اس کے سب قائل ہیں چنانچہ یہاں تک بھی مانا ہے کہ حضرت عیسی جب آسمان سے آئیں گے تو چونکہ وہ علوم عربیہ سے ناواقف ہوں گے، کیا کریں گے؟ بعض کہتے ہیں کہ وہ علوم عربیہ پڑھیں گے اور حدیث اور فقہ بھی پڑھیں گے.بعض کہتے ہیں کہ یہ امر تو ان کے لیے موجب عار ہے کہ وہ کسی مولوی کے شاگرد ہوں.اس لیے مانا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی قبر میں بیٹھیں گے اور وہاں بیٹھ کر استفاضہ کریں گے مگر اصل میں یہ دونوں باتیں غلط ہیں مگر اس سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ قبور سے استفاضہ ہو سکتا ہے لیکن یہ یادر ہے کہ یہ امر بطریق شرک نہ ہو جیسا کہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے.نعش کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا حضرت مفتی محمد صادق صاحب تحریر کرتے ہیں : الحکم 10 دسمبر 1905 ءصفحہ 2 تا 4) مرزا ایوب بیگ صاحب ایک ہی ایسے خوش نصیب آدمی ہیں جن کی وفات مقبرہ بہشتی کے قیام سے کئی سال پہلے ہو چکی تھی مگر حضرت صاحب نے اجازت دی کہ ان کی ہڈیاں فاضل کا ضلع فیروز پور سے صندوق میں لا کر مقبرہ بہشتی میں دفن کی جائیں.اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں بلند درجات نصیب کرے.(ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 7 حاشیه ) امانتا دفن شد و میت کا چہرہ دیکھنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں کسی نے سوال کیا کہ میری والدہ کی وفات پر تقریبا
فقه المسيح 193 نماز جنازہ اور تدفین مہینے گزرچکے ہیں.اب تابوت ربوہ لانے کا ارادہ ہے.وفات کے وقت میں گھر پر موجود نہیں تھا کیا اب تابوت کھول کر چہرہ دیکھ سکتا ہوں؟ جواب :.فرمایا.دیکھنے کی اجازت ہوتی ہے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا ایوب بیگ کی نعش کو دیکھنے کی اجازت دی تھی اور وہ تابوت میں بھی نہ تھی مگر لاش کی حالت کے متعلق ڈاکٹر بتا سکتا ہے، ہمفتی نہیں بتا سکتا.اگر لاش کی حالت خراب ہو تو اس سے بُرا اثر پڑتا ہے.فرمودات مصلح موعود در بارہ فقہی مسائل صفحہ 131) حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کی نعش کو جب قبرستان میں سے نکال کر بہشتی مقبرہ میں دفن کیا گیا تو اس وقت بھی بعض لوگوں نے چہرہ دیکھنے کی خواہش کی.چنانچہ حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ:.جس دن مولوی عبدالکریم سیالکوٹی کا جنازہ نکالا اور مقبرہ بہشتی میں لے جانے کا ارادہ کیا تو بہت سے لوگوں نے درخواست کی کہ جنازہ صندوق کے اندر سے دیکھ لیں....مگر آپ نے اس بات کو پسند نہ فرمایا.جب انہوں نے بہت ہی اصرار کیا تو آپ نے کراہت سے اجازت دی مگر مجھے یہ بات نہیں معلوم کہ انہوں نے دیکھایا نہ دیکھا کیونکہ میں بھی اس بات کو پسند نہ کرتا تھا کہ ایک لغوا مر ہے جس کے پیچھے یہ پڑے ہوئے ہیں اور حضرت اقدس علیہ السلام کی نافرمانی الحكم مؤرخہ 14 تا 21 مئی 1919 صفحہ 7) بھی تھی.تدفین کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کی نعش جس دن قبرستان سے نکال کر بہشتی مقبرہ میں دفن کی گئی تو اس دن آپ نے جنازہ نکالنے سے قبل ہاتھ اُٹھا کر قبر کے پاس کھڑے ہو کر دعا کی اور دفن کرنے کے بعد بھی ہاتھ اُٹھا کر دعا کی.ا حکم 14 تا 21 مئی 1919 ، صفحہ 7)
فقه المسيح 194 روزہ اور رمضان فرمایا: روزہ اور رمضان اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو، اور ہر ایک جو زکوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے.“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15) رؤیت ہلال خدائے تعالیٰ نے احکام دین سہل و آسان کرنے کی غرض سے عوام الناس کو صاف اور سیدھا راہ بتلایا ہے اور ناحق کی دقتوں اور پیچیدہ باتوں میں نہیں ڈالا مثلاً روزہ رکھنے کیلئے یہ حکم نہیں دیا کہ تم جب تک قواعد ظنیہ نجوم کے رو سے یہ معلوم نہ کرو کہ چاند انتیس کا ہوگا یا تمہیں کا.تب تک رویت کا ہرگز اعتبار نہ کرو اور آنکھیں بند رکھو کیونکہ ظاہر ہے کہ خواہ نخواہ اعمال دقیقہ نجوم کو عوام الناس کے گلے کا ہار بنانا یہ ناحق کا حرج اور تکلیف مالا يطاق ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسے حسابوں کے لگانے میں بہت سی غلطیاں واقع ہوتی رہتی ہیں سو یہ بڑی سیدھی بات اور عوام کے مناسب حال ہے کہ وہ لوگ محتاج منجم و ہیئت دان نہ رہیں اور چاند کے معلوم کرنے میں کہ کس تاریخ نکلتا ہے اپنی رویت پر مدار رکھیں صرف علمی طور پر اتنا سمجھ رکھیں کہ تمہیں کے عدد سے تجاوز نہ کریں اور یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ حقیقت میں عند العقل رویت کو قیاسات ریاضیہ پر فوقیت ہے.آخر حکمائے یورپ نے بھی جب رویت کو زیادہ تر معتبر سمجھا تو اس نیک خیال کی وجہ سے بتائید قوت باصرہ طرح طرح کے آلات دور بینی و خورد بینی ایجاد کئے اور بذریعہ رویت تھوڑے ہی دنوں میں اجرام علوی وسفلی کے متعلق وہ صداقتیں معلوم کر لیں کہ جو ہندوؤں بیچاروں کو اپنی قیاسی اٹکلوں سے ہزاروں برسوں میں بھی معلوم
فقه المسيح 195 روزہ اور رمضان نہیں ہوئی تھیں اب آپ نے دیکھا کہ رویت میںکیا کیا برکتیں ہیں انہیں برکتوں کی بنیاد ڈالنے کے لئے خدائے تعالیٰ نے رویت کی ترغیب دی.ذرہ سوچ کر کے دیکھ لو کہ اگر اہل یورپ بھی رویت کو ہندوؤں کی طرح ایک ناچیز اور بے سود خیال کر کے اور صرف قیاسی حسابوں پر جو کسی اندھیری کوٹھڑی میں بیٹھ کر لکھے گئے مدار رکھتے تو کیونکر یہ تازہ اور جدید معلومات چاند اور سورج اور نئے نئے ستاروں کی نسبت انہیں معلوم ہو جاتے سومکر رہم لکھتے ہیں کہ ذرا آنکھ کھول کر دیکھو کہ رویت میں کیا کیا برکات ہیں اور انجام کار کیا کیا نیک نتائج اس سے نکلتے ہیں.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 192 ،193 ) چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے تو کیا کریں؟ سیالکوٹ سے ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ یہاں چاند منگل کی شام کو نہیں دیکھا گیا بلکہ بدھ کو دیکھا گیا ہے ( جبکہ رمضان بدھ کو شروع ہو چکا تھا.ناقل ) اس واسطے پہلا روزہ جمعرات کو رکھا گیا تھا.اب ہم کو کیا کرنا چاہئے؟ فرمایا: اس کے عوض میں ماہ رمضان کے بعد ایک اور روزہ رکھنا چاہئے.“ چاند دیکھنے کی گواہی ( بدر 31 اکتوبر 1907 ، صفحہ 7) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان کا روزہ خود چاند دیکھ کر تو نہیں بعض غیر احمدیوں کی شہادت پر روزہ رکھ لیا اور اسی دن (ہم ) قادیان قریباً ظہر کے وقت پہنچے اور یہ ذکر کیا کہ ہم نے روزہ رکھا ہوا ہے اور حضور علیہ السلام بھی مسجد میں تشریف لے آئے.اسی وقت احادیث کی کتابیں مسجد میں ہی منگوائی گئیں اور بڑی توجہ سے غور ہونا شروع ہو گیا کیونکہ قادیان میں اس روز روزہ نہیں رکھا ہوا تھا.اسی دوران میں ہم سے
فقه المسيح 196 روزہ اور رمضان وو سوال ہوا کہ کیا چاند تم نے خود دیکھ کر روزہ رکھا ہے؟“ ہم نے عرض کیا کہ ” بعض غیر احمدیوں نے دیکھا تھا.ہمارے اس فقرے کے کہنے پر کہ چاند غیر احمدیوں نے دیکھا تھا کتاب کو تہ کر دیا اور فرمایا کہ ”ہم نے سمجھا تھا کہ تم نے خود چاند دیکھ کر روزہ رکھا ہے.66 اس لئے تحقیقات شروع کی تھی.“ سحری میں تاخیر (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 265) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا.میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے.دیکھ کر فرمایا.آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں؟ اور اسی وقت منتظم کو بلوایا اور فرمانے لگے کہ آپ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟ یہاں ہمارے جس قد را حباب ہیں وہ سفر میں نہیں.ہر ایک سے معلوم کرو کہ اُن کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں.ویسا ہی کھانا ان کے لئے تیار کیا جائے.پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لا یا مگر میں کھانا کھا چکا تھا اور اذان بھی ہو گئی تھی.حضور نے فرمایا کھالو.اذان جلد دی گئی ہے.اس کا خیال نہ کرو.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 127) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ 1895ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفاق ہوا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی.آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اول شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دو دو رکعت کر کے آخر شب میں ادا فر ماتے تھے.جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے
فقه المسيح 197 روزہ اور رمضان تھے یعنی اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سے وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِیم تک اور دوسری رکعت میں سورۃ اخلاص کی قراءت فرماتے تھے اور رکوع و سجود میں يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيْتُ اکثر پڑھتے تھے.اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سُن سکتا تھا نیز آپ ہمیشہ سحری نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے اور اس میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ بعض دفعہ کھاتے کھاتے اذان ہو جاتی تھی اور آپ بعض اوقات اذان کے ختم ہونے تک کھانا کھاتے رہتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ دراصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب تک صبح صادق افق مشرق سے نمودار نہ ہو جائے سحری کھانا جائز ہے اذان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ صبح کی اذان کا وقت بھی صبح صادق کے ظاہر ہونے پر مقرر ہے.اس لئے لوگ عموما سحری کی حد اذان ہونے کو سمجھ لیتے ہیں.قادیان میں چونکہ صبح کی اذان صبح صادق کے پھوٹتے ہی ہو جاتی ہے بلکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات غلطی اور بے احتیاطی سے اس سے بھی قبل ہو جاتی ہو.اس لئے ایسے موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اذان کا چنداں خیال نہ فرماتے تھے اور صبح صادق کے تبین تک سحری کھاتے رہتے تھے اور دراصل شریعت کا منشاء بھی اس معاملہ میں یہ نہیں ہے کہ جب علمی اور حسابی طور پر صبح صادق کا آغاز ہواس کے ساتھ ہی کھانا ترک کر دیا جاوے بلکہ منشاء یہ ہے کہ جب عام لوگوں کی نظر میں صبح کی سفیدی ظاہر ہو جاوے اس وقت کھانا چھوڑ دیا جاوے.چنا نچہ تبین کا لفظ اسی بات کو ظاہر کر رہا ہے.حدیث میں بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کی اذان پر سحری نہ چھوڑا کرو بلکہ ابن مکتوم کی اذان تک بیشک کھاتے پیتے رہا کرو.کیونکہ ابن مکتوم نابینا تھے اور جب تک لوگوں میں شور نہ پڑ جاتا تھا کہ صبح ہو گئی ہے، صبح ہو گئی ہے اس وقت تک اذان نہ دیتے تھے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 295 ،296)
فقه المسيح 198 روزہ اور رمضان سحری کے وقت احتیاط کی ایک مثال حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حافظ نورمحمد صاحب فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا.کہ ایک دفعہ ماہ رمضان میں سحری کے وقت کسی شخص نے اصل وقت سے پہلے اذان دے دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف لے آئے اور فرمایا کہ میں نے دودھ کا گلاس منہ کے قریب کیا ہی تھا کہ اذان کی آواز آئی.اس لئے وہ گلاس میں نے وہیں رکھ دیا.کسی شخص نے عرض کی.کہ حضور ا بھی تو کھانے پینے کا وقت ہے.آپ نے فرمایا کہ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ بعد اذان کچھ کھایا جائے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ روایت اگر درست ہے تو حضور نے اس وقت اپنی ذات کے لئے یہ احتیاط برتی ہوگی.ورنہ حضور کا طریق یہی تھا کہ وقت کا شمار اذان سے نہیں بلکہ سحری کے نمودار ہونے سے فرماتے تھے.اور اس میں بھی اس پہلو کو غلبہ دیتے تھے کہ فجر واضح طور پر ظاہر ہو جاوے.جیسا کہ قرآنی آیت کا منشاء ہے مگر بزرگوں کا قول ہے کہ فتویٰ اور ہے اور تقویٰ اور.سفر میں روزہ ، حکم ہے اختیار نہیں (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 520) آپ سے دریافت کیا گیا کہ سفر کے لئے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا کہ: قرآن کریم سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْعَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ (البقرة : 185) یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے.اس میں امر ہے.یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ جس کا اختیار ہو رکھ لے جس کا اختیار ہو نہ رکھے.میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیں اس لئے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے تو کوئی حرج نہیں مگر عِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرُ کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہیے.
فقه المسيح 199 روزہ اور رمضان اس پر مولوی نور الدین صاحب نے فرمایا کہ یوں بھی تو انسان کو مہینے میں کچھ روزے رکھنے چاہئیں.ہم اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت اقدس نے بھی فرمایا تھا کہ سفر میں تکالیف اٹھا کر جو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے.اس کو اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا.یہ غلطی ہے.اللہ تعالیٰ کی اطاعت امر اور نہی میں سچا ایمان ہے.مسافر اور مریض روزہ نہ رکھیں ا حکم 31 جنوری 1899 صفحہ 7) حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام یہ معلوم کر کے کہ لاہور سے شیخ محمد چٹو آئے ہیں اور احباب بھی آئے ہیں.محض اپنے خلق عظیم کی بناء پر باہر نکلے غرض یہ تھی کہ باہر سیر کو نکلیں گے.احباب سے ملاقات کی تقریب ہوگی.چونکہ پہلے سے لوگوں کو معلوم ہو گیا تھا کہ حضرت اقدس باہر تشریف لائیں گے اس لئے اکثر احباب چھوٹی مسجد میں موجود تھے.جب حضرت اقدس اپنے دروازے سے باہر آئے تو معمول کے موافق خدام پروانہ وار آپ کی طرف دوڑے.آپ نے شیخ صاحب کی طرف دیکھ کر بعد سلام مسنون فرمایا: حضرت اقدس.آپ اچھی طرح سے ہیں؟ آپ تو ہمارے پرانے ملنے والوں میں سے ہیں.بابا چٹو.شکر ہے.حضرت اقدس:.( حکیم محمد حسین قریشی کو مخاطب کر کے ) یہ آپ کا فرض ہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.ان کے کھانے ٹھہرنے کا پورا انتظام کر دو.جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے کہو اور میاں نجم الدین کو تاکید کر دو کہ ان کے کھانے کے لئے جو مناسب ہو اور پسند کریں وہ تیار
فقه المسيح 200 روزہ اور رمضان حکیم محمد حسین :.بہت اچھا حضور.انشاء اللہ کوئی تکلیف نہیں ہوگی.حضرت اقدس: (بابا چٹو کو خطاب کر کے ) آپ تو مسافر ہیں.روزہ تو نہیں رکھا ہوگا ؟ بابا چٹو.نہیں مجھے تو روزہ ہے میں نے رکھ لیا ہے.حضرت اقدس: اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے.خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پر بھی تو عمل رکھنا چاہیے.میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے.کیوں کہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے نہ اپنی مرضی اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے.اس نے تو یہی حکم دیا ہے مَنْ كَانَ مِنْكُمُ مَّرِيضًا أَوْ عَلى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرُ (البقره: 185) اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یا ایسی بیماری ہو.میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں.چنانچہ آج بھی میری طبیعت اچھی نہیں اور میں نے روزہ نہیں رکھا.چلنے پھرنے سے بیماری میں کچھ کمی ہوتی ہے اس لئے باہر جاؤں گا.کیا آپ بھی چلیں گے.با با چٹو : نہیں میں تو نہیں جاسکتا.آپ ہو آئیں.یہ حکم تو بے شک ہے مگر سفر میں کوئی تکلیف نہیں پھر کیوں روزہ نہ رکھا جاوے.حضرت اقدس:.یہ تو آپ کی اپنی رائے ہے.قرآن شریف نے تو تکلیف یا عدم تکلیف کا کوئی ذکر نہیں فرمایا اب آپ بہت بوڑھے ہو گئے ہیں.زندگی کا اعتبار کچھ نہیں.انسان کو وہ راہ اختیار کرنی چاہئے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو جاوے اور صراط مستقیم مل جاوے.بابا چٹو :.میں تو اسی لئے آیا ہوں کہ آپ سے کچھ فائدہ اٹھاؤں.اگر یہی راہ کچی ہے تو ایسانہ ہو کہ ہم غفلت ہی میں مر جاویں.
فقه المسيح 201 روزہ اور رمضان حضرت اقدس:.ہاں یہ بہت عمدہ بات ہے.میں تھوڑی دور ہو آؤں.آپ آرام کریں.یہ کہہ کر حضرت اقدس سیر کو تشریف لے گئے.) (الحلم 31 جنوری 1907 ءصفحہ 14 ) بیمار اور مسافر کے روزہ رکھنے کا ذکر تھا.حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ شیخ ابن عربی کا قول ہے کہ اگر کوئی بیمار یا مسافر روزہ کے دنوں میں روزہ رکھ لے تو پھر بھی اسے صحت پانے پر ماہ رمضان کے گذرنے کے بعد روزہ رکھنا فرض ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مَنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ( البقرة : 185) جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو وہ ماہ رمضان کے بعد کے دنوں میں روزے رکھے.اس میں خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو مریض یا مسافر اپنی ضد سے یا اپنے دل کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے انہی ایام میں روزے رکھے تو پھر بعد میں رکھنے کی اس کو ضرورت نہیں.خدا تعالیٰ کا صریح حکم یہ ہے کہ وہ بعد میں روزے رکھے.بعد کے روزے اس پر بہر حال فرض ہیں.درمیان کے روزے اگر وہ رکھے تو یہ امر زائد ہے اور اس کے دل کی خواہش ہے.اس سے خدا تعالیٰ کا وہ حکم جو بعد میں رکھنے کے متعلق ہے ٹل نہیں سکتا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام میں روزہ رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے.خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے.مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے.خدا تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کر سکتا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا ہو بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہئے ،مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتوی لا زم آئے گا.بدر 17اکتوبر 1907 ء صفحہ 7)
فقه المسيح 202 روزہ اور رمضان ظہر کے وقت روزے کھلوا دیئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں رحمت اللہ صاحب ولد حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام لدھیانہ تشریف لائے.رمضان شریف کا مہینہ تھا....ہم سب غوث گڑھ سے ہی روزہ رکھ کرلدھیانہ گئے تھے.حضور نے والد صاحب مرحوم سے خود دریافت فرمایا، یا کسی اور سے معلوم ہوا ( یہ مجھے یاد نہیں ) کہ یہ سب غوث گڑھ سے آنے والے روزہ دار ہیں.حضور نے فرمایا میاں عبداللہ ! خدا کا حکم جیسا روزہ رکھنے کا ہے ویسا ہی سفر میں نہ رکھنے کا ہے.آپ سب روزے افطار کر دیں.ظہر کے بعد کا یہ ذکر ہے.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 125) عصر کے بعد روزہ کھلوا دیا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں کوئی مہمان یہاں حضرت صاحب کے پاس آیا.اسے اس وقت روزہ تھا اور دن کا زیادہ حصہ گذر چکا تھا بلکہ شاید عصر کے بعد کا وقت تھا.حضرت صاحب نے اسے فرمایا آپ روزہ کھول دیں.اس نے عرض کیا کہ اب تھوڑا سا دن رہ گیا ہے.اب کیا کھولنا ہے.حضور نے فرمایا آپ سینہ زوری سے خدا تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتے ہیں.خدا تعالی سینہ زوری سے نہیں بلکہ فرمانبرداری سے راضی ہوتا ہے.جب اس نے فرما دیا ہے کہ مسافر روزہ نہ رکھے تو نہیں رکھنا چاہیے.اس پر اس نے روزہ کھول دیا.سفر میں روزہ رکھنے پر روزہ کھلوا دیا حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی تحریر کرتے ہیں کہ :.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 97) ایک مرتبہ میں اور حضرت منشی اروڑے خان صاحب اور حضرت خان صاحب محمد خاں
فقه المسيح 203 روزہ اور رمضان صاحب لدھیانہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے.رمضان کا مہینہ تھا.میں نے روزہ رکھا ہوا تھا اور میرے رفقاء نے نہیں رکھا تھا.جب ہم حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو تھوڑا سا وقت غروب آفتاب میں باقی تھا.حضرت کو انہوں نے کہا کہ ظفر احمد نے روزہ رکھا ہوا ہے.حضرت فوراً اندر تشریف لے گئے اور شربت کا ایک گلاس لے کر آئے اور فرمایا روزہ کھول دو.سفر میں روزہ نہیں چاہئے.میں نے تعمیل ارشاد کی اور اس کے بعد بوجہ مقیم ہونے کے ہم روزہ رکھنے لگے.افطاری کے وقت حضرت اقدس خود تین گلاس ایک بڑے تھال میں رکھ کر لائے.ہم روزہ کھولنے لگے.میں نے عرض کیا کہ حضور منشی جی کو (منشی اروڑے خاں صاحب کو ایک گلاس میں کیا ہوتا ہے.حضرت مسکرائے اور جھٹ اندر تشریف لے گئے.اور ایک بڑا لوٹا شربت کا بھر کر لائے اور منشی جی کو پلایا.منشی جی یہ سمجھ کر حضرت اقدس کے ہاتھ سے شربت پی رہا ہوں پیتے رہے اور ختم کر دیا.( روایت حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی اصحاب احمد جلد 4 صفحہ 224 نیا ایڈیشن) سفر میں روزہ کھول دینا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دار الفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ مقدمہ تھا اور اس کی ایک پیشی کے لئے موضع دھار یوال میں جانا پڑا.گرمی کا موسم تھا اور رمضان کا مہینہ تھا.بہت دوست اردگرد سے موضع دھار یوال میں گئے اور بہتوں نے روزے رکھے ہوئے تھے.وہاں ایک مشہور سردارنی نے جو موضع کھنڈے میں مشہور سرداروں میں سے ہے حضور کی خدمت اقدس میں دعوت کا پیغام بھیجا.حضور نے دعوت منظور فرمائی.سردارنی نے میٹھے چاول وغیرہ کی دعوت دی.بعض دوستوں نے حضور سے روزہ کے متعلق عرض کی.فرمایا سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں.چنانچہ اس وقت سب دوستوں نے روزے چھوڑ دیئے.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 303)
فقه المسيح 204 روزہ اور رمضان سفر میں رخصت، ملامت کی پرواہ نہ کی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ملک مولا بخش صاحب پنشنر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان شریف میں امرتسر میں تشریف لائے اور آپ کا لیکچر منڈ وہ بابو گھنیا لعل (جس کا نام اب بندے ماترم پال ہے ) میں ہوا.بوجہ سفر کے حضور کو روزہ نہ تھا لیکچر کے دوران مفتی فضل الرحمن صاحب نے چائے کی پیالی پیش کی.حضور نے توجہ نہ فرمائی پھر وہ اور آگے ہوئے.پھر بھی حضور مصروف لیکچر رہے.پھر مفتی صاحب نے پیالی بالکل قریب کر دی تو حضور نے لے کر چائے پی لی اس پر لوگوں نے شور مچا دیا.یہ ہے رمضان شریف کا احترام، روزے نہیں رکھتے اور بہت بکواس کرنا شروع کر دیا.لیکچر بند ہو گیا اور حضور پس پردہ ہو گئے.گاڑی دوسرے دروازے کے سامنے لائی گئی اور حضور اس میں داخل ہو گئے.لوگوں نے اینٹ پتھر وغیرہ مارنے شروع کئے اور بہت ہلّہ مچایا.گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیا مگر حضور بخیر و عافیت قیام گاہ پر پہنچ گئے اور بعد میں سنا گیا کہ ایک غیر احمدی مولوی یہ کہتا تھا کہ ” آج لوکاں نے مرزے نوں نبی بنا دیتا “ یہ میں نے خود اس کے منہ سے نہیں سُنا.حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کے ساتھ ہم باہر نکلے اور ان کی خدمت میں عرض کی کہ لوگ اینٹ پتھر مارتے ہیں.ذرا ٹھہر جائیں.تو آپ نے فرمایا وہ گیا جس کو مارتے تھے.مجھے کون مارتا ہے.چونکہ مفتی فضل الرحمن صاحب کے چائے پیش کرنے پر یہ سب گڑ بڑ ہوئی تھی.اس لئے سب آدمی ان کو کہتے تھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا.میں نے بھی ان کو ایسا کہا.وہ بیچارے تنگ آگئے اور بعد میں میاں عبد الخالق صاحب مرحوم احمدی نے مجھے بتلایا کہ جب یہ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا کہ مفتی صاحب نے خواہ مخواہ لیکچر خراب کر دیا تو حضور نے فرمایا : مفتی صاحب نے کوئی بُرا کام نہیں کیا ، اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے کہ
فقه المسيح 205 روزہ اور رمضان سفر میں روزہ نہ رکھا جائے.اللہ تعالیٰ نے ہمارے فعل سے اس حکم کی اشاعت کا موقع پیدا کر دیا.پھر تو مفتی صاحب شیر ہو گئے.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 147) مسافر کا حالت قیام میں روزہ رکھنا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی فرماتے ہیں : سوال پیش کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے روزہ کے متعلق یہ فتویٰ دیا ہے کہ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتوی لازم آئے گا.ادھر الفضل میں میرا یہ اعلان شائع کیا گیا ہے کہ احمدی احباب جو سالانہ جلسہ پر آئیں وہ یہاں آکر روزے رکھ سکتے ہیں مگر جو نہ رکھیں اور بعد میں رکھیں ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں.اس کے متعلق اول تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا کوئی فتویٰ الفضل میں شائع نہیں ہوا.ہاں ایک فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا میری روایت سے چھپا ہے.اصل بات یہ ہے کہ زمانہ خلافت کے پہلے ایام میں ہمیں سفر میں روزہ رکھنے سے منع کیا کرتا تھا کیونکہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا تھا کہ آپ مسافر کو روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے.ایک دفعہ میں نے دیکھا مرزا یعقوب بیگ صاحب رمضان میں آئے اور انہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا لیکن عصر کے وقت جبکہ وہ آئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہہ کر روزہ کھلوا دیا کہ سفر میں روزہ رکھنا نا جائز ہے.اس پر اتنی لمبی بحث اور گفتگو ہوئی کہ حضرت خلیفہ اول نے سمجھا کہ شاید کسی کو ٹھوکر لگ جائے.اس لئے آپ ابن عربی کا ایک حوالہ دوسرے دن تلاش کر کے لائے کہ وہ بھی یہی کہتے ہیں.اس واقعہ کا مجھ پر یہ اثر تھا کہ میں سفر میں روزہ رکھنے سے روکتا تھا.اتفاق ایسا ہوا کہ ایک رمضان میں مولوی عبداللہ صاحب سنوری یہاں رمضان گزارنے کے لئے آئے تو انہوں نے کہا میں نے سنا ہے آپ باہر سے یہاں آنے والوں کو روزہ رکھنے سے منع کرتے ہیں مگر میری
فقه المسيح 206 روزہ اور رمضان روایت ہے کہ یہاں ایک صاحب آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ مجھے یہاں ٹھہرنا ہے.اس دوران میں ہمیں روزے رکھوں یا نہ رکھوں؟ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہاں آپ روزے رکھ سکتے ہیں کیونکہ قادیان احمدیوں کے لئے وطن ثانی ہے.گو مولوی عبداللہ صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے مقرب تھے مگر میں نے صرف ان کی روایت کو قبول نہ کیا اور لوگوں کی اس بارے میں شہادت لی تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان کی رہائش کے ایام میں روزہ رکھنے کی اجازت دیتے تھے.البتہ آنے اور جانے کے دن روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے.اس وجہ سے مجھے پہلا خیال بدلنا پڑا.پھر جب اس دفعہ رمضان میں سالانہ جلسہ آنے والا تھا اور سوال اُٹھا کہ آنے والوں کو روزہ رکھنا چاہئے یا نہیں تو ایک صاحب نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب جلسہ رمضان میں آیا تو ہم نے خود مہمانوں کو سحری کھلائی تھی.ان حالات میں جب میں نے یہاں جلسہ پر آنے والوں کو روزہ رکھنے کی اجازت دی تو یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی فتویٰ ہے.پہلے علماء تو سفر میں روزہ رکھنا بھی جائز قرار دیتے رہے ہیں اور آج کل کے سفر کو تو غیر احمدی مولوی سفر ہی نہیں قرار دیتے لیکن حضرت مسیح موعود نے سفر میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا.پھر آپ نے ہی یہ بھی فرمایا کہ یہاں قادیان میں آکر روزہ رکھنا جائز ہے.اب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم آپ کا ایک فتویٰ تو لے لیں اور دوسرا چھوڑ دیں.( الفضل 4/جنوری 1934 ءصفحہ 3-4) اس مسئلہ پر سیرت المہدی سے بھی ایک روایت ملتی ہے ) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ 1903 ء کا ذکر ہے کہ میں اور ڈاکٹر صاحب مرحوم رڑکی سے آئے.چار دن کی رخصت تھی.حضور نے پوچھا:
فقه المسيح 207 روزہ اور رمضان سفر میں تو روزہ نہیں تھا؟ ہم نے کہا نہیں.حضور نے ہمیں گلابی کمرہ رہنے کو دیا.ڈاکٹر صاحب نے کہا : ہم روزہ رکھیں گے.آپ نے فرمایا ” بہت اچھا! آپ سفر میں ہیں.“ ڈاکٹر صاحب نے کہا.حضور! چند روز قیام کرنا ہے دل چاہتا ہے روزہ رکھوں.آپ نے فرمایا.اچھا! ہم آپ کو کشمیری پراٹھے کھلائیں گے.“ ہم نے خیال کیا کشمیری پر اٹھے خدا جانے کیسے ہوں گے؟ جب سحری کا وقت ہوا اور ہم تہجد ونوافل سے فارغ ہوئے اور کھانا آیا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود گلابی کمرے میں تشریف لائے.( جو کہ مکان کی نچلی منزل میں تھا ) حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مکان کی اوپر والی تیسری منزل پر رہا کرتے تھے.ان کی بڑی اہلیہ کریم بی بی صاحبہ جن کو مولویانی کہا کرتے تھے.کشمیری تھیں اور پراٹھے اچھے پکایا کرتی تھیں.حضوڑ نے یہ پراٹھے ان سے ہمارے واسطے پکوائے تھے.پراٹھے گرما گرم اوپر سے آتے تھے اور حضور علیہ السلام خود لے کر ہمارے آگے رکھتے تھے اور فرماتے تھے.اچھی طرح کھاؤ.مجھے تو شرم آتی تھی اور ڈاکٹر صاحب بھی شرمسار تھے مگر ہمارے دلوں پر جو اثر حضور کی شفقت اور عنایت کا تھا اس سے روئیں روئیں میں خوشی کا لرزہ پیدا ہو رہا تھا.اتنے میں اذان ہوگئی تو حضور نے فرمایا کہ اور کھاؤ ، ابھی بہت وقت ہے.فرمایا: ” قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : كُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (البقرة: 188) اس پر لوگ عمل نہیں کرتے.آپ کھا ئیں ابھی وقت بہت ہے.مؤذن نے وقت سے پہلے اذان دے دی ہے.جب تک ہم کھاتے رہے حضور کھڑے رہے اور ٹہلتے رہے.ہر چند ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ حضور تشریف رکھیں ، میں خود خادمہ سے پراٹھے پکڑلوں گا یا میری بیوی لے لیں گی مگر حضور نے نہ مانا اور ہماری خاطر تواضع میں
فقه المسيح 208 روزہ اور رمضان لگے رہے.اس کھانے میں عمدہ سالن اور دودھ سویاں وغیرہ کھانے بھی تھے.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 203،202) حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں: روزوں کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک جگہ پر تین دن سے زائدا قامت کرنی ہو تو پھر وہ روزے رکھے اور اگر تین دن سے کم اقامت کرنی ہو تو روزے نہ رکھے اور اگر قادیان میں کم دن ٹھہرنے کے باوجود روزے رکھ لے تو پھر روزے دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں.(فتاوی حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب رجسٹر نمبر 5 دارالافتاء ربوہ ) بیمار ہونے پر روزہ کھول دیتا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رمضان کا روزہ رکھا ہوا تھا کہ دل گھٹنے کا دورہ ہوا اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے.اس وقت غروب آفتاب کا وقت بہت قریب تھا مگر آپ نے فورا روزہ تو ڑ دیا.آپ ہمیشہ شریعت میں سہل راستہ کو اختیار فرمایا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث میں حضرت عائشہؓ کی روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی یہی ذکر آتا ہے کہ آپ ہمیشہ دو جائز رستوں میں سے سہل رستہ کو پسند فرماتے تھے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 637) معمولی بیماری میں روزہ رکھنے کی اجازت حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب لکھتے ہیں: ایک دفعہ میں نے رمضان شریف کا آخری عشرہ قادیان میں گذارا.ان دنوں میں حضور علیہ السلام کو تپ لرزہ یومیہ آتا تھا.ظہر کے بعد لرزہ سے تپ ہو جاتا تھا.اس لئے ظہر کے وقت حضور جماعت میں شریک ہوا کرتے تھے اور باقی نمازوں میں شریک نہیں ہو سکتے تھے.ظہر سے
فقه المسيح 209 روزہ اور رمضان پہلے کبھی کبھی بانتظار نماز یاں بیٹھتے تھے.میری عادت تھی کہ میں ضرور اس جگہ پہنچ جایا کرتا تھا جہاں حضور بیٹھتے تھے.کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں دور رہا ہوں.اگر ایسا اتفاق ہوتا بھی جو صرف ایک دفعہ ہوا تو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی سامان کر دیتا کہ میں قریب پہنچ جاؤں.غرض جب حضور ظہر کی نماز کے واسطے تشریف لاتے میں طبیعت کا حال دریافت کرتا تو فرماتے کہ سردی معلوم ہورہی ہے.بعض دفعہ فرماتے کہ نماز پڑھو.سردی زیادہ معلوم ہورہی ہے مگر باوجود علالت کے حضور روزہ برابر رکھتے تھے.ایک دن میں نے عرض کیا کہ تپ کی تکلیف ہے اور کئی دن ہو گئے ہیں.اگر روزہ افطار کر دیا ( یعنی بوقت بخار کھول یا توڑ لیا ) کریں تو بہتر ہو ) فرمایا کہ روزہ کی وجہ سے کچھ تکلیف محسوس نہیں ہوتی ہے بلکہ آرام معلوم ہوتا ہے.بھوک پیاس کچھ معلوم نہیں ہوتی.رات کو البتہ کچھ زیادہ تکلیف ہوتی ہے.اس لئے روزہ رکھ لیتا ہوں.صبح کو تپ اتر جا تا تھا تو حضور سیر کو تشریف لے جایا کرتے تھے.( اصحاب احمد جلد 10 صفحہ 397 ، 398 نیا ایڈیشن روایت حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب) بیماری میں روزہ کے متعلق حضرت مسیح موعود کا معمول حضرت مصلح موعودؓ سے سوال پوچھا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ بیمار رہتے تھے کیا روزہ رکھتے تھے؟ آپ نے فرمایا: حضرت صاحب خوب روزہ رکھتے تھے مگر چونکہ آخر میں کمز ور زیادہ ہو گئے تھے اور مرض میں بھی زیادتی تھی اس لئے تین سال کے روزے نہیں رکھے، یعنی 7،6،5 (1905، 1906 اور 1907 ء مراد ہے.ناقل ) الفضل 12 جون 1922 ، صفحہ 7) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا.دوسرا رمضان آیا تو
فقه المسيح 210 روزہ اور رمضان آپ نے روزے رکھنے شروع کئے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ ہوا.اس لئے باقی چھوڑ دیئے اور فدیہ ادا کر دیا.اس کے بعد جو رمضان آیا تو اس میں آپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑے اور آپ نے فدیہ ادا کر دیا.اس کے بعد جو رمضان آیا تو آپ کا تیرھواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اور باقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا.اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپ نے سب روزے رکھے مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادا فرماتے رہے.خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتدا دوروں کے زمانہ میں روزے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضاء کیا ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ نہیں صرف فدیہ ادا کر دیا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعود کو دورانِ سر اور بر داطراف کے دورے پڑنے شروع ہوئے تو اس زمانہ میں آپ بہت کمزور ہو گئے تھے اور صحت خراب رہتی تھی اس لئے جب آپ روزے چھوڑتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پھر دوسرے رمضان تک ان کے پورا کرنے کی طاقت نہ پاتے تھے مگر جب اگلا رمضان آتا تو پھر شوق عبادت میں روزے رکھنے شروع فرما دیتے تھے لیکن پھر دورہ پڑتا تھا تو ترک کر دیتے تھے اور بقیہ کا فدیہ ادا کر دیتے تھے.واللہ اعلم.( سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 59) مسافر اور مریض فدیہ دیں فرمایا: اللہ تعالیٰ نے شریعت کی بناء آسانی پر رکھی ہے جو مسافر اور مریض صاحب مقدرت ہوں.ان کو چاہئے کہ روزہ کی بجائے فدیہ دے دیں.فدیہ یہ ہے کہ ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے.بدر 17 اکتوبر 1907 صفحہ 7) فدیہ دینے کی کیا غرض ہے؟ ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے
فقه المسيح 211 روزہ اور رمضان واسطے ہے تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو.خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو تو فیق عطا کرتی ہے اور ہر شے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے.خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے.پس میرے نزدیک خوب ہے کہ دعا کرے کہ الہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا تعالیٰ طاقت بخش دے گا.فدیہ دینے سے روزہ ساقط نہیں ہوتا حضرت مصلح موعودہؓ تحریر فرماتے ہیں: البدر 12 دسمبر 1902 ء صفحہ 52) فدیہ دے دینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہو جا تا بلکہ یہ محض اس بات کا فدیہ ہے کہ ان مبارک ایام میں وہ کسی جائز شرعی عذر کی بناء پر باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ عبادت ادا نہیں کر سکے.آگے یہ عذر دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک عارضی اور ایک مستقل.فدیہ بشرط استطاعت ان دونوں حالتوں میں دینا چاہئے.غرضیکہ خواہ کوئی فدیہ بھی دے دے بہر حال سال دو سال یا تین سال کے بعد جب بھی اُس کی صحت اجازت دے اُسے پھر روزے رکھنے ہوں گے.سوائے اس صورت کے کہ پہلے مرض عارضی تھا اور صحت ہونے کے بعد ارادہ ہی کرتا رہا کہ آج رکھتا ہوں کل رکھتا ہوں کہ اس دوران میں اس کی صحت پھر مستقل طور پر خراب ہو جائے.باقی جو بھی کھانا کھلانے کی طاقت رکھتا ہواگر وہ مریض یا مسافر ہے تو اُس کے لئے ضروری ہے کہ رمضان میں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے اور دوسرے ایام میں روزے رکھے.یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مذہب تھا اور
فقه المسيح 212 روزہ اور رمضان آپ ہمیشہ فدیہ بھی دیتے تھے اور بعد میں روزے بھی رکھتے تھے اور اسی کی دوسروں کو تاکید فرمایا کرتے تھے.فدیہ کیسے دیں؟ ( تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 389) سوال پیش ہوا کہ جو شخص روزہ رکھنے کے قابل نہ ہو، اس کے عوض مسکین کو کھانا کھلانا چاہیئے.اس کھانے کی رقم قادیان کے یتیم فنڈ میں بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا: ایک ہی بات ہے خواہ اپنے شہر میں مسکین کو کھلائے یا یتیم اور مسکین فنڈ میں بھیج دے.“ مزدور بھی مریض کے حکم میں ہے ( بدر 7 فروری 1907 ، صفحہ 4) بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتا ہے کہ کاشت کاروں سے جبکہ کام کی کثرت مثل تخم ریزی و درودگی ہوتی ہے.ایسے ہی مزدوروں سے جن کا گزارہ مزدوری پر ہے روزہ نہیں رکھا جاتا ان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ یہ لوگ اپنی حالتوں کو خفی رکھتے ہیں.ہر شخص تقوی وطہارت سے اپنی حالت سوچ لے.اگر کوئی اپنی جگہ مزدوری پر رکھ سکتا ہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے.پھر جب میسر ہور کھ لے.“ اور وَعَلَى الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهُ (البقرة : 185) کی نسبت فرمایا: : اس کے معنی یہ ہیں کہ جو طاقت نہیں رکھتے.“ ( بدر 26 ستمبر 1907 ء صفحہ 7) روزہ کس عمر سے رکھا جائے حضرت خلیفہ امسیح الثانی فرماتے ہیں: بارہ سال سے کم عمر کے بچے سے روزہ رکھوانا تو میرے نزدیک جرم ہے اور بارہ سال سے
فقه المسيح 213 روزہ اور رمضان پندرہ سال کی عمر کے بچے کو اگر کوئی روزہ رکھواتا ہے تو غلطی کرتا ہے.پندرہ سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہیئے اور اٹھارہ سال کی عمر میں روزے فرض سمجھنے چاہئیں.مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روزہ رکھنے کا شوق ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے اور بجائے اس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر روزہ کا رعب ڈالتے تھے.حضرت مصلح موعودؓ تحریر فرماتے ہیں.الفضل 11 اپریل 1925ء صفحہ 7) یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرور کرانی چاہئے.مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی.لیکن بعض بے وقوف چھ سات سال کے بچوں سے روزہ رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہوگا.یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمر نشو ونما کی ہوتی ہے.ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اور روزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے اُس وقت اُن کو روزہ کی ضرور مشق کرانی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اجازت اور سنت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہئے اور ہر سال چند روزے رکھوانے چاہئیں.یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہو جائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمر ہے.مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی تھی.اس عمر میں تو صرف شوق ہوتا ہے.اس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگر یہ ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں.پھر ایک عمر ایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہیے کہ بچوں کو جرات دلائیں کہ وہ کچھ روزے ضرور رکھیں.اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں.اور دیکھنے
فقه المسيح 214 روزہ اور رمضان والوں کو بھی اس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا.کیونکہ اگر بچہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا تو آئندہ نہیں رکھ سکے گا.اسی طرح بعض بچے خلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں.میں سمجھتا ہوں ایسے بچے روزہ کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں.اس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچہ غالبا پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہوسکتا ہے.لیکن اگر وہ میرے اِن الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پر ظلم کرے گا اور نہ خدا تعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پر آپ ظلم کرے گا.اسی طرح اگر کوئی چھوٹی عمر کا بچہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ اُس پر طعن کریں تو وہ اپنی جان پر ظلم کریں گے.کم عمری میں روزہ رکھنے کی ممانعت ė ( تفسیر کبیر جلد 2 صفحه 385 ) حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ تحریر فرماتی ہیں:.قبل بلوغت کم عمری میں آپ روزہ رکھوانا پسند نہیں کرتے تھے.بس ایک آدھ رکھ لیا کافی ہے.حضرت اماں جان نے میرا پہلا روزہ رکھوایا تو بڑی دعوت افطار دی تھی.یعنی جو خواتین جماعت تھیں سب کو بلایا تھا.اس رمضان کے بعد دوسرے یا تیسرے رمضان میں میں نے روزہ رکھ لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا کہ آج میرا روزہ پھر ہے.آپ حجرہ میں تشریف رکھتے تھے.پاس سٹول پر دو پان لگے رکھے تھے.غالبا حضرت اماں جان بنا کر رکھ گئی ہوں گی.آپ نے ایک پان اُٹھا کر مجھے دیا کہ لو یہ پان کھا لو تم کمزور ہو، ابھی روزہ نہیں رکھنا.توڑ ڈالو روزہ.میں نے پان تو کھا لیا مگر آپ سے کہا کہ صالحہ ( یعنی ممانی جان مرحومہ چھوٹے ماموں جان کی اہلیہ محترمہ ) نے بھی رکھا ہے.اُن کا بھی تڑوا دیں.فرمایا بلا ؤ اس کو ابھی.میں بُلا لائی.وہ آئیں تو اُن کو بھی دوسرا پان اُٹھا کر دیا اور فرمایا لو یہ کھالو.تمہارا روزہ نہیں ہے.میری عمر دس سال کی ہوگی غالبا.تحریرات مبارکہ صفحہ 227 ، 228)
فقه المسيح 215 روزہ اور رمضان شوال کے چھ روزوں کا التزام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جوانی کا ذکر فرمایا کرتے تھے کہ اس زمانہ میں مجھ کو معلوم ہوایا فرمایا اشارہ ہوا کہ اس راہ میں ترقی کرنے کے لئے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں.فرماتے تھے پھر میں نے چھ ماہ لگا تار روزے رکھے اور گھر میں یا با ہر کسی شخص کو معلوم نہ تھا کہ میں روزہ رکھتا ہوں.صبح کا کھانا جب گھر سے آتا تھا تو میں کسی حاجتمند کو دے دیتا تھا اور شام کا خود کھا لیتا تھا.میں نے حضرت والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ آخر عمر میں بھی آپ نفلی روزے رکھتے تھے یا نہیں؟ والدہ صاحبہ نے کہا کہ آخر عمر میں بھی آپ روزے رکھا کرتے تھے.خصوصا شوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے.اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے تھے.ہاں مگر آخری دو تین سالوں میں بوجہ ضعف و کمزوری رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ سکتے تھے.(خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب البریہ میں حضرت صاحب نے روزوں کا زمانہ آٹھ نو ماہ بیان کیا ہے.) حضرت خلیہ البیع الثانی فرماتے ہیں:.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 14) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ شوال کے مہینے میں عید کا دن گزرنے کے بعد چھ روزے رکھتے تھے.اس طریق کا احیاء ہماری جماعت کا فرض ہے.ایک دفعہ حضرت صاحب نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ تمام قادیان میں عید کے بعد چھ دن تک رمضان ہی کی طرح اہتمام تھا.آخر میں چونکہ حضرت صاحب کی عمر زیادہ ہو گئی تھی اور بیمار بھی رہتے تھے اس لئے دو تین سال آپ نے روزے نہیں رکھے.جن لوگوں کو علم نہ ہو وہ سُن لیں اور جو غفلت میں ہوں ہوشیار ہو جائیں کہ سوائے ان کے جو بیمار اور کمزور ہونے کی وجہ سے
فقه المسيح 216 روزہ اور رمضان معذور ہیں.چھ روزے رکھیں.اگر مسلسل نہ رکھ سکیں تو وقفہ ڈال کر بھی رکھ سکتے ہیں.الفضل 8 جون 1922 ، صفحہ 7) روزہ کی حالت میں آئینہ دیکھنا حضرت اقدس کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو آئینہ دیکھنا جائز ہے یا نہیں.فرمایا: جائز ہے.“ بدر 7 فروری 1907 صفحہ 4) روزہ کی حالت میں سر یا داڑھی کو تیل لگانا حضرت اقدس کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ حالتِ روزہ میں سر کو یا داڑھی کو تیل لگانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا: جائز ہے.“ (بدر 7 فروری 1907 صفحہ 4) روزہ کی حالت میں آنکھ میں دوائی ڈالنا حضرت اقدس کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کی آنکھ بیمار ہوتو اس میں دوائی ڈالنی جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا: یہ سوال ہی غلط ہے.بیمار کے واسطے روزہ رکھنے کا حکم نہیں.“ روزہ دار کا خوشبولگانا سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کوخوشبو لگانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا: ( بدر 7 فروری 1907 ء صفحہ 4) جائز ہے.“ ( بدر 7 فروری 1907 ، صفحہ 4)
فقه المسيح 217 روزہ اور رمضان روز ودار کا آنکھوں میں سرمہ ڈالنا سوال پیش ہوا کہ روزہ دار آنکھوں میں سرمہ ڈالے یا نہ ڈالے؟ فرمایا: مکروہ ہے اور ایسی ضرورت ہی کیا ہے کہ دن کے وقت سرمہ لگائے.رات کو سرمہ لگا سکتا ہے.66 ( بدر 7 فروری 1907 ، صفحہ 4) نماز تراویح اکمل صاحب آف گولیکی نے بذریعہ تحریر حضرت سے دریافت کیا کہ رمضان شریف میں رات کو اُٹھنے اور نماز پڑھنے کی تاکید ہے لیکن عموما محنتی ، مزدور، زمیندار لوگ جو ایسے اعمال کے بجالانے میں غفلت دکھاتے ہیں اگر اول شب میں ان کو گیارہ رکعت تراویح بجائے آخر شب کے پڑھادی جائیں تو کیا یہ جائز ہوگا.حضرت اقدس نے جواب میں فرمایا وو کچھ حرج نہیں ، پڑھ لیں.“ ( بدر 18 اکتوبر 1906 صفحہ 4) تراویح کی رکعات تراویح کے متعلق عرض ہوا کہ جب یہ تہجد ہے تو ہیں رکعات پڑھنے کی نسبت کیا ارشاد ہے کیونکہ تہجد تو مع وتر گیارہ یا تیرہ رکعت ہے.فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت دائمی تو وہی آٹھ رکعات ہے اور آپ تہجد کے وقت ہی پڑھا کرتے تھے اور یہی افضل ہے مگر پہلی رات بھی پڑھ لینا جائز ہے.ایک روایت میں ہے کہ آپ نے رات کے اول حصے میں اُسے پڑھا.ہمیں رکعات بعد میں پڑھی گئیں مگر
فقه المسيح 218 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وہی تھی جو پہلے بیان ہوئی.تراویح در اصل نماز تہجد ہی ہے روزہ اور رمضان ( بدر مؤرخہ 6 فروری 1908 ءصفحہ 7) ایک صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں خط لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ سفر میں نماز کس طرح پڑھنی چاہیے اور تراویح کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا: سفر میں دوگانہ سنت ہے.تروایح بھی سنت ہے پڑھا کریں اور کبھی گھر میں تنہائی میں پڑھ لیں کیونکہ تراویح در اصل تہجد ہے کوئی نئی نماز نہیں.وتر جس طرح پڑھتے ہو بیشک پڑھو.“ نماز تراویح میں غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر لقمہ دینا بدر 26 دسمبر 1907 ء صفحہ 6) رمضان شریف میں تراویح کے لئے کسی غیر حفظ کا قرآن دیکھ کر حافظ کو بتلانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے فرمایا: میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ اس کے متعلق نہیں دیکھا.اس پر مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے جائزہ قرار دیا ہے.فرمایا: جائز ہے تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے اور اس کے لئے یہ انتظام بھی ہوسکتا ہے کہ ایک ہی شخص تمام تراویح میں بیٹھ کر نہ سنتار ہے بلکہ چار آدمی دو دورکعت کے لئے سنیں اس طرح ان کی بھی چھ چھ رکعتیں ہو جائیں گی.عرض کیا گیا فقہ اس صورت کو جائز ٹھہراتی ہے؟ فرمایا: اصل غرض تو یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن کریم سننے کی عادت ڈالی جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فتویٰ تو ضرورت اور مجبوری کی وجہ سے ہے جیسے کوئی کھڑا ہو کر نماز نہ پڑھ سکے
فقه المسيح 219 روزہ اور رمضان تو بیٹھ کر ہی پڑھ لے اور بیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر پڑھ لے یا جس طرح کسی شخص کے کپڑے کو غلاظت لگی ہو اور وہ اسے دھو نہ سکے تو اسی طرح نماز پڑھ لے، یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ضرورت کی بات ہے.بے خبری میں کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا الفضل 21 فروری 1930 صفحه (12) خط سے سوال پیش ہوا کہ میں بوقتِ سحر بماہ رمضان اندر بیٹھا ہوا بے خبری سے کھاتا پیتا رہا.جب باہر نکل کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ سفیدی ظاہر ہوگئی ہے.کیا وہ روزہ میرے اوپر رکھنا لازم ہے یا نہیں؟ فرمایا: ” بے خبری میں کھایا پیا تو اس پر اس روزہ کے بدلہ میں دوسرا روزہ لازم نہیں آتا.“ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے دن روزہ رکھنا الحکم 24 فروری 1907 صفحہ 14 ) سوال : کیا آنحضرت کے وصال کے دن روزہ رکھنا ضروری ہے کہ نہیں ؟ فرمایا: 66 ضروری نہیں.“ کیا محرم کے روزے ضروری ہیں؟ ( بدر 14 مارچ 1907 ء صفحہ 5) سوال پیش ہوا کہ محرم کے پہلے دس دن کا روزہ رکھنا ضروری ہے کہ نہیں ؟ فرمایا: اعتکاف ضروری نہیں ہے.“ ( بدر 14 مارچ 1907 ، صفحہ 5) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ میں نے کبھی حضرت مسیح موعود کو اعتکاف بیٹھتے نہیں دیکھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ
فقه المسيح 220 میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بھی مجھ سے یہی بیان کیا ہے.اعتکاف کے دوران بات چیت کرنا روزہ اور رمضان (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 62 سوال: جب آدمی اعتکاف میں ہو تو اپنے دنیوی کاروبار کے متعلق بات کر سکتا ہے یا نہیں؟ جواب : سخت ضرورت کے سبب کر سکتا ہے اور بیمار کی عیادت کے لئے اور حوائج ضروری کے واسطے باہر جاسکتا ہے.( بدر 21 فروری 1907 ، صفحہ 5 اعتکاف کے متعلق بعض ہدایات ڈاکٹر عباداللہ صاحب امرتسر اور خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر ( جو دونوں معتکف تھے ) کو مخاطب کر کے فرمایا: اعتکاف میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان اندر ہی بیٹھا رہے اور بالکل کہیں آئے جائے ہی نہ.چھت پر دھوپ ہوتی ہے وہاں جا کر آپ بیٹھ سکتے ہیں کیونکہ نیچے یہاں سردی زیادہ ہے اور ہر ایک ضروری بات کر سکتے ہیں.ضروری امور کا خیال رکھنا چاہئے اور یوں تو ہر ایک کام مومن کا ) عبادت ہی ہوتا.تا ہے.البدر 2 جنوری 1903 صفحہ 74) اعتکاف چھوڑ کر مقدمہ کی پیشی پر جانے کو نا پسند فرمایا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاح کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے زمانہ میں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اعتکاف بیٹھے مگر اعتکاف کے دنوں میں ہی ان کو کسی مقدمہ میں پیشی کے واسطے باہر جانا پڑ گیا.چنانچہ وہ اعتکاف تو ڑ کر عصر کے قریب یہاں سے جانے لگے تو حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ کو مقدمہ میں جانا تھا تو اعتکاف بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 97)
فقه المسيح 221 زكوة روزے، حج اور زکوۃ کی تاکید فرمایا: زكوة اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو.ہر ایک جو ز کوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے.“ زکوۃ کا نام رکھنے کی وجہ فرمایا: کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15) زکوۃ کا نام اسی لئے زکوۃ ہے کہ انسان اس کی بجا آوری سے یعنی اپنے مال کو جو اس کو بہت پیارا ہے لِلہ دینے سے بخل کی پلیدی سے پاک ہو جاتا ہے اور جب بخل کی پلیدی جس سے انسان طبعاً بہت تعلق رکھتا ہے انسان کے اندر سے نکل جاتی ہے تو وہ کسی حد تک پاک بن کر خدا سے جو اپنی ذات میں پاک ہے ایک مناسبت پیدا کر لیتا ہے.زیور پر زکوة ( براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 204،203) ایک شخص نے عرض کیا کہ زیور پر زکوۃ ہے یا نہیں؟ فرمایا: ” جو زیور استعمال میں آتا ہے اور مثلاً کوئی بیاہ شادی پر مانگ کر لے جاتا ہے تو دے دیا جاوے.وہ زکوۃ سے مستنی ہے.“ الحکم 30 اپریل 1902 ، صفحہ 7) جوز یور پہنا جائے اور کبھی کبھی غریب عورتوں کو استعمال کے لئے دیا جائے بعض کا اس کی نسبت یہ فتویٰ ہے کہ اس کی کچھ زکوۃ نہیں اور جو زیور پہنا جائے اور دوسروں کو استعمال
فقه المسيح 222 زكوة کے لئے نہ دیا جائے اس میں زکوۃ دینا بہتر ہے کہ وہ اپنے نفس کے لئے مستعمل ہوتا ہے.اسی پر ہمارے گھر میں عمل کرتے ہیں اور ہر سال کے بعد اپنے موجودہ زیور کی زکوۃ دیتے ہیں اور جو زیور روپیہ کی طرح جمع رکھا جائے اس کی زکوۃ میں کسی کو بھی اختلاف نہیں.“ الحکم 17 نومبر 1905 صفحہ 11) قرض پر زکوۃ سوال پیش ہوا کہ جور و پیہ کسی شخص نے کسی کو قرضہ دیا ہوا ہے کیا اس پر اس کو ز کوۃ دینی لازم ہے؟ فرمایا: دو نہیں.“ معلق مال پر زکوۃ واجب نہیں ( بدر 21 فروری 1907 صفحہ 5) ایک صاحب نے دریافت کیا کہ تجارت کا مال جو ہے جس میں بہت سا حصہ خریداروں کی طرف ہوتا ہے اور اگراہی میں پڑا ہوتا ہے اس پر زکوۃ ہے یا نہیں؟ فرمایا: جو مال معلق ہے اس پر زکوۃ نہیں جب تک کہ اپنے قبضہ میں نہ آجائے لیکن تاجر کو چاہیے کہ حیلے بہانے سے زکوۃ کو نہ ٹال دے.آخر اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اخراجات بھی تو اسی مال میں سے برداشت کرتا ہے.تقویٰ کے ساتھ اپنے مال موجودہ اور معلق پر ر نگاہ ڈالے اور مناسب زکوۃ دے کر خدا تعالیٰ کو خوش کرتا رہے.بعض لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی حیلے بہانے کرتے ہیں.یہ درست نہیں ہے.( بدر 11 جولائی 1907 ، صفحہ 5) سید کے لئے زکوة ؟ اس سوال کے جواب میں کہ کیا سید کے لئے زکوۃ جائز ہے فرمایا: اصل میں منع ہے اگر اضطراری حالت ہو فاقہ پر فاقہ ہوتو ایسی مجبوری کی حالت میں
فقه المسيح 223 زكوة جائز ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِلَّا مَا اضْطُرِ رُ تُم إِلَيْهِ حدیث سے فتویٰ تو یہ ہے کہ نہ دینی چاہئے.اگر سید کو اور قسم کا رزق آتا ہو تو اسے زکوۃ لینے کی ضرورت ہی کیا ہے.ہاں اگر اضطراری حالت ہو تو اور بات ہے.(الحکم 24 راگست 1907 ، صفحہ 5) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر چہ صدقہ اور زکوۃ سادات کے لئے منع ہے.مگر اس زمانہ میں جب ان کے گزارہ کا کوئی انتظام نہیں ہے.تو اس حالت میں اگر کوئی سید بھوکا مرتا ہو اور کوئی اور صورت انتظام کی نہ ہو تو بے شک اُسے زکوۃ یا صدقہ میں سے دے دیا جائے.ایسے حالات میں ہرج نہیں ہے.) سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 718) زکوۃ کے روپے سے حضرت مسیح موعود کی کتب خرید کر تقسیم کرنا فرمایا: اگر میری جماعت میں ایسے احباب ہوں جوان پر بوجه املاک و اموال و زیورات وغیرہ کے زکوۃ فرض ہو تو ان کو سمجھنا چاہئے کہ اس وقت دین اسلام جیسا غریب اور یتیم اور بے کس کوئی بھی نہیں اور زکوۃ نہ دینے میں جس قدر تہدید شرع وارد ہے وہ بھی ظاہر ہے اور عنقریب ہے جو منکر زکوۃ کافر ہو جائے پس فرض عین ہے جو اسی راہ میں اعانت اسلام میں زکوۃ دی جاوے.زکوۃ میں کتابیں خریدی جائیں اور مفت تقسیم نشان آسمانی.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 409) کی جائیں.صاحب توفیق کے لئے زکوۃ جائز نہیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ جیسے زکوۃ یا صدقہ سادات کے لئے
فقه المسيح 224 منع ہے ویسا ہی صاحب تو فیق کے لئے بھی اس کا لینا جائز نہیں ہے.زكوة خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ سُنا ہوا ہے کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ آج کل سخت اضطرار کی حالت میں جبکہ کوئی اور صورت نہ ہو.ایک سید بھی زکوۃ لے سکتا ہے.زکوۃ مرکز میں بھیجی جائے دو (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 566) چاہئیے کہ زکوۃ دینے والا اسی جگہ اپنی زکوۃ بھیجے.“ مکان اور جواہرات پر زکوۃ نہیں کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 83) خط سے سوال پیش ہوا کہ مکان میں میرا پانچ سو روپے کا حصہ ہے اس حصہ میں مجھ پر زکوۃ ہے یا نہیں؟ فرمایا: جواہرات و مکانات پر کوئی زکوۃ نہیں.“ ا حکم 24 فروری 1907 ، صفحہ 13 ) اخبار بدر میں اسی سوال کا جواب کسی قدر تفصیل سے درج ہے.چنانچہ اخبار نے لکھا کہ ایک شخص کے سوال کے جواب میں فرمایا: مکان خواہ کتنے ہزار روپے کا ہو، اس پر زکوۃ نہیں.اگر کرایہ پر چلتا ہو تو آمد پر زکوۃ ہے.ایسا ہی تجارتی مال پر جو مکان میں رکھا ہے زکوۃ نہیں.حضرت عمرؓ چھ ماہ کے بعد حساب کرلیا کرتے تھے اور روپیہ پر زکوۃ لگائی جاتی تھی.صدقہ کا گوشت صرف غرباء کا حق ہے ( بدر 14 فروری 1907 ، صفحہ 8) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ اہلیہ صاحبہ عبد العزیز صاحب
فقه المسيح 225 زكوة سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں یہاں قادیان میں بیمار ہوگئی اور دو جانور صدقہ کئے اور حضور کی خدمت میں عرض کی کہ کیا صدقہ کا گوشت لنگر خانہ میں بھیجا جاوے.حضور نے فرمایا کہ یہ غرباء کا حق ہے.غرباء کو تقسیم کیا جاوے.چنانچہ فرہا، کوتقسیم کیا گیا.سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 191) صدقہ کی جنس خود ہی خرید لینا جائز ہے ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ میں مرغیاں رکھتا ہوں اور ان کا دسواں حصہ خدا تعالیٰ کے نام پر دیتا ہوں اور گھر سے روزانہ تھوڑا تھوڑا آٹا صدقہ کے واسطے الگ کیا جاتا ہے کیا یہ جائز ہے کہ وہ چوزے اور وہ آٹا خود ہی خرید کر لوں اور اس کی قیمت مد متعلقہ میں بھیج دوں؟ فرمایا: ایسا کرنا جائز ہے.“ نوٹ : لیکن اس میں یہ خیال کر لینا چاہئے کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں.اگر کوئی شخص ایسی اشیاء کو اس واسطے خود ہی خرید کرے گا کہ چونکہ خرید وفروخت ہر دو اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں.جیسی تھوڑی قیمت سے چاہے خرید لے.تو یہ اس کے واسطے گناہ ہوگا.( بدر 24 اکتوبر 1907 صفحہ 3) حضرت مسیح موعود کا اپنی اولاد کے لئے صدقہ ناجائز قرار دینا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے صدقہ ناجائز خیال فرماتے تھے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 619)
فقه المسيح حج کی تاکید فرمایا: 226 حج حج اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو ، ہر ایک جو ز کوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے.“ ارکان حج کی حکمتیں کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15 ) اسلام کے احکام کے بارہ میں مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:.مضمون پڑھنے والے نے اس اعتراض کے ساتھ یہ اعتراض بھی جڑ دیا ہے کہ مسلمانوں کے اعتقاد میں حجر اسود ایک ایسا پتھر ہے جو آسمان سے گرا تھا معلوم نہیں کہ اس اعتراض سے اُس کو کیا فائدہ ہے.استعارہ کے رنگ میں بعض یہ روایتیں ہیں کہ وہ بہشتی پتھر ہے مگر قرآن شریف سے ثابت ہے کہ بہشت میں کوئی پتھر نہیں ہے بہشت ایسا مقام ہے کہ اس کی کوئی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی اور اس دنیا کی کوئی چیز بھی بہشت میں نہیں ہے بلکہ بہشتی نعمتیں ایسی نعمتیں ہیں کہ جو نہ کبھی آنکھوں نے دیکھیں اور نہ کانوں نے سنیں اور نہ دل میں گذریں اور خانہ کعبہ کا پتھر یعنی حجر اسود ایک روحانی امر کے لئے نمونہ قائم کیا گیا ہے ( یہ حاشیہ.خدا تعالیٰ نے شریعت اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو.پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ (الحج : 38) یعنی خدا کو ☆
فقه المسيح 227 حج تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے یعنی اس سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جاؤ اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو.اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جاؤ.جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے.منه ) اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو نہ خانہ کعبہ بناتا اور نہ اس میں حجر اسود رکھتا لیکن چونکہ اس کی عادت ہے کہ روحانی امور کے مقابل پر جسمانی امور بھی نمونہ کے طور پر پیدا کر دیتا ہے تاوہ روحانی امور پر دلالت کریں اسی عادت کے موافق خانہ کعبہ کی بنیاد ڈالی گئی.اصل بات یہ ہے کہ انسان عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور عبادت دو قسم کی ہے.(1) ایک تذلیل اور انکسار (2) دوسری محبت اور ایثار.تذلل اور انکسار کے لئے اُس نماز کا حکم ہوا جو جسمانی رنگ میں انسان کے ہر ایک عضو کوخشوع اور خضوع کی حالت میں ڈالتی ہے یہاں تک کہ دلی سجدہ کے مقابل پر اس نماز میں جسم کا بھی سجدہ رکھا گیا تا جسم اور روح دونوں اس عبادت میں شامل ہوں اور واضح ہو کہ جسم کا سجدہ بریکار اور لغو نہیں اول تو یہ امر مسلّم ہے کہ خدا جیسا کہ روح کا پیدا کرنے والا ہے ایسا ہی وہ جسم کا بھی پیدا کرنے والا ہے اور دونوں پر اُس کا حق خالقیت ہے ماسوا اس کے جسم اور روح ایک دوسرے کی تاخیر قبول کرتے ہیں بعض وقت جسم کا سجدہ روح کے سجدہ کا محرک ہو جاتا ہے اور بعض وقت روح کا سجدہ جسم میں سجدہ کی حالت پیدا کر دیتا ہے کیونکہ جسم اور روح دونوں باہم مرا یا متقابلہ کی طرح ہیں.مثلاً ایک شخص جب محض تکلف سے اپنے جسم میں ہنے کی صورت بناتا ہے تو بسا اوقات وہ کچی بنسی بھی آجاتی ہے کہ جو روح کے انبساط سے متعلق ہے ایسا ہی جب ایک شخص تکلف سے اپنے جسم میں یعنی آنکھوں میں ایک رونے کی صورت بناتا ہے تو بسا اوقات حقیقت میں رونا ہی آجاتا ہے جو روح کی درد اور رقت سے متعلق ہے.پس جبکہ یہ ثابت ہو چکا کہ عبادت کی اس قسم میں جو تذلل اور انکسار ہے جسمانی افعال کا روح پر اثر پڑتا ہے اور روحانی افعال کا جسم پر اثر پڑتا ہے.پس ایسا ہی عبادت کی دوسری قسم میں بھی جو محبت اور ایثار ہے انہیں تاثیرات کا جسم اور روح میں عوض معاوضہ ہے.محبت کے عالم میں انسانی روح ہر وقت اپنے محبوب کے گرد گھومتی ہے اور اس کے
فقه المسيح 228 حج آستانہ کو بوسہ دیتی ہے.ایسا ہی خانہ کعبہ جسمانی طور پر محبان صادق کے لئے ایک نمونہ دیا گیا ہے اور خدا نے فرمایا کہ دیکھو یہ میرا گھر ہے اور یہ حجر اسود میرے آستانہ کا پتھر ہے ( حاشیہ:.خدا کا آستانہ مصدر فیوض ہے یعنی اسی کے آستانہ سے ہر یک فیض ملتا ہے پس اسی کے لئے معبرین لکھتے ہیں کہ اگر کوئی خواب میں حجر اسود کو بوسہ دے تو علوم روحانیہ اس کو حاصل ہوتے ہیں کیونکہ حجر اسود سے مراد منبع علم و فیض ہے.منہ) اور ایسا حکم اس لئے دیا کہ تا انسان جسمانی طور پر اپنے ولولہ عشق اور محبت کو ظاہر کرے سو حج کرنے والے حج کے مقام میں جسمانی طور پر اُس گھر کے گرد گھومتے ہیں ایسی صورتیں بنا کر کہ گویا خدا کی محبت میں دیوانہ اور مست ہیں.زینت دُور کر دیتے ہیں سرمنڈوا دیتے ہیں اور مجذوبوں کی شکل بنا کر اس کے گھر کے گرد عاشقانہ طواف کرتے ہیں اور اس پتھر کو خدا کے آستانہ کا پتھر تصور کر کے بوسہ دیتے ہیں اور یہ جسمانی ولولہ روحانی تپش اور محبت کو پیدا کر دیتا ہے اور جسم اس گھر کے گرد طواف کرتا ہے اور سنگ آستانہ کو چومتا ہے اور رُوح اُس وقت محبوب حقیقی کے گرد طواف کرتی ہے اور اس کے رُوحانی آستانہ کو چومتی ہے اور اس طریق میں کوئی شرک نہیں ایک دوست ایک دوست جانی کا خط پا کر بھی اُس کو چومتا ہے کوئی مسلمان خانہ کعبہ کی پرستش نہیں کرتا اور نہ حجر اسود سے مرادیں مانگتا ہے بلکہ صرف خدا کا قرار دادہ ایک جسمانی نمونہ سمجھا جاتا ہے وبس.جس طرح ہم زمین پر سجدہ کرتے ہیں مگر وہ سجدہ زمین کے لئے نہیں ایسا ہی ہم حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں مگر وہ بوسہ اس پتھر کے لئے نہیں پتھر تو پتھر ہے جو نہ کسی کو نفع دے سکتا ہے نہ نقصان.مگر اُس محبوب کے ہاتھ کا ہے جس نے اُس کو اپنے آستانہ کا نمونہ ٹھہرایا.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 99 تا 101 ) حج کی شرائط اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام دیئے ہیں.بعض اُن میں سے ایسے ہیں کہ اُن کی بجا آوری ہر ایک کو میسر نہیں ہے، مثلاً حج.یہ اُس آدمی پر فرض ہے جسے استطاعت ہو، پھر راستہ
فقه المسيح 229 حج میں امن ہو، پیچھے جو متعلقین ہیں اُن کے گزارہ کا بھی معقول انتظام ہو اور اس قسم کی ضروری شرائط پوری ہوں تو حج کر سکتا ہے.حضرت مسیح موعود کے حج نہ کرنے کی وجوہات (الحکم 31 جولائی 1902 ، صفحہ 6) مخالفوں کے اس اعتراض پر کہ حضرت مرزا صاحب کیوں حج نہیں کرتے.فرمایا: کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ جو خدمت خدا تعالیٰ نے اول رکھی ہے اس کو پس انداز کر کے دوسرا کام شروع کر دیوے.یہ یا درکھنا چاہیے کہ عام لوگوں کی خدمات کی طرح ملہمین کی عادت کام کرنے کی نہیں ہوتی وہ خدا کی ہدایت اور رہنمائی سے ہر ایک امر کو بجالاتے ہیں اگر چہ شرعی تمام احکام پر عمل کرتے ہیں مگر ہر ایک حکم کی تقدیم و تاخیر ، الہی ارادہ سے کرتے ہیں.اب اگر ہم حج کو چلے جاویں تو گویا اس خدا کے حکم کی مخالفت کر نیوالے ٹھہریں گے اور مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا (ال عمران : 98) کے بارے میں کتاب بج الکرامہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو حج ساقط ہے حالانکہ اب جولوگ جاتے ہیں ان کی کئی نمازیں فوت ہوتی ہیں.مامورین کا اول فرض تبلیغ ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال مکہ میں رہے آپ نے کتنی دفعہ حج کئے تھے ؟ ایک دفعہ بھی نہیں کیا تھا.البدر 8 مئی 1903 صفحہ 122) ایک شخص نے عرض کی کہ مخالف مولوی اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب حج کو کیوں نہیں جاتے؟ فرمایا: یہ لوگ شرارت کے ساتھ ایسا اعتراض کرتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دس سال مدینہ میں رہے.صرف دو دن کا راستہ مدینہ اور مکہ میں تھا مگر آپ نے دس سال میں کوئی حج نہ کیا.حالانکہ آپ سواری وغیرہ کا انتظام کر سکتے تھے.لیکن حج کے واسطے صرف یہی شرط نہیں کہ انسان کے پاس کافی مال ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قسم کے فتنہ کا خوف نہ ہو.وہاں تک پہنچنے اور امن کے ساتھ حج ادا کرنے کے وسائل موجود ہوں.جب وحشی طبع علماء اس جگہ
فقه المسيح 230 حج ہم پر قتل کا فتویٰ لگا رہے ہیں اور گورنمنٹ کا بھی خوف نہیں کرتے تو وہاں یہ لوگ کیا نہ کریں گے.لیکن ان لوگوں کو اس امر سے کیا غرض ہے کہ ہم حج نہیں کرتے.کیا اگر ہم حج کریں گے تو وہ ہم کو مسلمان سمجھ لیں گے ؟ اور ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے؟ اچھا یہ تمام مسلمان علماءاول ایک اقرار نامہ لکھ دیں کہ اگر ہم حج کر آویں تو وہ سب کے سب ہمارے ہاتھ پر تو بہ کر کے ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے اور ہمارے مرید ہو جائیں گے.اگر وہ ایسا لکھ دیں اور اقرار حلفی کریں تو ہم حج کر آتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے واسطے اسباب آسانی کے پیدا کر دے گا تا کہ آئندہ مولویوں کا فتنہ رفع ہو.ناحق شرارت کے ساتھ اعتراض کرنا اچھا نہیں ہے.یہ اعتراض ان کا ہم پر نہیں پڑتا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پڑتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صرف آخری سال میں حج کیا تھا.( بدر 8 راگست 1907 ءصفحہ 8) مخالفین کے اس اعتراض پر کہ آپ نے باوجود مقدرت کے حج نہیں کیا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا اس اعتراض سے آپ کی شریعت دانی معلوم ہوگئی.گویا آپ کے نزدیک مانع حج صرف ایک ہی امر ہے کہ زاد راہ نہ ہو.آپ کو بوجہ اس کے کہ دنیا کی کشمکش میں عمر کو ضائع کیا اس قدر سہل اور آسان مسئلہ بھی جو قرآن اور احادیث اور فقہ کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے معلوم نہ ہوا کہ حج کا مانع صرف زاد راہ نہیں اور بہت سے امور ہیں جو عند اللہ حج نہ کرنے کے لئے عد صحیح ہیں.چنانچہ ان میں سے صحت کی حالت میں کچھ نقصان ہونا ہے اور نیز ان میں سے وہ صورت ہے کہ جب راہ میں یا خود مکہ میں امن کی صورت نہ ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا (ال عمران : 98) عجیب حالت ہے کہ ایک طرف بداندیش علما ء مکہ سے فتوی لاتے ہیں کہ یہ شخص کافر ہے اور پھر کہتے ہیں کہ حج کے لئے جاؤ اور خود جانتے ہیں کہ جب کہ مکہ والوں نے کفر کا فتویٰ دے دیا تو اب مکہ فتنہ سے خالی نہیں اور خدا فرماتا ہے کہ جہاں
فقه المسيح 231 حج فتنہ ہواُس جگہ جانے سے پر ہیز کرو.سو میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کیسا اعتراض ہے.ان لوگوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ فتنہ کے دنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی حج نہیں کیا اور حدیث اور قرآن سے ثابت ہے کہ فتنہ کے مقامات میں جانے سے پر ہیز کرو.یہ کس قسم کی شرارت ہے کہ مکہ والوں میں ہمارا کفر مشہور کرنا اور پھر بار بار حج کے بارے میں اعتراض کرنا.نَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُوْرِهِمْ.ذرہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے حج کی ان لوگوں کو کیوں فکر پڑگئی.کیا اس میں بجز اس بات کے کوئی اور بھید بھی ہے کہ میری نسبت ان کے دل میں یہ منصوبہ ہے کہ یہ مکہ کو جائیں اور پھر چند اشرار الناس پیچھے سے مکہ میں پہنچ جائیں اور شور قیامت ڈال دیں کہ یہ کافر ہے اسے قتل کرنا چاہیے.سو بر وقت ورود حکم الہی ان احتیاطوں کی پروا نہیں کی جائے گی مگر قبل اس کے شریعت کی پابندی لازم ہے اور مواضع فتن سے اپنے تئیں بچانا سنت انبیاء علیہم السلام ہے.مکہ میں عنانِ حکومت ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو ان مکفرین کے ہم مذہب ہیں.جب یہ لوگ ہمیں واجب القتل ٹھہراتے ہیں تو کیا وہ لوگ ایڈا سے کچھ فرق کریں گے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرة : 196) پس ہم گناہ گارہوں گے اگر دیدہ و دانستہ تہلکہ کی طرف قدم اٹھائیں گے اور حج کو جائیں گے اور خدا کے حکم کے برخلاف قدم اٹھانا معصیت ہے حج کرنا مشروط بشرائط ہے مگر فتنہ اور تہلکہ سے بچنے کے لئے قطعی حکم ہے جس کے ساتھ کوئی شرط نہیں.اب خودسوچ لو کہ کیا ہم قرآن کے قطعی حکم کی پیروی کریں یا اس حکم کی جس کی شرط موجود ہے.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 416،415) حج کے راستے میں پیش آنے والی مشکلات سے نہ گھبراؤ اخبار الحکم کے ایڈیٹر صاحب تحریر کرتے ہیں کہ شیخ فضل کریم صاحب جنہوں نے اسی سال حج کعبتہ اللہ کا شرف حاصل کیا ہے چند روز سے دارالامان میں تشریف رکھتے ہیں.قبل ظہر حضرت اقدس سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے اس سال کے نا قابل برداشت تکالیف کا
فقه المسيح 232 حج جو حجاج کو برداشت کرنی پڑیں سارا حال بیان کیا.انہوں نے بیان کیا کہ انگلش حدود سے نکل کر ٹرکش حدود میں داخل ہوتے ہی ایسی مشکلات کا سامنا ہوا کہ جن کی وجہ سے یقیناً کہا جاسکتا ہے کہ یہ مشکلات ایسی ہیں جن سے حج کے بالکل بند ہو جانے کا اندیشہ ہے خصوصاً اہل ہند کے واسطے.انہوں نے بیان کیا کہ ترکی حدود میں کورنٹائن کی نا قابل برداشت سختیاں وہاں کے ڈاکٹروں اور حاکموں کا سخت درجہ کا حریص اور طامع ہونا اور اپنے فائدے کے لئے ہزاروں جانوں کی ذرہ بھر پرواہ نہ کرنا لوگوں کا سامان خوراک پوشاک وغیرہ بھپارہ میں ضائع کر دینا یا نقدی کا ضائع جانا اور پھر جو چیز ایک مصری حاجی دس روپے میں حاصل کر سکتا ہے وہ ہندیوں کو میں روپے تک بھی بمشکل دینا.راستوں میں باوجود یکہ سلطان المعظم نے ہر دو میل پر کنواں تیار کروا رکھا ہے عمال اور کارکنوں کا بغیر دو چار آنے کے لئے پانی کا گلاس تک نہ دینا اور پھر راستہ میں باوجود چوکی پہروں کے انتظام کے جو کہ سلطان المعظم کی طرف سے کیا گیا ہے پرلے درجہ کی بدامنی کا ہونا یہانتک کہ انسان اگر راستے سے دو چار گز بھی ادھر ادھر ہو جاوے تو پھر وہ زندہ نہیں بچ سکتا اور پھر ہندیوں سے خصوصاً سخت برتاؤ ہونا ، بات بات پر پٹ جانا اور کوئی داد فریاد نہیں.بات بات پر کذاب، بطال اور الفاظ حقارت سے مخاطب کیا جانا وغیرہ وغیرہ ایسے سامان ہیں کہ بہت ہی مصیبت کا سا منا نظر آتا ہے.یہ سارا ماجرا سن کر حضرت اقدس نے فرمایا: ہم آپ کو ایک نصیحت کرتے ہیں.ایسا ہو کہ ان تمام امور تکالیف سے آپ کی قوت ایمانی میں کسی قسم کا فرق اور تزلزل نہ آوے.یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ابتلاء ہے.اس سے پاک عقائد پر اثر نہیں پڑنا چاہیے.ان باتوں سے اس متبرک مقام کی عظمت دلوں میں کم نہ ہونی چاہیے کیونکہ اس سے بدتر ایک زمانہ گذرا ہے کہ یہی مقدس مقام نجس مشرکوں کے قبضہ میں تھا اور انہوں نے اسے بت خانہ بنا رکھا تھا.بلکہ یہ تمام مشکلات اور مصائب خوش آئندہ زمانے
فقه المسيح 233 حج اور زندگی کے درجات ہیں.دیکھو آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے سے پہلے بھی زمانہ کی حالت کتنی خطرناک ہو گئی تھی اور کفر و شرک اور فساد اور نا پا کی حد سے بڑھ گئے تھے تو اس ظلمت کے بعد بھی ایک نور دنیا میں ظاہر ہوا تھا.اسی طرح اب بھی امید کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی ان مشکلات کے بعد کوئی بہتری کے سامان بھی پیدا کر دے گا اور خدا تعالیٰ کوئی سامان اصلاح پیدا کر دیگا بلکہ اسی متبرک اور مقدس مقام پر ایک اور بھی ایسا ہی خطرناک اور نازک وقت گذر چکا تھا جس کی طرف آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی تھی.اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ (الفیل : 2) غرض یہ اب تیسرا اواقعہ ہے.اس کی طرف بھی اللہ تعالیٰ ضرور توجہ کرے گا اور خدا کا توجہ کرنا تو پھر قہری رنگ میں ہی ہوگا.(الحکم 22 راپریل 1908 ، صفحہ 1 ) سیح موعود کی زیارت کو حج پر ترجیح دینا حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کے متعلق فرمایا : چونکہ وہ میری نسبت شناخت کر چکے تھے کہ یہی شخص مسیح موعود ہے.اس لئے میری صحبت میں رہنا اُن کو مقدم معلوم ہوا اور بموجب نص أطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ (النساء : 60) حج کا ارادہ انہوں نے کسی دوسرے سال پر ڈال دیا اور ہر ایک دل اس بات کو محسوس کر سکتا ہے کہ ایک حج کے ارادہ کرنے والے کے لئے اگر یہ بات پیش آ جائے کہ وہ اس مسیح موعود کو دیکھ لے جس کا تیرہ سو برس سے اہل اسلام میں انتظار ہے تو بموجب نص صریح قرآن اور احادیث کے وہ بغیر اس کی اجازت کے حج کو نہیں جا سکتا.ہاں باجازت اس کے کسی دوسرے وقت میں جاسکتا ہے.(تذکرة الشهادتين روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 49) مامور من اللہ کی صحبت کا ثواب نفلی حج سے زیادہ ہے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے بعض استفسارات کے جواب میں حضور نے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:
فقه المسيح 234 حج اگر آپ چالیس روز تک رو بحق ہو کر بشرائط مندرجہ نشان آسمانی استخارہ کریں تو میں آپ کے لئے دعا کروں گا.کیا خوب ہو کہ یہ استخارہ میرے روبرو ہوتا میری توجہ زیادہ ہو.آپ پر کچھ ہی مشکل نہیں لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں مگر اس جگہ نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطر کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 351، 352) وفات یافتہ کی طرف سے حج بدل خوشاب سے ایک مرحوم احمدی کے ورثاء نے حضرت کی خدمت میں خط لکھا کہ مرحوم کا ارادہ پختہ حج پر جانے کا تھا مگر موت نے مہلت نہ دی.کیا جائز ہے کہ اب اس کی طرف سے کوئی آدمی خرچ دے کر بھیج دیا جاوے؟ فرمایا: وو جائز ہے.اس سے متوفی کو ثواب حج کا حاصل ہو جائے گا.“ (بدر2 مئی 1907 ء صفحہ 2) حضرت مسیح موعود کی طرف سے بھی آپ کی وفات کے بعد حج بدل کروایا گیا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ آخری ایام میں حضرت مسیح موعود نے میرے سامنے حج کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا.چنانچہ میں نے آپ کی وفات کے بعد آپ کی طرف سے حج کروا دیا.( حضرت والدہ صاحبہ نے حافظ حمد اللہ صاحب مرحوم کو بھیج کر حضرت صاحب کی طرف سے حج بدل کروایا تھا) اور حافظ صاحب کے سارے اخراجات والدہ صاحبہ نے خود برداشت کئے تھے.حافظ صاحب پرانے صحابی تھے اور اب عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 45) ایک اور روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حافظ حمد اللہ خان صاحب حج بدل سے پہلے خود بھی حج کر چکے تھے.(سیرت حضرت اماں جان حصہ دوم از شیخ محمود احمد صاحب عرفانی صفحه 249)
فقه المسيح قربانی کی حکمت فرمایا: 235 قربانی کے مسائل قربانی کے مسائل خدا تعالیٰ نے شریعت اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو.پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلكِن يَنَالُهُ التَّقوى مِنْكُمُ (الحج:38) یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے.یعنی اس سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جاؤ اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو.اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جاؤ.جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے.دلوں کی پاکیزگی کچی قربانی ہے چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 99 حاشیہ) لَن تَنالُ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ (الحج:38) یعنی دلوں کی پاکیزگی کچی قربانی ہے گوشت اور خون بچی قربانی نہیں جس جگہ عام لوگ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں خاص لوگ دلوں کو ذبح کرتے ہیں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 424) قربانی میں دیگر مذاہب پر اسلام کی فضیلت عید الاضحیہ کا خطبہ دیتے ہوئے ( جو خطبہ الہامیہ کے نام سے معروف ہے)
فقه المسيح 236 قربانی کے مسائل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ( عربی عبارت سے ترجمہ ) میرا گمان ہے کہ یہ قربانیاں جو ہماری اس روشن شریعت میں ہوتی ہیں احاطہ شمار سے باہر ہیں.اور ان کو اُن قربانیوں پر سبقت ہے کہ جو نبیوں کی پہلی امتوں کے لوگ کیا کرتے تھے اور قربانیوں کی کثرت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ان کے خونوں سے زمین کا منہ چھپ گیا ہے.یہاں تک کہ اگر اُن کے خون جمع کئے جائیں اور اُن کے جاری کرنے کا ارادہ کیا جائے تو البتہ ان سے نہریں جاری ہو جا ئیں اور دریا بہہ نکلیں اور زمین کے تمام نشیبوں اور وادیوں میں خون رواں ہونے لگے.اور یہ کام ہمارے دین میں ان کاموں میں سے شمار کیا گیا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا موجب ہوتے ہیں.خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 32-33) قربانی صرف صاحب استطاعت پر واجب ہے ایک شخص کا خط حضور کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں نے تھوڑی سی رقم ایک قربانی میں حصہ کے طور پر ڈال دی تھی ، مگر اُن لوگوں نے مجھے احمدی ہونے کے سبب اس حصہ سے خارج کر دیا ہے.کیا میں وہ رقم قادیان کے مسکین فنڈ میں دے دوں تو میری قربانی ہو جائے گی؟ فرمایا: قربانی تو قربانی کرنے سے ہی ہوتی ہے.مسکین فنڈ میں روپے دینے سے نہیں ہوسکتی.اگر وہ رقم کافی ہے تو ایک بکرا قربانی کرو.اگر کم ہے اور زیادہ کی تم کو توفیق نہیں تو تم پر قربانی کا دینا فرض نہیں.غیر احمدیوں کے ساتھ مل کر قربانی کرنا ( بدر 14 فروری 1907 ، صفحه 8 ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا ہم غیر احمدیوں کے ساتھ مل کر یعنی تھوڑے تھوڑے روپے ڈال کر کوئی جانور مثلاً گائے ذبح کریں تو جائز ہے؟ فرمایا:
فقه المسيح 237 قربانی کے مسائل ایسی کیا ضرورت پڑ گئی ہے کہ تم غیروں کے ساتھ شامل ہوتے ہو.اگر تم پر قربانی فرض ہے تو بکر اذبح کر سکتے ہو اور اگر اتنی بھی توفیق نہیں تو تم پر قربانی فرض ہی نہیں.وہ غیر جو تم کو اپنے سے نکالتے ہیں اور کا فرقرار دیتے ہیں وہ تو پسند نہیں کرتے کہ تمہارے ساتھ شامل ہوں تو تمہیں کیا ضرورت ہے کہ اُن کے ساتھ شامل ہو.خدا پر توکل کرو.(بدر 14 فروری 1907 صفحہ 8) بکرے کی عمر کتنی ہو؟ سوال پیش ہوا ایک سال کا بکرا بھی قربانی کے لئے جائز ہے؟ فرمایا : مولوی صاحب سے پوچھ لو.اہلحدیث و حنفاء کا اس میں اختلاف ہے.نوٹ ایڈیٹر صاحب بدر : مولوی صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ دو سال سے کم کا بکرا قربانی کے لئے اہلحدیث کے نزدیک جائز نہیں.( بدر مورخہ 23 جنوری 1908 صفحہ 2 کیا نا قص جانور بھی قربانی کے لئے ذبح کیا جا سکتا ہے؟ ایک شخص نے حضرت سے دریافت کیا کہ اگر جانو ر مطابق علامات مذکورہ درحدیث نہ ملے تو کیا ناقص کو ذبح کر سکتے ہیں؟ فرمایا: مجبوری کے وقت تو جائز ہے مگر آج کل ایسی مجبوری کیا ہے.انسان تلاش کر سکتا ہے اور دن کافی ہوتے ہیں خواہ مخواہ حجت کرنا یا تساہل کرنا جائز نہیں.عید الاضحی کا روزہ ( بدر 23 جنوری 1908 صفحہ 2) عیدالاضحیہ کے دن قربانی کر کے اُس کا گوشت کھانے تک جو روز ہ رکھا جاتا ہے اس بارہ میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے فرمایا: مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھے لکھا ہے کہ جو روزہ اس عید کے موقع پر رکھا جاتا ہے وہ سنت نہیں، اس کا اعلان کر دیا جائے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق
فقه المسيح 238 قربانی کے مسائل ثابت ہے کہ آپ صحت کی حالت میں قربانی کر کے کھاتے تھے تاہم یہ کوئی ایسا روزہ نہیں کہ کوئی نہ رکھے تو گنہگار ہو جائے یہ کوئی فرض نہیں بلکہ نفلی روزہ ہے اور مستحب ہے جو رکھ سکتا ہو رکھے مگر جو بیمار، بوڑھا یا دوسرا بھی نہ رکھ سکے وہ مکلف نہیں اور نہ رکھنے سے گنہگار نہیں ہوگا مگر یہ بالکل بے حقیقت بھی نہیں جیسا کہ مولوی بقا پوری صاحب نے لکھا ہے میں نے صحت کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس پر عمل کرتے دیکھا ہے پھر مسلمانوں میں یہ کثرت سے رائج ہے اور یہ یونہی نہیں بنا لیا گیا بلکہ مستحب نفل ہے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعامل رہا اور جس پر عمل کرنے والا ثواب پاتا ہے مگر جو نہ کر سکے اسے گناہ نہیں.روزنامه الفضل 17 جنوری 1941 صفحہ 4) عقیقہ کس دن کرنا چاہیے؟ عقیقہ کی نسبت سوال ہوا کہ کس دن کرنا چاہیے؟ فرمایا:.ساتویں دن.اگر نہ ہو سکے تو پھر جب خدا توفیق دے.ایک روایت میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ چالیس سال کی عمر میں کیا تھا.ایسی روایات کو نیک ظن سے دیکھنا چاہیے جب تک قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے خلاف نہ ہوں.( بدر 13 فروری 1908 صفحہ 10) حضرت مسیح موعود کا ایک دوست کی طرف سے عقیقہ کرنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان میں تقریباً ایک ماہ تک ٹھہرا رہا.مولوی عبداللہ صاحب سنوری بھی وہاں تھے.مولوی صاحب نے میرے لئے جانے کی اجازت چاہی اور میں نے اُن کے لئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ابھی نہ جائیں.اس عرصہ میں مولوی صاحب کو ان کے گھر سے لڑکے کی ولادت کا خط آیا.جس پر مولوی صاحب نے عقیقہ کی غرض سے جانے کی اجازت چاہی.حضور نے فرمایا.اس غرض کے لئے جانا لازمی نہیں.
فقه المسيح 239 قربانی کے مسائل آپ ساتویں دن ہمیں یاد دلا دیں اور گھر خط لکھ دیں کہ ساتویں دن اس کے بال منڈوا دیں.چنانچہ ساتویں روز حضور نے دو بکرے منگوا کر ذبح کرا دیئے اور فرمایا گھر خط لکھ دو.عقیقہ کے واسطے کتنے بکرے مطلوب ہیں؟ (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 38) ایک صاحب کا حضرت اقدس کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ اگر کسی کے گھر میں لڑکا پیدا ہو تو کیا یہ جائز ہے کہ وہ عقیقہ پر صرف ایک بکرا ہی ذبح کرے؟ فرمایا: عقیقہ میں لڑکے کے واسطے دو بکرے ہی ضروری ہیں.لیکن یہ اس کے واسطے ہے جو صاحب مقدرت ہے.اگر کوئی شخص دو بکروں کے خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا اور ایک خرید سکتا ہے تو اس کے واسطے جائز ہے کہ ایک ہی ذبح کرے اور اگر ایسا ہی غریب ہو کہ وہ ایک بھی قربانی نہیں کر سکتا تو اس پر فرض نہیں کہ خواہ مخواہ قربانی کرے.مسکین کو معاف ہے.حقیقہ کی سنت دو بکرے ہی ہیں ( بدر 26 دسمبر 1907 ، صفحہ 2) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے تولد فرزند کے عقیقہ کے متعلق سوال کیا.فرمایا: لڑکے کے عقیقہ کے لئے دو بکرے قربان کرنے چاہئیں میں نے عرض کی کہ ایک بکرا بھی جائز ہے؟ حضور نے جواب نہ دیا.میرے دوبارہ سوال پر ہنس کر فرمایا: ”اس سے بہتر ہے کہ عقیقہ نہ ہی کیا جاوے.‘ ایک بکرا کے جواز کا فتویٰ نہ دیا.میری غرض یہ تھی کہ بعض کم حیثیت والے ایک بکرا قربانی کر کے بھی عقیقہ کر سکیں.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 155)
فقه المسيح 240 نکاح نکاح کی اغراض فرمایا: نکاح اسلام نے نکاح کرنے سے علت غائی ہی یہی رکھی ہے کہ تا انسان کو وجہ حلال سے نفسانی شہوات کا وہ علاج میسر آوے جو ابتدا سے خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں رکھا گیا ہے اور اس طرح اس کو عفت اور پر ہیز گاری حاصل ہو کر نا جائز اور حرام شہوت رانیوں سے بچا رہے کیا جس نے اپنی پاک کلام میں فرمایا کہ نِسَاؤُكُمْ حَرْتْ لَكُمُ (البقرة : 224) یعنی تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں اس کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ اس کی غرض صرف یہ تھی کہ تا لوگ شہوت رانی کریں اور کوئی مقصد نہ ہو کیا کھیتی سے صرف لہو ولعب ہی غرض ہوتی ہے یا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو بیج بویا گیا ہے اس کو کامل طور پر حاصل کر لیں.پھر میں کہتا ہوں کہ کیا جس نے اپنی مقدس کلام میں فرمایا مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ (النساء:45) یعنی تمہارے نکاح کا یہ مقصود ہونا چاہئے کہ تمہیں عفت اور پر ہیز گاری حاصل ہو اور شہوات کے بدنتائج سے بچ جاؤ.یہ نہیں مقصود ہونا چاہئے کہ تم حیوانات کی طرح بغیر کسی پاک غرض کے شہوت کے بندے ہو کر اس کام میں مشغول ہو کیا اس حکیم خدا کی نسبت یہ خیال کر سکتے ہیں کہ اس نے اپنی تعلیم میں مسلمانوں کو صرف شہوت پرست بنانا چاہا اور یہ باتیں فقط قرآن شریف میں نہیں بلکہ ہماری معتبر حدیث کی دو کتابیں بخاری اور مسلم میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی روایت ہے اور اعادہ کی حاجت نہیں ہم اسی رسالہ میں لکھ چکے ہیں قرآن کریم تو اسی غرض سے نازل ہوا کہ تا ان کو جو بندہ شہوت تھے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع دلا دے اور ہر یک بے اعتدالی کو دور کرے.آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 44)
فقه المسيح 241 نکاح عورتوں کو کھیتی کہنے کی حکمت فرمایا:.قرآن شریف میں...یہ آیت ہے.نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شتم (البقرة:224) یعنی تمہاری عورتیں تمہاری اولاد پیدا ہونے کے لئے ایک کھیتی ہیں.پس تم اپنی کھیتی کی طرف جس طور سے چاہو آؤ.صرف کھیتی ہونے کا لحاظ رکھو یعنی اس طور سے صحبت نہ کرو جو اولاد کی مانع ہو.بعض آدمی اسلام کے اوائل زمانہ میں صحبت کے وقت انزال کرنے سے پر ہیز کرتے تھے اور باہر انزال کر دیتے تھے.اس آیت میں خدا نے اُن کو منع فرمایا اور عورتوں کا نام کھیتی رکھا یعنی ایسی زمین جس میں ہر قسم کا اناج اُگتا ہے پس اس آیت میں ظاہر فرمایا کہ چونکہ عورت در حقیقت کھیتی کی مانند ہے جس سے اناج کی طرح اولاد پیدا ہوتی ہے سو یہ جائز نہیں کہ اُس کھیتی کو اولاد پیدا ہونے سے روکا جاوے.ہاں اگر عورت بیمار ہو اور یقین ہو کہ حمل ہونے سے اُس کی موت کا خطرہ ہوگا ایسا ہی صحت نیت سے کوئی اور مانع ہو تو یہ صورتیں مستقلی ہیں ورنہ عند الشرع ہرگز جائز نہیں کہ اولاد ہونے سے روکا جائے.غرض جب کہ خدا تعالیٰ نے عورت کا نام کھیتی رکھا تو ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اسی واسطے اُس کا نام کھیتی رکھا کہ اولاد پیدا ہونے کی جگہ اُس کو قرار دیا اور نکاح کے اغراض میں سے ایک یہ بھی غرض رکھی کہ تا اس نکاح سے خدا کے بندے پیدا ہوں جو اُس کو یاد کر یں.دوسری غرض اللہ تعالیٰ نے یہ بھی قرار دی ہے کہ تا مرد اپنی بیوی کے ذریعہ اور بیوی اپنے خاوند کے ذریعہ سے بدنظری اور بدعملی سے محفوظ رہے.تیسری غرض یہ بھی قرار دی ہے کہ تا باہم انس ہو کر تنہائی کے رنج سے محفوظ رہیں.یہ سب آیتیں قرآن شریف میں موجود ہیں ہم کہاں تک کتاب کو طول دیتے جائیں.(چشمہ معرفت.روحانی خزئن جلد 23 صفحہ 292 ، 293)
فقه المسيح 242 نکاح منگنی نکاح کے قائم مقام نہیں سوال:.ہمارے ملک کا رواج ہے کہ جب با قاعدہ منگنی ہو جائے اور لڑکی کو زیور اور کپڑے پہنا دیئے جائیں تو وہ نکاح کا قائم مقام بھی جاتی ہے اس واسطے اس لڑکی کا کسی اور جگہ نکاح نہیں ہوسکتا؟ جواب :.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے فرمایا: یہ کوئی دعوی نہیں.نہ منگنی کوئی شرعی بات ہے جب والدین راضی اور لڑکی راضی ہے تو کسی تیسرے شخص کو بولنے کا حق نہیں.(رجسر ہدایات حضرت خلیفہ اسیح الثانی 1954-6-26) ایک مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر لڑکی چاہتی ہے کہ اس کا نکاح تو ڑ دیا جاوے تو...اس قدر جھگڑے کی کوئی وجہ نہ تھی.ابھی دونوں آپس میں ملے نہ تھے.اس وقت اگر باہمی تنازع پیدا ہو گیا تھا تو ان کو خوشی سے اس نکاح کو توڑ دینا چاہئے تھا کیونکہ ایسا نکاح در حقیقت ایک رنگ منگنی کا رکھتا ہے اور یہی فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مجھے زبانی پہنچا ہے.فرمودات مصلح موعود درباره فقہی مسائل صفحه 192،191) نکاح میں لڑکی کی رضامندی ضروری ہے ایک لڑکی کے دو بھائی تھے اور ایک والدہ.ایک بھائی اور والدہ ایک لڑکے کے ساتھ اس لڑکی کے نکاح کے لئے راضی تھے مگر ایک بھائی مخالف تھا.وہ اور جگہ رشتہ پسند کرتا تھا اور لڑکی بھی بالغ تھی.اس کی نسبت مسئلہ دریافت کیا گیا کہ اس لڑکی کا نکاح کہاں کیا جاوے.حضرت اقدس علیہ السلام نے دریافت کیا کہ وہ لڑکی کس بھائی کی رائے سے اتفاق کرتی ہے؟ جواب دیا گیا کہ اپنے اس بھائی کے ساتھ جس کے ساتھ والدہ بھی متفق ہے.فرمایا: پھر وہاں ہی اس کا رشتہ ہو جہاں لڑکی اور اس کا بھائی دونوں متفق ہیں.(الحکم 10 جولائی 1903 ، صفحہ 1 )
فقه المسيح 243 نکاح احمدی لڑکی کا غیر احمدی سے نکاح جائز نہیں سوال پیش ہوا کہ ایک احمدی لڑکی ہے جس کے والدین غیر احمدی ہیں.والدین اس کی غیر احمدی کے ساتھ شادی کرنا چاہتے تھے اور لڑکی ایک احمدی کے ساتھ کرنا چاہتی تھی.والدین نے اصرار کیا، عمر اس کی اسی اختلاف میں بائیس سال تک پہنچ گئی.لڑکی نے تنگ آکر والدین کی اجازت کے بغیر ایک احمدی سے نکاح کر لیا.نکاح جائز ہوا یا نہیں؟ فرمایا: 66 نکاح جائز ہو گیا.“ غیر احمدی کو لڑکی دینے میں گناہ ہے فرمایا: ( بدر 31 اکتوبر 1907 ء صفحه 7) غیر احمدیوں کی لڑکی لے لینے میں حرج نہیں ہے کیونکہ اہل کتاب عورتوں سے بھی تو نکاح جائز ہے بلکہ اس میں تو فائدہ ہے کہ ایک اور انسان ہدایت پاتا ہے.اپنی لڑکی کسی غیر احمدی کو نہ دینی چاہیے.اگر ملے تو لے بیشک لو.لینے میں حرج نہیں اور دینے میں گناہ ہے.مخالفوں کو لڑکی ہر گز نہ دو (الحکم 14 / اپریل 1908 صفحہ 2) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں فضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دار الفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرا بیٹا عبدالغفورا بھی چھوٹا ہی تھا کہ اس کی نانی اپنی پوتی کا رشتہ اس کو دینے کے لئے مجھے زور دے رہی تھی اور میں منظور نہیں کرتا تھا.چنانچہ ایک دن موقعہ پا کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ حضور میں اپنی پوتی کا رشتہ اپنے نواسہ کو دیتی ہوں اور یہ میرا بیٹا پسند نہیں کرتا.حضور نے مجھے بلایا اور کہا کہ یہ رشتہ تم کیوں نہیں لیتے ؟“ میں نے عرض کی کہ حضور! یہ لوگ مخالف ہیں اور سخت گوئی
فقه المسيح 244 نکاح کرتے ہیں اس واسطے میں انکار کرتا ہوں.حضور نے فرمایا کہ ” مخالفوں کی لڑکی لے لو اور مخالفوں کو دو نہیں، یعنی مخالفوں کی لڑکی لے لو اور مخالفوں کو دینی نہیں چاہیے.رشتہ کے لئے لڑکیوں کا دکھانا (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 170 ، 171) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ مدت کی بات ہے کہ جب میاں ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی پہلی بیوی فوت ہوگئی اور اُن کو دوسری کی تلاش ہوئی تو ایک دفعہ حضرت صاحب نے اُن سے کہا کہ ہمارے گھر میں دولڑ کیاں رہتی ہیں.ان کو میں لاتا ہوں ، آپ اُن کو دیکھ لیں.پھر اُن میں سے جو آپ کو پسند ہو اس سے آپ کی شادی کر دی جاوے.چنانچہ حضرت صاحب گئے اور ان دولڑکیوں کو بلا کر کمرہ کے باہر کھڑا کر دیا.اور پھر اندر آ کر کہا کہ وہ باہر کھڑی ہیں.آپ چک کے اندر سے دیکھ لیں.چنانچہ میاں ظفر احمد صاحب نے اُن کو دیکھ لیا اور پھر حضرت صاحب نے اُن کو رخصت کر دیا اور اس کے بعد میاں ظفر احمد صاحب سے پوچھنے لگے کہ اب بتاؤ تمہیں کون سی لڑکی پسند ہے.وہ نام تو کسی کا جانتے نہ تھے اس لئے انہوں نے کہا کہ جس کا منہ لمبا ہے وہ اچھی ہے.اس کے بعد حضرت صاحب نے میری رائے لی.میں نے عرض کیا کہ حضور میں نے تو نہیں دیکھا.پھر آپ خود فرمانے لگے کہ ہمارے خیال میں تو دوسری لڑکی بہتر ہے جس کا منہ گول ہے.پھر فرمایا جس شخص کا چہرہ لمبا ہوتا ہے وہ بیماری وغیرہ کے بعد عموما بدنما ہو جاتا ہے مگر گول چہرہ کی خوبصورتی قائم رہتی ہے.میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ اس وقت حضرت صاحب اور میاں ظفر احمد صاحب اور میرے سوا اور کوئی شخص وہاں نہ تھا.اور نیز یہ کہ حضرت صاحب ان لڑکیوں کو کسی احسن طریق سے وہاں لائے تھے.اور پھر ان کو مناسب طریق پر رخصت کر دیا تھا جس سے ان کو
فقه المسيح 245 نکاح کچھ معلوم نہیں ہوا.مگر ان میں سے کسی کے ساتھ میاں ظفر احمد صاحب کا رشتہ نہیں ہوا.یہ مدت کی بات ہے.ہم کفورشتہ بہتر ہے لیکن لازمی نہیں سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 241،240) ایک دوست کا سوال پیش ہوا کہ ایک احمدی اپنی ایک لڑکی غیر کفو کے ایک احمدی کے ہاں دینا چاہتا ہے حالانکہ اپنی کفو میں رشتہ موجود ہے.اس کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: اگر حسب مرا درشتہ ملے تو اپنی کفو میں کرنا بہ نسبت غیر کفو کے بہتر ہے لیکن یہ امرایسا نہیں که بطور فرض کے ہو.ہر ایک شخص ایسے معاملات میں اپنی مصلحت اور اپنی اولاد کی بہتری کو خوب سمجھ سکتا ہے.اگر کفو میں وہ کسی کو اس لائق نہیں دیکھتا تو دوسری جگہ دینے میں حرج نہیں ور ایسے شخص کو مجبور کرنا کہ وہ بہر حال اپنی کفو میں اپنی لڑکی دیوے، جائز نہیں ہے.اور نکاح طبعی اور اضطراری تقاضا ہے پادری فتح مسیح کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ( بدر 11 اپریل 1907 صفحہ 3) آپ حضرت عائشہ صدیقہ کا نام لے کر اعتراض کرتے ہیں کہ جناب مقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن سے بدن لگانا اور زبان چوسنا خلاف شرع تھا.اب اس ناپاک نصب پر کہاں تک روویں.اے نادان! جو حلال اور جائز نکاح ہیں ان میں یہ سب باتیں جائز ہوتی ہیں.یہ اعتراض کیسا ہے.کیا تمہیں خبر نہیں کہ مردی اور رجولیت انسان کی صفات محمودہ میں سے ہے.ہیجڑا ہونا کوئی اچھی صفت نہیں ہے.جیسے بہرہ اور گونگا ہونا کسی خوبی میں داخل نہیں.ہاں ! یہ اعتراض بہت بڑا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام مردانہ صفات کی اعلیٰ ترین صفت سے بے نصیب محض ہونے کے باعث ازواج سے کچی اور کامل حسن معاشرت کا کوئی
فقه المسيح 246 نکاح عملی نمونہ نہ دے سکے.اس لئے یورپ کی عورتیں نہایت قابل شرم آزادی سے فائدہ اُٹھا کر اعتدال کے دائرہ سے ادھر اُدھر نکل گئیں اور آخر نا گفتنی فسق و فجور تک نوبت پہنچی.اے نادان ! فطرت انسانی اور اس کے بچے پاک جذبات سے اپنی بیویوں سے پیار کرنا اور حسن معاشرت کے ہر قسم جائز اسباب کو برتنا انسان کا طبعی اور اضطراری خاصہ ہے.اسلام کے بانی علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اُسے برتا اور اپنی جماعت کو نمونہ دیا.مسیح نے اپنے نقص تعلیم کی وجہ سے اپنے ملفوظات اور اعمال میں یہ کمی رکھ دی.مگر چونکہ طبعی تقاضا تھا اس لئے یورپ اور عیسویت نے خود اس کے لئے ضوابط نکالے.اب تم خود انصاف سے دیکھ لو کہ گندی سیاہ بدکاری اور ملک کا ملک رنڈیوں کا ناپاک چکلہ بن جانا ، ہائیڈ پارکوں میں ہزاروں ہزار کا روز روشن میں کتوں اور کتیوں کی طرح اوپر تلے ہونا اور آخر اس نا جائز آزادی سے تنگ آکر آہ وفغاں کرنا اور برسوں دیوشیوں اور سیاہ روئیوں کے مصائب جھیل کر اخیر میں مسودہ طلاق پاس کرانا، یہ کس بات کا نتیجہ ہے؟ کیا اس مقدس مطهر، مرگی، نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرت کے اس نمونہ کا جس پر خباثت باطنی کی تحریک سے آپ معترض ہیں، یہ نتیجہ ہے اور ممالک اسلامیہ میں یہ تعفن اور زہریلی ہوا پھیلی ہوئی ہے یا ایک سخت ناقص ، نالائق کتاب، پولوسی انجیل کی مخالف فطرت اور ادھوری تعلیم کا یہ اثر ہے؟ اب دوزانو ہو کر بیٹھو اور یوم الجزاء کی تصویر کھینچ کر غور کرو.نور القرآن روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 392، 393) کم عمری کی شادی جائز ہے پادری فتح مسیح کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.آپ نے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کر کے نو برس کی رسم شادی کا ذکر لکھا ہے.اول تو نو برس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ثابت نہیں اور نہ اس میں کوئی وحی ہوئی اور نہ اخبار متواترہ سے ثابت ہوا کہ ضرور نو برس ہی
فقه المسيح 247 نکاح.تھے.صرف ایک راوی سے منقول ہے.عرب کے لوگ تقویم پترے نہیں رکھا کرتے تھے کیونکہ اُمی تھے اور دو تین برس کی کمی بیشی ان کی حالت پر نظر کر کے ایک عام بات ہے.جیسے کہ ہمارے ملک میں بھی اکثر ناخواندہ لوگ دو چار برس کے فرق کو اچھی طرح محفوظ نہیں رکھ سکتے.پھر اگر فرض کے طور پر تسلیم بھی کر لیں.کہ فی الواقع دن دن کا حساب کر کے نو برس ہی تھے.لیکن پھر بھی کوئی عقلمند اعتراض نہیں کرے گا مگر احمق کا کوئی علاج نہیں ہم آپ کو اپنے رسالہ میں ثابت کر کے دکھا دیں گے کہ حال کے محقق ڈاکٹروں کا اس پر اتفاق ہو چکا ہے کہ نو برس تک بھی لڑکیاں بالغ ہو سکتی ہیں.بلکہ سات برس تک بھی اولاد ہوسکتی ہے اور بڑے بڑے مشاہدات سے ڈاکٹروں نے اس کو ثابت کیا ہے اور خود صد ہا لوگوں کی یہ بات چشم دید ہے کہ اسی ملک میں آٹھ آٹھ نو نو برس کی لڑکیوں کے یہاں اولاد موجود ہے مگر آپ پر تو کچھ بھی افسوس نہیں اور نہ کرنا چاہئے کیونکہ آپ صرف متعصب ہی نہیں بلکہ اول درجہ کے احمق بھی ہیں.آپ کو اب تک اتنی بھی خبر نہیں کہ گورنمنٹ کے قانون عوام کی درخواست کے موافق ان کی رسم اور سوسائٹی کی عام وضع کی بنا پر تیار ہوتے ہیں.ان میں فلاسفروں کی طرز پر تحقیقات نہیں ہوتی اور جو بار بار آپ گورنمنٹ انگریزی کا ذکر کرتے ہیں یہ بات بالکل سچ ہے کہ ہم گورنمنٹ انگریزی کے شکر گزار ہیں اور اس کے خیر خواہ ہیں اور جب تک زندہ ہیں رہیں گے مگر تا ہم ہم اس کو خطا سے معصوم نہیں سمجھتے اور نہ اس کے قوانین کو حکیمانہ تحقیقاتوں پر مبنی سمجھتے ہیں بلکہ قوانین بنانے کا اصول رعایا کی کثرت رائے ہے.گورنمنٹ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوتی تا وہ اپنے قوانین میں غلطی نہ کرے اگر ایسے ہی قوانین محفوظ ہوتے تو ہمیشہ نئے نئے قانون کیوں بنتے رہتے انگلستان میں لڑکیوں کے بلوغ کا زمانہ اٹھارہ برس قرار دیا ہے اور گرم ملکوں میں تو لڑکیاں بہت جلد بالغ ہو جاتی ہیں.آپ اگر گورنمنٹ کے قوانین کو کالوحى من السماء سمجھتے ہیں کہ ان میں امکان غلطی نہیں تو ہمیں بواپسی ڈاک اطلاع دیں تا انجیل اور قانون کا تھوڑ اسا مقابلہ
فقه المسيح 248 نکاح کر کے آپ کی کچھ خدمت کی جائے.غرض گورنمنٹ نے اب تک کوئی اشتہار نہیں دیا کہ ہمارے قوانین بھی تو ریت اور انجیل کی طرح خطا اور غلطی سے خالی ہیں اگر آپ کو کوئی اشتہار پہنچا ہو تو اس کی ایک نقل ہمیں بھی بھیج دیں پھر اگر گورنمنٹ کے قوانین خدا کی کتابوں کی طرح خطا سے خالی نہیں تو ان کا ذکر کرنا یا تو حمق کی وجہ سے ہے یا تعصب کے سبب سے مگر آپ معذور ہیں اگر گورنمنٹ کو اپنے قانون پر اعتماد تھا تو کیوں ان ڈاکٹروں کو سزا نہیں دی جنہوں نے حال میں یورپ میں بڑی تحقیقات سے نو برس بلکہ سات برس کو بھی بعض عورتوں کے بلوغ کا زمانہ قرار دے دیا ہے اور نو برس کی عمر کے متعلق آپ اعتراض کر کے پھر تو ریت یا انجیل کا کوئی حوالہ نہ دے سکے صرف گورنمنٹ کے قانون کا ذکر کیا اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا تو ریت اور انجیل پر ایمان نہیں رہا.ورنہ نو برس کی حرمت یا تو تو ریت سے ثابت کرتے یا انجیل سے ثابت کرنی چاہئے تھی.( نور القرآن.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 377 تا 379) حضرت عائشہ کی آنحضرت ﷺ کے ساتھ شادی پر اعتراض کا جواب ہندوؤں کے اس اعتراض کہ حضرت رسول خدا محمد صاحب کا اپنی بیوی حضرت عائشہ نوسالہ سے ہم بستر ہونا کیا اولاد پیدا کرنے کی نیت سے تھا، کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:.یہ اعتراض محض جہالت کی وجہ سے کیا گیا ہے.کاش اگر نا دان معترض پہلے کسی محقق ڈاکٹریا طبیب سے پوچھ لیتا تو اس اعتراض کرنے کے وقت بجز اس کے کسی اور نتیجہ کی توقع نہ رکھتا کہ ہر یک حقیقت شناس کی نظر میں نادان اور احمق ثابت ہوگا.ڈاکٹر مون صاحب جو علوم طبعی اور طبابت کے ماہر اور انگریزوں میں بہت مشہور محقق ہیں وہ لکھتے ہیں کہ گرم ملکوں میں عورتیں آٹھ یا نو برس کی عمر میں شادی کے لائق ہو جاتی ہیں.کتاب موجود ہے تم بھی اسی جگہ ہو اگر طلب حق ہے تو آ کر دیکھ لو اور حال میں ایک ڈاکٹر صاحب جنہوں نے کتاب معدن الحکمت تالیف کی
فقه المسيح 249 نکاح ہے.وہ اپنی کتاب تد بیر بقاء نسل میں بعینہ یہی قول لکھتے ہیں جو او پر نقل ہو چکا اور صفحہ 46 میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی تحقیقات سے یہ ثابت ہے کہ نو یا آٹھ یا پانچ یا چھ برس کی لڑکیوں کو حیض آیا.یہ کتاب بھی میرے پاس موجود ہے جو چاہے دیکھ لے.ان کتابوں میں کئی اور ڈاکٹروں کا نام لے کر حوالہ دیا گیا ہے اور چونکہ یہ تحقیقا تیں بہت مشہور ہیں اور کسی دانا پر مخفی نہیں اس لئے زیادہ لکھنے کی حاجت نہیں.اور حضرت عائشہ کا نو سالہ ہونا تو صرف بے سروپا اقوال میں آیا ہے.کسی حدیث یا قرآن سے ثابت نہیں لیکن ڈاکٹر واہ صاحب کا ایک چشم دید قصہ لینسٹ نمبر 15 مطبوعہ اپریل 1881ء میں اس طرح لکھا ہے کہ انہوں نے ایسی عورت کو جنایا جس کو ایک برس کی عمر سے حیض آنے لگا تھا اور آٹھویں برس حاملہ ہوئی اور آٹھ برس دس مہینہ کی عمر میں لڑکا پیدا ہوا.) آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 64،63) تعدد ازدواج میں عدل کے تقاضے ایک احمدی نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ تعد دازدواج میں جو عدل کا حکم ہے کیا اس سے یہی مراد ہے کہ مرد بحیثیت اَلرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ (النساء: 35) کے خود ایک حاکم عادل کی طرح جس بیوی کو سلوک کے قابل پاوے ویسا سلوک اس سے کرے یا کچھ اور معنی ہیں؟ حضرت اقدس نے فرمایا: محبت کو قطع نظر بالائے طاق رکھ کر عملی طور پر سب بیویوں کو برابر رکھنا چاہئے مثلاً پارچہ جات، خرچ خوراک ، معاشرت حتی کہ مباشرت میں بھی مساوات برتے.یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈ وار ہنا پسند کرے.خدا تعالیٰ کی تہدید کے نیچے رہ کر جو شخص زندگی بسر کرتا ہے وہی اُن کی بجا آوری کا دم بھر سکتا ہے.ایسے لذات کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے، تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے.تعدد ازدواج کی نسبت اگر ہم تعلیم دیتے ہیں تو
فقه المسيح 250 نکاح صرف اس لیے کہ معصیت میں پڑنے سے انسان بچا ر ہے اور شریعت نے اسے بطور علاج کے ہی رکھا ہے کہ اگر انسان اپنے نفس کا میلان اور غلبہ شہوات کی طرف دیکھے اور اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہو تو زنا سے بچنے کے لیے دوسری شادی کر لے لیکن پہلی بیوی کے حقوق تلف نہ کرے.تو رات سے بھی یہی ثابت ہے کہ اُس کی دلداری زیادہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ اُس نے اس کے ساتھ گذارا ہوا ہوتا ہے اور ایک گہرا تعلق خاوند کا اس کے ساتھ ہوتا ہے.پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہانتک کرنی چاہیے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو از دواج ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اُس کی دل شکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اُس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر اُن اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لیے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اُسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے.خدا کے قانون کو اس کی منشاء کے برخلاف ہرگز نہ برتنا چاہئے اور نہ اُس سے ایسا فائدہ اُٹھانا چاہئے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سپر بن جاوے.یادرکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہو بلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقویٰ ہو.اگر شریعت کو سپر بنا کر شہوات کی اتباع کے لئے بیویاں کی جاویں گی تو سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہوگا کہ دوسری قومیں اعتراض کریں کہ مسلمانوں کو بیویاں کرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں.زنا کا نام ہی گناہ نہیں بلکہ شہوات کا کھلے طور پر دل میں پڑ جانا گناہ ہے.دنیاوی تمتع کا حصہ انسانی زندگی میں بہت ہی کم ہونا چاہئے ، تاکہ فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَّ لَيَبْكُوا كَثِيرًا (التوبة: 82) یعنی ہنسو تھوڑا اور روڈ بہت کا مصداق بنو لیکن جس شخص کی دنیا وی تمتع کثرت سے ہیں اور وہ رات دن بیویوں میں مصروف ہے اُس کو رقت اور رونا کب نصیب ہوگا.اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک خیال کی تائید اور اتباع میں تمام سامان کرتے ہیں اور اس طرح سے
فقه المسيح 251 نکاح خدا تعالیٰ کے اصل منشاء سے دور جا پڑتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اگر چہ بعض اشیاء جائز تو کر دی ہیں مگر اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ عمر ہی اس میں بسر کی جاوے.خدا تعالیٰ تو اپنے بندوں کی صفت میں فرماتا ہے يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدً اوَّ قِيَامًا (الفرقان:65) کہ وہ اپنے رب کے لئے تمام تمام رات سجدہ اور قیام میں گزارتے ہیں.اب دیکھو رات دن بیویوں میں غرق رہنے والا خدا کے منشاء کے موافق رات کیسے عبادت میں کاٹ سکتا ہے.وہ بیویاں کیا کرتا ہے گویا خدا کے لئے شریک پیدا کرتا ہے.آنحضرت ﷺ کی نو بیویاں تھیں اور باوجود اُن کے پھر بھی آپ ساری ساری رات خدا کی عبادت میں گزارتے تھے.ایک رات آپ کی باری عائشہ صدیقہ کے پاس تھی ، کچھ حصہ رات کا گزر گیا تو عائشہ کی آنکھ کھلی.دیکھا کہ آپ موجود نہیں ، اُسے شبہ ہوا کہ شاید آپ کسی اور بیوی کے ہاں گئے ہوں گے.اُس نے اُٹھ کر ہر ایک کے گھر میں تلاش کیا مگر آپ نہ ملے.آخر دیکھا کہ آپ قبرستان میں ہیں اور سجدہ میں رور ہے ہیں.اب دیکھو کہ آپ زندہ اور چہیتی بیوی کو چھوڑ کر مردوں کی جگہ قبرستان میں گئے اور روتے رہے تو کیا آپ کی بیویاں حظ نفس یا اتباع شہوت کی بناء پر ہو سکتی ہیں؟ غرض کہ خوب یا درکھو کہ خدا کا اصل منشاء یہ ہے کہ تم پر شہوات غالب نہ آویں اور تقویٰ کی تکمیل کے لئے اگر ضرورت حقہ پیش آوے تو اور بیوی کرلو.(البدر 8 جولائی 1904 ءصفحہ 2) اسلام نے کثرت ازدواج کا راستہ روکا ہے کثرت ازدواج کے اعتراض میں ہماری طرف سے وہی معمولی جواب ہوگا کہ اسلام سے پہلے اکثر قوموں میں کثرت ازدواج کی سینکڑوں اور ہزاروں تک نوبت پہنچ گئی تھی اور اسلام نے تعد د ازدواج کو کم کیا ہے نہ زیادہ.بلکہ یہ قرآن میں ہی ایک فضیلت خاص ہے کہ اس نے ازدواج کی بے حد اور بے قیدی کو رد کر دیا ہے.(حجتہ الاسلام.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 47) تعد دازدواج کی ضرورت اور حکمت آریہ سماج والے تعدد ازدواج کو نظر نفرت سے دیکھتے ہیں مگر بلا شبہ وہ اس ضرورت کو
فقه المسيح 252 نکاح تسلیم کرتے ہیں جس کے لئے اکثر انسان تعدد ازدواج کے لئے مجبور ہوتا ہے.اور وہ یہ کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ اپنی نسل باقی رہنے کے لئے کوئی احسن طریق اختیار کرے اور لا ولد رہنے سے اپنے تئیں بچاوے اور یہ ظاہر ہے کہ بسا اوقات ایک بیوی سے اولاد نہیں ہوتی اور یا ہوتی ہے اور باعث لاحق ہونے کسی بیماری کے مر مر جاتی ہے اور یا لڑکیاں ہی پیدا ہوتی ہیں اور ایسی صورت میں مرد کو دوسری بیوی کی نکاح کے لئے ضرورت پیش آتی ہے.خاص کر ایسے مرد جن کی نسل کا مفقود ہونا قابل افسوس ہوتا ہے اور اُن کی ملکیت اور ریاست کو بہت حرج اور نقصان پہنچتا ہے.ایسا ہی اور بہت سے وجوہ تعدد نکاح کے لئے پیش آتے ہیں.......قرآن شریف میں انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے تعدد ازدواج کو روا رکھا ہے اور من جملہ ان ضرورتوں کے ایک یہ بھی ہے کہ تا بعض صورتوں میں تعد دا زدواج نسل قائم رہنے کا موجب ہو جائے کیونکہ جس طرح قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے اسی طرح نسل سے بھی تو میں بنتی ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کثرت نسل کے لئے نہایت عمدہ طریق تعد دازدواج ہے.پس وہ برکت جس کا دوسرے لفظوں میں نام کثرتِ نسل ہے اس کا بڑا بھاری ذریعہ تعدد ازدواج ہی ہے.....ہندوؤں کے وہ بزرگ جو اوتار کہلاتے تھے ان کا تعد دازدواج بھی ثابت ہے.چنانچہ کرشن جی کی ہزاروں بیویاں بیان کی جاتی ہیں اور اگر ہم اس بیان کو مبالغہ خیال کریں تو اس میں شک نہیں کہ دس ہیں تو ضرور ہوں گی.راجہ رام چندر کے باپ کی بھی دو بیویاں تھیں اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے وید میں کہیں تعدد ازدواج کی ممانعت نہیں پائی جاتی ورنہ یہ بزرگ لوگ ایسا کام کیوں کرتے جو وید کے برخلاف تھا.ایسا ہی باوانانک صاحب جو ہندو قوم میں ایک بڑے مقدس آدمی شمار کئے گئے ہیں ان کی بھی دو بیویاں تھیں.اس جگہ مخالفوں کی طرف سے یہ اعتراض ہوا کرتا ہے کہ تعدد ازدواج میں یہ ظلم ہے کہ
فقه المسيح 253 نکاح اعتدال نہیں رہتا.اعتدال اسی میں ہے کہ ایک مرد کے لئے ایک ہی بیوی ہومگر مجھے تعجب ہے کہ وہ دوسروں کے حالات میں کیوں خوانخواہ مداخلت کرتے ہیں جبکہ یہ مسئلہ اسلام میں شائع متعارف ہے کہ چار تک بیویاں کرنا جائز ہے.مگر جبر کسی پر نہیں اور ہر ایک مرد اور عورت کو اس مسئلہ کی بخوبی خبر ہے تو یہ ان عورتوں کا حق ہے کہ جب کسی مسلمان سے نکاح کرنا چاہیں تو اول شرط کرالیں کہ ان کا خاوند کسی حالت میں دوسری بیوی نہیں کرے گا اور اگر نکاح سے پہلے ایسی شرط لکھی جائے تو بے شک ایسی بیوی کا خاوند اگر دوسری بیوی کرے تو مجرم نقض عہد کا مرتکب ہوگا.لیکن اگر کوئی عورت ایسی شرط نہ لکھا وے اور حکم شرع پر راضی ہووے تو اس حالت میں دوسرے کا دخل دینا بے جا ہوگا اور اس جگہ یہ مثل صادق آئے گی کہ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی.ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ خدا نے تعدد از دواج فرض واجب نہیں کیا ہے.خدا کے حکم کی رو سے صرف جائز ہے.پس اگر کوئی مرد اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس جائز حکم سے فائدہ اُٹھانا چاہے جو خدا کے جاری کردہ قانون کی رو سے ہے اور اس کی پہلی بیوی اس پر راضی نہ ہو تو اس بیوی کے لئے یہ راہ کشادہ ہے کہ وہ طلاق لے لے اور اس غم سے نجات پاوے اور اگر دوسری عورت جس سے نکاح کرنے کا ارادہ ہے اس نکاح پر راضی نہ ہو تو اس کے لئے بھی یہ سہل طریق ہے کہ ایسی درخواست کرنے والے کو انکاری جواب دے دے.کسی پر جبر تو نہیں لیکن اگر وہ دونوں عورتیں اس نکاح پر راضی ہو جاویں اس صورت میں کسی آریہ کو خوانخواہ دخل دینے اور اعتراض کرنے کا کیا حق ہے.....یہ مسئلہ حقوق عباد کے متعلق ہے اور جو شخص دو بیویاں کرتا ہے اس میں خدا تعالیٰ کا حرج نہیں.اگر حرج ہے تو اس بیوی کا جو پہلی بیوی ہے یا دوسری بیوی کا.پس اگر پہلی بیوی اس نکاح میں اپنی حق تلفی سمجھتی ہے تو وہ طلاق لے کر اس جھگڑے سے خلاصی پاسکتی ہے اور اگر خاوند طلاق نہ دے تو بذریعہ حاکم وقت وہ ضلع کراسکتی ہے.اور اگر دوسری بیوی اپنا کچھ حرج سمجھتی ہے تو وہ اپنے نفع نقصان کو خود سمجھتی ہے.پس یہ
فقه المسيح 254 نکاح اعتراض کرنا کہ اس طور سے اعتدال ہاتھ سے جاتا ہے خوانخواہ کا دخل ہے اور بایں ہمہ خدا تعالیٰ نے مردوں کو وصیت فرمائی ہے کہ اگر ان کی چند بیویاں ہوں تو ان میں اعتدال رکھیں ورنہ ایک ہی بیوی پر قناعت کریں.اور یہ کہنا کہ تعدد ازدواج شہوت پرستی سے ہوتا ہے یہ بھی سراسر جاہلانہ اور متعصبانہ خیال ہے.ہم نے تو اپنی آنکھوں کے تجربہ سے دیکھا ہے کہ جن لوگوں پر شہوت پرستی غالب ہے اگر وہ تعد دازدواج کی مبارک رسم کے پابند ہو جائیں تب تو وہ فسق و فجور اور زنا کاری اور بدکاری سے رک جاتے ہیں اور یہ طریق ان کو متقی اور پر ہیز گار بنا دیتا ہے.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 244 تا 247) عرب میں صدہا بیویوں تک نکاح کر لیتے تھے اور پھر ان کے درمیان اعتدال بھی ضروری نہیں سمجھتے تھے ایک مصیبت میں عورتیں پڑی ہوئی تھیں جیسا کہ اس کا ذکر جان ڈیون پورٹ اور دوسرے بہت سے انگریزوں نے بھی لکھا ہے.قرآن کریم نے ان صد ہا.نکاحوں کے عدد کو گھٹا کر چار تک پہنچا دیا بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی کہ دیا فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً (النساء:4) یعنی اگر تم ان میں اعتدال نہ رکھو تو پھر ایک ہی رکھو.پس اگر کوئی قرآن کے زمانہ پر ایک نظر ڈال کر دیکھے کہ دنیا میں تعدد ازدواج کس افراط تک پہنچ گیا تھا اور کیسی بے اعتدالیوں سے عورتوں کے ساتھ برتاؤ ہوتا تھا تو اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ قرآن نے دنیا پر یہ احسان کیا کہ ان تمام بے اعتدالیوں کو موقوف کر دیا لیکن چونکہ قانون قدرت ایسا ہی پڑا ہے کہ بعض اوقات انسان کو اولاد کی خواہش اور بیوی کے عقیمہ ہونے کے سبب سے یا بیوی کے دائمی بیمار ہونے کی وجہ سے یا بیوی کی ایسی بیماری کے عارضہ سے جس میں مباشرت ہر گز ناممکن ہے جیسی بعض صورتیں خروج رحم کی جن میں چھونے کے ساتھ ہی عورت کی جان نکلتی ہے اور کبھی دس دس سال ایسی بیماریاں رہتی ہیں اور یا بیوی کا زمانہ پیری جلد آنے سے یا اس کے جلد جلد حمل دار ہونے کے باعث سے
فقه المسيح 255 نکاح فطرتا دوسری بیوی کی ضرورت پڑتی ہے اس لئے اس قدر تعدد کے لئے جواز کا حکم دے دیا اور ساتھ اس کے اعتدال کی شرط لگا دی سو یہ انسان کی حالت پر رحم ہے تا وہ اپنی فطری ضرورتوں کے پیش آنے کے وقت الہی حکمت کے تدارک سے محروم نہ رہے جن کو اس بات کا علم نہیں کہ عرب کے باشندے قرآن شریف سے پہلے کثرت ازدواج میں کس بے اعتدالی تک پہنچے ہوئے تھے ایسے بیوقوف ضرور کثرت ازدواجی کا الزام اسلام پر لگائیں گے مگر تاریخ کے جاننے والے اس بات کا اقرار کریں گے کہ قرآن نے ان رسموں کو گھٹایا ہے نہ کہ بڑھایا.آریہ دھرم روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 45،44) کسی خاندان کا سلسلہ صرف ایک ایک بیوی سے ہمیشہ کیلئے جاری نہیں رہ سکتا بلکہ کسی نہ کسی فرد سلسلہ میں یہ وقت آپڑتی ہے کہ ایک جور و عقیمہ اور نا قابل اولا دنکلتی ہے.اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ دراصل بنی آدم کی نسل ازدواج مکرر سے ہی قائم و دائم چلی آتی ہے.اگر ایک سے زیادہ بیوی کرنا منع ہوتا تو اب تک نوع انسان قریب قریب خاتمہ کے پہنچ جاتی.تحقیق سے ظاہر ہوگا کہ اس مبارک اور مفید طریق نے انسان کی کہاں تک حفاظت کی ہے اور کیسے اس نے اجڑے ہوئے گھروں کو بیک دفعہ آباد کر دیا ہے اور انسان کے تقویٰ کیلئے یہ فعل کیسا زبر دست محمد و معین ہے.خاوندوں کی حاجت براری کے بارے میں جو عورتوں کی فطرت میں ایک نقصان پایا جاتا ہے جیسے ایام حمل اور حیض نفاس میں یہ طریق با برکت اس نقصان کا تدارک تام کرتا ہے اور جس حق کا مطالبہ مرد اپنی فطرت کی رو سے کر سکتا ہے وہ اسے بخشتا ہے.ایسا ہی مرد اور کئی وجوہات اور موجبات سے ایک سے زیادہ بیوی کرنے کیلئے مجبور ہوتا ہے مثلاً اگر مرد کی ایک بیوی تغیر عمر یا کسی بیماری کی وجہ سے بدشکل ہو جائے تو مرد کی قوت فاعلی جس پر سارا مدار عورت کی کاروائی کا ہے بے کار اور معطل ہو جاتی ہے.لیکن اگر مرد بدشکل ہو تو عورت کا کچھ بھی حرج نہیں کیونکہ کا روائی کی کل مرد کو دی گئی ہے اور عورت کی تسکین کرنا مرد کے ہاتھ میں ہے.ہاں اگر مرد اپنی قوت مردی میں قصور یا بجز رکھتا ہے تو
فقه المسيح 256 نکاح قرآنی حکم کے رو سے عورت اس سے طلاق لے سکتی ہے.اور اگر پوری پوری تسلی کرنے پر قادر ہو تو عورت یہ عذر نہیں کر سکتی کہ دوسری بیوی کیوں کی ہے.کیونکہ مرد کی ہر روزہ حاجتوں کی عورت ذمہ دار اور کار برار نہیں ہو سکتی اور اس سے مرد کا استحقاق دوسری بیوی کرنے کیلئے قائم رہتا ہے.جو لوگ قوی الطاقت اور متقی اور پارسا طبع ہیں ان کیلئے یہ طریق نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 282،281) تعدد ازدواج ، حکم نہیں بلکہ اجازت ہے ایک شخص نے اعتراض کیا کہ اسلام میں جو چار بیویاں رکھنے کا حکم ہے یہ بہت خراب ہے اور ساری بداخلاقیوں کا سرچشمہ ہے.فرمایا: چار بیویاں رکھنے کا حکم تو نہیں دیا بلکہ اجازت دی ہے کہ چار تک رکھ سکتا ہے اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ چا رہی کو گلے کا ڈھول بنالے.قرآن کا منشاء تو یہ ہے کہ چونکہ انسانی ضروریات مختلف ہوتی ہیں اس واسطے ایک سے لیکر چار تک اجازت دی ہے ایسے لوگ جو ایک اعتراض کو اپنی طرف سے پیش کرتے ہیں اور پھر وہ خود اسلام کا دعوی بھی کرتے ہیں میں نہیں جانتا کہ ان کا ایمان کیسے قائم رہ جاتا ہے.وہ تو اسلام کے معترض ہیں.یہ نہیں دیکھتے کہ ایک مقنن کو قانون بنانے کے وقت کن کن باتوں کا لحاظ ہوتا ہے.بھلا اگر کسی شخص کی ایک بیوی ہے اسے جذام ہو گیا ہے یا آتشک میں مبتلا ہے یا اندھی ہوگئی ہے یا اس قابل ہی نہیں کہ اولا داس سے حاصل ہو سکے وغیرہ وغیرہ عوارض میں مبتلا ہو جا وے تو اس حالت میں اب اس خاوند کو کیا کرنا چاہیئے کیا اسی بیوی پر قناعت کرے؟ ایسی مشکلات کے وقت کیا تدبیر پیش کرتے ہیں.یا بھلا اگر وہ کسی قسم کی بد معاشی زنا وغیرہ میں مبتلا ہوگئی تو کیا اب اس خاوند کی غیرت تقاضا کرے گی کہ اسی کو اپنی پر عصمت بیوی کا خطاب دے رکھے؟ خدا جانے اسلام پر اعتراض کرتے وقت اندھے کیوں ہو جاتے ہیں.یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں
فقه المسيح 257 نکاح آتی کہ وہ مذہب ہی کیا ہے جو انسانی ضروریات کو ہی پورا نہیں کر سکتا.اب ان مذکورہ حالتوں میں عیسویت کیا تدبیر بتاتی ہے؟ قرآن شریف کی عظمت ثابت ہوتی ہے کہ انسانی کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کا پہلے سے ہی اس نے قانون نہ بنا دیا ہو.اب تو انگلستان میں بھی ایسی مشکلات کی وجہ سے کثرت ازدواج اور طلاق شروع ہوتا جاتا ہے.ابھی ایک لارڈ کی بابت لکھا تھا کہ اس نے دوسری بیوی کر لی آخر اسے سزا بھی ہوئی مگر وہ امریکہ میں جا رہا.غور سے دیکھو کہ انسان کے واسطے ایسی ضرورتیں پیش آتی ہیں یا نہیں کہ یہ ایک سے زیادہ بیویاں کر لے جب ایسی ضرورتیں ہوں اور انکا علاج نہ ہو تو یہی نقص ہے جس کے پورا کرنے کو قرآن شریف جیسی اتم اکمل کتاب بھیجی ہے.( الحکم 28 فروری 1903 صفحہ 15 ) بیویوں کے درمیان اعتدال ضروری ہے کثرت ازدواج کے متعلق صاف الفاظ قرآن کریم میں دو دو، تین تین ، چار چار کر کے ہی آ رہے ہیں مگر اسی آیت میں اعتدال کی بھی ہدایت ہے.اگر اعتدال نہ ہو سکے اور محبت ایک طرف زیادہ ہو جاوے یا آمدنی کم ہو اور یا قوائے رجولیت ہی کمزور ہوں تو پھر ایک سے تجاوز کرنا نہیں چاہیے.ہمارے نزدیک یہی بہتر ہے کہ انسان اپنے تئیں ابتلاء میں نہ ڈالے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (البقرة : 191)....غرض اگر حلال کو حلال سمجھ کر انسان بیویوں ہی کا بندہ ہو جائے ، تو بھی غلطی کرتا ہے.ہر ایک شخص اللہ تعالی کی منشاء کو نہیں سمجھ سکتا.اس کا یہ منشاء نہیں کہ بالکل زن مرید ہو کر نفس پرست ہی ہو جاؤ ور وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ رہبانیت اختیار کرو بلکہ اعتدال سے کام لو اور اپنے تئیں بے جا کاروائیوں میں نہ ڈالو.انبیاء علیہم السلام کے لئے کوئی نہ کوئی تخصیص اگر اللہ تعالیٰ کر دیتا ہے، تو یہ کوتاہ اندیش
فقه المسيح 258 نکاح لوگوں کی ابلہ فریبی اور غلطی ہے کہ اس پر اعتراض کرتے ہیں.دیکھو تو رات میں کا ہنوں کے فرقے کے ساتھ مراعات ملحوظ رکھی گئی ہیں اور ہندوؤں کے برہمنوں کے لئے خاص رعائتیں ہیں.پس یہ نادانی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی کسی تخصیص پر اعتراض کیا جاوے.ان کا نبی ہونا ہی سب سے بڑی خصوصیت ہے جو اور لوگوں میں موجود نہیں.عورتوں کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے فرمایا: ( الحکم 6 مارچ 1898 صفحہ 2) ہم اپنی جماعت کو کثرت ازدواج کی تاکید کرتے ہیں کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ کثرت ازدواج سے اولا د بڑھاؤ تا کہ اُمت زیادہ ہو نیز بعض اشخاص کے واسطے ضروری ہوتا ہے کہ وہ بدکاری اور بدنظری سے بچنے کے واسطے ایک سے زیادہ شادی کریں یا کوئی اور شرعی ضرورت ہوتی ہے لیکن یا درکھنا چاہئے کہ کثرت ازدواج کی اجازت بطور علاج اور دوا کے ہے.یہ اجازت عیش و عشرت کی غرض سے نہیں ہے.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ انسان کے ہر امر کا مدار اُس کی نیت پر ہے.اگر کسی کی نیت لذات کی نہیں بلکہ نیت یہ ہے کہ اس طرح خدام دین پیدا ہوں تو کوئی حرج نہیں.محبت کو قطع نظر کر کے اور بالائے طاق رکھ کر کہ یہ اختیاری امر نہیں، باقی امور میں سب بیویوں کو برابر رکھنا چاہیے مثلاً پار چات، خرچ ، خوراک، مکان ، معاشرت حتی کہ مباشرت میں مساوات ہونی ضروری ہے.اگر کوئی شخص ان حقوق کو پورے طور پر ادا نہیں کر سکتا تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ کثرت ازدواج کرے بلکہ عورتوں کے حقوق ادا کرنا ایسا تاکیدی فرض ہے کہ اگر کوئی شخص ان کو ادا نہیں کر سکتا تو اس کے واسطے بہتر ہے کہ وہ مجرد ہی رہے.ایسے لذات میں پڑنے کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے یہ بہتر ہے کہ انسان تلخ زندگی بسر کرے اور
فقه المسيح 259 نکاح معصیت میں پڑنے سے بچار ہے.اگر انسان اپنے نفس کا میلان اور غلبہ شہوت کی طرف دیکھے کہ اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہے تو اس معصیت سے بچنے کے واسطے بھی جائز ہے کہ انسان دوسری شادی کر لے.لیکن اس صورت میں پہلی بیوی کے حقوق کو ہرگز تلف نہ کرے بلکہ چاہیے کہ پہلی بیوی کی دلداری پہلے سے زیادہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ انسان نے اس کے ساتھ گذارا ہوا ہوتا ہے.اور ایک گہرا تعلق اس کے ساتھ قائم ہو چکا ہوا ہوتا ہے.پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہاں تک ضروری ہے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواج ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اُس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اُس کی دل شکنی ہوتی ہے.تو اگر وہ صبر کر سکے اور معصیت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو اور کسی شرعی ضرورت کا اس سے خون نہ ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر انسان اپنی ضرورتوں کی قربانی اپنی سابقہ بیوی کی دلداری کے لئے کردے اور ایک ہی بیوی پر اکتفاء کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اسے مناسب ہے کہ اس صورت میں دوسری شادی نہ کرے.قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو تقویٰ پر قائم رکھے اور دوسرے اغراض مثل اولاد صالحہ کے حاصل کرنے اور خویش و اقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہو.اور انہی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کرلو.لیکن اگر اُن میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہوگا اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے.دل دکھانا بڑا گناہ ہے اورلڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں.جب والدین اُن کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالے کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا اُمید میں اُن کے دلوں میں ہوتی ہیں.ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 205 206)
فقه المسيح 260 نکاح تعدد ازدواج برائیوں سے روکنے کا ذریعہ ہے مخالفین اسلام ) اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے بہت عورتوں کی اجازت دی ہے.ہم کہتے ہیں کہ کیا کوئی ایسا دلیر اور مرد میدان معترض ہے جو ہم کو یہ دکھلا سکے کہ قرآن کہتا ہے کہ ضرور ضرور ایک سے زیادہ عورتیں کرو.ہاں یہ ایک سچی بات ہے اور بالکل طبعی امر ہے کہ اکثر اوقات انسان کو ضرورت پیش آجاتی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ عورتیں کرے.مثلاً عورت اندھی ہو گئی ہے یا اور کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہو کر اس قابل ہوگئی کہ خانہ داری کے امور سر انجام نہیں دے سکتی اور مرداز راہ ہمدردی یہ بھی نہیں چاہتا کہ اسے علیحدہ کرے یا رحم کی خطر ناک بیماریوں کا شکار ہو کر مرد کی طبعی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتی تو ایسی صورت میں نکاح ثانی کی اجازت نہ ہو تو بتلاؤ کہ کیا اس سے بدکاری اور بداخلاقی کو ترقی نہ ہوگی ؟ پھر اگر کوئی مذہب یا شریعت کثرت ازواج کو روکتی ہے تو یقینا وہ بدکاری اور بداخلاقی کی مؤید ہے لیکن اسلام جو دنیا سے بد اخلاقی اور بد کاری کو دور کرنا چاہتا ہے، اجازت دیتا ہے کہ ایسی ضرورتوں کے لحاظ سے ایک سے زیادہ بیویاں کرے.ایسا ہی اولاد کے نہ ہونے پر جبکہ لا ولد کے پس مرگ خاندان میں بہت سے ہنگامے اور کشت وخون ہونے تک نوبت پہنچ جاتی ہے.ایک ضروری امر ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں کر کے اولاد پیدا کرے بلکہ ایسی صورت میں نیک اور شریف بیبیاں خود اجازت دے دیتی ہیں، پس جس قد رغور کرو گے یہ مسئلہ صاف اور روشن نظر آئے گا.عیسائی کو تو حق ہی نہیں پہنچتا کہ اس مسئلہ پر نکتہ چینی کرے کیونکہ ان کے مسلمہ نبی اور ملہم بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بزرگوں نے سات سات سو اور تین تین سو بیبیاں کیں اور اگر وہ کہیں کہ وہ فاسق فاجر تھے، تو پھر ان کو اس بات کا جواب دینا مشکل ہوگا کہ ان کے الہام خدا کے الہام کیوں کر ہو سکتے ہیں؟ عیسائیوں میں بعض فرقے ایسے بھی ہیں جو نبیوں کی شان میں ایسی گستاخیاں جائز نہیں رکھتے.علاوہ
فقه المسيح 261 نکاح ازیں انجیل میں صراحت سے اس مسئلہ کو بیان ہی نہیں کیا گیا.لنڈن کی عورتوں کا زور ایک باعث ہو گیا کہ دوسری عورت نہ کریں.پھر اس کے نتائج خود دیکھ لو کہ لنڈن اور پیرس میں عفت اور تقویٰ کی کیسی قدر ہے.الحام 10 جنوری 1899 صفحہ 8) پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے رشتہ کرنے کو معیوب سمجھنا ٹھیک نہیں سوال پیش ہوا کہ بعض لوگ یہ عذر کرتے ہیں کہ جس کی عورت آگے موجود ہو اس کو ہم ناطہ نہیں دیتے.فرمایا: وو پھر وہ اس سے تو مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ کو بند کرنا چاہتے ہیں.“ مہر کی مقدار ( الحکم 10 فروری 1907 ، صفحہ 4) مہر کے متعلق ایک شخص نے پوچھا کہ اس کی تعداد کس قدر ہونی چاہیے؟ فرمایا تراضی طرفین سے جو ہو اس پر کوئی حرف نہیں آتا اور شرعی مہر سے یہ مراد نہیں کہ نصوص یا احادیث میں کوئی اس کی حد مقرر کی گئی ہے بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لوگوں کے مروجہ مہر سے ہوا کرتی ہے ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ نیت اور ہوتی ہے اور محض نمود کے لیے لاکھ لاکھ روپے کا مہر ہوتا ہے صرف ڈراوے کے لیے یہ لکھا جایا کرتا ہے کہ مرد قابو میں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہیں نہ عورت والوں کی نیت لینے کی ہوتی ہے اور نہ خاوند کی دینے کی.میرا مذ ہب یہ ہے کہ جب ایسی صورت میں تنازعہ آپڑے تو جب تک اس کی نیت یہ ثابت نہ ہو کہ ہاں رضا و رغبت سے وہ اسی قدر مہر پر آمادہ تھا جس قدر کہ مقرر شدہ ہے تب تک مقرر شدہ نہ دلایا جاوے اور اس کی حیثیت اور رواج وغیرہ کو مدنظر رکھ کر پھر فیصلہ کیا جاوے کیونکہ بد نیتی کی اتباع نہ شریعت کرتی ہے اور نہ قانون.(12319038)
فقه المسيح 262 حق مہر خاوند کی حیثیت کے مطابق ہو سوال :.ایک عورت اپنا مہر نہیں بخشتی.نکاح جواب :.یہ عورت کا حق ہے اسے دینا چاہیے اول تو نکاح کے وقت ہی ادا کرے ورنہ بعد ازاں ادا کرنا چاہیے، پنجاب اور ہندوستان میں یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر اپنا مہر خاوند کو بخش دیتی ہیں.یہ صرف رواج ہے جو مروت پر دلالت کرتا ہے.سوال :.اور جن عورتوں کا مہر مچھر کی دومن چربی ہو وہ کیسے ادا کیا جاوے؟ جواب : - لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة :287) اس کا خیال مہر میں ضرور ہونا چاہیئے خاوند کی حیثیت کو مد نظر رکھنا چاہیئے اگر اس کی حیثیت دس روپے کی نہ ہو تو وہ ایک لاکھ روپے کا مہر کیسے ادا کریگا اور مچھروں کی چربی تو کوئی مہر ہی نہیں یہ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا میں داخل ہے.واجب الا دا مہر کی ادائیگی لازمی ہے البدر 16 / مارچ 1904 صفحہ 6) ایک صاحب نے دریافت کیا کہ ایک شخص اپنی منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتی تھی تو اپنی نصف نیکیاں مجھے دے دے تو بخش دوں.خاوند کہتا رہا کہ میرے پاس حسنات بہت کم ہیں بلکہ بالکل ہی نہیں ہیں.اب وہ عورت مرگئی ہے خاوند کیا کرے؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ:.اسے چاہیے کہ اس کا مہر اس کے وارثوں کو دے دے.اگر اس کی اولاد ہے تو وہ بھی وارثوں میں شرعی حصہ لے سکتی ہے اور علی ہذا القیاس خاوند بھی لے سکتا ہے.(البدر 5 مارچ 1905 ء صفحہ 2)
فقه المسيح 263 مہر کی ادائیگی سے قبل مہر کی معافی نہیں ہو سکتی حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں:.نکاح عورت کو مہر ادا کئے جانے سے پہلے معافی کوئی حیثیت نہیں رکھتی.وہ مال اس کا حق ہے اس کو پہلے وہ مال ملنا چاہئے.پھر اگر وہ چاہے تو واپس کر دے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی فتویٰ ہے.آپ نے حکیم فضل دین صاحب مرحوم کے بیان کرنے پر کہ ان کی بیویوں نے مہر معاف کر دیا ہے.فرمایا کہ پہلے ان کو مہر دے دو.پھر وہ واپس دے دیں تو سمجھو کہ معاف کر دیا ہے.جب انہوں نے روپیہ دیا تو بیویوں نے لے لیا اور کہا کہ اب تو ہم معاف نہیں کرتیں.بعض فقہاء کا قول ہے کہ مہر دے کر فور ابھی واپس ہو جائے تو جائز نہیں کچھ مدت تک عورت کے پاس رہے.تب واپس کرے تو جائز سمجھا جائے گا.فرمودات مصلح موعود در بارہ فقہی مسائل صفحہ 209) ایک مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے تحریر فرمایا.میں فیصلہ کرتا ہوں کہ مہر سالم پانچ سوروپیہ مدعیہ کو دلایا جائے کیونکہ شریعت کی رو سے عورت کا حق ہے اور بسا اوقات اس کی معافی بھی قابل تسلیم نہیں کیونکہ اس کی ایک رنگ میں ماتحت حالت اس کی معافی کی وقعت کو اصول شرعیہ کے رو سے بہت کچھ گرا دیتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ ہے.پس قبل از ادائیگی مہر معافی کوئی حقیقت نہیں رکھتی خصوصا جبکہ ہمارے ملک میں عورتوں میں یہ عام خیال ہو کہ مہر صرف نام کا ہوتا ہے بلکہ بعض اس کی وصولی کو ہتک خیال کرتی ہیں.فرمودات مصلح موعود دربارہ فقہی مسائل.صفحہ 212) اعلان نکاح ضروری ہے میاں اللہ بخش صاحب امرتسری نے عرض کیا کہ حضور یہ جو براتوں کے ساتھ باجے بجائے جاتے ہیں.اس کے متعلق حضور کیا حکم دیتے ہیں.فرمایا:
فقه المسيح 264 نکاح فقہاء نے اعلان بالدف کو نکاح کے وقت جائز رکھا ہے اور یہ اس لیے کہ پیچھے جو مقدمات ہوتے ہیں تو اس سے گویا ایک قسم کی شہادت ہو جاتی ہے.ہم کو مقصود بالذات لینا چاہئے.اعلان کے لئے یہ کام کیا جاتا ہے یا کوئی اپنی شیخی اور تعلقی کا اظہار مقصود ہے.دیکھا گیا ہے کہ بعض چپ چاپ شادیوں میں نقصان پیدا ہوئے ہیں.یعنی جب مقدمات ہوئے ہیں تو اس قسم کے سوال اُٹھائے گئے ہیں.غرض ان خرابیوں کو روکنے کے لیے اور شہادت کے لیے اعلان بالدف جائز ہے اور اس صورت میں باجا بجانا منع نہیں ہے، بلکہ نسبتوں کی تقریب پر جو شکر وغیرہ بانٹتے ہیں.دراصل یہ بھی اسی غرض کے لیے ہوتی ہے کہ دوسرے لوگوں کو خبر ہو جاوے اور پیچھے کوئی خرابی پیدا نہ ہو مگر اب یہ اصل مطلب مفقود ہو کر اس کی جگہ صرف رسم نے لے لی ہے اور اس میں بھی بہت سی باتیں اور پیدا کی گئی ہیں.پس ان کو رسوم نہ قرار دیا جاوے بلکہ یہ رشتہ ناطہ کو جائز کرنے کے لیے ضروری امور ہیں.یا درکھو جن امور سے مخلوق کو فائدہ پہنچتا ہے ، شرع اس پر ہرگز زد نہیں کرتی.کیونکہ شرع کی خود یہ غرض ہے کہ مخلوق کو فائدہ پہنچے.آتشبازی اور تما شا وغیرہ یہ بالکل منع ہیں، کیونکہ اس سے مخلوق کو کوئی فائدہ بجز نقصان کے نہیں ہے.اور باجا بجانا بھی اسی صورت میں جائز ہے، جبکہ یہ غرض ہو کہ اس نکاح کا عام اعلان ہو جاوے اور نسب محفوظ رہے، کیونکہ اگر نسب محفوظ نہ رہے تو زنا کا اندیشہ ہوتا ہے.جس پر خدا نے بہت ناراضی ظاہر کی ہے.یہاں تک کہ زنا کے مرتکب کو سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے.اس لیے اعلان کا انتظام ضروری ہے؛ البتہ ریا کاری فستق فجور کے لیے یا صلاح و تقویٰ کے خلاف کوئی منشا ہو تو منع ہے.شریعت کا مدار نرمی پر ہے سختی پر نہیں ہے.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة : 287) با جا کے متعلق حرمت کا کوئی نشان بجز اس کے کہ وہ صلاح و تقویٰ کے خلاف اور ریا کاری اور فسق و فجور کے لیے ہے ، پایانہیں جاتا اور پھر اعلان بالدف کو فقہاء نے جائز رکھا ہے اور اصل اشیاء حلت ہے، اس لیے شادی میں
فقه المسيح 265 نکاح اعلان کے لیے جائز ہے.الحکم 17 اکتوبر 1902، صفحہ 8،7) ولیمه تعریف ولیمہ پوچھی گئی تو فرمایا : ولیمہ یہ ہے کہ نکاح کرنے والا نکاح کے بعد اپنے احباب کو کھانا کھلائے.“ اسی طرح ایک اور موقعہ پر فرمایا: الحکم 10 فروری 1907 صفحہ 11) نکاح میں کوئی خرچ نہیں ، طرفین نے قبول کیا اور نکاح ہو گیا.بعد ازاں ولیمہ سنت ہے.سواگر اس کی استطاعت بھی نہیں تو یہ بھی معاف ہے.“ شادی کے موقعہ پر لڑکیوں کا گانا ( بدر 6 فروری 1908 صفحہ 6) ال کیا گیا کہ لڑکی یا لڑکے والوں کے ہاں جو جوان عورتیں مل کر گھر میں گاتی ہیں.وہ کیسا ہے؟ فرمایا: اصل یہ ہے کہ یہ بھی اسی طرح پر ہے.اگر گیت گندے اور نا پاک نہ ہوں ، تو کوئی حرج نہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو لڑکیوں نے مل کر آپ کی تعریف میں گیت گائے تھے.مسجد میں ایک صحابی نے خوش الحانی سے شعر پڑھے تو حضرت عمرؓ نے ان کو منع کیا.اس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھے ہیں.تو آپ نے منع نہیں کیا بلکہ آپ نے ایک بار اس کے شعر سنے تو آپ نے اس کے لیے رحمت اللہ فرمایا اور جس کو آپ یہ فرمایا کرتے تھے وہ شہید ہو جایا کرتا تھا.غرض اس طرح پر اگر فسق و فجور کے گیت نہ ہوں تو منع نہیں.مگر مردوں کو نہیں چاہیے کہ عورتوں کی ایسی مجلسوں میں بیٹھیں.یہ یا درکھو کہ جہاں ذرا بھی مطنہ فسق و فجور کا ہو وہ منع ہے.
فقه المسيح 266 نکاح بزہد و ورع کوش وصدق وصفا ولیکن میفز ائے ہر مصطفیٰ یہ ایسی باتیں ہیں کہ انسان ان میں خود فتویٰ لے سکتا ہے جو امر تقویٰ اور خدا کی رضا کے خلاف ہے، مخلوق کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے وہ منع ہے.اور پھر جو اسراف کرتا ہے، وہ سخت گناہ کرتا ہے.اگر ریا کاری کرتا ہے، تو گناہ ہے.غرض کوئی ایسا امر جس میں اسراف، ریا فستق ، ایذائے خلق کا شائبہ ہو وہ منع ہے اور جو اُن سے صاف ہو وہ منع نہیں ، گناہ نہیں.(الحلم 17 اکتوبر 1902 ، صفحہ 8) کیونکہ اصل اشیاء کی حلت ہے.نکاح پر با جا اور آتش بازی نکاح پر با جا بجانے اور آتش بازی چلانے کے متعلق سوال ہوا فر مایا کہ:.ہمارے دین کی بنا ئیسر پر ہے عسر پر نہیں اور پھر اِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ضروری چیز ہے باجوں کا وجود آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں نہ تھا.اعلان نکاح جس میں فسق و فجور نہ ہو.جائز ہے بلکہ بعض صورتوں میں ضروری شے ہے کیونکہ اکثر دفعہ نکاحوں کے متعلق مقدمات تک نوبت پہنچتی ہے پھر وراثت پر اثر پڑتا ہے.اس لیے اعلان کرنا ضروری ہے مگر اس میں کوئی ایسا امر نہ ہو جو فسق و فجور کا موجب ہو.رنڈی کا تماشا یا آتش بازی فسق و فجور اور اسراف ہے یہ جائز نہیں.باجے کے ساتھ اعلان پر پوچھا گیا کہ جب برات لڑکے والوں کے گھر سے چلتی ہے کیا اسی وقت سے باجا بجتا جاوے یا نکاح کے بعد؟ فرمایا: ایسے سوالات اور جز و در جزو نکالنا بے فائدہ ہے.اپنی نیت کو دیکھو کہ کیا ہے اگر اپنی شان و شوکت دکھانا مقصود ہے تو فضول ہے اور اگر یہ غرض ہے کہ نکاح کا صرف اعلان ہو تو اگر گھر سے بھی با جا بجتا جاوے تو کچھ حرج نہیں ہے.اسلامی جنگوں میں بھی تو با جابجتا ہے وہ بھی ایک اعلان ہی ہوتا ہے.(الحکم 24 اپریل 1903 صفحہ 10)
فقه المسيح 267 نکاح مہر نامہ رجسٹری کروانا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کا نکاح حضرت صاحب نے نواب محمد علی خان صاحب کے ساتھ کیا تو مہر چھپن ہزار (56000) روپیہ مقرر کیا گیا تھا اور حضرت صاحب نے مہر نامہ کو با قاعدہ رجسٹری کروا کر اس پر بہت سے لوگوں کی شہادتیں ثبت کروائی تھیں اور جب حضرت صاحب کی وفات کے بعد ہماری چھوٹی ہمشیرہ امتہ الحفیظ بیگم کا نکاح خان محمد عبد اللہ خان صاحب کے ساتھ ہوا تو مہر (15000) مقرر کیا گیا اور یہ مہر نامہ بھی باقاعدہ رجسٹری کرایا گیا تھا لیکن ہم متینوں بھائیوں میں سے جن کی شادیاں حضرت صاحب کی زندگی میں ہوگئی تھیں کسی کا مہر نامہ تحریر ہو کر رجسٹری نہیں ہوا اور مہر ایک ایک ہزار روپیہ مقرر ہوا تھا.دراصل مہر کی تعداد زیادہ تر خاوند کی موجودہ حیثیت اور کسی قدر بیوی کی حیثیت پر مقرر ہوا کرتی تھی اور مہر نامہ کا با قاعدہ لکھا جانا اور رجسٹری ہونا یہ شخصی حالات پر موقوف ہے.چونکہ نواب محمد علی خان صاحب کی جائیدا دسر کا ر انگریزی کے علاقہ میں واقع نہ تھی بلکہ ایک ریاست میں تھی اور اس کے متعلق بعض تنازعات کے پیدا ہونے کا احتمال ہو سکتا تھا.اس لئے حضرت صاحب نے مہر نامہ کو با قاعدہ رجسٹری کروانا ضروری خیال کیا اور ویسے بھی دیکھا جاوے تو عام حالات میں یہی بہتر ہوتا ہے کہ مہر نامہ اگر رجسٹری نہ بھی ہو تو کم از کم با قاعدہ طور پر تحریر میں آجاوے اور معتبر لوگوں کی شہادتیں اس پر ثبت ہو جاویں.کیونکہ دراصل مہر بھی ایک قرضہ ہوتا ہے جس کی ادائیگی خاوند پر فرض ہوتی ہے.پس دوسرے قرضہ جات کی طرح اس کے لئے بھی عام حالات میں یہی مناسب ہے کہ وہ ضبط تحریر میں آجاوے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 339،338)
فقه المسيح 268 نکاح نکاح کے موقع پر زائد شرط رکھنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مسماۃ تابی حضرت مسیح موعود کی ایک خادمہ تھی.اس کی ایک نواسی کا نکاح ایک شخص مسمی فقیر محمد سکنہ قادیان سے تجویز ہوا.حضرت صاحب نے فقیرمحمد کو ایک اشٹام کا کاغذ لانے کی ہدایت فرمائی.جب وہ کاغذ لے آیا تو حضرت صاحب نے گول کمرہ میں میری موجودگی میں فقیر محمد کی طرف سے تحریر ہونے کے لئے مضمون بنایا.کہ میں اس عورت سے نکاح کرتا ہوں اور.500 روپیہ مہر ہوگا اور اس کے اخراجات کا میں ذمہ دار ہوں گا اور اس کی رضا مندی کے بغیر (یا یہ فقرہ تھا کہ اس کی حیات تک ) دوسرا نکاح نہ کروں گا.یہ کا غذ آپ نے مجھے احکام پر نقل کرنے کے لئے دیا.چنانچہ میں نے وہیں نقل کر دیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ نکاح میں زائد شرائط مقرر کرنا جائز ہے اور حضرت صاحب نے لکھا ہے...نکاح ثانی کے متعلق عورت کی طرف سے یہ شرط بھی ہوسکتی ہے کہ میرا خاوند میرے ہوتے ہوئے نکاح ثانی نہیں کرے گا کیونکہ تعدد ازدواج اسلام میں جائز ہے نہ یہ کہ اس کا حکم ہے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 590) حضرت مسیح موعود کا ایک لڑکی کی طرف سے ولی بننا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے نکاح کا خطبہ حضرت خلیفتہ اصبح الاول نے پڑھا تھا لیکن حضرت مسیح موعود نے خود میری اہلیہ کی طرف سے اپنی زبان مبارک سے ایجاب و قبول کیا تھا.کیونکہ حضور ولی تھے.میں اس کو اپنی نہایت ہی خوش قسمتی سمجھتا ہوں.اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں.نکاح تو حضور نے کئی ایک کے پڑھائے ہوں گے لیکن اس طرح کا معاملہ شاید ہی کسی اور سے ہوا ہو.سب کچھ والد صاحب
فقه المسيح 269 نکاح مرحوم و مغفور پر حضرت اقدس کی خاص شفقت کا نتیجہ تھا.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 126،125) بیوگان کا نکاح کر لینا بہتر ہے عورتوں کو خصوصی نصائح کرتے ہوئے فرمایا:.اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو.دوسرا خاوند کرنا ایسا برا جانتی ہے جیسا کوئی بڑا بھا را گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ یا را نڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاک دامن بیوی ہوگئی ہوں حالانکہ اس کے لئے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے.عورتوں کے لئے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کر لینا نہایت ثواب کی بات ہے.ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں برے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کر لے اور نابکا رعورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے.ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود لعنتی اور شیطان کی چیلیاں ہیں.جن کے ذریعہ سے شیطان اپنا کام چلاتا ہے.جس عورت کو اللہ اور رسول پیارا ہے، اس کو چاہیے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلاش کرے اور یاد رکھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صد ہا درجہ بہتر ہے.(الحکم 10 جولائی 1902 ء صفحہ 7) ایک شخص کا سوال حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا کہ بیوہ عورتوں کا نکاح کن صورتوں میں فرض ہے.اس کے نکاح کے وقت عمر، اولاد، موجودہ اسباب ، نان و نفقہ کا لحاظ رکھنا چاہیے یا کہ نہیں؟ یعنی کیا بیوہ باوجود عمر زیادہ ہونے کے یا اولاد بہت ہونے کے یا کافی دولت پاس ہونے کے ہر حالت میں مجبور ہے کہ اس کا نکاح کیا جائے؟ فرمایا:.بیوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکاح کا حکم ہے.چونکہ بعض قو میں بیوہ عورت کا نکاح خلاف عزت خیال کرتے ہیں اور یہ بدرسم بہت پھیلی ہوئی ہے.اس واسطے
فقه المسيح 270 نکاح بیوہ کے نکاح کے واسطے حکم ہوا ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہر بیوہ کا نکاح کیا جائے.نکاح تو اسی کا ہوگا جو نکاح کے لائق ہے.اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے.بعض عورتیں بوڑھی ہو کر بیوہ ہوتی ہیں.بعض کے متعلق دوسرے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نکاح کے لائق نہیں ہوتیں.مثلاً کسی کو ایسا مرض لاحق حال ہے کہ وہ قابل نکاح ہی نہیں یا ایک بیوہ کافی اولا داور تعلقات کی وجہ سے ایسی حالت میں ہے کہ اس کا دل پسند ہی نہیں کر سکتا کہ وہ اب دوسرا خاوند کرے.ایسی صورتوں میں مجبوری نہیں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑ کر خاوند کرایا جاوے.ہاں اس بد رسم کو مٹا دینا چاہیے کہ بیوہ عورت کو ساری عمر بغیر خاوند کے جبر ارکھا جاتا ہے.( بدر 10 را کتوبر 1907 ءصفحہ 11) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مغلانی نورجان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ بیواؤں کے نکاح ثانی کے متعلق جب پشاور سے چار عورتیں آئی تھیں دو اُن میں سے بیوہ ، جوان اور مال دار تھیں.میں ان کو حضرت کے پاس لے گئی.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ” جوان عورتوں کو نکاح کر لینا چاہیے میں نے کہا جن کا دل نہ چاہے وہ کیا کریں؟ یا بچوں والی ہوں ان کی پرورش کا کون ذمہ دار ہو؟ آپ نے فرمایا اگر عورت کو یقین ہو کہ وہ ایمانداری اور تقویٰ سے گزار سکتی ہے اس کو اجازت ہے کہ وہ نکاح نہ کرے مگر بہتر یہی ہے کہ وہ نکاح کرلے.سکھ عورت مسلمان کے نکاح میں رہ سکتی ہے (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 231) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سردار سند رسنگھ صاحب ساکن دھرم کوٹ بگہ تحصیل بٹالہ جب مسلمان ہو گئے تو ان کا اسلامی نام فضل حق رکھا گیا تھا.ان کی بیوی اپنے آبائی سکھ مذہب پر مصر تھی.سردار فضل حق صاحب چاہتے تھے کہ وہ بھی مسلمان ہو جائے.ایک دن حضور علیہ السلام
فقه المسيح 271 نکاح نے فرمایا کہ اگر وہ مسلمان نہیں ہوتی تو نہ ہووے، اپنے مذہب پر رہتے ہوئے آپ کے گھر میں 66 آبادر ہے، اسلام میں جائز ہے.کوشش کی گئی لیکن وہ سردار صاحب کے پاس نہ آئی.آخر سردار فضل حق صاحب کی شادی لاہور میں ہوگئی جس سے اولا دہوئی.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 257) صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا کم عمری میں نکاح حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب صاحبزادہ میاں مبارک احمد صاحب مرحوم کا نکاح سیدہ مریم بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب مرحوم و مغفور ( حرم حضرت خلیفہ اسیح الثانی) سے ہوا تو میں آگرہ سے آئی ہوئی تھی.مغرب کے بعد نکاح ہوا.میں مبارک دینے آئی تو کوئی عورت سیدہ مریم بیگم کو گود میں اٹھا کر حضور کے پاس لائی.حضور علیہ السلام اس وقت اُمّم ناصر احمد صاحب کے صحن میں پلنگ پر استراحت فرما تھے.حضور علیہ السلام نے سیدہ مریم بیگم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور مسکرائے.طلاق کے بعد دوبارہ نکاح (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 244 245) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے گاؤں موضع کرالیاں میں تشریف لائے.میاں چراغ دین ساکن تصہ غلام نبی نے اپنی بیوی مسماۃ حتو کو طلاق دے دی ہوئی تھی.حضرت جی وہاں صلح کرانے گئے تھے تو وہاں جا کر رات رہے اور دوبارہ نکاح کرا دیا اور رات کو دیر تک وعظ بھی کیا.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 117،116)
فقه المسيح 272 نکاح حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے دوسری شادی کی تو کسی وجہ سے جلدی ہی اس بیوی کو طلاق دے دی.پھر بہت مدت شاید سال کے قریب گزر گیا تو حضرت صاحب نے چاہا کہ وہ اس بی بی کو پھر آباد کریں.چنانچہ مسئلہ کی تفتیش ہوئی اور معلوم ہوا کہ طلاق بائن نہیں ہے بلکہ رجعی ہے.اس لئے آپ کی منشاء سے ان کا دوبارہ نکاح ہو گیا.( یہاں رجعی اور بائن کے الفاظ اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں ہوئے.یہاں بائن سے مراد دراصل طلاق بتہ ہے.ناقل ) خاکسار عرض کرتا ہے کہ پہلی بیوی سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے اولاد نہیں ہوتی تھی اور حضرت صاحب کو آرزو تھی کہ ان کے اولا د ہو جائے.اسی لئے آپ نے تحریک کر کے شادی کروائی تھی.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 761 حلالہ حرام ہے اسلام سے پہلے عرب میں حلالہ کی رسم تھی لیکن اسلام نے اس ناپاک رسم کو قطعاً حرام کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں پر لعنت بھیجی ہے جو حلالہ کے پابند ہوں چنانچہ ابن عمر سے مروی ہے کہ حلالہ زنا میں داخل ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حلالہ کرنے کرانے والے سنگسار کئے جاویں.اگر کوئی مطلقہ سے نکاح کرے تو نکاح تب درست ہوگا کہ جب واقعی طور پر اس کو اپنی جو رو بنالے اور اگر دل میں یہ خیال ہو کہ وہ اس حیلہ کے لئے اس کو جو رو بناتا ہے کہ تا اس کی طلاق کے بعد دوسرے پر حلال ہو جائے تو ایسا نکاح ہرگز درست نہیں اور ایسا نکاح کرنے والا اس عورت سے زنا کرتا ہے اور جو ایسے فعل کی ترغیب دے وہ اس سے زنا کرواتا ہے.غرض حلالہ علمائے اسلام کے اتفاق سے حرام ہے اور ائمہ اور علماء سلف جیسے حضرت قتادہ.عطا اور امام حسن اور ابراہیم نخعی اور حسن بصری
فقه المسيح 273 نکاح اور مجاہداور شعبی اور سعید بن مسیب اور امام مالک ،لیث ، ثوری ، امام احمد بن حنبل وغیرہ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین اور سب محققین علماء اس کی حرمت کے قائل ہیں اور شریعت اسلام اور نیز لغت عرب میں بھی زوج اس کو کہتے ہیں کہ کسی عورت کو فی الحقیقت اپنی جورو بنانے کے لئے تمام حقوق کو مد نظر رکھ کر اپنے نکاح میں لاوے اور نکاح کا معاہدہ حقیقی اور واقعی ہو نہ کہ کسی دوسرے کے لئے ایک حیلہ ہو اور قرآن شریف میں جو آیا ہے حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ (البقرة: 231) اس کے یہی معنے ہیں کہ جیسے دنیا میں نیک نیتی کے ساتھ اپنے نفس کی اغراض کے لئے نکاح ہوتے ہیں ایسا ہی جب تک ایک مطلقہ کے ساتھ کسی کا نکاح نہ ہو اور وہ پھر اپنی مرضی سے اس کو طلاق نہ دے تب تک پہلے طلاق دینے والے سے دوبارہ اس کا نکاح نہیں ہوسکتا.(نوٹ.ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ قرآن شریف میں یہ شرط جو ہے کہ اگر تین طلاق تین طہر میں جو تین مہینہ ہوتے ہیں دی جائیں.تو پھر ایسی عورت خاوند سے بالکل جدا ہو جاوے گی اور اگر اتفاقاً کوئی دوسرا خاوند اس کا اس کو طلاق دیدے تو صرف اسی صورت میں پہلے خاوند کے نکاح میں آ سکتی ہے ورنہ نہیں یہ شرط طلاق سے روکنے کے لئے ہے تا ہر یک شخص طلاق دینے میں دلیری نہ کرے اور وہی شخص طلاق دے جس کو کوئی ایسی مصیبت پیش آگئی ہے جس سے وہ ہمیشہ کی جدائی پر راضی ہو گیا اور تین مہینے بھی اس لئے رکھے گئے تا اگر کوئی مثلاً غصہ سے طلاق دینا چاہتا ہو تو اس کا غصہ اتر جائے.منہ ).سو آیت کا یہ منشاء نہیں ہے کہ جور وکر نے والا پہلے خاوند کے لئے ایک راہ بنادے اور آپ نکاح کرنے کے لئے سچی نیت نہ رکھتا ہو بلکہ نکاح صرف اس صورت میں ہوگا کہ اپنے پختہ اور مستقل ارادہ سے اپنے صحیح اغراض کو مد نظر رکھ کر نکاح کرے ورنہ اگر کسی حیلہ کی غرض سے نکاح کرے گا تو عندالشرع وہ نکاح ہرگز درست نہیں ہوگا اور زنا کے حکم میں ہوگا.لہذا ایسا شخص جو اسلام پر حلالہ کی تہمت لگانا چاہتا ہے اس کو یا درکھنا چاہئے کہ اسلام کا یہ مذہب نہیں ہے اور قرآن اور صحیح بخاری اور مسلم اور دیگر احادیث
فقه المسيح 274 نکاح صحیحہ کی رو سے حلالہ قطعی حرام ہے اور مرتکب اس کا زانی کی طرح مستوجب سزا ہے.نکاح خواں کو تحفہ دینا آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 67،66) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ میری شادی سے پہلے حضرت صاحب کو معلوم ہوا تھا کہ آپ کی دوسری شادی دتی میں ہوگی.چنانچہ آپ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کے پاس اس کا ذکر کیا تو چونکہ اس وقت اس کے پاس تمام اہل حدیث لڑکیوں کی فہرست رہتی تھی اور میر صاحب بھی اہلِ حدیث تھے اور اس سے بہت میل ملاقات رکھتے تھے.اس لئے اس نے حضرت صاحب کے پاس میر صاحب کا نام لیا.آپ نے میر صاحب کو لکھا.شروع میں میر صاحب نے اس تجویز کو بوجہ تفاوت عمر نا پسند کیا مگر آخر رضامند ہو گئے اور پھر حضرت صاحب مجھے بیاہنے دتی گئے.آپ کے ساتھ شیخ حامد علی اور لالہ ملا وامل بھی تھے.نکاح مولوی نذیرحسین نے پڑھا تھا.یہ 27 رمحرم 1302ھ بروز پیر کی بات ہے.اس وقت میری عمر اٹھارہ سال کی تھی.حضرت صاحب نے نکاح کے بعد مولوی نذیر حسین کو پانچ روپے اور ایک مصلی نذر دیا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت حضرت مسیح موعود کی عمر پچاس سال کے قریب ہوگی.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے تایا میرے نکاح سے ڈیڑھ دو سال پہلے فوت ہو چکے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ تایا صاحب 1883ء میں فوت ہوئے تھے جو کہ تصنیف براہین کا آخری زمانہ تھا اور والدہ صاحبہ کی شادی نومبر 1884ء میں ہوئی تھی اور مجھے والدہ صاحبہ سے معلوم ہوا ہے کہ پہلے شادی کا دن اتوار مقرر ہوا تھا مگر حضرت صاحب نے کہہ کر پیر کر وا دیا تھا.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 51)
فقه المسيح 275 حیض کے دنوں میں عورتوں سے کیسے تعلقات ہوں سوال: مسلمان حیض کے دنوں میں بھی عورت سے جدا نہیں ہوتے.نکاح الجواب.میں نہیں سمجھ سکتا کہ ان بہتان طراز لوگوں کا یہ کیسا اعتراض ہے یہ لوگ جھوٹ بولنے کے وقت کیوں خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ (البقرة:223) یعنی حیض کے دنوں میں عورتوں سے کنارہ کرو اور ان کے نزدیک مت جاؤ یعنی صحبت کے ارادہ سے جب تک کہ وہ پاک ہو لیں.اگر ایسی صفائی سے کنارہ کشی کا بیان وید میں بھی ہو تو کوئی صاحب پیش کریں لیکن ان آیات سے یہ مراد نہیں کہ خاوند کو بغیر ارادہ صحبت کے اپنی عورت کو ہاتھ لگانا بھی حرام ہے یہ تو حماقت اور بیوقوفی ہوگی کہ بات کو اس قدر دور کھینچا جائے کہ تمدن کے ضرورات میں بھی حرج واقع ہو اور عورت کو ایام حیض میں ایک ایسی زہر قاتل کی طرح سمجھا جائے جس کے چھونے سے فی الفور موت نتیجہ ہے.اگر بغیر ارادہ صحبت عورت کو چھونا حرام ہوتا تو بیچاری عورتیں بڑی مصیبت میں پڑ جاتیں.بیمار ہوتیں تو کوئی نبض بھی دیکھ نہ سکتا، گرتیں تو کوئی ہاتھ سے اٹھ نہ سکتا اگر کسی درد میں ہاتھ پیر دبانے کی محتاج ہوتیں تو کوئی دبانہ سکتا اگر مرتیں تو کوئی دفن نہ کر سکتا کیونکہ ایسی پلید ہوگئیں کہ اب ہاتھ لگانا ہی حرام ہے سو یہ سب نافہموں کی جہالتیں ہیں اور سچ یہی ہے کہ خاوند کو ایام حیض میں صحبت حرام ہو جاتی ہے لیکن اپنی عورت سے محبت اور آثار محبت حرام نہیں ہوتے.( آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 48، 49) وٹے سٹے کی شادی اگر مہر دے کر ہو تو جائز ہے حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں:.اسلام نے اس قسم کی شادی کو نا پسند کیا ہے کہ ایک شخص اپنی لڑکی دوسرے شخص کے
فقه المسيح 276 نکاح لڑکے کو اس شرط پر دے کہ اس کے بدلہ میں وہ بھی اپنی لڑکی اس کے لڑکے کو دے.لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اگر طرفین کے فیصلے الگ الگ اوقات میں ہوئے ہوں اور ایک دوسرے کولڑ کی دینے کی شرط پر نہ ہوئے ہوں تو کوئی حرج نہیں.الفضل 15 جنوری 1918 صفحہ 4) نکاح متعہ کی ممانعت خدا نے قرآن شریف میں بجز نکاح کے ہمیں اور کوئی ہدایت نہیں دی ، ہاں شیعہ مذہب میں سے ایک فرقہ ہے کہ وہ موقت طور پر نکاح کر لیتے ہیں یعنی فلاں وقت تک نکاح اور پھر طلاق ہوگی اور اس کا نام متعہ رکھتے ہیں.مگر خدا تعالیٰ کے کلام سے ان کے پاس کوئی سند نہیں بہر حال وہ تو ایک نکاح ہے جس کی طلاق کا زمانہ معلوم ہے اور نیوگ کو طلاق کے مسئلہ سے کچھ تعلق نہیں.(نسیم دعوت روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 443،442) ایسا نکاح بھی جس کا وقت طلاق ٹھیرایا جائے ہمارے مذہب میں منع ہے.قرآن شریف صاف اس کی ممانعت فرماتا ہے.عرب کے لوگوں میں اسلام سے پہلے ایک وقت تک ایسے نکاح ہوتے تھے قرآن شریف نے منع کر دیا اور قرآن شریف کے اترنے سے وہ حرام ہو گئے.صرف بعض شیعوں کے فرقے اس کے پابند ہیں مگر وہ جاہلیت کی رسم میں گرفتار ہیں اور کسی دانشمند کے لئے جائز نہیں کہ اپنی غلطی کی پردہ پوشی کے لئے کسی دوسرے کی غلطی کا حوالہ دیں.اسلام میں متعہ کا کوئی حکم نہیں سناتن دھرم.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 470) متعہ صرف اس نکاح کا نام ہے جو ایک خاص عرصہ تک محدود کر دیا گیا ہو پھر ماسوا اس کے متعہ اوائل اسلام میں یعنی اس وقت میں جبکہ مسلمان بہت تھوڑے تھے صرف تین دن کے لئے جائز ہوا تھا اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ وہ جواز اس قسم کا تھا جیسا کہ تین دن کے بھو کے کے لئے مردار کھانا نہایت بے قراری کی حالت میں جائز ہو جاتا ہے اور پھر
فقه المسيح 277 نکاح متعہ ایسا حرام ہو گیا جیسے سور کا گوشت اور شراب حرام ہے اور نکاح کے احکام نے متعہ کے لئے قدم رکھنے کی جگہ باقی نہیں رکھی.قرآن شریف میں نکاح کے بیان میں مردوں کے حق عورتوں پر اور عورتوں کے حق مردوں پر قائم کئے گئے ہیں اور متعہ کے مسائل کا کہیں ذکر بھی نہیں.اگر اسلام میں متعہ ہوتا تو قرآن میں نکاح کے مسائل کی طرح متعہ کے مسائل بھی بسط اور تفصیل سے لکھے جاتے لیکن کسی محقق پر پوشیدہ نہیں کہ نہ تو قرآن میں اور نہ احادیث میں متعہ کے مسائل کا نام و نشان ہے لیکن نکاح کے مسائل بسط اور تفصیل سے موجود ہیں.....قرآن اور حدیث کے دیکھنے والوں پر ظاہر ہو گا کہ اسلام میں متعہ کے احکام ہرگز مذکور نہیں نہ قرآن میں اور نہ احادیث میں.اب ظاہر ہے کہ اگر متعہ شریعت اسلام کے احکام میں سے ایک حکم ہوتا تو اس کے احکام بھی ضرور لکھے جاتے اور وراثت کے قواعد میں اس کا بھی کچھ ذکر ہوتا.پس اس سے ظاہر ہے کہ متعہ اسلامی مسائل میں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے.اگر بعض احادحدیثوں پر اعتبار کیا جائے تو صرف اس قدرمعلوم ہوتا ہے کہ جب بعض صحابہ اپنے وطنوں اور اپنی جورؤں سے دور تھے تو ایک دفعہ ان کی سخت ضرورت کی وجہ سے تین دن تک متعہ ان کے لئے جائز رکھا گیا تھا اور پھر بعد اس کے ایسا ہی حرام ہو گیا جیسا کہ اسلام میں خنزیر وشراب وغیرہ حرام ہیں اور چونکہ اضطراری حکم جس کی ابدیت شارع کا مقصود نہیں شریعت میں داخل نہیں ہوتے اس لئے متعہ کے احکام قرآن اور حدیث میں درج نہیں ہوئے.اصل حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے پہلے متعہ عرب میں نہ صرف جائز بلکہ عام رواج رکھتا تھا اور شریعت اسلامی نے آہستہ آہستہ عرب کی رسوم کی تبدیلی کی ہے سو جس وقت بعض صحابہ متعہ کے لئے بیقرار ہوئے سو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتظامی اور اجتہادی طور پر اس رسم کے موافق بعض صحابہ کو اجازت دے دی کیونکہ قرآن میں ابھی اس رسم کے بارے میں کوئی ممانعت نہیں آئی تھی پھر ساتھ ہی چند روز کے بعد
فقه المسيح 278 نکاح نکاح کی مفصل اور مبسوط ہدایتیں قرآن میں نازل ہوئیں جو متعہ کے مخالف اور متضاد تھیں اس لئے ان آیات سے متعہ کی قطعی طور پر حرمت ثابت ہوگئی.یہ بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ گومتعہ صرف تین دن تک تھا مگر وحی اور الہام نے اس کے جواز کا دروازہ نہیں کھولا بلکہ وہ پہلے سے ہی عرب میں عام طور پر رائج تھا اور جب صحابہ کو بے وطنی کی حالت میں اس کی ضرورت پڑی تو آنحضرت نے دیکھا کہ متعہ ایک نکاح موقت ہے.کوئی حرام کاری اس میں نہیں کوئی ایسی بات نہیں کہ جیسی خاوند والی عورت دوسرے سے ہم بستر ہو جاوے بلکہ در حقیقت بیوہ یا باکرہ سے ایک نکاح ہے جو ایک وقت تک مقرر کیا جاتا ہے تو آپ نے اس خیال سے کہ نفس متعہ میں کوئی بات خلاف نکاح نہیں.اجتہادی طور پر پہلی رسم کے لحاظ سے اجازت دیدی لیکن خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تھا کہ جیسا کہ اور صد با عرب کی بیہودہ رسمیں دور کر دی گئیں ایسا ہی متعہ کی رسم کو بھی عرب میں سے اٹھا دیا جاوے سوخدا نے قیامت تک متعہ کو حرام کر دیا.ماسوا اس کے یہ بھی سوچنا چاہئے.کہ نیوگ کو متعہ سے کیا مناسبت ہے نیوگ پر تو ہمارا یہ اعتراض ہے کہ اس میں خاوند والی عورت با وجود زندہ ہونے خاوند کے دوسرے سے ہم بستر کرائی جاتی ہے.لیکن متعہ کی عورت تو کسی دوسرے کے نکاح میں نہیں ہوتی.بلکہ ایک باکرہ یا بیوہ ہوتی ہے جس کا ایک مقررہ وقت تک ایک شخص سے نکاح پڑھا جاتا ہے.سو خو د سوچ لو کہ متعہ کو نیوگ سے کیا نسبت ہے اور نیوگ کو متعہ سے کیا مناسبت.آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 67 تا 70) اسلام نے متعہ کو رواج نہیں دیا عیسائیوں کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: نادان عیسائیوں کو معلوم نہیں کہ اسلام نے متعہ کو رواج نہیں دیا بلکہ جہاں تک ممکن تھا اس کو دنیا میں سے گھٹایا.اسلام سے پہلے نہ صرف عرب میں بلکہ دنیا کی اکثر قوموں میں متعہ کی
فقه المسيح 279 نکاح رسم تھی یعنی یہ کہ ایک وقت خاص تک نکاح کرنا پھر طلاق دے دینا اور اس رسم کے پھیلانے والے اسباب میں سے ایک یہ بھی سبب تھا کہ جو لوگ لشکروں میں منسلک ہو کر دوسرے ملکوں میں جاتے تھے یا بطریق تجارت ایک مدت تک دوسرے ملک میں رہتے تھے.ان کو موقت نکاح یعنی متعہ کی ضرورت پڑتی تھی اور کبھی یہ بھی باعث ہوتا کہ غیر ملک کی عورتیں پہلے سے بتلا دیتی تھیں کہ وہ ساتھ جانے پر راضی نہیں اس لئے اس نیت سے نکاح ہوتا تھا کہ فلاں تاریخ طلاق دی جائے گی.پس یہ سچ ہے کہ ایک دفعہ یا دو دفعہ اس قدیم رسم پر بعض مسلمانوں نے بھی عمل کیا.مگر وحی اور الہام سے نہیں بلکہ جو قوم میں پرانی رسم تھی معمولی طور پر اس پر عمل ہو گیا لیکن متعہ میں بجز اس کے اور کوئی بات نہیں کہ وہ ایک تاریخ مقررہ تک نکاح ہوتا ہے اور وحی الہی نے آخر اس کو حرام کر دیا.متبنی حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہوتا ( نور القرآن نمبر 2.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 450) آریوں کے ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا : اب ہم ان آریوں کے اس پر افترا اعتراض کی بیخ کنی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو انہوں نے زینب کے نکاح کی نسبت تراشا ہے.ان مفتری لوگوں نے اعتراض کی بنا دو باتیں ٹھہرائی ہیں (1) یہ کہ متبنی اگر اپنی جو رو کوطلاق دے دیوے تو متبنی کرنے والے کو اس عورت سے نکاح جائز نہیں (2) یہ کہ زینب آنحضرت کے نکاح سے ناراض تھی تو گویا آنحضرت نے زینب کے معقول عذر پر یہ بہانہ گھڑا کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے سو ہم ان دو باتوں کا ذیل میں جواب دیتے ہیں.امراوّل کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ متبنی کرتے ہیں ان کا یہ دعوی سراسر لغو اور باطل ہے کہ وہ حقیقت میں بیٹا ہو جاتا ہے اور بیٹوں کے تمام احکام اس کے متعلق ہوتے ہیں.
فقه المسيح 280 نکاح ظاہر ہے کہ قانون قدرت اس بیہودہ دعوی کو رد کرتا ہے اس لئے کہ جس کا نطفہ ہوتا ہے اسی کے اعضاء میں سے بچہ کے اعضاء حصہ لیتے ہیں اسی کے قومی کے مشابہ اس کے قومی ہوتے ہیں اور اگر وہ انگریزوں کی طرح سفید رنگ رکھتا ہے تو یہ بھی اس سفیدی سے حصہ لیتا ہے اگر وہ حبشی ہے تو اس کو بھی اس سیاہی کا بخرہ ملتا ہے اگر وہ آ تشک زدہ ہے تو یہ بیچارہ بھی اسی بلا میں پھنس جاتا ہے.غرض جس کا حقیقت میں نطفہ ہے اسی کے آثار بچہ میں ظاہر ہوتے ہیں جیسی گیہوں سے گیہوں پیدا ہوتی ہے اور چنے سے چنا نکلتا ہے پس اس صورت میں ایک کے نطفہ کو اس کے غیر کا بیٹا قرار دینا واقعات صحیحہ کے مخالف ہے.ظاہر ہے کہ صرف منہ کے دعوی سے واقعات حقیقیہ بدل نہیں سکتے مثلاً اگر کوئی کہے کہ میں نے سم الفار کے ایک ٹکڑہ کو طبا شیر کا ٹکڑہ سمجھ لیا تو وہ اس کے کہنے سے طباشیر نہیں ہو جائے گا اور اگر وہ اس وہم کی بناء پر اسے کھائے گا تو ضرور مرے گا جس حالت میں خدا نے زید کو بکر کے نطفہ سے پیدا کر کے بکر کا بیٹا بنا دیا تو پھر کسی انسان کی فضول گوئی سے وہ خالد کا بیٹا نہیں بن سکتا اور اگر بکر اور خالد ایک مکان میں اکٹھے بیٹھے ہوں اور اس وقت حکم حاکم پہنچے کہ زید جس کا حقیقت میں بیٹا ہے اس کو پھانسی دیا جائے تو اس وقت خالد فی الفور عذر کر دے گا کہ زید حقیقت میں بکر کا بیٹا ہے میرا اس سے کچھ تعلق نہیں.یہ ظاہر ہے کہ کسی شخص کے دوباپ تو نہیں ہو سکتے پس اگر متبنی بنانے والا حقیقت میں باپ ہو گیا ہے تو یہ فیصلہ ہونا چاہئے کہ اصلی باپ کس دلیل سے لا دعویٰ کیا گیا ہے.غرض اس سے زیادہ کوئی بات بھی بیہودہ نہیں کہ خدا کی بنائی ہوئی حقیقتوں کو بدل ڈالنے کا قصد کریں....اب چونکہ عقل کسی طرح قبول نہیں کر سکتی کہ متبنی در حقیقت اپنا ہی لڑکا ہو جاتا ہے اس لئے ایسے اعتراض کرنے والے پر واجب ہے کہ اعتراض سے پہلے اس دعوے کو ثابت کرے اور در حقیقت اعتراض تو ہمارا حق ہے کہ کیونکر غیر کا نطفہ جو غیر کے خواص اپنے اندر رکھتا ہے اپنا نطفہ بن سکتا ہے پہلے اس اعتراض کا جواب دیں اور پھر ہم پر اعتراض
فقه المسيح 281 نکاح کریں اور یہ بھی یادر ہے کہ زید جو زینب کا پہلا خاوند تھا وہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام تھا آپ نے اپنے کرم ذاتی کی وجہ سے اس کو آزاد کر دیا اور بعض دفعہ اس کو بیٹا کہا تا غلامی کا داغ اس پر سے جاتا رہے چونکہ آپ کریم النفس تھے اس لئے زید کو قوم میں عزت دینے کے لئے آپ کی یہ حکمت عملی تھی مگر عرب کے لوگوں میں یہ رسم پڑ گئی تھی کہ اگر کسی کا استاد یا آقا یا مالک اس کو بیٹا کر کے پکارتا تو وہ بیٹا ہی سمجھا جاتا یہ رسم نہایت خراب تھی اور نیز ایک بیہودہ و ہم پر اس کی بنا تھی کیونکہ جبکہ تمام انسان بنی نوع ہیں تو اس لحاظ سے جو برابر کے آدمی ہیں وہ بھائیوں کی طرح ہیں اور جو بڑے ہیں وہ باپوں کی مانند ہیں اور چھوٹے بیٹوں کی طرح ہیں لیکن اس خیال سے اگر مثلاً کوئی ہندو ادب کی راہ سے قوم کے کسی مین آدمی کو باپ کہہ دے یا کسی ہم عمر کو بھائی کہہ دے تو کیا اس سے یہ لازم آئے گا کہ وہ قول ایک سند متصور ہو کر اس ہندو کی لڑکی اس پر حرام ہو جائے گی یا اس کی بہن سے شادی نہیں ہو سکے گی اور یہ خیال کیا جائے گا کہ اتنی بات میں وہ حقیقی ہمشیرہ بن گئیں اور اس کے مال کی وارث ہو گئیں یا یہ ان کے مال کا وارث ہو گیا.اگر ایسا ہوتا تو ایک شریر آدمی ایک لا ولد اور مالدار کو اپنے منہ سے باپ کہہ کر اس کے تمام مال کا وارث بن جاتا کیونکہ اگر صرف منہ سے کہنے کے ساتھ کوئی کسی کا بیٹا بن سکتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ صرف منہ سے کہنے سے باپ نہ بن جائے پس اگر یہی سچ ہے تو مفلسوں ناداروں کے لئے نقب زنی یا ڈا کہ مارنے سے بھی یہ عمدہ تر نسخہ ہو جائے گا یعنی ایسے لوگ کسی آدمی کو دیکھ کر جو کئی لاکھ یا کئی کروڑ کی جائیداد رکھتا ہو اور لا ولد ہو کہہ سکتے ہیں کہ میں نے تجھ کو باپ بنایا پس اگر وہ حقیقت میں باپ ہو گیا ہے تو ایسے مذہب کی رو سے لازم آئے گا کہ اس لا ولد کے مرنے کے بعد سارا مال اس شخص کو مل جائے اور اگر وہ باپ نہیں بن سکا تو اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ مسئلہ ہی جھوٹا ہے اور نیز ایسا ہی ایک شخص کسی کو بیٹا کہہ کر ایسا ہی فریب کر سکتا ہے.آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 55 تا 58)
فقه المسيح 282 نکاح متبنی کی مطلقہ سے نکاح کا جواز خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں پہلے ہی یہ حکم فرما دیا تھا کہ تم پر صرف ان بیٹوں کی عورتیں حرام ہیں جو تمہارے صلبی بیٹے ہیں.جیسا کہ یہ آیت ہے.وَحَلَائِلُ ابْنَ بِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمُ (النساء : 24) یعنی تم پر فقط ان بیٹوں کی جوردان حرام ہیں جو تمہاری پشت اور تمہارے نطفہ سے ہوں.پھر جبکہ پہلے سے یہی قانون تعلیم قرآنی میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہو چکا ہے اور یہ زینب کا قصہ ایک مدت بعد اس کے ظہور میں آیا.تو اب ہر یک سمجھ سکتا ہے کہ قرآن نے یہ فیصلہ اسی قانون کے مطابق کیا جو اس سے پہلے منضبط ہو چکا تھا.قرآن کھولو اور دیکھو کہ زینب کا قصہ اخیری حصہ قرآن میں ہے مگر یہ قانون کہ متبنی کی جو روحرام نہیں ہو سکتی یہ پہلے حصہ میں ہی موجود ہے اور اس وقت کا یہ قانون ہے کہ جب زینب کا زید سے ابھی نکاح بھی نہیں ہوا تھا تم آپ ہی قرآن شریف کو کھول کر ان دونوں مقاموں کو دیکھ لو اور ذرہ شرم کو کام میں لاؤ.اور پھر بعد اس کے سورۃ الاحزاب میں فرمایا مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَ كُمُ أَبْنَاءَ كُمُ ذَلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِى السَّبِيلَ ادْعُوهُمُ لا بَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللهِ (الاحزاب : 5 ، 6) یعنی خدا تعالیٰ نے کسی کے پیٹ میں دو دل نہیں بنائے پس اگر تم کسی کو کہو کہ تو میرا دل ہے تو اس کے پیٹ میں دو دل نہیں ہو جائیں گے دل تو ایک ہی رہے گا اسی طرح جس کو تم ماں کہ بیٹھے وہ تمہاری ماں نہیں بن سکتی اور اسی طرح خدا نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو حقیقت میں تمہارے بیٹے نہیں کر دیا.یہ تو تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور خدا سچ کہتا ہے اور سیدھی راہ دکھلاتا ہے.تم اپنے منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو یہ تو قرآنی تعلیم ہے مگر چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ اپنے پاک نبی کانمونہ اس میں قائم کر کے پورانی رسم کی کراہت کو دلوں سے دور کر دے سو یہ نمونہ خدا تعالیٰ
فقه المسيح 283 نکاح نے قائم کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام آزاد کردہ کی بیوی کی اپنے خاوند سے سخت نا سازش ہو گئی آخر طلاق تک نوبت پہنچی.پھر جب خاوند کی طرف سے طلاق مل گئی تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیوند نکاح کر دیا.اور خدا تعالیٰ کے نکاح پڑھنے کے یہ معنی نہیں کہ زینب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایجاب قبول نہ ہوا اور جبر اخلاف مرضی زینب کے اس کو گھر میں آباد کر لیا یہ تو ان لوگوں کی بدذاتی اور ناحق کا افترا ہے جو خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے بھلا اگر وہ بچے ہیں تو اس افترا کا حدیث صحیح یا قرآن سے ثبوت تو دیں.اتنا بھی نہیں جانتے کہ اسلام میں نکاح پڑھنے والے کو یہ منصب نہیں ہوتا کہ جبڑا نکاح کر دے بلکہ نکاح پڑھنے سے پہلے فریقین کی رضا مندی ضروری ہوتی ہے.اب خلاصہ یہ کہ صرف منہ کی بات سے نہ تو بیٹا بن سکتا ہے نہ ماں بن سکتی ہے.مثلاً ہم آریوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی شخص غصہ میں آ کر یا کسی دھوکہ سے اپنی عورت کو ماں کہ بیٹھے تو کیا اس کی عورت اس پر حرام ہو جائے گی اور طلاق پڑ جائے گی اور خود یہ خیال بالبداہت باطل ہے کیونکہ طلاق تو آریوں کے مذہب میں کسی طور سے پڑ ہی نہیں سکتی خواہ اپنی بیوی کو نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ ماں کہہ دیں یا دادی کہہ دیں تو پھر جبکہ صرف منہ کے کہنے سے کوئی عورت ماں یا دادی نہیں بن سکتی تو پھر صرف منہ کی بات سے کوئی غیر کا نطفہ بیٹا کیونکر بن سکتا ہے اور کیونکر قبول کیا جاتا ہے کہ در حقیقت بیٹا ہو گیا اور اس کی عورت اپنے پر حرام ہوگئی.خدا کے کلام میں اختلاف نہیں ہو سکتا پس بلا شبہ یہ بات صحیح ہے کہ اگر صرف منہ کی بات سے ایک آریہ کی عورت اس کی ماں نہیں بن سکتی تو اسی طرح صرف منہ کی بات سے غیر کا بیٹا بیٹا بھی نہیں بن سکتا.آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 58 تا60)
فقه المسيح 284 طلاق طلاق طلاق کی اجازت دینے میں حکمت اگر کوئی عورت اذیت اور مصیبت کا باعث ہو تو ہم کو کیونکر یہ خیال کرنا چاہئے کہ خدا ہم سے ایسی عورت کے طلاق دینے سے ناخوش ہو گا.میں دل کی سختی کو اس شخص سے منسوب کرتا ہوں جو اس عورت کو اپنے پاس رہنے دے نہ اس شخص سے جو اس کو ایسی صورتوں میں اپنے گھر سے نکال دے ناموافقت سے عورت کو رکھنا ایسی سختی ہے جس میں طلاق سے زیادہ بے رحمی ہے.طلاق ایک مصیبت ہے جو ایک بدتر مصیبت کے عوض اختیار کی جاتی ہے.تمام معاہدے بدعہدی سے ٹوٹ جاتے ہیں پھر اس پر کون سی معقول دلیل ہے کہ نکاح کا معاہدہ ٹوٹ نہیں سکتا.اور کیا وجہ کہ نکاح کی نوعیت تمام معاہدوں سے مختلف ہے.عیسی نے زنا کی شرط سے طلاق کی اجازت دی مگر آخر اجازت تو دیدی.نکاح ملاپ کے لئے ہے اس لئے نہیں کہ ہم دائمی تردد اور نزاع کے باعث سے پریشان خاطر ر ہیں.) آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 53-54 حاشیہ ) طلاق کا اختیار مرد کو کیوں دیا ؟ ( معترض نے.ناقل ) ایک یہ اعتراض قرآن شریف پر پیش کیا کہ خاوند کی مرضی پر طلاق رکھی ہے، اس سے شاید اس کا یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ عقل کی رُو سے مرد اور عورت درجہ میں برابر ہیں تو پھر اس صورت میں طلاق کا اختیار محض مرد کے ہاتھ میں رکھنا بلا شبہ قابل اعتراض ہوگا.پس اس اعتراض کا یہی جواب ہے کہ مرد اور عورت درجہ میں ہرگز برابر نہیں.دنیا کے قدیم تجربہ نے یہی ثابت کیا ہے کہ مرد اپنی جسمانی اور علمی طاقتوں میں عورتوں سے بڑھ کر ہیں اور شاذ و نادر حکم معدوم کا رکھتا ہے پس جب مرد کا درجہ باعتبار اپنے ظاہری اور باطنی قوتوں کے عورت سے بڑھ کر ہے تو پھر یہی قرین انصاف ہے کہ مرد اور عورت کے علیحدہ
فقه المسيح 285 طلاق ہونے کی حالت میں عنان اختیار مرد کے ہاتھ میں ہی رکھی جائے.تمام دنیا میں انسانی فطرت نے یہی پسند کیا ہے کہ ضرورتوں کے وقت میں مرد عورتوں کو طلاق دیتے ہیں اور مرد کا عورت پر ایک حق زائد بھی ہے کہ مرد عورت کی زندگی کے تمام اقسام آسائش کا متکفل ہو جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ (البقرة : (234) یعنی یہ بات مردوں کے ذمہ ہے کہ جو عورتوں کو کھانے کے لئے ضرورتیں ہوں یا پہننے کے لئے ضرورتیں ہوں وہ سب اُن کے لئے مہیا 60 کریں.اس سے ظاہر ہے کہ مرد عورت کا مربی اور محسن اور ذمہ وار آسائش کا ٹھہرایا گیا ہے اور وہ عورت کے لئے بطور آقا اور خداوند نعمت کے ہے اسی طرح مرد کو بہ نسبت عورت کے فطرتی قومی زبر دست دیئے گئے ہیں.یہی وجہ ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے مرد عورت پر حکومت کرتا چلا آیا ہے اور مرد کی فطرت کو جس قدر باعتبار کمال قوتوں کے انعام عطا کیا گیا ہے وہ عورت کی قوتوں کو عطا نہیں کیا گیا اور قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ اگر مرد اپنی عورت کو مروت اور احسان کی رو سے ایک پہاڑ سونے کا بھی دے تو طلاق کی حالت میں واپس نہ لے.اس سے ظاہر ہے کہ اسلام میں عورتوں کی کس قدر عزت کی گئی ہے ایک طور سے تو مردوں کو عورتوں کا نوکر ٹھہرایا گیا ہے اور بہر حال مردوں کے لئے قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء: 20) یعنی تم اپنی عورتوں سے ایسے حسن سلوک سے معاشرت کرو کہ ہر ایک عظمند معلوم کر سکے کہ تم اپنی بیوی سے احسان اور مروت سے پیش آتے ہو.چشمہ معرفت - روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 286 تا 288) عورت خود بخود نکاح توڑنے کی مجاز کیوں نہیں؟ مسلمانوں میں نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں مرد کی طرف سے مہر اور تعہد نان و نفقہ اور اسلام اور حسن معاشرت شرط ہے اور عورت کی طرف سے عفت اور پاکدامنی اور نیک چلنی اور فرمانبرداری شرائط ضرور یہ میں سے ہے اور جیسا کہ دوسرے تمام معاہدے شرائط کے ٹوٹ
فقه المسيح 286 طلاق جانے سے قابل فسخ ہو جاتے ہیں ایسا ہی یہ معاہدہ بھی شرطوں کے ٹوٹنے کے بعد قابل فسخ ہو جاتا ہے صرف یہ فرق ہے کہ اگر مرد کی طرف سے شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خود بخود نکاح کے توڑنے کی مجاز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود بخود نکاح کرنے کی مجاز نہیں بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ سے نکاح کو توڑا اسکتی ہے جیسا کہ ولی کے ذریعہ سے نکاح کو کراسکتی ہے اور یہ کی اختیار اس کی فطرتی شتاب کاری اور نقصان عقل کی وجہ سے ہے.( آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 37 ) طلاق کا موجب صرف زنا نہیں انجیل کہتی ہے کہ اپنی بیوی کو بجز زنا کے ہرگز طلاق نہ دے.مگر قرآن شریف اس بات کی مصلحت دیکھتا ہے کہ طلاق صرف زنا سے مخصوص نہیں بلکہ اگر مرد اور عورت میں باہم دشمنی پیدا ہو جاوے اور موافقت نہ ر ہے یا مثلا اندیشہ جان ہو یا اگر چہ عورت زانیہ نہیں مگر زنا کے مقدمات اُس سے صادر ہوتے ہیں اور غیر مردوں کو ملتی ہے تو ان تمام صورتوں میں خاوند کی رائے پر حصر رکھا گیا ہے کہ اگر وہ مناسب دیکھے تو چھوڑ دے.مگر پھر بھی تاکید ہے اور نہایت سخت تاکید ہے کہ طلاق دینے میں جلدی نہ کرے.اب ظاہر ہے کہ قرآن شریف کی تعلیم انسانی حاجات کے مطابق ہے اور اُن کے ترک کرنے سے کبھی نہ کبھی کوئی خرابی ضرور پیش آئے گی.اسی وجہ سے بعض یورپ کی گورنمنٹوں کو جواز طلاق کا قانون پاس کرنا پڑا.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 414،413) طلاق کے بعد مہر عورت کا حق ہے اگر یہ کہو کہ مسلمان بے وجہ بھی عورتوں کو طلاق دے دیتے ہیں تو تمہیں معلوم ہے کہ ایشر نے مسلمانوں کو لغو کام کرنے سے منع کیا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (المومنون (4) اور قرآن میں بے وجہ طلاق دینے والوں کو بہت ہی ڈرایا
فقه المسيح 287 طلاق ہے.ماسوا اس کے تم اس بات کو بھی تو ذرا سوچو کہ مسلمان اپنی حیثیت کے موافق بہت سا مال خرچ کر کے ایک عورت سے شادی کرتے ہیں اور ایک رقم کثیر عورت کے مہر کی ان کے ذمہ ہوتی ہے اور بعضوں کے مہر کئی ہزار اور بعض کے ایک لاکھ یا کئی لاکھ ہوتے ہیں اور یہ مہر عورت کا حق ہوتا ہے اور طلاق کے وقت بہر حال اس کا اختیار ہوتا ہے کہ وصول کرے اور نیز قرآن میں یہ حکم ہے کہ اگر عورت کو طلاق دی جائے تو جس قدر مال عورت کو طلاق سے پہلے دیا گیا ہے وہ عورت کا ہی رہے گا.اور اگر عورت صاحب اولاد ہو تو بچوں کے تعہد کی مشکلات اس کے علاوہ ہیں اسی واسطے کوئی مسلمان جب تک اس کی جان پر ہی عورت کی وجہ سے کوئی و بال نہ پڑے تب تک طلاق کا نام نہیں لیتا.(آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 40) طلاق کا قانون باعث رحمت ہے انجیل میں طلاق کے مسئلہ کی بابت صرف زنا کی شرط تھی اور دوسرے صدہا طرح کے اسباب جو مرد اور عورت میں جانی دشمنی پیدا کر دیتے ہیں ان کا کچھ ذکر نہ تھا.اس لئے عیسائی قوم اس خامی کی برداشت نہ کر سکی اور آخر امریکہ میں ایک طلاق کا قانون پاس کرنا پڑا.سواب سوچو کہ اس قانون سے انجیل کدھر گئی.اور اے عورتو! فکر نہ کرو جو تمہیں کتاب ملی ہے وہ انجیل کی طرح انسانی تصرف کی محتاج نہیں اور اس کتاب میں جیسے مردوں کے حقوق محفوظ ہیں عورتوں کے حقوق بھی محفوظ ہیں.اگر عورت مرد کے تعدد ازدواج پر ناراض ہے تو وہ بذریعہ حاکم خلع کراسکتی ہے.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 80، 81) طلاق کی ضرورت قدرتی طور پر ایسی آفات ہر یک قوم کے لئے ہمیشہ ممکن الظہو ر ہیں جن سے بچنا بجز طلاق کے متصور نہیں.مثلاً اگر کوئی عورت زانیہ ہو تو کس طرح اس کے خاوند کی غیرت اس کو اجازت دے سکتی ہے کہ وہ عورت اس کی بیوی کہلا کر پھر دن رات زنا کاری کی حالت میں
فقه المسيح 288 طلاق مشغول رہے.ایسا ہی اگر کسی کی جو رو اس قدر دشمنی میں ترقی کرے کہ اس کی جان کی دشمن ہو جاوے اور اس کے مارنے کی فکر میں لگی رہے تو کیا وہ ایسی عورت سے امن کے ساتھ زندگی بسر کر سکتا ہے.بلکہ ایک غیرت مند انسان جب اپنی عورت میں اس قدر خرابی بھی دیکھے کہ اجنبی شہوت پرست اس کو پکڑتے ہیں اور اس کا بوسہ لیتے ہیں اور اس سے ہم بغل ہوتے ہیں اور وہ خوشی سے یہ سب کام کراتی ہے تو گو تحقیق کے رو سے ابھی زنا تک نوبت نہ پہنچی ہو بلکہ وہ فاسقہ موقع کے انتظار میں ہوتا ہم کوئی غیرت مند ایسی ناپاک خیال عورت سے نکاح کا تعلق رکھنا نہیں چاہتا....عورت کا جوڑا اپنے خاوند سے پاکدامنی اور فرماں برداری اور باہم رضامندی پر موقوف ہے اور اگر ان تین باتوں میں سے کسی ایک بات میں بھی فرق آ جاوے تو پھر یہ جوڑ قائم رہنا محالات میں سے ہو جاتا ہے.انسان کی بیوی اس کے اعضاء کی طرح ہے.پس اگر کوئی عضو سر گل جائے یا ہڈی ایسی ٹوٹ جائے کہ قابل پیوند نہ ہو تو پھر بجز کاٹنے کے اور کیا علاج ہے.اپنے عضو کو اپنے ہاتھ سے کاٹنا کوئی نہیں چاہتا کوئی بڑی ہی مصیبت پڑتی ہے تب کا ٹا جاتا ہے.( حاشیہ.خدا تعالیٰ نے جو ضرورتوں کے وقت میں مرد کو طلاق دینے کی اجازت دی اور کھول کر یہ نہ کہا کہ عورت کی زنا کاری سے یا کسی اور بدمعاشی کے وقت اس کو طلاق دی جاوے اس میں حکمت یہ ہے کہ خدا تعالی کی ستاری نے چاہا کہ عورت کی تشہیر نہ ہو.اگر طلاق کے لئے زنا وغیرہ جرائم کا اعلان کیا جاتا تو لوگ سمجھتے کہ اس عورت پر کسی بدکاری کا شبہ ہے یا فلاں فلاں بدکاری کی قسموں میں سے ضرور اس نے کوئی بدکاری کی ہوگی مگر اب یہ راز خاوند تک محدود رہتا ہے.) پس جس حکیم مطلق نے انسان کے مصالح کے لئے نکاح تجویز کیا ہے اور چاہا ہے کہ مرد اور عورت ایک ہو جائیں.اُسی نے مفاسد ظاہر ہونے کے وقت اجازت دی ہے کہ اگر آرام اس میں متصور ہو کہ کرم خوردہ دانت یا سڑے ہوئے عضو یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کی طرح موذی کو علیحدہ کر دیا جائے تو اسی طرح کار بند ہو کر اپنے تئیں فوق الطاقت آفت سے بچالیں کیونکہ
فقه المسيح 289 طلاق جس جوڑ سے وہ فوائد مترتب نہیں ہو سکتے کہ جو اس جوڑ کی علت غائی ہیں بلکہ ان کی ضد پیدا ہوتی ہے تو وہ جوڑ در حقیقت جوڑ نہیں ہے.(آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 65، 66) وجوہ طلاق ظاہر کرنا ضروری نہیں ایک صاحب نے اپنی عورت کو طلاق دی عورت کے رشتہ داروں نے حضرت کی خدمت میں شکایت کی کہ بے وجہ اور بے سبب طلاق دی گئی ہے مرد کے بیانوں سے یہ بات پائی گئی کہ اگر اسے کوئی ہی سزا دی جاوے مگر وہ اس عورت کو بسانے پر ہرگز آمادہ نہیں ہے عورت کے رشتہ داروں نے جو شکایت کی تھی ان کا منشاء تھا کہ پھر آبادی ہو اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ:.عورت مرد کا معاملہ آپس میں جو ہوتا ہے اس پر دوسرے کو کامل اطلاع نہیں ہوتی بعض وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی مخش عیب عورتوں میں نہیں ہوتا مگر تا ہم مزاجوں کی ناموافقت ہوتی ہے جو کہ باہمی معاشرت کی مخل ہوتی ہے ایسی صورت میں مرد طلاق دے سکتا ہے.بعض وقت عورت گوولی ہو اور بڑی عابد اور پرہیز گار اور پاکدامن ہو...اور اس کو طلاق دینے میں خاوند کو بھی رحم آتا ہو بلکہ وہ روتا بھی ہو مگر پھر بھی چونکہ اس کی طرف سے کراہت ہوتی ہے اس لیے وہ طلاق دے سکتا ہے مزاجوں کا آپس میں موافق نہ ہونا یہ بھی ایک شرعی امر ہے اس لیے ہم اب اس میں دخل نہیں دے سکتے جو ہوا سو ہوا.مہر کا جو جھگڑا ہو وہ آپس میں فیصلہ کر لیا جاوے.کیا بوڑھی عورت کو طلاق دی جا سکتی ہے؟ البدر یکم مئی 1903 صفحہ 117) اور یہ اعتراض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سودہ کو پیرانہ سالی کے سبب سے طلاق دینے کے لئے مستعد ہو گئے تھے.سراسر غلط اور خلاف واقعہ ہے اور جن لوگوں نے ایسی روائتیں کی ہیں وہ اس بات کا ثبوت نہیں دے سکے کہ کس شخص کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ارادہ ظاہر کیا پس اصل حقیقت جیسا کہ کتب معتبرہ احادیث میں
فقه المسيح 290 طلاق مذکور ہے یہ ہے کہ خود سودہ نے ہی اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے دل میں یہ خوف کیا کہ اب میری حالت قابل رغبت نہیں رہی ایسا نہ ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باعث طبعی کراہت کے جو منشاء بشریت کو لازم ہے مجھ کو طلاق دے دیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی امر کراہت کا بھی اس نے اپنے دل میں سمجھ لیا ہو اور اس سے طلاق کا اندیشہ دل میں جم گیا ہو کیونکہ عورتوں کے مزاج میں ایسے معاملات میں وہم اور وسوسہ بہت ہوا کرتا ہے اس لئے اس نے خود بخود ہی عرض کر دیا کہ میں اس کے سوا اور کچھ نہیں چاہتی کہ آپ کی ازواج میں میرا حشر ہو.چنانچہ نیل الاوطار کے ص 140 میں یہ حدیث ہے: إِنَّ السَّوْدَةَ بِنْت زَمعة حِيْنَ أَسَنَّتُ وَ خَافَتْ اَنْ يُفَارِقَهَا رَسُولُ اللهِ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللهِ وَهَبْتُ يَوْمِي لِعَائِشَةَ فَقَبِلَ ذلِكَ مِنْهَا...و رواه ايضًا سعد و سعید ابن منصور والترمذی و عبد الرزاق قال الحافظ فى الفتح فتواردت هذه الروايات على انها خشيت الطلاق.یعنی سودہ بنت زمعہ کو جب اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے اس بات کا خوف ہوا کہ اب شائد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو جاؤں گی تو اس نے کہا یا رسول اللہ میں نے اپنی نوبت عائشہ کو بخش دی.آپ نے یہ اس کی درخواست قبول فرمالی.ابن سعد اور سعید بن منصور اور ترمذی اور عبد الرزاق نے بھی یہی روایت کی ہے اور فتح الباری میں لکھا ہے کہ اسی پر روایتوں کا توارد ہے کہ سودہ کو آپ ہی طلاق کا اندیشہ ہوا تھا.اب اس حدیث سے ظاہر ہے کہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ارادہ ظاہر نہیں ہوا بلکہ سودہ نے اپنی پیرانہ سالی کی حالت پر نظر کر کے خود ہی اپنے دل میں یہ خیال قائم کر لیا تھا اور اگر ان روایات کے تو ارد اور تظاهر کو نظر انداز کر کے فرض بھی کر لیں کہ آنحضرت نے طبعی کراہت کے باعث سودہ کو پیرانہ سالی کی حالت میں پا کر طلاق کا ارادہ کیا تھا تو اس میں بھی کوئی برائی نہیں اور نہ یہ امر کسی اخلاقی حالت کے خلاف ہے.کیونکہ جس امر پر عورت مرد
فقه المسيح 291 طلاق کے تعلقات مخالطت موقوف ہیں.اگر اس میں کسی نوع سے کوئی ایسی روک پیدا ہو جائے کہ اس کے سبب سے مرد اس تعلق کے حقوق کی بجا آوری پر قادر نہ ہو سکے تو ایسی حالت میں اگر وہ اصول تقویٰ کے لحاظ سے کوئی کاروائی کرے تو عند العقل کچھ جائے اعتراض نہیں.( نور القرآن.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 380 تا 382) طلاق میں جلدی نہ کرو حضرت مسیح موعود نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ”روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کروان کے لئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پر ہیز کرو کیونکہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے.جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو.“ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 75) ایڈیٹر صاحب بدر تحریر کرتے ہیں کہ بار ہا دیکھا گیا اور تجربہ کیا گیا ہے کہ جب کوئی شخص خفیف عذرات پر عورت سے قطع تعلق کرنا چاہتا ہے تو یہ امر حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کے ملال کا موجب ہوتا ہے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص سفر میں تھا اس نے اپنی بیوی کو لکھا کہ اگر وہ بدیدن خط جلدی اس کی طرف روانہ نہ ہو گی تو اُسے طلاق دے دی جاوے گی.سنا گیا ہے کہ اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا تھا: "جو شخص اس قدر جلدی قطع تعلق کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو ہم کیسے امید کر سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اس کا پکا تعلق ہے.“ ایسا ہی ایک واقعہ اب چند دنوں سے پیش تھا کہ ایک صاحب نے اول بڑے چاہ سے ایک شریف لڑکی کے ساتھ نکاح ثانی کیا مگر بعد ازاں بہت سے خفیف عذر پر دس ماہ کے اندر ہی انہوں نے چاہا کہ اس سے قطع تعلق کر لیا جاوے.اس پر حضرت اقدس علیہ السلام کو بہت سخت
فقه المسيح 292 طلاق ملال ہوا اور فرمایا: مجھے اس قدر غصہ ہے کہ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا اور ہماری جماعت میں ہو کر پھر یہ ظالمانہ طریق اختیار کرنا سخت عیب کی بات ہے.چنانچہ دوسرے دن پھر حضور علیہ السلام نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ وہ صاحب اپنی اس نئی یعنی دوسری بیوی کو علیحدہ مکان میں رکھیں جو کچھ زوجہ اول کو دیویں وہی اسے دیو میں ایک شب اُدھر رہیں تو ایک شب ادھر رہیں اور دوسری عورت کوئی لونڈی غلام نہیں ہے بلکہ بیوی ہے اُسے زوجہ اول کا دست نگر کر کے نہ رکھا جاوے.ایسا ہی ایک واقعہ اس سے پیشتر کئی سال ہوئے گزر چکا ہے کہ ایک صاحب نے حصول اولاد کی نیت سے نکاح ثانی کیا اور بعد نکاح رقابت کے خیال سے زوجہ اول کو جو صدمہ ہوا اور نیز خانگی تنازعات نے ترقی پکڑی تو انہوں نے گھبرا کر زوجہ ثانی کو طلاق دے دی.اس پر حضرت اقدس نے ناراضگی ظاہر فرمائی.چنانچہ اس خاوند نے پھر اس زوجہ کی طرف میلان کر کے اسے اپنے نکاح میں لیا اور وہ بیچاری بفضل خدا اس دن سے اب تک اپنے گھر میں آباد ہے.شرطی طلاق فرمایا: ( البدر 26 جون 1903 ء صفحہ 178 ) اگر شرط ہو کہ فلاں بات ہو تو طلاق ہے اور وہ بات ہو جائے تو پھر واقعی طلاق ہو جاتی ہے.جیسے کوئی شخص کہے کہ اگر فلاں پھل کھاؤں تو طلاق ہے اور پھر وہ پھل کھالے تو طلاق ہو جاتی ہے.“ (البدر 12 جون 1903 صفحہ 162) حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ مباحثے کے دوران ایک موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: مولوی صاحب کا یہ عقیدہ کسی طرح بھی صحیح اور درست نہیں ہے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے.ناظرین اسننے کے لائق یہ بات ہے کہ چونکہ قرآن شریف وحی متلو ہے اور تمام کلام
فقه المسيح 293 طلاق مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمع ہو چکا تھا اور یہ کلام الہی تھا اور حدیث شریف کا ایسا انتظام نہیں تھا اور نہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھی گئی تھیں اور وہ مرتبہ اور درجہ جو قرآن شریف کو حاصل ہے وہ حدیث کو نہیں ہے کیونکہ یہ روایت در روایت پہنچی ہیں اگر کوئی شخص اس بات کی قسم کھاوے کہ قرآن شریف کا حرف حرف کلام الہی ہے اور جو یہ کلام الہی نہیں ہے تو میری بیوی پر طلاق ہے تو شرعا اس کی بیوی پر طلاق وارد نہیں ہوسکتا.اور جو حدیث کی نسبت قسم کھالے اور کہے کہ لفظ لفظ حرف حرف حدیث کا وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلا ہے.اگر نہیں ہے تو میری جو رو پر طلاق ہے تو بے شک وشبہ اس کی بیوی پر طلاق پڑ جاوے گا.یہ حضرت اقدس کی زبانی تقریر کا خلاصہ ہے.( تذکرۃ المہدی صفحہ 161) طلاق اور حلالہ ایک صاحب نے سوال کیا کہ جو لوگ ایک ہی دفعہ تین طلاق لکھ دیتے ہیں ان کی وہ طلاق جائز ہوتی ہے یا نہیں؟ اس کے جواب میں فرمایا: قرآن شریف کے فرمودہ کی رو سے تین طلاق دی گئی ہوں اور ان میں سے ہر ایک کے درمیان اتنا ہی وقفہ رکھا گیا جو قرآن شریف نے بتایا ہے تو ان تینوں کی عدت کے گذرنے کے بعد اس خاوند کا کوئی تعلق اس بیوی سے نہیں رہتا ہاں اگر کوئی اور شخص اس عورت سے عدت گزرنے کے بعد نکاح کرے اور پھر اتفاقاً وہ اس کو طلاق دیدے تو اس خاوند اوّل کو جائز ہے کہ اس بیوی سے نکاح کرلے مگر اگر دوسرا خاوند ، خاوند اول کی خاطر سے یا لحاظ سے اس بیوی کو طلاق دے تا وہ پہلا خاوند اس سے نکاح کر لے تو یہ حلالہ ہوتا ہے اور یہ حرام ہے.لیکن اگر تین طلاق ایک ہی وقت میں دی گئی ہوں تو اس خاوند کو یہ فائدہ دیا گیا ہے کہ وہ عدت کے گذرنے کے بعد بھی اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے کیونکہ یہ طلاق ناجائز طلاق تھا اور اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے موافق نہ دیا گیا تھا.
فقه المسيح 294 طلاق دراصل قرآن شریف میں غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو یہ امرنہایت ہی ناگوار ہے کہ پرانے تعلقات والے خاوند اور بیوی آپس کے تعلقات کو چھوڑ کر الگ الگ ہو جائیں.یہی وجہ ہے کہ اس نے طلاق کے واسطے بڑے بڑے شرائط لگائے ہیں.وقفہ کے بعد تین طلاق کا دینا اور ان کا ایک ہی جگہ رہنا وغیرہ یہ امور سب اس واسطے ہیں کہ شاید کسی وقت اُن کے دلی رنج دور ہو کر آپس میں صلح ہو جاوے.اکثر دیکھا جاتا ہے کہ کبھی کوئی قریبی رشتہ دار وغیرہ آپس میں لڑائی کرتے ہیں اور تازے جوش کے وقت میں حکام کے پاس عرضی پر چے لے کر آتے ہیں تو آخر دانا حکام اس وقت ان کو کہہ دیتے ہیں کہ ایک ہفتہ کے بعد آنا.اصل غرض ان کی صرف یہی ہوتی ہے کہ یہ آپس میں صلح کر لیں گے اور ان کے یہ جوش فرو ہوں گے تو پھر ان کی مخالفت باقی نہ رہے گی.اسی واسطے وہ اس وقت ان کی وہ درخواست لینا مصلحت کے خلاف جانتے ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی مرد اور عورت کے الگ ہونے کے واسطے ایک کافی موقعہ رکھ دیا ہے یہ ایک ایسا موقعہ ہے کہ طرفین کو اپنی بھلائی برائی کے سوچنے کا موقعہ مل سکتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے : الطَّلَاقُ مَرَّتَانَ (البقرة : 230) یعنی دو دفعہ کی طلاق ہونے کے بعد یا اسے اچھی طرح سے رکھ لیا جاوے یا احسان سے جدا کر دیا جاوے.اگر اتنے لمبے عرصہ میں بھی ان کی آپس میں صلح نہیں ہوتی تو پھر ممکن نہیں کہ وہ اصلاح پذیر ہوں.طلاق وقفے وقفے سے دی جائے الحکم 10 را پریل 1903ء صفحہ 14) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم میں مذکور طلاق کے متعلق درج ذیل آیات درج فرما کر ان کی تفسیر بیان فرمائی:.وَالْمَطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَثَةَ قُرُوءٍ (البقرة : 229) اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ
فقه المسيح 295 طلاق فَإِمْسَاتٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسُرِيحٌ بِإِحْسَانٍ.....(البقرة : 230 )....اور چاہیئے کہ جن عورتوں کو طلاق دی گئی وہ رجوع کی امید کے لئے تین حیض تک انتظار کریں اور ان تین حیض میں جو قریباً تین مہینے ہیں دو دفعہ طلاق ہوگی یعنی ہر یک حیض کے بعد خاوند عورت کو طلاق دے اور جب تیسرا مہینہ آوے تو خاوند کو ہوشیار ہو جانا چاہئے کہ اب یا تو تیسری طلاق دے کر احسان کے ساتھ دائمی جدائی اور قطع تعلق ہے اور یا تیسری طلاق سے رک جائے اور عورت کو حسن معاشرت کے ساتھ اپنے گھر میں آباد کرے اور یہ جائز نہیں ہوگا کہ جو مال طلاق سے پہلے عورت کو دیا تھا وہ واپس لے لے اور اگر تیسری طلاق جو تیسرے حیض کے بعد ہوتی ہے دیدے تو اب وہ عورت اس کی عورت نہیں رہی اور جب تک وہ دوسرا خاوند نہ کر لے تب تک نیا نکاح اس سے نہیں ہوسکتا.( آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 52-53) ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دینا نا جائز ہے ایک شخص کے سوال پر فرمایا : طلاق ایک وقت میں کامل نہیں ہو سکتی.طلاق میں تین طہر ہونے ضروری ہیں.فقہاء نے ایک ہی مرتبہ تین طلاق دے دینی جائز رکھی ہے مگر ساتھ ہی اس میں یہ رعایت بھی ہے کہ عدت کے بعد اگر خاوند رجوع کرنا چاہے تو وہ عورت اسی خاوند سے نکاح کر سکتی ہے اور دوسرے شخص سے بھی کر سکتی ہے.قرآن کریم کی رو سے جب تین طلاق دے دی جاویں تو پہلا خاوند اس عورت سے نکاح نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ کسی اور کے نکاح میں آوے اور پھر وہ دوسرا خاوند بلا عمداً سے طلاق دیدے.اگر وہ عمدا اسی لیے طلاق دیگا کہ اپنے پہلے خاوند سے وہ پھر نکاح کر لیوے تو یہ حرام ہوگا کیونکہ اسی کا نام حلالہ ہے جو کہ حرام ہے.فقہاء نے جو ایک دم کی تین طلاقوں کو
فقه المسيح 296 طلاق جائز رکھا ہے اور پھر عدت کے گذرنے کے بعد اسی خاوند سے نکاح کا حکم دیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اول اسے شرعی طریق سے طلاق نہیں دی.قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو طلاق بہت ناگوار ہے کیونکہ اس سے میاں بیوی دونوں کی خانہ بربادی ہو جاتی ہے اس واسطے تین طلاق اور تین طہر کی مدت مقرر کی ہے کہ اس عرصہ میں دونوں اپنا نیک و بد سمجھ کر اگر صلح چاہیں تو کر لیں.(البدر 24 را پریل 1903 ، صفحہ 105) ایک شخص نے حضرت مسیح موعود کو خط لکھا اور فتویٰ طلب کیا کہ ایک شخص نے از حد غصہ کی حالت میں اپنی عورت کو تین دفعہ طلاق دی، دلی منشاء نہ تھا.اب ہر دو پر یشان اور اپنے تعلقات کو توڑنا نہیں چاہتے.حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا: فتویٰ یہ ہے کہ جب کوئی ایک ہی جلسہ میں طلاق دے تو یہ طلاق ناجائز ہے اور قرآن کے برخلاف ہے اس لئے رجوع ہو سکتا ہے.صرف دوبارہ نکاح ہو جانا چاہئے اور اسی طرح ہم ہمیشہ فتویٰ دیتے ہیں اور یہی حق ہے.“ طلاق کے بعد دوبارہ نکاح ( بدر 31 جنوری 1907 صفحہ 4 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے گاؤں موضع کرالیاں میں تشریف لائے.میاں چراغ دین ساکن تھہ غلام نبی نے اپنی بیوی مسماۃ حسو کو طلاق دے دی ہوئی تھی.حضرت جی وہاں صلح کرانے گئے تھے تو وہاں جا کر رات رہے اور دوبارہ نکاح کرا دیا اور رات کو دیر تک وعظ بھی کیا.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 116 ، 117 )
فقه المسيح 297 طلاق حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے دوسری شادی کی تو کسی وجہ سے جلدی ہی اس بیوی کو طلاق دے دی.پھر بہت مدت شاید سال کے قریب گزر گیا.تو حضرت صاحب نے چاہا کہ وہ اس بی بی کو پھر آباد کر یں.چنانچہ مسئلہ کی تفتیش ہوئی اور معلوم ہوا کہ طلاق بائن نہیں ہے بلکہ رجعی ہے.اس لئے آپ کی منشاء سے ان کا دوبارہ نکاح ہو گیا.( یہاں بائن سے مراد دراصل طلاق بتہ ہے.ناقل ) خاکسار عرض کرتا ہے کہ پہلی بیوی سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے اولاد نہیں ہوتی تھی اور حضرت صاحب کو آرزو تھی کہ ان کے اولا د ہو جائے.اسی لئے آپ نے تحریک کر کے شادی کروائی تھی.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 761) نابالغ کی طرف سے اس کا ولی طلاق دے سکتا ہے سوال : اگر نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح اس کا ولی کردے اور ہنوز وہ نابالغ ہی ہو اور ایسی ضرورت پیش آوے تو کیا طلاق بھی ولی دے سکتا ہے؟ جواب: فرمایا: وو دے سکتا ہے.“ ( بدر 25 جولائی 1907 ، صفحہ 11)
فقه المسيح 298 خلع عورت کو ضلع کا اختیار حاصل ہے فرمایا:.خلع شریعت اسلام نے صرف مرد کے ہاتھ میں ہی یہ اختیار نہیں رکھا کہ جب کوئی خرابی دیکھے یا نا موافقت پاوے تو عورت کو طلاق دے دے بلکہ عورت کو بھی یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ بذریعہ حاکم وقت کے طلاق لے لے.اور جب عورت بذریعہ حاکم کے طلاق لیتی ہے تو اسلامی اصطلاح میں اس کا نام خُلع ہے.جب عورت مرد کو ظالم پاوے یا وہ اُس کو ناحق مارتا ہو یا اور طرح سے نا قابل برداشت بدسلوکی کرتا ہو یا کسی اور وجہ سے نا موافقت ہو یا وہ مرد در اصل نامرد ہو یا تبدیل مذہب کرے یا ایسا ہی کوئی اور سبب پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے عورت کو اُس کے گھر میں آبادر بنانا گوار ہو تو ان تمام حالتوں میں عورت یا اُس کے کسی ولی کو چاہئے کہ حاکم وقت کے پاس یہ شکایت کرے اور حاکم وقت پر یہ لازم ہوگا کہ اگر عورت کی شکایت واقعی درست سمجھے تو اس عورت کو اس مرد سے اپنے حکم سے علیحدہ کر دے اور نکاح کو تو ڑ دے لیکن اس حالت میں اس مرد کو بھی عدالت میں بلانا ضروری ہوگا کہ کیوں نہ اُس کی عورت کو اُس سے علیحدہ کیا جائے.اب دیکھو کہ یہ کس قدر انصاف کی بات ہے کہ جیسا کہ اسلام نے یہ پسند نہیں کیا کہ کوئی عورت بغیر ولی کے جو اُس کا باپ یا بھائی یا اور کوئی عزیز ہو خود بخود اپنا نکاح کسی سے کر لے ایسا ہی یہ بھی پسند نہیں کیا کہ عورت خود بخود مرد کی طرح اپنے شوہر سے علیحدہ ہو جائے بلکہ جدا ہونے کی حالت میں نکاح سے بھی زیادہ احتیاط کی ہے کہ حاکم وقت کا ذریعہ بھی فرض قرار دیا ہے تا عورت اپنے نقصان عقل کی وجہ سے اپنے تئیں کوئی ضرر نہ پہنچا سکے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 289،288) تعدد ازدواج پر ہونے والے اعتراض کے ضمن میں عورت کے حق ضلع کا ذکر کرتے ہوئے
فقه المسيح فرمایا:.299 خلع جو شخص دو بیویاں کرتا ہے اس میں خدا تعالیٰ کا حرج نہیں اگر حرج ہے تو اس بیوی کا جو پہلی بیوی ہے یا دوسری بیوی کا.پس اگر پہلی بیوی اس نکاح میں اپنی حق تلفی سمجھتی ہے تو وہ طلاق لے کر اس جھگڑے سے خلاصی پاسکتی ہے اور اگر خاوند طلاق نہ دے تو بذریعہ حاکم وقت وہ خلع کر اسکتی ہے اور اگر دوسری بیوی اپنا کچھ حرج سمجھتی ہے تو وہ اپنے نفع نقصان کو خود مجھتی ہے.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 247) حاکم وقت کے ذریعے خلع حاصل کرنے کی وجہ؟ فرمایا:.مسلمانوں میں نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں مرد کی طرف سے مہر اور تعہد نان و نفقہ اور اسلام اور حسن معاشرت شرط ہے اور عورت کی طرف سے عفت اور پاکدامنی اور نیک چلنی اور فرمانبرداری شرائط ضرور یہ میں سے ہے اور جیسا کہ دوسرے تمام معاہدے شرائط کے ٹوٹ جانے سے قابل فسخ ہو جاتے ہیں ایسا ہی یہ معاہدہ بھی شرطوں کے ٹوٹنے کے بعد قابل فسخ ہو جاتا ہے صرف یہ فرق ہے کہ اگر مرد کی طرف سے شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خود بخود نکاح کے توڑنے کی مجاز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود بخو دنکاح کرنے کی مجاز نہیں بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ سے نکاح کوتوڑ سکتی ہے جیسا کہ ولی کے ذریعہ سے نکاح کو کراسکتی ہے اور یہ کی اختیار اس کی فطرتی شتاب کاری اور نقصان عقل کی وجہ سے ہے.(آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 37 ) خلع میں جلدی نہیں کرنی چاہئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں معراج الدین صاحب عمر کے ساتھ ایک نومسلمہ چوہڑی لاہور سے آئی.اس کے نکاح کا ذکر ہوا تو حافظ عظیم بخش صاحب مرحوم پٹیالوی
فقه المسيح 300 خلع نے عرض کی کہ مجھ سے کر دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دے دی اور نکاح ہو گیا.دوسرے روز اس مسماۃ نے حافظ صاحب کے ہاں جانے سے انکار کر دیا اور خلع کی خواہش مند ہوئی.خلیفہ رجب دین صاحب لاہوری نے حضرت صاحب کی خدمت میں مسجد مبارک میں یہ معاملہ پیش کیا.آپ نے فرمایا کہ اتنی جلدی نہیں.ابھی صبر کرے.پھر اگر کسی طرح گزارہ نہ ہو تو خلع ہو سکتا ہے اس پر خلیفہ صاحب نے جو بہت بے تکلف آدمی تھے حضرت صاحب کے سامنے ہاتھ کی ایک حرکت سے اشارہ کر کے کہا کہ حضور وہ کہتی ہے کہ حافظ صاحب کی یہ حالت ہے.( یعنی قوتِ رجولیت بالکل معدوم ہے ) اس پر حضرت صاحب نے خلع کی اجازت دے دی.مگر احتیاطا ایک دفعہ پھر دونوں کو اکٹھا کیا گیا.لیکن وہ عورت راضی نہ ہوئی.بالآخر ضلع ہو گیا.سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 741،740)
فقه المسيح 301 وراثت فاسقہ کا حق وراثت وراثت ایک شخص نے بذریعہ خط حضرت سے دریافت کیا کہ ایک شخص مثلاً زید نام لا ولد فوت ہو گیا ہے.زید کی ایک ہمشیرہ تھی جو زید کے حین حیات میں بیاہی گئی تھی.بہ سبب اس کے کہ خاوند سے بن نہ آئی اپنے بھائی کے گھر میں رہتی تھی اور وہیں رہی یہاں تک کہ زید مرگیا.زید کے مرنے کے بعد اس عورت نے بغیر اس کے کہ پہلے خاوند سے با قاعدہ طلاق حاصل کرتی ایک اور شخص سے نکاح کر لیا جو کہ ناجائز ہے.زید کے ترکہ میں جو لوگ حقدار ہیں کیا ان کے درمیان اس کی ہمشیرہ بھی شامل ہے یا اس کو حصہ نہیں ملنا چاہئے؟ حضرت نے فرمایا: اس کو حصہ شرعی ملنا چاہیے کیونکہ بھائی کی زندگی میں وہ اس کے پاس رہی اور فاسق ہو جانے سے اس کا حق وراثت باطل نہیں ہو سکتا.شرعی حصہ اس کو برابر ملنا چاہئے باقی معاملہ اس کا خدا کے ساتھ ہے.اس کا پہلا خاوند بذریعہ گورنمنٹ باضابطہ کارروائی کر سکتا ہے.اس کے شرعی حق میں کوئی فرق نہیں آسکتا.حقیقی کو وارث بنانا جائز نہیں (بدر 26 ستمبر 1907 صفحہ 6) کسی کا ذکر تھا کہ اس کی اولاد نہ تھی اور اس نے ایک اور شخص کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنا کر اپنی جائیداد کا وارث کر دیا تھا.فرمایا: یہ فعل شرعا حرام ہے.شریعت اسلام کے مطابق دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنانا قطعا حرام ہے.66 (بدر 17 /اکتوبر 1907 ء صفحه 7)
فقه المسيح 302 وراثت یتیم پوتے کا مسئلہ رنگون سے تشریف لائے ہوئے دوست مکرم ابوسعید عرب صاحب نے سوال کیا کہ ایک شخص نے مجھ پر اعتراض کیا تھا کہ شریعت اسلام میں پوتے کے واسطے کوئی حصہ وصیت میں نہیں ہے.اگر ایک شخص کا پوتا یتیم ہے تو جب وہ مرتا ہے تو اس کے دوسرے بیٹے حصہ لیتے ہیں اور اگر چہ وہ بھی اس کے بیٹے کی اولاد ہے مگر وہ محروم رہتا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا: دادے کا اختیار ہے کہ وصیت کے وقت اپنے پوتے کو کچھ دیدے بلکہ جو چاہے دیدے اور باپ کے بعد بیٹے وارث قرار دیئے گئے ہیں کہ تا ترتیب بھی قائم رہے اور اگر اس طرح نہ کیا جاتا تو پھر ترتیب ہرگز قائم نہ رہتی کیونکہ پھر لازم آتا ہے کہ پوتے کا بیٹا بھی وارث ہو اور پھر آگے اس کی اولا د ہو تو وہ وارث ہو.اس صورت میں دادے کا کیا گناہ ہے.یہ خدا کا قانون ہے اور اس سے حرج نہیں ہوا کرتا ور نہ اس طرح تو ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور جس قدر سلاطین ہیں وہ بھی آدم کی اولاد ہیں تو ہم کو چاہئے کہ سب کی سلطنتوں سے حصہ بٹانے کی درخواست کریں چونکہ بیٹے کی نسبت سے آگے پوتے میں جا کر کمزوری ہو جاتی ہے اور آخر ایک حد پر آ کر تو برائے نام رہ جاتا ہے.خدا تعالیٰ کو یہ علم تھا کہ اس طرح کمزوری نسل میں اور ناطہ میں ہو جاتی ہے اس لئے یہ قانون رکھا ہے.ہاں ایسے سلوک اور رحم کی خاطر خدا تعالیٰ نے ایک اور قانون رکھا ہے جیسے قرآن شریف میں ہے وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُوْلُوا الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِيْنُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا (النساء : 9) ( یعنی جب ایسی تقسیم کے وقت بعض خویش وا قارب موجود ہوں اور یتیم اور مساکین تو انکو کچھ دیا کرو) تو وہ پوتا جس کا باپ مر گیا ہے وہ یتیم ہونے کے لحاظ سے زیادہ مستحق اس رحم
فقه المسيح 303 وراثت کا ہے اور یتیم میں اور لوگ بھی شامل ہیں (جن کا کوئی حصہ مقرر نہیں کیا گیا ) خدا تعالیٰ نے کسی کا حق ضائع نہیں کیا مگر جیسے جیسے رشتہ میں کمزوری بڑھتی جاتی ہے حق کم ہوتا جاتا ہے.لڑکی کو نصف حصہ دینے کی حکمت البدر 2 جنوری 1903 ء صفحہ 76) قرآن کریم کا حکم ہے کہ تمہاری اولاد کے حصوں کے بارے میں خدا کی یہ وصیت ہے کہ لڑکے کو دولڑکیوں کے برابر حصہ دیا کرو.اس حکم کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود نے فرمایا:.یہ اس لئے ہے کہ لڑکی سسرال میں جا کر ایک حصہ لیتی ہے.پس اس طرح سے ایک حصہ ماں باپ کے گھر سے پاکر اور ایک حصہ سرال سے پاکر اس کا حصہ لڑکے کے برابر (چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 212 حاشیہ) ہو جاتا ہے.
فقه المسيح 304 پرده پردہ کی فلاسفی پرده حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غض بصر اور پردہ کی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام زینتوں پر نظر ڈال لیں اور ان کے تمام اندا ز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کر لیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان برگا نہ جوان عورتوں کا گانا بجاناسن لیں اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں.نہ پاک نظر سے اور نہ نا پاک نظر سے اور ان کی خوش الحانی کی آواز میں اور ان کے حسن کے قصے نہ سنیں.نہ پاک خیال سے اور نہ نا پاک خیال سے بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے تا ٹھو کر نہ کھاویں کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں.سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی.اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے.اگر ہم ایک بھوکے کتے کے آگے نرم نرم روٹیاں رکھ دیں اور پھر امید رکھیں کہ اس کتے کے دل میں خیال تک ان روٹیوں کا نہ آوے تو ہم اپنے اس خیال میں غلطی پر ہیں.سوخدا تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قوی کو پوشیدہ کارروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آوے جس سے بدخطرات جنبش کر سکیں.اسلامی پردہ کی یہی فلاسفی اور یہی ہدایت شرعی ہے.خدا کی کتاب میں پردہ سے یہ مراد نہیں کہ فقط عورتوں کو قیدیوں کی طرح حراست میں رکھا جائے.یہ ان نادانوں کا خیال ہے جن
فقه المسيح 305 پرده کو اسلامی طریقوں کی خبر نہیں.بلکہ مقصود یہ ہے کہ عورت مرد دونوں کو آزاد نظر اندازی اور اپنی زینتوں کے دکھانے سے روکا جائے کیونکہ اس میں دونوں مرد اور عورت کی بھلائی ہے.بالآ خر یادر ہے کہ خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچالینا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غض بصر کہتے ہیں اور ہر ایک پر ہیز گار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لئے اس تمدنی زندگی میں غض بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آ جائے گی اور اس کی تمدنی ضرورت میں بھی فرق نہیں پڑے گا.(اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 343 344) پردہ پر ہونے والے اعتراض کا جواب اسلامی پردہ پر اعتراض کرنا اُن کی جہالت ہے اللہ تعالیٰ نے پردہ کا ایسا حکم دیا ہی نہیں ، جس پر اعتراض وارد ہو.قرآن مسلمان مردوں اور عورتوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ غض بصر کریں.جب ایک دوسرے کو دیکھیں گے ہی نہیں، تو محفوظ رہیں گے.یہ نہیں کہ انجیل کی طرح یہ حکم دے دیتا کہ شہوت کی نظر سے نہ دیکھ.افسوس کی بات ہے کہ انجیل کے مصنف کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ شہوت کی نظر کیا ہے؟ نظر ہی تو ایک ایسی چیز ہے جو شہوت انگیز خیالات کو پیدا کرتی ہے.اس تعلیم کا جو نتیجہ ہوا ہے وہ اُن لوگوں سے مخفی نہیں ہے جو اخبارات پڑھتے ہیں اُن کو معلوم ہوگا کہ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے کیسے شرمناک نظارے بیان کیے جاتے ہیں.اسلامی پردہ سے یہ ہر گز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے.قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں.وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں.جن عورتوں کو باہر جانے کی
فقه المسيح 306 پرده ضرورت تمدنی اُمور کے لیے پڑے، اُن کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے ، وہ بیشک جائیں لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے.مساوات کے لیے عورتوں کے نیکی کرنے میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے اور نہ اُن کو منع کیا گیا ہے کہ وہ نیکی میں مشابہت نہ کریں.اسلام نے یہ کب بتایا ہے کہ زنجیر ڈال کر رکھو.اسلام شہوات کی بناء کو کاتا ہے.یورپ کو دیکھو کیا ہورہا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ کتوں اور کتیوں کی طرح زنا ہوتا ہے اور شراب کی اس قدر کثرت ہے کہ تین میل تک شراب کی دکانیں چلی گئی ہیں.یہ کس تعلیم کا نتیجہ ہے؟ کیا پردہ داری یا پردہ دری کا.تقریر جلسہ سالانہ 28 دسمبر 1899 ء.ملفوظات جلد 1 صفحہ 297 ،298) خاص حالات میں پردہ کی رعایت فرمایا: ایسی صورت اور حالت میں کہ قہر خدا نازل ہو رہا ہو اور ہزاروں لوگ مر رہے ہوں.پردہ کا اتنا تشدد جائز نہیں ہے.کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ کی بیوی مرگئی تو کوئی اس کو اٹھانے والا بھی نہ رہا.اب اس حالت میں پردہ کیا کر سکتا تھا.مثل مشہور ہے.مرتا کیا نہ کرتا.مردوں ہی نے جنازہ اٹھایا.حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر بچہ رحم میں ہو تو کبھی مرد اس کو نکال سکتا ہے.دین اسلام میں تنگی و حرج نہیں.جو شخص خوامخواہ چنگی وخرج کرتا ہے، وہ اپنی نئی شریعت بناتا ہے.گورنمنٹ نے بھی پردے میں کوئی تنگی نہیں کی اور اب قواعد بھی بہت آسان بنا دئے ہیں.جو جو تجاویز اور اصلاحات لوگ پیش کرتے ہیں گورنمنٹ اسے توجہ سے سنتی اور ان پر مناسب اور مصلحت وقت کے موافق عمل کرتی ہے.کوئی شخص مجھے یہ تو بتائے کہ پردہ میں نبض دکھانا کہاں منع کیا ہے.(رساله الانذار، تقریر حضرت اقدس 2 مئی 1898ء بحوالہ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 171) پردہ میں حد درجہ تکلف ضروری نہیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب
فقه المسيح 307 پرده قادیانی روایت کرتے ہیں کہ سیدنا امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام قیام لاہور کے ایام میں سیر کے لئے تشریف لے جانے سے قبل مجھ غلام کو یاد فرماتے اور جب میں اطلاع کرتا ، تشریف لاتے تھے.یہی حضور کا معمول تھا اور میں بھی نہایت پابندی اور تعہد سے ان اوقات کا انتظام اور انتظار کیا کرتا تھا.رتھ کے پیچھے میرے واسطے حضور نے حکم دے کر ایک سیٹ بنوا دی تھی تو فٹن کی سواری میں پیچھے کی طرف کا پائیدان میر امخصوص مقام تھا جہاں ابتداء میں پیچھے کو منہ کر کے الٹا کھڑا ہوا کرتا تھا.ایسا کہ میری پیٹھ حضرت اور بیگمات کی طرف ہوا کرتی تھی.اس خیال سے کہ بیگمات کو تکلیف نہ ہو.کیونکہ عموما سیدۃ النساء اور کوئی اور خواتین مبارکہ بھی حضرت کے ساتھ کو چوان کی طرف والی نشست پر تشریف فرما ہوتیں تو ان کی تکلیف یا پردہ کا خیال میرے الٹا کھڑے ہونے کا موجب و محرک ہوا کرتا تھا.مگر ایک روز کہیں حضور کا خیال میری اس حرکت کی طرف مبذول ہو گیا تو حکم دیا کہ میاں عبدالرحمن !یوں تکلف کر کے اُلٹا کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں.سفروں میں نہ اتنا سخت پردہ کرنے کا حکم ہے اور نہ ہی اس تکلف کی ضرورت.اَلدِّينُ يُسُر اور جس طرح عورتوں کو پردہ کا حکم ہے اسی طرح مردوں کو بھی غض بصر کر کے پردہ کی تاکید ہے.آپ بے تکلف سیدھے کھڑے ہوا کریں.چنانچہ اس کے بعد پھر میں ہمیشہ سیدھا کھڑا ہوا کرتا تھا برعائت پردہ.بعض بیگمات کی گودی میں بچے ہوا کرتے تھے.گاڑی سے اُترتے وقت ان کے اُٹھانے میں بھی میں بہت حد تک تکلف کیا کرتا تھا مگر اس سے بھی حضور نے روک دیا اور میں بچوں کو محتاط طریق سے بیگمات کی گودیوں میں سے بسہولت لے دے لیا کرتا تھا.پردہ کی حدود (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 385،384) حضرت نواب محمد علی خان صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود
فقه المسيح 308 پرده علیہ السلام سے پردہ کے متعلق دریافت کیا.....حضور نے اپنی دستار کے شملہ سے مجھے ناک.....کے نیچے کا حصہ اور منہ چھپا کر بتایا کہ ماتھے کوڈھانک کر اس طرح ہونا چاہئے.گویا آنکھیں کھلی رہیں اور باقی حصہ ڈھکار ہے.اس سے قبل حضرت مولانا نورالدین صاحب سے میں نے ایک دفعہ دریافت کیا تھا تو آپ نے گھونگھٹ نکال کر دکھلایا تھا.امہات المومنین کا پردہ (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 48) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ ایک لیکچر میں فرمایا کہ یہ پردہ جو گھروں میں بند ہو کر بیٹھنے والا ہے جس کے لئے وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ کے الفاظ آئے ہیں.یہ امہات المومنین سے خاص تھا.دوسری مومنات کے لئے ایسا پردہ نہیں ہے.بلکہ ان کے لئے صرف اخفاء زینت والا پردہ ہے.پردے میں بے جاکتی نہ کی جائے (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 766) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کسی سفر میں تھے.سٹیشن پر پہنچے تو ابھی گاڑی آنے میں دی تھی.آپ بیوی صاحبہ کے ساتھ سٹیشن کے پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگے.یہ دیکھ کر مولوی عبدالکریم صاحب جن کی طبیعت غیور اور جوشیلی تھی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اور پھر غیر لوگ ادھر ادھر پھرتے ہیں.آپ حضرت صاحب سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جاوے.مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے کہا میں تو نہیں کہتا آپ کہہ کر
فقه المسيح 309 پرده دیکھ لیں.ناچار مولوی عبد الکریم صاحب خود حضرت صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حضور لوگ بہت ہیں.بیوی صاحبہ کو الگ ایک جگہ بٹھا دیں.حضرت صاحب نے فرمایا جاؤ جی میں ایسے پردہ کا قائل نہیں ہوں.مولوی صاحب فرماتے تھے کہ اس کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب سر نیچے ڈالے میری طرف آئے.میں نے کہا مولوی صاحب ! جواب لے آئے؟ نامحرم عورتوں سے مصافحہ جائز نہیں (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 56) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحب نے مجھے سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ڈاکٹرمحمد اسماعیل خان صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود سے عرض کیا کہ میرے ساتھ شفا خانہ میں ایک انگریز لیڈی ڈاکٹر کام کرتی ہے اور وہ ایک بوڑھی عورت ہے.وہ کبھی کبھی میرے ساتھ مصافحہ کرتی ہے.اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ تو جائز نہیں ہے.آپ کو عذر کر دینا چاہئے کہ ہمارے مذہب میں یہ جائز نہیں.حضرت علینہ اسیح الثانی فرماتے ہیں : (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 363،362) عورتوں کو ہاتھ لگانا منع ہے.احسن طریق سے پہلے لوگوں کو بتادیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب ایک یورپین عورت ملنے آئی تو آپ نے اسے یہی بات کہلا بھیجی تھی.رسول کریم ہے سے بھی عورتوں کا ہاتھ پکڑ کر بیعت لینے کا سوال ہوا تو آپ نے اس سے منع فرمایا.یہ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے.اس میں عورتوں کی ہتک نہیں.اضطرار میں پردہ کی رعایت حضرت خلیفہ المسیح الثانی فرماتے ہیں : الفضل 14 ستمبر 1915 ، صفحہ 5) اگر کسی موقعہ پر انتہائی مجبوری کی وجہ سے مردار یاسو رکا گوشت استعمال کر لیا جائے تو جن
فقه المسيح 310 پرده زہریلے اثرات کی وجہ سے شریعت نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ بہر حال ایک مومن کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں.ان نتائج کا تدارک اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ انسان غفور اور رحیم خدا کا دامن مضبوطی سے پکڑ لے اور اُسے کہے کہ اے خدا! میں نے تو تیری اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی جان بچانے کے لئے اس زہر یلے کھانے کو کھا لیا ہے لیکن اب تو ہی فضل فرما اور اُن مہلک اثرات سے میری روح اور جسم کو بچا جو اُس کے ساتھ وابستہ ہیں.اسی حکمت کے باعث آخر میں اِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ کہا گیا ہے تا کہ انسان مطمئن نہ ہو جائے بلکہ بعد میں بھی وہ اُس کی تلافی کی کوشش کرتا رہے اور خدا تعالیٰ سے اُس کی حفاظت طلب کرتا رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے غالباً شریعت کی اسی رخصت کو دیکھتے ہوئے ایک دفعہ فرمایا کہ اگر کسی حاملہ عورت کی حالت ایسی ہو جائے کہ مرد ڈاکٹر کی مدد کے بغیر اُس کا بچہ پیدا نہ ہوسکتا ہو اور وہ ڈاکٹر کی مدد نہ لے اور اُسی حال میں مرجائے تو اس عورت کی موت خود کشی سمجھی جائے گی.اسی طرح اگر انسان کی ایسی حالت ہو جائے کہ وہ بھوک کے مارے مرنے لگے اور وہ سو ریا مردار کا گوشت کسی قد رکھالے تو اُس پر کوئی گناہ نہیں.( تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 346،345)
فقه المسيح 311 خرید وفروخت اور کاروباری امور خرید وفروخت اور کاروباری امور ذخیرہ اندوزی نا جائز ہے کسی نے پوچھا کہ بعض آدمی غلہ کی تجارت کرتے ہیں اور خرید کر اُسے رکھ چھوڑتے ہیں جب مہنگا ہو جاوے تو اسے بیچتے ہیں کیا ایسی تجارت جائز ہے؟ فرمایا: اس کو مکر وہ سمجھا گیا ہے.میں اس کو پسند نہیں کرتا.میرے نزدیک شریعت اور ہے اور طریقت اور ہے.ایک آن کی بدنیتی بھی جائز نہیں اور یہ ایک قسم کی بد نیتی ہے.ہماری غرض یہ ہے کہ بد نیتی دور ہو.امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بابت لکھا ہے کہ آپ ایک مرتبہ بہت ہی تھوڑی سی نجاست جو اُن کے کپڑے پر تھی دھور ہے تھے.کسی نے کہا کہ آپ نے اس قدر کے لیے تو فتویٰ نہیں دیا.اس پر آپ نے کیا لطیف جواب دیا کہ آن فتوی است و ایں تقوی.پس انسان کو دقائق تقویٰ کی رعایت رکھنی چاہیے ، سلامتی اسی میں ہے.اگر چھوٹی چھوٹی باتوں کی پروا نہ کرے تو پھر ایک دن وہی چھوٹی چھوٹی باتیں کبائر کا مرتکب بنادیں گی اور طبیعت میں کسل اور لا پروائی پیدا ہو کر ہلاک ہو جائے گا.تم اپنے زیر نظر تقویٰ کے اعلیٰ مدارج کو حاصل کرنا رکھو اور اس کے لیے دقائق تقوی کی رعایت ضروری ہے.(الحام 10 نومبر 1905 صفحہ 5) بیع وشراء میں عرف کی حیثیت ایک شخص نے سوال کیا کہ ریلی برادرز وغیرہ کارخانوں میں سرکاری سیر 80 روپیہ کا دیتے ہیں اور لیتے 81 روپے کا ہیں.کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا: جن معاملات میں بیج وشراء میں مقدمات نہ ہوں.فساد نہ ہوں.تراضی فریقین ہو اور سرکار نے بھی جرم نہ رکھا ہو.عرف میں جائز ہو.وہ جائز ہے.“ (الحکم 10 راگست 1903ء صفحہ 19)
فقه المسيح 312 خرید وفروخت اور کاروباری امور بیچنے والے کو اپنی چیز کی قیمت مقرر کرنے کا اختیار ہے سوال پیش ہوا کہ بعض تاجر گلی کوچوں میں یا بازار میں اشیاء فروخت کرتے ہیں.ایک ہی چیز کی قیمت کسی سے کم لیتے ہیں اور کسی سے زیادہ، کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا: مالک شے کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کی قیمت جو چاہے لگائے اور مانگے لیکن وقت ضرورت تراضی طرفین ہو اور بیچنے والا کسی قسم کا دھوکہ نہ کرے.مثلاً ایسانہ ہوکہ چیز کے خواص وہ نہ ہوں جو بیان کئے جاویں یا اور کسی قسم کا دعا خریدار سے کیا جاوے اور جھوٹ بولا جاوے اور یہ بھی جائز نہیں کہ بچے یا نا واقف کو پائے تو دھوکہ دے کر قیمت زیادہ لے لے اور جس کو اس ملک میں بدر 16 مئی 1907 صفحہ 10 لگادا لگانا کہتے ہیں یہ نا جائز ہے.تجارتی روپیہ پر منافع ایک صاحب کی خاطر حضرت حکیم نورالدین صاحب نے ایک مسئلہ حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ یہ ایک شخص ہیں جن کے پاس ہیں بائیس ہزار کے قریب روپیہ موجود ہے.ایک سکھ ہے وہ ان کا روپیہ تجارت میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور ان کے اطمینان کے لیے اس نے تجویز کی ہے کہ یہ روپیہ بھی اپنے قبضہ میں رکھیں لیکن جس طرح وہ ہدایت کرے.اسی طرح ہر ایک شے خرید کر جہاں کہے وہاں روانہ کریں اور جو روپیہ آوے وہ امانت رہے.سال کے بعد وہ سکھ دو ہزار چھ سو رو پید ان کو منافع کا دے دیا کرے گا.یہ اس غرض سے یہاں فتویٰ دریافت کرنے آئے ہیں کہ یہ روپیہ جو اُن کو سال کے بعد ملے گا اگر سود نہ ہو تو شراکت کر لی جاوے.حضرت اقدس نے فرمایا: چونکہ اُنہوں نے خود بھی کام کرنا ہے اور ان کی محنت کو دخل ہے اور وقت بھی صرف کریں گے اس لئے ہر ایک شخص کی حیثیت کے لحاظ سے اس کے وقت اور محنت کی قیمت ہوا کرتی ہے.دس دس ہزار اور دس دس لاکھ روپیہ لوگ اپنی محنت اور وقت کا معاوضہ لیتے ہیں.لہذا میرے نزدیک تو
فقه المسيح 313 خرید وفروخت اور کاروباری امور یہ روپیہ جو اُن کو وہ دیتا ہے سود نہیں ہے.اور میں اس کے جواز کا فتویٰ دیتا ہوں.سود کا لفظ تو اس روپیہ پر دلالت کرتا ہے جو مفت بلا محنت کے (صرف روپیہ کے معاوضہ میں ) لیا جاتا ہے.اب اس ملک میں اکثر مسائل زیروز بر ہو گئے ہیں.کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے.اس لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے.البدر یکم و 8 نومبر 1904 ، صفحہ 8) نیک نیتی میں برکت ہے ایک زرگر کی طرف سے سوال ہوا کہ پہلے ہم زیوروں کے بنانے کی مزدوری کم لیتے تھے اور ملاوٹ ملا دیتے تھے.اب ملاوٹ چھوڑ دی ہے اور مزدوری زیادہ مانگتے ہیں تو بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم مزدوری وہی دینگے جو پہلے دیتے تھے تم ملاوٹ ملالو.ایسا کام ہم ان کے کہنے سے کریں یا نہ کریں؟ فرمایا: کھوٹ والا کام ہرگز نہیں کرنا چاہئے اور لوگوں کو کہہ دیا کرو کہ اب ہم نے تو بہ کر لی ہے جو ایسا کہتے ہیں کہ کھوٹ ملا دو وہ گناہ کی رغبت دلاتے ہیں.پس ایسا کام اُن کے کہنے پر بھی ہر گز نہ کرو.برکت دینے والا خدا ہے اور جب آدمی نیک نیتی کے ساتھ ایک گناہ سے بچتا ہے تو خدا ضرور برکت دیتا ہے.رہن رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اُٹھانا جائز ہے الحکم 24 اپریل 1903 ، صفحہ 10 ) رہن کے متعلق سوال ہوا.آپ نے فرمایا: موجودہ تجاویز رہن جائز ہیں گذشتہ زمانہ میں یہ قانون تھا کہ اگر فصل ہو گئی تو حکام زمینداروں سے معاملہ وصول کر لیا کرتے تھے اگر نہ ہوتی تو معاف ہو جا تا اور اب خواہ فصل ہو یا نہ ہو حکام اپنا مطالبہ وصول کر ہی لیتے ہیں پس چونکہ حکام وقت اپنا مطالبہ کسی صورت میں نہیں چھوڑتے تو اسی طرح یہ رہن بھی جائز رہا کیونکہ کبھی فصل ہوتی اور کبھی نہیں ہوتی تو دونوں
فقه المسيح 314 خرید وفروخت اور کاروباری امور صورتوں میں مرتہن نفع و نقصان کا ذمہ دار ہے.پس رہن عدل کی صورت میں جائز ہے.آجکل گورنمنٹ کے معاملے زمینداروں سے ٹھیکہ کی صورت میں ہو گئے ہیں اور اس صورت میں زمینداروں کو کبھی فائدہ اور کبھی نقصان ہوتا ہے تو ایسی صورت عدل میں رہن بیشک جائز ہے.جب دودھ والا جانور اور سواری کا گھوڑارہن با قبضہ ہوسکتا ہے اور اس کے دودھ اور سواری سے مرتہن فائدہ اُٹھا سکتا ہے تو پھر زمین کا رہن تو آپ ہی حاصل ہو گیا.پھر زیور کے رہن کے متعلق سوال ہوا تو فرمایا: زیور ہو کچھ ہو جب انتفاع جائز ہے تو خواہ نخواہ تکلفات کیوں بناتے جاویں.اگر کوئی شخص زیور کو استعمال کرنے سے اس سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اس کی زکوۃ بھی اس کے ذمہ ہے زیور کی زکوۃ بھی فرض ہے چنانچہ کل ہی ہمارے گھر میں زیور کی زکوۃ ڈیڑھ سو روپیہ دیا ہے.پس اگر زیور استعمال کرتا ہے تو اس کی زکوۃ دے اگر بکری رہن رکھی ہے اور اس کا دودھ الحکم 24 را پریل 1903 ء صفحہ 11) پیتا ہے تو اس کو گھاس بھی دے.رہن میں وقت مقرر کرنا سوال:.ایک شخص دو ہزار روپے میں ایک مکان رہن لیتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دوسال تک را ہن سے رو پیدواپس نہ لے.کیا رہن کرتے وقت اس قسم کی شرط رکھی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ اس سوال کے جواب میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی فرماتے ہیں: فقہاء کا مذہب تو یہ ہے کہ وقت کی پابندی جائز نہیں.جب بھی راہن روپیہ دے وہ مکان مرتہن سے چھڑا سکتا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پابندی کو جائز قرار دیا ہے.چنانچہ جب مرزا نظام الدین صاحب کی دوکانیں حضرت ام المومنین نے رہن لیں تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت فرمایا کہ کیا وقت معین کیا جاسکتا ہے تو آپ نے اسے جائز قرار دیا.پس یہ شرط میرے نزدیک جائز ہے بشرطیکہ رہن جائز ہو.اگر رہن ہی ناجائز ہے تو
فقه المسيح 315 خرید وفروخت اور کاروباری امور پھر سال دو سال وغیرہ کی مدت کوئی حقیقت نہیں رکھتی.وہ پہلے دن سے ہی ناجائز ہے.الفضل 26 جون 1946 ، صفحہ 3) رہن با قبضہ ہو اور تحریر لینا بھی ضروری ہے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حافظ روشن علی صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے کسی شخص سے ایک زراعتی کنواں ساڑھے تین ہزار روپیہ میں رہن لیا مگر میں نے اس سے نہ کوئی رسید لی اور نہ کوئی تحریر کر وائی اور کنواں بھی اسی کے قبضے میں رہنے دیا.کچھ عرصہ کے بعد میں نے اس سے کنوئیں کی آمد کا مطالبہ کیا تو وہ صاف منکر ہو گیا اور رہن کا ہی انکار کر بیٹھا.حافظ صاحب کہتے تھے کہ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ کسی نے یہ خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچا دی اور مولوی صاحب کے نقصان پر افسوس کیا مگر حضرت صاحب نے فرمایا تمہیں ان کے نقصان کی فکر ہے مجھے ایمان کی فکر ہے مولوی صاحب نے کیوں دوسرے شخص کو ایسی حالت میں رکھا جس سے اس کو بددیانتی کا موقعہ ملا اور کیوں اسلامی حکم کے مطابق اس سے کوئی تحریر نہ لی اور کیوں اس سے با قاعدہ قبضہ نہ حاصل کیا.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 146-145) تمیں سال کے لئے باغ رہن رکھوانا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت والدہ صاحبہ نے خاکسار سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کو کسی دینی غرض کے لئے کچھ روپے کی ضرورت پیش آئی تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے تم اپنا زیور دے دو میں تم کو اپنا باغ رہن دے دیتا ہوں.چنانچہ آپ نے سب رجسٹرار کو قادیان میں بلوا کر با قاعدہ رہن نامہ میرے نام کروا دیا اور پھر اندر آ کر مجھ سے فرمایا کہ میں نے رہن کے لئے تھیں سال کی میعا دلکھ دی ہے کہ اس عرصہ کے اندر یہ رہن فک نہیں کروایا جائے گا.
فقه المسيح 316 خرید وفروخت اور کاروباری امور خاکسار عرض کرتا ہے کہ رہن کے متعلق میعاد کو عموما فقہ والے جائز قرار نہیں دیتے.سو اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قول کی اہل فقہ کے قول سے تطبیق کی ضرورت سمجھی جاوے تو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ گویا حضرت صاحب نے میعاد کو رہن کی شرائط میں نہیں رکھا بلکہ اپنی طرف سے یہ بات زائد بطور احسان ومروت کے درج کرا دی کیونکہ ہر شخص کو حق ہے کہ بطور احسان اپنی طرف سے جو چاہے دوسرے کو دے دے.مثلاً یہ ،.شریعت کا مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص دوسرے کو کچھ قرض دے تو اصل سے زیادہ واپس نہ مانگے کیونکہ یہ سود ہو جاتا ہے.لیکن بایں ہمہ اس بات کو شریعت نے نہ صرف جائز بلکہ پسندیدہ قرار دیا ہے کہ ہو سکے تو مقروض روپیہ واپس کرتے ہوئے اپنی خوشی سے قارض کو اصل رقم سے کچھ زیادہ دے دے.علاوہ ازیں خاکسار کو یہ بھی خیال آتا ہے کہ گو شریعت نے رہن میں اصل مقصود ضمانت کے پہلو کو رکھا ہے اور اسی وجہ سے عموما فقہ والے رہن میں میعاد کو تسلیم نہیں کرتے لیکن شریعت کے مطالعہ سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ بعض اوقات ایک امر ایک خاص بات کو ملحوظ رکھ کر جاری کیا جاتا ہے.مگر بعد اس کے جائز ہو جانے کے اس کے جواز میں دوسری جہات سے بھی وسعت پیدا ہو جاتی ہے.مثلاً سفر میں نماز کا قصر کرنا دراصل مبنی ہے اس بات پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنگ میں سفروں میں نکلتے تھے تو چونکہ دشمن کی طرف سے خطرہ ہوتا تھا.اس لئے نماز کو چھوٹا کر دیا گیا.لیکن جب سفر میں ایک جہت سے نماز قصر ہوئی تو پھر اللہ نے مومنوں کے لئے اس قصر کو عام کر دیا اور خوف کی شرط درمیان سے اُٹھالی گئی.پس گورہن کی اصل بنیا د ضمانت کے اصول پر ہے لیکن جب اس کا دروازہ کھلا تو باری تعالیٰ نے اس کو عام کر دیا مگر یہ فقہ کی باتیں ہیں جس میں رائے دینا خاکسار کا کام نہیں.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 264،263)
فقه المسيح 317 خرید وفروخت اور کاروباری امور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ وہ رہن نامہ جس کے رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا باغ حضرت والدہ صاحبہ کے پاس رہن رکھا تھا میں نے دیکھا ہے.وہ با قاعدہ رجسٹری شدہ ہے اور اس کی تاریخ 25 جون 1898ء ہے.زر ر ہن پانچ ہزار روپیہ ہے جس میں سے ایک ہزار نقد درج ہے اور باقی بصورت زیورات ہے.اس رہن میں حضرت صاحب کی طرف سے مندرجہ ذیل الفاظ درج ہیں.اقرار یہ ہے کہ عرصہ میں سال تک فک الرہن مر ہو نہ نہیں کراؤں گا.بعد میں سال مذکور کے ایک سال میں جب چاہوں زررہن دوں تب فک الرہن کرالوں.ورنہ بعد انفصال میعاد بالا یعنی اکتیس سال کے بتیسویں سال میں مرہونہ بالا ان ہی روپیوں میں بیع الوفا ہو جائے گا اور مجھے دعوئی ملکیت کا نہیں رہے گا.قبضہ اس کا آج سے کرا دیا ہے اور داخل خارج کرا دوں گا اور منافع مرہونہ بالا کی قائمی رہن تک مرتہنہ مستحق ہے اور معاملہ سرکاری فصل خریف 1955 ( بکرمی ) سے مرتہنہ دے گی اور پیداوار لے گی.“ 66 خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ عبارت ظاہر کرتی ہے کہ اس کے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تجویز کردہ نہیں ہیں بلکہ کسی وثیقہ نویس نے حضرت صاحب کے منشاء کو اپنے الفاظ میں لکھ دیا ہے.زمین کی تقسیم کے لئے قرعہ ڈالنا (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 338) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے پیر افتخار احمد صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ابتدائی زمانہ کی بات ہے کہ میں نے دیکھا کہ مرزا نظام الدین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوچہ بندی میں کھڑے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ڈیوڑھی سے نکلے اور آپ کے ہاتھ میں دو بند لفافے تھے.یہ لفافے آپ نے مرزا نظام الدین کے
فقه المسيح 318 خرید وفروخت اور کاروباری امور سامنے کر دیئے کہ ان میں سے ایک اُٹھا لیں.انہوں نے ایک لفافہ اٹھالیا اور دوسرے کو لے کر حضرت صاحب فورا اندر واپس چلے گئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے حضرت والدہ صاحبہ سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لفافے باغ کی تقسیم کے متعلق تھے چونکہ حضرت مسیح موعود نے باغ کا نصف حصہ لینا اور نصف مرزا سلطان احمد کو جانا تھا.اس لئے حضرت صاحب نے اس تقسیم کے لئے قرعہ کی صورت اختیار کی تھی اور مرز انظام الدین مرزا سلطان احمد کی طرف سے مختار کار تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس تقسیم کے مطابق باغ کا جنوبی نصف حصہ حضرت صاحب کو آیا اور شمالی نصف مرزا سلطان احمد صاحب کے حصہ میں چلا گیا.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 263) مجبور لوگوں کو مہنگے داموں غلہ فروخت کرنا جائز نہیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہم سب بھائی (یعنی خاکسار و برادران میاں جمال الدین مرحوم و میاں امام الدین صاحب) مسائل فقہی کی بناء پر گاہے بگا ہے بدین طریق تجارت کرتے تھے کہ غلہ خرید کر ضرورت کے موقع پر غرباء کوکسی قدر گراں نرخ پر بطور قرض دے دیتے اور فصل آئندہ پر وصولی قرضہ کر لیتے تھے.جب حضور علیہ السلام کا دعویٰ ظاہر ہو گیا تو اس وقت بھی ایک دفعہ غلہ خرید کیا گیا کہ غرباء کو دستور سابق دیا جائے.جب میں قادیان گیا تو مجھے خیال آیا کہ حضور علیہ السلام سے اس کے متعلق دریافت کرلوں.چنانچہ حضور کی خدمت میں سوال مفصل طور پر پیش کر دیا.حضور علیہ السلام نے جوابا فرمایا کہ تمہیں ایسے کاموں کی کیا ضرورت ہے؟ جس لہجہ سے حضور نے جواب دیا وہ اب تک میری آنکھوں کے سامنے ہے جس سے ثابت ہوا کہ حضور علیہ السلام کو ایسے کام بہت ناپسند ہیں.پس واپس آکر ہم نے ارادہ ترک کر دیا اور بعد ازاں پھر کبھی یہ کام نہ کیا.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 250،249)
فقه المسيح 319 خرید وفروخت اور کاروباری امور آبکاری کی تحصیلداری ایک دوست جو محکمہ آبکاری میں نائب تحصیلدار تھے ان کا خط حضرت کی خدمت میں آیا اور انہوں نے دریافت کیا کہ کیا اس قسم کی نوکری ہمارے واسطے جائز ہے؟ فرمایا: اس وقت ہندوستان میں ایسے تمام امور حالت اضطرار میں داخل ہیں.تحصیلدار یا نائب تحصیلدار نہ شراب بناتا ہے نہ بیچتا ہے نہ پیتا ہے، صرف اس کی انتظامی نگرانی ہے اور بلحاظ سرکاری ملازمت کے اس کا فرض ہے.ملک کی سلطنت اور حالات موجودہ کے لحاظ سے اضطراراً یہ امر جائز ہے.ہاں خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہئے کہ وہ انسان کے واسطے اس سے بھی بہتر سامان پیدا کرے.گورنمنٹ کے ماتحت ایسی ملازمتیں بھی ہوسکتی ہیں جن کا ایسی باتوں سے تعلق نہ ہو اور خدا تعالیٰ سے استغفار کرتے رہنا چاہئے.نوٹوں پر کمیشن ( بدر 26 ستمبر 1907 ء صفحہ 6) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ نوٹوں کے بدلے روپیہ لینے یا دینے کے وقت یا پونڈ یا روپیہ توڑانے کے وقت دستور ہے کہ کچھ پیسے زائد لیے یا دیئے جاتے ہیں کیا اس قسم کا کمیشن لینا یا دینا جائز ہے؟ فرمایا: یہ جائز ہے اور سود میں داخل نہیں.ایک شخص وقت ضرورت ہم کو نوٹ بہم پہنچا دیتا ہے یا نوٹ لے کر روپیہ دے دیتا ہے تو اس میں کچھ ہر ج نہیں کہ وہ کچھ مناسب کمیشن اس پر لے لے.کیونکہ نوٹ یا روپیہ یا ریز گاری کے محفوظ رکھنے اور تیار رکھنے میں وہ خود بھی وقت اور محنت خرچ کرتا ہے.( بدر 26 ستمبر 1907 صفحہ 6)
سود، انشورنس اور بینکنگ فقه المسيح سود 320 سود، انشورنس اور بینکنگ سود کی بابت پوچھا گیا کہ بعض مجبوریاں لاحق حال ہو جاتی ہیں.فرمایا: اس کا فتویٰ ہم نہیں دے سکتے.یہ بہر حال ناجائز ہے.ایک طرح کا سوداسلام میں جائز ہے یہ کہ قرض دیتے وقت کوئی شرط وغیرہ کسی قسم کی نہ ہو اور مقروض جب قرضہ ادا کرے تو مروّت کے طور پر اپنی طرف سے کچھ زیادہ دے دیوے.آنحضرت ایسا ہی کیا کرتے.اگر دس روپیہ قرض لئے تو ادا ئیگی کے وقت ایک سو تک دے دیا کرتے.سودحرام وہی ہے جس میں عہد معاہدہ اور شرائط اول ہی کر لی جاویں.سود در سود البدر 24 /اگست 1904 ء صفحہ 8) ایک صاحب نے بیان کیا کہ سید احمد خان صاحب نے لکھا ہے أَضْعَافًا مُضَاعَفَةٌ (آل عمران: 131) کی ممانعت ہے فرمایا: یہ بات غلط ہے کہ سود در سود کی ممانعت کی گئی ہے اور سود جائز رکھا ہے شریعت کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے یہ فقرہ اسی قسم کا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ گناہ در گناہ مت کرتے جاؤ، اس سے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ گناہ ضرور کرو.اس قسم کا روپیہ جو کہ گورنمنٹ سے ملتا ہے وہ اسی حالت میں سود ہوگا جبکہ لینے والا اسی خواہش سے روپیہ دیتا ہے کہ مجھ کو سود ملے ورنہ گورنمنٹ جو اپنی طرف سے احسانا دیوے وہ سود میں داخل نہیں ہے.البدر 27 مارچ 1903 ، صفحہ 75)
فقه المسيح پراویڈنٹ فنڈ 321 سود، انشورنس اور بینکنگ ایک صاحب نے سوال کیا کہ ریلوے میں جو لوگ ملازم ہوتے ہیں.ان کی تنخواہ میں سے ایک آنہ فی روپیہ کاٹ کر رکھا جاتا ہے پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ روپیہ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ کچھ زائد روپیہ بھی وہ دیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟ فرمایا: شرع میں سود کی یہ تعریف ہے کہ ایک شخص اپنے فائدہ کے لیے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ سود کہلا وے گا لیکن جس نے روپیہ لیا ہے اگر وہ وعدہ وعید تو کچھ نہیں کرتا اور اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے تو وہ سود سے باہر ہے چنانچہ انبیاء ہمیشہ شرائط کی رعایت رکھتے آئے ہیں.اگر بادشاہ کچھ روپیہ لیتا ہے اور وہ اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے اور دینے والا اس نیت سے نہیں دیتا کہ سود ہے تو وہ بھی سود میں داخل نہیں ہے وہ بادشاہ کی طرف سے احسان ہے.پیغمبر خدا نے کسی سے ایسا قرضہ نہیں لیا کہ ادا ئیگی وقت اُسے کچھ نہ کچھ ضرور زیادہ (نہ) دیدیا ہو.یہ خیال رہنا چاہیے کہ اپنی خواہش نہ ہو.خواہش کے برخلاف جو زیادہ ملتا ہے وہ سود میں داخل نہیں ہے.تجارت کے لئے سودی روپیہ لینے کی ممانعت البدر 27 مارچ 1903 ، صفحہ 75) ایک صاحب نے سوال کیا کہ ضرورت پر سودی روپیہ لے کر تجارت وغیرہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ فرمایا: حرام ہے.ہاں اگر کسی دوست اور تعارف کی جگہ سے روپیہ لیا جاوے اور کوئی وعدہ اس کو زیادہ دینے کا نہ ہو نہ اس کے دل میں زیادہ لینے کا خیال ہو.پھر اگر مقروض اصل سے کچھ زیادہ دیدے تو وہ سود نہیں ہوتا بلکہ یہ تو هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن: 61) ہے.اس پر ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر ضرورت سخت ہواور سوائے سود کے کام نہ چل سکے
فقه المسيح 322 سود، انشورنس اور بینکنگ تو پھر ؟ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا: خدا تعالیٰ نے اس کی حرمت مومنوں کے واسطے مقرر کی ہے اور مومن وہ ہوتا ہے جو ایمان پر قائم ہو اللہ تعالیٰ اس کا متولی اور متکفل ہوتا ہے.اسلام میں کروڑ ہا ایسے آدمی گذرے ہیں جنہوں نے نہ سود لیا نہ دیا آخران کے حوائج بھی پورے ہوتے رہے کہ نہ؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہ لو نہ دو جو ایسا کرتا ہے وہ گویا خدا کے ساتھ لڑائی کی تیاری کرتا ہے ایمان ہو تو اس کا صلہ خدا بخشا ہے.ایمان بڑی بابرکت شے ہے اَلَمُ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرة:107) اگر اسے خیال ہو کہ پھر کیا کرے؟ تو کیا خدا کا حکم بھی بیکار ہے؟ اس کی قدرت بہت بڑی ہے.سود تو کوئی شے ہی نہیں ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا کہ زمین کا پانی نہ پیا کرو تو وہ ہمیشہ بارش کا پانی آسمان سے دیا کرتا اسی طرح ضرورت پر وہ خود ایسی راہ نکال ہی دیتا ہے کہ جس سے اس کی نافرمانی بھی نہ ہو.جب تک ایمان میں میل کچیل ہوتا ہے تب تک یہ ضعف اور کمزوری ہے.کوئی گناہ چھوٹ نہیں سکتا جب تک خدا نہ چھڑاوے ورنہ انسان تو ہر ایک گناہ پر یہ عذر پیش کر سکتا ہے کہ ہم چھوڑ نہیں سکتے اگر چھوڑیں تو گزارہ نہیں چلتا.دکانداروں عطاروں کو دیکھا جاوے کہ پر انا مال سالہا سال تک بیچتے ہیں.دھوکا دیتے ہیں.ملازم پیشہ لوگ رشوت خوری کرتے ہیں اور سب یہ عذر کرتے ہیں کہ گزارہ نہیں چلتا.ان سب کو اگر اکٹھا کر کے نتیجہ نکالا جاوے تو پھر یہ نکلتا ہے کہ خدا کی کتاب پر عمل ہی نہ کرو کیونکہ گزارہ نہیں چلتا حالانکہ مومن کے لیے خدا خود سہولت کر دیتا ہے.یہ تمام راستبازوں کا مجرب علاج ہے کہ مصیبت اور صعوبت میں خدا خود راہ نکال دیتا ہے.لوگ خدا کی قدر نہیں کرتے.جیسے بھروسہ اُن کو حرام کے دروازے پر ہے ویسا خدا پر نہیں ہے.خدا پر ایمان، یہ ایک ایسا نسخہ ہے کہ اگر قدر ہو تو جی چاہے کہ جیسے اور عجیب نسخہ مخفی رکھنا چاہتے ہیں ویسے ہی اسے بھی مخفی رکھا جاوے.میں نے کئی دفعہ بیماریوں میں آزمایا ہے کہ
فقه المسيح 323 سود، انشورنس اور بینکنگ پیشاب بار بار آ رہا ہے دست بھی لگے ہیں.آخر خدا سے دعا کی.صبح کو الہام ہوا.دُعَاءُ كَ مُسْتَجَابٌ اس کے بعد ہی وہ کثرت جاتی رہی اور کمزوری کی جگہ طاقت آگئی.یہ خدا کی طاقت ہے ایسا خدا عجیب ہے کہ ان نسخوں سے بھی زیادہ قابل قدر ہے جو کیمیا وغیرہ کے ہوتے ہیں مجھے بھی ایک دفعہ خیال آیا کہ یہ تو چھپانے کے قابل ہے پھر سوچا کہ یہ تو بخل ہے ایسی مفید شے کو دنیا پر اظہار کرنا چاہیے کہ مخلوق الہی کو فائدہ حاصل ہو.یہی فرق اسلام اور دوسرے مذاہب کے خدا میں ہے.انکا خدا بولتا نہیں.خدا معلوم یہ بھی کیسا ایمان ہے.اسلام کا خدا جیسے پہلے تھاو یسے ہی اب ہے.نہ طاقت کم ہوئی نہ بوڑھا ہوا.نہ کچھ اور نقص اس میں واقع ہوا.ویسے خدا پر جس کا ایمان ہو وہ اگر آگ میں بھی پڑا ہو تو اُسے حوصلہ ہوتا ہے.ابراہیم کو آخر آگ میں ڈالا ہی تھا.ویسے ہی ہم بھی آگ میں ڈالے گئے.خون کا مقدمہ بنایا گیا.اگر اس میں پانچ یا دس سال کی قید ہو جاتی تو سب سلسلہ تباہ ہو جاتا.سب قوموں نے متفق ہو کر یہ آگ سلگائی تھی.کیا کم آگ تھی؟ اس وقت سوائے خدا کے اور کون تھا ؟ اور وہی الہام ہوئے جو کہ ابراہیم کو ہوئے تھے آخر میں الہام ہوا ابراء اور تسلی دی کہ سب کچھ میرے ہاتھ میں ہے.البدر 27 مارچ1903 صفحہ 75) بینکوں کا سودا شاعت اسلام کے لیے خرچ کرنا جائز ہے شیخ نوراحمد صاحب نے بنک کے سود کے متعلق تذکرہ کیا کہ بنگ والے ضرور سود دیتے ہیں پھر اسے کیا کیا جاوے؟ فرمایا: ہمارا یہی مذہب ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی ہمارے دل میں ڈالا ہے کہ ایسا روپیہ اشاعت دین کے کام میں خرچ کیا جاوے.یہ بالکل سچ ہے کہ سود حرام ہے لیکن اپنے نفس کے واسطے.اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں جو چیز جاتی ہے وہ حرام نہیں رہ سکتی کیونکہ حرمت اشیاء کی انسان کے لیے ہے نہ اللہ تعالیٰ کے واسطے.پس سود اپنے نفس کے لیے، بیوی بچوں، احباب، رشتہ داروں اور
فقه المسيح 324 سود، انشورنس اور بینکنگ ہمسایوں کے لیے بالکل حرام ہے.لیکن اگر یہ روپیہ خالصتاً اشاعت دین کے لیے خرچ ہو تو حرج نہیں ہے.خصوصاً ایسی حالت میں کہ اسلام بہت کمزور ہو گیا ہے اور پھر اس پر دوسری مصیبت یہ ہے کہ لوگ زکوۃ بھی نہیں دیتے.میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت دو مصیبتیں واقع ہورہی ہیں اور دو حرمتیں روا رکھی گئی ہیں.اول یہ کہ زکوۃ جس کے دینے کا حکم تھا وہ دیتے نہیں اور سود جس کے لینے سے منع کیا تھا وہ لیتے ہیں.یعنی جو خدا تعالیٰ کا حق تھا وہ تو دیا نہیں اور جو اپنا حق نہ تھا اُسے لیا گیا.جب ایسی حالت ہو رہی ہے اور اسلام خطرناک ضعف میں مبتلا ہے تو میں یہی فتویٰ دیتا ہوں کہ ایسے سودوں کی رقمیں جو بینک سے ملتا ہے یکمشت اشاعت دین میں خرچ کرنی چاہئیں.میں نے جو فتویٰ دیا ہے وہ عام نہیں ہے ورنہ سود کا لینا اور دینا دونوں حرام ہیں مگر اس ضعف اسلام کے زمانہ میں جبکہ مالی ترقی کے ذریعے پیدا نہیں ہوئے اور مسلمان توجہ نہیں کرتے ایسا روپیہ اسلام کے کام میں لگنا حرام نہیں ہے.قرآن شریف کے مفہوم کے موافق جو حرمت ہے وہ یہی ہے کہ وہ اپنے نفس کے لیے اگر خرچ ہو تو حرام ہے.یہ بھی یادرکھو جیسے سودا اپنے لیے درست نہیں کسی اور کو اس کا دینا بھی درست نہیں.ہاں خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ایسے مال کا دینا درست ہے اور اس کا یہی طریق ہے کہ وہ صرف اشاعت اسلام میں خرچ ہو.اس کی ایسی مثال ہے جیسے جہاد ہو رہا ہو اور گولی بارود کسی فاسق فاجر کے ہاں ہو.اس وقت محض اس خیال سے رک جانا کہ یہ گولی بارود مال حرام ہے ٹھیک نہیں.بلکہ مناسب یہی ہو گا کہ اس کو خرچ کیا جاوے.اس وقت تلوار کا جہاد تو باقی نہیں رہا اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں ایسی گورنمنٹ دی ہے جس نے ہر ایک قسم کی مذہبی آزادی عطا کی ہے.اب قلم کا جہاد باقی ہے.اس لیے اشاعت دین میں ہم اس کو خرچ کر سکتے ہیں.( الحکم 24 ستمبر 1905 صفحہ 9) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں
فقه المسيح 325 سود، انشورنس اور بینکنگ غلام نبی صاحب سیٹھی نے جو پہلے راولپنڈی میں تجارت کرتے تھے اور آج کل قادیان میں ہجرت کر آئے ہوئے ہیں.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط دیا جو حضوڑ نے سیٹھی صاحب کو اپریل 1898ء میں اپنے دست مبارک سے لکھ کر ارسال کیا تھا.اس خط میں مسئلہ سود کے متعلق حضرت کا ایک اصولی فیصلہ درج ہے اور اس لئے میں اسے ذیل میں نقل کرتا ہوں.میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کی اس نیک نیتی اور خوف الہی پر اللہ تعالیٰ خود کوئی طریق مخلصی پیدا کر دے گا.اس وقت تک صبر سے استغفار کرنا چاہیے اور سود کے بارے میں میرے نزدیک ایک انتظام احسن ہے اور وہ یہ ہے کہ جس قدر سود کا روپیہ آوے آپ اپنے کام میں اس کو خرچ نہ کریں بلکہ اس کو الگ جمع کرتے جائیں اور جب سود دینا پڑے اسی روپیہ میں سے دے دیں.اور اگر آپ کے خیال میں کچھ زیادہ روپیہ ہو جائے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے کہ وہ روپیہ کسی ایسے دینی کام میں خرچ ہو جس میں کسی شخص کا ذاتی خرچ نہ ہو.بلکہ صرف اس سے اشاعت دین ہو.میں اس سے پہلے یہ فتویٰ اپنی جماعت کے لئے بھی دے چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جوسود حرام فرمایا ہے وہ انسان کی ذاتیات کے لئے ہے.حرام یہ طریق ہے کہ کوئی انسان سود کے روپیہ سے اپنی اور اپنے عیال کی معیشت چلا دے یا خوراک یا پوشاک یا عمارت میں خرچ کرے یا ایسا ہی کسی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ اس میں سے کھاوے یا پہنے لیکن اس طرح پر کسی سود کے روپیہ کا خرچ کرنا ہر گز حرام نہیں ہے کہ وہ بغیر اپنے کسی ذرہ ذاتی نفع کے خدا تعالیٰ کی طرف رد کیا جائے یعنی اشاعت دین پر خرچ کیا جائے.قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا مالک ہے جو چیز اس کی طرف آتی ہے وہ پاک ہو جاتی ہے بجز اس کے کہ ایسے مال نہ ہوں کہ انسانوں کی مرضی کے بغیر لئے گئے ہوں جیسے چوری یار ہر نی یاڈا کہ کہ یہ مال کسی طرح سے بھی خدا کے اور دین کے کاموں میں بھی خرچ کرنے کے لائق نہیں لیکن جو مال رضا مندی سے حاصل کیا گیا ہو وہ خدا تعالیٰ کے دین کی راہ میں خرچ ہوسکتا ہے.دیکھنا چاہئے کہ ہم
فقه المسيح 326 سود، انشورنس اور بینکنگ لوگوں کو اس وقت مخالفوں کے مقابل پر جو ہمارے دین کے رد میں شائع کرتے ہیں کس قدر روپیہ کی ضرورت ہے.گویا یہ ایک جنگ ہے جو ہم ان سے کر رہے ہیں.اس صورت میں اس جنگ کی امداد کے لئے ایسے مال اگر خرچ کئے جائیں تو کچھ مضائقہ نہیں.یہ فتویٰ ہے جو میں نے دیا ہے.سود کے اشاعت دین میں خرچ کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی انسان عمدا اپنے تئیں اس کام میں ڈالے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری سے جیسا کہ آپ کو پیش ہے یا کسی اتفاق سے کوئی شخص سود کا روپیہ کا وارث ہو جائے تو وہ روپیہ اس طرح پر جیسا کہ میں نے بیان ( کیا ہے ) خرچ ہوسکتا ہے اور اس کے ساتھ ثواب کا بھی مستحق ہوگا.“ (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 402 403) ایک صاحب کا ایک خط حضرت کی خدمت میں پہنچا کہ جب بینکوں کے سود کے متعلق حضور نے اجازت دی ہے کہ موجودہ زمانہ اور اسلام کے حالات کو مدنظر رکھ کر اضطرار کا اعتبار کیا جائے سو اضطرار کا اصول چونکہ وسعت پذیر ہے اس لئے ذاتی ، قومی ، ملکی تجارتی وغیرہ اضطرارات بھی پیدا ہو کر سود کا لین دین جاری ہو سکتا ہے یا نہیں؟ فرمایا: اس طرح سے لوگ حرامخوری کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں کہ جو جی چاہے کرتے پھریں.ہم نے یہ نہیں کہا کہ بینک کا سود بسبب اضطرار کے کسی انسان کو لینا اور کھانا جائز ہے.بلکہ اشاعت اسلام میں اور دینی ضروریات میں اس کا خرچ جائز ہونا بتلایا گیا ہے.وہ بھی اس وقت تک کہ امداد دین کے واسطے روپیہ مل نہیں سکتا اور دین غریب ہو رہا ہے کیونکہ کوئی شے خدا کے واسطے تو حرام نہیں.باقی رہی اپنی ذاتی اور ملکی اور قومی اور تجارتی ضروریات.سوان کے واسطے اور ایسی باتوں کے واسطے سود بالکل حرام ہے وہ جواز جو ہم نے بتلایا ہے وہ اس قسم کا ہے کہ مثلاً کسی جاندار کو آگ میں جلانا شرعاً منع ہے.لیکن ایک مسلمان کے واسطے جائز ہے کہ اس زمانہ میں اگر کہیں
فقه المسيح 327 سود، انشورنس اور بینکنگ جنگ پیش آوے تو توپ بندوق کا استعمال کرے کیونکہ دشمن بھی اس کا استعمال کر رہا ہے.انشورنس یا بیمه انشورنس اور بیمہ پر سوال کیا گیا.فرمایا: ( بدر 6 فروری 1908 صفحه (7) سود اور قمار بازی کو الگ کر کے دوسرے اقراروں اور ذمہ داریوں کو شریعت نے صحیح قرار دیا ہے.قمار بازی میں ذمہ داری نہیں ہوتی.دنیا کے کاروبار میں ذمہ داری کی ضرورت ہے.دوسرے ان تمام سوالوں میں اس امر کا خیال بھی رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف میں حکم ہے کہ بہت کھوج نکال نکال کر مسائل نہ پوچھنے چاہئیں.مثلاً اب کوئی دعوت کھانے جاوے تو اب اسی خیال میں لگ جاوے کہ کسی وقت حرام کا پیسہ ان کے گھر میں آیا ہو گا.پھر اس طرح تو آخر کار دعوتوں کا کھانا ہی بند ہو جاوے گا.خدا کا نام ستار بھی ہے ورنہ دنیا میں عام طور پر راستباز کم ہوتے ہیں.مستور الحال بہت ہوتے ہیں.یہ بھی قرآن میں لکھا ہے وَلَا تَجَسَّسُوا (الحجرات : 13) یعنی تجسس مت کیا کرو ور نہ اس طرح تم مشقت میں پڑو گے.لائف انشورنس البدر 27 مارچ 1903 صفحہ 76 ا یک دوست کا خط حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا جس میں لکھا تھا کہ مارچ 1900ء میں، میں نے اپنی زندگی کا بیمہ واسطے دو ہزار روپے کے کرایا تھا.شرائط یہ تھیں کہ اس تاریخ سے تا مرگ میں چھیالیس روپے سالانہ بطور چندہ کے ادا کرتا رہوں گا.تب دو ہزار روپیہ بعد مرگ کے میرے وارثان کو ملے گا اور زندگی میں یہ روپیہ لینے کا حقدار نہ ہوں گا.اب تک میں نے تقریبا مبلغ چھ سوروپیہ کے بیمہ کرنے والی کمپنی کو دے دیا ہے.اب اگر میں اس
فقه المسيح 328 سود، انشورنس اور بینکنگ بیمہ کو توڑ دوں تو بموجب شرائط اس کمپنی کے صرف تیسرے حصہ کا حقدار ہوں یعنی دوصد روپیہ ملے گا اور باقی چار صد روپیہ ضائع جائے گا.مگر چونکہ میں نے آپ کے ہاتھ پر اس شرط کی بیعت کی ہوئی ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.اس واسطے بعد اس مسئلہ کے معلوم ہو جانے کے میں ایسی حرکت کا مرتکب ہونا نہیں چاہتا جو خدا اور اس کے رسول کے احکام کے برخلاف ہواور آپ حکم اور عدل ہیں، اس واسطے نہایت عجز سے لیتی ہوں کہ جیسا مناسب حکم ہو صادر فرمایا جاوے تا کہ اس کی تعمیل کی جاوے اس کے جواب میں فرمایا : زندگی کا بیمہ جس طرح رائج ہے اور سنا جاتا ہے اس کے جواز کی ہم کوئی صورت بظا ہر نہیں دیکھتے کیونکہ یہ ایک قمار بازی ہے.اگر چہ وہ بہت سا روپیہ خرچ کر چکے ہیں لیکن اگر وہ جاری رکھیں گے تو یہ روپیہ اُن سے اور بھی زیادہ گناہ کرائے گا.اُن کو چاہیے کہ آئندہ زندگی، گناہ سے بچنے کے واسطے اس کو ترک کر د یو یں اور جتنا رو پید اب مل سکتا ہے وہ واپس لے لیں.سیونگ بنگ اور تجارتی کارخانوں کے سود کا حکم ( بدر 9 را پریل 1908 صفحہ 3) ایک شخص نے ایک لمبا خط لکھا کہ سیونگ بنگ کا سود اور دیگر تجارتی کارخانوں کا سود جائز ہے یا نہیں کیونکہ اس کے ناجائز ہونے سے اسلام کے لوگوں کو تجارتی معاملات میں بڑا نقصان ہو رہا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا: یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور جب تک کہ اس کےسارے پہلوؤں پر غور نہ کی جائے اور ہر قسم کے ہرج اور فوائد جو اس سے حاصل ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے پیش نہ کیے جاویں ہم اس کے متعلق اپنی رائے دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ یہ جائز ہے.اللہ تعالیٰ نے ہزاروں طریق روپیہ کمانے کے پیدا کیے ہیں.مسلمان کو چاہیے کہ اُن کو اختیار کرے اور اس سے پر ہیز رکھے.ایمان صراط مستقیم سے وابستہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو اس طرح سے ٹال دینا گناہ ہے.
فقه المسيح 329 سود، انشورنس اور بینکنگ مثلاً اگر دنیا میں سور کی تجارت ہی سب سے زیادہ نفع مند ہو جاوے تو کیا مسلمان اس کی تجارت شروع کر دیں گے.ہاں اگر ہم یہ دیکھیں کہ اس کو چھوڑ نا اسلام کے لیے ہلاکت کا موجب ہوتا ہے.تب ہم فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغِ وَّلَا عَادٍ (الانعام : 146) کے نیچے لا کر اس کو جائز کہہ دیں گے مگر یہ کوئی ایسا امر نہیں اور یہ ایک خانگی امر اور خود غرضی کا مسئلہ ہے.ہم فی الحال بڑے بڑے عظیم الشان امور دینی کی طرف متوجہ ہیں.ہمیں تو لوگوں کے ایمان کا فکر پڑا ہوا ہے.ایسے ادنیٰ امور کی طرف ہم توجہ نہیں کر سکتے.اگر ہم بڑے عالیشان دینی مہمات کو چھوڑ کر ابھی سے ایسے ادنی کاموں میں لگ جائیں تو ہماری مثال اس بادشاہ کی ہوگی جو ایک مقام پر ایک محل بنانا چاہتا ہے مگر اس جگہ بڑے شیر اور درندے اور سانپ ہیں اور نیز مکھیاں اور چیونٹیاں ہیں.پس اگر وہ پہلے درندوں اور سانپوں کی طرف توجہ نہ کرے اور ان کو ہلاکت تک نہ پہنچائے اور سب سے پہلے مکھیوں کے فنا کرنے میں مصروف ہو تو اس کا کیا حال ہوگا.اس سائل کو لکھنا چاہیے کہ تم پہلے اپنے ایمان کا فکر کرو اور دو چار ماہ کے واسطے یہاں آ کر ٹھہر و تا کہ تمہارے دل و دماغ میں روشنی پیدا ہو اور ایسے خیالات میں نہ پڑو.کسی قیمت پر سودی قرضہ نہ لے (الحکم 10 مئی 1902 ء صفحہ 11) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے سودی قرضہ کے متعلق سوال کیا.فرمایا : یہ جائز نہیں ہے.میں نے عرض کی کہ بعض اوقات مجبوری ہوتی ہے مثلاً ایک کا شتکار ہے اس کے پاس کچھ نہیں ہے.سرکاری معاملہ ادا کرنا ہوتا ہے.سپاہی سر پر کھڑا ہے.بجز سودخور، کوئی قرض نہیں دیتا.ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ فرمایا: ” مجبوری تو ہوتی ہے لیکن استغفار ہی کرے اور سودی قرضہ نہ لیوے.“ (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 199-198
فقه المسيح 330 سود، انشورنس اور بینکنگ وقت مقررہ پر قرضہ واپس نہ کرنے والے سے ہر جانہ وصول کرنا حضرت خلیفہ لمسیح الثانی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک فتوی کی مندرجہ ذیل تشریح کی ہے.سوال:.زید نے بکر کو اپنا مال مقررہ قیمت پر فروخت کرنے کے لئے دیا.زید نے مال فروخت کرنے کے بعد رقم بکر کو ادا نہ کی جس کو کم و بیش ایک سال گزر گیا.کیا زید اس رقم کے روکنے کی وجہ سے بکر سے ہرجانہ طلب کر سکتا ہے.اگر کر سکتا ہے تو کیا شریعت نے کوئی شرح مقرر کی ہے.آریہ دھرم صفحہ ۱ حاشیہ در حاشیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اس مدت تک وہ تجارت کے کام کا روپیہ جو اس کے انتظار پر بند رہے گا اس کا مناسب ہر جانہ اس کو دینا ہو گا.“ جواب:.میں نے (حضرت مولانا سید سرورشاہ صاحب.ناقل ) یہ حوالہ حضرت امیر المومنین (رضی اللہ عنہ ) کے سامنے پیش کیا ہے اور حضور نے اس پر فرمایا ہے کہ تجارتی سود میں اور اس میں فرق باریک ہے.جو ہر ایک اس بار یک فرق تک نہیں پہنچ سکتا.اس واسطے جو قاعدہ ہم نے پہلے جاری کیا ہوا ہے وہی ٹھیک ہے کہ قاضی اگر دیکھے کہ مدیون نے دائن کو تکلیف دی تو قاضی اس پر جرمانہ تو کر دے لیکن جرمانہ کی رقم انجمن کو دے تاجر کو نہ دے.فرمودات مصلح موعود درباره فقہی مسائل صفحه 304،303) سود کی مصیبت سے بچنے کے لئے سود لینا سوال:.کیا سود لینا جائز ہے.ہندو ہم سے سود لیتے ہیں.اگر ہم نہ لیں تو ہمارا سارا مال ہندوؤں کے ہاں چلا جائے گا.اس سوال کے جواب میں حضرت طریقہ اسیح الثانی فر ماتے ہیں: اس بارے میں ہمارا مسلک دوسرے لوگوں سے مختلف ہے اس وقت جو کچھ میں بیان کروں
فقه المسيح 331 سود، انشورنس اور بینکنگ گا یہ احمدی عقیدہ ہوگا.یہ نہیں کہ دوسرے علماء کیا کہتے ہیں ہمیں ان سے اختلاف ہے.ہمارے سلسلہ کے بانی نے یہ رکھا ہے کہ سود اپنی ذات میں بہر حال حرام ہے.ترکوں نے پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ بنکوں کا سود سود نہیں.حنفی علماء کا فتویٰ تھا کہ ہندوستان میں چونکہ انگریزوں کی حکومت ہے اور یہ حربی ملک ہے اس لئے غیر مسلموں سے سود لینا جائز ہے اور اب تو یہ حالت ہو گئی ہے کہ کوئی یہ مسئلہ پوچھتا ہی نہیں.لوگ کثرت سے سود لیتے اور دیتے ہیں.ہم کہتے ہیں چاہے بنگ کا سود ہو چاہے دوسرا دونوں حرام ہیں.لیکن بانی سلسلہ احمدیہ نے ایک فیصلہ کیا ہے جو اسلام کے دوسرے مسائل سے مستنبط ہوتا ہے.ایک حالت انسان پر ایسی بھی آتی ہے جب وہ کسی بلا میں مبتلا ہو جاتا ہے.اس سے بچنے کے لئے یہ کہنا کہ فلاں چیز جائز ہے اور فلاں ناجائز یہ فضول بات ہے.مثلاً ایک آدمی گند میں گر جائے جو کئی گز میں پھیلا ہوا اور اسے کہا جائے کہ گند میں چلنا منع ہے تو وہ کس طرح اس گند سے نکل سکے گا.بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ رکھا ہے کہ اگر کوئی اس لئے سود لے کہ سود کی بلا سے بچ جائے تو وہ لے سکتا ہے.مثلاً ایک جگہ وہ بیس فیصدی سودا دا کرتا ہے.اگر اسے پانچ فیصدی سود پر بنک سے روپیہ مل سکتا ہے تو وہ لے لے.اس طرح امید ہوسکتی ہے کہ وہ سود کی بلا سے بچ سکے.بیمہ زندگی الفضل 25 جنوری 1929 ، صفحہ 6) حضرت خلیفہ المسح الشاخی فرماتے ہیں :.بیمہ کی وہ ساری کی ساری اقسام جو اس وقت تک ہمارے علم میں آچکی ہیں نا جائز ہیں.ہاں اگر کوئی کمپنی یہ شرط کرے کہ بیمہ کرانے والا کمپنی کے فائدہ اور نقصان میں شامل ہوگا تو پھر بیمہ کرانا جائز ہو سکتا ہے.ہاں ایک طرح کا بیمہ جائز ہے اور وہ یہ کہ مجبورا کرانا پڑے جیسے بعض محکموں میں گورنمنٹ نے ضروری کر دیا ہے کہ ملازم بیمہ کرائیں.یہ چونکہ اپنے اختیار کی بات
فقه المسيح 332 سود، انشورنس اور بینکنگ نہیں ہوتی اس لئے جائز ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتوی موجود ہے.آپ نے فرمایا ہے پراویڈنٹ فنڈ جہاں مجبور کر کے جمع کرایا جاتا ہے وہاں اس رقم پر جوزائدہ ملے وہ لے لینا چاہئے.اخبار کی پیشنگی قیمت کم اور ما بعد زیادہ وصول کرنا الفضل 7 جنوری 1930 صفحہ 4) مورخہ 14 فروری 1907 ء کے اخبار بدر میں ایڈیٹر صاحب کی طرف سے یہ اعلان شائع ہوا کہ اخبار کی پیشگی قیمت کم اور مابعد قیمت زیادہ ہوگی.چنانچہ انہوں نے لکھا اخبار کی قیمت اگر پیشگی وصول کی جائے تو اخبار کے چلانے میں سہولت ہوتی ہے.جولوگ پیشگی قیمت نہیں دیتے اور بعد کے وعدے کرتے ہیں ان میں سے بعض تو صرف وعدوں پر ہی ٹال دیتے ہیں اور بعض کی قیمتوں کی وصولی کے لئے بار بار کی خط و کتابت میں اور ان سے قیمتیں لینے کے واسطے یادداشتوں کے رکھنے میں اس قدر وقت ہوتی ہے کہ اس زائد محنت اور نقصان کو کسی حد تک کم کرنے کے واسطے اور نیز اس کا معاوضہ وصول کرنے کے واسطے اخبار بدر کی قیمت ما بعد کے نرخ میں ایک روپیہ زائد کیا گیا ہے.یعنی ما بعد دینے والوں سے قیمت اخبار بجائے تین روپے کے چار روپے وصول کئے جائیں گے.یہ معاملہ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا.اس کا جواب حضرت صاحب نے مندرجہ ذیل لکھا.”میرے نزدیک اس سے سود کو کچھ تعلق نہیں.مالک کا اختیار ہے کہ جو چاہے قیمت طلب کرے، خاص کر بعد کی وصولی میں حرج بھی ہوتا ہے.اگر کوئی شخص اخبار لینا چاہتا ہے تو وہ پہلے بھی دے سکتا ہے.یہ امر خود اس کے اختیار میں ہے.“ ( بدر 14 فروری 1907 صفحہ 4)
فقه المسيح 333 حکومت کی اطاعت حضرت مسیح موعود کے پانچ اصول فرمایا: حکومت کی اطاعت میں بار بارا علان دے چکا ہوں کہ میرے بڑے اصول پانچ ہیں.اول یہ کہ خدا تعالیٰ کو واحد لاشریک اور ہر ایک منقصت موت اور بیماری اور لاچاری اور درد اور دکھ اور دوسری نالائق صفات سے پاک سمجھنا.دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کے سلسلہ نبوت کا خاتم اور آخری شریعت لانے والا اور نجات کی حقیقی راہ بتلانے والا حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین رکھنا.تیسرے یہ کہ دین اسلام کی دعوت محض دلائل عقلیہ اور آسمانی نشانوں سے کرنا اور خیالات غازیانہ اور جہاد اور جنگجوئی کو اس زمانہ کے لئے قطعی طور پر حرام اور ممتنع سمجھنا اور ایسے خیالات کے پابند کو صریح غلطی پر قرار دینا.چوتھے یہ کہ اس گورنمنٹ محسنہ کی نسبت جس کے ہم زیر سایہ ہیں یعنی گورنمنٹ انگلشیہ کوئی مفسدانہ خیالات دل میں نہ لانا اور خلوص دل سے اس کی اطاعت میں مشغول رہنا.پانچویں یہ کہ بنی نوع سے ہمدردی کرنا اور حتی الوسع ہر ایک شخص کی دنیا اور آخرت کی بہبودی کے لئے کوشش کرتے رہنا اور امن اور صلح کاری کا مؤید ہونا اور نیک اخلاق کو دنیا میں پھیلا نا.یہ پانچ اصول ہیں جن کی اس جماعت کو تعلیم دی جاتی ہے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 348،347) حکام برادری سے حسن سلوک ایک شخص نے پوچھا کہ حکام اور برادری سے کیسا سلوک کریں؟ فرمایا: ہر ایک سے نیک سلوک کرو ، حکام کی اطاعت اور وفاداری ہر مسلمان کا فرض ہے.وہ ہماری حفاظت کرتے ہیں اور ہر قسم کی مذہبی آزادی ہمیں دے رکھی ہے.میں اس کو بڑی بے ایمانی
فقه المسيح 334 حکومت کی اطاعت سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری سچے دل سے نہ کی جاوے.برادری کے حقوق ہیں.ان سے بھی نیک سلوک کرنا چاہیے البتہ ان باتوں میں جو اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے خلاف ہیں، ان سے الگ رہنا چاہیے.ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو اور خدا تعالیٰ کی کل مخلوق سے احسان کرو.انگریزوں کی حکومت میں رہنے کا مسئلہ (الحکم 31 جولائی ، 10 اگست 1904 صفحہ 13 ) مسئلہ جہاد کا تذکرہ ہوا جس میں ضمناً بعض ان گروہوں کا ذکر بھی آ گیا جو کہ ہر ایک کافر کو بذریعہ تلوار قتل کر دینے کو غزا قرار دیتے ہیں اور انگریزوں کے ملکوں میں رہنا بدعت اور کفر خیال کرتے ہیں.اس پر حضور نے فرمایا: اُن کا یہ خیال کہ ہم کفر کے اثر سے بچنے کے لیے الگ رہتے ہیں اور اگر انگریزوں کی رعیت ہو کر رہیں تو آنکھوں سے کفر اور شرک کے کام دیکھنے پڑیں اور مشرکانہ کلام کان سے سننے پڑیں.میرے نزدیک درست نہیں ہیں کیونکہ اس گورنمنٹ نے مذہب کے بارے میں ہر ایک کو اب تک آزادی دے رکھی ہے اور ہر ایک کو اختیار ہے کہ وہ امن اور سلامت روی سے اپنے اپنے مذہب کی اشاعت کرے.مذہبی تعصب کو گورنمنٹ ہرگز دخل نہیں دیتی.اس کی بہت سی زندہ نظیریں موجود ہیں.ایک دفعہ خود عیسائی پادریوں نے ایک جھوٹا مقدمہ خون کا مجھ پر بنایا.ایک انگریز اور عیسائی حاکم کے پاس ہی وہ مقدمہ تھا اور اس وقت کا ایک لیفٹیننٹ گورنر بھی ایک پادری مزاج آدمی تھا مگر آخر اس نے فیصلہ میرے حق میں دیا اور بالکل بری کر دیا.بلکہ یہاں تک کہا کہ میں پادریوں کی خاطر انصاف کو ترک نہیں کر سکتا.اس کے بعد ابھی ایک مقدمہ ( کا ) فیصلہ ہوا ہے.پہلے تو وہ ہندو مجسٹریٹوں کے پاس تھا.نہیں معلوم کہ انہوں نے کس رعب میں آکر.
فقه المسيح 335 حکومت کی اطاعت بہت ہی واضح اور بین وجو ہات کو نظر انداز کر دیا اور مجھ پر جرمانہ کیا.لیکن آخر جب اس کی اپیل ایک انگریز حاکم کے پاس ہوئی تو اس نے بری کر دیا اور مجسٹریٹ کی کارروائی پر افسوس کیا اور کہا کہ جو مقدمہ اپنے ابتدائی مرحلہ پر خارج ہونے کے قابل تھا اس پر اس قدر وقت ضائع کیا گیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں ابھی تک عدل اور انصاف کا مادہ موجود ہے.اگر کسی قسم کا مذہبی تعصب یا بغض ہوتا تو کم از کم میرے ساتھ تو ضرور برتا جاتا.تین لاکھ کے قریب جماعت ہے.پھر افغانستان کے لوگ بھی آ آ کر بیعت کرتے رہتے ہیں اور ایک نیا فرقہ ہونے کی وجہ سے بھی گورنمنٹ کی نظر اور توجہ اس طرف ہونی چاہیے تھی مگر دیکھ لو کہ قریب آٹھ کے ہمارے مقدمات ہوئے ہیں جن میں سے سوائے ایک دو کے باقی کل مخالفین کی طرف سے ہم پر تھے مگر سب میں کامیابی ہم کو ہی حاصل ہوئی ہے اور انگریزوں نے ہی ہمارے حق میں فیصلے دیئے ہیں اگر چہ ہم ان سب کامیابیوں کو خدا کی طرف سے ہی سمجھتے ہیں کیونکہ اگر وہ نہ چاہتا تو یہ لوگ کیا کرتے ، مگر جن لوگوں کے ذریعہ اور ہاتھوں سے اس کی نصرت ہمارے شامل حال ہوئی وہ بھی قابل شکر کے ہیں.جہانتک میرا خیال بلکہ یقین ہے وہ یہ ہے کہ ابھی تک ان لوگوں میں تعصب نہیں ہے اور آئندہ کا حال خدا کو معلوم ہے اور اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اگر ان لوگوں کو خدمت دین ہی مطلوب ہے اور ان کی غرض خدا کو راضی کرنا ہے تو چھپ کر بیٹھ رہنے سے کیا فائدہ؟ ان کو چاہیے کہ خدمت دین کا ایک پہلو ہاتھ میں لیں.گورنمنٹ کی طرف سے کسی قسم کی سختی ہرگز نہیں ہے.لوگوں کو تبلیغ اور اتمام حجت کریں یہ خیال بالکل غلط ہے کہ واعظ لوگوں کو گورنمنٹ گرفت کرتی ہے ہر گز نہیں ہاں جو لوگ مفسد ہوتے ہیں وہ ضرور خود ہی گرفت کے قابل ہوتے ہیں.گورنمنٹ کا اس میں کیا قصور؟ اب تو عیسویت کا یہ حال ہے کہ اس پر خود بخو دموت آ رہی ہے.خود اُن کے بڑے بڑے عالم اور فاضل تثلیث کے پکے دشمن ہو گئے ہیں اور نئی تعلیم
فقه المسيح 336 حکومت کی اطاعت نے اُن کے دلوں میں یہ بات کوٹ کر بھر دی ہے کہ بناوٹی خدا اب کام نہیں آ سکتا.پادریوں کی یہ حالت ہے کہ صرف ٹکڑے کی خاطر کام کر رہے ہیں.ایک دن تنخواہ کو دیر ہو جاوے تو کام چھوڑ دیتے ہیں اور خود عیسائی مذہب کے رد میں کتابیں لکھتے ہیں.(البدر 18 فروری 1905 صفحہ 3) اولوالامر کون ہے سوال اولو الامر سے کیا مراد ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ ہر ایک مولوی او لو الامر ہے اور بعض کہتے ہیں کہ کوئی نہیں.جواب : اصل بات یہ ہے کہ اسلام میں اس طرح پر چلا آیا ہے کہ اسلام کے بادشاہ جن کے ہاتھ میں عنان حکومت ہے ان کی اطاعت کرنی چاہیے وہ بھی ایک قسم کے اولوالامر ہوتے ہیں لیکن اصل اولوالا مرو ہی ہوتے ہیں جن کی زندگی پاک ہوتی ہے اور ایک بصیرت اور معرفت جن کو ملتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے امر پاتے ہیں یعنی ما مورالہی.بادشاہوں کے پاس حکومت ہوتی ہے وہ انتظامی امور میں تو پورا دخل رکھتے ہیں لیکن دینی امور کے لیے کیا کر سکتے ہیں.بچے اولوالا مروہی ہیں جن کے اتباع سے معرفت کی آنکھ ملتی ہے اور انسان معصیت سے دور ہوتا ہے.ان دونوں باتوں کا لحاظ اولوالامر میں رکھو.اگر کوئی شخص بادشاہ وقت کی بغاوت کرے تو اس کا نتیجہ اس کے لیے اچھا نہیں ہوگا کیونکہ اس سے فتنہ پیدا ہوگا اور اللہ تعالیٰ فتنہ کو پسند نہیں کرتا.اسی طرح پر مامور کی مخالفت کرے تو سلب ایمان ہو جاتا ہے کیونکہ ان کی مخالفت سے لازم آتا ہے کہ مخالفت کرنے والا خدا تعالیٰ کی مخالفت کرتا ہے.سوال پھر اس وقت جو مولوی ہیں کیا اُن کو اولوالا مر سمجھیں؟ جواب : او خویشتن گم است کرا رہبری کند - اصل بات یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کسی کی آنکھ نہ کھولے آنکھکھلتی نہیں.ان لوگوں نے دین صرف چند رسوم کا نام سمجھ رکھا ہے حالانکہ دین رسوم کا نام نہیں ہے.ایک زمانہ وہ ہوتا ہے
فقه المسيح 337 حکومت کی اطاعت جبکہ یہ باتیں محض رسم اور عادت کے طور پر سمجھی جاتی ہیں.یہ لوگ اسی قسم کے ہو رہے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جن کو نماز اور روزہ سکھایا گیا تھا ان کا اور مذاق تھا.وہ حقیقت کو لیتے تھے اور اسی لیے جلد مستفیض ہوتے تھے.پھر مدت کے بعد وہی نماز اور روزہ جو اعلیٰ درجہ کی طہارت اور خدا ترسی کا ذریعہ تھا ایک رسم اور عادت سمجھا گیا.پس اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اصل امر دین کو جو مغز ہے تلاش کرے.(الحکم 17 اگست 1905ء صفحہ 6) اولی الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے اور جسمانی طور پر جو شخص ہمارے مقاصد کا مخالف نہ ہو اور اُس سے مذہبی فائدہ ہمیں حاصل ہو سکے وہ ہم میں سے ہے اسی لئے میری نصیحت اپنی جماعت کو یہی ہے کہ وہ انگریزوں کی بادشاہت کو اپنے اولی الامر میں داخل کریں اور دل کی سچائی سے ان کے مطیع رہیں کیونکہ وہ ہمارے دینی مقاصد کے حارج نہیں ہیں بلکہ ہم کو ان کے وجود سے بہت آرام ملا ہے.اولو الامر کی اطاعت ضرورت الامام روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 494،493) قرآن شریف میں حکم ہے اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (النساء : 60) یہاں اولی الامر کی اطاعت کا حکم صاف طور پر موجود ہے اور اگر کوئی شخص کہے کہ منکم میں گورنمنٹ داخل نہیں ، تو یہ اس امر کی صریح غلطی ہے.گورنمنٹ جو حکم شریعت کے مطابق دیتی ہے، وہ اسے منکم میں داخل کرتا ہے.مثلاً جو شخص ہماری مخالفت نہیں کرتا وہ ہم میں داخل ہے.اشارۃ النص کے طور پر قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہیے اور اس کے حکم مان لینے چاہئیں.عام طور پر مسلمانوں کے لئے یہ لازم تھا کہ انسداد طاعون کے متعلق شکر گزاری کے میموریل گورنمنٹ کی خدمت میں بھیجتے ،مگر یہاں بجائے شکر گزاری کے ناشکر گزاری ہو رہی ہے اور کوئی معقول وجہ ناراضگی کی بجز اس کے معلوم نہیں ہوتی
فقه المسيح 338 حکومت کی اطاعت کہ عورتوں کی نبضیں مردڈاکٹر دیکھتے ہیں.سو اس بارہ میں یہ معلوم ہوا ہے کہ اول تو اس نقص کے معلوم ہو جانے پر گورنمنٹ نے اس شکایت کو رفع کر دیا ہے اور دائیاں مقرر کر دی ہیں جو مستورات کا ملاحظہ کرتی ہیں.مگر میں کہتا ہوں کہ اگر ایسانہ بھی ہوتا، تو بھی اعتراض کی گنجائش نہ تھی.ایسی صورت اور حالت میں کہ قہر خدا نازل ہورہا ہو اور ہزاروں لوگ مررہے ہوں.پردہ کا اتنا تشدد جائز نہیں ہے.کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ کی بیوی مرگئی تو کوئی اس کو اٹھانے والا بھی نہیں رہا.اب اس حالت میں پردہ کیا کر سکتا تھا.مثل مشہور ہے.مرتا کیا نہ کرتا.مردوں ہی نے جنازہ اٹھایا.حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر بچہ رحم میں ہو تو کبھی مرد اس کو نکال سکتا ہے.دین اسلام میں تنگی اور حرج نہیں.جو شخص خوامخواہ تنگی و حرج کرتا ہے، وہ اپنی نئی شریعت بناتا ہے.گورنمنٹ نے بھی پردے میں کوئی تنگی نہیں کی اور اب قواعد بھی بہت آسان بنا دیئے ہیں.جو جو تجاویز اور اصلاحات لوگ پیش کرتے ہیں گورنمنٹ اسے توجہ سے سنتی اور ان پر مناسب اور مصلحت وقت کے موافق عمل کرتی ہے.کوئی شخص مجھے یہ تو بتائے کہ پردہ میں نبض دکھانا کہاں منع ہے.(رساله الانذار صفحہ 15-16 تقریر حضرت اقدس 2 مئی 1898 ء بحوالہ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 171) دو انگریزوں کے قتل ناحق پر اظہار ناراضنگی علاقہ پشاور میں کسی سفاک پٹھان نے دو بے گناہ انگریزوں کو قتل کر دیا.اس پر ایک مجمع میں حضرت اقدس نے فرمایا: یہ جو دو انگریزوں کو مار دیا ہے.یہ کیا جہاد کیا ہے؟ ایسے نابکارلوگوں نے اسلام کو بدنام کر رکھا ہے.چاہیے تو یہ تھا کہ ان لوگوں کی ایسی خدمت کرتا اور ایسے عمدہ طور پر ان سے برتاؤ کرتا کہ وہ اس کے اخلاق اور حسن سلوک کو دیکھ کر مسلمان ہو جاتے.مومن کا کام تو یہ ہے کہ اپنی نفسانیت کو
فقه المسيح 339 حکومت کی اطاعت کچل ڈالے.لکھا ہے کہ حضرت علی ایک کافر سے لڑے.حضرت علی نے اُس کو نیچے گرا لیا اور اس کا پیٹ چاک کرنے کو تھے کہ اس نے حضرت علی پر تھو کا.حضرت علی یہ دیکھ کر اس کے سینے پر سے اُتر آئے.وہ کافر حیران ہوا اور پوچھا کہ اے علی ! یہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میرا جنگ تیرے ساتھ خدا کے واسطے تھا لیکن جب تو نے میرے منہ پر تھوکا، تو میرے نفس کا بھی کچھ حصہ مل گیا.اس لئے میں نے تجھے چھوڑ دیا.حضرت علی کے اس فعل کا اس پر بہت بڑا اثر ہوا.میں جب کبھی ان لوگوں کی بابت ایسی خبریں سنتا ہوں تو مجھے سخت رنج ہوتا ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم سے بہت دور جا پڑے ہیں اور بے گناہ انسانوں کا قتل ثواب کا موجب سمجھتے ہیں.بعض مولوی مجھے اس لیے دجال کہتے ہیں کہ میں انگریزوں کے ساتھ محار بہ جائز نہیں رکھتا مگر مجھے سخت افسوس ہے کہ یہ لوگ مولوی کہلا کر اسلام کو بدنام کر رہے ہیں.کوئی ان سے پوچھے کہ انگریزوں نے تمہارے ساتھ کیا برائی کی ہے.اور کیا دُ کھ دیا ہے.شرم کی بات ہے کہ وہ قوم جس کے آنے سے ہم کو ہر قسم کی راحت اور آرام ملا.جس نے آکر ہم کو سکھوں کے خونخوار پنجہ سے نجات دی اور ہمارے مذہب کی اشاعت کے لیے ہر قسم کے مواقع اور سہولتیں دیں.اُن کے احسان کا یہ شکر ہے کہ بے گناہ انگریزی افسروں کو قتل کر دیا جائے؟ میں تو صاف طور پر کہتا ہوں کہ وہ لوگ جو خون ناحق سے نہیں ڈرتے اور محسن کے حقوق ادا نہیں کرتے.وہ خدا تعالیٰ کے حضور سخت جوابدہ ہیں.ان مولویوں کا فرض ہونا چاہیے کہ وہ اپنے جمہوری اتفاق سے اس مسئلہ کو اچھی طرح شائع کریں اور نا واقف اور جاہل لوگوں کو فہمائش کریں کہ گورنمنٹ برطانیہ کے زیر سایہ وہ امن اور آزادی سے زندگی بسر کرتے ہیں اور اس کے عطیات سے ممنون منت اور مرهون احسان ہیں اور یہ مبارک سلطنت نیکی اور ہدایت پھیلانے میں کامل مددگار ہے.پس اس کے خلاف محاربہ کے خیالات رکھنے سخت بغاوت ہے اور یہ قطعی حرام ہے.وہ اپنے قلم اور زبان سے جاہلوں کو سمجھائیں اور اپنے دین کو بدنام کر کے دنیا کو ناحق کا ضرر نہ پہنچائیں.ہم تو
فقه المسيح 340 حکومت کی اطاعت گورنمنٹ برطانیہ کو آسمانی برکت سمجھتے ہیں اور اس کی قدر کرنا اپنا فرض.افسوس ہے مولویوں نے خود تو اس کام کو کیا نہیں اور جب ہم نے ان جاہلانہ خیالات کو دلوں سے مٹانا چاہا تو ہم کو دجال کہا.صرف اس واسطے کہ ہم محسن گورنمنٹ کے شکر گزار ہیں.مگر ان کی مخالفت ہمارا کیا بگاڑ سکتی تھی.ہم نے بیسیوں رسالے اس مضمون کے عربی، فارسی، اردو، انگریزی میں شائع کیے اور ہزاروں اشتہار مختلف بلاد وا مصار میں تقسیم کر دیئے ہیں.اس لئے نہیں کہ ہم گورنمنٹ سے کوئی عزت چاہتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہم اس کام کو اپنا فرض سمجھتے ہیں اور اگر ہم کو اس خدمت کے بجالانے میں تکلیف بھی ہو تو ہم پر واہ نہیں کرتے ، کیونکہ خدا نے فرمایا ہے کہ احسان کی جزا احسان ہے.پس پوری اطاعت اور وفاداری گورنمنٹ برطانیہ کی مسلمانوں کا فرض ہے.(الحكم 17 اپریل 1900 ءصفحہ 11،10 ) حکومت کی طرف سے دی گئی آزادی کی قدر کرنی چاہیے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کے وہ میموریل پڑھ چکنے کے بعد جو حضرت مسیح موعود نے انجمن حمایت اسلام کے میموریل دربارہ امہات المومنین کی اصلاح کی غرض سے لکھا تھا حضرت اقدس نے بآواز بلند فرمایا: چونکہ یہ میموریل اسلام اور اہل اسلام کی حمایت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سچی عزت اور قرآن کریم کی عظمت کو قائم کرنے اور اسلام کی پاکیزہ اور اصفی شکل دکھانے کے لئے لکھا گیا ہے، اس لئے اس کو آپ صاحبان کے سامنے پڑھے جانے سے صرف یہ غرض ہے کہ تا آپ لوگوں سے بطور مشورہ دریافت کیا جائے کہ آیا مصلحت وقت یہ ہے کہ کتاب کا جواب لکھا جائے یا میموریل بھیج کر گورنمنٹ سے استدعا کی جائے کہ وہ ایسے مصنفین کی سرزنش کرے اور اشاعت بند کر دے.پس آپ لوگوں میں سے جو کوئی اس پر نکتہ چینی کرنا چاہے، تو وہ نہایت
فقه المسيح 341 حکومت کی اطاعت آزادی اور شوق سے کر سکتا ہے.مجمع میں سے ایک شخص بولا کہ اگر کتاب کی اشاعت بند نہ ہوئی ، ہمیشہ تک طبع ہوتی رہے گی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: اگر ہم واقعی طور پر کتاب کی اشاعت بند نہ کریں جو اس کے رد کرنے کی صورت میں ہوسکتی ہے تو گورنمنٹ سے ایک بار نہیں ہزار دفعہ اس قسم کی مدد لے کر اس کی اشاعت بند کر دی جائے وہ رک نہیں سکتی.اگر اس تھوڑے عرصے کے لئے وہ برائے نام بند بھی ہو جائے تو پھر بھی بہت سی کمزور طبیعت کے انسانوں اور بعض آنے والی نسلوں کے لئے یہ تجویز زہر قاتل ہو گی کیونکہ جب ان کو معلوم ہوگا کہ فلاں کتاب کا جواب جب مسلمانوں سے نہ ہو سکا تو اس کے لئے گورنمنٹ سے بند کرانے کی کوشش کی.اس سے ایک قسم کی بدظنی ہمارے مذہب کی نسبت پیدا ہوگی.پس میرا یہ اصول رہا ہے کہ ایسی کتاب کا جواب دیا جائے اور گورنمنٹ کی ایک کچی امداد یعنی آزادی سے فائدہ اٹھایا جائے اور ایسا شافی جواب دیا جائے کہ خودان کو اس کی اشاعت کرتے ہوئے ندامت محسوس ہو.دیکھو جیسے ہمارے مقدمہ ڈاکٹر کلارک میں ان کو جب معلوم ہو گیا کہ مقدمہ میں جان نہیں رہی اور مصنوعی جادو کا پتلا ٹوٹ گیا تو انہوں نے آتھم کی بیوی اور داماد جیسے گواہ بھی پیش نہ کیے.پس میری رائے یہی ہے اور میرے دل کا فتویٰ یہی ہے کہ اس کا دندان شکن جواب نہایت نرمی اور ملاطفت سے دیا جائے.پھر خدا چاہے گا تو ان کو خود ہی جرات نہ ہوگی.کیا ہندوستان دارالحرب ہے؟ فرمایا: (رسالہ الانذار بحوالہ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 158 159 ) ہم بلحاظ گورنمنٹ کے ہندوستان کو دارالحرب نہیں کہتے اور یہی ہمارا مذ ہب ہے.اگر چہ اس
فقه المسيح 342 حکومت کی اطاعت مسئلہ میں علماء مخالفین نے ہم سے سخت اختلاف کیا ہے اور اپنی طرف سے کوئی دقیقہ ہم کو تکلیف دہی کا انھوں نے باقی نہیں رکھا، مگر ہم ان عارضی تکالیف اور آنی ضرر رسانیوں کے خوف سے حق کو کیونکر چھوڑ سکتے ہیں.ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ حکومت کے لحاظ سے ہندوستان ہرگز ہرگز دارالحرب نہیں ہے.ہمارا مقدمہ ہی دیکھ لو.اگر یہی مقدمہ سکھوں کے عہد حکومت میں ہوتا اور دوسری طرف ان کا کوئی گرویا برہمن ہوتا، تو بدوں کسی قسم کی تحقیق و تفتیش کے ہم کو پھانسی دے دینا کوئی بڑی بات نہ تھی مگر انگریزوں کی سلطنت اور عہد حکومت ہی کی یہ خوبی ہے کہ مقابل میں ایک ڈاکٹر اور پھر مشہور پادری لیکن تحقیقات اور عدالت کی کاروائی میں کوئی سختی کا برتاؤ نہیں کیا جاتا.کیپٹن ڈگلس نے اس بات کی ذرا بھی پروانہیں کی کہ پادری صاحب کی ذاتی وجاہت یا ان کے اپنے عہدہ اور درجہ کا لحاظ کیا جاوے چنانچہ انہوں نے لیمار چنڈ صاحب سے جو پولیس گورداسپور کے اعلی افسر ہیں ، یہی کہا کہ ہمارا دل تسلی نہیں پکڑتا.پھر عبدالحمید سے دریافت کیا جاوے.آخر کار انصاف کی رو سے ہم کو اس نے بری ٹھرایا.پھر یہ لوگ ہم کو ارکان مذہب کی بجا آوری سے نہیں روکتے بلکہ بہت سے برکات اپنے ساتھ لے کر آئے جس کی وجہ سے ہم کو اپنے مذہب کی اشاعت کا خاطر خواہ موقع ملا اور اس قسم کا امن اور آرام نصیب ہوا کہ پہلی حکومتوں میں ان کی نظیر نہیں ملتی.پھر یہ صریح ظلم اور اسلامی تعلیم اور اخلاق سے بعید ہے کہ ہم ان کے شکر گزار نہ ہوں.یا درکھو! انسان جو اپنے جیسے انسان کی نیکیوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ خدا تعالی کا بھی شکر گزار نہیں ہو سکتا حالانکہ وہ اُسے دیکھتا ہے تو غیب الغیب ہستی کے انعامات کا شکر گزار کیونکر ہوگا جس کو وہ دیکھتا بھی نہیں ، اس لیے محض حکومت کے لحاظ سے ہم اس کو دارالحرب نہیں کہتے.ہاں ! ہمارے نزدیک ہندوستان دارالحرب ہے بلحاظ قلم کے.پادری لوگوں نے اسلام کے خلاف ایک خطر ناک جنگ شروع کی ہوئی ہے.اس میدان جنگ میں وہ نیزہ ہائے قلم لے کر
فقه المسيح 343 حکومت کی اطاعت نکلے ہیں نہ سنان وتفنگ لے کر.اس لیے اس میدان میں ہم کو جو ہتھیار لے کر نکلنا چاہیے ، وہ قلم اور صرف قلم ہے.ہمارے نزدیک ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس جنگ میں شریک ہو جاوے.اللہ اور اس کے برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ دل آزار حملے کیے جاتے ہیں کہ ہمارا تو جگر پھٹ جاتا اور دل کانپ اٹھتا ہے.کیا امہات المومنین یا دربار مصطفائی کے اسرار جیسی گندی کتاب دیکھ کر ہم آرام کر سکتے ہیں، جس کا نام ہی اس طرز پر رکھا گیا ہے جیسے ناپاک ناولوں کے نام ہوتے ہیں.تعجب کی بات ہے کہ دربارلندن کے اسرار جیسی کتابیں تو گورنمنٹ کے اپنے علم میں بھی اس قابل ہوں کہ ان کی اشاعت بند کی جائے مگر آٹھ کروڑ مسلمانوں کی دل آزاری کرنے والی کتاب کو نہ روکا جائے.ہم خود گورنمنٹ سے اس قسم کی درخوست کرنا ہرگز ہرگز نہیں چاہتے بلکہ اس کو بہت ہی نامناسب خیال کرتے ہیں.جیسا کہ ہم نے اپنے میموریل کے ذریعہ سے واضح کر دیا تھا لیکن یہ بات ہم نے محض اس بنا پر کہی ہے کہ بجائے خود گورنمنٹ کا اپنا فرض ہے کہ وہ ایسی تحریروں کا خیال رکھے.بہر حال گورنمنٹ نے عام آزادی دے رکھی ہے کہ اگر عیسائی ایک کتاب اسلام پر اعتراض کرنے کی غرض سے لکھتے ہیں تو مسلمانوں کو آزادی کے ساتھ اس کا جواب لکھنے اور عیسائی مذہب کی تردید میں کتابیں لکھنے کا اختیار ہے...ہماری جماعت یا در کھے کہ ہم ہندوستان کو بلحاظ حکومت ہرگز ہرگز دارالحرب قرار نہیں دیتے بلکہ اس امن اور برکات کی وجہ سے جو اس حکومت میں ہم کو ملی ہیں اور اس آزادی کو جو اپنے مذہب کے ارکان کی بجا آوری اور اس کی اشاعت کے لیے گورنمنٹ نے ہم کو دے رکھی ہے.ہمارا دل عطر کے شیشہ کی طرح وفاداری اور شکر گذاری کے جوش سے بھرا ہوا ہے لیکن پادریوں کی وجہ سے ہم اس کو دارالحرب قرار دیتے ہیں.پادریوں نے چھ کروڑ کے قریب کتابیں اسلام کے خلاف شائع کی ہیں.میرے نزدیک وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں جو ان حملوں کو دیکھیں اور سنیں اور اپنے ہی ہم و غم میں مبتلار ہیں.اس وقت جو کچھ کسی سے ممکن ہو، وہ اسلام کی تائید
فقه المسيح 344 حکومت کی اطاعت کے لیے کرے اور اس قلمی جنگ میں اپنی وفاداری دکھائے ، جبکہ خود عادل گورنمنٹ نے ہم کو منع نہیں کیا ہے کہ ہم اپنے مذہب کی تائید اور غیر قوموں کے اعتراضوں کی تردید میں کتابیں شائع کریں بلکہ پریس، ڈاک خانے اور اشاعت کے دوسرے ذریعوں سے مدد دی ہے تو ایسے وقت میں خاموش رہنا سخت گناہ ہے.ہاں ضرورت ہے اس امر کی کہ جو بات پیش کی جاوے وہ معقول ہو، اس کی غرض دل آزاری نہ ہو.جو اسلام کے لیے سینہ بریاں اور چشم گریاں نہیں رکھتا وہ یا در کھے کہ خدا تعالیٰ ایسے انسان کا ذمہ دار نہیں ہوتا.اس کو سوچنا چاہیے کہ جس قدر خیالات اپنی کامیابی کے آتے ہیں اور جتنی تدابیر اپنی دنیاوی اغراض کے لیے کرتا ہے.اسی سوزش اور جلن اور درددل کے ساتھ کبھی یہ خیال بھی آیا ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی پاک ذات پر حملے ہو رہے ہیں، میں ان کے دفاع کی بھی سعی کروں؟ اور اگر کچھ اور نہیں ہوسکتا تو کم از کم پُر سوز دل کے ساتھ خدا تعالی کے حضور دعا کروں ؟ اگر اس قسم کی جلن اور درد دل میں ہو تو ممکن نہیں کہ سچی محبت کے آثار ظاہر نہ ہوں.اگر ٹوٹی ہانڈی بھی خریدی جائے، تو اس پر بھی رنج ہوتا ہے.یہاں تک کہ ایک سوئی کے گم ہو جانے پر بھی افسوس ہوتا ہے.پھر یہ کیسا ایمان اور اسلام ہے کہ اس خوفناک زمانہ میں کہ اسلام پر حملوں کی بوچھاڑ ہورہی ہے.امن اور آرام کے ساتھ خواب راحت میں سورہے ہیں.کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہفتہ وار اور ماہواری اخباروں اور رسالوں کے علاوہ ہر روز وہ کس قدر دو ورقہ اشتہار اور چھوٹے چھوٹے رسالے تقسیم کرتے ہیں جن کی تعداد پچاس پچاس ہزار اور بعض وقت لاکھوں تک ہوتی ہے؟ اور کئی کئی مرتبہ ان کو شائع کرنے میں کروڑ ہارو پیہ پانی کی طرح بہا دیا جاتا ہے.ہر قسم کی بغاوت سے بچھ الحکم 31 مئی 1901 ، صفحہ 2 تا 4 ) اپنی جماعت کے لئے ضروری نصیحت“ کے عنوان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے
فقه المسيح 345 حکومت کی اطاعت مندرجہ ذیل اعلان شائع کروایا.فرمایا: چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ان دنوں میں بعض جاہل اور شریر لوگ اکثر ہندوؤں میں سے اور کچھ کچھ مسلمانوں میں سے گورنمنٹ کے مقابل ایسی ایسی حرکات ظاہر کرتے ہیں جن سے بغاوت کی بُو آتی ہے بلکہ مجھے شک ہوتا ہے کہ کسی وقت باغیانہ رنگ ان کی طبائع میں پیدا ہو جائیگا اس لیے میں اپنی جماعت کے لوگوں کو جو مختلف مقامات پنجاب ، ہندوستان میں موجود ہیں جو بفضلہ تعالیٰ کئی لاکھ تک اُن کا شمار پہنچ گیا ہے.نہایت تاکید سے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ میری اس تعلیم کو خوب یا درکھیں جو قریباً چھبیس برس سے تقریری اور تحریری طور پر ان کے ذہن نشین کرتا آیا ہوں یعنی یہ کہ اس گورنمنٹ انگریزی کی پوری اطاعت کریں کیونکہ وہ محسن گورنمنٹ ہے.اس کے ظل حمایت میں ہمارا یہ فرقہ احمد یہ چند سال میں لاکھوں تک پہنچ گیا ہے اور اس گورنمنٹ کا احسان ہے کہ اس کے زیر سایہ ہم ظالموں کے پنجہ سے محفوظ ہیں.خدائے تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت ہے کہ اُس نے اس گورنمنٹ کو اس بات کے لیے چن لیا که تا یه فرقه احمد یہ اس کے زیر سایہ ہو کر ظالموں کے خونخوار حملوں سے اپنے تئیں بچاوے اور ترقی کرے.کیا تم یہ خیال کر سکتے ہو کہ تم سلطان روم کی عملداری میں رہ کر یا مکہ اور مدینہ میں ہی اپنا گھر بنا کر شریر لوگوں کے حملوں سے بچ سکتے ہو.نہیں ہرگز نہیں.بلکہ ایک ہفتہ میں ہی تم تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کئے جاؤ گے.تم سُن چکے ہو کہ کس طرح صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب جو ریاست کابل کے ایک معزز اور بزرگوار اور نامور رئیس تھے جن کے مرید پچاس ہزار کے قریب تھے جب وہ میری جماعت میں داخل ہوئے تو محض اس قصور کی وجہ سے کہ وہ میری تعلیم کے موافق جہاد کے مخالف ہو گئے تھے.امیر حبیب اللہ خاں نے نہایت بے رحمی سے ان کو سنگسار کرا دیا.پس کیا تمہیں ایسے لوگوں سے کچھ توقع ہے کہ تمہیں ایسے سلاطین کے ماتحت کوئی خوشحالی میسر آئے گی.بلکہ تم تمام اسلامی مخالف علماء کے فتووں کے رو سے واجب
فقه المسيح 346 حکومت کی اطاعت القتل ٹھہر چکے ہو.سو خدا تعالیٰ کا یہ فضل اور احسان ہے کہ اس گورنمنٹ نے ایسا ہی تمہیں اپنے سایہ پناہ کے نیچے لے لیا جیسا کہ نجاشی بادشاہ نے جو عیسائی تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو پناہ دی تھی میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا جیسا کہ نادان لوگ خیال کرتے ہیں نہ اس سے کوئی صلہ چاہتا ہوں بلکہ میں انصاف اور ایمان کی رو سے اپنا فرض دیکھتا ہوں کہ اس گورنمنٹ کی شکر گذاری کروں اور اپنی جماعت کو اطاعت کے لیے نصیحت کروں.سو یا درکھو اور خوب یا درکھو کہ ایسا شخص میری جماعت میں داخل نہیں رہ سکتا جو اس گورنمنٹ کے مقابل پر کوئی باغیانہ خیال رکھے اور میرے نزدیک یہ سخت بدذاتی ہے کہ جس گورنمنٹ کے ذریعہ سے ہم ظالموں کے پنجہ سے بچائے جاتے ہیں اور اس کے زیر سایہ ہماری جماعت ترقی کر رہی ہے اس کے احسان کے ہم شکر گزار نہ ہوں اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن : (61) یعنی احسان کا بدلہ احسان ہے اور حدیث شریف میں یہی آیا ہے کہ جو انسان کا شکر نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر نہیں کرتا.یہ تو سوچو کہ اگر تم اس گورنمنٹ کے سایہ سے باہر نکل جاؤ تو پھر تمہارا ٹھکانا کہاں ہے؟ ایسی سلطنت کا بھلا نام تو لو جو تمہیں اپنی پناہ میں لے آئے گی.ہر ایک اسلامی سلطنت تمہارے قتل کرنے کے لیے دانت پیس رہی ہے کیونکہ ان کے نزدیک تم کافر اور مرتد ٹھہر چکے ہو.سو تم خدا دا د نعمت کی قدر کرو اور تم یقینا سمجھ لو کہ خدائے تعالیٰ نے سلطنت انگریزی تمہاری بھلائی کے لیے ہی اس ملک میں قائم کی ہے اور اگر اس سلطنت پر کوئی آفت آئے تو وہ آفت تمہیں بھی نابود کر دے گی یہ مسلمان لوگ جو اس فرقہ احمدیہ کے مخالف ہیں.تم ان کے علماء کے فتوے سن چکے ہو یعنی یہ کہ تم اُن کے نزد یک واجب القتل ہو اور ان کی آنکھ میں ایک کتا بھی رحم کے لائق ہے مگر تم نہیں ہو.تمام پنجاب اور ہندوستان کے فتوے بلکہ تمام ممالک اسلامیہ کے فتوے تمہاری نسبت یہ ہیں کہ تم
فقه المسيح 347 حکومت کی اطاعت واجب القتل ہو اور تمہیں قتل کرنا اور تمہارا مال لوٹ لینا اور تمہاری بیویوں پر جبر کر کے اپنے نکاح میں لے آنا اور تمہاری میت کی توہین کرنا اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دینا نہ صرف جائز بلکہ بڑے ثواب کا کام ہے.سو یہی انگریز ہیں جن کو لوگ کافر کہتے ہیں جو تمہیں ان خونخوار دشمنوں سے بچاتے ہیں اور ان کی تلوار کے خوف سے تم قتل کئے جانے سے بچے ہوئے ہو.ذرا کسی اور سلطنت کے زیر سایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیا جاتا ہے.سو انگریزی سلطنت تمہارے لیے ایک رحمت ہے.تمہارے لیے ایک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سیر ہے.پس تم دل و جان سے اس سپر کی قدر کرو اور تمہارے مخالف جو مسلمان ہیں ہزار ہا درجہ ان سے انگریز بہتر ہیں کیونکہ وہ تمہیں واجب القتل نہیں سمجھتے.وہ تمہیں بے عزت کرنا نہیں چاہتے.کچھ بہت دن نہیں گذرے کہ ایک پادری نے کپتان ڈگلس کی عدالت میں میرے پر اقدام قتل کا مقدمہ کیا تھا.اس دانشمند اور منصف مزاج ڈپٹی کمشنر نے معلوم کر لیا کہ وہ مقدمہ سراسر جھوٹا اور بناوٹی ہے اس لیے مجھے عزت کے ساتھ بری کیا بلکہ مجھے اجازت دی کہ اگر چاہو تو جھوٹا مقدمہ بنانے والوں پر سزا دلانے کے لیے نالش کر و.سواس نمونہ سے ظاہر ہے کہ انگریز کس انصاف اور عدل کے ساتھ ہم سے پیش آتے ہیں.اور یا درکھو کہ اسلام میں جو جہاد کا مسئلہ ہے میری نگاہ میں اس سے بدتر اسلام کو بدنام کرنے والا اور کوئی مسئلہ نہیں ہے.جس دین کی تعلیم عمدہ ہے جس دین کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے خدا نے معجزات دکھلائے ہیں اور دکھلا رہا ہے ایسے دین کو جہاد کی کیا ضرورت ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ظالم لوگ اسلام پر تلوار کے ساتھ حملے کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ اسلام کو تلوار کے ذریعہ سے نابود کر دیں.سوجنہوں نے تلوار میں اُٹھا ئیں وہ تلوار سے ہی ہلاک کئے گئے.سو وہ جنگ صرف دفاعی جنگ تھی.اب خواہ نخواہ ایسے اعتقاد پھیلا نا کہ کوئی مہدی خونی
فقه المسيح 348 حکومت کی اطاعت آئے گا اور عیسائی بادشاہوں کو گرفتار کرے گا یہ محض بناوٹی مسائل ہیں جن سے ہمارے مخالف مسلمانوں کے دل خراب اور سخت ہو گئے ہیں اور جن کے ایسے عقیدے ہیں وہ خطرناک انسان ہیں اور ایسے عقیدے کسی زمانہ میں جاہلوں کے لیے بغاوت کا ذریعہ ہو سکتے ہیں بلکہ ضرور ہوں گے سو ہماری کوشش ہے کہ مسلمان ایسے عقیدوں سے رہائی پاویں.یاد رکھو کہ وہ دین خدا کی طرف سے نہیں ہوسکتا.جس میں انسانی ہمدردی نہیں.خدا نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ زمین پر رحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم کیا جاوے.طلباء کو ہڑتال ختم کرنے کی نصیحت (بدر 9 مئی 1907 ء صفحہ 6) ایڈیٹر صاحب بدر تحریر کرتے ہیں : میڈیکل سکول کے جن طلباء نے اپنے اُستادوں سے ناراض ہو کر اتفاق کر کے مدرسہ جانا بند کر دیا ہے.ان میں سے دو طالب علم ( عبدالحکیم صاحب اور ایک اور قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں 21 رمئی کو حاضر ہوئے اور اپنا واقعہ گزشتہ اور پرنسپل کا 31 رمئی تک داخل ہو جانے کی اجازت دے دینے کا ذکر کیا.آپ نے فرمایا: آج کل اس قسم کی کارروائیاں گورنمنٹ کے ساتھ بغاوت کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اور ان سے بچنا چاہئے.میرے نزدیک اب اس معاملہ کو ترقی نہیں دینا چاہیے اور پرنسپل صاحب کی اجازت سے فائدہ حاصل کر کے داخل ہو جانا چاہیے.جن اُستادوں کے ساتھ تم نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے ان کو اندر ہی اندر ضرور تنبیہ کی گئی ہوگی اور امید نہیں کہ وہ آئندہ تمہارے ساتھ برا سلوک کریں.گورنمنٹ ایسے لوگوں کو بغیر باز پرس نہیں چھوڑتی گو عام اظہار ایسی بات کا نہ کیا جاوے.علاوہ اس کے تمہیں چاہیے کہ اگر انہوں نے بداخلاقی کی ہے تو تم ان سے اخلاق سیکھو
فقه المسيح 349 حکومت کی اطاعت اور اگر تمہیں کبھی ایسی افسری کا موقعہ ملے تو تم اخلاق کا برتاؤ اپنے شاگردوں اور ماتحتوں کے ساتھ کرو اور جو قسمیں تم نے ضد پر کھائی ہیں وہ ناجائز ہیں.نا جائز قسم پر قائم رہنا گناہ ہے.خدا نے اسلامی شریعت میں یہی حکم دیا ہے کہ ناجائز قسموں اور ناجائز اقراروں کو توڑ دیا جاوے.وقت کو ضائع کرنا اچھا نہیں اپنے آپ کو پریشانی میں مت ڈالو اور اپنے مدرسہ میں داخل ہو جاؤ.ہڑتال میں شمولیت پر سخت تنبیہ ( بدر 24 مئی 1906 صفحه (2) اخبار بدر نے اپنی 14 / مارچ 1907 ء کی اشاعت میں اس عنوان سے لکھا: د علی گڑھ کالج میں فساد.عزیز احمد خارج از بیعت 66 علی گڑھ کالج کے طالب علم مولوی غلام محمد صاحب نے وہاں کے طلباء کی سٹرائیک اور اپنے استادوں کی مخالفت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ اس جماعت ( فرقہ احمدیہ) کا کوئی لڑکا اس سٹرائیک میں شامل نہیں ہوا.میاں محمد دین.عبد الغفار خاں وغیرہ سب علیحدہ رہے لیکن عزیز احمد ( مراد صاحبزادہ مرزا عزیز احمد ابن حضرت مرزا سلطان احمد.ناقل ) ان طلباء کے ساتھ شریک رہا اور باوجود ہمارے سمجھانے کے باز نہ آیا اور چونکہ بعض اخباروں میں اس قسم کے مضمون نکلے تھے کہ مسیح موعود کا پوتا علی گڑھ کالج میں ہے اس وجہ سے عام طور پر عزیز احمد کا رشتہ حضور کے ساتھ سب کو معلوم ہونے کے سبب وہاں کے اراکین نے اس امر پر تعجب ظاہر کیا کہ عزیز احمد اس مفسدہ میں ایسا حصہ لیتا ہے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا: عزیز احمد نے اپنے استادوں اور افسروں کی مخالفت میں مفسد طلباء کے ساتھ شمولیت کا جوطریق اختیار کیا ہے یہ ہماری تعلیم اور ہمارے مشورہ کے بالکل مخالف ہے لہذا وہ اس دن سے جس دن سے وہ اس بغاوت میں شریک ہے ہماری جماعت سے علیحدہ اور ہماری بیعت
فقه المسيح 350 حکومت کی اطاعت سے خارج کیا جاتا ہے ہم ان لڑکوں پر خوش ہیں جنہوں نے اس موقعہ پر ہماری تعلیم پر عمل کیا.بہت سے لوگ بیعت میں آکر داخل ہو جاتے ہیں لیکن جب وہ شرائط بیعت پر عمل نہیں کرتے تو خود بخود اس سے خارج ہو جاتے ہیں.یہی حال عزیز احمد کا تھا.اس میں خصوصیت نہ تھی اور یہ امر کہ ہمارا وہ پوتا ہے اس وجہ سے وہ ہمارا رشتہ دار ہے سو واضح ہو کہ ہم ایسے رشتوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے.ہمارے رشتے سب اللہ تعالیٰ کے واسطے ہیں.عزیز احمد کا باپ خود ہم سے برگشتہ ہے.تو پھر عزیز احمد کا پوتا ہونا کیسا؟ عزیز احمد کو چاہیے تھا کہ اس معاملہ میں اول ہم سے مشورہ کرتا یا اس مثال کو دیکھتا جو پہلے میڈیکل کالج لاہور میں قائم ہو چکی تھی کہ جب طلباء نے لاہور میں اپنے پروفیسروں کی مخالفت میں سٹرائیک کیا تھا تو جولڑ کے اس جماعت میں داخل تھے ان کو میں نے حکم دیا تھا کہ وہ اس مخالفت میں شامل نہ ہوں اور اپنے استادوں سے معافی مانگ کر فوراً کالج میں داخل ہو جاویں.چنانچہ انہوں نے میرے حکم کی فرمانبرداری کی اور اپنے کالج میں داخل ہو کر ایک ایسی نیک مثال قائم کی کہ دوسرے طلباء بھی فوراً داخل ہو گئے.عزیز احمد کو اس واقعہ کی خبر ہوگئی کیونکہ اخبار میں چھپ چکا تھا.اور اگر خبر نہ ہوتی تو اس کے واسطے ضروری تھا کہ اول مجھ سے مشورہ کرتا یا اپنے ساتھیوں کے مشورہ پر چلتا.اس کا علی گڑھ میں جانا بھی اس کے باپ کے مشورہ اور حکم سے تھا نہ کہ ہمارا اس میں کوئی حکم تھا.ایسا ہی مخالفت استادان میں شمولیت ہمارے کسی تعلق کی وجہ سے نہیں اور اسی وجہ سے اس کو خارج از بیعت کیا جاتا ہے جب تک کہ وہ اپنے فعل سے تو بہ کر کے اپنے استادوں سے معافی نہ مانگے.ہاں دوسرے طلباء مولوی غلام محمد صاحب وغیرہ نے علی گڑھ جانے سے پہلے ہم سے مشورہ لیا تھا اور ہم نے یہی مشورہ دیا تھا کہ وہاں کے لڑکوں کی صحبت سے بچتے رہیں اور کسی بدی میں شامل نہ ہوں تو ہرج نہیں کہ وہاں جائیں.انسان ضرور تا پاخانہ میں بھی جاتا ہے مگر اپنے آپ کو نجاست سے بچائے رکھتا ہے.
فقه المسيح 351 حکومت کی اطاعت عاجز ( یعنی حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر اخبار بدر.ناقل ) کو مخاطب کر کے حضور نے فرمایا: ” ان باتوں کو عام اطلاع کے واسطے اخبار میں شائع کر دیں.“ ( بدر 14 مارچ 1907 ء صفحہ 5) نوٹ: اس واقعہ کے بعد صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں خط لکھ کر اپنی کوتاہی کی معافی مانگی جس پر آپ نے انہیں معاف فرما دیا.حکام اور سب مذاہب والوں کے ساتھ نیکی کرو چوہدری عبداللہ خاں صاحب نمبر دار بہلول پور نے سوال کیا کہ حکام اور برادری سے کیا سلوک کرنا چاہیے؟ فرمایا: ہماری تعلیم تو یہ ہے کہ سب سے نیک سلوک کرو.حکام کی سچی اطاعت کرنی چاہیے کیونکہ وہ حفاظت کرتے ہیں.جان اور مال اُن کے ذریعہ امن میں ہے اور برادری کے ساتھ بھی نیک سلوک اور برتاؤ کرنا چاہیے کیونکہ برادری کے بھی حقوق ہیں البتہ جو متقی نہیں اور بدعات و شرک میں گرفتار ہیں اور ہمارے مخالف ہیں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے تا ہم اُن سے نیک سلوک کرنا ضرور چاہیے.ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو.جو دنیا میں کسی سے نیکی نہیں کر سکتا، وہ آخرت میں کیا اجر لے گا.اس لیے سب کے لیے نیک اندیش ہونا چاہیے.ہاں مذہبی امور میں اپنے آپ کو بچانا چاہیے.جس طرح پر طبیب ہر مریض کی خواہ ہندو ہو یا عیسائی یا کوئی ہو غرض سب کی تشخیص اور علاج کرتا ہے.اسی طرح پر نیکی کرنے میں عام اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے.اگر کوئی یہ کہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کفار کوقتل کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی شرارتوں اور ایذا رسانیوں سے بہ سبب بلا وجہ قتل کرنے مسلمانوں کے مجرم ہو چکے تھے.اُن کو جو سزاملی مجرم ہونے کی حیثیت سے تھی.محض انکار اگر سادگی سے ہو
فقه المسيح 352 حکومت کی اطاعت اور اس کے ساتھ شرارت اور ایذا رسانی نہ ہو، تو وہ اس دنیا میں عذاب کا موجب نہیں ہوتا.رشوت کی تعریف (احکام 17 اگست 1902 صفحہ 9) حضرت مولانا نورالدین صاحب نے عرض کی کہ حضور ایک سوال اکثر آدمی دریافت کرتے ہیں کہ اُن کو بعض وقت ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ جب تک وہ کسی اہلکار وغیرہ کو کچھ نہ دیں، اُن کا کام نہیں ہوتا.فرمایا: میرے نزدیک رشوت کی یہ تعریف ہے کہ کسی کے حقوق کو زائل کرنے کے واسطے یا نا جائز طور پر گورنمنٹ کے حقوق کو دبانے یا لینے کے لیے کوئی ما بہ الاحتفاظ کسی کو دیا جائے لیکن اگر ایسی صورت ہو کہ کسی دوسرے کا اس سے کوئی نقصان نہ ہو اور نہ کسی دوسرے کا کوئی حق ہو صرف اس لحاظ سے کہ اپنے حقوق کی حفاظت میں کچھ دے دیا جاوے تو کوئی حرج نہیں اور یہ رشوت نہیں، بلکہ اس کی مثال ایسی ہے کہ ہم راستہ پر چلے جاویں اور سامنے کوئی کتا آ جاوے تو اس کو ایک ٹکڑا روٹی کا ڈال کر اپنے طور پر جاویں اور اس کے شر سے محفوظ رہیں.گورنمنٹ کے حقوق تلف نہ ہوں (الحکم 17 راگست 1902 ءصفحہ 8) رشوت ہرگز نہیں دینی چاہیے.یہ سخت گناہ ہے مگر میں رشوت کی یہ تعریف کرتا ہوں کہ جس سے گورنمنٹ یا دوسرے لوگوں کے حقوق تلف کیے جاویں.میں اس سے سخت منع کرتا ہوں لیکن ایسے طور پر بطور نذرانہ یا ڈالی اگر کسی کو دی جاوے جس سے کسی کے حقوق کا اتلاف مدنظر نہ ہو بلکہ اپنی حق تلفی اور شر سے بچنا مقصود ہو تو یہ میرے نزدیک منع نہیں ہے اور میں اس کا نام رشوت نہیں رکھتا.کسی کے ظلم سے بچنے کو شریعت منع نہیں کرتی بلکہ لَا تُلْقُوا
فقه المسيح 353 حکومت کی اطاعت بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقره: 196) فرمایا ہے.قومی اور حکومتی زبان سیکھو فرمایا: احکام 17 اگست 1902 ، صفحہ 9) یا درکھو کہ چونکہ استحکام گورنمنٹ نے ایک قومی گورنمنٹ کی صورت اختیار کر لی ہے اس لئے قومی گورنمنٹ کی زبان بھی ایک قومیت کا رنگ رکھتی ہے.پس ضروری ہوا کہ اپنے مطالب و اغراض کو حکام کے پورے طور پر ذہن نشین کرنے کے لئے انگریزی پڑھو تا کہ تم گورنمنٹ کو فائدہ اور مدد پہنچاسکو.پٹواریوں کے لئے زمینداروں کے نذرانے ( الحکم 12 مئی 1899 صفحہ 4) ایک شخص نے جو اپنی جماعت میں داخل ہیں اور پٹواری ہیں بذریعہ خط حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ پٹواریوں کے واسطے کچھ رقوم گورنمنٹ کی طرف سے مقرر ہیں لیکن عام رسم ایسی پڑ گئی ہے کہ پٹواری بعض باتوں میں اس سے زیادہ یا اس کے علاوہ بھی لیتے ہیں اور زمیندار بخوشی خاطر خودہی بغیر مانگے کے دیے جاتے ہیں آیا اس کا لینا جائز ہے یا کہ نہیں ؟ فرمایا: اگر ایسے لینے کی خبر با ضابطہ حکام تک بالفرض پہنچ جائے اور بموجب قانون اس پر فتنہ اٹھنے کا خوف ہوسکتا ہو تو یہ نا جائز ہے.شہر کے والی اور حاکم کے لئے دعائیہ نوافل ( بدر 24 مئی 1908 صفحہ 8) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میر عنایت علی صاحب نے
فقه المسيح 354 حکومت کی اطاعت مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مالیر کوٹلہ بھی تشریف لے گئے تھے.قریب آٹھ دس آدمی حضور کے ہمراہ تھے.اس وقت تک ابھی مالیر کوٹلہ کی ریل جاری نہیں ہوئی تھی.میں بھی حضور کے ہمرکاب تھا.حضرت صاحب نے یہ سفر اس لئے اختیار کیا تھا کہ بیگم صاحبہ یعنی والدہ نواب ابراہیم علی خان صاحب نے اپنے اہل کاروں کو لدھیانہ بھیج کر حضرت صاحب کو بلایا تھا کہ حضور مالیر کوٹلہ تشریف لا کر میرے لڑکے کو دیکھیں اور دعا فرمائیں کیونکہ نواب ابراہیم علی خان صاحب کو عرصہ سے خلل دماغ کا عارضہ ہو گیا تھا.حضرت صاحب لدھیانہ سے دن کے دس گیارہ بجے قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بیٹھ کر تین بجے کے قریب مالیر کوٹلہ پہنچے اور ریاست کے مہمان ہوئے.جب صبح ہوئی تو بیگم صاحبہ نے اپنے اہل کاروں کو حکم دیا کہ حضرت صاحب کے لئے سواریاں لے جائیں تا کہ آپ باغ میں جا کر نواب صاحب کو دیکھیں مگر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہمیں سواری کی ضرورت نہیں.ہم پیدل ہی چلیں گے چنانچہ آپ پیدل ہی گئے.اس وقت ایک بڑا ہجوم لوگوں کا آپ کے ساتھ تھا.جب آپ باغ میں پہنچے تو مع اپنے ساتھیوں کے ٹھہر گئے.نواب صاحب کوٹھی سے باہر آئے اور پہلی دفعہ حضرت صاحب کو دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے لیکن پھر آگے بڑھ کر آئے اور حضرت سے سلام علیکم کیا اور کہا کہ کیا براہین کا چوتھا حصہ چھپ گیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ابھی تو نہیں چھپا مگر انشاء اللہ عنقریب چھپ جائے گا.اس کے بعد نواب صاحب نے کہا کہ آئیے اندر بیٹھیں.چنانچہ حضرت صاحب اور نواب صاحب کوٹھی کے اندر چلے گئے اور قریبا آدھا گھنٹہ اندر رہے.چونکہ کوئی آدمی ساتھ نہ تھا اس لئے ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ اندر کیا کیا باتیں ہوئیں.اس کے بعد حضرت صاحب مع سب لوگوں کے پیدل ہی جامع مسجد کی طرف چلے آئے اور نواب صاحب بھی سیر کے لئے باہر چلے گئے.مسجد میں پہنچ کر
فقه المسيح 355 حکومت کی اطاعت حضرت صاحب نے فرمایا کہ سب لوگ پہلے وضو کریں اور پھر دو رکعت نماز پڑھ کر نواب صاحب کی صحت کے واسطے دعا کریں کیونکہ یہ تمہارے شہر کے والی ہیں اور ہم بھی دعا کرتے ہیں.غرض حضرت اقدس نے مع سب لوگوں کے دعا کی اور پھر اس کے بعد فورا ہی لدھیانہ واپس تشریف لے آئے اور با وجود اصرار کے مالیر کوٹلہ میں اور نہ ٹھہرے.سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 312,311) گورنمنٹ کے قوانین کی اطاعت کرو طاعون کے پھیلنے کے دنوں میں حکومتی ہدایات پر عمل کرنے کے ضمن میں فرمایا: اگر کسی ایسی جگہ طاعون پھیلے جہاں تم میں سے کوئی ہو تو میں تمہیں ہدایت کرتا ہوں کہ گورنمنٹ کے قوانین کی سب سے پہلے اطاعت کرنے والے تم ہو.اکثر مقامات میں سنا گیا ہے کہ پولیس والوں سے مقابلہ ہوا.میرے نزدیک گورنمنٹ کے قوانین کے خلاف کرنا بغاوت ( الحکم 24 جولائی 1901 صفحہ 1) ہے جو خطرناک جرم ہے.حکومت کی مخالفت میں ہڑتال کی ممانعت ذکر تھا کہ سیالکوٹ کے تجار نے یہ سبب محصول چنگی میں زیادتی کے دوکانیں بند کر دی تھیں اور چند روز کا نقصان اُٹھا کر پھر خود بخود کھول دیں.فرمایا: اس طرح کا طریق گورنمنٹ کی مخالفت میں برتنا ان کی بے وقوفی تھی.جس سے اُن کو خود ہی باز آنا پڑا.محصول تو دراصل پبلک پر پڑتا ہے.آسمانی اسباب کے سبب سے بھی جب کبھی قحط پڑ جاتا ہے تو تاجر لوگ نرخ بڑھا دیتے ہیں.اس وقت کیوں دکانیں بند نہیں کر دیتے ؟ (بدر 27 دسمبر 1906 صفحہ 3)
فقه المسيح پاک چیزیں حلال ہیں فرمایا: 356 حلت و حرمت حلت و حرمت جو چیز بُری ہے وہ حرام ہے اور جو چیز پاک ہے وہ حلال.خدا تعالیٰ کسی پاک چیز کو حرام قرار نہیں دیتا بلکہ تمام پاک چیزوں کو حلال فرماتا ہے.ہاں جب پاک چیزوں ہی میں بُری اور گندی چیزیں ملائی جاتی ہیں تو وہ حرام ہو جاتی ہیں.اب شادی کو دف کے ساتھ شہرت کرنا جائز رکھا گیا ہے لیکن اس میں جب ناچ وغیرہ شامل ہو گیا تو وہ منع ہو گیا.اگر اسی طرح پر کیا جائے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کوئی حرام نہیں.دریائی جانوروں کی حلت کا اصول سوال پیش ہوا کہ دریائی جانور حلال ہیں یا نہیں؟ فرمایا: (بدر 31 /اکتوبر 1907ء صفحہ 8) دریائی جانور بے شمار ہیں.ان کے واسطے ایک ہی قاعدہ ہے.جو خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرما دیا ہے کہ جو ان میں سے کھانے میں طیب پاکیزہ اور مفید ہوں ان کو کھا لو اور دوسروں کو مت کھاؤ.“ اصل میں اشیاء حلال ہیں (بدر 5 ستمبر 1907 ء صفحہ 3) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ان مسائل میں جن میں حلت وحرمت کا سوال در پیش ہوتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے اصل اشیاء کی
فقه المسيح 357 حلت و حرمت حلت رکھی ہے.سوائے اس کے جہاں حرمت کی کوئی وجہ ہو یا ظاہری حکم حرمت کا موجود ہو.باقي إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ پر منحصر ہے.نیت درست ہو تو عمل مقبول ہو جاتا ہے درست نہ ہو تو نا جائز ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ عام طریق تھا کہ سوائے ایسے مسائل کے جن میں شریعت نے کوئی تصریح کی ہو ، اکثر صورتوں میں آپ الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّات پر بنیا د ر کھتے تھے اور مسائل کے جواب میں یہی فقرہ دہرا دیتے تھے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 511) خرگوش حلال ہے کسی نے خرگوش کے حلال ہونے پر حضرت اقدس سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: اصل اشیاء میں حلت ہے حرمت جب تک نص قطعی سے ثابت نہ ہو تب تک نہیں ہوتی.“ شراب اور جوئے کی حرمت البدر 14 نومبر 1902 صفحہ 19) 66 قرآن شریف نے شراب کو جو ام الخبائث ہے قطعا حرام کر دیا ہے اور یہ فخر خاص قرآن شریف کو ہی حاصل ہے کہ ایسی خبیث چیز جس کی خباثت پر آج کل تمام یورپ کے لوگ فریاد کر اُٹھے ہیں وہ قرآن شریف نے ہی قطعا حرام کر دی اور ایسا ہی قمار بازی کو قطعا چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 267) حرام کیا.دوسری قوموں سے سود لینا بھی حرام ہے مذہب اسلام میں جیسا کہ اپنی قوم سے سود لینا حرام ہے ایسا ہی دوسری قوموں سے بھی سود لینا حرام ہے بلکہ خدا نے یہ بھی فرمایا ہے کہ نہ صرف سود حرام ہے بلکہ اگر تمہارا قرض دار مفلس ہو تو اس کو قرض بخش دو یا کم سے کم یہ کہ اس وقت تک انتظار کرو کہ وہ قرض ادا کرنے کے لائق ہو جائے اور جیسا کہ قرآن شریف میں اپنی قوم کے لئے گناہ معاف کرنے کا حکم ہے ایسا ہی
فقه المسيح 358 حلت و حرمت دوسری قوموں کے لئے بھی یہی حکم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے.وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا اَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (النور: 23) یعنی لوگوں کے گناہ بخشو اور اُن کی زیادتیوں اور قصوروں کو معاف کرو.کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا بھی تمہیں معاف کرے اور تمہارے گناہ بخشے اور وہ تو غفور و رحیم ہے.شراب کی حرمت چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 387 ) ان دونوں کتابوں (تو رات اور انجیل.ناقل ) کے پیروؤں میں شراب اور قمار بازی کی کوئی حد نہیں رہی تھی کیونکہ ان کتابوں میں یہ نقص تھا کہ ان خبیث چیزوں کو حرام نہیں ٹھہرایا اور عیاش لوگوں کو اُن کے استعمال سے منع نہیں کیا تھا اسی وجہ سے یہ دونوں قو میں اس قدر شراب پیتی تھیں کہ جیسے پانی اور قمار بازی بھی حد سے زیادہ ہوگئی تھی مگر قرآن شریف نے شراب کو جو ام الخبائث ہے قطعاً حرام کر دیا اور یہ فخر خاص قرآن شریف کو ہی حاصل ہے کہ ایسی خبیث چیز جس کی خباثت پر آج کل تمام یورپ کے لوگ فریاد کر اٹھے ہیں وہ قرآن شریف نے ہی قطعا حرام کر دی ایسا ہی قمار بازی کو قطعاً حرام کیا.شراب کے مضر اثرات (چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 267) شراب کا ذکر شروع ہو گیا.کسی نے کہا کہ اب تو حضور شراب کے بسکٹ بھی ایجاد ہوئے ہیں فرمایا: شراب تو انسانی شرم، حیا، عفت، عصمت کی جانی دشمن ہے.انسانی شرافت کو ایسا کھو دیتی ہے کہ جیسے کتے ، بلے، گدھے ہوتے ہیں.اس کو پی کر بالکل انہی کے مشابہ ہو جاتا ہے.اب اگر بسکٹ کی بلا دنیا میں پھیلی تو ہزاروں نا کردہ گناہ بھی ان میں شامل ہو جایا کریں گے.پہلے تو بعض کو شرم و حیا ہی روک دیتی تھی.اب بسکٹ لیے اور جیب میں ڈال لیے.بات یہ ہے کہ
فقه المسيح 359 حلت و حرمت دجال نے اپنی کوششوں میں تو کمی نہیں رکھی کہ دنیا کوفسق و فجور سے بھر دے مگر آگے خدا کے ہاتھ میں ہے جو چاہے کرے.اسلام کی کیسی عظمت معلوم ہوتی ہے ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے اسلام پر کوئی اعتراض کیا.اس سے شراب کی بدبو آئی.اس کو حد مارنے کا حکم دیا گیا کہ شراب پی کر اسلام پر اعتراض کیا.مگر اب تو کچھ حد وحساب نہیں.شراب پیتے ہیں.زنا کرتے ہیں.غرض کوئی بدی نہیں جو نہ کرتے ہوں مگر بایں ہمہ پھر اسلام پر اعتراض کرنے کو تیار ہیں.حرمت خنزیر اور اس کی وجوہات فرمایا: الحكم 28 فروری 1903 ، صفحہ 15) خنزیر جو حرام کیا گیا ہے.خدا نے ابتدا سے اس کے نام میں ہی حرمت کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ خنزیر کا لفظ ”خنز“ اور ”ار“ سے مرکب ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ میں اس کو بہت فاسد اور خراب دیکھتا ہوں.خنز کے معنے بہت فاسد اور ار کے معنے دیکھتا ہوں.پس اس جانور کا نام جو ابتداء سے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو ملا ہے وہی اس کی پلیدی پر دلالت کرتا ہے اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ ہندی میں اس جانور کو سور کہتے ہیں.یہ لفظ بھی سوء اور ار سے مرکب ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ میں اس کو بہت برا دیکھتا ہوں اور اس سے تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ سوء کا لفظ عربی کیونکر ہوسکتا ہے.کیونکہ ہم نے اپنی کتاب مـــن الرحمن میں ثابت کیا ہے کہ تمام زبانوں کی ماں عربی زبان ہے اور عربی کے لفظ ہر ایک زبان میں نہ ایک دو بلکہ ہزاروں ملے ہوئے ہیں.سوسوء عربی لفظ ہے.اسی لئے ہندی میں سوء کا ترجمہ بد ہے.پس اس جانور کو بد بھی کہتے ہیں.اس میں کچھ بھی شک معلوم نہیں ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ تمام دنیا کی زبان عربی تھی.اس ملک میں یہ نام اس جانور کا عربی میں مشہور تھا جو خنزیر کے نام کے ہم معنی ہے پھر اب تک یاد گار باقی رہ گیا.ہاں یہ ممکن ہے کہ شاستری میں اس کے قریب قریب یہی لفظ متغیر ہو کر اور کچھ بن گیا ہومگر صحیح لفظ یہی ہے کیونکہ اپنی وجہ تسمیہ ساتھ رکھتا ہے.
فقه المسيح 360 حلت و حرمت جس پر لفظ خنزیر گواہ ناطق ہے اور یہ معنے جو اس لفظ کے ہیں.یعنی بہت فاسد.اس کی تشریح کی حاجت نہیں.اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ کا نجاست خور اور نیز بے غیرت اور دیوث ہے.اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ قانون قدرت یہی چاہتا ہے کہ ایسے پلید اور بد جانور کے گوشت کا اثر بھی بدن اور روح پر بھی پلید ہی ہو کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ غذاؤں کا بھی انسان کی روح پر ضرور اثر ہے.پس اس میں کیا شک ہے کہ ایسے بد کا اثر بھی بد ہی پڑے گا.جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے ہی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت بالخاصیت حیا کی قوت کو کم کرتا ہے اور دیوٹی کو بڑھاتا ہے اور مردار کا کھانا بھی اسی لئے اس شریعت میں منع ہے کہ مردار بھی کھانے والے کو اپنے رنگ میں لاتا ہے اور نیز ظاہری صحت کیلئے بھی مضر ہے.اور جن جانوروں کا خون اندر ہی رہتا ہے جیسے گلا گھونٹا ہوا یا لاٹھی سے مارا ہوا.یہ تمام جانور در حقیقت مردار کے حکم میں ہی ہیں.کیا مردہ کا خون اندر رہنے سے اپنی حالت پر رہ سکتا ہے؟ نہیں بلکہ وہ بوجہ مرطوب ہونے کے بہت جلد گندہ ہوگا اور اپنی عفونت سے تمام گوشت کو خراب کرے گا اور نیز خون کے کیڑے جو حال کی تحقیقات سے بھی ثابت ہوئے ہیں.مرکز ایک زہرناک عفونت بدن میں پھیلا دیں گے.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 339،338) تورات وانجیل میں سور کی حرمت ( پولوس نے.ناقل ) ایک اور گند اس مذہب میں ڈال دیا کہ اُن کے لئے سؤ رکھانا حلال کر دیا.حالانکہ حضرت مسیح انجیل میں سؤر کو نا پاک قرار دیتے ہیں.تبھی تو انجیل میں ان کا قول ہے کہ اپنے موتی سوروں کے آگے مت چھینکو.پس جب کہ پاک تعلیم کا نام حضرت مسیح نے موتی رکھا ہے تو اس مقابلہ سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ پلید کا نام انہوں نے سو ررکھا ہے اصل بات یہ ہے کہ یونانی سور کو کھایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل تمام یورپ کے لوگ
فقه المسيح 361 حلت و حرمت سؤر کھاتے ہیں.اس لئے پولوس نے یونانیوں کے تالیف قلوب کے لئے سور بھی اپنی جماعت کے لئے حلال کر دیا.حالانکہ توریت میں لکھا ہے کہ وہ ابدی حرام ہے اور اس کا چھونا بھی نا جائز ہے.حلت و حرمت میں زیادہ تفتیش نہ کرو (چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 375) ایک بھائی نے عرض کی کہ حضور بکر اوغیرہ جانور جو غیر اللہ تھانوں اور قبروں پر چڑھائے جاتے ہیں پھر وہ فروخت ہو کر ذبح ہوتے ہیں کیا ان کا گوشت کھانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا: شریعت کی بناء نرمی پر ہے سختی پر نہیں اصل بات یہ ہے کہ أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ (البقرة:174) سے یہ مراد ہے کہ جو ان مندروں اور تھانوں پر ذبح کیا جاوے یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جاوے اس کا کھانا تو جائز نہیں ہے لیکن جو جانور بیع وشراء میں آجاتے ہیں اس کی حلت ہی سمجھی جاتی ہے زیادہ تفتیش کی کیا ضرورت ہوتی ہے.دیکھو حلوائی وغیرہ بعض اوقات ایسی حرکات کرتے ہیں کہ ان کا ذکر بھی کراہت اور نفرت پیدا کرتا ہے لیکن ان کی بنی ہوئی چیزیں آخر کھاتے ہی ہیں.آپ نے دیکھا ہوگا کہ شیر میاں تیار کرتے ہیں اور میلی کچیلی دھوتی میں بھی ہاتھ مارتے جاتے ہیں اور جب کھانڈ تیار کرتے ہیں تو اس کو پاؤں سے ملتے ہیں چوڑھے چمار گڑ وغیرہ بناتے ہیں اور بعض اوقات جو ٹھے رس وغیرہ ڈال دیتے ہیں اور خدا جانے کیا کیا کرتے ہیں ان سب کو استعمال کیا جاتا ہے اس طرح پر اگر تشڈ دہو تو سب حرام ہو جاو میں اسلام نے مالا يطاق تکلیف نہیں رکھی ہے بلکہ شریعت کی بنانرمی پر ہے.اس کے بعد سائل مذکور نے پھر اسی سوال کی اور باریک جزئیات پر سوال شروع کئے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے لَا تَسْتَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ (المائدة : 102) بھی فرمایا ہے.بہت کھودنا اچھا نہیں ہوتا.الحکم 10 راگست 1903 صفحہ 20 )
فقه المسيح رضاعت سے حرمت 362 حلت و حرمت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کے بڑے لڑکے میاں عبدالحي مرحوم کا نکاح بہت چھوٹی عمر میں حضرت صاحب نے پیر منظور محمد صاحب کی چھوٹی لڑکی ( حامدہ بیگم ) کے ساتھ کرا دیا تھا.بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دونوں رضاعی بھائی بہن ہیں.اس پر علماء جماعت کی معرفت اس مسئلہ کی چھان بین ہوئی کہ رضاعت کس قدر دودھ پینا مراد ہے اور کیا موجودہ صورت میں رضاعت ہوئی بھی ہے یا نہیں ؟ آخر تحقیقات کر کے اور مسئلہ پر غور کر کے یہ فیصلہ ہوا کہ واقعی یہ ہر دورضائی بہن بھائی ہیں اور نکاح فسخ ہو گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جہاں تک مجھے یاد ہے اس وقت حضرت صاحب اس طرف مائل تھے کہ اگر معمولی طور پر کسی وقت تھوڑا سا دودھ پی لیا ہے تو یہ ایسی رضاعت نہیں جو باعث حرمت ہو اور حضور کا میلان تھا کہ نکاح قائم رہ جائے مگر حضرت خلیفہ اول کو فقہی احتیاط کی بناء پر انقباض تھا.اس لئے حضرت صاحب نے فسخ کی اجازت دے دی.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 563،562) اسی واقعہ کے بارہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیر منظور محمد صاحب کی لڑکی حامدہ خاتون کا نکاح حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے لڑکے میاں عبدالحی صاحب مرحوم سے کر دیا.نکاح کے بعد میاں عبدالحي صاحب کی والدہ کو یاد آ گیا اور انہوں نے کہا کہ ”لڑکی نے میرا دودھ پیا ہوا ہے.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے جب یہ بات پیش ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ اس کے لئے خَمْسُ رَضْعَاتٍ “ کی شرط ہے یعنی یہ ضروری ہے کہ بچے نے پانچ دفعہ دودھ پیا ہو، یہ نہیں کہ ایک ہی دفعہ میں اس نے پانچ گھونٹ دودھ پیا ہو بلکہ الگ الگ وقتوں میں پانچ
فقه المسيح 363 حلت و حرمت دفعہ دودھ پینا ضروری ہے مگر حضرت خلیفہ اول فقہاء کے قول کے مطابق یہ سمجھتے تھے کہ اگر ایک دفعہ بھی بچہ پانچ گھونٹ دودھ پی لیتا ہے تو اس پر اس مسئلہ کا اطلاق ہو جاتا ہے.غرض خَمْسُ رَضْعَاتٍ “ کے ایک معنی وہ تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام لیتے تھے اور ایک معنی وہ تھے جو حضرت خلیفہ اول سمجھتے تھے اور چونکہ یہ شادی کا معاملہ تھا اور حضرت خلیفہ اول فقہاء کی تشریح کو زیادہ قابل قبول سمجھتے تھے.اس لئے آپ کو اس کا ایسا صدمہ ہوا کہ آپ کو اسہال شروع ہو گئے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ نکاح تو ڑ دیا جائے.یہ ایک فقہی مسئلہ ہے اس میں ضروری نہیں کہ میری تشریح کو ہی درست سمجھا جائے.الفضل 3 ستمبر 1960 صفحہ 4) رشوت کی تعریف حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ رشوت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ رشوت یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے کا حق غصب کرنے کے لئے کسی کو کچھ دے.لیکن اگر کسی بد نیت افسر کو اپنے حقوق محفوظ کرانے کے لئے کچھ دے دے تو یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی کتے کو جو کاتا ہو.کوئی روٹی کا ٹکڑا ڈال دیا جائے.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 307 ) زنا تصیح نسل کا موجب ہے زنا ایک بہت بے حیائی کا کام ہے اور اس کا مرتکب شہوات نفس سے اندھا ہو کر ایسا نا پاک کام کرتا ہے جو انسانی نسل کے حلال سلسلہ میں حرام کو ملا دیتا ہے اور تضیع نسل کا موجب ہوتا ہے.اسی وجہ سے شریعت نے اس کو ایسا بھاری گناہ قرار دیا ہے کہ اسی دنیا میں ایسے انسان کے لئے حد شرعی مقرر ہے.پس ظاہر ہے کہ مومن کی تکمیل کے لئے صرف
فقه المسيح 364 حلت و حرمت یہی کافی نہیں کہ وہ زنا سے پر ہیز کرے کیونکہ زنا نہایت درجہ مفسد طبع اور بے حیا انسانوں کا کام ہے اور یہ ایک ایسا موٹا گناہ ہے جو جاہل سے جاہل اس کو بُرا سمجھتا ہے اور اس پر بجز کسی بے ایمان کے کوئی بھی دلیری نہیں کر سکتا.پس اس کا ترک کرنا ایک معمولی شرافت ہے کوئی براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 209) بڑے کمال کی بات نہیں.تکبیر پڑھ کر پرندہ شکار کرنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ غلیل سے جو پرندے مارے جاتے ہیں ان کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ تکبیر پڑھ کر مار لیا کرو اور فرماتے تھے کہ غلیل اور بندوق کا حکم بھی تیر کی طرح ہے.یعنی اگر جانور ذبح سے پہلے ہی مرجائے تو وہ حلال ہے.یہ ذکر اس بات پر چلا تھا کہ بھائی عبدالرحیم صاحب اکثر پرندے غلیل سے مار کر لایا کرتے تھے.میں نے عرض کیا کہ کئی پرندے وہیں ذبح سے پہلے مر جاتے ہیں.تو بھائی جی ان کو حرام سمجھ کر چھوڑ آتے ہیں.اس پر حضور نے فرمایا کہ تکبیر پڑھ کر مارلیا کریں.پھر اگر ذبح سے پہلے مر بھی جائیں تو جائز ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی جانور ذبح کرنے سے پہلے مر جاوے یعنی اس کے ذبح کرنے کا موقع نہ ملے تو تکبیر پڑھنے کی صورت میں وہ جائز ہے.یہ مراد نہیں کہ ذبح کا موقعہ ہومگر پھر بھی ذبیح نہ کیا جائے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 600،599) ایک سوال کے جواب میں فرمایا : تکبیر پڑھ کر بندوق مارے، شکار مر جاوے تو حلال ہے.“ (احکام 10 فروری 1907 صفحہ 4) جانور کو ذبح کرنا ضروری ہے حضرت خلیفہ امسیح الثانی فرماتے ہیں:
فقه المسيح 365 حلت و حرمت ایسا جانور جو گردن پر تلوار مار کر مارا گیا ہو یا جو دم گھونٹ کر مارا گیا ہو کھانا جائز نہیں.قرآن کریم منع کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب ولایت جانے والوں نے پوچھا تو آپ نے منع فرمایا.پس اسے استعمال نہ کریں.ہاں اگر یہودی یا عیسائی گلے کی طرف سے ذبح کریں وہ بہر حال جائز ہے خواہ تکبیر سے کریں یا نہ کریں.آپ بسم اللہ کہہ کر اسے کھالیں.الفضل 14 ستمبر 1915 ، صفحہ 4) نجاست خور گائے کا گوشت حرام ہے فرمایا: ایک نجاست خورگائے ہوتی ہے جس کو جلالہ کہتے ہیں.اس کا گوشت حرام لکھا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے کے جانور مثل بھیٹر ، مرغی کی پرورش میں حفاظت کرنی چاہیئے اور ان کو نجاست خوری سے بچانا چاہئے.( بدر 29 ستمبر 1905 ، صفحہ 3) علاج کے طور پر ممنوع چیزوں کا استعمال حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سل دق کے مریض کے لئے ایک گولی بنائی تھی.اس میں کو نین اور کافور کے علاوہ افیون ، بھنگ اور دھتورہ وغیرہ زہریلی ادو یہ بھی داخل کی تھیں اور فرمایا کرتے تھے کہ دوا کے طور پر علاج کے لئے اور جان بچانے کے لئے ممنوع چیز بھی جائز ہو جاتی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ شراب کے لئے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی فتویٰ تھا کہ ڈاکٹر یا طبیب اگر دوائی کے طور پر دے تو جائز ہے.مگر باوجود اس کے آپ نے اپنے پڑ دادا مرزا گل محمد صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ انہیں ان کی مرض الموت میں کسی طبیب نے شراب بتائی مگر انہوں نے انکار کیا اور حضرت صاحب نے اس موقعہ پر ان کی تعریف کی ہے کہ انہوں نے موت کو شراب پر ترجیح دی.اس سے معلوم ہوا کہ فتویٰ اور ہے اور تقویٰ اور.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 615)
فقه المسيح 366 حلت و حرمت نشہ آور چیزیں مضر ایمان ہیں فرمایا: حدیث میں آیا ہے وَمِنْ حُسْنِ الْإِسْلامِ تَرُكْ مَالَا يَعْنِيهِ یعنی اسلام کا حسن یہ بھی ہے کہ جو چیز ضروری نہ ہو وہ چھوڑ دی جاوے.اسی طرح پر یہ پان، حقہ، زردہ ( تمباکو ) افیون وغیرہ ایسی ہی چیزیں ہیں.بڑی سادگی یہ ہے کہ ان چیزوں سے پر ہیز کرے کیونکہ اگر کوئی اور بھی نقصان اُن کا بفرض محال نہ ہو ، تو بھی اس سے ابتلا آ جاتے ہیں اور انسان مشکلات میں پھنس جاتا ہے مثلاً قید ہو جاوے تو روٹی تو ملے گی لیکن بھنگ چرس یا اور منشی اشیاء نہیں دی جاوے گی یا اگر قید نہ ہو کسی ایسی جگہ میں ہو جو قید کے قائم مقام ہو تو پھر بھی مشکلات پیدا ہو جاتے ہیں.عمدہ صحت کو کسی بے ہودہ سہارے سے کبھی ضائع کرنا نہیں چاہیے.شریعت نے خوب فیصلہ کیا ہے کہ ان مضر صحت چیزوں کو مضر ایمان قرار دیا ہے اور ان سب کی سردار شراب ہے.یہ کچی بات ہے کہ نشوں اور تقویٰ میں عداوت ہے.افیون کا نقصان بھی بہت بڑا ہوتا ہے.طبی طور پر یہ شراب سے بھی بڑھ کر ہے اور جس قد رقوئی لے کر انسان آیا ہے اُن کو ضائع کر دیتی ہے.تمام نشہ آور اشیاء کے استعمال کی ممانعت فرمایا: ( الحکم 10 جولائی 1902 صفحہ 3) ہر ایک نشہ کی چیز کو ترک کرو انسان کو تباہ کرنے والی صرف شراب ہی نہیں بلکہ افیون، گانجا، چرس، بھنگ، تاڑی اور ہر ایک نشہ جو ہمیشہ کے لئے عادت کر لیا جاتا ہے وہ دماغ کو خراب کرتا اور آخر ہلاک کرتا ہے سوتم اس سے بچو.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 70،71)
فقه المسيح 367 حلت و حرمت نشہ آور اشیا کا استعمال عمر کو گھٹا دیتا ہے فرمایا: کیا ہی عمدہ قرآنی تعلیم ہے کہ انسان کی عمر کوخبیث اور مضر اشیاء کے ضرر سے بچالیا.یہ نیکی شراب وغیرہ انسان کی عمر کو بہت گھٹا دیتی ہیں.اس کی قوت کو برباد کر دیتی ہیں اور بڑھاپے سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہیں.یہ قرآنی تعلیم کا احسان ہے کہ کروڑوں مخلوق ان گناہ کے امراض سے بچ گئی جو ان نشہ کی چیزوں سے پیدا ہوتی ہیں.(الحام 10 مارچ 1903 صفحہ 9) افیون کے مضر اثرات فرمایا: جو لوگ افیون کھاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں موافق آگئی ہے ، وہ موافق نہیں آتی.دراصل وہ اپنا کام کرتی رہتی ہے اور قومی کونا بود کر دیتی ہے.نشہ آور چیزوں سے بچنے کا عملی نمونہ فرمایا: الحکم 17 /اکتوبر 1902 ءصفحہ 12 ) ایک دفعہ مجھے ایک دوست نے یہ صلاح دی کہ ذیا بیطس کے لئے افیون مفید ہوتی ہے.پس علاج کی غرض سے مضائقہ نہیں کہ افیون شروع کر دی جائے میں نے جواب دیا کہ یہ آپ نے بڑی مہربانی کی کہ ہمدردی فرمائی لیکن اگر میں ذیا بیطس کے لئے افیون کھانے کی عادت کرلوں تو میں ڈرتا ہوں کہ لوگ ٹھٹھا کر کے یہ نہ کہیں کہ پہلا مسیح تو شرابی تھا اور دوسرا افیونی.پس اس طرح جب میں نے خدا پر توکل کی تو خدا نے مجھے ان خبیث چیزوں کا محتاج نہیں کیا اور بارہا جب مجھے غلبہ مرض کا ہوا تو خدا نے فرمایا کہ دیکھ میں نے تجھے شفاد یدی.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 435،434)
فقه المسيح 368 حلت و حرمت تمباکونوشی کے مضر اثرات ایک شخص نے امریکہ سے تمباکونوشی کے متعلق اس کے بہت سے مجرب نقصان ظاہر کرتے ہوئے اشتہار دیا.اس کو آپ نے سنا فر مایا: اصل میں ہم اس لئے اسے سنتے ہیں کہ اکثر نو عمراڑ کے نو جوان تعلیم یافتہ بطور فیشن ہی کے اس بلا میں گرفتار و مبتلا ہو جاتے ہیں تا وہ ان باتوں کو سن کر اس مضر چیز کے نقصانات سے بچیں.فرمایا: اصل میں تمبا کو ایک دھواں ہوتا ہے جو اندرونی اعضاء کے واسطے مضر ہے.اسلام لغو کاموں سے منع کرتا ہے اور اس میں نقصان ہی ہوتا ہے.لہذا اس سے پر ہیز ہی اچھا ہے.الحکم 28 فروری 1903 صفحہ 16 ) سوال:.ایک دوست نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيْطِينِ (بنی اسرائیل : 28) اور تمباکو نوشی بھی تو فضول خرچی ہی ہے، اس کو حرام قرار دینا چاہئے؟ اس سوال کے جواب میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی فرماتے ہیں: آپ بے شک حرام قرار دے دیں.میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتویٰ سے آگے نہیں بڑھ سکتا.اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مکروہ اور نا پسندیدہ قرار دیا ہے.اس لئے ہم بھی اس فتویٰ کے خلاف کوئی فتویٰ نہیں دے سکتے.آپ جانتے ہیں کہ چلتی ہوئی ریل کو یکدم روکا نہیں جا سکتا.آہستہ آہستہ ہی اسے روکا جاسکتا ہے.اسی طرح یہ سگریٹ کی ریل جس میں سے دھواں نکلتا ہے آہستہ آہستہ ہی رکے گی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ سخت مضر صحت چیز ہے اور اعصاب پر اس کا بہت بُرا اثر پڑتا ہے لیکن اس وقت ایک رواس کی تائید میں چل رہی ہے.اس لئے لوگ اس رو میں بہہ کر اس کا استعمال کرتے جارہے ہیں.جب اس کے خلاف رو زیادہ طاقتور ہو جائے گی تو لوگ خود بخو داس سے نفرت کرنے لگ جائیں گے.الفضل 5 نومبر 1960 ، صفحہ 4)
فقه المسيح 369 حلت و حرمت حقہ نوشی پر ناپسندیدگی کا اظہار حقہ نوشی کے متعلق ذکر آیا، فرمایا: اس کا ترک اچھا ہے.ایک بدعت ہے، منہ سے بو آتی ہے.ہمارے والد مرحوم صاحب اس کے متعلق ایک شعر اپنا بنایا ہوا پڑھا کرتے تھے جس سے اس کی برائی ظاہر ہوتی ہے.(الحکم.10 ستمبر 1901 ءصفحہ 9) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ میں شروع میں حقہ بہت پیا کرتا تھا.شیخ حامدعلی بھی پیتا تھا.کسی دن شیخ حامد علی نے حضرت صاحب سے ذکر کر دیا کہ یہ حقہ بہت پیتا ہے.اس کے بعد میں جو صبح کے وقت حضرت صاحب کے پاس گیا اور حضور کے پاؤں دبانے بیٹھا تو آپ نے شیخ حامد علی سے کہا کہ کوئی حقہ اچھی طرح تازہ کر کے لاؤ.جب شیخ حامد علی حقہ لایا تو حضور نے مجھ سے فرمایا کہ پیو.میں شرما یا مگر حضرت صاحب نے فرمایا جب تم پیتے ہو تو شرم کی کیا بات ہے.پیو کوئی حرج نہیں.میں نے بڑی مشکل سے رُک رُک کر ایک گھونٹ پیا.پھر حضور نے فرمایا میاں عبداللہ مجھے اس سے طبعی نفرت ہے.میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے بس میں نے اسی وقت سے حقہ ترک کر دیا اور اس ارشاد کے ساتھ ہی میرے دل میں اس کی نفرت پیدا ہوگئی.پھر ایک دفعہ میرے مسوڑھوں میں تکلیف ہوئی تو میں نے حضور سے عرض کیا کہ جب میں حقہ پیتا تھا تو یہ در دہٹ جاتا تھا.حضور نے جواب دیا کہ بیماری کے لئے حقہ پینا معذوری میں داخل ہے اور جائز ہے جب تک معذوری باقی ہے.چنانچہ میں نے تھوڑی دیر تک بطور دوا استعمال کر کے پھر چھوڑ دیا.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور کے گھر میں حقہ استعمال ہوتا تھا.ایک دفعہ حضور نے مجھے گھر میں ایک تو ڑا ہوا حقہ کیلی پر لٹکا ہوا دکھایا اور مسکرا کر فرمایا ہم نے اسے تو ڑ کر پھانسی دیا ہوا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ گھر میں کوئی عورت شاید حقہ استعمال کرتی ہوگی.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 91)
فقه المسيح 370 حلت و حرمت معمر مہمان کو حقہ پینے کی اجازت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقہ سے بہت کراہت کرتے تھے بلکہ بعض اوقات اس کے متعلق بعض لوگوں پر ناراضگی کا اظہار بھی فرمایا.مگر سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی جب تشریف لاتے تھے.تو ان کے لئے کہدیا تھا کہ وہ بے شک حقہ پی لیا کریں.کیونکہ سیٹھ صاحب معمر آدمی تھے اور پُرانی عادت تھی.یہ ڈر تھا کہ کہیں بیمار نہ ہو جائیں.نیز سیٹھ صاحب بیمار بھی رہا کرتے تھے.چنانچہ ان کو ذیا بیٹیس بھی تھا اور کا ر بنکل بھی ہوا تھا.حقہ آہستہ آہستہ چھوڑ دو حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں: (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 664) جن دنوں میں حضرت اقدس امام ہمام علیہ السلام کی طرف سے خطوط کے جواب لکھا کرتا تھا تو من جملہ اور مسائل کے حقہ کی نسبت بھی ہماری جماعت کے احباب دریافت کرتے تھے کہ ہمیں حقہ پینے کی عادت ہے اس کی نسبت حضور کا کیا فتویٰ ہے حکم ہو تو ترک کر دیں.پس حضرت اقدس علیہ السلام نے مجھے یہ حکم دیا تھا کہ ہمارے پاس مختلف مضمون کے خط آتے ہیں بعض دعا کے لئے آتے تھے سو اس میں ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جس وقت کسی کا خط دعا کے لئے آتا ہے تو ہم اسی وقت دعا کر دیتے ہیں.اور جب وہ یاد آتا ہے تب بھی دعا کیا کرتے ہیں سوایسے خطوط کا جواب یہ لکھ دیا کرو کہ ہم نے دعا کی ہے اور کرتے رہیں گے اور چاہئے کہ دعا کے لئے یاد دلاتے رہو.اور بعض خطوط مسائل دریافت کرنے کے بارہ میں ہوتے ہیں.پس جو مسئلہ ایک دفعہ تم کو کسی کے دریافت کرنے پر بتلایا جاوے تو ہمیشہ بے پوچھے لکھ دیا کرو اور جو نیا مسئلہ ہو وہ دریافت کر لیا کرو.بعض خیریت دریافت کیا کرتے ہیں ان کو خیریت کی اطلاع دے دیا
فقه المسيح 371 حلت و حرمت کرو اور بعض جواب نہیں چاہتے.وہ صرف اپنی یاددہانی کے لئے خط لکھتے ہیں ان کو جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے تاوقتیکہ وہ جواب طلب نہ کریں اور بعض خطوط ہمارے متعلق ہوتے ہیں.ہم پڑھ کر خود ہی جواب دیں گے.اس بناء پر آپ نے فرمایا کہ حقہ کی نسبت ہمارا کوئی نیا فتویٰ نہیں ہے.بہتر ہے کہ آہستہ آہستہ چھوڑ دو کہ جس میں تکلیف نہ ہو.تمباکو اور زردہ کا استعمال ( تذكرة المهدی صفحه 7-8 ) حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں ایک روز کا ذکر ہے کہ دارالامان میں کسی شخص نے ذکر کیا کہ حضرت اقدس امام الائمہ مسیح موعود علیہ السلام نے آج تمباکو کے کھانے اور پینے کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے چونکہ میں تمبا کو یعنی زردہ پان میں بوجہ دانتوں کے درد کے کھاتا تھا.حرمت کا فتویٰ سُن کر متفکر ہوا اور سوچا کہ اگر حضرت اقدس نے در حقیقت حرمت کا فتویٰ دیا ہے.تو چھوڑ دینا چاہئے.اسی وقت میں سب کام چھوڑ کر حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت مبارک میں حاضر ہوا تو آپ نے میری آوازسُن کر دروازہ کھول دیا اور فرمایا صاحبزادہ صاحب کیسے آئے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور نے تمباکو کی نسبت حرمت کا فتویٰ دیا ہے.فرمایا نہیں.تم سے کس نے کہا.میں نے عرض کیا کہ فلاں شخص نے ابھی کہا ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے ان کو بلوایا اور دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ انہوں نے کسی عورت سے سنا ہے.تب حضرت اقدس علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ سمجھنے میں غلطی رہی ہم نے تو کل یہ بیان کیا تھا کہ تمباکو پینے اور کھانے کی نسبت بہت آدمی دریافت.کرتے ہیں کہ یہ حرام ہے یا مکروہ یا جائز سو ہماری جماعت کے لوگوں کو معلوم رہے کہ ہر ایک لغو چیز سے حتی الامکان بچنا اور پر ہیز کر نالا زم ہے ہم کوئی نئی شریعت نکالنا نہیں چاہتے.جو کسی چیز کی حلت و حرمت کا فتویٰ بغیر دلائل اپنی طرف سے دیں.یہ تو ان دابۃ الارض مولویوں کا
فقه المسيح 372 حلت و حرمت کام ہے کہ اپنی طرف سے نئی شریعت ایجاد کرتے ہیں اور الٹا ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہم مدعی نبوت ہیں.وہ ذرا سوچیں تو معلوم ہو کہ مدعی نبوت و رسالت کون ہے ہم یا وہ.جس چیز کی حلت وحرمت کا ذکر شریعت میں نہ ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات ثابت نہ ہو تو ہم خواہ مخواہ گھسیٹ گھساٹ کر شریعت میں لا ڈالیں سوائے اس کے کہ ہم کچھ نہیں کہتے کہ لغو کام ہے.اگر یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تو آپ ہی پیش از میں نسبت اس کے لغو ہونے کا ہی حکم دیتے اور کچھ نہیں.پھر فرمایا کہ تم کھاتے ہو؟ میں نے کہا حضور قدر قلیل ایک یا دورتی پان میں کھاتا ہوں فرمایا کہ کتنی مدت سے؟ عرض کیا پانچ چھ سال سے.فرمایا کیوں کھاتے ہو؟ عرض کیا دانتوں کے درد کے سبب سے چونکہ کاپی لکھنے کے وقت منہ نیچے رہتا ہے تو نزلہ اور زکام کا زور ہو جاتا ہے.یہ منہ میں رہتا ہے تو دردموقوف رہتا ہے.آپ نے ہنس کر فرمایا کہ چھوٹ نہیں سکتا؟ میں نے عرض کیا کہ چھوٹ تو سکتا ہے لیکن دانتوں میں درد ہو جاتا ہے.فرمایا چند روز بیش کھاؤ (جس کو میٹھا تیلیا بھی کہتے ہیں ) یہ بھی ایک زہر ہے جب ہر دوز ہرمل جاویں گے تو پھر یہ ہر دو خبیث مل کر چھوٹ جائیں گے میں نے پھر عرض کیا کہ چھوڑنے میں تو کوئی دقت نہیں صرف دانتوں کے درد کا خیال ہے.حضور نے تو دیکھا ہے کہ رمضان شریف کے میں نے گیارہ روزے رکھے.صرف دن کو زردہ نہیں کھا یا رات کو کھایا جاتا تھا.کس قدر درد زور وشور سے ہوا.آپ نے فرمایا ہاں بے شک ہوا تھا.(تذکرة المهدی صفحہ 8 تا 10 ) مقوی صحت ادویات کا استعمال جائز اور درست ہے فرمایا:.منشی الہی بخش اور اُس کے دوسرے رفیق اعتراض کرتے ہیں کہ میں بیدمشک اور کیوڑہ کا استعمال کرتا ہوں یا اور اس قسم کی دوائیاں کھاتا ہوں.تعجب ہے کہ حلال اور طیب چیزوں کے کھانے پر اعتراض کیا جاتا ہے.اگر وہ غور کر کے دیکھتے اور مولوی عبداللہ غزنوی کی حالت پر نظر
فقه المسيح 373 حلت و حرمت رکھتے تو میرا مقابلہ کرتے ہوئے اُن کو شرم آجاتی.مولوی عبد اللہ کو بیویوں کا استغراق تھا، اس لیے انڈے اور مرغ کثرت سے کھاتے تھے.یہانتک کہ اخیر عمر میں شادی کرنا چاہتے تھے.میری شہادت مل سکتی ہے کہ مجھے کیوڑہ وغیرہ کی ضرورت کب پڑتی ہے.میں کیوڑہ وغیرہ کا استعمال کرتا ہوں جب دماغ میں اختلال معلوم ہوتا ہے یا جب دل میں تشیخ ہوتا ہے.خدائے وحدہ لا شریک جانتا ہے کہ بجز اس کے مجھے ضرورت نہیں پڑتی.بیٹھے بیٹھے جب بہت محنت کرتا ہوں تو یکدفعہ ہی دورہ ہوتا ہے.بعض وقت ایسی حالت ہوتی ہے کہ قریب ہے کہ بخش آ جاوے اس وقت علاج کے طور پر استعمال کرنا پڑتا ہے اور اسی لیے ہر روز باہر سیر کو جاتا ہوں.مگر مولوی عبد اللہ جو کچھ کرتے تھے یعنی مرغ ، انگور، انڈے وغیرہ جو استعمال کرتے تھے اس کی وجہ کثرت ازدواج تھی اور کوئی سبب نہ تھا.انبیاء علیہم السلام ان چیزوں کا استعمال کرتے تھے مگر وہ خدا کی راہ میں فدا تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی گھبراتے تھے ، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ران پر ہاتھ مار کر کہتے کہ اے عائشہ ہم کو راحت پہنچا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تو سارا جہان دشمن تھا.پھر اگر اُن کے لیے کوئی راحت کا سامان نہ ہو ، تو یہ خدا کی شان کے ہی خلاف ہے.یہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہوتی ہے کہ جیسے کافور کے ساتھ دو چار مرچیں رکھی جاتی ہیں کہ اُڑ نہ جائے.(الحکم 10 جولائی 1902 صفحہ 3) طیبات کا استعمال حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کھانے پینے کی عادات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :.آپ نے کھانے کا اہتمام والتزام اس نیت سے کبھی نہ کرایا کہ وہ حظ نفس کا کوئی ذریعہ ہوسکتا ہے بلکہ مقصد خور و نوش سے مقصدِ حیات تھا اور متعدد واقعات اس کو بتاتے ہیں کہ
فقه المسيح 374 حلت و حرمت آپ نے بعض چیزوں کو ایسے طور پر استعمال کیا جس سے زبان کوئی لطف ذائقہ نہیں اُٹھا سکتی تھی اور یہ دلیل تھی اس امر کی کہ آپ کسی چیز کو ضرور تا قیام زندگی کا ایک موجب سمجھ کر استعمال کرتے تھے.ایک مرتبہ آپ کے پاس بہت سے سیب آئے اور جہاں تک مجھے یاد ہے یہ ڈالی میاں حاجی عمر ڈار مرحوم نے بھجوائی تھی.آپ بجائے اس کے کہ سیب کو تراش کر کھاتے چند دانے لے کر ان کا پانی نکلوایا اور پی لیا اور فرمایا کہ ” میں اس لئے پیتا ہوں کہ قلب کے لئے مفید ہے.آپ کی زندگی میں اس قسم کے واقعات بہت ملیں گے.آپ ادویات کا استعمال بھی فرماتے تھے اور پوری مقدار کھایا کرتے تھے.صبر کی گولیاں جن کو آپ ' پیٹ کی جھاڑو فرمایا کرتے تھے ہر وقت رو مال میں بندھی رہتی تھیں ایسا ہی مشک بھی اس لئے کہ دورانِ سر کا دورہ بعض اوقات اچانک ہو جاتا تھا.سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 64) تصویر کی حرمت کا مسئلہ ( مولوی سید عبدالواحد صاحب کے بعض شبہات کا ازالہ کرتے ہوئے آپ نے تحریر فرمایا ) سوال.احادیث میں کسی جاندار کی تصویر کھنچنے میں سخت وعید آئی ہے مگر حضور کی عکسی تصویر ہیں جو شائع کی گئی ہیں.ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اس کو جائز رکھتے ہیں.جواب.میں اس بات کا سخت مخالف ہوں کہ کوئی میری تصویر کھینچے اور اس کو بُت پرستوں کی طرح اپنے پاس رکھے یا شائع کرے.میں نے ہرگز ایسا حکم نہیں دیا کہ کوئی ایسا کرے اور مجھے سے زیادہ بُت پرستی اور تصویر پرستی کا کوئی دشمن نہیں ہوگا.لیکن میں نے دیکھا ہے کہ آج کل یورپ کے لوگ جس شخص کی تالیف کو دیکھنا چاہیں اول خواہشمند ہوتے ہیں جواس کی تصویر دیکھیں کیونکہ یورپ کے ملک میں فراست کے علم کو بہت ترقی ہے.اور اکثر اُن کی محض تصویر کو دیکھ کر شناخت کر سکتے ہیں کہ ایسا مدعی صادق ہے یا کا ذب.اور وہ لوگ باعث ہزار ہا کوس کے
فقه المسيح 375 حلت و حرمت فاصلہ کے مجھ تک پہنچ نہیں سکتے اور نہ میرا چہرہ دیکھ سکتے ہیں لہذا اس ملک کے اہلِ فراست بذریعہ تصویر میرے اندرونی حالات میں غور کرتے ہیں.کئی ایسے لوگ ہیں جو انہوں نے یورپ یا امریکہ سے میری طرف چٹھیاں لکھی ہیں اور اپنی چٹھیوں میں تحریر کیا ہے کہ ہم نے آپ کی تصویر کو غور سے دیکھا اور علم فراست کے ذریعہ سے ہمیں ماننا پڑا کہ جس کی یہ تصویر ہے وہ کا ذب نہیں ہے.اور ایک امریکہ کی عورت نے میری تصویر کو دیکھ کر کہا کہ یہ یسوع یعنی عیسی علیہ السلام کی تصویر ہے.پس اس غرض سے اور اس حد تک میں نے اس طریق کے جاری ہونے میں مصلوبیتا خاموشی اختیار کی.وانما الاعمال بالنیات اور میر امذ ہب یہ نہیں ہے کہ تصویر کی حرمت قطعی ہے.قرآن شریف سے ثابت ہے کہ فرقہ جنّ حضرت سلیمان کے لئے تصویریں بناتے تھے اور بنی اسرائیل کے پاس مدت تک انبیاء کی تصویریں رہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تصویر تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ کی تصویر ایک پار چہ ریشمی پر جبرائیل علیہ السلام نے دکھلائی تھی.اور پانی میں بعض پتھروں پر جانوروں کی تصویر میں قدرتی طور پر چھپ جاتی ہیں.اور یہ آلہ جس کے ذریعہ سے اب تصویر لی جاتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایجاد نہیں ہوا تھا اور یہ نہایت ضروری آلہ ہے جس کے ذریعہ سے بعض امراض کی تشخیص ہو سکتی ہے ایک اور آلہ تصویر کا نکلا ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی تمام ہڈیوں کی تصویر کھینچی جاتی ہے اور وجعُ المَفاصِل و نقرس وغیرہ امراض کی تشخیص کے لئے اس آلہ کے ذریعہ سے تصویر کھینچتے ہیں اور مرض کی حقیقت معلوم ہوتی ہے.ایسا ہی فوٹو کے ذریعہ سے بہت سے علمی فوائد ظہور میں آئے ہیں.چنانچہ بعض انگریزوں نے فوٹو کے ذریعہ سے دنیا کے کل جانداروں یہاں تک کہ طرح طرح کی ٹڈیوں کی تصویر میں اور ہر ایک قسم کے پرند اور چرند کی تصویر میں اپنی کتابوں میں چھاپ دی ہیں.جس سے علمی ترقی ہوئی ہے.پس کیا گمان ہو سکتا ہے کہ وہ خدا جو علم کی ترغیب دیتا ہے وہ ایسے آلہ کا استعمال کرنا حرام قرار دے جس کے ذریعہ
فقه المسيح 376 حلت و حرمت سے بڑے بڑے مشکل امراض کی تشخیص ہوتی ہے اور اہلِ فراست کے لئے ہدایت پانے کا ایک ذریعہ ہو جاتا ہے.یہ تمام جہالتیں ہیں جو پھیل گئی ہیں.ہمارے ملک کے مولوی چہرہ شاہی سکہ کے روپیہ اور دونیاں اور چوٹیاں اور اٹھنیاں اپنی جیبوں اور گھروں میں سے کیوں باہر نہیں پھینکتے.کیا اُن سکوں پر تصویریں نہیں ، افسوس کہ یہ لوگ ناحق خلاف معقول باتیں کر کے مخالفوں کو اسلام پر ہنسی کا موقع دیتے ہیں.اسلام نے تمام لغو کام اور ایسے کام جو شرک کے موید ہیں حرام کئے ہیں نہ ایسے کام جو انسانی علم کو ترقی دیتے اور امراض کی شناخت کا ذریعہ شہر تے اور اہلِ فراست کو ہدایت سے قریب کر دیتے ہیں.لیکن با ایں ہمہ میں ہرگز پسند نہیں کرتا کہ میری جماعت کے لوگ بغیر ایسی ضرورت کے جو کہ مضطر کرتی ہے وہ میرے فوٹو کو عام طور پر شائع کرنا اپنا کسب اور پیشہ بنالیں.کیونکہ اسی طرح رفتہ رفتہ بدعات پیدا ہو جاتی ہیں اور شرک تک پہنچتی ہیں.اس لئے میں اپنی جماعت کو اس جگہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں تک اُن کے لئے ممکن ہو ایسے کاموں سے دستکش رہیں.بعض صاحبوں کے میں نے کارڈ دیکھے ہیں اور ان کی پشت کے کنارہ پر اپنی تصویر دیکھی ہے.میں ایسی اشاعت کا سخت مخالف ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی شخص ہماری جماعت میں سے ایسے کام کا مرتکب ہو.ایک صحیح اور مفید غرض کے لئے کام کرنا اور امر ہے اور ہندوؤں کی طرح جو اپنے بزرگوں کی تصویریں جا بجا در و دیوار پر نصب کرتے ہیں یہ اور بات ہے.ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے لغو کام منجر بشرک ہو جاتے ہیں اور بڑی بڑی خرابیاں ان سے پیدا ہوتی ہیں جیسا کہ ہندوؤں اور نصاریٰ میں پیدا ہوگئیں اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ جو شخص میرے نصائح کو عظمت اور عزت کی نظر سے دیکھتا ہے اور میرا سچا پیر و ہے وہ اس حکم کے بعد ایسے کاموں سے دستکش رہے گا ورنہ وہ میری ہدایتوں کے برخلاف اپنے تئیں چلاتا ہے اور شریعت کی راہ میں گستاخی سے قدم رکھتا ہے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 365 تا 367)
فقه المسيح سماع 377 بدعات اور بد رسومات ذکر آیا کہ بعض بزرگ راگ سنتے ہیں.آیا یہ جائز ہے؟ فرمایا: بدعات اور بد رسومات اس طرح بزرگان دین پر بدظنی کرنا اچھا نہیں.حسن ظن سے کام لینا چاہیے.حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اشعار سنے تھے.لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک صحابی مسجد کے اندر شعر پڑھتا تھا.حضرت عمرؓ نے اس کو منع کیا.اس نے جواب دیا.میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مسجد میں شعر پڑھا کرتا تھا تو کون ہے جو مجھے روک سکے؟ یہ سن کر حضرت امیر المومنین بالکل خاموش ہو گئے.قرآن شریف کو بھی خوش الحانی سے پڑھنا چاہیے بلکہ اس قدر تاکید ہے کہ جو شخص قرآن شریف کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے.اور خود اس میں ایک اثر ہے.عمدہ تقریر خوش الحانی سے کی جائے تو اس کا بھی اثر ہوتا ہے.وہی تقریر ژولیدہ زبانی سے کی جائے تو اس میں کوئی اثر نہیں ہوتا.جس شے میں خدا تعالیٰ نے تاثیر رکھی ہے اس کو اسلام کی طرف کھینچنے کا آلہ بنایا جائے تو اس میں کیا حرج ہے.حضرت داؤد کی زبور گیتوں میں تھی جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ جب حضرت داؤ د خدا کی مناجات کرتے تھے تو پہاڑ بھی ان کے ساتھ روتے تھے اور پرندے بھی تسبیح کرتے تھے.مزامیر سوال :.مزامیر کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟ فرمایا: ( بدر 17 نومبر 1905 ءصفحہ 7،6) بعض نے قرآن شریف کے ایک لفظ لَهُوَ الْحَدِیثِ (لقمان (7) کو مزا میر سے تعبیر کیا
فقه المسيح 378 بدعات اور بد رسومات ہے مگر میرا مذ ہب یہ ہے کہ ہر ایک شخص کو مقام اور محل دیکھنا چاہیے.ایک شخص کو جو اپنے اندر بہت سے علوم رکھتا ہے اور تقویٰ کے علامات اس میں پائے جاتے ہیں اور متقی باخدا ہونے کی ہزار دلیل اس میں موجود ہے.صرف ایک بات جو تمہیں سمجھ میں نہیں آتی اس کی وجہ سے اُسے برا نہ کہو.اس طرح انسان محروم رہ جاتا ہے.بایزید بسطامی کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ لوگ بہت ان کے گرد ہوئے اور ان کے وقت کو پراگندہ کرتے تھے.رمضان کا مہینہ تھا.انہوں نے سب کے سامنے روٹی کھانی شروع کر دی.تب سب لوگ کافر کہہ کر بھاگ گئے.عوام واقف نہ تھے کہ یہ مسافر ہے اور اس کے واسطے روزہ ضروری نہیں.لوگ نفرت کر کے بھاگے.ان کے واسطے عبادت کے لیے مقام خلوت حاصل ہو گیا.یہ اسرار ہیں اور ان کے واسطے ایک عمدہ مثال خود قرآن شریف میں موجود ہے جہاں حضرت خضر نے ایک کشتی تو ڑ ڈالی اور ایک لڑکے کو قتل کر دیا.کوئی ظاہر شریعت ان کو ایسے کام کی اجازت نہ دے سکتی تھی.اس قصہ سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے.خضری اسراراس امت میں ہمیشہ پائے جاتے رہے ہیں.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام کمالات متفرقہ کے جامع تھے اور ظلی طور پر وہ کمالات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں موجود ہیں.جو خضر نے کیا آئندہ صاحبان کمالات بھی حسب ضرورت کرتے ہیں.جہاں حضرت خضر نے ایک نفس زکیہ کو قتل کر دیا اس کے بالمقابل مزامیر کیا شے ہے.لہذا جلد بازی نہیں کرنی چاہیے.جلد بازی انسان کو ہلاک کر دیتی ہے.دوسری علامات کو دیکھنا چاہیے جو اولیاء الرحمن میں پائی جاتی ہیں ، ان لوگوں کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے.اس میں بڑی احتیاط لازم ہے.جو اعتراض کرے گا وہ مارا جائے گا.تعجب ہے کہ زبان کھولنے والے خود گندے لوگ ہوتے ہیں اور ان کے دل ناپاک ہوتے ہیں اور پھر بزرگوں پر اعتراض کرتے ہیں.( بدر 17 نومبر 1905 ءصفحہ 7)
فقه المسيح نظر بتو 379 بدعات اور بد رسومات یہ بھی میں دیکھتا ہوں کہ اولیاء اللہ میں کسی ایسی بات کا ہونا بھی سنت اللہ میں چلا آتا ہے.جیسا کہ خوبصورت بچے کو جب ماں عمدہ لباس پہنا کر باہر نکالتی ہے تو اس کے چہرے پر ایک سیاہی کا داغ بھی لگا دیتی ہے تا کہ وہ نظر بد سے بچا رہے.ایسا ہی خدا بھی اپنے پاکیزہ بندوں کے ظاہری حالات میں ایک ایسی بات رکھ دیتا ہے جس سے بدلوگ اس سے دور رہیں اور صرف نیک لوگ اس کے گرد جمع رہیں.سعید آدمی چہرے کی اصلی خوبصورتی کو دیکھتا ہے اور شقی کا دھیان اس داغ کی طرف رہتا ہے.امرتسر کا واقعہ ہے.ایک دعوت میں چند مولوی شریک تھے اور صاحب مکان نے مجھے بھی بلایا ہوا تھا.چائے لائی گئی.میں نے پیالی بائیں ہاتھ سے پکڑ لی.تب سب نے اعتراض کیا کہ یہ سنت کے برخلاف کام کرتا ہے.میں نے کہا.یہ سنت ہے کہ پیالی دائیں ہاتھ سے پکڑی جائے مگر کیا یہ سنت نہیں لَا تَقْفُ مَالَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (بنی اسرائیل : 37) یعنی جس بات کا تجھے علم نہیں اس کے متعلق اپنی زبان نہ کھول.کیا آپ لوگوں کو مناسب نہ تھا کہ مجھ پر حسن ظن کرتے اور خاموش رہتے.یا یہ نہیں ہو سکتا تھا تو اعتراض کرنے سے پہلے مجھے سے پوچھ ہی لیتے کہ تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟ پھر میں نے بتلایا کہ اصل بات یہ ہے کہ میرے دائیں بازو کی ہڈی بچپن سے ٹوٹی ہوئی ہے اور پیالی پکڑ کر میں ہاتھ کو اوپر نہیں اُٹھا سکتا.جب یہ بات انہیں بتلائی گئی ، تب وہ سن کر شرمندہ ہو گئے.صوفیاء کے طریقوں کو حسن ظنی سے دیکھنا ( بدر 17 نومبر 1905 ءصفحہ 7 ) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار کے قیام قادیان کے دنوں میں عشاء کی
فقه المسيح 380 بدعات اور بد رسومات نماز کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے.مسجد بھری ہوئی تھی.ایک پنجابی مولوی صاحب نے کھڑے ہو کر حضور سے عرض کیا کہ صوفیوں کے فرقہ نقش بندیہ وغیرہ میں جو کلمہ نفی اثبات کو پیشانی تک لے جا کر اور اطراف پر گذارتے ہوئے قلب پر اِلَّا اللہ کی ضرب مارنے کا طریق مروج ہے.اس کے متعلق حضور کا کیا حکم ہے؟ حضور نے فرمایا کہ چونکہ شریعت سے اس کی کوئی سند نہیں اور نہ اسوۂ حسنہ سے اس کا کچھ پتہ چلتا ہے اس لئے ہم ایسے طریقوں کی ضرورت نہیں خیال کرتے.اس مولوی نے پھر کہا کہ اگر یہ امور خلاف شرع ہیں تو بڑے بڑے مسلمہ اور مشاہیر جن میں حضرت احمد سر ہندی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اولیاء بھی ہیں جنہوں نے مجدد الف ثانی ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے.یہ سب لوگ بدعت کے مرتکب ہوئے اور لوگوں کو اس کی ترغیب و تعلیم دینے والے ہوئے.حضور نے فرمایا اسلام پر ایک زمانہ ایسا بھی آیا ہے کہ فتوحات کے بڑھ جانے اور دنیاوی دولت اور سامان تعیش کی فراوانی سے لوگوں کے دلوں سے خدا کے نام کی گرمی سرد پڑتی جارہی تھی.اس وقت اگر ان بزرگوں نے بعض ایسے اعمال اختیار کئے ہوں جو اُن کے خیال میں اس وقت اس روحانی وبائی مرض میں مفید تھے تو وہ ایک وقتی ضرورت تھی اور بوجہ ان کی نیک نیتی کے اس کو خدا کے حوالہ کر دینا مناسب ہے.حضور نے فرمایا اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی قافلہ راستہ بھول کر ایسے جنگل میں جا نکلے جہاں پانی کا نشان نہ ہو.اور ان میں سے بعض پیاس کی شدت سے زبان خشک ہو کر جان بلب ہوں.اور ان کے ہمرا ہی درختوں کے پتے پتھروں سے کوٹ کر ان کا پانی نکالیں اور تشنہ دہانوں کے حلق میں ڈالیں تا کسی طرح پانی ملنے تک ان کا حلق بالکل خشک ہو کر ہلاکت کا موجب نہ ہو جائے.یا دامن کوہ میں پتھروں کو تو ڑ کر اور بڑی مشکلوں سے کاٹ کاٹ کر کنواں کھودا جاتا ہے یا ریگستان میں بڑی مصیبت سے اگر سو سو ہاتھ کھودا جائے تو کنواں برآمد ہوتا ہے.لیکن جہاں دریا جاری ہو.کیا وہاں
فقه المسيح 381 بدعات اور بد رسومات بھی ان تکالیف کو اُٹھانے کی ضرورت ہے؟ فرمایا پس شکر کرنا چاہیے کہ اس وقت خدا نے پہاڑ کی چوٹی پر سے مصفی اور شیریں پانی کا چشمہ جاری فرمایا ہے جس کے ہوتے ہوئے ان تکالیف میں پڑ نا خدا کی ناشکری اور جہالت ہے.حضور کے اس ارشاد کے بعد جو ایک پر سرور کیفیت خاکسار نے محسوس کی وہ یہ تھی اُن امور سے جن کا اسوۂ حسنہ سے ثبوت نہ تھا.حضور نے اتفاق نہ فرمانے کے باوجود ان متوفی بزرگوں کے متعلق کوئی کلمہ رکیک نہ فرمایا بلکہ ایک وقتی ضرورت کے ماتحت اُن کی نیک نیتی پر محمول فرما کر اُن کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 69، 70) بدعات سے اجتناب کے لئے عورتوں کو خصوصی نصائح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عورتوں کو نصائح کرتے ہوئے ایک اشتہار شائع کیا جس میں آپ نے تحریر فرمایا: جس شخص کے پاس یہ اشتہار پہنچے اس پر فرض ہے کہ گھر جا کر اپنے کنبے کی عورتوں کو تمام مضمون اس اشتہار کا اچھی طرح سمجھا کر سنادے اور ذہن نشین کر دے اور جو عورت خواندہ ہو اس پر بھی لازم ہے کہ ایسا ہی کرے.اشتہار بغرض تبلیغ و انذار چونکہ قرآن شریف و احادیث صحیحہ نبویہ سے ظاہر و ثابت ہے کہ ہر یک شخص اپنے کنبہ کی عورتوں وغیرہ کی نسبت جن پر کسی قدر اختیار رکھتا ہے سوال کیا جائے گا کہ آیا بے راہ چلنے کی حالت میں اس نے ان کو سمجھایا اور راہ راست کی ہدایت کی یا نہیں ، اس لئے میں نے قیامت کی باز پرس سے ڈر کر مناسب سمجھا کہ ان مستورات و دیگر متعلقین کو ( جو ہمارے رشتہ داروا قارب وواسطہ دار ہیں) ان کی بے راہیوں ، بدعتوں پر بذریعہ اشتہار کے انہیں خبر دار کروں کیونکہ میں
فقه المسيح 382 بدعات اور بد رسومات دیکھتا ہوں کہ ہمارے گھروں میں قسم قسم کی خراب رسمیں اور نالائق عادتیں جن سے ایمان جاتا رہتا ہے گلے کا ہار ہو رہی ہیں اور اُن بری رسموں اور خلاف شرع کاموں سے یہ لوگ ایسا پیار کرتے ہیں جو نیک اور دینداری کے کاموں سے کرنا چاہیے.ہر چند سمجھایا گیا ، کچھ سنتے نہیں.ہر چند ڈرایا گیا.کچھ ڈرتے نہیں اب چونکہ موت کا کچھ اعتبار نہیں اور خدا تعالیٰ کے عذاب سے بڑھ کر اور کوئی عذاب نہیں اس لئے ہم نے ان لوگوں کے برا ماننے اور برا کہنے اور ستانے اور دکھ دینے سے بالکل لا پروا ہو کر محض ہمدردی کی راہ سے حق نصیحت پورا کرنے کے لئے بذریعہ اس اشتہار کے ان سب کو اور دوسری مسلمان بہنوں اور بھائیوں کو خبر دار کرنا چاہا تا ہماری گردن پر کوئی بوجھ باقی نہ رہ جائے اور قیامت کو کوئی نہ کہہ سکے کہ ہم کو کسی نے نہیں سمجھایا اور سیدھا راہ نہیں بتایا.سو آج ہم کھول کر بآواز بلند کہ دیتے ہیں کہ سیدھا راہ جس سے انسان بہشت میں داخل ہوتا ہے، یہی ہے کہ شرک اور رسم پرستی کے طریقوں کو چھوڑ کر دین اسلام کی راہ اختیار کی جائے اور جو کچھ اللہ جلشانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور اس کے رسول نے ہدایت کی ہے اس راہ سے نہ بائیں طرف منہ پھیریں نہ دائیں اور ٹھیک ٹھیک اسی راہ پر قدم ماریں اور اس کے برخلاف کسی راہ کو اختیار نہ کریں.لیکن ہمارے گھروں میں جو بدرسمیں پڑ گئی ہیں اگر چہ وہ بہت ہیں.مگر چند موٹی موٹی رسمیں بیان کی جاتی ہیں.تانیک بخت عورتیں خدا تعالیٰ سے ڈر کر ان کو چھوڑ دیں.اور وہ یہ ہیں.(1) ماتم کی حالت میں جزع فزع اور نوحہ یعنی سیا پا کرنا اور چیچنیں مار کر رونا اور بے صبری کے کلمات منہ پر لانا.یہ سب باتیں ایسی ہیں جن کے کرنے سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے اور یہ سب رسمیں ہندوؤں سے لی گئی ہیں.جاہل مسلمانوں نے اپنے دین کو بھلا دیا اور ہندوؤں کی رسمیں پکڑ لیں.کسی عزیز اور پیارے کی موت کی حالت میں مسلمانوں کے لئے
فقه المسيح 383 بدعات اور بد رسومات قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ صرف إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہیں یعنی ہم خدا کا مال اور ملک ہیں اسے اختیار ہے جب چاہے اپنا مال لے لے اور اگر رونا ہوتو صرف آنکھوں سے آنسو بہانا جائز ہے اور جو اس سے زیادہ ہے وہ شیطان سے ہے.(2) دوم.برابر ایک سال تک سوگ رکھنا اور نئی نئی عورتوں کے آنے کے وقت یا بعض خاص دنوں میں سیا پا کرنا اور با ہم عورتوں کا سر ٹکرا کر چلا کر رونا اور کچھ کچھ منہ سے بھی بکواس کرنا اور پھر برابر ایک برس تک بعض چیزوں کا پکانا چھوڑ دینا اس عذر سے کہ ہمارے گھر یا ہماری برادری میں ماتم ہو گیا ہے.یہ سب نا پاک رسمیں اور گناہ کی باتیں ہیں جن سے پر ہیز کرنا چاہیے.(3) سوم.سیا پا کرنے کے دنوں میں بے جا خرچ بھی بہت ہوتے ہیں.حرامخور عورتیں ، شیطان کی بہنیں جو دور دور سے سیا پا کرنے کے لئے آتی ہیں اور مکر اور فریب سے منہ کو ڈھانک کر اور بھینسوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا کر چھینیں مار کر روتی ہیں.ان کو اچھے اچھے کھانے کھلائے جاتے ہیں اور اگر مقدور ہو تو اپنی شیخی اور بڑائی جتانے کے لئے صد ہا روپیہ کا پلاؤ اور زردہ پکا کر برادری وغیرہ میں تقسیم کیا جاتا ہے.اس غرض سے کہ تالوگ واہ واہ کریں کہ فلاں شخص نے مرنے پر اچھی کرتوت دکھلائی.اچھا نام پیدا کیا.سو یہ سب شیطانی طریق ہیں جن سے تو بہ کرنا لازم ہے.(4) اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو.دوسرا خاوند کرنا ایسا برا جانتی ہے جیسا کوئی بڑا بھارا گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ یا رانڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاک دامن بیوی ہوگئی ہوں حالانکہ اس کے لئے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے.عورتوں کے لئے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کر لینا نہایت ثواب کا کام ہے.ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں
فقه المسيح 384 بدعات اور بد رسومات برے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کر لے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے.ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود لعنتی اور شیطان کی چیلیاں ہیں.جن کے ذریعہ سے شیطان اپنا کام چلاتا ہے.جس عورت کو اللہ اور رسول پیارا ہے.اس کو چاہیے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلاش کرے اور یا در کھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صدہا درجہ بہتر ہے.(5) یہ بھی عورتوں میں خراب عادت ہے کہ وہ بات بات میں مردوں کی نافرمانی کرتی ہیں.اور ان کی اجازت کے بغیر ان کا مال خرچ کر دیتی ہیں اور ناراض ہونے کی حالت میں بہت کچھ برا بھلا ان کے حق میں کہہ دیتی ہیں.ایسی عورتیں اللہ اور رسول کے نزدیک لعنتی ہیں.ان کا نماز روزہ اور کوئی عمل منظور نہیں.اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ کوئی عورت نیک نہیں ہو سکتی جب تک پوری پوری اپنے خاوند کی فرمانبرداری نہ کرے اور دلی محبت سے اس کی تعظیم بجانہ لائے اور پس پشت یعنی اس کے پیچھے اس کی خیر خواہ نہ ہو اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے مردوں کی تابعدار رہیں.ورنہ ان کا کوئی عمل منظور نہیں اور نیز فرمایا ہے کہ اگر غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں حکم کرتا کہ عورتیں اپنے خاوندوں کو سجدہ کیا کریں.اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے حق میں کچھ بدزبانی کرتی ہے یا اہانت کی نظر سے اس کو دیکھتی ہے اور حکم ربانی سن کر پھر بھی باز نہیں آتی تو وہ لعنتی ہے خدا اور رسول اس سے ناراض ہیں.عورتوں کو چاہیے کہ اپنے خاوندوں کا مال نہ چرا دیں اور نامحرم سے اپنے تئیں بچاویں اور یادرکھنا چاہیے کہ بغیر خاوند اور ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور جتنے مرد ہیں اُن سے پردہ کرنا ضروری ہے.جو عورتیں نا محرم لوگوں سے پردہ نہیں کرتیں شیطان ان کے ساتھ ساتھ ہے.عورتوں پر یہ بھی لازم ہے کہ بدکار اور بد وضع عورتوں کو اپنے گھروں میں نہ آنے دیں اور ان کو اپنی خدمت میں نہ رکھیں کیونکہ یہ سخت گناہ کی بات ہے کہ بد کا رعورت
فقه المسيح 385 بدعات اور بد رسومات نیک عورت کی ہم صحبت ہو.(6) عورتوں میں یہ بھی ایک بد عادت ہے کہ جب کسی عورت کا خاوند کسی اپنی مصلحت کے لئے کوئی دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہے تو وہ عورت اور اس کے اقارب سخت ناراض ہوتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں اور شور مچاتے ہیں اور اس بندہ خدا کو ناحق ستاتے ہیں.ایسی عورتیں اور ایسے ان کے اقارب بھی نابکار اور خراب ہیں کیونکہ اللہ جلشانہ نے اپنی حکمت کا ملہ سے جس کے صد با مصالح ہیں مردوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت یا مصلحت کے وقت چار تک بیویاں کر لیں.پھر جو شخص اللہ رسول کے حکم کے مطابق نکاح کرتا ہے تو اس کو کیوں بُرا کہا جائے.ایسی عورتیں اور ایسے ہی اس عادت والے اقارب جو خدا اور اس کے رسول کے حکموں کا مقابلہ کرتی ہیں.نہایت مردود شیطان کی بہنیں اور بھائی ہیں کیونکہ وہ خدا اور رسول کے فرمودہ سے منہ پھیر کر اپنے رب کریم سے لڑائی کرنا چاہتے ہیں اور اگر کسی نیک دل مسلمان کے گھر میں ایسی بدذات بیوی ہو تو اُسے مناسب ہے کہ اس کو سزا دینے کیلئے دوسرا نکاح ضرور کرے.(7) بعض جاہل مسلمان اپنے ناطہ رشتہ کے وقت یہ دیکھ لیتے ہیں کہ جس کے ساتھ اپنی لڑکی کا نکاح کرنا منظور ہے اس کی پہلی بیوی بھی ہے یا نہیں.پس اگر پہلی موجود ہو تو ایسے شخص سے ہرگز نکاح کرنا نہیں چاہتے.سو یا درکھنا چاہئے کہ ایسے لوگ بھی صرف نام کے مسلمان ہیں اور ایک طور سے وہ ان عورتوں کے مددگار ہیں جو اپنے خاوندوں کے دوسرے نکاح سے ناراض ہوتی ہیں سوان کو بھی خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے.(8) ہماری قوم میں یہ بھی ایک نہایت بد رسم ہے کہ دوسری قوم کولٹر کی دینا پسند نہیں کرتے بلکہ حتی الوسع لینا بھی پسند نہیں کرتے.یہ سرا سر تکبر نخوت کا طریق ہے جو سراسر احکامِ شریعت کے برخلاف ہے.بنی آدم سب خدا تعالیٰ کے بندے ہیں.رشتہ ناطہ میں صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ جس سے نکاح کیا جاتا ہے کہ وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت
فقه المسيح 386 بدعات اور بد رسومات میں مبتلا نہیں جو موجب فتنہ ہو اور یا درکھنا چاہیے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں.صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے.اللہ تعالے فرماتا ہے.إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَكُمُ یعنی تم میں سے خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ تر بزرگ وہی ہے جو زیادہ پر ہیز گار ہے.(9) ہماری قوم میں یہ بھی ایک بد رسم ہے کہ شادیوں میں صد ہاروپیہ کا فضول خرچ ہوتا ہے.سو یا د رکھنا چاہیے کہ شیخی اور بڑائی کے طور پر برادری میں بھاجی تقسیم کرنا اور اس کا دینا اور کھانا دونوں باتیں عند الشرع حرام ہیں اور آتشبازی چلوانا اور کنجروں، ڈوموں کو دینا یہ سب حرام مطلق ہے.ناحق روپیہ ضائع جاتا ہے.گناہ سر پر چڑھتا ہے.صرف اتنا حکم ہے کہ نکاح کرنے والا بعد نکاح کے ولیمہ کرے یعنی چند دوستوں کو کھانا پکا کر کھلا دیوے.(10) ہمارے گھروں میں شریعت کی پابندی کی بہت سستی ہے.بعض عورتیں زکوۃ دینے کے لائق اور بہت سا زیور ان کے پاس ہے.وہ زکوۃ نہیں دیتیں.بعض عورتیں نماز روزہ کے ادا کرنے میں بہت کو تا ہی رکھتی ہیں.بعض عورتیں شرک کی رسمیں بجا لاتی ہیں جیسے چیچک کی پوجا.بعض فرضی دیویوں کی پوجا کرتی ہیں.بعض ایسی نیازیں دیتی ہیں جن میں یہ شرط لگا دیتی ہیں کہ عورتیں کھاویں کوئی مرد نہ کھاوے یا کوئی حقہ نوش نہ کھاوے بعض جمعرات کی چوکی بھرتی ہیں مگر یا درکھنا چاہیے کہ یہ سب شیطانی طریق ہیں.ہم صرف خالص اللہ کے لیے ان لوگوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ آؤ خدا تعالیٰ سے ڈرو.ورنہ مرنے کے بعد ذلت اور رسوائی سے سخت عذاب میں پڑو گے اور اس غضب الہی میں مبتلا ہو جاؤ گے جس کا انتہاء نہیں.محرم میں رسومات سے بچو (الحكم 10 جولائی 1902 ، صفحہ 6 تا 8) ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہوا کہ محرم کے دنوں میں امائین کی روح کو ثواب دینے کے واسطے روٹیاں وغیرہ دینا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا: عام طور پر یہ بات ہے کہ طعام کا ثواب میت کو پہنچتا ہے لیکن اس کے ساتھ شرک کی
فقه المسيح 387 بدعات اور بد رسومات رسومات نہیں چاہئیں.رافضیوں کی طرح رسومات کا کرنا جائز نہیں ہے.“ ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ (253) فوت شدگان کے نام پر روٹی تقسیم کرنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مغلانی نور جان صاحبہ بھا وجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ مردوں کے نام پر محتاجوں کو روٹی دو، ملانوں کو نہ دو.ملاں جب کوٹھوں پر روٹیاں سکھانے کو ڈالتے ہیں ، کتے اور کوے کھاتے ہیں اور وہ چوڑھوں کو روٹی دیتے ہیں.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 229 نقشبندی صوفیاء کے ذکر واذکار کے طریق کی ناپسندیدگی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب ہم انبالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک کوٹھی میں مقیم تھے تو ایک امر کے متعلق جو کہ دینی معاملہ نہ تھا بلکہ ایک دوائی کے متعلق تھا.حضور سے استفسار کی ضرورت پیش آئی.احباب نے خاکسار کو اس کام کے لئے انتخاب کیا.چنانچہ میں اجازت لے کر اندر حاضر ہوا.حضور اپنے کمرہ میں صرف تنہا تشریف فرما تھے.خاکسار نے اس امر کے جواب سے فارغ ہو کر موقعہ کو غنیمت خیال کرتے ہوئے اپنے متعلق ایک واقعہ عرض کرنے کی اجازت چاہی.حضور نے بڑی خندہ پیشانی سے اجازت دی.خاکسار نے عرض کیا کہ میں اس سے قبل نقش بند یہ خاندان میں بیعت ہوں اوران کے طریقہ کے مطابق ذکر اذکار بھی کرتا ہوں.ایک رات میں ذکر نفی اثبات میں حسب طریقہ نقشبند یہ اس طرح مشغول تھا کہ لفظ لا کو وسط سینہ سے اُٹھا کر پیشانی تک لے جا تا تھا.وہاں سے لفظ اللہ کو دائیں شانہ پر سے گزار کر دیگر اطراف سے گذارتے ہوئے
فقه المسيح 388 بدعات اور بد رسومات لفظ إِلَّا اللہ کی ضرب قلب پر لگاتا.کافی وقت اس عمل کو جاری رکھنے کے بعد قلب سے بجلی کی رو کی طرح ایک لذت افزا کیفیت شروع ہو کر سر سے پاؤں تک اس طرح معلوم ہوئی کہ جسم کا ذرہ ذرہ اس کے زیر اثر تھا.آخر وہ کیفیت اس قدر بڑھی اور نا قابل برداشت معلوم ہو نے لگی کہ میں نے خیال کیا اگر یہ کیفیت اس سے زیادہ رہی تو اغلب ہے کہ میں بے ہوش ہو کر چار پائی سے نیچے گر جاؤں.چونکہ تنہا تھا اس لئے خیال ہوا کہ صبح اگر گھر کے لوگوں نے اس طرح گرا ہوا دیکھا تو شاید وہ کسی نشہ وغیرہ کا نتیجہ خیال کریں میں نے ذکر کو قصد ا بند کر دیا.چونکہ رات کافی گذر چکی تھی اس لئے تھوڑی دیر میں ہی نیند آ گئی.صبح بیدار ہونے پر حالت حسب معمول تھی.اس کے بعد میں نے بارہا اس طرح عمل کیا مگر وہ کیفیت پیدا نہ ہوئی.حضور نے سن کر فرمایا کہ اب آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ کیفیت پھر پیدا ہو.میں نے عرض کیا کہ میری خواہش تو یہی ہے.حضور نے فرمایا کس غرض سے آپ ایسا چاہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس میں ایک عالم سرور اور ایک قسم کی لذت تھی.اس جیسی لذت میں نے کسی اور شے میں نہیں دیکھی.اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ خدا کی عبادت لذت کے لئے نہیں کرنی چاہئے بلکہ حکم کی تعمیل اور اپنا فرض سمجھ کر کرنی چاہئے.خدا چاہے تو اس میں بھی اس سے بہتر لذت پیدا ہو سکتی ہے.اگر لذت کو مدنظر رکھ کر عبادت کی جائے تو لذت نفس کی ایک کیفیت ہے.اس کے حصول کے لئے عبادت نفس کے زیر اتباع ہے.خدا کی عبادت ہر حال میں کرنی چاہئے.خواہ لذت ہو یا نہ ہو.وہ اس کی مرضی پر ہے.پھر فرمایا یہ حالت جو آپ نے دیکھی یہ ایک سالک کے لئے راستہ کے عجائبات اور غول راہ کے طور پر ہوتے ہیں اور عارضی ہوتے ہیں.اس کے عارضی ہونے کا اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہوگا کہ آپ اس کو پھر چاہتے ہیں.اسی طرح ذکر کرنے پر بھی وہ لذت حاصل نہ
فقه المسيح 389 بدعات اور بد رسومات ہوئی.ہم آپ کو ایسی بات بتاتے ہیں جس میں مستقل لذت پیدا ہو گی جو پھر جد ا نہیں ہوگی.وہ اتباع سنت اور اسوۂ حسنہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی غرض خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے.ان فانی لذتوں کے پیچھے نہ پڑو.پھر فرمایا.نماز خشوع و خضوع سے پڑھنی چاہئے.منہیات سے پر ہیز ضروری ہے.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 67 68 بدعات سے روکنے کے لئے ناجائز طریق اختیار نہ کرو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میاں الہ دین فلاسفر اور پھر اس کے بعد مولوی یار محمد صاحب کو ایک زمانہ میں قبروں کے کپڑے اتار لینے کی دھت ہوگئی تھی یہاں تک کہ فلاسفر نے ان کو بیچ کر کچھ روپیہ بھی جمع کر لیا.ان لوگوں کا خیال تھا کہ اس طرح ہم بدعت اور شرک کو مٹاتے ہیں.حضرت صاحب نے جب سُنا تو اس کام کو نا جائز فرمایا.تب یہ لوگ باز آئے اور وہ روپیہ اشاعت اسلام میں دے دیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسلام نے نہ صرف ناجائز کاموں سے روکا ہے بلکہ جائز کاموں کے لئے ناجائز وسائل کے اختیار کرنے سے بھی روکا ہے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 780) بعض رسوم فوائد بھی رکھتی ہیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ اس ملک میں مرنے جینے اور شادی بیاہ وغیرہ کی جو رسوم رائج ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو اہل حدیث کی طرح کلی طور پر رڈ نہیں کر دیتے تھے بلکہ سوائے ان رسوم کے جو مشرکانہ یا مخالف اسلام ہوں باقی میں کوئی نہ کوئی تو جیہ فوائد کی نکال لیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اِس اِس فائدہ یا ضرورت کے لئے یہ رسم ایجاد ہوئی.مثلاً
فقه المسيح 390 بدعات اور بد رسومات نیو تہ ( جسے پنجابی میں نیوند را کہتے ہیں ) امداد باہمی کے لئے شروع ہوا لیکن اب وہ ایک تکلیف دہ رسم ہوگئی ہے.فاتحہ خوانی اور اسقاط (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 744) عرض کیا گیا کہ جب کوئی مسلمان مرجائے تو اس کے بعد جو فاتحہ خوانی کا دستور اس کی شریعت میں کوئی اصل ہے یا نہیں؟ فرمایا: وو نہ حدیث میں اس کا ذکر ہے نہ قرآن شریف میں نہ سنت میں.“ عرض کیا گیا کہ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ دعائے مغفرت ہی ہے؟ فرمایا: نہ اسقاط درست نہ اس طریق سے دعا ہے کیونکہ بدعتوں کا دروازہ کھل جاتا ہے.میت کے لئے اسقاط ( بدر 19 اپریل 1906 ، صفحہ 3) سوال ہوا کہ ملاں لوگ مُردوں کے پاس کھڑے ہو کر اسقاط کراتے ہیں کیا اس کا کوئی طریق جائز ہے؟ فرمایا : ”اس کا کہیں ثبوت نہیں ہے.ملاؤں نے ماتم اور شادی میں بہت سی رسمیں پیدا کر لی ہیں.یہ بھی ان میں سے ایک ہے.“ ایک اور موقعہ پر فرمایا : الحلم 24 اپریل 1903 ءصفحہ 10 ) ( ان لوگوں نے ) ایک طریق اسقاط کا رکھا ہے قرآن شریف کو چکر دیتے ہیں.یہ اصل میں قرآن شریف کی بے ادبی ہے.انسان خدا سے سچا تعلق رکھنے والا نہیں ہوسکتا جب تک سب نظر خدا پر نہ ہو.“ 66 (البدر 16 مارچ 1904 ءصفحہ 6)
فقه المسيح قل خوانی 391 بدعات اور بد رسومات سوال :.میت کے قل جو تیسرے دن پڑھے جاتے ہیں ان کا ثواب اسے پہنچتا ہے یا نہیں؟ جواب : قل خوانی کی کوئی اصل....شریعت میں نہیں ہے صدقہ ، دعا اور استغفار میت کو پہنچتے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ ملا نوں کو اس سے ثواب پہنچ جاتا ہے سوا گر ا سے ہی مردہ تصور کرلیا جاوے ( اور واقعی ملاں لوگ روحانیت سے مردہ ہی ہوتے ہیں ) تو ہم مان لیں گے.ہمیں تعجب ہے کہ یہ لوگ ایسی باتوں پر امید کیسے باندھ لیتے ہیں دین تو ہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا ہے اس میں ان باتوں کا نام تک نہیں صحابہ کرام بھی فوت ہوئے کیا کسی کے قل پڑھے گئے صد ہا سال کے بعد اور بدعتوں کی طرح یہ بھی ایک بدعت نکل آئی ہوئی ہے.میت کے لئے فاتحہ خوانی (البدر 16 مارچ 1904 صفحہ 6،5) سوال : میت کے لئے فاتحہ خوانی کے لئے جو بیٹھتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں؟ جواب : فرمایا یہ درست نہیں ہے.بدعت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں کہ اس طرح صف بچھا کر بیٹھتے اور فاتحہ خوانی کرتے تھے.(البدر 16 مارچ 1904 صفحہ 6) ختم اور فاتحہ خوانی ایک بزرگ نے عرض کی کہ حضور میں نے اپنی ملازمت سے پہلے یہ منت مانی تھی کہ جب میں ملا زم ہو جاؤں گا تو آدھ آنہ فی روپیہ کے حساب سے نکال کر اس کا کھانا پکوا کر حضرت پیران پیر کا ختم دلاؤں گا.اس کے متعلق حضور کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا کہ:.خیرات تو ہر طرح اور ہر رنگ میں جائز ہے اور جسے چاہے انسان دے مگر اس فاتحہ خوانی سے ہمیں نہیں معلوم کیا فائدہ؟ اور یہ کیوں کیا جاتا ہے؟ میرے خیال میں یہ جو ہمارے ملک میں رسم
فقه المسيح 392 بدعات اور بد رسومات جاری ہے کہ اس پر کچھ قرآن شریف وغیرہ پڑھا کرتے ہیں، یہ طریق تو شرک ہے اور اس کا ثبوت آنحضرت ﷺ کے فعل سے نہیں.غرباء ومساکین کو بے شک کھانا کھلاؤ.چہلم کی رسم نا جائز ہے (الحام 31 مارچ 1903 ءصفحہ 4) ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ چہلم کرنا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا: یہ رسم سنت سے باہر ہے.“ ( بدر 14 فروری 1907 ، صفحہ 4) مسجد کی امامت اور ختم پر اجرت لینا ایک سوال پر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے پاک کلام قرآن کو نا پاک باتوں سے ملا کر پڑھنا بے ادبی ہے وہ تو صرف روٹیوں کی غرض سے مُلاں لوگ پڑھتے ہیں.اس ملک کے لوگ جو ختم وغیرہ دیتے ہیں تو ملاں لوگ لمبی لمبی سورتیں پڑھتے ہیں کہ شور با اور روٹی زیادہ ملے.وَلَا تَشْتَرُوابا يتِى ثَمَنًا قَلِيلًا (البقرة: 42) یہ کفر ہے.جو طریق آج کل پنجاب میں نماز کا ہے میرے نزدیک ہمیشہ سے اس پر بھی اعتراض ہے ملاں لوگ صرف مقررہ آدمیوں پر نظر کر کے جماعت کراتے ہیں ایسا امام شرعا ناجائز ہے.صحابہ میں کہیں نظیر نہیں ہے کہ اس طرح اجرت پر امامت کرائی ہو پھر اگر کسی کو مسجد سے نکالا جاوے تو چیف کورٹ تک مقدمہ چلتا ہے.یہانتک کہ ایک دفعہ ایک ملاں نے نماز جنازہ کی چھ یا سات تکبیر میں کہیں.لوگوں نے پوچھا تو جواب دیا کہ یہ کام روز مرہ کے محاورہ سے یا در ہتا ہے کبھی سال میں ایک آدمی مرتا ہے تو کیسے یادر ہے جب مجھے یہ بات بھول جاتی ہے کہ کوئی مرا بھی کرتا ہے تو اس وقت کوئی میت ہوتی ہے.
فقه المسيح 393 بدعات اور بد رسومات اسی طرح ایک ملا یہاں آکر رہا.ہمارے میرزا صاحب نے اسے محلے تقسیم کر دیئے ایک دن وہ روتا ہوا آیا کہ مجھے جو محلہ دیا ہے اس کے آدمیوں کے قد چھوٹے ہیں اس لیے ان کے مرنے پر جو کپڑا ملے گا اس سے چادر بھی نہ بنے گی.اس وقت ان لوگوں کی حالت بہت رڈی ہے صوفی لکھتے ہیں کہ مردہ کا مال کھانے سے دل البدر 27 مارچ 1903 ، صفحہ 73) سخت ہو جاتا ہے.طاعون سے محفوظ رہنے کے لیے زیارتیں لے کر نکلتا لاہور میں جو لوگ طاعون سے محفوظ رہنے کے لیے نماز پڑھنے کے واسطے زیارتیں لے کر نکلتے ہیں.ان کا ذکر ہور ہا تھا.اس پر فرمایا:.جولوگ اب باہر جا کر نمازیں پڑھتے ہیں اور زیارتیں نکالتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری صفائی نہیں کرتے.بچی تبدیلی کا ارادہ نہیں معلوم ہوتا ، ورنہ پھر وہی شوخی اور بیبا کی کیوں نظر آ رہی ہے.اگر سچی تبدیلی ہو تو ممکن نہیں کہ طاعون نہ ہٹ جائے.تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف جب میں کہتا ہوں کہ سچی تبدیلی کرو اور استغفار کرو.خدا تعالیٰ سے صلح کرو تو میری ان باتوں پر ہنسی کرتے ہیں اور ٹھٹھے اڑاتے ہیں اور اب خود بھی دعا ہی اس کا علاج بتاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ طاعون ان کے ہی سبب سے آیا ہے کیونکہ انھوں نے جھوٹے دعوے کئے تھے.مجھے ان کی اس بات پر بھی تعجب اور افسوس آتا ہے کہ میں تو جھوٹے دعوے کر کے سلامت بیٹھا ہوں، حالانکہ بقول ان کے طاعون میرے ہی سبب سے آیا ہے اور مجھے ہی حفاظت کا وعدہ دیا جاتا ہے.یہ عجیب معاملہ ہے.یہ بات تو ان عدالتوں میں بھی نہیں ہوتی کہ صریح ایک مجرم ہو وہ چھوڑ دیا جاوے اور بے گناہ کو پھانسی دے دی جاوے.پھر کیا خدا تعالیٰ کی خدائی ہی میں یہ اندھیر اور ظلم ہے کہ جس کے لیے طاعون بھیجا جاوے وہ تو محفوظ رہے اور اس کو
فقه المسيح 394 بدعات اور بد رسومات سلامتی کا وعدہ دیا جاوے اور وہ ایک نشان ہو اور دوسرے لوگ مرتے رہیں؟ میں کہتا ہوں اسی ایک بات کو لیکر کوئی شخص انصاف کرے اور بتادے کہ کیا ہو سکتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر افترا کرے وہ سلامت رہے اور اس کو یہ وعدہ دیا جائے کہ تیرے گھر میں جو ہوگا وہ بھی بچایا جاوے گا اور دوسروں پر چھری چلتی رہے؟ یا شیخ عبد القادر جیلانی کہنا کیسا ہے؟ (الحکم 10 جون 1904 صفحہ 3) سوال :.یا شیخ عبدالقادر جیلانی شَيْئًا لِلہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ جواب :.ہرگز نہیں یہ تو حید کے برخلاف ہے.سوال :.جبکہ غائب اور حاضر دونوں کو خطاب کر لیتے ہیں پھر اس میں کیا حرج ہے؟ جواب:.دیکھو بٹالہ میں لوگ زندہ موجود ہیں اگر ان کو یہاں سے آواز دو تو کیا وہ کوئی جواب دیتا ہے پھر بغداد میں سید عبدالقادر جیلانی کی قبر پر جا کر آواز دو تو کوئی جواب نہیں آئے گا خدا تعالیٰ تو جواب دیتا ہے جیسا کہ فرمایا اُدْعُونِی اَسْتَجِبْ لَكُمُ (المؤمن:61) مگر قبروں والوں میں سے کون جواب دیتا ہے پھر کیوں ایسا فعل کرے جو تو حید کے خلاف ہے.سوال :.جب کہ یہ لوگ زندہ ہیں پھر ان کو مردہ تو نہیں کہہ سکتے.جواب :.زندگی ایک الگ امر ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہماری آواز بھی سن لیں یہ ہم مانتے ہیں کہ یہ لوگ خدا کے نزدیک زندہ ہیں مگر ہم نہیں مان سکتے کہ ان کو سماع کی قوت بھی ہے حاضر ناظر ہونا ایک الگ صفت ہے جو خدا ہی کو حاصل ہے دیکھو ہم بھی زندہ ہیں مگر لا ہو ریا امرتسر کی آوازیں نہیں سن سکتے.خدا تعالیٰ کے شہید اور اولیاء اللہ بیشک خدا کے نزدیک زندہ ہوتے ہیں مگر ان کو حاضر ناظر نہیں کہہ سکتے.دعاؤں کے سننے والا اور قدرت رکھنے والا خدا ہی ہے اس کو یقین کرنا یہی اسلام ہے جو اس کو چھوڑتا ہے وہ اسلام کو چھوڑتا ہے پھر کس قدر قابل شرم یہ امر ہے کہ یا شیخ عبد القادر جیلانی تو کہتے ہیں یا محمد ﷺ ، یا ابوبکر
فقه المسيح 395 بدعات اور بد رسومات ، یا عمر نہیں کہتے البتہ یا علی کہنے والے ان کے بھائی موجود ہیں یہ شرک ہے کہ ایک تخصیص بلا وجہ کی جاوے.جب خدا کے سوا کسی چیز کی محبت بڑھ جاتی ہے تو پھر انسان صُمٌ وبُكُمْ ہو جاتا ہے جو اسلام کے خلاف ہے.اسلام تو حید کے لئے آیا ہے جب تو حید کے خلاف چلے تو پھر مسلمان کیسا؟ تعجب کی بات ہے کہ جن لوگوں کو یہ خدا کا حصہ دار بناتے ہیں خودان کو بھی یہ مقام تو حید ہی کے ماننے سے ملا تھا.اگر وہ بھی ایسے "یا" کہنے والے ہوتے تو ان کو یہ مقام ہرگز نہ ملتا بلکہ انہوں نے خدائے تعالیٰ کی اطاعت اختیار کی تب یہ رتبہ ان کو ملا یہ لوگ شیعوں اور عیسائیوں کی طرح ایک قسم کا شرک کرتے ہیں.مولود خوانی ایک شخص نے مولود خوانی پر سوال کیا.فرمایا: الحکم 10 مارچ 1904 ءصفحہ 12 ) آنحضرت ﷺ کا تذکرہ بہت عمدہ ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ اولیاء اور انبیاء کی یاد سے رحمت نازل ہوتی ہے اور خود خدا نے بھی انبیاء کے تذکرہ کی ترغیب دی ہے لیکن اگر اس کے ساتھ ایسی بدعات مل جاویں جن سے توحید میں خلل واقع ہو تو وہ جائز نہیں.خدا کی شان خدا کے ساتھ اور نبی کی شان نبی کے ساتھ رکھو.آج کل کے مولودوں میں بدعت کے الفاظ زیادہ ہوتے ہیں اور وہ بدعات خدا کے منشاء کے خلاف ہیں.اگر بدعات نہ ہوں تو پھر تو وہ ایک وعظ ہے.آنحضرت ﷺ کی بعثت ، پیدائش اور وفات کا ذکر ہو تو موجب ثواب ہے.ہم مجاز نہیں ہیں کہ اپنی شریعت یا کتاب بنالیویں.بعض ملاں اس میں غلو کر کے کہتے ہیں کہ مولود خوانی حرام ہے.اگر حرام ہے تو پھر کس کی پیروی کرو گے؟ کیونکہ جس کا ذکر زیادہ ہو اس سے محبت بڑھتی ہے اور پیدا ہوتی ہے.مولود کے وقت کھڑا ہو نا جائز نہیں.ان اندھوں کو اس بات کا علم ہی کب ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی روح آگئی ہے بلکہ ان مجلسوں میں تو طرح طرح کے بدطینت اور بدمعاش
فقه المسيح 396 بدعات اور بد رسومات لوگ ہوتے ہیں وہاں آپ کی روح کیسے آسکتی ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ روح آتی ہے؟ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (بنی اسرائیل : 37) دونوں طرف کی رعایت رکھنی چاہیے.جب تک وہابی جو کہ آنحضرت ﷺ کی عظمت نہیں سمجھتا وہ بھی خدا سے دور ہے.انہوں نے بھی دین کو خراب کر دیا ہے.جب کسی نبی ، ولی کا ذکر آجاوے تو چلا اٹھتے ہیں کہ ان کو ہم پر کیا فضیلت ہے؟ انہوں نے انبیاء کے خوارق سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہا، دوسرے فرقے نے شرک اختیار کیا حتی کہ قبروں کو سجدہ کیا اور اس طرح اپنا ایمان ضائع کیا.ہم نہیں کہتے کہ انبیاء کی پرستش کرو بلکہ سوچو اور سمجھو.خدا تعالیٰ بارش بھیجتا ہے ہم تو اس پر قادر نہیں ہوتے مگر بارش کے بعد کیسی سرسبزی اور شادابی نظر آتی ہے.اسی طرح انبیاء کا وجود بھی بارش ہے.پھر دیکھو کہ کوڑی اور موتی دونوں دریا ہی سے نکلتے ہیں پتھر اور ہیرا بھی ایک ہی پہاڑ سے نکلتا ہے مگر سب کی قیمت الگ الگ ہوتی ہے اسی طرح خدا نے مختلف وجود بنائے ہیں.انبیاء کا وجود اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے اور خدا کی محبت سے بھرا ہوا.اس کو اپنے جیسا سمجھ لینا اس سے بڑھ کر اور کیا کفر ہو گا بلکہ خدا نے تو وعدہ کیا ہے کہ جو اُن سے محبت کرتا ہے وہ انہیں میں سے شمار ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ بہشت میں ایک ایسا مقام عطا ہوگا جس میں صرف میں ہی ہوں گا.ایک صحابی رو پڑا کہ حضور مجھے جو آپ سے محبت ہے میں کہاں ہوں گا ؟ آپ نے فرمایا تو بھی میرے ساتھ ہوگا.پس کچی محبت سے کام نکلتا ہے.ایک مشرک ہرگز کچی محبت نہیں رکھتا.میں نے جہاں تک دیکھا ہے.وہابیوں میں تیزی اور چالا کی ہوتی ہے.خاکساری اور انکساری تو ان کے نصیب نہیں ہوتی یہ ایک طرح سے مسلمانوں کے آریہ ہیں.وہ بھی الہام کے منکر ، یہ بھی منکر.جب تک انسان براہ راست یقین حاصل نہ کرے نقص کے رنگ میں ہرگز خدا تعالیٰ تک پہنچ نہیں سکتا جو شخص خدا تعالیٰ پر پورا ایمان رکھتا ہے ضرور ہے کہ اس
فقه المسيح 397 بدعات اور بد رسومات پر کچھ تو خدا کا رنگ آجاوے.دوسرے گروہ میں سوائے قبر پرستی اور پیر پرستی کے کچھ روح باقی نہیں ہے.قرآن کو چھوڑ دیا ہے.خدا نے امت وسط کہا تھا ، وسط سے مراد ہے میانہ رو اور وہ دونوں گروہ نے چھوڑ دیا.پھر خدا فرماتا ہے اِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي (ال عمران : 32) کیا آنحضرت ﷺ نے کبھی روٹیوں پر قرآن پڑھا تھا ؟ اگر آپ نے ایک روٹی پر پڑھا ہوتا تو ہم ہزار پر پڑھتے ہاں آنحضرت ﷺ نے خوش الحانی سے قرآن سنا تھا اور آپ اس پر روئے بھی تھے.جب یہ آیت آئی وَجِئْنَا بِكَ عَلى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا (النساء:42) آپ روئے اور فرمایا بس کر میں آگے نہیں سن سکتا.آپ کو اپنے گواہ گذرنے پر خیال گذرا ہوگا.ہمیں خود خواہش رہتی ہے کہ کوئی خوش الحان حافظ ہو تو قرآن سنیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کام کا نمونہ دکھلا دیا ہے وہ ہمیں کرنا چاہیے.بچے مومن کے واسطے کافی ہے کہ دیکھ لیوے کہ یہ کام آنحضرت ﷺ نے کیا ہے کہ نہیں.اگر نہیں کیا تو کرنے کا حکم دیا ہے کہ نہیں ؟ حضرت ابراہیم آپ کے جدا مجد تھے اور قابل تعظیم تھے کیا وجہ کہ آپ نے ان کا مولود نہ کروایا؟ ( البدر 27 مارچ 1903 ءصفحہ 74،73) گدی نشینوں کی بدعات فرمایا: یہ بات سمجھنے والی ہے کہ ہر ایک مسلمان کیوں مسلمان کہلاتا ہے.مسلمان وہی ہے جو کہتا ہے کہ اسلام بر حق ہے، حضرت محمد ﷺ نبی ہیں ، قرآن کتاب آسمانی ہے.اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں ان سے باہر نہ جاؤں گا.نہ عقیدہ میں نہ عبادت میں، نہ عمل درآمد میں.میری ہر ایک بات اور عمل اس کے اندر اندر ہی ہوگا.اب اس کے مقابل پر آپ انصاف سے دیکھیں کہ آج کل گدی والے اس ہدایت کے موافق کیا کچھ کرتے ہیں.اگر وہ خدا
فقه المسيح 398 بدعات اور بد رسومات کی کتاب پر عمل نہیں کرتے تو قیامت کو اس کا جواب کیا ہوگا کہ تم نے میری کتاب پر عمل نہ کیا.اس وقت طواف قبر، کنجریوں کے جلسے اور مختلف طریقے ذکر جن میں سے ایک ارہ کا ذکر بھی ہے ہوتے ہیں.لیکن ہمارا سوال ہے کہ کیا خدا بھول گیا تھا کہ اس نے یہ تمام باتیں کتاب میں نہ لکھ دیں.نہ رسول کو بتلائیں.جو رسول ﷺ کی عظمت جانتا ہے اسے ماننا پڑیگا کہ اللہ اور اس کے رسول کے فرمودہ کے باہر نہ جانا چاہیے.کتاب اللہ کے برخلاف جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب بدعت ہے اور سب بدعت فی النار ہے.اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجز اس قانون کے جو مقرر ہے ادھر اُدھر بالکل نہ جاوے کسی کا کیا حق ہے کہ بار بار ایک شریعت بناوے.بعض پیر زادے چوڑیاں پہنتے ہیں.مہندی لگاتے ہیں.لال کپڑے ہمیشہ رکھتے ہیں.سدا سہاگن ان کا نام ہوتا ہے.اب ان سے کوئی پوچھے کہ آنحضرت ﷺ تو مرد تھے.اس کو مرد سے عورت بنے کی کیا ضرورت پڑی؟ ہمارا اُصول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کتاب قرآن کے سوا اور طریق سنت کے سوا نہیں.کس شئے نے ان کو جرات دی ہے کہ اپنی طرف سے وہ ایسی باتیں گھڑ لیں.بجائے قرآن کے کافیاں پڑھتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا دل قرآن سے کھٹا ہوا ہوا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے جو میری کتاب پر چلنے والا ہو وہ ظلمت سے نور کی طرف آوے گا اور کتاب پر اگر نہیں چلتا تو شیطان اس کے ساتھ ہوگا.(البدر 13 مارچ 1903 صفحہ 59) سرود کی رسم مختلف گدی نشینوں کے حالات پر افسوس ہوتا رہا.جو سرود وغیرہ بدعات میں گرفتار ہیں.اس پر آپ نے فرمایا کہ: انسان میں ایک ملکہ احتظاظ کا ہوتا ہے کہ وہ سرود سے حظ اٹھاتا ہے اور اس کے نفس کو دھو کہ
فقه المسيح 399 بدعات اور بد رسومات لگتا ہے کہ میں اس مضمون سے سرور پا رہا ہوں ، مگر دراصل نفس کو صرف حظ درکار ہوتا ہے.خواہ اس میں شیطان کی تعریف ہو یا خدا کی.جب یہ لوگ اس میں گرفتار ہو کر فنا ہو جاتے ہیں.تو ان کے واسطے شیطان کی تعریف یا خدا کی.سب برابر ہو جاتے ہیں.فقراء کے نت نئے طور طریقے فرمایا:.( بدر 19 مارچ 1908 صفحہ 6،5) میں تعجب کرتا ہوں کہ آج کل بہت لوگ فقیر بنتے ہیں مگر سوائے نفس پرستی کے اور کوئی غرض اپنے اندر نہیں رکھتے.اصل دین سے بالکل الگ ہیں جس دُنیا کے پیچھے عوام لگے ہوئے ہیں اسی دُنیا کے پیچھے وہ بھی خراب ہو رہے ہیں.توجہ اور دم کشی اور منتر جنتر اور دیگر ایسے امور کو اپنی عبادت میں شامل کرتے ہیں جن کا عبادت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ صرف دنیا پرستی کی باتیں ہیں اور ایک ہندو کافر اور ایک مشرک عیسائی بھی ان ریاضتوں اور ان کی مشق میں ان کے ساتھ شامل ہو سکتا بلکہ اُن سے بڑھ سکتا ہے اصلی فقیر تو وہ ہے جو دنیا کی اغراض فاسدہ سے بالکل الگ ہو جائے اور اپنے واسطے ایک تلخ زندگی قبول کرے تب اس کو حالت عرفان حاصل ہوتی ہے اور وہ ایک قوت ایمانی کو پاتا ہے.آج کل کے پیرزادے اور سجادہ نشین نماز جو اعلیٰ عبادت ہے اس کی یا تو پرواہ نہیں کرتے یا ایسی طرح جلدی جلدی ادا کرتے ہیں جیسے کہ کوئی بیگار کاٹنی ہوتی ہے اور اپنے اوقات کو خود تراشیدہ عبادتوں میں لگاتے ہیں جو خدا اور رسول نے نہیں فرمائیں.ایک ذکر اڑہ بنایا ہوا ہے جس سے انسان کے پھیپھڑے کو سخت نقصان پہنچتا ہے.بعض آدمی ایسی مشقتوں سے دیوانے ہو جاتے ہیں اور بعض مر ہی جاتے ہیں.جو دیوانے ہو جاتے ہیں ان کو جاہل لوگ ولی سمجھنے لگ جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اپنی رضا مندی کی جو راہیں خود ہی مقرر فرما دی ہیں وہ کچھ کم نہیں.خدا تعالیٰ ان
فقه المسيح 400 بدعات اور بد رسومات باتوں سے راضی ہوتا ہے کہ انسان عفت اور پر ہیز گاری اختیا ر کرے.صدق وصفا کے ساتھ اپنے خدا کی طرف جھکے.دنیوی کدورتوں سے الگ ہو کر تبتل الی اللہ اختیار کرے.خدا تعالیٰ کوسب چیزوں پر اختیار کرے.خشوع کے ساتھ نماز ادا کرے.نماز انسان کو منزہ بنا دیتی ہے.نماز کے علاوہ اُٹھتے بیٹھتے اپنا دھیان خدا تعالیٰ کی طرف رکھے یہی اصل مدعا ہے جس کو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کی تعریف میں فرمایا ہے کہ وہ اُٹھتے بیٹھتے خدا تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں.اور اس کی قدرتوں میں فکر کرتے ہیں.ذکر اور فکر ہر دو عبادت میں شامل ہیں.فکر کے ساتھ شکر گذاری کا مادہ بڑھتا ہے.انسان سوچے اور غور کرے کہ زمین اور آسمان ، ہوا اور بادل، سورج اور چاند ، ستارے اور سیارے.سب انسان کے فائدے کے واسطے خدا تعالیٰ نے بنائے ہیں.فکر معرفت کو بڑھاتا ہے.غرض ہر وقت خدا کی یاد میں اس کے نیک بندے مصروف رہتے ہیں.اسی پر کسی نے کہا ہے کہ جو دم غافل سو دم کا فر.آج کل کے لوگوں میں صبر نہیں.جو اس طرف جھکتے ہیں وہ ابھی ایسے مستعجل ہوتے ہیں کہ چاہتے ہیں کہ پھونک مار کر ایک دم میں سب کچھ بنا دیا جائے اور قرآن شریف کی طرف دھیان نہیں کرتے کہ اس میں لکھا ہے کہ کوشش اور محنت کرنے والوں کو ہدایت کا راستہ ملتا ہے.خدا تعالیٰ کے ساتھ تمام تعلق مجاہدہ پر موقوف ہے.جب انسان پوری توجہ کیسا تھ دُعا میں مصروف ہوتا ہے تو اس میں اس کے دل میں رقت پیدا ہوتی ہے اور وہ آستانہ الہی پر آگے سے آگے بڑھتا ہے تب وہ فرشتوں کے ساتھ مصافحہ کرتا ہے.ہمارے فقراء نے بہت سی بدعتیں اپنے اندر داخل کر لی ہیں.بعض نے ہندوؤں کے منتر بھی یاد کئے ہوئے ہیں اور ان کو بھی مقدس خیال کیا جاتا ہے.ہمارے بھائی صاحب کو ورزش کا شوق تھا.اُن کے پاس ایک پہلوان آیا تھا.جاتے ہوئے اُس نے ہمارے بھائی صاحب کو الگ لیجا کر کہا کہ میں ایک عجیب تحفہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جو بہت ہی قیمتی ہے.یہ کہہ کر اُس
فقه المسيح 401 بدعات اور بد رسومات نے ایک منتر پڑھ کر اُن کو سنایا اور کہا کہ یہ منتر ایسا پُر تاثیر ہے کہ اگر ایک دفعہ صبح کے وقت اس کو پڑھ لیا جاوے تو پھر سارا دن نہ نماز کی ضرورت باقی رہتی ہے اور نہ وضو کی ضرورت.ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے کلام کی بہتک کرتے ہیں.وہ پاک کلام جس میں هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة : 3) کا وعدہ دیا گیا ہے خود اسی کو چھوڑ کر دوسری طرف بھٹکتے پھرتے ہیں.انسان کے ایمان میں ترقی تب ہی ہوسکتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فرمودہ پر چلے اور خدا پر اپنے تو کل کو قائم کرے.ایک دفعہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو دیکھا کہ وہ کھجوریں جمع کرتا تھا.آپ نے فرمایا کہ کس لیے ایسا کرتا ہے.اس نے کہا کہ کل کے لیے جمع کرتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ کیا تو کل کے خدا پر ایمان نہیں رکھتا ؟ لیکن یہ بات بلال کو فرمائی ہر کسی کو نہیں فرمائی اور ہر ایک کو وعظ اور نصیحت اس کی برداشت کے مطابق کیا جاتا ہے.بہترین ریاضت ( بدر یکم اگست 1907ء صفحہ 3) ایک شخص نے عرض کی کہ میں پہلے فقراء کے پاس پھرتا رہا اور کئی طرح کی مشکل ریاضتیں انہوں نے مجھ سے کرائیں.اب میں نے آپ کی بیعت کی ہے تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟ فرمایا: نئے سرے سے قرآن شریف کو پڑھو اور اس کے معانی پر خوب غور کرو.نماز کو دل لگا کر پڑھو اور احکام شریعت پر عمل کرو.انسان کا کام یہی ہے.آگے پھر خدا کے کام شروع ہو جاتے ہیں.جو شخص عاجزی سے خدا تعالیٰ کی رضا کو طلب کرتا ہے خدا تعالیٰ اس پر راضی ہوتا ہے.آج کل کے پیر فرمایا: ( بدر یکم اگست 1907 صفحہ 3) آج کل کے پیرا کثر فاحشہ عورتوں کو مرید بناتے ہیں.بعض ہندوؤں کے پیر ہوتے ہیں.ایسے لوگ اپنی بدکاریوں پر اور اپنے کفر پر برابر قائم رہتے ہیں.صرف پیر کو چندہ دے کر وہ مرید
فقه المسيح 402 بدعات اور بد رسومات بن سکتے ہیں.اعمال خواہ کیسے ہی ہوں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا.اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابو جہل کو بھی مرید بنا سکتے تھے وہ اپنے بچوں کی پرستش بھی کرتا رہتا اور اس قد رلڑائی جھگڑے کی ضرورت نہ پڑتی مگر یہ باتیں بالکل گناہ ہیں.جھنڈ یا بودی رکھنا (بدر یکم اگست 1907 ، صفحہ 3) سوال پیش ہوا کہ کسی بزرگ کے نام پر جو چھوٹے بچوں کے سر پر جھنڈ یعنی بودی رکھی جاتی ہے اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا نا جائز ہے ایسا نہیں کرنا چاہیئے“ ( بدر 14 مارچ 1907 صفحہ 5) میت کے نام پر قبرستان میں کھانا تقسیم کرنا ایک شخص نے سوال کیا کہ میت کے ساتھ جولوگ روٹیاں پکا کر یا اور کوئی شے لے کر با ہر قبرستان میں لے جاتے ہیں اور میت کو دفن کرنے کے بعد مساکین میں تقسیم کرتے ہیں اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا: سب با تیں نیت پر موقوف ہیں.اگر یہ نیت ہو کہ اس جگہ مساکین جمع ہو جایا کرتے ہیں اور مردے کو صدقہ پہنچ سکتا ہے.ادھر وہ دفن ہوا دھر مساکین کو صدقہ دے دیا جاوے تا کہ اس کے حق میں مفید ہو اور وہ بخشا جاوے تو یہ ایک عمدہ بات ہے لیکن اگر صرف رسم کے طور پر یہ کام کیا جاوے تو جائز نہیں ہے کیونکہ اس کا ثواب نہ مردے کے لئے اور نہ دینے والوں کے واسطے اس میں کچھ فائدے کی بات ہے.( بدر 16 فروری 1906 ، صفحہ 2)
فقه المسيح 403 بدعات اور بد رسومات محرم پر تابوت بنانا اور اس میں شامل ہونا سوال پیش ہوا کہ محترم میں جو لوگ تابوت بناتے ہیں اور محفل کرتے ہیں اس میں شامل ہونا کیسا ہے؟ فرمایا: دو گناہ ہے.“ ( بدر 14 مارچ 1907 ء صفحہ 5) دسویں محرم کو شربت اور چاول کی تقسیم قاضی ظہور الدین صاحب اکمل نے سوال کیا کہ محرم دسویں کو جو شربت و چاول وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اگر یہ اللہ بہ نیت ایصال ثواب ہو تو اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: ایسے کاموں کے لیے دن اور وقت مقرر کر دینا ایک رسم و بدعت ہے اور آہستہ آہستہ ایسی رسمیں شرک کی طرف لے جاتی ہیں.پس اس سے پر ہیز کرنا چاہئے کیوں کہ ایسی رسموں کا انجام اچھا نہیں.ابتدا میں اسی خیال سے ہو مگر اب تو اس نے شرک اور غیر اللہ کے نام کا رنگ اختیار کرلیا ہے اس لیے ہم اسے ناجائز قرار دیتے ہیں.جب تک ایسی رسوم کا قلع قمع نہ ہو عقائد باطلہ دور نہیں ہوتے.ذکر اڈہ کرنا کیسا ہے؟ ( بدر 14 مارچ 1907 ء صفحہ 5) ایک شخص نے سوال کیا کہ یہ جو صوفیوں نے بنایا ہوا ہے کہ توجہ کے واسطے اس طرح بیٹھنا چاہیے اور پھر اس طرح دل پر چوٹ لگانی چاہیے اور ذکر اڑ ہ اور دیگر اس قسم کی کتابیں.کیا یہ جائز ہیں ؟ فرمایا: یہ جائز نہیں ہیں بلکہ سب بدعات ہیں حَسْبُنَا كَتَابُ اللہ ہمارے واسطے اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب قرآن شریف کافی ہے.اللہ تعالیٰ کی کتاب سلوک کے واسطے کافی ہے جو باتیں اب ان لوگوں نے نکالی ہیں یہ باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ میں ہرگز نہ تھیں.
فقه المسيح 404 بدعات اور بد رسومات یہ صرف ان لوگوں کا اختراع ہے اور اس سے بچنا چاہیئے.ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبة : 119) صادق کی صحبت میں رہو تو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سے امور میں مشکلات آسان ہو جاتے ہیں.شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمتہ بڑے خدا رسیدہ اور بڑے قبولیت والے انسان تھے.انہوں نے لکھا ہے کہ جس نے خدا تعالیٰ کا راہ دیکھنا ہو وہ قرآن شریف کو پڑھے.اب اگر ہم آنحضرت ﷺ کے فرمودہ طریق پر کچھ بڑھا ئیں اور نئی باتیں ایجاد کریں یا اس کے برخلاف چلیں تو یہ کفر ہو گا.اس زمانہ میں جیسا کہ علماء کے درمیان بہت سے فرقے بن گئے ہیں.ایسا ہی فقراء کے درمیان بھی بہت سے فرقے بن گئے ہیں اور سب اپنی اپنی باتیں نئی طرز کی نکالتے ہیں.تمام زمانہ کا یہ حال ہورہا ہے کہ ہر جگہ اصلاح کی ضرورت ہے.اسی واسطے خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں وہ مجدد بھیجا ہے جس کا نام مسیح موعود رکھا گیا ہے اور جس کا انتظار مدت سے ہور ہا تھا اور تمام نبیوں نے اس کے متعلق پیشگوئیاں کی تھیں اور اس سے پہلے زمانہ کے بزرگ خواہش رکھتے تھے کہ وہ اس کے وقت کو پائیں.تسبیح کا استعمال کیسا ہے؟ ( بدر 15 نومبر 1906 صفحہ 5) ایک شخص نے ذکر کیا کہ مخالف کہتے ہیں کہ یہ لوگ نمازیں تو پڑھتے ہیں لیکن تسبیحیں نہیں رکھتے.فرمایا: صحابہ کے درمیان کہاں تسبیحیں ہوتی تھیں.یہ تو ان لوگوں نے بعد میں باتیں بنائی ہیں.ایک شخص کا ذکر ہے کہ وہ لمبی تسبیح ہاتھ میں رکھا کرتا تھا اور کوچہ میں سے گذر رہا تھا.راستہ میں ایک بڑھیا نے دیکھا کہ خدا کا نام تیج پر گن رہا ہے.اس نے کہا کہ کیا کوئی دوست کا نام گن کر لیتا ہے.اس نے اسی جگہ تسبیح پھینک دی.اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے حساب ہیں ان کو کون گن سکتا ہے.بدر 22 مارچ 1906 ء صفحہ 2)
فقه المسيح 405 بدعات اور بد رسومات ایک شخص نے پوچھا کہ تسبیح کرنے کے متعلق حضور کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا: تسبیح کرنے والے کا اصل مقصود گنتی ہوتا ہے اور وہ اس گنتی کو پورا کرنا چاہتا ہے.اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ یا تو وہ گنتی پوری کرے اور یا توجہ کرے اور یہ صاف بات ہے کہ گنتی کو پوری کرنے کی فکر کرنے والا سچی توبہ کر ہی نہیں سکتا.انبیاء علیہم السلام اور کاملین لوگ جن کو اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذوق ہوتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے عشق میں فنا شدہ ہوتے ہیں انھوں نے گنتی نہیں کی اور نہ اس کی ضرورت سمجھی.اہل حق تو ہر وقت خدا تعالیٰ کو یاد کرتے رہتے ہیں.ان کے لیے گنتی کا سوال اور خیال ہی بیہودہ ہے.کیا کوئی اپنے محبوب کا نام گن کر لیا کرتا ہے؟ اگر سچی محبت اللہ تعالیٰ سے ہو اور پوری توجہ الی اللہ ہو تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ پھر گنتی کا خیال پیدا ہی کیوں ہوگا.وہ تو اسی ذکر کو اپنی روح کی غذا سمجھے گا اور جس قدر کثرت سے کرے گا.زیادہ لطف اور ذوق محسوس کرے گا اور اس میں اور ترقی کرے گا.لیکن اگر محض گنتی مقصود ہوگی تو وہ اسے ایک بیگار سمجھ کر پورا کرنا چاہے گا.(الحکم 10 جون 1904 صفحہ 3) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ ایک دفعہ کوئی شخص حضرت صاحب کے لئے ایک تسبیح تحفہ لایا.وہ تہی آپ نے مجھے دے دی اور فرمایا : لو اس پر درود شریف پڑھا کرو.وہ تسبیح بہت خوبصورت تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ تسبیح کے استعمال کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر پسند نہیں فرماتے تھے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 166) سورہ فاتحہ کے تعویذ کی برکت حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں: حضرت اقدس کبھی تعویذ آج کل کے درویشوں فقیروں مولویوں کی طرح سے نہیں لکھتے تھے
فقه المسيح 406 بدعات اور بد رسومات پانچ چار دفعہ آپ کو تعویذ لکھنے کا کام پڑا ہے اور وہ یوں پڑا ہے کہ خلیفہ نورالدین صاحب ساکن جموں کے اولاد نہیں ہوتی تھی.انہوں نے اولاد کے بارہ میں دعا کرائی.آپ نے فرمایا ہاں ہم دعا کریں گے خلیفہ صاحب نے عرض کی کہ ایک تعویذ مرحمت ہو جائے.فرمایا لکھ دیں گے پھر ایک دفعہ عرض کی.فرمایا ہاں یاد دلا دینا لکھ دیں گے.اب خلیفہ صاحب نے ادب سے تعویذ کے لئے خود عرض کرنا مناسب نہ جانا اور جناب حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ چھوٹے سے تھے ان سے کہا کہ تم تعویذ حضرت اقدس سے لا دو.ان کو حضرت اقدس علیہ السلام کے پیچھے لگا دیا.یہ جب جاتے تو کہتے ابا خلیفہ جی کے واسطے تعویذ لکھ دو.دو چار دفعہ تو ٹالا لیکن یہ پیچھے لگ گئے.ایک دن انہوں نے کہا ابا تعویذ لکھ دو.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ہمیں تو تعویذ لکھنا نہیں آتا محمود کو جس بات کی ضد پڑ جاتی ہے مانتا نہیں تعویذ لکھ کر دے دیا.آپ نے معہ بسم اللہ تمام الحمد للہ لکھ کر تعویذ محمود احمد صاحب کو دے دیا یہ لے کر خلیفہ جی کو دے آئے.بس تعویذ کا باندھنا تھا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہ طفیل دعائے مسیح ان کی بیوی حاملہ ہوئی اور لڑکا پیدا ہوا.ایک شخص کا حیدر آباد کی طرف سے خط آیا اور وہ غیر احمدی تھا لکھا کہ ایک تعویذ اپنے دست مبارک سے لکھ کر مجھے بھیج دو.حضرت اقدس نے مجھے فرمایا صاحبزادہ صاحب ہمیں تو تعویذ لکھنا نہیں آتا.لا ؤ الحمد شریف لکھ دیں.اس میں ساری برکتیں ہیں.آپ نے الحمد لکھ کر مجھ کو دے دی اور فر ما یا خط میں بھیج دو.ایک شخص کا خط مارواڑ سے آیا اور لکھا کہ ہمارے گھر میں آگ لگ جاتی ہے اور خود بخو دلگ جاتی ہے اور طرح طرح کی ہیبت ناک آوازیں آتی ہیں اور ہمارے بال بچے اکثر اور ہم بھی بیمار رہتے ہیں.کوئی تعویذ اپنے ہاتھ سے لکھ کر مرحمت فرمائیے تا کہ اس آسیب سے کوئی جن ہے یا خبیث ہے نجات ملے.فرمایا تم ہی کچھ لکھ دو.ہم آسیب واسیب کچھ نہیں جانتے.میں نے
فقه المسيح 407 بدعات اور بد رسومات حضرت اقدس علیہ السلام کے کہنے کے مطابق یہ لکھ دیا کہ مکان کے چاروں کونوں میں رات کو ہر روز اذان کہہ دیا کرو.پھر میں نے یہ خط حضرت اقدس علیہ السلام کو دکھایا.فرمایا بہتر ہے یہ خط بھیج دو.دو تین ہفتہ کے بعد اس کا خط آیا کہ اب آگ بھی نہیں لگتی اور خواب پریشان بھی نہیں آتے اور خدا تعالیٰ نے ہم سب کو تندرست کر دیا.پھر میں نے تعویذ کے لئے عرض کیا تو فرمایا: ہاں لکھ دیں گے پھر ایک روز الحمد لکھ دی اور فرمایا: بھیج دو.قادیان کی بعض عورتیں اور گاؤں کی عورتیں آجاتیں کہ مرزا جی ہمیں اپنے ہاتھ کا تعویذ دو.آپ فرما دیتے صاحب زادہ صاحب کے پاس جاؤ.وہ تعویذ لکھ دیں گے تم جانتی ہو کہ صاحبزادہ صاحب کون ہیں.وہ لمبے قد والے پیر صاحب ، وہ کہہ دیتی کہ ہاں ہم جانتے ہیں قادیان اور نواح قادیان میں سب مرد و عورت مجھ سے واقف ہیں.کوئی پیر صاحب کوئی بڑا پیر کہتے تھے.پھر وہ عورتیں میرے پاس آتیں اور کہتیں کہ مرزا صاحب نے آپ کے پاس بھیجا ہے.تعویذ لکھ دو.میں بھی حضرت اقدس علیہ السلام کے دیکھا دیکھی الحمد شریف ہی لکھ دیا کرتا تھا.تعویذ گنڈوں کے فوائد تصوراتی ہیں ( تذكرة المهدی صفحہ 184-186) ایک صاحب نے گنڈے تعویذات کی تاثیرات کی نسبت استفسار کیا.اس پر فرمایا: ان کا اثر ہونا تو ایک دعوی بلا دلیل ہے.اس قسم کے علاج تصورات کے مد میں آجاتے ہیں کیونکہ تصورات کو انسان پر اثر اندازی میں بڑا اثر ہے.اس سے ایک کو ہنسا دیتے ہیں ،ایک کو رُلا دیتے ہیں اور کئی چیزیں جو کہ واقعی طور پر موجود نہ ہوں ، دوسروں کو دکھلا دیتے ہیں اور بعض امراض کا علاج ہوتا ہے.اکثر اوقات تعویذوں سے فائدہ بھی نہیں ہوتا.تو آخر تعویذ دینے والے کو کہنا پڑتا ہے کہ اب میری پیش نہیں چلتی.البدر 21 اگست 1903 صفحه (242)
فقه المسيح 408 بدعات اور بد رسومات دلائل الخیرات کا ورد ایک روز ایک شخص نے سوال کیا کہ دلائل الخیرات کا درد اور پڑھنا کیسا ہے؟ فرمایا: دلائل الخیرات میں جتنا وقت خرچ ہو.اگر نماز اور قرآن شریف کی تلاوت میں خرچ ہو تو کتنا فائدہ ہوتا ہے.یہ کتابیں قرآن شریف اور نماز سے روک دیتی ہیں.یہ خدا تعالیٰ کا کلام اور حکم ہے اور انسانوں کا بناوٹی وظیفہ ہے.فرمایا قرآن شریف کی آیتوں اور سورتوں کا بھی لوگ وظیفہ کرتے ہیں اور یہ بدعت ہے اور نا سمجھی سے ایسا کرتے ہیں.قرآن شریف وظیفہ کے لئے نہیں ہے.یہ عمل کرنے کے لئے اور اخلاق کو درست کرنے کے لئے ہے.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو تیج ہاتھ میں دے کر حجروں میں بٹھا دیتے تو دین ہم تک کب تک پہنچتا.وہاں تو تلوار تھی اور جہاد تھا اور آپ بار بار فرماتے تھے کہ الْجَنَّةُ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ یعنی جنت تلواروں کے سایہ میں ہے.ہمارا زمانہ بھی منہاج نبوت کا زمانہ اور ہمارا طریق بھی منہاج نبوت کا طریق ہے.اب لوگوں کو چاہئے کہ حجروں میں آگ لگا دیں.تسبیح ہاتھ سے پھینک دیں.رنگے کپڑوں کو جلا کر راکھ کر دیں اور جہاد کے لئے اور دین کی حمایت کے لئے مال سے، جان سے، ہاتھ سے، جس طرح سے ہو سکے کریں.جب جہاد سیفی جہا د تھا اور اب جہاد لسانی وقالمی ہے.جہاد جب بھی تھا اور اب بھی ہے لیکن صورت جہاد بدل گئی ہے.مومن کبھی قشر پر راضی نہیں ہوتا ، وہ مغز چاہتا ہے.لفظ پرستی کفر ہے، نرے لفظوں کے پڑھنے سے کچھ نہیں ہوتا.اس پر عمل کرنے سے اس کے مطابق چلنے سے کام چلتا ہے.(تذکرۃ المہدی صفحہ 183-184) پا با تجھے شاہ کی کافیاں حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں : پادری عماد الدین کی کتاب تو زین الا قوال کا ذکر حضور کی مجلس میں ہورہا تھا.) میں نے عرض کیا کہ حضرت! اسی کتاب میں عمادالدین نے لکھا ہے کہ مسلمانوں میں کوئی ولی نہیں ہوا.
فقه المسيح 409 بدعات اور بد رسومات ہاں ایک شخص کو سنا ہے کہ بلھے شاہ قصور میں ہوا ہے.اس کی کافیاں سُننے اور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کو کوئی چیز نہیں سمجھتا ہے اور بُرے لفظوں سے یاد کرتا ہے اور شراب اور اباحت کو پسند کرتا ہے اور اسلام کی جابجا کافیوں میں توہین کرتا ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا: ایسے ہی لوگوں نے اسلام کو بدنام کیا ہے.یہ لوگ در حقیقت تنگ اسلام اور عارایمان ہیں.ایسے لوگوں کا وجود بد نام کننده صلحاء ہے.مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے عبرت پکڑ نی چاہئے کہ نہ ایسے لوگ ہوتے اور نہ اسلام پر دھبہ لگتا.اگر چہ اسلام تو ایسا منور ہے کہ اس پر کسی قسم کا داغ دھبہ نہیں لگ سکتا لیکن ایسے لوگوں سے بجائے نفع کے نقصان پہنچا اور جن کے دلوں میں زیغ اور کچھی ہے وہ ایسی ایسی باتیں پیش کر دیتے ہیں اور عمدہ پاک لوگوں کو چھوڑ کر ایسے بیہودہ لوگ چھانٹ لیتے ہیں ورنہ اسلام نے تو اپنی پاک تاثیرات سے ہزار در ہزار اور کروڑ در کروڑ انسانوں کو اس درجہ پر پہنچا دیا کہ وہ درجہ مسیح کو بھی حاصل نہیں ہوا.( تذكرة المهدی صفحه 45-46) بسم اللہ کی رسم ایک شخص نے بذریعہ تحریر عرض کی کہ ہمارے ہاں رسم ہے کہ جب بچے کو بسم اللہ کرائی جاوے تو بچے کو تعلیم دینے والے مولوی کو ایک عدد سختی چاندی یا سونے کی اور قلم و دوات چاندی یا سونے کی دیجاتی ہے.اگر چہ میں ایک غریب آدمی ہوں مگر چاہتا ہوں کہ یہ اشیاء اپنے بچے کی بسم اللہ پر آپ کی خدمت میں ارسال کروں.حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا: سختی اور قلم و دوات سونے یا چاندی کی دینا یہ سب بدعتیں ہیں ان سے پر ہیز کرنا چاہیے اور با وجود غربت کے اور کم جائیداد ہونے کے اس قد را سراف اختیار کرنا سخت گناہ ہے.(بدر 5 ستمبر 1907 ء صفحہ 3)
فقه المسيح 410 بدعات اور بد رسومات کلام پڑھ کر پھونکنا ایک دوست نے سوال کیا کہ مجھے قرآن شریف کی کوئی آیت بتلائی جاوے کہ میں پڑھ کر اپنے بیمار کو دم کروں تا کہ اس کو شفا ہو.حضرت نے فرمایا:.بے شک قرآن شریف میں شفا ہے.روحانی اور جسمانی بیماریوں کا وہ علاج ہے مگر اس طرح کے کلام پڑھنے میں لوگوں کو ابتلاء ہے.قرآن شریف کو تم اس امتحان میں نہ ڈالو.خدا تعالیٰ سے اپنے بیمار کے واسطے دعا کرو.تمہارے واسطے یہی کافی ہے.کشف قبور کا دعوی بے ہودہ بات ہے فرمایا: ( بدر 25 اکتوبر 1906 صفحه 4) یہ لوگ جو کشف قبور لئے پھرتے ہیں یہ سب جھوٹ ، لغو اور بے ہودہ بات ہے اور شرک ہے.ہم نے سنا ہے کہ اس طرف ایک شخص پھرتا ہے اور اس کو بڑا دعوی کشف قبور کا ہے.اگر اس کا علم سچا ہے تو چاہیے کہ وہ ہمارے پاس آئے اور ہم اس کو ایسی قبروں پر لے جائیں گے جن سے ہم خوب واقف ہیں، مگر یہ سب بے ہودہ باتیں ہیں اور ان کے پیچھے پڑنا وقت کو ضائع کرنا ہے.سعید آدمی کو چاہیے کہ ایسے خیالات میں اپنے اوقات کو خراب نہ کرے اور اس طریق کو اختیار کرے جو اللہ اور اس کے رسول اور اس کے صحابہ نے اختیار کیا.خود ساخته وظائف واذکار ( بدر 19 مارچ 1908 ء صفحہ 5) بڑے بڑے صوفیوں ، سجادہ نشینوں نے اپنا کمال اس میں سمجھ رکھا ہے کہ بڑے لمبے چوڑے وظائف اور اذ کا رو اشغال خود ہی تجویز کر لیے ہیں.اور اُن میں پڑ کر اصل کو بھی کھو بیٹھے ہیں.پھر بڑے سے بڑا کام کیا تو یہ کر لیا کہ چلہ کرتے ہیں.کچھ جو ساتھ لے
فقه المسيح 411 بدعات اور بد رسومات جاتے ہیں.ایک آدمی مقرر کر لیتے ہیں جو ہر روز دودھ یا کوئی اور چیز پہنچا آتا ہے.ایک تنگ و تاریک گندی سی کوٹھڑی یا غار ہوتی ہے اور اس میں پڑے رہتے ہیں.خدا جانے وہ اس میں کس طرح رہتے ہیں.پھر بُری بُری حالتوں میں باہر نکلتے ہیں.یہ اسلام رہ گیا ہے.میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان چلہ کشیوں سے اسلام اور مسلمانوں یا عام لوگوں کو کیا فائدہ پہنچتا ہے اور اس میں اخلاق میں کیا ترقی ہوتی ہے.(احکم 9 جولائی 1900 صفحہ 4) فرمایا: میں جانتا ہوں کہ جن لوگوں نے ان ارکان کو چھوڑ کر اور بدعتیں تراشی ہیں یہ اُن کی اپنی شامت اعمال ہے ورنہ قرآن شریف تو کہہ چکا تھا الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المائدة : 4) اکمال دین ہو چکا تھا اور اتمام نعمت بھی ، خدا کے حضور پسندیدہ دین اسلام ٹھہر چکا تھا.اب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال خیر کی راہ چھوڑ کر اپنے طریقے ایجاد کرنا اور قرآن شریف کی بجاۓ اور وظائف اور کافیاں پڑھنایا اعمال صالحہ کی بجائے قسم قسم کے ذکر اذکار نکال لینا یہ لذت روح کے لیے نہیں ہے بلکہ لذت نفس کی خاطر ہے.لوگوں نے لذت نفس اور لذت روح میں فرق نہیں کیا اور دونوں کو ایک ہی چیز قرار دیا ہے حالانکہ وہ دو مختلف چیزیں ہیں.اگر لذت نفس اور لذت روح ایک ہی چیز ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ ایک بد کا رعورت کے گانے سے بدمعاشوں کو زیادہ لذت آتی ہے.کیا وہ اس لذت نفس کی وجہ سے عارف باللہ اور کامل انسان مانے جائیں گے.ہرگز نہیں جن لوگوں نے خلاف شرع اور خلاف پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم راہیں نکالی ہیں ان کو یہی دھوکا لگا ہے کہ وہ نفس اور روح کی لذت میں کوئی فرق نہیں کر سکے ور نہ وہ ان بیہودگیوں میں روح کی لذت اور اطمینان نہ پاتے.ان میں نفس مطمئنہ نہیں ہے جو بلھے شاہ کی کا فیوں میں لذت کے جو یاں ہیں روح کی لذت قرآن شریف سے آتی ہے.- (الحام 31 جولائی 1902 ء صفحہ 8)
فقه المسيح نیز فرمایا: 412 بدعات اور بد رسومات ان لوگوں نے ) اپنی شامت اعمال کو نہیں سوچا اُن اعمال خیر کو جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تھے ، ترک کر دیا اور ان کی بجائے خود تراشیدہ درود و وظائف داخل کر لیے اور چند کا فیوں کا حفظ کر لینا کافی سمجھا گیا.بلھے شاہ کی کافیوں پر وجد میں آ جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کے قرآن شریف کا جہاں وعظ ہو رہا ہو وہاں بہت ہی کم لوگ جمع ہوتے ہیں لیکن جہاں اس قسم کے مجمعے ہوں وہاں ایک گروہ کثیر جمع ہو جاتا ہے.نیکیوں کی طرف سے یہ کم رغبتی اور نفسانی اور شہوانی امور کی طرف توجہ صاف ظاہر کرتی ہے کہ لذت روح اور لذت نفس میں ان لوگوں نے کوئی فرق نہیں سمجھا.دیکھا گیا ہے کہ بعض ان رقص و سرود کی مجلسوں میں دانستہ پگڑیاں اُتار لیتے ہیں اور کہ دیتے ہیں کہ میاں صاحب کی مجلس میں بیٹھتے ہی وجد ہو جاتا ہے.اس قسم کی بدعتیں اور اختراعی مسائل پیدا ہو گئے ہیں اصل بات یہ کہ جنہوں نے نماز سے لذت نہیں اُٹھائی اور اس ذوق سے محروم ہیں.وہ روح کی تسلی اور اطمینان کی حالت ہی کو نہیں سمجھ سکتے اور نہیں جانتے کہ وہ سرور کیا ہوتا ہے.مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ جو اس قسم کی بدعتیں مسلمان کہلا کر نکالتے ہیں.اگر روح کی خوشی اور لذت کا سامان اس میں تھا تو چاہیے تھا کہ پیغمبر خدا ہے جو عارف ترین اور اکمل ترین انسان دنیا میں تھے ، وہ بھی اس قسم کی کوئی تعلیم دیتے یا اپنے اعمال سے ہی کچھ کر دکھاتے.میں ان مخالفوں سے جو بڑے بڑے مشائخ اور گدی نشین اور صاحب سلسلہ ہیں پوچھتا ہوں کہ کیا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے درود، وظائف اور چلہ کشیاں، اُلٹے سیدھے لٹکنا بھول گئے تھے ؟ اگر معرفت اور حقیقت شناسی کا یہی ذریعہ اصل تھے.مجھے بہت ہی تعجب آتا ہے کہ ایک طرف قرآن شریف میں یہ پڑھتے ہیں اَليَومَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المائدة :4) اور دوسری طرف اپنی ایجا دوں اور بدعتوں سے اس تکمیل کو تو ڑ کر ناقص
فقه المسيح 413 بدعات اور بد رسومات ثابت کرنا چاہتے ہیں.ایک طرف تو یہ ظالم طبع لوگ مجھ پر افترا کرتے ہیں کہ گویا میں ایسی مستقل نبوت کا دعوی کرتا ہوں جو صاحب شریعت نبی علیہ کے سوا الگ نبوت ہے ، مگر دوسری طرف یہ اپنے اعمال کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں کرتے کہ جھوٹی نبوت کا دعویٰ تو خود کر رہے ہیں.جب کہ خلاف رسول اور خلاف قرآن ایک نئی شریعت قائم کرتے ہیں.اب اگر کسی کے دل میں انصاف اور خدا کا خوف ہے تو کوئی مجھے بتائے کہ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم اور عمل پر کچھ اضافہ یا کم کرتے ہیں جب کہ اسی قرآن شریف کے بموجب ہم تعلیم دیتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اپنا امام اور حکم مانتے ہیں کیا اڑہ کا ذکر میں نے بتایا ہے اور پاس انفاس اور نفی و اثبات کے ذکر اور کیا کیا میں سکھاتا ہوں پھر جھوٹی اور مستقل نبوت کا دعوی تو یہ لوگ خود کرتے ہیں اور الزام مجھے دیتے ہیں.تصور شیخ (الحکم 10 اگست 1902 ء صفحہ 5) سوال: جو تصور شیخ کرتے ہیں وہ کہتے ہیں ہم شیخ کو خدا نہیں سمجھتے.جواب: مانا کہ وہ ایسا کہتے ہیں مگر بت پرستی تو شروع ہی تصور سے ہوتی ہے.بُت پرست بھی بڑھتے بڑھتے ہی اس درجہ تک پہنچا ہے.پہلے تصور ہی ہوگا.پھر یہ سمجھ لیا کہ تصور قائم رکھنے کے لئے بہتر ہے تصویر ہی بنالیں اور پھر اس کو ترقی دیتے دیتے پتھر اور دھاتوں کے بُت بنانے شروع کر دیئے اور اُن کو تصویر کا قائم مقام بنالیا.آخر یہاں تک ترقی کی کہ اُن کی روحانیت کو اور وسیع کر کے ان کو خدا ہی مان لیا.اب نرے پتھر ہی رکھ لیتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ منتر کے ساتھ اُن کو درست کر لیتے ہیں اور پر میشر کا حلول ان پتھروں میں ہو جاتا ہے.اس منتر کا نام انہوں نے اوا ہن رکھا ہوا ہے.میں نے ایک مرتبہ دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے.میں نے ایک شخص کو دیا کہ اسے پڑھو ، تو اس نے کہا کہ اس پر اوا ہن لکھا ہوا ہے.مجھے اس سے
فقه المسيح 414 بدعات اور بد رسومات کراہت آئی.میں نے اُسے کہا کہ تو مجھے دکھا.جب میں نے پھر ہاتھ میں لے کر دیکھا تو اس پر لکھا ہوا تھا.اَردُدْتُ اَنْ اُسْتَخْلَفَ فَخَلَقْتُ ادَمَ - اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا خلیفہ جو ہوتا ہے ، ردائے الہی کے نیچے ہوتا ہے.اسی لیے آدم کے لیے فرمایا کہ نَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُّوحِي (الحجر: : 30) اسی طرح پر غلطیاں پیدا ہوتی گئیں.اُصول کو نہ سمجھا.کچھ کا کچھ بگاڑ کر بنالیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ شرک اور بت پرستی نے اس کی جگہ لے لی.ہماری تصویر کی اصل غرض وہی تھی جو ہم نے بیان کر دی کہ لنڈن کے لوگوں کو اطلاع ہو اور اس طرح پر ایک اشتہار ہو جاوے.(الحکم 24 اکتوبر 1901 صفحہ 2) قلب جاری ہو جانے کا مسئلہ فرمایا: تصور شیخ کا مسئلہ ہندوؤں کی ایجاد اور ہندوؤں ہی سے لیا گیا ہے.چنانچہ قلب جاری ہونے کا مسئلہ بھی ہندوؤں ہی سے لیا گیا ہے.قرآن میں اس کا ذکر نہیں.اگر خدا تعالیٰ کی اصل غرض انسان کی پیدائش سے یہ ہوتی ، تو پھر اتنی بڑی تعلیم کی کیا ضرورت تھی.صرف اجرائے قلب کا مسئلہ بتا کر اس کے طریقے بتا دیے جاتے.مجھے ایک شخص نے معتبر روایت کی بنا پر بتایا کہ ہندو کا قلب رام رام پر جاری تھا.ایک مسلمان اس کے پاس گیا اس کا قلب بھی رام رام پر جاری ہو گیا.یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے.رام خدا کا نام نہیں ہے.دیانند نے بھی اس پر گواہی دی ہے کہ یہ خدا کا نام نہیں ہے.قلب جاری ہونے کا دراصل ایک کھیل ہے جو سادہ لوح جہلا کو اپنے دام میں پھنسانے کے لئے کیا جاتا ہے.اگر لوٹا لوٹا کہا جاوے تو اس پر بھی قلب جاری ہو سکتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتو پھر وہی بولتا ہے.یہ تعلیم قرآن نے نہیں دی ہے، بلکہ اس سے بہتر تعلیم دی ہے.إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبِ سَلِيمٍ (الشعراء :90) خدا یہ چاہتا ہے کہ سارا وجود ہی قلب ہو جائے ور نہ اگر وجود سے خدا کا ذکر جاری نہیں ہوتا تو ایسا قلب قلب نہیں بلکہ کلب ہے.
فقه المسيح 415 بدعات اور بد رسومات خدا یہی چاہتا ہے کہ خدا میں فنا ہو جاؤ اور اس کے حدود و شرائع کی عظمت کرو.قرآن فناء نظری کی تعلیم دیتا ہے.میں نے آزما کر دیکھا ہے کہ قلب جاری ہونے کی صرف ایک مشق ہے جس کا انحصار صلاح و تقویٰ پر نہیں ہے.ایک شخص منٹگمری یا ملتان کے ضلع کا مجھے چیف کورٹ میں ملا کرتا تھا، اسے اجرائے قلب کی خوب مشق تھی.پس میرے نزدیک یہ کوئی قابل وقعت بات نہیں اور خدا تعالیٰ نے اس کو کوئی عزت اور وقعت نہیں دی.خدا تعالیٰ کا منشا اور قرآن شریف کی تعلیم کا مقصد صرف یہ تھا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا (الشمس : 10) کپڑا جب تک سارا نہ دھویا جائے وہ پاک نہیں ہو سکتا.اسی طرح پر انسان کے سارے جوارح اس قابل ہیں کہ وہ دھوئے جائیں.کسی ایک کے دھونے سے کچھ نہیں ہوتا.اس کے سوا یہ بات بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ خدا کا سنوارا ہوا بگڑتا نہیں ،مگر انسان کی بناوٹ بگڑ جاتی ہے.ہم گواہی دیتے ہیں اور اپنے تجربے کی بناء پر گواہی دیتے ہیں کہ جب تک انسان اپنے اندر خدا تعالیٰ کی مرضی اور سنت نبوی کے موافق تبدیلی نہیں کرتا اور پاکیزگی کی راہ اختیار نہیں کرتا تو خواہ اس کے قلب سے ہی آواز آتی ہو ، وہ زہر جو انسان کی روحانیت کو ہلاک کر دیتی ہے دور نہیں ہوسکتی.روحانیت کے نشوونما اور زندگی کے لئے صرف ایک ہی ذریعہ خدا تعالیٰ نے رکھا ہے اور وہ اتباع رسول ہے.جو لوگ قلب جاری ہونے کے شعبدے لئے پھرتے ہیں انہوں نے سنت نبوی کی سخت توہین کی ہے.کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی انسان دنیا میں گزرا ہے؟ پھر غار حرا میں بیٹھ کر وہ قلب جاری کرنے کی مشق کیا کرتے تھے یافتنا کا طریق آپ نے اختیار کیا ہوا تھا؟ پھر آپ کی ساری زندگی میں کہیں اس امر کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ آپ نے صحابہ کو یہ تعلیم دی ہو کہ تم قلب جاری کرنے کی مشق کرو اور کوئی ان قلب جاری کرنے والوں میں سے پتا نہیں دیتا اور کبھی نہیں کہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بھی قلب بھی جاری تھا.یہ تمام طریق جن کا قرآن شریف میں کوئی ذکر نہیں انسانی اختراع اور خیالات ہیں جن کا نتیجہ کبھی کچھ بھی نہیں
فقه المسيح 416 بدعات اور بد رسومات ہوا.قرآن شریف اگر کچھ بتاتا ہے تو یہ کہ خدا سے یوں محبت کرو.اَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ کے مصداق بنو اور فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران : 32) پر عمل کرو اور ایسی فنا اتم تم پر آ جائے کہ تبل إِلَيْهِ تَبْتِيلًا (المزمل:(9) کے رنگ سے تم رنگین ہو جاؤ اور خدا تعالیٰ کو سب چیزوں پر مقدم کرلو.یہ امور ہیں جن کے حصول کی ضرورت ہے.نادان انسان اپنے عقل اور خیال کے پیمانہ سے خدا کو نا پنا چاہتا ہے اور اپنی اختراع سے چاہتا ہے کہ اس سے تعلق پیدا کرے اور یہی ناممکن ہے.پس میری نصیحت یہی ہے کہ ان خیالات سے بالکل الگ رہو اور وہ طریق اختیار کرو جو خدا تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور اپنے طرز عمل سے ثابت کر دکھایا کہ اسی پر چل کر انسان دنیا اور آخرت میں فلاح اور فوز حاصل کر سکتا ہے اور صحابہ کرام کو جس کی تعلیم دی.پھر وقتا فوقتا خدا کے برگزیدوں نے سنت جاریہ کی طرح اپنے اعمال سے ثابت کیا اور آج بھی خدا نے اسی کو پسند کیا ہے.اگر خدا تعالیٰ کا اصل منشاء یہی ہوتا تو ضرور تھا کہ آج بھی جب اس نے ایک سلسلہ گمشدہ صداقتوں اور حقائق کے زندہ کرنے کے لئے قائم کیا یہی تعلیم دیتا ہے اور میری تعلیم کا منتہا یہی ہوتا.مگر تم دیکھتے ہو کہ خدا نے ایسی تعلیم نہیں دی ہے، بلکہ وہ تو قلب سلیم چاہتا ہے وہ محسنوں اور متقیوں کو پیار کرتا ہے، ان کا ولی ہوتا ہے.کیا سارے قرآن میں ایک جگہ بھی لکھا ہوا ہے کہ وہ ان کو پیار کرتا ہے جن کے قلب جاری ہوں؟ یقیناً سمجھو کہ یہ محض خیالی باتیں اور کھیلیں ہیں جن کا اصلاح نفس اور روحانی امور سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے، بلکہ ایسے کھیل خدا سے بعد کا موجب ہو جاتے ہیں اور انسان کے عملی حصہ میں مضر ثابت ہوتے ہیں، اس لئے تقویٰ اختیار کرو.سنت نبوی کی عزت کرو اور اس پر قائم ہو کر دکھاؤ جو قرآن شریف کی تعلیم کا اصل فخر یہی ہے.سوال: پھر صوفیوں کو کیا غلطی لگی؟ جواب: ان کو حوالہ بخدا کرو.معلوم نہیں انہوں نے کیا سمجھا اور کہاں سے سمجھا تِلكَ أُمَّةٌ
فقه المسيح 417 بدعات اور بد رسومات قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ (البقرة:135) بعض وقت لوگوں کو دھوکا لگتا ہے کہ وہ ابتدائی حالت کو انتہائی سمجھ لیتے ہیں.کیا معلوم کہ انہوں نے ابتدا میں یہ کہا ہو پھر آخر میں چھوڑ دیا ہو یا کسی اور ہی نے ان کی باتوں میں التباس کر دیا ہو اور اپنے خیالات ملا دیئے ہوں.اسی طرح پر تو تو رات اور انجیل میں تحریف ہو گئی ہے.گزشتہ مشائخ کا اس میں نام بھی نہیں لینا چاہیے.ان کا تو ذکر خیر چاہیے.انسان کو لازم ہے کہ جس غلطی پر خدا اسے مطلع کر دے خود اس میں نہ پڑے.خدا نے یہی فرمایا ہے کہ شرک نہ کرو اور تمام عقل اور طاقت کے ساتھ خدا کے ہو جاؤ.اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا.مَنْ كَانَ لِلَّهِ كَانَ اللَّهُ لَهُ ا حکم 31 اکتوبر 1901 ، صفحہ 2،1) حبس دم سوال: جبس دم کیا ہے؟ جواب : یہ بھی ہندو جوگیوں کا مسئلہ ہے.اسلام میں اس کی کوئی اصل موجود نہیں ہے.“ نصف شعبان (شب براءت ) کی رسوم نصف شعبان کی نسبت فرمایا: وو یہ رسوم حلوا وغیرہ سب بدعات ہیں.“ برآمدگی مراد کے لئے ذبیحہ دینا (الحام 31 اکتوبر 1901 صفحہ 2) (بدر 26 ستمبر 1907 صفحہ 7) سوال پیش ہوا کہ برائے برآمدگی مراد یا سیرابی ملک یا بطور چھ جو لوگ ذبیحہ دیتے ہیں جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا: ’جائز نہیں ہے.“ ( بدر 14 مارچ 1907 صفحہ 5)
فقه المسيح 418 نئی ایجادات فوٹوگرافی ، ٹیکہ، ریل کی سواری اسباب سے استفادہ جائز ہے فرمایا: نئی ایجادات علاج حرام تو نہیں اب دیکھو انگریزوں نے ریل بنائی ہے ہم اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.تارا ایجاد کی ہے اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.تیلیاں آگ جلانے کی ولایت سے آتی ہیں.اسی طرح اگر ان کی دوا ہو اور ہم استعمال کریں تو کوئی حرج نہیں.ہاں جو خدا بتلا دیوے وہ حارج نشان نہیں ہے.اگر ٹیکہ کروا کر یہ کہیں کہ نشان ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے ہم کو علیحدہ رکھا جاتا ہے.معلوم ہوتا ہے کو ئی مخفی امر ہے جو بعد ازاں معلوم ہوگا ورنہ ہم ان کی چیزیں اور ادویہ استعمال کرتے ہی ہیں.عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف تو کہتے ہیں کہ جب تک طاعونی کیڑے کا کوئی طبیعت میں تعلق نہ ہو تب تک طاعون نہیں ہوتی اور دوسری طرف آپ وہ کیڑے داخل کرتے ہیں اور چیچک کے ساتھ اس کا قیاس مع الفارق ہے.چیچک کا مادہ تو شیر مادر کے ساتھ آتا ہے مگر اس میں ظن کیا گیا ہے کہ بہت سی طبائع میں مادہ موجود ہی نہیں ہوتا.صرف اس ظن پر ٹیکہ لگایا جاتا ہے کسی طرح وہ مادہ نہ آجائے.خادم شریعت فمن جائز ہے ہے؟ البدر 31 اکتوبر 1902 صفحہ 6) ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا تھا کہ کیا عکسی تصویر لینا شرعا جائز
فقه المسيح فرمایا: 419 نئی ایجادات یہ ایک نئی ایجاد ہے، پہلی کتب میں اس کا ذکر نہیں.بعض اشیاء میں ایک من جانب اللہ خاصیت ہے جس سے تصویر اتر آتی ہے.اگر اس فن کو خادم شریعت بنایا جاوے تو جائز ہے.“ فوٹوگرافی ( بدر 24، 31 دسمبر 1908 ءصفحہ 5) منشی نظیر حسین صاحب نے سوال کیا کہ میں فوٹو کے ذریعہ تصویر میں اتارا کرتا تھا اور دل میں ڈرتا تھا کہ کہیں یہ خلاف شرع نہ ہو لیکن جناب کی تصویر دیکھ کر یہ وہم جاتا رہا.فرمایا إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ہم نے اپنی تصویر محض اس لحاظ سے اتر وائی تھی کہ یورپ کو تبلیغ کرتے وقت ساتھ تصویر بھیج دیں، کیونکہ ان لوگوں کا عام مذاق اسی قسم کا ہو گیا ہے کہ وہ جس چیز کا ذکر کرتے ہیں ساتھ ہی اس کی تصویر دیتے ہیں جس سے وہ قیافہ کی مدد سے بہت سے صحیح نتائج نکال لیتے ہیں.مولوی لوگ جو میری تصویر پر اعتراض کرتے ہیں.وہ خود اپنے پاس روپیہ پیسہ کیوں رکھتے ہیں کیا ان پر تصویریں نہیں ہوتی ہیں.اسلام ایک وسیع مذہب ہے جو اعمال کا مدار نیات پر رکھتا ہے.بدر کی لڑائی میں ایک شخص میدان جنگ میں نکلا جو اترا کر چلتا تھا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دیکھو یہ چال بہت بُری ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے : لَا تَمُشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا (بنی اسرائیل: 38) مگر اس وقت یہ چال خدا تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہے کیونکہ یہ اس کی راہ میں اپنی جان تک شار کرتا ہے اور اس کی نیت اعلیٰ درجہ کی ہے.غرض اگر نیت کا لحاظ نہ رکھا جاوے تو بہت مشکل پڑتی ہے.اسی طرح پر ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جن کا تہ بند نیچے ڈھلکتا ہے وہ دوزخ میں جاویں گے.حضرت ابو بکر یہ سن کر رو پڑے کیونکہ اُن کا نہ بند بھی ویسا تھا.
فقه المسيح 420 نئی ایجادات آپ نے فرمایا کہ تو اُن میں سے نہیں ہے.غرض نیت کو بہت بڑا دخل ہے اور حفظ مراتب ضروری شے ہے.منشی نظیر حسین صاحب: میں خود تصویر کشی کرتا ہوں.اس کے لیے کیا حکم ہے؟ فرمایا: اگر کفر اور بت پرستی کو مدد نہیں دیتے.تو جائز ہے، آج کل نقوش و قیافہ کا علم بہت بڑھا ہوا ہے.( الحکم 24 مئی 1904 ء صفحہ 3) تصویر مفسد نماز نہیں ایک شخص نے دریافت کیا کہ تصویر کی وجہ سے نماز فاسد تو نہیں ہوتی.جواب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.کفار کے تتبع پر تو تصویر ہی جائز نہیں.ہاں نفس تصویر میں حرمت نہیں بلکہ اُس کی حرمت اضافی ہے، اگر نفس تصویر مفسد نماز ہو تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا پھر روپیہ پیسہ نماز کے وقت پاس رکھنا مفسد نہیں ہو سکتا.اس کا جواب اگر یہ دو کہ روپیہ پیسہ کا رکھنا اضطراری ہے.میں کہوں گا کیا اگر اضطرار سے پاخانہ آجاوے تو وہ مفسد نماز نہ ہوگا.اور پھر وضو کرنا نہ پڑے گا.اصل بات یہ ہے کہ تصویر کے متعلق یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا اس سے کوئی دینی خدمت د ہے یا نہیں.اگر یوں ہی بے فائدہ تصویر رکھی ہوئی ہے اور اس سے کوئی دینی فائدہ مقصود مقصود.نہیں تو یہ لغو ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (المومنون : 4) لغو سے اعراض کرنا مومن کی شان ہے، اس لیے اس سے بچنا چاہیے لیکن ہاں اگر کوئی دینی خدمت اس ذریعے سے بھی ہو سکتی ہو تو منع نہیں ہے کیونکہ خدا تعالیٰ علوم کو ضائع نہیں کرنا چاہتا.مثلاً ہم نے ایک موقعہ پر عیسائیوں کے مثلث خدا کی تصویر دی ہے جس میں روح القدس بشکل کبوتر دکھایا گیا ہے اور باپ اور بیٹے کی بھی جدا جدا تصویر دی ہے.اس سے ہماری یہ غرض
فقه المسيح 421 نئی ایجادات تھی کہ تا تثلیث کی تردید کر کے دکھا ئیں کہ اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے وہی حقیقی خدا ہے جو حتی و قیوم از لی وابدی غیر متغیر ہے اور تجسم سے پاک ہے.اس طرح پر اگر خدمت اسلام کے لیے کوئی تصویر ہو ، تو شرع کلام نہیں کرتی کیونکہ جو امور خادم شریعت ہیں ان پر اعتراض نہیں ہے.کہتے ہیں کہ حضرت موسی کے پاس کل نبیوں کی تصویریں تھیں.قیصر روم کے پاس جب صحابہ گئے تھے ، تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر اسکے پاس دیکھی تھی.تو یاد رکھنا چاہیے کہ نفس تصویر کی حرمت نہیں بلکہ اس کی حرمت اضافی ہے جو لوگ لغو طور پر تصویر میں رکھتے اور بناتے ہیں وہ حرام ہیں.شریعت ایک پہلو سے حرام کرتی ہے اور ایک جائز طریق پر اسے حلال ٹھہراتی ہے.روزہ ہی کو دیکھو رمضان میں حلال ہے لیکن اگر عید کے دن روزہ رکھے تو حرام ہے.گر حفظ مراتب نہ گئی زندیقی حرمت دو قسم کی ہوتی ہے.ایک بالنفس حرام ہوتی ہے، ایک بالنسبت.جیسے خنزیر بالکل حرام ہے خواہ وہ جنگل کا ہو یا کہیں کا، سفید ہو یا سیاہ، چھوٹا ہو یا بڑا ہر ایک قسم کا حرام ہے.یہ حرام بالنفس ہے.لیکن حرام بالنسبت کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص محنت کر کے کسب حلال سے روپیہ پیدا کرے تو حلال ہے لیکن اگر وہی روپیہ نقب زنی قمار بازی سے حاصل کرے تو حرام ہوگا.بخاری کی پہلی ہی حدیث ہے.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ایک خونی ہے اگر اس کی تصویر اس غرض سے لے لیں کہ اس کے ذریعہ اس کو شناخت کر کے گرفتار کیا جاوے تو یہ نہ صرف جائز ہوگی ، بلکہ اس سے کام لینا فرض ہو جائے گا.اسی طرح اگر ایک شخص اسلام کی توہین کرنے والے کی تصویر بھیجتا ہے تو اس کو اگر کہا جاوے کہ حرام کام کیا ہے تو یہ کہنا موذی کا کام ہے.
فقه المسيح 422 نئی ایجادات یا درکھو اسلام بت نہیں بلکہ زندہ مذہب ہے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آجکل نا سمجھ مولویوں نے لوگوں کو اسلام پر اعتراض کرنے کا موقعہ دیا ہے.آنکھوں میں ہر شے کی تصویر بنتی ہے.بعض پتھر ایسے ہیں کہ جانور اڑتے ہیں تو خود بخودان کی تصویر اتر آتی ہے.اللہ تعالیٰ کا نام مصور ہے.يُصَوِّرُ كُمْ فِي الْأَرْحَامِ (ال عمران : 7) پھر بلا سوچے سمجھے کیوں اعتراض کیا جاتا ہے.اصل بات یہی ہے جو میں نے بیان کی ہے کہ تصویر کی حرمت غیر حقیقی ہے کسی محل پر ہوتی ہے اور کسی پر نہیں.غیر حقیقی حرمت میں ہمیشہ نیت کو دیکھنا چاہیے.اگر نیت شرعی ہے تو حرام نہیں ورنہ حرام ہے.الحکم 28 فروری 1902 ، صفحہ 6) حضرت مسیح موعود کا اپنی تصویر ڈاک کے کارڈ پر چھپوانے پر نا پسندیدگی مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں ایک شخص کی تحریری درخواست بذریعہ کارڈ کے ان الفاظ میں پیش کی کہ یہ شخص حضور کی تصویر کو خط و کتابت کے کارڈوں پر چھاپنا چاہتے ہیں اور اجازت طلب کرتے ہیں.اس پر حضور نے فرمایا: میں تو اسے ناپسند کرتا ہوں.یہ الفاظ جا کر میں نے اپنے کانوں سے سنے لیکن حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حکیم فضل دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس سے پیشتر آپ نے یہ الفاظ فرمائے کہ یہ بدعت بڑھتی جاتی ہے.میں اسے نا پسند کرتا ہوں.البدریکم و 8 نومبر 1904 ، صفحہ 9) ایک اور موقع پر ذکر آیا کہ ایک شخص نے حضور کی تصویر ڈاک کے کارڈ پر چھپوائی ہے تا کہ لوگ ان کارڈوں کو خرید کر خطوط میں استعمال کریں.حضرت مسیح موعود نے فرمایا: میرے نزدیک یہ درست نہیں.بدعت پھیلانے کا یہ پہلا قدم ہے.ہم نے جو تصویر فوٹو
فقه المسيح 423 نئی ایجادات لینے کی اجازت دی تھی وہ اس واسطے تھی کہ یورپ امریکہ کے لوگ جو ہم سے بہت دور ہیں اور فوٹو سے قیافہ شناسی کا علم رکھتے ہیں اور اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اُن کے لیے ایک روحانی فائدہ کا موجب ہو.کیونکہ جیسا تصویر کی حرمت ہے.اس قسم کی حرمت عموم نہیں رکھتی بلکہ بعض اوقات مجتہد اگر دیکھے کہ کوئی فائدہ ہے اور نقصان نہیں تو وہ حسب ضرورت اس کو استعمال کر سکتا ہے.خاص اس یورپ کی ضرورت کے واسطے اجازت دی گئی.چنانچہ بعض خطوط یورپ امریکہ سے آئے جن میں لکھا تھا کہ تصویر کے دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل وہی مسیح ہے.ایسا ہی امراض کی تشخیص کے واسطے بعض وقت تصویر سے بہت مددمل سکتی ہے.شریعت میں ہر ایک امر جومَا يَنْفَعُ النَّاسَ (الرعد: 18) کے نیچے آئے اس کو دیر پارکھا جاتا ہے لیکن یہ جو کارڈوں پر تصویر میں بنتی ہیں ان کو خریدنا نہیں چاہیے.بت پرستی کی جڑ تصویر ہے.جب انسان کسی کا معتقد ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ تعظیم تصویر کی بھی کرتا ہے.ایسی باتوں سے بچنا چاہیے اور ان سے دور رہنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ ہماری جماعت پر سر نکالتے ہی آفت پڑ جائے.میں نے اس ممانعت کو کتاب میں درج کر دیا ہے جو ز بر طبع ہے.جولوگ جماعت کے اندرایسا کام کرتے ہیں اُن پر ہم سخت ناراض ہیں.ان پر خدا ناراض ہے.ہاں اگر کسی طریق سے کسی انسان کی روح کو فائدہ ہو تو وہ طریق مستقی ہے.ایک کارڈ تصویر والا دکھایا گیا.دیکھ کر فرمایا: یہ بالکل ناجائز ہے.“ ایک شخص نے اس قسم کے کارڈوں کا ایک بنڈل لاکر دکھایا کہ میں نے یہ تاجر فروخت کے واسطے خرید کئے تھے.اب کیا کروں؟ فرمایا: ان کو جلا دو اور تلف کر دو.اس میں اہانت دین اور اہانت شرع ہے.نہ ان کو گھر میں رکھو.
فقه المسيح 424 نئی ایجادات اس سے کچھ فائدہ نہیں.بلکہ اس سے اخیر میں بت پرستی پیدا ہوتی ہے.اس تصویر کی جگہ پر اگر تبلیغ کا کوئی فقرہ ہوتا تو خوب ہوتا.فوٹو بنوانے کی غرض الحکم 10 اکتوبر 1905 ، صفحہ 3) پھر اعتراض کیا گیا کہ تصویر پر لوگ کہتے ہیں کہ یہ تصور شیخ کی غرض سے بنوائی گئی ہے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: یہ تو دوسرے کی نیت پر حملہ ہے.میں نے بہت مرتبہ بیان کیا ہے کہ تصویر سے ہماری غرض کیا تھی.بات یہ ہے کہ چونکہ ہم کو بلاد یورپ خصوصا لنڈن میں تبلیغ کرنی منظور تھی لیکن چونکہ یہ لوگ کسی دعوت یا تبلیغ کی طرف توجہ نہیں کرتے جب تک داعی کے حالات سے واقف نہ ہوں اور اس کے لیے اُن کے ہاں علم تصویر میں بڑی بھاری ترقی کی گئی ہے.وہ کسی شخص کی تصویر اور اس کے خدو خال کو دیکھ کر رائے قائم کر لیتے ہیں کہ اس میں راستبازی ، قوت قدسی کہاں تک ہے؟ اور ایسا ہی بہت سے امور کے متعلق انہیں اپنی رائے قائم کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے.پس اصل غرض اور نیت ہماری اس سے لی تھی جس کو ان لوگوں نے جو خواہ نخواہ ہر بات میں مخالفت کرنا چاہتے ہیں.اس کو بُرے بُرے پیرایوں میں پیش کیا اور دنیا کو بہکایا.میں کہتا ہوں کہ ہماری نیت تو تصویر سے صرف اتنی ہی تھی.اگر یہ نفسِ تصویر کو ہی بُرا سمجھتے ہیں، تو پھر کوئی سکہ اپنے پاس نہ رکھیں بلکہ بہتر ہے کہ آنکھیں بھی نکلوادیں کیونکہ اُن میں بھی اشیاء کا ایک انعکاس ہی ہوتا ہے.یه نادان اتنا نہیں جانتے کہ افعال کی تہ میں نیت کا بھی دخل ہوتا ہے الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ پڑھتے ہیں.مگر سمجھتے نہیں.بھلا اگر کوئی شخص محض ریا کاری کے لئے نماز پڑھے تو اس کو یہ کوئی مستحسن امر قرار دیں گے؟ سب جانتے ہیں کہ ایسی نماز کا فائدہ کچھ نہیں ، بلکہ وبالِ جان ہے تو کیا نماز بری تھی ؟ نہیں، اس کے بد استعمال نے اس کے نتیجہ کو بُرا پیدا کیا.اسی طرح پر تصویر سے
فقه المسيح 425 نئی ایجادات ہماری غرض تو اسلام کی دعوت میں مدد لینا تھا.جو اہل یورپ کے مذاق پر ہوسکتی تھی.اس کو تصور شیخ بنانا اور کچھ سے کچھ کہنا افتراء ہے.جو مسلمان ہیں ان کو اس پر غصہ نہیں آنا چاہیے تھا.جو کچھ خداور رسول نے فرمایا ہے وہ حق ہے.اگر مشائخ کا قول خدا اور رسول کے فرمودہ کے موافق نہیں تو کالائے بد بریش خاوند.تصور شیخ کی بابت پوچھو تو اس کا کوئی پتہ نہیں.اصل یہ ہے کہ صالحین اور فانین فی اللہ کی محبت ایک عمدہ شے ہے لیکن حفظ مراتب ضروری ہے.گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی.پس خدا کو خدا کی جگہ، رسول کو رسول کی جگہ سمجھو اور خدا کے کلام کو دستور العمل ٹھہرالو.اس سے زیادہ چونکہ قرآن شریف میں اور کچھ نہیں کہ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبة : 119) پس صادقوں اور فانی فی اللہ کی صحبت تو ضروری ہے اور یہ کہیں نہ کہا گیا کہ تم اُسے ہی سب کچھ سمجھو.اور یا قرآن شریف میں یہ حکم ہے اِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران (32).اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ مجھے خدا سمجھ لو، بلکہ یہ فرمایا کہ اگر خدا کے محبوب بننا چاہتے ہو تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو.اتباع کا حکم تو دیا ہے مگر تصور شیخ کا حکم قرآن میں پایا نہیں جاتا.فوٹوگرافی کا جواز اور اس کی ضرورت فرمایا: ا حکم 24 تا 28 اکتوبر 1901 ، صفحہ 2،1) فی زمانہ تصویر کی ان لوگوں کے بالمقابل کس قدر حاجت ہے.ہر ایک رزم بزم میں آج کل تصویر سے اثر ڈالا جاتا ہے.پکٹ کی بھی تصویر شائع ہوئی ہے فوٹو کے بغیر آج کل جنگ ناقص ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح کے ہتھیار مخالف تیار کریں تم بھی ویسے ہی تیار کرواس سے فوٹو کا جواز ثابت ہے بندوقوں اور توپوں سے جنگ کرنے کا جواز بھی اسی طرح کیا گیا ہے ور نہ آگ سے مارنا تو حرام ہے جہاں ضرورت حقہ محرک اور مستدعی ہوتی ہے یا اس کے متعلق
فقه المسيح 426 نئی ایجادات الہام ہوتا ہے اس مقام پر تصویر کی حرمت کی سند پیش کرنا حماقت ہے جبرائیل نے خود حضرت عائشہ کی تصویر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائی.مولوی محمد احسن صاحب نے عرض کیا کہ حضرت سلیمان کے وقت میں بھی ایسی ہی ضرورت پیش آئی ہوگی حضرت اقدس نے فرمایا: ایسا ہی معلوم ہوتا ہے.پھر فرمایا: ایک حرمت حقیقی ہوتی ہے ایک غیر حقیقی ہوتی ہے جو غیر حقیقی ہوتی ہے وہ اسباب داعیہ سے اٹھ جاتی ہے.ضرورت کے لئے تصویر کا جواز ( البدر 28 نومبر تا 5 دسمبر 1902 ء صفحہ 35) ایک احمدی صاحب نے سوال کیا کہ گاؤں کے لوگ اس لیے تنگ کرتے ہیں کہ آپ نے تصویر کھچوائی ہے اس کا ہم کیا جواب دیویں ؟ فرمایا: انسان جب دنیاوی ضرورتوں کے لیے ہر وقت پیسہ روپیہ وغیرہ جیب میں رکھتا ہے جن پر تصویر وغیرہ بنی ہوئی ہوتی ہے تو پھر دینی ضرورت کے لیے تصویر کا استعمال کیوں روا نہیں ہوسکتا ان لوگوں کی مثال لِمَ تَقُولُونَ مَالَا تَفْعَلُونَ (الصف : 3) کی ہے کہ خود تو ایک فعل کرتے ہیں اور دوسروں کو اسے معیوب بتلاتے ہیں اگر ان لوگوں کے نزدیک تصویر حرام ہے تو ان کو چاہیے کہ کل مال وزر باہر نکال کر پھینک دیں اور پھر ہم پر اعتراض کریں اور یہ ملاں لوگ جو بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ ایک پیسہ کوتو وہ ہاتھ سے نہیں چھوڑ سکتے.حضور کی نظموں کی ریکارڈنگ البدر 25 ستمبر 1903 ، صفحہ 381) ایک شخص نے عرض کیا کہ کیا یہ جائز ہے کہ حضور کی نظمیں فونوگراف میں بند کر کے لوگوں کو سنائی جائیں؟
فقه المسيح فرمایا: 427 نئی ایجادات اعمال نیت پر موقوف ہیں.تبلیغ کی خاطر اس طرح سے نظم فونوگراف میں سنانا جائز ہے کیونکہ اشعار سے بسا اوقات لوگوں کے دلوں کو نرمی اور رقت حاصل ہوتی ہے.کفار کی مصنوعات کا استعمال جائز ہے ( بدر 24 مئی 1908 ، صفحہ 8) ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ جب ریل دجال کا گدھا ہے تو ہم لوگ اس پر کیوں سوار ہوں؟ فرمایا:.کفار کی صنعت سے فائدہ اُٹھانا منع نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ گھوڑی کو گدھے کے ساتھ ملانا دجل ہے پس ملانے والا دجال ہے لیکن آپ برابر خچر پر سواری کرتے تھے اور ایک کافر بادشاہ نے ایک خچر آپ کو بطور تحفہ کے بھیجی تھی اور آپ اس پر برابر سواری کرتے رہے.ریل کا سفر ہمارے فائدہ کے لئے ہے ریل کے ذکر پر فرمایا : (بدر 28 مارچ 1907 صفحہ 4) اس زمانہ میں خدا نے ہماری جماعت کو فائدہ پہنچایا ہے کہ سفر کا بہت آرام ہے ورنہ کہاں سے کہاں ٹھوکریں کھاتا ہوا انسان ایک دوسرے مقام پر پہنچتا تھا.مدر اس جہاں سیٹھ عبدالرحمن صاحب ہیں اگر کوئی جاتا تو گرمیوں میں روانہ ہوتا اور سردیوں میں پہنچتا تھا.اس زمانہ کی نسبت خدا نے خبر دی ہے وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَتُ (التکویر : 8 ) کہ جب ایک اقلیم کے لوگ دوسرے اقلیم والوں کے ساتھ ملیں گے.البدر 6 فروری 1903 صفحہ 21)
فقه المسيح 428 امور معاشرت / رہن سہن ر با ہمی تعاون امور معاشرت، رہن سہن اور باہمی تعاون وحدت قومی سے وحدت اقوامی تک فرمایا: جیسا کہ خدا تعالیٰ کی ذات میں وحدت ہے ایسا ہی وہ نوع انسان میں بھی جو ہمیشہ کی بندگی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں وحدت کو ہی چاہتا ہے اور درمیانی تفرقہ قوموں کا جو بباعث کثرت نسل انسان نوع انسان میں پیدا ہوا وہ بھی دراصل کامل وحدت پیدا کرنے کے لئے ایک تمہید تھی کیونکہ خدا نے یہی چاہا کہ پہلے نوع انسان میں وحدت کے مختلف حصے قائم کر کے پھر ایک کامل وحدت کے دائرہ کے اندرسب کو لے آوےسوخدا نے قوموں کے جدا جدا گروہ مقرر کئے اور ہر ایک قوم میں ایک وحدت پیدا کی اور اس میں یہ حکمت تھی کہ تا قوموں کے تعارف میں سہولت اور آسانی پیدا ہو اور ان کے باہمی تعلقات پیدا ہونے میں کچھ دقت نہ ہو اور پھر جب قوموں کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تعارف پیدا ہو گیا تو پھر خدا نے چاہا کہ سب قوموں کو ایک قوم بناوے جیسے مثلاً ایک شخص باغ لگا تا ہے اور باغ کے مختلف بوٹوں کو مختلف تختوں پر تقسیم کرتا ہے.اور پھر اس کے بعد تمام باغ کے اردگرد دیوار کھینچ کر سب درختوں کو ایک ہی دائرہ کے اندر کر لیتا ہے اسی کی طرف قرآن شریف نے اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ آیت ہے.إنَّ هذه أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ (الانبياء : 93) یعنی اے دنیا کے مختلف حصوں کے نبیو! یہ مسلمان جو مختلف قوموں میں سے اس دنیا میں اکٹھے ہوئے ہیں یہ تم سب کی ایک اُمت ہے جو سب پر ایمان لاتے ہیں اور میں تمہارا خدا ہوں سو تم سب مل کر میری ہی عبادت کرو.(دیکھو الجز و نمبر۷ اسورۃ الانبیاء ) اس تدریجی وحدت کی مثال ایسی ہے جیسے خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ ہر ایک محلہ کے لوگ اپنی اپنی محلہ کی مسجدوں میں پانچ وقت جمع ہوں اور پھر حکم دیا کہ تمام شہر کے لوگ ساتویں دن شہر کی جامع مسجد میں جمع ہوں یعنی ایسی وسیع
فقه المسيح 429 امور معاشرت / رہن سہن ، باہمی تعاون مسجد میں جس میں سب کی گنجائش ہو سکے اور پھر حکم دیا کہ سال کے بعد عید گاہ میں تمام شہر کے لوگ اور نیز گردو نواح دیہات کے لوگ ایک جگہ جمع ہوں اور پھر حکم دیا کہ عمر بھر میں ایک دفعہ تمام دنیا ایک جگہ جمع ہو یعنی مکہ معظمہ میں.سو جیسے خدا نے آہستہ آہستہ امت کے اجتماع کو حج کے موقع پر کمال تک پہنچایا.اوّل چھوٹے چھوٹے موقعے اجتماع کے مقرر کئے اور بعد میں تمام دنیا کو ایک جگہ جمع ہونے کا موقع دیا سو یہی سنت اللہ الہامی کتابوں میں ہے اور اس میں خدا تعالیٰ نے یہی چاہا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ نوع انسان کی وحدت کا دائرہ کمال تک پہنچا دے.اوّل تھوڑے تھوڑے ملکوں کے حصوں میں وحدت پیدا کرے اور پھر آخر میں حج کے اجتماع کی طرح سب کو ایک جگہ جمع کر دیوے جیسا کہ اس کا وعدہ قرآن شریف میں ہے وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَجَمَعْتُهُمْ جَمْعًا (الكهف: 100) یعنی آخری زمانہ میں خدا اپنی آواز سے تمام سعید لوگوں کو ایک مذہب پر جمع کر دے گا جیسا کہ وہ ابتداء میں ایک مذہب پر جمع تھے تا کہ اول اور آخر میں مناسبت پیدا ہو جائے.غرض پہلے نوع انسان صرف ایک قوم کی طرح تھی اور پھر وہ تمام زمین پر پھیل گئے تو خدا نے اُن کے سہولت تعارف کے لئے ان کو قوموں پر منقسم کر دیا اور ہر ایک قوم کے لئے اُس کے مناسب حال ایک مذہب مقرر کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّنْ ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا (الحجرات :14) اور پھر فرماتا ہے لِكُلِّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِى مَا آتَاكُم فَاسْتَبِقُوا الخَيْرَاتِ (المائدة: 49) ( ترجمہ ) اے لوگو! ہم نے مرد اور عورت سے تمہیں پیدا کیا ہے اور ہم نے تمہارے کنبے اور قبیلے مقرر کئے یہ اس لئے کیا کہ تائم میں باہم تعارف پیدا ہو.اور ہر ایک قوم کے لئے ہم نے ایک مشرب اور مذہب مقرر کیا تاہم مختلف فطرتوں کے جو ہر بذریعہ اپنی مختلف ہدایتوں کے ظاہر کر دیں پس تم اے
فقه المسيح 430 امور معاشرت ، رہن سہن ر با ہمی تعاون مسلمانو ! تمام بھلائیوں کو دوڑ کر لو کیونکہ تم تمام قوموں کا مجموعہ ہو اور تمام فطرتیں تمہارے اندر ہیں.غرض مذکورہ بالا وجوہ کی بنا پر خدا نے نوع انسان کو کئی قوموں پر منقسم کر دیا.پہلے زمانہ کے لوگ تو آبائی رشتہ کے سلسلہ میں منسلک تھے اور ان میں وحدت قرابت حاصل تھی اور پھر جب بہت سی قومیں بن گئیں تو ہر ایک قوم میں وحدت قائم کرنے کے لئے کتابیں بھیجی گئیں اور اُس زمانہ میں ہر ایک حصہ ملک میں صرف قومی وحدت حاصل ہو سکتی تھی اس سے زیادہ نہیں یعنی تمام دنیا کی وحدت غیر ممکن تھی اور پھر تیسرا زمانہ ایسا آیا جس میں اقوامی وحدت کے سامان پیدا ہو گئے یعنی تمام دنیا کی وحدت کے سامان ظہور میں آگئے اور ہر ایک زمانہ جو نوع انسان پر آیا وہ اس بات کا مقتضی تھا جو اسی زمانہ کے مطابق کتاب دی جاوے.یہی وجہ ہے کہ قومی وحدت کا جب خدا نے ارادہ کیا تب ہر ایک قوم کے لئے جدا جدا رسول بھیجا اور یہ قومی وحدت اقوامی وحدت سے مقدم تھی اور حکمت ربانی اس امر کی مقتضی تھی کہ اوّل ہر ایک ملک میں قومی وحدت قائم کرے اور جب قومی وحدت کا دور ختم ہو چکا تب اقوامی وحدت کا زمانہ شروع ہو گیا اور وہی زمانہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کا تھا اور یادر ہے کہ کسی رسول اور کتاب کی اسی قدر عظمت سمجھی جاتی ہے جس قدر اُن کو اصلاح کا کام پیش آتا ہے اور جس قدر اس اصلاح کے وقت مشکلات کا سامنا پڑتا ہے سو یہ بات ظاہر ہے کہ ابتدائے زمانہ میں جو کتاب نازل ہوئی ہوگی وہ کسی طرح کامل مکمل نہیں ہوسکتی کیونکہ ابتدائے زمانہ میں اِن مشکلات کا وہم و گمان بھی نہیں آسکتا جو بعد میں پیدا ہوئیں ایسا ہی قومی وحدت کے زمانہ میں اسی وقت میں اس وقت کے نبیوں اور رسولوں کو وہ مشکلات ہر گز پیش نہیں آسکتی تھیں جو اقوامی وحدت کے زمانہ میں اس نبی کو پیش آئیں جس کو یہ حکم ہوا کہ جو تمام قوموں کو ایک وحدت پر قائم کرو.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 144 تا 147 )
فقه المسيح 431 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون مخالفین کے ساتھ معاشرت کیسے کریں؟ ایک صاحب نے سوال کیا کہ حضور مخالفوں سے جو ہمیں اور حضور کو سخت گالی گلوچ نکالتے ہیں اور سخت ست کہتے ہیں ان سے السلام علیکم لینا جائز ہے یا نہیں.فرمایا: مومن بڑا غیرت مند ہوتا ہے کیا غیرت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ تو گالیاں دیں اور تم ان سے السلام علیکم کرو؟ ہاں البتہ خرید و فروخت جائز ہے.اس میں حرج نہیں کیونکہ قیمت دینی اور مال لینا کسی ک اس میں احسان نہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: الحام 10 راپریل 1903ء صفحہ 14) میرا اپنا طریق تو یہ ہے کہ سب کو السلام علیکم کہتا ہوں ہاں کوئی شقی جیسا کہ لیکھر ام تھا جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سلام نہیں کیا.اگر ملے تو ممکن ہے کہ طبیعت رکے.عام لوگ با وجود دشمن ہونے کے دھوکہ خوردہ ہیں اور سلام کی دعا کے مستحق.الفضل 21 راگست 1946 ء صفحہ 4) غیر تہذیب یافتہ لوگوں کیساتھ کیسے برتاؤ کیا جائے افریقہ سے ایک دوست نے بذریعہ تحریر حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ اس جگہ کے اصلی باشندے مرد وزن بالکل ننگے رہتے ہیں اور معمولی خورونوش کی اشیاء کا لین دین ان کے ساتھ ہی ہوتا ہے تو کیا ایسے لوگوں سے ملنا جلنا گناہ تو نہیں؟ حضرت نے فرمایا: تم نے تو ان کو نہیں کہا کہ ننگے رہو وہ خود ہی ایسا کرتے ہیں.اس میں تم کو کیا گناہ ؟ وہ ایسے ہی ہیں جیسے کہ ہمارے ملک میں بعض فقیر اور دیوانے ننگے پھرا کرتے ہیں.ہاں ایسے لوگوں کو کپڑے پہننے کی عادت ڈالنے کی کوشش کرنی چاہئے.ایسے ہی لوگوں کی نسبت یہ بھی سوال کیا گیا کہ چونکہ ملک افریقہ میں غریب لوگ بھی ہیں جو
فقه المسيح 432 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون نوکری پر بآسانی سستے مل سکتے ہیں.اگر ایسے لوگوں سے کھانا پکوایا جائے تو یہ کیا جائز ہے؟ یہ لوگ حرام حلال کی پہچان نہیں رکھتے.فرمایا: اس ملک کے حالات کے لحاظ سے جائز ہے کہ اُن کو نوکر رکھ لیا جائے اور اپنے کھانے وغیرہ کے متعلق ان سے احتیاط کرائی جائے.یہ بھی سوال ہوا کہ کیا ایسی عورتوں سے نکاح جائز ہے؟ فرمایا: اس ملک میں اور ان علاقوں میں بحالت اضطرار ایسی عورتوں سے نکاح جائز ہے لیکن صورت نکاح میں اُن کو کپڑے پہنانے اور اسلامی شعار پر لانے کی کوشش کرنی چاہئے.شادی پر عورتوں کا مل کر گیت گانا ( بدر 26 ستمبر 1907 صفحہ 6) سوال کیا گیا کہ لڑکی یا لڑکے والوں کے ہاں جو جوان عورتیں مل کر گاتی ہیں وہ کیسا ہے؟ حضرت اقدس نے فرمایا: اصل یہ ہے کہ یہ بھی اسی طرح پر ہے.اگر گیت گندے اور نا پاک نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو لڑکیوں نے مل کر آپ کی تعریف میں گیت گائے تھے.اصحاب احمد جلد 2 صفحہ 552 نیا ایڈیشن) بعض مواقع پر غیر معمولی خوشی کا اظہار کرنا حضرت نواب محمد علی خان صاحب تحریر کرتے ہیں : (دسمبر 1901ء) آج میں نے حضرت اقدس کو لکھ کر بھیجا کہ حضور کے ہاں جو بشیر، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین ہوئی ہے اس میں جو تکلفات ہوئے ہیں وہ گو خاص صورت رکھتے ہیں کیونکہ مخدوم زادگان پیشگوئیوں کے ذریعہ سے پیدا ہوئے.ان کے ایسے مواقع
فقه المسيح 433 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون پر جو اظہار خوشی کی جائے وہ کم ہے مگر ہم لوگوں کے لئے کیونکہ حضور بروز محمد ہیں اس لئے ہمارے لئے سنت ہو جائیں گے.اس پر سیر میں کچھ فرمایا جائے.“ اس پر حضرت اقدس نے تقریر سیر میں فرمائی جس کا خلاصہ یہ ہے.الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ایک مسلّم مسئلہ اور صحیح ترین حدیث ہے.اگر کوئی ریا سے اظہار علی الخلق اور تفوق علی الخلق کی غرض سے کھانا وغیرہ کھلاتا ہے تو ایسا کھانا وغیرہ حرام ہے یا معاوضہ کی غرض سے جیسے بھاجی وغیرہ مگر اگر کوئی تشکر اور اللہ کی رضا جوئی کی نیت سے خرچ کرتا ہے بلا ریا و معاوضہ تو اس میں ہرج نہیں بلکہ بیا ہوں میں اور ولادت میں بڑا اعلان ہونا چاہئے اور بیاہوں میں اعلان بالدف ضروری ہے بلکہ انگریزی با جا بھی اس غرض سے جائز ہے.اگر کوئی امر خلاف شریعت نہ ہو تو عورتیں گا بھی لیں تو ہرج نہیں لیکن سب سے بڑی بات نیت ہے.فرمایا کہ بعض لوگ عورتوں کو خليع الرّسن ( حصہ سے زیادہ آزادی.ناقل ) کر دیتے ہیں یہ بھی ٹھیک نہیں اور بعض ان سے ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے بہائم اور لونڈیوں سے.یہ بھی درست نہیں.جہاں تک شریعت اجازت دیتی ہے وہاں تک ان کو آزادی دینی چاہئے اور جہاں پر شریعت کے خلاف ہو وہاں ان کو روکنا چاہئے.اصحاب احمد جلد 2 صفحہ 551 نیا ایڈیشن سیرت حضرت نواب محمد علی خان صاحب) ایک ہندو مہمان کے ساتھ خوش خلقی ایک ہندو دوست جو مہمان بن کر آئے تھے ) نے عرض کیا کہ مجھے تو لوگ ڈراتے تھے کہ مرزا صاحب تو کسی کے ساتھ بات نہیں کرتے اور ہندوؤں کے ساتھ بہت بدخلقی سے پیش آتے ہیں.میں نے یہ سب بات اس کے برخلاف پائی ہے اور آپ کو اعلیٰ درجہ کا خلیق اور مہمان نواز دیکھا ہے.حضرت نے فرمایا: لوگ جھوٹی خبریں اُڑا دیتے ہیں.ہمیں خدا تعالیٰ نے وسیع اخلاق سکھلائے ہیں.بلکہ ہمیں
فقه المسيح 434 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون افسوس ہے کہ ہم پوری طرح سے آپ کے ساتھ اخلاق حسنہ کا اظہار نہیں کر سکتے کیونکہ آپ کی قومی رسم کے مطابق ہمارا کھانا کھا لینا جائز نہیں.ایسے ہندو مہمانوں کے کھانے کا انتظام ہم کسی ہندو کے ہاں کر لیا کرتے ہیں لیکن اس کھانے کی ہم خود نگرانی نہیں کر سکتے.ہمارے اصول میں داخل نہیں کہ اختلاف مذہبی کے سبب کسی کے ساتھ بد خلقی کریں اور بدخلقی مناسب بھی نہیں کیونکہ نہایت کار ہمارے نزدیک غیر مذہب والا ایک بیمار کی مانند ہے جس کو صحت روحانی حاصل نہیں.پس بیمار تو اور بھی قابلِ رحم ہے جس کے ساتھ بہت خلق اور حلم اور نرمی کیساتھ پیش آنا چاہئے.اگر بیمار کے ساتھ بدخلقی کی جاوے تو اس کی بیماری اور بھی بڑھ جائے گی.اگر کسی میں کجی اور غلطی ہے تو محبت کے ساتھ سمجھانا چاہیے.ہمارے بڑے اصول دو ہیں.خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق صاف رکھنا اور اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلاق سے پیش آنا.ہندوؤں سے ہمدردی ( بدر 19 جولائی 1906 ، صفحہ 3) ایک شخص کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ بہ سبب پرانے تعلقات کے ایک ہندو ہمارے شہر کا ہمارے معاملات شادی اور نفی میں شامل ہوتا ہے اور کوئی مرجائے تو جنازہ میں بھی ساتھ جاتا ہے.کیا ہمارے واسطے بھی جائز ہے کہ ہم ان کے ساتھ ایسی شمولیت دکھائیں؟ فرمایا: ”ہندوؤں کی رسوم اور امور مخالف شریعت اسلام سے علیحدگی اور بیزاری رکھنے کے بعد دنیوی امور میں ہمدردی رکھنا اور ان کی امداد کرنا جائز ہے.“ اہل کتاب کا کھانا ( بدر 6 جون 1907 صفحہ 8) امریکہ اور یورپ کی حیرت انگیز ایجادات کا ذکر ہو رہا تھا.اسی میں یہ ذکر بھی آ گیا کہ
فقه المسيح 435 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون دودھ اور شور با وغیرہ جو کہ ٹینوں میں بند ہوکر ولایت سے آتا ہے بہت ہی نفیس اور ستھرا ہوتا ہے اور ایک خوبی ان میں یہ ہوتی ہے کہ ان کو بالکل ہاتھ سے نہیں چھوا جاتا.دودھ تک بھی بذریعہ مشین دوہا جاتا ہے.اس پر حضور نے فرمایا: چونکہ نصاری اس وقت ایک ایسی قوم ہو گئی ہے جس نے دین کی حدود اور اس کے حلال و حرام کی کوئی پروا نہیں رکھی اور کثرت سے سور کا گوشت اُن میں استعمال ہوتا ہے اور جو ذبح کرتے ہیں اس پر بھی خدا کا نام ہرگز نہیں لیتے بلکہ جھٹکے کی طرح جانوروں کے سر جیسا کہ سنا گیا ہے علیحدہ کر دیے جاتے ہیں.اس لیے شبہ پڑ سکتا ہے کہ بسکٹ اور دودھ وغیرہ جو اُن کے کارخانوں کے بنے ہوئے ہوں اُن میں سور کی چربی اور سور کے دودھ کی آمیزش ہو.اس لیے ہمارے نزدیک ولائتی بسکٹ اور اس قسم کے دودھ اور شور بے وغیرہ استعمال کرنے بالکل خلاف تقویٰ اور نا جائز ہیں.جس حالت میں کہ سور کے پالنے اور کھانے کا عام رواج ان لوگوں میں ولایت میں ہے تو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ دوسری اشیائے خوردنی جو کہ یہ لوگ تیار کر کے ارسال کرتے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حصہ اس کا نہ ہوتا ہو.اس پر ابوسعید صاحب المعروف عرب صاحب تاجر برنج رنگون نے ایک واقعہ حضرت اقدس کی خدمت میں یوں عرض کیا کہ رنگون میں بسکٹ اور ڈبل روٹی بنانے کا ایک کارخانہ انگریزوں کا تھا.وہ ایک مسلمان تاجر نے قریب ڈیڑھ لاکھ روپے کے خرید لیا.جب اس نے حساب و کتاب کی کتابوں کو پڑتال کر کے دیکھا، تو معلوم ہوا کہ سور کی چربی بھی اس کا رخانہ میں خریدی جاتی رہی ہے.دریافت پر کارخانہ والوں نے بتایا کہ ہم اُسے بسکٹ وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں.کیونکہ اس کے بغیر یہ چیزیں لذیذ نہیں ہوتیں اور ولایت میں بھی یہ چربی ان چیزوں میں ڈالی جاتی ہے.اس واقعہ کے سننے سے ناظرین کو معلوم ہوسکتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود کا خیال کس قدر تقوی اور باریک بینی پر تھا لیکن چونکہ ہم میں سے بعض ایسے بھی تھے جن کو اکثر سفر کا
فقه المسيح 436 امور معاشرت ، رہن سہن ر با ہمی تعاون اتفاق ہوا ہے اور بعض بھائی افریقہ وغیرہ دور دراز امصار و بلا د میں ابتک موجود ہیں جن کو اس قسم کے دودھ اور بسکٹ وغیرہ کی ضرورت پیش آسکتی ہے، اس لیے اُن کو بھی مدنظر رکھ کر دوبارہ اس مسئلہ کی نسبت دریافت کیا گیا نیز اہل ہنود کے کھانے کی نسبت عرض کیا گیا کہ یہ لوگ بھی اشیاء کو بہت غلیظ رکھتے ہیں اور ان کی کڑا ہیوں کو اکثر کتے چاٹ جاتے ہیں.اس پر حضور نے فرمایا: ہمارے نزدیک نصاریٰ کا وہ طعام حلال ہے جس میں شبہ نہ ہو اور از روئے قرآن مجید وہ حرام نہ ہو.ورنہ اس کے یہی معنی ہوں گے کہ بعض اشیاء کو حرام جان کر گھر میں تو نہ کھایا ، مگر باہر نصاری کے ہاتھ سے کھا لیا اور نصاری پر ہی کیا منحصر ہے اگر ایک مسلمان بھی مشکوک الحال ہو تو اس کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے.مثلاً ایک مسلمان دیوانہ ہے اور اسے حرام و حلال کی خبر نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کے طعام یا تیار کردہ چیزوں پر کیا اعتبار ہو سکتا ہے.اسی لیے ہم گھر میں ولائتی بسکٹ نہیں استعمال کرنے دیتے بلکہ ہندوستان کی ہندو کمپنی کے منگوایا کرتے ہیں.عیسائیوں کی نسبت ہندوؤں کی حالت اضطراری ہے کیونکہ یہ کثرت سے ہم لوگوں میں مل جل گئے ہیں اور ہر جگہ انہیں کی دوکانیں ہوتی ہیں.اگر مسلمانوں کی دوکانیں موجود ہوں اور سب شے وہاں ہی سے مل جاوے تو پھر البتہ ان سے خوردنی اشیاء نہ خریدنی چاہئیں.علاوہ ازیں میرے نزدیک اہل کتاب سے غالبا مراد یہودی ہی ہیں کیونکہ وہ کثرت سے اس وقت عرب میں آباد تھے اور قرآن شریف میں بار بار خطاب بھی انہیں کو ہے.اور صرف تو ریت ہی کتاب اس وقت تھی جو کہ حلت اور حرمت کے مسئلے بیان کر سکتی تھی اور یہود کا اس پر اس امر میں جیسے عملدرآمد اس وقت تھا ویسے ہی اب بھی ہے.انجیل کوئی کتاب نہیں ہے.اس پر ابوسعید صاحب نے عرض کی کہ اہل الکتاب میں کتاب پر الف لام بھی اس کی تخصیص کرتا ہے جس سے یہ مسئلہ اور بھی واضح ہو گیا.البدر 16 جولائی 1904 ء صفحہ 3)
فقه المسيح 437 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون وجودی فرقے کا ذبیحہ کھانا ایک شخص نے سوال کیا کہ ہمارے شہر میں وجودی فرقہ کے لوگ کثرت سے ہیں اور ذبیحہ وغیرہ انہی کے ہاتھ سے ہوتا ہے.کیا اس کا کھانا حلال ہے کہ نہیں ؟ فرمایا: بہت تجسس کرنا جائز نہیں ہے.موٹے طور پر جو انسان مشرک یا فاسق ہو اس سے پر ہیز کرو.عام طور پر اس طرح تجسس کرنے سے بہت سی مشکلات در پیش آتی ہیں جو بیجہ، اللہ کا نام لے کر کیا جاوے اور اس میں اسلام کے آداب مد نظر ہوں وہ خواہ کسی کا ہو، جائز ہے.(البدر 16 جولائی 1904 صفحہ 4) خواب کا پورا کرنا ایک دوست نے حضرت کی خدمت میں اپنی بیوی کا خواب لکھا کہ کسی شخص نے خواب میں میری بیوی کو کہا کہ تمہارے بیٹے پر بڑا بوجھ ہے اس پر سے صدقہ اتارو اور ایسا کرو کہ چنے بھگو کر مٹی کے برتن میں رکھ کر اور لڑکے کے بدن کا کرتہ اتار کر اس میں باندھ کر رات سوتے وقت سرہانے چار پائی کے نیچے رکھ دو اور ساتھ چراغ جلا دو صبح کسی غیر کے ہاتھ اٹھوا کر چورا ہے میں رکھ دو.یہ خواب لکھ کر حضرت سے دریافت کیا کہ کیا جائز ہے کہ ہم خواب اسی طرح سے پورا کریں.جواب میں حضرت نے تحریر فرمایا: جائز ہے کہ اس طرح سے کریں اور خواب کو پورا کرلیں.“ طبیب ہمدردی کرے اور احتیاط بھی ( بدر 4 اپریل 1907 صفحہ 6) سوال ہوا کہ طاعون کا اثر ایک دوسرے پر پڑتا ہے.ایسی صورت میں طبیب کے واسطے کیا حکم ہے؟ فرمایا: طبیب اور ڈاکٹر کو چاہئے کہ وہ علاج معالجہ کرے اور ہمدردی دکھائے لیکن اپنا بچاؤ رکھے.
فقه المسيح 438 امور معاشرت ، رہن سہن ر با ہمی تعاون بیمار کے بہت قریب جانا اور مکان کے اندر جانا اس کے واسطے ضروری نہیں ہے وہ حال معلوم کر کے مشورہ دے.ایسا ہی خدمت کرنے والوں کے واسطے بھی ضروری ہے کہ اپنا بچاؤ بھی رکھیں اور بیمار کی ہمدردی بھی کریں.طاعون سے مرنے والے کو غسل کیسے دیں؟ سوال ہوا کہ طاعون زدہ کے غسل کے واسطے کیا حکم ہے؟ فرمایا: ( بدر 4 اپریل 1907 صفحہ 6) مومن طاعون سے مرتا ہے تو وہ شہید ہے.شہید کے واسطے غسل کی ضرورت نہیں.سوال ہوا کہ اس کو کفن پہنایا جائے یا نہیں؟ فرمایا: شہید کے واسطے کفن کی ضرورت نہیں.وہ انہیں کپڑوں میں دفن کیا جاوے.ہاں اس پر ایک سفید چادر ڈال دی جائے تو ہرج نہیں.( بدر 4 اپریل 1907 صفحہ 6) طاعون زدہ علاقوں کے احمدیوں کے واسطے حکم یکم اپریل 1907ء کی صبح کو حضرت اقدس مع خدام باہر سیر کے واسطے تشریف لے گئے.راستہ میں عاجز راقم ( حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر بدر.ناقل ) کو مخاطب کر کے فرمایا: اخبار میں چھاپ دو اور سب کو اطلاع کر دو کہ یہ دن خدا تعالیٰ کے غضب کے دن ہیں.اللہ تعالیٰ نے کئی بار مجھے بذریعہ وحی فرمایا ہے کہ غَضَبْتُ غَضَبًا شَدِيدًا آج کل طاعون بہت بڑھتا جاتا ہے اور چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے.میں اپنی جماعت کے واسطے خدا تعالیٰ سے بہت دُعا کرتا ہوں کہ وہ اس کو بچائے رکھے مگر قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جب قہر الہی نازل ہوتا ہے تو بدوں کے ساتھ نیک بھی لیٹے جاتے ہیں اور پھر ان کا حشر اپنے اپنے اعمال کے مطابق ہوگا.دیکھو حضرت نوح کا طوفان سب پر پڑا اور ظاہر ہے کہ ہرایک
فقه المسيح 439 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون مر دعورت اور بچے کو اس سے پورے طور پر خبر نہ تھی کہ نوح کا دعوی اور اس کے دلائل کیا ہیں.جہاد میں جو فتوحات ہوئیں وہ سب اسلام کی صداقت کے واسطے نشان تھیں.لیکن ہر ایک میں کفار کے ساتھ مسلمان بھی مارے گئے.کا فرجہنم کو گیا اور مسلمان شہید کہلایا.ایسا ہی طاعون ہماری صداقت کے واسطے ایک نشان ہے اور ممکن ہے کہ اس میں ہماری جماعت کے بعض آدمی بھی شہید ہوں.ہم خدا تعالیٰ کے حضور دعا میں مصروف ہیں کہ وہ ان میں اور غیروں میں تمیز قائم رکھے لیکن جماعت کے آدمیوں کو یا درکھنا چاہئے کہ صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھنے سے کچھ نہیں بنتا جب تک کہ ہماری تعلیم پر عمل نہ کیا جاوے.سب سے اول حقوق اللہ کو ادا کرو.اپنے نفس کو تمام جذبات سے پاک رکھو.اس کے بعد حقوق عبادکو ادا کرو اور اعمال صالحہ کو پورا کرو.خدا تعالیٰ پر سچا ایمان لاؤ اور تضرع کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور میں دعا کرتے رہو اور کوئی دن ایسا نہ ہو جس دن تم نے خدا تعالیٰ کے حضور رو کر دعا نہ کی ہو.اس کے بعد ا سباب ظاہری کی رعایت رکھو.جس مکان میں چوہے مرنے شروع ہوں اس کو خالی کر دو.اور جس محلہ میں طاعون ہو اس محلہ سے نکل جاؤ اور کسی کھلے میدان میں جا کر ڈیرا لگاؤ.جو تم میں سے بتقدیر الہی طاعون میں مبتلا ہو جاوے اس کے ساتھ اور اس کے لواحقین کے ساتھ پوری ہمدردی کرو اور ہر طرح سے اس کی مدد کرو اور اس کے علاج معالجہ میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھو لیکن یادر ہے کہ ہمدردی کے یہ معنے نہیں کہ اس کے زہریلے سانس یا کپڑوں سے متاثر ہو جاؤ بلکہ اس اثر سے بچو.اُسے کھلے مکان میں رکھو اور جو خدانخواستہ اس بیماری سے مرجائے وہ شہید ہے.اس کے واسطے ضرورت غسل کی نہیں اور نہ نیا کفن پہنانے کی ضرورت ہے.اس کے وہی کپڑے رہنے دو اور ہو سکے تو ایک سفید چادر اس پر ڈال دو اور چونکہ مرنے کے بعد میت کے جسم میں زہریلا اثر زیادہ ترقی پکڑتا ہے اس واسطے سب لوگ اس کے ارد گرد جمع نہ ہوں.حسب ضرورت دو تین آدمی اس کی چار پائی کو اُٹھا ئیں اور باقی سب دور کھڑے ہو کر
فقه المسيح 440 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون مثلاً ایک سو گز کے فاصلہ پر جنازہ پڑھیں.جنازہ ایک دُعا ہے اور اس کے واسطے ضروری نہیں کہ انسان میت کے سر پر کھڑا ہو.جہاں قبرستان دور ہو مثلاً لاہور میں سامان ہو سکے تو کسی گاڑی یا چھکڑے پر میت کو لاد کر لے جاویں اور میت پر کسی قسم کی جزع فزع نہ کی جاوے.خدا تعالیٰ کے فعل پر اعتراض کرنا گناہ ہے.اس بات کا خوف نہ کرو کہ ایسا کرنے سے لوگ تمہیں بُرا کہیں گے وہ پہلے کب تمہیں اچھا کہتے ہیں.یہ سب باتیں شریعت کے مطابق ہیں اور تم دیکھ لو گے کہ آخر کار وہ لوگ جو تم پر ہنسی کریں گے خود بھی ان باتوں میں تمہاری پیروی کریں گے.مکررا یہ بہت تاکید ہے کہ جو مکان تنگ اور تاریک ہو اور ہوا اور روشنی خوب طور پر نہ آسکے اس کو بلا توقف چھوڑ دو کیونکہ خود ایسا مکان ہی خطرناک ہوتا ہے گوکوئی چوہا بھی اس میں نہ مرا ہو اور حتی المقدور مکانوں کی چھتوں پر رہو.نیچے کے مکان سے پر ہیز کرو اور اپنے کپڑوں کو صفائی سے رکھو.نالیاں صاف کراتے رہو.سب سے مقدم یہ کہ اپنے دلوں کو بھی صاف کرو اور خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری صلح کرلو.نشان کے پورا ہونے پر دعوت دینا جائز ہے (بدر 4 را پریل 1907 ، صفحہ 6،5) خان صاحب عبدالحمید نے کپورتھلہ سے حضرت کی خدمت میں ڈوئی کے شاندار نشان کے پورا ہونے کی خوشی پر دوستوں کو دعوت دینے کی اجازت حاصل کرنے کے واسطے خط لکھا.حضرت نے اجازت دی اور فرمایا: " تحديث بالنعمة کے طور پر ایسی دعوت کا دینا جائز ہے.“ ( بدر 28 مارچ 1907 صفحہ 4)
فقه المسيح 441 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون مجالس مشاعرہ ایک جگہ بعض شاعرانہ مذاق کے دوست ایک با قاعدہ انجمن مشاعرہ قائم کرنا چاہتے تھے اس کے متعلق حضرت سے دریافت کیا گیا.فرمایا: تضیع اوقات ہے کہ ایسی انجمنیں قائم کی جاویں اور لوگ شعر بنانے میں مستغرق رہیں.ہاں یہ جائز ہے کہ کوئی شخص ذوق کے وقت کوئی نظم لکھے اور اتفاقی طور پر کسی مجلس میں سنائے یا کسی اخبار میں چھپوائے.ہم نے اپنی کتابوں میں کئی نظمیں لکھی ہیں مگر اتنی عمر ہوئی آج تک کبھی کسی مشاعرہ میں شامل نہیں ہوئے.میں ہرگز پسند نہیں کرتا کہ کوئی شاعری میں اپنا نام پیدا کرنا چاہے.ہاں اگر حال کے طور نہ صرف قال کے طور پر اور جوشِ روحانی سے اور نہ خواہش نفسانی سے کبھی کوئی نظم جو مخلوق کے لیے مفید ہوسکتی ہوںلکھی جائے تو کچھ مضائقہ نہیں مگر یہی پیشہ کر لینا ایک منحوس کام ہے.نسل افزائی کے لئے سانڈ رکھنا ( بدر 27 جون 1907 ء صفحہ 7) ایک شخص نے سوال کیا کہ خالصة لوجہ اللہ نسل افزائی کی نیت سے اگر کوئی سانڈ چھوڑے تو کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا: أَصْلُ الَا شَيَاءِ إِبَاحَة اشیاء کا اصل تو اباحت ہی ہے.جنہیں خدا تعالیٰ نے حرام فرمایا وہ حرام ہیں باقی حلال.بہت سی باتیں نیت پر موقوف ہیں.میرے نزدیک تو یہ جائز بلکہ ثواب کا کام ہے.عرض کیا گیا کہ قرآن مجید میں آیا ہے.فرمایا: میں نے جواب دیتے وقت اسے زیر نظر رکھ لیا ہے وہ تو دیوتوں کے نام پر دیتے تھے.یہاں
فقه المسيح 442 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون خاص خدا تعالیٰ کے نام پر ہے.نسل افزائی ایک ضروری بات ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں انعام وغیرہ کو اپنی نعمتوں سے فرمایا ہے.سو اس نعمت کا قدر کرنا چاہئے اور قدر میں نسل کا بڑھانا بھی ہے.پس اگر ایسا نہ ہوتو پھر چار پائے کمزور ہوں گے اور دنیا کے کام بخوبی نہ چل سکیں گے اس لیے میرے نزدیک تو حرج کی بات نہیں.ہر ایک عمل نیت پر موقوف ہے.ایک ہی کام جب کسی غیر اللہ کے نام پر ہو تو حرام اور اگر اللہ کے لیے ہو تو حلال ہو جاتا ہے.بدامنی کی جگہ پر احمدیوں کا کردار ( بدر یکم اگست 1907 ، صفحہ 12 ) ایک جگہ سے چنداحمدیوں کا ایک خط حضرت کی خدمت میں پہنچا کہ اس جگہ بدامنی ہے لوگ آپس میں ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں.کوئی پرسان نہیں.چند ملاں ہم کو قتل کرنا چاہتے ہیں کیا آپ کی اجازت ہے کہ ہم بھی ان کو قتل کرنے کی کوشش کریں؟ حضرت نے فرمایا: ایسا مت کرو.ہر طرح سے اپنی حفاظت کر ولیکن خود کسی پر حملہ نہ کرو.تکالیف اُٹھاؤ اور صبر کرو.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ تمہارے لیے کوئی انتظام احسن کر دے.جو شخص تقوی اختیار کرتا ہے اور صبر کرتا ہے.خدا تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا ہے.تشبه بالكفار جائز نہیں (بدر 26 ستمبر 1907 ، صفحہ 6) ایک شخص نے پوچھا کہ کیا ہندوؤں والی دھوتی باندھنی جائز ہے یا نہیں ؟ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا: تخبہ بالکفار تو کسی ہی رنگ میں بھی جائز نہیں.اب ہند و ماتھے پر ایک ٹیکہ سالگاتے ہیں کوئی وہ بھی لگالے.یا سر پر بال تو ہر ایک کے ہوتے ہیں مگر چند بال بودی کی شکل میں ہندور رکھتے ہیں
فقه المسيح 443 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون اگر کوئی ویسے ہی رکھ لیوے تو یہ ہرگز جائز نہیں.مسلمانوں کو اپنی ہر ایک چال میں وضع قطع میں غیرت مندانہ چال رکھنی چاہیے ہمارے آنحضرت ﷺ نہ بند بھی باندھا کرتے تھے اور سراویل بھی خریدنا آپ کا ثابت ہے جسے ہم پاجامہ یا تنبی کہتے ہیں ان میں سے جو چاہے پہنے.علاوہ ازیں ٹوپی، گرنہ ، چادر اور پگڑی بھی آپ کی عادت مبارک تھی جو چاہے پہنے کوئی حرج نہیں.ہاں البتہ اگر کسی کو کوئی نئی ضرورت در پیش آئے تو اسے چاہئے کہ ان میں سے ایسی چیز کو اختیار کرے جو کفار سے تشبیہ نہ رکھتی ہو اور اسلامی لباس سے نزدیک تر ہو.جب ایک شخص اقرار کرتا ہے کہ میں ایمان لایا تو پھر اس کے بعد وہ ڈرتا کس چیز سے ہے اور وہ کون سی چیز ہے جس کی خواہش اب اس کے دل میں باقی رہ گئی ہے کیا کفار کی رسوم و عادات کی؟ اب اُسے ڈر چاہیے تو خدا کا اور اتباع چاہیے تو محمد رسول اللہ ﷺ کی کسی ادنیٰ سے گناہ کو خفیف نہ جاننا چاہیے بلکہ صغیرہ ہی سے کبیرہ بن جاتے ہیں اور صغیرہ ہی کا اصرار کبیرہ ہے.ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے ایسی فطرت ہی نہیں دی کہ ان کے لباس یا پوشش سے فائدہ اُٹھائیں.سیالکوٹ سے ایک دو با رانگریزی جوتا آیا.ہمیں اس کا پہننا ہی مشکل ہوتا تھا کبھی ادھر کا ادھر اور کبھی بائیں کا دائیں.آخر تنگ آکر سیاہی کا نشان لگایا گیا کہ شناخت رہے مگر اس طرح بھی کام نہ چلا.آخر میں نے کہا کہ یہ میری فطرت ہی کے خلاف ہے کہ ایسا جوتا پہنوں.کھانے کے لئے چھری کانٹے کا استعمال جائز ہے چھری کانٹے سے کھانے پر فرمایا: الحکم 17 اپریل 1903 ، صفحہ 8) شریعت اسلام نے چھری سے کاٹ کر کھانے سے تو منع نہیں کیا.ہاں تکلف سے ایک بات یا فعل پر زور ڈالنے سے منع کیا ہے.اس خیال سے کہ اس قوم سے مشابہت نہ ہو جاوے ورنہ یوں تو ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے چھری سے گوشت کاٹ کر کھایا اور یہ فعل اس لئے کیا
فقه المسيح 444 امور معاشرت ، رہن سہن ر با ہمی تعاون که تا امت کو تکلیف نہ ہو.جائز ضرورتوں پر اس طرح کھانا جائز ہے.مگر بالکل اس کا پابند ہونا اور تکلف کرنا اور کھانے کے دوسرے طریقوں کو حقیر جاننا منع ہے کیونکہ پھر آہستہ آہستہ انسان کی نوبت تنتبع کی یہاں تک پہنچ جاتی ہے.کہ وہ ان کی طرح طہارت کرنا بھی چھوڑ دیتا ہے.مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَمِنْهُمُ سے مراد یہی ہے کہ التزاماً ان باتوں کو نہ کرے ورنہ بعض وقت ایک جائز ضرورت کے لحاظ سے کر لینا منع نہیں ہے جیسے کہ بعض دفعہ کام کی کثرت ہوتی ہے اور بیٹھے لکھتے ہوتے ہیں تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ کھانا میز پر لگا دو اور اس پر کھا لیتے ہیں اور صف پر بھی کھا لیتے ہیں.چار پائی پر بھی کھا لیتے ہیں تو ایسی باتوں میں صرف گزارہ کو مدنظر رکھنا چاہیے.تشبیہ کے معنے اس حدیث میں یہی ہیں کہ اس لکیر کو لازم پکڑ لینا.ورنہ ہمارے دین کی سادگی تو ایسی شے ہے کہ جس پر دیگر اقوام نے رشک کھایا ہے اور خواہش کی ہے کہ کاش ان کے مذہب میں یہ ہوتی اور انگریزوں نے اس کی تعریف کی ہے اور اکثر اصول ان لوگوں نے عرب سے لے کر اختیار کئے ہیں مگر اب رسم پرستی کی خاطر وہ مجبور ہیں ، ترک نہیں کر سکتے.اپریل فول ایک گندی رسم ہے فرمایا: (البدر 6 فروری 1903 ، صفحہ 21) قرآن نے جھوٹوں پر لعنت کی ہے.اور نیز فرمایا ہے کہ جھوٹے شیطان کے مصاحب ہوتے ہیں اور جھوٹے بے ایمان ہوتے ہیں اور جھوٹوں پر شیاطین نازل ہوتے ہیں اور صرف یہی نہیں فرمایا کہ تم جھوٹ مت بولو بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ تم جھوٹوں کی صحبت بھی چھوڑ دو اور ان کو اپنا یار دوست مت بناؤ.اور خدا سے ڈرو اور بچوں کے ساتھ رہو.اور ایک جگہ فرماتا ہے کہ جب تو کوئی کلام کرے تو تیری کلام محض صدق ہو، ٹھٹھے کے طور پر بھی اس میں جھوٹ نہ ہو.
فقه المسيح 445 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون اب بتلاؤ یہ تعلیمیں انجیل میں کہاں ہیں.اگر ایسی تعلیمیں ہوتیں تو عیسائیوں میں اپریل فول کی گندی رسمیں اب تک کیوں جاری رہتیں.دیکھو اپریل فول کیسی بُری رسم ہے کہ ناحق جھوٹ بولنا اس میں تہذیب کی بات سمجھی جاتی ہے.یہ عیسائی تہذیب اور انجیلی تعلیم ہے.معلوم ہوتا ہے.کہ عیسائی لوگ جھوٹ سے بہت ہی پیار کرتے ہیں.چنا نچہ عملی حالت اس پر شاہد ہے مثلاً قرآن تو تمام مسلمانوں کے ہاتھ میں ایک ہی ہے مگر سنا گیا ہے کہ انجیلیں ساٹھ سے بھی کچھ زیادہ ہیں.شاباش اے پادریان ! جھوٹ کی مشق بھی اسے کہتے ہیں.شاید آپ نے اپنے ایک مقدس بزرگ کا قول سنا ہے کہ جھوٹ بولنا نہ صرف جائز بلکہ ثواب کی بات ہے.( مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ 199) دینی غیرت کا اظہار ر عیسائیوں کے کنوئیں کا پانی نہ لیا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں عبداللہ آتھم عیسائی کے ساتھ مباحثہ شروع ہو گیا تھا موسم گرما تھا.پانی کی ضرورت پڑتی تھی لیکن پانی اپنے ساتھ لے جایا جاتا تھا.عیسائیوں کے چاه (کنوئیں ) کا پانی نہیں لیا جاتا تھا کیونکہ عیسائی قوم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے والی ہے.لہذا ان کے چاہ کا پانی پینا حضور پسند نہ فرماتے تھے.دینی غیرت کا اظہار / مٹھائی نہیں کھائی (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 198 ) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مباحثہ آتھم میں فریقین کی تقاریر جو قلمبند ہوتی تھیں.دونوں فریق کے کاتبان تحریر آپس میں اُن کا مقابلہ کر لیتے تھے.کبھی اُن کے کا تب آجاتے ،کبھی میں جاتا.ایک دفعہ میں مضمون کا مقابلہ کرانے کے لئے آتھم کے مکان پر گیا.جا کر بیٹھا ہی تھا کہ
فقه المسيح 446 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون آتھم نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ میں نے کہا قصبہ بڈھانہ ضلع مظفر آباد کا.اس نے کہا وہاں کے منشی عبدالواحد صاحب منصف ایک میرے دوست تھے.میں نے کہا کہ وہ میرے چچا تھے.پھر کسی جگہ کا آتھم نے ذکر کیا کہ میں وہاں کا ڈپٹی تھا اور منشی عبدالواحد صاحب بھی وہاں منصف یا تحصیلدار تھے اور میرا اُن کا بڑا تعلق تھا.اور وہ بھی اپنے آپ کو مہم سمجھتے تھے.تم تو میرے بھیجے ہوئے اور وہ اپنی مستورات کو لے آیا اور اُن سے ذکر کیا کہ یہ میرے بھتیجے ہیں ان کی خاطر کرنی چاہیے.چنانچہ اسی وقت مٹھائی وغیرہ لائی گئی.میں نے کہا کہ میں یہ نہیں کھا سکتا کیونکہ ہمارے حضرت صاحب نے بعض عیسائیوں کی دعوت کو قبول نہیں کیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم ہمارے آقا اور مولا کی ہتک کرتے ہو تو ہم تمہاری دعوت کیسے قبول کر سکتے ہیں.اسی وجہ سے میں بھی چائے نہیں پی سکتا.وہ کہتا رہا کہ احمدی ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ بھتیجا ہونے کی وجہ سے دعوت کرتے ہیں.اس کے بعد میں مضمون کا مقابلہ کرائے بغیر وہاں سے چلا آیا اور حضور کی خدمت میں یہ واقعہ عرض کیا.حضور نے فرمایا کہ آپ نے بہت اچھا کیا.تمہیں وہاں جا کر مقابلہ کرانے کی کوئی ضرورت نہیں.انہیں خواہش ہو تو خود آجایا کریں.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 49،48) دینی غیرت کا اظہار / بدگو مخالفین سے معانقہ نا جائز قرار دیا حضرت اقدس سے دریافت کیا گیا کہ عیسائیوں کے ساتھ کھانا اور معانقہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا: میرے نزدیک ہرگز جائز نہیں یہ غیرت ایمانی کے خلاف ہے کہ وہ لوگ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور ہم اُن سے معانقہ کریں.قرآن شریف ایسی مجلسوں میں بیٹھنے سے بھی منع فرماتا ہے جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے اور پھر یہ لوگ خنز بر خور ہیں.اُن کے ساتھ کھانا کھانا کیسے جائز ہوسکتا ہے.اگر کوئی
فقه المسيح 447 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون شخص کسی کی ماں بہن کو گالیاں دے، تو کیا وہ روار کھے گا کہ اس کے ساتھ مل کر بیٹھے اور معانقہ کرے.پھر جب یہ بات نہیں اللہ اور رسول کے دشمنوں اور گالیاں دینے والوں سے کیوں اس کو جائز رکھا ہے.ناول لکھنا اور پڑھنا الحکم 17 اگست 1902 ، صفحہ 10 ) حضرت اقدس مسیح موعود کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ ناولوں کا لکھنا اور پڑھنا کیسا ہے؟ فرمایا: ناولوں کے متعلق وہی حکم ہے جو آنحضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعار کے متعلق فرمایا ہے کہ حَسَنُهُ حَسَنٌ وَ قَبِيْحُهُ قَبِيْحٌ اُس کا اچھا حصہ اچھا ہے اور قبیح فتیح ہے.اعمال نیت پر موقوف ہیں.مثنوی مولوی رومی میں جو قصے لکھے ہیں وہ سب تمثیلیں ہیں اور اصل واقعات نہیں ہیں.ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام تمثیلوں سے بہت کام لیتے تھے.یہ بھی.ایک قسم کے ناول ہیں جو ناول نیت صالح سے لکھے جاتے ہیں، زبان عمدہ ہوتی ہے نتیجہ نصیحت آمیز ہوتا ہے اور بہر حال مفید ہیں اُن کے حسب ضرورت و موقعہ لکھنے پڑھنے میں گناہ نہیں.غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دینا سوال پوچھنے پر آپ نے فرمایا: ( بدر 5 ستمبر 1907 صفحہ 3) قربانی کا گوشت غیر مسلم کو بھی دینا جائز ہے.“ (ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 83) عیسائیوں کا کھانا جائز ہے اہل کتاب کا کھانا کھانے پر بابومحمد افضل صاحب کے سوال پر حضرت اقدس نے جواب دیا
فقه المسيح 448 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون کہ ” تمدن کے طور پر ہندوؤں کی چیز بھی کھا لیتے ہیں.اسی طرح عیسائیوں کا کھانا بھی درست ہے مگر بایں ہمہ یہ خیال ضروری ہے کہ برتن پاک ہوں، کوئی ناپاک چیز نہ ہو.“ (الحکم 17 جون 1901 صفحہ 4) ہندوؤں کے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا، ہندوؤں کے ہاتھ کا کھانا درست ہے؟ فرمایا: شریعت نے اس کو مباح رکھا ہے.ایسی پابندیوں پر شریعت نے زور نہیں دیا بلکہ شریعت نے تو قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا (الشمس: 10 ) پر زور دیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آرمینیوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں کھا لیتے تھے اور بغیر اس کے گزارہ بھی تو نہیں ہوتا.ہند و رئیسہ کی دعوت اور نذر قبول کرنا (احکام 10 جون 1904 صفحہ 3) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں: (ایک) مقدمہ میں صاحب ڈپٹی کمشنر بہا در دورہ پر تھے، بمقام کارخانہ دھار یوال پیشی تھی اور رمضان کا مہینہ تھا.تاریخ سے پہلے خیال تھا کہ کارخانہ دھاریوال کے قریب کسی جگہ ڈیرہ لگایا جائے تا کہ پیشی کے وقت تکلیف نہ ہو.( قادیان سے آٹھ میل سفر تھا ) پہلے موضع لیل میں کوشش کی گئی لیکن افسوس کہ مسلمانانِ لیل نے انکار کر دیا.بعدش موضع کھونڈا تجویز ہوگئی اور رانی ایشر کو ر صاحبہ جو موضع کھونڈا کی رئیسہ تھی اس نے حضرت اقدس کی تشریف آوری پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور اپنے مصاحبوں کو حضور علیہ السلام کے استقبال کے لئے آگے بھیجا اور اپنا عالی شان مکان صاف کرا کر رہائش کے لئے دے دیا اور اپنے مصاحبوں کے ذریعہ نذرانہ پیش کیا اور کہلا بھیجا کہ مجھے حضور کے آنے کی اس قدرخوشی ہوئی ہے کہ میں سمجھتی ہوں کہ سردار جیمل سنگھ صاحب سر گباش آگئے ہیں.(سردار جیمل سنگھ صاحب رانی موصوفہ کے خسر تھے )
فقه المسيح 449 امور معاشرت ، رہن سہن ر با ہمی تعاون اس رات کو رانی صاحبہ موصوفہ نے حضور علیہ السلام کو مع خدام پر تکلف دعوت دی حضور علیہ السلام نے بڑی خوشی کا اظہار کیا.اس واقعہ کے متعلق اخبار الحکم لکھتا ہے: (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 266، 267) رانی ایشر کور نے اپنے اہلکاروں کے ہاتھ ایک تھال مصری کا اور ایک باداموں کا بطور نذر پیش کیا اور کہلا بھیجا، بڑی مہربانی فرمائی.میرے واسطے آپ کا تشریف لانا ایسا ہی ہے جیسے سردار جیمل سنگھ آنجہانی کا آنا.حضرت اقدس نے نہایت سادگی اور اُس لہجہ میں جو ان لوگوں میں خدا دا د ہوتا ہے، فرمایا: ”اچھا آپ نے چونکہ دعوت کی ہے ہم یہ نذر بھی لے لیتے ہیں.“ (الحام 31 جنوری 1899 ء صفحہ 7) ایک ہند وسا ہو کار کی طرف سے دی ہوئی دعوت میں شرکت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جالندھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریبا ایک ماہ قیام پذیر رہے.بیعت اولیٰ سے تھوڑے عرصہ بعد کا یہ ذکر ہے.ایک شخص جو ہندو تھا اور بڑا ساہوکار تھا.وہ جالندھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں حضور کی مع تمام رفقاء کے دعوت کرنا چاہتا ہوں.آپ نے فورا دعوت قبول فرمالی.اُس نے کھانے کا انتظام بستی باباخیل میں کیا اور بہت پر تکلف کھانے پکوائے.جالندھر سے پیدل چل کر حضور مع رفقاء گئے.اس سا ہو کار نے اپنے ہاتھ سے سب کے آگے دستر خوان بچھایا اور لوٹا اور سلا پیچی لے کر خود ہاتھ دھلانے لگا.ہم میں سے کسی نے کہا کہ آپ تکلیف نہ کریں تو اس نے کہا کہ میں نے اپنی نجات کا ذریعہ محض یہ سمجھا ہے کہ میری یہ ناچیز خدمت خدا قبول کر لے.غرض بڑے اخلاص اور محبت سے وہ کھانا کھلاتا رہا.کھانا کھانے کے بعد اُس نے حضرت صاحب سے عرض کی کہ کیا خدا
فقه المسيح 450 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون میرے اس عمل کو قبول کرے گا، مجھے نجات دے گا ؟ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ذرہ نواز ہے.تم خدا کو واحد لاشریک یقین کرو اور بتوں کی طرف بالکل توجہ نہ کرو اور اپنی ہدایت کے لئے خدا سے اپنی زبان میں ہی دعا مانگتے رہا کرو.اس نے کہا کہ میں ضرور ایسا کروں گا.حضور بھی میرے لئے دعا مانگتے رہیں.پھر ہم واپس جالندھر آگئے اور وہ ساہوکار دوسرے تیسرے دن آتا اور بڑے ادب کے ساتھ حضور کے سامنے بیٹھ جاتا.ہندوؤں کے ساتھ لین دین اور معاشرت (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 51،50) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہندؤوں کے ہاں کا کھانا کھا پی لیتے تھے اور اہل ہنود کا تحفہ از قسم شیرینی وغیرہ بھی قبول فرما لیتے تھے اور کھاتے بھی تھے.اسی طرح بازار سے ہند و حلوائی کی دُکان سے بھی اشیاء خوردنی منگواتے تھے.ایسی اشیا ء اکثر نقد کی بجائے ٹونبو کے ذریعہ سے آتی تھیں.یعنی ایسے رقعہ کے ذریعہ جس پر چیز کا نام اور وزن اور تاریخ اور دستخط ہوتے تھے.مہینہ بعد دکاندار وہ ٹو نبو بھیج دیتا اور حساب کا پرچہ ساتھ بھیجتا.اس کو چیک کر کے آپ حساب ادا کر دیا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ہندوؤں کے ہاتھ کی پکی ہوئی چیز جائز سمجھتے تھے اور اس کے کھانے میں پر ہیز نہیں تھا.آج کل جو عموما پر ہیز کیا جاتا ہے.اس کی وجہ مذہبی نہیں بلکہ اقتصادی ہے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 794) مقدمات میں مصنوعی گواہ بنانا ایک مختار عدالت نے سوال کیا کہ بعض مقدمات میں اگر چہ وہ سچا اور صداقت پر ہی مبنی ہو
فقه المسيح 451 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون مصنوعی گواہوں کا بنانا کیسا ہے؟ فرمایا: اول تو اس مقدمہ کے پیروکار بنو جو بالکل سچا ہو.تفتیش کر لیا کرو کہ مقدمہ سچا ہے یا جھوٹا پھر سچ آپ ہی فروغ حاصل کرے گا.دوم گواہوں سے آپ کا کچھ واسطہ ہی نہیں ہونا چاہیے.یہ موکل کا کام ہے کہ وہ گواہ پیش کرے.یہ بہت ہی بُری بات ہے کہ خود تعلیم دی جاوے کہ چند گواہ تلاش کر لاؤ اور ان کو یہ بات سکھا دو یتم خود کچھ بھی نہ کہو.موکل خود شہادت پیش کرے خواہ وہ کیسی ہی ہو.اشعار اور نظم پڑھنا التحام 24 را پریل 1903 صفحہ 10 ) اشعار اور نظم پر سوال ہوا تو فرمایا: نظم تو ہماری اس مجلس میں بھی سنائی جاتی ہے آنحضرت ﷺ نے بھی ایک دفعہ ایک شخص...خوش الحان کی تعریف سن کر اس سے چند ایک اشعار سنے پھر فرمایا کہ رَحِمَكَ اللهُ یہ لفظ آپ جسے کہتے تھے وہ جلد ہی شہید ہو جاتا چنانچہ وہ بھی میدان میں جاتے ہی شہید ہو گیا.ایک صحابی نے حضرت عے کے بعد مسجد میں شعر پڑھے.حضرت عمرؓ نے روکا کہ مسجد میں مت پڑھو، وہ غصہ میں آگیا اور کہا کہ تو کون ہے کہ مجھے روکتا ہے میں نے اسی جگہ اور اسی مسجد میں آنحضرت علی کے سامنے اشعار پڑھے تھے اور آپ نے مجھے منع نہ کیا.حضرت عمرؓ خاموش ہو گئے.شعر کہنا البدر 27 مارچ 1903 ء صفحہ 74) ایک شخص کا اعتراض پیش ہوا کہ مرزا صاحب شعر کہتے ہیں.فرمایا: آنحضرت ﷺ نے بھی خود شعر پڑھتے ہیں.پڑھنا اور کہنا ایک ہی بات ہے.پھر آنحضرت ﷺ کے گل صحابی شاعر تھے.حضرت عائشہ ، امام حسن اور امام حسین کے قصائد
فقه المسيح 452 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون مشہور ہیں.حسان بن ثابت نے آنحضرت ﷺ کی وفات پر قصیدہ لکھا ہے.سید عبدالقادر صاحب نے بھی قصائد لکھے ہیں.کسی صحابی کا ثبوت نہ دے سکو گے کہ اس نے تھوڑایا بہت شعر نہ کہا ہو مگر آنحضرت ﷺ نے کسی کو منع نہ فرمایا.قرآن کی بہت سی آیات شعروں سے ملتی ہیں.ایک شخص نے عرض کی کہ سورہ شعراء میں اخیر پر شاعروں کی مذمت کی ہے.فرمایا: وہ مقام پڑھو.وہاں خدا نے فسق و فجور کر نیوالے شاعروں کی مذمت کی ہے اور مومن شاعر کا وہاں خود استثناء کر دیا ہے.پھر ساری زبور نظم ہے، یرمیاہ سلیمان اور موسیٰ کی نظمیں تو رات میں میں اس سے ثابت ہوا کہ نظم گناہ نہیں ہے ہاں فسق و فجور کی نظم نہ ہو.ہمیں خود الہام ہوتے ہیں بعض ان میں سے مُقفی اور بعض شعروں میں ہوتے ہیں.وہ البدر 27 مارچ 1903 ء صفحہ 74) آتش بازی فرمایا: اس میں ایک جز و گندھک کا بھی ہوتا ہے اور گندھک وبائی ہوا صاف کرتی ہے.چنانچہ آج کل طاعون کے ایام میں مثلاً انار بہت جلد ہوا کو صاف کرتا ہے اور اگر کوئی شخص صحیح نیست اصلاح ہوا کے واسطے ایسی آتش بازی جس سے کوئی خطرہ نقصان کا نہ ہو چلا وے تو ہم اس کو جائز سمجھتے ہیں مگر یہ بہ شرط اصلاح نیت کے ساتھ ہو کیونکہ تمام نتائج نیت پر مترتب ہوتے ہیں.حدیث میں آیا ہے کہ صحابی نے گھر بنوایا اور آپ کو مجبور کیا کہ آپ اس میں قدم ڈالیں.آپ نے اس مکان کو دیکھا.اس کے ایک طرف کھڑ کی تھی.آپ نے دریافت کیا کہ یہ کس لیے بنائی ہے؟ اس نے عرض کیا کہ ٹھنڈی ہوا کے آنے کے واسطے.آپ نے فرمایا کہ اگر تو اذان سننے کے واسطے اس کی نیت رکھتا تو ہوا تو آہی جاتی اور تیری نیت کا ثواب بھی تجھے مل جاتا.(الحکم 24 اپریل 1903 صفحہ 10 )
فقه المسيح 453 امور معاشرت ، رہن سہن ر با ہمی تعاون حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں گھر کے بچے کبھی شب برات وغیرہ کے موقع پر یونہی کھیل تفریح کے طور پر آتش بازی کے انار وغیرہ منگا کر چلالیا کرتے تھے.اور بعض اوقات اگر حضرت صاحب موقعہ پر موجود ہوں تو یہ آتش بازی چلتی ہوئی آپ خود بھی دیکھ لیتے تھے.نیز حضرت خلیفہ اسی الثانی بیان کرتے تھے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ گھر میں آتش بازی کے انار وغیرہ چلانا طاعونی مادہ کو مارنے اور ہوا کی صفائی کے لئے مفید ہوتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہم بچپن میں بعض اوقات آتش بازی کی اس قسم کی غیر ضرررساں چیزیں جیسے انار ہوتا ہے منگا کر گھر میں چلا لیتے تھے اور حضرت صاحب دیکھتے تھے اور منع نہیں فرماتے تھے بلکہ بعض دفعہ ان چیزوں کے منگانے کے لئے ہم حضرت صاحب سے پیسے مانگتے تھے تو آپ دے دیتے تھے.آتش بازی اور با جا (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 341) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ مرزا حاکم بیگ کی شادی پر اس کے سسرال نے آتش بازی، تماشے اور باجے کا تقاضا کیا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ میرے سسرال والے یہ چاہتے ہیں.حضور کا کیا ارشاد ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ سب نا جائز ہیں مگر مومن بعض وقت ناجائز سے بھی فائدہ اُٹھا لیتا ہے.مثلاً شہر میں وبائی مرض پھیلی ہوئی ہے.ایک شخص اس خیال سے آتش بازی چھوڑتا ہے کہ اس سے ہوا صاف ہو جائے گی اور لوگوں کو فائدہ پہنچے گا تو وہ اس سے بھی گویا ثواب حاصل کرتا ہے اور اسی طرح باجے کے متعلق اگر اس شخص کی یہ نیت ہو کہ چونکہ ہم نے دور تک جانا ہے اور باجے کے ذریعے سے لوگوں کو علم ہو جائے گا کہ فلاں شخص کی
فقه المسيح 454 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون لڑکی کا نکاح فلاں شخص سے ہوا ہے.اگر اس نے اس نیت سے باجا بھجوایا تو یہ ایک اعلان کی صورت ہو جائے گی.اس میں بھی ناجائز کا سوال اُٹھ گیا.(سیرۃ المہدی جلد 2 صفحہ 321) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں سوال کیا کہ شادیوں کے موقع پر اکثر لوگ با جا، آتش بازی ، وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں.اس کے متعلق شرعی فیصلہ کیا ہے؟ فرمایا: ” آتش بازی تو جائز نہیں.یہ ایک نقصان رساں فعل ہے اور باجا کا بغرض تشہیر نکاح جواز ہے.“ 66 (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 268) سکھوں اور ہندوؤں کا اذان دلوانا اخبار البدر نے لکھا : آج کل طاعون کی کثرت کے وقت اکثر سکھوں اور ہندوؤں کے گاؤں میں یہ علاج کیا جاتا ہے کہ اذان نماز بڑے زور اور کثرت سے ہر ایک گھر میں دلائی جاتی ہے اس کی نسبت ایک شخص نے حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ یہ فعل کیسا ہے؟ فرمایا : اذان سراسر اللہ تعالیٰ کا پاک نام ہے ہمیں تو حضرت علی کا جواب یاد آتا ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ میں اس أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى عَبْدًا إِذَا صَلَّى (العلق: 11،10) کا مصداق ہونا نہیں چاہتا.ہمارے نزدیک بانگ میں بڑی شوکت ہے اور اس کے دلوانے میں حرج نہیں ( حدیث میں آیا ہے کہ اس سے شیطان بھاگتا ہے.) سونے، چاندی اور ریشم کا استعمال (البدریکم مئی 1903 ء صفحہ 116 ) عرض کی گئی کہ چاندی وغیرہ کے بٹن استعمال کئے جاویں؟ فرمایا:
فقه المسيح 455 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون تین چار ماشہ تک تو حرج نہیں لیکن زیادہ کا استعمال منع ہے.اصل میں سونا چاندی عورتوں کی زینت کے لیے جائز رکھا ہے.ہاں علاج کے طور پر ان کا استعمال منع نہیں جیسے کسی شخص کو کوئی عارضہ ہو اور چاندی سونے کے برتن میں کھانا طبیب بتلاوے تو بطور علاج کے صحت تک وہ استعمال کر سکتا ہے.ایک شخص آنحضرت ﷺ کے پاس آیا.اُسے جو ئیں بہت پڑی ہوئی تھیں.آپ نے حکم دیا کہ تو ریشم کا کرتہ پہنا کر اس سے جوئیں نہیں پڑتیں.(ایسے ہی خارش والے کے لیے ریشم کا لباس مفید ہے).رشوت کے روپیہ سے بنائی گئی جائیداد البدر 24 اگست 1904 ، صفحہ 8 ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر ایک شخص تائب ہو تو اس کے پاس جو اول جائیدا درشوت وغیرہ سے بنائی ہو اس کا کیا حکم ہے.فرمایا: شریعت کا حکم ہے کہ تو بہ کرے تو جس جس کا وہ حق ہے وہ اسے پہنچایا جاوے.رشوت اور ہدیہ میں ہمیشہ تمیز چاہیے.رشوت وہ مال ہے کہ جب کسی کی حق تلفی کے واسطے دیا یا لیا جاوے ور نہ اگر کسی نے ہمارا ایک کام محنت سے کر دیا ہے اور حق تلفی بھی کسی کی نہیں ہوئی تو اس کو جو دیا جاوے گا.وہ اس کی محنت کا معاوضہ ہے.طاعون زدہ علاقہ میں جانے کی ممانعت البدر 27 مارچ 1903 صفحہ 76) ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرے اہل خانہ اور بچے ایک ایسے مقام میں ہیں جہاں طاعون کا زور ہے.میں گھبرایا ہوا ہوں اور وہاں جانا چاہتا ہوں.فرمایا:.مت جاؤ.لَا تُلْقُوا بِا يُدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرة: 196) پچھلی رات کو اٹھ کر اُن
فقه المسيح 456 امور معاشرت ، رہن سہن ر با ہمی تعاون 66 کے لیے دعا کرو.یہ بہتر ہوگا بہ نسبت اس کے کہ تم خود جاؤ.ایسے مقام پر جانا گناہ ہے.“ بھاجی قبول نہ کرنا (الحکم 24 اپریل 1902 ، صفحہ 8) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ 7 دسمبر 1899 ء کا واقعہ ہے.فرمایا کہ ہم نے گھر میں کہا ہوا ہے کہ جب کوئی بھاجی کے طور پر کوئی چیز بھیجے تو نہ لیا کرو.پھر فرمایا کہ ایک روز ایک عورت سکھ مذہب کی ہمارے گھر میں بعض چیزیں لے کر آئی.حسب دستور ہمارے گھر سے واپس کر دی گئیں.اس عورت نے کہا کہ واپس نہ کرو مجھے کوئی غرض نہیں ہے.مجھ پر آپ نے بڑا احسان کیا ہے.فرمایا کہ ہم نے اس عورت کو شناخت کیا.اصل بات یہ تھی کہ اس عورت کے لڑکے کو ام الصبیان کی بیماری تھی اور لڑکا قریب المرگ تھا وہ ہمارے پاس لڑکے کو لے آئی.اس کا علاج کیا گیا، لڑکا اچھا ہو گیا.اس کے شکرانہ میں وہ کچھ چیزیں لائی تھی پھر ہم نے گھر میں کہا کہ لے لو.یہ شکر گزاری کے طور پر ہے.بچے کی ولادت پر مٹھائی بانٹنا (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 232،231) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ صلاح الدین کے عقیقہ کے وقت ڈاکٹر صاحب نے دو بکرے منگوائے.میں نے کہا کہ کچھ مٹھائی بھی منگوالو.میں نے منت مانی ہے کہ لڑکا ہوگا تو مٹھائی تقسیم کروں گی.ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ عقیقہ کرنا تو سنت ہے.لڈو بانٹنے بدعت نہ ہوں؟ حضور سے پوچھ لیا جاوے.اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ”خوشی کے موقعہ پر شیرینی بانٹی جائز ہے.پہلے دو بکرے
فقه المسيح 457 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون کئے گئے تھے پھر ایک اور کیا گیا تھا.دوسرے دن کچھ گوشت بازار سے بھی منگایا گیا تھا تا کہ تقسیم پوری ہو جاوے.اس وقت مٹھائی چار سیر روپیہ کی تھی جو کہ اٹھارہ روپیہ کی منگوا کر تمام گھروں میں اور دفاتر و مہمانخانہ وغیرہ سب جگہ تقسیم کی گئی تھی.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 223 ) بیعت کے موقعہ پر شیرینی تقسیم کرنے کی اجازت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اپنی بیعت سے قبل میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر لدھیانہ میں سنی.جب وہ تقریر ختم ہوئی تو نماز مغرب ادا کی گئی.امامت حضرت صاحب نے خود فرمائی.اور پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص اور فلق تلاوت فرمائی.اور دوسری رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص اور قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھی.اس کے بعد حضور نے بیعت لی.اس روز ہم دو آدمیوں نے بیعت کی تھی.پہلے جب وہ صاحب بیعت کر کے کمرے سے باہر آ گئے تو حضور کے طلب فرمانے پر عاجز داخل ہوا.حضور نے دروازہ بند کر کے کنڈی لگادی اور بیعت لی.بیعت سے قبل خاکسار نے عرض کیا کہ جب میں نے اس سے قبل نقشبندی میں بیعت کی تھی تو کچھ شیرینی تقسیم کی تھی اگر اجازت ہو تو اب بھی منگوالی جائے.فرما یالا زمی تو نہیں اگر آپ کا دل چاہے تو ہم منع نہیں کرتے اور فرمایا ایسی باتیں جو آج کل لوگ بطور رسم اختیار کئے ہوئے ہیں.ان کے مآخذ بھی سنت نبوی سے تلاش اور غور کرنے سے مل سکتے ہیں مثلاً یہی شیرینی وغیرہ تقسیم کرنے کا معاملہ ہے.حدیث سے ثابت ہے کہ ایک موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس گھر پر کچھ آدمیوں کا مجمع ہو اور وہ تمام کی دعوت کی توفیق نہ رکھتا ہو تو اگر حاضرین کو ایک ایک کھجور بھی تقسیم کر دے تو خدا تعالیٰ اس کو دعوت کا ثواب عطا فرمائے گا.یہاں سے مجالس میں تبرک وغیرہ کی بنیاد پڑی ہے.اگر کوئی اس نیت سے ایسا
فقه المسيح 458 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون کرے تو وہ علاوہ ثواب دعوت کے عامل سنت ہونے کا اجر بھی پائے گا.لیکن اب اس کے برعکس تبرک تقسیم کرنے والوں کا یہ حال ہے کہ وہ صرف نام نمود کے لئے ایسا کرتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی مجلس میں دال داکھ وغیرہ تقسیم کی ہے ہم جلیبی یا قلاقند تقسیم کریں گے اور دوسری طرف تبرک لینے والوں کا یہ حال ہے کہ اُن کو اس وعظ و پند سے فائدہ اُٹھانے کا مطلب ہی نہیں ہوتا جس کے لئے مجلس کا انعقاد ہوا ہو بلکہ ان کی ٹولیوں میں دن سے ہی مشورہ ہوتے ہیں کہ فلاں مجلس میں زردہ پلاؤ یا کوئی عمدہ مٹھائی تقسیم ہوگی.اس لئے وہاں چلیں گے اور مجلس میں جا کر باہر بیٹھے اونگھتے یا سوتے رہیں گے.جب تقسیم کا وقت آتا ہے تو سب سے پیش اور سب سے بیش لینے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اگر موقعہ ملے تو ایک سے زیادہ دفعہ بدل کر یا دوسری طرف کی صفوں میں بیٹھ کر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.بچے کی پیدائش پر شکرانہ کے لڈو (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 85،84) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مرزا خدا بخش صاحب کے ہاں بچہ پیدا ہوا.انہوں نے لڈو میرے ہاں بھیجے.میں نے واپس کر دیئے کہ عقیقہ کا کھانا تو میں لے لوں گا مگر یہ میں نہیں لیتا.تھوڑے عرصہ بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہ رکابی خود لئے تشریف لائے اور فرمایا کہ بات ٹھیک ہے جو تم نے کہی.یہ بچہ کی پیدائش کے لڈو نہیں بلکہ اس شکریہ کے ہیں کہ ماں کی جان بچ گئی.میں نے نہایت تکریم سے وہ رکابی لے لی.اُس وقت میرے مکان زنانہ کے صحن میں ایک دروازہ تھا اس پر کھڑے کھڑے یہ باتیں ہوئیں.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 52) گانے بجانے کی مجلس سے علیحدگی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی
فقه المسيح 459 امور معاشرت ، رہن سہن ر با ہمی تعاون نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیعت اولیٰ سے پہلے کا ذکر ہے کہ میں قادیان میں تھا.فیض اللہ چک میں کوئی تقریب شادی یا ختنہ تھی.جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مع چند خدام کے مدعو کیا گیا.ان کے اصرار پر حضرت صاحب نے دعوت قبول فرمائی.ہم دس بارہ آدمی حضور کے ہمراہ فیض اللہ چک گئے.گاؤں کے قریب ہی پہنچے تھے کہ گانے بجانے کی آواز سُنائی دی جو اس تقریب پر ہو رہا تھا.یہ آواز سنتے ہی حضور لوٹ پڑے.فیض اللہ چک والوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے آکر بہت التجاء کی مگر حضور نے منظور نہ فرمایا.اور واپس ہی چلے آئے.راستہ میں ایک گاؤں تھا مجھے اس کا نام اس وقت یاد نہیں.وہاں ایک معزز سکھ سردار نی تھی.اُس نے ہمنت حضور کی دعوت کی.حضور نے فرمایا قادیان قریب ہی ہے.مگر اس کے اصرار پر حضور نے اس کی دعوت قبول فرمالی.اور اس کے ہاں جا کر سب نے کھانا کھایا.اور تھوڑی دیر آرام کر کے حضور قادیان واپس تشریف لے آئے.ہمراہیان کے نام جہاں تک یاد ہے یہ ہیں.مرز امحمد اسماعیل صاحب شیر فروش ، حافظ حامد علی، علی بخش حجام جس نے عطاری کی دکان کی ہوئی تھی اور بھی چند آدمی تھے.ٹنڈ کروانے کی ناپسندیدگی (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 49) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین کے مقدمہ میں گورداسپور تشریف لے گئے تو ایک دن جبکہ آپ نے گورداسپور کی کچہری کے پاس جو جامن ہے اس کے نیچے ڈیرا لگایا ہوا تھا.خواجہ کمال الدین صاحب جنہوں نے اس وقت اپنے سر کی ٹنڈ کرائی ہوئی تھی.اس جامن کے نیچے ٹہل رہے تھے.حضرت صاحب نے جب خواجہ صاحب کا سر منڈا ہوا دیکھا تو اسے ناپسند فرمایا اور آئندہ کے لئے روکنے کے خیال سے فرمایا کہ یہ علامت
فقه المسيح 460 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون منافق یا یہود کی ہے مجھے یاد نہیں رہا کہ ان دونوں لفظوں میں سے حضور نے علامت منافق یا علامت یہود کونسا لفظ فرمایا مگر آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے ضرور تھے کہ منافق یا یہود.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جہاں تک مجھے یاد ہے حضرت صاحب یہ فرمایا کرتے تھے کہ سر منڈانا خوارج کی علامت ہے اور اُسے نا پسند فرماتے تھے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 629، 630) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سر کے بال منڈوانے کو بہت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ خارجیوں کی علامت ہے.نیز حضرت صاحب فرماتے.ہے.تھے کہ ہمارے سر کے بال عقیقہ کے بعد نہیں مونڈے گئے چنانچہ آپ کے سر کے بال نہایت باریک اور ریشم کی طرح ملائم تھے اور نصف گردن تک لمبے تھے لیکن آپ کی ریش مبارک کے بال سر کے بالوں کی نسبت موٹے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ جو میر صاحب نے بیان کیا ہے کہ حضرت صاحب کے بال نصف گردن تک لمبے تھے اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ جس طرح ان لوگوں کے بال نظر آتے ہیں جنہوں نے پٹے رکھے ہوتے ہیں اس طرح آپ کے بال نظر آتے تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ گو آپ کے بال لمبے ہوتے تھے لیکن بوجہ اس کے کہ وہ نہایت نرم اور باریک تھے اور گھنے بھی نہ تھے وہ پیٹوں کی طرح نظر نہ آتے تھے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 383) حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سِيمَاهُمُ التَّحْلِيقُ أَوِ التَّسْبِيدُ إِن ( منافقین کی) شناخت یہ ہے کہ ان کے سر کے بال منڈے ہوئے ہوں گے داڑھی بھی اسی میں شامل ہے.یہ حدیث در اصل حضرت اقدس امام علیہ السلام نے دارالامان میں بخاری شریف سے نکال
فقه المسيح 461 امور معاشرت / رہن سہن ، باہمی تعاون کر دکھلائی تھی اور اس وقت بالوں کا ذکر تھا اور کئی بار فرمایا تھا کہ سر اور داڑھی کے بال منڈانا منافق کی علامت ہے.پھر فرمایا کہ ہم کو بھی بال منڈانے کا اتفاق نہیں ہوا.ہمارے سر پر جو بال ہیں وہی ہیں جو عقیقہ کے دن اترے.آپ کے بال نہایت نرم اور نازک مونڈھوں تک رہتے تھے جیسے حدیثوں میں مسیح موعود کی علامت ٹھہرائی ہے.حضرت مسیح موعود کے مصافحہ کا طریق ( تذكرة المهدی صفحہ 32) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کبھی بھی کسی سے معانقہ کرتے نہیں دیکھا.مصافحہ کیا کرتے تھے اور حضرت صاحب کے مصافحہ کرنے کا طریقہ ایسا تھا جو عام طور پر رائج ہے.اہلحدیث والا مصافحہ نہیں کیا کرتے تھے.لباس میں سادگی (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 718) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود عام طور پر سفید ململ کی پگڑی استعمال فرماتے تھے جو عموما دس گز لمبی ہوتی تھی.پگڑی کے نیچے کلاہ کی جگہ نرم قسم کی رومی ٹوپی استعمال کرتے تھے اور گھر میں بعض اوقات پگڑی اتار کر سر پر صرف ٹوپی ہی رہنے دیتے تھے.بدن پر گرمیوں میں عموما ململ کا کر تہ استعمال فرماتے تھے.اس کے اوپر گرم صدری اور گرم کوٹ پہنتے تھے.پاجامہ بھی آپ کا گرم ہوتا تھا.نیز آپ عموما جراب بھی پہنے رہتے تھے بلکہ سردیوں میں دو دو جوڑے اوپر تلے پہن لیتے تھے.پاؤں میں آپ ہمیشہ دیسی جوتا پہنتے تھے.نیز بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب سے حضرت مسیح موعود کو دورے پڑنے شروع ہوئے.
فقه المسيح 462 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون اس وقت سے آپ نے سردی گرمی میں گرم کپڑے کا استعمال شروع فرما دیا تھا.ان کپڑوں میں آپ کو گرمی بھی لگتی تھی اور بعض اوقات تکلیف بھی ہوتی تھی مگر جب ایک دفعہ شروع کر دیئے تو پھر آخر تک یہی استعمال فرماتے رہے.اور جب سے شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی ثم لاہوری احمدی ہوئے وہ آپ کے لئے کپڑوں کے جوڑے بنوا کر با قاعدہ لاتے تھے اور حضرت صاحب کی عادت تھی کہ جیسا کپڑا کوئی لے آئے پہن لیتے تھے.ایک دفعہ کوئی شخص آپ کے لئے گر گابی لے آیا.آپ نے پہن لی مگر اس کے الٹے سیدھے پاؤں کا آپ کو پتہ نہیں لگتا تھا.کئی دفعہ الٹی پہن لیتے تھے اور پھر تکلیف ہوتی تھی بعض دفعہ آپ کا اُلٹا پاؤں پڑ جاتا تو تنگ ہو کر فرماتے ان کی کوئی چیز بھی اچھی نہیں ہے.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی سہولت کے واسطے الٹے سیدھے پاؤں کی شناخت کے لئے نشان لگا دیئے تھے مگر باوجود اس کے آپ اُلٹا سیدھا پہن لیتے تھے.اس لئے آپ نے اسے اتار دیا.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب نے بعض اوقات انگریزی طرز کی قمیص کے کفوں کے متعلق بھی اسی قسم کے ناپسندیدگی کے الفاظ فرمائے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ صاحب موصوف آپ کے لئے انگریزی طرز کی گرم قیمص بنوا کر لایا کرتے تھے.آپ انہیں استعمال تو فرماتے تھے مگر انگریزی طرز کی کفوں کو پسند نہیں فرماتے تھے.کیونکہ اول تو کفوں کے بٹن لگانے سے آپ گھبراتے تھے.دوسرے بٹنوں کے کھولنے اور بند کرنے کا التزام آپ کے لئے مشکل تھا.بعض اوقات فرماتے تھے کہ یہ کیا کان سے لٹکے رہتے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ لباس کے متعلق حضرت مسیح موعود کا عام اصول یہ تھا کہ جس قسم کا کپڑ امل جاتا تھا پہن لیتے تھے.مگر عموما انگریزی طریق لباس کو پسند نہیں فرماتے تھے کیونکہ اول تو اسے اپنے لئے سادگی کے خلاف سمجھتے تھے.دوسرے آپ ایسے لباس سے جو اعضاء کو جکڑا ہوا ر کھے بہت گھبراتے تھے.گھر میں آپ کے لئے صرف ململ کے گرتے
فقه المسيح 463 امور معاشرت / رہن سہن ، باہمی تعاون اور پگڑیاں تیار ہوتی تھیں.باقی سب کپڑے عموما ھدیہ آپ کو آ جاتے تھے.شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری اس خدمت میں خاص امتیاز رکھتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؓ بعض اوقات کمر پر پڑکا بھی استعمال فرماتے تھے اور جب گھر سے باہر تشریف لے جاتے تھے تو کوٹ ضرور پہن کر آتے تھے.اور ہاتھ میں عصا رکھنا بھی آپ کی سنت ہے.والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میں حضرت صاحب کے واسطے ہر سال نصف تھان کے گرتے تیار کیا کرتی تھی لیکن جس سال آپ کی وفات ہوئی تھی میں نے پورے تھان کے گرتے تیار کئے.حضرت صاحب نے مجھے کہا بھی کہ اتنے گرتے کیا کرنے ہیں مگر میں نے تیار کر لئے.ان میں سے اب تک بہت سے گرتے بے پہنے میرے پاس رکھے ہیں.لباس.سبز چگڑی پہننا (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 61،60) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے چوہدری غلام محمد صاحب بی اے نے بیان کیا کہ جب میں 1905ء میں قادیان آیا تو حضرت صاحب نے سبز پگڑی باندھی ہوئی تھی.مجھے یہ دیکھ کر کچھ گراں گذرا کہ مسیح موعود کو رنگدار پگڑی سے کیا کام.پھر میں نے مقد مہ ابن خلدون میں پڑھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب سبرلباس میں ہوتے تھے تو آپ کو وحی زیادہ ہوتی تھی.حضرت مسیح موعود کی بعض عادات مبارکہ (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 99) حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب حضور کے حلیہ مبارک کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: آپ کے سر کے بال نہایت باریک سیدھے، چکنے ، چمکدار اور نرم تھے اور مہندی کے رنگ
فقه المسيح 464 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون سے رنگین رہتے تھے.گھنے اور کثرت سے نہ تھے بلکہ کم کم اور نہایت ملائم تھے.گردن تک لمبے تھے.آپ نہ سر منڈواتے تھے نہ خشخاش یا اس کے قریب کتر واتے تھے بلکہ اتنے لمبے رکھتے تھے جیسے عام طور پر پٹے رکھے جاتے ہیں.سر میں تیل بھی ڈالتے تھے.چنبیلی یا حناوغیرہ کا.یہ عادت تھی کہ بال سوکھے نہ رکھتے تھے.آپ کی داڑھی اچھی گھندا تھی ، بال مضبوط ، موٹے اور چمکدار سید ھے اور نرم، حنا سے سرخ رنگے ہوئے تھے.داڑھی کو لمبا چھوڑ کر حجامت کے وقت فاضل آپ کتر وادیتے تھے یعنی بے ترتیب اور نا ہموار نہ رکھتے تھے بلکہ سیدھی نیچے کو اور برابر رکھتے تھے.داڑھی میں بھی ہمیشہ تیل لگایا کرتے تھے.ایک دفعہ ایک پھنسی گال پر ہونے کی وجہ سے وہاں سے کچھ بال پورے بھی.کتر وائے تھے اور وہ تبرک کے طور پر لوگوں کے پاس اب تک موجود ہیں.ریش مبارک تینوں طرف چہرہ کے تھی اور بہت خوبصورت.نہ اتنی کم کہ چھدری اور نہ صرف ٹھوڑھی پر ہو نہ اتنی کہ آنکھوں تک بال پہنچیں.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 413) حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب حضرت مسیح موعود کے کھانے پینے ،لباس اور بعض دیگر عادات مبارکہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: روٹی آپ تندوری اور چولہے کی دونوں قسم کی کھاتے تھے.ڈبل روٹی چائے کے ساتھ یا بسکٹ اور بکرم بھی استعمال فرما لیا کرتے تھے بلکہ ولائتی بسکٹوں کو بھی جائز فرماتے تھے اس لئے کہ ہمیں کیا معلوم کہ اس میں چربی ہے کیونکہ بنانے والوں کا ادعا تو مکھن ہے اور پھر ہم ناحق بدگمانی اور شکوک میں کیوں پڑیں.مکی کی روٹی بہت مدت آپ نے آخری عمر میں استعمال فرمائی کیونکہ آخری سات آٹھ سال سے آپ کو دستوں کی بیماری ہو گئی تھی اور ہضم کی طاقت کم ہوگئی تھی علاوہ ان روٹیوں کے آپ شیر مال کو بھی پسند فرماتے تھے اور باقر خانی اور قلچہ وغیرہ غرض جو جو
فقه المسيح 465 امور معاشرت ، رہن سہن ، باہمی تعاون اقسام روٹی کے سامنے آجایا کرتے تھے آپ کسی کو رد نہ فرماتے تھے.حضرت مسیح موعود کا وسمہ اور مہندی استعمال کرنا حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب روایت کرتے ہیں : (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 423) ابتدائے ایام میں آپ وسمہ اور مہندی لگایا کرتے تھے پھر دوران سر کے دورے بکثرت ہونے کی وجہ سے سر اور ریش مبارک پر آخر عمر تک مہندی ہی لگاتے رہے.وسمہ ترک کر دیا تھا.البتہ کچھ روز انگریزی وسمہ بھی استعمال فرمایا مگر پھر ترک کر دیا.آخری دنوں میں میر حامد شاہ صاحب نے ایک وسمہ تیار کر کے پیش کیا تھا وہ لگاتے تھے.اس سے ریش مبارک میں سیا ہی آگئی تھی مگر اس کے علاوہ ہمیشہ برسوں مہندی پر ہی اکتفا کی جو اکثر جمعہ کے جمعہ یا بعض اوقات اور دنوں میں بھی آپ نائی سے لگوایا کرتے تھے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 413) ایک موقعہ پر مہندی اور وسمہ کی نسبت ذکر ہوا.حضور نے فرمایا : اکثرا کا بر اس طرف گئے ہیں کہ وسمہ نہ لگا نا چاہیے یا مہندی لگائی جاوے یا وسمہ اور مہندی ملا کر 66 (البدر 8 مئی 1903 ء صفحہ 1)
فقه المسيح 466 متفرق قرآن شریف کی جامعیت فرمایا: متفرق کل چیزیں قرآن شریف میں موجود ہیں.اگر انسان عقل مند ہو تو اس کے لئے وہ کافی ہے.یورپین لوگ ایک قوم سے معاہدہ کرتے ہیں.اس کی ترکیب عبارت ایسی رکھ دیتے ہیں کہ دراز عرصہ کے بعد بھی نئی ضرورتوں اور واقعات کے پیش آنے پر بھی اس میں استدلال اور استنباط کا سامان موجود ہوتا ہے.ایسا ہی قرآن شریف میں آئندہ کی ضرورتوں کے مواد اور سامان موجود ہیں.از نوٹ بک مولوی شیر علی صاحب بحوالہ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 533) قرآن کریم میں سب قوانین موجود ہیں فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ملک کے لئے نہ صرف رسول کر کے بھیجا بلکہ اس ملک کا بادشاہ بھی بنا دیا اور قرآن شریف کو ایک ایسے قانون کی طرح مکمل کیا جس میں دیوانی فوجداری مالی سب ہدا یتیں ہیں سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ایک بادشاہ ہونے کے تمام فرقوں کے حاکم تھے اور ہر ایک مذہب کے لوگ اپنے مقدمات آپ سے فیصلہ کراتے تھے.قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ایک دفعہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا آنجناب کی عدالت میں مقدمہ آیا تو آنجناب نے تحقیقات کے بعد یہودی کوسچا کیا اور مسلمان پر اُس کے دعوے کی ڈگری کی.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 242 ،243)
فقه المسيح 467 متفرق قرآن کریم اور سائنس فرمایا: اس وقت خدا تعالیٰ نے مذہبی امور کو قصے اور کتھا کے رنگ میں نہیں رکھا ہے بلکہ مذہب کو ایک سائنس (علم ) بنا دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ زمانہ کشف حقائق کا زمانہ ہے جبکہ ہر بات کو علمی رنگ میں ظاہر کیا جاتا ہے.میں اس لئے ہی بھیجا گیا ہوں کہ ہر اعتقادکو اور قرآن کریم کے قصص کو علمی رنگ میں ظاہر کروں.الحکم 10 راپریل 1902 صفحہ 6) قرآن کا صرف ترجمہ پڑھ لینا کافی ہے یا نہیں؟ فرمایا: ہم ہرگز فتویٰ نہیں دیتے کہ قرآن کا صرف ترجمہ پڑھا جاوے.اس سے قرآن کا اعجاز باطل ہوتا ہے جو شخص یہ کہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ قرآن دنیا میں نہ رہے بلکہ ہم تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جو دعائیں رسول اللہ ﷺ نے مانگی ہیں وہ بھی عربی میں پڑھی جاویں دوسرے جو اپنی حاجات وغیرہ ہیں ماثورہ دعا کے علاوہ وہ صرف اپنی زبان میں مانگی جاویں.ایک شخص نے کہا کہ حضور حنفی مذہب میں صرف ترجمہ پڑھ لینا کافی سمجھا گیا ہے فرمایا: اگر یہ امام اعظم کا مذہب ہے تو پھر ان کی خطا ہے.“ نماز اور قرآن شریف کا ترجمہ جاننا ضروری ہے البدریکم مئی 1903 صفحہ 115) مولا نا محمد احسن صاحب نے عرض کیا کہ لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ وَ أَنْتُمْ سُكَرَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ (النساء:44) سے ثابت ہے کہ انسان کو اپنے قول کا علم ہونا ضروری ہے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا:
فقه المسيح 468 جن لوگوں کو ساری عمر میں تَعْلَمُوا نصیب نہ ہوان کی نماز ہی کیا ہے.تکلف سے قرآن پڑھنے کی ناپسندیدگی متفرق البدر یکم مئی 1903 صفحہ 114) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایام مقدمات کرم دین میں حضور علیہ السلام کئی کئی روز تک گورداسپور میں ہی رہتے تھے کیونکہ روزانہ پیشی ہوتی تھی.ایک مکان تحصیل کے سامنے جو تالاب ہے.اس کے جنوب میں کرایہ پر لیا گیا تھا.ایک روز حضور مکان کے اوپر کے حصہ میں تھے.نیچے والے حصہ میں ایک شخص قرآن کریم تکلف کے لہجہ میں پڑھ رہا تھا ،سُن کر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ” یہ آواز کو ہی سنوارتا رہتا ہے.گویا تکلف سے - قرآن کریم پڑھنے کو نا پسند فرمایا.کلام پڑھ کر پھونکتا (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ (251) ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سوال کیا کہ مجھے قرآن شریف کی کوئی آیت بتلائی جائے کہ میں پڑھ کر اپنے بیمار کو دم کروں تا کہ اُس کو شفاء ہو.حضرت نے فرمایا: بے شک قرآن شریف میں شفاء ہے.روحانی اور جسمانی بیماریوں کا وہ علاج ہے مگر اس طرح کا کلام پڑھنے میں لوگوں کو ابتلاء ہے.قرآن شریف کو تم اس امتحان میں نہ ڈالو.خدا تعالیٰ سے اپنے بیمار کے واسطے دعا کرو.تمہارے واسطے یہی کافی ہے.ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب.صفحہ 146) قرآن شریف پڑھ کر بخشا ثابت نہیں فرمایا: ووو " مر دوں کو ثواب پہنچانے کے واسطے صدقہ و خیرات دینا چاہئے اور اُن کے حق میں
فقه المسيح 469 متفرق دعائے مغفرت کرنی چاہئے.قرآن شریف پڑھ کر مُردوں کو بخشنا ثابت نہیں.“ ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب.صفحہ 199) قرآن شریف سے فال لینے کی ناپسندیدگی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مولوی محمد اسماعیل مولوی فاضل نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب سنوری مرحوم بیان فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن شریف سے فال لینے سے منع فرمایا ہے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 429) حضرت مفتی محمد صادق صاحب لکھتے ہیں: قرآن شریف سے فال لینے سے حضرت صاحب عموما منع فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ بہتر یہ ہے کہ جو امر پیش آوے اس کے متعلق استخارہ کر لیا جاوے.ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب.صفحہ 199) تلاوت کے دوران اگر وضو ساقط ہو جائے کسی شخص کے سوال پر کہ قرآن شریف پڑھتے ہوئے درمیان میں وضوسا قط ہو جائے تو پھر کیا وضو کیا جائے.فرمایا: قرآن شریف کی تلاوت سے قبل جب پہلی دفعہ وضو کر لیا ہو اور اثناء تلاوت میں اگر وضو قائم نہ رہے تو پھر تیم کیا جا سکتا ہے.ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب - صفحہ 199 ) ایام حیض میں قرآن کریم نہ پڑھیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ام ناصر صاحبہ حرم اول حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی و بنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ میں اور سرور سلطان بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا بشیر احمد صاحب واہلیہ مولوی محمد علی صاحب اور اہلیہ پیر منظور محمد صاحب، حضرت مولوی صاحب
فقه المسيح 470 متفرق خلیفہ اول سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے جایا کرتی تھیں.اس وقت مولوی صاحب اس مکان میں رہتے تھے جہاں اب اُم وسیم سلمہا اللہ رہتی ہیں.پیر جی کی اہلیہ صاحبہ کو ماہواری تھی.حضرت مسیح موعود اور اماں جان کے سامنے سے جب ہم قرآن مجید لے کر گزریں تو حضرت اماں جان نے دریافت کیا کہ اس حالت میں قرآن مجید کو ہاتھ لگانا جائز ہے؟ آپ نے فرمایا : ” جب خدا تعالیٰ نے ان دنوں میں چھٹی دے دی تو ہم کیوں نہ دیں.ان سے کہہ دو کہ ان دنوں میں قرآن مجید نہ پڑھیں.“ قرآن شریف کے اوراق کا ادب (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 243) ایک شخص نے عرض کی کہ قرآن شریف کے بوسیدہ اوراق کو اگر بے ادبی سے بچانے کے واسطے جلا دیا جائے تو کیا جائز ہے؟ فرمایا: جائز ہے.حضرت عثمان نے بھی بعض اوراق جلائے تھے.نیت پر موقوف ہے.“ آمین کی تقریب پر تحدیث نعمت (بدر 8 اگست 1907 صفحه 5) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بچوں کی آمین کی تقریب پر اپنے دوستوں کی خصوصی دعوت کی اور اس موقعہ کے لئے نظم بھی لکھی.اس بات کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے مجھ پر لا انتہا فضل اور انعام ہیں ان کی تحدیث مجھ پر فرض ہے پس میں جب کوئی کام کرتا ہوں تو میری غرض اور نیت اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہار ہوتی ہے ایسا ہی اس آمین کی تقریب پر بھی ہوا ہے یہ لڑ کے چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کا زندہ نمونہ ہیں اس لئے میں اللہ تعالیٰ کے ان
فقه المسيح 471 متفرق نشانوں کی قدر کرنی فرض سمجھتا ہوں کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور قرآن کریم کی حقانیت اور خود خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت ہیں اس وقت جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو پڑھ لیا تو مجھے کہا گیا کہ اس تقریب پر چند دعائیہ شعر جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا شکریہ بھی ہولکھ دوں میں جیسا کہ ابھی کہا ہے کہ اصلاح کی فکر میں رہتا ہوں میں نے اس تقریب کو بہت ہی مبارک سمجھا اور میں نے مناسب جانا کہ اس طرح پر تبلیغ کر دوں.تعظیم قبلہ الحکم 10 را پریل 1903 ءصفحہ 2 ) سوال ہوا کہ اگر قبلہ شریف کی طرف پاؤں کر کے سویا جاوے تو جائز ہے کہ نہیں؟ فرمایا: یہ نا جائز ہے کیونکہ تنظیم کے برخلاف ہے.“ سائل نے عرض کی کہ احادیث میں اس کی ممانعت نہیں آئی.فرمایا: ”یہ کوئی دلیل نہیں ہے.اگر کوئی شخص اسی بناء پر کہ حدیث میں ذکر نہیں ہے اور اس لیے قرآن شریف پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوا کرے تو کیا یہ جائز ہو جاوے گا ؟ ہرگز نہیں.وَمَنْ يُعَظِمُ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ (الحج:33) سورۃ فاتحہ کا دم حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں: (الحکم 31 جولائی 1904 صفحہ 14) ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں سرساوہ سے چل کر قادیان شریف حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت مولانا مرشد نانورالدین صاحب خلیفہ امسیح علیہ السلام بھی آئے ہوئے تھے اور صبح کی نماز پڑھ کر بیٹھے تھے اور حضرت اقدس علیہ السلام بھی تشریف رکھتے تھے.حضرت خلیفہ امسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ پیر صاحب بہت سے پیر
فقه المسيح 472 متفرق دیکھے کہ وہ عملیات اور تعویذ کرتے ہیں کوئی عمل آپ کے بھی یاد ہے جس کو دیکھ کر ہمیں بھی یقین آجائے کہ عمل ہوتا ہے.میں نے عرض کیا کہ ہاں یاد ہے.فرمایا دکھاؤ اور میں نے عرض کی کہ ہاں وقت آنے دیجئے ، دکھلا دوں گا.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ضرور صاحبزادہ صاحب کو یاد ہوگا ان کے بزرگوں سے عمل چلے آتے ہیں.کوئی دو گھنٹہ کے بعد ایک شخص آیا جس کو ذات الجب یعنی پسلی کا در دشدت سے تھا میں نے عرض کی کہ دیکھئے اس پر عمل کرتا ہوں.حضرت خلیفتہ امسیح نے فرمایا کہ ہاں عمل کرو.حضرت اقدس علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ ہاں عمل کرو.میں نے اس شخص پر دم کیا اس کو درد سے بالکل خدا تعالیٰ نے آرام کر دیا اور شفا دی.جب اس کو آرام ہو گیا تو حضرت خلیفہ امسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ مسمریزم ہے ؟ میں نے اس زمانہ میں مسمریزم کا نام بھی نہیں سنا تھا اور نہ میں جانتا تھا کہ مسمریزم کیا چیز ہوتا ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا صاحبزادہ صاحب تم نے کیا پڑھا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت صلی اللہ علیک وعلی محمد.میں نے الحمد شریف پڑھی تھی.تعویذ اور دم ( تذكرة المهدی صفحه 186) ایک شخص نے مسئلہ استفسار کیا کہ تعویذ کا باز وغیرہ مقامات پر باندھنا اور دم وغیرہ کرنا جائز ہے کہ نہیں ؟ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جناب مولا نا حکیم نورالدین صاحب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: احادیث میں کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ نہیں ؟“ حکیم صاحب نے عرض کی کہ لکھا ہے کہ خالد بن ولید جب کبھی جنگوں میں جاتے تو آنحضرت ﷺ کے موئے مبارک جو کہ آپ کی پگڑی میں بندھے ہوتے آگے کی طرف لڑکا لیتے.پھر آنحضرت ﷺ نے صرف ایک دفعہ صبح کے وقت سارا سر منڈوایا تھا تو آپ نے
فقه المسيح 473 متفرق نصف سر کے بال ایک خاص شخص کو دے دیئے اور نصف سر کے بال باقی اصحاب میں بانٹ دیئے.آنحضرت ﷺ کے جبہ مبارک کو دھو دھو کر مریضوں کو بھی پلاتے تھے اور مریض اس سے شفایاب ہوتے تھے.ایک عورت نے ایک دفعہ آپ کا پسینہ بھی جمع کیا یہ تمام اذ کا رسن کر حضرت اقدس نے فرمایا: پھر اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ بہر حال اس میں کچھ بات ضرور ہے جو خالی از فائدہ نہیں ہے اور تعویذ وغیرہ کی اصل بھی اس سے نکلتی ہے بال لٹکائے تو کیا اور تعویذ باندھا تو کیا میرے الہام میں جو ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں میں سے برکت ڈھونڈ لیں گے.آخر کچھ تو ہے تبھی وہ برکت ڈھونڈیں گے مگر ان تمام باتوں میں تقاضائے محبت کا بھی دخل ہے.“ البدر 17 جولائی 1903 ، صفحہ 1) شکرانہ کی نسبت سے نذر ماننا درست ہے حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: نذر کے متعلق حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے پسند نہیں فرمایا.ہاں اگر کوئی نذر مانی جائے تو پھر اُس کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے.نذر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے نا پسند فرمایا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ سے ایک قسم کا ٹھیکہ ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ سے ٹھیکہ کرنا کوئی پسندیدہ امر نہیں.انسان کو چاہئے کہ وہ اس کی بجائے صدقہ و خیرات اور دعاؤں سے کام لے.ہاں اگر کوئی شخص صدقہ و خیرات اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ کوئی نذر بھی شکرانہ کے طور پر مان لے تو اس میں کوئی حرج نہیں.میں یہ استنباط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک عمل سے کرتا ہوں.آپ بعض دفعہ اُن لوگوں کو جو آپ سے دعا کے لئے عرض کرتے تھے فرمایا کرتے تھے کہ میں دعا کروں گا.آپ اپنے دل میں خدمت دین کے لئے کوئی رقم مقرر کر لیں جسے اس کام کے پورا ہونے پر آپ خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شکرانہ کے طور پر اگر کوئی نذر مان لی
فقه المسيح 474 متفرق جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں.بشرطیکہ اُس نذر کے ساتھ ساتھ دعاؤں اور گریہ وزاری اور صدقات و خیرات سے بھی کام لیا جائے.چندہ دینے کی نیت سے نذرماننا ( تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 620) حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے نام مکتوب میں آپ نے تحریر فر مایا: عنایت نامہ پہنچا، مضمون سے آگاہی ہوئی.اب یقیناً معلوم ہوا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ابتلا ہے بلکہ ایک سخت ابتلا ہے.میں اسی فکر میں تھا کہ خدا تعالیٰ دعا کرنے کے لئے پوری توجہ بخشے اور خدا کا استغناء ذاتی بھی پیش نظر تھا کہ اتنے میں نظام الدین مستری کا قصہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا.معادل میں یہ بات پیدا ہوئی کہ خدا کے فضل اور کرم سے کیا تعجب ہے کہ اگر نظام الدین کی کارروائی کے موافق آپ کی طرف سے مع اپنے بھائیوں کے کارروائی ہو تو خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ وہی معاملہ کرے جو نظام الدین کے ساتھ کیا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ نظام الدین نام سیالکوٹ میں ایک مستری ہے.چند روز ہوئے اس کا ایک خط میرے نام آیا.افسوس ہے کہ وہ خط شاید چاک کیا گیا.اس کا مضمون یہ تھا کہ میں ایک فوجداری جرم میں گرفتار ہو گیا ہوں اور کوئی صورت رہائی کی نظر نہیں آتی.اس بیقراری میں میں نے یہ نذر مانی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ اس خوفناک مقدمہ سے رہا کر دے تو میں مبلغ پچاس روپیہ نقد آپ کی خدمت میں بلا توقف ادا کروں گا.اتفاق ایسا ہوا کہ جب اس کا خط پہنچا تو مجھے خود روپیہ کی ضرورت تھی.تب میں نے دعا کی کہ اے خدائے قادر و کریم ! اگر تو اس شخص کو اس مقدمہ سے رہائی بخشے تو تین طور کا فضل تیرا ہوگا.اول یہ کہ یہ مضطر آدمی اس بلا سے رہائی پا جائے گا.دوم مجھے جو اس وقت روپیہ کی ضرورت ہے میرا مطلب کسی قدر پورا ہوگا.سوم تیرا ایک نشان ظاہر ہو جائے گا.دعا کرنے سے چند روز بعد نظام الدین کا خط آیا جو آپ کے ملاحظہ کے لئے بھیجتا ہوں اور دوسرے روز پچاس روپے آگئے.پس میرے دل میں خیال گزرا کہ ان دنوں میں دینی ضروریات
فقه المسيح 475 متفرق کے لئے بہت کچھ تفکرات مجھے پیش ہیں.مہمانوں کے اترنے کیلئے عمارت نامکمل ہے.مرزا خدا بخش کی چار سو روپیہ کی خریدی ہوئی زمین ہے وہ توسیع مکان کے لئے مل سکتی ہے.اگر اس قد ر روپیہ دیا جائے.پھر کم سے کم دو ہزار روپیہ اور چاہیے تا اس پر عمارت بنائی جائے اور تکمیل مینار کا فکر بھی ہر وقت دل کو لگا ہوا ہے مگر وہ ہزار ہا روپیہ کا کام ہے.جس طرح خدا چاہے گا اس کو انجام دے گا.بالفعل بموجب وحی الہی وَسِعُ مَكَانَكَ کے مہمانوں کے پورے آرام کے لئے ان اخراجات کی ضرورت ہے.پس میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ اگر ایک بلا سے رہا ہونے کے لئے آپ معہ اپنے بھائیوں کے دوسری بلا کو منظور کر لیں یعنی یہ نذر کر لیں کہ اگر ہمیں اس بلا سے غیبی مدد سے رہائی ہوئی تو ہم اس قدر رو پی محض اللہ ان دینی ضروریات کیلئے جس طرح ہم سے ہو سکے بلا توقف ادا کر دیں گے تو میں اسی طرح دعا کروں گا جس طرح میں نے نظام الدین مستری کیلئے دعا کی تھی.خدا تعالیٰ نکتہ نواز ہے.کچھ تعجب نہیں کہ آپ کے اس صدق کو دیکھ کر آپ کی مشکل کشائی فرما دے.میں یہ وعدہ نہیں کرتا کہ ضرور یہ دعا قبول ہو جائے گی کیونکہ خدا تعالیٰ بے نیاز ہے مگر مجھے اپنے رب کریم کی سابق عنایتوں پر نظر کر کے یقین گئی ہے کہ کم سے کم وہ مجھے آئندہ کے حالات سے اطلاع دے دے گا اور چونکہ اس نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں پچاس یا ساٹھ نشان اور دکھلاؤں گا اس لئے تعجب نہیں کہ آپ کی اس بیقراری کے وقت یہ بھی ایک نشان ظاہر ہو جائے.لیکن قبل اس کے کہ خدا تعالیٰ مشکل کشائی فرما دے.ہماری طرف سے کوئی مطالبہ نہیں اور ایک پیسہ کا بھی مطالبہ نہیں.ہاں اگر دعاسنی جائے اور آپ کا کام ہو جائے تب فی الفور آپ کو نذر مقررہ بلا تاخیر ایک ساعت ادا کرنا ہوگا اور دونفل پڑھ کر خدا تعالیٰ سے یہ عہد کرنا ہو گا اور بعد پختگی عہد بلا توقف مجھے اطلاع دینا ہوگا.مجھے یاد ہے کہ جب نظام الدین کے لئے میں نے دعا کی تب خواب میں دیکھا کہ ایک چڑا اُڑتا ہوا میرے ہاتھ میں آ گیا اور اس نے اپنے تئیں میرے حوالہ کر دیا اور میں نے کہا کہ یہ ہمارا
فقه المسيح 476 متفرق آسمانی رزق ہے جیسا کہ بنی اسرائیل پر آسمان سے رزق انتر ا کرتا تھا.یہ بات خدا نے میرے دل میں ڈالی ہے.دل تو مانتا ہے کہ کچھ ہونہار بات ہے.واللہ اعلم " مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 299 ،300) بعض دفعہ قسم توڑنا حسنِ اخلاق میں داخل ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے اپنے اخلاق میں یہ داخل رکھا ہے کہ وہ وعید کی پیشگوئی کو تو بہ واستغفار اور دعا اور صدقہ سے ٹال دیتا ہے اسی طرح انسان کو بھی اُس نے یہی اخلاق سکھائے ہیں جیسا کہ قرآن شریف اور حدیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جو منافقین نے محض خباثت سے خلاف واقعہ تہمت لگائی تھی اس تذکرہ میں بعض سادہ لوح صحابہ بھی شریک ہو گئے تھے.ایک صحابی ایسے تھے کہ وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر سے دو وقتہ روٹی کھاتے تھے.حضرت ابوبکر نے ان کی اس خطا پر قسم کھائی تھی اور وعید کے طور پر عہد کر لیا تھا کہ میں اس بے جا حرکت کی سزا میں اس کو کبھی روٹی نہ دوں گا.اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی وَلْيَعْفُوا وَلَيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ تَغْفِرَ اللهُ لَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (النور:23) تب حضرت ابو بکر نے اپنے اس عہد کوتو ڑ دیا اور بدستور روٹی لگا دی.اسی بناء پر اسلامی اخلاق میں یہ داخل ہے کہ اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اُس کا توڑ ناحسن اخلاق میں داخل ہے.مثلاً اگر کوئی اپنے خدمت گار کی نسبت قسم کھائے کہ میں اس کو ضرور پچاس جوتے ماروں گا تو اس کی تو بہ اور تضرع پر معاف کرنا سنت اسلام ہے تا تخلق باخلاق الله ہو جائے مگر وعدہ کا تخلف جائز نہیں ترک وعدہ پر باز پرس ہو گی مگر ترک وعید پر نہیں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 181 )
فقه المسيح 477 متفرق ایک خواب کی بنیاد پر کیا جانے والا وظیفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ پیر سراج الحق نعمانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب آتھم کی پیش گوئی کی میعاد قریب آئی تو اہلیہ صاحبہ مولوی نورالدین صاحب نے خواب میں دیکھا کہ کوئی ان سے کہتا ہے کہ ایک ہزار ماش کے دانے لے کر ان پر ایک ہزار دفعہ سورہ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ پڑھنی چاہئے اور پھر ان کو کسی کنوئیں میں ڈال دیا جاوے اور پھر واپس منہ پھیر کر نہ دیکھا جاوے.یہ خواب حضرت خلیفہ اول نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا.اس وقت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بھی موجود تھے اور عصر کا وقت تھا.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ اس خواب کو ظاہر میں پورا کر دینا چاہیے کیونکہ حضرت صاحب کی عادت تھی کہ جب کوئی خواب خود آپ یا احباب میں سے کوئی دیکھتے تو آپ اسے ظاہری شکل میں بھی پورا کرنے کی سعی فرماتے تھے.چنانچہ اس موقعہ پر بھی اسی خیال سے حضرت نے ایسا فرمایا.اس پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے میر ا اور میاں عبداللہ صاحب سنوری کا نام لیا اور حضرت نے پسند فرمایا اور ہم دونوں کو ماش کے دانوں پر ایک ہزار دفعه سوره المُ تَرَ كَيْف پڑھنے کا حکم دیا.چنانچہ ہم نے عشاء کی نماز کے بعد سے شروع کر کے رات کے دو بجے تک یہ وظیفہ ختم کیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ روایت حصہ اول میں میاں عبداللہ صاحب سنوری کی زبانی بھی درج ہو چکی ہے.اور مجھے میاں عبداللہ صاحب والی روایت سن کر تعجب ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فعل کس حکمت کے ماتحت کیا ہے کیونکہ اس قسم کی کارروائی بظا ہر آپ کے طریق عمل کے خلاف ہے لیکن اب پیر صاحب کی روایت سے یہ عقدہ حل ہو گیا ہے کہ آپ کا یہ فعل در اصل ایک خواب کی بنا پر تھا جسے آپ نے ظاہری صورت میں بھی پورا فرما دیا کیونکہ آپ کی یہ عادت تھی کہ حتی الوسع خوابوں کو ان کی ظاہری شکل میں بھی پورا کرنے کی کوشش فرماتے تھے.بشرطیکہ ان کی ظاہری صورت شریعت اسلامی کے کسی حکم کے
فقه المسيح 478 متفرق خلاف نہ ہو.اور اس خواب میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح اصحاب فیل (جو عیسائی) تھے کے حملہ سے خدا نے کعبہ کو محفوظ رکھا اور اپنے پاس سے سامان پیدا کر کے ان کو ہلاک و پسپا کیا اسی طرح آتھم کی پیش گوئی والے معاملہ میں بھی عیسائیوں کا اسلام پر حملہ ہوگا اور ان کو ظاہرا اسلام کے خلاف شور پیدا کرنے کا موقعہ مل جائے گا لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ان کو شکست و ہنر یمت کا سامان پیدا کر دے گا اور یہ کہ مومنوں کو چاہئے کہ اس معاملہ میں خدا پر بھروسہ کریں اور اسی سے مدد کے طالب ہوں اور اس وقت کو یاد رکھیں کہ جب مکہ والے کمزور تھے اور ان پر ابرہہ کا لشکر حملہ آور ہوا تھا اور پھر خدا نے ان کو بچایا.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیر صاحب اور میاں عبداللہ صاحب کی روایتوں میں بعض اختلافات ہیں جو دونوں میں سے کسی صاحب کے نسیان پر مبنی معلوم ہوتے ہیں مثلاً میاں عبداللہ صاحب نے اپنی روایت میں بجائے ماش کے چنے کے دانے بیان کئے ہیں.مگر خواہ ان میں سے کوئی ہو ماش اور چنے ہر دو کی تعبیر علم الرؤیا کے مطابق غم و اندوہ کی ہے.جس میں یہ اشارہ ہے کہ آتھم والے معاملہ میں بظاہر کچھ غم پیش آئے گا.مگر یہ غم واندوہ سورۃ الفیل کے اثر کے ماتحت بالآخر تاریک کنوئیں میں ڈال دیا جاوے گا.واللہ اعلم.دین اسلام کے پانچ مجاہدات فرمایا: سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 290،289) خدا تعالیٰ نے دین اسلام میں پانچ مجاہدات مقرر فرمائے ہیں.نماز ، روزہ ، زکوۃ صدقات، حج ، اسلامی دشمن کا ذب اور دفع خواہ سیفی ہو خواہ قلمی.یہ پانچ مجاہدے قرآن شریف سے ثابت ہیں.مسلمانوں کو چاہئے کہ ان میں کوشش کریں اور ان کی پابندی کریں.یہ روزے تو سال میں ایک ماہ کے ہیں.بعض اہل اللہ تو نوافل کے طور پر اکثر روزے رکھتے رہتے ہیں اور ان میں مجاہدہ کرتے ہیں.ہاں دائمی روزے رکھنا منع ہیں یعنی ایسا نہیں چاہیے کہ آدمی ہمیشہ روزے ہی
فقه المسيح 479 متفرق رکھتا ہے بلکہ ایسا کرنا چاہیے کہ نفلی روزہ کبھی رکھے اور کبھی چھوڑ دے.سخت مجاہدات کرنے پر نا پسندیدگی ( بدر 24اکتوبر 1907 ء صفحہ 3) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بطور ورد و وظائف کچھ پڑھنے کے لئے دریافت کیا.حضور نے فرمایا کہ اتباع سنت اور نمازیں سنوار کر پڑھنا سب سے اعلیٰ وظیفہ ہے اس کے علاوہ چلتے پھرتے درود شریف ، استغفار اور جس قدر وقت فراغت میسر ہو قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا کافی ہے.ہمارے ہاں الٹے لٹک کر یا سردی میں پانی میں کھڑے ہو کر چلہ کرنے کا خلاف سنت کوئی طریق نہیں ہے.اس پر اس درویش نے باصرار کہا کہ میں چونکہ سن شعور سے ہی مجاہدات کا عادی ہوں.اس لئے بطریق مجاہدہ اگر کچھ فرما دیا جاوے تو میں اب ان کے موافق کار بند رہوں گا.اس کی یہ بات سن کر حضرت صاحب اُٹھے اور اندر جا کر ایک پلندہ براہین احمدیہ کے اس حصہ کا جو اس وقت تک شائع ہوا تھا اُٹھا لائے اور اس کو دے کر فرمایا کہ ”لو جہاں جاؤ اس کو خود بھی پڑھو اور دوسرے لوگوں کو بھی سناؤ.خدا نے اس وقت کا یہی مجاہدہ قرار دیا ہے.“ (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 279) اپنی عمر دوسرے کو لگا دینے کی دعا کا جواز اخبار بدر نے لکھا کہ میاں محمد دین احمدی کباب فروش لاہور (حال ساکن موضع دھورہ ڈھیری بٹاں ریاست جموں) نے ایک عریضہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا جس میں لکھا تھا کیا حضرت میں نے چند روز سے محض رضائے الہی کے لیے جناب باری تعالیٰ میں یہ دعا شروع کی ہے کہ میری عمر میں سے دس سال حضرت اقدس مسیح موعود کو دی جاوے کیونکہ اسلام کی اشاعت کے واسطے میری زندگی ایسی مفید نہیں.کیا ایسی دعا مانگنا جائز ہے؟“ حضرت اقدس نے جواب میں تحریر فرمایا:
فقه المسيح 480 متفرق ایسی دعا میں مضائقہ نہیں بلکہ ثواب کا موجب ہے“ مسمریزم یا عمل الترب کے اثرات حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں : ( بدر 6 جون 1907 صفحہ 8) پٹنہ عظیم آباد کے رہنے والے ) ایک مولوی صاحب نے ایک روز مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ حضرت مسمریزم جو آج کل بہت مشہور ہے یہ کیا چیز ہے.آیا اس میں کسی قسم کا اثر بھی ہے یا یوں ہی ایک بچوں کا کھیل تما شا اور وہم اور بے نتیجہ شے ہے؟ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: مولوی صاحب مسمریزم بہت عمدہ کارآمد چیز اور نتیجہ خیز بات ہے.یوں تو کوئی شے بھی خدا نے عبث اور بے فائدہ نہیں بنائی رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا لیکن یہ مسمریزم تو بڑی کارآمد شے اور خاص اثر رکھتی ہے اور جیسا کہ اسلام نے اس کو لیا اور برتا اور فائدہ اُٹھایا ہے اور کسی مذہب یا کسی فرقہ نے فائدہ نہیں اُٹھایا.حقیقت اور مغز اسلام کو میسر آیا اور قشر اور پوست دوسروں کے حصے میں گیا.کہتے ہیں مسمر ایک انگریز کا نام ہے جس نے اس کو پھیلایا اور مشہور کیا ہے سواس واسطے اس کے نام پر مسمریزم نام شہرت پکڑ گیا ورنہ در اصل اس کا نام تربی علم ہے ترب مٹی کو کہتے ہیں اور مٹی سے انسان کی پیدائش ہے.خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ - میرا لڑکا سلطان احمد بھی ایک میز کہیں سے لے آیا تھا.وہ بھی ہاتھ رکھنے سے حرکت کرتی تھی.اللہ تعالیٰ نے ہمیں الہاما فرمایا کہ یہ عمل الترب ہے.میسیج میں بھی یہ قوت تربی اچھی خاصی تھی.ہمارے الہام میں ہے هذا هُوَ التَّرْبُ الَّذِى لَا يَعْلَمُهَا الْخَلْقُ یہ وہ عمل ترب ہے کہ مخلوق اس کی شناخت سے بے خبر ہے.پہلے زمانے میں فقراء کے پاس تھا وہ اس کو پوشیدہ راز سمجھ کر کسی کو نہیں بتلایا کرتے تھے سوائے خاص لوگوں کے صرف ان میں ہی تھا کہ دوسرے شخصوں کو بے ہوش کر دیتے.یہ ان کی کرامت ہوتی تھی مگر اب مسمریزم کے نام سے لوگ گھبراتے ہیں.فقراء صوفیہ
فقه المسيح 481 متفرق کی اصطلاح میں اس کا نام توجہ اور تصور ہے.اگر کسی کو مسمریزم نام اچھا نہ معلوم ہو تو اس کو توجہ اور تصور کہہ سکتے ہیں.غرض اسلام نے اس کو اس طرح سے لیا ہے کہ پہلے مصافحہ اور معانقہ کی صورت میں اگر چہ اوروں میں بھی مصافحہ اور معانقہ ہے لیکن بے اصل یوں ہی دل لگی کے طور سے.پھر نماز با جماعت میں.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نماز با جماعت میں مونڈھے سے مونڈھا اور پاؤں سے پاؤں ملا کر کھڑے ہو اور اپنے درمیان کچھ فاصلہ نہ رکھو کہ خالی جگہ شیطان داخل ہو جائے گا.یہ اس بات کو ظاہر کیا کہ ایک شخص کی توجہ جسمانی اور روحانی دوسرے شخص میں سرایت کر جاوے.جماعت میں جیسے جسمانی رنگ میں کوئی ضعیف اور کوئی قوی ہوتا ہے ،ایسا ہی روحانی اور باطنی کیفیات میں بھی ضعف و قوت کا فرق ہوتا ہے تو جب اس میں ایک دوسرے کے ملنے سے ایک دیوار کی طرح ہو جائیں گے اور مل کر کھڑے ہونے سے ایک دوسرے کی تاثیر اور فیوض اور جذب روحانی پھیل کر سب میں پہنچ جاوے گی.جب پہلی صف اپنی قوت اور جذب روحانی سے پر ہو جائے گی تو پھر اس صف کا اثر دوسری صف پر پڑے گا اور پھر ان دونوں صفوں کا اثر تیسری پر پہنچے گا.اس کے سمجھنے کے لئے بجلی کی مشین کی سی ہے جو آج کل نکلی ہے.اگر اس بجلی کی مشین یا کل کو کوئی شخص ہاتھ میں پکڑے تو اس کا ہاتھ سُن ہو جائے گا اور چھوٹ نہیں سکے گا.ایسا ہی اگر کوئی دوسرا شخص اس کا ہاتھ پکڑ لے تو اس پر بھی برقی اثر ہو جائے گا یہاں تک کہ اگر دس اور ہیں اور پچاس سو تک ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتے جائیں تو وہ برقی اثر سب پر یکساں اثر کرتا چلا جائے گا.اگر درمیان میں کچھ بھی فصل رہے گا تو برقی طاقت رُک جائے گی اور اس کی قوت جذب کام نہیں دے گی اور وہ جدائی جو واقعہ ہوئی ہے وہ اس برقی طاقت کو آگے نہیں چلنے دے گی اور روک ہو جائے گی.اسی طرح اگر نماز کی صف میں کچھ فصل مل کر کھڑے ہونے میں ہوگا تو قوت روحانی یا اثر باطنی ایک دوسرے میں سے ہو کر آرہا تھا وہ رہ جائے گا.اس کا نام اصطلاح شریعت میں شیطان رکھا ہے.(تذکرۃ المہدی صفحہ 276 تا 278)
فقه المسيح 482 متفرق متعدی بیماریوں سے بچاؤ کرنا چاہئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں اکثر اپنی بہن کے لڑکے کو جو چھ یا آٹھ سال کا تھا.حضرت اقدس کے گھر میں لے جاتی تھی.ایک دن اس کو جبکہ نماز پڑھ رہی تھی کھانسی ہوئی.حضور نے فرمایا کہ اس بچہ کو کالی کھانسی ہے جب تک آرام نہ ہو یہاں ساتھ نہ لایا کرو میں نے عرض کی کہ حضور دعافرماویں کہ آرام ہو جائے.چنانچہ بچہ کو جلد آرام ہو گیا تھا.متعدی بیماری سے بچاؤ کی تدبیر (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 267) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں اور میری بہن مکیریاں سے آئے.طاعون کے دن تھے.حضور علیہ السلام کے دروازہ پر پہرہ تھا.حضور نے فرمایا کہ ” تم کو کسی نے نہیں روکا ؟ عرض کیا کہ نہیں.حضور ہم کو کسی نے نہیں روکا.حضور علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ ”جہاں سے تم آئی ہو وہاں تو طاعون نہیں تھا؟ ہم نے کہا کہ نہیں.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ کوئی جگہ خالی نہیں رہے گی سب جگہ طاعون پڑ جائے گی.“ طاعون زدہ علاقہ سے باہر نکل جاؤ (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 265-264) یکم مارچ 1907ء کو ایک دوست نے ذکر کیا کہ ہمارے گاؤں میں طاعون ہے.فرمایا کہ گاؤں سے فورا باہر نکل جاؤ اور کھلی ہوا میں اپنا ڈیرہ لگاؤ.مت خیال کرو کہ طاعون زدہ جگہ سے باہر نکلنا انگریزوں کا خیال ہے اور اس واسطے اس کی طرف توجہ کرنا فرض نہیں ، یہ بات نہیں.طاعون والی جگہ سے باہر نکلنا، یہ فیصلہ شرعی ہے.گندی ہوا سے اپنے آپ کو
فقه المسيح 483 متفرق بچاؤ.جان بوجھ کر ہلاکت میں مت پڑھو اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ سے اپنے گناہ بخشوا ؤ کہ وہ قادر خدا ہے اور سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت میں ہے.باوجود ان احتیاطوں کے اگر تقدیر الہی آجائے تو صبر کرو.( بدر 16 مئی 1907 صفحہ 6) زلزلہ کے وقت سجدہ ریز ہو جانا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ام ناصر صاحبہ حرم اول حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی بنت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم نے بواسطه لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب بڑا زلزلہ آیا صبح کا وقت تھا یکا یک شوروغل کی آوازیں آئیں اور جھٹکے شروع ہو گئے.ہم اس وقت گھر میں وہ کمرہ جو کنوئیں کے اوپر تھا اور اب گرا دیا گیا ہے، اس میں تھے.نوکر یں باہر سے دروازہ کھٹکھٹا تیں که دروازہ کھول کر باہر نکلو.حضرت خلیفہ ثانی چار پائی پر چڑھ کر دروازہ کھولنے کی کوشش فرماتے مگر جھٹکوں کے باعث کھول نہیں سکتے تھے.کنڈی کنڈے سے کچھ ہی پیچھے ہٹاتے تھے کہ زلزلہ کے جھٹکے سے ہاتھ چھوٹ جاتا اور حلقہ پیچھے ہٹ جاتا.کئی بار ایسا ہوا.بمشکل کنڈی کھولی.سردی بھی لگ رہی تھی.میں پردہ کے واسطے چادر اٹھانی چاہی مگر میاں صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ کے مجھے جلدی سے باہر کھینچ لیا.وہاں آنگن کی کنڈی بند تھی اسے بمشکل کھولا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور سب خدا کے حضور سجدہ میں گرے پڑے تھے.میں نے چونکہ نماز نہیں پڑھنی تھی میں کھڑی رہی.حضرت میاں صاحب نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کرسجدہ میں گرا دیا.برتھ کنٹرول (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 255) حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں : قرآن شریف میں صرف یہ آیت ہے نِسَآءُ كُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى
فقه المسيح 484 متفرق شتم (البقرة : 224) یعنی تمہاری عورتیں تمہاری اولاد پیدا ہونے کے لئے ایک کھیتی ہیں.پس تم اپنی کھیتی کی طرف جس طور سے چاہو آؤ.صرف کھیتی ہونے کا لحاظ رکھو یعنی اس طور سے صحبت نہ کرو جو اولاد کی مانع ہو.بعض آدمی اسلام کے اوائل زمانہ میں صحبت کے وقت انزال کرنے سے پر ہیز کرتے تھے اور باہر انزال کر دیتے تھے.اس آیت میں خدا نے اُن کو منع فرمایا اور عورتوں کا نام کھیتی رکھا یعنی ایسی زمین جس میں ہر قسم کا اناج اگتا ہے.پس اس آیت میں ظاہر فرمایا کہ چونکہ عورت در حقیقت کھیتی کی مانند ہے جس سے اناج کی طرح اولاد پیدا ہوتی ہے سو یہ جائز نہیں کہ اُس کھیتی کو اولاد پیدا ہونے سے روکا جاوے.ہاں اگر عورت بیمار ہو اور یقین ہو کہ حمل ہونے سے اُس کی موت کا خطرہ ہوگا ایسا ہی صحت نیت سے کوئی اور مانع ہو تو یہ صورتیں مستثنیٰ ہیں ورنہ عند الشرع ہر گز جائز نہیں کہ اولا د ہونے سے روکا جائے.لونڈیاں کیوں بنائی گئیں؟ چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 292) ہندوؤں کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہ مسلمان جنگوں میں لونڈیاں بنا کر ان سے ہم بستر ہوتے تھے ، آپ نے فرمایا : کافروں کی عورتوں اور لڑکیوں کو جو لڑائیوں میں ہاتھ آویں لونڈیاں بنا کر اُن سے ہم بستر ہونا تو یہ ایک ایسا امر ہے جو شخص اصل حقیقت پر اطلاع پاوے وہ اس کو ہرگز محل اعتراض نہیں ٹھہرائے گا.اور اصل حقیقت یہ ہے کہ اُس ابتدائی زمانہ میں اکثر چنڈال اور خبیث طبع لوگ ناحق اسلام کے دشمن ہو کر طرح طرح کے دُکھ مسلمانوں کو دیتے تھے اگر کسی مسلمان کو قتل کریں تو اکثر اس میت کے ہاتھ پیر اور ناک کاٹ دیتے تھے اور بے رحمی سے بچوں کو بھی قتل کرتے تھے اور اگر کسی غریب مظلوم کی عورت ہاتھ آتی تھی تو اُس کو لونڈی بناتے تھے اور اپنی عورتوں میں
فقه المسيح 485 متفرق مگر لونڈی کی طرح) اُس کو داخل کرتے تھے اور کوئی پہلو ظلم کا نہیں تھا جو انہوں نے اٹھا رکھا تھا.ایک مدت دراز تک مسلمانوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی حکم ملتا رہا کہ ان لوگوں کی شرارتوں پر صبر کرو مگر آخر کار جب ظلم حد سے بڑھ گیا تو خدا نے اجازت دے دی کہ اب ان شریر لوگوں سے لڑو اور جس قدر وہ زیادتی کرتے ہیں اس سے زیادہ نہ کرو لیکن پھر بھی مثلہ کرنے سے منع کیا یعنی منع فرما دیا کہ کافروں کے کسی مقتول کی ناک کان ہاتھ وغیرہ نہیں کاٹنے چاہئیں اور جس بے عزتی کو مسلمانوں کے لئے وہ لوگ پسند کرتے تھے اس کا بدلہ لینے کے لئے حکم دے دیا.اسی بنا پر اسلام میں یہ رسم جاری ہوئی کہ کافروں کی عورتیں لونڈی کی طرح رکھی جائیں اور عورتوں کی طرح استعمال کی جائیں یہ تو انصاف اور طریق عدل سے بعید تھا کہ کا فر تو جب کسی مسلمان عورت کو اپنے قبضہ میں لا دیں تو اُس کو لونڈی بناویں اور عورتوں کی طرح اُن کو استعمال کریں اور جب مسلمان اُن کی عورتوں اور اُن کی لڑکیوں کو اپنے قبضہ میں کریں تو ماں بہن کر کے رکھیں.خدا بے شک حلیم ہے مگر وہ سب سے زیادہ غیرت مند ہے.( حاشیہ.یادر ہے کہ نکاح کی اصل حقیقت یہ ہے کہ عورت اور اس کے ولی کی اور نیز مرد کی بھی رضا مندی کی جاتی ہے لیکن جس حالت میں ایک عورت اپنی آزادی کے حقوق کھو چکی ہے اور وہ آزاد نہیں ہے بلکہ وہ ان ظالم طبع جنگجو لوگوں میں سے ہے جنہوں نے مسلمانوں کے مردوں اور عورتوں پر بے جا ظلم کئے ہیں تو ایسی عورت جب گرفتار ہو کر اپنے اقارب کے جرائم کی پاداش میں لونڈی بنائی گئی تو اس کی آزادی کے حقوق سب تلف ہو گئے لہذا وہ اب فتحیاب بادشاہ کی لونڈی ہے اور ایسی عورت کو حرم میں داخل کرنے کے لئے اس کی رضا مندی کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے جنگجو قارب پر فتحیاب ہو کر اس کو اپنے قبضہ میں لانا یہی اس کی رضا مندی ہے.یہی حکم تو ریت میں بھی موجود ہے ہاں قرآن شریف میں فَكُ رَقَبَةٍ یعنی لونڈی غلام کو آزاد کرنا بڑے ثواب کا کام بیان فرمایا ہے اور عام مسلمانوں کو رغبت دی ہے
فقه المسيح 486 متفرق کہ اگر وہ ایسی لونڈیوں اور غلاموں کو آزاد کر دیں تو خدا کے نزدیک بڑا اجر حاصل کریں گے.اگر چه مسلمان بادشاہ ایسے خبیث اور چنڈال لوگوں پر فتح یاب ہو کر غلام اور لونڈی بنانے کا حق رکھتا ہے مگر پھر بھی بدی کے مقابل پر نیکی کرنا خدا نے پسند فرمایا ہے.یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہمارے زمانہ میں اسلام کے مقابل پر جو کافر کہلاتے ہیں انہوں نے یہ تعدی اور زیادتی کا طریق چھوڑ دیا ہے.اس لئے اب مسلمانوں کے لئے بھی روا نہیں کہ ان کے قیدیوں کو لونڈی غلام بنادیں کیونکہ خدا قرآن شریف میں فرماتا ہے جو تم جنگجو فرقہ کے مقابل پر صرف اسی قدر زیادتی کرو جس میں پہلے انہوں نے سبقت کی ہو پس جبکہ اب وہ زمانہ نہیں ہے اور اب کا فر لوگ جنگ کی حالت میں مسلمانوں کے ساتھ ایسی سختی اور زیادتی نہیں کرتے کہ ان کو اور ان کے مردوں اور عورتوں کو لونڈیاں اور غلام بناویں بلکہ وہ شاہی قیدی سمجھے جاتے ہیں اس لئے اب اس زمانہ میں مسلمانوں کو بھی ایسا کرنا نا جائز اور حرام ہے.منہ) زنا کی گواہی چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 252 تا 254) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ شرعی طور پر زنا کے الزام کا گواہ جب تک سلائی اور سرمہ دانی والی حالت کی چشم دید گواہی نہ دے تب تک اس کی گواہی قبول نہیں ہوتی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے یہ الفاظ ایک حدیث کا ترجمہ ہیں.جس کے یہ الفاظ ہیں کہ كَالْمِيْلِ فِي الْمِكْحَلَةِ - مہندی لگانا سنت ہے (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 804) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مُراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ
فقه المسيح 487 متفرق ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم آگرہ سے تین ماہ کی رخصت لے کر آئے.حضور نے اونچا دالان رہنے کو دیا.میرا معمول تھا کہ روزانہ نماز عصر کے بعد حضور کی خدمت میں سلام کو جاتی.حضرت اقدس واُم المومنین صاحبه ام ناصر والے صحن میں پلنگ پر بیٹھے تھے.میں سلام کر کے ایک چھوٹی چار پائی پر جو سامنے پڑی تھی بیٹھ گئی.میں اس وقت زیادہ تر سفید کپڑے ہی پہنتی تھی.حضور نے حضرت ام المومنین سے دریافت کیا کہ ” کیا یہ ہمیشہ سفید کپڑے پہنتی ہیں؟ اماں جان نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم کو رنگین کپڑے پسند نہیں ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ حضور پسند تو ہیں لیکن کپڑے رنگنے سے ہاتھ خراب ہو جاتے ہیں.حضور نے میرے ہاتھوں کو دیکھ کر فرمایا کہ "مراد خاتون کیا تم مہندی نہیں لگایا کرتیں ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں.حضور نے فرمایا ” کیوں؟ میں نے پھر کہا کہ حضور ہاتھ خراب ہو جاتے ہیں.فرمایا کہ ” مہندی لگانا سنت ہے.عورتوں کو ہاتھ سفید نہیں رکھنے چاہئیں.اتنے میں میر ناصر نواب صاحب مرحوم جو لا ہور کچھ سامان لینے گئے ہوئے تھے تشریف لائے.اس سامان میں کچھ کپڑا اور بڑا پڑا مہندی کا بھی تھا.آپ نے حضرت اماں جان سے پوچھا کہ گھر میں مہندی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ مہندی گھر میں ہے.آپ نے فرمایا کہ یہ مہندی اور ایک قمیض کا کپڑا مراد خاتون کو دے دو اور اس کو کہہ دو کہ مہندی لگا یا کرے.وہ کپڑار یشمی موتیا رنگ کا تھا.اس دن سے میں عموما مہندی لگاتی ہوں اور رنگین کپڑا بھی پہنتی ہوں.66 (سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 235 ، 236) خلاف شرع امور میں والدین کی فرمانبرداری کس حد تک کی جائے؟ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دہلی پہنچ کر مولوی نذیرحسین صاحب اور مولوی محمد بشیر بھوپالوی سے مباحثہ فرمایا تھا.اُس سفر سے واپسی پر جماعت پٹیالہ کی
فقه المسيح 488 متفرق درخواست پر ایک دو روز کے لئے حضور نے پٹیالہ میں قیام فرمایا.حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ہمراہ تھے.ان دنوں میری شادی و نکاح کا مرحلہ در پیش تھا اور میرے والد مرحوم اپنی دنیا دارانہ وضع کے پابند اور نام و نمود کے خوگر تھے اور اپنے احباب اور مشیروں کے زیر اثر شادی کے اہتمام میں باوجود مالی حالت اچھی نہ ہونے کے قرض لے کر بھی جلوس اور خلاف شرع رسوم کی تیاریوں میں مصروف تھے.خاکسار نے اُن سے ان رسوم کی مخالفت اور اپنی بیزاری کا اظہار کیا مگر اُن پر کچھ اثر نہ ہوا.میں نے اپنی جائے ملا زمت را جپورہ سے ان رسومات کے خلاف شرع اور خلاف اخلاق و تمدن ہونے کے متعلق تین چار صفحات کا ایک مضمون لکھ کر دہلی کے ایک ہفتہ وار اخبار میں شائع کرایا اور چند کا پیاں منگوا کر اپنے والد صاحب کی خدمت میں اور دیگر بزرگان کے نام بھجوادیں.اس کے بعد میں پٹیالہ آکر اپنے والد صاحب سے ملا.والد صاحب نے مضمون کی تعریف کی اور ان خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مضمون کے مطابق تم اپنے وقت پر عمل کر لینا.میں نے تو صرف یہی ایک شادی کرنی ہے.میں تو اسی طرح کروں گا جیسا میرا دل چاہتا ہے، تم کو وہ باتیں پسند ہوں یا نہ ہوں.اس کا جواب خاموش رہنے کے سوا اور میرے پاس کیا تھا.آخر میں نے ایک اہل حدیث مولوی سے جن کے ہمارے خاندان سے بہت تعلقات تھے اور خاکسار پر وہ بہت شفقت فرماتے تھے.اپنی یہ مشکل پیش کی.انہوں نے سن کر میرے والد صاحب کی طبیعت سے واقف ہونے کی وجہ سے اُن کو تو کچھ کہنے کی جرات نہ کی بلکہ مجھے بڑی سختی سے تلقین کی کہ اگر تمہارے والد صاحب ان خلاف شرع رسومات کے ادا کرنے سے نہ رکیں تو تم شادی کرانے سے انکار کر دو.چونکہ میں اپنے والد صاحب کی طبیعت سے واقف تھا اور میرا کوئی دوسرا بہن بھائی بھی نہ تھا.اس لئے میں نے خیال کیا کہ ایسا جواب اُن کو سخت ناگوار معلوم ہوگا اور میرے اُن کے تعلقات ہمیشہ کے لئے خراب ہو کر خانگی زندگی کے لئے تباہ کن ہوں گے.اس لئے ان حالات
فقه المسيح 489 متفرق میں میں سخت پریشانی اور تردد میں تھا کہ انہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پٹیالہ تشریف لے آئے.ایام قیام پٹیالہ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب نماز عشاء کے بعد شب باش ہونے کے لئے ہمارے مکان پر تشریف لاتے اور صبح کی نماز کے بعد پھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو جاتے.ایک دن موقعہ پا کر میں نے اپنی مشکل کو حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں عرض کیا.حضرت مولوی صاحب نے اس داستان کو بڑے غور سے سنا اور فرمایا کہ چونکہ حضرت صاحب تشریف فرما ہیں اس لئے اس معاملہ کو حضور کو پیش کر دو.میں نے عرض کیا کہ لوگوں کی ہر وقت آمد و رفت اور حضرت صاحب کی مصروفیت کے سبب شاید حضرت صاحب سے عرض کرنے کا موقعہ نہ ملے.مولوی صاحب نے فرمایا موقعہ نکالنے کی ہم کوشش کریں گے.خاکسار تو رخصت نہ ہونے کے سبب ایک روز قبل ہی را جپورہ اپنی جائے ملازمت پر چلا گیا.حضرت صاحب اُس سے ایک روز بعد یا دوسرے روز بغرض وا پسی را جپورہ صبح آٹھ بجے والی گاڑی سے پہنچے اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر جب ٹرین پر سوار ہونے کے لئے پلیٹ فارم را جپورہ پر تشریف لائے تو مولوی صاحب نے خاکسار کو قریب طلب فرما کر یہ سارا واقعہ حضور کے گوش گزار کر دیا.حضور نے تمام حالات سن کر خاکسار سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کے والد صاحب کو یہ علم ہے کہ آپ کو ایسی رسوم جو کہ خلاف شرع ہیں دل سے پسند نہیں؟ میں نے عرض کیا کہ میں اُن سے زبانی عرض کرنے کے علاوہ ایک مدلل مضمون ان رسومات کے خلاف لکھ کر ایک اخبار میں اپنے نام سے شائع کرا کر اس کی کا پیاں اپنے والد صاحب کے پاس پہنچائیں مگر وہ مضمون کو پسند کرنے اور اس سے متفق ہونے کے باوجود عملاً اس کے خلاف اور اپنی مرضی کے موافق کرنے پر آمادہ ہیں.اس پر حضور نے فرمایا کہ اگر تم اُن اہل حدیث مولوی صاحب کے کہنے کے موافق شادی سے انکار کر دو تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا.میں نے عرض کیا کہ ہمیشہ کے لئے میرا اُن سے انقطاع انجام ہوگا.اس کے بعد فر مایا آخر
فقه المسيح 490 متفرق نکاح وغیرہ کی رسم تو اسلامی شریعت کے مطابق ہی ہوگی.خاکسار کے اثبات پر جواب عرض کرتے ہوئے فرمایا کہ جو رسوم شرع اور سنت کے موافق ہیں اُن کو تم اپنی طرف سے سمجھو اور جو خلاف شرع امور ہیں اُن کو اُن کی مرضی پر چھوڑ دو.دل سے نا پسند کرنے کے باوجود کچھ تعرض نہ کرو.اس طرح یہ مرحلہ بغیر فساد اور نزاع کے گزر جائے گا.پھر مولوی صاحب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا میرے نزدیک کسی لڑکے کو کسی خلاف شرع امر میں باپ کو منع کرنے کا اس سے زیادہ حق نہیں کہ وہ اس امر کا خلاف شرع ہونا اور اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کر دے.سختی سے روکنے یا جبر کرنے کا کوئی حق نہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے والدین کے سامنے ادب کے ساتھ اپنا شانہ جھکانے کا اور ان کے آگے اُف تک نہ کرنے کا حکم فرمایا ہے.اتنے میں گاڑی آگئی.خاکسار نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا اور نیچے اتر کر حضرت مولوی صاحب سے جب مصافحہ کیا تو مولوی صاحب نے فرمایا کہ حضرت صاحب کے فتویٰ نے آپ کی مشکل کا حل کر دیا.میں نے اسی لئے کہا تھا کہ حضرت صاحب سے عرض کرنا چاہئے.دراصل ہم مولوی صاحبان کی نظریں اُن گہرائیوں تک نہیں جاتیں جہاں حضرت صاحب کا نقطہ نگاہ ہوتا ہے.چنانچہ یہ معاملہ بلا مخالفت گزر گیا.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 88 تا 90) داروغہ نہ بنو ایک شخص کا خط حضرت مسیح موعود کی خدمت میں پیش ہوا کہ فلاں شخص نماز نہیں پڑھتا، روزے نہیں رکھتا ، یہ ہے، وہ ہے ، اس کو کا فرکہنا چاہئے یا نہیں ؟ وہ احمدی ہے یا نہیں؟ فرمایا: اُس کو کہنا چاہیے کہ تم اپنے آپ کو سنبھالو اور اپنی حالت کو درست کرو.ہر شخص کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ الگ ہے.تم کو کس نے داروغہ بنایا ہے جو تم لوگوں کے اعمال کی پڑتال کرتے پھرو اور اُن پر کفر یا ایمان کا فتویٰ لگاتے پھرو.مومن کا کام نہیں کہ بے فائدہ لوگوں کے پیچھے پڑتا رہے.( البدر 23 اپریل 1908 صفحہ 6)
فقه المسيح 491 متفرق بڑی عمر میں ختنہ کروانا ضروری نہیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص پچھتر سنگھ ریاست جموں کے تھے.وہ قادیان آکر مسلمان ہو گئے.نام ان کا شیخ عبدالعزیز رکھا گیا.ان کو لوگ اکثر کہتے تھے کہ ختنہ کرالو.وہ بیچارے چونکہ بڑی عمر کے ہو گئے تھے اس لئے ہچکچاتے تھے اور تکلیف سے بھی ڈرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا گیا کہ آیا ختنہ ضروری ہے.فرمایا بڑی عمر کے آدمی کے لئے ستر عورت فرض ہے مگر ختنہ صرف سنت ہے.اس لئے ان کے لئے ضروری نہیں کہ ختنہ کروائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض خصوصیات (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 756) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حج نہیں کیا.اعتکاف نہیں کیا.زکوۃ نہیں دی تسبیح نہیں رکھی.میرے سامنے خُب یعنی گوہ کھانے سے انکار کیا.صدقہ نہیں کھایا.زکوۃ نہیں کھائی.صرف نذرانہ اور ہدیہ قبول فرماتے تھے.پیروں کی طرح مصلی اور خرقہ نہیں رکھا.رائج الوقت درود و وظائف ( مثلاً پنج سورہ.دعائے گنج العرش.درود تاج - حزب البحر.دعائے سریانی وغیرہ) نہیں پڑھتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حج نہ کرنے کی تو خاص وجوہات تھیں کہ شروع میں آپ کے لئے مالی لحاظ سے انتظام نہیں تھا کیونکہ ساری جائیداد وغیرہ اوائل میں ہمارے دادا صاحب کے ہاتھ میں تھی اور بعد میں تایا صاحب کا انتظام رہا.اور اس کے بعد حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ ایک تو آپ جہاد کے کام میں منہمک رہے.دوسرے آپ کے لئے حج کا راستہ بھی مخدوش تھا.تا ہم آپ کی خواہش رہتی تھی کہ حج کریں.چنانچہ حضرت والدہ صاحبہ نے آپ کے بعد آپ کی طرف
فقه المسيح 492 متفرق سے حج بدل کروا دیا.اعتکاف ماموریت کے زمانہ سے قبل غالبا بیٹھے ہوں گے مگر ماموریت کے بعد بوجہ قلمی جہاد اور دیگر مصروفیت کے نہیں بیٹھ سکے.کیونکہ یہ نیکیاں اعتکاف سے مقدم ہیں.اور زکوۃ اس لئے نہیں دی کہ آپ کبھی صاحب نصاب نہیں ہوئے.البتہ حضرت والدہ صاحبہ زیور پر زکوۃ دیتی رہی ہیں اور تسبیح اور رسمی وظائف وغیرہ کے آپ قائل ہی نہیں تھے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 623، 624) حضرت مسیح موعود کا اپنی اولاد کے لئے صدقہ نا جائز قرار دینا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے صدقہ ناجائز خیال فرماتے تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سلامتی کی دعا (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 619) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خوابہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے والد صاحب نے ایک مرتبہ ذکر کیا کہ جب میں شروع شروع میں احمدی ہوا تو قصبہ شوپیاں علاقہ کشمیر کے بعض لوگوں نے مجھ سے کہا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ” صَلَّى اللهُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَلَّمَكَ اللهُ يَا رَسُولَ اللهِ " کے پڑھنے کے متعلق استفسار کروں.یعنی آیا یہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں.سوئیں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں اس بارہ میں خط لکھا.حضور نے جواب تحریر فرمایا کہ یہ پڑھنا جائز ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس استفسار کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں تو کیا اس صورت میں بھی آپ کو ایک زندہ شخص کی طرح مخاطب کر کے دُعا دینا جائز ہے سواگر یہ روایت درست ہے تو حضرت مسیح موعود کا فتویٰ یہ ہے کہ ایسا
فقه المسيح 493 متفرق کرنا جائز ہے اور اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ آپ کی روحانیت زندہ ہے اور آپ اپنی امت کے واسطے سے بھی زندہ ہیں.اس لئے آپ کے لئے خطاب کے رنگ میں دعا کرنا جائز ہے.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اپنے ایک شعر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر آپ سے مدد اور نصرت بھی چاہی ہے.چنانچہ فرماتے ہیں:.اے سید الوری ! مد دے وقت نصرت است یعنی اے رسول اللہ ! آپ کی امت پر ایک نازک گھڑی آئی ہوئی ہے.میری مدد کو تشریف لائیے کہ یہ نصرت کا وقت ہے.ہر نو مسلم کے نام کی تبدیلی ضروری نہیں (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 553 ، 554) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میر شفیع احمد صاحب دہلوی نے مجھے سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک معزز احمدی کو سر پر تول چندر چھڑ جی بنگالی کا ایک رشتہ دار گاڑی میں مل گیا اور اسے انہوں نے تبلیغ کی اور وہ بہت متاثر ہوا اور ان کے ساتھ قادیان چلا آیا اور یہاں آکر مسلمان ہو گیا.نام کی تبدیلی کے متعلق کسی نے عرض کیا تو حضور نے فرمایا کہ ان کا اپنا نام بھی اچھا ہے بس نام کے ساتھ احمد زیادہ کر دوں کسی اور تبدیلی کی ضرورت نہیں.لوگوں نے اس کے بنگالی طرز کے بال کتروا دیئے.جسے دیکھ کر حضور نے فرمایا کہ بال کیوں کتروا دیئے؟ پہلے بال بھی اچھے تھے بلکہ اب خراب ہو گئے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے اس کے بال ایسے رنگ میں کتر وادیئے ہوں گے جو قریبا منڈے ہوئے کے برابر ہوں اور ایسی طرز کے بال حضرت صاحب پسند نہیں فرماتے تھے بلکہ سر کے بال منڈانے کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ یہ خارجیوں کا طریق ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسلام لانے کے وقت نام بدلنا ضروری نہیں ہوتا ہاں البتہ اگر مشر کا نہ نام ہو تو وہ ضرور بدل دینا چاہئے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 436،435)
فقه المسيح 494 متفرق حضرت مسیح موعود کا تبرک دینا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری زمانہ میں اکثر دفعہ احباب آپ کے لئے نیا کرتہ بنوا لاتے تھے اور اسے بطور نذر پیش کر کے تبرک کے طور پر حضور کا اترا ہوا کرتہ مانگ لیتے تھے.اسی طرح ایک دفعہ کسی نے میرے ہاتھ ایک نیا کر یہ بھجوا کر پرانے اترے ہوئے کرتے کی درخواست کی.گھر میں تلاش سے معلوم ہوا کہ اس وقت کوئی اُترا ہوا بے دھلا کر تہ موجود نہیں.جس پر آپ نے اپنا مستعمل کرتہ دھوبی کے ہاں کا دھلا ہوا دیئے جانے کا حکم فرمایا.میں نے عرض کیا کہ یہ تو دھوبی کے ہاں کا دھلا ہوا کرتہ ہے اور وہ شخص تبرک کے طور پر میلا کر نہ لے جانا چاہتا ہے.حضور ہنس کر فرمانے لگے کہ وہ بھی کیا برکت ہے جو دھوبی کے ہاں دھلنے سے جاتی رہے.چنانچہ وہ کر تہ اس شخص کو دے دیا گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ وہ شخص غالبا یہ تو جانتا ہوگا کہ دھوبی کے ہاں دھلنے سے برکت جاتی نہیں رہتی.لیکن محبت کا یہ بھی تقاضا ہوتا ہے کہ انسان اپنے مقدس محبوب کا اُتر ا ہوا میلا بے ڈھلا کپڑا اپنے پاس رکھنے کی خواہش کرتا ہے اور اسی طبعی خواہش کا احترام کرتے ہوئے گھر میں پہلے میلے کپڑے کی تلاش کی گئی لیکن جب وہ نہ ملا تو دُھلا ہوا کر نہ دے دیا گیا.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 344،343) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ہم سے قاضی امیرحسین صاحب نے بیان کیا کہ میں حدیث میں یہ پڑھتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بال صحابہ برکت کے لئے رکھتے تھے اس خیال سے میں نے ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور مجھے اپنے کچھ بال عنایت فرماویں.چنانچہ جب آپ نے حجامت کرائی تو مجھے اپنے بال بھجوا دیئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے پاس بھی حضرت صاحب کے کچھ بال رکھے ہیں.(سیرت المہدی جلد 1 صفحه 21
فقه المسيح 495 متفرق حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کا تبرک حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبد اللطیف صاحب شہید کی شہادت کے بعد ان کا کوئی مرید ان کے کچھ بال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس قادیان لایا.آپ نے وہ بال ایک کھلے منہ کی چھوٹی بوتل میں ڈال کر اور اس کے اندر کچھ مشک رکھ کر اس بوتل کو سر بمہر کر دیا اور پھر اس شیشی میں تا گہ باندھ کر اسے اپنی بیت الدعا کی ایک کھونٹی سے لٹکا دیا اور یہ سارا عمل آپ نے ایسے طور پر کیا کہ گویا ان بالوں کو آپ ایک تبرک خیال فرماتے تھے اور نیز بیت الدعا میں اس غرض سے لٹکائے گئے ہوں گے کہ دعا کی تحریک رہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بوتل کئی سال تک بیت الدعا میں لٹکی رہی.لیکن اب ایک عرصہ سے نظر نہیں آتی.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 339) داڑھی رکھنا انبیاء کا طریق ہے (ایک مہمان ) عرب صاحب نے داڑھی کی نسبت دریافت کیا.حضرت اقدس نے فرمایا:.یہ انسان کے دل کا خیال ہے بعض انگریز تو داڑھی اور مونچھ سب منڈوا دیتے ہیں وہ اسے خوبصورتی خیال کرتے ہیں اور ہمیں اس سے ایسی سخت کراہت آتی ہے کہ سامنے ہو تو کھانا کھانے کو جی نہیں چاہتا.داڑھی کا جو طریق انبیاء اور راستبازوں نے اختیار کیا ہے وہ بہت پسندیدہ ہے.البتہ اگر بہت لمبی ہو جاوے تو کٹوا دینی چاہیے.ایک مشت رہے.خدا نے یہ ایک امتیاز مرد اور عورت کے درمیان رکھ دیا ہے.داڑھی تراشنے کا جواز البدر 6 فروری 1903 ء صفحہ 21) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ریش مبارک کے زیادہ بڑھے ہوئے بالوں کو
فقه المسيح 496 متفرق قینچی سے کتروا دیا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمان داڑھی کو بڑھائیں اور مونچھوں کو چھوٹا کریں.جس کی یہ وجہ ہے کہ داڑھی مردانہ زینت اور وقار کا موجب ہے اور مونچھوں کا بڑھانا نجب اور تکبر پیدا کرتا ہے.لیکن اس کا یہ منشاء نہیں کہ داڑھی کی کوئی خاص مقدار شریعت نے مقرر کر دی ہے.اس قسم کی جزئی باتوں میں شریعت دخل نہیں دیتی بلکہ شخصی مناسبت اور پسندیدگی پر چھوڑ دیتی ہے.منشاء صرف یہ ہے کہ داڑھی منڈوائی نہ جائے بلکہ رکھی جاوے.لیکن داڑھی کا بہت زیادہ لمبا کرنا بھی پسند نہیں کیا گیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک مشت و دو انگشت کے اندازہ سے زیادہ بڑھی ہوئی داڑھی کر وا دینی مناسب ہے.جس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ بہت لمبی داڑھی بھی خلاف زینت ہوتی ہے.اور اس کا صاف رکھنا بھی کچھ دقت طلب ہے.مگر اس کے مقابلہ میں داڑھی کو ایسا چھوٹا کتروانا بھی کہ وہ منڈھی ہوئی کے قریب قریب ہو جاوے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے احترام کے خلاف ہے جو ایک مخلص مسلمان کی شان سے بعید سمجھا جانا چاہیے.داڑھی کیسی ہو؟ (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 339 340) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص محمد سعید صاحب عرب تھے ، اور وہ داڑھی منڈوایا کرتے تھے.جب وہ قادیان میں زیادہ عرصہ رہے تو لوگوں نے انہیں داڑھی رکھنے کے لئے مجبور کیا.آخر انہوں نے داڑھی رکھ لی.ایک دفعہ میرے سامنے عرب صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ حضور میری داڑھی دیکھیں ٹھیک ہے.فرمایا اچھی ہے اور پہلے کیسی تھی.گویا آپ کو یہ خیال ہی نہ تھا کہ پہلے یہ داڑھی منڈایا کرتے تھے.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 82
فقه المسيح 497 متفرق حرام مال اشاعت اسلام میں خرچ کرنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ ایک دفعہ انبالہ کے ایک شخص نے حضرت صاحب سے فتوی دریافت کیا کہ میری ایک بہن کیچنی تھی.اس نے اس حالت میں بہت سا رو پی کھا یا پھر وہ مرگی اور مجھے اس کا ترکہ ملا مگر بعد میں مجھے اللہ تعالیٰ نے تو بہ اور اصلاح کی توفیق دی.اب میں اس مال کا کیا کروں؟ حضرت صاحب نے جواب دیا: ہمارے خیال میں اس زمانہ میں ایسا مال اسلام کی خدمت میں خرچ ہوسکتا ہے اور پھر مثال دے کر بیان کیا کہ اگر کسی شخص پر کوئی سگِ دیوانہ حملہ کرے اور اس کے پاس اس وقت کوئی چیز اپنے دفاع کے لئے نہ ہو، نہ سوئی، نہ پتھر وغیرہ صرف چند نجاست میں پڑے ہوئے پیسے اس کے قریب ہوں تو کیا وہ اپنی جان کی حفاظت کے لئے ان پیسوں کو اٹھا کر اس کتے کو نہ دے مارے گا اور اس وجہ سے رک جاوے گا کہ یہ پیسے ایک نجاست کی نالی میں پڑے ہوئے ہیں.ہر گز نہیں.پس اسی طرح اس زمانہ میں جو اسلام کی حالت ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہتے ہیں کہ اس روپیہ کو خدمت اسلام میں لگایا جاسکتا ہے.میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ اس زمانہ میں جب کی یہ بات ہے.آج کل والے انگریزی پیسے زیادہ رائج نہ تھے بلکہ موٹے موٹے بھدے سے پیسے چلتے تھے جن کو منصوری پیسے کہتے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس زمانہ میں خدمتِ اسلام کے لئے بعض شرائط کے ماتحت سودی روپیہ کے خرچ کئے جانے کا فتویٰ بھی حضرت صاحب نے اسی اصول پر دیا ہے مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ فتولی وقتی ہے اور خاص شرائط کے ساتھ مشروط ہے.وَمَنِ اعْتَدى فَـقَـدْ ظَلَمَ وَحَارَبَ اللَّهَ - (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 243 244)
فقه المسيح 498 متفرق حاکم پر رعب ڈالنے کا وظیفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ 1303ھ ماہ ذی الحجہ بروز جمعہ بوقت دس بجے حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ اگر کسی شخص کا خوف ہو اور دل پر اس کے رعب پڑنے کا اندیشہ ہو تو آدمی صبح کی نماز کے بعد تین دفعہ یسین پڑھے اور اپنی پیشانی پر خشک انگلی سے يَا عَزِیزُ لکھ کر اس کے سامنے چلا جاوے انشاء اللہ اس کا رعب نہیں پڑے گا بلکہ خود اس پر رعب پڑ جائے گا اور ویسے بھی حضرت صاحب نے مجھے ہر روز کے واسطے بعد نماز فجر تین دفعہ یسین پڑھنے کا وظیفہ بتایا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرمان میاں عبداللہ صاحب نے اپنی نوٹ بک میں نوٹ کیا ہوا تھا اس لئے تاریخ وغیرہ پوری پوری محفوظ رہی اور خاکسارا اپنی رائے سے عرض کرتا ہے کہ یا عَزِیزُ کے الفاظ میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان اپنے قلب پر خدا کی طاقت و جبروت اور قہر و غلبہ کی صفات کا نقشہ جمائے گا اور ان کا تصور کرے گا تو لازمی طور پر اس کا قلب غیر اللہ کے رعب سے آزاد ہو جائے گا اور بوجہ اس کے کہ وہ مومن ہے اس کو ان صفات کے مطالعہ سے ایک طاقت ملے گی جو دوسرے کو مرعوب کر دے گی اور انگلی.لکھنا علم النفس کے مسئلہ کے ماتحت تصور کو مضبوط کرنے کے واسطے ہے ورنہ وظائف کوئی منتر جنت نہیں ہوتے.واللہ اعلم.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 127 ، 128 ) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حافظ نور محمد صاحب متوطن فیض اللہ چک نے مجھ سے تحریری طور پر بیان کیا کہ میں نے حافظ حامد علی صاحب مرحوم سے سنا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ہے اگر کسی مقدمہ میں یا اور کسی طرح کسی حاکم کے سامنے جانا ہو تو جانے سے پہلے سات مرتبہ سورۃ فاتحہ پڑھ لینی چاہئے اور سات مرتبہ اپنی
فقه المسيح 499 متفرق 66 انگلی سے اپنی پیشانی پر یا عزیز لکھ لینا چاہئے.اس طرح اللہ تعالیٰ کامیابی دیتا ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ طریق غالبا حالت استغناء عن غیر اللہ اور حالت تو کل علی اللہ کے پیدا کرنے کے لئے ہے.(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 442،441) کھانے کے لئے کوئی خاص طریق اختیار کرنا خلاف شرع نہیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ لدھیانہ میں پہلی دفعہ بیعت لے کر یعنی ابتداء 1889ء میں حضرت صاحب علی گڑھ تشریف لے گئے تھے.میں اور میر عباس علی اور شیخ حامد علی ساتھ تھے.حضرت صاحب سید تفضل حسین صاحب تحصیل دار کے مکان پر ٹھہرے جو ان دنوں دفتر ضلع میں سپرنٹنڈنٹ تھے.وہاں ایک تحصیل دار نے جو سید صاحب کا واقف تھا.حضرت صاحب کی دعوت کی اور شہر کے دوسرے معززین کو بھی مدعو کیا.حضور تشریف لے گئے اور ہم تینوں کو حسب عادت اپنے دائیں بائیں بٹھایا.تحصیلدار صاحب نے کھانے کے لئے چوکیوں یعنی چھوٹے چھوٹے تخت پوشوں کا انتظام کیا تھا جن پر کھانا رکھا گیا اور لوگ ان کے گرد بیٹھ گئے.چوکیوں پر سنچ کے گلاسوں میں گلدستے رکھے ہوئے تھے.جب کھانا شروع ہوا تو میر عباس علی نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا بلکہ خاموش بیٹھے رہے.حضرت صاحب نے ان سے دریافت کیا میر صاحب آپ کیوں نہیں کھاتے ؟ انہوں نے کہا یہ نیچریوں کے طریق کا کھانا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا نہیں اس میں کوئی حرج نہیں.یہ خلاف شرع نہیں ہے.میر صاحب نے کہا میرا تو دل نہیں چاہتا.حضرت صاحب نے فرمایا میر صاحب! ہم جو کھاتے ہیں.میر صاحب نے کہا حضرت آپ کھائیں میں تو نہیں کھاتا.غرض میر عباس علی نے کھانا نہیں کھایا.میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ جب عباس علی مرتد ہوا تو
فقه المسيح 500 متفرق مجھے یہ بات یاد آئی کہ وہ تو دراصل اسی وقت سے کٹ چکا تھا.ایک پیر کے بعد دوسرے کی بیعت کرنا (سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 72،71) ایک شخص نے عرض کی کہ اگر ایک شخص کسی پیر کا پہلے سے مُرید ہے تو کیا جائز ہے کہ وہ بعد اس کے کسی اور پیر کی بیعت کرے.فرمایا "اگر پہلی بیعت کسی اچھے آدمی کی نہ تھی تو وہ خود ہی قابل فسخ تھی اور اگر اچھے آدمی کی تھی تو دوسری بیعت نور علی نور ہے.ایک چراغ کے ساتھ دوسرا چراغ جلانے سے روشنی بڑھتی ہے.سید عبدالقادر جیلانی نے کئی متفرق جگہ بیعتیں کی تھیں.“ 66 ( ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 232 ،233) حضرت مسیح موعود کو خدا کی طرف سے بیعت لینے کا حکم سوال ہوا.کیا آپ دوسرے صوفیاء اور مشائخ کی طرح عام طور پر بیعت لیتے ہیں یا بیعت لینے کے لئے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے.فرمایا: ہم تو امر الہی سے بیعت کرتے ہیں جیسا کہ ہم اشتہار میں بھی یہ الہام لکھ چکے ہیں کہ إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُنَا بِعُونَ اللَّهَ “ بیعت کا طریق (الحکم 24 مئی 1901ء صفحہ 8) حضرت مفتی محمد صادق صاحب اپنی بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: قیام قادیان کے دوران ) دوسرے یا تیسرے دن میں نے حافظ حامد علی صاحب سے کہا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں.حضرت صاحب مجھے ایک علیحدہ مکان میں لے گئے.جس حصہ زمین پر نواب محمد علی خاں صاحب کا شہر والا مکان ہے.اور جس کے نیچے کے حصہ میں مرکزی
فقه المسيح 501 متفرق لائبریری رہ چکی ہے.جس کے بالا خانہ میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب رہ چکے ہیں.( آج کل اگست 1935 ء میں وہ بطور مہمان خانہ استعمال ہوتا ہے.) اس زمین پر اُن دنوں حضرت صاحب کا مویشی خانہ تھا.گائے ، ہیل اُس میں باندھے جاتے تھے.اس کا راستہ کو چہ بندی میں سے تھا.حضرت صاحب کے اندرونی دروازے کے سامنے مویشی خانہ کی ڈیوڑھی کا دروازہ تھا.یہ ڈیوڑھی اُس جگہ تھی.جہاں آج کل لائبریری کے دفتر کا بڑا کمرہ ہے.اس ڈیوڑھی میں حضرت صاحب مجھے لے گئے اور اندر سے دروازہ بند کر دیا.اُن ایام میں ہر شخص کی بیعت علیحدہ علیحد ہ لی جاتی تھی.ایک چارپائی بچھی تھی اس پر مجھے بیٹھنے کو فرمایا.حضرت صاحب بھی اُس پر بیٹھے.میں بھی بیٹھ گیا.میرا دایاں ہاتھ حضرت صاحب نے اپنے ہاتھ میں لیا اور دس شرائط کی پابندی کی مجھ سے بیعت لی.دس شرائط ایک ایک کر کے نہیں دہرائیں بلکہ صرف لفظ دس شرائط کہہ دیا.حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب کی بیعت کا ذکر کرتے ہوئے آپ تحریر کرتے ہیں کہ ان سے حضرت مسیح موعود نے ایک ایک شرط بیعت کہلوائی.چنانچہ آپ لکھتے ہیں: انہوں نے حضرت مسیح موعود کی بیعت لاہور میں غالبا 1892ء میں کی تھی.وہ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں حضرت صاحب کی بیعت کرنے کے واسطے علیحدہ کمرہ میں داخل ہوا تو حضرت نے بیعت لینے کے وقت فرمایا کہ کہو میں دس شرائط پر عمل کروں گا.میں نے عرض کی کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ دس شرائط کیا ہیں.تب آپ نے ایک ایک شرط مجھ سے کہلوائی.میت یا ارواح سے کلام ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب - صفحہ 6-7) حضرت مفتی محمد صادق صاحب تحریر کرتے ہیں : جب 1905ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اہل بیعت اور چند خدام کے ساتھ دہلی
فقه المسيح 502 متفرق تشریف لے گئے تو یہ خادم بھی بلحاظ ایڈیٹر اخبار بدر حضور کے ہمرکاب تھا.محلہ چتلی قبر میں الف خان سیاہی والے کے مکان پر قیام ہوا.ایک دن حضرت صاحب فرمانے لگے کہ دہلی کے زندوں سے تو بہت امید نہیں چلو یہاں کے مُردوں سے ملاقات کریں کیونکہ اس سرزمین میں کئی ایک بزرگ اولیاء اللہ مدفون ہیں.چنانچہ اس کے مطابق کئی دنوں میں خواجہ میر درد، قطب الدین اولیاء، قطب صاحب اور دیگر بزرگوں کی قبروں پر جاتے رہے.ان قبروں پر تھوڑی دیر کھڑے ہو کر ہاتھ اُٹھا کر آپ دعا کرتے اور دیگر احباب بھی آپ کے ساتھ دعا کرتے.حضرت نظام الدین اولیاء کی قبر پر فرمایا: ارواح کا تعلق قبور کے ساتھ ضرور ہوتا ہے اور اہل کشف توجہ سے میت کے ساتھ کلام بھی کر سکتے ہیں.“ ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 137-138) حضرت مسیح موعود کا خدا کے حکم سے مجاہدات بجالانا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: میں نے کبھی ریاضات شاقہ بھی نہیں کیں اور نہ زمانہ حال کے بعض صوفیوں کی طرح مجاہدات شدیدہ میں اپنے نفس کو ڈالا اور نہ گوشہ گزینی کے التزام سے کوئی چلہ کشی کی اور نہ خلاف سنت کوئی ایسا عمل رہبانیت کیا جس پر خدا تعالیٰ کے کلام کو اعتراض ہو.بلکہ میں ہمیشہ ایسے فقیروں اور بدعت شعار لوگوں سے بیزار رہا جو انواع اقسام کے بدعات میں مبتلا ہیں.ہاں حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جبکہ ان کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ " کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے.اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجالاؤں.سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجالا نا بہتر ہے
فقه المسيح 503 متفرق پس میں نے یہ طریق اختیار کیا کہ گھر سے مردانہ نشست گاہ میں اپنا کھانا منگوا تا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو جن کو میں نے پہلے سے تجویز کر کے وقت پر حاضری کے لئے تاکید کر دی تھی دے دیتا تھا اور اس طرح تمام دن روزہ میں گذارتا اور بجز خدا تعالیٰ کے ان روزوں کی کسی کو خبر نہ تھی.پھر دو تین ہفتہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایسے روزوں سے جو ایک وقت میں پیٹ بھر کر روٹی کھا لیتا ہوں مجھے کچھ بھی تکلیف نہیں بہتر ہے کہ کسی قدر کھانے کو کم کروں سو میں اس روز سے کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ میں تمام دن رات میں صرف ایک روٹی پر کفایت کرتا تھا اور اسی طرح میں کھانے کو کم کرتا گیا.یہاں تک کہ شاید صرف چند تو لہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے بعد میری غذا تھی.غالباً آٹھ یا نو ماہ تک میں نے ایسا ہی کیا اور باوجود اس قدر قلت غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیں کر سکتا خدا تعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد نمبر 13 صفحہ 196 تا 198 حاشیہ) اپنی تجویز سے شدید ریاضتیں نہ کرو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے خاص اذن سے ایک مرتبہ آٹھ نو ماہ کے مسلسل روزے رکھے.ان روزوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: میں نے ان مجاہدات کے بعد اپنے نفس کو ایسا پایا کہ میں وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ سے زیادہ صبر کر سکتا ہوں.میں نے کئی دفعہ خیال کیا کہ اگر ایک موٹا آدمی جو علاوہ فربہی کے پہلوان بھی ہو میرے ساتھ فاقہ کشی کے لئے مجبور کیا جائے تو قبل اس کے کہ مجھے کھانے کے لئے کچھ اضطرار ہو، وہ فوت ہو جائے.اس سے مجھے یہ بھی ثبوت ملا کہ انسان کسی حد تک فاقہ کشی میں ترقی کر سکتا ہے اور جب تک کسی کا جسم ایسا سختی کش نہ ہو جائے میرا یقین ہے کہ ایسا تنعم پسند روحانی منازل کے لائق نہیں ہو سکتا لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایسا
فقه المسيح 504 متفرق کرے اور نہ میں نے اپنی مرضی سے ایسا کیا.میں نے کئی جاہل درویش ایسے بھی دیکھے ہیں جنہوں نے شدید ریاضتیں اختیار کیں اور آخر یبوست دماغ سے وہ مجنون ہو گئے اور بقیہ عمر اُن کی دیوانہ پن میں گذری یا دوسرے امراض سل اور دق وغیرہ میں مبتلا ہو گئے.انسانوں کے دماغی قومی ایک طرز کے نہیں ہیں.پس ایسے اشخاص جن کے فطرتا قولی ضعیف ہیں.ان کو کسی قسم کا جسمانی مجاہدہ موافق نہیں پڑ سکتا اور جلد تر کسی خطرناک بیماری میں پڑ جاتے ہیں.سو بہتر ہے کہ انسان اپنی نفس کی تجویز سے اپنے تئیں مجاہدہ شدیدہ میں نہ ڈالے اور دین العجائز اختیار رکھے.ہاں اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی الہام ہو اور شریعت غراء اسلام سے منافی نہ ہو تو اس کو بجالانا ضروری ہے لیکن آج کل کے اکثر نادان فقیر جو مجاہدات سکھلاتے ہیں اُن کا انجام اچھا نہیں ہوتا.پس اُن سے پر ہیز کرنا چاہیے.سینہ پر دم کر دیا (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد نمبر 13 صفحہ 199 ، 200 حاشیہ ) حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضور علیہ السلام کے دم کرنے کا ایک واقعہ لکھتے ہیں : ایک دفعہ یہ عاجز راقم لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا اور جماعت لاہور کے چند اور اصحاب.بھی ساتھ تھے.صوفی احمد دین صاحب مرحوم نے مجھ سے خواہش کی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سفارش کر کے صوفی صاحب کے سینہ پر دم کرادوں.چنانچہ حضرت صاحب کو چہ بندی میں سے اندرون خانہ جارہے تھے جبکہ میں نے آگے بڑھ کر صوفی صاحب کو پیش کیا اور ان کی درخواست عرض کی.حضور نے کچھ پڑھ کر صوفی صاحب کے سینہ پر دم کر دیا.( پھونک مارا ) اور پھر اندر تشریف لے گئے.ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب.صفحہ 175 ، 176)
فقه المسيح 505 متفرق حیلہ اگر خدا سمجھائے تو شرع میں جائز ہے آیت خُذْ بِيَدِكَ ضِعْثًا فَاضْرِبُ بِهِ وَلَا تَحُنَتْ (ص:45) کی نسبت پوچھا گیا کہ اگر اس کے وہ معنی کئے جاویں جو عام مفسروں نے کئے ہیں تو شرع میں حیلوں کا باب کھل جائے گا.آپ نے فرمایا: چونکہ حضرت ایوب کی بیوی بڑی نیک، خدمت گزار تھی اور آپ بھی متقی صابر تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے تخفیف کر دی اور ایسی تدبیر سمجھا دی جس سے قسم بھی پوری ہو جائے اور ضرر بھی نہ پہنچے.اگر کوئی حیلہ اللہ تعالیٰ سمجھائے تو وہ شرع میں جائز ہے کیونکہ وہ بھی اسی راہ سے آیا جس سے شرع آئی.اس لیے کوئی ہرج کی بات نہیں.ریڈیو کے ذریعے گانا سننا ( بدر 28 فروری 1907 صفحہ 6) سوال: حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں ریڈیو کے گانے کے متعلق حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب اور مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم کا فتویٰ پیش کیا گیا.اس فتویٰ میں ان ہر دو علماء نے اس بات کا اظہار کیا کہ ریڈیو کے ذریعہ غیر عورت کا گانا سننا شریعت اسلامی کی رو سے ناجائز ہے؟ جواب: فرمایا میں اس بات کا قائل نہیں کہ کسی عورت کا گا نا آمنے سامنے ہو کر سنا یا بذریعہ ریڈیو یا گراموفون سننا ایک ہی بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ مرزا افضل بیگ صاحب مرحوم کے گراموفون پر ایک غزل گائی جاتی تھی میرے سامنے سنی اور اس کو منع قرار نہیں دیا.البتہ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اس طرح بُرا اثر پڑ سکتا ہے اور ضیاع وقت ہے اس بات کو روکا جاسکتا ہے مگر اس دلیل کی بناء پر اس کی حرمت کا فتویٰ میں دینے کو تیار نہیں ہوں.فرمودات مصلح موعود درباره فقہی مسائل صفحه 387)
فقه المسيح 506 متفرق زندوں کا توسل جائز ہے سوال پوچھا گیا کہ آیا دعا کے بعد یہ کلمات کہنے کہ یا الہی تو میری دعا کو بطفیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام قبول فرما، جائز ہے کہ نہیں؟ حضرت اقدس نے فرمایا: شریعت میں توسل احیاء کا جواز ثابت ہوتا ہے بظاہر اس میں شرک نہیں ہے ایک حدیث میں بھی ہے.“ (البدر 28 نومبر 5 دسمبر 1902 صفحہ 37) تعبیر کرنے والے کی رائے کا اثر تعبیر پر نہیں پڑتا ایک شخص نے سوال کیا کہ جب خواب بیان کیا جاتا ہے تو یہ بات مشہور ہے کہ سب سے اول جو تعبیر مجبر کرے وہی ہوا کرتی ہے اور اسی بناء پر یہ کہا جاتا ہے کہ ہر کس و ناکس کے سامنے خواب بیان نہ کرنا چاہئے فرمایا: جو خواب مبشر ہے اس کا نتیجہ انذار نہیں ہوسکتا اور جو منذر ہے وہ مبشر نہیں ہوسکتا اس لیے یہ بات غلط ہے کہ اگر مبشر کی تعبیر کوئی معتبر منذر کی کرے تو وہ منذر ہو جاوے گا اور منذ رمبشر ہو جاوے گا ہاں یہ بات درست ہے کہ اگر کوئی منذر خواب آوے تو صدقہ و خیرات اور دعا سے وہ بلا ٹل جاتی ہے.کسی نام سے فال لینا البدر یکم مئی 1903 صفحہ 117) کسی کے نام سے بطور تفاؤل کے فال لینے پر سوال ہوا فر مایا: یہ اکثر جگہ صحیح نکلتا ہے آنحضرت ﷺ نے بھی تفاؤل سے کام لیا ہے ایک دفعہ میں گورداسپور مقدمہ پر جارہا تھا اور ایک شخص کو سزاملنی تھی میرے دل میں خیال تھا کہ اسے سزا ہوگی یا نہیں کہ اتنے میں ایک لڑکا ایک بکری کے گلے میں رسی ڈال رہا تھا اس نے رسی کا حلقہ بنا کر بکری
فقه المسيح 507 متفرق کے گلے میں ڈالا اور زور سے پکارا کہ وہ پھنس گئی وہ پھنس گئی میں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ اسے سزا ضرور ہوگی چنانچہ ایسا ہی ہوا.اسی طرح ایک دفعہ سیر کو جارہے تھے اور دل میں پکٹ کا خیال تھا کہ بڑا عظیم الشان مقابلہ ہے دیکھئے کیا نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک شخص غیر از جماعت نے راستہ میں کہا السلام علیکم میں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ ہماری فتح ہوگی.کسی کتاب سے فال لینا البدر یکم مئی 1903ء صفحہ 117) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام ایک دفعہ فرماتے تھے کہ ہم نے ایک اہم امر کے لئے دیوان حافظ سے بھی فال لی تھی لیکن اب یہ مجھے یاد نہیں رہا کہ کس امر کے لئے فال لی تھی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ فال بھی ایک قسم کی قرعہ اندازی ہے اور اگر اس کے ساتھ دعا شامل ہو تو وہ ایک رنگ کا استخارہ بھی ہو جاتی ہے مگر میں نے سنا ہے کہ حضرت صاحب قرآن شریف سے فال لینے کو نا پسند فرماتے تھے.کسی نام سے برمی فال لینا جائز نہیں سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 791) کسی لڑکی کا نام جنت تھا.کسی شخص نے کہا کہ یہ نام اچھا نہیں کیونکہ بعض اوقات انسان آواز مارتا ہے کہ جنت گھر میں ہے اور اگر وہ نہ ہو تو گویا اس سے ظاہر ہے کہ دوزخ ہی ہے.یا کسی کا نام برکت ہو اور یہ کہا جائے کہ گھر میں برکت نہیں تو گویا نحوست ہوئی.فرمایا:.یہ بات نہیں ہے.نام کے رکھنے سے کوئی ہرج نہیں ہوتا اور اگر کوئی کہے کہ برکت اندر نہیں ہے تو اس کا تو مطلب یہ ہے کہ وہ انسان اندر نہیں ہے نہ یہ کہ برکت نہیں یا اگر کہے کہ جنت نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جنت نہیں اور دوزخ ہے بلکہ یہ کہ وہ انسان اندر نہیں جس کا نام جنت ہے.
فقه المسيح 508 متفرق کسی اور نے کہا کہ حدیث میں بھی حرمت آئی ہے.فرمایا کہ:.میں ایسی حدیثوں کو ٹھیک نہیں جانتا اور ایسی حدیثوں سے اسلام پر اعتراض ہوتا ہے کیونکہ خدا کے بتائے ہوئے نام عبداللہ ، عبدالرحیم اور عبدالرحمن جو ہیں ان پر بھی بات لگ سکتی ہے کیونکہ جب ایک انسان کہتا ہے کہ عبدالرحمن اندر نہیں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہو سکتا کہ عبدالشیطان اندر ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ شخص جس کا نام نیک فال کے طور پر رکھا جاتا ہے تا وہ شخص (الحلم 31 مارچ1907 صفحہ 10 ،11 ) بھی اس نام کے مطابق ہو.ہم تعویذ گنڈے نہیں کرتے ایک شخص نے اپنی کچھ حاجات تحریری طور سے پیش کیں.حضرت اقدس نے پڑھ کر جواب میں فرمایا کہ: ”اچھا، ہم دعا کریں گے.تو وہ شخص کسی قدر تحیر ہو کر پوچھنے لگا.آپ نے میری عرضداشت کا جواب نہیں دیا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہم نے تو کہا ہے کہ دُعا کریں گے.اس پر وہ شخص بولا کہ حضور کو ئی تعویذ نہیں کیا کرتے؟ فرمایا: تعویذ گنڈے کرنا ہمارا کام نہیں ہے.ہمارا کام تو صرف اللہ کے حضور دعا کرنا ہے.“ (الحکم 6 اپریل 1908 صفحہ 1 ) سجدہ تعظیمی کی ممانعت حضرت مفتی محمد صادق صاحب لکھتے ہیں: کشمیر سے ایک احمدی لمبے قد کا غریب آدمی نہایت اخلاص کے ساتھ اپنے گاؤں سے قادیان تک سارا رستہ پیدل چلتے ہوا آیا کرتا تھا.اس کا نام غالبا اکل جو تھا.وہ ایک دفعہ قادیان میں آیا ہوا تھا جبکہ حضرت مسیح موعود ایک صبح سیر پر جانے کے واسطے باہر تشریف لائے.چوک میں وہ کشمیری بھی کھڑا تھا.جب اس نے حضرت صاحب کو دیکھا تو فرط محبت میں روتا ہوا آپ کے پاؤں پر سر رکھ دیا.آپ نے جھک کر اسے اُٹھایا اور فرمایا.یہ نا جائز ہے.انسان کو
فقه المسيح 509 متفرق سجدہ نہیں کرنا چاہئے.غیر ضروری تفتیش کرنا منع ہے ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 206، 207) ایک شخص نے عرض کی کہ میں ایک گاؤں میں دوکان پر گر شکر بیچتا ہوں.بعض دفعہ لڑکے یا زمینداروں کے مزدور اور خادم چاکر کپاس یا گندم یا ایسی شے لاتے ہیں اور اس کے عوض میں سودا لے جاتے ہیں جیسا کہ دیہات میں عموماً دستور ہوتا ہے لیکن بعض لڑکے یا چا کر مالک سے چوری ایسی شے لاتے ہیں.کیا اس صورت میں ان کو سو دادینا جائز ہے یا کہ نہیں؟ فرمایا: جب کسی شے کے متعلق یقین ہو کہ یہ مال مسروقہ ہے تو پھر اس کا لینا جائز نہیں لیکن خواہ مخواہ اپنے آپ کو بدظنی میں ڈالنا امر فاسد ہے.ایسی باتوں میں تفتیش کرنا اور خواہ مخواہ لوگوں کو چور ثابت کرنے کی کوشش کرنا دوکاندار کا کام نہیں.اگر دوکاندار ایسی تحقیقاتوں میں لگے گا تو پھر دوکانداری کس وقت کرے گا؟ ہر ایک کے واسطے تفتیش کرنا منع ہے.قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ گائے ذبح کرو.بہتر تھا کہ ایک گائے پکڑ کر ذبح کر دیتے.حکم کی تعمیل ہو جاتی.انہوں نےخواہ خواہ اور باتیں پوچھنی شروع کیں کہ وہ کیسی گائے ہے اور کیسا رنگ ہے اور اس طرح کے سوال کر کے اپنے آپ کو اور دقت میں ڈال دیا.بہت مسائل پوچھتے رہنا اور باریکیاں نکالتے رہنا اچھا نہیں ہوتا.(بدر 8 راگست 1907 صفحہ 5) توریہ کا جواز اور اس کی حقیقت پادری فتح مسیح کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود نے فرمایا: آپ لکھتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے مگر یہ آپ کو اپنی جہالت کی وجہ سے غلطی لگی ہے اور اصل بات یہی ہے کہ کسی حدیث میں جھوٹ بولنے کی ہرگز اجازت نہیں.بلکہ حدیث میں تو یہ لفظ ہیں کہ اِنْ قُتِلْتَ وَأُخْرِقْتَ یعنی سچ کو
فقه المسيح 510 متفرق مت چھوڑ ا گر چہ تو قتل کیا جائے اور جلایا جائے.پھر جس حالت میں قرآن کہتا ہے کہ تم انصاف اور سیچ مت چھوڑو.اگر چہ تمہاری جانیں بھی اس سے ضائع ہوں اور حدیث کہتی ہے کہ اگر چہ تم جلائے جاؤ اور قتل کئے جاؤ.مگر سچ ہی بولو.تو پھر اگر فرض کے طور پر کوئی حدیث قرآن اور احادیث صحیحہ کی مخالف ہو تو وہ قابل سماعت نہیں ہوگی.کیونکہ ہم لوگ اسی حدیث کو قبول کرتے ہیں جو احادیث صحیحہ اور قرآن کریم کے مخالف نہ ہو.ہاں بعض احادیث میں تو ریہ کے جواز کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور اسی کو نفرت دلانے کی غرض سے کذب کے نام سے موسوم کیا گیا ہے.اور ایک جاہل اور احمق جب ایسا لفظ کسی حدیث میں بطور تسامح کے لکھا ہوا پاوے تو شاید اس کو حقیقی کذب ہی سمجھ لے.کیونکہ وہ اس قطعی فیصلہ سے بے خبر ہے کہ حقیقی کذب اسلام میں پلید اور حرام اور شرک کے برابر ہے.مگر تو ریہ جو در حقیقت کذب نہیں گو کذب کے رنگ میں ہی اضطرار کے وقت عوام کے واسطے اس کا جواز حدیث سے پایا جاتا ہے مگر پھر بھی لکھا ہے کہ افضل وہی لوگ ہیں.جو تو ریہ سے بھی پر ہیز کریں.اور توریہ اسلامی اصطلاح میں اس کو کہتے ہیں کہ فتنہ کے خوف سے ایک بات کو چھپانے کیلئے یا کسی اور مصلحت پر ایک راز کی بات مخفی رکھنے کی غرض سے ایسی مثالوں اور پیرایوں میں اس کو بیان کیا جائے کہ عقلمند تو اس بات کو سمجھ جائے اور نادان کی سمجھ میں نہ آئے اور اس کا خیال دوسری طرف چلا جائے جو تکلم کا مقصود نہیں.اور غور کرنے کے بعد معلوم ہو کہ جو کچھ متکلم نے کہا ہے.وہ جھوٹ نہیں بلکہ حق محض ہے.اور کچھ بھی کذب کی اس میں آمیزش نہ ہو.اور نہ دل نے ایک ذرہ بھی کذب کی طرف میل کیا ہو.جیسا کہ بعض احادیث میں دو مسلمانوں میں صلح کرانے کیلئے یا اپنی بیوی کو کسی فتنہ اور خانگی ناراضگی اور جھگڑے سے بچانے کیلئے یا جنگ میں اپنے مصالح دشمن سے مخفی رکھنے کی غرض سے اور دشمن کو اور طرف جھکا دینے کی نیت سے تو ریہ کا جواز پایا جاتا ہے.مگر باوصف اس کے بہت سی حدیثیں دوسری بھی ہیں.جن سے معلوم ہوتا ہے کہ توریہ اعلیٰ
فقه المسيح 511 متفرق درجہ کے تقویٰ کے برخلاف ہے.اور بہر حال کھل کھلی سچائی بہتر ہے.اگر چہ اس کی وجہ سے قتل کیا جائے اور جلایا جائے.ہمارے سید و مولیٰ جناب مقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا ایک اعلیٰ نمونہ اس جگہ ثابت ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جس تو ریہ کو آپ کا یسوع شیر مادر کی طرح تمام عمر استعمال کرتا رہا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حتی الوسع اس سے مجتنب رہنے کا حکم کیا ہے تا مفہوم کلام کا اپنی ظاہری صورت میں بھی کذب سے مشابہ نہ ہو.مگر کیا کہیں اور کیا لکھیں کہ آپ کے یسوع صاحب اس قدر التزام سچائی کا نہ کر سکے.جو شخص خدائی کا دعویٰ کرے وہ تو شیر بر کی طرح دنیا میں آنا چاہئے تھا نہ کہ ساری عمر توریہ اختیار کر کے اور تمام باتیں کذب کے ہمرنگ کہ کر یہ ثابت کر دیوے کہ وہ ان افراد کا ملہ میں سے نہیں ہے جو مرنے سے لا پرواہ ہو کر دشمنوں کے مقابل پر اپنے تئیں ظاہر کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں اور کسی مقام میں بزدلی نہیں دکھلاتے.مجھے تو ان باتوں کو یاد کر کے رونا آتا ہے کہ اگر کوئی ایسے ضعیف القلب یسوع کی اُس ضعف حالت اور توریہ پر جو ایک قسم کا کذب ہے اعتراض کرے تو ہم کیا جواب دیں.جب میں دیکھتا ہوں کہ جناب سید المرسلین ﷺ جنگ اُحد ( سہو ہے یہ واقعہ غزوہ حنین کا ہے.شمس ) میں اکیلے ہونے کی حالت میں برہنہ تلواروں کے سامنے کہہ رہے تھے.میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں.میں نبی اللہ ہوں.میں ابن عبد المطلب ہوں.اور پھر دوسری طرف دیکھتا ہوں کہ آپ کا یسوع کانپ کانپ کر اپنے شاگردوں کو یہ خلاف واقعہ تعلیم دیتا ہے کہ کسی سے نہ کہنا کہ میں یسوع مسیح ہوں.حالانکہ اس کلمہ سے کوئی اس کو قتل نہیں کرتا.تو میں دریائے حسرت میں غرق ہو جاتا ہوں کہ یا الہی یہ شخص بھی نبی ہی کہلاتا ہے.جس کی شجاعت کا خدا کی راہ میں یہ حال ہے.الغرض فتح مسیح نے اپنی جہالت کا خوب پر دہ کھولا بلکہ اپنے یسوع صاحب پر بھی وار کیا کہ
فقه المسيح 512 متفرق بعض ان احادیث کو پیش کر دیا جن میں تو ریہ کے جواز کا ذکر ہے.اگر کسی حدیث میں تو ریہ کو بطور تسامح کذب کے لفظ سے بیان بھی کیا گیا ہو تو یہ سخت جہالت ہے.کہ کوئی شخص اس کو حقیقی کذب پر محمول کرے.جبکہ قرآن اور احادیث صحیحہ بالا تفاق کذب حقیقی کو سخت حرام اور پلید ٹھہراتے ہیں اور اعلیٰ درجہ کی حدیثیں تو ریہ کے مسئلہ کو کھول کر بیان کر رہی ہیں.تو پھر اگر فرض بھی کر لیں کہ کسی حدیث میں بجائے تو ریہ کے کذب کا لفظ آ گیا ہو تو نعوذ باللہ اس سے مراد حقیقی کذب کیونکر ہو سکتا ہے.بلکہ اس کے قائل کے نہایت بار یک تقویٰ کا یہ نشان ہوگا کہ جس نے تو ریہ کو کذب کی صورت سمجھ کر بطور تسامح کذب کا لفظ استعمال کیا ہو.ہمیں قرآن اور احادیث صحیحہ کی پیروی کرنا ضروری ہے.اگر کوئی امر اس کے مخالف ہوگا تو ہم اس کے وہ معنے ہرگز قبول نہیں کریں گے جو مخالف ہوں.احادیث پر نظر ڈالنے کے وقت یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ ایسی حدیثوں پر بھروسہ نہ کریں جو اُن احادیث سے مناقض اور مخالف ہوں.جن کی صحت اعلیٰ درجہ پر پہنچ چکی ہو.اور نہ ایسی حدیثوں پر جو قرآن کی نصوص صریحہ بعینہ محکمہ سے صریح مخالف اور مغائر اور مبائن واقع ہوں.پھر ایک ایسا مسئلہ جو قرآن اور احادیث صحیحہ نے اس پر اتفاق کر لیا ہے اور کتب دین میں صراحت سے اس کا ذکر ہے.اس کے مخالف کسی بے ہودہ قول یا کسی مغشوش اور غیر ثابت حدیث یا مشتبہ اثر سے تمسک کر کے اعتراض کرنا یہ خیانت اور شرارت کا کام ہے.در حقیقت عیسائیوں کو ایسی شرارتوں نے ہی ہلاک کیا ہے.ان لوگوں کو خود بخو دحدیث دیکھنے کا مادہ نہیں.غایت کار مشکوۃ کا کوئی ترجمہ دیکھ کر جس بات پر اپنے فہم ناقص سے عیب لگا سکتے ہیں وہی بات لے لیتے ہیں.حالانکہ کتب احادیث میں رطب و یابس سب کچھ ہوتا ہے اور عامل بالحدیث کو تنقید کی ضرورت پڑتی ہے.اور یہ ایک نہایت نازک کام ہے کہ ہر ایک قسم کی احادیث میں سے احادیث صحیحہ تلاش کریں اور پھر اس کے صحیح معنی معلوم کریں.اور پھر اس کے لئے صحیح محل تلاش کریں.نور القرآن روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 404 تا 408)
فقه المسيح 513 متفرق مذہبی آزادی ضروری ہے ایک مولوی صاحب حدود افغانستان سے حضرت کی ملاقات کے لئے آئے ہوئے تھے مصافحہ کے بعد حضرت نے ان کے کوائف سفر و صعوبت راہ کی حالت دریافت فرمائی.بعد ازاں حکومت افغانستان کی عدم حریت و آزادی کے متعلق ذکر ہوا.اس پر فرمایا :.اخبارات میں جو آج کل لکھا جارہا ہے کہ حکومت افغانستان میں ہر مذہب کے لوگوں کو عام آزادی حاصل ہے سراسر دروغ بے فروغ ہے کیونکہ اگر افغانستان میں ہندوستان جیسی حریت اور آزادی ہر مذہب کے لوگوں کو حاصل ہوتی تو اخوند زادہ حضرت مولوی عبداللطیف کواس بے دردی سے اختلاف مذہب کے سبب اس حکومت میں ہلاک نہ کیا جاتا.الحاکم 24 فروری 1907 صفحہ 14 )
فقه المسيح 514 جہاد کی حقیقت جہاد کی حقیقت جہاد بالقتال کی ممانعت کا فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم پیشگوئی يَضَعُ الْحَرْبِ اور يَضَعُ الْجِزْيَةَ کو پورا کرتے ہوئے جہاد کے مسئلہ کی حقیقت واضح فرمائی.آپ کی تحریرات اور ملفوظات میں بکثرت یہ مضمون ملتا ہے.آپ نے اس مقصد کے لئے ایک کتاب تصنیف فرمائی گورنمنٹ انگریزی اور جہاد اور اس کتاب میں آپ نے پوری تفصیل کے ساتھ جہاد کی تعلیم کے مختلف پہلو بیان فرما دیئے.آپ نے تحریر فرمایا: ” جہاد کے مسئلہ کی فلاسفی اور اس کی اصل حقیقت ایسا ایک پیچیدہ امر اور دقیق نکتہ ہے کہ جس کے نہ سمجھنے کے باعث سے اس زمانہ اور ایسا ہی درمیانی زمانہ کے لوگوں نے بڑی بڑی غلطیاں کھائی ہیں اور ہمیں نہایت شرم زدہ ہو کر قبول کرنا پڑتا ہے کہ ان خطرناک غلطیوں کی وجہ سے اسلام کے مخالفوں کو موقع ملا کہ وہ اسلام جیسے پاک اور مقدس مذہب کو جو سراسر قانون قدرت کا آئینہ اور زندہ خدا کا جلال ظاہر کرنے والا ہے مورد اعتراض ٹھہراتے ہیں.“ لفظ جہد کی تحقیق وو جاننا چاہیے کہ جہاد کا لفظ جُہد کے لفظ سے مشتق ہے جس کے معنے ہیں کوشش کرنا اور پھر مجاز کے طور پر دینی لڑائیوں کے لئے بولا گیا اور معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں میں جو لڑائی کو یدہ کہتے ہیں دراصل یہ لفظ بھی جہاد کے لفظ کا ہی بگڑا ہوا ہے.چونکہ عربی زبان تمام زبانوں کی ماں ہے اور تمام زبانیں اسی میں سے نکلی ہیں اس لئے یدہ کا لفظ جو سنسکرت
فقه المسيح 515 جہاد کی حقیقت کی زبان میں لڑائی پر بولا جاتا ہے دراصل جہد یا جہاد ہے اور پھر جیم کو یا کے ساتھ بدل دیا 66 گیا اور کچھ تصرف کر کے تشدید کے ساتھ بولا گیا.“ انبیاء کی مخالفت کے اسباب اب ہم اس سوال کا جواب لکھنا چاہتے ہیں کہ اسلام کو جہاد کی کیوں ضرورت پڑی اور جہاد کیا چیز ہے.سو واضح ہو کہ اسلام کو پیدا ہوتے ہی بڑی بڑی مشکلات کا سامنا پڑا تھا اور تمام قو میں اس کی دشمن ہو گئی تھیں جیسا کہ یہ ایک معمولی بات ہے کہ جب ایک نبی یا رسول خدا کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے اور اس کا فرقہ لوگوں کو ایک گروہ ہونہار اور راستباز اور با ہمت اور ترقی کرنے والا دکھائی دیتا ہے تو اس کی نسبت موجودہ قوموں اور فرقوں کے دلوں میں ضرور ایک قسم کا بغض اور حسد پیدا ہو جایا کرتا ہے.بالخصوص ہر ایک مذہب کے علماء اور گدی نشین تو بہت ہی بغض ظاہر کرتے ہیں کیونکہ اُس مرد خدا کے ظہور سے ان کی آمد نیوں اور وجاہتوں میں فرق آتا ہے.اُن کے شاگرد اور مرید اُن کے دام سے باہر نکلنا شروع کرتے ہیں کیونکہ تمام ایمانی اور اخلاقی اور علمی خوبیاں اس شخص میں پاتے ہیں جو خدا کی طرف سے پیدا ہوتا ہے.لہذا اہل عقل اور تمیز سمجھنے لگتے ہیں کہ جو عزت بخیال علمی شرف اور تقویٰ اور پرہیز گاری کے اُن عالموں کو دی گئی تھی اب وہ اس کے مستحق نہیں رہے اور جو معزز خطاب اُن کو دیئے گئے تھے جیسے نجم الأمة اور شمس الأمة اور شيخ المشائخ وغیرہ اب وہ ان کے لئے موزوں نہیں رہے.سوان وجوہ سے اہل عقل اُن سے منہ پھیر لیتے ہیں.کیونکہ وہ اپنے ایمانوں کو ضائع کرنا نہیں چاہتے.ناچاران نقصانوں کی وجہ سے علماء اور مشائخ کا فرقہ ہمیشہ نبیوں اور رسولوں سے حسد کرتا چلا آیا ہے..یہ کہ خدا کے نبیوں اور ماموروں کے وقت ان لوگوں کی سخت پردہ دری ہوتی ہے کیونکہ دراصل وہ ناقص ہوتے ہیں اور بہت ہی کم حصہ نور سے رکھتے ہیں اور ان کی دشمنی خدا کے
فقه المسيح 516 جہاد کی حقیقت نبیوں اور راستبازوں سے محض نفسانی ہوتی ہے.اور سراسرنفس کے تابع ہو کر ضرر رسانی کے منصوبے سوچتے ہیں بلکہ بسا اوقات وہ اپنے دلوں میں محسوس بھی کرتے ہیں کہ وہ خدا کے ایک پاک دل بندہ کو ناحق ایذا پہنچا کر خدا کے غضب کے نیچے آگئے ہیں اور ان کے اعمال بھی جو مخالف کارستانیوں کے لئے ہر وقت اُن سے سرزد ہوتے رہتے ہیں ان کے دل کی قصور وار حالت کو اُن پر ظاہر کرتے رہتے ہیں مگر پھر بھی حسد کی آگ کا تیز انجن عداوت کے گڑھوں کی طرف ان کو کھینچے لئے جاتا ہے.یہی اسباب تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں مشرکوں اور یہودیوں اور عیسائیوں کے عالموں کو نہ محض حق کے قبول کرنے سے محروم رکھا بلکہ سخت عداوت پر آمادہ کر دیا.لہذا وہ اس فکر میں لگ گئے کہ کسی طرح اسلام کو صفحہ دنیا سے مٹا دیں اور چونکہ مسلمان اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھوڑے تھے اس لئے اُن کے مخالفوں نے بباعث اس تکبر کے جو فطرتاً ایسے فرقوں کے دل اور دماغ میں جاگزیں ہوتا ہے جو اپنے تئیں دولت میں ، مال میں ، کثرت جماعت میں ،عزت میں، مرتبت میں دوسرے فرقہ سے برتر خیال کرتے ہیں اُس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ سے سخت دشمنی کا برتاؤ کیا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آسانی پودہ زمین پر قائم ہو بلکہ وہ ان راستبازوں کے ہلاک کرنے کے لئے اپنے ناخنوں تک زور لگا رہے تھے اور کوئی دقیقہ آزار رسانی کا اُٹھا نہیں رکھا تھا اور اُن کو خوف یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اس مذہب کے پیر حجم جائیں اور پھر اس کی ترقی ہمارے مذہب اور قوم کی بربادی کا موجب ہو جائے.“ کفار کی جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں وو سواسی خوف سے جو اُن کے دلوں میں ایک رُعبناک صورت میں بیٹھ گیا تھا نہایت جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں اُن سے ظہور میں آئیں اور انہوں نے دردناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ دراز تک جو تیرہ برس کی مدت تھی اُن
فقه المسيح 517 جہاد کی حقیقت کی طرف سے یہی کارروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفا دار بندے اور نوع انسان کے فخر ان شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیم بچے اور عاجزا اور مسکین عورتیں کو چوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے اس پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شتر کا ہرگز مقابلہ نہ کرو چنانچہ اُن برگزیدہ راستبازوں نے ایسا ہی کیا اُن کے خونوں سے کوچے سُرخ ہو گئے پر انہوں نے دم نہ مارا وہ قربانیوں کی طرح ذبیح کئے گئے پر انہوں نے آہ نہ کی.خدا کے پاک اور مقدس رسول کو جس پر زمین اور آسمان سے بے شمار سلام ہیں بار ہا پھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا مگر اُس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کی دلی انشراح اور محبت سے برداشت کی اور ان صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور اُنہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا.“ خدا کی طرف سے مقابلہ کی اجازت تب اُس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پر ظلم اور بے رحمی حد سے گذر جائے اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اُس کا غضب شریروں پر بھڑ کا اور اُس نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں میں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور میں خدائے قادر ہوں ظالموں کو بے سزا نہیں چھوڑوں گا.یہ حکم تھا جس کا دوسرے لفظوں میں جہاد نام رکھا گیا اور اس حکم کی اصل عبارت جو قرآن شریف میں اب تک موجود ہے یہ ہے:.أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللهَ عَلى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقِّ (الحج: 41،40) یعنی خدا نے اُن مظلوم لوگوں کی جو قتل کئے جاتے ہیں اور ناحق اپنے وطن سے نکالے گئے فریا دسن لی اور ان
فقه المسيح 518 جہاد کی حقیقت کو مقابلہ کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے جو مظلوم کی مدد کرے.الجز و نمبر ۱۷ سورۃ الحج.مگر یہ حکم مختص الزمان والوقت تھا ہمیشہ کے لئے نہیں تھا بلکہ اس زمانہ کے متعلق تھا جبکہ اسلام میں داخل ہونے والے بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح کئے جاتے تھے.لیکن افسوس کہ نبوت اور خلافت کے زمانہ کے بعد اس مسئلہ جہاد کے سمجھنے میں جس کی اصل جڑ آیت کریمہ مذکورہ بالا ہے لوگوں نے بڑی بڑی غلطیاں کھائیں اور ناحق مخلوق خدا کو تلوار کے ساتھ ذبح کرنا دینداری کا شعار سمجھا گیا اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ عیسائیوں کو تو خالق کے حقوق کی نسبت غلطیاں پڑیں اور مسلمانوں کو مخلوق کے حقوق کی نسبت.یعنی عیسائی دین میں تو ایک عاجز انسان کو خدا بنا کر اس قا در قیوم کی حق تلفی کی گئی جس کی مانند نہ زمین میں کوئی چیز ہے اور نہ آسمان میں اور مسلمانوں نے انسانوں پر ناحق تلوار چلانے سے بنی نوع کی حق تلفی کی اور اس کا نام جہاد رکھا غرض حق تلفی کی ایک راہ عیسائیوں نے اختیار کی اور دوسری راہ حق تلفی کی مسلمانوں نے اختیار کر لی.اور اس زمانہ کی بدقسمتی سے یہ دونوں گروہ ان دونوں قسم کی حق تلفیوں کو ایسا پسندیدہ طریق خیال کرتے ہیں کہ ہر ایک گروہ جو اپنے عقیدہ کے موافق ان دونوں قسموں میں سے کسی قسم کی حق تلفی پر زور دے رہا ہے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ گویا وہ اس سے سیدھا بہشت کو جائے گا اور اس سے بڑھ کر کوئی بھی ذریعہ بہشت کا نہیں.اور اگر چہ خدا کی حق تلفی کا گناہ سب گناہوں سے بڑھ کر ہے لیکن اس جگہ ہمارا یہ مقصود نہیں ہے کہ اس خطر ناک حق تلفی کا ذکر کریں جس کی عیسائی قوم مرتکب ہے بلکہ ہم اس جگہ مسلمانوں کو اس حق تلفی پر متنبہ کرنا چاہتے ہیں جو بنی نوع کی نسبت اُن سے سرزد ہورہی ہے.“ جہاد کا موجودہ غلط تصور یا در ہے کہ مسئلہ جہاد کو جس طرح پر حال کے اسلامی علماء نے جو مولوی کہلاتے ہیں سمجھ رکھا ہے اور جس طرح وہ عوام کے آگے اس مسئلہ کی صورت بیان کرتے ہیں ہرگز وہ
فقه المسيح 519 جہاد کی حقیقت صحیح نہیں ہے اور اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ لوگ اپنے پُر جوش وعظوں سے عوام وحشی صفات کو ایک درندہ صفت بناویں.اور انسانیت کی تمام پاک خوبیوں سے بے نصیب کر دیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور میں یقیناً جانتا ہوں کہ جس قدر ایسے ناحق کے خون اُن نادان اور نفسانی انسانوں سے ہوتے ہیں کہ جو اس راز سے بے خبر ہیں کہ کیوں اور کس وجہ سے اسلام کو اپنے ابتدائی زمانہ میں لڑائیوں کی ضرورت پڑی تھی اُن سب کا گناہ ان مولویوں کی گردن پر ہے کہ جو پوشیدہ طور پر ایسے مسئلے سکھاتے رہتے ہیں جن کا نتیجہ دردناک خونریزیاں ہیں.یہ لوگ جب حکام وقت کو ملتے ہیں تو اس قدرسلام کے لئے جھکتے ہیں کہ گویا سجدہ کرنے کے لئے طیار ہیں اور جب اپنے ہم جنسوں کی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تو بار بار اصرار ان کا اِسی بات پر ہوتا ہے کہ یہ ملک دارالحرب ہے اور اپنے دلوں میں جہاد کرنا فرض سمجھتے ہیں اور تھوڑے ہیں جو اس خیال کے انسان نہیں ہیں.یہ لوگ اپنے اس عقیدہ جہاد پر جو سراسر غلط اور قرآن اور حدیث کے برخلاف ہے اس قدر جمے ہوئے ہیں کہ جو شخص اس عقیدہ کو نہ مانتا ہو اور اس کے برخلاف ہو اُس کا نام دجال رکھتے ہیں اور واجب القتل قرار دیتے ہیں.چنانچہ میں بھی مدت سے اسی فتویٰ کے نیچے ہوں اور مجھے اس ملک کے بعض مولویوں نے دجال اور کا فرقرار دیا اور گورنمنٹ برطانیہ کے قانون سے بھی بے خوف ہوکر میری نسبت ایک چھپا ہوا فتویٰ شائع کیا کہ یہ شخص واجب القتل ہے اور اس کا مال لوٹا بلکہ عورتوں کو نکال کر لے جانا بڑے ثواب کا موجب ہے.اس کا سبب کیا تھا؟ یہی تو تھا کہ میرا مسیح موعود ہونا اور اُن کے جہادی مسائل کے مخالف وعظ کرنا اور اُن کے خونی مسیح اور خونی مہدی کے آنے کو جس پر اُن کو لوٹ مار کی بڑی بڑی امیدیں تھیں سراسر باطل ٹھہرا نا اُن کے غضب اور عداوت کا موجب ہو گیا مگر وہ یادرکھیں کہ درحقیقت یہ جہاد کا مسئلہ جیسا کہ اُن کے دلوں میں ہے صحیح نہیں ہے اور اس کا پہلا قدم انسانی ہمدردی کا خون کرنا ہے.“
فقه المسيح 520 جہاد کی حقیقت اب جہاد کیوں حرام ہو گیا ؟ وو یہ خیال اُن کا ہر گز صحیح نہیں ہے کہ جب پہلے زمانہ میں جہادروارکھا گیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اب حرام ہو جائے.اس کے ہمارے پاس دو جواب ہیں.ایک یہ کہ یہ خیال قیاس مع الفارق ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز کسی پر تلوار نہیں اٹھائی بجزان لوگوں کے جنہوں نے پہلے تلوار اٹھائی اور سخت بے رحمی سے بے گناہ اور پر ہیز گار مردوں اور عورتوں اور بچوں کو قتل کیا اور ایسے دردانگیز طریقوں سے مارا کہ اب بھی ان قصوں کو پڑھ کر رونا آتا ہے.دوسرے یہ کہ اگر فرض بھی کر لیں کہ اسلام میں ایسا ہی جہاد تھا جیسا کہ ان مولویوں کا خیال ہے تا ہم اس زمانہ میں وہ حکم قائم نہیں رہا کیونکہ لکھا ہے کہ جب مسیح موعود ظاہر ہو جائے گا تو سیفی جہاد اور مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ مسیح نہ تلوار اٹھائے گا اور نہ کوئی اور زمینی ہتھیار ہاتھ میں پکڑے گا بلکہ اُس کی دعا اُس کا حربہ ہوگا اور اُس کی عقد ہمت اُس کی تلوار ہوگی وہ صلح کی بنیاد ڈالے گا اور بکری اور شیر کو ایک ہی گھاٹ پر اکٹھے کرے گا اور اس کا زمانہ صلح اور نرمی اور انسانی ہمدردی کا زمانہ ہوگا.ہائے افسوس کیوں یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ تیرہ سو برس ہوئے کہ مسیح موعود کی شان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے کلمہ يَضَعُ الحَرب جاری ہو چکا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ مسیح موعود جب آئے گا تو لڑائیوں کا خاتمہ کر دے گا.اور اسی کی طرف اشارہ اس قرآنی آیت کا ہے حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا (محمد:5) یعنی اس وقت تک لڑائی کرو جب تک کہ مسیح کا وقت آ جائے.یہی تضعَ الحَرْبُ اَوْزَارَهَا ہے.دیکھو صیح بخاری موجود ہے جو قرآن شریف کے بعد اصحُ الكُتُب مانی گئی ہے.اس کو غور سے پڑھو.اے اسلام کے عالمو اور مولویو! میری بات سنو ! میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب جہاد کا وقت نہیں ہے خدا کے پاک نبی کے نافرمان مت بنو مسیح موعود جو آنے والا تھا آپکا اور اُس نے حکم بھی
فقه المسيح 521 جہاد کی حقیقت دیا کہ آئندہ مذہبی جنگوں سے جو تلوار اور کشت و خون کے ساتھ ہوتی ہیں باز آ جاؤ تو اب بھی خونریزی سے باز نہ آنا اور ایسے وعظوں سے منہ بند نہ کرنا طریق اسلام نہیں ہے جس نے مجھے قبول کیا ہے وہ نہ صرف ان وعظوں سے منہ بند کرے گا بلکہ اس طریق کو نہایت بُرا اور موجب غضب الہی جانے گا.اس جگہ ہمیں یہ بھی افسوس سے لکھنا پڑا کہ جیسا کہ ایک طرف جاہل مولویوں نے اصل حقیقت جہاد کی مخفی رکھ کر لوٹ مار اور قتل انسان کے منصوبے عوام کو سکھائے اور اس کا نام جہاد رکھا ہے اسی طرح دوسری طرف پادری صاحبوں نے بھی یہی کارروائی کی اور ہزاروں رسالے اور اشتہار اردو اور پشتو وغیرہ زبانوں میں چھپوا کر ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی ملکوں میں اس مضمون کے شائع کئے کہ اسلام تلوار کے ذریعہ سے پھیلا ہے اور تلوار چلانے کا نام اسلام ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام نے جہاد کی دو گواہیاں پا کر یعنی ایک مولویوں کی گواہی اور دوسری پادریوں کی شہادت اپنے وحشیانہ جوش میں ترقی کی.میرے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری محسن گورنمنٹ ان پادری صاحبوں کو اس خطرناک افتر ا سے روک دے جس کا نتیجہ ملک میں بے امنی اور بغاوت ہے.یہ تو ممکن نہیں کہ پادریوں کے اِن بے جا افتراؤں سے اہل اسلام دین اسلام کو چھوڑ دیں گے ہاں ان وعظوں کا ہمیشہ یہی نتیجہ ہوگا کہ عوام کے لئے مسئلہ جہاد کی ایک یاد دہانی ہوتی رہے گی اور وہ سوئے ہوئے جاگ اٹھیں گے.غرض اب جب مسیح موعود آ گیا تو ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہاد سے باز آوے.اگر میں نہ آیا ہوتا تو شائد اس غلط فہمی کا کسی قدر عذر بھی ہوتا مگر اب تو میں آگیا اور تم نے وعدہ کا دن دیکھ لیا.اس لئے اب مذہبی طور پر تلوار اٹھانے والوں کا خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر نہیں.جو شخص آنکھیں رکھتا ہے اور حدیثوں کو پڑھتا اور قرآن کو دیکھتا ہے وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ طریق جہاد جس پر اس زمانہ کے اکثر وحشی
فقه المسيح 522 جہاد کی حقیقت کار بند ہورہے ہیں.یہ اسلامی جہاد نہیں ہے بلکہ یہ نفس امارہ کے جوشوں سے یا بہشت کی طمع خام سے ناجائز حرکات ہیں جو مسلمانوں میں پھیل گئے ہیں.“ صحابہ کے صدق اور صبر کے نمونے میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں خود سبقت کر کے ہرگز تلوار نہیں اُٹھائی بلکہ ایک زمانہ دراز تک کفار کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھایا اور اس قدر صبر کیا جو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند رہے اور جیسا کہ اُن کو حکم دیا گیا تھا کہ دُکھ اٹھاؤ اور صبر کر وایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا.وہ پیروں کے نیچے کچلے گئے انہوں نے دم نہ مارا.اُن کے بچے اُن کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے وہ آگ اور پانی کے ذریعہ سے عذاب دیئے گئے مگر وہ شتر کے مقابلہ سے ایسے باز رہے کہ گویا وہ شیر خوار بچے ہیں.کون ثابت کر سکتا ہے کہ دنیا میں تمام نبیوں کی امتوں میں سے کسی ایک نے بھی باوجود قدرت انتقام ہونے کے خدا کا حکم سُن کر ایسا اپنے تئیں عاجز اور مقابلہ سے دستکش بنالیا جیسا کہ انہوں نے بنایا ؟ کس کے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں کوئی اور بھی ایسا گروہ ہوا ہے جو باوجود بہادری اور جماعت اور قوت بازو اور طاقت مقابلہ اور پائے جانے تمام لوازم مردی اور مردانگی کے پھر خونخوار دشمن کی ایذا اور زخم رسانی پر تیرہ برس تک برابر صبر کرتا رہا؟ ہمارے سید و مولیٰ اور آپ کے صحابہ کا یہ صبر کسی مجبوری سے نہیں تھا بلکہ اس صبر کے زمانہ میں بھی آپ کے جان شار صحابہ کے وہی ہاتھ اور بازو تھے جو جہاد کے حکم کے بعد انہوں نے دکھائے اور بسا اوقات ایک ہزار جوان نے مخالف کے ایک لاکھ سپاہی نبرد آزما کو شکست دے دی.ایسا ہوا تا لوگوں کو معلوم ہو کہ جو مکہ میں دشمنوں کی خون ریزیوں پر صبر کیا گیا تھا اس کا باعث کوئی بُزدلی اور کمزوری نہیں تھی بلکہ خدا کا حکم سُن کر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے اور بکریوں
فقه المسيح 523 جہاد کی حقیقت اور بھیڑوں کی طرح ذبح ہونے کو طیار ہو گئے تھے.بیشک ایسا صبر انسانی طاقت سے باہر ہے اور گو ہم تمام دنیا اور تمام نبیوں کی تاریخ پڑھ جائیں تب بھی ہم کسی اُمت میں اور کسی نبی کے گروہ میں یہ اخلاق فاضلہ نہیں پاتے اور اگر پہلوں میں سے کسی کے صبر کا قصہ بھی ہم سنتے ہیں تو فی الفور دل میں گذرتا ہے کہ قرائن اس بات کو ممکن سمجھتے ہیں کہ اس صبر کا موجب در اصل بزدلی اور عدم قدرت انتقام ہو مگر یہ بات کہ ایک گروہ جو درحقیقت سپاہیانہ ہنر اپنے اندر رکھتا ہو اور بہادر اور قوی دل کا مالک ہو اور پھر وہ دکھ دیا جائے اور اس کے بچے قتل کئے جائیں اور اُس کو نیزوں سے زخمی کیا جائے مگر پھر بھی وہ بدی کا مقابلہ نہ کرے یہ وہ مردانہ صفت ہے جو کامل طور پر یعنی تیرہ برس برابر ہمارے نبی کریم اور آپ کے صحابہ سے ظہور میں آئی ہے اس قسم کا صبر جس میں ہر دم سخت بلاؤں کا سامنا تھا جس کا سلسلہ تیرہ برس کی دراز مدت تک لمبا تھا در حقیقت بے نظیر ہے اور اگر کسی کو اس میں شک ہو تو ہمیں بتلا وے کہ گذشتہ راستبازوں میں اس قسم کے صبر کی نظیر کہاں ہے؟ اور اس جگہ یہ بات بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ اس قدر ظلم جو صحابہ پر کیا گیا ایسے ظلم کے وقت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے کوئی تدبیر بچنے کی اُن کو نہیں بتلائی بلکہ بار بار یہی کہا کہ ان تمام دکھوں پر صبر کرو اور اگر کسی نے مقابلہ کے لئے کچھ عرض کیا تو اس کو روک دیا اور فرمایا کہ مجھے صبر کا حکم ہے.غرض ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبر کی تاکید فرماتے رہے جب تک کہ آسمان سے حکم مقابلہ آ گیا.اب اس قسم کے صبر کی نظیر تم تمام اول اور آخر کے لوگوں میں تلاش کرو پھر اگر ممکن ہو تو اس کا نمونہ حضرت موسیٰ کی قوم میں سے یا حضرت عیسی کے حواریوں میں سے دستیاب کر کے ہمیں بتلاؤ.“ وو موجودہ تصویر جہاد نفسانی اغراض پر مبنی ہے حاصل کلام یہ کہ جب کہ مسلمانوں کے پاس صبر اور ترک شتر اور اخلاق فاضلہ کا
فقه المسيح 524 جہاد کی حقیقت یہ نمونہ ہے جس سے تمام دنیا پر اُن کو فخر ہے تو یہ کیسی نادانی اور بد بختی اور شامت اعمال ہے جواب بالکل اس نمونہ کو چھوڑ دیا گیا ہے.جاہل مولویوں نے خدا اُن کو ہدایت دے عوام کالانعام کو بڑے دھو کے دیئے ہیں اور بہشت کی کنجی اسی عمل کو قرار دے دیا ہے جو صریح ظلم اور بے رحمی اور انسانی اخلاق کے برخلاف ہے.کیا یہ نیک کام ہوسکتا ہے کہ ایک شخص مثلاً اپنے خیال میں بازار میں چلا جاتا ہے اور ہم اس قدر اس سے بے تعلق ہیں کہ نام تک بھی نہیں جانتے اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے مگر تا ہم ہم نے اُس کے قتل کرنے کے ارادہ سے ایک پستول اس پر چھوڑ دیا ہے کیا یہی دینداری ہے؟ اگر یہ کچھ نیکی کا کام ہے تو پھر درندے ایسی نیکی کے بجالانے میں انسانوں سے بڑھ کر ہیں.سبحان اللہ ! وہ لوگ کیسے راستباز اور نبیوں کی روح اپنے اندر رکھتے تھے کہ جب خدا نے مکہ میں اُن کو یہ حکم دیا کہ بدی کا مقابلہ مت کرو اگر چہ ٹکڑے ٹکڑے کئے جاؤ.پس وہ اس حکم کو پا کر شیر خوار بچوں کی طرح عاجز اور کمزور بن گئے گویا نہ اُن کے ہاتھوں میں زور ہے نہ اُن کے بازوؤں میں طاقت.بعض اُن میں سے اس طور سے بھی قتل کئے گئے کہ دو اونٹوں کو ایک جگہ کھڑا کر کے اُن کی ٹانگیں مضبوط طور پر اُن اونٹوں سے باندھ دی گئیں اور پھر اونٹوں کو مخالف سمت میں دوڑایا گیا پس وہ اک دم میں ایسے چر گئے جیسے گاجر یا مولی چیری جاتی ہے.مگر افسوس کہ مسلمانوں اور خاص کر مولویوں نے ان تمام واقعات کو نظر انداز کر دیا ہے اور اب وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا تمام دنیا اُن کا شکار ہے.اور جس طرح ایک شکاری ایک ہرن کا کسی بن میں پتہ لگا کر چھپ چھپ کر اُس کی طرف جاتا ہے اور آخر موقع پا کر بندوق کا فیر کرتا ہے یہی حالات اکثر مولویوں کے ہیں.انہوں نے انسانی ہمدردی کے سبق میں سے کبھی ایک حرف بھی نہیں پڑھا بلکہ اُن کے نزدیک خواہ نخواہ ایک غافل انسان پر پستول یا بندوق چلا دینا اسلام سمجھا گیا ہے ان میں وہ لوگ کہاں ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح ماریں کھائیں اور صبر
فقه المسيح 525 جہاد کی حقیقت کریں.کیا خدا نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم خواہ خواہ بغیر ثبوت کسی جرم کے ایسے انسان کو کہ نہ ہم اُسے جانتے ہیں اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے غافل پا کر چھری سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں یا بندوق سے اس کا کام تمام کریں کیا ایسا دین خدا کی طرف سے ہوسکتا ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ یونہی بے گناہ بے جرم بے تبلیغ خدا کے بندوں کو قتل کرتے جاؤ اس سے تم بہشت میں داخل ہو جاؤ گے.افسوس کا مقام ہے اور شرم کی جگہ ہے کہ ایک شخص جس سے ہماری کچھ سابق دشمنی بھی نہیں بلکہ روشناسی بھی نہیں وہ کسی دوکان پر اپنے بچوں کے لئے کوئی چیز خرید رہا ہے یا اپنے کسی اور جائز کام میں مشغول ہے اور ہم نے بے وجہ بے تعلق اس پر پستول چلا کر ایک دم میں اس کی بیوی کو بیوہ اور اس کے بچوں کو یتیم اور اس کے گھر کو ماتم کدہ بنادیا.یہ طریق کس حدیث میں لکھا ہے یا کس آیت میں مرقوم ہے؟ کوئی مولوی ہے جو اس کا جواب دے؟ نادانوں نے جہاد کا نام سن لیا ہے اور پھر اس بہانہ سے اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنا چاہا ہے یا محض دیوانگی کے طور پر مرتکب خونریزی کے ہوئے ہیں.ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جو اسلام نے خدائی حکم سے تلوار اٹھائی وہ اس وقت اٹھائی گئی کہ جب بہت سے مسلمان کافروں کی تلواروں سے قبروں میں پہنچ گئے.آخر خدا کی غیرت نے چاہا کہ جو لوگ تلواروں سے ہلاک کرتے ہیں وہ تلواروں سے ہی مارے جائیں.خدا بڑا کریم اور رحیم اور حلیم ہے اور بڑا برداشت کرنے والا ہے.لیکن آخر کار راستبازوں کے لئے غیرت مند بھی ہے.مجھے تعجب ہے کہ جبکہ اس زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کو مذہب کے لئے قتل نہیں کرتا تو وہ کس حکم سے نا کردہ گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں.کیوں اُن کے مولوی ان بے جا حرکتوں سے جن سے اسلام بدنام ہوتا ہے اُن کو منع نہیں کرتے.اس گورنمنٹ انگریزی کے ماتحت کس قدر مسلمانوں کو آرام ہے کیا کوئی اس کو گن سکتا ہے.ابھی بہتیرے ایسے لوگ زندہ ہوں گے جنہوں نے کسی قدرسکھوں کا زمانہ
فقه المسيح 526 جہاد کی حقیقت دیکھا ہو گا.اب وہی بتائیں کہ سکھوں کے عہد میں مسلمانوں اور اسلام کا کیا حال تھا.ایک ضروری شعار اسلام کا جو بانگ نماز ہے وہی ایک جرم کی صورت میں سمجھا گیا تھا.کیا مجال تھی کہ کوئی اونچی آواز سے بانگ کہتا اور پھر سکھوں کے برچھوں اور نیزوں سے بچ رہتا.تو اب کیا خدا نے یہ بُرا کام کیا جو سکھوں کی بے جا دست اندازیوں سے مسلمانوں کو چھڑایا اور گورنمنٹ انگریزی کی امن بخش حکومت میں داخل کیا اور اس گورنمنٹ کے آتے ہی گویا نئے سرے پنجاب کے مسلمان مشرف با سلام ہوئے.چونکہ احسان کا عوض احسان ہے اس لئے نہیں چاہئے کہ ہم اس خدا کی نعمت کو جو ہزاروں دعاؤں کے بعد سکھوں کے زمانہ کے عوض ہم کو ملی ہے یوں ہی رد کر دیں.“ اپنی جماعت کو نصیحت ” اور میں اس وقت اپنی جماعت کو جو مجھے مسیح موعود مانتی ہے خاص طور پر سمجھاتا ہوں کہ وہ ہمیشہ ان ناپاک عادتوں سے پر ہیز کریں.مجھے خدا نے جو مسیح موعود کر کے بھیجا ہے اور حضرت مسیح ابن مریم کا جامہ مجھے پہنا دیا ہے اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ شر سے پر ہیز کرو اور نوع انسان کے ساتھ حق ہمدردی بجالا ؤ.اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک کرو کہ اس عادت سے تم فرشتوں کی طرح ہو جاؤ گے.کیا ہی گندہ اور نا پاک وہ مذہب ہے جس میں انسان کی ہمدردی نہیں اور کیا ہی ناپاک وہ راہ ہے جو نفسانی بغض کے کانٹوں سے بھرا ہے.سو تم جو میرے ساتھ ہو ایسے مت ہو.تم سوچو کہ مذہب سے حاصل کیا ہے کیا یہی کہ ہر وقت مردم آزاری تمہا را شیوہ ہو؟ نہیں بلکہ مذہب اُس زندگی کے حاصل کرنے کے لئے ہے جو خدا میں ہے اور وہ زندگی نہ کسی کو حاصل ہوئی اور نہ آئندہ ہوگی بجز اس کے کہ خدائی صفات انسان کے اندر داخل ہو جائیں.خدا کے لئے سب پر رحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم ہو.آؤ میں تمہیں ایک ایسی راہ سکھاتا ہوں جس سے تمہارا نور تمام نوروں پر
فقه المسيح 527 جہاد کی حقیقت لب رہے اور وہ یہ ہے کہ تم تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو چھوڑ دو اور ہمدر دنوع انسان ہو جاؤ اور خدا میں کھوئے جاؤ اور اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل کرو کہ یہی وہ طریق ہے جس سے کرامتیں صادر ہوتی ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں اور فرشتے مدد کے لئے اترتے ہیں.مگر یہ ایک دن کا کام نہیں ترقی کر و تر قی کرو.اُس دھوبی سے سبق سیکھو جو کپڑوں کو اول بھٹی میں جوش دیتا ہے اور دیئے جاتا ہے یہاں تک کہ آخر آگ کی تاثیر میں تمام میل اور چرک کو کپڑوں سے علیحدہ کر دیتی ہیں.تب صبح اٹھتا ہے اور پانی پر پہنچتا ہے اور پانی میں کپڑوں کو تر کرتا ہے اور بار بار پتھروں پر مارتا ہے تب وہ میل جو کپڑوں کے اندر تھی اور اُن کا جز بن گئی تھی کچھ آگ سے صدمات اٹھا کر اور کچھ پانی میں دھوبی کے بازو سے مارکھا کر یکدفعہ جدا ہونی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ کپڑے ایسے سفید ہو جاتے ہیں جیسے ابتدا میں تھے.یہی انسانی نفس کے سفید ہونے کی تدبیر ہے اور تمہاری ساری نجات اس سفیدی پر موقوف ہے.یہی وہ بات ہے جو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے : قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا (الشمس: 10) یعنی وہ نفس نجات پا گیا جوطرح طرح کے میلوں اور چرکوں سے پاک کیا گیا.“ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے دیکھو میں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے مگر اپنے نفسوں کے پاک کرنے کا جہاد باقی ہے.اور یہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ خدا کا یہی ارادہ ہے صحیح بخاری کی اُس حدیث کو سوچو جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے کہ یضع الحرب یعنی مسیح جب آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا.سو میں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں.دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور دردمندوں کے ہمدرد نہیں.زمین پر صلح پھیلا وہیں کہ اس سے اُن کا دین پھیلے گا اور اس سے تعجب مت کریں
فقه المسيح 528 جہاد کی حقیقت کہ ایسا کیونکر ہوگا.کیونکہ جیسا کہ خدا نے بغیر توسط معمولی اسباب کے جسمانی ضرورتوں کے لئے حال کی نئی ایجادوں میں زمین کے عناصر اور زمین کی تمام چیزوں سے کام لیا ہے اور ریل گاڑیوں کو گھوڑوں سے بھی بہت زیادہ دوڑا کر دکھلایا ہے ایسا ہی اب وہ رُوحانی ضرورتوں کے لئے بغیر توسط انسانی ہاتھوں کے آسمان کے فرشتوں سے کام لے گا.بڑے.بڑے آسمانی نشان ظاہر ہوں گے اور بہت سی چمکیں پیدا : ور بہت سی چمکیں پیدا ہوں گی جن سے بہت سی آنکھیں کھل جائیں گی.تب آخر میں لوگ سمجھ جائیں گے کہ جو خدا کے سوا انسانوں اور دوسری چیزوں کو خدا بنایا گیا تھا یہ سب غلطیاں تھیں.سو تم صبر سے دیکھتے رہو کیونکہ خدا اپنی تو حید کے لئے تم سے زیادہ غیرتمند ہے اور دُعا میں لگے رہو ایسا نہ ہو کہ نافرمانوں میں لکھے جاؤ.اے حق کے بھو کو اور پیا سوائن لو کہ یہ وہ دن ہیں جن کا ابتدا سے وعدہ تھا.خدا ان قصوں کو بہت لمبا نہیں کرے گا اور جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جب ایک بلند مینار پر چراغ رکھا جائے تو دور دور تک اس کی روشنی پھیل جاتی ہے اور یا جب آسمان کے ایک طرف بجلی چمکتی ہے تو سب طرفیں ساتھ ہی روشن ہو جاتی ہیں.ایسا ہی ان دنوں میں ہوگا کیونکہ خدا نے اپنی اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے کہ مسیح کی منادی بجلی کی طرح دنیا میں پھر جائے گی یا بلند مینار کے چراغ کی طرح دنیا کے چار گوشہ میں پھیلے گی زمین پر ہر ایک سامان مہیا کر دیا ہے اور ریل اور تار اور اگن بوٹ اور ڈاک کے احسن انتظاموں اور سیر و سیاحت کے سہل طریقوں کو کامل طور پر جاری فرما دیا ہے.سو یہ سب کچھ پیدا کیا گیا تا وہ بات پوری ہو کہ مسیح موعود کی دعوت بجلی کی طرح ہر ایک کنارہ کو روشن کرے گی اور مسیح کا منارہ جس کا حدیثوں میں ذکر ہے دراصل اُس کی بھی یہی حقیقت ہے کہ مسیح کی ندا اور روشنی ایسی جلد دنیا میں پھیلے گی جیسے اونچے منارہ پر سے آواز اور روشنی دور تک جاتی ہے.اس لئے ریل اور تا راو راگن
فقه المسيح 529 جہاد کی حقیقت بوٹ اور ڈاک اور تمام اسباب سہولت تبلیغ اور سہولت سفر مسیح کے زمانہ کی ایک خاص علامت ہے جس کو اکثر نبیوں نے ذکر کیا ہے.اور قرآن بھی کہتا ہے وَإِذَا الْعِشَارُ عُظَلَتْ (التـكـويـر :5) یعنی عام دعوت کا زمانہ جو مسیح موعود کا زمانہ * ہے.( حاشیہ: میں بار بارلکھ چکا ہوں کہ مسیح موعود اسرئیلی نبی نہیں ہے بلکہ اس کی خو اور طبیعت پر آیا ہے جبکہ توریت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ قرار دیا گیا ہے تو ضرور تھا کہ موسوی سلسلہ کی مانند محمدی سلسلہ کے اخیر پر بھی ایک مسیح ہو.منہ ) وہ ہے جب کہ اونٹ بے کا ر ہو جائیں گے یعنی کوئی ایسی نئی سواری پیدا ہو جائے گی جو اونٹوں کی حاجت نہیں پڑے گی اور حدیث میں بھی ہے کہ يُتْرَكُ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا یعنی اس زمانہ میں اونٹ بے کا ر ہو جائیں گے اور یہ علامت کسی اور نبی کے زمانہ کو نہیں دی گئی.سوشکر کرو کہ آسمان پر نور پھیلانے کے لئے طیاریاں ہیں.زمین میں زمینی برکات کا ایک جوش ہے یعنی سفر اور حضر میں اور ہر ایک بات میں وہ آرام تم دیکھ رہے ہو جو تمہارے باپ دادوں نے نہیں دیکھے گویا دنیا نئی ہوگئی بے بہار کے میوے ایک ہی وقت میں مل سکتے ہیں.چھ مہینے کا سفر چند روز میں ہو سکتا ہے.ہزاروں کوسوں کی خبر میں ایک ساعت میں آسکتی ہیں ہر ایک کام کی سہولت کے لئے مشینیں اور کلیں موجود ہیں.اگر چاہو تو ریل میں یوں سفر کر سکتے ہو جیسے گھر کے ایک بستان سرائے میں.پس کیا زمین پر ایک انقلاب نہیں آیا؟ پس جبکہ زمین میں ایک انجو بہ نما انقلاب پیدا ہو گیا اس لئے خدائے قادر چاہتا ہے کہ آسمان میں بھی ایک اعجوبہ نما انقلاب پیدا ہو جائے اور یہ دونوں مسیح کے زمانہ کی نشانیاں ہیں.انہی نشانیوں کی طرف اشارہ ہے جو میری کتاب براہین احمدیہ کے ایک الہام میں جو آج سے بیس برس پہلے لکھا گیا پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہے اَنَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا یعنی زمین اور آسمان دونوں ایک
فقه المسيح 530 جہاد کی حقیقت گٹھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے جن کے جو ہر مخفی تھے ہم نے مسیح کے زمانہ میں وہ دونوں گٹھڑیاں کھول دیں اور دونوں کے جو ہر ظاہر کر دیئے.( حاشیہ: کیا یہ سچ نہیں کہ اس زمانہ میں زمین کی گٹھڑی ایسی کھلی ہے کہ ہزار ہانٹی حقیقتیں اور خواص اور کلیں ظاہر ہوتی جاتی ہیں.پھر آسمانی گٹھڑی کیوں بند رہے.آسمانی گٹھڑی کی نسبت گذشتہ نبیوں نے بھی پیشگوئی کی تھی کہ بچے اور عورتیں بھی خدا کا الہام پائیں گی اور وہ مسیح موعود کا زمانہ ہوگا.منہ ) مسلمان حکمران علماء کے ذریعہ اپنے عوام کو سمجھائیں بالآخر یادر ہے کہ اگر چہ ہم نے اس اشتہار میں مفصل طور پر لکھ دیا ہے کہ یہ موجودہ طریق غیر مذہب کے لوگوں پر حملہ کرنے کا جو مسلمانوں میں پایا جاتا ہے جس کا نام وہ جہاد ر کھتے ہیں یہ شرعی جہاد نہیں ہے بلکہ صریح خدا اور رسول کے حکم کے مخالف اور سخت معصیت ہے لیکن چونکہ اس طریق پر پابند ہونے کی بعض اسلامی قوموں میں پرانی عادت ہوگئی ہے اس لئے اُن کے لئے اس عادت کو چھوڑ نا آسانی سے ممکن نہیں بلکہ ممکن ہے کہ جو شخص ایسی نصیحت کرے اسی کے دشمن جانی ہو جائیں اور غازیانہ جوش سے اُس کا قصہ بھی تمام کرنا چاہیں ہاں ایک طریق میرے دل میں گذرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر امیر صاحب والی کا بل جن کا رعب افغانوں کی قوموں پر اس قدر ہے کہ شاید اس کی نظیر کسی پہلے افغانی امیر میں نہیں ملے گی نامی علماء کو جمع کر کے اس مسئلہ جہاد کو معرض بحث میں لاویں اور پھر علماء کے ذریعہ سے عوام کو اُن کی غلطیوں پر متنبہ کریں بلکہ اس ملک کے علماء سے چند رسالے پشتو زبان میں تالیف کرا کر عام طور پر شائع کرائیں تو یقین ہے کہ اس قسم کی کاروائی کا لوگوں پر بہت اثر پڑے گا اور وہ جوش جو نادان ملا عوام میں پھیلاتے ہیں رفتہ رفتہ کم ہو جائے گا اور یقیناً امیر صاحب کی رعایا کی بڑی بدقسمتی ہوگی اگر اس ضروری اصلاح کی طرف امیر
فقه المسيح 531 جہاد کی حقیقت صاحب توجہ نہیں کریں گے اور آخری نتیجہ اس کا اُس گورنمنٹ کے لئے خود جمتیں ہیں جو ملاؤں کے ایسے فتووں پر خاموش بیٹھی رہے کیونکہ آج کل ان ملاؤں اور مولویوں کی یہ عادت ہے کہ ایک ادنی اختلاف مذہبی کی وجہ سے ایک شخص یا ایک فرقہ کو کا فر ٹھہرا دیتے ہیں اور پھر جو کافروں کی نسبت اُن کے فتوے جہاد وغیرہ کے ہیں وہی فتوے ان کی نسبت بھی جاری کئے جاتے ہیں.پس اس صورت میں امیر صاحب بھی ان فتووں سے محفوظ نہیں رہ سکتے.ممکن ہے کہ کسی وقت یہ ملا لوگ کسی جزوی بات پر امیر صاحب پر ناراض ہو کر اُن کو بھی دائرہ اسلام سے خارج کر دیں اور پھر اُن کے لئے بھی وہی جہاد کے فتوے لکھے جائیں جو کفار کے لئے وہ لکھا کرتے ہیں پس بلا شبہ وہ لوگ جن کے ہاتھ میں مومن یا کافر بنانا اور پھر اس پر جہاد کا فتویٰ لکھنا ہے ایک خطر ناک قوم ہے جن سے امیر صاحب کو بھی بے فکر نہیں بیٹھنا چاہئے اور بلاشبہ ہر ایک گورنمنٹ کے لئے بغاوت کا سر چشمہ یہی لوگ ہیں.عوام بے چارے ان لوگوں کے قابو میں ہیں اور ان کے دلوں کی کل ان کے ہاتھ میں ہے جس طرف چاہیں پھیر دیں اور ایک دم میں قیامت برپا کر دیں.پس یہ گناہ کی بات نہیں ہے کہ عوام کو ان کے پنجہ سے چھڑا دیا جائے اور خود ان کو نرمی سے جہاد کے مسئلہ کی اصل حقیقت سمجھا دی جائے.اسلام ہرگز یہ تعلیم نہیں دیتا کہ مسلمان رہزنوں اور ڈاکوؤں کی طرح بن جائیں اور جہاد کے بہانہ سے اپنے نفس کی خواہشیں پوری کریں اور چونکہ اسلام میں بغیر بادشاہ کے حکم کے کسی طرح جہاد درست نہیں اور اس کو عوام بھی جانتے ہیں.اس لئے یہ بھی اندیشہ ہے کہ وہ لوگ جو حقیقت سے بے خبر ہیں اپنے دلوں میں امیر صاحب پر یہ الزام لگا دیں کہ اُنہی کے اشارہ سے یہ سب کچھ ہوتا ہے.لہذا امیر صاحب کا ضرور یہ فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس غلط فتوے کو روکنے کے لئے جہد بلیغ فرما دیں کہ اس صورت میں امیر صاحب کی بریت بھی آفتاب کی طرح چمک اٹھے گی اور ثواب بھی ہوگا کیونکہ حقوق عباد پر نظر کر کے اس سے
فقه المسيح 532 جہاد کی حقیقت بڑھ کر اور کوئی نیکی نہیں کہ مظلوموں کی گردنوں کو ظالموں کی تلوار سے چھڑایا جائے اور چونکہ ایسے کام کرنے والے اور غازی بننے کی نیت سے تلوار چلانے والے اکثر افغان ہی ہیں جن کا امیر صاحب کے ملک میں ایک معتد بہ حصہ ہے اس لئے امیر صاحب کو خدا تعالیٰ نے یہ موقع دیا ہے کہ وہ اپنی امارت کے کارنامہ میں اس اصلاح عظیم کا تذکرہ چھوڑ جائیں اور یہ وحشیانہ عادات جو اسلام کی بدنام کنندہ ہیں جہاں تک اُن کے لئے ممکن ہو قوم افغان سے چھڑا دیں ورنہ اب دور مسیح موعود آ گیا ہے.اب بہر حال خدا تعالیٰ آسمان سے ایسے اسباب پیدا کر دے گا کہ جیسا کہ زمین ظلم اور ناحق کی خون ریزی سے پر تھی اب عدل اور امن اور صلح کاری سے پُر ہو جائے گی.اور مبارک وہ امیر اور بادشاہ ہیں جو اس سے کچھ حصہ لیں.“ محسن گورنمنٹ کی خدمت میں گزارش ان تمام تحریروں کے بعد ایک خاص طور پر اپنی محسن گورنمنٹ کی خدمت میں کچھ گزارش کرنا چاہتا ہوں اور گو یہ جانتا ہوں کہ ہماری یہ گورنمنٹ ایک عاقل اور زیرک گورنمنٹ ہے لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ اگر کوئی نیک تجویز جس میں گورنمنٹ اور عامہ خلائق کی بھلائی ہو خیال میں گذرے تو اُسے پیش کریں.اور وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک یہ واقعی اور یقینی امر ہے کہ یہ وحشیانہ عادت جو سرحدی افغانوں میں پائی جاتی ہے اور آئے دن کوئی نہ کوئی کسی بے گناہ کا خون کیا جاتا ہے اس کے اسباب جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں دو ہیں (1) اول وہ مولوی جن کے عقائد میں یہ بات داخل ہے کہ غیر مذہب کے لوگوں اور خاص کر عیسائیوں کو قتل کرنا موجب ثواب عظیم ہے اور اس سے بہشت کی وہ عظیم الشان نعمتیں ملیں گی کہ وہ نہ نماز سے مل سکتی ہیں نہ حج سے نہ زکوٰۃ سے اور نہ کسی اور نیکی کے کام سے.مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ در پردہ عوام الناس کے کان میں ایسے وعظ پہنچاتے رہتے ہیں.آخر دن رات ایسے وعظوں کو سن کر ان لوگوں کے دلوں پر جو حیوانات میں اور
فقه المسيح 533 جہاد کی حقیقت ان میں کچھ تھوڑا ہی فرق ہے بہت بڑا اثر ہوتا ہے اور وہ درندے ہو جاتے ہیں اور ان میں ایک ذرہ رحم باقی نہیں رہتا اور ایسی بے رحمی سے خون ریزیاں کرتے ہیں جن سے بدن کا نپتا ہے اور اگر چہ سرحدی اور افغانی ملکوں میں اس قسم کے مولوی بکثرت بھرے پڑے ہیں جو ایسے ایسے وعظ کیا کرتے ہیں مگر میری رائے تو یہ ہے کہ پنجاب اور ہندوستان بھی ایسے مولویوں سے خالی نہیں.اگر گورنمنٹ عالیہ نے یہ یقین کر لیا ہے کہ اس ملک کے تمام مولوی اس قسم کے خیالات سے پاک اور مبرا ہیں تو یہ یقین بے شک نظر ثانی کے لائق ہے.میرے نزدیک اکثر مسجد نشین نادان مغلوب الغضب ملا ایسے ہیں کہ ان گندے خیالات سے بری نہیں ہیں اگر وہ ایسے خیالات خدا تعالیٰ کی پاک کلام کی ہدایت کے موافق کرتے تو میں ان کو معذور سمجھتا کیونکہ در حقیقت انسان اعتقادی امور میں ایک طور پر معذور ہوتا ہے لیکن میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جیسا کہ وہ گورنمنٹ کے احسانات کو فراموش کر کے اس عادل گورنمنٹ کے چھپے ہوئے دشمن ہیں ایسا ہی وہ خدا تعالیٰ کے بھی مجرم اور نافرمان ہیں.کیونکہ میں مفصل بیان کر چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہرگز نہیں سکھلاتا کہ ہم اس طرح پر بے گناہوں کے خون کیا کریں اور جس نے ایسا سمجھا ہے وہ اسلام سے برگشتہ (2) دوسرا سبب ان مجرمانہ خون ریزیوں کا جو غازی بننے کے بہانہ سے کی جاتی ہیں میری رائے میں وہ پادری صاحبان بھی ہیں جنہوں نے حد سے زیادہ اس بات پر زور دیا کہ اسلام میں جہاد فرض ہے اور دوسری قوموں کو قتل کرنا مسلمانوں کے مذہب میں بہت ثواب کی بات ہے.میرے خیال میں سرحدی لوگوں کو جہاد کے مسئلہ کی خبر بھی نہیں تھی یہ تو پادری صاحبوں نے یاد دلایا میرے پاس اس خیال کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ جب تک پادری صاحبوں کی طرف سے ایسے اخبار اور رسالے اور کتابیں سرحدی ملکوں میں شائع نہیں ہوئے تھے اس وقت تک ایسی وارداتیں بہت ہی کم سنی جاتی تھیں یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بالکل نہیں تھیں بلکہ جب سکھوں کی سلطنت اس ملک سے اُٹھ گئی اور اُن کی جگہ انگریز آئے تو عام ہے.
فقه المسيح 534 جہاد کی حقیقت مسلمانوں کو اس انقلاب سے بڑی خوشی تھی اور سرحدی لوگ بھی بہت خوش تھے.پھر جب پادری فنڈل صاحب نے 1849 ء میں کتاب میزان الحق تالیف کر کے ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی ملکوں میں شائع کی اور نہ فقط اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کی نسبت تو ہین کے کلمے استعمال کئے بلکہ لاکھوں انسانوں میں یہ شہرت دی کہ اسلام میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ بڑا ثواب ہے.ان باتوں کو سُن کر سرحدی حیوانات جن کو اپنے دین کی کچھ بھی خبر نہیں جاگ اُٹھے اور یقین کر بیٹھے کہ درحقیقت ہمارے مذہب میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا بڑے ثواب کی بات ہے.میں نے غور کر کے سوچا ہے کہ اکثر سرحدی وارداتیں اور پُر جوش عداوت جو سرحدی لوگوں میں پیدا ہوئی اس کا سبب پادری صاحبوں کی وہ کتابیں ہیں جن میں وہ تیز زبانی اور بار بار جہاد کا ذکر لوگوں کو سنانے میں حد سے زیادہ گزر گئے یہاں تک کہ آخر میزان الحق کی عام شہرت اور اس کے زہریلے اثر کے بعد ہماری گورنمنٹ کو 1867ء میں ایکٹ نمبر 23 ، 67ء سرحدی اقوام کے غازیانہ خیالات کے روکنے کے لئے جاری کرنا پڑا.یہ قانون سرحد کی چھ قوموں کے لئے شائع ہوا تھا اور بڑی امید تھی کہ اس سے واردا تیں رک جائیں گی لیکن افسوس کہ بعد اس کے پادری عمادالدین امرتسری اور چند دوسرے بد زبان پادریوں کی تیز اور گندی تحریروں نے ملک کی اندرونی محبت اور مصالحت کو بڑا نقصان پہنچایا اور ایسا ہی اور پادری صاحبوں کی کتابوں نے جن کی تفصیل کی ضرورت نہیں دلوں میں عداوت کا ختم ہونے میں کمی نہیں کی.غرض یہ لوگ گورنمنٹ عالیہ کی مصلحت کے سخت حارج ہوئے.ہماری گورنمنٹ کی طرف سے یہ کارروائی نہایت قابل تحسین ہوئی کہ مسلمانوں کو ایسی کتابوں کے جواب لکھنے سے منع نہیں کیا اور اس تیزی کے مقابل پر مسلمانوں کی طرف سے بھی کسی قدر تیز کلامی ہوئی مگر وہ تیزی گورنمنٹ کی کشادہ دلی پر دلیل روشن بن گئی اور ہتک آمیز کتابوں کی وجہ سے جن فسادوں کی توقع تھی وہ اس گورنمنٹ عالیہ کی نیک نیتی اور عادلانہ طریق
فقه المسيح 535 جہاد کی حقیقت ثابت ہو جانے کی وجہ سے اندر ہی اندر دب گئے.پس اگر چہ ہمیں اسلام کے ملاؤں کی نسبت افسوس سے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ انہوں نے ایک غلط مسئلہ جہاد کی پیروی کر کے سرحدی اقوام کو یہ سبق دیا کہ تا وہ ایک محسن گورنمنٹ کے معزز افسروں کے خون سے اپنی تلواروں کو سُرخ کیا کریں اور اس طرح ناحق اپنی محسن گورنمنٹ کو ایذا پہنچایا کریں مگر ساتھ ہی یورپ کے ملاؤں پر بھی جو پادری ہیں ہمیں افسوس ہے کہ انہوں نے ناحق تیز اور خلاف واقعہ تحریروں سے نادانوں کو جوش دلائے ہزاروں دفعہ جہاد کا اعتراض پیش کر کے وحشی مسلمانوں کے دلوں میں یہ جما دیا کہ اُن کے مذہب میں جہاد ایک ایسا طریق ہے جس سے جلد بہشت مل جاتا ہے اگر ان پادری صاحبوں کے دلوں میں کوئی بد نیتی نہیں تھی تو چاہیے تھا کہ حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع کے جہادوں کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد سے مقابلہ کر کے اندر ہی اندر سمجھے جاتے اور چپ رہتے.اگر ہم فرض کر لیں کہ اس فتنہ عوام کے جوش دلانے کے بڑے محرک اسلامی مولوی ہیں تا ہم ہمارا انصاف ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اقرار کریں کہ کسی قدر اس فتنہ انگیزی میں پادریوں کی وہ تحریر میں بھی حصہ دار ہیں جن سے آئے دن مسلمان شاکی نظر آتے ہیں.افسوس کہ بعض جاہل ایک حرکت کر کے الگ ہو جاتے ہیں اور گورنمنٹ انگلشیہ کو مشکلات پیش آتی ہیں ان مشکلات کے رفع کرنے کے لئے میرے نزدیک احسن تجویز وہی ہے جو حال میں رومی گورنمنٹ نے اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ امتحاناً چند سال کے لئے ہر ایک فرقہ کو قطعا روک دیا جائے کہ وہ اپنی تحریروں میں اور نیز زبانی تقریروں میں ہرگز ہرگز کسی دوسرے مذہب کا صراحةً یا اشارہ ذکر نہ کرے ہاں اختیار ہے کہ جس قدر چاہے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کرے اس صورت میں نئے نئے کینوں کی تخم ریزی موقوف ہو جائے گی اور پرانے قصے بھول جائیں گے اور لوگ باہمی محبت اور مصالحت کی طرف رجوع کریں گے اور جب سرحد کے وحشی لوگ دیکھیں گے کہ قوموں میں اس قدر با ہم انس اور محبت پیدا ہو گیا ہے تو آخر وہ بھی متاثر ہوکر عیسائیوں کی
فقه المسيح 536 جہاد کی حقیقت ایسی ہی ہمدردی کریں گے جیسا کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کی کرتا ہے اور دوسری تدبیر یہ ہے کہ اگر پنجاب اور ہندوستان کے مولوی در حقیقت مسئلہ جہاد کے مخالف ہیں تو وہ اس بارے میں رسالے تالیف کر کے اور پشتو میں ان کا ترجمہ کرا کر سرحدی اقوام میں مشتہر کریں بلا شبہ اُن کا بڑا اثر ہوگا.مگر ان تمام باتوں کے لئے شرط ہے کہ سچے دل اور جوش سے کارروائی کی جائے نہ نفاق سے.والسلام على من اتبع الهدى.المشتهر خاکسار مرزا غلام احمد مسیح موعود عفی عنہ از قادیان.المرقوم 22 رمئی 1900 ء ( گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 3 تا 22 )
فقه المسيح 537 التوائے جہاد کے متعلق حضرت اقدس کا فیصلہ جہاد کی حقیقت اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کیلئے حرام ہے اب جنگ اور قتال اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے دیں کے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے اب آسماں سے نورِ خدا کا نزول ہے اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبی کی حدیث کو جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اس خبیث کو کیوں بھولتے ہو تم یضع الحرب کی خبر کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر فرما چکا ہے سید کونین مصطفے عیسی مسیح جنگوں کا کردے گا التوا جب آئے گا تو صلح کو وہ ساتھ لائے گا جنگوں کے سلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا نوٹ: (ایک زبر دست الہام اور کشف ) آج 2 / جون 1900 ء کو بروز شنبہ بعد دو پہر دو بجے کے وقت مجھے تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ ایک ورق جو نہایت سفید تھا دکھلایا گیا.اس کی آخری سطر میں لکھا تھا اقبال.میں خیال کرتا ہوں کہ آخر سطر میں یہ لفظ لکھنے سے انجام کی طرف اشارہ تھا یعنی انجام با قبال 66 ہے.پھر ساتھ ہی یہ الہام ہوا: ” قادر کے کاروبار نمودار ہو گئے.کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہو گئے.“ اس کے یہ معنے مجھے سمجھائے گئے کہ عنقریب کچھ ایسے زبر دست نشان ظاہر ہو جائیں گے جس سے کافر کہنے والے جو مجھے کافر کہتے تھے الزام میں پھنس جائیں گے اور خوب پکڑے جائیں گے اور کوئی گریز کی جگہ اُن کے لئے باقی نہیں رہے گی.یہ پیشگوئی ہے.ہر ایک پڑھنے والا اس کو یا در کھے.اس کے بعد 3 /جون 1900 ء کو بوقت ساڑھے گیارہ بجے یہ الہام ہوا: کافر جو کہتے تھے وہ نگونسار ہو گئے.جتنے تھے سب کے سب ہی گرفتار ہو گئے یعنی کافر کہنے والوں پر خدا کی حجت ایسی پوری ہوگئی کہ اُن کے لئے کوئی عذر کی جگہ نہ رہی.یہ آئندہ زمانہ کی خبر ہے کہ عنقریب ایسا ہوگا اور کوئی ایسی چمکتی ہوئی دلیل ظاہر ہو جائے گی کہ فیصلہ کر دے گی.منہ
فقه المسيح 538 جہاد کی حقیقت پیویں گے ایک گھاٹ پر شیر اور گوسپند کھیلیں گے بچے سانچوں سے بے خوف و بے گزند یعنی وہ وقت امن کا ہوگا نہ جنگ کا بُھولیں گے لوگ مشغلہ تیر و تفنگ کا یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا اک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے القصہ یہ مسیح کے آنے کا ہے نشاں کردے گاختم آکے وہ دیں کی لڑائیاں ظاہر ہیں خود نشاں کہ زماں وہ زماں نہیں اب قوم میں ہماری وہ تاب و تواں نہیں اب تم میں خود وہ قوت و طاقت نہیں رہی وہ سلطنت وہ رعب وہ شوکت نہیں رہی وہ نام وہ نمود وہ دولت نہیں رہی وہ عزم مقبلا نہ وہ ہمت نہیں رہی وہ علم وہ صلاح وہ عفت نہیں رہی وہ نور اور وہ چاند سی طلعت نہیں رہی وہ درد وہ گداز وہ رقت نہیں رہی خلق خدا پہ شفقت و رحمت نہیں رہی دل میں تمہارے یار کی اُلفت نہیں رہی حالت تمہاری جاذب نصرت نہیں رہی حمق آ گیا ہے سر میں وہ فطنت نہیں رہی کسل آگیا ہے دل میں جلادت نہیں رہی وہ علم و معرفت وہ فراست نہیں رہی وہ فکر وہ قیاس وہ حکمت نہیں رہی دنیا و دیں میں کچھ بھی لیاقت نہیں رہی اب تم کو غیر قوموں پر سبقت نہیں رہی وہ اُنس و شوق و وجد وہ طاعت نہیں رہی ظلمت کی کچھ بھی حد و نہایت نہیں رہی ہر وقت جھوٹ.سچ کی تو عادت نہیں رہی نور خدا کی کچھ بھی علامت نہیں رہی سوسو ہے گند دل میں طہارت نہیں رہی نیکی کے کام کرنے کی رغبت نہیں رہی
فقه المسيح 539 جہاد کی حقیقت خوانِ تہی پڑا ہے وہ نعمت نہیں رہی دیں بھی ہے ایک قشر حقیقت نہیں رہی مولیٰ سے اپنے کچھ بھی محبت نہیں رہی دل مر گئے ہیں نیکی کی قدرت نہیں رہی سب پر یہ اک بلا ہے کہ وحدت نہیں رہی اک پھوٹ پڑ رہی ہے موڈت نہیں رہی تم مر گئے تمہاری وہ عظمت نہیں رہی صورت بگڑ گئی ہے وہ صورت نہیں رہی اب تم میں کیوں وہ سیف کی طاقت نہیں رہی بھید اس میں ہے یہی کہ وہ حاجت نہیں رہی اب کوئی تم پہ جبر نہیں غیر قوم سے کرتی نہیں ہے منع صلوٰۃ اور صوم سے ہاں آپ تم نے چھوڑ دیا دیں کی راہ کو عادت میں اپنے کر لیا فسق و گناہ کو اب زندگی تمہاری تو سب فاسقانہ ہے مومن نہیں ہو تم کہ قدم کافرانہ ہے اے قوم تم پہ یار کی اب وہ نظر نہیں روتے رہو دعاؤں میں بھی وہ اثر نہیں کیونکر ہو وہ نظر کہ تمہارے وہ دل نہیں شیطاں کے ہیں خدا کے پیارے وہ دل نہیں تقویٰ کے جامے جتنے تھے سب چاک ہو گئے جتنے خیال دل میں تھے ناپاک ہو گئے کچھ کچھ جو نیک مرد تھے وہ خاک ہو گئے باقی جو تھے وہ ظالم و سفاک ہو گئے اب تم تو خود ہی مورد خشم خدا ہوئے اُس یار سے بشامت عصیاں جُدا ہوئے اب غیروں سے لڑائی کے معنے ہی کیا ہوئے تم خود ہی غیر بن کے محل سزا ہوئے سچ سچ کہو کہ تم میں امانت ہے اب کہاں وہ صدق اور وہ دین و دیانت ہے اب کہاں پھر جبکہ تم میں خود ہی وہ ایماں نہیں رہا وہ نور مومنانہ وہ عرفاں نہیں رہا پھر اپنے کفر کی خبر اے قوم لیجئے آیت علیکم انفسکم یاد کیجئے
فقه المسيح 540 جہاد کی حقیقت ایسا گماں کہ مہدی خونی بھی آئے گا اور کافروں کے قتل سے دیں کو بڑھائے گا اے غافلو! یہ باتیں سراسر دروغ ہیں بہتاں ہیں بے ثبوت ہیں اور بے فروغ ہیں یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آپکا یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا اب سال ستر کا بھی صدی سے گذر گئے تم میں سے ہائے سوچنے والے کدھر گئے تھوڑے نہیں نشاں جو دکھائے گئے تمہیں کیا پاک راز تھے جو بتائے گئے تمہیں پر تم نے اُن سے کچھ بھی اُٹھایا نہ فائدہ منہ پھیر کر ہٹا دیا تم نے یہ مائدہ بخلوں سے یارو باز بھی آؤ گے یا نہیں خو اپنی پاک صاف بناؤ گے یا نہیں باطل سے میل دل کی ہٹاؤ گے یا نہیں حق کی طرف رجوع بھی لاؤ گے یا نہیں اب عذر کیا ہے کچھ بھی بتاؤ گے یا نہیں مخفی جو دل میں ہے وہ سُناؤ گے یا نہیں آخر خدا کے پاس بھی جاؤ گے یا نہیں اُس وقت اُس کو منہ بھی دکھاؤ گے یا نہیں تم میں سے جس کو دین و دیانت سے ہے پیار اب اُس کا فرض ہے کہ وہ دل کر کے اُستوار لوگوں کو یہ بتائے کہ وقتِ مسیح ہے اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے ہم اپنا فرض دوستو اب کر چکے ادا اب بھی اگر نہ سمجھو تو سمجھائے گا خدا (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 77 تا80)
فقه المسيح 541 جلسہ سالانہ کا انعقاد جلسہ سالانہ کا انعقاد خالص دینی مقاصد پر مشتمل ہے جلسہ سالانہ کو بدعت قرار دیئے جانے کے اعتراض کا جواب اس زمانہ کے علماء کی حالت قرب قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ایک بڑی نشانی ہے جو اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو امام بخاری اپنی صحیح میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے لائے ہیں اور وہ یہ ہے.يُقْبَضُ الْعِلْمُ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ عَالِمٌ إِتَّخَذَ النَّاسُ رُوسًا جُهَّالًا فَسَتَلُوا فَافْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَصَلُّوْا وَ اَضَلُّوا يعنی باعث فوت ہو جانے علماء کے علم فوت ہو جائے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں ملے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا مقتداء اور سردار قرار دے دیں گے اور مسائل دینی کی دریافت کے لئے ان کی طرف رجوع کریں گے.تب وہ لوگ بباعث جہالت اور عدم ملکہ استنباط مسائل خلاف طریق صدق وصواب فتویٰ دیں گے.پس آپ بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے.اور پھر ایک اور حدیث میں ہے کہ اس زمانہ کے فتویٰ دینے والے یعنی مولوی اور محدث اور فقیہ ان تمام لوگوں سے بدتر ہوں گے جو روئے زمین پر رہتے ہوں گے.پھر ایک اور حدیث میں ہے کہ وہ قرآن پڑھیں گے اور قرآن اُن کے حنجروں کے نیچے نہیں اترے گا یعنی اس پر عمل نہیں کریں گے.ایسا ہی اس زمانہ کے مولویوں کے حق میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں مگر اس وقت ہم بطور نمونہ صرف اس حدیث کا ثبوت دیتے ہیں جو غلط فتووں کے بارے میں ہم اُوپر لکھے چکے ہیں تا ہر ایک کو معلوم ہو کہ آجکل اگر مولویوں کے وجود سے کچھ فائدہ ہے تو صرف اس قدر کہ ان کے یہ پچھن دیکھ کر قیامت یاد آتی ہے اور قرب قیامت کا پتہ لگتا ہے اور حضرت خاتم الانبیاء صلے اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کی پوری پوری تصدیق ہم بچشم خود مشاہدہ کرتے ہیں.“
فقه المسيح 542 جلسہ سالانہ کا انعقاد جلسہ سالانہ کے انعقاد کا پس منظر اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ چونکہ سال گذشتہ میں بمشورہ اکثر احباب یہ بات قرار پائی تھی کہ ہماری جماعت کے لوگ کم سے کم ایک مرتبہ سال میں بہ نیت استفادہ ضروریات دین ومشوره اعلاء کلمہ اسلام و شرع متین اس عاجز سے ملاقات کریں اور اس مشورہ کے وقت یہ بھی قرین مصلحت سمجھ کر مقرر کیا گیا تھا کہ 27 دسمبر کو اس غرض سے قادیان میں آنا انسب اور اولی ہے.کیونکہ یہ تعطیل کے دن ہیں اور ملازمت پیشہ لوگ ان دنوں میں فرصت اور فراغت مخلصین رکھتے ہیں اور باعث ایام سرمایہ دن سفر کے مناسب حال بھی ہیں.چنانچہ احباب اور کی نے اس مشورہ پر اتفاق کر کے خوشی ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ یہ بہتر ہے.اب 7 دسمبر 1892ء کو اسی بناء پر اس عاجز نے ایک خط بطور اشتہار کے تمام مخلصوں کی خدمت میں بھیجا جو ریاض ہند پر لیس قادیان میں چھپا تھا جس کے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض یہ بھی ہے کہ تا ہر ایک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اُٹھانے کا موقعہ ملے اور ان کے معلومات دینی وسیع ہوں اور معرفت ترقی پذیر ہو.“ لاہور کی ایک مسجد کے امام کا عجیب فتویٰ اب سنا گیا ہے کہ اس کارروائی کو بدعت بلکہ معصیت ثابت کرنے کے لئے ایک بزرگ نے ہمت کر کے ایک مولوی صاحب کی خدمت میں جو رحیم بخش نام رکھتے ہیں اور لاہور میں چینیاں والی مسجد کے امام ہیں ایک استفتاء پیش کیا جس کا یہ مطلب تھا کہ ایسے جلسہ پر روز معین پر دور سے سفر کر کے جانے میں کیا حکم ہے اور ایسے جلسہ کے لئے اگر کوئی مکان بطور خانقاہ کے تعمیر کیا جائے تو ایسے مدد دینے والے کی نسبت کیا حکم ہے.استفتاء میں یہ آخری خبر اس لئے بڑھائی گئی جو مستفتی صاحب نے کسی سے سنا ہو گا جو جبی فی اللہ اخویم مولوی حکیم نور الدین صاحب نے اس مجمع مسلمانوں کے لئے اپنے صرف سے جو غالباً سات سورو پہیہ یا کچھ اس سے
فقه المسيح 543 جلسہ سالانہ کا انعقاد زیادہ ہوگا، قادیان میں ایک مکان بنوایا جس کی امداد خرچ میں اخویم حکیم فضل دین صاحب بھیروی نے بھی تین چار سو روپیہ دیا ہے.اس استفتاء کے جواب میں میاں رحیم بخش صاحب نے ایک طول طویل عبارت ایک غیر متعلق حدیث شد رحال کے حوالہ سے لکھی ہے جس کے مختصر الفاظ یہ ہیں کہ ایسے جلسہ پر جانا بدعت بلکہ معصیت ہے اور ایسے جلسوں کا تجویز کرنا محدثات میں سے ہے جس کے لئے کتاب اور سنت میں کوئی شہادت نہیں اور جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے.“ طلب علم دین کے لئے سفر کی فضیلت ”اب منصف مزاج لوگ ایما نا کہیں کہ ایسے مولویوں اور مفتیوں کا اسلام میں موجود ہونا قیامت کی نشانی ہے یا نہیں.اے بھلے مانس ! کیا تجھے خبر نہیں کہ علم دین کے لئے سفر کرنے کے بارے میں صرف اجازت ہی نہیں بلکہ قرآن اور شارع علیہ السلام نے اس کو فرض ٹھہرا دیا ہے جس کا عمداً تارک مرتکب کبیرہ اور عمداً انکار پر اصرار بعض صورتوں میں گفر.کیا تجھے معلوم نہیں کہ نہایت تاکید سے فرمایا گیا ہے کہ طَلَبُ العِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلى كُلِّ مُسْلِمٍ و مُسْلِمَةٍ اور فرمایا گیا ہے کہ اُطلُبُو الْعِلْمَ وَ لَوْ كَانَ فِی الصّينِ یعنی علم طلب کرنا ہر یک مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے اور علم کو طلب کرو اگر چہ چین میں جانا پڑے.اب سوچو کہ جس حالت میں یہ عاجز اپنے صریح صریح اور ظاہر ظاہر الفاظ سے اشتہار میں لکھ چکا کہ یہ سفر ہر یک مخلص کا طلب علم کی نیت سے ہوگا.پھر یہ فتویٰ دینا کہ جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے کس قدر دیانت اور امانت اور انصاف اور تقویٰ اور طہارت سے دور ہے.رہی یہ بات کہ ایک تاریخ مقررہ پر تمام بھائیوں کا جمع ہونا تو یہ صرف انتظام ہے اور انتظام سے کوئی کام کرنا اسلام میں کوئی مذموم امر اور بدعت نہیں.إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ بدظنی کے مادہ فاسدہ کو ذرا دور کر کے دیکھو کہ ایک تاریخ پر آنے میں کونسی بدعت ہے جب کہ 27 دسمبر کو ہر یک مخلص
فقه المسيح 544 جلسہ سالانہ کا انعقاد بآسانی ہمیں مل سکتا ہے اور اس کے ضمن میں ان کی باہم ملاقات بھی ہو جاتی ہے.تو اس سہل طریق سے فائدہ اٹھانا کیوں حرام ہے.تعجب کہ مولوی صاحب نے اس عاجز کا نام مردو د تو رکھ دیا مگر آپ کو وہ حدیثیں یاد نہ رہیں جن میں طلب علم کے لئے پیغمبر خدا صلے اللہ علیہ وسلم نے سفر کی نسبت ترغیب دی ہے اور جن میں ایک بھائی مسلمان کی ملاقات کے لیے جانا موجب خوشنودی خدائے عزوجل قرار دیا ہے اور جن میں سفر کر کے زیارت صالحین کرنا موجب مغفرت اور کفارہ گناہاں لکھا ہے.“ مختلف اغراض کے لئے سفر ” اور یادر ہے کہ یہ سراسر جہالت ہے کہ شدّ رحال کی حدیث کا یہ مطلب سمجھا جائے که بجز قصد خانہ کعبہ یا مسجد نبوی یا بیت المقدس اور تمام سفر حرام ہیں.یہ بات ظاہر ہے کہ تمام مسلمانوں کو مختلف اغراض کے لئے سفر کرنے پڑتے ہیں.کبھی سفر طلب علم ہی کے لیے ہوتا ہے اور کبھی سفر ایک رشتہ دار یا بھائی یا بہن یا بیوی کی ملاقات کے لئے.یا مثلاً عورتوں کا سفر اپنے والدین کے ملنے کے لئے یا والدین کا اپنی لڑکیوں کی ملاقات کے لئے اور کبھی مرد اپنی شادی کے لئے اور کبھی تلاش معاش کے لئے اور کبھی پیغام رسانی کے طور پر اور کبھی زیارت صالحین کے لئے سفر کرتے ہیں جیسا کہ حضرت عمرؓ نے حضرت اویس قرنی کے ملنے کے لئے سفر کیا تھا اور کبھی سفر جہاد کے لئے بھی ہوتا ہے خواہ وہ جہاد تلوار سے ہو اور خواہ بطور مباحثہ کے اور کبھی سفر بہ نیت مباہلہ ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور کبھی سفر اپنے مرشد کے ملنے کے لئے جیسا کہ ہمیشہ اولیاء کبار جن میں سے حضرت شیخ عبدالقادر رضی اللہ عنہ اور حضرت بایزید بسطامی اور حضرت معین الدین چشتی اور حضرت مجد دالف ثانی بھی ہیں.اکثر اس غرض سے بھی سفر کرتے رہے جن کے سفر نامے اکثر اُن کے ہاتھ کے لکھے ہوئے اب تک پائے جاتے ہیں اور کبھی سفر فتوئی پوچھنے کے لئے بھی ہوتا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے اس کا جواز بلکہ بعض
فقه المسيح صورتوں میں وجوب ثابت ہوتا ہے“ 545 قرآن اور حدیث میں مختلف سفروں کی ترغیب جلسہ سالانہ کا انعقاد اور امام بخاری کے سفر طلب علم حدیث کے لئے مشہور ہیں شاید میاں رحیم بخش کو خبر نہیں ہوگی اور کبھی سفر عجائبات دنیا کے دیکھنے کے لئے بھی ہوتا ہے جس کی طرف آیت کریمہ قُلْ سِيرُوا فِي الأَرْضِ (الانعام :12) اشارت فرمارہی ہے اور کبھی سفر صادقین کی صحبت میں رہنے کی غرض سے جس کی طرف آیت کریمہ یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُومَعَ الصَّادِقِينَ (التوبة : 119) ہدایت فرماتی ہے اور کبھی سفر عیادت کے لئے بلکہ اتباع خیار کے لئے بھی ہوتا ہے اور کبھی بیمار یا بیمار دار علاج کرانے کی غرض سے سفر کرتا ہے اور کبھی کسی مقدمہ عدالت یا تجارت وغیرہ کے لئے بھی سفر کیا جاتا ہے اور یہ تمام قسم سفر کی قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے رُو سے جائز ہیں بلکہ زیارت صالحین اور ملاقات اخوان اور طلب علم کے سفر کی نسبت احادیث صحیحہ میں بہت کچھ حف و ترغیب پائی جاتی ہے.اگر اس وقت وہ تمام حدیثیں لکھی جائیں تو ایک کتاب بنتی ہے.ایسے فتویٰ لکھانے والے اور لکھنے والے یہ خیال نہیں کرتے کہ ان کو بھی تو اکثر اس قسم کے سفر پیش آ جاتے ہیں.پس اگر بجز تین مسجدوں کے اور تمام سفر کرنے حرام ہیں تو چاہیے کہ یہ لوگ اپنے تمام رشتے ناطے اور عزیز اقارب چھوڑ کر بیٹھ جائیں اور کبھی اُن کی ملاقات یا ان کی غم خواری یا ان کی بیمار پرسی کے لئے بھی سفر نہ کریں.میں خیال نہیں کرتا کہ بجز ایسے آدمی کے جس کو تعصب اور جہالت نے اندھا کر دیا ہو.وہ ان تمام سفروں کے جواز میں متامل ہو سکے صحیح بخاری کا صفحہ 16 کھول کر دیکھو کہ سفر طلب علم کے لئے کس قدر بشارت دی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ بِهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقَ الْجَنَّةِ یعنی جو شخص طلب علم کے لئے سفر کرے اور کسی راہ پر چلے تو خدا تعالے بہشت کی راہ اس پر آسان کر دیتا ہے.اب اے ظالم مولوی ذرا انصاف کر کہ تو نے اپنے بھائی کا نام جو تیری طرح
فقه المسيح 546 جلسہ سالانہ کا انعقاد کلمہ گو، اہل قبلہ اور اللہ رسول پر ایمان لاتا ہے، مردود رکھا اور خدا تعالیٰ کی رحمت اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بکلی محروم قرار دیا اور اس صحیح حدیث بخاری کی بھی کچھ پرواہ نہ کی کہ اَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَا عَتِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ اَوْ نَفْسِهِ اور مردود ٹھہرانے کی اپنے فتویٰ میں وجہ یہ ٹھہرائی کہ ایسا اشتہار کیوں شائع کیا اور لوگوں کو جلسہ پر بلانے کے لئے کیوں دعوت کی.اے ناخدا ترس ذرا آنکھ کھول اور پڑھ کہ اس اشتہار 7 دسمبر 1892ء کا کیا مضمون ہے.کیا اپنی جماعت کو طلب علم اور حل مشکلات دین اور ہمدردی اسلام اور برادرانہ ملاقات کے لئے بلایا ہے یا اس میں کسی اور میلہ تماشا اور راگ اور سرود کا ذکر ہے.اے اس زمانہ کے ننگ اسلام مولویو! تم اللہ جل شانہ سے کیوں نہیں ڈرتے.کیا ایک دن مرنا نہیں یا ہر یک مؤاخذہ تم کو معاف ہے.حق بات کو سن کر اور اللہ اور رسول کے فرمودہ کو دیکھ کر تمہیں یہ خیال تو نہیں آتا کہ اب اپنی ضد سے باز آ جائیں بلکہ مقدمہ باز لوگوں کی طرح یہ خیال آتا ہے کہ آؤ کسی طرح باتوں کو بنا کر اس کا رڈ چھاپیں تا لوگ نہ کہیں کہ ہمارے مولوی صاحب کو کچھ جواب نہ آیا.اس قدر دلیری اور بد دیانتی اور یہ بخل اور بغض کس عمر کے لئے.آپ کو فتویٰ لکھنے کے وقت وہ حدیثیں یاد نہ رہیں جن میں علم دین کے لیے اور اپنے شبہات دور کرنے کے لئے اور اپنے دینی بھائی اور عزیزوں کو ملنے کے لئے سفر کرنے کو موجب ثواب کثیر واجر عظیم قرار دیا ہے بلکہ زیارت صالحین کے لئے سفر کرنا قدیم سے سنت سلف صالح چلی آئی ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ جب قیامت کے دن ایک شخص اپنی بداعمالی کی وجہ سے سخت مواخذہ میں ہوگا تو اللہ جل شانہ اس سے پوچھے گا کہ فلاں صالح آدمی کی ملاقات کے لئے کبھی تو گیا تھا تو وہ کہے گا بالا رادہ تو کبھی نہیں گیا مگر ایک دفعہ ایک راہ میں اس کی ملاقات ہو گئی تھی.تب خدا تعالیٰ کہے گا کہ جا بہشت میں داخل ہو.میں نے اسی ملاقات کی وجہ سے تجھے بخش دیا.اب اے کو تہ نظر مولوی ذرا نظر کر کہ یہ حدیث
فقه المسيح کس بات کی ترغیب دیتی ہے.“ 547 جلسہ سالانہ کا انعقاد اس اعتراض کا جواب کہ جلسہ کے لئے خاص تاریخ کیوں مقرر کی؟ اور اگر کسی کے دل میں یہ دھو کہ ہو کہ اس دینی جلسہ کے لئے ایک خاص تاریخ کیوں مقرر کی ایسا فعل رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ عنہم سے کب ثابت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بخاری اور مسلم کو دیکھو کہ اہل بادیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسائل کے دریافت کرنے کے لئے اپنی فرصت کے وقتوں میں آیا کرتے تھے اور بعض خاص خاص مہینوں میں ان کے گروہ فرصت پا کر حاضر خدمت رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم ہوا کرتے تھے اور صحیح بخاری میں ابی جمرہ سے روایت ہے قَالَ إِنَّ وَفَدَ عَبْدِ الْقَيْسِ أَتَوا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا إِنَّا نَأْتِيكَ مِنْ شُقَّةٍ بَعِيدَةٍ وَلَا نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيكَ إِلَّا فِي شَهْرٍ حَرَام یعنی ایک گروہ قبیلہ عبدالقیس کے پیغام لانے والوں کا جو اپنی قوم کی طرف سے آئے تھے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ ہم لوگ دور سے سفر کر کے آتے ہیں اور بجز حرام مہینوں کے ہم حاضر خدمت نہیں ہو سکتے اور ان کے قول کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے رڈ نہیں کیا اور قبول کیا.پس اس حدیث سے بھی یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ جو لوگ طلب علم یا دینی ملاقات کے لئے کسی اپنے مقتداء کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیں.وہ اپنی گنجایش فرصت کے لحاظ سے ایک تاریخ مقرر کر سکتے ہیں.جس تاریخ میں وہ بآسانی اور بلا حرج حاضر ہوسکیں اور یہی صورت 27 دسمبر کی تاریخ میں ملحوظ ہے کیونکہ وہ دن تعطیلوں کے ہوتے ہیں اور ملازمت پیشہ لوگ بسہولت اُن دنوں میں آ سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اس دین میں کوئی حرج کی بات نہیں رکھی گئی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر مثلاً کسی تدبیر یا انتظام سے ایک کام جو دراصل جائز اور روا ہے سہل اور آسان ہوسکتا ہے تو وہی تدبیر اختیار کر لو کچھ مضائقہ نہیں ان باتوں کا نام بدعت رکھنا ان اندھوں کا کام
فقه المسيح 548 جلسہ سالانہ کا انعقاد ہے جن کو نہ دین کی عقل دی گئی نہ دنیا کی.امام بخاری نے اپنی صحیح میں کسی دینی تعلیم کی مجلس پر تاریخ مقرر کرنے کے لئے ایک خاص باب منعقد کیا ہے جس کا یہ عنوان ہے مَنْ جَعَلَ لَا هَلِ الْعِلْمِ أَيَّامًا مَّعْلُومَةً یعنی علم کے طالبوں کے افادہ کے لئے خاص دنوں کو مقرر کرنا بعض صحابہ کی سنت ہے.اس ثبوت کے لئے امام موصوف اپنی صحیح میں ابی وائل سے یہ راویت کرتے ہیں كَانَ عَبْدُ اللهِ يُذَكَرُ النَّاسَ فِى كُلّ خَمِيسِ یعنی عبداللہ نے اپنے وعظ کے لئے جمعرات کا دن مقرر کر رکھا تھا اور جمعرات میں ہی اس کے وعظ پر لوگ حاضر ہوتے تھے.یہ بھی یادر ہے کہ اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں تدبیر اور انتظام کے لئے ہمیں حکم فرمایا ہے اور ہمیں مامور کیا ہے کہ جو احسن تدبیر اور انتظام خدمت اسلام کے لئے ہم قرین مصلحت سمجھیں اور دشمن غالب ہونے کے لئے مفید خیال کریں وہی بجالا ویں جیسا کہ وہ عزاسمہ فرماتا وَاعِدُّوْالَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ (الانفال : (61) یعنی دینی دشمنوں کے لئے ہر ایک قسم کی طیاری جو کر سکتے ہو کرو اور اعلاء کلمہ اسلام کے لئے جو قوت لگا سکتے ہول گاؤ.اب دیکھو کہ یہ آیت کریمہ کس قدر بلند آواز سے ہدایت فرما رہی ہے کہ جو تدبیریں خدمت اسلام کے لئے کارگر ہوں سب بجالا ؤ اور تمام قوت اپنے فکر کی ، اپنے بازو کی ، اپنی مالی طاقت کی ، اپنے احسن انتظام کی ، اپنی تدبیر شائستہ کی اس راہ میں خرچ کرو تا تم فتح پاؤ.اب نادان اور اندھے اور دشمن دین مولوی اس صرف قوت اور حکمت عملی کا نام بدعت رکھتے ہیں.اس وقت کے یہ لوگ عالم کہلاتے ہیں جن کو قرآن کریم کی ہی خبر نہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پر اسلام کی تبلیغ کے لئے حسن انتظام بدعت نہیں کہلا سکتا 66 ہے اس آیت موصوفہ بالا پر غور کرنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ برطبق حدیث نبوی کہ انما الأعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کوئی احسن انتظام اسلام کی خدمت کے لئے سوچنا بدعت اور ضلالت میں داخل نہیں ہے جیسے جیسے بوجہ تبدل زمانہ کے اسلام کوئی نئی صورتیں مشکلات کی پیش آتی یانئے نئے
فقه المسيح 549 جلسہ سالانہ کا انعقاد طور پر ہم لوگوں پر مخالفوں کے حملے ہوتے ہیں ویسی ہی ہمیں نئی تدبیریں کرنی پڑتی ہیں.پس اگر حالت موجودہ کے موافق ان حملوں کے روکنے کی کوئی تدبیر اور تدارک سوچیں تو وہ ایک تدبیر ہے بدعات سے اس کو کچھ تعلق نہیں اور ممکن ہے کہ باعث انقلاب زمانہ کے ہمیں بعض ایسی نئی مشکلات پیش آجائیں جو ہمارے سید و مولی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس رنگ اور طرز کی مشکلات پیش نہ آئی ہوں مثلاً ہم اس وقت کی لڑائیوں میں پہلی طرز کو جو مسنون ہے اختیار نہیں کر سکتے کیونکہ اس زمانہ میں طریق جنگ و جدل بالکل بدل گیا ہے اور پہلے ہتھیار بریکار ہو گئے اور نئے ہتھیار لڑائیوں کے پیدا ہوئے.اب اگر ان ہتھیاروں کو پکڑنا اور اُٹھانا اور اُن سے کام لینا ملوک اسلام بدعت سمجھیں اور میاں رحیم بخش جیسے مولوی کی بات پر کان دھر کے ان اسلحہ جدیدہ کا استعمال کرنا ضلالت اور معصیت خیال کریں اور یہ کہیں کہ یہ وہ طریق جنگ ہے کہ نہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا اور نہ صحابہ اور تابعین نے تو فرمائیے کہ بجز اس کے کہ ایک ذلّت کے ساتھ اپنی ٹوٹی پھوٹی سلطنتوں سے الگ کئے جائیں اور دشمن فتح یاب ہو جائے ، کوئی اور بھی اس کا نتیجہ ہو گا.پس ایسے مقامات تدبیر او را نتظام میں خواہ وہ مشابہ جنگ و جدل ظاہری ہو یا باطنی اور خواہ تلوار کی لڑائی ہو یا قلم کی، ہماری ہدایت پانے کے لئے یہ آیت کریمہ موصوفہ بالا کافی ہے یعنی یہ کہ وَاَعِدُّوالَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ (الانفال: 61) اللہ جل شانہ اس آیت میں ہمیں عام اختیار دیتا ہے کہ دشمن کے مقابل پر جو احسن تدبیر تمہیں معلوم ہو اور جو طرز تمہیں مؤثر اور بہتر دکھائی دے وہی طریق اختیار کرو.پس اب ظاہر ہے کہ اس احسن انتظام کا نام بدعت اور معصیت رکھنا اور انصار دین کو جو دن رات اعلاء کلمہ اسلام کے فکر میں ہیں جن کی نسبت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حُبُّ الْأَنْصَارِ مِنَ الإيمان ان کو مرد و دٹھہرانا نیک طینت انسانوں کا کام نہیں ہے بلکہ درحقیقت یہ ان لوگوں کا کام ہے جن کی روحانی صورتیں مسخ شدہ ہیں اور اگر یہ کہو کہ یہ حدیث حُبُّ الْأَنْصَارِ مِنَ
فقه المسيح 550 جلسہ سالانہ کا انعقاد الْإِيمَانِ وَبُغْضُ الأَنْصَارِ مِنَ النِّفَاقِ یعنی انصار کی محبت ایمان کی نشانی اور انصار سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے.یہ ان انصار کے حق میں ہے جو مدینہ کے رہنے والے تھے نہ عام اور تمام انصار تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ جو اس زمانہ کے بعد انصار رسول اللہ ہوں ان سے بغض رکھنا جائز ہے.نہیں نہیں بلکہ یہ حدیث گو ایک خاص گروہ کے لئے فرمائی گئی مگر اپنے اند رعموم کا فائدہ رکھتی ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں اکثر آیتیں خاص گروہ کے لئے نازل ہوئیں مگران کا مصداق عام قرار دیا گیا ہے.غرض ایسے لوگ جو مولوی کہلاتے ہیں انصار دین کے دشمن اور یہودیوں کے قدموں پر چل رہے ہیں مگر ہمارا یہ قول کی نہیں ہے، راستباز علماء اس سے باہر ہیں.صرف خاص مولویوں کی نسبت یہ لکھا گیا ہے.ہر یک مسلمان کو دعا کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ جلد اسلام کو ان خائن مولویوں کے وجود سے رہائی بخشے کیونکہ اسلام پر اب ایک نازک وقت ہے اور یه نادان دوست اسلام پر ٹھٹھا اور بنسی کرانا چاہتے ہیں اور ایسی باتیں کرتے ہیں جو صریح ہر یک شخص کے نور قلب کو خلاف صداقت نظر آتی ہیں.امام بخاری پر اللہ تعالیٰ رحمت کرے.انہوں نے اس بارے میں بھی اپنی کتاب میں ایک باب باندھا ہے.چنانچہ وہ اس باب میں لکھتے ہیں.قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ حَدِثُو النَّاسَ بِمَا يَعْرِفُونَ اتُحِبُّونَ أَنْ يُكَذَّبَ اللهُ وَرَسُولُهُ اور بخاری کے حاشیہ میں اس کی شرح میں لکھا ہے آئی تَكَلَّمُوا النَّاسَ عَلَى قَدْرِ عُقُولِهِمُ یعنی لوگوں سے اللہ اور رسول کے فرمودہ کی وہ باتیں کرو جو اُن کو سمجھ جائیں اور ان کو معقول دکھائی دیں.خوانخواہ اللہ رسول کی تکذیب مت کراؤ.اب ظاہر ہے کہ جو مخالف اس بات کو سنے گا کہ مولوی صاحبوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ بجز تین مسجدوں یا ایک دو اور محل کے اور کسی طرف سفر جائز نہیں.ایسا مخالف اسلام پر ہنسے گا اور شارع علیہ السلام کی تعلیم میں نقص نکالنے کے لئے اس کو موقع ملے گا.اس کو یہ تو خبر نہیں ہوگی کہ کسی بخل کی بناء پر یہ صرف مولوی کی شرارت ہے یا اس کی بے وقوفی ہے وہ تو سیدھا ہمارے سید ومولے ملے پر حملہ آور ہو گا جیسا کہ
فقه المسيح 551 جلسہ سالانہ کا انعقاد انہیں مولویوں کی ایسی ہی کئی مفسدانہ باتوں سے عیسائیوں کو بہت مدد پہنچ گئی.مثلاً جب مولویوں نے اپنے منہ سے اقرار کیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو نعوذ باللہ مردہ ہیں مگر حضرت عیسی قیامت تک زندہ ہیں تو وہ لوگ اہل اسلام پر سوار ہو گئے اور ہزاروں سادہ لوحوں کو انہوں نے انہیں باتوں سے گمراہ کیا اور ان بے تمیزوں نے یہ نہیں سمجھا کہ انبیاء تو سب زندہ ہیں مُردہ تو اُن میں سے کوئی بھی نہیں.معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی کی لاش نظر نہ آئی سب زندہ تھے.دیکھئے اللہ جلشانہ اپنے نبی کریم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کی قرآن کریم میں خبر دیتا ہے اور فرماتا ہے فَلا تَكُنُ فِي مِرْيَةٍ مِّنْ لقَائِه (السجدة : 24) اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہونے کے بعد اپنازندہ ہوجانا اور آسمان پر اُٹھائے جانا اور رفیق اعلیٰ کو جاملنا بیان فرماتے ہیں.پھر حضرت مسیح کی زندگی میں کون سی انوکھی بات ہے جو دوسروں میں نہیں.معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نبیوں کو برابر زندہ پایا اور حضرت عیسی کو حضرت بیٹی کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھا.خدا تعالیٰ مولوی عبدالحق محدث دہلوی پر رحم کرے وہ ایک محدث وقت کا قول لکھتے ہیں کہ ان کا یہی مذہب ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہو کر کسی دوسرے نبی کی حیات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات سے قوی تر سمجھے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے یا شاید یہ لکھا ہے کہ قریب ہے کہ وہ کا فر ہو جائے لیکن یہ مولوی ایسے فتنوں سے باز نہیں آتے اور محض اس عاجز سے مخالفت ظاہر کرنے کے لئے دین سے نکلتے جاتے ہیں.خدا تعالیٰ ان سب کو صفحہ زمین سے اُٹھا لے تو بہتر ہے تا دین اسلام ان کی تحریفوں سے بچ جائے.ذرا انصاف کرنے کا محل ہے کہ صد ہا لوگ طلب علم یا ملاقات کے لئے نذیر حسین خشک معلم کے پاس دہلی میں جائیں اور وہ سفر جائز ہو اور پھر خود نذیرحسین صاحب بٹالوی صاحب کا ولیمہ کھانے کے لئے بدیں عمر و پیرانہ سالی دوسوکوس کا سفر اختیار کر کے بٹالہ میں پہنچیں اور وہ سفر بالکل روا ہو اور پھر شیخ بٹالوی صاحب سال بسال انگریزوں کے ملنے کیلئے
فقه المسيح 552 جلسہ سالانہ کا انعقاد شملہ کی طرف دوڑتے جائیں تا دنیوی عزت حاصل کرلیں اور وہ سفر ممنوع اور حرام شمار نہ کیا جائے اور ایسا ہی بعض مولوی وعظ کا نام لے کر پیٹ بھرنے کے لئے مشرق اور مغرب کی طرف گھومتے پھریں اور وہ سفر جائے اعتراض نہ ہو اور کوئی ان لوگوں پر بدعتی اور بداعمال اور مردود ہونے کے فتوے نہ دے مگر جبکہ یہ عاجز باذن و امرالہی دعوت حق کے لئے مامور ہو کر طلب علم کے لئے اپنی جماعت کے لوگوں کو بلاوے تو وہ سفر حرام ہو جائے اور یہ عاجز اس فعل کی وجہ سے مردود کہلاوے.کیا یہ تقویٰ اور خدا ترسی کا طریق ہے.ہر زمانہ انتظامات جدیدہ کو چاہتا ہے افسوس کہ یہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ تدبیر اور انتظام کو بدعات کی مد میں داخل نہیں کر سکتے.ہر یک وقت اور زمانہ انتظامات جدیدہ کو چاہتا ہے.اگر مشکلات کی جدید صورتیں پیش آویں تو بجز جدید طور کی تدبیروں کے اور ہم کیا کر سکتے ہیں.پس کیا یہ تدبیریں بدعات میں داخل ہو جائیں گی.جب اصل سنت محفوظ ہو اور اسی کی حفاظت کیلئے بعض تدابیر کی ہمیں حاجت پڑے تو کیا وہ تدابیر بدعت کہلائیں گی معاذ اللہ ہر گز نہیں.بدعت وہ ہے جو اپنی حقیقت میں سنت نبویہ کے معارض اور نقیض واقع ہوں اور آثار نبویہ میں اس کام کے کرنے کے بارے میں زجر اور تہدید پائی جائے اور اگر صرف جدت انتظام اور نئی تدبیر پر بدعت کا نام رکھنا ہے تو پھر اسلام میں بدعتوں کو گنتے جاؤ کچھ شمار بھی ہے.علم صرف بھی بدعت ہوگا اور علم نحو بھی اور علم کلام بھی اور حدیث کا لکھنا اور اس کا مبوب اور مرتب کرنا سب بدعات ہوں گے.ایسا ہی ریل کی سواری میں چڑھنا، گلوں کا کپڑا پہنا، ڈاک میں خط ڈالنا، تار کے ذریعہ سے کوئی خبر منگوانا اور بندوق اور توپوں سے لڑائی کرنا تمام یہ کام بدعات میں داخل ہوں گے بلکہ بندوق اور توپوں سے لڑائی کرنا نہ صرف بدعت بلکہ ایک گناہ عظیم ٹھہرے گا کیونکہ ایک حدیث صحیح میں ہے کہ آگ کے عذاب سے کسی کو ہلاک کرنا سخت ممنوع ہے.صحابہ سے زیادہ سنت کا متبع کون
فقه المسيح 553 جلسہ سالانہ کا انعقاد ہوسکتا ہے مگر انہوں نے بھی سنت کے وہ معنے نہ سمجھے جو میاں رحیم بخش صاحب نے سمجھے انہوں نے تدبیر اور انتظام کے طور پر بہت سے ایسے کام کئے کہ جو نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے اور نہ قرآن کریم میں وارد ہوئے.“ حضرت عمرؓ کے محدثات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی محدثات ہی دیکھو جن کا ایک رسالہ بنتا ہے.اسلام کے لئے ہجری تاریخ انہوں نے مقرر کی اور شہروں کی حفاظت کے لئے کو تو ال مقرر کئے اور بیت المال کے لئے ایک باضابطہ دفتر تجویز کیا.جنگی فوج کے لئے قواعد رخصت اور حاضری ٹھہرائے اور ان کے لڑنے کے دستور مقرر کئے اور مقدمات مال وغیرہ کے رجوع کے لئے خاص خاص ہدائتیں مرتب کیں اور حفاظت رعایا کے لئے بہت سے قواعدا اپنی طرف سے تجویز کر کے شائع کئے اور خود کبھی کبھی اپنے عہد خلافت میں پوشیدہ طور پر رات کو پھر نا اور رعایا کا حال اس طرح سے معلوم کرنا اپنا خاص کام ٹھہرایا.لیکن کوئی ایسانیا کام اس عاجز نے تو نہیں کیا.صرف طلب علم اور مشورہ امدا د اسلام اور ملاقات اخوان کے لئے یہ جلسہ تجویز کیا.رہا مکان کا بنانا تو اگر کوئی مکان به نیت مہمانداری اور بہ نیت آرام هر یک صادر ووارد بنانا حرام ہے تو اس پر کوئی حدیث یا آیت پیش کرنی چاہیے اور اخویم حکیم نورالدین صاحب نے کیا گناہ کیا کہ محض اللہ اس سلسلہ کی جماعت کے لئے ایک مکان بنوا دیا.جو شخص اپنی تمام طاقت اور اپنے مال عزیز سے دین کی خدمت کر رہا ہے اس کو جائے اعتراض ٹھہرانا کس قسم کی ایمانداری ہے.اے حضرات مرنے کے بعد معلوم ہوگا ، ذرا صبر کرو.وہ وقت آتا ہے کہ ان سب منہ زوریوں سے سوال کئے جاؤ گے.آپ لوگ ہمیشہ یہ حدیث پڑھتے ہیں کہ جس نے اپنے وقت کے امام کو شناخت نہ کیا اور مر گیا وہ جاہلیت کی موت پر مرالیکن اس کی آپ کو کچھ بھی پرواہ نہیں کہ ایک شخص عین وقت پر یعنی چودھویں صدی کے سر پر آیا اور نہ صرف چودھویں صدی بلکہ عین
فقه المسيح 554 جلسہ سالانہ کا انعقاد ضلالت کے وقت اور عیسائیت اور فلسفہ کے غلبہ میں اس نے ظہور کیا اور بتلایا کہ میں امام وقت ہوں اور آپ لوگ اس کے منکر ہو گئے اور اس کا نام کافر اور دقبال رکھا اور اپنے بد خا تمہ سے ذرا خوف نہ کیا اور جاہلیت پر مرنا پسند کیا.اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی کہ تم پنجوقت نمازوں میں یہ دعا پڑھا کرو کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم اے ہمارے خدا اپنے منعم علیہم بندوں کی ہمیں راہ بتا.وہ کون ہیں.نبی اور صدیق اور شہید اور صلحاء.اس دُعا کا خلاصہ مطلب یہی تھا کہ ان چاروں گروہوں میں سے جس کا زمانہ تم پاؤ اس کے سایۂ صحبت میں آجاؤ اور اس سے فیض حاصل کرو.لیکن اس زمانہ کے مولویوں نے اس آیت پر خوب عمل کیا.آفرین آفرین میں ان کو کس سے تشبیہ دوں.وہ اس اندھے سے مشابہ ہیں جو دوسروں کی آنکھوں کا علاج کرنے کے لئے بہت زور کے ساتھ لاف و گزاف مارتا ہے اور اپنی نا بینائی سے غافل ہے.بالآخر میں یہ بھی ظاہر کرتا ہوں کہ اگر مولوی رحیم بخش صاحب اب بھی اس فتویٰ سے رجوع نہ کریں تو میں ان کو اللہ جلشانہ کی قسم دیتا ہوں کہ اگر وہ طالب حق ہیں تو اس بات کے تصفیہ کے لئے میرے پاس قادیان میں آجائیں میں ان کی آمد ورفت کا خرچ دے دوں گا اور ان پر کتا بیں کھول کر اور قرآن اور حدیث دکھلا کر ثابت کر دوں گا کہ یہ فتویٰ ان کا سراسر باطل اور شیطانی اغوا سے ہے.والسلام علیٰ من اتبع الهدی.17 دسمبر 1892ء خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور مطبوعہ ریاض ہند“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 605 تا 612)