Language: UR
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کو ملنے والی الہامی پیش گوئی بابت عظیم الشان موعود بیٹے کے حقیقی مصداق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کلام اللہ کا مرتبہ دنیاپر ظاہر کرنے کے لئے غیر معمولی لٹریچر پیدا فرمایا۔ اسی پس منظر میں آپ ؓنے جلسہ سالانہ 1928ء کے موقع پر فضائل القرآن کے موضوع پر عظیم الشان تقاریر کا ایک سلسلہ شروع فرمایا جو کئی سال تک چلتا رہا۔ اس سلسلہ کی چَھٹی اور آخری تقریر حضور ؓ نے 28 دسمبر 1936ء کو فرمائی۔ ان تقاریر میں آپ نے قرآن شریف کے علوم و معارف اور انوار و محاسن کچھ اس انداز میں بیان فرمائے ہیں کہ پڑھنے والے پر قرآنی فضلیت آشکارہوتی چلی جاتی ہے اور وہ اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ ان تقاریر میں بیان فرمودہ مضامین اپنی بلندی ، گہرائی اور وسعت کے اعتبار سے غیر معمولی ہیں۔الغرض یہ سلسلہ تقاریر ضرورتِ قرآن، نزولِ قرآن،حفاظتِ قرآن ، مستشرقین کے اعتراضات ، محکم و متشابہ آیات وغیرہ کے بارہ میں بصیرت افروز روشنی سے بھرپور ہے۔
فضائل القرآن تقاریر سید مرزا احمدا رنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود حمد المصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی الناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان
فضائل القرآن حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی سن اشاعت کمپوزڈ باراول : 2012 ء تعداد مطبع ناشر 1000 فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر واشاعت صدرا انجمن احمد یہ قادیان ، ضلع گورداسپور ، پنجاب، انڈیا.143516 ISBN: 978-81-7912-275-4 FAZAILUL QURAN Speeches Delivered by: Hadhrat Mirza Bashiruddin Mahmud Ahmad Khalifatul Masih II (ra)
بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ سید نا حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام سے جب قادیان کے ہندوؤں اور آریوں نے نشان نمائی کا مطالبہ کیا تو آپ باز نہ تعالیٰ ہوشیار پور تشریف لے گئے جہاں پر آپ کو بہت سی صفات محمودہ کے حامل ایک موعود بیٹے کی بشارت دی گئی جو " پیشگوئی مصلح موعود " کے نام سے جماعت احمدیہ میں معروف و مشہور ہے.اللہ تعالی نے اپنے وعدہ کے مطابق حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد الصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بابرکت وجود میں اس پیشگوئی کے ہر حصہ کو بڑی شان سے پورا فرمایا.پیشگوئی میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ فرزند دلبند علومِ ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور اس کے آنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ تادین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو “ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ساری زندگی اس مقصد کو پورا کرتے ہوئے کلام اللہ یعنی قرآن کریم کی خدمت میں گزری ہے.آپ نے قرآن کریم کی بے لوث خدمت کی ہے.قرآن مجید کے ترجمہ اور مختصر تفسیر کی صورت میں تفسیر صغیر، قرآن کریم کی منتخب سورتوں کی پر معارف تفسیر کے ساتھ تفسیر کبیر، فضائل القرآن اور آپ کی بے شمار تقام میراس کا واضح ثبوت ہیں.سیدنا حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضائل القرآن “ کے موضوع پر چھ عظیم الشان تقاریر اس مجموعہ کے ذریعہ احباب جماعت کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں.یہ تقریریں انوار العلوم کی مختلف جلدوں میں شائع ہوئی ہیں.احباب جماعت کی سہولت کی خاطر ان کو یکجائی صورت میں کتابی شکل میں شائع کیا جا رہا ہے.
۱۹۲۸ء کے جلسہ سالانہ پر حضور نے ان تقاریر کے سلسلہ کا آغاز فرمایا اور ۲۸ دسمبر ۱۹۳۸ء کو حضور نے اس بلند پای علمی موضوع پر چھٹی تقریر فرمائی.ان تقاریر میں آپ نے قرآن کریم کے حقائق و معارف اور اس کے اسرار مخفیہ سے تعلق رکھنے والے علوم کے خزانوں پر مشتمل مضامین بیان فرمائے ہیں.ان تقاریر میں قرآن کریم کی عظمت اور عالی مرتبت اور اس کے معانی و تفاسیر کا ایک نیا اور دلکش اسلوب نظر آتا ہے.آپ نے تفسیر القرآن کے ایسے مؤثر اصول پیش فرمائے ہیں جو عدیم المثال ہیں.سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے نظارت نشر و اشاعت قادیان کتاب" فضائل القرآن “ کو پہلی بار کمپوز کر واکر افادہ عام کے لئے شائع کر رہی ہے.الحمد للہ.اللہ تعالی اس کتاب کی اشاعت کو ہر لحاظ سے باہرکت کرے.آمین اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نور قرآن سے منور کر دے اور اس نادر خزانہ سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین خاکار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر واشاعت قادیان
صفحہ 1 32 118 197 262 347 فہرست تقاریر عنوان قرآن کریم کی سابقہ الہامی کتب پر فضیلت (۲۸ دسمبر ۱۹۲۸ء) قرآن کریم کی افضلیت کی عقلی شواہد (۲۹ دسمبر ۱۹۲۹ء) صدقہ و خیرات اور حقوق العباد کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم (۲۸ دسمبر ۱۹۳۰) قرآن کریم کو ہی کلام اللہ ہونے کا شرف حاصل ہے (۲۸ / دسمبر ۱۹۳۱ء) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق پیشگوئیاں (۲۸ / دسمبر ۱۹۳۲ء) ترتیب قرآن اور استعارات کی حقیقت (۲۸ دسمبر ۱۹۳۶ء) رشمار
نمبر شمار مضمون بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ فہرست مضامین صفحہ نمبر شمار مضمون قرآن کریم کی سابقہ الہامی کتب پر فضلیت 19 قرآن کریم کے روحانی کمالات اور مستشرقین یورپ کے خیالات کا رڈ قرآنی مطالب پر غور کرنے کیلئے بعض اصولی باتیں ضرورت قرآن 2 3 ۲۰ آخری شرعی کلام ۲۱ عربی زبان اختیار کرنے کی وجہ پہلی تعلیموں کے نقائص کا اصولی رڈ اور صحیح } اصول کا بیان قرآن کریم کی سچائی کے ثبوت ۲۴ قرآن کریم کے اثرات ۲۵ متشابہات کا حل ۴ قرآن کریم کی وحی کس طرح نازل ہوئی ؟ 4 ۵ جمع قرآن پر بحث Y Z A حفاظت قرآن کریم کا مسئلہ قرآن کریم کا پہلی کتب سے تعلق قرآن کریم کی پہلی کتب سے تصدیق و ترتیب قرآن ۱۰ ناسخ و منسوخ کی بحث || ۱۲ ۱۳ نزول قرآن کا مقصد اور اُس کا پورا ہونا فطرت انسانی کے مطابق تعلیم فہم قرآن کے اصل ۱۴ قرآن کریم کو پہلی کتب کا مصدق کن ۱۵ معنوں میں کہا گیا ہے 5 15 6 6 7 7 00 00 8 8 00 9 ۲۶ حروف مقطعات کا حل ۲۷ سات قرآتوں سے کیا مراد ہے؟ ۲۸ خلق قرآن کا مسئلہ ۲۹ قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے صفحہ 10 10 10 11 11 11 11 11 12 12 12 ۳۰ قرآن کریم رکن کن علوم کا ذکر کرتا ہے؟ 12 ۳۱ قرآن کریم ذوالمعارف ہے ۳۲ قرآن کریم کامل کتاب ہے ۳۳ قرآن کریم کی فصاحت 13 13 13 ۳۴ قرآن کریم کا دوسری الہامی کتابوں سے مقابلہ 13 پرانے واقعات کے بیان کرنے کی غرض 9 ۳۵ ایک بے نظیر روحانی ، جسمانی تمدنی اور ۱۶ قسموں کی حقیقت 0 سیاسی قانون ۱۷ معجزات پر بحث 9 قرآن کریم کے استعارات ۱۸ خدا تعالیٰ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں 10 ۳۷ تراجم قرآن کی ضرورت 13 13 14
صفحہ 37 37 38 38 39 39 39 39 40 40 40 40 نمبر شمار مضمون ۳۸ حفاظت قرآن کے ذرائع ۳۹ قرآن کریم کو شعر کیوں کہا گیا ؟ ۴۰ قرآن کریم آہستہ آہستہ کیوں نائل ہوا؟ صفحہ نمبر شمار 14 ☑☑ 14 14 مضمون ۵۷ تمام وجوہ کمال میں افضل کتاب ۵۸ جواہرات کی کان ۴۱ قرآن کریم کا کوئی ترجمہ اس کے مضامین ۶۰ منبع کی افضلیت ۵۹ قرآنی فضلیت کے چھیں وجوہ پر حاوی نہیں ہو سکتا ۴۲ قرآن کریم کے تمام الفاظ الہامی ہیں 14 15 ذاتی قابلیت کے لحاظ سے فضلیت ۶۲ نتائج کے لحاظ سے فضلیت قرآن کریم ہر قسم کے شیطانی کام سے منزہ ہے 15 شدت فائدہ کے لحاظ سے فضلیت 16 ۶۴ کثرت فوائد کے لحاظ سے فضلیت 40 40 م ۴۴ قرآن کریم کے مخاطب کون تھے؟ ۴۵ قرآن کریم کا ترجمہ لفظی ہونا چاہئے یا با محاورہ 16 وسعت نفع کے لحاظ سے فضلیت ۵۲ قرآن کریم پر مستشرقین یورپ کا حملہ کے ۴۷ عیسائیوں کی مزق را نہ چائیں ۴۸ قرآن کریم کا نزول چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں ۴۹ جمع قرآن پر اعتراضات ۵۰ مخالفین کے اعتراضات کے جوابات ۵۱ محکمات اور متشابہات سارے قرآن کو محکم اور سارے قرآن کو متشابہ کیوں کہا گیا ؟ ۵۳ قرآن کریم کی کُتب سابقہ پر افضلیت کے عقلی اور نقلی شواہد ۵۴ اسلام کا مغز اور اس کی جان ۵۵ تمام ادیان اور کتب الہامیہ پر قرآن کریم کی فضلیت ۵۶ قرآن کریم ایک روحانی خزانہ ہے 16 17 معیاد نفع کے لحاظ سے فضلیت ۶۷ نفع اٹھانے والوں کے مقام کے لحاظ سے 19 22 ۶۹ 23 27 29 33 33 34 35 35 فضلیت نفع اٹھانے والوں کی اقسام کے لحاظ سے فضلیت کھوٹ سے مبر" اہونے کے لحاظ سے فضلیت یقینی فوائد کے لحاظ سے فضلیت ا ظاہری حسن کے لحاظ سے فضلیت ضروری امور کو نقصان نہ پہچانے کے لحاظ ے فضلیت فوائد کے سہل الحصول ہونے کے لحاظ سے فضلیت م کے ۷۴ ضروریات پوری کرنے میں یکتا ہونے کے لحاظ سے فضلیت 41 41 41 42 42 42
نمبر شمار مضمون صفحہ مضمون ۷۵ اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لحاظ سے فضیت 42 ۹۳ قرآن کریم کی تعظیم الشان پیشگوئی حفاظت میں آسانی ہونے کے لحاظ سے فضیت 43 ۹۴ قلم کے ذریعہ ہر قسم کے علوم کا اظہار ۷۷ نفع کے لحاظ سے فضلیت 43 ۹۵ نئے نئے علوم کی ترویج صفحہ 52 55 56 ہر قسم کے نقصان سے مبز ا ہونے کے لحاظ ۹۶ قرآن کریم کی افضلیت کی ایک اور شہادت 57 سے فضلیت و دعوت عام کے لحاظ سے فضلیت علاج الامراض کے لحاظ سے فضلیت ۱ زائد فوائد کے لحاظ سے فضلیت ۸۳ ۸۴ 43 77 43 9A 44 44 مطمح نظر کی وسعت کے لحاظ سے فضلیت 44 روحانی علماء کے ذریعہ قرآن کریم کے مشکل مقامات کا حل کشف پیدائش عالم کے متعلق ابن عربی ” کا ایک 99 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چیلنج 58 58 59 دوسری کتب سے مستغنی کرنے کے لحاظ ۱۰۰ قرآن دعوئی کے ساتھ دلیل بھی پیش کرتا ہے 59 سے فضلیت صحیح علوم کی طرف راہنمائی کرنے کے لحاظ سے فضلیت 45 45 ۸۵ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لحاظ سے فضلیت 45 قرآن کریم کا دعوی اور افضلیت ۸۷ تو رات میں ایک نئی شریعت نازل ہونے کی پیشگوئی 46 47 ۱۰۱ اخلاق کے متعلق قرآن کریم کی بے نظیر ۱۰۲ حقیقت نبوت کا اثبات ۱۰۳ قرآن کریم میں اعلیٰ درجہ کی ترتیب ۱۰۴ قرآنی قصص میں آئندہ زمانے کیلئے پیشگوئیاں 60 88 60 61 61 مقرب قیامت والی پیشگوئیوں کا صحیح مفہوم 61 حضرت موسی علیہ السلام کی پیشگوئی کے ۱۰۶ تمام مذاہب باطلہ کا رو مصداق ہونے کا دعویٰ 48 ۷ ۱۰ اپنی ذات میں کامل کتاب ۸۹ منبع کے لحاظ سے قرآن کریم کی افضلیت ۱۰۸ اعلی درجہ کی روحانی ترقیات عطا کرنے کا ثبوت 49 ۹۰ قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے کے تین دلائل 50 ۹۱ آیت اور بہینہ میں فرق ۹۲ قرآن کریم کے بینہ ہونے کا ثبوت والی کتاب ۱۰۹ بعث بعد الموت کی حقیقت 1+9 51 51 ۱۱۰ مطہر کی تعریف 111 ایک سوال کا جواب 62 62 62 28 63 63 63 88
نمبر شمار مضمون ۱۱۲ صفات الہیہ اور اُن کی مظہریت ۱۱۳ ظاہری حسن میں برتری ۱۱۴ عیسائیوں کے چار اعتراضات ۱۱۵ قرآنی زبان کی فصاحت ۱۱ قرآن کریم میں غیر زبانوں کے الفاظ ۱۱۷ لفظ رحمن کی حقیقت ۱۱ اہلِ عرب میں رحمن کا استعمال 119 قرآن کریم کی اعلیٰ درجہ کی ترتیب ۱۲۰ ترتیب قرآن کی چند خصوصیات ۱۴۱ صفحہ نمبر شمار مضمون صفحہ 65 ۱۳ 65 65 66 68 68 69 70 70 ۱۳۳ افضلیت کی تیسری وجہ مذہب کی پانچ ضرورتیں ۱۳۵ بندوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی صفات الہیہ کا ثبوت ۱۳۹ خدا تعالیٰ کی بعض صفات جوڑے کی حیثیت رکھتی ہیں ۱۳۷ خدا تعالیٰ کے رب العالمین ہونے کا روحانی ثبوت ۱۳۸ پہلی کتب میں قرآن کریم کی موجودگی کے معنى مختصر آیات میں حقائق و معارف کی کثرت 72 اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ کی لطیف ۱۳۹ صفات الہیہ کی تشریح بھی خدا تعالیٰ کی تفسیر ۱۲۳ قرآن کریم کی منتقی عبارت ۱۲۴ سورۃ جمعہ کی ابتدائی آیت کی تفسیر ۱۲۵ قرآن آیات کا لطیف توازن ۱۲۶ قرآن کریم میں ذکر الہی کی کثرت ۱۲۷ سخت کلامی سے مہر اکتاب ۱۳۸ فحش کلامی اور ہر قسم کی بد اخلاقی سے منزہ کتاب 73 74 75 77 77 78 79 83 83 84 85 88 89 طرف سے ہونی چاہئے ۱۴۰ انسان کی روحانی طاقتوں کا بیان 89 91 وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ كي لطيف تفسیر 92 ۱۴۲ سپر چولزم اور ہپنا ٹزم والوں کو چیلنج 94 ۱۴۳ فطرت انسانی کی روحانی طاقتوں کا اظہار 96 کلام الہی کے بغیر نہیں ہو سکتا ۱۴۴ سفر ولایت کے ایام کا ایک واقعہ 40 ۱۴۵ کتاب مبین اور کتاب مکنون کا اتحاد 97 98 IMY ۱۲۹ ظاہر سے باطن کی طرف لے جانے والا کلام 80 روحانی طاقتوں کی تکمیل کیلئے کامل تعلیم 100 ۱۳۰ جذبات انسانی سے اپیل ۱۳۱ قرآن کریم میں تکرار پانے جانے کا اعتراض ۱۳۲ موت کا فلسفہ 80 81 82 ۱۴۷ روحانی نتائج کا ظہار ۱۴۸ غیر مذاہب کا بے اصلاین ۱۴۹ قرآنی تعلیم کے مکمل ہونے کا ایک واضح ثبوت 102 102 103
نمبر شمار مضمون ۱۵۰ عالم معاد کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم 104 ۱۵۱ خدا تعالیٰ سے اتصال پیدا کرنے اور روحانی طاقتوں کو تکمیل تک پہنچانے والا مذہب ۱۵۲ آخرت سے آواز صفحہ نمبر شمار مضمون صفحہ ۱۲۸ احمدیت کا پیغام ابھی ساری دنیا میں نہیں پہنچ 105 106 108 ۱۶۹ سفارشات 124 125 ۱۷۰ احمدی تاجروں کے ساتھ ہر رنگ میں تعاون کی ضرورت 126 ۱۵۵ ملائکہ سے مومنوں کا تعلق ۱۵۶ فائدہ کی شدت کے لحاظ سے قرآن کریم کی فضلیت ۱۵۳ ایفائے وعدہ کا ثبوت ۱۵۴ رضائے الہی حاصل کرنے والا کامیاب 11 تعاون با ہمی کے اصول پر ایک کمپنی قائم گرود 108 109 کرنے کی تجویز ۱۷۲ کے مضمون کے اہمیت 128 128 ۱۷ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک 110 ارادہ کو پورا کرنے کی کوشش ۱۵۹ ریوبیت عالمین کا بلند تصور ۱۲۰ دوستوں کا چاہئے کہ قرآن کریم کو اپنا دستور العمل بنائیں ۱۵۷ انبیاء اور صدیقین وغیرہ کی معیت کا مفہوم 111 ۱۷۴ پچاس وجوہ فضلیت ۱۵۸ ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک کلام 112 113 ۱۷۵ 129 130 قرآن کریم اپنی ہر بات میں افضل ہے 131 ۱۷۲ صدقہ و خیرات کے بارہ میں اسلامی تعلیم کی جامعیت ہر خوبی اور ہر وصف میں یکتاکتاب 114 119 ۱۷۷ صدقہ کے متعلق انجیل کی تعلیم ۱۷۸ صدقہ کے متعلق تو رات کی تعلیم ۱۷۹ صدقہ کے متعلق ویدوں کی تعلیم 131 132 134 135 ۱۶۲ صدقہ و خیرات اور مرد و عورت کے تو تعلقات کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم 119 ۱۶۳ ایک دوست کے چند سوالات کے جوابات 120 ۱۶۴ مسلمان محکوم ہو سکتا ہے نہیں؟ ۱۶۵ عیسائیوں کو کیوں حکومت ملی؟ ۱۶۶ مسیح موعود کی بعثت سے مسلمانوں کو کیا طاقت حاصل ہوئی ؟ ۱۶۷ علی اور خالد کے مثیل 121 122 122 ۱۸۰ اخلاقی معلمین کا قول کہ نیکی کو نیکی کی خاطر کرنا چاہئے 136 ۱۸۱ صدقہ کے مختلف پہلوؤں پر اسلام کی روشنی 136 136 140 ۱۸۲ صدقہ کی مقدار ۱۸۳ اسرف اور بخل سے بچنے کی نصیحت ۱۸۴ صدقہ و خیرات کی تقسیم کے متعلق ہدایات 141 | 123 || ۱۸۵ | الْخَوَانَ الشَّيَاطِيْن کہنے میں حکمت 141
نمبر شمار JAY مضمون صفحہ نمبر شمار مضمون صدقہ دینے کا صحیح طریق 142 ۲۰۶ روحانیت میں بھی رجولیت اور نسائیت کی ۱۸۷ صدقہ کی مختلف اقسام IAA 144 صدقہ ایک قسم کے قرض کی ادئیگی ہے 146 ۱۸۹ صدقہ کے محرکات ۱۹۰ صدقہ کی غرض و غایت ۱۹۱ صدقات سے معذوری کے اصول ۱۹۲ صدقات سے انکار کرنے کا طریق ۱۹۳ صداقات میں کیا چیز دی جائے صفح صفات 169 ۲۰۷ مرد و عورت میں مودت کا مادہ 172 ۲۰۸ مرد و عورت کے ذریعہ ایک مدرسہ رحم کا اجراء 173 ۲۰۹ عورت کو کھیتی قرار دینے میں حکمت تکمیل روحانیت کا زوجیت سے تعلق ۲۱۱ قرآنی فضلیت کی ساتویں وجہ 174 176 177 178 147 149 M 149 150 150 ۲۱۲ حفاظت قرآن کے ذرائع ۱۹۴ غرباء اور امراء دونوں کو صدقہ دینا چاہئے 153 ۲۱۳ ۱۹۵ صدقہ کے مستحقین ۱۹۶ صدقات کی تقسیم کے اصول سناد روحانی کی حتی و قیوم کی صفات پر بنیاد 183 154 ۲۱۴ کتب سابقہ میں تحریف ۲۱۵ حفاظت قرآن اور یورپین مستشرقین 157 184 186 ۱۹۷ صدقہ دینے اور لینے والوں کے تعلقات ۲۱۶ قرآن کریم کی حفاظت کے ظاہری سامان 188 پر بحث 157 ۱۹۸ پر صدقات پر زور لیکن سوال کی ممانعت 158 ۲۱۷ حفاظت قرآن کا دائگی وعدہ ۲۱۸ دوستوں کو ایک نصیحت 192 193 ۱۹۹ عورت اور مرد کے تعلقات پر بحث ۲۰۰ اسلام شادی کو ضروری قرار دیتا ہے 159 161 ۲۱۹ تمام کتب الہامیہ میں سے صرف قرآن کریم کو ہی کلام اللہ ہونے کا شرف حاصل ہے 198 ۲۰۱ حوا کی پیدائش آدم کی پسلی سے نہیں ہوئی 162 ۲۲۰ قرآن کریم کی کتب سابقہ پر فضلیت کی ۲۰۲ خدا تعالیٰ نے اپنی محبت کا مادہ فطرت انسانی میں مخفی کیوں رکھا ۲۰۳ مرد و عورت ایک دوسرے کیلئے سکون کا موجب ہیں ۲۲۱ 165 166 ۲۲۲ آٹھویں دلیل ساتویں دلیل کا بقیہ پہلی الہامی کتب کلام اللہ نہیں تھیں ۲۲۳ وحی الہی کی مختلف اقسام ۲۰۴ روحانی طاقتوں کی جسمانی طاقتوں سے وابستگی 166 ۲۲۴ | پہلی کتب میں بگاڑ پیدا ہونے کی وجہ ۲۰۵ رجولیت یا نسائیت سے متعلق قوتوں کا ۲۲۵ کلام اللہ کے نام میں منفر د کتاب صرف روح سے تعلق 167 قرآن کریم ہے 198 199 200 204 207 208
نمبر شمار مضمون صفحہ نمبر شمار مضمون صفح ۲۴۶ ذنب اور استغفار کی حقیقت ۲۲۶ قرآن کریم کی افضلیت کی آٹھویں دلیل 209 253 ۲۲۷ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے ۲۴۷ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند ترین مقام 256 پہلے کی یا کیر زندگی 212 ۲۴ قرآن کریم کی کتب سابقہ پر فضلیت کی ۲۲۸ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں خدا تعالیٰ کا قرب ۲۲۹ مخالفین اسلام کے اعتراضات کارڈ ۲۳۰ پہلا اعتراض ۲۳۱ دوسرا اعتراض ۲۳۲ تیسرا اعتراض ۲۳۳ چوتھا اعتراض ۲۳۴ پانچواں اعتراض ۲۳۵ چھٹا اعتراض 213 214 214 نویس دلیل ۲۴۹ انبیائے سابقین کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق پیشگوئیاں اور قرآن کریم کی آٹھ اصولی اصلاحات 216 ۲۵۰ دینی مجالس کی اہمیت 217 ۲۵۱ علمی تقدیر کا قائده 217 ۲۵۲ قرآن کریم کی فضلیت پر نویں دلیل 220 ۲۵۳ قرآن کریم کے چھ دعوے 223 ۲۵۳ الفرقان قرآن کریم ہی ہے 263 263 264 267 270 271 273 273 276 ۲۳۶ ساتواں اعتراض ۲۳۷ آٹھواں اعتراض ۲۳۸ نواں اعتراض ۲۳۹ قرآن کریم سے متعلق پانچ دعوے 224 ۲۵۵ اقوام عالم کی شرک سے بیزاری ما 234 ۲۵۶ دنیا کو چیلنج 238 ۲۵۷ قرآن کریم کی پہلی اصولی اصلاح ہستی 239 باری تعالی سے متعلق 278 ۲۴۰ پہلی کتب کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والی ۲۵۸ بعثت محمدی کے متعلق حضرت ابراہیم کی دعا 280 کتاب ۲۴۱ کتب سماویہ کی تفصیل ۲۴۲ دلائل و براہین سے مزین کلام 242 ۲۵۹ حضرت موسی علیہ السلام کی پیشگوئی 245 246 ۲۶۰ حضرت سلیمان علیہ السلام کی پیشگوئی ۲۶۱ یسعیاہ نبی کی پیشگوئی ۲۴۳ قرآن کریم کے ذریعہ صفت رب العالمین ۲۶۲ حقوق نبی کی پیشگوئی 282 284 286 293 کا ظہور ۲۴۴ مفتری ہمیشہ ناکام ہوتا ہے ۲۴۵ 246 248 ۲۶۳ ابو جہل کے قتل کئے جانے کی پیشگوئی جو بڑی شان سے پوری ہوئی وَجَدَكَ ضَالًا فَهَدَى كا صحیح مفہوم 248 ۲۶۴ حضرت مسیح ناصری کی پیشگوئی 303 306
نمبر شمار مضمون ۲۶۵ قانون شریعت اور قانونِ طبعی کی باہم مطابقت کا حیرت انگیز سلسلہ صفحہ نمبر شمار مضمون ۲۸۱ انبیاء کی پیشگوئیوں میں بھی استعارات صفح 316 پائے جاتے ہیں ۲۶۶ طبعی قانون پر خدائے واحد کی حکومت 18 ۲۸۲ ایک لطیفہ ۲۶۷ قرآن کریم کی دوسری اصول اصلاح ۲۶۸ تیسری اصولی اصلاح توحید کے متعلق 329 M49 355 356 320 ۲۸۳ استعارات کو نہ سمجھنے والے طبقہ کی ذہنیت 357 ۲۸۴ علمی مضامین کے سمجھنے میں عوام کی مشکلات 358 چوتھی اصلاح خداتعالی اور بندے کا تعلق 332 ۲۸۵ الہامی کتب کی نرالی ترتیب میں حکمتیں 358 ۲۷۰ پانچویں اصولی اصلاح خدا تعالیٰ کی خالقیت کے متعلق ۲۸۶ قلبی واردات کی دو مثالیں 359 336 ۲۸۷ قرآنی علوم سے فائدہ اُٹھانے کا اصول | 361 ۲۷۱ چھٹی اصولی اصلاح اللہ تعالی کی مالیت کے متعلق 337 ۲۸۸ ہر زبان میں تشبیہہ اور استعارہ کا استعمال 363 ۲۷۲ ساتویں اصولی اصلاح خدا تعالیٰ کی ربوبیت عالمین کے متعلق 340 ۲۸۹ الہامی کتب کے بارہ میں لوگوں کی مشکلات 364 ۲۹۰ وارفتگی کا استثناء ۲۷۳ آٹھویں اصولی اصلاح اللہ تعالیٰ کی صفت ۲۹۱ فلسفی مزاج لوگوں کا حدود سے تجاوز حکیم کے متعلق 341 ۲۹۲ عیسائیوں کی مذہبی کیفیت ۲۷۴ ترتیب قرآن کریم کا مسئلہ اور استعارات ۲۹۳ استعارات کی ضرورت کی حقیقت ۲۷۵ استعارات اور تشبیہات سے پیدا شدہ نماط فہمیوں کے ازالہ کا طریق 348 ۲۹۴ استعاروں کے بغیر بعض مضامین اداری 348 نہیں ہو سکتے ۲۹۵ غلط فہمیاں دور کرنے کے ذرائع 365 365 366 367 371 372 ۲۷ قرآن کریم کے سوا اور کسی کتاب کو افضل ۲۹۶ قرآن کریم اپنے استعاروں کو آپ حل الکتب ہونے کا دعوی نہیں 349 کرتا ہے.۲۷۷ براہین احمدیہ اور مولوی چراغ علی صاحب ۲۹۷ حضرت مسیح کا معجزہ احیائے موتی حیدر آبادی ۲۷۸ الہامی کتاب کے سمجھنے میں ایک دشت ۲۷۹ | استعارات کو حقیقت قرار دینے کا نتیجہ 351 352 353 ۲۸۰ خیط الابیض اور خیط الاسود کا غلط مفہوم 354 ۲۹۸ مجاز اور استعارہ کے بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ۲۹۹ قرآنی استعارات کی ایک مثال 374 376 376 377 مفسرین کی عجیب و غریب قیاس آرائیاں 379
400 403 403 406 406 407 412 141 417 نمبر شمار مضمون پہاڑوں کی تسخیر سے کیا مراد ہے صفحہ نمبر شمار مضمون 381 ۳۱۹ ترتیب مضامین کے لحاظ سے غور پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کے معنی 382 ۳۲۰ ترتیب قرآن کے لحاظ سے خلق طیر اور ۳۰۳ جبال سردار ان قوم کو بھی کہتے ہیں سردارانِ سم 384 پرندوں کی تسبیح کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں 384 ۳۲۱ ۳۰۵ جنات کا ذکر ۳۲۲ 385 ۳۰۶ رسول کریم ﷺ کے پاس جنوں کی آمد 386 احیائے موٹی کے معنی ہد ہر کوئی پرندہ نہیں بلکہ انسان تھا شریعت کا بوجھ انسان کے سوا کسی اور پر نہیں ڈالا گیا ۳۰۷ ان الفاظ کو استعارہ نہ سمجھنے والوں کی ایک ۳۲۳ ظیر کی مختلف اقسام دلیل ۳۰۸ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت 387 ۳۲۴ مومنوں کو ظفر کیوں کہا گیا ہے؟ ۳۲۵ بدید کے متعلق تاریخی تحقیق انسانوں کی طرف تھی نہ کہ جنوں کی طرف 388 ۳۲۶ حضرت مصلح موعود کا دوسرے مذاہب ۳۰۹ جنوں کے انسان ہونے پر بعض اور دلائل 1389 والوں کو چیلنج ۳۱۰ قرآن کریم سے ثبوت کہ جن انسانوں کے ایک گروہ کا ہی نام ہے ۱۱ مومن جنہوں نے رسول کریم یا اللہ کی ، باد 390 ۳۲۷ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا 391 392 393 395 397 398 399 400 کیوں نہ کی؟ ۳۱۲ بنی نوع انسان کے علاوہ دوسری مخلوق شریعت پر ایمان لانے کی پابند نہیں ۳۱۳ متکبر قوموں اور امراء کو بھی جن کہا جاتا ہے ۳۱۴ شملہ سے کیا مراد ہے؟ ۳۱۵ وادی النمل کی تحقیق ۳۱۶ خلق طیر کا مسئلہ ۳۱۷ كَهَيْئَة الطير کا مفہوم ۳۱۸ ایک لطیفہ
فصائل القرآن نمبر...نمبر از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی 1
فصائل القرآن نمبر...2 أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ التَّ اصر (نمبر 1) قرآن کریم کی سابقہ الہامی کتب پر فضیلت اور مستشرقین یورپ کے اعتراضات کارڈ فرموده ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۲۸ء بر موقع جلسه سالانه قادیان) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کے متعلق کوئی حد بندی کرنا یا کوئی حد بندی چاہنا انسانی طاقت سے بالا اور ادب کے منافی ہے.لیکن آج جس وقت نماز جمعہ کے قریب بادل گھر آئے اور تیز بارش برسنے لگی تو باوجود ضعف اور خرابی صحت کے میری طبیعت یہی چاہتی تھی کہ کم از کم جلسہ سب دوستوں
فصائل القرآن نمبر...کے ساتھ مل کر دُعا پر ختم ہو.اللہ تعالیٰ کی طاقتیں تو بہت وسیع ہیں لیکن بندہ گھبرا جاتا ہے.جب بارش تھمنے میں نہ آئی تو میں نے ایک تحریر لکھی اور دوستوں سے کہا کہ اس کی نقلیں کروا کر ابھی کمروں میں پہنچادی جائیں.اس کا مضمون یہ تھا کہ بارش کی وجہ سے چونکہ ہم سب لوگ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے اس لئے سوا پانچ بجے میں دُعا کروں گا سب دوست اپنی اپنی جگہ اس دعا میں شامل ہو جا ئیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ابھی نقلیں ہو ہی رہی تھیں کہ بارش تھم گئی اور میں نے کہلا بھیجا کہ خدا تعالیٰ نے دوسری صورت پیدا کر دی ہے اب نقلیں کروانے کی ضرورت نہیں.قرآنی مطالب پر غور کرنے کے لئے بعض اصولی باتیں مجھے افسوس ہے کہ آج میں اس مضمون کو پوری طرح بیان کرنے کے قابل نہیں جو اس جلسے کے لئے میں نے تجویز کیا تھا.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مضمون کم از کم وقت لے اور اسے خلاصہ بھی بیان کیا جائے تب بھی پانچ چھ گھنٹے میں بیان ہو سکتا ہے.اور اتنی لمبی تقریر موسم کے خراب ہونے اور پھر طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے اس وقت نہیں ہوسکتی.میں نے اس مضمون کو جلسہ سالانہ کے لئے اس وجہ سے چنا تھا کہ یہ مضمون قرآن کریم کے متعلق ہے اور میرا ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہو تو آئندہ جو قرآن کریم کا ترجمہ ہماری طرف سے شائع ہو اس کا اسے دیباچہ بنا دیا جائے.کچھ حصہ ان مضامین کا جلسہ کے موقعہ پر بیان کر دوں اور باقی حصہ میں خود لکھ لوں.لیکن چونکہ اس وقت یہ مضمون تفصیلی طور پر بیان نہیں ہو سکتا اس لئے آج میں اختصار کے ساتھ صرف اتنا ہی بیان کر دیتا ہوں کہ قرآن کریم پر غور کرنے اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے کن کن مطالب پرغور کرنا چاہتے اور یہ کہ عیسائی اور دوسرے غیر مسلم اسلام اور قرآن کریم کے خلاف کتنی کوششیں کر رہے ہیں اور مسلمان اس طرف سے کتنے غافل اور لا پرواہ ہیں.میرے نزدیک قرآن کریم پر مجموعی نظر ڈالنے کے لئے مندرجہ ذیل امور پر غور کرنا ضروری ہے.ضرورت قرآن اول کیا اُس وقت جبکہ قرآن کریم نازل ہوا دنیا کو کسی الہامی کتاب کی ضرورت تھی یا نہیں؟ 3
فصائل القرآن نمبر...کیونکہ جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ کوئی چیز با موقع نازل ہوئی ہے اس وقت تک خدا تعالیٰ کی طرف وہ منسوب نہیں کی جاسکتی.بہت لوگ کہتے ہیں کہ جب قرآن کریم نازل ہوا تو اس وقت لوگوں کی حالت خراب تھی.مگر لوگوں کی حالت خراب ہونے کی وجہ سے ضروری نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی کتاب بھی نازل ہو.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُس وقت تشریف لائے جب لوگوں کی عملی حالت بالکل خراب ہو چکی تھی.لیکن کیا آپ کوئی کتاب لائے.پس یہ کہنا کہ لوگوں کی عادات خراب ہوگئی تھیں فسق و فجور پیدا ہو گیا تھا یہ اس بات کیلئے کافی نہیں کہ اس زمانہ میں قرآن کریم کی بھی ضرورت تھی.یا یہ کہ عربوں میں بدرسوم پیدا ہوگئی تھیں.بیٹیوں کو مار ڈالتے تھے.سوتیلی ماؤں سے شادی کر لیتے تھے.اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوگا کہ عربوں کے لئے ایک کتاب کی ضرورت تھی.یہ ثابت نہیں ہوگا کہ ساری دنیا کے لئے ضرورت تھی.جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت بنی اسرائیل کی حالت سخت خراب تھی.مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ حضرت موسیٰ یا حضرت عیسی علیہما السلام ساری دنیا کے لئے آئے تھے.ہمیں جو چیز ثابت کرنی چاہئے وہ یہ ہے کہ اُس زمانہ میں تمام مذہبی کتب میں ایسا بگاڑ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ اپنی ذات میں دنیا کو تسلی دینے کے لئے ناکافی تھیں.پس قرآن کریم کے نازل ہونے کی ضرورت کو ثابت کرنے کے لئے پہلی کتب میں بگاڑ ثابت کرنا ضروری ہے.قرآن کریم کی وحی کس طرح نازل ہوئی (۲) دوسرے اس بات پر روشنی ڈالنا ضروری ہے کہ قرآن کریم کی وحی کس طرح نازل ہوئی؟ کیونکہ کسی وحی کے نزول کے طریق سے بھی بہت کچھ اس کی صداقت کا پتہ لگ سکتا ہے.مثلاً اس بات پر بحث کرتے ہوئے یہ سوال سامنے آجائے گا کہ جس انسان پر یہ وحی نازل ہوئی کیا اس کے نازل ہونے کے وقت کی کیفیت سے یہ تو ظاہر نہیں ہوتا کہ اس کا نَعُوذُ باللہ دماغ خراب تھا.بیسیوں لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں ہمیں یہ یہ الہام ہوا.وہ اپنی طرف سے جھوٹ نہیں بول رہے ہوتے.مگر ان کا دماغ خراب ہوتا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے آکر کہا کہ مجھے بھی الہام ہوتا ہے.آپ اس کی بات سن کر خاموش رہے اس 4
فصائل القرآن نمبر...نے پھر کہا جب میں سجدہ کرتا ہوں تو خدا تعالیٰ مجھے کہتا ہے عرش پر سجدہ کر اور کہتا ہے تو محمد ہے تو عیسی ہے تو موسیٰ ہے آپ نے فرمایا کیا جب تمہیں محمد کہا جاتا ہے تومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا جمال اور جلال بھی دیا جاتا ہے یا قرآن کریم کے علوم بھی تم پر کھولے جاتے ہیں ؟ اس نے کہا نہیں.آپ نے فرمایا پھر خدا تعالیٰ تمہیں عرش پر نہیں لے جاتا ہے بلکہ شیطان بہکاتا ہے.اگر خدا تمہیں عرش پر لے جاتا او محمد قرار دیتا تومحمدصلی اللہ علیہ وسلم والی طاقتیں بھی تمہیں آپ کی غلامی میں عطا فر ما تا.تو قرآن کریم کی وحی کے نزول پر بحث کرتے ہوئے یہ سوال بھی سامنے آجائے گا کہ جس شخص پر یہ کلام اتر اوہ ایسا تو نہ تھا کہ مجنوں ہو یا اس کے دماغ میں کوئی اور نقص ہو.جمع قرآن پر بحث (۳) تیسرا سوال قرآن کریم پر نظر ڈالتے وقت یہ سامنے آئے گا کہ قرآن کریم کس طرح جمع ہوا؟ یہ سوال قدرتی طور پر پیدا ہوتا ہے کہ جو کتاب دنیا کے سامنے رکھی گئی کیا اس صورت میں سامنے آئی ہے جو اس کے نازل کرنے والے کا منشا تھا ؟ اگر اسی صورت میں سامنے آئی ہے تب تو معلوم ہوا کہ اس پر غور کرنے سے وہ صحیح منشاء معلوم ہو جائے گا جو پیش کرنے والے کا تھا.لیکن اگر اس میں کوئی خرابی اور نقص پیدا ہو گیا ہے تو پھر اس کتاب کے پیش کرنے والے کا جو منشا تھا وہ حبط ہو گیا.اس وجہ سے اس کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی.یورپ کے لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی بڑی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم صحیح طور پر جمع نہیں ہوا.وہ کہتے ہیں قرآن کریم کی عبارت کی کوئی ترتیب نہیں یونہی مختلف باتوں کو اکٹھا کر دیا گیا ہے.حفاظت قرآن کریم کا مسئلہ (۴) چوتھی چیز یہ ثابت کرنی ہوگی کہ قرآن اب تک محفوظ بھی ہے.اگر ہم یہ ثابت کر دیں کہ قرآن صحیح طور پر پیش کرنے والے کے منشاء کے مطابق جمع ہوا ہے.مگر یہ کہا جائے کہ اس میں کچھ زائد حصہ بھی شامل ہو گیا ہے یا اس میں سے کچھ حصہ حذف ہو گیا ہے تو پھر سوال ہوگا کہ کتاب اب اصل شکل میں نہیں رہی.اس وجہ سے وہ فائدہ نہیں دے سکتی جس کے لئے آئی تھی اور دنیا کے لئے 5 сл
فصائل القرآن نمبر...کامل ہدایت نامہ نہیں ہوسکتی.اس کے لئے بھی عیسائی مؤرخین نے بڑا زور لگایا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم محفوظ نہیں ہے.قرآن کریم کا پہلی کتب سے تعلق (۵) پانچواں سوال جس پر غور کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا پہلی کتب سے کیا تعلق ہے.آیا قرآن کریم پہلی کتب کا مصدق ہے یا نہیں اگر ہے تو کس طرح؟ ان کو موجودہ صورت میں درست تسلیم کرتا ہے یا یہ کہتا ہے کہ پہلے صحیح اتری تھیں مگر اب بگڑ گئی ہیں.یورپ کے لوگوں نے اس بات کے لئے بڑی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم نے پہلی کتب کو ان کی موجودہ صورت میں صحیح تسلیم کیا ہے.اس سے ان کی غرض یہ ہے کہ جب قرآن کریم نے ان کتب کی موجودہ شکل کو درست مانا ہے تو پھر قرآن کریم کا ان سے جو اختلاف ہوگا وہ غلط ہوگا.سر ولیم میور نے اس پر ایک کتاب بھی لکھی ہے.اس میں اس نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک پہلی کتابیں صحیح قرآن کریم کی پہلی کتب سے تصدیق (۶) چھٹا سوال یہ ہوگا کہ اتنی عظیم الشان کتاب جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ساری دنیا کے لئے ہے اس کی تصدیق پہلی کتب سے ہوتی ہے یا نہیں اور کیا قرآن کریم کا ذکر پہلی کتب میں موجود ہے؟ تا لوگ معلوم کر لیں کہ پہلی کتب میں اس کی جو خبر دی گئی تھی یہ اسی کے مطابق آیا ہے.قرآن کریم میں پہلی کتب سے زائد خوبیاں (۷) ساتواں سوال اس کے ساتھ ہی یہ پیدا ہو جائے گا کہ قرآن کریم پہلی کتابوں سے کون ی زائد چیز لایا ہے.یا تو وہ یہ کہے کہ پہلی سب کتابیں جھوٹی ہیں اس لئے مجھے نازل کیا گیا ہے.لیکن اگر وہ یہ کہتا ہے کہ وہ بھی سچی ہیں تو پھر یہ دکھانا چاہئے کہ قرآن کریم زائد خوبیاں کیا پیش کرتا 6
فصائل القرآن نمبر...ہے ورنہ اس کے نازل ہونے کی ضرورت ثابت نہ ہوگی.پس یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہوگا کہ قرآن دوسری کتب کے مقابلہ میں افضل ہے.ترتیب قرآن (۸) ایک سوال یہ بھی ہوگا کہ آیا قرآن کریم میں کوئی ترتیب مد نظر ہے؟ یعنی اس میں کوئی معنوی ترتیب ہے؟ یورپ والے کہتے ہیں کہ اس میں کوئی ترتیب نہیں.بالکل بے ربط کلام ہے.اور عجیب بات یہ ہے کہ مسلمان علماء نے بھی اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ قرآن میں نعوذ باللہ کوئی ترتیب نہیں.لیکن کسی کتاب کا بے ترتیب ثابت ہونا اس پر بہت بھاری حملہ ہے اور اگر اس میں ترتیب ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ترتیب اُس طرح نہیں جس طرح نازل ہوئی تھی.پہلی اُتری ہوئی آیتیں پیچھے اور پچھلی پہلے کر دی گئی ہیں.سورۃ علق پہلے نازل ہوئی مگر بعد میں رکھی گئی اور سورۃ فاتحہ بعد میں نازل ہوئی اور اسے پہلے رکھا گیا.اسی طرح اور آیتوں کو بھی آگے پیچھے کیا گیا ہے.مکہ میں بعض آیتیں اُتریں جنہیں مدنی سورتوں میں درج کیا گیا ہے.اور بعض مدینہ میں اُتریں انہیں مکی سورتوں میں لکھا گیا ہے.اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعہ میں قرآن کریم کی ترتیب مد نظر تھی تو پھر کیوں اسی طرح جمع نہ کیا گیا جس طرح نازل ہوا تھا.اور اگر وہ ترتیب صحیح ہے جس میں اب قرآن موجود ہے تو پھر کیوں اسی ترتیب سے نازل نہ ہوا ؟ یہ ایک اہم سوال ہے جو اہل یورپ نے اُٹھایا ہے.اسے خدا تعالیٰ کے فضل سے اصولی طور پر میں نے اس طرح حل کیا ہے کہ ہر سمجھدار کی سمجھ میں آجائے گا.ناسخ و منسوخ کی بحث (۹) ایک سوال قرآن کریم کے متعلق ناسخ و منسوخ کا آجاتا ہے.یہ خود مسلمانوں کا پیدا کردہ ہے.کیونکہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیتیں منسوخ ہیں.انہیں بعض دوسری آیتوں یا حدیثوں نے منسوخ کر دیا ہے.وہ پڑھی تو جائیں گی مگر ان پر عمل نہیں کیا جائے گا.یورپ والوں نے اس کے متعلق کہا ہے کہ ناسخ منسوخ کا ڈھکوسلا اس لئے بنایا گیا ہے کہ 7
فصائل القرآن نمبر.....قرآن کریم میں صریح تضاد پایا جاتا ہے.جب اسے دور کرنے کی مسلمانوں کو کوئی صورت نظر نہ آئی تو انہوں نے متضاد آیتوں میں سے ایک آیت کو ناسخ اور دوسری کو منسوخ قرار دے دیا.نزول قرآن کا مقصد اور اس کا پورا ہونا (۱۰) پھر ایک یہ بھی سوال ہے کہ آیا قرآن کریم اس مقصد کو پورا کرتا ہے جس کے لئے کوئی مذہب نازل ہوتا ہے.ہر ایک الہامی کتاب اسی وقت مفید ہو سکتی ہے جب اس مقصد کو پورا کرے جسے الہامی کتاب کو پورا کرنا چاہئے.اور لوگ جن الہامی کتب کو مانتے ہیں ان کی کوئی نہ کوئی ضرورت بھی ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کتاب آنے کی یہ یہ ضرورت تھی اب سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کریم اُس ضرورت کو پورا کرتا ہے جس کے لئے وہ نازل ہوا ہے؟ اگر کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کی کتاب ہے ورنہ نہیں.فطرتِ انسانی کے مطابق تعلیم (۱۱) پھر قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ہر طبقہ اور ہر درجہ کی فطرت کے لوگوں کے لئے ہے.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرآن کریم کی تعلیم فی الواقع ایسی ہے کہ اس سے ایک ان پڑھ بھی فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور اگر ایک عالم پڑھے تو وہ بھی مستفیض ہو سکتا ہے.اگر اس کی تعلیم ایسی ہے تو یہ کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے کہلا سکتی ہے.ورنہ نہیں.فہم قرآن کے اصول (۱۲) ایک اور سوال ہمارے سامنے یہ آتا ہے کہ قرآن کریم کے فہم کے اصول کیا ہیں؟ ہر کتاب کو سمجھنے اور اس سے مستفیض ہونے کے لئے کوئی نہ کوئی کلید ہوتی ہے.قرآن کریم کے سمجھنے کے لئے کن اصول کی ضرورت ہے؟ گویا قرآن کریم کو اصول تفسیر بھی بیان کرنے چاہئیں تا کہ ان سے کام لے کر ہر انسان اپنی سمجھ اور اپنے علم کے مطابق فہم قرآن حاصل کر سکے.8
فصائل القرآن نمبر.....قرآن کریم کو پہلی کتب کا مصدق کن معنوں میں کہا گیا ہے؟ (۱۳) ایک سوال یہ بھی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں قرآن اس لئے پہلی کتب کا مصدق ہے کہ ان کتابوں کی نقل کرتا ہے.اس نقل کے الزام سے بچنے کے لئے کہا گیا ہے کہ قرآن ان کا مصدق ہے.ہم کہتے ہیں بے شک قرآن ان کی تصدیق کرتا ہے مگر ان کے خلاف بھی تو کہتا ہے.اب ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ثابت کریں کہ قرآن دوسری کتابوں سے کیا نقل کرتا ہے اور کیا چھوڑ تا ہے؟ اور جو بات نقل کرتا ہے اسے پہلی کتاب سے زائد بیان کرتا ہے یا نقل کرتے ہوئے پہلی کتابوں سے اختلاف کرتا ہے.ایسی صورت میں کیا وجہ ہے کہ ہم قرآن کی بات کو صحیح ما نیں.پرانے واقعات کے بیان کرنے کی غرض (۱۴) پھر قرآن میں پرانے واقعات بیان کئے گئے ہیں.ان کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کو کیوں بیان کیا گیا ہے.کیا قرآن قصے کہانیوں کی کتاب ہے؟ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ہی کفار کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ان هذا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ قرآن تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں.قسموں کی حقیقت (۱۵) یہ سوال بھی شبہات پیدا کرتا ہے کہ قرآن کریم میں قسمیں کیوں کھائی گئی ہیں؟ قسموں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کلام بنایا اور وہ یہ بات بھول گئے کہ اسے خدا کا کلام قرار دے رہے ہیں.اس لئے قسمیں کھانے لگے.اس قسم کے شبہات دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بتایا جائے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں بھی قسمیں ہوتی ہیں اور ان کی کیا وجہ ہوتی ہے معجزات پر بحث (۱۶) اسی طرح یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم میں بار بار اس بات پر زور دینا کہ کوئی نشان دکھانا 0
فصائل القرآن نمبر.....10 رسول کے اختیار میں نہیں.جب خدا چاہتا ہے نشان دکھاتا ہے.دراصل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پردہ پوشی کے لئے ہے.اس کے متعلق یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ سارے کا سارا قرآن نشانات کا مجموعہ ہے.خدا تعالیٰ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں (۱۷) اسی طرح قرآن کریم سے متعلق کہا جاتا ہے کہ سائنس اور علوم طبیعیہ کے خلاف باتیں پیش کرتا ہے.چونکہ خدا تعالیٰ کا قول اس کے فعل کے خلاف نہیں ہو سکتا اس لئے یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام اس کے کسی فعل کے خلاف نہیں ہے.اس میں ایسی سچائیاں ہیں جو پہلے لوگوں کو معلوم نہ تھیں.اور انہیں علوم طبیعیہ کے خلاف قرار دیا جاتا تھا مگر اب انہیں درست قرار دیا جاتا ہے.قرآن کریم کے روحانی کمالات (۱۸) یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ قرآن کریم میں کیا کمالات ہیں اور قرآن کریم بنی نوع انسان کو کس اعلیٰ روحانی مقام پر پہنچانے کے لئے آیا ہے.آخری شرعی کلام (۱۹) یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ قرآن خدا تعالیٰ کا آخری شرعی کلام ہے.لوگ کہتے ہیں جب تم یہ مانتے ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ کلام نازل ہوتا رہا ہے تو اب شرعی کلام کا آنا کیوں بند ہو گیا.اس کے لئے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ اب کسی اور شرعی کلام کی ضرورت نہیں.عربی زبان اختیار کرنے کی وجہ (۲۰) پھر اس امر پر بحث کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کے لئے عربی زبان کیوں اختیار کی گئی.کیوں فارسی، سنسکرت یا کوئی اور زبان اختیار نہ کی گئی ؟
فصائل القرآن نمبر.....پہلی تعلیموں کے نقائص کا اصولی رڈ اور صحیح اصول کا بیان (۲۱) پھر جب قرآن کریم ساری دنیا کے لئے آیا ہے اور تمام پہلی مذہبی تعلیموں کا قائم مقام ہے تو یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہوگا کہ ان تعلیموں میں جو نقائص تھے ان کو اصولی طور پر قرآن کریم نے دور کر دیا ہے اور ان کی جگہ صحیح اصول قائم کئے ہیں.قرآن کریم کی سچائی کے ثبوت (۲۲) پھر قرآن کریم کی سچائی کے ثبوت بھی پیش کرنے ہونگے کہ اس کے خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے کے یہ یہ ثبوت ہیں.قرآن کریم کے اثرات (۲۳) قرآن کریم کے اثرات پر بھی بحث کرنی ہوگی.متشابہات کا حل (۲۴) آیات متشابہات کو حل کرنا بھی ضروری ہے.قرآن کریم یہ تو کہتا ہے کہ اس میں کچھ آیات متشابہات ہیں مگر یہ نہیں بتاتا کہ کون کون سی ہیں.جب تک ان آیات کا پتہ نہ ہو سارے قرآن کو متشابہات کہنا پڑے گا.مجھے اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں بھی ایسا علم عطا فرمایا ہے کہ معمولی سے معمولی علم رکھنے والے کے لئے بھی متشابہات کا پتہ لگانا مشکل نہیں رہ جاتا اور نیز یہ کہ آیات متشابہات قرآن کریم کی صداقت کا ایک زبر دست ثبوت ہیں.حروف مقطعات کا حل (۲۵) حروف مقطعات پر بحث کرنی بھی ضروری ہے کہ ان کی کیا ضرورت اور غرض ہے؟ 11
فصائل القرآن نمبر.....سات قرآتوں سے کیا مراد ہے 12 (۲۶) یہ جو کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی سات قرآتیں ہیں ان سے کیا مراد ہے؟ یہ بحث بھی ضروری ہے.خلق قرآن کا مسئلہ (۲۷) کلام الہی کو خدا تعالیٰ کے علم سے کیا نسبت ہے.پہلے زمانہ میں اس پر بہت بڑی بحث ہوئی ہے.اور بڑے بڑے علماء کو خلق قرآن کے مسئلہ پر ماریں پڑی ہیں.حضرت امام احمد بن حنبل کو عباسی خلیفہ نے مار مار کر اتنا چور کر دیا کہ وہ فوت ہو گئے.غرض خلق قرآن کے مسئلہ پر بھی بحث ضروری ہے یعنی خدا کے کلام کو خدا سے کیا نسبت ہے.قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے (۲۸) پھر ایک بحث یہ بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے.کسی کتاب کی پیشگوئیاں بتا دینا کہ وہ پوری ہورہی ہیں اس کی زندگی کا ثبوت نہیں.تورات اور انجیل کی بعض پیشگوئیاں بھی اب تک پوری ہو رہی ہیں.لیکن ان کتب سے وہ مقصد پورا نہیں ہورہا جو ان کے نازل ہونے کے وقت مدنظر تھا.مگر قرآن کریم آج بھی وہ مقصد پورا کر رہا ہے جسے لیکر وہ نازل ہوا تھا.قرآن کریم کن کن علوم کا ذکر کرتا ہے (۲۹) پھر یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم رکن رکن علوم کا ذکر کرتا ہے.یعنی سوال یہ ہے کہ مذہب کو کہاں تک دوسری بحثوں سے تعلق ہے.اخلاق، سیاست، تمدن وغیرہ مذہب میں شامل ہیں یا نہیں.
فصائل القرآن نمبر...قرآن ذو المعارف ہے (۳۰) یہ بحث بھی ضروری ہے کہ قرآن ذو المعارف ہے اور یہ اس کی خوبی ہے نقص نہیں کہ ایک آیت کے کئی کئی معنے ہوتے ہیں.قرآن کامل کتاب ہے 13 (۳۱) اس بات پر بحث کرنی بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کامل کتاب ہے اور اب کسی اور آسمانی کتاب کی ضرورت نہیں.مگر اس کے باوجو د سنت اور حدیث کی ضرورت ہے اور اس سے قرآن کریم کے کمال میں نقص پیدا نہیں ہوتا.قرآن کریم کی فصاحت (۳۲) قرآن کریم جو صحیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.اس کا کیا مطلب ہے اور یہ کہ وہ کس طرح بے مثل ہے اور کیوں کوئی اس کی مثل نہیں لاسکتا.قرآن کریم کا دوسری الہامی کتب سے مقابلہ (۳۳) قرآن اور دوسری کتابوں کی تعلیم کا مقابلہ بھی ضروری ہے.ایک بے نظیر روحانی، جسمانی، تمدنی اور سیاسی قانون (۳۴) اجمالی طور پر اس امر پر بحث کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم بے نظیر روحانی، جسمانی تمدنی اور سیاسی قانون ہے.قرآن کریم کے استعارات (۳۵) قرآن کریم میں استعارات کیوں آئے ہیں.ان کی کیا ضرورت ہے.یہ سوال بھی
فصائل القرآن نمبر...قابل حل ہے.تراجم قرآن کی ضرورت (۳۶) یہ بھی کہ قرآن کو تر جمہ کے ساتھ شائع کرنا کیوں ضروری ہے؟ حفاظت قرآن کے ذرائع (۳۷) قرآن کریم کی حفاظت کا جو دعویٰ کیا گیا ہے اس پر بحث کرنا ضروری ہے کہ اس دعوئی کے لئے کیا ذرائع اختیار کئے گئے ہیں.قرآن کریم کو شعر کیوں کہا گیا ہے 14 (۳۸) قرآن کریم کو جو اس زمانہ کے لوگوں نے کہا کہ یہ ایک شاعر کا کلام ہے اور قرآن کریم نے اس کی تردید کی ہے سو س کا کیا مطلب ہے.یعنی قرآن میں شعر کا کیا مفہوم ہے.اور جب خدا تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق کہتا ہے کہ یہ کسی شاعر کا کلام نہیں تو اس کا کیا مطلب ہے.قرآن کریم آہستہ آہستہ کیوں نازل ہوا (۳۹) یہ بحث بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم ٹکڑے ٹکڑے کر کے کیوں نازل ہوا.کیوں نہ ایک ہی دفعہ نازل ہو گیا.قرآن کریم کا کوئی ترجمہ اس کے سارے مضامین پر حاوی نہیں ہو سکتا (۴۰) یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کا کوئی ترجمہ اس کے سارے مضامین پر حاوی نہیں ہوسکتا.
فصائل القرآن نمبر.....قرآن کریم کے تمام الفاظ الہامی ہیں 15 (۴۱) یہ بحث بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کے وہی الفاظ ہیں جو خدا تعالیٰ نے نازل کئے یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو خیال آیا، اسے آپ نے اپنے لفظوں میں لکھوا دیا؟ یورپ اس دوسری صورت کو ثابت کرنے کے لئے بڑا زور لگاتا ہے.وجہ یہ کہ انجیل کے نسخوں میں چونکہ اختلاف ہے.اس لئے وہ کہتے ہیں کہ الفاظ الہامی نہیں بلکہ مطلب الہامی ہے.اگر الفاظ میں اختلاف ہے تو کوئی حرج نہیں.کہتے ہیں کسی گیدڑ کی دُم کٹ گئی تھی.اس نے سب گیدڑوں کو جمع کر کے تحریک کی کہ ہر ایک کو اپنی دُم کٹوا دینی چاہئے.اس نے دُم کے کئی ایک نقصان بتائے.کئی گیدڑ اس کے لئے تیار ہو گئے.لیکن ایک بوڑھے گیدڑ نے کہا کہ پہلے دُم کٹانے کی تحریک کرنے والا اُٹھ کر دکھائے کہ اس کی اپنی دُم ہے یا نہیں.اگر اس کی دم پہلے ہی کئی ہوئی ہے تو معلوم ہوا کہ وہ سب کو اپنے جیسا بنانا چاہتا ہے.یہی حال یورپ والوں کا ہے.ان کی انجیلوں میں چونکہ اختلاف پایا جاتا ہے.اس لئے وہ قرآن کے متعلق بھی یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس کے الفاظ الہامی نہیں.قرآن کریم ہر قسم کے شیطانی کلام سے منزہ ہے (۴۲) یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ قرآن کریم میں کوئی شیطانی کلام بھی شامل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کا سامان مسلمانوں نے ہی بہم پہنچایا ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر نعوذ بالله بعض شیطانی فقرے جاری ہو گئے تھے جن کے متعلق جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.یوروپین لوگ کہتے ہیں مخالفین کو خوش کرنے کے لئے آپ نے کچھ کلمات کہے تھے لیکن بعد میں ان پر پچھتائے اور کہ دیا کہ منسوخ ہو گئے ہیں.اس اعتراض کو بھی غلط ثابت کرنا ضروری ہے.
فصائل القرآن نمبر.....قرآن کریم کے مخاطب کون تھے؟ (۴۳) ایک یہ بھی سوال ہے کہ قرآن کریم کے مخاطب کون لوگ تھے.صرف اہل عرب یا ساری دنیا کے لوگ؟ اور پھر یہ بھی کہ شروع میں صرف اہل عرب مخاطب تھے اور بعد میں اور لوگ.یا سب کے سب شروع سے ہی مخاطب تھے ؟ قرآن کریم کا ترجمہ لفظی ہونا چاہئے یا با محاورہ (۴۴) پھر یہ بھی ایک سوال ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ لفظی ہو یا با محاورہ؟ عام طور پر لوگ لفظی ترجمہ پسند کرتے ہیں.مگر اس طرح عربی کی سمجھ آتی ہے.مطلب سمجھ میں نہیں آتا.وجہ یہ کہ لفظ کے نیچے لفظ ہوتا ہے.اس سے یہ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اوپر کے عربی لفظ کا ترجمہ یہ ہے لیکن سارے فقرے کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا.کیونکہ دونوں زبانوں کے الفاظ کے استعمال میں فرق ہے.لفظی ترجمہ کرنا ایسی ہی بات ہے جیسے اردو میں کہتے ہیں.فلاں کی آنکھ بیٹھ گئی.اس کا انگریزی میں ترجمہ کرنے والا اگر یہ ترجمہ کرے کہ HIS EYE HAD SAT" اور عربی میں یہ کرے کہ جلست عينه تو صاف ظاہر ہے کہ یہ لفظی ترجمہ اصل مفہوم کو ظاہر نہیں کرے گا.کیونکہ آنکھ بیٹھنے کا جو مفہوم اردو میں ہے وہ دوسری زبانوں کے لفظی ترجمہ میں نہیں پایا جاتا.ترجمہ کی غرض چونکہ مطلب سمجھانا ہے اس لئے ایسا ہونا چاہئے کہ مطلب سمجھ میں آ جائے ، چاہے محاورہ بدلنا ہی پڑے.یہ سوالات ہیں جن پر مقدمہ قرآن میں بحث کی ضرورت ہے.ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان امور پر بحث کروں.قرآن کریم پر مستشرقین یورپ کا حملہ 16 اب میں جماعت کو یہ بتاتا ہوں کہ قرآن کریم کی خدمت ایک نہایت اہم خدمت ہے.یور بین اقوام کا اسلام کے خلاف جس بات پر سب سے زیادہ زور ہے وہ یہی ہے کہ قرآن کریم کی اہمیت کو گرایا جائے.چنانچہ نولڈ کے جو جرمنی کا ایک مشہور مصنف اور اسلام کا بہت بڑا دشمن ہے اور یورپ میں عربی زبان کا بہت بڑا ماہر سمجھا جاتا ہے اس نے انسائیکلو پیڈیا بریٹیز کا میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں غلطیاں اور نقائص ثابت کرنے کے لئے یورپین مصنفوں نے بڑا زور لگایا ہے مگر وہ
فصائل القرآن نمبر.....17 اپنی کوشش میں ناکام رہے ہیں.کے گویا خود تسلیم کرتا ہے کہ یوروپین مصنفوں نے قرآن کریم کے خلاف بڑا زور لگایا ہے مگر سب سے بڑھ کر قرآن کریم کے خلاف خطر ناک کوشش ایک کتاب ہے جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہے اور جس کا نام ہے.تین پرانے قرآنوں کے صفحات ایک عورت نے جوڈاکٹر آف فلاسفی ہے یہ کتاب لکھی ہے اور اس نے بیان کیا ہے کہ وہ مصر میں گئی جہاں اس نے ایک کتاب خریدی جو عیسائی کتابوں کی نقل تھی.جب اس کے صفحات پر بعض دوائیں لگائی گئیں تو نیچے سے اور حروف نمودار ہو گئے.ڈاکٹر منگا نانے اس کے متعلق بتایا کہ یہ ایک پرانا قرآن ہے.جس کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس میں اور موجودہ قرآن میں فرق ہے.وہ کہتے ہیں اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن بگڑ چکا ہے.وہ اس کا ثبوت اس طرح پیش کرتے ہیں کہ حضرت عثمان نے جب قرآن نقل کیا تو باقی قرآنوں کو جلا دیا.چونکہ ان میں جو کچھ لکھا تھا اسے کوئی نقل نہ کر سکتا تھا.اس لئے اس وقت عیسائیوں نے بظاہر اپنے مذہب کی ایک کتاب لکھی لیکن دراصل خفیہ طور پر اس میں وہ قرآن نقل کیا جسے جلانے کا حکم دے دیا گیا تھا.اب بعض قسم کی دوائیاں لگانے سے پوشیدہ لکھا ہوا قرآن ظاہر ہو گیا ہے.یہ ایک نہایت خطرناک چال ہے جو چلی گئی.اس کتاب کا پرانا کاغذ دکھایا جاتا ہے.اس پر پرانی تحریریں دکھائی جاتی ہیں اور ان سے مختلف قسم کے شبہات پیدا کئے جاتے ہیں.عیسائیوں کی مزورانہ چالیں اس سے متعلق میں نے مفصل تحقیقات کی ہے جو آج پیش کرنا چاہتا تھا مگر اب نہ وقت ہے اور نہ موقع کیونکہ بادل گھرے ہوئے ہیں.البتہ اس کے متعلق ایک لطیفہ سنا دیتا ہوں.وہ صفحات جو اس کتاب میں پرانے قرآن کے قرار دیکر شائع کئے ہیں.وہ اپنی غلطی آپ ظاہر کر رہے ہیں.مثلاً قرآن میں آتا ہے.فَآمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ النَّبِي الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ سے لیکن جو عیسائیوں کا لکھا ہوا قرآن ہے.اس میں آتا ہے فَأَمِنُوا بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْأُتِيَ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَتِهِ وَاتَّبَعَهُ.کہ وہ اللہ پر
فصائل القرآن نمبر...18 ایمان لاتا ہے اور اس کے کلمہ پر اور کلمہ سے مراد حضرت عیسی لیتے ہیں.مطلب یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عیسی کے پیرو تھے.اس قسم کی چالیں اس میں چلی گئی ہیں.مگر باوجود اس قسم کی کوششوں کے یہی باتیں ان کو جھوٹا ثابت کر رہی ہیں.اول اس طرح کہ عیسائیوں کی طرف سے جو قر آن پیش کیا جاتا ہے اس کی وہی ترتیب ہے جو موجودہ قرآن کی ہے.اس لئے ان کا یہ کہنا انہی کے پیش کردہ قرآن سے غلط ہو گیا کہ حضرت عثمان کے وقت قرآن کریم کی ترتیب بدل گئی تھی.پھر اس قرآن میں بعض ایسے الفاظ لکھے ہیں جو عربی کے ہیں ہی نہیں.مثلاً ایک جگہ علم کو ایلم لکھا ہے.اسی طرح ایک جگہ ایسی غلطی کی ہے جس سے اس چور کا مشہور قصہ یاد آ جاتا ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ نیا نیا چور بنا تھا.چوری کرنے کے بعد جب پولیس تحقیقات کے لئے آئی تو وہ خود بھی وہاں چلا گیا.اور تحقیقات میں مدد دینے لگ گیا.کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے چورادھر سے آیا.یہاں سے اُترا اور پھر ادھر گیا.پولیس والوں نے تاڑ لیا کہ اس کا چوری میں ضرور دخل ہے.اس لئے اس سے ساری باتیں پوچھنے لگے اور جدھر وہ لے گیا اس کے ساتھ چل پڑے.آخر ایک دروازہ کے پاس جا کر کہنے لگا.معلوم ہوتا ہے چور اس دروازہ سے نکلا اور اسے یہاں سے ٹھوکر لگی.اس پر گٹھڑی اندر اور میں باہر.اس موقع پر بے اختیار اس کے منہ سے میں نکل گیا.پولیس نے فوراً اسے پکڑ لیا.یہی حال یہاں ہوا.قرآن کریم میں ایک آیت ہے وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا اللہ تعالیٰ نے ایسے لشکر اُتارے جن کو تم دیکھ نہیں رہے تھے.یہاں ھا کی ضمیر جنود کی طرف جاتی ہے.مگر عیسائیوں کے پیش کردہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ یہاں جنڈا ہے مگر آگے کا ہی رکھا ہے اور ضمیر کو نہیں بدلا.غرض اس قسم کی بہت سی شہادتیں ہیں جن سے اس کے اندر سے ہی غلطیاں معلوم ہو جاتی ہیں معلوم ہوتا ہے کسی نے مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لئے اسے لکھا اور اس میں غلطیاں کرتا گیا.چنانچہ واذ استسقی کوک کے ساتھ لکھا ہے.اسی طرح هُمُ السُّفَهَاءُ کو هُمُشفَها لکھ دیا.اسی طرح اور کئی الفاظ غلط لکھے ہیں.مثلاً إِنَّمَا النَّسِی کو انما آل نابیتی لکھا ہے.حالانکہ نایسی ان معنوں میں آتا ہی نہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کوئی جاہل عیسائی قرآن کی نقل کرنے بیٹھا جسے عربی نہ آتی تھی اور اس قسم کی
فصائل القرآن نمبر.....غلطیاں کرتا گیا.اب میں قرآن کریم کے متعلق یوروپین مستشرقین کے بعض متفرق اعتراضات کا ذکر کرتا ہوں.قرآن کریم کا نزول چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں یورپ کے مستشرق کہتے ہیں کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم ٹکڑے ٹکڑے نازل ہوا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خدا کا کلام نہیں.خدا کو کیا ضرورت تھی کہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل کرتا.اسے تو اگلا پچھلا سب حال معلوم ہوتا ہے.چونکہ بندہ کو ہی اگلے حالات کا علم نہیں ہوتا اس لئے وہ اگلی باتوں کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو حالات پیش آتے جاتے تھے ان سے متعلق قرآن میں ذکر کر دیتے.پس یہ ان کا کلام ہے، خدا کا کلام نہیں.قرآن کریم نے خود اس سوال کو لیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ والوَلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً یعنی کفار کہتے ہیں کہ قرآن اس رسول پر ایک ہی دفعہ کیوں نازل نہیں کیا گیا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو سوال عیسائیوں کو اب سوجھا ہے یہی سوال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کفار نے بھی کیا تھا کہ ایک ہی دفعہ قرآن کیوں نہ اترا.اس کا جواب خدا تعالیٰ نے یہ دیا کہ گذلك اسی طرح اُترنا چاہئے تھا جس طرح اُتارا گیا ہے.لِنتَبتَ بِهِ فُؤَادَكَ کے اور اس میں حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ ہم تیرے دل کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں.گویا قرآن کا ٹکڑے ٹکڑے نازل ہونا خدا تعالیٰ کی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس سے اس کی شان بلند کا اظہار ہوتا ہے.اب سوال یہ ہے کہ آہستہ آہستہ قرآن کے نازل ہونے سے دل کی مضبوطی کس طرح ہوتی ہے اس کے متعلق میں چند باتیں بتا دیتا ہوں.(۱) اگر ایک ہی دفعہ قرآن نازل ہو جانے پر اس سے استدلال کرتے رہتے تو دل کو ایسی تقویت حاصل نہیں ہو سکتی تھی جیسی کسی امر کے متعلق فوراً کلام الہی کے اُترنے سے ہو سکتی ہے.دیکھو رسول کریم سن نے اس تم کو جو لطف اس میں آتا ہو گا کہ آپ کوئی کام کرتے اور اس کے متعلق وحی ہو جاتی اور خدا تعالیٰ اپنی مرضی اور منشاء کا اظہار کر دیتا.وہ لطف ہمیں اجتہاد سے کہاں حاصل ہو سکتا ہے.اسی طرح جب کوئی واقعہ پیش آتا، آپ پر اس کے متعلق کلام الہی نازل ہو جاتا اور اس طرح 19
فصائل القرآن نمبر.....معلوم ہو جاتا کہ اس کلام کا یہ مفہوم ہے.اگر آپ اجتہاد کر کے آیات کو کسی بات پر چسپاں کرتے تو وہ لطف نہ آتا جو اس صورت میں آتا تھا.(۲) قرآن کریم لِنثبت به فُؤَادَگ کا مصداق اس طرح ہے کہ جو کتاب ساری دنیا کے لئے آئی ہو، اُسے محفوظ رکھنا بھی ضروری تھا.اگر قرآن ایک ہی دفعہ سارے کا سارا اُتر تا تو اسے وہی شخص حفظ کر سکتا تھا جو اس کے لئے اپنی ساری زندگی وقف کر دیتا.لیکن آہستہ آہستہ اُترنے سے بہت لوگ اس کو یاد کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور اپنے دوسرے کاروبار کے ساتھ قرآن کریم بھی حفظ کرتے گئے.اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس بات پر مضبوطی سے قائم ہو گیا کہ یہ کتاب ضائع نہیں ہوگی بلکہ محفوظ رہے گی.یہی وجہ تھی کہ رسول کریم ملی ایام کے وقت بہت کثرت سے ایسے لوگ تھے جنہیں قرآن کریم حفظ تھا مگر اب اس نسبت کے لحاظ سے بہت کم ہوتے ہیں.اس لئے کہ تھوڑا تھوڑا نازل ہونے کی وجہ سے بہت لوگ ساتھ کے ساتھ یاد کرتے جاتے تھے.(۳) تیسری حکمت تھوڑا تھوڑا نازل ہونے میں یہ ہے کہ ایک دفعہ سارا قرآن نازل ہونے کی وجہ سے لوگوں کے قلوب میں راسخ نہ ہو سکتا تھا.اب ایک ہندو جب مسلمان ہوتا ہے تو اسے اسلامی احکام پر عمل کرنے والے مسلمان نظر آتے ہیں.اس لئے وہ گھبراتا نہیں اور ان احکام پر عمل کرنا بوجھ نہیں سمجھتا.لیکن اگر کسی کو ہم ایک کتاب لکھ کر دے دیں کہ اس پر عمل کرو اور کوئی نمونہ موجود نہ ہو تو لوگ سو سال میں بھی اس پر عمل کرنا نہ سیکھ سکیں.پس قرآن کریم کی تعلیم کو راسخ کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اسے آہستہ آہستہ نازل کیا جاتا.ایک حکم پر عمل کرنا جب لوگ سیکھ جاتے تو دوسرا نازل ہوتا.پھر تیسرا.اور اس طرح سارے احکام پر عمل کرایا جاتا.(۴) اگر ایک ہی وقت قرآن نازل ہوتا تو ترتیب وہی رکھنی پڑتی جو اب ہے.لیکن یہ ترتیب اُس وقت رکھی جانی خطرناک ہوتی.جس طرح اب ہمارے لئے وہ ترتیب خطرناک ہے جس کے مطابق قرآن نازل ہوا تھا.اگر نماز اور روزوں وغیرہ کے احکام شروع میں ہوتے اور نبوت ثابت نہ ہو چکی ہوتی تو وہ سمجھ میں ہی نہ آسکتے تھے.پس پہلے نبوت کو ثابت کرنے کی ضرورت تھی اور یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچانی چاہئے تھی کہ یہ سچا نبی ہے.اس کے بعد عمل کی دعوت کا موقع تھا جس کے لئے احکام سکھائے جاتے.مگر اب یہ ضروری نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کو 20 20
فصائل القرآن نمبر.....ماننے والی ایک جماعت موجود ہے.اب جو شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور اسلام کی خوبیوں سے واقف ہو کر آتا ہے.پس اس کے لئے قرآن کی اسی ترتیب کی ضرورت ہے جو اب ہے.لیکن قرآن کے ایک ہی دفعہ اکٹھا نازل ہونے سے یہ نقص پیش آتا.(۵) اگر ایک ہی دفعہ سارا قرآن نازل ہوتا تو ایک حصہ میں دوسرے حصہ کی طرف اشارہ نہیں ہوسکتا تھا.مثلاً قرآن کریم میں یہ پیشگوئی تھی کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں کے نرنے سے نکال کر صحیح و سلامت لے جائیں گے.اگر ایک ہی دفعہ سارا قرآن نازل ہو جا تا تو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ لے جایا گیا اس وقت یہ نہ کہا جاسکتا کہ دیکھو اسے ہم دشمنوں کے نرغہ سے بچا کر لے آئے ہیں.یہ اسی صورت میں کہا جا سکتا تھا کہ پہلے ایک حصہ نازل ہوتا جس میں رسول کریم می ایام کو صحیح و سلامت لے جانے کی پیشگوئی ہوتی.پھر جب یہ پیشگوئی پوری ہو جاتی اس وقت وہ حصہ اُتر تا جس میں اس کے پورا ہونے کے متعلق اشارہ ہوتا.21 (۶) میرے نزدیک ایک اور اہم بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے متعلق یہ اعتراض کیا جانا تھا.کہ کسی اور نے بنا کر دیا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اس اعتراض کا ذکر بھی آتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا إِفْكُ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمُ أَخَرُونَ یعنی کا فر کہتے ہیں کہ یہ تو صرف ایک جھوٹ ہے جو اس نے بنا لیا ہے.اور اس کے بنانے پر ایک اور قوم نے اس کی مدد کی ہے.اگر قرآن اکٹھا ملتا تو مخالف یہ کہہ سکتے تھے کہ کسی نے بنا کر یہ کتاب دے دی ہے.اب کچھ حصہ مکہ میں نازل ہوا کچھ مدینہ میں.مکہ والے اگر کہیں کہ کوئی بنا کر دیتا ہے تو مدینہ میں کون بنا کر دیتا تھا.پھر قرآن مجلس میں بھی نازل ہوتا، اس وقت کون سکھاتا تھا.پھر قرآن سفر میں بھی نازل ہوتا.ایسا کون شخص تھا جو ہر لڑائی میں شامل ہوا، کوئی بھی نہیں.غرض قرآن سفر اور حضر میں، رات اور دن میں، مکہ اور مدینہ میں مجلس اور علیحدگی میں نازل ہوا اور اس طرح اعتراض کرنے والوں کا جواب ہو گیا کہ قرآن کوئی اور انسان بنا کر آپ کو نہیں دیتا تھا.ورنہ اگر اکٹھی کتاب نازل ہوتی تو کہا جاتا کہ کوئی شخص کتاب بنا کر دے گیا.جسے سنا دیا جاتا ہے مگر اب جب کہ موقع اور محل کے مطابق آیات اترتی رہیں تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہر موقع پر کوئی بنا کر دے
فصائل القرآن نمبر.....دیتا ہے.پس قرآن کا ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اتر نا ثبوت ہے لِنتَ بِهِ فُؤَادَگ کا.جمع قرآن پر اعتراضات ایک اعتراض جمع قرآن کے متعلق کیا جاتا ہے.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن اپنی اصلی صورت میں محفوظ نہیں وہ اپنے اس دعوئی کے ثبوت میں یہ بات پیش کرتے ہیں کہ : (۱) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جس قدر کام ہوتے تھے اور جس طرح وہ لڑائیوں اور شورشوں میں گھرے ہوئے تھے ایسی حالت میں انہیں قرآن صحیح طور پر کہاں یا درہ سکتا تھا.(۲) کہا جاتا ہے کہ عربوں کا حافظہ بہت اچھا تھا.مگر یہ غلط ہے.صحیح بات یہ ہے کہ ان کا حافظہ اچھا نہیں ہوتا تھا جو اس سے ظاہر ہے کہ ان کی ان نظموں میں اختلاف ہے جو پہلے شاعروں کی ہیں.کوئی کسی طرح بیان کرتا ہے اور کوئی کسی طرح.اس سے معلوم ہوا کہ عربوں کے حافظے اچھے نہ تھے ورنہ اختلاف کیوں ہوتا.(۳) قرآن رسول کے زمانہ میں پورا نہیں لکھا گیا.اگر پورا لکھا جاتا تو حافظوں کے مارے جانے پر قرآن کے ضائع ہو جانے کا خطرہ کیوں ظاہر کیا جاتا.22 (۴) قرآن میں آتا ہے.الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ یعنی وہ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر لیا.کہتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے پیدا ہو گئے تھے.(۵) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خود پڑھے لکھے نہ تھے اس لئے انہوں نے قرآن لکھنے کے لئے کا تب رکھے ہوئے تھے اور وہ جو چاہتے لکھ دیتے.(۶) لکھا ہے کہ حضرت عثمان کے زمانہ میں قرآن کے پڑھنے میں بڑا اختلاف ہو گیا تھا.اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں قرآن کے متعلق اختلاف موجود تھا.(۷) حضرت عثمان نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وقت کے قرآن کی جتنی کا پیاں تھیں وہ جلوا دی تھیں.اس سے پتہ لگتا ہے کہ ان میں اختلاف تھا اس قرآن سے جو عثمان نے لکھوایا.اگر اختلاف نہیں تھا تو ان کو کیوں جلوا یا گیا.22
فصائل القرآن نمبر...(۸) قرآن کریم کی اصلیت پر صرف زید گواہ ہے.مگر اس کا تو فرض تھا کہ قرآن لکھے.اس پر بھروسہ کس طرح کیا جاسکتا ہے.(۹) اگر حضرت ابوبکر کے وقت کے قرآن کی کاپی درست تھی تو پھر حضرت عثمان کے زمانہ میں دوبارہ لکھوانے کی کیا ضرورت تھی.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ حضرت ابوبکر کے زمانہ کی کا پیوں کو غلط سمجھا گیا.(۱۰) حضرت عثمان پر الزام لگایا گیا ہے کہ جب وہ خلیفہ ہوئے تو بہت سے قرآن تھے.لیکن جب وہ فوت ہوئے تو پیچھے صرف ایک قرآن چھوڑا.اس سے معلوم ہوا کہ اختلاف والے قرآنوں کو جلا دیا گیا تھا.مخالفین کے اعتراضات کے جوابات اب میں ان اعتراضوں کا جواب دیتا ہوں.23 23 پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ رسول کریم سنا تھا کہ ہم کو اتنے کاموں اور شورشوں میں قرآن کریم یاد کس طرح رہ سکتا تھا.یہ ایسا سوال ہے کہ اس کا ایک ہی جواب ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ ایک واقعہ کو کس طرح جھٹلایا جا سکتا ہے.جب واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم آپ کو یا د رہا اور شب و روز نمازوں میں سنایا جاتا رہا تو اس کا انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے سامنے پروفیسر مارگولیتھ نے یہ اعتراض کیا کہ اتنا بڑا قر آن کس طرح یا درہ گیا.میں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تو قرآن اترا تھا اور آپ کے سپر د ساری دنیا کی اصلاح کا کام کیا گیا تھا آپ اسے کیوں یاد نہ رکھتے ؟ میرے ایک لڑکے نے گیارہ سال کی عمر میں قرآن یاد کر لیا ہے.اور لاکھوں انسان موجود ہیں جنہیں سارے کا سارا قرآن یاد ہے.جب اتنے لوگ اسے یاد کر سکتے ہیں تو کیا وہی نہیں کر سکتا تھا جس پر قرآن نازل ہوا تھا.دوسرا اعتراض یہ ہے کہ عرب کے لوگوں کا حافظہ اچھانہ تھا، کیونکہ وہ پرانی نظموں میں اختلاف کرتے ہیں.اس کے متعلق اول تو میں کہتا ہوں کہ یہ شتر مرغ والی مثال ہے.ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ عربوں کو پرانے قصیدے یاد ہوتے تھے جن میں اختلاف ہوتا تھا.اور دوسری طرف
فصائل القرآن نمبر.....مارگولیتھ کہتا ہے کہ پرانے زمانہ میں قصیدے تھے ہی نہیں یوں ہی بنا کر پہلے لوگوں کی طرف منسوب کر دیئے گئے ہیں.گویا جس پہلو سے اسلام پر اعتراض کرنا چاہا وہی سامنے رکھ لیا.اصل بات یہ ہے کہ عربوں کے ایسے حافظے ہوتے تھے کہ مشہور ہے ایک بادشاہ نے اعلان کیا کہ جس شاعر کو ایک لاکھ شعر یاد نہ ہوں وہ میرے پاس نہ آئے.اس پر ایک شاعر آیا اور اس نے آکر کہا میں بادشاہ سے ملنے کے لئے آیا ہوں.اسے بتایا گیا کہ بادشاہ سے ملنے کے لئے ایک لاکھ شعر یاد ہونے ضروری ہیں.اس نے کہا بادشاہ سے جا کر کہہ دو وہ ایک لاکھ شعر اسلامی زمانہ کا سننا چاہتا ہے 24 یا زمانہ جاہلیت کا.عورتوں کے سننا چاہتا ہے یا مردوں کے.میں سب کے اشعار سنانے کے لئے تیار ہوں.یہ سن کر بادشاہ فوراً باہر آ گیا.اور آکر کہا کیا آپ فلاں شاعر ہیں.اس نے کہا ہاں میں وہی ہوں.بادشاہ نے کہا اسی لئے میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ آپ میرے پاس آتے نہ تھے.میں نے خیال کیا کہ شاید اس اعلان پر جوش کی وجہ سے آپ آجائیں.پس یہ کہنا غلط ہے کہ عربوں کے حافظے اچھے نہ تھے.رہی یہ بات کہ شعروں میں اختلاف ہے.اس کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ وہ لوگ جو شعر یا درکھتے تھے وہ انہیں الہامی کتاب کے شعر سمجھ کر نہیں یاد کرتے تھے بلکہ ان کا مطلب اخذ کر لیتے تھے.مگر قرآن کو تو خدا کا کلام سمجھ کر یاد کرتے تھے.اس وجہ سے اس کا ایک لفظ بھی آگے پیچھے نہ کرتے تھے.پھر شعر جو وہ یاد کرتے تھے وہ استادوں سے پڑھ کر یاد نہ کرتے تھے بلکہ جس سے سنتے یاد کر لیتے.اور ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ صحیح الفاظ ہی یاد کرائے.لیکن اسلامی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن لکھنے کے متعلق اور قرآن یاد کرنے کے متعلق خاص قواعد مقرر تھے اور قرآن یاد کرانے کے لئے چار آدمی مقرر تھے.اور اس میں اتنی احتیاط کی جاتی تھی کہ ایک دفعہ نماز میں حضرت علی نے پڑھنے والے کو لقمہ دے دیا تو انہیں منع کیا گیا اور کہا گیا کہ آپ اس کام کے لئے مقرر نہیں.غرض قرآن کریم کے بارہ میں اتنی احتیاط کی گئی تھی کہ چار آدمی اس کام کے لئے مقرر تھے حالانکہ قرآن جاننے والے ہزاروں تھے.اس کے مقابلہ میں شاعروں کی طرف سے کون سے لوگ مقرر تھے جو شعر یاد کراتے تھے.امراً القیس نے کسے مقرر کیا تھا کہ اس کے اشعار لوگوں کو یاد کرایا کرے.مگر قرآن یاد کرانے کے متعلق تو استاد در استاد بات چلی آرہی ہے.سوم : ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ رسول کریم ملی ایم کے زمانہ میں پورا قرآن نہ لکھا گیا 24
فصائل القرآن نمبر.....25 25 تھا.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ درست نہیں ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یقینا سارا قرآن لکھا گیا.جیسا کہ حضرت عثمان کی روایت ہے کہ جب کوئی حصہ نازل ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے والوں کو بلاتے اور فرماتے اسے فلاں جگہ داخل کرو.جب یہ تاریخی ثبوت موجود ہے تو پھر یہ کہنا کہ قرآن رسول کریم سلا می ایام کے وقت پورا نہ لکھا گیا تھا بے وقوفی ہے.رہا یہ سوال کہ پھر حضرت ابوبکر کے زمانہ میں کیوں لکھا گیا اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن اس طرح ایک جلد میں نہ تھا جس طرح اب ہے.حضرت عمر کو یہ خیال پیدا ہوا کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ قرآن محفوظ نہیں.اس لئے انہوں نے اس بارے میں حضرت ابو بکر سے جو الفاظ کہے وہ یہ تھے کہ اِنّى أَرى أَنْ تَأْمُرَ جَمْعَ الْقُرْآنِ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کرنے کا حکم دیں.یہ نہیں کہا کہ آپ اس کی کتابت کرائیں.پھر حضرت ابوبکر نے زید کو بلا کر کہا کہ قرآن جمع کرو.چنانچہ فرما یالا جمعہ اسے ایک جگہ جمع کر دو.یہ نہیں کہا کہ اسے لکھ لو.غرض الفاظ خود بتارہے ہیں کہ اس وقت قرآن کے اوراق کو ایک جلد میں اکٹھا کرنے کا سوال تھا.لکھنے کا سوال نہ تھا.چہارم : یہ اعتراض تھا کہ قرآن کریم میں بعض لوگوں کے متعلق الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنِ عضین آیا ہے.سو یا د رکھنا چاہیئے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے تھے.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں پر ویسا ہی عذاب نازل کرے گا.جیسا ان لوگوں پر کیا جو قرآن کے بعض حصوں پر عمل کرتے ہیں اور بعض پر نہیں کرتے.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں کافروں اور منافقوں کا ذکر ہے.اور اگر یہی معنے کئے جائیں کہ قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے تھے تو یہ بھی ہمارے لئے مفید ہے.کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن اس وقت جمع تھا.اس لئے دشمن اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے تھے.مسلمانوں کے پاس قرآن محفوظ تھا مگر منافق اس کے ٹکڑے ٹکڑے رکھتے تھے.پنجم : یہ جو کہا جاتا ہے کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان پڑھ تھے.اس لئے کا تب جو چاہتے لکھ دیتے.اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم مستی میں یہ تو نے پہلے سے ہی اس کا انتظام کر لیا تھا.اور وہ یہ کہ جب وحی نازل ہوتی تو کاتب کو کہتے لکھ لو اور چار آدمیوں کو کہتے یاد کر لو.اس طرح لکھنے
فصائل القرآن نمبر.....والے کی غلطی یاد کرنے والے درست کرا سکتے تھے.اور یاد کرنے والوں کی غلطی لکھنے والا بتا سکتا تھا.فرض کر و لکھنے والے نے لفظ غلط لکھ لیا مگر یاد کرنے والے اس غلطی کے ساتھ کیونکر متفق ہو سکتے تھے، اس طرح فورا غلطی پکڑی جاسکتی تھی.ششم: یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان کے وقت قرآن کے پڑھنے میں بہت اختلاف ہو گیا تھا.اس کا جواب یہ ہے کہ کسی صحیح روایت سے یہ پتہ نہیں لگتا کہ حضرت عثمان کے وقت قرآن کے متعلق اختلاف ہو گیا تھا.بلکہ صاف لکھا ہے کہ قرآت میں اختلاف تھا.اور حدیثوں سے ثابت ہے کہ سات قرآتوں پر رسول کریم صلی ہم نے قرآن پڑھا.چونکہ بعض قوموں کے لئے بعض الفاظ کا ادا کرنا مشکل تھا.اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی بتلایا جاتا کہ ان الفاظ کو اس طرح بھی پڑھ سکتے ہیں.اس بارہ میں روایات میں آتا ہے کہ حضرت علی نے بیان کیا کہ حضرت عثمان نے انہیں بلا کر کہا کہ مختلف قبائل کے لوگ کہتے ہیں کہ ہماری قرآت صحیح ہے اور اس پر جھگڑا پیدا ہو رہا ہے.اس لئے اس کا فیصلہ ہونا چاہئے.حضرت علی نے کہا آپ ہی فیصلہ کر دیں.انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ مسلمان ہو کر اب سب ایک ہو گئے ہیں اس لئے ایک ہی قرآت ہونی چاہئے اور وہ قریش والی قرآت ہے.ہفتم: اگر قراتوں میں اختلاف نہ تھا تو حضرت ابوبکر کے وقت کے قرآن جلائے کیوں گئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی صریح طور پر غلط ہے.وہاں تو یہ لکھا ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا قرآن تھا.وہ ان سے منگوایا گیا اور کہا گیا کہ نقل کرنے کے بعد واپس کر دیں.چنانچہ واپس کر دیا گیا.اور جلائے مختلف قراتوں والے قرآن گئے تھے تا کہ قرآتوں کا اختلاف نہ رہے.ہشتم: یہ جو کہا گیا ہے کہ قرآن کی اصلیت پر صرف زید کی گواہی ہے، یہ بھی غلط ہے.حضرت ابوبکر نے زید کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو رکھا اور مسجد کے دروازہ پر بٹھا دیا.اور حکم دیا کہ کوئی تحریر ان کے پاس ایسی نہ لائی جائے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھائی ہوئی نہ ہو اور جس کے ساتھ دو گواہ نہ ہوں جو یہ کہیں کہ ہمارے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کھوائی تھی.26 26
فصائل القرآن نمبر.....نم : ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر اختلاف نہیں تھا تو حضرت عثمان کے وقت دوبارہ تحقیق کی ضرورت کیوں پیش آئی.اس کا جواب یہ ہے کہ قرآتوں کی تحقیق کرائی گئی تھی عبارتوں اور سورتوں کی تحقیق نہیں کروائی گئی.27 دہم : اس طرح یہ جو کہا گیا ہے کہ اگر اختلاف نہ تھا تو ایک کے سوا باقی کا پیاں کیوں جلائی گئیں.اس کا بھی وہی جواب ہے کہ مختلف قرآتوں والی کا پیاں جلائی گئی تھیں.پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان کے خلیفہ ہونے کے وقت بہت قرآن تھے مگر ان کے بعد ایک رہ گیا.اس کا یہی مطلب ہے کہ انہوں نے مختلف قرآتوں کو اڑادیا اور پھر جن قوموں کی قرآتوں کو مٹایا گیا انہوں نے یہ اعتراض کیا.پس نتیجہ یہ نکلا کہ موجودہ قرآن وہی ہے جو رسول کریم ملا نے یتیم کے زمانہ میں تھا.اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے.محکمات اور متشابہات اب میں متشابہات کے متعلق مختصر طور پر کچھ بیان کر دیتا ہوں.اعتراض کیا جاتا ہے کہ قرآن میں محکمات بھی ہیں اور متشابہات بھی، پھر قرآن کا کیا اعتبار رہا.اصل بات یہ ہے کہ قرآن کے متشابہات پر غور ہی نہیں کیا گیا.سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ الَّذِى اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ مِنْهُ ايتٌ مُحَكَمْتُ هُنَّ أُمُّ الْكِتَبِ وَأَخَرُ مُتَشفت نا کہ وہ خدا ہی ہے جس نے اس قرآن کو اپنے رسول پر اُتارا.اس میں کچھ تو محکمات ہیں جو ام الکتاب ہیں اور کچھ متشابہات ہیں.اس کے متعلق لوگ کہتے ہیں.ہمیں کیا معلوم کہ کونسی آیت محکم ہے اور کونسی متشابہ.اس کے مقابلہ میں سورۃ ہود میں آتا ہے.کتب احكمَتْ أَيْتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيمٍ خبیر کہ یہ کتاب وہ ہے جس کی ساری آیات محکمات ہیں.اس سے بظاہر او پر کی بات غلط ہوگئی کہ قرآن کی بعض آیات متشابہ ہیں اور بعض محکم.تیسری جگہ آتا ہے.الله نَزِّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتبًا مُتَشَابِهًا مَنَانِي یعنی خدا ہی ہے جس نے بہتر سے بہتر بات یعنی وہ کتاب
28 فصائل القرآن نمبر.....نازل فرمائی ہے جو متشابہ ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی ساری آیتیں ہی متشابہ ہیں.حالانکہ پہلے ساری آیات کو محکم قرار دیا گیا تھا.اس سے صاف معلوم ہوگیا کہ محکم اور متشابہ کا مطلب اور تھا جو سمجھا نہیں گیا.اور عجیب بات یہ ہے کہ متشابہ کے معنی یہ لئے جاتے ہیں کہ جس سے شکوک پیدا ہوں.حالانکہ قرآن متشابہ کی یہ تفسیر کرتا ہے.مَتَانِيَ تَقْشَعِرُ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إلى ذِكْرِ الله " کہ اس کے مضامین نہایت اعلیٰ ہیں اور جو لوگ اس کتاب کو سمجھ کر پڑھتے ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں.ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.پھر ان کے جسم کا رواں رواں اور ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف جھک جاتے ہیں.یعنی ان کے قلوب میں خدا تعالیٰ کی محبت کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں.اب بتاؤ.کیا کسی شکی بات سے اس طرح ہو سکتا ہے.صاف معلوم ہوتا ہے کہ متشابہ کا اور مطلب ہے اور وہ یہ کہ متشابہ کے معنی ہیں جو دوسری سے ملتی ہو.یعنی متشابہ وہ تعلیم ہے جو پہلی تعلیموں سے ملتی جلتی ہو.مثلاً روزہ رکھنا ہے.یہ حکم اپنی ذات میں متشابہ ہے کیونکہ یہ تعلیم پہلے بھی پائی جاتی تھی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ کے پس مجرد روزہ رکھنے کا حکم متشابہ ہے.اسی طرح قربانیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلِكُلِ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا یعنی ہر قوم کے لئے ہم نے قربانی کا ایک طریق مقرر کیا ہے.پس قربانی کا حکم بھی متشابہ ہے.دراصل قرآن نے اس میں ان لوگوں کو جواب دیا ہے جنہوں نے یہ کہا تھا کہ قرآن نے دوسری کتابوں سے چوری کر کے سب کچھ پیش کر دیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ الَّذِي انْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ مِنْهُ أَيْتَ مُحْكَمَتْ هُنَّ أُمُّ الْكِتَبِ وَأَخَرُ مُتَشبہات کہ یہ کتاب ایسی ہے جس میں کچھ تعلیمیں تو جدید ہیں اور کچھ تعلیمیں ایسی ہیں جو لا زما پچھلی تعلیموں سے ملنی چاہئیں.مثلاً پہلے نبیوں نے کہا سچ بولا کرو.کیا قرآن یہ کہتا ہے کہ سچ نہ بولا کرو.جھوٹ بولا کرو؟ غرض فرمایا قرآن میں ایسی ہیں جو پہلی تعلیموں سے ملتی ہیں.مگر آگے فرماتا ہے.فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِه بيقوف لوگ جدید تعلیموں پر نظر نہیں ڈالتے اور پہلی تعلیموں سے ملتی جلتی تعلیموں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ قرآن بعض
فصائل القرآن نمبر...29 29 نے یہ قتل کی ہے.وہ محض فتنہ پیدا کرنے کی غرض سے اور اس کتاب کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کے لئے ایسا کرتے ہیں وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيْلَةَ إِلَّا الله کے حالانکہ ان کی حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور وہی سمجھ سکتا ہے کہ کتنی تعلیم دوبارہ نازل کرنی ضروری ہے.انسان کے ہاتھ میں اس نے یہ کام نہیں رکھا.کیونکہ گو وہ تعلیم پہلے نازل ہو چکی ہوتی ہے مگر پھر بھی اس کی وہ مقدار جو آئندہ کے لئے ضروری ہوتی ہے.اس کا فیصلہ خدا تعالیٰ ہی کر سکتا ہے.کوئی اور نہیں کر سکتا.اور یا پھر خدا تعالیٰ کے علم دینے کے بعد وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی کتب کا حقیقی علم رکھنے والے ہیں سمجھ سکتے ہیں کہ کس حد تک اس تعلیم کو قائم رکھا جانا ضروری تھا اور کسی امر کو کیوں بدلا گیا ؟ اس کی اور تشریحات صحیحہ بھی ہو سکتی ہیں.مگر ان میں محکم اور متشابہ کو معین نہیں کیا جاسکتا.ایک ہی آیت ایک وقت میں محکم اور ایک وقت میں متشابہ ہو جاتی ہے.یعنی جو آیت کسی کی سمجھ میں آگئی وہ محکم ہوگئی اور جو نہ آئی متشابہ ہوگئی مگر پھر اختلاف ہوسکتا ہے.ہوسکتا ہے کہ ایک شخص ایک معنی کے لحاظ سے کسی آیت کو محکم قرار دے دے اور دوسرا اسے درست نہ سمجھتے ہوئے اسے متشابہ کہہ دے مگر ان معنوں میں محکم آیات بالکل ظاہر ہو جاتی ہیں.یعنی وہ تعلیمات قرآنیہ جو پہلی کتب سے زائد ہیں وہ سب محکم ہیں اور دوسری متشابہ.سارے قرآن کو محکم اور سیارے قرآن کو متشابہ کیوں کہا گیا ہے باقی رہا یہ سوال کہ پھر ایک جگہ سارے قرآن کو محکم اور دوسری جگہ سارے قرآن کو متشابہ کیوں کہا گیا ہے.تو اس کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں قرآن کریم کی اصطلاح میں محکم تعلیم وہی ہے جس میں قرآن کریم نے تجدید کی ہے.اور جس امر میں وہ پہلی کتب سے ملتا ہے وہ متشابہ ہے.لیکن ایک لحاظ سے سارا ہی قرآن محکم ہے.کیونکہ اصولاً کسی تعلیم کو دیکھتے ہوئے اس کے کسی ایک ٹکڑے کو نہیں بلکہ مجموعہ کو دیکھتے ہیں.اور احکام کی مختلف اجناس کو بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو اسلامی تعلیم بالکل جدا ہے.کسی حصہ تعلیم میں بھی اس نے اصلاح کو ترک نہیں کیا.اور وہ پہلی کتب کے بالکل مشابہ نہیں ہے، اس لئے وہ سب محکم ہے.لیکن اسی طرح چونکہ سب اصول شریعت کا پہلی کتب میں پہلے لوگوں کے درجہ کے مطابق نازل ہونا بھی ضروری تھا تا کہ پہلے زمانہ
فصائل القرآن نمبر.....30 کے لوگ بھی اپنے اپنے دائرہ میں تکمیل حاصل کریں اس لئے ہر قسم کے احکام جو قرآن کریم میں ہیں کسی نہ کسی صورت میں پہلی کتب میں بھی موجود ہیں اس لحاظ سے قرآن کریم سب کا سب متشابہ ہے.نماز بھی پہلے مذاہب میں ہے.روزہ بھی ہے.حج بھی ہے، زکوۃ بھی ہے اور اس تشابہ کو دیکھ کر بعض لوگ دھو کے میں پڑ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ قرآن کریم کے نزول کا پھر کیا فائدہ ہوا.عیسائیوں میں سے دینا بیع الاسلام وغیرہ کتابوں کے مصنف اسی گروہ میں شامل ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی دوسری کتب سے مشابہت ثابت کر کے قرآن کو جھوٹا قرار دیا ہے.حالانکہ قرآن کریم نے پہلے سے اس اعتراض کا ذکر کر کے اس کا نہایت واضح جواب دے دیا ہے.حق یہ ہے کہ قرآن کریم نے یہ ایک زبر دست حقیقت بتائی ہے کہ ہر ایک آسمانی صحیفہ کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر کچھ محکم ہو اور کچھ متشابہ.متشابہ اس لئے کہ جو صحیفہ پہلی تعلیمات سے بنگلی جُدا ہو جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوسکتا.کیونکہ اس کے یہ معنی ہونگے کہ اس سے پہلے کوئی شخص خدا کا برگزیدہ ہو ہی نہیں.اور خدا تعالیٰ نے کسی کو ہدایت دی ہی نہیں ، اور یہ باطل ہو گا.اور محکم اس لئے کہ اگر وہ کوئی جدید خوبی دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتا تو اس کی آمد کی ضرورت کیا ہے، پہلی تعلیم تو موجود ہی تھی.اور کون ہے جو اس اصل کی خوبی کا انکار کر سکے یا اس کی سچائی کو رڈ کر سکے.مفسرین نے محکم اور متشابہ کی تاویل میں بہت کچھ زور لگایا ہے.مگر اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے انہوں نے بہت کچھ دھوکا کھایا ہے.اب چونکہ سردی بڑھ رہی ہے اور بادل بھی گھرے ہوئے ہیں اس لئے میں اسی پر اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کو قرآن کریم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین اس تقریر کے بعد حضور نے تمام مجمع کے ساتھ مل کر دعا کی اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور اس امر پر سجدہ شکر ادا کیا کہ اس نے حضور کو کمزوری صحت کے باوجود جلسہ میں شامل ہو کر تقریر کرنے اور پھر سب کے ساتھ مل کر دعا کرنے کی توفیق بخشی.فَالْحَمْدُ لِلهِ عَلَى ذَلِكَ ) ل الانعام: ۲۶ الحاقة:٤٢
فصائل القرآن نمبر.....سے 905.The Encyclopaedia Britannica Vol 15th P الاعراف : ۱۵۹ ۵ التوبة : ۲۶ ك الفرقان: ٣٣ Published 1911, الفرقان : ۵ و الحجر : ۹۲ ا ال عمران: ۸ هود : ۲ ۱۳ ۱۳ الزمر : ۲۴ ١٤ البقرة : ۱۸۴ ها الحج: ۳۵ ، كل ال عمران: ۸ 31
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ نمبر ۲۰ از سید نا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی 32
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّ اصير (نمبر۲) قرآن کریم کی کتب سابقہ پر افضلیت کے عقلی اور نقلی شواہد فرموده ۲۹ دسمبر ۱۹۲۹ء بر موقع جلسه سالانه قادیان) لا ط تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ نور کی ان آیات کی تلاوت فرمائی.اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحُ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تمسَسْهُ نَارُ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِى اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ، وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُةِ وَالْأَصَالِ رِجَالٌ لا ط الالالالا 33
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللهِ وَإِقَامِ الصَّلوةِ وَإِيتَاءِ الزكوة يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ لِيَجْزِيَهُمُ اللهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاءُ بِغَيْرِ حساب ها اس کے بعد فرمایا: اسلام کا مغز اور اس کی جان یہ مضمون جس کے متعلق میں اس وقت کچھ بیان کرنے لگا ہوں نہایت ہی اہمیت رکھتا ہے.اور در حقیقت یہ اسلام کا مغز اور اس کی جان ہے.اور دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اسے پورے غور اور توجہ کے ساتھ سنیں اور اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں.یہ مضمون فضائل قرآن کریم کے متعلق ہے یعنی قرآن کریم میں وہ کونسی خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے دوسرے مذاہب کی کتابوں پر اسے فضیلت دی جاسکتی ہے.اس میں کیا شبہ ہے کہ قرآن کریم پر ہمارے مذہب کا دارو مدار ہے.اگر خدانخواسته قرآن کریم میں ہی کوئی نقص ثابت ہو جائے یا اس میں غیر معمولی خوبیاں ثابت نہ ہوں تو اسلام کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.پس یہ ایک نہایت ہی نازک مسئلہ ہے جس پر حملہ کرنے سے اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے.میں رسول کریم صلی یہ ہم کو قر آن کریم سے باہر نہیں سمجھتا.آپ بھی قرآن کا جزو ہیں.جیسا کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَلَمِينَ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْآمِينَ.عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ ، یعنی یہ قرآن یقینا رب العالمین خدا کی طرف سے اُتارا گیا ہے.یہ قرآن رُوحُ الْآمین لے کر تیرے دل پر نازل ہوا ہے تا کہ تو اندار کرنے والوں کی مقدس جماعت میں شامل ہو جائے.بس ایک قرآن لفظوں میں نازل ہوا ہے اور ایک قرآن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مطہر پر نازل ہوا ہے.اس وجہ سے رسول کریم سی یہ تم پر کوئی حملہ در حقیقت قرآن کریم پر ہی حملہ ہوگا.34 ===
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 35 تمام ادیان اور کتب الہامیہ پر قرآن کریم کی فضیلت ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم ساری دنیا کے لئے اور سارے زمانوں کے لئے ہے.اب اگر قرآن کریم ساری دنیا اور سارے زمانوں کے لئے ہے تو ہماری اس کے متعلق ذمہ داری بھی بہت بڑھ جاتی ہے.یہ نسبت اس کے کہ قرآن کریم صرف عرب کے لئے ہوتا اور صرف ایک زمانہ کے مفاسد دور کرنے کے لئے آتا.عربوں کے پاس کوئی شریعت نہ تھی کوئی مذہبی کتاب نہ تھی.وہ خیالی باتوں پر یا قومی رسم و رواج پر عمل کرتے تھے.ان کے متعلق ہمارے لئے صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ عرب چونکہ بتوں کی پوجا کرتے تھے اور طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا تھے قرآن کریم نے انہیں ان برائیوں سے روک دیا اس وجہ سے اس کی ضرورت تھی.پس اگر عرب ہی کے لئے قرآن ہوتا تو قرآن کی فضیلت اور برتری ثابت کرنے میں کوئی دقت نہ تھی.مگر ہم یہ کہتے ہیں که قرآن کریم ساری دنیا کے لئے آیا ہے اور یہودی بسیجی، ہندو، پارسی وغیرہ سب اس کے مخاطب ہیں اور تمام دوسری کتابیں جن کو الہامی درجہ دیا جاتا ہے یا وہ کتابیں جن کا پتہ آثار قدیمہ سے لگا ہے ان سب سے افضل ہے.اس وجہ سے ہمارے لئے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے یہ پہلی تمام کتابوں پر مقدم اور ان سے افضل ہے.قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو تورات میں نہیں.قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو پرانے صحیفوں میں نہیں.قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو اناجیل میں نہیں.قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو ویدوں میں نہیں.اور قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جوزرتشت وغیرہ کی کتابوں میں بھی نہیں.قرآن کریم ایک روحانی خزانہ ہے پھر قرآن کریم کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے ہمیں یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ قرآن کریم میں وہ روحانی خزانہ ہے جس کے بغیر دنیا میں ہم گزارہ نہیں کر سکتے.صرف دوسری الہامی کتب کے مقابلہ میں زیادتی ثابت کر دینا کافی نہیں ہے بلکہ یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم نے جو چیز پیش کی ہے اس سے ایسی نئی سہولتیں بہم پہنچی ہیں جو پہلے حاصل نہ تھیں.جب دو چیزیں صفات
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 36 کے لحاظ سے برابر ہوں تو ایک کی ظاہری خوبی بھی دوسری پر فضیلت تسلیم کی جاسکتی ہے.جیسے دو آم ایک ہی طرح میٹھے ہوں مگر ان میں سے ایک بڑا اور دوسرا چھوٹا ہو تو بڑے کو چھوٹے پر بڑائی کی فضیلت حاصل ہوگی.لیکن قرآن کریم کے متعلق ہمارا یہ دعوی ہے کہ یہ ساری دنیا کے لئے اور تمام زمانوں کے لئے ہے.اب اس کے بعد کوئی شرعی کتاب نہیں آسکتی.اس لئے ہمیں ساری قوموں، سارے مذاہب اور سارے علوم کے مقابلہ میں قرآن کریم کی فضیلت ثابت کرنی ہوگی.جو کتاب یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ سب سے آخری الہامی کتاب ہے، جیسے قرآن کہتا ہے، اس کی ذمہ داری پہلی تمام کتب سے بالا خوبیاں پیش کرنے کی ہے.پہلی کتابوں کو منسوخ کرنے کا دعویٰ کرنے والی کتاب کا فرض صرف یہ ہے کہ وہ اتنا ثابت کر دے کہ پہلی کتابوں سے زیادہ اس میں خوبیاں پائی جاتی ہیں.لیکن وہ کتاب جو یہ کہے کہ میرے بعد کوئی شرعی کتاب نہیں آسکتی اور میں اب ہمیشہ کے لئے مکمل کتاب ہوں اس کے لئے یہی کافی نہیں کہ وہ پہلی کتابوں سے بڑھ کر خو بیاں پیش کرے بلکہ یہ ثابت کرنا بھی اس کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ روحانیت کے متعلق کوئی ایسی بات نہیں آسکتی جو اس میں نہ ہو.پس وہ کتاب جو صرف یہ نہ کہے کہ میں پہلی کتب کو منسوخ کرتی ہوں بلکہ یہ بھی کہے کہ آئندہ کے لئے بھی سب الہامی کتابوں کا دروازہ بند کرتی ہوں، اس کے لئے ضروری ہے کہ اس بات کے قطعی ثبوت پیش کرے کہ آئندہ بھی کوئی ایسی کتاب نازل نہیں ہوسکتی.پس قرآن کریم کی افضلیت ثابت کرنے کے لئے یہ معیار نہایت ضروری ہے.ہاں علاوہ اس اصولی بحث کے تفصیلی بحث بھی کی جاسکتی ہے کہ فلاں فلاں خوبی قرآن کریم میں ہے جو اور کسی کتاب میں نہیں ہے مگر اصولی طور پر بحث کرنا بھی ضروری ہوگا.جب ہم قرآن کریم میں خوبیوں کی کثرت ثابت کر دیں مثلاً یہ کہیں کہ فلاں فلاں خوبیاں وید، بائیبل اور ژند اَوِشتا میں بھی پائی جاتی ہیں اور قرآن میں بھی ہیں مگر یہ چار یا دس ہیں خوبیاں ایسی ہیں جو صرف قرآن میں پائی جاتی ہیں تو اس سے بھی قرآن کریم کی فضیلت ثابت ہوگی مگر اس سے قرآن کریم کا اکمل ہونا ثابت نہ ہوگا اور یہ بات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچے گی کہ آئندہ کوئی اور شرعی کتاب نہیں آسکتی.اس طرح قرآن کریم صرف موجودہ کتب کے مقابلہ میں افضل ثابت ہو سکتا.
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ تمام وجوہ کمال میں افضل کتاب غرض سب کے آخر اور سب سے افضل ہونے کا دعویٰ کرنے والی کتاب کے لئے نہ صرف یہ ضروری ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ اس کے اندروہ کچھ ہے جو دوسری کتب میں نہیں ہے بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ یہ بھی ثابت کرے کہ جو کچھ اس میں ہے وہ دوسری کتب میں ہو ہی نہیں سکتا.جب تک وہ یہ ثابت نہ کرے اس وقت تک صرف اچھی باتیں بتانے سے اس کی افضلیت ثابت نہیں ہو سکتی.ہاں افضلیت چونکہ صرف اعلیٰ خوبیوں کے لحاظ سے نہیں ہوتی بلکہ وسیع خوبیوں کے لحاظ سے بھی ہوتی ہے.اس لئے خوبیوں کی وسعت اس غرض کے اثبات کے لئے پیش کی جاسکتی ہے کہ گو بعض خوبیاں کسی اور کتاب میں بھی پائی جاتی ہوں مگر خوبیوں کی وسعت کے لحاظ سے فلاں کتاب افضل ہے.ہاں کامل افضل کتاب وہ کہلائے گی جو تمام وجوہ کمال میں افضل ثابت ہو.اور میرا قرآن کریم کے متعلق یہی دعویٰ ہے.جواہرات کی کان ممکن ہے کوئی کہے کہ کیا پہلے لوگوں کو قرآن کریم کے ان فضائل کا علم نہ تھا؟ سو یا درکھنا چاہیئے کہ علم تھا مگر روحانی علوم خدا تعالیٰ کے فضل سے روزانہ ترقی کرتے ہیں.اور جب ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہمارے پاس قرآن کریم جواہرات کی ایک کان ہے جس میں سے نئے سے نئے جواہر نکلتے رہتے ہیں تو پھر کیوں ہم انہی جواہرات پر اکتفاء کریں جو پہلے لوگ حاصل کر چکے ہیں اور کیوں قرآنی کان میں سے ہم نئے ہیرے اور جواہرات نہ نکالیں.پس میں قرآن کریم کے خزانہ میں گیا کیونکہ پہلے میں وہاں سے کئی بار عل و جواہر نکال چکا تھا، اور پھر اپنے دامن کو بھر کر لایا.جب میں اس خزانہ میں قرآن کریم کی خوبیاں معلوم کرنے کے لئے گیا تو مجھے ایک عجیب بات سو جبھی.اور وہ یہ کہ بجائے اس کے کہ اس خزانہ میں میں اندھا دھند ہاتھ ماروں اور جو چیز میرے ہاتھ میں آئے اسے اُٹھالوں حالانکہ ممکن ہے اس سے بہتر چیز وہاں موجود ہو اور میں اسے نہ اٹھا سکوں اس لئے کیوں نہ میں اصولی طور پر غور کروں کہ مجھے کیا لینا چاہئے.تب مجھے خیال آیا کہ کسی کتاب کی 37
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ فضیلت اور اکملیت ثابت کرنے کے لئے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اس کے مضامین پر غور کریں اور اس طرح اس کی کوئی خوبی معلوم کریں بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ کسی چیز کو دوسری چیز پر فضیلت کیوں حاصل ہوتی ہے.پھر یہ دیکھنا چاہئے کہ جو فضیلت کے معیار ہیں اور جن کی وجہ سے کسی کو فضیلت دی جاتی ہے وہ کس قدر قرآن میں پائے جاتے ہیں.قرآنی فضیلت کے چھبیس (۲۶) وجوہ 38 جب میں نے اس رنگ میں غور کیا تو قرآن کریم کا سمندر میری آنکھوں کے سامنے آ گیا اور مجھے معلوم ہوا کہ ہر فضیلت کے وجہ جو دنیا میں پائی جاتی ہے اور جس کی بناء پر ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دی جاتی ہے وہ بدرجہ اتم قرآن کریم میں پائی جاتی ہے اور فضیلت دینے والی خوبیوں کے سارے رنگ قرآن کریم میں موجود ہیں.میں نے اس وقت سرسری نگاہ سے دیکھا تو قرآن کریم کی فضیلت کی چھپیں وجوہات میرے ذہن میں آئیں.بالکل ممکن ہے کہ یہ وجوہات اس سے بہت بڑھ کر ہوں اور میں پھر غور کروں یا کوئی اور غور کرے تو اور وجوہات بھی نکل آئیں.مگر جتنی وجوہات اس وقت میرے ذہن میں آئیں، ان میں میں نے قرآن کریم کو تمام کتب سے افضل پایا.منبع کی افضلیت (1) پہلی وجہ کسی چیز کے افضل ہونے کی اس کے منبع کی افضلیت ہوتی ہے.جیسے گورنمنٹ کی ملازمت میں باپ نے جو گورنمنٹ کی خدمات کی ہوتی ہیں ان کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور ایک دوسرے شخص کو جو تعلیم اور قابلیت کے لحاظ سے بالکل مساوی ہوتا ہے اس پر ایسے شخص کو ترجیح دے دی جاتی ہے جس کے باپ داد نے گورنمنٹ کی خدمات کی ہوتی ہیں.یہ نع کے لحاظ سے فضیلت ہوتی ہے.اسی طرح ایک شخص جو امیر باپ کے گھر پیدا ہوتا ہے وہ امارت اپنے ساتھ لاتا ہے اور اسے یہ خوبی منبع کے لحاظ سے حاصل ہوتی ہے.میں نے قرآن کریم کو اس فضیلت کے لحاظ سے بھی دوسری کتب سے افضل پایا.
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ ذاتی قابلیت کے لحاظ سے فضیلت دوسری وجہ فضیلت میرے ذہن میں یہ آئی کہ اندرونی اور ذاتی قابلیت اور طاقت کی وجہ سے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت حاصل ہوتی ہے.جیسے دوائیں اپنے اندر طاقت رکھتی ہیں.اس وجہ کے لحاظ سے بھی میں نے قرآن کریم کو سب سے بڑھ کر پایا.نتائج کے لحاظ سے فضیلت 39 تیسری وجہ فضیلت نتائج کے لحاظ سے ہوتی ہے.اس وجہ سے بھی ایک چیز کو ہم دوسری پر فضیلت دے دیتے ہیں.بعض چیزیں اپنی ذات میں اچھی ہوتی ہیں مگر دوسری چیزوں سے مل کر ان کا اچھا نتیجہ پیدا نہیں ہوسکتا.جیسے ڈاکٹر جرمز (Germs) کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ٹیکہ سے مر جاتے ہیں.گویا انسان کے جسم میں جرمز اور ٹیکہ کا مادہ ملنے سے الٹا اثر ہوتا ہے.تو کبھی ایک چیز کو نتائج کے لحاظ سے فضیلت حاصل ہوتی ہے اور جو چیز اس میں بڑھ جاتی ہے اس کی برتری تسلیم کر لی جاتی ہے.اسی طرح بعض تعلیمیں یوں بڑی اچھی اور مفید نظر آتی ہیں لیکن ان کے نتائج ایسے اعلیٰ پیدا نہیں ہوتے.میں نے اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کو دوسری کتب سے افضل پایا.شدت فائدہ کے لحاظ سے فضیلت چوتھی وجہ فضیلت شدت فائدہ کے لحاظ سے ہوتی ہے.فائدے تو سب چیزوں میں ہوتے ہیں مگر ایک میں زیادہ ہوتے ہیں اور دوسروں میں کم.قرآن کریم میں شدت فوائد کے لحاظ سے بھی فضیلت پائی جاتی ہے.کثرت فوائد کے لحاظ سے فضیلت پانچویں کثرت فوائد کے لحاظ سے بھی ہم ایک چیز کو دوسری پر فضیلت دیتے ہیں.ایک دوائی ایک بیماری میں بڑا فائدہ دیتی ہے.مگر ایک اور دوائی ہوتی ہے جو اتنا فائدہ اس بیماری میں نہیں
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 40 دیتی، مگر پچاس اور بیماریوں میں مفید ہوتی ہے.اسے پہلی دوائی پر کثرت فوائد کے لحاظ فضیلت حاصل ہوگی.قرآن کریم کو میں نے اس لحاظ سے بھی دوسری کتب سے افضل پایا.وسعت نفع کے لحاظ سے فضیلت چھٹے کبھی وسعت نفع کے لحاظ سے بھی فضیلت دی جاتی ہے.مثلاً ایک دوائی کے متعلق یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کتنی بیماریوں میں نفع دیتی ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کتنی طبائع پر اثر ڈالتی ہے اور کتنے لوگ اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.قرآن کریم اس لحاظ سے بھی مجھے افضل نظر آیا.میعاد نفع کے لحاظ سے فضیلت ساتویں.نفع کے وقت کے لحاظ سے بھی کہ کتنے عرصہ تک کوئی چیز نفع پہنچاتی ہے.ہم بعض دفعہ ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دے دیتے ہیں.جب ایک قسم کے دو کپڑے سامنے ہوں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک کپڑا کتنی مدت تک چلتا ہے اور دوسرا کتنی مدت تک.ایک اگر ایک سال چلنے والا ہو اور دوسرا چھ ماہ، تو ایک سال چلنے والے کو دوسرے پر فضیلت دے دی جائے گی.قرآن کریم کی اس لحاظ سے بھی مجھے فضیلت نظر آئی.نفع اٹھانے والوں کے مقام کے لحاظ سے فضیلت آٹھویں.پھر فضیلت کی ایک وجہ ان لوگوں کی عظمت کے لحاظ سے بھی ہوتی ہے جن کو وہ نفع پہنچاتی ہے.یعنی دیکھا جاتا ہے کہ کس پایہ کے لوگ اس سے نفع اٹھاتے ہیں.جن چیزوں کے متعلق یہ معلوم ہو کہ بڑے پایہ کے انسانوں کو نفع پہنچاتی ہیں ان کو دوسری چیزوں پر مقدم کر لیا جاتا ہے.میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے.نفع اٹھانے والوں کی اقسام کے لحاظ سے فضیلت نویں.یہ دیکھا جاتا ہے کہ کتنی اقسام کی چیزوں کوکوئی چیز نفع پہنچاتی ہے کیونکہ علاوہ افراد کے،
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 41 اقسام بھی ایک درجہ رکھتی ہیں.ایک چیز ایسی ہے جو ایک کروڑ انسانوں کو نفع پہنچاتی ہے اور ایک اور ہے کہ وہ بھی ایک کروڑ انسانوں کو ہی نفع پہنچاتی ہے لیکن ان میں فرق یہ ہو کہ ایک صرف ایک قسم کے لوگوں کو نفع پہنچائے.مثلاً عیسائیوں یا ہندوؤں کو مگر دوسری ایک کروڑ انسانوں کو ہی نفع پہنچائے.لیکن عیسائیوں ، ہندوؤں، یہودیوں اور مسلمانوں سب کو نفع پہنچائے تو اسے افضل قرار دیا.جائے گا.غرض وسعت اقسام افراد کے لحاظ سے بھی ایک چیز افضل قرار دی جاتی ہے اس میں بھی مجھے قرآن کریم کی دوسری کتب پر فضیلت نظر آئی.کھوٹ سے مبر اہونے کے لحاظ سے فضیلت دسویں.اس لحاظ سے بھی کسی چیز کی فضیلت کو دیکھا جاتا ہے کہ اس میں کوئی کھوٹ تو نہیں ملا ہوا.جس چیز میں کھوٹ نہ ہوا سے دوسری چیزوں پر فضیلت دی جاتی ہے.اس میں بھی قرآن کریم تمام کتب الہیہ سے افضل پایا گیا.یقینی فوائد کے لحاظ سے فضیلت گیارہویں.بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو کھوٹ سے تو پاک ہوتی ہیں مگر ان کے نفع کے متعلق اطمینان نہیں ہوتا.یہ احتمال ہوتا ہے کہ ان کے استعمال میں کوئی غلطی نہ ہو جائے جس کی وجہ سے نقصان اُٹھانا پڑے.لیکن جس کے استعمال کے متعلق غلطی کا کوئی احتمال نہ ہو اور اس کے فوائد کے متعلق کسی قسم کا شک و شبہ نہ ہوا سے اختیار کر لیا جاتا اور اس کی فضیلت تسلیم کر لی جاتی ہے.اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کو فضیلت حاصل ہے.ظاہری حسن کے لحاظ سے فضیلت بارہویں.ظاہری حسن کی وجہ سے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت دے دی جاتی ہے.قرآن کریم اپنے ظاہری حسن کے لحاظ سے بھی دوسری کتب سے افضل پایا گیا.
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 42 ضروری امور کو نقصان نہ پہنچانے کے لحاظ سے فضیلت تیرہویں.ایک چیز کو دوسری پر اس لئے بھی فضیلت دے دی جاتی ہے کہ اس کا استعمال دوسری ضروری اشیاء کو نقصان نہیں پہنچائے گا.مثلاً ایک شخص دو بیماریوں میں مبتلا ہو.اس کی ایک بیماری کے لئے ایک ایسی دوا ہو جو بہت فائدہ دیتی ہو لیکن دوسری بیماری کو بڑھا دیتی ہو.تو اس کی نسبت وہ دوائی استعمال کی جائے گی جو نفع کم دیتی ہو لیکن دوسری بیماری کو نقصان نہ پہنچاتی ہو.اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے.فوائد کے سہل الحصول ہونے کے لحاظ سے فضیلت چودھویں.اس لئے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت دی جاتی ہے کہ اس کے فوائد سہل الحصول ہوتے ہیں.یعنی آسانی سے اس کے فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں.قرآن کریم اس لحاظ سے بھی فضل ہے.ضروریات پوری کرنے میں یکتا ہونے کے لحاظ سے فضیلت پندر ہو یں.اس لحاظ سے بھی ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دی جاتی ہے کہ وہ ایسی ضرورت کو پورا کرتی ہے جسے اور کوئی چیز پورا نہیں کر سکتی.یہ فضیلت بھی قرآن کریم کو دوسری کتب کے مقابلہ میں حاصل ہے.کیونکہ وہ ایسی ضرورتیں پوری کرتا ہے جنہیں اور کوئی کتاب پوری نہیں کر سکتی.اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لحاظ سے فضیلت سولہویں.اس لحاظ سے بھی ایک چیز کو دوسری چیزوں پر مقدم کیا جاتا ہے کہ جس ضرورت کو وہ پورا کرتی ہے وہ ایسی ضرورت ہوتی ہے کہ اسے ہم کسی صورت میں بھی ترک نہیں کر سکتے.کئی ضرورتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے نقصان تو ہوتا ہے مگر پھر بھی انہیں چھوڑا جا
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 43 سکتا ہے.لیکن بعض ضرورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں ہم چھوڑیں، تو گئے.قرآن کریم ایسی ضرورتوں کو بھی پورا کرتا ہے اس لئے وہ دوسری کتب سے افضل ہے.حفاظت میں آسانی ہونے کے لحاظ سے فضیلت ستر ہوئیں.اس امر کے لحاظ سے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت حاصل ہوتی ہے کہ اس کی حفاظت میں کس قدر کوشش کرنی پڑتی ہے.ایک ایسی چیز جسے ہم آسانی اور سہولت سے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں اسے ہم ایسی چیز پر مقدم کر لیتے ہیں جس کی حفاظت مشکل ہوتی ہے میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے.نفع کے لحاظ سے فضیلت اٹھارہویں.کسی چیز کی فضیلت معلوم کرنے کے لئے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس کا استعمال کس قدر ذمہ داریاں ڈالتا ہے اور اس کے مقابلہ میں نفع کس قدر ہے.میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے کیونکہ اس کے لینے میں خرچ کم ہوتا ہے اور نفع زیادہ.ہر قسم کے نقصان سے مبرا ہونے کے لحاظ سے فضیلت انیسویں.اس لئے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت دے دی جاتی ہے کہ اس کے استعمال سے نقصان تو نہیں ہوتا.جب نقصان نہیں ہوتا تو اسے استعمال کر لیا جاتا ہے.مثلاً دو دوائیاں ہیں جن میں سے ایک تھوڑے نفع والی ہے مگر کوئی نقصان اس سے پہنچنے کا خدشہ نہیں ہے تو اسے ہم استعمال کر لیتے ہیں اور زیادہ نفع دینے والی جس کے استعمال سے نقصان کا بھی خطرہ ہوا سے استعمال نہیں کرتے.اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کی فضیلت کا ثبوت ملتا ہے.دعوتِ عام کے لحاظ سے فضیلت بیسویں.کسی چیز کو فضیلت اس وجہ سے بھی دی جاتی ہے کہ وہ اپنی چیز ہوتی ہے.جب میں
44 فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ نے قرآن کریم کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ صرف قرآن ہی اپنا تھا.باقی سب کتب میں مجھے غیریت نظر آئی.قرآن کریم کو میں نے ایک ہندو کی نظر سے بھی دیکھا اور ایک عیسائی کی نظر سے بھی.ایک پارسی کی نظر سے بھی اور ایک بدھ کی نظر سے بھی.پھر کبھی میں سید بن کر اس کے پاس گیا کبھی مغل بن کر کبھی شیخ بن کر کبھی راجپوت بن کر کبھی عالم کے رنگ میں اور کبھی جاہل کے رنگ میں.مگر ہر دفعہ اس نے یہی کہا کہ آؤ تم میرے ہوا اور میں تمہارا ہوں.لیکن دوسری کتب کے پاس جس حالت میں بھی میں گیا.انہوں نے مجھے دھتکارا اور اپنے پاس تک پھٹکنے نہ دیا.علاج الامراض کے لحاظ سے فضیلت اکیسویں.کسی چیز کو اس لحاظ سے بھی ہم فضیلت دیا کرتے ہیں کہ وہ ان بیماریوں کا علاج ہو جو ہم میں پائی جاتی ہیں.میں نے جب دیکھا تو قرآن کریم میں مجھے یہ بھی فضیلت نظر آئی.زائد فوائد کے لحاظ سے فضیلت بائیسویں.ایک چیز کو دوسری پر ہم اس لئے بھی مقدم کیا کرتے ہیں کہ اس سے ہمیں زائد فوائد حاصل ہوتے ہیں.میں نے دیکھا کہ اس لحاظ سے بھی قرآن کریم دوسری کتب سے افضل ہے.سمح نظر کی وسعت کے لحاظ سے فضیلت تمیسویں.مذہب کی افضلیت کی ایک علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اعلیٰ ترقیات کی امید پیدا کر کے انسان کا مطمح نظر وسیع کرے.اپنے پیروؤں کی ہمت بڑھائے.ان میں مایوسی اور نا امیدی نہ آنے دے اور ان کی اُمنگوں کو قائم رکھے.میں نے دیکھا کہ اسلام اعلیٰ سے اعلیٰ ترقیات اور تعلق باللہ کا دروازہ ہمارے لئے کھولتا ہے اور اس طرح ہماری امید کو نہ صرف قائم رکھتا ہے بلکہ اسے وسیع کر کے ہماری ہمت کو بڑھاتا ہے.اور اس میں کیا شک ہے کہ انسانی ترقی اس کے مستقبل کے خواب میں ہی پوشیدہ ہوتی ہے.پس اس لحاظ سے بھی مجھے قرآن کریم ہی افضل نظر آیا.
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ دوسری کتب سے مستغنی کرنے کے لحاظ سے افضلیت چوبیسویں.اس لحاظ سے بھی کسی چیز کو دوسری چیزوں سے افضل قرار دیا جاتا ہے کہ وہ کس حد تک دوسری اشیاء کی ضرورت سے مستغنی کر دیتی ہے.ایسی چیز کی لوگ زیادہ قدر کرتے ہیں کیونکہ انہیں دوسری چیزوں کی فکر نہیں کرنی پڑتی.میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے.صحیح علوم کی طرف راہنمائی کرنے کے لحاظ سے فضیلت پچھیویں.کسی چیز کی افضلیت کا ایک یہ بھی باعث ہوتا ہے کہ وہ صحیح علوم کی طرف لوگوں کی راہنمائی کرتی اور انہیں لغو امور میں حصہ لینے سے بچاتی ہے.کتاب الہی چونکہ معلم ہوتی ہے اس لئے اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کی توجہ صحیح طرف لگائے.انہیں لغویات.رو کے اور صحیح علوم کی طرف ان کی راہنمائی کرے.میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے.اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لحاظ سے فضیلت چھبیسویں.اس امر کے لحاظ سے بھی ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت حاصل ہوتی ہے کہ وہ کس حد تک اس ضرورت کو پورا کرتی ہے جس کے لئے اسے حاصل کیا گیا تھا.اگر ایک چیز اپنی ضرورت کو پورا نہیں کرتی تو لازما اس دوسری چیز کو ترجیح دی جائے گی جو اس ضرورت کو پورا کرسکتی ہو.میں نے دیکھا کہ اس پہلو کے لحاظ سے بھی قرآن کریم کو دوسری کتب پر فضیلت حاصل ہے.غرض غور کرتے وقت مجھے فضیلت کی یہ چھیں (۲۶) وجوہات نظر آئیں.گوجیسا کہ میں کہہ چکا ہوں ممکن ہے کہ اور بھی کئی باتیں غور کرنے سے نکل آئیں.بہر حال جب میں نے ان پر قرآن کریم کو پر کھا تو اسے ہر بات میں دوسری کتب سے افضل پایا.45
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ قرآن کریم کا دعویٰ اور افضلیت مگر پیشتر اس کے کہ ان امور پر تفصیلی بحث کی جائے سب سے پہلا سوال جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا قرآن کریم نے خود بھی دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کیا ہے یا نہیں کہ وہ تمام کتب الہیہ سے افضل ہے.اگر قرآن کریم کا یہ دعوئی ہو تو پھر تو اس کی افضلیت اور برتری کے وجوہ پر بھی بحث کی جاسکتی ہے.لیکن اگر اس کا یہ دعوئی ہی نہ ہو تو اس کی افضلیت کے وجوہ پیش کرنا مدعی ست اور گواہ چست والی بات بن جاتی ہے.اس نقطہ نگاہ سے جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے اپنی افضلیت کا بڑے واضح الفاظ میں دعویٰ کیا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.46 اللهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَبًا مُتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم کے یعنی اللہ تعالیٰ نے نہایت زور ، طاقت اور قوت کے ساتھ اس کتاب کو اُتارا ہے جو اَحْسَنَ الْحَدِیثِ ہے.یعنی ساری الہامی کتابوں سے افضل ہے.یہ کس طرح کہا گیا کہ ساری الہامی کتابوں سے افضل ہے.اوّل اس لئے کہ جب قرآن خدا تعالیٰ کی کتاب ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ دوسرے انسانوں کی کتابوں سے افضل ہے.اعتراض کے موقع پر تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلاں کتاب الہامی نہیں بلکہ انسانی دست برد کی آماجگاہ بن چکی ہے لیکن اصولی طور پر ان کو انسانی کتب قرار دے کر قرآن کو ان کے مقابلہ میں لانا بے وقوفی ہے.یہ ایسی ہی بات ہوگی جیسے ایک پہلوان کہے کہ دیکھو میں فلاں بچہ سے طاقتور ہوں.ہاں اگر بچہ پہلوان کو آکر کہے کہ میں تمہیں گرادوں گا آؤ تم میرا مقابلہ کر لو تو پہلوان اسے بیشک کہہ سکتا ہے کہ جا چلا جاور نہ تو میرے ایک ہی تھپیڑ سے مر جائے گا.اس آیت میں حدیث کا لفظ جو استعمال کیا گیا ہے یہ پہلی الہامی کتابوں کے متعلق ہے.اور قرآن کریم کے دوسرے مقامات میں انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ ایک مقام پر فرماتا ہے.فَذَرْنِى وَمَنْ يُكَذِبُ بِهَذَا الْحَدِيث سے یعنی تو مجھے اور اس کو جو اس کتاب کو جھٹلاتا ہے چھوڑ دے.اسی طرح فرماتا ہے وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرِ مِنَ الرَّحْمَنِ مُحْدَثٍ إِلَّا
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ كَانُوا عَنْهُ مُعْرِضِینَ یعنی رخمن خدا کی طرف سے کبھی کوئی نیاذ کر نہیں آتا کہ جس سے لوگ اعراض نہ کرتے ہوں.چونکہ انبیاء کا کلام ضرور کسی نئی شئے کو لے کر آتا ہے.یعنی وہ حسب ضرورت آتا ہے خواہ شریعت لائے خواہ فہم لائے، خواہ ایمان کی تجدید کے سامان لائے ، اس لئے اسے حدیث کہتے ہیں اور قرآن کریم اَحْسَنَ الْحَدِیثِ ہے یعنی جنس حدیث میں یا دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ کلام الہی میں سب سے افضل ہے.غرض اللہ تعالی فرماتا ہے اللهُ نَزِّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتبا.یہ کتاب جو نازل کی گئی ہے ان تمام کتابوں سے جو اس سے پہلے نازل ہوئیں بڑھی ہوئی ہے.پس قرآن کریم سے ہمیں اس کی افضلیت کا دعوی ملتا ہے.پھر قرآن کریم کی افضلیت کا دعوی اس آیت میں بھی موجود ہے کہ مَانَنْسَخُ مِنْ آيَةٍ أوْنُنْسِهَا تَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيءٍ قَدِير فرماتا ہے.ہم کوئی کلام الہی منسوخ نہیں کرتے یا فراموش نہیں کراتے جب تک کہ اس سے بہتر یا اس جیسا کلام نہ لائیں.یعنی جسے منسوخ کرتے ہیں اس سے بہتر لاتے ہیں اور جو بھول چکا ہوتا ہے مگر عمل کے قابل ہوتا ہے اسے ویسا ہی لے آتے ہیں.آلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيئ قدیر اے مخاطب ! تجھے یہ کیوں عجیب بات معلوم ہوتی ہے.خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے کر سکتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے.تو رات میں ایک نئی شریعت نازل ہونے کی پیشگوئی جب قرآن کریم پہلی الہامی کتب کا ناسخ ہے تو ضروری تھا کہ وہ کچھ تعلیم تو ان تعلیموں سے بہتر لائے اور کچھ وہ لائے جو مٹ گئی ہو.جب میں نے اس پہلو سے غور کیا تو قرآن کریم کے اس دعوئی کی تصدیق دوسری کتابوں سے بھی معلوم ہوئی.چنانچہ بائیبل میں آتا ہے.د میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی بر پا کروں گا اور اپنا کلام اس کے مونہہ میں ڈالوں گا.اور جو کچھ میں اسے فرما ؤ نگاوہ سب ان سے کہے گا.سکے اس میں یہ خبر دی گئی تھی کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جب موسیٰ علیہ السلام جیسا نبی مبعوث ہو گا.حضرت موسیٰ علیہ السلام چونکہ صاحب شریعت نبی تھے اس لئے ان جیسے نبی کے آنے کے لازما یہ 47
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 48 معنی تھے کہ وہ بھی صاحب شریعت ہوگا.پھر جب وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے گا تو معلوم ہوا کہ جو کتاب وہ لائے گا اس میں بعض باتیں زائد بھی ہونگی جو بائکھیل میں موجود نہ ہونگی ، ور نہ نئی شریعت کے آنے کی کیا ضرورت تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت منسوخ کرنے میں کیا حکمت تھی.لیکن جب وہ منسوخ کی گئی تو ضروری تھا کہ آنے والی شریعت اس سے افضل ہو.پس قرآن کریم کی افضلیت بائیبل کے اس حوالہ سے بھی ثابت ہے کیونکہ شریعت جدیدہ ناسخہ عقلاً شریعت منسوخہ سے حقیقی طور پر یا نسبتی طور پر افضل ہونی چاہئے.حضرت موسی کی پیشگوئی کے مصداق ہونے کا دعویٰ ممکن ہے کوئی کہے کہ قرآن کریم کب کہتا ہے کہ میں وہی کتاب ہوں جس کا وعدہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا تھا.سو اس کا جواب بھی قرآن کریم میں موجود ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے انا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا يعنى اے لوگو! ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے شاهِدًا عَلَيْكُمُ جو تم پر شاہد اور گواہ ہے كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا اور وہ اسی قسم کا رسول ہے جس قسم کا رسول موسی تھا جسے فرعون کی طرف بھیجا گیا.اس آیت میں رسول کریم صلی سیا ستم کے متعلق استثنا باب ۱۸ آیت ۱۸ کے مصداق ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے.اس کے علاوہ ایک اور طرح بھی اس بات کا ثبوت ملتا ہے.اور وہ یہ کہ استثنا باب ۱۸ کی آیت ۱۸ حضرت مسیح پر چسپاں نہیں ہوتی بلکہ وہ خود بھی کہتے ہیں کہ میں اس کا مصداق نہیں.انجیل میں آتا ہے، حضرت مسیح کہتے ہیں.” مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا.اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا.پس انجیل سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں جس آنے والے کی پیشگوئی ہے وہ حضرت مسیح پر چسپاں نہیں ہوتی بلکہ اس کا مصداق کوئی اور ہے.پھر حضرت مسیح صرف بنی اسرائیل کے لئے آئے تھے.مگر وہ جس کی نسبت حضرت موسی نے پیشگوئی کی وہ ساری دنیا کے
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 49 لئے ہے.اور یہ دعویٰ قرآن ہی پیش کرتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينا تا یعنی اے لوگو ! آج میں نے دین کے کامل کرنے کی کڑی کو پورا کر دیا.وہ کڑی جو آدم سے لے کر اب تک نامکمل چلی آتی تھی آج قرآن کے ذریعہ پوری کر دی گئی ہے اور میں نے اپنے احسان کو تم پر کامل کر دیا ہے.گویا مختلف چکروں میں سے انسانوں کو گزارتے ہوئے میں انہیں اس مقام پر لے آیا کہ بندہ خدا کا مظہر بن گیا اور میں نے تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کر لیا.اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم اپنے بعد کسی اور شریعت اور نئی کتاب کی امید نہیں دلاتا بلکہ صرف یہ کہتا ہے کہ نیا فہم اور نیا علم حاصل کرو جو قرآن کریم کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے.قرآن کریم کے اس دعوئی کے بعد اب میں یہ بتاتا ہوں کہ فضیلت کے وہ تمام وجوہ جن کا میں او پر ذکر کر چکا ہوں قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں اور فضیلت کے ہر اصل کے لحاظ سے قرآن کریم تمام دوسری کتب الہامیہ سے افضل اور برتر ہے.منبع کے لحاظ سے قرآن کریم کی افضلیت کا ثبوت پہلی بات جو میں نے بطور فضیلت بیان کی ہے وہ منبع کے لحاظ سے کسی چیز کی افضلیت ہے.یعنی کسی چیز کے منبع اور مخرج کا اعلیٰ ہونا بھی اس کے لئے وجہ فضیلت ہوتا ہے.جیسے ایک بادشاہ کے کلام کو دوسرے لوگوں کے کلام پر مقدم کیا جاتا ہے.اگر دو آدمی کلام کر رہے ہوں جن میں سے ایک بادشاہ ہوتو سننے والے لازما بادشاہ کی بات کی طرف زیادہ متوجہ ہو نگے اور بغیر یہ فیصلہ کرنے کے کہ ان میں سے کس کا کلام افضل ہے پہلے ہی یہ سمجھ لیا جائے گا کہ بادشاہ کا کلام دوسرے سے اہم ہو گا.اسی طرح ایک بڑے ادیب کے کلام کو دوسروں کے کلام پر ترجیح دی جاتی ہے.مختلف شعراء اگر ایک جگہ بیٹھے ہوں اور وہاں مثلاً غالب بھی آجائیں تو بغیر اس کے کہ ان کے اشعار سنے جائیں یہی کہا جائے گا کہ ان کے اشعار افضل ہونگے.اسی طرح ایک ڈاکٹر کسی بیمار کے متعلق رائے دیتا ہے اور بعض دفعہ وہ غلطی بھی کر جاتا ہے بلکہ بعض اوقات عورتوں کے بتائے ہوئے نسخے زیادہ فائدہ دے دیتے ہیں مگر کوئی عقلمند یہ نہیں کہتا کہ ایک ڈاکٹر کی بات رد کر دی جائے اور ایک عورت کی بات مان لی
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 50 50 جائے.لازما ڈاکٹر کی بات کی طرف ہی توجہ کی جائے گی.ہاں جسے کسی دوائی سے فائدہ نہ ہوتا ہووہ کسی عورت کی بتائی ہوئی دوائی بھی استعمال کرے گا.کیونکہ مرتا کیا نہ کرتا کے مطابق وہ یہ کہے گا کہ چلو اس کی دوائی بھی آزمالو.غرض اتھارٹی اپنی ذات میں بھی فضیلت رکھتی ہے.اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اتھارٹی کے لحاظ سے غالب گمان ہوتا ہے کہ اس کی بات ٹھیک ہوگی.اس کی طرف پہلے کیوں نہ توجہ کریں.بہر حال جس چیز کی فضیلت مقام اور منبع کے لحاظ سے ثابت ہو جائے اس کی طرف دوسروں کی نسبت زیادہ توجہ کی جاتی ہے اور اسے فضیلت دے دی جاتی ہے.لیکن اگر منبع ایسا ہو کہ جس سے غلطی کا امکان ہی نہ ہو تو پھر تو سُبحان الله ! اب قرآن کریم کو ہم اس اصل کے ماتحت دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے جو سب خوبیوں کا جامع ہے اور جب ہم یہ دعویٰ پڑھتے ہیں تو ہمارا دل کہتا ہے کہ اگر یہ للہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے تو پھر یقینا انسانوں کے کلاموں سے افضل ہوگا اور ان کلاموں کو ہم اس کے مقابلہ میں قطعی طور پڑھکرا دیں گے.میں پہلے یہ دعوئی بیان کر آیا ہوں کہ قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اور وہ دعوی یہ ہے کہ الله نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَبًا مُتَشَابِهًا مَعَانِي اب اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو قرآن کریم کو تمام انسانی کلاموں پر منبع کے لحاظ سے فضیلت حاصل ہو گئی.قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے کے تین دلائل لیکن ظاہر ہے کہ صرف دعوئی کافی نہیں ہوسکتا.دعوئی کے لئے دلیل بھی چاہئے جس سے ثابت ہو کہ فی الواقعہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے.اس کے لئے قرآن کریم یہ دلیل دیتا ہے کہ آأَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيْنَةٍ مِنْ رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَبُ مُوسَى اِمَامًا وَرَحْمَةً أُولبِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَنْ يَكْفُرُ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ، إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبَّكَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ اس آیت میں قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے کی تین دلیلیں دی گئی ہیں.پہلی
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 51 دلیل یہ بیان کی کہ أَفَمَن كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِن رَّبِّهِہ کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک بينة یعنی روشن دلیل پر قائم ہو وہ جھوٹا ہو سکتا ہے یا وہ تباہ ہوسکتا ہے.یہاں مین میں رسول کریم سلیم اور صحابہ کرام کا ذکر ہے.جیسا کہ آگے آتا ہے اُولئِكَ يُؤْمِنُونَ ہے.پس فرمایا کیا یہ لوگ تمہارے خیال کے مطابق تباہ و برباد ہو جائیں یا نقصان اُٹھا ئیں گے یہ تو ایسی کتاب کو ماننے والے ہیں جو بينة ہے یعنی اس میں الہامی دلائل ہیں جو مدلول علیہ کے دعوی کی صحت کو بیان کرتے ہیں.آیت اور بینۃ میں فرق آیت اور بيّنة میں یہ فرق ہے کہ آیت وہ ہوتی ہے جس سے ہم خود نتیجہ نکالیں.اور بينة وہ ہوتی ہے جو اپنی دلیل آپ پیش کرے.جیسے ایک درخت کو ہم دیکھتے ہیں کہ اسے کسی صانع نے بنایا ہے یہ آیت ہے.لیکن ایک نبی آتا ہے اور آ کر کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے آیا ہوں یہ بینة ہے.تو آیت عام لفظ ہے اور بينة خاص.اس سے مراد وہ دلیل ہوتی ہے جو اپنے لئے آپ شاہد ہوتی ہے.قرآن کریم کے بینة ہونے کا ثبوت اب سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کس طرح بينة ہے؟ یہ بھی تو دعوی ہی ہے کہ قرآن بينة ہے.اس کے لئے میں کہیں دور نہیں جاتا.قرآن کریم کے بینة ہونے کا ثبوت اس پہلی وجی میں ہی موجود ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی.باقی کتابیں دوسروں کی دلیلوں کی محتاج ہوتی ہیں مگر قرآن اپنے دعوئی کی آپ دلیل دیتا ہے.اور قرآن کے بینة ہونے کی دلیل ان تین آیتوں میں موجود ہے جو پہلے پہل نازل ہوئیں.قرآن کریم کا یہ کمال دکھانے کے لئے میں نے سب سے پہلی وحی قرآنی کو ہی لیا ہے.سب سے پہلی وحی غار حرا میں نازل ہوئی تھی جب جبرائیل رسول کریم سینی ایتم کو نظر آیا اور اس نے کہا.اقرا یعنی پڑھ.اس کے جواب میں رسول کریم ملایا تم نے فرمایا ما انا بقارئ میں پڑھنا نہیں جانتا.مطلب یہ تھا کہ یہ بوجھ مجھے
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 52 پر نہ ڈالا جائے.کیونکہ اس وقت آپ کے سامنے کوئی کتاب تو نہیں رکھی گئی تھی جسے آپ نے پڑھنا تھا بلکہ جو کچھ جبرائیل بتاتا وہ آپ کو زبانی کہنا تھا.اور یہ آپ کہہ سکتے تھے مگر آپ نے انکسار کا اظہار کیا.لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے آپ ہی کو چنا تھا.اس لئے بار بار کہا کہ پڑھو.آخر تیسری بار کہنے پر آپ نے پڑھا اور جو کچھ پڑھا وہ یہ تھا.۱۳ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمُ کیا ہی مختصر سی عبارت اور کتنے تھوڑے الفاظ ہیں مگر ان میں وہ حقائق اور معارف بیان کئے گئے ہیں جو اور کتابوں میں ہرگز نہیں پائے جاتے.دوسری کتابوں کو دیکھو تو وید یوں شروع ہوتے ہیں.اگنی میئر ھے پر دوستم.آگ ہماری آتا ہے.بائیبل کو دیکھو تو اس میں زمین و آسمان کی پیدائش کا یوں ذکر ہے.ابتداء میں خدا نے آسمان کو اور زمین کو پیدا کیا.اور زمین ویران اور سنسان تھی اور گہراؤ کے اوپر اندھیرا تھا.اور خدا کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی.۱۴ انجیل کی ابتداء اس طرح ہے:.ابتداء میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا.یہی ابتداء میں خدا کے ساتھ تھا." لیکن قرآن کریم اس دلیل کے ساتھ اپنی بات شروع کرتا ہے کہ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خلق.اے محمد ! ( لین ) تم ان لوگوں کے معلم بن جاؤ اور پڑھو اس خدا کے نام کے ساتھ جس نے دنیا کو پیدا کیا.خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.اس نے انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا.اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ ہاں اے محمد! پڑھ کہ تیرے پڑھتے پڑھتے خدا کی عزت دنیا میں قائم ہو جائے گی.قرآن کریم کی ایک عظیم الشان پیشگوئی 52 یہ پہلی پیشگوئی ہے جو قرآن کریم کے بینة ہونے کے ثبوت میں پیش کی گئی ہے.فرمایا
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 53 قرآن کے بینة ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ یہ کتاب خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کی شان دنیا میں قائم کردے گی.حضرت مسیح علیہ السلام پر مخالفین نے اعتراض کیا تھا کہ اسے شیطان سکھاتا ہے اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کیا شیطان اپنے خلاف آپ سکھاتا ہے.اگر شیطان شیطان کو نکالے تو وہ اپنا ہی مخالف ہوا.پھر اس کی بادشاہت کیونکر قائم رہے گی.خص اسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ کتاب جو خدا تعالیٰ کی گمشدہ عظمت قائم کرنے کے لئے آئے اسے شیطان کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا.اول تو کوئی کتاب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہو یہ کہہ ہی کس طرح سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی عزت اور عظمت اس کے ذریعہ قائم ہو جائے گی.کئی لوگ کتا میں لکھتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی کتاب دنیا کا نقشہ بدل دے گی لیکن پھر اسی کتاب پر دوسروں سے ریویو کرانے کے لئے منتیں کرتے پھرتے ہیں.ایک دوست نے بتایا کہ ایک موی نے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے وہ شکوہ کرتا پھرتا ہے کہ ”الفضل“ اس کی کتابوں کے خلاف کیوں نہیں لکھتا.ایک اور مدعی نبوت نے مجھے لکھا کہ میں آپ کے پاس اپنی کتاب بھیجتا ہوں خواہ آپ اور نے اس کے خلاف ہی لکھیں لیکن لکھیں ضرور تو بیسیوں کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن کا کوئی نتیجہ نہیں پیدا ہوتا.پھر کیا یہ معمولی بات ہے کہ ایک ایسے علاقہ میں جہاں بت پرستی کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا.وہاں کہا گیا کہ اسے ایسی حالت میں پڑھ کہ تیرے رب کی عزت اس کے ذریعہ دنیا میں قائم ہوتی جائے گی.اس کلام کے ذریعہ تیرا رب آشرم کے طور پر ظاہر ہوگا.اُس وقت نہ صرف عرب میں بلکہ سارے جہان میں شرک پھیلا ہوا تھا اور حالت یہ تھی کہ آخری مذہب جو عیسائیت تھا.اس کے ماننے والے عیسائی خود لکھتے ہیں کہ اسلام اس لئے اتنی جلدی اور اس وسعت کے ساتھ پھیل گیا کہ عیسائیت میں شرک داخل ہو چکا تھا.ہندوؤں کی کتابوں کو دیکھو تو یہی معلوم ہوگا کہ اُس وقت ہندوؤں میں بکثرت شرک پایا جاتا تھا.زرتشتی بھی مانتے ہیں کہ اس زمانہ میں ہر طرف شرک ہی شرک تھا.غرضیکہ تمام مذاہب والے فخر کے ساتھ کہتے تھے کہ اسلام کے پھیلنے کی یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہر مذہب میں شرک پھیل چکا تھا.ہم کہتے ہیں یہ درست ہے
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 54 اور قرآن کریم نے ایسے ہی وقت میں یہ پیشگوئی کی تھی کہ شرک مٹ جائے گا اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم ہو جائے گی.اُس وقت جب کہ قرآن نے توحید پیش کی مکہ والوں کی جو حالت تھی اس کا ذکر قرآن کریم اس طرح کرتا ہے کہ انہوں نے کہا جَعَلَ الْأَلِهَةَ الهَا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْى عُجَاب - عليم عجیب بات ہے کہ اس نے سارے معبودوں کو کوٹ کاٹ کر ایک بنا دیا ہے ان لوگوں کو یہ خیال ہی نہیں آتا تھا کہ وہ الہ ہیں ہی نہیں.وہ سمجھتے تھے کہ سب معبودوں کو اس نے اکٹھا کر کے ایک بنادیا ہے.سورۃ ص میں ان کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی.مگر معا ان کی حالت بدلنے لگی.اور اس کے بعد ان میں اس قدر تغیر پیدا ہو گیا کہ انہوں نے اسلامی توحید کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دیئے اور یہ کہنے لگے کہ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِبُونَا إِلَى اللهِ زُلفی کے یعنی یہ یونہی کہتا ہے کہ ہم مشرک ہیں ہم تو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے بتوں کو مانتے ہیں.گویا وہ معذرت کرتے ہیں کہ ہم کب کہتے ہیں کہ بت خدا ہیں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ان کے ذریعہ خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے.یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو اُن میں پیدا ہوا اور کس طرح خدا تعالیٰ کا اکرم ہونا ظاہر ہو گیا.غرض فرماتا ہے.اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الأكرم تو اس کتاب کو پڑھ کیونکہ اس کے پڑھنے کے ساتھ ہی توحید پھیلنے لگ جائے گی.لوگ خدا تعالیٰ کو ماننے لگ جائیں گے اور اس کا جلال دنیا میں قائم ہو جائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.مگر یہ تو اس وقت کا حال تھا جب قرآن کریم نازل ہوا.اب دیکھ لو کہ کس طرح شرک کے خیالات دنیا سے مٹ رہے ہیں.ہندوستان میں ۳۳ کروڑ بہت پوجے جاتے تھے مگر ان ہندوؤں میں سے ہی آریہ اُٹھے جو کہتے ہیں کہ ہم ہی اصل توحید کے ماننے والے ہیں.اسی طرح مسیحیوں کو دیکھو تو وہ کہتے ہیں اصل تو حید ہم میں ہی ہے میں نے عیسائیوں کی ایسی کتابیں پڑھی ہیں جن میں وہ لکھتے ہیں کہ اسلام نے ہم پر یہ غلط اعتراض کیا ہے کہ ہم شرک میں مبتلا ہیں حالانکہ اب بھی ان میں ایسے لوگ ہیں جو حضرت مریم اور حضرت مسیح کی پرستش کرتے غرض کتنا بڑا تغیر رونما ہو گیا کہ جہاں جہاں قرآن پڑھا گیا وہاں توحید قائم ہوتی چلی گئی.اور دنیا یہ اقرار کر نے لگ گئی کہ خدا ہی آکر ھم ہے.یہ کتنی عظیم الشان پیشگوئی ہے جو قرآن کریم کے
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ متعلق کی گئی.پھر پہلے دن پہلی وحی میں اور پہلے وقت میں کی گئی.قلم کے ذریعہ ہر قسم کے علوم کا اظہار ایک اور پیشگوئی اس وحی میں قرآن کے متعلق یہ کی کہ الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ یعنی اس کتاب کے ذریعہ نہ صرف یہ ثابت ہوگا کہ تیرا رب سب سے بالا ہے اور باقی ساری ہستیاں اس کے تابع ہیں بلکہ ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوگا کہ الَّذِی عَلَمَ بِالْقَلَمِ تیرے رب نے قلم کے ساتھ علم سکھایا ہے.یعنی آئندہ تحریر کا عام رواج ہو جائے گا.وہ مکہ جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت صرف سات آدمی پڑھے لکھے تھے.جہاں کے بڑے بڑے لوگ لکھنا پڑھنا ہتک سمجھتے تھے.شعراء اپنے شعر صرف زبانی یاد کراتے تھے.اور اگر انہیں کہا جائے کہ اشعار لکھوا دیئے جائیں تو اسے اپنی ہتک سمجھتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے کہ لوگ ان کے اشعار زبانی یا درکھتے ہیں.جب قرآن نازل ہوا تو ان میں ایک عظیم الشان تغیر آ گیا.55 یہاں تک کہ صحابہ میں کوئی ان پڑھ نہ ملتا تھا.سو میں سے سو ہی پڑھے لکھے تھے.تو فرمایا الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ اس کتاب کے ذریعہ دوسرا عظیم الشان تغیر یہ ہوگا کہ لوگوں کی توجہ علوم کی طرف پھیر دی جائے گی چنانچہ آپ کی بعثت کے معا بعد لکھنے کا رواج ترقی پذیر ہوا.صحابہ نے لکھنا پڑھنا شروع کیا.مدینہ میں آپ نے سب بچوں کو تعلیم دلوائی یہاں تک کہ عرب کا بچہ بچہ پڑھ لکھ گیا بلکہ اسلام کے ذریعہ سے یونانی کتب بھی محفوظ ہوگئیں.غرض قلم کا استعمال اس کثرت سے ہوا کہ اس کی مثال پہلے زمانہ میں نہیں ملتی.یہاں سوال ہو سکتا ہے کہ اس بات کا تعلق قرآن کریم کی فضیلت سے کیا ہے؟ سو یا درکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کو کامل اور افضل ثابت کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے مخاطب عالم ہوں جاہل نہ ہوں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کریم کے نازل ہونے کے بعد علم کا زمانہ آجائے گا.لوگ مختلف علوم کے ماہر ہونگے.مگر باوجود اس کے یہ کتاب دنیا میں قائم رہے گی اور پڑھی جائے گی.اور کوئی اس پر غالب نہیں آسکے گا.غرض اس پیشگوئی کے بعد کیا عرب اور کیا دوسرے ممالک ان میں علم کا اتنا رواج ہوا کہ اس کی مثال پہلے کسی زمانہ میں نہیں مل سکتی.
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ نئے نئے علوم کی ترویج تیسری پیشگوئی یہ کی کہ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمُ خدا کا نام لے کر اس کتاب کو پڑھ جو انسان کو وہ باتیں سکھانے والا ہے جنہیں اس سے پہلے وہ ہر گز نہیں جانتا تھا.گو یہ عام بات ہے کہ جہاں تحریر کی کثرت ہوگی وہاں علوم کا رواج ہوگا.اور لوگ نئی نئی باتیں بیان کریں گے مگر لغو تحریریں بھی ہو سکتی ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اب میں انسانوں کو وہ باتیں سکھاؤں گا جو خواہ دینی ہوں یا دنیوی، دنیا اس سے پہلے نہیں جانتی تھی.چنانچہ قرآن کریم نے ایسے علوم بتائے جو نہ تو رات میں موجود ہیں نہ انجیل میں اور نہ کسی اور کتاب میں.پھر دوسرے علوم بھی اس کے ذریعہ سے کھلنے شروع ہوئے.عرب میں شعروں کے قواعد علم معانی، بیان اور صرف ونحو وغیرہ کے اصول وقواعد کوئی نہ تھے.یہ علوم صرف مسلمانوں نے رائج کئے.عرب کے جاہل لوگوں کی ساری کائنات لوٹ مار تھی.مگر قرآن کریم نازل ہونے کے بعد جن علوم سے وہ ہزاروں سال سے نا آشنا چلے آرہے تھے ان سے وہ آشنا ہوئے اور وہ ساری دنیا کے علوم کے حامل بن گئے.یونانی علوم کی کتابوں کے انہوں نے ترجمے کئے اور پھر ان کے ترجمے یورپ میں گئے.پین میں جب مسلمان پہنچے تو انہوں نے ان کتابوں کے ترجمے کئے اور پھر ان ترجموں سے یورپ نے فائدہ اُٹھایا.غرض عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمُ کے بعد ایسا تغیر شروع ہوا کہ وہ باتیں جو دنیا کو پہلے معلوم نہ تھیں ساری دُنیا میں پھیل گئیں.اور مسلمانوں نے ایسے علوم ایجاد کئے جو پہلے نہ تھے.مثلاً علم الاخلاق، علم النفس ، سائنس کے متعلق علوم، علم قضا ان سب علوم کے متعلق نئے اصول تجویز کئے.اسی طرح مسلمانوں نے علم روایت نکالا علم کلام ایجاد کیا علم قضا اور حکومت کے قوانین مرتب کئے.پہلے رومن لاء جاری تھا مگر خود یوروپین مدبروں نے تسلیم کیا ہے کہ اسلامی لاء اس سے بہتر ہے.حفظان صحت ، علم تصوف اور الجبرا کے علوم بھی مسلمانوں کے ذریعہ نکلے.غرض ایک طرف تو قرآن نے ایسی روحانی باتیں بیان کیں جو دنیا پہلے نہ جانتی تھی اور دوسری طرف ایسے دنیوی علوم ظاہر ہوئے جن کے مقابلہ میں پہلے علوم ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں ٹھہر سکتے.یہ تین پیشگوئیاں قرآن کریم کے الہی کتاب ہونے کے ثبوت کے لئے کافی ہیں.56
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ قرآن کریم کی افضلیت کی ایک اور شہادت 57 مگر ان پیشگوئیوں کے علاوہ قرآن کریم اپنی افضلیت کے لئے ایک چوتھی شہادت بھی پیش کرتا ہے.فرماتا ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ے اس کتاب کے معارف اور حقائق صرف انہی لوگوں پر کھل سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے مقرب اور اس کی طرف سے پاک کئے گئے ہوں.دیکھو قرآن اسی زبان میں آیا جسے لوگ جانتے تھے.اس کے الفاظ وہی تھے جو لوگ استعمال کرتے تھے.اور عربی جاننے والے لوگ دنیا میں موجود ہیں مگر ان پر قرآن کے معارف نہیں گھلتے.معارف انہی پر کھلتے ہیں جو اس کے خدا کا کلام ہونے پر ایمان لاتے اور اپنے اندر پاکیزگی اور طہارت پیدا کرتے ہیں.کیا کوئی انسان اپنی تصنیف کردہ کتاب کے متعلق یہ شرط عائد کر سکتا ہے کہ میں نے جو کتاب تصنیف کی ہے اس کے مطالب وہی سمجھے گا جو خدا تعالیٰ کا مقرب ہوگا.کوئی انسان اپنی تصنیف کے متعلق اس قسم کی شرط نہیں پیش کر سکتا.پس جو کتاب معروف زبان میں ہومگر اس کے مطالب کا انکشاف دماغی قابلیتوں اور علوم ظاہری کی بجائے تعلق باللہ کے ساتھ وابستہ ہو، اس کے متعلق ماننا پڑے گا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے ورنہ اس کے علوم کا ظہور خالی علم وفکر پر کیوں نہ ہوتا.یہ ایک عجیب بات ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ جس قدر الہامی کتب پائی جاتی ہیں ان کے مطالب ان زبانوں کے جاننے والوں پر ظاہر ہو جاتے ہیں.لیکن قرآن کریم کے متعلق یہ شرط ہے کہ خواہ ظاہری طور پر کوئی بڑا عالم نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق رکھتا ہو تو اس پر اس کے معارف کھل جائیں گے.چنانچہ جہاں تو رات، انجیل، وید اور ژنداونتا کے علوم ظاہری عالموں کے ہاتھوں میں ہیں وہاں قرآن کریم کے علوم صرف روحانی علماء اور اولیاء کے ہاتھ سے ہی کھلتے چلے آئے ہیں.جیسے سید عبد القادر صاحب جیلانی ، حضرت محی الدین صاحب ابن عربی ، مولانا روم ، امام غزائی، سید احمد صاحب سرہندی ، شہاب الدین صاحب سہروردی، شاہ ولی اللہ صاحب یہی لوگ قرآن کریم کے علوم کو سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے کے قابل ہوئے ہیں.بے شک ظاہری علوم رکھنے والے بعض علماء نے بھی قرآن کریم کی تفسیریں لکھی ہیں لیکن انہوں نے بڑی بڑی ٹھوکریں بھی کھائی ہیں جو لوگوں کے لئے گمراہی کا موجب ہوئی ہیں لیکن صوفیاء جو خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے تھے
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ انہوں نے ان کا بڑی عمدگی سے رڈ کیا ہے.روحانی علماء کے ذریعہ قرآن کریم کے مشکل مقامات کا حل مثلاً قرآن کریم میں حضرت یونس کے متعلق آتا ہے.وَذَالنُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ یعنی یونس کو بھی یاد کرو جب وہ غضب کی حالت میں چلا گیا اور اسے یہ یقین تھا کہ ہم اسے تنگی میں نہیں ڈالیں گے.اس آیت میں لَن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ کے جو الفاظ آتے ہیں ان کے متعلق بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت یونس نے یہ خیال کیا کہ خدا اسے گرفتار نہیں کر سکتا.مگر حضرت محی الدین ابن عربی اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں کہ لَن نُّقْدِرَ عَلَيْهِ کے معنی ہیں لَن نَّضِيقَ عَلَيْهِ لے یعنی حضرت یونس علیہ السلام کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں تنگی میں نہیں ڈالے گا.بلکہ ہر مشکل اور مصیبت میں ان کا ساتھ دیگا.58 غرض عصمت انبیاء کے متعلق ظاہری علماء نے بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں.لیکن صوفیاء اس سے محفوظ رہے ہیں بلکہ انہوں نے عصمت انبیاء ثابت کرنے کے لئے بڑی لطیف بخشیں کی ہیں.پیدائش عالم کے متعلق ابن عربی کا ایک کشف اسی طرح دنیا کی پیدائش کے متعلق حضرت محی الدین صاحب ابن عربی لکھتے ہیں کہ مجھے کشفی طور پر معلوم ہوا کہ دنیا کئی لاکھ سال میں مکمل ہوئی ہے اور مکمل ہونے کے سترہ ہزار سال کے بعد انسان کی پیدائش ہوئی ہے.آج لوگ کہتے ہیں کہ علم جیالوجی سے یہ امر ثابت ہوا ہے حالانکہ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی نے پہلے سے یہ بات اپنی کتاب میں لکھی ہوئی ہے.وہ اپنی کتاب فتوحات مکیہ جلد اول کے ساتویں باب میں انسان کے متعلق لکھتے ہیں کہ هُوَ آخِرُ جِنْسِ مَوْجُودٍ مِنَ الْعَالَمِ الْكَبِيرِ وَاخِرُ صِنْفٍ مِنَ الْمُوَلّدَاتِ ۲۲ یعنی انسان عالم کبیر کی آخری جنس اور مولدات ثلثہ (جمادات، نباتات اور حیوانات ) میں سے آخری قسم ہے.اور مولدات ثلثہ کی پیدائش کا زمانہ وہ اکہتر ہزار سال بتاتے ہیں.اسی طرح بعض صوفیاء نے قرآن کریم سے استدلال کر کے لکھا کہ زمین گول ہے.چنانچہ
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ کولمبس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اسے امریکہ کی طرف جانے کا خیال محض اس وجہ سے پیدا ہوا کہ اس نے ہسپانیہ کے مسلمانوں سے سنا تھا کہ زمین گول ہے.غرض صوفیاء نے تو زمین کے متعلق لکھا کہ وہ گول ہے مگر ظاہری علوم رکھنے والے اسے نہ سمجھ سکے.اسی طرح اجرائے نبوت کے متعلق صوفیاء اور اولیاء نے تو لکھا کہ رسول کریم ملی کی غلامی میں نبی آسکتے ہیں.جیسے محی الدین صاحب ابن عربی آنے والے مسیح کو امتی بھی اور نبی بھی قرار دیتے ہیں لیکن علماء نے اس کا انکار کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چیلنج اب اسی زمانہ میں دیکھ لو کہ ظاہری علوم رکھنے والوں کی سمجھ میں قرآن کریم کی کوئی بات نہ آئی.انہوں نے معذرت کے نیچے پناہ لینی چاہی اور لکھ دیا کہ قرآن میں خطا بیات ہیں یعنی قرآن نے کئی باتیں ایسی لکھی ہیں جنہیں دوسرے لوگ مانتے تھے.ان کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن خود بھی انہیں درست قرار دیتا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے رڈ کیا اور اس طرح قرآن کریم کی صداقت ثابت کی.اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ اعلان کیا کہ کوئی ایسی بات بتاؤ جو روحانیت سے تعلق رکھتی ہو مگر قرآن میں نہ ہو یا قرآن کریم کی بتائی ہوئی باتوں پر جو اعتراض پڑے وہ پیش کرو.آپ نے قرآن کریم سے ایسی ایسی معرفت کی باتیں نکالیں کہ انہیں پڑھنے والے سر دُھنتے ہیں اور ان لوگوں کی غفلت اور نادانی پر افسوس کرتے ہیں جنہوں نے قرآن کریم کے نہ سمجھنے کی وجہ سے اسے محلّ اعتراض ٹھہرایا.اب آپ کی جماعت پر بھی خدا تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ جیسے قرآن کریم کے معارف آپ کی جماعت کے لوگ بیان کر سکتے ہیں وہ باقی دنیا کے لوگوں سے پوشیدہ ہیں.قرآن کریم دعوی کے ساتھ دلیل بھی پیش کرتا ہے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ جن قرآنی علوم اور معارف کا انکشاف ہوا ان میں سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم جو دعویٰ کرتا ہے اس کی دلیل بھی خود ہی دیتا ہے وہ اپنی امداد کے لئے انسانوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا.ورنہ وہ کتاب کس کام کی جو دعوئی ہی دعوی کرتی جائے اور کوئی دلیل نہ دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ وہی کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے 59
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 660 ہوسکتی ہے جو دوسروں کی امداد کی محتاج نہ ہو.یہ نہ ہو کہ دعوئی تو خود کرے اور دلیل دوسروں پر چھوڑ دے جو زیادہ مشکل کام ہے کیونکہ دعویٰ تو ہر ایک کر سکتا ہے لیکن دلیل دینا اور اس دعوئی کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے.اخلاق کے متعلق قرآن کریم کی بے نظیر تعلیم دوسری بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم نے اخلاق کے متعلق جو تعلیم پیش کی ہے اس کی نظیر دنیا کا کوئی مذہب پیش نہیں کر سکتا.چنانچہ آپ نے قرآنی علوم کی روشنی میں اخلاق کے ایسے اصول بیان کئے کہ اس وقت کے ترقی یافتہ علم النفس کے ماہرین بھی ان کے خلاف لب کشائی کی جرات نہیں کر سکتے.بلکہ اب تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کئی باتیں جن کی پہلے یہ لوگ مخالفت کیا کرتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمانے کے بعد ان کی تائید کرنے لگ گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اخلاق کی تعلیم قرآن کریم سے نکالی اور ان سوالات پر روشنی ڈالی کہ اعلیٰ اخلاق کس طرح پیدا ہوتے ہیں.ان کے حصول میں کون کون سی روکیں ہیں.ان کے پیدا کرنے کے کیا ذرائع ہیں.یہ سب باتیں قرآن کریم سے آپ نے پیش کیں اور دنیا پر اسلام کی فضیلت ثابت کی.حقیقت نبوت کا اثبات تیسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم سے حقیقت نبوت ثابت کی.پہلی ساری کتابیں اس بارے میں خاموش ہیں.چنانچہ میں نے اس کے متعلق بڑے بڑے پادریوں کو چٹھیاں لکھیں کہ بائیل کی رُو سے نبوت کی کیا تعریف ہے؟ اس پر بعض کی طرف سے یہ جواب آیا کہ ہماری اس کے متعلق کوئی تحقیق نہیں.حالانکہ وہ مسئلہ جس پر مذہب کی بنیاد ہے اس کی حقیقت تو معلوم ہونی چاہئے.مگر بڑے بڑے پادریوں نے کہا ہمیں معلوم نہیں اور ایک نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ میں نبوت کی تعریف لکھتا ہوں مگر یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ صحیح ہے یا غلط.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حقیقت نبوت قرآن کریم سے ثابت کی اور بتایا کہ ان شرائط کے
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ ماتحت جن پر وحی نازل ہوا نہیں ہم نبی کہہ سکتے ہیں ورنہ نہیں.جن پادریوں نے نبوت کے متعلق کچھ لکھا انہوں نے یہی لکھا کہ نبی وہ ہوتا ہے جو پیشگوئیاں کرے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ بائیبل میں ایسے لوگوں کا بھی ذکر ہے جو پیشگوئیاں کرتے تھے.مگر نبی نہ تھے.وہ ان میں اور بچے نبیوں میں یہ فرق نہ بتا سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں اس فرق پر بھی روشنی ڈالی ہے.قرآن کریم میں اعلیٰ درجہ کی ترتیب چوتھی بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم میں اعلیٰ درجہ کی ترتیب ہے اور اس بات کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا.حالانکہ اس سے خود مسلمان کہلانے والے بھی انکار کر رہے تھے.اور کہتے تھے کہ قرآن کی آیات ایک دوسری سے کوئی جوڑ نہیں رکھتیں.قرآنی قصص میں آئندہ زمانہ کے لئے پیشگوئیاں پانچویں بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم میں کوئی قصہ نہیں.یہ ایسا عظیم الشان امر ہے کہ پرانی تفسیروں کا اس نے تختہ الٹ دیا.وہاں بات بات پر قضہ شروع ہو جاتا ہے اور اس میں ایسی ایسی مضحکہ خیز باتیں بیان کی جاتی ہیں جنہیں عقل انسانی تسلیم ہی نہیں کر سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جس قدر واقعات کا قرآن کریم میں ذکر ہے وہ ساری پیشگوئیاں ہیں.کوئی قصہ نہیں.یہ آئندہ زمانہ میں رونما ہونے والے واقعات تھے جو پورے ہوئے.قرب قیامت والی پیشگوئیوں کا صحیح مفہوم چھٹے آپ نے قرآن کریم سے قرب قیامت والی پیشگوئیوں کا صحیح مفہوم واضح کیا اور جو لغو باتیں پھیلی ہوئی تھیں ان کو ر ڈ کیا.61
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 62 تمام مذاہب باطلہ کا رو ساتویں بات جو نہایت عظیم الشان ہے اور جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ پیش کی کہ جتنے مذاہب نئے یا پرانے ہیں ان سب کا رڈ قرآن کریم میں موجود ہے.یہ کتنی آسان بات ہے جس سے قرآن کریم کی فضیلت ظاہر ہو جاتی ہے.برہمو سماج والے کہہ سکتے تھے بتاؤ ہمارے مذہب کا قرآن میں کہاں رد ہے.پراٹسٹنٹ فرقہ کے لوگ کہہ سکتے تھے بتاؤ قرآن ہمارے خلاف کیا دلیل دیتا ہے غرض ہر مذہب والے اس قسم کا مطالبہ کر سکتے تھے مگر کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ چیلنج منظور نہ کیا.اب بھی یہ چیلنج موجود ہے.کوئی معقول آدمی اپنے مذہب کے متعلق مطالبہ کرے ہم اسی وقت قرآن کریم سے اس کے مذہب کا رڈ نکال کر دکھا دیں گے.اپنی ذات میں کامل کتاب آٹھویں بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کسی اور کتاب کا محتاج نہیں بلکہ اپنی ذات میں کامل ہے اور تمام ضروری علوم اس میں موجود ہیں.یہ صرف جھوٹے مذاہب کا رڈ ہی نہیں کرتا بلکہ ہر ضروری چیز بھی پیش کرتا ہے.یہ دعوئی بھی ایسا ہے جس کا لوگ تجر بہ کر سکتے تھے کیونکہ بعض نئے اخلاق اور نئی قابلیتوں کا علم ہوا تھا.ان کے متعلق وہ پوچھ سکتے تھے کہ بتاؤ قرآن میں کہاں ہیں مگر کوئی شخص مقابل میں نہ اُٹھا.اعلیٰ درجہ کی روحانی ترقیات عطا کرنے والی کتاب نویں بات آپ نے یہ پیش کی کہ قرآن میں انسان کی اعلیٰ سے اعلیٰ روحانی ترقیات کے گر موجود ہیں.اور اس کے لئے خدا تعالیٰ کے قرب کے دروازے کھولے گئے ہیں اور ہر قسم کی تدابیر بتائی گئی ہیں جن سے وہ ترقیات حاصل کر سکتا ہے.
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ بعث بعد الموت کی حقیقت دسویں آپ نے بعث بعد الموت کی حقیقت ثابت کی.دوزخ کا کیا نقشہ ہوگا.کون لوگ اس میں جائیں گے، کیا کیا تکالیف ہونگی.اسی طرح یہ کہ جنت میں کون لوگ ہونگے ، اس کی لذات کیسی ہونگی ، جنت دائی ہوگی یا نہیں.غرض ساری باتیں بیان کر دیں.اس وقت میں ان انکشافات کی مثالیں پیش نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں پڑھی جاسکتی ہیں.بالخصوص اسلامی اصول کی فلاسفی اور میری کتاب ”احمدیت میں ان کا ذکر ہے.مطہر کی تعریف 63 یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ میں مُطھر کا لفظ استعمال ہوا ہے نہ کہ ظاھر کا لفظ.اس کی وجہ یہ کہ طاھر وہ شخص ہوتا ہے جو زہد و ورع سے ایک پاکیزگی حاصل کر لیتا ہے اور مطھر وہ ہوتا ہے جو کسی اندرونی نسبت سے اللہ تعالیٰ کی طرف کھینچا جاتا ہے اور مطھر کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے قول یا فعل سے ہی ہوتا ہے نہ کہ اس کے کسی عمل یا لوگوں کے کہنے سے.چنانچہ دیکھ لو وہ لوگ جنہوں نے قرآن کریم کی صحیح تفاسیر لکھیں وہ وہی لوگ تھے جو خدا تعالیٰ کے الہام اور اس کے قرب سے مشرف تھے اور خدا تعالیٰ کی نصرت ان کے شامل حال تھی.ایک سوال کا جواب یہاں ایک سوال ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ دلائل سے تو یہ ثابت ہو گیا کہ قرآن کریم دوسری انسانی کتابوں سے منبع کے لحاظ سے فضیلت رکھتا ہے مگر یہ کیونکر ثابت ہوا کہ دوسری الہامی کتابوں سے بھی افضل ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ الہامی کتب سے بھی قرآن کریم افضل ہے اس لئے کہ گو وہ کتب اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھیں لیکن بعض صفات کا ظہور ان کے زمانہ میں نہ ہوا تھا.مثلاً ایک زمانہ میں اگر خیانت زیادہ پھیلی ہوئی تھی تو اس زمانہ کے نبی پر اس بدی کو دور کرنے کی صفت ظاہر ہوئی.اگر لوگوں میں خشونت اور سختی زیادہ پائی جاتی تھی تو اس زمانہ کے نبی پر رحم اور محبت اور نرمی اور شفقت کی
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ صفت کا ظہور ہوا.لیکن کوئی پہلی کتاب ایسی نہیں جو رب العلمین کی صفت کی مظہر ہو.کوئی کتاب دو صفات کی یا چار صفات کی یا پانچ صفات کی مظہر تھی مگر کوئی کتاب رب العلمین کی صفت کی مظہر نہ تھی.اسی طرح کوئی کتاب قرآن کریم کی طرح اکملیت کی مظہر نہ تھی.کوئی کتاب خدا تعالی کی صفت قیوم کی مظہر نہ تھی کیونکہ قرآن کریم سے پہلی ہر ایک کتاب منسوخ ہونے والی تھی لیکن قرآن کریم چونکہ ہمیشہ رہنے والی کتاب تھی اس لئے یہ تینوں صفات قرآن کریم میں ظاہر ہوئیں.جو صفات پہلی کتب میں ظاہر ہو چکی ہیں وہ بھی سب کی سب تمام کتب میں ظاہر نہ ہوئی تھیں بلکہ بعض ایک میں اور بعض دوسری میں بیان کی گئی تھیں لیکن قرآن کریم میں وہ بھی سب جمع ہیں.پس قرآن کریم منبع کے لحاظ سے بھی افضل ہے.اس مضمون کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے.الْحَمدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَئِكَةِ رُسُلًا أُولَى أَجْنِحَةٍ مَثْنَى وَثُلَكَ وَرُبعَ - يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللهَ عَلى كُلّ شَینِی قَدِير ٣ یعنی آسمان اور زمین کے کمالات ظاہر کرنے والے خدا کا شکر اور اس کی حمد ہے.وہ اپنے ملائکہ کو اظہار کمالات کے لئے نازل کرتا رہتا ہے اور ان کے کئی پر ہوتے ہیں.یعنی وہ کئی رنگ کی پنا ہیں اپنے ساتھ لاتے ہیں.جناح عربی زبان میں پناہ اور حمایت کو بھی کہتے ہیں.اور فرشتے جو نازل کئے جاتے ہیں وہ دو دو تین تین چار چار پروں والے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جس قدر چاہے اپنی پیدائش میں اضافہ کر دیتا ہے.یعنی جیسا موقع ہوتا ہے اتنے ہی پر زیادہ کر دیتا ہے.یہاں بتایا کہ سب تعریفیں اللہ کی ہیں جو زمین اور آسمانوں کو پیدا کرنے والا ہے.اس میں یہ اشارہ ہے کہ قرآن کریم کے نزول میں آسمان و زمین کے کمالات کے ظہور کے سامان رکھے گئے ہیں اور اسی کے لحاظ سے ملائکہ نازل ہوتے ہیں.پس قرآن کریم کا نزول ان تمام صفات پر مشتمل ہے جن سے یہ دنیا وابستہ ہے اور فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ کی صفت کا ظہور اس کے ذریعہ سے ہوا ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب تک ایک مرکز پر ساری دنیا جمع نہ ہو خدا تعالیٰ کی ہر لحاظ سے تعریف نہیں کی جا سکتی.اَلحَمدُ لله تبھی کہا جا سکتا ہے جب ساری دنیا کے لحاظ سے رب الْعَالَمِین کی صفت کا اظہار ہو.اسی لئے فرمایا کہ اب جو تعلیم آئی ہے یہ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ 64
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 65 ما يَشَاءُ کے مطابق آئی ہے.پہلے صرف دو دو تین تین چار چار کمالات ظاہر کرنے کے لئے آئی تھی پس قرآن کریم کے نزول میں زمین و آسمان کے کمالات کے ظہور کے سامان رکھے گئے ہیں.صفات الہیہ اور ان کی مظہریت یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کسی کتاب میں کسی صفت کا ذکر ہونا یہ اور امر ہے اور اس کی صفت کا مظہر ہونا اور امر ہے.یوں تو رب العلمین کی صفت اور کتب میں بھی ہے مگر وہ اس صفت کا مظہر ہونے کی مدعی نہیں ہیں.قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ واضح الفاظ میں فرماتا ہے وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَلَمِينَ ٢٢ یہ کتاب رَبُّ العلمین کی صفت کے ماتحت نازل ہوئی ہے.چونکہ یہ سارے جہان کو مخاطب کرتی ہے اس لئے ساری کی ساری صفات اس میں ظاہر کی گئی ہیں.پس قرآن کریم خدا تعالی کی تمام صفات کا مظہر ہے رہے.ظاہری حسن میں برتری ایک اور وجہ فضیلت ( جسے میں نے بارہویں نمبر پر بیان کیا تھا ) کسی چیز کا ظاہری حسن میں دوسری اشیاء پر فائق ہونا ہوتا ہے.کیونکہ ایک ہی قسم کی چیزوں میں سے انسان طبیعی طور پر ظاہری حسن میں فائق چیز کو منتخب کرتا ہے.بلکہ سب سے پہلے یہی چیز انسان کی دلکشی کا موجب بنتی ہے.میں نے جب اس لحاظ سے دیکھا تو قرآن کریم کو ظاہری طور پر بھی خوبصورت پایا.بلکہ ایسا خوبصورت پایا کہ گو یورپ نے اس خوبصورتی کو مٹانے کے لئے اپنا سارا زور صرف کردیا مگر پھر بھی وہ نا کام رہا.اس خوبصورتی کومٹانے کے لئے یورپ نے چارطریق اختیار کئے ہیں.عیسائیوں کے چار اعتراضات اول.یہ کہا گیا کہ قرآن کریم کا سٹائل ( نَعُوذُ بِاللہ) نہایت بھدا ہے.دوم.یہ کہا گیا کہ اس میں بہت سے غیر عربی الفاظ داخل ہیں.سوئم.یہ کہ اس میں فضول تکرار ہے یونہی ایک بات کو دُہراتا چلا جاتا ہے.
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 66 چہارم.یہ کہ اس کے مضامین میں کوئی ترتیب نہیں.کہیں احکام شروع ہیں تو ساتھ ہی وعظ کیا جاتا ہے.پھر لڑائیوں کا ذکر آ جاتا ہے تو ساتھ ہی منافقوں کو ڈانٹا جاتا ہے.لیکن یہ اعتراض جیسا کہ میں ابھی بتاؤں گا درست نہیں بلکہ قرآن کریم کا ظاہری حسن بھی اسے گل دنیا کی کتب پر افضل قرار دیتا ہے اور یہ فضیلت دس خوبیوں سے ثابت ہے.قرآنی زبان کی فصاحت اول زبان کی فصاحت.قرآن کی یہ خوبی اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ دشمن سے دشمن نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے اور عربوں نے تو اس کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور بڑے بڑے ادیب اس کے کمال کے آگے عاجز آگئے ہیں.میں اس کے متعلق دوستوں کو ایک واقعہ سناتا ہوں.وہ لبید عرب کا ایک مشہور شاعر تھا جو سات بڑے مشہور شاعروں میں سے ایک تھا.پہلے و اسلام کا مخالف تھا مگر بعد میں ایمان لے آیا.اسلام لانے کے بعد وہ ہر وقت قرآن کریم پڑھتا رہتا.اور اس نے شعر کہنے ترک کر دیئے.حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ اپنے زمانہ خلافت میں کوفہ کے گورنر مغیرہ بن شعبہ کو چٹھی لکھی کہ اپنے علاقہ کے مشہور شاعروں سے اچھے اچھے اشعار لکھوا کر مجھے بھیجو.مغیرہ نے اس کام کے لئے دو شاعر اغلب اور لبید پسند کئے اور انہیں کہا گیا خلیفہ وقت کا حکم آیا ہے کہ کچھ شعر لکھ کر بھیجو.اس پر اغلب نے تو قصیدہ لکھا لیکن لبید نے کہا جب سے میں اسلام لایا ہوں میں نے شعر کہنے چھوڑ دیئے ہیں.جب انہیں مجبور کیا گیا تو وہ سورۃ بقرہ کی چند آئتیں لکھ کر لے آئے اور کہا کہ ان کے سوا مجھے کچھ نہیں آتا.مغیرہ نے لبید کو سزادی اور اغلب کی حضرت عمر کے پاس سفارش کی.لیکن حضرت عمر کو لبید کی بات کی اتنی لذت آئی کہ انہوں نے کہا لبید نے جو کچھ کہا ہے اس سے اس کے ایمان کا ثبوت ملتا ہے کہ اتنا قادر الکلام ہونے کے باوجود شرماتا ہے کہ قرآن کے سوا کچھ اور اپنی زبان سے نکالے.مسیحیوں نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ کیا لبید نے پہلے کبھی قرآن نہ سنا تھا جبکہ وہ اسلام کا مخالف تھا.وہ دراصل لالچ کے لئے اس طرح کہتا تھا لیکن اس دلیل سے عیسائیت پر بھی اعتراض وارد ہوتا ہے کیونکہ بعض دفعہ ایک انسان کئی بار انجیل پڑھتا اور عیسائیوں کے وعظ سنتا ہے؟
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 67 عیسائیت کو نہیں مانتا.لیکن پھر ایک وقت مان لیتا ہے تو کیا وہ لالچ سے ایمان لاتا ہے؟ یہ ایک طبعی بات ہے کہ انسان بعض اوقات ایک بات کا انکار کر دیتا ہے لیکن جب اس پر صداقت کھلتی ہے تو اسے مان لیتا ہے.ایسا ہر مذہب میں ہوتا ہے.کئی لوگ ہندو ہو جاتے ہیں.اب کیا انہیں کہا جاتا ہے کہ اتنے سال تو تم ہندو مذہب کا ذکر سنتے رہے اور ہندو نہ ہوئے؟ اب جو ہندو ہوئے ہو تو کسی لالچ کی وجہ سے ہوئے ہو؟ دراصل یہ بہت بودی دلیل ہے اور سوائے اس کے جو خود لالچی ہو اور کوئی پیش نہیں کر سکتا.یوں تو دنیا میں بڑی اچھی اچھی کتابیں لکھی جاتی ہیں اور ان کی قبولیت بھی ہوتی ہے.مگر دیکھنا یہ چاہئے کہ کیا کوئی ایسی کتاب لکھی گئی ہے جس کے لکھنے والے نے پہلے ہی یہ اعلان کر دیا ہو کہ یہ سب سے افضل اور اعلیٰ ہوگی اور اس کی قبولیت لوگوں میں پھیل جائے گی.یوروپین لوگ کہتے ہیں شیکسپیئر جیسا کلام کوئی نہیں لکھ سکتا.گو خدا کی قدرت ہے جب سے قرآن پر یوروپین اعتراض کرنے لگے ہیں ایسی سوسائٹیاں بھی بن گئی ہیں جو شیکسپیئر کی تحریروں پر اعتراض کرتی ہیں.لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ وہ اچھا لکھنے والا تھا تو دیکھنا یہ چاہئے کہ کیا لکھتے وقت اس نے کہا تھا کہ اس کا کلام تمام کلاموں سے افضل رہے گا.اس نے یقینا ایسا نہیں کہا.مگر قرآن نے پہلے ہی کہ دیا تھا کہ اس کتاب کا مقابلہ کرنے سے دنیا عاجز رہے گی.میں نے بینٹ کی ایک کتاب پڑھی ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ جب میں نے یہ کتاب لکھی تو سمجھا کہ بہت مقبول ہوگی مگر چھاپنے والوں نے اس کی اشاعت میں لیت و لعل کیا اور پبلک نے بھی قدر نہ کی.پس کوئی لکھنے والا نہیں جانتا کہ اس کی کتاب مقبول ہوگی یا نہیں.مگر قرآن نے پہلے سے کہ دیا تھا کہ یہ کتاب تمام کتب سے افضل ہے اور ہمیشہ افضل رہے گی.پھر عرب وہ ملک تھا جس کا تمام کمال زبان دانی پر تھا.اس ملک میں قرآن آیا اور ان لوگوں کی زبان میں آیا.اور پھر اس نے ایسا تغیر پیدا کر دیا کہ عربوں کا طرز کلام ہی بدل ڈالا اور انہوں نے قرآن کی طرز اختیار کر لی.ان کی طرز تحریر بدل گئی.پرانا سٹائل جاتا رہا اور قرآن کریم کے سٹائل پر ہی سب چلنے لگے.بعض لوگ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ قرآن کریم کو ماننے والوں نے ایسا کرنا ہی تھا.میں کہتا
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 68 ہوں بائیبل ، انجیل اور ویدوں کے ماننے والوں نے کیوں ایسا نہ کیا.وہ بھی تو ان کتابوں کو خدا کی طرف سے مانتے تھے.قرآن کریم میں غیر زبانوں کے الفاظ یہ اعتراض کہ قرآن میں غیر زبانوں کے الفاظ آگئے ہیں یہ بھی درست نہیں.کوئی زبان خواہ وہ نئی ہو یا پرانی غیر زبانوں کے الفاظ سے پاک نہیں ہو سکتی.اعتراض تب ہوتا جب عربی زبان میں وہ الفاظ جاری نہ ہوتے اور عرب کہتے کہ ہم ان الفاظ کو سمجھ نہیں سکتے.جب عرب قرآن کے الفاظ کو سمجھ جاتے تھے اور مکہ والے سمجھ لیتے تھے عرب میں وہ الفاظ جاری تھے اور وہ الفاظ عربی زبان کا ایک حصہ ہوچکے تھے تو خواہ وہ غیر زبان کے ہی ہوں کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.بلکہ میں تو کہتا ہوں اگر قرآن نے ہی وہ الفاظ عربی میں داخل کئے ہوں تب بھی یہ قرآن کی بہت بڑی طاقت کی علامت ہے کہ وہ الفاظ عربوں میں رائج ہو گئے کیونکہ جو قادر الکلام نہ ہو اس کی بات چل نہیں سکتی.اسی لئے کہتے ہیں کہ اگر کوئی قادر الکلام اپنے کلام میں غلطی بھی کرے تو اسے ایجاد کہیں گے غلطی نہیں کہیں گے کیونکہ وہ زبان پر عبور رکھتا ہے.پس اگر قرآن میں نئے الفاظ آئے اور وہ عربی زبان کا جزو بن گئے تو یہ قرآن کا اور زیادہ معجزہ ہے.مگر یہ درست نہیں کہ غیر زبانوں کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں.دراصل یہ دھو کا اس وجہ سے لگا ہے کہ عربی اور عبرانی زبان کے بعض الفاظ آپس میں ملتے جلتے ہیں.بلکہ بعض محاورات بھی آپس میں مل گئے ہیں.اس سے یہ غلط طور پر سمجھ لیا گیا کہ قرآن میں غیر زبانوں کے الفاظ آگئے ہیں.مثلا فرقان ایک لفظ ہے.اس کے تمام مشتقات عربی میں موجود ہیں.اس کے متعلق یہ کہنا کہ قرآن نے یہ لفظ باہر سے لیا ہے غلط ہے.اسی طرح رخمن کے متعلق اعتراض کرتے ہیں حالانکہ یہ بھی عربی لفظ ہے.لفظ رحمن کی حقیقت اصل بات یہ ہے کہ محققین یورپ کو یہ دھو کا قرآن کریم کی اس آیت سے لگا ہے کہ وَإِذَا قِيْلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَن ۲۵ یعنی جب ان سے کہا جاتا ہے کہ
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ خدائے رحمن کے سامنے سجدہ میں گر جاؤ تو وہ کہتے ہیں ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہوتا ہے.معترضین کہتے ہیں.یہ آیت اس بات کی سند ہے کہ غیر زبان کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں کیونکہ عرب کے لوگ کہتے ہیں ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہوتا ہے.اگر یہ غیر زبان کا لفظ نہ ہوتا تو وہ کیوں ایسا کہتے حالانکہ معترضین اس آیت کے معنے ہی نہیں سمجھے.کفار کا اعتراض لفظ ر مخمن پر نہیں تھا بلکہ اس اصطلاح پر تھا جو قرآن نے رحمن کے لفظ کے ذریعہ پیش کی تھی.قرآن نے یہ نئی اصطلاح پیش کی تھی جو عربوں میں رائج نہ تھی.جیسے صلوۃ عربی لفظ ہے مگر اصطلاحی صلوۃ قرآن نے پیش کی ہے.اس کے متعلق بھی کفار کہہ سکتے تھے کہ ہم نہیں جانتے صلوۃ کیا ہوتی ہے.پس ان لوگوں کا اعتراض در حقیقت اسلامی اصطلاح پر تھا اور انہوں نے یہ کہا کہ اس کا جو مطلب قرآن پیش کرتا ہے وہ ہم نہیں جانتے اور اصطلاح جدید علم جدید کے لئے ضروری ہوتی ہے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ایک طرف تو قرآن میں آتا ہے کہ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قومہ سے یعنی ہم نے ہر ایک رسول کو اس کی قوم کی زبان میں ہی وحی دیکر بھیجا ہے.اور دوسری طرف سورۃ ہود میں آتا ہے.مخالفین نے حضرت شعیب سے کہا.يُشْعَيْب مَا نَفَقَهُ كَثِيرًا مَّهَا تَقُولُ کے اے شعیب ! ہماری سمجھ میں تیری اکثر باتیں نہیں آتیں.اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت شعیب علیہ السلام کسی ایسی زبان میں باتیں کرتے تھے جسے وہ لوگ سمجھ نہ سکتے تھے بلکہ یہ ہے کہ جو دینی باتیں وہ بیان کرتے تھے اور جو جو مسائل وہ پیش کرتے تھے انہیں وہ لوگ نہیں سمجھتے تھے.اہل عرب میں رحمن کا استعمال وہ الفاظ جو قرآن نے استعمال کئے ہیں وہ ان لوگوں میں پہلے سے موجود تھے.چنانچہ رخمن کا لفظ بھی ان میں استعمال ہوتا تھا.قرآن کریم میں آتا ہے.وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمٰنُ ما عبدتهم ^ے یعنی وہ کہتے ہیں کہ اگر رحمن کا یہی منشاء ہوتا کہ ہم شرک نہ کریں تو ہم شرک نہ کرتے.غرض رحمن کا لفظ وہ بولا کرتے تھے مگر قرآن کریم نے رحمن اس ہستی کو قرار دیا ہے جو بغیر محنت کے انعام دیتی ہے.اور یہ بات وہ لوگ نہیں مانتے تھے کیونکہ اس کے ماننے سے ان کا 89 69
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 70 شرک باطل ہو جاتا تھا.غرض وَمَا الرحمن کے یہ معنی نہیں کہ عرب کے لوگ رحمن کا لفظ نہیں جانتے تھے بلکہ یہ ہیں کہ وہ اس اصطلاح کے قائل نہ تھے جو قرآن نے پیش کی.بہر حال قرآن کریم کی فصاحت اس کے حسن کا ایک روشن ثبوت ہے.اور پھر قرآن کریم کی یہ فصاحت ایسی بڑھی ہوئی ہے کہ آج تک علم ادب پر اس کا اثر ہے اور زبان عربی کی ترقی کو اس نے ایک خاص لائن پر چلا دیا ہے.حتی کہ عرب مسیحی مصنف بھی قرآن کی تعریف کرتے تھے اور ان کے مدارس میں قرآن کریم سے ٹکڑے بطور ادب کے رکھے جاتے تھے.ایک جاہل ملک میں ایک کتاب کا لوگوں کو والہ و شید ا بنادینا اور انہیں جاہل سے عالم کر دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے.قرآن کی اعلیٰ درجہ کی ترتیب قرآن کریم کی دوسری ظاہری خوبی اس کی اعلیٰ درجہ کی ترتیب ہے.ترتیب کا اعلیٰ ہونا بذات خود روحانیت سے تعلق نہیں رکھتا کیونکہ مجرد ترتیب انسانی کلام میں بھی پائی جاتی ہے.لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ترتیب ایک ظاہری خوبی ہے جو کسی کلام کو خو بصورت بنادیتی ہے.اور اس خوبی کے لحاظ سے بھی قرآن کریم تمام دوسری کتب سے افضل ہے.بظاہر وہ ایک بے ترتیب کلام نظر آتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک اعلیٰ درجہ کی ترتیب موجود ہے بلکہ جہاں سب سے بڑھ کر بے ترتیبی نظر آتی ہے وہاں سب سے زیادہ ترتیب ہوتی ہے.اور یہی اس کی بہت بڑی خوبی ہے.دنیا میں کوئی انسان ایسی کتاب نہیں لکھ سکتا جو بظاہر تو بے ترتیب ہو مگر غور کرنے سے اس میں اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہو.پس اس حسن میں بھی قرآن کریم نہ صرف دوسری کتب کے مشابہ ہے بلکہ ان سے افضل ہے.اس وجہ سے کہ معروف ترتیب کی اتباع کرنا ایک عام بات ہے.ہر عقلمند ایسا کر سکتا ہے لیکن قرآن کریم کی ترتیب میں بعض ایسی خصوصیات ہیں جو دوسری کتب میں نہیں اور وہ خصوصیات یہ ہیں.ترتیب قرآن کی چند خصوصیات اول.اس کی ترتیب بظاہر مخفی ہے مگر غور اور تامل سے ایک نہایت لطیف ترتیب معلوم ہوتی
71 فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ ہے اور کسی انسانی کتاب میں اس قسم کی ترتیب کی مثال نہیں ملتی کہ بظاہر تر تیب نہ ہولیکن غور کرنے پر ایک مسلسل ترتیب نظر آئے جو نہایت لطیف اور فلسفیانہ ہو.، اس وقت میں قرآن کریم کی ترتیب کے متعلق مثالیں دینے سے معذور ہوں کیونکہ جس مقام کی بھی میں ترتیب بیان کروں گا کہا جا سکتا ہے کہ یہ مقام خاص طور پر چن لیا گیا ہے.میں نے بعض دوستوں سے کہا تھا کہ وہ کوئی مثال ایسی چن دیں جس کی ترتیب عام لوگوں کو معلوم نہ ہو اور جو بے جوڑ فقرے نظر آتے ہوں مگر افسوس ہے کہ ان کا مطالعہ وسیع نہ تھا اس لئے وہ کوئی مثال پیش نہ کر سکے اور میں خود سر درد کی وجہ سے ایسا مقام نہ نکال سکا اور نہ بتاتا کہ قرآن کریم میں کیسی اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہے.دوم - قرآن کریم بغیر اس کے کہ ترتیب کی طرف اشارہ کرے علم النفس کے ماتحت اپنے مطالب کو بیان کرتا ہے اور جو سوال یا جو ضرورت کسی موقع پر پیش آتی ہے اس کا انگلی عبارتوں میں جواب دیتا ہے.گویا اس کی ہر اگلی آیت میں پچھلی آیات کے مطابق جو سوال پیدا ہوتے ہیں ان کا جواب دیا جاتا ہے.اور یہ باریک ترتیب اور کسی کتاب میں نہیں ہے.بائیبل کے متعلق لوتھر لکھتا ہے:- "The Gospels do not keep order in their account of miracles and deeds of jesus.This is of small moment.When there is dispute about Holy Writ and no comparison is possible let the matter drop.۲۹ Emile Ludwidg in his book son of man" says, "Almost all the contradictions arise out of the disorderly nature of the reports.".sources four main of The Gospels, the knowledge, contradict one another in many respects and are upon some points contradicted by the scanty non-Christians authoriteis."
72 فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ Moreover in confusion is there serial arrangement, a confusion which has been deplored through- out centuries.یعنی بائیبل میں ترتیب واقعات کا لحاظ نہیں رکھا گیا.پس اس کے بیانات کے بارہ میں جب کوئی جھگڑا پیدا ہو اور سلجھاؤ کی کوئی صورت دکھائی نہ دے تو اسے چھوڑ دینا چاہئے.ایل لڈوگ (Emil Ludwidg) نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ بیان کرتا ہے کہ موجودہ انجیل ہمیں بالکل بے ترتیب نظر آتی ہے.وہ اپنی کتاب ”ابن آدم میں اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ انجیل میں ہمیں جو بھی تضاد نظر آتا ہے وہ واقعات کے بے ترتیبی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے.انا جبیل جو ہمارے علم کے چار بڑے چشمے ہیں کئی امور میں ایک دوسرے کے مخالف بیانات کی حامل ہیں اور غیر عیسائی محققین نے بھی انہیں متضاد قرار دیا ہے، اس کے علاوہ ان کی ترتیب میں اس قدر الجھنیں ہیں کہ صدیوں سے خود مسیحی اس پر افسوس کا اظہار کرتے چلے آرہے اسی طرح ویدوں کو پڑھا جائے تو وہاں بھی ترتیب کا کچھ پتہ نہیں لگتا اور یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ ایک واقعہ کا دوسرے واقعہ سے کیا جوڑ ہے.مختصر آیات میں حقائق ومعارف کی کثرت تیسری خوبی جو قرآن کریم کے ظاہری حسن کو نمایاں کرتی ہے وہ اس کے مضامین کا باوجود اختصار کے مفصل ہونا ہے.چنانچہ ایک ایک آیت کئی کئی مطالب بیان کرتی چلی جاتی ہے.اور پھر اس میں علم کلام، علم تاریخ علم اوامر اور علم نواہی سب ایک ہی وقت میں کام کر رہے ہوتے ہیں اور آئندہ کے لئے پیشگوئیاں بھی ہوتی ہیں.اس خوبی کی وجہ سے ایک طرف تو قرآن کریم نہایت مختصر ہے اور دوسری طرف جو اس میں عظیم الشان مطالب بیان ہیں وہ بائیبل اور دوسری الہامی کتب میں مل ہی نہیں سکتے.اس کی ایک مثال میں نے ابھی دی ہے کہ ایک چھوٹی سی آیت میں تین عظیم الشان پیشگوئیاں بیان کی گئی ہیں لیکن اس کے علاوہ قرآن کریم کا کوئی مقام لے لو یہ بات واضح ہو جائے
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ گی.میں اس کے مزید ثبوت کے لئے پھر پہلی آیت کو ہی لے لیتا ہوں.اقرأ باسم رنگ الَّذِی خَلَقَ کی لطیف تفسیر 73 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ إِقْرَا وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمُ - ان چند آیات میں پہلے تاریخ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ فرمایا اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ.پڑھ اس کلام کو.مگر جب پڑھنے لگو تو یہ کہہ لینا کہ میں اللہ کا نام لے کر اسے پڑھتا ہوں.اس میں استثنا باب ۱۸ کی آیت ۱۹،۱۸ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ :- میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی بر پاکروں گا.اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرماؤں گا.وہ سب ان سے کہے گا.اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لونگا.۳۳ پس باسم ربک میں موسی کی اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ کے مثیل موسی ہونے کا دعوی پیش کیا گیا ہے اور نبوت کے تسلسل کا ذکر کیا گیا ہے.پھر اقرا میں تبلیغ کے واجب ہونے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.کئی کلام ایسے ہوتے ہیں جو خود پڑھنے والے کے لئے ہوتے ہیں، دوسروں کو سنانے کے لئے نہیں ہوتے مگر اس کلام کے متعلق فرمایا یہ ساری دنیا کے لئے ہے، جا اور اُسے سنا.اس میں تبلیغ اسلام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.تیسری بات رنگ الَّذِی خَلَقَ میں یہ بتائی کہ اس کلام کے پیش کرنے میں تمہیں بہت سی مشکلات پیش آئیں گی مگر تو اس رب کا نام لے کر پڑھ جس نے انسان کو پیدا کیا ہے.اس میں یہ اشارہ کیا کہ یہ کلام صرف بنی اسرائیل کے لئے یا اہل ہنود کیلئے نہیں یہ الانسان کے لئے ہے اور جب ایک قوم کو مخاطب کرنے والوں کو دکھ اور تکالیف اُٹھانی پڑیں تو تم جو ساری دنیا کو مخاطب کر رہے ہو تمہیں کس قدر مشکلات پیش آئیں گی.مگر کسی بات سے ڈرنا نہیں یہ کلام تیرے رب کی طرف سے آیا ہے اور باوجود اس کے کہ ساری دنیا اس کی مخاطب ہے اور اس وجہ سے ساری دنیا
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ تیری مخالف ہوگی تیرا رب تیرے ساتھ ہوگا.مگر یہ بھی یا درکھنا کہ تیری آہستہ آہستہ ترقی ہوگی کیونکہ رب آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ ترقی دینے والے کو کہتے ہیں.چوتھی بات یہ بیان کی کہ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.اس میں ایک تو اس طرف توجہ دلائی کہ اے انسان! دیکھ تیری پیدائش کتنی ادنی ہے پھر تو خیال بھی کس طرح کر سکتا ہے کہ اپنی کامیابی کے ذرائع خود معلوم کر لے گا.دوسرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرف توجہ دلا دی کہ انسان کو علق سے پیدا کیا گیا ہے یعنی اس میں قدرتی طور پر تعلق باللہ کا مادہ رکھا گیا ہے اور یہ بات تمہاری معاون ہوگی.پس تمہیں گھبرانا نہیں چاہئے اور مایوسی کو کبھی اپنے قریب بھی نہیں آنے دینا چاہئے.غرض ایک چھوٹی سی آیت میں تاریخ علم کلام تبلیغ ، انسان کی پیدائش اور انسان کی مخفی طاقتوں کا ذکر کر دیا.اور ابھی یہ باتیں ختم نہیں ہوئیں اور بھی کئی علوم کا اس میں ذکر ہے.قرآن کریم کی منفی عبارت چہارم قرآن کریم کی عبارت مقفی ہوتی ہے.قافیہ بندی کے ساتھ اگر مضمون خراب ہو جائے تو وہ منفی عبارت بری معلوم ہوتی ہے.لیکن قرآن کریم کی عبارت با وجود مقفی ہونے کے ایسی ہے جس سے صرف مضمون کی عظمت ہی قائم نہیں ہوتی بلکہ نئے نئے معارف بھی ظاہر ہوتے ہیں.اس کی مثال کے طور پر سورۃ جمعہ کو لے لیتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزيّيْهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ." دیکھو کس طرح ان آیات میں توازن کو قائم رکھا گیا ہے.یہ ہے تو نشر مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ اشعار ہیں.مگر باوجود اس کے کوئی لفظ زائد نہیں.شاعر تو مضمون کے لحاظ سے الفاظ کو آگے پیچھے 74
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 75 کرنے پر مجبور ہوتے ہیں مگر یہاں ایسا نہیں کیا گیا.یہ آیتیں اس زمانہ کے متعلق ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ شعر ہیں.وزن قائم رکھنے کے لئے ان میں توازن کوملحوظ رکھا گیا ہے اور متقی عبارت ہے مگر ترتیب خراب نہیں ہوئی.نہ کوئی زائد چیز آئی ہے، ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر ہے.سورۃ جمعہ کی ابتدائی آیات کی تفسیر خدا تعالیٰ فرماتا ہے يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ہر ایک چیز خواہ وہ آسمانوں میں ہے خواہ زمین میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے.یعنی ہر چیز ثابت کرتی ہے کہ خدا ہے عیب ہے.اَلْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيم.وہ ملک ہے، قدوس ہے، عزیز ہے، حکیم ہے.یہاں قافیہ کے لحاظ سے حکیم پیچھے آیا ہے.اگر ملک پیچھے آتا تو وزن قائم نہ رہتا.آگے اسی ترتیب سے مضمون چلتا ہے.پہلی صفت خدا تعالیٰ کی یہ بیان کی تھی کہ وہ الملک یعنی بادشاہ ہے.اور بادشاہ کا یہ کام ہوتا ہے کہ رعایا کی بہتری اور بہبودی کے احکام جاری کرے.اس لئے فرمایا هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّثِينَ رَسُولًا مِنْهُمْ - جب خدا تعالی ساری دنیا کا بادشاہ ہے تو اس نے اپنی رعایا کو احکام پہنچانے کے لئے امیین میں ایک رسول بھیجا اور اپنا نائب مقرر کیا مگر یہ نائب باہر سے مقرر نہیں کیا بلکہ تم میں سے ہی بھیجا.دوسری صفت یہ بیان کی تھی کہ وہ القدوس ہے اس کے متعلق فرمایا يَتْلُوا عَلَيْهِم آیتِه ويز کنیم وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہر ایک چیز پاکیزہ ہو اس لئے اس نے رسول کو اپنی آیات دے کر بھیجا تا کہ وہ آیات لوگوں کو سنائے اور ان میں دماغی اور روحانی پاکیزگی پیدا کرے.پہلے اللہ تعالیٰ کی آیات سکھا کر انسانی دماغ کو پاک کرے اور پھر یز سیم ان کے اعمال کو پاک کرے.تیسری صفت یہ بیان کی تھی کہ العزیز وہ غالب ہے.اس کے لئے فرمایا.وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب.ان کو کتاب سکھائے.یہ سیدھی بات ہے کہ کوئی بات وہی سکھا سکتا ہے جس کے شاگرد ہوں.چونکہ عزیز کے معنی غالب کے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلہ میں یہ رکھا کہ اس
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ رسول کو ہم ایک جماعت دیں گے جسے یہ سکھائے گا اور اسے دنیا پر غلبہ بخشے گا کیونکہ میں اسے اپنی صفت عزیز کے ماتحت بھیج رہا ہوں.چوتھی صفت اتحکیم بیان کی تھی.اس کے متعلق فرمایا وَ الحِكْبَة کہ وہ حکمت سکھائے گا.وَإِن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِيْنٍ اور گو اس سے پہلے وہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے مگر پھر بھی یہ رسول اس کتاب کو منوالے گا.اس کے بعد فرمایا وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِہم.یہ رسول کچھ اور لوگوں کو بھی سکھائے گا جو ابھی ان سے نہیں لے.وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَکیم اور وہ غالب اور حکمت والا ہے.ممکن ہے کوئی کہے کہ قرآن کی عبارت تو مقفی بتائی جاتی ہے لیکن یہ ترتیب کیسی ہے کہ انہیں الفاظ کو پھر ڈ ہرا دیا گیا ہے جو پہلے آچکے ہیں اور بغیر ضرورت کے صرف قافیہ بندی کے لئے لائے گئے ہیں.لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ یہی الفاظ آنے چاہئیں تھے.اس کی وجہ ہے کہ جب کہا گیا وَ اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهمْ که یه رسول ایک اور جماعت کو بھی سکھائے گا جو ان لوگوں سے نہیں ملی تو گو یا بتا یا کہ ان لوگوں میں اور اس جماعت میں ایک وقفہ ہوگا.اور دوسرے لوگ کچھ مدت کے بعد آئیں گے.اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک عرصہ گذرنے کے بعد مسلمانوں میں سے قرآن مٹ جائے گا اور پھر بعد میں آنے والوں کو سکھایا جائے گا.ورنہ اگر وقفہ نہیں پڑنا تھا تو یہ بات بیان کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی.پیچھے آنے والے آخر پہلوں سے ہی سیکھا کرتے ہیں.اس کے ذکر کی یہی وجہ ہے کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا تھا جس میں قرآن دانی مٹ جانی تھی.اور پھر محمد رسول اللہ صلی نیلم کے ذریعہ دنیا کو قرآن سکھایا جانے والا تھا.اب یہ صاف بات ہے کہ درمیانی وقفہ کسی نقص کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے.اور اس نقص کے ازالہ سے ہی اس امر کو دوبارہ قائم کیا جاسکتا ہے.پس دوبارہ عزیز وحَکیم کہہ کر بتایا کہ یہ وقفہ دشمنان اسلام کے غلبہ ظاہری اور ان کی علمی اور فلسفی اور سائنس کی ترقی کی وجہ سے ہوگا.اور مسلمان ان سے متاثر ہو کر قرآن کو چھوڑ دیں گے.مگر پھر خدا تعالیٰ ان کو غلبہ عطا فرمائے گا کیونکہ وہ عزیز ہے.چونکہ دوسروں کو حکومت ملنی تھی اور اس سے مسلمانوں پر رُعب چھا جانا تھا اور ایسے علوم نکل آنے تھے جن کی وجہ سے اسلام پر حملہ کیا جاتا اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس وقت بھی 76
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ اپنی صفات عزیز اور حکیم کا اظہار کریں گے اور مسلمانوں کو دوسروں کے مقابلہ میں غلبہ دیں گے.اور ان علوم کا بھی رد کریں گے جو قرآن کے مقابلہ پر آئیں گے کیونکہ اصل غلبہ اللہ تعالیٰ کو ہے اور علوم اس کے بھیجے ہوئے ہیں.پس وہ باوجود ان فتن کے رسول کریم منانے یتیم کی تعلیم کو دوبارہ دنیا میں قائم کر دے گا.غرض ان الفاظ کا تکرار صرف مقفی عبارت کے لئے نہیں بلکہ عین اس ترتیب کے ماتحت ہے جس کی یہاں ضرورت تھی.قرآنی آیات کا لطیف توازن 77 (۵) پھر قرآن کریم کی ایک ظاہری خوبی اس کے الفاظ کا لطیف توازن ہے کہ بظاہر نثر ہے مگر نظم کے مشابہ ہے اور یہ امر اس کی عبارت کو ایسا خوبصورت بنا دیتا ہے کہ کوئی اور کتاب اب تک اس کی نقل نہیں کر سکی خواہ وہ ناقص نقل ہی کیوں نہ ہو.یہ بھی قرآن کریم کی ایک بہت بڑی خوبی ہے.چونکہ قرآن کریم حفظ کیا جانا تھا اس لئے ضروری تھا کہ یا تو اشعار میں ہوتا یا اشعار سے ملتا جلتا ہوتا.قرآن کریم کو خدا تعالیٰ نے ایسے انداز میں رکھا کہ جس قدر جلدی یہ حفظ ہوسکتا ہے اور کوئی کتاب نہیں ہو سکتی.اس کی وجہ توازن الفاظ ہی ہے اور پڑھتے وقت ایک قسم کی ربودگی انسان پر طاری ہو جاتی ہے.قرآن کریم میں ذکر الہی کی کثرت (1) چھٹی خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر کی اس میں اتنی کثرت ہے کہ جب انسان قرآن کھولتا ہے تو اسے یوں معلوم ہوتا ہے کہ سارے کا سارا قرآن ہی خدا تعالیٰ کے ذکر سے پر ہے.چنانچہ مکہ کے کئی مخالف جو سخت دشمن ہوا کرتے تھے جب کبھی رسول کریم صلی ہنی پریتم کی مجلس میں بیٹھ جاتے تو کہتے وہاں تو اللہ تعالیٰ کا ہی ذکر ہوتا رہتا ہے.غرض قرآن کریم نے اس طرح عظمت الہی کو بار بار بیان کیا ہے کہ انسان اس امر کو محسوس کئے بغیر نہیں رہتا.اور ہر خدا تعالیٰ سے
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 78 محبت رکھنے والا دل اس کثرت سے ذکر الہی کو دیکھ کر باغ باغ ہو جاتا ہے.ایک فرانسیسی مصنف لکھتا ہے.محمد کے متعلق خواہ کچھ کہ لیکن اس کے کلام میں خدا ہی خدا کا ذکر ہے.وہ جو بات پیش کرتا ہے اس میں خدا کا ذکر ضرور لاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کا عاشق ہے.یہ مخالفین کی قرآن کریم کے متعلق گواہی ہے کہ وہ ذکر الہی سے بھرا ہوا ہے.اور ذکر الہی ہی مذہب کی جان ہے.لیکن دوسری کتب اس سے عاری ہیں اور ادھر ادھر کی باتوں میں وقت کو ضائع کرتی ہیں بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں بندوں کے قصے کہانیاں زیادہ ہیں اور اللہ کا ذکر کم ہے.سخت کلامی سے مبرا کتاب ساتویں خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ وہ سخت کلامی سے مبرا ہے اور یہ بھی حسن کلام کی ایک قسم ہے.کوئی نہیں جو یہ کہ سکے کہ اس میں گالیاں ہیں.پھر نہ صرف قرآن سخت کلامی سے مبرا ہے بلکہ نہایت لطیف اور دلنشیں پیرا یہ میں یہ نصیحت کرتا ہے کہ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوًّا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۳۵ یعنی تم ان معبودانِ باطلہ کو گالیاں مت دو جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے سوا پرستش کرتے ہیں.اور اگر تم ان کو گالیاں دو گے تو وہ اللہ کو گالیاں دیں گے بغیر یہ سمجھنے کے کہ اللہ تو سب کا ہے.پھر فرماتا ہے كَذلِكَ زَيَّنَا لِكُلِ أُمَّةٍ عَمَلَهُم ۳ اسی طرح ہم نے ہر ایک قوم کے لئے اس کے عمل خوبصورت کر کے دکھائے ہیں.یعنی یہ نہ سمجھا جائے کہ چونکہ ان لوگوں کے معبود جھوٹے ہیں اس لئے انہیں برا بھلا کہنے میں کیا حرج ہے.یہ لوگ اب شرک کے عادی ہو چکے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنے اس بُرے کام کو بھی اچھا سمجھنے لگ گئے ہیں اس لئے اگر تم انہیں گالیاں دو گے تو فتنہ پیدا ہو گا اور یہ لوگ خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے لگ جائیں گے.کیا ہی لطیف نکتہ قیام امن کے متعلق بیان کیا کہ کسی کے بزرگوں اور قابل تعظیم چیزوں کو بڑا بھلا نہ کہا جائے کیونکہ اس سے آپس کے بہت سے جھگڑے اور فساد رُک سکتے اور بہت اچھے تعلقات پیدا ہو سکتے ہیں.
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 79 فحش کلامی اور ہر قسم کی بد اخلاقی سے منزہ کتاب آٹھویں ظاہری خوبی قرآن کریم میں یہ ہے کہ وہ پخش کلامی اور ہر قسم کی بداخلاقی کی تعلیم سے منزہ ہے.یعنی اس میں کوئی ایسی بات نہیں جسے پڑھ کر طبیعت منعض ہو جائے یا شرمائے یا بداخلاقی معلوم ہو.قرآن کریم ایک شریعت کی کتاب ہے.اور بوجہ شریعت ہونے کے ایسے ایسے مضامین پر بھی بحث کرنی پڑتی ہے جو نہایت نازک ہوتے ہیں مگر وہ اس طرح ان کو بیان کر جاتا ہے کہ جن کو پڑھ کر جو واقف ہے وہ تو سمجھ جائے اور جس کی عمر ابھی سمجھنے کی نہیں اسے خاموش گذار دیا جائے.مثلاً اس میں مرد اور عورت کے تعلقات کا ذکر ہے.طہارت اور پاکیزگی کے متعلق احکام بیان ہیں.مگر ان احکام کو ایسی عمدگی سے بیان کیا گیا ہے کہ بات بھی کہ دی گئی ہے اور عریاں الفاظ بھی استعمال نہیں کئے گئے لیکن اس کے مقابلہ میں دوسری کتابوں میں ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جن کو پڑھتے ہوئے شرم آجاتی ہے.جیسا کہ پیدائش باب ۱۹ آیت ۳۱ تا ۳۸ میں حضرت لوط علیہ السلام کے متعلق ایک گندے واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے.چونکہ یہاں عورتیں بھی بیٹھی ہیں اس لئے میں اس حوالہ کو نہیں پڑھتا.احباب بائیبل سے اس حوالہ کو خود پڑھ لیں.انجیل میں مخش تو نہیں مگر ایک بات اس میں بھی ایسی ہے جو بچوں کے اخلاق پر برا اثر ڈالتی ہے.اور وہ یہ کہ منتی باب ۱۲ میں لکھا ہے.” جب وہ (مسیح) پھیڑ سے یہ کہہ ہی رہا تھا تو دیکھو اس کی ماں اور بھائی باہر کھڑے تھے اور اس سے باتیں کرنی چاہتے تھے.کسی نے اس سے کہا.دیکھ تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے ہیں اور تجھ سے باتیں کرنی چاہتے ہیں.اس نے خبر دینے والے کو جواب میں کہا.کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی.اور اپنے شاگردوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا.دیکھو میری ماں اور میرے بھائی یہ ہیں کیونکہ جو کوئی میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلے وہی میرا بھائی اور بہن اور ماں ہے.‘۳۷ حضرت مریم حضرت مسیح پر ایمان لانے والی تھیں مخالف نہ تھیں مگر باوجود اس کے انجیل کے بیان کے مطابق آپ نے ان کی پروانہ کی لیکن قرآن کہتا ہے.ماں باپ خواہ مخالف ہوں ، ان کی عزت وتوقیر کرنا تمہارا فرض ہے.پھر گوید جلد اول کتاب ۴ دعا۱۸ میں اندر دیوتا کی پیدائش کا ذکر ان الفاظ میں ہے.
80 60 فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ Not this way go I forth: hard is the passage.Forth from the side obliquely will I issue.Much that is yet undone must I accomplish.☑A یعنی اندر نے اپنی پیدائش کے وقت کہا میں ماں کی پسلیوں میں سے نکل کر جاؤں گا.اسی طرح انتصر وید جلد اول کتاب ۳ د عا ۲۵ میں عملِ حب بتایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اے عورت تو چوری چھپے اپنے ماں باپ کے گھر سے نکل کر بھاگ چل.اتھر وید جلد اول کتاب ۵ دعا ۲۵ صفحہ ۲۲۹ ۲۳۰ میں لڑکا پیدا ہونے کے متعلق نہایت فحش دعا درج ہے.پھر مرد عورت کے تعلقات کا ایسا گندہ نقشہ کھینچا گیا ہے کہ کوئی ماں باپ اپنے لڑکے لڑکیوں کو پڑھنے کے لئے ایسی کتاب نہیں دے سکتے.لیکن قرآن کریم شروع سے لے کر آخر تک ایسی پاک زبان میں ہے کہ بڑے سے بڑا دشمن بھی اس پر اعتراض نہیں کر سکتا.ظاہر سے باطن کی طرف لے جانے والا کلام نویس خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ وہ ظاہر سے باطن کی طرف لے جاتا ہے.کہیں چلتے پانیوں سے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہیں برستے بادلوں کا ذکر کر کے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.کہیں چمکتی بجلی میں خدا تعالیٰ کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہیں دفن ہونے والے مردوں کا ذکر کر کے خدا تعالیٰ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہیں پیدا ہونے والے بچوں کا حوالہ دیکر قدرت خدا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.کہیں نجاستوں اور گندوں کا ذکر کر کے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت بتائی گئی ہے.کہیں پاکیزگی کی ترغیب اور تحریص دلانے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے.غرض قرآن پڑھ کر انسانی فطرت بول اُٹھتی ہے کہ یہ جو کچھ کہہ رہا ہے انسانی قلب کا نقشہ کھینچ رہا ہے.لیکن دوسری کتب میں اس طرح قانون نیچر کی طرف توجہ نہیں دلائی گئی.جذبات انسانی سے اپیل دسویں خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ وہ انسان کے اعلیٰ جذبات سے اپیل کرتا ہے.انسانی
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 81 پیدائش کی خوبیاں بتاتا ہے.انسانی طاقتوں اور قوتوں کا ذکر کرتا ہے اور تحریک کرتا ہے کہ ان سے کام لو اور ترقی کرو.اس کے ساتھ ہی یہ بتاتا ہے کہ ان باتوں سے بچو ورنہ ترقی سے محروم رہ جاؤ گے.یہ ایسی باتیں ہیں جن سے ہر سلیم الفطرت انسان متاثر ہوتا ہے.غرض ظاہری حسن میں بھی قرآن کریم ایک افضل کتاب ہے اور اس کی عبارت کو پڑھ کر انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا.ہاں جو لوگ قصوں کے شیدا ہیں ان پر اس کی عبارت بیشک گراں گذرتی ہے.قرآن کریم میں تکرار پائے جانے کا اعتراض قرآن کریم کی ظاہری خوبیوں کے متعلق جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کے میں جواب دے چکا ہوں.اب ایک اعتراض باقی رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ قرآن ایک ایک فقرہ کو بار بار دہراتا ہے.اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ دہرانے کا اعتراض قرآن کریم پر عیسائیوں اور ہندوؤں کی طرف سے کیا جاتا ہے لیکن خود ان کی الہامی کتابیں اس کی زد میں آتی ہیں.بائیل میں کئی باتیں بار بار دہرائی گئی ہیں.چاروں اناجیل میں تکرار موجود ہے.وہی بات جو متی کہتا ہے مرقس، لوقا اور یوحنا بھی اسی کو دُہراتے ہیں.اسی طرح ہندوؤں کی کتابوں میں تکرار پایا جاتا ہے.مثلاً انتصر وید جلد اول کتاب ۲ دعا ۲۷ اور رگ وید جلد اول کتاب اول دُعا ۹۶ میں تکرار موجود ہے.اگر تکرار قابل اعتراض بات ہے تو ان پر بھی کیوں اعتراض نہیں کیا جاتا.قرآن کریم پر یہ اعتراض محض نا سمجھی اور نادانی کی وجہ سے کیا جاتا ہے.میں اسے واضح کرنے کے لئے ایک آیت لے کر اس کا مطلب بیان کر دیتا ہوں.کہا جاتا ہے کہ سورۃ الرحمن میں فَبِاتِي الَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بنِ ۳۹ے کا بار بار تکرار ہے اور ایسے موقع پر بھی اسے لایا گیا ہے جہاں اس کا کوئی جوڑ نہیں معلوم ہوتا.بلکہ الٹ پڑتا ہے جیسے گان مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ T کے ساتھ فَبِأَتِي الَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بنِ آتا ہے.پادری اکبر مسیح نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ کے یہ معنی ہیں کہ دنیا کا ہر آدمی فنا ہونے والا ہے اور تبقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرَامِ
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ کے یہ معنی ہیں کہ صرف خدا ہی باقی رہنے والا ہے جو جلال اور اکرام والا ہے.مگر آگے آتا ہے فَبِأَنِ الآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِين تم خدا کی کون کونسی نعمت کا انکار کرو گے.اب اس موقع پر کس نعمت کا ذکر تھا ؟ کہ یہ کہا گیا.کیا مرنا اور فنا ہونا بھی ایک نعمت ہے؟ موت کا فلسفہ 82 لله اس کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ فنا بھی انسان کے لئے ایک انعام ہے.جہاں دیگر مذاہب نے فنا کو سز ا قرار دیا ہے وہاں قرآن نے اسے انعام ٹھہرایا ہے.چنانچہ دوسری جگہ آتا ہے.تبرك الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَنِي قَدِيرُ نِ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ اسے یعنی سب برکتوں والا خدا ہی ہے جس کے ہاتھ میں بادشاہت ہے اور یہ ہر بات پر قادر ہے.وہ برکتوں والا خدا ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا.یہ اس لئے کہ انسانوں کے اعمال کا امتحان لے اور ان کے نیک نتائج پیدا کرے وہ غالب ہے اور غفور ہے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے موت وحیات کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُم اَحْسَنُ عَمَلًا.پس موت ضروری تھی کیونکہ موت کے بغیر انسانی اعمال کے نتائج پیدا نہیں ہو سکتے تھے.اس لئے کہ زندگی میں ایک انسان جو اچھے عمل کرتا ہے اگر اسے ان کا بدلہ اسی دنیا میں مل جائے اور جو بدیاں کرتا ہے ان کی اسے یہاں ہی سزا دے دی جائے تو پھر کوئی نبیوں کا انکار کیوں کرے.بلکہ فوری جزا سزا کو دیکھ کر سب مان لیں.لیکن انعام مشقت او محنت کے بعد ملا کرتا ہے.اگر حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی اسی دنیا میں موجود ہوں اور خدا تعالیٰ نے مرنے کے بعد جو درجات انہیں دیئے ہیں وہ اسی دنیا میں مل گئے ہوں تو پھر ان کا کون منکر رہ سکتا ہے.یا فرعون اور ابو جہل اگر کفر کی وجہ سے اسی دنیا میں آگ میں جل رہے ہوتے تو کون انکار کرتا.اس طرح تو ایمان لانے والوں کو کوئی محنت اور کوشش ہی نہ کرنی پڑتی.لیکن انعام محنت اور کوشش کے بعد ہی ملا کرتا ہے.پس ضروری تھا کہ انعام دینے کے لئے ایک اور دنیا ہو اور وہ ان آنکھوں کے سامنے نہ ہو جس کی وجہ سے لوگ ایمان لانے پر مجبور ہو جاتے.پس فرما یا خَلقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوة لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 83 أحْسَنُ عملا.حیات کی غرض یہ ہے کہ انسان اس زندگی میں کام کرے اور موت کی غرض یہ ہے کہ اس زندگی میں جو کام کرے موت کے بعد ان کے انعام پائے.وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ اور خدا غالب اور بخشنے والا ہے وہ انعام بھی دے سکتا ہے اور کمزوریوں کو معاف بھی کر سکتا ہے.اس آیت میں چونکہ پہلے موت کو رکھا ہے.اس لحاظ سے عزیز کو پہلے رکھا.اور حیات میں چونکہ کمزوریاں بھی سرزد ہو جاتی ہیں اس کے لئے غفور کی صفت کو رکھا کہ انسان سے غلطیاں ہونگی جنہیں خدا معاف کر دے گا.پس یہ تکرار نہیں بلکہ بہت بڑی حکمت کے ماتحت اسے رکھا گیا ہے.افضلیت کی تیسری وجہ (۳) افضلیت کی تیسری وجہ ایک الہامی کتاب کے لئے یہ ہے کہ وہ ان ضرورتوں کو پورا کرے جن کے لئے اسے اختیار کیا جاتا ہے.مثلاً اگر ایک چیز پیاس بجھانے کے لئے پی جاتی ہے تو اس کا کام ہے کہ پیاس بجھائے.لیکن چونکہ کتاب مذہب کے متعلق ایک معلم کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے ان ضرورتوں کے دو حصے ہو جائیں گے.اول.ان ضرورتوں کی تشریح کرے جن کو پورا کرنے کا وہ مدعی ہے کیونکہ ضرورت کا احساس بھی وہی کرتا ہے.دوم.ان ضرورتوں کو پورا کرنے کا سامان کرے.مذہب کی پانچ ضرورتیں سو یا درکھنا چاہئے کہ مذہب کی قرآن کریم سے پانچ ضرورتیں ثابت ہوتی ہیں.اول: وجود باری تعالیٰ کا ثبوت اور اس کی صفات کا علم.دوم: انسان کی روحانی طاقتوں کا بیان اور ان کا ثبوت.سوم :.ان امور کا بیان جو روحانی طاقتوں کی تکمیل اور امداد کے لئے ضروری ہیں.چہارم :.انسانی زندگی کے مال کا بیان اور اس کا ثبوت.
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 84 پنجم :.مذکورہ بالا امور میں نہ صرف علمی طور پر روشنی بخشا بلکہ عمل بھی خدا تعالیٰ سے وصال کرانا اور روحانی طاقتوں کو مکمل کرانا اور حیات اُخروی کے فوائد سے بہرہ ور کرانا.یہ ضرورتیں جو اسلام نے بیان کی ہیں باقی مذاہب بھی اس امر میں اس سے متفق ہیں گو اس مقصد کے پورا کرنے میں قرآن کریم منفرد ہے.کوئی مذہبی کتاب اس بارہ میں اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی.تو رات کو شروع سے آخر تک پڑھ جاؤ، انجیل کو پڑھ جاؤ، ویدکو پڑھ جاؤ بس یہ معلوم ہوگا کہ فرض کر لیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب دنیا مانتی ہے اور اس کی ذات میں کسی شک کی گنجائش نہیں مگر اس کا ثبوت وہ کوئی نہیں دیتیں.اسی طرح اس کی صفات کے متعلق اس قدر قلیل روشنی ڈالی گئی ہے کہ انسانی نفس اس سے قطعا تسلی نہیں پاسکتا.پس ضرورت تھی کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا علم دیا جائے اور پھر اس کے دلائل دیئے جائیں.زیادہ سے زیادہ دوسری کتب نے کوئی ثبوت دیا ہے تو معجزات سے دیا ہے.بیشک اس سے اللہ تعالیٰ کا وجود تو ثابت ہو جاتا ہے مگر اس کی ہر صفت ثابت نہیں ہوتی.اگر کوئی کتاب خدا تعالیٰ کو غفور کہتی ہے تو ضروری ہے کہ وہ خدا کے غفور ہونے کا ثبوت بھی پیش کرے.اگر رحیم قرار دیتی ہے تو اس بات کا ثبوت دے کہ وہ رحیم ہے.غرض باقی مذاہب نے اس اصل الاصول کو جس پر مذہب کی بنیاد ہے بالکل مہمل چھوڑ دیا ہے اس کے مقابل پر قرآن کریم کو دیکھو.وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کے وجود کو پیش کرتا ہے بلکہ اس کے ثبوت بھی دیتا ہے.اور نہ صرف اس کا ثبوت دیتا ہے بلکہ اس کی سب صفات کا ثبوت دیتا ہے.اور اس طرح وہ ایک نیا اصل پیش کرتا ہے.جو یہ ہے کہ جس قدر صفات الہیہ بندہ کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہیں ان کا الگ ثبوت ضروری ہے ورنہ خدا تعالیٰ کا وجود تو ثابت ہو گا مگر اس کی صفات کا ثبوت نہ ہوگا.بندوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی صفات الہیہ کا ثبوت میں اس وقت اس کی ایک مثال دے دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ذلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ لا إلهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَنىءٍ فَاعْبُدُوهُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَنِي وَكِيلٌ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ سے یعنی یہ ہے تمہارا اللہ جو تمہارا رب بھی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں.وہی ہر ایک چیز کا خالق ہے اس کی تم عبادت کرو.وہ ہر چیز
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 85 پر نگران ہے.اور یہ یاد رکھو کہ تمہاری یہ مادی آنکھیں اس تک نہیں پہنچ سکتیں نہ تمہاری عقلیں پہنچ سکتی ہیں.یعنی تمہاری آنکھیں اور عقلیں اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتیں.ہاں اللہ تعالیٰ خود ایسے سامان بہم پہنچا دیتا ہے کہ جن کے نتیجہ میں وہ بندہ کے پاس آجاتا ہے یعنی اپنی صفات کے ظہور کے ذریعہ.کیونکہ وہ نہایت لطیف اور خبیر ہے.غرض ان صفات کو اللہ تعالیٰ کے وجود کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے.اور لاتدركه الابصار کے ثبوت میں بتایا ہے کہ وہ لطیف اور خبیر ہے.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اگر خدا ہے تو ان آنکھوں سے دکھا دو، وہ غلط کہتے ہیں.اس لئے کہ جولطیف چیز ہوتی ہے وہ نظر نہیں آیا کرتی.لطیف کی تو تعریف ہی یہی ہے کہ نظر نہ آئے.ورنہ جو چیز نظر آجائے وہ لطیف نہیں کہلا سکتی.پھر خدا تعالیٰ ان آنکھوں سے کس طرح نظر آسکتا ہے.دیکھنا یہ چاہئے کہ خدا ہے یا نہیں.سو اس کا ثبوت اس کی صفت خبیر سے مل جاتا ہے.وہ بندہ کی نگہداشت کرتا ہے.اس کی رُوحانی اور جسمانی ساری ضرورتیں پوری کرتا ہے.کسی کے خبر دار ہونے کا آخر کیا ثبوت ہوا کرتا ہے.یہی کہ جس قسم کی ضروریات اسے پیش آئیں ان کا انتظام کرے.مثلاً ایک شخص کسی کے ہاں مہمان جاتا ہے.اس کے لئے اگر مکان اور مکان میں بستر وغیرہ موجود ہوتا ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا که بستر خود بخود آ گیا بلکہ یہ کہا جائے گا کہ میزبان بہت خبر دار ہے جس نے پہلے سے ہی بستر کا انتظام کر دیا.اسی طرح مہمان کے آگے کھانا چنا جائے لیکن میزبان خود اس وقت نظر نہ آئے تو کیا یہ کہا جائے گا کہ کھانا خود بخود آ گیا ہے.اگر مہمان کی ضروریات پوری ہوتی جاتی ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان ضروریات کو پورا کرنے والا ایک وجود موجود ہے خواہ وہ نظر آئے یا نہ آئے.پس جسمانی اور روحانی ضرورتیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے پوری ہوتی ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ خدا تعالیٰ ہے.اور جب وہ ان ضروریات کے پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آتا تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ لطیف ہے.خدا تعالیٰ کی بعض صفات جوڑے کی حیثیت رکھتی ہیں یہاں یہ نہایت عجیب نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی بعض صفات جوڑے کی حیثیت رکھتی ہیں.جس طرح مرد و عورت کے ملنے سے بچہ پیدا ہوتا ہے اسی طرح ان دو صفات کے ملنے سے نتیجہ
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ پیدا ہوتا ہے.مثلاً خبر دار رہنا اور ادنیٰ سے ادنی تغیر کو بھی غائب نہ ہونے دینا یہ لطیف ہستی کے بغیر نہیں ہو سکتا.یعنی ایسی ہستی جو موجودات کے ہر ذرہ سے ایک کامل اتصال رکھتی ہو.اور ایسے اتصال کے لئے لطیف ہونا شرط ہے.پس خبیر کی صفت لطیف کے لئے بمنزلہ جوڑے کے ہے.اور اس کے ذریعہ سے اس کا بھی ظہور ہوتا ہے.یا ان دونوں کا آپس میں روح اور جسم کا تعلق ہے کہ ایک نہ ہو تو دوسری صفت بھی ثابت نہیں ہوتی اور دوسری نہ ہو تو پہلی ثابت نہیں ہوتی.اگر خَبِير کی صفت وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبصَارَ سے ثابت نہ ہوتی تو لا تُدْرِكُهُ الأَبصَارُ بھی ثابت نہ ہوتا بلکہ عدم ثابت ہوتا.اس کے مقابلہ میں اگر لانذرِ كُهُ الأَبصَارُ ثابت نہ ہوتا یعنی اس کا لطیف ہونا تو خبیر کی صفت بھی نہیں رہ سکتی تھی کیونکہ جو وجود کامل اتصال نہیں رکھتا وہ تحب تیر بھی نہیں ہو سکتا.غرض لطیف ہستی وہ ہوتی ہے جو بار یک در باریک اور ہر ذرہ میں موجود ہو.اور جو ایسی لطیف ہو وہ نظر کبھی نہیں آسکتی ، ضرور ہے کہ وہ مخفی ہو.پھر لطیف ہونا خبیر ہونے کا بھی ثبوت ہے کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ایک ہستی ہے جو لطیف ہونے کی وجہ سے ہر ذرہ سے تعلق رکھتی ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ خبیر ہے.غرض خدا تعالیٰ کی صفت لطیف اس کے خبیر ہونے پر شاہد ہے.اور خبیر ہونے کی صفت اس کے لطیف ہونے کی شہادت دے رہی ہے.خدا تعالیٰ کی صفت رَبِّ الْعَلَمِینَ کا مادی ثبوت ایک اور صفت خدا تعالیٰ کارب العلمین ہونا ہے اس کے روحانی اور جسمانی دو ثبوت پیش کئے گئے ہیں.جسمانی ثبوت تو یہ دیا کہ فرمایا.اللہ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاء بِنَاءً وَصَوَرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطيبتِ ذَلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ فَتَبرَكَ اللهُ رَبُّ الْعَلَمِينَ " یعنی زمین اور آسمان اور انسان اور اس کی طاقتیں ( یعنی ترقی کی قابلیتیں جن سے وہ زمین و آسمان پر حکومت کرتا ہے اور جو رَبُّ الْعَلَمین پر جو ترقیات کا سرچشمہ ہے شاہد ہیں ) اور اغذیہ وغیرہ جو ان طاقتوں کو قائم رکھتی ہیں.یہ سب اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کے رب العلمین ہونے پر دلالت کرتی ہیں.86
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 87 اس سال جب میں کشمیر گیا تو وہاں ایک ایم.اے مجھے ملنے کے لئے آئے.اور کہنے لگے میں خدا کو تو نہیں مانتا لیکن اگر کوئی خدا ہے تو اس نے ہمیں دنیا میں پیدا کر کے خواہ مخواہ مصیبت میں ڈال دیا.ہم نے کب اس سے کہا تھا کہ ہمیں پیدا کر کے دنیا میں بھیج دو؟ میں نے کہا.اگر دنیا کی زندگی مصیبت ہے اور آپ اس مصیبت سے نکلنا چاہتے ہیں تو یہ کونسی مشکل بات ہے.زہر کھا لو اور مرجاؤ.کہنے لگے یہ بھی تو نہیں ہو سکتا مرنے کو دل نہیں چاہتا.میں نے کہا.اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ آپ دنیا کی زندگی کو اچھا سمجھتے ہیں اور صرف منہ سے اس کی برائی بیان کرتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے زمین کو انسانوں کے لئے قرار کی جگہ بنایا ہے.ہندو کہتے ہیں.دنیا مصیبت کی جگہ ہے مگر جب بیمار ہوں تو ڈاکٹروں کو سب سے زیادہ فیس وہی دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے منہ سے جتنا چاہو کہو کہ دنیا مصیبت کی جگہ ہے لیکن یہاں سے تم ملنا نہیں چاہتے کیونکہ خدا نے تمہارے لئے اس زمین کو قرار گاہ قرار دیا ہے.پھر وَالسَّمَاءَ بِنَاءً آسمان بھی تمہاری حفاظت کا موجب ہے.جو چیزیں زمین کے ذریعہ پوری نہ ہو سکتی تھیں ان کو ہم تمہارے لئے آسمان سے نازل کرتے ہیں کیونکہ آسمان بناء کا موجب ہے.وَصَوَّرَ كُمْ پھر اس خدا نے تمہیں شکل دی.فَأَحْسَنَ صُوَرَ كُمْ.اور بڑی اعلیٰ درجہ کی اور مکمل قابلیتوں والی شکل بنائی.وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطيبت اور تمہارے لئے نہایت اعلیٰ درجہ کی چیزیں پیدا کی ہیں.اگر چیزیں خراب ہو تیں تو تمہاری قابلیتیں بھی اعلیٰ درجہ کی نہ ہوتیں.مگر ان قابلیتوں کو خرابی سے بچانے کے لئے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے رزق طیب پیدا کیا.فَتَبَرَكَ الله رَبُّ الْعلمين.پس اے لوگو! یہ رب العلمین ہے.اگر وہ رَبُّ الْعَلَمِينَ نہ ہوتا اور سورج کوئی اور پیدا کرتا اور زمین کوئی اور پیدا کرتا تو سورج اور زمین کا آپس میں کوئی تعلق نہ ہوتا.مگر اب دیکھو سورج زمین کی حفاظت کر رہا ہے اور زمین سورج کی.یہ سب باتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ ایک ہی خدا ہے جس نے یہ سب کچھ پیدا کیا اور وہی رَبُّ الْعَلَمِينَ ہے.صَوَرَ كُم میں یہ بھی بتایا ہے کہ بندہ ایس بنایا گیا ہے کہ باقی سب مخلوق پر حکومت کرتا ہے.یہ جسمانی ثبوت ہے خدا تعالیٰ کے رَبُّ الْعَلَمِینَ ہونے کا.
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ خدا تعالیٰ کے رَبُّ الْعَلَمِینَ ہونے کا روحانی ثبوت روحانی ثبوت سورۃ شعراء میں اس طرح دیا کہ بہت سے نبیوں کا ذکر کرتے ہوئے جو مختلف اقوام کی طرف آئے تھے فرمایا وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْآمِينُ.عَلى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ بِلِسَانٍ عَرَبِي مُّبِيْنٍ وَإِنَّهُ لَفِى زُبُرِ الأولين ے یعنی یہ قرآن رب العلمین خدا کی طرف سے اُتارا گیا ہے اور اس کا روحانی ثبوت یہ ہے کہ یہ کلام سب دُنیا کو مخاطب کر کے نازل ہوا ہے.جب کہ پہلے کلام صرف مختص القوم اور مختص الزمان تھے اور جب کہ وہ کلام صرف اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے ثبوت تھے.یہ کلام ربوبیت 88 عالمین کا ثبوت ہے.غرض یہ قرآن کسی ایک قوم کی طرف نہیں آیا کیونکہ اسے خدا تعالیٰ کی رَبُّ الْعَلَمِینَ کی صفت کے ماتحت نازل کیا گیا ہے اور تمام دنیا اس کی مخاطب ہے.پھر اس کلام کو روح الامین لے کر نازل ہوا ہے.یعنی پہلے نبیوں کے کلام میں خرابیاں آگئی تھیں کیونکہ بندوں نے ان کی حفاظت نہ کی.پس خدا تعالیٰ نے اس روح کے ذریعہ سے جو امین ہے محفوظ طور پر وہ پہلے کلام آپ پر نازل کتے ہیں اور چونکہ کلام کے پہنچانے کے لئے اس کا سمجھنا بھی ضروری ہے تا کہ پہنچانے میں کوئی نقص نہ رہ جائے اس لئے یہ کلام تیرے دل پر نازل کیا گیا ہے.غرض بائیبل اور وید وغیرہ کتا بیں سب خراب ہو چکی تھیں مگر خدا تعالیٰ کے پاس اصلی تعلیم محفوظ تھی.چنانچہ اس نے روح الامین کے ذریعہ اس کلام کو تیرے دل پر نازل کیا تا کہ لوگوں کا جرات کے ساتھ مقابلہ کر سکے.یہ کلام عربی زبان میں ہے جو تمام مضامین کو کھول کر بیان کرنے والی ہے.اور اس کے رب العلمین کی طرف سے ہونے کا یہ ثبوت ہے کہ یہ کلام پہلی کتب میں بھی موجود ہے.اس رنگ میں بھی کہ ان کے اصول اس میں پائے جاتے ہیں اور اس رنگ میں بھی کہ ان سب کو اکٹھا کر کے اس میں بیان کر دیا گیا ہے.گویا اس میں تمام غیر مسلم اقوام کی ذہنیت کا خیال رکھا گیا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ رب العلمین کی طرف سے ہے.اگر یہ رَبُّ الْعَلَمِينَ کی طرف سے نہ ہوتا تو یہ ساری دنیا کی فکر کیوں کرتا.
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 89 پہلی کتب میں قرآن کریم کی موجودگی کے معنی مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ قرآن کریم کی ساری تعلیم وہی ہے جو پہلی کتابوں میں تھی بلکہ یہ ہیں کہ پہلی کتابوں کی صحیح تعلیم قرآن کریم میں موجود ہے اور اس سے زائد بھی ہے.پھر پہلی کتب میں اس کلام کی موجودگی سے یہ بھی مراد ہے کہ ان میں ایک کتاب کی پیشگوئی پائی جاتی ہے.اسی طرح تمام صفات الہیہ کا قرآن کریم میں مبسوط بیان ہے مگر اور کتابوں میں اس طرح ذکر نہیں ہے.انجیل میں صرف پانچ سات صفات کا ذکر آتا ہے.تورات میں نسبتا زیادہ صفات کا ذکر ہے مگر قرآن نے جتنی صفات پیش کی ہیں اتنی تو رات نے بھی پیش نہیں کیں.پھر پہلی کتابیں ان صفات کو بطور دلیل پیش نہیں کرتیں بلکہ صرف دُعاؤں میں ان کا ذکر آجاتا ہے.حالانکہ ضروری ہے کہ صفات الہیہ کا نہ صرف بالاستیعاب ذکر ہو بلکہ ان کے الگ الگ کام اور ان کے ثبوت بھی دیئے جائیں مگر یہ کام صرف قرآن کریم نے کیا ہے.صفات الہیہ کی تشریح بھی خدا تعالی کی طرف سے ہونی چاہئے پھر یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ صرف صفات کے نام بھی کافی نہیں جب تک ان کے صحیح معنی بھی بیان نہ کئے جائیں کیونکہ خالی نام صرف شدت محبت کے اظہار کے لئے بھی جمع کئے جا سکتے ہیں جب کہ ان ناموں کے لینے والا ان کی حقیقت سے کچھ بھی واقف نہ ہو.جیسے پیار کے وقت انسان بہت سے نام لے لیتا ہے لیکن ان کی حقیقت کا اسے علم نہیں ہوتا.پس صرف کسی صفت کا ذکر کر دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ ایک صفت کا ذکر ہو اور پھر اس کی تشریح اور توضیح بھی خدا تعالیٰ ہی کے الفاظ میں ہو.جیسے گورنمنٹ ایک قانون بناتی ہے تو ساتھ ہی بعض الفاظ کی تشریح بھی کر دیتی ہے کہ فلاں لفظ کے یہ معنی ہیں تا کہ اس میں اختلاف نہ شروع ہو جائے.اسی طرح خدائی کلام کا یہ بھی کام ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات بیان کرے اور خود ہی ان کی تشریح کرے.چنانچہ دیکھ لور محمن کا لفظ عربوں میں موجود تھا.اور وہ اسے استعمال کرتے تھے.قرآن کریم میں بھی آتا ہے وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرحمن مَا عَبَدُهُمْ ۲۵ یعنی وہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر رحمن خدا چاہتا تو ہم اس کے سوا
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ دوسرے معبودوں کی پرستش نہ کرتے.خود مسیلمہ کذاب بھی رحمن یمامہ کہلاتا تھا.لیکن جب رخمن کے معنوں کو قرآن کریم نے بیان کیا تو وہ حیران رہ گئے.اور چونکہ ان معنوں کے رو سے ان کے مذہب پر زد پڑتی تھی صاف کہہ اُٹھے کہ ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہوتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.وَإِذَا قِيْلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَن قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنِ انَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمُ نُفُورًا ) جب انہیں کہا جاتا ہے کہ رحمن کی عبادت کرو.تو وہ کہتے ہیں رخمن کون ہے.کیا ہم اس کے آگے سجدہ کریں جس کے آگے سجدہ کرنے کا تو حکم دیتا ہے.اور یہ بات ان کو نفرت میں اور بڑھا دیتی ہے.اس کی وجہ کیا تھی؟ یہی کہ وہ رحمن کے اور معنی کرتے تھے.چنانچہ آگے اللہ تعالیٰ نے اس کے معنی بھی کر دیئے اور بتا دیا کہ ان معنوں میں ہم رحمن کا لفظ استعمال کرتے ہیں.اور ان معنوں سے رد کرتے ہیں.فرماتا ہے.تبرك الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيْهَا سِرَجًا وَقَمَرًا مُّبِيرًا وَهُوَ 90 الَّذِي جَعَلَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَنَّ كَرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا ۲ یعنی رحمن تو وہ ہے جس نے آسمانوں میں بروج بنائے اور ان میں چمکتا ہوا سورج اور نور دینے والا چاند بنایا.اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا.مگر ان کے لئے جو نصیحت حاصل کرنا چاہیں یا شکر گزار بندے بنا چاہیں.یہاں رخمن کی تشریح کر دی.اور مطلب بیان کر دیا کہ رمحمن سے مراد خدا تعالیٰ کی وہ صفت ہے جو انسان کے عمل سے بھی پہلے اس کے لئے کام شروع کر دیتی ہے.چنانچہ بتایا.دیکھو ہم نے چاند اور سورج کو انسان کے پیدا ہونے سے پہلے بنایا.اور پھر اس کی ضرورت بھی بیان کر دی.اور وہ یہ کہ انسان کو عمل کرنے کے لئے اسباب کی ضرورت ہے.اگر اسباب نہ ہوں تو وہ عمل کس طرح کر سکے.مثلاً بڑھئی ہولیکن لکڑی نہ ہو تو وہ کیا کرسکتا ہے.پس ضروری تھا کہ انسان پر اس کے اعمال شروع کرنے سے قبل انعام ہوتا.اور انعام کے طور پر اس کے لئے اسباب مہیا کئے جاتے تا کہ وہ عمل کر سکتا.پس یہ کہنا غلط ہے کہ دنیا کی ہر چیز انسان کے عمل کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے کیونکہ عمل ہو ہی نہیں سکتا جب تک پہلے کچھ انعام نہ ہو.پھر یہ وجہ بتائی کہ رحمانیت کی ضرورت انسان کے شکور بننے کے لئے ہے.شگور کے لئے عمل کی شرط ہے.اور عمل بغیر رحمانیت کے نہیں ہوسکتا.اگر اس کی یہ صفت نہ ہوتی
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ اور وہ بلا مز دانعام نہ کرتا تو انسان اپنے پیدا کرنے والے کا شکر بھی ادا نہ کر سکتا اور ایک بلا عمل ہستی رہ جاتا.شکور کے لفظ میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے کے لئے قلب میں شکریہ کے احساسات کا پیدا ہونا ضروری ہے.اور یہ احساسات بغیر رحمانیت کی صفت کے پیدا نہیں ہو سکتے.اسی طرح اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ رحمانیت کے بغیر وہ اعلیٰ متحرک عمل جو بے نفسی کا موجب ہوتا ہے پیدا نہ ہوسکتا کیونکہ سب کچھ نتیجہ عمل میں ملتا تو ہر عمل لالچ کی وجہ سے ہوتا.مگر چونکہ احسان موجود ہے اور خدا تعالیٰ نے ہر انسان پر اس کے عمل کرنے کے قابل بننے سے پہلے نعمتیں نازل کی ہیں.اس لئے اعلیٰ انسان اپنے اعمال کو طلب صلہ کی بجائے شکر ماضی کے ماتحت لے آتا ہے.اور وہ خدا تعالیٰ کی شکر گذاری کرتا اور اس کے احکام بجالاتا ہے.نہ اس لئے کہ اب اسے کچھ ملے بلکہ اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کے پہلے احسانات کا شکر ادا کرے.اس طرح مومن کے دل میں لالچ اور طمع کو نکال دیا اور محض خدا تعالیٰ کی شکر گزاری کا جذبہ اس میں پیدا کیا.غرض تکمیل صفات اور دلائل صرف قرآن کریم نے دیئے ہیں.باقی کتب صرف دُعا میں بطور ایک ٹونے کے خدا تعالیٰ کے اسماء کو استعمال کرتی ہیں اور وہ ذرہ بھر بھی متشابہ صفات کے فرق اور ان کے دلائل پر روشنی نہیں ڈالتیں.انسان کی روحانی طاقتوں کا بیان دوسرا امر جس کا بیان ایک الہامی کتاب کے لئے ضروری ہے انسان کی روحانی طاقتوں کا بیان ہے.اس مضمون پر بھی قرآن کریم نے بلکہ صرف قرآن کریم نے ہی روشنی ڈالی ہے دوسری کتابوں میں یہ بات نہیں ملتی.یا تو اس لئے کہ جس وقت وہ نازل ہوئیں اس وقت اس قدر روحانی ارتقاء نہ تھا.یا پھر ان کے بگاڑ کے زمانہ میں جو بھی تعلیم ان میں تھی وہ ضائع ہو گئی.مگر قرآن کریم کو دیکھو اس میں ایک اعلیٰ طریق سے ان باتوں کو بیان کیا گیا ہے.91
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 92 86 وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الروح کی لطیف تفسیر خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمُ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا وَلَبِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا إِلَّا رَحْمَةٌ مِنْ رَّبِّكَ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرًا - قُل لَّبِنِ اجْتَمَعَتِ ط الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا وَلَقَدْ صَرَفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ فَأَنِّي أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا - ٢٨ ان آیات سے پہلے قرآن کریم کا ذکر کیا گیا ہے.اس کے بعد فرماتا ہے.وَيَسْتَلُونَگ عَنِ الرُّوحِ کچھ لوگ تجھ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ کیوں نہ یہ تسلیم کیا جائے کہ روح اپنے اندر یہ ذاتی قابلیت رکھتی ہے کہ اس سے اعلیٰ درجہ کا کلام نکلنے لگ جاتا ہے.یہاں سوال نقل نہیں کیا گیا.اس لئے اس موقع کے لحاظ سے جتنے سوال کے پہلو نکل سکتے ہوں وہ سب جائز ہونگے.ایک سوال یہ ہوسکتا ہے کہ روح کو کس طرح پیدا کیا گیا ہے دوسرا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ روح میں کیا کیا طاقتیں رکھی گئی ہیں.تیسرا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ روح کا انجام کیا ہوگا ؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا - روح مادیات سے بالا ہے اس لئے یہ تمہارے تصرف میں نہیں آسکتی.اس کی پیدائش اس کا قیام اور اس کا انجام سب اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہے کیونکہ وہ خود روح کو پیدا کرنے والا ہے.اس میں ان لوگوں کا رد کیا گیا ہے جو کہتے ہیں کہ روح آپ ہی کمال حاصل کر سکتی ہے.فرمایا جب تک خدا کا کلام روح کو حاصل نہ ہو وہ کوئی کمال ظاہر نہیں کر سکتی.پھر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ روح فنا کیوں نہیں ہوتی ؟ ان کے متعلق فرمایا کہ زندہ رکھنے والا جو موجود ہے تو فنا کیوں ہو.جیسے آگ جلانے والا جب تک آگ میں لکڑیاں ڈالتا جائے گا وہ نہیں مجھے گی.غرض نہ یہ سوال درست ہے کہ روح ہمیشہ کس طرح رہے گی اور نہ یہ کہ اگر زندہ رہے گی تو حادث نہیں ہے کیونکہ اس کی زندگی خدائی اذن سے ہے نہ کہ اپنی ذاتی
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ قابلیت کی وجہ سے.بہر حال روح کی پیدائش بھی امریعنی گنی کہنے سے ہے اور اس کی ترقی بھی 93 امریعنی کلام الہی سے ہے اور اس کا ابدی قیام بھی امریعنی قضائے الہی سے وابستہ ہے.پھر فرمایا کہ انسانی روح کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ آپ ہی کمال حاصل کر سکتی ہے اور آپ ہی تعلیم بیان کر سکتی ہے مگر یہ غلط ہے وَمَا أُوتِيتُم مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا روح کے متعلق جو انسانی معلومات ہیں وہ نہایت ناقص اور نا تمام ہیں جس طرح اور غیر مادی اشیاء مثلاً ذات باری یا ملائکہ کے متعلق اس کے معلومات ناقص ہیں.اس کے لئے خدا تعالیٰ کا الہام ضروری ہے جس کے امر سے یہ سب کچھ ہے.اسی طرح اس کی مخفی طاقتوں کا ابھارنا بھی امر پر ہی منحصر ہے.تم خود اپنے طور پر اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتے.یہ سوال اس زمانہ میں بڑے زور سے پیدا ہو رہا ہے کہ انسان یا تو خودروحانیت میں کمال پیدا کر کے روحانی تعلیم بنا سکتا ہے یا پھر دوسری روحوں سے تعلق پیدا کر کے ان کی امداد سے ایسی تعلیم ایجاد کر سکتا ہے.اس وہم میں اس زمانہ کے بڑے بڑے لوگ مبتلا نظر آتے ہیں کہ روحیں انسان کو روحانیت کا اعلیٰ رستہ بتادیتی ہیں.ان کا خیال ہے کہ انسانی روح میں جو کمی رہ جاتی ہے وہ مردوں کی روحیں پوری کر دیتی ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تمہارا خیال ہے کہ تم خود روحانی طاقتوں کو ترقی دیگر اعلیٰ درجہ کی روحانی تعلیم بنا سکتے ہو.اسی طرح تمہارا خیال ہے کہ محمد رسول اله سال نو ایم نے آپ ہی آپ یہ کتاب بنالی ہے اس پر خدا کی طرف سے الہام نازل نہیں ہوا.اس کی اپنی روحانی طاقت اس قدر ترقی کر گئی تھی کہ اس سے خود بخو دایسی باتیں صادر ہونے لگ گئیں.مگر یہ درست نہیں کیونکہ انسانی طاقتیں اتنی نہیں ہیں کہ ایسا کلام بنا سکیں.انسانی عقل کا اپنے آپ روحانی رستہ تجویز کرنا تو الگ رہا وَلَئِن شئنَا لَنَذْ هَبَنَ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تجد لك بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا.اگر یہ قرآن جو نازل شدہ ہے اسی کو ہم تمہاری نظر سے اوجھل کر دیں تب بھی تم اپنی روحانی قوتوں کو نشو و نما دے کر ایسی کتاب نہیں بنا سکتے.یعنی اگر ہم یہ بنی بنائی تعلیم ہی دنیا سے غائب کر دیں تو پھر بھی انسان اس جیسی تعلیم نہیں بنا سکتے.کہا جا سکتا تھا کہ یہ قرآن کا محض ایک دعوی ہے کہ اگر قرآن کریم کی تعلیم غائب ہو جائے تو انسان اس جیسی تعلیم نہیں لا سکتے ، اس کا ثبوت کیا ہے؟ یہ ثبوت بھی اللہ تعالیٰ نے پیش کر دیا ہے.
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جبکہ قرآن دنیا سے اُٹھ جائے گا.اس کی تحریر تو رہ جائے گی مگر تعلیم پر عمل کرنے والے نہ ہوں گے.چنانچہ جب ایسا زمانہ آیا تو نہایت ہی لغو باتیں اسلام اور قرآن کی طرف منسوب ہونے لگ گئیں.اور اس کی بے نظیر اخلاقی اور روحانی تعلیم پر پردہ پڑ گیا.اس کے بعد فرماتا ہے إِلَّا رَحْمَةً مِّن رَّبَّكَ سوائے اس کے کہ تیرے رب کی خاص رحمت اسے دنیا میں پھر واپس لے آئے اور کوئی صورت اس کی واپسی کی نہیں ہوگی.چنانچہ آخری زمانہ میں رسول کریم ستی سیستم کی پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالٰی نے پھر اپنی رحمت کا ہاتھ لوگوں کی طرف لمبا کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ دوبارہ قرآن کریم کا دنیا میں نزول ہوا.اب دیکھ لو.وہی قرآن ہے جو پہلے تھا مگر اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ کیسے کیسے معارف اور حقائق نکل رہے ہیں اور کس طرح قرآن ساری دنیا پر غالب آ رہا ہے.در حقیقت اس آیت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی خبر دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ قرآن اس وقت دنیا سے اُٹھ جائے گا.مگر پھر خدا تعالیٰ کے ایک فرستادہ کے ذریعہ اسے زمین پر قائم کر دیا جائے گا.سپر چولزم اور ہپنا ٹزم والوں کو چیلنج 94 پھر فرماتا ہے قُل لَّيْنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنَّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ مِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا.تو ان لوگوں سے کہہ دے کہ اگر جن و انس بھی مل جائیں تب بھی وہ اس قرآن کی مثل یعنی روحانی ترقیات کا راستہ بتانے والی تعلیم لانے سے قاصر رہیں گے.یہاں جن سے مراد وہ جن نہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ لوگوں کے سروں پر چڑھ جاتے ہیں.ایسے چنوں کے متعلق یہ کہنا کہ ان کو بھی اپنے ساتھ ملالو بیہودہ بات ہے.یہ تو ایسا ہی ہوگا جیسے کہا جائے کہ تم خواہ فلاں درخت سے مدد لے لو یا فلاں بھیٹر سے امداد حاصل کر لو تو بھی فلاں شاعر جیسے شعر نہیں کہہ سکتے.جس طرح یہ بات لغو ہے اسی طرح ایسے جنوں کے متعلق یہ کہنا کہ ان سے مدد لے لو لغو بات ہے پس یہاں چن سے مراد کوئی اور وجود نہیں ہیں..
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 95 بلکہ وہ وجو د مخفیہ ہیں جن کا نام سپر چولزم والے ارواح اور ہپنا ٹزم والے قوائے روحانیہ رکھتے ہیں.چونکہ یہ نظروں سے پوشیدہ ہوتے ہیں اس لئے ان کو جن کہا گیا ہے.یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کسی عقلمند کا دعویٰ نہیں تھا کہ جنات سے مل کر وہ اعلیٰ روحانی تعلیم بنا سکتا ہے.پس جس چیز کا دعوی ہی نہیں تھا اور جس اجتماع کا امکان ہی نہیں تھا اس کا چیلنج عقل کے خلاف ہے.پس اس جگہ جن سے مراد وہ روحانی افعال ہیں جو سبجیکٹو مائنڈ Subjective) (Mind سے ظاہر ہوتے ہیں یا وہ اتحاد ہے جو بقول بعض ارواح غیر مرئی سے انسانوں کا ہو جاتا ہے اور ان سے وہ بعض روحانی علوم دریافت کر لیتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم ان سے بھی مدد لے لو وہ بھی تمہاری مدد کریں تب بھی تم اس قرآن کی مثل نہیں لا سکتے.پس یہاں جن سے مراد وہ ارواح ہیں جن کی مدد سے لوگ دعوی کرتے ہیں کہ وہ نئے روحانی علوم معلوم کر سکتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان سے بھی مدد لے لو اور قرآن کی مثل بنا دو.پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ بغیر کلام الہی کے کام چل سکتا ہے یا نہیں.چنانچہ دیکھ لو یہ کس قدر ز بر دست معجزہ قرآن کریم کا ہے کہ وہی زمانہ جس کے متعلق احادیث نبویہ سے ثابت ہے کہ قرآن کریم کے اُٹھنے کا ہے.اور جس زمانہ میں رحمة رب سے دوبارہ قرآن آنے کا ذکر ہے.اس زمانہ میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہیں جو ارواح سے مل کر حقائق روحانیہ کے دریافت کرنے کے مدعی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس چینج کو قبول کرتے ہیں اگر ارواح کے اندر یہ قابلیت ہے کہ وہ آپ ہی آپ اپنی ترقی کے ذریعہ علوم کو معلوم کرلیں تو وہ قرآن کی مانند کوئی تعلیم پیش کر کے دکھائیں.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مثل میں کن کن امور کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے.سواس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَقَد صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا.ہم نے قرآن میں دو خو بیاں رکھی ہیں.ان کی مثال روحوں سے تعلق رکھنے والے اور خود روحانیات میں ترقی کرنے کا دعویٰ کرنے والے پیش کریں.ایک تو یہ کہ ہر ضروری امر جس کی روح کو ضرورت ہے قرآن کے اندر بیان کر دیا گیا ہے.دوسرے ہر ضروری امر کی ہر ضروری شق بیان کر دی گئی ہے.یعنی مختلف متفاوت فطرتوں کا اس میں پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے اور
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ ہر حکم ایسے رنگ میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ سب کے لئے کارآمد ہو.یہاں فلسفیوں اور سپر چولزم والوں کو چیلنج دیا گیا ہے کہ تم ایسی کتاب بنا کر دکھاؤ جس میں وہ ساری باتیں آجائیں جن کی تکمیل روحانیت کے لئے ضرورت ہے اور پھر اُس کتاب میں ایسی تعلیم ہو جس میں ساری فطرتوں کا لحاظ رکھا گیا ہو.ایسی باتوں کی وہ کوئی مثال نہیں لا سکتے.یہ لوگ بہت مدت سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں مگر ابھی تک تو کچھ نہیں کر سکے اور نہ آئندہ کر سکیں گے.اول تو وہ قرآن جیسی جامع تعلیم ہی نہیں پیش کر سکتے اور اگر فرض کر لیا جائے کہ پیش کریں گے تو یا تو وہ قرآن کے مطابق ہوگی اور یا پھر قرآن کے خلاف.اگر قرآن کے مطابق ہوگی تو اس کی ضرورت نہیں کیونکہ قرآن موجود ہے.اور اگر قرآن کے خلاف ہوگی تو اس کا رڈ قرآن میں موجود ہو گا.گویا کوئی کتاب ایسی نہیں ہو سکتی جو قرآن کا مقابلہ کر سکے.کیا دنیا میں کوئی کتاب ایسی ہے جو روحانی امور کے متعلق ایسا عظیم الشان دعویٰ پیش کر سکتی ہو؟ فطرت انسانی کی روحانی طاقتوں کا اظہار کلام الہی کے بغیر نہیں ہو سکتا اب ایک اور سوال ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ اگر روح کو بہت تھوڑا اعلم دیا گیا ہے تو وہ قرآن کریم کی تعلیم کو کس طرح سمجھ سکتی ہے.یہ بات ایک اور آیت سے حل ہو جاتی ہے جس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روحانی طاقتوں کو فطرت انسانی سے بھی وابستہ قرار دیا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ روح میں بھی کلام الہی موجود ہوتا ہے مگر مخفی طور پر.اور وہ اپنے ظہور کے لئے بیرونی کلام الہی کا محتاج ہوتا ہے.پس تھوڑا علم ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ فطرت انسانی کو روحانی طاقتوں سے لگاؤ نہیں.لگاؤ ہے مگران طاقتوں کا ظہور سوائے کلام الہی کے نہیں ہو سکتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّهُ لَقُران كَرِيمٌ في كتب مَّكْنُونِ " یعنی قرآن کریم میں جو تعلیمات ہیں وہ فطرت انسانی میں جو كِتَبٍ مظہر روح ہے موجود ہیں کیونکہ انسان اسی شئے سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے جو اس کے اندر بھی موجود ہو.غیر جنس اسے نفع نہیں دے سکتی.جیسے اگر کان نہ ہوں تو سنا ناممکن ہے اور آنکھیں نہ ہوں تو دیکھنا ناممکن ہے.یا اس کی مثال پانی کی سی ہے کہ جب اوپر سے پانی برستا ہے تو چشمے بھی جاری ہو جاتے ہیں اور اگر آسمان سے پانی نہ برسے تو چشمے بھی خشک ہو جاتے ہیں.اسی طرح جب خدا تعالیٰ کی 96
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 97 وحی کا پانی نازل ہوتا ہے تو روح انسانی سے بھی روحانی پانی ابلنے لگتا ہے کیونکہ الہی کلام اور انسانی فطرت ایک دوسرے کے لئے بطور جوڑے کے ہیں.ایک لفظوں میں کتاب الہی ہوتی ہے اور دوسری فطرت میں مرکوز ہوتی ہے.اور وہی کتاب الہامی ہوسکتی ہے.جو انسانی فطرت کے مطابق ہو پس انسانی فطرت میں بھی کلام الہی ہوتا ہے.مگر اسے اُبھارنے کے لئے الہام کی ضرورت ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے ایک طرف تو اپنے کلام کا ایک حصہ انسان کے دماغ میں رکھ دیا اور دوسرا حصہ اس نے اپنے نبی کو دے کر بھیج دیا.جب یہ دونوں حصے ایک دوسرے کے ساتھ مجھڑ جاتے ہیں تو اسے خدا کی طرف سے سمجھ لیا جاتا ہے.سفر ولایت کے ایام کا ایک واقعہ اس موقع پر میں ایک لطیفہ سناتا ہوں.جب میں ولایت سے واپس آیا تو جس جہاز پر ہم سوار ہوئے اس کا چیف انجینئر ایک دن جہاز کی مشینری دکھانے کے لئے مجھے لے گیا.اور دکھانے کے بعد کہنے لگا کہ آپ اپنے سیکرٹریوں کو واپس بھیج دیں.میں آپ کے ساتھ ایک خاص بات کرنا چاہتا ہوں.میں نے کہا بہت اچھا.میں نے ساتھیوں کو بھیج دیا.جب وہ چلے گئے تو کہنے لگا.آپ کے پاس مختلف ممالک کے خطوط آتے ہونگے.اگر آپ مجھے ان خطوط کے ٹکٹ بھجوا دیا کریں تو میں بہت ممنون ہونگا.میں نے کہا اچھا اگر کوئی غیر معمولی ٹکٹ ملا تو بھیج دیا کروں گا.کہنے لگا میں بھی آپ کی خدمت کروں گا.آپ مجھ پر اعتبار کریں اور مجھ سے کام لیں.پھر کہنے لگا.آپ جس غرض کے لئے ولایت گئے تھے وہ مجھے معلوم ہے اور وہ یہی ہے کہ آپ نے حکومت کے خلاف وہاں مشنری رکھے ہوئے ہیں انہیں آپ مخفی ہدایات دینے گئے تھے.اب آپ جو مخفی تحریریں بھیجنا چاہیں وہ میں لے جایا کروں گا.آپ اس طرح کریں کہ کارڈ کا ایک ٹکڑا آپ اپنے مشنریوں کو دیں اور دوسرے میرے ذریعہ بھیجیں.جب دونوں ٹکڑے ایک دوسرے کے ساتھ فٹ (Fit) ہو جایا کریں گے تو آپ کے مشنری سمجھ لیں گے کہ آپ نے جو ہدایات ان کو بھیجی ہیں وہ اصلی ہیں.اس طرح وہ آپ کی ہدایت پہچان لیا کریں گے.اس کا یہ قیاس تو غلط تھا اور میں نے اس کی تردید بھی کی اور کہا کہ ہم اپنی حکومت کے وفادار ہیں.مگر جس طرح اس نے کہا تھا کہ ایک ٹکڑا آپ اپنے مشنری کو
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 98 80 دے دیں اور دوسرا ٹکڑا مجھے بھجواد میں جب وہ دونوں ٹکڑے مل جائیں گے تو مشنری سمجھ لے گا کہ آپ نے جو ہدایات بھیجی ہیں وہ اصلی ہیں.یہی حالت انسان کی روحانیت کے متعلق ہوتی ہے.ایک ٹکڑا کلام الہی کا انسان کے دماغ میں ہوتا ہے اور دوسرا ٹکڑا نبی کے پاس ہوتا ہے جب وہ دونوں فیٹ ہو جاتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر فٹ نہ ہوں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ایسا کلام پیش کرنے والا دھوکا باز ہے.کتاب مبین اور کتاب مکنون کا اتحاد غرض روحانی ترقیات کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہی تعلیم نازل ہو جو روحانی قابلیتوں کے مشابہ ہو.پس اس طرح ایک رنگ میں کلام الہی انسانی دماغ میں بھی موجود ہوتا ہے.لیکن وہ مخفی ہوتا ہے اور اس کا ابھارنا ایک کتاب واضح کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.چنانچہ قرآن کریم کا نام اسی جہت سے کتاب مبین آیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.قَدْ جَاءَ كُم مِنَ اللهِ نُورٌ وَكِتَبٌ مُّبِين ۵۰ اے لوگو! تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور اور واضح کتاب آچکی ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ.پس روحانی قابلیتیں بمنزلہ زمین کے پانی کے ہیں جو آسمانی پانی کے قرب کے ساتھ اونچا ہوتا ہے.اور جس طرح بارش نہ ہونے پر کنوؤں کے پانی سوکھنے لگتے ہیں اسی طرح الہام کے نازل نہ ہونے پر فطرت کا سرچشمہ خشک ہونے لگتا ہے.پس باوجود اس کے کہ فطرت میں کلام مخفی طور پر موجود ہے وہ آسمانی پانی کی عدم موجودگی میں گدلا اور خراب ہو جاتا ہے اور اس پر بھروسہ کرنا کافی نہیں ہوسکتا.ہاں جب آسمانی پانی نازل ہو تو دونوں ایک دوسرے پر گواہ ہوتے ہیں.آسمانی پانی فطرت کے پانی کی صفائی کی گواہی دیتا ہے اور فطرت کا پانی آسمانی پانی کی صفائی پر گواہی دیتا ہے.گویاوہ ایک چیز کے دوٹکڑے ہیں کہ دونوں مل کر ایک وجود پورا ہوتا ہے.اور اللہ تعالیٰ نے ایک ٹکڑا انسان کے دماغ میں اس لئے رکھا ہے کہ جب آسمانی پانی نازل ہو تو فطرتِ صحیحہ اس کے لئے بطور شاہد ہو.پس کتاب مبین اور کتاب مکنون کا اتحاد کتاب مبین اور کتاب مکنون دونوں کی سچائی پر شاہد ہوتا ہے.اور دھو کے بازوں کے دھوکا سے بچاتا ہے اور ان میں آپس میں ایسا ربط ہے کہ جب ایک
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ قریب ہو تو دوسری خود بخود قریب ہونے لگتی ہے.الہام ہو تو فطرت ابھر نے لگتی ہے جیسا کہ سورۃ انعام میں بطور کلام الہی کی تمثیل کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَات كُلّ شَینی اش یعنی الہی کلام کی مثال پانی کی طرح ہے.جس طرح پانی نازل ہونے سے سبزیاں اُگنے لگتی ہیں اسی طرح کلام الہی کے نازل ہونے سے ہر قسم کی قابلیتوں میں اُبھار شروع ہو جاتا ہے اور وہ اپنے اپنے جو ہر کو ظاہر کرنے لگتی ہیں.اسی طرح فطرت کے اُبھر نے سے بھی کلام الہیہ صیح آتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحُ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّاشَرَقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِقَ : وَلَوْلَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِى اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَ يَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحُ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَانَهَا گو گب در می اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں لیمپ ہو اور لیمپ چمکدار گلوب میں ہو جو ستارہ کی طرح چمکے.جس کی وجہ سے اس کی روشنی کا فوکس فائدہ اُٹھانے والوں پر پڑ رہا ہو.يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ اور اس میں اعلیٰ درجہ کا مصفی تیل زیتون کے مبارک شجر کا ہو.لا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ اور وہ شجر ایسا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی.يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِى وَلَوْلَمْ تَمْسَسْهُ نَار.ایسا تیل اپنی اعلیٰ درجہ کی صفائی کی وجہ سے قریب ہو کہ بغیر آگ کے آپ ہی آپ روشن ہو جائے.نُورٌ عَلی نُورٍ اس لئے کہ جب اس تیل یعنی فطرت صحیحہ میں ایسی چلا پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کا نور جو اس فطرتی نور کو روشن کر دینے کی وجہ سے نار سے مشابہ بھی ہے نازل ہو جاتا ہے اور آسمانی نور زمینی نور سے آکر مل جاتا ہے.اب دیکھو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کس طرح کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ فطرت کا نور جب کامل چلا پا جائے اور ایسا مصفی ہو جائے کہ گویا خود ہی جل اُٹھنے والا ہو تو اس وقت وہ آسمانی نور کو 99
100 فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ جذب کر لیتا ہے یعنی مورد الہام ہو جاتا ہے.پس یہ کہنا کہ کامل اور مصفی دماغ آپ ہی تعلیم کو معلوم کرے گا درست نہیں.اگر وہ کامل ہے تو الہام خود بخود اس پر نازل ہوگا.اور اگر وہ ناقص ہے تو پھر تعلیم بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا.جس غرض اس آیت میں روحانی طاقتوں اور ان کے ارتقاء کے مسئلہ پر سیر گن بحث کی گئی ہے.پر عقل اور مشاہدہ دونوں شاہد ہیں.اور یہ بحث دنیا کی اور کسی کتاب میں نہیں مل سکتی.آگے بتایا کہ یہ نور کہاں ہے؟ فرماتا ہے.في بُيُوتٍ أَذِنَ اللهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُةِ وَالْأَصَالِ " یہ نور ایسے گھروں میں ہے جن کے متعلق خدا تعالی کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ انہیں اونچا کیا جائے گا اور حکومت دی جائے گی.گویا نور سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے متعلق یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ انہیں دنیا کا بادشاہ بنادیا جائے گا.پس بے شک انسانی فطرت میں بھی نور ہے اور وہ خدا کے نور کے مشابہ ہے مگر قاعدہ یہ ہے کہ جب ایک فطرت چلا پا جائے یعنی اس قدر مکمل ہو جائے کہ الہام پانے کی طاقت اس میں پیدا ہو جائے تو آسمان سے الہام اس پر نازل ہوتا ہے گویا انسانی فطرت صحیحہ الہام کے بغیر رہ ہی نہیں سکتی.جب فطرت کامل ہو جائے تو ضرور ہے کہ الہام نازل ہو.لیکن اگر الہام نازل نہیں ہوتا تو فطرت کامل نہیں ہوگی.پس بغیر الہام الہی کے کام نہیں کیا جاسکتا.روحانی طاقتوں کی تکمیل کے لئے کامل تعلیم (۳) تیسری چیز جس کا بیان کرنا ایک مذہب کے لئے نہایت ضروری ہے.وہ ان امور کا بیان کرنا ہے جو روحانی طاقتوں کی تکمیل اور ان کی امداد کے لئے ضروری ہیں.یہ مضمون ایسا وسیع ہے کہ اس میں شریعت کے تمام احکام آسکتے ہیں.اور مذہب کے تمام اصول اور جزئیات پر بھی اس میں بحث ہو سکتی ہے کیونکہ ان کی غرض یہی ہوتی ہے کہ روحانی طاقتوں کا ارتقاء ہو.لیکن چونکہ اس لیکچر کے یہ مناسب حال نہیں اس لئے میں اختصاراً اس کے متعلق صرف ایک ریویو کر دیتا ہوں کہ اسلام چونکہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ (۱) روح انسانی جسمانی تغیرات کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور اس وجہ سے
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 101 وہ جسمانی تغیرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی.جیسے فرمایا يَأْيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِن الطيبتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا اے رسولو! پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور مناسب حال اعمال بجالاؤ.یعنی طیبات کے کھانے سے نیک اعمال کی توفیق عطا ہوتی ہے.اس لئے وہ قرار دیتا ہے کہ مذہب کو ایک حد تک انسان کی غذاؤں اور اس کے کانوں اور اس کی آنکھوں اور اس کی قوت حائہ پر بھی حد بندی کرنی چاہئے تا کہ معدہ اور حواس کے ذریعہ سے دماغ اور دل پر بداثرات نہ پہنچیں اور اس کی روح مردہ نہ ہو اور اس نے اس کے متعلق دو اصول مقرر کئے ہیں.اول ضروری اور اصولی امور اس نے خود بتا دیئے ہیں اور ہر مسئلہ کے متعلق تفصیلی احکام دیئے ہیں مگر باوجود اس کے (۲) اس نے تسلیم کیا ہے کہ بعض امور میں انسان کی بدلنے والی ضرورتیں یا مختلف ممالک کے لوگوں کے لئے بدلتے رہنے والے قوانین کی بھی ضرورت ہوگی کیونکہ زمانہ کے تغیرات کے لحاظ سے ایسی ضرورتیں پیش آسکتی ہیں جن کے متعلق اپنے طور پر قوانین بنانے پڑیں.چنانچہ اس کے لئے وہ یہ قاعدہ مقرر فرماتا ہے کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْتَلُوا عَنْ اشْيَاء إِنْ تُبْدَلَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْئَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزِّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَلَكُمْ عَفَا اللهُ عَنْهَا وَاللهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ ۵۴ فرمایا.اے مومنو! تم آپ ہی آپ یہ سوال نہ کیا کرو کہ ہم فلاں کام کس طرح کریں اور فلاں کس طرح کیونکہ بعض باتیں اللہ تعالیٰ نے جان بوجھ کر اس حکمت کے ماتحت چھوڑ دی ہیں کہ اگر انہیں بیان کر دیا جائے تو وہ تمہارے لئے دائمی طور پر مقرر ہو جائیں گی حالانکہ وہ جانتا ہے کہ آئندہ ان میں تبدیلی کی ضرورت پیش آتی رہے گی.پس دوسرا اصل قرآن کریم نے یہ بتایا کہ کامل تعلیم کے بعد بھی بعض ہدایتوں میں وقتی طور پر تغیر کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے.ان کو قرآن نے انسانی عقل پر چھوڑ دیا ہے.اور فیصلہ کرنے کا یہ طریق بتادیا ہے کہ أَمْرُهُمْ شُوَرى بَینم ۵۵ یعنی مومنوں کا یہ طریق ہے کہ وہ قومی معاملات کو باہمی مشورہ سے طے کیا کرتے ہیں.پس اسلام میں یہ نہیں کہ ہر فردا اپنی اپنی رائے پر چلے بلکہ مشورہ کرنے کے بعد جو بات طے ہو اُس پر چلنا چاہئے.مگر باوجود ان باتوں کے چونکہ انسان پھر بھی غلطی کر سکتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لئے بعض غیبی سامان بھی مہیا کئے ہیں.اور وہ یہ ہیں کہ اس
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 102 نے ملائکہ کو پیدا کیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ انسان کو نیکی کے رستہ پر چلاتے رہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.لَهُ مُعَقِّبت مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ آمر الله " یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے آگے بھی اور اس کے پیچھے بھی ملائکہ کی ایک جماعت ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی حفاظت کر رہی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لئے شریعت نازل کی اور اسے تفصیلی ہدایات دیں.مگر پھر بھی انسان چونکہ غلطی کر سکتا ہے اس لئے اس کی حفاظت پر ملائکہ لگا دیئے گئے.ملائکہ کے ایسے اعمال کے متعلق باقی کتب خاموش ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ باقی کتب نے ملائکہ کے متعلق تفصیلی بحث کی ہی نہیں.بلکہ ایسے رنگ میں بحث کی ہے کہ ایک طبقہ ان کو خدا کی بیٹیاں کہنے لگ گیا.دنیا اس امر پر ہنستی ہے مگر تجربہ کار لوگ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان احسانوں میں سے ایک احسان ملائکہ کا وجود ہے مگر یہ موقع اس پر تفصیلی بحث کرنے کا نہیں ہے.روحانی نتائج کا اظہار (۳) تیسرا اصل یہ بتایا کہ چونکہ انسان اگر ایک ہی رنگ میں کام کرتا چلا جائے اور اس کے نتائج نہ دیکھے تو اس کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے.اس لئے نتائج کے اظہار کا بھی کوئی طریق ہونا چاہیئے.سکولوں میں طلباء کا امتحان لینے کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ نتائج دیکھ کر ان کی ہمت بڑھے اور وہ تعلیم میں ترقی کریں.اسی رنگ میں خدا تعالیٰ نے روحانی نتائج کے اظہار کے لئے بھی ایک طریقہ بیان فرما دیا.چنانچہ فرمایا اُدْعُوني اَسْتَجِبْ لَكُمْ ھے تم مجھے ساتھ کے ساتھ بلاؤ میں تمہاری پکار سنوں گا.غیر مذاہب کا بے اصولا پن اب یہ تینوں باتیں اسلام کے سوا دوسرے مذاہب میں بھی ملیں گی تو سہی مگر بے اصولے طور پر.مثلاً (۱) وہ مذاہب جو احکام دیتے ہیں ان کی حکمت نہیں بتاتے.(۲) احکام تو دیتے ہیں مگر ایسے کہ جو انسانی حریت کو کچلنے والے ہیں.(۳) دوسری کتا میں بعض احکام تو بیان کرتی ہیں لیکن
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 103 بے جوڑ.یعنی وہ نہ تو یہ بتاتی ہیں کہ جو احکام وہ بیان کرتی ہیں انہیں کیوں بیان کرتی ہیں اور نہ یہ بتاتی ہیں کہ جن کو نہیں بیان کرتیں انہیں کیوں چھوڑتی ہیں.دانستہ چھوڑا گیا ہے یا نا دانستہ.جیسے دید ہیں کہ بڑے بڑے اہم امور کے متعلق کچھ بیان نہیں.حتی کہ قصاص اور عفو اور محرمات تک کے متعلق بھی کوئی حکم نہیں.انجیل نے تو غضب کیا ہے کہ ایک طرف تو وہ شریعت کو لعنت قرار دیتی ہے اور دوسری طرف احکام بھی دیتی ہے.حالانکہ اگر یہ درست ہے کہ شریعت لعنت ہے تو چاہئے تھا کہ انجیل میں کوئی بھی حکم نہ ہوتا.مگر حکم ہیں.جیسا کہ منتی باب ۵ آیت ۳۲ میں آتا ہے:- پھر میں تمہیں کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرامکاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے.وہ اس سے زنا کراتا ہے.اور جو کوئی اس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے.۵۸ اگر شریعت لعنت ہے تو معلوم نہیں اس لعنت سے لوگوں کو کیوں حصہ دیا گیا ہے.اور اگر کہو کہ شریعت لعنت نہیں بلکہ رحمت ہے تو باقی ضروری باتیں کیوں چھوڑ دی گئیں.وہ بھی بتا دی جاتیں.غرض ان مذاہب نے ایک بے جوڑی بات کر دی ہے.کہیں کوئی بات چھوڑ دی اور یہ نہ بتایا کہ جن احکام پر خاموشی اختیار کی ہے ان پر خاموشی کیوں اختیار کی ہے اور کہیں بیان کر دی اور اس کی حکمت نہ بتائی.مگر قرآن اصولی بات کہتا ہے.جو حکم دیتا ہے اس کی حکمت بتاتا ہے.اور جن احکام کو اس نے چھوڑا ہے ان کی وجہ بھی بیان کر دی ہے مگر دوسری کتابوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی.ویدوں میں بہن بھائی کی شادی کی کہیں ممانعت نہیں ہے.لیکن ویدوں کے ماننے والے اسے ناجائز قرار دیتے ہیں.قرآنی تعلیم سے مکمل ہونے کا ایک واضح ثبوت میں ان روحانی ہدایت ناموں کی پرکھ کے متعلق ایک موٹا نسخہ بتاتا ہوں.ہر ایک کتاب جو قرآن کریم کے سوا ہے.اس میں جو مسائل بیان ہوئے ہیں ان کے علاوہ ضرور ایسے مسائل نکلیں گے کہ جن پر عمل کرنے کو اخلاقی برائی سمجھا جائے گا.لیکن ان کی ممانعت اس کتاب میں نہیں ملے گی.اس کے مقابلہ میں قرآن کریم میں ایک بھی امرایسا نہیں جس پر عمل اخلاقی برائی سمجھا جائے اور
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 104 اس سے اسلام نے نہ روکا ہو.یا اس کے متعلق خاص طریق عمل کا ارشاد نہ کیا ہو.یہ مختصر مگر اس کی تعلیم سے مکمل ہونے کا ایک اہم ثبوت ہے.عالم معاد کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم (۴) چوتھا امر جس کے متعلق ہدایت دینا مذہب کا اہم فرض ہے وہ معاد کے متعلق ہے یعنی وہ بتائے کہ مرنے کے بعد انسان کی کیا حالت ہوگی؟ اسلام اس بارہ میں بھی مفصل بحث کرتا ہے.جسے اس موقعہ پر تفصیلا تو بیان نہیں کیا جاسکتا.لیکن دو آیتیں اس کی تائید میں پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَكُمْ عَبَقًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ.۵۹ یعنی کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ تمہاری پیدائش عبث اور فضول ہے اور تم لوٹ کر ہماری طرف نہیں آؤ گے.یہ آیت زمین اور آسمان کی پیدائش اور احیاء اور امانت اور اللہ تعالیٰ کی مالکیت کے ذکر کے بعد آئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ انسان میں ہم نے کتنی طاقتیں رکھی ہیں.کس طرح زمین اور آسمانوں کو اس کے لئے مسخر کیا.اس کے لئے چاند اور سورج پیدا کئے.ان کے اثرات رکھے.پھر انسان کے اندر قابلیتیں ودیعت کیں.کیا یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا ہے کہ انسان دنیا میں کھائے پیئے اور مرکز ختم ہو جائے، یہ کبھی نہیں ہو سکتا.انسان کے لئے بہر حال ایک اور زندگی ہونی چاہیئے جس میں وہ اپنے اعمال کا جوابدہ ہو اور جو اس کی پیدائش کی غرض کو تکمیل تک پہنچانے والی ہو.پھر سورۃ قیامہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لاَ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيمَةِ.وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَامَةِ ايَحْسَبُ الْإِنْسَانُ الَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ " یعنی میں مرنے کے بعد پھر دوبارہ زندہ ہونے کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں.اس پر کہا جا سکتا ہے کہ جس چیز کی دلیل دینی تھی اسی کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے.مگر ذرا آگے پڑھیں تو بات واضح ہو جاتی ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں قیامت سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے کیونکہ نبی کی بعثت بھی ایک قیامت ہوتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ اسی سورۃ میں فرماتا ہے.يَسْئَلُ آيَانَ يَوْمُ الْقِيمَةِ.فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ.وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ 1 یعنی لوگ پوچھتے ہیں کہ قیامت کا دن کب ہوگا ان سے کہہ دو کہ یہ وہ
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 105 زمانہ ہوگا جب نظر پتھر جائیگی.یعنی نئے نئے علوم نکلیں گے اور انسان حیران رہ جائیں گے ومجمع الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ اور چاند اور سورج کو گرہن لگے گا.اس وقت انسان کہے گا کہ اب میں بھاگ کر کہاں جا سکتا ہوں.یہاں قیامت سے مراد مسیح موعود کا زمانہ ہے اور اسے قیامت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے.اور بتایا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب مسلمانوں کی تباہی اور بربادی انتہا کو پہنچ چکی ہوگی اس وقت خدا تعالیٰ پھر ان کو دوبارہ زندہ کرے گا.یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے متعلق ہے کہ مسلمان تباہ و برباد ہونے کے بعد پھر ترقی کریں گے اور اس بات کا پورا ہونا بتا دے گا کہ قرآن ایسے منبع سے نکلا ہے جہاں سے کوئی بات غلط نہیں نکلتی.جب یہ بات پوری ہو جائے گی تو لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ مرنے کے بعد کے متعلق بھی قرآن جو کچھ کہتا ہے وہ بھی ضرور پورا ہوگا.دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ انسان کے اندر جو نفس تو امہ رکھا گیا ہے وہ بھی قیامت کا ثبوت ہے.انسان جب کوئی گناہ کی بات کرتا ہے تو اس پر اس کا نفس اسے ملامت کرتا ہے.ایک چھوٹا بچہ بھی جب جھوٹ بول رہا ہوتا ہے تو سمٹتا اور سکڑتا جاتا ہے کیونکہ نفس لوامہ جو اس کے اندر موجود ہے وہ اسے شرم دلا رہا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہی نفس تو امہ جس کے نتیجہ میں انسان محسوس کرتا ہے کہ اخلاق کیا ہیں اور بداخلاقی کیا ہے.گناہ کیا ہے اور ثواب کیا ہے.اس بات کا ثبوت ہے کہ قیامت کا بھی ایک دن مقرر ہے ورنہ اس کے اندر ندامت کا یہ احساس کیوں پیدا ہوتا.اسی طرح قرآن کریم عذاب اور انعام کی تمام تفصیلات بتاتا ہے اور ان کی حکمتیں بتاتا ہے اور سزا اور اس کی غرض اور انعام اور اس کا مقصد اور طریق سزا اور طریق انعام غرض ہر ایک پہلو پر مفصل روشنی ڈالتا ہے جس کی مثال دوسری کتب میں بالکل نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے تو ناقص طور پر.پس ضرورت مذہب کے بیان کرنے میں بھی اسلام دوسرے مذاہب سے افضل ہے.خدا تعالٰی سے اتصال پیدا کرنے اور روحانی طاقتوں کو تکمیل تک پہنچانے والا مذہب (۵) اب میں پانچویں بات بیان کرتا ہوں کہ جوضرور تیں کوئی مذہب پیش کرے اس کا فرض ہے کہ وہ انہیں پورا بھی کرے.میں سمجھتا ہوں کہ اس میں سوائے قرآن کریم کے اور کوئی کتاب
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 106 پوری نہیں اُترتی.صرف قرآن کریم ہی ہے جو اس امر کا مدعی ہے کہ جب تک کوئی مذہب خدا تعالیٰ سے اتصال پیدا نہیں کراتا اور روحانی طاقتوں کو مکمل نہیں کراتا اور اُخروی بھلائی کی ضمانت اسے نہیں دیتا اس کی خالی تعلیم اسے نفع نہیں پہنچا سکتی.چنانچہ وہ اس دنیا سے آواز دیتا ہے کہ من سكان في هذِهِ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا " یعنی یہ یاد رکھو کہ نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ وغیرہ کی غرض یہ ہے کہ انسان خدا کو پالے کیونکہ مذہب کا مدعا یہ ہے کہ انسان خدا کو دیکھ لے.اور اگر اس دنیا میں خدا کسی کو نظر نہیں آتا تو اگلی دنیا میں بھی نظر نہیں آئے گا.خدا کو دیکھنے کی اس دنیا میں بھی ضرورت ہے.اگر ایک انسان سب عبادات بجالاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے نظر نہیں آتا تو صاف معلوم ہوا کہ عبادت کا جو اصل مقصد ہے وہ پورا نہیں ہوا.اور جو شخص اس دنیا میں خدا کو دیکھنے سے اندھا رہا وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا اور اسے وہاں بھی خدا نظر نہیں آئے گا.اصل سبیلا کے معنی یہ ہیں کہ اگلے جہان میں اس کی نابینائی اور بھی بھیانک ہوگی کیونکہ وہاں تو بہ کا کوئی موقع نہ ہوگا.آخرت سے آواز b پھر وہ آخرت سے آواز دیتا ہے کہ يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ يَسْعَى نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ بُشْر يكُمُ الْيَوْمَ جَنَّتَ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَاء ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ - يَوْمَ يَقُولُ الْمُنْفِقُونَ وَالْمُنفِقْتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِنْ ثُوْرِكُمْ ، قِيْلَ ارْجِعُوا وَرَاءَ كُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَّهُ بَاب بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ ا یعنی اس روز تو مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دیکھے گا کہ ان کا نور ان کے سامنے بھی اور ان کے دائیں طرف بھی بھاگتا جائے گا.اس میں بتایا کہ اگلے جہان کی ترقیات بہت جلدی جلدی ہوگی نور تیز تبھی ہوگا جبکہ ساتھ چلنے والے بھی تیز ہونگے.وہ نور بینَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِ ہم رہے گا یعنی ان کے دائیں بائیں بھی نور ہوگا اور آگے بھی.گویا اس میں ترقیات کی رفتار کی تیزی اور اس تیزی میں مومنوں کے ہم قدم رہنے کی طرف اشارہ ہے.بشر لكُمُ الْيَوْمَ خدا تعالیٰ کے فرشتے انہیں
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 107 کہیں گے کہ آج تمہارے لئے بشارت ہے.جنت تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَلِدِينَ فيها ان جنات اور قسم قسم کے باغوں کی جن میں نہریں بہ رہی ہیں.يَوْمَ يَقُولُ الْمُنْفِقُونَ وَالْمُنْفِقْتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انْظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّورِ كُمْ قِيْلَ ارْجِعُوا وَرَاءَ كُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ تم تو دوڑے جارہے ہو ذرا ہمارا بھی انتظار کرو.ہم بھی تم سے نور لے لیں.اس وقت ان سے کہا جائے گا تمہیں یہاں سے نور نہیں مل سکتا.اگر طاقت ہے تو تم پیچھے کی طرف لوٹ جاؤ.اور وہیں جاؤ جہاں سے تم آئے ہو اور وہاں جا کر نور کی تلاش کرو.اس میں بتایا کہ وہ نور جو اگلے جہان میں کام آئے گا اسی دنیا میں ملتا ہے.وہاں جانے کے بعد نہیں ملے گا.اس سے پتہ لگتا ہے کہ انسان اسی دنیا میں نیکیاں کرے تب اگلے جہان میں کامیاب ہوسکتا ہے.مگر دیکھو رحمت الہی بھی کس قدر وسیع ہے.کہا جا سکتا تھا کہ جب دنیا میں کسی کو نور نہیں ملا تو کیا پھر اسے کبھی نور نہ مل سکے گا اور وہ ہمیشہ کے لئے محروم ہو جائے گا اور اگر اسے نوریل سکتا ہے جس کی طرف فَالْتَمِسُوا نُورًا میں ایک مخفی اشارہ ہے تو کیسے.اس کے متعلق فرمایا.فَضْرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ منافقوں اور مومنوں کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی.اور اس میں ایک دروازہ رکھا جائے گا.یہ تو صاف بات ہے کہ جنت والے تو جنت سے باہر نہیں جائیں گے اس لئے یقیناً یہ دروازہ اسی لئے رکھا جائے گا کہ باہر والے اندر آجائیں.پس بتایا کہ گونور اسی دنیا میں حاصل ہو سکتا ہے لیکن جو اس سے محروم رہیں گے انہیں بعض حالتوں میں سے گزارنے کے بعد معاف کر دیا جائے گا.اور وہ اس دروازہ میں سے گذر کر جنت میں داخل ہو جائیں گے.بَاطِنه فِيْهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ جنتی حواس اور قوتوں سے ہی دوزخ پیدا ہوتی ہے.یعنی حواس حقیقی تو نیک ہی ہیں لیکن ان کے غلط استعمال سے دوزخ پیدا ہوتی ہے.غرض اس دعوئی میں بھی قرآن کریم کے ساتھ اور کوئی کتاب شریک نہیں ہے.
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ ایفائے وعدہ کا ثبوت 108 ط اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ او پر جو کچھ بیان ہوا یہ تو دعوئی ہے.کیا ایفائے وعدہ بھی ہو گا سو اس کے متعلق فرمایا.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُ اليْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوَى لِلْكَفِرِينَ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَاء وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ " یعنی اس شخص سے زیادہ اور کون ظالم ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ کر افتراء کرے.یا اس شخص سے زیادہ اور کون ظالم ہو سکتا ہے جو اس سچائی کا انکار کر دے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے پاس آئے.کیا ایسے کافروں کی جگہ جہنم نہیں ہونی چاہئیے ؟ ہاں وہ جو ہماری تعلیم قرآن کے مطابق ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انہیں ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے اور اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ محسنوں کا ساتھ دیتا ہے.اس آیت میں بتایا کہ ایسے لوگ جتنا ہماری طرف چل کر آسکیں گے اتنا اگر چلیں گے.تو جب ان کے پیر چلنے سے رہ جائیں گے ہم خود جا کر انہیں لے آئیں گے کیونکہ ہمارا یہ طریق ہے کہ کچھ بندہ آتا ہے اور کچھ ہم اس کی طرف جاتے ہیں.یہاں وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا الخ میں یہ بتایا کہ قرآن خدا پر افتراء نہیں.اگر یہ جھوٹ ہوتا تو اس کے بنانے والا عذاب میں مبتلا کیا جاتا.پھر وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُم سُبُلَنا میں یہ بتایا کہ جھوٹ کوئی اس وقت بولتا ہے جب سچائی سے اپنا مقصد حاصل نہ کر سکے لیکن جب ہم نے کلام نازل ہونے کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور ہم نے کہہ دیا ہے کہ محسن بن جاؤ تو اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاؤ گے تو کیوں بچی کوشش کر کے سچا کلام حاصل نہ کیا جائے.جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے.رضائے الہی حاصل کرنے والا کامیاب گروہ اس آیت کے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں تو صرف یہ بتایا گیا ہے کہ ہم ایسا کریں گے.سوال یہ ہے کہ کیا خدا تعالیٰ نے ایسا کیا بھی ہے یا نہیں ؟ سواگر چہ اس سوال کا جواب اس آیت میں آجاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ سے اتصال اس کا ہوگا جو مناسب روحانی تکمیل حاصل کر چکا ہو اور وہ جنت بھی پائے گا.لیکن علیحدہ علیحدہ بھی ان باتوں کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 109 سے کامل تعلق رکھنے والے آخر قرآن پر چل کر اپنی مراد کو پہنچ گئے اور انہوں نے جنت پالی.چنانچہ فرماتا ہے.مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى تحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا لِيَجْزِيَ اللهُ الصَّدِقِينَ بِصِدْقِهِمْ ط ۶۵ وَيُعَذِّبَ الْمُنْفِقِينَ إِنْ شَاءَ أَو يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ، إِنَّ اللهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِما- ها فرمایا.ان مومنوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے جو عہد کیا تھا اسے انہوں نے پورا کر دیا.فَمِنْهُمْ مَنْ قَطَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا.ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے اپنے عہد کو پورا کر دیا اور وہ خدا سے مل گئے.نَخب کے معنی نذر اور مَا أَوْجَبَ عَلَى نَفْسِه کے بھی ہوتے ہیں.پس اس سے مراد مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ " کے عہد کو پورا کرنے کے ہیں.لیکن فرماتا ہے.بعض ایسے بھی ہیں جو ابھی اس خلش میں لگے ہوئے ہیں کہ خدا سے مل جائیں.انہوں نے اپنی طرف سے جدو جہد کرنے میں کوئی کمی نہیں کی.سو خدا ایسے صادقوں کو بھی ان کے صدق کا ضرور بدلہ دے گا.اس آیت سے ثابت ہے کہ قرآن نے یہ امر تسلیم کیا ہے کہ محمد صلہ پیہم کی امت میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو قرآن پر چل کر خدا کومل گئے.ملائکہ سے مومنوں کا تعلق پھر ملائکہ چونکہ اخلاق فاضلہ کی محرک ہستیاں ہیں.اس لئے مزید ثبوت کے لئے فرمایا کہ ان کی روحانی درستی کی علامتیں بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں اور روحانی تکمیل کے مؤکل ان سے ملنے لگتے ہیں.چنانچہ فرماتا ہے.إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ إِلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أولِيؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَبِيَ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ - كل یعنی وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر استقامت سے قائم رہتے ہیں
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 110 یعنی اپنے اعمال سے اس کا ثبوت دیتے ہیں.ہم ان پر فرشتے نازل کرتے ہیں جو انہیں کہتے ہیں ڈرو نہیں اور نہ کسی پچھلی غلطی کا غم کرو تمہیں جنت کی بشارت ہو.تم خدا سے جاملو گے اور وہاں تمہیں وہ چیز مل جائے گی جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.ہم اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تمہارے مددگار ہوں گے اور تم اس دنیا میں اور اگلے جہان میں جو کچھ چاہو گے اور جو کچھ مانگو گے وہ تمہیں مل جائے گا.اس میں بتایا کہ تمہاری قلبی اصلاح بھی ہو جائے گی اور عملی بھی.جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کے متعلق فرمایا کہ اعْمَلُوا مَا شِتُتُم ۱ تم جو چاہو کر و.یعنی اب تم بدی کر ہی نہیں سکتے.اسی طرح یہاں بھی یہی مراد ہے کہ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَبقَى انْفُسُكُمْ تمہارے نفس ایسے پاکیزہ ہو گئے ہیں کہ اب جو کچھ تم چاہو گے پاک چیز ہی چاہو گے.یعنی تمہارے دل میں نیک تحریکیں ہی ہونگی بری نہیں ہونگی.اور ہمیشہ پاک چیزیں ہی مانگو گے بری نہیں مانگو گے.اب سوال ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ پچھلے زمانہ پر ہی ختم ہو گیا یا آگے بھی اس کا سلسلہ جاری رہے گا.سواس کا جواب بھی قرآن کریم میں موجود ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأميين رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِم أيتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتب وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِيْنٍ وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.یعنی وہی خدا ہے جس نے ایک ان پڑھ قوم کی طرف اسی میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا جو اُن کو خدا کے احکام سناتا اور ان کو پاک کرتا اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے گو وہ اس سے پہلے بڑی بھاری گمراہی میں مبتلا تھے.اسی طرح ان لوگوں کے سوا اللہ تعالیٰ ایک دوسری قوم میں بھی اس رسول کو بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب اور حکمت والا ہے.یہ آیت بتاتی ہے کہ جو کچھ اس رسول کے زمانہ میں ہوا وہی اس زمانہ میں بھی ہوگا اور یہ سلسلہ جاری رہے گا بند نہ ہو گا.فائدہ کی شدت کے لحاظ سے قرآن کریم کی فضیلت (۴) فضیلت کی ایک اور وجہ فائدہ کی شدت کے لحاظ سے ہوتی ہے یعنی گو فائدہ تو اور چیزوں
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 111 میں بھی ہوتا ہے مگر جس چیز کا فائدہ اپنی شدت میں بہت بڑھا ہوا ہوتا ہے اسے دوسروں پر فضیلت دی جاتی ہے.قرآن کریم کے متعلق جب ہم یہ بات دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کو اس بارے میں بھی فضیلت حاصل ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ 19 یعنی اے مسلمانو ! تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگتے رہو کہ اے اللہ ! ہمیں سیدھا رستہ دکھا اور اس رستہ پر چلا جس پر چل کر پہلے لوگوں نے تیرے انعامات حاصل کئے.گویا جس قدر انعامات تو نے پہلے لوگوں پر کئے ہیں وہ سب کے سب ہم پر بھی کر.اور پہلے لوگوں کے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّدِيقُوْنَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ یعنی وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہداء کا درجہ پانے والے ہیں.اس آیت میں بتایا کہ تمام امتوں میں شہداء اور صدیقوں کا دروازہ کھلا تھا.مگر جہاں رسول کریم مسانی ایم کا ذکر کیا وہاں فرمایا - وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا الى یعنی وہ لوگ جو اللہ اور اس رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں میں شامل ہونگے جن پر خدا تعالی کے انعامات نازل ہوئے یعنی نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالحین میں.گویا پہلے نبیوں کی اطاعت سے تو صرف صدیق اور شہداء بنتے تھے مگر اس نبی کی اطاعت سے نبوت کا درجہ بھی حاصل ہوسکتا ہے.حضرت داؤڈ اور حضرت عیسی نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اتباع سے نبوت ملی ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات پر زور دیا اور بار بار اس کا اعلان کیا کہ مجھے محض رسول کریم سنی لیا ایم کی غلامی میں درجہ نبوت حاصل ہوا ہے.انبیاء اور صد یقین وغیرہ کی معیت کا مفہوم بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ یہاں مَعَ الَّذِينَ آیا ہے جس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ اور اس رسول کی اطاعت سے کوئی نبی بن سکتا ہے بلکہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اسے انبیاء کی معیت حاصل ہوگی.اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اگر نبی بنے کی نفی کی جائے گی تو اس کے ساتھ ہی صدیق ،شہید
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 112 اور صالح بنے کی نفی بھی کرنی پڑے گی.اور یہ ماننا پڑے گا کہ نَعُوذُ باللہ امت محمدیہ میں اب کوئی صدیق، شہید اور صالح بھی نہیں بن سکتا.لیکن اگر صالحیت، شہادت اور صدیقیت کا مقام حاصل ہو سکتا ہے تو پھر نبوت کا انعام بھی حاصل ہو سکتا ہے.لیکن اس پر یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن کریم کا کوئی لفظ حکمت کے بغیر نہیں ہے تو پھر یہاں مع کا لفظ لانے کی کیا ضرورت تھی.جیسا کہ دوسری جگہ مَعَ الَّذِينَ نہیں رکھا بلکہ صرف یہ فرمایا کہ وہ صدیق اور شہید ہونگے.اسی طرح یہاں بھی کہا جاسکتا تھا.اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مع رکھ کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اس رسول کی اطاعت کرنے والے صرف صدیق ہی نہیں ہونگے بلکہ سب اُمتوں کے صدیقوں کی خوبیاں ان میں آجائینگی.صرف شہید ہی نہیں ہونگے بلکہ پہلے سب شہیدوں کی صفات کے جامع ہو نگے.صرف صالح ہی نہیں ہونگے بلکہ پہلے صالحین کی سب خوبیاں اپنے اندر رکھتے ہوں گے اسی طرح جو نبی آئے گا وہ پہلے سب نبیوں کی خوبیوں اور کمالات کا بھی جامع ہوگا.پس مع نے رسول کریم صلی نام کی اطاعت کے نتیجہ کو بڑھا دیا ہے گھٹا یا نہیں.اور بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ سی کا یہ نام کی اطاعت سے جو مرتبہ حاصل ہوتا ہے وہ پہلے لوگوں کے مراتب سے بہت اعلیٰ اور ارفع ہے.ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک کلام (۵) ایک اور وجہ فضیلت یہ ہوتی ہے کہ جو چیز پیش کی جائے اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ ہو.قرآن کریم کی فضیلت اس لحاظ سے بھی ثابت ہوتی ہے.قرآن کریم میں ایک آیت ہے جس کے متعلق لوگ بحث کرتے رہتے ہیں کہ اس کی کیا ضرورت ہے.آج میں یہ بتاتا ہوں کہ وہ اپنے مطالب کے لحاظ سے کیسی ضروری اور اہم ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فيه.۲ صرف یہی ایک کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں باقی سب میں ملاوٹ ہے.تورات سے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کا ایک ایک لفظ خدا کا ہے بلکہ اس میں ایک جگہ تو یہاں تک لکھا ہے خداوند کا بندہ موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق موآب کی سرزمین میں مر گیا.اور اس
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 113 نے اسے موآب کی ایک وادی میں بیت فعود کے مقابل گا ڑا.پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا.‘ے اسی طرح انجیل سے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا لیکن قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام ہے بندے کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے.پس موٹی اور واضح ضرورت اس آیت کی یہی ہے کہ اس میں دنیا کو یہ بتایا گیا ہے کہ باقی کتابوں میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں لیکن صرف یہی ایک کتاب ہے جس میں کوئی ملاوٹ نہیں.ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ تو قرآن کا دعوی ہی دعویٰ ہے جو اُس وقت کیا گیا ہے جب قرآن نازل ہوا.اس امر کا کیا ثبوت ہے کہ بعد میں بھی اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہو سکی.سو اس کے متعلق فرماتا ہے.انا نحنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ کے ہم نے ہی اس قرآن کو اُتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے.گویا آئندہ کے متعلق بھی ہم اس بات کا ذمہ لیتے ہیں کہ کوئی شخص اس میں تغییر و تبدل نہیں کر سکے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اب تک اس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف اسی شکل میں محفوظ ہے جس شکل میں وہ رسول کریم سنایی تم پر نازل ہوا تھا.ربوبیت عالمین کا بلند تصور (۲) فضیلت کی چھٹی وجہ یہ ہوا کرتی ہے کہ کوئی چیز اپنی ہو کیونکہ اپنی چیز ہمیشہ دوسروں کی چیزوں سے پیاری لگتی اور افضل نظر آتی ہے.قرآن کریم کو جب ہم اس نکتہ نگاہ سے دیکھتے ہیں تو وہ بھی اپنی چیز نظر آتا ہے.مثلاً قرآن کریم نے رَبُّ العلمین کا خیال لوگوں میں پیدا کیا اور اس طرح قومی خداؤں کا تصور باطل کیا.بائیبل پڑھ کر دیکھو تو اس میں اس طرح ذکر آتا ہے کہ بنی اسرائیل کا خدا.تیری قوم کا خدا.فلاں قوم کا خدا.ویدوں کو پڑھ کر دیکھو تو برہمنوں کا خدا الگ معلوم ہوتا ہے اور دوسروں کا الگ.مگر قرآن کی ابتداء ہی الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ سے ہوتی ہے.اس طرح دنیا کو یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ساری دنیا کے رب کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہے اور سب کو اپنی طرف بلاتی ہے.غرض اسلام نے سب لوگوں کو جو علیحدہ علیحدہ تھے ماں کی طرح اکٹھا کیا اور کہہ دیا کہ ایک خدا کے پاس آجاؤ.پہلے لوگوں میں شرک پیدا ہونے کی یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 114 الگ الگ خدا سمجھتے تھے.ہندو کہتے تھے کہ ہمارا خدا ایسا ہے، یہود کہتے تھے ہمارا خدا ایسا ہے، پاری کہتے تھے کہ ہمارا خدا ایسا ہے.پھر بعض لوگوں نے کہا کہ چلو سب کے خداؤں کو پو جوتا کہ سب سے فائدہ حاصل ہو.اس طرح شرک پیدا ہو گیا.مگر اسلام نے بتایا کہ مومن اور کا فرسب کا خدا ایک ہی ہے.اور اسلام کسی خاص قوم کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے ہے.چنانچہ فرماتا ہے.يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُبرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ یعنی اسلام کا چراغ ایک ایسے برکت والے تیل سے جلایا جارہا ہے جو نہ مشرقی ہے نہ مغربی.ہر قوم اور ہر زمانہ کے لئے ہے.سب کے لئے اس میں ترقیات کے دروازے کھلے ہیں.اس طرح اسلام نے قومیت کے امتیاز کو مٹا دیا اور بڑائی کا معیار یہ رکھا کہ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتَّقُكُمْ کے اسلام میں بڑائی کا معیار صرف تقویٰ ہے.خواہ کوئی کیسی ہی ادنیٰ قوم کا فرد ہوا گر وہ متقی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز ہے.پس اسلام نے ذات پات کو مٹادیا اور مختلف مذاہب کے نتیجہ میں جو تفرقے پیدا ہوتے تھے، ان کو دور کر دیا.دوستوں کو چاہئے کہ قرآن کریم کو اپنا دستور العمل بنا ئیں میں نے فضیلت قرآن کی ۲۶ وجوہات میں سے اس وقت صرف چھ کا ذکر کیا ہے اور ان کی بھی ایک ایک مثال دی ہے.خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو باقیوں کے متعلق پھر بحث کرونگا.فی الحال اسی پر بس کرتا ہوں.اور دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسی افضل اور بے نظیر کتاب پر عمل کرنے اور اس کے احکام کو حرز جان بنانے کی کوشش کرو.اس وقت میں قرآن کریم کے جن مطالب کو واضح کر سکا ہوں ان کے مقابلہ میں اور کوئی کتاب ایسے مطالب پیش نہیں کر سکتی.دوستوں کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی اس کتاب کی طرف خاص طور پر توجہ کریں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اگر کسی انسان کے پاس بہتر سے بہتر چیز ہو لیکن وہ استعمال نہ کرے تو اسے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.کنواں موجود ہو لیکن ہم پانی نہ پیئیں تو کس طرح پیاس بجھ سکتی ہے.پس یہ اعلیٰ درجہ کی کتاب جو تمہارے پاس موجود ہے یہ اسی صورت میں مفید ہو سکتی ہے جب کہ تم اس سے فائدہ اُٹھاؤ.پس اپنے اندر تغیر پیدا کرو اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو.اور ہر معاملہ میں قرآن کریم کی
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ 115 اقتداء کرو تا کہ قرآنی حسن دنیا پر نمایاں ہو.اور انہیں بھی اس پاک کتاب کے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو کیونکہ اس کے بغیر اور کہیں نور اور ہدایت نہیں.لى النور : ٣٩٥٣٦ کے الشعراء : ۱۹۳ تا ۱۹۵ الزمر : ۲۴ القلم : ۴۵ ه الشعراء: البقرة: ١٠٧ کے استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۷ ۱۸۸ء المزمل : ١٦ یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲، ۱۳ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء ا المائدة : ۴ ال هود: ۱۸ ۱۲ بخاری باب كيف كان بدء الوحى الى رسول الله صلى الله عليه وسلم العلق : ۲ تا ۶ ۱۴ پیدائش بابا آیت ۱، ۲ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء ۱۵ یوحنا باب ۱ آیت ۱، ۲ برٹش اینڈ فارن بائیل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء ۱۱ متی باب ۱۲ آیت ۲۶ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء اض : 19 الواقعة : ٨٠ الزمر : ۴ ٢٠ الانبياء: ۸۸ ۲۱ تفسیر ابن عربی جلد ۲ صفحه ۸۸ مطبوعه بار دوم بیروت ۱۹۷۸ء ۲۲ فتوحات مکیہ ( مؤلفہ حضرت محی الدین ابن عربی ) جلد ۱ صفحه ۱۲۱ مطبوعہ مصر ۲۳ فاطر:۲ ۲۴ الشعراء: ١٩٣ ۲۵ الفرقان: ۶۱ ۲۶ ابراهیم ۵ ۲۷ هود: ۹۲ ۲۸ الزخرف: ٢١ ۲۹ ٣٠
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ ۱۸۸۷ء استثناء باب ۱۸ آیت ۱۹،۱۸ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۳۴ الجمعة : ۲تا۵ ۳۵ الانعام: ۱۰۹ ٣٦ الانعام: ١٠٩ ے سے منتی باب ۱۲ آیت ۴۶ تا ۵۰ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء The Hymns of the Rigveda Vol:1 Book IV LA Hymn XVIII, P.416 Benares, 1920.٣٩ الرحمن: ۱۴ الرحمن: ۲۸،۲۷ ام الملک : ۲، ۳ ۲ الانعام: ۱۰۳ ، ۱۰۴ الشعراء : ۱۹۳ تا ۱۹۷ الفرقان: ۶۱ المؤمن : ۶۵ ۲۵ الزخرف : ۲۱ الفرقان: ۶۲، ۶۳ ۲۹ الواقعه : ۷۹،۷۸ بنی اسرائیل: ۸۶ تا ۹۰ ٠هي المائدة : ١٦ اهي الانعام: ١٠٠ ۵۲ النور: ٣٧ ۵۳ المؤمنون: ۵۲ الـ المائدة : ١٠٢ ۵۵ الشورى: ۳۹ ۵۶ الرعد: ۱۲ ۵۷ المؤمن: ۶۱ ۵۸ متی باب ۵ آیت ۳۲ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء ( مفهوما ) ۵۹ المؤمنون: ۱۱۶ ال القيمة : ۷ تا ۱۱ الحديد: ۱۳ ، ۱۴ ١٠ القيمة : ٢ تا ٤ ۱۲ بنی اسرائیل: ۷۳ العنكبوت: ۷۰،۶۹ 116
فصائل القرآن نمبر ۲۰۰۰ الاحزاب : ۲۶،۲۴ حم السجدة: ٣٣١ ٣٣ الذريت:۵۷ ۲۸، مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۱۰۹ مطبوعہ مصر ۱۳۱۳ھ ١٩ الفاتحة : ٦ ، الحى النساء: ٧٠ ك الحديد : ٢٠ ٢ البقرة: ٣ استثناء باب ۳۴ آیت ۲،۵ برٹش اینڈ فارن بائیل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء الحجر : ١٠ ۷۵ الحجرات: ۱۴ 117
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ نمبر ۳۰ از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ 118
فصائل القرآن نمبر....اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّ اصير ہر خوبی اور ہر وصف میں یکتاکتاب 119 صدقہ و خیرات اور مردو عورت کے تعلقات کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۳۰ء بر موقع جلسه سالانه قادیان) فرمائی.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ عبس کی حسب ذیل آیات کی تلاوت عَبَسَ وَتَوَلَّى أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَكّى أَوْ يَذْكُرُ فَتَنْفَعَهُ الذكرى أمَّا مَنِ اسْتَغْنى فَأَنْتَ لَهُ تَصَدُّى وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّى وَأَمَّا مَنْ جَاءَكَ يَسْعَى وَهُوَ يَخْشَى فَأَنْتَ عَنْهُ تَلَقَى كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةً فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ فِي صُحْفٍ مُكَرَمَةٍ مَّرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَةٍ بِأَيْدِى سَفَرَةٍ كِرَامٍ بَرَرَةٍ اس کے بعد فرمایا: مجھے کھانسی تو پہلے ہی سے تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جلسہ کے پچھلے دو دن کام کی توفیق عطا فرما دی.اس وقت بھی آواز اونچی نہیں نکلی لیکن امید ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جب حلق میں گرمی پیدا ہوگئی تو آواز بلند ہو جائیگی اور سب احباب تک پہنچنی شروع ہو جائیگی.دوست
فصائل القرآن نمبر....گھبرا میں نہیں بلکہ اطمینان سے بیٹھے رہیں.ایک دوست کے چند سوالات کے جوابات 120 پیشتر اس کے کہ میں آج کا مضمون شروع کروں میں ایک دوست کے چند سوالات کے جواب دینا چاہتا ہوں جو میری کل کی تقریر کے متعلق ہیں.یا یوں کہنا چاہئے کہ اس تقریر سے پیدا ہوئے ہیں.سوال تو ایسے ہیں کہ بجائے خود لمبی تقریر چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ جس مضمون کو میں اس موقع پر بیان کرنے کا ارادہ کر کے آیا ہوں اسے نظر انداز کر دوں اور ان سوالات کا اور ان کے علاوہ دوسرے سوالوں کا تفصیلی جواب دینا شروع کر دوں.اگر میں ایسا کروں تو میری مثال اس ہر دلعزیز کی سی ہو جائیگی جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ دریا کے کنارے بیٹھا رہتا تھا اور جولوگ اسے دریا سے پار اُتارنے کیلئے کہتے انہیں پار لے جاتا.ایک دفعہ وہ ایک شخص کو اٹھا کر لے جارہا تھا اور ابھی دریا کے نصف میں ہی پہنچا تھا کہ ایک اور شخص نے اُسے آواز دی کہ مجھے بہت ضروری کام ہے مجھے جلدی لے جاؤ.اس نے پہلے شخص کو اسی جگہ دریا میں کھڑا کیا اور دوسرے کو لینے کے لئے واپس آ گیا.جب اسے لے کر گیا تو ایک تیسرے نے کہا کہ مجھے بہت جلدی جانا ہے مجھے لے چلو.اس پر دوسرے کو بھی پانی میں کھڑا کر کے واپس آگیا اور تیسرے کو لے کر چلا.ان میں سے تیرنا کوئی بھی نہ جانتا تھا.اچانک پانی کا ایک ریلا آیا تو پہلے نے کہا.میاں ہر دلعزیز مجھے بچانا.یہ سن کر اس نے جس شخص کو اُٹھایا ہوا تھا اسے پانی میں کھڑا کر کے پہلے کو بچانے کیلئے لپکا.اس تک ابھی پہنچا نہ تھا کہ تینوں ڈوب گئے.پس یہ طریق اختیار کرنا کہ مقررہ لیکچر سے ہٹ کر ہر قسم کے سوالات کا جواب دینا شروع کر دیا جائے اپنے کام کو نقصان پہنچاتا ہے.گو ممکن ہے اس طرح ہر دلعزیزی تو حاصل ہو جائے لیکن فائدہ کسی کو نہیں پہنچے گا.پس میں اس وقت سوالات کا مفصل جواب نہیں دے سکتا.البتہ مختصر طور پر چنہ باتیں بیان کر دیتا ہوں.
فصائل القرآن نمبر....مسلمان محکوم ہوسکتا ہے یا نہیں؟ 121 سائل کا ایک سوال یہ ہے کہ مسلم کو کسی کا محکوم نہیں ہونا چاہئے.اگر احمدی حقیقی مسلمان ہیں تو معلوم ہوا کہ دنیا میں کوئی مسلمان بھی آزاد نہیں.یہ صورت حالات کیوں ہے؟ اس سوال کے پہلے حصہ کا جواب تو یہ ہے کہ مسلم کے سوا کوئی محکوم ہوتا ہی نہیں.مسلم کے معنی ہی فرمانبردار کے ہیں.پس مسلم محکوم ہوتا ہے مگر اصول کا.مسلم محکوم ہوتا ہے مگر راستی کا.مسلم محکوم ہوتا ہے مگر حق کا.پس جب ہم کسی مسلم کی محکومی کو دیکھیں گے تو یہ معلوم کریں گے کہ اس کی محکومی اسلام کے مطابق ہے یا خلاف.اگر اس کی محکومی خلاف اسلام ہو تو ہم کہیں گے ایسا نہیں ہونا چاہئے لیکن اگر اسلام کے مطابق ہو تو ہم کہیں گے کہ سچا مومن یہی ہے.پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی غیر مسلم حکومت کے ماتحت رہنا اسلام کے اصول کے خلاف ہے تو ماننا پڑے گا کہ انگریزوں کے ماتحت احمدیوں کا رہنا بھی خلاف شریعت ہے لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ غیر مسلم حکومت کے ماتحت رہنا اسلام کے خلاف نہیں تو ماننا پڑے گا کہ احمدیوں کا انگریزی حکومت کے ماتحت رہنا بھی خلاف شریعت نہیں بلکہ ماتحت رہنا اسلام کے عین مطابق ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اس مذہب کا ہی نام نہیں جو رسول کریم سان تھا کہ ہم لائے بلکہ ہر نبی جو مذہب بھی لایا وہ اسلام ہی تھا.چنانچہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق آتا ہے.اِذْ قَالَ لَهُ رَبةَ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ کے یعنی جب الله تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا اسلم مسلمان ہو جاؤ.تو انہوں نے کہا اسلمت لِرَبِّ الْعَلَمِین میں تو رب TO ANALOG کے لئے پہلے ہی اسلام لا چکا ہوں.غرض پہلے تمام انبیاء جو دین لائے وہ بھی اسلام ہی تھا.ان ہی انبیاء میں سے ایک نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے ماتحت اس کی حکومت میں رہے.حالانکہ فرعون کا نام اب گالی کے طور پر استعمال ہوتا ہے.پھر ان ہی انبیاء میں سے ایک حضرت عیسی علیہ السلام تھے جو رومی حکومت کے ماتحت رہے جو مشرک تھی.پس جب ان انبیاء کے اسلام کو غیر مسلموں کے ماتحت رہنے سے کوئی نقصان نہ پہنچتا تھا تو ہم جن کے ماتحت رہتے ہیں وہ تو اہل کتاب ہیں جو ان لوگوں سے اقرب ہیں.رومی کسی شریعت کے پابند نہ تھے اور نہ فرعون کے پاس کوئی شریعت تھی.اب اگر ان کی اور ہماری محکومیت میں کوئی فرق ہے تو یہ کہ ہم کم محکوم ہیں اور وہ زیادہ محکوم تھے.اگر اس محکومیت سے ان کے اسلام میں فرق نہ آیا تو پھر
122 فصائل القرآن نمبر...ہمارے اسلام میں بھی فرق نہیں آسکتا.اسلام میں کہیں یہ حکم نہیں کہ کسی مسلمان کوکسی غیر مسلم حکومت کے ماتحت نہیں رہنا چاہئے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۱۳ سال تک مکہ میں مشرکوں کے قوانین کے ماتحت رہے.باقی رہا یہ کہنا کہ احمدی اگر حقیقی مسلمان ہیں تو گویا ایک مسلمان بھی دنیا میں آزاد نہیں ہے.میں اس کا بھی قائل نہیں ہوں.میرا یہ عقیدہ ہے کہ مومن کسی کا غلام نہیں ہوتا.بھلا اس شخص کو کون غلام کہہ سکتا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ دنیا کی ساری حکومتیں اور بادشاہتیں بھی اسلام کے خلاف کچھ منوائیں گی تو میں نہیں مانوں گا، وہ غلام کس طرح کہلا سکتا ہے.اور جو شخص یہ کہے کہ میں بڑی سے بڑی طاقت کی اسلام کے خلاف بات مان لوں گا وہ احمدی نہیں.پس کوئی احمدی غلام نہیں بلکہ ہر احمدی آزاد ہے.عیسائیوں کو کیوں حکومت ملی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کی حکومتیں چھن گئیں لیکن عیسائی بھی حضرت مسیح کی کتاب کے خلاف عمل کرتے ہیں پھر ان کو کیوں حکومتیں ملی ہوئی ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سزا اُسی کو دی جاتی ہے جو خزانہ کا محافظ ہو کر غفلت اور سستی کرتا ہے.عیسائی روحانی خزانہ کے محافظ نہ تھے.رسول کریم صلی نیا پہ ستم کے آنے کے بعد عیسائی اس خزانہ کی محافظت سے برخاست کر دیئے گئے.اور رسول کریم سنی ہی ہم کو قبول کرنے کی وجہ سے یہ محافظت مسلمانوں کے سپرد ہو چکی تھی.اب وہ غفلت کریں تو ان کو سزا دی جائے گی عیسائیوں کو نہیں.سیح موعود کی بعثت سے مسلمانوں کو کیا طاقت حاصل ہوئی ؟ تیسر اسوال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے بڑے افعال کے نتیجہ میں مسلمانوں سے حکومت اور شوکت چھن گئی تو مسیح موعود نے آکر مسلمانوں کو کیا شوکت دی.ان کے دعویٰ پر چالیس سال کے
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 123 قریب گذر چکے ہیں مگر انہوں نے کوئی حکومت نہ دلائی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حکومت اس لئے نہ ملی کہ حضرت یعقوب علیہ السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام اور کئی اور انبیاء کے زمانہ میں بھی حکومت نہیں ملی تھی.حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد تین سو سال تک ان کے ماننے والوں میں حکومت نہیں آئی.اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شرعی نبی ہوتے ہیں اور ایک غیر شرعی.شرعی نبی نے چونکہ شریعت کے احکام پر جو اسے دیئے جاتے ہیں عمل کرانا ہوتا ہے اس لئے اس کی زندگی میں ہی خدا تعالیٰ حکومت دے دیتا ہے.اور غیر شرعی نبی نے چونکہ کسی ایسے حکم پر عمل نہیں کرانا ہوتا جس پر پہلے عمل نہ ہو چکا ہو اس لئے اس کے زمانہ میں خدا تعالیٰ قلوب کی فتح رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے یہی فتح عطا کی ہے.علی اور خالد کے مثیل چوتھا سوال یہ کیا گیا ہے کہ چالیس پچاس سال کے عرصہ میں احمدیت کیوں ایک بھی علی یا خالد پیدا نہ کر سکی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ احمد یہ جماعت حضرت عیسی علیہ السلام کی جماعت کی مثیل ہے.اور یہ وہی کام کرنے آئی ہے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی امت نے کیا.اس لئے اس میں خالد اور علی کی مثال تلاش نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وہ شرعی نبی کے ماننے والے تھے.شریعت کے مغز کو جاری کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے.اور اس کے لئے نفس کی قربانی کی ضرورت تھی جس میں جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہوگئی ہے.پس ہم سے اگر کوئی مطالبہ ہوسکتا ہے تو یہ کہ چالیس سال میں کتنے پطرس پیدا کئے؟ اس کے جواب میں ہم یقینا کہہ سکتے ہیں کہ پطرس کیا ان سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں پیدا ہوئے.پطرس تو جب پکڑا گیا اس نے صاف کہہ دیا کہ میں مسیح کو جانتا بھی نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک مانے والا جب پکڑا گیا تو اس نے پتھروں کی بوچھاڑ کے نیچے جان دے دی لیکن ایمان ہاتھ سے نہ دیا.پھر ہم تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں سے ایسے
فصائل القرآن نمبر...124 لوگ پیش کر سکتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کی طرح قربانیاں کیں.جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے صداقت نہ چھوڑی اور صلیب پر چڑھنا گوارا کر لیا.اسی طرح ہماری جماعت کے پانچ آدمیوں نے کابل میں صداقت کے لئے اپنی جان قربان کر دی.پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت میں حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں جیسے افراد پیدا نہیں کئے بلکہ ایسے افراد پیدا کئے جنہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام جیسی قربانی کے نظارے دکھائے.احمدیت کا پیغام ابھی تک ساری دنیا میں نہیں پہنچا پانچواں سوال یہ کیا گیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے بعد خلیفہ اول کا زمانہ بھی گذر گیا.اب خلیفہ دوم کا زمانہ ہے مگر ابھی تک ساری دنیا میں مرزا صاحب کا نام نہیں پہنچا لیکن گاندھی جی کا پہنچ گیا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ نام پھیلنے میں حقیقی عظمت نہیں ہوتی.مشہور ہے کہ کسی شخص نے چاہ زمزم میں پیشاب کر دیا.لوگوں نے اسے پکڑ کر خوب مارا.اس نے کہا خواہ کچھ کرو میری جو غرض تھی وہ پوری ہو گئی ہے.اس سے جب پوچھا گیا کہ تمہاری کیا غرض تھی ؟ تو اس نے کہا.مجھے شہرت کی خواہش تھی.یہاں چونکہ ساری دنیا کے لوگ آئے ہوئے تھے اس لئے جب میری اس حرکت کا علم سب کو ہوگا توخواہ مجھے گالیاں دیں لیکن جہاں جہاں بھی جائیں گے اس بات کا ذکر کریں گے اور اس طرح ساری دنیا میں میری شہرت ہو جائے گی.غرض نام اس طرح بھی پھیل جاتا ہے لیکن حقیقی نام وہ ہوتا ہے جو دنیا کی مخالفت کے باوجود پیدا کیا جائے.گاندھی جی نے کھڑے ہو کر کیا کہا ؟ وہی جو ہر ہندوستانی کہتا تھا.قدرتی طور پر ہر ہندوستانی یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کا ملک آزاد ہو.یہی گاندھی جی نے کہا لیکن حضرت مرزا صاحب وہ منوانا چاہتے تھے جسے دنیا چھوڑ چکی تھی اور جس کا نام بھی لینا نہیں چاہتی تھی.گاندھی جی کی مثال تو اس تیراک کی سی ہے جو ادھر ہی تیرتا جائے جدھر دریا کا بہاؤ ہو لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثال اس تیراک کی سی ہے جو دریا کے بہاؤ کے مخالف تیر رہا ہو.اس وجہ سے آپ کا ایک میل تیرنا بھی بہاؤ کی طرف پچاس میل تیرنے والے سے بڑھ کر
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 125 ہے.دنیا الہام کی منکر ہو چکی تھی.حضرت مرزا صاحب اسے یہ مسئلہ منوانا چاہتے تھے.دنیامذہب کو چھوڑ چکی تھی.آپ مذہب کی پابندی کرانے کے لئے آئے.پھر آپ کا اور گاندھی جی کا کیا مقابلہ.ابھی دیکھ لو.میرے مضامین چونکہ عام لوگوں کی خواہشات کے خلاف ہوتے ہیں اس لئے دوسرے اخبارات میں نہیں چھپتے لیکن ابھی میں انگریزوں کے خلاف وہی روش اختیار کر لوں جو دوسرے لوگوں نے اختیار کر رکھی ہے تو تمام اخبارات میں شور مچ جائے کہ خلیفہ صاحب نے یہ بات کہی ہے جو بڑے عقلمند اور محب وطن ہیں لیکن چونکہ ان کے منشاء کے مطابق اور ان کی خواہشات کے ماتحت ہمارے مضامین نہیں ہوتے اس لئے خواہ ان میں کیسی ہی پختہ اور مدلل باتیں ہوں انہیں شائع نہیں کرتے.سوال کرنے والے دوست نے شاید اس پور بی عورت کا قصہ نہیں سنا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب اس کا خاوند مر گیا تو وہ یہ کہہ کر رونے لگی کہ اس کا اتنا قرضہ فلاں فلاں کے ذمہ ہے وہ کون وصول کرے گا.اس کے رشتہ کے مردوں میں سے ایک نے اکثر کر کہا اری ہم ری ہم.اسی طرح وہ وصولیاں گنائی گئی اور وہ کہتا چلا گیا.اری ہم ری ہم لیکن جب اس نے کہا کہ اس نے فلاں کا اتنا قرض دینا ہے وہ کون دے گا.تو کہنے لگا.”ارے میں ہی بولتا جاؤں یا کوئی اور بھی بولے گا.“ اسی طرح گاندھی جی تو وصولیوں کی بات کہہ رہے ہیں اور سارا ہندوستان ان کی آواز پر کہتا جاتا ہے.ہم ری ہم لیکن حضرت مرزا صاحب نے جو کچھ کہا اس پر اپنے پاس سے دینا پڑتا ہے.اس لئے اس آواز پر لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ارے ہم ہی بولیں یا کوئی اور بھی بولے گا.کہا گیا ہے کہ گاندھی جی کے کارنامے دنیا کو ان کی طرف متوجہ کر رہے ہیں اور حکومت ان کے نام سے کانپ رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت گاندھی جی سے نہیں بلکہ ہندوستان سے کانپ رہی ہے.وہ یہ دیکھ رہی ہے کہ ۳۳ کروڑ کی آبادی پر چند لاکھ افراد کی حکومت کس قدر مشکل ہے.انگریز اس بات سے ڈر رہا ہے نہ کہ گاندھی جی سے سفارشات -☑ سوالات کے جواب دینے کے بعد اب ایک تو میں سفارش بچوں کے متعلق کرتا ہوں.جامعہ احمد یہ اور ہائی سکول کے طلباء نے اپنے اپنے رسالوں کے سالنامے نکالے ہیں.چونکہ ملک میں
فصائل القرآن نمبر...126 رسالوں کے سالنامے نکالنے کا مرض پیدا ہو چکا ہے اس لئے بچے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے.انہوں نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں ان کے پرچوں کی خریداری کے متعلق سفارش کروں.جب یہ رسالے جاری کرنے لگے تھے تو میں نے انہیں کہا تھا کہ اگر سکول اور جامعہ ان کو چلائے تو شوق سے نکالو لیکن اگر کہو کہ جماعت میں ان کے متعلق تحریک کی جائے تو یہ خواہش نہ کرنا لیکن اب چونکہ یہ پٹھان والی بات ہو گئی ہے کہ اس کا بچہ اپنے اُستاد پر تلوار سے وار کر نے لگا.تو اس نے کہا کہ اس کا پہلا وار ہے کر لینے دو.اس لئے گو اس سے ہماری ہی جیبوں پر اثر پڑتا ہے لیکن چونکہ یہ ہمارے بچوں کا پہلا وار ہے اس لئے میں یہ سفارش کرتا ہوں کہ ان کے رسالے خریدے جائیں.ایک تو اس لئے کہ یہ لڑ کے پہلے وار کی وجہ سے اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے وار کی قدر کی جائے.دوسرے انہوں نے ایک رنگ میں احسان بھی جتایا ہے.وہ کہتے ہیں.ہم جلسہ کے کاموں میں لگے رہے اور رسالے نہ بیچ سکے.اب تو گویا ایک وجہ بھی ان کے ہاتھ آگئی ہے.دوست ان کے رسالے خرید کر ان کی حوصلہ افزائی کریں.اب میں ان باتوں میں سے دو چار اختصار کے ساتھ بیان کرتا ہوں جو کل بیان کی تھیں.احمدی تاجروں کے ساتھ ہر رنگ میں تعاون کی ضرورت میں نے بیان کیا تھا کہ مومن کے لئے دینی اور دنیوی طور پر ہر قسم کی آگ سے بچنا نہایت ضروری ہے لیکن چونکہ وقت کم تھا میں نے اس آگ سے بچنے کے صرف اصول بیان کر دیئے تھے تفصیل چھوڑ دی تھی.اب میں ان میں سے ایک بات کی طرف جماعت کو خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں.دنیا میں بہت سے کام جو انفرادی طور پر نہیں ہو سکتے باہمی تعاون سے ہو سکتے ہیں.ہم نے دنیا میں جو عظیم الشان کام کرنے ہیں ان کے متعلق جب تک ہم ہر رنگ میں جماعت کی نگرانی نہ کریں وہ صحیح طور پر سر انجام نہیں دیئے جا سکتے.رسول کریم صلی نے یہ تم نے ان قیدیوں کا جو جنگ بدر میں گرفتار ہو کر آئے تھے یہ فدیہ مقرر فرمایا تھا کہ مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم دیں.وہ لوگ کوئی دینی تعلیم نہ دے سکتے تھے بلکہ صرف مروّجہ علوم ہی سکھا سکتے تھے مگر رسول کریم سا ہی تم نے اس کا بھی انتظام فرمایا.اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم بھی ضروری سمجھی.ہمیں بھی دین کے ساتھ
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 127 جماعت کی دنیوی ترقی کا بھی خیال رکھنا چاہئے.ہاں دین کو دنیا پر مقدم کرنا چاہیئے اور جہاں دنیا دین میں روک ثابت ہو وہاں اسے ترک کر دینا چاہئے.دنیوی ترقی کے لئے بہترین چیز تعاون ہے.یورپ کے لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا اور ترقی حاصل کر لی لیکن مسلمان آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے.جب سارا یورپ اکٹھا ہوکر مسلمانوں پر حملہ آور ہوا تو مسلمان اس وقت بھی آپس میں لڑ رہے تھے.اس وقت عیسائیوں سے باطنی حکومت نے یہ سازش کی کہ ہم سلطان صلاح الدین کو قتل کر دیتے ہیں تم باہر سے مسلمانوں پر حملہ کر دو.اس کا جو نتیجہ ہو وہ ظاہر ہے.پس تعاون سے جو نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں وہ کسی اور طرح حاصل نہیں ہو سکتے.اسی طریق سے ہماری جماعت بھی ترقی کر سکتی ہے اور اس کے لئے بہترین صورت تاجروں کے ساتھ تعاون کرنا ہے.بیشک زمیندار بھی مالدار ہو سکتے ہیں لیکن بڑے بڑے مالدار مل کر بھی غیر ملکوں پر قبضہ نہیں کر سکتے.اس کے مقابلہ میں تجارت سے غیر ممالک کی دولت پر بھی قبضہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ تجارت دور دور تک پھیل سکتی ہے اس لئے تاجروں کی امداد نہایت ضروری چیز ہے.اس کے لئے سر دست میری یہ تجویز ہے کہ کوئی ایک چیز لے لی جائے اور اس کے متعلق یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ ہم نے وہ چیز صرف احمدی تاجروں سے ہی خریدنی ہے کسی اور سے نہیں.اس طرح ایک سال میں اس چیز کی تجارت میں ترقی ہو سکتی ہے اور دوسرے تاجروں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے.مثلاً سیالکوٹ کا سپورٹس کا کام ہے.یہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ باہر انگلستان، آسٹریا اور جرمنی وغیرہ میں بھی جاتا ہے.اور یہ ایسی انڈسٹری ہے جس سے دوسرے ملکوں کا روپیہ کھینچا جا سکتا ہے.سیالکوٹ میں چار پانچ احمدیوں کی فرمیں ہیں.اس لئے اس سال کے لئے ہم یہ کام اختیار کر سکتے ہیں کہ تمام وہ احمد کی جو صاحب رسوخ ہوں، سکولوں میں ہیڈ ماسٹر یا ماسٹر ہوں، کھیلوں کی کلبوں سے تعلق رکھتے ہوں ، کھیلوں کے سامان کی تجارت کرتے ہوں یا ایسے لوگوں سے راہ و رسم رکھتے ہوں.وہ یہ مد نظر رکھیں کہ جتنا کھیلوں کا سامان منگوایا جائے وہ سیالکوٹ کی احمدی فرموں سے منگوایا جائے.میں ان فرموں کے مالکوں سے بھی کہوں گا کہ وہ سارے مل کر ایک مال فروخت کرنے والی کمیٹی بنالیں.جس کے صرف وہی حصہ دار ہوں جو یہ کاروبار کرتے ہیں تا کہ سب کو حصہ رسدی منافع مل سکے.اس وقت میں صرف یہ تحریک کرتا ہوں.جب تاجر ایسی
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 128 کمیٹی قائم کرلیں گے، اس وقت اخبار میں میں اعلان کر دوں گا کہ اس کمپنی کے مال کو فروخت کرنے کی کوشش کی جائے.اس طرح ایک دو سال میں پتہ لگ جائے گا کہ کس قدر فائدہ ہو سکتا ہے اور اگر ان لوگوں نے کوئی ترقی کی تو وہ ہماری جماعت ہی کی ترقی ہوگی.تعاون با ہمی کے اصول پر ایک کمپنی قائم کرنے کی تجویز اسی طرح ایک کمپنی تعاون کرنے والی قائم کرنی چاہئے جس میں تاجر، زمیندار اور دوسرے لوگ بھی شامل ہوں.میں نے اس کے لئے کچھ قواعد تجویز کئے تھے جنہیں قانونی لحاظ سے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے پسند کیا تھا.اب ان کو شائع کر دیا جائے گا.یہ اس قسم کی کمپنی ہوگی کہ اس میں شامل ہونے والے ہر ایک ممبر کے لئے ایک رقم مقرر کر دی جائے گی جو ماہوار داخل کراتا رہے.اس طرح جو روپیہ جمع ہوگا اُس سے رہن با قبضہ جائیداد خریدی جائے گی.اعلی پیمانہ پر تجارت کرنا چونکہ احمدی نہیں جانتے اس لئے اس میں روپیہ نہیں لگایا جائے گا بلکہ رہن با قبضہ جائیداد خرید لی جائے گی.جیسا کہ انجمن کے کارکنان کے پراویڈنٹ فنڈ کے متعلق کیا جاتا ہے.اس طرح جو نفع حاصل ہوگا اس کا نصف یا ٹکٹ اس نمبر کے وارثوں کو دیا جائے گا.جو فوت ہو جائے اور اس کی جمع کردہ رقم بھی اس کے وارثوں کا حق ہوگی.میں فی الحال اس سکیم کا مختصر الفاظ میں اعلان کر دینا چاہتا ہوں.پھر مشورہ کر کے مفصل سکیم اخبار میں شائع کر دی جائے گی.دوست اس کے لئے تیاری کر رکھیں.اب میں وہ مضمون شروع کرتا ہوں جسے میں نے اس سال کے لئے منتخب کیا ہے.کے مضمون کی اہمیت میں نے پچھلے سال کے سالانہ جلسہ پر فضائل قرآن کریم کے متعلق ایک مضمون بیان کیا تھا.یہ مضمون جس قدر اہمیت رکھتا ہے اس کا اندازہ احباب اس سے لگا سکتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد ہی اس امر پر ہے کہ قرآن کریم دنیا کی ساری مذہبی اور الہامی کتابوں سے افضل ہے اگر ایسا نہ ہو تو پھر رسول کریم سنی اسلام کی بعثت کی غرض ہی کچھ نہیں ہو سکتی.آپ کی بعثت سے پہلے بھی دنیا میں مذاہب
فصائل القرآن نمبر....129 جود تھے اگر آپ ان سے کوئی افضل چیز نہیں لائے تو پھر آپ کے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی ! لیکن اگر قرآن کریم کی افضلیت ثابت ہو جائے تو پھر دوسرے مذاہب کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی.ان کی وہی مثال ہو جاتی ہے کہ " آب آمد تیم برخاست.اگر یہ ثابت ہو جائے کہ قرآن آب کی حیثیت رکھتا ہے تو واضح ہو جائے گا کہ پہلی کتابیں متروک ہو چکی ہیں اور اب صرف قرآن ہی قابل عمل کتاب ہے.میں نے بتایا تھا کہ اگر ایک ایک چیز کو لے کر ہم فضیلت ثابت کریں تو شبہ رہ سکتا ہے کہ فلاں چیز جس کا ذکر نہیں کیا گیا اس کے لحاظ سے نہ معلوم وہ افضل ہے یا نہیں لیکن اگر اصولی طور پر ہم نہ افضلیت ثابت کر دیں تو ماننا پڑے گا کہ قرآن کریم کلی طور پر تمام کتب الہیہ سے افضل ہے.میں نے گذشتہ سال کے لیکچر میں قرآن کریم کی افضلیت کے متعلق چھپیں وجوہ بیان کی تھیں.مگر ان چھبیس میں سے صرف چھ کی رو سے ہی میں نے قرآن کریم کی افضلیت ثابت کی تھی.اور باقی ہیں میرے ذمہ قرض رہ گئی تھیں بلکہ ان چھ میں سے بھی آخری دو، وقت کی قلت کی وجہ سے نہایت اختصار کے ساتھ بیان ہوئی تھیں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ آج ان دو کو بھی تفصیل کے ساتھ بیان کر دوں.حضرت مسیح موعود کے ایک ارادہ کو پورا کرنے کی کوشش یہ مضمون در اصل اُس عہد کا ایفاء ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں قرآن کریم کی افضلیت کے متعلق تین سو دلائل پیش کرنے کے بارہ میں فرمایا تھا.سے اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ کی چوتھی جلد کے آخر میں ہی لکھ دیا تھا کہ : ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی.پھر بعد اس کے قدرت الہی کی ناگہانی تحلی نے اس احتقر عباد کو موسٹی کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی.یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سے ائی آنا ربُّكَ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی.
فصائل القرآن نمبر...130 سواب اس کتاب کا متولی اور مہتم ظاہر و باطنا حضرت رب العلمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے.اور بیچ تو یہ ہے کہ جس قدر اس نے جلد چہارم تک انوار حقیت اسلام کے ظاہر کئے ہیں یہ بھی اتمام محنت کے لئے کافی ہیں.“ پھر بعد میں آپ نے یہ بھی تحریر فرما دیا کہ : میں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ اثبات حقیت اسلام کے لئے تین سو دلیل براہین احمدیہ میں لکھوں لیکن جب میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ دو قسم کے دلائل (یعنی بچے مذہب کا اپنے عقائد اور تعلیم میں کامل ہونا اور اس کی زندہ برکات اور معجزات ) ہزار ہا نشانوں کے قائم مقام ہیں.پس خدا نے میرے دل کو اس ارادہ سے پھیر دیا اور مذکورہ بالا دلائل کے لکھنے کے لئے مجھے شرح صدر عنایت کیا ۵ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے قرآن کریم کی افضلیت کے وہ دلائل جن کا براہین احمدیہ میں وعدہ کیا تھا اپنی دوسری کتابوں میں بیان فرما دیئے.مگر ہر ایک نظر ان تک نہیں پہنچ سکتی اس لئے میں نے انہیں ایک ترتیب سے بیان کرنا ضروری سمجھا.پچاس وجو و فضیلت لیکن جب میں اس قرضہ کی ادائیگی کا سامان کرنے کے لئے بیٹھا تو میں نے دیکھا کہ قرضہ اور بڑھ گیا ہے.کیونکہ میں نوٹ کرنے لگا تو ۲۶ کی بجائے ۵۰ فضیلت کی وجوہات مجھے معلوم ہوئیں اور اس طرح ۲۰ کی بجائے ۲۴ میرے ذمہ نکلیں.اس پر مجھے خیال آیا کہ جب گذشتہ سال لمبا وقت صرف کر کے بمشکل چھ وجوہات پیش کی جاسکی تھیں تو اس سال ۴۴ کس طرح بیان کی جا سکیں گی.اس کے ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ بعض لوگوں کی طبیعت چونکہ وہمی ہوتی ہے اس لئے وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اصولی طور پر فضیلت کے گر بیان کر کے جو قرآن کریم کی فضیلت ثابت کی گئی ہے اور تفصیل بیان نہیں کی گئی تو اس میں ضرور کوئی بات ہوگی.اور یہ قرآن کریم کی افضلیت کو پوری طرح ثابت نہیں کر سکتے ہوں گے.اس وجہ سے مجھے خیال آیا کہ جو تفصیل بیان نہیں ہو سکی تھی اس کو
فصائل القرآن نمبر...131 بھی لے لوں.اس طرح میرا کام اور بھی وسیع ہو گیا جسے اس سال تو میں یقینی طور پر ختم نہیں کر سکتا.اور اگلے سال کے متعلق میں نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ میرے دل میں کیا ڈالے.اس لئے جتنا ہو سکے گا اتنا بیان کر دوں گا.قرآن کریم اپنی ہر بات میں افضل ہے میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم کو جو افضلیت حاصل ہے وہ انہی باتوں میں نہیں جو اس میں دوسری الہامی کتابوں سے زائد ہیں بلکہ جو باتیں پہلی کتابوں میں موجود ہیں ان کے لحاظ سے بھی قرآن کریم ان سے افضل ہے.میں غور کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر پہلی کتابوں میں کپڑے بدلنے کا کوئی طریق بتایا گیا ہے تو قرآن کریم نے اس سے بہتر اور عمدہ طریق پیش کیا ہے.اگر ان میں کھانا کھانے کے متعلق حکم دیا گیا ہے تو اس کا بھی قرآن کریم نے ان سے اچھا طریق پیش کیا ہے.گویا کوئی معمولی سے معمولی بات بھی قرآن کریم نے ایسی نہیں بتائی جس میں اس کے برابر کوئی اور کتاب ہو.اور خواہ کوئی موٹی سے موٹی بات لے لی جائے اس میں بھی قرآن کریم دوسری کتابوں سے افضل ثابت ہوگا.بلکہ بغیر سوچنے اور غور کرنے کے جو پہلی بات سامنے آئے اگر اسی کو لے لیا جائے تو میں اس کے متعلق بھی بتا دوں گا کہ کس طرح معمولی سے معمولی بات کے متعلق بھی پہلی کتابوں میں تعلیم موجود ہونے کے باوجود قرآن کریم نے ان سے اعلی تعلیم پیش کی ہے.پس ان لوگوں کا شبہ دور کرنے کے لئے جنہیں یہ خیال ہو کہ شاید تفصیل کی رو سے قرآن کریم کی فضیلت ثابت نہ ہو سکتی ہو.میں دو مثالیں لے لیتا ہوں اور بتا تا ہوں کہ قرآن کریم نے کس طرح انہیں نئے اور علمی رنگ میں پیش کیا ہے.صدقہ و خیرات کے بارہ میں اسلامی تعلیم کی جامعیت پہلی مثال میں میں صدقہ و خیرات کی تعلیم کو پیش کرتا ہوں.یہ کوئی روحانی مسئلہ نہیں بلکہ ایک فطری امر ہے.ایک دوسرے سے ہمدردی کا جذ بہ حیوانوں تک میں موجود ہے.ایک حیوان دوسرے حیوانوں سے ہمدردی کرتا ہے.ایک پرندہ دوسرے پرندہ سے ہمدردی کرتا ہے.اگر ایک
فصائل القرآن نمبر....132 کو امار و تو میں کوے کائیں کائیں کر کے جمع ہو جاتے ہیں.وہ ایک کوے کے مرنے پر غم بھی کریں گے.اور اگر کسی نے مرا ہوا کو اُٹھایا ہوا ہو تو اس پر حملہ بھی کریں گے تا کہ اُسے چھڑا لیں.غرض ہمدردی اور ایک دوسرے سے احسان کا مادہ حیوانوں اور پرندوں میں بھی پایا جاتا ہے.ان کے پاس روپیہ پیسہ نہیں ہوتا بلکہ چونچ اور زبان ہوتی ہے اس لئے وہ اسی سے اس جذبہ کا اظہار کرتے ہیں.انسانوں کے پاس مال و دولت اور دوسری اشیاء ہوتی ہیں وہ ان کے ذریعہ دوسروں کی امداد کرتے ہیں.بہر حال صدقہ اور خیرات کا مسئلہ اتنا موٹا اور اتنا عام ہے کہ کسی مذہب میں اس کے متعلق نامکمل اور ناقص تعلیم نہیں ہونی چاہئے.بلکہ ہر مذہب میں مکمل تعلیم ہونی چاہئے تھی.کیونکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر آدم سے لیکر اس وقت تک لوگ عمل کرتے چلے آرہے ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اگر اس کے متعلق اسلامی تعلیم افضل ثابت ہو تو باقی مسائل کی تفصیلات میں اس کی تعلیم افضل ثابت نہیں ہوسکتی.صدقہ کے متعلق انجیل کی تعلیم صدقہ کے متعلق جب ہم مختلف مذاہب کی تعلیم کو دیکھتے ہیں تو عجیب و غریب باتیں نظر آتی ہیں.انجیل میں آتا ہے:- یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دولت مند کا آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہے.اور پھر تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو.گویا انجیل کی رُو سے جب تک کوئی شخص اپنا سب کا سب مال خدا تعالی کی راہ میں نہ دے دے اس وقت تک اس کا دیا ہوا مال خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہو سکتا.اسی طرح آتا اگر تو کامل ہونا چاہتا ہے تو جا اپنا مال و اسباب بیچ کر غریبوں کو دے دے تجھے آسمان پرخزانہ ملے گا.‘ کے پھر صدقہ کے متعلق حضرت مسیح فرماتے ہیں.
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ "جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے تا کہ تیری خیرات پوشیدہ رہے.اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا.133 ان حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انجیل نے صدقہ و خیرات کے متعلق یہ بتایا ہے کہ اوّل جو کچھ تمہارے پاس ہو سارے کا سارا دے دو.دوم جب خیرات دو تو ایسی پوشیدگی سے دو کہ تمہارے اپنے ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو.یعنی قریب ترین رشتہ داروں یا ماتحتوں یا افسروں کو بھی پتہ نہ لگے.سیہ دونوں تعلیمیں بظاہر بڑی خوبصورت نظر آتی ہیں کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سارے کا سارا خدا کی راہ میں دے دو.گو یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اگر ہر ایک کے پاس جو کچھ ہو وہ دے دے گا تو پھر لے گا کون.یہ تو ویسی ہی بات ہوگی جیسے ملانوں نے ایک رسم اسقاط بنائی ہوئی ہے.چند آدمی حلقہ باندھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان میں سے ایک شخص ہاتھ میں قرآن لے کر دوسرے کو دیتا ہوا کہتا ہے.یہ میں نے تجھے بخشا اور وہ لے کر اگلے کو یہی الفاظ کہتا ہے.اس طرح پھرتا پھراتا وہ قرآن پھر پہلے ہی کے پاس آجاتا ہے.پس انجیل کی اس تعلیم کی اگر تفصیل میں جائیں اور یہ فرض کر لیں کہ ساری دنیا اس پر عمل کرنے لگ جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ زید کا مال زید ہی کے پاس لوٹ کر آجائے گا.پس یہ تعلیم مکمل کے قابل ہی نہیں ہے.عمل کے قابل تعلیم وہی ہوسکتی ہے جس پر ہر حالت میں عمل کیا جا سکے.اسی طرح یہ جو حکم ہے کہ :- ” جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے.یہ حکم بھی بظاہر بہت اچھا معلوم ہوتا ہے مگر عملی طور پر اس سے بھی فائدہ کی بجائے نقصان کا زیادہ احتمال ہے.مثلاً ایک باپ اور بیٹا کہیں جارہے ہیں.انہیں ایک ایسا محتاج مل گیا جو بھوک کے مارے بیتاب ہو رہا ہے.اسے دیکھ کر باپ اسے کچھ دینا چاہتا ہے لیکن بیٹے کے ساتھ ہونے کی وجہ سے دے نہیں سکتا.کیونکہ انجیل کی تعلیم یہ ہے کہ جو تیرا داہنا ہاتھ خیرات کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے.اب وہ کیا کرے.وہ بیٹے کو علیحدہ کرنے کے لئے ادھر اُدھر بھیجتا ہے تاکہ اس کی عدم موجودگی میں محتاج کو کچھ دے سکے مگر بیٹا سمجھتا ہے یہ اپنا بخل چھپانے کے لئے مجھے علیحدہ کرنا چاہتا ہے.اور وہ اس سے الگ نہیں ہوتا اور محتاج انسان بغیر امداد کے رہ جاتا ہے.علاوہ ازیں اس کا
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 134 ایک یہ بھی نتیجہ ہوگا کہ نیکی مفقود ہو جائے گی.لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر نقل کرتے ہیں اور خاص طور پر بیٹا اپنے باپ سے بہت کچھ سیکھتا ہے.ایسی حالت میں کئی بیٹے ایسے ہونگے جو کہیں گے کہ ہمارا باپ بڑا سنگ دل اور بے رحم ہے.اور بہت سے بیٹے باپ کی اس حرکت کو دیکھ کر خود بخیل ہو جائیں گے.کئی ایسے ہو نگے جو کہیں گے کہ ہمارے باپ نے اچھا کیا ہم بھی کسی کو کچھ نہیں دیں گے.خواہ کوئی ہمارے سامنے بھو کا مرجائے.غرض یہ ایسی تعلیم ہے کہ اگر اس کی تشریح کی جائے تو دنیا کے لئے سخت خطرناک اور نقصان رساں ثابت ہوسکتی ہے.صدقہ کے متعلق تو رات کی تعلیم اب تو رات کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تورات نے یہ تو نہیں کہا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سارے کا سارا دے دو بلکہ صدقہ کے متعلق یہ تعلیم دی ہے کہ مصیبت زدہ کو دیکھ کر اس کی تکلیف کو دور کرنا چاہئے.گویا تو رات صدقہ کی علت غائی یہ بتاتی ہے کہ مصیبت زدوں کی امداد کی جائے.پھر تورات صدقہ کی دو قسمیں قرار دیتی ہے ایک واجبی اور دوسری نفلی.یہ انجیل سے یقینا اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے اور دونوں قسم کے صدقے ضروری ہیں.بیشک رحم کے ماتحت صدقہ دینا بھی ضروری ہے لیکن اگر رحم کے ماتحت ہی صدقہ دیا جائے تو اس کا برا نتیجہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ کبر اور نخوت پیدا ہو جاتی ہے.جب انسان یہ سمجھے کہ میں بڑا اور فلاں چھوٹا ہے اور میں چھوٹے کی امداد کرتا ہوں تو اس طرح رکبر پیدا ہوتا ہے کیونکہ انسان خیال کرتا ہے کہ فلاں میرا محتاج ہے حالانکہ دنیا کا ہر انسان دوسرے کا محتاج ہے.دنیوی لحاظ سے سب سے بڑی ہستی بادشاہ کی بجھتی جاتی ہے لیکن بادشاہ بھی ماتحتوں کے ذریعہ ہی بادشاہ بنتے ہیں اور وہ ماتحتوں کے محتاج ہوتے ہیں اور یہ خیال کہ میں بڑا ہوں اور مجھے کسی کی احتیاج نہیں دوسرے لوگ میرے محتاج ہیں، اس کی روحانی زندگی کو کچل دینے اور اللہ تعالیٰ سے دُور کر دینے والا خیال ہے.اس کی بجائے ہمارے اندر یہ خیال پیدا ہونا چاہئے کہ ہم نے اگر کسی کی مدد کی تو اس کی مدد نہیں کی بلکہ اپنی مدد کی ہے.اور یہ خیال اسی طرح پیدا ہو سکتا ہے کہ جسے کچھ دیا جائے اس کے متعلق سمجھا جائے کہ یہ اس کا حق تھا.یا جو کچھ دیا گیا ہے اپنے فائدہ کے لئے دیا گیا ہے.دیکھو ماں اپنے بچہ کو دودھ پلاتی ہے تو اس پر رحم کر کے نہیں پلاتی بلکہ فطرتی جذ بہ
فصائل القرآن نمبر....135 کے ماتحت پلاتی ہے.ہاں اگر کسی دوسرے بچہ کو پلاتی ہے تو رحم سے پلاتی ہے.کئی ایسی مائیں ہونگی جنہیں اگر یہ کہا جائے کہ تم نے اپنے بچہ کو چھ ماہ تک دودھ پلا لیا.یہ اس پر کافی رحم ہو گیا اب دودھ پلا نا چھوڑ دو تو وہ لڑنے لگ جائیں گی.کیونکہ ماں بچہ کو فطرتی محبت سے دودھ پلاتی ہے، رحم کے طور پر نہیں پلاتی.صدقہ سے متعلق ویدوں کی تعلیم اب ہم ویدوں کو لیتے ہیں وہ لوگ جنہوں نے وید نہیں پڑھے وہ تو سمجھتے ہونگے کہ اتنی بڑی بڑی ضخیم جلدیں ہیں نہ معلوم ان میں کیا کیا احکام ہو نگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں احکام بہت کم ہیں.تا ہم صدقہ و خیرات کی تعلیم کا ضرور ذکر ہے.وید کہتے ہیں.جب برہمن کوئی گائے مانگے تو اسے دے دینی چاہئے.جو نہ دے وہ گنہگار ہوگا اور جو دینے سے روکے وہ بھی گنہگار ہوگا.گویا (۱) ایک طرف تو مانگنا سکھایا (۲) اور پھر ایک خاص قوم کو صدقہ دلایا.(۳) اور پھر کسی میں طاقت ہو یا نہ ہوا سے برہمن کو گائے دینے پر مجبور کیا خواہ اس کے بال بچے بھوکے مر جائیں.یہ وید میں صدقہ کی تعلیم ہے.چونکہ ہندوؤں میں برہمنوں کا زور تھا اس لئے سارا صدقہ یہی قرار دیا کہ برہمن کو دیا جائے.چاہے کوئی کتنا غریب آدمی ہو، اس کی بیوی کا دودھ سوکھ گیا ہو اور اس کے بچے کی پرورش اس گائے کے دودھ پر ہورہی ہو جو اس کے گھر میں ہو پھر بھی اسے حکم ہے کہ جب برہمن گائے مانگے تو فورا دے دے.اگر نہ دے گا تو سخت گنہ گار ہوگا اور اس کا سب کچھ تباہ ہوجائے گا.شا ان ساری تعلیموں کو دیکھو.ان میں صدقہ جیسی عام اور موٹی تعلیم میں بھی مکمل طور پر راہنمائی نہیں کی گئی اور جو لوگ کسی مذہب پر نہیں چلتے ان کے لئے ان کی اپنی مرضی را ہنما ہوتی ہے.کسی کو جی چاہا تو دے دیا نہ چاہا تو نہ دیا.گویا انسان نے اپنے تجربہ سے صدقہ و خیرات کے متعلق تو کوئی قانون نہیں بنایا.بعض مذہبوں نے قانون بنایا مگر ناقص بنایا ہے.ہم یہ نہیں کہتے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت مسیح علیہ السلام یا ہندوستان کے رشیوں نے ایسی نامکمل اور ناقص تعلیم دی تھی بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ان مذاہب کی موجودہ تعلیم ناقص ہے.اگر ان مذاہب کے بانیوں نے یہی تعلیم دی تو یہ ناقص ہے.اور اگر ان مذاہب کے پیروؤں نے بنائی تو ان کی مذہبی اور الہامی کتابیں ناقص
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 136 اخلاقی معلمین کا قول کہ نیکی کو نیکی کی خاطر کرنا چاہئے صدقہ و خیرات کے متعلق جن لوگوں نے خود تعلیم بنائی ہے اور جو اخلاقی معلمین کہلاتے ہیں انہوں نے یہ اصل بتایا ہے کہ نیکی کو نیکی کی خاطر کرنا چاہئے.سوائے اس کے اور کوئی بات صدقہ کے متعلق انہیں نہیں ملی.ہم ان کی اس بات کو پیش نظر رکھیں گے اور پھر دیکھیں گے کہ اسلام نے اس سے بہتر تعلیم دی ہے یا نہیں.فی الحال ہم اس کے متعلق اتنامان لیتے ہیں کہ یہ اچھی بات ہے.مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ تعلیم ہر جگہ چل سکتی ہے اور ہر انسان اس پر عمل کر سکتا ہے.اب اگر یہ کہیں کہ صدقہ تبھی دو جب صدقے کی خاطر دے سکو تو جو لوگ اس طرح نہیں دے سکتے وہ نہیں دیں گے.اور اس وجہ سے غریب صدقہ نہ ملنے پر بھوکے مریں گے کیونکہ جو اس طرح صدقہ نہیں دے سکتے وہ نہیں دیں گے وہ کہیں گے جب ہم صدقہ ، صدقہ کی خاطر نہیں دے سکتے تو پھر اپنا مال کیوں ضائع کریں اور جب وہ اس وجہ سے نہیں دیں گے تو غریب لوگ نقصان اُٹھا ئیں گے.صدقہ کے مختلف پہلوؤں پر اسلام کی روشنی اب میں یہ بتا تا ہوں کہ اسلام نے کس طرح صدقہ و خیرات کو ایک علمی مضمون بنادیا ہے.صدقہ کی مقدار پہلی چیز صدقہ کی مقدار ہے کہ کس قدر دینا چاہئے.انجیل نے اس کے متعلق کہا ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سب کا سب دے دو.وید کہتا ہے برہمن جو کچھ مانگے وہ اسے بلا چوں و چرا دے دو.مگر اسلام نے اس کی حد مقرر کر دی ہے.اسلام کہتا ہے.لَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلى عُنُقِكَ وَلا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا لا یعنی اے انسان ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ نہ تو اپنے ہاتھ کوکو بالکل باندھ کر رکھ کہ کچھ دے ہی نہیں.( مغلولہ ہاتھ پیچھے کی طرف کھینچ کر
فصائل القرآن نمبر...137 گلے سے لگا لینے کو کہتے ہیں) اور نہ مٹھی کو اس طرح کھول کر رکھ دے کہ جس کی مرضی ہو لے جائے.گویا نہ تو ایسا ہو جیسا کہ انجیل میں کہا گیا ہے کہ سب کچھ دے دو اور نہ اس پر عمل ہو جو یورپ کے فلاسفروں کی تعلیم ہے کہ صدقہ دینے سے لوگوں میں سُستی پیدا ہوتی ہے اس لئے صدقہ دینا ہی نہیں چاہئے.گویا پادری تو یہ کہتا ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سب کچھ دے دو گو آپ کچھ بھی نہیں دیتا.اور فلاسفر کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں دینا چاہئے.بہر حال یہ دونوں قسم کی تعلیمیں موجود ہیں.قرآن ان دونوں کو دیکھتا ہے اور پھر کہتا ہے لا تجعل يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطهَا كُلَّ الْبَسْطِ نہ تو ہاتھ کو سمیٹ کر گلے سے باندھ رکھو.یہ کہتے ہوئے کہ صدقہ دینے سے لوگوں کی عادتیں خراب ہوتی ہیں.ان میں سستی پیدا ہوتی ہے ، وہ محنت و مشقت کرنے سے جی چراتے ہیں اور نہ سب کچھ دیدو.اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کے دو نتائج ہوں گے.فتقعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُورا.قرآن کریم کا یہ کمال ہے کہ جو بات کہتا ہے ساتھ اس کے دلیل بھی دیتا ہے.فرمایا.اگر تُو صدقہ نہ دے گا اور کہے گا کہ فلاسفر کہتے ہیں صدقہ نہیں دینا چاہئے یہ لوگوں کے لئے نقصان رساں ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا تیرا دل اور تیرے بڑے چھوٹے سب مجھے ملامت کریں گے اور کہیں گے کہ تو نے برا کیا.بھوکے کو کچھ نہ دیا، محتاج کی مددنہ کی ، حاجتمند کی امداد نہ کی.اس کے بعد دوسری بات یہ بتائی کہ پھر یہ بھی نہیں ہونا چاہئے کہ سب کچھ دے دو حالانکہ انجیل نے کہا تھا کہ سب کچھ دے دینا چاہئے ، اس سے اختلاف کیوں کیا.اس کی دلیل یہ دی فَتَقعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُورًا حَسَرَ الشَّيءَ کے معنی ہوتے ہیں كَشَفَه " اس نے کھول دیا.اور حسر الْغُصن کے معنی ہیں قشری سے ٹہنی کے اوپر کا چھلکا اُتار دیا.گویا درخت کی چھال اُتار دینے کو حشر کہتے ہیں.اسی طرح حسّر الْبَعِید کے معنی ہیں سَاقَة حَتَّی اغیاد کے اونٹ کو ایسا چلایا کہ وہ تھک کر چلنے کے قابل نہ رہا.جس طرح درخت کی اُوپر کی موٹی چھال اُتار دینے سے درخت سوکھ جاتا ہے اُسی طرح جانور کو اتنا چلایا جائے کہ اس میں چلنے کی طاقت نہ رہے تو وہ بھی نہیں چلے گا.پس فرمایا خواہ تم کتنا ہی دو دنیا میں محتاج پھر بھی رہیں گے.اگر آج تم سارے کا سارا دے کر تھکے ہوئے اُونٹ کی طرح بن جاؤ گے یا چھال اُترے ہوئے درخت کی طرح ہو جاؤ گے تو کل
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 138 کیا کرو گے.جس طرح روزانہ کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی اعمال کا حال ہے.پس جو شخص روزانہ نیکی اور تقویٰ میں حصہ لینا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے پاس بھی مال رکھے تاکہ بڑھے اور وہ پھر اس میں سے محتاجوں کو دے.پھر بڑھے اور پھر دے.یورپ میں ایسے ایسے تاجر موجود ہیں جو ایک کروڑ روپیہ تجارت میں لگا کر کئی کروڑ نفع کماتے ہیں.اور پھر بڑی بڑی رقمیں خیرات میں دیتے ہیں.اگر وہ اپنا سارے کا سارا مال ایک ہی دفعہ دے دیتے اور سرمایہ تک بھی پاس نہ رکھتے تو پھر نفع کس طرح کماتے اور کس طرح بار بار بڑی بڑی رقمیں خیراتی کاموں میں دیتے.پس فرمایا کہ اتنا بھی نہ دو کہ آئندہ سرمایہ پاس نہ رہے اور دوبارہ سرسبز ہونے کے سامان نہ رہیں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے انگریزوں میں مثل مشہور ہے کہ کسی نے سونے کا انڈا حاصل کرنے کے لئے مرغی مار ڈالی تھی.کہا جاتا ہے کہ کسی کی مرغی روزانہ ایک سونے کا انڈہ دیتی تھی.اس نے خیال کیا کہ اگر میں اسے زیادہ کھلاؤں تو ہر روز دو انڈے دے دیا کرے گی.اس طرح زیادہ کھلانے کی وجہ سے وہ مرغی مرگئی.پس اگر انسان اس تعلیم پر عمل کرے کہ اپنا سب کچھ ایک ہی دفعہ دے دے تو وہ آئندہ کے لئے محروم ہو جائے گا اور اپنی قابلیتوں سے کام نہ لے سکے گا.پھر حَسَر کے معنی ننگے ہو جانے کے بھی ہیں.۱۵ اس لئے مخسُورا کے معنی یہ بھی ہوئے کہ وہ نگا ہو جائے گا.اور جو نگا ہو وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو جاتا ہے اور گھر میں بند ہو کر بیٹھ رہنے پر مجبور ہوتا ہے.پس فرمایا اگرتم اپنا سارا مال دے دو گے تو پھر تمہیں گھر میں بے کار ہو کر بیٹھنا پڑے گا اور تم کسی کام کے قابل نہ رہو گے.یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب دنیا میں لوگ ہمیں محتاج نظر آتے ہیں تو پھر کیا.کریں.کس طرح کچھ حصہ دے کر باقی مال اپنے پاس رکھ لیں؟ اس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے إنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا جب کسی کے پاس دولت آتی ہے تو ہمارے مقررہ قانون کے ماتحت آتی ہے.ہم اسی کو دولت دیتے ہیں جس میں دولت کمانے کی قابلیت ہوتی ہے.اگر ایسی قابلیت رکھنے والوں کو ناقابل کر دیا جائے تو دنیا میں تباہی آجائے.
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 139 جو لوگ بڑھتے اور ترقی کرتے ہیں ان میں بڑھنے کی خاص قابلیت ہوتی ہے.اگر ان سے سارے کا سارا مال لے کر غریبوں اور محتاجوں میں بانٹ دیا جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ کمانے کی قابلیت رکھنے والے بھی روپیہ نہ کما سکیں گے اور ملک تباہ ہو جائے گا.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم جسے دولت دیتے ہیں اس قانون کے ماتحت دیتے ہیں کہ اس میں ترقی کرنے کی قابلیت ہوتی ہے.اور اسی لئے دیتے ہیں کہ وہ ترقی کرے.چونکہ ایسے لوگوں کا سارے کا سارا مال دے دینا قوم کی تباہی کا موجب ہوسکتا ہے اس لئے ہم اس کی اجازت نہیں دیتے.وہ لوگ قابلیت رکھتے ہیں انڈسٹری کی.وہ قابلیت رکھتے ہیں تجارت کی.وہ قابلیت رکھتے ہیں صنعت و حرفت کی.اگر ان کا سارے کا سارا مال فقیروں میں بانٹ دیا جائے تو پھر وہ ترقی نہ کر سکیں گے.غرباء اور مساکین کے پاس تو جو کچھ جائے گا وہ اسے کھا جائیں گے لیکن ایک تاجر کے پاس مال رہتا ہے تو وہ اس سے اور کماتا ہے.اور نفع میں سے اپنے او پر بھی خرچ کرتا ہے اور غریبوں کو بھی دیتا ہے.رہی یہ بات کہ پھر بھی ایسے لوگ رہ جاتے ہیں جن کو دیکھ کر رحم آتا ہے تو اس کے متعلق فرمایا إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا هم اپنے بندوں کی حالت کو خوب جانتے ہیں اسی لئے ہم نے ایسا انتظام کیا ہے.تم ہم سے زیادہ بندوں پر رحم نہیں کر سکتے.ہم اپنے بندوں کی حالت تم سے زیادہ جانتے ہیں اور ان کی حالت کے مطابق ہم نے قانون بنا دیئے ہیں.اسی طرح ہاتھ گردن سے باندھنے کا محاورہ بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ اگر بالکل کچھ نہ دیا جائے تو بھی قوم تباہ ہو جاتی ہے.یعنی اس طرح بھی قوت عملیہ ماری جاتی ہے کیونکہ ایسے محتاج بھی ہو سکتے ہیں جو کام کرنے کی قابلیت بھی رکھتے ہوں ان کو ضرور دینا چاہئے.پھر جب تک غرباء کو اُٹھایا نہ جائے امراء بھی کمزور ہو جاتے ہیں.گویا غرباء کے نہ اُبھارنے کی وجہ سے امراء بھی گر جاتے ہیں.اور امراء کو مار دینے سے غرباء لاوارث ہو جاتے ہیں.پس امراء کا رہنا بھی ضروری ہے گو اُن پر غرباء کی مدد کرنا بھی فرض ہے.اب دیکھو اسلام نے کس طرح خرچ کی مقدار بھی بتادی اور اس کی دلیل بھی دے دی.
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ اسراف اور بخل سے بچنے کی نصیحت 140 دوسری جگہ فرماتا ہے وَالَّذِينَ إِذَا انْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذلِكَ قَوَاماً اس میں بتایا کہ ہمارے بندوں کی درمیانی حالت ہوتی ہے.جنہیں ہم مال و دولت دیں اُن کا فرض ہے کہ وہ نہ تو اپنی ذات پر ساری کی ساری دولت خرچ کردیں اور نہ ساری دولت لوگوں کو دے دیں بلکہ ان کی درمیانی حالت ہو وہ کچھ لوگوں پر خرچ کریں اور کچھ اپنے اوپر.اس میں اسلام نے کچھ اپنے او پر خرچ کرنے کی اجازت دی ہے بلکہ بعض دفعہ اپنی ذات پر خرچ نہ کرنا خدا تعالیٰ کے نزدیک گناہ ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بعض لوگ اعتراض کیا کرتے تھے کہ آپ بادام روغن، مشک اور عنبر وغیرہ استعمال کرتے ہیں.آپ ان کے جواب میں سید عبد القادر جیلانی کے متعلق بیان فرمایا کرتے تھے کہ وہ ایک ایک ہزار دینار کے کپڑے پہنتے.گویا ۱۶ ہزار روپیہ کا ان کا صرف ایک سوٹ ہوتا تھا.اس کے متعلق کسی نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا میری تو یہ حالت ہے کہ میں کبھی کھانا نہیں کھا تا جب تک خدا تعالیٰ مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم تو کھانا کھا اور میں کوئی کپڑا نہیں پہنتا جب تک خدا تعالیٰ مجھے یہ نہیں کہتا کہ اے عبد القادر ! تجھے میری ذات ہی کی قسم تو فلاں کپڑا پہن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دماغی کام کرتے تھے اور دماغی کام کرنے والے کے لئے جتنی مقویات کی ضرورت ہوتی ہے اتنی کسی اور کے لئے نہیں ہو سکتی.ایسا انسان اگر اپنے او پر خرچ نہ کرے گا تو وہ گنہگار ہوگا.ایک دفعہ رسول کریم مسی یا یہ ان جہاد کے لئے گئے.رمضان کا مہینہ تھا.کچھ لوگوں نے روزے رکھے ہوئے تھے اور کچھ نے نہ رکھے تھے جنہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا وہ تو منزل پر پہنچ کر لیٹ گئے لیکن جو روزہ سے نہ تھے وہ خیمے لگانے اور دوسرے کام کرنے لگ گئے.یہ دیکھ کر رسول کریم سلیم نے فرمایا آج روزہ نہ رکھنے والے روزہ رکھنے والوں سے بڑھ گئے.پس اسلام کہتا ہے جہاں کھانا مفید ہے اور اس سے خدمت دین میں مدد ملتی ہے وہاں اگر کوئی عمدہ کھانا نہ کھائے گا تو گنہ گار ہوگا.دیکھو رسول کریم مالی یا یہ ہم جب رات کو سوتے تو مختلف محلوں کے لوگوں نے باریاں تقسیم کی ہوئی تھیں، وہ باری باری رات کو آپ کے مکان کا پہرہ دیتے.اس کے لئے اجازت دینا رسول کریم صلی ہیم کا کام تھا اور صحابہ کا یہ فرض تھا کہ رات کو آپ کی حفاظت کا انتظام کرتے کیونکہ رسول کریم مسی یا یتیم کی ذات پر حملہ ہونا اسلام کو نقصان پہنچانے والا تھا اس لئے کوئی نہیں کہہ
فصائل القرآن نمبر...141 سکتا کہ نَعُوذُ بالله رسول کریم سنی با اینم اپنی بادشاہت جتلاتے تھے اور اپنے لئے پہرہ مقرر کرتے تھے.پہرہ آپ کے لئے ضروری تھا اور اس کا مقرر نہ کرنا خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل گرفت ہوتا.صدقہ وخیرات کی تقسیم کے متعلق ہدایات اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاتِ ذَا الْقُرْبى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَدِّرُ تَبْذِيرًا إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيطِيْنِ وَكَانَ الشَّيْطَنُ لِرَبِّهِ كَفُورًا.اس میں مندرجہ ذیل باتیں بیان کی گئی ہیں.اوّل.انسان مال و دولت بالکل ہی نہ لگا دے بلکہ اپنے اہل وعیال کے لئے بھی رکھ لے.19 گویا ساری کی ساری خیرات نہ کرے بلکہ اس میں سے کچھ خیرات کرے.دوم.اس طرح خیرات نہ کرے کہ اس سے کسی کو فائدہ نہ پہنچے.تُبَدِّرُ تَبْذِيرًا کے معنی ہیں بکھیر دینا.اگر دس بھو کے آئیں اور ایک روٹی دینے کے لئے ہو تو سب کو اس کا ایک ایک ٹکڑا دینے سے کسی کے بھی کام نہ آئے گی.وہی روٹی اگر ایک کو دے دو اور دوسروں سے کہہ دو کہ یہی ایک روٹی تھی تو یہ بہتر ہوگا.یا مثلاً بہت سے آدمی بیمار پڑے ہوں اور صرف پانچ گرین کو نین ہو تو سب کو تھوڑی تھوڑی دینے سے کسی کو بھی فائدہ نہ ہو گا لیکن اگر ایک کو دے دی جائے تو اس کے لئے مفید ثابت ہو سکے گی.تو فرمایا اول تو یہ حکم ہے کہ سارا مال تقسیم نہ کر دو اور دوسرے یہ کہ اس طرح تقسیم کرو کہ جسے دو، وہ اس سے فائدہ اُٹھا سکے.جو ایسا نہ کرے اس کے متعلق فرمایا.ان الْمُبَشِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيْطِيْنِ وَكَانَ الشَّيْطَنُ لِرَبِّهِ كَفُورًا ایسا انسان شیطان کا بھائی ہے اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے.اس طرح مال تقسیم کرنے سے کسی کو فائدہ نہ ہوگا اور ناشکری پیدا کرے گا.اخوان الشيطین کہنے میں حکمت یہاں اللہ تعالیٰ نے شیطان نہیں کہا بلکہ شیطان کا بھائی کہا ہے.جس کی وجہ یہ ہے کہ دینے والے نے تو اپنی طرف سے اچھی بات ہی سمجھی تھی کہ ایک کی بجائے بہتوں کو دے دیا لیکن حقیقتا
فصائل القرآن نمبر...142 اس کا یہ فعل اچھا نہ تھا.اس لئے اس کا یہ فعل حقیقی ناشکری تو نہیں لیکن اس کے مشابہ ضرور ہے.پھر تھوڑی چیز کو ٹیچوں میں اس طرح بانٹ دینے کو کہ کسی کے بھی کام نہ آئے اللہ تعالیٰ نے ناشکری قرار دینے کی یہ وجہ بتائی کہ ہم نے جو نعمت دی تھی وہ کسی غرض کے لئے ہی دی تھی مگر تم نے اس کو بے فائدہ طور پر بانٹ دیا اور اس طرح اس غرض کو باطل کر دیا.وہ غرض یہی ہے کہ مال قابلیت رکھنے والوں کے پاس آتا ہے اور قابلیت رکھنے والوں کو کام کرنے کے قابل بنائے رکھنا قوم کے لئے ضروری ہوتا ہے.اگر ایک اعلیٰ درجہ کا کاریگر ہو اور وہ اپنے اوزار دوسروں میں بانٹ دے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کا اپنا کام بھی نہ چلے گا اور دوسروں کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا لیکن اگر وہ اپنے اوزار اپنے پاس رکھ کر ان سے کام کرے اور پھر جو کچھ کمائے اس میں سے دوسروں کی مدد کرے تو یہ بہت مفید بات ہوگی.صدقہ دینے کا صحیح طریق پھر اسلام نے صدقہ دینے کا طریق بتایا ہے جو یہ ہے کہ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِالْيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً م یعنی مومن وہ ہیں جو اپنے اموال رات اور دن اور پوشیدہ اور ظاہر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں.اس آیت میں یہ احکام بیان کئے گئے کہ اول پوشیده صدقہ دو.دوم علانیہ صدقہ دو.یہاں مال کے طریق تقسیم میں انجیل کی تعلیم کا مقابلہ ہوگیا.انجیل میں تو یہ کہا گیا ہے کہ: - "جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے تاکہ تیری خیرات پوشیدہ رہے.“ لیکن قرآن کہتا ہے کہ کبھی اس طرح صدقہ دو کہ دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں کو پتہ نہ لگے اور کبھی اس طرح دو کہ سب کو پتہ لگے.اور اس کی وجہ بتائی کہ کیوں ہم یہ کہتے ہیں کہ ظاہر طور پر بھی صدقہ دو اور پوشیدہ طور پر بھی.فرمایا ان تُبْدُوا الصَّدَقَتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيَاتِكُمْ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرات یعنی اگر تم صدقہ دکھا کر دو تو یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ
فصائل القرآن نمبر....143 خير لكم اگر تم چھپا کر دو تو یہ تمہارے اپنے لئے بہتر ہے.گویا دوسرے طریق صدقہ میں پہلے طریق کی بھی وجہ بتادی کیونکہ جب یہ بتایا کہ پوشیدہ طور پر صدقہ دو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہو گا تو یہ بھی فرمایا کہ اگر ظاہری طور پر صدقہ دو گے تو یہ دوسروں کے لئے بہتر ہوگا کیونکہ جب لوگ کسی کو صدقہ دیتے دیکھیں گے تو کہیں گے یہ بڑا اچھا کام ہے اور پھر وہ خود بھی اس کی نقل کرنے لگ جائیں گے.دیکھو جولوگ یورپ کے دلدادہ ہیں وہ سر سے پیر تک وہی لباس پہنتے ہیں جو یورپین لوگوں کا ہے.ایک زمانہ میں جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت تھی تو ہندو بھی مسلمانوں کی طرح جیتے پہنے پھرتے تھے.اب بھی جن علاقوں میں مسلمانوں کی کثرت ہے وہاں کے ہندوؤں کا لباس مسلمانوں جیسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ سرحد میں یا سندھ میں ہے.ایک دفعہ ایک سندھی تاجر ہمارا ہم سفر تھا.اس نے بالکل مسلمانوں جیسا لباس پہنا ہوا تھا.میں اسے مسلمان ہی سمجھتا رہا.جب کھانا کھانے لگے تو ہمارے نانا جان بھی ساتھ تھے.انہوں نے اس تاجر کو کہا کہ آئیے آپ بھی کھانا کھائیں.مگر اس نے نہ کھایا.جب وہ اُترنے لگا تو اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو مسلمانوں کے ساتھ کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے مگر دوسرے لوگ بُرا مناتے ہیں.تب پتہ لگا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ ہندو تھا.تو دوسروں کو دیکھ کر انسان ان کی باتیں اختیار کر لیتا ہے.رسول کریم ملی شما سلم نے فرمایا کہ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ " تم میں سے ہر ایک کی مثال گڈریا کی سی ہے.ہر ایک کے ساتھ کچھ نہ کچھ بھیڑریں لگی ہوئی ہیں جو اس کی نقل کرتی ہیں.پس اگر کوئی ظاہری طور پر صدقہ دے گا تو اس کے بیٹے ، بھائی یا دوسرے رشتہ دار، مرید ، ملازم ، دوست اور آشنا بھی اس کی نقل میں صدقہ دیں گے.دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آئندہ نسل کو اس سے فائدہ پہنچے گا.بچوں کو صدقہ دینے کی عادت پڑے گی.جب وہ اپنے بڑوں کو دیکھیں گے کہ وہ صدقہ دیتے ہیں تو سمجھیں گے کہ یہ اچھی بات ہے اور خود بھی صدقہ دینے لگ جائیں گے اس طرح آہستہ آہستہ ان کی تربیت ہوتی جائے گی.تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ بعض دفعہ لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ فلاں شخص امداد کا محتاج ہے.ہوسکتا ہے کہ مجھے اپنے محلہ یا اپنے قصبہ یا اپنے شہر کے کسی آدمی کے متعلق پتہ ہو کہ وہ محتاج ہے لیکن دوسروں کو پتہ نہ ہو.ایسی صورت میں اگر میں ایک دوست کو کچھ دوں کہ فلاں کو دے دینا تو بغیر یہ
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 144 اعلان کرنے کے کہ فلاں کی مدد کرو اسے خود بھی دینے کا خیال آجائے گا.یہ ظاہری طور پر صدقہ دینے کے فوائد ہیں.اسی طرح اگر مخفی طور پر خیرات دی جائے تو وہ دینے والے کے اپنے نفس کے لئے اچھی ہے.اس سے اس میں ریاء پیدا نہیں ہوگا جو ظاہر طور پر دینے سے پیدا ہو سکتا ہے لیکن جو شخص مخفی خیرات اس لئے دیتا ہے کہ اس کے دل میں ریاء پیدا نہ ہو وہ جب ظاہر طور پر دے گا تب بھی ریاء کا جذبہ اس میں پیدا نہ ہوگا کیونکہ وہ اپنے نفس کو ریاء سے بچانے کے لئے پوشیدہ طور پر دے کر مشق کرتا رہتا ہے.ریاء کا جذبہ اسی میں پیدا ہو سکتا ہے جو صرف ظاہرہ خیرات دیتا ہے.پھر لکم کہہ کر یہ بھی بتادیا کہ پوشیدہ دینے میں تمہارے لئے بھی نفع ہے اور فقراء کے لئے بھی یعنی جنہیں دیتے ہو ان کے لئے بھی کیونکہ اس طرح ان کی عزت نفس محفوظ رہتی ہے اور وہ شرمندہ نہیں ہوتے.غرض مخفی طور پر صدقہ دینا، دینے والے کے لئے بھی نفع بخش ہے کیونکہ اس میں ریا پیدا نہیں ہوتا اور لینے والے کے لئے بھی کہ اس کی خفت نہیں ہوتی.صدقہ کی مختلف اقسام صدقہ کے متعلق تیسرا پہلو یہ ہے کہ اسلام نے اس کی اقسام مقرر کی ہیں.صدقہ کی ایک قسم تو لازمی ہے جس کے متعلق فرمایا.وَأَقِیمُوا الصَّلوةَ وَآتُوا الزَّكوة " تم نماز با شرائط جماعت کے ساتھ ادا کرو اور زکوۃ دو.آگے اس لازمی صدقہ کی دو قسمیں بتا ئیں.اول لازمی وقتی جیسے جہاد ہے.جب جہاد کا موقع پیش آجائے اس وقت قوم کا فرض ہوتا ہے کہ اپنے اموال پیش کر دے.دوم لا زمی مقررہ جیسے فرمایا خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ ۲۴ یہ زکوۃ ہے لیکن ایک صدقہ وقتی غیر مقررہ ہے اس میں شریعت یہ نہیں کہتی کہ کتنا دو بلکہ یہ کہتی ہے کہ اس وقت ضرور دو.مقررہ میں تو حد مقرر کر دی گئی ہے کہ چالیسواں حصہ یا جانوروں میں سے اتنا حصہ دیا جائے مگر جہاد کے لئے کہا جاتا ہے کہ دو جتنا دے سکتے ہو.چنانچہ ایک جہاد کے موقع کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں.مجھے خیال آیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمیشہ مجھ سے بڑھ جاتے ہیں.آج میں ان سے بڑھوں گا.یہ خیال کر کے میں گھر گیا اور اپنے مال میں سے آدھا مال نکال کر رسول کریم ملایا ہم کی
فصائل القرآن نمبر...145 خدمت میں پیش کرنے کے لئے لے آیا.وہ زمانہ اسلام کے لئے انتہائی مصیبت کا دور تھا لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ابوبکر ! گھر میں کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا.اللہ اور اس کا رسول.حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ سن کر مجھے سخت شرمندگی ہوئی اور میں نے سمجھا کہ آج میں نے سارا زور لگا کر ابوبکر سے بڑھنا چاہا تھا مگر آج بھی مجھ سے ابوبکر بڑھ گر ۲۵ ممکن ہے کوئی کہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے آئے تھے تو پھر گھر والوں کے لئے انہوں نے کیا چھوڑا؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے مراد گھر کا سارا اندوختہ تھا.وہ تاجر تھے اور جو مال تجارت میں لگا ہوا تھا وہ نہیں لائے تھے اور نہ مکان بیچ کر آگئے تھے.جہاد کے موقع پر مال دینے کا ذکر سورۃ بقرہ رکوع ۲۴ میں ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوْا بِأَيْدِيَكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ " تم جنگی کاموں میں اپنا روپیہ صرف کرو.اگر نہیں کرو گے تو دشمن جیت جائے گا اور تم تباہ ہو جاؤ گے.پھر ایک صدقہ اختیاری ہوتا ہے.اس کے متعلق بقرہ رکوع ۲۶ میں آتا ہے.مَا انْفَقْتُم مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَعْمَى وَالْمَسْكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ کے جب کوئی دینے کا موقع ہو اور اس وقت تم خدا کے لئے خرچ کرنا چاہو تو کر سکتے ہو.اپنے والدین کے لئے اپنے قریبی رشتہ داروں کے لئے، یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کیلئے.یہ صدقہ اختیاری رکھا.ایک اور جگہ اختیاری اور لازمی صدقہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے.فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ.^ معلوم کے لفظ میں بتا دیا کہ یہ مقررہ صدقہ ہے کیونکہ معلوم کے معنی ہیں مقرر کر دیا گیا یعنی رقم مقرر کر دی کہ اتنا دینا ضروری ہے یا یہ کہ خرچ کا وقت مقرر ہوتا ہے کہ اب کچھ نہ کچھ دینا تم پر فرض ہے.پس فرمایا فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ.ان کے مال میں ایک مقررحق ہوتا ہے.لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ سوال کرنے والے اور محروم کا.گویا بتایا کہ اتنا دینا تمہارے لئے ضروری ہے اور غیر مقررہ کے لئے فرمایا.وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ
فصائل القرآن نمبر...146 لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ تک یہاں مَعْلُوم کا لفظ نہیں رکھا گیا.بعض لوگ کہتے ہیں قرآن میں قافیہ بندی کی گئی ہے حالانکہ اگر صرف قافیہ بندی ہوتی تو محرُوم کے ساتھ مَعْلُوم قافیہ تھا جو سورۃ معارج میں آیا مگر سورۃ ذاریات میں معلوم کا لفظ اُڑا دیا یہاں دوسری قسم کے صدقہ کا ذکر تھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں قافیہ کا خیال نہیں رکھا جاتا بلکہ مضمون کا خیال رکھا جاتا ہے.صدقہ ایک قسم کے قرض کی ادائیگی ہے صدقہ کے متعلق چوتھا پہلو اسلام نے یہ پیش کیا ہے کہ صدقہ کی حقیقت بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ صدقہ ایک قسم کے قرضہ کی ادائیگی ہے.بعض لوگ کہتے ہیں صدقہ ملنے کی وجہ سے لوگ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور ان میں سستی اور کاہلی پیدا ہو جاتی ہے.مگر اسلام کہتا ہے فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ محتاج اور مساکین کا حق ہے کہ تم انہیں اپنے مال میں سے دو.اگر تم کسی محتاج کو دیتے ہو تو اس پر احسان نہیں کرتے بلکہ اس کا حق ادا کرتے ہو.دوسری جگہ اس حق کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ وسحر لَكُمْ مَّا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْہ سے یعنی زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اے بنی نوع انسان اسے ہم نے بغیر تمہاری محنت اور بغیر کسی قسم کی اُجرت کے تمہاری خدمت میں لگا دیا ہے.اب اگر زمین اور آسمانوں کی چیزیں صرف زید یا بکر کی خدمت میں لگی ہوئی ہوں تو ان کا وہ مالک ہو سکتا ہے لیکن اگر یہ چیزیں غریب اور امیر سب کی خدمت کر رہی ہیں تو معلوم ہوا کہ سب چیزیں سب کے لئے پیدا کی گئی ہیں صرف زید یا بکر کے لئے نہیں پیدا کی گئیں.اگر سورج صرف بادشاہ کے لئے پیدا کیا جاتا تو چاہئے تھا کہ اس کو نظر آتا اور اسی کو فائدہ پہنچا تا مگر سورج بادشاہ کو بھی اسی طرح روشنی اور گرمی پہنچاتا ہے جس طرح ایک فقیر کو.یہی حال دوسری چیزوں کا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے بنی نوع انسان کی مشترکہ جائیداد ہے اور سب دولت اسی کے ذریعہ کمائی جاتی ہے.سَخَّرَ لَكُمْ کے ماتحت ہی انسان دنیا میں مال و دولت حاصل کرتا ہے.پس ساری کی ساری کمائی پبلک پراپرٹی سے ہی ہورہی ہے جو خدا تعالیٰ نے ساری دنیا کے
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 147 لئے پیدا کی ہے.بے شک جو محنت و مشقت کر کے اس سے کماتا ہے اس کا زیادہ حق ہے مگر پراپرٹی میں حصہ رکھنے والے کا بھی تو حق ہوتا ہے.جو محنت کرتا ہے اس کا زیادہ حق ہوتا ہے لیکن جس چیز میں محنت کرتا ہے وہ چونکہ مشترک ہے اس لئے اس کے لینے میں وہ بھی شریک ہے جس کی اس میں شراکت ہے.یہ حق صدقہ اور زکوۃ کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے.اب دیکھو یہ نکتہ بیان کر کے کس طرح امراء اور دولت مندوں کا تکبر توڑا گیا ہے.جب غرباء کا بھی امراء کے مال و دولت میں حق ہے تو اگر کوئی امیر اُن کو دیتا ہے تو ان کا حق ادا کرتا ہے نہ کہ ان پر احسان کرتا ہے.ادھر غرباء اور محتاجوں کو شرمندگی سے یہ کہہ کر بچا لیا کہ مالداروں کے مال میں تمہارا بھی حق ہے.ہم نے ان کو ساری رقم دے کر ان کا فرض مقرر کر دیا ہے کہ ہمارے محتاج بندوں کو بھی دیں ، ساری کی ساری کمائی خود ہی نہ کھا جائیں.صدقہ کے محرکات پانچواں پہلو صدقات کے متعلق اسلام نے یہ بیان کیا کہ صدقہ کے محرکات کیا ہونے چاہئیں؟ محرکات کے ذریعہ ایک اعلیٰ درجہ کی چیز بھی بڑی ہو جاتی ہے.مثلاً ہمارے ہاں کوئی مہمان آئے اور ہم اس کی خاطر اس لئے کریں کہ اس سے ہمیں فلاں فائدہ حاصل ہو جائے گا تو خواہ ہم کتنی خاطر کریں اس میں اپنی ذاتی غرض پنہاں ہوگی لیکن اگر ہم مہمان کی تواضع اس لئے کریں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے تو یہ اعلیٰ درجہ کی نیکی ہوگی.پس بُرے محرکات کے ذریعہ ایک چیز ادنی ہو جاتی ہے اور اگر اچھے محرکات ہوں تو اعلیٰ ہو جاتی ہے.یہود میں صدقہ کی غرض رحم بتائی گئی ہے.یہ ایک لحاظ سے تو اچھی ہے مگر اس میں نقص بھی ہے.اسلام نے محرکات کے متعلق بھی بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ مَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ یہاں صدقہ کی دو اغراض بتائی گئی ہیں.ایک یہ کہ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللہ محض یہ غرض ہو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو دوسری یہ کہ تَثْبِيتًا مِنْ اَنْفُسِهِمْ بھی یہ غرض ہو کہ اپنی قوم مضبوط ہو جائے.پس اسلام کے نزدیک صدقہ کی دو ہی اغراض ہیں.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے اور دوسری یہ کہ غرباء کی مدد اپنی مدد ہوتی ہے.جس قوم کے افراد گرے ہوئے ہونگے وہ قوم بھی کمزور ہو
فصائل القرآن نمبر...148 جائے گی کیونکہ گرے ہوئے افراد اس کے لئے بوجھ ہونگے اور قوم ترقی نہ کر سکے گی.اسی لئے یورپین قومیں بھی جنہیں خدا سے کوئی تعلق نہیں محض اس لئے صدقہ و خیرات کرتی ہیں کہ قوم کے غرباء کی ترقی سے قوم بڑھتی اور ترقی کرتی ہے.پس صدقہ کی ایک غرض اسلام نے یہ بتائی کہ تَثْبِيتًا منْ أَنفُسِهِم اس کے ذریعہ قوم مضبوط ہو جاتی ہے.اسی طرح نیک لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالَی الْمَالَ عَلَى حُبه یعنی نیک وہ ہوتا ہے جو علی محب مال دیتا رہے.کتنے مختصر الفاظ ہیں لیکن ان میں نہایت وسیع مطالب بیان کئے گئے ہیں.علی حبہ کے معنے یہ ہیں کہ اول اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے.چنانچہ پہلے اللہ تعالیٰ کا ذکر موجود ہے.گویا وہ مال دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت کی خاطر.انہیں اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے اس لئے وہ اس کی مخلوق سے بھی محبت کرتے ہیں.ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ چونکہ ہم خدا تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اس لئے ہم بھی ان سے محبت کریں.۲- محتہ کی ضمیر اس شخص کی طرف بھی جاتی ہے جسے مال دیا جاتا ہے.اس لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جسے مال دیتے ہیں اسے ذلیل سمجھ کر نہیں دیتے بلکہ اپنا بھائی سمجھ کر دیتے ہیں.وہ مال دیتے تو دوسرے کو ہی ہیں لیکن اسے ذلیل سمجھ کر نہیں بلکہ اس کا حق سمجھ کر دیتے ہیں اسے اپنا بھائی اور اپنا پیارا سمجھ کر دیتے ہیں.- محب کی ضمیر مال دینے کی طرف بھی جاتی ہے.اس لحاظ سے یہ معنے ہوئے کہ وہ مال دینے کی محبت کی وجہ سے دیتے ہیں کیونکہ انہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں مال دینا انتہائی مرغوب ہوتا ہے.وہ چھٹی سمجھ کر نہیں دیتے بلکہ اس لئے دیتے ہیں کہ انہیں مال دینے سے ایک روحانی سرور اور ذوق حاصل ہوتا ہے.اس محبّہ کے متعلق دوسری جگہ اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرنی سے کہہ کر بتایا کہ ان کی محبت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ماں باپ ہیں اور غریب اور محتاج لوگ ہمارے بچے ہیں.جیسے ماں اپنے بچہ کو محبت سے دودھ پلاتی ہے نہ کہ کسی طمع سے اسی طرح یہ لوگ محتاجوں کو اپنا مال دیتے ہیں.دودھ کیا ہوتا ہے ماں کا خون ہوتا ہے.مگر پھر بھی جن عورتوں کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا وہ کڑھتی رہتی ہیں جس
فصائل القرآن نمبر...149 کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہیں کوئی ایسا بچہ نہیں ملتا جسے وہ اپنا خون پلائیں.تو فرمایا وہ لوگ مال دیتے دیتے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ یہ نہیں سمجھتے کہ مال دے کر ہم کسی پر احسان کر رہے ہیں بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا احسان ہے جو ہم سے مال لیتے ہیں.جیسے بچہ جب روٹھ جائے تو ماں اسے مناتی اور کہتی ہے میں صدقے جاواں.میں واری جاواں حالانکہ وہ بچہ کو کھانے کے لئے دیتی ہے نہ کہ اس سے کچھ لیتی ہے.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے تمہارا وہ درجہ ہونا چاہئے کہ تم دے کر یہ سمجھو کہ لینے والوں نے ہم پر احسان کیا ہے نہ کہ تم نے ان پر کوئی احسان کیا ہے.صدقات کی غرض وغایت چھٹے اسلام نے صدقہ دینے کی غرض بیان کی ہے.ایک غرض تو اسی آیت میں آئی ہے جو میں نے ابھی پڑھی ہے یعنی الی الْمَالَ عَلَی مُحبّہ جو شخص مال دے اس کی محبت کی وجہ سے دے، دشمنی سے نہ دے کسی کی عادات بگاڑنے کے لئے نہ دے بلکہ اس لئے دے کہ اچھے کاموں میں لگے.جسے دیا جائے اسے فائدہ ہو.ایسی حالت نہ ہو جائے کہ مال لینے کی وجہ سے اسے نقصان پہنچے.صدقات سے معذوری کے اصول ساتو میں اسلام نے صدقہ نہ دینے کے مواقع بھی بیان کئے ہے.یعنی بتایا ہے کہ فلاں مواقع پر صدقہ نہ دو یا تم صدقہ نہ دینے میں معذور ہو.جیسے فرمایا.وَإِمَّا تُعْرِضَنَ عَنْهُمُ ابْتِغَاء رَحمَةٍ مِّن رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُورًا سے اس آیت میں تین مواقع بتائے کہ ان میں صدقہ نہ دینے میں حرج نہیں.اول جب کہ تمہارے پاس کچھ نہ ہو.ابتغاء رحمة من ربك جب تم خود تکلیف میں ہونے کی وجہ سے اپنے رب کی رحمت کے محتاج ہو.دوم.جب تمہارا دل تو چاہتا ہو کہ صدقہ دو اور دینے کے لئے مال بھی تمہارے پاس موجود ہو لیکن عقل کہتی ہو کہ اگر مال دونگا تو خدا کا غضب نازل ہوگا اور اگر نہ دونگا تو خدا کی رحمت کا نزول ہوگا.اما تُعْرِضَنَ عَنْهُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا.بخل سے نہیں بلکہ یہ خیال ہو کہ نہ دونگا تو خدا کا فضل
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 150 نازل ہوگا ایسی صورت میں صدقہ نہ دینا اچھا ہے.مثلاً کوئی شخص عیاشی میں روپیہ برباد کر دیتا ہو تو اسے نہ دینا ہی رضائے الہی کا موجب ہوگا یا ایک شخص آئے اور آکر کہے کہ مجھے اسلام کے خلاف ایک کتاب لکھنے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے اس میں چندہ دیجئے تو اس سے اعراض کرنے والا یقینا اللہ تعالیٰ کے فضل کی جستجو میں انکار کرے گا.اب ایک اور مثال دیتا ہوں اس بات کی کہ انسان کا دل تو چاہتا ہے کہ دے مگر ابتغاء رحمه من ربك نہیں دیتا.ایک بچہ ہے جو ہماری تربیت کے نیچے ہے وہ کسی چیز کی خواہش کرتا ہے.وہ خواہش ہم پوری بھی کر سکتے ہیں وہ بری بھی نہیں ہوتی مگر ہم سمجھتے ہیں اس کی تربیت کے لحاظ سے یہ برا اثر ڈالے گی اس لئے اسے پورا نہیں کرتے.تیسری صورت یہ ہے کہ کسی کو نقصان پہنچانے کیلئے مانگے مثلاً کسی کو مارنے کیلئے ریوالور خریدنا چاہے تب بھی نہیں دیں گے.صدقات سے انکار کرنے کا طریق آٹھویں.اسلام نے یہ بتایا ہے کہ صدقہ نہ دینے اور انکار کرنے کا کیا طریق ہونا چاہئے.یعنی بتایا کہ انکار کرو تو کس طرح کرو.فرمایا.آتما السَّائِلَ فَلَا تَنْهرُ ۳۵ جب انکار کرو تو سائل کو ڈانٹ کر نہ کرو.تم انکار کر سکتے ہو مگر سائل پر سختی نہیں ہونی چاہیئے.پھر فرمایا.فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّيَسُورًا ایسی بات کرو جس سے مانگنے والے کو ذلت محسوس نہ ہو.لوگ کہتے ہیں سائل کو نرمی سے جواب دینا چاہئے.یہ اَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْہر میں آچکا ہے قَوْلًا مَّيْسُورا کے یہ معنے ہیں کہ اس طرح جواب نہ دو کہ اُسے ذلت اور شرمندگی محسوس ہو.صدقات میں کیا چیز دی جائے نویں.اسلام نے یہ بتایا کہ کیا چیز صدقہ میں دی جائے.یہ بھی ایک اہم سوال ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ کسی غریب کو اچھا کپڑا دینے کا کیا فائدہ.اس کی بجائے اگر دس غریبوں کو کھدر کے کپڑے بنوا دیئے جائیں تو زیادہ اچھا ہوگا یا مثلاً ایک شخص کو پلاؤ کھانے کی بجائے دس کو آنا دے دیا جائے تو یہ بہتر ہے لیکن یہ ان کی غلطی ہے.اسلام فطرت کی گہرائیوں کو دیکھتا ہے.اسلام جانتا
فصائل القرآن نمبر...151 ہے کہ غرباء روزانہ امراء کو اچھا کھاتے اور اچھے کپڑے پہنتے دیکھتے ہیں اور خود بھی چاہتے ہیں کہ ویسے ہی کپڑے پہنیں اور ویسے ہی کھانے کھائیں.اس لئے ایسی بھی صورت ہونی چاہئے کہ ان کو اس امر کے مواقع حاصل ہو سکیں.اسلام لوگوں کو خشک فلسفی نہیں بنا تا بلکہ لوگوں کے دلوں کے خیالات پڑھنے کا حکم دیتا ہے.ہمارے ملک میں ایک قصہ مشہور ہے جسے ہم بھی بچپن میں بہت خوشی سے سنا کرتے تھے.قصہ یہ تھا کہ کوئی لکڑ ہارا تھا جو بادشاہ کے باورچی خانہ کے لئے لکڑیاں لا یا کرتا تھا.ایک دن جب وہ لکڑیاں لے کر آیا تو کھانے کو بگھار لگایا جارہا تھا.اس کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ برداشت نہ کر سکا اور باورچی سے کہنے لگا کہ کیا اس کھانے میں سے مجھے کچھ دے سکتے ہو.اس نے کہا یہ بڑا قیمتی کھانا ہے.تمہیں کس طرح دیا جاسکتا ہے.کہتے تھے اشرفیوں کا بگھار لگاتے تھے.یہ معلوم نہیں کس طرح لگاتے تھے.لکڑ ہارے نے پوچھا.یہ کتنا قیمتی ہے.اسے بتایا گیا کہ تمہارے چھ ماہ کی لکڑیوں کی قیمت کے مساوی ہے.اس پر وہ لکڑیاں ڈالنے لگا.پہلے روزانہ ایک بوجھ لا یا کرتا تھا.پھر دو لانے لگا.ایک بوجھ کھانے کی قیمت میں دیتا اور ایک بوجھ کی قیمت سے گزارہ چلاتا.آخر چھ ماہ کے بعد اسے وہ کھانا دیا گیا.جب وہ اسے لے کر گھر گیا.تو کسی فقیر نے اس کے دروازہ پر جا کر کھانا مانگا.لکڑ ہارے کی بیوی نے کہا.یہی کھانا اسے دیدو کیونکہ ہم تو چھ ماہ لکڑیاں ڈال کر یہ پھر بھی لے سکتے ہیں لیکن یہ اس طرح بھی نہیں لے سکتا.لکڑ ہارے نے وہ کھانا فقیر کو دے دیا.اسی طرح ہمایوں کو جس سقہ نے دریا میں ڈوبتے ہوئے بچایا تھا.اسے جب کہا گیا کہ جو کچھ چاہو مانگو تو اس نے چار پہر کے لئے بادشاہت مانگی.یہ تھی ایک سقہ کے دل کی خواہش تو خدا تعالیٰ ولوں کو پڑھتا ہے.فلسفی کو ان باتوں کی کیا خبر ہوسکتی ہے پس دلوں کے احساسات کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلام نے یہ حکم دیا کہ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ۳۵ کہ جو کچھ خدا نے دیا ہو اس میں سے خرچ کرو.روپیہ ہی صدقہ میں نہیں دینا چاہئے کبھی اچھا کپڑا بھی دو، اچھا کھانا بھی دو بلکہ جو کچھ تمہیں دیا جائے اس میں سے بانٹتے رہو.اس سے بھی واضح الفاظ میں دوسری جگہ فرمایا.كُلُوا مِنْ ثَمَرِ إِذَا أَثْمَرَ وَاتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلَا تُسْرِفُوا ۳۶ اے باغوں والے مسلمانو ! جب تمہارے باغ پھل لاتے ہیں تو تم
فصائل القرآن نمبر...152 اپنے عزیزوں سمیت بیٹھ کر ان کے پھل کھاتے ہو.کبھی تمہیں یہ بھی خیال آیا کہ باغ کی دیوار کے ساتھ گذرنے والے غریب کا بھی پتہ لیں کہ اس کے دل میں کیا گذرتا ہے.كُلُوا مِنْ ثَمَرِةَ إِذَا اعمر جب پھل پکیں تو خوب کھاؤ مگر ایک بات ضرور مد نظر رکھو اور وہ یہ کہ وَأتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِہ جب پھل پک جائیں تو غریبوں کو بھی دو تا کہ وہ بھی دنیا کی نعمتوں سے حصہ پائیں.یہ نہیں فرمایا کہ پھل بیچ کر کچھ روپے غریبوں کو دے دو کہ ان سے دال روٹی کھا لیں مگر اس کے ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ وَلا تُسْرِفُوا ہاں اسراف نہ کرو یہ نہ ہو کہ روز غریبوں کو سنگترے وغیرہ تو کھلاتے رہومگر ان کے کپڑوں اور کھانے پینے کا خیال نہ رکھو ہر ایک امر کی ایک حد ہونی چاہئے.پھر بتایا کہ جو کچھ دو، حلال مال سے دو.فرمایای يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا كَسَبْتُم سے اے ایمان دارو! جو کچھ تم نے کمایا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کے دل میں غریبوں کی مدد کے لئے جوش اُٹھتا ہے تو ڈاکے مارنا شروع کر دیتے ہیں.وہ لوگ جو اخلاقی علوم سے واقف نہیں ہوتے ، وہ کہتے ہیں فلاں ڈا کو بڑا اچھا آدمی ہے کیونکہ وہ غریبوں کی خوب مدد کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یہ غریبوں پر رحم کرنے کا طریق نہیں بلکہ اصل طریق یہ ہے کہ أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا كَسَبْتُمْ غریبوں کی ہمدردی کے یہ معنے نہیں کہ ڈاکے ڈال کر اور دوسروں کا مال چھین کر ان کو دے دو بلکہ تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اس قدر مال جس قدر قرآن کریم نے جائز رکھا ہے دید و اور باقی کام خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو.کسی کی خاطر نا جائز فعل کرنا درست نہیں.لوگوں کا مال لوٹ کر غرباء کو دینا تو حلوائی کی دُکان اور دادا جی کی فاتحہ کا مصداق بننا ہے.اگر تم یہ کہو کہ ہمارے پاس تھوڑا مال ہے مگر غریب بہت ہیں تو اس کی ذمہ داری تم پر نہیں.تم جتنا دے سکتے ہو دے دو باقی خدا تعالیٰ کے سپر د کرو.ایک تاریخی لطیفہ ہے.لکھا ہے کہ صلیبی جنگوں کے موقع پر ایک شخص جو فوج میں ملازم تھا بادشاہ کے پاس آیا اور آکر کہنے لگا.میری غیرت یہ برداشت نہیں کرتی کہ میں بیت المال سے تنخواہ لوں.میں آئندہ تنخواہ نہیں لونگا.اسے کہا گیا کہ پھر تم کس طرح گزارہ کرو گے.اس نے کہا میری ایک لونڈی ہے جو جادو ٹونے کرنا جانتی ہے.میں اس کی کمائی سے گزارہ کرلوں گا.گویا اس نے
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 153 اسلام سے ناواقفیت کی وجہ سے حرام مال کو تو جائز قرار دے لیا اور جائز کو اپنے لئے حرام سمجھ لیا.غرباء اور امراء دونوں کو صدقہ دینا چاہئے دسویں بات اسلام نے یہ بتائی ہے کہ صدقہ دے کون کیا امراء کو ہی صدقہ دینا چاہئے غرباء کو نہیں دینا چاہئے؟ اسلام کہتا ہے کہ صدقہ غرباء کو بھی دینا چاہئے کیونکہ صدقہ دینے کی صرف یہی غرض نہیں کہ حاجت مند کی امداد ہو بلکہ یہ ایک درس گاہ ہے جس میں اخلاقی تربیت کی جاتی ہے اگر غریبوں کو صدقہ دینے سے محروم رکھا جائے تو وہ اس درس گاہ میں تعلیم پانے سے محروم رہ جائیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَاء وَالضَّرَّاء سے مومن وہ ہیں جو اس وقت بھی خرچ کرتے ہیں جب ان کے پاس مال ہوتا ہے اور اس وقت بھی خرچ کرتے ہیں جب آپ تنگی میں مبتلا ہوں.اس سے معلوم ہوا کہ اسلام نے غریب امیر سب کے لئے صدقہ مقرر کیا ہے تا کہ انہیں صدقہ دینے کے فوائد حاصل ہو جا ئیں.صدقہ دینے کے کئی فوائد ہیں جن میں سے دو تین میں بیان کر دیتا ہوں.اول ایسا انسان محسوس کرتا ہے کہ مجھ سے بھی زیادہ غریب اور محتاج لوگ دنیا میں موجود ہیں.ایک ایسا شخص جسے خود ایک وقت کا فاقہ ہوا سے اگر کوئی چیز ملے اور وہ کہے میں کسے صدقہ دوں؟ تو خدا تعالیٰ اسے کہتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں کئی کئی وقت کا فاقہ ہو جاتا ہے.اس لئے تم ایسے شخص کو صدقہ دے سکتے ہو جو کئی وقت کا بھوکا ہو.دوم اسلام نہیں چاہتا کہ کسی ثواب سے کوئی بھی محروم رہے.اس لئے صدقہ اس نے صرف امراء پر ہی نہیں بلکہ غرباء پر بھی رکھا ہے تا کہ وہ بھی اس ثواب سے محروم نہ رہیں اور پھر وہ شخص تو ثواب کا اور زیادہ مستحق ہوتا ہے جو نگی کی حالت میں دوسرے کی مدد کرتا ہے.سوم خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ غریب کے دل پر زنگ لگے.جو خود لیتا رہے لیکن دے نہیں اس کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے.اس لئے اسلام نے کہا کہ وہ بھی دے تا کہ وہ یہ سمجھے کہ میں ہی دوسروں سے امداد حاصل نہیں کر رہا بلکہ میں بھی دوسروں کی مدد کرتا ہوں.اس کے لئے اسلام نے ایک خاص موقع بھی رکھ دیا ہے.یعنی رمضان کے بعد صدقۃ الفطر رکھا ہے جس سے کسی کو مستثنی نہیں
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 154 کیا گیا.حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ غریب اسی سے دے دے جو امیر اس کے گھر بھیجے لیکن صدقہ ضرور دے.صدقہ کے مستحقین گیارہویں بات اسلام نے یہ بتائی ہے کہ صدقہ کسے دیا جائے.میں نے بتایا ہے وید میں کہا گیا ہے کہ برہمن کو صدقہ دیا جائے کسی اور کو نہ دیا جائے.بعض مذاہب میں قومی اور خاندانی لحاظ سے صدقہ دینے کا حکم ہے.مگر اسلام کہتا ہے یہ نہیں ہونا چاہئے.بعض مذاہب نے صدقہ غیر کے لئے رکھا ہے اپنے لوگوں کے لئے نہیں.مسلمانوں میں بھی یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ قریبی رشتہ داروں کو صدقہ نہیں دینا چاہئے حالانکہ اسلام میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے بلکہ قرآن کریم میں آتا ہے.قُلْ مَا انْفَقْتُم مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَمى وَالْمَسْكِينَ وَابْنِ السَّبِيلِ یعنی جو مال تم خدا کی راہ میں تقسیم کرو اگر تمہارے ماں باپ محتاج ہوں اور تمہارے ہدایا سے بھی ان کی تنگی ڈور نہ ہو سکے تو انہیں صدقہ میں سے بھی دے سکتے ہو.پھر اقر بین کو دو.بیتامی کو دو، مساکین کو دو، مسافروں کو دو.پھر فرماتا ہے.ائما الصَّدَقُتُ لِلْفَقَرَاءِ وَالْمَسْكِينِ وَالْعَمِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرَّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ فَرِيضَةً مِنَ اللهِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَکیم - ۳۹ یعنی صدقات غریبوں کے لئے ، مسکینوں کے لئے اور جوان صدقات کو جمع کرنے والے ہوں ان کے لئے ہیں.اسی طرح جو اسلام نہیں لائے ان کے لئے یعنی ان کے کھانے پینے کے لئے ، ان کی رہائش کے لئے ، ان کی تعلیم و تربیت کے لئے ، پھر قیدیوں کے چھڑانے کے لئے ، قرض داروں کے لئے ، جو جہاد کے لئے جائیں ان کے لئے اور مسافروں کے لئے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے.اسی طرح فرمایا.لَا يَنْهُكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِین." یعنی اللہ تمہیں روکتا نہیں کہ تم صدقہ دوان کو جو تم سے لڑتے نہیں.جنہوں نے
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 155 تمہیں تمہارے گھروں اور وطنوں سے نہیں نکالا.تم ان سے نیکی اور انصاف کرو.اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.اسی طرح فرماتا ہے.فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ مسلمانوں کے مالوں میں حق ہے سوالی کا بھی یعنی جو بول سکتا ہے اور محروم کا بھی یعنی حیوانوں کا جو بول نہیں سکتے.پھر فرماتا ہے.وَلَا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِى الْقُرْنِي وَالْمَسْكِينَ وَالْمُهَجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ.اسے یعنی اے مومنو! کوئی تم میں سے یہ قسم نہ کھائے کہ میں قریبیوں کو اور مساکین کو اور مہاجرین فی سبیل اللہ کو صدقہ نہ دوں گا چاہئے کہ تم در گذر سے کام لو.کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا تمہارے متعلق در گذر سے کام لے.پس کسی سے ناراض ہو کر اسے صدقہ سے الم محروم نہیں کرنا چاہئے.ان آیات سے معلوم ہوا کہ اول اسلام نے صدقہ مستحقین کو دینے کا ارشاد فرمایا ہے.کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں کیا.نہ اس میں کوئی زائد ثواب رکھا ہے.دوم اپنے بیگانے میں فرق نہیں کیا.اپنوں کے لئے بھی جائز رکھا ہے اور دوسروں کے لئے بھی.اس طرح ایسے لوگوں کے خیالات کی تردید کی ہے جو (الف) اپنوں کی خود بھی مدد نہیں کرتے اور صدقہ بھی نہیں دیتے کہ اپنوں کو کس طرح دیں.(ب) جو غریب اپنوں کو مدد اور صدقہ ایک ہی وقت میں نہیں دے سکتے انہیں نیکی سے محروم نہیں کیا گیا بلکہ اپنوں کی مدد کو ہی صدقہ شمار کر لیا ہے.سوم صدقہ صرف غرباء کے لئے ہی نہیں رکھا گیا بلکہ ان سے جو مشابہ لوگ ہوں ان کے لئے بھی رکھا ہے (الف) مثلاً ایک لکھ پتی ہو مگر رستہ میں اس کا مال ضائع ہو گیا ہو تو اسے بھی صدقہ دے سکتے ہیں.اسے قرض اس لئے نہیں دے سکتے کہ کیا پتہ ہے کہ وہ کوئی لٹیرا ہو اور دغا باز ہے یا ٹھگ ہے لیکن صدقہ دے سکتے ہیں کیونکہ اگر ٹھنگ اور دغا باز ہوگا تو اس کا وبال اس پر پڑے گا.(ب) مساکین مسکین سے مراد غریب نہیں کیونکہ اگر اس کی یہی معنے ہوتے تو پھر لِلْفُقَرَآء کیوں فرمایا.در اصل مسکین سے مراد ایسا شخص ہے جو سر مایہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنا کام نہ کر سکے.مثلاً ایک شخص ایک فن جانتا ہے مگر وہ فن ایسا ہے کہ دس ہزار روپئے سے کام چل سکتا ہے.ایسا شخص فقیر تو نہیں کہلا
156 فصائل القرآن نمبر....سکتا.وہ بہر حال کھاتا پیتا ہوگا مگر اپنی لیاقت اور قابلیت سے کام نہ لینے کی وجہ سے ترقی نہیں کر سکتا.اگر اُسے دس ہزار روپیہ دے دیا جائے تو کام چلا سکتا ہے.ایسے شخص کو صدقہ کی مد سے حکومت روپیہ دے سکتی ہے خواہ بطور قرض ہو خواہ بطور امداد.( ج ) ایک ایسا شخص ہو جو ہو تو مالدار مگر مقروض ہو.مثلاً اس کی پچاس ہزار کی تجارت ہو اور دس ہزار اس پر قرض ہوا اور قرض والے اپنا روپیہ مانگتے ہوں.تو اگر وہ سرمایہ میں سے ان کا قرض ادا کر دے تو اس کی پچاس ہزار کی تجارت تباہ ہو جاتی ہے یسے شخص کی بھی صدقہ سے مدد کی جاسکتی ہے.یا مثلاً زمیندار ہے اور وہ مقروض ہے.اگر قرض ادا کرے تو اس کی زمین بک جاتی ہے اور اس کے گزارہ کی کوئی صورت نہیں رہتی اسے بھی صدقہ میں سے مدددی جاسکتی ہے.چہارم.صدقہ میں صدقہ کے عاملوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے کیونکہ جب اسلام نے یہ حکم دیا کہ فلاں فلاں کو صدقہ دینا ضروری ہے تو یہ سوال ہو سکتا تھا کہ پھر صدقہ جمع کون کرے پس ضروری تھا کہ اس کے لئے کارکن ہوں اور ان کی تنخواہیں مقرر کی جائیں بے شک اسے صدقہ نہیں قرار دیا جائے گا مگر صدقہ میں سے ہی ان کی تنخواہیں ادا کی جاسکیں گی.یہ ایک سوال ہے، جس کی طرف اور کسی مذہب نے توجہ نہیں کی یعنی یہ نہیں بتایا کہ صدقہ میں عاملوں کا بھی حق ہے.پنجم.یہ بتایا کہ سائل کو بھی محروم نہیں رکھنا چاہئے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ سائلوں کو نہیں دینا چاہئے کیونکہ اس طرح ان کی عادت خراب ہو جاتی ہے لیکن اسلام کہتا ہے کہ انہیں دینا چاہئے کیونکہ بعض دفعہ صرف ظاہر کو دیکھ کر یہ پتہ نہیں لگتا کہ فلاں محتاج ہے یا نہیں.اس وجہ سے اسلام نے یہ رکھا کہ کوئی شخص سوال کرے اور اس کو پورا کرنے کی مقدرت ہو تو اُسے دے دینا چاہئے.ششم.اپنوں پرائیوں سب کو صدقہ دیا جائے سوائے ان کے جو اس وقت جنگ میں من ہوں تا کہ وہ نقصان نہ پہنچائیں.ہفتم.انسانوں کے سوا جانوروں کو بھی جو محروم ہیں جن کی کوئی مالیت نہیں سمجھی جاتی.صدقہ سے محروم نہ رکھا جائے کہ خدا تعالیٰ نے ان کا حصہ انسان کے ساتھ شامل کر دیا ہے.گویا بوڑھے اور ناکارہ جانوروں کو چارہ اور دانہ ڈالنا بھی صدقات میں شامل ہے اور ثواب کا موجب ہوگا.گئو شالہ کو مدد دینا بھی صدقہ ہے مگر اونٹ شالے اور بھینس شالے بھی ہونے چاہئیں.مشغول
فصائل القرآن نمبر....157 صدقات کی تقسیم کے اصول بارہویں بات اسلام نے یہ بیان کی کہ حکومت جو صدقات وصول کرے انہیں کن اصول پر تقسیم کرے.اس کے لئے اسلام نے قواعد مقرر کئے ہیں.فرمایا تُظهِرُ هُمْ وَتُزَكِّيهِم یکا کے یعنی دو اصل تمہارے مدنظر ہونے چاہئیں.اول - تُظهِرُهُمْ.قوم کی کمزوری دور کرنے کے لئے اور مصیبت زدوں کی مصیبت دور کرنے کے لئے.دوم - يزكيهم بقا.قوم کو بلند کرنے کے لئے.زمنی کے معنے اُٹھانے اور ترقی دینے کے بھی ہوتے ہیں.صدقہ دینے اور لینے والوں کے تعلقات پر بحث تیرھویں بات یہ بیان کی کہ صدقہ دینے والے اور جنہیں دیا گیا ہو ان کے تعلقات کیا ہوں ؟ (۱) شریعت نے ایسے مال کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے.ایک وہ حصہ جو حکومت کے ہاتھ سے جاتا ہے.اس کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے ہاتھ سے گیا ہے.یا میراروپیہ فلاں کو دیا گیا ہے کیونکہ وہ سب کا جمع شدہ مال ہوتا ہے جس میں سے حکومت خود مستحق کو دیتی ہے اس طرح دینے والے کا واسطہ ہی اُڑا دیا گیا ہے اور احسان جتانے کی کوئی صورت ہی باقی نہیں رہنے دی.(۲) حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ کہہ کر احسان جتانے کی روح کو بھی کچل دیا اور بتایا کہ جن کو صدقہ دیا جاتا ہے ان کا بھی دینے والے کے مال میں حق ہے.(۳) لیکن چونکہ ہر ایک اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا اس لئے ظاہری احکام بھی دے دیئے.چنانچہ فرمایا.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَتِكُمْ بِالْمَنِ وَالْأَذَى " اے مومنو! صدقات کو احسان جتا کر یا دوسروں سے خدمت لے کر ضائع نہ کرو.(۴) پھر ایک اور پہلو اختیار کیا جس سے احسان کا کچھ بھی باقی نہ رکھا.فرمایا.تمحى الله الرَّبُوا وَيُرْبِی الصَّدَقَتِ اللہ تعالیٰ سود کو مٹائے گا اور صدقات دینے والوں کے مال کو
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ بڑھائے گا.اس میں بتایا کہ صدقہ دینے والوں کو ہم خود بدلہ دیں گے.صدقات پر زور لیکن سوال کی ممانعت 158 چودھویں بات یہ بیان کی کہ جہاں صدقات دینے پر اسلام نے زور دیا وہاں چونکہ یہ خیال ہو سکتا تھا کہ مانگنا اچھی بات ہے اس لئے اس کی بھی تشریح کر دی.چنانچہ مومن کی شان بتائی کہ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمُهُمْ لَا يَسْتَلُونَ النَّاسَ الحاف ۳۵ یعنی جو شخص اس تعلیم سے واقف نہیں کہ اسلام سوال کو پسند نہیں کرتا وہ ایسے لوگوں کو سوال سے بچنے کی وجہ سے غنی خیال کرتا ہے لیکن جو اس سے واقف ہے، وہ لوگوں کی شکلوں سے تاڑ لیتا ہے اور ان کی مدد کر دیتا ہے.اس میں بتایا کہ کامل مومن کو سوال نہیں کرنا چاہئے مگر منع بھی نہیں کیا.یعنی مانگنا قطعی حرام نہیں کیونکہ بعض دفعہ انسان اس کے لئے مجبور ہو جاتا ہے.چنانچہ رسول کریم مالی نے اسلام کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا مجھے کچھ دیں.آپ نے دیا.اس نے پھر مانگا.آپ نے پھر دیا.اس نے پھر مانگا آپ نے پھر دیا.پھر آپ نے فرمایا میں تمہیں ایک بات بتاؤں ؟ اور وہ یہ کہ مانگنا اچھا نہیں ہوتا.اس نے اقرار کیا کہ آج کے بعد میں کسی سے نہیں مانگوں گا.ایک صحابی کہتے ہیں ایک جنگ کے دوران اس کا کوڑا گر گیا.دوسرا شخص اُٹھا کر دینے لگا تو اس نے کہا تم نہ دو.میں نے رسول اللہ صلی اللہ ﷺ سے عہد کیا ہوا ہے کہ میں کسی سے کچھ نہیں لوں گا.اس پر وہ خود اترا اور کوڑا اٹھایا.تو جہاں اسلام نے صدقات پر اتنا زور دیا ہے کہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیوں نہ لیں وہاں یہ بھی بتا دیا کہ مانگنا نہیں چاہئے.یہ بات دینے والے پر رکھو کہ وہ تلاش کر کے دے.یہ صدقات کے متعلق اسلام کی بیان کردہ وہ چودہ باتیں ہیں کہ خواہ باقی مذاہب کی ساری الہامی کتابیں اکٹھی کر لو، تمام فلسفیوں کی کتابیں بھی دیکھ لو ان کی بحث ان میں نہ ہوگی اور میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسلام کی معمولی سی بات بھی اس رنگ میں نہ انسانی کتابوں میں پائی جائے گی اور نہ الہامی کتابوں میں جس رنگ میں قرآن نے بیان کی ہے.
فصائل القرآن نمبر....عورت اور مرد کے تعلقات پر بحث 159 اب میں مثال کے طور پر ایک اور بات کو لے لیتا ہوں اور وہ عورت اور مرد کا تعلق ہے.یہ ایک ایسا فطری تعلق ہے جو جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے اور کسی گہرے تدبر سے اس کے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی.ایک شیر دوسرے تمام جانداروں کو پھاڑے گا لیکن وہ بھی شیرنی کے ساتھ رہنے کی ضرورت محسوس کرے گا.گدھا بے وقوف جانور سمجھا جاتا ہے لیکن وہ بھی گدھی سے تعلق ضروری سمجھتا ہے.غرض یہ تعلق ایسا ہے کہ دنیا کے ہر جاندار کا ذہن ادھر جاتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے.پس اس کی تعلیم بہت مکمل ہونی چاہئے کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے یہ ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور اب تک محسوس کی جارہی ہے مگر ساری مذہبی کتابیں اس کی تکمیل سے محروم ہیں صرف قرآن کریم نے ہی اسے مکمل کیا ہے.حالانکہ بظاہر اس تعلق سے متعلق کسی کتاب کا نئی بات بتانا ناممکن سا نظر آتا ہے.عورت مرد کے تعلقات کا مضمون ایک وسیع مضمون ہے.میں اس وقت کثرت ازدواج، حقوق نسواں، ایک دوسرے کے معاملہ میں مرد و عورت کی ذمہ داریاں، مہر اور طلاق وغیرہ کے مسائل نہیں لوں گا کہ یہ مسائل زیادہ لمبے اور باریک ہیں.میں صرف اس چھوٹی سے چھوٹی بات کو لوں گا جس کی وجہ سے مردوعورت آپس میں ایک جگہ رہنے لگ جاتے ہیں اور بتاؤں گا کہ اس تعلق کو بھی اسلام نے کس قدر مکمل طور پر بیان کیا ہے اور اسے کتنا لطیف اور خوبصورت مضمون بنادیا ہے.دوسرے مذاہب کی مقدس کتب کو جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ابتدائی مسئلہ کے متعلق بھی خاموش ہیں.مثلاً انجیل کو لیں تو اس میں عورت اور مرد کے تعلق کے متعلق لکھا ہے: شاگردوں نے اس سے کہا کہ اگر مرد کا بیوی کے ساتھ ایسا ہی حال ہے تو بیاہ کرنا ہی اچھا نہیں.اس نے ان سے کہا کہ سب اس بات کو قبول نہیں کر سکتے مگر وہی جنہیں یہ قدرت دی گئی ہے کیونکہ بعض خوجے ایسے ہیں جو ماں کے پیٹ ہی سے ایسے پیدا ہوئے اور بعض خوبے ایسے ہیں جنہیں آدمیوں نے خوجہ بنایا اور بعض خوجے ایسے ہیں جنہوں نے آسمان کی بادشاہت کے لئے اپنے آپ کو خوجہ بنایا.جو قبول کر سکتا ہے
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ وہ قبول کرے ، 160 گویا حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ مرد عورت کا تعلق ادنی درجہ کے لوگوں کا کام ہے اگر کوئی اعلیٰ درجہ کا انسان بنا چا ہے اور آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا چاہے تو اسے چاہئے کہ خوجہ بن جائے.مطلب یہ کہ اصل نیکی شادی نہ کرنے میں ہے.ہاں جو برداشت نہ کر سکے وہ شادی کرلے.اسی طرح 1 کرنتھیوں.باب سے میں لکھا ہے:- مرد کے لئے اچھا ہے کہ عورت کو نہ چھوئے لیکن حرام کاریوں کے اندیشے سے ہرمرد اپنی بیوی اور ہر عورت اپنا شوہر رکھے.میں بے بیاہوں اور بیوہ عورتوں کے حق میں یہ کہتا ہوں کہ ان کے لئے ایسا ہی رہنا اچھا ہے جیسے میں ہوں لیکن اگر ضبط نہ کر سکیں تو بیاہ کر لیں.۳۸۰ گویا عورت مرد اگر بن بیا ہے رہیں تو پسندیدہ بات ہے.یہود میں یوں تو نہیں لکھا لیکن مرد اور عورت کے تعلقات کے متعلق کوئی صاف حکم بھی نہیں.تو رات میں صرف یہ لکھا ہے کہ:- ”خداوند نے آدم پر بھاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی نکالی اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا اور خداوند خدا اس پہلی سے جو اس نے آدم سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر آدم کے پاس لایا اور آدم نے کہا کہ اب یہ میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے.اس سبب سے وہ ناری کہلائے گی کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی.اس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی جو رو سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے.۳۹ ان الفاظ میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ عورت چونکہ مرد کی پسلی سے پیدا ہوئی ہے.اس وجہ سے وہ اس سے مل کر ایک بدن ہو جائے گا اور مرد کو طبعا عورت کی طرف رغبت رہے گی.یہ کہ ان کامل کر رہنا اچھا ہوگا یا نہیں اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا صرف فطری تعلق کو لیا گیا ہے.ہندو مذہب نے شادی کی ضرورت پر کچھ نہیں لکھا.صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ شادی ان کے دیوتا بھی کرتے تھے پھر بندے کیوں نہ کریں گے.مگر ساتھ ہی بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ نجات
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 161 کا اصل ذریعہ یہ ہے کہ انسان سب دنیا سے الگ ہو کر عبادت کرے.منوجی نے جن کی تعلیم ہندو مانتے ہیں یہ بھی بتایا ہے کہ پچیس سال تک کنوارا رہنا چاہئے پھر پچیس سال تک شادی شدہ رہے لیکن وید اس بارہ میں بالکل خاموش ہیں جو ہندوؤں کی اصل مقدس کتاب ہے.شادی کی ضرورت، اس کی حقیقت اور اس کے نظام وغیرہ کے متعلق منو وغیرہ بھی خاموش ہیں.بدھ مذہب نے شادی نہ کرنے کو افضل قرار دیا ہے کیونکہ پاکیزہ اور اعلیٰ خادمانِ مذہب کے لئے شادی کو منع کیا.ہے خواہ عورت ہو خواہ مرد.یہی جین مذہب کی تعلیم ہے اب اسلام کو دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ اس تعلق کو اس نے کس طرح نہایت اعلی مسئلہ بنادیا ہے اور اسے دین کا جزو اور روحانی ترقی کا ذریعہ قرار دیا ہے.اسلام شادی کو ضروری قرار دیتا ہے اس بارہ میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرد اور عورت کا تعلق ہونا چاہئے اور کیا انہیں اکٹھے زندگی بسر کرنی چاہئے؟ قرآن کریم اس کے متعلق کہتا ہے کہ شادی ضروری ہے.نہ صرف یہ کہ ضروری ہے بلکہ جو بیوہ ہوں ان کی بھی شادی کر دینی چاہئے اور شادی کرنے کی دلیل یہ دیتا ہے کہ يَاتِهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا یعنی اے انسانو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو، جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی قسم کا جوڑا بنا یا.اس آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انسانیت ایک جو ہر ہے.یہ کہنا کہ انسانیت مرد ہے یا یہ کہنا کہ انسانیت عورت ہے غلط ہے.انسانیت ایک علیحدہ چیز ہے.وہ نفسِ واحدہ ہے اس کے دوٹکڑے کئے گئے ہیں.آدھے کا نام مرد اور آدھے کا نام عورت.جب یہ دونوں ایک ہی چیز کے دوٹکڑے ہیں تو جب تک یہ دونوں نہ ملیں گے اس وقت تک وہ چیز مکمل نہیں ہوگی.وہ تبھی کامل ہوگی جب اس کے دونوں ٹکڑے جوڑ دیئے جائیں گے.یہ اسلام نے عورت اور مرد کے تعلق کا اصل الاصول بتایا ہے کہ مرد اور عورت علیحدہ علیحدہ انسانیت کے جو ہر کے دوٹکڑے ہیں.اگر انسانیت کو مکمل کرنا چاہتے ہو تو ان دونوں ٹکڑوں کو ملانا
فصائل القرآن نمبر...162 پڑے گا ورنہ انسانیت مکمل نہ ہوگی اور جب انسانیت مکمل نہ ہوگی تو انسان کمال حاصل نہ کر سکے گا.حوا کی پیدائش آدم علیہ السلام کی پہلی سے نہیں ہوئی اس آیت پر لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ معلوم ہوا توا آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا ہوئی تھی جیسا کہ بائیل میں ہے لیکن یہ درست نہیں کیونکہ اول تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ال یعنی ہم نے ہر چیز کو جوڑا بنایا ہے.تو کیا انسان کا جوڑا بنا نا نَعُوذُ باللهِ اُسے یاد نہ رہا تھا کہ آدم کی پسلی سے حوا کو نکالا گیا؟ قرآن تو کہتا ہے کہ خواہ خیالات ہوں، عقلیات ہوں، احساسات ہوں، ارادے ہوں ان کے بھی جوڑے ہوتے ہیں.کوئی ارادہ، کوئی احساس، کوئی جذ بہ مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو مقابل کے ارادے اور دو مقابل کے احساسات اور دو مقابل کے جذبات نہ ملیں.اسی طرح کوئی جسم مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو جسم نہ ملیں.کوئی حیوان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو حیوان نہ ملیں.کوئی انسان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو انسان نہ ملیں.پس جب اللہ تعالٰی یہ فرماتا ہے کہ ہر چیز کے جوڑے بنائے گئے ہیں تو کون تسلیم کرے گا کہ پہلے آدم کو بنایا گیا اور پھر اسے اداس دیکھ کر اس کی پسلی سے حوا کو بنایا.قرآن تو کہتا ہے کہ ہر چیز کے جوڑے ہیں.اس لئے جب خدا نے پہلا ذرہ بنایا تو اس کا بھی جوڑا بنایا.پھر خود انسان کے متعلق آتا ہے وَخَلَقْنَكُمْ أَزْوَاجًا ھے ہم نے تم سب لوگوں کو جوڑا جوڑا بنایا ہے.پھر آدم کس طرح اکیلا پیدا ہوا.اس کا جوڑا کہاں تھا؟ دوسرے یہی الفاظ کہ خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا تمہیں نفسِ واحدہ سے پیدا کیا گیا اور اس میں سے تمہارا جوڑا بنایا، سارے انسانوں کے متعلق بھی آئے ہیں لیکن ان کے یہ معنے نہیں کئے جاتے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَاللهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ اَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا - ۵۳ کہ اے بنی نوع انسان! اللہ نے تمہارے نفسوں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں.اب کیا ہر ایک بیوی اپنے خاوند کی پسلی سے پیدا ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو پہلی آیت کے بھی یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ انسان کا جوڑا اس میں سے پیدا کیا گیا.اسی طرح سورۃ شوری رکوع ۲ میں آتا ہے جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا ھے تمہارے نفسوں سے تمہارا جوڑا اور چوپایوں میں سے ان کا جوڑا بنایا
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 163 گیا.اگر حضرت آدم علیہ السلام کی پہلی سے تو پیدا کی گئی تھی تو چاہئے تھا کہ پہلے گھوڑا پیدا ہوتا اور پھر اس کی پسلی سے گھوڑی بنائی جاتی.اسی طرح جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا تو فرشتہ آتا اور اس کی پسلی کی ایک ہڈی نکال کر اس سے لڑکی بنادیتا.مگر کیا کسی نے کبھی ایسا دیکھا ہے؟ تیسرے خدا تعالی قرآن میں فرماتا ہے کہ هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إلَيْهَا هے وہ خدا ہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا اور اس سے اس کا جوڑا بھی بنایا ہے لِيَسْكُن الیها تا کہ وہ اس سے تعلق پیدا کر کے تسکین حاصل کرے.وہ لوگ جو کہا کرتے ہیں کہ انسان کا جوڑا پہلی سے بنایا گیا ہے وہ بھی صرف یہی کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پہلی سے حوا کو بنایا گیا.یہ کوئی نہیں کہتا کہ حوا کی پہلی سے آدم علیہ السلام کو بنایا گیا لیکن اس آیت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرد کی پہلی سے عورت نہیں بنی بلکہ عورت کی پہلی سے مرد بنا ہے کیونکہ اس میں زَوْجَهَا کی ضمیر نَفْسٍ وَاحِدَةٍ کی طرف جاتی ہے جو مؤنث ہے.اسی طرح منہا میں بھی ضمیر موقت استعمال کی گئی ہے.اس کے بعد یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نَفْسٍ وَاحِدَةٍ سے اس کا زوج بنایا اور زوج کے لئے ليَسكُن میں مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے.جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زوج نر تھا جو ایک مادہ سے پیدا ہوا.پس ان معنوں کے لحاظ سے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ عورت مرد کی پسلی سے نہیں بلکہ مردعورت کی پسلی سے پیدا ہوا ہے جسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا.ان آیات کا اصل مطلب یہ ہے کہ عورت مرد کا اور مرد عورت کا ٹکڑا ہے اور دونوں مل کر ایک کامل وجود بنتے ہیں.الگ الگ رہیں تو مکمل مرد نہیں ہو سکتے مکمل اسی وقت ہوتے ہیں جب دونوں مل جائیں.اب دیکھو! یہ کتنی بڑی اخلاقی تعلیم ہے جو اسلام نے دی.اس لحاظ سے جو مرد شادی نہیں کرتا وہ مکمل مرد نہیں ہو سکتا.اسی طرح جو عورت شادی نہیں کرتی وہ بھی مکمل عورت نہیں ہو سکتی.پھر جو مرد اپنی عورت سے حسن سلوک نہیں کرتا اور اسے تنگ کرتا ہے وہ بھی اس تعلیم کے ماتحت اپنا حصہ آپ کا تا ہے.اسی طرح جو عورت مرد کے ساتھ عمدگی سے گزارہ نہیں کرتی وہ بھی اپنے آپ کو نامکمل بناتی ہے اور اس طرح انسانیت کا جزو نامکمل رہ جاتا ہے.پس جب انسانیت مرد کا نام نہیں اور نہ انسانیت عورت کا نام ہے بلکہ مرد وعورت دونوں کے
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 164 مجموعے کا نام انسانیت ہے تو ماننا پڑے گا کہ انسانیت کو مکمل کرنے کے لئے مرد و عورت کا ملنا ضروری ہے اور جو مذہب ان کو علیحدہ علیحدہ رکھتا ہے وہ انسانیت کی جڑ کاتا ہے.اگر مذہب کی غرض دنیا میں انسان کو مکمل بنانا ہے تو یقینا مذہب اس عمل کی مخالفت نہیں کرے گا بلکہ اسے اپنے مقصد کے حصول کے لئے استعمال کرے گا اور جو مذہبی کتاب بھی اس طبعی فعل کو بر اقرار دے کر اس سے روکتی ہے یا اس سے بچنے کو ترجیح دیتی ہے وہ یقینا انسانی تکمیل کے راستہ میں روک ڈال کر اپنی افضلیت کے حق کو باطل کرتی ہے.اب یہ سوال ہو سکتا ہے کہ جب مرد اور عورت ایک ہی چیز کے دوٹکڑے ہیں تو کیوں ان کو علیحدہ علیحدہ وجود بنایا ؟ کیوں ایسا نہ کیا کہ ایک ہی وجود رہنے دیتا تا کہ مرد کو عورت کی اور عورت کو مرد کی خواہش ہی نہ ہوتی.اس کا جواب اسلام یہ دیتا ہے کہ وَمِنْ أَيْتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ اَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً " اس کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لئے جوڑے بنائے تاکہ تمہیں آپس میں ملنے سے سکون حاصل ہو.گویا انسان میں ایک اضطراب تھا.اس اضطراب کو دور کرنے کے لئے اس کے دوٹکڑے کر دیئے گئے اور ان کو آپس میں ملنا سکون کا موجب قرار دیا.گیا.اب ہم غور کرتے ہیں کہ وہ کون سا اضطراب ہے جس کا نمونہ عورت ومرد کے تعلقات ہو سکتے ہیں سو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ وہی اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلی کنے والا اضطراب ہے جو انسانی فطرت میں رکھا گیا ہے اور جس کے لئے تجسس کی خواہش اس کے اندر ودیعت کی گئی ہے جو اسے رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ کی طرف لے جاتی ہے.جو چیز اپنی ذات میں مکمل ہو اس میں تنجس نہیں ہوتا لیکن جب مجنس کا مادہ ہو تو بسا اوقات لوگ کسی چھوٹی چیز کا نجس کرتے ہیں تو انہیں بڑی چیز مل جاتی ہے.خدا تعالی بھی فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کے قلب میں تجس کی خواہش پیدا کر دی ہے.جب وہ اس سے کام لیتا ہے تو خدا تعالیٰ کی ذات اس کے سامنے جلوہ گر ہو جاتی ہے اور وہ اسے پالیتا ہے جب مرد عورت کی تلاش کر رہا ہوتا ہے اور اس کے لئے اپنے قلب میں اضطراب پاتا ہے تو خدا کہتا ہے کہ کیا میں اس قابل نہیں ہوں کہ تم میری تلاش کرو.تب اس کی زبان سے بلی کی آواز نکلتی ہے اور وہ کہہ اُٹھتا ہے کہ آپ ہی تو اصل مقصود ہیں.اسی طرح جب عورت مرد کی تلاش کر رہی ہوتی ہے اسے خدا کہتا ہے کہ کیا میں تلاش کرنے کے قابل نہیں ہوں.تب وہ پکار اٹھتی ہے کہ بلی یقینا آپ ہی
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 165 اصل مقصود ہیں.اس طرح مرد اور عورت ایک دوسرے کے متعلق تلاش اور تجس کا جذبہ رکھنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کر لیتے اور اسے پالیتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اپنی محبت کا مادہ فطرت انسانی میں مخفی کیوں رکھا اب سوال ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ظاہراً کیوں نہ مردو عورت میں اپنی محبت پیدا کر دی اور اس طرح مخفی کیوں رکھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ظاہر محبت ہوتی تو حصول اتصال موجب ترقیات نہ ہوتا اور نہ اس کا ثواب ملتا.ثواب کے لئے اختفاء کا پہلو ضروری ہوتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے مرد کے پیچھے عورت کے لئے اور عورت کے پیچھے مرد کے لئے اپنی محبت کو چھپا دیا تا کہ جو لوگ کوشش کر کے اسے حاصل کریں وہ ثواب کے مستحق ہوں.مرد میں عورت کی اور عورت میں مرد کی جو خواہش پیدا کی وہ مبہم خواہش ہے، اصل خواہش خدا ہی کی ہے.اس لئے اس نے انسان میں یہ مادہ رکھا کہ وہ خواہش کرے کہ میں مکمل بنوں اور وہ یہ سمجھے کہ مجھے تکمیل کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت ہے لیکن اگر انسان میں صرف اضطراب اور تجسس کی خواہش ہی رکھی جاتی تو اضطراب مایوسی بھی پیدا کر دیتا ہے.اس لئے ضروری تھا کہ جہاں انسان کے قلب میں مکمل ہونے کے متعلق اضطراب ہو وہاں اس اضطراب کے نکلنے کا کوئی رستہ بھی ہو.جیسے انجن سے زائد سٹیم نکلنے کا رستہ ہوتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے انسان میں اضطراب پیدا کیا اور ساتھ ہی عورت کے لئے مرد اور مرد کے لئے عورت کو سیفٹی والو بنایا اور اس طرح وہ محبت جو خدا تعالیٰ کے لئے پیدا کرنی تھی اس کے زوائد کو استعمال کرنے کا موقع دے دیا گیا.اگر اس کے لئے کوئی سیفٹی والو نہ ہوتا تو یہ محبت بہتوں کو جنون میں مبتلا کر دیتی.دنیا میں کوئی عقلمند کسی چیز کو ضائع ہونے نہیں دیتا پھر کس طرح ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ کسی چیز کو ضائع ہونے دے.پس اس نے اس کا علاج یہ کیا کہ انسانیت کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اسے دو شکلوں میں ظاہر کیا جس سے اس جوش کا زائد اور بے ضرورت حصہ دوسری طرف نکل جاتا ہے اور اس طرح انسان خواہ مرد ہو یا عورت سکون محسوس کرتا ہے.اسی کی طرف رسول کریم صلی ہی ہم نے اس حدیث میں اشارہ فرمایا ہے کہ محبب إلى مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاء وَالطيب وَجُعِلَ قُرَّةُ عيني في الصلوۃ.ایک روایت میں من الله نیا کی بجائے مِن دُنْيَاكُمْ کے الفاظ بھی
فصائل القرآن نمبر....166 آتے ہیں.یعنی دنیا میں سے تین چیزیں مجھے بہت ہی پسند ہیں.النساء عورتیں الطیب خوشبو وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلوة اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک تو نماز میں رکھی گئی ہے.یہ حدیث بتاتی ہے کہ مرد و عورت کے جنسی تعلقات بھی تسکین اور ٹھنڈک کا موجب ہوتے ہیں اور خوشبو سے بھی قلب کو سکون محسوس ہوتا ہے اور نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری اور عاجزانہ دعائیں جو د پیدا کرتی ہیں ، وہ بھی انسان کے لئے سکون کا موجب ہوتی ہیں.لذت.مرد و عورت ایک دوسرے کے لئے سکون کا موجب ہیں یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ یہاں تو صرف یہ ذکر ہے کہ مرد کے لئے عورت سکون کا باعث ہے، یہ ذکر نہیں کہ عورت کے لئے بھی مرد سکون کا باعث ہے.یہ مفہوم جو مرد و عورت کے تعلقات کا بتایا گیا ہے تب درست ہوتا جب دونوں ایک دوسرے کے لئے سکون کا موجب ہوں.اس کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے طونَ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ٩ یعنی عورتیں تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو.پس موجب سکون اور آرام ہونے میں دونوں برابر ہیں.عورت مرد کے لئے سکون کا باعث ہے اور مرد عورت کے لئے.مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کا لباس کہہ کر اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی حفاظت کرنی چاہئے.اگر کوئی نہا دھو کر نکلے لیکن میلے کچیلے کپڑے پہن لے تو کیا وہ صاف کہلائے گا.کوئی شخص خواہ کس قدر صاف ستھرا ہو لیکن اس کا لباس گندا ہو تو وہ گندا ہی کہلاتا ہے.پس هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا نیکی بدی میں شریک قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کا محافظ ہونا چاہتے.اس طرح بھی لِتَسْكُنُوا إِلیہا کا مفہوم پورا ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے لئے بطور رفیق سفر کے کام کرتے ہیں.روحانی طاقتوں کی جسمانی طاقتوں سے وابستگی حقیقت یہ ہے کہ بہت لوگوں نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ روحانی طاقتیں جسمانی طاقتوں سے اس
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 167 دنیا میں وابستہ ہیں اور روح اسی جسم کے ذریعہ سے کام کرتی ہے.یہ بات عام لوگوں کی نظروں سے غائب ہے.نادان سائنس والے جسم کی حرکات دیکھ کر کہتے ہیں کہ روح کوئی چیز نہیں اور روحانیات سے تعلق رکھنے کا دعویٰ کرنے والے علماء جو قرآن نہیں جانتے وہ کہتے ہیں کہ روح جسم سے علیحدہ چیز ہوتی ہے.حالانکہ روح اور جسم ایک دوسرے سے بالکل پیوست ہیں.جہاں اللہ تعالیٰ نے روح کو علوم اور عرفان کے خزانے دیئے ہیں وہاں ان خزانوں کے دریافت کی تڑپ اور ان کے استعمال کو جسم کی کوششوں کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے.جب جسم ان کی تلاش اور مجٹس کرتا ہے تو وہ نکلتے آتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ کوئی پاگل خدا رسیدہ نہیں ہو سکتا ورنہ اگر روح جسم سے الگ ہوتی اور اس کا جسم سے کوئی تعلق نہ ہوتا تو چاہئے تھا کہ پاگل کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا کیونکہ پاگل کا دماغ خراب ہوتا ہے اور دماغ جسم سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ روح سے مگر ایسا نہیں ہوتا.یہی وجہ ہے کہ پاگلوں کو رسول کریم سی ای تم نے مرفوع القلم قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو دوبارہ عمل کا موقع دے گا.اگر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر نا صرف روح کا کام تھا جسم کا اس میں کوئی دخل نہ تھا تو وہ بلی تو کہہ ہی چکی تھی.مگر حقیقت یہ ہے کہ جسم روح سے بالکل پیوستہ ہے.جسم میں خدا تعالیٰ نے ایسی طاقتیں رکھی ہیں جو روحانیت کو بڑھانے والی ہیں.رجولیت یا نسائیت سے متعلق قوتوں کا روح سے تعلق انہیں قوتوں میں سے جو انسان کو ابدیت کے حصول کے لئے دی گئی ہیں ایک اس کی ان غدودوں کا فعل ہے جو ر جولیت یا نسائیت سے متعلق ہیں.یہ غدود جسم کے ہی حصے نہیں بلکہ روح سے بھی ان کا تعلق ہے ورنہ مرد کو خوجہ بننے سے روکا نہ جاتا.پھر یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ انبیاء کے بھی بیوی بچے ہوتے ہیں کیونکہ یہ اعضاء روحانیت کے لئے ضروری ہیں.بلکہ ان سے روحانیت مکمل ہوتی ہے.رجولیت یا نسائیت کی اصل غرض در حقیقت بقا کی حسن پیدا کرنے کی خواہش ہے.اس خواہش کے ماتحت رجولیت یا نسائیت کے غدود بقا کی دوسری صورت کا کام دیتے ہیں.یعنی نسل کشی.گویا نسلِ انسانی کے پیدا کرنے کا ذریعہ ان غدودوں کے نشوونما کا ایک ظہور ہے اور وہی طاقت جو روح کی بقا کا ذریعہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بقا کا ذریعہ بھی بنادیا اور یہ
- 168 فصائل القرآن نمبر...بقائے اولاد کے ذریعہ ہوتا ہے.روح کی ترقی سے بقاء ابدی حاصل ہوتا ہے اور اولاد کے ذریعہ جسمانی بقاء ہوتا ہے.اس لئے بقاء پیدا کرنے والی زائد طاقت کو اس کے لئے استعمال کر لیا گیا.اگر کوئی کہے کہ پھر حیوانات میں اس طاقت کے رکھنے کا کیا فائدہ ہے تو اس کے لئے یہ یا درکھنا چاہئے کہ انسان کی پیدائش مختلف دوروں کے بعد ہوئی ہے.پہلے چھوٹا جانور بنا پھر بڑا پھر اس سے بڑا اور آخر میں انسان پیدا کیا گیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.مَالَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلهِ وَقَارًا " تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم خدا کے لئے وقار پسند نہیں کرتے اور تم کہتے ہو کہ خدا جلدی کر دے.وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطوَارًا تم اپنی پہلی پیدائش کو دیکھو کہ کتنے عرصے میں ہوئی ہے.غرض انسان مختلف دوروں کے بعد بنا ہے اور انہی دوروں میں سے حیوانات بھی ہیں.پس تمام حیوانات در حقیقت انسانی مرتبہ تک پہنچنے کی سیڑھیاں ہیں ورنہ وہ اپنی ذات میں خود مقصود نہیں اور جو چیز سیڑھیوں پر لے جائی جائے گی وہ راستہ میں بھی گرے گی.اس لئے وہ چیزیں جو انسان کی ترقی کے لئے بنی تھیں وہ حیوانوں میں بھی پائی گئیں مگر یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قوت شہوانی جس قدر انسان میں ترقی یافتہ ہے اس قدر حیوانات میں نہیں ہے اور پھر یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قوت شہوانی کا دماغی قابلیتوں سے ایک بہت ہی گہرا تعلق ہے اور بہت سے اعصابی نقصوں اور دماغی نقصوں کا علاج شہوانی غدودوں کے رس ہیں.غرض حق یہ ہے کہ شہوانی طاقتوں کے پیدا کرنے والے آلات کا اصل کام اخلاق کی درستی ہے لیکن چونکہ اصل کام کے بعد کچھ بقائے ضرور رہ جاتے ہیں جو بطور زائد سٹیم کے ہوتے ہیں.اگر انہیں نہ نکالا جائے تو انجن کے ٹوٹنے کا ڈر ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس سے دوسرا کام بقائے نسل کا لے لیا اور بجائے نسل انسانی کے چلانے کے کسی اور ذریعہ کے اس ذریعہ کو اختیار کیا.یہ ایک حقیقت ہے جسے دنیا ابھی تک پوری طرح نہیں سمجھی مگر آہستہ آہستہ سمجھ رہی ہے اور طبی دنیامان رہی ہے کہ قوت شہوانی کا دماغی قابلیتوں سے بہت گہرا تعلق ہے اور ان غدودوں سے کام لئے جاتے ہیں.چنانچہ یورپ کا ایک ماہر مانتا ہے کہ ان غدودوں میں نقائص کی وجہ سے ہی مایوسی اور کئی دوسرے جسمانی نقائص پیدا ہو جاتے ہیں.ایک امریکن مصنف نے سات جلدوں میں ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ رسول کریم ملا نا ہی یتیم کے متعلق لکھتا ہے کہ آپ پر کئی شادیاں کرنے کا اعتراض فضول
فصائل القرآن نمبر...169 ہے کیونکہ آپ خدا تعالیٰ کے عشق اور اس کے ذکر میں محو رہتے تھے اور ایسے آدمی کی قوت رجولیت ساتھ ہی نشو و نما پا جاتی ہے.گو اس شخص نے صحیح الفاظ میں حقیقت کو بیان نہیں کیا لیکن حق یہی ہے کہ بقائے دوام کی خواہش کا ذریعہ غدود شہوانیہ ہیں.اور بقائے نسل ان کا ایک ضمنی اور ماتحت فعل ہے.پس ضروری تھا کہ اس اضطراب کو کم کرنے کے لئے جو خدا تعالیٰ نے غدود شہوانیہ کے ذریعہ سے انسان کے اندر پیدا کیا تھا اور اس طرح اپنی طرف بلایا تھا ایک ایسی صورت کی جاتی کہ اضطراب اپنے اصل رستہ سے ہٹ جانے کا موجب نہ ہوتا اور طاقت کے بقیہ حصہ کو استعمال بھی کر لیا جاتا جس کے لئے مرد عورت کے تعلقات کو رکھا گیا ہے.اور مرد کو عورت کے لئے اور عورت کو مرد کے لئے موجب سکون بنا دیا.حضرت خلیفہ اول کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے.آپ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے بیماری کی حالت میں روزہ رکھ لیا تو اس سے شہوانی طاقت کو بہت ضعف پہنچ گیا.بیسیوں لوگوں کو میرے علاج سے فائدہ ہوتا تھا مگر مجھے کچھ فائدہ نہ ہوا.آخر میں نے سوچا کہ خدا تعالیٰ کا ذکر شروع کرنا چاہئے.چنانچہ میں نے کثرت سے تسبیح وتحمید کی تو شفا ہو گئی.پس یہ بہت بار یک تعلقات ہیں جنہیں ہر ایک انسان نہیں سمجھ سکتا.روحانیت میں بھی رجولیت اور نسائیت کی صفات یہ سلسلہ کہ ہر ایک چیز کو اللہ تعالیٰ نے جوڑوں میں پیدا کیا ہے تا کہ غفلت میں کمال، غلط اطمینان کا باعث ہو کر باعث تباہی نہ ہو اور تاکہ ہر ایک چیز اپنی ذات میں کامل نہ ہو اور اس کامل وجود کی طرف اس کی توجہ رہے جس سے کمال حاصل ہوتا ہے.یہ ظاہری حالات کے علاوہ روحانیات میں بھی چلتا ہے.اور اس سے بھی اس ظاہری سلسلہ کی حقیقت کھل جاتی ہے.چنانچہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر کافر پر ابتداء رجولیت ایمان کی حالت غالب ہوتی ہے اور ہر مومن پر رجولیت کفر کی حالت غالب ہوتی ہے.مثلاً جب کوئی شخص جاہل ہوگا تو جہالت کی وجہ سے اس کے دل میں تڑپ پیدا ہوگی اور وہ علم حاصل کرے گا.لیکن جب کوئی علم حاصل کر لے گا تو اسے اطمینان حاصل ہو جائے گا کہ علم حاصل کر لیا.ہر جگہ یہی بات چلتی ہے.قرآن کریم میں مومن کی
170 فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ مثال فرعون کی بیوی سے دی گئی ہے کیونکہ ابتداء میں مومن پر کفر غلبہ کرنا چاہتا ہے لیکن آخر کفر مغلوب ہو جاتا ہے.اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ہر انسان کا ایک گھر جنت میں ہوتا ہے اور ایک دوزخ میں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ واقعہ میں ہر انسان کا ایک گھر جنت میں اور ایک دوزخ میں ہوتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں دونوں قسم کی طاقتیں ہوتی ہیں.کفر کی طرف کفر والی طاقت کھینچتی ہے اور ایمان کی طرف ایمان والی طاقت اور انسان ایک یا دوسری کی طرف پھر جاتا ہے.در حقیقت قرآنی اصطلاح میں رجولیت چیکنگ پاور کا نام ہے اور نسائیت فیضان کا لیکن بعد میں ایک یا دوسرے کی طرف انسان پھر جاتا ہے.البتہ بعض استثنائی صورتیں بھی ہوتی ہیں اور ایسے انسان مریمی صفت ہوتے ہیں.یعنی شروع سے ہی ان کی رجولیت اور نسائیت ایک رنگ میں رنگین ہوتی ہے اور وہ تقدس کے مقام پر ہوتے ہیں یعنی بعض لوگوں میں فطر کا ایسا مادہ ہوتا ہے کہ تاثیر کا مادہ بھی ان کے اندر ہوتا ہے اور تاثر کا مادہ بھی.جب ان کی رجولیت اور نسائیت کامل ہو جاتی ہیں تو ان سے ایک بچہ پیدا ہوتا ہے جو قدوسیت یا مسیحیت کا رنگ رکھتا ہے لیکن باقی لوگ کسی طور پر یہ بات حاصل کرتے ہیں.جس انسان کے اندر ہی یہ دونوں مادے ہوں اس کو نیا مرتبہ ملتا اور اس کی ایک نئی ولادت ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سورۃ تحریم سے جب یہ استدلال کیا کہ بعض انسان مریکی صفت ہوتے ہیں.تو اس پر نادانوں نے اعتراض کیا کہ مرزا صاحب کبھی عورت بنتے ہیں کبھی حاملہ ہوتے ہیں اور کبھی بچہ جنتے ہیں.حالانکہ تمام صوفیاء لکھتے چلے آئے ہیں.چنانچہ حضرت شہاب الدین صاحب سہر وردگی اپنی کتاب عوارف المعارف میں حضرت مسیح سے یہ روایت کرتے ہیں کہ لَن تَلِجَ مَلَكُوتَ السَّمَاءِ مَنْ لَمْ يُولد مرتين " یعنی کوئی انسان خدائی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک دو دفعہ پیدا نہ ہو.ایک وہ پیدائش جو خدا کے ہاتھوں سے ہوئی اور دوسری مریم والی پیدائش.پھر اپنی طرف سے کہتے ہیں.وَصَفُ الْيَقِينِ عَلَى الْكَمَالِ يَحْصُلُ فِي هَذِهِ الْوِلَادَةِ وَبِهَذِهِ الْوِلَادَةِ يَسْتَحِقُ مِيرَاثَ الْأَنْبِيَاء وَمَنْ لَمْ يَصِلُهُ مِيرَاتُ الْأَنْبِيَاء مَا وُلِدَ وَإِنْ كَانَ عَلَى كَمَالٍ مِنَ الْفِطْنَةِ وَالذَّكَاء لِاَنَّ الْفِطْنَةَ وَالزَّكَاءَ نَتِيْجَةُ الْعَقْلِ وَالْعَقْلُ إِذَا كان يَابِسَا مِن نُورِ الشّرع لا يدخُلُ الْمَلَكُوتَ وَلَا يَزَالُ مُتَرَدِّدًا فِي الْمُلْكِ لا يعنى ۶۳ یعنی
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 171 یقین کے کمالات کے درجہ تک پہنچنا ایسی ولادت کے بعد ہوتا ہے جو دوسری ولادت ہوتی ہے.اس کے بعد انبیاء کا ورثہ ملتا ہے.پھر کہتے ہیں جسے یہ میراث نہ ملے، نہ انبیاء والے علوم ملیں وہ سمجھے کہ اس کی دوسری ولادت نہیں ہوئی.اگر چہ عقلی طور پر اسے بڑے بڑے لطیفے سو جھیں اور اگر چہ اس میں بڑی ذکاء ہو.یہ عقل کا نتیجہ ہوگا، روحانیت کا نتیجہ نہیں ہوگا اور عقل ، جب تک خدا کی طرف سے نور نہ آئے روحانیت میں داخل نہیں ہوتی بلکہ نیچر میں ہی رہتی ہے.پس روحانیت میں بھی یہ جوڑے ہوتے ہیں.اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ما مِنْ مَوْلُودٍ يُوْلَدُ إِلَّا وَالشَّيْطَنُ يَمَسُّهُ حِيْنَ يُوْلَدُ فَيَسْتَبِلُ صَارِخًا مِنْ مَشِ الشَّيْطَنِ إِيَّاهُ إِلَّا مَرْيَمَ وَابْنَهَا " یعنی ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے اسے شیطان چھوتا ہے جس سے وہ روتا ہے سوائے مسیح اور اس کی ماں مریم کے.اس سے مراد صرف مریم اور عیسی نہیں بلکہ ہر وہ آدمی جو مریمی صفات والا ہوتا ہے، مراد ہے ور نہ کہنا پڑے گا کہ نَعُوذُ باللہ شیطان نے رسول کریم صلی لا الہ ہم کو بھی چھوا تھا.اس حدیث میں در اصل رسول کریم مسی ہی ہم نے یہ بتایا ہے کہ دو کامل پیدائشیں ہوتی ہیں.ایک مریمی پیدائش اور دوسری مسیح والی پیدائش.جو انسان مریمی صفت لے کر پیدا ہوتا ہے وہ مسیح بنتا ہے اور جو مسیحیت کی صفت لے کر پیدا ہوتا ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنتا ہے.مسیحیت کی صفت پر پیدا ہونے والے جلالی نبی تھے اور مریمیت کی صفت رکھنے والے جمالی نبی.ایک میں عکس کی صفت کامل تھی اور دوسرے میں انعکاس کی.ایک وہ ہیں جن کی اصل صفت نسوانی ہے اور رجولیت بعد میں کامل ہوتی ہے یعنی ماتحت اور جمالی نبی اور ایک وہ ہیں جو مسیحیت کے وجود سے پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان کی نسوانیت مکمل ہوتی ہے.یہ جلالی نبی یا شرعی نبی ہیں.غرض روحانی سلسلہ میں بھی جوڑے پائے جاتے ہیں اور کبھی بھی کوئی انسان کامل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی رجولیت اور نسائیت کی صفات آپس میں ملیں نہیں اور دونوں صفات مکمل نہ ہو جنہیں ہم دوسرے الفاظ میں اخلاق کا تاثیری یا تاثری پہلو کہہ سکتے ہیں.جب یہ دونوں پہلو پیدا ہوں تب جا کر وہ نئی روح پیدا ہوتی ہے جو ایک نئی پیدائش کہلاتی ہے اور تاثیر اور تاثر کے ملنے سے ہی روحانیت کو سکون حاصل ہوتا ہے اور انسان اپنے قلب میں اطمینان پاتا ہے یہاں تک کہ اسے
فصائل القرآن نمبر....172 ایک نئی پیدائش حاصل ہو جاتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کا مقترب بن جاتا ہے.یہ روحانی علم النفس کا ایک وسیع مسئلہ ہے کہ انسان کے جتنے اخلاق ہیں ان میں سے بعض رجولیت کی قوت سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض نسائیت کی قوت سے.جب یہ دونوں آپس میں ملتے ہیں تب اعلیٰ اخلاق پیدا ہوتے ہیں مگر یہ مضمون چونکہ اس وقت میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا اس لئے میں نے اس کی طرف صرف اشارہ کر دیا ہے.مرد و عورت میں مودت کا مادہ دوسری بات خدا تعالٰی نے یہ بتائی کہ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً اس ذریعہ سے تم میں مَوَدَّت پیدا کی گئی ہے.مَوَدَّت محبت کو کہتے ہیں لیکن اگر اس کے استعمال اور اس کے معنوں پر ہم غور کریں تو محبت اور مودت میں ایک فرق پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ مودت اس محبت کو کہتے ہیں جو دوسرے کو اپنے اندر جذب کر لینے کی طاقت رکھتی ہے لیکن محبت میں یہ شرط نہیں ہے.یہی وجہ ہے کہ مودت کا لفظ بندوں کی آپس کی محبت کے متعلق استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورت کو اور عورت مرد کو جیت لینا چاہتی ہے.ان میں سے جو دوسرے کو جیت لیتا ہے وہ مرد ہوتا ہے اور جسے جیت لیا جاتا ہے وہ عورت ہوتی ہے.مگر اللہ تعالیٰ کے لئے یہ لفظ نہیں رکھا گیا کیونکہ بندہ کی کیا طاقت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو جذب کر سکے.چنانچہ قرآن کریم میں یہ نہیں آیا کہ بندہ خدا کے لئے ودود ہے مگر خدا تعالیٰ کے لئے آیا ہے کہ وہ وَ دُود ہے.وہ بندہ کو جذب کر لیتا ہے مگر مرد و عورت کے لئے مودةً کا لفظ استعمال فرمایا ہے.چونکہ انسانوں کو کامل کرنا مقصود تھا اس لئے خدا تعالٰی نے ایسے احساسات مرد اور عورت میں رکھے کہ مرد چاہتا ہے عورت کو جذب کرے اور عورت چاہتی ہے مرد کو جذب کرے لیکن خدا تعالیٰ کو بندہ جذب نہیں کر سکتا.اس لئے بندوں کے لئے يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةَ هيا اَشَدُّ حُبًّا لِلهِ " آتا ہے يَوَذُونَ اللہ نہیں آتا.مرد و عورت میں اللہ تعالیٰ نے مودت کا تعلق رکھ کر بتایا کہ ہم نے اس طرح ایک نفس کے دو ٹکڑے بنا کر ایک دوسرے کی طرف کشش پیدا کر دی ہے اور ہر ٹکڑا دوسرے کو اپنی طرف کھینچتا ہے.اس طرح طبعا تکمیل انسانیت کی صورت پیدا ہوتی رہتی ہے ورنہ اگر اللہ تعالیٰ یہ مودت پیدا
فصائل القرآن نمبر....173 نہ کرتا تو شادی بیاہ کے جھمیلوں سے ڈر کر کئی لوگ شادیاں بھی نہ کرتے اور کہتے کہ کیوں خرچ اُٹھا ئیں اور ذمہ واریوں کے نیچے اپنے آپ کو لائیں لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے مرد اور عورت میں مودة پیدا کر دی ہے اس لئے شادی بیاہ کے جھمیلے برداشت کر لیتے ہیں.مرد و عورت کے ذریعہ ایک مدرسہ رحم کا اجراء تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ اس ذریعہ سے رحمۃ پیدا کی گئی ہے کیونکہ نفس جس چیز کے متعلق یہ محسوس کرے کہ یہ میری ہے اس سے رحم کا سلوک کرتا ہے.مرد جب عورت کے متعلق سمجھتا ہے کہ یہ میرا ہی ٹکڑا ہے تو پھر اس ٹکڑے کی حفاظت بھی کرتا ہے.ممکن ہے کوئی کہے کہ بعض مردوں عورتوں میں ناچاقی اور لڑائی جھگڑ ابھی تو ہوتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی صورت اسی جگہ ہوتی ہے جہاں اصل ٹکڑے آپس میں نہیں ملتے.جہاں اصل ٹکڑے ملتے ہیں وہاں نہایت امن اور چین سے زندگی بسر ہوتی ہے اور کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا.کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ ایک مرد و عورت کی آپس میں ناچاقی رہتی ہے اور آخر طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے لیکن اس مرد کی کسی اور عورت سے اور اس عورت کی کسی اور مرد سے شادی ہو جاتی ہے تو وہ بڑی محبت اور پیار سے زندگی بسر کرنے لگتے ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورت مرد کا ٹکڑا تو ہے لیکن جب صحیح ٹکڑا ملتا ہے تب امن اور آرام حاصل ہوتا ہے.پس مرد عورت کو اپنا ٹکڑا سمجھ کر اس پر رحم کرتا ہے اور اس طرح اسے رحم کرنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہر جگہ اس عادت کو استعمال کرتا ہے.وہ لوگ جو ڈاکے ڈالتے اور لوگوں کو قتل کرتے ہیں وہ بھی اگر بیوی بچوں میں رہیں تو رحمدل ہو جاتے ہیں لیکن علیحدہ رہنے کی وجہ سے ان میں بے رحمی کا مادہ بڑھ جاتا ہے.اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ مجرموں کو جیلوں میں رکھنے کی وجہ سے جرم بڑھ جاتے ہیں کیونکہ وہ علیحدہ رہتے ہیں اور اس طرح سنگ دل ہو جاتے ہیں.گویا مرد عورت کے تعلق کے ذریعہ انسان کو رحم کا ایک مدرسہ مل جاتا ہے جس میں تربیت پا کر وہ ترقی کرتا ہے اور خدا کے رحم کو کھینچ لیتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ عورت ومرد کا تعلق ایک پر حکمت تعلق ہے.اس کو توڑنا انسانیت کو ناقص اور سلوک کو ادھورا کر دیتا ہے اور اسے قائم کرنے سے خدا تعالیٰ کی طرف رغبت میں سہولت پیدا ہوتی ہے نہ کہ روک.
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ عورت کو کھیتی قرار دینے میں حکمت 174 اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرد و عورت کس اصل پر تعلق رکھیں ؟ یورپ کے بعض فلاسفر ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ تربیت اخلاق کے لئے شادی تو ضروری ہے لیکن تعلقات شہوانی مضر ہیں.یہ تعلقات نہیں رکھنے چاہئیں.اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی جواب دیا ہے.فرمایا ہے.نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَثْى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ لا تمہاری بیویاں تمہارے لئے بطور کھیتی کے ہیں تم جس طرح چاہو ان میں آؤ.اس پر کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب یہ کہا گیا ہے کہ ہم جس طرح چاہیں کریں تو اچھا ہم تو چاہتے ہیں کہ عورتوں سے تعلق نہ رکھیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ اس طرح آؤ کہ آگے نسل چلے اور یاد گار قائم رہے.پس تم اس تعلق کو برا نہ سمجھنا.اس آیت میں مندرجہ ذیل امور بیان کئے گئے ہیں.ا.نر و مادہ کے تعلق کی اجازت دی ہے لیکن ایک لطیف اشارہ سے.یعنی عورت کو کھیتی کہہ کر بتایا کہ انسانی عمل محدود ہے.اسے غیر محدود بنانے کے لئے کیا کرنا چاہتے.یہی کہ نسل چلائی جائے.پس جس طرح زمین ہو تو اسے کاشتکار نہیں چھوڑتا.تم کیوں اس ذریعہ کو چھوڑتے ہو جس سے تم پھل حاصل کر سکتے ہو.اگر ایسا نہیں کرو گے تو تمہارا پیچ ضائع ہوگا.۲- دوسری بات یہ بتائی کہ عورتوں سے اس قدر تعلق رکھو کہ نہ ان کی طاقت ضائع ہو اور نہ تمہاری.اگر کھیتی میں بیج زیادہ ڈال دیا جائے تو بیج خراب ہو جاتا ہے اور اگر کھیتی سے پے در پے کام لیا جائے تو کھیتی خراب ہو جاتی ہے.پس اس میں بتایا کہ یہ کام حد بندی کے اندر ہونا چاہئے.جس طرح عقلمند کسان سوچ سمجھ کر کھیتی سے کام لیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کس حد تک اس میں بیج ڈالنا چاہیئے اور کس حد تک کھیت سے فصل لینی چاہئے اسی طرح تمہیں کرنا چاہئے.اس آیت سے یہ بھی نکل آیا کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہر حالت میں اولاد پیدا کرنا ہی ضروری ہے کسی صورت میں بھی برتھ کنٹرول جائز نہیں وہ غلط کہتے ہیں.کھیتی میں سے اگر ایک فصل کاٹ کر معا دوسری بودی جائے تو دوسری فصل اچھی نہیں ہوگی اور تیسری اس سے زیادہ خراب ہوگی.اسلام نے اولاد پیدا کرنے سے روکا نہیں بلکہ اس کا حکم دیا ہے لیکن ساتھ ہی بتایا ہے کہ کھیتی کے
فصائل القرآن نمبر....175 متعلق خدا کے جس قانون کی پابندی کرتے ہو اسی کو اولاد پیدا کرنے میں مذنظر رکھو.جس طرح ہوشیار زمیندار اس قدر زمین سے کام نہیں لیتا کہ وہ خراب اور بے طاقت ہو جائے یا اپنی ہی طاقت ضائع ہو جائے اور کھیت کاٹنے کی بھی توفیق نہ رہے یا کھیت خراب پیدا کرنے لگے.اسی طرح تمہیں بھی اپنی عورتوں کا خیال کر رکھنا چاہئے.اگر بچہ کی پرورش اچھی طرح نہ ہوتی ہو اور عورت کی صحت خطرہ میں پڑتی ہو تو اس وقت اولاد پیدا کرنے سے فعل کو روک دو.تیسری بات یہ بتائی کہ عورتوں سے اچھا سلوک کرو تو اولاد پر اچھا اثر ہوگا اور اگر ظالمانہ سلوک کرو گے تو اولا د بھی تم سے بے وفائی کرے گی.پس ضروری ہے کہ تم عورتوں سے ایسا سلوک کرو کہ اولا د اچھی ہو.اگر بد سلوکی سے کھیت خراب ہوا تو دانہ بھی خراب ہوگا یعنی عورتوں سے بدسلو کی اولاد کو بداخلاق بنادے گی کیونکہ بچہ ماں سے اخلاق سیکھتا ہے.چوتھی بات یہ بتائی کہ عورت سے تمہارا صرف ایسا تعلق ہو جس سے اولاد پیدا ہوتی ہو.بعض نادان اس سے خلاف وضع فطری فعل کی اجازت سمجھنے لگ جاتے ہیں.حالانکہ یہ قطعا غلط ہے.اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ وہ عمل کرو جس سے کھیتی پیدا ہو.قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے.اس میں خدا تعالیٰ ایک بات کو اسی حد تک نگا کرتا ہے جس حد تک اخلاق کے لئے اس کا عریاں کرنا ضروری ہوتا ہے باقی حصہ کو اشارہ سے بتا جاتا ہے.پس آئی شتتخر میں تو اللہ تعالیٰ نے ڈرایا ہے کہ یہ تمہاری کھیتی ہے اب جس طرح چاہو سلوک کرو لیکن یہ نصیحت یا درکھو کہ اپنے لئے بھلائی کا سامان ہی پیدا کرنا ورنہ اس کا خمیازہ بھگتو گے.یہ ایک طریق کلام ہے جو دنیا میں بھی رائج ہے.مثلاً ایک شخص کو ہم رہنے کے لئے مکان دیں اور کہیں کہ اس مکان کو جس طرح چاہو کھو تو اس کا مطلب اس شخص کو ہوشیار کرنا ہوگا کہ اگر احتیاط نہ کرو گے تو خراب ہو جائے گا اور تمہیں نقصان پہنچے گا.اسی طرح جب لوگ اپنی لڑکیاں بیاہتے ہیں تو لڑکے والوں سے کہتے ہیں کہ اب ہم نے اسے تمہارے ہاتھ میں دے دیا ہے جیسا چاہو اس سے سلوک کرو.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اسے جوتیاں مارا کرو بلکہ یہ ہوتا ہے کہ یہ تمہاری چیز ہے اسے سنبھال کر رکھنا.پس آنی شتتم کا مطلب یہ ہے کہ عورت تمہاری چیز ہے اگر اس سے خراب سلوک کرو گے تو اس کا نتیجہ تمہارے لئے بڑا ہوگا اور اگر اچھا سلوک کرو گے تو اچھا ہو گا.دراصل اس آیت سے غلط نتیجہ نکالنے والے آنٹی کو پنجابی کا آناہ سمجھ
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ لیتے ہیں اور یہ معنی کرتے ہیں کہ انھے واہ کرو.تکمیل روحانیت کا زوجیت سے تعلق 176 پھر قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ جنت میں بھی بیویاں ہونگی.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی کا تعلق اسلام میں روحانیت کی تکمیل کے لئے ضروری ہے ورنہ اُس جگہ بیویوں کی کیا ضرورت ہو سکتی تھی.وہاں تو اولاد پیدا نہیں ہوئی.اس سے صاف معلوم ہوا کہ رجولیت اور نسائیت کی اصل غرض تکمیل انسانی ہے اولا دایک ضمنی فائدہ رکھا گیا ہے.غرض قرآن کریم کا کوئی حکم لے لو خواہ وہ کس قدر ہی ابتدائی امر کے متعلق ہو اس میں بھی اسلام کی تعلیم افضل ہی نظر آئے گی.نرومادہ کے تعلقات کا مسئلہ کتنا ابتدائی مسئلہ تھا لیکن قرآن کریم نے اسے کتنا علمی بنا دیا.باقی کتب میں اس کا ذکر بھی نہ ہوگا.پس ہمارا یہ دعوی نہیں کہ قرآن میں ایسی باتیں ہیں جو اور کسی مذہبی کتاب میں نہیں بلکہ یہ دعوی ہے کہ قرآن کریم کی کوئی ایسی بات نہیں جو دوسرے مذاہب کی الہامی کتابوں سے افضل نہ ہو.خواہ وہ کھانے پینے کے متعلق ہو خواہ لینے دین کے متعلق ہو خواہ اور معاملات کے متعلق ہو.اس کے لئے ہم چیلنج دے سکتے ہیں کہ کوئی عیسائی یا ہندو یا کسی اور مذہب کا پیروکھڑا ہو اور کسی مسئلہ کا نام لے کر کہے کہ اسے قرآن سے افضل ثابت کرو تو یقینا ہم اسے افضل ثابت کر دیں گے.انشاء اللہ تعالی.پس قرآن کریم بعض باتوں میں ہی افضل نہیں بلکہ ہر بات میں افضل ہے.حتی کہ قرآن زبان کے لحاظ سے بھی افضل ہے لیکن بوجہ اس کے کہ تفصیلات سے صرف جزئیات کا علم حاصل ہوتا ہے، میں اب اصول کی طرف آتا ہوں.میں نے پچھلے سال سالانہ جلسہ پر قرآن کریم کی فضیلت کے چھ اصول بتائے تھے اور ثابت کیا تھا کہ ان میں سے ہرامر میں قرآن کریم دوسری کتب سے افضل ہے.وہ چھ اصول یہ تھے.اول.جس کا منبع افضل ہو.دوم.ظاہری حسن سوم.وہ اس غرض کو پورا کرے جس کے لئے اس کی ضرورت سمجھی گئی ہو.چہارم.اس کا فائدہ دوسروں سے زائد ہو.پنجم.جس میں ملاوٹ نہ ہو.ششم.وہ چیز اپنی ہو.
فصائل القرآن نمبر...177 اب میں چند اور فضیلت کے اصول بیان کر کے بتاتا ہوں کہ قرآن کریم وجہ فضیلت کے لحاظ سے دوسری تمام الہامی اور غیر الہامی تعلیمات سے افضل ہے.قرآنی فضیلت کی ساتویں وجہ ساتویں وجہ فضیلت کی یہ ہوا کرتی ہے کہ کوئی چیز اپنی جنس کی چیزوں کی نسبت ٹوٹ پھوٹ سے زیادہ محفوظ ہو.جب ہم کپڑا خریدتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ کونسا کپڑ زیادہ چلے گا.جو جلد پھٹ جانے والا ہو وہ نہیں لیتے بلکہ جو زیادہ دیر چلنے والا ہو وہ لیتے ہیں.یہی حال اور چیزوں کا ہوتا ہے.زیادہ چلنے والی چیز خریدی جاتی ہے اور کم چلنے والی چیز چھوڑ دی جاتی ہے.تعلیمات کے متعلق بھی یہ سوال لازما ہوتا ہے.اگر دو تعلیمیں برابر ہوں لیکن ایک بگڑنے سے محفوظ ہو تو اسے یقینا نقدم حاصل ہوگا.اس اصل کے ماتحت ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ یہ ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ ہے یا دوسری کتا ہیں.الہامی کتابوں میں ٹوٹ پھوٹ نہ ہونے کے کیا معنی ہوتے ہیں یہی کہ الہامی تعلیم بگڑنے سے محفوظ ہو.اس میں نہ ملاوٹ ہو اور نہ ہو سکتی ہو.پہلے بتایا گیا تھا کہ دوسری کتابوں میں ملاوٹ ہے لیکن قرآن کریم میں نہیں ہے.گو جو کچھ بیان ہوا تھا وہ بھی اختصار سے ہوا تھا اور دلائل بھی ساتھ بیان ہونے سے رہ گئے تھے مگر اب میں یہ بتاتا ہوں کہ قرآن ایسا محفوظ ہے کہ اس میں ملاوٹ ہو ہی نہیں سکتی.ملاوٹ نہ ہو اور نہ ہو سکتی ہو میں بڑا فرق ہے.قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جس میں ملاوٹ ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ :.(۱) قرآن کریم کا دعوی ہے کہ انا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ یعنی ہم نے ہی اس ذکر کو اُتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ رہیں گے.اب یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جس چیز کی ہر وقت ایک قادر ہستی حفاظت کر رہی ہو وہ ٹوٹ نہیں سکتی.پھر جس چیز کی حفاظت کا ذمہ غیر محدود طاقت والا لے اس میں کوئی ملاوٹ بھی نہیں ہو سکتی لیکن یہ صرف دعوئی ہے.میں ابھی اسے دلیل کے طور پر پیش نہیں کر رہا.اس دعوئی میں بھی قرآن دوسری کتب سے افضل ہے کیونکہ کسی اور کتاب کا یہ دعوی بھی نہیں ہے کہ خدا اس کا محافظ ہے.نہ انجیل کا نہ تو رات کا نہ وید کا اور نہ کی اور کتاب کا.قرآن کریم نے اس دعوئی کے ساتھ وجہ بھی بتائی ہے اور وہ یہ کہ (i) یہ کامل ذکر ہے.خدا تعالیٰ
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 178 فرماتا ہے اِنّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ہم نے اس کامل ذکر کو اُتارا ہے اور کامل ذکر میں خرابی پیدا ہونے سے چونکہ دنیا تباہ ہوتی ہے اس لئے ہم خود اس کے محافظ ہیں.نئی چیز تب بنائی جاتی ہے جب پہلی سے اعلیٰ بنائی جائے لیکن قرآن چونکہ کامل ہے اس لئے اس کو توڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہو سکتی.( ii ) دوسری وجہ یہ بیان کی کہ ہم نے خود قرآن کو کمال عطا کیا ہے اور جب ہم نے خود اس کو کمال دیا ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم اپنے دیئے ہوئے کمال کو ضائع ہونے دیں.حفاظت قرآن کے ذرائع پھر وہ ذریعہ جو اس کے محفوظ رکھنے کا ہے وہ بھی بتایا.سورۃ حجر میں جب فرمایا کہ تلك ايت الكتب وقُرآنٍ مُّبِيْنٍ 1 یہ کامل کتاب کی آیات ہیں ایسی کتاب کی جو مبین ہے یعنی تمام حقائق کو ظاہر کرنے والی ہے.تو چونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن کے متعلق یہ فرمایا تھا یہ کامل کتاب ہے اور اس سے یہ مفہوم نکلتا تھا کہ یہ محفوظ رہے گی اس لئے کفار نے اعتراض کیا کہ لَوْ مَا تَأْتِينَا بِالْمَلْئِكَةِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّدِقِينَ " اگر یہ کتاب محفوظ رکھی جائے گی تو پھر اس کے محفوظ رکھنے کے ذرائع کیوں نہیں بتائے گئے.چاہئے تھا کہ فرشتے اس کے ساتھ اُترتے.یہ ان کے نقطہ نگاہ سے معقول اعتراض تھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کا جواب دیا اور فرمایا مَانُنَزِلُ الْمَلْئِكَةَ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَا كَانُوا إِذَا مُنْظَرِینَ کے فرشتے تو پیغامبر ہوتے ہیں یا عذاب کی خبریں لاتے ہیں یا بشارت کی.فرشتوں کی کیا طاقت ہے کہ وہ خدا کے کلام کی حفاظت کر سکیں.فرشتوں کو تو کامل علم نہیں ہوتا.وہ زیادہ سے زیادہ الفاظ کی حفاظت کر سکتے ہیں مطالب کی حفاظت نہیں کر سکتے.حفاظت تو سوائے ہماری ذات کے اور کوئی کر ہی نہیں سکتا.سو ہم بتاتے ہیں کہ انا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَا وَإِنَا لَهُ لَحَافِظُونَ ہم اس کی حفاظت کا فیصلہ کر چکے ہیں ہم ہی اس کے ذمہ دار ہیں.اب تم اور آئندہ کفار زور لگا کر دیکھ لوتم کچھ نہیں کر سکتے اور آئندہ بھی کوئی کچھ نہیں کر سکے گا.پھر فرمایا وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ وَمَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ.كَذَلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهِ وَقَدْ
فصائل القرآن نمبر...179 خَلَتْ سُنَّةُ الْآوَلِين الے یعنی ہنسی اور انکار تو پہلے انبیاء کا بھی ہوتا چلا آیا ہے لیکن پہلے انبیاء تو اس کتاب کے متعلق جو اُن پر نازل ہوتی تھی یہ نہیں کہتے تھے کہ وہ ہمیشہ محفوظ رہے گی.پھر لوگ ان سے کیوں ہنسی کرتے رہے.ان لوگوں کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ خواہ مخواہ اعتراض کریں ورنہ جو کچھ یہ کہتے ہیں قطعا معقول بات نہیں ہے.یہ تو صرف جرم کا نتیجہ ہے جو ہر زمانہ میں ظاہر ہوتارہتا ہے.اب رہا اس کے محفوظ ہونے کا ثبوت.سو اس کے متعلق فرماتا ہے.وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوْا فِيْهِ يَعْرُجُوْنَ لَقَالُوا إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُ كَابَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُوْنَ وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَهَا لِلنَّظِرِينَ وَحَفِظْنَهَا مِنْ كُلِ شَيْطَنِ رَّجِيمِ إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُّبِين ٢ فرمایا.یہ بے وقوف لوگ اپنی نا واقعی سے کہتے ہیں کہ قرآن بھی لفظوں میں لکھی ہوئی کتاب ہے.جب ایسی ہی اور کتابیں بگڑ گئیں تو یہ کیوں نہیں بگڑ سکتی.انہیں آسمانی سامان نظر نہیں آتے.اگر ہم آسمانی دروازوں میں سے ایک بھی ان کے لئے کھولتے اور یہ آسمان پر چڑھ جاتے.یعنی ان سامانوں سے آگاہ ہوتے جو اس کتاب کی حفاظت کے لئے کئے گئے ہیں تو یہ ایسی بے ہودہ بات نہ کرتے.ایک راہ بھی اگر انہیں نظر آتی تو حیران رہ جاتے اور کہتے کہ ہماری آنکھیں تو پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں اور ہم کچھ دیکھ نہیں سکتے جو کچھ نظر آرہا ہے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا.پس معلوم ہوا کہ ہم نا بینا ہو گئے ہیں اور یہ خواب ہے یا ہم پر اس شخص نے کوئی جادو کر دیا ہے کہ اس کلام کی پشت پر اس قدر سامان ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک سامان کا ذکر بھی کرتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.ان سامانوں میں سے ایک یہ سامان ہے کہ وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّتُهَا لِلنُّظِرِينَ.ہم نے اس کلام کے آسمان میں روشن ستارے بنائے ہیں یا یہ کہ ہم نے آسمان میں کچھ ستارے مقدر کر چھوڑے ہیں جو اس کے محافظ ہیں اور ہم نے اس کے آسمان کو ستاروں سے خوبصورت بنایا ہے.یعنی کثرت سے ستارے ہیں نہ کہ کوئی کوئی.وَحَفِظنَهَا مِنْ كُلِّ شَيْطَنٍ رَّجِيْمٍ اور ہم نے اس آسمان کو ہر شیطان رجیم سے جو اسے بگاڑنا چاہتا ہے ان ستاروں کے ذریعہ سے محفوظ کر دیا ہے.پس اب اس کلام کو کوئی شریر چُھو نہیں سکتا.اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مبین.ہاں دور سے اس کی باتیں سن کر مطلب بگاڑنے کی کوشش کر سکتا ہے جیسے عیسائی کرتے
فصائل القرآن نمبر...180 ہیں مگر جو دُور سے سن کر باتیں بنانے والے ہونگے وہ بھی محفوظ نہیں رہیں گے.ان کے لئے بھی ہم ایسا شہاب مقرر کر دیں گے جو اُن کی حقیقت کو ظاہر کر دے گا.یعنی ہم نے ایسے آدمی رکھتے ہیں کہ جب کوئی قرآن کی کسی آیت کا غلط مفہوم بیان کرے گا تو وہ ایک شہاب بن کر اسے تباہ کر دیں گے.یہ وہ ذریعہ ہے جو قرآن کی حفاظت کے لئے اختیار کیا گیا ہے.زیتھا میں بتایا ہے کہ ہم نے روشنی کا جو سامان بنایا ہے وہ ایک آدھ نہیں بلکہ کثرت سے ہے اور مبین میں یہ حقیقت ظاہر کر دی کہ شہاب سے مراد ٹوٹنے والے تارے نہیں.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہی شہاب ہوگا جو قرآن کے مطالب کھول کر بیان کر دے گا.اس آیت میں بتایا کہ اس آسمان کو کوئی شیطان چھو نہیں سکتا.دوسری جگہ اس کی تشریح ان الفاظ میں موجود ہے کہ لا يَمَسةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ سے یعنی اس کو وہی لوگ چُھو سکتے جو مطہر اور خادم دین ہوں.دوسرے لوگ جو گندے ارادوں سے اور بگاڑنے کی نیت سے اس کو چھونا چاہیں نہیں چھو سکتے.پس یہ قرآن ہی کے متعلق ہے کہ شیطان اُسے چھو نہیں سکتا.ورنہ آسمان کو اگر شیطان نہیں چھو سکتا تو کیا مومن چھو سکتا ہے؟ مگر اس آسمان کو صرف شیطان نہیں چھو سکتا اور مومن چھو سکتا ہے.پس یہ قرآن ہی ہے جسے مومن چھو سکتا ہے.ایک اور جگہ بھی اس کی تشریح آئی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن سن کر جب کچھ جنات واپس گئے تو انہوں نے اپنی قوم سے کہا.أَنَا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا وَأَنَا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ ، فَمَنْ يَسْتَمِع الْآنَ يَجِدُ لَهُ شهَابًا رَ صَدًا.ہے یعنی پہلے تو آسمان کو ہم چھو لیا کرتے تھے لیکن اب جو گئے تو دیکھا کہ اس کی حفاظت کے لئے بڑے بڑے پہرہ دار بیٹھے ہیں اور آسمان کو ہم نے شھب سے بھرا ہوا پایا پھر پہلے تو ہم آسمان میں بیٹھ بیٹھ کر باتیں سنا کرتے تھے لیکن اب کوئی سننے کے لئے جاتا ہے تو اُسے پتھر پڑتے ہیں.اس سے بات بالکل واضح ہو جاتی ہے.یہ آسمان جو ہمیں نظر آتا ہے یہ تو جو ہے اور ایسی چیز نہیں جس میں کوئی بیٹھ سکے اور اگر فرض کر لو کہ کوئی بیٹھ سکتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تو شیطان آسمان پر بیٹھا کرتے تھے مگر پھر نہ بیٹھے.حالانکہ حدیث سے
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 181 معلوم ہوتا ہے کہ ارواح کا فرہ بھی آسمان پر نہیں جاسکتیں.پھر ہم کہتے ہیں رسول کریم سی ا یہی تم سے پہلے جب شیطان او پر بیٹھتا تھا تو اب کیوں نہیں بیٹھتا؟ کیا اللہ تعالیٰ کو پہلے غیب کی حفاظت کی ضرورت نہ تھی.پھر وہ کون تھے جو خدا تعالیٰ کا غیب سُن کر زمین پر آجایا کرتے تھے حالانکہ قرآن صاف طور پر ان معنوں کو رڈ کرتا ہے.قرآن کہتا ہے کہ نہ آسمان پر کوئی جا سکتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کو غیب معلوم ہوسکتا ہے.پھر ان معنوں کے لحاظ سے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ نَعُوذُ بِاللهِ خدا تعالیٰ کو بھی علم غیب نہیں تھا کیونکہ ایسی ہستیاں آسمان پر جا کر بیٹھتی تھیں جو غیب کی باتیں سن لیتی تھیں مگر خدا تعالیٰ کو ان کے بیٹھنے کا پتہ نہیں لگتا تھا.اب اس نے پتہ لگانے کے لئے پہرہ دار مقرر کر دیئے ہیں.در اصل ان آیات کے یہ معنے ہیں کہ آسمان روحانیت سے آنے والی پہلی کتابیں ایسی تھیں کہ جنہیں مخالف چھو سکتے یعنی انہیں بگاڑ دیتے تھے اور ان میں تبدیلیاں کر لیا کرتے تھے لیکن اب جو کتاب آئی ہے وہ ایسی ہے کہ اسے کوئی چھو نہیں سکتا یعنی اسے کوئی بگاڑ نہیں سکتا اور اس کی حفاظت کا خاص سامان کیا گیا ہے اور پہلے تو ہم لوگ یعنی ہم میں سے بعض لوگ کلام کوشن کر جس طرح چاہتے تھے توڑ مروڑ کر بات سنا دیا کرتے تھے لیکن اب یہ دروازہ بھی بند ہو گیا ہے اور جو کتاب آئی ہے وہ ایسی ہے کہ کوئی بگاڑنے والا اُسے چھو نہیں سکتا بلکہ اگر کوئی بگاڑنے کی کوشش کرے گا تو فوراً اس پر ایک شعلہ مارتا ہواستارہ آگرے گا.گو یاکمش تو بالکل بند ہے لیکن ستمع ہوسکتا ہے مگر اس میں بھی یہ انتظام ہے کہ جو جھوٹ ملا کر بات کرے اور بدنیتی سے سنے اس کی فور ائتر دید ہو جاتی ہے.غرض قرآن کریم کی ایسی کامل حفاظت کر دی گئی ہے کہ اسے لفظ بھی کوئی شخص بگاڑ نہیں سکتا اور مفہوم بگاڑنے والوں کے متعلق بھی خدا تعالیٰ نے ایسے سامان رکھے ہیں کہ ان سے اس بگاڑ کی اصلاح ہوتی رہے گی.شاید کوئی خیال کرے کہ اس جگہ تو آسمان کا لفظ ہے.پس آسمان کو چھونا ہی مراد ہو سکتا ہے نہ کہ کسی اور چیز کو سو یا درکھنا چاہئے کہ (۱) وہ آسمان جس سے کلام نازل ہوتا ہے یہ مادی آسمان نہیں ہوسکتا اور نہ اللہ تعالیٰ کو مادی ماننا پڑے گا.پھر یہ آسمان تو مادہ لطیف ہے کوئی ٹھوس چیز تو نہیں جس کو چھونے اور بیٹھنے کا کچھ مطلب
فصائل القرآن نمبر....182 ہو.پس آسمان جس سے کلام اُترا ہے اس کے معنے کچھ اور ہی کرنے پڑیں گے.(۲) عربی زبان کے محاورہ کے رُو سے سبب اور مقام کے لفظ کو استعارہ سبب اور مقام سے نکلی ہوئی چیز کے لئے بھی استعمال کر لیتے ہیں.چنانچہ یہی سماء کا لفظ بارش کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.بارش چونکہ اوپر سے نازل ہوتی ہے اس لئے اسے بھی سماء کہہ دیتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے وَاَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِمْ مِّدْرَارًا کے ہم نے ان پر بادلوں کو موسلا دھار بارش برساتے ہوئے بھیجا.اسی طرح سبزی ترکاری کو بھی سماء کہتے ہیں کیونکہ وہ پانی سے پیدا ہوتی ہے.کہتے ہیں.مَا زِلْنَا نَا السَّمَاءَ حَتَّى أَتَيْنَا كُمُ ہم سَمَاء یعنی سبزی کو مچلتے ہوئے تمہارے گھر تک آئے.پس اس جگہ سماء سے مراد آسمانی کتاب ہے ورنہ یہ کہنا بے جا ہوگا کہ ہم پہلے وہاں بیٹھ کر سنا کرتے تھے اب ایسا نہیں کر سکتے.پہلے کیوں سنتے تھے اور اب کیوں نہیں سنتے.ہمیں کوئی ایسا سماء نکالنا پڑے گا جسے پہلے چھو لیا کرتے تھے اور اب نہیں چھو سکتے.سو اس کے متعلق قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سماء آسمانی کتابوں کا ہے کہ پہلے لوگ ان کو بگاڑ لیتے تھے.چنانچہ سورۃ بینہ میں آتا ہے.لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكَيْنَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ رَسُولٌ مِنَ اللهِ يَتْلُوا صُحُفًا مطَهَّرَةٌ فِيهَا كُتب قيمة.اے فرمایا یہ اہل کتاب اور مشرکین اپنی جہالت کو کبھی چھوڑ نہ سکتے تھے جب تک کہ ان کے پاس ایک بینہ نہ آجاتی.بینہ کیا ہے؟ وہ خدا کا رسول ہے جو اُن پر کئی پاکیزہ صحیفوں والی کتاب پڑھتا ہے.کئی ایسی تعلیمیں تھیں جو بگڑ گئی تھیں.قرآن کریم میں ان کو اصل حالت میں پیش کیا گیا ہے.پس چونکہ اب اس میں کتب قیمہ جمع ہو گئی ہیں اس لئے اب یہ کتاب نہیں بگڑ سکتی.قرآن کے متعلق فِيهَا كُتُب قيمة کہ کر بتایا کہ پہلی تعلیموں میں دو قسم کی خرابیاں تھیں.ایک وہ خرابی جس کی اصلاح کی ضرورت بوجہ نسخ نہ رہی تھی اسے چھوڑ دیا.دوسری وہ خرابی جو ایسی تعلیم میں تھی جو قائم رہنی تھی سوا سے دور کر کے اخذ کر لیا.غرض اگر تو کوئی ایسی تعلیم بگڑ گئی تھی جس کی دنیا کو اب ضرورت نہ تھی تو اسے چھوڑ دیا گیا ہے اور اگر اس تعلیم میں خرابی پیدا ہو گئی تھی جو قائم رہنی چاہئے تھی تو اس خرابی کو دور کر کے صحیح تعلیم کو اخذ کر لیا گیا ہے.
فصائل القرآن نمبر....183 سمائے روحانی حبیبی و قیوم کی صفات پر بنیاد اس کے مقابلہ میں نیا آسمان جو قرآن کے ذریعہ بنا اس کی بنیاد حیی و قیوم کی صفات پر رکھی گئی ہے.مختلف انبیاء کے کلام مختلف صفات الہیہ کے ماتحت نازل ہوتے رہے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ یعنی ہر زمانہ نبوت میں اللہ تعالیٰ کا کلام نئی صفات کے ماتحت نازل ہوتا ہے.اس جگہ یوم سے مراد نبوت کا زمانہ ہے.جیسا کہ دوسری جگہ فرماتا ہے.يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُةَ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ کے یعنی اللہ تعالیٰ آسمان سے زمین تک اپنے حکم کو اپنی تدبیر کے مطابق قائم کرے گا اور پھر وہ اس کی طرف ایک ایسے وقت میں چڑھنا شروع کرے گا جس کی مقدار ایسے ہزار سال کی ہے جس کے مطابق تم دنیا میں گنتی کرتے ہو.پس یؤھ سے مراد زمانہ نبوت ہے اور سماء سے قرآن کریم مراد ہے کیونکہ قرآن کریم کا نام صحف مرفوعہ بھی آیا ہے اور سماء بھی بلندی کا نام ہے.پس اس روحانی آسمان کو بھی سماء کہہ سکتے ہیں اور اس کے لئے صفت حیی و قیوم کو استعمال کیا گیا ہے.یہ ثبوت که قرآن حیی و قیوم کی صفات کی بنیاد پر ہے قرآن سے بھی اور حدیث سے بھی ملتا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم سی سی کی ہمہ سے پوچھا گیا کہ قرآن کریم کی کون سی آیت سب سے بڑی ہے تو آپ نے فرمایا.آیت الگریسی سے اور آیت الکرسی کی بنیاد حیی و قیوم پر ہے.یہ روایت ابی بن کعب، ابن مسعودؓ ، ابوذرغفاری ، ابو ہریرہ اور چار پانچ صحابہ سے مروی ہے اور اکثر کتب حدیث میں ہے.اعظم آیۃ سے مراد اور حقیقت یہی ہے کہ یہ آیت منبع ہے قرآن کا اور نہ سب آیات ہی اعظم ہیں اور منبع اسی آیت کو کہہ سکتے ہیں جو بطور اتم کے ہو.یعنی اس میں وہ بات ہے جو قرآن کریم کو دوسری کتب سے بطور اصول کے ممتاز کرتی ہے.چنانچہ حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول کریم سی ایم نے فرمایا کہ آیت الکرسی میرے سوا اور کسی نبی کو نہیں ملی.9 کے یوں تو قرآن کریم کی کوئی آیت بھی کسی اور نبی کونہیں دی گئی مگر آیت الکرسی کے نہ دیئے جانے کا یہ مطلب ہے کہ
فصائل القرآن نمبر...184 اس کے اندر جو صفات ہیں ان کے ماتحت کسی اور نبی پر کلام نازل نہیں ہوا اور وہ صفات حیجی و قیوم کی ہی ہیں.چنانچہ سورۃ آل عمران میں خدا تعالیٰ کی ان ہر دو صفات کو بیان کر کے قرآن کے نازل ہونے کا ذکر ہے.حیی کے معنے ہوتے ہیں زندہ اور زندہ رکھنے والا ہے اور قیوم کے معنے ہیں قائم اور قائم رکھنے والا.پس فرمایا یہ کتاب اس خدا کی طرف سے اُتری ہے جو زندہ اور زندہ رکھنے والا ہے یعنی یہ کلام ہمیشہ زندہ اور زندگی بخش رہے گا اور پھر یہ کتاب اس خدا کی طرف سے اُتری ہے جو قائم اور قائم رکھنے والا ہے.پس اس کتاب کو بھی وہ ہمیشہ قائم رکھے گا.آیت انگریسی کے متعلق رسول کریم ملی تم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی صبح کو آیت انگریسی پڑھے تو شام تک اور شام کو پڑھے تو صبح تک شیطان سے اس کی حفاظت کی جاتی ہے.10 اس سے معلوم ہوا کہ قرآن ان صفات کے ساتھ خاص تعلق رکھتا ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ صرف یہی کلام ہے جس کے متعلق فرمایا کہ لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ پس وہی کلام جس کے زندہ رکھنے اور محفوظ رکھنے کا وعدہ تھا اور جس سے پہلے کسی کلام کے متعلق یہ وعدہ نہ تھا.حالانکہ وہ آسمانی کلام تھے اور جس سے پہلے کلاموں کو لوگ چھوتے تھے اور جس کے چھونے سے لوگوں کو روکا گیا تھا صاف ظاہر ہے کہ اس کلام کی طرف آنا لمسنا والی آیت میں اشارہ ہے.نیز یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اگر حفاظت سے مراد قرآن کریم کی حفاظت نہ تھی تو کفار کے سوال میں مطب کے نزول کے ذکر کے کیا معنے ہیں؟ کفار تو قرآن کے متعلق سوال کرتے تھے پھر یہ کیا جواب ہوا کہ آسمان پر شیطان نہیں جاسکتا اور اگر جاتا ہے تو اس پر شہاب گرتا ہے.کتب سابقہ میں تحریف اب عملا د یکھ لو پہلی آسمانی کتب کس طرح خراب کر دی گئیں.تو رات میں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی خود حضرت موسیٰ کی موت کا ذکر ہے.اسی طرح انجیل میں حضرت مسیح کی موت کا ذکر ہے.ژند اوستا کے متعلق خود پارسیوں کا بیان ہے کہ مسلمانوں نے اُسے بگاڑ دیا.میں کہتا ہوں یہ تو پیچھے دیکھا جائے گا کہ مسلمانوں نے پارسیوں کی آسمانی کتاب میں کیا تصرف کیا لیکن ان کے بیان سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ ان کی کتاب بگڑ چکی ہے.ویدوں کی بناوٹ ہی بتاتی ہے کہ وہ بگڑ
فصائل القرآن نمبر...185 چکے ہیں.وید میں دوسروں کی عورتوں کو اغوا کرنے اور چوری کرنے کے متعلق دُعا ئیں سکھائی گئی ہیں اور ایسے منتر موجود ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ اس طرح چوری کرنی چاہئے کہ چور گھر والوں کو نظر نہ آئے.جس کتاب میں چوری اور ادھالے کی دُعائیں ہوں وہ کیونکر مس شیطانی سے محفوظ سمجھی جاسکتی ہے.اس قسم کی باتوں سے تو صاف ظاہر ہے کہ شیطان نے ان کتابوں کو چھو لیکن اس کے مقابلہ میں قرآن نہ صرف دعوی طہارت کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کوئی اسے بگاڑ ہی نہیں سکتا اور اگر کوئی اسے خراب کرنا چاہے گا تو اس پر ٹھٹھب گریں گے.یہ کوئی معمولی بات نہیں دوسری کتب کو لوگ آئے دن بگاڑتے رہتے ہیں.حال ہی میں بائیبل کے متعلق خود عیسائیوں کی طرف سے اعلان ہوا ہے کہ: بائیمیل سو سائٹی نے کمال دور اندیشی سے نئے ترجمہ کی تھوڑی سی جلد میں اس غرض سے شائع کی ہیں کہ اس ترجمہ پر جو اعتراضات موصول ہوں ان کو پیش نظر رکھ کر مناسب تبدیلیاں کر لی جائیں.‘۱۰ اسی طرح انجیل کا ایک حصہ ہی اڑا دیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یسوع مسیح کے بیماروں کو اچھا کرنے پر جب یہ اعتراض کیا کہ انجیل میں لکھا ہے کہ ایک تالاب تھا جس میں نہانے سے بیمار اچھے ہو جاتے تھے.تو آب عیسائیوں نے اسے نکال دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کسی اور کتاب کا حصہ تھا جو غلطی سے انجیل میں درج ہو گیا.مگر ہم کہتے ہیں اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ شیطان نے انجیل کو مست کیا مگر قرآن کو تو کوئی چھو ہی نہیں سکا.آخر وجہ کیا ہے کہ دوسری کتابوں کے ماننے والے قرآن کو بگاڑنے کی کوشش نہیں کرتے.اس سے انہیں ڈر کیوں آتا ہے.روسی حکومت نے ایک دفعہ چاہا تھا کہ قرآن سے جہاد کی آیتیں نکال دے لیکن ملک میں اتنا شور پڑا کہ حکومت کو مجبور ہو کر اپنے ناپاک ارادہ سے باز رہنا پڑا.یہ بھی مٹھب ہی تھے جو اس پر گرے.انجیل کے متعلق کیوں ایسا نہیں ہوتا.پھر روسی حکومت جو قرآن سے جنگ کی آیات نکالنا چاہتی تھی وہ خود جنگ کی لپیٹ میں آگئی.
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ حفاظت قرآن اور یورو چین مستشرقین 186 دوسرا ذریعہ جس کی وجہ سے قرآن میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ قرآن کے لئے حرس مقرر ہیں.یعنی اس کے نگران ہیں.اس وجہ سے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی.اس مضمون کو دوسری جگہ زیادہ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.كُلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ في صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ.بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرَامٍ بَرَرَةٍ یعنی یہ قرآن ایسے صحیفوں میں ہے جو عزت والے بڑی بلندشان رکھنے والے اور پاک ہیں اور یہ صحیفے دور دور سفر کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو بڑے معزز اور اعلیٰ درجہ کے نیکو کار ہیں.یہ آیت ایسی عجیب ہے کہ اسے پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا عیسائی لٹریچر کو مدنظر رکھ کر اُتاری گئی ہے.میں نے موجودہ عیسائی لٹریچر سے ایسے الفاظ نکالے ہیں جو اس آیت کی تشریح معلوم ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اس کلام کے ہمیشہ محفوظ رکھنے کا سامان ہم نے کیا ہے اور وہ یہ کہ (۱) یہ کتاب ہمیشہ مکرم رہے گی.اس کا ادب ہم لوگوں کے دلوں میں ڈال دیں گے اور لوگ ادب اور تعظیم کی وجہ سے اس کو خراب نہیں کریں گے.اس ادب کو سرولیم میور یوں تسلیم کرتا ہے.The two sources would correspond closely with each other; for the Coran, even while the Prophet was yet alive, was regarded with a superstitious awe as containing the very words would be God; so that any variations of reconciled by a direct reference to Mahomet himself, and after his death to the originals where they existed, or copies from the same, end to the memory of the Prophet's confidential
فصائل القرآن نمبر....friends and amanuenses.Ar 187 یعنی قرآن کا لوگوں پر اتنا رعب تھا کہ اس کے متعلق وہ خود اپنی عقل سے کوئی فیصلہ نہ کرتے تھے بلکہ رسول سے پوچھتے تھے یا پھر حفاظ اور قرآن کی نقلوں سے مقابلہ کرتے تھے.خود بخود کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے.دوسری بات اس آیت میں یہ بیان کی گئی ہے کہ مَرْفُوعَة یعنی باطنی طور پر بھی اس میں کوئی خرابی نہیں آسکتی کیونکہ اس کے مطالب کو بلند بنایا گیا ہے اور اس میں علوم ایسے رنگ میں رکھے گئے ہیں کہ انہیں خدا کا کلام یقین نہ کرنے والے سمجھ ہی نہیں سکتے اور بگاڑتا کوئی اسی وقت ہے جب مطلب سمجھ سکے اور جانتا ہو کہ اس میں یہ تغیر کر دوں گا تو یہ بات بن جائے گی.غرض فرمایا.قرآن کےمطالب ایسے رنگ میں رکھے گئے ہیں کہ جو لوگ انہیں سمجھتے ہیں وہ بگاڑتے نہیں اور جود شمن ہیں وہ کہتے ہیں اس میں رکھا ہی کیا ہے یہ بے معنی الفاظ کا مجموعہ ہے اس وجہ سے وہ بگاڑنے کی کوشش ہی نہیں کرتے.سرولیم میور اس بارے میں لکھتا ہے.The Contents and the arragnment of the Coran speak forcibly for its authenticity.All the fragments that could obtained have, with artless simplicity, been joined together.the patchwork marks of a designing genius or bears no moulding hand.A اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ ہی بتا رہے ہیں کہ کسی نے اسے بگاڑا نہیں.تمام ٹکڑے اس سادگی سے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے گئے ہیں کہ پتہ لگتا ہے کہ وہ گودڑی جس کے ساتھ چیتھڑے جوڑے گئے ہیں کسی عقلمند نے انہیں نہیں جوڑا.اب اس قسم کے مرفوع کلام میں کسی کو جرات ہی کب ہو سکتی ہے کہ کچھ داخل کرے.جو سمجھتے ہیں وہ برا ہیں اور جو نہیں سمجھتے وہ اسے ایک بے معنی کلام سمجھتے ہیں اور اس میں تبدیلی کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے.تیسری بات یہ بتائی کہ یہ کتاب ہر نقص سے پاک بنائی گئی ہے اور ایسی اعلی چیز میں جو دخل
فصائل القرآن نمبر....188 دے وہ فوراً پکڑا جاتا ہے.اس کی مثال کشمیر میں جا کر دیکھو.سلطنت مغلیہ کی جو عمارتیں بنی ہوئی ہیں ان میں جہاں جہاں بعد میں دخل دیا گیا ہے اس کا فورا پتہ لگ جاتا ہے.اسی طرح تاج محل کی حالت ہے.معمولی عمارت میں اگر کوئی پیوند لگا دے تو وہ پچھپ سکتا ہے لیکن اگر تاج محل میں جا کر لگائے تو فوراً پکڑا جاتا ہے.پس جو لوگ قرآن کریم کی خوبیوں سے ناواقف ہیں وہ تو اس میں کمی بیشی کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے اور جو واقف ہوتے ہیں وہ اس کی خوبصورتی میں دخل نہیں دے سکتے کیونکہ اگر دخل دیں تو فوراً ظاہر ہو جائے.اس وجہ سے انہیں قرآن کو بگاڑنے کی جرات ہی نہیں ہوتی.قرآن کریم کی حفاظت کے ظاہری سامان پھر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کے ظاہری سامان بھی رکھے ہیں.جس طرح اس کی اندرونی حفاظت کے تین ذرائع بتائے تھے اسی طرح بیرونی حفاظت کے بھی تین ذرائع بیان کئے.اوّل فرمایا بِأَيْدِی سَفَرَةٍ سَفَرَة کے ایک معنی لکھنے والے کے ہوتے ہیں.اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہونگے کہ یہ کتاب ایسی قوم کے ہاتھ میں دی گئی ہے کہ جوں جوں یہ نازل ہوتی گئی لکھی جاتی رہی اور جو بات لکھ لی جائے وہ محفوظ ہو جاتی ہے.پھر فرمایا یہ کتاب ایسے لکھنے والوں کے سپرد کی گئی ہے جو کیر ام بور ہیں.یعنی معز زلوگ ہیں اور نیک اور پاک ہیں.پس مطلب یہ ہوا کہ ہمیشہ مخلص لکھنے والے اسے ملتے رہیں گے جو روپیہ یا لالچ کے سبب سے نہیں لکھیں گے بلکہ بڑے پایہ کے لوگ ہوں گے جو ہر ایک قسم کی عزت رکھتے ہونگے اور اپنے ہم عصروں میں خاص مقام رکھتے ہو نگے.وہ لوگ محض نیکی کی خاطر قرآن لکھا کریں گے اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگ جن کی کوئی غرض بگاڑنے سے وابستہ نہ ہو اور ہوں وہ نیک وہ کبھی بگاڑ نہیں سکتے.پس اس وجہ سے قرآن کریم کے اس قدر صحیح نسخے دنیا میں پھیل جائیں گے کہ اس میں بگاڑ ہی ناممکن ہو جائے گا.اب دیکھو یہ کتنی زبردست بات ہے اور کس طرح خدا تعالیٰ نے اس کو پورا کیا ہے.بڑے بڑے زبردست بادشاہ جو مذہبی علماء نہیں تھے کہ تعلیم قرآنی کے بگاڑنے میں ان کا فائدہ ہو اور پھر
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 189 مختلف ممالک کے قرآن کریم کے لکھنے کے بوجہ ثواب عادی تھے.ہندوستان کے بادشاہوں میں سے اور نگ زیب مشہور ہے جس نے کئی نسخے قرآن کریم کے لکھے.اسی طرح صلیبی جنگوں کے متعلق ایک کتاب حال ہی میں چھپی ہے.اس میں اسامہ بن منفذ اپنے والد سلطان شہزاد کے متعلق جو شام کی ایک حکومت کے بادشاہ تھے لکھتا ہے کہ وہ یا تو فرنگیوں سے لڑتے یا شکار کھیلتے اور یا پھر قرآن لکھا کرتے تھے.چنانچہ مرتے وقت ان کے لکھے ہوئے ۴۳ قرآن موجود تھے.دوسرے معنی سفرة کے سفر کرنے والے کے ہیں.ان معنوں کی رُو سے یہ مطلب ہوا کہ نہ صرف قرآن کریم بکثرت لکھا جائے گا بلکہ فوراً دنیا کے چاروں گوشوں میں پھیل جائے گا اور اس وجہ سے بگڑنے سے محفوظ ہو جائے گا.اگر کوئی مصر میں بگاڑنا چاہے گا تو عرب، شام، ہندوستان وغیرہ ممالک میں جو قرآن موجود ہوگا وہ بگاڑ کو رڈ کر دے گا.غرض فرمایا یہ کتاب سفر کرنے والے بزرگوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے تا کہ وہ اسے سارے ملکوں میں لے جائیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں قرآن کریم رسول اللہ لی ﷺ کے زمانہ میں ہی تمام عرب، افریقہ اور ابی سینا میں پہنچ گیا تھا.پھر رسول کریم سلا السلام کی وفات کے چند سال بعد کے عرصہ میں فلسطین ، شام ، عراق ، فارس اور افغانستان، چین، اناطولیہ، مصر، ہندوستان اور یونان وغیرہ ممالک میں پھیل گیا.پس ان بے غرض لکھنے والوں اور پھر اس طرح مختلف ممالک میں پھیل جانے کی وجہ سے اس میں کسی تبدیلی کا ہونا ناممکن ہو گیا اور پھر اس میں شک کرنا بھی ناممکن ہو گیا کیونکہ سب ملکوں کے نسخے ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں اور اب تو پریس کے نکل آنے کی وجہ سے اس کی اشاعت کی کوئی حد ہی نہیں رہی.پھر شروع اسلام میں مسلمانوں میں جو اختلاف ہوا وہ بھی قرآن کریم کی حفاظت کا مؤید ہو گیا.سفرة کے معنی اونٹ کی ناک میں تکمیل ڈالنے والوں کے بھی ہیں.اس لحاظ سے اس کے یہ معنی بھی لئے جا سکتے ہیں کہ مختلف حملہ کرنے والی فوجوں کے افسروں یا جماعتوں کے لیڈروں کے ہاتھ میں یہ قرآن ہوگا جو سب کے سب نیک ہونگے اور اس طرح مختلف مخالف جماعتوں کے ہاتھوں میں قرآن کریم کا بغیر اختلاف کے ہونا اسے بالکل محفوظ کر دے گا اور کوئی جماعت اسے بگاڑ نہیں سکے گی کیونکہ دوسری جماعت فوراً اس پر گرفت کر سکے گی.
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 190 یہ دلیل ایسی زبر دست ہے کہ دشمن سے دشمن بھی اس کی طاقت کا قائل ہوا ہے مگر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ خود قرآن نے ایک مکی سورۃ میں ان سب دلائل کو جمع کر دیا تھا.سرولیم میورلکھتا ہے.it is conceivable that, either Ali, or his party, thus arrived at power, would have when tolerated a mutialted Coran-mutilated expressly to destroy his claims? Yet we find that they used the same Coran as their opponents, and raised no shadow of an objection against it.A یعنی ہم کس طرح مان سکتے ہیں کہ قرآن میں کوئی تغیر کیا گیا ہے.مسلمانوں میں جب لڑائیاں ہوئی تو وہ ایک ہی قرآن رکھتے تھے اور کسی نے کسی فریق کے قرآن کے خلاف کوئی اعتراض نہیں کیا.اسی طرح لکھتا ہے.So for from objecting to Othman's revision, Ali multiplied copies of the edition among other MSS.Supposed to have been written by Ali, one is said to have been preserved at Mashhed Ali as late as the fourteenth century, which bore his signature.۸۵ یعنی دوسرے کئی مصنفوں نے بھی قرآن کریم کے جلد سے جلد پھیل جانے اور مختلف لڑنے والے گروہوں کے پاس ہونے کو اس میں تبدیلی ہونے کے لئے ناممکن بتایا ہے.مگر قرآن کریم کو دیکھو اس نے پہلے ہی اس تفصیل سے اس حقیقت کو ظاہر کر دیا تھا کہ وہ خود ایک زبر دست نشان ہے.قرآن نے بتا دیا تھا کہ یہ بکثرت لکھا جائے گا.دور دراز ملکوں میں پھیل جائے گا.مسلمانوں میں جنگیں ہونگی اس لئے اسے کوئی بگاڑ نہ سکے گا اور یہ ایسی پختہ دلیلیں ہیں کہ عیسائیوں نے بھی انہیں تسلیم کر لیا حالانکہ یہ باتیں اس وقت بیان ہوئیں جب کہ رسول کریم صلی اللہ
191 فصائل القرآن نمبر...علیہ وسلم ابھی مکہ میں تھے اور جب قرآن کے بگڑنے کا کوئی سوال ہی نہ تھا.سفرة کے ایک معنی جھاڑو دینے اور پردہ اُٹھا دینے کے بھی ہوتے ہیں.اس لحاظ سے آیت کے یہ معنی ہونگے کہ اس کتاب کو ایسے لوگوں کے سپرد کیا گیا ہے جو اس خس و خاشاک کو جو تعلیم قرآن پر پڑ کر اسے مسخ کر دینے کا موجب ہو سکتا تھا دور کرتے رہیں گے اور پھر اس کی تعلیم کو اس کی اصلی حالت پر لاتے رہیں گے اور جو اس کے پوشیدہ مطالب کو ظاہر کرتے رہیں گے اور اس کے بلند مطالب کولوگوں کے سامنے لاکر اس کی قبولیت اور تاثیر کو تازہ کرتے رہا کریں گے جو اس فن کے لوگوں میں کیرام ہوں گے.یعنی ماہرین فن ہونگے اور بررة ہونگے یعنی امور خیر میں وسیع دسترس رکھنے والے ہونگے اور اس طرح وہ نہ صرف خود خدمت کریں گے بلکہ اور بہت سے خادم بنا کر چھوڑ جائیں گے.لطیفہ یہ ہے کہ اس آیت میں تین ہی صفات کتاب کی اور تین ہی کتاب کے حاملوں کی بیان ہوئی ہیں لیکن کرام کے سوا جو دونوں میں متحد ہے باقی دونوں صفات میں فرق ہے.کتاب کے لئے مَرْفُوعَة اور مُطَهَّرَة فرمایا ہے اور انسانوں کے لئے سَفَرَة بَرَرة.لیکن اگر ہم غور کریں تو در حقیقت اس اختلاف میں بھی اتحاد ہے.سَفَرَة کا جوڑا مَرْفُوعَة سے ہے کیونکہ اونچی چیز اوجھل ہوتی ہے اور سفر کے معنی خفاء کو دور کرنے کے ہوتے ہیں.چنانچہ جب سَفَرَتِ الريح الحَ عَن وَجهِ السَّمَاءِ کہیں تو اس کے معنی ہوتے ہیں كَشَفَته یعنی ہوا نے گرد و غبار کو اڑا کر مطلع صاف کر دیا.اسی طرح مطقرة کے مقابلہ میں بررة فرمایا ہے کیونکہ مُطهَّرة کے معنی ہیں جس میں طہارت کے سب سامان ہوں اور بررة کے معنی بھی یہی ہیں کہ جن میں سب اصول خیر ہوں.پس کتاب کی تینوں صفات کے مقابلہ میں ویسی ہی تین صفات والے انسانوں کا ذکر کیا جو اس کی حفاظت کریں گے.الله الله !! کیسا زبردست دعویٰ ہے اور کس طرح اس دعوی کو زبر دست طاقتوں سے پورا کیا گیا ہے.سب سے پہلا قدم غلطی کی طرف رسول کریم میان نیا اینم کی وفات پر اٹھنے لگا تھا جب کہ آپ کی وفات میں شبہ پیدا ہوگیا اور گویا آپ کو خدائی کا مقام ملنے لگا تھا مگر خدا تعالیٰ نے سورۃ نور کی آیت استخلاف کے ماتحت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کھڑا کر کے یہ اختلاف دور کر دیا.انہوں نے قرآن کریم ہی کی یہ آیت پیش کی کہ وَمَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ) اور
فصائل القرآن نمبر...192 اس طرح پیش کی کہ اس اختلاف کے بانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے نہ رہ سکے اور گر گئے مگر غور کر کے دیکھو کہ مسیح کے بعد کیا ہوا.ابھی وہ زندہ ہی تھے کہ صلیب کے واقعہ کے بعد بگاڑ شروع ہو گیا اور حضرت موسی کی بھی زندگی میں ہی خدا تعالیٰ سے لوگ شرک کرنے لگے وہاں حضرت ہارون جیسے اور مسیح کے وقت پطرس جیسے لوگ کچھ نہ کر سکے اور حواریوں کی موجودگی میں گمراہی شروع ہوگئی گو حواری خدا تعالیٰ کے فضل سے محفوظ تھے.جیسا کہ قرآن کریم میں ان کی تعریف آئی ہے اور شرک بھی بہت بعد جا کر پھیلا ہے لیکن خرابی شروع ہو گئی تھی جو اباحت کے رنگ میں تھی.اس کے بعد جس جس زمانہ میں تغیر ہوا اس کی اصلاح ہوگئی اور ہمیشہ امت محمدیہ میں ایسے انسان پیدا کئے جاتے رہے جو قرآن کریم کے ذریعہ ہر قسم کے اختلافات کو دُور کرتے رہے.اس کے مقابلہ میں دوسرے مذاہب کی حالت بدلتی چلی گئی اور اصلاح کرنے والے کوئی پیدا نہ ہوئے.اس آخری زمانہ میں ہی دیکھ لو کہ کس طرح اسلام کو پھر خدا تعالیٰ اپنی اصل حالت پر لے آیا ہے اور قرآن کریم کس طرح اپنے اصلی مفہوم پر قائم ہو گیا ہے.موجودہ زمانہ میں جتنی خرابیاں قرآن کریم کی غلط تفسیریں کرنے کی وجہ سے پیدا ہو چکی تھیں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر دور کر دیا اور قرآن کریم کو اسی طرح اجلا کر کے دنیا کے سامنے رکھ دیا جیسے رسول کریم سی سی کی یتیم کے زمانہ میں تھا.حفاظت قرآن کا دائمی وعدہ پس قرآن کریم کی دائی حفاظت کا جو وعدہ خدا تعالیٰ نے کیا وہ پورا ہوا اور کوئی شخص آج تک نہ ظاہری طور پر قرآن کو بگاڑ سکا اور نہ باطنی طور پر اور جب آج تک کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ وعدہ پورا ہوتا رہا ہے تو آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا.خدا تعالیٰ نے خود بتا دیا ہے کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتی کا آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنے احسان کو پورا کر دیا ہے.پس جب مکمل دین آگیا اور نعمت کامل ہو گئی تو آب اور کسی دین کی ضرورت ہی نہ رہی.اب جو بھی مامور آئے گا اس کی تائید میں آئے گا اور اس وجہ سے قرآن قیامت تک بگڑ نہیں سکے گا.اگر قرآن کو کوئی بدل سکتا ہے تو خدا ہی بدل سکتا ہے لیکن خدا نے اپنے
فصائل القرآن نمبر ۳۰۰۰۰ 193 متعلق بتا دیا کہ قرآن کو بالکل مکمل کر دیا گیا ہے اور انسانوں کے بدل نہ سکنے کے متعلق ہر قسم کی حفاظت کے سامان کر دیئے گئے ہیں.پس اب قرآن میں کسی قسم کی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا.دوستوں کو ایک نصیحت میں دوستوں کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جب سے ریل جاری ہوئی ہے ایک نقص پیدا ہو گیا ہے اور وہ یہ کہ ادھر جلسہ کے آخری دن لیکچر ختم ہوا ادھر سب لوگ واپس جانے شروع ہو جاتے ہیں.جنہیں مجبوری ہو رخصت ختم ہو چکی ہو وہ تو جاسکتے ہیں لیکن جو ٹھہر سکتے ہوں انہیں ضرور ٹھہر نا چاہئے.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں سارے سال میں جلسہ کے موقع پر ہی آنے کا اتفاق ہوتا ہے انہیں چاہئے کہ جلسہ کے ختم ہونے کے بعد بھی ٹھہرا کر یں.یہاں کی مسجدوں میں دعائیں کریں.یہاں کے لوگوں سے ملاقات کریں.یہاں کا کاروبار دیکھیں.بہشتی مقبرہ میں جو لوگ دفن ہیں ان کے لئے دُعائیں کریں.اب میں دعا کرتا ہوں کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ جلسہ کامیاب کیا ہے اسی طرح وہ آئندہ بھی ہمیں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.عبس : ۲ تا ۱۷ البقرة: ١٣٢ براہین احمدیہ چہار حص.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۱۲۹ اشتہار بعنوان ہم اور ہماری کتاب.براہین احمد یہ چہار حصص جلد ۱ صفحہ ۶۷۳ ا دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۶ متی باب ۱۹ آیت ۲۳، ۲۴ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء کے متی باب ۱۹ آیت ۲۱ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء متی باب ۶ آیت ۳، ۴ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء 2 متی باب ۶ آیت ۳ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء
فصائل القرآن نمبر...ا 120.The Hymns of the Atharra-Veda, Vol.II P Book XII Hymn IV Benares, Published 1917.ال بنی اسرائیل: ۳۰ ۳۱ ۱۲ تاها اقرب الموارد جلدا صفحه ۱۹۰ زیر لفظ "حسر ، مطبوعہ بیروت ۱۸۹۹ء الفرقان: ۶۸ كا تذكرة الاولياء ۱۸ مسلم کتاب الصیام باب جواز الصوم والفطر في شهر رمضان للمسافر 19 بنی اسرائیل: ۲۸،۲۷ ٢٠ البقرة : ۲۷۵ ات البقرة:٢٧٢ ۲۲ بخارى كتاب الجمعة باب الجمعة في القرى والمدن ٢٣ البقرة : ١١١ ٢٤ البقرة: ١٠٣ ۲۵ ترندی کتاب المناقب مناقب ابى بكر الصديق ٢٦ البقرة : ١٩٦ ٢ البقرة : ٢١٦ ۲۸ المعارج: ۲۶،۲۵ ٢٩ الذريت: ٢٠ ٣٠ الجاثية : ١٤ اس البقرة: ٢٦٦ ۳۲ النحل : ٩١ ۳۳ بنی اسرائیل: ۲۹ ۳۴ الضحى اا ۳۵ البقرة : ۴ الانعام: ۱۴۲ البقرة : ٢٢٨ ۳۸ آل عمران: ۱۳۵ ٣٩ التوبة : ٦٠ ٢٠ الممتحنة: ٩ ات النور : ٢٣ ٢٢ التوبة: ١٠٣ ٢٣ البقرة: ۲۶۵ ٢٤ البقرة: ۲۷۷ ٢۵ البقرة : ۲۷۴ ٢٦ متی باب ۱۹ آیت ۱۰ تا ۱۲ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء 194
فصائل القرآن نمبر...۳۷ کرنتھیوں 1 - باب ۷ آیت ۲ ، ۳ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء ۴۸ کرنتھیوں 1 - باب ۷ آیت ۸ تا ۹ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء ۴۹ پیدائش باب ۲ آیت ۲۱ تا ۲۴ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء 10 النساء: ٢ ٢ النبا: ٩ اه الذريت:۵۰ النحل : ۷۳ ۵۴ الشورى: ۱۲ ۵۵ الاعراف: ۱۹۰ ۵۶ الروم : ٢٢ ۵۷ الاعراف: ۱۷۳ ۵۸ الجامع الصغیر للسیوطی جلد ۱ صفحه ۱۲۲ مطبوعہ مصر ۱۳۰۶ھ + مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۱۲۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء وع البقرة : ۱۸۸ ۱۰ نوح : ۱۴ ۱ نوح: ۱۵ ٣،٦٢ عوارف المعارف مؤلفہ حضرت شہاب الدین سہروردی صفحه ۴۶،۴۵ احیاء علوم الدین الغزالی صفحہ ۷۴.مطبوعہ بیروت ۱۴۰۴ھ ۶۴ بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة آل عمران زیر آیت انی اعیدها بک...۱۵ المائدة: ۵۵ ١٦ البقرة: ١٦٦ البقرة : ۲۲۴ الحجر : ٢ الحجر : ٨.الحجر : ٩ اك الحجر: ۱۱ تا ۱۴ الحجر : ۱۵ تا ۱۹ الواقعة : ٨٠ الجن: ٩، ١٠ الانعام: البينة: ٤٣٢ ك السجدة: 4 ٤٨ ابو داؤد كتاب الصلوة باب ما جاء في آية الكرسي ۹ در منثور جلد ۱ صفحه ۳۲۶٬۳۲۵ ۱۰ بخاری کتاب باب فضل البقرة 195
196 فصائل القرآن نمبر...ا اخبار نور افشاں ۲۸ نومبر ۱۹۳۰ء The Life of Mahomet by William Muir P.555 Published in London 1877.The Life of Mahomet by William Muir P.561 Published in London 1877.The Life of Mahomet by William Muir ۸۵۸۴ P.559 Published in London 1877.المائدة : ۴ ۱۶ آل عمران: ۱۴۵
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ نمبر ۲۴ م از سید نا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی 197
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 198 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ أَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ (نمبر (۴) تمام گتپ الہامیہ میں سے صرف قرآن کریم کو ہی کلام اللہ ہونے کا شرف حاصل ہے قرآن کریم کی کتب سابقہ پر فضیلت کی آٹھویں دلیل فرموده ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۱ء بر موقعه جلسه سالانه قادیان دارالامان) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جس مضمون کے متعلق میں نے اپنے خیالات کے اظہار کرنے کا کل اعلان کیا تھا وہ وہی مضمون ہے جس کے متعلق پچھلے تین سال سے میں تقریر کر رہا ہوں.اور جو کا مضمون ہے.یعنی قرآن کریم کو وہ کون سی فضیلتیں حاصل ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف انسانی بلکہ آسمانی کتابوں پر بھی وہ فوقیت رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی مضمون براہین احمدیہ
199 فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ میں شروع کیا تھا اور فرمایا تھا کہ تین سو دلائل اس کے متعلق پیش کروں گا.میں نے اس کے متعلق غور کیا ہے اور غور کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ واقعہ میں تین سو دلائل بیان کئے جا سکتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بتائے ہوئے علوم اور آپ کے لائے ہوئے نور سے مستفیض ہو کر براہین احمدیہ کی اپنے فہم اور اپنے درجہ کے مطابق تشریح کی جاسکتی ہے.تفسیر القرآن کا دیباچہ براہین احمدیہ میرے نزدیک تفسیر القرآن کا دیباچہ ہے.تفسیر القرآن لکھتے وقت پہلے جن مضامین پر سیر گن بحث کرنی چاہئے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں شروع کیا تھا دل چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس کی ظاہری تکمیل بھی ہو جائے.باطنی تکمیل تو اللہ تعالیٰ نے کر دی تین سو دلائل چھوڑ کئی لاکھ آسانی دلائل آپ نے پیش کر دیئے.لیکن جب آسمانی دلائل پیش ہو چکے تو ان ظاہری دلائل کو بھی پیش کر دینا سلسلہ کی بہت بڑی خدمت ہوگی.جی چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کو توفیق دے تو وہ براہین احمدیہ کا ظاہری مقصد بھی پورا کر دے.میں نے پہلے کچھ تمہیدی ریمارکس اس مضمون کے متعلق ۱۹۲۸ء میں بیان کئے تھے اور ۱۹۳۰-۱۹۲۹ء کی تقریروں میں چھ دلیلیں قرآن کریم کی افضلیت کے متعلق بیان کی تھیں اور ۱۹۳۰ء کے جلسہ کے موقع پر ساتویں دلیل بیان کرنے سے پہلے ہی لمبا وقت ہو گیا تھا اور ادھر مجھے ضعف ہونے لگ گیا تھا.اس وجہ سے اس تقریر کو جلد ختم کر دینا پڑا.اس ساتویں دلیل کا ایک حصہ ابھی باقی تھا.اب میں اسے بیان کروں گا اور اس کے بعد آٹھویں دلیل شروع کروں گا.ساتویں دلیل کا بقیہ حصہ حصم میں اس مضمون پر پچھلے سال بیان کر رہا تھا کہ قرآن کریم نہ صرف اس لحاظ سے محفوظ ہے کہ کوئی انسانی ملاوٹ اس میں نہیں ہوئی بلکہ کوئی انسانی ملاوٹ اس میں ہو بھی نہیں سکتی.گویا قرآن کریم کو یہی فضیلت حاصل نہیں کہ باقی آسمانی کتابوں میں انسانی تصرف ہو چکا ہے مگر اس میں نہیں ہوا بلکہ اس کی یہ بھی فضیلت ہے کہ دوسری کتابوں میں انسانی تصرف ممکن ہے مگر قرآن میں ممکن بھی
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 200 نہیں.میں نے اس کے دو ثبوت پچھلے سال بیان کئے تھے اب میں تیسرا ثبوت اس امر کا کہ قرآن کریم میں تبدیلی نہیں ہو سکتی بیان کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کلام اللہ ہے اور کلام اللہ میں عقلاً انسانی تبدیلی ناممکن ہے.شاید اکثر لوگ حیران ہوں کہ کلام اللہ تو باقی کتابیں بھی ہیں.پھر قرآن کو یہ خصوصیت کس طرح حاصل ہوئی.حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو کتاب نازل ہوئی وہ بھی کلام اللہ تھی.اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر انبیاء پر بھی خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوا.جب وہ بھی کلام اللہ ہے تو کیا وجہ ہے کہ ان میں تو نہ صرف تبدیلی ہوسکتی ہے بلکہ ہوئی اور قرآن میں نہ ہوئی بلکہ نہیں ہوسکتی.ایک ہی چیز میں یہ فرق کیوں ہے؟ میں ابھی بتاؤں گا کہ یہ حیرت در حقیقت درست نہیں اور یہ قرآن کریم کی افضلیت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے کہ یہ کلام اللہ ہے.اس وجہ سے قرآن نہ صرف غیر الہامی کتب سے افضل ہے یا الہامی کتب کی موجودہ شکل سے ممتاز ہے.بلکہ یہ اس کی ایسی فضیلت ہے کہ اس میں کبھی بھی کوئی کتاب اس کی شریک نہیں ہوئی.پہلی الہامی کتب کلام اللہ نہیں تھی یہ ایک غلط خیال ہے کہ پہلی الہامی کتب بھی کلام اللہ تھیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ موجودہ توریت کلام اللہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کو جو کتاب دی گئی تھی.وہ بھی کلام اللہ نہ تھی.اسی طرح میرا یہ مطلب نہیں کہ موجودہ انجیل کلام اللہ نہیں.یہ تو حضرت مسیح علیہ السلام پر نازل ہی نہیں ہوئی مجھے یقین ہے کہ اگر حضرت مسیح پر جو انجیل نازل ہوئی وہ موجود ہوتی تو بھی ہم یہی کہتے کہ وہ کلام اللہ نہیں.وہ کتاب اللہ ھی وہ مَا أُنزِلَ عَلَى الْمَسِیح تھی مر کلام اللہ ہی تھی.اسی طرح اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحف آج موجود ہوتے اور اگر حضرت نوح علیہ السلام کے صحف آج موجود ہوتے اور اگر ایک لفظ بھی ان میں کسی انسان کا داخل نہ ہوتا تب بھی وہ کلام اللہ نہ ہوتے.ہاں کتاب اللہ ہوتے.قرآن کریم میں کلام اللہ کا لفظ تین جگہ استعمال ہوا ہے اور تینوں جگہ قرآن کے متعلق ہی استعمال ہوا ہے اور قرآن ہی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ کلام اللہ ہے.اول سورۃ تو بہ رکوع اول میں آتا ہے.وَاِن اَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 201 فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلمَ اللهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ ، خدا تعالی فرماتا ہے.اے رسول ! اگر مشرکوں میں سے کوئی شخص تجھ سے پناہ مانگے تو تو اُسے پناہ دے.حَتَّى يَسْمَعَ كَلام الله یہاں تک کہ تیری صحبت میں رہ کر وہ کلام اللہ سن لے.ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ پھر اسے امن کی جگہ پہنچا دو.ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ.یہ اس لئے حکم دیا گیا ہے کہ وہ قوم دین کا علم نہیں رکھتی اور جب تک علم دین حاصل نہ کرے گی کس طرح دین سیکھ سکے گی.گو کفار کے ساتھ لڑائی ہے.وہ تم سے جنگ کر رہے ہیں اور جنگ کی حالت میں غیر کو مارنے کا تمہیں حق حاصل ہے لیکن چونکہ تم مذہبی پیشوا ہو اس لئے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ حکومتوں کے دستور کے خلاف اگر کوئی غیر قوم کا فرد تمہارے پاس آئے اور کلام اللہ سنا چاہے تو اُسے سناؤ.اگر وہ نہ مانے اور واپس جانا چاہے تو اسے واپس پہنچا دو اُسے کوئی تکلیف نہ پہنچے.دوسری جگہ آتا ہے.افَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلمَ اللهِ ثُمَّ يُحْرِفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ، فرمایا.اے مسلمانو ! کیا تم اس بات کی امید رکھتے ہو کہ وہ تمہاری باتیں مان لیں گے.بعض صحابہ سمجھتے تھے کہ یہود ہماری باتیں مان لیں گے.ان کے ساتھ مسلمانوں کی دوستیاں تھیں، تعلقات تھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا تمہاری ایسی دوستی ہے کہ وہ تمہاری بات مان لیں گے حالانکہ ان میں سے ایک جماعت آتی ہے.قرآن سنتی ہے.پھر يُحْرِفُونَهُ مِنْ بَعْدِمَا عَقَلُوْهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ اس کا مفہوم سمجھنے کے بعد اور بات بنا لیتی ہے جو جھوٹ ہوتی ہے.حالانکہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں.جب قرآن کے متعلق ان کا یہ حال ہے تو تمہاری باتیں کہاں مان سکتے ہیں.بعض نے یہاں کلام اللہ سے تو رات مراد لی ہے مگر رسول کریم سال بیا اینم کے زمانہ میں کون سے ایسے یہودی علماء تھے کہ جن کی تحریف کوئی اثر رکھتی تھی.معمولی درجہ کے لوگ تھے.اگر کوئی سردار تھا تو محلہ کے سردار سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا تھا.اس لئے مدینہ کے یہود کو خیال بھی نہیں آسکتا تھا.کہ اگر وہ تو رات کو بدل کر پیش کریں گے تو لوگ مان لیں گے.وہ یہی کرتے تھے کہ رسول کریم سیلم کی صحبت میں آتے.قرآن کریم سنتے اور پھر بالکل جھوٹی باتیں جا کر بیان کرتے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور قادیان کے متعلق لوگ غلط بیانیاں کرتے تھے.
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 202 فیروز پور کے علاقہ کے ایک شخص نے دوسروں سے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ قادیان گیا تو مجھے مہمان خانہ میں ٹھہرایا گیا.ہمارے پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ مرزا صاحب نے حلوہ بھیجا ہے اور کہا ہے کہ سب مہمانوں کو کھلا دو.باقی سب مہمانوں نے تو کھا لیا لیکن میں نے موقع پا کر پھینک دیا.کچھ دیر بعد مرزا صاحب مجھے ساتھ لے کر فٹن میں سیر کو نکلے.(اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ قادیان آیا ہی نہیں تھا ) رستہ میں مجھ سے باتیں کرتے رہے اور کہا میں ہی خدا ہوں.یہ سن کر میں نے لا حول پڑھا.اس پر ان کا رنگ فق ہو گیا اور مولوی نورالدین صاحب کی طرف دیکھ کر کہنے لگے کیا اسے حلوہ نہیں کھلایا تھا؟ مولوی صاحب کا بھی رنگ اُڑ گیا اور انہوں نے کہا میں نے تو حلوہ بھیج دیا تھا.نہ معلوم کیا بات ہوئی.پھر میں وہاں سے بھاگ آیا.جس مجلس میں اس نے یہ بات سنائی.اسی میں ایک معزز غیر احمدی بیٹھے تھے.انہوں نے کہا.یہ شخص بڑا ہی جھوٹا ہے.میں خود قادیان سے ہو آیا ہوں اور یہ وہاں گیا ہی نہیں.وہاں تو یگہ چلنا بھی مشکل ہے.فٹن اس کا باپ وہاں لے گیا تھا؟ اسی طرح وہ لوگ کرتے.کلام سنتے اور پھر کچھ کا کچھ جاکر دوسروں سے بیان کرتے.اس بات کا ثبوت کہ یہ انہی کے متعلق ہے یہ ہے کہ اگلی آیت میں آتا ہے.وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلا بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ قَالُوا الْحَدِثُونَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللهُ عَلَيْكُمْ لِيُعَاجُوكُمْ بِهِ عِنْدَ رَبِّكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ کے وہ مسلمانوں کے پاس آکر کہتے ہیں ہم تو ایمان لے آئے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریف کرنے والے بھی رسول کریم سنی لی لی پور کے زمانہ کے لوگ تھے جو قرآن سن کر دوسروں کے سامنے جھوٹ بولتے اور کہتے کہ اس نے یوں کہا ہے، ووں کہا ہے.پھر اس جگہ فرماتا ہے.يَسْمَعُونَ كَلام الله کلام اللہ سنتے ہیں مگر یہودی کوئی کتاب نہیں سنتے تھے بلکہ پڑھتے تھے اور اس میں فقرے داخل کرنے والاسن کر نہیں بلکہ پڑھ کر داخل کر سکتا ہے.اگر بائیمیل مراد ہوتی تو يَقرَ ونَ آتا کیونکہ بائیبل تو وہ لوگ پڑھا کرتے تھے.پس یہاں تو رات کا نہیں بلکہ قرآن کا ذکر ہے اور مراد یہ ہے کہ مسلمانوں سے سن کر اور سمجھ کر ایسے رنگ میں بیان کرتے ہیں کہ لوگ مخالفت میں بڑھیں.تیسری آیت سورۃ فتح رکوع ۲ کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انْطَلَقْتُم إِلى مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعُكُمْ يُرِيدُونَ أَنْ تُبَدِّلُوا كَلمَ
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 203 اللہ کے فرمایا وہ لوگ جن کو پیچھے چھوڑا گیا ہے.جب تم جنگ کو جاتے ہو اور وہ سمجھتے ہیں کہ فتوحات حاصل ہونگی اور غنیمتیں ملیں گی تو کہتے ہیں ہمیں بھی ساتھ لے چلو.وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح خدا کے کلام کو بدل دیں.اگر تم ان کو ساتھ لے جاؤ گے تو وہ کہیں گے دیکھو انہوں نے خدا کے کلام کو بدل دیا ہے.جس میں کہا گیا تھا کہ یہ نہیں جائیں گے اور اگر نہ لے جاؤ گے تو کہیں گے یہ حریص ہیں.سب کچھ خود ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں.غرض قرآن میں کلام اللہ کا لفظ تین جگہ آیا ہے اور تینوں جگہ قرآن کریم کے متعلق ہی استعمال ہوا ہے.کسی اور کتاب کے متعلق نہیں.اس لئے عقلاً یہی کہا جائے گا کہ قرآن ہی حلام اللہ ہے اور ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہم بلا دلیل یہ خیال کریں کہ قرآن کریم کے سوا کوئی اور آسمانی کتاب بھی کلام اللہ کے نام کی مستحق ہے.حضرت موسی علیہ السلام کی کتاب کا نام کلام اللہ نہیں رکھا گیا پھر اس کو ہم کلام اللہ کیسے کہہ سکتے ہیں.خصوصا جب کہ میں آئندہ ثابت کروں گا کہ تاریخی بھی ان میں سے کوئی کتاب کلام اللہ نہیں.قرآن کریم میں انبیاء کو کلمہ کہا گیا ہے.الہامات کو کلمات کہا گیا ہے بلکہ کلمات اللہ بھی کہا گیا ہے.یہ بھی کہا گیا ہے کہ كَلَّمَ اللهُ مُوسی تعلیمات موسیٰ سے خدا نے خوب اچھی طرح کلام کیا لیکن باوجود اس کے حضرت موسیٰ کی کتاب جس کا بہت سی جگہ قرآن کریم میں ذکر آیا ہے اسے کلام اللہ نہیں کہا گیا.جیسا کہ فرمایا نَبَدَ فَرِيقٌ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ كِتَبَ اللهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ یعنی وہ لوگ جن کو کتاب اللہ دی گئی تھی انہوں نے اسے اپنی پیٹھوں کے پیچھے ڈال دیا گویا کہ انہیں علم ہی نہیں.پس صاف معلوم ہوتا ہے کہ کتاب اللہ اور کلام اللہ میں فرق ہے.کتاب اللہ ہر اس کتاب کو جس میں خدا کی باتیں ہوں کہا جاسکتا ہے لیکن کلام اللہ ہر ایک کو نہیں کہا جاسکتا.دوسری الہامی کتابوں کو کتاب اللہ کہا گیا ہے اور کتاب اللہ کا لفظ قرآن کے متعلق بھی موجود ہے مگر دوسر الفظ کلام اللہ صرف قرآن کے لئے استعمال کیا گیا ہے کسی اور کے لئے نہیں.یہ فرق ہے اور یہ بغیر حکمت کے نہیں.
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 204 وحی الہی کی مختلف اقسام اس فرق کو سمجھنے کے لئے یادرکھنا چاہئے کہ انبیاء کی وحی کئی قسم کی ہوتی ہے.(۱) ایک وہ وجی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں کانوں میں پڑتی ہے اور زبان پر جاری ہوتی ہے.مثلاً خدا تعالیٰ نے رسول کریم ملی ایام کو سنایا.الْحَمدُ للهِ رَبِّ الْعَلَمینَ.یہ الفاظ کان میں آواز کے طور پر پڑے اور زبان پر جاری ہوئے.اس آیت کا اہل، ح، م، داور ان کی اعراب سب خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے ہیں.یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے ایک مضمون رسول کریم سنتی ای یتیم کے دل میں ڈال دیا بلکہ ہر حرف اور ہر لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے.یہ وحی سب انبیاء پر نازل ہوئی.(۲) دوسری وحی رویا اور کشوف ہیں.یہ الفاظ میں نہیں بلکہ نظاروں میں ہوتی ہے.مثلاً رسول کریم صلی السلام جب اُحد کی جنگ میں تشریف لے جانے لگے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کی تلوار کی دھار ٹوٹ گئی ہے اور دیکھا کہ ایک گائے ذبح کی جارہی ہے.آپ نے فرمایا تلوار کی شکستگی سے مراد فتح ہے جو مشتبہ ہوگی اور گائے کے ذبح ہونے سے مراد یہ ہے کہ کچھ احباب شہید ہو نگے.یہ وحی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی مگر فرق یہ ہے کہ پہلی وحی الفاظ میں تھی اور یہ نظارہ میں ہے اور نظارہ بیان کرتے وقت اپنے الفاظ بیان کرنے پڑتے ہیں.بالکل ممکن ہے کہ اس بیان میں کچھ اونچ نیچ ہو جائے.اور (۳) تیسری وحی خفی ہوتی ہے جو الفاظ میں نازل نہیں ہوتی نہ نظارہ دکھایا جاتا ہے بلکہ تفہیم اور انکشاف کے ذریعہ سے ہوتی ہے.دل میں ایک خیال پیدا ہوتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی دل میں ڈالا جاتا ہے کہ یہ تمہارا خیال نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ڈالا گیا ہے اور الفاظ اس کو خود بنانے پڑتے ہیں.یہ سب سے ادنیٰ درجہ کی وحی ہے.اس سے بڑھ کر رویا اور کشف کی وحی ہوتی ہے مگر اس میں تاویل کی ضرورت ہوتی ہے اور تاویل میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے لیکن پہلی وحی جو الفاظ میں ہوتی ہے اس میں غلطی کا کوئی احتمال نہیں ہوتا.یہ سب اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے.اب اگر ایک نبی اپنی تمام وحی کو ایک کتاب میں جمع کر دے جس میں وحی کلام بھی ہو.اور وحی کشف ورڈ یا بھی ہو اور وحی خفی بھی نبی کے اپنے الفاظ میں ہو تو اسے ہم کتاب اللہ تو کہہ سکتے ہیں
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 205 لیکن ہم اسے کلام اللہ نہیں کہ سکتے کیونکہ وہ سب کی سب کلام اللہ نہیں بلکہ اس میں ایک حد تک کلام بشر بھی ہے گو مضمون سب کا سب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس وجہ سے وہ کتاب کتاب اللہ اب اس فرق کو مد نظر رکھ کر دیکھ لو.دنیا کی کوئی کتاب خواہ کسی قوم کی ہو اور کس قدر ہی شد و نڈ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کی جاتی ہو کلام اللہ نہیں ہو سکتی کیونکہ ایک بھی ایسی کتاب نہیں نہ موجودہ صورت میں اور نہ اس صورت میں جس طرح کسی نبی نے دی تھی کہ اس کے تمام کے تمام الفاظ خدا تعالی کے ہوں.اس میں بعض الفاظ خدا تعالیٰ کے ہونگے بعض نظارے ہو نگے اور بعض مفہوم بیان کئے گئے ہونگے.اگر آج ہم تو رات سے ان زوائد کو نکال دیں جو یہودیوں نے اپنی طرف سے ملا دیئے ہیں.مثلاً اس میں لکھا ہے کہ.سوخداوند کا بندہ موسی خداوند کے حکم کے موافق موآب کی سرزمین میں مر گیا اور اس نے اسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا ہو کے تب بھی تو رات کلام اللہ نہ ہوگی کیونکہ اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ.اس وقت خداوند کا فرشتہ ایک بوٹے میں آگ کے شعلے میں اس پر ظاہر ہوا.اس نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک بوٹا آگ میں روشن ہے اور وہ جل نہیں جاتا.یہی حال حضرت عیسی اور باقی انبیاء کی کتابوں کا ہے.پس اگر ان کتب میں سے ہم ان زوائد کو نکال بھی دیں جو بعد میں لوگوں نے داخل کر دیئے ہیں تو بھی حضرت موسی کی کتاب اس وقت جب کہ حضرت موسی نے اسے ترتیب دیا اور حضرت عیسی کی کتاب اس وقت جب کہ حضرت عیسی نے اسے بیان کیا اور وید جب کہ وہ نازل ہوئے کلام اللہ نہ تھے.اگر دوسروں کی باتیں ان میں نہ تھیں تو رسولوں کی اپنی باتیں تو ضرور تھیں.غرض اپنی سلامتی کے زمانہ میں بھی وہ کلام اللہ نہیں تھیں.یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ کیا فضیلت ہے.اگر حضرت موسیٰ چاہتے تو وہ بھی کلام اللہ کو الگ جمع کر سکتے تھے.اگر تورات سے حضرت موسیٰ کا کلام اور انجیل سے حضرت عیسی کا کلام نکال لیا جائے تو کیا یہ کتابیں قرآن کریم کے برابر ہو جائیں گی؟ میں کہوں گا نہیں کیونکہ اگر حضرت موسئی ایسا کر سکتے تو کیوں نہ کر دیتے.اگر حضرت موسی کے لئے ممکن ہوتا کہ الفاظ والی وحی کو الگ کر کے کتاب بنا
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 206 دیتے تو کیوں نہ کر دیتے؟ اسی طرح اگر حضرت عیسی کے لئے ممکن ہوتا تو وہ بھی کیوں نہ کر دیتے.یہ فضیلت صرف رسول کریم صلی ہی ہم کو ہی حاصل ہے کہ ساری کی ساری شریعت آپ کو وحی کے الفاظ میں عطا ہوئی.باقی سب انبیاء کی کتب میں کچھ کلام الہی تھا کچھ نظارے تھے اور کچھ مفہوم جسے انہوں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا.اگر وہ نظاروں اور مفہوم کے حصہ کو علیحدہ کر دیتے تو ان کی کتابیں نامکمل ہو جاتیں کیونکہ ان کا سارا دین کلام اللہ میں محصور نہیں.کچھ رویا اور کشوف ہیں اور کچھ وحی خفی کے ذریعہ سے تھا.اگر وہ کلام اللہ کو الگ کرتے تو ان کا دین ناقص رہ جاتا.برخلاف اس کے قرآن کریم میں سب دین آگیا ہے اور کلام اللہ میں ہی سب دین محصور ہے.پس قرآن کے سوا اور کسی نبی کی کتاب کا نام کلام اللہ ہو ہی نہیں سکتا.یہ نام صرف قرآن کریم کا ہی ہے.اصل بات یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اکمل بنانا تھا اسلام کو اکمل دین اور قرآن کو آخری کلام بنانا تھا اس لئے ضروری تھا کہ اسے ایسا محفوظ بنا تا کہ کوئی مطلب فوت نہ ہو اور اس کی ایک ہی صورت تھی اور وہ یہ کہ عالم الغیب خدا کے الفاظ میں سب کچھ بیان ہو.رؤیا اور کشوف میں جھگڑے اور اختلاف پڑ جاتے ہیں.اس لئے شریعت اسلامیہ کو خدا تعالیٰ نے اپنے الفاظ میں اُتار کر اس کا نام کلام اللہ رکھا اور کہہ دیا کہ اس کے سب الفاظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے سوا اور کوئی ایسی کتاب نہیں جس کے الفاظ سے نئے نئے مضامین نکلتے چلے آئیں.صرف قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جس کے مطالب کبھی ختم نہیں ہوتے.رات دن قرآن کریم کو پڑھو.قرآن کے حقائق کبھی ختم نہ ہونگے.اس کی حکمتیں نکلتی چلی آتی ہیں اور ہر لفظ پر حکمت معلوم ہوتا ہے.پرانے زمانہ کی کہانیوں میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک تھیلی ہوتی تھی جس میں سے ہر قسم کے کھانے نکلتے آتے تھے مگر یہ تو وہمی اور خیالی بات تھی.قرآن کریم واقع میں ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا.اس کی جگہ دوسری کتب میں یہ بات نہیں.مثلاً مسیحی وغیرہ خود اقرار کرتے ہیں کہ اصل عبارتوں میں غلطیاں ہوگئی ہیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ پہلے انبیاء پر کلام اللہ نازل نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ ہے کہ ان کا سب دین اور سب کتاب کلام اللہ میں محصور نہ ہوتے تھے.
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ پہلی کتب میں بگاڑ پیدا ہونے کی وجہ 207 اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلی کتب کے بگڑنے کا موجب بھی یہی ہوا کہ وہ کلام اللہ نہ تھیں.چونکہ ان میں خود انبیاء کی تشریحات اور رویا اور کشوف اور تفہیمات ان کے الفاظ میں ہوتے تھے اس لئے لوگوں کے دلوں میں حفاظت کا اس قدر گہر ا خیال نہیں ہوسکتا تھا.جب حضرت موسیٰ کے صحابیوں نے دیکھا کہ حضرت موسی پر وحی ہوئی جو انہوں نے لکھوا دی اور ساتھ ہی اپنا رؤیا اور کشف بھی لکھا دیا.ساتھ ہی یہ بھی لکھوا دیا کہ مجھے یہ خیال آیا جو الہامی خیال ہے تو ایسی باتوں سے ان کو جرات ہوئی کہ جو بات تو ریت سے انہیں سوجھتی اسے بھی اس میں داخل کر دیتے اور وہ خیال کرتے کہ اگر ہم نے اپنی تفہیم بطور یادداشت لکھ دی تو کیا حرج ہوا اور چونکہ ہر شخص اپنی تفہیم کو صحیح سمجھتا ہے.اس لئے وہ اسے خدائی امر ہی سمجھتے تھے.اس طرح وہ کتب بگڑ گئیں.حالانکہ اگر وہ سمجھتے تو نبی کی تفہیم الہامی ہونے کی وجہ سے کتاب کا حصہ تھی مگر ان کی نہیں بلکہ اگر کسی دوسرے کی الہامی تفہیم بھی ہوتب بھی وہ پہلے نبی کی تفہیم کی طرح اس کتاب کا حصہ نہیں کہلا سکتی.اس کے مقابلہ میں رسول کریم صلی نیلم کے صحابہ نے دیکھا کہ جب وہ آپ کے پاس آتے تو آپ فرماتے.آج خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی ہوئی ہے.صحابہ کہتے لکھ لیں.آپ فرماتے لکھ لیا جائے.پھر فرماتے یہ کشف ہوا ہے یہ رویا تھی.آپ اس کا مفہوم بیان فرماتے اور کہتے یہ وحی میں نہ لکھا جائے.جب صحابہ دیکھتے کہ رسول کریم سا نہ ہی ہم خود بھی وحی میں کچھ نہیں بڑھا سکتے تو وہ سمجھتے کہ ہم کس طرح اس میں کچھ داخل کر سکتے ہیں.رسول کریم صلی ہم اپنی طرف سے تو الگ رہا خدا تعالیٰ کی دوسری وحی کو جورڈ یا اور کشف کی شکل میں ہوتی یا جس کے ذریعہ کوئی مفہوم دل میں ڈالا جاتا وہ بھی اس میں شامل نہ کرتے تو ہم کس طرح اس وحی میں کچھ شامل کر سکتے ہیں لیکن پہلے انبیاء چونکہ اپنی تشریحات ، رویا، کشوف اور تفہیمات اپنے الفاظ میں درج کرتے تھے اس لئے ان کے پیروؤں کو اپنی تفہیمات درج کر دینے کی بھی جرات ہو گئی.محققین بائیبل کا بھی یہی خیال ہے کہ صحف قدیمہ میں جو اضافہ ہوا ، وہ اس طرح ہوا کہ جو بات کسی کو سو جبھی وہ اس نے اس میں لکھ دی لیکن قرآن کریم چونکہ خالص کلام اللہ ہے.رسول
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 208 کریم سنی ہی ہم اپنے دوسرے الہامات یا کشوف یار و یا یا تفہیم اس میں داخل ہی نہ کرتے تھے جس کا اثر صحابہ پر گہرا پڑا اور وہ محسوس کرتے تھے کہ اس کتاب میں کوئی اور بات نہیں ہونی چاہئے حتی کہ طرز تحریر اور وقف تک کو انہوں نے محفوظ رکھا اور اس طرح بوجہ کلام اللہ ہونے کے قرآن کریم ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا.یہ امر کہ قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے کا اثر اس کے تبدیل نہ ہونے پر خاص طور پر پڑا ہے مخالفوں تک نے تسلیم کیا ہے.چنانچہ سرولیم میورلکھتا ہے.A similar guarantee existed in the feelings of the people at large, in whose soul no principle was more deeply rooted than an awful reverence for the supposed word of God.یعنی قرآن کریم کے محفوظ رہنے کی یہ بھی گارنٹی ہے کہ ہر مسلمان کے دل میں یہ بات نقش تھی کہ قرآن کا ہر شوشہ اور ہر لفظ خدا کی طرف سے ہے.دوسرا فائدہ کلام اللہ کے اس طرح جمع کرنے کا یہ ہوا کہ اس میں تاریخ اور تفہیم آہی نہیں سکتی.مثلاً قرآن میں یہ نہیں لکھا.کہ میں فلاں جگہ گیا اور وہاں یہ الہام ہوا بلکہ اس کی عبارت اس طرح چلتی ہے کہ ہر لفظ بتاتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے.اس لئے بندہ اس میں کوئی اور کلام داخل ہی نہیں کر سکتا اور اگر کرے تو بالکل بے جوڑ معلوم ہوگا لیکن پہلی کتب میں چونکہ تفہیم بھی درج تھی اس لئے کسی کا تفہیم کو درج کرنا غلطی کو ظاہر نہیں ہونے دیتا تھا.کلام اللہ کے نام میں منفرد کتاب صرف قرآن کریم ہے غرض قرآن کریم کلام اللہ کے نام میں منفرد ہے.جس طرح کعبہ بیت اللہ کے نام میں دوسرے بیوت سے منفرد ہے.خدا تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو بیت اللہ قرار دیا ہے اور قرآن کو کلام اللہ قرار دیا ہے.کعبہ کو بھی یہ نام اس لئے دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے بنوایا تھا.اگر دوسرے مقامات کو بھی خدا تعالیٰ بنواتا تو وہ منسوخ نہ ہوتے.چونکہ دوسرے گھروں نے منسوخ ہونا تھا اس
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 209 لئے انہیں یہ نام نہ دیا گیا.اسی طرح قرآن کریم نے بھی چونکہ ہمیشہ قائم رہنا تھا، اسے بھی کلام اللہ کی صورت میں نازل کیا گیا اور اسے یہ نام دیا گیا تا کوئی اپنا کلام اس میں داخل نہ کر سکے.اگر کوئی کہے کہ آپ تو کہتے ہیں قرآن میں ساری شریعت موجود ہے مگر یہ درست نہیں کیونکہ قرآن بھی سنت اور حدیث کا محتاج ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ سنت کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن میں جو باتیں آئی ہیں رسول کریم مایا تم نے ان پر عمل کر کے دکھا دیا اور احادیث رسول کریم میں یہ ایم کی تفہیمات ہیں جو قرآن سے ہی حاصل ہوئیں کوئی زائد شئے نہیں.خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحَى يُوخى كه محمد رسول اللہ سی پیہم دین کی کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہتے بلکہ جو کچھ بتاتے ہیں وحی الہی سے بتاتے ہیں.پس حدیث میں جو کچھ ہے وہ قرآن ہی کی تشریح اور تفہیم ہے.قرآن کریم کی افضلیت کی آٹھویں دلیل اب میں قرآن کریم کی فضیلت کی آٹھویں دلیل بیان کرتا ہوں جو یہ ہے کہ ہر کلام جو نازل ہوتا ہے، اس کی عظمت اور افضلیت اس لانے والے کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہے جس کے ذریعے وہ آتا ہے کیونکہ پیغامبر پیغام کی حیثیت سے بھیجے جاتے ہیں.مثلاً ایک بادشاہ جس نے اپنے کمرہ کی صفائی کرانی ہے وہ چوبدار سے کہے گا کہ صفائی کرنے والے کو بلا ؤ لیکن اگر اسے یہ کہنا ہوگا کہ فلاں بادشاہ کو ملاقات کے لئے بلاؤ تو چو ہدار سے نہیں کہے گا بلکہ وزیر سے کہے گا اور وہ یہ پیغام پہنچائے گا کہ بادشاہ کی خواہش ہے کہ آپ سے ملاقات کریں.غرض پیغام کی افضلیت پیغامبر کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے.سفراء جو بادشاہوں کے خطوط لے کر جاتے ہیں ان کے متعلق بھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ بلند پایہ رکھنے والے ہوں.اسی طرح اعلیٰ درجہ کے کلام کو سمجھانے کے لئے اعلیٰ درجہ کے علم کی ضرورت ہوتی ہے.اگر کوئی کتاب علمی لحاظ سے بہت بلند مرتبہ رکھتی ہو تو اس کو پڑھانے والے کے لئے بھی اعلی تعلیم کی ضرورت ہوگی.ایم.اے کے طلباء کو پڑھانے والا معمولی قابلیت کا آدمی نہیں ہوسکتا.اگر کسی جگہ کوئی پرائمری پاس پڑھانے کے لئے بھیجا جائے تو سمجھا جائے گا کہ ابتدائی قاعدہ پڑھایا جائے گا.
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 210 اگر انٹرنس پاس بھیجا جاتا ہے تو سمجھا جائے گا کہ چوتھی پانچویں جماعت کو پڑھائے گا.اگر گر یجو یٹ بھیجا جاتا ہے تو نویں دسویں کو پڑھائے گا اور اگر مشہور ڈگری یافتہ بھیجا جائے تو سمجھا جائے گا کہ بڑی جماعتوں کے لئے ہے.اسی طرح الہامی کتاب لانے والے کی شخصیت سے بھی کتاب کی افضلیت یا عدم افضلیت کا پتہ لگ جاتا ہے لیکن اگر خود کتاب ہی اس کی افضلیت ثابت کر دے تو یہ اور بھی اعلیٰ بات سمجھی جائے گی کہ اس نے اس شق میں بھی خود ہی ثبوت دے دیا اور کسی اور ثبوت کی محتاج نہ ہوئی.غرض چونکہ اس انسان کے چلن کا جس پر کتاب نازل ہوئی ہو کتاب کی اشاعت پر خاص اثر پڑتا ہے اس لئے وہی کتاب کامل ہو سکتی ہے جو اس کے کریکٹر کو نمایاں طور پر پیش کرے تاکہ لوگ اس کے منبع کی نسبت شبہ میں نہ رہیں.پس یہ ثابت کرنے کے لئے کہ قرآن کا منبع مشتبہ نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی زبان پر جاری ہوا ہے.یہ ضروری ہے کہ قرآن ثابت کرے کہ اس کے لانے والا ایک مقدس اور بے عیب انسان تھا کیونکہ جب تک یہ ثابت نہ ہو باوجود کتاب کے کامل و افضل ہونے کے انسان کے دل میں ایک شبہ رہتا ہے کہ نہ معلوم اس کا لانے والا کیسا انسان تھا اور دوسرا شبہ یہ رہتا ہے کہ نہ معلوم اس کتاب نے اس کے پہلے مخاطب پر کیا اثر کیا.اگر اس پر اچھا اثر نہیں کیا تو ہم پر کیا اثر کرے گی اور اگر اس نے اپنے پہلے مخاطب کو فائدہ نہیں پہنچایا تو ہمیں کیا پہنچا سکے گی.پس کتاب کی افضلیت پر بحث کرتے ہوئے ہمیں کتاب لانے والے کے اخلاق پر اور لانے والے کی افضلیت پر بحث کرتے ہوئے اس کے پیش کردہ خیالات پر ضرور بحث کرنی ہوگی.قرآن کریم کو یہ فضیلت بھی دوسری کتب پر حاصل ہے یعنی اس کا لانے والا انسان دوسرے انسانوں سے خواہ وہ کوئی ہوں افضل ہے اور مزید افضلیت یہ ہے کہ قرآن کریم اس دلیل کے محفوظ رکھنے میں کسی دوسرے کا محتاج نہیں ہے.اس دلیل کو بھی خود اس نے ہی محفوظ کر دیا ہے یہاں تک کہ میور جیسا متعصب انسان بھی لکھتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حالات کا بہترین منبع قرآن ہے.اس موقع پر وہ حضرت عائشہ کا یہ قول نقل کرتا ہے کہ كَانَ خُلُقُهُ الْقُرآن لا یعنی رسول کریم ستی تھا کہ نیم کے اخلاق کے متعلق قرآن کو دیکھ لو.آپ کے تمام اخلاق قرآنی معیار کے مطابق تھے.پس قرآن کریم یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے کم از کم ایک شخص اپنے معیار کے مطابق پیدا کر لیا ہے اس لئے ہم اس کی تعلیم کے متعلق یہ شبہ نہیں کر سکتے کہ (۱) وہ قابل عمل نہیں (۲) یا یہ کہ
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 211 اس نے اپنے لانے والے کی اصلاح نہیں کی تو دوسروں کی کیا کرے گا؟ کیونکہ محمد سلیم نے اس پر عمل کیا اور اعلیٰ درجہ کے انسان بن گئے.پس کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ قرآن نے لانے والے کو کیا فائدہ پہنچایا کہ ہمیں پہنچائے گا.میں نے جو یہ بتایا ہے کہ الہامی کتاب کی افضلیت کی یہ بھی دلیل ہے کہ اس کا لانے والا دوسروں سے افضل ہو یہ بھی قرآن خود ہی بیان کرتا ہے.اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کی پہلی زندگی بھی پاک اور کامل ہونی چاہئے اور دعوئی کے بعد کی زندگی بھی مطابق وحی ہونی چاہئے.پہلی زندگی کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَن تُؤْمِنَ حَتَّى نُوثى مِثْلَ مَا أُوتِى رُسُلُ اللهِ اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَه سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ فَمَنْ يُرِدِ اللهُ أن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ، وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَضَعُدُ فِي السَّمَاءِ كَذلِكَ يَجْعَلُ اللهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ " فرمایا ان لوگوں کے سامنے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کوئی نشان پیش کرتا ہے تو کہتے ہیں ہم کبھی نہیں مانیں گے جب تک ہمیں وہی کچھ نہ ملے جو اللہ کے رسولوں کو ملا یعنی وحی اور الہام.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا ہر ایک پر وحی رسالت نازل کی جائے.اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کسے رسول بنانا چاہئے.وہ اس کے احوال، اس کے افکار اور اس کے عادات دیکھتا ہے.جو سب سے اعلیٰ ہوا سے رسالت کا منصب دیتا ہے.تم جو یہ کہتے ہو کہ تمہیں بھی وہی کچھ ملنا چاہئے جو رسولوں کو ملتا ہے.کیا تم اپنی حالت کو نہیں دیکھتے.تم تو گندے ہو اور گندوں کو ذلت ہی ملا کرتی ہے.رسالت تو بہت بڑی عزت ہے.یہ پاک اور اعلی پایہ کے انسان کو ملتی ہے تم کو تو تمہارے مکروں کی وجہ سے عذاب ملے گا.اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کر دیتا ہے.وہ نیک کام کرتے وقت یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا پہاڑ پر چڑھ رہا ہے.جو لوگ ایمان نہیں لاتے اللہ تعالیٰ اسی طرح ان سے سلوک کرتا ہے.اس میں بتایا کہ (۱) رسول بناتے وقت اللہ تعالیٰ اس آدمی کو دیکھتا ہے کہ وہ کیسا ہے.پس
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 212 مجرموں کو رسالت نہیں مل سکتی.انہیں تو ذلت ملے گی.رسالت تو بڑی بھاری عزت ہے.(۲) جو رسول بنتا ہے وہ پہلے بھی اللہ کا فرمانبردار ہوتا ہے.الہی احکام کی فرمانبرداری اس کی طبیعت میں داخل ہوتی ہے اور نیک تحریکوں کو قبول کرنے میں وہ پیش پیش ہوتا ہے.یه گو یا قرآن نے گر بتایا کہ انبیاء کی پہلی زندگی اعلیٰ ہونی چاہئے.بیشک ایک ایسا شخص ولی ہو سکتا ہے جو ایک زمانہ تک عیوب میں مبتلا رہا ہو اور بعد میں اس نے توبہ کر لی ہو لیکن نبوت کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہی خاص طور پر اعلیٰ درجہ کی طہارت اسے حاصل ہو.(۲) اور نبوت کی زندگی کے متعلق فرمایا فَالَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُونَ لَهُ بِأَلَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْتَمُونَ " جن لوگوں کو خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے.وہ رات دن اپنے اعمال سے دنیا کو بتاتے ہیں کہ خدا پاک ہے یعنی انہیں جس قدر قرب عطا ہو، اس قدر وہ فرمانبردار ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح اپنے ہر عمل سے ظاہر کرتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ خدا نے یونہی انہیں نہیں چنا.گویا وہ اپنے اعمال سے خدا تعالیٰ کی پاکیزگی ظاہر کرتے ہیں اور اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ خدا نے غلط انتخاب نہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے کی یا کیز وزندگی اب سوال یہ ہے کہ کیا رسول کریم ملی ایتم کی ذات کے متعلق بھی اس عام قاعدہ کے پورا ہونے کا کہیں ذکر ہے؟ سو اس امر کے متعلق کہ رسول کریم ملایا ہی نہ کی دعوئی سے پہلی زندگی بالکل پاک اور بے عیب تھی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے قُل لَّوْ شَاءَ اللهُ مَا تَلوتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا آذر یكُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مَنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ سے فرمایا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ان سے کہہ دے کہ اگر اللہ چاہتا تو میں یہ کتاب پڑھ کر تمہیں نہ سنا تا یعنی اگر اللہ چاہتا تو کتاب ہی نہ بھیجتا اور نہ تمہیں اس تعلیم سے آگاہ کرتا.تمہیں علم ہے کہ میری زندگی کیسی پاکیزہ گذری ہے.معمولی عمر نہیں بلکہ چالیس سال کا لمبا عرصہ.تم اسے جانتے ہو اور اس پر کوئی عیب نہیں لگا سکتے.پھر کس طرح خیال کر سکتے ہو کہ اب میں نے جھوٹ بنالیا.یہ پہلی زندگی کے متعلق رسول کریم ملی ایام کا اعلان ہے اور کفار کے مقابلہ میں اعلان ہے جس کا وہ انکار نہیں کر
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ سکتے تھے.213 رسول کریم این ایم کی اتباع میں خدا تعالیٰ کا قرب نبوت کی زندگی کے متعلق ہم قرآن کریم میں لکھا ہوا دیکھتے ہیں کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ ها یہ رسول اس بات کا اعلیٰ نمونہ ہے کہ قرآن نے اس کی زندگی پر کیا اثر کیا اور یہ کسی ایک قوم یا ایک ملک کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے نمونہ ہے.جس کی انہیں پیروی کرنی چاہئے.ممکن ہے کوئی کہے کہ باقی انبیاء بھی ایسے ہی ہو نگے.اس لئے قرآن کی ایک اور آیت میں پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونى يُحببكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ لا یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تو ان سے کہہ دے ( یہ الفاظ بھی رسول کریم صلی نے یتیم کی کتنی شان بلند کا اظہار کرتے ہیں.خدا تعالیٰ اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ رسول کریم صلی ای ایم کے منہ سے کہلواتا ہے تا کہ دنیا کے لئے ایک چیلنج ہو.گو یا اللہ تعالیٰ نے دنیا کو ایک چیلنج دیا اور کہا ان سے کہو ) اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو اور تمہارے دل میں تڑپ ہے کہ اس کے محبوب بن جاؤ تو آؤ میں تمہیں ایسا گر بتاؤں کہ تم عاشق ہو کر معشوق بن جاؤ اور وہ یہ ہے کہ فَاتَّبِعُونِی جس طرح میں کام کرتا ہوں تم بھی کرو.یہاں أطِيعُونِی نہیں فرمایا بلکہ فاتبعونی فرمایا ہے یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے محبوب بننا چاہتے ہو تو جیسے محمد رسول اللہ سی سی پر عمل کر رہے ہیں ویسے ہی تم بھی کرو.یہ نہیں فرمایا کہ محمدرسول اللہ لا ہے کہ ہم جوحکم دیں اس کی تعمیل کرو.اس جگہ اتباع کا لفظ ہے جس کے معنی قیفی اثرہ“ کے ہوتے ہے یعنی اس کے نقش قدم پر چلا.اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے اطاعت کا لفظ تو آتا ہے مگر اتباع کا نہیں کیونکہ اللہ تعالی شرائع سے بالا ہے لیکن رسول کے لئے اتباع اور اطاعت دونوں الفاظ آتے ہیں یعنی وہ حکم بھی دیتا ہے اور ان پر خود بھی عمل کرتا ہے.پس فاتبعونی کے یہ معنی ہیں کہ رسول کریم سی لا الہ یام فرماتے ہیں کہ میں اطاعت الہی سے محبوب الہی بن گیا ہوں.اگر تم بھی میرے جیسے کام کرو گے تو تم بھی محبوب الہی بن جاؤ گے.گویا خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کا دوسرا نام رسول کریم صلی ا یتیم کے اعمال رکھا ہے.
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ مخالفین اسلام کے اعتراضات کارڈ 214 اس کے بعد میں ان بعض اعتراضات کو لیتا ہوں جو رسول کریم صلی نے یتیم کی ذات پر کئے گئے ہیں اور بتاتا ہوں کہ کس طرح قرآن کریم نے ان کو ر ڈ کر کے آپ کے بے عیب اور کامل ہونے کو ثابت کیا ہے کیونکہ قرآن نے رسول کریم صلم کی پاکیزگی ثابت کرنے کا فرض خود اپنے ذمہ لیا ہے، کسی بندہ پر نہیں چھوڑا.پہلا اعتراض جو رسول کریم ملی تا پریتم کی زندگی پر ہوسکتا تھا وہ یہ ہے کہ آپ کے دعوی کے موجبات و محرکات کیا تھے؟ یا یہ کہ قرآن پیش کرنے کا اصل باعث کیا تھا؟ کوئی کہتا آپ نعُوذُ باللہ پاگل ہیں.کوئی کہتا اُسے جھوٹی خوا میں آتی ہیں.کوئی کہتا ساحر ہیں.کوئی کہتا جھوٹ بولتے ہیں.کوئی کہتا کا ہن ہیں.غرض مختلف قسم کے خیالات لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوئے.یہی خیالات آج تک چلتے چلے آتے ہیں.جب بھی کوئی مصنف رسول کریم صلای سی یتیم کے خلاف لکھتا ہے تو یہی کہتا ہے آپ جھوٹے تھے اور کوئی کہتا ہے کہ نَعُوذُ باللہ آپ مجنون تھے.پہلا اعتراض میں سب سے پہلے جنون کے اعتراض کو لیتا ہوں.چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اتنی پاکیزہ تھی کہ منکر اس کے متعلق کوئی حرف گیری نہیں کر سکتے تھے اس لئے جب آپ کا کلام سنتے تو یہ نہ کہہ سکتے کہ آپ جھوٹے ہیں بلکہ یہ کہتے کہ پاگل ہے.چونکہ مشرکانہ خیالات ان لوگوں کے دلوں میں گڑے ہوئے تھے ادھر وہ سمجھتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) جھوٹ نہیں بول سکتے اس لئے ان دونوں باتوں کے تصادم سے یہ خیال پیدا ہو جاتا کہ اس کی عقل ماری گئی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَقَالُوا يَأَيُّهَا الَّذِي نُزِلَ عَلَيْهِ الذِكُرُ اِنَّكَ لَمَجْنُونَ كلجب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پیش کیا تو لوگوں نے حیران ہو کر کہ اب کس طرح انکار کریں یہ کہہ دیا کہ ے وہ شخص جو کہتا ہے کہ مجھ پر خدا کا کلام اُترا ہے تیرا دماغ پھر گیا ہے اور تو پاگل ہو گیا ہے.اس کا جواب قرآن کریم میں اس طرح دیا گیا ہے کہ ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ ربَّكَ بِمَجْنُونٍ وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ فَسَتُبْصِرُ
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 215 وَيُبْصِرُونَ بِايْكُمُ الْمَفْتُونُ 1 لوگ تجھے پاگل کہتے ہیں مگر ہم دوات اور قلم کو تیری سچائی کے لئے شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں.پاگل آخر کسے کہتے ہیں اسے جس کی عقل عام انسانوں کی عقل کی سطح سے نیچے ہوتی ہے.ورنہ پاگلوں میں بھی کچھ نہ کچھ عقل تو ہوتی ہے.وہ کھانا کھاتے اور کپڑا پہنتے اور پانی پیتے ہیں.پاگل انہیں اس لئے کہتے ہیں کہ ادنی معیار عقل جو قرار دیا جاتا ہے، اس سے ان کی عقل کم ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ رسول کریم صلی یہ یمن کو پاگل کہنے والوں کے متعلق فرماتا ہے تم اسے پاگل کہتے ہو مگر سب سے زیادہ عقلمند لکھنے پڑھنے والے عالم سمجھے جاتے ہیں اور مصنفین کو بڑا دانا تسلیم کیا جاتا ہے.ہم کہتے ہیں ان عقلمندوں کی باتیں مقابلہ کے لئے لاؤ.دنیا کی تمام کتا ہیں جواب تک لکھی جاچکی ہیں انہیں اکٹھا کر کے لاؤ.یہ نہیں فرمایا کہ جو اپنی طرف سے لوگوں نے لکھی ہیں بلکہ فرمایا جو لکھی گئی ہیں.گویا مذہبی اور آسمانی کتابیں بھی لے آؤ.یا اعلیٰ درجہ کے علوم کی کتابیں جو لائبریریوں میں محفوظ رکھی جاتی ہیں وہ نکال کر لاؤ.اگر یہ سب کی سب کتا ہیں اس کے مقابلہ میں بیچ ثابت ہوں تو انہیں مانا چاہئے کہ مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونِ الله تعالى سے فضل سے تو مجنون نہیں ہے.دیکھو! یہ کتنا بڑا دھوئی ہے اور کتنی زبر دست دلیل ہے.یہ اس زمانہ کے لوگوں کو دلیل دی اور بعد میں آنے والوں کو یہ دلیل دی کہ وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ آئندہ بھی جولوگ تجھے پاگل کہیں گے ہم انہیں کہیں گے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اب تو تمہارے سامنے نہیں مگر اس کے کارناموں کے نتائج تمہارے سامنے ہیں.پاگل جو کام کرتا ہے اس کی کوئی جز انہیں ہوتی.کیا جب کوئی پاگل بادشاہ بن جاتا ہے تو اسے کوئی ٹیکس ادا کیا کرتا ہے یا ڈاکٹر بن جاتا ہے تو کوئی اس سے علاج کراتا ہے یا کوئی نبی بنتا ہے تو کوئی اس کا مرید بنتا ہے؟ مگر رسول کریم سنتی اینم کے متعلق فرمایا کہ ہم اس کے کاموں کا وہ اجر دیں گے جو بھی کاٹا نہیں جائے گا.کوئی زمانہ ایسا نہیں آئے گا جب اس کے اعمال کا اجر نہ مل رہا ہو گا.جب بھی کوئی پاگل ہونے کا اعتراض کرے اس کے سامنے یہ بات رکھ دی جائے کہ پاگل کے کام کا تو نتیجہ اس وقت بھی نہیں نکلتا جب وہ کر رہا ہوتا ہے مگر رسول کریم میں اسلام کے متعلق دیکھو کہ کئی سو سال گذر جانے کے بعد بھی نتائج نکل رہے ہیں.پھر فرمایا ہم ایک اور بات بتاتے ہیں.وَاِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ.پاگل کو پاگل کہوتو وہ
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰ 216 تھپڑ مارے گا لیکن عقلمند برداشت کر لے گا.اگر یہ لوگ تجھے پاگل سمجھتے تو تیری مجلس میں آکر تجھے پاگل نہ کہتے بلکہ تجھ سے دور بھاگتے.یہ جو تیرے سامنے تجھے پاگل کہتے ہیں یہی ثبوت ہے اس بات کا کہ تو پاگل نہیں ہے اور آئندہ آنے والوں کے لئے یہ ثبوت ہے کہ یہ پاگل کہنے والوں کے متعلق تو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ان کے برا بھلا کہنے پر چپ رہو.کیا ایسا بھی کوئی پاگل ہوتا ہے جو صرف آپ ہی پاگل کہنے والوں کے مقابلہ میں اپنے جوش کو نہ دبائے بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی یہ ہدایت کر جائے کہ مخالفوں کو برا بھلا نہ کہنا.فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ پس عنقریب تو بھی دیکھ لے گا اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ باتِكُمُ الْمَفْتُونُ تم دونوں میں سے کون گمراہ ہے.اس دلیل میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ پاگل کو کبھی خدائی مدد نہیں ملتی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی مدد سے کامیاب ہورہے ہیں پھر ان کو پاگل کس طرح قرار دیا جاسکتا ہے.دوسرا اعتراض دوسرا اعتراض رسول کریم سنی ہی پتھر پر اس حالت میں کیا گیا جب مخالفین نے دیکھا کہ پاگل کہنے پر عقلمند لوگ خود ہمیں پاگل کہیں گے.جب وہ یہ دیکھیں گے کہ جسے پاگل کہتے ہیں اس نے تو نہ کسی کو مارا ہے نہ پیٹا بلکہ نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق دکھائے ہیں.پس انہوں نے سوچا کہ کوئی اور بات بناؤ.اس پر انہوں نے کہا.اسے پریشان خوابیں آتی ہیں اور ان کی وجہ سے دعوی کر بیٹھا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ان کے اس اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.بل قَالُوا أَضْغَاتُ أَحْلَاءِ نا کہتے ہیں اس کا کلام أَضْغَاتُ أَحْلامٍ ہے کچھ مشتبہ ہی خواہیں ہیں جواسے آتی ہیں یعنی آدمی تو اچھا ہے.اس کی بعض باتیں پوری بھی ہو جاتی ہیں لیکن بعض بڑی باتیں بھی اسے دکھائی دیتی ہیں.جنون اور أَضْغَاتُ احلام میں یہ فرق ہے کہ جنون میں بیداری میں دماغی نقص پیدا ہو جاتا ہے لیکن أَضْغَاتُ میں نیند میں دماغی نقص پیدا ہو جاتا ہے.چونکہ مخالفین دیکھتے تھے کہ رسول کریم سیا ستم کے معاملات میں کوئی نقص نہیں اس لئے کہتے کہ جنون سے مراد ظاہری جنون نہیں بلکہ خواب میں اسے ایسی باتیں نظر آتی ہیں.اس کا جواب قرآن کریم یہ دیتا ہے کہ لَقَد أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَبًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ جن لوگوں کو أَضْغَاتُ.
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 217 احلام ہوتی ہیں کیا ان کی خوابوں میں قومی ترقی کا بھی سامان ہوتا ہے؟ پراگندہ خواب تو پراگندہ نتائج ہی پیدا کر سکتی ہے مگر اس پر تو وہ کتاب نازل کی گئی ہے جو تمہارے لئے عزت اور شرف کا موجب ہے.کیا دماغ کی خرابی سے ایسی ہی تعلیم حاصل ہوتی ہے؟ تم اپنے آپ کو عقلمند کہتے ہو.کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھ سکتے ؟ تیسرا اعتراض پھر بعض اور لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ هذا ساحرات کہ یہ جادو گر ہے.سحر کے معنی عربی زبان میں جھوٹ کے بھی ہوتے ہیں مگر مخالفین نے رسول کریم صلی یا ہی ان کو الگ بھی جھوٹا کہا ہے.اس لئے اگر اس کے معنی جھوٹ کے ہوں تو اس کا جواب علیحدہ ہوگا.دوسرے معنی سیحر کے یہ ہوتے ہیں کہ باطن میں کچھ اور ہو اور ظاہری شکل میں کچھ اور دکھائی دے.اللہ تعالٰی اس کے جواب میں فرماتا ہے.وَإِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِر اگر یہ لوگ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی نشان دیکھتے ہیں تو اعراض کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم ان باتوں کو خوب سمجھتے ہیں.یہ بڑا پرانا جادو ہے.آگے فرماتا ہے حِكْمَةٌ بَالِغَةٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ قرآن میں تو حکمت بالغہ ہے.قرآن میں ایسے مضامین ہیں جو دلوں میں تبدیلی پیدا کرنے والے ہیں.سینہ کے معنی تو یہ ہیں کہ ظاہر کو سخ کر دیا جائے اور باطن آزاد رہے مگر قرآن کا اثر تو یہ ہے کہ ظاہر کی بجائے دلوں کو بدلتا ہے.اس لئے اسے سخر نہیں کہہ سکتے.یہ حکمت بالغہ ہے یعنی حکمت کی ایسی باتیں ہیں جو دور تک اثر کرنے والی ہیں.یہ اندرونی جذبات اور افکار پر اثر ڈالتی ہیں مگر ان لوگوں کو یہ انذار فائدہ نہیں دیتا.چوتھا اعتراض پھر بعض نے کہا کہ یہ ساحر تو معلوم نہیں ہوتا ہاں مسحور ضرور ہے یعنی خود تو بڑا اچھا ہے لیکن کسی نے اس پر سحر کر دیا ہے اس لئے یہ ایسی باتیں کہتا پھرتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَقَالَ الظَّلِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا "
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 218 یعنی ظالم لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ایک مسحور کی اتباع کر رہے ہیں.کسی نے اس پر جادو کر دیا ہے جس کی وجہ سے اس کی عقل ماری گئی ہے.اس آیت سے پہلے ملائکہ کے نزول کے متعلق معترضین کا مطالبہ ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور خزانے عطا کرتے ہیں ( ملائکہ سے الہام اور خزانے سے معارف قرآن مراد تھے ) تو مخالفین نے کہا کہ دیکھو اسے جو ملائکہ نظر آتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ مسحور ہے.فرشتے ہمیں نہیں نظر آتے.خزانے ہمیں نہیں دکھائی دیتے مگر یہ کہتا ہے کہ مجھ پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور خزانے مل رہے ہیں ، کہاں ملے ہیں؟ یہ سحر کا ہی اثر ہے جو ایسی باتیں کرتا ہے.اسی طرح اور بہت سے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَبِكَةُ أَوْ نَرَى رَبَّنَاء لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْ عُتُوا كَبِيرًا - يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلبِكَةَ لَا بُشْرَى يَوْمَةٍ لِلْمُجْرِمِيْنَ وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَّحْجُورًا وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَه هَبَاءَ مَنْشُورًا أَصْحَبُ الْجَنَّةِ يَوْمَةٍ خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا وَيَوْمَ تشقَّقُ السَّمَاءِ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلبِكَةُ تَنْزِيلًا الْمُلْكُ يَوْمَينِ الْحَقُ لِلرَّحْمنِ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَفِرِينَ عَسِيرًا ۲۵ b یعنی یہ نادان کہتے ہیں کہ یہ مسحور ہے اور ثبوت یہ پیش کرتے ہیں کہ ہمیں کیوں فرشتے نظر نہیں آتے.ہمیں کیوں خزانے دکھائی نہیں دیتے.لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلئِكَةُ ہم پر وہ فرشتے کیوں نہیں اُترتے جن کے متعلق یہ کہتا ہے کہ مجھ پر اُترتے ہیں.آؤندی ربنا یا یہ کہتا ہے کہ میں اپنے رب کو دیکھتا ہوں.ہمیں وہ کیوں نظر نہیں آتا.یہ جاہل خیال کرتے ہیں کہ ہمیں چونکہ یہ چیزیں نظر نہیں آتیں اس لئے یہ جو اُن کے دیکھنے کا دعویٰ کرتا ہے تو مسحور ہے مگر یہ اپنے نفسوں کو نہیں دیکھتے.کیا ایسے گندوں کو خدا نظر آسکتا ہے.انہوں نے بڑی سرکشی سے کام لیا ہے.يَوْمَ يَرَوْنَ المليكة لا بُشرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ.ان کو بھی فرشتے نظر آئیں گے مگر اور طرح.جب انہیں فرشتے نظر آئیں گے تو یہ کانوں کو ہاتھ لگا ئیں گے اور کہیں گے کہ کاش یہ ہمیں دکھائی نہ دیتے.
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 219 اس دن مجرموں کے لئے خوشخبری نہیں ہوگی بلکہ یہ گھبرا کر کہیں گے کہ ہم سے پرے ہی رہو.اسی طرح ہم بھی ان کو نظر تو آئیں گے مگر انعام دینے کے لئے نہیں بلکہ قَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلِ فَجَعَلْنَهُ هَبَا مَنْشُورًا.ہم ان کو تباہ کرنے کے لئے ان کے اعمال کی طرف متوجہ ہونگے اور ان کی حکومت کو باریک ذروں کی طرح اڑا کر رکھ دیں گے اور وہ جن کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ایک مسحور کے پیچھے چل رہے ہیں.ان کے لئے وہ بڑی خوشی کا دن ہوگا.اَصْحَبُ الْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَ اَحْسَنُ مَقِيلًا.ان کو نہایت اعلیٰ جگہ اور آرام دہ ٹھکانا ملے گا.اس کی آگے تفصیل بیان کی ہے کہ يَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِلَ الْمَلئِكَةُ تَنْزِيلًا.اس دن آسمان سے بارش برسے گی اور بہت سے فرشتے اُتارے جائیں گے.جیسے بدر کے موقع پر ہوا.الْمُلْكُ يَوْمَينِ الْحَقُّ لِلرَّحْمنِ.اس دن مکہ کی حکومت تباہ کر دی جائے گی اور حکومت محمد رسول اللہ اللہ کے ہاتھ میں دے دی جائے گی.وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَفِرِينَ عَسِيرًا اور مکہ کی فتح کا دن کافروں پر بڑا سخت ہوگا.باقی رہے خزانے سوان کے متعلق فرمایا وَ قَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ہمارا یہ رسول قیامت کے دن اپنے خدا سے کہے گا کہ اے میرے رب ! انہوں نے اگر حکومت نہ دیکھی تھی تو اس کے متعلق اعتراض کر لیتے.خزانے نہ دیکھے تھے تو اعتراض کر لیتے.فرشتے نہ دیکھے تھے تو اعتراض کر لیتے مگر یہ قرآن کو دیکھ کر کس طرح انکار کر سکتے تھے مگر افسوس کہ اتنے بڑے قیمتی خزانہ کا بھی انہوں نے انکار کر دیا.حالانکہ یہ تو ان کو دکھائی دینے والی چیز تھی.سورۃ بنی اسرائیل میں بھی یہ ذکر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو محور کہا جاتا تھا.چنانچہ فرماتا ہے.اِذْ يَقُولُ الظَّلِمُونَ اِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا.۲ یعنی ظالم لوگ کہتے ہیں کہ تم ایک مسحور کی پیروی کر رہے ہو.پھر اس جگہ اور سورہ فرقان میں بھی اس کے معا بعد یہ آیت آتی ہے.انظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سبيلا ٢٨ یعنی دیکھ یہ کیسی باتیں تیرے لئے بیان کرتے ہیں.حالانکہ یہ ساراز در تیرے پیش کردہ کلام کے رڈ میں لگارہے ہیں اور نا کامی اور نامرادی کی وجہ سے ان کی جانیں نکلی جارہی ہیں مگر
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 220 پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ اس پر کسی جادو کا اثر ہے.اگر یہ بات ہے تو پھر اس کمزور کے مقابلہ سے یہ لوگ کیوں عاجز آ رہے ہیں.مسحور تو دوسروں کا تابع ہوتا ہے اور یہ لوگوں کو اپنے تابع کر رہا ہے اور دوسرے تمام لوگ اس کے مقابل پر عاجز ہیں.مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس اعتراض میں مسلمان بھی کافروں کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں اور انہوں نے لکھا ہے کہ یہودیوں نے نعوذ باللہ رسول کریم ملی تم پر ایک دفعہ جادو کر دیا تھا اور اس کے اثرات بڑے لمبے عرصہ تک آپ پر رہے.اور اس میں وہ امام بخاری کو بھی گھسیٹ لائے ہیں.حالانکہ قرآن کریم میں وہ صاف طور پر پڑھتے ہیں واللهُ يَعْصِمُكَ مِن الناس ۲۹ خدا تعالیٰ تجھے لوگوں کے حملہ سے محفوظ رکھے گا.اگر لوگ رسول کریم صلی شما ای سالم پر سحر کر سکتے تھے تو پھر يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس کس طرح درست ہوا؟ ہم تو دیکھتے ہیں رسول کریم سینا یہ ستم تو الگ رہے آپ کے غلاموں پر بھی کوئی سحر نہیں کر سکتا.ایک شخص نے ایک احمدی دوست سے بیان کیا کہ میں مسمریزم میں بڑا ماہر ہوں.ایک دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ مرزا صاحب کے پاس جا کران پر مسمریزم کروں اور لوگوں کے سامنے ان سے عجیب و غریب حرکات کراؤں.یہ خیال کر کے میں ان کی مجلس میں گیا اور ان پر توجہ ڈالنے لگا مگر وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ بڑے اطمینان کے ساتھ باتیں کرتے رہے اور ان پر کچھ اثر نہ ہوا.پھر میں نے اور زور لگایا مگر پھر بھی کوئی اثر نہ ہوا.آخر میں نے سارا زور لگایا اور کوشش کی کہ آپ پر اثر ڈالوں مگر اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ایک شیر مجھ پر حملہ کرنے لگا ہے.یہ دیکھ کر میں وہاں سے بھاگا اور واپس چلا آیا.لاہور جا کر اس نے حضرت مسیح موعود کو خط لکھا کہ میں نے سمجھ لیا ہے کہ آپ بہت بڑے ولی اللہ ہیں.کسی نے اسے کہا کہ تم نے ولی اللہ کس طرح سمجھ لیا.ہو سکتا ہے وہ مسمریزم میں تم سے زیادہ ماہر ہوں.اس نے کہا مسمرائیزر کے لئے ضروری ہے کہ وہ خاموش ہو کر دوسرے پر توجہ ڈالے مگر وہ اس وقت دوسروں سے باتیں کرتے رہے تھے اس لئے وہ مسمرائز نہیں ہو سکتے.پانچواں اعتراض ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ آپ کا ہن ہے.کا ہن وہ لوگ ہوتے ہیں جو مختلف علامات سے
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 221 آئندہ کی خبریں بتاتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے.وَلَا بِقَوْلِ كَاهِن قَلِيلًا ماتذكرون سے لوگ تجھے کا ہن کہتے ہیں حالانکہ تیرا کلام ایسا نہیں مگر یہ لوگ بالکل نصیحت حاصل نہیں کرتے.یہ عجیب بات ہے کہ قرآن کریم میں جہاں دو جگہ مسحور کا ذکر آیا ہے وہاں دونوں جگہ یہ آیت بھی ساتھ آتی ہے کہ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا.اسی طرح کا بہن کا لفظ بھی دو جگہ آیا ہے اور دونوں جگہ ذکر کا لفظ ساتھ ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کا ہن اور مذکر دونوں اضداد میں سے ہیں.چنانچہ سورہ طور رکوع ۲ میں آتا ہے.فَذَكَر فَمَا أَنتَ بِنِعْمَتِ رَبَّكَ بِكَاهِنٍ وَلَا مَجْنُونِ سے ان لوگوں کو نصیحت کر کیونکہ تو اپنے رب کے فضل سے نہ کا ہن ہے نہ مجنون.یعنی کا ہن مذکر نہیں ہو سکتا اور مذکر کا ہن نہیں ہو سکتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کا ہن در حقیقت ارڈ پوپو اس کی قسم کے لوگوں کو کہتے ہیں جو بعض علامتوں وغیرہ سے اخبار غیبیہ بتاتے ہیں.چونکہ رسول کریم صلی نما یہ تم غیب کی اخبار بتاتے تھے.بعض نادان آپ کو کا ہن کہہ دیتے تھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کی اخبار تو محض اخبار ہوتی ہیں اور اس کی اخبار تذکیر کا پہلو رکھتی ہیں اور اصلاح نفس اور اصلاح قوم سے تعلق رکھتی ہیں تو پھر یہ کا ہن کیونکر ہوا.کاہنوں کی خبریں تو ایسی ہی ہوتی ہیں جیسے مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کو ایک نے بتائی تھی.مولوی صاحب نے ایک دفعہ پردہ میں بیٹھ کر ایک ارڈ پو پوکو اپنا ہاتھ دکھایا.اس نے آپ کو عورت سمجھ کر خاوند کے متعلق باتیں بتانی شروع کر دیں.جب وہ بہت کچھ بیان کر چکا تو مولوی صاحب نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اپنی داڑھی اس کے سامنے کر دی.یہ دیکھ کر وہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور پھر کبھی اس محلہ میں نہیں آیا.غرض کا ہنوں کی خبریں محض خبریں ہی ہوتی ہیں کہ فلاں کے ہاں بیٹا ہوگا.فلاں مرجائے گا ان میں خدا تعالیٰ کی قدرت کا اظہار نہیں ہوتا مگر محمد رسول اللہ صلی نما سیم جو خبریں بتاتے ہیں ان کو کاہنوں والی خبریں نہیں کہا جاسکتا.یہ تو ایمان کو تازہ کرنے والی اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کے جلال کو ظاہر کرنے والی ہیں.رسول کہتا ہے میں خدا کی طرف سے آیا ہوں جو میرا مقابلہ کرے گا وہ ناکام رہے گا اور جو مجھے مان لے گا جیت جائے گا مگر کوئی کا ہن یہ نہیں کہہ سکتا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 222 ہے.وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کا بہن کا قول ہے.ان کی عقل ایسی ماری گئی ہے کہ اتنی پیشگوئیاں سنتے ہیں جن میں خدا تعالیٰ کی قدرت اور جبروت کا اظہار ہے مگر پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے.دوسرا رڈ اس کا یہ فرمایا فَلا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ وَمَا لَا تُبْصِرُونَ إِنَّهُ لَقَولُ رَسُوْلِ كَرِيمٍ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ، قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ تَنْزِيلٌ مِنْ رَّبِّ الْعَلَمِينَ.وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضً الأَقَاوِيْلِ لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ الجزين " یعنی ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اس کو بھی جسے تم دیکھتے ہو اور اس کو بھی جسے تم نہیں دیکھتے یعنی اس کے ظاہری اور باطنی دونوں حالات اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ قرآن ایک عزت والے رسول کا کلام ہے.ظاہری حالات کے لحاظ سے ایک بات میں کا بہن اور شاعر دونوں مشترک ہوتے ہیں.شاعر بھی بڑے بڑے جذبات کا اظہار کرتا ہے اور سب کچھ بیان کرنے کے بعد ہاتھ پھیلا دیتا ہے.اسی طرح کا ہن بھی خبریں بتا کر مانگتا پھرتا ہے.مگر فرمایا یہ رسول تو ایسا ہے جو اپنے پاس سے خرچ کرتا ہے.کا ہن تو دوسروں سے مانگتا ہے.یہاں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قرآن کو رسول کریم صلی شانہ کا کلام قرار دیا گیا ہے.یہاں رسول کہہ کر اس شبہ کو رڈ کر دیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ آپ کا کلام نہیں کیونکہ رسول وہی ہوتا ہے جو دوسرے کا پیغام لائے.اگر محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی طرف سے بیان کرتا تو آپ کا کلام سمجھا جاتا ہے مگر یہ تو رسول ہے.تیسری دلیل یہ دی کہ کا ہن تو اپنے اخبار کو اپنے علم کی طرف منسوب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے جفر ، ریل، تیروں اور ہندسوں وغیرہ سے یہ یہ باتیں معلوم کی ہیں.وہ خدا تعالیٰ کی طرف اپنی خبروں کو منسوب نہیں کرتا مگر یہ رسول کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے کلام پا کر سناتا ہوں اور یہ اپنے کلام کو تَنْزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَلَمِيْنَ کہتا ہے.یہاں یہ بھی بتادیا کہ کا ہن ایسی باتیں بیان کرنے کی وجہ سے اس لئے سزا نہیں پاتا کہ وہ خدا پر تقول نہیں کرتا بلکہ اپنی طرف سے بیان کرتا ہے مگر رسول کہتا ہے کہ خدا کی طرف سے میں بیان
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 223 کرتا ہوں.اگر رسول جھوٹا ہو تو فور انتباہ کر دیا جاتا ہے.پس یہ کا ہن نہیں ہے بلکہ خدا کا سچا رسول ہے اور اس پر جو کلام نازل ہوا ہے یہ رب العالمین خدا کی طرف سے اُتارا گیا ہے.اگر کہو کہ یہ اس طرح اپنی کہانت کو چھپاتا ہے تو یا درکھو کہ جان بوجھ کر ایسا کرنے والا کبھی سزا سے نہیں بچ سکتا.اگر شخص ہماری طرف جھوٹا الہام منسوب کر دیتا خواہ ایک ہی ہوتا تو ہم یقینا اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی رگ جان کاٹ دیتے اور اس صورت میں تم میں سے کوئی بھی نہ ہوتا جو اسے خدا کے عذاب سے بچا سکتا.چھٹا اعتراض ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ آپ شاعر ہیں.چنانچہ سورۃ انبیاء رکوع اول میں آتا ہے بَلْ هُوَ شاعر که یہ صحیح باتیں بیان کر کے لوگوں پر اثر ڈال لیتا ہے.اس کا جواب سورۃ یسین رکوع ۵ میں یہ دیا کہ وَمَا عَلَّمْنَهُ الشَّعْرَ وَمَا يَنبَغِى لَهُ إِنْ هُوَالًا ذِكْرٌ وَقُرَانٌ مُّبِينٌ لِيُنْذِرَ مَن كَانَ حَيًّا وَيَحقِّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَفِرِينَ ٣ یعنی ہم نے اسے شعر نہیں سکھایا اور یہ تو اس کی شان کے مطابق بھی نہیں ہے.یہ تو ذکر اور قرآن مبین ہے.کھول کھول کر باتیں سنانے والا ہے.یہ اس لئے نازل کیا گیا ہے تا کہ اُسے جس میں روحانی زندگی ہے ڈرائے اور کافروں پر حجت تمام ہو جائے.اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اوّل قرآن شعر نہیں.ان لوگوں کی عقلیں ماری گئی ہیں کہ نثر کو شعر کہتے ہیں.دوم اگر کہیں کہ مجازی معنوں میں شعر کہتے ہیں کیونکہ شعر کے معنے ایسی چیز کے ہوتے ہیں جو اندر سے باہر آئے اور شعر کو اس لئے شعر کہا جاتا ہے کہ وہ جذبات کو اُبھارتا ہے تو اس کا جواب یہ دیا کہ وَمَا يَنبَغِی له یہ تو اس کی شان کے ہی مطابق نہیں کہ اس قسم کی باتیں کرے.اس کی ساری زندگی دیکھ لو.شاعر کی غرض اپنے آپ کو مشہور کرنا ہوتی ہے مگر یہ تو کہتا ہے مثلُكُم میں تمہارے جیسا ہی انسان ہوں.پھر شاعر ان لوگوں کی مدح کرتا ہے جن سے اس نے کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے مگر یہ تو کہتا ہے کہ میں تم سے کچھ نہیں لیتانہ کچھ مانگتا ہوں.پس شاعری اور اس کا لایا ہوا کلام آپس میں کوئی مناسبت نہیں رکھتے.سوم پھر اس میں ذکر ہے حالانکہ شعر ذکر نہیں ہوتا یعنی شعر
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 224 اندرونی جذبات کو ابھارتا ہے.شہوت اور حسن پرستی کا ذکر کرتا ہے مگر یہ ایسی باتوں کی مذمت کرتا ہے.چہارم پھر یہ ایسا کلام ہے جو فطرت کے اعلیٰ محاسن کو بیدار کر کے جن کی فطرت صحیح ہوتی ہے ا انہیں بدیوں سے بچاتا ہے اور جو مُردہ ہوتے ہیں ان پر حجت تمام کرتا ہے.حالانکہ شاعر جذبات بہیمیہ کو ابھارتا ہے.پس اسے مجازی طور پر بھی شعر نہیں کہہ سکتے.ساتواں اعتراض ساتواں اعتراض یہ کیا گیا کہ یہ معلم ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.آئی لَهُمُ الذِّكُوى یہ وَقَد جَاءَهُمْ رَسُوْلٌ مُّبِينٌ ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوا مُعَلَّمْ تَجَنُونَ ۳۴ فرمایا ان نامعقولوں کو کہاں سے نصیحت حاصل ہو گئی.حالانکہ ان کے پاس اعلیٰ درجہ کے معارف بیان کرنے والا رسول آیا مگر یہ لوگ اس سے منہ پھیر کر چلے گئے اور کہ دیا کہ اسے کوئی اور سکھا جاتا ہے اور مجنون ہے.مطلب یہ کہ یہ ایسا نادان ہے کہ لوگ اس کو اس کے باپ دادا کے دین کے خلاف باتیں بتا جاتے ہیں اور یہ آگے ان کو بیان کر دیتا ہے.بعض لوگ رسول کریم سنی ہیں یہ تم پر اعتراض کرتے تھے اور اب تک کرتے ہیں کہ قرآن نہ آپ پر نازل ہوا نہ آپ نے بنایا بلکہ کوئی اور شخص ان کو سکھا دیتا تھا.مکہ والے کہتے تھے کہ مکہ کا ہو کر محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کس طرح اپنی قوم کے بتوں کی مذمت کر سکتا ہے.اور ان کے مقابلہ میں دوسری قوم کے نبیوں کی تعریف کر سکتا ہے اسے کوئی اور اس قسم کی باتیں سکھا جاتا ہے.جب وہ حضرت موسیٰ کی تعریف قرآن میں سنتے تو کہتے کہ کوئی یہودی سکھا گیا ہے اور جب حضرت عیسی کی تعریف سنتے تو کہتے کوئی عیسائی بتا گیا ہے.اس میں ان کو اس بات سے بھی تائید مل جاتی ہے کہ قرآن کریم میں پہلے انبیاء کے واقعات بھی بیان ہوئے ہیں.اس جگہ مجنون حقیقی معنوں میں نہیں آیا بلکہ غصہ کا کلام ہے کیونکہ معلم اور مجنون یکجا نہیں ہو سکتے.مطلب یہ کہ پاگل ہے، اتنا نہیں سمجھتا کہ لوگ اسے اپنے مذہب اور قوم کے خلاف باتیں سکھاتے ہیں.قرآن کریم میں دو جگہ بھی یہ ذکر آیا ہے.سورہ محل رکوع ۱۴ میں ہے.قُل نَزِّلَهُ رُوح الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُقَبَّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ وَلَقَدْ
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 225 نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِسَانُ الَّذِي يُلْحِدُوْنَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَذَا b لِسَان عَرَب مبین ۳۵ فرمایا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تو مخالفوں سے کہہ دے کہ قرآن کو روح القدس نے اُتارا ہے تیرے رب کی طرف سے ساری سچائیاں اس میں موجود ہیں اور اس لئے اُتارا ہے کہ مومنوں کے دل مضبوط ہوں اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہو اور ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ کہتے ہیں کسی اور نے قرآن سکھایا ہے مگر جس کی طرف وہ یہ بات منسوب کرتے ہیں وہ بجھی ہے ( عجمی وہ ہوتا ہے جو عرب نہ ہو یا عرب تو ہومگر اپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح عربی میں بیان نہ کر سکے اور یہ جو کلام ہے یہ تو زبان عربی میں ہے اور وہ بھی معمولی نہیں بلکہ خوب کھول کھول کر بیان کرنے والی.دوسری جگہ فرماتا ہے.وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا إِفْكُ إِفْتَرِيهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ أَخَرُونَ فَقَدْ جَاءَ وَظُلْمًا وَزُوْرًا وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا قُلْ انْزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السَّرَ فِي السَّمَوَتِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَّحِيما." یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن خدا کا کلام نہیں ہے بلکہ صرف ایک جھوٹ ہے جو اس نے بنالیا ہے اور اس بنانے میں کچھ اور بھی لوگ اس کی مدد کرتے ہیں.یہ بات کہنے میں انہوں نے بڑا ظلم کیا ہے اور بڑا افترا باندھا ہے وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الأولين اكتتبقا اور وہ کہتے ہیں کہ اس میں پرانے قصے ہیں جو لکھوا لیتا ہے یعنی دو جماعتیں ہیں ایک مضمون بناتی ہے اور ایک لکھ لکھ کر دیتی ہے.فَهيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا پھر اس کی مجلس میں اسے خوب پڑھتے ہیں تاکہ یاد ہو جائے قُلْ انْزَلَهُ الَّذِى يَعْلَمُ السّر في السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ کہہ دے اسے خدا نے اُتارا ہے جو آسمانوں اور زمین کے رازوں کو جاننے والا ہے.اِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا وہ بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اس اعتراض میں آج کل عیسائی بھی شامل ہو گئے ہیں اور بڑے بڑے مصنف مزے لے لے کر اسے بیان کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں.محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کیا پتہ تھا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کی کتابوں میں کیا لکھا ہے.وہ عیسائی اور یہودی ہی تھے جو باتیں بنا کر ان کو دیتے تھے.چونکہ اب بھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے اور اسے بہت اہمیت دی جاتی ہے اس لئے میں کسی قدر تفصیل
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ سے اس کا جواب بیان کرتا ہوں.226 مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ اسے بشر سکھاتا ہے.اس بشر سے مراد جبر ۳۶۶ رومی غلام تھا جو عامر بن حضرمی کا غلام تھا.اس نے تورات اور انجیل پڑھی ہوئی تھی.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگ تکلیف دینے لگے تو آپ اس کے پاس جا کر بیٹھا کرتے تھے.اس پر لوگوں نے یہ اعتراض کیا.دوسری روایتوں میں آتا ہے کہ فترا اور زجاج کہتے ہیں کہ حویطب ابن عبد العڑکی کا ایک غلام عائش یا یعیش نامی پہلی کتب پڑھا کرتا تھا.بعد میں پختہ مسلمان ہو گیا اور رسول کریم ملی پیام کی مجلس میں آتا تھا.اس کی نسبت لوگ یہ الزام لگاتے تھے.مقاتل اور ابن جبیر کا قول ہے کہ ابو فکیہ پر لوگ شبہ کرتے تھے ان کا نام لیسار تھا.مذہبا یہودی تھے اور مکہ کی ایک عورت کے غلام تھے.بیہقی اور آدم بن ابی ایاس نے عبد اللہ بن مسلم الحضرمی سے روایت لکھی ہے کہ ہمارے دو غلام بیسار اور جبر نامی تھے دونوں نصرانی تھے اور عین التجر کے رہنے والے تھے.دونوں لوہار تھے اور تلواریں بنا یا کرتے تھے اور کام کرتے ہوئے انجیل پڑھا کرتے تھے.رسول کریم مسی تم وہاں سے گذرتے تو ان کے پاس ٹھہر جاتے.ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ان میں سے ایک غلام سے لوگوں نے پوچھا.کہ إِنَّكَ تُعَلَّمُ مُحَمَّدًا فَقَالَ لَاهُوَ يُعَلِّمُنِي - کیا تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو سکھاتے ہو؟ اس نے کہا.میں نہیں سکھا تا بلکہ وہ مجھے سکھاتا ہے.ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک انجمی رومی غلام مکہ میں تھا.اس کا نام بلعام تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اسلام سکھایا کرتے تھے اس پر قریش کہنے لگے کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو سکھاتا ہے.مسیحی مؤرخ لکھتے ہیں کہ غالبا آپ نے بحیرہ راھب سے سیکھا تھا.چونکہ مسیحی تاریخوں میں بحیرہ کا کہیں پتہ نہیں ملتا.اس وجہ سے ابتداء تو وہ اس کے وجود سے ہی منکر تھے لیکن اب مسعودی کی ایک روایت کی وجہ سے وہ اس کو تسلیم کرنے لگے ہیں اور اس اعتراض کے رنگ میں اس سے فائدہ اُٹھانے لگے ہیں.وہ روایت یہ ہے کہ بحیرہ کو مسیحی لوگ سرگیس (Sergius) کہا کرتے تھے اور Sergius نامی ایک پادری کا پتہ سیحی کتب میں مل جاتا ہے.پس اب وہ کہتے ہیں کہ اس شخص سے سیکھ کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تعُوذُ باللہ قرآن بنالیا.سیل (Sale) اس خیال کو
227 فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ رڈ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بحیرہ کا مکہ جانا ثابت نہیں اور یہ خیال کہ آپ نے جوانی میں دعویٰ سے بہت پہلے بحیرہ سے قرآن سیکھا ہو عقل کے خلاف ہے.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اس سے مسیحیت کا کچھ علم سیکھا ہو.و ہیری ان روایتوں سے خوش ہو کر کہتا ہے کہ خواہ ناموں میں اختلاف ہی ہو لیکن یہ روایت اتنی کثرت سے آتی ہے کہ اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے.کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس بعض مسیحی اور یہودی آتے تھے اور یہ کہ انہوں نے ان کی گفتگو سے خاص طور پر فائدہ اُٹھایا اور جواب کی کمزوری بتاتی ہے کہ کچھ دال میں کالا کالا ضرور ہے، ورنہ یہ کیا جواب ہوا کہ اس کی زبان انجمی ہے.ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں بنادیتا ہو اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اسے عربی میں ڈھال لیتے ہوں (وہ اپنے اس خیال کی تصدیق میں آرنلڈ کو بھی پیش کرتا ہے ) اس کے بعد وہ لکھتا ہے :- It is because of this that we do not hesitate to reiterate the old charge of deliberate imposture.یعنی ہم یہ پرانا الزام دُہراتے ہوئے اپنے دل میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے جان بوجھ کر جھوٹ بنایا.اُوپر کے مضمون سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کفار مکہ اس اعتراض کو خاص اہمیت دیتے تھے اور ان کے وارث مسیحیوں نے اس اہمیت کو اب تک قائم رکھا ہے.میں پہلے مسیحیوں کے اعتراضات کو لیتا ہوں اور اس شخص کو جواب میں پیش کرتا ہوں جسے عیسائی خدا کا بیٹا کہتے ہیں.حضرت مسیح پر یہ اعتراض ہوا تھا کہ ان کے ساتھ شیطان کا تعلق ہے اور دیوؤں کو اس کی مدد سے نکالتے ہیں.چنانچہ لکھا ہے :- پھر وہ ایک گونگی بدروح کو نکال رہا تھا اور جب وہ بدروح اُتر گئی تو ایسا ہوا کہ گونگا بولا اور لوگوں نے تعجب کیا لیکن ان میں سے بعض نے کہا.یہ تو بدروحوں کے سردار بعل زبول کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہے بعض اور لوگ آزمائش کے لئے اس سے ایک آسمانی نشان طلب کرنے لگے مگر اس نے ان کے خیالوں کو جان کر ان سے کہا کہ جس
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 228 کسی بادشاہت میں پھوٹ پڑے وہ ویران ہو جاتی ہے اور جس گھر میں پھوٹ پڑے وہ برباد ہو جاتا ہے اور اگر شیطان بھی اپنا مخالف ہو جائے تو اس کی بادشاہت کس طرح قائم رہے گی کیونکہ تم میری بابت کہتے ہو کہ یہ بدروحوں کو بعل زبول کی مدد سے نکالتا ہے.‘۳۹ یہاں حضرت مسیح نے ایک قانون پیش کیا ہے.جب ان کے متعلق کہا گیا کہ وہ شیطان کو شیطان کی مدد سے نکالتے ہیں تو انہوں نے کہا شیطان شیطان کو کیوں نکالے گا ؟ اس قانون کے ما تحت غور کر لو کہ کیا قرآن کسی یہودی یا عیسائی کا بنایا ہوا نظر آتا ہے.اگر کسی عیسائی کا بنایا ہوا ہوتا تو عیسائیت کے رڈ سے کس طرح بھرا ہوا ہوتا ؟ اور اگر کسی یہودی نے بنایا ہوتا تو اس میں یہودیت کا کس طرح رو ہوتا ؟ عیسائیت کا کوئی فرقہ بتا دو اس کا رڈ قرآن سے دکھا دیا جائے گا.اسی طرح کوئی یہودی فرقہ پیش کرو.اس کا رڈ قرآن میں موجود ہے.کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ کوئی عیسائی اور یہودی اپنے مذہب کی آپ تردید کرے گا.قرآن پورے طور پر عیسائیت کو رد کرتا ہے.ہم دور نہیں جاتے پہلی سورۃ میں ہی قرآن نے عیسائیت کی جڑیں اکھیڑ کر رکھ دی ہیں.پہلی سورۃ جو رسول کریم صلی اللہ تم پر نازل ہوئی یہ ہے :- اقرأ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ الَّذِى عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ ليَطغَى أَنْ رَّاهُ اسْتَغلى إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى أَرَعَيْتَ الَّذِي يَنْهَى عَبْدًا إِذَا صلى آرَعَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى أَرَعَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى أَلَمْ يَعْلَمُ بِأَنَّ الله يرى كَلَّا لَبِنْ لَّمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ فَلْيَدُعُ نَادِيَهُ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ " یہ سورۃ جو سب سے پہلی سورۃ ہے.اس میں عیسائیت کے تمام مسائل کو رڈ کر دیا گیا ہے.پہلا حملہ عیسائیت پر یہ ہے کہ فرما یا خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.عیسائیت کی بنیاد اس عقیدہ پر ہے کہ انسان کی فطرت میں گناہ ہے.عیسائیت کہتی ہے انسان فطر نا گناہگار ہے اور عمل سے نیک نہیں بن سکتا.اس لئے مسیح کو جو پاک اور بے عیب تھا صلیب پر چڑھادیا گیا.اسی طرح وہ انسانوں کے ط
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 229 گناہ اپنے اوپر اٹھا کر قربان ہو گیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.انسان کی فطرت میں خدا کی محبت رکھی گئی ہے اور اس کی بناوٹ میں ہی خدا سے تعلق رکھا گیا ہے.اس طرح عیسائیت کا پہلا عقیدہ باطل کر دیا گیا اور بتادیا گیا کہ کفارہ کوئی چیز نہیں ہے اس کی بنیاد اس امر پر ہے کہ انسان گناہگار ہے لیکن اسلام شروع ہی اس بات سے ہوتا ہے کہ انسان نیک ہے اور اس کی فطرت میں خدا سے محبت رکھی گئی ہے نہ کہ گناہ.دوسرا جواب یہ دیا.کہ اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الأكرم خدا جو تیرا رب ہے اس کی یہ شان ہے کہ دوسری چیزوں میں جو صفات پائی جاتی ہیں ان سب سے اعلیٰ صفات اس میں جلوہ گر ہیں.عیسائیت کہتی ہے کہ خدا میں رحم کی صفت نہیں.وہ گناہگار کو نہیں بخش سکتا مگر اسلام کہتا ہے جب انسان اپنے قصور وار کو بخش سکتا ہے اور انسان میں عفو کی صفت ہے تو خدا کیوں نہیں بخش سکتا اور اُس میں کیوں یہ صفت نہیں.اس میں تو بدرجہ اتم یہ صفت ہے کیونکہ وہ آگرہ ہے یعنی تمام صفات حسنہ میں سب سے بڑھ کر ہے.تیسر ا ر ڈ یہ کیا کہ فرما یا عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمُ.عیسائیت کی تیسری بنیاد یہ ہے کہ شریعت لعنت ہے لیکن قرآن نے بتایا کہ شریعت میں وہ باتیں ہیں جو انسان عقل سے دریافت نہیں کر سکتا.انسان اپنی کوشش سے شرعی احکام نہیں بنا سکتے اس لئے شریعت آتی ہے.چوتھی زرعیسائیت پر یہ کی کہ فرمایا لَّا اِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى أَنْ رَّاهُ اسْتَغْلی انسان بڑا ہی سرکش ہے جو یہ کہتا ہے کہ مجھے خدا کی شریعت کی ضرورت نہیں.میں خود اپنی راہنمائی کے سامان مہیا کر لونگا.یہ کہنے والے بہت نا معقول لوگ ہیں.پانچواں رویہ کیا کہ فرمایا كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب.ایسے لوگوں کی باتیں کبھی نہ سننا اور اللہ کی خوب عبادت اور فرمانبرداری کرنا.رسول کریم صلی نیلم کو فرمایا کہ کسی راہب کی بات نہ سننا جو شریعت کو لعنت قرار دیتا ہے بلکہ خدا کی فرمانبرداری میں لگارہ.گویا نجات اور قرب الہی کا ذریعہ بجائے کسی کفارہ پر ایمان لانے کے سجدہ یعنی فرمانبرداری یا بالفاظ دیگر اسلام کو قرار دیا ہے.پس قرآن کی تو پہلی سورۃ نے ہی مسیحیت کو رد کیا ہے اور بادلیل رڈ کیا ہے.اسی طرح سورۃ فاتحہ میں عیسائیت اور یہودیت کورڈ کیا گیا ہے.پھر کیا کوئی شخص مان سکتا ہے کہ عیسائی اور یہودی
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 230 اپنے مذہب کے خلاف خود دلائل بتایا کرتے تھے.دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں.یا تو عیسائی راہب اپنے مذہب کو ماننے والا ہوگا یا نہ ماننے والا.اگر ماننے والا تھا تو اسے چاہئے تھا کہ اپنے مذہب کی تائید کرتا نہ کہ اس کے خلاف باتیں بتاتا اور اگر نہ ماننے والا تھا اور سمجھتا تھا کہ جو باتیں اس کے ذہن میں آئی ہیں وہ اعلیٰ درجہ کی ہیں تو اس نے ان کو خود اپنی طرف منسوب کر کے کیوں نہ پیش کیا.اسے چاہئے تھا کہ اپنے نام پر کتاب لکھتا نہ کہ لکھ کر دوسرے کو دے دیتا.اب میں ان آیتوں اور ان میں مذکور جوابات کو لیتا ہوں.سورہ محل کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کا اعتراض یہ تھا کہ اسے کوئی اور آدمی سکھاتا ہے.اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ وہ شخص تو عجمی ہے اور قرآن کی زبان عربی ہے.وہیری کہتا ہے کہ یہ جواب بالکل بودا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ہے.مضمون وہ بھی بنا کر دیتا تھا.آگے عربی میں وہ خود ڈھال لیتے تھے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کے دوسرے جواب بھی ایسے ہی بودے ہوتے ہیں.اگر قرآن کی دوسری باتیں ارفع اور اعلیٰ ہیں تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ یہ جواب بھی ضرور اعلیٰ ہوگا اور جو مطلب ہم سمجھتے ہیں وہ غلط ہوگا.دوسرے اگر یہ جواب بے جوڑ تھا تو کیوں مکہ والوں نے اسےرڈ نہ کر دیا اور کیوں وہیری والا جواب انہوں نے نہ دیا ان کا تو اپنا اعتراض تھا اور وہ اپنے اعتراض کا مطلب و ہیری وغیرہ سے بہتر سمجھتے تھے.وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ تو بے معنی جواب ہے مگر کسی ضعیف سے ضعیف روایت میں بھی یہ نہیں آتا کہ مکہ والوں نے کہا ہو یہ جواب بے جوڑ ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا جو اعتراض تھا اس کا جواب انہیں صحیح اور مسکت مل گیا تھا.اسی لئے وہ خاموش ہو اب رہا یہ امر کہ اچھا پھر سوال و جواب کا مطلب کیا تھا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصل میں کفار کا سوال ایک نہ تھا بلکہ دو تھے اور ان سوالوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی قرآنی جواب کو بے جوڑ قرار دے دیا گیا ہے.ان میں سے ایک کا ذکر سورۃ محل میں ہے اور دوسرے کا سورۃ فرقان میں سورۃ محل کا وہ سوال نہیں جو سورۃ فرقان کا ہے اور سورۃ فرقان میں وہ نہیں جو سورۃ نحل میں ہے.چنانچہ سورۃ پھل میں یہ اعتراض نقل ہے کہ ایک بجھی شخص آپ کو سکھاتا ہے.قرآن کریم نے اس کا نام نہیں لیا مگر یہ کہا ہے کہ لِسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ آنجھی ہے کہ وہ جس کی طرف قرآن کو
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 231 منسوب کرتے ہیں وہ بجھی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مخالف کسی خاص شخص کا نام لیتے تھے.پھر یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ شخص معروف تھا اور مسلمان بھی اس شخص کا نام جانتے تھے.سورۃ فرقان کی آیت اس سے مختلف ہے.اس میں بتایا گیا ہے کہ کفار کسی خاص آدمی کا نام لئے بغیر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایک جماعت رسول کریم ملا ہی تم کو کھاتی ہے اور رات دن آپ کے پاس رہتی ہے اور آپ بعض دوسرے لوگوں سے اس جماعت کے بتائے ہوئے واقعات کو لکھوا لیتے ہیں.یه فرق نمایاں ہے.ایک میں ایک خاص شخص کا ذکر ہے اور دوسری میں غیر معین جماعت کا ذکر ہے.ایک میں صرف سیکھنے کا ذکر ہے اور دوسری میں بعض لوگوں سے لکھوانے کا بھی ذکر ہے.ایک میں محض تعلیم کا ذکر ہے اور دوسری میں پہلوں کے واقعات اور خیالات سے نقل کرنے کا ذکر ہے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ دونوں جگہ جواب الگ الگ دیا گیا ہے.یہ فرق اتنے نمایاں ہیں کہ ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ جب رسول کریم صلہ تھا کہ ہم نے دعوی کیا تو شروع میں ہی بعض غلام آپ پر ایمان لے آئے تھے.وہ پہلے بت پرست یا عیسائی یا یہودی تھے.انہیں جب صبح و شام فرصت ملتی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر پہنچ جاتے اور دوسرے صحابہ کے ساتھ دین سیکھتے اور نمازیں پڑھتے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک مکان پر یہ اجتماع ہوتا تھا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابھی ایمان نہ لائے تھے کہ ایک دن اپنے گھر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنے کے ارادہ سے نکلے.کسی نے پوچھا کہ کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا محمد جو صابی ہو گیا ہے اس کی خبر لینے جارہا ہوں.اس نے کہا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو.انہوں نے کہا کیا ہو گیا ہے؟ اس نے بتایا کہ تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہو گئے ہیں.یہ سن کر وہ اپنی بہن کے گھر گئے اور جا کر دستک دی.اس وقت ایک صحابی ان کو قرآن پڑھا رہے تھے.جب انہیں معلوم ہوا کہ عمر ہیں تو صحابی کو چھپا دیا گیا اور بہن اور بہنوئی سامنے ہوئے.انہوں نے پوچھا کہ کس طرح آئے ہو.عمر نے کہا بتاؤ تم کیا کر رہے تھے.میں نے سنا ہے تم بھی صافی ہو گئے ہو.انہوں نے کہا یہ غلط ہے.ہم تو صابی نہیں ہوئے.عمر نے کہا میں نے تو خود تمہاری آواز سنی ہے.تم کچھ پڑھ رہے
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 232 تھے اور بہنوئی پر حملہ کر دیا.یہ دیکھ کر بہن آگے آگئی اور ضرب اس کے سر پر پڑی جس سے اس کا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا.اس پر انہوں نے بڑے جوش سے کہا.ہم مسلمان ہو گئے ہیں.اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہیں.تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر لو.جب حضرت عمر نے یہ حالت دیکھی تو چونکہ وہ ایک بہادر انسان تھے اور ان کا وار ایک عورت پر پڑا جو ان کی بہن تھی.اس سے انہیں سخت شرمندگی محسوس ہوئی اور انہوں نے کہا کہ تم جو کچھ پڑھ رہے تھے وہ مجھے بھی دکھاؤ.اس نے کہا تم مشرک اور ناپاک ہو.پہلے جا کر نہاؤ پھر بتائیں گے.چنانچہ وہ نہائے اور رہا سہا غصہ بھی دور ہو گیا.اس کے بعد قرآن کی جو آیات پڑھ رہے تھے وہ انہیں سنائی گئیں.حضرت عمر کا دل ان کو سن کر پگھل گیا اور وہ بے اختیار کہہ اُٹھے اَشْهَدُ أن لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ.اس وقت وہ صحابی جن کو انہوں نے چھپایا ہوا تھا.وہ بھی باہر آگئے حضرت عمرؓ نے کہا بتاؤ تمہارا سردار کہاں ہے.میں اس کے پاس جانا چاہتا ہوں.انہیں بتایا گیا کہ فلاں گھر میں مسلمان جمع ہوتے ہیں.حضرت عمر وہاں گئے.وہاں رسول کریم صلی ی ی یتیم اور بعض صحابہؓ موجود تھے اور دروازہ بند تھا.جب حضرت عمر نے دستک دی تو صحابہ نے پوچھا کون ہے؟ حضرت عمر نے اپنا نام بتایا تو صحابہ نے ڈرتے ہوئے رسول کریم ملی کہ ہم سے عرض کیا.عمر آیا ہے.دروازہ کے سوراخ سے انہوں نے دیکھا کہ تلوار ان کے گلے میں لٹکی ہوئی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یا دروازہ کھول دو.جب عمر اندر داخل ہوئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا گرنہ پکڑ کر کہا.عمر کس نیت سے آئے ہو.انہوں نے کہا اسلام قبول کرنے کے لئے.آپ نے فرمایا الله اكبر سے یہ سن کر باقی صحابہ نے بھی زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم مسانی پور کی عادت تھی کہ صحابہ کو دین سکھانے کے لئے الگ مکان میں بلا لیتے.چونکہ آپ دروازہ بند کر کے بیٹھتے تھے تا کہ کفار شرارت نہ کریں.اس لئے کفار کے نزدیک اس قسم کا اجتماع بالکل عجیب بات تھی.وہ خیال کرتے تھے کہ وہاں قرآن بنایا جاتا ہے اور چونکہ انبیاء سابق کے بعض واقعات کی طرف قرآن کریم میں اشارہ تھا وہ یہ خیال کرتے کہ مسیحی اور یہودی غلام یہ باتیں ان لوگوں کو بتاتے ہیں اور دوسرے صحابہ سے رسول کریم صلی بی ایم لکھوا لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتا ہے کہ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا إِفْكُ إِفْتَرَاهُ
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 233 وَاعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمُ أَخَرُونَ فَقَدْ جَاءَ وَظُلْمًا وَزُورًا - یعنی منکر لوگ کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ بنالیا گیا ہے اور کچھ لوگ اس میں مدد دیتے ہیں مگر ان کا یہ اعتراض بالبداہت ظلم اور جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ کیا مسیحی غلام ایسا کر سکتے ہیں کہ خود اپنے دین پر ہنسی کرائیں.آخر انہیں اس کی کیا ضرورت ہے اور کیا فائدہ ہے کہ وہ اسی بات پر رات دن ماریں کھائیں اور گرم ریت پر گھسیٹے جائیں اور ایک بے فائدہ فریب میں شامل ہوں.پس ایسے مخلص لوگوں پر یہ اعتراض کر کے ان لوگوں نے ظلم اور جھوٹ سے کام لیا ہے.یہ ناممکن ہے کہ ایسے لوگ ایسا جھوٹ بنا سکیں.دوسرا جواب یہ دیا ہے کہ جن کو تم پرانے قصے سمجھتے ہو وہ قصے نہیں بلکہ آئندہ کے متعلق خبریں اور پیشگوئیاں ہیں.چنانچہ فرماتا ہے.قُلْ انْزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السَّرَ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ " تو کہہ دے کہ یہ خدا کا کلام ہے جو آسمانوں اور زمین کے رازوں سے واقف ہے.کوئی انسان ایسا کلام نہیں بنا سکتا.یہ تو غیب کی باتیں ہیں اور غیب خدا ہی جانتا ہے.اب ان جوابوں کو دیکھو کہ کس قدر صحیح اور مضبوط ہیں اور وہیری کا خیال کس قدر بے معنی ہے.اگر یہاں بھی وہی اعتراض سورۃ نحل والا ہوتا تو اس کا وہی جواب کیوں نہ دیا جاتا جو وہاں دیا گیا ہے.آخر کیا وجہ تھی کہ اگر یہی سوال سورۃ نحل میں تھا تو اس کا جواب بقول وہیری کے بیہودہ دیا جاتا.ایک شخص جو صحیح جواب جانتا ہے اور وہ جواب دے بھی چکا ہے اسے وہ جواب چھوڑ کر اور جواب دینے کی کیا ضرورت تھی.پس یہ جواب لغو نہیں بلکہ معترضین کی اپنی سمجھ ناقص ہے.اصل بات یہ ہے کہ سورۃ نحل میں یہ سوال ہی نہیں کہ کوئی اسے مضمون بنا دیتا ہے بلکہ یہ ذکر ہے کہ نادان لوگ ایک ایسے شخص کی نسبت یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ محمد رسول اللہ کو کھا تا ہے جو خود بھی تھا یعنی اپنا مفہوم اچھی طرح بیان نہیں کر سکتا تھا.صرف تھوڑی سی عربی جانتا تھا.( عجمی کے یہ بھی معنی ہیں کہ جو اپنا مفہوم اچھی طرح ادا نہ کر سکے چنانچہ لغت میں یہ معنی بھی لکھے ہیں.) اس کا جواب اللہ تعالیٰ یہ دیتا ہے کہ دوسرے کا قول انسان دو طرح نقل کر سکتا ہے.ایک تو اس طرح کہ اس کا مطلب سمجھ کر اپنے الفاظ میں ادا کر دے اور دوسرا طریق یہ ہے کہ اس کے الفاظ رٹ کر ادا کر دے جیسے طوطا میاں مٹھو کہتا ہے.نقل انہی دو طریق سے ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم جانتے ہو کہ جس شخص کی طرف تم یہ بات منسوب کرتے ہو وہ اپنا مطلب عربی زبان میں پوری طرح ادا نہیں کر سکتا.پس
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 234 جب وہ مطلب ہی بیان نہیں کر سکتا تو وہ رسول کریم ستی یا ہم کو مضامین کس طرح سمجھاتا ہے کہ وہ عربی میں اس کو بیان کر دیتے ہیں.یہ جواب ہے آدھے حصے کا.دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ اس کے قول کو نقل کیا جاتا مگر یہ کس طرح ہو سکتا تھا.وہ تو عبرانی میں کہتا تھا اور اس کی بات اگر دہرائی جاتی تو عبرانی میں ہوتی مر قر آن تو عبرانی یا یونانی میں نہیں جس میں تو رات یا نجی لکھی ہوئی ہیں بلکہ عربی میں ہے.پس جب نہ وہ شخص اپنا مطلب عربی میں ادا کر سکتا ہے نہ قرآن کسی دوسری زبان کی نقل ہے تو اس کی طرف یہ کتاب کس طرح منسوب کی جاسکتی ہے.یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اس وقت تک تو رات اور انجیل کا کوئی ترجمہ عربی زبان میں نہیں ہوا تھا.چنانچہ تاریخوں سے ثابت ہے کہ بعض صحابہ کو عبرانی اس لئے پڑھوائی گئی کہ وہ تورات و انجیل پڑھ سکیں.دوسرا ثبوت اس کا یہ ہے کہ مفسرین دنیا بھر کے علوم کا ذکر تفسیروں میں کرتے ہیں مگر جب بائیبل کا حوالہ دیتے ہیں تو بالعموم غلط دیتے ہیں.جس کی وجہ یہی تھی کہ عربی میں بائیبل نہ تھی.وہ سن سنا کر لکھتے اس لئے غلط ہوتا.تیسرا ثبوت یہ ہے کہ بخاری میں ورقہ بن نوفل کے متعلق لکھا ہے کہ كَانَ يَكْتُبُ الكتب بِالْعِبرائی کے وہ عبرانی میں تو رات لکھا کرتے تھے.گویا اس وقت توریت اور انجیل عربی میں نہ تھی.پس یقینا وہ غلام عبرانی یا یونانی میں انجیل پڑھتا تھا اور عربی میں اس کا مفہوم بیان نہ کرسکتا تھا.اس طرح اس اعتراض کو رڈ کر دیا گیا.تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ جبیر نے کہا تھا کہ بَلْ هُوَ يُعَلِّمُنِی.جبیر آخر کار مسلمان ہو گیا تھا.عبد اللہ بن ابی سرح نے مرتد ہونے پر اس کا راز کفار کو بتا دیا تھا اور وہ اسے سخت تکالیف دیتے تھے.آخر فتح مکہ پر آنحضرت سلایا کہ تم نے روپیہ دے کر اسے آزاد کروا دیا.اس سے جب پوچھا گیا تو اس نے کہا.میں نہیں سکھاتا بلکہ وہ مجھے سکھاتے تھے.آٹھواں اعتراض آٹھواں اعتراض یہ تھا کہ اس کے ساتھ شیطان کا تعلق ہے اور اس کی طرف سے اسے کلام حاصل ہوتا ہے اور گو کفار کا کوئی قول اس اعتراض کے متعلق نقل نہیں کیا گیا مگر اس اعتراض کے
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 235 اشارے ضرور پائے جاتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيْطِيْنُ ٣ شیطان اس کلام کو لیکر نہیں اترے.اسی طرح فرماتا ہے.وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطَنٍ رَّجِيْمٍ " یہ شیطان رجیم کا قول نہیں ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کا یہ بھی اعتراض تھا کہ اس پر شیطان اُترتا ہے.افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس اعتراض کو اور پکا کر دیا ہے اور کفار کے ہاتھ میں ایک ہتھیار دے دیا ہے.وہ اس طرح کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کفار مکہ کے سردار جمع ہو کر رسول کریم سی ای ایم کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کے پاس ادنی درجہ کے لوگ آتے ہیں اور بڑے لوگ آپ کی باتیں نہیں سنتے.اگر آپ دین میں کچھ نرمی کر دیں تو ہم لوگ آپ کے پاس آکر بیٹھا کریں.اس طرح دوسرے لوگ بھی آپ کے پاس آنے لگیں گے.اس پر رسول کریم صلی یا یہ تم کو خیال آیا کہ اگر ایسا کر دیا جائے تو پھر بڑے بڑے لوگ مان لیں گے.( مجھے کیا ہی لطف آیا اس شخص کے اس فقرہ سے جس کا نام نولڈ کے ہے.وہ لکھتا ہے.معلوم ہوتا ہے.یہ روایت بنانے والے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنے جیسا ہی بیوقوف سمجھتے تھے.غرض رسول کریم ملایا اسلام کو نعوذ باللہ دین میں نرمی کرنے کا خیال آیا.اتنے میں آپ نماز پڑھنے لگے اور سورۃ نجم پڑھنی شروع کی.اس وقت شیطان نے اَفَرَ يُتُمُ اللتَ وَالْعُزَّى وَمَنْوةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرى ٢٥ کے بعد یہ کلمات آپ کی زبان پر جاری کر دیئے کہ وَتِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لَتُر تنجی کیا تم نے لات اور عربی اور منات کی حقیقت نہیں دیکھی.یہ بہت خوبصورت دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت کی بڑی امید ہے.چونکہ سورہ نجم کے آخر میں سجدہ آتا ہے.رسول کریم صلی ا یہی تم نے سجدہ کیا تو سب کفار نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کر دیا کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا کہ آپ نے دین میں نرمی کر دی ہے اور مجنوں کو مان لیا ہے.اس روایت کو اتنے طریقوں سے بیان کیا گیا ہے کہ ابن حجر جیسے آدمی کہتے ہیں کہ اس کی تاویل کی ضرورت ہے.گوتاریخی طور پر یہ روایت بالکل غلط ہے اور میں ثابت کر سکتا ہوں کہ یہ حض جھوٹ ہے مگر اس وقت میں کسی تاویل میں نہیں پڑتا.میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن اس کے متعلق کیا کہتا ہے اور کیا واقعہ میں رسول کریم سالی پیام سے ایسا ہوا ؟ اس موقع پر میں ایک مسلمان بزرگ کا قول بھی بیان کرتا ہوں جو مجھے بے انتہا پسند ہے میں تو
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 236 جب بھی یہ قول پڑھتا ہوں ان کے لئے دُعا کرتا ہوں.یہ بزرگ قاضی عیاض ہیں.وہ فرماتے ہیں شیطان نے رسول کریم سی ان پر تو کوئی تصرف نہیں کیا البتہ بعض محدثین کے قلم سے شیطان نے یہ روایت لکھوا دی ہے.گویا اگر شیطان کا تسلط کسی پر کرانا ہی ہے تو کیوں نہ محدثین پر کرایا جائے.رسول کریم صلی یہ تم کو درمیان میں کیوں لایا جائے.بعض نادان کہتے ہیں کہ رسول کریم مانا ہی ہم نے سورۃ نجم پڑھتے ہوئے یہ آیتیں بھی پڑھ دیں.اس پر جبریل نازل ہوا اور اس نے کہا آپ نے یہ کیا کیا.میں تو یہ آیتیں نہیں لایا تھا یہ تو شیطان نے جاری کی ہیں.یہ معلوم کر کے رسول کریم سیا سی و یتیم کو سخت فکر ہوا.خدا تعالیٰ نے اس فکر کو یہ کہہ کر دور کر دیا کہ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِي إِلَّا إِذَا تَمَثَى أَلْقَى الشَّيْطنُ فِي أُمْنِيَّتِهِ ، فَيَنْسَحُ اللهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطن ثُمَّ يُحْكِّمُ اللهُ ايَتِهِ وَاللهُ عَلِيْمٌ حَکیم.فرمایا تم سے پہلے بھی کوئی نبی اور رسول ایسا نہیں بھیجا گیا کہ جب اس کے دل میں کوئی خواہش پیدا ہوئی تو شیطان نے اس میں دخل نہ دے دیا ہو.پھر اللہ تعالیٰ شیطان کی بات کو مٹادیتا ہے اور جو اس کی اپنی طرف سے ہوتی ہے اسے قائم رکھتا ہے.کہتے ہیں جب یہ آیت اللہ تعالیٰ نے نازل کی تو رسول کریم می نام کی تسلی ہو گئی.تسلی کس طرح ہوئی اسی طرح جس طرح اس بڑھیا عورت کی ہوگئی تھی جس سے کسی نے پوچھا کہ کیا تم یہ چاہتی ہو کہ تمہارا گبر، اپن دور ہو جائے یا یہ کہ دوسری عورتیں بھی تمہاری طرح گہری ہو جائیں.اس نے کہا مجھ پر تو دوسری عورتوں نے جس قدر ہنسی کرنی تھی کرلی ہے.اب باقی عورتیں بھی گہری ہو جائیں تا کہ میں بھی ان پر ہنسوں.اس روایت کو درست قرار دینے والوں کے نزدیک رسول کریم سان اینم کی کس طرح تسلی ہوئی.اس طرح کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو کہہ دیا کہ تم پر ہی شیطان کا قبضہ نہیں ہوا سب نبیوں پر ہوتا چلا آیا ہے.یہ سن کر رسول کریم صلی ال ایام کا فکر دور ہو گیا.کتنی نا معقول بات ہے.ان لوگوں نے کبھی اتنا بھی نہ سوچا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ اللہ تعالیٰ جاننے والا اور حکمت والا ہے.کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ شیطان کا ہر نبی اور رسول پر قبضہ پالینا بڑی حکمت کی بات ہے اور پھر علیم کا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے.
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 237 میں بیان کر رہا تھا کہ ایک بزرگ کے قول سے مجھے بڑا مزہ آتا ہے.ان کا نام قاضی عیاض ہے.وہ اس قسم کی روایتیں نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان سے یہ تو پتہ لگ گیا کہ شیطان کا تصرف ہوا مگر رسول کریم سنی لیا کہ ان پر نہیں بلکہ ان روایتوں کو نقل کرنے والوں کی قلموں پر ہوا ہے.یہ بہت ہی لطیف بات ہے.قرآن کریم نے اس کا جو جواب دیا ہے.وہ اس جگہ موجود ہے جہاں کہتے ہیں کہ شیطان نے آیتیں نازل کیں یعنی تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلى وَأَنَّ شَفَا عَتَهُنَّ لَتُر تجی کے بعد کہتے ہیں کہ یہ آیات اُتریں.اَلكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأَنْهى.تِلْكَ إِذَا قِسْمَةٌ ضِيْزُى إِنْ هِيَ إِلَّا اسْمَا ۚ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَّا أَنْزَلَ اللهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ " فرمایا کیا تم اپنے لئے تو بیٹے قرار دیتے ہو اور خدا کے لئے لات، منات اور عرب کی بیٹیاں.یہ کس قدر بھونڈی تقسیم ہے جو تم نے کی.یہ نام تم نے اپنے طور پر رکھ لئے ہیں.خدا کی طرف سے نازل نہیں ہوئے.خدا نے تو ان بچوں کے لئے اُتارا ہی کچھ نہیں.کیا ان آیات کے بعد کوئی شخص ان فقروں کو درمیان میں شامل سمجھ سکتا ہے.پس یہ آیات ہی بتارہی ہیں کہ ان میں وہ فقرے داخل نہیں ہو سکتے.آخر کفار عربی تو جانتے تھے.اس کے علاوہ مندرجہ ذیل آیتیں بھی اس حصہ کو رڈ کر رہی ہیں.فرمایا وَمَا تَنَزَلَتْ بِهِ الشَّيطِين وَمَا يَنْبَغِى لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ ۲۸ یعنی اس میں شیطانی کلام کا اس قدر رڈ ہے کہ اسے شیطان اُتار ہی کس طرح سکتا ہے.(۲) پھر اگر شیطان یا اس کے ساتھی اس میں کچھ ملانا چاہیں تو ملا ہی نہیں سکتے.کہیں کوئی عبارت کھپ ہی نہیں سکتی جو کچھ ملا ئیں گے بے جوڑ ہوگا.جیسا کہ یہاں ہوا ہے.پھر آگے چل کر فرماتا ہے.هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَلُ الشَّيطِيْنِ تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَاكٍ أَثِيمٍ يُلْقُونَ السَّمْعَ وَاكْثَرُهُمْ كَذِبُونَ ٢٩ کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس طرح اُترتے ہیں.شیطان کا تعلق ہر آفاک اور آئیم کے ساتھ ہوتا ہے یعنی جو بڑا بولنے والا اور گنہ گار ہو اس سے شیطان کا تعلق ہوتا ہے مگر محمد رسول اللہ می ایام کے متعلق تو تم خود کہتے ہو کہ اس سے بڑھ کر سچا اور کوئی نہیں.اس کے امین ہونے کے بھی تم قائل ہو.پھر اس پر شیطان کا تصرف کس طرح ہو سکتا ہے.پھر فرماتا ہے.اِنَّ الشَّيطين
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 238 ليُوحُونَ إلى أَولِیهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ٥٠ کہ شیطان تو اپنی وحی شیطانوں کی طرف کرتا ہے تا کہ وہ تم سے جھگڑیں مومنوں کی طرف نہیں کرتا.اب دیکھو وہ روایتیں جو بیان کی جاتی ہیں رسول کریم سنا تم پر کیسا خطر ناک الزام لگاتی ہیں.شیطان تو اپنے دوست کو ہی کہے گا.کہ یہ ہتھیار لے جا اور لڑ کسی مسلمان کو وہ اپنے خلاف کس طرح بتائے گا.اس طرح سورۃ نحل رکوع ۱۳ میں آتا ہے اِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطن عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا به وَعَلى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ إِنَّمَا سُلْطَنُه عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّونَهُ وَالَّذِينَ هُمْ مُشْرِكُونَ ۵ یعنی شیطان کا مومنوں پر کوئی تسلط نہیں ہوسکتا جو خدا پر توکل رکھتے ہیں.شیطان کی حکومت تو انہی پر ہوتی ہے جو اس کے دوست ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں.محمد الیتی تو ساری عمر شرک کارڈ کرتے رہے.ان سے شیطان کا کیا تعلق ہوسکتا ہے.نواں اعتراض نواں اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ یہ شخص مفتری اور کذاب ہے.سورۃ ص میں آتا ہے.دشمنوں نے کہا.هَذَا سَاحِرُ كَذَّاب اسی طرح سورہ نحل ۱۴ میں آتا ہے.قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مُفْتَرِ ۵۲ مخالف کہتے ہیں کہ تو مفتری ہے.اللہ تعالیٰ اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ وَمَا كَانَ هَذَا الْقُرْآنُ أن يُفتَرى مِن دُونِ اللهِ وَلَكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَبِ لا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَّبِّ الْعَلَمِينَ آمَ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ الله ان كُنْتُمْ صدقین ۵۳ فرمایا یہ قرآن خدا کے سوا کسی اور سے بنایا ہی نہیں جاسکتا.اس کے اندر تو پہلی کتابوں کی پیشگوئیوں کی تصدیق ہے.پھر اس کے اندر الہامی کتابوں کی تفصیل ہے اور اس میں شک کی کوئی بات نہیں.یہ کتاب رب العلمین کی طرف سے ہے.یہ لوگ کہتے ہیں کہ اپنے پاس سے بنالی ہے.ان سے کہو کہ تم اس جیسی کوئی ایک ہی سورت لے آؤ.اکیلے نہیں سب کو اپنی مدد کے لئے بلاوا گرتم واقع میں بچے ہو.
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ قرآن کریم کے متعلق پانچ دعوے دلیل آر 239 اس آیت میں پانچ دعوے قرآن کریم کے متعلق پیش کئے گئے ہیں.اول یہ کہ قرآن اپنی پ ہے اور اسے خدا کے سوا کوئی بنا ہی نہیں سکتا.اس میں ایسے امور ہیں جو انسان کے اختیار سے باہر ہیں یعنی امور غیبیہ.فرماتا ہے.قُل لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إلا الله ۵۴ کہ آسمان اور زمین میں خدا کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا.مطلب یہ کہ قرآن میں غیب کی باتیں ہیں اور یہ خدا کے سوا کوئی نہیں بتا سکتا.دوسرا دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ پہلی کتابوں کی پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں.تیسرا یہ کہ اس میں پہلی کتابوں کی تشریح ہے.چوتھا یہ کہ ہر امر کو دلیل کے ساتھ ایسے رنگ میں بیان کرتا ہے کہ اس کے درست ہونے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا.پانچواں یہ کہ قرآن خدا کی صفت رَبُّ الْعَلَمِینَ کے ماتحت نازل ہوا ہے تا کہ اس کا فیضان سب قوموں کے لئے وسیع ہو.فرماتا ہے اگر قرآن افترا ہے تو ان پانچ صفات والی کوئی سورۃ پیش کرو.اگر ان صفات والی سورۃ لے آؤ گے تو ہم مان لیں گے کہ انسان ایسی کتاب بنا سکتا ہے لیکن اگر تم سارے مل کر بھی نہ بنا سکو تو معلوم ہوا کہ ایسی کتاب کوئی انسان نہیں بنا سکتا.اس سے معلوم ہوا کہ جس سورۃ (یونس) میں یہ دعوے کئے گئے ہیں اس سے پہلے جس قدر قرآن اتر چکا تھا.اس میں یہ پانچ باتیں پائی جاتی تھیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا قرآن کے اس حصہ میں یہ پانچوں باتیں ہیں.اگر ہیں تو ثابت ہو جائے گا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے.علم غیب پہلی بات یہ بیان فرمائی ہے کہ قرآن میں وہ باتیں ہیں جو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا یعنی قرآن میں علم غیب ہے.اس کے لئے جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو اس کی نہایت ابتدائی سورتوں میں سے ایک سورۃ کوثر ہے جو ایک عظیم الشان پیشگوئی پر مشتمل ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 240 إنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْابَتَرُ.رسول کریم سی لا اله اتم سے متعلق دشمن کہا کرتا کہ یہ ابتر ہے.اس کی کوئی نرینہ اولاد نہیں.اس کے بعد اس کا جانشین کون بنے گا.اللہ تعالیٰ اس سورۃ میں فرماتا ہے کہ تو ابتر نہیں بلکہ تیرا دشمن ابتر ہے.رسول کریم می ایستم کس طرح ابتر نہیں اور آپ کا دشمن کس طرح ابتر ہے.اس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے انا أعطينكَ الْكَوْثَرَ.اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تیرے متعلق فیصلہ کر دیا ہے کہ ہم تجھے ایک عظیم الشان جماعت دیں گے جو روحانی طور پر تیری فرزند ہوگی اور اس میں بڑے بڑے اعلیٰ پایہ کے انسان ہوں گے.پھر فرماتا ہے.فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر - اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو اس خوشی میں خوب نمازیں پڑھ، دُعائیں کر اور قربانیاں کر.پھر جب ہم تیری جماعت کو اور بڑھانے لگیں تو تو اور عبادت کر اور قربانیاں کر کیونکہ ہم تیری روحانی نسل کو بڑھانے والے ہیں اور یہ روحانی نسل اس طرح بڑھے گی کہ ابو جہل کا بیٹا چھینیں گے اور تجھے دے دیں گے.وہ ابتر ہو جائے گا اور تو اولا دوالا ہوگا.یہی حال دوسروں کا ہوگا.ان کے بیٹے چھین چھین کر ہم تمہیں دے دیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ان کے بیٹے رسول کریم سینی یا یہ تم کو دیئے گئے اور وہ روحانی لحاظ سے ابتر ہو گئے.یہی وجہ تھی کہ جوں جوں رسول کریم ملتی ہی ایم کو کامیابی ہوتی گئی.کفار زیادہ تکلیفیں دیتے گئے.اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا جو سورۃ کوثر میں بیان کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے سورۃ انبیاء رکوع ۴ میں ذکر کیا ہے.فرماتا ہے.اَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ ۵۵) فرمایا کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ ہم ان کے ملک کو اس کے کناروں کی طرف سے چھوٹا کرتے جارہے ہیں اور ہر روز ان کی اولادیں محمد رسول اللہ سالہ پیر کو دے رہے ہیں.کیا اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ غالب آئیں گے.وہ غالب کس طرح آ سکتے ہیں جب کہ ہم ان کے جگر گوشے کاٹ کاٹ کر تیرے حوالے کرتے جارہے ہیں اور انہی ابتر کہنے والوں کے بچے اور عزیز اسلام میں داخل ہو کر اس کی صداقت ظاہر کر رہے ہیں اور کفار کو بے اولا د اور آنحضرت سلیم کو با اولا دثابت کر رہے ہیں.چنانچہ مکہ کے بڑے بڑے خاندانوں کے جو بیٹے اور بھتیجے رسول کریم اللہ کو دیئے گئے ان میں حضرت عثمان ، حضرت زبیر، حضرت عبد الرحمن بن عوف ، حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ ، حضرت ابوعبیدہ ، حضرت ارقم بن ابی
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 241 ارقم ، حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت سعید بن زید تھے.یہ لوگ ابتداء میں ہی ایمان لے آئے تھے اور وہ رؤساء جو رسول کریم صلی یا اسلم کو دکھ دینے میں سب سے بڑھے ہوئے تھے یہ ان کے بیٹے اور بھانجے اور بھتیجے تھے.ان کے مسلمان ہو جانے کی وجہ سے کفار کو اور زیادہ غصہ آتا کہ یہ اپنے باپ دادا کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تائید کرتے ہیں.حضرت عثمان بن مظعون ، ولید بن مغیرہ کے عزیز تھے اور اس نے ان کو پناہ دی ہوئی تھی.حضرت عثمان ایک دن باہر جارہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک مسلمان پر سخت ظلم کیا جارہا ہے مگر آپ کو کسی نے کچھ نہ کہا.انہوں نے ولید کے پاس جا کر کہا کہ میں اب آپ کی پناہ میں نہیں رہنا چاہتا کیونکہ میں یہ نہیں دیکھ سکتا کہ دوسرے مسلمانوں کو تو اس طرح دکھ دیا جائے اور میں آپ کی پناہ میں محفوظ رہوں.اللہ تعالیٰ مومن کے ایمان کی آزمائش کرتا ہے.ادھر انہوں نے پناہ ترک کی اور ادھر یہ حادثہ پیش آگیا کہ لبید جو ایک بہت بڑے شاعر تھے ایک مجلس میں شعر سنارہے تھے کہ ایک شعر انہوں نے پڑھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ہر چیز خدا کے سوا تباہ ہونے والی ہے اور ہر نعمت آخر میں زائل ہونے والی ہے.جب لبید نے پہلا مصرع پڑھا تو حضرت عثمان نے کہا ٹھیک ہے.اس پر لبید نے غصہ سے اس کی طرف دیکھا کہ ایک بچہ میرے کلام کی داد دے رہا ہے.اسے اس نے اپنی ہتک سمجھا اور کہا اے مکہ والو! پہلے تو تم میں ایسے بدتہذیب لوگ نہ تھے.اب تمہیں کیا ہو گیا ہے.انہوں نے کہا یہ بے وقوف بچہ ہے.اسے جانے دیں حالانکہ بات یہ تھی کہ انہوں نے قرآن سنا ہوا تھا اور اب ان کے نزدیک شعروں کی کچھ حقیقت ہی نہیں رہ گئی تھی بلکہ خود لبید نے مسلمان ہونے پر یہی طریق اختیار کیا.حضرت عمر نے ایک دفعہ اپنے ایک گورنر کو کہلا بھیجا کہ مجھے بعض مشہور شعراء کا تازہ کلام بھجواؤ.جب ان سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا تو انہوں نے قرآن کریم کی چند آیات لکھ کر بھیج دیں.جب لبید نے دوسرا مصرع پڑھا اور کہا کہ ہر نعمت زائل ہونے والی ہے تو عثمان نے کہا یہ غلط ہے جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہونگی.یہ سن کر اسے طیش آ گیا اور اس نے اہل مجلس سے کہا کہ تم نے میری بڑی ہتک کرائی ہے.اس پر ایک شخص نے عثمان کو برا بھلا کہا اور اس زور سے مکا مارا کہ ان کی آنکھ نکل گئی.ولید کھڑا دیکھ رہا تھا.اس نے کہا دیکھا میری پناہ میں سے نکلنے کا یہ نتیجہ ہوا.
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 242 اب بھی پناہ میں آ جاؤ.حضرت عثمان نے کہا پناہ کیسی.میری تو دوسری آنکھ بھی انتظار کر رہی ہے کہ خدا تعالی کی راہ میں نکلے.ان کے فوت ہونے پر رسول کریم صلی ایم نے انہیں بوسہ دیا اور آپ کی آنکھوں سے اس وقت آنسو جاری تھے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحبزادہ ابراہیم فوت ہوا تو آپ نے فرمایا حق بِسَلْفِنَا الصَّالح عُثْمَانَ بْنِ مَطْعُونِ ۵۶ یعنی ہمارے صالح عزیز عثمان بن مظعون کی صحبت میں جا.پہلی کتب کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والی کتاب دوسرا دعوی قرآن کریم کے متعلق یہ کیا گیا ہے کہ یہ پہلی کتب کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والی کتاب ہے.چنانچہ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۵ میں آتا ہے.خداوند تیرا خدا تیرے لئے.تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی بر پا کرے گا.‘۵۷ اس میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ وہ نبی جو آنے والا ہے وہ بنی اسرائیل میں سے نہیں ہوگا بلکہ ان کے بھائیوں یعنی بنی اسماعیل میں سے ہوگا گویا وہ اولا دابراہیم علیہ السلام میں سے ہی ہوگا نہ کہ کسی غیر قوم سے پھر اس کی علامت یہ بتائی کہ:- جب وہ نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور وہ جو اس نے کہا ہے واقع نہ ہو یا پورانہ ہو تو وہ بات خداوند نے نہیں کہی.‘۵۸۰ اب دیکھو قرآن کی باتیں کیسی پوری ہوئیں اور اس کی بیان کردہ پیشگوئیاں کس طرح سچی نکلیں.کفار نے جب رسول کریم منا یا ستم کے متعلق کہا کہ اس کی اولاد نہیں تو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہم اسے اولاد دیں گے اور ابتر کہنے والوں کی اولا دہی چھین کر دے دیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یہ پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی.حضرت مسیح نے اس پیشگوئی کا مصداق ہونے سے انکار کیا ہے.چنانچہ یوحنا باب ۱ آیت ۲۱ میں لکھا ہے :- انہوں نے اس سے پوچھا.پھر کون ہے.کیا تو ایلیاہ ہے.اس نے کہا.میں نہیں
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 243 ہوں.کیا تو وہ نبی ہے.اس نے جواب دیا کہ نہیں.“ اس طرح اعمال باب ۳ میں لکھا ہے کہ وہ نبی مسیح کی بعثت ثانی سے پہلے اور بعثت اوّل کے بعد ظاہر ہوگا بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ :- سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنے نبیوں نے باتیں کیں ان سب نے ان دنوں کی خبر دی ہے.‘۵۹ یہ پیشگوئی رسول کریم ملا ہی نہم کے ذریعہ پوری ہوئی کیونکہ آپ ان کے بھائیوں یعنی حضرت ابراہیم کے بیٹے حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے تھے.اسی طرح یسعیاہ آنے والے نبی کی خبر دیتے ہوئے کہتے ہیں:.جب قومیں تیری راستبازی اور سارے بادشاہ تیری شوکت دیکھیں گے اور تو ایک نئے نام سے کہلائے گا.جسے خداوند کا مونہ خو درکھ دے گا.سوائے اسلام کے دنیا میں کوئی مذہب نہیں جس کا نام خدا تعالیٰ نے رکھا ہو.چنانچہ اسلام کے متعلق ہی فرمایا ہے.وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا دوسری پیشگوئی بھی اسی کے ساتھ لکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ :.تو آگے کو متروکہ نہ کہلائے گی اور تیری سرزمین کا کبھی پھر خرابہ نام نہ ہوگا بلکہ تو فیضیاہ کہلائے گا.یہ پیشنگوئی بھی اسلام کے متعلق ہی ہے.چنانچہ مکہ کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے.من دَخَلَه كَانَ آمِنًا جو اس میں داخل ہو وہ امن میں آجاتا ہے.پھر حضرت مسیح کہتے ہیں.” مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا.اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا.اب دیکھو اس میں کتنی علامتیں رسول کریم سلانا ہی ہم کی بیان کی گئی ہیں.
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 244 اول یہ کہ آنے والا نبی ایسی تعلیم دے گا جو مسیح تک کسی نے نہیں دی.گویا وہ سب سے بڑھ کر تعلیم دے گا.(۲) وہ ساری باتیں کہے گا یعنی کامل تعلیم دے گا اور اس کے بعد اور کوئی اس سے بڑھ کر تعلیم نہیں لائے گا.(۳) وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہے گا بلکہ کلام اللہ لائے گا.(۴) اس کلام اللہ میں آئندہ کی خبریں ہوں گی.(۵) وہ کلام مجھے ( یعنی مسیح) پر دشمنوں کے عائد کر دہ الزامات کو دور کرے گا.یہ سب باتیں رسول کریم سالی تا کہ ہم پر صادق آتی ہیں.پہلی بات حضرت مسیح نے یہ فرمائی تھی کہ وہ نبی ایسی تعلیم لائے گا جو پہلے کوئی نہیں لایا.قرآن کریم اس کے متعلق فرماتا ہے عَلَّمَ الْإِنْسَانِ مَالَمْ يَعْلَمُ یعنی قرآن کریم کے ذریعہ وہ وہ باتیں سکھائی گئی ہیں.جو کسی اور کو معلوم نہیں.دوسری بات حضرت مسیح نے یہ بیان کی تھی کہ وہ ساری باتیں بتائے گا.قرآن کریم میں اس کے متعلق آتا ہے.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ آج سارا دین تم پر مکمل کر دیا گیا ہے.پھر سورہ کہف رکوع ۸ میں آتا ہے.وَلَقَد صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِ مثل " ہم نے اس قرآن میں ہر ضروری بات کو مختلف پیرایوں میں بیان کر دیا ہے.تیسری بات حضرت مسیح نے یہ بتائی تھی کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا بلکہ خدا تعالیٰ اسے جو کچھ بتائے گا اسے پیش کرے گا.قرآن کریم میں بھی آتا ہے.وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْى وخی ها یه رسول اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ خدا ہی کا کلام پیش کرتا ہے.باقی سب کتابوں میں انبیاء کی اپنی باتیں بھی ہیں.صرف قرآن ہی ایک ایسا کلام ہے جو سارے کا سارا خدا کا کلام ہے.پانچویں بات حضرت مسیح نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ نبی ان الزامات کو دور کرے گا جو مجھ پر لگائے جاتے ہیں.اس کے متعلق سب لوگ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح کو نَعُوذُ بِاللهِ وَلَدَ الزَّنَا کہا گیا تھا اور لعنتی قرار دیا گیا تھا.قرآن نے ان الزامات کی پوری تردید کی.
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ کتب سماویہ کی تفصیل 245 اب میں تفسیری بات بیان کرتا ہوں کہ قرآن کریم کتب سماویہ کی تشریح اور تفصیل بیان کرنے والا ہے.اس میں علوم روحانیہ کو کھول کر بیان کیا گیا ہے اور انہیں کمال تک پہنچایا گیا ہے.میں اس کی ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں.تو رات میں لکھا تھا :- تیری آنکھ مروت نہ کرے کہ جان کا بدلہ جان.آنکھ کا بدلہ آنکھ.دانت کا بدلہ دانت.ہاتھ کا بدلہ ہاتھ اور پاؤں کا بدلہ پاؤں ہوگا ، 77″ اور انجیل میں یہ تعلیم دی گئی تھی کہ :- تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے.دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے اور اگر کوئی تجھ پر نالش کر کے تیرا گر تہ لینا چاہے تو چوندہ بھی اسے لے لینے دے اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار لے جائے اس کے ،، ساتھ دو کوس چلا جا.“ مگر قرآن کریم نے کہا ہے.وَجِزَؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظلمين.یعنی شرارت کے مطابق بدی کا بدلہ لے لینا تو جائز ہے لیکن جو شخص معاف کر دے اور اس میں دوسرے کی اصلاح پر نظر رکھے اللہ تعالیٰ اسے خود اجر دے گا.اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا.تورات نے ایک حصہ تو بیان کیا تھا اور دوسرا چھوڑ دیا تھا اور انجیل نے دوسرا حصہ بیان کیا اور پہلا حصہ چھوڑ دیا.قرآن کریم نے اس تعلیم کو مکمل کردیا.فرمایا بدی کا بدلہ لے لینا جائز ہے لیکن جو شخص معاف کر دے ایسی صورت میں کہ بدی نہ بڑھے اس کا اجر اللہ پر ہے.ہاں جو ایسے طور پر
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 246 معاف کرے کہ معافی دینے پر ظلم بڑھ جائے تو اس سے خدا ناراض ہوگا کیونکہ وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا.صدقہ و خیرات اور مرد و عورت کے تعلقات کے متعلق تفصیلی احکام گذشتہ سال کے مضمون میں بیان کر چکا ہوں اور بتا چکا ہوں کہ پہلی کتب میں ان امور کے متعلق صرف مختصر احکام دیئے گئے ہیں مگر قرآن کریم نے ہر ایک حکم کی غرض اور اس کے استعمال کی حدود وغیرہ تفصیل سے بیان کی ہیں.دلائل و براہین سے مزین کلام قرآن کریم کی چوتھی خصوصیت یہ بیان کی کہ لاریب فِيهِ.ہر ایک امر کو دلیل سے بیان کرتا ہے اور شک کی گنجائش نہیں چھوڑتا.شک ہمیشہ ابہام سے پیدا ہوتا ہے مگر قرآن کریم کے دعوؤں کی بنیاد مشاہدہ پر ہے.قرآن میں ہستی باری تعالیٰ ، ملائکہ، دعا، نبوت، انبیاء کی ضرورت ، قضاء وقدر، حشر ونشر، جنت و دوزخ، نماز و روزہ ، حج و زکوۃ اور معاملات وغیرہ کے متعلق دلائل بیان کئے گئے ہیں.یونہی دعوے نہیں کئے گئے.مثلاً جنت کے متعلق آتا ہے.وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ 19 ہم یہ نہیں کہتے کہ مرنے کے بعد تمہیں جنت ملے گی اور تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مرنے کے بعد کیا معلوم جنت ملے گی یا نہیں.قرآن اسی دنیا میں جنت کا ثبوت پیش کرتا ہے اور مومنوں کو اسی دنیا میں جنت حاصل ہو جاتی ہے.اس کا ثبوت یہ دیا کہ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ.کے یعنی وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر استقامت سے اسلام کی تعلیم پر قائم رہتے ہیں.ان پر فرشتے اترتے ہیں جو انہیں کہتے ہیں کہ تم غم نہ کرو تم کو جنت کی بشارت ہو.گویا اسی دنیا میں انہیں خدا سے کلام کرنے کا شرف حاصل ہو جاتا ہے اور جب خدا کا کلام مل گیا تو ریب کہاں رہ گیا.قرآن کریم کے ذریعہ صفت رَبُّ الْعَلَمِيْنَ کا ظہور پانچویں بات یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم کا اس حالت میں نزول ہوا کہ اس سے رب
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 247 العلمین کی صفت کا ظہور ہوتا ہے.اس لئے کہ اس میں ہر فطرت کا لحاظ رکھا گیا ہے.بعض انسانوں میں غصہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ انہیں عفو کی طرف توجہ دلائی جائے.بعض میں دیوٹی اور بے غیرتی ہوتی ہے انہیں غیرت کی تعلیم دی گئی.انجیل نے اس کا خیال نہیں رکھا اس نے ہر حال میں عفو کی تعلیم دی ہے اور تورات نے عفو کا خیال نہیں رکھا ہر حالت میں سزا دینے پر زور دیا ہے مگر قرآن نے دونوں قسم کے لوگوں کا خیال رکھا ہے.پھر ہر زمانہ کا خیال رکھا ہے اور تمام دنیا کو دعوت دی ہے.چنانچہ فرما یا قُل يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ٤٠ کہہ دے اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں.پس قرآن کریم سے پہلی کوئی کتاب ایسی نہیں جس نے ساری دنیا کو دعوت دی ہو.انہوں نے دوسری قوموں کے لئے رستے بند کر دیے.حضرت مسیح کا انجیل میں یہ قول موجود ہے کہ :- میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیٹروں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.اے اور یہ کہ :- لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو ڈال دینی اچھی نہیں.۷۲ گویا مسیح نے بنی اسرائیل کے سوا کسی اور کو ہدایت دینے سے انکار کر دیا.مگر قرآن میں سب قوموں کے ماننے کے لئے خدا تعالیٰ نے سامان جمع کر دیئے.مثلاً (1) سارے نبیوں کی تصدیق کی.اس سے سب کے دلوں میں بشاشت پیدا کر دی لیکن اگر کوئی ہندو عیسائی ہو تو اسے یہ کہنا پڑتا ہے کہ بدھ اور کرشن جھوٹے ہیں اور اگر کوئی عیسائی ہندو ہو.تو اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کو جھوٹا قرار دینا پڑتا ہے مگر کتنی خوبی کی بات ہے کہ قرآن نے کہ دیا.اِنَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نذیر سے ہم نے اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تجھے حق کے ساتھ بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے اور کوئی قوم ایسی نہیں جس میں ہماری طرف سے نذیر نہ بھیجا گیا ہو.اس بنا پر رسول کریم ستی ہیں کہ ہم نے تمام اقوام سے کہہ دیا کہ مجھے قبول کر کے تمہیں اپنے بزرگوں کو جھوٹا کہنے کی ضرورت نہیں.وہ بھی سچے تھے.ہاں ان میں اور مجھ میں یہ فرق ہے کہ ان کی تعلیم اس زمانہ کے لئے مکمل تھی جس میں وہ آئے
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ لیکن میں جو تعلیم لایا ہوں یہ ہر زمانہ کے لئے مکمل ہے.مفتری ہمیشہ نا کام ہوتا ہے 248 دوسری دلیل رسول کریم سال کے مفتری نہ ہونے کی قرآن کریم یہ بیان کرتا ہے کہ مفتریوں کا ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے.اوليك لَمْ يَكُونُوا مُعْجِزِيْنَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ اَوْلِيَاءَ يُضْعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ مَا كَانُوا يَسْتَطِيعُونَ السَّمْعَ وَمَا كَانُوا يُبْصِرُونَ أُولبِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ لَا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْأَخْسَرُونَ." یعنی لوگ کہتے ہیں کہ یہ نبی جھوٹ پیش کرتا ہے.حالانکہ اس قسم کا جھوٹ بنانے والے تو خدا کے عذاب میں گرفتار ہوتے ہیں اور وہ عذاب سے ہر گز بیچ نہیں سکتے.ان کا عذاب لمحہ بہ لحہ بڑھتا جاتا ہے اور وہ سچی بات سنے کی بھی طاقت نہیں رکھتے کجا یہ کہ وہ سچی باتیں خود بنا سکیں.وہ عذاب سے گھرے ہوئے ہوتے ہیں اور جب دنیا میں ان کا یہ حال ہوتا ہے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ قیامت میں ان کا کیا حال ہوگا.اس میں بتایا کہ مفتریوں کی تو یہ علامت ہوتی ہے کہ ان پر عذاب نازل ہوتا ہے مگر محمد رسول اللہ سلام تم پر تو کوئی عذاب نہیں آیا بلکہ خدا نے اس کی مدد کی ہے.دوسری علامت مفتری کی یہ ہوتی ہے کہ اس کا عذاب بڑھتا جاتا ہے مگر اس رسول کی تو ہر گھڑی پہلی سے اچھی ہے.(۳) پھر مفتری کو اپنی تعلیم بدلنی پڑتی ہے مگر کیا اس نے بھی کبھی قرآن کی کوئی بات بدلی پھر یہ مفتری کس طرح ہوسکتا ہے.وَجَدَكَ ضَالًا فَهَدَى کا صحیح مفہوم دوسرا الزام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ لگایا گیا ہے کہ آپ نعوذ باللہ نبوت سے پہلے ضال تھے اور بعد میں بھی گناہ آپ سے سرزد ہوتے رہے.ان الزامات کی بنا خود قرآن کریم ہی کی
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 249 بعض آیات کو قرار دیا گیا ہے.ضال کے متعلق تو یہ آیت پیش کی جاتی ہے کہ وَوَجَدَكَ ضَالًا فهدی کے ہم نے تجھے مال پایا پھر ہدایت دی.اس کا جواب قرآن کریم کی ایک دوسری آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے ضلالت کی کلی طور پر نفی کر دی ہے.فرماتا ہے.وَالنَّجْمِ اِذَا هَوَى مَاضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى ٦ے ہم نجم کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں.نجم اس بوٹی کو کہتے ہیں جس کی جڑ نہ ہو.فرمایا ہم اس بوٹی کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس کی جڑ نہیں ہوتی.جب کہ وہ گر جاتی ہے یعنی وہ جتنا اونچا ہونا چاہتی ہے اس قدر گرتی ہے.اس شہادت سے تم سمجھ سکتے ہو کہ تمہارا یہ صاحب کبھی گمراہ نہیں ہوا اور نہ راستہ سے دور ہوا.ضل ظاہری گمراہی کے لئے آتا ہے اور غوی باطنی فساد کے لئے جو فسادا اعتقاد سے پیدا ہو.فرمایا جو بے جڑ کی بوٹی ہو اس پر تو جتنے زیادہ دن گذریں اس میں کمزوری آتی جاتی ہے.اگر محمد رسول اللہ سی ایام کا خدا سے تعلق نہ ہوتا تو اس کی جڑ مضبوط نہ ہوتی اور یہ کمزور ہوتا جاتا اور خرابی پیدا ہو جاتی مگر تم دیکھتے ہو کہ جوں جوں دن گزر رہے ہیں اسے زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل ہورہی ہے اور یہ دن رات ظاہری اور باطنی طور پر ترقی حاصل کر رہا ہے.اگر ضلالت اس کے اندر ہوتی تو اس پر ضلالت والا کلام نازل ہوتا مگر اس پر جو کلام نازل ہوا ہے اسے دیکھو کیا اس میں کوئی بھی ہوائے نفس کا نشان ملتا ہے اگر یہ غاوی ہوتا تو شیطانی اثر اس کے کلام پر ہوتا لیکن اس کا کلام تو پر شوکت اور قادرانہ کلام پر مشتمل ہے.شیطانی تعلقات والا انسان دنیا پر تصرف کیسے حاصل کر سکتا ہے.یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے سورۃ بھٹی میں بیان کیا ہے.فرماتا ہے.وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الأولى کے تیری ہر پیچھے آنے والی گھڑی پہلی سے بہتر ہے.اب کیا یہ عجیب بات نہیں کہ یہاں تو کہا کہ تیری ہر پچھلی گھڑی پہلی گھڑی سے اچھی ہوتی ہے لیکن اسی سورۃ میں کہہ دیا کہ تو گمراہ تھا.آیا پچھلی گھڑی کا پہلی سے اچھی ہونا ضلالت کی دلیل ہوتا ہے؟ سورۃ ابراہیم رکوع ۴ میں آتا ہے.الخ ترَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ ا سے کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ کیسی باتیں بیان کرتا ہے.پاک کلمہ کی مثال ایک پاک درخت کی سی ہوتی ہے جس کی جڑ میں بڑی
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 250 مضبوطی ہوتی ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہوتی ہیں.اسی طرح صادق کی علامت یہ ہے کہ اس کی تعلیم ترقی کرتی ہے اور اس کی جماعت بڑھتی جاتی ہے.اب یہ رسول جو دن رات ترقی کر رہا ہے.اگر ضلالت پر ہوتا ہے تو جتنی زیادہ تعلیم بناتا اس قدر زیادہ نقص ہوتے مگر اس کے کلام کی زیادتی تو اس کی تعلیم کو کمل بنا رہی ہے.پھر بتایا.اگر یہ غاوی ہوتا تو شیطانی اثر اس کے کلام پر ہوتا مگر اس کا کلام تو ایسا ہے کہ وہ ما يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى اِنْ هُوَ الَّا وَحَى يُوحَى عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى ٤٩ یہ اپنی خواہش نفسانی سے کلام نہیں کرتا بلکہ اس کا پیش کردہ کلام صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی ہے اور اس کو یہ کلام بڑی قوتوں والے خدا نے سکھایا ہے.ایک اور آیت بھی اس امر کو حل کرتی ہے.سورہ بنی اسرائیل رکوع ۸ میں آتا ہے.وان كَادُوا لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِى اَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ ۖ وَإِذًا لا تَخَذُوكَ خَلِيلًا.٥٠ فرمایا قریب تھا کہ لوگ تجھے عذاب میں مبتلا کر دیں.عام طور پر لوگوں نے غلطی سے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ رسول کو پھسلا لیں مگر وہ رسول کریم سنی ہی پہ تم کو کہاں پھسلا سکتے تھے.اس کے تو یہ معنی ہیں کہ قریب ہے کہ یہ لوگ تجھے سخت عذاب دیں اس کلام کی وجہ سے جو تجھ پر وحی کیا گیا ہے تاکہ تو اس سے گھبرا کر کچھ تبدیلی کرلے اور اگر ایسا ہو تو یہ ضرور تجھے دوست بنالیں لیکن ان کا خیال ایک جنون ہے وَلَوْ لَا اَنُ ثَبِّتْنَكَ لَقَدْ كِرْتَ تَرْكَنُ الَيْهِمْ شَيْئًا قليلا 1 اگر ہم نے قرآن نہ بھی نازل کیا ہوتا تو بھی تیری فطرت ایسی پاک ہے کہ یہ بات تو بڑی ہے.تیری ان سے مشابہت پھر بھی معمولی سی ہوتی مگر اب تو تجھے وحی الہی نے ایک صحیح راستہ دکھا دیا ہے.اب ان کی یہ خواہش کس طرح پوری ہوسکتی ہے.اب سوال ہوتا ہے کہ پھر وَوَجَدَكَ ضَالًا فَھدی کا کیا مطلب ہوا.سو اس کا جواب خود اس سورۃ میں موجود ہے.اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی ایک زبردست دلیل دی گئی ہے.فرماتا ہے وَالضُّحَى وَالَّيْلِ إِذَا سَجَى مَا وَذَعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى ۵۲ اے دنیا کے لوگو سنو! بین دو پہر کے وقت کو اور رات کو جب وہ خوب ساکن ہو جاتی ہے اور اس کی تاریکی چاروں طرف پھیل جاتی ہے ہم اس بات کی شہادت میں پیش کرتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 251 کو ہم نے کبھی نہیں چھوڑا اور نہ حمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ہم کبھی ناراض ہوئے ہیں.اب سوال یہ ہے کہ دو پہر اور آدھی رات اس بات کی کس طرح دلیل ہیں کہ محمد صلی نیا کی تم سے خدا کبھی ناراض نہیں ہوا اور نہ اس نے آپ کو چھوڑا.یہ ظاہر ہے کہ یہاں ظاہری دن رات مراد نہیں بلکه مجازی دن رات مراد ہیں اور یہ محاورہ ہر زبان میں پایا جاتا ہے کہ رات اور دن سے خوشی اور رنج اور ہوش اور غفلت کا زمانہ مراد لیا جاتا ہے.رات تاریکی ، مصیبت اور جہالت کو کہتے ہیں اور دن ترقی ، روشنی اور علم کے زمانہ کو کہتے ہیں.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تیری عمر کی ان گھڑیوں کو بھی پیش کرتے ہیں جو خوشی کی تھیں اور ان کو بھی پیش کرتے ہیں جو رنج کی تھیں اور تیرے ہوش کے زمانہ کو بھی اور بچپن کے زمانہ کو بھی جو جہالت کا زمانہ ہوتا ہے.پھر اس زمانہ کو بھی جو نبوت سے پہلے کا تھا اور اسے بھی جب نبوت کا سورج طلوع ہو کر نصف النہار پر آ گیا.تجھ پر وہ زمانہ بھی آیا.جب کہ تو دایہ کی گود میں تھا.پھر وہ زمانہ بھی آیا جو شباب کی تاریکی کا زمانہ ہوتا ہے.وہ زمانہ بھی آیا جب جذبات سرد ہو جاتے ہیں.پھر وہ زمانہ بھی آیا جب کہ ہر طرف تیرے دشمن ہی دشمن تھے اور تیرے لئے دن بھی رات تھا.پھر وہ زمانہ آیا جب ساری قوم تجھے امین اور صادق کہتی تھی.ان سب زمانوں کو دیکھ لو.کیا کوئی وقت بھی ایسا آیا ہے جب خدا تعالیٰ نے تیری نصرت سے ہاتھ روکا ہو اس کی ناراضگی کسی رنگ میں تجھ پر ظاہر ہوئی ہو.بعض لوگ آرام اور عزت حاصل ہونے پر بگڑ جاتے ہیں مگر تجھے جب امن ہوا امیر بیوی ملی، تیری قوم نے تیری عزت کی اس وقت بھی تو نے اچھے کام کئے.پھر وہ زمانہ آیا کہ خدا نے اپنا کلام تجھ پر اُتارا.تب بھی تو فرمانبردار رہا.گویا تیری ہر آنے والی گھڑی پہلی سے اعلیٰ اور بہتر رہی ہے اور خدا کی تائید اور اس کی پسندیدگی بڑھتی چلی گئی.اب دیکھو رسول کریم من بیا اینم کی صداقت کی یہ کتنی بڑی دلیل ہے.عجیب بات ہے خدا تعالیٰ تو کہتا ہے کہ اس کی ساری زندگی بچپن سے لے کر آخر تک دیکھ لو.ایک لمحہ بھی اس کے لئے گمراہی کا نہیں آیا اور خدا تعالیٰ نے اسے نہیں چھوڑ انمگر نادان مخالف کہتے ہیں کہ آپ گمراہ تھے.اگر یہی گمراہی ہے تو ساری ہدایت اس پر قربان کی جاسکتی ہے.پھر فرماتا ہے.وَلَلْآخِرَةُ خَيْرُ لكَ مِنَ الْأولىی.تیرا ہر قدم ترقی کی طرف چلتا گیا.بچپن میں انسان بے گناہ ہوتا ہے.اگر نعوذ باللہ رسول کریم صلی یا یہ ان بڑے ہو کر گمراہ ہو گئے تو آخرت اولی
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 252 سے بہتر نہ ہوئی مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیری ہر اگلی گھڑی پہلے سے اچھی تھی اور جب ہر اگلی گھڑی اچھی تھی تو ضلالت کہاں سے آگئی.پھر فرماتا ہے وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضی ۸۳ عنقریب اللہ تعالیٰ تجھے ایسے انعام دے گا کہ تو خوش ہو جائے گا.اس کے متعلق ہم قرآن کریم سے دیکھتے ہیں کہ رسول کریم مسی شمالی یام کی وہ کونسی خواہش تھی جس کے پورا ہونے سے آپ خوش ہو سکتے تھے.سورہ کہف رکوع میں آتا ہے.فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ إِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ آسفا ۱۴ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو اپنے آپ کو اس لئے ہلاک کر رہا ہے کہ لوگ ہمارے کلام پر ایمان کیوں نہیں لاتے.یہ خواہش تھی رسول کریم صل نہ کی کہ آپ کی قوم خدا تعالیٰ کے کلام کو مان لے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضی تو نے دیکھا ہے کہ تیری ہر گھڑی کو ہم نے پہلی سے اچھا کھا پھر کیا تمہاری یہ بات ہم رڈ کر دیں گے کہ تیری قوم ہدایت پا جائے.ہمیں اس خواہش کا بھی علم ہے اور اسے بھی ہم پورا کر دیں گے.پھر فرمایا اَلَمْ يَجِدُكَ يَتِيمًا فَأَوَی ۵۵ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تو یتیم تھا جب پیدا ہوا.اس یتیمی کے وقت سے خدا نے تم کو اپنی گود میں لے لیا.گویا کوئی وقت خدا کی گود سے باہر آپ پر آیا ہی نہیں.اوی کے معنی ہیں قرب میں جگہ دی.فرمایا الم يَجِدُكَ يَتِمَّا فَأَوَى کیا خدا نے تم کو یتیم پا کر اپنے پاس جگہ نہیں دی.وَوَجَدَكَ ضَالًا فَهَدَی اب اس کے معنی اگر یہ کئے جائیں کہ تجھے گمراہ پایا پھر ہدایت دی تو یہ معنی یہاں چسپاں ہی نہیں ہو سکتے.پس اس کے یہی معنی ہیں کہ ہم نے تجھ میں محبت کی تڑپ دیکھی اور دنیا کی ہدایت کا سامان دے دیا.ان معنوں کی تائید ایک اور آیت سے بھی ہوتی ہے.جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے تو انہیں گھر والوں نے کہا.تالله اِنَّكَ لَفِي ضَلَلِكَ الْقَدِيمِ ۵ یوسف کی پرانی محبت تیرے دل سے نکلتی ہی نہیں.تو ابھی تک اسی پرانی محبت میں گرفتار ہے.وہ لوگ حضرت یعقوب علیہ السلام کو گمراہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ یوسف علیہ السلام کی محبت میں کھویا ہوا سمجھتے تھے.اس لئے ضلال کا لفظ انہوں نے شدت محبت کے متعلق استعمال کیا.پس وَوَجَدَكَ ضَالًا فَهَدَى کے یہ معنی ہیں کہ جب تو جوان ہوا اور تیرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ خدا سے ملے بغیر میں
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 253 آرام نہیں پاسکتا تو ہم نے تجھے فوراً آواز دی کہ آجا، میں موجود ہوں.اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تجھے معلوم ہے کہ جب ہم نے ہدایت دی تو وہ تیرے نفس کے لئے ہی نہ تھی بلکہ ساری دنیا کے لئے تھی.پس لوگ تیرے پاس آئے اور مختلف طبائع کے لوگ آئے پھر ہم نے ان کی کفالت کے لئے قرآن کے ذریعہ تجھے وہ رزق دیا جو ہر فطرت کے انسان کے لئے کافی تھا.پس وَوَجَدَكَ عَائِلًا فأغلى 2 اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تجھے کثیر العیال پایا اور اپنے فضل سے غنی کر دیا.فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرُ وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنر ۱۸ پس اب تو بھی ان پر اتنا بوجھ نہ ڈالنا کہ ان کی طاقتیں کچلی جائیں نہ اتنی رعایت کرنا کہ بگڑ جائیں.اس آیت میں ضال کے مقابل پر سائیل رکھا گیا ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہاں بھی ضال سے مراد خدا کی محبت کے طلبگار کے ہیں.بہر حال فرمایا کہ جب کوئی تمہارے پاس ہدایت حاصل کرنے کے لئے آئے تو انکار نہ کرنا بلکہ وہ ہدایت جو ہم نے تجھے دی ہے اسے ساری دنیا میں پہنچانا.صال کے جو معنی میں نے اس وقت کئے ہیں اس کے خلاف کوئی اور معنی ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَوَجَدَكَ ضَالًا فَهَدی.ہم نے تجھے ضال پایا اور اس کے نتیجہ میں ہدایت دی اور دوسری طرف فرماتا ہے.وَاللهُ لا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَسِقِيْنَ ۹ کر فسق کے نتیجہ میں کبھی ہدایت نہیں ملا کرتی.پھر ضال کے معنی گمراہ کس طرح کئے جا سکتے ہیں.پھر فرماتا ہے.وَإِذَا جَاءَهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ حَتَّى نُؤْثى مِثْلَ مَا أُوتِ رُسُلُ الله اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارُ عِنْدَ اللهِ وَعَذَابٌ شَدِيلٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ." جب ان کے پاس کوئی نشان آتا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اسے نہیں مان سکتے جب تک ہمیں ویسا ہی کلام نہ ملے جو رسولوں کو ملا.اللہ سب سے زیادہ جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے.یہ گناہگار لوگ ہیں.ان کو تو ذلت ہی ملے گی.اس آیت میں صاف طور پر بتادیا کہ گناہ کے نتیجہ میں ذلت حاصل ہوتی ہے نہ کہ ہدایت.ذنب اور استغفار کی حقیقت پھر یہ جو کہا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اسلام نعوذ باللہ گناہگار تھے.اس کے لئے ذنب اور
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 254 استغفار کے الفاظ پیش کئے جاتے ہیں لیکن عام طور پر لوگوں نے اس کے معنی نہیں سمجھے.استغفار کے یہ معنی بھی ہوتے ہیں کہ جو مشکلات کسی کے رستہ میں حائل ہوں ان کو ڈھانپ دیا جائے.اسی طرح ذنب کے معنی گناہ کے بھی ہوتے ہیں اور غیر ضروری باتوں کے بھی.پس غفر کے معنی ڈھانکنے اور ذنب کے معنی زوائد کے ہیں.جب رسول کریم سالی یتیم کے متعلق استغفار کا لفظ آتا ہے تو اس سے مراد آپ کے رستہ کی مشکلات کا دُور ہونا ہوتا ہے اور جہاں ذنب کا لفظ آتا ہے وہاں زوائد کا دور کیا جانا مراد ہوتا ہے.چنانچہ دیکھ لوسورۃ نساء رکوع ۱۶ میں پہلے جنگ کا ذکر ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَا تَكُن لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا وَاسْتَغْفِرِ الله اے محمد رسول اللہ جب ہم حکومت دیں گے تو کچھ لوگ ایسے ہونگے جو دین کی باتوں میں خیانت سے کام لیں گے اور کجی کا راستہ اختیار کریں گے ان سے لڑنے کی طرف توجہ نہ کرنا بلکہ بجائے اس کے خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنا کہ ان کی یہ کمزوری دور ہو جائے.(۲) سورہ مومن رکوع ۶ میں بھی پہلے انا لتَنْصُرُ رُسُلَنَا فرما کر نصرت کا ذکر ہے اور پھر واسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِي وَالْإِبْكَارِ میں استغفار اور نبیح کا حکم دیا ہے سورۃ محمد رکوع ۲ میں بھی پہلے ساعت کے آنے کا ذکر ہے یعنی فتح کا اور پھر وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبك " فرماتا ہے.(۴) سورۃ نصر میں بھی پہلے فتح کا ذکر ہے اور پھر آتا ہے فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ (۵) سورۃ فتح میں بھی پہلے فتح کا ذکر ہے اور پھر غفر کا.فرمایا انا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَرَ ؟ ان سب حوالوں میں فتح کے ساتھ ذنب یا استغفار کا ذکر ہے یعنی یا تو فتح کے وعدہ کے بعد یا فتح کے ذکر کے بعد.چار جگہوں میں تو فتح کے وعدہ کے ساتھ استغفار کا ذکر کیا ہے اور ایک جگہ فتح مبین کا ذکر ہے اور وہاں لِيَغْفِر کہا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ تیری دعاسنی گئی اور ہم نے عام فتوحات کی بجائے تجھے فتح مبین عطا کی ہے تا کہ تیرے ذنب بخشے جائیں.اب دیکھنا یہ چاہئے کہ کسی کو فتح ونصرت کا ملنا کیا گناہ ہے اور ہر جگہ فتح کے ساتھ یہ الفاظ کیوں آئے ہیں.اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ استغفار اور ذنب کسی اور قسم کا ہے.اگر گناہ مراد تھا تو چاہئے تھا کہ کسی گناہ کا ذکر کیا جا تامگر ایسا تو ایک جگہ بھی نہیں کیا گیا بلکہ بجائے اس کے یہ بتایا کہ ہم
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 255 تجھے فتح و نصرت دیتے ہیں.تو استغفار کر.اس سے صاف معلوم ہوا کہ اس کے معنی کچھ اور ہیں اور وہ یہ کہ فتح کے ساتھ جو لوگ سلسلہ بیعت میں شامل ہو جاتے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں ان کی تربیت پوری طرح نہیں ہو سکتی.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم کے زوال کا وقت اسی دن سے شروع ہو جاتا ہے جب کہ فتوحات شروع ہوتی ہیں اور لوگوں کی تربیت اچھی طرح نہیں ہو سکتی.جب لاکھوں مسلمان ہو گئے اور وہ سارے ملک میں پھیلے ہوئے تھے تو ان کی تربیت ناممکن تھی.اس لئے فرمایا یہ بات بشریت سے بالا ہے کہ اتنے لوگوں کی پوری طرح تربیت کی جاسکے.ان کی تربیت خدا ہی کر سکتا ہے.اس لئے دعائیں کر کہ خدایا تو ہی ان کی نیک تربیت کا سامان پیدا فرما اور پھر خوشخبری دی کہ ہم نے تمہاری دُعائیں سن لی ہیں.اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَرَ ہم تجھ کو جو فتح عظیم دیں گے وہ ایسی صورت میں دیں گے کہ وہ فتح مبین ہوگی حق و باطل میں تمیز کر دینے والی ہوگی اور صرف جسموں پر ہی نہیں ہوگی بلکہ دلوں پر بھی ہوگی.لوگ منافقت سے اسلام میں داخل نہیں ہونگے بلکہ دین کے شوق کی وجہ سے ہو نگے اور یہ فتح ہم نے اس لئے دی ہے کہ تربیت کا پہلو مضبوط ہو جائے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے حق کو واضح کر کے تربیت کے پہلو کو مضبوط کر دیا اور ایسے نائب آپ کو بخشے جو ہمیشہ کے لئے دین کے محافظ ہو گئے.دیکھ لو ایک تو وہ وقت تھا کہ ابو جہل کا بیٹا عکرمہ مکہ چھوڑ کر اس لئے بھاگ گیا کہ جہاں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہو وہاں میں نہیں رہ سکتا مگر پھر وہ وقت آیا کہ وہ مسلمان ہوا اور ایسا مخلص مسلمان ہوا کہ ایک جنگ میں دشمن چن چن کر صحابیوں کو مار رہے تھے.عکرمہ نے کہا یہ بات مجھ سے دیکھی نہیں جاتی کوئی ہے جو دشمن کے مقابلہ کے لئے میرے ساتھ چلے.اس طرح کچھ آدمی ساتھ لئے اور جرنیل سے اجازت لے کر دشمن پر جس کی تعداد ساٹھ ہزار تھی حملہ کر دیا اور عین قلب پر حملہ کیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کفار کو شکست ہوگئی اور وہ بھاگ گئے.اس وقت عکرمہ کو دیکھا گیا تو وہ دم توڑ رہے تھے.ان کی پیاس محسوس کر کے جب پانی لایا گیا تو انہوں نے کہا.پہلے میرے ساتھی کو پانی پلاؤ.اس ساتھی نے دوسرے کی طرف اشارہ کر دیا اور دوسرے نے تیسرے کی طرف وہ سات نوجوان تھے جو زخموں کی وجہ سے دم توڑ رہے تھے مگر کسی نے پانی کو مونبہ بھی نہ لگایا اور ہر ایک نے یہی کہا کہ پہلے فلاں کو پلاؤ مجھے بعد میں پلا دینا.جب سب نے انکار کر دیا تو وہ پھر عکرمہ
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 256 کے پاس آیا دیکھا تو وہ فوت ہو چکے تھے.اس کے بعد اس نے دوسروں کو دیکھا تو وہ بھی شہید ہو چکے تھے.غرض خدا تعالیٰ نے رسول کریم سنا ہے تم کو صرف ظاہری فتح ہی عطا نہیں فرمائی بلکہ ظاہری فتح کے ساتھ قلوب کی فتح بھی عطا کی.رسول کریم صلی نے یہ تم کا بلند ترین مقام پھر قرآن نہ صرف یہ کہ رسول کریم متقی ہم کو بے گناہ قرار دیتا ہے بلکہ نہایت اعلیٰ درجہ کا انسان قرار دیتا ہے.فرماتا ہے.اِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ کوئی یہ نہ کہے کہ ہمارا نبی گنہ گار ہے.اگر دشمن ایسا کہتے ہیں تو وہ سکتے ہیں.ہم جانتے ہیں کہ تو بڑے اعلیٰ اخلاق والا ہے.دیا.پھر فرمایا الخ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ اے محمد رسول اللہ ! کیا ہم نے تیرا سینہ کھول نہیں ۹۹ پھر فرماتا ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ^ تمہارے لئے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک اعلیٰ درجہ کا نمونہ ہے اس کے پیچھے چل کر تم نجات پاسکتے ہو.پھر اس سے بھی بڑا درجہ آپ کا یہ بیان فرمایا کہ آپ دوسروں کو پاک کرنے والے ہیں.فرماتا ہے.گما اَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمُ ايْتِنَا وَيُزَلِّيْكُمْ 99 ہم نے تم میں سے ہی ایک رسول بھیجا ہے جو ہماری آیتیں پڑھ کر تمہیں سناتا ہے اور گناہگاروں کو پاک بنا تا ہے.پھر اس سے بڑھ کر فرمایا قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ.تو کہہ دے کہ اے ماننے والو یا مجھ پر اعتراض کرنے والو! اگر تم اللہ کا محبوب بننا چاہتے ہوتو آؤ اس کا طریق میں تمہیں بتاؤں.جس طرح میں عمل کرتا ہوں اسی طرح تم بھی عمل کرو.پھر اللہ تعالیٰ تم کو بھی اپنا محبوب بنالے گا.پھر اس سے بھی آگے ترقی کی اور فرمایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) تو وہ ہے کہ اس پر جو کلام نازل ہوا ہے اسے بھی ہم کسی ناپاک کو چھونے نہیں دیتے.پھر کیا اس کلام کو لانے والا نا پاک
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 257 ہو سکتا ہے.چنانچہ فرمایا إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ - فِي كِتَبٍ مَّكْنُونٍ لَّا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ا یہ قرآن بڑی عظمت والا ہے.یہ اس جگہ خدا نے رکھا ہے جہاں کوئی گندہ شخص اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا اور اسے مطہر کے بغیر کوئی چھو ہی نہیں سکتا.پھر جس پر یہ کلام نازل ہوا اسے نا پاک کس طرح کہہ سکتے ہو.پھر فرمایا ہم نے اسے وہ کتاب دی ہے جس کو آج ہی نہیں بلکہ آئندہ بھی کوئی ناپاک نہیں چھو سکے گا.بایدنی سَفَرَةٍ كرَامٍ بَرَرَةٍ ا یہ ہمیشہ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی جو دور دور سفر کرنے والے اور نہایت معزز اور اعلیٰ درجہ کے نیکو کار ہو نگے.اس وقت یہ دو ہی اعتراض بیان کئے جاسکے ہیں اور وہ بھی بہت مختصر طور پر.اب میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ دوستوں کو جو اس جلسہ میں شامل ہوئے ہیں اپنی نعمتوں کا وارث بنائے اور وہ جنہوں نے مہمان نوازی میں حصہ لیا ہے.مرد اور عورتیں، چھوٹے اور بڑے ان سب پرا اپنی رحمتیں نازل کرے.پھر ان پر اپنا فضل نازل کرے جن کے دل اس جلسہ میں شامل ہیں گو وہ خود نہیں آسکے.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے سب لوگوں کو توفیق دے کہ جونور اور صداقت انہیں حاصل ہوئی ہے وہ دنیا کو پہنچا ئیں.ہماری جماعت کے خطا کاروں کو نیک بناوے.ہماری جماعت کے کمزوروں کو مضبوط بنادے.ہماری جماعت کے بیماروں کو شفا دے.ہماری جماعت کے مقروضوں کو قرض سے سبکدوش کرے.جن میں ایمان کی کمزوری ہے ان کی اس کمزوری کو دور کرے.ہماری جماعت کے مبلغوں کی مدد اور تائید کرے خدا کے فرشتے ان کی حفاظت کریں.وہ اللہ کے محبوب بن جائیں.ان کے اعمال، ان کی زبانوں اور ان کی فکروں میں برکت دے.پھر اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے ہر فرد کو خواہ وہ کہیں ہو، اس جلسہ کی برکات میں شریک کرے.پھر ہندوؤں سکھوں، عیسائیوں، دہریوں غرضیکہ سب کے قلوب کو کھول دے تا کہ سب ابن آدم ہو کر بھائیوں کی طرح رہیں.پھر میں دوستوں سے خواہش کرتا ہوں کہ جو باتیں انہوں نے جلسہ میں سنی ہیں ان پر عمل کریں.میں ان کے لئے دُعا کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا اور میں دوستوں سے بھی امید کرتا ہوں کہ وہ میرے لئے دُعا کریں گے کہ خدا تعالیٰ مجھے اپنے فرائض کی ادائیگی کی توفیق دے اور
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ 258 جو ذ مہ داری اس نے مجھ پر رکھی ہے، اس میں مجھے سرخرو کرے.یہ بہت بڑا بوجھ ہے اور کوئی انسان بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے اسے اُٹھا نہیں سکتا.اس کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے اور اس میں خطرات بھی زیادہ ہیں.اللہ تعالیٰ اپنا رحم فرمائے تا کہ جب میں اس کے سامنے حاضر ہوں تو میں نے کیا کہنا ہے وہی خوشخبری دے کہ تو نے اپنا فرض ادا کر دیا.میں پھر دوستوں کے لئے دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی انہیں کامل الایمان بنائے اور اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق دے.ہم ایسی جماعت بن جائیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے اور ہم اس سے راضی ہوں.آمین ل التوبة : البقرة : ۷۶ البقرة: الفتح : ١٦ النساء : ۱۶۵ البقرة : ١٠٢ ك الفاتحة: ٢ سے استثناء باب ۳۴ آیت ۵ نارتھ انڈیا بائیبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء خروج باب ۳ آیت ۲ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء Life of Mahomet by William Muir p.560 published 2 in London 1877.ا النجم : ۵،۴ Life of Mahomet by William Muir P.550 published in 11 London 1877.مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحه ۹۱ مطبع میمنہ مصر ۱۳۱۳ھ ۱۲ الانعام: ۱۲۶،۱۲۵ ١٣ حم السجدة: ٣٩ يونس : ۱۷ ۱۵ الاحزاب: ۲۲ ال عمران: ۳۲ كل الحجر : القلم: ۲ تا ۷ 19 الانبياء : ٦
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ ٢٠ الانبياء : ١) ۲۱ ص : ۵ القمر : ٦ ٢٢ القمر : ٣ ۲۴ الفرقان : ۹ ۲۵ الفرقان : ۲۲ تا ۲۷ الفرقان: ٣١ بنی اسرائیل: ۴۸ ۲۸ الفرقان: ١٠ ٢٩ المائدة : ٢٨ ٣٠ الحاقة: ۴۳ ا الطور : ٣٠ اسے ارڈ پوپو : نجومی.احمق ضدی الحاقة : ۳۹ تا ۴۸ ۳۴ الدخان: ۱۵،۱۴ ۳۵ النحل : ۱۰۳، ۱۰۴ ۳۶ الفرقان: ۵ تا ۷ م جبر: حضرموت کے ایک عیسائی خاندان کا غلام.حضور جبر کے مکان کے پاس بیٹھا کرتے تھے.اس کے بارے میں کفار نے کہا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سکھاتا ہے.بعد میں یہ بھی مشرف بہ اسلام ہو گیا.اسلامی انسائیکلو پیڈ یا صفحہ ۶۵۰ مطبوعہ ۲۰۰۰ ء لا ہور ) ۳۷ے روح المعانی جلد ۵ ( الجزء الرابع عشر ) صفحه ۲۳۳ مکتبه امداد یه ملتان A Comprehensive commentary on the Quran by ĽA the Rev.E.M Wherry M.A Vol.III P.47 Published in London 1896.۳۹ لوقا باب ۱۱ آیت ۱۴ تا ۱۸ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء ٤٠ العلق : ا تا آخر ٤٠٣ النحل : ۱۰۴ ۴orest سیرت ابن ہشام (عربی) جلد ۱ صفحه ۳۶۶ تا ۳۷۱ مطبع مصطفی البابی الحلبی مصر ۱۹۳۶ء 259
فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ ا الفرقان: ۲۲ بخاری باب کیف كان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الشعراء: ٢١١ الحج : ۵۳ التكوير : ٢٦ ۴۵ النجم: ۲۱،۲۰ النجم : ۲۲ تا ۲۴ ۴۸ الشعراء: ۲۱۲،۲۱۱ ٤٩ الشعراء : ۲۲۲ تا ۲۲۴ ۵۰ الانعام: ۱۲۲ ۱۰۱۱۰۰: اه النحل: ١٠١،١٠٠ ۵۳ یونس : ۳۹،۳۸ ۵۲ النحل : ١٠٢ النمل : ٦٦ ۵۵ الانبیاء: ۴۵ ۵۶ شرح مواهب اللدنية جلدا صفحه ۲۴۶ مطبوعہ مصر ۱۳۲۵ھ ۵۷ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۵ پاکستان بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء ۵۸ استثناء باب ۱۸ آیت ۲۲ نارتھ انڈیا بائیل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء ۵۹، اعمال باب ۳ آیت ۲۴ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء ۱۰ یسعیاہ باب ۶۲ آیت ۲ برٹش اینڈ فارن ہائیمیل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء 10 المائدة : ۴ ا یسعیاہ باب ۶۲ آیت ۴ برٹش اینڈ فارن بائیل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء ۱۳ آل عمران: ۹۸ ۱۳ یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲، ۱۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور ۱۹۲۲ء الكهف : ۵۵ ۱۵ النجم : ۵،۴ استثناء باب ۱۹ آیت ۲۱ نارتھ انڈیا بائیبل سوسائٹی مرزاپور مطبوعہ ۱۸۷۰ء كه متی باب ۵ آیت ۳۸ تا ۴ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء الشورى: ٤١ ٩ الرحمن: ۴۷ حم السجدة: ٣١ ع الاعراف: ۱۵۹ اسے متی باب ۱۵ آیت ۲۴ پاکستان بائیبل سوسائٹی انار کی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء ۷۲ متی باب ۱۵ آیت ۲۶ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء 260
261 فصائل القرآن نمبر ۴۰۰۰۰ فاطر: ۲۵ ٤٥ الضحى: ۸ النجم: ٢، ٣ ابراهیم: ۲۵ ۱۰ بنی اسرائیل: ۷۴ ۲ الضحی : ۲ تا ۴ الكهف : يوسف: ۹۶ ۸۸ الضحى : ١١،١٠ الانعام : ۱۲۵ ۹۲ المومن : ۵۲ ۹۴ محمد:۲۰ الفتح : ٢ ، ٣ ۹۸ الاحزاب : ۲۲ ١٠٠ الواقعة: ۷۸ تا ۸۰ ۷۴ هود : ۱ ۲ تا ۲۳ الضحى: ۵ و النجم : ۴ تا ۶ بنی اسرائیل: ۷۵ الضخي: ۸۵ الضحي: الضحى ٩ المائدة : ١٠٩ الى النساء : ١٠،١٠٦ المومن : ۵۶ ۹۵ النصر : ۴ ه الانشراح: ٢ ٩ البقرة : ۱۵۲ انا عبس: ۱۶، ۱۷
فصائل القرآن نمبر ۵ نمبر ۵ از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی 262
فصائل القرآن نمبر ۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ أَحمدةَ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ (نمبر۵) 263 قرآن کریم کی کتب سابقہ پر فضیلت کی نویں دلیل انبیاء سابقین کی رسول کریم صلی اللہ علیہ مسلم کی بعثت کے متعلق پیشگوئیاں اور قرآن کریم کی آٹھ اصولی اصلاحات (فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۳۲، برموقع جلسه سالانه قادیان) تشہد وتعوذ کے بعد حضور نے سورہ اعراف کی مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :- قَالَ عَذَابِي أَصِيبُ بِهِ مَنْ آشَاءُ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكُتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِأَيْتِنَا يُؤْمِنُونَ الَّذِينَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُولَ النَّبِيِّ الْأُمِي الَّذِي يَجِدُونَهُ
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَيةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْصُهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبيثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا التَّوْرَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَةَ« أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَيُحْيِ وَيُمِيتُ فَامِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُتِيَ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ (اعراف آیت ۱۵۹،۱۵۸) 264 اس کے بعد فرمایا :- کل کی تقریروں کے بعد میرا گلا شام تک تو اچھا تھا لیکن رات کو ملاقاتوں کے بعد گلا بیٹھ گیا.۱۲ بجے کے قریب سردی لگنے کی وجہ سے بات کرنے میں تکلیف شروع ہوئی اور ایک بجے رات جب ملاقاتیں ختم ہو ئیں تو گلا بہت کچھ بیٹھا ہوا تھا.اس لئے گوئیں اس وقت اونچی آواز سے نہیں بول سکتا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ تھوڑی دیر میں ہی حلق گرم ہونے کے بعد آواز بلند ہو جائے گی.شروع میں ممکن ہے کہ تقریر کے بعض حصے احباب تک نہ پہنچ سکیں لیکن احباب کو صبر سے کام لینا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھنی چاہئے کہ جبکہ وہ دُور دور سے کلمات حق سننے کے لئے یہاں آئے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اور اس سے امید رکھتے ہوئے میں حق کہنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں تو ہم دونوں پر وہ فضل فرمائے گا اور مجھے کہنے اور آپ لوگوں کو سننے کی توفیق عطا فرمائے گا.دینی مجالس کی اہمیت مجھے افسوس ہے کہ بعض دوست گو وہ نہایت قلیل تعداد میں ہوتے ہیں.باوجود سمجھانے کے پھر بھی مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے اور باہر پھرتے رہتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر جماعت میں کچھ نمائشی ممبر بھی ہوتے ہیں اور مجلس میں اپنی نمائش کرنے کے بعد جگہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں.
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 265 قرآن کریم میں بھی آتا ہے کہ ایسے نمائشی لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی تھے.جب مجلس منعقد ہوتی تو وہ بھی آجاتے.گفتگو شروع ہونے سے پہلے ہر ایک پر نظر پڑتی ہے.صحابہ اُن کو دیکھتے لیکن جب کام شروع ہو جاتا تو آنکھ بچا کرکھسکنے لگتے.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے متعلق فرماتا ہے.قَدْ يَعْلَمُ اللهُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِوَاذًا وہ لوگ جو تم میں سے نظر بچا کر مجلس سے بھاگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو خوب جانتا ہے.ایسے نمائشی ممبر یہاں بھی ہوتے ہونگے مگر کئی لوگ ایسے ہیں جو اس بات کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور وہ جانتے نہیں کہ ان کا یہ فعل کیسا ہے.حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دفعہ تقریر کر رہے تھے کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس مجلس میں ایک شخص آیا.اُس نے دیکھا کہ مجلس بھری ہوئی ہے.اُس تک آواز مشکل سے پہنچتی تھی مگر اُس نے یہ خیال کر کے کہ ذکر الہی ہو رہا ہے یہاں سے جانا نہیں چاہئے.شرم کر کے بیٹھ گیا.خدا تعالیٰ نے کہا میں بھی اس کے گناہوں کے متعلق شرم کروں گا اور اُن کے بارے میں گرفت نہیں کرونگا پھر ایک اور شخص آیا.اُس نے بھی دیکھا کہ مجلس میں بیٹھنے کی جگہ نہیں مگر وہ ادھر اُدھر تلاش کر کے ایسی جگہ بیٹھ گیا جہاں سے آوازسُن سکے.خدا تعالیٰ نے فرمایا.جس طرح یہ شخص کوشش کر کے آگے بڑھائیں بھی اسے اپنے قرب میں جگہ دونگا.پھر ایک تیسرے شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خبر دی.وہ آیا مگر یہ دیکھ کر آواز نہیں پہنچتی واپس چلا گیا.اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ جس طرح یہ شخص ذکر الہی کی مجلس سے واپس چلا گیا اسی طرح میں بھی اسے منہ پھیر لونگا اور رحمت کے دروازے اس کے لئے نہیں کھولو نگا سے غرض ذکر الہی کی مجلس کے آداب ہوتے ہیں.وہ لوگ جن کے دل میں مرض تھا اُن کا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی علاج نہ کر سکے.یہی فرمایا کہ ایسا شخص آیا اور چلا گیا.جب ایسا بیمار دل رکھنے والے کا علاج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ہو سکا تو ہم سے کس طرح ہو سکتا ہے مگر کئی لوگ بے خبری کی حالت میں مارے جاتے ہیں.انہیں اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ جو کام وہ کرتے ہیں اس کا نتیجہ کیسا نکلے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب ذکر الہی کی مجلس منعقد ہوتی ہے تو اُس کے خاتمہ تک فرشتے نازل ہوتے اور خدا تعالیٰ کی رحمت لاتے رہتے ہیں.ذکر الہی کی مجلس ایسی مجلس ہوتی ہے جیسا کہ بادشاہ کا دربار ہواگر بادشاہ کے دربار سے اُٹھ کر
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 266 جانے والا مجرم ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کے دربار سے اٹھ کر چلا جانے والا کیوں مجرم نہیں ہوگا.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجلس میں سب لوگ بیٹھے رہیں اگر کسی ضرورت کی وجہ سے اُٹھنا پڑے تو اجازت لیکر جائیں گے.اس مجلس میں جو ۱۵-۲۵ ہزار افراد پر مشتمل ہے لوگوں کا اجازت لینا تو مشکل ہے مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ جو لوگ ضرور تا باہر جائیں وہ ضرورت پوری کر کے جلد واپس آجائیں اور وہ سمجھیں کہ اُن کا اس مجلس میں بیٹھنا فضول نہیں.اول تو جو بات بھی کان میں پڑے گی اگر مضبوطی کے ساتھ اسے پکڑ لیا جائے گا تو وہ نجات کا ذریعہ بن جائے گی لیکن اگر کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تو بھی اس مجلس میں بیٹھنا نیکی ہے.ہم چاہتے ہیں کہ ہر احمدی قرآن کریم کا ترجمہ جانتا ہو مگر بہت ہیں جو نہیں جانتے لیکن جب وہ قرآن پڑھتے ہیں تو انہیں ثواب ہوتا ہے.اسی طرح اس مجلس میں خواہ کسی کو آواز نہ آئے اور تقریر کا مطلب نہ سمجھ سکے تب بھی بیٹھنے پر ثواب حاصل ہوتا ہے.اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا آج کا مضمون اُس گذشتہ مضمون کی ایک کڑی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں چار سال سے متواتر بیان کرتا آرہا ہوں یعنی آج کا مضمون کی پانچویں قسط ہے.بعض مضامین ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کو ہستی باری تعالیٰ کے مضمون کی طرح اتنی وسعت حاصل ہوتی ہے کہ اُن کو خواہ کتنی بار بیان کیا جائے اُن میں تکرار پیدا نہیں ہو سکتا.کے مضمون میں بھی تکرار نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے کلام میں اتنے معارف ہیں کہ چاہے ساری دنیا مل کر قیامت تک انہیں بیان کرتی رہے وہ کبھی ختم نہ ہونگے.اس موضوع پر گذشتہ سالوں میں جو لیکچر دیئے گئے ہیں.وہ شائع نہیں ہو سکے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میر امنشاء ہے کہ مکمل ایک جلد کی شکل دے کر ان کو شائع کیا جائے تا کہ قرآن کریم اور دوسرے مذاہب کی الہامی کتب کا مقابلہ کرتے وقت جماعت کے لوگوں کے لئے سہولت اور آسانی پیدا ہو جائے اور براہین احمدیہ کو مکمل کرنے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو منشاء تھا اس کے پورا کرنے میں ہم بھی حصہ لے سکیں.
267 فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ علمی نقار پیر کا فائدہ بعض دوستوں نے کہا ہے کہ آپ کا سالانہ جلسہ کاعلمی لیکچر ایسا ہوتا ہے کہ عام طور پر لوگ اسے سمجھ نہیں سکتے.بہت سے لوگ صرف برکت حاصل کرنے کے لئے لیکچر میں بیٹھے رہتے ہیں.اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ اگر وہ لوگ برکت حاصل کرنے کے لئے بیٹھے رہتے ہیں اور خدا تعالیٰ انہیں برکت دے دیتا ہے تو اس میں آپ کا کیا حرج ہے.یہی غرض تو یہاں آنے کی ہوتی ہے.جب وہ مل گئی چاہے لیکچر سمجھ کر اور چاہے نہ سمجھتے ہوئے مقصد تو حاصل ہو گیا.پس اس پر کسی کو گلہ نہیں پیدا ہوسکتا.دیکھو اگر خدا تعالیٰ کسی گناہگار کو باز پرس کئے بغیر جنت میں داخل کر دے تو کیا وہ جنت میں داخل ہونے سے انکار کر دیگا.وہ تو فوراً آگے بڑھ کر جنت میں داخل ہو جائے گا.اسی طرح جسے لیکچر میں بیٹھے رہنے سے برکت حاصل ہو جائے اسے اس بات کا کیا شکوہ ہوسکتا ہے کہ لیکچر میں جو کچھ بتایا گیا ہے اُسے وہ سمجھ نہیں سکا مگر میں سمجھتا ہوں یہ بات ہے بھی غلط.اس لئے کہ ہماری جماعت کے دوستوں کے دماغ خدا تعالیٰ نے ایسے اعلیٰ درجہ پر پہنچا دیئے ہیں کہ اپنے ایک دوست کی طرف سے یہ بات سن کر کہ بعض لوگ لیکچر کو سمجھ نہیں سکتے مجھے بہت تعجب ہوا.پچھلے دنوں مرکزی خلافت کمیٹی کے آرگن روزانہ اخبار خلافت نے ایک کانگرسی ہندو لیڈر کے یہ کہنے پر کہ مسلمان جاہل پسماندہ اور نا کافی تعلیم یافتہ ہیں اور ان کو کنٹرول کرنا آسان نہیں.دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ حکومت کی باگ ڈور نا خواندہ فرقہ کے ہاتھ میں دی جانے لگی ہے.“ لکھا تھا کہ اگر قادیان جیسے قصبہ کا ٹانگہ والا خالصہ اور دیانند کالج کے گریجوئیٹوں کے منہ بند نہ کر دے تو ہمارا ذمہ.پھر مسلمان کبھی صوبہ کی آزادی طلب نہیں کریں گے.اگر مخالفین کے نزدیک قادیان کے ٹانگہ چلانے والے کو اتنی قابلیت حاصل ہے تو پھر کس قدر تعجب کی بات ہے کہ اپنوں میں سے کوئی یہ کہے کہ احمدی میرے لیکچر کوسمجھ نہیں سکتے.اصل بات یہ ہے کہ وہ تو لیکچر کو بخوبی سمجھتے ہیں مگر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بعض احمدی لیکچر کونہیں سمجھ سکتے وہ اپنے بھائیوں کو نہیں سمجھتے.انہوں نے اپنے متعلق تو حسن ظنی سے کام لیا کہ وہ خود لیکچر کوسمجھ سکتے ہیں لیکن دوسروں کے متعلق حسن د ظنی اختیار نہ کی اور کہہ دیا کہ وہ نہیں سمجھتے.حالانکہ انبیاء پر ایمان لانے والے خواہ مروجہ علوم - سے
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 268 نا واقف ہوں دین کی باتیں بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں آسمانی علوم میلا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میں اسلام کے تازہ معجزات لایا ہوں اور اپنا مشاہدہ پیش کرتا ہوں مگر دوسرے لوگ قصے کہانیاں پیش کرتے ہیں.اسی طرح آپ کی جماعت کو رُوحانی علوم کے متعلق مشاہدہ حاصل ہے اور آپ پر ایمان لانے کے دن ہی ہر احمدی کو نیا علم حاصل ہو جاتا ہے اور احمدیوں کو خدا تعالیٰ ہر قسم کے اعتراضات کے جواب آپ سمجھا دیتا ہے اگر کوئی تمسخر کرتا ہے تو اُسے بھی جواب مل جاتا ہے.مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نے سنایا کہ وہ ایک جگہ مباحثہ کے لئے گئے مباحثہ کے متعلق مخالف مولوی سے گفتگو ہورہی تھی کہ ایک احمدی کو رقعہ دیکر اُن مولوی صاحب کے پاس بھیجا گیا.مولوی صاحب نے انہیں بے علم سمجھ کر چاہا کہ اُسے قابو میں لے آئیں.اس خیال سے اس احمدی کو کہا دیکھو قرآن میں حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق رافِعُكَ ائی لکھا ہے یعنی او پر اُٹھانا اس لئے وہ فوت ہو ہی نہیں سکتے.اس احمدی نے کہار افعك كی ف کے نیچے کیا ہے.مولوی صاحب نے کہا زیر.احمدی نے کہار افعك او پر تولے جاتا ہے مگر یہ زیر او پر نہیں جانے دیتی.اس پر مولوی صاحب بالکل خاموش ہو گئے.غرض جس رنگ میں دشمن چلتا ہے اُسی رنگ میں نا کام کرنے کے لئے خدا تعالیٰ احمدیوں کو سمجھ عطا کر دیتا ہے.ظاہری علوم سے بالکل ناواقف احمدی ایسے ایسے لطیف جواب دیتے ہیں کہ مخالف کے لئے خاموش ہوئے بغیر چارہ نہیں رہتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں آپ کا ایک خادم پیراں دیتا ہوا کرتا تھا.بہت معمولی سمجھ کا انسان تھا مگر باوجود اس کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس رہنے کا اُس پر ایسا اثر تھا کہ ایک دفعہ بٹالہ تار لے کر گیا.اُس زمانہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی لوگوں کو قادیان آنے سے روکا کرتے تھے.پیراں دیتا کو جو انہوں نے دیکھا تو اُسے پکڑ لیا اور کہنے لگے.تو کہاں چلا گیا.وہاں کیا رکھا ہے.تمہیں وہاں نہیں رہنا چاہئے.اس رنگ میں بہت کچھ کہا اُس نے کہا میں پڑھا لکھا تو ہوں نہیں اور نہیں جانتا کہ کیا بات ہے لیکن اتناضرور جانتا ہوں کہ مرزا صاحب اپنے گھر بیٹھے رہتے ہیں مگر دُور دُور سے لوگ آتے اور یوں کے دھکے کھا کھا کر اُن کے پاس پہنچتے ہیں اور تم یہاں دوڑے پھرتے ہو مگر کوئی تمہیں پوچھتا تک نہیں.یہ ایک علمی دلیل ہے ایک مامور من اللہ کی صداقت کی جو ایک جاہل نے پیش کی.ایسے جاہل نے جس کی یہ حالت تھی کہ چند آنے لے کر مٹی کا
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 269 تیل دال میں ڈال کر کھا جاتا تھا.اُسے علمی الفاظ نہ آتے تھے لیکن جو کچھ اس نے کہا وہ علمی دلیل تھی.جس کا مطلب یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی نصرت حضرت مرزا صاحب کے ساتھ ہے اور اُس کی لعنت تم پر پڑ رہی ہے.غرض جب کوئی انسان خدا تعالیٰ کی جماعت میں داخل ہو جاتا ہے تو اُس کی عقل تیز ہو جاتی ہے اور وہ روحانیت کے باریک سے بار یک معارف بآسانی سمجھنے لگ جاتا ہے.وہ قو میں جو یہ کہتی ہیں کہ ہم فلاں قسم کی باتیں نہیں سمجھ سکتیں اُن کی عقلی طاقتیں گر جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ وہ موٹی باتیں سمجھنے سے بھی عاری ہو جاتی ہیں لیکن جن لوگوں کو روحانی اور علمی باتیں سنائی جاتی ہیں اور وہ انہیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.اُن میں سے نہ سمجھنے والوں میں بھی قابلیت پیدا ہو جاتی ہے اور پھر وہ سمجھنے لگ جاتے ہیں.چنانچہ میں احمدیہ زمینداروں کے سامنے بھی علمی تقریر کرتا ہوا یہ خیال نہیں کرتا کہ اُن کی سمجھ میں نہ آئے گی لیکن کالجوں کے غیر احمدی طالب علموں کے سامنے بھی علمی تقریر کرتے ہوئے مجھے یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ شائد وہ میری باتیں نہ سمجھ سکیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ احمدی علمی اور روحانی تقریریں سننے کے عادی ہوتے ہیں لیکن دوسرے لوگ عادی نہیں ہوتے.دین کی باتیں سنے کا عادی بنانے کے لئے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی اُس کے کان میں اذان دی جائے اگر اس طرح دین کی باتیں سمجھنے کی بچہ میں قابلیت پیدا ہوسکتی ہے تو احمدیوں کے سامنے علمی باتیں بیان کرنے سے وہ کیوں نہیں سمجھ سکتے.اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے خود علوم کو مشکل بنا دیا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لئے علوم بنائے ہیں اور ہر طبقہ کے لوگوں میں علوم کو مجھنے کی قابلیت رکھی ہے خواہ وہ زمیندار ہوں خواہ علمی کام کرنے والے اگر لوگ علوم کو خود مشکل نہ بنا دیتے تو کسی انسان کے لئے اُن کا سمجھنا مشکل نہ ہوتا.اب ایک شخص جب یہ کہتا ہے کہ دلیل استقراء سے یہ بات ثابت ہے تو بہت لوگ کہہ دیتے ہیں ہمیں کیا معلوم دلیل استقراء کیا ہوتی ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ تمہارے باپ دادا مرتے چلے آئے ہیں یا نہیں تو ہر شخص اس بات کو سمجھ لے گا.غرض خدا تعالٰی نے کسی علم کو مشکل نہیں بنایا.علم کو لوگ الفاظ کے ذریعہ مشکل بنادیتے ہیں اگر لوگ میری تقریر کو بھی نہ سمجھیں گے تو اس میں میری غلطی ہوگی کہ میں نے ایسے الفاظ استعمال نہ کئے
فصائل القرآن نمبر ۵ 270 جو اُن کی سمجھ میں آسکتے ورنہ قرآن کا کوئی مضمون ایسا نہیں جسے کوئی انسان سمجھ نہ سکے ہاں میں اپنی طرف سے کوشش کرتا ہوں کہ آسان الفاظ میں تقریر کروں.باقی روانی میں بعض اوقات مشکل الفاظ بھی نکل جاتے ہیں مگر اس سے مضمون خراب نہیں ہوتا.قرآن کریم کی فضیلت پر نویں دلیل میں اس وقت تک قرآن کریم کے افضل ہونے کی آٹھ دلیلیں بیان کر چکا ہوں.آج نویں دلیل پیش کرتا ہوں.نویں دلیل قرآن کریم کی دوسری الہامی کتب سے یا دوسرے فلسفوں سے افضل ہونے کی یہ ہے کہ وہ تمام گذشتہ مذاہب کی الہامی کتب میں یا مذہبی فلسفوں میں جو غلطیاں ہیں اُن کو واضح کرتا ہے اور نہ صرف اُن کی غلطیاں واضح کرتا ہے بلکہ اُن کی اصلاح بھی کرتا ہے اور یہ سیدھی بات ہے کہ جو غلطی نکالتا ہے وہ اس سے افضل ہوتا ہے جس کی غلطی نکالی جاتی ہے اور غلطی نکالنے والا اُستاد اور ماہر فن ہوتا ہے.اس دلیل کے مطابق قرآن کریم کی جو افضلیت ثابت ہوگی وہ موجودہ الہامی کتب اور موجودہ مذاہب پر ثابت ہوگی کیونکہ بالکل ممکن ہے کہ قرآن کریم جو غلطی نکالے وہ اصل کتاب میں نہ ہو بلکہ بعد میں داخل ہو گئی ہو.یا اس مذہب میں وہ بات نہ ہو اور بعد میں لوگوں نے اس کی طرف منسوب کر دی ہو کیونکہ تمام مذاہب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.ان میں کوئی جھوٹی اور غلط بات خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو سکتی.پس قرآن کریم جہاں کسی سابقہ کتاب کو نا مکمل بتائے گا وہاں یہ معنے ہونگے کہ پہلی کتب میں وہ بات نہ تھی اور جہاں یہ ظاہر کرے گا کہ فلاں بات غلط ہے وہاں یہ معنے ہونگے کہ وہ بات خدا نے نہیں بتائی.پھر جہاں قرآن فلسفہ کی غلطیاں بتائے گا وہاں اس کا یہ مطلب ہوگا کہ لوگوں نے اپنی عقل سے وہ باتیں بنائیں جو غلط ہیں.میں نے کہا ہے کہ پہلی کتابوں میں اصل میں وہ غلطیاں نہ تھیں جو قرآن بتاتا ہے.اس لحاظ سے بھی قرآن کریم اُن سے افضل ثابت ہوتا ہے کیونکہ وہ کتابیں اب محترف و مبدل ہیں اور چونکہ دنیا کے سامنے وہ موجود شکل میں آتی ہیں اور تو میں اُن پر عمل کرتی ہیں وہ اُن سے نقصان اٹھاتی ہیں.اس لئے قرآن کی افضلیت بہر حال ثابت ہے کیونکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو سابقہ کتب کی
فصائل القرآن نمبر ۵ 271 غلطیاں معلوم ہوتی ہیں اور یہ امر واضح ہوتا ہے کہ اس وقت سوائے قرآن کریم کے کوئی قابل عمل کتاب نہیں ہے.قرآن کریم اس دعویٰ کو خود پیش کرتا ہے.فرماتا ہے:.تالله لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَنُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۖ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيْهِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (النحل آیت ۶۴ - ۶۵) قرآن کریم کے چھ دعوے ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھ دعوے پیش کئے گئے ہیں.پہلا یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے بھی رسول آتے رہے ہیں.چنانچہ فرمایا.تاللهِ لَقَد أَرْسَلْنَا إِلَى أمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ.مجھے اپنی ذات ہی کی قسم کہ پہلی امتوں میں بھی رسول بھیجے جاتے رہے ہیں.دوسرا دعویٰ یہ فرمایا کہ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطنُ أَعْمَالَهُمْ اس کے بعد وہ قومیں بگڑ گئیں.اُن کو جو تعلیمیں دی گئی تھیں اُن میں انہوں نے نقص پیدا کر دیا اور لوگوں نے اپنے نفسانی خیالات کو خوبصورت سمجھنا شروع کر دیا.انسان کی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ پہلے وہ بدی کا ارتکاب کرتا ہے اور پھر اُس کی تائید میں دلائل لاتا ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے تھے.ایک چور سے میں نے پوچھا کہ کبھی تمہیں چوری کرتے ہوئے شرم نہیں آئی.اس کے جواب میں اُس نے کہا اصل میں حلال کی کمائی تو ہماری ہی ہوتی ہے.ہم خطرات میں پڑ کر مال حاصل کرتے ہیں.چونکہ اس طرح ہمیں بہت محنت اور مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے.اس لئے جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ ہمارے لئے حلال ہوتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ چور بھی اپنی چوری کو جائز قرار دینے کے لئے دلیل پیش کرتے ہیں.غرض پہلے انسان بدی کرتا ہے اور پھر اس کے جواز کی دلیلیں بناتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت میں نیکی رکھی ہے جو بُرے فعل پر اس کو ملامت کرتی ہے.چونکہ انسان
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 272 ہر وقت کی علامت برداشت نہیں کر سکتا اس لئے اپنے فعل کو جائز قرار دینے کے لئے دلائل پیدا کرتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَنُ أَعْمَالَهُمْ اُن کو اُن کے اعمال خوبصورت دکھانے لگتا ہے اور جب لوگ کسی برے فعل کے عادی ہو جاتے ہیں تو اُسے اچھا سمجھنے لگ جاتے ہیں.تیسر ا دعوی یہ کیا کہ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ یہ سلسلہ ختم نہیں ہو گیا.ساری کی ساری قو میں آج بھی ایسی حالت میں ہیں.اب تک اس شیطانی عمل کا اثر اور اس کی لعنت اُن پر باقی ہے کیونکہ جو بگاڑ ایک دفعہ پیدا ہوا اُسے خدا ہی دُور کر سکتا ہے کوئی انسان دُور نہیں کر سکتا.چوتھی بات یہ بیان کی کہ وَلَهُمْ عَذَاب الیم وہ اس نقص کی وجہ سے جہنم میں گرنے کے خطرہ میں ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت اُن کی مدد کرنا چاہتی ہے.پانچویں بات یہ بیان کی کہ وَمَا انْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ.ایسی حالت میں ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ رحمت کا دروازہ کھولتا.جب اُس کے بندے گمراہ ہو گئے.پہلی کتابیں خراب ہو گئیں تو خدا تعالیٰ نے رحمت کا دروازہ کھولا.پس اے رسول ! اُس نے تجھ پر یہ کتاب اُتاری ہے تاکہ تو انہیں وہ اصل تعلیم بتائے جس سے اختلاف کر کے وہ ادھر اُدھر چلے گئے تا کہ بگاڑ دُور ہو.چھٹی بات یہ بیان کی کہ پھر اسی پر بس نہیں کیا کہ بگاڑ دُور کر دے بلکہ اس کتاب میں زائد باتیں بھی بیان کی ہیں.نہ صرف پہلی کتابوں اور پہلے فلسفوں کی غلطیاں بتا ئیں بلکہ ایسی باتیں بھی بتائی ہیں جو اس سے پہلے فلسفیوں کے ذہن میں بھی نہیں آئیں اور وہ دو قسم کی ہیں.ھدی وَرَحْمَةً لقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ.ایک ھدی اور دوسری رحمت.ہدایت کے معنے ہیں ذہنی اور عقلی ترقی کے سامان اور رحمت کے معنے ہیں عملی ترقی اور آرام و آسائش کے سامان.گویا قرآن میں صرف ذہن کی ترقی کے سامان ہی نہیں بلکہ عملی ترقی کے سامان بھی ہیں اور یہی دو چیزیں ہوتی ہیں جن کے حاصل کرنے کے لئے تمام مذاہب اور تمام فلسفے کوشش کرتے ہیں.یہ دونوں باتیں قرآن میں موجود ہیں.اس میں ہدایت بھی ہے اور رحمت بھی.
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 273 الفرقان قرآن کریم ہی ہے دوسری آیت جو اس مضمون پر دلالت کرتی ہے، وہ یہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تبرك الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَلَمِينَ نَذیرا کے فرمایا بہت برکت والا ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر یہ فرقان اُتارا تا کہ یہ سب زمانوں کے لئے نذیر ہو.스 فرقان کے عربی میں کئی معنے ہیں.اُن میں سے دو جو یہاں چسپاں ہو سکتے ہیں اُن کو میں لیتا ہوں.اول یہ کہ كُلُّ مَا فُرِقَ بِهِ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ یعنی ہر وہ چیز جس کے ساتھ حق و باطل میں فرق کیا جائے.وہ فرقان ہے.دوسرے معنے یہ ہیں کہ الصبح والسحرث یعنی پو پھٹنے کو بھی فرقان کہتے ہیں.گویا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کتاب کے ذریعہ ایک تو حق و باطل میں تمیز ہوسکتی ہے.دوسرے ہم نے اسے پو پھٹنے کی طرح بنایا ہے.جب پو پھٹتی ہے تو ہر چیز کی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے.یہی حال قرآن کا ہے.اس نے بھی حقیقت ظاہر کر دی ہے.ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ (۱) بہت برکت والا ہے وہ خدا جس نے اپنے بندہ پر وہ کلام اُتارا ہے جو حق و باطل میں فرق کر کے دکھاتا ہے.(۲) بہت برکت والا ہے وہ خدا جس نے اپنے بندہ پر وہ کلام اُتارا ہے کہ جس کی روشنی میں تمام مذاہب کے فلسفے اپنے نقائص آپ دیکھ کر ان کی اصلاح شروع کر دیں گے.جس طرح پو پھٹنے پر ہر گھر کا ہر نقص نظر آ جاتا ہے.اسی طرح قرآن کی روشنی میں سب مذاہب والوں کو اپنے اپنے ہاں کے نقائص نظر آنے لگ جائیں گے اور وہ اُن کی اصلاح کی کوشش شروع کر دیں گے.غرض قرآن میں حق و باطل میں فرق کرنے والے دلائل بھی دیئے گئے ہیں اور تعلیمات صحیحہ کو ایسے رنگ میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ خود بخو دلوگوں پر اُن کے دین کی کمزوریاں ظاہر ہونے لگ گئی ہیں اور انہوں نے اپنے عیوب چھپانے شروع کر دیئے ہیں.اقوام عالم کی شرک سے بیزاری اب دیکھو یہ دونوں باتیں کس طرح پوری ہوئیں؟ ان میں سے ایک کو تو میں آگے چل کر تفصیل
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 274 ا سے بیان کروں گا مگر یہ جو کہا کہ پو پھٹنے پر لوگ آپ ہی آپ اپنے نقائص دُور کرنے شروع کر دیتے ہیں اس کی صداقت اس طرح واضح ہوتی ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ساری قومیں شرک میں مبتلا تھیں.یہودیوں نے باوجود اس کے کہ اُن کے ہاں ایک خدا کو ماننے کی تعلیم تھی.عزیر کو ابن اللہ قرار دے لیا تھا.اسی طرح زرتشتی مذہب کی بنیاد بھی توحید پر تھی مگر اس کے ماننے والوں نے بھی خرابی پیدا کر لی تھی اور دو خدا بنا لئے تھے.ہندوؤں نے ۳۳ کروڑ معبود بنا رکھے تھے.چین میں بدھ مذہب تھا.اُس نے ہر چیز کا الگ خدا بنارکھا تھا.مثلاً لکڑی کا خدا الگ تھا اور جب اُس لکڑی کی میز بن جائے تو اس کا الگ.ایسے وقت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے اور آپ نے یہ تعلیم دی کہ خدا ایک ہے.اُس وقت لوگ توحید سے اتنے دُور ہو چکے تھے کہ یہ بات سُن کر انہوں نے قہقہے لگائے.آپ کے ملک والوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اَجَعَلَ الْآلِهَةً الهَا وَاحِدًا.اس نے تو بہت سے خداؤں کو کوٹ کاٹ کر ایک بنا دیا ہے.چونکہ اُن کے واہمہ میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ خدا ایک ہے.اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خیال کرتے کہ آپ نے سب خداؤں کو کوٹ کر ایک بنا دیا ہے.گویا وہ ایک خدا کا عقیدہ پیش کرنا حماقت کی بات قرار دیتے تھے.اسی طرح عیسائیوں کو اس بات پر فخر تھا کہ وہ تین خدا مانتے ہیں.غرض سب کی سب قو میں شرک میں مبتلا تھیں لیکن جب قرآن کا نور پھیلا تو اب یہ حالت ہے کہ آج ایک عیسائی کھڑا ہو کر بغیر یہ محسوس کئے کہ وہ کتنا بڑا جھوٹ بول رہا ہے کہتا ہے کہ توحید خالص سوائے انجیل کے اور کوئی کتاب پیش ہی نہیں کرتی.گویا پہلے تو لوگ توحید کا عقیدہ پیش کرنے کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہنتے تھے لیکن اب جبکہ سورج نکل آیا تو انہیں اپنے منہ کی سیا ہی نظر آگئی اور وہ منہ دھونے لگ گئے.ہندو ۳۳ کروڑ دیوتا مانتے تھے اور محمود غزنوی سے اس لئے ناراض تھے کہ اُس نے اُن کے بت توڑ دیئے لیکن اب ہند و خود بت توڑتے پھرتے ہیں کیونکہ قرآن کا سورج نکل آیا اور انہیں پتہ لگ گیا کہ بت پرستی بہت بڑی بات ہے.غرض جس قوم کو دیکھو مشرکانہ خیالات کی مخالفت کرتی ہے.یہ کتنا بڑا قرآن کے فرقان ہونے کا ثبوت ہے.اس کے ثبوت میں بیسیوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں مگر چونکہ یہ ایک ضمنی بات ہے اس لئے میں اسے لمبا نہیں کرتا.بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ یہود، نصاری اور مجوس اور ہنود وغیرہ مذاہب میں سے ایک مذہب بھی
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 275 ایسا نہ تھا جو پہلے شرک میں مبتلا نہ تھا اور نزول قرآن کریم کے بعد اُس نے اپنے پہلو کو نہیں بدلا.یہ ایک ایسی بدیہی بات ہے کہ عقلمند کے لئے صرف یہی افضلیت کا ثبوت کافی ہے.غرض اس آیت میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کے ذریعہ ہر مذہب و ملت اور ہر فلسفہ اور خیال کی غلطیاں نکالی گئی ہیں اور اس کے مقابل پر جو سچی تعلیم تھی وہ بتائی گئی ہے.پھر فرماتا ہے کہ ایسا ہونا ضروری تھا.یہ خیال درست نہیں کہ دوسروں کی غلطیاں نکالنے کی کیا ضرورت تھی اپنی تعلیم پیش کر دینا کافی تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی ضرورت تھی کیونکہ لِيَكُونَ لِلْعَلَمِينَ نذيرا ہم نے قرآن ساری دنیا کے لئے بھیجا ہے.نہ صرف یہود کے لئے نہ صرف نصاری کے لئے.نہ صرف ہندوؤں کے لئے.پھر نہ صرف اہل مذاہب کے لئے بلکہ فلسفہ والوں کے لئے بھی اور جب تک حجت تمام نہ ہونذیر نہیں ہو سکتا.پس ضروری تھا کہ تمام ادیان باطلہ اور فلسفہ باطل اور اوہام باطلہ اور وساوس کا اِس میں ازالہ کیا جاتا.ورنہ سب دنیا کی طرف اس کا بھیجا جانا جائز نہ تھا.اب دیکھو یہ کتنا بڑا دعویٰ ہے جو قرآن نے کیا.اس کے مقابلہ میں اور کوئی کتاب ایسا دعویٰ پیش نہیں کرسکتی بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی اور ایسا دعوی کر ہی نہیں سکتا جب تک یہ چھ خوبیاں اُس میں نہ ہوں.اول جب تک سب کتب کا اُسے علم نہ ہو.جب وید اور ژند و اوستا وغیرہ کا کسی کو پتہ ہی نہ ہو اُس وقت تک کوئی اُن کی غلطیاں کیونکر نکالے گا.اسی طرح اگر فلسفیوں کے خیالات معلوم نہ ہوں تو اُن کا رڈ کس طرح کرے گا.یہ دعویٰ وہی کر سکتا ہے جس کے پاس ساری دنیا کے مذاہب اور سارے فلسفیوں کی کتب کی لائبریری ہو ایسی لائبریری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تو نہ تھی بلکہ بیبیوں مذاہب کا آپ کو علم بھی نہ تھا.دوسری خوبی اس میں یہ ہونی چاہئے کہ اس کی نظر ایسی ہو کہ اُسے غلطیاں نظر بھی آجائیں اور ایسی واقفیت ہو جو ساری کتابوں کے مضامین پر حاوی ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعویٰ نہ کر سکتے تھے کیونکہ آپ کے پاس مذاہب عالم کی کتابیں ہی موجود نہ تھیں اُن کے پڑھنے پڑھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.تیسری خوبی یہ ہونی چاہئے کہ سب فلسفوں کا اُسے علم ہو.چوتھی یہ کہ سب قسم کے اوہام اور وساوس کا بھی علم ہو کیونکہ یہ دعوی کیا گیا ہے کہ قرآن کریم وسوسوں کو بھی دُور کرتا ہے اور یہ کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہے کہ انسانوں کے وساوس کا پتہ لگا سکے.یہ دعوی کوئی انسان کر ہی نہیں سکتا کہ میں انسانوں کے وساوس دُور کر سکتا
فصائل القرآن نمبر....۵ 276 ہوں.جب تک اُسے سب کے افکار کا پتہ نہ ہو اور یہ پتہ لگانا انسان کی طاقت سے باہر ہے.پانچویں اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ کسی کو سب قسم کے اوہام اور وساوس وغیرہ کاعلم ہو گیا.تب بھی وہ اُس وقت تک اُن کا رڈ نہیں کر سکتا جب تک اُس میں جواب دینے کی طاقت نہ ہو.اس لئے پانچویں بات اُس میں یہ ہونی چاہئے کہ وہ ہر قسم کے اعتراض کو ر ڈ کر سکے.چھٹی خوبی یہ ہو کہ اس قدر چھوٹی سی کتاب میں جیسی کہ قرآن شریف ہے ساری کتابوں کی غلط باتوں کا رڈ بھی کر دے اور ساری عمدہ باتیں بیان بھی کر دے.عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن بائیبل سے چھوٹا ہے.حالانکہ بائیل میں صرف یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ خدا محبت ہے.یہ چھ باتیں سوائے خدا تعالیٰ کے اور کسی میں نہیں پائی جاسکتیں.خدا تعالیٰ کو ہی پتہ ہے کہ دنیا میں کتنے مذاہب ہیں.خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کتنے فلسفے ہیں.خدا تعالیٰ ہی کی نظر بار یک دربار یک باتوں تک پہنچ سکتی ہے.خدا تعالیٰ ہی کی نظر انسانوں کے اوہام اور وساوس کو دیکھ سکتی ہے.خدا تعالیٰ ہی کی قدرت میں یہ بات ہے کہ سب غلط باتوں کا رڈ کرے اور خدا تعالیٰ ہی چھوٹی سی کتاب میں سب کچھ بیان کرنے کی طاقت رکھتا ہے.پس یہ دعوئی سوائے الہی کتاب کے اور کوئی نہیں کرسکتا.جیسا کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ " پہلی آیت میں تو صرف مذہبی کتب کے ماننے والوں کی غلطیاں نکالنے کا دعوی تھا لیکن اس آیت میں سب انسانوں کی خواہ اُن کا مذہبی کتب سے تعلق ہو یا محض عقلی دلائل پر اُن کے خیالات کی بنیاد ہو غلطیاں بیان کرنے کا ذکر ہے.دوسری کتب تو ان اعتراضات تک کو بیان بھی نہیں کرتیں جو مذہب کے خلاف عائد ہوتے ہیں گجا یہ کہ اُن کے جواب دینے کا دعوی کریں.دنیا کو چیلنج یہ اتنا بڑا دعویٰ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ صرف یہی دعویٰ قرآن کریم کی افضلیت 3 ثابت کر سکتا ہے اور اس دعویٰ کا پر کھنا بالکل آسان کام ہے.لوگ چند عجیب در عجیب اعتراضات مذہب کے بارہ میں پیش کر دیں اور پھر دیکھیں کہ قرآن کریم میں اُن کا جواب موجود ہے یا نہیں.خود میں
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 277 نے ساری دنیا کو یہ چیلنج دے رکھا ہے کہ وہ مذہب پر کوئی اعتراض کریں.میں اُن کے تمام اعتراضات کا قرآن کریم سے ہی جواب دینے کے لئے تیار ہوں.وہ کتاب کی شکل میں اپنے اعتراضات شائع کر دیں.پھر میرا فرض ہوگا کہ اُن کا جواب میں قرآن سے ہی دوں اگر میں ایسا نہ کرسکوں تو بے شک لوگ مجھے کہہ سکتے ہیں کہ تمہارا یہ دعویٰ باطل ہے کہ قرآن نے ہر ایک اعتراض کا جواب دے دیا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر کوئی اس آزمائش کے لئے تیار ہو تو خدا تعالیٰ مجھے کامیاب کرے گا.خدا تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ سورہ فاتحہ جو قرآن کی جڑ ہے مجھے سکھائی ہے.اس وجہ سے مجھے یقین ہے کہ جب قرآن کریم نازل کرنے والے خدا کے فرشتوں نے مجھے سورۃ فاتحہ سکھائی اور اس کے معارف بتائے اور فرشتہ نے مجھے یہ بھی کہا کہ میں تجھے وہ باتیں سکھاتا ہوں جو کسی کو معلوم نہیں تو کسی مخالف کا کوئی ایسا اعتراض نہیں ہو سکتا جس کا میں قرآن کریم سے ہی جواب نہ دے سکوں.اس لئے میں سب مخالفین اسلام کو پھر پھینچ دیتا ہوں کہ وہ کوئی مخالفانہ بات پیش کریں.اصولی طور پر اس کا رڈ میں قرآن کریم سے ہی دکھا دوں گا.میرے پاس پچھلے دنوں ایک صاحب آئے اور آکر کہنے لگے.میں کچھ مذہبی باتیں پوچھنا چاہتا ہوں.میں نے کہا بڑی خوشی سے پوچھئے.کہنے لگے مرزا صاحب کے دعوی کے متعلق پوچھتا ہوں کہ کیا قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے.میں نے کہا ہاں کرتا ہے.کہنے لگے کوئی آیت بتائیے.میں نے کہا کوئی آیت کیا سارا قرآن ہی تصدیق کرتا ہے.کہنے لگے یہ کس طرح؟ میں نے کہا.مجھے تو یہی نظر آتا ہے.آپ کوئی آیت پڑھیں میں اُس سے ثابت کر دوں گا اور خدا تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت اُسی سے سمجھا دوں گا.میں نے کہا قُلْ هُوَ الله احد ہی پڑھ دیجیئے.یہ گن کر وہ کچھ گھبرا اسے گئے کہ اس سے شائد اپنا دعویٰ ثابت کریں اس لئے اُس سے چھوڑ کر انہوں نے یہ آیت پڑھی کہ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ اُمَنَّا بِاللهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ سے میں نے کہا ایمان لانے والے دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک وہ جو سمجھتے ہیں کہ ہم ایمان لائے مگر وہ جھوٹ کہتے ہیں اور ایک وہ جو واقعہ میں ایمان لاتے ہیں.اب ایسے لوگ جو سمجھتے تو ہیں کہ ایمان لائے مگر در حقیقت ایمان نہیں لائے جب مرکز خدا تعالیٰ کے سامنے جائیں گے تو خدا تعالیٰ اُن سے پوچھے گا کہ تم نے تو ایمان کا دعویٰ کیا تھا مگر حقیقت میں تم ایمان نہیں لائے تھے.وہ کہیں گے پھر ہمیں کسی رسول کے ذریعے بتایا
فصائل القرآن نمبر ۵ 278 کیوں نہیں گیا.میں نے اُن صاحب سے پوچھا آج کل کتنے مسلمان نماز پڑھتے ہیں.انہوں نے کہا بہت کم.میں نے کہا ایسے ہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور وہ سمجھتے بھی ہیں کہ ایمان لائے مگر حقیقت میں ایمان نہیں لائے ہوتے.ان کے لئے کیا ہوگا.قرآن کریم سچا ہو ہی نہیں سکتا جب تک ایسے لوگوں کا علاج نہ کرے.پس اگر ایسے لوگ ہو سکتے ہیں اور ہیں تو اُن کو راہِ راست دکھانے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور بھی آنا چاہئے.قرآن کریم کی پہلی اصولی اصلاح ہستی باری تعالیٰ کے متعلق اب میں مثال کے طور پر بعض اُن باتوں کو لیتا ہوں جو اصولی ہیں اور بتاتا ہوں کہ قرآن کریم نے کس طرح دوسرے مذاہب یا فلسفیوں کے خیالات کی غلطیاں نکالیں اور اُن کی اصلاح کی ہے.پہلی بات جو مذہب کا سوال سامنے آتے ہی پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آیا اس دنیا کا کوئی خدا ہے یا یہ دنیا آپ ہی آپ ہے اور اس کو پیدا کرنے والا کوئی نہیں.اس بات کو قرآن کریم نے تسلیم کیا ہے کہ ایسے لوگ موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ خدا کوئی نہیں اور ان کے منبع علم کی بھی تشریح کی ہے مگر میں ان مثالوں کے متعلق صرف ایک ایک دلیل دونگا.تفصیل میں نہیں جاؤں گا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا ثَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنا إِلَّا الشَّهْرُ ، وَمَا لَهُمْ بِذلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ " یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایک مقررہ قاعدہ کے ماتحت مر رہے ہیں اور پیدا ہورہے ہیں ورنہ کوئی ایسی ہستی نہیں جو یہ کام کر رہی ہے.جو لوگ دہر یہ ہوتے ہیں اُن میں سے کئی ایسے ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے رد میں دلیلیں دینے لگ جاتے ہیں لیکن جو بڑے بڑے اور ہوشیار د ہر یہ ہوتے ہیں جیسے ہکسلے وغیرہ وہ یہ کہتے ہیں کہ کوئی دلیل خدا کے ہونے کی نہیں ملتی.چنانچہ ہکسلے سے پوچھا گیا کہ تیرا مذ ہب کیا ہے؟ تو اُس نے کہا یہ کہ میں نہیں جانتا.غرض ان کی بنیاد نفی پر ہے اور خدا تعالیٰ نے آج سے تیرہ سو سال قبل یہ بات بتادی ہے کہ وَمَا لَهُمْ بِذلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ خدا کے منکر صرف یہی
فصائل القرآن نمبر ۵ 279 بات کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا خیال ہے کہ خدا نہیں ہے.اس کے لئے کوئی مثبت دلیل اُن کے پاس نہیں ہوتی.صرف وہم اور گمان ہوتا ہے کہ خدا نہیں ہے اور نفی پر قطعیت کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی.یہ تو دہریت کا ذکر ہے.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ دہریت کو قرآن نے کس طرح رڈ کیا ہے مگر صرف ایک دلیل دونگا اور وہ یہ ہے کہ سورۃ جانیہ کے رکوع ۴ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلِلهِ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ هے کہ اس دنیا میں ایک ایسا بادشاہ نظر آرہا ہے جو آسمان اور زمین دونوں پر قابض ہے اور جس کی طاقتوں کا مظاہرہ ہمیشہ ہوتا رہتا ہے.اس جگہ آسمان سے شرعی نظام اور زمین سے طبعی نظام مراد ہیں اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ آسمانی یعنی شرعی اور زمینی یعنی طبیعی نظاموں میں ایک زبر دست اتحاد پایا جاتا ہے.جسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ سب کچھ اتفاق سے اور آپ ہی آپ ہے اگر طبعی نظام آپ ہی آپ ہے تو نبیوں کے کلام سے اُس کا تطابق کیوں ہوتا ؟ ان دونوں میں تو ایسا اتحاد ہے کہ اسے دیکھ کر کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ اس دنیا کو چلانے والا کوئی نہیں.یہ مشاہدہ اور نظام عالم کی دلیلیں میرے لیکچر د ہستی باری تعالیٰ میں تفصیل سے بیان ہو چکی ہیں.یعنی خدا کے کلام او طبیعی نظام کا آپس میں اتحاد جسے دیکھ کر کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ یہ سب کچھ آپ ہی آپ ہے تو نبیوں کے کلام سے اس کا تطابق کیوں ہوتا ہے؟ پس شرعی اور طبعی نظام کا ایک دوسرے کی تائید کرنا بلکہ طبعی نظام کا شرعی نظام کے تابع چلنا بتاتا ہے کہ اس دنیا کا چلانے والا کوئی ضرور موجود ہے.یہ دلیل مجموعہ ہے دلیل مشاہدہ اور دلیل نظام کا اور میرے نزدیک سب دلیلوں سے زیادہ مضبوط ہے.دلیل نظام یہ بتاتی ہے کہ سب دنیا ایک نظام کے نیچے ہے اور دلیل مشاہدہ یہ بتاتی ہے کہ شریعت اپنے ساتھ ثبوت رکھتی ہے اور ان دونوں دلیلوں کا مجموعہ یہ بتاتا ہے کہ دونوں نظام ایک دوسرے سے متحد ہیں اور یہ اتحاد سب سے بڑا ثبوت ہے ہستی باری تعالیٰ کا اس کے متعلق میں ایک مثال قرآن کریم سے ہی پیش کرتا ہوں اور بتا تا ہوں کہ آسمان کا نظام کس طرح زمینی نظام سے متفق ہوا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سو سال ہوئے دعوی کیا کہ میں خدا کی طرف سے ہوں.آپ نے دعویٰ کیا کہ زمین و آسمان پیدا کرنے والا ایک خدا ہے اور آپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ خدا
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 280 تعالیٰ کے نشانات میری تائید میں ہیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے ساتھ ہی وہ دنیا جو ایک نظام کے ماتحت چل رہی تھی اُس میں ایسے تغیرات رونما ہونے لگ جاتے ہیں جو آسمانی کلام کے ماتحت ہوتے ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دنیا اُسی ہستی کے احکام کے ماتحت چل رہی ہے جس کی طرف سے قرآن آیا.بعثت محمدی کے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دُعا اس کے ثبوت کے لئے کہ کس طرح آسمان اور زمین کی بادشاہت ایک ہستی کے ماتحت چل رہی ہے میں آج سے چار ہزار سال پیچھے جاتا ہوں.آج سے چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی بنیاد میں بلند کرتے ہوئے حضرت اسمعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر یہ دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَکیمُ یعنی اے خدا ہم تجھ سے یہ دُعا کرتے ہیں کہ اس ملک میں جو ہماری آئندہ نسل پھیلے گی.اُس میں سے تو ایک رسول بھیج جس کے یہ کام ہوں کہ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايتك وہ تیری آیات انہیں پڑھ کر سنائے.وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب شریعت کی باتیں انہیں سکھائے وَالْحِكْمَةَ اور احکام کی حکمتیں اُن پر واضح کرے ويز يہم اور انہیں پاک کرے اور بدیوں سے بچائے.یہ دعا چار ہزار سال پہلے ایسی جگہ پر کی گئی جہاں نہ غلہ پیدا ہوتا تھا اور نہ اور کسی قسم کی کھیتی.زمزم کا چشمہ جو نشان کے طور پر قائم ہوا اس کا پانی بھی کھاری ہے جسے ہندوستانی نہیں پی سکتے.اس کھاری پانی کے چشمہ کے پاس چند گھر آباد تھے.وہاں پتھروں کا ایک مکان بناتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب جو لوگ یہاں پیدا ہوں اُن میں تو اپنا ایک رسول بھیج جو تیری ہستی کے دلائل انہیں بتائے.لوگوں کو تیری شریعت سکھائے.اس شریعت کی حکمت یعنی باریکیاں بتائے کہ شریعت پر عمل کرنے کا کیا فائدہ ہے.پھر اُن کو پاک بنائے.اس دُعا پر اگر غور سے کام لیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مندرجہ ذیل امور کی خبر دی گئی ہے.
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 281 اوّل اس عرصہ تک کہ اس نبی کی بعثت کی ضرورت پیش آئے مکہ قائم رہے گا.اب طبعی صورت تو یہ ہے کہ آندھیاں آتی ہیں جو شہروں کے شہر برباد کر دیتی ہیں.زلزلے آتے ہیں جو بڑے بڑے شہروں کو تو دہ خاک بنا دیتے ہیں مگر یہاں پہلے سے خبر دے دی گئی کہ تمام قسم کے حادثات اس آبادی کو اُجاڑ نہ سکیں گے اور آخر ایسا ہی ہوا.دوسری بات یہ بتائی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کی نسل ہمیشہ قائم رہے گی کیونکہ کہا یہ گیا کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ.اس سے معلوم ہوا کہ اس رسول کے آنے تک حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل کی نسل موجود ہوگی.دنیا کے اکثر گھرانے ایسے ہوتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ تین چار سو سال تک اُن کی نسل چلتی ہے اور پھر مٹ جاتی ہے مگر حضرت ابراہیم اور اسمعیل کے متعلق یہ کہا گیا کہ دو ہزار سال تک یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنے تک اُن کی نسل بہر حال قائم رہے گی.بیماریوں پر یہ پیشگوئی حکومت کرے گی تا کہ وہ اس نسل کو تباہ نہ کرسکیں.لڑائیوں اور جنگوں پر یہ پیشگوئی حکومت کرے گی تا کہ وہ اس نسل کا خاتمہ نہ کریں.اسی طرح ہر قسم کے حادثات پر یہ پیشگوئی حکومت کرے گی تا کہ وہ اس نسل کو مٹانہ دیں.اولاد کی اولاد ہوتی چلی جائے گی اور یہ نسل ہمیشہ قائم رہے گی.تیسری بات اس سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ ابراہیم کی نسل میں سے ایک رسول آئے گا حالانکہ کوئی شخص دعوی کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اُس کی نسل میں کس قسم کے انسان پیدا ہونگے.چوتھی بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اس قوم کی کایا پلٹ دے گا اور وہ لوگ ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف منتقل ہو جائیں گے.کتنے لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کو پاک کر سکتے ہیں.ایک شاگردکو ایک استاد پاک نہیں کر سکتا.بوعلی سینا کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ایک دفعہ اپنے شاگردوں کو ایک کتاب پڑھا رہے تھے.پڑھتے پڑھتے ایک شاگرد نے کہا کہ آپ تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی بڑھ کر ہیں.بوعلی سینا مومن آدمی تھے مگر علم النفس کے ماہر تھے.انہوں نے سمجھا کہ ممکن ہے اِس وقت اگر میں اسے سمجھاؤں تو اس کی سمجھ میں بات نہ آئے اور یہ ضد میں اور گمراہ ہو جائے.اس لئے چپ رہے لیکن ایک دن جبکہ سردی کا موسم تھا اور تالاب کا پانی سخت سردی سے جما ہوا تھا انہوں نے اُس شاگرد سے کہا کہ کپڑے اُتارو اور تالاب میں کود پڑو.اُس نے کہا آپ یہ
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 282 کیسی احمقانہ بات کر رہے ہیں.کیا میں پانی میں کود کر مر جاؤں.انہوں نے کہا اُس دن تو تم مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑا کہہ رہے تھے اور آج اتنی بات بھی نہیں مانتے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ تھے کہ آپ کے ماننے والوں نے کبھی نہ کہا کہ ہم مر جائیں گے بلکہ آپ جو کچھ کہتے تھے فوراً اُس پر عمل کرتے خواہ موت سامنے نظر آتی اور خوشی خوشی آپ کے لئے جانیں دے دیتے.غرض یہ کتنی بڑی بات بتائی کہ وہ ایک دو کی نہیں بلکہ قوم کی قوم کی کایا پلٹ دے گا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے دو ہزار سال بعد مکہ موجود تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل موجود تھی.ہو سکتا تھا کہ نسل موجود ہوتی مگر انہیں پتہ نہ ہوتا کہ کس کی اولاد ہیں مگر خدا تعالیٰ نے ایسا انتظام کر دیا کہ بائیل میں بھی ذکر کر دیا کہ یہ ابراہیم کی نسل ہے.اس طرح اُن میں یہ احساس بھی قائم رکھا کہ وہ حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ہیں.پھر ان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اس قوم کی کایا پلٹ دی.حضرت موسی علیہ السلام کی پیشگوئی پھر ہم کچھ اور نیچے آجاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود پھر دنیا کے سامنے لایا جاتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام پر چھ سو سال گذرنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام ظاہر ہوتے ہیں اور وہ آپ کے متعلق خدا تعالیٰ کی یہ بات بتاتے ہیں کہ میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی بر پا کروں گا اور اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا.کلا اس سے ابراہیمی دُعا کی تصدیق کی گئی.حضرت اسحاق حضرت اسمعیل کے بھائی تھے اور حضرت موسیٰ حضرت اسحاق کی اولاد سے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسمعیل کی اولاد سے.گویا ان کے بھائیوں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑا کیا گیا اور اس طرح چھ سو سال کے بعد پھر ابراہیمی وعدہ کا تکرار کیا گیا.گویا اس میں پھر حضرت اسمعیل کی نسل کے قائم رہنے اور اُن میں سے ایک نبی کے مبعوث ہونے کی خبر دی جاتی ہے.پھر اُس شخص کے متعلق ایک اور امر بیان کیا جاتا ہے کہ :-
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ ” خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے اُن پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اُس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت اُن کے لئے تھی ،، 283 سینا وہی پہاڑ ہے جسے قرآن شریف میں طور کہا گیا ہے.اس سے حضرت موسی علیہ السلام کا ظہور مراد ہے.شعیر سے بعض نے حضرت مسیح مراد لئے ہیں مگر یہ اُن پہاڑوں کا نام بھی ہے جس میں سے گذر کر حضرت موسی آئے اور انہوں نے دشمن پر فتح پائی تھی.اس لئے یہاں بھی حضرت موسیٰ 66 علیہ السلام مراد ہیں.“ آگے فرماتا ہے فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا.“ اس میں بھی دو باتیں بتائی گئی ہیں.اول یہ کہ وہ فاران کے پہاڑ سے جلوہ گر ہوگا.دوم یہ کہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آئے گا.یہ دونوں باتیں ایک ہی وجود کے متعلق ہیں.جس طرح پہلی دو بھی ایک ہی کے متعلق ہیں.پھر بتا یا کہ آتشی شریعت اس کے ساتھ ہوگی.اس میں یہ خبر ہے کہ وہ فاران کی پہاڑیوں سے جو مکہ کے گرد کے پہاڑ ہیں دس ہزار قدوسیوں سمیت آئے گا اور آتشی شریعت اس کے ہاتھ میں ہوگی.اس پیشگوئی میں یہ بتایا گیا ہے کہ (۱) وہ نبی مکہ سے نکالا جائے گا کیونکہ پہلے بتایا کہ وہ مکہ میں پیدا ہو گا.پھر کہا کہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا.جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے وہ مکہ سے نکالا جائے گا (۲) یہ کہ کچھ عرصہ کے بعد وہ ایک لشکر کے ساتھ مکہ پر حملہ آور ہوگا.(۳) یہ کہ اس کے ساتھ دس ہزار سپاہی ہونگے.(۴) یہ کہ وہ لوگ قدوسی ہونگے یعنی ید کی ہم کے مصداق ہونگے.(۵) یہ کہ اُس کے ساتھ گناہ سوز شریعت ہوگی.یہ يُعَلِّمُهُمُ الكِتب وَالْحِكْمَةَ کا ترجمہ ہے.جب انسان کو معلوم ہو کہ فلاں حکم کے ماننے میں میرا فائدہ ہے تو اس پر عمل کرتا ہے.شریعت کا لفظ الکتب سے اور گناہ سوز کا مفہوم حکمت سے نکلتا ہے کیونکہ حکمت معلوم کرنے کے بعد انسان گناہ کے نزدیک جانے سے احتراز کرتا ہے.سب لوگ جانتے ہیں کہ اس پیشگوئی میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ پورا ہوا.فاران کی پہاڑیاں
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰ وو 284 تاریخی طور پر ثابت ہے کہ مکہ کی پہاڑیاں ہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرما یا کرتے تھے کہ وادی فاطمہ میں ( یہ لگتے اور مدینے کے درمیان ایک پڑاؤ ہے ) گل جذیمہ یعنی پنجہ مریم بیچنے والوں سے پوچھو کہ وہ پھول کہاں سے لاتے ہیں تو لڑکے اور بچے بھی یہی کہیں گے کہ من بَريَّة 19 فاران یعنی دشت فاران سے ! بائیبل میں بھی ایسے حوالے موجود ہیں.جن سے اشارہ ثابت ہوتا ہے کہ وادی فاران یہی ہے.حضرت سلیمان علیہ السلام کی پیشگوئی اس کے بعد اور چار سو سال گذرتے ہیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام آتے ہیں تو وہ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں گیت گاتے ہیں.چنانچہ فرماتے ہیں:- ”اے یروشلم کی بیٹیو! ( یعنی بنی اسرائیل) میں تمہیں قسم دیتی ہوں کہ اگر تمہیں میرا محبوب ( مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) مل جائے تو تم اُسے کہیو کہ میں عشق کی بیمار ہوں.وہ جواب دیتی ہیں :- تیرے محبوب کو دوسرے محبوبوں کی نسبت سے کیا فضیلت ہے.اے تو جو عورتوں میں جمیلہ ہے تیرے محبوب کو دوسرے محبوب سے کیا فضیلت ہے جو تو ہمیں ایسی قسم دیتی ہے.۲۱ اس پر وہ فرماتے ہیں:.میرا محبوب سُرخ و سفید ہے.دس ہزار آدمیوں کے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے.اُس کا سر ایسا ہے جیسے چوکھا سونا.اُس کی زلفیں پیچ در پیچ ہیں اور کوے کی سی کالی ہیں.اس کی آنکھیں اُن کبوتروں کی مانند ہیں جواب دریا دودھ میں نہا کے تمکنت سے بیٹھے ہیں.اُس کے رُخسار پھولوں کے چمن اور بلسان کی اُبھری ہوئی کیاریوں کی مانند ہیں.اُس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوا مر ٹیکتا ہے.اُس کے ہاتھ ایسے ہیں جیسے سونے کی کڑیاں جن میں ترسیس کے جواہر جڑے ہیں.اس کا پیٹ ہاتھی دانت کا
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 285 سا کام ہے جس پر نیلم کے گل بنے ہوں.اُس کے پیر ایسے جیسے سنگِ مرمر کے ستون جو سونے کے پائیوں پر کھڑے کئے جائیں.اُس کی قامت لبنان کی سی.وہ خوبی میں رشک سرو ہے.اُس کا مونہہ شیرینی ہے.ہاں وہ سرا پا عشق انگیز ہے ( عبرانی میں لکھا ہے وہ محمد تیم ہے ) اے یروشلم کی بیٹیو! یہ میرا پیارا یہ میرا جانی ہے.۲۲ گو یا حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اس امر کی تاکید کرتے ہیں کہ جب وہ محبوب آئے تو اُسے مان لینا اور پھر خود ہی سوال پیدا کر کے کہتے ہیں کہ اس میں یہ یہ خوبیاں ہونگی.ان آیات میں بعض باتیں تو شاعرانہ رنگ رکھتی ہیں اور بعض رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ سے قطعی طور پر ملتی ہیں.مثلاً لکھا ہے اُس کی زلفیں پیچ در پیچ ہیں.انگریزی بائیبل میں یہ الفاظ آتے ہیں.His" ".locks are wavy اور یہی حلیہ حدیثوں میں بیان ہوا ہے.چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.لَمْ يَكُنْ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالطَّوِيلِ الْمُمَّعْطِ وَبِالْقَصِيرِ الْمُتَرَدِّدِ وَكَانَ رَبْعَةً مِنَ الْقَوْمِ لَمْ يَكُنْ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالْسَبَطِ كَانَ جَعَدَارَ جِلًا " یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ تو بہت لمبے قد کے تھے.نہ بہت چھوٹے بلکہ آپ میانہ قد و قامت رکھنے والوں میں سے تھے.اسی طرح آپ کے سر کے بال نہ تو سخت گھنگھرالے تھے جیسے کے حبشیوں کے ہوتے ہیں اور نہ ہی بالکل سیدھے تھے بلکہ اس طرح کے گھنگھرالے تھے جس طرح کنگھی کرنے سے بال نیچے سے ذرا خمیدہ ہوجائیں اور مڑ جائیں.یہی حضرت سلیمان نے کہا کہ آپ کے بال لمبے ہونگے یعنی زلفیں ہونگی مگر بال کچھ پیچ دار ہو نگے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال کانوں کی لو تک آتے تھے.گویا لمبے بال ہونے کے ساتھ یہ بھی پیشگوئی تھی کہ بال نہ پیچدار ہونگے اور نہ بالکل سیدھے اور یہی حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں.پھر حضرت سلیمان آپ کا رنگ سُرخ و سفید بیان کرتے ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رنگ کے متعلق فرماتے ہیں ابیض مشرب اور مشرب کے معنے لغت والے یہ لکھتے ہیں کہ ایسا سفید رنگ جس میں شرفی ملی ہوئی ہو یا پھر حضرت سلیمان نے یہ فرمایا کہ وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہو گا.یعنی چھوٹے قد کا نہ ہوگا اور
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰ 286 رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بھی آتا ہے کہ آپ کا قد ایسا تھا جو لمبائی کی طرف مائل تھا.گویا حضرت سلیمان کی بیان کی ہوئی سب باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں تو اس قدر مشہور ہیں کہ لوگ ان کے متعلق شعر کہا کرتے ہیں.یسعیاہ نبی کی پیشگوئی اب ہم کچھ اور نیچے چلتے ہیں تو حضرت موسی علیہ السلام سے سات سو سال بعد اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تیرہ سو سال بعد یسعیاہ نبی کے زمانہ میں آتے ہیں.یہ پھر حضرت ابراہیم.حضرت موسیٰ اور حضرت سلیمان کی بات کو دہراتے ہیں.چنانچہ فرماتے ہیں:.”ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اس کے کاندھے پر ہوگی اور وہ اس نام سے کہلاتا ہے.عجیب.مشیر.خدائے قادر ابدیت کا باپ (انگریزی میں ہے Everlasting Father یعنی ہمیشہ رہنے والا باپ ) سلامتی کا شہزادہ.اس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہا نہ ہوگی.وہ داؤد کے تخت پر اور اس کی مملکت پر آج سے لیکر ابد تک بندو بست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اسے قیام بخشے گا.رب الافواج کی غیوری یہ کرے گی.ےہ اس میں بتایا کہ جب وہ رسول آئے گا تو لوگ کہیں گے عجیب ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لوگ کہا کرتے تھے.اِنَّا سَمِعْنَا قُرانا عجبا ^ ہم نے یہ کتاب سُنی ہے جو عجیب اور نرالی قسم کی ہے.متی باب ۲۱ آیت ۴۲ میں بھی حضرت مسیح نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام عجیب رکھا ہے.چنانچہ آتا ہے:.یہ خداوند کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب ۲۹ دوسری بات یہ کہی گئی تھی کہ اُس کا نام مشیر ہوگا.یعنی وہ مشورے دینے والا ہوگا.اب ہم دیکھتے ہیں.کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی ہے جس کے متعلق کہا گیا ہو کہ لوگ اُس سے مشورے لیتے تھے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰ 287 الرَّسُولَ فَقَدِمُوا بَيْنَ يَدَى نَجْوَبِكُمْ صَدَقَةً ذَلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَظْهَرُ ، فَإِنْ لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ - اے مومنو! تمہاری عادت ہے کہ تم رسول سے مشورے لیا کرتے ہو مگر رسول کا وقت بڑا قیمتی ہے.تمہیں چاہئے کہ جب مشورہ لوتو مسکینوں کے لئے صدقہ کیا کرو.یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہوگا اور اگر تم میں سے کوئی صدقہ نہ کر سکے تو اللہ اس کمزوری کو ڈور کرنے والا ہے.حدیثوں میں آتا ہے بعض اوقات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جارہے ہوتے تو کوئی بڑھیا آپ کو پکڑ کر کھڑی ہو جاتی کہ مجھے آپ سے مشورہ لینا ہے.مسجد میں بھی لوگ آپ سے مشورہ کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے.ایک دفعہ ایک شخص اتنی دیر آپ سے باتیں کرتا رہا کہ مسجد میں جولوگ نماز پڑھنے آئے تھے وہ سو گئے.اسے تیسرا نام خدائے قادر بتایا گیا ہے.توریت میں خدا کا لفظ مجازی معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.چنانچہ لکھا ہے.” پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا دیکھ میں نے تجھے فرعون کے لئے خدا سا بنایا ۲ متی باب ۲۱ آیت ۴۰ میں حضرت مسیح مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں.جب انگورستان کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا.“ وو گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنے کو حضرت مسیح نے خدا کا آنا بتا یا.اب ہم قرآن کریم میں دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ میں نے تجھے فرعون کے لئے خدا سا بنا یا اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا - ۳۳ یعنی جس طرح ہم نے موسیٰ کو فرعون کے لئے خدا سا بنا کر بھیجا تھا اسی حیثیت سے ہم نے تجھے دنیا کے لئے بھیجا ہے.چوتھا نام آپ کا ابدیت کا باپ بتایا گیا ہے.قرآن کریم میں آتا ہے النَّبِيُّ أولى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أَمَّهُتُهُمْ " یعنی نبی کا تعلق مومنوں کے ساتھ باپوں سے بھی زیادہ ہے اور اُس کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں مائیں ہوئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باپ ہوئے.سورۃ احزاب کے پانچویں رکوع میں آتا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 288 النبین ۳۵ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں تو کسی کے باپ نہیں لیکن روحانی باپ ہیں رسول ہونے کی وجہ سے اور ابدی باپ ہیں خاتم النبیین ہونے کی وجہ سے.پانچواں نام سلامتی کا شہزادہ بتایا گیا ہے.عبرانی میں بادشاہ کی جگہ شہزادہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں.اس کا اپنے الفاظ میں یہ مطلب ہوا کہ سلامتی کا بادشاہ اور سلامتی اسلام ہے.اس لئے اصل نام یہ ہوا کہ اسلام کا بادشاہ.خدا تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ سے یوں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بادشاہ تھے.فتح مکہ پر مکہ والوں کو آپ نے بلا کر کہا بتا ؤ اب تم سے کیا سلوک کیا جائے تو انہوں نے کہا آپ وہی سلوک کریں جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا.اس پر آپ نے فرما یا لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کے جاؤ تم پر کوئی گرفت نہیں.اس طرح بھی آپ نے سلامتی ہی دکھائی.پھر چھٹی بات آپ کے متعلق یہ بیان کی گئی ہے کہ داؤد کے تخت پر اور اس کی مملکت پر آج سے ابد تک بند و بست کر دیگا.یہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے متعلق پیشگوئی ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ شام اور فلسطین پر قبضہ انہیں حاصل ہوگا.پھر اُسی کتاب میں ہم عرب کی بابت الہامی کلام پڑھتے ہیں کہ عرب کے صحراء میں تم رات کاٹو گے.اے دوانیوں کے قافلو! پانی لے کے پیاسے کا استقبال کرنے آؤ.اے تیما کی سرزمین کے باشندو! روٹی لے کے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو کیونکہ وے تلواروں کے سامنے بنگی تلوار اور کھینچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں کیونکہ خداوند نے مجھ کو یوں فرمایا.ہنوز ایک برس ہاں مزدور کے سے ٹھیک ایک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیراندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا ۳۸ اس جگہ یہ پیشگوئی بیان کی کہ جو آنے والا نبی ہوگا جب وہ اپنے وطن سے نکالا جائے گا تو ہجرت کے ایک سال بعد اُس کی قوم اس پر حملہ کرے گی.ایک رات میدان میں سوئیں گے اور صبح کو جنگ ہوگی جس میں دشمن شکست کھائے گا اور اُس کے بڑے بڑے بہادر مارے جائیں گے یہ
فصائل القرآن نمبر ۵ 289 پیشگوئی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بدر کی جنگ سے پوری ہوئی.اب دیکھو اس میں کتنی باتیں بیان کی گئیں.اس میں بتایا گیا ہے کہ (۱) پہلے اس رسول کو مکہ والے اپنے شہر سے نکالیں گے اور (۲) پھر لڑائی کے لئے مکہ والے آئیں گے اگر وہی جس نے یسعیاہ پر یہ کلام نازل کیا تھا دنیا پر قابض نہ تھا اور دنیا اُس کے ہاتھ میں نہ تھی تو اُس نے کیوں اہل مکہ سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ سے نکلوایا اور ایک سال کے بعد کس نے ان کو حملہ کرنے کے لئے نکالا.(۳) پھر جب انہوں نے حملہ کیا تو اس حملہ میں سارے سردار شامل ہوئے.کہا جاتا ہے کہ مکہ کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جس کا کوئی نہ کوئی آدمی اس جنگ میں شریک نہ ہوا ہو (۴) پھر اس جنگ میں بڑے بڑے سردار مارے گئے.ان باتوں سے ظاہر ہے کہ خیالات پر اور تلواروں پر اُسی کا قبضہ تھا جس نے یسعیاہ کے ذریعہ یہ پیشگوئی کرائی تھی.مکہ میں اس جنگ کی وجہ سے ایسی تباہی آئی کہ ہر گھر میں ماتم برپا ہو گیا اور اس ڈر سے کہ لوگ دل نہ چھوڑ بیٹھیں اُن کو حکما رونے سے منع کر دیا گیا.ایک شخص کے تین بیٹے تھے اور وہ تینوں اس جنگ میں مارے گئے.وہ اندر چھپ چھپ کر روتا تھا مگر اُس کی تسلی نہ ہوتی تھی.ایک دن ایک شخص کا اونٹ گم ہو گیا اور وہ رونے لگ گیا.اس شخص نے اُس کے رونے کی آواز گن کر کسی سے کہا دیکھ کیا بین ڈالنے کی اجازت مل گئی ہے اور پھر فورا با ہر نکل کر پیٹنے لگ گیا اور زور زور سے بین ڈالنے لگا.غرض ہجرت کے عین ایک سال بعد بدر کی جنگ ہوئی اور اُس میں قیدار کے بڑے بڑے جنگ بجو اور بہادر مارے گئے اور شکست کھا کر بھاگے اور تیما جسے عرب تہامہ کہتے ہیں اس میں ماتم بر پا ہو گیا.پھر یسعیاہ نبی ہی کہتے ہیں :- ”دیکھ میں نے اسے قوموں کے لئے گواہ مقرر کیا بلکہ لوگوں کا ایک پیشوا اور فرمانروا.دیکھ تو ایک گروہ جسے تو نہیں جانتا بلا وے گا اور وے گرو ہیں تجھے نہیں جانتیں.خداوند تیرے خدا اور اسرائیل کے قدوس کے لئے جس نے تجھے جلال بخشا تیرے پاس دوڑتی آئیں گی.۳۹۰۷ اس میں یہ باتیں بتائیں کہ (۱) وہ لوگوں کے لئے گواہ ہوگا.(۲) لوگوں کے لئے پیشوا اور
فصائل القرآن نمبر ۵ 290 (۳) فرمانروا ہوگا (۴) ایسی قومیں اُس پر ایمان لائیں گی جنہوں نے بنی اسرائیل کے نام نہ سُنے ہوں گے اور نہ بنی اسرائیل نے اُن کے.لوگوں کے لئے گواہ ہونے کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے.هُوَ سلمكُم الْمُسْلِمِينَ ، مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاء عَلَى النَّاس " یعنی ہم نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے.اس زمانہ میں بھی اور پہلے بھی تا کہ یہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم باقی دنیا پر گواہ ہو اور اس رسالت کو قیامت تک لئے چلے جاؤ.گویا وہی الفاظ جو بائیبل میں آتے ہیں قرآن کریم میں بھی آئے ہیں.(۳-۲) پیشوا اور فرمانروا کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله - لا یعنی اے لوگو! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری فرمانبرداری اختیار کرو.میں تمہارا پیشوا اور فرمانروا ہوں.چوتھی بات یہ بیان فرمائی کہ دوسری قو میں اس رسول پر ایمان لاویں گی.سو اس کے متعلق بھی قرآن کریم میں آتا ہے.قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ (اعراف: ۱۵۹) یعنی تو ساری دنیا سے کہہ دے کہ میں تم سب کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں.اب دیکھ لو ہم میں سے کوئی کسی قوم کا ہے اور کوئی کسی قوم کا اور یہ تو میں نہ عربوں کو جانتی تھیں اور نہ عرب انہیں جانتے تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں سب ایک ہوگئی ہیں.پھر یسعیاہ باب ۶۲ آیت ۲ تا ۵ میں ہی لکھا ہے :- تب قو میں تیری راستباری اور سارے بادشاہ تیری شوکت دیکھیں گے اور تو ایک نئے نام سے کہلایا جائے گا جو خداوند کا مونہہ خود تجھے رکھ دے گا اور تو حفیظاہ کہلائے گی اور تیری سر زمین بعولاہ کیونکہ خدا وند تجھ سے خوش ہے اور تیری زمین خاوند والی ہوگی ،،۲۲ اس میں بتایا گیا ہے کہ آنے والے موعود کے زمانہ میں اُس کی قوم حفیظاہ کہلائے گی اور اُس کی زمین بعولاہ.سارے بادشاہ اس کی شوکت دیکھیں گے اور اُس کا نیا نام رکھا جائے گا.
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ پھر لکھا ہے:- 291 تب وہ مقدس قوم اور خداوند کے چھڑائے ہوئے کہلائیں گے اور تو مطلوبہ کہلائے گی اور وہ شہر جو ترک کیا نہ گیا.۴۳ یہ سب باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پائی جاتی ہیں.مثلاً (۱) کہا گیا ہے کہ وہ ایک نئے نام سے کہلائے گا.جسے خداوند کا مونہہ خو درکھ دے گا.چنانچہ یہ نیا نام اسلام ہے جو خدا تعالیٰ نے خود رکھا اور ارشاد فرمایا کہ هُوَ سَلَكُمُ الْمُسْلِمِین خدا نے خود تمہارا نام مسلم رکھا ہے.حقیقت یہی ہے کہ اسلام کے سوا کوئی مذہب ایسا نہیں جس کا نام خدا نے رکھا ہو.نہ موسوی مذہب کا کوئی نام رکھا گیا اور نہ عیسوی مذہب کا بلکہ اُن کے پیروؤں کو بھی کبھی اپنا نام نہ سوجھا مگر یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا خود نام رکھے گا اور یہ بات صرف اسلام میں ہی پائی جاتی ہے.دوسری بات یہ بتائی کہ اس کی قوم کو خدا کی خوشنودی حاصل ہوگی.چنانچہ آتا ہے کہ وہ قوم حفیظاہ کہلائے گی.یہ عبرانی لفظ ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تم سے راضی ہوا اور قرآن کریم میں آتا ہے.وَالشَّبِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهْجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ - " یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والے وہ جو ابتداء میں ہی جلد ایمان لے آئے اور مہاجرین اور انصار بھی جو بعد میں آئے.اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے.گویا قرآن صرف یہی نہیں کہتا کہ خدا مسلمانوں سے خوش ہوا بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ بھی خدا سے خوش ہوئے.تیسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ اُس کا گھر بعدلاہ کہلائے گا.یعنی اُس کی حفاظت کی جائے گی اور اُس کی زمین خاوند والی کہلائے گی.یعنی کبھی تباہ نہ ہوگی.اس کے متعلق بھی قرآن کریم میں آتا والطورِ وَ كِتَبٍ مَّسْطُورٍ في رَقٍ مَّنْشُورٍ وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعَ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ فرمایا ہم قسم کھا کر کہتے ہیں طور کی یعنی طور کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کتاب کو بھی بطور شہادت پیش کرتے ہیں جو لکھی ہوئی ہے اور ہمیشہ لکھی جائے گی اور اس خانہ کعبہ کی بھی قسم کھاتے ہیں جو ہمیشہ معمور رہے گا اور دُور دُور سے لوگ اس کی طرف آتے رہیں گے اور اس چھت کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو ہمیشہ بلند
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 292 رہے گی.یعنی اس کی عزت ہمیشہ قائم رہے گی.گویا بتا یا کہ نہ صرف یہ گھر ہمیشہ معمور رہے گا اور کروڑوں انسان اس سے تعلق رکھیں گے بلکہ بلند و بالا لوگ تعلق رکھیں گے اور اس کی عزت قیامت تک قائم رہے گی.غرض قرآن نے یہ خبر دی کہ بیت اللہ قائم رہے گا.اس سے اعلیٰ درجہ کے لوگ تعلق رکھیں گے اور مکہ سے تعلق رکھنے والی کتاب کا چشمہ کبھی ختم نہ ہو گا.چوتھی بات یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قوم ہمیشہ مقدس کہلائے گی.قرآن کریم کا یہ بھی دعوی ہے چنانچہ فرمایا.بِأَيْدِى سَفَرَةٍ كِرَامٍ بَرَرَةٍ ي قرآن ایسے لوگوں کے ہاتھ میں رہے گا جو بڑے معزز اور اعلیٰ درجہ کے نیکو کار ہونگے.ممکن ہے کوئی کہے کہ بعض اوقات خرابی بھی تو آسکتی ہے.پھر یہ کتاب ہمیشہ مقدس لوگوں کے ہاتھ میں کیسے رہی.سو قرآن نے اس کا جواب بھی دے دیا ہے کہ.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِينٍ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ، وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.ع فرمایا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو خدا نے امیوں میں رسول بنا کر بھیجا ہے.تا کہ وہ ان کو اللہ کی آیتیں سنائے اور پاک کرے اور کتاب کی تعلیم دے اور حکمت سکھائے.اس کے بعد جب مسلمانوں میں خرابی پیدا ہوگی تو وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِم خدا اس رسول کو ایک دوسری قوم میں بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں گویا یہ قوم ہمیشہ مقدس کہلائے گی کیونکہ اس میں اصلاح کرنے والے آتے رہیں گے.پانچویں بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ خداوند کے چھڑائے ہوئے کہلائیں گے.قرآن کریم میں بھی آتا ہے.وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ (الاعراف: ۱۵۸) یعنی دنیا کی گردنوں میں طوق اور پاؤں میں زنجیریں اور بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم نے اس لئے بھیجا ہے کہ اُن بیٹریوں کو کاٹ دے اور لوگوں کو ان بندھنوں سے نجات دے.اس طرح وہ چھڑائے ہوئے کہلائیں گے.چھٹی بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ بستی مطلوبہ کہلائے گی.قرآن کریم بھی فرماتا ہے وَلِلهِ عَلَی النَّاسِ سُجُ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا " یعنی قیامت تک کے لئے یہ بات
فصائل القرآن نمبر....۵ مقرر کر دی گئی ہے کہ جسے طاقت ہو وہ اس بستی میں جائے اور حج کرے کہ یہ بستی مطلوبہ ہے.حبقوق نبی کی پیشگوئی پھر ہم اور آگے چلتے ہیں.تو حبقوق نبی فرماتے ہیں :- 293 ”خدا تیمان سے اور وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آیا.سلاہ اس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اس کی حمد سے معمور ہوئی.مری اس کے آگے آگے چلی اور اُس کے قدموں پر آتشی و باروا نہ ہوئی.وہ کھڑا ہوا اور اُس نے زمین کولر ز ادیا.اس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا اور قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اس کے آگے دھنس گئیں.اُس کی قدیم را ہیں یہی ہیں.میں نے دیکھا کہ کوشان کے خیموں پر بہت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ جاتے تھے.سورج اور چاند اپنے اپنے مکان میں ٹھہر گئے.تیرے تیروں کی روشنی کے باعث جو اڑے اور تیرے بھالے کی چمکا ہٹ کے سبب تو قہر کے ساتھ زمین پر کوچ کر گیا.تو نے نہایت غصے ہو کے قوموں کو روند ڈالا ہے.تو اپنی قوم کو رہائی دینے کے لئے ہاں اپنی ممسوح کو رہائی دینے کے لئے نکل چلا.تو بنیاد کوگردن تک ننگا کر کے شریر کے گھر کے سر کو کچل ڈالتا ہے.سلاہ تو نے اس کے سرداروں میں سے اُسے جو عالی درجہ کا تھا اُسی کے بھالوں سے مار ڈالا.وہ مجھے پراگندہ کرنے کو آندھی کی طرح نکل آئے.اُن کا فخر یہ تھا کہ مسکینوں کو ہم چپکے نگل جاویں....ہر چند انجیر کا درخت نہ پھولے اور تاکوں میں میوے نہ لگیں...تس پر بھی خداوند کی یاد میں خوشی کرونگا.میں اپنی نجات کے خدا کے سبب خوش وقت ہونگا.۲۹ اس میں پہلی پیشگوئی تو یہ کی گئی ہے کہ خدا تیمان سے ظاہر ہوا.تیمان کے معنے عبرانی مفتر جنوب کی سرزمین کے کرتے ہیں اور عرب فلسطین سے جنوب کی طرف ہی ہے لیکن عرب لوگ ایک وادی کو وادی تہامہ کہتے ہیں اور مکہ کو اس وادی تہامہ میں شامل سمجھتے ہیں.قاموس میں لکھا ہے.وَتِهَامَةُ بِالْكَسْرِ مَكَةٌ شَرَّفَهَا اللهُ تَعَالَى وَاَرْضُ مَّعْرُوفَةٌ.ع یعنی تہامہ سے مراد مکہ
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 294 مکرمہ ہے اللہ تعالیٰ اس کے شرف کو بڑھائے اور ایک معروف زمین بھی ہے.تاج العروس میں لکھا ہے.وَمِنْ أَسْمَائِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَهَامِيُّ لِكَوْنِهِ ولد بمكة الے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے ایک نام تہامی بھی ہے کیونکہ آپ کی ولادت مکہ میں ہوئی.بائیل والے تیمان کو صرف جنوبی علاقہ قرار دیتے ہیں اور تیا کو حضرت اسمعیل کا ایک بیٹا قرار دیتے ہیں جو عرب میں آباد تھا.پس گو وہ مکہ کو تہامہ نہ قرار دیں لیکن عرب کا ایک حصہ ہونے سے انہیں بھی انکار نہیں ہوسکتا اور یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک وقت ایک قوم ایک جگہ آباد ہو اور پھر اُٹھ کر ذرا ہٹ کر دوسری جگہ بس گئی ہو.دوسرے یہ ذکر ہے کہ وہ فاران سے ظاہر ہوا اور فاران بھی حضرت اسمعیل کے ایک بیٹے کا نام ہے اور وہ بھی عرب میں تھا.اُن کے علاقہ کو یوروپین جغرافیہ والے تسلیم کرتے ہیں کہ عرب میں تھا گو اسے بھی فلسطین کے پاس پاس بتاتے ہیں لیکن اس بارہ میں خود عربوں کی شہادت زیادہ معتبر تسلیم کی جائے گی یہ نسبت دوسری قوموں کے اور عرب لوگ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیانی جنگل کو بڑیہ فاران کہتے ہیں.چنانچہ جیسا کہ بتایا جا چکا ہے وادی فاطمہ نامی پڑاؤ پر اگر پنجہ مریم بیچنے والوں سے پوچھا جائے کہ تم یہ کہاں سے لائے ہو تو یہی کہتے ہیں کہ ہم بڑ یہ فاران یعنی دشت فاران سے لائے ہیں.تاج العروس میں لکھا ہے وَفِي الْحَدِيثِ ذُكِرَ جِبَالُ فَارَانَ وَهُوَ اسْم لِجِبَالِ مَكَّةَ بِالْعِبران " کہ حدیث میں فاران کے پہاڑوں کا جو ذکر آتا ہے.اس سے مراد مکہ کی پہاڑیاں ہیں اور یہ نام عبرانی میں مستعمل ہے.پھر دوسری اور تیسری پیشگوئی یہ ہے کہ آسمان اُس کی شوکت سے پچھپ گیا اور زمین اُس کی حمد سے معمور ہوگئی.یہ پیشگوئی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے پوری ہوئی.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ وَمَلبِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيما.۳ یعنی اللہ اور اُس کے ملائکہ اس نبی پر آسمان سے درود بھیج رہے ہیں.اس لئے اے مومنو! تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجو.گویا آسمان آپ کی شوکت پ گیا.حدیث میں آتا ہے آسمان میں ایک بالشت بھر جگہ بھی ایسی نہیں جہاں ملائکہ نہ ہوں اور چونکہ سب کے سب ملائکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج رہے ہیں.اس لئے رسول کریم b
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 295 صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شوکت سے سارا آسمان چھپ گیا.آگے بتایا کہ ہم نے بھی زمین کو اس کی حمد سے معمور کرنا ہے اس لئے اے مسلمانو! اب تمہارا کام یہ ہے کہ تم اس نبی پر درود و سلام بھیجو.آسمان کی شوکت کے متعلق ہمارا کام تھا وہ ہم نے کر دیا.اب زمین کو حد سے معمور کرنا تمہارے سپرد ہے.تم اُٹھتے بیٹھتے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو اور اس طرح صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تسليما پر عمل کرو.غرض دونوں باتیں پوری ہو گئیں.آسمان سے فرشتے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اور زمین پر مسلمان اور پھر زمین کا وہ کونسا حصہ ہے جہاں مسلمان نہیں ہیں.اس پھر طرح زمین بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمد سے معمور ہوگئی.چوتھی پیشگوئی یہ بیان کی کہ مری اس کے آگے آگے چلی.اس کے معنے یہ ہیں.کہ جدھر اُس نے توجہ کی اُدھر ہی دشمن ہلاک ہو گئے.یہ پیشگوئی حضرت عیسی پر چسپاں نہیں ہو سکتی کیونکہ مری اُن کے آگے نہ چلی بلکہ بقول عیسائیاں وہ مری کے آگے چلے.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ وہ دشمنوں سے بچائے گئے لیکن عیسائی کہتے ہیں اُن کے دشمنوں نے انہیں صلیب پر مار دیا.پانچویں پیشگوئی یہ کی گئی ہے کہ اُس کے قدموں پر آتشی و با روانہ ہوئی.بائیبل کے مفتر کہتے ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہاں جائے گا وبا آئے گی مگر خدا کے کسی مقدس کی یہ علامت نہیں ہوتی.بعض بائیمیل کے نسخوں میں خصوصا عربی نسخوں میں لکھا ہے.وَعِنْدَ رِجُلَيْهِ خَرَجَتِ ے کہ اس کے پاؤں کے پاس سے بخار نکل گیا.یعنی جہاں اُس کا پاؤں پڑے گا وہاں سے بخار نکل جائے گا.گویا آتشی وبا سے مراد بخار ہے.یہ بات بھی رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کے متعلق نہایت وضاحت سے پوری ہوئی.حدیثوں میں آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں بخار کی بڑی شدت تھی.حتی کہ اسے یثرب اسی لئے کہتے تھے کہ وہاں ملیریا بخار بڑی شدت سے ہوتا تھا.جب صحابہ وہاں ہجرت کر کے گئے تو سب کو بخار آنے لگا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بڑی تکلیف ہوئی.قرآن کریم میں بھی مدینہ کا نام یثرب آتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذْ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ يَأَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا ، اور یثرب کے معنے عیب اور ہلاکت کے ہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لے گئے اور صحابہ بخار سے بیمار ہو گئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں.
فصائل القرآن نمبر....۵ 296 رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گھبراہٹ پیدا ہوئی اور آپ نے یہ دُعا کی کہ اللَّهُمَّ الْعَنْ شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ وَعُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلْفِ كَمَا أَخْرَجُوْنَا مِنْ اَرْضِنَا إِلَى أَرْضِ الْوَبَاءِ اے خدا! شیبہ بن ربیعہ اور عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف کو تباہ کر جنہوں نے ہمیں مکہ کی زمین سے نکال کر بخار کی سرزمین میں پہنچا دیا.پھر فرمایا.صَحَحُهَا لَنَا وَ انْقُلْ حُمَّاهَا إِلَى الْجُحْفَةِ ^ یعنی اے خدا ! میں دُعا کرتا ہوں کہ تو یہاں سے بخار کو نکال دے اور مُجفہ کی طرف بھیج دے.حدیثوں میں آتا ہے کہ اس کے بعد مدینہ سے بخار دُور ہو گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اب اسے میٹرب نہ کہو کیونکہ اس میں عیب اور سزا اور ڈانٹ کے معنے پائے جاتے ہیں بلکہ اسے طیبہ کہو.وہ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ میں تشریف لے جانے سے وہاں سے بخار نکل گیا اور اس کی ہوا آج تک نہایت اعلیٰ سمجھی جاتی ہے.یہ خبر تھی جو اس پیشگوئی میں دی گئی تھی.چھٹی پیشگوئی یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کھڑا ہوا اور اُس نے زمین کو لرزا دیا.اس کے ایک تو ظاہری معنے ہیں.وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو یہ لکھا گیا ہے اس میں ایک بات یہ بیان کی گئی ہے کہ إِذَا مَشَى تَقَلَّعَ كَانَمَا يَنحَطُّ فِی صَبَب " جب آپ چلتے تو آپ کا پاؤں زمین پر اس طرح پڑتا کہ گویا پاؤں دھنس گیا ہے.- دوسرے معنے لرزانے کے یہ ہیں کہ آپ کا بے حد رعب تھا.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں.نصرت بالرعب مسيرة شهر یعنی ایک ایک مہینہ کے فاصلہ تک کے لوگ آپ کے رعب سے لرزتے تھے.قرآن کریم میں بھی یہ ذکر آتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ : مَا ظَنَنْتُمْ أَن تَخْرُجُوا وَظَنُّوا أَنَّهُمْ مَّا نِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللهِ فَأَتْهُمُ اللهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ وَايْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَأُولِي الْأَبْصَارِ فر ما یا وہ خدا ہی ہے جس نے اہل کتاب کے کفار کو اُن کے گھروں سے نکالا تمہیں گمان تک نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے.وہ بھی کہتے تھے کہ ہمارے قلعے ہمیں بچالیں گے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رُعب نے اُن کو تباہ کر دیا.وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں کو تباہ کرنے لگے اور وہ بھاگ گئے.ܢܶܐ ق
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 297 غرض اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ طاقت عطا کی کہ جہاں دشمن کے مقابلہ کے لئے جاتے لوگ آپ کے رُعب سے لرز جاتے.ساتویں پیشگوئی یہ بیان کی گئی ہے کہ اُس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تو میں اُس پر چڑھ آئیں گی لیکن جب وہ مقابلہ کرے گا تو بھاگ جائیں گی.جنگ احزاب کے موقعہ پر ایسا ہی ہوا جس کے متعلق سَيُنْزَهُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ النُّبُرَ ے میں پہلے ہی بتادیا گیا تھا کہ تو میں جمع ہو کر حملہ کریں گی پھر بھاگ جائیں گی.آٹھویں پیشگوئی یہ کی گئی کہ قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اُس کے آگے دھنس گئیں.پہاڑ سے مراد بڑے بڑے آدمی، بادشاہ اور حکمران ہوتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ میں جب قیصر و کسریٰ آئے تو کس طرح اُن کا نام و نشان مٹ گیا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ عَذَابَ رَبَّكَ لَوَاقِعُ مَّالَهُ مِنْ دَافِعِ يَوْمَ تمورُ السَّمَاءُ مَوْرًا وَنَسِيرُ الْجِبَالُ سَيْرًا فَوَيْلٌ يَوْمَبِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ " کہ ہم اسلام کی ترقی کے متعلق جن باتوں کی خبریں دے رہے ہیں وہ ہو کر رہیں گی.کوئی انہیں روک نہیں سکتا.جب آسمان لرزہ کھا کر پھٹ جائے گا اور پہاڑا اپنی پوری رفتار کے ساتھ چلیں گے.اس دن جھٹلانے والوں پر خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا.گویا قرآن بھی اس پیشگوئی کی تائید کرتا ہے.معلوم ہوتا ہے لوگوں کو بھی حقوق نبی کی اس پیشگوئی کا خیال تھا کیونکہ قرآن کریم میں قیامت کا نقشہ کھینچتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَقَدْ آتَيْنَكَ مِنْ لَّدُنَا ذِكْرًا مَنْ أَعْرَضَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَحْمِلُ يَوْمَ الْقِيمَةِ وِزْرا 10 کہ ہم نے تمہیں یہ قرآن دیا ہے جو اس کا انکار کرے گا قیامت کے دن سزا پائے گا.اس کے بعد فرماتا ہے : وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا لَّا تَرَى فِيْهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا يَوْمَةٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا همشان یعنی کہتے ہیں کہ پہاڑوں کا کیا حال ہوگا تو کہہ دے کہ میرا رب ان کو اکھیڑ کر پھینک دے گا اور ان کو ایک ایسے چٹیل میدان کی صورت میں چھوڑ دے گا کہ نہ تو اس میں کوئی موڑ دیکھے گا اور نہ کوئی اونچائی.اُس دن لوگ بچے امام کے پیچھے چل پڑیں گے.جس کی تعلیم میں کوئی بھی نہ ہوگی
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 298 اور آواز میں خدائے رحمان کے لئے دب جائیں گی.یعنی ادب والی آواز کے سوا تم کوئی اور آواز نہ سنو گے.مفترین کہتے ہیں ان آیات کا یہ مطلب ہے کہ قیامت کے دن پہاڑ اُڑائے جائیں گے مگر یہاں پہلے قیامت کا ذکر آچکا ہے جس میں بتایا ہے کہ اُس وقت زمین و آسمان نہ رہیں گے اور جب زمین و آسمان نہ رہیں گے تو پھر پہاڑوں کے علیحدہ ذکر کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ جب یہ دعویٰ کیا گیا کہ اسلامی حکومت قائم ہوگی تو اُس کے متعلق سوال کیا گیا کہ یہ اتنی بڑی بڑی موجودہ حکومتیں کہاں جائیں گی.اس کے جواب میں بتایا کہ تباہ ہو جائیں گی.پھر يَتَّبِعُونَ الداعی بھی بتاتا ہے کہ یہاں مراد اگلا جہان نہیں کیونکہ مومن تو اس جہان میں بھی ایسے داعی کے پیچھے ہوتے ہیں اور کافروں کے متعلق آتا ہے کہ وہ آخرت میں ساتھ جانا چاہیں گے تو انہیں واپس کر دیا جائے گا اور پھر فرمایا ہے.مَن كَانَ في هذة أعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا.کلا کہ جو اس دنیا میں اندھا ہے.وہاں بھی اندھا ہو گا.اُس وقت کفار کہاں ایمان لائیں گے وہ تو وہاں بھی گمراہ ہی ہونگے.پھر داعی کے پیچھے کیونکر چلیں گے.پس مراد یہی ہے کہ ان حکومتوں کو تباہ کر دیا جائے گا اور جو لوگ اس وقت دشمن ہیں وہ ایمان لے آئیں گے.چنانچہ جب مکہ فتح ہوا تو سارے دشمن ایمان لے آئے.پس جبال سے مراد بڑے آدمی اور سردارانِ قوم اور سلاطین ہیں کہ جن کے مارے جانے اور جن کے نظام کو توڑ دیئے جانے پر اسلام کی اشاعت مقدر تھی.نویں پیشگوئی یہ بیان کی گئی کہ میں نے دیکھا کہ کوشان کے خیموں پر بہت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ جاتے تھے.عربی بائیل میں بہت کی جگہ بلیہ یعنی مصیبت لکھا ہے اور پردے کانپ جاتے تھے کی جگہ انگریزی میں Did tremble کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کوشان کیا ہے.بائیل والے کہتے ہیں کہ کوشان کے معنے کوش میں رہنے والا قبیلہ ہے جو عراق عرب کے ایک علاقہ کا نام ہے.بائیبل میں یہ بھی لکھا ہے کہ نمرود کے باپ کا نام کوش تھا اور تاریخ سے ثابت ہے کہ کوش قبیلہ کے لوگ چھ سو سال تک عراق پر حکومت کرتے رہے.مدیان شمالی عرب کا ساحل سمندر کے پاس کا ایک شہر ہے جو مصر سے شام یا عرب کو جاتے ہوئے
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 299 راستہ میں پڑتا ہے.قرآن کریم میں اُسے مدین کہا گیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں یہ حکومت قیصر میں شامل تھا اور شام کے صوبہ کے نیچے تھا.ان دونوں ملکوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں حملہ ہوا اور دونوں حکومتوں کو تباہ کر کے اسلامی حکومت قائم کر دی گئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فتح در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی فتح تھی کیونکہ آپ نے فرمایا قیصر و کسری کے خزانوں کی گنجیاں مجھے دی گئی ہیں اور جنگ احزاب کے موقع کے متعلق روایت آتی ہے کہ ایک پتھر نہیں ٹوٹتا تھا صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آکر عرض کیا کہ ایک پتھر نہیں ٹوٹتا.آپ تشریف لائے.فَقَالَ بِسم الله ثُمَّ ضَرَبَ ضَرَبَةً فَكَسَرَ ثَلَثَهَا وَقَالَ اللهُ أَكْبَرُ أعْطِيَتْ مَفَاتِيحَ الشَّامِ وَاللَّهِ إِلَىٰ لَأَبْصَرَ قُصَوْرَهَا الْحُمْرَ السَّاعَةَ ثُمَّ ضَرَبَ الثَّانِيَةَ فَقَطَعَ الثّلُثَ الْآخِرَ فَقَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ أَعْطِيتُ مَفَاتِيحَ فَارِسَ وَاللهِ اِنّى لَا بَصَرَ قَصْرَ الْمَدَائِنِ الْأَبْيَضَ ثُمَّ ضَرَبَ الثَّالِثَةَ وَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ فَقَطَعَ بَقِيَّةُ الحَجَرِ فَقَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ أَعْطِيتُ مَفَاتِيحَ الْيَمَنِ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَبْصَرُ أَبْوَابَ صَنْعَاءِ مِنْ مَكَائِي هَذَا السَّاعَةَ " یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ کہہ کر گدال اپنے ہاتھ میں لی اور اُسے زور سے پتھر پر مارا تو اس میں سے آگ کا ایک شعلہ نکلا اور پتھر کا تیسرا حصہ ٹوٹ گیا.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور فرمایا اللہ الخبز.مجھے حکومت شام کی کنجیاں دے دی گئی ہیں اور خدا کی قسم میں اُس کے سُرخ محلات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں.پھر دوسری دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گدال کو پتھر پر مارا تو پھر اُس میں سے ایک شعلہ نکلا اور پتھر کا ایک اور حصہ ٹوٹ گیا.اس پر پھر آپ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور فرمایا اللہ اکبر.مجھے ایران کی گنجیاں بھی دے دی گئی ہیں اور خدا کی قسم میں مدائن کے سفید محلات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں.پھر آپ نے تیسری دفعہ گدال ماری جس سے پھر اُس میں سے ایک شعلہ نکلا اور باقی پتھر بھی ٹوٹ گیا.اس پر آپ نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا اور فرمایا اللہ اکبر.مجھے یمن کی کنجیاں بھی دے دی گئی ہیں اور خدا کی قسم میں صنعاء کے دروازے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں.غرض حبقوق نبی کی پیشگوئی میں یہ خبر دی گئی تھی کہ آنے والا شام ، عراق اور مدائن کو فتح کر لے گا.قرآن کریم بھی ان جنگوں کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتا ہے: قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ مِن
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰ 300 الْأَعْرَابِ سَتَدَعَوْنَ إلى قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ، فَإِنْ تُطِيعُوا يُؤْتِكُمُ اللهُ أَجْرًا حَسَنًا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُمْ مِنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا آلتیما 29 یعنی اعراب میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑے گئے ہیں تو اُن سے کہہ دے کہ تم ضرور ایک ایسی قوم سے جنگ کرنے کے لئے بلائے جاؤ گے جوفنون جنگ میں بڑی ماہر ہے اور تم اُن سے اُس وقت تک جنگ جاری رکھو گے جب تک کہ وہ ہتھیار پھینکنے پر مجبور نہ ہو جائیں اور مسلمان نہ ہو جائیں.پس اگر تم اُس وقت خدا کی آواز پر لبیک کہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو بڑا اچھا اجر دے گا اور اگر تم اس حکم سے روگردانی اختیار کرو گے جس طرح تم نے اس سے پہلے روگردانی کی تھی تو اللہ تعالیٰ تم کو دردناک عذاب دے گا.اس آیت میں یہ خبر دی گئی تھی کہ اب عرب کی جنگ تو ختم ہوئی اب باہر سے اور قو میں آئیں گی جو ان سے بھی زیادہ لڑنے والی ہونگی اور اُن سے تمہارا مقابلہ ہو گا مگر ان جنگوں کا بھی آخری نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جائیں گے.اس سے معلوم ہوا کہ عرب سے باہر بھی جنگیں ہونی ضروری تھیں.چنانچہ قیصر و کسری کے ساتھ اسلامی فوجوں کی جنگیں ہوئیں اور خدا تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ بخشا.دسویں پیشگوئی یہ بیان کی گئی ہے کہ سورج اور چاند اپنے اپنے مکان میں ٹھہر گئے.تیرے تیروں کی روشنی کے باعث جو اُڑے اور تیرے بھالے کی چھ کا ہٹ کے سبب تو قہر کے ساتھ زمین پر کوچ کرے گا.تو نے نہایت غصے ہو کر قوموں کو روند ڈالا ہے." سورج اور چاند کا ٹھہر جانا یہ محاورہ ہے روحانی اور جسمانی سلسلوں کے نظام کے ٹوٹ جانے کا.سورج دنیوی اور چاند رُوحانی سلسلوں کا نشان ہے.جب خبیر فتح ہوا اور حضرت صفیہ کی شادی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوئی تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا مجھے پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ میری شادی آپ سے ہوگی.آپ نے فرمایا.کس طرح ؟ انہوں نے کہا ئیں نے خواب میں دیکھا تھا کہ چاند میری گود میں آگرا ہے.اس کا ذکر میں نے اپنے باپ سے کیا تو اُس نے مجھے تھپڑ مارا اور کہا تو عرب کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے.کے پس چاند سے مراد مذہبی حکومت ہے اور سورج سے مراد دنیوی حکومت.مطلب یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
فصائل القرآن نمبر ۵ 301 وسلم سے پہلے کے رُوحانی اور جسمانی دونوں نظام ٹوٹ جائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.دونوں سابقہ نظام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد ٹوٹ گئے.روحانی طور پر سب فیض آپ کے سلسلہ کے بعد بند ہو گئے اور جسمانی طور پر آپ کے اتباع نے سب حکومتوں کو خواہ کسی ملک کی تھیں تباہ کر دیا اور دنیا کا نظام ہی بدل ڈالا.بائیبل کی اگلی آیت اس کی تفسیر ہے.گیارہویں پیشگوئی یہ کی گئی ہے کہ " تو اپنی قوم کو رہائی دینے کے لئے ہاں اپنی ممسوح کو رہائی دینے کے لئے نکل چلا.تو بنیاد کو گردن تک تنگا کر کے شریر کے گھر کے سر کو کچل ڈالتا ہے.تو نے اُس کے سرداروں میں سے اُسے جو عالی درجہ کا تھا اُسی کے بھالوں سے مارڈالا.وہ مجھے پراگندہ کرنے کے لئے آندھی کی طرح نکل آئے.اُن کا فخریہ تھا کہ مسکینوں کو ہم چپکے نگل جائیں.“ اس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ موعود جنگ کے لئے نکلے گا تا کہ اپنی کمزور قوم کو ظالموں سے رہائی دلائے اور اس میں یہ بھی بتایا کہ دشمن بھی جنگ کے لئے نکلے گا کیونکہ لکھا ہے کہ وہ پراگندہ کرنے کے لئے آندھی کی طرح نکل آئے.گویا ادھر سے یہ اور اُدھر سے وہ نکلیں گے اور دونوں کی مٹھ بھیڑ ہوگی.دشمن چاہے گا کہ غریب اور کمزور قوم کو دھوکا سے تباہ کر دے مگر وہ خود تباہ ہوگا اور موعود کامیاب ہوگا.اب دیکھو کتنی تفصیل سے اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات اور بدر کی جنگ کی تفصیل بیان کی گئی ہے.مکہ والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ کے لئے عتبہ کی کمان میں نکلے.ابوجہل سیکنڈ اِن کمان تھا.جب عتبہ مارا گیا.تو ابو جہل نے کمان سنبھال لی.غرض مکہ والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کو تباہ کرنے کے لئے نکلے.ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اُن کے ارادہ کا علم ہوا تو آپ بھی نکلے تا کہ دشمن مدینہ پر حملہ کر کے مدینہ کو تباہ نہ کر سکے.قرآن کریم میں اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : - وَمَالَكُمْ لا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا ، وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا اے فرمایا.اے مسلمانو! اللہ کے رستہ میں لڑائی کرنے میں تمہیں کیا عذر ہو سکتا ہے.جبکہ کچھ کمزور مرد، عورتیں اور بچے ہم سے دُعائیں کر رہے
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 302 ج ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس ظالم بستی سے نکال اور ہماری امداد کے لئے کسی کو کھڑا کر.آگے فرماتا ہے.فَقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللهِ لَا تُكَلِّفُ إِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِضِ الْمُؤْمِنِينَ : عسى الله أن يَكْفَ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيْلًا ۲ یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نکل کھڑا ہو.کوئی اور جائے یا نہ جائے تو چل.ہاں مسلمانوں کو تحریص دلا اگر وہ شامل ہو جائیں تو ثواب کے مستحق ہونگے نہیں تو عذاب کے مگر تو ضرور چل.ط اس پیشگوئی میں یہ بھی ذکر تھا کہ وہ فخر سے نکلے اور چوری چھپے کمزوروں پر حملہ کر کے انہیں تباہ کرنے کا ارادہ کیا.قرآن کریم میں بھی آتا ہے.وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بطرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللہ کے یعنی اے مسلمانو! بدر کے موقعہ پر نکلنے والے کفار کی طرح نہ بنو.جو اتراتے ہوئے نکلے تھے.پھر وہ ظاہر کچھ دکھاتے تھے اور اندر سے اُن کی نیت اور تھی.ظاہر تو یہ کرتے تھے کہ ایک قافلہ کو بچانے چلے ہیں مگر اُن کی نیت مدینہ منورہ کو تباہ کرنے کی تھی.بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ قافلہ کو لوٹنے کے لئے نکلے تھے اگر یہی بات تھی اور کفار اس قافلہ کو بچانے چلے تھے تو پھر اس کا کیا مطلب کہ وہ تکبر کرتے نکلے اور پھر یہ کہ کہتے کچھ تھے اور اُن کا اندرونی منشاء کچھ اور تھا.وہ چاہتے یہ تھے کہ اسلام کو نقصان پہنچا ئیں.بھلا قافلہ کو بچانے سے اسلام کو کیا نقصان پہنچا سکتے تھے.یہ مجیب لطیفہ ہے کہ بائیبل کہتی ہے کہ دشمن چوری سے نکلے اور اُن کی غرض یہ تھی کہ چپکے سے اس قوم کو جو کمزور تھی تباہ کر دیں اور قرآن بھی اُن کی غرض يَصُلُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللہ بیان کر کے بائیبل کی تصدیق کرتا ہے لیکن مؤرخ کہتے ہیں کہ کفار صرف اپنے ایک قافلہ کو بچانے کی غرض سے نکلے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قافلہ کو لوٹنے کے لئے آئے تھے.بائیبل اور قرآن دونوں کا بیان ایک ہے اور مؤرخ جو کچھ کہتے ہیں وہ بالکل غلط ہے.کفار نے قافلہ کو بچانے کا صرف بہانہ بنایا تھا.ان کی غرض مدینہ پر حملہ کرنا تھی تاکہ مسلمانوں کو تباہ کر دیں.
فصائل القرآن نمبر ۵۰ 303 ابو جہل کے قتل کئے جانے کی پیشگوئی جو بڑی شان سے پوری ہوئی بارہویں پیشگوئی.اب اس پیشگوئی کے درمیان کے دو فقرے جنہیں میں نے چھوڑ دیا تھا.اُن کا ذکر کرتا ہوں اور وہ یہ ہیں.” تو بنیاد کو گردن تک نگا کر کے شریر کے گھر کے سر کو کچل ڈالتا ہے.تو نے اُس کے سرداروں میں سے اُسے جو عالی درجہ کا تھا اُس کے بھالوں سے مارڈالا.“ اس پیشگوئی میں اس قدر استعارہ استعمال کیا گیا ہے کہ بظاہر مضمون کا سمجھنا مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن اگر ہم غور کریں تو معنے کھل جاتے ہیں.یہ تو صاف بات ہے کہ بنیاد کی گردن کوئی نہیں ہوتی.نہ شریر کے گھر کا سر کوئی ہے.پس اس کے کوئی اور معنے کرنے ہوں گے.سو ہم دوسرے حصہ کو دیکھتے ہیں تو اس میں اس کی تشریح موجود ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے سر سے مراد گھرانہ کا سردار ہے.جب یہ حل ہو گیا تو اب بنیاد کی گردن کو ننگا کرنا بھی آسان ہو گیا.اس نقطہ نگاہ سے جب اس پیشگوئی پر غور کیا جائے تو ہمیں اس کا پہلا فقرہ یہ نظر آتا ہے کہ ”بنیاد کو گردن تک ننگا کر کے شریر کے گھر کے سرکو کچل ڈالتا ہے.اب دیکھنا یہ ہے کہ بنیاد کوگردن تک بنگا کرنے کے کیا معنی ہیں.بائیبل والے کہتے ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ بنیاد تک ننگا کر دے مگر جب بنیاد کا لفظ موجود تھا تو پھر گردن تک کہنے کے کیا معنے اور بنیاد کی گردن کا کوئی محاورہ نہیں ہے.جب گردن کا ذکر ہے تو ماننا پڑے گا کہ یہ کسی انسان کے متعلق ہے اور بنیاد عام محاورہ میں اس نیچے کی چیز کو کہتے ہیں جس پر کوئی چیز رکھی ہو.انگریزی میں Base عمارت کی بنیاد کو بھی کہتے ہیں اور سر کی جڑ کو بھی کہتے ہیں جہاں سرگردن سے ملتا ہے.عبرانی میں Base کا لفظ ہی ہے.پس سر کا نچلا حصہ چونکہ گردن پر رکھا ہوتا ہے اس لئے وہ بنیاد ہے اور مطلب یہ ہے کہ گردن تک نچلے حصہ کوننگا کیا جائے گا.پھر شریر کے گھر کے سرسے مراد گھرانہ کا سردار ہے کیونکہ شریر کے گھر کا سرکوئی اور چیز نہیں ہوتی پس اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ دشمن کے قبیلہ کے سردار کے سر کو گردن تک ننگا کرے گا اور پھر ا سے جڑ سے کاٹ دے گا.ان معنوں کی اگلے فقرہ سے بھی تصدیق ہوتی ہے.آگے آتا ہے.تو نے اُس کے سرداروں میں سے جو عالی درجہ کا تھا اس کے بھالوں سے مارڈالا.اس فقرہ سے معلوم ہوا کہ پہلے فقرہ میں کسی دشمن کے قتل کی کیفیت بیان ہوئی ہے.پس بنیاد کو گردن تک ننگا کرنے کے معنے یقیناً
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 304 سر کو گدی تک ننگا کرنے کے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ جب وہ نبی کمزوروں کو بچانے کے لئے ایک طرف سے نکلا اور دوسری طرف سے اس کے دشمن غریبوں کو مسل ڈالنے کے خیال پر فخر کرتے ہوئے نکلے تو آپس میں جنگ ہوئی اور اس جنگ میں جو دشمنوں کا سردار تھا اُسے اُس نبی یا اس کے کسی تابع نے گردن تک ننگا کر کے اُسی کے ہتھیار سے مارڈالا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا بدر کی جنگ میں جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے کوئی ایسا واقعہ ہوا کہ کسی سردار کے سر کو اُس کی گردن تنگی کر کے گدی سے کاٹ دیا گیا ہو.جب ہم بدر کی جنگ کا حال پڑھتے ہیں تو ہمیں لفظ بلفظ ایسا ہی ایک واقعہ ملتا ہے.تاریخوں میں لکھا ہے جب جنگ شروع ہوئی اور صحابہ مقابل پر کھڑے ہوئے تو اُن میں دو کم سن لڑکے بھی تھے.یہ جنگی قاعدہ ہے کہ بہادر لڑنے والے اس بات کی احتیاط رکھتے ہیں کہ اُن کے دائیں بائیں بھی بہادر ہوں تا کہ وہ پوری بے فکری سے جنگ میں نمایاں حصہ لے سکیں.حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ ہمارے دل کفار کی تکالیف سے بھرے ہوئے تھے اور ہم سمجھتے تھے کہ آج ان سے خوب بدلہ لیں گے مگر جب میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا کہ دولڑ کے کھڑے ہیں تو میرا دل بیٹھ گیا کہ آج کیا لڑنا ہے جبکہ دونوں پہلو اتنے کمزور ہیں لیکن ابھی یہ خیال میرے دل میں آیا ہی تھا کہ ایک لڑکے نے مجھے کہنی ماری اور میرے کان میں آہستہ سے تا کہ دوسر الر کا نہ سُن لے، کہا چچائنا ہے ابو جہل بڑا شریر ہے مسلمانوں کو بہت دُکھ دیتا ہے وہ کونسا ہے.میں اُسے مارنا چاہتا ہوں.وہ کہتے ہیں باوجود اس بہادری کے جو میں رکھتا تھا مجھے یہ خیال تک نہ آیا تھا کہ میں ابو جہل کو ماروں لیکن ابھی وہ لڑکا مجھ سے بات کر ہی رہا تھا کہ دوسرے نے مجھے کہنی ماری اور چپکے سے پوچھا چھا وہ ابوجہل کون ہے جو مسلمانوں کو بہت تنگ کرتا ہے.میرا جی چاہتا ہے کہ میں اُسے ماروں.حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں ان کی بات سن کر سخت حیران ہوا.ابھی تھوڑی سی جنگ ہوئی تھی کہ عقبہ مارا گیا اور ابو جہل کمانڈر بنا تھا.میں نے انگلی کے اشارے سے بتایا وہ ابو جہل ہے.وہ کہتے ہیں کہ میرا اشارہ کرنا تھا کہ دونوں لڑکے چیل کی طرح چھپٹا مار کر پہرہ میں سے گذرتے ہوئے اُس پر جا پڑے اور اُسے گرا دیا.پہرہ کے سپاہیوں نے اُن پر حملہ کیا اور ایک کا ہاتھ کاٹ دیا.جو تسمہ سے لٹک رہا تھا.اُس نے اُس پر پاؤں رکھ کر اُسے علیحدہ کر دیا تا کہ لڑائی میں حارج نہ ہو.
305 فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ ابو جہل گر گیا تھا اور اُسے زخم آئے تھے مگر مرا نہ تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پوچھا کہ ابو جہل کی کوئی علامت نظر نہیں آتی تو عبد اللہ بن مسعودؓ اس کا پتہ لگانے کے لئے نکلے.جب وہ گئے تو دیکھا کہ ابو جہل گرا پڑا ہے.انہوں نے اُسے کہا اے دشمن خدا! آج بھی تو ذلیل ہوا ہے یا نہیں.اُس نے جواب دیا ایک سردار قوم کو اس کی قوم مار دے تو اس میں کیا ذلت ہے.انہوں نے اس پر حملہ کیا لیکن چونکہ اُن کی تلوار چھوٹی تھی اور اُس کے پاس بھی تلوار تھی.اس لئے کامیاب نہ ہو سکے.آخر اُس کے ہاتھ پر اُن کی تلوار لگی اور اُس کی تلوار گر گئی.انہوں نے اُس کی تلوار اُٹھالی اور اُسے مارنے لگے.اُس نے کہا دیکھ میں سردار قوم ہوں.میری گردن لمبی کر کے کاٹنا.تا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اسے دیکھ کر ڈرے.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو اس سے اور زیادہ غصہ آیا.انہوں نے پیچھے سے ہو کر اُس کی گردن پکڑ لی اور اُس کا خود اٹھا کر سر کے عین نیچے سے اُس کی گردن کو نگا کیا اور اُسی کی تلوار سے اُس کا سرکاٹ دیا اور اس طرح اُس کی آخری خواہش بھی پوری نہ ہوئی اور حبقوق نبی کی یہ پیشگوئی کہ تو بنیاد کوگردن تک نگا کر کے شریر کے گھر کے سرکو کچل ڈالتا ہے." تو نے اُس کے سرداروں میں سے اُسے جو عالی درجہ کا تھا اُسی کے بھالوں سے مارڈالا.لفظالفظ پوری ہوئی.اب دو سوال باقی رہتے ہیں.ایک یہ کہ پیشگوئی میں ہے کہ تو نے دشمن کو مارا لیکن مارا عبداللہ بن مسعودؓ نے.اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کے متبع کا کام در حقیقت رسول کا ہی ہوتا ہے.دوسرا سوال یہ ہے کہ پیشگوئی میں بھالا آیا ہے مگر عبد اللہ بن مسعودؓ نے تلوار سے مارا.اس کا جواب یہ ہے کہ اُردو بائیبل میں بھالا لکھا ہے.انگریزی میں ٹیڑھی لکڑی.فارسی میں سونا اور عربی میں تیر.اس اختلاف سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل عبرانی لفظ کے معنے نہ بھالا ہیں.نہ تیر.نہ سونٹا بلکہ ہتھیار کے ہیں جس کا ترجمہ مختلف متر جموں نے مختلف کر دیا ہے.یہ میرا خیال ہی نہیں بائیبل کا ایک مفتر بھی تفسیر بائیبل میں لکھتا ہے :- This were better translated thou didst smite through with his own weapons the head of his chieftains.
فصائل القرآن نمبر ۵ یعنی صحیح مطلب یہ ہے کہ اُسی کے ہتھیار سے اس کی گردن کاٹ دی.306 تیرھویں پیشگوئی یہ تھی کہ ہر چند کہ انجیر کا درخت نہ پھولے.ٹس پر بھی میں خداوند کی یاد میں خوشی کرونگا.اس میں بتایا کہ یہ نبی بنی اسرائیل میں سے نہ ہو گا.بنی اسرائیل کی مثال بائیبل میں انجیر سے دی گئی ہے.چنانچہ انجیل میں آتا ہے کہ مسیح نے ایک انجیر کے درخت پر لعنت کی کہ اُسے پھل نہ لگیں.ے اور اس کی تفسیر مسیحی مفسر یہی کرتے ہیں کہ یہودی قوم کا خدا سے تعلق کٹ جائے.پس اس کا مطلب یہ ہے کہ حبقوق نبی کہتا ہے کہ گو یہود جن میں سے وہ خود ہے تباہ ہو جائیں گے لیکن پھر بھی مجھے اُس نبی کے ذریعہ خدا کے نام کا روشن ہونا اپنی قوم ترقی سے زیادہ پسند ہے اور میں اپنی قومی تباہی کومحمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ذریعہ سے ظاہر ہونے والے جلال کی وجہ سے بخوشی برداشت کر لونگا.حضرت مسیح ناصری کی پیشگوئی اس کے بعد ہم کچھ اور صدیاں پیچھے چلتے ہیں جب کہ حضرت مسیح ناصری کا زمانہ آتا ہے.وہ انگورستان کی تمثیل پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- پس جب باغ کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا.انہوں نے اُس سے کہا ان برے آدمیوں کو بُری طرح ہلاک کرے گا اور باغ کا ٹھیکہ اور باغبانوں کو دے گا جو موسم پر اُس کو پھل دیں.یسوع نے اُن سے کہا کہ کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رڈ کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا.یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے.اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائے گی اور جو اس پتھر پر گرے گا اس کے ٹکڑے ہو جائیں گے مگر جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا.‘ کے دوسری جگہ حضرت مسیح فرماتے ہیں:.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ جاؤں گا تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گالیکن اگر جاؤں گا تو اُسے تمہارے پاس بھیج دوں گا اور وہ آکر دنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں قصور وار ٹھہرائے گا.گناہ کے بارے میں اس لئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لاتے.راستبازی کے بارے میں اس لئے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے.عدالت کے بارے میں اس لئے کہ دنیا کا سردار مجرم ٹھہرایا گیا ہے.مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا.اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گالیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا.وہ میرا جلال ظاہر کرے گا.اس لئے کہ مجھ ہی سے حاصل کر کے تمہیں خبریں دے گا.۷۹ ان پیشگوئیوں میں حضرت مسیح نے مندرجہ ذیل باتیں بتائی ہیں :- 307 اول یہ کہ ایک مثیل موسی آئے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کا آنا ایک شرعی نبی کے آنے پر جو مثیل موسیٰ ہو دلالت کرتا ہے.(۲) یہ کہ وہ بنی اسرائیل سے نہ ہوگا.(۳) یہ کہ اُس کی قوم میں ہمیشہ برگزیدہ لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو قوم کی ہدایت کا موجب ہوں گے.(۴) یہ کہ وہ موعود کونے کا پتھر ہو گا.یعنی اُس پر سب شریعتیں ختم ہو جائیں گی.(۵) یہ کہ اُس کا مقابلہ دوسری اقوام سے ہوگا لیکن خواہ اُس پر کوئی حملہ کرے یا وہ کسی پر حملہ کرے دونوں صورتوں میں وہ کامیاب رہے گا.(۶) یہ کہ وہ تسلی دینے والا ہوگا.(۷) یہ کہ وہ دنیا کو تین چیزوں سے تقصیر وار ٹھہرائے گا.گناہ سے یعنی بوجہ مسیح کو نہ ماننے کے گناہ کے.وہ لوگوں پر الزام لگائے گا.یہاں گناہ محدود معنوں میں لیا گیا ہے اور مراد یہ ہے کہ ایک قوم کو مسیح کے انکار کی وجہ سے اور دوسری کو راستی سے یعنی مسیح کو چھوڑ بیٹھنے کی وجہ سے اور تیسری کو عدالت سے یعنی اس وجہ سے کہ وہ لوگ شیطان سے تعلق رکھتے ہوں گے قصور وار ٹھہرائے گا.گویا یہود انکار مسیح، نصاری غلو در مسیح اور دیگر اقوام شیطانی تعلقات کی وجہ سے مجرم قرار دی جائیں گی اور سب ہی دنیا اس کے آنے پر مجرم قرار پائے گی.(۸) یہ کہ وہ ایسی باتیں کہے گا جو اُس سے پہلے نہ کہی گئی ہونگی.(۹) یہ کہ وہ سب سچائیاں بتائے گا جن کے بعد کسی اور سچائی کی ضرورت نہ رہے گی.(۱۰) یہ کہ اُس کی کتاب میں صرف خدا کا کلام ہوگا اور وہ آئندہ کے لئے
فصائل القرآن نمبر ۵ 308 بھی رُوحانی ترقی کا رستہ کھلا رکھے گی.(۱۱) یہ کہ وہ کتاب مسیح کو عیب سے مبر اکرے گی.(۱۲) یہ کہ مسیح کے راستباز ہونے کا عملی ثبوت دے گی.یعنی اس کے کلام کو پورا کر کے اُس کے باخدا ہونے کا ثبوت پیش کرے گی.یہ ساری کی ساری باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہایت شان سے پوری ہوئیں.اول آپ مثیل موسیٰ تھے اور آپ نے دعویٰ کیا کہ آپ میں خدا ظاہر ہوا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِثْمَا يُبَايِعُونَ اللہ " یعنی وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ تیری نہیں بلکہ خدا کی بیعت کرتے ہیں.دوسری بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہ موعود بنی اسرائیل میں سے نہ ہو گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسرائیل میں سے نہ تھے بلکہ بنی اسمعیل میں سے تھے.تیسری بات یہ بتائی گئی تھی کہ آپ کی قوم کی ہدایت کے سامان ہمیشہ ہوتے رہیں گے چنانچہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ یعنی اللہ تعالیٰ اس رسول کو ایک دوسری قوم میں بھی بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب اور حکمت والا ہے.پھر حدیثوں میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأَمَةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِأَةٍ سَنَةٍ مَنْ يُجَيِّدُلَهَا دِيْنَهَا یعنی اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر اس امت میں تجدید دین کے لئے اپنے پاک بندوں کو کھڑا کرتا رہے گا.چوتھی بات یہ بیان کی گئی تھی کہ وہ موعود کونے کا پتھر ہوگا.جسے سب معماروں نے رڈ کر دیا.یہ اس لحاظ سے بھی درست ہے کہ بنی اسرائیل ہمیشہ بنی اسمعیل کو محروم الارث قرار دیتے رہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی دعویٰ کیا ہے کہ آپ کونے کا پتھر ہیں.چنانچہ فرمایا.ان مَثَلِی وَ مَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِيَ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ لَهُ وَيَتَعَجَّبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ هَلَا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةَ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتَمَ النَّبِتِین.۸۲؎ فرمایا.میری اور پہلے انبیاء کی مثال ایک ایسے مکان کی سی ہے جسے ایک شخص نے بنایا
فصائل القرآن نمبر ۵ 309 اور اُسے خوب سجایا مگر اس کے ایک کونہ میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رکھی.لوگ آتے اور اس مکان کو دیکھنے کے لئے اُس کا چکر کاٹتے اور تعجب سے کہتے یہاں ایک اینٹ کی جگہ خالی ہے؟ میں وہ کونے کی اینٹ ہوں جس سے اس مکان کی تکمیل ہوئی اور خاتم النبیین ہوں.کونے کے پتھر کے بھی یہی معنے ہوتے ہیں کہ وہ دو دیواروں کو آپس میں ملاتا ہے اور دیوار کے معنے قرآن میں روحانی سلسلہ کے ہوتے ہیں.چنانچہ سورہ کہف میں حضرت موسی علیہ السلام نے دیوار کی مثال بنی اسرائیل سے دی ہے.اب دیکھنا یہ چاہئے کہ ان دو دیواروں سے کیا مراد ہے جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کو نہ کا پتھر بن کر ملایا.سو ایک دیوار تو پہلے انبیاء کی تھی جو مختلف شریعتوں کے تابع تھے اور ایک دیوار قرآن کی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں کے اتصال کا ذریعہ ہیں کیونکہ آپ ہی کے ذریعہ آپ کی اُمت پہلے انبیاء کو مانتی ہے اور آپ ہی کے ذریعہ سے آئندہ آنے والے مامور پہلے نبیوں سے تعلق پیدا کرتے ہیں.دیکھ لو دوسری قوموں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے مسلمانوں کا تمام اقوام سے تعلق قائم ہے.ہندوؤں کے سوا اور کسی قوم کا حضرت کرشن سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن مسلمانوں کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے اُن سے بھی ہے کیونکہ قرآن میں آیا ہے إنْ مِنْ أُمَةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ سے یہ معلوم نہ ہوتا کہ ہر قوم میں نبی آئے تو ہمیں کیا علم تھا کہ کرشن جی بھی خدا کی طرف سے تھے.پھر دیکھو یہود کو زرتشی قوم سے کوئی تعلق نہیں.وہ ایک علیحدہ دیوار کھڑی ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قسم کی ہر دیوار کو ملا دیا.زرتشت کی ساختہ دیوار سے اسلامی دیوار وابستہ ہے اور دوسرے انبیاء کی دیواروں سے بھی اسلامی دیوار وابستہ ہے.پس کونے کے پتھر کے معنے یہ ہیں کہ آپ آئندہ آنے والے لوگوں اور پچھلی قوموں میں واسطہ پیدا کر دیں گے پہلی دیواریں الگ الگ کھڑی تھیں.حضرت موسی کی دیوار علیحدہ تھی.حضرت عیسی کی علیحدہ.حضرت کرشن کی علیحدہ مگر محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر دیوار میں کونے کا پتھر بن گئے اور آپ نے سب کو یہ کہہ کر ملا دیا کہ سب نبی خدا کی طرف سے ہیں اور سب کا ایک ہی سلسلہ ہے.پانچویں بات یہ بتائی گئی تھی کہ آپ کا مقابلہ سب دنیا سے ہوگا.آپ پر حملے کئے جائیں گے دنیا
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 310 اور آپ بھی حملے کریں گے مگر دونوں صورتوں میں وہ نبی ہی جیتے گا.اس میں یہ نہیں کہا کہ وہ جیتے گا بلکہ یہ کہا اگر یہ حملہ کرے گا تو بھی جیتے گا اور اگر دشمن تیار ہو کر حملہ کریں گے تو بھی یہی جیتے گا.چنانچہ جنگ احزاب.اُحد اور بدر میں دشمن چڑھ کر آ گیا مگر ان میں بھی دشمن ہی کچلا گیا اور فتح مکہ.خیبر اور تبوک کی جنگ میں آپ گئے اور اُن میں بھی دشمن مچلا گیا.چھٹی بات یہ بتائی گئی تھی کہ آپ تسلی دینے والے ہونگے.اس کے متعلق یہ دیکھنا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دنیا کوتسلی کی ضرورت تھی یا نہیں ؟ اگر ضرورت تھی تو کیا ان اقوام کو اُن کے مذاہب تسلی دے سکتے تھے؟ سو اس بارے میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذاہب اپنے ماننے والوں کے لئے تسلی کا باعث نہ رہے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو سب مذاہب اس سے خالی تھے اور قلبی اطمینان ان میں سے کسی کو حاصل نہ ہوسکتا تھا.چنانچہ کوئی قوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل گناہ کی معافی کی قائل نہ تھی.ہندو کہتے کہ پر میشور کسی کا کوئی گناہ معاف نہیں کر سکتا.وہ ہر چھوٹے بڑے گناہ کی سزا دیتا ہے اور انسان کو مختلف جونوں میں جانا پڑتا ہے اور سارے گناہوں کی سزا جونوں میں پڑ کر بھگت لینے کے بعد بھی پر میشور ایک نہ ایک گناہ رکھ لیتا ہے اور پھر اس کی پاداش میں نجات سے محروم کر دیتا ہے.اس وجہ سے ہندو اپنے مذہب کے ذریعہ تسلی نہ پاسکتے تھے.زرتشتی اور مسیحی ابدی دوزخ کے قائل تھے.اس عقیدہ کے ماتحت جس انسان سے ایک دفعہ بھی کوئی گناہ ہو جائے وہ یہی سمجھتا تھا کہ ابدی دوزخ میں جانا پڑے گا اور اس وجہ سے وہ کبھی مطمئن نہیں ہوسکتا تھا.یہود بھی کسی کو تسکی نہ دیتے تھے.وہ کہتے تھے کہ نجات صرف یہود کے لئے ہے باقی سب کے لئے ہلاکت ہے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل دنیا کی امید کی کمر ٹوٹ چکی تھی.کوئی مذہب ابتداء میں ہی نا امیدی کے گڑھے میں گرا دیتا.کوئی درمیان میں لاکر منجدھار میں چھوڑ دیتا.کوئی آخر میں ابدی دوزخ میں جھونک دیتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آکر سب کو تسلی دلائی.(۱) جو گناہ کی معافی کے قائل نہ تھے، انہیں بتایا کہ تناسخ کے چکر کی ضرورت نہیں خدا تعالیٰ بڑا رحیم کریم ہے.وہ گناہوں کو معاف کر دیتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ بِعِبَادِيَ الَّذِينَ اسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 311 إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ." یعنی اے رسول ! تو سب بندوں کو کہہ دے کہ مجھے خدا نے تسلی کو دینے والا بنایا ہے.اس لئے وہ لوگ جنہوں نے کوئی گناہ کیا ہے.انہیں خبر دے دے کہ اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو.تو بہ کرو تو وہ گناہ بخش دے گا.کیونکہ وہ غفور اور رحیم ہے.(۲) پھر اُس نے اُن قوموں کی طرف مونہ کیا جو کہتی ہیں کہ جو گناہگار مر گئے.اُن کے لئے ہمیشہ کا جہنم ہے اور سنایا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے میری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے چنانچہ سورہ اعراف : ۱۵۷ میں آتا ہے.رحمتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ پھر فرمایا.اُمهُ هَاوِيَةٌ ۷۵ یعنی جہنم ماں کی طرح ہے.ماں کے پیٹ میں بچہ ہمیشہ نہیں رہتا جب تک ناقص ہوتا ہے پیٹ میں رہتا ہے اور جب کامل ہو جاتا ہے پیٹ سے نکال دیا جاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے.جہنم ماں کی طرح ہے.جب ان لوگوں کے گند ڈور ہو جائیں گے جن کو اس میں ڈالا جائے گا اور اُن کی صفائی ہو جائے گی تو ہم اُن کو جنت میں بلا لیں گے.پس دوزخ صرف ایک تکمیل اور علاج کا مقام ہے.آخر سب خدا تعالیٰ کی بخشش کے نیچے آجائیں گے.اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان قوموں کو بھی تسلی دی جو یہ مجھتی تھیں کہ گناہگار ہونے کی حالت میں مرنے پر ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنا پڑے گا.(۳) پھر وہ تو میں جو یہ کہتی تھیں کہ سوائے ہمارے اور کسی کے لئے نجات نہیں اُن کے متعلق بھی خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ لوگوں کو تسلی دے دے کہ یہ غلط خیالات ہیں.جیسے یہود نے نادانی سے کہہ دیا کہ ہمارے سوا کوئی نجات نہیں پاسکتا اور نسلاً یہ نجات ہمارے حصہ میں آئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ غلط ہے کہ ہدایت کسی ایک قوم سے مخصوص ہے.نجات ہم نے دینی ہے اور ہمارا دروازہ سب کے لئے کھلا ہے.چنانچہ فرمایا.قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَیكُمْ جَميعًا یعنی تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں.پس ہدایت کسی ایک قوم سے مخصوص نہیں بلکہ ہر قوم اس میں برابر کی حقدار ہے.اب انسان کے دل میں ایک اور خوف پیدا ہوتا ہے کہ اچھا آپ آگئے اور آپ کے ذریعہ سب کے لئے نجات کا دروازہ بھی کھل گیا جس کے لئے ہم بڑے ممنون ہیں مگر ہمیں اپنے باپ دادا سے محبت ہے اُن کی کیا حالت ہوگی.مسیحیت کہتی ہے کہ وہ جہنم میں جائیں گے کیونکہ وہ کفارہ پر
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 312 ایمان نہیں لائے.یہودی کہتے ہیں کہ وہ جہنم میں جائیں گے کیونکہ سوائے یہود کے اور کسی کے لئے نجات نہیں.زرتشتی کہتے ہیں کہ وہ جہنم میں جائیں گے ہندو بھی یہی کہتے ہیں مر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خدا تعالیٰ کہتا ہے.کہہ دوان من أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ تم اپنے باپ دادوں کے متعلق مت ڈرو.اُن کے وقت بھی ہم نے نبی بھیجے تھے اگر انہوں نے اُن انبیاء کو قبول کر لیا تھا تو خدا انہیں جنت میں لے جائے گا.یہ آباء کے متعلق اُن کو تسلی دی.ممنون اب یہ وسوسہ باقی رہتا تھا کہ انسان گناہ سے تو بیچ ہی نہیں سکتا.پھر نجات کیسے ہوگی.اس کے لئے فرمایا.یہ وسوسہ بھی دُور کر دو اور ان سے کہو لَقَد خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ثُمَّ رَدَدْنَهُ أَسْفَلَ سَفِلِينَ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کو تسلی دے کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ انسان کی فطرت گندی ہے وہ جھوٹ بولتا ہے.ہم نے انسان کو نیک فطرت دے کر بھیجا ہے.جب انسان خطا کرتا ہے تب ہم اُسے نچلے درجہ میں بھیجتے ہیں.ورنہ بڑے بڑے انعام دیتے ہیں.گناہ ایک باہر سے آنے والی چیز ہے.اصل میں انسان کے اندر نیکی ہی رکھی گئی ہے.غرض اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کو تسلی دلائی.جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے لئے نجات کا دروازہ بند ہے انہیں خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہونے کی دعوت دی.جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ہم نیک نہیں ہو سکتے انہیں نیکی کی امید دلائی.جو لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ ایک دفعہ گناہ کر لیا تو پھر اس کے وبال سے نجات نہیں اُن میں تو بہ کا اعلان کیا.جو لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ گناہگار مر گئے تو ہمیشہ کے لئے گئے.انہیں دوزخ کے ایک درمیانی سٹیج ہونے کا علم دیا غرض آپ حقیقی معنوں میں دنیا کو تسلی دلانے والے تھے.یہ تو دوسروں کے متعلق فرمایا.اس کے بعد اپنے لوگوں کی باری آئی.اُن کی تسلی کے لئے خدا تعالیٰ کا یہ ارشاد سنایا کہ خُذ من أمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُظهِرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ، إِنَّ صَلونَكَ سَكَن لَّهُمْ ، وَاللهُ سَمِیعٌ عَلِیم کا فرمایا.جب وہ رسول دنیا کو تسلی دے گا تو اس کی امت والے ل کہیں گے کہ یہ تو ہم پہلے ہی دن حاصل کر چکے ہیں.پھر ہمیں کیا ملے گا؟ فرمایا اُن سے مساکین کے لئے چندے لو اور اس طرح ان کو پاک کرو اور اُن کی ترقی مدارج کے لئے دُعائیں کرو کہ جس ط ط
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 313....کے لئے تو دُعا کرتا ہے اُس کے لئے تسلی ہی تسلی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی فیصلہ کر دیا ہے کہ تیری دُعا سنے کیونکہ وہ سمیع ہے اور اگر بعد میں آنے والی اُمت کہے کہ ہمارے لئے کیا ہے تو ان سے کہو خدا علیم ہے.اب بھی تمہارے لئے وہ دُعا موجود ہے اور تم اس سے حصہ لے سکتے ہو.اس طرح اُن کے لئے بھی تسلی کا سلسلہ جاری کر دیا.ساتویں بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہ رسول دنیا کو تین طرح مجرم قرار دے گا.(۱) گناہ سے (۲) راستبازی سے (۳) عدالت سے.یعنی ایک قوم سے کہے گا کہ یہ مسیح کا انکار کرنے والے ہیں.اس لئے مجرم ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے.لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَاءِ يْلَ عَلَى لِسَانِ دَاوَدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ یعنی بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے کفر اختیار کیا اُن پر داؤد اور عیسی بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی تھی.اسی طرح غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ میں حضرت مسیح کا انکار کرنے والوں کو مغضوب قرار دے کر اُن سے پناہ مانگی گئی ہے.(۲) راستبازی سے اس طرح مجرم قرار دیا کہ حضرت مسیح کی وفات کے بعد نصاری نے انہیں خدا کا بیٹا قرار دے دیا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کیا کہ تم نے راستبازی تو اختیار کی یعنی مسیح کو قبول کیا لیکن پھر صحیح راستہ کو چھوڑ کر کہیں کے کہیں نکل گئے.اس لئے تمہارا نام ضال رکھا گیا ہے.جیسا کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالين " سے ظاہر ہے.(۳) باقی قوموں کو آپ نے عدالت سے مجرم قرار دیا یعنی اس وجہ سے کہ وہ شرک کی مرتکب ہو ئیں اور تو حید کو جو عدل کا طریق تھا انہوں نے ترک کر دیا اسی وجہ سے قرآن کریم میں شرک کا نام غیر عدل رکھا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدرِهِ " ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا اس طرح اندازہ نہیں کیا جس طرح کرنا چاہئے تھا.اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتا ہے.الَّذِينَ امَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَبِكَ لَهُمُ الْآمَن وَهُمْ مُهْتَدُونَ.وه لوگ جوایمان لائے اور انہوں نے ایمان کو ظلم سے نہیں ملایا.انہی لوگوں کے لئے امن مقدر ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں.احادیث میں آتا ہے کہ صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہر شخص تھوڑا بہت ظلم تو کر بیٹھتا ہے.آپ نے فرمایا اس جگہ ظلم سے مراد شرک ہے.
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 314 غرض اس پیشگوئی کے مطابق ہر قوم جو اہل کتاب میں سے ہے آپ نے اُسے مثیل یہود قرار دے کر مغضوب یا مثیل نصاری قرار دے کر ضال قرار دیا اور جو قو میں اہل کتاب نہ تھیں اُن کے متعلق عدالت کو اس رنگ میں استعمال کیا کہ فرمایا ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لیا اور شرک کا ارتکاب کر کے صحیح راستہ سے منحرف ہوگئی ہیں.گو یا گناہ کا لفظ جو انجیل میں استعمال ہوا ہے وہ تفریط کے مترادف ہے.راستی افراط کے مترادف اور عدالت توحید سے بے اعتنائی کے مترادف ہے اور تین ہی گروہ قرآن کریم نے قرار دیئے ہیں.آٹھویں بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ایسی باتیں کہے گا جو اس سے پہلے نہیں کہی گئیں.قرآن کریم میں بھی آتا ہے.وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ تمہیں وہ وہ باتیں سکھائی گئی ہیں جو نہ تمہیں معلوم تھیں اور نہ تمہارے باپ دادا کو.ان باپ دادا میں حضرت موسیٰ بھی شامل ہیں.نویں بات یہ بات بتائی گئی تھی کہ وہ سب سچائیاں بتائے گا جن کے بعد کسی اور سچائی کی ضرورت نہ رہے گی.یہ بھی قرآن کریم میں دعویٰ کیا گیا ہے.فرماتا ہے.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًاء " آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا اور اپنی نعمت کو تم پر پورا کردیا اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کر لیا.دسویں بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا بلکہ جو کچھ سنے گا وہی کہے گا.یعنی اس کا کلام کلی طور پر الہام پر مشتمل ہوگا.یہ پیشگوئی صرف قرآن کریم پر ہی چسپاں ہوتی ہے.ورنہ انجیل اور تورات میں تو حواریوں کا کلام بھی درج ہے.قرآن کریم میں آتا ہے:.وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْى يُوحی.22 یعنی وہ اپنی ہوا و ہوس سے نہیں بولتا بلکہ جو کچھ کہتا ہے وہ صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی ہے.پھر آتا ہے.وان أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرُهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلمَ اللهِ " مشرکین میں سے اگر کوئی کہے کہ مجھے پناہ دو، میں خدا کی باتیں سننا چاہتا ہوں تو تم اُسے بلاؤ تا کہ وہ کلام اللہ سن لے.گیارہویں بات یہ بتائی تھی کہ وہ میرا جلال یعنی بزرگی ظاہر کرے گا.یہ بھی رسول کریم صلی
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 315 b اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے.سورہ بقرہ میں آتا ہے.وَأَتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَتِ وَأَيَّدتهُ بِرُوحِ الْقُدُس کے یعنی ہم نے عیسی بن مریم کو کھلے کھلے نشانات دیئے اور رُوح القدس کے ذریعہ اس کی تائید کی.پھر آتا ہے.وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِن شُبّة لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتَّبَاعَ الظَّنِ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا 2 که ان لوگوں نے عیسی کو قتل نہیں کیا اور نہ صلیب پر چڑھا کر مارا.ہاں صلیب پر چڑھا یا ضرور تھا اور وہ اُن کے لئے مصلوب کے مشابہ بنا دیا گیا تھا.وہ لوگ جو اس بات میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقینا شک میں پڑے ہوئے ہیں.ان کو اس بات کے متعلق کوئی یقینی علم نہیں وہ صرف ایک وہم کی پیروی کر رہے ہیں.انہوں نے ہر گز حضرت عیسی کو نہیں مارا بلکہ اللہ نے اُس کو اپنے حضور میں بڑی عزت اور رفعت بخشی تھی ( گویا آپ نے حضرت عیسی کی وہی بزرگی ظاہر کی جس کا پیشگوئی میں ذکر ہے ) اور کیوں خدا ایسا نہ کرتا.وہ عزیز اور حکیم ہے.یعنی ضروری تھا کہ حضرت عیسی کے منکرین صلیب پر لٹکاتے مگر یہ بھی ضروری تھا کہ وہ صلیب پر فوت نہ ہوتے اس لئے کہ اللہ عزیز اور حکیم ہے.چونکہ وہ عزیز یعنی غالب ہے اس لئے ضروری تھا کہ یہود کو بتا تا کہ میں غالب ہوں.تم عیسی کو جسے میں نے بھیجا ہے مار نہیں سکتے اور وہ حکیم ہے اس لئے ضروری تھا کہ یہود حضرت عیسی کو صلیب پر لٹکاتے تا کہ بعد میں جب عیسائی کہتے کہ مسیح خدا ہے تو مسلمان کہتے اچھا خدا ہے جسے یہود نے صلیب پر لٹکا دیا تھا.پس فرمایا ہم غالب ہیں.ہمارا فرض تھا کہ عیسی کو صلیب پر مرنے سے بچاتے اور ہم حکیم ہیں اس لئے ضروری تھا کہ صلیب پر چڑھاتے.بارہویں بات یہ بتائی کہ وہ مسیح کے راستباز ہونے کا عملی ثبوت دکھائے گا.یعنی مشاہدہ کر دیگا.جو فوت ہو گیا اُسے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دکھا نہیں سکتے تھے.اُسے اسی طرح دکھایا کہ فرمایا میری اُمت میں سے ایک سپہ سالار کھڑا ہوگا جس کا نام مسیح ہو گا اور اس طرح عملاً مسیح کی راستبازی کو ثابت کر دیگا کیونکہ اتنے بڑے آدمی کو اس سے مشابہت دینا یہی معنے رکھتا ہے کہ مسیح بھی بزرگ اور برگزیدہ ہستی تھی.چنانچہ حضرت مرزا صاحب جو مسیح موعود ہیں انہوں نے مسیح کی تصویر کھینچ کر دکھادی.
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 316 قانون شریعت اور قانون طبعی کی باہم مطابقت کا حیرت انگیز سلسلہ اب دیکھو یہ نشان کتنا عظیم الشان ہے، کتنا لمبا سلسلہ چلتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہوتا ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام تک جو دو ہزار سال کا زمانہ ہے تغیرات ہوتے رہتے ہیں.پھر حضرت مسیح کے سلسلہ کے چھ سو سال کے عرصہ میں بھی تغیرات ہوتے ہیں اور آخر وہ انسان ظاہر ہوتا ہے جو ان کا مصداق تھا اگر صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعوی کرتے اور شریعت لے آتے تو لوگ کہتے یہ کلام آپ نے خود بنالیا ہے مگر یہاں تو قانون شریعت اور قانون طبعی صدیوں ہاتھ میں ہاتھ دے کر چل رہے ہیں اور ثابت ہو رہا ہے کہ ہمارا خدا آسمانوں کا ہی بادشاہ نہیں بلکہ زمین کا بھی بادشاہ ہے.قانون شریعت کہتا ہے کہ مکہ میں ایک نبی آئے گا اور قانونِ طبعی اس کے لئے سامان مہیا کرتا ہے.تباہی اور ہلاکت کی آندھیاں چلتی ہیں.قوموں کی قو میں تباہ ہو جاتی ہیں.و بائیں آتی ہیں اور قوموں کو ہلاک کر کے چلی جاتی ہیں.زمانہ کی گردشیں آتی ہیں اور قوموں کا نام و نشان مٹا دیتی ہیں.یہ سب کچھ ہوتا ہے.مگر قریش ان تمام آفات سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ اُن کی تائید ہوتی ہے.ابرہہ مکہ پر چڑھائی کرتا ہے اور کہتا ہے مکہ اور اہل مکہ کو میں تباہ و برباد کر دونگا مگر خود اس کا لشکر تباہ ہو جاتا ہے اور وہ ناکام و نامراد لوٹ جا تا اور راستہ میں ہی ہلاک ہو جاتا ہے کیونکہ قانون طبعی کہتا ہے کہ میں اس قوم کو نہیں مٹنے دونگا.قوموں میں تغیرات آتے ہیں.مرد نا مرد پیدا ہوتے ہیں اور اس طرح خاندانوں کے نام و نشان مٹ جاتے ہیں مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں یہ تغیر نہیں آتا.اس لئے کہ آپ کی نسل بڑھے اور ترقی کرے.عیسائی کہتے ہیں کہ قیصر و کسری کی تباہی کی خبر دینا کوئی بڑی بات نہیں تھی.ان میں تباہی کے آثار پیدا ہو چکے تھے مگر ان کی تباہی کی خبر تو یسعیاہ اور حبقوق نے بھی دی تھی اور کئی ہزار سال پہلے دی تھی جبکہ قیصر و کسری کا کہیں نام ونشان بھی نہ تھا اور پھر قانونِ قدرت نے اُن کی تباہی کے سامان اُس وقت پیدا کئے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہو گئے.اسی طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظاہر ہوئے تو ہو سکتا تھا کہ مکہ سے نکالے نہ جاتے اگر نکالے گئے تھے تو آپ کی قوم آپ پر حملہ نہ کرتی اگر حملہ کرتی تو شکست نہ کھاتی مگر یہ سب
فصائل القرآن نمبر ۵ 317 کچھ ہوا.اب غور کرو یہ کس نے کرایا ؟ اسی طرح ممکن تھا کہ ابو جہل حملہ نہ کرتا اگر اُس نے کیا تو عبد اللہ کو غصہ نہ دلاتا تا کہ وہ اس کی گردن چھوٹی نہ کاٹے مگر اس کے لئے اسباب پیدا ہوئے.یہ اسباب کس نے پیدا کئے؟ ان سے صاف نظر آتا ہے کہ دو ہزار سال سے زمین و آسمان کی بادشاہت ایک ساتھ چل رہی تھی.آسمان سے حکم ہو گیا کہ ابراہیم کی نسل کو قائم رکھنا.تباہی و بربادی کی آندھیاں آتیں تو انہیں کہہ دیا جاتا کہ دیکھنا مکہ پر کوئی آنچ نہ آئے.اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ اتنا عرصہ قبل بتا دینا اور پھر اس کا ہوبہو پورا ہونا.یہ سب باتیں قانون طبعی کے ماتحت تھیں.اللہ تعالیٰ ان سب باتوں کے نتیجہ میں فرماتا ہے.وَلَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ.اے خدا کے منکر و غور تو کرو کیا یہ قانون آپ ہی آپ چل رہا ہے؟ میں دو ہزار سال کی ہسٹری پیش کر کے بتاتا ہوں کہ خدا ہے اور یقینا ہے.لِلهِ مُلْكُ السموتِ وَالْأَرْضِ سے خدا کا ثبوت ملتا ہے اور حضرت مسیح نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے متعلق فرمایا کہ اُس وقت خدا خود آجائے گا.یعنی آپ کے وجود سے خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت ملے گا اور ساتھ ہی انہوں نے اپنے پیرؤں سے یہ بھی کہا کہ دُعائیں مانگو کہ اے خدا جیسی تیری آسمان پر بادشاہت ہے ویسی ہی زمین پر بھی آئے.یعنی تم ہمیشہ دُعا ئیں مانگتے رہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوں.دُعائیں مانگتے رہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دنیا کو یہ معلوم ہو جائے کہ آسمان اور زمین کا خدا ایک ہی ہے.اس میں نہ صرف دہریوں کا رڈ ہے بلکہ جینیوں اور آریوں کا بھی رڈ ہے.چینی کہتے ہیں کہ روحیں ترقی کرتے کرتے آپ ہی اونچی ہو جاتی ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ غلط ہے.ہم خود تغییرات کرتے کرتے کامل رُوح پیدا کرتے ہیں.آریہ کہتے ہیں دنیا میں خدا کا تصرف نہیں.مادہ اور روح آپ ہی آپ سب کچھ کرتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے دنیا کا سارا انتظام ہمارے احکام کے ماتحت چلتا ہے اور ہر قسم کے تغیرات ہم خود پیدا کرتے ہیں.
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ طبعی قانون پر خدائے واحد کی حکومت 318 ذرا غور کرو! قانون شریعت کا قانون قدرت نے ایک زمانہ دراز تک کس طرح ساتھ دیا اور کس طرح اس کے ماتحت چلا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قریبا پونے تین ہزار سال بعد پیدا ہوئے.کیا یہ طبعی قانون پر حکومت نہیں کہ اس وقت تک حضرت سمعیل کی اولا دجاری رہے گی.حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل کا نام ایسا روشن ہوگا کہ اُن کی اولا د اس بات کو یادر کھے گی کہ وہ ان کی اولاد ہے.مکہ قائم رہے گا.اُس میں ایک خاص شخص ایک خاص خلیہ کا پیدا ہوگا.اس کی قوم اس کا مقابلہ کرے گی اور اُسے گھر سے نکال دے گی.وہ نبی حضرت موسی کی طرح صاحب شریعت ہوگا.وہ پہلے کمزور ہوگا اور گھر سے نکالا جائے گا لیکن خدا تعالیٰ اُسے جماعت دے گا.وہ مصائب برداشت کرے گا اور صبر کرے گا لیکن اس کی قوم کا اس پر ظلم بڑھتا جائے گا.آخر دشمن خفیہ تدبیر کرے گا کہ اس کے کمزور ساتھیوں کو تباہ کر دے اور فخر کرتا ہوا آئے گا.یہ واقعہ اس کی ہجرت کے ایک سال بعد ہوگا.جب مقابلہ ہوگا تو میدان اس کے ہاتھ رہے گا اور دشمن کے اکثر سردار مارے جائیں گے.اُن میں سے رئیس المکفرین عالی خاندان والا اُس کے ساتھیوں کے ہاتھوں اس طرح مارا جائے گا کہ اسی دشمن کے ہتھیار سے ایک شخص اس کی گردن تک سر کو نگا کر کے اُس کا سرکاٹ دے گا.اُس کا قد اُونچالیکن بدنما اونچا نہ ہوگا.وہ چلتے وقت زور سے قدم مارے گا (زمین اُس کے قدموں سے لرزے گی ) اس کا رنگ سفید لیکن سُرخی مائل ہوگا.اُس کے بال گھنگھر الے ہونگے لیکن بالکل گھنگھرالے نہیں.اُن میں پیچ پڑے ہونگے.اُس کا کلام شیریں ہو گا لیکن سچائی پر مشتمل ہونے کے سبب سے لوگوں کو تلخ معلوم ہوگا.اس کا نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوگا.آخر وہ ایک دن فاران کی پہاڑیوں سے ہوتا ہوا مکہ پر حملہ آور ہوگا.دس ہزار سپاہی جو نہایت نیک و پاک ہونگے اس کے ساتھ ہونگے اور وہ ملکہ کو فتح کرلے گا.اس کے بعد ملک اس پر ایمان لے آئے گا.اُس کے کام ایسے شاندار ہونگے کہ لوگ انہیں دیکھ کر عجیب کہہ اُٹھیں گے.وہ نہایت با اخلاق ہوگا اور غریب ومسکین اُس سے مشورہ کرنے میں یہ جھجکیں گے.اُس کے کلام میں اُسے
فصائل القرآن نمبر ۵ 319 مثیل موسی کہا جائے گا.اُس کی قوم کے کاموں سے خدا تعالیٰ خوش ہوگا.وہ انہیں مقدس بنائے گا اور ہمیشہ انہیں مقدس بنانے کے سامان پیدا کرتا رہے گا.اُس کے مذہب کا نام نیا ہوگا اور خدا تعالیٰ خود وہ نام انہیں دے گا اور اُس میں سلامتی کا لفظ پایا جائے گا.(سلامتی کا شہزادہ یعنی سردار اسلام اس کا لفظی ترجمہ ہے ) اس کے شہر کو ہمیشہ آباد رکھا جائے گا اور لوگ دُور دُور سے اس کا قصد کر کے آئیں گے.وہ جس طرف رُخ کرے گا لوگ مرعوب ہونگے.قومیں اس پر مل کر حملہ کریں گی لیکن شکست کھائیں گی سَيُهْزَهُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ النُّبُرَ.اور اس کے دشمن ہلاک ہو نگے.اس کا مقابلہ ایک طرف شامی حکومت سے اور ایک طرف ایرانی حکومت سے یعنی قیصر و کسرئی سے ہوگا اور دونوں شکست کھا ئیں گی.اُس کے آنے کے بعد پہلی سلطنتیں اور پہلے دینوں کی برکت مٹ جائے گی اور ترقی ٹک جائے گی.(عیسائیت نے بظاہر ترقی کی ہے لیکن پہلے عیسائیت نے بذریعہ تلوار بڑھنا چاہا اور بذریعہ تلوار روکی گئی.اب بذریعہ تبلیغ بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے تو حضرت مسیح موعود مقابلہ کے لئے پیدا ہو گئے.) اُس کی قوم میں ہمیشہ مصلح پیدا ہوتے رہیں گے.وہ اگلے اور پچھلے لوگوں میں بمنزلہ ایک واسطہ کے ہوگا.اُس کی تعلیم سلامتی کی تعلیم ہوگی.وہ کسی خاص قوم کے لئے نہ ہوگی بلکہ سب کے لئے ہوگی.اُس کا رویہ دوسروں کے لئے ایک نمونہ کے طور پر ہوگا اور دوسری اقوام اس کے اثر سے اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کر لیں گی.اُس کی تعلیم کے ذریعہ سے بے حکمت اور رسمی احکام کو مٹا کر با حکمت تعلیم دی جائے گی.اُس کی تعلیم میں ہر قسم کے ضروری امور بیان ہو نگے اور وہ بالکل مکمل ہوگی جس کے بعد کسی اور تعلیم کی ضرورت نہ رہے گی.اس کی تعلیم کا ماحصل یہ ہوگا کہ وہ نجات کا راستہ ہر قوم اور ہر حالت کے لوگوں کے لئے کھولے گا اور افراط و تفریط اور شیطانی غلامی سے لوگوں کو بچائے گا.(غیر الہامی مذہب کلی طور پر شیطان کے قبضہ میں ہیں ) وہ فطرتِ انسانی کی نیکیوں کو اُبھارے گا.اُس کی کتاب خالص الہام پر مشتمل ہوگی ایک لفظ بھی دوسرا اُس میں موجود نہ ہوگا.وہ گذشتہ انبیاء پر سے الزامات کو دور کرے گا خصوصا حضرت مسیح کی پاکیزگی ایک خاص نمونہ کے ذریعہ لوگوں کو عملاً دکھا دے گا.
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰ 320 ید اخبار ایسی ہیں کہ جو ایک وقت میں نہیں دی گئیں.ایک وقت میں ان کے سامان نہیں پیدا کئے گئے.قوموں اور شہروں کا زندہ رہنا ہزاروں سال کے طبعی تصرفات کا نتیجہ ہے.ایک خاص حلیہ کے شخص کا پیدا ہونا خاص علم الحیوانات کا نتیجہ ہے.دشمنوں اور دوستوں کے دل میں ان خیالات کا پیدا ہونا جو مذکور تھے خاص علم النفس کے ماتحت تغیرات کا نتیجہ ہے.دشمنوں کا زیر ہونا خاص سیاسی تغییرات کا نتیجہ ہے.( مسیحی کہتے ہیں کہ قیصر و کسری پہلے سے کمزور تھے.ہم کہتے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ آپ کی مدد کے لئے پیدائش سے بھی پہلے سامان ہو رہے تھے ) اسی طرح خاص تعلیم اور اس کی تفصیلات خاص آسمانی تو جہات کا نتیجہ ہیں.غرض صاف طور پر یہ سلسلہ آسمانی اور زمینی بادشاہت کے ایک ہونے پر دلالت کرتا ہے اور ان سب امور کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ لِلهِ مُلْكُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ آسمانی اور زمینی بادشاہتوں کا اتحاد ایک بالا اور بالا رادہ ہستی کا ثبوت دے رہا ہے فَسُبْحَانَ اللهِ المَلِكِ القدوس.یہ میں نے ہی نہیں کہا بلکہ حضرت مسیح ناصری بھی اس دلیل میں میرے ساتھ متفق ہیں.چنانچہ مسیح کی یہ دُعا کہ تیری بادشاہت آئے.تیری مراد جیسی آسمان پر ہے زمین پر بھی آئے شکر اس سے حضرت مسیح کا یہی مطلب ہے کہ ظہور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے دعا کرو کہ اس کے ذریعہ سے آسمانی بادشاہت کا ظہور زمین پر ہوگا.اب دیکھو یسعیاہ باب ۹ تا اور حضرت مسیح کی پیشگوئی (متی باب (۲۱) کس رنگ میں پوری ہوئی.محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ خدائے قادر ہوگا اور مالک ارض وسما ہوگا.(یعنی باغ کا مالک ) اس کے یہی معنے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا زبر دست ثبوت اور آسمانی اور زمینی نظاموں کا ایک بالا رادہ ہستی کے ہاتھ میں ہونے کا ثبوت آپ کی ذات میں ملے گا اور اُن کے ذریعہ سے لوگ قطعی طور پر خدا تعالیٰ کی ہستی کا علم حاصل کریں گے.پس آپ کا آنا خدا کا آنا ہوگا.قرآن کریم کی دوسری اصولی اصلاح قرآن کریم نے جو دوسری اصلاح کی وہ خدا تعالیٰ کی صفات کے متعلق ہے.چنانچہ دوسری اصولی غلطی جو دنیا میں پیدا ہوئی وہ خدا تعالیٰ کے ماننے والوں میں سے بھی اُس گروہ میں پیدا ہوئی جو خدا تعالی کو تو مانتا ہے لیکن خدا تعالی کی زندگی کا منکر ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ خدا
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 321 دنیا کو پیدا کر کے اب الگ ہو گیا ہے اور اب سب تغیرات آپ ہی آپ ہورہے ہیں.گویا نعوذ باللہ اگر خدا تعالیٰ نہ بھی رہے تو بھی دنیا چلتی رہے گی اور دنیا کے انتظام میں کوئی نقص پیدا نہیں ہوگا.یہ وہ لوگ ہیں جو دُعا کے منکر اور ہر امر کو قانونِ قدرت کے تابع قرار دیتے ہیں.یہ بھی ہر زمانہ میں ہوتے آئے ہیں.اس زمانہ میں علی گڑھ میں سید احمد ایسے ہی خیالات رکھتے تھے اور اس سے پہلے بھی بہت سے لوگ ہر زمانہ میں ہوتے رہے ہیں.جو یہ کہتے تھے کہ خدا اب دنیا کے معاملات میں کوئی دخل نہیں دیتا.اسلام نے ان لوگوں کی غلطی کو بھی دُور کیا ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے : - قل اللَّهُمَّ مَلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنَ تشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ، إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ تُولِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيْتَ مِنَ الْحَيَّ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ نا فرمایا کہو اے اللہ! تو ہی ہے جو ملک کا مالک ہے.تو جسے چاہتا ہے بادشاہت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے لے لیتا ہے.تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے.ساری بھلائیاں تیرے ہی ہاتھ میں ہیں.تو دن کو رات میں اور رات کو دن میں داخل کرتا ہے.تو زندہ کو مردہ سے اور مُردہ کو زندہ سے نکالتا ہے.تو جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے.اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ خیال کہ اللہ تعالیٰ نے ایک قانون بنادیا اب وہ بالکل بے دخل ہے کس طرح پیدا ہوا؟ اصل میں یہ قلت معرفت سے پیدا ہوا ہے مگر فلسفی اس کے متعلق کچھ دلائل بھی دیتے ہیں.جو یہ ہیں :- اول اگر خدا کا تصرف قانونِ قدرت کے خلاف ہے.تو یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ قانونِ قدرت کی غرض باطل ہو جاتی ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ نے قانون بنایا ہے کہ آگ جلائے اگر کوئی خدا سے دُعا کرے کہ آگ نہ جلائے اور یہ دعا قبول ہو جائے تو دنیا میں ابتری پھیل جائے گی اور کوئی ترقی نہ ہو سکے گی.قانونِ قدرت کی اتباع اسی لئے کی جاتی ہے کہ اس کا ایک یقینی نتیجہ نکلتا ہے.لوگ آگ جلاتے ہیں اس لئے کہ وہ جلتی ہے.پانی پیتے ہیں اس لئے کہ پیاس بجھاتا ہے اگر کبھی پانی پینے سے شعلے نکلنے لگ جائیں تو کوئی نہ بنے.
فصائل القرآن نمبر ۵۰ 322 دوم قانون کے خلاف تصرف کرنا انصاف کے خلاف ہے.مثلاً ایک نے سامانِ جنگ تیار کیا اور لشکر جمع کیا اور اس طرح جنگ میں فتح پانے کے متعلق قانون قدرت کی اطاعت کی لیکن ایک دوسرے نے دُعا کر کے اُسے شکست دے دی تو یہ انصاف کے خلاف ہے کہ جو قانون کے مطابق کام کر رہا ہے وہ تو نقصان اُٹھائے اور جو مخالف ہے وہ جیت جائے.تیسرے اگر تصرف قانونِ قدرت کے مطابق ہے تو پھر بے فائدہ ہے.کسی کی دُعا کیسے قبول ہوسکتی ہے.ایسی صورت میں دُعا کے قبول ہونے کا دعویٰ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ میں نے روٹی کھائی مگر میں نے دُعا کی تھی جو قبول ہو گئی اور میرا پیٹ بھر گیا.یہاں دُعانے کیا اثر کیا؟ یہ تو روٹی نے اپنا اثر دکھایا.دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں ہر چیز کا سبب موجود ہے بلکہ جسے دُعا کا نتیجہ کہتے ہیں اس کا بھی ہم سبب بتا دیتے ہیں.مثلاً کہتے ہیں دُعا کی اور لڑکا پیدا ہو گیا.حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ میاں بیوی ملے تب بچہ پیدا ہوا اور اسی طرح بچے پیدا ہوتے ہیں.کوئی ایسی چیز دکھاؤ جو اسباب سے الگ ہواگر پیشگوئیاں پیش کرو.مثلاً کہو بتایا گیا تھا کہ بیٹا ہوگا اور ہو گیا تو پیشگوئی اظہار واقعہ ہے.بیٹا پیدا ہونا تھا.تمہیں اس کا پتہ لگ گیا اور تمہیں بتادیا گیا.اس سے دُعا کا کیا تعلق ہوا؟ پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اس سے قانونِ قدرت کی غرض باطل نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ بھی بالعموم سامان ہی پیدا کرتا ہے جن سے انسان کو اس کا مقصد حاصل ہوتا ہے.وہ بغیر اسباب کے تصرف نہیں کرتا بلکہ اپنی مشیت پوری کرنے کے لئے بعض نئے اسباب پیدا کر دیتا ہے جولوگوں کی نگاہ سے مخفی ہوتے ہیں.دوسرا جواب یہ ہے کہ دنیا میں ہر سب یقینی نہیں مگر پھر بھی لوگ اُن کی طرف توجہ کرتے ہیں.جیسے بیماریوں میں علاج کے لئے دوڑ دھوپ کرتے ہیں لیکن کیا کوئی علاج یقینی اور قطعی ہے؟ آخر سب بیمار تو اچھے نہیں ہوتے مگر پھر بھی لوگ علاج پر لاکھوں روپیہ خرچ کرتے ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ ہر جگہ استثناء پایا جاتا ہے اور استثناء قاعدہ کو کمزور نہیں بلکہ اُسے مضبوط کرتا ہے.اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ بھی کبھی تقدیر خاص جاری کرے تو اس سے قانونِ قدرت میں کوئی خرابی واقعہ نہیں ہوتی بلکہ اس سے ایک زائد فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کا جلال نظر آجاتا ہے اور اُن
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 323 کا ایمان اپنے رب پر بڑھ جاتا ہے.(۲) تصرف انصاف کے بھی خلاف نہیں کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ قانونِ قدرت جدھر چل رہا ہو انصاف بھی اُسی طرف ہو.مثلاً ایک ڈاکو جاتا ہے اور ایک بچے کی گردن پر تلوار مار کر اُسے اُڑا دیتا ہے.اب قانونِ قدرت کہتا ہے کہ جب تلوار گردن پر پڑے تو سر الگ ہو جائے مگر کیا یہی انصاف ہوگا ؟ دنیا میں کروڑ ہا مواقع ایسے پیش آتے ہیں جبکہ قانونِ قدرت کو لوگ غلط رنگ میں استعمال کرتے ہیں.اس لئے ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ ایسے نشان دکھائے جن سے قانونِ قدرت کا غلط استعمال رُک جائے.چنانچہ جب ایسے مواقع پر خدا تعالیٰ قانونِ قدرت کے غلط استعمال کو اپنے تصرف سے روکتا ہے تو بحیثیت مجسٹریٹ نہیں بلکہ بحیثیت مالک روکتا ہے اور دُعا اُسی وقت قبول ہوتی ہے جب دُعا کرنے والا حق پر ہوتا ہے ورنہ دُعا اُس کے مونہہ پر ماری جاتی ہے.پس اس ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے قانونِ قدرت کے صرف ناجائز استعمال کو ڈور کیا ہے اور یہ ظلم نہیں بلکہ انصاف کے عین مطابق ہے.(۳) یہ جو کہا جاتا ہے کہ اگر خدا کا تصرف قانونِ قدرت کے مطابق ہے تو پھر تصرف کیسا ہوا یہ بھی درست نہیں کیونکہ اگر تصرف محض قانون کے مطابق چلے تو بے شک بے فائدہ کہلائے گا لیکن اگر تصرف قانون کو اپنے مطابق کرنے کے ذریعہ سے ظاہر ہو تو پھر وہ بے فائدہ کیوں ہوا.ایسی صورت میں تو اگر تصرف نہ ہوتا تو قانون مخالف رنگ میں ظاہر ہوتا اور نقصان کا موجب بنتا.دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ بے شک ہر چیز کا سبب موجود ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے تصرف کے مدعی یہ تو کہتے ہی نہیں کہ وہ بغیر اسباب کے تصرف کیا کرتا ہے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالٰی دُعا کرنے والے کی تائید میں اسباب پیدا کر دیتا ہے اور اسباب پیدا کرنا دنیا کے لئے باعث رحمت ہوتا ہے ورنہ بغیر ظاہری اسباب کے تصرف تو بعض دفعہ فساد کا موجب ہو سکتا ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں بھی خدا تعالیٰ نے اسباب کو مخفی کیا وہاں عوام کو ٹھو کر گی.جیسے دیکھ لو مسیح کی پیدائش یہود کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوئی اور انہوں نے حضرت مریم پر زنا کا الزام لگایا لیکن بیٹی کی پیدائش اُن کے لئے کسی ٹھوکر کا موجب نہ تھی.اسی طرح سارہ کے ہاں بچہ پیدا ہونا بھی لوگوں کے لئے کسی ٹھوکر کا موجب نہ بنا.اس کی وجہ یہی تھی کہ حضرت اسحاق اور بیٹی کی پیدائش میں ظاہری اسباب موجود تھے مگر حضرت مسیح کی پیدائش میں وہ اسباب نہیں تھے.اس لئے ان کو ٹھوکر لگی.
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 324 حالانکہ مریم میں بچہ کے پیدا کرنے کی خاصیت پیدا کرنا یا زکریا اور سارہ میں پیدا کرنا بالکل ایک ہی بات تھی.پس اسباب کا مخفی کرنا بسا اوقات فضل کی بجائے فتنہ پیدا کرتا ہے.اس لئے اسباب کا پیدا کرنا انسان کے لئے رحم کے طور پر ہے اور لوگوں کو فتنوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ہے.ہم اس بات کے ہرگز قائل نہیں کہ اللہ تعالیٰ بغیر اسباب کے کچھ کر ہی نہیں سکتا یا جہاں اسباب ہوں وہاں اللہ تعالیٰ کا تصرف نہیں ہوتا بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ دُعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پیدا کرتا ہے کہ جن سے کام ہو جاتا ہے.پہلے وہ اسباب کسی کو نظر نہیں آتے لیکن دُعا کے نتیجہ میں پیدا ہو جاتے ہیں.مثلاً تجارت میں ترقی دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کئی اسباب بنائے ہوئے ہیں مگر ہر شخص کو پورے سامان میسر نہیں آتے.جب دُعا کی جائے تو وہ اسباب مہیا ہو جاتے ہیں اور ایسا انسان ترقی کر جاتا ہے لیکن اگر خدا تعالیٰ یوں ہی کسی کے گھر دس ہزار روپیہ پھینک دے تو فوراً پولیس آکر اُس کو پکڑے کہ کہیں سے چوری کر کے لایا ہے.پس اسباب کا پیدا کرنا بسا اوقات خود اُس شخص کے لئے مفید ہوتا ہے جس کے لئے وہ تصرف کرتا ہے.کہا جاتا ہے کہ مان لیا خدا اسباب پیدا کرتا ہے مگر ایک منکر کو کس طرح منواؤ گے کہ خدا نے اسباب پیدا کئے اور اس طرح اس کا تصرف ظاہر ہوا یا فلاں موقعہ پر عام قانون جاری ہوا اور فلاں موقعہ پر تصرف.اس کے دو جواب ہیں.اول یہ کہ جو خدا کا ہو جاتا ہے اس کا ہر فعل ہی تھوڑے یا بہت تصرف میں ہوتا ہے مگر بعض اوقات اپنے خاص تصرف کے ماتحت اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پیدا کرتا ہے کہ جن میں بندہ پر کوئی اعتراض نہیں آتا اور اُس کی طاقت کا ایک نشان ظاہر ہو جاتا ہے.جیسے بدر کے موقع پر ہوا.خدا تعالیٰ نے آندھی چلا دی اور ساتھ ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کنکر چلائے.کفار آندھی کی وجہ سے دیکھ نہ سکتے تھے کیونکہ آندھی کا رُخ اُن کی طرف تھا اور مسلمان خوب زور سے اُن پر حملہ کرتے تھے اس قسم کی مثالوں کے متعلق دشمن کو بھی ماننا پڑتا ہے کہ خاص تصرف ہوا اور جس کی تائید میں ایسا نشان ظاہر ہو اُس پر کوئی الزام بھی نہیں آتا لیکن ایسی مثالیں کبھی کبھی ظاہر ہوتی ہیں اور لمبے زمانہ تک دلیل رہتی ہیں.پھر خدا تعالیٰ نیا انسان بھیج دیتا ہے اور اس کی تائید میں ایسے نشانات دکھائے جاتے ہیں.اب رہا یہ اعتراض کہ کیوں نہ سمجھیں کہ پیشگوئیاں صرف اظہارِ حقیقت ہوتی ہیں اُن میں خدا
فصائل القرآن نمبر ۵۰ 325 کا کوئی تصرف نہیں ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اظہارِ حقیقت بھی تو کسی غرض کے لئے ہوتا ہے.جب خدا تعالیٰ کسی سے کہتا ہے کہ تمہارے ہاں بیٹا ہوگا تو یہ کیوں قبل از وقت بتاتا ہے.اس کی کوئی غرض ہونی چاہئے.یا کسی کو بتاتا ہے کہ تم مر جاؤ گے تو اُس کے بتانے کی بھی کوئی حکمت ہونی چاہئے اور وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ خوشخبری اس لئے دیتا ہے تا انسان اس کے لئے کوشش کرے اور ڈراتا اس لئے ہے تا کہ آنے والی مصیبت سے انسان بیچ سکے ورنہ اگر کوئی پیشگوئی بے مقصد ہو تو وہ فضول ہے اگر خیر کے حصول اور شر سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہی نہیں تو پھر بتانے کے معنے ہی کیا ہوئے اور اگر کہو کہ قبل از وقت بتانے کی غرض ہو شیار کرنا ہے تو یہ بھی تو تصرف ہے.کسی کو بتادینا کہ ایسے اسباب پیدا ہور ہے ہیں تم اُن کے مقابل میں ایسے ایسے اسباب پیدا کر لو.یہ بھی تو تصرف ہی ہے خواہ بالواسطہ ہی سہی.یہ تو فلسفیوں کا اعتراض تھا جس کا جواب دیا گیا.دوسرا اعتراض عملی لوگوں کا ہے وہ کہتے ہیں.ہم دُعا کرتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتی.ہم نے دعا مانگی کہ بیٹا ہومگر نہ ہوا.ہم نے مقدمہ جیتنے کی دُعا مانگی مگر نہ جیتے.قرآن نے اِن سب باتوں کا جواب دیا ہے اور اپنے دعوی کے دو ثبوت دیئے ہیں ایک فلسفیانہ اور ایک مشاہدہ کا.فرماتا ہے:.b إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَأَيْتٍ لِأُولى الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَما وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السموتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلًا : سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ - رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيْمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَا ۖ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدُتَّنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيمَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَوْذُوا فِي سَبِيلِي وَقَتَلُوا وَقُتِلُوا لَا كَفَرَنَ عَنْهُمْ سَيّاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا الْأَنْهرُ : ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ الله وَاللهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلَادِ ط
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 326 مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأوَهُمْ جَهَنَّمُ ، وَبِئْسَ الْمِهَادُ.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے تصرف کے کئی دلائل دیئے ہیں.(۱) پہلی دلیل یہ دی ہے کہ اس دنیا کی پیدائش میں طبعی قانون کا ہی اجراء نہیں بلکہ روحانی اور اخلاقی قانون بھی عمل کر رہا ہے.تم تو کہتے ہو کہ خدا تعالیٰ کی شان کے یہ خلاف ہے کہ وہ دخل دے مگر ہم ایک اور نکتہ پیش کرتے ہیں اور وہ یہ کہ دیکھو اِس دنیا کو کیوں پیدا کیا گیا ؟ کیا اس لئے کہ انسان کھائے پیئے اور پھر مر جائے.یہ تو مقصد نہیں.پھر کیا اس لئے کہ انسان کو اعلیٰ مدارج اور اعلی ترقیات پر پہنچا یا جائے اگر یہ ہے تو معلوم ہوا کہ دنیا کا اصل مقصد قانون طبعی کا اجراء نہیں بلکہ قانونِ اخلاقی کا اجراء ہے.دنیا کے پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس میں انسان پیدا ہو اور وہ باخدا انسان ہے.چنانچہ فرمایا.ان في خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَةٍ لِأُولى الْأَلْبَابِ.الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِمَّا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ - آسمانوں اور زمین کے بنانے اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں عقلمندوں کے لئے بڑے نشانات ہیں.عظمند وہ ہیں جو خدا کو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں.تب وہ بے اختیار پکار اُٹھتے ہیں کہ اے خدا! تو نے اس دنیا کو بغیر مقصد کے پیدا نہیں کیا.اب دیکھو قانونِ طبعی تو ہر ایک کو نظر آتا ہے اس کے متعلق سوچنے اور غور کرنے کی کیا ضرورت ہے مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ سوچتے ہیں اور اس کے بعد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اس دنیا کو بغیر وجہ کے پیدا نہیں کیا گیا اور پھر وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب ! تو ہمیں توفیق دے کہ ہم اس مقصد کے مطابق زندگی بسر کریں.وہ مقصد کیا ہے یہ کہ رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ.رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيَّا يُنَادِي لِلْإِيْمَانِ أَنْ امِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الابرار - یعنی اے خدا! ہمیں وہ اعلیٰ درجہ کی رُوحانی اور اخلاقی ترقیات عطا کر جن کی وجہ سے انسان با خدا ہو جاتا ہے اور ان باتوں سے بچا جن سے انسان خدا سے دُور ہو جاتا ہے.ہم نے اس کے لئے کوشش شروع کر دی ہے تو توفیق دے کہ ہم اس میں کامیاب ہو جا ئیں.
فصائل القرآن نمبر ۵ 327 (۲) دوسری دلیل یہ دی ہے کہ الہی تصرف کے بغیر بالکل ممکن ہے بلکہ اغلب ہے کہ روحانی اور اخلاقی قانون ملیا میٹ ہو جائے کیونکہ نبی دنیا میں خدا تعالیٰ کے جلال کے اظہار کے لئے آتا ہے اور دنیا کو کمزور ہونے کے باوجود کھاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا تصرف کیسا کامل ہے.اس وقت دنیا کلی طور پر قانون قدرت پر چل رہی ہوتی ہے اور اسی وجہ سے ہر قسم کی خرابیاں پورے زور پر ہوتی ہیں.پس جب قانونِ قدرت کے ذریعہ زیادہ خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں تو خدا تعالیٰ نبی کے ذریعہ قانونِ اخلاق اور قانون روحانیت کو قائم کر دیتا ہے.جیسا کہ دو گشتی کرنے والوں میں سے جو اپنا ہوتا ہے اُسے غالب کرنے کے لئے سہارا دے دیا جاتا ہے.اسی طرح جب قانونِ قدرت قانون اخلاق کے خلاف چلنے لگتا ہے اور خرابی پیدا ہو جاتی ہے تو خدا تعالیٰ اپنا کوئی نبی مبعوث کر کے قانون اخلاق کو قائم کر دیتا ہے.پس اگر دنیا کی پیدائش کی غرض کو پورا کرنا ہے تو ضروری ہے کہ الہی تصرف ہوتا کہ جب رُوحانی اور اخلاقی قانون کو کچلنے کیلئے کوئی زبر دست فرد یا گروہ طبعی قانون سے مدد لے رہا ہو تو وہ اُس کے راستہ کو تبدیل کر دے.اسی لئے فرمایا کہ انِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أَنْفِى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ ، میں نے دنیا کو روحانی ترقی کے لئے بنایا ہے.میں اُسے ضائع نہیں ہونے دیتا.اب مشاہدہ آتا ہے.کہا جاتا ہے کہ دعا قبول نہیں ہوتی.فرمایا ہر ایک دُعا خدا قبول نہیں کرتا لیکن یہ نہیں کہ کوئی دُعا بھی قبول نہیں کرتا اگر خدا کے تصرف کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہو تو اس امر سے دیکھو کہ ہم کفار کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں.چنانچہ فرماتا ہے لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلَادِ مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَبِهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُ.سامانوں کو دیکھو تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے پاس ہر قسم کے سامان موجود تھے.قانونِ قدرت پوری طرح اُن کی تائید میں تھا مگر ہمارا قانون اخلاق چونکہ اس سے مقدم ہے اس لئے ہم بتاتے ہیں کہ یہ لوگ جو اپنے لشکروں اور سامانوں سے ڈراتے پھرتے ہیں خدا نے فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ اِن سامانوں والوں کو ہلاک کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامیاب کر دے گا.ہاں فرماتا ہے کہ چونکہ طبعی قانون بھی ہمارا ہے اس لئے اس کا اعزاز بھی قائم رہنا چاہئے اور شرعی اور اخلاقی قانون پر اعتماد کر کے اسے ترک نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی بہتک ہے.فرماتا ہے.لیکا ط
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 328 قف الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا * وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.اے مومنو! ہم نے دشمن کے اس اعتراض کا جواب دے دیا کہ خدا دعا نہیں سنتا ہے.ان کو ہم نے بتا دیا ہے کہ وہ دُعائیں سنتا ہے اور ایسے تصرفات کرے گا کہ تم باوجود ساز وسامان کے جیت نہیں سکو گے اور جو تمہارے مقابلہ میں بے سروسامان ہیں وہ جیت جائیں گے مگر تم بھی غلطی نہ کرنا کہ کہ دو ہمیں قانونِ قدرت کی پابندی کی ضرورت نہیں.وہ قانون بھی میرا ہی بنایا ہوا ہے.پس اے مومنو! صبر سے کام لینا، جتھہ بندی کرنا، ہر قسم کے سامان تیار رکھنا تا کہ کامیاب ہو جاؤ.ہاں کبھی خدا تعالیٰ کا منشاء یہ بھی ہوتا ہے کہ قانون قدرت کو بالکل چھوڑ دیا جائے.جیسے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کھانسی کی تکلیف تھی.یہ کھانسی اتنی شدید تھی کہ جب اُس کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو ڈاکٹر عبد الحکیم نے پیشگوئی کر دی کہ مرزا صاحب کو سل ہو گئی ہے اور اس بیماری سے فوت ہو جائیں گے.ادھر پیشگوئی شائع ہوئی اُدھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دوائی پلانے کا کام میرے سپرد تھا اور مجھے کمپونڈری کرنے کے لحاظ سے یہ خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو علاج کے متعلق میری ہدایات ماننی چاہئیں.اُن دنوں ایک دوست آئے جو تحفہ کے طور پر کچھ پھل لائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُس وقت لیے ہوئے تھے اور اس سے تھوڑی ہی دیر پہلے آپ کو کھانسی کا شدید دورہ ہو چکا تھا.آپ نے دریافت فرمایا کیا پھل ہے؟ میں نے عرض کیا.کیلے اور سنگترے ہیں اور ساتھ ہی میں نے عرض کیا کہ آپ نہ کھائیں کیونکہ آپ کو شدید کھانسی ہے.آپ نے پھل اپنے پاس رکھ لئے.آپ کھاتے جائیں اور مسکراتے جائیں.میں گڑھنے لگا کہ حضرت مولوی صاحب ( یعنی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ) کو کیا جواب دوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میری حالت دیکھ کر فرمایا.تمہیں برا لگتا ہے لیکن مجھے الہام ہوا ہے کہ کھانسی دور ہوگئی ہے.تو بعض مواقع پر خدا تعالیٰ ایسے اسباب بھی پیدا کر دیتا ہے کہ قانون قدرت کی پابندی کی ضرورت نہیں رہتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بھی ایسے واقعات پائے جاتے ہیں.غزوہ حنین میں جب صحابہ کی سواریاں پرک گئیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف ۱۲ آدمی رہ گئے تو انہوں نے عرض کیا کہ آپ ذرا پیچھے ہٹ جائیں کیونکہ دشمن کا شدید حملہ ہے.جس صحابی نے آپ کی سواری کے جانور کو پکڑا ہوا تھا.
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 329 اُسے آپ نے فرمایا چھوڑ دو اور پھر سواری کو ایڑ لگا کر آگے بڑھے اور فرمایا سے انَا النَّبِيُّ لَا كَذِب انَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب اور باوجودیکہ اُس وقت چاروں طرف سے تیر برس رہے تھے مگر آپ کو نہ لگے.تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت جو اسباب پیدا ہوتے ہیں وہ نظر نہیں آتے.اس جواب میں دُعا والے اعتراض کا جواب بھی آگیا.یعنی خدا تعالیٰ کے طبعی اور اخلاقی قانون پہلو بہ پہلو چل رہے ہیں.اس لئے دُعا دونوں کے توازن کے ماتحت اور قانون کے ماتحت ہی قبول ہوتی ہے اور جو اس کے خلاف چاہتا ہے وہ بیوقوف ہے.بہر حال اخلاقی اور روحانی قانون میں اندھیر نگری نہیں ہے.تیسری اصولی اصلاح توحید کے متعلق تیسری اصلاح قرآن کریم نے تو حید کے متعلق کی ہے.اس کے متعلق پہلی خرابی یہ پیدا ہوگئی تھی کہ خدا کے مقابلہ میں اور خدا مقرر کرنے شروع کر دیئے گئے تھے.یہ خرابی خواہ شرک فی الذات کی صورت میں ہو.جیسا کہ مسیحیوں، ہندوؤں اور زرتشتیوں میں ہے اور خواہ شرک فی الصفات ہو جیسا کہ یہود میں ہے کہ وہ عزیر کو ابن اللہ کہتے تھے.ملک صدق سالم کو ازلی ابدی بن ماں باپ کے مانتے تھے.الیاس اور کئی اور لوگوں کو آسمان پر زندہ تسلیم کرتے تھے.اسلام نے ان سب شرکوں کو مٹایا ہے اور ایک خالص تو حید قائم کی ہے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اللہ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيْلٌ لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِأَيْتِ اللهِ أُولَبِكَ هُمُ الْخَسِرُونَ 'نا' یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ ہر ایک کام کے لئے کافی ہے.آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اُس کے ہاتھ میں ہیں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہیں وہی گھاٹے میں پڑتے ہیں.اس میں چار دلیلیں ہر قسم کے شرک کے رد میں دی گئی ہیں (۱) فرمایا تمام چیزوں کے دیکھنے سے صاف طور پر نظر آئے گا کہ وہ دو ہستیوں کی پیدا کردہ نہیں بلکہ ایک ہی ہستی کی پیدا کی ہوئی ہیں اور سب کی پیدائش ایک ہی قانون کے ماتحت ہے.بچہ کو کسی اور نے اور خوراک کو کسی اور نے پیدا
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 330 نہیں کیا بلکہ بچہ پیدا ہی اس خوراک سے ہوتا ہے جو تم کھاتے ہو اور جو چیزیں کھائی جاتی ہیں ان کو خدا نے پیدا کیا ہے.فرمایا.اللہ خَالِقَ كُلّ شَیءٍ اللہ تعالیٰ کا ہر چیز کا خالق ہونا دلیل ہے اس بات کی کہ اور کوئی خدا نہیں ہے.(۲) دوسری دلیل یہ دی که وَهُوَ عَلى كُلّ شَیءٍ وکیل خدا ہی سب چیزوں کا محافظ ہے یعنی سب چیزوں کی حفاظت ایک قانون کے ماتحت ہے.مثلاً کسی کا بیمار بیٹا اچھا ہوتا ہے تو اگر وہ یونہی اچھا ہو جاتا تو کہا جاتا کہ اس کو اچھا کرنے والا کوئی اور ہے اور سورج چاند کو بنانے والا کوئی اور مگر اب چونکہ اچھا کرنے میں سورج چاند کا بھی دخل ہے اس لئے ماننا پڑے گا کہ جس نے سورج چاند پیدا کئے اُسی نے اچھا کیا.(۳) تیسری دلیل یہ دی کہ تمام ضرورتیں روحانی و جسمانی اُسی سے پوری ہو سکتی ہیں.فرمایا لهُ مَقَالِيدُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ آسمانوں اور زمین کی گنجیاں اُسی کے ہاتھ میں ہیں.جب انسان کی ساری ضروریات خواہ وہ جسمانی ہوں یا رُوحانی خدا ہی پوری کرتا ہے تو پھر عزیر کیسوع اور ملک صدق وغیرہ کی ضرورت نہ رہی.کسی اور خدا کی کیا ضرورت رہی کہ اُس کو معبود قرار دیا جائے.(۴) چوتھی دلیل یہ دی کہ خدا کی توحید کے مؤید ہمیشہ جیتتے اور دشمن نا کام ہوتے ہیں فرمایا.وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِأَيْتِ اللهِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُون جو لوگ توحید کے منکر ہوتے ہیں وہ توحید کے ماننے والوں کے مقابلہ میں ہارتے ہیں.یہ عملی ثبوت ہے خدا کی توحید کا.پس شرک فی الذات اور شرک فی الصفات دونوں غلط ہیں.جہاں بعض لوگوں نے مشرکانہ خیالات سے توحید میں نقص پیدا کیا ہے.وہاں بعض لوگ توحید کے شوق میں وحدۃ الوجود کے قائل ہو گئے اور ذرہ ذرہ کو خدا بنا دیا.قرآن کریم نے اس کی بھی تردید کی ہے.ان لوگوں نے اپنی طرف سے توحید کی تائید کی تھی اور کہا تھا کہ اگر خدا تعالیٰ کے سوا کوئی اور وجود تسلیم کریں تو اس سے شرک لازم آتا ہے مگر انہوں نے یہ خیال نہ کیا کہ اس طرح انہوں نے ہر چیز کو خدا قرار دے دیا.اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی رڈ کیا ہے اور وہ اس طرح کہ فرمایا.وَلَا تَدْعُ مَعَ اللهِ الهَا أَخَرَم لَا إلهَ إِلَّا هُوَ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ عنا فرمایا.تم کہتے ہو کہ سب کچھ خدا ہی خدا ہے مگریہ نہیں دیکھتے کہ ہر وہ چیز جو پیدا ہوئی ہے ہلاک ہوتی ہے اگر
فصائل القرآن نمبر ۵ 331 یہ سب کچھ خدا ہے تو تغیر پذیر نہیں ہو سکتا لیکن اس کا تغیر پذیر ہونا خود ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ خدا کا حصہ نہیں کیونکہ اگر حصہ میں تغیر ہو سکتا ہے تو کل میں تغیر بھی لازمی ہے.اس طرح قرآن کریم نے انسانوں پر جو لعنتیں کی ہیں ان سے بھی وحدۃ الوجود والوں کی تردید ہوتی ہے.لعنت کے معنے دور کئے جانے کے ہیں اگر ہر چیز خدا کا حصہ ہے تو ایسے لوگوں کو ڈور کیوں کیا گیا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ بختی کی گئی ہے مگر اس طرح وحدۃ الوجود کی جڑ کاٹ دی گئی ہے.اگر ہم یہ مان لیں کہ ہر چیز خدا کا حصہ ہے تو کہنا پڑے گا کہ نعوذ باللہ اس کے حصے نہایت گندے اور ناپاک ہیں مگر یہ خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے اگر وحدۃ الوجود والوں کو کہیں کہ تم تو اچھے ہو مگر تمہارا دل بڑا نا پاک ہے تو لڑ پڑیں گے مگر خدا تعالیٰ کا جن چیزوں کو جز و قرار دیتے ہیں اُن کے متعلق کہتے ہیں کہ گندی ہیں.بعض لوگوں نے اُن کے برعکس یہ نظریہ قائم کیا کہ دنیا کو خدا سے بالکل جدا کر دیا اور کہہ دیا کہ خدا عرش پر ہے اور دنیا اس سے بالکل الگ ہے.وہ مخلوق سے بالکل جدا آسمان پر قائم ہے اور وہاں سے دنیا پر حکومت کر رہا ہے.یہ نظریہ موحد یہود اور موحد زرتشتیوں کا ہے اور بد قسمتی سے اہلحدیث کا بھی ہے.اسلام نے اسے بھی رڈ کیا ہے فرماتا ہے.هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِیمٌ.نا یعنی اللہ ہی اول ہے اور اللہ ہی آخر ہے.وہی ظاہر ہے اور وہی باطن ہے اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے.عرش پر الگ تھلگ بیٹھنے والا تو اول.آخر اور ظاہر.باطن نہیں ہو سکتا اور نہ ہر چیز کو جاننے والا ہوسکتا ہے.پھر فرمایا.وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (ق: آیت ۱۷) ہم انسان سے اُس کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں.اب جب تک وہ سارے جسم پر تصرف نہ کرے رگ جان کے کس طرح قریب ہوسکتا ہے.غرض اسلامی تعلیم یہ ہے کہ نہ تو ہر شئے خدا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کسی خاص مقام پر محصور ہے.چونکہ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ ہر انسان اسے سمجھ نہ سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ ہر جگہ بھی ہے اور پھر الگ بھی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب اور اعتراضوں کے جواب کے سلسلہ میں یہ دیا کہ کیس كَمِثْلِهِ شَيْ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ نا فرمایا یہ اعتراض جہالت کا نتیجہ ہے.مخلوقات کے
فصائل القرآن نمبر ۵ 332 متعلق تو خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایسی نہیں ہو سکتیں لیکن خدا کی تو کوئی مثل ہی نہیں ہے.پھر اس کی ذات کو اپنی ذاتوں پر قیاس کرنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے.پس اسے اپنے او پر قیاس نہ کرو.جو طاقت سے بالا ہو اُس کے سمجھنے کی کوشش کرنا فضول ہے.تم خدا کو سمیع کہتے ہو تو کیا یہ بھی کہتے ہو کہ اُس کے تمہاری طرح کان ہیں.جب تم یہ مانتے ہو کہ خدا بغیر کانوں کے سنتا ہے اور بغیر آنکھوں کے دیکھتا ہے اور کہتے ہو خدا کے دیکھنے اور سننے کے متعلق ہمارا قانون نہیں چلتا تو پھر جگہ کے متعلق اپنا قانون کیوں چلاتے ہو.پس جو ہستی تم سے بالا ہے اُس کے سمجھنے کی کوشش فضول ہے.فرماتا ہے.لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمُ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَبِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا " یعنی اے مخاطب ! جس بات کا تجھے علم نہ ہو اُس کی اتباع ہر گز نہ کیا کر کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان سب کے متعلق تجھ سے پوچھا جائے گا.لوگ کہتے ہیں کہ صرف آنکھ اور کان کا تجسس ہوتا ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دل بھی تجسس کرے گا تو پکڑا جائے گا.درحقیقت یہ ضروری نہیں کہ کسی چیز کے سمجھنے کے لئے اُس کی گنبہ بھی سمجھی جائے.انسان سمجھ اُسی قدر سکتا ہے جس قدر سمجھنے کی اس میں طاقت ہو.انسان کا علم دو قسم کا ہوتا ہے.بعض چیزوں کے خالی وجود کا اُسے علم ہوتا ہے مگر معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کس طرح ہیں اور بعض چیزوں کے متعلق پتہ ہوتا ہے کہ کس طرح ہیں اور اُن کی کیا حقیقت ہے.پھر بعض کے متعلق اُس کے منبع تک کا علم ہوتا ہے.غرض جس جس قدر اس کا ادراک چل سکتا ہے اُسی قدر وہ بھی چل سکتا ہے مگر فرما یاوَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْ مِن عليه إلا بما شاء " اللہ تعالیٰ کے متعلق جس قدر سمجھنے کی خدا تعالیٰ نے تمہیں طاقت دی ہے اُتنا ہی تم سمجھ سکتے ہو.اس سے آگے بڑھو گے تو ٹھوکریں کھاؤ گے.چوتھی اصلاح.خدا تعالیٰ اور بندے کا تعلق چوتھی اصولی اصلاح قرآن کریم نے خدا اور بندہ کے متعلق کی ہے اس بارہ میں ایک وسوسہ یہ پیدا کیا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بندہ کی ہدایت کے لئے کوئی کلام نہیں اُتارا.خود ہی انسان تجربہ سے اپنے لئے ایک راہ تجویز کر لیتا ہے.فلاسفر وغیرہ کہ خدا کے قائل ہیں لیکن الہام و شریعت کے نہیں اُن کا یہی نظریہ ہے.قرآن کریم اُسے رڈ کرتا ہے اور فرماتا ہے.قُلْ اِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 333 الهدی " یا در کھوڑوحانی معاملات میں آپ ہی رستہ نہیں بنایا جاسکتا.صرف اللہ ہی یہ رستہ دکھا سکتا ہے.آگے اس کی وجہ بیان کرتا ہے.فرماتا ہے : قَولُهُ الْحَقُّ وَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ اُس کی بات ہو کر رہنے والی ہے اور جس دن صور پھونکا جائے گا حکومت صرف اُسی کو حاصل ہوگی.وہ پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے اور ظاہر کو بھی جانتا ہے وہ حکمت والا اور خبر دار ہے.ط اس آیت میں مندرجہ ذیل دلائل دیئے گئے ہیں :- اول یہ کہ خدا کا کلام غلطی سے پاک ہوتا ہے اور ہدایت کے لئے غلطی سے پاک ہونا ضروری ہے.دنیوی امور کے متعلق تو ہو سکتا ہے کہ ایک غلط بات بھی مان لی جائے اور اس کا کچھ نقصان نہ ہو.مثلاً باپ دادا پانی کو مفرد مانتے آئے تو اس سے کوئی نقصان نہ ہوالیکن اگر خدا تعالیٰ کے متعلق غلطی کی جائے اور خدا کو ایک نہ مانیں تو اس کا نتیجہ جہنم ہوگا.اس لئے ضروری ہے کہ روحانی ہدایت خدا ہی دے تاکہ وہ غلطی سے پاک ہو نہ کہ تجربہ سے حاصل کی جائے.دوم.جس مقصد کے لئے کلام الہی کی ضرورت ہے یعنی ما بعد الموت ترقیات روحانی ان کے اسرار خدا تعالیٰ کو ہی معلوم ہیں.پس اس منزل کے لئے جس کا علم انسان کو نہیں وہ کیونکر اپنے لئے قوانین بنا سکتا ہے؟ چونکہ اس دنیا میں جو تم عمل کرتے ہو اُس کی غرض ابدی زندگی میں ایسی طاقت کا حاصل ہونا ہے جس سے کہ وہاں کام کر سکو اور تمہیں پتہ ہی نہیں کہ اگلے جہان کی کیا حالت ہے تو اُس کے لئے سامان کس طرح مہیا کر سکتے ہو.اُس ملک پر صرف خدا کا تصرف ہے اس لئے خدا ہی اس سے متعلق سامان کی تیاری کر سکتا ہے.سوم.یہ کہ وہ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ہے وہ ظاہری اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے.اگلے جہان کو جانے دو.اسی جہان کو دیکھ لو.تمہاری فطرت میں بڑی بڑی طاقتیں ہیں مگر انسان خود اُن کو نہیں جانتا.یہ سب باتیں خدا ہی جانتا ہے.اس لئے ترقی کے سامان بھی وہی کر سکتا ہے.اس کے سوا کوئی اور یہ کام نہیں کرسکتا.چہارم یہ کہ وہ علیم و خبیر ہے.جہاں اُسے انسانی طاقتوں کا علم ہے وہاں وہ انسانی کمزوریوں کا بھی علم رکھتا ہے.اس لئے فرماتا ہے چونکہ ہم ہی جانتے ہیں کہ کیا کیا طریق تمہیں بتانے
فصائل القرآن نمبر ۵۰ 334 چاہئیں.اس لئے ہم ہی سامان پیدا کرتے ہیں کیونکہ حکیم اور خبیر ہستی ہی قواعد تجویز کر سکتی ہے.اسی بنا پر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ روحانی راہنما کے لئے طبیب ہونا بھی ضروری ہے ورنہ ممکن ہے وہ دوسروں کو ایسی باتیں بتادے جو انسانی صحت کے لئے سخت مضر ہوں.دوسرا وسوسہ خدا تعالیٰ کے کلام کے متعلق یہ تھا کہ کہتے تھے کہ خدا کلام تو اُتارتا ہے مگر الفاظ میں نہیں بلکہ دل میں خیال پیدا کر دیتا ہے.آج کل یہ غلطی برہمو سماج کونگی ہوئی ہے بلکہ مسیحیوں، یہودیوں اور ہندوؤں کو بھی لگی ہوئی ہے.وہ کہتے ہیں کیا خدا تعالیٰ کا منہ اور زبان ہے کہ وہ الفاظ で بولتا ہے؟ اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ خدا لیس کمثلہ شیئ ہے جس طر وہ بے کان کے سنتا ہے.بے آنکھ کے دیکھتا ہے.اسی طرح بے زبان کے کلام بھی کر سکتا ہے اور یہ معترض خدا تعالیٰ کے دیکھنے اور سننے کی طاقت کو تسلیم کرتے ہیں پھر اعتراض کیسا.یہ الزامی جواب ہے.حقیقی جواب یہ دیا کہ وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنْزَلَ اللهُ عَلَى بَشَرٍ مِنْ شَيْءٍ قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتَبَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَى نُورًا وَهُدًى لِلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَهُ قَرَاطِيْسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا وَعُلِّمْتُمْ قَالَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَلَا أَبَاؤُكُمْ قُلِ اللهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمُ يَلْعَبُونَ " فرمایا.اِن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی طاقتوں کا صحیح اندازہ نہیں لگایا.جب انہوں نے یہ بات کہی کہ کسی بندہ پر اُس نے کلام نازل نہیں کیا اگر نہیں نازل کیا تو موسیٰ پر کس نے کتاب نازل کی تھی ؟ جس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہوں نے کچھ چھپائے اور کچھ ظاہر کئے.پھر وہ کون ایسی باتیں سکھاتا ہے جو اُن کے باپ دادے بھی نہیں جانتے تھے.کہو اللہ ہی سکھاتا ہے.پھر اُن کو چھوڑ دے تاکہ لغو باتوں میں لگے رہیں.یہ منکرین کلام کا رڈ کیا گیا ہے اور حضرت موسیٰ کی مثال دی گئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہود کا یہ خیال تھا کہ اور نبیوں سے تو رویا وغیرہ کے ذریعہ سے کلام ہوا ہے یا وحی خفی قلبی سے لیکن حضرت موسیٰ سے کلام الفاظ میں ہوا.چنانچہ گنتی باب ۱۲ آیت ۱ ، ۲ میں لکھا ہے کہ ہارون اور مریم نے شکوہ کیا کہ موسیٰ نے کوشی عورت سے کیوں شادی کی.وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے.حالانکہ خدا جس طرح اس سے باتیں کرتا ہے ہم سے بھی کرتا ہے.اس پر خداوند ناراض ہوا اور انہیں موسی سمیت بلوایا اور کہا ”میری باتیں سنو اگر تم میں سے کوئی نبی ہوتا تو میں جو خداوند ہوں اپنے تئیں رویا میں
فصائل القرآن نمبر ۵۰ 335 اسے معلوم کرواتا اور اس سے خواب میں باتیں کرتا.پر میرا بندہ موسئی ایسا نہیں ہے کہ وہ میرے سارے گھر میں امانت دار ہے.میں اس سے آمنے سامنے صریح باتیں کرتا ہوں اور نہ کہ پوشیدہ باتیں ،۱۱۵ بنی اسرائیل کے نزدیک اس قسم کا کلام حضرت موسیٰ سے پہلے نبیوں کی نسبت سے ہی نہیں ہوا بلکہ بعد میں بھی جو نبی آئے اُن سے بھی یہی فرق کیا جاتا.چنانچہ استثنا باب ۳۴ میں حضرت موسیٰ کی وفات کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:.اب تک بنی اسرائیل میں موسی کی مانند کوئی نبی نہیں اُٹھا.جس سے خدا وند آمنے سامنے آشنائی کرتا.قرآن کریم نے بھی حضرت موسیٰ کا کچھ امتیاز تسلیم کیا ہے کیونکہ قرآن کریم میں نبیوں کے ذکر میں آتا ہے.وَكَلَّمَ اللهُ مُوسى تَكْلِيما لے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے خوب اچھی طرح کلام کیا.تكليما آمنے سامنے کلام کرنے کو کہتے ہیں.بائیبل میں بھی عام طور پر نبیوں کی رؤیا بیان ہوئی ہیں.اس سے آہستہ آہستہ یہود میں بھی جیسا کہ مسلمانوں میں سے بعض میں ہوا یہ خیال پیدا ہو گیا کہ الہام قلبی ہوتا ہے نہ کہ لفظی مسیحی آج تک اس خیال کی بنا پر قرآن کریم پر اعتراض کرتے ہیں لیکن ان کی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ موسی" پر لفظی الہام نازل ہوا.پس اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا کہ باقی نبیوں کو چھوڑو.موسیٰ کی نسبت الفاظ میں وحی کا دعوی موجود ہے یا نہیں اور جو حضرت موسیٰ کو ماننے والے نہیں ہیں جیسے ہندو اور برہمو سماج والے اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَعُلِّمْتُم مَالَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ تم قلبی و حیاں کہتے ہو یہ تو شروع سے چلی ہی آتی ہیں مگر کیا کوئی ایسی وحی ہے جو اس علم کو بیان کرے جو قرآن کریم میں ہے.پس اگر باوجود اپنے قلبی القاؤں کے تم قرآنی علوم سے بے بہرہ رہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ہم نے وہ وہ باتیں سکھا دیں جو تمہارے باپ دادوں کو بھی معلوم نہ تھیں تو تم کس طرح حقیقی الہام کی افضلیت اور ضرورت کا انکار کر سکتے ہو.
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 336 پانچویں اصولی اصلاح خدا تعالی کی خالقیت کے متعلق پانچویں اصولی اصلاح قرآن کریم نے خدا تعالیٰ کی صفت خالقیت کے متعلق کی.بعض لوگ خدا تعالٰی کو تو مانتے ہیں لیکن اُسے خالق تسلیم نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ روح اور مادہ آپ ہی آپ پیدا ہو گئے.بعض فلاسفروں اور ہندوؤں کا بھی یہی خیال ہے.جیسا کہ آریہ کہتے ہیں.قرآن کریم نے اسے رو کیا ہے اور اس کی تردید میں دلیلیں دی ہیں.فرمایا.وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ " یہ خیال کہ رُوح اور مادہ اپنے طور پر ہی چلے آتے ہیں بالکل غلط ہے.ہم نے کسی چیز کو مفرد پیدا نہیں کیا بلکہ ہر چیز کو جوڑا جوڑا بنایا ہے.چنانچہ تم دنیا کی ایک ایک چیز کو غور سے دیکھ لو تمہیں کوئی چیز مفرد نظر نہیں آئے گی.سب مرکبات ہیں جو دکھائی دیتے ہیں.ہر چیز جہات رکھتی ہے.رنگ رکھتی ہے.قوام رکھتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے مفردات کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ مرکبات کو پیدا کیا ہے تو یہ کہنا کہ مادہ ازل سے ہے کس طرح درست ہو سکتا ہے.سائنس نے بھی اسی کی تائید کی ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام چیزوں کو جوڑے کی صورت میں بنایا ہے.(۲) پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَا تَدْعُ مَعَ اللهِ الهَا أَخَرَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كُلُّ شَيْءٍ هَالِك إِلَّا وَجْهَهُ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں.وہ ایک ہی خدا ہے اور ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے.سوائے اس کے جس پر خدا کی توجہ ہوگئی.تم سب اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے.یہاں بتایا کہ ہر چیز تباہ ہورہی ہے.کوئی ایسی چیز دکھاؤ جومٹتی نہیں.جن چیزوں کے متعلق سمجھا جاتا تھا کہ وہ تباہ نہیں ہوتیں.اُن کے متعلق اب معلوم ہو گیا ہے کہ وہ بھی تباہ ہو رہی ہیں اور جن کو اب سمجھتے ہیں کہ تباہ نہیں ہورہیں ان کے متعلق آئندہ سمجھ لیں گے کہ وہ بھی تباہ ہو رہی ہیں.پس ہلاکت بھی ثابت کرتی ہے کہ کوئی چیز اپنی ذات میں قائم نہیں.پھر فرمایا.خدا ہر چیز کا حاکم ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب اس نے رُوح اور مادہ کو پیدا ہی نہیں کیا تو ان کے ذریعہ جو چیزیں بنتی ہیں یا بنی ہوئی ہیں اُن کا وہ حاکم کس طرح ہو سکتا ہے.کیا تم یہ مانتے ہو یا نہیں کہ خدار وح اور مادہ پر حکومت
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 337 کرتا ہے اگر یہ مانتے ہو تو کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ایسی ہستی جو ظالم نہیں ہے بلاوجہ اُن پر حکومت کر رہی ہے حالانکہ اُن کے پیدا کرنے میں اُس کا کوئی دخل نہیں ہے.غرض ہر چیز کا جوڑے کی صورت میں ہونا ان کے نقص پر اور ہلاکت اُن کے مخلوق ہونے پر دلالت کرتی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حکومت اور اس کی طرف رجوع اُس کے خالق ہونے کا ثبوت ہے.چھٹی اصولی اصلاح اللہ تعالیٰ کی مالکیت کے متعلق ف چھٹی اصولی اصلاح قرآن کریم نے خدا تعالیٰ کی صفت مالکیت کے متعلق کی ہے.اس کے بارے میں دو نقص پیدا ہو گئے تھے.جن میں سے ایک تناسخ کا عقیدہ ہے جو بڑی شدت سے اختیار کر لیا گیا اور کہا جانے لگا کہ دنیا میں بعض انسان ادنی اور ذلیل حالت میں ہیں اور بعض اچھی حالت میں ہیں.یہ فرق ان کے پچھلے اعمال کا نتیجہ ہے.اسی طرح بعض سکھ میں ہیں اور بعض دُکھ میں.یہ بھی گذشتہ اعمال کا نتیجہ ہے.قرآن کریم کہتا ہے یہ بات غلط ہے.چنانچہ فرمایا.حتّی اِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلَّى اَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَابِلُهَا وَمِن وَرَابِهِمْ بَرْزَخٌ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ جب کا فرمر نے لگتے ہیں تو وہ کہتے ہیں خدایا ہمیں پھر دنیا میں واپس لوٹا دے تاکہ ہم جو کچھ چھوڑ آئے ہیں وہ جا کر تیرے راستہ میں لٹا دیں اور نیک اعمال کریں.فرمایا یہ کبھی نہیں ہو سکتا.یہ صرف ایک کلمہ ہے جو اُن کی زبان سے نکل رہا ہے کیونکہ مجرم جب سوچتا ہے کہ میں جہنم میں گیا تو کیا ہوگا تو وہ گھبرا کر کہتا ہے کہ مجھے واپس لوٹا دو.اسی خیال کے ماتحت تناسخ کا عقیدہ بنایا گیا.کہتے ہیں خواہش ایجاد کی ماں ہے.تناسخ کا عقیدہ اس گھبراہٹ سے پیدا ہوا ہے کہ اگر بد عمل مرے تو پھر کیا کریں گے.در حقیقت یہ جاہل مجرم دماغ کی اختراع ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایک بات ہے جو اپنے ماحول میں مجرم رُوح کہے گی اور یہ اُس کی ایک طبعی خواہش ہے مگر یہ پوری نہیں کی جاسکتی.کیوں نہیں کی جاسکتی.اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے کہ قُلْ لِمَنْ مَّا فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ قُلْ لِلهِ كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ لَيَجْمَعَتَكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ط
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 338 الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ٢٠ یعنی تو ان سے پوچھ کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے اور کون اس کا مالک ہے.اس کا جواب وہ کیا دیں گے.تو خود ہی ان سے کہہ دے کہ اللہ ہی اس کا مالک ہے.اُس نے اپنے نفس پر رحمت فرض کر لی ہے اور اُس نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تناسخ کے چکر میں رُوحوں کو نہیں ڈالے گا بلکہ وہ تم کو قیامت کے دن تک جمع کرتا چلا جائے گا اور وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال لیا ہے، وہ اپنی بداعمالی کی وجہ سے اس قیامت کے مسئلہ پر یقین نہیں لاتے.لَيَجْمَعَنَّكُمْ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تناسخ کارڈ کیا گیا ہے کیونکہ فرمایا انہیں ہم قیامت تک رکھیں گے اور لوٹائیں گے نہیں.اس میں دلیل یہ دی ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک ہے اور مالک کا اختیار ہے کہ جس چیز کو جس مقام پر چاہے رکھے.کیا مالک کو کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس چمڑے کی جوتی کیوں بنائی.بیٹی کیوں نہیں بنائی.یا یہ کہ سکتا ہے کہ ایک ہی قسم کے لٹھے کے ایک ٹکڑے کا پاجامہ اور دوسرے کا گرتا کیوں بنایا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم جو کہتے ہو یہ ظلم ہو گیا کہ ایک کو امیر اور دوسرے کو غریب بنایا.تم بتاؤ کہ میں ہر چیز کا مالک ہوں یا نہیں اگر مالک ہوں تو میں نے جو کام کسی کے سپر دکیا ، وہی ٹھیک ہے.اس پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ پھر اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ خدا جسے چاہے بہشت میں بھیج دے اور جسے چاہے دوزخ میں ڈال دے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے مجھے حق حاصل ہے مگر میں نے اپنے اوپر فرض کر لیا ہے کہ میں ایسا نہیں کرونگا.چنانچہ فرما یا كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أس نے اپنی جان پر رحمت فرض کر لی ہے اور اس وجہ سے باوجود مالک ہونے کے کسی کو تکلیف میں نہیں ڈالتا اور یہی سبب ہے کہ وہ مردوں کو اس دنیا میں واپس نہیں کرتا بلکہ اس نے فیصلہ کا دن یوم قیامت اور فیصلہ کا طریق دوسرا مقرر کیا ہے اور جب ہم غور کرتے ہیں تو واقعہ میں تناسخ رحم کے خلاف اور محشر رحم کے مطابق نظر آتا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح تناسخ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے رحم میں فرق آتا ہے.تناسخ کی غرض اصلاح بتائی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس چکر میں پڑنے سے رُوح کی اصلاح ہو جاتی ہے مگر انسانی اصلاح حقیقت کے علم سے ہوتی ہے.جہالت سے نہیں ہو سکتی.اب غور کرو تناسخ کے
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 339 رو سے انسان کو کوئی حیوان یا پرندہ یا درندہ بنا دینے سے اس کے لئے اصلاح میں آسانی پیدا کرنا ہے یا مشکل.انسان کو خدا نے عقل دی.دولت دی.بھلائی برائی کی سمجھ دی بدیوں سے بچنے کی طاقت دی مگر اس نے گناہ کیا.اس پر اُسے بے عقل اور بے وقوف حیوان بنا دیا اور اس طرح اس کے لئے نیکی کرنا اور زیادہ ناممکن کر دیا گیا.پس انسان کو انسانیت کی بجائے ادنیٰ حالت میں لے جاناخدا کی رحمت کے بالکل خلاف ہے اور اصلاح سے اُسے دُور کرنا ہے اور اگر انسان ہی بنا کر دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے تو بھی دو حالتیں ہونگی.وہ پہلی زندگی سے واقف ہوگا یا نا واقف اگر واقف ہوگا تو اخفا باقی نہ رہا.پھر نجات کوئی معنے نہیں رکھتی کیونکہ اس پر حقیقت کھل گئی کہ اس وجہ سے مجھے سزا دی گئی تھی اور اگر نا واقف ہوگا تو پھر اصلاح کس طرح کر سکے گا.ساری عمر اسی چکر میں پڑا رہے گا اور ممکن ہے کہ بجائے نیکی کرنے کے بدی میں اور بڑھ جائے.پس رحمت کا طریق وہی ہے جو اسلام نے مقرر کیا ہے اور جو یہ ہے کہ جو نیکیاں کر چکا، اگلے جہان میں اُن نیکیوں کو بڑھنے کا موقع دیا جائے اور جو گناہ کر چکا اُس کے زنگ کو جہنم میں دُور کیا جائے تاکہ کم از کم اُس کی آئندہ نجات کی صورت تو پیدا ہو جائے جونوں کے چکر میں تو نہ پڑا رہے.دوسری چیز جس کی وجہ سے مالکیت کی صفت کے متعلق لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے وہ کفارہ ہے.یہ غلطی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کی صفت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے.نصاری نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ گناہگار کو بخش دے تو یہ ظلم ہوگا اور وہ کہتے ہیں خدا تعالیٰ چونکہ کسی کا گناہ بخش نہیں سکتا اس لئے اُس نے اپنے بیٹے کو بھیجا تا کہ وہ لوگوں کے گناہ کے بدلے پھانسی پائے.یہ خیال بھی مالکیت کی صفت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے کیونکہ مالک تو جسے چاہے بخش سکتا ہے.وہی نہیں بخش سکتا جو مالک نہ ہو.ہاں ایک اعتراض ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ اسلام نے تسلیم کیا ہے کہ خدا تعالیٰ بعض گناہ نہ بخشے گا.لیکن مالکیت کے ماتحت اس کا بھی علاج ہو جاتا ہے.فرماتا ہے.فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأَخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَوْذُوا فِي سَبِيلِي وَقَتَلُوا وَقُتِلُوا لَا كَفَرَنَ عَنْهُمْ سَيّاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِن تحتها الأنو ال یعنی وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور انہیں ان کے گھروں سے نکالا گیا اور میری راہ میں تکلیف دی گئی اور وہ لوگ جنہوں نے جنگ کی اور مارے گئے.اُن کی بدیوں کے اثر کو اُن سے یقینا مٹا دوں گا اور جو
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 340 دوسرے کا قرضہ ان کے ذمہ ہوگا وہ اپنی طرف سے ادا کر دونگا.اس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ اُن کی طرف سے ہم آپ کفارہ دے دینگے.اس کفارہ اور عیسائیوں کے کفارہ میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ عیسائی کہتے ہیں کہ خدا چونکہ معاف نہیں کر سکتا اس لئے اُس نے اپنے بیٹے کو قربان کر دیا.اسلام کہتا ہے خدا تعالیٰ مالک ہے وہ معاف کر سکتا ہے لیکن وہ کسی دوسرے کا حق ضائع نہیں کرتا خود اجر دے دیتا ہے.ساتویں اصولی اصلاح خدا تعالی کی ربوبیت عالمین سے متعلق ساتویں اصولی اصلاح قرآن کریم نے خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت عالمین کے متعلق کی ہے.ہر قوم نے خدا تعالیٰ کی رب العالمین کی صفت کا انکار کر رکھا تھا اور ہدایت کو صرف اپنے ملک اور اپنی قوم کے لئے مخصوص کر چھوڑا تھا.حتی کہ مسیحیت جو تبلیغی مذہب ہے اُس نے گو آئندہ کے لئے دروازہ کھولا تھا مگر گذشتہ کے متعلق وہ بھی یہودی مذہب سے ہی ہدایت وابستہ قرار دیتی تھی.قرآن کریم نے آئندہ کے لئے تو یہ اعلان کیا کہ یا آئیهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا.اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تولوگوں سے کہہ دے کہ میں تم سب کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں اور گذشتہ کے متعلق فرمایا - وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ.ہر قوم میں خدا تعالیٰ کے نبی آتے رہے (۲) دوسرے بعض قوموں کو بعض پر ترجیح دی جاتی تھی.ایک قوم کو معزز قرار دیا جاتا تھا اور دوسری کو ذلیل ٹھہرایا جاتا.چنانچہ ہندوؤں نے برہمن اور شودر کی تقسیم کے ذریعہ اور یہود نے کہانت کو بنی لاوی میں مخصوص کر کے مساوات کو مٹا رکھا تھا.اسی طرح بعض قوموں نے بادشاہت کی وجہ سے اپنے آپ کو فضیلت کا حقدار قرار دیا.اسلام نے اسے بھی رب العالمین کی صفت کے خلاف قرار دیا اور فرمایا.يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خبير ے کہ اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو کئی گروہوں اور قبائل میں تقسیم کر دیا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بعض لوگ بڑے اور بعض چھوٹے ط
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ 341 ہیں بلکہ یہ قو میں محض جاننے اور پہچاننے کے لئے بنائی گئی ہیں تاکہ تم میں امتیاز قائم رہے.ورنہ تم میں اگر کوئی معزز ہے تو وہی جو تقویٰ میں بڑھا ہوا ہے اور اللہ یقینا بہت علم رکھنے والا اور جاننے والا ہے.اُسے معلوم ہے کہ کون تقوی سے کام لے رہا ہے اور کون تکبر اور تفاخر کی راہ اختیار کر رہا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمدنی برتری کی وجہ سے دوسروں کو حقیر قرار دینا نا جائز قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ اصل فضیلت تقویٰ میں ہے.ذات پات اور قومیت کی قیود میں نہیں.پھر سیاسی برتری کو بھی اُس نے رڈ کیا اور فرمایا.اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَابِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِ نِسَاءَهُمْ ، إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ.۲۳ یعنی فرعون نے اپنے ملک میں بڑی تعلی سے کام لیا اور اُس کے رہنے والوں کو اُس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.وہ بعض کو کہتا کہ یہ حاکم قوم کے لوگ ہیں اور دوسروں کے متعلق کہتا کہ وہ محکوم قوم کے لوگ ہیں.اُس نے بہت بڑے تکبر سے کام لیا اور وہ مفسدین میں سے تھا.ہم نے اس قسم کا کوئی قانون نہیں بنایا کہ کوئی قوم ہمیشہ کے لئے حاکم ہو اور کوئی قوم ہمیشہ کے لئے محکوم ہو.جیسے انگریز ہیں ویسے ہی دوسرے لوگ ہیں.انگریزوں کو کوئی حق نہیں کہ وہ کہیں ہم ہمیشہ کے لئے حاکم ہیں اور دوسرے ہمیشہ کے لئے محکوم ہیں.آٹھویں اصولی اصلاح اللہ تعالیٰ کی صفت حکیم کے متعلق آٹھویں اصولی اصلاح قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی صفت حکیم کے متعلق کی.قرآن کریم سے پہلے قریبا ہر مذہب میں یہ احساس ہورہا تھا کہ گویا اس دنیا کی پیدائش کا کوئی مقصد ہی نہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندو سکتی کے قائل تھے.بدھ نروانا کے قائل تھے.یہود حکومتوں اور بادشاہتوں کے ملنے کے.نصاریٰ موت سے نجات اور امن کے.زرتشتی جنت کے مگر باوجود اس کے ان میں سے ایک چیز بھی ایسی نہیں جسے دنیا کی پیدائش کا مقصد کہا جا سکے.سب محدود مقاصد ہیں جو پیدائش کی حقیقت کو نہیں کھولتے.قرآن کریم نے اس سوال کو بھی حل کر دیا ہے اور بتایا ہے کہ پیدائش عالم کا مقصد یہ ہے کہ انسان جو عالم صغیر ہے عرفانِ الہی کو حاصل کرے جسے دوسرے لفظوں میں لقا بھی کہتے ہیں کیونکہ جب کوئی چیز اپنے اندر ہوتی ہے تبھی انسان اُسے پہچان سکتا ہے
فصائل القرآن نمبر ۵ 342 مثلاً زید بکر کو پہچانتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بکر کی تصویر زید کے اندر ہے ورنہ وہ اُسے پہچان نہیں سکتا.پس عرفان کے معنے ہیں اللہ اپنے بندے کے اندر داخل ہو گیا.ایک ہند و تو کہتا ہے کہ بندہ خدا میں داخل ہو گیا مگر اس طرح تو انسان کی کوئی جس ہی باقی نہ رہی.پھر اسے مزا کیا آیا.مثلاً ایک گاجر آدمی نے کھالی تو گاجر کو کیا لطف آیا لیکن اسلام کہتا ہے کہ خدا بندہ کے اندر داخل ہو جاتا ہے اور اس کی حسن قائم رکھتا ہے اور اسلام بتاتا ہے کہ یہ مقصد کسی خاص انسان کے لئے نہیں بلکہ ہر فرد بشر کو اس مقام تک پہنچایا جائے گا.چنانچہ فرماتا ہے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ ۲۴ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.تذلل کے لئے پیدا کیا ہے تا کہ وہ میرے نقش کو لے لیں اور میری صفات کو اپنے اندر داخل کر لیں مگر کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں یہ بات یعنی خدا تعالیٰ کی لقا کا مرتبہ حاصل نہیں ہوتا.ان کے لئے فرمایا.ققَالَ عَذَابِ أَصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ، فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكوةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِأَیتِنَا يُؤْمِنُونَ یعنی میں اپنا عذاب جس کو چاہتا ہوں پہنچا تا ہوں مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ میں اُسے ہمیشہ عذاب میں رکھوں گا.ورحمتی وَسِعَتْ كُلّ شَیخی میری رحمت ہر ایک چیز پر حاوی ہے اور اس کے لئے بھی میں نے رحمت پیدا کی ہے مگر مومنوں کے لئے تو اُسے فرض کر دیا گیا ہے.وہ مومن جو تقویٰ اختیار کرتے اور زکوۃ دیتے اور ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں.غرض بنی نوع انسان کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ خواہ کوئی ہو.یہودی ہو ، نصرانی ہو، ہندو ہو یا مسلمان ہو جلد یا بدیر اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر کے اس کی صفات کو اپنے اندر پیدا کر لے اور یہ وہ مقصد ہے کہ جس میں دنیا کی کوئی قوم اسلام کی شریک نہیں.خدا تعالیٰ نے انسان کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اُس کے جلال کا مظہر بنے اور اس غرض کے لئے خدا تعالیٰ نے جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا.اسی طرح ابو جہل کو پیدا کیا.فرق صرف یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو سیدھا رستہ اختیار کر کے اس مقصد کو پالیا اور ابو جہل کو مار پیٹ کر اس مقصد کی طرف لایا جائے گا.بہر حال اس مقصد کے حاصل کرنے میں جو آگے ہوگا وہ آگے ہی رہے گا اور جو پیچھے.پیچھے ہی رہے گا.وہ
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ الاعراف: ۱۵۷ تا ۱۵۹ النور: ۲۴ بخاری کتاب العلم باب مَنْ قَعَدَ حَيْثُ يَنْتَهِي بِهِ الْمَجْلِسُ...الخ ۵ ترمذی ابواب الاضاحي باب الاذان فى اذن المولود + مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحه ۹ المكتب الاسلامی بیروت ۳۰۳۱ النحل: ۶۵۰۶۴ ك الفرقان: 4 و اقرب الموارد دجلد ۲ صفحہ ۹۲۰ زیر لفظ فرق ، مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء نا : 12:11 ۱۲ الاخلاص : ۲ البقرة: 9 الجالية: ۲۵ ۱۵ الجاثية: ۲۸ الفرقان: ١٣٠ كل استثناء بات ۱۸ آیت ۱۸ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء ۱۸ استثناء باب ۳۳ آیت ۲ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء 19 فصل الخطاب جلد ۲ صفحہ ۳۸ مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۰۵ھ ۲۰ غزل الغزلات باب ۵ آیت ۸ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء ۲۱ غزل الغزلات باب ۵ آیت ۹ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء (مفہوما ) ۲۲ غزل الغزلات باب ۵ آیت ۱۰ تا ۱۲ برش انڈیا فارن سوسائیٹیمر زاپور مطبوعہ ۱۸۷۰ء(مفہوم)) "His Locks are bushy and black as a raven" ✓✓ (The song of song, Chapter V verse: 11, Holy Bible Victorian street London, 1903.The ۲۴ ۲۵ شمائل الترمذى باب ما جاء فى خلق رسول اللہ مطبع مجتبائی دہلی ایڈیشن ۱۳۴۲ھ ۲۶ لسان العرب زیر لفظ شرب، مطبوعہ بیروت ۱۳۷۶ء ۲۷ یسعیاہ بابت ۹ آیت ۶، ۷ برٹش اینڈ فارن سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ ء 343
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ ٢٨ الجن: ۲ ۲۹ متی باب ۲۱ آیت ۴۲ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء ٣٠ المجادلة: ۳۲ خروج باب ۷ آیت انارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء المزمل: ١٦ ۳۵ الاحزاب: ۴۱ ۳۴ الاحزاب: ۷ ٣٦ الحج ۳۷ سیرت ابن هشام عربی جلد ۴ صفحه ۱۵۵ مطبوعہ مطبع مصطفی البابی مصر ١٩٣٦ء میں اذهبوا فانتم الطلقاء کے الفاظ ہیں + شرح مواهب اللدنية جلد ۳ صفحه ۴۰۲ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان ایڈیشن ۱۹۹۶ء ۳۸ یسعیاہ باب ۲۱ آیت ۱۳ تا ۱۷ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء ۳۹ یسعیاہ باب ۵۵ آیت ۴، ۵ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء (مفہوما ) ٢٠ الحج: ٧٩ ۴۲ یسعیاہ باب ۶۲ آیت ۲ تا ۵ (مفہوما ) یسعیاہ باب ۶۲ آیت ۱۲ (مفہوما ) التوبة : ۱٠٠ ۳۵ الطور : ۲ تا ۷ ات ال عمران: ۳۲ عبس : ۱۷،۱۶ الجمعة : ۳، ۲۸۴ ال عمران: ۹۸ ۴۹ حبقوق باب ۳ آیت ۱۸۱۷۳ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء ۵۰ القاموس جلد ۲ زیر حرف ”مر مطبوعہ لکھنو ۱۳۰۲ھ اشه تاج العروس مجزء ۸ صفحه ۲۱۵ مطبوعہ مصر ۱۳۰۷ھ ۵۲ ۵۳ الاحزاب : ۵۷ ۵۴ حبقوق الاصحاح الثالث آیت ۸ الكتاب المقدس صفحه ٩٠٣ الطبعة السابعة 344
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ بیروت ۱۸۹۴ء ۵۵ بخاری ابواب فضائل المدينة باب كراهية النبي صلى الله عليه وسلم ان تعرى المدينة ۵۶ الاحزاب: ۱۴ ۵۷ ۵۸ بخاری ابواب فضائل المدينة باب كراهية النبي صلى الله عليه وسلم ان تعرى المدينة ۵۹ بخارى ابواب فضائل المدينة باب حرم المدينة شمائل ترمذی باب ما جاء فى خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم بخاری کتاب الصلوة باب جعلت لى الارض مسجدا و طهورا الحشر : ٣ القمر : ٤٦ الطور : ۱۲۳۸ ۱۵ طه : ۱۰۰،۱۰۱ ۱۶ طه: ۱۰۶ ۱۰۹ ۲۷.بنی اسرائیل: ۷۳ ۲۸ مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۱۱۹ هاشیه مطبوعه میمنه مصر ۱۳۱۳ھ 19 الفتح : 12 ٤٠ الاصابة في تمييز الصحابة الجزء الرابع صفحه ۳۴۷ مطبعة السعادة بجوار محافة مصر ۱۳۲۸ھ اكى النساء: ۷۶ النساء: ۸۵ الانفال: ۴۸ ۷۴ بخاری کتاب المغازی باب فضل من شهد بدرا ۷۵ شرح مواهب اللدنية جلد ۲ صفحه ۲۹۶ مطبوعہ بیروت لبنان ۱۹۹۶ء The Old Testament with a brief commentry by various authors London, Habakkuk Chapter 3 Verse 14 ے کے متی باب ۲۱ آیت ۱۹ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزاپور مطبوعہ ۱۸۷۰ء متی باب ۲۱ آیت ۴۰ تا ۴۴ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء وے یوحنا باب ۱۶ آیت کے تا ۱۴ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ ء 345
فصائل القرآن نمبر ۵۰۰۰۰ ٠ الفتح | | ا ابوداؤد کتاب الفتن باب ما یذکر فی قرن المائة مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۴۶ء ۵۲ بخاری کتاب المناقب باب خاتم النبوة ۱۳ فاطر: ۲۵ الزمر : ۵۴ ۸۵ القارعة : ١٠ التين : ۵ تا ۷ التوبة : ١٠٣ المائدة : ۷۹ ١٩ الفاتحة: الانعام : ٩٢ الانعام: ۸۳ بخاری کتاب التفسير تفسير سورة لقمان باب لا تشرك بالله ان الشرك لظلم عظیم الانعام : ۹۲ المائدة : ۴ ۹۵ النجم: ۵۰۴ التوبة: البقرة : ٨٨ النساء : ۱۵۹،۱۵۸ 29 لوقا باب ۱۱ آیت ۲ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء ۱۰۰ یسعیاہ باب ۹ آیت ۶ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء ۱۰۱ متی باب ۲۱ آیت ۳۳ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزاپور ۱۸۷۰ء ١٠٢ آل عمران: ۲۸،۲۷ ۱۰ ال عمران : ۱۹۱ تا ۱۹۸ ١٠٢ آل عمران: ۲۰۱ ۱۰۵ بخاری کتاب المغازى قول الله تعالى ويوم حنين..الزمر : ۱۰۷۶۴۶۳ القصص : ۸۹ ١٠٨ الحديد : ۴ ١٠٩ الشورى: ١٢ ۱۱۰ بنی اسرائیل: ۳۷ ال البقرة : ۲۵۶ ۱۱۲ الانعام: ۷۲ ۱۱۳ الانعام: ۷۴ ۱۴ الانعام: ۹۲ ۱۱۵ گنتی باب ۱۲ آیت ۶ تا ۸ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء ۱۱ استثناء باب ۳۴ آیت ۱۰ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء النساء: ۱۶۵ الذريت:۵۰ 119 المؤمنون : ۱۰۰، ۱۰۱ ٢٠ الانعام: ١٣ ١٢١ آل عمران: ۱۹۶ ١٢٢ الحجرات : ۱۴ ۲۳ القصص : ۵ ۱۲۴ الذريات: ۵۷ 346
فصائل القرآن نمبر...نمبر ۶ از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 347
فصائل القرآن نمبر....بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ترتیب قرآن کا مسئلہ اور استعارات کی حقیقت استعارات اور تشبیہات سے پیدا شدہ غلط فہمیوں کے ازالہ کا طریق تقریر فرموده ۲۸ / دسمبر ۱۹۳۶ء بر موقع جلسه سالانه ) 348 تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں.وَلَقَدْ أَتَيْنَا دَاوَدَ وَسُلَيْمَن عِلْمًا ، وَقَالَا الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَى كَثِيرٍ مِنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ وَوَرِثَ سُلَيْمَنُ دَاوُدَ وَقَالَ يَاأَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ وَحُشِرَ لِسُلَيْمَنَ | جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ حَتَّى إِذَا آتَوُا عَلَى وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَأَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَكِنَكُمْ ، لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَنُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ فَتَبَسَّمَ ضَاحِكَا مِنْ قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَى وَعَلَى وَالِدَى وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَادْخِلْنِي بِرَحمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّلِحِينَ وَتَفَقَدَ الطَّير فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدهُد آم كَانَ مِنَ الْغَابِبِينَ لَأَعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَاذْبَحَنَّةً أَوْ لَيَأْتِيَتِي بِسُلْطَنٍ مُّبِينٍ فَمَكَتَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ اَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَابِنَبَا يَقِينِ إِنِّي وَجَدتُ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشُ عَظِيمٌ وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَنُ أَعْمَالَهُمْ
فصائل القرآن نمبر...349 فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيْلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمواتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ | الْعَرْشِ الْعَظِيمِ O قَالَ سَنَنْظُرُ أَصَدَقْتَ أمْ كُنتَ مِنَ الْكَذِبِينَ اذْهَبْ يكتبِى هَذَا فَأَلْقِةِ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَاذَا يَرْجِعُوْنَ اس کے بعد فرمایا:- میرا آج کا مضمون پھر اُسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو تین سال پہلے میں بیان کر رہا تھا یعنی.درمیان میں تین سال اس میں ناغہ ہو گیا کیونکہ رمضان کی وجہ سے لمبی تقریر نہیں کی جا سکتی تھی.اس دفعہ بھی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے میں لمبی تقریر نہیں کر سکتا چونکہ میں اس مضمون کے بیان کرنے کا ارادہ کر چکا تھا اس لئے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ اس مضمون کا کوئی حصہ اختصار کے ساتھ بیان کر دیا جائے.قرآن کریم کے سوا اور کسی کتاب کو افضل الكتب ہونے کا دعویٰ نہیں تمام مذاہب جو دنیا میں پائے جاتے ہیں وہ اپنی فضیلت اور برتری کا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ اپنی مذہبی کتب کے متعلق بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ افضل الکتب ہیں لیکن اُن کی کتب کو یہ دعوی نہیں.میں نے آج تک سوائے قرآن کریم کے کوئی ایسی کتاب نہیں دیکھی جس میں یہ لکھا ہو کہ وہ دوسری مذہبی کتب سے افضل ہے.ہاں قرآن کریم بے شک یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ تمام الہامی کتابوں پر فضیلت رکھتا ہے مگر یہ کہ وہ کس طرح افضل ہے.یہ ایک سوال ہے جس کا جواب دینا مسلمانوں کے ذقے ہے.غیر مذاہب والے یا تو قرآن پڑھتے نہیں یا بوجہ اس کے کہ قرآن تعصب کی نگاہ سے پڑھتے ہیں صاف دل ہو کر اس کا مطالعہ نہیں کرتے یا بوجہ اس کے کہ وہ قلب مطہر نہیں رکھتے اور قرآن فرماتا ہے کہ لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ سے میرے مطالب اور معانی مطہر قلوب پر ہی گھل سکتے ہیں، قرآن کریم کے مطالب اُن پر نہیں گھلتے.پس یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اُن تک قرآن کریم کے مطالب پہنچا ئیں اور ثابت کریں کہ قرآن کریم نہ صرف ایک اعلیٰ کتاب ہے بلکہ وہ ساری الہامی کتابوں پر فضیلت رکھتی ہے.اس سلسلہ میں پانچ لیکچر میں پہلے دے چکا
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 350 ہوں.ایک ۱۹۲۸ء میں تمہیدی طور پر میں نے دیا تھا مگر اس وقت طبیعت بہت علیل تھی اس لئے صرف گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ہی میں نے بعض باتیں بیان کی تھیں.پھر ۱۹۲۹ء، ۱۹۳۰ء ، ۱۹۳۱ء اور ۱۹۳۲ء میں چار تفصیلی لیکچر میں نے پر دیئے گو بعض اُس وقت بھی چھوڑنے پڑے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک کتاب براہین احمدیہ کھی ہے.اس میں آپ نے اپنے اس ارادہ کا اظہار فرمایا ہے کہ اسلام کی سچائی اور برتری ثابت کرنے کے لئے میں تین سو دلائل دوں گا.میں نے جب اس مضمون پر غور کیا تو گو میں نے دلائل کو گنا نہیں مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اسلام کی برتری اور فضیلت کے تین سو دلائل ان نوٹس میں موجود ہیں جو میں نے اس مضمون کے سلسلہ میں تیار کئے ہیں.اگر کوئی شخص میرے ان نوٹوں کو پڑھ لے تو میں سمجھتا ہوں بہت سی باتیں اُس پر واضح ہو جائیں گی.یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ انسان کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا.میں نہیں جانتا کہ میں اس مضمون کو مکمل بیان کر سکوں یا نہ کر سکوں اس لئے میں نے ذکر کر دیا ہے.یہ تمام مصالحہ نہایت اختصار کے ساتھ بلکہ بعض جگہ محض اشارات میں ۱۹۲۸ء اور ۱۹۲۹ء میں میں نے جمع کر دیا تھا اور جلسہ سالانہ کے موقع پر انہیں بیان بھی کر دیا تھا.مجھے اُن دلائل کی تعداد تو یاد نہیں جو بیان کر چکا ہوں اس لئے میں نمبر کا نام نہیں لے سکتا صرف همنا بغیر نمبر دینے کے میں آج فضیلت قرآن کے ایک خاص پہلو کا ذکر کر دیتا ہوں.اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مضمون کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی تو اول تو یہ قرآن کریم کی تفسیر کا ایک نہایت اعلیٰ دیباچہ ہوگا دوسرے براہین احمدیہ کی تکمیل بھی ہو جائے گی.یعنی اُس رنگ میں جس کا شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اظہار فرمایا تھا گو بعد میں اس کی تکمیل اور رنگ میں بھی ہو گئی یعنی وحی اور الہام اور آپ کی ماموریت اور نبوت کی شان نے اسلام کو جس رنگ میں تمام مذاہب پر غالب ثابت کیا وہ تین سو دلائل کے اثر سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود بھی تحریر فرما دیا تھا کہ اب یہ سلسلہ تالیف کتاب بوجہ الہامات الہیہ دوسرا رنگ پکڑ گیا ہے اور اب ہماری طرف سے کوئی شرط نہیں بلکہ جس طرز پر خدا تعالی مناسب سمجھے گا بغیر لحاظ پہلی شرائط کے اس کو انجام دے گا کیونکہ اب اس کتاب کا وہ خود متولی ہے اور اُس کی مشیت کسی اور رنگ میں اس کی تکمیل
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 351 چاہتی ہے لیکن اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ پہلی خواہش بھی پوری ہو جائے تو دشمنوں کا یہ اعتراض مٹ جاتا ہے کہ آپ نے براہین احمدیہ کو مکمل نہیں کیا اور وعدہ کے باوجود قرآن کریم کی فضیلت کے تین سو دلائل پیش نہیں کئے.براہین احمدیہ اور مولوی چراغ علی صاحب حیدرآبادی آج کل تو زمیندار اور احسان وغیرہ مخالف اخبارات یہ بھی لکھتے رہتے ہیں کہ کوئی مولوی چراغ علی صاحب حیدر آبادی تھے وہ آپ کو یہ مضامین لکھ کر بھیجا کرتے تھے.جب تک اُن کی طرف سے مضامین کا سلسلہ جاری رہا آپ بھی کتاب لکھتے رہے مگر جب انہوں نے مضمون بھیجنے بند کر دیئے تو آپ کی کتاب بھی ختم ہوگئی.گو یہ مجھ میں نہیں آتا کہ مولوی چراغ علی صاحب کو کیا ہوگیا کہ انہیں جو اچھا نکتہ سوجھتا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھ کر بھیج دیتے اور ادھر ادھر کی معمولی باتیں اپنے پاس رکھتے.آخر مولوی چراغ علی صاحب مصنف ہیں.براہین احمدیہ کے مقابلہ میں اُن کی کتابیں رکھ کر دیکھ لیا جائے کہ آیا کوئی بھی ان میں نسبت ہے؟ پھر وجہ کیا ہے کہ دوسرے کو تو ایسا مضمون لکھ کر دے سکتے تھے جس کی کوئی نظیر ہی نہیں ملتی اور جب اپنے نام پر کوئی مضمون شائع کرنا چاہتے تو اُس میں وہ بات ہی پیدا نہ ہوتی.پس اول تو انہیں ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مضمون لکھ لکھ کر بھیجتے ؟ اور اگر بھیجتے تو محمدہ چیز اپنے پاس رکھتے اور معمولی چیز دوسرے کو دے دیتے.جیسے ذوق کے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہ ظفر کونظمیں لکھ لکھ کر دیا کرتے تھے مگر دیوان ذوق اور دیوانِ ظفر آج کل دونوں پائے جاتے ہیں.انہیں دیکھ کر صاف نظر آتا ہے کہ ذوق کے کلام میں جو فصاحت اور بلاغت ہے وہ ظفر کے کلام میں نہیں.جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ ظفر کو کوئی چیز دیتے بھی تھے تو اپنی بچی ہوئی دیتے تھے اعلیٰ چیز نہیں دیتے تھے حالانکہ ظفر بادشاہ تھا.غرض ہر معمولی عقل والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر مولوی چراغ علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مضامین بھیجا کرتے تھے تو انہیں چاہئے تھا کہ معرفت کے عمدہ عمدہ سکتے اپنے پاس رکھتے اور معمولی علم کی باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کولکھ کر بھیجتے مگر مولوی چراغ علی صاحب کی کتابیں بھی موجود ہیں اور حضرت مسیح
352 فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ موعود علیہ السلام کی کتابیں بھی.انہیں ایک دوسرے کے مقابل میں رکھ کر دیکھ لو کوئی بھی ان میں نسبت ہے؟ انہوں نے تو اپنی کتابوں میں صرف بائیبل کے حوالے جمع کئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے وہ معارف پیش کئے ہیں جو تیرہ سو سال میں کسی مسلمان کو نہیں سو مجھے اور ان معارف اور علوم کا سینکڑ واں بلکہ ہزارواں حصہ بھی ان کی کتابوں میں نہیں.الہامی کتاب کے سمجھنے میں ایک دقت میرا آج کا مضمون اس بات پر ہے کہ ہر الہامی کتاب میں بعض ایسے مشکل مضامین ہوتے ہیں جن کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ آسانی سے حل نہیں ہوتے یا ان سے متعلق آپس میں بحث شروع ہو جاتی ہے.کوئی کہتا ہے اس کا یہ مطلب ہے اور کوئی کہتا ہے اِس کا وہ مطلب ہے.ایسی صاف بات نہیں ہوتی جیسے مثلاً یہ حکم ہے کہ آقِیمُوا الصَّلوةَ نماز قائم کرو.جو شخص عربی جانتا اور اسلام سے واقفیت رکھتا ہے وہ آقِیمُوا الصَّلوةَ سنتے ہی فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نماز قائم کرو.یہ جھگڑا پیدا نہیں ہوتا کہ آقِیمُوا الصَّلوةَ سے مراد نماز نہیں روزہ ہے یا روزہ نہیں حج ہے.آگے نماز کی کیفیات میں فرق ہو سکتا ہے، خشوع خضوع میں فرق ہوسکتا ہے ، عرفان میں فرق ہو سکتا ہے مگر اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نماز قائم کرو بلکہ جونہی کسی کے منہ سے یہ فقرہ نکلے گا کہ آقِیمُوا الصَّلوةَ یا قرآن کریم میں یہ حکم دیکھے گا فوراً سمجھ جائے گا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نمازیں پڑھو مگر جو مشکل مسائل ہوتے ہیں اُن کو بعض لوگ سمجھتے ہیں اور بعض نہیں سمجھتے اور اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ جو باخبر ہیں انہیں وہ مسائل سمجھا ئیں.خواہ اس وجہ سے کہ وہ خود غور نہیں کرتے یا اس وجہ سے کہ ان کا دل کسی گناہ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا فضل جذب کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.مشکل مضامین بالعموم دو طرح کے ہوتے ہیں ایک علمی مضامین جو بار یک فلسفے پر مبنی ہوتے ہیں مثلاً توحید ہے اس کا اتنا حصہ تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ خدا ایک ہے مگر آگے یہ صوفیانہ باریکیاں کہ کس طرح انسان کے ہر فعل پر خدا تعالیٰ کی توحید کا اثر پڑتا ہے اس کے لئے ایک عارف کی ضرورت ہوگی اور یہ مسائل دوسرے کو سمجھانے کے لئے کوئی عالم درکار ہوگا.ہر شخص یہ باریکیاں نہیں نکال سکتا لیکن
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 353 اتنی بات ضرور سمجھ لے گا کہ قرآن دوسرے خدا کا قائل نہیں.دوسرے یہ مشکلات ایسے مطالب سے متعلق پیدا ہوتی ہیں جو علمی تو نہ ہو مگر وہ اُس زبان میں بیان کئے گئے ہوں جسے تشبیہہ اور استعارہ کہتے ہیں.استعارات کو حقیقت قرار دینے کا نتیجہ استعارہ میں جب بھی بات کی جائے تو گو وہ بار ایک نہیں ہوتی مگر عوام الناس اُس زبان کو نہ جاننے کی وجہ سے اس کے ایسے معنی کر لیتے ہیں جو حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک واقعہ پیش آیا.جب شام کی جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ کو سالار لشکر بنا کر بھیجا اور فرمایا کہ اگر زید مارے جائیں تو جعفر بن ابی طالب کمان لے لیں اور اگر جعفر مارے جائیں تو عبد اللہ بن رواحہ کمان لے لیں تو جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ویسا ہی وقوع میں آیا اور حضرت زید اور حضرت جعفر اور حضرت عبداللہ تینوں شہید ہو گئے اور حضرت خالد بن ولید لشکر کو اپنی کمان میں لے کر بحفاظت اُسے واپس لے آئے.جس وقت مدینہ میں یہ خبر پہنچی تو جن عورتوں کے خاوند مارے گئے تھے یا جن والدین کے بچے اس جنگ میں شہید ہوئے تھے اُنہوں نے جس حد تک کہ شریعت اجازت دیتی ہے رونا شروع کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اظہار افسوس کے لئے نہ اس لئے کہ عورتیں جمع ہو کر رونا شروع کر دیں فرمایا.جعفر" پر تو کوئی رونے والا نہیں.میرے نزدیک اس فقرہ سے آپ کا یہ منشا ہر گز نہیں تھا کہ کوئی جعفر کو روئے بلکہ مطلب یہ تھا کہ ہمارا بھائی بھی آخر اس جنگ میں مارا گیا ہے جب ہم نہیں روئے تو تمہیں بھی صبر کرنا چاہئے کیونکہ حضرت جعفر کے رشتہ دار وہاں یا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے یا حضرت علی تھے اور یہ جس پایہ کے آدمی تھے اس کے لحاظ سے ان کی چیخیں نہیں نکل سکتی تھیں.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غالبا اس بات کے اظہار کے لئے کہ میرا بھائی جعفر" بھی مارا گیا ہے مگر میں نہیں رویا فرما یا جعفر" پر تو کوئی رونے والا نہیں.انصار نے جب یہ بات سنی تو چونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کو پورا کرنے کا بے حد شوق رکھتے تھے اس لئے انہوں نے اپنے اپنے گھر جا کر عورتوں سے کہنا شروع کیا کہ یہاں رونا
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 354 دھونا چھوڑو اور جعفر کے گھر چل کر روؤ.چنانچہ سب عورتیں حضرت جعفر کے گھر میں اکٹھی ہوگئیں اور سب نے ایک گہرام مچا دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ آواز سنی تو فرمایا کیا ہوا ؟ انصار نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اور آپ نے جو فرمایا تھا کہ جعفر" پر کوئی رونے والا نہیں اس لئے ہم نے اپنی عورتیں حضرت جعفر کے گھر بھیج دی ہیں اور وہ رورہی ہیں.آپ نے فرمایا میرا یہ مطلب تو نہیں تھا.جاؤ انہیں منع کرو.چنانچہ ایک شخص گیا اور اُس نے انہیں منع کیا.وہ کہنے لگیں تم ہمیں کون روکنے والے ہو؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو آج افسوس کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جعفر کو رونے والا کوئی نہیں اور تو ہمیں منع کرتا ہے.وہ یہ جواب سن کر پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کیونکہ بعض لوگوں کو دوسروں کی ذرا ذراسی بات پہنچانے کا شوق ہوتا ہے اور عرض کیا وہ مانتی نہیں.آپ نے فرمایا اُن کے سروں پر مٹی ڈالو.مطلب یہ تھا کہ چھوڑو اور انہیں کچھ نہ کہو.خود ہی رو دھو کر خاموش ہو جائیں گی مگر اُس کو خدا دے اُس نے اپنی چادر میں مٹی بھر لی اور اُن عورتوں کے سروں پر ڈالنی شروع کر دی.انہوں نے کہا پاگل کیا کرتا ہے؟ وہ کہنے لگا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مٹی ڈالو.اس لئے میں تو ضرور ڈالوں گا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اُسے ڈانٹا اور فرمایا تو بات کو تو سمجھا ہی نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا تو یہ تھا کہ اُن کا ذکر چھوڑو اور جانے دو.سعوہ خود ہی خاموش ہو جائیں گی.یہ مطلب تو نہیں تھا کہ تم مٹی ڈالنا شروع کر دو.اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک استعارہ کلام تھا مگر وہ واقعہ میں مٹی ڈالنے لگ گیا.تو بعض دفعہ لوگ استعارہ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور بعض دفعہ لفظی معنے ایسے لے لیتے ہیں جو حقیقت کے خلاف ہوتے ہیں اور اس طرح بات کہیں کی کہیں پہنچ جاتی ہے.خیط ابیض اور خیط اسود کا غلط مفہوم میں نے یہ عرب کی مثال آپ لوگوں کے سامنے پیش کی ہے.اب میں پنجاب کی ایک مثال دے دیتا ہوں.قرآن کریم میں آتا ہے کہ سحری کا وقت اُس وقت تک ہے جب تک سفید دھاگا سیاہ دھا گا سے الگ نظر نہیں آتا.یہ ایک استعارہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک پو پھٹ نہ
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 355 جائے کھاتے پیتے رہو مگر پنجاب میں بہت سے زمیندار رمضان کی راتوں میں سفید اور سیاہ دھاگا اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور چونکہ دھاگا اچھی روشنی میں نظر آتا ہے اس لئے وہ دن چڑھے تک خوب کھاتے پیتے رہتے ہیں.اب یہ اسی استعارہ کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے اور چونکہ بعض لوگوں کی نگاہ نسبتا کمزور ہوتی ہے اس لئے ممکن ہے وہ دن چڑھنے کے بعد بھی اس آیت کی رُو سے کھانے پینے کا جواز ثابت کر لیں کیونکہ انہیں سورج کی روشنی میں ہی اس فرق کا پتہ لگ سکتا ہے.ہمارے ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب جب اپنے طالب علمی کے زمانہ میں لاہور پڑھتے تھے تو ایک احمدی دوست کے گھر پر رہتے تھے.رمضان کے دن تھے.ایک رات انہوں نے یہ خیال کر کے کہ یہ بچہ ہے اُسے کیا جگانا ہے روزے کے لئے نہ جگایا مگر میر صاحب کو جیسا کہ بچوں کا عام طریق ہے روزے رکھنے کا بڑا شوق تھا.اُن کی آنکھ ایسے وقت میں کھلی جب کہ سحری کا وقت گذر چکا تھا اور روشنی پھیل گئی تھی.ادھر گھر کے مالک کو خیال آیا کہ ان کا دل میلا ہوگا انہیں روٹی کھلا دینی چاہئے.چنانچہ میر صاحب دروازہ کھولنے لگے تو وہ کہنے لگا ہیں! ہیں ! کھولنا نہیں روشنی آئے گی میں اندر سے کھانا پکڑا دیتا ہوں.انبیاء کی پیشگوئیوں میں بھی استعارات پائے جاتے ہیں غرض بعض لوگ استعارہ کے اس طرز پر معنی کرتے ہیں کہ اس کو حقیقت بنا لیتے ہیں اور پھر اس کا کچھ کا کچھ مفہوم ہو جاتا ہے اور الہامی کتابوں میں تو بالخصوص بہت مشکل پیش آتی ہے.لوگ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اس کی کسی آیت کے دوسرے معنی ہم نہیں کرنے دیں گے.اسی طرح نبیوں کی پیشگوئیوں میں استعارات پائے جاتے ہیں بلکہ ہر انسان روزانہ استعارے استعمال کرتا ہے مگر نبیوں کے کلام میں جب کوئی استعارہ آجائے گا تو لوگ کہیں گے کہ ہم اس کے کوئی اور معنی نہیں کرنے دیں گے ورنہ یہ ثابت ہوگا کہ نَعُوذُ بِاللهِ نبی بھی جھوٹ بولتے ہیں بلکہ خدا اور اُس کے انبیاء کا کلام تو الگ رہا لوگ بزرگوں کے کلام میں بھی انتہا درجہ کی سختی سے کام لیتے ہیں اور اُن کے استعارات کو سمجھنے کی بجائے حقیقت قرار دیتے ہیں.
فصائل القرآن نمبر...ایک لطیفہ 356 ہمارے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے سلک مروارید نام سے ایک ناول لکھا ہے جس میں قصہ کے طور پر ایک عورت کا ذکر کیا ہے جو بڑی بڑی بخشیں کرتی اور مولویوں کا ناطقہ بند کر دیتی تھی.ہماری کا ٹھگڑھ کی جماعت کے ایک دوست تھے انہوں نے یہ کتاب پڑھی تو ایک دفعہ جب کہ جلسہ سالانہ کے ایام تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کا زمانہ تھا، دوستوں نے اُن سے پوچھا کہ کیوں بھئی ! جلسہ پر چلو گے؟ انہوں نے کہا اب کے تو کہیں اور جانے کا ارادہ ہے.انہوں نے پوچھا کہاں جاؤ گے ؟ تو پہلے تو انہوں نے نہ بتایا مگر آخر اصرار پر کہا کہ اس دفعہ میرا ارادہ سہارنپور جانے کا ہے کیونکہ وہاں ایک بڑی بزرگ اور عاملہ عورت رہتی ہیں جن کا ذکر مسلک مروارید میں ہے اُن کی زیارت کا شوق ہے.(شیخ یعقوب علی صاحب نے ناول میں لکھا تھا کہ وہ سہارنپور کی ہیں) انہوں نے کہا.نیک بخت! وہ تو شیخ صاحب نے ایک ناول لکھا ہے جس میں فرضی طور پر سہارنپور کی ایک عورت کا ذکر کیا ہے یہ تو نہیں کہ سہارنپور میں واقعہ میں کوئی ایسی عورت رہتی ہے.وہ کہنے لگا.اچھا! تم شیخ یعقوب علی صاحب کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہیں جھوٹا سمجھتے ہو.وہ کہنے لگے کہ اس میں جھوٹا سمجھنے کی کیا بات ہے وہ تو ایک قصہ ہے اور قصوں میں بات اسی طرح بیان کی جاتی ہے.وہ دوست کہتے ہیں کہ پہلے تو اُسے ہماری بات پر یقین نہ آیا مگر جب ہم نے بار بار سے یقین دلایا تو کہنے لگا اچھا! یہ بات ہے؟ مجھے قادیان پہنچنے دو.میں جاتے ہی حضرت صاحب سے کہوں گا کہ ایسے جھوٹے شخص کو ایک منٹ کے لئے بھی جماعت میں نہ رہنے دیں فوراً خارج کر دیں.میں تو پیسے جمع کر کر کے تھک گیا اور میرا پختہ ارادہ تھا کہ سہارنپور جاؤں گا مگر اب معلوم ہوا کہ یہ سب جھوٹ تھا.اب اس بیچارے کے لئے یہی سمجھنا مشکل ہو گیا کہ ایسی عورت کوئی نہیں یہ ایک فرضی قصہ ہے جو اس لئے بنایا گیا ہے کہ تا وہ لوگ جو قصے پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں وہ اس رنگ میں احمدیت کے مسائل سے واقف ہو جائیں.
فصائل القرآن نمبر...استعارات کو نہ سمجھنے والے طبقہ کی ذہنیت 357 غرض مذہبی کتابوں میں یہ مشکل ہوتی ہے کہ جہاں کوئی استعارہ آیا وہاں ایک طبقہ کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے ہم آگے چلنے نہیں دیں گے جب تک تم اس بات کو انہی الفاظ میں تسلیم نہ کرو جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں.دودھ کی نہروں کا ذکر آجائے تو جب تک وہ یہ تسلیم نہ کر لیں کہ منٹگمری اور لا ہور اور شیخو پورہ کی بھینسیں خدا تعالیٰ نے رکھی ہوئی ہونگی انہیں دودھ کی نہروں کا یقین ہی نہیں آتا.کیلے کا ذکر آ جائے تو جب تک بمبئی کا کیلا جنت میں نہ مانیں اُن کی تسلی ہی نہیں ہوتی.شراب کا ذکر آجائے تو گو وہ یہ ماننے کے لئے تیار ہو جائیں گے کہ جنت کی شراب زیادہ صاف ہوگی مگر یہ نہیں مانیں گے کہ شراب سے مراد کوئی اور چیز بھی ہو سکتی ہے اور اگر حور و غلمان کا ذکر آجائے تو پھر تو ان کے منہ سے رالیں ٹپک پڑتی ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الاول" کے عہد خلافت میں ایک دفعہ میں مدارس دیکھنے کے لئے لکھنو گیا.اتفاقاً وہاں ندوۃ العلماء کا جلسہ تھا.میں بھی جلسہ دیکھنے کے لئے چلا گیا.ایک مولوی عبد الکریم صاحب پروفیسر تھے.اُن کی تقریر اس وقت نماز کی خوبیوں کے متعلق تھی.سامعین اگر چہ کم تھے مگر اُن میں سے اکثر مسلمان تھے اور وہ بھی مولوی طرز کے.ایک مسلمان بیرسٹر بھی شریک تھے جو میرے ساتھ ہی بیٹھے تھے.مولوی صاحب نے تقریر شروع کی اور کہا کہ لوگو! نماز پڑھنی چاہئے.نماز کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسان کو جنت ملتی ہے اور جنت کیا ہوتی ہے؟ اس کے بعد انہوں نے جنت کی جو کیفیت بیان کرنی شروع کی اُس کا ذکر میرے لئے ناممکن ہے.اس کا ایک چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑا میں بیان کر دیتا ہوں.انہوں نے کہا وہاں بہترین شکل کی خوبصورت تصویریں ہونگی اور جس تصویر کو دیکھ کر انسان کا دل للچائے گاوہ فور خوبصورت عورت بن جائے گی اور پھر مردو عورت کے تعلقات شروع ہو جائیں گے اور ان تعلقات کا جنت کی طرح اختتام نہیں ہوگا.یہ قص اس بات کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے قرآن میں دو چار لفظ حور کے پڑھ لئے اور نتیجہ نکال لیا کہ جو کچھ یہاں ہے وہی کچھ وہاں بھی ہوگا.میرے پاس جو بیرسٹر بیٹھے تھے وہ کہنے لگے اچھا ہوا یہ لیکچر رات کو رکھا گیا اگر دن کو رکھا جاتا اور لوگ زیادہ تعداد میں شامل ہو جاتے تو ہماری بڑی ذلت ہوتی.تو الہامی
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 358 کتابوں میں خصوصا یہ مشکل پیش آتی ہے کہ لوگ کہہ دیتے ہیں یہ اللہ کی کتاب ہے اور اس میں جو تشبیہ یا استعارہ استعمال ہوا ہے وہ حقیقت ہے، اس کے دوسرے معنی ہو ہی نہیں سکتے.علمی مضامین کے سمجھنے میں عوام کی مشکلات اسی طرح الہامی کتابوں کے اعلیٰ علمی مضامین کا سمجھنا بھی عام لوگوں کے لئے بڑا مشکل ہوتا ہے جس کی کئی وجوہ ہیں.اول الہامی کتابوں کی ترتیب عام کتابوں سے جُدا ہوتی ہے.عام کتابوں میں تو یہ ہوتا ہے کہ مثلاً پہلے مسائل وضو بیان کئے جائیں گے پھر مسائل عبادت بیان کئے جائیں گے پھر ایک باب میں مسائل نکاح بیان کئے جائیں گے اسی طرح کسی باب میں طلاق اور ضلع کا اور کسی میں کسی اور چیز کا ذکر ہوگا اور جس جگہ مسائل بیان ہو نگے اکٹھے ہونگے مگر الہامی کتابوں میں یہ رنگ نہیں ہوتا اور اُن کی ترتیب بالکل اور قسم کی ہوتی ہے جو ڈ نیوی کتب کی ترتیب سے نرالی ہوتی ہے یہاں تک کہ جاہل لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اس میں ترتیب ہے ہی نہیں.الہامی کتب کی نرالی ترتیب میں حکمتیں اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ الہامی کتابوں میں دنیا کی تمام کتابوں سے نرالی ترتیب کیوں رکھی جاتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں بھی کئی حکمتیں ہیں.(الف) اس ترتیب سے سارے کلام سے دلچسپی پیدا کرانی مد نظر ہوتی ہے.اگر الہامی کتاب کی ترتیب اُسی طرح ہو جس طرح مثلاً قدوری کی ترتیب ہے کہ وضو کے مسائل یہ ہیں، نکاح کے مسائل وہ تو عام لوگ اپنے اپنے مذاق کے مطابق انہی حصوں کو الگ کر کے ان پر عمل کرنا شروع کر دیتے اور باقی قرآن کو نہ پڑھتے مگر اب اللہ تعالیٰ نے سارے مسائل کو اس طرح پھیلا کر رکھ دیا ہے کہ جب تک انسان سارے قرآن کو نہ پڑھ لے مکمل علم اُسے حاصل ہو ہی نہیں سکتا.(ب) لوگوں کو غور و فکر کی عادت ڈالنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ ترتیب اختیار کی ہے.اگر عام کتابوں کی طرح اس میں مسائل بیان کر دیئے جاتے تو لوگوں کا ذہن اس طرف منتقل نہ ہوتا
فصائل القرآن نمبر...359 کہ ان مسائل کے بار یک مطالب بھی ہیں.وہ صرف سطحی نظر رکھتے اور غور وفکر سے محروم رہتے مگر اب اللہ تعالیٰ نے ان مسائل کو اس طرح پھیلا دیا اور ایک دوسرے میں داخل کر دیا ہے کہ انسان کو ان کے نکالنے کے لئے غور وفکر کرنا پڑتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک سمندر ہے.(ج) یہ ترتیب اس لئے بھی اختیار کی گئی ہے تا خشیت الہی پیدا ہو کیونکہ خشیت الہی پیدا کرنے کے لئے یہ ترتیب ضروری تھی.مثلاً اگر یوں مسائل بیان ہوتے کہ وضو یوں کروں گی اس طرح کرو، عبادت اس طرح کرو، اتنی رکعتیں پڑھو تو خشیت الہی پیدا نہ ہوتی.جیسے عبادت وغیرہ کے تمام مسائل قدوری اور ہدایہ وغیرہ میں بھی مذکور ہیں مگر قدوری اور ہدایہ پڑھ کر کوئی خشیت اللہ پیدا نہیں ہوتی لیکن وہی مسئلہ جب قرآن میں آتا ہے تو انسان کا دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے لبریز ہو جاتا ہے.اس لئے کہ قرآن ان مسائل کو خشیت اللہ کا ایک جز و بنا کر بیان کرتا ہے الگ نہیں اور در اصل نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ وغیرہ مسائل کا اصل مقصد تقویٰ ہی ہے.پس قرآن تقویٰ کو مقدم رکھتا ہے تا جب انسان کو یہ کہا جائے کہ وضو کرو تو وہ وضو کرنے کے لئے پہلے ہی تیار ہو.اسی طرح جب کہا جائے کہ نماز پڑھو تو انسان نماز پڑھنے کے لئے پہلے ہی تیار ہو.اگر قرآن میں نماز کا الگ باب ہوتا تو اُسے پڑھ کر خشیت اللہ پیدا نہ ہوتی.پس الہامی کتاب چونکہ اصلاح کو مقدم رکھتی ہے اس لئے وہ سطحی ترتیب کو چھوڑ کر ایک نئی ترتیب پیدا کرتی ہے جو جذباتی ہوتی ہے.یعنی قلب میں جو تغیرات پیدا ہوتے ہیں الہامی کتاب اُن کا ذکر کرتی ہے.یہ نہیں کہ وہ وضو کے بعد نماز کا ذکر کرے بلکہ وہ وضو سے روحانیت، طہارت اور خدا تعالیٰ کے قرب کی طرف انسان کو متوجہ کرے گی کیونکہ وضو سے طہارت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں پھر جب نماز کا مسئلہ آئے گا تو یہ نہیں ہوگا کہ اللہ تعالی نماز کے مسائل بیان کرنا شروع کر دے بلکہ سجدہ اور رکوع کے ذکر سے جو جذبات انسانی قلب میں پیدا ہوتے ہیں اُن سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ اُسے اپنی طرف متوجہ کرے گا تا جو جذبات بھی انسان کے اندر پیدا ہوں اُن سے وہ ایسا اثر لے جو اُسے خدا تعالیٰ کے قریب کر دے.قلبی واردات کی دو مثالیں پس ترتیب قرآن ظاہر پر مبنی نہیں بلکہ قلب کے جذبات کی لہروں پر مبنی ہے اور یہ لہریں
فصائل القرآن نمبر...360 مختلف ہوتی ہیں.میں اس کے متعلق دو مثالیں دے دیتا ہوں.ایک اچھی اور ایک بُری.کہتے ہیں کسی مسجد کاملاً ایک دن جماعت کرانے لگا تو اُس نے دیکھا کہ مقتدی آسودہ حال ہیں.اس پر نماز میں ہی اسے خیال پیدا ہوا کہ اگر یہ مجھے تحفے تحائف دیں تو میرے پاس بڑا مال اکٹھا ہو جائے.پھر جب مال جمع ہو گیا تو میں اُس سے تجارتی سامان خریدوں گا اور خوب تجارت کروں گا.کبھی دتی میں اپنی اشیاء لے جاؤں گا کبھی کلکتے چیزیں لے جاؤں گا.غرض اسی طرح وہ خیالات دوڑاتا چلا گیا.پھر ہندوستان اور بخارا کے درمیان اُس نے تجارت کی سکیم بنانی شروع کر دی.اب بظاہر وہ رکوع اور سجدہ کر رہا تھا مگر خیالات کہیں کے کہیں تھے.ایک بزرگ بھی اُن مقتدیوں میں شامل تھے.اُن پر کشفی حالت طاری ہوئی اور اُنہیں امام کے تمام خیالات بتا دیئے گئے.اس پر وہ نماز توڑ کر الگ ہو گئے.جب اُس ملا نے نماز ختم کی تو وہ اُن پر ناراض ہوا اور کہنے لگا.تمہیں یہ مسئلہ معلوم نہیں کہ نماز امام کے پیچھے پڑھا کرتے ہیں.وہ کہنے لگے مسئلہ تو مجھے معلوم ہے مگر میری صحت کچھ کمزور ہے میں آپ کے ساتھ چلا اور دتی تک گیا.پھر دتی سے بخارا گیا اور میں تھک کر رہ گیا اور چونکہ اتنے لمبے سفر کی میں برداشت نہیں کر سکتا تھا اس لئے آپ سے الگ ہو گیا.اس پر وہ شرمندہ ہو کر خاموش ہو گیا.اب یہ بیہودہ خیالات تھے جو اُس کے دل میں پیدا ہوئے مگر ان خیالات میں بھی وہی ترتیب رہی جو اس کے جذبات قلب پر مبنی تھی.یہی حال نیک خیالات کا ہے اور وہ بھی اسی رنگ میں پیدا ہوتے ہیں.بسا اوقات ایسا ہوتا ہوگا کہ مثلاً تم سجدہ میں گئے ہو اور تم سُبحان ربی الاعلیٰ کہتے ہو تو اُس وقت تمہارا دل بھی حاضر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی سبوحیت کا نقشہ تمہارے سامنے آنے لگتا ہے.اُس وقت گوتمہارے منہ سے دوسری اور تیسری دفعہ بھی سُبحان ربی الاعلی نکل رہا ہوتا ہے مگر تمہارا دل پہلے سُبحان ربی الاعلی کو ہی چھوڑنے کو نہیں چاہتا.یا الحمد للہ کہتے ہو اور اُس وقت تمہارا دل حاضر ہوتا ہے تو اُس وقت حمد کے ماتحت اللہ تعالیٰ کے احسانات تمہارے سامنے یکے بعد دیگرے آنے شروع ہو جاتے ہیں اور تم انہی احسانات کی یاد میں محو ہو جاتے ہو.اب اگر ایسی حالت میں تم کسی کے پیچھے نماز پڑھ رہے تو گوتم اُس کی اقتدا میں کبھی سجدہ کرو گے کبھی رکوع میں جاؤ گے اور منہ سے سُبحَانَ رَبِّيَ الْعَظیم وغیرہ بھی کہو گے مگر تمہارے دل پر حمد ہی جاری ہوگی.تو
فصائل القرآن نمبر...361 قلوب پر بعض روحانی واردات آتی ہیں اور وہی حقیقی نماز ہوتی ہے.اُس وقت انسان کو الفاظ منہ سے نکال رہا ہوتا ہے مگر اُس کے جذبات روحانیت کے لحاظ سے ایک خاص رستہ پر چل رہے ہوتے ہیں.پس وہ واردات جو انسان مومن پر آتی ہیں قرآن کریم کی ترتیب ان پر مبنی ہے.وہ نماز کے بعد روزہ کا ذکر نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میری یہ ہدایت پڑھنے کے بعد کیا کیا خیالات انسان کے اندر پیدا ہونگے.پس وہ خیالات جو اس کے نتیجہ میں انسانی قلب میں پیدا ہو سکتے ہیں قرآن کریم ان کو بیان کرے گا.غرض بالعموم مذہبی کتابوں کی ترتیب خصوصا قرآن مجید کی ترتیب ظاہری تعلق پر نہیں بلکہ ان جذبات پر ہے جو قرآن کریم پڑھتے وقت پیدا ہوتے ہیں اور چونکہ خدائے عالم الغیب جانتا تھا کہ فلاں آیت یا فلاں حکم کے نتیجہ میں کس کس قسم کے خیالات پیدا ہو سکتے ہیں اس لئے بجائے ظاہری ترتیب کے اُس نے قرآن کریم کی ترتیب اُن جذبات پر رکھی جو قلب مومن میں پیدا ہوتے ہیں مگر اس کا نتیجہ یہ ضرور نکلتا ہے کہ جو لوگ غور سے اور محبت اور پیار کے جذبات کے ساتھ قرآن مجید کو نہیں پڑھتے انہیں یہ کتاب پھیکی معلوم ہوتی ہے.وہ کہتے ہیں یہ کیا ہوا کہ ابھی موسیٰ کا ذکر تھا پھر نوع کا ذکر شروع کر دیا پھر شعیب کے حالات بیان ہونے لگ گئے ابھی سود کا ذکر تھا کہ ساتھ نماز کا ذکر آ گیا.ان کے نزدیک یہ باتیں اتنی بے جوڑ ہوتی ہیں کہ وہ ان کا آپس میں کوئی تعلق سمجھ ہی نہیں سکتے مگر وہی مضمون جب کسی عالم کے پاس پہنچتا ہے تو وہ سنتا ہے اور سر دھنتا ہے.قرآنی علوم سے فائدہ اُٹھانے کا اصول اگر کہو کہ پھر اس کا علاج کیا ہے؟ تو گو میرے مضمون سے اس کا کوئی تعلق نہیں مگر چونکہ میں نے بتایا ہے کہ انسان بسا اوقات جذبات کی رو میں بہہ جاتا ہے اس لئے میں بھی جذبات کے ما تحت دو تین علاج بتا دیتا ہوں.پہلا علاج یہ ہے کہ انسان سارے کلام کو پڑھے اور بار بار پڑھے یہ نہیں کہ کوئی خاص حصہ چن لیا اور اُسے پڑھنا شروع کر دیا.دوم اُس وقت پڑھے جب اُس کے دل میں محبت اور اخلاص کا جوش ہو.جن لوگوں کا جذبہ
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 362 محبت ہر وقت کامل رہتا ہو اُن کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ صبح یا شام کا وقت تلاوت کے لئے مقرر کر لیں مگر جن کا جذبہ محبت ایسا کامل نہ ہو وہ اُس وقت تلاوت کیا کریں جب اُن کے دل میں محبت کے جذبات اُبھر رہے ہوں.چاہے دوپہر کو اُبھریں یا کسی اور وقت.سوم قرآن کریم کو اس یقین کے ساتھ پڑھا جائے کہ اس کے اندر غیر محمد ودخزانہ ہے.جو شخص قرآن کریم کو اس نیت کے ساتھ پڑھتا ہے کہ جو کچھ مولوی مجھے اس کا مطلب بتائیں گے یا پہلی کتابوں میں لکھا ہوا ہے وہیں تک اس کے معارف ہیں اُس کے لئے یہ کتاب بند رہتی ہے مگر جو شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اس میں خزانے موجود ہیں وہ اس کے معارف اور علوم کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے.کوئی سال ڈیڑھ سال کی بات ہے کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے ایک سوال پوچھنا ہے.مجھے اس وقت جلدی تھی میں نے کہا کوئی مختصر سوال ہے یا تفصیل طلب؟ وہ کہنے لگا میں مرز اصاحب کی صداقت کا ثبوت چاہتا ہوں.میں نے کہا مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت سارے قرآن سے ملتا ہے.کہنے لگا کوئی آیت بتائیں.میں نے کہا ممکن ہے میں جو آیت بتاؤں آپ کہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں وہ مطلب ہے.اس لئے آپ ہی قرآن کی کوئی آیت پڑھ دیں.میں اس سے مرزا صاحب کی صداقت ثابت کر دونگا.اُس نے جلدی سے یہ آیت پڑھ دی کہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَاهُمْ بِمُؤْمِنِينَ سے میں نے مختصراً اس آیت کا مضمون بیان کر کے اُسے بتایا کہ اس آیت سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت ثابت ہوتی ہے.چنانچہ میں نے کہا آپ بتائیں آج کل مسجدوں میں لوگ کتنے جاتے ہیں؟ کہنے لگا بہت کم.میں نے کہا پھر جو نماز پڑھنے جاتے ہیں ان میں سے نماز کی حقیقت سے کتنے آگاہ ہوتے ہیں؟ کہنے لگا بہت ہی کم.پھر میں نے کہا ان میں سے جو با قاعدہ پانچ وقت نمازیں پڑھتے ہیں ان کی تعداد کتنی ہوتی ہے؟ کہنے لگا ان کی تعداد تو اور بھی تھوڑی ہوتی ہے.میں نے کہا خدا اس آیت میں یہ کہتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ مومن نہیں ہوتے.اب آپ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ آیت جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اتری آج بھی اپنے مضمون کی صداقت ظاہر کر رہی ہے.پھر اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
فصائل القرآن نمبر...363 زمانہ کی بدیاں آج پیدا ہوگئی ہیں تو کیا ان بدیوں کو دور کرنے کے لئے مصلح نہیں آنا چاہئے تھا؟ آخر یہ آیت اسی لئے قرآن میں آئی ہے تا اللہ تعالیٰ بتائے کہ ایسے گندے لوگ چونکہ دنیا میں موجود ہیں اس لئے ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا.پھر اگر ایسے لوگوں کی اصلاح کے لئے قرآن کی ضرورت تھی ،محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت تھی تو جب کہ موجودہ زمانہ میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں اور آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ اس آیت کا مضمون لوگوں کے عمل سے نظر آتا ہے تو جس اصلاح کا سامان خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کیا تھا وہ بھی ہونا چاہئے.اس پر وہ بالکل خاموش ہو گیا.تو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم میں ایسے وسیع مطالب بیان کئے گئے ہیں کہ اگر انسان غور کرے تو وہ خزانہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا.ہاں جو لوگ اسے بند کتاب سمجھ لیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس میں سے نئے معارف نہیں نکل سکتے اُن پر واقعہ میں کوئی بات نہیں کھلتی.جس طرح اگر تم کسی جنگل میں سے گزر رہے ہو تو تمہارے سامنے ہزاروں درخت آئیں گے مگر تم کسی کو غور سے نہیں دیکھو گے لیکن اگر محکمہ جنگلات کا افسر معائنہ کرنے کے لئے آجائے تو وہ بیبیوں نئی باتیں معلوم کر لیتا ہے.اسی طرح جو شخص اس نیت سے قرآن پڑھتا ہے کہ یہ غیر محدود خزانہ ہے وہ اس سے فائدہ اٹھا لیتا ہے اور جو اس نیت سے نہیں پڑھتا وہ محروم رہتا ہے.ہر زبان میں تشبیہہ اور استعارہ کا استعمال الہامی کتابوں کے مطالب کے متعلق دوسری مشکل جیسا کہ میں بتا چکا ہوں تشبیہہ اور استعارہ کی ہے.دنیا کی ہر زبان میں تشبیہ اور تمثیل کا استعمال موجود ہے.ہر اعلی علمی کتاب میں تشبیہات و تمثیلات بیان ہوتی ہیں.ہر ملک میں استعاروں کا استعمال کیا جاتا ہے.ہمارے ملک میں محاورہ ہے کہ آنکھ بیٹھ گئی مگر کوئی نہیں کہتا کہ کیا آنکھ کی بھی ٹانگیں ہیں؟ یا وہ بیٹھی ہے تو کس پلنگ اور گری پر کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ آنکھ بیٹھنے کے معنی یہ ہیں کہ آنکھ ضائع ہوگئی اور پھوٹ گئی.اسی طرح اور بیسیوں نہیں سینکڑوں محاورے زبانِ اُردو میں استعمال کئے جاتے ہیں اور یہ استعارے زبان کے کمال پر دلالت کرتے ہیں.
فصائل القرآن نمبر...364 غرض تشبیہہ اور استعارہ ایسی ضرور چیز ہے کہ اس کے بغیر گزارہ ہی نہیں ہو سکتا اور چونکہ اس کے استعمال سے مضامین خوبصورت اور مزین ہو جاتے ہیں اس لئے الہامی کتابیں بھی اسے استعمال کرتی ہیں اور اس طرح وہ اس امر کی شہادت دیتی ہیں کہ تشبیہہ اور استعارہ بڑی ضروری چیز ہے.الہامی کتب کے بارہ میں لوگوں کی مشکلات لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے الہامی کتابوں کو چونکہ بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے اس لئے لوگ اس کے لفظ لفظ پر بیٹھ جاتے ہیں اور تشبیہہ اور استعارہ کی وجہ سے غلطی خوردہ لوگ دو انتہاؤں کو پہنچ جاتے ہیں.کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو تشبیہہ اور استعارہ کو بالکل نظر انداز کر کے اسے حقیقت پر محمول قرار دے دیتے ہیں.اگر قرآن میں خدا کے ہاتھ کا ذکر آئے تو وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ بس اسی طرح چمڑے کا ہے جس طرح ہمارا ہاتھ ہے.اُس کی بھی انگلیاں ہیں اور انگوٹھا ہے اور اگر انہیں کہا جائے کہ ہاتھ سے مراد خدا کی طاقت ہے تو وہ کہیں گے تم تاویلیں کرتے ہو جب خدا نے ہاتھ کا لفظ استعمال کیا ہے تو تمہارا کیا حق ہے کہ تم اس کی کوئی اور تاویل کرو.اسی طرح خدا کی آنکھ کا ذکر آئے تو وہ کہیں گے اس کے بھی ڈیلے ہیں اور اگر اس کے کوئی اور معنی کئے جائیں گے تو وہ کہیں گے یہ تو تاویلیں ہوئیں.ایسے معنی کرنا خدا کی ہتک ہے.اسی طرح اگر خدا تعالیٰ کے متعلق استوی عَلَی العرش کے الفاظ آجائیں تو وہ کہیں گے کہ جب تک خدا تعالیٰ کو ایک سنگ مرمر کے تخت پر بیٹھا ہوا تسلیم نہ کیا جائے قرآن سچا نہیں ہو سکتا.یا اگر حدیثوں میں بعض ایسے ہی الفاظ آجائیں کہ خدا اپنا پاؤں دوزخ میں ڈالے گا یا قرآن میں انہیں یہ دکھائی دے کہ يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ تو جب تک وہ یہ تسلیم نہ کریں کہ خدا نے بھی پاجامہ پہنا ہوا ہوگا اور وہ اپنی پنڈلی سے نَعُوذُ بِاللہ اپنا پا جامہ اُٹھائے گا اُس وقت تک ان کی تسلی ہی نہیں ہوتی.پس وہ تشبیہہ اور استعارہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ٹھوکر کھا گئے اور خدا تعالیٰ کے تجسم کے قائل ہو گئے اور کسی نے ان الفاظ کی حکمت پر غور نہ کیا.
فصائل القرآن نمبر...وارفتگی کا استثنا 365 بے شک بعض دفعہ جذبات کی رو میں بھی انسان ایسے الفاظ منہ سے نکال دیتا ہے جن سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ بھی مجسم ہے مگر وہ ایک عارضی حالت ہوتی ہے جو وارفتگی کے وقت انسان پر وارد ہوتی ہے جیسے مثنوی رومی والے لکھتے ہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام ایک دفعہ جنگل سے گزر رہے تھے کہ اُنہوں نے ایک گڈریے کو دیکھا جو مزے لے لے کر کہہ رہا تھا کہ خدایا! اگر تو مجھے مل جائے تو میں تجھے بکری کا تازہ تازہ دودھ پلاؤں ، تیری جو میں نکالوں، تجھے مل مل کر نہلاؤں، تیرے پاؤں میں کانٹے کچھ جائیں تو میں نکالوں.حضرت موسی علیہ السلام نے جب یہ باتیں سنیں تو اُنہوں نے اُسے سونٹا مارا اور کہا نالائق ! تو خدا تعالیٰ کی گستاخی کرتا ہے.اُسی وقت حضرت موسی علیہ السلام کو الہام ہوا کہ اے موسیٰ ! اس بندے کو تو میری کسی کتاب یا الہام کا پتہ نہ تھا اسے کیا خبر تھی کہ میری کیا شان ہے یہ تو جذبہ محبت میں سرشار ہو کر مجھ سے باتیں کر رہا تھا.تیرا کیا بگڑتا تھا اگر یہ اسی طرح مجھ سے باتیں کرتا رہتا.تو دنیا میں ایسے انسان بھی ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کا عام انسانوں پر قیاس کر لیتے ہیں اور جب انہیں محبت کا جوش اُٹھتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اگر خدامل جائے تو ہم اُس کی خدمت کریں حالانکہ خدا تعالٰی خدمت سے بالا ہستی ہے لیکن بہر حال یہ ایک وارفتگی کی کیفیت ہے اور اس سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ کہنے والا خدا تعالیٰ کے تجسم کا قائل ہے لیکن بعض پڑھے لکھے ایسے بھی ہوتے ہیں جو الفاظ پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ظاہری ہاتھ اور اُس کی آنکھ سے ظاہری آنکھ مراد لے لیتے ہیں.فلسفی مزاج لوگوں کا حدود سے تجاوز اس کے مقابلہ میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے اندر محبت کا جوش نہیں ہوتا بلکہ فلسفہ اُن کے اندر جوش مار رہا ہوتا ہے.وہ جب سنتے ہیں کہ ایک شخص کہتا ہے خدا کی آنکھیں ہیں اور دوسرا کہتا ہے اس سے آنکھیں مراد نہیں بلکہ فلاں چیز مراد ہے یا خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ظاہری ہاتھ مراد نہیں بلکہ طاقت وقوت مراد ہے تو وہ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ سارا قرآن ہی استعارہ ہے.ایسے
فصائل القرآن نمبر...366 لوگوں کو جب کہا جاتا ہے کہ قرآن کہتا ہے نماز پڑھو تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نماز پڑھی جائے بلکہ یہ ہے کہ خدا سے محبت پیدا کی جائے.اسی طرح جب قرآن کہتا ہے روزے رکھو تو وہ کہتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ بھوکے رہو بلکہ یہ مطلب ہے کہ حرام خوری نہ کرو.اسی طرح جب حج کا ذکر آتا ہے تو وہ کہتے ہیں اس سے یہ مراد نہیں کہ خواہ مخواہ سے جاؤ بلکہ اس محکم کا مقصد یہ ہے کہ جہاں بھی قومی ضروریات اجتماع چاہتی ہوں وہاں انسان چلا جائے.خواہ علیگڑھ چلا جائے یا کسی اور جگہ.حتی کہ بعض نے تو اس حد تک استعارات کو بڑھایا ہے کہ میں نے ایک تفسیر دیکھی جس میں تمام قرآن کو استعارہ اور مجاز ہی قرار دیا گیا ہے.اگر کسی جگہ موسیٰ کا نام آیا ہے تو اس کے کچھ اور ہی معنی لئے ہیں اور اگر آدم کا لفظ آیا ہے تو اس کے بھی کچھ اور معنی لئے گئے ہیں.ایسا آدمی بالکل سو فسطائی بن جاتا ہے اور اس کی مثال اُس شخص کی سی ہو جاتی ہے جو بادشاہ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت! ہر چیز وہم ہی وہم ہے.بادشاہ نے اُسے نیچے صحن میں کھڑا کر کے مست ہاتھی چھوڑ دیا اور احتیاطاً ایک سیڑھی بھی لگا دی تا کہ وہ اس کے حملہ سے بیچ کر سیڑھی پر چڑھ جائے.جس وقت ہاتھی نے حملہ کیا تو وہ بھاگا اور دوڑ کر سیڑھی پر چڑھنے لگا.بادشاہ کہنے لگا کہاں جاتے ہو؟ ہاتھی واھی کوئی نہیں یہ تو وہم ہی وہم ہے.وہ بھی کچھ کم چالاک نہ تھا کہنے لگا بادشاہ سلامت! کون بھاگ رہا ہے یہ بھی تو وہم ہی ہے.تو بعض لوگ استعارہ کو اس حد تک لے جاتے ہیں کہ کوئی کلام بغیر استعارہ پر محمول کئے نہیں چھوڑتے.ایسے لوگوں کے نزدیک خدا ایک طاقت کا نام ہے.فرشتے اخلاق کا نام ہیں.جنت اور دوزخ قومی ترقی اور تنزیل کے نام ہیں اور اُن کے نزدیک یہ سب عبادتیں نَعُوذُ ہاللہ لوگوں کو بہلانے کے لئے رکھی گئی ہیں.عیسائیوں کی مذہبی کیفیت بعض قوموں میں ایک ہی وقت میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں یعنی بعض باتوں کے متعلق تو وہ یہ کہتی ہیں کہ یہ استعارے ہیں اور بعض باتوں کے متعلق کہتی ہیں کہ یہ استعارے نہیں اور بعض ایسی قومیں ہیں جن کا اگر استعارہ میں فائدہ ہو تو استعارہ مراد لے لیتی ہیں اور حقیقت میں فائدہ ہو تو حقیقت مراد لے لیتی ہیں.عیسائی اسی قسم کے شتر مرغ ہیں انہیں جس چیز میں فائدہ نظر آتا ہے وہ
فصائل القرآن نمبر...367 اختیار کر لیتے ہیں.حضرت مسیح نے اپنے متعلق کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں.یہ ایک استعارہ تھا مگر عیسائیوں نے اسے حقیقت قرار دے کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ حضرت عیسی سچ مچ خدا کے بیٹے تھے مگر جب مسیح نے روزے رکھنے اور عبادت کرنے کا حکم دیا تو کہہ دیا کہ یہ استعارہ ہے.گویا جس میں اپنا فائدہ دیکھا وہی روش خود اختیار کر لی.جیسے کہتے ہیں کوئی پور بن تھی جس کا خاوند مر گیا.پور بن نے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور اپنی بے کسی ظاہر کرنے کے لئے کہنے لگی.میرے خاوند نے فلاں سے اتنے روپئے وصول کرنے تھے وہ اب کون وصول کرے گا ؟ ایک پور بیہ جو پاس ہی بیٹھا ہوا تھا کہنے لگا.ماری ہم ری ہم وہ کہنے لگی فلاں جگہ اتنی زمین اور جائیداد ہے اب اُس پر کون قبضہ کرے گا؟ تو وہ پھر بولا ”اری ہم ری ہم پھر وہ کہنے لگی اُس نے فلاں کا سوروپیہ دینا تھا وہ کون دے گا؟ تو وہ کہنے لگا.ارے بھئی! میں ہی بولتا جاؤں یا برادری میں سے کوئی اور بھی بولے گا.تو عیسائیوں نے اپنا مذ ہب ایسا ہی بنایا ہوا ہے.جہاں حضرت عیسی علیہ السلام یہ کہتے ہیں کہ میں خدا کا بیٹا ہوں وہاں کہتے ہیں بالکل ٹھیک مگر جب وہ کہتے ہیں کہ بھوتوں کے نکالنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ روزے رکھے جائیں تو وہ کہہ دیتے ہیں یہ استعارہ ہے.استعارات کی ضرورت اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب استعارات میں اس قدر خطرے ہیں تو الہامی کتابوں نے اسے استعمال کیوں کیا؟ کیونکہ خرابیاں یا تو استعارہ کو محدود کر دینے سے پیدا ہوتی ہیں یا اسے وسیع کر دینے سے.اگر استعارہ رکھا ہی نہ جاتا تو اس میں کیا حرج تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ استعارہ کی کئی ضرورتیں ہیں.اول اس کی ضرورت اختصار اور کسی طریق سے نہیں ہو سکتا.اس طرح لمبے لمبے مضامین بعض دفعہ صرف ایک فقرہ میں آجاتے ہیں.مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں کہ وہ فَالِقُ الْإِصْبَاح کے یعنی ھجوں کا پھاڑنے والا ہے.اس جگہ اصباح جمع کا لفظ رکھا ہے اور پھر اس کے ساتھ فالق کا لفظ رکھا ہے اور گو بظاہر یہ دولفظ نظر آتے ہیں لیکن اس مضمون کو اگر دیکھیں جو اس میں بیان کیا گیا ہے تو سے تشبیہہ اور استعارہ میں جس قدر اختصار پیدا ہو سکتا ہے وہ
فصائل القرآن نمبر...368 وہ بہت لمبا ہے.یعنی دنیا میں قسم قسم کی تاریکیاں ہوتی ہیں اور ان تمام تاریکیوں کو دور کرنے کے کچھ ذرائع ہوتے ہیں جن کی آخری کڑی خدا ہے.جب وہ کڑی تیار ہو جاتی ہے تو تاریکی دور ہو جاتی ہے اور فلق صبح ہو جاتا ہے.ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ لوگ بیمار ہوتے ہیں اور ڈاکٹر اُن کا علاج کرتے ہیں مگر کیا ان کے علاج سے سارے مریض اچھے ہو جاتے ہیں؟ یقینا تمام قسم کا علاج کرنے کے باوجود بعض مریضوں پر ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب ڈاکٹر کہ دیتا ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا.یہی حال ہر پیشے کا ہے.وکیل کو لے لو تو اُسے وکالت میں، انجینئر کو لے لو تو اسے انجینئرنگ میں ایک جگہ پہنچ کر رستہ بالکل بند نظر آتا ہے اور سوائے اس کے اور کوئی صورت نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ اُس کی غیب سے مدد کرے.پس ایسی حالت میں سوائے خدا کے اور کوئی مصیبت دور نہیں کر سکتا اور اسی کو فالِی الْإِصْبَاح کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے لیکن اگر خالی یہ کہا جاتا کہ اللہ مشکلات کو دور کرنے والا ہے تو اس سے وہ مضمون ادا نہ ہوتا جو فَالِقُ الْإِصْبَاح کے الفاظ میں ادا ہوا ہے اور جو رات اور صبح کی کیفیت سے پیدا ہوتا ہے پس اس استعارہ نے لمبے مضامین کو نہایت مختصر الفاظ میں ادا کر دیا.دوسرے استعارہ سے وسعتِ نظر پیدا ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہودیوں کے متعلق فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں بندر اور سور بنا دیا.اب اگر قرآن کریم یہ کہتا کہ ہم نے انہیں بے حیا بنادیا تو ان الفاظ میں اس مضمون کا ہزارواں حصہ بھی ادا نہ ہوتا جو قِرَدَةً اور خَنَازِیر کے الفاظ میں ادا ہوا ہے کیونکہ قِرَدَةً اور خَنَازِیر کی بیبیوں خصوصیتیں ہیں کوئی ایک خصوصیت نہیں.مثلاً بے حیائی بھی ایک خصوصیت ہے.گندگی بھی ایک خصوصیت ہے.خنزیر نہایت ہی گندہ ہوتا ہے اور یہودی بھی حد درجہ غلیظ ہوتے ہیں.میں نے ایک دفعہ جہاز کا سفر کیا تو کچھ یہودی بھی اس جہاز میں سوار ہو گئے.میں نے انہیں دیکھا تو وہ اتنے گندے تھے کہ گویا چوہڑے ہیں مگر جب بمبئی جہاز پہنچا تو میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ نہایت زرق برق لباس پہنے بیٹھے ہیں.میں کچھ حیران سا ہوا کہ یہ کہاں سے آگئے مگر پھر معلوم ہوا کہ یہ وہی یہودی ہیں جو سارے سفر میں ساتھ رہے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے جو قِرَدَةٌ اور خنازیر کے الفاظ استعمال کئے ہیں تو اسی لئے کہ بتائے کہ بندر اور سور میں جو خصوصیتیں پائی جاتی ہیں وہ سب ان میں پائی جاتی ہیں.اگر صرف اتنا کہہ دیتا کہ
369 فصائل القرآن نمبر...یہودی گندے اور بدکار ہیں تو وہ مضمون ادا نہ ہو سکتا.غرض قِرَدَةً اور خَنَازِیر کے الفاظ سے مضمون کو حیرت انگیز وسعت ہوئی ہے حتی کہ قِرَدَةً اور خنازیر کی بعض خصوصیات آج معلوم ہورہی ہیں اور وہ خصوصیات بھی یہودی قوم میں پائی جاتی ہیں.مثلاً بندر میں نقالی کا مادہ ہوتا ہے اور یہودیوں میں بھی نقل کا مادہ کمال درجہ پر پہنچا ہوا ہے.پس یہودیوں کے متعلق بتایا کہ وہ صرف بد کار ہی نہیں بلکہ نقال بھی ہیں.اسی طرح بندر پانی سے ڈرتا ہے.یہود بھی ہمیشہ خشکی میں رہتے ہیں سمندر میں سفر نہیں کرتے.اسی طرح درجن سے زیادہ خصوصیات ایسی ہیں جو یہود میں پائی جاتی ہیں مگر وہ سب قِرَدَةً اور خنازیر کے الفاظ کے اندر خدا تعالیٰ نے بیان کر دیں.اگر قرد اور خنازیر کے الفاظ اللہ تعالٰی استعمال نہ کرتا اور الگ الگ ان کی خصوصیات بیان کرتا تو اس کے لئے ایک مکمل سورۃ چاہئے تھی.اب رہے خَنَازِیر تو خَنَازِیر میں بھی کئی عیب ہیں.مثلاً ایک عیب تو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سیدھا جاتا ہے رستہ نہیں بدلتا حتی کہ حملہ بھی کرتا ہے تو سیدھا کرتا ہے.یہود میں بھی یہ عیب پایا جاتا ہے وہ بھی اپنی زندگی کے شعبے تبدیل نہیں کر سکتے.اسی طرح خنزیر میں گندگی پائی جاتی ہے اور یہود بھی حد درجہ گندے ہوتے ہیں.پھر بعض امراض بھی خنزیر میں ہوتی ہیں جو یہودیوں میں بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں مگر میں اُن کا ذکر نہیں کرتا.تیسرے تشبیہہ اور استعارہ کی ضرورت تبعید کے لئے ہوتی ہے یعنی مضمون کو اونچا کر دینا اور نظر کو وسیع کر دینا استعارہ کا مقصود ہوتا ہے.مثلاً یہ استعارہ تھا کہ خواب میں حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین اور بھائیوں کو سورج، چاند اور ستاروں کی صورت میں دیکھا.اب خالی بھائی کہہ دینے سے وہ مضمون ادا نہ ہوتا جو ستاروں میں ادا ہوا ہے یا جیسے سورج اور چاند کے الفاظ میں ادا ہوا ہے کیونکہ سورج، چاند اور ستارے ایک وسیع مضمون رکھتے ہیں.مثلاً یہی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بتادیا تھا کہ تیرے بھائی با وجود اس کے کہ اس وقت تیرے مخالف ہیں اور ان کی عملی حالت اچھی نہیں اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں سے دنیا کی ایسی ہی راہنمائی کرے گا جس طرح ستارے راہنمائی کرتے ہیں.اب یہ ایک وسیع مضمون تھا جو بھائی کہہ کر ادا نہیں ہوسکتا تھا مگر ستارے کہہ کر ادا ہو گیا.چوتھے تقریب مضمون کے لئے بھی استعارہ ضروری ہوتا ہے.یعنی بعض دفعہ مضمون اتنا
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 370 2 وسیع ہوتا ہے کہ انسان اُسے سمجھ نہیں سکتا جب تک کسی خاص طریق سے اُسے ذہن کے قریب نہ کر دیں.مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑی محبت کرتا ہے تو اس پر بچہ پوچھتا ہے کہ کتنی محبت کرتا ہے؟ تو اگر ہم اُسے کہہ دیں کہ ماں سے بھی زیادہ تو وہ فوراً بات سمجھ جائے گا حالانکہ ماں کی محبت اور خدا تعالی کی محبت میں کوئی نسبت ہی نہیں.اسی لئے بعض مذاہب نے یہ کہہ دیا ہے کہ خداماں ہے، خدا باپ ہے کیونکہ انسان اللہ تعالیٰ کی محبت کو سمجھ ہی نہیں سکتا تھا جب تک استعارہ کے رنگ میں اسے ادا نہ کیا جائے.تو استعارہ اور تشبیہہ نہایت ضروری چیز ہے اور کلام کا ویسا ہی اہم جزو ہے جیسے اور الفاظ اور اسے کسی صورت میں ترک نہیں کیا جا سکتا.جہاں وسعتِ مضمون ہوگی اور جہاں تھوڑے الفاظ میں مضامین کا ادا کرنا ناممکن ہو گا وہاں استعارہ ہی استعمال کرنا پڑے گا بلکہ خود الفاظ بھی ایک قسم کا استعارہ ہی ہیں.مثلاً جب ہم گھوڑا کہتے ہیں تو یہ خود ایک استعارہ ہوتا ہے.ورنہگ و ژاور الف کا گھوڑے سے کیا تعلق ہے؟ پس یہ ایک تشبیبہ اور استعارہ ہے جو انسانی کلام میں تجویز کیا گیا.ورنہ اگر گھوڑے کی تشریح کی جاتی تو بڑی مشکل پیش آجاتی.جیسے مشہور ہے کہ کوئی حافظ صاحب تھے جنہوں نے کبھی کبھیر نہیں کھائی تھی.ایک دن کسی نے اُن کی دعوت کی اور شاگرد نے آکر بتایا کہ آج اُس نے کھیر پکائی ہے.وہ کہنے لگے کھیر کیا کھانا ہوتا ہے؟ اُس نے بتایا کہ میٹھا میٹھا اور سفید سفید ہوتا ہے.اب حافظ صاحب نے چونکہ رنگ بھی کبھی نہ دیکھے تھے اس لئے انہوں نے پوچھا کہ سفید رنگ کس طرح کا ہوتا ہے؟ شاگرد کہنے لگا بنگلے کی طرح ہوتا ہے.حافظ صاحب پوچھنے لگے اگلا کس طرح کا ہوتا ہے؟ اس پر شاگرد نے ہاتھ کی شکل بگلے کی طرح بنائی اور اُس پر حافظ صاحب کا ہاتھ پھیر دیا.حافظ صاحب نے فورا شور مچادیا اور کہنے لگے جاؤ جاؤ میں ایسی دعوت میں شریک نہیں ہوسکتا.یہ کھیر تو میرے گلے میں اٹک کر مجھے مار ڈالے گی.یہ ہے تو ایک لطیفہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ بنگلے سے فلاں چیز مراد ہے ، گھوڑے سے فلاں چیز مراد اور گدھے سے فلاں چیز تو کوئی گھوڑے کو گدھا سمجھے گا اور بھینس کو گھوڑا.پس استعارہ انسانی کلام کا ایک ضروری جزو ہے اور اسے کسی صورت میں بھی ترک نہیں کیا جاسکتا.
فصائل القرآن نمبر...371 استعاروں کے بغیر بعض مضامین ادا ہی نہیں ہو سکتے حقیقت یہ ہے کہ استعارہ کے صحیح استعمال کے بغیر مضمون صحیح طور پر اداہی نہیں ہوسکتا.مثلاً عام طور پر جب کسی شخص سے کوئی حماقت کا کام سرزد ہو تو اُسے گدھا کہہ دیا جاتا ہے.یا کوئی بہادر شخص ہو تو اُس کے متعلق ہم شیر کا لفظ استعمال کر دیتے ہیں.اب اگر ہم شیر کا لفظ استعمال نہ کریں اور خالی بہادر کہ دیں تو جو شخص استعارہ کو مجھنے کی طاقت رکھتا ہے وہ بہادر کے لفظ سے کبھی وہ مفہوم نہیں سمجھ سکتا جو شیر کے لفظ سے سمجھ سکتا ہے.یہ اور بات ہے کہ کوئی استعارہ غلط استعمال کر دے.مثلاً گدھا ہے گدھا ہمیشہ بے موقع کام کرنے والا ہوتا ہے.راہ چلتے ہوئے باقی جانوروں کو ہٹاؤ تو وہ ایک طرف ہو جائیں گے مگر گدھے کو ہٹاؤ تو وہ ٹیڑھا کھڑا ہو جائے گا اور رستہ روک لے گا.اب اگر ہم کسی کو بیوقوف کہیں تو اس بیوقوف کے لفظ سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ وہ بے موقع کام کرتا ہے لیکن گدھے کا لفظ استعمال کرنے سے فوراً دوسرا شخص سمجھ جائے گا کہ یہ بے موقع کام کرتا ہے.اسی طرح گدھے سے بوجھ اُٹھانے کا کام بھی لیا جاتا ہے.قرآن کریم میں اسی وجہ سے علمائے یہود کی مذمت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں.اب جولوگ اس نکتہ کو سمجھتے ہیں کہ کسی کو گدھا کہنے سے ایک مقصد اس امر کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ وہ بد عمل ہے وہ فور سمجھ جائیں گے کہ جسے گدھا کہا گیا ہے وہ نہ صرف بے موقع کام کرتا ہے بلکہ بے عمل بھی ہے لیکن خالی احمق یا بیوقوف کا لفظ کہنے سے یہ مضمون ادا نہیں ہوتا.اسی طرح جو مضمون کسی کو شیر کہنے سے ادا ہوتا ہے وہ خالی بہادر کہنے سے ادا نہیں ہوتا کیونکہ شیر کی خوبی یہ ہے کہ وہ بلا وجہ حملہ نہیں کرتا.دوسرے وہ زیر دست سے چشم پوشی کرتا ہے.اگر شیر کے آگے لیٹ جائیں تو وہ حملہ نہیں کرتا سوائے اس کے کہ اُس کے منہ کو خون لگ چکا ہو.یہ خوبی شیر میں یہاں تک دیکھی گئی ہے کہ بعض جگہ چھوٹے بچے لیٹ ہوئے تھے کہ اتفاقاً وہاں شیر آ گیا.ایسی حالت میں بجائے اُن پر حملہ کرنے کے وہ انہیں چاٹنے لگ گیا.اسی طرح اس میں خوف بالکل نہیں ہوتا.یہ خصوصیات ہیں جو شیر میں پائی جاتی ہیں.اب اگر ہم کسی کے متعلق محض بہادر کا لفظ استعمال کریں تو گو اس سے اُس کی جرات اور دلیری کا اظہار ہو جائے گا مگر یہ اظہار نہیں ہوگا کہ وہ بلا وجہ حملہ نہیں کرتا.وہ زیر دست سے چشم پوشی کرتا ہے اور ڈر اور خوف اس میں بالکل نہیں.تیسرے اس میں ہیبت ہوتی ہے.یہ خصوصیت بھی ایسی ہے جو شیر میں ہی پائی جاتی ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ نے ایسی ہیبت پیدا کر دی ہے کہ حملہ سے نہیں
فصائل القرآن نمبر...372 بلکہ اُس کی شکل سے ہی دوسرے کو ڈر لگنے لگ جاتا ہے.غرض استعارہ مضمون میں وسعت پیدا کر دیتا ہے.چنانچہ اس کا ثبوت کہ یہ ضروری چیز ہے یہ ہے کہ رویا میں نوے فیصدی استعارات سے کام لیا جاتا ہے.انسان دیکھتا ہے کہ میں بینگن کھا رہا ہوں اور اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اُسے کوئی غم پہنچے گا.وہ دیکھتا ہے کہ فلاں عزیز مر گیا ہے اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی عمر لمبی ہوگی.وہ دیکھتا ہے کہ اپنے بچے کو ذبح کر رہا ہے اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے دین کے لئے وقف کر دے گا.وہ دیکھتا ہے کہ میں بکرا ذبح کر رہا ہوں اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کا کوئی بچہ مرجائے گا.میں اس بحث میں اس وقت نہیں پڑتا کہ رویا خدا تعالیٰ کی طرف سے دکھائی جاتی ہیں یا دماغی کیفیت کا ایک نتیجہ ہیں لیکن بہر حال اگر رؤیا ایک دماغی کیفیت ہے تب بھی سب دماغوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کر دیا ہے کہ استعارہ کے بغیر گزارہ نہیں اور اگر رویا خدا تعالیٰ کی طرف سے دکھائی جاتی ہے تب بھی خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ استعارہ کے بغیر گزارہ نہیں.پس بنی نوع انسان اور خدا تعالیٰ کی متفقہ شہادت اس امر پر ہے کہ استعارہ کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا.باقی رہے خطرات سو میں انہیں تسلیم کرتا ہوں.میں مانتا ہوں کہ استعاروں کو نہ سمجھ کر ہی عیسائی گمراہ ہو گئے.کہیں انہوں نے حضرت عیسی کو خدا قرار دے لیا تو کہیں شریعت کو لعنت قرار دے دیا لیکن اگر کوئی ذریعہ ایسا ہو جس سے یہ خطرات دور کئے جاسکیں تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو کلام ان خطرات کا ازالہ کر دے وہ بہترین کلام سمجھا جائے گا.( میں اس وقت انسانی کلام پر گفتگو نہیں کر رہا بلکہ الہامی کتابوں کا ذکر کر رہا ہوں ) غلط فہمیاں دور کرنے کے ذرائع پہلی الہامی کتابوں نے بے شک استعارے استعمال کئے ہیں مگر ان کے خطرات کو دُور کرنے کے لئے بعد میں نبی آتے رہے اور جب بھی لوگوں کو کوئی غلطی لگی ، آنے والے نبیوں کے ذریعہ اس کا ازالہ ہوتا رہا لیکن ان استعارات کو سمجھنے کے لئے ان میں اندرونی شہادت موجود نہیں ہوتی تھی.مثلاً انجیل میں حضرت مسیح کو ابن اللہ کہا گیا ہے مگر اس استعارہ کو حل کرنے کے لئے اندرونی شہادت اس میں موجود نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ یہ ایک عارضی تعلیم ہے جب اس کے ذریعہ لوگوں کو دھوکا لگا
فصائل القرآن نمبر...373 تو پھر ایک مکمل شریعت اُتاری جائے گی جیسے گورنمنمیں جب عارضی طور پر پل بناتی ہیں تو ایسے سامان سے بناتی ہیں جو تھوڑے عرصہ تک کام دے سکے.زیادہ پائیدار اور پختہ سامان نہیں لگاتیں.اسی طرح پہلا تعلیمیں چونکہ عارضی تھیں اور اللہ تعالیٰ اُن کو منسوخ کر کے ایک کامل تعلیم اُتارنے کا ارادہ کر چکا تھا اس لئے ان کتب میں اندرونی شہادت نہ رکھی صرف بیرونی شہادت سے خطرات کا ازالہ کرتا رہا.اس لئے جب بیرونی شہادت بند ہوگئی تو سابقہ الہامی کتب بھی منسوخ کر دی گئیں لیکن قرآن کریم چونکہ ابدی ہدایت نامہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے خطرات کے ازالہ کے لئے دو صورتیں رکھی ہیں.اول بعثت مامورین.دوم اندرونی شہادت.تا کہ کسی وقت بھی ایسی غلطیاں مسلمانوں میں پیدا نہ ہوں جو سب کو گمراہ کر دیں.پہلی کتب کے ساتھ چونکہ یہ حفاظت کے اسباب نہیں تھے اس لئے ان کے بعض مضامین سے لوگوں کو ٹھوکر لگی اور بعض مضامین کو وہ سمجھ ہی نہ سکے.مثلاً با عمیل کی کئی آیات ان ہدایت پر مشتمل ہیں کہ اگر کپڑے کو کوڑھ ہو جائے تو تم کیا کرو اب یہ امر کہ کپڑے کو کوڑھ کس طرح ہو سکتا ہے انسانی عقل سے بالا ہے.ڈاکٹر بھی اس بات سے ناواقف ہیں مگر بائبل کی کتاب گنتی میں با قاعدہ کپڑوں کے کوڑھ کی قسمیں بیان کی گئی ہیں اور پھر اس کوڑھ کا علاج بتایا گیا ہے.اب یقینا یہ کوئی استعارہ ہوگا.مثلا ممکن ہے کپڑوں سے مراد دل ہوں اور کپڑے کے کوڑھ سے مراد دل کی گندگی ہو.جیسے قرآن کریم میں بھی آتا ہے.وَثِيَابَكَ فطهرت لیکن چونکہ اندرونی شہادت اس میں موجود نہیں اور نبی آنے بند ہو گئے اس لئے اب انسان ان باتوں کو پڑھتا اور ہنستا ہے.گزشتہ دنوں ایک جرمن اُستانی میں نے اپنی لڑکیوں کو تعلیم دینے کے لئے رکھی.اُسے انگریزی کم آتی تھی میں نے سمجھا اُسے انگریزی نہیں آتی تو اس سے جرمن زبان ہی سیکھ لیتے ہیں.چنانچہ وہ کچھ عرصہ پڑھاتی رہی.ایک دن ایک شخص میرے پاس آیا اور میں نے اُسے تبلیغ کی تو وہ کہنے لگی.ہر کتاب میں ہدایت کی باتیں ہیں.توریت میں بھی بڑی بڑی کام کی باتیں ہیں پھر قرآن کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے کہا ہدایت ہونے پر تو کوئی اعتراض نہیں.اعتراض تو اس امر پر ہے کہ اس میں بعض ایسی باتیں بھی پائی جاتی ہیں جو لغو ہیں.چنانچہ میں نے کہا کیا کپڑے کو بھی کوڑھ ہو سکتا ہے؟ اس نے کہا نہیں.میں نے کہا بائیبل میں یہ لکھا
فصائل القرآن نمبر....374 ہے چنانچہ بائیمیل منگوا کر اس کے سامنے رکھی گئی اور وہ باب نکال کر اُسے دکھا یا گیا.وہ سارا دن سر ڈالے بار بارا سے پڑھتی اور سوچتی رہی.آخر مجھے کہنے لگی یہ بات میری عقل سے باہر ہے.میں کسی پادری کو اس کے متعلق لکھوں گی اور جو جواب اس کا آئے گا وہ میں آپ کو بتاؤں گی.میں نے کہا پادری بھی اس کا مطلب کچھ نہیں بتا سکتا مگر خیر اس نے ایک پادری کو خط لکھ دیا.کوئی دو مہینے کے بعد اُس کا جواب آیا مگر وہ بھی اُس نے خود نہیں لکھا بلکہ اس کی کسی سہیلی سے لکھوایا اور جواب یہ تھا کہ اگر سچ سچ تمہیں اسلام پسند آ جائے تو اسے اختیار کر لو ورنہ قومی مذہب ہی اچھا ہوتا ہے اور اس قسم کی باتیں جو بائیل میں آتی ہیں یہ ہر ایک کو سمجھانے والی نہیں ہوتیں.تو اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک استعارہ تھا مگر چونکہ اندرونی شہادت موجود نہیں اور اس کی تشریح کے لئے جو نبی آیا کرتے تھے اُن کا سلسلہ بند ہو گیا اس لئے لوگوں کے لئے ان باتوں کا سمجھنا بڑا مشکل ہو گیا لیکن قرآن نے اپنے استعارات کے حل کے متعلق دونوں شہادتیں رکھی ہیں یعنی اندرونی بھی اور بیرونی بھی.پس پہلی کتب اور قرآن کریم میں یہ فرق ہے کہ گو تشبیہ اور استعارہ دونوں کتب میں استعمال ہوئے ہیں مگر پہلی کتب سے جو غلطی پیدا ہو جاتی تھی وہ ان کتب سے دُور نہیں ہوسکتی تھی مگر قرآن کریم کی کسی بات سے اگر کوئی غلطی لگے تو وہ قرآن سے ہی دُور ہو سکتی ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے استعاروں کو کوئی حقیقت نہیں بنا سکتا اور نہ حقیقت کو استعارہ بنا سکتا ہے.میں یہ مانتا ہوں کہ اس امر کا امکان ہے کہ کسی وقت مسلمان غلط نہی سے لاکھ دولاکھ یا چار لاکھ کی تعداد میں بگڑ جا ئیں مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ سارے بگڑ جائیں حالانکہ عیسائی سب کے سب بگڑ گئے.قرآن کریم اپنے استعاروں کو آپ حل کرتا ہے چنانچہ یہ دعوئی جو میں نے کیا ہے کہ قرآن کریم اپنے استعارات کو آپ حل کرتا ہے اس کو قرآن کریم نے خود پیش کیا ہے.وہ فرماتا ہے هُوَ الذي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ مِنْهُ أَيْتُ تُحكَمْتُ هُنَّ أُمُّ الْكِتَبِ وَأَخَرُ مُتَشبِهتْ، فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيْلَةَ إِلَّا الله وَالرَّسِحُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ امَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبَّنَا وَمَا يَذَّكَرُ إِلَّا
فصائل القرآن نمبر....375 أولُوا الأَلْبَابِ سے فرماتا ہے قرآن کے جو مضامین ہیں ان میں سے کچھ تو محکم ہیں یعنی ان میں استعارہ استعمال نہیں ہوا مگر کچھ آیتیں ایسی ہیں جن میں استعارے استعمال ہوئے ہیں.یعنی الفاظ تو ہیں مگر ان میں تشابہ ہے.مثلاً انسان کو بندر اور سؤر کہ دیا گیا ہے.فرماتا ہے وہ لوگ جو کبھی چاہتے ہیں وہ استعاروں والی آیات کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہی حقیقت ہے.اگر یہود کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں بندر بنا دیا تو وہ کہتے ہیں کہ واقعہ میں انسانی شکل مسخ کر کے انہیں بندر بنادیا گیا تھا اور اگر یہ آئے کہ انہیں سور بنا دیا گیا تھا تو وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ واقعہ میں وہ سور بن گئے تھے.اگر یہ ذکر آئے کہ خدا عرش پر بیٹھا ہے تو یہ کہنے لگ جائیں گے کہ اس کے واقعہ میں گھٹنے ہیں اور وہ کسی تخت پر بیٹھا ہے اور اس سے غرض ان کی یہ ہوتی ہے کہ وہ فتنہ پیدا کریں.وَابْتِغَاء تأویلہ اور حقیقت سے پھرانے کے لئے وہ ایسا کرتے ہیں.تاویل کے معنی پھرانے کے ہوتے ہیں چاہے حقیقت سے دور لے جانے کے معنوں میں ہو یا حقیقت کی طرف لے جانے کے معنوں میں ہو مگر یہاں وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ کے معنی حقیقت سے دُور لے جانے کے ہیں.یعنی استعارے کو وہ حقیقت قرار دے کر لوگوں کو اصل معنوں سے دور لے جاتے ہیں.حالانکہ وہ استعارہ ہوتا ہے اور استعارہ کی وجہ سے اس کا مفہوم خدا ہی بیان کرسکتا ہے جو عالم الغیب ہے.تم خود کس طرح سمجھ سکتے ہو.اگر کہو کہ پھر ہمیں استعاروں کے مفہوم کا کس طرح پتہ لگے؟ تو فرمایا الراسخونَ فِي الْعِلْمِ ہم نے اِن کا مفہوم قرآن میں بیان کر دیا جو سمجھنے والے ہیں اُن کے سامنے جب دونوں آیات آتی ہیں وہ بھی جن میں استعارہ ہوتا ہے اور وہ بھی جن میں حقیقت ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں حُلٌّ مِّنْ عِنْدِرَتِنَا.وہ آیت بھی خدا کی طرف سے ہے جو استعارے والی ہے اور وہ آیت بھی اس کی طرف سے ہے جو اسے حل کرنے والی ہے اور ناممکن ہے کہ ان دونوں میں اختلاف ہو.مثلاً اگر ہم کہیں کہ زید گدھا ہے اور پھر کہیں کہ زید نے فلاں کتاب نقل کر کے دی ہے تو اس صورت میں اگر کوئی دوسرا اس استعارے کو حقیقت قرار دیتے ہوئے سوال کرے کہ کیا زید چوپایہ ہے؟ تو اُسے دوسرے فقرہ کو جس میں اُس کی طرف کتاب کا نقل کرنا منسوب کیا گیا ہے جھٹلا نا پڑے گا لیکن اگر ہم کہہ دیں کہ دونوں فقرے صحیح ہیں تو لازما استعارہ کو استعارہ کے معنوں میں لانا پڑے گا اور حقیقت کو حقیقت کے معنوں میں.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 376 ہ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ یہ کہتے ہیں کہ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبَّنَا یعنی اے بھلے مانسو! جو استعارے کو حقیقت قرار دیتے ہو کیا تم اس امر کو نہیں جانتے کہ جب تم استعارہ کو حقیقت قرار دو گے تو قرآن کریم کی بعض آیات جھوٹی ہو جائیں گی اور وہ کچی ثابت نہیں ہو سکتیں جب تک استعارہ کو استعارہ کی حد میں نہ رکھا جائے.حالانکہ وہ دونوں خدا کی طرف سے ہیں اور دونوں سچی ہیں اور جب دونوں باتیں سچی ہیں تو لازما ماننا پڑے گا کہ ان میں سے ایک حقیقت ہے اور ایک استعارہ.وَمَا يَذَّكَرُ الَّا أُولُو الْأَلْبَاب مگر یہ فائدہ عقلمند لوگ ہی اُٹھاتے ہیں.حضرت مسیح کا معجزہ احیائے موتی اس ضمن میں کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر ایک موٹی مثال احیائے موٹی کی ہے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام مُردے زندہ کیا کرتے تھے اور دوسری طرف قرآن میں ہی لکھا ہے کہ مردے کی روح اس جہان میں واپس نہیں آتی.اب اگر ہم مردوں کو زندہ کرنے سے حقیقی مردوں کا احیاء مراد لیں تو ان میں سے ایک آیت کو نعوذباللہ جھوٹا ماننا پڑتا ہے لیکن اگر مردوں سے روحانی مردے مُراد لیں تو دونوں آیتیں سچی ہو جاتی ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف حضرت عیسی علیہ السلام سے فرمایا کہ مُردے زندہ کرو اور دوسری طرف کہہ دیا کہ مُردے واپس نہیں آتے.اس طرح جو استعارہ کا فائدہ تھا وہ بھی حاصل ہو گیا اور جو نقصان تھا وہ بھی دُور ہو گیا.احیائے موتی کے الفاظ استعمال کرنے سے مضمون میں جو وسعت پیدا کرنا مد نظر تھا وہ وسعت بھی پیدا ہوگئی اور جو خطرہ تھا کہ جاہل مسلمان انہیں خدا قرار نہ دے لیں اسے بھی دُور کر دیا.مجاز اور استعارہ کے بارہ میں رسول کریم میانی آپ ان کا ارشاد ان معنوں کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے.عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم سان سلیم نے کچھ لوگوں کے متعلق سنا کہ وہ محکمات و متشابہات کے بارہ میں جھگڑتے اور استعارہ اور حقیقت میں فرق نہ سمجھتے ہوئے قابلِ اعتراض
فصائل القرآن نمبر...377 باتیں کرتے ہیں.اس پر آپ نے فرمایا کہ تم سے پہلی قومیں اسی اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ کی کتاب اس لئے اُتری ہے کہ اس کی ہر آیت دوسری کی تصدیق کرے." پس جو آیت دوسری آیت کی تصدیق نہ کرے اس کے معنی بدلنے چاہئیں اور دونوں آیات کے مضمون میں مطابقت پیدا کرنی چاہئے.پس کبھی قرآن کے وہ معنی نہ کرو جو اس کی کسی دوسری آیت کو جھٹلاتے ہوں.اگر مطلب سمجھ میں نہ آئے تو جانے دو اور کسی عالم قرآن سے دریافت کرو وہ تمہیں اس کا مطلب بتادے گا.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بتا دیا کہ قرآن کریم کی آیات آپس میں مخالف نہیں اگر استعارہ سمجھ میں آجائے تو اُسے محکم آیات کے مطابق کرو اور اگر سمجھ میں نہ آئے تو کسی واقف کے پاس جاؤ اور اُس سے دریافت کرو کہ کیا بات ہے وہ تمہاری عقدہ کشائی کر دے گا.غرض اس اصل کے ماتحت جو قرآن کریم نے بتایا ہے اور حدیث کے بھی ماتحت ہے جہاں دوسری کتب میں بعض خلاف عقل اور خلاف سنت باتیں پائی جاتی ہیں وہاں قرآن کریم ان باتوں سے پاک ہے کیونکہ مستعمل استعاروں کا حل قرآن میں موجود ہے.قرآنی استعارات کی ایک مثال اس سلسلہ میں اگر چہ قرآن کریم کی بیبیوں باتیں بیان کی جاسکتی ہیں مگر چونکہ میں قرآن کی تفسیر نہیں کر رہا اس لئے مثال کے طور پر میں صرف ایک امر بیان کر دیتا ہوں اور وہ وہی ہے جس کا ذکر سورہ نمل کے اُس رکوع میں کیا گیا ہے جس کی آج ہی میں نے تقریر شروع کرنے سے قبل تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا اور ان دونوں نے کہا الحَمْدُ للهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَى كَثِيرٍ مِنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ اللہ تعالیٰ ہی تمام تعریفوں کا مستحق ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت بخشی ہے وَوَرِثَ سلیمن دَاوُدَ اور سلیمان داؤد کا وارث بنا اور اس نے کہا اے لوگو! مجھے اور میرے باپ کو پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہم کو ہر ایک چیز دی گئی ہے اور ہم پر یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے اور سلیمان کے لیے لشکر جمع کئے گئے.وہ لشکر انسانوں کے بھی تھے اور جنوں کے بھی اور پرندوں
فصائل القرآن نمبر....378 کے بھی.گویا ہر ایک کی الگ الگ کمپنی تھی.حَتَّی اِذَا آتَوْا عَلَى وَادِ النَّمْلِ.پھر حضرت سلیمان اپنا شکر لے کر چلے یہاں تک کہ وہ وَادِ النَّمْلِ یعنی چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے.ایک چیونٹی نے انہیں دیکھ کر کہا اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ ایسانہ ہو کہ سلیمان اور اس کا لشکر غیر شعوری حالت میں تمہیں اپنے پیروں کے نیچے مسل دیں.حضرت سلیمان اُس کا یہ قول سُن کر ہنس پڑے اور انہوں نے کہا اے میرے خدا! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کر سکوں.وہ نعمتیں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیں اور یہ کہ میں نیک کام کروں جن سے تو راضی ہو جائے اور مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں داخل فرما.پھر حضرت سلیمان نے جب پرندوں والے لشکر کی دیکھ بھال کی تو فرمایا یہ کیا بات ہے کہ بد بد نظر نہیں آتا.میں اُسے سخت عذاب دونگا ور نہ وہ دلیل پیش کرے اور وجہ بتائے کہ کیوں غیر حاضر ہوا ؟ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ہد ہد آ گیا اور اُس نے کہا کہ حضور! ناراض نہ ہوں.میں ایسی خبر لایا ہوں جس کا آپ کو علم نہیں.میں سبا کے ملک سے ایک یقینی خبر لایا ہوں اور وہ یہ کہ میں نے وہاں ایک عورت کو دیکھا جو اُن کی ساری قوم پر حکومت کر رہی ہے اور ہر نعمت اُسے حاصل ہے اور اُس کا ایک بڑا تخت ہے اور میں نے اُسے اور اُس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے اور شیطان نے اُن کے اعمال اُن کو خوبصورت کر کے دکھائے ہیں اور اُن کو بچے راستہ سے روک دیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہدایت نہیں پاتے اور اس بات پر مصر ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہیں کریں گے وہ اللہ جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ تقدیر کو ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے اور ظاہر کرتے ہوا سے جانتا ہے حالانکہ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ایک بڑے تخت کا مالک ہے.حضرت سلیمان نے کہا اچھا ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ بولا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ہے.تو میرا یہ خط لے جا اور اسے اُن کے سامنے جا کر پیش کر دے اور پھر ادب سے پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو جا اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں.اس قسم کا مضمون سورہ سبار کوع ۲ میں بھی آتا ہے جہاں اللہ تعالٰی فرماتا ہے.وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوَدَمِنَّا فَضْلًا يُجِبَالُ اَوِبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ : وَالنَّالَهُ الْحَدِيدَ أَنِ اعْمَلُ سَبِغْتٍ وقَدِرُ في السَّرْدِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إنّي بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرُ سے یعنی ہم نے داؤد پر بھی بڑا فضل کیا اور اُس کے زمانہ میں ہم نے پہاڑوں سے کہا کہ اے پہاڑو! اس کے ساتھ چلو اور
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 379 پرندوں کو بھی محکم دے دیا کہ اُس کے ساتھ رہیں اور اس کے لئے ہم نے لوہا نرم کر دیا اور اُسے کہا کہ اس لوہے سے زیر ہیں بناؤ اور ان کے حلقے چھوٹے رکھو اور نیک اعمال بجالاؤ میں تمہارے کاموں سے خوب واقف ہوں.اسی طرح سورہ انبیاء رکوع ۶ میں فرماتا ہے.وَسَخَرْنَا مَعَ دَاوُدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرِ وَكُنَّا فَعِلِيْنَ وَعَلَّمْنَهُ صَنْعَةَ لَبُوْس لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِنْ بَأْسِكُمْ فَهَلْ أَنْتُمْ شكرُونَ.گلے ہم نے داؤد کے لئے پہاڑوں کو مسخر کر دیا جو ہر وقت تسبیح کرتے تھے اور پرندے مسخر کر دیئے اور ہم یہ سب کچھ کرنے پر قادر تھے اور ہم نے اس کو تمہارے لئے لباس کا بنانا سکھلایا تا کہ وہ تمہیں لڑائی میں تکلیفوں سے بچائے پس کیا تم شکر گذار بنو گے؟ پھر سورہ ص رکوع ۲ میں آتا ہے.وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُدَ ذَا الْأَيْرِ إِنَّةَ أَوَّابٌ إِنَّا سَخَرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِي وَالْإِشْرَاقِ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً كُلٌّ لَّةَ أَوَّابٌ وَشَدَدْنَا مُلكَهُ وَآتَيْنَهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخطَابِ شا یعنی ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو جو بڑی طاقت کا مالک تھا اور ہماری درگاہ میں بار بار جھکتا تھا ہم نے اُس کے لئے پہاڑ مسخر کر دیئے جو صبح و شام تسبیح کرتے تھے.اسی طرح پرندے اُس کی خاطر اکٹھے کر دیئے تھے اور وہ سب کے سب خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والے تھے اور ہم نے اُس کی سلطنت کو خوب مضبوط بنادیا تھا اور اُسے حکمت دی تھی اور ایسے دلائل سکھائے تھے جو دشمن کا منہ بند کر دیں.ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے قبضہ میں جن بھی تھے، پرندے بھی تھے، پہاڑ بھی تھے.وہ چیونٹیوں کی زبان بھی جانتے تھے.ایک ہد ہد بھی انہوں نے رکھا ہوا تھا جو اُن کے بڑے بڑے کام کرتا تھا.مفسرین کی عجیب و غریب قیاس آرائیاں اب جن لوگوں نے متشابہہ کو محکم سے پڑھنے کی کوشش نہیں کی وہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان اور حضرت داؤد کے قبضے میں پہاڑ تھے.جن تھے، پرندے تھے، حیوانات تھے اور سب مل کر حضرت داؤد کے ساتھ ذکر الہی کرتے تھے.جب وہ کہتے سُبحان اللہ تو پہاڑ بھی اور پرندے بھی
فصائل القرآن نمبر...380 ورود اور جن بھی اور حیوانات بھی سب سُبْحَانَ اللهِ ، سُبْحَانَ اللهِ کہنے لگ جاتے.جیسے کشمیری واعظوں کا دستور ہے کہ لیکچر دیتے ہوئے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد سستانے کے لئے کہہ دیتے ہیں پڑھو درود وہ بھی گویا اسی طرح کرتے تھے.جب خود ذکر الہی کرتے کرتے تھک جاتے تو کہتے ہمالیہ پڑھو درود اور وہ درود پڑھنے لگ جاتا.پھر جب انہیں آرام آجاتا تو کہتے چپ کرو اب میں خود پڑھتا ہوں.بعض کہتے ہیں پہاڑوں وغیرہ کا سُبحان اللہ کہنا کونسی بڑی بات ہے وہ تو با قاعدہ رکوع وسجود بھی کرتے تھے.جب حضرت داؤد سجدہ میں جاتے تو سارے پہاڑ ، پرند اور چرند بھی سجدہ میں چلے جاتے اور جب وہ رکوع کرتے تو سب رکوع کرنے لگ جاتے.بعض کو اس تاویل سے بھی مزا نہیں آیا وہ کہتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ حضرت داؤد جہاں بھی جاتے پہاڑ آپ کے ساتھ چل پڑتے.حضرت داؤد تو شام میں تھے اور یہ ہمالیہ، شوالک اور اپس سب آپ کے ساتھ ساتھ پھرا کرتے تھے.اسی طرح پرندے بھی مل کر تسبیح کرتے تھے.اُن دنوں چڑیاں بھی چوں چوں نہیں کرتی تھیں، بکریاں میں میں نہیں کرتی تھیں بلکہ سُبحان الله ، سُبحان اللہ کیا کرتی تھیں.کوئی یہ نہ پوچھے کہ بکری کس طرح پرندہ ہو گیا؟ کیونکہ تفسیروں میں اسی طرح لکھا ہے.غرض وہ عجیب زمانہ تھا.اسی طرح سلیمان پر خدا تعالیٰ نے ایک اور مہربانی کی اور وہ یہ کہ جن اُن کے حوالے کر دیئے جو اُن کے اشارے پر کام کرتے.جب چلتے تو پرندے اُن کے سر پر اپنے پر پھیلا کر سایہ کر دیتے.وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نَعُوذُ بِاللہ حضرت داؤد بڑے شکی طبیعت کے آدمی تھے.جب کہیں باہر جاتے تو اپنی بیویوں کو گھر میں بند کر کے جاتے.ایک دفعہ گھر میں آئے تو دیکھا کہ ایک جوان مضبوط آدمی اندر پھر رہا ہے.وہ اُسے دیکھ کر سخت خفا ہوئے اور کہنے لگے.تجھے شرم نہیں آتی کہ اندر آ گیا ہے.پھر اُس سے پوچھا کہ جب مکان کے تمام دروازے بند تھے تو تو اندر کس طرح آگیا ؟ وہ کہنے لگائیں وہ ہوں جسے دروازوں کی ضرورت نہیں.آپ نے پوچھا کیا تو ملک الموت ہے؟ اُس نے کہا ہاں اور یہ کہتے ہی اُس نے آپ کی جان نکال لی.حضرت سلیمان علیہ السلام کو جب دفن کرنے لگے تو تمام پرندے اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے آپ پر اپنے پروں سے سایہ کیا.کہتے ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام تمام پرندوں کی بولیاں جانتے تھے.کسی نے کہا کہ کیا جانوروں کی بولیاں جانتے تھے یا نہیں؟ تو مفسرین نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ جانتے تو تھے مگر
381 فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ اختصار کے لحاظ سے صرف پرندوں کا ذکر کیا گیا ہے.کہتے ہیں ایک دفعہ بارش نہ ہوئی تو لوگوں نے حضرت سلیمان سے کہا چلیں استسقاء کی نماز پڑھائیں.حضرت سلیمان نے کہا کہ گھبراؤ نہیں بارش ہو جائے گی کیونکہ ایک چیونٹی پیٹھ کے بل کھڑی ہو کر کہ رہی تھی کہ خدایا ! اگر بارش نہ ہوئی تو ہم مر جائیں گی.ایک دفعہ وہ وادی النمل میں سے گزرے تو چیونٹیوں کی ملکہ نے سب کو حکم دیا کہ اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ مگر مفسرین نے یہیں تک اپنی تحقیق نہیں رہنے دی انہوں نے چیونٹیوں کے قبیلوں کا بھی پتہ لگایا ہے اور کہتے ہیں جس طرح انسانوں میں مغل، راجپوت اور پٹھان وغیرہ ہوتے ہیں اسی طرح چیونٹیوں کی قومیں اور قبائل ہوتے ہیں.چنانچہ یہ علم آپ کے کام آئے گا کہ چیونٹیوں کے ایک قبیلے کا نام شیسان ہے جو مفسرین نے لکھا ہے.وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ان کی جو سردار چیونٹی تھی وہ ایک پاؤں سے لنگڑی تھی اور اُس کا قد بھیٹر کے برابر تھا.یہ وہ واقعات ہیں جو استعارہ اور تشبیہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مفسرین کو گھڑنے پڑے ہیں.حالانکہ بات بالکل صاف تھی.چنانچہ میں باری باری ہر واقعہ کو لیتا ہوں اور سب سے پہلے میں حضرت داؤد علیہ السلام کا قصہ لیتا ہوں.پہاڑوں کی تسخیر سے کیا مراد ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے داؤد کے لئے پہاڑوں کو مسخر کر دیا جو تسبیح کرتے تھے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا ایسے قصوں کی ضرورت ہے؟ حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق اگر خدا نے یہ کہا ہے کہ ہم نے اُس کے لئے پہاڑ مسخر کر دیئے تو اللہ تعالیٰ ہمارے متعلق بھی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اللهُ الَّذِي سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِى الْفُلْكُ فِيْهِ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ إنَّ فِي ذلِكَ لَآيَتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ لا یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے مومنو! اور اے کا فرو اور منافقو ! ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے سمندر مسخر کر دیئے ہیں جس میں کشتیاں اُس کے حکم سے چلتی ہیں تا کہ تم خدا کا فضل تلاش کرو اور صرف سمندر ہی نہیں آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ بھی ہم نے تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے اور اس میں غور و فکر کرنے والوں کے
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 382 لئے بڑے بڑے نشانات ہیں.اب اس آیت سے حضرت داؤ د والی آیت بالکل حل ہو جاتی ہے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ زمین و آسمان میں جس قدر چیزیں ہیں خواہ دریا ہیں یا پہاڑ سب انسان کے لئے مسخر ہیں.اب یہ عجیب بات ہے کہ پہاڑ میرے لئے بھی مسخر ہوں مگر میرے ساتھ ہمالیہ کی ایک اینٹ بھی نہ چلے اور داؤد کے ساتھ پہاڑ کا پہاڑ چلنے لگ جائے.اگر داؤد کے ساتھ یہ واقعات ہوئے ہیں تو ہمارے ساتھ بھی ہونے چاہئیں اور اگر ہمارے ساتھ نہیں ہوتے تو صاف پتہ لگ گیا کہ حضرت داؤڑ کے ساتھ بھی ایسا نہیں ہوتا تھا.پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کے معنے اب رہا سوال تسبیح کا.کوئی کہہ سکتا ہے کہ قرآن میں تو لکھا ہے پہاڑ اور پرندے حضرت داؤد کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے کیا اب بھی یہ چیزیں تسبیح کرتی ہیں؟ سو اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے سورۃ میں دے دیا ہے.فرماتا ہے.يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَکیم - کلا یعنی سورج بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے.چاند بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے.ستارے بھی تسبیح کر رہے ہیں.اسی طرح مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب تسبیح کر رہے ہیں.یہ لیمپ بھی تسبیح کر رہا ہے.لاؤڈ سپیکر بھی تسبیح کر رہا ہے.اسی طرح درخت بھی تسبیح کر رہے ہیں.اُن کے پتے بھی تسبیح کر رہے ہیں.آم بھی تسبیح کر رہا ہے.کیلا بھی تسبیح کر رہا ہے بلکہ کیلے کا چھلکا جس کو ہم اُتار کر پھینک دیتے ہیں وہ بھی تسبیح کر رہا ہے.روٹی بھی تسبیح کر رہی ہے.تھالی بھی تسبیح کر رہی ہے.جب تم چائے پیتے ہو تو تمہارے ہونٹ بھی تسبیح کر رہے ہوتے ہیں.چائے بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے.مصری یا کھانڈ بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے.پیالی بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے.پرچ بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے.اسی طرح مکان بھی، چھت بھی ، دیوار میں بھی ، دروازے بھی ، وہ بستر جس پر تم لیٹتے ہو اُس بستر کی چادر بھی اور تو شک اور رضائی بھی سب سبحان اللہ سُبحان اللہ کہہ رہی ہوتی ہیں اور جب ہر چیز سُبحان اللہ کہہ رہی ہے تو حضرت داؤد کے لئے اگر یہی الفاظ آجائیں تو اس کے نئے معنی کیوں بن جاتے ہیں.دیکھ لوہ دونوں باتیں جو حضرت داؤد کے متعلق کہی گئی تھیں ہمارے لئے بھی موجود ہیں.ہمارے لئے بھی
383 فصائل القرآن نمبر...خدا کہتا ہے کہ میں نے ہر چیز مسخر کر دی اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہر چیز تسبیح کر رہی ہے بلکہ حضرت داؤد کے لئے تو صرف یہ کہا گیا ہے کہ پہاڑ اور پرندے تسبیح کرتے تھے مگر ہمارے لئے تو یہ کہا گیا ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب تسبیح کرتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تسبیح سے مراد یہ ہے کہ ہر چیز یہ ثابت کر رہی ہے کہ خدا بے عیب ہے.چونکہ اسلام نے دنیا بھر سے عیب دُور کرنے تھے اس لئے مسلمانوں کو یہ بتایا گیا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ تسبیح کر رہا ہے لیکن حضرت داؤد نے چونکہ صرف جبال سے عیب دُور کرنے تھے اور وہ ساری دنیا کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے بلکہ ایک محدود مقام کی طرف تھے اس لئے حضرت داؤد کے زمانہ میں صرف جبال نے تسبیح کی لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سارے جہان کی طرف تھے اس لئے آپ نے فرمایا جُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا ، زمین کا ایک ٹکڑا بھی ایسا نہیں جو تسبیح نہیں کر رہا.اس لئے ہم جہاں جائیں گے وہ مسجد بن جائے گی، پس يُسَبِّحُ اللہ والے مضمون کو داؤد کے مضمون میں محدود کر کے صرف پہاڑوں تک رکھا گیا.اس لئے کہ رسول کریم صلى الله عليه وسلم مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا في الْأَرْضِ کے لئے تھے اور حضرت داؤد صرف چند جبال کے لئے.باقی رہا اوبی معہ کے الفاظ سے یہ استدلال کہ پہاڑ حضرت داؤد کے ساتھ ان کی تسبیح میں شامل ہو جاتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل دنیا کا ذرہ ذرہ تسبیح میں شامل ہے.کوئی کہے کہ پھر حضرت داؤد کی خصوصیت کیا رہی؟ تو یاد رکھنا چاہئے کہ اس میں تو ان کی کوئی خصوصیت نہیں کہ پہاڑ اُن کے لئے مسخر تھے کیونکہ میں قرآن کریم سے ثابت کر چکا ہوں کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے یہ سب کا سب خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے مسخر کر دیا ہے.ہاں جس ملک کا خدا تعالیٰ کسی کو بادشاہ بنا دیتا ہے اُس میں اُسے عام انسانوں سے زیادہ عظمت حاصل ہوتی ہے.پس گوزمین و آسمان کی چیزیں حضرت داؤد کے لئے اسی طرح مسخر تھیں جس طرح عام بنی نوع انسان کے لئے لیکن حضرت داؤد کو ایک زائد خصوصیت یہ حاصل تھی کہ خدا تعالیٰ نے اُن کو بادشاہ بھی بنا دیا تھا.پس گو تسخیر بعینہ وہی ہے جو ہمارے لئے ہے مگر اس تسخیر کی عظمت میں فرق ہے.
فصائل القرآن نمبر...جبال سرداران قوم کو بھی کہتے ہیں 384 اب میں لغت سے بتاتا ہوں کہ اس کے اور معنے بھی ہیں.چنانچہ جبل کے معنے لغت میں سَيْدُ الْقَوْمِ کے لکھے ہیں.واپس حضرت داؤد کے لئے جبال مسخر کر دیئے کے معنی یہ تھے کہ حضرت داؤد علیہ السلام یہود کے وہ پہلے بادشاہ تھے جنہوں نے اردگرد کے قبائل پر فتح پائی اور وہ ان کے ماتحت ہو گئے.حضرت داؤد علیہ السلام سے پہلے کوئی بادشاہ ایسا نہیں ہوا جس نے اپنی قوم کے علاوہ دوسری اقوام پر بھی حکومت کی ہولیکن حضرت داؤ پہلے بادشاہ ہیں جن کے اردگرد کے حکمران ان سے مطیع ہو گئے تھے.اگر کوئی کہے کہ قرآن میں تو یسبحن کا لفظ آتا ہے.تم اس کے معنے مطیع کے کس طرح کرتے ہو؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جبال چونکہ مونث ہے اس لئے يُستخن کا لفظ آیا ہے ورنہ سردارانِ قوم کے معنے کوملحوظ رکھتے ہوئے اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ قومیں آپ کی مطیع ہو گئی تھیں.پرندوں کی تسبیح کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں باقی رہے طیر.سوان کے لئے تسبیح قرآن میں آئی ہی نہیں اور اس امر کا کہیں ذکر نہیں کہ وہ حضرت داؤد کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے.دراصل لوگوں کو عربی زبان کے ایک معمولی قاعدہ سے ناواقفیت کی وجہ سے دھوکا لگ گیا اور وہ خیال کرنے لگے کہ جبال کے ساتھ کھیر بھی تسبیح کیا کرتے تھے.حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ وَسَخَرْ نَا مَعَ دَاوُدَ الْجِبَالَ يُسَبَّحْنَ وَالطَّير یہاں تیر پر زبر ہے اور ز بر دینے والا سحر کا لفظ ہے.مطلب یہ ہے کہ ہم نے داؤد کے لئے پہاڑ مسخر کر دیے جو نبیح کرتے تھے.اسی طرح ہم نے کا یہ بھی مسخر کر دیئے یہاں کسی تسبیح کا ذکر نہیں.صرف اتنے معنے لئے جا سکتے ہیں کہ انہیں پرندوں سے کام لینے کا علم آتا تھا.جیسے کبوتروں سے خبر رسانی وغیرہ کا کام لے لیا جاتا ہے.پس قرآن میں سخرنا الطير ہے يُستخن الطير نہیں ہے.دوسری آیت یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِي
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 385 وَالْإِشْرَاقِ وَالطَّيْرَ مَخَشُورَةً یہاں بھی طیر کا ناصب سحر ہے اور میں حیران ہوں کہ مفسرین نے پرندوں کے تسبیح کرنے کے معنے کہاں سے لئے.تیسری آیت یہ ہے وَلَقَدْ أَتَيْنَا دَادَدَ مِنَّا فَضْلًا يُجِبَالُ اَوِبِي مَعَهُ وَالطَّير يم نے داؤڈ پر بڑافضل کیا اور پہاڑوں سے کہا اے پہاڑو! تم بھی اس کی تسبیح کا تسبیح سے جواب دیا کرو.اسی طرح ہم نے اسے پرندے بھی دیئے.گویا یہاں اتينا الطير فرمایا گیا ہے یہ نہیں کہا گیا کہ پرندے تسبیح کیا کرتے تھے.غرض طیر کا ناصب یا سحر ہے یا آتی ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے حضرت داؤد کو طیر بھی دیئے تھے لیکن میں کہتا ہوں اگر اس کے معنے تسبیح کے بھی کر لو تو جب زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے تو پرندوں کی تسبیح میں کونسی بڑی بات ہوسکتی ہے.مجھے ہمیشہ آج کل کے علماء پر تعجب آیا کرتا ہے کہ جب حضرت داؤد یا حضرت سلیمان یا حضرت عیسی عَلَيْهِمُ السَّلَام کے متعلق کوئی آیت آئے تو اس کے وہ اور معنی لے لیتے ہیں لیکن اگر ویسی ہی آیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آجائے تو اس کے معنی اور کر لیتے ہیں.حضرت داؤد کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہاڑ اس کے ساتھ ساتھ تسبیح کرتے تھے.تو کہتے ہیں پہاڑ واقعہ میں سُبحان الله سبحان اللہ کیا کرتے تھے اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ کہے کہ ہم نے زمین و آسمان آپ کے لئے مسخر کر دیئے تو کہیں گے یہاں تشبیہہ مراد ہے.اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ ذکر آئے کہ انہوں نے مُردے زندہ کئے تو کہیں گے یہاں مُردوں سے روحانی مردے مراد ہیں لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق اگر یہ الفاظ آجائیں تو جب تک وہ یہ نہ منوالیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے مردوں کے نتھنوں میں پھونک مار کر انہیں زندہ کر دیا تھا، اس وقت تک انہیں چین ہی نہیں آتا.جنات کا ذکر اس کے بعد میں جنوں کو لیتا ہوں.یہ اتفاق کی بات ہے کہ اس وقت میرے سامنے ایک ایسے دوست بیٹھے ہیں جو جنوں کے قابض کہلاتے ہیں اور بائیں طرف وہ بیٹھے ہیں جو کوشش کرتے رہتے ہیں کہ جن اُن کے قبضہ میں آجائیں.میں اُمید کرتا ہوں کہ اگر میں ان کے خلاف طبیعت کوئی
فصائل القرآن نمبر...386 بات کہہ دوں تو وہ مجھے معاف کریں گے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھی یا بری کوئی مخلوق چن ضرور ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا مگر سوال یہ نہیں کہ جن کوئی مخلوق ہے یا نہیں بلکہ سوال اُن جنوں کا ہے جو حضرت سلیمان کے ساتھ تھے اور حضرت سلیمان کے متعلق اُن جنوں کا ذکر ہے جن کا با قاعدہ لشکر تھا.وہ خبر میں لالا کر دیا کرتے تھے، وہ باقاعدہ لڑائیوں میں ساتھ جاتے تھے حتی کہ جنوں کے پیروں کے نیچے چیونٹیاں بھی کچلی جاتی تھیں.پس اس وقت سوال اُن جنوں کا ہے جو ہر وقت حاضر رہتے تھے اور جن کی فوجیں رائٹ لیفٹ کرتی رہتی تھیں.رسول کریم صلی نے یتیم کے پاس جنوں کی آمد ج اب سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ آیا قرآن میں حضرت سلیمان کے متعلق ہی یہ ذکر آیا ہے یا اور کسی نبی کے متعلق بھی لکھا ہے کہ اُس کے پاس جن آئے.سو جب ہم اس غرض کے لئے قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو سورہ احقاف میں ہمیں یہ آیات نظر آتی ہیں.وَاِذْ صَرَ فَنَا إِلَيْكَ نَفَرًا منَ الْجِنِ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْآنَ ، فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوا انْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ قَالُوا يَقَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَبًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِى إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ يُقَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعَى الله وَامِنُوا بِهِ يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرَكُمْ مِنْ عَذَابِ اليْمٍ - " یعنی اس وقت کو بھی یاد کرو جب ہم جنوں میں سے کچھ لوگ جو قرآن سنے کی خواہش رکھتے تھے تیری طرف پھیر کر لے آئے.جب وہ تیری مجلس میں پہنچے تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا خاموش ہو جاؤ تا کہ قرآن کی آواز ہمارے کانوں میں اچھی طرح پڑے.جب قرآن کی تلاوت ختم ہوگئی تو وہ اپنی قوم کی طرف واپس چلے گئے اور انہوں نے اسلام کی اشاعت شروع کر دی اور اپنی قوم سے کہا اے ہماری قوم ! ہم نے ایک کتاب کی تلاوت سنی ہے جو موسیٰ کے بعد اُتاری گئی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسی سچا نبی تھا اور اُس نے جو کچھ کہا تھا خدا کی طرف سے کہا تھا.یہ کتاب حق کی طرف بلاتی ہے اور سیدھا راستہ دکھاتی ہے.اے ہماری قوم کے لوگو! اللہ تعالیٰ کے منادی کی آواز کوشنو اور
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 387 اُسے قبول کرو.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے تمام گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے گا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جن تو رات پر، حضرت موسیٰ پر ، قرآن پر اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے.پس حضرت سلیمان ہی ایک ایسے نبی نہیں جن پر جن ایمان لائے بلکہ موسیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی قرآن کریم سے ثابت ہے کہ جنات آپ پر ایمان لائے مگر افسوس اُن لوگوں پر جو سلیمان کے جنوں کے تو عجیب عجیب قصے سناتے ہیں.کہتے ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام قالین پر بیٹھ جاتے اور چار جنوں کو چاروں کونے پکڑوا دیتے اور وہ انہیں اڑا کر آسمانوں کی سیر کراتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو جن ایمان لائے اُن کے متعلق یہ نہیں بتاتے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کبھی ایسی مدد کی ہو حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھا کر سفر کرتے تھے.آپ کے صحابہ کو کئی دفعہ سواریاں نہ ملتیں اور وہ روتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور عرض کرتے کہ ہمارے لئے کسی سواری کا انتظام فرما دیجئے تو ہم جانے کے لئے حاضر ہیں.کئی دفعہ صحابہ نے ننگے پیر لمبے لمبے سفر کئے ہیں مگر یہ تمام دکھ اور تکلیفیں دیکھنے کے باوجود ان سنگدل جنوں کا دل نہ پیجا اور انہوں نے آپ کی کوئی مدد نہ کی.حضرت سلیمان کے وقت تو لشکر کا لشکر اُٹھا کر وہ دوسری جگہ پہنچا دیتے تھے اور یہاں ان سے اتنا بھی نہ ہوا کہ دس ہیں مہاجرین کو ہی اُٹھا کر میدانِ جنگ میں پہنچا دیتے.ان الفاظ کو استعارہ نہ سمجھنے والوں کی ایک دلیل بعض لوگ کہتے ہیں کہ جن غیر از انسان وجود ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت موسیٰ اور حضرت سلیمان پر ایمان لائے تھے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان معنوں کو قرآن کریم تسلیم کرتا ہے.اگر یہ ایک استعارہ ہے تو یقینا قرآن کریم نے اس کو اپنی کسی دوسری آیت میں حل کیا ہوگا اور استعارہ تسلیم نہ کرنے کی صورت میں قرآن کریم کی دو آیتیں با ہم ٹکرا جائیں گی اور اس طرح قرآن میں اختلاف پیدا ہو جائے گا.پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اس کو استعارہ تسلیم نہ کرنے سے قرآن میں
فصائل القرآن نمبر...388 اختلاف پیدا ہوتا ہے یا استعارہ تسلیم کر کے.جو لوگ استعارہ نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ یہ ایسا ہی لفظ ہے جیسے شیطان کا لفظ آتا ہے.جس طرح شیطان سے مراد ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے علیحدہ ہے اسی طرح جن بھی ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے الگ ہے حالانکہ وَإِذَا خَلَوْا إلى شَيْطِينِهِمْ I میں مفترین بالاتفاق لکھتے ہیں کہ اس جگہ شیاطین سے مراد یہودی اور اُن کے بڑے بڑے سردار ہیں.پس اگر انسان شیطان بن سکتا ہے تو انسان جن کیوں نہیں بن سکتا ؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَكَذلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِي عَدُوًّا شَيْطِيْنَ الْإِنْسِ وَالْجِنَ يُوحَى بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۲۲ یعنی ہم نے ہر نبی کے دشمن بنائے ہیں شیطان آدمیوں میں سے بھی اور جنوں میں سے بھی جو لوگوں کو مخالفت پر اُکساتے اور انہیں نبی اور اُس کی جماعت کے خلاف بر انگیختہ کرتے رہتے ہیں.یہاں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر بتا دیا ہے کہ انسان بھی شیطان ہوتے ہیں.پس اگر شیاطین الانس ہو سکتے ہیں تو جن الانس کیوں نہیں ہو سکتے.یعنی جس طرح انسانوں میں سے شیطان کہلانے والے پیدا ہو سکتے ہیں اسی طرح ان میں سے جن کہلانے والے بھی پیدا ہو سکتے ہیں.پس قرآن سے ہی پتہ لگ گیا کہ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے قبضہ میں ہی جن نہیں تھے بلکہ حضرت موسیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جن ایمان لائے تھے.رسول کریم سالانیا اینم کی بعثت انسانوں کی طرف تھی نہ کہ جنوں کی طرف اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کن کی طرف ہوئی تھی ؟ اللہ تعالیٰ سورۃ نساء میں فرماتا ہے.وَاَرْسَلْنَكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا سے یعنی ہم نے تجھے تمام انسانوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے.اس آیت میں صاف طور پر بتایا ہے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آدمیوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے حالانکہ اگر آدمیوں کے علاوہ کوئی اور نرالی مخلوق بھی جسے جن کہتے ہیں آپ پر ایمان لائی تھی تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ أَرْسَلْنَكَ لِلنَّاسِ وَالْجِن مگر وہ یہ نہیں فرما تا بلکہ فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے آدمیوں کے لئے بھیجا ہے.پس جب آدمیوں کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے گئے تھے تو صاف پتہ لگ گیا کہ جہاں یہ ذکر ہے کہ جن آپ پر
فصائل القرآن نمبر...389 ایمان لائے وہاں ان سے جن الانس ہی مراد ہیں.حضرت موسی علیہ السلام کے متعلق بھی قرآن کریم میں آتا ہے.وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ لِقَوْمٍ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ باتخاذكُمُ الْعِجل " یعنی اے میری قوم! تم نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا کہ ایک بچھڑے کو پوجا.اب یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ بنی اسرائیل تھے جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی ، جن نہیں تھے حالانکہ قرآن سے ثابت ہے کہ جن آپ پر ایمان لائے تھے.پس صاف ثابت ہوا کہ ان جنوں سے آدمی جن ہی مراد تھے نہ کہ وہ جن جن کا نقشہ عام لوگوں کے دماغوں میں ہے.اسی طرح ایک حدیث میں جس کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے پانچ ایسی خصوصیتیں دی گئی ہیں جو پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں.ان میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ کان النَّبِيُّ يُبْعَثُ إلى قَوْمِهِ خَاصَّةً کہ پہلے ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تها و بُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَةُ ٢ مگر میں روئے زمین کے تمام آدمیوں کی طرف بھیجا گیا ہوں.یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قطعی طور پر بیان فرماتے ہیں کہ انبیائے سابقین میں ایک نبی بھی ایسا نہیں جو اپنی قوم کے سوا کسی اور قوم کی طرف مبعوث ہوا ہو لیکن مسلمان یہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان جنوں اور طیور کی طرف بھیجے گئے تھے.اگر واقعہ میں حضرت سلیمان جنوں اور طیور کی طرف مبعوث ہوئے تھے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نَعُوذُ باللہ درجہ میں بڑھ گئے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو صرف انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے.۲۵ جنوں کے انسان ہونے پر بعض اور دلائل پھر اگر یہ جن غیر از انسان ہیں تو وہ مخاطب کیونکر ہو گئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ، يَمَعْشَرَ الْجِنَّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُهُ مِنَ الْإِنْسِ " فرماتا ہے جب قیامت کے دن سب لوگ جمع ہو نگے تو ہم جنوں سے مخاطب ہو کر کہیں گے کہ اے جنوں کے گروہ! تم نے انسانوں میں سے اکثر لوگوں کو اپنے قابو میں کیا ہوا تھا.ہم تو جنوں کو تلاش کرتے کرتے تھک گئے مگر قرآن یہ کہتا ہے کہ جنوں نے اکثروں کو اپنے قابو میں کیا ہوا ہے حالانکہ ہم تلاش کرتے ہیں تو ملتے نہیں.لوگ وظیفے پڑھتے ہیں، چلہ کشیاں کرتے ہیں اور جب ان کا دماغ خراب ہو جاتا ہے
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 390 اور خشکی سے کان بجنے لگتے ہیں تو کہتے ہیں جن آگیا حالانکہ اُس وقت ان کا دماغ بگڑ چکا ہوتا ہے.تر و تازہ دماغ کے ہوتے ہوئے جن کبھی انسان کے پاس نہیں آتے.اس جگہ جنوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قدِ استَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنْسِ کہ ان کے اکثر انسانوں سے تعلقات ہیں اور انسان بھی کہیں گے کہ ہم ان سے بڑا فائدہ اُٹھاتے رہے مگر تم اپنے محلے اور گاؤں میں پھر کر لوگوں سے دریافت کر لو کہ کیا پہچاس یا اکاون فیصدی لوگ جنوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.سو میں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں ملے گا جو یہ کہتا ہو کہ میں جنوں سے فائدہ اُٹھاتا ہوں اور میرے ان سے تعلقات ہیں.جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس جگہ جن سے مراد انسانوں کے علاوہ کوئی اور مخلوق نہیں بلکہ انسانوں میں سے ہی بعض جن مراد ہیں اور انسانی جنوں کی دوستیاں بڑی کثرت سے نظر آتی ہیں.قرآن کریم سے ثبوت کہ جن انسانوں کے گروہ کا ہی نام ہے پھر اس سے بڑھ کر ایک اور دلیل ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قیامت کے دن دوزخیوں سے کہا جائے گا کہ يَمَعْشَرَ الْجِنِ وَالْإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ ۲ یعنی اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! جو ہمارے سامنے کھڑے ہو بتاؤ کہ کیا تمہارے پاس ایسے رسول جو تم ہی میں سے تھے نہیں آئے ؟ اب بتاؤ جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم پر بعض جن بھی ایمان لائے اور دوسری طرف یہ فرماتا ہے کہ ہمارا رسول بھی ان ہی میں سے تھا تو کیا اس سے صاف ثابت نہیں ہوتا کہ وہ جن بھی انسان تھے کوئی غیر مرئی وجود نہیں تھے.پھر یہیں تک بات ختم نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا ا وہ تمہیں اندار بھی کرتے تھے اور اس دن سے ڈراتے تھے.گویا حضرت موسی ، حضرت سلیمان اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنوں کو ڈرایا بھی کرتے تھے اور انہیں یوم آخرت اور اللہ تعالیٰ کا خوف دلایا کرتے تھے اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ جن جن الإنس تھے جس طرح شیاطین الانس ہوتے ہیں کوئی علیحدہ قسم کی مخلوق نہیں تھے.
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 391 مؤمن جنوں نے رسول کریم صلی ی ی یتیم کی مدد کیوں نہ کی؟ اب ایک اور بات سنو.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اِنَّا اَرْسَلْنَكَ شَاهِدًا ومُبَشِّرًا وَنَذِيرًا - لِتُؤْمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ، ۲۹ یعنی اے رسول ! ہم نے تجھے اپنی صفات کے لئے گواہ اور مومنوں کے لئے مبشر اور کافروں کے لئے نذیر بنا کر بھیجا ہے تا کہ تم اس کے ذریعہ اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کی عزت بجا لا ؤ.اب جب کہ جن بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے تو کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ ان جنوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کبھی مدد کی ہو.ایک معمولی ملا کے لئے تو جیسا کہ لوگوں میں مشہور ہے وہ انگور کے خوشے لے آتے ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وہ روٹی کا ایک ٹکڑا بھی نہ لائے اور آپ کو بسا اوقات کئی کئی وقت کے فاقے برداشت کرنے پڑے.ایک دفعہ آپ کے چہرہ پر ضعف کے آثار دیکھ کر صحابہ نے سمجھا کہ آپ کو بھوک لگی ہوئی ہے.چنانچہ ایک صحابی نے بکری ذبح کی اور آپ کو اور بعض اور صحابہ کوکھانا کھلایا مگر ایسے مواقع میں سے کسی ایک موقع پر بھی جنوں نے مدد نہیں کی.میں سمجھتا ہوں وہ بڑے ہی شقی القلب جن تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن پر وہ ایمان لائے تھے ان کو تو انہوں نے ایک روٹی بھی نہ کھلائی اور آج کے مولویوں کو سیب اور انگور کھلاتے ہیں پھر وہ مومن کس طرح ہو گئے؟ وہ تو پکے کافر تھے.حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال ہی غلط ہے کہ جن کوئی ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے نرالی ہے.وہ جن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے وہ بھی انسان ہی تھے اور جس طرح اور لوگوں نے آپ کی مدد کی وہ بھی مدد کرتے رہے.اگر کوئی نرالی مخلوق مانی جائے تو پھر اس سوال کا حل کرنا اُن لوگوں کے ذمہ ہوگا جو جنات کے قائل ہیں کہ وجہ کیا ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی مددنہ کی حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے اور قرآن میں انہیں یہ حکم تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کریں.
فصائل القرآن نمبر....392 بنی نوع انسان کے علاوہ دوسری مخلوق شریعت پر ایمان لانے کی پابند نہیں پھر اس سے بڑھ کر ایک اور دلیل ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ احزاب میں بطور قاعدہ کلیہ کے فرماتا ہے.اِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَاشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ٣٠ یعنی ہم نے اپنی شریعت اور کلام کو آسمانوں اور زمین کی مخلوق کے سامنے پیش کیا اور کہا کوئی ہے جو اسے مانے اور اس پر عمل کرے؟ اس پر تمام آسمانی مخلوق نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم یہ بار امانت اُٹھانے کے ہرگز اہل نہیں.پھر ہم نے زمینوں کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا اور کہا.لو! یہ بوجھ اُٹھاتے ہو؟ انہوں نے بھی کہا ہرگز نہیں.پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے بھی انکار کیا.حالانکہ لوگ عام طور پر یہ کہا کرتے ہیں کہ جن پہاڑوں پر رہتے ہیں.فابین آن تحملنها سارے ڈر گئے اور کسی نے بھی اس ذمہ داری کو اُٹھانے کی جرات نہ کی فَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ.صرف ایک انسان آگے بڑھا اور اس نے کہا.مجھے شریعت دیجئے میں اس پر عمل کر کے دکھا دونگا.فرماتا ہے اِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا.انسان نے اپنے نفس پر بڑا ظلم کیا کیونکہ وہ ہمارے عشق میں سرشار اور عواقب سے بے پروا تھا.اُس نے یہ نہیں دیکھا کہ بوجھ کتنا بڑا ہے بلکہ شوق سے اُسے اُٹھانے کے لئے آگے نکل آیا.اب دیکھو یہاں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ شریعت کو اُٹھانے والا صرف انسان ہے اور کوئی شریعت کا مکلف نہیں.پھر جب کہ انسان کو ہی خدا نے شریعت دی تو سوال یہ ہے کہ اگر جن غیر از انسان ہیں تو وہ کہاں سے نکل آئے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر اپنے ایمان کا کیوں اظہار کیا؟ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ غیر از انسان تھے تو خدا تعالیٰ کا کلام باطل ٹھہرتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ انسان کے سوا سب مخلوق نے اس شریعت پر عمل کرنے سے انکار کر دیا تھا اور جب کہ قرآن سے یہ ثابت ہے کہ جن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو صاف طور پر معلوم ہو گیا کہ یہاں جن سے مراد جن الانس ہی ہیں.ایسی مخلوق مراد نہیں جو انسانوں کے علاوہ ہو اور نہ میں ایسے جنوں کا قائل ہوں جو انسانوں سے آکر چمٹ جاتے ہیں.میرے سامنے ہی اس وقت ایک دوست بیٹھے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
فصائل القرآن نمبر....393 کی خدمت میں لکھا کہ میری ہمشیرہ کے پاس جن آتے ہیں اور وہ آپ پر ایمان لانے کے لئے تیار ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں لکھا کہ آپ جنوں کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ ایک عورت کو کیوں ستاتے ہو اگر ستانا ہی ہے تو مولوی محمد حسین بٹالوی یا مولوی ثناء اللہ کو جا کر ستائیں ایک غریب عورت کو تنگ کرنے سے کیا فائدہ؟ بیشک کئی ایسے لوگ ہونگے جو انگریزی تعلیم کے ماتحت پہلے ہی اس امر کے قائل ہوں کہ ایسے جنات کا کوئی وجود نہیں لیکن مومن کے سامنے یہ سوال نہیں ہوتا کہ اُس کی عقل کیا کہتی ہے بلکہ سوال یہ ہوتا ہے کہ قرآن کیا کہتا ہے.اگر قرآن کہتا ہے کہ جن موجود ہیں تو ہم کہیں گے امنا و صدقنا اور اگر قرآن سے ثابت ہو کہ انسانوں کے علاوہ چن کوئی مخلوق نہیں تو پھر ہمیں یہی بات ماننی پڑے گی.متکبر قوموں اور اُمراء کو بھی جن کہا جاتا ہے اصل بات یہ ہے کہ بعض قو میں بڑی متکبر ہوتی ہیں اور وہ اپنے آپ کو دوسروں سے اونچا اور بلند مرتبہ بجھتی ہیں.ایسی قوموں کے بڑے بڑے صنادید کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کے دروازے پر لے آتا ہے اس لئے یہ لوگ جن کہلاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کا ہی واقعہ ہے.ایک نہایت جاہل شخص یہاں ہوا کرتا تھا پیرا اُس کا نام تھا.اُسے دو چار آنے کے پیسے اگر کوئی شخص دے دیتا تو وہ دال میں مٹی کے تیل کی آدھی بوتل ڈال کر کھا جاتا.دین کی معمولی معمولی باتوں سے بھی اتنا نا واقف تھا کہ حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ اس سے کہا کہ تیرا مذ ہب کیا ہے؟ وہ اُس وقت تو خاموش رہا مگر دوسرے تیسرے دن آپ کے پاس ایک کارڈ لایا کہ ہمارے گاؤں کے نمبر دار کو لکھ دیں.آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا لکھنا ہے؟ تو وہ کہنے لگا آپ نے جو میرا مذہب دریافت کیا تھا.میں نمبر دار کو لکھ کر دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ میرا مذہب کیا ہے؟ حضرت خلیفہ اول ہمیشہ اُس کے پیچھے پڑے رہتے تھے کہ نماز پڑھو مگر وہ کہتا کہ مجھے نماز نہیں آتی صرف سُبحان الله سبحان اللہ کہنا آتا ہے.خیر ایک دن حضرت خلیفہ اول نے پیرے سے کہا کہ اگر تم ایک دن پورے پانچ وقت کی نمازیں جماعت سے ادا کرو تو میں تمہیں دوروپے انعام دونگا.اُس نے عشاء سے نماز شروع کی اور اگلی مغرب کو پوری پانچ ہوتی تھیں.اُن دنوں مہمان چونکہ تھوڑے ہوتے
فصائل القرآن نمبر...394 تھے اس لئے اُن کا کھانا ہمارے گھر میں ہی تیار ہوتا تھا.مغرب کے وقت جب کھانا تیار ہوا تو اندر سے خادمہ نے آواز دی کہ پیرے! کھانا لے جاؤ.وہ نماز پڑھ رہا تھا اور یہ اُس کی پانچویں نماز تھی لیکن بُلانے والی عورت کو اس کا علم نہ تھا اس لئے وہ برابر آوازیں دیتی گئی.اس پر پیرا نماز میں ہی زور سے کہنے لگا.ٹھیر جا.التحیات ختم کر کے آندا ہاں.“ ایک دفعہ کسی کام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُسے بٹالہ بھیجا.وہاں اسے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مل گئے.وہ اکثر لوگوں کو قادیان آنے سے باز رکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے.اُس دن اتفاقاً انہیں اور کوئی نہ ملا تو انہوں نے پیرے کو ہی پکڑ لیا اور کہا.پیرے! تو کیوں قادیان بیٹھا ہے؟ پیرے نے جواب دیا مولوی صاحب! میں پڑھا لکھا تو ہوں نہیں ، ہاں ایک بات ہے جو میں جانتا ہوں اور وہ یہ کہ مرزا صاحب قادیان میں بیٹھے ہیں اور لوگ دُور دُور سے یگوں میں دھکے کھا کھا کے ان کے پاس پہنچتے ہیں مگر آپ بٹالہ میں رہتے ہیں جہاں لوگ آسانی کے ساتھ پہنچ سکتے ہیں مگر آپ کے پاس کوئی نہیں آتا.حتی کہ روزانہ لوگوں کو سمجھانے کے لئے آپ خود سٹیشن پر آتے ہیں اور شاید اس کوشش میں آپ کی جوتی بھی گھس گئی ہوگی لیکن لوگ آپ کی بات نہیں مانتے.آخر کوئی بات تو ہے کہ لوگ مرزا صاحب کی طرف اس طرح کھچے چلے جاتے ہیں اور آپ کو کوئی نہیں پوچھتا.غرض اس قسم کے آدمی ہی جن ہوتے ہیں جو کسی کی بات نہیں مانتے اور دوسرے کی اطاعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے مگر جب انبیاء کے سامنے آتے ہیں تو یکدم ان کی حالت بدل جاتی ہے.حضرت عمرؓ کو ہی دیکھ لو.وہ ابتداء میں اسلام کی کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے تھے اور ایک دفعہ تو انہیں یہاں تک جوش آیا کہ تلوار سونت لی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکل کھڑے ہوئے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ کے قدموں میں گر گئے.تو بعض طبائع ناری ہوتی ہیں مگر جب نبیوں کے سامنے جاتی ہیں تو ٹھنڈی ہو کر رہ جاتی ہیں.ایسی طبیعت رکھنے والے انسانوں کو عربی زبان میں جن کہتے ہیں.اسی طرح بڑے لوگوں کو اس لحاظ سے بھی جن کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کی نگاہ سے بالعموم مخفی رہتے ہیں.بڑی بڑی کوٹھیوں میں اُن کی رہائش ہوتی ہے اور اُن کے دروازہ پر لوگ آسانی سے نہیں پہنچ سکتے.
فصائل القرآن نمبر...شملہ سے کیا مراد ہے؟ 395 اب اس کے بعد میں نملہ کو لیتا ہوں کہ یہ کیا چیز ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں کہ حَتَّى إِذَا آتَوْا عَلَى وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَأَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسْكِنَكُمْ لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَنُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ جب وہ وادی نملہ میں پہنچے تو ایک نملہ نے کہا اے نملہ قوم ! اپنے اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ.ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کا لشکر تمہارے حالات کو نہ جانتے ہوئے تمہیں اپنے پاؤں کے نیچے مسل دیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ نملہ سے کیا مراد ہے؟ پہلی بات جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نملہ سے مراد چیونٹی نہیں یہ ہے کہ ذکر تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو منطق الطیر سکھائی مگر اس کی دلیل یہ دی گئی کہ چیونٹی بولی تو حضرت سلیمان سمجھ گئے کہ اُس نے کیا کہا ہے.حالانکہ جب دعویٰ یہ تھا کہ حضرت سلیمان کو پرندوں کی بولی آتی تھی تو دلیل میں مثلاً یہ بات پیش کرنی چاہئے تھی کہ فلاں موقع پر بلبل بولی اور حضرت سلیمان نے کہا بلبل یہ کہہ رہی ہے مگر وہ کہتے ہیں چیونٹی بولی تو حضرت سلیمان کو سمجھ آگئی حالانکہ چیونٹی پرندہ نہیں.پس نملہ سے مراد اگر چیونٹی لی جائے تو یہ دلیل بالکل عقل میں نہیں آسکتی کیونکہ قرآن جو کچھ کہتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو منطق الطیر آتی تھی اور وہ اس کو سمجھتے تھے مگر بولنے لگ جاتی ہے نملہ اور وہ اس کی بات کو سمجھ جاتے ہیں.غرض پہلی بات جس پر غور کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ نملہ کیا چیز ہے؟ دوسری چیز یہ دیکھنے والی ہے کہ یہاں حکم کا لفظ آیا ہے اور حَظم کے معنی ہوتے ہیں توڑنے اور غصہ سے حملہ کرنے کے.عام طور پر لوگ اس کا ترجمہ یہ کر دیتے ہیں کہ سلیمان اور اُس کا لشکر تمہیں اپنے پیروں کے نیچے نہ مسل دے مگر یہ خطہ کے صحیح معنی نہیں.عربی میں حطم کے معنی توڑ دینے اور غصہ میں حملہ کر دینے کے ہیں.اسکے چنانچہ قرآن کریم میں دوزخ کی آگ کا ایک نام خطمہ بھی رکھا گیا ہے کیونکہ وہ جلا دیتی ہے.یہ مطلب نہیں کہ آگ کے پاؤں ہو گئے اور وہ دوزخیوں کو اپنے پیروں کے نیچے مسل ڈالے گی.تو لا تخطمَنَّكُمْ کے معنی یہ ہوئے کہ ایسا نہ ہو کہ
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 396 سلیمان اور اُس کا لشکر تمہیں تو ڑ دے یا غصہ سے تم پر حملہ کر دے اور تمہیں تباہ کر دے.اب سوال یہ ہے کہ حضرت سلیمان جو اتنے بڑے نبی تھے جن کے پاس جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر درلشکر تھے کیا اُن کا سارا غصہ چیونٹیوں پر ہی نکلنا تھا اور کیا ان سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ چیونٹیوں پر حملہ کرنے لگ جائیں گے؟ میں بتا چکا ہوں کہ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ کے معنی پیروں میں مسل ینے کے نہیں بلکہ طاقت کو توڑ دینے اور حملہ آور ہونے کے ہیں.اسی لئے عربی زبان میں قحط کو حاطوم کہتے ہیں ۳۲ے کیونکہ اس سے ملک کی طاقت ٹوٹ جاتی ہے.اگر یہ معنی کئے جائیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ چیونٹیوں نے ایک دوسری سے کہا کہ اپنے اپنے بلوں میں کس جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اُس کا لشکر کرالیں لیکر آ جائے اور ہماری پلوں کو کھود کھود کر غلہ کے دانے نکال لے اور اس طرح ہماری طاقت کو توڑ دے مگر کیا عقلمند ان معنوں کو تسلیم کر سکتا ہے؟ تیسری دلیل جو نہایت ہی بین اور واضح ہے وہ یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے جتنے صیغے استعمال کئے ہیں سب وہ ہیں جو ذوی العقول کے لئے استعمال ہوتے ہیں.مثلاً اُدْخُلُوا کا لفظ آیا ہے حالانکہ چیونٹیوں کے لحاظ سے اُدْخُلُنَ کا لفظ آنا چاہئے تھا.اسی طرح لَا يَحْطِمَنَّكُم میں گُم کا لفظ آتا ہے حالانکہ کسی کا لفظ آنا چاہئے تھا.پس قرآن مجید کے الفاظ بتارہے ہیں کہ یہ کوئی انسان تھے جن کے لئے کمر اور اُدْخُلُوا وغیرہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور یہ جو کہا گیا ہے کہ گھروں میں کھس جاؤ اس کا ثبوت حدیث سے بھی ملتا ہے.یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی لشکر کہیں گذرے اور وہاں کے لوگ اپنے گھروں میں گھس جائیں اور دروازے بند کر لیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں.چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ جولوگ اپنے اپنے گھروں میں گھس جائیں گے اور دروازے بند کر لیں گے ان سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی.یہی نملہ نے کہا کہ اپنے اپنے گھروں میں جاؤ اور دروازے بند کر لو.حضرت سلیمان سمجھ جائیں گے کہ یہ میرا مقابلہ کرنا نہیں چاہتے.اگر ہم باہر رہیں گے تو ممکن ہے وہ حملہ کر دیں.حضرت سلیمان نے جب یہ نظارہ دیکھا تو وہ ہنسے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ میری نیکی اور تقویٰ کی کتنی دور دور خبر پہنچی ہوئی ہے.یہ قوم بھی جو اتنی دور رہتی ہے بجھتی ہے کہ سلیمان ظالمانہ طور پر حملے نہیں کیا کرتا.اگر ہم اپنے دروازے بند کر لیں گے تو یہ ہم پر حملہ نہیں
فصائل القرآن نمبر...کرے گا اور ہماری کسی چیز کو نقصان نہیں پہنچے گا.وادی النمل کی تحقیق 397 باقی رہا وَادِ النَّمل کے الفاظ سویا درکھنا چاہئے کہ تاج العروس جو لغت کی مشہور کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ شام کے ملک میں جبرین اور عسقلان کے درمیان ایک علاقہ ہے جسے وادی النمل کہا جاتا ہے.۳۳ اور عسقلان کے متعلق تقویم البلدان صفحہ ۲۳۸ پر لکھا ہے کہ عسقلان ساحل سمندر کے بڑے بڑے شہروں میں سے ایک شہر تھا جو غزّ سے جو سینا کے ملحق فلسطین کی ایک بندرگاہ ہے بارہ میل اوپر شمال کی طرف واقع ہے اور جبرین شمال کی طرف کا ایک شہر معلوم ہوتا ہے جو ولایت دمشق میں واقع ہے.اسے پس وادی النمل ساحل سمندر پر یروشلم کے مقابل پر یا اس کے قریب دمشق سے حجاز کی طرف آتے ہوئے ایک وادی ہے جو انداز ادمشق سے سومیل نیچے کی طرف ہوگی.ان علاقوں میں حضرت سلیمان کے وقت تک عرب اور مدین کے قبائل بہت بستے تھے.(مقام کی وضاحت کے لئے دیکھو نقشہ فلسطین وشام بعہد قدیم و عهد جدید نیلسنز انسائیکلو پیڈیا) اب رہ گیا نملہ سو قاموس میں البرٹی کے ماتحت لکھا ہے.وَالْأَبْرَقَةُ مِنْ مِيَاهِ نَمْلَةَ ۳۵ یعنی ابرقہ ایک وادی ہے جہاں نملہ قوم کے چشمے ہیں.غرض نملہ قوم بھی مل گئی ، وادی النمل کا بھی پتہ لگ گیا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ علاقہ شام میں حضرت سلمان کے علاقہ کے نزدیک تھا اور یہ عجیب بات ہے کہ اس قسم کے نام پرانے زمانہ میں بڑے مقبول تھے.چنانچہ جنوبی امریکہ میں بعض قوموں کے نام بھیٹر یا، سانپ ، بچھو اور سنکھجو روغیرہ ہوا کرتے تھے بلکہ ہمارے ملک میں ہی ایک قوم کا نام کا ڈھا ہے.نورالدین کا ڈھالا ہور کے ایک مشہور شخص ہوئے ہیں.اسی طرح ایک قوم کا نام کیڑے ہے ایک کا نام مکوڑے ہے.کشمیر میں ایک قوم کا نام ہاپت ہے جس کے معنی ریچھ کے ہیں اسی طرح حضرت سلیمان جس جگہ سے گزرے وہاں جو قوم رہتی تھی اُس کا نام نملہ تھا.
فصائل القرآن نمبر....398 خَلقِ طير کا مسئلہ اب میں طیر کی بحث کو لیتا ہوں.طیر کے متعلق جو امور قابل غور ہیں ان میں سے ایک اہم امر خلق طیر کا مسئلہ ہے.میں اس کے متعلق گذشتہ سے پیوستہ سال جلسہ سالانہ کی تقریر میں روشنی ڈال چکا ہوں لیکن مضمون کی تکمیل کے لئے پھر مختصراً اسے دہرا دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرية وَالْإِنجِيلَ وَرَسُولًا إِلى بَنِي إِسْرَاءِيلَ : أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَّبِّكُمْ أَنِّي أخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللهِ " یعنی ہم نے مریم کو الہام کیا کہ ہم تجھے ایک بیٹا عطا کریں گے جسے اللہ تعالیٰ کتاب اور حکمت کی باتیں سکھائے گا اور بنی اسرائیل کی طرف اُسے اس پیغام کے ساتھ رسول بنا کر بھیجے گا کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے یہ نشان لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے فائدہ کے لئے پانی ملی ہوئی مٹی یعنی طینی خصلت رکھنے والوں میں سے پرندہ کے پیدا کرنے کی طرح ایک مخلوق تجویز کروں گا.پھر میں اُس میں ایک نئی روح پھونکوں گا جس پر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اُڑنے والے ہو جائیں گے.دوسری جگہ فرماتا ہے وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَيةَ وَالْإِنْجِيلَ ، وَإِذْ تخلُقُ مِنَ الطِيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنْفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ٣٧ یعنی اللہ تعالیٰ حضرت مسیح سے فرمائے گا کہ تو اُس وقت کو بھی یاد کر جب کہ میں نے تجھے کتاب اور حکمت سکھائی اسی طرح تو راہ اور انجیل سکھائی اور اُس وقت کو بھی یاد کر جبکہ تو میرے حکم سے طینی خصلت رکھنے والے افراد میں سے پرندہ کے پیدا کرنے کی طرح ایک مخلوق تجویز کرتا تھا پھر تو اُس میں پھونک مارتا تھا جس سے وہ میرے حکم سے اُڑنے کے قابل ہو جاتا.اب یہاں دونوں جگہ پرندے کا ذکر آتا ہے.دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ استعارہ ہے یا حقیقت؟ اگر حقیقتا پرنده مان کر کوئی دوسری آیت باطل ہوتی ہے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ استعارہ ہے.اس نقطۂ نگاہ سے جب ہم قرآن کی اور آیات پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ایک آیت ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ ام جَعَلُوا لِلهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَة الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ، قُل اللهُ خَالِقُ كُل شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ۳۸ یعنی کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے ایسے شریک تجویز کئے ہیں
فصائل القرآن نمبر...399 جنہوں نے اُس جیسی کچھ مخلوق پیدا کی ہے جس کی وجہ سے اُس کی اور دوسروں کی پیدا کردہ مخلوق آپس میں مل گئی ہے اور ان کے لئے مشتبہ صورت پیدا ہوگئی ہے.تو اُن سے کہہ دے کہ اللہ ہی ہر ایک چیز کا خالق ہے اور وہ کامل طور پر یکتا اور ہر ایک چیز پر کامل اقتدار رکھنے والا ہے.اب دیکھو! اس آیت میں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو خدا کا شریک قرار دیا جاتا ہے اور جن کے متعلق لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی اپنے اندر صفت خلق رکھتے ہیں ان کے متعلق ایسا عقیدہ رکھنا محض بہتان ہے.جس قسم کی پیدائش خدا تعالیٰ کرتا ہے اُس قسم کی پیدائش اور کوئی نہیں کر سکتا.اب اگر یہ مانا جائے کہ حضرت مسیح علیہ السلام واقعہ میں پرندے پیدا کیا کرتے تھے تو سورۃ رعد کی یہ آیت غلط ہو جاتی ہے اور اگر یہ آیت سچی ہو تو لازما ماننا پڑے گا کہ خَلْقِ طیر کے وہ معنی غلط ہیں جو عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں اور ماننا پڑے گا کہ یہ کوئی استعارہ ہے.تبھی یہ آیتیں آپس میں متضاد نظر آتی ہیں.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی کیا تشریح ہے؟ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ کا مفہوم سواس کی تشریح کے متعلق یہ امر یا درکھنا چاہئے کہ قرآن مجید میں كَهَيْئَة الطير کے الفاظ آتے ہیں اور اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح پرندہ بچے پیدا کیا کرتا ہے اسی طرح میں بھی کرتا ہوں مگر لوگوں نے غلطی سے اس کے یہ معنی سمجھ لئے کہ حضرت مسیح علیہ السلام پرندے پیدا کیا کرتے تھے.اب یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ پرندہ پہلے انڈے لیتا ہے پھر اس پر بیٹھتا اور انہیں گرمی پہنچاتا ہے تب ان سے بچہ پیدا ہوتا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں بھی ایسے لوگوں کو جن کی مٹی میں الہام کا پانی شامل ہوا اپنی صحبت میں لیتا ہوں اور اپنے بازوؤں کے نیچے رکھ کر ایسی روحانیت ان میں پیدا کر دیتا ہوں کہ تھوڑے ہی دنوں میں وہ خدا تعالیٰ کی طرف پرواز کرنے لگ جاتے ہیں.اب دیکھو قرآن کریم کا مضمون کتنا بلند ہو گیا اور اس کے معنی کیسے اعلیٰ ہو گئے.وہ بھی کیا معنی تھے کہ آپ چمگادڑیں بناتے پھرتے تھے اور پھر قرآن میں حضرت مسیح نے کہیں نہیں فرمایا کہ میں پرندے بناتا ہوں بلکہ آپ یہ فرماتے ہیں کہ میں كَهَيْئَة الطير بناتا ہوں یعنی جس طرح پرندہ انڈوں کو سیتا ہے اسی طرح میں بھی لوگوں کو اپنی تربیت میں لیتا ہوں اور جن میں ترقی کی
فصائل القرآن نمبر...400 قابلیت ہوتی ہے وہ اڑنے لگ جاتے ہیں.پھر زیادہ سے زیادہ پرندے چالیس دن تک انڈوں کو سیتے رہتے ہیں بلکہ بعض تو اس سے بھی کم عرصہ میں پیدا ہو جاتے ہیں اور غالبا اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اعلان کیا کہ جو شخص میرے معجزات کا منکر ہو، وہ چالیس دن میرے پاس رہے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور کوئی نہ کوئی معجزہ دکھا دے گا.اب جو شخص فطرت صحیح رکھتا ہے وہ تو بہت جلد نبی کے رنگ میں رنگین ہو جاتا ہے مگر جس طرح سخت چھلکے کا انڈا چالیس دن لیتا ہے اسی طرح نبی کی صحبت میں اگر کوئی سخت دل انسان بھی چالیس دن رہے تو وہ کوئی نہ کوئی معجزہ دیکھ لیتا ہے.اس لئے قرآن کریم نے نصیحت فرمائی ہے کہ کُونُوا مَعَ الصَّادِقِيْنَ ۳۹ یعنی اے وہ لوگو! جن میں نیکی کی قابلیت تو ہے مگر تم ابھی انڈے کی حد تک ہی ہو پرندے نہیں بنے تم کسی صادق کے پروں کے نیچے چلے جاؤ تم تھوڑے دنوں میں ہی پرندے بن جاؤ گے.ایک لطیفہ تَشَابَهَ الخلق کے الفاظ پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی آیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی مولوی کو سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے جو پرندے بنائے تھے وہ کہاں چلے گئے؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ ممکن ہے اس کا ذہن اس طرف چلا جائے کہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی پرندے بنائے ہیں اور خدا نے بھی تو پھر تو تشابه في الخلق ہو گیا اور یہ قرآن کے خلاف ہے.کہنے لگا کہ دوچے ہی رل مل گئے ہیں.“ ترتیب مضامین کے لحاظ سے غور اب میں بتاتا ہوں کہ خود یہی آیت اُن معنوں کو ر ڈ کرتی ہے جو عام لوگ لیتے ہیں.یہ ساری آیت یوں ہے حضرت مسیح فرماتے ہیں.آئی قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ « انّي اَخْلُقُ لا لكُم مِّنَ الطِينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللهِ وَأُبْرِئُ الأَكْمَة وَالْأَبْرَصَ وَأحْيِ الْمَوْثى بِاِذْنِ اللهِ، وَأَنْبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَتَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ اِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ہے اس آیت
فصائل القرآن نمبر...401 کی ترتیب اپنے مدنظر رکھ لو اور پھر سوچو کہ آیا پرندے بنانے والے معنی کسی صورت میں بھی یہاں چسپاں ہو سکتے ہیں؟ یہ صاف بات ہے کہ قرآن کریم کا کوئی لفظ ترتیب سے خالی نہیں.فرض کرو ہم مان بھی لیں کہ اس جگہ پرندہ سے مراد پرندہ بنانا ہی ہے تو دیکھنا یہ چاہئے کہ ان معنوں کو تسلیم کر لینے کے بعد اس آیت میں کوئی ترتیب بھی پائی جاتی ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس آیت میں کوئی ترتیب نہیں مگر ہم اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ اس میں ترتیب ہے.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ آیت دو جگہوں میں آتی ہے ایک سورۃ آل عمران میں اور دوسرے سورۃ مائدہ میں اور دونوں جگہ الفاظ اسی ترتیب سے رکھے گئے ہیں.اب دونوں جگہ ان الفاظ کا اسی ترتیب سے رکھا جانا بتاتا ہے کہ اس میں کوئی خاص مقصد ہے.ہم تو قرآن کریم کی ہر آیت میں ترتیب کے قائل ہیں مگر جو لوگ اس کے قائل نہیں انہیں بھی اگر کسی اور جگہ نہیں تو اس جگہ ترتیب ضرور ماننی پڑتی ہے کیونکہ پہلے خَلْقِ طير کا ذکر ہے پھر آكمة کا ذکر ہے پھر ابرص کا اور پھر اِحیائے موٹی کا اور ان کا ذکر ایک جگہ نہیں بلکہ دونوں جگہ اسی ترتیب سے کیا گیا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ ترتیب میں دو باتوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے.کبھی چھوٹی بات پہلے بتائی جاتی ہے پھر اس سے بڑی بات بتائی جاتی ہے اور پھر اُس سے بڑی اور کبھی پہلے سب سے بڑی بات بتائی جاتی ہے پھر اس سے چھوٹی بات بتائی جاتی ہے اور پھر اُس سے چھوٹی اور ان دونوں ترتیبوں میں مخاطب کا فائدہ مد نظر رکھا جاتا ہے.یعنی جس رنگ میں وہ آسانی سے سمجھ سکتا ہو اسی رنگ میں بات بیان کر دی جاتی ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ اگر وہ معنی کئے جائیں جو ہمارے مخالف لیتے ہیں تو ان معنوں میں کوئی ترتیب ہی نظر نہیں آتی کیونکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت میں پہلے سب سے بڑی بات کو بیان کیا گیا ہے اور پھر اس سے چھوٹی بات کو اور پھر اس سے چھوٹی بات کو تو اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ سب سے بڑی چیز پرندوں کا پیدا کرنا ہے.اس سے اتر کر اندھوں کو آنکھیں بخشا.اس سے اتر کر کوڑھیوں کو اچھا کرنا اور اس سے اتر کر مردوں کو زندہ کرنا.حالانکہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ مردہ زندہ کرنا سب سے بڑی بات ہے.پس یہ ترتیب صحیح نہیں ہو سکتی اور اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ پہلے سب سے چھوٹی بات کو بیان کیا گیا ہے اور پھر اس سے بڑی بات کو اور پھر اس سے بڑی بات تو اس کے یہ معنی بنتے ہیں کہ سب سے آسان کام دنیا میں پرندے بناتا ہے.اس سے مشکل کام اندھوں کو آنکھیں دینا ہے.اس سے
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 402 مشکل کام کوڑھی کو اچھا کرنا ہے اور اس سے مشکل کام مُردے زندہ کرنا ہے.گویا اس صورت میں سب سے آسان تر بات پرندے بنانا ٹھہرتی ہے.اب اگر یہ درست ہے تو کوئی مولوی ہمیں دو چار پرندے ہی بنا کر دکھا دے.دوسری مشکل ان معنوں میں یہ پیش آتی ہے کہ قرآن کریم نے ایک اور جگہ احیائے موٹی کو ادنی اور پیدائش کو اعلیٰ قرار دیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُحْيِ الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ.قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِ خَلْقٍ عَلِيمٌ " یعنی انسان کا یہ طریق ہے کہ وہ ہماری ہستی سے متعلق باتیں بنانے لگ جاتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے اور کہنے لگتا ہے کہ جب ہماری ہڈیاں گل سڑ جائیں گی تو پھر ان کو کون زندہ کرے گا؟ فرماتا ہے تم احیائے موٹی کا انکار اسی لئے کرتے ہو کہ تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ہڈیاں گل سڑ کر پھر کس طرح اصل شکل وصورت میں آجائیں گی.حالانکہ جب اُس نے تمہیں ایک دفعہ پیدا کیا ہے تو دوسری دفعہ پیدا کرنا اُس کے لئے کیا مشکل ہے.چنانچہ فرمایا ان لوگوں سے کہہ دے کہ ایسی ہڈیوں کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اور وہ ہر مخلوق کی حالت سے خوب واقف ہے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ مردہ زندہ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے ادنیٰ قرار دیا ہے اور پیدائش کو اعلیٰ قرار دیا ہے مگر اُوپر کی ترتیب تسلیم کر لینے کی صورت میں پیدائش کو ادنی ماننا پڑتا ہے اور احیائے موٹی کو اعلیٰ.پھر اس ترتیب سے کوڑھیوں کو اچھا کرنا پرندے پیدا کرنے کی نسبت زیادہ مشکل قرار پاتا ہے.حالانکہ ڈاکٹر بھی چالموگرا آئیل کی پچکاریوں اور مالش وغیرہ سے کئی کوڑھیوں کو اچھا کر دیتے ہیں.اب چاہئے تھا کہ جب کوڑھی اچھے ہورہے ہیں تو ان کوڑھیوں کے اچھا ہونے سے پہلے چڑیاں اور کبوتر بھی بننے شروع ہو جاتے حالانکہ انہیں کوئی انسان نہیں بنا سکتا.اگر کہا جائے کہ اس ترتیب سے مخاطب کو زیادہ فائدہ پہنچتا ہے تو یہ بھی درست نہیں کیونکہ اگر ایک یہودی کے سامنے حضرت مسیح چڑیا پیدا کرتے تو کیا وہ اس سے زیادہ متاثر ہو سکتا تھا یا اس سے زیادہ متاثر ہو سکتا تھا کہ آپ کسی کوڑھی یا مادر زاد اندھے کو اچھا کر دیتے.پس جس چیز سے وہ زیادہ متاثر ہو سکتا تھا چاہئے تھا کہ اسے پہلے رکھا جا تا مگر رکھا اسے بعد میں ہے.
فصائل القرآن نمبر...403 ترتیب قرآنی کے لحاظ سے خلق طیر اور احیائے موٹی کے معنی غرض ہمارے مخالف علماء جو معنی لیتے ہیں وہ ہر ترتیب کی رُو سے غلط ٹھہرتے ہیں مگر ہمارے معنوں کی رُو سے ترتیب پر کسی قسم کا اعتراض نہیں پڑتا.ہم پرندے پیدا کرنے سے مراد روحانی آدمی پیدا کرنا لیتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی شخص یہ پوچھے کہ مرزا صاحب نے کیا کیا؟ اور اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ انہوں نے ایک کام کرنے والی جماعت دنیا میں پیدا کر دی ہے تو بالعموم وہ کہہ دیتا ہے کہ یہ کونسا بڑا کام ہے کیونکہ لوگوں کی نگاہ میں روحانی آدمی پیدا کرنا سب سے کم حیثیت رکھتا ہے اسی لئے اس کو پہلے رکھا.پھر آكمة یعنی اندھراتے کا علاج ہے یہ چونکہ ایک جسمانی چیز ہے اور ہر ایک کو نظر آجاتی ہے اس لئے اسے بعد میں رکھا اور برص چونکہ اس سے زیادہ سخت ہے اس لئے آئمہ کے بعد ابرص کا ذکر کر دیا اور احیائے موٹی کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بالکل مردہ ہونے کی حالت تک پہنچ جائے اور دُعا سے زندہ ہو جائے.برص والے اور اندھراتے والے کو گو سخت مرض ہوتا ہے مگر طاقت قائم ہوتی ہے لیکن جس کی نبضیں چھوٹ جائیں اور پھر کسی نبی یا پاکباز انسان کی دُعا سے زندہ ہو جائے وہ بڑا معجزہ ہوتا ہے.پس ہمارے معنے تسلیم کرنے کی صورت میں یہ ترتیب بالکل درست رہتی ہے اور اس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں پڑتا.ھد ھد کوئی پرندہ نہیں بلکہ انسان تھا ظیر کا دوسرا ذکر حضرت سلیمان کے حالات کے بیان میں آتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا يَأَيُّهَا النَّاسُ عُلّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ اے لوگو! ہمیں پرندوں کی زبان سکھائی گئی ہے.اب یہاں بھی طیر سے مراد تمام قسم کے پرندے نہیں اس لئے (1) جس وقت ہر ہر کہیں جاتا ہے حضرت سلیمان سخت ناراض ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں لَا عَنْبَنَهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْلَا ذَبَحَنَّهُ أَوْلَيَأْتِيَتِي بِسُلْطَنٍ مُّبِينٍ یعنی ہر ہر چونکہ غائب ہے اس لئے جب وہ آیا تو میں اُسے سخت سزا دوں گا، میں اُسے ذبح کر ڈالوں گا ورنہ وہ دلیل پیش
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 404 کرے اور بتائے کہ کیوں غائب رہا.اب بتاؤ کیا قرآن سے یہی پتہ لگتا ہے کہ پرندے ایسی عقل کے مالک ہیں کہ اگر ان سے کوئی قصور سرزد ہو تو آدمی تلوار لے کر کھڑا ہو جائے اور اُسے کہے کہ وجہ بیان کرو ورنہ ابھی تیرا سرکاٹ دوں گا.یا کبھی تم نے دیکھا کہ تمہارا کوئی ہمسایہ ہد ہد کو پکڑ کر اُسے سوٹیاں ماررہا ہو اور کہ رہا ہو کہ میرے دانے تو کیوں کھا گیا؟ اور اگر تم کسی کو ایسا کرتے دیکھو تو کیا تم اُسے پاگل قرار نہیں دو گے؟ پھر وہ لوگ جو حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف یہ امر منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے ہدہد کے متعلق یہ کہا وہ اپنے عمل سے یہی فتویٰ حضرت سلیمان علیہ السلام پر بھی لگاتے ہیں بلکہ حضرت سلیمان علیہ السلام تو یہاں تک کہتے ہیں کہ میں اُسے سخت ترین سزا دوں گا اوَلَيَأْتِيَ بِسُلْطنٍ مُّبِينٍ ورنہ وہ ایسی دلیل پیش کرے جونہایت ہی واضح اور منطقی ہو.گو یاوہ ہد ہد ، سقراط، بقراط اور افلاطون کی طرح دلائل بھی جانتا تھا اور حضرت سلیمان اس سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اپنے دلائل پیش کرے گا.(۲) پھر قرآن تو یہ کہتا ہے کہ حضرت سلیمان کے پاس جنوں، انسانوں اور کثیر کے لشکر تھے مگر حضرت سلیمان کی نظر صرف ہد ہد کی طرف جاتی ہے اور فرماتے ہیں مالِي لا اَرَی الْهُدَهُدَ کیا ہوا کہ اس لشکر میں ہد ہد کہیں نظر نہیں آتا.حکومت کے نزدیک تو جس کا قد پانچ فٹ سے کم ہو وہ فوج میں بھرتی کے قابل نہیں سمجھا جاتا مگر حضرت سلیمان نے یہ عجیب بھرتی شروع کر دی تھی کہ ہد ہد بھی ان کے لشکر میں شامل تھا.پھر ہد ہد کی کوئی فوج آپ کے پاس ہوتی تب بھی کوئی بات تھی.بتایا یہ جاتا ہے کہ ہد ہد صرف ایک آپ کے پاس تھا اس ایک ہد ہد نے بھلا کیا کام کرنا تھا اور ایک جانور ساتھ لے جانے سے آپ کی غرض کیا تھی؟ (۳) تیسری بات یہ ہے کہ قرآن کہتا ہے ہد ہد نے واپس آکر یہ یہ باتیں بیان کیں اور معجزہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں کی بولی سمجھتے تھے حالانکہ اصولی طور پر یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کا معجزہ بیان ہونا چاہئے تھا مگر بیان بد بد کا معجزہ ہوتا ہے جو سلیمان کے معجزہ سے بھی بڑھ کر ہے.پھر پرندوں کی بولی سمجھنا حضرت سلیمان سے ہی مخصوص نہیں، تمام شکاری پرندوں کی آوازیں سمجھتے ہیں.(۴) ایک اور بات یہ ہے کہ ہد ہد ان جانوروں میں سے نہیں جو تیز پرواز ہوں اور اس قدر
فصائل القرآن نمبر...405 ڈور کے سفر کرتے ہوں.یہ جہاں پیدا ہوتا ہے وہیں مرتا ہے مگر قرآن یہ بتلاتا ہے کہ ہد ہد دمشق سے اُڑا اور ۸ سومیل اُڑتا چلا گیا.یہاں تک کہ سبا کے ملک تک پہنچا اور پھر وہاں سے خبر بھی لے آیا.گویا وہ ہد ہد آج کل کے ہوائی جہازوں سے بھی زیادہ تیز رفتار تھا اور معجزہ دکھلانے والا ہد ہد تھا نہ کہ حضرت سلیمان.حالانکہ بتانا یہ مقصود تھا کہ حضرت سلیمان نے معجزہ دکھایا.(۵) اسی ہد ہد کا دوسرا معجزہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شرک اور توحید کے بار یک اسرار سے واقف تھا اور اس کو وہ وہ مسائل معلوم تھے جو آج کل کے مولویوں کو بھی معلوم نہیں.کتنی اعلیٰ تو حید وہ بیان کرتا ہے.کہتا ہے.وَجَدتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَنُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ یعنی میں نے اُس کو اور اُس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کے آگے سجدہ کرتے دیکھا اور شیطان نے اُن کے عمل اُن کو خوبصورت کر کے دکھائے ہیں اور اُن کو سچے راستہ سے روک دیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہدایت نہیں پاتے.پھر اس کی غیرت دینی دیکھو.آج کل مولویوں کے اپنے ہمسایہ میں بت پرستی ہو رہی ہو تو وہ اس کے روکنے کی کوشش نہیں کرتے مگر بد د چاروں طرف دوڑا پھرتا ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو خبر لا کر دیتا ہے کہ فلاں جگہ شرک ہے فلاں جگہ بت پرستی ہے.(۶) پھر وہ سیاسیات سے بھی واقف تھا کیونکہ وہ کہتا ہے کہ وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَى یعنی ملکہ سبا میں بادشاہت کی تمام صفات موجود ہیں اور اسے لوازم حکومت میں سے ہر چیز ملی ہوئی ہے.گویا وہ اُس کے تمام خزانے اور محکمے چیک کر کے آیا اور اس نے رپورٹ کی کہ تمام وہ چیزیں جن کی حکومت کے لئے ضرورت ہوا کرتی ہے وہ اس کے پاس موجود ہیں.(۷) پھر شیطان اور اُس کی کارروائیوں سے بھی وہ خوب واقف ہے کیونکہ وہ کہتا ہے میں جانتا ہوں کہ انسان کا جب شیطان سے تعلق پیدا ہو جائے تو برے خیالات اُس کے دل میں پیدا ہو جاتے ہیں بلکہ ان خیالات کے نتائج سے بھی واقف تھا کیونکہ کہتا ہے کہ فَصَدَّ هُمْ عَنِ السَّبِیلِ ایسے خیالات کے نتیجہ میں انسان کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستہ سے دُور جا پڑتا ہے.یہ ہد ہد کیا ہوا اچھا خاصہ عالم ٹھہرا.ایسا ہد ہد تو اگر آج مل جائے تو اس کو مفتی بنادینا چاہئے.
فصائل القرآن نمبر...406 (۸) ہاں ایک بات رہ گئی اور وہ یہ کہ وہ تخت سلطنت کی حقیقت سے بھی خوب واقف تھا کیونکہ وہ کہتا ہے کہ ملکہ سبا کے پاس ایک ایسا عظیم الشان تخت ہے جو آپ کے پاس نہیں.گویا وہ لالچ بھی دلاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس پر حملہ کیجئے.شریعت کا بوجھ انسان کے سوا کسی اور پر نہیں ڈالا گیا یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ یہ ہد ہد کوئی پرندہ نہیں تھا کیونکہ قرآن میں صاف لکھا ہے کہ وہ امانت جسے فرشتے بھی نہ اُٹھا سکے، جسے آسمان اور زمین کی کوئی چیز اُٹھانے کے لئے تیار نہ ہوئی اسے انسان نے اُٹھا لیا.وہی ہے جو ہماری شریعت کے اسرار کو جانتا ہے.فرشتہ صرف ایک ہی بات سمجھتا ہے یعنی نیکی کی بات کو مگر انسان بدی اور نیکی دونوں پہلوؤں کو جانتا ہے اور تمام حالات پر مکمل نگاہ رکھتا ہے.مفسرین کہتے ہیں کہ ہد ہد کوئی جانور تھا حالانکہ حَمَلَهَا الْإِنْسَانُ والی آیت موجود ہے.جس سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کے سوا اور کوئی مخلوق اسرار شریعت کی حامل نہیں.پس جب کہ ہد ہد بھی اسرار شریعت سے واقف تھا تو لازما وہ بھی انسان ہی تھا نہ کہ پرندہ.طیر کی مختلف اقسام اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا طیر کے متعلق قرآن کریم میں کوئی اشارہ پایا جاتا ہے یا نہیں؟ سو جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تیر کئی قسم کے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَا حَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أمْثَالُكُمْ ۲ یعنی زمین پر چلنے والے جانور اور دونوں پروں سے اُڑنے والے پرندے سب تمہاری طرح کی جماعتیں ہیں.اب یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے پرندوں کے لئے یہ شرط لگائی ہے کہ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ کہ وہ پرندے جو اپنے دونوں پروں کے ساتھ اُڑتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایسا پرندہ بھی ہوتا ہے جو پروں سے نہیں اُڑتا.پھر اس سے بھی واضح آیت ہمیں ایک اور ملتی ہے جس سے صاف طور پر پتہ لگتا ہے کہ واقعہ میں طیر کسی اور چیز کا نام ہے.سورۃ نور میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَنْ
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 407 فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ ضَفْبٍ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ ، وَاللهُ عَلِيمٌ مَا يَفْعَلُونَ.۲۳ یعنی کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح وہ تمام ذوی العقول کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں اور ان ذوی العقول میں سے جو ظیر ہیں وہ صفیں باندھ باندھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور ان گروہوں میں سے ہر ایک کونماز اور تسبیح کا طریق معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ ان ذوی العقول کے تمام اعمال سے واقف ہے.یہاں تین دلیلیں اس بات کی موجود ہیں کہ طیر سے مراد پرندے نہیں.اوّل: يُسَبِّحُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْ ضِ میں سے اللہ تعالیٰ نے ظیر کیوں نکال ڈالے اور ان کا الگ کیوں ذکر کیا ؟ پھر تمن کا لفظ ہمیشہ ذوی العقول کے لئے استعمال ہوتا ہے.غیر ڈوی العقول کے لئے نہیں.پھر اللہ تعالیٰ نے صرف ظیر کو کیوں نکالا؟ جنات اور دوسری مخلوق کا الگ ذکر کیوں نہیں کیا؟ کیا اس سے صاف طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کیر کوئی الگ چیز ہے؟ پھرفرماتا ہے كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيْعه ان میں سے ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کو جانتا ہے.اب سارے قرآن میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ پرندے بھی نمازیں پڑھا کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خالی تسبیح ہی نہیں کرتے بلکہ انہیں نماز کا بھی علم ہے اور وہ صفیں باندھ باندھ کر نمازیں پڑھتے ہیں.آخر میں فرمایا وَ اللهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ اور يَفْعَلُونَ کا صیغہ پھر ڈوی العقول کے لئے استعمال ہوتا ہے.آخر تم نے کبھی ایسے ظیر دیکھے ہیں جو صفیں باندھ باندھ کر نمازیں پڑھتے ہوں؟ ایسے کیر تو دنیا میں صرف مسلمان ہی ہیں اور کوئی نہیں.پس تمج کا استعمال، كُل قَد عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَةُ کا استعمال اور وَاللهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ کا ذکر بتا رہا ہے کہ اس میں انسانوں کا ہی ذکر ہے خصوصا اُن مؤمنوں کا جو باجماعت نمازیں ادا کرتے ہیں.مومنوں کو نظیر کیوں کہا گیا ؟ اب سوال یہ ہے کہ اگر طیر سے مراد اس جگہ مومن ہی ہیں تو پھر انہیں طیر کیوں کہا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی اعمال کا جو نتیجہ ہو اسے عربی میں طائر کہتے ہیں اور اس کا ذکر قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی آتا ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ اعراف میں فرماتا ہے.فَإِذَا جَاءَتْهُم
فصائل القرآن نمبر....408 الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَذِهِ ، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ تَطَيَّرُوا مُوسَى وَمَنْ مَّعَهُ أَلَا إِثْمَا ظيرُهُمْ عِنْدَ اللهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ.۲۳ یعنی جب اُن کو کوئی خوشی پہنچتی ہے اور ان پر خوشحالی کا دور آتا ہے تو کہتے ہیں یہ ہمارا حق ہے اور جب ان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں موسی اور اُس کے ساتھیوں کی نحوست کا نتیجہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.أَلَا إِنَّمَا ظُبُرُ هُمْ عِنْدَ اللہ سنو! اُن کا پرندہ یعنی اُن کے وہ اعمال جنہیں وہ بجالاتے ہیں خدا کے پاس موجود ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہم پر موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی وجہ سے عذاب آیا اور خدا کہتا ہے کہ ان کا پرندہ ہمارے پاس موجود ہے.بظاہر اس کا آپس میں چونکہ کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا اس لئے لغت والے لکھتے ہیں کہ طائر کے ایک معنی انسانی اعمال کے بھی ہیں.چنانچہ امام راغب لکھتے ہیں.وَكُلُّ اِنْسَانِ الْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِہ کے معنی ہیں عَمَلَهُ الَّذِی طَارَ عَنْهُ مِنْ خَيْرٍ وَشَرَ 2 یعنی ای جگہ طائر سے مراد ہر اچھا یا بر اعمل ہے جو انسان سے سرزد ہوتا اور پھر اڑ کر نظروں سے غائب ہو جاتا ہے.اقرب میں بھی طائر کے ایک معنی عملہ الَّذِي قَلَّدَهُ طَارَ عَنْهُ مِنْ خَيْرٍ وَشَرٍ اس کے لکھے ہیں یعنی انسانی عمل خواہ اچھا ہو یا برا.پھر فرماتا ہے قَالُوا اطَيَّرُ نَا بِكَ وَمَنْ مَّعَكَ قَالَ ظَهِرُ كُمْ عِنْدَ اللهِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْم تُفتَنُونَ " جب شمور کے پاس حضرت صالح علیہ السلام آئے تو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ تیرے اور تیرے ساتھیوں کے برے اعمال کی نحوست کی وجہ سے ہم تباہ ہوئے ہیں جیسے آج کل کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کی نحوست کی وجہ سے ہی طاعون اور دوسری وبائیں آئیں.فرماتا ہے ان کے نبی نے ان کو جواب دیا کہ طائِرُ كُمْ عِنْدَ اللہ تمہارا طائر تو اللہ کے پاس ہے بَلْ أَنْتُمْ قَوْم تُفتَنُونَ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم ایک ایسی قوم ہو جسے آزمائش میں ڈالا گیا ہے.پھر تین رسولوں کا سورۃ لیستں میں ذکر کر کے فرماتا ہے قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ لَبِنْ لَّمْ تَنْتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُمْ مِنَا عَذَابٌ أَلِيمٌ.قَالُوا طَابِرُكُمْ مَّعَكُمْ ابن ذُرِّرْتُمْ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ ٢٨ یعنی جب وہ مصلح اور رسول ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری وجہ سے بڑی تکلیفیں اُٹھا رہے ہیں اور تمہارا آنا ہم منحوس سمجھ ط
فصائل القرآن نمبر....409 ہیں اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے.انہوں نے کہا تمہارا پرندہ تو تمہارے ساتھ ہے یعنی تم جہاں بھی ہو گے تمہارے اعمال بد کا نتیجہ تم ہی کو تباہ کرے گا ہمیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور کیا تم یہ بات اس لئے کہتے ہو کہ ہم تمہیں اچھے کام یاد دلاتے ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ تم حد سے گزرنے والی قوم ہو اس لئے تم اپنے اعمال کی ضرور سزا پاؤ گے.اس جگہ بھی طائز کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قوت عملیہ اور نتیجہ عمل کے معنوں میں ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس لفظ کے استعمال کی حقیقت کیا ہے اور اس کی انسان کے ساتھ نسبت کیا ہے؟ سو اس کے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں سورۃ بنی اسرائیل میں ایک آیت نظر آتی ہے جو ہمیں اس مضمون کے بہت زیادہ قریب کر دیتی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَكُلَّ اِنْسَانٍ الْزَمْنَهُ طَبِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ كِتبًا يَلْقَهُ مَنْشُورًا اِقْرَأْ كِتَبَكَ، كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِى لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ، وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى، وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا - 9 یعنی ہم نے ہر انسان کے ساتھ ایک پرندہ اُس کی گردن کے نیچے باندھا ہوا ہے اور ہم قیامت کے دن اُس کے اعمال نامہ کو اُس کے سامنے لائیں گے جسے وہ بالکل گھلا ہوا پائے گا اور اُسے کہا جائے گا اسے پڑھ کر دیکھ لے اور اپنی نیکی بدی کا آپ حساب کرلے کیونکہ آج تیرا نفس ہی تیرا حساب لینے کے لئے کافی ہے اور یا درکھو کہ جو ہدایت پاتا ہے وہ اپنے لئے پاتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے اس کا نقصان بھی اُسی کو ہوتا ہے کوئی کسی کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا اور ہم اُس وقت تک لوگوں کو عذاب نہیں دیتے جب تک کہ اُن کی طرف کوئی رسول مبعوث نہ کرلیں.یہاں قرآن نے طائر کے نہایت لطیف معنی کئے ہیں اور بتایا ہے کہ ہر انسان کی گردن کے نیچے اُس کا پرندہ بندھا ہوا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا مفہوم کیا ہے؟ سو جب ہمیں خدا تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ یہ پرندہ ہر انسان کی گردن کے نیچے ہے تو ہمیں یہ تو نظر آ رہا ہے کہ کوئی پرندہ گردن کے نیچے نہیں ہوتا.پس صاف معلوم ہوا کہ اس پرندے سے مراد کوئی اور چیز ہے اور وہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ قوت عمل یا نتیجہ عمل کا نام خدا تعالیٰ نے طائر رکھا ہے.پس جس قسم کے بھی انسان
فصائل القرآن نمبر...410 اعمال بجالاتا ہے اُن کی پرندے والی شکل بنتی چلی جاتی ہے.اگر تو انسان نیک اعمال بجالاتا ہے تو وہ انسان کو آسمان روحانیت کی طرف اُڑا کر لے جاتے ہیں جیسے ہوائی جہاز فضائے آسمانی میں اُڑا کرلے جاتا ہے اور اگر اعمال بُرے ہونگے تو لازما پرندہ بھی کمزور ہوگا اور انسان بجائے او پر اُڑنے کے نیچے کی طرف گرے گا.اب قرآن کریم ایک طرف تو یہ مضمون بیان کرتا ہے کہ ہم نے ہر انسان کے ساتھ ایک طائر باندھ رکھا ہے اگر وہ اچھے عمل کرے گا تو وہ طائر اسے اُو پر اڑا کر لے جائے گا اور اگر بُرے اعمال کرے گا تو وہ اُسے نیچے گرا دے گا اور دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی مضمون کو ان الفاظ میں ادا فرماتے ہیں کہ مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ الَّا يَوْلَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يَهَوِدَانِهِ أَوْيْتَصِرَانِهِ أَوْ مَجَسَانِه هے کہ ہر انسان کو خدا تعالیٰ نے فطرت صحیحہ پر پیدا کیا ہے پھر ماں باپ اُسے یہودی یا مجوسی یا نصرانی بنا دیتے ہیں گویا انسان میں اُڑنے کی طاقت موجود ہے اور اُسے پرواز کے پر عطا کئے گئے ہیں.یہی مضمون محل إِنْسَانِ الْزَمْنَهُ طَئِرَهُ فِي عُنْقِهِ مِیں بیان کیا گیا ہے کہ جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے اُس کا پرندہ بھی اُس کے ساتھ پیدا کر دیا جاتا ہے.پھر بعض ماں باپ تو اُس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں اور بعض جو بچ جاتے ہیں اُن کے لئے پرواز کی صورت پیدا ہو جاتی ہے اور عمل نیک کی وجہ سے اُن کا طائر یعنی فطرتی مادہ سعادت ترقی کرتا رہتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ فاطر میں فرماتا ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَبِكَةِ رُسُلًا أُولَى أَجْنِحَةٍ مَّثْنى وَثُلكَ وَرُبع الر یعنی سب تعریفیں اس اللہ کی ہیں جو آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے والا ہے اور فرشتوں کو ایسی حالت میں رسول بنا کر بھیجنے والا ہے جب کہ کبھی تو اُن کے دو دو پر ہوتے ہیں کبھی تین تین اور کبھی چار چار.پھر وہ انسانوں کی طرف آتا ہے اور فرماتا ہے.مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ، إِلَيْهِ يَصْعَدُ الكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُه وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُولَبِكَ هُوَ يَبُورُ.۵۲ فرماتا ہے تمہیں یہ تو معلوم ہو گیا کہ مختلف فرشتوں کی ترقی کے لئے ہم نے کئی کئی پر بنائے ہوئے ہیں مگر اے انسانو! تمہیں یادرکھنا چاہئے کہ تمہارے لئے بھی ترقی کے مواقع موجود ہیں بلکہ اگر تم چاہو تو فرشتوں سے بھی آگے بڑھ سکتے ہو.پس تم میں سے جو کوئی عزت حاصل کرنا چاہتا ہے اسے یادرکھنا چاہئے کہ تمام عزت اللہ تعالی کے
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 411 لا ہاتھ میں ہے اور اسی کی طرف سچی اور پاکیزہ روحیں بلند ہوتی ہیں.الْكَلِمُ الطیب یعنی خدا کا کلام جن کو میسر ہو وہ ترقی کر جاتے ہیں مگر خالی کلام نہیں بلکہ الْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُه اعمالِ صالحہ کا اُسے سہارا چاہئے.گویا الكَلِمُ الطیب ایک پرندہ ہے مگر وہ اکیلا نہیں اڑ سکتا بلکہ اعمال صالحہ کی مدد سے صعود کرتا ہے.اسی طرح اُس کے دو پر بن جاتے ہیں جن کی وجہ سے وہ آسمان روحانیت کی طرف پرواز کرنے کے قابل ہو جاتا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ پرندے کی دو خاصیتیں ہوتی ہیں.ایک تو یہ کہ وہ اونچا جاتا ہے یعنی فضا میں اُڑتا ہے دوسرے یہ کہ اُس کا آشیانہ ہمیشہ اونچا ہوتا ہے.جو پرندے آشیانوں میں رہتے ہیں وہ درختوں کی ٹہنیوں پر آشیانہ بناتے ہیں اور جو بغیر آشیانے کے رہتے ہیں وہ بھی درخت پر بسیرا کرتے ہیں نیچے نہیں بیٹھتے.اب یہی دو خاصیتیں قرآن کریم میں مومنوں کے متعلق بیان کی گئی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا قِيْلَ انْظُرُوا فَانْظُرُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَتٍ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ.اے مومنو! جب تمہیں کہا جائے کہ اُٹھو! تو فوراً اُٹھ کھڑے ہوا کرو اور نبی یا اُس کے خلیفہ کی آواز پر دوڑ پڑا کرو کیونکہ يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا لُعِلْمَ دَرَجَتٍ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو تم میں سے مومن ہیں اور علم حقیقی رکھنے والے ہیں اونچا کر دے گا اور انہیں درجات میں بڑھا دے گا.گویا او پر اڑنے کی خاصیت کا مومنوں کے تعلق میں ذکر آ گیا.دوسری خاصیت یہ تھی کہ پرندہ ہمیشہ اپنا آشیانہ اونچا بناتا ہے اس کا بھی مومنوں میں پایا جانا قرآن کریم سے ثابت ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُةِ وَالْأَصَالِ رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللهِ وَإِقَامِ الصَّلوة وإيتاء الزكوة ے ہ نور کچھ گھروں میں ہے جن کے متعلق ہمارا حکم ہے کہ انہیں اونچا کر دیا جائے.ان گھروں میں خدا کا نام لیا جاتا ہے اور صبح و شام اس کی تسبیح کی جاتی ہے مگر فرماتا ہے دجال ہماری مراد گھروں سے نہیں بلکہ آدمیوں کو اونچا کرنے سے ہے ایسے آدمیوں کو جن کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز کے قیام اور زکوۃ کی ادائیگی سے نہ تجارت غافل کرتی ہے اور نہ بیچ.گویا پرندے کی جو دو خاصیتیں تھیں ان دونوں کا مومنوں کے اندر پایا جانا بھی بیان کر لا
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 412 دیا گیا اور بتادیا گیا کہ عمل صالح مومن کو اڑا کر اللہ تعالیٰ کی طرف لے جاتا ہے.حدیثوں میں بھی آتا ہے کہ جب کوئی مومن مرتا ہے تو اس کی روح کو فرشتے آسمانوں کی طرف لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دروازے کھول دو ایک مومن کی روح آتی ہے مگر جب کا فر مرتا ہے تو اُس کی روح اُٹھائی نہیں جاتی بلکہ نیچے پھینکی جاتی ہے.غرص نظیر سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی روحیں ہیں جو دین کے لئے ہر قسم کی بلندیوں پر چڑھنے کے لئے تیار رہتی ہیں وہ مشکلات کی پرواہ نہیں کرتیں اور نہ مصائب سے گھبراتی ہیں بلکہ ہر قسم کی قربانیوں کے لئے آمادہ اور تیار رہتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک دفعہ ایک صحابی نے جنگ بدر کے موقع پر کہا یا رسول اللہ ! آپ حکم دیجئے ہم اپنے گھوڑے سمندر میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں اور ذرا بھی ہمارے اندر ہچکچاہٹ پیدا نہیں ہوگی کہ حضور نے یہ حکم کیوں دیا ؟ گویا مومن کو پرندہ کہ کر اللہ تعالیٰ نے اُن قابلیتوں کا ذکر کیا ہے جو مومنوں میں پائی جاتی ہے اور بتایا ہے کہ وہ سفلی زندگی کی بجائے علوی زندگی اختیار کرتے اور نیچے جھکنے کی بجائے اوپر کی طرف پرواز کرتے ہیں.بدید کے متعلق تاریخی تحقیق اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں بہد ہد نام کیوں رکھا گیا ہے؟ اور گو اس کا عقلی جواب میں قرآن کریم سے ہی دے چکا ہوں مگر اب بتا تا ہوں کہ ہد ہد سے مراد کیا ہے؟ ہد ہد کا پتہ لینے کے لئے جب ہم بنی اسرائیل کی کتابیں دیکھتے ہیں اور اس امر پر غور کرتے ہیں کہ کیا ان میں کسی ہدہد کا ذکر آتا ہے یا نہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں یہودیوں میں کثرت سے ہر دنام ہوا کرتا تھا جو عبرانی سے عربی میں بدل کر ہد ہد ہو گیا.جیسے عبرانی میں ابراہام کہا جاتا ہے مگر جب یہ لفظ عربی میں آیا تو ابراہیم بن گیا.اسی طرح عبرانی میں یسوع کہا جاتا ہے مگر عربی میں عیسی کہتے ہیں.اسی طرح عبرانی میں موٹے کہا جاتا ہے مگر عربی میں یہی نام موسی ہو گیا.اب بھی کسی اہل عرب کو لکھنو کہنا پڑے تو وہ لکھنو نہیں بلکہ ”لکھنا ہو" کہے گا.اسی طرح عبرانی میں بدر کہا جاتا تھا مگر چونکہ قرآن عربی میں ہے اس لئے جب یہ نام اس
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ میں آیا تو ہد ہد ہو گیا.413 در حقیقت تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عدد کئی ارومی بادشاہوں کا نام تھا اور اس کے معنی بڑے شور کے ہوتے ہیں.عربی زبان میں بھی ھڈ کے ایک معنی الصّوْتُ الْغَلِيظ ۵۵ یعنی بڑی بلند آواز کے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اونچی آواز والے لڑکے کا نام نبرد یا ہد ہد رکھ دیتے تھے.پھر یہ نام تیسرے ادو می بادشاہ کا بھی تھا جس نے مدین کو شکست دی تھی اور آخری بادشاہ کا بھی یہی نام تھا.حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایک لڑکے کا نام بھی ہد ہد تھا.بائیبل کی کتاب نمبر اسلاطین باب ۱۱ آیت ۱۴ میں بھی ادوم کے خاندان کے ایک شہزادہ کا ذکر آتا ہے جس کا نام ہر د تھا اور جو یو آب کے قتل عام سے ڈر کر مصر بھاگ گیا تھا.جیوش انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ پرانے عہد نامہ میں جب یہ لفظ اکیلا آئے اور اس کے ساتھ کوئی صفاتی فعل یا لفظ نہ ہو تو اس کے معنی ارومی خاندان کے آدمی کے ہوتے ہیں.غرض یہ ہد ہد عبرانی زبان کا لفظ ھد د ہے جو عربی میں آکر ہد ہد ہو گیا.چونکہ مفسرین کو یہ شوق ہوتا ہے کہ اپنی تفسیر کو دلچسپ بنا ئیں اس لئے وہ بعض دفعہ بیہودہ قصے بھی اپنی تفسیروں میں درج کر دیتے ہیں.چنانچہ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ضب عربی میں گوہ کو کہتے ہیں مگر ضب عرب کے ایک قبیلے کے سردار کا بھی نام تھا اور یہ ایسا ہی نام ہے جیسے ہندوؤں میں طوطا رام نام ہوتا ہے.وہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے آپ کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا.اب وعظ کی کتابوں میں اس بات کو ایک قصہ کا رنگ دیتے ہوئے یوں بیان کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جارہے تھے کہ رستہ میں ایک سوراخ سے گوہ نکلی اور اُس نے قصیدہ پڑھنا شروع کر دیا.اب جن لوگوں نے یہ بنالیا کہ ایک گوہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں قصیدہ پڑھا تھا اُن کے لئے ہد ہد کا پرندہ بنا لینا کونسا مشکل کام تھا.بہر حال قرآن کریم میں کئی مقامات پر مجاز اور استعارہ بھی استعمال کیا گیا ہے مگر چونکہ قرآن کریم دائمی شریعت ہے اس لئے اُس نے ساتھ ہی محکم آیات بھی رکھ دی ہیں جو کوئی دوسرے معنی کرنے ہی نہیں دیتیں.جب استعارے کو استعارے کی حد تک محدود رکھا جائے گا تو اس کے معنی ٹھیک رہیں گے مگر جب استعارہ کو حقیقت قرار دے دیا جائے گا تو دو آیتیں آپس میں ٹکرا جائیں
فصائل القرآن نمبر...414 غرض قرآن کریم کا یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے جس کے مقابلہ میں باقی الہامی کتب قطعا نہیں ٹھہر سکتیں.افسوس ہے کہ باوجود ایسی عظیم الشان کتاب پاس رکھنے کے مسلمانوں کو پھر بھی ٹھوکر لگ گئی اور انہوں نے عجیب و غریب قصے گھڑ لئے.چنانچہ چیونٹی کا واقعہ جو وہ بیان کرتے ہیں اسی کے ضمن میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمان کو جب وہ چیونٹی ملی تو آپ نے اس سے پوچھا کہ بتا مجھ سے بڑا آدمی بھی تو نے کبھی دیکھا ہے؟ وہ کہنے لگی یہ کوئی اچھی بات معلوم نہیں ہوتی کہ آپ تخت پر بیٹھے ہوں اور میں زمین پر.آپ مجھے اپنے پاس بٹھا ئیں پھر آپ کی بات کا میں جواب بھی دے دونگی.انہوں نے اُسے اُٹھا کر تخت پر بٹھا لیا.وہ کہنے لگی اب بھی میں بہت نیچے ہوں آپ ذرا اور او پر کریں.چنانچہ انہوں نے اُسے اپنے ہاتھ پر اُٹھا لیا.اس پر وہ کہنے لگی بڑے آپ نہیں بلکہ میں بڑی ہوں جو سلیمان کے ہاتھ پر بیٹھی ہوں.تو ایسے ایسے لطائف انہوں نے لکھے ہیں جنہیں سُن کر ہنسی آتی ہے.بے شک پہلی کتب میں بھی استعارے استعمال کئے گئے ہیں مگر ان کتب میں ان استعاروں کیلئے اندرونی حل موجود نہیں تھا.اس کے مقابل میں قرآن کریم میں بھی استعارے ہیں مگر ساتھ ہی اس نے حل بھی رکھ دیا ہے تا کہ اگر کسی کو ٹھوکر لگے تو عالم قرآن اُس کو سمجھا سکے.غرض قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی اور کسی کتاب کو حاصل نہیں اور اگر کسی کا یہ دعوئی ہو کہ اُس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو میں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے.اگر کوئی وید کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے.اگر کوئی توریت کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے.اگر کوئی انجیل کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اور قرآن کریم کا کوئی ایسا استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو میں بھی استعارہ سمجھوں.پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی نہ پیش
فصائل القرآن نمبر...415 کردوں تو وہ بیشک مجھے اس دعوٹی میں جھوٹا سمجھے لیکن اگر پیش کر دوں تو اُسے ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں قرآن کریم کے سوا دنیا کی اور کوئی کتاب اس خصوصیت کی حامل نہیں.اس وقت تک میں نے قرآن کریم کی فضیلت کے متعلق آٹھ دس باتیں ہی بیان کی ہیں.لیکن میرا اندازہ ہے کہ تین سو بلکہ اس سے بھی زیادہ دلائل ایسے دیے جا سکتے ہیں جن سے قرآن کریم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور جن کے مقابلہ میں عام انسانی کتابیں تو الگ رہیں الہامی کتابیں بھی نہیں ٹھہر سکتیں لیکن ان کا لکھنا میرے بس کی بات نہیں.........کام اتنازیادہ ہو گیا ہے اور پھر صحت ایسی خراب رہتی ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے یہ کام بظاہر ناممکن نظر آتا ہے.اس کے بعد میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور دوستوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ جلسے پر آئے ، تقریریں نہیں اور جلسہ ختم ہو گیا.اس جگہ آنے اور تقریریں سننے کا آخر کوئی فائدہ ہونا چاہئے ورنہ آکر خالی ہاتھ چلے جانا تو اپنے اوقات اور اموال کو ضائع کرنا ہے.پس جلسہ سالانہ سے فائدہ اُٹھاؤ اور اس دفعہ میں نے جو مضمون بیان کیا ہے اس کی مناسبت سے کوشش کرو کہ تم طیر بن جاؤ اور ہد ہد والے کمال تم میں آجائیں.اگر سلیمان کی اُمت میں سے ایک شخص جس کا نام ہدہد تھا، اتنے کمال اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے کہ توحید کے باریک اسرار کا اُسے علم ہو جاتا ہے، سیاست سے وہ واقف ہوتا ہے، سلیمان شام میں ہوتے ہیں اور وہ یمن کی خبر انہیں پہنچا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہاں جو شرک نظر آتا ہے اُس کو دُور کرنا چاہئے حالانکہ سلیمان صرف ایک قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے تو وہ قوم جسے خدا نے یہ کہا ہے کہ جاؤ اور ساری دنیا میں میرا پیغام پہنچاؤ اُس کے افراد کے اندر اگر اپنے مذہب کا درد نہ ہو تو یہ کتنی شرم کی بات ہوگی.غالبا اِسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو شرمانے کے لئے یہ قصہ بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے مقابلہ میں تو سلیمان کی اُمت ایسی ہی ہے جیسے باز کے مقابلہ میں ہد ہد.پس جب ہد ہدیہ کمال دکھا سکتا ہے تو بازوں کو اپنے اندر جو کمالات پیدا کرنے چاہئیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہو سکتے.
فصائل القرآن نمبر...416 پس اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو! اپنے اندر جوش اخلاص اور ہمت پیدا کرو.تم آسمان کی طرف اُڑو کیونکہ تمہارا خدا او پر ہے.تم نیچے مت دیکھو اور معمولی معمولی باتوں کے پیچھے مت پڑو کیونکہ اللہ تعالی تمہیں طائر بنانا چاہتا ہے.کتنی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن پر تمہیں ابتلاء آجاتے ہیں.کہیں اس بات پر لڑائی ہو جاتی ہے کہ فلاں عہدہ مجھے کیوں نہیں ملا، کہیں اس بات پر کوئی شخص ٹھو کر کھا جاتا ہے کہ مجمن کا سیکرٹری فلاں کیوں بنا مجھے کیوں نہ بنا یا گیا.گویا ہر وقت اُن کی نظر نیچی رہتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ تم کو طائر بنانا چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے كُل انسانِ الْزَمْنَهُ طَيْرَهُ فِي عُنُقِهِ ہم نے ہر انسان کی گردن کے نیچے ایک طائر باندھ رکھا ہے.اب بتاؤ جس کی گردن کے نیچے کوئی چیز باندھ دی جائے اُس کی نگاہ بھی نیچی بھی ہو سکتی ہے وہ تو ہمیشہ اوپر کی طرف دیکھے گا.پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تم اپنی نگا ہیں ہمیشہ اُونچی رکھو کیونکہ تم مسلمان ہو اور مسلمان کے برابر دنیا میں اور کوئی نہیں ہوتا.پس فائدہ اُٹھاؤ میرے اس وعظ ونصیحت سے اور جب اپنے گھروں میں جاؤ تو اس ارادے اور نیت کے ساتھ جاؤ کہ آئندہ ہم چو ہے اور چھپکلیاں نہیں بنیں گے بلکہ وہ طائر بنیں گے جو ہواؤں میں اُڑتے پھرتے ہیں اور اپنے خدا کی
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ آواز سننے کی کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دُعا 417 اس کے بعد میں دُعا کروں گا دوست بھی دُعا کریں.اپنے لئے بھی ، اپنے رشتہ داروں کے لئے بھی کیونکہ یہ جامع دُعا ہوتی ہے.جو احمدی ہیں اُن کے لئے بھی کہ انہیں روحانی ترقی نصیب ہو اور جو غیر احمدی ہیں ان کے لئے بھی کہ انہیں ہدایت حاصل ہو.اسی طرح اپنے شہر والوں کے لئے، اپنے ہمسایوں کے لئے اور اپنے ملک والوں کے لئے دُعائیں کرو اور خصوصیت سے جماعت کے لئے یہ دعا کرو کہ اللہ تعالٰی ہماری جماعت میں سچا تقویٰ، پر ہیز گاری اور تقدس پیدا کرے کیونکہ بغیر اس کے کہ ہم اسلام کا عملی نمونہ ہوں ہماری زندگیاں کسی کام کی نہیں.پس دُعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ایسی محبت پیدا کر دے جس کے مقابلہ میں اور تمام محبتیں سرد ہو جا ئیں اور ہمیں ہر جگہ وہی نظر آئے.اگر ہم بیویوں سے محبت کریں تو خدا کے لئے ، اگر ہم ماں باپ سے محبت کریں تو خدا کے لئے ، اگر ہم اپنی جانوں سے محبت کریں تو خدا کے لئے ، اور اگر ہم مال سے محبت کریں تو خدا کیلئے.ہماری مثال حضرت علی کی سی ہو جائے کہ اُن سے جب اُن کے بیٹے امام حسن نے ایک دفعہ پوچھا کہ کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو انہوں نے کہا ہاں! پھر انہوں نے پوچھا کیا آپ خدا سے بھی محبت کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں.یہ سن کر حضرت حسن کہنے لگے.کیا یہ شرک نہیں کہ آپ خدا کی محبت میں میری محبت کو بھی شریک کرتے ہیں؟ حضرت علی نے فرمایا اے میرے بیٹے ! یہ شرک نہیں کیونکہ اگر خدا کی محبت کے مقابلہ میں تیری محبت آجائے تو میں اُسے اُٹھا کر پرے پھینک دوں گا.پس دُعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی محبت دے اور اگر ماسوی اللہ کی محبت ہمارے دلوں میں ہو تو محض اُس کی وجہ سے ہو مستقل نہ ہو.اللہ تعالیٰ ہم کو اچھے کاموں کی توفیق دے ہمیں دناعت کمینگی اور پست ہمتی سے محفوظ رکھے.ہمارے خیالات میں وسعت دے، ہماری کوششوں میں برکت ڈالے اور ہماری قربانیوں کو زیادہ کرے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اسلام کی اشاعت کے لئے رات
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 418 اور دن کام کرتے چلے جائیں مگر ہم یہ سمجھیں کہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا.پھر وہ ہمیں اپنے فضل سے اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی زندگیاں اُس کے دین کے لئے وقف کر دیں.اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے لالچ اور حرص نکال دے.اللہ تعالٰی ہمارے دلوں سے ظلم کا مادہ نکال دے.اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے بدظنی اور اپنے بھائیوں کی عیب جوئی اور اُن پر طعنہ زنی کا مادہ نکال دے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہر عیب سے بچائے.ہمارے اندر رحم پیدا کرے.ہمیں قرآن کا علم دے.اس کے پڑھنے کی توفیق بخشے اور اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی طاقت عطا فرمائے اور اپنے کلام کی ایسی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے کہ اس کا کلام ہماری روح کی غذا بن جائے.اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں نور پیدا کرے.وہ ہماری آنکھوں ، ہمارے کانوں، ہمارے دماغوں ، ہمارے ہاتھوں اور ہمارے پاؤں میں نور پیدا کرے.ہمارے آگے بھی نور ہو ہمارے پیچھے بھی نور ہو.ہمارے دائیں بھی نور ہو ہمارے بائیں بھی نور ہو.ہمارے اندر بھی نور ہو ہمارے باہر بھی نور ہو یہاں تک کہ ہم مکمل نور بن جائیں.اللہ تعالی تمام تاریکیوں اور ظلمتوں سے ہمیں محفوظ رکھے اور ہمیں اپنی پناہ میں لے لے.وہ ہر قسم کے دشمنوں کے حملوں سے ہمیں بجائے.اپنے فضلوں کے دروازے ہم پر کھول دے اور ہمارے قلوب کو اتنا پاک اور مصفی کر دے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل اس پر پڑنے لگے یہاں تک کہ ہم اس کے وہ بندے بن جائیں جن کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي پھر دعا کرو اُن مبلغوں کے لئے جو باہر گئے ہوئے ہیں.دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اُن کی اُن کوششوں میں جو وہ سلسلہ کی حفاظت اور ترقی کے لئے کر رہے ہیں برکت ڈالے اور ان کے تھوڑے کام کو بھی بہت بنا دے.اُن کی زبانوں میں تا خیر ڈالے، اُن کے قلوب میں درد پیدا کرے، اُن کے دماغوں میں خدا کی محبت کی کیفیات موجزن ہوں اور اُن کی زندگیاں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول ہو جا ئیں.پھر اللہ تعالیٰ سے دُعا کرو کہ وہ ہماری آئندہ نسلوں کو بھی پاک بنائے جو ہم میں نقص ہیں وہ ان میں نہ جائیں مگر ہم میں جو خو بیاں ہیں وہ ان کے وارث ہوں.آمین ثم آمین.اس کے بعد حضور نے لمبی دعا فرمائی اور یہ مبارک جلسہ بخیر خوبی اختتام پذیر ہوا.
فصائل القرآن نمبر ۶۰۰۰ 419 ل النمل : ۲۹۳۱۶ الواقعة: ٨٠ بخاری کتاب الجنائز باب من جلس عند المصيبة يعرف فيه الحزن ( مفهوماً ) البقرة: 9 ه الاعراف: ۵۵ القلم : ٤٣ ك الانعام: ۹۷ اخبار باب ۱۳ آیت ۷ ۴ تا ۵۹ المدثر : ۵ ا آل عمران: ۸ النمل : ١٦ ۱۳ سیا: ۱۱، ۱۲ الانبياء : ۸۱،۸۰ ۱۵ ص : ۱۸ تا ۲۱ الجاثية : ۱۳ ، ۱۴ كا الجمعة : ۲ بخاری کتاب الصلوة باب قول النبي جعلت لي الارض 19 اقرب الموارد الجزء الاول صفحه ۱۰۱ مطبوعه بيروت ۱۸۸۹ء ۲۰ الاحقاف : ۳۰تا۳۲ ٢١ البقرة : ۱۵ ۲۲ الانعام: ۱۱۳ ٢٣ النساء : ٨٠ ٢٤ البقرة: ۵۵ ۲۵ نسائی کتاب الطهارة باب التيمم بالصعيد الانعام: ۱۲۹ ۲۷ ۲۸ الانعام: ۱۳۱ وع الفتح : ٩، ١٠ ٣٠ الاحزاب: ۷۳ ا لسان العرب المجلد الثالث صفحه ۲۲ ۲۲۷ مطبوعه بيروت ۱۹۸۸ء ٣٢ المنجد عربی اردو صفحه ۲۱۹ مطبوعہ کراچی ۱۹۷۵ء ٣٣ تاج العروس ۱۳۴ تقویم البلدان صفحه ۲۳۸ ۳۵ القاموس الجزء الثانی صفحه ۲۲۴ نولکشور لکھنؤ ۱۲۸۹هـ ۳۶ آل عمران: ۵۰،۴۹ ٣٨ الرعد: ۱۷ المائدة : ااا ٣٩ التوبة:١١٩ ۲۰ آل عمران: ۵۰ یس : ۷۹ ۸۰
فصائل القرآن نمبر...الانعام:٣٩ ٤٤ الاعراف: ۱۳۲ النور : ۴۲ ۲۵ المفردات فی غریب القرآن صفحه ۳۱۰ مطبوعہ کراچی ٢٦ اقرب الموارد الجزء الاول صفحه ۷۲۵ مطبوعه بیروت ۱۸۸۹ء النمل: ۴۸ بنی اسرائیل: ۱۴ تا ۱۶ ۵۰ الجامع الصغير للسيوطى ۴۸ یسن : ۲۰،۱۹ ا فاطر: ۲ ۵۲ فاطر: ۱۱ المجادلة: ١٢ ۵۴ النور : ۳۸،۳۷ ۵۵ اقرب الموارد الجزء الثانی صفحه ۱۳۷۷ مطبوعه بیروت ۱۸۸۹ء ۵۶ الفجر : ۳۱،۳۰ 420