Fatima Tuz Zahra

Fatima Tuz Zahra

حضرت فاطمۃ الزہرہ ؓ

بنت محمد ﷺ
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ صحابہ و صحابیات رسول اللہ ﷺ

Book Content

Page 1

بسلسلہ صد سالہ خلافت احمدیہ جو بلی بنت محمد علم الالم بنتِ حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا لجنہ اماء الله

Page 2

دين محمد مع المالية علوم بنت حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بنے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 4

خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراء پیارے بچو! خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہراء صلى الله سید الانبیا علی کی چوتھی اور سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمتہ الزہرہ تھیں.آپ کو خاتون جنت کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے (1) آپ کی زندگی کا ہر پہلو مسلمان خواتین کے لئے مشعل راہ ہے.آیئے آپ کے بابرکت اور پاکیزہ وجود کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں اور آپ کی مبارک زندگی کے خوشبو دار پھولوں سے اپنے دل و دماغ معطر کرتے ہیں.حضرت فاطمۃ الزہراہ کا تعلق قریش کے اعلی ترین خاندان صلى الله سے تھا آپ رسولِ خدا ﷺ اور حضرت خدیجہ بنت خویلد کی چھوٹی صاحبزادی تھیں.ان سے بڑی ان کی تین بہنیں حضرت زینب.حضرت رقیہ اور حضرت اُم کلثوم" تھیں.حضرت فاطمہ اپنی بے شمار صفات کی بناء پر بتول، زہراء، سيدة النسأ اہل الجنة ،طاہرہ، مطہرہ، راضیہ، مرضیہ، اور ڈاکیہ کے پاک القاب سے موسوم ہوئیں.حضرت فاطمہ کی تاریخ ولادت کے بارے میں اختلاف ہے.

Page 5

خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہراء 2 ابن جوزی کے مطابق ان کی ولادت بعثت نبوی سے پانچ سال پہلے ہوئی جب خانہ کعبہ کی تعمیر نو ہو رہی تھی اور رسول ﷺ کی عمر مبارک پینتیس برس تھی.ایک اور روایت کے مطابق ان کی پیدائش بعثت سے ایک سال پہلے ہوئی.ایک تیسری روایت یہ ہے کہ وہ 1 نبوی میں پیدا ہوئیں.حضرت فاطمہ کی وفات 11 ہجری میں 29 سال کی عمر میں ہوئی.اگر اس کو مد نظر رکھا جائے تو یہ روایت کہ آپ بعثت سے پانچ برس قبل پیدا ہوئیں درست معلوم ہوتی ہے.رسول ﷺ نے اپنی اس صاحبزادی کا نام فاطمہ حکم خداوندی سے رکھا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت فاطمہ کو جہنم کی آگ سے بیچارکھا ہے.حضرت فاطمہ کا نام زہرا اس لئے مشہور ہوا کہ آپ زہرۃ المصطفیٰ یعنی رسول اکرم مال کا پھول تھیں.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کو یہ نام اُن کی سفید رنگت اور روشن چہرے کی بناء پر دیا گیا تھا.(2) حضرت فاطمہ فطر نا نہایت سنجیدہ اور تنہائی پسند تھیں.پچپن میں انہوں نے نہ تو کبھی کھیل کود میں حصہ لیا اور نہ ہی کبھی گھر سے باہر نکلیں.بچوں میں سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے والدین اور سب گھر کی بہت پیاری اور لاڈلی تھیں.عظیم الشان والدین کی تربیت اور اپنے گھر کے روحانی ماحول نے اُن کی تمام صلاحیتوں کو جلا بخشی ، وہ بے حد

Page 6

خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراء 3 ذہین بھی تھیں.اپنی والدہ سے اکثر ایسے سوال کرتیں جن سے اُن کی بے پناہ ذہانت کا اندازہ ہوتا تھا.ایک مرتبہ والدہ سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ جس نے ہمیں اور دنیا کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے کیا وہ ہمیں نظر آ سکتا ہے؟ اس پر حضرت خدیجہ نے فرمایا کہ اے میری بچی اگر ہم دنیا میں اللہ تعالی کی عبادت کریں اور اس کی مخلوق سے محبت کریں تو قیامت کے دن ہم ضرور اللہ کی زیارت کریں گے.“ صلى الله حضرت فاطمہ پچپن ہی سے نمود و نمائش سے نفرت اور سادگی پسند فرماتی تھیں.ایک مرتبہ کسی عزیز کی شادی میں شرکت کے لئے حضرت خدیجہ نے ان کے لئے عمدہ کپڑے اور زیورات بنوائے جو انہوں نے پہننے سے انکار کر دیا اور سادہ لباس میں ہی شادی میں شرکت کی.(3) بعثت نبوی میلے کے چوتھے سال سے اعلانیہ تبلیغ کا آغاز ہو چکا تھا اور کفار مکہ "جو آپ علیہ کی عظمتِ کردار کے معترف تھے اب جانی دشمن بن چکے تھے ، وہ مسلمانوں اور خود حضور ﷺ کی ذات بابرکات کو ہر ظلم وستم کا نشانہ بنا رہے تھے.ایک مرتبہ حضور ﷺ خانہ کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے کہ کفار کے ایک گروہ نے جس کا سرغنہ عقبہ بن ابی معیط تھا اونٹ کی اوجھڑی لا کر سجدہ کی حالت میں حضور ﷺ کی گردن مبارک پر ڈال دی.کسی نے حضرت فاطمۃ الزہراء کو خبر کر دی.وہ دوڑتی ہوئی کعبہ

Page 7

خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراء 4 پہنچیں.حضور ﷺ کی گردن مبارک سے اوجھڑی ہٹائی اور نہایت غصہ کی نظر ان پر ڈال کر بولیں " شر یرو! اللہ تعالی تمہیں ان شرارتوں کی ضرور سزا دے گا.‘ (4) سیدہ فاطمہ نے ایسے ہی مشکل حالات میں پرورش پائی.وہ اپنے عظیم باپ ملے اور صحابہ کرام پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھتیں تو بہت پریشان ہوتیں.لیکن کم سنی کے باوجود ان حالات سے خوفزدہ نہ تھیں بلکہ ہر مشکل کے موقع پر حضور ﷺ کی غمگساری فرماتیں اور کبھی فطری تقاضہ کے تحت رونے بھی لائیں تو آ حضرت ملے انہیں تسلی دیتے اور فرماتے " میری بیٹی گھبراؤ نہیں.اللہ تعالی تمہارے باپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا.‘ (5) امام جلال الدین سیوطی نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ حضور ﷺ کی بعثت کے ابتدائی زمانے میں ایک دن ابو جہل نے سیدہ فاطمہ کو کسی بات پر تھپڑ مار دیا.کمسن بچی روتی ہوئی حضور ﷺ کے پاس گئیں اور ابو جہل کی شکایت کی.آپ ﷺ نے فرمایا بیٹا جاؤ اور ابوسفیان کو ابو جہل کی اس جرات سے آگاہ کرو.سیّدہ فاطمہ ابوسفیان کے پاس گئیں اور انہیں سارا واقعہ سنایا.ابوسفیان نے حضرت فاطمہ کی انگلی پکڑی اور سیدھے وہاں پہنچے جہاں ابو جہل بیٹھا ہوا تھا.اُنہوں نے

Page 8

خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراء 5 فاطمہ سے کہا بیٹی جس طرح اُس نے تمہارے منہ پر تھپڑ مارا تھا تم بھی اس کے منہ پر تھپڑ مارو.چنانچہ حضرت فاطمہ نے ابو جہل کو تھپڑ مارا اور پھر گھر جا کر حضور ﷺ کو یہ بات بتائی.آپ ﷺ نے اس پر دعا کی.یا الہی ابوسفیان کے اس سلوک کو نہ بھولنا حضور ﷺ کی اسی دعا کا نتیجہ تھا کہ چند سال بعد ابوسفیان نے اسلام قبول کر لیا.(6) 7 نبوی کا سال مسلمانوں کے لئے بے پناہ مشکلات لے کر آیا کفار میں سے بے شمار لوگوں کا قبول اسلام خاص طور پر حضرت حمزہ اور حضرت عمرؓ کا قبول اسلام کفار کے لئے ایک بڑا دھچکہ تھا وہ غصے سے دیوانے ہو گئے.اور اُنہوں نے اسلام کو نیست و نابود کرنے کے لئے آخری حد تک جانے کا فیصلہ کر لیا.چنانچہ انہوں نے اپنے دوست قبائل سے مل کر یہ معاہدہ کیا کہ جب تک قریش رسول اللہ ﷺ کو نعوذ باللہ ) قتل کرنے کے لئے ہمارے حوالے نہیں کریں گے ہم اُن سے ہر طرح کا لین دین ، خرید و فروخت، تمام معاملات اور رشتہ داری قائم نہیں کریں گے.چنانچہ یہ معاہدہ لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکا دیا گیا.اس پر ابو طالب نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کی ساری اولا د اور تمام مسلمانوں کے ساتھ مکہ

Page 9

خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراء 6 کے نزدیک ایک گھائی میں جو بنو ہاشم کی ملکیت تھی اور ابو طالب کے نام سے مشہور تھی ، پناہ لی.کفار مکہ نے شعب ابی طالب کا محاصرہ کر لیا اور اتنی سختی کی کہ کھانے پینے کی کوئی چیز بھی مسلمانوں تک نہ پہنچنے دی یہ محاصرہ تین سال جاری رہا، اس میں بے کس اور بے بس مسلمانوں نے درختوں کے پتے اور جھاڑیاں کھا کر گزارہ کیا.حضرت فاطمہ نے بھی مصیبت کا یہ زمانہ اپنے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ بڑے حوصلے اور صبر سے گزارا.آخر تین سال بعد قریش کے کچھ رحم دل لوگوں کی کوششوں سے معاہدہ ختم ہوا اور مسلمان اپنے گھروں کو واپس لوٹے.صل الله شعب ابی طالب سے واپسی کے کچھ دن بعد ہی رسول خدا علی اور اُن کے خاندان کو دو بہت بڑے صدمے برداشت کرنے پڑے.آنحضرت ﷺ کے چچا ابو طالب جو ہمیشہ سے کفار کے مقابلے میں آپ میے کے بہت بڑے مددگار اور معاون تھے وفات پاگئے ، ان کی وفات کے کچھ عرصہ بعد آنحضرت علی کی غمگسار بیوی حضرت خدیجہ الکبری کا بھی انتقال ہو گیا.آپ ﷺ کو اتنا شدید صدمہ ہوا کہ تاریخ میں اس سال کا نام ہی عام الحزن ( یعنی غم کا سال ) مشہور ہو گیا.حضرت خدیجہ کی وفات نے حضرت فاطمہ اور ان کی تینوں بڑی

Page 10

خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراء 7 بہنوں کو بے حد غم زدہ کر دیا.جب اُم المومنین سیدہ خدیجہ الکبری کا انتقال ہوا تو اس وقت حضرت فاطمہ کی عمر تقریبا پندرہ سال تھی.چھوٹی ہونے کی وجہ سے حضرت فاطمہ اپنی والدہ کے زیادہ قریب اور لاڈلی تھیں چنانچہ قدرتی طور پر ماں کی جدائی کا ان پر زیادہ اثر تھا.حضرت خدیجہ اور حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد کفارِ مکہ کے مظالم میں بے پناہ اضافہ ہو گیا تھا.چنانچہ اہل مکہ سے مایوس ہو کر آنحضرت ﷺ نے تبلیغ اسلام کے لئے طائف کا سفر کیا، لیکن بد قسمتی سے وہاں کے لوگوں کو حق پہچاننے کی توفیق نہ ہوئی.جب رسول اقدس ہے طائف سے زخمی حالت میں مکہ آئے تو لاڈلی بیٹیاں سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ رونے لگیں ، آپ ﷺ نے فرمایا:.بیٹا گھبراؤ نہیں! اللہ تعالیٰ اپنے دین کی مدد کرے گا اور اپنے نبی کو غالب کرے گاتنگی کے بعد آسانی کے دن آنے والے ہیں.(7) علوم طائف کے سفر سے واپسی پر رسول خداﷺ نے مدینہ منورہ سے حج کے لئے آئے ہوئے قبائل کو اسلام کی تبلیغ کی.قبیلہ خزرج کے چھ آدمیوں نے آقائے نامدار علیہ کی دعوت قبول کر لی اور اسلام لے آئے ، اُن کی کوششوں سے مدینہ منورہ میں گھر گھر اسلام کا چرچا ہونے

Page 11

خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراء 8 لگا.چنانچہ اگلے سال یعنی 12 نبوی کو بارہ لوگوں نے اور 13 نبوی کو پچھتر صلى الله مردوں اور عورتوں نے حضور ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی.اور اسلام قبول کیا اور آپ علی کو مدینہ آنے کی دعوت دی.چنانچہ اس بیعت کے بعد صلى اللهم آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام کو مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دے صلى الله دی.اس اجازت کے بعد ماسوائے چند صحابہ کے تمام اصحاب النبی علیہ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے.13 نبوی کو اللہ تعالی کے حکم پر آنحضرت ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ رات کی تاریکی میں مکہ سے ہجرت فرمائی.اور اپنے بستر پر حضرت علی کو سلایا اور تمام امانتیں جو حضور ﷺ کے پاس تھیں اُن کے اصل مالکوں کو لوٹانے کے لئے دیں.مدینہ منورہ پہنچنے کے کچھ دن بعد رسول اللہ اللہ نے اپنے غلام حضرت زید بن حارث اور حضرت ابو رافع کو اپنے اہل وعیال مدینہ لانے کے لئے مکہ روانہ فرمایا.ان دونوں حضرات کے ہمراہ اُم المومنین حضرت سودہ اور صاحبزادیاں حضرت اُم کلثوم اور حضرت فاطمہ اور حضرت اُم ایمن اور اسامہ بن زید نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی ، مدینہ پہنچ کر حضرت سودہ اور دونوں صاحبزادیوں نے حضور میلے کے پاس نئے گھر میں قیام کیا.(8) ہجرت مدینہ کے بعد حضرت فاطمۃ الزہراء کی عمر تقریباً 18 سال ہو

Page 12

خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراء چکی تھی.بعض صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے حضرت فاطمہ سے شادی کی درخواست کی.مگر آپ مے خاموش رہے.اس پر حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاص نے مشورہ کیا کہ حضرت فاطمہ کے لئے حضرت علی کو پیغام بھیجنے کی ترغیب دی جائے.حضرت علی آپ کے چچا زاد بھائی بھی تھے.(9) چنانچہ یہ اصحاب حضرت علی سے ملے اور اُنہیں پیغام بھجوانے پر رضامند کر لیا.حقیقت میں یہ حضرت علیؓ کے دل کی بھی آواز تھی مگر فطری حیاء کی بناء پر خاموش تھے.بہر حال حضرت علیؓ نے رسول اللہ علہ سے درخواست کی.آپ اللہ نے ہاں میں جواب دینے سے پہلے حضرت فاطمہ کی مرضی دریافت کی.وہ چپ رہیں.یہ ایک طرح کا اظہار رضامندی تھا اس پر رسول اللہ اللہ نے حضرت علی سے پوچھا کہ تمہارے پاس مہر میں دینے کے لئے کیا ہے؟ بولے ، کچھ نہیں ! اس پر حضور ﷺ نے فرمایا وہ زرہ کیا ہوئی جو جنگ بدر میں آپ کو ملی تھی ؟ عرض کی، وہ تو موجود ہے آپ علی نے فرمایا ، بس وہ کافی ہے.چنانچہ حضرت علیؓ نے حضرت عثمان کے ہاتھ وہ زرہ چار سواسی درہم میں فروخت کر دی (10) صلى الله حضرت عثمان نے بعد میں وہ زرہ حضرت علی کو بطور تحفہ واپس کر دی.زمانہ نکاح کے متعلق روایتوں میں اختلاف ہے.بعض کے نزدیک

Page 13

خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراء 10 یہ مبارک نکاح صفر 2 ہجری کے نزدیک محرم یا رجب 2 ہجری اور ایک روایت کے مطابق شوال 3 ہجری میں ہوا.حضرت فاطمہ کے نکاح کے صلى الله بعد سرکار دو عالم ﷺ نے دعا فرمائی.” خدا تم دونوں کو منور رکھے اور تمہاری سعی مشکور ہو تم دونوں پر برکت نازل کرے اور تم سے پاک اولاد پیدا ہو." پھر سب نے دعا مانگی اور حضور ﷺ نے ایک طبق چھوہارے حاضرین پر لٹا دیئے.(11) حضرت علی رسول کریم میلے کے ساتھ رہائش پذیر تھے نکاح کے صلى الله بعد انہوں نے سرور کائنات علیہ کے گھر سے کچھ فاصلے پر گھر لیا.حضرت فاطمہ الزہرانہ رخصت ہو کر اُسی گھر میں تشریف لائیں، رخصتی الله سے قبل حضور ﷺ نے حضرت فاطمہ کو بلایا.اپنے سینہ مبارک پر ان کا سر رکھا اور پیشانی پر بوسہ دیا اور اپنی پیاری بیٹی کا ہاتھ حضرت علی کے ہاتھ میں دے دیا.پھر آپ علیہ نے دونوں میاں بیوی کو فرائض و حقوق صلى الله بتائے اور خود دروازے تک وداع کرنے آئے.دونوں اونٹ پر سوار ہوئے حضرت سلمان فارسی نے اس اونٹ کی نکیل پکڑی اور عورتوں میں حضرت سلمی یا حضرت اُم ایمن ساتھ گئیں.ایک دوسری روایت کے مطابق اسماء بنت عمیس ساتھ گئیں(12) رخصتی کے بعد حضرت علیؓ کی طرف سے دعوت ولیمہ کا انتظام

Page 14

خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہراء 11 ہوا.دستر خوان پر پنیر، کھجور ، جو کی روٹی اور گوشت تھا.حضرت اسماء سے روایت ہے کہ یہ اس زمانے کا بہترین ولیمہ تھا.(13) انصار میں سے حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں بذاتِ خود اس دعوت ولیمہ میں شامل تھا.اس سے بہتر اور عمدہ دعوت میں نے کسی اور کی نہیں دیکھی.(14) شادی کے موقع پر حضور اللہ نے اپنی بیٹی کو جو جہیز دیا اس کی تفصیل یہ ہے.بان کی چار پائی ، چمڑے کا گدا ، جس میں روئی کی بجائے کھجور کے پتے تھے.ایک مشکیزہ ، دومٹی کے گھڑے، ایک چکی ، ایک پیالہ اور ایک مصلی.صلى الله حضرت فاطمۃ الزہراہ جب اپنے نئے گھر چلی گئیں تو حضور علے ان کے ہاں تشریف لے گئے.دروازے پر کھڑے ہو کر اجازت مانگی پھر اندر تشریف لے گئے.ایک برتن میں پانی منگوایا اپنے دستِ مبارک سے حضرت علی کے بازو اور سینے پر پانی چھڑ کا.پھر حضرت فاطمہ کو اپنے پاس بلایا.وہ شرم و حیا کے باعث جگاتی ہوئی آئیں.آپ میلے نے ان پر بھی پانی چھڑکا اور فرمایا ” اے فاطمہ میں نے تمہاری شادی اپنے خاندان میں بہترین شخص سے کی ہے.(15) حضرت فاطمہ کا گھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ فاصلے پر تھا.

Page 15

خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہراء 12 صل الله آنے جانے میں تکلیف ہوتی تھی.حضرت فاطمہ نے فرمایا کہ آپ علی کے قریب حضرت حارث بن نعمان انصاری کے بہت مکانات ہیں ان سے کہیے کہ وہ کوئی گھر ہمیں خالی کروا دیں.حضور ﷺ نے فرمایا کہ حارث سے کہتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے.کیونکہ وہ پہلے ہی اللہ اور اُس کے رسول کی خوشنودی کے لئے بہت سے مکانات دے چکے ہیں.حضرت حارث کو خبر ہوئی تو دوڑے آئے اور فرمایا میری جان و مال حضور ﷺ پر قربان.خدا کی قسم جو چیز آپ ﷺ مجھ سے لے گئے تو مجھے اس کا آپ ﷺ کے پاس رہنا زیادہ محبوب ہوگا بہ نسبت اس کے کہ وہ میرے پاس رہے.چنانچہ انہوں نے حضرت فاطمہ کے لئے حضور ﷺ کے گھر کے قریب ایک مکان خالی کروا دیا اور حضرت فاطمہ اور حضرت علیؓ اس میں منتقل ہو گئے.(16) صلى الله صلى الله حضرت فاطمۃ الزہراء عادات و فضائل میں رسول کریم علی صلى الله کا بہترین نمونہ تھیں.ان کا حلیہ مبارک بھی رسول کریم ﷺ سے ملتا تھا.حضرت عائشہ کا قول ہے کہ فاطمہ کی گفتگو ، لب ولہجہ، اٹھنے بیٹھے کا طریقہ حضور علینے کا طریقہ تھا ( 17 ) ان کی رفتار بھی حضور ﷺ کی رفتار تھی.(10) حضرت فاطمہ نہایت متقی ، پرہیز گار، صابر و قانع خاتون تھیں.آپ کی راتیں اکثر عبادت الہی اور نوافل میں بسر ہوتیں اور دن روزے

Page 16

خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراء 13 سے.چونکہ حضرت فاطمہ کا گھر مسجد نبوی کے قریب تھا اسی وجہ سے رسول اللہ اللہ کے ارشادات گھر میں بڑی توجہ سے سنتیں اور ان پر عمل کرتیں.حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں نے فاطمہ کو دیکھا کہ کھانا پکاتے ہوئے ساتھ ساتھ اللہ کا ذکر کرتیں‘ (19) حضرت فاطمہ اور حضرت علیؓ کی ازدواجی زندگی بڑی خوشگوار تھی.حضرت علیؓ اپنی بیوی کی بہت عزت کرتے تھے اور ان کا بہت خیال رکھتے تھے اور حضرت فاطمہ بھی اپنے شوہر کا دل و جان سے احترام کرتیں.حضرت فاطمۃ الزہرا نہایت صابر اور شاکر خاتون تھیں.گھر کا تمام کام خود کرتی تھیں.چکی پیتے پیتے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے.مشک میں پانی بھر بھر کر لانے سے سینہ پر گئے پڑ گئے تھے، گھر میں جھاڑو دینے سے، چولھے کے پاس بیٹھنے سے ، دھوئیں سے رنگت خراب ہوگئی تھی لیکن ان کے ماتھے پر بل نہیں آتا تھا.حضرت علی سلطان الفقراء تھے اور حضرت فاطمۃ الزہرا نے فقر و فاقہ میں ان کا بھر پور ساتھ دیا اور کئی کئی دن فاقے سے بسر کئے.ایک مرتبہ دونوں میاں بیوی آٹھ پہر سے بھوکے تھے.حضرت علیؓ کو مزدوری میں ایک درہم ملا.ایک درہم سے پو خرید کر گھر پہنچے رات ہو چکی تھی.حضرت فاطمہ نے خوشی سے اپنے شوہر کا استقبال کیا.چکی میں جو پیسے، روٹی پکائی اور حضرت علی کے سامنے

Page 17

خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراء 14 رکھ دی.وہ کھا چکے تو پھر کھانے بیٹھیں.(20) یہ وہ زمانہ تھا جب اسلام میں فتوحات کا آغاز ہو چکا تھا.مدینہ میں مالِ غنیمت آنا شروع ہوا.ایک مرتبہ مال غنیمت کے طور پر کچھ لونڈیاں بھی آئیں.حضرت فاطمہ نے گھر کے کام میں مدد کے لئے ایک لونڈی کی درخواست کی.حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں کنیز نہیں دے سکتا کیونکہ مجھے اصحاب صفہ کے کھانے پینے کا انتظام بھی کرنا ہے.جنہوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر فقر و فاقہ کی زندگی اختیار کی ہے.‘ اس ارشاد پر دونوں میاں بیوی گھر لوٹ آئے.(21) ابن سعد اور حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ رات کو حضور نے ان کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ تم جس چیز کے خواہش مند تھے اس سے بہتر ایک چیز میں تم کو بتاتا ہوں.دس دس بارسبحان اللہ ، الحمد للہ، اور اللہ اکبر پڑھا کرو اور سوتے وقت 33 بار سبحان اللہ ، 33 بار الحمد للہ اور 34 بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو یہ عمل تمہارے لئے بہترین خادم ثابت ہو گا.(22) حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ بے حد سخی اور ایثار پسند تھیں.حضرت امام حسن فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک وقت کے فاقہ کے بعد ہم سب کو کھانا میسر ہوا.حضرت علیؓ اور حضرت حسین کھا چکے تھے لیکن ابھی والدہ نے نہیں کھایا تھا اور روٹی ہاتھ میں لی تھی کہ دروازے پر سائل نے

Page 18

خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراء 15 آواز لگائی تو والدہ نے فوراً کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور مجھ سے فرمایا کہ جاؤ یہ کھانا سائل کو دے آؤ.(23) حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی نے ساری رات ایک باغ کو پانی دیا اور اجرت میں کچھ جو حاصل کئے.حضرت فاطمہ نے ان کا ایک حصہ لے کر آٹا پیسا اور کھانا تیار کیا.عین کھانے کے وقت ایک مسکین نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا میں بھوکا ہوں.حضرت فاطمہ نے وہ سارا کھانا اُسے دے دیا.پھر باقی اناج کا کچھ حصہ جیسا اور کھانا پکایا.مگر اتنے میں ایک یتیم نے آ کر کھانے کا سوال کیا.چنانچہ وہ اُسے دے دیا گیا، پھر باقی اناج پیس کر جب کھانا تیار ہوا تو ایک اور سائل قیدی نے راہ خدا میں مانگا وہ سب کھانا اسے دے دیا گیا.غرض سب اہلِ خانہ نے اُس دن فاقہ کیا.اللہ تعالیٰ کو اُن کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ اس سارے گھر کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی.وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيمَا وَ أَسِيرًاO ”وہ اللہ کی راہ میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں.“ (سورت دھرآیت 8) (24) ایک مرتبہ حضور یہ حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے.دیکھا کہ دروازے پر ایک ریکمین پردہ لٹکا ہوا ہے.اور حضرت فاطمہ کے ،

Page 19

خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہراء 16 ہاتھ میں چاندی کے دو کنگن ہیں.آپ ملے یہ دیکھ کر واپس لوٹ گئے.حضرت فاطمہ کو جب رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی کا اندازہ ہوا تو فوراً دونوں چیزوں کو حضور ﷺ کی خدمت میں بھجوا دیا اور کہا کہ میں نے انہیں راہ خدا میں دے دیا.حضور یہ بہت خوش ہوئے اور اپنی بچی کے حق میں خیر و برکت کی دعا مانگی اور ان اشیاء کو بیچ کر قیمت اصحاب صفہ کے اخراجات میں ڈال دی.(25) ایک مرتبہ دو پہر کے وقت رسول کریم عمل بھو کے گھر سے نکلے.راستے میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ بھی مل گئے ، وہ بھی بھو کے تھے، تینوں حضرت ابو ایوب انصاری کے کھجوروں کے باغ میں پہنچے، انہوں نے فوراً کچھ کھجوریں تو ڑ کر پیش کیں اور پھر ایک بکری ذبح کر الله کے اس کا سالن تیار کروایا اور حضور ﷺ کی خدمت میں کھانا پیش کیا.رسول اللہ اللہ نے ایک روٹی پر تھوڑ اسا گوشت رکھ کر فرمایا کہ یہ فاطمہ کو بھیجوا دو انہیں کئی دن سے فاقہ ہے.“ (26) صلى الله غزوہ اُحد میں سرورِ دو عالم علیہ شدید زخمی ہو گئے اور ان کی شہادت کی خبر مشہور ہو گئی.حضرت فاطمۃ الزہراء دوسری چند خواتین کے ساتھ میدان احد پہنچیں.آپ ﷺ کو زندہ سلامت دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی.لیکن آپ نے کو زخمی دیکھ کر سخت غم زدہ ہو گئیں.پیشانی صلى الله

Page 20

خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراء 17 مبارک کا خون تھا کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا.حضرت فاطمہ نے کھجور کی چٹائی جلا کر زخم میں بھری تو خون بہنا بند ہوا.اس کے علاوہ بھی حضرت فاطمہ نے مختلف غزوات میں دوسری مسلمان خواتین کے ساتھ مل کر پانی پلانے اور زخمیوں کی تیمارداری کے فرائض سر انجام دیئے.حضرت فاطمہ الٹر ہرانہ کا سلوک اپنے قریبی رشتہ داروں سے مثالی تھا.آپ اپنی ساس جن کا نام بھی فاطمہ ہی تھا کی دل و جان سے خدمت کیا کرتی تھیں.خود ان کی ساس فرماتی ہیں کہ فاطمہ نے جتنی میری خدمت کی شاید ہی کسی بہو نے ساس کی اتنی خدمت کی ہو.تمام امہات المومنین کے ساتھ بھی ان کا سلوک محبت و احترام کا تھا اور ان سب کے ساتھ تعلقات نہایت خوشگوار تھے.الله حضرت اقدس ﷺ نے حضرت فاطمہ کی تربیت ایسی فرمائی تھی کہ ان کے دل میں انسانی ہمدردی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.گھر کے کام میں انتہائی مصروفیت کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی بہت خدمت کیا کرتیں تھیں اور پڑوسیوں کے دکھ درد میں ضرور شریک ہوئیں.ان کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا جو اسلام کا سخت دشمن تھا بعد میں وہ سلمان ہو گیا تو اس کے رشتہ داروں نے اس سے تعلقات ختم کر لئے.اسی زمانے میں اس کی بیوی کا انتقال ہو گیا.جب حضرت فاطمہ

Page 21

خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراء 18 کو اس کا علم ہوا تو اپنے ساتھ اپنی باندی فضہ کو لیا اور اس کے گھر گئیں اور وہاں پہنچ کر خود میت کو غسل دیا اور خود ہی کفن بھی دیا.(27) سرور دو عالم ﷺ حضرت فاطمۃ الزہراء سے بے پناہ محبت فرماتے تھے.آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فاطمہ میرے جسم کا ایک حصہ ہے جو اس کو ناراض کرے گا وہ مجھ کو ناراض کرے گا.صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت علیؓ نے نحور ا بنت ابو جہل سے نکاح کا ارادہ کیا.سیدہ النساء سخت آزردہ ہو ئیں.جب رسول کریم علیہ ان کے پاس تشریف لائے تو حضرت فاطمہ نے عرض کی یا رسول اللہ ہے صلى الله علی مجھ پر سوکن لانا چاہتے ہیں.حضور ﷺ کے دل پر سخت چوٹ صلى الله لگی.ادھر نحورا کے عزیز بھی حضور ﷺ سے اس نکاح کی اجازت لینے آئے.سرور کائنات ﷺے مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا:.صلى الله آلِ ہشام ( ابو جہل ) علیؓ سے اپنی لڑکی کی شادی کے لئے مجھے سے اجازت چاہتے ہیں لیکن میں اجازت نہ دوں گا البتہ ابن ابی طالب میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی لڑکی سے نکاح کر سکتے ہیں.فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے جس نے اس کو اذیت دی مجھ کو اذیت دی.(28) پھر فرمایا کہ ” میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے نہیں کھڑا ہوا لیکن خدا کی قسم ایک پیغمبر اور ایک دشمن خدا کی بیٹیاں ایک ساتھ جمع

Page 22

خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراء 66 نہیں ہوسکتیں.“ (29) 19 رسول اللہ اللہ ہمیشہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ کے تعلقات میں خوشگواری پیدا کرنے کی کوشش فرماتے تھے.چنانچہ جب حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ میں کبھی گھریلو معاملات کے متعلق نا رائستگی پیدا ہو جاتی تو آنحضرت علی نے دونوں میں صلح کروا دیتے تھے.ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ میں اللہ ان کے گھر تشریف لے گئے اور دونوں میں صلح کرا دی اور ان کے گھر سے بہت خوش نکلے.لوگوں نے پوچھا کہ آپ گھر سے گئے تھے تو اور حالت تھی اور اب آپ ملے اس قدر خوش کیوں ہیں؟ فرمایا میں نے ان دو اشخاص میں صلح کرا دی ہے جو مجھ کو محبوب تر ہیں.(30) رسول اللہ اللہ کو جیسے اپنی بیٹی سے محبت تھی ویسے ہی اپنے داماد اور نواسوں سے بھی بے حد پیار تھا.ان سے فرمایا کرتے تھے جن لوگوں سے تم ناراض ہو گئے میں بھی ان سے ناخوش ہوں ، جن سے تمہاری لڑائی ہے ان سے میری بھی لڑائی ہے، جن سے تمہاری صلح ہے ان سے میری بھی صلح ہے.حضرت علیؓ سے فرمایا کرتے تھے ” اے علی تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو.“ فاطمۃ الزہراء کے بیٹوں امام حسنؓ اور حسین کو رسول اللہ علہ نہایت محبت سے بوسے دیتے اور اپنے کندھوں پر اُٹھائے پھرتے تھے.(31)

Page 23

خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراء 20 سن 11 ہجری کو حضور اقدس ﷺ بیمار ہو گئے اسی بیماری سے آپ ﷺ کا وصال ہوا.بیماری کے دوران ایک دن حضرت فاطمہ حضور ﷺ کی مزاج پرسی کے لئے حضرت عائشہ صدیقہ کے حجرہ میں تشریف لائیں.حضور میں اللہ نے بہت محبت سے انہیں اپنے پاس بٹھا لیا اور ان کے کان میں آہستہ سے کوئی بات کہی جسے سُن کر وہ رونے لگیں.پھر رسول علیہ نے کوئی اور بات آہستہ سے ان سے کی جسے سن کر وہ ہنسنے لگیں.رسول خداﷺ کی وفات کے بعد ایک دن حضرت عائشہ کے پوچھنے پر حضرت فاطمہ نے فرمایا کہ پہلی دفعہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں اس مرض سے انتقال کروں گا اس پر میں رونے لگی اور پھر فرمایا میرے خاندان میں سے سب سے پہلے تم مجھ سے آ کر ملو گی.تو میں ہنسنے لگی..وفات سے پہلے جب بار بار آپ ﷺ پر غشی طاری ہوئی تو حضرت فاطمہ یہ دیکھ کر بیقرار ہو گئیں اور بولیں ” ہائے میرے باپ کی الله بے چینی ، آپ ﷺ نے فرمایا ” تمہارا باپ آج کے بعد بے چین نہ ہوگا.“ آپ ﷺ کا انتقال ہوا تو حضرت فاطمہ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا.نبی اکرم میلے کی تجہیز و تکفین کے بعد صحابیات اور صحابہ اکرام تعزیت کے لئے ان کے پاس آتے تھے لیکن انہیں کسی پل قرار نہ آتا تھا اسد الغابہ

Page 24

خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراء 21 میں لکھا ہے کہ ”جب تک زندہ ر ہیں کبھی تقسم نہیں فرمایا (32) صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ صحابہ نعش مبارک دفن کر کے واپس آئے تو حضرت فاطمہ نے حضرت انسؓ سے پوچھا کیا تم کو رسول اللہ اللہ پر خاک ڈالتے اچھا معلوم ہوا ؟ (33) آنحضرت ﷺ کی وفات کو چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ حضرت فاطمہ نے 3 رمضان 11 ہجری میں وفات پائی.اور رسول اللہ ﷺ کی یہ پیشگوئی کہ میرے خاندان میں سے سب سے پہلے تم ہی مجھ سے ملو گی پوری ہوئی.اس وقت حضرت فاطمہ کی عمر 20 سال تھی.حضرت فاطمہ کے مزاج میں انتہا کی شرم و حیا تھی.اس لئے ان کی وصیت کے مطابق جنازہ پر کھجور کی شاخیں باندھ کر او پر پردہ لگایا گیا اور چونکہ تدفین رات کے وقت ہوئی اس لئے بہت کم لوگوں کو شریک ہونے کا موقع ملا.حضرت علیؓ نے وصیت کے مطابق رات ہی کو دفن کیا.نماز جنازہ حضرت عباس نے پڑھائی.حضرت علی، حضرت عباس اور حضرت فضل بن عباس نے انہیں قبر میں اُتارا.حضرت فاطمہ کی قبر کے متعلق اختلاف ہے بعض مورخین کا خیال ہے کہ وہ جنت البقیع میں حضرت حسن کے مزار کے پاس دفن

Page 25

خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراء 22 ہوئیں.لیکن ابن سعد کی متعدد روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دار عقیل کے ایک گوشہ میں دفن ہوئیں.آج حضرت فاطمتہ الزہرانہ کی قبر متفقہ طور پر دار عقیل ہی میں سمجھی جاتی ہے.(35) حضرت فاطمہ کی پانچ اولاد میں تھیں.امام حسن، حسین محسن، اُم کلثوم اور زینب جن میں سے محسن بچپن ہی میں انتقال کر گئے.باقی بچوں نے اسلامی تاریخ میں اہم مقام حاصل کیا.حضرت فاطمۃ الزہراء سے اٹھارہ حدیثیں مروی ہیں.حضرت فاطمہ نے حضرت علی، حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ ، حضرت انس بن مالک ، حضرت ام ہانی اور حضرت ام سلمی جیسی جلیل القدر ہستیوں سے روایت کی ہے.حضرت فاطمۃ الزہرا ٹو انتیس برس کی مختصر زندگی گزار کر اللہ کو پیاری ہو گئیں.اُن کی مبارک زندگی کا ہر پہلو مسلمان خواتین کے لئے نیک نمونہ ہے.وہ اللہ کی راہ میں قربانیاں کرنے والی تھیں، عبادت گزار ، سخاوت کرنے والی اور صابر خاتون تھیں.وہ اپنے شوہر کی فرمانبردار تھیں اور ان کی خوشی اور رضا کا بہت خیال رکھتیں تھیں ، سب سے بڑھ کر آنحضور ﷺ کی اطاعت گزار اور فرمانبردار تھیں.وہ امانت دار، سچائی پر قائم رہنے والی اور رشتوں کا بہت ادب و احترام کرتی

Page 26

خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراء 23 تھیں.ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر عمل کرتے ہوئے ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کو بہت اچھی طرح سے ادا کر سکتے ہیں اور اپنی زندگیاں بہت خوبصورتی اور محبت سے گزار سکتے ہیں اور اس طرح اپنی دنیا اور آخرت سنوار سکتے ہیں.

Page 27

خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراء 24 (1) (2) (3) (4) (5) (6) (7) (8) (9) حوالہ جات ازواج مطہرات و صحابیات ( صفحہ 272) ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 273) سیرت فاطمۃ الزہراء صفحہ (32) تذ کار صحابیات (صفحہ 128) سیرت فاطمۃ الزہراء (صفحہ 34) سیرت فاطمۃ الزہراء (صفحہ 35) ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 277) تذ کارِ صحابیات (صفحہ 129 ) تذ کارِ صحابیات (صفحہ 129) (10) سیر الصحابیات جلد 6 ( صفحہ 102) (11) تذ کار صحابیات (صفحہ 132 ) (12) سیرت فاطمۃ الزہراء (صفحہ 50) (13) تذ کارِ صحابیات (صفحہ 133 ) (14) سیرت فاطمۃ الزہراء ( صفحہ 51) (15) تذ کار صحابیات (صفحہ 133)

Page 28

خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراء (16) تذ کارِ صحابیات (صفحہ 134) (17) سیر الصحابیات (صفحہ 106) (18) سیر الصحابیات (صفحہ 106) (19) سیرت فاطمۃ الزہراء (صفحہ 49) (20) تذ کار صحابیات (صفحہ 134) (21) سیرت فاطمۃ الزہراء (صفحہ 61) (22) تذ کارِ صحابیات (صفحہ 135) (23) سیرت فاطمۃ الزہراء (صفحہ 66) (24) تذ کار صحابیات (صفحہ 139) (25) تذ کار صحابیات (صفحہ 137) (26) تذ کار صحابیات (صفحہ 138) (27) سیرت فاطمۃ الزہراء (صفحہ 68) (28) (29) صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 787) صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 430) (30) سیر الصحابہ جلد 6 (صفحہ 110) (31) تذکار صحابیات (صفحہ 142) 25 25

Page 29

26 26 خاتون جنت حضرت فاطمتہ الزہراء (32) سیر الصحابیات (صفحہ 103) (33) سیر الصحابہ جلد 6 (صفحہ 103 ) (34) سیر الصحابہ (صفحہ 104) سیر الصحابہ جلد 6 ( صفحه 105 ) (35)

Page 29