Language: UR
بسلسلہ خلافت احمدیہ صد سالہ جو بلی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ رضی الله عنها بنت الله لجنہ اماء الله
حضرت فاطمہ رضی اللہ معا بنت اسد
بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جو بلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بنے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین
حضرت فاطمہ بنت اسد پیارے بچو! 1 حضرت فاطمہ رضی الله عنها بنت اسد والدہ حضرت علی رضی نہ معدہ آج ہم آپ کو ایک پیاری صحابیہ کے بارے میں کچھ باتیں بتائیں گے، جو اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ فخر کا باعث رہیں گی ، اور یہ ہیں حضرت فاطمہ بہت اسد - آپ سردار قریش ہاشم بن عبد مناف کی پوتی ، حضرت عبدالمطلب کی بھتیجی اور بہو، حضرت ابوطالب کی بیوی سرور کونین حضرت محمد ملنے کی چچی ، حضرت علی مرتضیٰ شیر خدا اور حضرت جعفر طیار ( شہید موتہ ) کی والدہ ماجدہ اور خاتون جنت سیدۃ النساء حضرت فاطمہ الزھراء کی ساس تھیں ، اسی طرح حضرت حسین اور حضرت حسنؓ کی دادی تھیں (1) حضرت فاطمہ کے والد اسد بن ہاشم ، رحمت دو عالم مے کے دادا حضرت عبدالمطلب بن ہاشم کے سوتیلے بھائی تھے.(2) اس طرح حضرت فاطمہ بنت اسد نے قریش کے معزز ترین گھرانے بنو ہاشم میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی.حضرت فاطمہ بنت اسد کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بچپن ہی
حضرت فاطمہ بنت اسد 2 سے بہت سی خوبیوں کی مالک تھیں.چنانچہ حضرت عبدالمطلب نے انہیں اپنی بہو بنانے کے لئے پسند کر لیا اور اپنے بیٹے عبد مناف (ابو طالب) سے اُن کا نکاح کر دیا.حضرت فاطمہ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ پہلی ہاشمی خاتون ہیں جن سے باضمی اولاد پیدا ہوئی اور اس طرح سے آپ عرب میں حسب نسب کے اعتبار سے بھی امتیازی درجہ رکھتی تھیں.حضرت فاطمہ اُن خوش نصیب ماؤں میں سے تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے نیک اولا د عطا فرمائی.وہ خود بھی صحابیہ تھیں اور اولاد نے بھی صحابی کا رتبہ پایا.اللہ تعالیٰ نے چار بیٹے اور تین بیٹیاں عطا فرمائیں.بیٹوں کے نام حضرت طالب ، حضرت عقیل ، حضرت جعفر اور حضرت علی مرتضیٰ اور بیٹیوں کے نام حضرت اُم ہانی ، حضرت جمانہ اور حضرت ربطہ تھے (3) آپ کی اولاد میں سب سے پہلے حضرت علی کو ایمان لانے کی توفیق ملی.جن کی عمر اُس وقت صرف بارہ سال تھی ، اور سب سے بڑارتبہ اور سعادت تو آپ کو خلفاء راشدین میں چوتھے خلیفہ بننے کی حاصل ہوئی جنگوں میں غیر معمولی بہادری کی وجہ سے شیر خدا کا عظیم اور بڑا خطاب بھی آپ کو ملا ایک اور سعادت اُس وقت نصیب ہوئی جب ہجرتِ مدینہ کے موقعہ پر آنحضرت ﷺ نے آپ کو اپنے بستر پر لٹا یا اور یہ مخالفت کا وہ وقت تھا جب کفار مکہ نے آپ ﷺ کے قتل کا وقت بھی مقرر کر لیا تھا.(4)
حضرت فاطمہ بنت اسد 3 حضرت فاطمہ کے دوسرے صاحبزادے حضرت جعفر طیار کو بھی اللہ تعالیٰ نے چھوٹی عمر میں ہی ایمان لانے کی اور پھر حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور سب سے بڑھ کر آپ کو جنگ موتہ کے موقع پر شہادت کا اعزاز نصیب ہوا.آپ کے تیسرے بیٹے حضرت عقیل نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا.حضرت فاطمہ کی ایک بیٹی امر بانی کے نام سے مشہور تھیں.اُن کا اصل نام فاختہ یا ھند تھا.اُن کا نکاح ہبیرہ بن ابی وہب سے ہوا تھا اور فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائیں تھیں.جب مشرکوں کو فتح مکہ کے موقع پر ام بانی نے اپنے گھر پناہ دی تھی اُن کو حضور اللہ نے بھی بنا دی تھی.نیز اس موقعہ پر آپ ﷺ ام ہانی کے گھر تشریف لے گئے اور نما زبھی پڑھی.آپ کو آنحضرت ﷺ سے محبت تھی.آپ بہت نیک اور عبادت گزار تھیں.تقریباً چھیالیس احادیث آپ نے بیان کی ہیں.حضرت اُم ہانی کو خدا کے فضل سے ایک بہت بڑارتبہ اس بات کا بھی ملا کہ جس رات آنحضرت علیہ کو معراج کا کشف ہوا تھا اُس رات آپ اللہ ان کے گھر آرام فرما رہے تھے بچھو اخدا کے نیک اور پاک انسانوں کو جب اللہ تعالیٰ نیند میں اور کچھ جاگتے ہوئے خود کوئی نظا را دکھاتا ہے تو اس کو کشف کہتے ہیں اور معراج کا واقعہ ایک بہت
حضرت فاطمہ بنت اسد 4 زبر دست روحانی کشف تھا جو آپ کو دکھایا گیا.بچھو ! ابھی تو تم چھوٹے ہونا! جب انشاء اللہ بڑے ہو جاؤ گے تو زیادہ اچھی طرح اور تفصیل کے ساتھ ان باتوں کو سمجھ جاؤ گے.ہاں ! ذکر ہو رہا تھا حضرت فاطمہ بنت اسد کی بیٹی امر بانی کا آپ نے غزوہ خیبر میں بھی حصہ لیا تھا اور جب (جنگ کا ) مال غنیمت تقسیم ہوا تو حضور ﷺ نے چالیس اونٹوں کے برابر غلہ آپ کو دیا تھا.(5) حضرت فاطمہ کی دوسری صاحبزادی جمانہ تھیں.ان کو بھی اسلام قبول کر کے صحابیہ کا درجہ ملا.آپ کی شادی ابوسفیان بن حارث بن عبد المطلب سے ہوئی تھی.جن سے حضرت جعفر بن ابی سفیان پیدا ہوئے.حضرت جمانہ کے لئے آنحضرت ﷺ نے پیداوار خیبر میں سے تمہیں وسق ( کھجور کا وزن ناپنے والا پیمانہ ) مقررفرما ئیں.(8) تیسری صاحبزادی رابطہ تھیں.جنہوں نے اسلام تو قبول کر لیا تھا.البتہ حالات زندگی کا زیادہ علم نہیں ہے.حضرت فاطمہ بنت اسد کے ایک صاحبزادے طالب بھی تھے جن کے نام پر اُن کے والد کی کنیت ابوطالب مشہور ہوئی.پیارے بچو! آؤ اب تمھیں حضرت فاطمہ بنت اسد کی اُس خوش نصیبی کی وہ کہانی سناتے ہیں جس کی وجہ سے آج بھی اور کل بھی
حضرت فاطمہ بنت اسد صل الله 5 اُن کا نام بلند رہے گا.یہ تو تم جانتے ہی ہونا کہ جب ہمارے پیارے صلى الله آقا سید نا حضرت محمد ے پیدا ہوئے تو آپ علی کے والد حضرت عبداللہ پہلے ہی وفات پاچکے تھے جب چھ برس کے ہوئے آپ ﷺ کی والدہ حضرت آمنہ بھی فوت ہو گئیں تب آپ مے کے دادا حضرت عبد المطلب نے اپنے اس پیارے سے پوتے کی بے حد محبت سے پرورش کی.لیکن ابھی صرف دو برس ہی گزرے تھے کہ اُن کی وفات ہو گئی.وفات سے قبل انہوں نے آپ ﷺ کو آپ ﷺ کے چچا ابو طالب کے سپر د کر دیا.صلى الله آپ ﷺ کے چچا ابو طالب اور آپ میﷺ کے والد عبد اللہ دونوں سگے صلى الله بھائی تھے.آپ میلے کے دادا نے وصیت کی تھی کہ اس بچے کا بہت خیال رکھنا.اس کو کوئی دکھ نہ ہو اور اسکی حفاظت کرنا.یہ بڑی شان والا بچہ ہے.ایک دن دنیا اس کی شان دیکھے گی ؟ حضرت ابو طالب نے اپنے باپ کی وصیت پر ساری زندگی عمل کیا.اور اس طرح جس حد تک بھی ممکن ہوا ان دونوں نے اس یتیم بچے کا بہت خیال رکھا.اگر چہ حضرت ابو طالب کے مالی حالات بہت اچھے نہ تھے.اور گھر میں بچے بھی زیادہ تھے.جب بھی آپ ﷺ کی بچی بچوں میں کوئی چیز تقسیم فرمائیں تو آپ میں نے کبھی لینے کے لئے آگے نہ بڑھتے بلکہ نہایت وقار کے ساتھ اپنی ہی جگہ پر خاموشی سے بیٹھے رہتے تھے اور یہ
حضرت فاطمہ بنت اسد مہربان چی حضرت فاطمہ خود ہی اُن کا حصہ اُن کو دیتی تھیں.اس ننھی عمر میں بھی ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی میں نے سلجھے ہوئے ، خاموش ، باوقار، بچے اور دیانت دار ہونے کے ساتھ ساتھ صلى الله بہت شرم اور حیا والے تھے.جب سارے بچے ایک دوسرے سے چھینا جھپٹی کر رہے ہوتے تو آپ ﷺ خاموشی سے ایک طرف بیٹھ جاتے.اور کبھی اپنا حصہ مانگنے کے لئے دوسرے بچوں سے لڑائیاں نہ کرتے اور اگر حصّہ مل جاتا تو کھا لیتے اور نہ ملتا تو تب بھی بُرا نہ مانتے.دراصل یہی وہ پیاری پیاری ادائیں ہی تھیں جن کی وجہ سے اس ننھے محمد (ع) کی حضرت فاطمہ کے گھرانے میں اس قدر عزت اور محبت پیدا ہوئی کہ سب کے سب آپ ﷺ پر ایمان لے آئے.گو کہ با قاعدہ حضرت ابوطالب نے بیعت نہ کی لیکن تمام تکالیف میں ساتھ دیا.(7) الله حضرت فاطمہ ا یک ماں کی طرح ، جس طرح مائیں اپنے بچوں کی تربیت کے لئے اُن پر کبھی زیادہ سخی بھی کر لیتی ہیں آپ آنحضرت علی پر سختی نہ کرتیں نہ ڈانٹتیں تھیں.بلکہ اکثر پیار اور محبت کا ہی سلوک فرماتی تھیں.اگر گھر میں بچے شور شرابہ کر رہے ہوتے تو آپ ﷺ ایک طرف خاموش بیٹھے رہتے.اس پر حضرت ابو طالب آپ اللہ کا بازو پکڑ لیتے اور کہتے "اے میرے بچے ! تو یہاں کیوں خاموش بیٹا ہے؟ اور پھر
حضرت فاطمہ بنت اسد آپ ﷺ کو لا کر حضرت فاطمہ کے پاس کھڑا کر دیتے اور کہتے :.تو بھی اپنی بچی سے چمٹ جا اور مانگ ! لیکن آنحضرت ﷺ نہ اُن سے چمٹتے اور نہ ہی مانگتے ، بلکہ حضرت فاطمہ صلى الله خود خیال سے اور محبت سے آپ ملے کو آپ کا حصہ دیتیں.(8) جب آنحضور ﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو شروع کے دنوں میں اس خاندان بنو ہاشم نے آپ ﷺ کا بہت ساتھ دیا اور ان میں سے اکثر مسلمان ہو گئے.جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ حضرت فاطمہ کے بیٹے حضرت علی ایمان لانے والے سب سے پہلے بچے تھے.اس عظیم الشان بچے نے آگے چل کر خلفائے راشدین میں سے چوتھے خلیفہ کا مقام بھی حاصل کیا ، خود حضرت فاطمہ بھی اسلام کے ابتدائی دنوں میں مسلمان ہو گئیں تھیں جب کہ ہر طرف سے کفار مکہ کی سختیاں اور ظلم بڑھتے چلے جا رہے تھے.آپ کے شوہر حضرت ابو طالب کے بارے میں ایک واقعہ سے پہ چلتا ہے کہ آپ کو اپنے بچوں کے مسلمان ہونے کی خوشی تھی کیونکہ جب ایک دن انہوں نے حضرت علی کو آنحضرت ﷺ کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے دیکھا تو اپنے دوسرے بیٹے حضرت جعفر سے فرمانے لگے کہ جاؤ تم بھی اپنے چچازاد بھائی (یعنی آنحضرت ﷺ کے ساتھ کھڑے صلى الله
حضرت فاطمہ بنت اسد 8 ہو کر نماز پڑھو اور اس طرح حضرت جعفر" کو بھی عبادت میں ایسا لطف آیا کہ جلد ہی مسلمان ہو گئے.جب مکہ کے کفار مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم کرنے لگے تو اللہ کے حکم سے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی.چنانچہ 5 نبوی اور 6 نبوی میں مسلمانوں کے دو قافلے مکہ کو الوداع کہہ کر حبشہ چلے گئے.ان مہاجرین میں حضرت فاطمہ بنت اسد کے فرزند حضرت جعفر اور اُن کی اہلیہ اسماء بنت عمیس بھی شامل تھے.حضرت جعفر اور آپ کی اہلیہ 7 ہجری میں غزوہ خیبر کے چند دن بعد مدینہ واپس تشریف لائے.روایات کے مطابق تب حضرت فاطمہ بنت اسد کی وفات ہو چکی تھی.اس طرح انہوں نے تا دم وفات اپنے بیٹے اور بہو کی جدائی برداشت کی.اسلام کی خاطر ابتدائی زمانے کی عورتوں نے بھی مردوں کے ساتھ ساتھ بڑی قربانیاں دی تھیں.آپ بھی ہر لحاظ سے ایسے عظیم الشان انسانوں میں ہمیں نظر آتی ہیں.آئیے ہم آپ کو ایک اور واقعہ بھی سناتے ہیں جس میں بوڑھی حضرت فاطمہ نے اپنے شوہر اور بھتیجے اور باقی مسلمانوں کے ساتھ بہت تکالیف برداشت کیں.یہ ہے شعب ابی طالب کا واقعہ ہوایوں کہ جب آنحضرت علی
حضرت فاطمہ بنت اسد 9 صلى الله کے دعوی نبوت کو سات سال ہونے لگے اور دشمنوں نے محسوس کیا کہ اب تو حد ہو گئی ہے یہ ہماری سختیوں اور ظلم کے باوجود تعداد میں بڑھ رہے ہیں تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ جب تک بنو ہاشم قتل کر کے آنحضرت علی کو ہمارے حوالے نہ کریں گے تب تک کوئی شخص اُن سے تعلق نہ رکھے گا.نہ ان کے پاس کوئی چیز فروخت کی جائے گی اور نہ ہی رشتے کئے جائیں گے وغیرہ اور یہ سب کچھ لکھ کر اپنے اپنے دستخط کر کے یا انگوٹھے کے نشان لگا کر خانہ کعبہ کے دروازے پر لٹکا دیا.جب اس واقعہ کا علم حضرت ابو طالب کو ہوا تو وہ خاندان بنو ہاشم اور اُن کے بھائی حضرت مطلب کی اولاد کو ساتھ لے کر اپنے خاندانی درہ یا ( گھائی) جس کو شعب ابی طالب کہتے تھے.وہاں پر آنحضرت عﷺ اپنے خاندان والوں کے ساتھ رہے.حضرت فاطمہ نے بھی اُن تکالیف کو با وجود بڑی عمر کے صبر اور حوصلے کے ساتھ برا دشت کیا.اور کسی قسم کی پریشانی اور گھبراہٹ کا اظہار نہ کیا.الله ان تین سالوں میں حضرت ابو طالب کو آنحضرت ﷺ کی حفاظت کا بہت خیال رہتا تھا اور آپ اکثر آنحضرت ﷺ کے بستر پر اپنے کسی بیٹے یا کسی اور رشتہ دار کو سلا دیتے.تا کہ خدانخواستہ اگر کبھی دشمن حملہ کرے تو آپ مے کو کوئی نقصان نہ پہنچے بلکہ اس کے بدلے
حضرت فاطمہ بنت اسد 10 میں بے شک اُن کا اپنا بیٹا مارا جائے.یہ تھا ضعیف ابو طالب اور بوڑھی فاطمہ کی ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی علیہ سے محبت اور وفا کا اظہار.الله بچو! ذکر ہو رہا تھا شعب ابی طالب میں کٹنے والے سخت ترین تین سالوں کا ، جن میں ہماری پیاری حضرت فاطمہ بنت اسد بھی سب کے ساتھ بہت حوصلے کے ساتھ شریک رہیں.اور جب یہاں سے رہائی ملی تو حضرت ابو طالب کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی اور آپ نے 10 نبوی میں وفات پائی.اور آپ کو اپنے پیارے شوہر کی جُدائی دیکھنی پڑی.لیکن ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی عملے نے اپنی محسنہ چچی کا بہت خیال رکھا.اور جب آپ ﷺ نے 13 نبوی میں خود ہجرت کی تو پہلے قافلے میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ آپ نے مدینہ ہجرت کر لی.(9) حضرت فاطمہ بنت اسد کو ایک اور بڑا اعزاز اس وقت ملا جب آپ کے پیارے بیٹے حضرت علی مرتضیٰ کی شادی آنحضرت ﷺ کی بے حد پیاری بیٹی حضرت فاطمۃ الزہراء سے ہجرت کے دوسال بعد ہوئی.اپنی اس شادی کے موقع پر حضرت علی نے ایک بہت پیاری بات اپنی والدہ سے کہی جو آج بھی تاریخ میں محفوظ ہے اور ہم سب کے لئے نمونہ ہے.آپ نے فرمایا:.صلى الله
حضرت فاطمہ بنت اسد صلى الله 11 66 ”اے میری ماں! فاطمہ بنت رسول ﷺ (ہمارے گھر ) آتی ہیں.میں پانی بھروں گا اور باہر کے کام کروں گا اور وہ چکی پینے اور آٹا گوندھنے میں آپ کی مدد کریں گی.دراصل اس بات کے ماں سے کہنے میں یہ حکمت تھی کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ نبی آخر الزماں ﷺ کی بیٹی گھر کے کام نہ کریں گی.بلکہ وہ ہر بیوی کی طرح خاوند کے اور سسرال کے حقوق ادا کرنے والی اور خدمت گزار ثابت ہوں گی انشاء اللہ.چنانچہ روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت فاطمتہ الزھراء نے گھر کے کام کاج کرنے میں بھی عار محسوس نہ کیا.اور بہت سخت سخت محنت کر کے گزارہ کیا.اپنی ساس کی بھی بھر پور خدمت کی (10) آنحضرت ﷺ کو اپنی چچی سے بہت محبت تھی.اور آپ ملے ان کے گھر بے تکلفی سے تشریف لے جاتے اور آرام فرماتے اور کئی بار اُن کی شفقت و شرافت اور دوسری خوبیوں کی تعریف فرماتے.صلى الله پیارے بچو! یقیناً آپ منتظر ہوں گے کہ آپ سے جو وعدہ کیا تھا کہ تصویر کا دوسرا رخ بھی آپ کو دکھا ئیں گے ، وہ کیا ہے؟ پہلا تو آپ نے یہ دیکھا کہ کس طرح ایک عورت نے ماؤں والی شفقت و محبت کے صلى الله ساتھ محسن انسانیت ﷺ کی بچپن میں خدمت کی اور خیال رکھا اور اب
حضرت فاطمہ بنت اسد 12 دیکھیں کہ کس طرح اس پیارے آقا اللہ نے اپنی چچی کے احسانات کا کتنا بڑا بدلہ دیا کہ جس کی وجہ سے آج ہر انسان حضرت فاطمہ کو انتہائی رشک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے.ہوا یوں کہ جب ہجرت کے چند سال بعد حضرت فاطمہ نے وفات پائی اور آنحضرت میلے کو آپ کے فوت ہونے کی خبر ملی تو آپ ملے سخت غمگین ہو گئے اور آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور فوراً اُن کے گھر پہنچے اور میت کے سرہانے کھڑے ہو کر محبت سے فرمایا:.”اے میری ماں ! اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی بارشیں آپ پر نازل فرمائے ، آپ میری والدہ کے بعد میرے لئے ماں کا درجہ رکھتی تھیں.آپ خود بھو کی رہتیں اور مجھے جی بھر کے کھلایا.خود معمولی کپڑے پہنے مجھے اچھا لباس پہنایا ! خود عمدہ کھانے سے ہاتھ روکے رکھتیں اور مجھے وہ کھانا دے دیتیں.بلا شبہ آپ نے یہ حسنِ سلوک اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے کیا“.پھر جب میت کو غسل دے دیا گیا تو آخر میں کافور والا پانی آپ میلہ نے اپنے ہاتھ سے ڈالا ، اپنا کرتہ دیا یہ پہنا دو.اور کفن کے اوپر اپنی چادر ڈال دی.یہی نہیں بلکہ جب جنت البقیع ( مدینہ میں مسلمانوں کے قبرستان کا نام ہے ) میں صحابہ نے قبر تیار کر دی تو آپ علیہ خود قبر میں اُترے اور لحد کے لئے مٹی اپنے مبارک ہاتھوں سے نکالی.(لحد اُس جگہ کو
حضرت فاطمہ بنت اسد 13 کہتے ہیں جو قبر کے لئے کھودی جاتی ہے ) جب لحد مکمل کھود لی تو آنحضرت علیل اللہ خود اس میں لیٹے اور حضرت فاطمہ کی مغفرت کی ان الفاظ میں دعا کی.”اے اللہ ! جو زندگی اور موت دیتا ہے.خود زندہ ہے اور کبھی فوت نہیں ہو گا.الہی ! میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے ! اس کی قبر کو تاحد نگاہ فراخ کر دے ! بلا شبہ تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے.“ صلى الله پھر آپ ﷺ نے جنازہ پڑھانے کے بعد انہیں لحد میں اتارا.حضرت عباس اور حضرت ابو بکرؓ نے بھی آپ کی مدد فرمائی.کہتے ہیں کہ صحابہ کرام نے جب یہ منظر دیکھا تو بہت ہی تعجب سے پوچھا کہ ہم نے اس سے پہلے آپ ﷺ کو کسی بھی وفات پر اس طرح کا عمل کرتے نہیں دیکھا؟ آپ نے ارشادفرمایا :- چچا ابو طالب کے بعد سب سے زیادہ اس عظیم خاتون نے میرے ساتھ حسن سلوک کیا.میں نے اپنی قمیض اس لئے پہنائی تا کہ جنت میں اسے ریشمی لباس پہنایا جائے.لحد میں اس لئے لیٹا تا کہ قبر میں آسانی میسر آ جائے“ (11) ایک روایت میں ہے کہ اس موقعہ پر آنحضرت ﷺ نے یہ بھی
حضرت فاطمہ بنت اسد 14 فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ستر ہزار فرشتوں کو فاطمہ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے.السابقون الاولون میں حضرت فاطمہ بنت اسد ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں.رسول پاک ﷺ کی سچی اور منہ بولی ماں کی حیثیت سے آپ کا مقام بہت بلند ہے.بے شک جس خاتونِ مبارک کو ماں کا لقب ملا ہو اور جس کی آخری آرام گاہ کو رسول پاک نے کا پاکیزہ جسم چھوا ہو اس کی بڑی شان کا کون اندازہ کر سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو اور اپنی رحمت کی بارش اُن پر برسائے.بے شک وہ دنیا جہان کی خواتین کے لئے ایک عمدہ نمونہ ہیں.اللہ تعالی ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
حضرت فاطمہ بنت اسد 15 حوالہ جات ا تذکار صحابیات از طالب باشمی ( صفحه 148) 2 ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا ( صفحہ 311 ) تذکار صحابیات از طالب باشی ( صفحه 148) -3 -4 _5 -6 ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا ( صفحہ 311 ) صحابیات طیبات (صفحہ 535 ) سیارہ ڈائجسٹ صحابیات نمبر ( صفحہ 272 ) - تذکار صحابیات از طالب ہاشمی (صفحه 149) تفسیر کبیر ( صفحه 256 ) _8 _9 تذکار صحابیات از طالب ہاشمی ( صفحه 150 ) -10 - ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا ( صفحہ 311) صحابیات طیبات (صفحہ 25,31,32 )
حضرت فاطمہ بنت اسدا (Hadhrat fatima bint asad") Urdu Published in UK in 2008 Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.