Fatima Bint Khatab

Fatima Bint Khatab

حضرت فاطمہ ؓ بنت خطاب

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ صحابہ و صحابیات رسول اللہ ﷺ

Book Content

Page 1

بسلسلہ خلافت احمدیہ صد سالہ جو بلی حضرت فاطمہ رضی الله عن بعت خطاب م رضی لجنہ اماء الله

Page 2

حضرت فاطمہ رضی الا معها بنت خطاب

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لوصد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بنے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 4

حضرت فاطمہ بنت خطاب پیارے بچو! حضرت فاطمہ رضی اللہ عما بنت خطاب ستارے کتنے خوبصورت ہوتے ہیں! نظر پڑتے ہی دل میں روشنی اور نور کا ایک عجیب احساس جگا دیتے ہیں ، وہ نور اور روشنی سے اندھیری راتوں میں اُجالا کرتے ہیں اور مسافر اپنی منزل پر رواں دواں رہتے ہیں.نظر آسمان کے ستاروں سے نیچے آئے تو اس دنیا میں بھی کچھ لوگ ستاروں کی طرح ہیں، جو خاک کے ذرے بن کر زمین پر رہتے ہیں، لیکن آسمان کی اعلیٰ ترین بلندیوں پہ یوں جگمگاتے ہیں کہ اُن کی نورانی کرنوں سے اک جہاں روشن رہتا ہے.رسول پاک معدہ کی صحابیہ حضرت فاطمہ بنت خطاب ایسا ہی ایک چمکتا ہوا ستارہ ہیں جو رسول پاک ﷺ کی محبت کے نور سے فیض یاب ہو ئیں.آپ نے سمعنا واطعنا ( میں نے سنا اور اطاعت کی ) پر عمل کرتے ہوئے نہ کوئی دلیل مانگی ، نہ تصدیق چاہی، بلکہ ایک آواز پر حضور نے پر ایمان لے آئیں.اس طرح پر حضرت فاطمہ بنت خطاب شروع میں اسلام قبول کرنے والی خواتین میں شامل ہوئیں.صلى الله

Page 5

حضرت فاطمہ بنت خطاب 2 حضرت خدیجہ کے بعد جن خواتین نے اسلام قبول کیا وہ أم الفضل ( حضرت عباس بن عبد المطلب کی بیوی ) اسمانا بنت ابو بکڑا اور فاطمہ بنت خطاب تھیں.آپ کے ساتھ آپ کے شوہر حضرت سعید بن زید نے بھی اسلام قبول کیا ، آپ دونوں کے ایمان لانے کے وقت صرف چھیں آدمی مسلمان ہوئے تھے.حضرت سعید بن زید ایسے جلیل القدر صحابی تھے جن کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے.جنہیں دنیا میں جنت کی خوشخبری سے نوازا گیا.حضرت فاطمہ بنت خطاب قریش کے خاندان بنو عدی سے تعلق رکھتی تھیں.حضرت عمر فاروقی کی بہن تھیں جو مکہ میں بہتر حیثیت اور مقام رکھتے تھے.آپ کا سلسلہ نسب کعب بن لوئی پر سرور کائنات سرکار دو عالم حضرت محمد ملے سے جاملتا ہے.آپ کے والد کا نام خطاب بن ثقیل اور والدہ کا نام ضحہ بنت باشم ہے.(1) صلى الله یہ حضور ﷺ کی بعثت کا ابتدائی زمانہ تھا.حضور ع ، ابوبکر صدیق صلى الله اور چند صحابہ خانہ کعبہ میں تشریف لائے اور حضور ﷺ کی اجازت سے لوگوں کو دعوت اسلام دینے لگے.جب حضرت ابو بکر صدیق نے ان لوگوں کو بتوں کی پوجا چھوڑ کر تو حید کی طرف متوجہ کیا ، تو انہوں نے

Page 6

حضرت فاطمہ بنت خطاب غصہ میں آکر نہایت بے دردی سے ان افراد کو مارنا شروع کر دیا خاص طور پر ان کے تشدد اور ظلم و ستم کا نشانہ حضرت ابو بکر صدیق ہی تھے.ایک دفعہ عتبہ بن ربیعہ جو سردارانِ قریش میں بڑا مقام رکھتا تھا.وہ اس قدر غصے میں آیا، کہ اس نے حضرت ابو بکر صدیق کے چہرہ مبارک پر اپنے سخت تلے والے جوتے سے پے در پے ضر ہیں لگا ئیں اور پھر ان کے پیٹ پر چڑھ کر کودتا رہا.اس مار پیٹ سے حضرت ابوبکر صدیق شدید زخمی ہو کر بے ہوش ہو گئے.تو آپ کے خاندان والوں نے قسم کھائی کہ اگر ابوبکر زندہ نہ بچے تو ہم انتقاماً عتبہ بن ربیعہ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے.دشمن کے منصوبے کچھ اور تھے تقدیر کچھ اور فیصلہ کر چکی تھی.جب حضرت ابو بکر صدیق کو ہوش آیا تو سب سے پہلے جو الفاظ زبان مبارک سے نکلے وہ یہ تھے:.وو رسول اللہ ملنے کا کیا حال ہے؟“ یہ سن کر بنی تمیم کے لوگ ( جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ) طعنے دینے لگے کہ اس حالت میں بھی محمد نے کا خیال نہیں چھوڑتے.اسی غصہ میں وہ سب اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے اور جاتے وقت حضرت ابو بکر کی والدہ ، ام الخیر کو کہہ گئے کہ تم خود ہی اس کی دیکھ بھال اور تیمارداری کرو جب یہ لوگ چلے گئے، تو اُم الخیر نے آپ کو کھانے کے لئے کہا.والدہ کے بے حد اصرار کے باوجود آپ نے

Page 7

حضرت فاطمہ بنت خطاب 4 کچھ نہ کھایا نہ پیا.بار بار یہی پوچھتے کہ رسول اللہ علیہ کس حال میں ہیں.ام الخیر جو ابھی مسلمان نہیں ہوئی تھیں ہر دفعہ یہی کہتیں خدا کی قسم مجھے تمہارے ساتھی کی کچھ خبر نہیں.ادھر حضرت ابو بکر کو ایک ہی فکر لاحق تھی کہ رسول اللہ نے کس حال میں ہیں.انہوں نے اپنی والدہ کو کہا کہ وہ ایک خاتون ام جمیل کے پاس جائیں.بیٹے کی بیقراری کو دیکھ کر آپ کی والدہ ام جمیل کے پاس پہنچیں اور کہا کہ:.ابو بکر سخت پریشان ہیں اس نے تم سے صلى الله محمد ( ) بن عبد اللہ کا حال پو چھا ہے" ام جمیل بڑی دور اندیش اور معاملہ فہم تھیں ان کو یہ پتہ تھا کہ صلى الله اُم الخیر ا بھی اسلام نہیں لائیں.اس لئے انہیں محمد ملنے کا پتہ اور خبر نہ دی اور خود ابوبکر کے پاس جانے کو تیار ہو گئیں.ام جمیل نے جب ابوبکر کو اس قدر زخمی اور شدید تکلیف کی حالت میں دیکھا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.اور دکھ سے آپ کے منہ سے یہ الفاظ نکلے:.خدا کی قسم جن لوگوں نے آپ سے یہ سلوک کیا ہے وہ کافر اور فاسق ہیں مجھے امید ہے اللہ تعالی ضرور ان سے بدلہ لے گا ؟ پھر انہوں نے بھی حضرت ابو بکر سے کچھ کھانے پینے کی التجا کی مگر

Page 8

حضرت فاطمہ بنت خطاب حضرت ابو بکر نے یہی جواب دیا کہ پہلے رسول اللہ ﷺ کا حال بتاؤ.ام جمیل نے کہا آپ کی والدہ سن لیں گی.حضرت ابو بکر انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمانے لگے کہ ” تم میری ماں کی طرف سے خطرہ محسوس نہ کرو.آپ کی والدہ کی طرف سے مطمئن ہو کر ام جمیل نے کہا:.صلى الله الحمد للہ رسول خدا علی بخیر و عافیت ہیں ، آپ فکر نہ کریں.حضور یہ اس وقت دار الارقم میں موجود ہیں.“ حضرت ابوبکر کہنے لگے:.صلى الله خدا کی قسم جب تک رسول اللہ ﷺ کو دیکھ نہ لوں گا ، کچھ نہ کھاؤں گا ، نہ پیوں گا ! الله پس آپ کی یہ محبت اور اصرار دیکھتے ہوئے ام جمیل اور اُم الخیر حضرت ابو بکر صدیق کو سہارا دیتی ہوئی نکل کھڑی ہوئیں اور دار الارقم میں سرور کائنات علی کی خدمت میں لے گئیں.سرکار دو عالم حضرت ابو بکر کو دیکھتے ہی آگے بڑھے اور انہیں گلے سے لگایا اور پیشانی چوم لی.یہ منظر دیکھا تو وہاں موجود صحابہ پر رقت طاری ہوگئی.اسی دوران حضرت ابو بکر کو اپنی والدہ کا خیال آیا.ایک محبت بھری نظر اپنی ماں پر ڈالی اور رحمت اللعالمین کی طرف دیکھ کر فرمایا :."یا رسول الله الله امیری مادر محسنہ (اُم الخیر) 66 کی ہدایت کے لئے دعا کریں.“

Page 9

حضرت فاطمہ بنت خطاب الله حضور ﷺ نے اس وقت دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لئے.اللہ کے خاص کرم سے حضرت ابو بکر کی والدہ بھی ایمان لے آئیں.یہ ام جمیل فاطمہ بنت خطاب ہیں ( اُمّ جمیل آپ کی کنیت تھی ) یہ وہ اعتماد و اعتقاد تھا جو حضرت ابو بکر صدیق جیسے عظیم صحابی کو حضرت فاطمہ کی ذات پہ تھا.(2) جس زمانہ میں فاطمہ بنت خطاب اسلام اور رسول پاک ﷺ کی محبت میں ڈوب چکی تھیں ، اس زمانہ میں ان کے نامور بھائی عمر بن خطاب دینِ حق کی مخالفت میں پیش پیش تھے.فاطمہ بنت خطاب کو خدا سے محبت ، توحید کے اقرار اور محبوب خدا کو سچا مرسل ماننے کے اقرار میں آزمائشوں سے گزرنا پڑا مگر ہر ایک آزمائش میں کندن (سونا) بن کر نکلیں.یہ حضرت فاطمہ کا استقلال اور اخلاص ہی تھا جس نے ایک دن رض عمر کو عمر بن خطاب سے فاروق اعظم بنا دیا.صلى الله یہ بعثت نبوی کا چھٹا سال تھا جب فاطمہ کے بھائی عمر بن خطاب ایک روز ہاتھوں میں تلوار لئے گھر سے اس ارادہ سے نکلے کہ محمد نے کو نعوذ بااللہ قتل کر کے ہی چھوڑیں گے.ان کے اس ارادے کی یہی وجہ بتائی جاتی ہے کہ جب سرکار دو عالم کے چچا، حضرت حمزہ مسلمان ہوئے تو مشرکین قریش کو بڑی بھاری ضرب لگی ، انہوں نے مشتعل ہو کر ایک مجمع اکٹھا کیا جس میں ابو جہل نے اپنی تقریر میں محمد عدلیہ کو قتل کرنے والے کو

Page 10

حضرت فاطمہ بنت خطاب بطور انعام سوسرخ اونٹ اور چالیس ہزار درہم نقد دینے کا اعلان کیا.عمر بھی اس مجمع کے شرکاء میں سے تھے.انعام کا لائی تو نہ تھا، البتہ اپنے زور بازو پر بڑا ناز تھا ! اسی وجہ سے جوش میں آئے اور سب کے سامنے با آواز بلند کہا:.لات و عری کی قسم جب تک محمد (ﷺ) کو قتل نہ کرلوں گا زمین پر نہ بیٹھوں گا.“ صلى الله حضرت حمزہ کے قبولِ اسلام کے بعد سرکار دو عالم محمد ﷺ کے دل میں شدت سے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ خدا قریش کے دوستونوں عمر و بن ہشام ( ابو جہل ) اور عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کو دولت ایمان سے سرفراز فرمائے.آپ علی کی اسی دعا کا اثر تھا کہ اللہ نے عمر بن خطاب کو اسلام کا دست و باز و بنانے کے لئے چن لیا.اس دعا کے دوسرے دن ہی حضرت عمر حضور ﷺ کو نعوذ باللہ) قتل کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلے.حضرت نعیم بن عبد اللہ (جو اس وقت خفیہ طور پر اسلام قبول کر چکے تھے ) نے عمر کو ہاتھ میں تلوار اُٹھائے دیکھا تو پوچھا عمر ! کہاں کا ارادہ ہے؟ جواب دیا، آج میں اس شخص کو قتل کرنے جارہا ہوں جس نے نبی ہونے کا دعوی کر کے قریش کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے.یہی نہیں بلکہ ہم

Page 11

حضرت فاطمہ بنت خطاب 8 سب کو احمق قرار دے کر ہمارے بتوں کو بُرا کہا ہے اور ہمارے دین میں کیڑے ڈالے ہیں.اس پر حضرت نعیم نے کہا ”عمر یہ بڑا خطرناک کام ہے تم سخت غلط فہمی میں ہو.خدا کی قسم اگر تم محمد الے کو قتل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو کیا عبد مناف تمہیں زمین پر چلنے پھرنے کے لئے زندہ چھوڑیں گے ؟ عمر نے کہا : " مجھے کسی کا ڈر نہیں مگر مجھے تو لگتا ہے نعیم تم نے بھی صلى الله اپنا آبائی دین چھوڑ دیا ہے اور محمد ﷺ کا دین اختیار کر لیا ہے.کیوں نہ تمہاری خبر پہلے لے لوں.“ یہ سنتے ہی حضرت نعیم نے عمر سے کہا میری خبر لینے سے پہلے اپنی بہن اور بہنوئی کی فکر کرو.فاطمہ اور سعید دونوں مسلمان ہو چکے ہیں میری نسبت تم پر اُن کا زیادہ حق ہے نعیم بن عبد اللہ کی اس جرات اور بے با کی پر عمر شدید غصے میں آگئے.سید ھے بہن کے گھر پہنچے.دروازہ بند تھا، اندر حضرت خباب بن الارت ہاتھ میں ایک صحیفہ لئے انہیں قرآن کریم کی تعلیم دے رہے تھے.عمر نے ان کی آواز سن لی اور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ، حضرت فاطمہ سمجھ گئیں کہ یہ عمر ہیں؟ انہوں نے حضرت خباب بن الارث کو گھر کے پچھلے حصہ میں دھکیل دیا اور قرآن پاک کے صفحات کو

Page 12

حضرت فاطمہ بنت خطاب جلدی سے سمیٹ کر نہایت جرات و بہادری سے آگے بڑھیں اور دروازہ کھول دیا.حضرت عمرؓ غصے میں بھرے ہوئے کمرہ کے اندر داخل ہوئے.حضرت فاطمہ جان ہتھیلی پر رکھے ان کا مقابلہ کرنے کو تیار کھڑی تھیں.حضرت عمر نے زور دار آواز میں پوچھا میں سن چکا ہوں تم دونوں نے محمد ﷺ کا دین اختیار کر لیا ہے.اتنا کہہ کر حضرت عمر نے اپنے بہنوئی حضرت سعید بن زید کو گھیرے میں لے لیا اور مارنا شروع کر دیا.حضرت فاطمہ شوہر کے بچاؤ کے لئے آگے بڑھیں تو خود بھی حضرت عمر کی زد میں آگئیں.دونوں لہولہان ہو گئے ، حضرت فاطمہ نے بڑی دلیری سے کہا: ” تم نے جو سنا ہے، سچ سنا ہے! ہم خدا اور اس کے صلى الله رسول ﷺ پر ایمان لے آئے ہیں ، جو کر سکتے ہو کر لو ہم دین حق کو نہیں چھوڑیں گے ! ایک اور روایت میں حضرت فاطمہ نے یہ کہا:.”بھائی بہن کو بیوہ کیوں کرتے ہو؟ بیشک پہلے مجھے ہلاک کر ڈالو الیکن اب دین حق دل سے نہیں نکل سکتا انہیں نکل سکتا ! ہمارا خاتمہ صلى الله دین محمد ﷺ پر ہی ہوگا ! بہن کے اس مضبوط ایمان کے اظہار واقرار سے عمر حیران رہ گئے اور ایک ایسے لمحے کی زد میں آگئے جو خدا کی قدرت سے رسول پاک میں نے

Page 13

حضرت فاطمہ بنت خطاب 10 کی دعا کی قبولیت کا ثمر تھا.بہن کے خون آلود چہرے پر نظر پڑتے ہی حضرت عمرؓ کا دل ہل کر رہ گیا.کچھ دیر خاموش رہے، حضرت فاطمہ اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے ایک داعی کا کام کر چکی تھیں.دل میں وہ درد تھا جس نے حضرت عمرؓ کو دین حق سے آشنا کر دیا.حضرت عمرؓ جان چکے تھے کہ اتنا ظلم، اتنا صبر اور اتنا تشد و سہہ کر بھی جو اپنے رستہ سے ہٹنے کا نام نہیں لیتا وہ ضرور خود بھی سچا ہے اور وہ رستہ بھی سیدھا ہے جس پر وہ چل رہا ہے.آپ نے کہا:.فاطمہ اب پڑھو جو تم پڑھ رہی تھیں !‘ حضرت فاطمہ نے اپنے جسم سے خون صاف کیا.بعد از وضو کلام اللہ کی آیات تلاوت کرنا شروع کیں.خوش الحانی اور سوز و کیف سے حضرت عمر یہ وجد طاری ہو گیا، آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی شمع سے شمع جل چکی تھی ، حضرت عمر کلام الہی کے سحر میں گرفتار ہو چکے تھے.ان کا دل پگھلتا جا رہا تھا اور وہ یکسر بدل چکے تھے.قرآن کی آیات سنتے ہی ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے.غرض آپ کے دل کی دنیا کو جس طرح بدلنا اور پھلنا پھولنا تھا اس کا بیج حضرت فاطمہ کے بے خوف بیان نے ڈال دیا تھا.تلاوت سننے کے بعد دل میں تجسس پیدا ہوا حضرت عمر نے آگے بڑھ کر اوراق کو ہاتھوں میں لینا چاہا.حضرت فاطمہ کے دل میں قرآن کا بے حد نقدس

Page 14

حضرت فاطمہ بنت خطاب 11 تھا.فوراً بولیں کہ کلام اللہ کو ہاتھ لگانے سے پہلے غسل کرو.حضرت عمرؓ اس راہ حق پر چلنے کا پکا ارادہ کر چکے تھے فورا غسل کیا.باوضو ہو کر قرآن اٹھا کے بڑے احترام اور محبت سے سورۃ طہ کی تلاوت شروع کر دی.پھر دار الارقم پہنچ کر دروازے پر دستک دی.دروازہ کھلا حضرت عمرؓ بے تابانہ اندر داخل ہوئے حضور علیہ نے بڑھ کر حضرت عمرؓ کی چادر پکڑ کر فرمایا ابن خطاب کیوں؟ کس ارادے سے آئے ہو؟ حضرت عمرؓ الله نے جواباً کہا ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے کے لئے حاضر ہوا ہوں حضور یا اللہ میری بیعت لیجئے.یہ سن کر فرما مسرت سے حضور مدیا ہے نے اللہ اکبر کہا.صحابہ نے مل کر جوش ایمان میں اس طرح نعرہ تکبیر بلند کیا کہ مکہ کی پہاڑیاں تکبیر کی آواز سے گونج اٹھیں..تاریخ اسلام کا یہ اہم ترین واقعہ اس حوالے سے بھی نمایاں ہے کہ حضرت فاطمہ نے غیر معمولی بہادری اور ایمانی جرات سے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر بھائی کے سامنے توحید و رسالت کا اقرار کیا.یہ حضرت فاطمہؓ کا ہی حصہ ہے.بعثت کے تیرھویں سال جب رسول اکرم ﷺ کے حکم سے سلمانوں کے قافلے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے لگے تو حضرت فاطمہ بھی اپنے شوہر حضرت سعید بن زید کے ہمراہ پہلے ہجرت والے مہاجرین

Page 15

حضرت فاطمہ بنت خطاب 12 کے قافلے میں شامل ہوئیں اور حضرت ابولبابہ انصاری کے گھر قیام کیا.مدینہ منورہ میں حضرت فاطمہ بنت خطاب اسلامی معرکوں میں شریک ہونے لگیں اور اسلام کے قلعے کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنے لگیں.حضرت فاطمہ نے بہت سی احادیث بیان کیں.حضرت فاطمہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ میری اُمت اس وقت تک خیر و برکت میں رہے گی جب تک ان میں دنیا کی محبت غالب نہیں آئے گی.علماء، اللہ کے نافرمان اور قراء ( قرآن مجید پڑھنے والے ) جاہل اور ظالم نہ بن جائیں.اگر دنیا اور فسق و فجوران میں غالب آگیا تو مجھے اندیشہ ہے کہ وہ عذاب کی لپیٹ میں آجائیں گے.(3) حضرت فاطمہ نے اپنے بھائی حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں وفات پائی.اُمّ جمیل، حضرت فاطمہ بنت خطاب علم وفضل کے لحاظ سے بڑے بلند مرتبہ پر فائز تھیں.وہ نہایت عقل مند تھیں ، نیک کاموں میں پیش پیش رہتی تھیں ،شر سے کراہت کرتی تھیں، نیکی کا حکم دیتیں اور برائیوں سے روکتی تھیں.(4) بے شک فاطمہ بنت خطاب کا شمار ایسی قابل فخر ہستیوں میں ہوتا ہے جن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا.

Page 16

حضرت فاطمہ بنت خطاب دانه -2 13 حوالہ جات سیرت خاتم النبین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب (صفحہ 124) دور نبوت کی برگزیدہ عورتیں (صفحہ 207 تا209) سیارہ ڈائجسٹ صحابہ نمبر (صفحه 161-165) صحایات طیبات (صفحہ 210-219 اور صفحہ 631 -3 -4

Page 17

حضرت فاطمہ بنت خطار (Hadhrat Fatima bint Khatab) Urdu Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.

Page 17