Language: UR
جماعت کے مخالفین اپنی دوکانداری چمکانے کے لئے جھوٹ اور دھوکے کو بھی جائز اور مرغوب سمجھتے ہیں، جیسا کہ ایک معاند منظور چنیوٹی تھا، یہ شخص امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ کے سامنے کھڑا ہوا، اور پھر وقت نے گواہی دی کہ یہ شخص نہ صرف جھوٹ کا عادی تھا، بلکہ اپنی مسلسل ناکامی اور نامرادی کے باعث بے حس ہوچکا تھا، جماعت احمدیہ کا تو اپنےامام ہمام کے زیر سایہ عالمگیر ترقیات کا سفر جاری و ساری رہا ،اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز کے شائع کردہ اس مختصر کتابچہ میں تاریخی حقائق کے ساتھ مولوی منظور چنیوٹی کے مباہلہ کے حوالہ سے تاریخ محفوظ کی گئی ہے۔
000000 0000000000000000000000000000000000 مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (آلمان) فتح مباهله ذیتوں کی مار شر
زَمَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير (الان) فتح مباهله اد دنتوں کی مار مولوی منظور چنیوٹی صاحبنے پھر تے مباہلہ کانفرنس میں شرکت کی مرقه : المنج - على
©1991 ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD.ISBN 1 85372 459 9 Published by: Islam International Publications Ltd.Islamabad, Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, U.K.Printed by: Raqeem Press, Islamabad, U.K.l
صفح ۱۷ ۲۰ ۲۳ ۲۴ M ۲۸ نمبر شمار عنوان ۲ L ا.عرض ناشر مباہلہ کی دعوت سر بازار گولی انڈیکس اٹڈی ہے ہر اک سمت سے " تذلیل “ کی برسات" پنجاب اسمبلی میں تاریخی ، مستند اور محفوظ تشنیع آئین اور ملک دشمنی مباہلہ اور الہی تقدیر کا ایک اور وار جماعت احمدیہ کا سورج اب کے مار ہر اک میداں میں دیں تو نے فتوحات "
انی معين انی من 33 من اراد اعانتک اراد اهانتک ( الهام حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کچھ تو سوچو ہوش کر کے کیا یہ معمولی ہے بات جس کا چرچا مٹ کر رہا ہے ہر بشر اور ہر دیار گئے چیلے تمہارے ہو گئی حجت تمام اب کبو کس پر ہوئی اے منکر و لعنت کی مار (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)
عرض ناشر قبل ازیں میری کچھ خط و کتابت مولوی منظور چنیوٹی صاحب سے ہوئی تھی.جس سے ثابت ہوا کہ مولوی صاحب جھوٹ کو سچ اور شکست کو فتح قرار دینے کے عادی ہیں.وو اب محترم ایچ علی صاحب کا یہ مضمون ” فتح مباہلہ یا ذلتوں کی مار " میری نظر سے گزرا تو میں نے اسے کتابی شکل میں شائع کرنے کا ارادہ کیا تاکہ خواص و عوام میں سے ہر منصف مزاج شخص منظور چنیوٹی صاحب کی اصل حیثیت اور حقیقت کو جان سکے اور ان کا جھوٹا ہونا ہر ایک کو حقائق کے آئینہ میں نظر آجائے.والسلام خاکسار سید صدق المرسلین خادم ساؤتھال - برطانیہ ناشر: «فتح مباہلہ یا ذلتوں کی مار "
بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود هو الناصر خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ مثال مشہور ہے کہ ایک طاقتور نے ایک کمزور کو مارا تو اس کمزور نے اپنی کمزوری کو چھپانے اور اپنی جھوٹی انا اور اکثر کو قائم رکھنے کیلئے تن کر کہا ' اب کے مار “ اس نے پھر تراخ سے لگائی.اس نے سنبھل کر پھر کہا اب کے مار اس نے پھر مارا.اس نے پھر کہا اب کے مار....وہ مارتا جاتا اور یہ ہر بار یہی کہتا ، اب کے مار قارئین نے سنا ہو گا کہ مولوی منظور چنیوٹی صاحب نے پھر امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ الودود کو مباہلہ کی دعوت دی ہے.(نوائے وقت لاہور ۲۶ فروری ۱۹۹۱ء اور روزنامه پاکستان لاہور ۲۶ فروری ۱۹۹۱ء ) قارئین کو علم ہو گا کہ مولوی منظور چنیوٹی صاحب ایک عرصہ سے اپنی دوکانداری کو چمکانے کے لئے ایسے اعلان کرتے چلے آ رہے ہیں جو ہمیشہ ہی صدا بصحرا ثابت ہوئے ہیں.چنانچہ ان کی یہ دعوت مباہلہ بھی ان کے ماتھے پر نامرادیوں کے داغوں میں مزید اضافے کا موجب ہو گی.بہرحال یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے کہ وہ ان سے کس طرح نمٹتا ہے.جہاں تک ماضی کا تعلق ہے گزشتہ سالوں میں ان کی جو سیاہ روئی ہوئی وہ پاکستان کے کسی فرد سے پوشیدہ نہیں بلکہ اس کی بازگشت یورپ کی فضاؤں میں بھی بکثرت سنی گئی.یہاں کے اخبارات نے بھی ان کی ذلتوں کو صفحہ قرطاس پر ہمیشہ کے لئے محفوظ کیا.معزز قارئین ! قبل اس کے کہ مولوی صاحب مذکور کی ان رسوائیوں کا دفتر کھولیں ، ہم ان رسوائیوں کی اصل وجہ کی طرف آپ کی توجہ منعطف کرنا چاہتے ہیں.
مباہلہ کی دعوت امر واقعہ یہ ہے کہ سید نا حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ ۱۰ جون ۱۹۸۸ء کو تمام اشتد ترین معاندین احمدیت اور آئمہ ا لتکفیر کو یکطرفہ دعوت مباہلہ دی جو عمومیت کا رنگ رکھتی تھی اور جس جس حلقہ میں شرائط کے مطابق دعوت قبول کی جاتی معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا جاتا.اس عمومی دعوت مباہلہ کو حسب شرائط قبول کر کے خصوصیت کا رنگ دینے کی بجائے منظور احمد چنیوٹی نے روزنامہ جنگ لاہور ۱۷ - اکتوبر ۱۹۸۸ء صفحہ اول کالم نمبر ۴ ۵ میں جوابی چیلنج کے طور پر یہ اعلان شائع کروایا.ور گلے سال ۱۵ - ستمبر تک میں تو ہوں گا.قادیانی جماعت زندہ نہیں رہے گی.مولانا منظور احمد چنیوٹی کا جوابی چیلنج.ریوه - ( نامہ نگار ) مسلم کالونی ربوہ میں ساتویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس ختم ہو گئی....مولانا منظور احمد چنیوٹی نے کہا کہ میں نے ۱۵ - ستمبر کو مرزا طاہر احمد کے مباہلے کا چیلنج قبول کیا تو ایک قادیانی نے مجھے کہا کہ تم ۱۵ - ستمبر ۱۹۸۹ء تک زندہ نہیں رہو گے.انہوں نے کہا کہ میں اس سٹیج سے اعلان کرتا ہوں کہ میں ۱۵.ستمبر ۱۹۸۹ء تک زندہ رہوں گا تاہم قادیانی جماعت اس وقت تک زندہ نہیں رہے گی." اس کے جواب میں حضرت امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے بڑی تحدی سے فرمایا."إنشاء اللہ تعالٰی تمبر آئے گا اور ہم دیکھیں گے کہ احمدیت نہ صرف زندہ ہے بلکہ زندہ تر ہے ہر زندگی کے میدان میں پہلے سے بڑھ کر زندہ ہو چکی ہے.منظور چنیوٹی اگر زندہ رہا تو اس کو ایک ملک ایسا دکھائی نہیں دے گا جس میں احمدیت مرگئی ہو.اور کثرت سے ایسے ملک دکھائی دیں گے.جہاں احمدیت از سرنو زندہ ہوئی ہے یا احمدیت نئی شان کے ساتھ داخل ہوئی ہے اور کثرت کے ساتھ مردوں کو زندہ کر رہی ہے.ا پس ایک وہ اعلان ہے جو منظور چنیوٹی نے کیا تھا اور ایک یہ اعلان ہے جو میں آپ
کے سامنے کر رہا ہوں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے خدا کی خدائی میں یہ بات ممکن نہیں ہے کہ منظور چنیوٹی سچا ثابت ہو اور میں جھوٹا نکلوں.منظور چنیوٹی جن خیالات اور عقائد کا قائل ہے وہ بچے ثابت ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو عقائد ہمیں عطا فرمائے ہیں آپ اور میں جن کے علمبردار ہیں یہ عقائد جھوٹے ثابت ہوں.اس لئے یہ شخص بڑی شوخیاں دکھاتا رہا اور جگہ جگہ بھاگتا رہا اب اس کی فرار کی کوئی راہ اس کے کام نہیں آئے گی اور خدا کی تقدیر اس کے فرار کی ہر راہ بند کر دے گی.اور اس کی ذلت اور رسوائی دیکھنا آپ کے مقدر میں لکھا گیا ہے.انشاء اللہ تعالی." خطبه جمعه فرموده ۱۵ - نومبر ۱۹۸۸ء) جب حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ پر جلال اور پر شوکت اعلان شائع ہوا تو اس کے دو ماہ پانچ دن بعد روزنامہ جنگ لاہور کی ۳۰ جنوری ۱۹۸۹ء کی اشاعت میں ۲.اکتوبر ۱۹۸۸ء کو ربوہ میں ہونے والی ختم نبوت کانفرنس میں ربوہ کے نامہ نگار کے حوالہ سے ایک خبر شائع ہوئی جس میں کہا گیا کہ مولانا چنیوٹی نے کہا ہے کہ قادیانی جماعت ۱۵.ستمبر ۱۹۸۹ء تک ختم ہو جائے گی جس کے بارے میں مولانا منظور احمد چنیوٹی نے دعوی کیا کہ انہوں نے ۱۵.ستمبر ۱۹۸۹ء تک صرف مرزا طاہر احمد کے ختم ہو جانے کی بات کی تھی ساری قادیانی جماعت کی " نہیں." مولوی صاحب مذکور کا یہ اعلان ان کے کھلے کھلے اعتراف شکست کی بڑی واضح دلیل ہے جس کو حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ الودود نے الم نشرح کرتے ہوئے.فرمایا..اس ( مولوی منظور چنیوٹی صاحب) نے یہ اعلان کیا ہے کہ ۱۵ ستمبر سے پہلے لازما مر جاؤں گا...یہ بالکل جھوٹ ہے.آپ لوگ وہ خطبہ سن چکے ہیں جس میں میں نے کہا تھا اس شخص نے یہ اعلان کیا ہے کہ جماعت احمدیہ ۱۵.ستمبر تک زندہ نہیں رہے گی اور
! - جماعت احمد یہ دنیا سے نیست و نابود ہو جائے گی اور جب میں نے اس خطبے میں اس کو پکڑا تو اس کے کچھ عرصہ بعد اس نے یہ اعلان کیا کہ مرزا طاہر زندہ نہیں رہے گا.جماعت احمدیہ کو میں کیسے مار سکتا ہوں.اس نے کم سے کم اتنا تو اپنی شکست کا اعتراف کر لیا کہ دنیا میں کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا جو جماعت احمدیہ کو مار سکے اور اب خود اس بات کو الٹا کر تیسرا جھوٹ یہ بنالیا کہ گویا میں نے یہ کہا تھا کہ یہ ۱۵.ستمبر تک مرجائے گا.تو جن کے مباہلے کی بناء جھوٹ پر ہو وہ تو جھوٹے ثابت ہو گئے پھر اور کونسا مباہلہ باقی ہے." معزز قار یکین ! مولوی صاحب کی بوکھلاہٹ ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نے اپنے سابقہ بیان کی تصحیح کرتے ہوئے ایک ایسا بیان دے دیا جو معلوم ہوتا ہے خدا تعالٰی نے اپنی خاص تقدیر کے تحت انہیں دینے پر مجبور کیا.چنانچہ انہوں نے اپنے اس پہلے بیان کی جو روزنامہ جنگ لاہور کی ۱۷ اکتوبر کی اشاعت میں شائع ہوا تھا ، ایسی تصحیح کی جو نہ وہ کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی وہ درست تھی.ان کے اس تصحیح شدہ بیان کا ذرا تجزیہ کریں تو دو باتیں سامنے آتی ہیں.جماعت احمد یہ دنیا سے نہیں ملے گی.-۲- مرزا طاہر احمد ۱۵ ستمبر ۱۹۸۹ء تک ختم ہو جائیں گے.( نعوذ باللہ ) جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے اس میں تو مولوی صاحب کا اعتراف شکست نمایاں ہے اور ساتھ اس یقین کا اظہار ہے کہ جماعت احمد یہ خدائے قادر و توانا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے جو بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.دوسری بات جو انہوں نے بیان کی اس میں انہیں یہ امید تھی کہ ۱۵ جنوری ۱۹۸۹ء سے ۱۵ ستمبر ۱۹۸۹ء تک چند ماہ میں ایک فرد واحد کا ختم ہو جاتا حد امکان سے باہر نہیں.چنانچہ انہوں نے اس مذموم اور موہوم امید پر سہارا لینا ہی اپنی عافیت جانا.اب سوال یہ ہے کہ مولوی صاحب نے حضرت مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز کے ۱۵ ستمبر ۱۹۸۹ء تک ( نعوذ باللہ ) ختم ہو جانے کی بات کی تھی تو کیا وہ بات -l خدا تعالی سے خبر پا کر کی تھی ؟ یا
-r خود تعلی کرتے ہوئے یہ بڑہانکی تھی ؟ اول صورت میں تو واضح ہے کہ خدا تعالی کی طرف سے خبر پا کر انہوں نے یہ بات نہیں کی تھی کیونکہ ان کی بات کا حرف حرف قطعی طور پر جھوٹا نکلا.جماعت احمد یہ بھی خدا تعالی کی تائید کے دوش پر ہر ملک اور ہر دیار میں ترقی کر رہی ہے اور اس کے امام حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ الودود کی عزت و مکرمت کو خدا تعالی روز افزوں بڑھا رہا ہے.لہذا دوسری صورت ہی حتمی اور قطعی ہے کہ مولوی صاحب نے اپنی طرف سے تعلی کرتے ہوئے حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی موت کی پیشگوئی کی تھی کہ وہ ۱۵ ستمبر ۱۹۸۹ء تک ختم ہو جائیں گے پس اول تو ایسی من گھڑت پیشگوئی کرنا ہی پیشگوئی کرنے والے - کے افتراء کا ثبوت ہے اور پھر اس تعلی کا عملاً جھوٹا ثابت ہو جانا اور واقعات کا کلیتہ اس کے برخلاف رونما ہو جانا اس کے قطعی طور پر کذاب ہونے کی دلیل ہے..ان کے علاوہ جو تیسری بات ان کے اس بیان سے ثابت ہوتی ہے یہ ہے کہ انہوں نے حضرت امام جماعت احمدیہ کی ۱۵ ستمبر تک موت کا اعلان کر کے صاف طور پر مباہلہ میں اپنے فریق ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی.ان کے اعلان کی طرز ہی فریقین میں مباہلہ کے SET ہو جانے کی کھلی کھلی دلیل ہے جس سے مولوی صاحب کیلئے نہ انکار ممکن ہے نہ گریز.پس منظر کے اس مختصر بیان کے بعد حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے اس اعلان کو ایک بار پھر تو جہ سے دیکھئے ! آپ نے فرمایا :- " یہ اعلان ہے جو میں آپ کے سامنے کر رہا ہوں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے خدا کی خدائی میں یہ بات ممکن نہیں ہے کہ منظور چنیوٹی سچا ثابت ہو اور میں جھوٹا نکلوں.منظور چنیوٹی جن خیالات اور عقائد کا قائل ہے وہ بچے ثابت ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو عقائد ہمیں عطا فرمائے ہیں آپ اور میں جن کے علمبردار ہیں یہ عقائد جھوٹے ثابت ہوں.....یہ شخص بڑی شوخیاں دکھاتا رہا اور جگہ جگہ بھاگتا رہا.اب اس کے فرار کی کوئی راہ اس کے کام نہیں آئے گی اور خدا کی
۱۲ تقدیر اس کے فرار کی ہر راہ بند کر دے گی اور اس کی ذلت اور رسوائی دیکھنا آپ کے مقدر میں لکھا گیا ہے." (خطبہ جمعہ فرموده ۲۵ نومبر ۶۹۸۸) اس اعلان میں حضرت مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بڑے روشن اور نمایاں الفاظ میں یہ خبر دی تھی کہ مولوی منظور چنیوٹی صاحب اگر زندہ رہیں گے تو ذلتوں کے لئے ہی زندہ رہیں گے.ان کو جتنی عمر ملے گی وہ ہمیشہ ان کی نامرادیوں اور بدبختیوں کی ہی آئینہ دار ہو گی.اب دیکھئے کہ یہ نوشتہ تقدیر کس طرح پورا ہوتا ہے اور خدا کی تقدیر جو ہمیشہ مامورین کو فتح و نصرت سے سرفراز فرماتی ہے اور ان کے مخالفوں کو ہر بار ناکامیوں اور نامرادیوں سے ہمکنار کرتی ہے کسی طرح مولوی صاحب مذکور کو ذلتوں کا ہار پہناتی ہے ، ایسا ہار جس کا ہر منکا ایک الگ نوعیت کی ذلت کی عکاسی کرتا ہے.000
سر بازار گولی مولوی منظور چنیوٹی صاحب نے اسلم قریشی کی گمشدگی پر بار بار یہ اعلان کیا کہ اس کے پس پردہ جماعت احمدیہ کی سازش کار فرما ہے.اس بنیاد پر انہوں نے جو جھوٹے بیانات دیئے اور مفتریانہ کاروائیاں کیں وہ انہیں کو زیب دیتی ہیں.بلکہ اس افتراء پردازی میں وہ اس قدر اندھے ہو گئے کہ یہ اعلان کر دیا کہ : مجاہد اسلام مولانا اسلم قریشی کی گمشدگی کے سلسلہ میں مرزا طاہر احمد کو شامل تفتیش کیا جائے.انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کو چھ آدمیوں کے نام تفتیش کے لئے دیئے تھے جن میں مرزا طاہر احمد بھی شامل ہے.اگر ان چھ میں ملزم بر آمد نہ ہو تو ہم سیر بازار گولی کھانے کو تیار ہیں." (نوائے وقت لاہور - ۱۸ فروری ۶۱۹۸۴ ) اسلم قریشی کو پہلے اغواء شدہ اور پھر مقتول قرار دے کر اس کی متعدد مرتبہ نماز ہائے جنازہ غائب پڑھ دی گئیں اور نہ جانے کتنے جلسے کئے گئے ، کتنے جلوس نکالے گئے ، کتنی تحریکیں چلائی گئیں اور ہنگامے برپا کئے گئے اور معصوم احمدیوں کی جانوں ، مالوں اور جائیدادوں کو نقصان پہنچایا ، مساجد مسمار کیں.پھر اچانک کیا ہوا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ الوروو کے مباہلہ کے اعلان کے ٹھیک ایک ماہ بعد وہ مبینہ مقتول زندہ ہو کر سامنے آگیا.سارے ملک میں اس واقعہ کی تشہیر ہوئی.ملک کے اخباروں اور ٹیلیویژن نے اسے نمایاں طور پر پیش کیا.شرفاء نے معاندین احمدیت پر لعنتیں ڈالیں.اس سلسلہ میں اخبارات کے چند اقتباسات آپ کے سامنے پیش ہیں:.(1) روزنامہ جنگ لاہور نے مورخہ ۱۳.جولائی ۱۹۸۸ء کو صفحہ اول پر یہ سرخی دیتے ہوئے لکھا: مولانا اسلم قریشی ۵ ساله "پر اسرار گمشدگی کے بعد ایران سے وطن واپس آگئے گھریلو پریشانیوں ، مذہبی عقائد اور ملکی حالات سے دلبرداشتہ ہو گیا تھا.دو سال پہلے گھر والوں کو اپنے بارے میں خط بھی لکھا تھا ، مجھے علم نہ تھا کہ میرے لئے اتنی بڑی تحریک چل سکتی ہے.(مولانا اسلم قریشی) " لاہور ( رپورٹنگ ڈیسک) مولانا اسلم قریشی ۵ سال تک روپوش رہنے کے بعد دو روز
۱۴ قبل اچانک پاکستان واپس آگئے.انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب مسٹر نثار چیمہ نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں مولانا اسلم قریشی کی موجودگی میں بتایا....مولانا کی کہانی یہ ہے کہ وہ گھریلو پریشانیوں کی وجہ سے اور کچھ اپنے مذہبی عقائد کی وجہ سے ملک سے چلے گئے ان کا خیال یہ تھا کہ وہ اس ملک میں اپنے مذہبی عقائد کے مطابق نہیں رہ سکتے اور نہ ہی وہ کچھ کر سکتے ہیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں.ہمیں انہوں نے جو کچھ بتایا اس کے مطابق یہ اپنی ذہنی پریشانی کے سبب یہاں سے نکلے اور ۵۴ ماہ بعد ایران پہنچے.ہم نے ان کے بیٹے اور بھائی کو بلایا کہ وہ شناخت کرلیں کہ آیا یہ واقعی مولانا اسلم قریشی ہی ہیں.انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے انہیں کسی ایک ملک یا محدود علاقے میں نہیں ڈھونڈا ہمیں جہاں بھی اطلاع ملی ہم نے انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی اس کے نتیجے میں یہ پتہ چل گیا کہ یہ ایران میں ہیں لیکن اب یہ اپنی مرضی سے اسی طرح واپس آگئے ہیں جس طرح یہ اپنی مرضی سے چلے گئے تھے اور یہ سب سے پہلے ہمارے پاس ہی آئے ہیں.ان کی واپسی کا ہمیں اس وقت ہی پتہ چلا جب یہ ہمارے پاس واپس پہنچے." (۲) روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۱۳ جولائی کے شمارہ میں صفحہ اول پر تین کالی سرخی کے ساتھ یہ خبر شائع کی." مولانا اسلم قریشی ساڑھے پانچ سال کی گمشدگی کے بعد اچانک واپس آگئے.نا مساعد گھر یلو حالات اور ناموافق ماحول کی وجہ سے سکون کی تلاش میں ایران چلا گیا تھا.قادیانیوں کو پریشان کرنے کے لئے غائب نہیں ہوا.(مولانا اسلم قریشی) لاہور ۱۳ جولائی (نمائندہ خصوصی) تحریک ختم نبوت کے کارکن اور سیالکوٹ کے عالم دین ، مولانا محمد اسلم قریشی کا معمہ حل ہو گیا اور ساڑھے پانچ سال گم رہنے کے بعد اسلم قریشی خود پاکستان پہنچ گئے.انہوں نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا...ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اسلم قریشی نے کہا کہ میں خود اس لئے گم نہیں ہوا کہ قادیانی اقلیت کو پریشان کروں " (۳) روزنامہ مشرق لاہور نے ۱۳.جولائی ۱۹۸۸ء کے شمارہ میں صفحہ اول پر ۸ کالمی سرخی میں مندرجہ ذیل خبر شائع کی.-
۱۵ عالم اسلام کی پر اسرار گمشدگی کا معتہ ڈرامائی انداز میں حل ہو گیا.مبلغ خستم نبوت مولانا محمد اسلم قریشی سوا پانچ سال بعد بر آمد ہو گئے.مولانا نے اچانک لاہور میں پیش ہو کر انتظامیہ کو حیرت میں ڈال دیا.مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا.میں اپنی مرضی سے ایران چلا گیا تھا." (۴) روزنامہ مت لندن نے ۱۴ جولائی ۸۸ء کے شمارہ میں درج ذیل خبر دی.ساڑھے پانچ سال سے لاپتہ مولانا اسلم قریشی ڈرامائی انداز میں پولیس کے سامنے پیش ہو گئے.ان کے اغوا اور قتل کے الزامات قادیانی جماعت پر لگائے گئے تھے.مولانا اسلم قریشی کو ٹیلیویژن پر پیش کیا گیا.لاہور (قمت رپورٹ) مولانا اسلم قریشی انتہائی ڈرامائی انداز میں لاہور آکر ڈی.آئی جی کے سامنے پیش ہو گئے....انہوں نے خود کو ڈی آئی جی کے حوالے کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں کسی نے اغوا نہیں کیا تھا اور وہ اپنی مرضی سے دل برداشتہ ہو کر ایران چلے گئے تھے.انہوں نے کہا کہ انہیں کسی نے اغوا نہیں کیا تھا وہ اپنی مرضی سے گئے اور مرضی سے واپس آئے ہیں.بعد میں انہیں ٹیلیویژن پر پیش کیا گیا جس میں انہوں نے اپنا موقف دہرایا کہ وہ اپنی مرضی سے ملک سے باہر چلے گئے تھے.ڈی آئی جی لاہور نے کہا کہ مولانا اسلم قریشی کے اغوا میں کسی فریق کا ہاتھ نہیں تھا.مولانا نے مزید کہا کہ وہ کسی منصوبہ بندی یا قادیانیوں کے خلاف تحریک کو تیز کرنے کی سازش کے تحت ایران نہیں گئے تھے." اس عظیم الشان نشان ، جس کا حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنے مباہلہ کے چیلنج میں خاص طور پر ذکر کیا تھا ، چیلنج کے ایک ماہ بعد ہی غیر معمولی عظمت کے ساتھ ظاہر ہو جانا اور قتل کے جھوٹے الزام میں حضرت امام جماعت احمدیہ کی بریت کو اظہر من الشمس کر دینا اور پھر خدا تعالی کا اسے اتنی تشہیر دینا کہ پاکستان کے ٹیلیویژن میں خبروں میں اور تمام اخبارات میں اس کے چرچے ہونا
14 وغیرہ وغیرہ.صرف اور صرف خدا تعالٰی کا کام نہیں تو اور کس کا ہے؟ کیا انسان میں یہ طاقت تھی کہ اپنے زور سے اپنی صداقت کا کوئی ایسا نشان بنا سکے ؟ پس کوئی بتائے کہ مولوی اسلم قریشی کی اچانک بازیابی سے مولوی منظور چنیوٹی کی ذلت میں اب کونسی کسر باقی رہ گئی ہے ؟.اس صورتحال میں کوئی صاحب حیا انسان ہوتا تو چلو بھر پانی میں ڈوب مرتا یا سربازار گولی کھا کر مرجاتا مگر نہ تو منظور چنیوٹی صاحب نے اپنے عہد کے مطابق سر بازار گولی کھائی اور نہ ہی انہیں کچھ شرم آئی.حتی کہ ان کی خوابیدہ شرم کو پنجاب اسمبلی میں جھنجھوڑا بھی گیا جیسا کہ روزنامہ جنگ یکم مارچ ۱۹۸۹ء میں پنجاب اسمبلی کی شائع شدہ کارروائی میں خواجہ محمد یوسف صاحب رکن اسمبلی کے درج ذیل بیان سے ظاہر ہے جب انہوں نے بھرے ایوان میں کہا کہ مولانا چنیوٹی نے اس سے قبل کہا تھا کہ مولانا اسلم قریشی کو قادیانیوں نے غائب کیا ہے.اگر اسلم قریشی مل جائیں تو میں اپنے آپ کو پھانسی دے دوں گا.اسلم قریشی مل گئے لیکن مولانا چنیوٹی نے اپنے آپ کو پھانسی نہیں دی." مولوی صاحب نے سربازار بندوق کی گولی تو نہیں کھائی مگر خدا تعالٰی کی تقدیر کی گولی انہیں اس روز بر سر عام لگ گئی تھی جس روز وہ مبینہ مقتول زندہ ہو کر سامنے آ گیا تھا.فَاعْتَبَرُ وا يَا أُولِي الأَبْصَار ! 000
14 اٹری ہے ہر اک سمت سے ”تذلیل " کی برسات مولوی منظور چنیوٹی صاحب نے خدا تعالٰی کے پاک مسیح کے خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ بنصرہ المؤزر کی دعوت مباہلہ کو کیا قبول کیا گویا شیر کی کچھار میں اترنے کی کوشش کی.اس کے نتیجہ میں ان پر جو تذلیل کی برسات انڈی ، اس کا نظارہ دیدنی ہے اور پھر جس طرح ہر حلقہ اور ہر طبقہ فکر نے ان کے سر پر خاک ڈالی ہے اس کی داستان عبرت انگیز ہے.حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ بنصرہ الموزر نے ۱۰ جون ۱۹۸۸ء کو دعوتِ مباہلہ دی تھی.ملاحظہ فرمائیں کہ ہر بیان جو ذیل میں درج کیا جائے گا وہ اس تاریخ مباہلہ یعنی ۱۰ جون ۱۹۸۸ء کے بعد کا ہے کہ جب منظور چنیوٹی صاحب نے اسے قبول کر کے اپنی ذلتوں کو دعوت دی.اپنے دست راست عقیدت مند کی نظر میں ان کا مقام کیا ہے.ملاحظہ ہو:- محمد یار شاہد جو منظور چنیوٹی کے دست راست تھے ، نے ان کے بارے میں بیان دیا :- " محمد یار شاہد نے کہا کہ اگر اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے تو اہم انکشافات کروں گا جس سے ان پر دہ نشینوں کے اصل کرتوتوں سے شہریوں کو آگاہی ہو گی.....محمد یار شاہد نے ہمارے نمائندہ کو بتایا کہ عنقریب ایک پریس کانفرنس میں دستاویزی ثبوت فراہم کریں گے کہ اسلام کے یہ نام لیوا اور پر وہ کیا ہیں ؟ یاد رہے کہ محمد یار شاہد مولانا منظور احمد کا قریبی عقید تمند تھا." ڈیلی بزنس رپورٹ فیصل آباد ۳۶ ستمبر ۱۹۸۸ء ) حلقہ مولویاں اور قریبی ساتھیوں کی نظر میں منظور چنیوٹی کا مقام قاری یا مین گوہر صاحب نے زیر عنوان ” منظور چنیوٹی نے محض چندہ بٹورنے کے لئے ختم نبوت کا لیبل لگا رکھا ہے " چنیوٹ میں جلسہ سے خطاب کیا اور کہا :- مولوی منظور احمد گھگھی چنیوٹی ان دونوں تنظیموں میں سے کسی کے کارکن یا مبلغ نہیں لیکن اس شخص نے محض چندہ بٹورنے کے لئے اپنے اوپر مبلغ ختم نبوت کا لیبل لگایا ہوا ہے...اس پر طرہ یہ کہ اس نے بعض مسلمانوں کے خلاف فتویٰ لگا کر علماء اسلام کے
خلاف نفرت کا بیج بویا." " اللہ یار ارشد نے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا جو روزنامہ حیدر میں بعنوان ” پنجاب اسمبلی میں مولانا منظور چنیوٹی کا کردار ملت اسلامیہ کی رسوائی کا سبب بنا " شائع ہوا :- مولانا منظور احمد چنیوٹی نے ختم نبوت کے نام کو بیچ کر قوم سے ووٹ حاصل کئے اور پنجاب اسمبلی میں جا کر جو مذموم کردار ادا کیا وہ پوری ملت اسلامیہ کے لئے رسوائی کا سبب بینا.انہوں نے کہا قوم کے ساتھ یہ دھوکہ بازی ہم ہرگز نہیں چلنے دیں گے.مولانا اللہ یار ارشد نے کہا کہ جھوٹ اس کا مشن ہے دھو کہ اس کا پیشہ ہے اور صوبائی اسمبلی میں معافی مانگ کر اس شخص نے ختم نبوت کے پروانوں کے سرجھکا دیئے ہیں.انہوں نے کہا کہ ختم نبوت کے نام پر قوم سے چندہ بٹور کر اس نے اپنی ذاتی جاگیریں اور ڈیرے بنائے ہوئے ہیں." روزنامه حیدر راولپنڈی یکم نومبر ۱۹۸۸ء صفحه ۲) دانشور طبقے میں مولوی صاحب کی حیثیت ملاحظہ ہو ملک کے نامور شاعر اور دانشور علامہ سید محسن نقوی نے کہا مولانا چنیوٹی اپنے علاقہ میں مذہبی منافرت پھیلانے اور فرقہ وارانہ تعصب کے زہر سے فضا کو مکدر کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں.علامہ محسن نقوی نے مطالبہ کیا کہ منظور احمد چنیوٹی کو اس کے غیر شریفانہ رویہ کی بناء پر اسمبلی کی رکنیت سے خارج کیا جائے." روزنامه مساوات ۲۳ - دسمبر ۶۱۹۸۸ ) اب دیکھئے علماء کونسل کے نزدیک یہ کیا ہیں.لکھا ہے "پاکستان علماء کونسل ملک میں مذہب کے نام پر سیاسی دوکانیں چمکانے والے تاجر ملاؤں کا محاسبہ کرے گی.مولوی منظور احمد چنیوٹی عملاً اسمبلی کی رکنیت کھو چکے ہیں اور اب وہ صرف چنیوٹ کے کھال فروش قصاب کے سوا کچھ بھی نہیں...." - روزنامه مساوات لاہور - ۲۹ اپریل ۱۹۸۹ء )
۱۹ امن کمیٹی لاہور کی نظر میں مولوی صاحب کا کردار امن کمیٹی کے صدر عبد السلام خان صاحب بلدیہ عظمیٰ لاہور کے سابق کونسلر بشیر احمد صاحب اور شمالی لاہور کے سماجی راہنما محمد ریاض صاحب نے اپنے مشترکہ بیان میں مولوی صاحب کے بیانات کو مضحکہ خیز اور شر انگیز قرار دیا اور مولوی صاحب کو فرمان الہی کی تفریق کرنے والا اور منافقانہ سوچ رکھنے والا قرار دیا.دیکھیں.روزنامہ مساوات لاہور ۱۲ مارچ ۱۹۸۹ء ) اب آخر میں دیکھیں کہ ان کے اپنے شہر چنیوٹ کے باسی انہیں کس طرح دھتکارتے ہیں.روزنامہ امروزے جولائی ۱۹۸۹ء میں چنیوٹ کے شہریوں کی قرار داد درج ہے جس میں انہوں نے ان کی مذموم اور رسوائے زمانہ کارروائیوں کے پیش نظر یہ مطالبہ کیا کہ." مولانا چنیوٹی کو نا پسندیدہ شخصیت قرار دیا جائے." ان حقیقتوں کے آئینہ میں ذرا مولوی صاحب کو اتاریں تو یہ پکارتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ میرا ماضی میری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں
کہ: پنجاب اسمبلی میں تاریخی مستند اور محفوظ تشفیع مولوی منظور چنیوٹی صاحب نے ۱۷ ستمبر ۱۹۸۹ء کو پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا اس ایک سال میں اللہ تعالی نے مجھے نعمتوں سے نوازا.میں بھاری اکثریت سے انتخاب میں کامیاب ہوا." مولوی صاحب کو اللہ تعالٰی نے کن نعمتوں " سے نوازا ؟ ان کا حال اور کچھ تفصیل آپ نے گذشتہ اوراق میں ملاحظہ فرمائی ہے اور کچھ آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے لیکن قبل اس کے کہ اس تفصیل میں جائیں ہم قارئین کو مولوی منظور چنیوٹی صاحب کے یار غار اور ان کی احراری برادری کے مولوی اللہ یار ارشد صاحب سے ملواتے ہیں جو اس حقیقت سے پردہ اٹھائیں گے کہ مولوی منظور چنیوٹی صاحب نے انتخابات میں کامیابی کن راہوں پر چل کر حاصل کی اور اس کے حصول کے لئے انہوں نے کونسے ہتھکنڈے استعمال کئے.چنانچہ مولوی اللہ یار ارشد نے ہزاروں سامعین کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا.مولانا منظور احمد چنیوٹی نے ختم نبوت کے نام کو بیچ کر قوم سے ووٹ حاصل کئے.یہ شخص مذہب کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے.....ce ( روزنامہ حیدر راولپنڈی یکم نومبر ۱۹۸۸ء) انتخابات میں جیت ، جسے یہ نعمت خداوندی قرار دے رہے ہیں ، بڑی صفائی اور عظمت کے ساتھ حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالی کی اِس پر جلال پیشگوئی کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے.کہ اس کی ذلت اور رسوائی دیکھنا آپ کے مقدر میں لکھا گیا ہے." خطبہ جمعہ فرموده ۲۵ نومبر ۱۹۸۸ء) اب دیکھئے کہ یہ جیت انہیں پنجاب اسمبلی میں لے جا کر بھرے ایوان کے سامنے کس طرح رسوائیوں کا طوق پہناتی ہے.
۲۱ پنجاب اسمبلی کے اجلاسوں کی رپورٹس جو اخبارات میں شائع ہوتی رہیں ان کی چند جھلکیاں درج ذیل ہیں.(1) مولوی صاحب نے اپنے ناشائستہ الفاظ واپس لئے اور ایوان سے معذرت کی.(نوائے وقت لاہور ۲۱ دسمبر ۱۹۸۹ء ) (۲) سپیکر نے مولوی صاحب کے ریمارکس اور الفاظ کو نازیبا اور ناشائستہ قرار دیا.مولوی صاحب کو ناشائستہ الفاظ پر تین بار معذرت کرنا پڑی.مولوی صاحب ناشائستہ خطاب کے ماہر سمجھے جاتے ہیں.روزنامه حیدر راولپنڈی ۲۲ دسمبر ۱۹۸۸ء) (۳) سپیکر نے مولانا چنیوٹی کو سختی سے کہا کہ وہ اپنی نشست پر تشریف رکھیں.....مولانا منظور احمد چنیوٹی سپیکر اسمبلی اور ایوان کے فیصلے پر بہت سیخ پا ہوئے اور وہ سپیکر اور ایوان کے خلاف مسلسل نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے واک آؤٹ کر گئے.مولانا منظور احمد چنیوٹی جس وقت واک آؤٹ کر کے جا رہے تھے اس وقت فضل حسین راہی نے کہا کیا ہی اچھا ہو اگر مولانا چنیوٹی ہمیشہ کے لئے واک آؤٹ کر جائیں." ( روزنامہ مساوات لاہور ۲۹ - دسمبر ۱۹۸۸ء صفحه ۷ ) (۴) پنجاب اسمبلی میں راہی : ” یہ سرکاری مولوی ہے." ذاکر : ” یہ فتوی فروش مولوی ہے." (۵) پنجاب اسمبلی میں اسلم گورداسپوری صاحب نے کہا ” مولانا صرف ملک میں فساد چاہتے ہیں ان کو کوئی خطرہ نہیں." ( روزنامہ جنگ یکم مارچ ۶۱۹۸۹ ) (۱) ۲۸ فروری ۱۹۸۹ء کو جو اسمبلی میں بحث ہوئی اس میں مولوی صاحب کا رسوائے زمانہ، گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سلمان رشدی کے ساتھ ذکر کیا گیا بلکہ ان کی قیمت اس سے زیادہ ڈالی گئی.چنانچہ سلمان تاثیر صاحب رکن اسمبلی نے مولوی صاحب کی یوں عزت افزائی " کی کہ " اگر اس سے کم قیمت لگائی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ مولانا صاحب کی توہین ہے.کیونکہ سلمان رشدی کی قیمت تین ملین ڈالر ہے اور مولانا صاحب کی کم از کم چھ ملین ڈالر
ہونی چاہیئے." ۲۲ : معزز قار یکین ! مولوی صاحب کی ذلتیں تو بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں جو مضمون کی طوالت کا باعث بن رہی ہیں اس لئے اب ہم اختصار کے ساتھ پنجاب اسمبلی کی مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹ میں سے چند نمونے، مٹتے از خروارے صرف جھلکیوں کی صورت میں آپ کے سامنے پیش کر کے اس باب کو ختم کریں گے اور مولوی صاحب کی ذلت کے ایک رخ کا مشاہدہ کریں گے.اسمبلی کے اجلاس ۲۸ مئی ۱۹۸۹ء میں مولوی صاحب کے متعلق تبصرے :- ا وہ ایک مسلمان کو کافر کہہ کر خود کافر ہو گئے ہیں.ان کو مولانا نہیں کہا جا سکتا یہ ایک عالم دین کی توہین ہے.( اس پر منظور چنیوٹی صاحب نے کہا کہ یہ آپ حکومت سے پوچھیں کہ میں مولانا ہوں یا نہیں ) ایک ممبر نے کہا کہ اصل میں ہم لاعلمی میں انہیں مولانا کہتے رہے ہیں.مولانا کے ایمان کی کمزوری درست کی جائے! ۴.منظور چنیوٹی بلیک میلر ہے ! ۵- منظور چنیوٹی کا نکاح ٹوٹ گیا ! - اگر ان کا نکاح ٹوٹ گیا تو ان کی اولاد کیا کہلائے گی ؟ ے.ان کو کوڑے لگائے جائیں! -A -9 کوڑے نہیں اسلام میں دُروں کی سزا ہے ! بقیہ اجلاس کے لئے ان کا داخلہ ایوان میں روک دیا جائے ! - مولانا کی زبان پر کنٹرول کیا جائے ورنہ ہم خود ہی کر سکتے ہیں ! مولانا کو معافی مانگنی چاہئے ورنہ لوگ انہیں فتوی فروشی کا الزام دیں گے! - 10 -I - آخر میں مولانا نے ایوان سے معافی مانگ لی.
۲۳ آئین اور ملک دشمنی ۱۷ ستمبر ۱۹۸۹ء کو مولوی منظور چنیوٹی صاحب نے جو پریس کانفرنس کی اس میں انہوں نے از راه دجل حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ الودود پر ان الفاظ میں الزام لگایا تھا کہ :- " مرزا طاہر احمد لندن میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا ہے اسے پاکستان بلا کر اس پر آئین اور ملک دشمنی کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے.“ خدا تعالٰی نے مولوی صاحب کا جھوٹ عملاً بہت بری طرح خود انہیں کے منہ پر دے مارا اور یہ مفتربانہ الزام خود انہیں پر لوٹا دیا جس نے مباہلہ کے نتیجہ میں ان پر پڑنے والی ذلتوں میں مزید اضافہ کیا.چنانچہ پاکستان کی علماء کونسل نے انتہائی ذلت آمیز الفاظ میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ " منظور چنیوٹی آئین کی پاسداری کے حلف سے منحرف ہو گئے.وطن سے غداری کرنے پر مقدمہ چلایا جائے." اس کی تفصیل انہوں نے یہ بیان کی کہ مولوی منظور احمد چنیوٹی نے گذشتہ دنوں منڈی بہاؤ الدین میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزیر اعظم تسلیم ہی نہیں کرتے جو کہ سراسر آئین سے بغاوت ہے......وزیر اعظم کو تسلیم کرنے سے انکار بصورت دیگر آئین سے انکار ہے.“ ( روزنامہ مساوات لاہور ۲۹ اپریل ۱۹۸۹ء ) 000.
۲۴ مباہلہ اور الہی تقدیر کا ایک اور وار مولوی صاحب نے اپنی ۱۷ ستمبر ۱۹۸۹ ء والی پریس کانفرنس میں بڑی بے باکی سے یہ جھوٹ بھی بولا تھا کہ " مرزا طاہر احمد پر خدا تعالیٰ کی گرفت اور عذاب نازل ہو چکا ہے اور اس وقت....خوف و ذلت کی زندگی گذار رہا ہے." قارئین کرام ! ہم حضرت مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو شب و روز ملنے والی فتوحات اور آپ پر نازل ہونے والے انعامات متواترہ کا تذکرہ بعد میں کریں گے مگر اب یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ مولوی صاحب نے تو حضرت امام جماعت احمدیہ کے بارہ میں تعلی کرتے ہوئے یہ بے باکانہ جھوٹ بولا تھا کہ وہ خوف وذلت کی زندگی گزار رہے ہیں مگر خدا تعالٰی کی تقدیر نے ان کے ان الفاظ کو خود ان کے اپنے لئے سچ ثابت کر دکھایا اور خود ان کی اسی در از زبان سے یہ اقرار کروایا کہ ان پر خوف و ہراس طاری ہے اور ان کی زندگی کو خطرہ ہے.یہ باور کرانے کے لئے کہ واقعی وہ خوفزدہ و ہراساں ہیں انہوں نے مزید افتراء یہ باندھا کہ مرزا صاحب نے ان کے قتل کی پیشگوئی کی ہے.حالانکہ حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ایک مرتبہ بھی ان کی موت کی پیشگوئی نہیں کی تھی.البتہ خدا تعالیٰ کی گرفت میں آکر ذلتوں اور رسوائیوں کی بار کی پیشگوئی کی تھی.بہر حال اپنے جھوٹ کو تقویت دینے کے لئے مولوی صاحب نے پنجاب اسمبلی میں ۲۸ فروری ۱۹۸۹ء کو اس کا واویلا کیا اور تحریک استحقاق پیش کی.جس پر خواجہ محمد یوسف صاحب رکن اسمبلی نے کہا کہ مولانا کے مرنے سے اسلام کو خطرہ نہیں.انہیں بلٹ پروف جیکٹ دی جائے." ( روزنامہ جنگ - یکم مارچ ۱۹۸۹ء ) اور سلمان تاثیر صاحب نے اسی اجلاس میں یہ پھبتی کسی کہ اہم بات یہ ہے کہ کیا یہ حقیقت ہے کہ مرزا طاہر بیگ نے تین ملین سے کم انعام مولانا کی زندگی پر مقرر کیا ہے یا نہیں ؟ اگر اس سے کم قیمت لگائی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ مولانا صاحب کی توہین ہے.کیونکہ سلمان رشدی کی قیمت تین ملین ڈالر ہے اور مولانا
۲۵ کی کم از کم چھ ملین ڈالر ہونی چاہئے." اور محمد اسلم گورداسپوری صاحب نے بھرے ایوان میں یہ چیلنج کیا کہ یہاں ہاؤس میں یہ کسی طرح ثابت نہیں کر سکتے کہ ان کو قتل کی دھمکی دی گئی ہے." " اور مولوی صاحب یہ ثابت کرنے سے عاجز رہے کہ انہیں قتل کی دھمکی دی گئی تھی.خدا تعالیٰ کا اپنے مامورین کے مخالفوں سے ایسا سلوک دیکھ کر انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے کہ ایک طرف تو خدا تعالٰی کی طرف سے مولوی صاحب کو اپنی ذلتوں سے معمور زندگی کا خطرہ لاحق ہوا اور ان کے شب و روز خدا تعالی کی ہیبت سے خوف و ہراس کی نظر ہوئے تو دوسری طرف یہی خوف و دہشت ان کی مزید ذلتوں کا سامان بھی بن گئی.مولوی صاحب کو یہ علم نہیں کہ مباہلہ میں معاملہ ہوتا کس کے ہاتھ میں ہے.اور کون ہے جو بچوں کو عزتوں اور عظمتوں کی رفعتیں عطا کرتا ہے اور جھوٹوں کو ذلتوں کی پستیوں میں اتار دیتا ہے.پس اتنی ذلتوں اور رسوائیوں کے بعد جو مولوی صاحب سے چمٹ کر رہ گئی ہیں ، صرف وہی شخص بے باکیاں دکھا سکتا ہے جو غباوت کے پرلے کنارے پر پہنچ چکا ہو.اور یہ مولوی چنیوٹی صاحب ہی ہیں کہ اس کے باوجود کہتے ہی چلے جا رہے ہیں کہ اب کے مار ! پس جو بات انہوں نے از راه دجل حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی طرف منسوب کی تھی وہ خدا تعالیٰ نے حقیقت کے رنگ میں خود انہیں کے حق میں پوری کر دکھائی.چنانچہ ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کی خبر روزنامہ جنگ لاہور ۲۲ نومبر ۱۹۸۸ء کے صفحہ نمبر ۲ پر اس طرح شائع ہوئی کہ منظور چنیوٹی پر قاتلانہ حملہ ، بیٹا اور بھتیجا زخمی ، شہر میں فوج کا گشت" قاتلانہ حملہ کرنے والے مشیت ایزدی کے تحت ان کے اپنے مخالفین تھے اور یہ بھی خدا تعالٰی نے ان کی خواہش کے مطابق کروایا اور ان کے جھوٹ پر فعلی شہادت مہیا فرمائی.
۲۶ تھی کہ احمدیہ جماعت احمدیہ کا سورج مولوی منظور چنیوٹی صاحب نے اگست ۱۹۸۹ء میں یہاں لندن ختم نبوت کانفرنس میں یہ بڑہانی سلطنت برطانیہ کی طرح جماعت احمدیہ کا سورج غروب ہو چکا ہے.کسی ملک میں اس کا وجود نہیں.جماعت احمد یہ اپنی موت کی آخری ہچکی نے رہی ہے." " روزنامه ملت لندن ۲۰۱۹ اگست ۶۱۹۸۹ ) اللہ تعالی نے ان کو ذلیل و رسوا کیا.ان کے اس بیان کے بعد مباہلہ کے سال کی کانفرنس میں جو کہ لندن میں ہوئی ۱۴ اگست ۱۹۸۹ء کے اخبار ” The Guardian " کے بیان کے مطابق ان کے جلسے کی حاضری تین صد سے کم رہی اور دوسری طرف اس کے مقابل پر اسی اخبار کے بیان کے مطابق جماعت احمدیہ یو کے کے جلسہ کی حاضری ۱۵ ہزار سے زائد رہی.مباہلہ کے سال سے پہلے کا بھی جائزہ لے لیں تاکہ پتہ چل جائے کہ یہ بد بختی اور ذلت انہیں محض اور محض مباہلہ کے نتیجہ میں ملی.چنانچہ ۱۹۸۷ء کی ختم نبوت کانفرنس میں ان کی حاضری " اخبار وطن " کی اشاعت ۲۳ - ۳۰ دسمبر ۱۹۸۷ء کے مطابق چھ ہزار تھی.اور اسی اخبار وطن " کی اشاعت ۱۹ تا ۲۹ اگست ۱۹۸۷ کے بیان کے مطابق جماعت احمدیہ کی ۱۹۸۷ء کی سالانہ کانفرنس میں سات ہزار احمدیوں نے شرکت کی.جماعت احمدیہ کے جلسہ کی حاضری کا سات ہزار سے بڑھ کر مسائلہ کے سال کے جلسہ سالانہ میں پندرہ ہزار یعنی دوگنی سے بھی زیادہ ہو جانا اور ادھر ان مخالفین کے جلسہ کی حاضری کا چھ ہزار سے گر کر تین سو سے بھی کم ہو جانا گویا ہیں گنا کم ہو جانا نہ صرف مولوی صاحب کے لئے بلکہ ان کی قبیل کے دوسرے مولویوں کے لئے بھی قطعی اور کھلی کھلی ذلت کا باعث ہے.پس جماعت احمدیہ کا سورج اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ اپنی عظمتوں کی منازل طے کر رہا ہے جس کے مقدر میں غروب ہوتا نہیں بلکہ بلند سے بلند تر ہوتے چلے جانا ہے.یہ وہ الہی تقدیر ہے جس کی صداقت پر مخالفین کی ہر نا کامی اور ذلت بھی گواہی دیتی ہے.
اب کے مار! یہ مولوی صاحب پھر تیار ہیں اور مباہلہ کی دعوت دے رہے ہیں جس روز انہوں نے مباہلہ کے چیلنج کا ڈھونگ رچایا اسی روز ان کی فتح مباہلہ کا نفرنس تھی جو دریائے چناب کے دو پلوں کے درمیان منعقد ہوئی.جس میں ان کے بلائے ہوئے افسران حکومت بھی شامل نہ ہوئے کہ جن کے نام لے لے کر انہوں نے کانفرنس کی حاضری بڑھانے کا خیال کیا تھا اور نہ ہی یہ کانفرنس پر آئے ہوئے افراد کا شیرازہ مجتمع کر سکے.چند بکھرے ہوئے افراد تھے جو منتشر ہی رہے.اس طرح خدا تعالٰی نے اسی روز انہیں ناکامیوں کی ایک اور جھلک بھی دکھا دی.مگر یہ مولوی صاحب اب بھی نہیں سمجھیں گے.انہیں خدا تعالٰی نے جو ذلت پر ذلت اور رسوائیوں کی رسوائیاں دکھائی ہیں ان کے باوجود ان کی تعلیوں پر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان صادق آتا ہے کہ ” اذالم تستحی فاصنع ما - شئت " جس کا فارسی میں ترجمہ یہ ہے کہ ”بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن" معلوم ہوتا ہے کہ یہ خدا تعالی سے کسی بڑی مار اور بڑی پھٹکار کے منتظر ہیں.اللہ تعالی ان کی یہ خواہش بھی پوری فرمائے.
MA ہر اک میداں میں دیں تو نے فتوحات دعوت مباہلہ کے بعد ساری دنیا میں حضرت امام جماعت احمدیہ کو خدا تعالٰی نے ایسی عزت و مکرمت عطا فرمائی کہ بیسیوں ممالک کا آپ نے سفر کیا اور ہر ملک کی سرزمین نے آپ کے قدم لئے.سربراہان مملکت اور بڑے بڑے وزراء نے آپ کے استقبال کو فخر جانا.کئی ملکوں میں شہروں کی چابیاں آپ کی خدمت میں پیش کی گئیں.ہر ملک اور ہر دیار جہاں آپ نے قدم رکھا فتح و شادمانی اور کامیابی و کامرانی نے آپ کے قدم چومے.درجن بھر ملکوں کے وزراء اور اراکین پارلیمینٹ جلسہ سالانہ اگست ۱۹۸۹ء میں اپنے اپنے ملکوں کے وفود لے کر آئے اور ببانگ دہل جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات پر اپنی اپنی حکومت کی نمائندگی میں خراج تحسین پیش کیا.مولوی منظور چنیوٹی صاحب! یاد کریں جب آپ کو مخاطب کر کے عزت مآب امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ۲۵ نومبر ۱۹۸۸ء کے خطبہ جمعہ میں یہ اعلان فرمایا تھا کہ " انشاء اللہ ستمبر آئے گا اور ہم دیکھیں گے کہ احمدیت نہ صرف زندہ ہے بلکہ زندہ تر ہے.اگر منظور چنیوٹی زندہ رہا تو ایک ملک اس کو ایسا نہیں دکھائی دے گا کہ جس میں احمدیت مر گئی ہو اور کثرت سے ایسے ملک دکھائی دیں گے جہاں پر احمدیت از سر نو زندہ ہوئی ہے یا احمدیت نئی شان سے داخل ہوئی ہے.یہ نوشتہ تقدیر اپنی پوری تابندگیوں اور رعنائیوں کے ساتھ جماعت احمدیہ کے حق میں پورا ہو رہا ہے.جہاں تک تائیدات اور نوازشات الیہ کا تعلق ہے اور غیر معمولی طور پر رحمتیں اور برکتیں اور افضال برسانے کا تعلق ہے اس پہلو سے ان مخالفین کا دامن کلینہ تہی ہے جبکہ اس کے مقابلہ پر جماعت احمدیہ کو دنیا بھر میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسی عالمگیر شہر تیں ، عظمتیں اور عزتیں ملی ہیں کہ اس کی نظیر دنیا کی کسی اور جماعت میں دکھائی نہیں دیتی.ہ یاد رہے کہ ستمبر ۱۹۸۹ء کے متعلق منظور چنیوٹی صاحب نے کہا تھا کہ ” میں ۱۵.ستمبر ۱۹۸۹ء تک زندہ رہوں گا تاہم قادیانی جماعت اس وقت تک زندہ نہیں رہے گی." ( روزنامه جنگ - اکتوبر ۱۹۸۸ء)
۲۹ مباہلے کے اس عرصہ میں مخالفین کی دعاؤں کے علی الرغم خدا تعالٰی نے دنیا بھر میں جماعت کو جو ترقیات عطا فرمائیں اور عظیم الشان نشانات سے نوازا ان کا خلاصہ بھی بہت طویل ہے.مگر یہاں ان میں سے چند ایک کی نہایت مختصر فہرست درج ذیل ہے.آج یہ الہی عالمگیر جماعت احمدیہ محض خدا تعالٰی کے فضلوں اور اس کی نصرتوں کے دوش پر ۱۲۴ ممالک میں ۳۲۲ مضبوط اور منظم جماعتوں کی صورت میں قائم ہو چکی ہے (اس تعداد میں پاکستان کی جماعتوں کی تعداد شامل نہیں ).جماعت احمدیہ کی ساری دنیا میں ۱۹۴۵ مساجد پر رونق اور آباد ہیں جن سے پانچوں وقت اشهد ان لا الہ الا اللہ اور اشهد ان محمدا رسول اللہ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور خدا تعالی کی تکبیر اور توحید کی منادی ہوتی ہے.( اس تعداد میں بھی پاکستان میں جماعت کی مساجد کی تعداد مذکور نہیں) ساری دنیا میں ۳۵۶ احمدیہ مسلم مشن غلبہ اسلام کے لئے دن رات کام کر رہے ہیں.۲۷ ہسپتال اسلام کے نام پر خدمت خلق کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں.جماعت احمدیہ کے ۲۵۸ نرسری اور پرائمری سکول ہیں اور ا ہائی اور جونیئر سیکنڈری سکول ہیں.۸۱ اخبارات و رسائل مختلف ممالک میں مختلف زبانوں میں شائع ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس الہی جماعت کو خدا تعالٰی نے دنیا کی بڑی بڑی ۴۴ زبانوں میں قرآن کریم کے متن کے ساتھ تراجم شائع کرنے کی توفیق دی.جبکہ مزید 4 زبانوں میں تراجم زیر تکمیل ہیں اور مزید زبانوں میں تراجم کا کام شروع ہے.اسی طرح ۱۸ زبانوں میں قرآن کریم کی منتخب آیات ، منتخب احادیث نبوی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے منتخب اقتباسات جن سے اللہ تعالی کی کبریائی ، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اسلام اور قرآن کریم کی عظمت و سچائی ظاہر ہوتی ہے.شائع کرنے کی توفیق ملی جو وسیع پیمانے پر قریہ قریہ بڑی کثرت سے تقسیم کی جا رہی ہیں.یہ چند اعداد و شمار ہیں جو یہاں تحریر کئے گئے ہیں وگرنہ میں کیونکر گین سکون تیرے یہ انعام کہاں ممکن ترے فضلوں کا ارقام ہر اک نعمت سے تو نے بھر دیا جام ہر اک دشمن کیا مردود و ناکام
یہ تیرا فضل ہے اے میرے ہادی فسبحان الذى اخرى الا عادى بنائی تو نے پیارے میری ہر بات دکھائے تو نے احساں اپنے دن رات ہر اک میداں میں دیں تو نے فتوحات بداندیشوں کو تو نے کر دیا مات ہر اک بگڑی ہوئی تو نے بنا دی فسبحان الذي اخزى الا عادى اللهم انصر من نصر دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم واجعلنا منهم واخذل من خذل دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم فلا تجعلنا منهم !
(4) 'Fath-i-Mubahalah Ya Zillaton Ki Maar' WINNING OF MUBAHALAH OR RAIN OF HUMILIATION? (in Urdu) In this short book, an authentic history of the chain of humiliation and ignominies that befell on an arch enemy of Ahmadiyyat, Maulvi Manzoor Chinioti Sahib have been exposed.These miseries became his destiny due to his acceptance of the Mubahala challenge thrown by Hazrat Khalifatul Masih IV, Hazrat Sahibzada Mirza Tahir Ahmad.The book consists of shining facts in favour of the truth of Ahmadiyyat on the one hand and exposes the lies and false accusations of the enemies against Ahmadiyyat on the other.The study of this book will convince the readers that the Divine succour and help is linked with Ahmadiyyat.