Language: UR
ناروے میں مقیم ایک امام مسجد مولوی مشتاق احمد چشتی نے ایک کتاب ’’فاتح قادیان‘‘ لکھی جس میں جھوٹ، تلبیس اور خیانت سے کام لیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اور پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی شان میں قلابے ملائے تھے۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعدمولوی صاحب موصوف خود مسجد کے مالی معاملات میں خردبرد اور خیانت کے مرتکب ہوکر رسوائے عالم ہوتے رہے۔ زیر نظر کتاب قریباً یکصد صفحات پر مشتمل ہے جو اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز کی شائع کردہ ہے۔ اس میں پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے ساتھ ہونے والے معاملات کی زمانی ترتیب اور اصل کہانی کو مکمل حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
رَبَّنَا أَفْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَيْحِينَ 66 فاتح قادیان" ม هاو از ہادی علی چوہدری
© 1991 ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD.ISBN 1 85372 461 0 Published by: Islam International Publications Ltd.Islamabad, Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, U.K.Printed by: Raqeem Press, Islamabad, U.K.
۰۶ +9 ۱۴ ۱۵ ۱۵ 14 ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۸ NNN Lii ۳۰ مندرجات ا.انجاز المسیح.مسیح موعود علیہ السلام کا ایک معجزہ پیر صاحب کا مخالفانہ رویہ اور شمس الہدایہ " کی اشاعت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی طرف سے خطوط کی اشاعت مولوی سید محمد احسن صاحب کی طرف سے خطوط کی اشاعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے تفسیر نویسی کے مقابلہ کا چیلنج پیر صاحب موصوف کا اشتہار مولوی محمد احسن صاحب کا جواب مریدوں کی طرف سے دھمکیاں پیر صاحب کی لاہور میں اچانک آمد پیر صاحب کو میدان تفسیر نویسی میں لانے کے لئے مخلصانہ سعی اور جدو جہد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مفصل اشتہار پیر صاحب کے لئے مباحثہ کی ایک آسان شرط پیر صاحب کی گولڑہ کو واپسی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے اتمام حجت ۲.انہ کتاب لیس لہ کا جواب مولوی محمد حسن صاحب فیضی اور اس کے نوٹس اردو کی کتاب سرقہ کا چر کہ سرقہ کا اصل مجرم میں شہاب الدین صاحب کے خط بنام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نقل
۳۴ My ۳۹ ۴۰ ۴۴ ۴۹ ۵۱ ۵۱ ۵۲ ۵۴ ۵۴ ۵۶ ۵۶ ۵۸ พ ۶۸ ۸۲ ۹۲ ۹۲ ۹۸ -V دو سراخط مولوی کرم دین صاحب بنام حکیم فضل دین صاحب لُو نَشَاءُ لَقَلْنَا مِثْلَ هَذَا معجزه مسیح موعود علیہ السلام نئی شریعت نہیں لائے ۵- سب پاک ہیں پیمبر -L غلط تاریخ پیدائش - غلط دلیل اسلام کی زندگی عیسی" کی وفات میں ہے " - توفي والعك الى حضرت عیسی علیہ السلام ہرگز زندہ نہیں ہیں پہلی آیت عجیب تاویلیں دوسری آیت صحابہ کی گواہی iv " سر کو پیٹو آسماں سے اب کوئی آتا نہیں -- پادری اور نگ واشنگٹن وغیرہ کا مثیل سیح و مہدی کے ظہور کی علامات قدر پھلاں دا...جَاءَ الحق وزَهَقَ الْبَاطِلُ - خدا رسوا کرے گا تم کو..........میں اعزاز پاؤں گا.
أعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الأمير تمهید مولوی مشتاق احمد چشتی صاحب ! آپ نے اپنے رسالہ ” فاتح قادیان " میں جس جھوٹ “ تلیس اور خیانت سے کام لیا ہے اس کی سزا اللہ تعالٰی آپ کو دے چکا ہے اور اس کی خاص تقدیر نے اس کا جواب بھی آپ کو مہیا کر دیا ہے.مسجد کے اموال میں خرد برد اور خیانت کی وجہ سے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کی پکڑ ہوئی اور نہ صرف یہ کہ خطیب ملت اور علامہ وغیرہ کے القاب آپ سے چھن گئے بلکہ اس قدر ذلیل ہوئے کہ لوگوں کی نظروں سے گر گئے اور انہوں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کر دیا.خدا تعالیٰ کی اس پکڑ کو جہاں اہلِ ناروے نے اپنی نظروں سے مشاہدہ کیا وہاں اس کی بازگشت سیکنڈے نیویا کے علاوہ یورپ اور پاکستان میں بھی سنی گئی...جو رسوائی سی رسوائی مولوی مشتاق چشتی صاحب کی ہوئی اس کی تفصیل کو سردست یہاں چھوڑتے ہوئے ہم پہلے قرآن کریم کے فرمان ان عدتم عدنا (بنی اسرائیل : ۸) کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پیر مہر علی صاحب گولڑوی کے درمیان تغییر نویسی کے مقابلہ کے متعلق حقائق تفصیل کے ساتھ پیش کرتے ہیں.ان حقائق کے ملاحظہ فرمانے کے بعد ہر قاری پر یہ حقیقت کھل جائے گی کہ مولوی مشتاق احمد چشتی صاحب کے پیرو مرشد پیر مہر علی گولڑوی صاحب نے درست فرمایا تھا کہ : گستاخ اکھیں کتھے جاڑیاں ترجمہ : اگر تم لوٹو گے تو ہم بھی لوٹیں گے.
" اعجاز المسیح مسیح موعود علیہ السلام کا ایک "مجزه حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۶ء میں اپنی کتاب " انجام آتھم " میں مناظروں اور مباحثوں کے مواقع پر مخالفین کی طرف سے شرارتوں اور شرانگیز کاروائیوں کے نتیجہ میں اور بعض قانونی وجوہات کی بناء پر یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ آپ مناظروں اور مباحثوں میں حصہ نہیں لیں گے.حق و صداقت میں فیصلہ اور امتیاز کے لئے آپ نے اس کتاب میں یہ طریق بھی پیش کیا کہ خدا تعالی سے دعا کے ذریعہ فیصلہ طلب کیا جائے.چنانچہ آپ نے جن سجادہ نشینوں ، پیروں اور گدی نشینوں کو دعا کے مقابلہ میں بلایا ان میں گولڑہ (ضلع راولپنڈی) کے ایک مشہور پیر مہر علی شاہ (ولادت ۱۸۳۷ء وفات » مئی ۱۹۳۷ء) کا نام بھی تھا جو صوفیاء کے چشتی سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے.مذکورہ بالا پیر صاحب ابتدا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں حسن ظن اور عقیدت کے جذبات رکھتے تھے.چنانچہ ۹۷-۱۸۹۶ء کی بات ہے کہ ان کے ایک مرید بابو فیروز علی اسٹیشن ماسٹر گولڑہ نے (جو بعد ازاں حضرت مسیح موعود کی بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہو گئے تھے ) جب پیر صاحب سے حضرت اقدس کی بابت رائے دریافت کی تو انہوں نے بلا تامل جواب دیا.امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں کہ بعض مقامات منازل سلوک ایسے ہیں کہ وہاں اکثر بندگان خدا پہنچ کر مسیح و مہدی بن جاتے ہیں.بعض ان کے ہمرنگ ہو جاتے ہیں.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ شخص منازل سلوک میں اس مقام پر ہے یا حقیقتاً وہی مہدی ہے جس کا وعدہ جناب سرور کائنات علیہ الصلوۃ والسلام نے اس امت سے کیا ہے.مذاہب باطلہ کے واسطے یہ شخص شمشیر براں کا کام کر رہا ہے اور یقینا تائید یافتہ ہے." ا محکم ۲۴ - جون ۱۹۰۴ء صفحه ۵ کالم ۳۴۲) پیر صاحب کا مخالفانہ رویہ اور ستمس الہدایہ کی اشاعت لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد وہ مولویانہ اگر پر چل پڑے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی
مخالفت پر کمربستہ ہو گئے.اور آپ کے خلاف اردو میں ایک کتاب " شمس الہدایہ فی اثبات حیات المسیح " شائع کی.یہ کتاب جب حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب کو پہنچی تو انہیں بڑا قلق ہوا.زیادہ تعجب حضرت مولوی صاحب کو اس پر ہوا کہ کچھ عرصہ قبل پیر صاحب ہی نے ان کے نام دو کارڈ لکھے تھے جن میں حضرت اقدس کا تذکرہ عقید تمندانہ الفاظ میں موجود تھا جس کی وجہ سے حضرت مولوی صاحب کو خود پیر صاحب سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہو چکا تھا.بہرحال اب جو ان کی طرف سے یہ کتاب پہنچی تو حضرت مولوی صاحب نے پیر صاحب کے نام (۱۸ - فروری ۱۹۰۰ء ) کو ایک مراسلہ لکھا جس میں پیر صاحب سے گیارہ سوالات کئے جو ابتدائی مطالعہ سے آپ کو پیدا ہوئے تھے."شمس الہدایہ " میں ابن جریر اور تاریخ کبیر بخاری کے حوالے دیئے گئے تھے.جن کے متعلق آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ آپ نے وہ خود ملاحظہ کی ہیں اور کیا آپ کے کتب خانہ میں موجود ہیں ؟ چند دن بعد پیر صاحب کا جواب آیا تو اصل حقیقت کا پتہ چلا کہ یہ کتاب تو ان کے ایک مرید مولوی محمد غازی صاحب کی تالیف کردہ ہے.مگر مرید نے کتاب شائع کروا کے اسے " زبدۃ محققین و رئيس العارفین مولانا حضرت خواجہ مہر علی شاہ صاحب ادام اللہ فیوضہم " کی طرف منسوب کر دیا ہے.چنانچہ پیر صاحب نے لکھا.مولانا المعظم المكرم السلام علیکم و رحمتہ - اما بعد مولوی محمد غازی صاحب کتب حدیث و تغییر اپنی معرفت سے پیدا کر کے ملاحظہ فرماتے رہے ہیں.مولوی صاحب موصوف آج کل دولت خانہ کو تشریف لے گئے ہیں.مولوی غلام محی الدین اور حکیم شاہ نواز وغیرہ احباب نے میری نسبت اپنے حسن ظن کے مطابق آپ کے سامنے بیان کیا ہو گا ورنہ من آنم کہ من دانم.مولوی صاحب نے اپنی سعی اور اہتمام سے کتاب شمس الہدایہ کو مطبوع اور تالیف فرمایا ہاں احیاناً اس بے بیچ سے بھی اتفاق استفسار بعض مضامین میں ہوا.جس وقت مولوی صاحب واپس آئیں گے کیفیت کتب مسئولہ اور جواب سرفراز نامہ اگر اجازت ہوئی تو لکھیں گے اللہ تعالی جانبین کو صراط مستقیم پر ثابت رکھے.زیادہ سلام - نیازمند علماء و فقرا مهر شاه - ۲۶ شوال ۱۳۱۷ء " ( مطابق ۲۸ مارچ ۱۹۰۰ ء ) ا حکم ۲۴ - اپریل ۱۹۰۰ء صفحہ سے کالم نمبر (۴)
پیر صاحب نے نہایت سادگی سے اصل بات تو لکھ دی مگر جب ان کے مریدوں میں اس کے عام چرچے ہوئے تو انہیں اپنے مریدوں کے کھسکنے کا زبر دست خطرہ پیدا ہو گیا.چنانچہ انہوں نے..اپنے واضح بیان پر پردہ ڈالنے کے لئے عجیب عجیب تو جیہات کرنا شروع کر دیں.چنانچہ ایک مرید عبد الہادی نامی کو لکھا " آپ بے فکر رہیں.کوئی فقرہ حکمت اور صداقت سے انشاء اللہ خالی نہ ہو گا.لفظ تألیف اور طبع کے معنی نہ سمجھنے سے انہوں نے کہا جو کچھ کہا.وھو مولنا و عليهم سيظهر - ان سے یہ پوچھنا کہ ایجاد مضامین اور تالیف میں عموم خصوص من وجہ ہوا کرتا ہے.بھلا مجھ کو یہ بتاؤ کہ دوسرا کاغذ جو مولوی نور الدین صاحب کو پہنچا ہے.ذرا اس کی نقل بھی منگوا کر ملاحظہ کرو.والسلام - مہر شاه بقلم خود.- १९ الحکم ۲۴- اپریل ۱۹۰۰ء صفحہ ۷ کالم ۲) - ایک دوسرے مرید غلام محمد کلرک دفتر اکاؤ ٹمنٹ پنجاب کو لکھا مولوی نور الدین صاحب کی درخواست کے بارہ میں نیز وصف میرے علم کے جو کہ ان کو بذریعہ احباب پہنچی تھی اس کے بارہ میں نے لکھا تھا جس کا مضمون یہ ہے کہ میں تو اتنا علم نہیں رکھتا ہوں ( احباب نے حسن ظن کے مطابق تعریف کی ہو گی اور کتاب کے بارہ میں مولوی محمد غازی صاحب جب واپس آئے تو لکھیں گے کیونکہ تجسس اور دیکھنا ان کے متعلق تھا میں مضامین غیر مرتبہ بسا اوقات ان کو دیتا رہا اور تالیف یعنی جمع و ترتیب و طبع کرانا یہ سب ان کے متعلق تھی.جناب مولوی نور الدین صاحب نے تالیف سے جو منسوب مولوی محمد غازی صاحب کی طرف کی گئی تھی اور فی الواقعہ یونہی تھا یہ سمجھ لیا کہ موجد مضامین اور مصنف مولوی صاحب فلاں نے یعنی میں نے اس کی تصنیف اور ایجاد سے انکار کیا تھا کبھی مؤلف اور موجد ایک ہی ہوتا ہے اور کبھی مختلف.میں نے بباعث کم فرصتی کے جمع اور ترتیب ان کے ذمہ رکھا تھا.الغرض جو مطلب تھا یعنی لوگوں کا ا دھوکہ نہ کھانا وہ تو بفضل خدا بخوبی حاصل ہو گیا بذریعہ خطوط روز مرہ مقبولیت کتاب معلوم ہوتی رہتی ہے.باقی زید و عمرو سے کچھ غرض نہیں زیادہ سلام.“ - (الحکم ۲۴ اپریل ۱۹۰۰ء.صفحہ ۷ کالم ۳)
حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی طرف سے خطوط کی اشاعت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اس دور نگی پر خاموش نہ رہ سکے اور انہوں نے ۲۴.اپریل 1900ء کے اخبار الحکم میں یہ بھی مراسلات شائع کر دیئے اور ان سوالات کے جوابات کا دوبارہ مطالبہ کرتے ہوئے اصل واقعات سے نقاب اٹھایا جس سے پیر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الهام انى مهمن من اراد اهانتک (کہ جو تیری تو ہین کا ارادہ کرے گا میں اسے ذلیل کردوں گا) کے کھلے کھلے مصداق بن گئے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے اس مضمون کی اشاعت کے بعد باقاعدہ ایک محاذ قائم ہو گیا.پیر صاحب نے اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے مولوی محمد غازی صاحب سے ایک اشتہار دلایا کہ "مولانا حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب نے مولوی نور الدین صاحب کے سوالات کا جواب تو پہلے دن ہی لکھ رکھا تھا مگر بوجوہ اسے ان کی خدمت میں بھیجوایا نہیں گیا لیکن اب چونکہ الحکم میں ان استفسارات کے دوبارہ جواب طلب کئے گئے ہیں اس لئے وہ جواب شائع کئے جاتے ہیں.اس کے بعد پیر صاحب کے لکھے ہوئے جواب درج کئے.یہ جوابات ان کے گذشتہ خطوط سے بھی زیادہ مہمل تھے.نہ ان کی الماء صحیح تھی نہ انشاء.نہ ان کی زبان درست تھی نہ خیال.محض بے ربط " بے جوڑ اور غیر تسلی بخش تحریریں تھیں.مولوی سید محمد احسن صاحب کی طرف سے دعوت مباحثہ جہاں تک کتاب "شمس الہدایہ فی اثبات حیاۃ المسیح کا تعلق ہے اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کو ثابت کرنے کے لئے پیر صاحب نے مولوی محمد غازی کی اوٹ میں بہت زور لگایا مگر یہ حقیقت پیر صاحب سے کلیتہ " او جھل رہی کہ نہ کبھی کچے دلائل نے ساتھ دیا ہے اور نہ کچی ڈور کبھی سہارا دیتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کے متعلق معقولی و منقولی دلائل تو اپنی جگہ ناقابل تسخیر چٹان کی طرح قائم اور سربلند رہے البتہ آپ کے ایک صحابی حضرت سید محمد احسن صاحب امروہوی نے پیر صاحب کے نام سے شائع شدہ کتاب شمس الہدایہ کے تو میں ایک معرکہ آراء کتاب لکھی جس کا نام " شمس بازغہ " رکھا.
اس کتاب کی اشاعت سے نہ صرف عوام الناس پر پیر صاحب کے جملہ دلائل کا بودا ہوتا اظہر من لشمس ہو گیا بلکہ ان کے خیالات کی تاریکی سے بھی ہر کوئی واقف ہو گیا.چنانچہ اس کتاب میں بیان شده دلائل آج تک پیر صاحب کے سلسلہ کے لئے وجہ خجالت بنے ہوئے ہیں.کتاب شمس الہدایہ کے اصل مصنف مولوی محمد غازی نے اس کے آخری صفحہ پر حضرت اقدس کو ” بشرط کافی انتظام و اطمینان " مباحثہ کی دعوت بھی دی تھی اس لئے سید محمد احسن صاحب امروہوی نے بتاریخ 9 جولائی 1900ء پیر صاحب کو بذریعہ اشتہار اطلاع دے دی کہ میں مباحثہ کے لئے تیار ہوں آپ اپنی طرف سے آمادگی کا اعلان فرما ئیں ورنہ ثابت ہو جائے گا کہ حق ہماری طرف ہے.( الحکم ۹ - جولائی ۱۹۰۰ء صفحہ ۱۱۰ و الحکم ۲۳ - جولائی ۱۹۰۰ء صفحہ ۵ کالم ۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے تفسیر نویسی کے مقابلہ کا چیلنج پیر مہر علی شاہ صاحب نے حضرت سید محمد احسن امروہوی صاحب کی طرف سے مباحثہ کی دعوت کی منظوری کا کوئی جواب نہ دیا اور پچھلے دروازے سے فرار میں ہی عافیت سمجھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو اس وقت تک پیر صاحب کے ذاتی جواب کے منتظر تھے ، براہِ راست پیر صاحب سے مخاطب ہوئے اور ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ء کو اشتہار دیا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب کے ہزارہا مرید یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ علم اور حقائق اور معارف دین میں اور علوم او بسیہ میں اس ملک کے تمام مولویوں سے بڑھ کر ہیں بلکہ خود کتاب شمس الہدایہ میں بھی ان کا یہ دعوئی درج ہے کہ قرآن مجید کی سمجھ ان کو عطا کی گئی ہے.یہ امر کہاں تک درست ہے اس کے فیصلہ کے لئے میں ایک سہل طریق رکھتا ہوں اور وہ یہ کہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ جو لوگ در حقیقت خدا تعالٰی کے راستباز بندے ہیں انہیں تین طور سے خدا کی تائید ہوتی ہے.ا مقابلہ کے وقت خدا تعالٰی ان سے خارق عادت سلوک کرتا ہے (و یجعل لکم فرقانا) ان کو علم معارف قرآن و : : ہے.(لا يمسه الا المطهرون)
ان کی اکثر دعائیں شرف قبولیت پاتی ہیں.(ادعونی استجب لکم) لہذا حق و باطل کے امتیاز کے لئے پیر صاحب موصوف تغییر نویسی میں علمی مقابلہ کرلیں جن کا طریق حضور نے یہ تجویز فرمایا :- " لاہور میں جو پنجاب کا صدر مقام ہے.صادق اور کاذب کے پرکھنے کے لئے ایک جلسہ قرار دیا جائے اور اس طرح پر مجھ سے مباحثہ کریں کہ قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی سورت نکالیں اور اس میں سے چالیس آیت یا ساری سورت (اگر چالیس آیت سے زیادہ نہ ہو ) لے کر فریقین یہ دعا کریں کہ یا الہی ہم دونوں میں سے جو شخص تیرے نزدیک راستی پر ہے اس کو تو اس جلسہ میں اس سورۃ کے حقائق اور معارف فصیح اور بلغ عربی میں عین اسی جلسہ میں لکھنے کے لئے اپنی طرف سے ایک روحانی قوت عطا فرما اور روح القدس سے اس کی مدد کر اور جو شخص ہم دونو فریق میں سے تیری مرضی کے مخالف اور تیرے نزدیک صادق نہیں ہے اس سے یہ توفیق چھین لے اور اس کی زبان کو فصیح عربی اور معارف قرآنی کے بیان سے روک لے تالوگ معلوم کر لیں کہ تو کس کے ساتھ ہے اور کون تیرے فضل اور تیری روح القدس کی تائید سے محروم ہے.پھر اس دعا کے بعد فریقین عربی زبان میں اس تفسیر کو لکھنا شروع کریں اور یہ ضروری شرط ہو گی کہ کسی فریق کے پاس کوئی کتاب موجود نہ ہو اور نہ کوئی مددگار اور ضروری ہو گا کہ ہر ایک فریق چپکے چپکے بغیر آواز سنانے کے اپنے ہاتھ سے لکھے تا اس کی فصیح عبارت اور معارف.کے سننے سے دوسرا فریق کسی قسم کا اقتباس یا سرقہ نہ کر سکے اور اس تفسیر کے لکھنے کے لئے ہر ایک فریق کو پورے سات گھنٹے مہلت دی جائے گی اور زانو بہ زانو لکھنا ہو گا نہ کسی پردہ میں ہر ایک فریق کو اختیار ہو گا کہ اپنی تسلی کے لئے فریق ثانی کی تلاشی کر لے اس احتیاط سے کہ وہ پوشیدہ طور پر کسی کتاب سے مدد نہ لیتا ہو اور لکھنے کے لئے فریقین کو سات گھنٹہ کی مہلت ملے گی مگر ایک ہی جلسہ میں اور ایک ہی دن میں اس تفسیر کو گواہوں کے رو برو ختم کرنا ہو گا اور جب فریقین لکھ چکیں تو وہ دونو تفسیریں بعد دستخط تین اہل علم کو جن کا اہتمام حاضری و انتخاب پیر مہر علی شاہ صاحب کے ذمہ ہو گا سنائی جائیں گی اور ان ہرسہ مولوی صاحبوں کا یہ کام ہو گا کہ وہ حلفاً یہ رائے ظاہر کریں کہ ان دونو تفسیروں اور
دونو عربی عبارتوں میں سے کونسی تفسیر اور عبارت تائید روح القدس سے لکھی گئی ہے اور ضروری ہو گا کہ ان تینوں عالموں میں سے کوئی نہ اس عاجز کے سلسلہ میں داخل ہو اور نہ مہر علی شاہ کا مرید ہو اور مجھے منظور ہے کہ پیر مہر علیشاہ صاحب اس شہادت کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد الجبار غزنوی اور مولوی عبد اللہ پروفیسر لاہوری کو یا تین اور مولوی منتخب کریں جو ان کے مرید اور پیر نہ ہوں.ضروری ہو گا کہ یہ تینوں مولوی - صاحبان حلفا اپنی رائے ظاہر کریں کہ کس کی تفسیر اور عربی عبارت اعلیٰ درجہ پر اور تائید الہی سے ہے لیکن یہ حلف اس حلف سے مشابہ ہونی چاہئے.جس کا ذکر قرآن میں قذف محصنات کے باب میں ہے جس میں تین دفعہ قسم کھانا ضروری ہے اور دونو فریق پر یہ واجب اور لازم ہو گا کہ ایسی تفسیر جس کا ذکر کیا گیا ہے کسی حالت میں ہیں ورق سے کم نہ ہو اور ورق سے مراد اس اوسط درجہ کی تقطیع اور قلم کا ہو گا.جس پر پنجاب اور ہندوستان کے صدہا قرآن شریف کے نسخے چھپے ہوئے پائے جاتے ہیں.پس اس طرز کے مباحثہ اور اس طرز کے تعین مولویوں کی گواہی سے اگر ثابت ہو گیا کہ در حقیقت پیر مہر علی شاہ صاحب تفسیر اور عربی نویسی میں تائید یافتہ لوگوں کی طرح ہیں اور مجھ سے یہ کام نہ ہو سکایا مجھ سے بھی ہو سکا مگر انہوں نے بھی میرے مقابلہ پر ایسا ہی کر دکھایا.تو تمام دنیا گواہ رہے کہ میں اقرار کروں گا کہ حق پیر مہر شاہ صاحب کے ساتھ ہے اور اس صورت میں میں یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ اپنی تمام کتابیں جو اس دعوئی کے متعلق ہیں جلا دوں گا اور اپنے تئیں مخذول اور مردود سمجھ لوں گا...لیکن اگر میرے خدا نے مجھے اس مباحثہ میں غالب کر دیا اور مہر علی شاہ صاحب کی زبان بند ہو گئی.نہ وہ فصیح عربی پر قادر ہو سکے اور نہ وہ حقائق و معارف سورہ قرآنی میں سے کچھ لکھ سکے یا یہ کہ اس مباحثہ سے انہوں نے انکار کر دیا تو ان تمام صورتوں میں ان پر واجب ہو گا کہ وہ توبہ کر کے مجھ سے بیعت کریں." تبلیغ رسالت جلد ۹ صفحه ۶۵ تا ۷۰ ) حضرت اقدس نے اس اشتہار میں اپنے میں خدام کے بطور گواہ دستخط شائع کئے اور....پیر صاحب سے کہا کہ وہ اس اشتہار کی وصولی کے بعد دس دن تک اشتہار کے ذریعے سے اپنی منظوری
کا اعلان شائع کر دیں جس میں میرے اشتہار کی طرح ہیں معززین کی شہادت ثبت ہو اور مغلوبیت کی صورت میں اپنی بیعت کا اقرار بھی درج ہو.پیر صاحب موصوف کا اشتہار تبلیغ رسالت جلد ۹ صفحه ۷۰ ) پیر صاحب کو چونکہ علمی میدان میں آنے کی تاب نہ تھی.نیز وہ صاف انکار کر کے اپنی حقیقت بھی واضح نہیں کرنا چاہتے تھے.اس لئے انہوں نے ۲۵ - جولائی کو اشتہار دیا کہ مجھ کو دعوت حاضری جلسہ منعقدہ لاہور مع شرائط مجوزہ مرزا صاحب بسر و چشم منظور ہے مگر سب سے پہلے ان کے دعوئی مسیحیت سے متعلق بحث ہوگی پھر اگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے دونو ساتھیوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ اس بحث میں وہ حق پر نہیں تو انہیں میری بیعت کرنا پڑے گی.اس کے بعد تفسیر نویسی کے مقابلہ کی اجازت دی جائے گی.) مفصل مکتوب کے لئے ملاحظہ ہو.” واقعات صحیحہ " صفحہ ۲۶٬۲۵ مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق) " حضرت اقدس نے پیر صاحب کی اس پر فریب چال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :- بھلا بیعت کر لینے کے بعد اعجازی مقابلہ کرنے کے کیا معنے ؟ نیز فرمایا کہ انہوں نے تقریری مباحثہ کا بہانہ پیش کر کے تفسیری مقابلہ سے گریز کی راہ نکالی ہے اور لوگوں کو یہ دھوکا دیا ہے کہ گویا وہ میری دعوت کو قبول کرتا ہے.حالانکہ میں انجام آتھم میں یہ مستحکم عہد کر چکا ہوں کہ آئندہ ہم مباحثات نہیں کریں گے.لیکن انہوں نے اس خیال سے تقریری بحث کی دعوت دی کہ "اگر وہ مباحثہ نہیں کریں گے تو ہم عوام میں فتح کا ڈنکا بجائیں گے.اور اگر مباحثہ کریں گے تو کہہ دیں گے کہ اس شخص نے خدا تعالیٰ کے ساتھ عہد کر کے توڑا." (تحفہ گولڑویہ - روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۸۷ تا ۹۰) علاوہ ازیں صاف ظاہر ہے کہ یہ لفظی " اقرار مقابلہ " مقابلہ سے کھلا انکار تھا اور حضور کی مقدس دعوت سے تمسخر آمیز فرار بس میں تفسیر نویسی میں مقابلہ کی بجائے دعوئے مسیحیت سے
متعلق مباحثہ کی تجویز پیش کر کے پھر ایک ایسے شخص کو مباحثہ کے لئے ثالث مقرر کر دیا گیا جو اول المکفرین اور مسیح موعود کی مخالفت کے اعتبار سے پیر صاحب کا ہم مشرب تھا.اس کا حضرت مسیح موعود سے اختلاف ہی مسئلہ وفات مسیح تھا اور مسئلہ حیاتِ مسیح ہی اس کا مدار ایمان تھا.اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابل پر خود ایک فریق تھا.پھر پیر گولڑوی صاحب موصوف کا منقولی مباحثہ کے بعد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور اس نوع کے دوسرے دو اشخاص کو از خود حکم بنا لینا بھی ایک مضحکہ خیز بات تھی کیونکہ یہ حضرات مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب کے معاملہ میں پہلے ہی پیر صاحب موصوف کے موید تھے.مولوی محمد احسن صاحب کا جواب مولوی محمد احسن صاحب نے ۱۴ اگست ۱۹۰۰ء کو اشتہار دیا.کہ اگر پیر صاحب مقابلہ سے فرار نہیں کر رہے تو وہی تین علماء جو تفسیر قرآن کے لئے حضور نے نامزد کئے تھے طلفا یہ شائع کر دیں کہ پیر صاحب کا یہ طریق تغییر نویسی کے مقابل عجز کا ثبوت نہیں ہے اس کے بعد اگر ایک سال کے اندر مرزا صاحب کی تائید میں کوئی نشان ظاہر نہ ہوا تو پھر ہم مغلوب متصور ہوں گے.اس کے علاوہ حضرت اقدس کے لاہور کے خدام نے اپنی انجمن فرقان ( جس کے صدر حکیم فضل الہی صاحب ، سیکرٹری منشی تاجدین صاحب اور جائنٹ سیکرٹری میاں معراج دین صاحب عمر تھے ) کی طرف سے ۱۹ اور ۲۰.اگست کو دو دفعه اشتہار دیا کہ اگر پیر صاحب موصوف حضرت اقدس کی شرط کے مقابل تفسیر لکھ لیں تو ہم ایک ہزار روپیہ نقد بطور انعام پیر صاحب کی خدمت میں پیش کر دیں گے.واقعات مجھہ - صفحہ ۳۷۳۶) ان اشتہارات کے جواب میں ۲۱.اگست کو پیر صاحب کی طرف سے دوبارہ اشتہار دیا گیا جس میں تفسیر نویسی کو ٹالنے کے لئے سارا زور مباحثہ پر ہی تھا اور ساتھ ہی مباحثہ کی تاریخ از خود ۲۵- اگست تجویز کرلی.عصائے موسیٰ صفحہ ۴۱۸ مصنفہ منشی الہی بخش اکو ٹنٹ )
(یاد رہے کہ غشی الہی بخش اکو شنسٹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شدید مخالف تھا اور آپ سے بغض و عناد میں اپنی مثال آپ تھا.) مریدوں کی طرف سے دھمکیاں مزید بر آن پیر صاحب کے بعض مرید آپے سے باہر ہو گئے اور انہوں نے حضرت اقدس کو دشنام آلود خطوں کا باقاعدہ ایک سلسلہ شروع کر دیا.جن میں نہ صرف فحش کلامی کو انتہا تک پہنچایا گیا تھا بلکہ قتل کی دھمکیاں دی گئی تھیں.جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ عوامی ذہن کو آپ کے خلاف مسموم کرنے کی خطرناک مہم تیز کر دی گئی ہے.پیر صاحب کی لاہور میں اچانک آمد (عصائے موسیٰ صفحہ ۴۸) ادھر پیر صاحب کی ہوشیاری دیکھئے.انہوں نے ۲۱.اگست کو یہ اشتہار دیا اور یہ انتظار کئے بغیر کہ حضرت اقدس کی طرف سے اس کا کیا جواب دیا جاتا دو تین روز بعد ہی اپنے مریدوں کی ایک بڑی جمعیت لے کر ۲۴.اگست بروز جمعہ کو پہنچ گئے.حضرت اقدس نے تفسیر نویسی کے مقابلہ میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ، مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی اور مولوی عبداللہ صاحب ٹونکی پروفیسر اور نینٹل کالج لاہور کا نام بطور ثالث تجویز کیا تھا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اس موقعہ پر اپنے ایک ذاتی کام کے بہانہ سے شملہ کی طرف چلے گئے مگر موخر الذکر دو اصحاب اس دن آ موجود ہوئے اور مزعومہ مباحثہ کی کاروائی سننے کے لئے بیرونی مقامات سے بھی کافی لوگ آپہنچے.چنانچہ بٹالوی صاحب خود لکھتے ہیں :." خاکسار نے.....مرزا کے دعوئی بالمقابلہ تفسیر نویسی اور نشان نمائی کو اس کی قدیم لاف زنی سمجھ کر.....اعراض اختیار کیا اور اپنی ذاتی ضرورتوں کے لئے شملہ پہنچا." (اشاعت اللہ جلد ۱۹ صفحه (۳۹)
N پیر صاحب کے مریدوں نے آتے ہی یہ اشتہار دے دیا کہ پیر صاحب بغرض مباحثہ آگئے ہیں.انہوں نے مرزا صاحب کے تمام شرائط منظور کرلئے ہیں.پیر صاحب کا یہاں قدم رکھنا ہی تھا کہ لاہور میں یکا یک مخالفت کا ایک خوفناک سیلاب امڈ آیا - بر سرعام گالیاں سنائی دینے لگیں.اور منبروں سے حضرت اقدس کے واجب القتل ہونے کے وعظ ہونے لگے." واقعات صحیحہ " صفحہ ۴۱ ۶۳ مولفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ) پیر صاحب کی لاہور آمد اور ان کے مریدوں کی طرف سے اشتہار بازی بالآخر پیر صاحب کے لئے ایسی بڑی ثابت ہوئی جو نہ ان سے نکلی گئی نہ اٹلی.پیر صاحب کو میدان تفسیر نویسی میں لانے کے لئے مخلصانہ سعی اور جدوجہد لاہور کے مخلص احمدیوں نے پیر صاحب کی آمد کی اطلاع ملتے ہی یہ مخلصانہ سعی اور جدوجہد شروع کر دی کہ پیر صاحب مقابلہ تفسیر نویسی کے لئے تیار ہو جائیں چنانچہ انہوں نے ۲۴.اگست ہی کو اشتہار دے دیا کہ پیر صاحب کے عقیدت مند لاہور اور راولپنڈی سے حضرت اقدس کے خلاف گالیوں سے پر اشتہارات دے رہے ہیں.مگر حکیم سلطان محمود صاحب آف راولپنڈی ، محمد دین صاحب کتب فروش لاہور اور دوسرے مرید اپنے قابل احترام پیر صاحب سے صاف لفظوں میں یہ اشتہار نہیں دلواتے کہ ہمیں حضرت اقدس کا مقابلہ تفسیر نویسی بلا شرط منظور ہے گو حضرت اقدس کی طرف سے مقابلہ کی مجوزہ تاریخ گزر چکی ہے.تاہم اگر وہ اب بھی اسے تسلیم فرمالیں تو دوبارہ مناسب تاریخ مقرر ہو جائے گی اور حضرت اقدس اس میں شامل ہو جائیں گے.جب اس اشتہار پر بھی پیر صاحب کی طرف سے خاموشی رہی تو انہوں نے اشتہار کی بجائے پیر صاحب کی خدمت میں نہایت ادب سے ایک دستی خط میں لکھا کہ اگر در حقیقت جناب دین اسلام پر رحم کر کے اس بڑے فتنے کو مٹانے کے لئے ہی لاہور میں تشریف لائے ہیں تو فی الفور اپنے دستخط خاص سے اس مضمون کی ایک تحریر شائع کر دیں.کہ ہم مرزا غلام احمد صاحب کے ساتھ ان کے ۲۵ - جولائی ۱۹۰۰ء والے اشتہار کے
16 مطابق بلا کم و کاست شرائط سے مقابلہ تفسیر نویسی کرنے کے لئے تیار ہیں.ایسی تحریر پر کم از کم لاہور کے چار مشہور رئیسوں اور مولویوں کے شہادۃ " دستخط کرا دیں.....ہم یہ عرض ہادب کرتے ہیں کہ اللہ آپ اس فیصلہ کے لئے آمادہ ہوں اور کسی طرح گریز کا خیال نہ فرمائیں." ( مفصل خط کے لئے ملاحظہ ہو " واقعات صحیحہ » صفحہ ۴۶۴٬۴۵) یہ خط اسگلے دن ۲۵ اگست کو لکھا گیا تھا.ایک غیر از جماعت دوست میاں عبدالرحیم صاحب داروغہ مارکیٹ.حکیم سید محمد عبداللہ صاحب عرب بغدادی ، منشی عبد القادر صاحب مدرس ، میاں میر بخش دوکاندار لاہور کے ہمراہ پیر صاحب کی خدمت میں نماز ظہر کے وقت پہنچے.پیر صاحب موصوف نے فرمایا کہ اس کا جواب عصر کے بعد دیں گے مگر جب داروغہ صاحب پانچ بجے ان کی قیام ہ پر پہنچے.تو ان کے مریدوں نے داروغہ صاحب کو اندر نہ جانے دیا اور باہر ہی سے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ پیر صاحب اس خط کا کوئی جواب نہیں دیتے.گاه پر - واقعات صحیحہ - صفحه ۴۴-۴۵-۴۷) لاہور کے احمدیوں نے ۲۷ جون ۱۹۰۰ء سے بذریعہ اشتہار ایک چیلنج دے رکھا تھا کہ کوئی عالم یا گدی نشین اپنے تئیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ پر حق پر سمجھتے ہیں تو وہ بھی شامل ہو کر دعا کی قبولیت میں مقابلہ کرلیں اور وہ اس طرح کہ بعض لاعلاج مریضوں اور مصیبت زدوں کو بذریعہ قرعہ اندازی تقسیم کر لیا جائے.آدھے حضرت مرزا صاحب کے حصے میں اور آدھے فریق ثانی کے حصے میں.دونو خدا سے دعا کریں اور چالیس دن کے اندر خدا سے خبر پا کر یہ بات شائع کر دیں کہ ہمارے مریضوں میں سے فلاں فلاں مریض تندرست ہو جائیں گے جس کی دعا سے مریض تندرست اور مصیبت زدہ خوشحال ہو جائیں وہ حق پر سمجھا جائے.اس سیدھے سادھے طریق کے جواب میں ایک طویل خاموشی کے بعد اسی روز ۲۵ - اگست ۱۹۰۰ء کو لاہور میں ایک اشتہار تقسیم ہوا جس میں مولوی غازی صاحب وغیرہ پیر صاحب کے مریدوں نے صاف لفظوں میں اقرار کیا کہ نہ خدا ہمارا طرفدار ہے اور نہ بیماروں کو ہماری دعا سے شفا ہو سکتی ہے.مرزا صاحب یکطرفہ نشان دکھائیں اور مریضوں کو شفا دلائیں.واقعات صحیحہ - صفحه ۲۰۱۹)
۱۸ افہام و تفہیم کی یہ سب صورتیں جب یکسر ناکام رہیں تو حکیم فضل الہی صاحب اور میاں معراج الدین صاحب عمر نے دوسرے دن (۲۶ - اگست ۱۹۰۰ ) پیر صاحب کے نام ایک رجسٹری خط میں درخواست کی کہ وہ اپنی دستخطی تحریر سے اشتہار شائع فرما دیں کہ مجھے ۲۰.جولائی ۱۹۰۰ء کی دعوت تغییر نویسی بلا کم و کاست منظور ہے.لیکن افسوس پیر صاحب نے رجسٹری لینے سے صاف انکار کر دیا.واقعات صحیحہ - صفحہ ۴۷) ( واقعات صحیحہ - صفحہ ۴۷) مگر ان کے مریدوں نے یہ خبر پھیلائی کہ پیر صاحب نے تو مرزا صاحب کو ۲۵.اگست کو کئی تار دیئے ہیں.مگر مرزا صاحب کی طرف سے ہی کوئی جواب نہیں ملا.جس پر ۲۷.اگست کو اشتہار دیا گیا کہ پیر صاحب اللہ شہادت شائع کر دیں کہ یہ خبر صحیح ہے تو ہم اکاون روپے بطور نذرانہ پیش کریں گے.(واقعات صحیحہ - صفحه ۴۹) مگر پیر صاحب بدستور خاموش رہے.اس کے بعد یہ ہوا کہ اسی روز صبح شاہی مسجد میں علماء کرام نے اصل واقعات پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک بھاری جلسہ کیا اور مسلمانوں کو تلقین کی کہ مرزا صاحب اور ان کے مریدوں کی پروا نہ کریں اور نہ ان کی کسی بات کا جواب دیں.اشاعت السته جلد ۱۹ نمبر ۱۳۲ پر اس جلسہ کی کارروائی میں علماء کا یہ فیصلہ ان الفاظ میں درج ہے:." آئندہ کوئی اہل اسلام مرزا قادیانی یا اس کے حواریوں کی کسی تحریر کی پروا نہ کریں اور نہ ان سے مخاطب ہوں اور نہ ہی انہیں کچھ جواب دیں کیونکہ ان کے عقائد وغیرہ بالکل خلاف اسلام ہیں." اس موقعہ پر منشی نظام الدین صاحب فنانشل سیکرٹری انجمن حمایت اسلام نے پیر صاحب کی خدمت میں باصرار درخواست کی کہ وہ بھی اپنے خیالات سے مستفید فرمائیں.پھر بادشاہی مسجد میں لوگوں نے بڑی لجاجت سے درخواست کی کہ پبلک جلسہ میں کچھ فرمائیں.مگر انہوں نے صاف جواب دے دیا کہ میری آواز دھیمی ہے میں منبر پر کھڑے ہو کر تقریر کرنے کے قابل نہیں ہوں.الحکم ۲۴ - اکتوبر ۱۹۰۰ء صفحه ۷۶ )
网 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مفضل اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب اس صورت حال کا علم ہوا تو آپ نے ۲۸.اگست ۱۹۰۰ء کو ایک مفصل اشتہار دیا جس میں لکھا.کہ " مجھے معلوم ہوا ہے کہ لاہور کے گلی کوچے میں پیر صاحب کے مرید اور ہم مشرب شہرت دے رہے ہیں کہ پیر صاحب تو بالمقابل تفسیر لکھنے کے لئے لاہور میں پہنچ گئے تھے مگر مرزا بھاگ گیا اور نہیں آیا.اس لئے پھر عام لوگوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ یہ تمام باتیں خلاف واقعہ ہیں جبکہ خود پیر صاحب بھاگ گئے ہیں اور بالمقابل تفسیر لکھنا منظور نہیں کیا اور نہ ان میں یہ مادہ اور نہ خدا کی طرف سے تائید ہے اور میں بہر حال لاہور پہنچ جاتا.مگر میں نے سنا ہے کہ اکثر پشاور کے جاہل سرحدی پیر صاحب کے ساتھ ہیں اور ایسا ہی لاہور کے اکثر سفلہ اور کمینہ طبع لوگ گلی کوچوں میں مستوں کی طرح گالیاں دیتے پھرتے ہیں اور نیز مخالف مولوی بڑے جوش سے وعظ کر رہے ہیں کہ یہ شخص واجب القتل ہے تو اس صورت میں لاہور میں جانا بغیر کسی احسن انتظام کے کس طرح مناسب ہے.....پھر بھی اگر پیر صاحب نے اپنی نیت کو درست کر لیا ہے اور سیدھے طور پر بغیر زیادہ کرنے کسی شرط کے وہ میرے مقابل میں عربی میں تفسیر لکھنے کے لئے طیار ہو گئے ہیں تو میں خدا تعالٰی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں بہر حال اس مقابلے کے لئے جو محض بالمقابل عربی تفسیر لکھنے میں ہو گا لاہور میں اپنے تئیں پہنچاؤں گا.صرف دو امر کا خواہشمند ہوں جن پر لاہور میں میرا پہنچنا موقوف ہے.1.اول یہ کہ پیر صاحب سیدھی اور صاف عبارت میں بغیر کسی بیچ ڈالنے یا زیادہ شرط لکھنے کے اس مضمون کا اشتہار اپنے نام پر شائع کر دیں جس پر پانچ لاہور کے معزز اور مشہور ارکان کے دستخط بھی ہوں کہ میں نے قبول کر لیا ہے کہ میں بالمقابل مرزا غلام احمد قادیانی کے عربی فصیح بلیغ میں تفسیر قرآن شریف لکھوں گا....اور چونکہ موسم برسات ہے اس لئے ایسی تاریخ اس مقابلہ کی لکھنی چاہئے کہ کم از کم تین دن پہلے مجھے اطلاع ہو جائے..
۲- دوسرا امر جو میرے لاہور پہنچنے کے لئے شرط ہے وہ یہ ہے کہ شہر لاہور کے تین رئیس یعنی نواب شیخ غلام محبوب سبحان صاحب اور نواب فتح علی شاہ صاحب اور سید برکت علی خاں صاحب سابق اکسٹرا اسٹنٹ ایک تحریر بالاتفاق شائع کر دیں کہ ہم اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ پیر مہر علی شاہ صاحب کے مریدوں اور ہم عقیدوں کی طرف سے گالی یا کوئی وحشیانہ حرکت ظہور میں نہیں آئے گی.اور یاد رہے کہ لاہور میں میرے ساتھ تعلق رکھنے والے پندرہ یا بیس آدمی سے زیادہ نہیں ہیں اور میں ان کی نسبت یہ انتظام کر سکتا ہوں کہ مبلغ دو ہزار روپیہ ان تینوں رئیسوں کے پاس جمع کرا دوں گا.اگر میرے ان لوگوں میں سے کسی نے گالی دی یا زدو کوب کیا تو وہ تمام روپیہ میرا ضبط کر دیا جائے.میں وعدہ کرتا ہوں کہ وہ اس طرح پر خاموش رہیں گے کہ جیسے کسی میں جان نہیں مگر پیر مہر علی شاہ صاحب جن کو لاہور کے بعض رئیسوں سے بہت تعلقات ہیں اور شاید پیری مریدی بھی ہے ان کو روپیہ جمع کرانے کی کچھ ضرورت نہیں.کافی ہو گا کہ حضرات معزز رئیسان موصوفین بالا ان تمام سرحدی پر جوش لوگوں کے قول اور فعل کے ذمہ دار ہو جائیں جو پیر صاحب کے ساتھ ہیں اور نیز ان کے دوسرے لاہوری مریدوں خوش عقیدوں اور مولویوں کی گفتار کردار کی ذمہ داری اپنے سر لے لیں جو کھلے کھلے طور پر میری نسبت کہہ رہے ہیں اور لاہور میں فتوے دے رہے ہیں کہ یہ شخص واجب القتل ہے.ان چند سطروں کے بعد جو ہر سہ ریکسان مذکورین بالا اپنی ذمہ داری سے اپنے دستخطوں کے ساتھ شائع کر دیں گے اور پیر صاحب کے مذکورہ بالا اشتہار کے بعد پھر میں اگر بلا توقف لاہور میں نہ پہنچ جاؤں تو کاذب ٹھہروں گا." اس اشتہار میں مذکور دوسری شرط کے متعلق منشی الہی بخش صاحب اکو ٹنٹ نے لکھا:." سبحان اللہ ! یہ خوب انصاف ہے کہ خود بدولت مرزا صاحب کسی کی ایک شرط بھی ہرگز قبول نہ کریں اور آپ شرائط پر شرائط بڑھاتے جائیں اور وہ بھی ایسے ناممکن العمل کہ کبھی نہ ہو سکیں." (عصائے موسیٰ صفحہ ۴۲۰) ان الفاظ سے شرط کی اہمیت نمایاں ہو جاتی ہے.دراصل حضرت اقدس کو اس
۲۱ موقعہ پر یہی سب سے بڑا شکوہ تھا کہ ایک دینی معاملہ اخلاق و تحمل کے جس ماحول کا ہے وہ سرے سے مفقود ہے.اگر عملا یہ بات نہیں تھی تو مطلوبہ ذمہ داری حاصل کرنے کو " ناممکن العمل " کیوں قرار دیا گیا.خصوصاً جبکہ یہ اصحاب پیر صاحب کے مرید یا ہم عقیدہ ہی تھے.رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی اس قسم کا ایک واقعہ ملتا ہے.چنانچہ ”سنن ابي داؤد " (کتاب الخراج والغنى و الامارۃ باب خبر النفیر ) میں لکھا ہے کہ بنو نضیر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ تمیں آدمی لے کر آئیں ہم بھی اپنے اخبار لے کر آئیں گے.اگر ہمارے احبار آپ کی تصدیق کریں تو ہمیں بھی کچھ عذر نہ ہو گا لیکن چونکہ وہ بغاوت کی تیاری کر چکے تھے حضور علیہ السلام نے کہلا بھیجا کہ جب تک تم ایک معاہدہ نہ لکھ دو میں تم پر اعتماد نہیں کر سکتا.پیر صاحب کیلئے مباحثہ کی ایک آسان شرط اشتہار کے آخر میں آپ نے پیر صاحب کے مطالبہ مباحثہ کو پورا کرنے کے لئے یہ آسان تجویز لکھی کہ :- "اگر پیر مہر علی شاہ صاحب بالمقابل عربی تفسیر لکھنے سے عاجز ہوں جیسا کہ در حقیقت یہی سچا امر ہے تو ایک اور سہل طریق ہے جو وہ طرز مباحثہ کی نہیں جس کے ترک کے لئے میرا وعدہ ہے.اور وہ طریق یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری مذکورہ بالا کے بعد میں لاہور میں آؤں اور مجھے اجازت دی جائے کہ مجمع عام میں جس میں ہر سہ رئیس موصوفین بھی ہوں تین گھنٹے تک اپنے دعوئی اور اس کے دلائل کو پبلک کے سامنے بیان کروں.پیر مہر علی شاہ صاحب کی طرف کوئی خطاب نہ ہو گا.اور جب میں تقریر ختم کر چکوں تو پیر مہر علی شاہ صاحب اٹھیں اور وہ بھی تین گھنٹے تک پبلک کو مخاطب کر کے ثبوت دیں کہ حقیقت میں قرآن اور حدیث سے یہی ثابت ہے کہ آسمان سے مسیح آئے گا پھر بعد اس کے لوگ ان دونو تقریروں کا خود موازنہ اور مقابلہ کر لیں گے اور ان دونو باتوں میں سے اگر کوئی بات پنیر صاحب منظور فرما دیں تو بشرط تحریری ذمہ داری رؤساء مذکورین میں لاہور میں آ جاؤں گا." تبلیغ رسالت جلد ا صفحه ۱۳۷ تا ۱۴۱)
پیر صاحب کی گولڑہ کو واپسی پیر مہر علی شاہ صاحب کا ارادہ ابتداء کیکم ستمبر بروز جمعہ تک لاہور میں قیام کرنے کا تھا.لیکن انہوں نے سوچا جمعہ کے دن پھر تقریر کے مطالبہ کی بوچھاڑ ہو گی اور ان کا رہا سہا وقار بھی خاک میں مل جائے گا لہذا وہ قیام لاہور کا مزید پروگرام منسوخ کر کے جمعہ سے قبل ہی چل دیئے اور جاتے ہوئے اپنے مریدوں کو وصیت فرما گئے کہ مرزا صاحب اور ان کی جماعت کی کتابیں اور اشتہارات ہرگز نہ پڑھیں ورنہ گمراہ ہو جائیں گے.چنانچہ جب حضرت اقدس کا یہ آخری اشتہار لاہور میں پہنچا تو وہ گولڑہ تشریف لے جاچکے تھے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب ، منشی تاج الدین صاحب سیکرٹری انجمن فرقانیہ اور حضرت اقدس کے دوسرے خدام نے مل کر انہیں فورا یہ اشتہار رجسٹری بھجوا دیا اور انہیں لکھا: چونکہ آپ خلاف توقع جمعہ سے قبل ہی لاہور سے روانہ ہو گئے تھے.اس لئے اسے رجڑی کر کے آپ کی خدمت میں بھجوا رہے ہیں.احتیاطاً دو اشتہار آپ کے مریدان باصفا کو بھی دیئے جا رہے ہیں کہ پیش خدمت کر دیں.نیز لکھا کہ اشتہار میں حضرت مرزا صاحب کی طرف سے رؤساء سے دستخط کروانے کی پانچ یوم کی مہلت میں مزید دس روز کا اضافہ کر دیا گیا ہے.آپ اس عرصہ میں مذکورہ رؤساء سے دستخط کرا کے بھیج دیں.علاوہ ازیں انہیں یہ پیشکش بھی کی کہ اگر آپ اس مقابلہ میں تشریف دیں گے تو آپ کو کرایہ ریل سیکنڈ کلاس اور آپ کے دو خادموں کا کرایہ انٹر میڈیٹ کلاں آمد و رفت کا ہم نذر کریں گے.امید ہے کہ آپ حق کے فیصلہ کے واسطے بہت جلد اس کا احسن انتظام کر کے لاہور میں تشریف لاویں گے." واقعات صحیح - صفحہ (۶۲۶) پیر صاحب موصوف نے اس دفعہ بھی رجسڑی لینے سے صاف انکار کمر اور اس طرح سفر و قیام کے اخراجات کی پیشکش کے باوجود نہ ان کو اور نہ ان کے ہم مشرب کا سرام کو حضرت اقدس کے مطالبہ کی تکمیل میں وہ حدیث پیش کرنے کی جرات ہو سکی جس میں حضرت مسیح کے مجسدِ
۲۳ عصری آسمان پر جانا اور پھر آنا مذکور ہو نیز وہ تفسیر نویسی اور بالمشافہ تقریر کے بھی مرد میدان نہ بن سکے.حضرت مسیح موعود کی طرف سے اتمام حجت پیر صاحب کے لاہور سے جانے کے بعد ان کے عقید تمندوں کی طرف سے اشتہاروں کا ایک سلسلہ جاری کر دیا گیا جس میں لکھا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب جیسے مقدس انسان بالمقابل تفسیر لکھنے کیلئے صعوبت اٹھا کر لاہور پہنچے مگر مرزا صاحب اس بات پر اطلاع پا کر کہ وہ بزرگ نا بغہ زماں سجان دوراں اور پر علم و معارف قرآن میں لاثانی روزگار ہیں اپنے گھر کے کسی گوشہ میں چھپ گئے ورنہ حضرت پیر صاحب کی طرف سے معارف قرآنی بیان کرنے اور زبان عربی کی فصاحت دکھلانے میں بڑا نشان ظاہر ہوتا.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حق پوشی کا یہ رنگ دیکھا تو اللہ تعالی کی تحریک سے ۱۵ دسمبر ۱۹۰۰ء مندرجہ اربعین نمبرہ میں بالقاء ربانی تفسیر لکھنے کیلئے ایک اور تجویز پیش کی.آپ نے فرمایا."اگر پیر جی صاحب حقیقت میں فصیح عربی تفسیر پر قادر ہیں اور کوئی فریب انہوں نے نہیں کیا.تو اب بھی وہی قدرت ان میں ضرور موجود ہو گی.لہذا میں ان کو خدا تعالی کی قسم دیتا ہوں کہ اس میری درخواست کو اس رنگ میں پورا کر دیں کہ میرے دعاوی کی تکذیب کے متعلق فصیح بلغ عربی میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھیں جو چارجز سے کم نہ ہو.اور میں اس سورۃ کی تفسیر بفضل الله و قوتہ اپنے دعوی کے اثبات سے متعلق فصیح بلیغ عربی میں لکھوں گا.انہیں اجازت ہے کہ وہ اس تفسیر میں دنیا کے علماء سے مدد لیں.عرب کے بلغاء فصحاء بلا لیں.لاہور اور دیگر بلاد کے عربی دان پروفیسروں کو بھی مدد کے لئے طلب کریں.۱۵ - دسمبر ۱۹۰۰ ء سے ستردن تک اس کام کے لئے ہم دونوں کو مہلت ہے.ایک دن بھی زیادہ نہیں ہو گا.اگر بالمقابل تفسیر لکھنے کے بعد عرب کے تین نامی ادیب ان کی تغیر کو جامع لوازم بلاغت و فصاحت قرار دیں اور معارف سے پر خیال کریں تو میں پانسو
۲۴ روپیہ نقد ان کو انعام دوں گا اور تمام اپنی کتابیں جلا دوں گا.اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا.اور اگر قضیه برعکس نکلا یا اس مدت تک یعنی ستر بروز تک وہ کچھ بھی نہ لکھ سکے تو مجھے ایسے لوگوں سے بیعت لینے کی بھی ضرورت نہیں اور نہ روپیہ کی خواہش.صرف یہی دکھلاؤں گا کہ کیسے انہوں نے پیر کہلا کر قابل شرم جھوٹ بولا." نیز فرمایا :- (روحانی خزائن جلد ۱۷ حاشیه صفحه ۴۴۹-۴۵۰) " ہم ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی مدد کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد الجبار غزنوی اور محمد حسن تھیں وغیرہ کو بلا لیں.بلکہ اختیار رکھتے ہیں کہ کچھ طمع دے کر دو چار عرب کے ادیب بھی طلب کر لیں.فریقین کی تفسیر چارجز سے کم نہیں ہونی چاہئے.......اگر میعاد مجوزه تک یعنی ۱۵ - دسمبر..اگر میعاد مجوزه تک یعنی ۱۵ دسمبر ۱۹۰۰ء سے ۲۵ - فروری ۱۹۰۱ء تک جو سترون ہیں فریقین میں سے کوئی فریق چھاپ کر شائع نہ کرے اور یہ دن گذر جائیں تو وہ جھوٹا سمجھا جائے گا.اور اس کے کاذب ہونے کے لئے کسی اور دلیل کی حاجت نہ رہے گی." روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۸۴) اس اعلان کے مطابق اللہ تعالی کے فضل اور اس کی خاص تائید سے حضرت اقدس علیہ السلام نے مدت معینہ کے اندر ۲۳.فروری ۱۹۰۱ء کو ” اعجاز الصحیح" کے نام سے فصیح و بلیغ عربی زبان میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر شائع کر دی اور اس کتاب کے سرورق پر آپ نے یہ پیشگوئی کرتے ہوئے بڑی تحدی سے فرمایا کہ یہ ایک لاجواب کتاب ہے - و من قام للجواب و تنمر فسوف يرى انه تندم و تذمر کہ جو شخص بھی غصہ میں آکر اس کتاب کا جواب لکھنے کے لئے تیار ہو گا وہ نادم ہو گا اور حسرت کے ساتھ اس کا خاتمہ ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس تفسیر کے لکھنے کی غرض یہ بیان فرمائی کہ تا پیر مہر علی شاہ صاحب کا جھوٹ ظاہر ہو کہ وہ قرآن کریم کا علم رکھتے اور چشمہ عرفان سے پینے والے اور صاحب خوارق و کرامات ہیں.اعجاز المسیح - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۶ تا ۳۹)
۲۵ نیز آپ نے اس طرح بھی ان کی غیرت کے تاروں کو جھنجھوڑا کہ ان ذلك الرجل الغمر ان لم يستطع ان يتولى بنفسه هذا الامر - فلدان یشرک به من العلماء الزمر - او يدعو من العرب طائفة الادباء - او يطلب من صلحاء قومه همة ودعاء لهذه اللاداء - و ما قلت هذا القول الا ليعلم الناس انهم كلهم جاهلون - ولا يستطيع احد منهم ان يكتب كمثل هذا ولا يقدرون - وليس من الصواب ان يقال ان هذا الرجل المدعو كان عالما فی سابق الزمان و امانی هذا الوقت فقد انعدم علمه كثلج ينعدم بالذوبان - و نسج علمه عناكب النسيان اعجاز ا مسیح - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۴۴۲) کہ یہ صاحب نادان شخص اگر از خود اس کام کی طاقت نہیں رکھتے تو میری طرف سے اجازت ہے کہ اپنے ہم مشرب علماء کو ساتھ ملالیں یا اپنی مدد کے لئے عرب سے ایک گروہ ادیبوں کا بلا لیں یا اپنی قوم کے صلحاء سے اس مہم کے سر کرنے کے لئے ہمت اور دعا بھی طلب کرلیں.پس یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ لوگ جان لیں کہ یہ سب جاہل ہیں.ان میں سے نہ ایک شخص اس کام کی طاقت رکھتا ہے نہ سب مل کر ایسا کر سکتے ہیں.اور یہ عذر درست نہیں کہ یہ کہا جائے کہ یہ شخص یعنی پیر صاحب جن کو مقابلہ کے لئے بلایا گیا ہے گذشتہ دنوں میں تو عالم تھے.مگر اب ان کا علم برف کی طرح پکھل کر کالعدم ہو گیا ہے.اور دھول و نسیان کی مکڑیوں نے اس پر جالے بن دیئے ہیں.|- پھر بڑی شوکت سے آپ نے یہ اعلان بھی فرمایا کہ الحق والحق اقول ان هذا كلام كانه حسام - وانه قطع كل نزاع و ما بقى بعده خصام - و من كان يظن انه فصیح و عنده کلام کانه بدر تام فليات بمثله والصمت عليه حرام و ان اجتمع اباءهم وابناء هم و اكفاء هم و علماءهم - وحكماءهم وفقهاءهم على ان ياتوا بمثل هذا التفسير - في هذا المدى القليل الحقير - لا ہاتون بمثله و لو كان بعضهم لبعض كالظهير - فانى دعوت لذالک و ان دعائی مستجاب فلن تقدر على جواب کتاب لا شيوخ ولاشاب- وانه كنز المعارف و مدينتها وماء الحقائق وطينتها اعجاز المسیح - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۷٬۵۶)
۲۶ کہ یہ حقیقت ہے اور میں سچ کہتا ہوں کہ یہ کلام ایک شمشیر براں ہے جس نے ہر جھگڑنے والے کو کاٹ کر رکھ دیا ہے لہذا اب کوئی مدمقابل باقی نہیں رہا.پس جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ فصیح البیان ہے اور اس کا کلام چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا ہے تو اس پر اب خاموشی حرام ہے اسے چاہئے کہ اس کی مٹیل لائے اور خواہ ان کے باپ، بیٹے ، منشیں ، علماء ، حکماء اور فقہاء سب مل کر بھی کوشش کریں کہ اس تھوڑی اور قلیل مدت میں اس کی مثیل لا سکیں تو وہ ایسا نہیں کر سکتے.حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس کے بارہ میں دعا کی تو میری دعا کو شرف قبولیت بخشا گیا پس اب کوئی لکھنے والا خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا اس کا جواب لکھنے پر قدرت نہیں رکھتا.یہ معارف کا خزانہ ہے بلکہ ان کا شہر ہے اور یہ حقائق کے پانی اور حقائق کی مٹی سے بنائی گئی ہے.اس اعجازی کلام کو پیش کرتے ہوئے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ” میں نے اس کتاب کے لئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اسے علماء کیلئے معجزہ بنائے اور کوئی ادیب اس کی نظیر لانے پر قادر نہ ہو.اور ان کو لکھنے کی توفیق نہ ملے.اور میری یہ دعا قبول ہو گئی.اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی اور کہا منعد مانع من السماء کہ آسمان سے ہم اسے روک دیں گے.اور میں سمجھا کہ اس میں اشارہ ہے کہ دشمن اس کی مثال لانے پر قادر نہیں ہونگے." ( صفحه ۶۸ جلد ہذا ) پیشگوئی کے مطابق نہ پیر گولڑوی کو اور نہ عرب و عجم کے کسی اور ادیب چنانچہ اس عظیم الشان.فاضل کو اس کی مثل لکھنے کی جرات ہوئی.000
۲۷ (۲) إِنَّهُ كِتَابُ لَيَسْ لَهُ جَوَابُ مولوی محمد حسن فیضی اور اس کے نوٹس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۳ فروری ۱۹۰۱ء کو کتاب ” اعجاز المسیح " شائع کر دی جو پیر صاحب کو بھی پہنچائی گئی.اس کتاب میں پیر صاحب کے علاوہ علماء عرب و عجم کو عربی میں تفسیر نویسی کے لئے کھلی دعوت مقابلہ بھی تھی.اس دعوت مقابلہ کو قبول کرتے ہوئے ایک مولوی محمد حسن فیضی ساکن موضع بھیں تحصیل چکوال ضلع جہلم مدرس مدرسہ نعمانیہ واقع شاہی مسجد لاہور نے عوام میں شائع کیا کہ وہ اس کا جواب لکھے گا.چنانچہ اس نے جواب کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اعجاز المسیح اور حضرت سید محمد احسن امرد ہوی کی کتاب "شمس بازغہ " پر نوٹ لکھنے شروع کئے.ان نوٹوں میں ایک جگہ اس نے لعنۃ اللہ علی الکاذبین بھی لکھ دیا جس پر ابھی ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر خاص کے تحت وہ ہلاک ہو گیا.اس کی اس غیر معمولی ہلاکت نے ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابل پر اس کا اپنا جھوٹا ہونا ثابت کیا تو دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام منعه مانع من السماء (کہ اسے آسمان سے ایک روکنے والے نے روک دیا ) کی سچائی کا عظیم الشان نشان فراہم کیا." مولوی محمد حسن فیضی متوفی کا ترکہ اس کے گاؤں موضع رھیں ضلع جہلم پہنچ گیا جس میں اس کی جملہ کتب کے ساتھ کتاب اعجاز المسیح اور شمس بازغہ بھی تھیں جن پر اس نے نوٹ لکھے تھے.اردو کی کتاب ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس خیال اور انتظار میں تھے کہ چونکہ اکثر با سمجھ لوگوں نے پیر صاحب کی اس کارروائی کو پسند نہیں کیا جو انہوں نے لاہور میں کی تھی (جس کی تفصیل ہم گذشتہ صفحات میں درج کر آئے ہیں ) اس لئے اس ندامت کا داغ دھونے کے لئے ضرور انہوں نے یہ ارادہ کیا ہو گا کہ مقابلہ تفسیر نویسی کے لئے کچھ طبع آزمائی کریں اور کتاب " اعجاز المسیح " کی مانند
۲۸ سورہ فاتحہ کی تفسیر فصیح و بلیغ عربی میں شائع کر دیں گے تاکہ لوگ یقین کرلیں کہ پیر جی عربی بھی جانتے ہیں اور تغیر بھی لکھ سکتے ہیں لیکن افسوس کہ جب یکم جولائی ۱۹۰۲ء کو کتاب " سیف چشتیائی“ آپ کو ملی تو وہ عربی کی بجائے اردو زبان میں تھی اور تفسیر کی بجائے ہر دو کتب اعجاز المسیح اور شمس بازغہ پر بے بنیاد اعتراضات اور بے سروپا نکتہ چینیوں پر مشتمل کتاب تھی.چنانچہ جیسا کہ پیر صاحب کو چاہئے تھا نہ انہوں نے بالمقابل عربی تفسیر لکھ کر اپنی علمی یا معجزانہ طاقت کا ثبوت دیا اور نہ اس قدر لمبی مدت میں وہ فرض ادا کر سکے جو انہیں ادا کرنا چاہئے تھا بلکہ مقابلہ میں اپنی درماندگی کی نسبت اپنے ہاتھ سے مہر لگا گئے.اس سے نہ صرف پیر صاحب کا تفسیر نویسی کے مقابلہ میں بجز اور عربی دانی میں نا اہل ہونا دنیا پر واضح ہو گیا بلکہ ایک بار پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں الہام الہی ، منعه مانع من السماء (كه آسمان سے ایک روکنے والے نے اسے روک دیا ) کی سچائی کا زبردست نشان ظہور میں آیا اور پیر صاحب نے اس پیشگوئی کی صداقت پر بھی مہر تصدیق ثبت کر دی کہ در حقیقت انه كتاب ليس له جواب و من قام للجواب و تنمّر فسوف يرى انه تندم و تذتر - کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کا کوئی جواب نہیں اور جو اس کے جواب کے لئے کھڑا ہو گا وہ نادم ہو گا اور اس کا خاتمہ حسرتوں کے ساتھ ہو گا.سرقہ کا چر کہ کتاب سیف چشتیائی میں پیر صاحب نے جو سب سے بڑا معرکہ مارا وہ یہ ا وہ یہ اعتراض تھا کہ دو صد سے زائد صفحات پر مشتمل کتاب اعجاز مسیح میں بعض فقرے (جو اکٹھا کرنے کی حالت میں چار سطر زالمسیح ا سے زیادہ نہیں ) مقامات حریری ، قرآن کریم اور بعض کسی اور کتاب سے مسروقہ ہیں اور بعض کسی قدر تغیر و تبدل کے ساتھ لکھے گئے ہیں اور بعض عرب کی مشہور مثالوں میں سے ہیں.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سرقہ کا الزام تھا جو پیر صاحب نے لگایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیر صاحب کے اس الزام کا کافی اور مدلل جواب اپنی کتاب نزول المسیح میں تحریر فرمایا ہے جس کے بعض نکات اختصار کے ساتھ ذیل میں درج ہیں.
۲۹ ادیبوں کے کلام میں دو چار فقروں کا توارد عموماً پایا جاتا ہے.٥۰ ادیبوں کے کلام میں بطور اقتباس بھی فقرات استعمال کئے جاتے ہیں.خود حریری کی کتاب میں بعض آیات قرآنیہ بطور اقتباس موجود ہیں.( حریری - عربی کا مشہور انشاء پرداز اور مستند ادیب جس کی تحریر مسجع و مقفی عبارتوں پر مبنی ہے.اس کے مجموعوں کا نام مقامات حریری ہے.) اسی طرح اس کے کلام میں دوسرے ادباء کے چند عبارات اور اشعار بغیر تغیر و تبدیل کے موجود ہیں.اسی طرح اس کے کلام میں بعض عبارتیں ایک اور نا بغہ روزگار ادیب ابو الفضل بدیع الترمان کی بعینہ ملتی ہیں.معلقہ ( وہ بلند پایہ قصیدوں کا مجموعہ جو زمانہ جاہلیت میں خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا ) کے وہ شاعروں کا ایک مصرعہ پر توارد ہے.ایک شاعر کہتا ہے بقولون لا تهلک اسی و تجمل اور دوسرا شاعر کہتا ہے يقولون لا تھلک اسی و تجلد ایسا ہی یہودی یہ ثابت کرتے ہیں کہ انجیل کی عبارتیں طالمود میں سے لفظ بلفظ چرائی گئی ہیں.بعض شریر اور بدذات معترضین نے قرآن شریف پر بھی یہ الزام لگایا ہے کہ اس کے مضامین توریت اور انجیل میں سے مسروقہ ہیں اور اس کی امثلہ قدیم عرب کی امثلہ ہیں.اب کوئی علم و ادب کے آداب سے تہی شخص ہی ہو سکتا ہے جو یہ یقین کرلے کہ توارد اور اقتباسات کی وجہ سے مذکورہ بالا تحریریں یا کتب مسروقہ عبارتوں اور اشعار سے بھری ہوتی ہیں.عظیم الشان اور فصیح و بلیغ کتاب میں توارد کی مثالیں بھی ملتی ہیں اور اقتباسات بھی.ان چند مثالوں کو چوری قرار دینے والا یا تو فصاحت و بلاغت اور زبان دانی کی الف باء بھی نہیں جانتا یا پھر بد دیانتی سے کام لے رہا ہے.تحریر کو اقتباسات سے آراستہ کرنا اور اس میں توارد کا در آنا ، فصاحت و بلاغت کی ایک قسم ہے جیسے تحریر میں ہیرے جواہرات سجے ہوئے ہوں.اگر فصاحت و بلاغت کی اس قسم کو سرقہ اور
چوری قرار دے دیا جائے تو پھر ساری دنیا کے بہترین ادباء ، شعراء اور انشاء پرداز جو فصاحت و بلاغت اور زبان دانی کے استاد مانے جاتے ہیں ، سب اس الزام کے نیچے آتے ہیں.سرقہ کا اصل مجرم معزز قارئین ! اب خدا تعالٰی کی اس تقدیر خاص کا جلوہ ملاحظہ فرمائیں جو ہمیشہ بچوں کو عزت و عظمت کا تاج پہناتی ہے اور جھوٹوں کو ہزیمت و شکست ہی نہیں ، ذلت و ادبار اور سیاہ روئی بھی عطا کرتی ہے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابھی پیر صاحب والی کتاب سیف چشتیائی میں مذکور نکتہ چینیوں کا جواب لکھ رہے تھے کہ موضع میں سے میاں شہاب الدین صاحب جو مولوی محمد حسن فیضی متوفی کے دوست تھے اور اس کے ہمسایہ بھی تھے ' کا ۲۹ جولائی ۱۹۰۲ء کو موضع بھیں سے خط آپ کو ملا.جس کی نقل من وعن قارئین کی خدمت میں پیش ہے.اس سے پیر صاحب کی سارقانہ کارروائیاں ایسی کھلتی ہیں جس طرح کوئی رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے.میاں شہاب الدین صاحب کے خط بنام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نقل " مرسل یزدانی و مامور رحمانی حضرت اقدس جناب مرزا جی صاحب دام بر کا تکم و فیو منکم السلام علیکم و رحمہ اللہ و برکاتہ.اما بعد آپ کا خط رجسٹری شدہ آیا.دل غمناک کو تازہ کیا - رو کر او معلوم ہوئی.حال یہ ہے کہ محمد حسن کا مسودہ علیحدہ تو خاکسار کو نہیں دکھایا گیا.کیونکہ اس کے مرنے کے بعد اس کی کتابیں اور سب کاغذات جمع کر کے مقفل کئے گئے ہیں.شمس بازغہ اور اعجاز المسیح پر جو مذکور نے نوٹ کئے تھے وہ دیکھے ہیں.اور وہی نوٹ گولڑی ظالم نے کتابیں منگوا کر درج کر دیئے ہیں اپنی لیاقت سے کچھ نہیں لکھا.اب محمد حسن کا والد وغیرہ میرے تو جانی دشمن بن گئے ہیں.کتابیں تو بجائے خود ایک ورقہ
۳۱ تک نہیں دکھاتے.پہلے بھی دیکھنے کا ذریعہ یہ ہوا تھا کہ جب گولڑی نے کتابیں یعنی شمس بازنہ اور اعجاز ، مسیح محمد حسن کے والد سے منگوائیں اور فارغ ہو کر واپس روانہ کیں تو چونکہ وہ حامل کتب اجنبی تھا اس لئے بھول کر میرے پاس مسجد میں آیا اور کہنے لگا کہ مولوی محمد حسن کا گھر کدھر ہے.میں نے پوچھا کہ کیا کام.کہنے لگا کہ مہر علی شاہ نے مجھ کو کتابیں دے کر روانہ کیا ہے کہ مولوی محمد حسن کے والد کو یہ کتابیں شمس بازغہ اور اعجاز المسیح دے آ.پھر میں نے کتابیں لے کر دیکھیں تو ہر صفحہ ہر سطر پر نوٹ ہوئے ہوئے میرے پاس سیف چشتیائی بھی موجود تھی عبارت کو ملایا تو بعینہ وہ عبارت تھی.آپ کا حکم منظور لاکن محمد حسن کا والد کتابیں نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ میرے روبرو بے شک دیکھ لو.مگر مہلت کے واسطے نہیں دیتا.خاکسار معذور ہے کیا کرے.دوسری مجھ سے ایک غلطی ہو گئی کہ ایک خط گولڑی کو بھی لکھا کہ تم نے خاک لکھا کہ جو کچھ محمد حسن کے نوٹ تھے وہی درج کر دیئے.اس واسطے گولڑی نے محمد حسن کے والد کو لکھا ہے کہ ان کو کتابیں مت دکھاؤ کیونکہ یہ شخص ہمارا مخالف ہے اب مشکل بنی کہ محمد حسن کا والد گولڑی کا مرید ہے اور اس کے کہنے پر چلتا ہے.مجھ کو نہایت افسوس ہے کہ میں نے گولڑی کو کیوں خط لکھا جس کے سبب سے سب میرے دشمن بن گئے.براہ عنایت خاکسار کو معاف فرما دیں.کیونکہ خالی میرا آنا مفت کا خرچ ہے اور کتابیں وہ نہیں دیتے..خاکسار شہاب الدین از مقام ھیں تحصیل چکوال " میاں شہاب الدین صاحب نے اس معاملہ سے متعلق ایک خط حضرت مولوی عبد الکریم کی خدمت میں بھی لکھا.جس کی نقل حسب ذیل ہے.مکرمی و معظمی و مولائی جناب مولوی عبد الکریم صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.اما بعد خاکسار خیریت سے ہے آپ کی خیریت مطلوب.میں آنے سے کچھ انکار نہ کرتا.لاکن کتابیں نہیں دیتے جن پر نوٹ ہیں.یعنی شمس بازغہ اور اعجاز مسیح سیف چشتیائی میں جتنی سخت زبانی ہے اکثر محمد حسن کی ہے.اسی وجہ سے اس کی موت کا.....نمونہ ہوا.....اب میرے خط لکھنے سے گولڑی خود اقراری ہے چنانچہ یہ کارڈ گولڑی کے
۳۲ ہاتھ کا لکھا ہوا ہے جو اس نے مولوی کرم الدین صاحب کو لکھا ہے.غرض گولڑی نے محمد حسن کے والد کو بہت تاکید کی ہے کہ ان کو کتابیں مت دکھاؤ یعنی اس راقم خاکسار کو.گولڑی کارڈ میں لکھتا ہے کہ محمد حسن کی اجازت سے لکھا گیا مگر یہ اعتراف را ستبازی کے تقاضا سے نہیں بلکہ اس لئے کہ یہ بھید ہم پر کھل گی ناچار شرمندہ ہو کر اقراری ہوا.دوسرے خط میں گولڑی کا کارڈ ہے جو اس نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر روانہ کیا ہے ملاحظہ ہو.خاکسار شہاب الد بمقام ھیں" مولوی کرم الدین جس کا ذکر میاں شہاب الدین صاحب نے اپنے خط میں کیا ہے اس نے جو خطوط حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حکیم فضل دین صاحب مالک و مہتمم ضیاء الاسلام پریس قادیان کو لکھے ان کی نقول ذیل میں درج ہیں.وہ لکھتے ہیں :- و مگر منا حضرت اقدس مرزا صاحب جی مدظلہ العالی السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته میں ایک عرصہ سے آپ کی کتابیں دیکھا کرتا ہوں مجھے آپ کے کلام سے تعشق ہے میں نے کئی دفعہ عالم رویاء میں بھی آپ کی نسبت اچھے واقعات دیکھے ہیں اکثر آپ کے مخالفین سے بھی جھگڑا کرتا ہوں.اگر چہ مجھے ابھی تک جناب سے سلسلہ پیری مریدی نہیں ہے کیونکہ اس بارے میں میرے خیال میں بہت احتیاط درکار ہے جب تک بالمشافہ اطمینان نہ کیا جاوے بیعت کرنا مناسب نہیں ہوتا لیکن تاہم مجھے جناب سے غائبانہ محبت ہے میں نے چار پانچ یوم کا عرصہ ہوا ہے کہ جناب کو خواب میں دیکھا ہے آپ نے مجھے مبارکباد فرمائی ہے اور کچھ شیرینی بھی عنایت کی ہے اور اس وقت میرے دل میں دو باتیں تھیں جن کو آپ نے بیان کر دیا ہے اور اسی خواب کے عالم میں میں یہ کہتا تھا کہ آپ کے کشف کا تو میں قائل ہو گیا ہوں.واللہ اعلم بالصواب.بعض باتوں کی سمجھ بھی نہیں آتی ہے.اس واسطے میرا خیال ابھی تک جناب کی نسبت یک رخہ نہیں ہے گو آپ کے صلاح و تورع کا میں قائل ہوں.میں نے اگلے روز آپ کی کتاب سرمہ چشم آریہ کی ابتداء میں چند اشعار فارسی اور چند اردو پڑھتے ہیں اور وہ پڑھ کر مجھے رونا آتا تھا اور کہتا تھا کہ کذابوں کی کلام میں کبھی بھی ایسا درد نہیں ہوتا.
٢٣ کل میرے عزیز دوست میاں شہاب الدین طالب علم کے ذریعہ سے مجھے ایک خط رجسٹری شدہ جناب مولوی عبدالکریم صاحب کی طرف سے ملا جس میں پیر صاحب گولڑی کی سیف چشتیائی کی نسبت ذکر تھا.یہاں شہاب الدین کو خاکسار نے بھی اس امر کی اطلاع دی تھی کہ پیر صاحب کی کتاب میں اکثر حصہ مولوی محمد حسن صاحب مرحوم کے ان نوٹوں کا ہے جو مرحوم نے کتاب اعجاز المسیح اور ٹمس بازغہ کے حواشی پر اپنے خیالات لکھے تھے وہ دونوں کتابیں پیر صاحب نے مجھ سے منگوائی تھیں اور اب واپس آگئی ہیں.مقابلہ کرنے سے وہ نوٹ باصلہ درج کتاب پائے گئے یہ ایک نہایت سارقانہ کارروائی ہے کہ ایک فوت شدہ شخص کے خیالات لکھ کر اپنی طرف منسوب کر لئے اور اس کا نام تک نہ لیا.اور طرفہ یہ کہ بعض وہ عیوب جو آپ کی کلام کی نسبت وہ پکڑتے ہیں.پیر صاحب کی کتاب میں خود اس کی نظیریں موجود ہیں.وہ دونوں کتابیں چونکہ مولوی محمد حسن صاحب کے باپ کی تحویل میں ہیں اس واسطے جناب کی خدمت میں وہ کتابیں بھیجنا مشکل ہے.کیونکہ ان کا خیال آپ کے خلاف میں ہے اور وہ کبھی بھی اس امر کی اجازت نہیں دے سکتے.ہاں یہ ہو سکے گا کہ ان نوٹوں کو بجنبہ نقل کر کے آپ کے پاس روانہ کیا جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی خاص آدمی جناب کی جماعت سے یہاں آکر خود دیکھ جائے.لیکن جلدی آنے پر دیکھا جا سکے گا.پیر صاحب کا ایک کارڈ جو مجھے پرسوں ہی پہنچا ہے با کلہا جناب کے ملاحظہ کے لئے روانہ کیا جاتا ہے جس میں انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مولوی محمد حسن کے نوٹ انہوں نے چرا کر سیف چشتیائی کی رونق بڑھاتی ہے.لیکن ان سب باتوں کو میری طرف سے ظاہر فرمایا جانا خلاف مصلحت ہے.ہاں اگر میاں شہاب الدین کا نام ظاہر بھی کر دیا جائے تو کچھ مضائقہ نہ ہو گا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ پیر صاحب کی جماعت مجھ پر سخت ناراض ہو.آپ دعا فرما دیں کہ آپ کی نسبت میرا اعتقاد بالکل صاف ہو جاوے اور مجھے سمجھ آجاوے کہ واقعی آپ ملہم اور مامور من اللہ ہیں.جناب مولوی عبد الکریم صاحب و مولانا مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں دست بستہ السلام علیکم عرض ہے.زیادہ لکھنے میں ضیق وقت مانع ہے.میاں شہاب
الدین کی طرف سے بعد سلام علیکم مضمون واحد ہے والسلام خاکسار محمد کرم الدین عفی عنہ از ھیں تحصیل چکوال مورخہ ۲۱ - جولائی ۹۰۲ " دوسرا خط مولوی کرم دین صاحب بنام حکیم فضل دین صاحب و مکرم معظم بندہ جناب حکیم صاحب مد ظلہ العالی السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته - ۳۱ - جولائی کو لڑکا گھر پہنچ گیا.اسی وقت سے کارِ معلومہ کی نسبت اس سے کوشش شروع کی گئی پہلے تو کتابیں دینے سے اس نے سخت انکار کیا اور کہا کہ کتابیں جعفر زٹلی کی ہیں اور وہ مولوی محمد حسن مرحوم کا مخط شناخت کرتا ہے اور اس نے تاکید مجھے کہا ہے کہ فورا کتابیں لاہور زٹلی کے پاس پہنچا دوں لیکن بہت سی حکمت عملیوں اور طمع دینے کے بعد اس کو تسلیم کرایا گیا مبلغ چھ روپیہ معاوضہ پر آخر راضی ہوا..اور کتاب اعجاز المسیح کے نوٹوں کی نقل دوسرے نسخہ پر کر کے اصل کتاب جس پر مولوی مرحوم کی اپنی قلم کے نوٹ ہیں ہم دست حامل عریضہ ابلاغ خدمت ہے کتاب وصول کر کے اس کی رسید حامل عریضہ کو مرحمت فرما دیں اور نیز اگر موجود ہوں تو چھ روپے بھی حامل کو دے دیجئے گا تاکہ لڑکے کو دے دیئے جاویں اور ناکہ دوسری کتاب شمس بازغہ کے حاصل کرنے میں دقت نہ ہو.کتاب شمس بازغہ کا جس وقت بیجلد نسخہ آپ روانہ فرمائیں گے فورا اصل نسخہ جس پر نوٹ ہیں اسی طرح روانہ خدمت ہو گا آپ بالکل تسلی فرما دیں انشاء اللہ تعالی ہرگز وعدہ خلافی نہ ہو گی.اس لڑکے نے کہا ہے کہ اور بھی مولوی مرحوم کے ہاتھ کے لکھے ہوئے کئی ایک نوٹ ہیں جو تلاش پر مل سکتے ہیں.جس وقت ہاتھ لگے تو ان کا معاوضہ علیحدہ اس سے مقرر کر کے نوٹ قلمی فیضی مرحوم بشرط ضرورت لے کر ارسال خدمت ہو نگے آپ شمس بازغہ کا نسخہ بہت جلدی منگا کر روانہ فرما دیں کیونکہ لڑکا صرف ایک ماہ کی رخصت پر گھر میں آیا اس عرصہ کے انقضاء پر اس نے کتاب لاہور لے جاتی ہے اور پھر کتاب کا ملنا متعذر ہو جائے گا.چکوال سے تلاش کریں شاید نسخہ مل جاوے تو حامل عریضہ کے ہاتھ روانہ فرما دیں اور اپنا آدمی بھی ساتھ
۳۵ بھیج دیں تاکہ کتاب لے جاوے امید ہے کہ میری یہ ناچیز خدمت حضرت مرزا صاحب اور آپ کی جماعت قبول فرما کر میرے لئے دعا خیر فرمائیں گے لیکن میرا التماس ہے کہ میرا نام بالفعل ہرگز ظاہر نہ کیا جاوے تاکہ پھر بھی مجھ سے ایسی مدد مل سکے.مولوی شہاب الدین - کی جانب سے السلام علیکم.والسلام خاکسار محمد کرم الدین عفی عنہ از ھیں تحصیل چکوال ۳ اگست ۱۹۰۲ء " ( نوٹ : محط کے شروع میں جس لڑکے کا ذکر ہے اس سے مراد محمد حسن متوفی کا لڑکا ہے جو اس کا وارث ہے.اسی نے بقول مولوی کرم دین صاحب چھ روپے نقد لے کر دونوں کتابیں یعنی اعجاز المسیح اور شمس بازغہ جن پر محمد حسن مذکور کے دستخطی نوٹ تھے ہم کو دے دیں.اور مہر علی کی پردہ دری کا یہی موجب ہوا.) نوٹ : اگر اجازت سے یہ کام تھا چوری سے نہیں تھا تو کیوں کتاب میں محمد حسن کا ذکر نہیں کیا گیا کہ اس کی اجازت سے میں نے اس کے مضمون لکھے ہیں.اور کیوں جھوٹ بولا گیا کہ یہ میں نے تالیف کی ہے اور کیوں اپنی کتاب میں اس کی کوئی تحریر طبع نہیں کی جس میں ایسی اجازت تھی اور کیوں اس وقت تک خاموش رہا جب تک کہ خدا نے پردہ دری کر دی اور چوری پکڑی گئی.مولوی کرم دین نے پیر مہر علی شاہ کے جس کارڈ کا ذکر اپنے ان دونوں مذکورہ بالا خطوط میں کیا ہے اس کی نقل ملاحظہ فرمائیں.اس میں پیر صاحب کا کھلا کھلا اقرار موجود ہے کہ دراصل کتاب سیف چشتیائی مولوی محمد حسن فیضی متوفی کا مضمون ہے.چنانچہ وہ مولوی کرم الدین کو مخاطب کرتے " ہوئے لکھتے ہیں :- مجتی و مخلصی مولوی کرم الدین صاحب سلامت باشند و علیکم السلام و رحمتہ اللہ - اما بعد یک نسخہ بذریعہ ڈاک یا کسے آدم معتبر فرستاده خواهد شد - آپکو واضح ہو کہ اس کتاب
(سیف چشتیائی ) میں تردید متعلق تغیر فاتحہ یعنی (اعجاز المسیح) جو فیضی صاحب مرحوم و مغفور کی ہے باجازت انکے مندرج ہے.چنانچہ فیمابین تحریر ا نیز مثافتہ " جہلم میں قرار پا چکا تھا بلکہ فیضی صاحب مرحوم کی درخواست پر میں نے تحریر جو اب شمس بازغہ پر مضامین ضروریہ لاہور میں ان کے پاس بھیج دیئے تھے اور ان کو اجازت دی تھی کہ وہ اپنے نام پر طبع کرا دیویں.افسوس کہ حیات نے وفا نہ کی اور نہ وہ میرے مضامین مرسلہ لاہور میں مجھے ملے.آخر الا مر مجھ کو ہی یہ کام کرنا پڑا.لہذا آپ سے ان کی کتابیں مستعملہ منگوا کر تفسیر کی تردید مندرجہ حسب اجازت سابقہ متغیر ها کی گئی آئندہ شاید آپ کو یا مولوی غلام محمد صاحب کو تکلیف اٹھانی ہو - گی.والسلام " یہ ساری خط و کتابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب " نزول المسیح " میں درج فرما دی اور یہ کتاب پیر صاحب کی زندگی میں ہی شائع ہو گئی اس کتاب میں حضور اقدس نے پیر صاحب کی کتاب سیف چشتیائی میں مذکور نکتہ چینیوں کا بھی منہ توڑ جواب تحریر فرمایا.پیر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر چند فقروں کی وجہ سے جو اعجاز المسیح میں بطور اقتباس یا توارد کے تحریر کئے گئے تھے سرقہ کا الزام لگایا تھا مگر سیف چشتیائی کو اپنی تصنیف قرار دینے کے لئے پیر صاحب نے جو سارقانہ جتن کئے ، اس مذکورہ بالا خط و کتابت کی وجہ سے ان کا بھانڈا چورا ہے میں پھوٹ گیا اور پیر صاحب رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اور بالاخر مولوی محمد حسن فیضی متوفی کی اپنے دستخطی نوٹوں والی کتابیں قادیان پہنچ گئیں تو پھر سیف چشتیائی سے ان نوٹوں کا موازنہ کر کے ہر و شخص نے پیر صاحب کا ایک مردہ شخص کی تحریروں کا قطعی چور ہونا مشاہدہ کر لیا.یہ بے بسی اور ہزیمت تھی جو خدا تعالیٰ کی تقدیر خاص نے پیر صاحب کے مقدر میں لکھ دی تھی.مأمور من اللہ ، مسیح موعود اور مہدی معہود سے مقابلہ نے جس طرح ان کی اصلیت اور پستی الم نشرح کی ، اس پر ان کا اپنا یہ شعر صادق آتا ہے کہ کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا گستاخ اکھیں کتھے جا لڑیاں
۳۷ لَوْ نَشَاءُ لَقَلْنَا مِثْلَ هذا اب انصاف کی نظر سے دیکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو ۲۲ کتابیں فصیح و بلیغ عربی میں تصنیف فرما ئیں جبکہ عربی اشتہارات ان کے علاوہ ہیں.لیکن پیر مہر علی شاہ صاحب اگرچہ یہی کہتے رہے لو نشاء لقلنا مثل هذا کہ اگر ہم چاہیں تو اس کی مثال پیش کر دیں مگر ایک لمبی عمر اور طویل فرصت ملنے کے باوجود بھی تفسیر قرآن پر مشتمل چند اوراق ہی عربی میں لکھنے پر قادر نہ ہو سکے.پیر صاحب کی شروع سے لے کر آخر تک چالاکیوں اور فرار کے حیلوں اور بالآخر ان کی بے بسی اور ہزیمت کے چرچے زبان زدعام ہونے لگے.یہی وجہ ہے کہ ان کے بعض قریبی مرید بھی سچائی کو قبول کر کے احمدیت میں داخل ہوئے.دوسرے یہ کہ جوں جوں لوگوں نے بلکہ بہت معتبر لوگوں نے پیر صاحب سے تفسیر لکھنے کا مطالبہ کیا تو ان پر بھی پیر صاحب کا عجز ظاہر ہوتا گیا.چنانچہ مولوی فیض احمد فیض جامعه خوشیه گولڑه شریف لکھتے ہیں.ایک مرتبہ حضرت دیوان سید محمد پاکپتن شریف کے اصرار پر حضرت قبلہ عالم قدس سرہ نے قرآن مجید کی تفسیر لکھنے کا ارادہ فرمایا لیکن پھر یہ کہہ کر دیوان صاحب سے معذرت خواہ ہوئے کہ میرے خیال تفسیر نویسی پر میرے قلب پر معانی و مضامین کی اس قدر بارش ہو گئی ہے جسے ضبط تحریر میں لانے کے لئے ایک عمرور کار ہو گی اور کوئی اور کام نہ ہو سکے گا.(مہر منیر صفحہ ۲۴۵) کاش پیر صاحب دوسرے کاموں کی بجائے یہی کام کر دیتے تو بڑی بات تھی مگر افسوس کہ " اس قدر بارش " ایسی زمین پر ہوئی کہ فتر کہ صلدا (پس اسے بالکل صاف کی صاف چھوڑ گئی )
۳۸ ان کی مثال ایسی ہے کہ کچھ بچے جمع تھے جن میں سے ہر ایک اپنے اپنے باپ کی سمندر میں غوطہ خوری کے کارنامے سنا رہا تھا کوئی کہتا کہ اس کے باپ نے دس منٹ لمبا غوطہ لگایا ، تو کوئی پندرہ منٹ بتاتا.حتی کہ ایک بچے نے اپنے باپ کی کئی گھنٹے طویل غوطہ خوری کی کہانی سنائی.اس پر ایک بچہ اترا کر کہنے لگا کہ یہ بھی کوئی کارنامہ ہے ؟ میرے باپ نے تو کئی سال پہلے سمندر میں غوطہ لگایا تھا اور ابھی تک وہ باہر ہی نہیں نکلے !!! بالآخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پیر مہر علی شاہ صاحب کے مابین معرکہ ، حق و باطل اس طرح اختتام کو پہنچا کہ ہر مکر جو پیر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف استعمال کیا خدا تعالی نے انہیں پر الٹا دیا اور ان کے ہر قریب کے پردے چاک کر دیئے.ہر ہتھیار جس سے پیر صاحب نے حملے کی کوشش کی ، خود انہیں کو گھائل کر گیا خصوصا سیف چشتیائی کا خود اپنے ہی مصنف کو اس تیز دھار سے ہلاک کر دینا ، عظیم معجزے کی حیثیت رکھتا ہے ، جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہلاک کرنے کے لئے آب دی گئی تھی.000
۳۹ (۳) معجزه ہو چشتی صاحب ! آپ کہتے ہیں کہ تشریح حقیقت معجزه آج تک قادیانی امت کے نام ادھار ہے.آپ تو ویسے ہی ادھار کھائے بیٹھے ہیں اس لئے آپ کو معجزہ کی حقیقت کس طرح سمجھ آسکتی ہے ؟ - لو نشاء لقلنا مثل هذا کہنے والوں کو کبھی بھی معجزہ کی سمجھ نہیں آئی انہیں " اعجاز المسیح " کی کس طرح سمجھ آتی.پیر صاحب کے ہر مکر کا انہیں پر الٹنا ، ان کے ہر فریب کا پردہ چاک؟ ، جانا ہر ہتھیار کا جس سے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملے کی کوشش کی ، خود انہیں کو گھائل کر دینا اور خصوصاً سیف چشتیائی کا خود اپنے ہی مصنف کو اس تیز دھار سے ہلاک کر دینا جیسے حضرت مسیح موعود کو ہلاک کرنے کیلئے آب دی گئی تھی.ایک عظیم الشان معجزہ تھا جو خصوصی طور پر آپ لوگوں کے ساتھ تعلق رکھتا تھا.مگر آپ نے اس معجزہ کو دیکھ کر بھی اعراض ہی کیا.وان يروا ايت يعرضوا - ويقولوا سحر مستمر ( القمر:٣) اور اگر وہ کوئی نشان دیکھیں گے تو ضرور اعراض کر جائیں گے اور کہہ دیں گے کہ یہ محض دھوکہ ہے جو ہمیشہ سے چلا آتا ہے.چشتی صاحب اگر کوئی قلب سلیم کے ساتھ حقیقت معجزہ کے بارہ میں جاننا چاہے تو اسے چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حسب ذیل کتابیں خاص طور پر پڑھے.سرمه چشم آریہ برا همین احمدیہ چشمہ معرفت ، حقیقتہ الوحی.
(۴) مسیح موعود علیہ السلام نئی شریعت نہیں لائے چشتی صاحب نے انبیاء کی صداقت کا ایک نیا معیار تراشہ ہے جس کا نہ قرآن کریم میں ذکر ہے نہ احادیث نبویہ میں اور نہ ہی اس کا کہیں پرانی کتابوں میں پتہ چلتا ہے.لکھتے ہیں :- " انبیاء علیہم السلام کی بے شمار صفات مطہرہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ کتاب لاتے ہیں بھیجی گئی کتاب کی طرف بلاتے ہیں وہ کتاب لکھا نہیں کرتے ؟ (صفحه ) یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ انبیاء علیہم السلام بنی بنائی کشتیوں پر تو سفر کرتے ہیں خود کشی نہیں بنایا کرتے.ہر شخص جانتا ہے کہ یہ صرف خدا تعالی کا کام ہے کہ وہ زمانہ کے حالات کے مطابق وقت کے نبی کو صداقتِ نبوت کے ثبوت کے لئے نشان عطا فرمائے.حضرت نوح علیہ السلام کو زمانہ کے حالات کے مطابق کشتی بنانے کا حکم ہوا تو وہی آپ کے لئے زبردست معجزہ ثابت ہوئی اور آپ کی نبوت کی صداقت کا ثبوت بنی.اسی طرح ہر نبی کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بعض امتیازی نشان عطا کئے گئے اور اس اذا الصحف نشرت ( سورۃ التکویر ) (یعنی جب کتب و رسائل بکثرت پھیل جائیں گے) کے زمانہ میں مامورِ زمانہ کو علمی و تصنیفی معجزات بطور نبوت کی ، صداقت کے ثبوت کے عطا فرمائے گئے جن میں سے کتاب " اعجاز المسیح بھی ایک زبردست نشان ہے.چونکہ یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس نشان کے سامنے عاجز آچکے ہیں اس لئے ویسی ہی باتیں کرتے ہیں جیسے رؤسائے بکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عاجز آکر کرتے تھے.مال هذا الرسول ياكل الطعام ويمشى في الاسواق (الفرقان : ۸) کہ اس رسول کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے.اور آج چشتی صاحب کو اعتراض یہ ہے کہ عجیب نبی ہے کہ کتاب لکھتا ہے.گویا کتاب لکھنا ایک نہی کے لئے بہت ہی بری اور قابل اعتراض بات ہے.جہاں تک انبیاء علیہم السلام کے لکھنے پڑھنے کا تعلق ہے تو یہ صرف ہمارے آقا و موٹی ، نبی اُمی
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی امتیازی شان ہے کہ آپ " اُمی" تھے یعنی پڑھے لکھے نہیں تھے.آپ کے علاوہ کسی اور نبی کی اس خصوصیت کا کہیں ذکر نہیں ملتا.بلکہ حضرت داؤد حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہم السلام کا خصوصیت سے ذکر ملتا ہے.کانوايكتبون ( تفسیر بیضاوی) کہ وہ لکھا کرتے تھے.پس اب پشتی صاحب اپنے خود ساختہ معیار کے مطابق مذکورہ بالا جلیل القدر انبیاء علیم السلام کی فتوی صادر فرمائیں گے ؟ وہ تیر جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بغض میں چلایا ہے ، اس کا نشانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنیں یا نہ بنیں یہ انبیاء علیہم السلام ضرور بن رہے ہیں.چشتی صاحب کی مذکورہ بالا تحریر ایک اور زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو ان کی کھلی کھلی تلبیس کی نشاندہی کرتی ہے.چشتی صاحب انبیاء کے متعلق لکھتے ہیں.” وہ کتاب لاتے ہیں ، بھیجی گئی کتاب کی طرف بلاتے ہیں وہ کتاب لکھا نہیں کرتے " قارئین غور فرمائیں کہ وہ کتب جو انبیاء علیم السلام لاتے ہیں یا جن بھیجی گئی کتب پر عمل کرواتے ہیں وہ بالکل علیحدہ نوعیت کی کتب ہوتی ہیں جنہیں الہی کتب کہا جاتا ہے یا جو شریعت پر مشتمل ہوتی ہیں ، ان کتب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب کو ملانا گستاخی ہے.اور پھر ان کتب کے مقابل پر لا کر موازنہ کرنا تو انتہائی درجہ بے ادبی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی بھی اپنی کسی کتاب کے بارہ میں یہ دعویٰ نہیں فرمایا کہ وہ شریعت کی کتاب ہے.آپ کی ہر کتاب شریعت محمدیہ کی تفسیر و تشریح پر مشتمل ہے.جیسا کہ کتاب اعجاز المسیح نسورہ فاتحہ میں بیان شده.حقائق و معارف کے بیان پر مشتمل ہے.پس کتب اللہ یا شریعت کی کتابیں جو انبیاء علیہم السلام لاتے ہیں یا جن پر عمل کراتے ہیں ان کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب کو قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام ، اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و وسلم کے مقابل پر محض خادمانہ اور غلامانہ ہے جس پر آپ کے حسب ذیل الہام شاہد ہیں.-1 ہے.کل بر که من محمد صلی اللہ علیہ و سلم فتبار ک من علم و تعلم
۴۲ ترجمہ : - ہر ایک برکت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے.پس تکھانے والا بھی مبارک ہے اور سیکھنے والا بھی.يحيى الدين ويقيم الشريعة ترجمہ : وہ احیائے دین اسلام اور قیام شریعت محمدیہ کرے گا پس حضرت مسیح ، وعود علیہ السلام ان انبیاء میں تے ہیں جو بھیجی گئی کتاب پر عمل کراتے ہیں.چنانچہ آپ نے اپنی جماعت کو یہ نصیحت فرمائی.فرمایا - " خدا کے محبوب بننے کے واسطے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی ایک راہ اور کوئی دوسری راہ نہیں کہ تم کو خدا سے مادے....دیکھو میں پھر کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچی راہ کے سوا اور کسی طرح انسان کامیاب نہیں ہو سکتا.ہمارا صرف ایک ہی رسول ہے اور صرف ایک ہی قرآن شریف اس رسول پر نازل ہوا جس کی تابعداری سے ہم خدا کو پا سکتے ہیں." ( الحکم ۱۰ مارچ ۱۹۰۳ء ) خدا نے مجھے بھیجا ہے تا میں اس بات کا ثبوت دوں کہ زندہ کتاب قرآن ہے اور زندہ دین اسلام ہے اور زندہ رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.دیکھو میں زمین اور آسمان کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ یہ باتیں سچ ہیں اور خدا دہی ایک خدا ہے جو کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ میں پیش کیا گیا ہے اور زندہ رسول وہی ایک رسول ہے جس کے قدم پر نئے سرے سے مردے زندہ ہو رہے ہیں ، نشان ظاہر ہو رہے ہیں.برکات ظہور میں آ رہے ہیں ، غیب کے چشمے کھل رہے ہیں." ( الحکم ۳۱ مئی ۱۹۰۰ء ) نیز فرمایا - " میں کوئی جدید شریعت لے کر نہیں آیا اور میرا دل ہرگز نہیں مان سکتا کہ قرآن شریف کے بعد اب کوئی اور شریعت آسکتی ہے کیونکہ وہ کامل شریعت اور خاتم الکتب ہے.اسی
سم بم طرح خدا تعالیٰ مجھے شریعت محمد " کے احیاء کے لئے اس صدی میں مبعوث فرماتا ہے." ( الحکم امتی ۰۳۰۱)
۴۴ (۵) سب پاک ہیں پیمبر چشتی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں لاف کاف طامات الم علم ، غرض ہے قسم کی لاف و گزاف اپنے اس رسالہ " فاتح قادیان " میں کی ہے.چنانچہ صفحہ ۴ پر بھی.معمول ہرزہ سرائی کے بعد صفحہ ۱۵ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ " انبیاء علیہ السلام سے رشتہ عقیدت توڑ کر اپنا گرویدہ کرنا ان کا نصب العین تھا.چنانچہ عیسی علیہ السلام کا آغوش مادر میں ہمکلام ہونا اس پر گراں گزرا تو اپنے بیٹے کا ان سے تقابل کرتے ہوئے لکھتا ہے: حضرت مسیح نے تو صرف مہد ہی میں باتیں کیں مگر اس لڑکے نے پیٹ میں ہی دو مرتبہ باتیں کیں.تریاق القلوب صفحه ۴۱ ۹۲۱) یہاں چشتی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کے ساتھ بھی مسجد کے اموال سا سلوک کیا ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رقم فرمودہ ساری عبارت پڑھی جائے تو حقیقت حال بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے اور اعتراض کی بھی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.چنانچہ ملاحظہ فرمائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.خدا تعالی کی طرف سے اسی لڑکے کی مجھ میں روح بولی اور الہام کے طور پر یہ کلام اس کا میں نے سنا.انی اسقط من الله و اصیبہ ملنے اب میرا وقت آگیا.اور میں اب خدا کی طرف سے اور خدا کے ہاتھوں سے زمین پر گروں گا.اور پھر اسی کی طرف جاؤں گا.) تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۱۷) اس کے بعد آپ نے فرمایا " یہ عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح نے تو صرف مہد میں ہی باتیں کیں مگر اس لڑکے نے پیٹ میں ہی دو مرتبہ باتیں کیں." اس پوری عبارت سے ظاہر ہے کہ اس بچے کا جو ماں کے پیٹ میں ہے ہرگز اس طرح بولنا مراد نہیں جس طرح ایک چلتا پھرتا بچہ اپنی ظاہری زبان سے بولتا ہے بلکہ یہ ایک الہام تھا جو خدا تعالٰی نے اس بچہ کی روح کی طرف سے حکایتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل فرمایا.آپ کا یہ فقرہ
۴۵ توجہ کے لائق ہے کہ : ” خدا تعالی کی طرف سے اسی لڑکے کی مجھ میں روح بولی " پس تعجب ہے کہ اگر چشتی صاحب نے یہ کتاب پڑھی تھی تو اس فقرہ پر غور کیوں نہ کیا.ہر صاحب بصیرت انسان یہ سمجھتا ہے کہ کشف و الہام عالم روحانیت سے تعلق رکھتے ہیں جن کو ہر بار ظاہری دنیا کے پیمانوں سے ناپنے کا نتیجہ بعض اوقات تمسخر کی صورت میں نکلتا ہے.کیونکہ صاحب کشوف و الہامات بزرگوں کے ایسے تجارب بکثرت اسلامی لٹریچر میں ملتے ہیں کہ جن میں بسا اوقات وفات شده حتی کہ صدیوں پہلے فوت شدہ افراد اگر پیغام دیتے ہیں اور بعض اوقات پیدا ہونے والے بچے کلام کرتے نظر آتے ہیں.کئی دفعہ پرند چرند بولتے نظر آتے ہیں تو کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے کہ عمارتیں ، شجر و حجر و غیرہ کلام کرتے دکھائی دیتے ہیں.حتی کہ عمارتیں چل کر ہزاروں میل کا سفر طے کر آتی ہیں جیسا کہ ایک مرتبہ خانہ کعبہ مجدّد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کی ملاقات کے لئے آیا تھا.دیکھیں کتاب حدیقه محمودیه ترجمه روضه قیومی ۶۸ از حضرت ابوالفیض کمال الدین سرہندی مطبع بلید پریس فرید کوٹ پنجاب ) اگر چشتی صاحب کے نزدیک یہ قابل اعتراض باتیں ہیں تو یہی اعتراض ان کے تحریر کردہ اس کشف پر بھی آتا ہے جو انہوں نے اپنے اسی رسالہ ” فاتح قادیان " کے صفحہ ے پر بیان کیا ہے.ہم اس مستند کشف کی صداقت کی بحث میں نہیں پڑتے.صرف چشتی صاحب سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا امداد اللہ مہاجر مکی صاحب.پیر مہر علی صاحب پر اپنے ظاہری جسم کے ساتھ رونما ہو گئے تھے اور اپنی ظاہری زبان سے انہوں نے کلام کیا تھا ؟ - ہم چشتی صاحب کے سامنے ان کے بزرگوں کی ایسی متعدد مثالیں پیش کر سکتے ہیں مگر ہمارا مقصد کسی پر اعتراض کرنا نہیں بلکہ یہ سمجھانا ہے کہ عالم کشف و الہام کی باتوں کو سمجھنے کے لئے بصیرت کی آنکھ اور تقدس سے معمور سوچ اور سمجھ چاہئے کیونکہ یہ مسئلہ الہیات سے تعلق رکھتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ جو بیان فرمایا کہ اس بچے نے پیٹ میں دو دفعہ باتیں کیں.یہ ظاہری زبان سے کلام نہیں تھا بلکہ آپ نے پہلے کھول کر یہ بیان فرما دیا تھا کہ " خدا تعالی کی طرف سے اسی لڑکے کی مجھ میں روح بولی " چنانچہ اس بچے کی روح کے کلام ، انی اسقط من اللہ و اصیبہ کہ میں خدا کی طرف سے اور خدا کے
۴۶ ہاتھوں سے زمین پر گروں گا اور پھر اسی کی طرف جاؤں گا" کے مطابق اس کی پیدائش اور پھر وفات اس الہام الہی کی صداقت کا بین ثبوت ہے جو اس بچے کی طرف سے خدا تعالٰی نے حکایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل فرمایا.جہاں تک اس بچے کی روح کے کلام کو حضرت عیسی علیہ السلام کے کلام سے ملانے کا تعلق ہے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مکمل بیان کے پیش نظر اس کا محض یہ مقصد ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام جو مہد میں کلام کرتے تھے وہ بھی خدا تعالی کی عجیب قدرتوں میں سے تھا اور خدا تعالی کی طرف سے اس بچے کی پیدائش سے قبل اس کی روح کا بولنا بھی اسی خدائے ذوا العجائب کی عجیب قدرتوں کا ایک کرشمہ ہے.اس سے بڑھ کر اس کا اور کوئی مطلب نہیں لیا جا سکتا.کیونکہ وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلام ظاہری زبان سے تھا اور یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ” اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی لڑکے کی مجھ میں روح بولی اور الہام کے طور پر یہ کلام اس کا میں نے سنا.“ " مولوی مشتاق احمد چشتی صاحب نے یہاں یہ جو بہتان باندھا ہے کہ " انبیاء علیہ السلام سے ه رشتہ عقیدت توڑ کر اپنا گرویدہ کرنا ان کا نصب العین تھا." ( نقل بمطابق اصل ) بیک جنبش قلم رو کرنے کے قابل ہے.چشتی صاحب احمدیت سے عناد میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ فریب و دجل کی ہر گندگی پر منہ مارنے کیلئے تیار ہیں بلکہ اپنا فرض سمجھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انبیاء علیم السلام سے رشتہ عقیدت جوڑنے کے لئے اپنی پاک جماعت کو جو تعلیم دی یہ ہے.فرمایا :- " انبیاء علیهم السلام طبیب روحانی ہوتے ہیں اس لئے روحانی طور پر ان کے کامل طبیب ہونے کی یہی نشانی ہے کہ جو نسخہ وہ دیتے ہیں یعنی خدا کا کلام وہ ایسا تیر بہدف ہوتا ہے کہ جو شخص بغیر کسی اعراض صوری یا معنوی کے اس نسخہ کو استعمال کرے وہ شفا پا جاتا ہے اور گناہوں کی مرض دور ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت دل میں بیٹھ جاتی ہے اور اس کی محبت میں دل محو ہو جاتا ہے." ( چشمہ معرفت - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۳۵) فرمایا
۴۷ وہ زمین پر خدا کے قائم مقام ہوتے ہیں اس دلئے ہر ایک مناسب وقت پر خدا کی صفات ان سے ظاہر ہوتی ہیں اور کوئی امران سے ایسا ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ خدا کی صفات کے برخلاف ہو." چشمه معرفت - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۹۶) پھر آپ نے اپنی جماعت کو یہ عرفان بھی عطا فرمایا کہ ے وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد " دلبر مرا ہی ہے سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ میں ہے ( قادیان کے آریہ اور ہم - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۵۶) اور انبیاء علیہم السلام کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کا عقیدہ یہ ہے." ہم یقین رکھتے ہیں کہ جب کبھی بھی دنیا تاریکی سے بھر گئی ہے اور لوگ فسق و فجور میں مبتلا ہو گئے ہیں اور بلا آسمانی مدد کے شیطان کے پنجے سے رہائی پانا ان کے لئے مشکل ہو گیا ہے اللہ تعالی اپنی شفقت کاملہ اور رحم ہے اندازہ کے سبب اپنے نیک اور پاک اور مختلص بندوں میں سے بعض کو منتخب کر کے دنیا کی رہنمائی کے لئے بھیجتا رہا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے و ان من امةالاخلا فيها نذير ( سورة فاطر: ۲۵ ) یعنی کوئی قوم نہیں ہے جس میں ہماری طرف سے نبی نہ آچکا ہو اور یہ بندے اپنے پاکیزہ عمل اور بے عیب رویہ سے لوگوں کے لئے خضر راہ بنتے رہے ہیں اور ان کے ذریعے سے وہ اپنی مرضی سے دنیا کو آگاہ کرتا رہا ہے جن لوگوں نے ان سے منہ موڑا وہ ہلاکت کو سونپے گئے اور جنہوں نے ان سے پیار کیا وہ خدا کے پیارے ہو گئے اور برکتوں کے دروازے ان کے لئے کھولے گئے اور اللہ تعالٰی کی رحمتیں ان پر نازل ہوئیں اور اپنے سے بعد کو آنے والوں کے لئے وہ سردار مقرر کئے گئے اور دونوں جہانوں کی بہتری ان کے لئے مقدر کی گئی.اور ہم یہ بھی یقین کرتے ہیں کہ یہ خدا کے فرستادے جو دنیا کو بدی کی ظلمت سے نکال کر نیکی کی روشنی کی طرف لاتے رہے ہیں ، مختلف مدارج اور مختلف مقامات پر فائز
۴۸ تھے اور ان سب کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے سید ولد آدم قرار دیا اور کافۃ للناس مبعوث فرمایا اور جن پر اس نے تمام علوم کاملہ ظاہر کئے اور جن کی اس نے اس رعب و شوکت سے مدد کی کہ بڑے بڑے جابر بادشاہ ان کے نام کو سن کر تھرا اٹھتے تھے اور جن کے لئے اس نے تمام زمین کو مسجد بنا دیا ، حتی کہ چپہ چپہ زمین پر ان کی امت نے خدائے وحدہ لا شریک کے لئے سجدہ کیا اور زمین عدل و انصاف سے بھر گئی بعد اس کے کہ وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی تھی اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اگر پہلے انبیاء بھی اس نبی کامل کے وقت میں ہوتے تو انہیں اس کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.واذا خذ الله میثاق النبيين لما اتيتكم من كتاب و حكمة ثم جاءكم رسول مصدق لما معكم لتو منن به ولتنصر نه ( آل عمران : ۸۲) اور جیسا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لو کان موسیٰ و عیسی حيين لما وسعهما الا اتباعی اگر موسیٰ اور عیسی زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہ تھا." ( دعوۃ الا میر صفحہ ۷۶ از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ) اس کے بعد ہم چشتی صاحب کی خدمت میں صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ گر کفر این بود بخدا سخت کا فرم کہ اگر یہ عقائد کفر ہیں تو خدا کی قسم ہم سخت کافر ہیں.000
۴۹ (1) غلط تاریخ پیدائش...غلط دلیل چشتی صاحب نے " مجدد قرن الرابع عشر" کے الفاظ کے حروف ابجد کے لحاظ سے اعداد نکال کر جو مجموعی طور پر ۴۷۵ بنتے ہیں دلیل گھڑی ہے کہ چونکہ یہ سال ہجری پیر صاحب کی ولادت کا سال ہے اس لئے یہ ثابت ہوا کہ پیر صاحب چودھویں صدی کے مجدد تھے.چشتی صاحب نے پیر صاحب کا سال ولادت ۱۲۷۵ ہجری قرار دیا ہے جو کہ سن عیسوی کے اعتبار سے ۱۸۵۹ بنتا ہے جبکہ چشتی صاحب کے بزرگوں میں ہے جناب مولوی محمد فاضل صابر از ٹھیکریاں نے جو کہ پیر صاحب کے خاص ارادتمندوں میں سے تھے ، پیر صاحب کا سال ولادت ۱۸۳۷ عیسوی قرار دیا ہے گویا پورے ۲۳ سال کا فرق ہے.چنانچہ پیر صاحب کے سوانح حیات جو مولانا فیض احمد فیض جامعہ غوفیہ گولڑہ شریف نے مسند آرائے آستانہ عالیہ غوشیہ گولڑہ شریف جناب سید غلام محی الدین شاہ کی اجازت سے " ہر منیر" کے نام سے شائع کی ہے اس میں مولوی محمد فاضل صابر کا تحریر کردہ مرضیہ درج کیا ہے جس کا آخری شعر جو تواریخ ولادت و وفات کے بارہ میں فیصلہ کن ہے یہ ہے صابر از سن وصال شان بگو آمد ندا بے ضیا ماندہ جہاں چوں مہر عالم شد نہاں = ۱۸۳۷ + ۱۹۳۷ء ( جس طرح کتاب میں شعر درج کیا گیا ہے ہم نے بعینہ اس طرح نقل کیا ہے ) دیکھئے اس میں مولوی محمد فاضل صابر نے پیر صاحب کا سال ولادت ۱۸۳۷ عیسوی قرار دے کر اس میں " آمد ندا" کے حروف ابجد کے مطابق اعداد شامل کر کے جو ۱۰۰ بنتے ہیں.پیر صاحب کی وفات کا سال معین کیا ہے یعنی ۱۸۳۷ + ۱۰۰ = ۱۹۳۷ء پس کتاب مہر منیر کی اندرونی شہادت یہ ہے کہ دراصل پیر صاحب کا سن ولادت ۱۸۳۷ عیسوی یعنی ۱۲۵۲ مجری تھا.اب اپنی من گھڑت اور قطعی بے بنیاد دلیل کی وجہ سے کھینچ تان کر پیر صاحب کی عمر کو پورے ۲۳ سال کم کر دینا انہیں کے مریدوں کا ہی کام ہے.پس پیر صاحب کے مریدوں نے پیر صاحب کو مجدد ثابت کرنے کے لئے حروف ابجد کے اعداد کا
۵۰ جو نام نہاد معیار بنایا تھا وہ ان کے سن ولادت ۱۲۵۲ مجری متعین ہونے سے پارہ پارہ ہو گیا.ولادت آمد ندا وفات ۶۱۹۳۷ + ۶۱۸۳۷ یہاں یہ امر بھی قارئین کی دلچسپی کا باعث ہو گا کہ مولوی محمد فاضل صابر کے اس مذکورہ بالا شعر کے نیچے مولف کتاب ” مہر منیر " لکھتے ہیں " راقم الحروف (مؤلف) کی استخراج کرده تاریخ وصال توفی و دو دالله مجدد طریقتہ یعنی اللہ کا دوست طریقہ المیہ کا مجدد فوت ہوا قبل ازیں بھی تحریر ہو چکی ہے " اس تحریر میں مولف کتاب نے پیر صاحب کی ساری عمر کی سعی کو بے مقصد اور تمام تر جدوجہد کو باطل ثابت کر دیا ہے.- پیر صاحب نے اپنی ساری زندگی یہ ثابت کرنے میں بتادی کہ توفی کے معنی پورا پورا لے لینے کے ہیں اور جب حضرت عیسی علیہ السلام کے بارہ میں یہ لفظ آتا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی حضرت عیسی علیہ السلام کو پورا پورا آسمان پر لے گیا.جہاں وہ زندہ ہیں.مگر ستم ظریفی دیکھئے پیر صاحب کی آنکھیں بند ہوتے ہی آپ کے مرید خاص مولانا فیض احمد فیض نے آپ کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا اور ثابت کر دیا کہ توفی کے معنے پورا پورا اٹھانے کے نہیں بلکہ مرجانے کے ہیں چنانچہ لکھا تو فی ودود اللہ مجدد طریقہ کہ اللہ کا دوست اور طریقہ اہلیہ کا مجدد فوت ہوا.یعنی پیر صاحب فوت ہو گئے.پورے پورے نہیں اٹھائے گئے.یاد رہے کہ اس کتاب کی اشاعت کی اجازت خاص طور پر پیر صاحب کے بیٹے سید غلام محی الدین شاہ مسند آرائے آستانہ گولڑہ سے لی گئی تھی.
۵۱ تونی (۷) اسلام کی زندگی عیسی" کی وفات میں ہے" چشتی صاحب نے اپنے اس پمفلٹ ” فاتح قادیان " میں حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات و وفات کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی کے ثبوت کے لئے پیر مہر علی شاہ صاحب کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ " اگر توفی سے موت کے معنے بھی لئے جائیں تو مرزا صاحب کا مقصد حاصل نہیں ہوتا کیونکہ یہاں متوفی اسم فاعل کا صیغہ ہے جو حال اور استقبال دونوں پر حاوی ہے جس سے یہ معنیٰ حاصل ہو گا کہ میں آئندہ زمانے میں کسی وقت تجھے وفات دوں گا.یہ یہود تجھے قتل کرنے پر قادر نہیں ہو سکتے اور تمام اہل اسلام اس چیز پر متفق ہیں کہ آپ قرب قیامت میں آسمان سے نازل ہو کر وفات پائیں گے." ( مهر منیر صفحه ۵۲۸) چشتی صاحب ! پیر صاحب کا یہ فرمان غور سے پڑھیں.اس میں انہوں نے توفی کے معنے موت کے سوا اور کچھ نہیں کئے.ذرا غور فرمائیے کہ حضرت عیسی علیہ السلام جب قرب قیامت میں آسمان سے نازل ہو کر وفات پائیں گے تو اس وقت یہی لفظ توفی یا متوفیک ہی ہو گا جو ان کی موت پر دلالت کرے گا.پس یہ تو قطعی طور پر ثابت ہو گیا کہ توفی اور متوفیک کے معنے سوائے موت کے اور کوئی نہیں.اگر بالفرض یہ بات درست ہے کہ وہ قرب قیامت میں فوت ہونگے تو پھر جب تک ان کی موت نہیں ہو گی اس وقت تک رفع بھی نہیں ہو گا کیونکہ پہلے متوفیک کے مطابق موت ضروری ہے پھر رافعک کے تحت وقع.اس لئے جب بقول آپ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت میں تشریف لا کر وفات پائیں گے تو پھر ان کا رفع ہو گا...وہ بھی زندگی کی حالت میں نہیں بلکہ بعد از وفات ہو گا.پس اگر وہ آپ کے عقیدہ کے مطابق ابھی تک زندہ ہیں تو لازماً ابھی تک ان کا رفع نہیں ہوا.
۵۲ را فعک الی چشتی صاحب نے اپنے مقتدیوں پر اپنی عربی دانی کا رعب ڈالنے کے لئے عربی گرائمر کی اصطلاحات استعمال کی ہیں اور ان میں انہیں الجھانے کی بجائے خود ایسے الجھے ہیں کہ قارئین ملاحظہ فرمائیں گے کہ تاقیامت اس مشکل سے نکل نہیں سکیں گے.چشتی صاحب لکھتے ہے تے ہیں.بغور دیکھا جائے تو لفظ رافعک تمام قادیانی کاوشوں پر پانی پھیر رہا ہے.جب رفع برفع ولعا فهو رافع میں سے کوئی سا بولا جائے جہاں اللہ تعالٰی فاعل ، مفعول جو ہر اور صلہ ائی مذکور ہو اور مجرور اس کا ضمیر ہو.اسم ظاہر نہ ہو اور وہ ضمیر فاعل کی طرف راجع ہو وہاں سوائے آسمان پر اٹھانے کے دوسرے معنی ہو ہی نہیں سکتے." (صفحه ۱۳) چشتی صاحب ! آپ نے ان مذکورہ بالا " قواعد " کے مطابق کوئی مثال اور کوئی نظیر نہیں پیش کی آپ نے تو صرف آیت کریمہ بلوفعہ اللہ الیہ کی گرائمر بیان کر دی ہے.جس آیت کو آپ نے دعوی کے طور پر پیش کیا ہے اسی کو دلیل کے طور پر پیش کر دینا ہرگز جائز نہیں.پس جب تک آپ اس کے علاوہ بعض دوسری مثالیں پیش نہ کر دیں.آپ کا دعوی ہرگز ہرگز سچا ثابت نہیں ہو سکتا.اور یہ ہم بتا دیتے ہیں کہ آپ اپنے اس دعوئی کی تائید میں تاقیامت ایک مثال بھی پیش نہیں کر سکتے.نہ ہی اس آیت میں " آسمان " کا لفظ تاقیامت آپ ثابت کر سکتے ہیں.قرآن کریم میں رفع الی السماء کا ذکر ہی کوئی نہیں.آپ کے دجل کا یہ حال ہے کہ اپنی طرف سے ایک بات بنا کر اسے قرآن کی طرف منسوب کر رہے ہیں.مزید برآں یہ بھی آپ کو بتانا ہو گا کہ آسمان کہاں ہے ، اور کس سمت میں ہے ؟ نیز جب تک اللہ تعالی کی سمت کا تعین نہ ہو جسم کس طرح اس طرف جائے گا.چشتی صاحب! قرآن کریم کے منشاء کے خلاف آپ قرآن کریم سے ہر گز کوئی دلیل نہیں لا سکتے اور نہ ہی اس کے باہر آپ کو کوئی مثال مل سکتی ہے.جبکہ قرآن کریم کے مطابق اگر آپ اپنا عقیدہ بنالیں تو قرآن کریم بھی آپ کی مدد کرے گا اور باہر سے بھی ہر جگہ آپ کو تائیدی مثالیں ملیں گی.آپ تو اپنے مذکورہ بالا قواعد کے مطابق اپنے مفہوم کی تائید میں ایک مثال بھی پیش نہیں
۵۳ کر سکتے جبکہ انہیں قواعد کے مطابق ہم آپ کے مفہوم کے خلاف ایسی مثال پیش کریں گے کہ آپ کی مجال نہیں کہ اسے رو کر سکیں.چنانچہ گیارھویں صدی کے مجدد حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب " ما ثبت بالسند فی ایام السنہ" جو آپ لوگوں کی عقائد کی بنیادی کتابوں میں سے ہے ، فرماتے ہیں.كان الحكمة في بعثه صلى الله عليه وسلم هداية الخلق و تتمیم مکارم الاخلاق و تکمیل مبانی الدین فحين حصل هذا الأمر وتم هذا المقصو در فعد الله اليه في اعلى عليين و توفاه الله و هو ابن ثلث وستين - " (صفحه ۳۹) کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی حکمتیں یہ تھیں.مخلوق خدا کی ہدایت.اعلیٰ اخلاق کو مکمل کرنا اور دین کے اصولوں کی تکمیل.پس جب یہ کام مکمل ہو چکے اور مقصود پورا ہو گیا تو رفعه الله اليد و تو فاء اللہ اللہ تعالی نے آپ کو اپنے ہاں عظیم الشان مقام و مرتبہ عطا فرمایا اور آپ کے درجات کو انتہائی بلند کیا اور پھر آپ کو وفات دی.لیکن بقول چشتی صاحب اللہ تعالی آپ کو آسمانوں پر جسم سمیت لے گیا اور بقول پیر مہر علی صاحب قرب قیامت میں آپ کی موت ہو گی.لیجئے چشتی صاحب ! ہم نے آپ کے قواعد کے مطابق لیکن آپ کے مفہوم کے بر عکس ایک مستند اور دو ٹوک عبارت پیش کر دی ہے.اس عبارت میں واقعہ اللہ الیہ میں اللہ تعالی فاعل مفعول جو ہر اور صلہ اٹلی مذکور ہے اور مجرور اس کا ضمیر ہے اسم ظاہر نہیں اور ضمیر فاعل کی طرف راجع ہے.لہذا آپ کے پیش کردہ ان قواعد کے مطابق ہمارے آقا و مولی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے بلکہ آسمان پر اٹھائے گئے اور بقول آپ کے اس کے علاوہ دوسرے معنے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتے.چشتی صاحب ! عقل کے ناخن لیں.کیوں قرآن کریم کو اپنے باطل عقائد کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور اپنے ارد گرد جھوٹ اور تلیس کا ایسا تانا بانا بنتے چلے جا رہے ہیں کہ خود اس میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں.پس اب دو راستوں میں سے آپ کو ایک راستہ لازماً اختیار کرنا پڑے گا کہ یا تو حضرت عیسی
۵۴ علیہ السلام کو ہمارے آقا و مولی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح خدا تعالیٰ کے مقرب اور اس کے حضور بلند مقام کے حامل اور غیر معمولی عزت و عظمت اور بلندی حاصل کرنے والا اور پھر اپنی طبعی عمر پا کر وفات یافتہ یقین کرلیں یا پھر محبوب کبریا سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح آسمانوں پر بجسم عصری زندہ تسلیم کریں.کیونکہ دونوں کے لئے رقعہ اللہ الیہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں.اور غیرت کی جا ہے عیسی زندہ ہو آسمان : مدفون ہو زمیں میں شاہ جہاں ہمارا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس غیرت کا اظہار اللہ تعالی اپنے پاک کلام میں اس طرح فرماتا ہے و ما جعلنا لبشر من قبلك الخلدا فائن ست نهم الخلدون ترجمہ :.اور (اے محمد !) ہم نے کسی انس کو تجھ سے پہلے غیر طبعی عمر نہیں بخشی.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تو تو مر جائے اور وہ غیر طبیعی عمر تک زندہ رہیں.حضرت عیسی علیہ السلام ہرگز زندہ نہیں ہیں قطعی قارئین کرام ! قرآن کریم نے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بارہ میں کثرت سے ثبوت پیش فرمائے ہیں لیکن طوالت کے ڈر سے ہم آپ کی خدمت میں صرف یہ دو آیات پیش کرتے ہیں جو دو برہنہ سونتی ہوئی تلواروں کی طرح ہیں جو قرآنی بیان کے خلاف ہر کھڑے ہونے والے کا سر کاٹنے کے لئے تیار ہیں اور وہ یہ ہیں :- پہلی آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کی خبر دینے والی آیات میں سے ایک واضح آیت یہ ہے :- ما المسيح ابن مريم الارسول قد خلت من قبله الرسل و امه صديقة كانا يا كلن
الطعام ۵۵ (سوره مائده رکوع ۱۰ - پاره ۶ - رکوع ۱۴) ترجمہ :.مسیح ابن مریم سوائے ایک رسول کے اور کچھ نہ تھے اور ان سے قبل تمام رسول گزر چکے ان کی والدہ راستباز تھیں وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے.اب دیکھئے اس آیت سے کتنے واضح طور پر حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے.پہلے فرمایا کہ مسیح ابن مریم ایک رسول کے.ا کچھ نہ تھے پھر ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ ان سے قبل تمام رسول گزر چکے ہیں.گویا حضرت عیسیٰ کی وفات پر ایک نا قابل رد دلیل پیش کر دی یہ ویسی ہی طرز کلام ہے جیسے کوئی کہے کہ زید ایک انسان کے سوا کچھ نہیں اور سب انسان مٹی کے بنے ہوتے ہیں.پس جس طرح اس فقرے سے ثابت ہوتا ہے کہ لازماً زید بھی مٹی کا بنا ہوا ہے اسی طرح مذکورہ بالا آیت سے حضرت مسیح کی وفات ثابت ہو جاتی ہے.بصورت دیگر آپ کو رسولوں کے مقدس گروہ سے کوئی الگ چیز ماننا پڑے گا جو ظاہر ا غلط ہے.- قرآن کریم اس مسئلے پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرماتا ہے.کہ اس کی (یعنی مسیح کی والدہ راست باز تھیں اور وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے.سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح " اب تک زندہ موجود ہوتے تو کیا ان کے متعلق کھانا کھایا کرتے تھے کے الفاظ آنے چاہئیں تھے ؟ یقیناً نہیں بلکہ ایسی صورت میں تو چاہئے تھا کہ حضرت مسیح کا ذکر حضرت مریم سے الگ کر کے یہ فرمایا جاتا کہ (حضرت) مریم کھانا کھایا کرتی تھیں.مسیح اب تک کھاتے ہیں اور وفات کے دن تک کھاتے رہیں گے.لیکن ایسا نہیں کیا گیا.پس حضرت مسیح کو بھی حضرت مریم کے ساتھ ملا کر ایک گزرے ہوئے زمانے کے انسان کے طور پر آپ کا ذکر فرمانے سے اس مسئلہ کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے.یعنی یہ کہ حضرت مسیح ایک رسول سے بڑھ کر رتبہ نہیں رکھتے تھے اور جس طرح دوسرے رسول فوت ہوئے آپ بھی فوت ہوئے اور جس طرح باقی کھانا کھانے کے حاجتمند تھے آپ بھی کھانا کھانے کے حاجتمند تھے اور کھانے کے بغیر ہی زندہ رہنے کی کوئی خدائی صفت ان میں موجود نہ تھی.اس آیت کے ہوتے ہوئے بھی کوئی اگر حضرت مسیح کو زندہ مانے تو یہ محض اس کی زبردستی ہوگی.
۵۶ بعض عجیب تاویلیں بعض لوگ اس آیت کی زد سے حضرت عیسی کو بچانے کے لئے عجیب عجیب تاویلیں کرتے ہیں.مثلاً یہ کہ اللہ تعالٰی نے اس آیت میں یہ تو فرمایا ہے کہ حضرت مسیح سے پہلے تمام رسول گزر گئے یہ نہیں فرمایا کہ خود حضرت مسیح بھی گزر گئے.افسوس کہ وہ ذرا بھی اس طرز کلام پر غور نہیں کرتے.ادنی سی زبان دانی سے بھی یہ بات سمجھ آجانی چاہئے کہ حضرت مسیح کو زمرہ رسل میں شامل کر کے جب سب رسولوں کے گزرنے کی خبر دی جا رہی ہے تو اس کے بعد حضرت مسیح کا زندہ رہ جانا ایک امر محال ہے لیکن اگر کوئی صاحب اب بھی یہ اصرار فرمائیں کہ اس آیت سے صرف حضرت مسیح سے پہلے انبیاء کی وفات ثابت ہوتی ہے.حضرت مسیح کی نہیں.تو ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ اللہ انصافا غور کر کے فرمائیں کہ اس صورت میں ذیل کی دوسری آیت سے کیا ثابت ہو گا.دوسری آیت وما محمد الأرسول قد خلت من قبله الرسل افان مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ( آل عمران رکوع ۱۵ پاره ۴ رکوع ۶) ترجمہ : نہیں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) مگر ایک رسول ان سے قبل تمام رسول فوت ہو چکے پس اگر یہ بھی فوت ہو جائیں یا قتل کیے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے ؟ اب فرمائیے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کیسے اس آیت کی زد سے بچ سکتے ہیں ؟ کیونکہ اگر وہ حضرت رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے پہلے تھے اور آپ جانتے ہیں کہ پہلے ہی تھے تو لازماً ان کی وفات تسلیم کرنی پڑے گی.کیونکہ واضح طور پر آیت بتا رہی ہے کہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل تمام رسول فوت ہو چکے.لیکن افسوس ہے کہ بعض علماء اب بھی ضد سے کام لیتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اللہ تعالٰی کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے قرآن کریم کے اس واضح ارشاد کے سامنے سر جھکا دیں.اور اپنی غلطی کو جرات اور دیانتداری کے ساتھ تسلیم کر لیں وہ اس آیت کی بھی عجیب و غریب تاویل شروع کر دیتے ہیں.مثلاً یہ کہہ دیتے ہیں کہ قد خلت من قبلہ الرسل
۵۷ میں جو لفظ " محلت " استعمال ہوا ہے اس کا مطلب صرف مرجاتا ہی نہیں بلکہ ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جانا بھی ہے.اس لئے ہم اس کا یہ مطلب نکالیں گے کہ رسول اکرم صلے اللہ علیہ وسلم سے قبل جتنے رسول تھے وہ سب یا تو مر گئے یا اپنی جگہ چھوڑ کر کہیں چلے گئے.لیکن ہم ناظرین پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ محض ایک زبر دستی ہے ورنہ عربی میں جب بھی کسی انسان کے متعلق مطلق طور پر یہ لفظ " خلا " استعمال ہو تو اس کا مطلب موت ہی ہوا کرتا ہے جگہ چھوڑنا نہیں عجیب اتفاق ہے کہ عربی کی طرح انگریزی اور اردو محاورہ میں بھی گزر گیا کے الفاظ ان دونوں معنوں میں استعمال ہوتے ہیں یعنی رستے پر سے گزر جانا اور مر جانا.لیکن جب ہم یہ کہیں کہ گزشتہ تمام انبیاء گزر گئے تو یہ معنے کرنے محض مذاق ہوں گے کہ بعض انبیاء تو فوت ہو گئے اور بعض رستوں پر سے گزر گئے.یا ایک جگہ سے چل کر کسی دوسری جگہ جاپہنچے.یہ محض ایک دعوئی نہیں بلکہ عربی لغت واضح طور پر گواہی دے رہی ہے کہ جب مطلقا کسی کے متعلق ” خلا " کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس سے مراد اس شخص کی موت ہوتی ہے.دیکھئے (1) تاج العروس میں لکھا ہے ” خلافلان " اذامات" یعنی جب کہا جائے کہ فلاں شخص گزر گیا.تو مراد یہ ہوتی ہے کہ مرگیا.لغت ہی نہیں بلکہ تفاسیر بھی اس آیت میں " خلا" سے مراد زندگی کا ختم ہوتا ہی بیان کرتی ہیں.جیسا کہ تفسیر القونوی على اليضاوی جلد ۳ و تفسیر خازن جلد نمبر میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ويخلوا كما خلوا بالموت او القتل یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح دار فانی سے کوچ کر جائیں گے جس طرح دوسرے انبیاء علیہم السلام طبعی موت یا قتل کے ذریعہ گزر گئے.پس ثابت ہوا کہ موت کے علاوہ اس لفظ کے کچھ اور معنے کرنا ہرگز جائز نہیں.اور اس آیت کے ہوتے ہوئے یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس آیت کے نزول کے وقت تک زندہ موجود تھے.کیا کسی کی عقل میں یہ بات آسکتی ہے کہ وہی لفظ جو صاف صاف ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی موت کی خبر دے رہا ہو حضرت عیسی علیہ السلام کی دفعہ یکدم اپنے معنے ایسے تبدیل کرے کہ مارنے کی بجائے آسمان پر لے جا بٹھائے.اگر اسی طرح الفاظ گرگٹ کی طرح اپنے رنگ بدلنے لگیں تو پھر تو ہر بات کا ہر مطلب نکالا جا سکتا ہے.موت سے مراد زندگی اور زندگی سے موت مراد لی جا سکتی ہے.عالم کو جاہل
۵۸ اور جاہل کو عالم بنایا جا سکتا ہے رات کو دن اور دن کو رات کہا جا سکتا ہے غرضیکہ جہان معانی میں وہ طوفان بے تمیزی برپا ہو اور ایسا اندھیر آئے کہ ہاتھ کو ہاتھ بھائی نہ دے ! صحابہ کی گواہی اگر ابھی بھی کسی صاحب کی پوری طرح تسلی نہ ہوئی ہو.تو ان کی تسلی کی خاطر صحابہ رضوان اللہ علیم کی بھی ایک ناقابلِ رو گواہی پیش کی جاتی ہے جس کے بعد اس امر میں ایک ذرہ بھر بھی شک نہیں رہتا کہ صحابہ رضوان اللہ علیم کے نزدیک بھی آیت " وما محمد الارسول قد خلت من قبله الرسل کا مطلب یہی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل جتنے رسول تھے سب فوت ہو چکے اور کوئی بھی زندہ آسمان پر موجود نہیں.کتب تاریخ اور معتبر احادیث میں یہ واقعہ درج ہے جسے امام بخاری نے بھی نقل فرمایا ہے کہ جب حضرت رسول اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا.تو صحابہ غم کے مارے دیوانوں کی طرح ہو گئے یہاں تک کہ بعض کو یقین نہ آتا تھا کہ ان کا محبوب آقا ان سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا ہے.اس شدید غم کی کیفیت سے متاثر ہو کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فوت شدہ ماننے سے انکار کر دیا.اور تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑے ہو گئے کہ جو شخص بھی یہ کہے گا کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم فوت ہو گئے میں تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا.آپ ہر گز فوت نہیں ہوئے.بلکہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام چالیس دن کیلئے اپنی قوم سے الگ ہو کر خدا تعالٰی سے مناجات کرنے گئے تھے اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی عارضی طور پر ہم سے جدا ہوئے ہیں اور واپس تشریف لے آئیں گے.اس صورت حال میں بعض صحابہ نے حضرت ابو بکر کی طرف آدمی دوڑائے.جب آپ تشریف لائے تو سیدنا و مولانا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک کے پاس حاضر ہوئے جو سفید کپڑے میں لپٹی پڑی تھی.اس مبارک چہرے سے کپڑا اٹھایا اور یہ دیکھ کر کہ واقعی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں بے اختیار آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے جھک کر آپ کی پیشانی کو بوسہ دیا اور عرض کیا کہ خدا تعالٰی آپ پر دو موتیں اکٹھی نہیں کرے گا.یعنی یہ کہ آپ مر
۵۹ کر پھر زندہ اور زندہ ہو کر پھر نہیں مریں گے یا معنوی لحاظ سے یہ مراد ہو گی کہ آپ کا جسم تو مر گیا لیکن آپ کا دین ہمیشہ زندہ رہے گا.بہر حال یہ کہہ کر آپ روتے ہوئے باہر صحابہ کے مجمع میں تشریف لائے اور ان کے درمیان کھڑے ہو کر بعض آیات کی تلاوت کی جن میں سے پہلی یہ تھی کہ وما محمد الا رسول قد خلت من قبله الرسل افان مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ( آل عمران ع ۱۵ پاره - ۴ رکوع ۶ ) یعنی نہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم مگر خدا کے رسول.ان سے پہلے جتنے رسول تھے سب گزر گئے پھر اگر آپ بھی وفات پا جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے ؟ روایت آتی ہے کہ اس آیت کو سنتے ہی صحابہ کو یقین ہو گیا کہ حضرت رسول اکرم صلے اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں.اور حضرت عمر کا تو یہ حال ہوا کہ صدمہ کی شدت سے نیم جان ہو گئے گھٹنوں میں سکت باقی نہ رہی اور لڑکھڑا کر زمین پر گر پڑے.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے یہ آیت پہلی مرتبہ نازل ہوئی ہو یعنی اس کا یہ مفہوم پہلی مرتبہ ہم پر روشن ہوا کہ رسول اکرم صلے اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کی طرح وفات پا جائیں گے.پھر کیا ہمیں علماء سے یہ پوچھنے کا حق نہیں کہ اگر اس آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا تھا کہ جس طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے قبل تمام نبی فوت ہو گئے اسی طرح رسول اکرم صلے اللہ علیہ وسلم بھی وفات پا جائیں گے تو کیوں حضرت عمر اور ان کے ہم خیال صحابہ نے حضرت ابو بکر سے تلواریں سونتے ہوئے یہ سوال نہ کیا کہ جس آیت کی رو سے تم سید ولد آدم صلے اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر دیتے ہو وہ تو ایک ادنی شان کے نبی یعنی مسیح ناصری کو بھی مارنے کی طاقت نہیں رکھتی اگر وہ اس آیت کے باوجود زندہ آسمان پر چڑھ سکتے ہیں تو کیوں ہمارا آقا ایسا نہیں کر سکتا جو فخر دو عالم تھا اور سب نبیوں کی سرداری اسے عطا ہوئی تھی یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مقصود عالم کہ جس کی خاطر کائنات کو پیدا کیا گیا اسے تو یہ آیت مار کر زیر زمین ملا دے اور ایک ادنی شان کے نبی کو جو اس کی غلامی پر فخر کرنے کے لائق تھا جسم سمیت زندہ اٹھا کر چوتھے آسمان پر لے جا بٹھائے ؟ لیکن ایسا نہیں ہوا اور کسی ایک صحابی کی زبان پر بھی یہ اعتراض نہ آیا.ان میں ابو بکرہ بھی تھے اور عمر
بھی اور عثمان بھی اور علی " بھی اور پھر عائشہ بھی انہی میں تھیں.اور فاطمہ الزہراء بھی عشاق رسول اس وقت موجود تھے لیکن کسی ایک نے بھی تو اعتراض کے لب نہیں کھولے اور سب نے اپنے مولا کی رضا اور اس کی قضاء کے حضور روتے روتے سر جھکا دیئے !! قرآن کا ہر فیصلہ ان کے لئے ناطق اور آخری تھا! اللہ اللہ صحابہ کے تقویٰ اور روح اطاعت کی کیا شان تھی !!! ایک طرف تو وفور عشق کا یہ عالم کہ اپنے محبوب رسول عربی صلے اللہ علیہ وسلم کے وصال کا تصور بھی برداشت نہ تھا.اور ہاتھ اٹھ اٹھ کر تلواروں کے قبضوں پر پڑتے تھے.کہ جو کوئی اس انہ رسول کی وفات کی خبر زبان پر لائے گا.اس کا سر تن سے جدا کر دیا جائے گا.پھر کہاں اطاعت خداوندی کا یہ بے مثال منظر کہ قرآن کے ایک چھوٹے سے کلمے کی خاطر بے چون و چرا اسی رسول کی جدائی برداشت کر گئے کہ جسے زندہ رکھنے کی خاطر ان میں سے ہر ایک کو ہزار جانیں بھی دینی پڑتیں.صد ہزار بار بھی مرنا پڑتا تو دریغ نہ کرتے دیکھو دیکھو کلام الہی کے ان چند الفاظ نے کیسا تغیر عظیم برپا کیا.کہ وہ عشاق جو چند لمحے پہلے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے وصال کی خبر زبان پر لانے والوں کی جان کے درپے تھے.خود ان کی اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور قوی ہیکل جوان غم و اندوہ کی شدت سے پچھاڑ کھا کھا کر زمین پر گرے ! لیکن یہ وہم تک کسی کے دل میں نہ گزرا کہ قرآن کی ایک چھوٹی سی آیت کی تاویل اپنی مرضی کے مطابق کر لیں.اور محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات تسلیم کرنے سے انکار کر دیں !!! پھر دیکھو آجکل کے علماء کو کیا ہو گیا !!! کیوں ان کی محبت کے دھارے رسول مکی و مدنی سے رخ موڑ کر مسیح ناصری کی جانب بہنے لگے اور کیوں بنی اسرائیل کے اس گزرے ہوئے رسول کی محبت میں ایسے حد سے گزر گئے کہ قرآن کے واضح ارشادات کو بھی پس پشت ڈالنے کی جرات کرنے لگے......یہاں تک کہ جن الفاظ میں یہ علماء خود بھی مانتے ہیں کہ قرآن کریم نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی خبر دی تھی.قد خلت من قبلہ الرسل کے وہی بعینہ وہی الفاظ جب مسیح ناصری کے حق میں استعمال ہوئے تو اس آیت کے معنے کچھ اور کرنے لگے.کاش وہ حسان بن ثابت کی اندھی مگر پر بصیرت آنکھ ہی سے عرب میں ظاہر ہونے والے اس نور کو دیکھنے کی قدرت رکھتے اور اس انسان کامل کے حسن کو سراہنا جانتے.کہ جو مجسم نور تھا اور جس نے صحابہ کے قلوب کو کمال حسن سے شیفتہ و فریفتہ کر رکھا تھا کاش وہ حسان بن ثابت کے ہمنوا ہو کر فخر دو عالم صلے اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہہ سکتے.
كنت السواد لناظری اعمی علیک الناظر من شاء بعد ک فلیمت فعلیک کنت احاذر کہ اے میرے محبوب تو تو میری آنکھ کی پتلی تھا.پس آج میری آنکھ کی پتلی تیری وفات سے اندھی ہو گئی.اب تیرے بعد جو چاہے مرتا پھرے.مجھے تو اک تیری ہی موت کا ڈر تھا.یہ وہ شعر ہیں جو ایک نابینا شاعر حضرت حسّان بن ثابت نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر آپ کو مخاطب کر کے کہے تھے.اے آقائے کی دمدنی کی محبت کا دم بھرنے والو دیکھو ! یہ تھی وہ روح جس روح کے ساتھ صحابہ رضوان اللہ علیم نے اپنے محبوب آقا کے ساتھ بیمثال محبت کی.ان کے نزدیک اگر دنیا میں کوئی انسان زندہ رہنے کا حق رکھتا تھا تو فقط وہ رسول عربی صلے اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور ان کی وفات کے بعد انہیں کچھ بھی اس امر کی پرواہ نہ تھی کہ خطہ ارض پر آنے والے ہر زمانے کے تمام رسول ہزار دفعہ فوت ہو جائیں.لیکن ہمارے ان کرم فرما علماء کو بھی ذرا دیکھو کہ ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو تو مارے دیتے ہیں اور مسیح ناصری کی زندگی کے کیسے خواہاں ہیں ! ہاں اس کی زندگی کے خواہاں ہیں.کہ جس کی زندگی خود انہی کے عقائد ان کے دل و جان سے عزیز نظریات اور تمناؤں کی موت ہے.ہاں اس کی زندگی کے خواہاں ہیں کہ جس کی زندگی کے باطل تصور نے دنیا کو شرق سے تا غرب شرک سے بھر دیا ہے اور عیسائیت کے مقابل پر اسلام کو محض بے دست و پا کر رکھا ہے.مسیح ناصری را تاقیامت زنده می فهمند مگر مدفون میرب را ندادند این فضیلت را ہمہ عیسائیاں را از مقال خود مرد دادند دلیری با پدید آمد پرستاران میت را ترجمہ : یہ مسیح ناصری کو قیامت تک زندہ سمجھتے ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فضیلت نہیں دیتے.انہوں نے اپنے عقیدہ سے تمام عیسائیوں کی مدد کی اسی وجہ سے مردہ پرستوں میں بھی دلیری آگئی.سر کو پیٹو آسماں سے اب کوئی آتا نہیں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نہ زندہ موجود ہیں اور نہ ہی وہ آسمان سے اتریں گے بلکہ جس مسیح
نے آتا تھا آچکا.....۶۲ اور اب وہ دن قریب ہیں جب ہر مسلمان عقیدہ حیات عیسی سے بیزار و مایوس ہو جائے گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود مهدی معہود علیہ السلام بڑی تحدی کے ساتھ پیش گوئی فرماتے ہیں کہ : " یاد رکھو.کوئی آسمان سے نہیں اترے گا.ہمارے سب مخالف جو اب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی ابن مریم کو آسمان سے اترتا نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے کوئی عیسی ابن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یکدفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے." ( تذكرة الشہادتین صفحه ۶۵ مطبوعہ ۱۹۰۳ء ) پس اس بنیادی اختلاف کے پیش نظر ایک اور واضح ، کھلا اور انتہائی حقیقت پسندانہ اعلان سید نا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفتہ المسیح الرابع و امام جماعت احمدیہ کی طرف سے ۷.اپریل ۱۹۸۵ء کو ہمقام لندن جلسہ سالانہ کے موقعہ پر فرمایا گیا تھا.جس کی طرف آپ نے نہ خود نظر کی اور نہ عوام الناس کو اس طرف راہنمائی کی.پس کیا عجب کہ اپنے مزعومہ مسیح کی آمد سے مایوس ہو چکے ہوں.ہم اس پر شوکت اور پر تحدی اعلان کی طرف ایک دفعہ پھر آپ کی توجہ مبذول کراتے - ہیں کہ : " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تواتر کے ساتھ ان کے (یعنی عیسی کے ) آنے کی خبر دے رہے ہیں.اس لئے تمہیں فیصلہ کرنا پڑے گا کہ اپنے مبینہ مفکرین اسلام کے پیچھے چلو گے یا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلو گے اور آنے والا وہ مسیح اختیار کرو گے جس کو امت موسوی سے نسبت ہے اور امت محمدیہ سے اس کو کوئی نسبت نہیں.یا وہ مسیح اختیار کرو گے جو امت محمدیہ میں پیدا ہوا اس امت سے نسبت رکھتا ہے اور محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی غلام ہے.اب فیصلہ یہ کرنا ہے کہ موسوی مسیح پر امت راضی ہو گی یا محمدی مسیح پر.جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو مسیح محمد ی پر راضی ہو گئے ہیں
اور جہاں تک مسیح کے مقام کا تعلق ہے ہمارا بھی وہی عقیدہ ہے جو تمہارا ہے کہ امت محمدیہ میں آخرین میں جس مسیح نے آتا ہے وہ شریعت محمدیہ اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل طور پر مطیع اور امتی نبی ہو گا.اس مسیح کے مقام کے بارہ میں ہمارا سرمو کوئی اختلاف نہیں.یہ بات ہم قطعی طور پر یقینی سمجھتے ہیں اور تم بھی یقینی سمجھتے ہو کہ آنے والا لازماً امتی نبی ہو گا اور اس بات میں اختلاف ہی کوئی نہیں.اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ آخرین میں ظاہر ہونے والا موسوی امت سے تعلق رکھنے والا مسیح ہے یا امت محمدیہ میں عیسی بن مریم کے مثل کے طور پر پیدا ہونے والا امتی نبی ؟ تمہارا اپنا عقیدہ ہے اور مسلمہ عقیدہ ہے :- " کہ جو شخص بھی مسیح کے نام پر آئے گا وہ لازماً نبی اللہ ہو گا.پرانا آئے گا یا نیا آئے گا یہ ایک الگ بحث ہے اور تمہارے اپنے بڑے بڑے علماء ، تمہارے اپنے مفکرین یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ وہ ہو گا یقیناً (1) نبی الله -.......اور اسے نبوت سے عاری ماننے والا کافر ہو گا بلکہ بعض عظیم بزرگوں نے یہ تسلیم کیا کہ (۲) پرانا نہیں ہو گا....بلکہ بدن آخر سے متعلق ہو کر آئے گا یعنی پہلا جسم نہیں بلکہ دوسرا کوئی شخص ظہور کرے گا اور پھر یہ بھی خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے کہ مہدی اور عیسی دو الگ الگ وجود نہیں ہوں گے بلکہ ایک ہی وجود کے دو نام ہوں گے.لا المھدی الا عیسی کا فرمان نبوی " اس پر شاہد ناطق ہے." فرمایا." تم ناکام رہے ہو اور....ناکام رہو گے...اور کبھی عیسی بن مریم کو جو موسیٰ علیہ السلام کی امت کے نبی تجھے زندہ نہیں کر سکو گے اور اگر وہ تمہارے خیال میں آسمان پر بیٹھے ہیں تو ہرگز تمہیں توفیق نہیں ملے گی کہ ان کو آسمان سے اتار کر دکھا دو.نسلاً بعد نسل تم ان کا انتظار کرتے رہو مگر خدا کی قسم تمہاری یہ حسرت کبھی پوری نہیں ہوگی." اس بارہ میں امام جماعت احمدیہ کے مذکورہ بالا خطاب میں تمام دنیا کے معاندین کو جو چیلنج دیا گیا
اله - تھا ، آج تک آپ لوگوں کو قبول کرنے کی توفیق نہیں مل سکی.وہ چیلنج یہ تھا کہ اگر پرانے عینی نے ہی امت کی راہنمائی کرنی ہے تو پورا زور لگاؤ.دعائیں کرو ، سجدوں میں گریہ وزاری کرو اور جس طرح بن پڑے مسیح کو ایک دفعہ آسمان سے نیچے اتار دو تو پھر یہ جھگڑا ایک دفعہ ختم ہو جائے گا اور ایسا عظیم الشان معجزہ دیکھ کر احمدی آنے والے کو قبول کرنے میں تم پر بھی سبقت لے جائیں گے لیکن یاد رکھو! ناممکن اور محال ہے اور ہرگز کبھی ایسا نہیں ہو گا کہ جو شخص آسمان پر چڑھا ہی نہ ہو اور دیگر انبیاء کی طرح طبعی موت سے فوت ہو چکا ہو وہ جسم سمیت آسمان سے نازل ہو جائے.سر کو پیٹو آسماں سے اب کوئی آتا نہیں عمر دنیا سے بھی اب تو آ گیا ہفتم ہزار 000
۶۵ پادری اور نگ واشنگٹن وغیرہ کا مثیل مولوی چشتی نے انتہائی بے باکی سے تحریر کیا ہے کہ ”محمدی بیگم اور خاص اولاد کی پیشنگوئی اور خاص نشان کی تفصیلات میں جاؤں تو آپ لیلی مجنوں کی داستان سے بڑھ کر محظوظ ہونگے." قارئین کرام! مولوی چشتی کے اس بیان پر انگریزی کا محاورہ cat is out of the bag سامنے آجاتا ہے.اس بیان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس مولوی کا اصل مشغلہ شب تنہائی میں لیلیٰ مجنوں کی داستانیں پڑھنا اور ان سے محظوظ ہوتا ہے اور دن کے اجالوں میں خطیب ملت ، حضرت اور علامہ بن کر اپنی مذہبیت کا اظہار کرنا اس کا بہروپ ہے اسی وجہ سے اس نے داستان لیلی مجنوں کو پیمانہ بنا کر خدا کے پاک مسیح و مہدی کی صداقت کو پرکھنے کی کوشش کی ہے.ظاہر ہے کہ نفس کا بندہ انبیاء اور مامورین کو بھی اپنے انہیں سفلہ خیالات کی کسوٹی پر ہی پر کھے گا جیسا کہ پادری اور نگ واشنگٹن نے اپنی کتاب سوانح عمری محمد صاحب میں ہمارے آقا و موٹی ، سید الاتقیاء والاصفیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیوں پر اسی طرح کے تبصرے کئے.آج مولوی چشتی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بابت بھی ایسا ہی تبصرہ کیا ہے.پادری اور نگ واشنگٹن کی اس کتاب کا ترجمہ لالہ رلیا رام گھولائی نے کیا تھا اور مطبع اڑور بنس لاہور نے اُسے شائع کیا تھا.ہم تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور غلام کامل مسیح و مہدی پر ایمان لانے والے میں جس کی زندگی کا مدعا ہی یہ تھا کہ.جانم فدا شود بره دین مصطفی این است کام دل اگر آید میسرم کہ کاش میری جان محمد مصطفی کے دین کی راہ میں فدا ہو جائے.یہی میرے دل کا مطمح نظر ہے کاش کہ مجھے میسر آ جائے پس ہماری تو برداشت سے باہر ہے کہ ان معاندین محمد مصطفیٰ کی زہر آشام تحریروں کا یہاں اعادہ کریں لیکن ہم پادری ٹھاکر داس ، پادری را جرز پادری عماد الدین ، پادری عبد اللہ آتھم ، پادری ولیم ، ماسٹر را مچندر عیسائی اور پادری را نکلین و غیرھم کے نام یہاں اس غرض
۲۶ کے لئے بطور آئینہ کے پیش کر رہے ہیں.انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیوں اور آپ کی ازواج مطہرات کے متعلق انتہائی دریدہ دھنی دکھائی ہے تاکہ مولوی چشتی صاحب اس آئینہ میں اپنی شکل بھی دیکھ لے.پس آج ایک مولوی اگر خدا کے پاک مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مذکورہ بالا پادریوں جیسی تحریریں چھوڑتا ہے تو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ مقدس و مطر ذاتوں پر اس قسم کی زہر آگیں زبان دراز کرنے والا کس زمرہ میں آتا ہے.پس دراصل یہ زہر تو وہی پرانا زہر ہے جو نئی کچلیوں سے نکل رہا ہے.جہاں تک مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی بتزوج و بولدلہ کا تعلق ہے کہ وہ شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد ہو گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہ شادی خدا تعالٰی کے خاص حکم سے اور اس کی خاص تقدیر کے تحت کر چکے تھے اور اس سے وہ موعود اولاد بھی عطا ہو گئی تھی جس کا بو لالہ میں ذکر ہے.اس کے بعد یہ چشتی صاحب کی انتہائی بددیانتی ہے کہ محمدی بیگم والی پیشگوئی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی بتزوج و یولدلہ کو پورا کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں.محمدی بیگم والی پیشگوئی ایک انداری پیشگوئی تھی اور مشروط تھی جو ایک خاص مقصد کے لئے خدا تعالی کی وحی کے تحت کی گئی تھی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی خواہش کا کوئی دخل نہ تھا اور نہ ہی آپ کو اور شادی کی ضرورت تھی کیونکہ موعود اولاد خدا تعالی نے آپ کو عطا کر دی تھی.اور پھر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ : تکفیک هذه الإمراة تذكره صفحه ۸۳۰) کہ تیرے لئے ہی بیوی کافی ہے (جس سے موعود اولاد خدا تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی).اس تفصیلی پیشگوئی میں محمدی بیگم سے شادی صرف ایک جزو کی حیثیت رکھتی تھی جو کہ اس پیشگوئی کے بنیادی اجزاء کے ساتھ مشروط تھی.چنانچہ جب اس پیشگوئی کے بعض انداری اجزاء پورے ہوئے اور محمدی بیگم کا والد احمد بیگ مدت مقررہ کے اندر مر گیا تو اس خاندان پر ایک زبردست ہیبت طاری ہوئی اور انہوں نے خدا تعالی کی طرف رجوع کیا اور اپنے مشرکانہ خیالات اور خدا تعالی اور اس کے پاک نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیوں سے توبہ کر
۶۷ لی تو پیشگوئی کی غرض و غایت پوری ہو گئی جس سے پیشگوئی کی باقی مشروط جزئیات کالعدم ہو گئیں جیسا کہ قرآن کریم میں حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ میں اس کی نظیر ملتی ہے کہ قوم کی توبہ سے مقدر عذاب ٹل گیا تھا.یہاں یہ ذکر بھی خالی از فائدہ نہ ہو گا کہ اس پیشگوئی کی صداقت پر اس خاندان کے اکثر افراد نے مہر تصدیق ثبت کی اور وہ مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے اور بڑی استقامت کے ساتھ ہمیشہ مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے وابستہ رہے.ان میں محمدی بیگم کی والدہ بہنیں ، بھائی بیٹا بہنوئی وغیرہ قابل ذکر ہیں.000
YA (۹) مسیح و مہدی کے ظہور کی علامات چشتی صاحب نے " مسیح موعود کی پہچان " کے عنوان کے تحت مشکوۃ کی ایک حدیث نامکمل درج کی ہے اور حوالہ بھی غلط تحریر کیا ہے اور اس حدیث کے ظاہری الفاظ کے مطابق یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اس حدیث میں بیان شدہ علامات صادق نہیں آتیں.ہم اصل حدیث مکمل الفاظ میں صحیح حوالہ کے ساتھ ہدیہ قارئین کرتے ہیں.مشکوۃ شریف باب نزول عیسیٰ علیہ السلام کی الفصل الثالث میں لکھا ہے :- عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بنزل عیسی بن مریم الى الارض فيتزوج ويولد له و يمكث خمسا واربعين سنة ثم يموت فيد فن معى في قبری فاقوم انا و عيسى بن مريم في قبر واحد بین ابی بکر و عمر - حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عیسی بن مریم زمین پر نازل ہو گا اور وہ شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہو گی.وہ زمین پر ۴۵ سال رہے گا پھر وہ وفات پائے گا اور میری قبر میں میرے ساتھ دفن ہو گا.پھر میں اور عیسی بن مریم ایک ہی قبر میں سے ابو بکر اور عمر کے درمیان میں سے اٹھیں گے.معزز قارئین! اگر چشتی صاحب کی طرح اس پر معارف حدیث نبوی کے ظاہری الفاظ پر تکیہ کرلیا جائے اور اس کے نہاں در نہاں معارف سے صرفِ نظر کیا جائے تو تصویر کچھ اس طرح بنتی ہے کہ جب وہ فرضی مسیح جو چشتی صاحب کے گمان میں دو ہزار سال سے آسمان پر بیٹھا ہوا ہے جب زمین پر اترے گا تو لوگ اس کے دعوی کو تو سنیں گے مگر بجائے اس پر ایمان لانے کے کہیں گے ابھی نہیں.صرف آسمان سے زمین پر اترنا کافی نہیں بلکہ ہم یہ دیکھیں گے کہ آپ شادی ہو بھی کرتے اول تو یہ مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک پیر فرتوت جس کی عمر دو ہزار برس ہو گی وہ آسمان سے اترنے گا اور اس وجہ سے رشتہ ڈھونڈنے نکلے گا کہ تا اس کی صداقت کا ثبوت مہیا ہو سکے.دو سرے یہ کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی جھافی فرماتا ہے کہ و من نعمر ، ننکس فی الخلق کہ جسے ہم عمر میں بقیه انگلے صفویه
۶۹ - ہو یا نہیں.پھر جب وہ شادی کرے گا تو لوگ کہیں گے کہ ابھی بھی نہیں.دو ہزار سالہ بوڑھے کے ہاں اولاد ہونا نا ممکن ہے اس لئے ہم پہلے یہ دیکھیں گے کہ آپ کے ہاں اولاد بھی ہوتی ہے یا نہیں.چنانچہ وہ اس کے ہاں ولادت کا انتظار کریں گے.پھر جب اس کے ہاں اولاد ہو گی تو وہ کہے گا کہ مجھے پر ایمان لاؤ.تو بجائے اس پر ایمان لانے کے ہر مسلمان اپنا فرض سمجھے گا کہ اس پر ایمان نہ لائے بلکہ یہ جواب دے کہ حدیث کے الفاظ کے ظاہری معنی کے مطابق آپ کا زمین پر ۴۵ سال رہنا ضروری ہے اس لئے ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے بلکہ پینتالیس سال انتظار کریں گے اور اگر اس مدت معینہ میں ایک دن کی بھی کمی یا بیشی ہوئی تو وہ اس بات کی دلیل ہو گی کہ آپ بچے مسیح نہیں ہو.اور آپ کا آسمان سے اترنا ، شادی کرنا اور پھر آپ کے ہاں اولاد کا ہونا بے معنی ہو گا اور آپ کو سچا ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہو گا.یہ پینتالیس سال کا عرصہ طے کرتے ہوئے اکثر لوگ تو خود بے ایمانی کی حالت میں اس جہان فانی سے کوچ کر چکے ہوں گے اور جو باقی ہونگے وہ یہ دیکھیں گے کہ آیا وہ معین طور پر پینتالیس سال اس زمین پر رہتا ہے یا نہیں.چنانچہ اگر وہ بغیر ایک لمحہ کی کمی و بیشی کے ۴۵ سال پورے کر کے اس دار فانی سے رخصت ہو گیا تو اول یہ کہ ایسا بے بس اور مظلوم نبی اور مأمور من اللہ ساری تاریخ انبیاء میں کوئی نظر نہیں آئے گا کہ جس پر تا وفات کوئی ایمان لانے والا نہ ہو بلکہ جو ایمان لانے کے خواہشمند بھی ہوں ان پر بھی پابندی ہو کہ پورے ۴۵ سال اس کی موت کا انتظار کریں.دوسرے یہ کہ جب ایسا فرضی مسیح اپنے پینتالیس سال پورے کر کے بے یارومددگار اور یک و تنہا اس دنیا سے رخصت ہو گا تو لوگ اس وفات یافتہ پر بھی ایمان نہیں لائیں گے بلکہ یہ انتظار کریں گے کہ آیا اس کی میت مدینہ بھیجوائی بھی جاتی ہے یا نہیں.چنانچہ اگر اس کی میت مدینہ بھیجوا دی بڑھاتے ہیں اسے جسمانی طور پر کمزور کرتے چلے جاتے ہیں.چنانچہ جس شخص پر بڑھاپا آتا ہے اور اس کی عمر جوں جوں بڑھتی چلی جاتی ہے اس کے اعضاء اور اعصاب کمزور تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور وہ ضعیف تر ہوتا چلا جاتا ہے تو پھر وہ فرضی مسیح جو فرضی آسمانوں پر دو ہزار سال سے براجمان ہے وہ اس آیت کریمہ میں بیان شدہ قانون الہی سے کیونکر باہر رہ سکتا ہے.سو سالہ بوڑھے کی جو جسمانی حالت ہوتی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں تو اندازہ لگائیں کہ دو ہزار سالہ بابے کی جسمانی اور ذہنی کیفیت کیا ہو گی.پس حضرت مسیح علیہ السلام کی آسمان پر زندگی والا قصہ ہی لغو ہے جو قرآن کریم اور احادیث نبویہ اور قانون قدرت کے سراسر خلاف ہے جیسا کہ ہم گذشتہ صفحات میں ثابت کر آئے ہیں.منہ
جاتی ہے تو پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبروں کے درمیان ہمارے آقا و مولی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو اکھاڑ کر ( نعوذ باللہ من ذلک ) آپ " کے ساتھ آپ کی قبر میں اسے دفن کرنے کا مرحلہ باقی ہے.اب ہمیں چشتی صاحب یہ تو بتائیں کہ ہ شخص جس پر امت کا فرد واحد بھی ابھی تک ایمان نہ لایا ہو گا اس کو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی وہ اللہ علیہ وسلم کی قبر میں دفن کون ہونے دے گا؟ ہمارے جسم اور ہماری روح کا تو ذرہ ذرہ عشق محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں سرشار ہے اور ہماری یہ حالت ہے کہ به در ره عشق محمدؐ این سرد جانم رود ایں تمنا این دعا این درد لم عزم صمیم که حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ عشق میں ہمارے سر اور ہماری جان فدا ہو.یہی تمنا ہے اور یہی دعا دل میں ویسی مصمم ارادہ ہے.پس اس تصور سے ہی ہماری تو روح کانپ جاتی ہے اور بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ ہمارے ماں سے زیادہ شفیق اور باپ نے علوہ مہربان آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو اکھاڑا جائے.جماعت احمدیہ کا تو خمیر ہی عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اٹھایا گیا ہے لیکن ایک اونی غیرت رکھنے والا مسلمان بھی یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اپنے باپ کی قبر کو اکھڑتا ہوا دیکھے تو وہ یہ کس طرح برداشت کر سکتا ہے کہ وہ ذات جس پر اس کے ماں باپ فدا ہوں اس کی قبر کو کوئی اکھاڑے....لیکن یہ چشتی صاحب تو یہی کہیں گے کہ نہیں ہم سرور دو عالم محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو ضرور اکھڑتا کھلتا اور اس میں مسیح کو دفن ہوتا دیکھیں گے.کیونکہ الفاظ کے ظاہری معنوں کے لحاظ يدفن معی فی قبری کے اس کے علاوہ اور معنی ہو ہی نہیں سکتے کہ اسے لازماً حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اکھاڑ کر آپ کے ساتھ آپ کی قبر میں دفن کیا جائے گا.( نعوذ بالله - نعوذ بالله من ذلك ) ان کی "گستاخ اکھیں " اس روح فرسا اور درد میں منظر کو دیکھتی رہیں گی اس موہوم امید پر کہ اس کے بعد وہ اس مسیح ( وفات شده ) پر ایمان لائیں گے.....مگر نہیں...ابھی بھی نہیں.ابھی تو قیامت تک انہیں انتظار کی دہلیز پر بیٹھنا ہے.کیونکہ ابھی ایک آخری مرحلہ باقی ہے
کہ (قیامت کے روز) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح ایک ہی قبر سے ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہا کی قبروں کے درمیان میں سے اٹھیں گے.اب دیکھئے کہ الفاظ کے نتیج اور ظاہر پرستی نے چشتی صاحب اور ان کی قبیل کے لوگوں کو قیامت تک انتظار کی مصیبت میں ڈال دیا اور ایمان پھر بھی نصیب نہ ہوا اور تاقیامت بے ایمان ہی رہے حالانکہ.ہمارے آقا و مولی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ مدعا نہیں تھا.آپ نے تو آنے والے مسیح اور مہدی کو لا المهدی الا عیسی کہہ کر کہ نہیں مہدی سوائے عیسی کے ) ایک وجود قرار دیا (ابن ماجه - کتاب الفتن باب شدة الزمان ) اور اس کی آمد کی ایسی نشانیاں بیان فرمائیں کہ چشم بصیرت اس کو شام کے دھندلکوں میں تو کجا رات کی تہ در تہ تاریکیوں میں بھی پہچان لے جس طرح کوئی سفید روشن مینارہ دور ہی سے نظر آ جائے جیسا کہ حدیث نبوی میں آتا ہے کہ ينزل عند المنارة البيضاء شرقي دمشق (مشكوة - باب العلامات بين يدى الساعة وذكر الدجال) که مسیح موعود د مشق کے شرقی جانب سفید مینارہ کے پاس نازل ہو گا.اس حدیث میں یہ نہیں کہا گیا کہ منارہ کے اوپر سے اترے گا بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ منارہ کے پاس اترے گا.یعنی وہ ایسی حالت میں اترے گا کہ سفید منارہ اس کے پاس ہو گا.پس جاننا چاہئے کہ قادیان صوبہ پنجاب ملک ہند جو حضرت مرزا صاحب کا وطن ہے.ٹھیک دمشق کے مشرق میں واقع ہے یعنی وہ دمشق کے عین مشرق کی طرف اسی عرض بلد میں واقع ہے جس میں دمشق ہے پس دمشق کے مشرق والی بات میں تو کوئی اشکال نہ ہوا.اب رہا منارہ کا لفظ.سو اس سے مراد یہ ہے کہ مسیح موعود کا نزول ایسے زمانہ میں ہو گا کہ اس وقت وسائل رسل و رسائل اور میل جول کی کثرت یعنی انتظام ریل و جهاز و ڈاک و تار و مطبع وغیرہ کی وجہ سے تبلیغ و اشاعت کا کام ایسا آسان ہو گا کہ گویا یہ شخص ایک منارہ پر کھڑا ہے اور یہ کہ اس کی آواز دور دور تک پہنچے گی.اور اس کی روشنی جلد جلد دنیا میں پھیل جائے گی جیسا کہ منارہ کی خاصیت ہے.گویا کہ مراد یہ نہیں ہے کہ مسیح موعود کا نزول منارہ کے اوپر سے ہو گا بلکہ مراد یہ ہے کہ مسیح موعود اس حالت میں مبعوث ہو گا کہ سفید
منارہ اس کے پاس ہو گا.یعنی اشاعت دین کے بہترین ذرائع اسے میسر ہوں گے اور ان معنوں میں مشرق کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ مسیح موعود کا سورج اپنے افق مشرق سے بہترین حالات کے ماتحت طلوع کرے گا اور اس کی کرنیں جلد جلد اکناف عالم میں پھیل جائیں گی.نیز مناربے کے لفظ سے یہ بھی مراد ہے کہ جس طرح ایک چیز جو بلندی پر ہو وہ سب کو نظر آجاتی ہے اور دور دور کے رہنے والے بھی اسے دیکھ لیتے ہیں، اسی طرح مسیح موعود کا قدم بھی ایک منارہ پر ہو گا اور وہ ایسے روشن اور بین دلائل کے ساتھ ظاہر ہو گا کہ اگر لوگ خود اپنی آنکھیں نہ بند کر لیں اور اس کی روشنی کو دیکھنے سے منہ نہ پھیر لیں تو وہ ضرور تمام دیکھنے والوں کو نظر آجائے گا کیونکہ وہ ایک بلند مقام پر ہو گا.منارہ کے ساتھ سفید کا لفظ بڑھانے میں بھی ایک حکمت ہے اور وہ یہ کہ گو ہر منارہ دور سے نظر آتا ہے لیکن اگر وہ سفید ہو تو پھر تو خصوصیت کے ساتھ وہ زیادہ چمکتا اور دیکھنے والے کی نظر کو اپنی طرف کھینچتا ہے.یا سفید کا لفظ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ مسیح موعود کی بلندی بے عیب ہو گی.یعنی یہ نہیں ہو گا کہ وہ کسی دنیاوی وجاہت وغیرہ سے ایک بلند مقام پر ہو گا بلکہ اس کی بلندی خالص طور پر روحانی ہو گی.اور اسی مقدس صورت میں وہ لوگوں کو نظر آئے گا.بشرطیکہ لوگ تعصب اور ظلمت پسندی کی وجہ سے اپنی آنکھیں خود نہ بند کر لیں.مسیح و مہدی کی آمد کی مزید علامتوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.یاد رہے کہ مسیح موعود کی خاص علامتوں میں یہ لکھا ہے کہ (۱) وہ دو زرد چادروں کے ساتھ اترے گا.(۲) اور نیز یہ کہ دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اترے گا.(۳) اور نیز یہ کہ کافر اس کے دم سے مریں گے.(۴) اور نیز یہ کہ وہ ایسی حالت میں دکھائی دے گا کہ گویا غسل کر کے حمام میں سے نکلا ہے اور پانی کے قطرے اس کے سر پر سے موتبوں کے دانوں کی طرح ٹپکتے نظر آئیں گے.(۵) اور نیز یہ کہ وہ دجال کے مقابل پر خانہ کعبہ کا طواف کرے گا.(1) اور نیز یہ کہ وہ صلیب کو توڑے گا.
(۷) اور نیز یہ کہ وہ خنزیر کو قتل کرے گا.(۸) اور نیز یہ کہ وہ بیوی کرے گا اور اس کی اولاد ہو گی.(۹) اور نیز یہ کہ وہی ہے جو دجال کا قائل ہو گا.(۱۰) اور نیز یہ کہ مسیح موعود قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ فوت ہو گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر میں داخل کیا جائے گا.و تلک عشرة کاملة پس دو زرد چادروں کی نسبت ہم بیان کر چکے ہیں کہ وہ دو بیماریاں ہیں جو بطور علامت کے مسیح موعود کے جسم کو ان کا روز ازل سے لاحق ہونا مقدر کیا گیا تھا.تا اس کی غیر معمولی صحت بھی ایک نشان ہو.اور دو فرشتوں سے مراد اس کے لئے دو قسم کے غیبی سہارے ہیں جن پر ان کی اتمام حجت موقوف ہے.(1) ایک وہی علم متعلق عقل اور نقل کے ساتھ اتمام حجت جو بغیر کسب اور اکتساب کے اس کو عطا کیا جائے گا..(۲) دوسری اتمام حجت نشانوں کے ساتھ جو بغیر انسانی دخل کے خدا کی طرف سے نازل ہونگے.اور دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر اس کا اترنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کی ترقی کے لئے غیب سے سامان میسر ہونگے اور ان کے سہارے سے کام چلے گا.اور میں اس سے پہلے ایک خواب بیان کر چکا ہوں کہ میں نے دیکھا کہ ایک تلوار میرے ہاتھ میں دی گئی ہے جس کا قبضہ تو میرے ہاتھ میں ہے اور نوک اس کی آسمان میں ہے اور میں دونوں طرف اس کو چلاتا ہوں اور ہر ایک طرف چلانے سے صدہا انسان قتل ہوتے جاتے ہیں جس کی تعبیر خواب ہی میں ایک بندہ صالح نے یہ بیان کی کہ یہ اتمام حجت کی تلوار ہے اور دہنی طرف سے مراد وہ اتمام حجت ہے جو بذریعہ نشانوں کے ہو گا ہو کیونکہ علم تعبیر کی کتابوں میں درج ہے کہ زرد رنگ کی تعبیر بیماری ہوتی ہے.(ناقل)
اور بائیں طرف سے وہ اتمام حجت مراد ہے جو بذریعہ عقل اور نقل کے ہو گا اور یہ دونوں طور کا اتمام حجت بغیر انسانی کسب اور کوشش کے ظہور میں آئے گا.اور کافروں کو اپنے دم سے مارنا اس سے یہ مطلب ہے کہ مسیح موعود کے نفس سے معنے اس کی توجہ سے کافر ہلاک ہونگے اور مسیح موعود کا ایسا دکھائی دینا کہ گویا وہ حمام سے غسل کر کے نکلا ہے اور موتیوں کے دانوں کی طرح آب غسل کے قطرے اس کے سر پر سے ٹپکتے ہیں.اس کشف کے معنے یہ ہیں کہ مسیح موعود اپنی بار بار کی توبہ اور تقریع سے اپنے اس تعلق کو جو اس کو خدا کے ساتھ ہے تازہ کرتا رہے گا گویا وہ ہر وقت غسل کرتا ہے اور اس پاک غسل کے پاک قطرے موتیوں کی طرح اس کے سر پر سے ٹکتے ہیں یہ نہیں کہ انسانی سرشت کے برخلاف اس میں کوئی خارق عادت امر ہے ہرگز نہیں ہرگز نہیں کیا لوگوں نے اس سے پہلے خارق عادت امر کا عیسی بن مریم میں نتیجہ نہیں دیکھ لیا جس نے کروڑہا انسانوں کو جنم کی آگ کا ایندھن بنا دیا تو کیا اب بھی یہ شوق باقی ہے کہ انسانی عادت کے برخلاف عیسی آسمان سے اترے فرشتے بھی ساتھ ہوں اور اپنے منہ کی پھونک سے لوگوں کو ہلاک کرے اور موتیوں کی طرح قطرے اس کے بدن سے ٹپکتے ہوں غرض مسیح موعود کے بدن سے موتیوں کی طرح قطرے ٹپکنے کے معنے جو میں نے لکھے ہیں وہ صحیح ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں میں سونے کے کڑے دیکھے تو کیا اس سے کڑے ہی مراد تھے ؟ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گائیاں فریح ہوتے دیکھیں تو اس سے گائیاں ہی مراد تھیں ؟ ہر گز نہیں بلکہ ان کے اور معافی تھے.پس اسی طرح مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس رنگ میں دیکھنا کہ گویا وہ غسل کر کے آتا ہے اور غسل کے قطرے موتیوں کی طرح اس کے سر پر سے ٹپکتے ہیں اس کے یہی معنے ہیں کہ وہ بہت توبہ کرنے والا اور رجوع کرنے والا ہو گا اور ہمیشہ اس کا تعلق خدا تعالٰی سے تازہ تازہ رہے گا گویا وہ ہر وقت غسل کرتا ہے اور پاک رجوع کے.پاک قطرے موتیوں کے دانوں کی طرح اس کے سر پر سے ٹپکتے ہیں.ایک دوسری حدیث میں بھی خدا تعالی کی طرف رجوع کرنے کو غسل سے مشابہت دی ہے جیسا کہ نماز کی خوبیوں میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کسی کے گھر کے دروازے کے
ها آگے شہر ہو اور وہ پانچ وقت اس نہر میں غسل کرے تو کیا اس کے بدن پر میل رہ سکتی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں تب آپ نے فرمایا کہ اسی طرح جو شخص پانچ وقت نماز پڑھتا ہے ( جو جامع توبہ اور استغفار اور دعا اور تفریح اور نیاز اور تحمید اور تسبیح ہے) اس کے نفس پر بھی گناہوں کی میل نہیں رہ سکتی گویا وہ پانچ وقت غسل کرتا ہے.اس حدیث سے ظاہر ہے کہ مسیح موعود کے غسل کے بھی یہی معنے ہیں ورنہ جسمانی غسل میں کونسی کوئی خاص خوبی ہے.اس طرح تو ہندو بھی ہر روز صبح کو غسل کرتے ہیں اور غسل کے قطرے بھی ٹپکتے ہیں.افسوس کہ جسمانی خیال کے آدمی ہر ایک روحانی امر کو جسمانی امور کی طرف ہی کھینچ کر لے جاتے ہیں اور یہود کی طرح اسرار اور حقائق سے نا آشنا ہیں.اور یہ امر کہ مسیح موعود د قبال کے مقابل پر خانہ کعبہ کا طواف کرے گا.یعنی دجال بھی خانہ کعبہ کا طواف کرے گا اور مسیح موعود بھی.اس کے معنی خود ظاہر ہیں کہ اس طواف سے ظاہری طواف مراد نہیں ورنہ یہ ماننا پڑے گا کہ دجال خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے گا یا یہ کہ مسلمان ہو جائے گا یہ دونوں باتیں خلاف نصوص جد یشیہ ہیں.پس بہر حال یہ حدیث قابل تاویل ہے اور اس کی وہ تاویل جو خدا نے میرے پر ظاہر فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ آخری زمانہ میں ایک گروہ پیدا ہو گا جس کا نام دجال ہے وہ اسلام کا سخت دشمن ہو گا اور وہ اسلام کو نابود کرنے کیلئے جس کا مرکز خانہ کعبہ ہے چور کی طرح اس کے گرد طواف کرے گا تا اسلام کی عمارت کو بیخ و بن سے اکھاڑ دے اور اس کے مقابل پر مسیح موعود بھی مرکز اسلام کا طواف کرے گا جس کی تمثیلی صورت خانہ کعبہ ہے اور اس طواف سے مسیح موعود کی غرض یہ ہوگی کہ اس چور کو پکڑے جس کا نام دجال ہے اور اس کی دست درازیوں سے مرکز اسلام کو محفوظ رکھے.یہ بات ظاہر ہے کہ رات کے وقت چور بھی گھروں کا طواف کرتا ہے اور چوکیدار بھی.چور کی غرض طواف سے یہ ہوتی ہے کہ نقب لگا دے اور گھر والوں کو تباہ کرے اور چوکیدار کی غرض طواف سے یہ ہوتی ہے کہ چور کو پکڑے اور اس کو سخت عقوبیت کے زندان میں داخل کرادئے تا اس کی بدی سے لوگ امن میں آجادیں.پس اس حدیث میں اسی مقابلہ کی طرف اشارہ ہے کہ آخری زمانہ میں وہ چور جس کو دجال کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ناخنوں تک زور لگائے
گا کہ اسلام کی عمارت کو منہدم کر دے.اور مسیح موعود بھی اسلام کی ہمدردی میں اپنے نعرے آسمان تک پہنچائے گا اور تمام فرشتے اس کے ساتھ ہو جائیں گے تا اس آخری جنگ میں اس کی فتح ہو.وہ نہ تھکے گا اور نہ درماندہ ہو گا اور نہ ست ہو گا اور ناخنوں تک زور لگائے گا کہ تا اس چور کو پکڑے اور جب اس کی تفرعات انتہاء تک پہنچ جائیں گی تب خدا اس کے دل کو دیکھے گا کہ کہاں تک وہ اسلام کیلئے پکھل گیا تب وہ کام جو زمین نہیں کر سکتی آسمان کرے گا اور وہ فتح جو انسانی ہاتھوں سے نہیں ہو سکتی وہ فرشتوں کے ہاتھوں سے میسر آجائے گی.اس صحیح کے آخری دنوں میں سخت بلائیں نازل ہونگی اور سخت زلزلے آئیں گے اور تمام دنیا سے امن جاتا رہے گا.یہ بلائیں صرف اس مسیح کی دعا سے نازل ہونگی تب ان نشانوں کے بعد اس کی فتح ہو گی.وہی فرشتے ہیں جو استعارہ کے لباس میں لکھا گیا ہے کہ مسیح موعود ان کے کاندھوں پر نزول کرے گا.آج کون خیال کر سکتا ہے کہ یہ دجالی فتنہ جس سے مراد آخری زمانہ کے ضلالت پیشہ پادریوں کے منصوبے ہیں انسانی کوششوں سے فرو ہو سکتا ہے ہرگز نہیں.بلکہ آسمان کا خدا خود اس فتنہ کو فرد کرے گا.وہ بجلی کی طرح گرے گا اور طوفان کی طرح آئے گا اور ایک سخت آندھی کی طرح دنیا کو ہلا دے گا کیونکہ اس کے غضب کا وقت آگیا مگر وہ بے نیاز ہے.قدرت کی پتھر کی آگ انسانی تفریحات کی ضرب کی محتاج ہے.آہ کیا مشکل کام ہے.آہ کیا مشکل کام ہے.ہم نے ایک قربانی دیتا ہے جب تک ہم وہ قربانی ادا نہ کریں کسر صلیب نہیں ہو گا ایسی قربانی کو جب تک کسی نبی نے ادا نہیں کیا اس کی فتح نہیں ہوئی اور اسی قربانی کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ ہے و استفتحو او خاب کل جبار عنید یعنی نبیوں نے اپنے تئیں مجاہدہ کی آگ میں ڈال کر فتح چاہی پھر کیا تھا ہر ایک ظالم سرکش تباہ ہو گیا.....اور صلیب کے توڑنے سے یہ سمجھنا کہ صلیب کی لکڑی یا سونے چاندی کی صلیبیں توڑی جائیں گی یہ سخت غلطی ہے اس قسم کی ملیں تو ہمیشہ اسلامی جنگوں میں ٹوٹتی رہی ہیں بلکہ اس سے مطلب یہ ہے کہ مسیح موعود صلیبی عقیدہ کو توڑ دے گا اور بعد اس کے دنیا میں صلیبی عقیدہ کا نشوونما نہیں ہو گا.ایسا ٹوٹے گا کہ پھر قیامت تک اس کا پیوند
LL نہیں ہو گا.انسانی ہاتھ اس کو نہیں توڑیں گے بلکہ وہ خدا جو تمام قدرتوں کا مالک ہے.جس طرح اس نے اس فتنہ کو پیدا کیا تھا اسی طرح اس کو نابود کرے گا.اس کی آنکھ ہر ایک کو دیکھتی ہے اور ہر ایک صادق اور کاذب اس کی نظر کے سامنے ہے وہ غیر کو یہ عزت نہیں دے گا مگر اس کے ہاتھ کا بنایا ہوا مسیح یہ شرف پائے گا جس کو خدا عزت دے کوئی نہیں جو اس کو ذلیل کر سکے وہ صیح ایک بڑے کام کیلئے پیدا کیا گیا ہے تو وہ کام اس کے ہاتھ پر فتح ہو گا اس کا اقبال صلیب کے زوال کا موجب ہو گا.اور صلیبی عقیدہ کی عمر اس کے ظہور سے پوری ہو جائے گی اور خود بخود لوگوں کے خیالات صلیبی عقیدہ سے بیزار ہوتے چلے جائیں گے جیسا کہ آجکل یورپ میں ہو رہا ہے اور جیسا کہ ظاہر ہے کہ ان دنوں میں عیسائیت کا کام صرف تنخواہ دار پادری چلا رہے ہیں اور اہل علم اس عقیدہ کو چھوڑتے جاتے ہیں.پس یہ ایک ہوا ہے جو صلیبی عقیدہ کے برخلاف یورپ میں چل پڑی ہے اور ہر روز تند اور تیز ہوتی چلی جاتی ہے.یہی مسیح موعود کے ظہور کے آثار ہیں کیونکہ وہی دو فرشتے جو مسیح موعود کے ساتھ نازل ہونے والے تھے صلیبی عقیدہ کے بر خلاف کام کر رہے ہیں اور دنیا ظلمت سے روشنی کی طرف آتی جاتی ہے اور وہ وقت قریب ہے کہ دجالی طلسم کھلے کھلے طور پر ٹوٹ جائے کیونکہ عمر پوری ہو گئی ہے.اور یہ پیشگوئی کہ خنزیر کو قتل کرے گا یہ ایک نجس اور بد زبان دشمن کو مغلوب کرنے کی طرف اشارہ ہے اور اس کی طرف اشارہ ہے کہ ایسا دشمن مسیح موعود کی دعا سے ہلاک کیا جائے گا.اور یہ پیشگوئی کہ مسیح موعود کی اولاد ہوگی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا اس کی نسل سے ایک ایسے شخص کو پیدا کرے گا جو اس کا جانشین ہو گا اور دین اسلام کی حمایت کرے گا جیسا کہ میری بعض پیشگوئیوں میں یہ خبر آچکی ہے.اور یہ پیشگوئی کہ وہ دجال کو قتل کرے گا اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے ظہور سے دجالی فتنہ رو بزوال ہو جائے گا اور خود بخود کم ہوتا جائے گا اور دانشمندوں کے دل توحید کی طرف پلٹا کھا جائیں گے.واضح ہو کہ دجال کے لفظ کی دو تعبیریں کی گئی ہیں.ایک یہ کہ د قبال اس گروہ کو کہتے ہیں جو جھوٹ کا حامی ہو اور مکر اور قریب سے کام چلا دے.دوسری
یہ کہ دجال شیطان کا نام ہے جو ہر ایک جھوٹ اور فساد کا باپ ہے.پس قتل کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اس شیطانی فتنہ کا ایسا استیصال ہو گا کہ پھر قیامت تک کبھی اس کا نشود نما نہیں ہو گا گویا اس آخری لڑائی میں شیطان قتل کیا جائے گا.اور یہ پیشگوئی کہ مسیح موعود بعد وفات کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں داخل ہو گا.اس کے یہ معنی کرنا کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھودی جائے گی یہ جسمانی خیال کے لوگوں کی غلطیاں ہیں جو گستاخی اور بے ادبی سے بھری ہوئی ہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسیح موعود مقام قرب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر ہو گا کہ موت کے بعد وہ اس رتبہ کو پائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کا رتبہ اس کو ملے گا اور اس کی روح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح سے جاملے گی.گویا ایک قبر میں ہیں.اصل معنے یہی ہیں جس کا جی چاہے دوسرے معنے کرے.اس بات کو روحانی لوگ جانتے ہیں کہ موت کے بعد جسمانی قرب کچھ حقیقت نہیں رکھتا بلکہ ہر ایک جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روحانی قرب رکھتا ہے اس کی روح آپ کی روح سے نزدیک کی جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے.فادخلی فی عبادی و ادخلی جنتی اور یہ پیشگوئی کہ وہ قتل نہیں کیا جائے گا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خاتم الخلفاء کا قتل ہونا موجب تک اسلام ہے اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم قتل سے بچائے گئے." ) حقیقته الوحی - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۲۰ تا ۳۲۶) اب آخر میں ہم مسیح و مہدی کی ایک اور علامت کو پیش کر کے مسیح موعود کی پہچان کی بابت نٹ کو ختم کرتے ہیں.چنانچہ امام محمد باقر سے روایت آتی ہے کہ :- ان لمهدينا آيتين لم تكونا منذ خلق السموت والارض ينكسف القمر لاول ليلة من رمضان و تنخسف الشمس في النصف منه- (دار قطنی - جلد اول صفحه (۱۸۸) یعنی "ہمارے مہدی کے لئے دو نشان مقرر ہیں اور جب سے کہ زمین اور آسمان پیدا ہوئے ہیں یہ نشان کسی اور مامور کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے.ان میں سے ایک یہ
29 - ہے کہ مہدی معہود کے زمانہ میں رمضان کے مہینے میں چاند کو اس کی پہلی رات میں گرہن لگے گا (یعنی تیرھویں تاریخ میں کیونکہ چاند کے گرہن کے لئے خدائی قانون قدرت میں تیرھویں اور چودھویں اور پندرھویں تواریخ مقرر ہیں جیسا کہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں ) اور سورج کو اس کے درمیانی دن میں گرہن لگے گا.(یعنی اسی رمضان کے مہینہ کی اٹھا ئیں تاریخ کو.کیونکہ سورج کے گرہن کے لئے قانون قدرت میں ستائیس اٹھائیس اور انتیس تواریخ مقرر ہیں." اب تمام دنیا جانتی ہے کہ ۱۳۱ھ مطابق ۱۸۹۴ء میں یہ نشانی نہایت صفائی کے ساتھ پوری ہو چکی ہے.یعنی 8 ھ کے رمضان میں چاند کو اس کی راتوں میں سے پہلی رات میں یعنی تیرھویں تاریخ کو گرہن لگا.اور اسی مہینہ میں سورج کو اس کے دنوں میں سے درمیانی دن میں یعنی اٹھا ئیں تاریخ کو گرہن لگا.اور یہ نشان دو مرتبہ ظاہر ہوا.اول اس نصف کرہ زمین میں اور پھر امریکہ میں.اور دونوں مرتبہ اپنی تاریخوں میں ہوا.جن کی طرف حدیث اشارہ کرتی ہے.اور یہ نشانی صرف حدیث ہی نے نہیں بتائی بلکہ قرآن شریف نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے.جیسا کہ فرمایا - و خسف القمر و جمع الشمس والقمر (سورۃ القیامہ رکوع ہیں یعنی " چاند کو گرہن لگے گا.اور اس گرہن میں سورج بھی چاند کے ساتھ شامل ہو گا." یعنی اسے بھی اسی مہینہ میں گرہن لگے گا.اب دیکھئے ! کس صفائی کے ساتھ یہ علامت پوری ہو کر ہمیں بتا رہی ہے کہ یہی وہ وقت ہے جس میں مہدی کا ظہور ہونا چاہئے.کیونکہ جو اس کے ظہور کی علامت تھی وہ پوری ہو چکی ہے.بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ حضرت امام محمد باقر تک پہنچ کر رک جاتی ہے.دوسرے یہ کہ اس میں چاند گرہن رمضان کی اول رات میں اور سورج گرہن رمضان کے وسط میں بیان کیا گیا ہے حالانکہ عملاً چاند کا گرہن تیر ھوئیں میں اور سورج کا اٹھا ئیسویں میں ہوا تھا ؟ ان اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ بے شک یہ حدیث ظاہراً موقوف ہے لیکن محدثین کی اصطلاح کے مطابق یہ روایت حکماً مرفوع ہی ہے.پھر یہ بھی تو دیکھو کہ راوی کون ہے ، کیا وہ اہل بیت نبوتی کا درخشندہ گوہر نہیں ؟ اور یہ بات بھی سب لوگ جانتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت کا یہ طریق تھا کہ بوجہ اپنی
۸۰ ذاتی وجاہت کے وہ سلسلہ حدیث کو نام بنام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانا ضروری نہیں سمجھتے تھے یہ عادت ان کی شائع اور متعارف ہے.اور بہر حال یہ حدیث ہم نے نہیں بنائی بلکہ آج سے تیرہ سو سال پہلے کی ہے.دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ چاند کو مہینے کی پہلی تاریخ میں اور سورج کو وسط میں گرہن لگنا سنت اللہ اور قانون قدرت کے خلاف ہے.قانون قدرت نے جو خدا کا بنایا ہوا قانون ہے چاند کے گرہن کو مہینے کی تیرھویں ، چودھویں اور پندرھویں میں اور سورج کے گرہن کو ستائیسویں ، اٹھائیسویں اور اتیسویں میں محدود کر دیا ہے.پس پہلی تاریخ سے ان تاریخوں میں سے پہلی اور درمیانی تاریخ سے ان تاریخوں میں سے درمیانی مراد ہے نہ کہ مطلقاً مہینہ کی پہلی اور درمیانی تاریخ.اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ مہینے کی ابتدائی راتوں کا چاند عربی زبان میں ہلال کہلاتا ہے مگر حدیث میں قمر کا لفظ رکھا گیا ہے.جس سے صاف ظاہر ہے کہ ابتدائی رات مراد نہیں.علاوہ ازیں ہمیشہ سے مسلمان علماء ان تاریخوں کے متعلق یہی تشریح کرتے رہے ہیں جو ہم نے کی ہے.چنانچہ اس زمانہ میں بھی مولوی محمد صاحب لکھو کے والے نے اس نشان کے ظاہر ہونے سے پہلے لکھا تھا کہ - تیرھویں چند سیہویں سورج گرہن ہوسی اس سالے اندر ماہ رمضانے لکھیا ایہہ یک روایت والے اس شعر میں مولوی صاحب نے غلطی سے اٹھائیسویں تاریخ کی جگہ ستائیسویں تاریخ لکھ دی ہے مگر بہر حال اصول وہی تسلیم کیا ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے.اور سب سے بڑی بات یہ کہ واقعات نے بھی اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ پہلی تاریخ سے تیرھویں تاریخ اور درمیانی تاریخ سے اٹھا ئیسویں تاریخ مراد ہے.الغرض یہ نشان ایسا واضح طور پر پورا ہوا ہے کہ کسی حیلہ و حجت کی گنجائش نہیں رہی.چنانچہ معتبر ذرائع سے سنا گیا ہے کہ جب یہ نشان پورا ہوا تو بعض مولوی صاحبان اپنی رانوں پر ہاتھ مارتے تھے اور کہتے تھے کہ ”اب خلقت گمراہ ہو گئی ، اب خلقت گمراہ ہوگی." یہ بھی علماء هم شر من تحت اديم السماء (یعنی مسیح موعود کے وقت میں علماء دنیا کی بد ترین مخلوق ہوں گے ) کی ایک واضح مثال ہے کہ ادھر خدا کا نشان ظاہر ہو رہا ہے اور ادھر مولوی صاحبان کو یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ یہ
N نشان کیوں ظاہر ہوا.کیونکہ لوگ اس سے ہمارے پھندے سے نکل کر مرزا صاحب کو ماننے لگ جاویں گے.مسیح و مہدی کی پہچان کے لئے ہمارے آقا و مولی سرتاج انبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نشانیاں بیان فرمائیں ان میں سے یہ چند ایک ہیں جو یہاں بیان کر دی گئی ہیں.ان جملہ نشانیوں کو ہر چشم بصیرت اور روشن دل نے جب انفس و آفاق میں پورا ہوتے دیکھا تو ایک طرف حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کی سچائی کی گواہی دی تو دوسری طرف اس موعود مسیح و مہدی پر ایمان لا کر جماعت مومنین میں داخل ہو گیا.مگر ان نشانوں کو پورا ہوتے دیکھ کر اپنی رانوں پر ہاتھ مار مار کر دہائی دینے والے لوگ بھی تھے جنہیں ، یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ بچے مسیح و مہدی کی سچائی کے ثبوت کیوں ظاہر ہو رہے ہیں چنانچہ وہ حدیث نبوی ضلو او اضلوا کے مصداق بن کر خود بھی گمراہ رہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے رہے.000
Ar (۱۰) قدر پھلاں دا....پنجابی کے مشہور شاعر میاں محمد بخش صاحب جن کے کلام میں پنجابی تمثیلات اور مجازات کی صورت میں معرفت کے نگینے جگمگ جگمگ کرتے ہیں، فرماتے ہیں قدر پھلاں دا بلبل جانے صاف دماغاں والی قدر پھلاں دا گرج کی جانے مردے کھاون والی کہ پھولوں کی مہک ان کی رنگینی ان کے جوبن اور ان کی بہار کی قدر و قیمت کے بارہ میں پوچھنا ہو تو گدھ سے نہ پوچھو جو زندگیوں کو موت میں بدلتے ہوئے دیکھنے کی اور پھر بے بس ، مردار اور گلنے سڑنے والے جسموں کو کھانے کی خواہشمند رہتی ہے.بلکہ ان پھولوں کی بابت بلبل سے پوچھو کہ جس کا دماغ صاف ہے.جو لہلہاتے ، پھولنے ، پھلنے والے رنگین اور حسین پودوں کی بہاروں سے عشق رکھتی ہے کہ ان میں بڑھنے ، زندہ رہنے اور زندگیاں دینے کی صلاحیت ہوتی ہے.وہ جانتی ہے کہ پھول کا حسن ، اس کی تابندگی اس کی مہکار اور اس کی رنگینی کی قیمت کیا ہے.اگر حضرت عیسی علیہ السلام کے تقدس اور آپ کی سچائی کا حال دریافت کرنا ہو تو کا ئفا نامی سردار کاہن سے نہیں بلکہ پطرس یعقوب اور حکیم نیکدیموس وغیرہ حواریوں سے دریافت کرو.اگر سرتاج انبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور آپ کے حسن و احسان کی جلوہ گری کا مشاہدہ کرتا ہو تو سردارانِ قریش سے نہیں ، ابوبکر، عمر، طلحہ اور مقداد بن اسود رضوان اللہ علیم و غیر ہم سے پوچھو کہ جو کہتے تھے کہ " یا رسول اللہ ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی ، آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی.دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے " یا پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آنکھ سے ذرا حسن محمدی کا مشاہدہ کرو تو آپ کو نظر آئے گا کہ صد ہزاراں یوسفے بینم دریں چاہ ذقن واں مسیح ناصری شد از دم او بیشمار وم
Ar حسن روئے او به از صد آفتاب و ماہتاب خاک کوئے او از صدنافه مشک تار کہ میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹھوڑی کے گڑھے میں ہی لاکھوں یوسف دیکھتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ اس کے دم سے بیشمار مسیح ناصری پیدا ہوئے.اس کے چہرہ کا حسن سینکڑوں چاند اور سورج سے بہتر ہے اور اس کے کوچہ کی خاک تاتاری مشک کے سینکڑوں نافوں سے زیادہ خوشبودار ہے.اور اگر حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی سیرت و سوانح کو دیکھنا ہو تو چودھویں صدی کے مولویوں کی آنکھ سے نہیں بلکہ بصیرت کی آنکھ رکھنے والے مومنین کی نگاہ سے دیکھو کہ جو مسیح و مہدی پر ایمان لائے.حضرت حکیم نور الدین رضی اللہ عنہ کے مقام بلند کو کون نہیں جانتا.مشہور مسلم لیڈر سرسید احمد خان بانی یونیورسٹی علی گڑھ کہا کرتے تھے کہ جب کوئی عالم ترقی کرتا ہے تو وہ فلسفی بن جاتا ہے اور جب فلسفی ترقی کرتا ہے تو وہ صوفی بن جاتا ہے اور جب صوفی ترقی کرتا ہے تو نور الدین بن جاتا ہے." (حیات نور صفحه ۲۳۲) اس نور الدین کی آنکھ سے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو دیکھو کہ اس نے جب آپ کو دیکھا تو کیا شہادت دی.وہی نور الدین آپ پر ایمان لایا تو اس کو کیا ملا.- فرمایا.” میں نے یہاں وہ دولت پائی ہے جو غیر فانی ہے جس کو چور اور قزاق نہیں لے جا سکتا.مجھے وہ ملا ہے جو تیرہ سو برس کے اندر آرزو کرنے والوں کو نہیں ملا.فرمایا - " ہم کیا اور ہماری ہستی کیا.ہم اگر بڑے تھے تو گھر رہتے پاکباز تھے تو پھر امام کی ضرورت ہی کیا تھی.اگر کتابوں سے مقصد حاصل ہو سکتا تو ہمیں کیا حاجت تھی.ہمارے پاس بہت سی کتابیں ہیں مگر نہیں ! ان باتوں سے کچھ نہیں بنتا " چشتی صاحب ! آپ نے تو اپنی کتاب ” فاتح قادیان " کے صفحہ 9 پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعارف اس طرح کرایا ہے.کہ
M " مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۳۹ء میں قادیان ضلع گورداسپور میں مرزا غلام مرتضیٰ کے ہاں پیدا ہوا.علوم مروجہ پا کر ۱۸۶۴ء میں ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے دفتر میں بحیثیت اہل مد چار سال ملازمت کی.اس دوران مذہبی کتب کا مطالعہ بھی جاری رکھا اور ملازمت سے چھٹکارا پا کر ابتداء عیسائیوں کو مناظروں کا چیلنج دیتے ہوئے کچھ شہرت پائی.اور پھر اپنے عقیدت مند حکیم نور دین بھیروی کے مشورہ سے مثل عیسی ہونے کا دعوی کیا.کچھ عرصہ بعد ایک قدم اور بڑھایا.اور مسلمہ اسلامی عقیدہ حیات مسیح کا انکار کرتے ہوئے خود مسیح موعود بن بیٹھا...." چشتی صاحب ! آپ کو وہ چیز نظر نہیں آسکتی جو پطرس حواری کو حضرت عیسی علیہ السلام میں، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں اور حضرت حکیم نور الدین رضی اللہ عنہ کو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود میں نظر آئی تھی یا ان پر ایمان لانے والوں کو نظر آتی ہے.کیونکہ نہ آپ ان لوگوں کے زمرہ میں آتے ہیں اور نہ آپ کی نظر ایمان شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے.بلکہ آپ تو وہ آنکھ رکھتے ہیں جو ہمیشہ مامورین کی تکذیب کے بہانے تلاش کرتی ہیں.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مهدی معہود علیہ السلام کا تعارف یہ ہے.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مهدی محمود علیه السلام ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء بروز جمعته المبارک بعد نماز فجر تو ام پیدا ہوئے.( سرتاج صوفیاء حضرت شیخ محی الدین ابن عربی نے اپنی کتاب فصوص الحکم میں تحریر فرمایا ہے کہ مہدی توام پیدا ہو گا.) آپ کو بچپن ہی سے نیکی کے ساتھ گہرا لگاؤ تھا.بچوں کی طرح کھیل کود کی طرف راغب نہ تھے.البتہ اعتدال کے ساتھ تیرا کی گھوڑے کی سواری کے مشتاق تھے اور ورزش کے طور پر کئی کئی میل پیدل سیر کرتے آپ نے یہ عمل عمر کے آخر تک جاری رکھا.ملکی رواج کے مطابق گھر پر ہی آپ کو مروجہ تعلیم دی گئی.آپ کو علیحدگی میں عبادت الہی اور ریاضت کا بیحد شوق تھا.سارا دن مسجد میں نماز کی ادائیگی اور پورے انہماک اور توجہ سے مذہبی کتابوں کے مطالعہ میں مصروف رہتے حتی کہ آپ کو " مستر کہا جانے لگا.آپ کو قرآن کریم کے
۸۵ ساتھ بے پناہ عشق تھا.قرآن میں فکر و تدیر آپ کا مشغلہ تھا.آپ فرماتے ہیں.دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآن کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے - آپ کے والد محترم آپ کو مطالعہ کم کرنے کی نصیحت فرماتے تا صحت میں فرق نہ آئے اور دنیاوی کاروبار یا کسی نوکری کی تحریک کرتے تو آپ جواب دیتے کہ ” میں خدا کا نوکر ہو گیا ہوں" والد صاحب کے بار بار اصرار پر قرآن کریم کے حکم کے تحت محض اطاعت کی غرض سے سیالکوٹ میں سرکاری ملازمت اختیار کی.جسے پھر جلد ہی چھوڑ دیا.اس عرصہ ملازمت میں بھی اصل مشغله عبادت و ریاضت ، مطالعہ دینی کتب اور تدبر قرآن ہی رہا.چنانچہ مولوی سراج الدین صاحب والد مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر اخبار ” زمیندار " آپ کی اس زندگی کے متعلق اپنی چشم دید شہادت یوں تحریر فرماتے ہیں." مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۶۰ء ۱۸۶۱۴ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے.اس وقت آپ کی عمر ۲۲ ۲۳ سال کی ہوگی اور ہم چشم دید شہادت سے کہتے ہیں کہ جوانی میں نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے." زمیندار - ۸ جون ۶۹۰۸) آپ کے والد محترم آپ کے تقویٰ اور تعلق باللہ کو دیکھ کر فرمایا کرتے تھے کہ :- جو حال پاکیزہ غلام احمد کا ہے وہ ہمارا کہاں ، یہ شخص زمینی نہیں آسمانی ہے.یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے.(تذکرة المهدی جلد ۲ صفحه ۳۳) آپ کی پہلی شادی پندرہ سال کی عمر میں اور دوسری شادی تقریباً پچاس سال کی عمر میں ہوئی مگر کسی شادی سے آپ کی زاویہ نشینی کثرت مطالعہ اور انقطاع الی اللہ میں فرق نہ آیا.یہ وہ زمانہ تھا جب کہ انگریزی دور حکومت پورے عروج پر تھا اور عیسائی مشنری پوری قوت سے تبلیغ عیسائیت میں مشغول تھے.جگہ جگہ بائبل سوسائٹیاں قائم کی گئیں اور اسلام اور بانی اسلام کے خلاف صدہا کتابیں شائع کی گئیں اور کروڑہا کی تعداد میں مفت پمفلٹ تقسیم کئے گئے.ان کی رفتار ترقی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۸۵۷ء میں عیسائیوں کی تعداد ہندوستان میں
AY اکانوے ہزار تھی اور ۱۸۸۷ء میں چار لاکھ ستر ہزار تک پہنچ گئی.- دوسری طرف آریہ سماج اور برہم سماج کی تحریکوں نے جو اپنے شباب پر تھیں اسلام کو اپنے اعتراضات کا نشانہ بنایا ہوا تھا.گویا اسلام دشمنوں کے نرغہ میں گھر کر رہ گیا تھا.ان سب تحریکوں کا مقصد وحید اسلام کو کچل ڈالنا اور قرآن مجید اور بانی اسلام کی صداقت کو دنیا کی نگاہوں میں مشتبہ کرنا تھا.آریہ سماج دیدوں کے بعد کسی الہام الہی کی قائل نہ تھی.اور برہم سماج والے سرے سے الہام الہی کے منکر تھے.اور مجرد عقل کو حصول نجات کے لئے کافی خیال کرتے تھے.اور تعلیم یافتہ مسلمان یورپ کے گمراہ کن فلسفہ سے متاثر ہو کر اور عیسائی ملکوں کی ظاہری اور مادی ترقیات کو دیکھ کر الہام الہی کے منکر ہو رہے تھے اور علماء کا گروہ آپس میں تکفیر بازی کی جنگ لڑ رہا تھا.اسلام کی اس بے بسی و بیکسی کا نقشہ مولانا حالی مرحوم نے ۱۸۷۹ء میں اپنی مستدس میں یوں کھینچا ہے.رہا دین باقی نہ اسلام باقی اک اسلام کا رہ گیا نام باقی پھر ملت اسلامیہ کی ایک باغ سے تمثیل دے کر فرماتے ہیں.پھر اک باغ دیکھے گا اجڑا سراسر جہاں خاک اڑتی ہے ہر سو برابر نہیں تازگی کا کہیں نام جس پر ہری ٹہنیان جھڑ گئیں جس کی جل کر نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل ہوئے روکھ جس کے جلانے کے قابل آواز ہیم وہاں آ رہی ہے کہ اسلام کا باغ ویراں یہی ہے اس ماحول میں جبکہ قرآن مجید کی حقیقت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت خود مسلمان کہلانے والوں پر بھی مشتبہ ہو رہی تھی اور کئی ان میں سے عیسائیت کی آغوش میں آگرے تھے.عیسائی پادری - آریہ - برہمو بلکہ کل مذاہب اسلام پر حملہ آور تھے.عیسائیوں کا سب سے زیادہ زور تھا وہ اپنے حکومتی رعب اور فریبانہ چالوں سے چند دنوں میں اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے پر تلے ہوئے تھے.ان حالات کو دیکھ کر حضرت اقدس کے دل میں اللہ جل شانہ و عزاسمہ اور اس کے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی آتش عشق شعلہ زن ہوئی اور دینی غیرت و حمیت نے جوش مارا.حضرت اقدس نے ایک طرف تو " قرآن مجید " کے گہرے سمندر میں غوطہ
زن ہو کر حقائق و معارف کے قیمتی جواہرات اور ڈرر ثمینہ نچھاور کئے.اور دوسری طرف اسلام پر سائنس و هیئت و فلسفه و طبیعات وغیرہ جملہ علوم کے لحاظ سے اعتراضات کے ایسے دندان شکن جوابات دیئے کہ مذہبی دنیا میں تہلکہ مچ گیا اور اسلام کا روشن اور چمکدار سورج بے نقاب ہو کر دنیا کو جگمگانے لگا.اس وقت حضرت اقدس مسلمانوں کی زبوں حالی اور اسلام کی حالت زار دیکھ کر تڑپ اٹھتے.چنانچہ آپ کے ایک صحابی مولوی فتح دین دھر کوئی روایت کرتے ہیں.کہ " ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ آدمی رات کے قریب حضرت صاحب بہت بے قراری سے......ایک کونہ سے دوسرے کونہ کی طرف...چلے جاتے ہیں....حضور نے ان کے استفسار پر اس حالت واردہ کی یہ وجہ بیان فرمائی کہ جس وقت ہمیں اسلام کی مہم یاد آتی ہے اور جو جو مصیبتیں اس وقت اسلام پر آرہی ہیں.ان کا خیال آتا ہے.تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہو جاتی ہے.اور یہ اسلام ہی کا درد ہے جو ہمیں اس طرح بے قرار کر دیتا ہے." (سیرة المهدی جلد ۳ صفحه ۲۹) حضرت مسیح موعود علیہ السلام دین اسلام کے بارہ میں اپنے درد کا اظہار ان الفاظ میں فرماتے ہیں.دن چڑھا ہے دشمنان دیں کا ہم پر رات ہے اے مرے سورج نکل باہر کہ میں ہوں بیقرار فضل کے ہاتھوں سے اب اس وقت کر میری مدد کشتی اسلام نا ہو جائے اس طوفاں سے پار تا کھا رہا ہے دیں طمانچے ہاتھ سے قوموں کے آج اک تزلزل میں پڑا اسلام کا عالی منار دل نکل جاتا ہے قابو سے یہ مشکل سوچ کر اے مری جاں کی پناہ فوج ملائک کو اتار میرے زخموں لگا مرہم کہ میں رنجور ہوں میری فریادوں کو سن میں ہو گیا زارو نزار
M دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعف دین مجھ کو کر اے میرے سلطان کامیاب و کامگار یا الہی فضل کر اسلام پر اور خود بچا اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سن لے پکار ایک عالم مر گیا ہے تیرے پانی کے بغیر پھیر دے اے میرے موٹی اس طرف دریا کی دھار کشتی اسلام بے لطف خدا اب غرق ہے ا اے جنوں کچھ کام کر بیکار ہیں عقلوں کے دار لگا آگ میرے دل میں ملت کے لئے شعلے پہنچیں جس کے ہر دم آسماں تک بیشمار پیشہ ہے رونا ہمارا پیش رب ذوالمنن آخر کبھی اس نہر سے لائیں گے بار وہ شجر دے نسل انساں سے مدد اب مانگنا بے کار ہے اب ہماری ہے تری درگاہ میں یارب پکار ( براہین احمدیہ حصہ پنجم ) یہی وہ زمانہ تھا جس میں اللہ تعالی ایک مامور کو دنیا کی ہدایت و رہنمائی کیلئے کھڑا کرنا چاہتا تھا.چنانچہ اللہ تعالی نے آپ کو مامور فرمایا.آپ فرماتے ہیں:- ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں.یعنی ارادہ الہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے.لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر مخص محبی کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی." فرمایا :- (براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۵۰۲ و تذکره صفحه ۴۲) " اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک میمی کی تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا.
۸۹ هذا رجل يحب رسول الله یعنی وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے اور اس قول کا مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے.سو وہ اس شخص میں متحقق ہے." فرمایا :- براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۵۰۳ و تذکره صفحه ۴۲) ابھی تھوڑے سے دن گزرے ہیں کہ ایک مدقوق اور قریب الموت انسان مجھے دکھائی دیا.اور اس نے ظاہر کیا کہ میرا نام دین محمد ہے اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ دین محمدی ہے جو مجسم ہو کر نظر آیا.اور میں نے اس کو تسلی دی کہ تو میرے ہاتھ سے شفا پائے گا." ( تذکره صفحه ۱۸۶) اسی طرح آپ کو الہام ہوا :- " يحيى الدين ويقيم الشريعة " وہ دین کو قائم کرے گا.اور شریعت کو زندہ کرے پھر آپ نے ایک رؤیا دیکھا جس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ایک رات میں لکھ رہا تھا کہ اسی اثناء میں مجھے نیند آگئی اور میں سو گیا.اس وقت میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا.آپ کا چہرہ بدر نام کی طرح درخشاں تھا.آپ میرے قریب ہوئے اور میں نے ایسا محسوس کیا کہ آپ مجھ سے معانقہ کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ آپ نے مجھ سے معانقہ کیا.اور میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ سے نور کی کرنیں نمودار ہوئیں.اور میرے اندر داخل ہو گئیں.میں ان انوار کو ظاہری روشنی کی طرح پاتا تھا.اور یقینی طور پر سمجھتا تھا کہ میں انہیں محض روحانی آنکھوں سے ہی نہیں بلکہ ظاہری آنکھوں سے بھی دیکھ رہا ہوں.اور اس معالقہ کے بعد نہ ہی میں نے محسوس کیا کہ آپ مجھ سے الگ ہوئے ہیں.اور نہ ہی یہ سمجھا کہ آپ تشریف لے گئے ہیں.اس کے بعد مجھ پر الہام الہی کے دروازے کھول دیئے گئے.اور میرے رب نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا.یا احمد بارک اللہ فیک - مارسیت اذر میت و لكن الله رمي - الرحمن
۹۰ - علم القرآن - لتنذر قوماما انذر ابا وهم ولتستبين سبيل المجرمين - قلانی امرت وانا اول المومنين یعنی اے احمد خدا نے تجھے میں برکت رکھ دی ہے.جو کچھ تو نے چلایا وہ تو نے نہیں چلایا.بلکہ خدا نے چلایا.خدا نے تجھے قرآن سکھلایا.تاکہ تو ان لوگوں کو ڈرا دے.- جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے.اور ناکہ مجرموں کی راہ کھل جائے.کہہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں.( تذکره صفحه ۴۳ ۴۴) سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :- " خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ تا میں اس بات کا ثبوت دوں کہ زندہ کتاب قرآن ہے.اور زندہ دین اسلام ہے اور زندہ رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.دیکھو میں زمین اور آسمان کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ یہ باتیں سچ ہیں اور خدا وہی ایک خدا ہے جو کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ میں پیش کیا گیا ہے.اور زندہ رسول وہی ایک رسول ہے جس کے قدم پر نئے سرے سے مردے زندہ ہو رہے ہیں.نشان ظاہر ہو رہے ہیں.برکات ظہور میں آرہے ہیں.عیب کے چشمے کھل رہے ہیں.فرمایا :- مجھے (الحکم ۳۱.مئی ۱۹۰۰ء ) " اس تاریکی کے زمانے کا نور میں ہوں جو شخص میری پیروی کرتا ہے.وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لئے تیار کئے ہیں.مجھے اس نے بھیجا ہے کہ تا میں امن اور حلم کے ساتھ دنیا کو بچے خدا کی طرف رہبری کروں.اور اسلام میں اخلاقی حالتوں کو دوبارہ قائم کروں.اور مجھے اس نے حق کے طالبوں کی تسلی پانے کے لئے آسمانی نشان بھی عطا فرمائے ہیں.اور میری تائید میں اپنے عجیب کام دکھلائے ہیں.اور غیب کی باتیں اور آئندہ کے بھید جو خدا تعالی کی پاک کتابوں کی رُو سے صادق کی شناخت کیلئے اصل معیار ہے میرے پر کھولے ہیں.وہ پاک معارف اور علوم مجھے عطا فرمائے ہیں.اس لئے ان روحوں نے مجھ سے دشمنی کی جو سچائی کو نہیں چاہتیں.-
اور تاریکی سے خوش ہیں.مگر میں نے چاہا کہ جہاں تک مجھ سے ہو سکے نوع انسان کی ہ روی کروں " ( مسیح ہندوستان میں صفحہ 1) پھر آپ نے بڑے جلال سے ببانگ دہل یہ منادی کی کہ اے تمام لوگو ! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب میں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نا مراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی " ( تذكرة الشهادتين - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۶) 000
(1) جاء الحق وزهق الباطل خدا تعالی نے احمدیت کا جو پودا اپنے ہاتھ سے لگایا اس کے متعلق بانی احمد بت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے." ( تذكرة الشہادتین - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۷) - یہ بیج ایک پودا بنا اور پھر تناور درخت بن گیا اور آج یہ درخت اپنی ایک سو سے زائد بہاریں دیکھ چکا ہے.اصلها ثابت وفرعها فی السماء اس کی جڑیں زمین میں گہری اور مضبوط ہیں اور اس کی شاخیں آسمانی ہیں.اس کی ہر شاخ پر خدا تعالی کے فضلوں کی بارشیں ہوتی ہیں اور ان پر کامیابیوں اور کامرانیوں کے غنچے کھلتے ہیں.اور اس پر طلوع ہونے والا ہر سورج اس کی ترقیوں کا گواہ ہے.احمدیت کی تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچ چکی ہے اور ہر قوم اس چشمہ سے پانی پی رہی ہے.ندیہ کا یہ فتح نصیب کارواں جو خدا تعالٰی نے اپنے پاک مسیح کے ہاتھ سے ترتیب دیا ، شاہراہ غلبہ اسلام پر خدا تعالی کی تائیدات اور نفرتوں کے سایہ تلے آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے.اس کو روکنے کے لئے جھوٹ کی بیساکھیوں پر سہارا لئے مولوی مشتاق چشتی اور ان کے بڑوں جیسے ہزاروں اس کے تعاقب میں نکلے مگر اس کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکے.بلکہ اپنے چہروں پر ناکامیوں اور نامرادیوں کی گرد جما کر ماضی کی تاریکیوں میں گم ہو گئے.ان کی داستان اوراق تاریخ پر یقینا بد نما داستان کی صورت میں ہمیشہ محفوظ رہے گی کیونکہ یہ مامور من اللہ کی مخالفت کرنے والے گروہوں میں سے ہیں جنہیں تو میں ہمیشہ تاریخ میں ذلتوں اور نگہتوں کے باب میں تلاش کرتی ہیں.خدا رسوا کرے گا تم کو..........مولوی مشتاق چشتی صاحب ! مامور زمانہ اور خدا کے پاک مسیح سے عناد رکھنے کی وجہ سے ،
۹۳ ابتداء سے لے کر آج تک ، مسلسل سو سال ہو گئے کہ ذلتوں کی مار آپ لوگوں کے گلے کا ہارینی ہوئی ہے.اس کے ذکر کی ہمیں چنداں ضرورت نہ تھی.اگر آپ گزشتہ سو سالہ تاریخ کے آئینہ میں اپنا حال دیکھ لیتے اور سوچتے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی ہر دعا کو آپ پر ہی کیوں الٹا دیا اور آپ کی ہر تدبیر کو توڑ کر رکھ دیا.وہ خدا کیوں ایک طرف جماعت احمدیہ کو فتح و نصرت سے نواز رہا ہے تو دوسری طرف آپ لوگوں کو ذلت و ادبار اور ناکامی سے ہمکنار کرتا ہے.آپ نے سب کچھ مشاہدہ کیا مگر خدا تعالی کے حضور فروتنی کی بجائے شوخی ہی دکھائی.آپ کو تو زیادہ دور جانے کی بھی ضرورت نہیں تھی گزشتہ دو تین سال میں ہی جھانک کر دیکھ لیتے.۱۹۸۸ء میں جب حضرت مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ الموزر نے جب جماعت احمدیہ کے سرگروہ مخالفین اور آئتہ التکفیر کو مباہلہ کی دعوت دی تو آپ نے بھی اس دعوت کو قبول کیا جس کا ذکر اخبار " ملت " لندن ۲۴ ۲۵ دسمبر ۱۹۸۸ میں بھی کیا گیا لیکن اس سے قبل آپ نے ماہنامہ ترجمان اسلام ناروے کے ماہ ستمبنی کتوبر کے شمارہ میں یہ لکھا تھا کہ ہم نے تو مرزا صاحب کو مباہلہ کا چیلنج دیا ہوا ہے.قادیانی اس سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں." پھر آپ نے اسی شمارے میں تحریر کیا کہ اب ہم چوتھی مرتبہ اس مباہلہ کو قبول کر رہے ہیں." پھر آپ نے اس مباہلہ کو قبول کرتے ہوئے خدا کے مامور اور اس کے پاک مسیح کے سلسلہ کی ناکامی اور بربادی کے لئے دعائیں کیں.تو آپ کی اس گریہ وزاری نے خود آپ ہی کی عزت کو چاک کر دیا اور آپ کو ناکام بھی کیا اور برباد بھی اور پھر بد نام بھی.۱۳ فروری ۸۹ء کو یعنی مباہلہ کی حضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف سے دعوت کے قریباً ۲ ماہ بعد ہی اس رقم کا ۸۰ فیصدی آپ نے اپنے صاجزادے کے نام کروا دیا جو تعلیم کے لئے مسلم بچوں کو حکومت کی طرف سے ملتی تھی.جسے بعد ازاں مسجد کمیٹی نے آپ کی واضح بد دیانتی سمجھتے ہوئے منسوخ کر دیا.۲۴ - اگست ۸۹ء آپ نے چند حامیوں کے ذریعہ تحریر پر دستخط کروا لئے کہ مسجد کے لئے جو رقم جمع کی گئی تھی اس کا دو تہائی اہل سنت جماعت کے لئے ہو گا اور ایک تہائی جامعہ اسلامیہ کے
: لئے وقف ہو گا اور اس کے نگران خود آپ ہونگے.چنانچہ اس رقم کو ہضم کرنے کے لئے آپ نے حسب ذیل دو اداروں کا قیام فرضی ناموں کے ساتھ اکاؤنٹ کھلوا کر کیا.(1) سٹی ٹرسٹ (۲) جامعہ اسلامیہ چنانچہ ان دونوں اداروں کے قیام کے ذریعہ مرکزی جماعت اہل سنت ناروے کے فنڈ کے ساتھ آپ نے فراڈ کیا.ان مالی بددیا معیوں کا پیام مشرق رجسٹرڈ موس ( Moes ) ناروے جلد نمبر ۸ شمارہ نمبر 1 نومبر ۱۹۸۹ء میں خوب چرچا ہوا اسی طرح عید میلاد النبی کے موقعہ پر آپ کی حرکات شنیعہ کو ایک ٹریکٹ کی شکل میں شائع کر کے تقسیم کیا گیا.پھر آپ نے اپنے مریدوں کو سازشی ، شرارتی، منافق اور یہودی لابی کے القابات سے نوازا اور یہ خیال نہ کیا کہ آپ ہی ان لوگوں کے امام ہیں اور لیڈر ہیں چنانچہ آپ کا مقام کیا بنتا ہے.پھر آپ نے اپنی تذلیل کا اقرار بھی کیا لیکن اس میں احمدیوں کا ہاتھ قرار دیا.اکتوبر ۱۹۸۹ء میں ریڈیو ناروے کی اردو سروس میں چار قسطوں میں آپ کو دھوکے باز، فراڈی مکار اور مسجد کے نام پر رقم بٹور کر ہضم کرنے والا قرار دیا گیا.آپ کی ذلتوں پر مہر تصدیق ثبت کرنے والے چند اخبارات و رسائل کے نکات ہم ہدیہ قارئین کرتے ہیں تاکہ دیکھے کوئی جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو (1) پیام مشرق جو ناروے کے موس (Mass) شہر سے شائع ہوتا ہے جلد ۸ شمارہ نمبر ۲ کے صفحہ آٹھ پر حسب ذیل حقائق پیش کرتا ہے:.مولانا صاحب نے اپنے خلاف پروپیگنڈا کو یہودی سازش قرار دے کر اپنا الو سیدھا کر لیا ہے.11 - مسجد کا ایک تہائی حصہ یعنی ایک کروڑ روپیہ مالیت کی جائیداد جدا کر لینا اپنے ساتھیوں کے اعتماد پر کھلم کھلا ڈاکہ ہے.iii - 10 ملین کی حصولیابی کے لئے لوگوں کے سامنے ایک ہاتھ میں جنت اور دوسرے ہاتھ میں دوزخ کی منظر کشی کر کے دکھاتے رہے.
iv - گناہگاروں سے مسجد کے لئے رقم لے کر جنت کی ضمانت دیتے رہے.V.یہ وہی ہتھکنڈا تھا جس سے عیسائی دنیا میں پادری زمانہ قدیم میں پیروکار کے چولہے کا ایندھن اور ہنڈیا کی چکنائی تک نہ چھوڑتے تھے.اور ہندوؤں کے پنڈت بھی کل تک اپنے ماننے والوں کی دلہنوں کے زیور نوچ لیا کرتے تھے.(۲) ماهنامه بازگشت ناروے کے جون 1999ء کے شمارے میں آپ کی دیگر مالی بدعنوانیوں کے علاوہ حسب ذیل خوفناک حقائق کو بھی ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا گیا جو ہمیشہ آپ کی ذلت و نکبت کی گواہی دیں گے.رمضان المبارک میں دو بار نماز جمعہ اور ایک بار نماز تراویح کے دوران مسجد اور امام کی بے حرمتی کی گئی.- عید الفطر کے موقع پر جب کہ امام اور لگ بھگ ڈیڑھ ہزار مسلمان خدا کے حضور نیست باندھ کر کھڑے ہو چکے تھے جھگڑا کھڑا کیا گیا.نماز تڑوائی گئی.ایسی ذلت کسی پادری کی بھی شاید نہ ہوئی ہو.(۳) پھر اسی ماهنامه بازگشت اوسلو نے اپنی اگست 1990ء کی اشاعت کے صفحہ ا تا صفحہ ۱۷ میں آپ پر متعدد رذیل قسم کے الزامات ثابت کئے اور آپ کو حسب ذیل افعال شنیعہ مثلاً: ہیرا پھیری کرنے والا.منبر رسول کا غلط استعمال کرنے والا.مسجد کے تقدس کو پامال کرنے والا.لالچی.اپنے خاندان کو ناروے میں سیٹ کرنا..منہ مانگی مراعات حاصل کرنا.مرضی کے ملازم رکھنا.اپنی مرضی کی بے تکی تنظیمیں بنانا.جھوٹے وعدے کرنا.کئی کورس شروع کئے مگر کوئی بھی مکمل نہ کیا.حساب میں خرد برد کرنے والا.اپنا فلیٹ کرائے پر دے رکھنا.اور مسجد کی رہائش پر قابض ہو جانا.- خدا اور اس کے رسول کے نام پر اکٹھا کیا ہوا مال ہضم کرنا.اپنے آدمیوں کو ناروے سیٹ کرنے کے لئے سودا بازی اور ہیرا پھیری کرنے والا قرار دیا.(۴) ماہنامہ قائد اوسلو اپنے شمارہ نمبر ۸ اگست 1990ء میں لکھتا ہے.- مولوی ثواب کے نام پر سب کچھ کرتا رہا.- ن لوگوں کی جیبیں خالی کرتا رہا.
ง ili - جنت کے وعدے دے کر لوٹتا رہا.iv - مولوی کی اصل حقیقت.نیز منبر رسم گدائی ہے ہنر اس کا وہ ہے رقاص مذہب پاؤں میں سونے کی پائل ہے اگرچہ رولتا پھرتا ہے وہ تسبیح کے دانے مگر در پردہ وہ زر کی ہوس گاہوں کا سائل ہے (۵) پیام مشرق اپنے شمارہ نمبر ۸ اگست ۱۹۹۰ء جلد نمبرہ میں یہ پیام دیتا ہے کہ یہ (مولوی چشتی ) ۴۲۰ کا نام پانے کا مستحق ہے.-ii - جامعہ اسلامیہ کے نام پر ایک مذہبی سکول خریدا گیا خرچ مرکزی فنڈ سے ادا ہوئے اور جائیداد مولانا نے اپنے نام لگوالی.کنٹریکٹ کی نقل بھی موجود ہے.(۱) ۲۹ مارچ ۱۹۹۱ء بروز جمعتہ المبارک رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں اوسلو کی مسجد میں جو فساد برپا ہوا اس کی وجہ سے پولیس نے مسجد کے تقدس کو اپنے جوتوں اور کتوں کے ساتھ پامال کیا.چشتی صاحب ! وہ بھی آپ ہی کا کارنامہ تھا.جس کی تفصیل اخبار DAGBLADET کی ۲ - اپریل 194 ء بروز منگل کی اشاعت میں صفحہ ۸ پر شائع ہوئی اور سارے ملک میں آپ کی ذلتوں کا چرچا ہوا." - (۷) اب آخر میں ملاحظہ ہو - ماہنامہ قائد اوسلو - ماہ مارچ ۱۹۹ شمارہ نمبر ۳ - لکھا ہے.مولانا مشتاق احمد چشتی کو امامت کی ذمہ داری سے علیحدہ کر دیا گیا ہے.اور اس فراغت کے بعد مسجد کی رونق بحال ہونا شروع ہو گئی ہے.لوگوں نے اس جھگڑے کے ختم ہونے پر شکرانے کے نوافل ادا کئے." الحمد للہ ثم الحمد للہ چشتی صاحب ! ہم آپ کے ان تمام افعال شنیعہ اور ان کے نتیجہ میں ذلتوں کے ہار کے دانوں کو نہیں گنتے.آپ خود سوچیں کہ مباہلہ قبول کرنے کے ساتھ ہی آپ پر رسوائیوں کی چھتی کیوں چل پڑی اور اس چکی کا ہر دور کیوں آپ کی نئی ذلت لے کر آیا.پھر سوچیں کہ کیا یہ وہی لعنتیں نہیں جو مامورین کے مقابل پر کھڑا ہونے والوں کا مقدر ہوتی ہیں..خدا تعالٰی نے توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رکھا ہے.اب بھی اس میں داخل ہونے کا موقعہ ہے اپنی چالاکیوں ہیرا پھیریوں ، جھوٹوں
۹۷ اور افعال شنیعہ سے باز آئیں اور خدا کے حضور توبہ کریں.چشتی صاحب ! آپ نے اپنے نام کے پنچشتی کا لقب لگایا اور پھر اپنے آپ کو مقدس بنانے کے لئے آپ نے اپنے جھوٹ کے پلندہ کتابچہ ” فاتح قادیان" کے صفحہ ۲۷ پر لکھا کہ پشت چشتی اور چشتیائی کے الفاظ میں خدا معلوم کیا کشش ہے کہ زبان و قلم پر آتے ہی - وجد طاری ہو جاتا ہے.چشم پر نم ہو جاتی ہیں.گردنیں عقیدت و محبت سے جھک جاتی ہیں." ہم نے گزشتہ اوراق میں آپ کے متعلق ناروے کے اخبارات و رسائل کے نمونے دیئے ہیں جو آپ کی ردائے عزّت کو اس طرح چاک کرتے ہیں کہ آپ کے نفس کا ننگ ظاہر ہو جاتا ہے اور ہر کوئی آپ کی حقیقت اور رسوائیوں کو دیکھ لیتا ہے اور وہ آپ جیسے نام نہاد مذہبی لیڈروں چشتیوں کو دیکھ کر خون کے آنسو روتے ہیں اور ان کی گردنیں عقیدت و محبت سے نہیں جھکتیں بلکہ شرم و حیا اور ذلت کی مار کی وجہ سے جھک جاتی ہیں.وہ آپ سے چھٹکارا حاصل کر کے شکرانے کے نفل ادا کرتے ہیں.حضرت معین الدین چشتی اور حضرت گنج شکر " جیسے لوگ تو اسلام کی عظمتوں کے امین تھے مگر آپ کو تو زمانہ نے زمانہ کی ذلتوں کا امین ثابت کیا ہے.چه نسبت خاک را با عالم پاک پھر اس چشتی کو بھی دیکھیں جو ابو الفتح کے نام سے برطانیہ میں معروف تھا وہ بھی اپنے نام کے ساتھ آپ ہی کی طرح " چشتی " لکھتا تھا.اس نے جناب امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ الودود کی طرف سے دی گئی دعوت مباہلہ سے استہزاء کیا اور بڑی تعلی سے اسے مجاہلہ قرار دیا.پھر جس طرح اس کی عزت کو خدا تعالیٰ نے تار تار کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں.اس کی قابل شرم کاروائیوں سے پردہ اٹھانے کی یہاں ضرورت نہیں اور نہ ہی ہم کسی کی ذلت و رسوائی سے خوش ہوتے ہیں.بلکہ ہم دعا کرتے ہیں کہ اس شخص نے دنیا میں بہت ہی سزا پائی اور ہمیشہ کے لئے سیاہ روئی اس کا مقدر بن گئی ہے.اللہ تعالیٰ اس کی غلطیوں سے اغماض فرمائے اور اس کے گناہوں سے چشم پوشی کرے.لیکن یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہر وہ جو خدا تعالیٰ کے مامورین اور اس کے قائم کردہ سلسلہ کے مقابل پر کھڑا ہوتا ہے یا اس کی ذلت کا خواہاں ہوتا ہے خود خدا تعالیٰ کی.
۹۸ نظروں میں حقیر ہو کر دنیا کے سامنے واضح طور پر ذلیل و خوار ہو جاتا ہے.پس سوچئے کہ کیوں یہ رسوائیاں کی رسوائیاں آپ سے چمٹ کر رہ گئی ہیں اور آپ کا ہر قدم تنزل و ادبار کی گہرائیوں میں اترتا چلا جاتا ہے.جبکہ اس کے بر عکس خدا تعالی کا اپنے پاک صحیح اور مہدی کی جماعت کے ساتھ سلوک ہی نرالا ہے.اس کی تائید و نصرت کے ساتھ اس کی تقدیر کے روش پر یہ جماعت آگے سے آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے........میں اعزاز پاؤں گا دعوت مباہلہ کے بعد ساری دنیا میں حضرت امام جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے ایسی عزت و حکومت عطا فرمائی کہ بیسیوں ممالک کا اس نے سفر کیا اور ہر ملک کی سرزمین نے اس کے قدم لئے سربراہان مملکت اور بڑے بڑے وزراء اس کے استقبال کے لئے ایستادہ ہوئے.کئی ملکوں میں شہروں کی چابیاں اس کی خدمت میں پیش کی گئیں.ہر ملک اور ہر دیار جہاں اس نے قدم رکھا فتح و شادمانی اور کامیابی و کامرانی نے اس کے قدم چوم لئے.پھر درجن بھر ملکوں کے وزراء اور اراکین پارلیمنٹ جلسہ سالانہ اگست ۱۹۸۹ء میں اپنے اپنے ملکوں کے وفود لے کر آئے.چشتی صاحب ! یہ الہی عالمگیر جماعت احمدیہ محض خدا تعالٰی کے فضلوں اور اس کی نصرتوں کے باعث ۲۴ ممالک میں ۳۲۶ مضبوط اور منظم جماعتوں میں قائم ہو چکی ہے (اس تعداد میں پاکستان کی جماعتوں کی تعداد شامل نہیں) جماعت احمدیہ کی ساری دنیا میں ۱۹۴۵ مساجد قائم ہیں ( اس تعداد میں بھی پاکستان میں جماعت کی مساجد کی تعداد مذکور نہیں ) سازی دنیا میں ۳۵۶ احمد یہ مسلم مشن قائم ہیں.۲۷ ہسپتال کام کر رہے ہیں.۲۵۸ نرسری اور پرائمری سکول ہیں.۸۱ ہائی اور جونیئر سیکنڈری سکول ہیں - N اخبارات و رسائل مختلف ممالک میں مختلف زبانوں میں شائع ہوتے ہیں.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس الہی جماعت کو دنیا کی بڑی بڑی ۴۴ زبانوں میں قرآن کریم کے متن کے ساتھ تراجم شائع کرنے کی توفیق ملی.جبکہ مزید 4 زبانوں میں تراجم زیر تکمیل ہیں اور مزید زبانوں میں تراجم کا کام شروع ہے.- -
۹۹ اسی طرح ۱۱۸ زبانوں میں قرآن کریم کی منتخبہ آیات - منتخبہ احادیث نبوی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے منتخبہ اقتباسات جن سے اللہ تعالیٰ کی کبریائی ، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ، اسلام اور قرآن کریم کی عظمت و سچائی ظاہر ہوتی ہے ' شائع کرنے کی توفیق ملی جو قریہ قریہ بڑی کثرت سے تقسیم کی جا رہی ہیں.پس چشتی صاحب ! جماعت احمدیہ کی عظمتوں ، اس کے امام کے شامل حال خدا تعالی کی نصرتوں کے مختصر سے جائزہ کو دیکھ کر آپ کی نظریں پتھرا چکی ہیں.آپ کے اعصاب جواب دے گئے ہیں آپ کی زبان گنگ ہے لیکن آپ کا حال یہ رہائی دے رہا ہے کہ گستاخ اکھیں کتھے جا لڑیاں یہ کیا عادت ہے کیوں کچی گواہی کو چھپاتا ہے تیری اک روز اے گستاخ شامت آنے والی ہے ترے مکروں سے اے جاہل مرا نقصاں نہیں ہرگز کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے اگر تیرا بھی کچھ دیں ہے بدل دے جو میں کہتا ہوں کہ عزت مجھ کو اور تجھ پر ملامت آنے والی ہے خدا رسوا کرے گا تم کو میں اعزاز پاؤں گا سنو اے منکرو اب یہ کرامت آنے والی ہے خدا کے پاک بندے دوسروں پر ہوتے ہیں غالب مری خاطر خدا سے یہ علامت آنے والی ہے (تتمہ حقیقته الوحی)