Language: UR
جماعت احمدیہ کی ترقیات سے خائف ہوکر مسلمان علماء نے اس پرامن اور معصوم جماعت کے ماننے والوں کے خلاف حربہ تکفیر پکڑا، روز اوّل سے ہی احمدیوں کو کافر قرار دینے کی مہم ایک اسلامی جمہوریہ میں اس دن انتہا تک پہنچی جب ایک حکومت وقت نے سرکاری طو رپر سب مسلمان گروہوں کو جمع کرکے ایک جماعت احمدیہ مسلمہ کے خلاف کفر کا اعلان کیا۔ اس غیر شرعی حکومتی فیصلے کی صرف اتنی اہمیت ہے کہ یہ آخری زمانہ کے متعلق بانی اسلام ﷺ کی ایک پیشگوئی کو پورا کرنے والا بنا۔ لیکن جماعت کے خلاف علماء کی تکفیر کو بطور دلیل پیش کرنے والوں کے لئے اس کتاب میں مصنف نے مسلمان گروہوں اور سرکردہ نامی مولویوں کی باہمی تکفیر بازی کا ایک نقشہ پیش کیا ہے، اور حتی المقدور یہ کوشش کی ہے کہ ان آپسی فتاوی کفر کے اصل عکس مہیا کئے جائیں۔ اصل تصاویر سے ان خطرناک فتاویٰ کی خوفناک اور دہلا دینے والے من و عن الفاظ پڑھنے کو ملیں گے۔ ظفر اینڈ سنز بمبئی سے جون 1996ء میں شائع ہونے والی اس قریباً ڈیڑھ صد صفحات کی کتاب میں مسلمان گروہوں کی باہمی تکفیر بازی کی تاریخ اور جماعت احمدیہ مسلمہ کے ہی فرقہ ناجیہ ہونے پر خاطر خواہ مواد مہیا کردیا گیا ہے۔
فتاوی کفر اور ناجی جماعت مؤلّف برہان احمد ظفر درانی ناشر : ظفر اینڈ سنز ممبئی
سین اشاعت تعداد مؤلف جون ۲۰۰۰ 1994 بریان احمد ظفر درانی ناشد ظفر این ڈستر میبی
عناوين صفحه نمید ا پیش لفظ ۲.تبصرے تمہید مسلمان کون ؟ ۵ اسلام میں فرقہ بندی - - -A -4 11 - شیعوں کے خلاف فتوے سنیوں کے خلاف فتوے علماء کے فتو بے دیوبندیوں کے خلاف بریلویوں کے خلاف فتوی کفر غیر مقلدین کے خلاف کفر کے فتوے مقلدین کا فر ہیں ۱۲ جماعت اسلامی کے فتوے عامتہ المسلمین کے خلاف فتوی کو جماعت اسلامی کے خلاف ۱۴ چکڑالویوں کے خلاف فتویٰ ۱۵ پرویز یوں کے خلاف فتویٰ احراری جماعت کے خلاف کفر کا فتویٰ ا تبلیغی جماعت کے متعلق فتویٰ ۱۸ مولانا نذیر حسین صاحب دہلوی کے خلاف فتویٰ 19 شاء اللہ امرتسری کے خلاف کفر کا فتویٰ ۲۰ مولانا قاسم صاحب نانوتوی و دیگر دیوبندی علماء کے خلاف فتوے ۲۱ عطاء اللہ شاہ بخاری کے خلاف فتویٰ 1 ۱۲ ۱۴ ۱۵ | A ۲۲ ۲۴ ۲۵ ۲۷ ۳۳ ۳۴ ۳۵ ۳۵ ۳۹ الم ۴۲ ۴۴
۴۵ 조금금 ۴۵ ۴۶ ۴۸ MA 뜯을 알ㅎ 층 وم ۴۹ ۵۲ ۲۲ سرسید احمد خان کے خلاف فتوی ۲۳ علامہ اقبال کے خلاف فتویٰ ۲۴ قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں فتویٰ ۲۵ مولانا ابوالکلام کے بارے میں فتویٰ ۲۶ لاؤڈاسپیکر پر فتویٰ ۲۷ گھڑی کے خلاف فتویٰ ۲۸ حیرت انگیز فتویٰ ۲۹ کرکٹ میچ دیکھنے پر فتوی : جماعت احمدیہ پر فتاوی تکفیر اور اسکی زد دیگر فرقوں پر جماعت احمدیہ اور انگریزی حکومت کی تعریف انگریزوں کے کاشت کردہ دیگر پودے ۳۳ دیوبندی انگریزوں کا کاشت کردہ پودا ۳۴ جمعیتہ العلماء انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ۳۵ اشرف علی صاحب تھانوی انگریزوں کے پودے ۳۶ بریلوی انگریزوں کا کاشت کردہ پودا ۳۷ تبلیغی جماعت انگریزوں کا کاشت کردہ پودا ۳۸ وهابی انگریزوں کے پودے ۳۹ جماعت اسلامی انگریزوں کا خود کاشتہ پودا جماعت احمدیہ کسی کا کاشت کردہ پودا ہے ؟ ۵۳ ۵۳ ۵۴ ۵۴ ۵۵ ة ة : ۵۶ OA
مخالفین احمدیت کا انجام ۳۲ مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب ۴۳ مخالفین کی حسرتیں اور جماعت کی ترقی ۴۴ الكفر ملت واحدة ۴۵ مسلمان کی تعریف کیا ہے ؟ بالم کافر سے مسلمان ہونا ، کیسے ؟ پاکستان میں غیر مسلم قرار دینے کا عمل سیاسی ۴۸ جنتی فرقہ ایک جماعت ہوگی و ہم امام الزمان کی پہچان ضروری ہے ۵۰ خلافت و امامت اہ جماعت کی دوسری شرط ۵۲ جماعت کی تیسری شرط ۵۳ جماعت کے بالمقابل بہتر فرقوں کا اتحاد وه Y.۶۲ पक्ष ۶۸ ۷۵ LL A.= ۸۵ ^^ ۸۹ q.۵۴ ما انا علیه و اصحابی کی مصداق جماعت کون ؟ ۹۷ ۵۵ بعض فتاویٰ کی اصل کاپیاں 96 ۱۲۸
اور حوالوں کی فوٹو کاپی شائع کر نا ممکن نہیں البتہ نمونے کے طور پر چند ضروری حوالوں کی اصل فوٹو کاپی کتاب کے آخر میں شائع کی جارہی ہیں جو یقینا باعث تسکین ثابت ہوں گی.حاصل ! میری اس کتاب کو تالیف کرنے کی وجہ صرف اور صرف صرافات ہے جہ جماعت ناجیہ صبر و استقامت کے ساتھ رواں دواں ہے اور إنشاء اللہ وہ دن دور نہیں کہ مسلمان جہالت کی موت سے بچنے کیلئے فوج در فوج جماعت میں داخل ہو کر اپنی عاقبت سدھارتے ہوئے مالک حقیقی سے الفام پائیں گے.ہمارا جہاد اخلاق محمدی کے ساتھ حق کی تبلیغ ہے.
پیش لفظ قارئین کرام ! اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کی بات کرتے وقت جہاں نظریاتی اختلافات ہوں وہاں فوراً یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں حالانکہ اسلام وہ خالص واحد دین ہے ہمیں کوئی بھی فرق نہیں تھا مگر افسوس یہ نظریاتی اختلافات ہی فرقوں کی پیدائش کے باعث سے محمد رسول اللہ صلی ال علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ بنی اسرائیل میں تو بہتر فرقے ہوئے لیکن میری امت میں بہتر ہو جائیں گے.اسلئے ان فرقوں کا وجود میں آنا بھی نبی سے علیہ الصلواۃ والسلام کی پیشگوئی کی صداقت پر دال ہے لیکن قابل افسوس پہلوان کا ایک دوسرے کو کافر بنانا ہے.عبرت....مسلمانوں میں جس قدر بھی فرقے ہوتے ہیں ان تمام ہی فرقوں کے علامہ نے آپسمیں ایک دوسر کو اسلام دشمن یعنی کا فرکی سند عطا کی ہے لیکن رہے حیرت انگیز تاریخ کا صرف وہ منفرد باب ہے اور وہ ہے خلاف شریعت طاقت کا طاغوتی مظاہرہ میں نے آنسوؤں کو بھی رونے پر مجبور کر دیا پاکستان کی قومی امبلی کا فتوئی جو جماعت ناجیہ پر نافذ کیا گیا جس میں عش کمار کے سبھی سند یافتہ فرقے متفق ہو گئے نتیجتاً جماعت حق کو اسلام سے خارج کر دیا گیا.اسکے بعد افراد جماعت جہاں بھی خالص دین اسلام کی سنت نبوی کے مطابق تبلیغ کرتے ہیں پاکستان کے غیر شرعی فیصلے کا حوالہ دیکر بھر پور مخالفت کی جاتی ہے.میں نے اس کتاب میں مسلمانوں کے فرقوں مولویوں کے آپسی گھر کے فتوؤں اور جماعت ناجیہ پر پاکستانی قومی اسمبلی کے وضع کردہ فیصلے کا عوامی زبان میں جائزہ پیش کیا ہے اور حتی المقدور کوشش یہ کی ہے کہ حوالہ اصل کتاب سے من و عنے دیا جائے گو کہ تمام کتب
لم الله الحمن الرحيم ج تبصر کرم مولوی ربات امربه مبلغ سلسلم العديد اسیم کمروفه الشدو برج مضمون دیکھو ں ہے.ماشا الله، کارش قال ندا ہے اللہ تعالی حیات بتوں کے لئے باعث برکت بنائے.آمین نلار مقامة العديد نام پرانا اا السلام 27/10/95 مفید حوالہ جات آپ نے آئے روتے ہیں اگر شا کے ہو جائیں تو بہتر ہے 19/4/15 اسٹرابر انبار در تیار کردہ مصروف پیر بردی کشور مولوی برع من اعتصامی پسند آیا.بعض کا جواب بہت محمد موں کے یک اچھی کوشین کے لئے میکوں سے اللہ تعالی جزائے خیر عطا کرکے انہیں ہو خیرٹ ر ده ته جاوید ی طور پر
مبر مکرم مولوی مهربان از افراح السلام ورحمة الله باب ماست مضمون پڑھا.ماشاء اللہ اچھی کوشش ہے اور پدیدار میدان تبلینے سے کام آئے رائے حوالہ جات یکجا گئے به گئے ہیں.اسکی طباعت حقیق سفید رائی 28.10.95 م موادی بران را را نفر نام میلکم الا الله راست مکمل مضمون ترها آسے کانی ملت کی ہے نوالہ یا کو ٹرور کر بہت ران آیا.خدا کرے کہ آٹا یہ مضمون سوپر روحوں کے لے ہدایت کا موجب ہوں آمین.> 10/7/78 ناکر شیگان آمد ماموران
بسم الله الرحمن الرحيم بمحمد صلى على رسوله الكريمي خُدا کے فضل اور رحم کے ساتھ خدا تعالٰی نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے ہر زمانہ میں انبیاء کے سلسلہ کو جاری فرمایا.ایمان لانے یا انکار کرنے کا اختیار انسانوں پر چھوڑا.اور ہر دو گروہوں کے لئے انعام اور سنرا کی تفصیل بیان فرما دی.انسانی فطرت مذہب کے معاملہ میں کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ انبیاء کے پیغام حق دینے کے ساتھ ہی اکثر لوگ انکار کی طرف دوڑتے ہیں.اور بہت کم ایسے ہوتے ہیں جن کی سعید فطرت صداقت کو قبول کرتی ہے.دنیا میں کوئی ایک نبی بھی ایسا پیدا نہیں ہوا جس کو دعواے کے ساتھ ہی لوگوں نے قبول کر لیا ہو.چنانچہ خدا تعالے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ : يحسرة عَلَى الْعِبَادِ مَا يَا تِهِمْ مِنْ رَّسُولِ إِلا كَانُوا ریس آیت : ۳۱) بِهِ يَسْتَهْزِعُونَ یعنی ہائے افسوس (انکار کی طرف مائل) بندوں پر کہ جب کبھی بھی آپ کے پاس کوئی رسول آتا ہے وہ اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگ جاتے ہیں رادر تمسخر کر نے لگتے ہیں) اسی طرح سورۃ الزہ شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا يَا تِيهِمْ مِن نبي إلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَوِرْعُون (التشرف آیت ) یعنی اور اُن کے پاس کوئی نبی نہ آتا تھا کہ وہ اس سے کسی نہ کرتے ہوں.قرآن کریم کی اس شہادت کا کوئی انکار نہیں کر سکتا یہ بات ہر نبی کے ساتھ ہر زمانہ میں ہوئی.اگر چند ایمان لانے والے پیدا ہوئے تو اکثریت انکار کرنے والوں کی مقابلہ میں کھڑتی ہوگئی.خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ ت كَذلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِي عَدُدًّا شَيْطَينَ الإِنسِ وَالجَن
يُوحِي بَعْضُهُمْ إلى بعض زُخْرُفَ الْقَولِ غُرُورًا وَلَو شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُوْنَه (الانعام آیت: ۱۱۳) یعنی اور ہم نے انسانوں اور جنوں میں سے سرکشوں کو اسی طرح ہر ایک نبی کا دشمن بنا دیا تھا.اُن میں سے بعض بعض کو دھوکا دینے کے لئے ان کے دل میں بُرے خیال ڈالتے ہیں جو محض مجمع کی بات ہوتی ہے.اور اگر تیرا رب چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے.پس تو اُن کو بھی اور ان کے جھوٹ کو بھی نظراندازہ کر دے.اسی طرح ایک اور جگہ فرماتا ہے.وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا بِي وكذلك جعلنا لكل لي عَدُوا مِنَ الْمُجْرِمِينَ وَكَفَى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَ نَصِيرًاه (الفرقان آیت : ۳۲) یعنی اور ہم نے اسی طرح مجرموں میں سے سب نبیوں کے دشمن بنائے ہیں اور تیرا رب ہدایت دینے اور مدد کرنے کے لحاظ سے (بالکل) کافی ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہر بات کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے.یہ آیات کسی تبصرہ کی محتاج نہیں ہیں.انبیاء کی تاریخ پر نظر کریں تو ہمیں ان آیات کی صداقت روز روشن کی طرح صاف نظر آتی ہے.ان آیات میں خدا تعالیٰ تے نبی کے دشمنوں کی نشاندہی کر دی ہے دشمن ان لوگوں میں سے پیدا ہوتے ہیں جو سرکش ہوں ملمع سازہ اور جھوٹے ہوں دھو کے باز ہوں یا پھر مجرم ہوں.ہر نبی کے زمانہ میں ایسے لوگ ہی نبی کے دشمن بنتے رہے انبیاء کی تاریخ آپس میں بہت ملتی جلتی ہے.انبیاء کا کردار ان کے ماننے والوں کا کر دار دوسرے زمانہ میں آنے والے نبی کے کردار اور اُن کے ماننے والوں کے کردار سے بہت ملتا ہے.پھر انبیاء کے مخالفوں کے کردار بھی آپس میں ملتے ہیں.جو سلوک ایک نبی کے ساتھ اور اس کے ماننے والوں کے ساتھ مخالفوں نے کیا دہی سلوک دوسرے نبی اور اُس کے ماننے والوں
سے کیا گیا.اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ما يقال لَكَ الأَمَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبلِكَ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَ لار ذُو عقاب اليم ( حم السجده آیت ۴۴) یعنی تجھ سے صرف وہی باتیں کہی جاتی ہیں جو مجھ سے پہلے رسولوں سے کہی گئی تھیں تیرا رب بڑا بخشش والا ہے اور اس کا عذاب بھی دردناک ہوتا ہے.اسی طرح ایک مقام پر خدا تعالیٰ فرماتا ہے.سَاحِرُ طَاغُونَ ساحر او مجنونه الوَا صَوابِةٍ بَلْ هُمْ قَوْمٍ الذریت آیت ۵۳ - ۵۴) یعنی اسی طرح اس سے پہلے جو رسول آتے رہے ان کو لوگوں نے یہی کہا تھا کہ وہ دلفریب باتیں بنانے والے یا مجنوں ہیں.کیا وہ اس بات کے کہنے) کی ایک دوسرے کو وصیت کر گئے ہیں ہر گز نہیں) بلکہ وہ سب کے سب سرکش لوگ ہیں.داسی لئے ایک ہی قسم کے گندے خیالات اُن کے دل میں پیدا ہوتے ہیں.قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ انبیا ء پر ایمان لانے والے لوگوں کو انکار کر نے والوں کی طرف سے ہمیشہ تکالیف کا سامنا رہا.ایمان لانے والے ستائے اور مارے جاتے اور مال و اسباب سے محروم کئے جاتے رہے اور کسی ایک جگہ بھی ایسا دیکھنے کو نہیں تھا کہ ایمان لانے والوں نے انکار کرنے والوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک کیا ہو.انبیاء کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس زمانہ کے بڑے بڑے لوگوں نے انبیاء اور اُن پر ایمان لانے والوں پر کفر کے فتوے دیتے اور اُن کی جانوں اور مالوں کو حلال قرارہ دیا اور جائز سمجھا.یہ کفر کے فتوے ایمان لانے والوں پر ہمیشہ سے لگتے رہے ہیں.اور انہیں فتووں کی بدولت ہر زمانہ نہیں لوگوں کا
خون بہایا جاتا رہا.حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کا واقعہ قرآن کریم میں درج ہے.دونوں بیٹوں نے قربانی کی ایک کی قربانی قبول ہوئی دوسرے کی نہ ہوئی تو جس بیٹے کی قربانی قبول نہ ہوئی تھی اس نے اپنے بھائی پر فتوی جاری کیا اور کہا کہ میں تجھ کو قتل کر دوں گا اور پھر ایسا ہی کیا.حضرت نوح علیہ السلام نے جب لوگوں میں تبلیغ کی تو اس پر اُن بڑے لوگوں نے جنہوں نے اس کی قوم میں سے انکار کیا تھا اُسے کہا کہ ہم تجھے اپنے جیسے ایک آدمی کے سوا کچھ نہیں سمجھتے اور نہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سوائے ان لوگوں کے جو سرسری نظر میں ہم میں سے حقیر ترین نظر آتے ہیں کسی نے تیری پیروی اختیار کی ہو.اور ہم اپنے اور پر تمہاری کسی قسم کی کوئی فضیلت نہیں دیکھتے بلکہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو.( ہود آیت ۲۸) حضرت آدم علیہ السلام پر فتویٰ دیا گیا اور یہ فیصلہ کیا کہ ان کو آگ میں ڈال دیا جائے اس کے سوائے اور کوئی علاج نہیں.حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون کے سامنے جب ساحروں سے مقابلہ کیا تو ساحہ ہار گئے اور حضرت موسی " پر ایمان لے آئے تو فرعون نے ان کے خلاف فتوی دیا کہ تم میری اجازت کے بغیر اس موسی " پر ایمان لے آئے ہوا اس کی سنرا یہ ہے کہ میں تمہارے ہاتھ اور پیر خالف سمتوں سے کاٹ دوں گا اور تم کو صلیب دونگا حضرت عیسی علیہ السلام نے جب دعوی فرمایا تو ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا اور سیہودی فریسیوں نے آپ کے خلاف بھی فتوی دیا جیسا کہ لکھا ہے.پھر وہ یسوع کو سردار کاہن کے پاس لے گئے اور سب سردار کا ہن اور بزرگ اور فقیہہ اس کے ہاں جمع ہو گئے.اور پطرس فاصلے پر اُس کے پیچھے پیچھے سردار کا سن کے دیوان خانے کے اندر تک گیا.اور پیادوں کے ساتھ بیٹھ کر آگ تاپنے لگا.اور سردار کا ہن اور سارے صدر عدالت والے یسوع کے مار ڈالنے کے واسطے اُس کے خلاف
گواہی ڈھونڈھنے لگے مگہ نہ پائی.کیونکہ بہتیروں نے اُس پر جھوٹی گر اہیاں تو دیں لیکن اُن کی گواہیاں متفق نہ تمھیں پھر بعض نے اُٹھ کہ اُس پر یہ جھوٹی گواہی دی کہ ہم نے اُسے یہ کہتے سنا ہے کہ میں اس مقدس کو جو ہاتھ سے بنا ہے ڈھاؤنگا اور تین دن میں دوسرا بناؤں گا جو ہاتھ سے نہ بنا ہو.لیکن اس پر بھی ان کی گواہی متفق نہ نکلی.پھر سردانہ کا بہن نے نیچے کھڑے ہو کر یسوع سے پو چھا کہ تو کچھ جواب نہیں دیتا ؟ یہ تیرے خلاف کیا گواہی دیتے ہیں.مگر وہ چپکا ہی رہا اور کچھ جواب نہ دیا.سردار کاہن نے اس سے پھر سوال کیا اور کہا کیا تو اس ستودہ کا بیٹا مسیح ہے.یسوع نے کہا ہاں میں ہوں اور تم ابن آدم کو قادر مطلق کی دہنی طرف میٹھے اور آسمان کے بادلوں کے ساتھ آتے دیکھو گے.سردار کا اہن نے اپنے کپڑے پھاڑ کے کہا اب ہمیں گواہوں کی کیا حاجت رہی.تم نے یہ کفر سُنا تمہاری کیا رائے ہے.اُن سب نے فتوی دیا کہ وہ قتل کے لائق ہے تب بعض اُس پر تھوکنے اور اُس کا منہ ڈھانپنے اور اُس کے سکتے مارہ نے اور اُس سے کہنے لگے.نبوت کی باتیں سُنا اور پیادوں نے اُسے طمانچے مار مارہ کے اپنے قبضے میں لیا." ( مرقس باب ۱۴ آیت ۵۳ تا ۶۵) کفر کے فتوے دینا ایک دبیر بیند بات ہے.جب بھی کسی عالم نے اپنے خیالات کے فاطر کے توے دیار کی تو کفر کا فتویٰ جڑ دیا اور قسماقسم کے اس کو خطاب دیئے جیسے جادو گر.پاگل جھوٹا مکار - فریبی وغیرہ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کے بارے میں تمام مذاہب کی کتب میں پیشگوئیاں موجود تھیں اور لوگ منتظر بھی تھے جب آپ کو خدا تعالٰی نے مبعوث فرمایا تو لوگوں نے اس اصدق الصاد لیکن کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا.پھر ایسا ہونا ضروری تھا چونکہ یہ سنت
انبیاء میں سے تھا کہ آپ کے ساتھ بھی رہی سلوک ہو جو سابقہ انبیاء سے ہو چکا ہے اور پھر آئندہ کے لئے یہ ایک نشان بھی ٹھہرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالے نے جب نبوت کے انعام سے نوازا تو پہلے پہلے آپ لوگوں میں خاموش تبلیغ کرتے رہے.لیکن جب آپؐ نے خدا تعالٰی کے حکم سے تبلیغ کو عام کرنے کا ارادہ کیا تو آپ کوہِ صفا پر چڑھ گئے اور بلند آواز سے پکار کر اور ہر قبیلہ کا نام لے لے کر قریش کو بلایا.جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا " اے قریش ! اگر میں تم کو یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑا لشکر ہے جو تم پر حملہ کرہ نے کو تیار ہے تو کیا تم میری بات کو مانو گے ؟ بظاہر یہ ایک بالکل ناقابل قبول بات تھی مگر سب نے کہا ہاں ہم ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے تمہیں ہمیشہ صادق القول پایا ہے.آپ نے فرمایا " تو سنو! میں تم کو خبر دیتا ہوں کہ اللہ کے عذاب کا لشکر تمہارے قریب پہنچ چکا ہے.خدا پر ایمان لاؤ تا اس عذاب سے بچ جاؤ " جب قریش نے یہ الفاظ سنے تو کھل کھلا کر ہنس پڑے اور آپ کے چچا ابو لہب نے آپ سے مخاطب ہو کہ کہا تَبالَكَ الهَذا جَمَعْتُنَا" محمد تو ہلاک ہو! کیا اس غرض سے تم نے ہم کو جمع کیا تھا" ؟ پھر سب لوگ ہنسی مذاق کر تے ہوئے منتشر ہو گئے.(طبری و خمیس) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام تر واقعات تاریخ اسلام میں بھرے پڑے ہیں کہ آپ نے لوگوں کو کس کس طرح دعوت اسلام دی مخالفوں نے آپ کے ساتھ اور آپ کے ماننے والوں کے ساتھ کسی کسی قسم کے سلوک کئے.الغرض کفر بازی مخالفین کا شیوہ رہا اور کفر کے فتوے دینے والے انبیاء کے مقابلہ میں ہمیشہ ناکام ہوئے اور الہی جماعتیں ہمیشہ ترقی کرتی چلی گئیں.موجودہ دور میں خدا تعالے نے چاہا کہ وہ سابقہ انبیاء سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرے تا دین اسلام کی حقانیت و صداقت لوگوں پر ظاہر ہوا اور قرآن کا وعدہ لیظهره علی الدین کا ہے پوری شان کے ساتھ ظاہر ہو.اپنے اسی وعدہ
کے موافق خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السّلام کو مسیح موعود و مہدی معہود بنا کر مبعوث فرمایا پس آپ کی بعثت کے ساتھ یہ بھی لازمی تھا کہ سابقہ انبیاء کی تاریخ اس زمانہ میں بھی دہرائی جاتی اور لوگ انکار کرتے اور آپ کے خلاف بھی کفر کے فتوے لیتے خدا تعالیٰ کی طرف سے جتنے بھی انبیاء آئے اگر اُن کی زندگیوں پر غور کیا جائے تو اُ سے دو دوروں میں تقسیم ہوا پائیں گے.ایک وہ دور جو انہوں نے دعوی سے پہلے گزارا اور دوسرا وہ دور جو دعویٰ کے بعد گزارتے ہیں.لیکن لوگوں کے رد عمل کے لحاظ سے ان ہر دو دوروں میں زمین آسمان کا فرق دکھائی دیتا ہے.نبوت کا دعویٰ کرنے کے بعد ہرا چھی بات لوگوں کی نظروں میں بڑی لگنی شروع ہو جاتی ہے ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ دعوی نبوت سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کے نزدیک کیا مقام تھا.آپ صلہ رحمی کرتے.غریبوں اور ناداروں کی مدد کرتے بیواؤں کا خیال رکھتے آپ کو لوگ امین اور صدوق کے لقب سے یاد کرتے لیکن جیسے ہی آپ نے دعونی فرمایا آپ کا ہر کام لوگوں کو بڑا دکھنے انگا.صدوق اور امین کہلانے والا شخص نعوذ باللہ جھوٹا اور بد دیانت نظر آنے لگا.جبکہ قرآن کریم اس کے بالمقابل لوگوں کے سامنے یہ چیلنج دیتا رہا اور آج بھی دیتا ہے کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُم عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (یونس آیت ) یعنی پس یقینا اس پہلے میں ایک عرصہ دراز تم میں گزار چکا ہوں کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے.انبیاء کی دعوئی سے پہلے کی زندگی ان کی سچائی کی ایک دلیل ہوتی ہے.ایک شخص بچپن اور جوانی جن لوگوں میں گزارتا ہے وہ لوگ اس کی زندگی اور اس کے چال چلن سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں ایک شخص جس کا بچپن اور جوانی ہے عیب ہو اور کوئی ایک شخص بھی اس کی زندگی پر انگلی نہ اٹھا سکے تو یہ کیسے مکن ہے کہ بڑھاپے میں اس کا کردار بگڑ جائے ایسا ممکن نہیں ہوتا اسی بات کو
خدا تعالے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت میں بیان فرمایا ہے.اور یہی بات تمام انبیاء کی صداقت کا ایک معیار ہوتی ہے.بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیه السلام نے جب تک مسیح و مہدی ہونے کا دعوی نہیں فرمایا تھا اُس وقت تک آپ تمام علماء امت کی نظر میں سب سے بڑے مجاہد اسلام تھے اور پھرا ایسے کہ آپ کا ہم پلہ پیش کرنے سے دنیا قاصر تھی حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے جب کتاب براہین احمدیہ تصنیف فرمائی جس میں صداقت اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے دلائل جمع کئے گئے تھے تو اُس پر مولوی محمد حسین بٹالوی نے لکھا (جو بعد میں آپ کے شدید مخالف ہوئے) : " ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں لعل الله يحدث بعد ذالك امرا.اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی جانی قلمی و لسانی دمالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا جس کی نظیر ہے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے.ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک کتاب بتادے میں ہیں فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً آریہ سماج وبر ہو سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشاندہی کرے جنہوں نے اسلام کی نفرت مالی و جانی قلمی و لسانی کے علاوہ نصرت حالی کا بیڑا اٹھالیا ہو اور مخالفین اسلام و منکرین الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدی کے ساتھ یہ دعوئی کیا ہو کہ جس کو وجود الہام کا شک ہو وہ ہمارے پاس آکہ اس کا تجربہ و مشاہدہ کرے.اور اس تجربہ و مشاہدہ کا اقوام غیر کو مزا بھی چکھا دے" شاعته الستر جلد نمبر 1 صفحہ نمبر (۱۴۹) یہی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے دعوی کے بعد آپ کے اثر ترین مخالفوں میں داخل ہو گئے اور سارے ہندوستان میں گھوم
کہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے خلاف کفر کے فتوے جمع کئے اور اپنی بد باطنی کا ثبوت دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر مہر ثبت کر گئے.اسی بات کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں :.اور امید تھی کہ عقلمند لوگ ان کتابوں کو شکر گزاری کی نظر سے دیکھیں گے اور خدا تعالیٰ کی جناب میں سجدات شکر بجالا دیں گے کہ عین ضرورت کے وقت میں اس نے یہ روحانی نعمتیں عطا فرما ہیں لیکن افسوس کہ بعض علماء کی ختنہ اندازی کی وجہ سے معاملہ برعکس ہوا.اور بجائے اس کے کہ لوگ خدا تعالٰی کا شکر کرتے ایک شور و غوغا سخت ناشکری کا ایسا بر پا کر دیا کہ وہ تمام حقائق اور لطائف اور نکات اور معارف الہیہ کلمات کفر قرار دیئے گئے اور اسی بناء پر اس عاجزہ کا نام بھی کافراور ملحد اور زندیق اور دجال رکھا گیا.بلکہ دنیا کے تمام کافروں اور دجالوں سے بدتر قرار دیا گیا.اس فتنہ اندازی کے اصل بانی مبانی ایک شیخ صاحب محمد حسین نام ہیں جو بٹالہ ضلع گورداسپور میں رہتے ہیں اور جیسے اس زمانہ کے اکثر علان تکفیر میں ستعمل ہیں اور قبل اس کے جو کسی قولی کی تہہ تک پہنچیں اس کے قائل کو کافر ٹھہرا دیتے ہیں یہ عادت شیخ صاحب موصوف میں اوروں کی نسبت بہت کچھ بڑھی ہوئی معلوم ہوتی ہے.اور اب تک جو ہم پر ثابت ہوا ہے وہ یہی ہے کہ شیخ صاحب کی فطرت کو تا برادر غور اور حسن ظن کا حصہ قسّام ازل سے بہت ہی کم ملا ہے.اسی وجہ سے پہلے سب سے استفتا کا کاغذ ہا تھ میں لے کہ ہر یک طرف یہی صاحب دوڑے.چنانچہ سب سے پہلے کا فرادر مرند ٹھہرانے میں میاں نذیر حسین صاحب دہلوی نے قلم اٹھائی اور بٹالوی صاحب کے استفتا کو اپنی گفر کی شہادت سے مزین کیا اور میاں نذیر حسین نے جو اس عاجز کو بلا توقف و تامل کافر ٹھہرا دیا.باوجود اس کے جو میں پہلے اس سے ان کی طرف صاف تحریر کر چکا تھا کہ میں کسی عقیدہ متفق علیہ السلام سے منحرف
نہیں ہوں.غرض بانی استفتا بطالوی صاحب اور اول الميكفر بین میاں نذیر حسین صاحب اور باقی سب اُن کے پیرو ہیں جو اکثر بالوی ما کی دلجوئی اور دہاوی صاحب کے حق استادی کی رعایت سے ان کے قدم پر قدم رکھتے گئے.یوں تو ان علماء کا کسی کو کافر ٹھہرانا کوئی نئی بات نہیں یہ عادت تو اس گروہ میں خاص کر اس زمانہ میں بہت ترقی کر گئی ہے اور ایک فرقہ دوسرے فرقہ کو دین سے خارج کر رہا ہے، ر آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۰ تا ۳۲) موجودہ زمانہ میں اس بات سے کوئی مسلمان انکار نہیں کر سکتا کہ ایک فرقہ دوسرے فرقہ کو کا فر قرار دیتا اور مانتا ہے بکہ بعض معمولی معمولی باتوں کو لے کر ایک دوسرے کو کافر کافر کہہ کر پکارتے ہیں.اس کی تفصیل انشاء اللہ آگے لکھوں گا لیکن اس جگہ میں آپ پر لگائے گئے گھر کے فتوے کو آپ کی صداقت کے نشان کے طور پر بیان کرتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کو لوگ صابی" کے نام سے پکارا کرتے تھے جس کے معنی ہے دین کے ہوتے ہیں جو کہ کافر کے ہم پلہ ہے.جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو ہر شخص یہی کہتا تھا کہ عمر سابی ہو گیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تک دعوی نبوت نہیں فرمایا تھا اس وقت تک سب لوگ آپ کی عزت و تکریم کرتے تھے لیکن دعوی کے بعد آپ سے سب نے نظریں پلٹ لیں.حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے جب دعوی فرمایا تو آپ کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا جیسا کہ آپ اوپر کے اقتباس میں پڑھ چکے ہیں.خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے فقد بثت فیکم عمراً مِنْ قبله افلا تعقلون والى آیت نازل فرمائی اور دنیا والوں کے سامنے یہ چیلنج رکھ دیا کہ اگر تم سچے ہو تو پھر اس کی سابقہ زندگی پر ایک بڑا نشان لگا کر بتاؤ لیکن تمام مکفرین ایسا کہ نے ہے عاجزہ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعوی فرمایا اور آپ پر بھی کفر کے فتوے دیئے گئے تو آپ نے بھی دنیا والوں کے سامنے قرآن کریم کی اسی آیت
کو پیش فرمایا اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی صداقت کی دلیل دیتے ہوئے فرماتے ہیں :- " اب دیکھو خُدا نے اپنی محبت کو تم پر اس طرح پورا کر دیا ہے کہ میرے دعوی پر ہزار دلائل قائم کر کے تمہیں یہ موقعہ دیا ہے کہ تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرد کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اُس نے جھوٹ بولا ہو گا.کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے.تذكرة الشهادتين روحانی خزائن جلد به صفحه نمبر (۶۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی ایسی پاک و مظہر تھی کہ آپ کا بڑے سے بڑا مخالف بھی آپکی سابقہ زندگی پر کوئی اعتراض نہیں کر سکا قرآن کریم کی پیش کردہ دلیل آپ کی صداقت کی ایک زبردست دلیل ہے.آج کے دور میں جب بھی کسی سے بات کی جائے تو اس کا اقول جواب یہ ہوتا کہ آپ کو تو کافر کہا گیا ہے.آپ کا فر ہیں اس لئے ہم آپ سے بات کرنا نہیں چاہتے کچھ عرصہ قبل مالیگاؤں میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا وہاں کے ایس پی جناب ہمانشور اسے اور ڈی انہیں پنی بہن کمار سنگھ یہ چاہتے تھے کہ ہماری علماء کے ساتھ اُن کی موجودگی میں بات ہو لیکن وہاں کے علماء ہم سے بات کرنے کو تیار نہ ہوئے.ایک دن مقرر کیا گیا شہر کے سولہ بڑے بڑے علماء آئے باربار زور ڈالنے پر بھی انہوں نے ہم لوگوں سے بات کرنے پر آمادگی ظاہر نہ کی بلکہ ہمارے پاس بیٹھنے کو بھی تیار نہ ہوئے.وجہ پوچھی تو ایس پی صاحب نے اور ڈی.انہیں پی صاحب نے بتایا کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ کافر ہیں ہم ان سے بات
نہیں کریں گے.میں نے انہیں کہا کہ آپ اُن سے سوال کریں کہ وہ آپ کو کیا مانتے ہیں کافر یا مسلمان اگر کا فر مانتے ہیں تو پھر وہ آپ سے کس طرح بات کر رہے ہیں.نیز ا نہیں کہیں کہ چلو پھلے ہی یہ لوگ کافر ہیں لیکن ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ وہ ہیں مسلمان بنانے کے لئے ہی ہم سے بات کریں.اس پر ان کا جواب یہ تھا کہ ہم اُنہیں مسلمان بھی بنانا نہیں چاہتے اب کہنے والے مالیگاؤں کے تمام فرقوں کے جید علماء تھے جو آپس میں پھٹے ہوئے ہیں لیکن ہمارے خلاف اکٹھے ہو کر آئے تھے.کافر :- عربی لغت کے لحاظ سے کفر کے معنی انکار کے ہوتے ہیں جو شخص بھی کسی بات سے انکار کر دے اُس کو عربی میں کافر کہا جاتا ہے.لیکن اصطلاحی معنی خدا اور اس کے رسول کا انکار کرنے والے کے ہیں.یہ لفظ اپنے اصطلاحی معنوں میں اس قدر کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ لغوی معنی اس کے اصطلاحی معنوں میں چھپ گئے ہیں.کافر کا لفظ اس قدر عام ہو گیا کہ ایک عالم کی بات اگر دوسرے عالم کی بات سے یا ایک کے خیالات دوسرے کے خیالات سے ٹکرا جاتے تو اسے فوراً کافر کے خطاب سے نواز دیا جاتا رہا اسلام میں یہ سلسلہ خلافت حقہ اسلامیہ کے اختتام کے ساتھ ہی شروع ہو گیا پھر اپ چلا کہ اس کی زد سے نہ کوئی فرقہ بچ سکا اور نہ کوئی عالم بس ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی ایک دوڑ دکھائی دیتی ہے علماء نے اس میدان میں اس قدر ترقی کی کہ قرآن و حدیث کی تعلیم کو یکسر بھلا دیا بالکل وہی نقشہ دکھائی دیتا ہے جو قرآن و کریم میں اس طرح کھینچا گیا ہے کہ آنکھیں رکھتے ہیں مگر دیکھتے نہیں، گان رکھتے ہیں، مگر وہ سکتے نہیں دل رکھتے ہیں مگر وہ سمجھتے نہیں مسلمان کون؟ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :- يايها الذِينَ آمَنُوا اذا ضَرَ يَتُمُ في سَبيل الله فتبينوا وَلا تَقُولُوا لِمَنْ الْقَى اليَكُمُ السّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً.(النساء آیت (۹۵)
یعنی اے ایما ندارد! جب تم اللہ کی راہ میں سفر کرو تو چھان بین کر لیا کرو اور جو تمہیں سلام کہے اُسے (یہ) نہ کہا کرو کہ تو مومن نہیں.ایک طرف قرآن کریم کا یہ حکم اور دوسری طرف علمائے کفر کے فتوے.بغور کریں اور دیکھیں کہ کیا یہ قرآن کریم کے حکم کی صریح خلاف ورزی نہیں قرآن کریم کے اس ارشاد کے بعد کسی مولوی کو کیا حق رہ جاتا ہے کہ وہ سلام کرنے وانے کو کافر کہے.قرآن کریم نے تو ایک دوسرے مقام پر اس بات کو اور بھی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے فرماتا ہے.قَالَتِ الأَعراب مَنا تُل سواء لكن قولوا أسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدُخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمُ (الحجرات آیت (۱۵) یعنی اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے تو اُن سے کہدے کہ کم حقیقتہ ایمان نہیں لائے.لیکن تم یہ کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں (ہم نے فرمانبرداری قبول کرتی ہے) کیونکہ (اے اعراب) بھی ایمان تمہارے دلوں میں حقیقت داخل نہیں ہوا ہے قرآن کریم کی یہ آیت عرب کے بدوؤں کا یہ حال بیان کر رہی ہے کہ ان کے دلوں میں ایمان نہیں اور دل ایمان سے خالی ہیں پھر بھی خدا اُن کو یہ اختیار دیتا ہے کہ تم اپنے آپ کو مسلمان کہہ سکتے ہو.غور کریں اور سوچیں کہ ایک مولوی کو کیا حق بنتا ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو اسے کافر قرار دے ؟ جب خدا ایک ایسے شخص کو جس کے دل میں ایمان کی حلاوت رچی نہیں اس کو بھی یہ اجازت دیتا ہے کہ تو اپنے آپ کو مسلمان کہ سکتا ہے تو پھر اس کے بعد کسی مولوی کا کیا حق باقی رہتا ہے کہ وہ کسی مسلمان کو کافر کہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :." اَيْمَا رَجُلٍ مُسْلِمٍ كَفَرَ رَجُلًا مُسْلِمًا فَإِنْ كَانَ كَافِرًا و إِلا كَانَ هُو الكانسر (ابو داؤد کتاب السنة) یعنی جب کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر ٹھہرائے تو وہ خود کافر ہو جاتا ہے
اس تعلق سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں کہ :.اس بات کو کون نہیں جانتا کہ ایک مسلمان موحد اہل قبلہ کو کافر کہ دنیا نہایت نازک امر ہے.بالخصوص جبکہ وہ مسلمان بارہا اپنی تحریرات و تقریرات میں ظاہر کہ دے کہ میں مسلمان ہوں اور اللہ اور رسول اور اللہ جلتا نہ کے ملائک اور اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں اور بعث بعد الموت پر اُسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ اللہ جل شانہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم میں ظاہر فرمایا ہے.اور نہ صرف یہی بلکہ ان تمام احکام صوم و صلوٰۃ کا پابند بھی ہوں جو اللہ اور رسول صلعم نے بیان فرمائے ہیں تو ایسے مسلمان کو کا فر قرار دینا اور اس کا نام اکفر اور دقبال رکھنا کیا یہ ان لوگوں کا کام ہے جن کا شعار تقویٰ اور خدا ترسی سیرت اور نیک ظنی عادت ہو.آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلده ص۳۳) جماعت احمدیہ پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جماعت بھی ان لوگوں کو جو مسیح موعود علیہ السلام کو تسلیم نہیں کرتے کا فر سمجھتی ہے.اول بات تو یہ ہے کہ جماعت کسی کو اولا کا فقر قرار دے کر دین اسلام سے خارج نہیں کرتی البتہ جو شخص جماعت کو کافر قرارہ دے تو مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں خود کا فر قرار پاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ وضاحت کافی ہے آپ فرماتے ہیں.یہ ایک شریعت کا مسند ہے کہ مومن کو کافر کہنے والا آخر کافر ہو جاتا ہے پھر جب کہ دو سو مولوی نے مجھے کا فر ٹھہرایا اور میرے پر کفر کا فتویٰ لکھا گیا اور انہیں کے فتوے سے یہ بات ثابت ہے کہ مومن کو کافر کہنے والا کافر ہو جاتا ہے اور کافر کو مومن کہنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے.ر حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ ص۱۷) اسلام میں فرقہ بندی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی آپسی فرقہ بندی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میری امت میں بہتر بیان فرمائی کہ ان میں سے ہوں گے فرتے ہوں گے اور ساتھ ہی یہ بات 4
اور ایک جنتی ( مشکوۃ شریف صث ) آج مسلمانوں کا ہر فرقہ اپنے آپ کو جنتی قرار دیتے ہوئے دوسرے کو ناری بیان کر رہا ہے اس تعلق سے بحث آگے آنے گی.میں اس وقت یہاں فرقہ ہائے اسلام کے ایک دوسرے کے خلاف دیئے گئے فتوؤں کے چند نمونے پیش کرتا ہوں تاکہ قارئین اندازہ کریں کہ اگر جماعت احمدیہ کو کفر کا فتویٰ دے کرہ کا فر ٹھہرایا جاتا ہے تو ان فرقوں کے تعلق سے آپ کی کیا رائے ہے جو دوسرے فرقوں کے ذریعہ کا فر قرار دیئے جاچکے ہیں.علی شیعوں کے خلاف فتوے مسلمانوں میں عام طور پر دو فرقے بڑے مشہور ہیں ایک شیعہ اور دوسرے سنی اور یہ ہر دو فرقے ایک دوسرے کو قطعی طور پر کافر سمجھتے ہیں.مولانا شاہ مصطفے رضا خان صاحب نے شیعوں کے خلاف فتویٰ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ.بالجملہ ان رافضیوں برائیوں کے باب میں حکم یقینی قطعی اجمالی یہ ہے کہ دہ العموم کفار مرتدین ہیں ان کے ہاتھ کا ذبیحہ مردار ہے ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خالص زہنا ہے.معاذ اللہ مرد با فضی اور عورت مسلمان ہو تو یہ سخت قہر الہی ہے.اگر مرودشتی اور عورت ان خبیثوں کی ہو جب بھی نکاح ہرگز نہ ہو گا محض زرنا ہوگا اولاد ولد الزنا ہوگی.باپ کا ترکہ در پائے گی اگرچہ اولاد بھی سنی ہی ہو.کہ شرعاً ولد اللہ نا کا باپ کوئی نہیں عورت نہ ترکہ" کی مستحق ہوگی نہ مہر کی کہ زانیہ کے لئے مہر نہیں.رافضی اپنے کسی قریبی حتی کہ باپ بیٹے ماں بیٹی کا بھی ترکہ نہیں پا سکتا بسنی تو سنی کسی مسلمان بلکہ کسی کافر کے بھی.یہاں تک کہ خود اپنے ہم مذہب رافضی کے ترکہ میں اس کا اصلاً کچھ حق نہیں.ان کے مرد عورت عالم، جاہل، کسی سے میں جول، سلام کلام سخت کبیرہ اشد حرام جو ان کے ملعون عقیدوں پر آگاہ ہو کر بھی انہیں مسلمان جانے یا ان کے کافر ہونے میں شک کمرے با جماع تمام ائمه دین خود کا فر بے دین ہے.اور اس کے
14 لئے بھی یہی سب احکام ہیں جو ان کے لئے مذکورہ ہوئے.مسلمان ری ہے کہ اس فتوی کو گوش ہوش میں اور اس پر عمل کر کے سچے پکے شنی بنیں!" رفتوی مولانا شاہ مصطفی رضاخان) (بحوالہ.رسالہ رد الروضہ مست شائع کردہ نوری کتب خانه باندار داتا صاحب لاہورہ پاکستان مطبوعہ گلنزالہ عالم پریس بیرون بھاٹی گیٹ لاہور ۱۳۲۰ھ ) لکھتا ہے." شیعہ اثناء عشریہ قطعاً خارج از اسلام ہیں شیعوں کے ساتھ مناکحت قطعاً نا جائز اور ان کا ذبیحہ حرام ان کا چندہ مسجد میں لینا ناردار ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کو اپنے جنازہ میں شریک کرنا جائے نہیں " (فتوی شائع کردہ النجم لکھنو اس پر علماء دیو بند اور کئی علماء کے نا درج ہیں ) (بحوالہ اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے.شائع کردہ خواجہ خضر منیجر کتب خانہ دین دارا انجمن حیدر آباد ) لکھا ہے.یہ آج کل کے روافض تو عموماً ضروریات دین کے منکہ اور قطعا مرند ہیں.ان کے مرد یا عورت کا کسی سے نکاح ہو سکتا ہی نہیں" الملفوظ حصہ دوم ص مرتبہ مفتی اعظم ہند ) اسی طرح ایک جگہ لکھا ہے کہ : جو لوگ حضرت ابو بکر صدیق نہ کی امامت اور حضرت عمرہ کی خلافت کے منکر ہیں وہ سب کا فر ہیں".رافتادی عالمگیریہ جلد نمبر ۲۸۳ مطبوعہ مطبع بیوی کا نور ۵.اسی طرح یہ فتویٰ ہے کہ : " صرف مرتد اور کافر اور خارج از اسلام ہی نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن بھی اس درجہ گے ہیں کہ دوسرے فرق کم نکلیں گے مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے جمیع مراسم اسلامیہ ترک کر نا چا ہیے خصوصاً
مناکحت".لا علماء کرام کا متفقہ فتوی درباره ارتداد شیعه اثنا عشریه ناشر مولوی محمد عبدالشکور لکھنو مطبوعہ صفر ۵۱۳۴۸) سنیوں کے خلاف فتوے شیعہ علاء نے سنیوں کے خلاف جو فتوے دیتے ہیں اس کو ملاحظہ فرمائیں.لکھا ہے بقول شیعہ حضرات کہ حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں.ا ترجمہ جس نے ہم ائمہ کو شناخت کر لیا وہ مومن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے.اور جو ہمیں نہ مانتا نہ انکار کہتا ہے وہ مال ہے.(الصافی شرح الاصول الکافی جز سوم باب فرض الطاعة الائمه صلب مطبوعہ تو کشور ) اسی طرح سے امام جعفر صادق کی طرف کشیعہ حضرات یہ بات بھی منسوب کرتے ہیں کہ..آپ نےفرمایا کہ کیسی یہ کسی سی کے جنازہ میں شریک ہونا پڑے تو وہ یہ دعاکہ کے ترجمہ : اے خدا اس کے پیٹ میں آگ بھر دے اور اس کی قبر میں آگ مھر دے اور اس پر عذاب کے سانپ اور بچھو مسلط فرما فروع الكافي كتاب الجنائز جلد اول من حقیقۃ الشہداء میں لکھا ہے کہ : " شیعوں کے سوا کوئی بھی ناجی نہیں خواہ مارا جائے یا اپنی موت مرے یعنی سنی شہید بھی کافر ہے" (حقیقتہ الشہداء ص ) حوالہ کتاب اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے شائع کردہ خواجہ محضر مینیجر کتب خانہ بی بتا شان کرده دین دارا انجمن حیدر آباد دکن مت).ایک فتویٰ یہ ہے کہ: فرقہ حقہ شیعہ کے نزدیک شیعہ عورت کا نکاح کسی غیر شیعہ اثنا عشریہ
کے ہمراہ اس لئے نا جائز ہے کہ خیرا ثنا عشری کو وہ مومن نہیں سمجھتے.جو مسلمان کو غیر اثناء عشری عقیدہ رکھتا ہو شیعوں کے نزدیک وہ مومن نہیں مسلمان ہے" اگر اسی حالت میں کہیں نکاح ہو جائے تو فتویٰ یہ ہے کہ ایسی صورت میں باوجود عالم مسئلہ ہونے کے اگر ایسا نکاح واقعہ ہو جائے تو وہ نکاح باطل ہے ان کی اولاد بھی شرعاً ولد النہ نا ہوگئی" (مسئلہ نکاح شیعه دستی کا بدلیل فیصلہ موسوم به النظر موله سید محمد رضی الرضوی القمی این علامہ الحائری مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ) مندرجہ بالا حوالہ سے ہی ایک فتویٰ اور ہے کہ : " جو لوگ ائمہ معصومین کے حق میں شک رکھتے ہیں اُن کی لڑکیوں سے تو شادی کر لو ان کو لڑکی مت دو کیونکہ عورت اپنے شوہر کے ادب کو لیتی ہے اور شوہر قہرا اور جبراً عورت کو اپنے دین اور مذہب پر لے آتا ہے.دوسرے نمبر پر آنے والے دو فرقے اگر چہ ہر دوا اپنے آپ کو سنی کہتے ہیں لیکن ایک دوسرے پر کفر کے فتوے دینے میں سب فرقوں سے آگے نکل گئے ہیں وہ دو فرقے ہیں.دیوبندی اور بریلوی.ہر دو فرتوں کے تمام کفر کے فتو سے اگر جمع کئے جائیں تو ایک ضخیم کتاب بن جائے نمونہ کے طور پر بعض فتوے اس جگہ تحریر کرتا ہوں.علماء کے فتوے دیو بندیوں کے خلاف لکھا ہے.وہابیہ دیوبندیہ اپنی عبارتوں میں تمام اولیاء انبیا و حتی کہ حضرت سید اولین و آخرین صلی اللہ علیہ وسلم کی اور خاص ذات باری تعالیٰ شانہ کی اہانت و ہتک کرنے کی وجہ سے قطعا مر تک کافر ہیں اور ان کا ارتداد و کفر سخت سخت سخت البته درجہ تک پہنچے
۱۹.چکا ہے.ایسا کہ جوان مرتدوں اور کافروں کے ارتداد کفر میں ذرا بھی ٹیک کرے وہ بھی انہیں جیسا مرتد اور کافر ہے اور جو اس تک کرنے والے کے کفر میں شک کرے وہ بھی مرتد و کافر ہے مسلمانوں کو چاہیے کہ ان سے بالکل ہی محتر زد مجتنب رہیں.ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے بھی ان کو نماز نہ پڑھنے دیں اور نہ اپنی مسجدوں میں گھسنے دیں.نہان کا ذبیحہ کھائیں اور نہ ان کی شادی غمی میں شریک ہوں.نہ اپنے ہاں ان کو آنے دیں.یہ بیمار ہوں تو عیادت کو نہ جائیں.مریں تو گاڑنے تو اپنے میں شرکت نہ کریں.مسلمانوں کے قبرستان میں جگہ نہ دیں.غرض ان سے بالکل احتیا واجتناب رکھیں...اور یہ فتوے دینے والے صرف ہندوستان کے علماء نہیں بلکہ جب وہابیہ دیوبندیہ کی عبارتیں ترجمہ کر کے بھیجی گئیں تو افغانستان د خیوا د بخارا دابران و مصر و روم و شام اور مکہ معظمہ و مدینه منوره و غیره تمام دیا به عرب د کوفہ و بغداد شریف غرض تمام جہاں کے علماء اہل سنت نے بالا تفاق یہی فتویٰ دیا ہے کہ ان عبارتوں سے اولیاء انبیاء اور خدائے تعالٰی شانہ کی سخت سخت اشد اہانت و تو ہیں ہوئی.پس وہابیہ دیوبندیہ سخت سخت اشد مرند و کافر ہیں.ایسے کہ جوان کہ کافر نہ کہے خود کافر ہو جائے گا.اس کی عورت اس کے عقد سے باہر ہو جائے گی.اور جو اولاد ہو گی وہ حرامی ہوگی اور از روئے شریعت ترہ کہ نہ پائے گی.ا خاک رمحمد ابراہیم بھاگلپوری با تمام شیخ شوکت حسین منیجر کے چمن برقی پریس اشتیاق منزل ۶۳ ہیوٹ روڈ کھنڈ میں چھپا ) لے سرکشی منافقوا اور فاسقوا تمہارا بیٹا شاہ (اسماعیل شہید)
یہ گمان کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف عام انسانوں سے بھی کم ہے.رسول اللہ سے بغض و عداوت تمہارے منہ سے ظاہر ہو گئی.جو تمہارے سینوں میں ہیے وہ اس سے بھی نہ یادہ ہے تم پر شیطان غالب آچکا ہے اس نے تمہیں خدا کی یاد اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم بھلا دی ہے.قرآن میں تمہاری ذلت ورسوائی بیان ہو چکی ہے.تمہاری کتاب تقویت الایمان اصل میں تفویت انی رامین نان و ایمان که الایمان ہے یعنی وہ ایمان کو ضائع کر دینے والی ہے.اللہ تمہارے ج کفر سے غافل نہیں.(الكوكبة الشهابية انا احمد رضا - س - حوالہ بریلویت مهنة ق امام العصر علامه احسان الہی ظہیر شہید ص۲۵۲ طبع اول شراء المعهد الاسلامی السلفی اچھا ضلع بریی) تدرجه بالا حوالہ کے تحت ایک جگہ لکھا ہے کہ : وہابیہ اور ان کے پیشوا پر بوجوہ کثیرہ قطعاً یقیناً کفر لازم اور حب تصریحات فقہائے کرام ان پر حکم کفر ثابت وقائم ہے.اور بظاہر ان کا کلمہ پڑھنا ان کے نفع نہیں پہنچا سکتا اور کا فر ہو نے سے نہیں بچا سکتا...اور ان کے پیشوا نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان میرے اپنے ار را پ یہ سب پیروں کے کھلم کھلا کا فر ہونے کا صاف اقرار کیا ہے." (الكوكبة الشهابيه از احمد رضا) جناب احمد رضا صاحب لکھتے ہیں ؟ " م دیو بندیوں کے کفر میں شک کرنے والا کا فر ہے." (فتاوی رضویہ جلد ۶ ص۵۲ پھر لکھتے ہیں.A ما نہیں مسلمان سمجھنے والے کے پیچھے نمازہ جائز نہیں " -دیو بندیوں کے پیچھے نماز پڑھنے والا مسلمان نہیں." " دیو بندی عقیدے والے کا فر و مرتد ہیں.(فتاوی رضویہ جلد صح
.۲۱ ایک جگہ لکھتے ہیں ،.q دیو بندیوں وغیرہ کے ساتھ کھانا پینا سلام علیک کر نان کی موت وحیات میں کسی طرح کا کوئی اسلامی بہت تاؤ کر تناسب حرام ہے.نہ ان کی نوکری کرنے کی اجازت ہے نہ انہیں نوکر رکھنے کی اجازت.ان سے دور بھاگنے کا حکم ہے (بالغ النور مندرجہ فتاوی رضویہ جلد ۳۳) ایک جگہ درج ہے کہ : اگر ایک جلسہ میں آریہ و عیسائی اور دیوبندی، قادیانی وغیرہ جو اسلام کا نام لیتے ہیں وہ بھی ہوں تو وہاں بھی دیوبندیوں کا رد کرنا چاہیئے کیونکہ یہ لوگ اسلام سے نکل گئے.مرتد ہو گئے اور مرتدین کی موافقت بدتر ہے کا فراصلی کی موافقت سے یہ ) محفوظات احمد رضا ۳۲۶۷۳۲۵) ۱۰ -- ایک جگہ لکھا ہے کہ یوبندی عقیدہ والوں کی کتابیں ہندوؤں کی پوتھیوں سے بدتر ہیں ان کتابوں کو دیکھنا حرام ہے.البتہ ان کتابوں کے ورقوں سے استنجا نہ کیا جائے.حروف کی تعظیم کی وجہ سے نہ کہان کتابوں کی، تیتر اشرف علی کے عذاب اور کفر میں شک کرنا بھی کفر ہے.(فتاوی رضویہ جلد ۲ ص۱۳۶ ایک بریلوی مصنف نے لکھا ہے کہ : ا.دیو بندیوں کا کتا بیں اس قابل ہیں کہ ان پر پیشاب کیا جائے ان پر پیشاب کرنا، پیشاب کو مزید ناپاک کرنا ہے.اے اللہ ہمیں دیو بندیوں یعنی شیطان کے بندوں سے بناہ میں لکھی ر حاشیه سبحان السبوع مشتهر بحواله کتاب بریلویت منت) احمد رضا صاحب ایک جگہ فتوی دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :- ۱ - " ان سب سے میل جول قطعی حرام ہے.ان سے اسلام و کلام حرام انہیں پاس بٹھانا حرام، ان کے پاس بیٹھنا حرام ، بیمار پڑیں تو ان کی
عیادت حرام مر جائیں تو مسلمانوں کا سا انہیں غسل و کفن دینا حرام ، ان کا جنازہ اٹھانا حرام، ان پر نماز پڑھنا حرام.ان کو مقابر تسلمین میں دفن کرنا حرام اور ان کی قبر پر جانا حرام (فتاوی رضویہ جلد ۶ منت) قارئین اس قسم کے اس قدر فتو بے دیئے گئے ہیں کہ عقل حیران ہوتی ہے.میں نے تو اس جگہ چند نمونے پیش کئے ہیں.اب دوسری طرف کے فتوے ملاحظہ فرمائیں.بریلویوں کے خلاف فتویٰ کفر لکھا ہے :- ا." یہ سب تکفریں اور لعنتیں بریلوں اور اس کے اتباع کی طرف لوٹ کر قبر میں ان کے واسطے عذاب اور بوقت خاتمہ اُن کے موجب خروج ایمان دازاله تصدیق وایقان ہونگی کہ ملائکہ حضور علیہ السلام سے کہیں گے ان کا تذرِى مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ اور رسول مقبول علیہ السلام دجال بریلوی اور ان اتباع کو سُحقاً سحقاً فرما کر حوض مورود و شفاعت محمود سے کتوں سے بدتر کر کے دھتکار دیں گے اور امت مرحومہ کے اجر و ثواب و منازل ونعیم سے محروم کئے جائیں گے.درجوم المذنبين على رؤوس الشياطين المشهور به الشہاب الثاقب على المسترق الكاذب مولفہ مولوی سید حسین احمد صاحب مدنی ناشر کتب خانہ اعزاز یہ دیوبند ضلع سہارنو) ایک جگہ لکھا ہے کہ : مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی مع از ناب و اتباع کے کافر اور جو انہیں کافر نہ کہے اور ان کو کافر کہنے میں کسی وجہ سے بھی شک و شبہ کرے وہ بھی بلاشبہ قطعی کافر ہے." (روالتفکیر ص) ۳.فتاوی رشیدیہ میں لکھا ہے کہ :."جو شخص رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کا معتقد ہے سادات حنفیہ کے نزدیک قطعاً مشرک و کافر ہے.“
۲۳ دفتاوی رشیدیه کامل سبقترب از رشید احمد گنگوہی ملت ناشر محمدسعید اینڈ کمپنی قرآن محل مقابل مولوی مسافر خانہ کراچی) ایک جگہ لکھا ہے بر کو بوسہ دیوے، مور چھیل چھلے، اس پر شامیانہ کھڑا کر کے چوکھٹ کو بوسہ دیوے، ہاتھ باندھ کر التجا کرے مراد مانگے، مجاور بن کر بیٹھے.وہاں کے گرد و پیش کے جنگل کا ادب کرے اور اسی قسم کی باتیں کرے تو اس پر شرک ثابت ہوتا ہے ؟ ( تقویۃ الایمان مصنفہ اسماعیل امام اول دیوبندی مذہب مطبوعہ دہلی صر ا سطر 9 ) مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی سے سوال ہوا کہ : سوال: (اگر کوئی شخص ).....قبروں پر چادریں چڑھاتا ہو.اور مرد بزرگوں سے مانگتا ہو.یا بدعتی مثال جواز عرس و سوئم وغیرہ ہو اور یہ جانتا ہو کہ یہ افعال اچھے ہیں تو ایسے شخص سے عقد نکاح جائز ہے یا نہیں ؟ کیونکہ یہود و نصاری سے جائز ہے تو ان سے کیوں نا جائز ؟ جواب: جو شخص ایسے افعال کرتا ہے وہ قطعاً فاسق ہے اور احتمال کفر کا ہے ایسے سے نکاح کر نا دختر معلمہ کا اس واسطے نا جائز ہے کہ فساق سے ربط ضبط کرنا حرام ہے و التمر (فتاوی رشید به جلد ۲ ص ۱۳۳ سطریه تا ۲۰ حواله دیو بندی نذهب ۳ ۴۹ مصنفہ غلام مہر علی شاہ شائع کردہ مکتبه جامد به گنج بخش روڈ لاہور) 11 جواہر القرآن میں لکھا ہے، جو انہیں یعنی بریلویوں کو جنہیں بدعتی بھی کہتے ہیں) کا فرد شرک نہ کہے وہ بھی ایسا ہی کا فر ہے......ایسے عقائد والے لوگ بالکل پنے کافر ہیں اور ان کا کوئی نکاح نہیں ، ر جواہر القرآن صث سطر ۳ بحواله دیو بندی مذہب شد ۵۵)
۲۴ غیر مقلدین کے خلاف کفر کے فتوے فتوی سازی کا یک دنگل مقلدین اور غیر مقلدین (جن کو اہل حدیث بھی اور وہابی بھی کہا جاتا ہے) کے درمیان جاری ہے انہوں نے بھی ایک دوسرے کے خلاف فتوے دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا دیکھی.علماء کے فتوے غیر مقلدین کے خلاف ملاحظہ کریں.ا.لکھا ہے." مرتد ہیں.یہ اجتماع امت اسلام سے خارج ہیں.جو ان کے اقوال کا معتقد ہو گا، کافر اور گمراہ ہو گا.ان کے پیچھے نماز پڑھنے، ان کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانے اور تمام معاملات میں ان کا حکم بجنسہ وہی ہے جو مرتار کے لئے ہے." دفتوی علماء کرام مشتهره در اشتہار، شیخ مہر محد قادری لکھنو ، اس فتویٰ پر ۷۷ے علماء کے دستخط ہیں.بحوالہ اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے) ۲.ایک فتویٰ اس طرح سے ہے کہ : " فرقہ غیر مقلدین جن کی علامت ظاہری اس ملک میں آمین بالجہر اور رفع یدین اور نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا اور امام کے پیچھے الحمد پٹڑھنا ہے اہل سنت سے خارج ہیں اور مثل دیگر فرقہ ہائے ضالہ، رافضی خارجی وغیرہ کے ہیں." (جامع الشواہد فی اخراج الوبا بين عن المساجد) اس فتوی پر تقریباً یہ علماء کے دستخط موجود ہیں.۳.جناب بریلوی صاحب لکھتے ہیں.غیر مقلدین (اہل حدیث) سب بے دین اپ کے شیاطین اور پورے ما عین ہیں ؟ (دامان باغ سبحان السبوح از احمد رضا ص۱۳۶) نیز لکھا :- جو شاہ اسماعیل اور نذیر حسین ویزہ کا مقصد ہو ابلیس کا بندہ جہنم کا کندہ ہے
۲۵ اہل حدیث سب کا فرد مرتد ہیں " (سبحان البوح ۱۳۵۵، ۱۳۲) آگے لکھا ہے : 顏 - غیر مقلدین گمراہ ، بددین اور محکم فقہ کفار و مرتدین ہیں ؟“ و بالغ النور مندرجه در فتاوی رضویہ جلد ص۳۳) مزید لکھتے ہیں :." غیر مقلد اہل بدعت اور اہل نار ہیں.وہابیہ سے میل جول رکھنے والے سے بھی مناکحت نا جائز ہے.وہابی سے نکاح پڑھوایا تو تجدید اسلام و تجدید نکاح لازم، وہابی مرتد کا نکاح نہ حیوان سے ہوسکتا ہے، نہ انسان سے جس سے ہو گا زنائے خالص ہو گا." (فتاوی رضوبه جلده منش ۷۲ ۱۳۷۹۰۰، ۱۹۴ و غیره : حوالہ بریلویت ) ے.ایک جگہ لکھا ہے : غیر مقلدین جہنم کے کہتے ہیں، رافضیوں کو ان سے بدتر کہتا رافضیوں پر ظلم اور ان کی شان خباثت میں تنقیص ہے " فتوی رضویہ جلد ۶ ص ) :-.اسی طرح ایک فتویٰ اس طرح کا ہے کہ : ور اہل حدیث جو نذیر حسین دہلوی ، امیر احمد سہسوانی امیر حسن میوانی ، بشیر حسن ممنوجی اور محمد بشیر قنوجی کے پیروکار ہیں سب حکم شریعت کافر اور مرتد ہیں.اور ابدی عذاب اور رب کی لعنت کے مستحق ہیں" تجانب اہل السنت از محمد طبیب تصدیق شده حشمت علی قادری دغیره ص۲۱۹ مطبوعه بریلی ہند) مقلدین کا فر ہیں عام طور پر عقل اور غیر عقل میں بہت تھوڑا سا فرق ہے عمومی طور پر مقلد کو حنفی کا نام بھی دیا جاتا ہے.اور غیر مقلدوں کے نزدیک تمام حنفی مقلد کہلاتے ہیں.اس لحاظ سے حنفی مسلک سے تعلق رکھنے والے مقلد
۲۶ کہلائے.غیر مقلد اہل حدیث کا فتویٰ درج ذیل ہے.لکھتے ہیں.ا.چاروں امام کے پیروں اور چاروں طریقوں کے متبع یعنی حنفی، شافعی مالکی، حنبلی اور چشتیہ اور قادریہ اور نقش بندیہ و مجددیہ سب لوگ مشرک اور کافر ہیں.فتادی ثنائیہ میں درج ہے کہ : ( مجموعه فتادی ص۵۵۵۴) شرک کی اک شاخ ہے تقلید تو نے یہی کہا ثناء الله - » (فتاویٰ ثنائیہ حصہ اوّل ص۳) ۳.ایک جگہ لکھا ہے : مقلدین زمانہ باتفاق علمائے حرمین شریفین کا فرومزند ہیں.ایسے کہ جوان کے اقوال ملعونہ پر اطلاع پاکر انہیں کافر نہ جانے یا شک بھی کرے خورد کا فر ہے.ان کے پیچھے نماز ہوتی ہی نہیں اُن کے ہاتھ کا ذبیحہ حرام انکی بیویاں نکاح سے نکل گئیں اُن کا نکاح کسی مسلمان کا فر یا مرتد سے نہیں ہو سکتا.ان کے ساتھ میل جول، کھانا پینا.اٹھنا بیٹھنا ، سلام کلام سب حرام ہے اُن کے مفصل احکام کتاب مستطاب حسام الحرمین شریف میں موجود ہیں." (فتاویٰ ثنائیہ جلد ۲ ص۳۰ مرتبہ الحاج محمد داؤد از خطیب جامع اہل حدیث) ٢٠٩ مقلد کے معنی تقلید کرنے والے کے ہیں وہ تمام فرقہ ہائے اسلام جو کسی امام کسی صوفی کی تقلید کرتے ہیں وہ مقلد کہلائے اس اعتبار سے دیو بندی بریلوی شافعی مالکی حنبلی وغیرہ سب مقلد ہوئے جس میں جماعت اسلامی تبلیغی جماعت بھی شامل ہے.اس لحاظ سے ان فرقوں کے تعلق سے جس قدر بھی فتوے ملتے ہیں وہ اسی عنوان کے تحت آتے ہیں اس لئے میں ان کو اس جگہ دہرانا نہیں چاہتا اور جن کے فتوے ابھی لکھے نہیں گئے وہ آگے آئیں گئے.
لا جماعت اسلامی کے فتوے عامتہ المسلمین کے خلاف جماعت اسلامی جس کے بانی مبانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ہیں اُن کے فتوے بھی عامتہ المسلمین کے تعلق سے حیرت انگیز ہیں پھر دیگر علماء نے بھی جماعت اسلامی کو اسلام سے خارج قرار دیا ہے.ا.مولانا مودودی صاحب لکھتے ہیں : - قرآن میں جن کو اہل کتاب کہا گیا ہے وہ آخر نسلی مسلمان ہی تو تھے خدا اور ملائکہ اور نبی اور کتاب اور آخرت سب کچھ مانتے تھے اور عبادات اور احکام کی رسمی پیروی بھی کرتے تھے.البتہ اسلام کی اصلی رواج یعنی بندگی اور اطاعت کو اللہ تعالیٰ کے لیئے خالص کر دینا اور دین میں شرک نہ کرنا یہ چیز ان میں سے نکل گئی تھی." دسیاسی کشمکش حصہ سوم بارششم ) نیز لکھا ہے.پس در حقیقت میں ایک نو مسلم ہوں.خوب جانچ کر اور پر کچھ کہ اس مسلک پر ایمان لایا ہوں جس کے متعلق میرے دل و دماغ نے گواہی دی ہے کہ انسان کے لئے فلاح و اصلاح کا کوئی راستر اس کے سوا نہیں ہے.میں پھر غیر مسلموں کو ہی نہیں خود مسلمانوں کو بھی اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں." (سیاسی کشمکش حصته سوم بارششم ).گویا اہل کتاب کو جو نسبت مسلمانوں سے ہے دہی نسبت آج کے مسلمانوں کو جماعت اسلامی کے ساتھ ہے اور پھر یہ کہ مودودیت کے سوائے باقی سب مسلمان غیر مسلم ہیں.اسی طرح فرماتے ہیں:- ایک قوم کے تمام افراد کو محض اس وجہ سے کہ وہ نسلاً مسلمان ہیں
حقیقی معنوں میں مسلمان فرض کر لینا اور یہ امید رکھنا کہ اُن کے اجتماع سے جو کام بھی ہو گا اسلامی اصول یہ ہی ہو گا پہلی اور بنیادی غلطی ہے" ( سیاسی کشمکش حصه سوم بارششم مشا، ۱۰۶) گویا کہ مسلمانوں کا اجتماع جو بھی کام کر ے گا وہ ضروری نہیں کہ اسلامی ہو البتہ عمارت اسلامی کے کام اسلامی کہلائیں گے دوسرے کے کام کو اسلامی خیال کرنا بھی غلط ہے.۴.اسی طرح ایک جگہ لکھتے ہیں." اب تک میں نے کوئی چیز ایسی نہیں لکھی جس پر کسی نہ کسی گروہ کو چوٹ نہ لگی ہو.اور اگر میں یہ فیصلہ کر لوں کہ کوئی ایسی چیز نہ لکھی جائے جو مسلمانوں کے کسی گروہ کو ناگوار ہو تو شاید کچھ بھی نہ لکھ سکوں یا رسائل مسائل ۲۸۳ طبع اول ۶۱۹۵۱ ۵.مسلمانوں میں پائے جانے والے فرقوں کے تعلق سے لکھتے ہیں: " مثلاً اہلحدیث، حنفی دیوبندی، بریلوی ، شیعه اسنتی انتیں جہالت کی پیدا وار ہیں یہ ( خطبات مت طبع بار رفتم ) - مسلمانوں کو جانوروں سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہتر اور موجودہ مسلمانوں کی نام نہاد سوسائٹی جس میں جیل، گدھے، بڑے ہزاروں قسم کے جانور جمع ہیں ؟ (سیاسی کشمکش حصہ سوم طبع اول مشت) ے.مسلمانوں کی تعریف یوں بیان کی : وہ انبوہ عظیم جس کے ۹۹ فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ 16 حق و باطل کی تمیز سے آشنا ہیں کشمکش حصہ سوم بر (۱۱۶۰۱۱۵ ہزار میں سے مسلمان ایک ہے وہ جماعت اسلامی کا نمبر گویا باقی مسلمان ہی نہیں ہیں یا تمامۃ المسلمین کے خلاف جناب مودودی صاحب کے فتوی ہائے کفر.
۲۹.اسی طرح ایک جگہ لکھتے ہیں: اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی مختلف جماعتیں اسلام کے نام سے کام کر رہی ہیں.اگر فی الواقع اسلام کے معیار پر ان کے نظریات مقاصد اور کارناموں کو پرکھا جائے تو سب کی سب جنس کا سو نکلیں گی.خواہ مغربی تعلیم و تربیت پائے ہوئے سیاسی لیڈر ہوں یا علماء دین و مفتیان شرح متین.“ " ر سیاسی کشمکش حصته سوم ص) اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ : میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ مسلمان اور کافر میں علم اور عمل کے سوائے کوئی فرق نہیں ہے.اگر کسی شخص کا علم اور عمل ویسا ہی ہے جیسا کا فر کا ہے اور وہ اپنے آپ کو گو مسلمان کہتا ہے تو وہ بالکل جھوٹ کہتا ہے.کا فرقرآن نہیں پڑھتا اور نہیں جانتا کہ اس میں کیا لکھا ہے.یہی حال اگر مسلمان کا بھی ہو تو وہ مسلمان کیوں کہلائے ، کافر نہیں جانتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا تعلیم ہے اور آپ نے خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ کیا بتایا ہے.اگر مسلمان بھی اس کی طرح ناواقف ہو تو وہ مسلمان کیسے ہوا.کافر خدا کی مرضی پر چلنے کی بجائے اپنی مرضی پر چلتا ہے مسلمان بھی اگر اُسی کی طرح خود سر اور آزاد ہوا اسی کی طرح اپنے ذاتی خیالات اور اپنی رائے پر چلنے والا ہو، اسی کی طرح خدا سے بے پرواہ اور اپنی خواہش کا بندہ ہو تو اسے اپنے آپ کو مسلمان (خدا کا فرمانبردار) کہنے کا کیا حق ہے.کافر حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتا اور جس کام میں اپنے ننزدیک فائدہ یا لذت دیکھتا ہے اس کو اختیار کر لیتا ہے.چاہے خدا کے نزدیک وہ حلال ہو یا حرام یہی رویہ اگر مسلمان کا ہو تو اس میں اور کافر میں کیا فرق ہوا.غرض یہ کہ جب مسلمان بھی اسلام کے علم سے اتنا ہی کو را ہو جتنا کافر
ہوتا ہے، اور جب مسلمان بھی وہی سب کچھ کرے جو کافر کہتا ہے تو اس کو کافر کے مقابلے میں کیوں فضیلت حاصل ہو، اور اس کا حشر بھی کا فرجیسا کیوں نہ ہو.“ ر خطبات از مودودی صاحب ۲۹ (۲۹) فتویٰ ہائے کفر جماعت اسلامی کے خلاف اب ہم ایک نظران فتوؤں پر ڈالتے ہیں جود دیگر علماء نے جناب مودودی صاحب اور ان کی جماعت کے خلاف دیتے ہیں.جناب محمد صادق صاحب لکھتے ہیں." ا مودودی صاحب کی تصنیفات کے اقتباسات دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ان کے خیالات اسلام کے مقتدایان اور انبیائے کرام کی شان میں گستاخیاں کرنے سے مملو ہیں.ان کے مال معضل ہونے میں کوئی شک نہیں.میری جمیع مسلمانان سے استدعا ہے کہ ان کے عقائد و خیالات سے مجتنب رہیں اور ان کو اسلام کا خادم نہ سمجھیں اور مغالطے میں نہ رہیں.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اصلی درقبال سے پہلے میں دجال اور پیدا ہوں گے جو اس دجال اصلی کا راستہ صاف کریں گے میری سمجھ میں ان تیس دجالوں میں ایک مودودی ہیں.“ فقط والسلام محمد صادق عفی عنہ، مہتم مدرسہ نظم العلوم محلہ کھنڈہ کراچی ۲۰ رذوالحجه ۵۱۳۷۱ ۹ار ستمبر ۱۹۵۲ء (بحوالہ حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب مته مرتبه موادی احمد علی انجمن خدام الدین - لاسپور ) ۲.جمیعت العلماء اسلام کے صدر حضرت مولانا مفتی محمود صاحب فرماتے ہیں :-
۳۱ جماعت " میں آج یہاں پریس کلب حیدرآباد میں فتوی دیتا ہوں کہ مودودی گمراہ کا فرادر خارج از اسلام ہے.اس کے اور اس کی جماعت سے تعلق رکھنے والے کسی مولوی کے پیچھے نماز پڑھنا نا جائز اور حرام ہے اسکی ت سے تعلق رکھنا صریح کفر اور ضلالت ہے وہ امریکہ اور سرمایہ داروں کا ایجنٹ ہے.اب وہ موت کے آخری کنارے پر پہنچ چکا ہے اور اب اسے کوئی طاقت نہیں بچا سکتی اس کا جنازہ نکل کر رہے گا یہ د ہفت روزہ " زندگی" ارنومبر ۱۹۴۹ء منجانب جمعیتہ گارڈ.لائلپور) جمعیتہ العلماء ہند نے فتوی دیتے ہوئے لکھا." مود و دلوں کا مسلک نہ صرف ہم احناف مقلدین امام اعظم ابو حنیفہ رحم الله علیہ کے خلاف ہے بلکہ وہ جمہور اہل سنت والجماعت کے خلاف بھی ہے.اس لئے کسی مودودی خیال امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنی چاہیئے اور ایسے امام کو برخاست کر دینا ضروری ہے." ر کتبه تنگ اسلاف حسین احمد غفر له م ذیقعدہ ۱۳۷۳ھ ( صلاه جمعیتہ العلماء ہند ) سوم سولانا مفتی مظہر اللہ صاحب مولانا سید حسین احمد صاحب، مولانا وحید الدین اح ب کا ایک متفقہ فتویٰ شائع ہوا اس میں لکھا ہے کہ : " امریکہ اور انگلینڈ اور اسکارٹ لینڈ وغیرہ مشنریوں کی پشت پناه گورداسپور صوبہ پنجاب کا مودودی پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کے ایمان میں خلل ڈال کر عیسائی بنانا چاہتا ہے اور عیسائیوں کی حکومت پاکستان میں قائم کرنے کی جدو جہد میں مصروف ہے یہ شخص خطرناک دہر یہ ہے پاکستان عدالت سے پھانسی کا حکم سنایا گیا.لیکن احمدیوں کے رحم وکرم نے چودہ سال سب کے ساتھ جیل میں سڑنے نکلنے کی اجازت دلوادی.شائع کرده محمد نجم الدین صدیقی والا جا ہی مدرس تنظیم حیدرآباد دکن انڈیا.
مولانا حسین احمد مدنی نے لکھا : مودودی اور ان کے اتباع کے اصول دین حنیف کی جڑوں پر کاری ضرب لگانے والے ہیں.اور ان کے ہوتے ہوئے دین اسلام کا مستقبل نہایت تاریک نظر آتا ہے." د استغنائے ضروری مش فتوی مولاناحسین احمد مدنی شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند) ។ - - بریلوی علماء نے لکھا.✓ ۱۲۰ نومبر ۱۹۵۰ء کو زیر صدارت علامہ ابوالحسنات السيد محمد احمد قادری صاحب صدر مرکزی جمعیتہ العلماء پاکستان نے طے کیا ہے کہ " مودودی صاحب نے ایک نئے مذہب فکر کی بنیاد ڈالی ہے جس کے دامن میں جمہور مسلمانوں کے دین و مذہب کے لئے کوئی پناہ کی جگہ نہیں اس لئے جمعیت ان کے ساتھ تعاون کو مسلمانان پاکستان بلکہ تمام عالم اسلام کے لئے ایک خوفناک اقدام قرار دیتی ہے.وہ وقت دور نہیں کہ امت مسلمہ کے سامنے دہریت مرزائیت استعماریت اور اشتراکیت کی طرح مودودیت بھی ایک عظیم خوفناک فتنہ کی شکل میں نمودار ہو جائے." اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے صلا شائع شدہ حیدرآباد دکن) ے.اسی طرح ایک جگہ لکھا ہے." میرے نزدیک یہ جماعت اپنے اسلاف (یعنی مرزائی.بھی مسلمانوں کے دین کے لئے زیادہ ضرر رساں ہے." ر کشف حقیقت مصنفہ مولوی سعید احمد مفتی سہارنپور منت ) و ( استفتائے ضروری ص۳) مولانا اعزاز علی صاحب امروہی مولانا فخر الحسن صاحب صدر مدرس دارالعلوم دیوبند نے بھی اس کی تائید کی ہے.) جماعت اسلامی سے متعلق ایک سوال پر کہ ہمیں ان کی کتابیں پڑھنی چاہئیں.
۳۳ یا نہیں اور اس جماعت میں شامل ہونا چاہیئے یا نہیں اس کا جواب دیتے ہوئے سید مہدی حسن صاحب نے لکھا ہے کہ.اس جماعت کی کتابیں عوام کو نہ پڑھتی چاہئیں اور نہ جماعت میں داخل ہونا چاہیئے.مودودی صاحب کے مضامین اور کتابوں میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو اہل سنت و جماعت کے طریقہ کے خلاف ہیں.صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین کے متعلق ان کا اچھا خیال نہیں ہے.احادیث کے سلسلہ میں بھی ان کے خیالات ٹھیک نہیں ہیں.بے عمل مسلمانوں کو بھی وہ مسلمان نہیں سمجھتے ہیں.غرض بہت سی باتیں ہیں جو خلاف ہیں.اس لئے مسلمانوں کو اس جماعت سے علیحدہ رہنا چاہیئے" د كتبه السيد مهدی حسن غفر له ۱۴ هـ ) مسلمانوں کے اکثر فرقوں نے جماعت اسلامی کے خلاف کفر کے فتوے دیئے ہیں اور اسے اسلام کے لئے خطرناک بتایا.اُن سب کو اس جگہ لکھنا میرے نزدیک مضمون کو لمبا کرنا ہے میں اس پر ہی اکتفاء کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہوں.چکڑالویوں کے خلاف فتوی مسلمانوں میں کچھ ایسے فرقے بھی ہیں جو زیادہ مشہور نہیں لیکن جہاں بھی دیگر علماء سے اُن کے خیالات ٹکرائے اس کے ساتھ ہی انہوں نے کفر کا فتویٰ جاری کر دیا.انہیں فرقوں میں سے پرویزری اور چکڑالوی ہیں.چکڑالویوں کے متعلق فتوی حسب ذیل ہے.چکڑالویت حضور سرور کائنات علیہ التسلیمات کے منصب انتقام اور آپ کی تشریعی حیثیت کی منکر اور آپ کی احادیث مبارکہ کی جانب دشمن ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کھلے ہوئے باغیوں نے رسول کے خلاف ایک مضبوط محاذ قائم کر دیا ہے.جانتے ہو.باقی
۳۴۲ کی سزا کیا ہے ؟ صرف گولی.“ ہفتہ دائر رضوان" لاہور چپکڑا بویت نمبر) د اہل سنت والجماعت کا مذہبی ترجمان ۲۱ - ۲۸ فروری ۱۹۵۳ و صت پر نرسید محمود احمد رضوی کو آپریٹو کیپیٹل پرنٹنگ پریس لاہور دفتر رضوان اندرون دہلی دروازہ لاہور) پرویزیوں کے متعلق فتویٰ غلام احمد پرویز شریعت محمدیہ کی روسے کا فر ہے اور دائرہ عورت سے خارج نہ اس شخص کے عقد نکاح میں کوئی مسلمان اسلام عورت رہ سکتی ہے اور نہ کسی مسلمان عورت کا نکاح اس سے ہو سکتا ہے.نہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی نہ مسلمانوں کے قبرستان میں اس کا دفن کرنا جائز ہوگا.اور یہ حکم صرف پرویز ہی کا نہیں بلکہ ہر کافر کا ہے.اور ہر وہ شخص جو اس کے متبعین میں ان عقائد کفریہ کے ہمنوا ہو اس کا بھی یہی حکم ہے اور جب یہ مزید ٹھہرا تو پھر اس کے ساتھ کسی قسم کے بھی اسلامی تعلقات رکھنا شرعاً جائز نہیں." ( ولی حسن ٹونکی غفر الله مفتی و مدارس مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیو ٹاون کراچی و محمد یوسف بنوری شیخ الحدیث مدرسہ عربیہ ٹاؤن کراچی) پرومیزیوں کے متعلق جماعت اسلامی کا فتویٰ یہ ہے.اگر یہ مشورہ دینے والوں کا مطلب یہ ہے کہ شریعت صرف اتنی ہی ہے جتنی قرآن میں ہے.باقی اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ شریعت نہیں ہے تو یہ صریح کفر ہے.اور بالکل اسی طرح کا کفر ہے جس طرح کا کفر قادیانیوں کا ہے.بلکہ کچھ اس سے بھی سخت اور شدید ہے." مضمون مولانا امین احسن اصلاحی روز نامه تسنیم لاہوره ارا است ۱۹۵۲ ، صله) و
احراری جماعت کے خلاف کفر کا فتویٰ | ایک زمانہ وہ تھا کہ مجلس احرار بھی جماعت احمدیہ کے خلاف بڑی زور شور سے کھڑی ہوئی ان کے ارادے اس قدر گھناؤنے تھے کہ جن کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی بات ہورہی تھی یہ مجلس احرارہ در اصل دیوبندیوں کی ہی ایک شاخ تھی لیکن انہوں نے مجلس احرار کے نام سے اپنی شناخت الگ کرتی تھی اس لئے مجلس احرار کے متعلق جو الگ فتوئی شائع ہوا اس کو یہاں درج کرتا ہوں.جناب مولوی ظفر علی صاحب نے لکھا ہے :- اللہ کے قانون کی پہچان سے بے زار اسلام اور ایمان اور احسان سے بے زار ناموس پیمبر کے نگہبان سے بے زار کا فرسے موالات مسلمان سے بے نرالہ اس پر ہے یہ دعوی کہ میں اسلام کے احرار احرار کہاں کے یہ ہیں اسلام کے غدار پنجاب کے احرار اسلام کے غدار بیگانہ یہ بدبخت ہیں تہذیب عرب نے ڈرتے نہیں اللہ تعالیٰ کے غضب سے مل جائے حکومت کی وزارت کسی ڈھب سے سرکار مدینہ سے نہیں ان کو سرور کار پنجا کے احرار اسلام کے غدار " ر زمیندار ۲۱ اکتوبر ۱۹۴۵ء صت) د تبلیغی جماعت کے متعلق فتویٰ اس وقت تبلیغی جماعت کے نام سے ایک فرقہ ہندوستان پاکستان، بنگلہ دیش اور دیگر ممال میں کام کر رہا
ہے ان کی وضع قطع ایسی ہے کہ اونچا یا جامہ ، ہاتھ میں تسبیح، سامان زندگی ہکے پھلکے کندھوں پرا تھائے ہوئے جگہ جگہ گھونتے ہیں.اگر بات کرو تو کہتے ہیں کہ چلہ کرنے جا رہے ہیں.مجھے بھی دو تین مرتبہ ان کی طرف سے دعوت ملی مجھے ان کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا.مسائل کی بات آئی تو خاموش اور صاف انکار کیا کہ ہمارے علماء سے بات کریں ہم جواب نہیں دے سکتے یہ ان کے علم کا معیار.اور ہر کس و ناقص بخوبی جانتا ہے کہ نماز روزے کے مسائل کے علاوہ اور کچھ نہیں رکھتے صرف نماز کی طرف لوگوں کو متوجہ کر نا کام ہے.کام نیکی کا ہے اس کی بنیاد مولانا الیاس صاحب نے رکھی تھی عقیدے کے لحاظ سے انہیں بھی دیو بندی اور حنفی کہا جاتا ہے.یہ بھی اُن ہی فتوؤں کی زد میں آجاتے ہیں جو دیو بندیوں اور حنفیوں کو دیئے گئے ہیں.چونکہ انہوں نے اپنی پہچان تبلیغی جماعت کے نام سے کروائی اس لئے انہیں بھی الگ سے فتوے دیئے گئے ملاحظہ فرمائیں.یہ فتویٰ انگریزی زبان میں ساؤتھ افریقہ سے شائع ہوا ہے.- MOST GRACIOUS "IN THE NAME OF ALLAH MOST MERCIFUL 11 THIS IS TO INFORM YOU THAT TABLIEG JAMAA LEADERS HAVE BEEN BRANDED KAAFIER (UNBEL BY 32 MAKKA AND MEDINA ULEMA WHY HAVE THE ULEMA OF MAKKA AND MEDINA B THE TABLIEĠ JAMAAT LEADERS AS KAAFIER ? "THEY HAVE BEEN BRANDED KAAFIER FOR THEIR CORRUPT BELIEFS EXPRESSED IN THEIR OWN BOOKS WHOM THEY SO DESPERATELY DEFENDS THEY BELIEF THAT IF ANOTHER EXAMPLE...PROPHET APPEARS AFTER THE ERA OF OUR HOLY PROPHET (S.A.V.) THAT IT AT FEAL DOES NOT AFTER THE FINALITY OF PROPHETHOOD (ISAUOD BY THE AHLE SUNNAT VA JAMAT VITEAHAGE 17 DURBEN STREET VITEAHAGE) (29, OCTOBER 1982 11
۳۷ بریلوی حضرات تبلیغی جماعت والوں کو دیوبندی ہی مانتے ہیں اس کی ساری والوں تفصیل کے لئے آتا ، تبلیغی جماعت حقائق ومعلومات کے اجالے میں" کا مطالعہ کریں جسے جناب علامہ ارشد القادری صاحب نے تصنیف فرمایا ہے اور مکتبہ جام نور، نئی دہلی ہو والوں نے اسے شائع کیا ہے.اس کتاب میں مولانا رشیا احد قصات گنگوہی.مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ، مولانا قاسم صاحب نانوتوی سولانا الیاس صاحب وغیرہ سب کوری تبلیغی جماعت میں شامل کر تے ہوئے ان کی کفریہ تحریرات کو بیان کیا ہے.اس بات کے ثبوت نہیں کہ یہ لوگ دیوبندی اور تبلیغی جماعت کو ایک ہی خیال کرتے ہیں ایک حوالہ دیئے دیتا ہوں.لمفوظات الیاس میں مولوی منظور نعمانی صاحب نے درج کیا ہے کہ : " ایک بار فرمایا حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت بڑا کام کیا ہے پس میرا دل یہ چاہتا ہے کہ تعلیم توان کی ہوا ور طریقہ تبلیغ میرا ہو کہ اس طرح ان کی تعلیم عام ہو جائے گی." ( ملفوظات حک) چونکہ دیوبندی وہابی ، قبر پرستی، میلاد، چالیسواں، عرس وغیرہ کے خلاف ہیں اور بیغی جماعت بھی ان کاموں سے روکتی ہے اس لئے انہیں بھی آ نہیں میں شمار کیا جاتا ہے وہابیوں کی جو شاخیں بیان کی جاتی ہیں وہ حسب ذیل ہیں." دیوبندی وہابی تبلیغی جماعت غیر مقلد وہابی تنظیم اہل سنت ، مودودی اسلامی جماعت ، اتحاد العلماء حزب الله جمعیتہ العلماء ہند کی شارخ جمعیتہ علمائے اسلام ، مجلس احرار ، تحفظ ختم نبوت ان سب کا ذکر کہ کے دیوبندی جماعت کتاب میں لکھا ہے کہ " گمراہی کے پھندے پیٹ کے دھندے" ا دیوبندی مذہب مصنفه مناظر اسلام حضرت مولانا غلام مہر علی صاحب الناشر مکتبه حامدیه گنج بخش روڈ لاہور (ص)
۳۸ یہ تھی داستان ان فتووں کی جو ایک فرقے نے دوسرے فرقے کے خلاف دیئے اس کے علاوہ دوسری دوران فتوی کی ہے جو علماء کے خلاف دیئے گئے یا بزرگان امت کے خلاف دیئے گئے یا ان لوگوں کے خلاف دئے گئے جو ترقی پسند تھے اور انہوں نے نئی ایجادات سے فائدہ حاصل کرنے کی شرود استات کی پھر وہ لوگ بھی ان فتووں کی زد میں آئے جو تعلیم کے میدان میں آگئے آنے کی کوشش کر نے لگے.ان میں سے بھی بعض فتووں کا ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا.بڑے ہی حیرت انگیز نتوے ہیں.مجھے تو ان لوگوں کے خلاف فتووں سے زیادہ دلچسپی ہے جنہوں نے جماعت کے خلاف یا پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف فتوے دیئے.اس بات سے تو تمام مسلمان واقف ہیں کہ آغا نہ اسلام سے ہی رجس کا نام خلافت حقہ اسلامیہ کے اختتام کے ساتھ ہی شروع ہو گیا) فتووں کا آغاز ہو گیا اور تمام بند سرگان است کے خلاف فتوے دیئے جاتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ : " یہ بات تو سچ ہے کہ قدیم سے علماء کا یہی حال رہا ہے کہ مشائخ اور اکا بر اور ائمہ وقت کی کتابوں کے بعض بعض حقائق اور معارف اور دقائق اور نکات عالیہ اُن کو سمجھ نہیں آئے اوران کے زعم میں وہ خلاف کتاب اللہ اور آثار نبو یہ پائے گئے تو بعض نے علماء میں سے ان اکابر اور ائمہ کو دائرہ اسلام سے خارج کیا اور بعض نے نرمی کر کے کافر تو نہ کہا لیکن اہل سنت والجماعت سے باہر کر دیا.پھر جب یہ زمانہ گزر گیا اور دوسرے قرن کے علماء پیدا ہوئے تو خدا تعالے ان پچھلے علماء کے بہینوں اور دلوں کو کھول دیا اور ان کو دہ باریک باتیں سمجھا دیں جو پہلوں نے نہیں کبھی تمھیں.تب انہوں نے ان گذشتہ اکابر اور اماموں کو ان تکفر کے فتووں سے بری کر دیا اور نہ صرف بری بلکہ ان کی قطبیت اور غوثیت او را عملی مراتب درلایت
وسز کے قائل بھی ہو گئے اور اسی طرح علماء کی عادت رہی اور ایسے سعید اُن میں سے بہت ہی کم نکلے جنہوں نے مقبولات در گاہ الہی که وقت پر قبول کر لیا.امام کامل حسین رضی اللہ عنہ سے لیکر ہمارے اس نہ مانہ تک یہی سیرت اور خصلت ان ظاہر پرست مدعیان علم کی چلی آئی کہ انہوں نے وقت پر کسی مرد خدا کو قبول نہیں کیا.ر آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ ص۳۳ ۳۴) اس لیئے گذشتہ علماء ائمہ اور غوث و قطب کے خلاف فتوؤں کو چھوڑتے ہوئے گذشتہ صدی میں دیئے جانے والے فتووں کو تحریر کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعوئی فرمایا تو اس کے اول منکر مولوی محمد حسین بٹالوی ہوئے.یہ وہی عالم نہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ پر ریونیو لکھا تھا جو آن پڑ اور پچکے ہیں جب آپ نے دعوی فرمایا تو مولوی صاحب موصوف نے بھی ایسے ہی سم کے خیالات کا اظہار کیا کہ میں نے ہی تمہیں اٹھایا تھا پر ہی تمہیں گراؤنگا.گویا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالے نہیں مولوی محمد حسین بٹالوی اٹھا رہے تھے.اسی بات کا اظہار دیگر علماء نے بھی کیا لکھا ہے کہ : مرزا قادیانی کو بزرگ بنانے والے اور اسکی ولایت کو چمکانے والے اُس سے دعائیں کرد انے والے، اس کی مالی امداد کر نے والے مولوی محمد حسین بٹالوی، مولوی عبدالجبار غزنوی ہی تھے جو کہ غیر مقلدین وہابی حضرات کے مجتہد اگروال اور سردار ہیں " مرزا قادیانی کی حقیقت سے بحوالہ حنفیت اور مرزائیت مولفہ مولانا عبد الغفور اثری شائع کرده بیت یوتھ فورس محلہ دا ٹر ورکس سیالکوٹ م۳ ) دا مولانا نذیر سی دہلوی کے خلاف فتوے بوری اورحسین شاری منان مولوی be مولانا نذیرحسین دہلوی صاحب کے شاگرد خاص تھے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف سب سے پہلے فتوی مولانا نذیر بین صاحب دہلوی سے مائل کیا جائزہ لینے والی بات یہ ہے کہ جس عالم نے حضرت مسیح موعود علیدات دام کے خلاف فتویٰ دیا تھا اس کی اپنی حیثیت کیا تھی ملاحظہ فرمائیں لکھا ہے.
بهم ا نذیر حسین دہلوی امام لامذہباں، مجتہد نا مقلدان، محرع طرز نوی اور مبتدع آنها در وی ای نیز لکھا ہے :.حاجز البحرين درج شده فتاوی رضویہ جلد نمبر (۲) نذیر حسین دہلوی کے پیرو کان سرش اور شیطان، خناس کے مرید ہیں.“ ر حسام الحرمين على متحر الكفر والمین صلا حواله بریلویت تاریخ و عقائد ) غور کریں اور سوچیں کہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب جو کہ نذیر حسین صاحب دہلوی کے شاگرد خاص ہیں.اور کفر کا فتونی حاصل کرنے کے لئے جن کے پاس پہنچے تھے) وہ کہاں کھڑے ہیں، سرکش، شیطان یا خناس کے مرید اب اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دیئے گئے کفر کے فتوے کی کیا حیثیت باقی رہتی ہے.۳.ایک جگہ لکھا ہے: تم پر لازم ہے کہ عقیدہ رکھو بے شک نذیر حسین دہلوی کا فرد مراد ہے اور اس کی کتاب "معیار الحق کفری قول اور نجس تر از بول رہی ہے.رہا یہ کی دوسری کتابوں کی طرح " روایان باغ سبحان السبوح از احمدرضا مه ۱۳۶: حوالہ بریلویت (۳۱) از ۴.اسی طرح لکھا ہے:."جو شاہ اسماعیل اور نذیر حسین وغیرہ کا معتقد ہوا بلیس کا بندہ جہنم کا کندہ ہے اہل حدیث سب کا فرومتر یاد ہیں." ر سبحان السبورج ۱۳۵۰ ۱۳۶، بحوالہ بریلویت ص۲۶) ۵.نیز لکھتے ہیں.نذيريه لبعنهم الله ملعون و مرتد ابد ہیں ؟ فتوی رضویہ جلد ۶ منت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کفر کے فتوے پر سب سے پہلے دستخط کرنے والے کا یہ حال دو را اندازہ کریں اور سوچیں.اسی سے متعلق ایک فتوئی پھر سے پڑھیں.
-4 اہل حدیث بونذیر حسین دهلوی ا ر (1) امیر حسین ہوائی ابشه من قنوجی اور محمد بشیر قنوجی کے پیروکار ہیں اس حکم شریعت کا فرا در مرتد ہیں.اور ابدی عذاب اور رب کی لعنت کے مستحق ہیں یا جانی اہل السنت از محمد طیب قادری تصدیق شده محمد علی قادری و غیره (۲۱۹) ثناء اللہ امرتسری کے خلاف کفر کے فتوے حدت میں مودی میرا سلام علیہ کے خلاف فتوے دینے والوں اور شور کرنے دو در امد : در سرا نام مولانا ثناء اللہ امرتسری اللہ صاحب کا آتا ہے.جن کو دنیا جہان کے خطاب دیے جاتے ہیں.شیخ الاسلام مجاہد اسلام مجاہد ملت کہا جاتا ہے اُن کے متعلق اُن کے بھائیوں کا فتوی ملاحظہ فرمائیں اور پھر غور کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اور آپ کی جماعت کے خلاف جو فتویٰ اُنہوں نے دیا اس کی کیا حیثیت باقی رہتی ہے.لکھا ہے.ا غیر مقلدین کا رئیس ثناء اللہ امرتری مرتد ہے." جانب اہل السنت از محمد طیب قادری تصدیق شده حشمت علی قادری دخیره (۳) مطبوعہ بریلی پسند ) ایک جگہ لکھا ہے." ثناء اللہ امرتسری کے پیرو کا رسب کے سب کافر مرتد ہیں از روئے حکم شریعت ( بحوالہ درست بالا (ص ۲۳) مولوی عبد الاحد صاحب خان پوری کا فتوی ملاحظہ ہو.شاء اللہ خارج ہے بہتر فرقہ سے اور امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں اور برتر ہے روافض و خوارج اور مرجیہ اور قدیہ سے -۲- پس ثناء اللہ کی تو یہ بھی قبول نہ کی جائے.اگر حکم شریعت کا جاری ہو یا سلطنت اسلامیہ ہو.اور بحر قتل کے کوئی سترا نہ ہو، کیونکہ عقائد اس کے بھی زنادقہ کے ہیں.اور تو بہ بھی اس کی منافقانہ ہے " (القول الفاصل مصنفہ مولوی : الاحدا نام غیر مقلدین مطبوعه سادهوره ص۲۴۳ سطر ۱۶) م جناب احمد رضا خان صاحب بریلوی فرماتے ہیں :-
سلام سهام " ثناء اللہ امرتسری در پرده نام اسلام ، آریہ کا ایک غلام با ہم جنگ زرگری کام ) الاستمداد از احمد رضاحت ۱۳ بحوالہ برطويت ص(٢٦) مولانا قاسم صاحب نانوتوی و دیگر دیوبندی دیو بندی علماء نے اپنے علماء کے خلاف فتوے آپ کو اپنے بزرگوں کی باتوں اور تفسیروں کو بھلا کہ بلکہ جان بوجھ کر آنکھیں بند کر کے جماعت کی مخالفت کے لئے وقف کیا.کسی دوسرے پر فتوی دینے سے پہلے علماء دیوبند کو اپنے گھر کی خبر لینی چاہیئے تھی اور اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت تھی کہ کیا وہ بھی کسی دوسرے کی نظر میں کافر تو نہیں ؟ اس بات کو یہ دیو بندی اچھی طرح سمجھتے ہیں.لیکن اس طرف دیکھنا نہیں چاہتے اگر وہ بھول گئے ہوں تو میں اُن کے بزرگوں کا مقام دوسروں کی نظر میں کیا ہے ان کے سامنے پیش کرتا ہوں اور پھر یہ بھی جائزہ لیں کہ ان کے بانی مبانی دوسروں کی نظر میں کون ہیں اور پھر آج کے علماء جوان کی طرف منسوب ہوتے ہیں وہ کسی مقام پر کھڑے ہیں ؟ مولانا قاسم صاحب نانوتوی جنہوں نے دیو بند کی بنیاد رکھی تھی کسی نے ان کی کتاب تصفیة العقائد کی چند سطریں لکھ کر دارالافتاء دارالعلوم دیو بند کو بھیجیں اور پو چھا کہ ان سطروں کے لکھنے والے کے بارے میں آنجناب کا شرعی فیصلہ کیا ہے تو جواب دیا گیا فتوی نمبر ام الجواب.انبیاء معاصی سے معصوم ہیں اُن کو مرتکب معاصی سمجھنا ( العیاذ باللہ) اہل سنت والجماعت کا عقیدہ نہیں.اس کی وہ تحریر خطر ناک بھی ہے، اور عام مسلمانوں کو ایسی تحریرات کا پڑھنا جائزر بھی نہیں.فقط واللہ اعلم رسید احمد علی سعید نائب مفتی دارالعلوم دیو بند) جواب صحیح ہے.ایسے عقیدہ والا کافر ہے.جب تک وہ تجدید ایمان اور تجدید نکاح نہ کرے اس سے قطع تعلق کریں " مسعود احمد عفی عنہ ر ماہنامہ تجلی دیو بند اپریل ۱۹۵۶ء مت مع مہر دارالانشائی دیوین ) دیوبندی علماء کے خلاف فتوؤں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
لا الله دو داشرف علی تھانوی اور رشید احمد گنگوہی خلیل احمد انبیٹھوی، محمد قاسم نانوتوی)......واقعی ایسے تھے ، جیسا کہ انہوں نے انہیں سمجھا، تو خان صاحب پر اسے علماء دیوبند کی تکفیر قرض تھی اگر رو ان کو کافر کہتے تو وہ خود کافر ہو جاتے،...کیونکہ جو کافر کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے.الا القلاب مصنفہ مولوی مرتھے جن چاند پوری ناظم تعلیمات و تبلیغ دیوبند مطبوعہ مجتبائی دہلی 12 دیوبندی مذہب ص ٥٣ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کے بارے میں لکھا ہے کہ : ۱۵۳ " جو اشرف علی کو کافر کہنے میں تو تف کرے.اُس کے گھر میں کوئی شبہ نہیں ر فتوی افریقہ ص ۱۲۳ بحوالہ کتاب بریلویت ص (۲) جناب قاسم صاحب نانوتوی کے بارے میں لکھا ہے کہ در تحذیر الناس مرتد نانوتوی کی نا پاک کتاب ہے.“ د تجانب اہل السنہ ص ۱ بحوالہ کتاب بریلویت ص۲۷۲) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف جب کفر کے فتووں کا بازار گرم ہوا تو دیو بندیوں نے بھی اس میں بھر پور حصہ لیا تھا اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے ایک حساب کھتےہیں کہ جب یہ کشمکش بہت بڑھ گئی تو بہت سے لوگوں نے علماء سے استصواب کیا اور فتویٰ طلب کیا.استفتاء مرتب ہوا.مفتیوں کے پاس بھیجا گیا اور سوال کیا گیا اس سلسلہ میں مسئلہ کی صحیح صورت حال کیا ہے.سب سے پہلا باضابطہ فتویٰ میرا خیال ہے کہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب دیو بناری کا ہے ؟" ودار العلوم احیاء اسلام کی عظیم تحریک تالیف مولانا آکیرا در وی استاذ جامعہ اسلامیہ بنارس با تمام وحید الزماں کیرا توی دار المؤلفین دیوبندیوپی طبع اول ۱۹۹۱ء ۲) دیو بندیوں کے اول مفتی جناب محمود حسن صاحب آف دیو بندیوں سے الگ نہیں جنہیں کفر کے فتوے ملے ہیں بلکہ ان میں شامل ہیں.لکھا ہے کہ :
اسی طرح خان صاحب (احمد رضا خان بریلوی) نے مشہور دیوبندی علماء مولانا خلیل احمد مولانا محمود حسن، مولانا شبیر احمد عثمانی وغیرہ کے خلاف بھی کفر کے فتوے صادر کئے ہیں احمد رضا صاحب ان علماء و فقہاء کے پیروکاروں عام دیو بندی حضرات کو کافر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں :.دیو بندیوں کے کفریں شک کرنے والا کافر ہے.“.) بریلویت تاریخ و عقائد ) دیوبندی حضرات اپنے بزرگوں کے خلاف فتووں کو پڑھیں اور اپنے گھر بیان میں جھا نیس کر دہ جماعت احمدیہ کو اور دیگر فرقوں کو کس منہ سے کافر قرار دیتے ہیں.دیو بندیوں کے خلاف فتوے دیئے جانے کی ایک لمبی داستان ہے.انہیں کسی دوسرے کو کفر کا فتوی دینے سے پہلے سوچنا چاہیئے.عطاء اللہ شاہ بخاری کے خلاف فتویٰ مجلس، ہوا کے لیڈر مولانا عظام اللہ شاہ بخاری کہ کون نہیں جانتا اور یہ بات بھی پوشیدہ نہیں کہ یہ بھی دیو بندی ہی تھے.سیاسی سفار کا ناظر مسلم ایک کے بالمقابل کانگرس نوالہ ایک پارٹی کی صورت میں ہندوستان میں اُبھرے تھے.پاکستان بننے سے قبل پاکستان کی پنا نہ بننے رہنے والے پاکستان بنتے ہی بقول انہیں کے پلیدستان میں رہائش کی غرض سے چلے گئے.مسلمانوں کا نظروں سے گر چکے تھے چونکہ مسلمانوں نے مسلم لیگ کا اتھ دیا تھا اس وقت مسلمانوں میں اپنی کھوئی ہوئی عزت اور وقار کو قائم کرنے کی غزنوی سے جماعت کے خلاف شورش پیدا کر دی جس کے نتیجہ میں پاکستان میں سے زیاد پھڑا.جماعت کے خلاف گندی زبان استعمال کرنے میں کسی سے پیچھے نہ تھے ان کا حشر پڑھیں کیا جماعت احمدیہ کو کافر قرار دے کر یہ خود مسلمان رہ گئے.لکھا ہے.سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے متعلق ان کا فتوی یہ ہے کہ انکی جماعت ناپاک اور مراد جماعت ہے الجانب اہل السنه ست وست پر دیکھیں.بحوالہ ہر یونیت (۲۱) جماعت احمدیہ پر کفر کے فتووں کی انت کہ پینے والے بتائیں کہ کون کفر کا نہ رستے بچاہے کوئی ایک فرقہ بھی
۴۵ ہے یا کوئی ایک ہمارا مخالف، سب نے جو بعد یا دہی کا تا ہے ابھی تو میں نے کفر کے فتوے پیش کرنے میں انتہائی درجہ کنجوسی سے کام لیا ہے ورنہ صرف کفر کے فتوؤں میں کئی صفحے کالے ہو جائیں میں تو صرف اسے فتووں کی چاشنی پٹا کہ آپ کو آگے لا رہا ہوں.مسلمانوں میں بہت سی ہستیاں ایسی گہری ہیں جو عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں یا تو وہ قوم کے لیڈر ہوئے یا پھر ترقی پسند علماء یا پھر مؤسس.اُن کی کیا حالت ہے اس پر بھی ایک نظر ڈلوانا چاہتا ہوں.سرسیداحمدخان صاحب کے خلاف فتوی جناب سیرتیا احمدخان صاحب جنہوں نے مسلمانوں کو تعلیم میں اوپیرا ٹھانا چاہا اور ترقی دینی چاہی آپ نے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا جو آج علی گڑھ یو نیورسٹی کے نام سے ہمارے سامنے ہے اُن کے متعلق فتویٰ ہے کہ : ” وہ خبیث مرتار تھا اسے سید کہنا درست نہیں.ر ملفوظات احمد رضا خاں صاحب ص۳۱) علامہ اقبال کے خلاف فتوے علامہ اقبال کو کون نہیں جانتاشا عر مشرق کے نام سے جانے جاتے ہیں.جماعت کے ملاحوں میں سے بھی طالب علمی کے زمانہ میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے تھے.تفصیل کے لئے دیکھیں اقبال اور احمدیت مصنفہ جناب جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب زنده رود پر تبصرہ مصنفہ شیخ عبد الماجد صاحب ص۳۹۳ بعد میں کسی وجہ سے یہ جماعت سے علیحدہ نکہ گئے ان کے بارے میں فتویٰ حسب ذیل ہے." فلسفی نیچریت ڈاکٹر اقبال کی زبان پر ابلیس بول رہا ہے “ اس طرح لکھا ہے :.) تجانب اہل السنة (٣)
فلسفی نیچریت ڈاکٹرا قبال صاحب نے اپنی فارسی دارد و نظموں میں دہریت اور اتحاد کا زبردست پروپیگنڈہ کیا ہے، کہیں اللہ عزوجل پر اعتراضات کی بھر مار ہے کہ ہیں علمائے شریعت و ائمہ طریقت پر حملوں کی بوچھاڑ ہے، کہیں سیدنا جبریل امین و سیدنا موسیٰ کلیم و سیدنا عیسی مسیح عليهم الصلوۃ والسلام کی تنصیحوں، تو ہینوں کا انبار ہے کہیں شریعت محمدیہ صلی صاحبہا وآلہ الصلوۃ و احکام مذہبیہ و عقائد اسلامیہ پر تمسخر و استہزا و انکار ہے، کہیں اپنی زندیقیت و بے دینی کا فخر ومباہات کے ساتھ کھلا ہوا اقرار ہے." (تجانب اہل السنہ ۳۳۵) قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں فتویٰ فتویٰ یہ ہے کہ :."مسٹر محمد علی جناح کا فر و مرتد ہے اس کے بہت سے کفریات ہیں؛ بحکم شریعت وہ عقائد کفریہ کی بنا پر قطعاً مرتد اور خارج از اسلام ہے اور جو اس کے کفر پر شک کرے یا اسے کافر کہنے میں توقف کرے وہ کافر الجانب اہل السنة ص۱۱۹ ۱۲۲۰ بحواله بر یونیت (۲۹۷ ' ۲.نیز لکھا ہے کہ :." جو محمد علی جناح کی تعریف کرتا ہے وہ مرتد ہو گیا، اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل گئی.مسلمانوں پرفرض ہے کہ اس کا گلی مقاطعہ ر بائیکاٹ کریں یہاں تک کہ وہ توبہ کرے (بحوالہ بریلویت (۲۹۸) ر الجوابات النيته علی زرباط السوالات الليكنيته از ابوالبرکات ص۲۳) مولانا ابو الکلام کے بارے فتوی سورنا ابو الکلام آزاد جنہوں نے انگر یزیدوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا تھا اُن کے خلاف بریلوی حضرات نے فتویٰ دیتے ہوئے لکھا ابو الکلام آزاد مرتد ہے اور اس کی کتاب تفسیر تر جمان القرآن نجس کتاب ہے."
وم رتجانب اہل السنہ ص ۱۴۴ بحوالہ بریلویت تاریخ و عقائد ص۲۹۴) قارئین مسلمانوں میںنے سے کوئی بھی ایسا بڑا عالم نہیں جو معروف ہو یا کوئی مسلم میدر نہیں جس کے خلاف کفر کا فتوی نہ دیا گیا ہوں مندرجہ بالا افراد کے علاوہ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی، سید شبلی نعمانی ، مولانا الطاف حسین حالی، نواب مہدی علی خان.مولانا ظفر علی خان ذو الفقار علی بھٹو، صدر ضیاء الحق وغیرہ ان سب کے خلاف فتوے موجود ہیں.ان کے لئے کتاب بریلویت تاریخ و عقائد - رسالہ لیل و نہار فتویٰ جواب فتویٰ کا مطالعہ کر سکتے ہیں.آنکھیں کھولنے کے لئے ان دو کا مطالعہ ہی کافی ہو گا.ابھی حال ہی میں ایک شاعر محمدعلی مشکے خلاف مفتی حمد شبیر صدیقی دار العلوم شاه عالم احمدآباد نے ان کے دو اشعار پر کفر کا فتویٰ دیا ہے جو کہ سولہ سال پہلے لکھے گئے تھے مگر اس عالم کی مجھ میں اب آئے وہ دو شعر یہ تھے " اگر تجھ کو فرصت نہیں تو نہ آ مگر ایک اچھا نبی بھیج ہ بہت نیک بندے ہیں اب بھی ترے کسی پہ تو یارب وحی بھیج دے رچوتھا آسمان مثل اشاعت اول (۱۹۹۱ء) ان دو اشعار پر مولانا صاحب نے ان پر کفر کا فتوی صادر کرتے ہوئے انہیں سیدھے سیدھے دائرہ اسلام سے خارج کر دیا.اور آخر میں مطالبہ کیا ہے کہ علوی نہ صرف کھلے عام تو بہ کریں بلکہ تو بہ کے بعد از سر نو اپنی بیوی کے ساتھ نکاح کریں کیونکہ زیر بحث فتویٰ کے بعد اُن کا نکات خود نخود نسخ ہو گیا ؟ " د اخبار انقلاب روزه نامه بمبی پیر ۸ مئی ۱۹۹۵ ء ) فتویٰ دینے والے علماء کے رنگ بڑے ہی نرالے ہیں.ہر نئی ایجاد اُ نہیں اسلام کیلئے خطرہ دکھائی دیتی ہے گاڑی ایجاد ہوئی اس پر فتویٰ کہ اس پر چڑھنا حرام ہے.ہوائی جہانہ بنے اس پر فتوی دیا گیا.ریڈیو ا یجاد ہوا اس پر فتویٰ کہ اُسے سننے والا کافر ہے کیونکہ اس میں شیطان بولتا ہے.ٹی.وی کی ایجاد ہوئی اس پر بھی کفر کا
فتوی دیا گیا اور آج تک علماء اس کو حرام قرار دے رہے ہیں.کیمرے کی ایجاد ہوئی تو فتویٰ جاری ہوا کہ تصویر کھچوانا حرام.اب وہی علماء اس کی حرمت کو بیان کر رہے اور کہتے ہیں کہ جائز ہے.ایسا ہو سکتا ہے کوئی ان باتوں کو مزاق خیال کرے اس لئے چند نمونے پیش کرتا ہوں.لاؤڈ اسپیکر سر فتوی ہفت روزہ لیل و نہار میں درج ہے کہ مولانا عبدالحمید کے بعد مولانا محمد بخش مسلم کا نام بھی چمکا.یہ مولانا بھی گری بجویٹ تھے.ترقی پسند تھے.انہوں نے امامت کا آغانہ ، لاہوری دروازے کے باہر باغ میں واقع مسجد سے کیا.انہوں نے اس مسجد میں لاؤڈ اسپیکر کا انتظام کیا.ان پر بھی کفر کا فتویٰ لگا.لیکن وہ حق پر قائم رہے ان دونوں گریجویٹ اماموں نے جاہل ملاؤں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا.اور اس کے بعدی ہو کے شہریوں نے دیکھا کہ ہر ایک مسجد میں لاوڈ سپیکر لگا جیس کے امام نے لاؤڈ اسپیکر کی آدانہ کو شیطانی آواز قرار دیا تھا اور خود وہ حضرت جن کے دستخط فقہ ے پر موجود تھے اپنی اپنی مساجد کیسے لاؤڈ اسپیکر استعمال کرتے تھے.شاید اس فتویٰ کی نقل کسی کے پاس موجود ہو.“ در ساله هفت روزه لیل و نہار صت مورخه ۱۹ را پریل ۱۹) گھڑی کے خلاف فتوی اسڑی کے خلاد نترونی چڑ میں جو کہ جماعت اہل گھڑی حدیث کے اوپر مولوی محمد حسین صاحب شیخو پورہ نے دیا.لکھا ہے :- تہ تحقیق کا فر ہوئے وہ لوگ جنہوں نے اذانیں دیں اور نمازیں ادا کیں بحساب اوقات گھڑیوں مروجہ کے اور ترکب کیا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کو اور نہ حساب رکھا سایہ کا واسطے اذان اور نماز کے روزانہ اور توڑا تعلق سنت سے براہ راست " پھر اسی سندا فٹی سے ایک اور حکم جاری ہوا ہے کہ :.
ور اور دہ لوگ بھی ظالم ہوکر کا قبر ہوئے جنہوں نے مسجدوں میں گھڑیاں لٹکا دیں.اور پھر مسجدوں پر رات اور دن کے حصہ میں تالے لگا دیئے.اور وہ لوگ بھی شیطان کے پیرو کار ہو کر کافر ہوئے جنہوں نے داڑھی مونڈی یا منٹ وائی اور مطمین ہوئے." حوالہ پیغام صلح ۱۷ مارچ ۱۹۶۸ء لاہور رساله لیل و نہار ۱۹ اپریل ۷ حیرت انگیز قوی است کتاب تقویۃ الایمان میں لکھا ہے کہ ہ شوال میں سے عید کے روزہ سیویاں پکانا اور بعد نماز عیدین کے بغلگیر ہو کر ملنا یا مصافحہ کرنا الی قولہ، وہ شخص اس آیت کے مطابق مسلمان نہیں." ر تفصیل کے لئے دیکھیں تقویتہ الایمان من سطرا من سطر ۲۲) کرکٹ میچ دیکھنے پر فتوی نعرہ بازی کھیلوں میںمیں گیس پورٹ کے متعلق فتوئی یہ ہے کہ :.ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرکٹ بیچے دیکھنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے.“ ر مفتی مختار احمدنعیمی گجراتی حواله روزنامه امروز جمعرات هر اکتوبر ۱۹۷۸ء در حواله اشتہار شائع کرده محمد سلیمان طارق سیالکوٹ) قارئین کفر کے فتوؤں کی داستان اس قدر لمبی ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آتی بہر حال میں اس کو ان چند مثالوں کے ساتھ یہیں ختم کرتا ہوں اور مضمون کو آگے بڑھاتا ہوں.جماعت احمدیہ پر فتاوی تکفیر کی زد دیگر فرقوں پر جماعت کے خلاف مختلف وقتوں میں مختلف کتابیں شائع ہوتی رہی ہیں.اور ہر کتاب میں جو بھی جماعت کے خلاف شائع ہوئی دو باتوں کو لازمی طور پر پیش کیا گیا ان میں سے ایک یہ کہ جماعت انگریزوں کا کاشت کردا پودا ہے اور دوسرا بڑا الترام یہ کہ جماعت اور بانی جماعت احمدیہ اجرائے نبوت کے قائل ہیں.اور اس دوسری بات ہی کو لے کر
۵۰ اکٹر علماء نے کفر کے فتوے دیئے.قارئین حیران ہوں گے کہ دیوبندیوں پر یا جماعت اسلامی پر یا تبلیغی جماعت پر یا اہل حدیث کے خلاف جس قدر فتوے لگے اس میں بھی اسی الزام کو دہرایا گیا اور یہ تجزیہ کیاگیا کہ اُن کے بزرگ بھی جماعت احمدیہ سکے ہم مسلک تھے اس لئے اگر اس عقیدے کی وجہ سے جماعت احمدیہ کا فر ہے تو یہ کا ترکیوں نہیں ؟ اس پر بڑی عمر لمبی کٹیں کی گئی ہیں ان کی تفصیل جاننے کے لئے کتاب دیوبندی مذہب بریلویت، حنفیت اور مرزائیت تبلیغی جماعت حقائق ومعلومات کے اجالے میں.جماعت اسلامی کو پہچانتے ، قادیانی ہی کافر کیوں ؟ قادیانی فتنہ کیا ہے ؟ کا مطالعہ کریں.ان کتابوں میں یہ بات ثابت کر نے کی کوشش کی گئی ہے کہ جماعت احمدیہ اور ان فرقوں میں بعض بعض عقائد میں یکسانیت پائی جاتی ہے.چونکہ ہر فرقے نے دوسرے فرقے کو کافر قرار دینے کے لئے جماعت احمدیہ کے ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے اور عقائد کو ملا کر دکھایا ہے.اور ایک دوسرے کے خلاف یہ کتابیں لکھی ہیں انس لحاظ سے بڑی ہی دلچسپ بھی ہیں اور معلوماتی بھی.میں اس جگہ صرف دو تین اقتباس درج کہتا ہوں جن سے ان کتب کا خلاصہ قارئین کے ذہن میں آجائے گا لکھا ہے." ہمیں ٹھنڈ نے دل سے غور کرنا چاہیے کہ غلام احمد قادیانی اور اس کے متبعین کو کافر اور خارج از اسلام قرار دے کہ ہم نے کس حد تک دین کے تقاضے کی تکمیل کی.وہ گمراہ نظریات جن کی بناء پر غلام احمد قادیانی نے قسمت آزمائی کی تھی کیا وہ صوفی حلقوں میں رچے بسے نہیں ہیں.کیا وہ تصوف جس کی بناء پر غلام احمد قادیانی کو معتوب کیا جارہا ہے اس کو ہمارے مسلمان بھائی تلین دین سمجھ کر سینے سے لگائے ہوئے نہیں ہیں.جب یہ سب کچھ ہے تصرف عین دین ہے اور سارے ہی صوفیاء عقیدتوں اور سرائگندیوں کے مستحق ہیں تو پھر قادیانی ہی کافر کیوں ؟ " ر قادیانی ہی کافر کیوں منشه از حافظ سید محمد علی حسینی مولوی کامل جامعہ نظامیہ حیدرآباد اے پی) سند اشاعت ۱۹۹۱ء دوسرا حوالہ پڑھیے :-
۵۱ اب آخر میں بغیر کسی تمہید کے ہم آپ کی غیرت ایمانی کو آوانہ دیں گے کہ محض اللہ ورسول کی خوشنودی اور اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے آپ خود فیصلہ کریں کہ قادیانی کو جس جرم کی بناء پر خارج از اسلام قرار دیا گیا اس جرم کا ارتکاب سے پہلے.دلوی دیوبند نے کیا پھر کیا وجہ ہے کہ بانی دیوبند کے لئے آپ اپنے دلوں میں نرم گوشہ لئے بیٹھے ہیں " ( قادیانی فتنہ کیا ہے ؟ مصنفہ علامہ ارشد القادری شائع کردہ رضا اکیڈمی شارخ ایسکاور) دیو بندیوں اور بریلویوں کا کہنا یہ ہے کہ اگر مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی مخالفت میں اہل حدیث نہ کھڑے ہوتے تو ان کی جماعت ترقی نہیں کر سکتی تھی جات کو ترقی دینے میں سب سے بڑا ہاتھ اہل حدیث کا ہی رہا ہے انہوں نے ہی شروع میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی تعریف کی اور پھر مخالفت کر کے کھاد کا کام کیا.اور پھر یہ بات ثابت کر نے کی کوشش کر تے ہیں کہ اصل میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السّلام اہل حدیث تھے.ادھر اہل حدیث یہ لکھتے ہیں کہ :.مقلدین احناف دیوبندی اور بریلوی رضاخانی حضرات کا مرزا غلام احمد قادیانی کو غیر مقلد وہابی اہل حدیث باور کرانا.اور فتنہ مرزائیت کو غیر مقلدیت کی پیداوار قرار دینا و غیره گو یا حق و انصاف کو زنده در گونه که دینے کے مترادف ہے.جو صرف ان مقلدین احناف دیوبندی اور بریلوی رضاخانی حضرات کی شان کے شایان ہے.ہم سمجھتے ہیں کہ اہل حدیث سے عوام که متنفر و بیزار کر نے کے لئے یہ ناپاک ہتھکنڈے اس دور کی ایسی عظیم ترین غلط بیانی اور بے انصافی ہے کہ سابقہ ادوانہ میں اس کی مثال نہیں ملتی." (حنفیت اور مرزائیت سوئفہ مولانا عبدالغفورا ری اہل حدیث یوتھ فورس دائر ورکس سیالکوٹ طبع اول مارچ ۱۹۸۷ ء م ) اسی طرح سے ایک جگہ لکھا ہے کہ :
کی مرزا قادیانی کو بزرگ بنانے والے مولوی محمد حسین بٹالوی مولوی عبد الجبار غزنوی ہی تھے جو کہ غیر مقلدین وہابی حضرات کے مجتہد اور سزاریں" ) مرزا قادیانی کی حقیقت ص بحوالہ حنفیت اور مرزائیت (۳۳) الفرضے ہر فرقے نے جماعت احمدیہ کی قربت سے اپنے دامن کو پاک کر نے کی کوشش ہے اور دوسرے فرقوں کے ساتھ ملا کہ جماعت کو دیئے گئے فتوؤں کے سہارے سے اس جماعت کو اسلام سے خارج بتایا ہے.ان کتابوں کو پڑھ کر ایک بات تو بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے آئی ہے کہ دیگہ فرقوں کے بزرگانِ سلف کے اکثر عقائد جماعت احمدیہ کے مسلک سے مطابقت رکھتے ہیں.اگر جماعت احمدیہ کو ان عقائد کی بناء پر معتوب کیا جاتا ہے تو اُمت مسلمہ کے احمد سلف بھی محفوظ نہیں رہتے جماعت احمدیہ اور انگریزی حکومت کی تعریف | جہاں تک اس التزام کا تعلق ہے کہ جماعت احمدیہ انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہے اور اس کی دلیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے انگریزی حکومت کی تعریف کی.اسکی حقیقت یہ ہے کہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السّلام نے فیس دور میں دعوئی فرمایا اور جماعت کی بنیاد رکھی اس دور میں برطانوی حکومت ہندوستان پر قائم تھی.اور اس حکومت نے اس قدر مذہبی آزادی و رکھی تھی کہ خود حکمرانوں کے صلیبی مذہب کی قلعی کھو لنے اور عقلی و نقلی دلائل کے ساتھ کسر صلیب کے فرائض سرانجام دینے پر بھی تعرض نہ ہوتا تھا.محض اسی صفت کی بناء پر بانی جماعت احمدیہ نے اس وقت کی حکمران انگریزی حکومت کی تعریف کی تھی.اس کے ساتھ ساتھ دوسرا سبب یہ تھا کہ جماعت احمدیہ کے مخالف ماں اور مفاد پرست طبقے برطانوی حکام کے پاس حضرت بانی جماعت احمدیہ کے خلاف شکا نہیں کر تے اور یہ باور کرانے کی کوشش کر تے رہتے تھے کہ یہ
۵۳ انگریزی حکومت کے خلاف ہے اور در پردہ بغاوت کے لئے حکومت کے خلاف فوج جمع کر رہا ہے اور مہدی ہونے کا دعوی کیا ہے اور یہ بھی حکومت کے لئے ویسی ہی مشکلات پیدا کرے گا.جیسی مہدی سوڈانی نے پیدا کی تھیں.پس مخالفین کی ایسی غلط شکایات اور الزامات کی تردید اور اپنی پوزیشن کو واضح کرنے کی غرض سے اپنی اور اپنے خاندان کی حکومت سے وفاداری کا ثبوت پیش کرنا ناگزیر تھا.ورنہ آپ تو خدائی مشن کے علمبردار تھے کسی حکومت سے کچھ لینا دینا نہ تھا.جیسا کہ آپ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں، مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوان یار انگریزوں کے کاشت کر وہ دیگر پورے حیرت کی بات ترسے ہے کہ جن فرقوں کے علماء نے جماعت احمدیہ کو انگریزوں کا کاشت کہ وہ پورا بیان کیا اُن پر بھی ان کے مخالف فرقوں کی طرف سے یہی الزام ہے جس کی تردید نہیں کی جاسکتی.اس جگہ میں چند نمونے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں :.دیو بندی انگریزی حکومت کا خود کاشتہ پودا | جماعت احمدیہ کے مخالف تمام فرقوں میں سے اپنے آپ کو صفہ اول پر بتانے والے دیو بندی ہیں چونکہ ان کی ہی بہت سی شاخیں بہت سے ناموں سے پھیلی ہوئی ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے جماعت احمدیہ کی مخالفت میں اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے.ان ہی لوگوں نے دنیا والوں کے سامنے بار بار اس بات کا شور مچایا کہ جماعت احمدیہ انگریزوں کا لگایا ہوا پودا ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ سب سے پہلے میں ان ہی کے چہرے سے پردا ہٹاؤں.دیو بندیوں کے بارہ میں خود ان کے اسلامی بھائیوں نے لکھا ہے کہ : را نے ایک طرف مبلی تو اس میں ستان لیا کہ دوسری طرف ہیں میں موجو
" سلام الله تھانہ بھون میں مولوی اشرف علی صاحب تھانوی دپنجاب میں مولوی حسین علی اس برطانیوی محکمہ کے سول ایجنٹ تھے.یہاں تک کہ تھانوی صاحب کو انگریزی سرکار سے مال ودولت کے خاص ڈیل وظیفے مقر کر دیئے گئے تھے.دیکھو مکالمتر الصدر ین مولوی شبیر احمد عثمانی دیوبندی شما پھر تو دیو بندیوں کی پانچوں گھی میں ہو گئیں.کہیں جمیعہ علما و سٹے اسلام انگریز کی رقم سے پیدا ہوئی (مکالمہ مٹے) اور کہیں تبلیغی جماعت اس اہ بہادر کے سرمایہ سے دور وجود میں آئی (مکالمہ حث) اور کہیں اسی کے اشارے سے کانگرس کا ظہور ہوا.(مکالریٹ) غرض کہ ان سیاسی چالوں کے نام پر زور اندوزی کے تمام اسباب مکمل کر لئے گئے اور کون مسلمان نہیں جانتا کہ دیو بندی جس جماعت کے بھی قائدہ بنے ہمیشہ مسلمانوں کی تباہی کا ہی نظریہ ان کے سامنے تھا.د دیوبندی مذہب مصنفہ مناظر اسلام حضرت مولانا غلام مہر علی صاحب ناشر کتب حامد یہ گنج بخش روڈ لاہور م ۷۹ جمیعۃ العلماء انگریزوں کا خود کاشتہ پودا جمیعت عمل جو کہ دیو بندیوں کی ہی ایک شاخ ہے اس کے متعلق لکھا ہے کہ :- • ملکت میں جمیعتہ العلماء اسلام حکومت کی مالی امداد اور اس کے ایماء سے قائم ہوئی ہے.....گفتگو کے بعد طے ہوا کہ گورنمنٹ ان دیو بندیوں کو کافی رقم اس مقصد کے لئے دے گی چنانچہ ایک بیش قرار رقم اس کے لئے منظور کہ لی گئی اور اس کی ایک قسط مولانا آزاد سیمانی صاحب کے حوالے بھی کردی گئی.اس روپیہ سے کلکتہ میں کام شروع کیا گیا.“ ۳۵۸ ومكالمة الصدرین شبیر احمد عثمانی حس بحوالہ درجہ بالا دیوبندی مذہب مره اشرف علی ضیا تھانوی انگریزوں کے پودے اور سونا اشرف علی صحاب
تھانوی کے بارے میں لکھا ہے کہ : - دیکھئے حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمتہ اللہ علیہ ہمارے آپ کے مسلم و بزرگ پیشوا تھے.ان کے متعلق بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئیے تھے " شنا گیا ہے کہ ان کو چھ سو روپیہ ماہوار حکومت کی جانب سے دیئے جاتے (مکالمۃ الصدرین شبیر احمد عثمانی صث ) دیو بندی علماء اور دیو بند سے تعلق رکھنے والوں کا انگریزوں سے کیا تعلق رہا اور کیس کس طرح انگریزوں کے لئے کام کر تے رہے اور کن کن دیالوں سے مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے رہے یہ ایک لمبی بحث ہے جو دوست اس کی تفصیل جانے کے خواہش مند ہوں وہ دیو بندی مذہب کتاب کے باب نہم انگریز و دیو بندی گٹھ جوڑ کا مطالعہ کریں.بریلویت انگریزوں کا خود کاشتہ پودا بریدی حضرت نے بھی کوئی کی عت نہیں کی انہوں نے بھی جا بجا جاست کے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ جماعت احمدیہ انگریزوں کا کاشت کرد.پودا ہیں اب یہ خود کسی کا کاشت کر دی پور دا ہیں یہ بھی پڑھیں لکھا ہے:.اس گروہ کے عقائد بعض دوسرے اسلامی ملکوں میں تصوف کے نام پر رائج ہیں.غیر اللہ سے فریاد رسی اور ان کے نام کی منتیں مانتا جیسے عقائد سابقہ دور میں بھی رائج و منتشر ر ہے ہیں.بریلوی حضرات نے ان تمام شرکا عقائد اور غیر اسلام رسوم در روایات کو منظم مشکل دے کر ایک گروہ کی صورت کہ اختیار کر لی ہے.اسلامی تاریخ کے مطالبہ کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ تمام عقائد اور رسمیں ہندو ثقافت اور دوسرے ادیان کے ذریعہ سے مسلمان میں داخل ہوئیں اور انگریزی استعمار کی وساطت سے پروان چڑھی ہیں یاں و بر یوبیت تاریخ و عقائد صلا)
2 ۵۶ اسی طرح ایک جگہ لکھا ہے کہ : مگه بریلوی مکتب فکر کے امام و مجدد نے انگریزوں کے خلاف علنی والی اس تحریک کے اثرات دنتائج کو بھانپتے ہوئے انگریزوں سے دوستی کا ثبوت دیا.اور تحریک خلافت کو نقصان پہنچانے کے لئے ایک دوسرا رسالہ دوام العیش کے نام سے تالیف کیا جس میں انہوں نے واضح کیا کہ چونکہ خلافت شرعیہ کے لئے قریشی ہونا ضروری ہے متصل عبارت ہے اس لئے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ترکوں کی حمایت ضروری نہیں.کیونکہ وہ قریش نہیں ہیں.اس بناء پر انہوں نے انگریزوں کے خلاف چلائی جانے والی اس تحریک کی بھر پور مخالفت کی اور انگریزی استعمار کی مضبوطی کا باعث بنے " ) بر عمویت تاریخ و عقائد ص) اب بتائیں کہ انگریزوں کا پھو کون تھا اور انگریزوں کا کاشت کردہ پودہ کون ؟اگر کسی کو مزید معلومات کی ضرورت ہو تو بریلوی فتوے، تکفیری انسا نے آئینہ صداقت کتب کا مطالعہ کرنے میں میں صاف صاف اور دوا صیح طور پر لکھا ہے کہ بنایا احمد رضا خان صاحب بریلوی انگریزوں کے ایجنٹوں میں سر فہرست، تجھے تبلیغی جماعت انگریزوں کا خود کاشتہ پودا | تبلیغی جماعت جس کو موبی طور پر دیوبندیوں کی ہی ایک شاخ خیال کیا جاتا ہے اُن کے تعلق سے بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ان کو بھی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کر نے کے لئے انگریز وں نے کھڑا کیا تھا.لکھا ہے :." اس لئے انگریزوں کو ایک ایسی مذہبی تحریک کی ضرورت پیش آئی جس کے چلانے والے اپنے ظاہر کے اعتبار سے مسلمانوں میں باریاب ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں تا ان کے ذریعہ مسلمانوں کو مذہبی انتشار میں مبتلا کیا جا سکے.چنانچہ اس عظیم مقصد کے لئے انگریزوں نے مالی امداد کا تمہارا دے کہ
ماه مولانا الیاس کو کھڑا کیا.جیسا کہ دیو بندی جمیعۃ العلماء کے ناظم اع ا علی مولانا حفظ الرحمن نے اپنے بیان میں خود اس کا اعتراف کیا ہے.چنانچہ مکالمہ الصدرین نامی کتاب کا مرتب ان کی ایک گفتگو کا سلسلہ نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے " اسی ضمن میں مولانا حفظ الرحمن صاحب نے کہا کہ مولانا الیاس رحمتہ اللہ علیہ کی تبلیغی تحریک کو ابتداء حکومت کی جانب سے بذریعہ حاجی رشید احمد کچھ روپیہ ملتا تھا پھر بند ہو گیا.مکالمتہ الصدرين حت شائع کردہ دیوبند.تبلیغی جماعت حقائق ومعلومات کے اجالے میں علامہ ارشد القادری مکتبہ جام نورنئی دہلی.۲) وہابی انگریزوں کے پودے اعمالی کی تحریروں کے مطابق تو انگریزوں نے ایک پودا یا چند پودے نہیں لگائے بلکہ باغ کے باغ لگائے دکھائی پڑتے ہیں وہابی تحریک جسکے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جناب شیخ عبد الوہاب صاحب نجدی نے اس کی بنیاد رکھی تھی اس وہابی تحریک کو بھی انگریزوں نے ہی پروان چڑھایا ہے اور جب ہم وہابی تحریک کہہ دیں تو پھر اس میں مسلمانوں کا کوئی ایک فرقہ نہیں بلکہ بہت سے فرقے شامل ہو جاتے ہیں کیونکہ جس کے بھی خیالات بریلویت سے ٹکرا جائیں وہ دہائی ہو گیا.ان کے متعلقے لکھا ہے کہ :." لیکن یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے کہ "وہابی تحریک بھی ہندوستان میں انگریزوں کے دودھ پر ہی پل کر جوان ہوئی.ان کی سیاسی حمایت ، اخلاقی تائید اور مالی امداد بھی حاصل کر کے ہی یہ جماعت جہاد کا سوانگ رچا سکی اور ہندوستانی مسلمانوں کی اس متحدہ طاقت کو جسے مولانا فضل حق علیہ الرحمہ اور ان کے رفقاء انگریزی سامراج کے خلاف استعمال کر رہے تھے جہاد کے نام پر اس کا رخ افغانی مسلمانوں کی طرف پھیر سکی یہ تبلیغی جماعت حقائق و معلومات کے اجالے میں قت) جماعت اسلامی انگریزوں کا خود کاشتہ پودا اب غور کریں اور دیکھیں کہ مسلمان فرقوں میں سے کون سا فرقہ ایسا س ہے جو دوسروں کی نظر میں انگریزوں کا کاشت کرد
پورا نہیں رہا.اب ایک بچی جماعت اسلامی جو ہر دم جہاد جہاد کا نام لیتی ہے ان کی حقیقت کیا ہے وہ کس کے زیر اثر اور نزیر سایہ میں ملاحظہ فرمائیں لکھا ہے :- دینی تعلیم و تربیت کے کام میں مولانا روزہ اول ہی سے بیزالہ تھے وہ مروجہ دینی عربی مدارس کی تعلیم کو لوٹا ، مسواک، مصلے اور استنجاء کی تعلیم سمجھتے تھے اور خود چونکہ جدید دور کے مجدد اسلام تھے وہ محض کتابوں رسالوں اور اخبارات کے ذریعے ذہنوں کو سدھارنے کا طریق سے کافی سمجھتے تھے.اسی لئے موصوف نے اپنی زندگی میں ایک بھی دینی درس گاہ قائم نہیں کی.اور پاکستان میں جاسات اسلامی کی ایک بھی تعلیمی درس گاہ نہیں جس میں مسلمان بچے دینی دنیا دی تعلیم حاصل کر سکتے ہوں.موصوف نے کبھی یہ بھی محسوس نہیں کیا کہ جب حکومت ان کے ہاتھ میں آئے گی تو وہ بغیر دینی عمال و حکام کے اسے الہیہ کیسے بنائیں گے.اور یہا اور یہ انگریز کی پروردہ یا مغربی طرز پر تربیت یافتہ سرکاری مشنیری ان کی مجوزہ حکومت الہیہ کو کیسے چلائی گی." جماعت اسلامی کو پہچانٹے مرتبہ حکیم اجمل خان دارالکتا ہے ۴۸۰ پٹودی ہاؤس دریا گنج نئی دہلی ۲ سن اشاعت ۱۹۹۰ ، ۱۲۳ جماعت احمدیہ کس کا کاشت کردہ پودا ہے ؟ امامت امریکی گیندوں کا خود کاشتہ پودا کہنے والوں نے جب کسی دوسرے فرقے کو انگریزوں کا خود کاشتہ پودا بتایا تو ساتھ ہی جماعت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ فرقہ بھی احمدیوں کی طرح سے انگریزوں کا ہی خود کاش یہ پودا ہے.جس فرقہ کو بھی انگریزوں کے ساتھ لایا گیا اس نے اپنی بریت کے لئے کوئی دلائل نہیں دیئے.لیکن جہاں تک جماعت احمدیہ کا سوال ہے تو میں صرف ایک حوالہ پیش کر دیتا ہوں تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ جماعت احمدیہ کس کا کاشت کردہ پودا ہے بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں :." دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے
09 یہ اُن لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بد قسمتی سے کہ میری تباہی چاہتے ہیں میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے اے لوگو ! تم یقیناً سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو آخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے بلاک کر نے کے لئے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہا تھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہرگز تمہاری دعا نہیں سنے گا.اور نہیں رکے گا جب تک وہ ا پنے کام کو پورا نہ کر لے.اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں.پس اپنی جانوں پر ظلم منت کرد کا ذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا.میں اس زندگی پر لعنت بھیجتا ہوں جو جھوٹ اور افترا کے ساتھ ہو....جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مذ بین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم.پس یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا.خدا سے مت لڑو!.یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دویا (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص ۱۳ روحانی خزائن جلد ۱۷ ص۴-۵) مخالفین احمدیت کا انجام حضرت مسیح موعود علیات کام کے مخالفین کے انجام کو کون نہیں جہاتا.مولوی محمد حسین بٹالوی کا انجام کیا ہوا آج لوگ اس کے نام تک سے واقف نہیں وہ شہر جہاں وہ پیدا ہوئے پہلے بڑھے اور مخالفت کا ایک شور بلند کیا اُن کے کریں آن خاموش
ہے پوچھو تو بھی کوئی اُن کے وجود کا پتا دینے والا نہیں ان کی قبر کے نشان تک اس زمین سے مٹادیئے گئے جبکہ ایک بدنام طبقے کے قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی تھی دیکھو.اول المکفرین کا کیا انجام ہوائی مولانا ثناء اللہ امرتسری تا جب مولوی ثناء اللہ امرتسری کے متعلق اُن کا ایک چاہتے دالا لکھتا ہے." ابو الوفاء حضرت مولینا ثناء اللہ مرحوم جب تک ہمارے درمیان زنده رہے ان کے اراد تمندا نہیں دین وملت کی آبرو سمجھتے رہے.ان کی خدمت کو سراہاتے رہے ان کے تبحر علمی.اُن کے کمال مناظرت، ان کی بے مثال تقریر اور اُن کی بے عدیل تحریر اور ان کی ذہانت و فطانت کی تعریف کر تے رہے.وہ نا خیرا قوم جہاں کہیں تشریف سے گیا بخوم معتقدین رداق گوشه چشم من آشیانہ تشت دیتی میری آنکھوں کی پہلی میں تیرا گھر ہے.کہتا ہوا اسے آنکھوں میں جگہ دیتا رہا.اس مرد مجاہد کی زندگی گو اعداد کی ختنہ پردازیوں سے خالی نہ تھی.مگر اکثر مواقع پر مخالفین بھی اس کی تعریف میں تبہ نہ بان نظر آتے تھے الغرض اس کے پاک وجود کو یا رو اغیار دوست و دشمن سب ہی واجب التعظیم اور قابل تائش سمجھتے نیز مفید اور نفع بخش بھی.لیکن جونہی اس شیر بیشہ ملت کی آنکھیں بند ہوئیں، وہ بقول دا نایاں یونان رہنماؤں کی تیسری قسم میں شامل ہو گیا.اسے یکسر بھلا دیا گیا.فراموش کر دیا گیا.اس کا نام زندہ رکھنے کا فرض جن افراد قوم جن احباب جن معتقدین اور جن اکابر جماعت پر عائد ہوتا تھا انہوں نے تجاہل عارفانہ سے نہیں، تغافل مجرمانہ سے کام لیا.وہ اصحاب حسن پیر امید تھی کہ اس کے کام اور اس کے مشن کو مرنے نہیں دیں گے اس کے رخصت ہوتے ہیں بیگانے بن گئے اور اس طرح چپ سادھ لی جیسے وہ اس بزرگ سے توقف
ہی نہ مجھے.آہ اے درسے میں ذوق سے وصل و یاد یار تک باقی نہیں آگ اس گھر کو لگی ایسی کہ جو تھا جلسے گیا " آگے لکھا ہے :.اس کے یاروں اور دوستوں میں اس کے ارادتمندوں اور معتقدوں میں، اس کے مداحوں اور تعریف کر نے والوں میں اتنی جرات اور اتنی توفیق بھی نہیں ہوتی کہ اس کے نام اور اس کے کام کو زندہ رکھنے کے لئے کوئی چھوٹی سی یاد گانہ کوئی معمولی سا میموریل ہی قائم کر دیں تاکہ لوگ اسے دیکھ کر یہ تو کہ سکیں کہ ثناء اللہ بھی ایک ریفارم ہو گزرا ہے.توک ہمارے زخمی دل پر اُس جلسے کی یاد نمک پاشی کر رہی ہے جس میں حضرت مغفور نے اپنی تقریر کا آغاز اس شعر سے کیا تھا.کہ ہے غم سے مرتا ہوں کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی کہ کرے تعزیت مہر و وفا میرے بعد مرحوم کی روح بہت خوش ہو گئی گران کی پیشنگوئی حرف بحرف پوری ہو رہی ہے، سچ پوچھئے تو یہ مہر و وفا کا پتلا تھا بھی اسی لائق کہ ساری عمر مذہب وقوم کی خدمت کر کے پنجاب کے ایک گمنام گوشے میں دفن ہو جائے جہاں اس کا کوئی یار و غمخوار دعائے مغفرت کے لئے بھی نہ پہنچ سکے آگے لکھتے ہیں :.آج تو یہ مہالہ ہے کہ مرحوم کی سوانح عمری لکھنا تو ایک طرف، غالباً اسے کوئی پڑنا ہی پسند نہ کرے گا " ر سیرت تناؤ سے ابر الوفاء نشاء اللہ امرتسری کی سوانح سیات مرتبہ مولانا عبدالمجید سوہدروی - ما شر الکتاب انٹر نیشنل جامعه نگر نئی دہلی ۲۵ ۲۳۶ ۲۴ ۲۵ ) مولوی ثناء اللہ امرتسری کے انجام کا ہمیں ذکر کر نے کی ضرورت نہیں خودان کے پنا ہنے والوں نے ہی اُن کا رونا روایا ہے.ذرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی
پیش گوئی پڑھیں اور جماعت کی ترقی پر ایک نظر کریں اور پھر ان لوگوں کی سوانح حیات اور انجام پر غور کریں تو عبرت کا درس ملتا ہے.مخالف خود ہی اپنی تحریکات کو سمیٹتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے بعد میں اُٹھنے والوں کا انجام ہماری آنکھوں کے سامنے ہے خواہ وہ عیدی امین ہو یا شاہ فیصل، ذوالفقار علی بھٹو ہو یا پھر جنرل ضیاء الحق کوئی بھی وجود کسی تبصرے کا محتاج نہیں.قارئین جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ہادی آیا تو مخالف تنظیموں نے تن من دھن سے اسکی مخالفت کی اور پیسے کو پانی کی طرح بہا یا قرآن کریم سورۃ الانفال آیت نمبر ۳۷ میں اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے.مخالف مال کو خرچ کرتے پھر صرت کرتے اور تاسف کرتے ہیں یہی نقشہ جماعت احمدیہ کے مقابل پر جماعت کے مخالفین کا ابھرا ہے.جس کا ذکر خود مخالف علماء اکثر کہتے ہیں جبکہ حال ہی میں سعودی گزٹ نے بڑی حسرت اور تاسف سے ایک مضمون شائع کیا.مخالفین کی حسر میں اور جماعت کی ترقی مخالف علماء جماعت کی ترقی کا ذکر کرتے ہیں پھر اپنی سرگرمیوں پر تاسف کہتے ہیں.تحریک دیو بند جور ڈینگیں مارنے میں اول نمبر پر جانی جاتی ہے.اور اُن کا دعوی ہے کہ احمدیت کی مخالفت کا بیٹا ہم ہی نے اٹھا رکھا ہے اُن کا تاسف دیکھیں لکھا ہے.امریکہ کی چار ریاستوں میں ان کے 4 مشن کا ہم کرتے ہیں، ان کی چودہ عبارت گا ہیں ہیں.تین مذہبی مدرسے ہیں اور پانچ اخبارات در سائل وہاں سے شائع کئے جاتے ہیں.یورپ کے ملکوں میں کینیڈا ، انگلینڈ سوئٹزر لینڈ، جرمنی، ڈنمارک، سویڈن ، نامردے، بلجیئم، اسپین اور اٹلی میں ان کے ۲۴ مشن ۱۳ عبادت گا ہیں.دو مذہبی مدرسے مصروف کار ہیں اور ۹ اخبارات و رسائل جاری ہیں.مشرق وسطیٰ میں فلسطین، شام لبنان، عدن، مصر، کویت، بحرین، مسقط دبئی اور اردن میں دس مشن چار عبادت گاہیں ایک مدرسہ ہے اور ایک ماہ وار رسالہ "البشری"
عربی زبان میں شائع ہوتا ہے.مشرقی افریقہ کی ریاستوں میں کینیا تنزانیہ، یوگنڈا ، زامبیا، اور وسطی افریقہ میں کل ۲۶ مشن اے عبادت گا ہیں اور پانچ مذہبی مدارس ہیں پانچ رسالے اور اخبارات جاری ہیں.سب سو سے زیادہ زور مغربی افریقہ پر لگایا گیا ہے وہاں نائیجریا، گھانا، سیرالیون گیمبیا ، آئیوری کوسٹ لائبیریا ، ٹوگور لینڈ، نائیجر، بیتین اور صومالیہ میں ۲۳۷ مشن ۲۰۱۹ عبادت گاہیں ۱۵۴ مذہبی مدر سے اور ۲۵ ہسپتال ہیں اور چار اخبارات و رسائل شائع کئے جاتے ہیں.مشرق بعید میں انڈونیشیاء.ملیشیا، مجھی آئی لینڈ، جاپان ، فلپائن ، جنوبی افریقہ میں کیپ ٹاؤن میں سے مشن اور ۱۳۷ عبادت گا ہیں اور پانچ مدر سے ہیں اور چھ اخبارات ورسائل شائع ہوتے ہیں ، مشرق بعید میں سب سے زیادہ کامیابی ان کو انڈو نیشیا میں حاصل ہوئی ہے جو ایک مسلمان ملک کہا جاتا ہے، صرف انڈونیشیا ہیں ۳۰ مشن مصروف کار ہیں اور ۱۱۵ عبادت گاہیں اس کے مختلف شہروں میں موجود ہیں.اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ قادیانیت کی تبلیغ میں کتنی منتظم اور کتنی بڑی فوج لگی ہوئی ہے.اور یہ ساری فوج حرف امت اسلامیہ پر حملہ آور ہے اور اس کی مدافعت میں کوئی مستحکم تنظیم 1991 ہماری نگاہوں میں نہیں ہے جو اس زہر کا تریاق بہم پہنچائے" (دارالعلوم دیو بند احیاء اسلام کی عظیم تحریک تالیف مولانا امیر آدرونی با تمام وحیداله مان کیرانوی وارا لمولفین، دیو بندیو - پی انڈیا ص۱۹ ۱۹۹ طبع اول ۱۹۹۱ء) ایک طرف بلند بانگ دعوئی کہ ہم نے احمدیت کو پچھاڑ دیا اور ہر میدان میں شکست نے دی اور دوسری طرف یہ حسرت کہ ہمارے نظام کو اس بجھات کا مقابلہ کرنے کی طاقت ہی نہیں اور ہمارے پاس وہ تریاق ہی موجود نہیں.یہی قاطع دلیل ہے کہ یہ درخت کسی حکومت کے ہاتھ کا لگایا ہوا نہیں بلکہ
۶۴ خدائے قادر و توانا کے ہاتھ کا لگایا ہے اور خدا کے درخت کو دنیا کی کوئی طاقت اکھاڑ نہیں سکتی.الكفر ملة واحدة | مدوسری بات قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی کہ خدا تعالٰی کا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ خبیث کو طبیب سے الگ کر دے پھر خدا تعالیٰ خبیث کہ ایک جگہ اکٹھا کر کے ایک ڈھیر کی مانند کر دیتا ہے.تاکہ اُس ڈھیر کو جہنم میں ڈال دے.دراصل یہ الکفر ملة واحدة کی طرف اشارہ ہے کفر ایمان کے بالمقابل ملة واحدہ بن جاتا ہے.آپ کسی نبی کے دور کو بھی دیکھیں نبی پر ایمان لانے والوں کے مقابل پر کفر ہمیشہ سے ملة واحد بنا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعوی فرمایا اور چند لوگ آپ پر ایمان لے آئے تو آپ کے مقابل پر کفر ملت واحدہ بن گیا وہ دل جو آپس میں پھٹے ہوئے تھے وہ ایمان کے بالمقابل اکٹھے ہو گئے.یہی خیلیت تھا جو ایک پر ایک رکھا گیا اور ایک ڈھیر کی مانند ہو گیا جس کے جہنم میں ڈالے جانے کا وعدہ ہے بشرطیکہ وہ حق کو قبول نہ کریں.ہاں اگر حق کو قبول کر لیں گے تو خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اُن کو معاف کر دے گا لیکن اگر مومنوں کے مقابلہ میں کفر کر نے والوں کی صف اب کھڑے ہوں گے تو ان سے وہی سلوک ہوگا جو اس سے پہلوں کے ساتھ ہو چکا ہے.* خدا تعالٰے اسی بات کو ایک اور جگہ بیان فرماتا ہے کہ :- ا فَمَن كَانَ عَلى بَينَةٍ مِّنْ رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ وَ مِنْ قَبْلِهِ كِتَبُ مُوسَى إِمَا مَا وَ رَحْمَةٌ أولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَنْ يَكْفُرُ به مِنَ الأَحْزار نَا النَّارُ مَوْعِدُهُ فَلَاتَكَ فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ وَ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ شَريكَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ (سوره سود آیت : ۱۸) ترجمہ :.یعنی پس کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر
۶۵ (قائم) ہے اور جس کے پیچھے بھی اس کی طرف سے ایک گواہ آئے گا جو اس کا فرمانبردارہ ہو گا) اور اس سے پہلے بھی موسی کی کتاب (آچکی) ہے (جو اس کی تائید کر رہی ہے اور ) جو ر اس کے کلام سے پہلے) لوگوں کے لئے امام اور رحمت تھی ایک چھوٹے مدعی جیسا ہو سکتا ہے) وہ (یعنی موسیٰ کے سچے پیرو) اُس پر (ایک دن ضرور ایمان لے آئیں گے اور ان مخالف گروہوں میں سے جو کوئی انکار کرتا یر ہے گا، دوزخ اس کا موعود ٹھکانا ہے پس راے مخاطب) تو اس کے متعلق کسی قسم کے شک میں نہ پڑ.وہ یقیناً حق ہے (اور ) تیرے رب کی طرف سے (ہے) لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے.قرآن کریم کی یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی صداقت پر تین زبانوں کی شہادت بیان کہ یہ ہی ہے ماضی میں حضرت موسی علیہ السلام کی گواہی.حال میں خود حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے روشن نشان اور مستقبل میں ایک گواہ کیے آنے کی پیش خبری دے رہی ہے کہ وہ اگر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر گواہی دے گا.خدا تعالے نے اپنی سنت کو اس جگہ بھی یاد کروایا ہے کہ اس آنے والے کے مخالف گروہوں میں سے جو کوئی بھی انکار کرے گا اس کا ٹھکانا آگ ہو گی.اس سے مراد حضرت محمد مصطفے صل اللہ علیہ سلیم کا انکار کرنے والے اول نمبر پر ہیں پھر آنے والے کا انکار کر نے والے بھی اسی گر وہ میں شامل ہوں گے جن کا ٹھکانا آگ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آخر فی زمانہ میں پیدا ہو نے والے گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:- " وَعَنْ عَبْدِ اللهِ ابْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صلی الله : عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَا تِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي كَمَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حد والتَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أتى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لكَانَ فِي أُمَتَى مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَ إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ اُمّتى على ثلث
وَسَبْعِينَ مِلَّةَ كُلُّهُمْ فِي النَّارِ الَّا مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا مَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وامتحاني رواه الترمذي و و في رَوَايَةِ اَحْمَدُ وَالى داوَوَعَنْ مَعَاوِيَةَ بِنْتَانِ وَسَبعُونَ في النار و واحِدٌ لا فِي الجَنَّةِ وَهِيَ الْجَمَاعَةُ".مشکواۃ شریف عربی اردو تصنیف امام ولی الدین محمد بن عبد الله الخطیب رحمہ اللہ تعالیٰ متوفی ست و مترجم مولانا عبدالحکیم خان اختر شاہجہانپوری تصنیف شده اعتقاد پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی طبع بار اول ضروری ۱۹ م ) ترجمہ : یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت پر بھی ایسے وقت آئیں گے جیسے بنی اسرائیل پر آئے تھے اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک جوتا دوسر کے برابر ہوتا ہے.یہاں تک کہ اگر کوئی نبی اسرائیل میں سے اپنی ماں کے پاس علانیہ طور پر گیا ہو گا تو ایسا ہی میری امت میں بھی ہوگا.اور بے شک بنی اسرائیل میں بہتر فرقے ہوئے تھے پس میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی جو ما سوا ایک کے سب کے سب جہنمی ہوں گے سرکار سے دریافت کیا گیا کہ وہ فرقہ کون سا ہے سرکار نے فرمایا جس پر میں اور میرے صحابی ہیں یہ روایت ترنزی نے کی ہے لیکن احمد اور ابو داؤد کی روایت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے اس طرح منقول ہے.بہتر دوزخ میں ہوں گے اور ایک جنت میں اور وہ باہ یافتہ جماعت ہوگی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی یہ حدیث قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیت کی صاف اور واضح تفسیر پیش کرتی ہے.قرآن کریم کی آیت میں ہے کہ فمن یکفر من الاحزاب فالنار موعدہ یعنی ان گروہوں میں سے یا فرقوں میں سے جو کوئی بھی انکار کر ے گا اس کا ٹھکانہ آگ ہوگی.اور حدیث کے الفاظ بھی یہی نہیں کہ بہتر آگ میں جانے والے ہیں اور لازمی بات یہ ہے کہ انکار کر نے والے ہی آگ میں جائیں گے جبکہ ایمان لانے
ر ایک والوں سے تو انعام کا وعدہ ہے اور حدیث میں نجات یافتہ گروہ کے متعلق لکھا ہے کہ ما انا علیہ و اصحابی اور وھی الجماعت کہ وہ میرے اور میرے صحابہ کی طرح سے ہوں گے.اور دوسری نشانی بتائی کر دہ ایک جماعت ہو گی.ایمان لائیں گے تو ہی صحابہ میں شامل ہوں گے اور ایمان لانے والا گر وہ صرف یہ ہو گا وہ بھی جماعت کی صورت میں.فی زمانہ جتنے بھی فرقے پائے جاتے ہیں اُن میں سے ہر فرقہ اپنے آپ کو جنتی بیان کرتا اور دوسروں کو جہنمی بتاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ تمام فرقوں نے ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے دیئے ہیں جن کے نمونے آپ پڑھ چکے ہیں.اسی طرح سے ہر فرقہ اپنے آپ کو صحابہ کے قدم بقدم بیان کرتا ہے خواہ وہ کردار، اُن میں ظاہر ہوں یا نہ ہوں گذشتہ صفحات میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ جو شخص کسی کو کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو جسے کافر کہا جا رہا ہے تو پھر وہ کفر پلٹ کہ اسی پر پڑتا ہے اور کافر کہنے والا کا فر ہو جاتا ہے.اس کسوٹی کے مطابق تمام فرقے ایک دوسرے کو کافر کہہ کر کفر کی صف میں کھڑے ہو گئے یہاں پر لوگ ہے اعتراض کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ بھی تو دوسروں کو کافر سمجھتی ہے.تو وہ خود کون ہے انور کا جواب یہ ہے کہ بانی جماعت احمدیہ نے کسی کو کافر نہیں کہا.دوسرے فرقوں کے علماء نے جب آپ پر کفر کے فتوے لگائے تب آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہی ارشاد دہرایا اور آپ نے فرمایا کہ جب میں خدا کے فضل سے کافر نہیں تو حید نماز روزہ زکواۃ حج پر خدا رسول فرشتوں کتابوں قیامت اور خیر و شر پر میرا ایمان ہے تو پھر میں کسی طرح کا فر ہوا چونکہ آپ نے مجھے کافر کہا جبکہ میں کافر نہیں تو یہ کفر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں پلٹ کہ آپ پر پڑا اور آپ لوگ اپنے ہی قول ہے کافر ٹھہرے.دوسری بات یہ ہے کہ مومن اور کا فریمیں کون سی بات امتیاز کرتی ہے ؟ صرف ایمان - آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پیش گوئی موجود ہے کہ آخری زمانہ
۶۸ میں امام مہدی علیہ اسلام ظہور کریں گے اُن پر ایمان لانا فرض ہے تو جو لوگ ایمان لے آئے وہ کافر کیسے ہوئے.کافر تو وہ ٹھہریں گے جو انکار کرتے ہیں.جب ہم ان علماء سے پوچھتے ہیں کہ چلو اگر تھوڑی دیر کے لئے ہم یہ مان لیں کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام وہ امام مہدی نہیں جس کے آنے کی پیش گوئی ہے تو اگر ان کی جگہ کوئی اور امام مہدی آ جائے جس کو آپ لوگ سچا تسلیم کرتے ہوں تو یہ بتائیں کہ اس سچے امام مہدی کا انکار کر نے والا آپ لوگوں کے ننہ دیک کون ہو گا.مومن یا کافر ؟ تو جواب ہوتا ہے کہ کافتاب سوال تو صرف شخصیت کا ہے اس بات میں تو تمام فرقے والے متفق ہیں کہ سچے مہاری کا انکار کرنے والا لازما کافر ہے.تو جماعت احمدیہ اگر دوسروں کو کافر سمجھتی بھی ہے تو وہ صرف اسی لئے کہ انہوں نے ایک سچے امام مہدی اور مسیح موعود کا انکار کیا ہے اسی طرح سے جماعت احمدیہ نے کبھی بھی کسی خاص فرقہ کے خلاف کوئی کفر کا فتوی نہیں دیا.جیسا کہ دیگہ فرقے فتوے دیتے آئے ہیں اور دیتے ہیں.ہمارے نزدیک تمام فرقوں میں سے جو بھی اس سچے امام مہدی کا انکار کر دے (جسے ہم سچا مان رہے ہیں اور دہ سچا ہے) ایک ہی صف میں شمار کر تے ہیں لیکن اسلام سے خارج نہیں کہتے.مسلمان کی تعریف کیا ہے ؟ | جاعت احمدیہ کا جہاں سوال آتا ہے تو نام فرقوں کے لوگ اکٹھے ہو کہ اس بات کا اعلان کر تے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا فر ہے اور بے دین حتی کہ اسلام سے خارج.اس بات کو میں آگے بیان کروں گا کہ اس میں خدا تعالی کی طرف سے کیا راز پوشیدہ تھا.لیکن میں اس وقت اس بات کو بیان کرنا چاہتا ہوں کہ آخر ایک مسلمان کی تعریف کیا ہو گی.کیسے جانا جائے کہ یہ سلمان ہے اور یہ کافر اس پر علماء کی آراء کیا میں سب فرقوں کے علماء کسی ایک بات متفق ہیں یا پھر اس میں بھی اختلاف رکھتے ہیں.پاکستان میں ۱۹۵۳ء میں فساد پھوٹ پڑا جس میں مطالبہ یہ تھا کہ جماعت پر
۶۹ احمدیہ کو غیر مسلم قرار دیا جائے.چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب اور دیگر احمدیوں کو کلیدی عہدوں سے بر طرف کیا جائے دیغیرہ اس میں سیاست کا بھی ایک خاص حصہ تھا بہر حال ان فسادات کے بعد فسادات کی انکوائری کے لئے منیر انکوائری کے نام سے ایک کمیش مقرر ہوا اس میں مختلف علماء کو بھی بیان دینے کیلئے اور انکوائری کے لئے طلب کیا گیا اس وقت ایک سوال یہ بھی اٹھا کہ مسلمان نے کی تعریف کیا ہے؟ ہر فرقے کے عالم نے اپنے اپنے رنگ میں مسلمان کی تعریف کی اور کوئی بھی مسلمان کی تعریف بیان کر نے میں دوسرے سے متفق نہ ہوسکا.خاص طور پر اس حصہ کو میں یہاں درج کرتا ہوں تاکہ قارئین اندازہ کر سکیں کہ کافر کافر کہنے والوں کے نزدیک مسلمان کون ہے ؟.سوال ہوا.مسلم کی کیات ہے ؟ جواب مولانا ابوالحسنات قادری صاحب ا.اُسے توحید پر ایمان ہو ۲ اسے پیغمبر اسلام و نیز ان سے قبل کے تمام انبیا پر ایمان ہو.۳.اسے پیغمبر اسلام کے خاتم النبیین ہونے پر ایمان ہو.۴.اسے قرآن پر ایمان ہو جس طرح خدا نے محمد پر نازل کیا ہے وہ رسول کے احکامات پر ایمان رکھتا ہو.۶.اسے قیامت پر ایمان ہو." - - - - سوال کیا تارک صلواۃ مسلمان ہے ؟ جواب : " ہاں.لیکن منکر صلواۃ نہیں.مولانا احد علی، صدر جمیعۃ العلمائے اسلام، مغربی پاکستان نے اس سوال کا حسب ذیل جواب دیا.ایک شخص مسلمان ہے اگر وہ اس قرآن پر ایمان رکھتا ہے.۲.جو کچھ رسول نے کہا ہے اگر کوئی شخص ان دو باتوں کو مانتا ہے تو وہ ان کے علاوہ کسی دیگر شے پر ایمان لائے یا کچھ کئے بغیر مسلمان کہلائے گا " سوال:- " مسلمان کی تعریف بیان کیجئے
مولانا ابو اعلیٰ مودودی !" ایک مسلم ہے اگر وہ ان چیزوں پر ایمان رکھتا ہو.ا توحید - ۲.تمام انبیا ئے کرام.۳.خدا کی بھیجی ہوئی ساری کتابیں ۴.ملائکه - ۵- یوم آخرت" سوال : کیا محض ان چیزوں پر اپنے ایمان کا اقرار کر کے ایک شخص مسلمان کہلائے اور اسلامی ریاست میں مسلمان کا سا برتا نہ کئے جانے کا مستحق ہے؟" جواب : "ہاں".سوال اگر ایک شخص کہتا ہے کہ دو ان چیزوں پر ایمان رکھتا ہے تو کیا کسی کو اس کے ایمان پر اعتراض کر نے کا حق ہے " جواب میں نے جو پانچ صفات بتائی ہیں وہ بنیادی ارکان ہیں اور ان میں سے کسی ایک میں رد و بدل کرے ہے ایک شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا.غازی سراج الدین صاحب نے فرمایا میں اس شخص کو مسلمان سمجھتا ہوں اگر وہ کلمہ پر اپنے ایمان کا اقرارہ کز سے یعنی لا اله الا الله محمد رسول اللہ اور رسول کے نقش قدم پر چلتا ہو یا مفتی محمد ادریس جامعہ اشرفیہ نیلا گیند لاہور نے فرمایا :- را لفظ مسلمان فارسی زبان سے ماخوذ ہے لفظ مسلمان (جو فارسی میں سلم کے لئے استعمال ہوتا ہے) اور مومن میں فرق ہے میرے لئے لفظ مومن کی تعریف بیان کرنا نا ممکن ہے مجھے اس کی تعریف کرنے میں کئی صفحات درکار ہوں گے.ایک شخص مسلمان ہے اگر وہ اللہ کا مطیع ہے.اسے توحید انبیاء اور یوم آخرت پر ایمان رکھنا چاہیئے.ایک شخص جو اذان اور قربانی پر یقین نہیں رکھتا دائر اسلام سے خارج سمجھا جائے گا.اسی طرح بے شمار دیگر چیزیں ہیں.جو ہمارے نبی سے تواتر کے ساتھ موصول ہوئی ہیں مسلمان ہونے کے لئے اُن تمام چیزوں پر ایمان ضروری ہے.میرے لئے اُن کی مکمل فہرست دینا نا کن ہے." حافظ کفایت میں ادارہ حقوق تحفظ شیعہ فرماتے ہیں :.
ایک شخص مسلمان کہلانے کا مستحق ہے اگر وہ ۱.توحید ۲.نبوت ۳.قیامت پر ایمان رکھتا ہو.یہ تین بنیادی عقائد ہیں جن پر ایمان لانا مسلمان کے لئے ضروری ہے ان تین بنیادی ارکان پر شیعوں اور سنیوں میں کوئی فرق نہیں ہے.ان تین عقائد پر ایمان کے علاوہ مسلمان ہونے کے لئے دیگر چیزوں پر جسے ضرورت دین کہتے ہیں ایمان لانا ضروری ہے.مجھے اُن کے بیان کرنے اور شمار کر نے میں دو دن درکا ہوں گئے لیکن مثال کے طور پر میں اتنا کہوں گا کلام پاک کا احترام، وجوب نماز، وجوب روزه، وجوب حج شریعت اور دوسری چیزیں جو بے شمار ہیں ضرورت دین میں داخل ہیں.مولانا عبد الحامد بدایونی کا ارشاد ہے :- ایک شخص جو ضرورت دین پر ایمان رکھتا ہے مومن کہلاتا ہے اور ہر رومین مسلمان کہلانے کا مستحق ہے." سوال :.ضرورت دین کیا ہے ؟ جواب : جو شخص اسلام کے پانچ ارکان پر ایمان رکھتا ہے اور رسالت پر : ایمان یہ کھتا ہے ضرورت دین پوری کرتا ہے." سوال:.کیا پانچ ارکان کے علاوہ دوسرے اعمال ایک شخص کے مسلمان ہوتے یا دائرہ اسلام سے خارج ہونے پر اثرانداز ہو سکتے ہیں ؟؟ ر مولانا کو بتایا گیا کہ اعمال سے مراد وہ اخلاقی اصول ہیں جسے دور حاضر کے معاشرہ میں صحیح تسلیم کیا جاتا ہے) جواب : " يقيناً." سوال :.پھر کیا آپ ایسے شخص کو مسلمان نہیں کہیں گے جو ارکانِ خمسہ اور رسالت پر ایمان رکھتا ہے.لیکن دہ دوسروں کی چیز چراتا ہے اس کے حوالہ کی ہوئی جائیداد غصب کرتا ہے اپنے پڑوسی کی بیوی پر بری نظر ڈالتا ہے اور اپنے محسن سے احسان فراموشی کا مرتکب ہوتا ہے.
جواب اگر ایسا شخص بیان کی ہوئی چیزوں پر ایمان رکھتا ہے تو وہ ان سب کے باوجود مسلمان کہلا ئے گا.مولانا محمد علی کاندھلوی دروش شہائبہ، سیالکوٹ نے کہا :- " جو شخص رسول کے حکم کے مطابق ضروریات دین پر عمل کرے وہ مسلمان ہے سوال : " کیا آپ ضروریات دین بیان کر سکتے ہیں ؟" جواب : " ضروریات دین وہ لوازمات ہیں.جو ہر مسلمان کو بغیر دینی علم کے معلوم ہیں ؟ سوال : " کیا آپ ضروریات دین کا شمار کر سکتے ہیں" جواب :.وہ اتنی ہیں کہ ان کا شمار کرنا دشوار ہے میں خود ان ضروریات کا شمار نہیں کر سکتا چند ضروریات کا ذکر کیا جاسکتا ہے مثلاً صلوۃ و صوم وغیرہ ؟ قارئین علماء کے ان بیانوں کو پڑھیں جو بیان انہوں نے مسلمان کی تعریف میں دیتے ہیں کسی در علماء میں بھی اتفاق رائے نہیں ہے.اس جگہ اگر ہم اپنی تعریف وضع کرنے کی کوشش کریں جیسے کہ ہر عالم نے کی ہے تو ہم متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج ہو جائیں گے کیونکہ وہ دوسروں کی تعریف سے ٹکرائے گی اور اگر ہم کسی ایک عالم کی بیان کی ہوئی تعریف کو اپنا تے ہیں تو پھر ہم دوسرے علماء کی نظر میں کافر ہیں.یہی وجہ ہے کہ اس انکوائری میں ججز نے علماء کی ان مختلف الرائے کو سن کر اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا." اسلام کیا ہے اور مسلم یا مومن کون ہے ؟....ہم نے یہ سوالات علماء سے پوچھے...ہیں انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ علماء جن کا فرض اولین ہے کہ ان مسائل پر قطعی اور واضح رائے رکھتے آپس میں مختلف الرائے تھے" (منیر انکوائری رپورٹ) مسلمان کی تعریف پر علماء کا ایک رائے پر جمع نہ ہونا حیرت انگیز ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کس قدر آسان اور عمدہ تعریف بیان فرمائی ہے آپ فرماتے ہیں :- مَن صَلَى صَلاتَنَا وَ اسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَ أَكَلَ ذَبِيحَتَنَا
نذلِكَ المُسلِمُ الَّذِى لَهُ خِمَّةُ اللهِ وَخِمَّةٌ رَسُولِ اللهِ فَلَا تَغْفِرُوا اللهَ فِي ذِمَّتِهِ - ۵۶ ( بخاری کتاب الصلواۃ باب فضل استقبال القبلة م) ترجمہ : یعنی جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے اور اس میں ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے، ہمارا ذبیحہ کھائے وہ مسلمان ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول نے.نے کا ہے پس اللہ کی ذمہ داری کی بے حرمتی نہ کرو.اُسے بے اثر نہ بناؤ اور اس کا وقار نہ گراؤ.علماء جس قسم کی چا ہیں مسلمان کی تعریف بیان کریں چاہے وہ ایک دوسرے کے خلاف بھی ہوں تب بھی یہ لوگ مسلمان رہتے ہیں اور احمدی خواہ تمام ارکان اسلام پر عمل کر تے ہوں یا ارکان ایمان پر ایمان رکھتے ہوا در شریعت اسلام کے پوری طرح پابند ہوں قرآن کریم کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کر تے ہوں پھر بھی ان مختلف اللہ نے علماء کے نزدیک مسلمان نہیں کہلا سکتے جماعت کو مسلمانی سے نہیں اسلام سے خارج بیان کرتے ہیں ہمارے عقائد کیا ہیں ہمارا ایمان کیا اس کو میں اس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی تحریر میں پیش کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :- " جن پانچ چیزوں پر اسلام کی بناء رکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے اور جس خدا کی کلام یعنی قرآن کو پنجہ مارنا حکم ہے ہم اس کو پنجہ مار رہے ہیں اور فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح ہماری زبان پر حسبنا کتاب الله ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح اختلاف اور تناقض کے وقت جب حدیث اور قرآن میں پیدا ہو.قرآن کو ہم ترجیح دیتے ہیں بالخصوص قصوں میں جو بالاتفاق نسخ کے لائق بھی نہیں ہیں.اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سید نا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشرا جہا د حق اور روز حساب
LN حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ کیم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے.اور ہم ایما نے لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا ایک ذرہ زیادہ کرے یا ترکب فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے.اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کہتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں لا اله الا الله محمد رسول الله اور اسی پر مریں اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں اس جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ان سب پر ایمان لاویں اور صوم اور صلاۃ اور زکواۃ اور حج اور خدا تعالئے اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں.غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالحین کا اعتقادی اور عملی طور پرا جماع تھا.اور وہ امور جواہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں.ان سب کا ماننا فرض ہے اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے اور جو شخص مخالف اس مذہب کے کوئی اور الزام ہم پر لگاتا ہے وہ تقویٰ اور دیانت کو چھوڑ کر ہم پر افتراء کرتا ہے.اور قیامت نہیں ہمارا اس پر یہ دعوی ہے کہ کب اس نے ہمارا سینہ چاک کر کے دیکھا کہ ہم با وجود ہمارے اس قول کے دل سے ان اقوال کے مخالف ہیں.الا ان لعنة الله عَلَى الْكَاذِبَيْنَ والمفترين " د ایام صلح ص ۹۸۷۹ روحانی خزائن جلد ۱۴ ص ۳۲۴۱۳۲۳) مسلمان کون ہے کون نہیں اس کی بحث پہلے بھی گزر چکی ہے.کوئی عالم تو مسلمان ہونے کے لئے صرف اس کے مسلمان ہو نے کا اقرار کر نا ہی کافی سمجھنا ہے اور کوئی عمل کو ساتھ ملاتا ہے.جماعت احمدیہ میں شامل لوگ اقرار بالسان
کے ساتھ ساتھ اقرار بالعمل بھی کرتے ہیں اور بار بار کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونے کا اعلان کرتے ہیں لیکن حیرت ہے کہ انہیں پھر بھی مسلمان تسلیم نہیں کیا جاتا زیادہ ہی زور دیں تو جواب یہ ہوتا ہے کہ دل سے نہیں پڑھتے.اس کا جواب تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی دیا تھا جب اسامہ نے ایک شخص کو گرایا اور اس نے کلمہ پڑھا لیکن پھر بھی یہ سمجھ کر کہ ڈر کر پڑھ رہا ہے دل سے نہیں اُسے قتل کر دیا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.أَفَلَا تَقْتَ عَنْ قَلْبِ حَتَّى تَعْلَمَ أَنَا لَهَا ام لا ؟ بخاری تا با تعاری کہ تو کیوں نہ تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا کہ اس نے دل سے کہا ہے یا نہیں.اس لئے اس بات پر فتویٰ دینے والا سوائے خدا کے اور کوئی نہیں کہ کلمہ پڑھنے والا دل سے پڑھتا ہے یا نہیں بہر حال جو کلمہ پڑھے وہ لاز ما مسلمان ہے بلکہ جیسا کہ آپ پڑھ چکے کہ خدا اس شخص کو بھی اپنے آپ کو مسلمان کہنے کی اجازت دیتا ہے جس کے دل میں ایمان داخل نہ ہوا ہو.کاف سے مسلمان ہونا کیسے ؟ : آج کے زمانہ میں جب کفر کے فتوے دے کر کسی کو اسلام سے خارج کر دیا جاتا ہے تو پھر دوبارہ اس کو اسلام میں داخل کرنے کا طریق کیا ہے یہی تو ہے کہ وہ پھر سے کلمہ پڑھے بس وہ مسلمان ہو گیا.ہمارے اشد ترین علماء کے ساتھ بھی نجب یہی سلوک ہوا جودہ ہمارے ساتھ کرتے ہیں تو انہوں نے دوبارہ اپنے آپ کو مسلمان بنانے اور ثابت کرنے کے لئے کیا گیا ؟ ملاحظہ فرمائیں لیکن اگر ہم بنی عمل جو انہوں نے دہرا یا دہرائیں تو بھی ہم مسلمان نہیں ہوسکتے یہ کیسی منطق ہے بس اس کو ملا کی محفل ہی جائے.سیرة تنالے میں لکھا ہے :- " ایک بار آریوں سے مناظرہ تھا.آریہ مناظر کو جب پتہ چلا کہ تم متقابل ثناء اللہ ہے تو اس کے چھکے چھوٹ گئے.مگر وہ بہت ہوشیار تھا اور چاہتا تھا کہ کسی طرح مولینا ثناء اللہ کی نہ د سے نیچے جائے.اور ان کی
24 ایسی تو ہین ہو کہ ان کا جی کھٹا ہو جائے.اس لئے اُس نے چھوٹتے ہی کہا." آج ہمارا مقابلہ مسلمانوں سے تھا.مگر افسوس کہ اب مسلمانوں کے پاس کوئی عالم نہیں رہا اور انہوں نے ہمارے مقابلہ میں ایک ایسے شخص کو کھڑا کیا ہے.جو بجائے خود کا فر ہے.اور اس کے بھائیوں ہی نے اس پر کفر کا فتویٰ لگا رکھا ہے.چنانچہ یہ دیکھئے میرے پاس وہ فتادی موجود ہیں جو مولوی ثناء اللہ پر علماء نے لگا رکھے ہیں......ابھی یہ کہہ ہی رہا تھا کہ مولینا ثناء اللہ اٹھے اور فرمایا." مہاشے جی گھبرائیے نہیں، آج ثناء اللہ آپ کو چھوڑے گا نہیں.مان لیا کہ ثناء اللہ کا فر ہے.مگر آپ کو معلوم ہے کہ جب کوئی کافر دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہے تو وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتا ہے.لیجئے ثناء اللہ آج کلمہ شہادت أَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ ان مُحمد رسُول اللہ پڑھ کر مسلمان ہو رہا ہے.کیا اب بھی اس کے اسلام میں کچھ شک ہے ؟ مسلمان کی ایک نشانی ختنہ بھی ہے جس متعلق اکبر الہ آبادی نے کہا ہے.ہے بوقت ختنہ جو میں چیخا تو نائی نے کہا نہیں کہ مسلمانی میں طاقت خون ہی بہنے سے آتی ہے خدا کے فضل سے وہ نشانی بھی یہاں موجود ہے اگر شبہ ہو تو.کیا اب بھی میرے اسلام میں آپ کو شبہ ہو سکتا ہے ؟ " دسیرت ثنائی از مولانا عبد المجید خادم سو بار روی الکتاب انٹر نیشنل جامعه نگر نئی دہلی ۲۵ اشاعت اول مئی ۱۹۸۹ء ص١٩٧١١٦٦.1447194 ٹھیک ہے ثناء اللہ صاحب آپ کے اسلام میں تو بقول آپ کے کوئی شک نہیں لیکن احمدی ہمیشہ ہی یہ اعلان شہادت کرتے رہے لیکن آپ کے دل میں اُن کے اسلام کے بارے میں ہمیشہ شک رہا بلکہ زور اس بات پر ہے کہ کلمہ پڑھیں روزے رکھیں خواہ سارے احکام اسلام پر عمل کریں لیکن پھر بھی یہ مسلمان نہیں اور واجب القتل
مان بھی ہیں جہاں اپنا نام آیا تو پیمانہ اپنے مطلب کا اور جہاں دوسرے کا نام آیا تو پیمانہ بدل گیا.کیا یہی ہے ایمان اور یہی ہے اسلام ؟ پاکستان میں غیرمسلم قرار دینے کا عمل سیاسی میدانوں کے فرقے، اپس میں ایک دوسرے کو کا فر تو کہتے ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ تمام فرقوں نے مل کہ کسی ایک فرقہ کو کافر کہا ہو.پاکستان جو فرقہ بندیوں کا گڑھ بن چکا تھا وہاں سے اس کی تاسیس کے چند ہی سالوں بعد ایسی آواز اُٹھنی شروع ہوئی اور علماء نے تمام فرقہ والوں کو جماعت احمدیہ کے خلاف اکٹھا کرنا شروع کر دیا کہ ٹھیک ہے ہم میں اور آپ میں اختلاف ضرور ہے لیکن جماعت احمدیہ تو ہم ساروں کے لئے خطرناک ہے اس لئے ہم سب کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا چاہیئے.پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مخالفت میں سیاست زیادہ اور مذہبیت کم تھی.جماعت کو غیر مسلم قرار دینے کے پیچھے علماء کا بھی ہاتھ تھا لیکن سیاست کا کھیل اس سے بڑھ کر اگر یہ بات میں خود کہوں تو شاید دوسرے خیال کریں کہ ایسی بات نہیں بلکہ یہ تو خالصہ مذہبی معالمہ تھا تو میں ہر دو پہلوؤں پر اس جگہ روشنی ڈالتا ہوں اور جماعت کو غیر مسلم قرار دیئے جانے کے واقعہ کے پس منظر کو پیش کرتا ہوں، اگرچہ مخالفین جماعت کے خیالات حقیقت کو پوری طرح آشکار نہیں کہ تھے.جہاں تک جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دیئے جانے کے پیچھے سیاست کا دخل تھا جس کا فائدہ علماء کہ جماعت کے خلاف ابھار کر حاصل کیا گیا اس کی تصدیق บ خود اُن کی کتب کے اس اقتباس سے بخوبی ہو جائے گی لکھتے ہیں.نوزائیدہ مملکت پاکستان میں بسنے والے علماء حق جو اپنی دینی بصیرت اور فراست مومن کی دولت سے مالا مال تھے اُن کی نگا ہیں پاکستان کے داخلی خلفشار کوتاہیوں اور کمزوریوں پر لگی ہوئی تھیں (داخلی یعنی سیاسی) وہ دیکھ رہے تھے کہ صدر کا سیکرٹری ایک قادیانی ہے، وزارت خارجہ پر ایک قادیانی کا قبضہ ہے، پاکستان کی فوجی طاقت پر نظر جاتی ہے تو ایک ٹکا خان کو چھوڑ
LA کر دس بارہ بڑے فوجی افسران سب کے سب قادیانی ہیں، اور حکومت کے تمام دفاتر میں اہم کلیدی عہدوں پر قادیانیوں کا تسلط ہے، ہر دفتر میں قادیانی چھائے ہوئے ہیں، حکومت کی پالیسی میں قادیانیوں کا بہت عمل دخل ہے اور اگر کچھ برسوں اسی طرح قادیانی حکومت کے دروبست پر قابض ہوتے چلے گئے تو وہ دن دور نہیں کہ جب ایک دن پاکستانی رات کو سو کر صبح اٹھیں گے تو معلوم ہوگا کہ مملکت خدا داد پاکستان کے دارالحکومت کے سب سے اونچے محل پر قادیانی جھنڈا لہرا رہا ہے.اور فوج کو تیار رہنے کا حکم دیا جا چکا ہے کہ جو شخص سراٹھائے اسے گولیوں سے بھون دو اب یہ قادیانی نبی کا دارالخلافت بن چکا ہے اور مرزا محمود اس خلافت کا سب سے پہلا امیر القادمین بن چکا ہے.(دارالعلوم دیو بند احیاء اسلام کی عظیم تحریک تالیف مولا نا امیر ادروی دار المولفین دیوبند یویی انڈیا ۲۶۶ ۲۶۷ طبع اول (۱) اس تحریر کو پڑھ کہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ۱۹۵۳ء میں جماعت احمدیہ کو غیرمسلم قرار دیئے جانے کی جو تحریک چلی تھی اس کے بیچے یہ سیاسی عمل تھا اور ان کا یہ خیال تھا کہ اگر جماعت کو غیر مسلم قرار دے کر ان کو کلیدی آنها میوں سے بر طرف نہیں کیا جاتا.تو پھر یہ لوگ جو تعلیم یافتہ ہیں اور حکومت چلانے کے اہل بھی ہیں یہ پاکستان پر گویا قالیض ہو جائیں گے اور اس کو قادیانی مملکت بنائیں گے.یہ چال جو سیاسی لحاظ سے چلائی گئی اور ے پاکستان میں شور ڈالا گیا کہ جماعت کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور انا کیلئے الگ سے قانون وضع کئے جائیں.۱۹۵۳ء میں یہ تحریک جس قدر زور سے اٹھی تھی اس قدر زور سے دبادی گئی اس یاسی چال کی باگ ڈور جن علماء نے اپنے ہاتھ میں لی جتنی اس میں نا کام ہو گئے لیکن، ان کے اندرو نے صاف نہیں ہوئے تھے بلکہ اندر ہی اندر ان کی ریشہ دوانیاں ہماری رہیں ان کے بعد ان علماء نے مختلف جگہوں پر میٹنگیں رکھیں اور جماعت کو غیر مسلم قرار دینے کے دوائی راہ ہموار کرنے کیلئے حکومت پر مختلف ذرائع سے دباؤ ڈالا غیر ممالک کے سر بر ہانی
69 سے رابطے کئے اپنے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :.پاکستان میں تو قادیانیت کی مہم کو کامیابی سے سرانجام دینے کا یہ مطلب نہیں رہ گیا تھا کہ ان کے مذہب کے باطل ہونے کا لوگوں کو صرف یقین دلایا جائے یا ان کو کتابوں، رسالوں اور اخبارات میں مرتد ہونے کا اعلان کر کے تھاموشی اختیار کر لی جائے ایک اسلامی حکومت میں حکومت کی سطح پر یہ منظور کر لیا جائے کہ قادیانی مسلمان اور نہ یہ سلمان کا کوئی فرقہ ہے بلکہ اسلام سے بالکل علیحدہ ایک مذہب ہے جس کا خدا جس کا نبی جسکی است سب مسلمانوں سے جدا گانہ ہے اور حکومت پارلیمنٹ ہیں بل بلا کر اس کو قانونی شکل دے دے کہ قادیانی پاکستان میں بسنے والی بہت سی قوموں میں سے ایک قدم ہے ، اور پاکستان کی ایک یفر مسلم اقلیت ہے جس کا مسلمانوں سے الگ ایک مذہب ہے.اس کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے.“.دارالعلوم دیو بند احیاء اسلام کی تعظیم تحریک ص۲۷۱ یہ وہ آواز تھی جو پاکستان میں سیاست کے کندھے پر سوار ہونے کے لئے علماء نے اٹھائی اور تمام فرقوں کے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش شروع ہو گئی.آگے چل کر یہی تحریک کئی مراحل سے گزرتی ہوئی جب ۱۹۷۴ ء میں داخل ہوئی تو انہوں نے جماعت کو غیر مسلم قرار دینے کا خواب پورا کیا.یہ بات تو بعد میں بیان کروں گا کہ آخر انہوں سے ایسا کر کے کیا پایا اور جماعت احمدیہ کی گندہ کے طور پر دنیا والوں کے سامنے ابھری میں اس جگہ قارئین کے ذہن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی طرف پھینا چاہتا ہوں میں میں آپنے فرمایا تھا کہ میری امت میں تہتر فرقے ہوں گے لیکن ان میں سے سوائے ایک کے سب کے سب جہنم میں جائیں گے.پھر قرآن کریم کی وہ آیات یاد کروانا چاہتا ہوں جو خاک رنے پچھلے صفحات میں درج کی ہیں کہ احتراب میں سے جو کوئی بھی اس کا انکار کرے گا اس کا ٹھکانہ آگ ہوگی.پھر وہ آیت کہ خدا ئیتعالی خبیث کو خبیث پر رکھ
کہ ایک ڈھیر بنا دے پھر اس سارے ڈھیر کو جہنم میں جھونک دے گاڈ پھر کون سا ہے اور پھر وہ جنتی گروہ کونسا ہے یہ بات خاص طور پر غور کے قابل ہے.اس گنتی کا رانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ اس تہتر فرقوں والی حدیث کے ما انا علیہ واصحابی.اور وھی الجماعۃ میں مضمر ہے.اس لئے اس جنتی گروہ کو جانتے اور پہچاننے کیلئے اس پر غور کرنا اشد ضروری ہے خاک اراب اس تعلق سے یہاں کچھ لکھتا ہے.جنتی فرقہ ایک جماعت ہوگئی مشکوة شریف ہی درست معایت جو ابو داؤد کے حوالے سے ہے میں میں وهي الجماعة کے الفاظ موجود ہیں اس کو میں پہلے لیتا ہوں.فرمایا : وفي رواية احمد و ابی داؤد عن معاوية ثنتان و سبعون في النار وواحدة في الجنة وهي الجماعة یعنی احمد اور ابو داؤد کی روایت ہے کہ حضرت معاویہ کی روایت ہے اس طرح منقول ہے.بہتر دوزخ میں ہو نگے اور ایک جنت میں اور وہ ایک جماعت ہوگی.جماعت کسے کہتے ہیں ایک جمع غفیر جماعت نہیں کہلا سکتا.اثر ھام کا نام توا سے دیا جا سکتا ہے لیکن جماعت نہیں اسکی آسان مثال اس طرح سے دی جاسکتی ہے کہ اگر ایک جگہ ایک لاکھ آدمی اپنی اپنی نماز ادا کریں تو باوجود کثرۃ الناس کے وہ یا جماعت نہیں کہلا سکتی لیکن اگر کسی جگہ تین آدمی ہوں اور ایک امام بن کر نماز پڑھائے تو وہ نماز با جماعت کہلائے گی اگو یا امام کے بغیر جماعت نہیں ہو سکتی امام ہو گا تو اس کی اقتدا کر نے والے جماعت کہلائیں گے.اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ امام کیا ہوا اور کون ہوا کی مساجد کے کام جن کو ناز پری اے کے لئے کھڑا کیا جاتا ہے وہ امام نہیں ہے تو اس کا جواب ہے کہ وہ نماز کا امام تو ضرور ہے لیکن قوم کا اہم نہیں پھر اس کا کوئی دعوئی نہیں اسے تو لوگ مقدر کہ تے اور جب چاہتے ہیں اسات سے خارج کر دیتے ہیں.لیکن حدیث میں جس جماعت کا ذکر ہے وہ ایک خدائی امام سے
> بندھی ہوئی ہے جسے خدا مقر رکھتا ہے اور تاحیات اسی مقام پر فائز رہتا ہے جیسا کہ انبیا علیہم السّلام اپنے زمانے کے امام کہلائے بعد میں خلفاء کی صورت میں اور پھر مجددین کی صورت میں وہ امامت امت مسلم میں قائم ودائم رہی اور امت مسلمہ ان کو وقت کا امام تسلیم کرتی چلی آئی.قرآن کریم نے بھی انبیاء علیہم السلام کا ذکر فرمایا اور کہا کہ : وَجَعَلَهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا (الانبیاء آیت (۳) یعنی اور ہم نے ان کو امام بنایا وہ ہمارے حکم سے انکو ہدایت دیتے تھے اس سے صاف ظاہر ہے کہ امام وہ ہو گا جو خدا کی طرف سے مقرر ہو اور اس امام کی تا بعداری میں لوگ جماعت میں شامل ہوں گے اس امام کے پیچھے کھڑے ہونے والے ہی جماعت کہلائیں گے.امام الزمان کی پہچان ضروری ہے.ان حضور میلہ علیہ سلم کی آنحضرت ایک حدیث ہے.آپ فرماتے ہیں :.وعن معادية قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من مات بغير امام مات ميتة الجاهلية".(مندام جلا) حضرت معاویہ سے روایت ہے کہ رسول اللہصل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو غیر نام کے گیا دہ جاہلیت کی موت مرا.اسی طرح ایک روایت اسطرح کی ہے کہ :- واخرجه احمد والترمذي وابن خزيمة وابن حبان وصححه من حديث الحارث الاشعري بلفظ من مات وليس عليه امام جماعة فان مونته موتة جاهلية - یعنی حارث اشعری کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کی جماعت کا کوئی امام نہ ہو تو یقیناً اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی اسی طرح شیعہ کتاب میں ایک حدیث ان الفاظ کی درج ہے کہ :
사 عن أحمد بن ادریس عن محمد بن عبد الجبار عن صفوان عن الفضيل عن الحرث بن المغيرة قال قلت لا لي عبد الله قال رسول الله من مات لا يعرف امامه مات مية جاهلية " یعنی احمد بن ادریس سے روایت ہے کہ اس نے محمد بن عبد الجبار سے اس نے صفوان سے اس نے فضیل سے فضیل نے حرث بن مغیرہ سے سنا کہ میں نے ابی عبداللہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص امام کے پہنچانے کے بغیر مر گیا وہ جاہلیت کی موت مرا.(کلینی ما کتاب اہل تشعیه ) امام الزمان کی پہچان کر تا اور اس کو قبول کر نا کس قدر ضروری ہے یہ بات مندرجہ بالا احادیث سے بخوبی ظاہر ہو جاتی ہے جس طرح امام الزمان کے بنا جماعت نہیں بن سکتی اسی طرح امام الزمان کو پہنچانے بنا جاہلیت کی موت ہے نجات حاصل نہیں ہو سکتی.بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس مضمون کی احادیث وضعی ہیں اس پر جناب شمس پیر زادہ صاحب نے بھی " موضوع اور ضعیف حدیثوں کا چلن نامی کتابچہ میں اعتراض اٹھایا ہے.اصل بات یہ ہے کہ ایسی باتیں اس وقت عام ہیں.پیرزادہ صاحب کو اعتراض یہ ہے کہ اس کی اصل حدیث میں نہیں ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جن کا اصل قرآن میں موجود ہو تو اس کو حدیث میں تلاش کرنے کی ضرورت ہی کیا قرآن احادیث پر حاکم ہے قرآن کریم کی بات کی یہ احادیث تائید کرتی ہیں امام کا ذکر جس طرح کہ احادیث میں ہے اسی طرح قرآن میں بھی ہے ملاحظہ فرمائیں يوم ندعوا كل انَّا سِ بَا مَا مِنهُمْ فَمَن أُوتِيَ كِتُبَهُ بِيَمِينِهِ - كَانَ في هذه أعلى نَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَ السلام کے بنی اسرائیل آیت ۷۲۴ ۷۳ ) ا انل سبيلاً
یعنی اور (اس دن کو بھی یاد کردم جس دن ہم ہر ایک گردہ کو ان کے امام (پیشوا) سمیت بلائیں گے پھر جن کے دائیں ہاتھ میں ان کے اعمال کی کتاب دی جائے گی وہ ربڑے شوق سے) اپنی کتاب کو پڑھیں گے اور ان پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا اور جو اس دنیا میں اندھا رہے گا وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا اور وہ سب سے بڑھ کر بھٹکا ہوا ہوگا.قرآن کریم کی یہ دونوں آیتیں امام الزمان کی ضرورت اور اس کی اہمیت کو کسی طرح وضاحت کے ساتھ پیش کر رہی ہیں اول بات یہ بتائی کہ اس دن یعنی قیامت کے دن ہم ہر ایک گروہ کو ان کے امام کے ساتھ پکاریں گے.اور وہ لوگ جو امام کے ساتھ پکارے جارہے ہوں گے.ان کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامے ہوں گے گویا کہ وہ کامیاب ہو گئے اور جنت میں جانے والے ہیں پھر وہ اس کو خوشی خوشی پڑھیں گے اور ایک ذرہ برا سر بھی ان پر ظلم نہیں ہوگا یہ برکت ہوگی امام الزمان کی شناخت کی اور اس سے تعلق جوڑنے کی.پھر وہ لوگ جو اس امام کی اس دنیا میں رہتے ہوئے شناخت نہیں کر تے ان کے بارے میں اگلی آیت ہی وضاحت پیش کر رہی ہے کہ چونکہ انہوں نے اس امام الزمان کو اس دنیا میں شناخت ہی نہیں کیا ہو گا اس لئے وہ اس کو شناخت نہ کر سکے اندھے نظر آئیں گے.اور شناخت نہ کرتا یہی جہالت ہے اور حدیث میں بھی یہی الفاظ ہیں کہ جس شخص نے بھی امام الزمان کو شناخت نہ کیا وہ جاہلیت کی موت مرے گا.کہ قیامت کے دن بھی وہ بنا امام کے ہوگا اور جا ہی ہوگا.پھر ساتھ ہی قرآن کریم نے ان جاہوں کی سزا بھی تبادی کہ وہ راہ سے بھٹکا ہوا ہوگا.اور جو راہ سے بھٹک جائے اس کا ٹھکانا جو تم کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے.- قرآن کریم کی ان آیات اور احادیث پر غور کرنے سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ہر نہ مانہ کا ایک امام ہوتا ہے اور بغیر نام کے
جماعت نہیں ہو سکتی اور جو جماعت نہ ہوگی وہ حدیث شریف کے مطابق اور قرآن کریم کے مطابق جنتی گروہ نہیں کہلا سکتا جس کا ذکر حدیث میں موجود ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ امام الزمان کون ہے اور وہ جماعت کون سی ہے جس کا امام موجود ہے.جب ہم مسلمان علماء سے بات کر تے ہیں تو کہتے ہیں ہم ہیں جماعت یہ دیکھو اہل سنت والجماعت جب سوال کریں کہ ٹھیک ہے اگر آپ جماعت ہیں تو بتاؤ کہ آپ کا امام کون ہے جس کو امام الزمان کہا جائے اور ساری دنیا کی اہلی سنت والجماعت اس کے پیچھے ہو تو سوائے خاموشی کے کوئی جواب نہیں اگر کوئی زیادہ ہی اپنے آپ کو ہو شیار چالاک، بنائے تو اپنی بات چھوڑ کر دوہرہ کمیونٹی کی طرف چلی پڑتا ہے.کہ ہاں ان کے ایک سید تا ہیں اور سارے دوہرے ان کے پیچھے ہیں.اول بات تو یہ ہے کہ کیا دوہروں کا امام امام انترمان ہونے کا دعویدار ہے ؟ نہیں.پھر امام الزمان کل عالم کا ہوتا ہے تو کیا سید نا کسی غیر دوہروں کو اپنی کمیونٹی میں داخل کرتے ہیں ؟ ہرگز نہیں تو جس کا دائرہ ہی محدود ہو دہ امام الزمان کیا.ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ مسلمانوں میں جس قدر بھی فرقے پائے جاتے ہیں ان میں سے کسی فرقہ کا بھی امام نہیں سوائے جماعت احمدیہ کے.جو یہ دعوی کرتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے مجھے امام الزمان بنا کر بھیجا ہے.حضرت مرزا غلام احمد صا قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی عین وقت پر جو چو دھویں صدی کا شروع تھا امام الزمان ہونے کا دعویٰ فرمایا اور ایک جماعت کی بنیاد رکھی جسے جماعت احمدیہ کہا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.آب بالآخر سوال یہ باقی رہا کہ اس زمانہ میں امام الہ مان کون ہے جسکی پیروی تمام عام مسلمانوں اور زاہروں اور خواب بینوں اور مہموں کو کرنی خدا تعالیٰ کی طرف سے فرض قرار دیا گیا ہے.سو میں اس وقت بے دھڑک کہتا ہوں کہ خدا تعالٰی کے فضل و عنایت سے وہ امام الزمان تیں ھوں.اور مجھ میں خدا تعالیٰ نے وہ تمام علامتیں اور
هه تمام شرطیں جمع کی ہیں اور اس صدی کے سر پر مجھے مبعوث فرمایا ہے جس میں سے پندرہ برس گزر بھی گئے اور ایسے وقت میں میں ظاہر ہوا ہوں کہ جب اسلامی عقیدے اختلافات سے بھر گئے تھے." ) ضرورت الامام صدا روحانی خزائن جلد ۱۳ ص ۲۹۵) خلافت و امامت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی مجدد مسیح موعود - مہدی معہود امام الزرگان ہونے کے ہیں.خدا تعالی کا یہ قانون ہے کہ جو شخص بھی اس دنیا میں آیا وہ بہر حال خدا کی طرف واپس لوٹ گیا لیکن اس کا سلسلہ جو اس آنے والے وجود کے ذریعہ سے خدا کے حکم سے قائم ہوتا ہے وہ جاری رہتا ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کی صورت میں وہ سلسلہ امامت جاری ہوا اور پھر مجددین اس سلسلہ کو آگے چلاتے رہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا :- حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم یہ ہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا.پھر وہ اس کو اٹھا لیگا اور (قدرت ثانیہ کے رنگ میں) خلافت راشدہ قائم ہوگی پھر اللہ تعالئے جب چاہے گا اس کو بھی اٹھا لے گا.پھر کو تہ اندیشی بادشاہت قائم ہوگی جب تک اللہ چاہے گا وہ قائم رہے گی پھر اس کو بھی اللہ تعالٰی اُٹھائے گا.پھر جبری حکومت ہوگی.جبتک خدا تعالیٰ چاہے گا وہ قائم رہے گی پھر خدا تعالیٰ اسکو بھی اٹھا لے گا پھرا کے بعد خلافت علی منہاج النبوت قائم ہوگی یہ فرما کر آپ خاموش ہو گئے.May رمستند احمد حلال مشکوۃ باب الانذار والتي زير صلا) جواله حديقة الصالحين) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری ہوا اس کے بعد جو بھی حالات پیش آئے اس سے تمام دنیا واقف ہے کہ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا بالکل ویسے ہی ہوا.اور آخری زمانہ میں آپ نے خلافت
علی منہاج النبوت کی پیشگوئی بھی فرمائی تھی.پس ضروری تھا کہ وہ سللامام الزمان جو آخری زمانہ میں ظاہر ہونا تھا وہ خلافت علی منہاج النبوۃ کے مطابق امام الرمان حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی وفات کے بعد جاری ہوتا.تا امام الزمان کے خلفاء امام اللہ مان ہفتم مزار کی نیابت میں امام اللہ مان کہلائیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.سواے عزیز و با جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالٰی دوقدار میں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سواب ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کہ دیو ہے.اس لئے تم میری اس بات سے جوئیں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا.جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی یا (- ارساله الوصیت و روحانی خزائن جلد ۲۰ ۳۵ ) یہ وہ دوسری قدرت ہے جو خلافت کی صورت میں ظاہر ہوئی بالکل اُسی طرح جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت راشدہ کی صورت میں ظاہر ہوئی تھی اور وہ خلفاء امام کہلائے جن کا دعوی یہی تھا کہ ہم کو خدا نے خلیفہ بنایا ہے پھر ان کی اتباع میں ہی مؤمنین کی جماعت پروان چڑھی اور ساری دنیا میں پھیلی بالکل اسی طرح آخری زمانہ میں قائم ہونے والی خلافت علی منہاج النبوة بھی خدا
کی طرف سے قائم کردہ ہے اور یہی خلیفے امام الزمان سفتم ہزار کی نیابت میں امام الربان ہیں اسی لئے سکس را حمدیہ ایک جماعت کی صورت میں موجود ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جماعت کے جنتی ہونے کی پیشگوئی فرمائی ہے.امام جماعت کی بیعت کر نا پھر جماعت میں داخل ہونا کس قدر ضروری ہے اس کا اندازہ آپ اس حدیث سے کہ سکتے ہیں.فرمایا عن ابن عمر رضی الله عَنْهُمَا قَالَ سَمِعْتُ رَسول الله صلى الله عليه وسلم يَقُول مَنْ خَلَعَ يَدٌ أَمِنْ طَاعَةٍ لَقِيَ الله يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا حُجَّةً لَهُ وَمَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ فِي عُنقه بَيْعَةً مَاتَ مِنتَةً جَاهِلِيَّةٌ وَلَي رِوَايَةٍ مَنْ مَاتَ وَهُوَ مفارق لِلْجَمَاعَةِ فَإِنَّهُ يَمُوتُ مِيَةٌ جَاهِلتَةً " = ۲۰۸ 1-F ر مسلم کتاب الامارہ باب الامر بلزوم الجماعة عند ظهور الفتن ما یعنی حضرت ابن عمرنہ بیان کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے اللہ تعالٰی کی اطاعت سے اپنا ہا تھ کھینچا وہ اللہ تعالے سے رقیامت کے دن) اس حالت میں لے گیا کہ نہ اس کے پاس کوئی دلیل ہوگی نہ عذر اور جو شخص اس حال میں مراکہ اس نے امام وقت کی بیعت نہیں کی تھی تو وہ جاہلیت کی موت مرا.ایک روایت ہے کہ جو شخص اس حال میں مرا کہ وہ جماعت سے علیحدہ تھا تو اس کی سوت جاہلیت کی موت ہوگی." بالکل وہی مضمون ہے جو قرآن بیان کرتا ہے اور جس کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث جو پہلے لکھی گئی ہیں اشارہ کرتی ہیں.جماعت سے علیحدگی یہ بھی جہالت کی موت ہے اور امام الزمان کی بیعت کئے بنا مرا یہ بھی جہالت کی موت میں داخل ہے پس قرآن و احادیث کے احکامات کی روشنی میں یہ ضروری ہے کہ ہر شخص اپنے آپ کو امام الرمان کے تابع کر کے اور اس کی بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوتا وہ
جاہلیت کی موت سے نجات پائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام امام الزمان فرماتے ہیں مدت ہوئی کسوف خسوف رمضان میں ہو گیا.مجھے بھی بند ہوا اور بموجب حدیث کے طاعون بھی ملک میں پھیلی اور بہت سے نشان مجھ سے ظاہر ہوئے جس کے صدہا ہندو اور مسلمان گواہ ہیں.جن کا میں نے ذکر کیا ان تمام وجوہ سے میں امام الزمان ہوں.اور خدا میری تائید میں ہے اور وہ میرے لئے ایک تیتر تلوار کی طرح کھڑا ہے.اور مجھے خبر دی گئی ہے کہ جو شرارت سے میرے مقابل پر کھڑا ہو گا.وہ ذلیل اور شرمندہ کیا جائے گا.دیکھو ئیں نے وہ حکم پہنچا دیا جو میرے ذمہ تھا اور یہ باتیں میں اپنی کتابوں میں کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں." ( ضرورت الامام ۲۰ روحانی خزائن جلد ۱۳ حت (۴۹) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا والوں کو مطلع فرمایا ہے کہ اگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے مطابق امام الزمان کی بیعت نہیں کرتے اور جماعت میں شامل نہیں ہوتے وہ جماعت مومنین سے ضرور کاٹے جائیں گے.اور علیحدہ کئے جائیں گے.اور ان کا نہ اس دنیا میں کوئی پرسان حال ہو گا اور نہ آخرت میں حضور ایک جگہ فرماتے ہیں : " خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں اسے مجھ سے علیحدہ رہے گا وہ کاٹا جائے گا.بادشاہ ہو یا غیر بادشاہ" مجموعہ اشتہارات جلد ۲ ص ۴۱ ( (اشتہار ۲۴ رسمی ۱۸۹۷ء مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان) - جماعت کی دوسری شرط | جماعت کے لئے دوسری شرط یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس کا ایک عالمی مرکز ہوتا ہے اور درد مرکزہ وہاں ہو گا جہاں وقت کا امام ہو گا.بالکل اسی طرح جیسے آغاز اسلام میں خلافت ثالثہ تک بین الاقوامی اسلامی مرکه مدینه ر ہا لیکن جب حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو آپ نے قصر حالات مدینہ سے کوفہ منتقل کر لیا پھر کونہ بین الاقوامی اسلامی مرکز بنا.الغرض جہاں امام ہوگا
جماعت کا مرکزہ بھی وہی بنے گا وہ بھی بین الاقوامی - جماعت احمدیہ کا مرکز خلافت ثانیه تک قادیان ر ہا لیکن حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ المسیح الثانی رضی الله عنه کو جب تقسیم ملک کے وقت ہجرت کرنی پڑی تو پاکستان میں اول اول لاہور مرکزہ ہے پھر ربوہ.پاکستان کی حکومت نے جب جماعت پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کیں تب امام جماعت احمدیہ پاکستان سے لندن تشریف لے گئے اس کے ساتھ ہی جماعت کا هرکته بریدہ سے لندن منتقل ہو گیا.جو کہ بفضلہ تعالیٰ بین الاقوامی مرکز کہلاتا ہے دنیا کی ۱۴۸ ملکوں کی جماعتیں اس ایک مرکز کے تابع ہیں.جماعت کی تیسری شرط جماعت کی تیسری شرط این در قوای بیت المال الاقوامی ہے جو امام وقت کے تابع ہوتا ہے یہ نشانی بھی سوائے جماعت احمدیہ کے اور کسی میں نہیں پائی جاتی.امام جماعت احمدیہ کے تابع بفضلہ تعالٰی ایک بین الاقوامی بیت المال ہے جس میں پیسہ جمع ہونے کے بعد امام وقت کی اجازت کے بغیر خرچ نہیں ہو سکتا بالکل اُسی طرح جیسے خلافت راشدہ کے زمانہ میں تھا.پس حدیث شریف میں آئے لفظ وهى الجماعت نے امام الزمان عالمی مرکزیت اور عالمی بیت المال کی شرائط کے ساتھ جماعت احمدیہ کو نکھار کر اور روشن کیہ کے دنیا والوں کے سامنے پیش کر دیا ہے مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں کون سا فرقہ ہے جو جماعت کہلانے کا حقدار ہے اور جماعت کی نشانیاں اپنے اندر رکھتا ہے ؟ پس خدا کا خوف دل میں رکھنے والے کے لئے جماعت احدیہ کی صداقت کا یہ ایک نشان ہی کافی ہے.صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں ایک نشاں کافی ہے گردن میں ہو خوف کردگار پاکستان میں جماعت احمدیہ کو لے کر جو شور محشر برپا کیا گیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں تمام فرقے ایک طرف مجتمع ہوئے اور جماعت احمدیہ کو ایک طرف رکھا پھر بالاتفاق یہ فیصلہ دیا کہ جماعت احمدیہ مسلمان نہیں.نہیں کوئی ناراضگی نہیں اور
۹۰ نہ ہی ان کی اس بات پر غصہ ہے یہ تو ہونا ہی تھا.پاکستان نے یہ فیصلہ کر کے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چودھا سو سالہ پیشگوئی کو سچا کر دکھایا جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ کل ایک طرف ہوں گے اور ایک ایک طرف اور وہ جماعت ہوگی.فیصلہ کر نے والوں کی عقل پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ فیصلہ یہ کیا کہ ہم بہتر مسلمان اور یہ جماعت غیر مسلم جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ بہتر غلط اور ایک صحیح اور وہ جماعت ہوگی.پس خدا تعالیٰ نے صداقت احمدیت خود علماء کے ذریعہ ظاہر فرما دی ان کی عقلوں پر پردے ڈال دیئے اور جماعت کو خود ان کے ذریعہ سے جہنمی فرقوں سے علیحدہ کروا کر ممتاز کر دیا.اب ان علماء کے ہاتھ اس فیصلہ کے بعد سوائے کف افسوس ملنے کے اور کچھ بھی باقی نہیں رہ گیا.جماعت احمدیہ کے بالمقابل جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے بہتر فرقوں کا اتحاد علماء نے رات دن زور لگایا اور بقبول اُن کے وہ کامیاب بھی ہو گئے.جس کو تمام فرقوں کے علماء نے اپنی کامیابی بتایا.جب علماء سے بات ہوتی ہے تو علماء بڑے چکر میں پڑ جاتے ہیں کہ واقعی پاکستان کی قومی اسمبلی نے جو فیصلہ دیا وہ.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے بالکل خلاف ہو گیا تو پھر اُن کے پاس اس بات کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ یہ کہیں کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں سے بہتر فرقوں کے نمائندے نہیں تھے یہ بات غلط ہے کہ تمام فرقوں کے نمائندے وہاں موجود تھے اور وہ سب اس پر متفق ہوئے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی تو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کی گئی ہے اصل میں ایک مجلس عمل قائم ہوئی اور جو بھی غیر مسلم قرار دینے کی کارروائی ہوئی یہ سب ان کی چھالوں اور شرارتوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے.۱۹۵۲ء میں بھی اس کام کے لئے ایک مجلس عمل بنی تھی اس بات کا اقرار خود انہوں نے کیا ہے چنانچہ مولوی اختر علی خان ابن مولوی ظفر علی خان صاحب نے لکھا ہے کہ :
۹۱ " مجلس عمل نے گذشتہ تیرہ سو سال کی تاریخ میں دوسری مرتبہ اجماع است کا موقع مہیا کیا ہے.آج مرزائے قادیان کی مخالفت میں است کے ۷۲ فرقے متحد و متفق ہیں.حنفی اور وہابی ، دیوبندی، بریلوی شیعہ شتی.اہل حدیث.سب کے علماء تمام پیر اور تمام صوفی اس مطالبہ پر متفق و متحد ہیں کہ مرزائی کا فر ہیں انہیں مسلمانوں سے ایک علیحدہ " اقلیت قرار دور از مینداره ر نومبر ۱۹۵۳ء ص کالم (۶۶) پھر ۱۹۷۴ء میں جو ظالمانہ فیصلہ ان علماء نے کیا اس پر بھی اخباروں نے شہ سرخیاں لگائیں تھیں اور بڑے فخر سے یہ اعلان کئے تھے کہ جماعت احدیہ کے خلاف بہتر فرقوں کا اجماع ہوا ہے.نوائے وقت نے لکھا: اسلام کی ساری تاریخ میں اس قدر پور ہے طور پر کسی اہم مسئلہ پر کبھی اجماع امت نہیں ہوا.اجماع امت میں ملک کے بڑے بڑے علماء دین اور حاملان شرع متین کے علاوہ تمام سیاسی لیڈر اور ہر گروپ کا سیاسی راہنما کما حقہ متفق ہوئے ہیں.اور صوفیاء کرام اور عارفین بالله برگزیدگان تصوف و طریقت کو بھی پورا پورا اتفاق ہوا ہے قادیانی فرقہ کو چھوڑ کر جو بھی ہے فرقے مسلمانوں کے بتائے جاتے ہیں سب کے سب اس مسئلہ کے اس حل پر متفق اور خوش ہیں." نوائے وقت بر اکتوبر ۱۹۷۴ ء ) اگر اب بھی کسی کو اس بات کا یقین نہ ہو کہ اس ظالمانہ فیصلہ کے وقت بہتر فرقے ایک طرف اور جماعت احمدیہ ایک طرف تھی تو وہ اس حوالہ کو پڑھنے میں میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے اندر اور باہر ہونے والی کارروائی کی تفصیل موجود ہے.اگرچہ نہیں اس بات سے اتفاق نہیں کیونکہ ہر فرقہ نے اس کارِ خیر کو اپنی طرف منسوب کر کے ایسے ڈینگیں ماری حسین قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے قادیانی شبیلہ پر غور و فکر کرنے کے لئے دو مہینے میں ۲۰ اجلاس کیئے اور ۹۶ گھنٹے نشستیں کیں ، مسلمانوں کی طرف سے
۹۲ عمت اسلامیہ کا موقف نامی کتاب اسمبلی میں پیش کی گئی، قادیانیوں کی طرف سے ریوائی اور لاہوری پارٹیوں کے سربراہوں نے اپنے اپنے موقف کی وضاحت کے لئے اپنے اپنے کتابچے پیش کئے.ربوہ جماعت کے سربراہ مرزا ناصرا حد پر گیارہ دن تک ہم گھنٹے اور لاہوری جماعت کے امیر مسٹر صدر الدین پر سات گھنٹے جراج ہوئی.وزیرا عظم بھٹو قادیانیوں کے حلیف رہ چکے تھے وہ انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے پر رضامند نہیں تھے.وہ قادیانیوں کو کسی نہ کسی طرح آئین کی تلوارہ کی ترد سے بچانا چاہتے تھے اور اس کے لئے وہ اپنی طاقت و ذہانت کا سارا سرمایہ صرف کر دینا چاہتے تھے چنانچہ حزب اختلاف کے ارکان سے جو مجلس عمل کے نمائندے تھے وزیر اعظم کی بار بار ملاقاتیں ہوئیں اور کئی بار صورت حال انتہائی نازک ہو گئی اور ایک محسوس ہوتا تھا کہ سفینہ ساحل پر پہنچ کر بھی بھٹو کی ضد سے غرق آب ہو جائے گا، آخری دن تو گویا ہنگامہ محشر تھا.اُمید و بیم کی کیفیت اپنی آخری حدوں کو چھورہی تھی.وزیر اعظم کی انا نے تصادم کے خطرے کو یقینی بنا دیا تھا بلکہ حکومت کی جانب سے پولیس اور انٹلی جنس کو چوکنا کر دیا گیا تھا، بڑے بڑے شہروں میں فوج لگا دی گئی تھی، لوگ گر فتار تھے وہ تو تھے ہی ان کے علاوہ ہزاروں علماء اور سر بر آوردہ کی گر فتاری کی فہرستین تیار ہو چکی تھیں، ادھر مجلس عمل کے نمائندے بھی گفتن بر دوش میدانِ عمل میں فوٹے رہے.مولانا مفتی محمود صاحب قومی اسمبلی کے ممبر بھی تھے اور مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے ان چند مخصوص رہ نماؤں میں سے تھے جو اس تحریک کی گاڑی کو پٹڑوں کی بجائے اپنا خونِ جگہ.
۹۳ دے کر چلا رہے تھے، مفتی صاحب ہی مجلس عمل کے نمائندے کی حیثیت سے وزیرا عظم سے مذاکرات کر رہے تھے.مذاکرات کی بار بار نشستوں سے تنگ آکر ایک دن انہوں نے وزیر اعظم سے فرمایا آپ نہیں بتاتے کہ ہم کیا کریں ؟ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کی رائے میں کوئی لچک نہیں آتی اور مجلس عمل والوں کے پاس جاتے ہیں تو وہ اپنے مطالبہ سے کم پر راضی ہونے کے لئے تیار نہیں.وزیر اعظم بھٹو کے دماغ پر اقتدار کا نشہ چڑھا ہوا تھا انہوں نے بڑے ہی مغرورانہ انداز میں کہا کہ :.- میں مجلس عمل کو کچھ نہیں سمجھتا ہوں، ان کی کیا حقیقت ہے ؟ میں تو آپ لوگوں کو جانتا ہوں، آپ اسمبلی کے معزز ممبر ہیں ، میں اُن لوگوں کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوں ،، مفتی محمود صاحب کی حمیت دینی اور غیرت ایمانی بھڑک اٹھی اور اس نے مغرور وزیر اعظم سے صاف صاف دو ٹوک اور کھری کھری بات کہنے پر مجبور کر دیا.انہوں نے مسٹر بھٹو وزیرا عظم سے سیکھے تیور سے کہا کہ : ٹھٹو صاحب ! آپ کو قوم کے صرف ایک حلقہ نے منتخب کر کے بھیجا ہے اس لئے آپ تو اسمبلی کے ایک معزز رکن ہو گئے ہیں میں بھی ایک حلقہ انتخاب سے چن کہ آیا ہوں اور ان کا نمائندہ ہوں، اس لئے میں بھی اسمبلی کا رکن کہلاتا ہوں.مگر میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ مجلس عمل کسی ایک حلقہ انتخاب کی نمائندہ نہیں بلکہ وہ اس وقت پاکستان کے بات کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی کہ یہ ہی ہے کیسی عجیب منطق ہے کہ آپ ایک حلقہ کے نمائندہ کہ عزت و احترام کا مقام دیتے ہیں مگر قوم کے سات کہ وڑ افراد کی نمائندہ مجلس عمل کو آپ پائے حقارت سے ٹھکرا رہے ہیں ؟ بہتر ہے؟
۹۴ میں ان سے جا کہ کہ دیتا ہوں کہ وزیر اعظم پاکستان سات کروڑ مسلمانوں کی بات سننے کو تیار نہیں." دارالعلوم دیو بند احیا را سلام کی عظیم تحریک ضد تا ص ۲۹۲) - رساله " بینات کراچی جنوری، فروری ۱۹۷۸ء ص ۳۶) مفتی صاحب موصوف کا یہ تیور اور انداز گفتگو دیکھ کہ بھٹو وزیرا عظم پاکستان کی انا سرنگوں ہوگئی ، اقتدار کے نشہ کا پارہ نیچے گر گیا اور انہوں نے مجلس عمل کے مجوزہ مسودہ پر دستخط کر دیئے ، اس طرح کے ستمبر ۱۹۷۴ء کو چار بج کر ۳۵ منٹ پر قادیانیوں کی دونوں شاخوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج کر دیا گیا.دارالعلوم دیو بند احیاء اسلام کی عظیم تحریک تالیف مولانا امیر در وی دار المؤلفین دیوبند یو پی مه ۲ تا ۲۹۲ طبع اول ۶۱۹۹۱ خود مخالفوں نے اس بات کا تحریری اقرار کیا ہے کہ ہم سب کے سب سوائے جماعت احمدیہ کے اکٹھے ہیں اور اپنے میں سے جماعت احمدیہ کو الگ کر تے ہیں.پاکستان کے سات کروڑ مسلمانوں کی نمائندہ مجلس عمل نے جماعت احمد یہ کہ غیر مسلم قرار دیا ہے اب سات کروڑ مسلمان جو پاکستان میں موجود ہیں جس کی نمائندہ مجلس عمل تھی اس میں سے کون سا فرقہ ہے جو باہر رہ جاتا ہے سب کے متفق تھے.دوسری بات اس اقتباس سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کی علومی اسمبلی میں جو ہوا اس کا اس فیصلہ سے کوئی تعلق نہیں جو جماعت کے خلاف کیا گیا.قومی اسمبلی میں بحث ہوتی رہی کسی کو مسلم یا غیر مسلم قرار دینے کی بنیاد اس بحث پر ہونی چاہیے تھی لیکن بقول ان کے فیصلہ اس مجلس عمل نے دیا جو اسمبلی سے باہر تھی.کہ مجلس عمل کے مجوزہ مسودہ پر بھٹو سے دستخط لئے گئے اور جماعت کو غیر مسلم قرار دیا گیا.اگر صرف قومی اسمبلی کے ممبران یہ فیصلہ کرتے تو بھی یہ بات رہ جاتی کہ اسمبلی کے ممبران تمام فرقوں کے نمائندے نہیں تھے.لیکن خدا نے ایک طرف اسمبلی کو اس میں شامل کیا تو دوسری طرف مجلس عمل کو جو
90 ۷۲ تمام فرقوں کی نمائندہ بنی ہوئی تھی اس میں شامل کر دیا.اس طرح یہ بہتر جماعت احمدیہ کے بالمقابل اکٹھے ہو کر بیٹھ گئے اور الکفر ملت واحد بنے.- پاکستان کی قومی اسمبلی اور مجلس عمل نے جو بھی فیصلہ کیا اس کا نتیجہ کیا ہوا اس بات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفتہ ایسے الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں " اب اس بات کو اچھی طرح محفوظ رکھ لیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب امت مسلمہ بہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائیگی اور ایک تہترویں جماعت پیدا ہو گی اور وہ حق پر ہوگی تو بہتر فرقے لاز ما جھوٹے ہوں گے.کیونکہ بچے ناری نہیں کہلا سکتے.ایک ہی مقامات سچی ہے اور اُسے جماعت قرار دیا ہے کل تک جماعت احمدیہ کے تمام مخالفین خواہ سنی تھے خواہ شیعہ تھے اس حدیث کی صحت کے نہ صرف قائل تھے بلکہ وہابیہ فرقہ کے امام تو کہتے ہیں کہ مسلمان وہی ہے جو اس حدیث کو سچا مانتا ہے.جو نہیں مانتا وہ مسلمان ہی نہیں.پس شیعہ کیا اور سنی کیا ، وہانی کیا اور بریلوی کیا یہ تمام لوگ اس حدیث پر متفق ہیں اور تسلیم کر تے چلے آرہے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے فرمایا ہے.مگر ۷ ستمبر ۱۹۷۴ ء کو پاکستا پر جو قیامت ٹوٹی وہ یہ تھی کہ اس دن ان سب نے جماعت احمدیہ کی تکذیب کے شوق میں نعوذ بالله من ذالك حضرت محمد مصطفے صلى اللہ علیہ وسلم کی تکذیب سے دریغ نہیں کیا اور بڑی جرات اور بے حیائی کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ یہ حدیث معاذ اللہ جھوٹی تھی، ہمارے بزرگ جھوٹے تھے جو اس حدیث کو سچا تسلیم کر گئے.گویا ۷۴ ) کی اسمبلی کو اکثریت کے زعم میں مسئلہ یوں سمجھ آیا کہ بہتر سچے ہیں اور ایک جھوٹا ہے ، بہتر جنتی ہیں اور ایک ناری ہے.چنانچہ اس مسئلہ کا فخر سے اعلان کیا گیا اور کیا جاتا رہا اور یہی مسئلہ ہے جس کو
۹۶ موجودہ حکومت کی طرف سے بھی مزعومہ قرطاس ابیض میں اچھالا جارہا ہے.غرض یہ ایک بہت بڑی جسارت اور بغاوت تھی جس کا ہے تمبر ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی نے ارتکاب کیا حالانکہ جماعت احمدیہ کے اُس وقت کے ا نام کی طرف سے قومی اسمبلی کے سامنے بار بار اور کھلے لفظوں میں تنبیہ کی گئی تھی کہ تم شوق سے ہمارے دشمن بن جاؤ جو کچھ چاہو ہیں کہتے رہو.لیکن خدا کے لئے اسلامی مملکت پاکستان میں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تو علم بغاوت بلند کر نے کی جسارت نہ کرو کل تک تم یہ مانتے چلے آرہے تھے کہ اگر بہتر اور ایک کا جھگڑا چلا تو بہتر ضرور جھوٹے ہوں گے.اور ایک تہترواں ضرور سنچا ہو گا ہر لئے کہ اصدق الصادقین کی پیشگوئی ہے کہ بہتر جھوٹے ہوں گے یعنی اکثریت جھوٹی ہو گی.اور ایک فرقہ سچا ہوگا.مگر آج جماعت احوریہ کو جھوٹا بنانے کے شوق میں تم یہ اعلان کر رہے ہو کہ بہتر سچے ہیں اور صرف ایک جھوٹا ہے.اس کا تو گویا یہ مطلب بنتا ہے کہ معرفت کا جو نکتہ ان کو سمجھ میں آگیا ہے وہ نعوذ بالله من سے ذالك حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی سمجھ میں بھی نہیں آیا.یہ در اصل اعلان بغاوت تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کیا گیا.ایسے لوگ اسلام میں رہ ہی نہیں سکتے.اور کوئی جرم تھا یا نہیں مگر جس دن حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشاد کے خلاف کھلی کھلی بغاوت کا ارتکاب کیا گیا اُس دن ضرور یہ غیر سلم بن گئے تھے کیونکہ آنحضور کا ارشاد شک و شبہ سے بالا ہے اور چوٹی کے علماء اور مختلف فرقوں کے بانی مبانی اُسے مانتے چلے آتے ہیں بلکہ اسے اسلام کی پہچان قرار دیتے رہے ہیں.مگر یہ سب کے سب اُس دن ایسے پاگل ہو گئے اور ان کی عقلیں
94 ایسی ماری گئیں کہ سات ستمبر کو یہ اعلان کر دیا کہ بہتر فرقے اکٹھے ہیں، یہ مسلمان ہیں یعنی جنتی ہیں اور ایک جماعت احمدیہ ہے جو ناری ہے یہ تھی اصل حقیقت جنکی تعوذ باللہ من ذالک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھ نہیں آئی اور پھر بڑے فخر کے ساتھ یہ لوگ افسے کو پیش کر تے رہے اور یہی کہہ کہ جماعت کے خلاف نت نئے مطالبے کئے جاتے رہے ؟ خطبه جمعه فرموده سید نا حضرت خلیفتہ ایک الرابع ایده منار على نهر العزيز موخه ی ارمی ۱۹۸۵ ء بمقام لندن) ما انا عليه و اصحابی کی بزرگان است میں سے حضرت امام مقاما مصداق جماعت کون ؟ قاری جنہوں نے مشکوۃ کی شرح لکھی ہے اور فقہ حنفیہ کے مسلم عالم میں بہتر فرقوں والی حدیث کی تشریح کر تے ہوئے لکھا ہے کہ فتلك اثْنَانِ وَ سَبعُونَ فِرْقَةُ كُلتَهُمْ فِي النَّارِو الْفَرْقَة النَّاجِيَة هُمُ أهْلُ السُّنَّةِ الْبَيْضَاءِ المُحَمَّدِيَّةِ وَالطَّريقَةِ التَّقِيَّةِ الْأَحْمَدَيَّةِ المرقاة المفاتيح شرح مشکوۃ المصابیح جلد اول مش۲۲) یعنی پس یہ بہتر فرقے سب کے سب آگ میں ہوں گے اور ناجی فرقہ رہ ہے جو روشن سنت محمدیہ اور پاکیزہ طریقہ احمدیہ پر قائم ہے.قارئین جناب ملا علی قاری نے اس حدیث کی شرح میں جو خاص بات بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ وہ فرقہ روشن سنت محمدیہ اور پاکیزہ طریقہ احمدیہ پر قائم ہوگا ؟ بہتر فرقوں والی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ناجی فرقہ کی نشانی یہ بیان فرمار ہے ہیں کہ ملانا علیہ واصحابی یعنی وہ میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہو گا.پس جو فرقہ آپ کے نقش قدم پر ہوا وہی سنت محمدیہ پر بھی ہوا.پھر ما انا علیہ واصحابی کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہوا کہ وہ فعلی اور عملی لحاظ سے میرے اور میرے صحابہ کی طرح ہوں گے اور عملی
۹۸ فعلی لحاظ سے اُن کے ساتھ وہی سلوک ہورہا ہوگا.جیسا میرے اور میرے صحابہ کے ساتھ معد رہا ہے.اس لحاظ سے بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سی جماعت ہے جو صحابہ کی طرح کام کر رہی ہے اور پھر ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہو رہا ہے جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے ساتھ ہو رہا تھا.خاک ریہاں اس بات کا بھی ایک جائزہ پیش کرتا ہے تاکہ بچے اور ناجی فرقہ کی صداقت روز روشن کی طرف ثابت ہو جائے اور کسی پر یہ راز راز نہ رہے.بلکہ حقیقت کھلے وباللہ التوفیق.ا.قارئین نے اس مضمون کے شروع میں ایک مشابہت مطالعہ فرمائی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تک دعوی نہیں فرمایا تھا اس وقت تک تمام مشرکین مکہ آپ کو صدوق اور امین کہا کرتے تھے لیکن جیسے ہی آپ نے ان کے سامنے اپنی نبوت اور توحید کو پیش کیا تو سب کے سب آپ کے مخالف ہو گئے اور نعوذ باللہ آپکو برا بھلا کہتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوئے بالکل اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ اس نام نے جب تک مسیح موعود اور مہدی معبود ہونے کا دعویٰ نہیں فرمایا تھا اس وقت تک آپ کی خدمت اسلام لوگوں کے لئے ایک مثال تھی اور یہ اعلان ہورہا تھا کہ تیرہ سو سال سے ایسی خدمت اسلام کسی نے نہیں کی.اور آپ کی خدمت اسلام میں ثابت قدمی کو ایک نمونہ کے طور پر پیش کیا جارہا تھا.لیکن جیسے ہی آپ نے دعوئی فرمایا تو آپ پر کفر کے فتوے شروع ہوئے اور یہ کہا جانے لگا کہ نعوذ باللہ تجھ جیسا جھوٹا ہم نے آج تک نہیں دیکھا.- ۲..آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے خدا تعالی نے قرآن کریم کی آیت فقد لبثت فيكم عمرا من قبله افلا تعقلون نازل فرمائی اور آپ کی سابقہ زندگی پر انگلی اٹھانے کا چیلنج پیش کیا لیکن کوئی ایک شخص بھی آپ کی دعوئی سے پہلے کی زندگی پر کوئی اعتراض نہ کر سکا.بالکل اُسی طرح سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جب آپکو
۹۹ جھوٹا بیان کیا جانے لگا تو دنیا والوں کے سامنے اپنی سابقہ زندگی کو بطور صداقت پیش کیا اور فرمایا سون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے.(تذکرۃ الشہادتین) گر کسی میں یہ طاقت نہ ہوئی کہ وہ آپ کی دعوئی سے پہلے کی زندگی پر اعتراض کر سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دنیا والوں کے سامنے دین اسلام کو پیش کیا اور اسلام میں داخل ہونے والے کو مسلمان کہا تو مخالفین نے آپکو اور آپ کے ماننے والوں کو بے دین اور قابی کے نام سے یاد کیا.تاریخ میں آتا ہے کہ جب حضرت عمرہ کے اسلام کی خبر قریش میں پھیلی تو وہ سخت جوش میں آگئے.اور اسی جوش کی حالت میں انہوں نے حضرت عمر کے مکان کا محاصرہ کر لیا.حضرت عمر یا ہر نکلے تو ان کے ارد گرد لوگوں کا ایک بڑا مجمع اکٹھا ہو گیا اور قریب تھا کہ بعض جوشیلے لوگ اُن پر حملہ آور ہو جائیں لیکن حضرت عمرانہ بھی نہایت دلیری کے ساتھ اُن کے سامنے ڈٹے رہے.آخر اسی حالت میں مکہ کا رئیس اعظم عاص بن وائل اوپر سے آگیا اور اس ہجوم کو دیکھ کر اس نے اپنے سردارانہ انداز میں آگے بڑھ کر پو چھا یہ کیا معاملہ ہے ؟ لوگوں نے کہا عمر صابی ہو گیا ہے.اس نے موقعہ شناسی سے کام لیتے ہوئے کہا تو خیر پھر بھی اس ہنگامہ کی ضرورت نہیں میں عمر کو پناہ دیتا ہوں.حضرت عمرا عاص بن وائل کی بنیاہ میں زیادہ دیر نہ رہ ہے آپ نے خود جا کر کہہ دیا کہ میں آپ کی پناہ سے نکلتا ہوں کیونکہ آپ کی غیرت دینی نے یہ برخاست نہیں کیا تھا.حضرت عمرؓ بیان کر تے ہیں کہ اس کے بعد میں کانہ کی گلیوں میں بس پیتا پیٹتا ہی رہتا تھا.د زرقانی بحوالہ سیرت خاتم النبييني حصه اول ما اس زمانے کے علماء نے بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام کو اور آپ کی جماعت کو بھی بے دین کا فراغر مسلم کے القاب
دیئے جو کہ صابی کے ہم وزن ہیں اور ہم معانی ہیں.- ۴.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تبلیغ اسلام کو عام کیا تو آپ پر اور آپکی عبارت پر فتویٰ دیا گیا اور مقاطعہ کا اعلان کیا جیسا کہ تاریخ اسلام میں آتا ہے کہ چنانچہ اس مقاطعہ کے متعلق ایک عہد نامہ لکھا گیا.تمام رؤساء قریش نے اس پر قسمیں کھائیں اور عہد نامہ پر دستخط کئے.یہ دستخط شدہ عہد نامہ خانہ کعبہ میں لٹکا دیا گیا اور مقاطعہ شروع ہو گیا.(تاریخ اسلام جلد اول ما شائع شدہ دیوبند) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میں وقت دعوئی فرمایا اور ایک جماعت آپ کے گرد جمع ہونی شروع ہوگئی تو آپ اور آپ کی جماعت پر بھی فتوے لگائے گئے اور بائیکاٹ کے اعلان کئے گئے تاریخ احمدیت میں آتا ہے کہ :- علماء کے فقروں نے ملک میں ایک آگ لگا دی.اور علماء نے صرف قولی فتوئی ہی نہیں لگایا یعنی آپ کو صرف عقیدہ کے لحاظ سے ہی کا فراور دائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا بلکہ یہ بھی اعلان کیا کہ حضرت مرزا صاحب اور آپ کے متبعین کے ساتھ کلام سلام اور ہر قسم کا ۳۴ (سلسلہ احمدیہ (ص) تعلق ناجائز اور حرام ہے یہ علماء کے اس قسم کے فتوئی کے بعد ہر کوئی جانتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے افراد کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو آغاز اسلام میں مسلمانوں کے ساتھ کفار مکہ نے کیا تھا.آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم پر کفار مکہ نے نعوذ باللہ مجنون ہونے کا التزام لگا جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے.لَمَّا سَمِعو الذكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ.(العلم آیت (۵۲) یعنی جب وہ اس ذکرہ (یعنی قرآن) کو سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ شخص تو مجنون ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی لوگوں نے مجنوں کہا اور آپ کے دعاوی کو مالیخولیا اور جنون کا نتیجہ بتایا.حضور لوگوں کی اسی بات کا جواب دیتے ہوئے
تحریر فرماتے ہیں کہ :.دوسری نکتہ چینی یہ ہے کہ مالیخولیا یا جنون ہو جانے کی وجہ سے بیح موجود ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ یوں تو میں کسی کے مجنون کہنے یا دیوانہ نام رکھنے سے ناراض نہیں ہوسکتا بلکہ خوش ہوں کیونکہ ہمیشہ سے نا سمجھ لوگ ہر ایک نبی اور رسول کا بھی ان کے زمانہ میں یہی نام رکھتے آئے ہیں اور قدیم سے ربانی مصلحون کو قوم کی طرف سے یہی خطاب بتارہا ہے اور نیز اس وجہ سے بھی مجھے خوشی پہنچی ہے کہ آج وہ پیش گوئی پوری ہوئی جو براہین احمدیہ میں طبع ہو چکی ہے کہ مجھے مجنون بھی کہیں گے لیکن حیرت تو اس بات میں ہے کہ اس دعوئی میں کو نسے جنون کی بات پائی جاتی ہے؟ (ازالہ اوبام حصہ اول روحانی خزائن جلد ۲ ص ۱۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کفار نے فریبی اور جھوٹا ہونے کا الزام بھی لگایا جیسا کہ قر آن کریم میں لکھا ہے کہ : وعجبوا أن جاءَهُمْ مَنْذِرُ مِنْهُمْ وَقَالَ الكفرون.هذا سحر كذاب رص آیت (۵) یعنی.اور وہ تعجب کرتے ہیں کہ ان کے پاس انہیں کی قوم میں سے ہوشیار کرنے والا آ گیا.اور کافر کہتے ہیں کہ یہ تو ایک فریبی (اور) جھوٹا ہے ، مولوی محمد حسین بٹالوی نے جو فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف دیا وہ اس کے رسالہ اشاعت السنہ میں شائع ہوا تھا.اس میں جو الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں لکھے گئے ہیں اُس کو تحریر میں لانا بھی اچھا خیال نہیں کرتا ہوں اور کوئی بھی شریف النفس ان کو پڑھنے کی سقط نہیں رکھتا بہر حال اس میں مکا را فریبی کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں جیسے الفاظ کفارتے ہمارے آقا در مونی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق استعمال کئے تھے جیسے آپ اوپر کی آیت میں پڑھ چکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ الفاظ رسالہ اشاعت
١٠٢ السنہ ۱۸۹۳ ء جلد حاصدات کے مضمون اور فتوے میں موجود ہیں: انبیاء پر دوسروں کے ایجنٹ ہونے کے الزام لگتے رہے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی لوگوں نے ایسی ہی بات کی قرآن کریم میں آتا ہے.وَقَالَ الظَّلِمِينَ إِن تسبعُونَ إِلَّا رَجُلاً مَّسْحُورًا (الفرقان آیت) یعنی.اور ظالم کہتے ہیں کہ تم ایک ایسے آدمی کے پیچھے چل رہے ہو جس کو کھانا کھلایا جاتا ہے.مسحور کے معنی ایسے شخص کے ہوتے ہیں جبکہ کھانا کھلایا جاتا ہے یعنی لوگ اُس کو لالچ دینے کے لئے امداد دیتے ہیں تا کہ وہ اُن کی ایجنٹی کرے اُن کے لئے - - کام کرے.حضرت نیچے موعود علیہ السلام پر بھی اسی قسم کا الزام لگایا گیا کہ آپ انگریزوں کے ایجنٹ ہیں اور جماعت احمدیہ انگر نیزوں کا کاشت کردہ پودا ہے وغیرہ.انبیاء علیہم الہ نام کے قتل کرنے کی سازشیں مخالفین ہمیشہ ہی کر تے رہے آنحضرت صلی اللہ علیہ صلی الہ علیہ وسلم کے خلاف بھی اسی قسم کی سازش رچی گئی اور آپ کو بھی قتل کرنے کے منصوبے بنائے گئے.جیسا کہ قرآن کریم اس کی شہادت دیتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذا يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُتْتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ اَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ الله وَاللهُ خَيْرٌ الماكوينه (الانفال آیت - ۳۱) یعنی اور دانے رسول اُس وقت کو یاد کہ) جب کہ کفار تیرے متعلق تدبیر کہ رہے تھے تاکہ تجھے (ایک جگہ) محصور کر دیں یا تجھ کو قتل کر دیں ، یا تجھ کو نکال دیں اور وہ بھی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ بھی تدبیریں کر رہا تھا اور اللہ تد بیر کر نے والوں میں سب سے بہتر تدبیر کر نے والا ہے.جو تدابیر کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے اختیار کی تھیں
بالکل ویسی ہی تدابیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین نے آپ کے خلاف اختیار کیں.ا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو محصور کر نے کی کوشش کی اور آپ کے گھر جانے کے راستہ میں آپ ہی کے رشتہ داروں نے دیوار کھینچے کہ آپ کا راستہ بند کر دیا جس سے آپ کو اور آپ کے صحابہ کہ بڑی پریشانی اٹھانی پڑی.بالکل اُسی طرح جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحابب شعب ابی طالب میں محصور کر دیا گیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں 19 میں ایسا اتفاق ہوا کہ میرے چچا زاد بھائیوں میں سے امام دین ایک سخت مخالف تھا اس نے ایک فتنہ برپا کیا کہ ہمارے گھر کے آگے ایک دیوار کھینچ دی اور ایسے موقع پر دیوار کھینچی کہ مسجد میں آنے جانے کا راستہ رک گیا اور جو مہماں میری نشمت کی جگہ پر میرے پاس آئے تھے یا مسجد میں آتے تھے وہ بھی آنے سے رک گئے اور مجھے اور میری جماعت کو سخت تکلیف پہنچی گویا نظام محاصرہ میں آگئے " (حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ ۲۷).آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کی تعداد جب بڑھنے لگی تو کفار مکہ اس سے بہت گھبرائے اور یہ فیصلہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیا جائے جس رات کفار مکہ آپ کو قتل کرنے کی تیاری میں تھے اُسی رات خدا تعالیٰ کے اذن سے آپ نے ہجرت فرمائی اور کفار مکہ اپنے ارادہ میں ناکام ہوئے اور خدا کی تدبیر کفار کی تدبیر پر غالب آئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی مخالفین نے قتل کا مقدمہ کر کے آپ کو قتل کروانے کی سازش رچی لیکن خدا تعالے نے اس سے آپ کو بری کیا اور مخالفین کی تمام تدبیروں کو خاکستر کر دیا.اسی بات کا ذکر کر تے ہوئے تاریخ احمدیت میں تھا ہے.کہ :
۱۰۴ چنانچہ پادری مارٹن کلارک نے آپ کے خلاف یہ استغاثہ کیا کہ حضرت مرزا صاحب نے ایک مسلمان نوجوان کو میرے قتل کے لئے سکھا کر بھیجوایا ہے اور ایک آوارہ گردو مسلمان لڑکے کو اقبالی مجرم بنا کر عدالت میں پیش کر دیا.اس مقدمہ میں ایک مشہور آریہ وکیل نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مقدمہ کی مفت پیروی کی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بطور گواہ کے پیش ہوئے اور حضرت مرزا صاحب کو قاتل ثابت کرنے کے لئے ایک پورا جال بچھا دیا گیا.مگر جس کو خدا بچانا چاہے اُسے کون نقصان پہنچا سکتا ہے.خدا نے ایسا تصرف کیا کہ جس لڑکے کو اقبالی مجرم بنا کر کھڑا کیا گیا تھا اس سے اپنے بیان کے دوران میں ایسی حرکات سرزد ہوئیں کہ گورداسپور کے انصاف پسند ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کیپٹن ڈگلس کو شبہ پیدا ہوا کہ یہ سارا مقدمہ محض ایک سازش ہے چنانچہ اس نے زیادہ چھان بین کی اور لڑکے کو پادریوں کے قبضہ سے نکال کر اس پر زور ڈالا تو اس نے اقبال کر لیا کہ تجھے ہر گنہ مرزا صاحب نے کسی کے قتل کے لئے تصور نہیں کیا بلکہ میں نے عیسائی پادریوں کے کہنے کہانے سے ایسا بیان دیا تھا جس پر حضرت مسیح موعوداً بڑی تحرت کے ساتھ بری کئے گئے اور آپ کے مخالفوں کے ماتھے پر تاکامی کے علاوہ ذلت کا ٹیکہ بھی لگ گیا." (سلسلہ احمدیہ جت) اس مقدمہ کی پوری تفصیل " کتاب البریہ" کتاب میں موجود ہے پس آپ پر قتل کا الزام لگا کہ ہندو عیسائی مسلمان سب مل کر آپ کو سزا دلانا چاہتے تھے میں طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر نے کی سازش میں ناکانی کے بعد کفار مکہ شرمندہ اور نا کام ہوئے بالکل اسی طرح آپ کے خلاف بھی یہ لوگ نا کام اور شرمندہ ہوئے.
۳ تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ وہ اس کوشش پیرا ہیں کہ تجھے یہاں.تر کال دیں.پس جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار نے تنگ کیا اور آپ کو نکالنے کی کوشش کر تے رہے جس پر آپ نے ہجرت بھی فرمائی اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اس قدر پریشان کیا کہ جس کی کوئی انتہا نہیں اور اس کے پیچھے مقصد ہی یہ تھا کہ کسی طرح آپ کو قادیان سے نکال دیا جائے جس زمانہ میں امام دین صاحب نے آپ کے گھر کے سامنے دیوار کھینچ کر آپ کا راستہ بند کر دیا تھا اور سب لوگ تکلیف میں پڑ گئے تھے اس وقت آپ نے بھی قادیان کو چھوڑ دینے کا ارادہ فرمایا تھا.جس پر حضرت خلیفتہ ایسے الاول رند نے بھیرہ چلنے اور مولوی عبدالکریم صاحب نے سیالکوٹ چلنے اور شیخ رحمت اللہ صاحب نے لاہور چلنے کی دعوت دی تھی.لیکن حضور نے اس پر فرمایا تھا کہ اچھا وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا.یہ سارا واقعہ تفصیل کے ساتھ سیرت المهدی حصہ اول ص۱۱۹ تا ۱۲۱ میں درج ہے.الغرض وہ تمام بد سلوکیاں جو کفار مکہ نے ہمارے آقا، مولا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیں بالکل اُسی طرح کا سلوک جماعت احمدیہ کے مخالفین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کیا..آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کو جب شعب ابی طالب میں محصور کر دیا گیا تھا تو مقاطعہ کے ساتھ ساتھ یہ پابندی بھی لگائی گئی کہ ان کا داتا پانی بنار کہ دیا جائے چنانچہ محصورین نے درختوں کے پہنتے تک کھائے اور پانی کے لئے بھی رو کے گئے جس سے بے حد تکالیف کا سامنا کرنا پڑا تاریخ میں آتا ہے کہ حکم بن حرام کبھی کبھی اپنی پھوپی حضرت خدیجہ کے لئے خفیہ خفیہ کھاتا ہے جاتے تھے.مگر ایک دفعہ ابو جہل کو کسی طرح اس کا علم ہو گیا تو اس کمبخت نے راستہ میں بڑی سختی کے ساتھ روکا اور با ہم ہاتھا پائی تک نوبت پہنچے گئی." د تاریخ ابن ہشام) گویا کہ دانا پانی بند کر نے والے کوئی غیر نہیں اپنے رشتہ دار اور بھائی تھے
1.4 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جیب دعوی فرمایا اور کچھ لوگ آپ پر ایمان لے آئے تو یہ بات آپ کے رشتہ داروں کو بہت کھلنے لگی اس پر آپ کے رشتہ داروں نے ہی آپ کو اور آپ کے اصحاب اور مستورات کو اپنے خاندانی کنویں سے پانی بھرنے سے منع کر دیا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب نے چندہ جمع کیا اور حضور کے گھر کے صحت میں ایک کنواں کھدوایا.اس طرح آپ کے مخالفین نے آپ کا بھی پانی بند کر کے ایک اور مشابہت قائم کردی.۱۰.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھنے سے روکا گیا.اسی تعلق سے خدا تعا لئے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ : الايت الذى ينهى : عبدا إذا صلى (العلق آیت ۱۱) یعنی راے مخاطب) تو اس شخص کی خبر دے جو ایک بندے کو نماز سے روکتا ہے.بڑا مشہور واقعہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فداہ نفسی ایک مرتبہ خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے اور کفار مکہ قریب ہی ایک جگہ بیٹھے آپ کو دیکھ رہے تھے اس وقت ابو جہل نے کہا کہ کون ہے تم میں سے جو اونٹ کی او جبری محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر رکھ آئے.اس حال میں کہ آپ سجدہ کی حالت میں تھے.ایک بدبخت اٹھا اور اُس نے آپ کی پیٹھ پر گند سے بھری او بیڑی به کار دی وہ اس قدر وزنی تھی کہ آپ سجدہ سے سر نہ اٹھا سکتے تھے اسی دوران آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ اس طرف آئیں جو کہ چھوٹی بچی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سے وہ اونبڑی دھکیل کر اُتاری.آپ نے سجدہ سے سراٹھایا گویا کہ آپ کو مخالفین نے نماز پڑھنے سے بھی روکا.دوسری طرف آپ کے صحابہ کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق نہ کہ والوں کے ظلم سے تنگ آکر مکہ سے ہجرت کر رہے تھے تو آپ کو راستہ میں این دغنہ ملا اُس نے پوچھا کہ اے ابو بکر ان تم کدھر جار ہے ہو تو آپ نے فرمایا میری قوم مجھے رہنے نہیں دیتی اس لئے میں نکتہ چھوڑ کر جاتا ہوں.اس پر ابن دغتہ تے
۱۰۷ نے کہا کہ ایسی بات ہے تو میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں.اس پر آپ واپس مکہ آگئے اور اپنے صحن خانہ میں نماز کے لئے ایک جگہ بنائی آپ وہاں نماز پڑھتے اور قرآن کی تلاوت کرتے کفار مکہ کی عورتیں آپ کو دیکھتیں اور قرآن کریم نتیں جس کا اُن کے دلوں پر بہت اللہ ہوتا اس کو دیکھ کر کفار مکہ ابن دغتہ کے پاس گئے کہ تم نے ابو بکر نہ کو پناہ دے رکھی ہے اُس نے اپنے صحن خانہ باین مسجد بنائی ہے وہ نماز پڑھتا ہے اور قرآن پڑھتا ہے اس سے ہماری عورتوں اور بچوں کو سخت تکلیف پہنچتی ہے یا تو ابو بکرنا کو ایسا کرنے سے منع کردو یا پھر اُسے اپنی پناہ سے آزاد کر دو.اس پر ابن دغتہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس اتنے اور اُس نے کہا کہ اے ابو بکر میں نے تجھے اس لئے بناہ نہیں دی تھی کہ تو میری قوم کو تکلیف دے یا تو تو، اس کام سے باز آجا اور یا میری پناہ مجھے واپس لوٹا دے.اس پر حضرت ابوبکر صدیق شہ نے فرمایا کہ میں تیری پناہ تجھے واپس لوٹاتا ہوں مگر میں اس کام سے باز نہ آؤں گا.یہ واقعات بتاتے ہیں کہ کس طرح آپ اور آپ کے اصحاب کو نماز پڑھنے مسجد بنا نے قرآن پڑھنے سے روکا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اور آپ کے اصحاب اور آپ کی جماعت کے ساتھ بھی اسی قسم کا سلوک ہوا.آپ کے بھائیوں نے ہی آپ کے راستہ میں جو کہ مسجد کو جانے کا بھی راستہ تھا دیوار کھینچے کہ بند کر دیا اور نمازوں کے راستہ میں روکاوٹ پیدا کی.آپ کو اور آپ کے اصحاب کو دور کے راستہ سے چل کر مسجد میں نماز ادا کر نے کیلئے جانا پڑتا تھا.اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جماعت احمدیہ کے افراد کو لوگوں نے مساجد میں نماز پڑھنے سے روکا مسجدیں بنانے سے روکا جس زمانہ میں سے مخالفت کا بہت شور اُٹھا اور جماعت احمدیہ کے افراد کو مساجد میں نماز پڑھنے سے روک دیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام.سے افراد جماعتہ نے اپنی
۱۰۸ الگ مساجد بنانے کی اجازت طلب کی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہمیں الگ مساجد بنانے کی ضرورت نہیں میں مسلمانوں کو سمجھاتا ہوں اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لوگوں کو یہ بات سمجھائی کہ مساجد اللہ کے گھر ہیں ان میں لوگوں کو آنے سے روکنا گناہ ہے وغیرہ.اس پر آپ کے مخالفین نے ایک اشتہار شائع کیا وہ خود ہی مساجد اور نمازوں سے روکنے کی دلیل پیش کر رہا ہے لکھا ہے.پس مخفی نہ رہے کہ باعث اس صلح نامہ کا یہ ہے کہ جب طائیقہ مرزائیہ امرتسریں بہت خوار و ذلیل ہوئے جمعہ و جماعات سے نکالے " گئے اندر جس مسجد میں جمع ہو کہ نمازیں پڑھتے تھے اس میں سے بے غیرتی کے ساتھ بدر کئے گئے اور جہاں قیصری باغ میں نماز جمعہ پڑھتے تھے وہاں سے حکماً روکے گئے تو نہایت تنگ ہو کر مرزا قادیانی سے اجازت مانگی کہ مسجد نئی تیار کریں تب مرزانے ان کو کہا کہ صبر کرو میں لوگوں سے صلح کرتا ہوں اگر صلح ہوگئی تو مسجد بنانے کی کچھ حاجت نہیں.اور نیز اور بہت قسم کی ذلتیں اٹھائیں.معاملہ دہر تاؤ مسلمانوں سے بند ہو گیا.عورتیں منکوحہ و مخطوبه بوجہ مرزائیت کے چھینی گیئیں.مردے ان کے لیے تجہیز و تکفین اور بے جنازہ گڑھوں میں دیا ئے گئے وغیرہ وغیرہ راظہار مخادعت مسیلمہ قادیانی بجواب اشتہار مصالحت پولیس ثانی الملقب بے كشط الغشا عن ابصار أهل العمل مؤلفہ عبد الاحد خانپوری) اس پر سن اشاعت نہیں صرف لکھا ہے مطبع چودھویں صدی شہر راولپنڈی میں یا ہتمام قاضی حاجی احمد مینجر کے چھپا ) اس حوالہ کے بعد اور کوئی بات کہنے والی رہ ہی نہیں جاتی یہ بیان ہمارے مخالف کا ہے.اور جو جو کام جماعت احمدیہ کے ساتھ مخالفین نے
1.9 کئے یہ سب آغاز اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے ساتھ ہو چکے ہیں جس وقت مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو ان کی عورتیں بھی محض اس لئے چھین کر اُن سے الگ کر دی گئیں کہ اُن کے خاوند مسلمان ہو چکے تھے بچوں کو ماں سے یا باپ سے اس لئے الگ کر دیا گیا کہ وہ مسلمان ہو چکے تھے.یہ تمام تر سلوک جماعت احمدیہ کے ساتھ ہوتے رہے اور آج بھی جاری ہیں یہ ہیں ما انا علیہ واصحابی کے نمونے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا والوں کے سامنے کیا پیش فرمایا جسکی مخالفت تمام کو تمام لوگوں نے کی وہ تھا اعلان توحید - لا اله الا الله اور اعلان رسالت محمد رسول اللہ جو لوگ بھی اس اعلان پر لبیک کہتے اُن کے ساتھ کیا سلوک ہوتا یہ بھی کسی پر پوشیدہ نہیں اور یہی دین اسلام کی بنیاد تھی اور ہے صرف دو واقعات پیش کر دیتا ہوں ویسے تو تاریخ اسلام ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے.سیدنا بلال بن رباح امیہ بن خلف کے ایک حبشی غلام تھے.امید ان کو دوپہر کے وقت جبکہ اوپر سے آگ برستی تھی اور مکہ کا پتھریلا میدان بھٹی کی طرح تپتا باہر لے جاتا اور ننگا کر کے زمین پر لٹا دیتا اور بڑے بڑے گرم پتھر اُن کے سینہ پر رکھ کر کہتا کہ رات اور غزنی کی پرستش کرہ اور محمد اسے علیحدہ ہو جا ور نہ اسی طرح عذاب دے کہ ماروں گا.بلال " زیادہ عربی نہ جانتے تھے.بس صرف اتنا کہتے احد احد یعنی اللہ ایک ہی ہے اللہ ایک ہی ہے اور یہ جواب سن کہ امیہ اور تیز ہو جاتا اور اُن کے گلے میں رستہ ڈال کر انہیں شریر لڑکوں کے حوالے کر دیتا اور وہ ان کو مکہ کی پتھریلی گلی کوچوں میں گھسٹتے پھرتے جس سے اُن کا بدن خون سے تر بتر ہو جاتا مگر ان کی زبان پر سوائے احدا حد کے اور کوئی لفظ نہ آتا.۲.حضرت خباب بن الارث یہ بھی ایک غلام تھے ان کے متعلق آتا ہے
11.کہ آپ تلواریں بنایا کر تے آپکی مالکن آپ کو اسلام لانے کے جرم میں توحید اور رسالت کا اقرار کرنے کے جرم میں بے حد تکلیف دیا کرتی بھٹی سے دہکتی ہوئی لوہے کیے سلاخیں آپ کے جسم پر لگایا کر تی اور یہی کہتی کہ اللہ اور محمد کا انکار کر دے لیکن آپ ہمیشہ اقرار ہی کرتے.ایک مرتبہ جبکہ آپ آزاد ہو چکے تھے کفار مکہ نے آنکھو پکڑا اور دہکتے ہوئے کو ٹلوں پر پیٹھ کے بل آپ کو لٹا دیا اور چھاتی پر چڑھ گئے کہ آپ کروٹ بھی نہ لے سکے اسی حال میں دہکتے ہوئے کو ٹیلے ٹھنڈے ہو گئے مگر آپ کی زبان سے اللہ اور رسول کی آوازیں ہی بلند ہوتی ر ہیں.وہ کلمہ طیبہ جو اسلام کی بنیاد کہلاتا ہے آغا نہ اسلام میں اس کلمہ کے پڑھنے سے روکا گیا صرف رو کا ہی نہیں گیا بڑی شدید قسم کی تکلیفیں پہنچائی گئیں جس.تاریخ بھری پڑی ہے اس کے صرف دو نمونے ہی پیش کئے ہیں.اس دور آخر میں بھی جماعت احمدیہ کے ساتھ وہی سلوک کیا جا رہا ہے اس ظلم میں جو ملک ہے آگے ہے وہ حکومت پاکستان ہے جہاں یہ آرڈیننس جاری کیا گیا ہے کہ اگر کوئی احمدی کلمہ پڑھتا ہے تو اس کو سزادی جائے گی.اس جرم میں کہ افراد جماعت احمدیہ نے کلمہ پڑھایا لکھایا کلمہ کا بیج لگایا ہزاروں آدمی جیلوں میں ڈالے گئے جن پر مقدمات چل رہے ہیں.کلمہ پڑھنے سے روکنے کے علاوہ تمام مساجد سے کلمہ مٹایا بھی گیا جس کی خبریں پاکستان کے اخبارات میں بھی شائع ہوتی رہی ہیں.جیسا کہ لکھا ہے:.ایک اور واقع ظفر گڑھ چیک نمبر ہم ہوم میں ہوا.ایک ایس ایے.او تھانیدار پولیس کا نسلوں کے ہمراہ احمدیہ مسجد میں آیا اور احمدی احباب کو حکم دیا کہ مسجد کے کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ مٹا دو.احمدیوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا.پولیس نے کلمہ طیبہ بھی مٹا دیا اور مسجد کے مناروں کو بھی گرا دیا.اس کے فوراً بعد تھانیدار کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور پولیس کو بھیجے کہ مناروں کی مرمت کرادی.روزنامه جنگ لاہور سه در اکتوبر ۱۹۸۴ء)
چنیوٹ میں قادیانیوں کی عبادت گاہ سے کلمہ طیبہ اور دیگر قرآنی آیات صاف کرائی گئی ہیں.مقامی پولیس اور انتظامیہ کے افسران نے محلہ راجے والی چنیوٹ میں قادیانیوں کی عبادت گاہ سے پہلے بھی کلمہ طیبہ اور قرآنی آیات کو صاف کر دیا تھا.لیکن بعد میں قادیانیوں نے دوبارہ لکھ لیا تھا." (نوائے وقت لاہور ۳۰ فروری ۱۹۸۵ء) اسی طرح ایک خبر یہ شائع ہوئی کہ: احمدیوں نے کلمہ لا الله إلا الله محمدٌ رَسُولُ اللہ کے بیجز بناکر اپنے سینوں پر آویزاں کرنے شروع کر دیتے ہیں.ویسے بیجز لگانے والے 19 احمدیوں کو پکڑ لیا گیا.ان احمدیوں پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے کلمہ طیبہ اپنے سینوں پر آویزاں کر لیا تھا.اور ان افراد کو فیصل آباد پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ (سی (۲۹۸) کے ذریعہ گرفتار کر لیا تھا.ان افراد کے وکلاء نے یہ بھی بتایا کہ کلمان کے مذہب کا بنیادی ستون ہے.اور جس صدارتی حکم کے ماتحت ان پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں اس میں بھی کلمہ کو منع نہیں کیا گیا چنانچہ فیصل آباد کے سیشن جج نے ان احمدیوں کو ضمانت پر رہا کہ نے کا حکم دے دیا.حوالہ روز نامی مغربی پاکستان لاہور ۱۴ام فروری ۱۹۸۵ء) پاکستان کے صدارتی حکم میں سی ۲۹۸ کی دفعہ یہ ہے کہ کوئی بھی احمدی اسلامی اصطلاحات استعمال نہیں کر سکتا ہے کلمہ نہیں پڑھ سکتا.اذان نہیں کہہ سکتا.السلام علیکم نہیں کہہ سکتا قرآن کی اشاعت نہیں کر سکتا مسجد کو مسجد نہیں کہہ سکتا اسلامی نام نہیں رکھ سکتا یہی وجہ ہے کہ تمام احمدیہ مسجدوں سے مسجد کا لفظ کلمہ طیبہ قرآنی آیات وغیرہ سب مٹادی گئی ہیں.قبرستان میں لگے کتبوں سے بسم اللہ تک مٹائی گئی ہے.کئی احمدیوں کو اذان دینے کے جرم میں کئی لوگوں کو بسم اللہ لکھنے سلام کرنے کے جرم میں قید و بند کی تکلیفیں دی جارہی ہیں.قارئین غور کریں آغازہ اسلام میں کلمہ کہ سینے سے لگانے والے اس کا درد کرنے والے کون لوگ تھے ؟ اور مسلمانوں کے کلمہ پڑھنے کو جرم قرار
۱۱۲ دینے والے کون لوگ تھے اور کلمہ پڑھنے کے جرم میں سزائیں دینے والے کون لوگ تھے پھرانہ تکلیفوں کو خدا کی خاطر برداشت کرنے والے کون لوگ تھے ؟ پھر سوچیں کہ ما انا عليه و اصحابی کے مصداق کون ہیں ؟ اور کفار مکہ کا کردار ادا کرنے والے کون لوگ ہیں ؟ پھر وہ لوگ جین کے ساتھ سب مل کہ یہ سلوک کر رہے ہیں وہ ایک جماعت ہے فرقہ نہیں.پھر غور کر میں سے اذان کہنے والے کون لوگ تھے ؟ اذان کہنے سے روکنے والے کون لوگ تھے ؟ نمازیں ادا کر نے والے کون لوگ تھے ؟ نمازوں سے روکنے والے کوا، لوگ تھے ؟ مساجد بنانے والے کون لوگ تھے ؟ اور مسجدوں کو برباد کرنے والے کون لوگ تھے ؟ پھر سوچیں کہ مارنا علیہ واصحابی کے مصداق آج کے دور میں کون ہیں ؟ ایک احمدی جو کلمہ طیبہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ پر دل وجان سے ایمان لاتا ہے اور محبت کہتا ہے اس سے تو یہ سلوک، لیکن جو کلمہ کو بگاڑ کہ اس پر ایمان لاتا ہے اُس کے ساتھ محبت کی پینگیں چڑھائی جاتی ہیں.احمدی کا کلمہ تو وہی ہے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا کہ لا الہ الا الله محمد رسُولُ اللهِ جبکہ احمدیوں پر ظلم کر کے اُن کو کسی اور کا کلمہ پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے جیسا کہ کفار کہ مسلمانوں کو کیا کرتے، لیکن ان کے کلمے کیا ہیں ؟ اس کے بھی چند نمونے " یہاں پیش کرتا ہوں جس پر یہ ہمارے مخالف راضی ہیں لکھا ہے.اسی موقعہ کے مناسب آپ نے فرمایا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اور بہت سے اہل صفا شیخ معین الدین رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر تھے.اور اولیا اللہ کے بارے میں ذکر ہو رہا تھا.اسی اثناء میں ایک شخص باہر سے آیا.اور بیعت ہونے کی نیت سے خواجہ صاحب کے قدموں میں سر رکھ دیا.آپ نے فرمایا بیٹھ جا.وہ بیٹھے گیا.اور اس نے عرض کی کہ میں آپ کی خدمت میں مرید ہونے کے واسطے آیا ہوں ! شیخ صاحب اس وقت اپنی خاص حالت میں تھے
آپ نے فرمایا کہ جو کچھ میں تجھے کہتا ہوں وہ کہو اور بجا لا تب مرید کروں گا.اس نے عرض کی کہ جو آپ فرما دیں.میں بحالا نے کو تیار ہوں.آپ نے فرمایا کہ تو کلہ کس طرح پڑھتا ہے ؟ اس نے کہا لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ آپ نے فرمایا یوں کہو.لا اله الا اللہ چشتی رسول اللہ اس نے اسی طرح کہا خواجہ صاحب نے اسے بیعت کر لیا." د کتاب فوائد ال یکین ۲۰ ترجمہ اردو ملفوظات حضرت قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کا کی روشی چشتی علیہ الرحمتہ) اسی طرح ایک جگہ لکھا ہے.بعد اقواں اس موقعہ کے مناسب فرمایا کہ حقیقی مرید کی اور شرط یہ ہے کہ جو کچھ پیر فرمائے.اس پر فوراً یقین کہے اور کسی قسم کا شک دل میں نہ لائے.کیونکہ پیر مرید کے لئے بمنزلہ شاطر ہے.جو کچھ وہ کہتا ہے مرید کی کمالیت کے لئے کہتا ہے.پھر یہ حکایت بیان فرمائی کہ ایک مرتبہ کوئی شخص شیخ شبلی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں بیعت کی نیت سے آیا ہوں.اگر آپ قبول فرمائیں.فرمایا مجھے منظور ہے لیکن جو کچھ میں کہوں گا اس پر عمل کرنا ہوگا.عرض کی برو چشم پوچھا کلہ کس طرح پڑھتے ہو ؟ عرض کی لا اله الا الله محمد رسول الله - خواجہ شبلی علیہ الرحمہ نے فرمایا نہیں اس طرح کہو لا اله الاالله شبلى رسول الله - مرید درست اعتقاد تھا اس نے فوراً اسی طرح کہہ دیا." ( کتاب مفتاح العاشقین اردو ترجمه ه لملفوظات حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ شائع شدہ جیم بک ڈپو ۵۲۰ میشیا محل جامع مسجد ہی)
تو زبان مبارک سے فرمایا کہ جب آپ سارہ کے بطن سے پیدا ہوئے تو اس رات یہودیوں کے بت خانوں میں سارے بہت سرنگوں ہو گئے.اور وہ بت پکار اٹھے.لا اله الا الله اسحق نبي الله" د کتاب راحت المحبین اردو ترجمہ مہ ۱۲۶ حصہ دوم افضل الفوائد) اسی طرح ایک جگہ لکھا ہے : بعض بزرگوں کی بعض مواقع ضرورت پر عادت ہوتی ہے کہ طالب کی اللہ و اعتقاد کا اس طریق پر امتحان کرتے ہیں کہ کوئی قول یا فعل ایسا کہتے اور کرتے ہیں جس کا ظاہر باطن کے خلاف ہوتا ہے.یعنی واقع میں تو وہ شریعت کے موافق ہوتا ہے اور ظاہریں خلاف ہوتا ہے.جیسا شیخ صادق گنگوہی نے ایک طالب کے سامنے کہ دیا.لا اله الا الله صادق رسول الله " ر شریعت و طریقت مولانا اشرف علی تھانوی مرکزی اداره تبلیغ دینیات جامع مسجد دہلی در دوسرا ایڈیشن اپریل ۱۹۸۱ء) ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ ایسے کلمے پڑھانے سے ان بزرگوں کا مقصد کیا تھا.ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ ہمارے مخالف لا اله الا الله محمد رسول اللہ کے علاوہ دوسرے کلمہ پر بھی راضی ہیں لیکن اس کے برعکس ایک احمدی بھی آپ کو ایسا نہ ملے گا جو کہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کے علاوہ کسی اور کلمہ پیر راضی ہو.ایک احمدی قید و بند کی صعوبتیں تو برداشت کر سکتا ہے کلمہ کی عزت کی خاطر گردن کو کٹوا سکتا ہے لیکن اس میں کسی قسم کی تبدیلی برداشت نہیں کر سکتا بالکل وہی نمونہ ہے جو آغاز اسلام میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کا تھا.پس احمدی کی شان کلمہ ہے نماز ہے، مسجد سے محبت ہے اذان سے محبت ہے رسول سے محبت ہے لیکن آج کے زمانہ کے علماء اس کے برخلاف تعمل کر کے کلمہ سے روک کر نماز سے روک کر اذان سے روک که مسجد کو مسجد
۱۱۵ کہنے سے روک کر بسم اللہ لکھنے سے روک کر سلام کر نے سے روک کر تبلیغی کاموں میں روکاوٹیں پیدا کرنے کے وہی کردار ادا کر رہے ہیں جو کفار مکہ نے مسلمانوں کے ساتھ کیا پھر غور کرو اور سوچو کہ ما انا علیہ واصحابی کے نقش قدم پر کون ہیں ؟ کفار مکہ کا کردار پیش کر نے والے یا پھر حمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے ؟ جماعت احمد یہ ساری دنیا میں غلبہ اسلام کے لئے کیا کیا کام کر رہی ہے اس کی ایک معمولی سی جھلک ہمارے مخالف کی تحریر سے ہی آپ گذشتہ صفحات میں دیکھ چکے ہیں ہمارے مخالف چاہے ہزار مرتبہ بھی اس کو اسلام کے خلاف بیان کر یںسے لیکن رتی بھر عقل رکھنے والے کے لئے حقیقت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے.اسلام کی شریعت قرآن کریم ہے.جب تک قرآن کریم پر غور نہ کیا جائے ہم اسلام کو نہ تو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس پر عامل ہو سکتے ہیں.اس لئے قرآن کریم کو سمجھنا اور سمجھانا سب سے بڑی بات ہے.جماعت احمدیہ کے عظیم الشان کارناموں میں سے ایک کارنامہ خدمت قرآن کا ہے.ہمیں خود بیان کروں تو کوئی خاص بات نہ ہو گی.زرا پڑھیں ہمار مخالف کی تحریر جو تعصب سے بھرے پڑے ہیں وہ ہماری خدمت قرآن کے متعلق کیا کہتے ہیں.پھر غور کریں کہ خادم قرآن ما انا علیہ واصحابی کے نقش قدم پر ہیں یا پھر تعصب کی آگ میں جلنے والے جن کو ہر نیک کام پھر خاص که خدمت قرآن بھی بڑا دکھتا ہے لکھتے ہیں.قادیانیت کی سب سے کاری ضرب است اسلامیہ پر اُن کے ترجمہ قرآن سے پڑتی ہے، وہ اپنی تائید میں مسلمانوں کی کتاب قرآن مجید کو استعمال کر تے ہیں.اس کا تمام قابل ذکر زبانوں میں ترجمہ کہہ تے ہیں اور ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں شائع کرتے ہیں ، تمام ترجمہ کر نے والے قادیانی اور قادیانیت کے پرجوش مبلغین ہیں.ان تراجم کو اتنے بڑے پیمانے پر تمام ممالک میں پھیلا چکے ہیں کہ آپ اس کا صحیح اندازہ بھی نہیں کر سکتے.
114 قرآن پاک کے انگریزی ترجمے کے متعدد ایڈیشن کئی لاکھ کی تعداد میں وہ شائع کر چکے ہیں.انگریزی زبان میں پانچ جلدوں میں ایک قرآن کی تفسیر بھی شائع کی ہے جو تین ہزار تین سو صفحات پر مشتمل ہے.اس تفسیر کی تخلیص بھی انگریزی زبان میں کی گئی ہے.جو پندرہ سو صفحات پر شتمل ہے.ہالینڈ کی ڈرچ زبان میں قرآن کے ترجمے کے تین ایڈ یشن اب تک وہ شائع کر چکے ہیں جرمنی کے ترجمے کے تین ایڈیشن ، مشرقی افریقہ میں واقع کینیا کی سواحیلی زبان میں ترجمہ قرآن کے تین ایڈیشن یعنی تین ہزار نسخے شائع ہوئے ہیں ، نائیجیریا کی زبان یورویا میں قرآن کا ترجمہ کیا گیا ، اس کے بھی تین ایڈیشن نکلے ہیں.ڈنمارک کی زبان ڈینش میں ترجمہ کر کے اس کو دس ہزار کی تعداد میں طبع کرا کے تقسیم کیا گیا ، یوگنڈا کی زبان یوگنڈی میں ، یورپ کی جدید زبان اسپر نٹو میں، انڈونیشیا کی زبان انڈو نیشین، فرانس کی زبان فریج میں، روسی، اٹالین ، سپینش، پرتگالی اور بنگلہ زبان میں قرآن کے ترجمے کرائے گئے ہیں.مشرقی افریقہ کی بعض دوسری زبانوں کیکویو ، ٹوڈ کی کامیہ میں بھی قرآن کا ترجمہ کیا جاچکا ہے، آسامی ، پنجابی اور ہندی میں ترجمے کرائے جاچکے ہیں.حین میں سے بعض شائع ہو چکے ہیں.بعض طباعت کی انتظار میں ہیں، عنقریب وہ بھی شائع ہو جائیں گے مغربی افریقہ کی مقامی زبانوں میں مثلاً سیرالیون کی زبان بینڈی ، گھانا کی زبان فنٹے ، توائی نائیجیریا کی ایک زبان ہاؤ سا اور نجی کی زبان فجنین میں ترجمہ کا کام جاری ہے.مستقبل قریب میں دہ بھی شائع ہو جائیں گے ، چینی زبان میں بھی ترجمہ قرآن کی تیاری ہو رہی ہے." ، و دارالعلوم دیوبند احیا و اسلام کی عظیم تحریک ص۱۹۹ ۲۰۰ ) خدا تعالٰی کے فضل سے جماعت اس وقت تک پچاس زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ
K شائع کر چکی ہے اور سو زبانوں میں مکمل کر نے کا پروگرام جاری ہے.قارئین غور کریں! اور بتائیں کہ خدمت قرآن میں کون ہے جو جماعت احمدیہ کا مقابلہ کر کے.خدمت قرآن کرنے والے، قرآن کی اشاعت کرنے والے قرآن پر عمل کرنے والے اقرآن کی تعلیم کو عام کرنے والے، اور ہر فرد بشر کہ قرآن سمجھانے والے یہ ما انا علیہ واصحابی کے مصداق ہیں یا وہ مصداق ہونگے جو قرآن کو اس لئے جلاتے ہیں کہ اسے جماعت احمدیہ نے شائع کیا ہے اور لوگوں کو پڑھنے سے رو کہتے ہیں کہ اسے جماعت اصویہ نے شائع کیا ہے.خدا ہی ہے جو بصیرت بھی پیدا کر نے والا ہے اور بصارت بھی.۱۲.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہے جواب میں اس جگہ لکھتا ہوں.وہ یہ کہ جب مسلمانوں کی تبلیغ آہستہ آہستہ پھیلنے لگی اور کفار مکہ کی کوئی پیش نہ جاتی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد آہستہ آہستہ لوگ جمع ہوتے جاتے مسلمانوں کی اس ترقی اور اس کے بالمقابل ہر میدان میں نا کامی ھے رؤساء مکہ کے دلوں میں گھرا ہٹ پیدا کر دی تو انہوں نے متفق ہو کر ایک فیصلہ کرنے کی ٹھانی اور آپسی اتحاد کے بارے میں اکٹھے ہو کہ خانہ کعبہ میں غور کیا اس پر تمام قبائل کے رؤساء نے مل کر مسلمانوں کے ساتھ مقاطعہ کرنے اور اُن کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا.باقاعدہ ایک معاہدہ لکھا گیا جس پہ تمام رؤساء نے دستخط کئے اس معاہدہ میں شامل ہو نے والے قریش کے علاوہ قبائل بنو کنانہ کے رو سا بھی شامل تھے.پھر وہ ایک اہم قومی عہد نامہ کے طور پر کعبہ کی دیوار پر آویزاں کر دیا گیا.اس معاہدہ ہے لکھے جانے کے ساتھ ہی تمام بنو ہاشم اور بنو مطلب شعب ابی طالب میں جو ایک پہاڑی درہ کی صورت میں تھا محصور ہو گئے اس کے ساتھ ہیں مسلمانوں پر تکلیفوں کے پہاڑ ٹوٹ گئے.ان تکالیف کا عرصہ تقریباً تین سال تک لمبا چلا.اور اس کا اختتام اس طرح ہوا کہ خدا تعالے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی کہ وہ معاہدہ جو مسلمانوں کے خلاف لکھا گیا تھا وہ اللہ کے نام کے سوا سب مٹ چکا ہے.اس کی خبر جب رور چکا ہے.اس کی خبر جب روسا یکہ تک پہنچی تو انہوں
نے دیکھا کہ واقعی ایسا ہی ہوا ہے اس طرح تین سال کے لمبے عرصہ کی قید سے مسلمانوں نے نجات پائی.تاریخ اسلام کا یہ پہلا واقعہ ہے کہ یا ہم اختلاف رکھنے والے قبیلے جو ایک نظر بھی دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے تھے مسلمانوں کے خلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف آپ کے ماننے والوں کے خلاف متحد ہو کہ بیٹھ گئے.بالکل ایسا ہی واقعہ اس زمانہ میں بھی پیش آیا اور چودہ سو سال پرانی تاریخ پھر دہرائی گئی.امام مہدی علیہ السلام کی قائم کردہ جماعت جب چهار جہت پھیلنی شروع ہوئی اور اس زمانہ کے علماء سو اس کے مقابلہ کی تاب نہ لا سکے تو اُن کے دلوں میں بھی ایک خوف پیدا ہوا.اور وہ دل جو کہ ایک دوسرے کے لئے پھٹے ہوئے تھے جن کے نمونے آپ پڑھ چکے ہیں وہ بھی جماعت احمدیہ کے بالمقابل اکٹھے ہو گئے اور پاکستان کی نام بنیا د قومی اسمبلی میں نمبران اسمبلی سر جوڑ کر بیٹھے اور اسمبلی کے باہر مجلس عمل کے نمائندے جو پاکستان کے سات کروڑ مسلمانوں کی نمائندہ تھی ایک ویسا ہی فتویٰ ان لوگوں نے بھی تیار کیا.مختلف دفعات لگاتے ہوئے فیصلہ یہ کیا کہ جو شخص بھی احمدیوں میں سے ان باتوں یا کاموں کو کرے گا تو اُسے تین سال قید ہوگی.خدا نے کفار مکہ کے ذریعہ مسلمانوں پر ہوئے تین سالہ ظلم کے عرصہ کو جو انہوں نے اپنے وقت کی قومی اسمبلی میں کیا تھا پاکستان کی قومی اسمبلی کے ممبران کے ہاتھوں کو باندھ کر لکھوایا.اور ہر دو قومی اسمبلی کے فیصلوں میں زبر دست مشابہت قائم کر دی.اے پڑھنے والو ! بتاؤ کہ آغاز اسلام میں قید و بند کی تکالیف دینے کا فیصلہ کرنے والے کون تھے ؟ اور پھر جن پر یہ ظلم ہوا وہ کون تھے ؟ آج بھی اگر وہی تاریخ پھر دہرائی جاتی ہے تو ما انا علی اصحابی کے مطابق ظلم کرنے والے کون ہوئے اور جس پر حد مقرر کی جاتی ہے وہ کون ؟
114 ۱۳ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسلمان کفار کے ظلم سے تنگ آکر دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کر تے.اس ہجرت کا ایک مقصد تو یہ ہوتا کہ نئے علاقوں میں جا کر تبلیغ اسلام کریں اور دوسرا یہ مقصد ہوتا کہ تا سکون کی زندگی بسر کریں.لیکن کفار مکہ اُن مسلمانوں کا پیچھا کرتے اور دیگر ممالک کے بادشاہوں کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے.مسلمانوں کے حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا واقعہ بڑا مشہور ہے پھر کفار مکہ کا نجاشی کو جا کر مسلمانوں کے خلاف اکسانے کا واقعہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں.بالکل وہی طریق آج تمام مسلمانوں کے فرقوں کے علماء نے مل کر جماعت احمدیہ کے خلاف اختیار کر رکھا ہے.اول تو اپنے ملکوں میں ظلم کرتے ہیں اور اگر احمدی دیگر ملکوں میں چلے جائیں تو ان کا پیچھا کرتے ہوئے وہاں.....جاتے اور وہاں کی حکومتوں کوہ جماعت احمدیہ کے خلاف اکسا تے ہیں.اور تبلیغی کاموں میں روکاوٹیں پیدا کر نے کی کوشش کر تے ہیں.اس بات کی شہادت کے لئے آپ مطالعہ که ین کتاب دارالعلوم دیوبند احیاء اسلام کی عظیم تحریک ص۲۷۳ تا ۲ جس میں خود ہمارے مخالف علماء نے اپنے خلاف شہادتیں جمع کر دی ہیں جس میں انہوں نے دیگر ممالک کے سربراہان کو جماعت کے خلاف اکسانے کی اپنی کوششوں کا ذکر کیا ہے بالکل اسی طرح جس طرح مسلمانوں کے خلاف کفار مکه دیگر سر برایان ممالک کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا کرتے تھے غور کریں اور بتائیں کہ اب کفار مکہ کے نقش ) قدم پر کون ہے اور ما انا علیہ واصحابی کا مصداق کون ؟ ما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عَنْ حَذَيْفَةَ رضي الله عنه قال قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم تَكُونَ النُّبرَ فِيكُمْ مَا شَاء اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا الله تعالى ثمَّ تَكُونُ خِلَافَةَ عَلَى مِنْهَاجِ.النبوة ما شاء الله اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعَهَا اللهُ تَعَالَى ثم تكون ملكاً عاماً فَتَكُونَ مَا شَاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكًا جَبْرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تعالى ثُمَّ تَكُونَ.
۱۲۰ خِلَافَة عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَلَتَ.(مسند احمد - بحوالہ شكراة باب الانذار والتحذير هام بحوالہ حديقة الصالحين (۴) یعنی حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور نبوت کی منہاج پر خلافت قائم ہوگی پھر اللہ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اُٹھا لے گا پھر اس کی تقدیر کے مطابق کو نہ اندیش بادشاہت قائم ہوگی جس سے لوگ دل گرفت ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے.جب یہ دور ختم ہو گا تو اُس کی دوسری تقدیر کے مطابق ظالمانہ بادشاہت قائم ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم وستم کے دور کو ختم کر دے گا.اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی.یہ فرما کہ آپ خاموش ہو گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری ہوا بعدہ وہ تمام حالات پیدا ہوئے جس کی پیش گوئی کی گئی تھی.ان تمام واقعات کے بیان کرنے کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی الفاظ دہرائے جو نبوت کے ختم ہونے پر خلافت را شدہ کے لئے بیان فرمائے تھے کہ تم تكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهاج النبوة كه پھر اس کے بعد خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ما انا علیہ و اصحابی کی نشانی کو آخری زمانہ میں خلافت علی منہاج نبوت کی مشابہت کے ساتھ واضح فرما دیا ہے کہ وہ جو میرے اور میرے صحابہ کے دو نقش قدم پر ہوں گے اُن میں خدا تعالیٰ خلافت کا ویسا ہی سلل بازی کرے گا جیسا کہ میرے بعد جاری ہوگا.آج خدا تعالیٰ کے فضل سے امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے بعد قدرت ثانیہ کی صورت میں خلافت کا سلسلہ جماعت احمدیہ میں جاری ہو چکا.مسلمانوں میں سے کون سا ایسا فرقہ ہے جو اپنے اندر یہ نشانی دکھا سکے پس ما انا علیہ واصحابی کے مصداق خلافت حقہ اسلامیہ پر ایمان لانے والے اور اس کو قبول کر نے والے ہیں یا پھر وہ لوگ ہوں گے جو آنحضرت
١٢ - صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مکفر اور خلافت حقہ اسلامیہ سے مکذب ؟ -۱۷ خدا تعالے کی طرف سے جب بھی کوئی دنیا کی ہدایت کے لئے آیا اور اس نے خدا کے پیغام کو دنیا والوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی تو مخالفین نے اس کے مقابل پر شور مچایا اور لوگوں کو منع کیا کہ نہ اس پیغام کو سنو اور نہ ہی پڑھو بلکہ جہاں کہیں ایسی باتیں ہو رہی ہوں تو شور مچا دو اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے خدا تعالے قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لهذا القُرآنِ وَالْغَوا فِيهِ لَعَلَكُم تَغْلِبُونَ ( حم السجدة آيت (۲) یعنی اور کفار نے کہا، اس قرآن کی تعلیم ست سنو اور اس کے سُنانے کے وقت شور مچا دو.تا کہ اس طرح تم غالب آجاؤ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ قرآن کریم کی تعلیم سننے سے لوگوں کو نہ صرف منع کیا کر تے تھے بلکہ ڈرایا بھی کہتے تھے اور کہا کہ تے کہ اس کی باتیں مت سنو یہ جادوگر ہے تاریخ اسلام میں ایسے بھی واقعات موجود ہیں کہ لوگ جادو کے خوف سے کہ کہیں بھول چوک سے بھی ہمارے کانوں میں آواز نہ پڑ جائے اس لئے وہ لوگ اپنے کانوں میں روٹی ڈال لیا کرتے تھے راستہ چلتے تو پوچھتے ہوئے کہ کہیں اس طرف محمد صلی اللہ علیہ سلم تو نہیں جار ہے.آج کے زمانے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر اُس جنتی جماعت کی بنیاد ڈالی تو اس کے ساتھ ہی ما انا علیہ واصحابی کے نمونے اس لحاظ سے بھی اُن سے پھوٹنے لگے.علماء نے اعلان کئے کہ مرزا د غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام) جادوگر ہے نہ اس کی باتیں سنو اور نہ اس کی کتابیں پڑھو بلکہ اس کے سائے سے بھی بچو کہ اس سے بھی جادو ہو جاتا ہے.آج بھی علماء ہر جگہ یہی راگ الاپتے ہیں کہ احمدیوں سے مت ملوان کی کتابیں مت پڑھو ان سے باتیں
۱۳۳ ست کرو.ان کے قریب مت جاؤ ان کو قریب مت آنے دوکیوں ؟ اس لئے کہ یہ جادو کر دیتے ہیں.اور پھر احمدی جہاں کہیں بھی لوگوں کو جمع کر کے اسلام اور قرآن کی باتیں بتاتے ہیں وہاں مخالف لوگ جمع ہو کر شور کرتے ہیں تا کہ لوگ ہماری باتیں نہ سنیں اس طرح شور کر کے وہ غالب آنے کی کوشش کر تے ہیں.یہ کسی ایک ملک یا ایک خطے کی بات نہیں ساری دنیا میں مخالفین نے غالب آنے کی غرض سے یہی طریق اپنا رکھا ہے.مباحثات کے لئے دعوت دیتے ہیں پھر جب جواب نہیں بن پڑتا تو اپنی حقیت کو مٹانے کے لئے شور ڈال دیتے اور لوگوں کو مشتعل کر دیتے ہیں، بیٹی میں آندھرا پردیش میں یوپی میں مہاراشٹرا کے دیگر علاقوں میں تو میرے ساتھ مخالفین نے یہی رویہ اختیار کیا اور ایسا ہر جگہ ہوتا ہے غور کریں اور سوچیں کہ مارنا علیہ واصحابی کے نقش قدم پر کون ہے اور کفار کے نقش قدم پر کون ؟ ۱۶ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طائف میں تبلیغ اسلام کی غرض سے گئے تو طائف والوں نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا.پھر آپ کے اصحاب جبہ تبلیغ کے لئے جاتے تھے تو کفار اُن کے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے یہ کسی پر پوشیدہ نہیں.تبلیغ اسلام کرنے والوں کو پتھر مارے جاتے گالیاں دی جاتیں مارا جاتا حتی کہ قتل تک کر دیا جاتا.اس کام کو کوئی ایک قبیلہ نہ کرتا بلکہ سب مل کر کر تے.کوئی ایک واقعہ بھی آپ تاریخ اسلام سے ایسا پیش نہیں کہ سکتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ اسلام کے لئے کسی کو مارا ہو ، کسی کا قتل کیا ہو، کسی کو گالی دی ہو ، کسی کو پتھر مارے ہوں البتہ یہ کام آپ کے مخالف آپ اور آپ کے صحابہ کے ساتھ کرتے تھے کہیں ضروری تھا کہ اس دور آخر میں ما انا علیہ واصحابی کے مصداق لوگوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا.کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا کہ دنیا کے کسی رہی -
۱۲۳ علاقہ میں جماعت احمدیہ کے افراد کے ساتھ ویسا سلوک نہ کیا جاتا ہو جو آپ اور آپ کے صحابہ کے ساتھ کیا جاتا تھا-- د را پریل ۱۹۹۵ء کو مالیگاؤں مہارا شڑا میں افراد جماعت احمدیہ کے ساتھ وہاں کے مسلمانوں نے مل کر کیا سلوک کیا اخباریں اس کی شہادت دیتی ہیں کہ تبلیغ کرنے کے دوران پتھروں سے لاٹھیوں سے جوتوں سے لاتوں سے اُنہیں مارا گیا گالیاں دی گئیں اور پھر شہر بدر کرنے کی دھمکیوں کے ساتھ پولیس پر دباؤ ڈال کر شہر میں داخلہ پر پابندی عائد کرا دی.سوچو اور غور کرو کہ مارنے والوں کا کردار کن سے مشابہت رکھتا ہے اور مار کھا نے والوں کا کر دار کن سے، پھر ما انا علیہ و اصحابی کے مصداق کون لوگ ٹھہرے ماریں کھانے والے یا پھر مارنے والے تاریخ احمدیت میں کتنے ہی نام ایسے ہیں جو محض تبلیغ اسلام کے جرم میں اور امام مہدی کے مصدق ہونے کے جرم میں شہید کئے گئے.پس غور کریں اور بتائیں کہ شہادت پانے والے کون ٹھہرے اور شہید کر نے والے کون ؟ آغاز اسلام میں کون کس کو قتل کیا کہ نا تھا ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :...میسج وقت اب دنیا میں آیا : خدا نے عید کا دن ہے دکھایا مبارک وہ جواب ایمان لایا : صحابہ سے ملا جب مجھے کو پایا وہی سے ان کو ساقی نے پلادی : نَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الأَعادِي در ثمین ) قرون اولیٰ اور قرونِ آخر میں مشابہات کی کتنی ہی نشا نیاں ہیں جو ما انا عليه واصحابی کے نمونے کو واضح کرنے کے لئے پیش کی جاسکتی ہیں لیکن میں اس پر اکتفاء کرتا ہوں.صاف دل جو تقویٰ سے معمور ہوں ان کے لئے اس قدر واقعات پر غور کرنا ہی کافی ہے.پس جماعت احمدیہ کی صداقت اور مارنا علیہ واصحابی کی مصداق جماعت احمدیہ میں
۱۲۴ ایک رتی بھر بھی شک کی گنجائش باقی نہیں رہی جنت مسیح موعود میرا سلام فرماتے ہیں.جب کھل گئی سچائی پھر اسکو مان لینا نیکوں کی ہے یہ خصلت راہ حیا یہی ہے (درشین ) حضرت مسیح موعود علی السلام فرماتے ہیں.ار پھر عقلمند کو ماننے میں کیا تائل ہو سکتا ہے، جب وہ ان تمام امور کو جو بیان کئے جاتے ہیں.یکجائی نظر سے دیکھے گا.اب مدعا اور منشا اس بیان سے یہ ہے کہ جب خدا تعالی نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے.اور اسکی تائید میں صدہ ہانشان اس نے ظاہر کئے ہیں.اس سے اسکی عرض یہ ہے کہ یہ جماعت صحابہ کی جماعت ہو اور پھر خیر القرون کا زمانہ آجاوے جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں چونکہ وہ آخَرِينَ مِنْهُمُ میں داخل ہوتے ہیں.اس لئے وہ جھوٹے مشاغل کے کپڑے اتار دیں.اور اپنیے ساری توجہ خدا تو کالی کی طرف کریں.پیج اعوب ( شیر بھی فوج ) کے دشمن ہوں.اسلام پر تین زمانے گزرے ہیں.ایک قرون ثلاثہ اسکے بعد فیج اعوج کا زمانہ جسکی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لو امتى ولَستُ مِنْهُم - یعنی وہ مجھ سے ہیں اور نہ میں اُن سے ہوں اور تیرازہ مستانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم ہی کے زمانہ سے ملحق ہے بلکہ حقیقت میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علی سے کم کا زمانہ ہے.فیج اعوجا کا ذکر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بھی فرماتے تو یہی قرآن شریف ہمارے ہاتھ میں ہے اور اخرينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ صاف ظاہر کرتا ہے کہ کوئی زمانہ ایسا بھی ہے جو صحابہ کے مشرب کے خلاف ہے اور واقعت بتا رہے ہیں کہ اس سال کے درمیان اسلام بہت ہی مشکلات اور مصائب
۱۲۵ کا نشانہ رہا ہے.معدودے چند کے سو اس نے اسلام کو چھوڑ دیا اور بہت سے فرقے معتزلہ اور اباحتی وغیرہ پیدا ہو گئے ہیں.مگر اب خدا تعالی نے ارادہ فرمایا ہے کہ ایک گروہ کثیر کو پیدا کرے جو صحابہ کا گر وہ کہلائے مگر چونکہ خدائی کی کا قانون قدرت یہی ہے کہ اس کے قائم کردہ سلسلہ میں تدریخی ترقی ہوا کرتی ہے اس لئے ہماری جماعت کی ترقی بھی تدریکی اور گزرے (کھیتی کی طرح ) ہوگی.د ملفوظات جلد ۳ ص ۱۹۹۲ 16 پس وہ ناجی جماعت جس کے متعلق قرآن کریم و آخرين منهم لما يلحقوا بهم فرماتا ہے امام مہدی مسیح مولود علیدات لام کی تھے تعلق رکھنے والا ہے اور یہی جمات ما انا علیہ و اصحابی کی مصداق ہے.حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ " وأقول قولا عجبًا لَمْ يَسْمَعهُ أَحَدٌ وَمَا أَخبر به مُخبر باعلام الله تعالى اياى و بفضله وكَرَمِهِ آنچه بعد از هزار و چن سال از زمان رحمت آنسردار علیه و آلہ الصلوات والتحیات زمانے بر آید که حقیقت محمدی از مقام خود عروج فرماید و مقام حقیقت کعبه متحد گردد.و این زمان حقیقت محمد کی حقیقت احمدی نام باید و مظہر ذات احد جال سبحانه گردد در ساله مید مواد صده) یعنی میں ایک عجیب بات خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور اس کے خبر دینے سے بتاتا ہوں جسے کسی نے نہیں سنا اور نہ آج تک کسی خبر دینے والے نے اس کے متعلق خبردی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت سے ایک ہزار چند سال بعد ایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ جب حقیقت محمدی اپنے مقام سے عروج کر کے حقیقت کعبہ سے متحد ہو جائیگی دیعنی حقیقت محمدیت جو اپنے اندر خلالی رنگ رکھتی ہے حقیقت کعبہ سے متحد ہو جائے گی
گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدنی زندگی جو جلالی رنگ رکھتی ہے سے مکی زندگی کی طرف جو جمالی رنگ رکھتی ہے کی طرف لوٹیں گے) اس وقت حقیقت محمدی حقیقت احمد کے نام موسوم ہوگی.اور احمدیت خدا کی صفت احد کا مظہر ہوگئی.اس حوالہ سے اول بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ امت محمدیہ میں ایک ایسا سلسلہ قائم ہو ہو گا.جو احمدیت کے نام سے موسوم ہو گا دوسری بات یہ کہ اس کا قیام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت سے ایک ہزار سال سے کچھ اوپر سال گزرنے کے بعد ہو گا تیسری بات یہ میںلوم ہوتی ہے کہ وہ سلسلہ جمانی رنگ رکھتا ہو گا اور وہ سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی سے مشابہت رکھتا ہو گا.جماعت احمدیہ کا حال بالکل مکی زندگی کے مشابہ ہے اسی بات کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہو کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں." اور اس فرقہ کا نام مسلمان فرقہ احمد یہ اس لئے رکھا گیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام تھے.ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم.دوسرا احمد صلی اللہ علیہ سلم.اور اسم محمد جلالی نام تھا اور اس میں مخفی پیشگوئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان دشمنوں کو تلوار کے ساتھ سزا دیں گے جنہوں نے تلوار کے ساتھ اسلام پر حملہ کیا اور صدہا مسلمانوں کو قتل کیا.لیکن اسم احمد جمالی نام تھا.جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم دنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے.سوخدا نے ان دو ناموں کی اس طرح پر تقسیم کی کہ اول آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی مکہ کی زندگی میں اسم احمد کا ظہور تھا.اور ہر طرح سے صبر اور شکیبائی کی تعلیم تھی.اور پھر مدینہ کی زندگی میں اسم محمد کا ظہور ہوا اور مخالفوں کی سرکوبی خدا کی حکمت اور مصلحت نے ضروری کبھی.لیکن
پیشگوئی کی گئ تھی کہ آخری زمانہ میں پھر اسم احمد ہو کرے گا اور ایسا شخص ظاہر ہو گا جس کے ذریعہ سے احمدی صفات یعنی خالی صفات ظہور میں آئیں گی.اور تمام لڑائیوں سے کا خاتمہ ہو جائے گا.پس اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمدیہ رکھا جائے تا کہ اس نام کو سنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے.اور جنگ اور لڑائی سے اس فرقہ کو کچھ سرد کا نہیں.سواے دوستو ! آپ لوگوں کو یہ نام مبارک ہو.اور ہر ایک کو جو امن اور صلح کا طالب ہے.یہ فرقہ بشارت دیتا ہے.نبیوں کی کتابوں میں پہلے سے اس مبارک فرقہ کی خبر دی گئی ہے.اور اسکے ظہور کیلئے بہت سے اشارات ہیں.زیادہ کیا لکھا جائے.خدا اس نام میں برکت ڈالے خدا ایسا کرنے کہ تمام روئے زمین کے مسلمان اسی مبارک فرقہ میں داخل ہو جائیں تاکہ انسانی خونریزیوں کا زہر بکلی ان کے دلوں سے نکل جائے.اور وہ خدا کے ہو جائیں اور خدا ان کا ہو جائے اسے قادر و کریم تو ایسا ہی کر ، آمین ر تریاق القلوب روحانی خندان جلد ۵ ( صقر (۵) ۵۲۸ پس اے حق کی تلاش کرنے والوں ! حق آگیا اور باطل بھاگ گیا باطل کا کام ہی بھاگنا ہے.میری ان باتوں پر غور کر و خدا سے دعا کہو کہ وہ رہنمائی عطا فرمائے تا آپ بھی ناجی بیت میں شامل ہو کر ایک جماعت کہلا سکیں ایک امام کے تابع آسکیں اور کا انا علیہ واصحابی کی صف میں کھڑے ہوسکیں اور آپکی موت جاہلیت کی موت نہ ہو بلکہ اس دنیا میں ہی رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کے مصداق ٹھہریں.آمین ثم آمین آؤ لو گو کہ نہیں نور خدا پاؤ گے لو تمہیں طورستی کا بت یا ہم نے
۱۲۸ مراد ان ! ہم زمانے میں اس ور نار قیمت شی باید یو بند یہ عقائد والوں کی نسبت ان موعنا السنت والجماعت کا نفقة و5 ہے کہ بلاست و قرتمون مجید نے کیا سے آنگوها میل رسیده انه و شمال ما وأخره توانا کہ وہ موت کی آگاہ ھو تو مران خان سے جو ایلیا نے موصوت
۱۲۹ امام صاحب جامع مسجد را مرور سے تعلق بریلوی ، دیوبندی ، رام پلوتی مولانا مفتی منظر کہ مولانا.استید حسین احمد تا موران ابی الدین به خاصه علماء کا مسته فوی ایسے امام کے پیچھے نماز مکروہ نا اور اسے برخاست کردینا نوری توضیحات سوال ابوام كوما و هم له كارهون الت الكرامة إفساد فيه اولاتهم حو بالاما كره له ذلك تقريما الحديث في دادم ولا يقبل الله صلاة من نقد ان ای سی ایران میر صاحب ضد درد را تمام دیو نے جو دودی تحریک کے خلافہ روتی رستے ہوئے تھی.روی فوما و هم له كارهون و ان هو ا حق لا والكرامة بلادهم.در مختار فقط والله الالم سيد احد ان لا في مظاہر العلوم سہارن پور در شمال شهر توریم ہے کہ کوئی مسجد کا امام جو مردودی صاحب کہ ہم قبال جو اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے ہے سل.سو وہ بھی قیامت کے اور کان دھ این اعلام می شد و به نظر بہت کم ہیں لیکن تحریک کو متاثرہ ہم خیال اور کارکن کافی ہیں.مود دوریوں کا اسکا نہ صرف ہم احتسات مقلدین امام اعظم ابو حنیفہ الا الہ ملک کے خلاف ہے علاوہ ہوتا می کر بی جواب رکن اصطلاحی نہ ہونے کے باوجود تحریک کے اتنے شدید عالی امام خیال اور کار با تو می سنت و الجماعت کے خلاف بھی ہے اس نے کسی مورادی خیال امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنی چاہیئے اور ہیں جتنے کہ بعض ارکان اصلاح کہا ہوگا نہیں، اس لئے ایک شخص کو جو تحریک کا با رجانی و ہم خیالی ہو و و و و و و و و نان و ایلامی میں یا کرنے کے لیے اقرار کرده ایم اما او را است که این را از دست داد صلحت آصور مو د دویت سے ہم خیال ہونے سے انکار کردے اور میں عصمت سے بھی انکار کرا دے کر وہ اُس کا رکن (اصطلاحی) نہیں از کتبہ جنگ اسلام همین امر راه، در عقد الامارات اعلان جاود الاسلام فول اسید مین احمد فی ما جاب موفق و بیکا لا يخالفه الاسن سیتید فی او الضلال ما حق الجواب حق زید کے اقوال و اعمالی اور اس کے طرز عمل سے ایک بڑے شہر کے جمہور سالمین کو اس کا یقین ہے کہ نید موجودی تحریک کا ہم خیال و مالی اور بیڑا کا رکن ہے لیکن کسی نقصان سے بچنے کے ڈرہم مصلحتاً ) الجواد اور مجدد دی جماعت کا رکن اصطلاحی ہم نے کی آڑ لیکر تو ریشہ انکار کردیتا ہے اور پھر اسی طرز کی ہے سید موادی میں مفتی دارالعلوم دیوید محمد خلیل عقد بیه الجواب صحيح الجواب محراب تیو را احمد بخط اليه الجواني مالي قائم رہتا ہے، ان میں خیالات کی تبلیغ کرتا ہے، اپنی ہی لوگوں سے اس کا میل و اتحاد ہے اور مودود کی تھر کب کی تردوا ماتحت کرنے والیاری سے میلودگی و مخالفت رکھتا ہے ، بزرگان و من و سه هند صالحین کے باب میں بے باکانہ گستاخانہ الفاظ است مالی کرتا ہے ، پختہ اعلی کو کورانہ تقلب بستی الجوانب م ہے، طریقہ رانی آیت خوانی کو تو گناہ کا کام اور اس میں شامل ہونے والوں کو کتنا ہوا.کہتا ہے.محمد میمان علی خور با علم جمعیت العلما میاد قد صح الجواب لیکن ایک رئیس کیر کے یہاں ہوں، یہ عنائی کی رسم سورتیں خوانی میں شریک ہوتا اور معاوضہ مولا پہنا ہے پیچیدہ کی ربات بر گیر درست نہیں لیا قت العمل کافی الله و ( امپوری الجواب مواب والاله آنان علم و ولی کرتا ہے ، الی قیر بیک.سوالات لہذا فایل سوال دو امر ہیں :.امر اول :- صدر شان دار العلوم دیوبند کا یہ قومی کہ مودودی صاحب کے ہم خیال امام کے پیچھے نماز مکروہ ہے، صحیح ہے یا غلط ؟ اسر دوم :- فریز میں کے اقوال و اعمال اور طرز عمل سے کسی شہر کے مجبور سیمین یہ یقین رکھنے عید اکھیار خالی درایو کام الجواب مع وحید الدین احمد فانه برسی اولی در بعده مایه را پیوندها جواب صحیح مصر محمود الحسن خضر که تو بهانه ای ای که صفر در حالیه و اما الورد ناش دیران محمد و الله خلال نقش بندی عنایتی محل زیارت حذفت والی رام پور نا انہ لینے والی کسی کا کھانانہ کھانے والی ایمان ٹی کی آڑ میں شکاری ایران ایران در راه است که در دیدار خانواده بالا مضمون کو رکھے ہی لیا ہو گیا.اب ڈرا سہفت روزہ بیان جور مورخہ حمید اکتوبر کا اقتباس ملا نہ ہو.ہیں کہ وہ موجود ہی تحریک کا ہم خیال دھائی ہے لیکن معلمان و توریشہ انکار کردیتی اس وقت پاکستانی میں (۷۲۷) عیسائی مشنرمی بہت زور کے ساتھ اسلام کے خلاف تبلیغ کر رہے ہیں.اعد ہے، نیز اپنے دو رنگے طرز عمل اور متضاد باتوں کی وجہ سے جمہور سلین کے دلوں بے پناہ اڑا کر اسلام کے معنی ضائع ہو رہا ہے ہ کا انداز اکثر ہوتا ہے.اسلام اور آنحضرت صلی الہ علیہ سلم کی تعریف اپنی وقعت کھو چکا ہے تو یا زید کے پیچھے ائی یقین رکھنے والے مجہور سلمین شی ابراز دوم کی دنیا رات نہیں ہے اگر بری وانده باشد اما او برای نا امید فردو کی نماز مکروہ ہوگی یا نہیں ؟ اور پھرا ہے شخص کو کسی ایسے بڑے شہر کی محمد جامع کو امام بھایوں کا سعی ما بر ایده و می خواست کیساتے ہیں کی اکثریت نمابہ ایسا یقین رکھنے والوں کی ہو.بنی المعروا واب کی جاتی ہے.بنا کسی نیکی طرح یہ ہی ثابت کیا جاتا ہے کہ ا سلام در اصل خوار کے ذریو بی یار او در تقویت ملی است لینڈ ویریا کے مشنریوں کی پشت پناہ گورد بجوید و پرپنجاب کا مورووی پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کے ایمان و میں نقل و انکر عیسائی بنانا چاہتا ہے اور عیسائیوں کی حکومت پاکستان میں قائم کرنے کی جدوجہد میں مصرورت یہ ہے ا.یہ بات کاحق ہو جاتا ہے کہ بود و دیوں کا مسلک ہمارے ملک کے خلقت ہے اس وجہ سے انکی است شخصی خود پاک پر سی پاکستان عدالت کو پھانسی کا حکم سنایا گیا لیکن امر وان رحم و کرانے سڑنے مجھنے کی امارت و جوادی.نار وه ہے ، صدر مفتی دریا نبیلہ کا قومی سے ہے.بار ستار کی پیاری اگر مست خوب جا کی کا بانا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا م داوامان لیا ان میں کوئی ی اکثریت ان کے حالات سے مطمئن نہیں ہے اور وہ اس منصب پر رہ کے لوگوں کو گمراہ کرنے آیا تو و این ابو الست صاحب امبر اور اسلام اسلام کا کیا ب شد این با ان کو اہم نہیں جاتا یا ہے اور خود میں ان کو انہی صورت میں امامت کی بڑھیں گی اقتدار کرنی چاہئے.رام پورمیں پیش ہوئی وہ ہی بھری پرگئی پت و ماتم کرو نانی تمہاری مرگئی ! عكاس فطرت اسایی و دینی مدرس فقیر جیب بر آباد دکن مند با
IN THE NAME OF - MOST ALLAH GRACIOUS Most.MERCIFUL TABLIEG JAMAAT ۱۳۰ THIS IS TO INFORM You THAT.HAVE BEEN KAAFIER (UNBELIEVERS > CERDER BRANDED! BY QUESTION.WHAT 1 8 TABLING ALWER • 32 MAKKA AND MEDINA ULEMA Tabling in the Islamic contex means TO DELIVER.To deliver the sesange of lalas to those people VRO KAVE NOT YET, RECIEVED THE MESSAGE „Teblig to what ALLAN mention in the holy quran and how soOLOELLAR (S.A.M) AND THE SANABAS went about propagating islam.fa.correct.This present TABLIEGIE JAMAAT WHO CONDEMNS MOULDED AND WHO CALL US DOGS OF HELL when * STAND AND READ GALAAN on our HOLY PROPHET (S.A.W) Is not that of ALLAN AND HIS RASOOL BUT ENTIRELY A WEW SECT.This Tubliegio Jamaat was founded by Molvie Ilšana a follower of the "WAHABI SECT" who is from Deoband India.This TABLIEGIE CULT invented by Moleio Iljano is a SECT AWAY FROM THE TRUE BELIEFS OF 1SLAN and is financed by the memi of Islam..!! QUESTION WET RATE THE ULEMA OF MAKKA AND MEDINA BRANDED THE TAPLING JANAAT SEADERS AS KAFIEP AXSUPER And.They have been branded KAAFIER for their KBFR corrupt beliefs expressed in their own books whom they so desperately defends…..EXAMPLE..Ther belief that if another prophet appears after the era of OUR HOLY SPOPHET (B.A.V) that it still dose not alter the finality of prophethood.The QUADITANIS have used this corrupt helief of the Tubliegie Jannat Leaders to defend their onet who was founded by KIRZA GRULAN ARNED QUADITASI.This Siet han also bọon brandsë KAAPIT throughout the avalis world..CAN YOU NAME ANTONS OF THE TABLIEBIE SECŤ VRO ADMITTED THESE SELIEFS ↑ TES • "GAÐIEK” DESAI OF KALABAR PORT ELISABETH AINITTED THAT ALLAN CAN SPEAK LIES.in the Durban 17.Hoaque Ottenàrge on The 21 DEC.1981 10p.±.in the presence of more than 100 witnesses – VERE AKT OF OUR LOCAL SHIEKAS PRESENT WHEN THIS BROCKING STATEMENT VAS MADES TES Sheikh Abosbakar Mohamed or oſtenhage was present when Desai and the Tabliegie Jament adeiited and defended sore thek one corrupt bellol, + JOE BREIKH JANIEL JARDIN KNOW ABOUT THIS STATEMENTS MADE BY TRESE TAPLIEGE JAMAAT.AND THE DESAI GROUP OF MALABAR in the Durban St.Mosque ? TESS AWARE OF THESE STATE ITS MADE BY THEM – QUESTION.IF THIS IS THE BELIEFS OF THIS DEOBANDI TABLIEGIE JAMAAT "WAHABI SEXT" CHAT WHY DONT OUR LEADERS OPENLY AND DIRECTLY EXPOSE THEN AND FREVENT INNOCENT MUSLING BEING CAUGHT IN THEIR TRAP 7 Amath – 1: could be that they may not have all the facts or that they way shie:2 the truth for personal reasons and to please Tabliegie friends.THOSE WHO ARE BINCERE IN THE DIỄM OF ISLAM WILL OPENLT CONDEMN THIS CORRID TABLIEGIE JAMAAT "WAHABI SECT” IRRESPECTIVE OF WHOM IT HAT NORT.lt it STRICTLY POPSIDDER GRARIAT "inlank las" to allow then to use ouT BO*M* for any of their functiona
isan اشر کہ اگر وہ گروہ بنگئے ترا اس سے کوئی ب تو ہی بتا لترامسلمان کدھر جائے اسے دعلیگ ملنے اسلام دیندار انجمن خانه و مدارا
بسم الله الرحمن الرحيم شک ان لوگوں نے اپنے دیں کو کھڑے کر نے کر دیا اور کہہ کرو بیگئے.تیرانی منان دین مامان شرع متین کے فتووں کی رو سے کوئی یج سکتا.یقین نہ آتے تو ایسے آئین میں فی بریلویوں کے خلاف مولوی احمد رضا خان واتباع کے کافر اور جو انہیں کا فرد کیے کہتے ہیں کسی وجہ سے کبھی شک وشبہ کرے وہ بھی بلا ارد التفكير من (1) میں کا تیتای با رافضی سبرائی وہابی دیوبندی وبانی غیر دیانی، چکڑالوی اور نجیری کے خلاف.عورت کا ذبیحہ جائز ی کار و حلال جیسی کہ نا مانی جل جلالہ لیکر کرے.تهران کافی دیوبندی مالی غیر ماه تا دریانی، چکڑ ا نوی سنچری رمانده حمام قطعی ہیں.اگر چہ کہ لاکی با نام بیٹی نہیں سکتی اور پرہیز گار ملتے ہوں.(احکام شہر ہے اور ) و
۱۳۳ عقائد بریلوی حضرات گرامی، بیا کہ آپ کو پت ہے کہ آج کل بریلوی حضرت اس پاکستان میں یا کرہے ہیں آپ ان کی ہے پڑھ کر خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ نماز ان کے پیچھے نہیں ہوتی یا دیو بندی اور اہل حدیثوں کے پیچھے اور یہ لوگ کب سے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تو ان کا حج کرنے کوئی فائدہ نہیں حقیے ملاحظہ ہوا ہے.عقیدہ نمبرا بریوی مالی فری منظم جمیل غزالی اپنی کتاب تسکین الخواطر میں لکھتے ہیں کہ خدا کو ہر جگہ حاضر ناظر کہنا کفر ہے اور بعض بریلوی ملاؤں نے اللہ تعالی کے حاضر ناظر ھونے کا انکار کردیا.اور بعضوں نے کفر کا فتویٰ دے دیا.تمھیں الزار مت لعنة الله علم سے انکار ہیں کے تاریخیت کرام یہ ہے ان بریلوی ملاؤں کا ایمان کیا مسلمان کہلانے کے حق دار ہی ہے.رضا خانیوں کا عقیدہ ہے کہ خدا تعالے نے ہند میں اپنا نام تبدیل کر کے قریب نوائے رکھا ہوا ہے.جو خود خواب فریب نواز کی شان میں مدفون ہے.العیاذ باللہ عقیده نمبر ۲ اپنا اللہ تعالے نے ہند میں نام رکھ لیا غریب نواز حقیقت میں دیکھو تو خوا جہ خدا ہے ہیں.والد خانه ی این مری من - قارئین کرام اس قسم کی نیت ادر خیلی اشعار کہتا یا مسمانوں کاکام ہوتا ہے عقیدہ میری بر روی ماوں کا یہ ہے کہ لوگ کہتے ہے کوشرکیہ اعمال تکر و یکی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی اپنے پر میت کو پیاری اے ریک کریں کنے والے کام نہیں ہم کو آن جب بڑی شکر را با با شرف الدین ہو رہا کہ وہیں امیر تے ہیں وہ شرکیہ اماں ہیں جن کی وجہ سے اللہ نے فرمایا انما النشوون ن به تارین حضرات کیا یہ خدا پر ایمان رکتے ہیں ہوندا پر ایسا نہیں رکھتے کو مسلمان نہیں ہو سکتے.عقید و مریم رضاخانیوں نے ایک بزرگ کی طرف منسوب کرتے ہوئے شیخ عبد القادر جیلانی نے کی یوں مدح سرائی ہے.سہ در مہر دو کون بھی تو کے نیت استیگیر کرم اسے جان عاشقاں.یعنی دونوں جہانوں میں آپ کے سوا کوئی دستگیر نہیں ہے.میرا ہاتھ پکڑ کیجئے ک عاشقوں کی جان ہیں.حوالہ کی سین نیب خرست حضرات گرایی ایا این کنید تا کی یاد کو شیر کا اسلام تو یہ ہے کہ خالق کائنات کے سوا کوئی دستگیر حضرت علی ہجویری لاہوری نے فرمایا کہ میرے نزدیک فقیر دور ہے میں کان دل ہواور نہ اس کا دا ہور ہوا روانہ درے سے حضرات گرامی در آپ اس بات کو خود اپنی مقال عقیدہ کمرہ سے کر تے ہو کہ ہوا کونہ مانے وہ کافر ہوتا ہے انہیں پیاری ماوں نے نو با الا الہ کے ای میل دوری پر ہی بستان نکا یا حقیقت ہے کہ ایرانی استان ای گلایه ی کی امید ہے کہ بزرگ دائی کا دعوی کرسکتے ہیں.اسی بارہ سے حد نانی جاستی ندفیل فرمایا ہم خدائے والا اور پاکرات ہیں.ہم دور زدن روی ما عقیدہ نمبر 4 حضرات گرامی اگر رہنمائی کا میں کرسکتے ہیں تو نیکو کیوں تین مائی ہو کیوں نہیں کر دیتے تاکہ فرضوں کے جھنڈے نے آجائیں ہے ، نہیں نے طلاق نور الله الله مشرک کی لیکن شیطان مون پکا ہے چنانچہ مال قام بارگرانی پنی تیران العمان میں کھتے ہیں شیطان اور شرک کرتات عقیدہ نمبر کو بھی بت پرستی یا شرک نہیں کرتا دو یا ایسا کہ اس کے کہے میں تم کبھی جیت کی امامت برای بر بریت کی تعلیکم است ورده الجلال کو مشرک کہو اور شیطان ملعون کو پتا توحد کھو یہ کھلا نہ ہوش نہیں تو اور کیا ہے.عقیدہ نمبر ۸ خدائے ذوالجلال کے ساتھ کشتی کیا وہ اس فرقانی نے فرمایا ہے کہ میں سویرے الہ مقالے نے میرے ساتھ کسی کی نہیں کھاڑ دیا.ہماری شما رای مست.عضت جو لعنت ہو ایسے پیروں پر جو خدا کیا اپنے برابر بجانتے ہیتے.یادہ نمبر یہ دعا ہے یہ کیا ہے یہ کیا ہے تیرا اور سب کا خدا اورانا برادر نفت درون است اگر ان کا خدا احد میں ہے تو یہ کہکے مشترک ہیں.مقیدہ نمبر بر نام ہی کا نوں کرکٹ میچ دیکھنے والوں کہ اے میرے امبر 14) چنانچہ کھتے ہیں کہ ہندوستان اور پاک کے درمیان کرکٹ ہی دیکھنے والا رانہ اسلام سے بھری ہے.سی نت رانی کاری وارد اما با این جوان وکتور شایع حضراتے : ان تمام عبارات کو پڑھنے کے بعد فیصلہ کریں کہ ہوگئی جب مسلمان میں در اصل ملمانوں پر کفر کے فتوے لگانا اور شرک بہتا کر نان کا آبائی سخت اور عطیہ کرکٹ کا پیج لاکھوں مسلمانوں نے دیکھا ہے.اس پر ٹیوی ماں نے بے و محرک کفر کا فتوی لگا رہاہے.اپنوں کا ذکر کیا نہ غیروں کا حضرات مندرجہ الا اقامہ کی طبیت اور بھی بہت سارے اپنے گندے عقائد خدا اور رسول اعداد ایسے کے بارے میں انہوں نے بھی میں اگر معلومات حاصل کرنے ہوں تواد پر ان کی میں کتابوں کا توالہ دیاہے ان میں ملاحظہ ہوں اخر میں گا ہے کہ اللہ ہم کو مشہور کی اور ہو تا ہے بجھا کر اپنے توحید پر قائم رکھے اور ان کفریہ عقائد کو بھی اللہ ہدایت ہے ، آمیر سے خادم السلام محسلیمان طارق سیال کو تن منظور احمد ما نیوز این تیرے
العطايا التبول الفَتَاوَى التَضَيَّة جلد ششم مصنفى مجدد دین و ملت العلم ن ت امام احمد منت قادری بریلوی یعنی اللہ تعالی عنہ بفيض تاجدار اہل سنت شہزادہ اعلیحضرت رضا اكيد می بینی ۱۳۰ علی عمر اسٹریٹ مبانی ۳
فتاوی رضویه ۱۳۵ بلند هستم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے لیتے کرتے بہانے بنا کم کار و وے اپنے یہاں کے بعد کوئی یہ پہلے یا کا بلا لیں گے خدا کی تم ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا م م م م م م ا اتا ہے اور ان کے سامنے ہی میں کھیلتے ہی واحد تبار جل و علا رات ہے.بیک ضرور وہ کفر کابل ہونے اور اسلام کے بعد کافر ہو نے لین ان کی قسموں کا اعتبار کر و دانه ها ایمان تهران پیشوایان کفرکی قسمیں کچھ نہیں، اتخن وا ایما نها جنة قصد و امن سبيل الله فلهم من اب معین وہ اپنی قسموں کو ھال بنا کر اللہ کی اہ سے روکتے ہیں لاجرم ان کے لئے ذلیل و خوارکرنے والا عدا ہے ان کے کفر کے سب اللہ نے ان پر لعن کی تو بہت کم ایمان لاتے ہیں وہ جو سول اللہ کو ایذا دیتے ہیں انکے لئے دردناک عذاب ہے، بیشک جو اللہ و رسول کو ایذا دیتے ہیں اللہ نے دنیا و آخرت میں ان پر لعنت فرمائی اور ان کے لئے طیار کر رکھا ذلت دینے و الاعذاب طوائف مذکورمین را به نیجریه و قادیانی و فرمقلدین و یا بند به مکر و لالم الا عالی اجمعین ان آیات کری کے مصداق بالیقین اور قطعا یقین کفار مرتدین ہیں ان میں ایک آدھ اگر چہ کا فرقہی تھا اور صد با کفر اس پر لازم تھے، جسے نمٹ والا ولوی گراب اتباع و اذناب میں اصلا کوئی ایسانہیں جو طا یقینا اجا کافر کلام نہ ہو یا کہ من شدت فی کفره فقد کا جو ان کے اعمال ملعون پر مطلع ہوکر ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے اور احادیث کہ سوال میں ذکر کیں بلاشبہ ان کے اگلے پھلے تا ہے متبوع سب ان کے مصداق ہیں، یقیناوہ سب بدعتی اور استقاق ناری جہنی اور جہنم کے گے ہیں مگر میں خوارج و روافض کے مثل کتار و انفض و وارن پر ظلم اوران و با بی کی کرشان خباثت ہے.افضیوں خارجیوں کی قصد می نشانیاں صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضی اللہ تعالی عنہم پر مصور میں اور ان کی گتانیوں کی اصل مطمح نظر حضرت انبیاء کرام اور خود حضور پر نور شافع یوم النشور میں لی الله علی علیہ وعلی هم دلم بی تفاوت و از کجاست تا کجا، ان تمام مقاصد اور ان سے بہت زائد کی تفصیل فقیر کے رسائل سال اسیون و کو به شایه ولجان السبوت و فتاوی الحرمین و حسام الحرمین و تمہید ایمان وانباء المصطفى و خالص الاعتقاد وقصيدة الاستعداد اور اس کی شرح کشف ملال دیو بند یہ غیر اکثیرہ نبیرہ حافلہ کافلہ شافعیہ وافیہ قلعہ قاری میں ہے واللہ الحمدان کے مجھے اقتدا باطل محض ہے کہ حقال في النهي الاكيد ان کی کتب کا مطالع حرام ہے گر عالم کو فرض یہ دان سے میل جول قطعی حرام ان سے علم کلام حرام نہیں پاس بٹھانا حرام ان کے پاس بیٹھا حرام بیمار پڑیں ان کی عیادت حرام مر جائیں تومسلمانوں کاسا انھیں غسل و کفن دینا حرام ان کا جنازہ اٹھانا حرام ان پر نماز پڑھناحرام انھیں مقابر سلین میں ونی کرنا حرام ان کی تب سے جانا حرام انھیں ایصال ثواب کر نا حرام مثل نماز جنازه کفر قال الله تعالی و اما ينسيناه الشيطان فلا تقصد الحد الذاکری مید القوم الظالمین ، اگر شیطان تجھے بھلا دے تو یاد آئے پر ان ظالموں کے پاس بیٹھے اور فرماتا ہے ولا تو کنوا الی الذین ظلموا فت کو الفاس، اور نہ میل کرو ظالموں کی طرف کہ تمھیں دوزخ کی آگ چھوٹے گی، نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں، نایا کہ وايا هم لا يضلونكم ولا يفتونکو ان سے دور بھاگو اور انہیں اپنے سے دور کر وہ کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں وہ تمھیں نے میں نہ ڈالدیں، دوسری حدیث میں ہے کہ فرما یالا تجالسوهم ولا تو الفوهم ولا نشار بو هه واذا مرضو الا لعود ودام جیسا کہ مولوی سعید بناری کے رسالہ ہدایہ المرتاب صنعت اور ان کے بیٹے او القاسم بنارس کے رسالہ" العرجون القدیم صفت اور نزدیگر اسے غیر مقلدین کے رسائل سے ظاہر رہے ہیں سو جب حدیث صحیح لا یو می سرجل سر جبلاً بالفسوق ولا يرميه بالكفر الله اسم تلاب عليه ان لوکین صاحبه کن امت کے یہ خود مشرک اور بے ایمان ہوئے یا نہیں.مت اور نیز اس میں کہ رانی تیرانی کافر مرتد ہے یا نہیں، بینوا توجروا الجواب جواب سوال اول بلاعب طائفه تانه ف پرجو کیر از دم كفر بین سین، ہمارے رسائل الكوكبة الشمابيه على كفريات الى الوهابيه وسل السيوف الهندية على كفريات بابا النجدية و النهي الاكيد من الصلواة وس او على التقليل و غیرہا میں اس کا بیان شانی دورانی.یہاں نہیں بعض وجوہ سے کلام کریں جبن کی طرف سائل فاضل نے اشارہ کیا.وبالله التوفیق
I ہفت روزه ليل نهار 20583 فتوى
تمانی در این وحشیانہ سزائیں صفحه 10-ے آگے ١٣ NTORY OF UNISATION 17 قائداعظم پر کھر کا فونی سفر ۱۳ سے آگے شو میں شائع ہوا تھا جس کا اردو ترجمہ آئند قادر ہے تو میں اپنے سارہ کے سیدھے سناہ ھے فرائی اور خاموش دیا، اور مسلمانوں کو سی کی جانے تھے تو محکمہ احتساب نے بھی شائع ہوگا.پنی کارگزاری مشروعا کر ہی اس کا قیام منتشر می فروشند انید از امین کے حکم سے ہو ا تھا.یہودی اور عرب تو میمون تقرنی کے سلسلے میں میں حقیقت پر کار بند ہونا چاہئیے آمین جہات میں ملر بنانے پر کا فرد مسلم مردہ ہو ہے دین کے ساتھ محبت رکھنا مه الوت پر تیر آنی فرض ہے دیا ہے.اتنا ہی کو ہمیشہ شبہ کی نظر سے دیکھے جاتے تھے.چنانچہ میں خاندان گھڑی کے خلاف فتویٰ نہیں بلکہ اللہ تبارک و تعالی پر بھی افترا کر دس کو ابی برنده به در حمت کے انسان کے ساتھ ہمیت ہے.ٹرمینیا کے اس میں شادی بیاہ کے ذریعہ عرب یا جمہوری خون ہوتا.سرکاری عہدوں سے محروم رکھا جاتا اور ایسے لوگوں کو مجبور شیخوپورہ کے جماعت اہل مدینہ کے میز و لوکی مد میں سارے پیغام کا خلاصہ بھی نہیں ہو اکہ اسلام خاط و با اصل ہے کیا جاتا تھا کہ مقدم محکم حساب کو جاسوسوں اور اینٹوں صاحب نے تو کی مساور فرمایا ہے کہ.اور بے دین اور کا منہ کسی کے دو درست ہے.دالیا و باش توانی کے نام بتائیں.قیق کا فریوسته و ہ لوگ جنہوں نے اذانیں دیں اور آج کیا ستم شماری بنے کہ وہ ہریت پر اسلام کا پردہ ڈال کر اس محکم احتساب کے ذریعہ ہزاروں اشخاص پر برشت نازین مالکی ، باب ادویات گھڑیوں مروجہ کے در ترک کیاست اس کی اشاعت کی جارہی ہے.ان کی تمنا کاری ہے کہ کا اقرام لگایا گیا محفوظ کرنے لگوں کی طرح بہ کثرت پر تم زندہ سول انہ صلی اللہ علیہ سلم کی کو یہ حساب رکھا سایہ کا اسلیے تعلیمات اسلام کے شہد میں انی اور بے دینی کا تہ بردار مسلما زاپن نوان در تازی کردند انداد در تورا تعلق سنت سے براور مت کے قلوب کے پیوست کیا جا رہا ہے - انا لله و انا و لیلی را برار پھر اسی مندرانتی سے ایک اور حکم جاری ہوا ہے کہ ہر جلا دیے گئے.ہسپانوی او پرتگالی مقبوضات کے باشند نے بھی موقت انام کے مظالم سے بچے نہ سکے چنانچہ وہار بھی احتساب کے شیطان الفداء لوگ میں لاعلم ہو کر کا تر ہوتے جنہوں نے کلدان تم شریعت مسٹر مینا اپنے من وقائد کفرت ینچوں نے وہ تعداد آدمیوں کو مختلف طریقوں سے از میتیں میں گھڑیاں نہ کاریں.اور پھر سیلون پر راستہ اور دن کے مسند کی بنا پہ قلعہ امریک اور نا سی ان اسلام ہے.احمد بر شخص اس پہنچا نہیں اور موت کے گھاٹ اتار اسمان میں موسیو ڈیلون میں آئے نگار ھے.اور وہ لوگ بھی شیطان نے تم پر کار ہوکر کے ان گھروں پر مطلع ہونے کے بعد اس کو سامان بنانے یا است بھی ہے جو فرانسیسی تھا اور مہندوستان کے پر نکالی مقبوض کا فر ہوتے نہوں نے داڑھی مونڈی یا منڈوائی، در قالین ہونے کافر یہ مانے یا اس کے کافر برند مجد نے پر شک رکھے یا ہم کو کافر کہتے ہیں توقف کرے رہ ھی کا قرمر قد شر السلام در ومن میں بدعت کے جرم میں گرفتار ہو ا تھا اس نے مشترک میں اپنی درد ناک داستان فرانسیسی زبان میں کمی تھی اور رنگینیای تری حواله چناریم امس له یانه ی مور ہے تو بہ یا تو مستحق لعنت بینه علام فیض اور دوسرے شعرا کی منظومات کے ریکارڈ متنبہ ان سے معلوم ہوا ہے کہ کیا موتور کھپتی الت پاکستان نیند مقری با الک کے نامور شاعر والا کے کلام پر مبنی ہائی پیچھے ریکارڈ تیاری کر کیا ہے.اله مریکا ر داران کے ایک اس پر آنی تقریباً آدھے گھنٹے کا ه و گر ام را ایمان تو تو ا ستر یا اسی سلسلے کے پہلے ریکارڈ کے اول دوم درخت پر جناب فیض احمد فیض کی شاه رانند نزند گی کے بیٹے اور دو سے کس سالہ دور کے منتخب گر کارون من نور میان اند و یا فریده خانمی غیر از رو بیگم اخیرہ کی آوازوں میں بن کہیں گے.یہ ریکارڈ آئیندہ چند ہفتوں میں دستیاب ہو سکیں گے بالکل اسی طرح کہتی نہ کی ، جناب فیض احمد فیض کی ساٹھ سالہ مبشن سالگرہ کے موقع (فروری سنہ پر ان کے تیرے اور چوتھے دس سالہ دور کے منتخب کلام کے ریکارڈ بھی جاری کر رہی ہے.امید ہے کہ جناب فیض احمد فیض کے محقہ بن بر روی کار و محظوظ کر سکیں تھے.
ہم پر واجب ہوا کہ اس کا جواب و ہوے.اس صلح نامہ کا یہ ہیں کہ جب طائی ہو کو ون پر پیش نمی زہر ہے کہ باعث ار والیل ہوئے جمع وحمامات سے نکالے گئے.اور جن میچ میں جمع ہو کر نما کھتے اس میں ہے.فرتی کے ساتھ پر کئے گئے اور جوان قیصری باغ میں ناز جمعہ پڑھتے اجازت ما ہو گئی تو سی پالنے ؟ بند ہو گیا.عورتیں منگوم النے ان کو کہا کہ صبر کہ وہیں لوگوں سے صلح کرتا ہوں اگر دماغ قابل دو پڑتا کو کل کانون کے چھینی گئیں.سروے ان کے لیے تجہیز و تکفین اصلا بے بہار گڑا ہوں میں دیا.وغیرہ وغیرہ تو کذاب قادیانی کے یہ اشتہار مصالحت کا دیا ں چاہتے ار مینار ہو کہ.لیکن وہ اشتہار بھی کمر اور سیب اور مراع سے نملورت شمون ہے میں مسقوف انشاء الله شیرہ اس زمانے کے نسل پروانی کا لالان تشیع با الجواب بعد وال نوت ) ولكن الأسرة الفهم ودم البند زد له الصباح خير - اقول هم اکہ واقعی صالح ہو وہو کا اتفاق ہو اور انہیں تریم اظهار محار م یا قادیانی صلاح و تحلیل حرام نہو قال رسول اللہ صلی الله عليه واله وسلم المسلم جائزبان المسلمين الا تھا حرم حلالا اراصل حاما الحديث رواه التربازی را جن زبان پر جاہ.اور اس صلح میں کار نطاق اور رو با بازی روحیلہ سازی اور ظلم ہے تمام ملا، یا راست پر ان کہ تمام انبیا درت ایع ر ویانات پر کیا تنظیم یک انشا و محمد تعالی - بجواب المه ۷ قولات اسے علما، قوم جومیرے کذاب اور مکریں یا میری نسبت سند بذب ہیں.ا قول ہی کتب شتہار مصالحت یوں ثانی دور یا نہ میں وہ امید ہ دلائل قاطع مجھے نبی و پرا مین ماطعہ کتاب و سنت و اجماع امت سے تکیفر کر رہے.میں ان کا تمتے ایک کوئی جواب نہیں دیا ہیکہ جواب کی امید تمہاری طراستے بالکلیہ منقطع ہو گئی ہے.بہ جب کثرت تجارت کے اب نئے تجربہ کی کوئی حاجت نہیں.بز پند آزمون هم از دوست شود مردم من جرب المجرب ملت به المدام اور مقال رب تمہاری تکلیفی و تضلیل میں مسلمانوں میں سے کوئی نہیں قطعا میں یہ بھی تمہا ر ا نترا سے مان به مرزبان ہیں یا اختار ومشاہدہ زرا سا دلایل را بارات کذب و بهستان و جالیت تر فریب بازی منہاری کے البتہ منہ بذب ہوگئے ہیں.اور جن کو توفیق الہی نے پیاری دی ہے وہ ارتداد سے نکل کر تمہارے تخت کمرہ مکذب ہو گئے ہیں اور پھولتے جاتے ہیں کس حالت کو سنکر کو جس ہے.الملقب كشط العشاعة الصائل اليمني مولفه ها کبار عبد الاحمدرضا نوری علی اند
۹۳) دیوبندی اپنے کو مسلمانوں سے کیے جا نے ان بات دوازدهم دیوبندی مذہب دیوبندی اپنے کو مسلمانوں سے ایک الگ فرقہ سمجھتے ہیں کیونکہ وہ دیوبند یہ عورتوں کا نکاح بغیر دیوبندی مسلمانوں سے ناجائز کہتے ہیں دیویتی مذہب کے امام رشید احمد گنگوهی کا وضاحتی بیان سوال : اگر کوئی شخس قبروں پر چادریں چڑھانا ہو.اور مددبزرگوں سے مانگتا ہوں یا بدعت مشال بود از ترس و سو غم وغیرہ ہو اور پر جانتا ہوکہ یہ افعال اچھے ہیں تو ایسے شخص سے عقد نکاں جائز ہے نہیں، کیونک میرود و انحصار است تب جا کر سب ہے تو ان سے کیوں نا جائز ؟ ۱ : الجواد -:جو شخص ایسے افعال کرتا ہے وہ قطر فا فاسق ہے اور احتمال کھر کا ہے.ایسے سے نکال کر باد فندا سلمہ کا اس واسطے ناجائز ہے کہ فتاق سے ربط مضبوط کرنا حرام بہت اہم افتادی شید به نام امت ۱۳ سعر مهم تا ۲۰) ویو میری مذهب jor ابوالکلام سررسید تبیلی که معلق فتوی اگر فان با اسب وانه قد رضا خان صاحب مرحوم کے نزدیک به من علمائے دیوبند با شرف ملی نت نوی در شیده اند نگاهی نبیل احمد بیسوی ، محمدقاسم نانوتوی....واقعی یتے تھے ایسا کہ انہوں نے انہیں سمجھا، تو خان صاحب پر ان علمائے دیوبند کی تکفیر فرشی تخیلی ار و دامن کو کافران نسبت تو وہ خود کا فر مو هاست بیتے علما نے اسلام نے جب مرد انسا حب کے مضاید خضری علوم کہ ہے اور وہ قطعا نا بہت ہو گئے تو اب حالات اسلام پر مرزا نسائی اور مرزیوں کو کھاؤ اور مرندہ کہنا فرض ہو گیا اگر دو مرز انسان دھرنہ کو کافر نہ کہیں، جہات وہ ای سوری آن یا قاریان و غیره و غیر جا تو وہ خو رکت وہ خود کا فرست.ریکی ناظر علیه مند و تبلیغ دیوبند لیسو در تبیان دینی مس و سفر آخر ہے - مصنّفه مناظر اسلام حضرت مولانا غلام مهر علی صاحب = خطیب اعظم چشتیاں شریف 6.مكتب الادیہ گنج بخش روڈ لاہور
بریلویت تاریخ وقار امام العلام الحشان می باشد عليه شعبه نشر و اشاعت المحفل الالسة في السلفي چھا.ضبیع بریلی
۱۴۱ مزید H۱۲ ۲۸۰ غیر مقلدین گمراہ ، بددین اور محکم فقہ کفار ومرتدین ہیں.مجھے ورتوں سے استنجا نہ کیا جائے.حروف کی تعظیم کی وجہ سے نہ کہ ان کتابوں کی.نیز اشرف علی کے عذاب اور نظر میں شنک کرنا بھی کفر ہے.تاد ایک اور بریلوی مصنف نے یوں گل افشانی کی ہے : مد دیو بندیوں کی کتاب میں اس قابل ہیں کہ ان پر پیشاب کیا جائے.ان پر پیشاب کرنا ، پیشاب کو مزید نا پاک کرنا ہے اے اللہ! ہمیں دیو بندیوں مینی شیطان کے بندوں سے پناہ میں رکھی استاد دیوبندی حضرات اور ان کے اکابرین کے متعلق بریلوی مکتب فکر کے ندان سے سوال کیا گیا کہ ہندووں کی نذر ونیاز کے متعلق کے کفریہ فتوے آپ نے ملاحظہ فرمائے.اب ندوۃ العمار کے متعلق ان کے ارشادات سینے.جناب برکاتی نے تشمت علی صاحب سے تصدیق غیر مقلد اہل بدعت اور اہل نا ر ہیں.وہابیہ سے میں جول رکھنے والے سے بھی مناکحت نا جائز ہے.وہابی سے نکاح پڑھوایا تو تجدید اسلام و تجدید نکاح لازم و بابی مرند کا نکاح نہ حیوان سے ہو سکتا ہے، نہ انسان سے ، جس سے ہو گا زنائے خالص ہو گا یا ہے رہا جیوں سے میل جول کو حرام قرار دینے والے کا ہندووں کی نذر ونیاز کے متعلق فتوی بھی ملاحظہ فرمائیں : کیا تمہاں ہے؟ کیا ان کا کھانا پینا جائز ہے ؟ در جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : ہاں ان باتوں پر آدمی کروا کے اپنی کتاب منجانب اہل السنہ میں لکھا ہے : ندوة العلماء کو ماننے والے دھر بیٹے اور مرتد ہیں.بوتان ایک دوسری جگہ ہرقسم کی نذر بعد اللہ و مباح قرار دیا ہے جیسے خود خان صاحب بریلوی کا ارشاد ہے : مگر سید نذیر حسین محدث دہوگی اور ان کے شاگردوں کو معون ندوہ کھچڑی ہے ، ندوہ تباہ کن کی شرکت مردود، اس قرار دیتے ہیں.ه بالغ النور مندرج در فتاوی رضویہ جلد ص ۳۳ فتاوی رضویہ جلده ص ۱۹۴۰۱۳۰۰۹۰۱۰۳۰۵ و غیره ايضا جلد.اص ۲۱۰ - کتاب الحظر والا باخته ک ایسا جلد ۱۰ ص ۲۱۹ میں صرف بلند سب ہیں.الاد ه فتاوی رضویہ جلد ۲ ص ۱۳۶ انند حاشیه سبحان السبوح ص ۵ ، ے تجانب ص ۹۰ ملات ملفوظات بریلوی ص ۲۰۱
۱۴۲ حضرت تھانوی رقم اثرہ علیہ کے جملہ خلفاء کرام کی پسندیدہ کتاب أشرف الطريقة في الشريعة والحقيقة شریعت طریقت الات مولانا اشرف علی تھانوی پرانی تر ترتیب : جناب مولانا محمد دین صاحب چشتی اشرفی مدظلهم پنی موت کی فکر رکھنے والوں کے لیے ایک ہم تو ہیں.شریعیت اور طریقیت سے متعلق امنیت میگم دیانت کی مجددا نه تعلیمات پر مشتمل منشا به کار کشتاسب امتحان طالب بعنوان موحش میران شد سی ان علیہ سلم نے فر یا.عورتیں (حضرت سلیمان کے پاس ایک بچہ کے حصول کیلئے ہمقدم لے گئی تھیں سلیمان نے فرمایا کہ میری لاز میں چود کر دونوں میں تقسیم کر دوں.چھوٹی عورت نے عرض کیا کہ اللہ تعالی آپ کا بھلا کرے ایسا کیجئیے.میں نے چھوڑا) یہ اسی کا ہے.پس آپ نے اس چھوٹی عورت ہی کو بچہ دے دیا.بخاری ومسلم و نسائی نے اس کو روایت کیا.بعض بزرگوں کی بعض مواقع ضرورت پر عادت ہوتی ہے کہ طالب کی ارادت واحتقا کا اس طریق پر امتحان کرتے ہیں کہ کوئی قول یا فعل ایسا کہتے احد کرتے ہیں جن کا ظاہر پائن کے خلاف ہوتا ہے یعنی واقع میں تو وہ شریعت کے موافق ہوتا ہے اور ظاہر میں صرف ہوتا ہے.جیسا شیخ صادق گنگوہی نے ایک طالب کے سامنے کب دیا لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ صَلَوق رَسُول الله مقصود تو یہ تھا کہ سول اللہ صادق ہیں.اور ظاہر میں شبہ ہوتا تھا کہ یہ خود مانگی رسالت میں اگر طالب کم سمجھ ہوا تو بھاگ جاتا ہے اور اگر کبیدار ہوا تو اس کو احتمال امتحان کا ہوتا ہے اور وہ دوسرے اقوال وافعال کو بھی دیکھتا ہے.اگر علامات سے کمال ثابت ہو تو ایسے امور کی اجمالاً یا تفصیلی تاویل کر کے طلب میں ثابت رہتا ہے.یہ حدیث اس عادت کا ماخذ ہو سکتی ہے کہ باطن میں مقصود چینا نہ تھا، مگر غیر والدہ کے امتحان کے واسطے ایسے زیادہ موحشہ ظاہر نیست سرمایا.تیز مزاجی مسند دلیلی میں حضرت انس رضہ سے روایت ہے کہ رسول اللدرسی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تیزی در جو لطافت طبیعت کی وجہ سے مرکزی اداره تبلیغ دینیات ہو) صرف میری امت کے مسلمان دابرانہ میں ہوتی ہے.اور اسکی سند سے بایں لفظ بھی رعایت جامع مَسْجِدٌ دِهَاى ١١٠٠٠٦ ہے کہ کوئی شخص (ایسی مذکورہ) تیزی کا صاحب رن سے زیادہ شایاں نہیں بسبب ملات قرآن کے جو اس کے جون میں ہے.بعض بزرگ زیادہ لطیف اخراج ہوتے ہیں اورا سکس لطافت کے سبب ان کو ے الکافی ص ۳۵۱۰۳۵۹۰۳۹، ۴۱۹ ۲۱۷۰ ، ۲۵۹۰۳۳۳
اردو ترجمہ ۲۳ کتاب قوائد استالین فوائد السالکین دے تو اس کی بابت آپ کی کیا رائے ہے ؟ خواجہ قطب الاسلام نے زبان مبارک ے فرمایا کہ یہ بہتر ہے کہ وہ نماز ترک کر کے اپنے پیر کی بات کا جواب دے کیونکہ یہ تلوں کی نماز سے افضل ہے اور اس میں بہت بڑا تو اب ہے.اسی موقعہ کے مناسب آپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نقل کی نماز میں مشنوں تھا ب شیخ معین الدین ادام اللہ پر جو تہ نے مجھے آوازوں میں نے فور نماز ترک کی اور لبیک کہا.آپ نے فرمایا ادھر آ کر اجب میں جائز ہوا تو آپ نے پوچھا.کہ تو کیا کر رہا ہے : میں نے عرض کیا کہ میں نفل ادا کر رہا تھا.آپ کی آواز سن کر نماز ترک کر دی.اور آپ کو جواب دیا.آپ نے نڑیا بہت اچھا کام کیا ہے کیونکہ بینکوں کی نماز سے انفصل ہے ، اپنے پیر کے دینی کام میں معتقد ہونا نیست اچھا کام ہے.اسی موقعہ کے مناسب آپ نے فرمایا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں وہ بہت سے ہی کی تو والدین با اونی ک کی مد بار شیخ معین الدین رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر تھے.اور اولیاء اللہ کے ہارے ری اوقار کاکی رت خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمة الله عليه مكتبه جام نور ۴۲۲، مٹیا محل ، جامع مسجد دہلی ۲ صنا میں ذکر ہورہا تھا.اسی اثار میں ایک شخص باہر سے آیا.اور بیت ہونے کی نیت.سے خواجہ صاحب کے قدموں میں سر رکھ دیا.آپ نے فرمایا بیٹھ جا.وہ بیٹھ گیا.اور اس نے عرض کی کہ میں آپ کی خدمت میں مرید ہونے کے واسطے آیا ہوں! شیخ صاحب اس وقت اپنی خاص حالت میں تھے.آپ نے فرمایاکہ جو کچھ میں سمجھے کہتا ہوں.وہ کہو.اور بھالا تب مرید کروں گا.اس نے عرض کی کہ جو آپ فرما دیں.میں بجالانے کو تیار ہوں آپ نے فرمایا کہ تو کلمہ کس طرح پڑھتا ہے ؟ اس نے کہا.لا اله الا الله محمدٌ رَسُولُ اللهِ - آپ نے فرمایا یوں کہو : لا اله الا اللہ چشتی رسول اللہ اس نے اسی طرح کیا.خواجہ صاحب نے اسے بیعت کر لیا.اور خلعت و نعمت دی را در معیت کے شرف سے مشرف کیا.پھر اس شخص کو فرمایا کہ سن! میں نے تجھے جو کہا تھا کہ کلمہ اس طرح پڑھوکا ہے صرف تیرا عقیدہ آزمانے کی خاطر کہا تھا.ورنہ میں کون ہوں یا میں تو ایک ادنی سا مام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ہوں کلمہ اصل میں وہیں ہے.لیکن میں نے صبت حال کی کمالیت کی وجہ سے یہ کلمہ تیری زبان سے کہلوایا تھا.چونکہ تو مرید ہونے کے الله
اردو ترجمه 144 کتاب راحت همچنین ہیں رہے.ہمیشت کا سارا کارخانہ دکھایا گیا.آپ پر ایک محل کو دیکھ کر لو مجھتے کہ پیرکس کا ہے.آخر جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور چاروں چیزوں کے ہمنوں کے پاس پہنچے.تو کھڑے ہو کر کہا کہ ان محلوں سے بڑھ کر کوئی اور محل اچھا نہیں.پر ور دگار را بی کس کے لئے ہیں ؟ فرمایا.یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولی اور آپ کے چاروں یاروں کے محل ہیں.پس اور میں علیہ السلام نے بارگاہ الہی میں مناقبات کی کہ کاش ! اور میں امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے تو یہ بعد ازاں اسی موقعہ کے مناسب فرمایا کہ جب بہتر ادریس علیہ السلام کو بہشت میں ہے.جایا گیا.تو فرمان الہی ہوا کہ اسے اور میں باتیری عبادت یہی ہے کہ تو میدے ؟ اور ایک دم بھی میری یاد سے غافل نور ہے.پھر مہتر اسحق علیہ السلام کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی.تو زبان مبارک سے فوایا کر جب آپ سارہ کے بطن سے پیدا ہوئے.تو اسی رات یہودیوں کے بتخانوں میں سارے بت رنگوں ہو گئے.اور وہ بت پکار اٹھے لا اله الا الله امحق نبی الله بعد ازاں جب آپ بڑے ہوئے.اور رسالت کی چادر پہنچی.تو ہمیشہ طاعت اور عبادت میں مشغول رہتے.کسی وقت کبھی خون خدا سے خالی نہ رہتے ہمیشہ کے اریکا اپتے رہتے ینا ہو تے.ملانیا میں لکھا ہے کہ جب رات ہوئی.تو سکتے ہیں زنجیر ڈال کر بیٹھ باندھ لیتے.اور ساری رات اسی طرح بسر کرتے.اور ون کو تبلیغ رسالت کا کام کرتے.چنانچہ آپ کی ساری فصل القوامة الحالة عمر اسی طرح بسر ہوئی.آپ کو معجزہ صرف یہ ملا کہ آپ کی نسل سے تقریب پیغمبر مرسل پیدا ہوئے.حضرت خواجہ مینی ورحمۃ اللہ علیہ اور بنی اسرائیل کے صاحب تمت بنے پھر فرمایا کہ ایک مرتبہ آپ سے مہادت کے وظیفہ میں ماغہ ہوگیا.اس غفلت کی منداست سے سترہ سال اس طرح روتے کہ رخساروں کا گوشت و پوست مل گیا.جب سجدہ کرتے تو بسا اوقات سال بھر یا کم وش سجدے میں رہتے.جب آپ سے پوچھاگیا.کہ آپ اس قدر کیوں روتے ہیں؟ تو فرمایا کہ مسلمانوں میں ڈرتا ہوں کہ قیامت کے دن مجھے میرے والد بزرگوا ستر ابراہیم خلیل اللہ کے روبرو کھڑا کر کے یہ نہ کہیں کہ میرا بیٹا یہ تھا کہ میں سے عبادت کے وظیفے میں نا فر ہوا.اس وقت میں انبیار کو کیا منہ دکھا دوں گا.مكتبه جام نور ا مرا به ۲۰ کوچه میلان دریا گنج قفل دہلی ۲۴ الدلد
۱۴۵ بسمه تعالى هجا هم حسان قشقى وَاسْتَشفى حديث قدى حسان نے کافروں کی برائیاں بیان کہیں تو مسلمانوں کو اس نے شفا دی اور اپنے آپ بھی شفا حاصل کی.رضی اللہ تعالیٰ عنہ قادیانی فتنہ کیا ہے ؟ مصنف علامہ ارشد القادری شائع کرده شاخ کا لیگاوں رضا المجیدمی ۸۲۵ ، اسلامپورہ، کالیگاؤں ۲۲۳۲۰۳ مہاراشٹر ہیں ا فن - ۲۶ کا میٹر اسٹریٹ بیٹی ہے
۱۴۶ یعنی المحضرت بریلوی نے اپنے فتوے میں دہی اقوال پیش کیے ؟ تحذیر الناس میں درج تھے اور جن کا ذکر گذر کیا.یہاں تک تو بات مکمل ہو چکی مگر تحذیر الناس کے حامی بڑے ڈھرنے سے یہ بات پیش کیا کرتے ہیں کہ دیکھے نوں فلاں جگہ مولانا نانوتوی نے عقیدہ ختم نبوت امت مسلمہ کے مطابق پیش کیا ہے اور نبی کریم صلی الہ علی کل کو آخری نجا تسلیم کیا ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک دفعہ کا انکار سینکڑوں دفعہ کے اقرار پر پانی پھیر دیتا ہے کوئی شخص اپنی کسی کتاب میں ہزار جگہ خدا کے معبود برخی ہونے کی گواہی دے اور محض ایک جگہ انکار کر دے تو کیا پھر بھی کوئی اسے مسلمان کہہ سکتا ہے ؟ 19 قطرہ کلاب میں ایک بوند پیشاب کا پڑ جائے، سب پیشاب ہو جائے گا.اپنا خیراس بغیر کسی تمہید کے ہم آپ کی حضرت ایمانی کو آواز دیں گے کہ محض اللہ و رسول کی خوشنودی اور اپنے ایمان کی حفاظت کیلئے آپ خود فیصلہ کریں کہ قادیانی کو میں جرم کی بنا پر خارج از اسلام قرار دیا گیا اس جرم کا اری کتاب سبب سے پہلے موجوتی دیو بند نے کیا پھر کیا وجہ ہے کہ پانی دین اور دیو بند کیے آپ اپنے دور میں نرم گوشہ لیے بیٹھے ہیں ؟ یقینا اگر آپ اپنی عافیہ کی ذرا بھی فکر رکھتے ہیں تو غیر کسی ہوں چرا کے قادیانیوں کی طرح دیو بندیوں سے بھی نہ موڑ کر خود کو اہلسنت وجماعت کا ایک بچی پر کہ ثابت کریں گے اس لیے کہ یہی وہ واحد جماعت ہے کہ جس نے جہاں مرزائے قادیانی کو راہ قرار دیا وہیں بغیر کی ڈر کے مولوی حمد قاسم نانوتوی پر بھی خریت مسلے کا حم نافذ کر دیا.اللہتعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو انے اور اپنے پیار رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں زید و گرو کی حمایت سے بچائے اور قبول حق کی توفیق عطا فرمائے.(آمین) حسب حسب فرمائیش ملنے کے پتے شیخ عبد الحمید حاجی شیخ اہم سنکھار والے تنویر ایک ڈیوے.محمد علی روڈ، مالیگاؤں حاجی عارف حاجی احمد ة مكتبہ رضویہ ہے.نیولو اسٹینڈ کے سامنے شیخ خلیل حاجی شیخ بن مرحوم مكتب عن يرقيه نور نورانی مسجد دنیا پوره ریکیں اجمد صغیر احمد ہوٹل والے زینت میڈیکل اسٹوری.سلیم نگر انصاری شکیل احمدمحمد مشتاق رضوی.محمد مسعود احمد ٹینشن چوک نزد جامعه الصالات محمد ظہیرا شرقی حاجی عبدالوکیل رضوی.محمد حنيف اناج والے فتح میدان مالیگاؤں عالم خان بیتی والے.نزده و یا با مسجد اسلام پورہ اور اراکین رضا اکیڈمی، مالیگاؤں یاد گار ملک سنڈی.اسلام پورہ انصار روڈ پرنٹ ٹاپ انڈسٹریز بیٹی ک
الا بالله وإليه أنيب قادیانی اس پر آپ نے فرمایا.ور بے شک تم سے پہلے کے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ وہ معمولی لوگوں پر حد جاری کرتے تھے اور معززین کو چھوڑ دیتے تھے اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے.اگر فاطمہ ایسا کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا.ما کھا ا کر انگریزار اورسول کی روشنی میں یہ بات دان ہو جاتیہے کہ قوموں کی د باد بلاک کا ایک اہم سب خوام پر حد جاری کرتا اور خواص کے ساتھ رعایت کرنا بھی ہے.اور اسلام کا قانون اس قدر بے لاگ ہے کہ اس میں جگر گوشہ رسول کے لئے بھی رعایت کی گنجائش نہیں ہے.نہیں ٹھنڈ ہے دل ہے اور کرنا چاہئے کہ عظیم احمد قادیانی اور اس کے متبعین کو کافر اور خارج از اسلام قرار دے کر ہم نے نجس حد تک دین کے تقاضے کی تکمیل کی.وہ گمراہ نظریات جن کی بنا پر غلام احمد قادیانی نے قسمت آزمائی کی تھی کیا وہ صوفی حلقوں میں رچے بسے نہیں ہیں.کیا وہ تصوف جس کی بنا پر غلام محمد قادیانی کو معتوب کیا جا رہا ہے اس کو مہارے مسلمان بھائی مین دین سمجھ کر سینے سے لگائے ہوئے نہینا ہیں.جب یہ سب کچھ ہے تصوف میں دین ہے اور سارے ہی صوفیاء عقیدتوں اور سرا گندیوں کے مستحق ہیں تو پھر قادیانی ہی کافر کیوں.؟ اقول قولی هذا و افوض امری الی اله ان الله بعسير بالعباد الرد
Ph.01872-20749 Fax.01672-20105 Ret No 311 ۱۴۸ بریم رشد رشید حسن کر شرجیم ALLAN; THE BENIFICENT, THE MERCIFUL NAZARAT NASHR-O-ISHAAT (Secretary for Publication) SADR ANJUMAN AHMADIYA QADIAN-143516 (PUNJAB) INDIA Dated خدمت کردم موانواں تریاق رکھا تو مبالغ السلام بھی.است اسلام علیکم ورقه رشد و برکاته قدر کرے آپ بے احباب جباعت بخریت میوں.امین آپ کی چھٹی 20 بابت اشاعت مسودہ ملی.13-1.96 آپ کی نئی وضاحت کی روشنی میں فتاو کی کور اور نامی جماعت کے عنوان سے کتاب شائع کرنے کی اجازت آپکو دی جاتی ہے.رشدی کی مبارک کرکے.کر بجا است که تائب ناظم نشرو اشاعت قادیان
۱۴۹ مزید معلومات کے لئے رابطہ کریں ظفر اینڈ سنز ، محلہ احمدیہ قادیان ضلع گورداسپور ، پنجاب ، انڈیا - ین ۱۳۳۵۱۶ ا احمدیہ مسلم مشن 16 وائی.ایم سی.اے.روڈ بمبئی ۴۰۰۰۰۸ ۲- نظارت دعوت و تبلیغ قادیان ضلع گورداسپور پنجاب ۱۴۳۵۱۶