Faslul-Khitab Fi Masalati Fatihatil-Kitab

Faslul-Khitab Fi Masalati Fatihatil-Kitab

فصل الخطاب فی مسالۃ فاتحۃ الکتاب

Author: Hazrat Hakeem Noor-ud-Deen

Language: UR

UR

یہ کتاب پہلی دفعہ نومبر 1879ءمیں رگھوناتھ پریس جموں کشمیر میں شیخ فتح محمد صاحب رئیس جموں کی فرمائش پر 128 صفحات پر شائع کی گئی تھی۔ جبکہ یہ موجودہ ایڈیشن ٹائپ شدہ ہےاور 195 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں فارسی تحریرات من و عن درج ہیں۔ سائل کے سوالات کی زبان فارسی ہے یہ کتاب اس سوال کے جواب میں لکھی گئی کہ بغیر سورۃ فاتحہ نماز جائز ہے یا نہیں؟ اس میں سورۃ فاتحہ کی فرضیت کے دلائل اسلامی لٹریچر سے دیئے گئے ہیں۔کتاب کے شروع میں فہرست مضامین درج ہے لیکن آخر پر انڈیکس موجود نہ ہے۔ یہ کتاب انیسویں صدی کے علمی مناظروں کے جھلک دکھاتی ہے۔


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

Page 6

﷽ الـحمد للہ رب العالمین و الصلٰوة و السلام علیٰ رسولہ محمد خاتم النبیین و سید المرسلین و شفیع المذنبین و علٰی اٰلہٖ و اصحابہٖ اجمعین.اَمَّا بَعد میرے مہربان دوست شیخ فتح محمد صاحب کے مکان پر کئی آدمی عامل بالحدیث اور کچھ مقلد رہتےتھےاور کبھی کبھی مولوی فضل الدین صاحب گجراتی وہاں تشریف لا کر کچھ نہ کچھ کہتے اور شہر میں بھی عاملین بالحدیث کی صرف زبانی مذمت کیا کرتے.چونکہ ان کی قلم سے کبھی کوئی تحریر سرزد نہ ہوئی تھی اس لئے ہمیشہ خاموش رہے.آج مولوی صاحب نے ایک تحریر (جس میں بظاہر اپنے آپ کو علیحدہ رکھا ہے) لا کر شیخ صاحب موصوف کو دی کہ اس کا جواب ان عاملین بالحدیث سے لے دو.اور ایک اور چھوٹا سا پرچہ شیخ غلام محمد کے دستخط سے دیا کہ اس کا بھی جواب دلائو.فقیر نے جب شیخ غلام محمد سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا.میں عالم نہیں میرا نام خواہ مخواہ لکھوایا گیا.اصل میں یہ تحریر بھی مولوی صاحب ہی کی طرف سے ہے.عاجز نے عرض کیا کہ اس پر مولوی صاحب کا نام لکھا دو پھر جواب لکھیں گے.اس تذکرہ کے بعد ان احباب کی خدمت میں جو ہم لوگوں کو ان مناظروں کا بادی سمجھ کر ملامت کیا کرتے ہیں.گذارش ہے.؂ تمہیں تقصیر اس بت کی کہ ہے میری خطا لگتی مسلمانوں ذرا انصاف سے کہیو خدا لگتی

Page 7

مولوی صاحب نے اپنی اس تحریر میں جس میں اپنا نام درج فرمایا.پہلے بطور سوال و جواب مسئلہ فَاتحةُ الکتاب کو لکھا ہے.پھر اس پر ایک تفریع سے کام لیا ہے.بندہ نے جواب میں پہلے مولوی صاحب کا سوال بعینہٖ درج کیا پھر اصل سوال کا جواب حسبِ استعدادخود قرآن و حدیث سے دیا.اس کے بعد مولوی صاحب کا جواب الجواب اور جواب میں سوال سے زیادہ مسائل ظاہر کر کے ایک خاص سنت کا اقتدا کیا ہے اور تفریع کو نفسانیت کا نتیجہ یقین کر کے اس کے جواب سے سکوت کیا.دلائل فرضیت فاتـحہ از قرآن کریم سوال بغیر از فاتحہ نماز جایزاست یا نہ.یعنی قراءت فاتـحة الکتاب بخصوصہ بر مقتدی و منفرد وغیرہ فرض است یا قراءت مطلق ؟ جواب سو ر ة فاتحہ کے سوا نماز اُس شخص کی جو سور ة فاتحہ پڑھ سکے ہرگز درست نہیں اور سور ة فاتحہ کا پڑھنا منفرد اور مقتدی اور امام سب نمازیوں پر ضرو ری اور فرض ہے.بشرطیکہ ان میں استطاعت قراءت فاتحہ ہو.قَالَ اللہُ تَعَالٰی.وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ١ۗ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ.(الـحشر: ۸) ترجمہ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لادے تم کو رسول سو لے لو اور جس سے منع کرے سو چھوڑ دو اور ڈرتے رہو اللہ سے بیشک اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے.وَ قَالَ تَعَالیٰ.فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ (النور : ۶۴) ترجمہ.اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے.ڈرتے رہیں جو لوگ خلاف کرتے ہیں اس (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) کے حکم کا کہ پڑے ان پر کچھ خرابی یا پہنچے ان کو دکھ کی مار.وَ قَالَ تَعَالٰی.فَلَا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا

Page 8

فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَ يُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا (النساء : ۶۶) ترجمہ.اور فرمایا.قسم ہے تیرے رب کی ان کو ایمان نہ ہو گا جب تک تجھی کو منصف جانیں.جو جھگڑا اٹھے آپس میں پھر نہ پاویں اپنے جی میں خفگی تیری چکوتے (فیصلہ)سے اور قبول رکھیں مان کر.مولوی صاحب ہمارے اور آپ کے درمیان اس مسئلہ میں تشاجر (جھگڑا) واقع ہو گیا ہے.اب فیصلہ نبوی سنو اور اسی کو حکم بنائو.لفظ مَا اٰتَاکُمْ.اور مَانَـھَاکُمْ.اور مَاشَـجَرَبَیْنَھُمْ اور اَ لَّذِیْنَ یُـخَالِفُوْنَ کے عمومات پر مولوی صاحب کو خاص کر غور کرنا لازم اور ضرور ہے.مولوی صاحب بلکہ ُکل حنفیہ حال کے نزدیک تخصیص عموماتِ قرآنیہ نسخ قرآن ہے اور نسخ قرآن بدوں کسی قوی برہان کے جائز نہیں اس لئے ان عمومات میں اپنی خیالی باتوں سے تخصیص نہ لگاویں.اور یہ نہ فرماویں کہ یہ آیتیں مخصوص ہیں اس تخصیص کے ساتھ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام بشرطیکہ ہمارے علما نے ان پر عمل کیا ہو واجب العمل ہیں نہ علی العموم.کیونکہ ان آیات میں جناب باری تعالیٰ مطلق اتباع احکامِ نبویہ کی تاکید فرماتا ہے خواہ وہ تواتر سے ثابت ہوں یا شہرت سے خواہ خبر احاد سے پہنچیں.یَا سَمَاعًا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ.یاد رہے فقیر کا آیات سے استدلال بعینہٖ عبد اللہ ابن مسعود کے اس استدلال کی طرح ہے جس کو مسلم نے بیان کیا ہے.استدلال از احادیث صحیحہ حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ … عَنْ إِبْرَاهِيْمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ لَعَنَ اللهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ....وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللهِ قَالَ فَبَلَغَ ذٰلِكَ امْرَأَةً مِنْ بَنِيْ أَسَدٍ يُقَالُ لَهَا أُمُّ يَعْقُوبَ وَكَانَتْ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَأَتَتْهُ فَقَالَتْ مَا حَدِيْثٌ بَلَغَنِي عَنْكَ أَنَّكَ لَعَنْتَ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ اَلْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللهِ فَقَالَ عَبْدُ اللهِ وَمَا لِيْ لَا أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي كِتَابِ اللهِ فَقَالَتِ الْمَرْأَةُ لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ لَوْحَيِ الْمُصْحَفِ فَمَا وَجَدْتُهٗ فَقَالَ " لَئِنْ كُنْتِ قَرَأْتِيْهِ لَقَدْ وَجَدْتِيْهِ، قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ

Page 9

فَانْتَهُوْا (الـحشـر:۸) { FR 4481 }؂ (مسلم کتاب اللباس والزینة.باب تحریم فعل الواصلة و المستوصلة....حدیث نمبر۵۵۷۳) اور فاتحہ الکتاب کے مسئلہ میں جناب سرور انبیا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اس طرح ثابت ہوا ہے کہ کسی نمازی کی نماز فاتـحة الکتاب کے سوا جائز نہیں اور نہیں ہوتی اور مقبول نہیں.جیسے احادیث ذیل سے ظاہر ہوتا ہے.بخاری شریف میں ہے.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ مَّحْمُوْدِ بْنِ الرَّبِيْعِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ.لَاصَلٰوةَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِـحَةِ الْکِتَابِ { FR 4482 }؂.(بخاری کتاب الاذان باب وجوب القراء ة للامام والمأموم فی الصلوات کلھا...حدیث نمبر۷۵۶ ) { FN 4481 }؂ ترجمہ : ہم سے مسلم نے بیان کیا … انہوں نے ابراہیم سے، ابراہیم نے علقمہ سے، علقمہ نے حضرت عبد اللہ (بن مسعودؓ) سے روایت کی.انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے گودنے والیوں اور گدوانے والیوں… اور اُکھڑوانے والیوں اور (دانتوں میں) فاصلہ ڈلوانے والیوں، خوبصورتی کے لیے اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی کرنے والیوں پر لعنت کی ہے.راوی نے کہا: بنو اسد کی ایک عورت جسے اُمّ یعقوب کہتے تھے اور وہ قرآن پڑھا کرتی تھی اسے یہ بات پہنچی تو وہ حضرت عبد اللہ کے پاس آئی اور کہا: آپؓ سے یہ کیا بات مجھے پہنچی ہے کہ آپؓ نے گودنے والیوں اور گدوانے والیوں اور بال اُکھڑوانے والیوں اور (دانتوں میں) فاصلہ ڈلوانے والیوں ، خوبصورتی کی خاطر اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنے والیوں پر لعنت کی ہے.حضرت عبد اللہ نے کہا: مجھے کیا ہے کہ میں لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت کی ہے.اور یہ کتاب اللہ میں ہے.اس پر اس عورت نے کہا: جو کچھ مصحف (قرآن) کی اس کاپی میں ہے وہ تو میں نے پڑھ لیا ہے اور میں نے یہ (بات) نہیں پائی.حضرت عبد اللہ نے کہا: اگر تم نے اسے پڑھا ہوتا تو ضرور اسے پالیتی.اللہ عزّوجلّ نے فرمایا ہے: ’’ اور رسول جو کچھ تم کو دے اس کو لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رُک جاؤ.‘‘ { FN 4482 }؂ علی بن عبد اللہ نے ہم سے بیان کیا.انہوں نےکہا: سفیان نے ہمیں بتایا.انہوں نے کہا: زہری نے حضرت محمود بن ربیعؓ سے روایت کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی.

Page 10

اور امام بخاری نے رسالہ قراء ت میں اس طرح لکھا ہے.أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَّمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ.{ FR 5023 }؂ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ قَالَ حَدَّثَـنَا يَعْقُوْبُ بْنُ إِبْرَاهِيْمَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِيْ عَنْ صَالِحٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّ مَحْمُوْدَ بْنَ الرَّبِيعِ وَكَانَ مَجَّ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْ وَجْهِهٖ مِنْ بِئْرٍ لَهُمْ أَخْبَـرَهٗ أَنَّ عُــبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ أَخْبَـرَهٗ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَّمْ يَقْرَأْ بِفَاتِـحَةِ الْكِتَابِ.{ FR 4483 }؂ اور صحیح مسلم میں ہے.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ وَعَمْرٌو النَّاقِدُ وَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيْمَ جَمِيْعًا عَنْ سُفْيَانَ قَالَ أَ بُو بَكْرٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّ بِيعِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَّمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ.{ FR 5024 }؂ وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ حَدَّثَنَا يَعْقُوْبُ بْنُ إِبْرَاهِيْمَ بْنِ سَعْدٍ { FN 5023 }؂ سفیان نے ہمیں بتایا.انہوں نے کہا: زُہری نے حضرت محمود بن ربیعؓ سے روایت کرتے ہوئے ہم سے بیان کیا کہ حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس نے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہے.(بخاري,كتاب الآذان, بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا) { FN 4483 }؂ اسحاق نے ہم سے بیان کیا.انہوں نے کہا: یعقوب بن ابراہیم نے ہمیں بتایا.انہوں نے کہا: میرے باپ نے ہم سے بیان کیا.انہوں نے صالح سے، صالح نے زُہری سے روایت کی کہ حضرت محمود بن ربیعؓ جن کے چہرہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کنویں (کے پانی) سے کلی ڈالی تھی، نے انہیں بتایا کہ حضرت عبادہ بن صامتؓ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اس کی نماز نہیں جس نے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی.(القراءۃ خلف الإمام للبخاری، باب وجوب القراءۃ للإمام والمأموم) { FN 5024 }؂ ابو بکر بن ابی شیبہ، عمرو(بن محمد) ناقد اور اسحاق بن ابراہیم سب نے سفیان (بن عیینہ) سے روایت کرتے ہوئے ہمیں بتایا ہے.ابو بکر(بن ابی شیبہ) نے کہا کہ سفیان بن عیینہ نے ہم سے بیان کیا.انہوں نے زُہری سے روایت کی.انہوں نے حضرت محمود بن ربیعؓ سے، انہوں نے حضرت عبادہ بن صامت سے روایت کی، وہ اسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچاتے تھے کہ (آپؐ نے فرمایا) اس کی نماز نہیں ہے جس نے فاتحۃ الکتاب نہ پڑھی.(مسلم کتاب الصلاة باب وجوب قراءة الفاتحة فی کل رکعة)

Page 11

قَالَ حَدَّثَنَا أَبِيْ عَنْ صَالِحٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ مَحْمُودَ بْنَ الرَّبِيْعِ الَّذِيْ مَـجَّ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْ وَجْهِهٖ مِنْ بِئْرِهِمْ أَخْبَرَهٗ أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ أَخْبَرَهٗ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَّمْ يَقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ.{ FR 4484 } ؂ (مسلم کتاب الصلاة باب وجوب قراءةالفاتحة فی کل رکعة) ان ساری حدیثوں کا ترجمہ یہ ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا.جو شخص سورة فاتحہ نہیں پڑھتا اُس کی نماز نہیں ہوتی اور یہ حدیث متفق علیہ ہے.اور عبادہ بن صامت کی حد۱یث کو دارقطنی نے اس طرح روایت کیا ہے.لَاتُـجْزِئُ صَلٰوةٌ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِـحَةِ الْکِتَابِ.{ FR 4485 }؂ اور کہا اسناد اِس حدیث کا صحیح ہے اور رِجاَل اس کےثِقَات ہیں اور صحیح کہا اس کو ابن قطان نے اور اس کے شواہد بہت ہیں.جیسے مرفوع حدیث ابو۲ہریرہ کی جس کو لکھا ہے ابن خزیمہ اور ابن حباّن نے.كَمَا قَالَ يَحْيٰى وَالْحَافِظُ رَوَى أَبُو بَكْرِ بْنُ خُزَيْمَةَ فِيْ صَحِيْحِهٖ بِأَسْنَادٍ صَحِيْحٍ وَكَذَا رَوَاهُ أَبُوحَاتِمِ بْنُ حَبَّانَ عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ لَا تُجْزِئُ صَلَاةٌ لَا يُقْرَأُ فِيْهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ.{ FR 4486 }؂.اور احمد نے ان لفظوں کے ساتھ.لَاتُقْبَلُ صَلٰوةٌ لَایُقْرَأُ فِیْھَا بِاُمِّ الْقُرْآنِ { FR 4487 } ؂ اور اس باب میں ۳انسؓ سے ہے مسلم اور ترمذی میں.اور ا۴بوقتادہؓ سے ابودائود ونسائی { FN 4484 }؂ حسن بن علی حلوانی نے ہم سے بیان کیا.(انہوں نے کہا:) یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے ہمیں بتایا (انہوں نے کہا:) میرے باپ نے ہم سے بیان کیا.انہوں نے صالح سے، صالح نے ابن شہاب سے روایت کی کہ حضرت محمود بن ربیعؓ نے جن کے چہرہ پر ان کے کنویں (کے پانی) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کلی کی تھی، انہیں بتایا کہ حضرت عبادہ بن صامتؓ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اس کی نماز نہیں جس نے اُمّ ُ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) نہ پڑھی.{ FN 4485 } ؂جس نے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی اُس کی نماز ادا نہیں ہوتی.{ FN 4486 } ؂ جیسا کہ یحیٰ اور حافظ نے کہا کہ ابوبکر بن خزیمہ نے اپنی صحیح میں صحیح سند کے ساتھ روایت کی اور اسی طرح ابوحاتم بن حباّن نے حضرت ابوہریرہؓ سےروایت کی ہے کہ وہ نماز ادانہ ہو گی جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے.{ FN 4487 }؂ کہ وہ نماز قبول نہیں ہوتی جس میں اُمّ القرآن یعنی سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے.

Page 12

میں.اور عبد اللہ۵ بن عمرؓ سے ابن ماجہ میں.ابو۶سعید ؓ سے مسند احمد اور ابودائود اور ابن ماجہ میں.اور ابوالد۷رداء سے نسائی اور ابن ماجہ میں.اور ۸جابرؓ سے ابن ماجہ میں اور۹ علی سے بیہقی میں اور۰ عائشہ ؓ سے مسند احمد اور ابن ماجہ میں.اورابو۱ ۱ ہریرہؓ سے ابودائود میں اور حاکم نے اشہب کے طریق سے ابن عیینہ سے اور اس نے زُہری سے اور اس نے محمود بن ربیع سے مرفوعاً روایت کیا ہے.اُمُّ الْقُرْآنِ عِوَضٌ مِّنْ غَیْرِھَا وَ لَیْسَ غَیْرُھَا عِوَضًامِّنْھَا.(ترجمہ) فاتحہ الکتاب اَور کاعوض ہو سکتی ہے اور اَور چیزیں فاتحہ کا عوض نہیں ہوتیں.اور حاکم نے کہا ہے اس حدیث کے سارے راوی ثِقہ ہیں بلکہ اکثر راوی امام ہیں.اِنْتَہٰی مَا فِی النَّیْلِ وَ التَّلْخِیْصِ وَ النُّوَوِیْ وَالْبَدْرِ.ان حدیثوں میں صاف اس امر کا بیان ہے کہ سورہ فاتحہ کے سوا کسی نمازی کی نماز جائز نہیں.دارقطنی کی مرفوع حدیث میں تو عبادہ سے صریح لَاتَـجْزِیُٔ کا لفظ موجود ہے اور بخاری نے جُزْئُ الْقِرَائ َ ةِ میں جو جابربن عبد اللہ سے روایت کیا اس میں بھی یہ لفظ صریح ہے.یُـجْزِئُ ہٗ اِلَّابِاُمِّ الْقُرْآنِ.اس (نماز) کو اُمّ ُالقرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) ہی فائدہ پہنچاتی ہے.)ایسا ہی ابن خزیمہ اور ابن حبّان کی مرفوع روایت میں صریح لَایَـجْزِئُ صَلٰوةٌ موجود ہے.لَایَـجْزِئُ سے بڑھ کر اور کیا لفظ احادیث میں ہو جس سے آپ لوگوں کو عدمِ جواز اس نماز کے تسلی ہوتی جس میں فاتحہ الکتاب نہیں پڑھی گئی.ہمیں تو اب کچھ بھی حاجت نہیں ہے کہ اور دردسری کرتے.بَیت باغ مرا چہ حاجت سرو و صنوبر است شمشاد خانہ پرورِ ما از کہ کمتر است اِلَّاآپ کی تشفیّ اتنے پر شاید کیا یقیناً نہ ہو گی اس لئے اور بھی لکھنا پڑا.( انشاء اللہ آپ سمجھیں تو سمجھیں ورنہ اور ہی کوئی فائدہ اٹھائے گا).فقرہ لَاصَلٰوةَ کی نفی میں گزارش ہے کہ اصل نفی میں نفیِ ذات ہے اور ذات کی نفی یہاں ممکن.پس وہی مراد ہو گی اس لئے کہ ان احادیث میں نماز سے شرعی نماز مراد ہے نہ لغوی.کیونکہ

Page 13

شارع شرعیات کی تعریف کرتا ہے نہ امور لغویہ کی اور مرکب جیسے کل اجزاء کے انتفاء سے منتفی ہوتا ہے ویسے ہی بعض اجزاء کے انتفاء سے بھی منتفی ہو جاتا ہے.پس جیسے کسی شخص نے نماز کے کل ارکان ادا نہ کئے اس کی نماز نہیں ہوتی ویسے ہی جس شخص نے ایک رکن اس کا مثلاً رکوع یا سجدہ یا قراء ت فاتحہ ترک کیا اس کی نماز نہ ہوگی.صحت یا کمال کی تقدیر پر کس نے مجبور کیا اور اگر اس نفی کو کسی صفت کی طرف راجع کریں تو صحت ِ صلوٰ ة بھی ایک صفت ِنماز ہے اور بہ نسبت صفتِ کمال کے حقیقت سے بہت قریب ہے اس لئے اگر صفت کی نفی کریں گے تو اقرب مجازَین میں سے صفت صحت کو لیں گےاور کہیں گے کہ حسبِ اقتضاء ان احادیث کے تارکِ فاتحة الکتاب کی نماز صحیح نہ ہوئی.اور جب ہم سے کوئی سوال کرے گا کہفاتحة الکتاب کے سوا نماز صحیح ہے یا نہیں تو حسبِ روایت بخاری و دارقطنی وغیرہ اس کو جواب دیں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ فاتحة الکتاب کے سوا نماز جائز نہیں یا کہیں گے نہیں ہوتی.آپ پر تعجب ہے آپ فرماتے ہیں فاتحة الکتاب کی خصوصیت نہیں اس کے سوا بھی نماز ہو جاتی ہے.بَیت تو و شمشادِ ما و قامت یار فکر ہر کس بقدر ہمت اوست اور عموم ان احادیث سے صاف واضح ہے کہ فاتحہ کا پڑھنا ہر نمازی کے واسطے فرض ہےخواہ امام ہو خواہ مقتدی خواہ منفرد.اب ہمیں خاص مقتدی کے واسطے فاتحہ الکتاب پڑھنے کی ضرورت پر دلیل بیان کرنے کی حاجت نہیں رہی اِلاَّ بغرض مزید اِیضاَح احادیث ذیل کو بیان کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیے.(۱) مسلم میں ہے.حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيْمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْـمٰنِ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيْهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَـمَامٍ.فَقِيْلَ لِأَبِيْ هُرَيْرَةَ إِنَّا نَكُوْنُ وَرَآءَ الْإِمَامِ؟ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِيْ نَفْسِكَ فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:

Page 14

" قَالَ اللهُ تَعَالٰى: قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِيْ وَبَيْنَ عَبْدِيْ نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِيْ مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ: اَلْـحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ (الفاتحة: ۲) قَالَ اللهُ تَعَالٰى حَمِدَنِيْ عَبْدِيْ وَ إِذَا قَالَ‘ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ (الفاتحة:۳) قَالَ اللهُ عَزَّوَجَلَّ أَثْنٰى عَلَـيَّ عَبْدِيْ وَ إِذَا قَالَ مَالِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ (الفاتحة:۴) قَالَ مَجَّدَنِيْ عَبْدِيْ وَقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِيْ فَإِذَا قَالَ‘ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتحة: ۵) قَالَ هٰذَا بَيْنِيْ وَ بَيْنَ عَبْدِيْ وَ لِعَبْدِيْ مَا سَأَ لَ فَــإِذَا قَالَ‘ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتحة:۶، ۷) قَالَ هٰذَا لِعَبْدِيْ وَ لِعَبْدِيْ مَا سَأَ لَ." { FR 5032 } ؂ (مسلم کتاب الصلٰوة باب وجوب قراء ة الفاتحة) { FN 5032 } ؂ ترجمہ.اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے ہم سے بیان کیا کہ سفیان بن عیینہ نے ہمیں بتایا.انہوں نے علاء بن عبد الرحمٰن سے، علاء نے اپنے باپ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہؓ سے، حضرت ابوہریرہ ؓ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کی کہ آپؐ نے فرمایا: جس نے (ایسے) نماز ادا کی کہ اُس میں اُمُّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) نہ پڑھی تو وہ (نماز) ناقص ہے.(آپؐ نے) تین بار فرمایا: وہ نامکمل ہے.حضرت ابوہریرہؓ سے کہا گیا کہ ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں؟تو انہوں نے کہا: اسے اپنے دل میں پڑھ لیا کرو.کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کردی ہے اور میرے بندے کے لیے ہے جو اس نے مانگا.پس جب بندہ اَلْـحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَکہتا ہے یعنی ’’تمام حمد اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری حمد کی ہے.اور جب وہ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ کہتا ہے (یعنی وہ بے انتہا رحم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے) اللہ عزّوجلّ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی ہے اور جب وہ کہتا ہے: مَالِكِ يَــوْمِ الدِّيْنِ (یعنی وہ جزا سزا کے دن کا مالک ہے) توفرماتا ہے: میرے بندے نے میری بڑائی و عظمت بیان کی ہے.اور ایک دفعہ فرمایا: میرے بندے نے (اپنا آپ) میرے سپرد کردیا ہے.اور جب وہ کہتا ہے: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (یعنی تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے ہم مدد چاہتے ہیں) تو فرماتا ہے: یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہےاور میرے بندے کے لیے ہے جو اس نے مانگا.پھر جب وہ کہتا ہے: اِهْدِ نَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ یعنی’’ہمیں سیدھے راستہ پر چلا، ان لوگوں کے راستہ پر جن پر تُو نے انعام کیا ، جن پر غضب نہیں کیا گیا اور جو گمراہ نہیں ہوئے.‘‘تو فرماتا ہے: یہ میرے بندے کے لیے ہے.اور میرے بندے کے لیے ہے جو اس نے مانگا.

Page 15

اس حدیث میںجو خِدَاج کا لفظ آیا ہے اس کے معنی سنئے.قَالَ الْبُخَارِیُّ قَالَ أَبُوعُبَيْدٍ.......أَخْدَجَتِ النَّاقَةُ إِذَا أَسْقَطَتْ وَالسَّقْطُ مَيِّتٌ لَا يُنْتَفَعُ بِهٖ.قَالَ صَاحِبُ الْاِسْتِذْکَارِ: اَلْـخِدَاجُ ‘ اَلنُّقْصَانُ وَالْفَسَادُ وَ یُقَالُ أَخْدَجَتِ النَّاقَةُ.إِذَا وَلَدَتْ قَبْلَ تَمَامِ وَقْتِهَا وَقَبْلَ تَمَامِ الْـخَلْقِ وَذَالِكَ نِتَاجٌ فَاسِدٌ.{ FR 4489 } ؂ اور حدیث کا مفسر خود راوی ہے.اور راوی کی تفسیر آپ کے یہاں حجت ہے دیکھو اسی فاتحہ خلف الامام کے مسئلہ میں اِذَا قُرِ ئَ فَانْصُتُوْا۲؂ کی حدیث میں آپ لوگوں نے جابر کی تفسیر سے استدلال پکڑا ہے فَانْصُتُوْا۳؂ کے ساتھ عَـمَّا سِوَی الْفَاتِـحَةِ ۴؂ مراد نہیں کیونکہ جابر راوی حدیث بھی فاتحہ خلف الامام کا منکر ہے (یہ بات الزاماً مرقوم ہوئی) بلکہ راوی کا مطلق قول بھی حجت ہے.ہاں ابوہریرہ ہے.وہی ابوہریرہ جس کا حافظہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا معجزہ ہے.جس سے عبد اللہ بن زبیر اور ابن عباس جیسے فقیہ مسائل معضّلہ میں سوال کرتے تھے (دیکھو مؤطا مالک) اور وہی ابوہریرہ جس کے حق میں فَوَاتِـحِ الرَّحْـمُوْت میں مصراة کا قصہ لکھ کر اور شُرَّاح و متونِ اصول سے یہ عذر کہ اس کا راوی ابوہریرہ ہے اور وہ فقیہ نہیں بیان کر کے کہا ہے.فيه تأمل ظاهر فان أبا هريرة فقيه مجتهد لا شك في فقاهته فانه كان يفتي زمن النبي صلى الله عليه وآله وأصحابه وسلم وبعده وكان هو يعارض قول ابن عباس وفتواه كما روى في الخبر الصحيح أنه خالف ابن عباس في عدة الحامل المتوفى عنها زوجها حيث حكم ابن عباس بأبعد الأجلين وحكم هو بوضع الحمل وكان { FN 4489 } ؂ امام بخاریؒ نے( جزء القراءۃ خلف الإمام میں) کہا: اور ابوعبید نے کہا ہے: جب اونٹنی بچہ گرا دے تو أَخْدَجَتِ النَّاقَةُ کہا جاتا ہے.اور اَلسَّقْطُ وہ مردہ (بچہ) ہے جس سے فائدہ نہ اُٹھایا جائے....(ابن عبد البر) صاحب الاستذکار نے لکھا ہے: اور الْخِدَاجُ کمی اور خرابی ہے.اور جب کوئی اونٹنی قبل از وقت اور ایام تخلیق پورے ہونے سے پہلے بچہ جنے تو وہ بچہ ناقص الخلقت اور خراب ہوتا ہے.۲؂ جب (قرآن کریم) پڑھا جائے تو خاموش رہو.۳؂ خاموش رہو.۴؂ سورۂ فاتحہ کے علاوہ.

Page 16

سلمان يستفتي عنه فهذا ليس من الباب في شي ءٍ.۱؂ وَفِيْ بَعْضِ شُرُوْحِ الْأُصُوْلِ لِلْإٍمَامِ فَخْرِ الْإِسْلَامِ قَالَ الْبُخَارِيُّ رَوَى عَنْهُ سَبْعُ مِائَةِ نَفَرٍ مِنْ أَوْلَادِ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَقَدْ رَوَى عَنْہُ جَمَاعَةٌ مِّنَ الصَّحَا بَةِ فَلَا وَجْهَ لِرَدِّ حَدِيْثِهٖ فَتَأَمَلْ فَاِنَّ فِيْهِ تَأَمُّلًا فَاِنَّ الْحَقَّ فِيْ دَفْعِ اِسْتِدْلَالِ الشَّافِعِيِّ.(انتہٰی) ۲؂ قراء ت سے تدبر مراد لینا جائز نہیں علاوہ بریں فقاہت راوی کا شرط ہونا امام (ابوحنیفہ) کا مذہب نہیں.ابن ہمام نے تحقیق میں کہا ہے.ولم ينقل من السلف اشتراط الفقه من الراوي(انتہٰی) ۳؂ اور وہ جو رفع یدین کے مسئلہ میں اوزاعی اور امام کا مناظرہ بعض لوگوں نے بیان کیا ہے جس میں فقاہت راوی کا تذکرہ ہے.اس مناظرہ کا کوئی اصل نہیں.ابن عیینہ سے معلّق مروی ہے اگر کسی کے پاس سند ہو وہ بیان کرے پس ہم کو زیادہ گفتگو کرنے کی حاجت نہیں.بعد سند دیکھ لیں گے.کون شیرمرد ا سے ثابت کر دکھاتا ہے اور کون مہمل اور غیرواقع بتاتا ہے.پھر کون سچا ہے ۱؂ یہ واضح طور پر توقف کا مقام ہے.کیونکہ حضرت ابوہریرہؓ ایک فقیہ اور مجتہد تھے، ان کی فقاہت میں کوئی شک نہیں کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں اور آپؐ کے بعد بھی فتوے دیا کرتے تھے.اور وہ حضرت ابن عباسؓ کے قول اور فتویٰ کی مخالفت بھی کیا کرتے تھے جیسا کہ ایک حدیث ِ صحیح روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے حاملہ جس کا خاوند فوت ہوچکا ہو، کی عدت کے متعلق حضرت ابن عباسؓ سے اختلاف کیا جس میں حضرت ابن عباسؓ نے دو میں سے زیادہ دُور کی عدت کے متعلق فیصلہ دیا اور انہوں نے وضع حمل کے متعلق فیصلہ دیا.اور سلمان ان سے فتویٰ پوچھا کرتے تھے.پس اس بات کا اس باب سے کچھ تعلق نہیں ہے.(فواتح الرحموت،لابن نظام الدین الانصاری جزء۳ صفحہ ۳۱۱) ۲؂ امام فخر الاسلام (بزدوی) کی کتاب اصول کی بعض شروح میں ہے کہ امام بخاری نے کہا کہ مہاجرین اور انصار کی اولاد میں سے سات سو افراد نے ان (یعنی حضرت ابوہریرہؓ) سے روایت کی ہے اور صحابہ کی ایک جماعت نے بھی ان سے روایت کی ہے.پس ان کی حدیث کو ردّ کرنے کی کوئی وجہ نہیں.غور کرو کیونکہ اس میں غور کرنے کی ضرورت ہے اور (یہاں) امام شافعی ؒکے استدلال کو ردّ کرنا ہی درست ہے.(فواتح الرحموت،لابن نظام الدین الانصاری جزء۳ صفحہ ۳۱۱) ۳؂ اور گذشتہ علماء سے راوی کی سمجھ کی شرط منقول نہیں ہے.

Page 17

اور یہاں قراءت سے تدبر مراد لینا بھی صحیح نہیں.کیونکہ تدبر کو لغت اور عرف میں قراءت نہیں کہتے.فقہا نے بھی فرق رکھا ہے.دیکھو جنبی کے حق میں تدبر منع نہیں اور قراءت کو منع کیا ہے.باایں ہمہ قراءت کے حقیقی معنے چھوڑنے اور مجازی لینے پر کیا مجبوری ہے.حقیقی معنے یہاں ممکن ہیں اور امکان حقیقت میں مجاز پر عمل کرنا ساقط ہے.(دیکھو اپنا اصول) (۲) دوسری دلیل مقتدی کو فاتحہ پڑھنے کی.رَوَى الْبُخَارِيُّ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِأَصْحَابِهٖ فَلَمَّا قَضٰى صَلَاتَهٗ أَقْبَلَ عَلَيْهِمْ بِوَجْهِهٖ فَقَالَ أَتَقْرَءُوْنَ فِيْ صَلَاتِكُمْ وَالْإِمَامُ يَقْرَأُ؟ فَسَكَتُوْا فَقَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَقَالَ قَائِلٌ أَوْ قَائِلُوْنَ إِنَّا لَنَفْعَلُ قَالَ فَلَا تَفْعَلُوْا وَلْيَقْرَأْ أَحَدُكُمْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِيْ نَفْسِهٖ.{ FR 4492 }؂ (۳) و عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ صَلّٰى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْغَدَاةِ قَالَ فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ فَقَالَ إِنِّيْ لَأَرَاكُمْ تَقْرَءُوْنَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ؟ قَالَ قُلْنَا أَجَلْ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ فَلَا تَفْعَلُوْا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَّمْ يَقْرَأْ بِهَا.{ FR 4493 }؂ (۴) عَنْ نَافِــــعٍ.....قَالَ......أَبْطَأَ عُبَادَةُ عَنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ فَأَقَامَ أَبُونُعَيْمٍ { FN 4492 } ؂ امام بخاری ؒ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ کو نماز پڑھائی.جب آپؐ نے نماز پڑھ لی تو ان کی طرف چہرہ کیا اور فرمایا: کیا تم اپنی نماز میں قراءت کرتے ہو، جبکہ امام (بھی) قراءت کر رہا ہوتا ہے.وہ خاموش رہے.آپؐ نے تین بار ایسا ہی فرمایا تو کسی کہنے والے نے یا بعض کہنے والوں نے کہا: ہم ایسا ہی کرتے ہیں.آپؐ نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو.اور تم میں سے ہر ایک کو سورۂ فاتحہ اپنے دل میں پڑھنی چاہیئے.(القراءة خلف الإمام للبخاري, باب لا يجهر خلف الإمام بالقراءة, صفحه۶۱) { FN 4493 } ؂ حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے.انہوں نےکہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی.انہوں نے کہا: آپؐ پر قراءت کرنا مشکل ہوگیا.پھر آپؐ نے فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ تم اپنے امام کے پیچھے پیچھے پڑھتے ہو.حضرت عبادہ بن صامتؓ نے کہا: ہم نے عرض کیا: جی ہاں یارسول اللہ! آپؐ نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو، سوائے اُمّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) کے.کیونکہ جس نے اسے نہ پڑھا اس کی نماز ہی نہیں ہے.(القراءۃ خلف الإمام، باب لا يجهر خلف الإمام بالقراءة, صفحه۶۱)

Page 18

الْمُؤَذِّنُ الصَّلَاةَ وَكَانَ أَبُوْ نُعَيْمٍ أَوَّلُ مَنْ أَذَّنَ فِيْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَصَلّٰى بِالنَّاسِ أَ بُوْ نُعَيْمٍ وَأَقْبَلَ عُبَادَةُ وَ أَ نَا مَعَهٗ حَتّٰى صَفَفْنَا خَلْفَ أَبِيْ نُعَيْمٍ وَ أَ بُوْ نُعَيْمٍ يَجْهَرُ بِالْقِرَاءَةِ فَجَعَلَ عُبَادَةُ يَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْتُ لِعُبَادَةَ قَدْ صَنَعْتَ شَيْئًا فَلَا أَدْرِيْ أَ سُنَّةٌ هِيَ أَمْ سَهْوٌ كَانَتْ مِنْكَ، قَالَ وَمَا ذَاكَ؟ , قَالَ سَمِعْتُكَ تَقْرَأُ أُمَّ الْقُرْآنِ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ يَجْهَرُ قَالَ أَجَلْ صَلّٰى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ الصَّلَوَاتِ الَّتِيْ يُجْهَرُ فِيْهَا بِالْقِرَاءَةِ فَالْتَبَسَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهٖ فَقَالَ هَلْ تَقْرَءُوْنَ إِذَا جَهَرْتُ بِالْقِرَاءَةِ؟ فَقَالَ بَعْضُنَا إِنَّا لَنَصْنَعُ ذَالِكَ قَالَ فَلَا تَفْعَلُوْا وَأَ نَا أَقُوْلُ مَا لِيْ أُ نَا زَعُ الْقُرْآنَ فَلَا تَقْرَءُوْا بِشَيْءٍ مِّنَ الْقُرْآنِ إِذَا جَهَرْتُ إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ.رواہ الدار قطنی وقال رواتہ کلھم ثِقات.{ FR 4494 }؂ (۵) عَنْ عُبَادَةَ.....قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ { FN 4494 } ؂ نافع بن محمود بن ربیع انصاری سے روایت ہے.نافع نے کہا: حضرت عبادہؓ نے صبح کی نماز سے دیر کردی تو مؤذن ابونعیم نے نماز شروع کروا دی.اور ابو نعیم پہلے شخص تھے جنہوں نے بیت المقدس میں اذان دی تھی.ابونعیم نے لوگوں کو نماز پڑھائی.حضرت عبادہؓ آئے اورمیں بھی ان کے ساتھ تھا تو ہم نے ابونعیم کے پیچھے صف بنالی.ابونعیم اونچی آواز سے قراءت کر رہے تھے تو حضرت عبادہؓ نے اُمّ القرآن(یعنی سورۂ فاتحہ) پڑھنی شروع کردی.جب وہ (نماز سے) فارغ ہوئے تو میں نے حضرت عبادہؓ سے کہا: آپؓ نے کچھ ایسا کیا ہے جس کے بارے میں مجھے علم نہیں کہ وہ سنت ہے یا آپ کی طرف سے کوئی بھول ہوگئی ہے.انہوں نے کہا: وہ کیا ہے؟ نافع نے کہا: میں نے آپ کو اُمّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) پڑھتے سنا ہے جبکہ ابونعیم قراءت بالجہر کر رہے تھے.انہوں نے کہا: ہاں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں ایک ایسی نماز پڑھائی جس میں قراءت بالجہر کی جاتی ہے تو آپ پر قراءت خلط ملط ہوگئی.جب آپؐ (نماز سے) فارغ ہوئے تو آپ نے اپنا رُخ ہماری طرف کیا اور فرمایا: جب میں اونچی آواز سے قراءت کرتا ہوں تو کیا تم بھی پڑھتے ہو؟ ہم میں سے کسی نے کہا: ہم ایسا ہی کرتے ہیں.آپؐ نے فرمایا: ایسا مت کیا کرو.میں (دل میں) کہہ رہا تھا کہ ایسی کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن چھینا جارہا ہے.پس جب میں قراءت بالجہر کروں تو تم اُمّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) کے علاوہ قرآن سے کچھ نہ پڑھا کرو.اسے (امام) دارقطنی نے روایت کیا ہےاور کہا ہے کہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں.(سنن الدار قطنی، کتاب الصلاۃ، بَابُ وُجُوبِ قِرَاءَةِ أُمِّ الْكِتَابِ فِي الصَّلَاةِ وَخَلْـفَ الْإِمَامِ)

Page 19

فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ القِرَاءَةُ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ إِنِّيْ أَرَاكُمْ تَقْرَءُوْنَ وَرَاءَ إِمَامِكُمْ، قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ إِيْ وَ اللهِ، قَالَ.لَا تَفْعَلُوْا إِلَّا بِأُمِّ القُرْآنِ، فَإِنَّهٗ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَّمْ يَقْرَأْ بِهَا.(رواہ ابوداؤد و الترمذی) وَفِی لَفْظٍ : فَلَا تَقْرَءُوْا بِشَيْءٍ مِنَ الْقُرْآنِ إِذَا جَهَرْتُ بِہٖ إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ.رواہ ابوداوٗد والنسائی والدارقطنی وقال كُلُّهُمْ ثِقَاتٌ.(منتقٰی){ FR 4495 }؂ دارقطنی کی حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا اور بخاری نے جزء القراءة میں اس کو روایت کیا اور ابودائود اور ترمذی اور دارقطنی اور ابن حباّن اور حاکم اور بیہقی نے ابن اسحاق کے واسطہ سے روایت کیا ہے جو کہا اس نے.حدیث کی مجھ کو مکحول نے اس نے محمود بن ربیعہ سے اس نے عبادہ ؓسے اور ان سب نے اس حدیث کو صحیح کہا اور ابن اسحاق یہاں منفرد بھی نہیں بلکہ تابع ہوئی اس کو زید بن واقد (جو اہل شام کے ثِقات سے ہے) وغیرہ مکحول سے اور اس حدیث کے شواہد سے ہے وہ جو روایت کیا اس کو احمد نے خالد حَذّاء کے واسطہ سے ابوقلابہ سے اس نے محمد ابن ابی عائشہ سے اس نے ایک صحابی سے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شاید کہ تم پڑھتے { FN 4495 } ؂ حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے.انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صبح کی نماز پڑھائی تو آپؐ پر تلاوت مشکل ہوگئی.جب آپؐ فارغ ہوئے توفرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ تم اپنے امام کے پیچھے پیچھے پڑھتے ہو.حضرت عبادہؓ نے کہا: ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! جی ہاں، بخدا (ہم ایسا ہی کرتے ہیں) آپؐ نے فرمایا: اُمّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) کے سوا ایسا نہ کیا کرو.کیونکہ جس نے اسے نہ پڑھا اس کی نماز نہیں ہے.(ترمذی، أبواب الصلاۃ، بَابُ مَا جَاءَ فِي القِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ) (ابو داوٗد،کتاب الصلاۃ، بَابُ مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِيْ صَلَاتِهٖ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ) اور (یہ روایت) ان الفاظ سے بھی آتی ہے کہ جب میں (نماز میں) قراءت بالجہر کروں تو تم اُمّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) کے علاوہ قرآن سے کچھ نہ پڑھا کرو.یہ روایت ابوداوٗد‘ نسائی اور دارقطنی نے روایت کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں.(منتقیٰ).(ابو داوٗد،کتاب الصلاۃ، بَابُ مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِيْ صَلَاتِهٖ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ) (سنن النسائی، کتاب الافتتاح، قِرَاءَةُ أُمِّ الْقُرْآنِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيْمَا جَهَرَ بِهِ الْإِمَامُ) (سنن الدار قطنی، کتاب الصلاۃ، بَابُ وُجُوبِ قِرَاءَةِ أُمِّ الْكِتَابِ فِي الصَّلَاةِ وَخَلَفَ الْإِمَامِ)

Page 20

ہو جس وقت امام پڑھتا ہے.صحابہ نے عرض کیا بے شک ہم ایسا ہی کرتے ہیں فرمایا.ایسا مت کر مگر یہ کہ پڑھے ایک تم میں کا فاتـحة الکتاب کو.حافظ ابن حجر نے کہا کہ یہ اسناد َحسن ہے.یہ بات تلخیص حافظ میں ہے جس کو تخریج احادیث رافعی بھی کہتے ہیں.اور جس طریق کو بیہقی نے غیرمحفوظ کہا ہم نے اس طریق کو بھی چھوڑ دیا.اور نَیل { FR 4480 }؂ میں کہا محمد بن اسحاق نے تحدیث پر تصریح کر دی ہے.پس مظنّہ تدلیس کا جاتارہا.علاوہ بریں اس کے اور بھی تابع ہو چکے ہیں جیسے زیدؔ اور سعیدؔ اور عبد اللہؔ اور ابن جابرؔ دیکھو ابودائود.عینیؔ نے جو اس حدیث پر اعتراض کیا ہے اس کا مختصر جواب یہاں میرے کلام میں مذکور ہے.آگے مفصل آتا ہے (انشاء اللہ تعالیٰ) اور مولانا مولوی اسلام اللہ نے جو شیخ عبد الحق دہلوی کی اولاد میں سے ہیں مؤطا کی شرح محلّٰی میں لکھا ہے کہ عبادہ کی اس حدیث کو دارقطنی اور ابن حباّن اور بیہقی نے بھی روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کو َحسن کہا ہے.اور دارقطنی نے کہا ہے اس کا اسناد َحسن ہے اور اس کے رِجال ِثقات ہیں اور خطابی نے کہا کہ اس کا اسناد جیدّ ہے.اس میں طعن کی جگہ نہیں.اور حاکم نے کہا کہ اس کا اسناد مستقیم ہے.اور بیہقی نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے.ایسا ہی ابن الملقن نے نقل کیا.جواب الجواب مولوی صاحب نے اصل سوال کے جواب میں یہ فرمایا ہے.مطلق قراءت فرض است خصوصیت فاتحہ را دخلے نیست.لِقَوْلِہٖ تَعَالٰی.فَاقْرَؤُا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ { FR 5025 }؂ وتخصیص عام نسخ عام است.{ FN 4480 }؂ یعنی نَیل الْاَوطار.(ناشر) { FN 5025 }؂ اللہ تعالیٰ کا قول’’ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ‘‘ یعنی پس قرآن میں سے جتنا میسر ہو پڑھ لیا کرو.

Page 21

اس کے کئی جواب ہیں پہلا.قَالَ الْوَاحِدِيُّ: قَالَ الْمُفَسِّرُوْنَ (فِيْ قَوْلِهٖ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ): كَانَ هٰذَا فِي صَدْرِ الْإِسْلَامِ، ثُمَّ نُسِخَ بِالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ.{ FR 4824 }؂ (۱) یہ آیت شریف منسوخ ہے.واحدی کہتا ہے.مفسروں نے کہا فَاقْرَؤُا مَا تَیَسَّرَ کی آیت ابتدائے اسلام میں تھی پھر پانچ نمازوں کا حکم آ گیا تو یہ حکم مسلمانوں سے موقوف کیاگیا.پہلا منسوخ یہی دلیل ہو سکتی ہے.ہمیں اس جواب میں صرف یہ غرض ہے کہ مولوی صاحب کی دلیل غوایل جرح سے خالی نہیں.(غوایل کا لفظ یاد رہے) اور جو دلیل غوایل جرح سے محفوظ نہ ہو وہ مولوی صاحب کے نزدیک دلیل کے قابل نہیں.جیسا کہ انہوں نے اخیر میں اپنے جواب کے لکھا ورنہ خاکسار کی تحقیق نسخ آیات میں وہ ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ اس رسالہ کے اخیر یاعلیحدہ عنقریب مطبوع ہو گی.دوسرا جواب.حسبِ اصول مسلّمہ مقلدین حنفیہ.امر تکرار کا مقتضی نہیں.اس لئے تکرار کا حکم بڑھا لینا ایزاد ہو گا اور ایزاد َعلیَ النَّص کو حنفیہ نسخ جانتے ہیں.اَلْأَمْرُ بِالْفِعْلِ لَا يَقْتَضِي التَّكْرَارَ { FR 4819 }؂ (اصول شاشی) (الصَّحِیْحُ مِنَ الْمَذْھَبِ) أَنَّهٗ لَا يَقْتَضِي التَّكْرَارَ.{ FR 4821 }؂ (فصول) ای وھو الزیادة نسخ عندنا خلاف الشافعی { FR 4820 }؂ (مولوی حسامی)کیونکہ تقلید اور تخصیص ابطال وصف اطلاق اور عموم ہے اور دلیل قطعی کا اصل باوصف ظنیّ سے باطل نہیں ہو سکتا.(دیکھو فصول اور مولوی حسامی اور فواتح الرحموت) { FN 4824 }؂ (التفسیر الوسیط للواحدی، تفسیر سورۃ المزّمل آیت: ۲۰) { FN 4819 } ؂ کسی کام کا امر (اسے)بار بار دُہرانے کا تقاضا نہیں کرتا.(أصول الشاشی، فَصْلُ الْأَمْر بِالْفِعْلِ لَا يَقْتَضِي التَّكْرَارَ) { FN 4821 } ؂ مذہب یہی ہے کہ یہ (یعنی کوئی امر) تکرار کا تقاضا نہیں کرتا.(الفصول فی الأصول، فَصْلُ الْأَمْرِ إذَا كَانَ مُطْلَقًا أَوْ مُعَلَّقًا بِوَقْتٍ أَوْ شَرْطٍ أَوْ صِفَةٍ أَنَّهٗ لَا يَقْتَضِي التَّكْرَارَ) { FN 4820 } ؂ یعنی وہ زیادتی ہے جو امام شافعی ؒ کے برعکس ہمارے نزدیک منع ہے.

Page 22

بعد اس تمہید کے عرض ہے کہ فَاقْرَءُوْا مَاتَیَسَّرَ میں حسب اقتضائے امر آپ کے اصول سے ایک دفعہ تمام عمر میں قرآن کا پڑھنا فرض ثابت ہوتا ہے.خواہ مومنین نماز سے باہر پڑھ لیں خواہ نماز میں.جب کسی مسلمان نے عاقل بالغ مکلّف ہونے کے بعد یا کافر نے مسلمان ہونے پر نماز سے پہلے کچھ قرآن پڑھ لیا تو آپ کے نزدیک فَاقْرَءُ وْا مَاتَیَسَّرَ پر عمل کر چکا.اب اس کو بلحاظ اس آیت اور آپ کے اصول کے کسی نماز میں بھی قرآن کا پڑھنا ضروری نہ رہا.اگر فرضیت کا حکم اسی آیت یا اور دلیل سے کرو گے تو حکم تکرار ایزاد ہو گا.اور وہ نسخ ہے.کیونکہ وہ فرض ادا کر چکا ہے اور امر کی تعمیل ہو چکی اب دوبارہ کس دلیل سے اس کے ذمہ پڑھنا لازم ہوتا ہے.یہ آیت شریف تو مامور نہیں بناتی پس ہر نماز میں ہمیشہ کے لئے مطلق قراءت کا پڑھنا بھی اس امر سے ثابت نہ ہوا.بہرحال جب ایزاد ثابت کرو گے تو آپ کو آیت کا منسوخ ماننا پڑے گا.بلکہ فرضیت مطلق قراءت کا ہی نماز میں انکار کرنا.تیسرا جواب.حسبِ تحریرآپ کے اور آپ کے اہل اصول کے یہ آیت عام ہے اور عام کی تخصیص کو آپ لوگ نسخ کہتے ہیں اور آپ نے اس حکم کو نماز میں خاص کر لیا پس یہ آیت آپ کے نزدیک منسوخ ہوئی.کیونکہ عموم فرضیت قراءت کا مقتضی یہ تھا کہ مکلف کو قرآن پڑھنے میں اختیار ہے نماز کے باہر پڑھ لے یا نماز کے اندر اور آپ نے تخییر کو توڑ دیا.اور یہی تخصیص تھی.اگر کہو شان ِنزول نے تخصیص کی ہے تو اس پر ا۱وّل یہ اعتراض ہے کہ عام عام نہ رہا بلکہ مخصوص ہو گیا دوسرا یہ کہ اَلْعِبْرَةُ لِعُمُوْمِ اللَّفْظِ لَا لِـخُصُوْصِ السَّبَبِ { FR 4823 }؂ بھی آپ کے مسلّم اصول میں سے ہے.اس کو کیوں توڑا.تنبیہ.یاد رہے تخصیص کو اہل حدیث نسخ نہیں کہتے تخصیص اور نسخ میں بڑا فرق سمجھتے ہیں.{ FN 4823 }؂ نصیحت لفظ کے عموم سے ہوتی ہے نہ کہ کسی خاص سبب سے.(کشف الأسرار شرح أصول البزدوی، باب معرفۃ أحکام العموم)

Page 23

چوتھا جواب.آیت شریف کا ماقبل پڑھو اور تمام سورة کریمہ کو دیکھو.قیام اللیل میں ہے.اگر قاعدہ اَلْعِبْرَةُ لِعُمُوْمِ اللَّفْظِ لَالِـخُصُوْصِ السَّبَبِ منظور نہیں اور تخصیص ہی کو لینا ہے تو تہجد میں خاص رکھیے.قرینہ بھی موجود ہے یا مِنَ الْقُرْآنِ کے لفظ سے مجازاً مِنَ الصَّلٰوةِ مراد لیجیے.اگر کہو حقیقت کا چھوڑنا بے وجہ تویہ جائز نہیں.مجاز کیوں لیں تو عرض ہے کہ فَاقْرَءُوْا کے امر سے مقتدی‘ منفرد‘ امام‘ سب نمازیوں پر قراءت حقیقتاً فرض تھی.آپ کے بعض فقہاء نے فَاقْرَءُوْا میں مقتدی کے حق میں قراءت حکمی اور مجازی لے لی.یا فَاقْرَءُوْا کے مخاطبکو اِذَا قُرِأَ فَانْصُتُوْا کے ذریعہ اس حکم سے ہی علیحدہ کر لیا ہے اور آیت میں تخصیص مان لی.جیسے مقتدی کی نسبت فَاقْرَءُوْا میں مجاز اختیار کر لیا یا تخصیص مان لی ویسا ہی مِنَ الْقُرْآنِسے بقر ائن مَاسَبَقَ مَـجَا زًا صلوٰة ِتہجد لے کر یا تخصیص کے باعث آیت کو منسوخ کہہ دیجیے.فقیر نے جو کہا ہے کہ فَاقْرَءُوْا میں قراءت حقیقی مراد ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقت اصل ہے اور مانع موجود نہیں اور خیالی مانع مقلدین کا مانع نہیں.اور اصول میں ہے.اِنَّ الْعَمَلَ بِالْـحَقِیْقَةِ اِنْ اَمْکَنَ سَقَطَ الْمَجَازَات.{ FR 4825 }؂ اور کہا ہے وَ مِنْ حُکْمِ الْـحَقِیْقَةِ وَ الْمَجَازِ اِسْتِحَالَةُ اِجْتِـمَاعِھِمَا.{ FR 4827 }؂ پانچواں جواب.ذیل میں ہم انشاء اللہ تعالیٰ ثابت کر دیں گے کہ یہ آیت حنفیوں کے نزدیک ضرور عام مخصوص البعض ہے.اور عام کی تخصیص کو آپ اور کل حنفی نسخ جانتے ہیں.پس یہ آیت فَاقْرَءُ وْا حسب ِ قواعد و تسلیم آپ کے ضرور منسوخ ہوئی.چھٹا جواب.ماناکہ یہ آیت منسوخ نہیں اِلاَّ کہتے ہیں کہ یہ ایک خاص حادثہ کا ذکر ہے اور حوادث میں مورد پر تخصیص کر لینا آپ لوگ جائز سمجھتے ہیں.دیکھو جمعہ کے خطبہ میں سُلَـــیْک غَطْفَانیکی حدیث میں یہ آیا ہے.يَا سُلَيْكُ قُـمْ فَارْكَعْ رَكْعَتَيْنِ وَتَجَوَّزْ فِيْهِمَا.{ FR 4828 }؂ { FN 4825 }؂ جب (حقیقی معنی لینا) ممکن ہو تو عمل حقیقی معنی کے مطابق ہوگا اور مجازی معنی ساقط ہوجائیں گے.{ FN 4827 }؂ اور حقیقت اور مجاز کے قاعدہ میں سے ہےکہ ان دونوں کا (ایک لفظ میں) اکٹھے ہوجانا ناممکن ہے.{ FN 4828 }؂ اے سُلَیک! اُٹھو اور دو رکعتیں پڑھواور انہیں مختصر ادا کرو.

Page 24

آپ لوگوں نے اس حکم کو مورد پر خاص کر رکھا ہے اور کہہ دیا ہے.وَاقِعَةُ عَيْنٍ لَا عُمُوْمَ لَهَا فَیُخْتَصُّ بِہٖ { FR 4829 } ؂ اور صحیح حدیث کے جملہ ( إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ وَلْيَتَجَوَّزْ فِيْهِمَا.{ FR 4830 }؂ کو پس ِ پشت ڈال دیا.اور لفظ اِذَا اور کُمْ کا کچھ لحاظ نہ کیا اور یہ بھی نہ سوچا کہ اِذَا جَآءَ اَحَدُکُمْکا مخاطب صرف سُلَیک بن نہیں سکتا.اور حدیث إذَا خَرَجَ الْإِمَامُ فَلَا صَلَاةَ وَلَا كَلَامَ.{ FR 4831 }؂ کوئی مرفوع حدیث نہیں بلکہ زُہری کا کلام ہے.مرفوع کے سامنے معارضہ کے قابل نہیں اور علیؓ اور ابن عباسؓ وغیرہ کے آثار کَانُوْا یَکْرَہُوْنَ الصَّلٰوةَ عِنْدَ الْـخُطْبَةِ.{ FR 4832 }؂ مرفوع کے مقابلہ میں حجت نہیں اور ممکن ہے کہ اُن آثار میں اَلصَّلوٰةُ معرّف بِاللَّام سے مراد وہ نماز ہو جو وَلْیَتَجَوَّزْ کے خلاف ہے اور غیر معرّف معرّف پر محمول ہے اور لطف یہ کہ سُلَیک غطفانی کی حدیث میںثُمَّ انْتَظَرَهٗ.{ FR 4833 }؂ مسند احمد سے روایت کر کے یہ حکم لگا دیا ہے کہ اگر کوئی خطبہ کے وقت آوےتو اس کے واسطے اگر امام خطبہ میں سکوت کر لے تو اسے دو رکعت پڑھ لینی جائز ہیں.منع نہیں.حالانکہ ثُمَّ انْتَظَرَهٗ کالفظ کسی مرفوع حدیث میں نہیں.اور مرسل کی حجیت میں کلام ہے.اگر مان لیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سُلَیک کے وقت انتظار فرمایا تھا تو پھر بطور آپ کے کہہ سکتے ہیں کہ واقعہ خاص ہے اور اِنْتَظَرَہٗ کی ضمیر اس خصوصیت کی دلیل ہے اور اِذَا جَآءَ اَحَدُکُمْ اپنے عموم پر ہے.امام نووی نے سچ کہا ہے.وَلَا أَظُنُّ عَالِمًا يَبْلُغُهٗ هٰذَا اللَّفْظُ (إِذا جَآءَ أَحَدُكُمْ … وَالْإِمَامُ يَـخْطُبُ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ وَلْيَتَجَوَّزْ فِيْهِمَا) صَحِيْحًا { FN 4829 }؂ ایک خاص واقعہ ہے جوعمومیت نہیں رکھتا اس لیے یہ اس(صحابی) سے ہی مخصوص ہے.{ FN 4830 }؂ جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو چاہیے کہ وہ دو رکعتیں پڑھے اور چاہیے کہ انہیں مختصر پڑھے.{ FN 4831 }؂ جب امام (خطبہ کے لئے) باہر نکل آئے تو کوئی نمازنہیں اور نہ ہی کوئی کلام.{ FN 4832 }؂ وہ خطبہ کے دوران نماز (پڑھنا) ناپسند کرتے تھے.{ FN 4833 }؂ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا (دو رکعتیں مکمل کرلینے تک) انتظار فرمایا.

Page 25

فَيُخَالِفَهٗ.(انتہٰی){ FR 5026 }؂ اور حق یہ ہے کہ آپ کو بشرط انصاف ان رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ کے پڑھنے سے خطبہ میں ہرگز ہرگز ہرگز انکار نہ چاہئے.اوّل تو اس لئے کہ حدیث إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَلْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ يَتَجَوَّزْ فِيْهِمَا{ FR 4834 }؂ حدیث مرفوع صحیح غیرمعارض ہے اور ایزاد حکم سکوت بہ نسبت امام شرع لَمْ یَأْذِنْ بِہِ اللہ ہے.دوئم.اس واسطے کہ آپ کے نزدیک صحابی کا قول حجت ہے اور اس مسئلے میں صحابی کا قول بلامعارض موجود ہے بخاری نے عیاض بن عبد اللہ سے روایت کیا ہے.أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ دَخَلَ وَمَرْوَانُ يَخْطُبُ فَجَاءَ الْأَحْرَاسُ لِيُجْلِسُوْهُ فَأَبٰى حَتّٰى صَلّٰى فَقُلْنَا لَهٗ فَقَالَ مَا كُنْتُ لِأَدَعَهُمَا بَعْدَ شَيْءٍ رَأَيْتُهٗ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يَخْطُبُ فَجَاءَ رَجُلٌ فَأَمَرَهٗ فَصَلّٰى رَكْعَتَيْنِ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ ثُمَّ جَاءَ جُمُعَةً أُخْرَىٰ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَّصَّدَّقُوا عَلَيْهِ وَأَنْ يُّصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ.{ FR 4497 }؂ دیکھو یہاں راوی ہے بعد زمان نبوی عین قراءت خطبہ میں نماز پڑھی اور نسخ و تخصیص کو نہ مانا.اور آپ کے آثار منع کی دلیل نہیں ہو سکتی.کیونکہ حدیث امر میں { FN 5026 }؂ میں کسی عالم کے متعلق یہ خیال نہیں کرتا کہ اسے (حدیث کے) یہ لفظ کہ ’’جب تم میں سے کوئی آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ دورکعتیں پڑھے اور چاہیے کہ انہیں مختصر پڑھے‘‘ صحیح سند سے پہنچیں پھر وہ اس کی مخالفت کرے.{ FN 4834 }؂ جب تم میں سے کوئی آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو چاہیے کہ وہ دو رکعتیں مختصر کرکے پڑھے.{ FN 4497 } ؂ حضرت ابوسعید (خدری) رضی اللہ عنہ (مسجد میں) آئے اور مروان (بن حکم) خطبہ دے رہا تھا تو کچھ محافظ انہیں (یعنی حضرت ابو سعید خدریؓ کو) بٹھانے کے لیے آئے انہوں نے (بیٹھنے سے) انکار کر دیا حتی کہ انہوں نے نماز پڑھی.پھر ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: ایک بات کے بعد مَیں ان دو (رکعتوں) کو نہیں چھوڑ سکتا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا.آپؐ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آیا.آپؐ نے اسے (دو رکعتیں پڑھنے کا) فرمایا تو اس نے دو رکعتیں پڑھیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ دے رہے تھے.پھر وہ اگلے جمعہ آیا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ دے رہے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اسے صدقہ دیا جائے اور وہ دو رکعتیں پڑھ لے.

Page 26

رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ ہیں کیا معنٰی مفید ہے اور ان آثار میں جن سے آپ لوگ استدلال پکڑتے ہو رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِپر انکار نہیں ہو سکتا ہے کہ رَکْعَتَیْنِ طَوِیْلَتَیْنِ ہوں ایسا ہی محرُم اگر حالتِ احرام میں مر جاوے تو اس کے سر کو آپ لوگ ڈھانپنا اور حنوط لگاناناجائز جانتے ہیں اور وَلَاتُـحَنِّطُوْہُ وَ لَاتُـخَمِّرُوْا رَأْسَہٗ فَاِنَّ اللہَ تَعَالیٰ یَبْعَثُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مُـحْرِمًا.{ FR 5029 }؂ اسی ایک شخص کے حق میں خاص رکھتے ہیں جس کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمنے فرمایا تھا اور اصل مَاثَبَتَ لِوَاحِدٍ فِیْ زَمَانِ النَّبِیِّ صَلْعَمْ ثَبَتَ لِغَیْرِہٖ { FR 5030 }؂ کا خیال بھی نہ کیا.اور بعینہٖ ایسے ہی کلمات شہداء اُحد کے حق میں آئے ہیں.فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے زَمِّلُوْھُمْ فِیْ ثِیَابِھِمْ بِکُلُوْمِھِمْ فَاِنَّـھُمْ یُبْعَثُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ اَللَّوْنُ لَوْنُ دَمٍ وَ الرِّیْـحُ رِیْـحُ مِسْکٍ{ FR 4502 }؂ اِلاَّ پھر بھی آپ لوگوں نے شہید کے عدمِ غسل اور تکفین کو اسی حدیث سے ثابت کیا اور اِذَا مَاتَ اَحَدُکُمْ اِنْقَطَعَ عَمَلُہٗ { FR 4835 }؂ سے شہداءِ اُحد پر تخصیص نہیں کی.بتائو بجز تعصب کوئی مابہ الامتیاز دونوں واقعات میں ہے.ہرگز نہیں.بات یہ ہے کہ اگر آفت ِ تقلید میں مبتلا نہ ہوتے.اَلْعَبْدُ یُبْعَثُ عَلٰی مَا مَاتَ عَلَیْہِ { FR 4836 }؂ پر انصاف سے نظر کرتے اور اَلْعِبْرَةُ لِعُمُوْمِ اللَّفْظِ { FR 4837 }؂ کا اجتماع آپ کو نہ بھولتا اور مَا ثَبَتَ لِوَاحِدٍ ثَبَتَ لِغَیْرِہٖ{ FR 4838 }؂ کا (انشاء اللہ) خیال رہتا اور بہت سی اسی قسم کی نظیریں ہیں.{ FN 5029 }؂ نہ اسے حنوط لگائو اور نہ اس کے سر کو ڈھانکو کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن مجرم کی حالت میں ہی اٹھائے گا.{ FN 5030 }؂ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں جو بات؍امر کسی ایک کے لئے ثابت ہو تو وہ اس کے علاوہ دوسرے کے لئے بھی بطور ثبوت ہو گا.{ FN 4502 }؂ ان (شہداء ) کو ان کے کپڑوں میں زخموں سمیت لپیٹ دو.یقیناً یہ قیامت کے دن اس طرح اُٹھائے جائیں گے کہ (ان کے زخموں کے خون کا) رنگ خون جیسا ہو گا اور خوشبو کستوری جیسی.{ FN 4835 }؂ جب تم میں سے کوئی فوت ہو جاتا ہےتو اس کاعمل ختم ہو جاتا ہے.{ FN 4836 }؂ بندہ اُسی حالت پر اُٹھایا جائے گا جس پر اُس کی موت ہوئی.{ FN 4837 }؂ نصیحت لفظ کے عموم سے ہوتی ہے.{ FN 4838 }؂ جو (بات) کسی ایک کے لئے دلیل ہو تو وہ اس کے علاوہ (دوسروں) کے لئے بھی دلیل ہوگی.

Page 27

ساتواں جواب.مانا کہ آیت عام ہے اِلاَّآپ کے نزدیک آیت قطعی الدلالت نہیں کیونکہ کہیں قراء ت سے حقیقی قراءت مراد لیتے ہو جیسے امام اور منفرد میں اور کہیں قراءت سے قراءت مجازی.بھلا جہاں یہ حقیقت اور مجاز ایک لفظ میں جمع ہوں( باوجودیکہ آپ کے یہاں منع ہے.)پھر اس کی آپ تفریق کریں تو آیت کا قطعی الدلالتہونا کیونکہ ثابت ہو سکے اور جو قطعی نہ ہو وہ آپ کے نزدیک مثبت فرضیت نہیں.آٹھواں جواب.ہم نے مانا کہ عام ہے قطعی الدلالة ہو یا نہ ہو اِلاَّ عام قرآنی کی تخصیص سنت ثابتہ سے صحابہ کرام نے جائز رکھی ہے اور ان میں معمول تھی.کسی صحابی سے بھی ثابت نہیں کہ اُس نے عمومات قرآنی کی تخصیص کو جائز نہ کہا ہو.اگر کسی صحابی سے ثابت ہے تو آپ صحیح یا حسن اثر سے ثابت کر دیجیے اور فرضیت فاتحہ پر ایسی سنت ثابتہ موجود ہے اور سابق اس کا ذکر ہو چکا.نواں جواب.صحابہ کرام کا معمول تھا کہ اخبار احاد پر عمل کرنے اور عمومات قرائنہ کی تخصیص خبر احاد سے فرمایا کرتے تھے.خبرِاحاد پر عمل کرنے کی دلیل میں تو مُسلَّم الثَّبوت ہے کھول کر دیکھو انشاء اللہ تعالیٰ منصف حنفی کے واسطے کافی ہو گا.التعبّد بخبر الواحد جائز خلافًا للجبائی.ثم قال التعبّد بخبر الواحد واقعٌ خلافًا للروافض وطائفة اِلٰی ان استدلّ عَلٰی ذالک باجماعِ الصّحابة فَقَالَ و ثانیًا اجماع الصحابة.و فیھم عَـلِیٌّ بدلیل ماتواتر عنھم من الاحتجاج و العمل بہٖ فی الوقائع التی لاتحصی من غیر نکیر و ذالک یوجب العلم عادة باتّفاقھم کالقول الصّریح.فمن ذالک انہ عمل الکلّ بخبر ابی بکر الائـمّـة من قریش و نحن معشر الانبیاء وَ الانبیاء ید فنون حیث یموتون و ابوبکر بخبر المغیرة فی توریث الـجدَّة و بـخبر عبد الرحـمٰن بن عوف فی جزیة المجوس و بخبر حـمال بن مالک فی ایجاب الغرّة بالجنین و بخبر الضحّاک فی ایراث الزّوجة من دیّة الزوج و بخبر عمرو بن حزم فی دیة

Page 28

الاصابع و عثمان و علی بخبر فریعة فی ان عدة الوفات فی منزل الزوج و ابن عباس بـخبرابی سعید الرّبو فِی النَّقد راجعا الی غیر ذالک مـمّا لایعدّ الا بالتَّطویل.ترجمہ.خبرِواحد پر عمل درآمد عقلاً جائز ہے.اس میں جبائی کا (ایک رئیس معتزلہ کا نام ہے) اختلاف ہے.پھر کہا خبرِواحد عادل پر چلنا اسلام میں واقع ہو چکا ہے.اس میں شیعہ اور ایک فرقہ کا(یعنی ابن دائود قاسانی کا چنانچہ مختصر ابن حاجب و احکام آمدی میں ان کے نام پر تصریح ہے) اختلاف ہے یہاںتک کہ صاحبِ کتاب نے اس پر اجماع صحابہ سے استدلال کیا ہے اور کہا دوسری دلیل اس پر اجماع صحابہ ہے جس میں حضرت علی مرتضیٰ بھی ہیں (یہ شیعہ کے الزام کے لئے کہا ہے).دلیل اس اجماع پر یہ ہے کہ ان کا خبرِواحد سے سند پکڑنا اور کئی واقعات میں جو گنے نہیں جاتے اس پر بلا انکار عمل کرنا بتواتر ثابت ہے.یہ انکا عمل درآمد یقیناً ان کے اتفاق کو ثابت کرتا ہے جیسے کہ صریح کہنا.پس ازاں جملہ ان سب کا ابوبکر کی اس حدیث پر عمل کرناکہ امام قریش سے ہوتے ہیں اور اس پر جو آنحضرت نے فرمایا ہے کہ ہم گروہ انبیاء کسی کے وارث یامورث نہیں ہوتے اور اس پر کہ انبیاء جہاں فوت ہوتے ہیں وہیں دفن کئے جاتے ہیں.اور حضرت ابوبکر کا حدیث مغیرہ پر جو دادی کی میراث میں ہے عمل کرنا اور حضرت عمر کا حدیث عبدالرحمٰن پر جو جزیہ مجوس میں ہے اور حدیث حمل بن مالک پر جوجنین (حمل گرایا ہوا) کے بدلے لونڈی دلانے میں ہے اور حدیث ضحاّک پر جو عورت کو خاوند کے خون بہا سے وراثت دلانے میں ہے اور حدیث عمروبن حزم پر جو انگلیوں کے خون بہا نے میں ہے عمل کرنا اور حضرت عثمان و حضرت علی کا فریعہ کی حدیث پر جو خاوند کے گھر میں عدت وفات کاٹنے میں ہے عمل کرنا اور حضرت ابن عباس کا ابوسعید کی حدیث پر جو ہاتھوں ہاتھ بیع میں بصورت کمی بیشی کے ہم جنس اشیاء میں ربو ہو جانے کے بیان میں ہے.اپنے پہلے قول کو چھوڑ کر عمل کرنا.ان کے سوا اور بہت نظائر میں جو بدوں تطویل شمار میں نہیں آتے.تمام ہو ا جو مسلم سے نقل کیا گیا.فواتـح اشاعة دلیل تخصیص عموم قرآنی یہاں تک تو خبر واحد پر عمل کرنے کی دلیل تمام ہوئی.اب تخصیص عموم قرآنی کی دلیل

Page 29

عرض ہے.یُوْصِیْکُمُ اللہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ { FR 4839 }؂ میں کُمْ کا لفظ عام ہے اور اولاد کا لفظ بھی عام.پھر آپ نے کیا جمہور اسلام نے یا اہل سنت و جماعت نے نَـحْنُ مَعْشَرُالْاَنْبِیَآءِ لَا نُوْرِثُ مَا تَرَکْنَا فَھُوَ صَدَقَةٌ { FR 4840 }؂ جیسے خبرواحد سے جس کے راوی صرف جناب صدیق الاکبر ہی ہیں اور حدیث لَا یَرِثُ الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ { FR 4841 }؂سے یُوْصِیْکُمُ اللہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ کی تخصیص میں کئی قرآنی عموموں کا خیال نہ فرمایا.اور کافر کی مومن اولاد کو اور مومن کی کافر اولاد کو اس حدیث کے باعث ورثہ سے محروم کیا.او ر ُکل صحابہ نے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم کے مالی ورثہ سے جناب بتول کو مَـحْرُوْمَةُ الْاِرْثِکیا اور عموم قرآن کو چھوڑ کر خبرواحد پر عمل فرمایا.اور جناب عمرو جناب عثمان و جناب مرتضیٰ نے اپنی اپنی خلافت کے زمانہ میں اسی خبر واحد پر عمل کیا.پھر کسی آپ جیسے ُسنیّ نے ان کو نہ کہا کہنَـحْنُ مَعْشَرُالْاَنْبِیَآءِ کی حدیث احاد سے ہے.اس سے تخصیص عموم قرآنی جائز نہ تھی.آپ لوگوں نے کیسے جائز کر لی.نَـحْنُ مَعَاشِرُالْاَنْبِیَآءِ کی حدیث کو مسلّم الثبوت میں اخبار احاد سے مانا ہے جیسا گزرا.معترضہ جملہ دلائل مانعین تخصیص بخبرواحد ایک ہمارے مہربان نے اس وقت جب میں اس مقام پر پہنچا فرمایا کہ جناب عمر نے عموم قرآن پر عمل کرنے میں ایک خبرواحد کو ترک فرمایا ہے اور تم نے علی العموم صحابہ کی طرف سے کہہ دیا کہ ان کے یہاں خبرواحد سے تخصیص جائز ہے.میں نے عرض کیا کہ مومن اور کافر کے باہمی توریث کا کل امت نے اور انبیاء علیہم السلام کی مالی توریث کا اہل سنت نے خبرواحد کے باعث انکار کیا اور کسی صحابی سے کوئی اثر اس کے خلاف پر ثابت نہیںا ور عمر رضی اللہ عنہ کا خود بھی اسی بات پر عمل رہا ہے.اگر اس کے خلاف کوئی امر ثابت ہو تو بیان کرو.انہوں نے فرمایا.دو دلیلیں { FN 4839 }؂ اللہ تمہاری اولاد کے متعلق تمہیں حکم دیتا ہے.{ FN 4840 } ؂ ہم انبیاء کا گروہ ہیں.ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا.جو ہم چھوڑجائیں وہ صدقہ ہے.{ FN 4841 }؂ کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا.

Page 30

ہیں.اوّل یہ کہ فاطمہ بنت قیس نے حضرت عمر کے پاس یہ حدیث پیش کی جبکہ وہ مطلقہ ہوئی تو آنحضرت صلعم نے اس کو نفقہ اور سُکْنـٰی نہ دلوایا پس حضرت عمر نے اس کی حدیث کو نہ مانااور کہا لَا نَدَعُ كِتَابَ رَبِّنَا وَلَا سُنَّةَ نَبِيِّنَا بِقَوْلِ امْرَأَةٍ ‘ لَا نَدْ رِيْ أَصَدَقَتْ أَمْ كَذَ بَتْ أَحَفِظَتْ أَمْ نَسِيَتْ، فَإِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهَا النَّفَقَةُ وَالسُّكْنىٰ.{ FR 4504 }؂ اصول کی بعضی کتابوں میں پورا قصہ اور ترمذی اور ابوداؤد میں اس کا کچھ حصہ مذکور ہے.وقت پر جو جواب حاصل ہوا وہ بھی گذارش ہے تاکہ مولوی صاحب کو اس کا بھی خیال رہے.اوّل.اس کے کئی ان جملوں پر جرح ہوئی ہے جو آپ لوگوں کے مفید مطلب ہیں.اوّل دارقطنی نے کہا.یہ جملہ کہ ہم سنت رسول خدا کو کس طرح چھوڑیں.محفوظ نہیں.ثقات نےذکر نہیں کیا.امام احمد حنبل نے فرمایا.یہ جملہ لَانَدَعُ کِتَابَ رَبِّنَا (ہم کتاب اللہ کو نہیں چھوڑتے ) اور مطلقہ کونفقہ دلاتےہیں.حضرت عمر سے صحیح نہیں.قرآن کریم میں مطلقہ ثلاثہ کے واسطے نفقہ وسُکْنیٰ کا کہاںذکر ہے.اِبْنِ قَیِّمْ نے کہا ہے کہ یہ قصّہ جناب عمر پر افترا ہے.قَالَ نَشْهَدُ بِاللهِ شَهَادَةً نُسْأَ لُ عَنْهَا إِذَا لَقِيْنَاهَا اِنَّ هٰذَا كَذِ بٌ عَلٰى عُـمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَكَذِ بٌ عَلٰى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَنْبَغِيْ أَنْ لَّا يَحْمِلَ الْإِنْسَانَ فَرْطُ الِانْتِصَارِ لِلْمَذَاهِبِ وَالتَّعَصُّبِ لَهَا عَلٰى مُعَارَضَةِ سُنَنِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّحِيْحَةِ الصَّرِيْـحَةِ بِالْكَذِ بِ الْبَحْتِ.{ FR 4505 }؂ { FN 4504 } ؂ ہم اپنے ربّ کی کتاب اور اپنے نبیؐ کی سنت ایک عورت کی بات پر نہیں چھوڑیں گے.ہم نہیں جانتے کہ اس نے سچ کہا یا غلط.یا اس نے یاد رکھا یا بھول گئی.کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خرچ اور رہائش اس کا (حق) ہے.{ FN 4505 }؂ (ابن قیم ّنے) کہا: ہم اللہ کو گواہ ٹھہرا کر شہاد ت دیتے ہیں کہ جب ہم اس سے ملیں گے تو ہم سے اس (عورت) کے متعلق پوچھا جائے گا.یہ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر افترا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق غلط بیانی ہے.اور چاہیے کہ انسان پر مسالک کی جیت اور ان کے تعصب کا اعتدال سے ہٹا دینا، کھلم کھلا جھوٹ کے ذریعہ رسول اللہ ﷺ کی واضح سنتِ صحیحہ کی مخالفت کا بوجھ نہ ڈال دے.(زاد المعاد، ذکر أحکام الرسول ﷺ فی الطلاق، فصل فِي حُكْمِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُوَافِقِ لِكِتَابِ اللهِ أَ نَّهُ لَا نَفَقَةَ لِلْمَبْتُوْتَةِ وَلَا سُكْنٰى، فَصل رَدُّ مَطْعَنِ مُعَارَضَةِ رِوَايَتِهَا بِرِوَايَةِ عُمَرَ، جزء۵ صفحہ۴۸۰)

Page 31

دوم.اس قصہ کاراوی جناب عمرؓ سے ابراہیم نخعی ہے اور اس کی ملاقات جناب عمر ؓ سے ثابت نہیں.سوم.جناب ابن عباس ؓنے جناب عمرؓ سے اس امر میں خلاف کیا اور جب صحابی صحابی کے خلاف ہو تو فریقین کا قول حجت نہیں ہوتا (دیکھو اپنا اصول)ہاں کوئی مرجح ہو تو باعث ترجیح ہو سکتا ہے جیسے ہماری طرف ہے.چہارم.جناب عمر ؓنے فاطمہ ؓکی بات کو اس لئے ر د ّ فرمایا کہ راویہ کی راستی اور حفظ پر جناب کو اعتراض تھا.دوسری دلیل حنفیوں کی اس بات پر کہ حدیث قرآن کے مقابلے حجت نہیں.اصول کی کتابوں میں لکھا ہے.قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ تَكْثُرُ لَكُمُ الْأَحَادِيْثُ مِنْ بَعْدِيْ فَإِذَا رُوِيَ لَكُمْ (عَنِّيْ) حَدِيثٌ فَاعْرِضُوْهُ عَلٰى كِتَابِ اللهِ تَعَالٰى فَمَا وَافَقَ (كِتَابَ اللهِ تَعَالٰى) فَاقْبَلُوهُ وَمَا خَالَفَهٗ فَرَدُّوْهُ.{ FR 4506 }؂ ا س حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث پر جو قرآن کے موافق نہ ہو عمل جائز نہیں ہے.جواب اس حدیث کی نسبت شیخ ابن طاہر حنفی نے تذکرة الموضوعات میں لکھا ہے کہ خطابی نے کہا ہے کہ اس حدیث کو زندیقوں نے وضع کیا ہے اور ردّ کرتی ہے اس کو حدیث اِنِّیْ اُوْتِیْتُ الْکِتَابَ وَ مَا یَعْدِ لُہٗ.وَ یُرْوٰی وَ مِثْلُہٗ کَذَا قَالَ الصَّغَانِیْ وَ ھُوَ کَمَا قَالَ.اِنْتَہٰی.{ FR 4507 }؂ اور مولوی عبد العلی مسلّم الثبوت کی شرح میں کہتے ہیں قال صاحب سفر السعادة اَنَّہٗ مِنْ اَشَدِّ الْمَوْضُوْعَاتِ.قَالَ الشَّیْخُ ابْنُ حَـجَرٍ عَسْقَلَانِیُّ قَدْجَآءَ بِطُرُقٍ لَاتَـخْلُوْ عَنِ الْمَقَالِ وَ قَالَ { FN 4506 }؂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میرے بعد کثرت سے احادیث تم سے بیان کی جائیں گی.پس جب تم سے میرے متعلق کوئی حدیث بیان کی جائے تو اسے اللہ تعالیٰ کی کتاب پر پرکھ لو.پھر جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق ہو اُسے قبول کرلو اور جو اس کے مخالف ہو، اُسے ردّ کردو.(أصول البزدوي, باب بیان قسم الإنقطاع، الإنقطاع الظاھر، الانقطاع الباطل) { FN 4507 }؂ مجھے کتاب دی گئی ہے اور وہ (بھی) جو اس کے برابر ہے اور ایک روایت میں ہے (اور وہ بھی) جو اس کے مثل ہے.جیسا کہ صغانی نے کہا ہے: اور وہ اسی طرح ہے جیسا کہ آپؐ نے فرمایا.

Page 32

بعضھم وضعتہ الزنادقة و ایضًا ھو مخالف لِقَوْلِہٖ تَعَالٰی مَا اَتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَـخُذُوْہُ فصحة ہذاالـحدیث یستلزم وضعہ وردہ فھو ضعیف مردود انتہٰی.و فی الارشاد قال یـحی بن معــیـن انہ موضوع وضعتہ الزنادقة وقال عبد الرحمن بن مہدی الـخوارج وضعوا حدیث مااتاکم عنی فاعرضوہ علی کتاب اللہ.تلویح میں لکھا ہے.بِأَنَّهُ خَبَرُ الْوَاحِدِ وَقَدْ خُصَّ مِنْهُ الْبَعْضُ أَعْنِي الْمُتَوَاتِرَ وَالْمَشْهُوْرَ فَلَا يَكُونُ قَطْعِيًّا فَكَيْفَ يُثْبِتُ بِهٖ مَسْأَلَةَ الْأُصُولِ عَلٰى أَنَّهٗ يُخَالِفُ عُمُوْمَ قَوْلِهٖ تَعَالٰى: وَمَا اَ تَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْهُ (الحشر:۸) وَقَدْ طَعَنَ فِيهِ الْمُحَدِّثُوْنَ بِأَنَّ فِيْ رُوَاتِهِ يَزِيدَ بْنَ رَبِيْعَةَ، وَهُوَ مَجْهُوْلٌ، وَتَرَكَ فِيْ إسْنَادِهٖ وَاسِطَةً بَيْنَ الْأَشْعَثِ وَالثَوْبَانَ فَيَكُوْنُ مُنْقَطِعًا وَذَكَرَ يَحْيَى بْنُ مُعِيْنٍ أَنَّهٗ حَدِيْثٌ وَضَعَتْهُ الزَّنَادِقَةُ وَ إِيْرَادُ الْبُخَارِيِّ إيَّاهُ فِيْ صَحِيْحِهٖ لَا يُنَافِيْ الِانْقِطَاعَ أَوْ كَوْنَ أَحَدِ رُوَاتِهٖ غَيْرَ مَعْرُوفٍ بِالرِّوَايَةِ.انتہٰی (اشاعة) { FR 4508 }؂ اِن { FN 4508 }؂ سفر السعادۃ کے مصنف نے کہا ہے کہ یہ (حدیث) موضوع ترین روایات میں سے ہے.امام ابن حجر عسقلانی نے کہا: یہ ایسے واسطوں سے آئی ہے جو جرح سے خالی نہیں ہیں.ان میں سے ایک نے تو یہ بھی کہا ہے کہ اسے زندیقوں نے بنایا ہے اور اسی طرح یہ اللہ تعالیٰ کے قول وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَـخُذُوْهُ کے بھی خلاف ہے.پس اس حدیث کی صحت سےاس کی کمزوری اور اس کا ردّ کیا جانا لازم آتا ہے.یعنی یہ (روایت) ضعیف اور مردود ہے.اور ارشاد (یعنی ارشاد الفحول) میں ہے کہ یحيٰ بن معین نے کہا: یہ (روایت) موضوع ہے جسے زندیقوں نے بنایا ہے.اور عبد الرحمٰن بن مہدی نے کہا ہے کہ خوارج ہیں جنہوں نے یہ حدیث کہ میرے متعلق جو تم سے بیان کیا جائے اسے کتاب اللہ پر پرکھو، بنائی ہے.یہ (روایت) تو خبر واحد ہے اور بعض اقسام جیسے متواتر اور مشہور کو بھی اس سے مخصوص سمجھا گیا ہے حالانکہ یہ (روایت) قطعیت نہیں رکھتی، اس لیے اس سے اصولی مسئلہ کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے.جبکہ یہ اللہ تعالیٰ کے قول وَمَا اَ تَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَـخُذُوْهُ کی عمومیت کے خلاف ہے اور محدثین نے بھی اس پر جرح کی ہے کہ اس کے راویوں میں سے یزید بن ربیعہ مجہول ہے.نیز اس کی سند میں اشعث اور ثوبان کے درمیان واسطہ چھوٹا ہوا ہے، اس لیے یہ (روایت) منقطع ہے.اور یحيٰ بن معین نے ذکر کیا ہے کہ یہ ایسی حدیث ہے جسے زندیقوں نے گھڑا ہے.اور امام بخاریؒ کا اس روایت کو اپنی صحیح میں لانا اس (کی سند) کے انقطاع یا اس کے راویوں میں سے ایک کے غیر معروف ہونے کی نفی نہیں کرتا.

Page 33

شہادتوں سے حدیث کا حال بھی کھل گیا اور ایک عمدہ بات بھی نکل آئی.وہ یہ ہے کہ صاحبِ تلویح اس حدیث کی نسبت فرماتے ہیں کہ بخاری میں موجود ہے حالانکہ یہ حدیث بخاری میں بالکل موجود نہیں ہے.یہ ہمارے حضرات احناف کے اصولی محققوں کا حال ہے.فروعی محققوں کی حالت کو بھی اس پر قیاس فرما لیجیے.کیونکہ قیاس آپ کے نزدیک حجتِ شرعیہ ہے.سچ کہا ہے امام ملحاوی حنفی نے جو مقلّد ہوا وہ جاہل ہے یا متعصب (ایں قول حنفی ست) مولوی صاحب کے اصل استدلال کا.دسواں جواب.جمہور اَئمہ اسلام نے بھی عام کی تخصیص کو جائز رکھا ہے.محصول میں ہے.يجوز تخصيص الكتاب بخبر الواحد عندنا وهو قول الشافعي وأبي حنيفة ومالك رحمهم الله وقال قوم لا يجوز أصلا وقال عيسى بن أبان إن كان قد خص قبل ذالك بد ليل (مقطوع به جاز و إلا فلا وقال الكرخي إن كان قد خص بدليل) منفصل صار مجازا فيجوز ذلك وإن خص بدليل متصل أو لم يخص أصلا لم يجز وأما القاضي( أبو بكر رحمه الله إنه) اختار التوقّف.{ FR 4509 }؂ اور ابن حاجب نے مسئلہ تخصیص عام کو بیان کر کے فرمایا ہے.و بہ قالت الائـمة الاربعة { FR 4842 }؂ اور ارشاد میں ہے.اِتَّفَقَ أَهْلُ الْعِلْمِ سَلَفًا وَخَلَفًا عَلٰى أَنَّ التَّخْصِيصَ لِلْعُمُوْمَاتِ جَائِزٌ، وَلَمْ يُخَالِفْ فِيْ ذَالِكَ أَحَدٌ مِمَّنْ يُعْتَدُّ بِهٖ وَهُوَ مَعْلُومٌ مِنْ هَذِهِ الشَّرِيعَةِ الْمُطَهَّرَةِ( لَا يَخْفٰى عَلٰى مَنْ لَهٗ أَدْنٰى تَمَسُّكٍ بِهَا) حَتّٰى قِيْلَ: (إِنَّهٗ) لَا عَامَّ إِلَّا وَهُوَ مَخْصُوصٌ، إِلَّا قَوْلُهٗ { FN 4509 } ؂ ہمارے نزدیک خبر واحد سے کتاب اللہ (کے کسی مضمون) کی تخصیص کرنا جائز ہے.اور امام شافعی، امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمھم اللہ تعالیٰ کا یہی قول ہے.اور ایک قوم نے کہا ہے کہ اصل (حکم) کے متعلق یہ جائز نہیں ہے.عیسیٰ بن ابان نے کہا ہے کہ (خبر واحد سے) پہلے اگر قطعیت کو پہنچی ہوئی کسی دلیل سے تخصیص کی گئی ہو تو (خبرواحد سے مزید تخصیص) جائز ہے وگرنہ نہیں.اور کرخی نے کہا ہے اگر کسی دلیل منفصل کے ساتھ مجازی معنی سے مختص کیا گیا ہو تو یہ جائز ہے اور اگر دلیل متّصل سے تخصیص کی جائے یا تخصیص حقیقی معنی کے متعلق نہ ہو تو جائز نہیں.اور قاضی ابوبکرنے (اس معاملہ میں) خاموشی اختیار کی ہے.(المحصول للرازی، الکلام فی العموم والخصوص،القسم الثالث القول فیما یقتضی تخصیص العموم، الباب الثالث فی التخصیص بالغایۃ، الفصل الرابع في تخصيص المقطوع بالمظنون) { FN 4842 }؂ اور اس کے متعلق چاروں اَئمہ نے بیان کیا ہے.

Page 34

تَعَالٰى: {وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ} ( قَالَ الشَّيْخُ عَلَمُ الدِّيْنِ الْعِرَاقِيّ: لَيْسَ فِي الْقُرْآنِ عَامٌّ غَيْرَ مَخْصُوْصٍ إِلَّا أَرْبَعَةَ مَوَاضِعَ: أَحَدُهَا: قَوْلُهٗ) {حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ}الـخ.{ FR 4510 }؂ تلویح میں ہے.حُكْمُ الْعَامِّ عِنْدَ عَامَّةِ الْأَشَاعِرَةِ التَّوَقُّفُ حَتّٰى يَقُومَ دَلِيلُ عُمُوْمٍ، أَوْ خُصُوْصٍ، وَعِنْدَ الْبَلْخِيِّ وَالْجَبَائِيِّ اَلْجَزْمُ بِالْخُصُوْصِ كَالْوَاحِدِ فِي الْجِنْسِ وَالثَّلَاثَةِ فِي الْجَمْعِ، وَالتَّوَقُّفُ فِيْمَا فَوْقَ ذَالِكَ وَعِنْدَ جَمْهُورِ الْعُلَمَاءِ إِثْبَاتُ الْحُكْمِ فِيْ جَمِيْعِ مَا يَتَنَاوَلُهٗ مِنَ الْأَفْرَادِ قَطْعًا وَيَقِيْنًا عِنْدَ مَشَايِــــــخِ الْعِرَاقِ وَعَامَّةِ الْمُتَأَخِّرِينَ، وَظَنًّا عِنْدَ جَمْهُوْرِ الْفُقَهَاءِ وَالْمُتَكَلِّمِينَ ، وَهُوَ مَذْهَبُ الشَّافِعِيِّ وَالْمُخْتَارُ عِنْدَ مَشَايِـخِ سَمَرْقَنْدَ حَتّٰى يُفِيْدَ وُجُوْبَ الْعَمَلِ دُوْنَ الِاعْتِقَادِ، وَيَصِحُّ تَخْصِيْصُ الْعَامِّ مِنَ الْكِتَابِ بِخَبَرِ الْوَاحِدِ وَالْقِيَاسِ.{ FR 4511 }؂ { FN 4510 }؂ اہل علم متقدمین ومتأخرین اس پر متفق ہیں کہ عمومات کی تخصیص جائز ہے اور ان میں سے کسی قابل ذکر شخص نے اس کی مخالفت نہیں کی.اور یہ اس شریعت مطہرہ سے ایسا معلوم ہے کہ اس سے ادنیٰ سا مسّ رکھنے والے سے بھی مخفی نہیں.حتی کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی (حکم بھی) عام نہیں مگر وہ مخصوص ہے سوائے اللہ تعالیٰ کے قول وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيم کے، یعنی اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے.شیخ علم الدین عراقی نے کہا: قرآن کریم میں صرف چار مواقع ایسے ہیں جہاں (قول) عام ہے مخصوص نہیں.ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ کا قول حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُم ہے یعنی تم پر تمہاری مائیں حرام کر دی گئی ہیں.(ارشاد الفحول، المقصد الرابع فی الأوامر والنواھی والعموم، الفصل الرابع فی الخاص والتخصیص والخصوص، المسألة الثالثة: تخصيص العمومات وجوازه) { FN 4511 }؂ اکثر اشاعرہ کے نزدیک عام کے حکم میں توقف ہے،یہاں تک کہ (اس کے) عمومی ہونے یا مخصوص ہونے کے متعلق دلیل قائم ہو.اور بلخی اور جبائی کے نزدیک (عام کو ) تخصیص سے حتمی کرنا ایسا ہی ہے، جیسے کسی جنس میں ایک اور جمع میں تین (یقیناً ہوتے ) ہیں اور اس سے زیادہ پر توقف ہے.اور جمہور علماء کے نزدیک افراد میں سے جن کے لیے یہ (یعنی عام) مستعمل ہوتا ہے ان سب پر اس کا حکم ثابت ہے.مشائخ عراق اور عام متأخرین کے نزدیک (اس کا ثابت ہونا) قطعی اور یقینی طور پر ہے.جبکہ جمہورفقہاء اور متکلّمین کے نزدیک (اس کا ثابت ہونا) ظنی ہے.امام شافعی ؒ کا بھی یہی مسلک ہے.اور مشائخ سمرقند کے نزدیک (اس میں اس وقت تک) اختیار ہے جب تک کہ یہ اعتقاد کے علاوہ عمل کے واجب ہونے کا فائدہ دے.اور (ان کے نزدیک) کتاب اللہ میں سے عام(قول) کی خبرواحد اور قیاس سے تخصیص کرنا درست ہے.(التلويح على التوضيح، الْقِسْمُ الْاَ وَّلُ مِنْ الْكِتَابِ فِي الْاَدِلَّةِ الشَّرْعِيَّةِ، اَلرُّكْنُ الْاَ وَّلُ فِي الْكِتَابِ، اَلْبَابُ الْاَ وَّلُ فِي إفَادَتِهِ الْمَعْنَى، التَّقْسِيمُ الْاَ وَّلُ بِاعْتِبَارِ وَضْعِ اللَّفْظِ لِلْمَعْنٰى، فَصْلُ حُكْمِ الْعَامِّ)

Page 35

جواب گیارہواں.امام ابوحنیفہ کے نزدیک عام کی تخصیص جائز ہے.جیساکہ جواب سیوم میں گذرا ہے.اگر دعویٰ عدم جواز تخصیص ہے تو کسی معتبر کتاب سے امام کا انکار ثابت کر دیجیے اور دکھلا دیجیے کہ امام کے نزدیک تخصیص عام خبرِواحد سے جائز نہیں.ہم کو صرف مقلّدین کے اپنے اقوال سے غرض نہیں.ا س معاملہ میں امام کا قول دکھلانا ہو گا ہم پر تو ہمیشہ یہ طعن کہ امام کے قول کو سند نہیں پکڑتے اور خود بزدوی اورمتأخرین اہلِ اُصول اور عیسیٰ بن اِباّن وغیرہ کے اقوال پر کاربند ؂ یہ کیا غضب ہے کہ تم کو تو ربط غیر سے اور مجھے یہ حکم کہ زنہار تو کسی سے نہ مل بارہواں جواب.یہ عام کل حنفیوں کے نزدیک مخصوص البعض ہے اورجو عام مخصوص البعض ہو اس عام کی تخصیص بالاتفاق جائز ہے.مخصوص البعض تو اس لئے ہے کہ فَاقْرَؤُا مَا تَیَسَّرَ{ FR 4843 }؂سے کل نمازیوں کے واسطے مَاتَیَسَّرَکا پڑھنا ضروری معلوم ہوتا ہے.مقتدی ہوں یا منفرد یا امام.اور عام حنفیہ مقتدی کے لئے قراءت قرآن بالکل ضروری بلکہ جائز بھی نہیں سمجھتے.اگر اس آیت شریف کے لحاظ سے مطلق قراءت سب نمازیوں پر ضرور ہوتی جیسا کہ لفظ فَاقْرَؤُا سے ظاہر ہے تو مقتدی کے واسطے بھی حنفی لوگ کسی قدر قرآن کریم کا پڑھنا ضروری کہتے لَاکِنْ انہوں نے ایک ضعیف حدیث یا ایسی حدیث سے جس میں کلام ہے (وہ قِرَاءَةُ الْاِمَامِ لَہٗ قِرَا ئَ ةٌ { FR 4844 }؂ہے) اس اِقْرَؤُوْا کے حکم کو خاص کر دیا عام نہ رکھا.دیکھو امام الکلام میں لکھا ہے.فان قلت قولہ تعالیٰ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ من القرآن ید ل علی افتراض (الفاتحة) علٰی کل انسان.قلت ھو عندنا (الحنفیة) مخصص بحدیث قِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهٗ قِرَاءَةٌ فلا یثبت فرضیة لہ (انتہٰی).{ FR 4573 }؂ ایسا ہی عینی حنفی نے ہدایہ کی شرح میں کہا ہے.تو اب اس مخصص مَاتَیَسَّرَ کی تخصیص سے باوجودیکہ اس تخصیص کے لئے ہم { FN 4843 }؂ پس (قرآن میں سے) جتنا میسر ہو پڑھ لیا کرو.(المزمل:21) { FN 4844 }؂ امام کی قراءت ہی اس (مقتدی )کی قراءت ہے.(ابن ماجہ، کتاب إقامۃ الصلاۃ، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا) { FN 4573 }؂ اگر تم کہو کہ اللہ تعالیٰ کا قول فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ (یعنی قرآن میں سے جتنا میسر ہو پڑھ لیا کرو) ہر انسان پر (سورۂ فاتحہ کی قراءت کے) فرض ہونے کی دلیل ہے، تو میں کہتا ہوں کہ یہ ہمارے (یعنی احناف کے) نزدیک ایک حدیث کہ ’’امام کی قراءت ہی اس (مقتدی )کی قراءت ہے‘‘ کی وجہ سے مخصوص ہے.پس یہ اس کے لیے فرض ثابت نہیں ہوتی.

Page 36

ایسی صحیح حدیثیں پیش کرتے ہیں جن میں کلام ہی نہ ہو اور جس کے راوی بھی بہت ہوں اور جس کے حق میں امام بخاری تواترکا دعویٰ کر چکے ہوں اور ان کے دعویٰ کو کسی نے باطل نہ کیا ہو کیوں پہلوتہی کرتے ہیں.ضعیف یا منظور فیہ حدیث کو آنکھ بند کر کے مخصص مان لیں اور جس کو اِمَامُ الْاَئِـمَّة متواتر بھی کہہ چکا ہو اور جو حدث کلام سے محفوظ رہی ہو اس کو مخصص مان لینے سے چکراویں.اس ہٹ دھرمی کی بھی کوئی حد ہے.افسوس ؂ ہمیں تو صبر کو کہتے ہیں شیخ و واعظ سب انہیں تو کوئی بھی کہتا نہیں وفا کے لئے اگر یہ عذر ہے کہ اس آیت کو اجماع نے مخصص کیا ہے تو اس پر عرض ہے وہ اجماع کہاں ہے.کب ہوا.پھر اگر اجماع ہی مخصص ہے تو بھی آیت مخصوص البعض ہو گئی اور ایسا عام آپ صاحبوں کے نزدیک قطعی نہیں اور غیرقطعی مثبت فرضیت نہیں.پس مطلق قراءت کی فرضیت بھی ٹوٹ گئی.علاوہ بریں اس عام مخصوص البعض کی تخصیص سے کون مانع ہے.مولوی صاحب ہم پر تخصیص کے ماننے سے جس قدر آپ کے اعتراض وارد ہوئے تھے وہی سارے اعتراض آپ پر اُلٹ پڑے.اب جو جو جواب آپ اپنے لئے تجویز کریں یا کر چکے ہوں وہی جواب ہماری طرف سے بھی سمجھیے اور انصاف سے کہہ دیجیے.بیت جواب اس بات کا گھر ہی میں یہ کیسا نکل آیا میں الزام ان کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا تیرہواں جواب.آیت شریف فَاقْرَءُوْاوْا مَا تَيَسَّرَ غیر قادر علی القراء ت کے لحاظ سے آپ کے نزدیک کیا تمام اہل اسلام کے نزدیک مخصوص ہے.جب مخصوص ہوئی تو ظنیّ ہو گئی اور عام مخصوص البعض کی تخصیص بلاخلاف خبرِواحدسے جائز ہے.قال صاحب امام الکلام خص منہ مدرک الرکوع و العاجز عنہ بلانزاع.{ FR 4574 } ؂ { FN 4574 } ؂ کتاب ’’امام الکلام‘‘ کے مصنّف نے کہاہے: رکوع پانے والا اور قراءت نہ کرسکنے والا بلا اختلاف اس (آیت) سے جُدا کیے گئے ہیں.

Page 37

چودہواں جواب.یہ آیت کریمہ آیت اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ کے سبب جہریہ نمازوں میں مقتدی کے حق میں آپ کے نزدیک بالاتفاق اپنے عموم پر نہیں.مخصوص البعض ہے.اور عام مخصوص البعض کی تخصیص خبرِواحد سے بالاتفاق جائز ہے.فی الامام (الآیة) خص منہ مدرک الرکوع و العاجز عنہ بلا نزاع فلیخص منہ المؤتمّ.و کذا قال ابن الھمام.{ FR 4857 }؂ پندرہواں جواب.یہ آیت کریمہ مدرک فی الرکوع کے حق میں آپ لوگوں کے نزدیک اپنے عموم پر نہیں بلکہ عام مخصوص البعض.کیونکہ مدرک فی الرکوع پر آپ کے نزدیک قراءت فرض نہیں اور عام مخصوص البعض کی تخصیص خبرِواحد سے جائز ہے.قال العینی: خصّ منه المقتدي الذي أدرك الإمام في الركوع فإنه لا يجب عليه القراءة بالإجماع، فيجوز الزيادة عليه حينئذ بخبر الواحد.{ FR 4575 }؂ اور یہ بات عینی نے جواب میں اس سوال کے فرمائی جو خود عینی نے جواب سے پہلے یوں بیان کیا.إن قلت قوله عَلَیْہِ السَّلَامُ قراءة الإمام له قراءة معارض بقولهٖ تعالٰى: {فَاقْرَءُوْا} [المزّمل: ۲۱] فلا يجوز تركه بخبر الواحد.{ FR 4858 }؂ اور صاحب ِامام الکلام نے فرمایا.لٰکِنَّہٗ (مرجع اس کا آیت فَاقْرَءُوْا وْا ہے)نصّ مخصوص البعض بالاجماع حیث خصّ منہ مدرک الرکوع و العاجز عنہ بلانزاع فلیخص منہ المؤتم بشہادة کثیر { FN 4857 }؂ کتاب ’’امام الکلام‘‘ میں ہے کہ اس (آیت) سے رکوع پانے والا اور قراءت نہ کرسکنے والا الگ کیے گئے ہیں، (اس میں) کوئی اختلاف نہیں.اس لیے چاہیے کہ مقتدی بھی اس سے الگ سمجھا جائے.اور ابن ہمام نے (بھی) ایسا ہی کہا ہے.{ FN 4575 } ؂ عینی نے کہا کہ اس (آیت) سے اُس مقتدی کو جس نے امام کو رکوع میں پالیا الگ کیا گیا کہ اس پر بالاجماع قراءت واجب نہیں.پس اس طرح خبر واحد سے اس (یعنی قرآن) پر زیادت جائز ہے.(البناية شرح الهداية للعینی، کتاب الصلاۃ، باب فی صفة الصلاة، ما يجزئ من القراءة في الصلاة، قراءة المؤتم خلف الإمام) { FN 4858 }؂ اگر تم کہو کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ و سلم کا قول ہے.’’امام کی قراءت ہی اس (مقتدی )کی قراءت ہے‘‘ اللہ تعالیٰ کے قول فَاقْرَءُوْا (یعنی پڑھا کرو) کے مخالف ہے اور خبرواحد سے اس (آیت) کا ترک کرنا جائز نہیں.

Page 38

من الاحادیث الواردة (انتہٰی).{ FR 4576 } ؂ سولہواں جواب.عام اکثر علما کے نزدیک ظنیّ ہے.الاکثر علی انہ ظن محتمل للخصوص.انتہٰی{ FR 4859 }؂ مسلم.اور آپ کے علما سے بھی الشیخ الامام علم الہدی ابومنصور ماترُیدی وغیرہ اسی طرف گئے ہیں اور آپ لوگ اثباتِ تقلید میں حدیث اِبْتَغُوا السَّوَا دَ الْاَعْظَمَ.{ FR 4860 }؂ سے استدلال پکڑا کرتے ہیں.سواد ِاعظم سے جب عام کا ظنی ہونا ثابت ہوا تو آپ کو عام کے ظنی ہونے سے انکار نہ کرنا چاہیے.جب ظنی ہوا تو اس کی تخصیص ممنوع نہیں.سترہواں جواب.ماناکہ قطعی ہے اور اس کی تخصیص خبرِاحاد سے درست نہیں.مگر یہ حدیث لَاصَلٰوةَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَءْ.{ FR 4861 }؂ مشہور ہے اور یہ حدیث قِرَاءَةُ الْاِمَامِ لَہٗ قِرَاءَ ةٌ { FR 4863 }؂ کی حدیث اور اِذَا قَرَأَ فَاَنْصِتُوْا { FR 4864 }؂ کی حدیث سے کسی طرح کم نہیں.جب ان احادیث کو احادیث مشہورہ کہہ کر جیسا عینی نے کہا ہے قرآنی عموم فَاقْرَؤُا کو کل حنفیوں نے مخصص مان لیا تو لَاصَلوٰةَ والی حدیثوں کو مشہور ماننے سے کون امر مانع ہے.میرے مذکورہ بالا کلمات میں دو اور اعتراض عین تحریر میں واقع ہوئے.{ FN 4576 } ؂ لیکن یہ (آیت فَاقْرَءُوْا) بالاجماع نصّ مخصوص البعض ہے.چونکہ رکوع پانے والے اور قراءت نہ کرسکنے والے کو بلااختلاف اس (آیت) سے الگ کیا گیا ہے پس چاہیے کہ (اس معاملہ میں) مروی بہت سی احادیث کی گواہی سے مقتدی کو بھی اس (آیت) سے الگ سمجھا جائے.{ FN 4859 }؂ اکثر علماء کے نزدیک یہ (یعنی خبرواحد) ظنی ہے، (اس سے) تخصیص کرنا جائز ہے.{ FN 4860 } ؂ بڑی اکثریت کی پیروی کرو.(المستدرک علی الصحیحین، کتاب العلم، ذكر من شذ شذ في النار) { FN 4861 }؂ جس نے (سورہ فاتحہ) نہ پڑھی اس کی نماز نہیں.(بخاري,كتاب الآذان, بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا) { FN 4863 } ؂ امام کی قراءت ہی اس (مقتدی )کی قراءت ہے.(سنن الدارقطنی، کتاب الصلاۃ، باب ذکر قولہ ﷺ من کان لہ إمام فقراءۃ الإمام لہ قراءۃ) { FN 4864 }؂ جب (امام) قراءت کرے تو تم خاموش رہو.(مسلم، کتاب الصلاة، باب التشھد فی الصلاة)

Page 39

اوّل.یہ حدیث مشہور نہیں کیونکہ مشہور کی تعریف میں آیا ہے.اَلْمَشْھُوْرُ مَا تَلَقَّاہُ التَّابِعُوْنَ.{ FR 4865 }؂ اور اس مسئلہ میں تابعین نے اختلاف کیا ہے.دویم.یہ حدیث محکم نہیں بلکہ محتمل ہے اور مشہور اگر محتمل ہو تو قابلِ حجت نہیں محتمل تو اس لئے ہے کہ اس حدیث میں لاصلوٰة کی نسبت کہہ سکتے ہیں لَا فَضِیْلَةَ صَلوٰةٍ { FR 4866 }؂ جیسے لَاصَلوٰةَ لِـجَارِ الْمَسْجِدِ{ FR 4867 }؂ (یاد رہے یہ حدیث موضوع ہے) اور لَاصَلوٰةَ لِآبِقٍ { FR 4868 }؂ میں.اور حدیث لَوْ بِفَاتِـحَةِ الْکِتَابِ { FR 4869 }؂ اس نفی فضیلت پر مجبور کرتی ہے.اوّل جواب.تو یہ ہے کہ ہم نے صرف مشہور ہو نے پر دلیل کا مدار نہیں رکھا.دویم.شامی نے مشہور حدیث کی تعریف میں لکھا ہے کہ الْمَشْهُورُ فِيْ أُصُولِ الْحَدِيْثِ مَا يُرْوِيْهِ أَكْثَرُ مِنَ اثْنَيْنِ فِيْ كُلِّ طَبَقَةٍ مِنْ طَبَقَاتِ الرُّوَاةِ وَلَمْ يَصِلْ إلٰى حَدِّ التَّوَاتُرِ وَفِيْ أُصُولِ الْفِقْهِ مَا يَكُونُ مِنَ الْاَحَادِ فِي الْعَصْرِ الْأَوَّلِ أَيْ عَصْرِ الصَّحَابَةِ ثُمَّ يَنْقُلُهٗ فِي الْعَصْرِ الثَّانِيْ وَمَا بَعْدَهٗ قَوْمٌ لَا يُتَوَهَّمُ تَوَاطُؤُهُمْ عَلَى الْكَذِبِ.{ FR 4577 }؂ یہ شامی کا قول صرف آپ لوگوں کی خاطر مرقوم ہوا.{ FN 4865 }؂ مشہور (روایت) وہ ہے جسے تابعین نے اختیار کیا ہو.(البناية شرح الهداية للعینی، کتاب الصلاۃ، باب فی صفة الصلاة، سنن الصلاة، الواجب من القراءة في الصلاة) { FN 4866 }؂ اس نماز کی فضیلت نہیں.{ FN 4867 }؂ مسجدکے ہمسائے میں رہنے والے کی (گھر میں پڑھی جانے والی) نماز نہیں.(الفوائد المجموعة للشوکانی، کتاب الصلاة) { FN 4868 }؂ مفرور(غلام) کی نماز نہیں.(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق، کتاب الصلاة، باب الإمامة والحدث فی الصلاة) { FN 4869 }؂ خواہ سورۂ فاتحہ ہی (پڑھے) (سنن أبي داوٗد، کتاب الصلاة، أبواب تفریع استفتاح الصلاة، باب من ترک القراءة فی صلاتہ بفاتحة الکتاب) { FN 4577 }؂ اصولِ حدیث میں مشہور وہ (روایت) ہے جسے راویوں کے طبقات کے ہر طبقہ میں سے دو سے زیادہ (راوی) روایت کریں اور وہ متواتر کے مقام تک نہ پہنچے.اور اصولِ فقہ کے مطابق (مشہور روایت) وہ ہے جو پہلے زمانہ یعنی صحابہ کے دَور میں خبر واحد میں سے ہو.پھر دوسرے زمانے اور اس کے بعد (کے دَور) میں ایک جماعت اسے نقل کرتی ہو، جن کا جھوٹ پر متفق ہوجانے کا گمان نہ ہوسکے.(رد المحتار على الدر المختار،کتاب الطھارة، باب المسح علی الخفین، شروط المسح علی الخفین)

Page 40

سیوم.اگر شہرت میں عدم اختلاف تابعین شرط ہوتا جیسے عینی نے فرمایا ہے توقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ { FR 4870 }؂ اور حدیث إِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوْا{ FR 4871 }؂ بھی بلحاظ اس شرط کے احادیث مشہورہ سے نہ ہوتیں.کیونکہ قراءت خلف الامام میں بھی تابعین کا اختلاف تھا جسے ہم ثابت کر دکھلائیں گے.پس جو جواب آپ لوگ ان احادیث کے اثباتِ شہرت میں دیں گے وہی بعینہٖ ہمارے جواب بھی سمجھیے.اور محتمل کے جواب یہ ہیں.اوّل لَا تُجْزِ ئُ کی روایت میں آپ کا احتمال ہے کہاں.دویم.نفی میں نفی ذات اصل ہے.سیوم.نفی صحت اقرب مجازین ہے.چہارم لَاصَلوٰةَ لِـجَارِ الْمَسْجِدِ { FR 4872 }؂ اور لَاصَلوٰةَ لِآبِقٍ{ FR 4873 }؂ میں جَار اور آبِق دونوں کی صحت صَلوٰةَ پر ایک اور دلیل جواز کے قیام نے نفی فضیلت یا نفی کمال کے لینے پر مجبور کیا ہے.اگر وہ دلیل نہ ہوتی تو یہ معنے ہرگز نہ لئے جاتے اور حدیث وَلَوْبِفَاتِـحَةِ الْکِتَابِ { FR 4874 }؂ اور اس کی مجبوری کا جواب عنقریب آتا ہے.اصل استدلال کا.اٹھارواں جواب.حدیث لَاصَلوٰةَ کی متواتر ہے اور متواتر سے تخصیص بالاتفاق جائز ہے.متواتر اس لئے ہے کہ امام بخاری نے رسالہ قراءة میں فرمایا ہے وَتَوَاتَرَ الْخَبَـرُ عَنْ رَسُولِ اللهِ { FN 4870 }؂ امام کی قراءت ہی اس (مقتدی )کی قراءت ہے.(سنن الدارقطنی، کتاب الصلاۃ، باب ذکر قولہ ﷺ من کان لہ إمام فقراءۃ الإمام لہ قراءۃ) { FN 4871 }؂ جب (امام) قراءت کرے تو تم خاموش رہو.(مسلم، کتاب الصلاة، باب التشھد فی الصلاة) { FN 4872 }؂ مسجدکے ہمسائے میں رہنے والے کی (گھر میں پڑھی جانے والی) نماز نہیں.(الفوائد المجموعة للشوکانی، کتاب الصلاة) { FN 4873 }؂ مفرور(غلام) کی نماز نہیں.(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق، کتاب الصلاة، باب الإمامة والحدث فی الصلاة) { FN 4874 }؂ خواہ سورۂ فاتحہ ہی (پڑھے) (سنن أبي داود، کتاب الصلاة، أبواب تفریع استفتاح الصلاة، باب من ترک القراءة فی صلاتہ بفاتحة الکتاب)

Page 41

صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةِ أُمِّ الْقُرْآنِ { FR 4875 }؂.آپ نے دیکھا کہ اس حدیث کا متواتر ہونا کیسے امام کے قول سے ثابت کردکھلایا ہے جس کے حق میں آپ کے اصول کی پہلی کتاب کی شرح فصول الحواشی میں اصول شاشی کے جو اس قول کے نیچے.قَالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ تَكْثُرُ لَكُمُ الْأَحَادِيْثُ مِنْ بَعْدِيْ فَإِذَا رُوِيَ لَكُمْ عَنِّيْ حَدِيْثٌ فَاعْرِضُوهُ عَلٰى كِتَابِ اللهِ فَمَا وَافَقَ فَاقْبَلُوْهُ وَمَا خَالَفَ فَرَدُّوْهُ { FR 4579 }؂ ماتن مذکور کے حدیث پر فَاِنْ قُلْتَ سے طعن کر کے جواب میں یوں فرمایا ہے.و الجواب عنہ ان امام محمد بن اسماعیل البخاری اور و ہٰذا الحدیث فی کتابہ وھو امام ہذہ الصنعة فکفٰی بہٖ دلیلًا علی صحّة فلم یلتفت الی طعن غیرٍ بعدہ.{ FR 4580 }؂ آپ کے اصول والوں نے تو امام بخاری کا فرمانا کافی دلیل ماناہے.مجھے امید ہے کہ اب آپ کو بھی انکار نہ ہوگا.اگرچہ ہم کو اس جواب میں کوئی کلام ہو جس کا عمدہ ایک نتیجہ اخیر میں لکھیں گے.(یہ مقام یاد رہے) مولوی صاحب آپ فَاقْرَءُوْاوْا مَا تَيَسَّرَ کی آیت سے یہ بات نکالتے ہیں کہ ہر نمازی کے لئے مطلق قراءت فرض ہے خصوصیت فاتحہ کو دخل نہیں.نمازی کو اختیار ہے قرآن کریم کا جو حصہ چاہے پڑھے.فاتحہ ہو یا کوئی اور آیت اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ آیا یہ اختیار ہمیشہ کے لئے آپ آیت شریفہ سے نکالتے ہیں یا ایک دفعہ کے لئے اگر استمراری اختیار لیجیے تو ہرعاقل { FN 4875 }؂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ خبر تواتر کے ساتھ آئی ہے کہ ام القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) کی قراءت کے بغیر نماز نہیں.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ، صفحه۷) { FN 4579 }؂ (نبی) علیہ السلام نے فرمایا: میرے بعد کثرت سے احادیث تم سے بیان کی جائیں گی.پس جب تم سے میرے متعلق کوئی حدیث بیان کی جائے تو اسے اللہ تعالیٰ کی کتاب پر پرکھ لو.پھر جو (اللہ تعالیٰ کی کتاب کے) مطابق ہو اُسے قبول کرلو اور جو (اس کے) مخالف ہو، اُسے ردّ کردو.{ FN 4580 }؂ اگر تم (تَكْثُرُ لَكُمُ الْأَحَادِيْثُ والی روایت کی) بات کرو تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ یہ حدیث اپنی کتاب میں لائے ہیں اور وہ اس فن کے امام ہیں.پس (اس کی) صحت پر یہ دلیل کافی ہے پھر اس کے بعد کسی دوسرے کی جرح پر کیونکر توجہ کی جائے گی.

Page 42

اصول کے واقف کو یقین ہے کہ استمرار اور دوام اس اختیار کا آیت شریفہ سے نکالنا یقینی نہیں ظنی ہے اور ہم حدیث سے استمراری اختیار کو دور کرتے ہیں اور اگر ایک دفعہ کا اختیار آپ لیں تو گذارش ہے کہ وہ مابہ النزاع سے خارج ہے.مولوی صاحب اس جواب پر ذرا غور کیجیے.اور گہری نگاہ سے اسے پڑھیے اور دیکھیے کہ ہم نے فرضیت فاتحہ کے قول میں ظنیّ سے قطعی کو منسوخ نہیں کیا.بلکہ اپنی تحقیق کے موافق عام کی تخصیص کی ہے اور آپ کے نزدیک ظنیّ سے ظنیّ کو منسوخ کیا ہے.بیت اندکے باتو بگفتیم و بدل ترسیدیم کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است یہاں تک تو مولوی صاحب کے اس استدلال کا جواب ہوا جو مولانا صاحب نے عدم خصوصیت فاتحہ الکتاب پر کتاب کے عموم سے استدلال فرمایا تھا.اب اس حدیث کا جواب ہے جو مولوی صاحب نے ابطال اختصاص فاتحة الکتاب میں بخاری سے بیان فرمائی.مولوی صاحب فرماتے ہیں.ومارواہ البخاری فی قصّة تعلیم النبیّ صلعم احکام الصلوٰة للاعرابیّ حیث قال ثُمَّ اِقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ.{ FR 4581 }؂ پہلا جواب.اسی حدیث کو بخاری ہی نے جزء القراءت میں یوں روایت کیا ہے.حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ قَالَ حَدَّثَنَا الْبُخَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ سُوَيْدٍ عَنْ عَيَّاشٍ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَحْيٰى عَنْ أَبِي السَّائِبِ رَجُلٌ مِّنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى رَجُلٌ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ فَلَمَّا قَضٰى صَلَاتَهٗ قَالَ ارْجِــــعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ ثَلَاثًا فَقَامَ الرَّجُلُ فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهٗ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْجِعْ فَصَلِّ ثَلَاثًا فَقَالَ فَحَلَفَ لَهٗ كَيْفَ اجْتَهَدْ تَ فَقَالَ لَهٗ اِبْدَأْ فَكَبِّرْ وَتَحْمَدُ اللهَ { FN 4581 }؂ اور امام بخاریؒ نے جو نبی ﷺ کا ایک اعرابی کو نماز کے احکام سکھانے کا واقعہ بیان کیا ہے.جہاں آپؐ نے فرمایا: پھر قرآن میں سے جو تمہیں میسر ہو پڑھو.

Page 43

وَتَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ ثُمَّ تَرْكَعُ حَتّٰى يَطْمَئِنَّ صُلْبُكَ ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ حَتّٰى يَسْتَقِيْمَ صُلْبُكَ فَمَا انْتَقَصْتَ مِنْ هٰذَا فَقَدْ نَقَصْتَ مِنْ صَلَاتِكَ.{ FR 4582 }؂ (یاد رکھو زیاد تی ثقہ کی مقبول ہے اور آپ کو اس میں انکار نہیں.مولوی صاحب آپ نے بخاری کے مجمل جملہ سے عجب استدلال کیا ہے جس کو بخاری ہی کی کتاب جزء القراء ة نے اچھی طرح باطل کر دیا.سچ ہے اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا وَ الْـحَدِیْثُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا.{ FR 4880 }؂ دوسرا جواب.اس حدیث کو امام احمد حنبلؒ اورابودائود اور نسائی نے رفاعہ سے یوں روایت کیا ہے.فَإِنْ كَانَ مَعَكَ قُرْآنٌ فَاقْرَأْ بِهٖ وَ إِلَّا فَاحْمَدِ اللهَ وَكَبِّرْهُ وَهَلِّلْهُ.وَفِيْ رَوَايَةٍ لِأَبِيْ دَاوٗدَ مِنْ حَدِيْثِ رِفَاعَةَ: ثُمَّ اقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَبِمَا شَآءَ اللهُ.{ FR 4583 }؂ اور امام احمد اور ابن حباّن نے اسی { FN 4582 } ؂ محمود (بن اسحاق) نے ہم سے بیان کیا.انہوں نے کہا: امام بخاریؒ نے ہمیں بتایا.انہوں نے کہا: یحيٰ بن بُکَیر نے ہم سے بیان کیا.انہوں نے کہا: عبد اللہ بن سُوَید نے ہمیں بتایا.انہوں نے عیاش سے، عیاش نے بکر بن عبد اللہ سے، بکر نے علی بن یحيٰ سے، علی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص حضرت ابوسائبؓ سے روایت کی (انہوں نے کہا) کہ ایک آدمی نے نماز پڑھی اور نبی ﷺ اسے دیکھ رہے تھے.جب اس نے اپنی نماز ختم کی تو آپؐ نے فرمایا: واپس جاؤ اور نماز پڑھو ، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی.آپؐ نے (ایسا) تین بار فرمایا.اس پر وہ شخص (دوبارہ نماز پڑھنے کے لیے) اُٹھا.پھر جب اُس نے اپنی نماز مکمل کرلی تو نبی ﷺ نے فرمایا: واپس جاؤ اور نماز پڑھو.ایسا تین دفعہ ہوا.پھر اس نے آپؐ سے قسم کھا کر پوچھا کہ آپؐ کیسی کوشش چاہتے ہیں؟ آپؐ نے اُس سے فرمایا: (نماز) شروع کرو تو اللہ اکبر کہو ، اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرو اور اُمّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) پڑھو.پھر رکوع کرو یہاں تک کہ تمہاری کمر پر اطمینان ہو.پھر اپنا سر اُٹھاؤ حتی کہ تمہاری کمر سیدھی ہوجائے.پس اس میں سے جو (بھی) تُو نے کم کیا تو تُو نے اپنی نماز میں نقص ڈالا.(القراء ة خلف الامام للبخاری‘ باب ھل یُقْرَأُبِاَکْثَرِ مِنْ فَاتِحَةِ الکِتَابِ خَلْفَ الامام) { FN 4880 }؂ قرآن کا ایک حصہ دوسرے (حصہ) کی وضاحت کرتا ہے اور حدیث کا ایک حصہ دوسرے کی وضاحت کر دیتا ہے.{ FN 4583 }؂ پھر اگر تمہیں قرآن (میں سے کچھ) ياد ہو تو اسے پڑھو، وگرنہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور کبریائی بیان کرو اور لا الہ الا اللہ کہو.اور ابو داؤد کی ایک روایت جو حضرت رفاعہؓ کی حدیث ہے، میں یہ ہے: پھر تم امّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) پڑھو اور (وہ بھی پڑھو) جس کی اللہ تعالیٰ توفیق دے.(سنن أبی داوٗد، کتاب الصّلاة، أبواب تفریع استفتاح الصلاة، بَابُ صَلَاةِ مَنْ لَّا يُقِـيْمُ صُلْبَهٗ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ)

Page 44

قصہ میں کہا ہے.ثُمَّ اقْرَأْ بِاُمِّ الْقُرْآنِ ثُمَّ اقْرَأْ بِـمَا شِئْتَ.{ FR 4881 }؂ اس حدیث کے ان مصرح الفاظ کو دیکھ کر انصاف اور قیام عند اللہ کو یاد کر کے فرمائیے کہ اب بھی یہ حدیث آپ کے نزدیک فرضیت فاتحہ کے خلاف ہے.اس حدیث کے اور بھی بہت سی جملے ہیں جو بخاری کی روایت میں مذکور نہیں.آپ کو ہم ایک فائدہ کی بات عرض کرتے ہیں.اس مقام پر بخاری نے خلیل بن احمد سے روایت کیا يُكْثَرُ الْكَلَامُ لِيُفْهَمَ{ FR 4882 }؂.تیسرا جواب.آیت شریف کے لفظ مَا تَيَسَّرَ کے اکثر جواب اس حدیث شریف میں بھی پڑھ لیجیے.چوتھا جواب.یہ حدیث خبرِواحد ہے اور خبر واحد ظنیّ ہوتی ہے (آپ کے یہاں) اور ظنی کے تخصیص ظنیّ سے ممنوع نہیں.یاد رہے اہل حدیث خبرِ احاد میں تفصیل کرتے ہیں بعض قسم کو قطعی اور بعض کو ظنیّ جانتے ہیں.پانچواں جواب.اس حدیث میں مَا تَيَسَّرَسے وہ قرآن مراد ہے جو فاتحہ کے سوا ہو.کیونکہ فاتحة الکتاب کی حدیث زیادة غیرمعارض ہے اور زیادة ثقہ بالاتفاق آپ کے نزدیک مقبول ہے.چھٹا جواب.یہ حدیث جس قدر آپ نے بیان فرمائی محتمل ہے تعیین فاتحہ سے پہلے کی ہو یا اعرابی ابھی فاتحہ پڑھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو یا فاتحہ کا مسئلہ خوب جانتا تھا.آپ نے فرمایا اس کے ساتھ اور قرآن بھی پڑھ لے یا اس کو خاص کیا ہے اس تحییز میں.پس حدیث محتمل الوجوہ ہو گئی اور محتمل حجت قطعی مثبت فرضیت نہیں.اصل یہ ہے کہ قاعدہ اَلتَّخْصِیْصُ نَـسْخٌ متأخرین کی گھڑت ہے سلف کا قول نہیں.دلائل قویہ سے ثابت نہیں.ساتواں جواب.اس اعرابی کی حدیث حجت ہے یا نہیں.اگر نہیں تو اثبات مطلب میں کیوں لائے.اگر ہے تو اسی حدیث میں رکوع اور قومہ اور سجود کے طمانینت کا بھی حکم ہے اس کو آپ نے کیوں چھوڑ رکھا ہے اور اسے فرض کیوں نہیں کہتے اور اس کی فرضیت سے کیوں انکار کیا.{ FN 4881 }؂ پھر تم اُمّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) پڑھو.پھر (قرآن کریم سے) جو چاہو پڑھو.(مسند أحمد بن حنبل، مسند الكوفيين، حديث رفاعة بن رافع الزرقيؓ ) { FN 4882 }؂ کلام اس لیے زیادہ ہوتا ہے تاکہ سمجھا جاسکے.

Page 45

صاحبِ ایقاظ نے آپ لوگوں کے عجائبات ذکر کر کے آپ کو فرمایا ہے.وأعجب من هٰذَا أَنَّـكُمْ إِذا أَخَذْتُم الحَدِيث مُرْسلًا كَانَ أَو مُسْندًا لموافقة رَأْي صَاحبكُم ثمَّ وجدْتُم فِيهِ حكمًا يُخَالف رَأْيه لم تَأْخُذُوا بِهٖ فِي ذَالِك الحكم وَهُوَ حَدِيث وَاحِد وَكَانَ الحَدِيث حـجَّةً فِيمَا وَافق رَأْي من قلدتموه وَلَيْسَ بِحجَّة فِيمَا خَالفه رَأْيه.ولنذكر من هٰذَا طرفا لِأَنَّهٗ من أعجب أَمرهم....وَاحْتَجُّوا على أَن الْفَاتِحَة لَا تتَعَيَّن فِي الصَّلَاة بِحَدِيث الْمُسِيء فِي صلَاته حَيْثُ قَالَ لَهٗ اِقْرَأ مَا تيَسّر من الْقُرْآن وخالفوه فِيمَا دلّ عَلَيْهِ صَرِيحًا فِي قَوْله ثمَّ اركع حَتَّى تطمئِن رَاكِعا ثمَّ ارْفَعْ حَتَّى تعتدل قَائِما ثمَّ اسجد حَتَّى تطمئِن سَاجِدا.{ FR 4584 }؂ اصل حدیث بخاری میں بھی آئی ہے.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيٰى عَنْ عُبَيْدِ اللهِ قَالَ حَدَّثَنِيْ سَعِيْدُ بْنُ أَبِيْ سَعِيْدٍ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ المَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ وَقَالَ: «ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ» فَرَجَعَ يُصَلِّي كَمَا صَلّٰى ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ «ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ» ثَلَاثًا، فَقَالَ وَالَّذِيْ بَعَثَكَ بِالحَقِّ مَا أُحْسِنُ غَيْرَهٗ فَعَلِّمْنِيْ فَقَالَ «إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَكَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ القُرْآنِ ثُمَّ ارْكَعْ حَتّٰى { FN 4584 } ؂ اور مجھے اس بات سے حیرت ہے کہ جب تم اپنے امام کی رائے سے موافق کوئی حدیث خواہ وہ مرسل ہو یا مسند لیتے ہو، پھر تم اس میں کوئی ایسا حکم پاتے ہو جو اُس (امام) کی رائے کے مخالف ہوتا ہے، تو تم اُس سے وہ حکم اخذ نہیں کرتے.حالانکہ وہ ایک حدیث ہی ہوتی ہے.اور (امام) جس کی تم پیروی کرتے ہو، اُس کی رائے سے جو حدیث موافق ہو وہ تو حجت ہوتی ہے اور جس کی مخالفت اُس کی رائے کرے، وہ بالکل بھی حجت نہیں ہوتی.اور ہم اس (انوکھے پن) میں سے کچھ ذکر کریں گے کیونکہ یہ ان کا نہایت عجیب معاملہ ہے.(پھر صاحب ایقاظ نے اس کی مثالیں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ) …… اور ان (مقلدین) نے نماز کو خرابی سے پڑھنے والے شخص کی حدیث جس میں رسول اللہ ﷺ نے اُس سے فرمایا کہ قرآن میں سے جو میسر ہو پڑھو، سے یہ استدلال کیا ہے کہ سورۂ فاتحہ نماز میں پڑھنا لازم نہیں.اور اس (حدیث) میں اس (امر) کی مخالفت کی ہے، جو آنحضور ﷺ کے قول سے واضح طور پر ثابت ہے کہ ’’پھر رکوع کرو، یہاں تک کہ رکوع میں تمہیں اطمینان ہوجائے.پھر اُٹھو، یہاں تک کہ اطمینان سے کھڑے ہوجاؤ.پھر سجدہ کرو، یہاں تک کہ سجدہ میں تمہیں اطمینان ہوجائے.(إيقاظ همم أولى الأبصار، الخاتمة فِي إبطال شبه المقلدين، صفحہ ۱۲۹، ۱۳۰ و ۱۳۵)

Page 46

تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰى تَعْدِ لَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا وَافْعَلْ ذَالِكَ فِيْ صَلَاتِكَ كُلِّهَا.{ FR 4585 }؂ بخاری.دیکھو طمانینت رکوع و سجود کا حکم یہاں موجود ہے اور آپ لوگ طمانینت کو فرض نہیں کہتے رکوع اور سجود کی طمانینت پر نصوصِ کثیرہ موجود ہیں بخوف ِطوالت یہاں نہیں لکھ سکتے.انھواں جواب.اس حدیث میں جس قدر احکام مذکور ہوئے وہی نماز کے فرض ہیں یا کوئی اور بھی فرض ہے اگر یہی فرض ہیں جو اس میں مذکور ہوئے تو نیّت اور قعدہ اخیرہ اس حدیث کی کسی روایت میں دکھلا دیجیے.یا فرمائیے کہ یہ فرض ہی نہیں کیونکہ اس حدیث میں مذکور نہیں.اگر فرمائیں گے کہ اور دلائل سے دوسرے امور کی فرضیت ثابت ہو چکی ہے تو معلوم ہوا کہ اس حدیث میں فرائض کے حصر نہیں.پس اسی طرح فرضیت فاتحہ بھی کسی اور دلیل سے ثابت ہے گو اس حدیث میں مذکور نہ ہو.اور اگر بخاری کی روایت پر آپ حصر رکھیں تو کئی اور فرائض بھی اس روایت میں مذکور نہیں مثلاً وضو وغیرہ.اس اعرابی کی حدیث میں جس سے مولوی صاحب اور ان کے ہم مذہبوں نے فرضیت مطلق مَاتَیَسَّرَ پر استدلال پکڑا ہے.ایک ضروری بات قابل گزارش ہے.عَینی نے اسی حدیث سے استدلال پکڑ کر امام نووی پر تین اعتراض جمائے ہیں.{ FN 4585 } ؂ محمد بن بشار نے ہم سے بیان کیا ، انہوں نے کہا: یحيٰ نے ہمیں بتایا کہ عبیداللہ سے روایت ہے.انہوں نے کہا: سعید بن ابی سعید نے مجھے بتایا.انہوں نے اپنے باپ سے، ان کے باپ نے حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے.اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی.پھر اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا.آپؐ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: واپس جاؤ اور نماز پڑھو.کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی.پھر وہ لَوٹ کر (اسی طرح) نماز پڑھنے لگا، جس طرح اس نے (پہلے) پڑھی تھی.پھر وہ آیا اور اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا.آپ نے فرمایا: واپس جاؤ اور نماز پڑھو.کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی.آپ نے تین بار ایسا ہی فرمایا.اس نے عرض کیا: اس ذات کی قسم ہے جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے.میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا.اس لئے آپؐ مجھے سکھائیں.آپ نے فرمایا: جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہو.پھر قرآن میں سے جو تمہیں میسر ہو، پڑھو.پھر رکوع کرو، یہاں تک کہ رکوع میں تمہیں اطمینان ہوجائے.پھر اُٹھو، یہاں تک کہ اطمینان سے کھڑے ہوجاؤ.پھر سجدہ کرو، یہاں تک کہ سجدہ میں تمہیں اطمینان ہوجائے.پھر اُٹھو، یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ.اور اپنی ساری نماز میں اسی طرح کرو.(بخاری‘ کتاب الاذان باب وجوب القراءة للامام و المأموم)

Page 47

الاعتراض الاوّل.لَو كَانَتِ (الْفَاتِحَةُ) فَرْضًا لَأَمَرَهُ النَّبِیُّ صلَّى الله عَلَيْهِ وَسلّم، لِأَنَّ الْمقَام مقَام التَّعْلِيم.{ FR 5033 }؂ الـجواب.امااوّلا.۱ قد امر النبی صلعم کما رایت فی روایة البخاری و احمد وابن حبان و ابی داؤد.واماثانیًا.۲.فقد ترک فی ہذا الحدیث فی جمیع طرقہ ذکر القعدة الاخیرة فنقول لوکان فرضا (کما تقولون) لامرہ النبی صلعم لان المقام مقام التعلیم.فانقلت لعل فرضیة قعدة الاخیرة مثبت بعد ہذہ القصة قلت فلعل فرضیة الفاتحة ثبت بعد ہذہ القصة.ہذا بعد التسلیم ان الاعرابی ما کان یعلم و ما امرہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرضیت الفاتحة.و اماثالثًا.۳ فما وقع فی روایت البخاری ذکر النیة لوکان فرضا لامرہ النبی صلعم لان المقام مقام التعلیم و البیان.وامارابعًا.۴ ففی روایة البخاری و الترمذی و ابی داؤد فتوضأْ کما امرک اللہ ثم تشھد و اقم و فی روایة للنسائی و ابی داود ثُمَّ يُكَبِّرُ وَيَحْمَدُ اللهَ وَيُثْنِي عَلَيْهِ،وفی النسائی يُمَجِّدهُ مقام يُثْنِي، ثم ساق ابوداؤد الامر بتکبیرات الانتقال و التسمیع.و احمد و ابوداؤد ذکرا قراءت الفاتحة و وَضْعَ الْیَدَیْنِ علی الرکبتین حال الرکوع و مدّ الظہر واسحاق بن راہویہ ذکر تـمکین السجود و جلسة الاستراحة و ابوداؤد فرش الفخذ و التشھد الاوسط والتمجید و التکبیر و التہلیل عند عدم استطاعة القراءة فلابد عندک ان تکون ہذہ الاشیاء فرائض لان النبی صلعم امرہ و لم یبیّن عدم فریضة ہذہ الاشیاء و المقام مقام التعلیم و البیان و ما ذکر النیة و التشھد الاخیر و الصلوٰة و السلام فما یکون بعضھا فرضًا و بعضھا مشروعًا لان النبی صلعم لم یبیّنھا و المقام مقام التعلیم.{ FN 5033 }؂ پہلا اعتراض یہ ہے کہ اگر سورۂ فاتحہ (پڑھنی) فرض ہوتی تو ضرور آنحضورﷺ اُس(اعرابی) کو (فاتحہ پڑھنے کا) حکم دیتے.کیونکہ وہ موقع سکھانے کا موقع تھا.جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ نبی ﷺ (اس کا) حکم دے چکے ہیں، جیسا کہ بخاری، احمد (بن حنبل)، ابن حباّن اور ابوداود کی روایت میں تم دیکھتے ہو.اور (اس اعتراض کے جواب میں) دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث کی تمام سندوں میں آخری قعدہ کا ذکر چھوڑ دیا گیا ہے.لہٰذا (تمہارے کہنے کی طرح ہی) ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ (قعدہ) فرض ہوتا تو ضرور نبی ﷺ اُسے (اس کا) حکم دیتے.کیونکہ یہ موقع تعلیم دینے کا موقع تھا.پھر اگر تم کہو کہ ممکن ہے کہ آخری قعدہ کی فرضیت اس واقعہ کے بعد متحقق ہوئی ہو، تو میں کہوں گا کہ ممکن ہے کہ سورۂ فاتحہ (پڑھنے) کی فرضیت (بھی) اس واقعہ کے

Page 48

الاعتراض الثانی۲.حمل النووی ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ...على من عجز عَن الْفَاتِحَة، فَحَملُه عَلَيْهِ غير صَحِيح، لِأَنَّهُ مَا فِي الحَدِيث شَيْء يدل عَلَيْهِ.أقول جاء فی روایة لابی داوٗد و النسائی فی ھذہ القصة فان کان معک قرآن فاقرأْ واِلَّا فاحمد اللہ تعالیٰ و کبّرہ و ھلّلہ فقد وقع ما ید ل علی ان الحمل صحیح.الاعتراض الثالث.۳.دعوی تیسر الفاتحة تحکم.أقول الواجب و الفرض فی العمل سواء و انکار التیسر بعد اختیار الوجوب او الفرضیة تـحکم.{ FR 4586 }؂ مولوی صاحب نے بعد ظاہر ہوئی ہو.یہ بات قبولیت سے بعید ہے کہ اعرابی نہ تو جانتا ہو اور نہ ہی آنحضو ر ﷺنے اسے فرضیت فاتحہ کا حکم دیا.اور (اس اعتراض کے جواب میں) تیسری بات یہ ہے کہ بخاری کی روایت میں نیت کرنے کا بھی ذکر نہیں آیا.اگر یہ فرض ہوتی تو نبی ﷺ اسے (اس کا) حکم دیتے کیونکہ یہ موقع سکھانے اور کھول کر بیان کرنے کا موقع تھا.اور چوتھی بات یہ ہے کہ بخاری، ترمذی اور ابوداوٗد کی روایت میں یہ ہے کہ پھر وضو کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے.پھر تشہد پڑھو اور کھڑے ہوجاؤ اور نسائی اور ابوداوٗد کی روایت میں ہےکہ پھر اللہ اکبر کہو اور اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرو اور اس کی ثناء وتعریف کرو.اور نسائی کی روایت میں يُثْنِيْ (وہ ثناء کرے) کی بجائے يُمَجِّدُهُ کا لفظ ہے یعنی وہ اس کی بزرگی وبرتری بیان کرے.پھر ابو داود نے (دیگر) حرکات واذکار کی تکبیرات کی بات بیان کی ہے.اور احمد (بن حنبل) اور ابوداوٗد نے سورۂ فاتحہ کی قراءت اور رکوع کے وقت ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھنے اور کمر کو سیدھا کرنے کا ذکر کیا ہے.اور اسحاق بن راہویہ نے سجدے کے پُرسکون ہونے اور جِلسۃ الاستراحۃ کا ذکر کیا ہے.اور ابوداوٗد نے ران کو بچھانے، درمیانی قعدہ اور قراءت نہ کرسکنے کی حالت میں الحمد للہ ، اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کہنے کا ذکر کیا ہے.اور تمہارے نزدیک یہ امور یقیناً فرائض میں شامل ہیں، کیونکہ نبی ﷺ نے اس (اعرابی) کو (ان کا) حکم دیا.اور ان امور کے فرض نہ ہونے کی آپؐ نے وضاحت نہیں فرمائی.اور یہ موقع سکھانے اور کھول کر بیان کرنے کا موقع تھا.اور نیت، آخری قعدہ، درودشریف اور سلام کا ذکر نہیں فرمایا.پس ان میں سے بعض فرض اور بعض غیرواجب نہیں ہوسکتے کیونکہ نبی ﷺ نے انہیں (اس حدیث میں) کھول کر بیان نہیں فرمایا.حالانکہ یہ موقع سکھانے کا موقع تھا.{ FN 4586 } ؂ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ نوویؒ نے الفاظ ’’ پھر (قرآن میں سے) جو تمہیں میسر ہو پڑھو‘‘ کو فاتحہ نہ پڑھ سکنے والے پر محمول کیا ہے.(علاّمہ عینی ؒ نے لکھا ہے کہ) اور اُن کا اس پر اطلاق کرنا درست نہیں، کیونکہ اس حدیث میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو اس پر دلالت کرے.میں کہتا ہوں کہ ابوداؤد اور نسائی کی روایت کے مطابق اس واقعہ میں یہ (ذکر) آیا ہے کہ اگر تمہیں قرآن یاد ہو تو (اُسے) پڑھو.وگرنہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی تکبیر اور اس کی تہلیل کا ذکر کرو.پس یہ (ذکر) آچکا ہے جو اس (بات) پر دلالت کرتا ہے کہ (فاتحہ نہ پڑھ سکنے والے پر) اطلاق کرنا درست ہے.تیسرا اعتراض اس دعویٰ پر (کیا) ہے کہ سورۂ فاتحہ (کی قراءت) کا میسر آجانا ایک فیصلہ کن امر ہے.میں کہتا ہوں کہ عمل میں واجب اور فرض برابر ہے اور واجب یا فرض کے اختیار کے بعد اس کے میسر آنے کا انکار کرنا بے جا زبردستی ہے.

Page 49

عدم خصوصیت فاتحہ پریہ حدیث بھی استدلال میں فرمائی ہے.و ما رواہ ابوداوٗد عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَمَرَنِي النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُ نَادِيَ: أَنَّهٗ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةٍ وَلَوْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ.{ FR 4587 }؂ اس کا پہلا جواب (۱) یہ حدیث جعفربن میمون سے روایت ہے اور وہ ثقہ نہیں.جیسے کہ نسائی نے کہا ہے‘ اور امام احمد نے کہا ہے جعفربن میمون حدیث میں قوی نہیں ‘اور ابن عدی نے کہا ہے جعفربن میمون کی حدیث کو ضعفاء میں لکھنا چاہیے.پس حدیث غوایل جرح سے خالی تر ہے.(۲) اس حدیث کو ابوداؤد نے ابو ہریرہ سے ان لفظوں کے ساتھ روایت کیا ہے.أَمَرَنِيْ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُنَادِيَ: أَنَّهٗ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِـحَةِ الْكِتَابِ فَـمَا زَادَ{ FR 4883 }؂(سنن أبی داوٗد، کتاب الصلاة، أبواب تفریع استفتاح الصلاة، بَابُ مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهٖ بِفَاتِـحَةِ الْكِتَابِ)پس آپ کی روایت اس روایت سے کسی طرح بڑھ کر نہیں.(۳) یہ حدیث احادیث مصرح بفرضیت کا مقابلہ ہی کب کر سکتی ہے.(۴) ابوہریرہ کا فتوی اس کے خلاف ہے اور راوی جب اپنی روایت کے خلاف عمل کرے تو آپ کے نزدیک اور آپ کے اصول میں وہ روایت حجت نہیں رہتی گو اہلِ حدیث کو اس اصول میں کلام ہے اور یہ اصل ان کے نزدیک صحیح نہیں.اِلَّا اب یہ الزام قائم ہے.امام کے پیچھے فاتحة الکتاب پڑھنے پر فاتحةالکتاب سے منع کرنے والے اکثر اعتراضات ذیل کیا کرتے ہیں اوّل.فاتـحة الکتاب کا پڑھنا آیت اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ { FR 4884 }؂ کے خلاف ہے.{ FN 4587 }؂ اور جو ابو داؤد نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں اعلان کروں کہ قراءت (قرآن) خواہ سورۂ فاتحہ ہی ہو، کے بغیر نماز نہیںہوتی.{ FN 4883 }؂ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں اعلان کردوں کہ سورۂ فاتحہ کی قراءت کے بغیر نماز نہیں اور جو (اس سے) زیادہ ہے (اس کے بغیر بھی نہیں.) { FN 4884 }؂ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنا کرو.(الأعراف:۲۰۵)

Page 50

دوم.فاتحة الکتاب کا پڑھنا حدیث اِذَا قُرِأَ فَانْصِتُوْا { FR 4885 }؂ کے خلاف ہے.سیوم.ایضاً.حدیث مَنْ كَانَ لَهٗ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهٗ قِرَاءَةٌ { FR 4886 }؂کے خلاف ہے.چہارم.ایضاً.حدیث فَانْتَہَی النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ رَسُوْلِ اللہِ صَلْعَمْ{ FR 4887 }؂کے خلاف ہے.پنجم.ایضاً.حدیث اَنَّ بَعْضَكُمْ خَالَجَنِيْهَا { FR 4888 }؂کے خلاف ہے.ششم.ایضاً.حدیث خَلَطْتُّمْ عَلَـيَّ اورمَا لِيْ أُ نَا زَعُ الْقُرْآنَ.{ FR 4889 }؂کے خلاف ہے.ہفتم.ایضاً.حدیث لَاتَفْعَلُوْا{ FR 4890 }؂ کے خلاف ہے.ہشتم.ایضاً.حدیث جابربن عبد اللہ اِلَّا وَرَآءَ الْاِمَامِ { FR 4891 }؂کے خلاف ہے.نہم.ایضاً.حدیث لَا صَلَاةَ إلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ...أَوْ غَيْرَهَا { FR 4892 }؂کے خلاف ہے.{ FN 4885 }؂ جب (امام) قراءت کرے تو تم خاموش رہو.(مسلم، کتاب الصلاة، باب التشھد فی الصلاة) { FN 4886 }؂ جس کا امام ہو تو امام کی قراءت ہی اس (مقتدی )کی قراءت ہے.(ابن ماجہ، کتاب إقامۃ الصلاۃ، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا) { FN 4887 }؂ پھر لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ساتھ قراءت کرنے سے رُک گئے.(سنن الترمذی، أبواب الصلاة، بَابُ مَا جَاءَ فِي تَرْكِ القِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الإِمَامُ بِالقِرَاءَةِ) { FN 4888 }؂ کہ تم میں سے کوئی اس (کی قراءت) میں میرے مخلّ ہورہا ہے.(صحيح مسلم، کتاب الصلاة، بَابُ نَهْيِ الْمَأْمُومِ عَنْ جَهْرِهِ بِالْقِرَاءَةِ خَلْفَ إِمَامِهِ) { FN 4889 }؂ تم نے مجھ پر خلط ملط کردیا.مجھے کیا ہوا ہے کہ مجھے قرآن بُھلایا جارہا ہے.(مسند أحمد بن حنبل، مسند عبد اللہ بن مسعود، جزء1 صفحہ ۴۵۱) (سنن الترمذی، أبواب الصلاة، بَابُ مَا جَاءَ فِي تَرْكِ القِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الإِمَامُ بِالقِرَاءَةِ) { FN 4890 }؂ ایسا نہ کیا کرو.(سنن الدار قطنی، کتاب الصلاۃ، بَابُ وُجُوبِ قِرَاءَةِ أُمِّ الْكِتَابِ فِي الصَّلَاةِ وَخَلْـفَ الْإِمَامِ) { FN 4891 }؂ سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو.(مؤطا إمام مالك، کتاب الصلاة، بَابُ مَا جَاءَ فِي أُمِّ الْقُرْآنِ) { FN 4892 }؂ ہر رکعت ميں خواہ وہ فرض ہو يا اس کے علاوہ سورہ فاتحہ پڑھے بغير نماز نہیں.(أمالی ابن بشران، نمبر۲۶، مِفْتَاحُ الصَّلاةِ اَلطَّهُورُ، روایت نمبر۱۴۷۳، جزء۲ صفحہ ۲۶۳)

Page 51

دہم.ایضاً.حدیث لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا.{ FR 4893 }؂ صرف فَاتِـحَةُ الْکِتَابِ پڑھنے والوں پر الزام ہے.یازدہم.قِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهٗ قِرَاءَةٌ.{ FR 4894 }؂ پر صحابہ کا اجماع ہے.دوازدہم.قِرَاءَت خلف امام پر وعید.بلکہ فسادِ صلوٰة ثابت ہے.سیزدہم.علمائے حنفیہ نے کراہت فاتحة الکتاب خلف الامام پر فتویٰ دیا ہے.چہاردہم.علمائے حنفیہ فاتحة الکتاب کا خلف الامام پڑھنا مفسدِ صلوٰ ة کہتے ہیں.پانزدہم.قِرَائَ تْ خَلْفُ الْاِمَامِ عقل کے خلاف ہے اور اس میں امام کا مناظرہ ہے.جہاں تک میں نے سنا ہے یہی اعتراض فاتحة الکتاب پڑھنے والوں پر ہوا کرتے ہیں.سو ان کے جوابات بترتیب عرض ہوتے ہیں.مولوی فضل الدین صاحب نے بھی جس قدر اعتراض کئے وہ انہیں میں سے ہیں پس ان کے جواب میں ان کا جواب انشاء اللہ تعالیٰ موجود ہو گا.شعر وہ دل جس کو سمجھے تھے دریائے خون کا جو چیرا تو اک قطرۂ خون نہ نکلا پہلےاعتراض کی تفصیل.قرآن کریم میں آیا ہے.اِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَانْصِتُوْا.ترجمہ.جب پڑھا جاوے قرآن تو اسے سنو (حنفی کہتے ہیں جہر میں) اور چپ رہو (حنفی کہتے ہیں ِسرِّی نماز وں میں) جہری اور ِسرِّینمازوں کا ذکر علی قاری اور عینی وغیرہ نے کیا ہے اور استماع اور اِنْصَات لِلْقُرْآن کا حکم فاتـحة الکتاب پڑھنے کو صاف منع کر تا ہے.اس اعتراض کا پہلا جواب.آیة شریفہ میں القرآن مُعَرَّف بِاللَّام ہے.القرآن مُعَرَّف بِاللَّام کے استماع اور احادیث مثبتہ خاص فاتحة الکتاب کی قراءت میں قطعی تعارض بالکل { FN 4893 }؂ اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۂ فاتحہ اور اس سے کچھ زائد نہ پڑھا.(سنن أبي داود، کتاب الصلاة، أبواب تفریع استفتاح الصلاة، بَابُ مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ) { FN 4894 }؂ امام کی قراءت ہی اس (مقتدی )کی قراءت ہے.(ابن ماجہ، کتاب إقامۃ الصلاۃ، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا)

Page 52

نہیں.القرآن معرف باللام اور حنفیہ کے اس اصل کو کہ الف لام میں عہد اصل ہے اگر مدِّنظر رکھیں اور بالتخصیص فاتحہ کے اَدِلَّہ کو دیکھیں تو کوئی تعارض نہیں تطبیق سہل ہے حق یہ کہ خاص فاتحہ کے ثبوت میں اَدِلَّہ قَوِیَّہ نصًّا موجود ہیں اور صریح منع فاتحہ پر کوئی نص نہیں.دوسرا جواب.اَمَرَبِالشَّیْ ءِ اس کی ضد کی نہی کا مستلزم نہیں.دیکھو اپنا اصول پس مطلق قراءت یا قراءت فاتحہ کی نہی اس آیت سے نہ نکلی.تیسرا جواب.استماع کی تخصیص جہری نمازوں کےساتھ اور انصات کے سریہ کے ساتھ مستلز م ظنیّت عموم ہے اور پھر جب آیت عام مخصوص البعض ہو گئی تو اس کی تخصیص احادیث مثبتہ فاتحہ سے ممنوع نہ ہوئی.چوتھا جواب.یہ آیت اپنے عموم و اطلاق پر بالکل نہیں.کیونکہ اس کے معنے ہیں جب پڑھا جاوے قرآن اس کا استماع کرو اور چپ رہو پس حسبِ اقتضائے عموم و اطلاق آیت اگر کوئی شخص مشرق میں قرآن پڑھے تو اس وقت مغرب والوں کو اس کا سننا اور چپ رہنا ضرور ہوا.مشرق مغرب کا ذکر کیوں کروں.ایک شہر بلکہ ایک مسجد میں چند آدمیوں کو علیحدہ علیحدہ ایک وقت میں کوئی نمازنفل یا فرض جائز نہ ہو.اس لئے کہ آیت میں امام اور مقتدی کے یا سامع اور قاری کے قرُب بُعد کا ذکر نہیں.جیسے امام کی جہری قراء ت میں ان مقتدیوں کو جو امام سے ایسے دوری پر کھڑے ہیں جس میں ان کو امام جی کی آواز نہیں پہنچتی یا نزدیک میں استماع سکوت واجب ہے اور ِسرّی قراءت کے وقت نزدیک و دُور کے مقتدیوں کو اِنْصَات واجب ہے.ایسے ہی اس قاری کی قراء ت پر جو امام نہیں ان لوگوں کو جو اس کے سوا ہیں استماع اور اِنْصَات فرض ہو.جملہ شرطیہ کے مقدم اِذَا قُرِئَ میں تخصیص امام اور تالی جملہ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ میں تخصیص مقتدی نسخ کا باعث ہو گئے علاوہ بریں جب عام مخصوص ہو گیا تو اس کی تخصیص خبرِواحد سے ممنوع نہ ہو گی.یاد رہے اِذَا کے ظرف ماننے میں بھی سوال وارد ہے.

Page 53

پانچواں جواب.آیت عام ہے اور عام کی تخصیص سنت ثابتہ سے صحابہ کرام نے جائز رکھی ہے.چھٹا جواب.اگر عام ہے تو عام کی تخصیص خبرِواحد سے صحابہ میں معمول تھی.ساتواں جواب.جمہور اَئمہ اسلام نے عام کی تخصیص کو جائز رکھا ہے.آٹھواں جواب.امام ابوحنیفہ کے نزدیک عام کی تخصیص خبرِواحد سے جائز ہے اور ان سب باتوں کے دلائل فَاقْرَءُوْا وْا مَا تَيَسَّرَ والی آیت کے نیچے ہم بیان کر چکے ہیں.نواں جواب.آیت اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا حنفیوں کے نزدیک عام مخصوص البعض ہے.اپنے عموم پر نہیں جب عام مخصوص البعض ہوئی تو اس کی تخصیص خبرِواحد سے بالاتفاق ممنوع نہیں.مخصوص البعض اس لئے ہے کہ آیت شریف کا ترجمہ ہے جب پڑھا جاوے قرآن تو اسے سنو اور چپ رہو.اس امرالٰہی سے قرآن پڑھتے وقت سامعین کا چپ رہنا ضرور ہوا اور سامعین پر فرض ہوا کہ قرآن پڑھتے وقت کچھ بھی نہ بولیں.اگر ذرا بھی بولیں گے تو امر کے خلاف کریں گے جیسے خطبہ میں سکوت کا حکم ہے اور رسول اللہ صلعم نے فرمایا اگر کوئی خطبہ کا سامع اپنے پاس والے کو اتنا بھی کہے کہ چپ رہ تو اس نے لغو کیا.اب فرمایئے اگر کسی جگہ جماعت ہو رہی ہو اور امام جہراً قراءت بھیپڑھ رہا ہو ایک شخص امام کی جہر قراء ت کے وقت شریک جماعت ہونا چاہیے تو آپ کیا کوئی بھی سنے اس شخص کو شمول جماعت سے منع کرتا ہے.مولوی صاحب میں یقین کرتا ہوں کہ کوئی حنفی بھی جماعت کے ساتھ شامل نہ ہونے کا فتویٰ نہ دے گا اور جب یہ شخص شامل جماعت ہوا تو لامحالہ اللہ اکبر کہہ کر شامل جماعت ہوا ہو گا اس اللہ اکبر کہنے کی اجازت شارع سے اور آپ لوگوں سے اس کو حاصل ہے اور آپ کی کتابوں میں اللہ اکبر کہنے کی ممانعت اس کو نہیں ہے پھر غور کرنے کا مقام ہے اَنْصِتُوْا کے عموم پر کہاں عمل ہوا.اگر عمل ہوتا تو کیا اللہ اکبر قراءتِ قرآن سنتے وقت کہہ سکتا تھا اللہ اکبر کا کہنا عام اَنْصِتُوْا یعنی چپ رہنے کے خلاف ہے.بلکہ آپ کے نزدیک تو اللہ اعظم اور خدائے بزرگ است وغیرہ الفاظ

Page 54

بھی اس وقت اللہ اکبر کے بدلہ پڑھ لینے جائز ہیں اگر کہیے کہ نماز کے باہر یہ الفاظ بولنے جائز ہیں اندر نہیں بول سکتا تو گزارش ہے کہ اس صورت سے بھی آیت اَنْصِتُوْا عام نہ رہی.اگر کہو تکبیرِ تحریمہ کا حکم آچکا ہے تو عرض ہے پھر بھی آیت عام نہ رہی اور مع ہذا ہم کہتے ہیں فاتحہ کا حکم بھی آ چکا ہے.دسواں جواب.آیت شریف وَ اَنْصِتُوْا اس لئے بھی عام مخصوص البعض ہے کہ اگر کوئی صاحبِ ترتیب( صاحبِ ترتیب حنفیوں کے ہاں وہ شخص ہے جو ہمیشہ نمازیں اپنے وقت پرپڑھتا رہا ہو) ایک روز عصر کی نماز سے رہ گیا یہاں تک کہ سورج غروب ہوا اور عصر کی نماز قضا ہو گئی اور جب مسجد میں آیا اس وقت جماعت کھڑی تھی اور امام جہرًا قراءت پڑھتا تھا.آپ اس کے حق میں یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ وہ پہلے عصر پڑھ لے.اب جو حسبِ الحکم آپ کے عصر پڑھے گا اور اس میں اللہ اکبر اور ثناء اور فاتحة الکتاب اور سورہ اور تشہد اور درود اور دعا وغیرہ اذکار نماز پڑھے گا بتایئے اُس کا حقیقی اِنْصَات اس جگہ کہاں گیا.اگر فرمائو کہ وہ اور جگہ جاکر نماز پڑھے جہاں امام کی آواز نہ پہنچے تو فرمایئے اور جگہ جانے کی فرضیت آپ کی کتابوں میں کہاں بیان ہے.جب اور جگہ جانا فرض نہیں تو اسے اختیار ہے کہ نہ جائے.گیارہواں جواب.عینی وغیرہ نے لکھا ہے کہ جمعہ کا خطبہ پڑھتے وقت اگر کوئی نمازی آوے اور یاد کرے کہ میں نے صبح کی نماز نہیں پڑھی تو اس کو حالتِ خطبہ میں نماز قضا شدہ کی ادا جائز ہے دیکھو یہاں جہراً خطبہ میں اگر امام قرآن پڑھتا تھا تو اداءِ صلوٰة صبح میں اِسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا کا عموم آپ لوگوں نے باطل کر دیا اور معلوم ہوا کہ آیت مخصوص البعض ہے اور عام مخصوص البعض کی تخصیص ممنوع نہیں لطیفہ یہاں ہمارے حنفی بھائیوں کو اِذَا خَرَجَ الْاِمَامُ فَلَاصَلوٰةَ وَلَاکَلَامَ { FR 4946 }؂ہی بھول گیا.{ FN 4946 }؂ جب امام (خطبہ کے لئے) باہر نکل آئے تو کوئی نمازنہیں اور نہ ہی کوئی گفتگو.(المبسوط للسرخسی، کتاب الصلاة، باب صلاة الجمعة، شروط الجمعة)

Page 55

بارہواں جواب.صبح کے وقت اگر کوئی شخص مسجد میں آوے اور اس وقت امام قرا ءت پڑھتا ہو تو حنفی اس شخص کو مسجد کے اندر یا دروازہ کے پاس سنتیں پڑھ لینی جائز بتلاتے ہیں اور یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ سنتیں ایسی جگہ پڑھنی فرض ہیں جہاں امام کی آواز نہ پہنچے معلوم ہوا کہ آیت مخصوص البعض ہے اور مخصوص کی تخصیص ممنوع نہیں.تیرہواں جواب.یہ آیت شریف آپ کے بعض علماء کے نزدیک اس واسطے بھی مخصوص البعض ہے کہ انہوں نے ایک ایسے نمازی کے واسطے جو امام کے قراءت پڑھتے وقت شامل جماعت ہو اثناء کا پڑھنا جائز رکھا اور آپ کے بھائی بندوں نے اُن پر وہ فتوے نہیں جمائے جو آہستہ فاتحة الکتاب پڑھنے والوں پر جڑے ہیں.جب ثناء کا پڑھنا جائز ہوا تو فاتحة الکتاب نے ہی کیا قصور کیا ہے.چودہواں جواب.اس آیت میں اَنْصِتُوْا سے عَـمَّا سِوَی الْقُرْآنِ { FR 4947 }؂مراد ہے کیونکہ مدارس قرآن میں کئی آدمیوں کے باہم مل کر قرآن پڑھنے کو تعامل میں آج تک کسی نے منع نہیں کیا.پندرہواں جواب.اس حدیث (فاتحة الکتاب کی فرضیت والی حدیث) کو حدیث قِرَاءَ ةُ الْاِمَامِ لَہٗ قِرَاءَةٌ { FR 4948 }؂سے جس کو آپ نے مشہور مانا ہے کیا کمی ہے اور مشہور حدیث سے تخصیص منع نہیں.سولہواں جواب.حدیث فرضیت فاتحہ متواتر ہے اور متواتر سے عام کی تخصیص ممنوع نہیں.ستارہواں جواب.آیت کے نزول میں اختلاف ہے.آیا خطبہ کے سماع میں ہے یا قراءت خلف الامام میں یا نَسخ تَکَلُّمْ فِی الصَّلٰوةِ میں یا ان اذکار فی الصلوٰة کے حق میں جو آیات { FN 4947 }؂ جو قرآن کے علاوہ ہے.{ FN 4948 } ؂ امام کی قراءت ہی اس (مقتدی )کی قراءت ہے.(ابن ماجہ، کتاب إقامۃ الصلاۃ، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا)

Page 56

ترغیب و ترہیب میں وارد ہوئے یا عام ہے.سامع قرآن کے حق میں یا خطبہ اور قراءت فی الصلوٰة دونوں کے حق میں یا رسول اللہ صلعم کی قراءت میں نزولِ قرآن کے وقت یا استماع سے عمل مراد ہے اور آیت تاکید عمل میں ہے یا کفار کے حق میں ہے گو عینی نے کہا ہے اکثر اہل التفسیر علی ان ہذا خطاب المقتدین قال احمد اجتمع الناس علی ان ہذہ الآیة نزلت فی الصلوٰة.{ FR 4588 }؂ ترجیح اقوال کا محل نہیں اِلاَّ اتنا کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت محتملہ حجت قطعیہ ہونے کے قابل نہیں اور اگر کسی ایسے قول کو ان اقوال سے ترجیح دی جاوے جو آپ کے خلاف ہے اور پھر آپ کو آپ کا قاعدہ وَاقِعَةُ عَيْنٍ لَا عُـمُوْمَ لَهَا { FR 4949 }؂ یاد دلادیں اور کہہ دیں اَلْعِبْرَةُ لِعُمُوْمِ اللَّفْظِ { FR 4950 }؂ میں بھی اختلاف ہے تو ایک کیا اور کئی جوابوں کا اضافہ ہو جاتا ہے.اٹھارواں جواب.اِستماع اور اِنصات آہستہ قراءت کا مانع نہیں اور نہ اس کے خلاف بلکہ آہستہ قراءت کو سکوت کہنا شرعاً ثابت ہے.عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذَا كَبَّرَ فِي الصَّلَاةِ سَكَتَ هُنَيْهَةً قَبْلَ الْقِرَاءَةِ فَقُلْتُ يَا رَسُوْلَ اللهِ بِأَبِيْ أَنْتَ وَأُمِّيْ أَرَأَيْتَ سُكُوْتَك بَيْنَ التَّكْبِيْرِ وَالْقِرَاءَةِ مَا تَقُولُ؟ قَالَ أَقُوْلُ اللّٰهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِيْ وَبَيْنَ { FN 4588 } ؂ (آیت کریمہ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهُ وَأَنصِتُوْا کے متعلق) اکثر مفسرین اس رائے پر ہیں کہ یہ خطاب مقتدیوں سے ہیں اور امام احمد (بن حنبل) نے کہا: لوگوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ یہ آیت نماز کے متعلق ہے.(منحة السلوك للعینی في شرح تحفة الملوك، کتاب الصلاة، الفصل في بيان شروط الصلاة وأركانها وواجباتهاوسننها وآدابها) { FN 4949 }؂ ایک خاص واقعہ ہے جوعمومیت نہیں رکھتا.{ FN 4950 } ؂ نصیحت لفظ کے عموم سے ہوتی ہے.(کشف الأسرار شرح أصول البزدوی، باب معرفۃ أحکام العموم)

Page 57

خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْ تَّ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ{ FR 4589 }؂ آہ.اس حدیث میں راوی حدیث رسول اللہؐ کو تکبیر اور قراءت کے درمیان ساکت بھی کہتا ہے اور اُس وقت کا پڑھنا بھی پوچھتا ہے.معلوم ہوا کہ سکوت کچھ پڑھنے کے خلاف نہ تھا اور رسول ِکریم نے اس کے اس کہنے اور سوال کرنے کو غلط نہ فرمایا بلکہ جواب دیا کہ میں اس سکوت کے وقت اَللّٰھُمَّ بَاعِدْ بَیْــنِیْ الخ پڑھتا ہوں.مولوی صاحب انصاف فرمائیے اور موت کو یاد کیجیے اور تَقَطَّعَتْ بِـھِمُ الْاَسْبَاب { FR 4951 }؂ والوں کے حال سے پناہ پکڑیئے.اس ہماری تقریر پر ایک فاضل نے یوں اعتراض فرمایا ہے کہ سماع اور استماع میں فرق ہے.یہاں استماع کا حکم ہے اور استماع تدبر کو اور یہ خیال نہ فرمایا کہ استماع بمعنی تدبر کیا عامیوں کے واسطے بھی فرض ہے.یہاں تک آیت شریف سے فاتحة الکتاب نہ پڑھنے کا کہتے ہیں اِنْتَہٰی.جواب ختم ہوا باوجودیکہ آیت سِرِّی نمازوں میں حجت ہی نہ تھی.اگر انصاف سے دیکھتے.دوسرے اعتراض کا جواب تقریر سوال یہ ہے عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهٖ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوْا وَإِذَا قَرَأَ فَاَنْصِتُوْا.رَوَاهُ الْخَمْسَةُ إلَّا التِّرْمُذِيْ، { FN 4589 } ؂ حضرت ابو ہريرہؓ سے روايت ہے.انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز ميں تکبير کہتے تو قراءت سے قبل کچھ دير خاموش رہتے.میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، تکبیر اور قراءت کے درمیان اپنی خاموشی کے متعلق بتائیں کہ آپؐ (اس دوران) کیا پڑھتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: میں دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اتنی دوری ڈال دے جتنی دُوری تو نے مشرق اور مغرب کےدرمیان ڈالی ہے.(نَيْلُ الأوطار، کتاب اللباس، أبواب صفة الصلاة، بَابُ ذِكْرِ الِاسْتِفْتَاحِ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ) { FN 4951 }؂ جن(کی نجات) کے تمام ذرائع منقطع ہو جائیں گے.

Page 58

وَقَالَ مُسْلِمٌ: هُوَ صَحِيحٌ.{ FR 4590 }؂ اس حدیث میں حکم ہے کہ جب امام قراءت پڑھے تو تم چپ کر رہو.جواب.باب تشہد میں ابوداؤد نے اس حدیث کو بیان کر کے کہا ہے اَنْصِتُوْا کا لفظ محفوظ نہیں سلیمان تَیمی کے سوا اس کی کوئی روایت نہیں کرتا.پھر ابوداؤد نے باب اَلْاِمَامُ یُصَلِّیْ قَاعِدًا میں کہا ہے اِذَا قُرِأَ فَاَنْصِتُوْا کی زیادتی ہمارے نزدیک ابوخالد کا وہم ہے اور زَیلعی نے عمراور ابن عَروبہ سے بھی نقل کر کے کہا ہے کہ یہ حدیث ِ سلیمان سے اَشْھَر ہے اور بیہقی نے سنن کبرٰی میں کہا ہے.ابوداؤد سے ہے کہ یہ زیادتی محفوظ نہیں.ایسا ہی روایت کیا ابن معین اور ابوحاتم رازی اور دارقطنی اور حافظ ابو علی نیشاپوری حاکم کے استاد نے اور مسلم نے بھی اپنی کتاب میں اس کو مسند بیان نہ کیا اور سیوطی نے مصباح الزجاجہ میں کہا ہے ابوحاتم کہتے تھے کہ یہ کلمہ ابن عجلان کی تخالیط سے ہے اور روایت کیا اس کو خارجہ سے اور خارجہ قوی نہیں.اور بیہقی نے کہا ہے اس لفظ کے خطا ہونے پر حافظوں کا اجماع ہے ان میں سے ابوداؤد ‘ ابن حاتم‘ ابن معین اور حاکم ہیں(عینی) اور بخاری نے جُزْءُ الْقِرَاءَ ةِ میں فرمایا ہے سلیمان نے اس زیادتی میں قتادہ کا سماع ذکر نہیں کیا اور قتادہ نے یونس بن جبیرکا اور ہشاّم اور سعید اور ہمام ‘ ابوعوانہ‘ اِباّن بن یزید‘ عبیدہ‘ قتادہ سے اِذَا قَرَأَ فَاَنْصِتُوْا کا ذکر نہیں کرتے اور اگر صحیح ہو تو ماسوائے فاتحہ کے محتمل ہے.ترکِ فاتحہ میں یہ حدیث ظاہر نہیں.پھر بخاری نے کہا ہے کہ فَاَنْصِتُوْا کی زیادتی ابوخالد احمر کی صحیح حدیث سے معلوم نہیں ہوتی اور امام احمد کہتے تھے کہ میں اسے دیکھتا ہوںتدلیس کرتا ہے(یہاں اگر کوئی جواب دینا چاہو تو وہی جواب ابن اسحاق کی تدلیس میں سوچ لینا) سہیل‘ ابوسلمہ ‘ ہمام‘ ابویونس‘ عثمان‘ اور کئی لوگوں { FN 4590 }؂ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امام تو اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے.پس جب وہ تکبیر کہے تو تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو.(صحاح ستہ میں سے) ترمذی کے علاوہ پانچوں نے اسے روایت کیا ہے اور امام مسلم نے کہا: یہ روایت صحیح ہے.(نيل الأوطار، کتاب اللباس، أبواب صفة الصلاة، بَابُ مَا جَاءَ فِي قِرَاءَةِ الْمَأْمُومِ وَإِنْصَاتِهٖ إذَا سَمِعَ إمَامَهٗ)

Page 59

نے ابوہریرہ سے یہ لفظ نقل نہیں کیا.ابوخالد کا اس زیادتی میں کوئی تابع نہیں (یہاں پھر ابن اسحاق کی حدیث یاد کرو ابن اسحاق کے تابع زید بن واقد اور سعید بن عبد العزیز اور عبد اللہ بن علاء اور ابن جابر ہو چکے ہیں دیکھو ابوداؤد) عینی‘ شوکانی وغیرہ نے اس حدیث کی تصحیح کو ابن خزیمہ اور مسلم اور احمد حنبل سے نقل کیا ہے اور منذری نے ابوداؤد پر تعقب کیا ہے.مجھ کو اس تذکرہ سے یہ مقصود ہے کہ حدیث جرح سے خالی نہیں.مسلم نے بھی یہ بات کہہ کے کہ یہ حدیث مجمع علیہ نہیں اس روایت کا نقل کرنا اپنی صحیح میں پسند نہ کیا.پھر بعد تسلیم اس حدیث کےاور بنظر حدیث ابوموسیٰ جو مسلم میں ہےہمارے وہی جواب جو آیتِ شریف میں دیئے ہیں ملاحظہ فرمائیے.حقیقی جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث احادیث حکم قِرَاءَةُ فَاتِـحَةِ الْکِتَابِ کے خلاف نہیں.متقدمین اور عامہ اہلِ اصول کے نزدیک اس لئے کہ ان کے نزدیک عام خاص پر مبنی ہے اور یہی حق ہے اور متأ خرین اہلِ اصول کے نزدیک اس واسطے کہ ان کے نزدیک بھی خاص مقارن کے ساتھ تخصیص کر لینا نسخ نہیں اور اس مقام میں عبادہ ہی عام اور خاص کا راوی ہے.پس یہ تخصیص بالمقارن ہوئی.یا اس لئے کہ یا یہ عام مخصوص البعض ہے اور عام مخصوص البعض کی تخصیص ممنوع نہیں.تیسرے اعتراض کے جواب تفصیل اعتراض کی یہ ہے کہ عبد اللہ بن شَدَّاد سے روایت ہے.مَنْ کَانَ لَہٗ اِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْاِمَامِ لَہٗ قِرَاءَةٌ { FR 4952 }؂جب امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہوئی اور امام کی نیابت شرعاً ثابت ولایت امام دلیل عجز ہے.حقیقتاً عجز یہاں موجود نہیں.پس یہ عجز حکماً ہو گا.علاوہ بریں امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے.اگر مقتدی آپ بھی پڑھے گا تو اس کی دوقراءتیں ہو جائیں گی.نیز تعارض ادلّہ میں منع کو تقدیم حاصل ہے.پھر یہ جواز سے سند میں قوی ہے اور اس کے جابر راوی نے فاتحہ پر بھی اس کو حاوی سمجھا ہے اور ماموم کو قراءت سے مستثنیٰ کیا ہے.{ FN 4952 }؂ جس کا امام ہو تو امام کی قراءت ہی اس (مقتدی )کی قراءت ہے.(سنن الدارقطنی، کتاب الصلاۃ، باب ذکر قولہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَمن کان لہ إمام فقراءۃ الإمام لہ قراءۃ)

Page 60

جواب پہلا.بخاری نے جُزْءُ القراءة میں فرمایا ہے یہ خبر قِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهٗ قِرَاءَةٌ لَمْ يَثْبُتْ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْحِجَازِ وَأَهْلِ الْعِرَاقِ وَغَيْرِهِمْ لِإِرْسَالِهٖ وَانْقِطَاعِهٖ.قَالَ الْبُخَارِيُّ: وَرَوَى الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يَدْرِيْ أَسَمِعَ جَابِرٌ مِنْ أَبِي الزُّبَيْرِ.{ FR 4591 }؂ دوسرا جواب.یہ حدیث تمیم۱ ابن سالم نےا۱نس سے اور عاصم۲ بن عبد العزیز مدنی نے عون بن عبد العزیز سے اور اس نے ابن۲ عباس سے اور محمد ۳بن عباد نے اسماعیل سے اور اس نے سہیل سے اور اس نے ابو ۳ہریرہ سے اور اسماعیل۴بن عمرو نے حسن بن صالح سے اور اس نے ابوہارون سے اور اس نے ابو۴سعید سے اور محمد۵ بن فضل نے اپنے باپ سے اور اس نے سالم بن عبداللہ سے اور اس نے عبد اللہ ۵بن عمر سے اور احمد۲ بن عبد الرحمٰن نے جا۶بر سے روایت کیا.۱انس کی روایت ابن حباّن کی’’ کِتَابُ الضُّعَفَاءِ‘‘ میں ہے اور ابن۴ عباس کی دارقطنی میں اور ابوہر۳یرہ کی بھی دارقطنی میں.اور ابو۴سعید کی کامل میں اور طبرانی کی اوسط معجم میں اور عبد اللہ۵ بن عمر کی دارقطنی میں اور جا۶بر کی طحاوی‘ ابن ماجہ‘ مؤطا محمد‘ دار قطنی‘ بیہقی‘ مسند ابوحنیفہ میں ہے.حافظ نے کہا ہے جابر کی حدیث اس کے کئی طرُق ہیں صحابہ سے اور سبھی روایتیں معلول ہیں اور پہلی روایت کو ابن حباّن نے کہا ہے کہ یہ ابن سالم سے روایت ہے اور وہ ثقہوں کی مخالفت کرتا ہے.اس کی روایت مجھ کو پسند نہیں.پس یہ حجت کے لائق ہی کب ہے اس سے مجہول اور ضعیف لوگ روایت کرتے ہیں.انتہٰی.دوسری حدیث کی نسبت دارقطنی نے کہا ہے یہ معلول ہے اور موقوف ہے عاصم قوی { FN 4591 } ؂ ’’ امام کی قراءت ہی اس (مقتدی )کی قراءت ہے‘‘ اہل حجاز اور اہل عراق وغیرہ میں سے اہل علم کے نزدیک یہ (روایت) اپنے مرسل اور منقطع ہونے کی وجہ سے ثابت نہیں ہے.امام بخاریؒ نے کہا: اور (اسے) حسن بن صالح نے روایت کیا ہے، انہوں نے جابر سے، جابر نے ابوالزبیر سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی.اور وہ نہیں جانتے کہ آیا جابر نے ابوالزبیر سے سنا (یا نہیں).(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ)

Page 61

نہیں.اس کو مرفوع کہنا وہم ہے.ابوموسیٰ کہتا ہے.میں نے امام احمد سے ابن عباس کی حدیث کی کیفیت پوچھی تھی تو انہوں فرمایا منکر ہے.تیسری روایت.دارقطنی نے کہا.یہ معلول ہے.محمد بن عباد اس کی حدیث میں منفرد ہے اور وہ ضعیف ہے.چوتھی روایت.ابن عدی نے کہا ہے.یہ معلول ہے اور اسماعیل بن عمروضعیف ہے اور اس کا کوئی تابع نہیں.پانچویں روایت.دارقطنی نے کہا ہے معلول ہے کیونکہ محمد بن فضل متروک ہے اور خارجہ سے روایت کر کے کہا ہے.اس کو مرفوع کہنا وہم ہے اور امام احمد سے نقل کیا کہ موقوف صواب ہے اور مؤطا میں بھی موقوف ہے.چھٹی حدیث.جابر کی حدیث کو ابن عدی نے معلول کہا اور اس کے راوی لَیث کو امام احمد اور نسا ئی ابن معین نے ضعیف کہا ہے اگرچہ ُشعبہ اور َثوری نے اُس سے روایت کیا اور باوجود اس کے ضعف کے اس کی حدیث لکھی جاتی ہے اور طبرانی کی روایت کو دارقطنی نے اس واسطے معلول کہا ہے کہ وہ سہل سے مروی ہے اور سہل متروک ہے ثقہ نہیں.اور دارقطنی نے جابر کی حدیث کو اس واسطے بھی معلول کہا ہے کہ اس حدیث کو ابن عمارہ اور..{ FR 4512 }؂..کے سوائے کسی نے مسند نہیں کیا اور وہ دونوں ضعیف ہیں اور َثوری اور اَبوالاحوص اور شعبہ اور اسرائیل اور شریک اور ابوخالد اور ابن عیینہ اور ابن عبد الحمید وغیرہ نے موسیٰ سے مرسل روایت کیا ہے اور یہی صواب ہے اور جابرجعفی اس کا راوی متروک ہے.امام ابوحنیفہ نے کہا.مَارَأَیْتُ بِاَکْذَبَ مِنْہُ.{ FR 4953 }؂ (برہان شرح مواہب الرحمٰن) و فی التقریب جابر الجعفی ضعیف رافضی { FR 4955 }؂ اور لَیث اس کا تابع { FN 4512 } ؂ یہ نقطے مصلحت سے خالی نہیں ۱۲.منہ { FN 4953 }؂ میں نے اُس سے بڑھ کر جھوٹا نہیں دیکھا.{ FN 4955 }؂ تقریب التہذیب (لابن حجر عسقلانی) میں ہے کہ جابر جعفی ضعیف اور رافضی (یعنی صحابہ کرام کی گستاخی کرنے والا) ہے.

Page 62

بھی ضعیف ہے اور جو اُس کے تابع ہوئے وہ اس سے بھی ضعیف ہیں.اور فتح الباری میں لکھا ہے کہ یہ حدیث جمیع حفاّظ کے نزدیک ضعیف ہے.علاوہ بریں عام خاص کا کوئی تعارض نہیں جیسے ثابت ہو چکا.اور ولایت کی نسبت گزارش ہے کہ امام کی ولایت تمام قراءت میں فاتحہ کے سوا مسلّم ہے اور فاتحہ مرفوع حدیث کے باعث علیحدہ ہے اور یہ کہنا کہ مقتدی اگر پڑھے گا تو اس کی دو قراءتیں ہو جائیں گی.اوّل تو فاتحہ میں ہم قراءت سے مقتدی کی حکمی قراءت از روئے احادیث صحیحہ مان ہی نہیں سکتے.اگر مان لیں گے تو حقیقی اور حکمی قراءت کا اجتماع لازم آوے گا.لیکن اس اجتماع کی ممانعت شرع میں کوئی ثابت نہیں.پس ہمارے واسطے اجتماع قراءت حقیقی اور حکمی کچھ حرج کا باعث نہ ہوگا.اور یہ اعتراض کرنا کہ تعارض ادلّہ میں منع کو تقدیم ہے اس وقت درست تھا جب اس حدیث سے کہیں ممانعت نکلتی اور یہاں ممانعت کا ذکر ہی نہیں.پس تعارض کہاں ہوا اور قوت سند کا دعویٰ اپنے مریدوں میں تو خوش کرنے کو کافی ہے اور عقلاء میں بجز اس کے کہ ہنسی کا موجب ہو اور کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.معترض نے اخیر میں جو یہ کہا ہے کہ اس حدیث میں اس کے جابر روای نے قراءت کو فاتحہ پر حاوی سمجھا ہے اور ماموم کو بالکل قراءت سے مستثنیٰ کیا ہے.بجواب اس فقرہ کے گذارش ہے کہ موقوف استثنا مرفوع دلائل فاتحہ کے عموم کو اور عدم استثنا کو باطل نہیں کر سکتا.دوسرا جواب.قِرَاءَتُ الْاِمَامِ لَہٗ قِرَاءَةٌ کی حدیث ترک فاتحہ پر نصّ نہیں اور ادلّہ قراءت فاتحہ قراءت فاتحہ پر نصّ ہیں.اور نصّ مفہوم سے مقدّم ہے.اپنے اصول کو کھول کر دیکھو.تیسراجواب.ابن عمر ‘ جابر‘ ابوہریرہ‘ ابوسعیدکا فتویٰ آپ کی مراد کے خلاف پر موجود ہے جیسےآثار میں مذکور ہو گا انشاء اللہ.لطیفہ.عینی نے لَاصَلوٰةَ والی حدیث کو اس لئے مشہور نہیں ماناکہ اس کے قبول کرنے میں تابعین کا اختلاف ہے اور مشہور کی تعریف ہے مَاتَلَقَّاہُ

Page 63

التَّابِعُوْنَ.{ FR 4956 }؂ یہاں آکر تَرْکُ الْقِرَا ءَ ةِ کی احادیث کو مشہور مان لیا اور یہ خیال نہ کیا کہ تابعین کا اختلاف میرے نزدیک شہرت کا مانع ہے اور ترکِ قراء ت میں بھی تابعین کا اختلاف ہے سچ ہے.تقلید اور حمیّت انصاف کے دشمن ہیں تابعین کا اختلاف اجماع صحابہ کی بحث میں ذکر کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ.۱۲ چوتھے اعتراض کا جواب تفصیل اعتراض یہ ہے کہ ابوہریرہ سے روایت ہے.أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِيْهَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ: «هَلْ قَرَأَ مَعِيْ أَحَدٌ مِّنْكُمْ آنِفًا؟»، فَقَالَ رَجُلٌ: نَعَمْ يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ: «إِنِّيْ أَقُوْلُ مَا لِيْ أُ نَازِعُ القُرْآنَ»، قَالَ: فَانْتَهَى النَّاسُ عَنِ القِرَاءَةِ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِــيْمَا جَهَرَ فِيْهِ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.{ FR 4592 }؂ روایت کیا اس کو ابوداؤد اور نسائی اور ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن ہے اور بیان کیا اس حدیث کو مالک نے مؤطا میں اور شافعی اور احمد اور ابن ماجہ اور ابن حباّن نے اور محمد بن حسن نے.اس کا (جواب پہلا) بخاری نے جزء القراءة میں فرمایا ہے.وَقَوْلُهٗ فَانْتَهَى النَّاسُ مِنْ كَلَامِ الزُّهْرِيِّ، وَقَدْ بَيَّنَهٗ لِي الْحَسَنُ بْنُ صَبَاحٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُبَشِّرٌ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَاتَّعَظَ الْمُسْلِمُونَ بِذَالِكَ فَلَمْ يَكُونُوا يَقْرَؤُوْنَ فِــيْمَا جُهِرَ.وَقَالَ مَالِكٌ: قَالَ رَبِيعَةُ لِلزُّهْرِيِّ: { FN 4956 }؂ جسے تابعین نے اختیار کیا ہو.(البناية شرح الهداية للعینی، کتاب الصلاۃ، باب فی صفة الصلاة، سنن الصلاة، الواجب من القراءة في الصلاة) { FN 4592 } ؂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک ایسی نماز سے جس میں آپؐ نے قراءت بالجہر کی، فارغ ہوئے تو فرمایا: کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ ساتھ پڑھا ہے؟ ایک شخص نے عرض کیا: جی ہاں یارسول اللہ.آپؐ نے فرمایا: میں (دل میں) کہہ رہا تھا ، مجھے کیا ہوا ہے کہ قرآن مجھ سے چھینا جارہا ہے.(حضرت ابوہریرہؓ نے) کہا: پھر اُن (نمازوں) میں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قراءت بالجہر کرتے تھے، لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ پڑھنے سے رُک گئے.

Page 64

إِذَا حَدَّثْتَ فَبَيِّنْ كَلَامَكَ مِنْ كَلَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.{ FR 4957 }؂ اور حافظ نے کہا ہے.فَانْتَهَى النَّاسُ … مُدْرَجٌ … مِنْ كَلَامِ الزُّهْرِيِّ بَيَّنَهُ الْـخَطِيْبُ وَاتَّفَقَ عَلَيْهِ الْبُخَارِيُّ فِي التَّارِيخِ وَأَبُو دَاوُد وَيَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ وَالذُّهْلِيُّ وَالْخَطَّابِيُّ وَغَيْرُهُمْ.{ FR 4593 }؂ اور نووی نے کہا ہے هَذَا مِمَّا لَا خَلَافَ فِيْهِ بَيْنَهُمْ.{ FR 4958 }؂ اور حدیث کا مدارابن اکیمہ یشی پرہے اور اس کو حمیدی اور ابوبکر بزار اور بیہقی نے مجہول کہا ہے.ایسا ہی حازمی نے کہا ہے.نووی نے کہا ہے کہ اَئمّہ نے ترمذی کی تحسین پر انکار کیا ہے اور اس حدیث کے ضعف پر اَیمہ نے اتفاق کیا ہے.ناظرین رسالہ اس تضعیف کو یاد رکھیں اور یہ بھی جان رکھیں کہ اس حدیث کو ترمذی نے حسن کہا ہے اور ابن حبان نے صحیح بتایا اور ابن ابی حاتم نے مقبول کہا.تضعیف کرنے والے بہت ہیں اور تصحیح کرنے والا صرف ایک اور حسن کہنے والا ایک اور مقبول کہنے والا بھی ایک.غرض یہ حدیث جیسے مولوی صاحب کو دلیل میں لانا چاہیے تھا ویسے نہیں.کیا معنے غوایل جرح سے خالی نہیں.جواب دوسرا.اگر فَانْتَہَی النَّاسُ کو زُہری کا کلام نہ مانیں گے تو صحابی کا فہم { FN 4957 }؂ اور اُس کا یہ کہنا کہ ’’لوگ رُک گئے‘‘ زُہری کا قول ہے.اور یہ حسن بن صباح نے مجھ پر واضح کیا ہے.انہوں نے کہا: مبشر نے ہم سے بیان کیا.انہوں نے اوزاعی سے روایت کی کہ زُہری نے کہا: پس اس بات سے مسلمان نے نصیحت حاصل کر لی.پھر وہ جہری نمازوں میں (سورۂ فاتحہ سے زائد) نہیں پڑھتے تھے.اور (امام) مالک نے بتایا کہ ربیعہ نے زُہری سے کہا: جب تم کوئی بات کرو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے اپنی بات کو الگ واضح کیا کرو.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ هَلْ يُقْرَأُ بِأَكْثَرَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ خَلْفَ الْإِمَامِ) { FN 4593 } ؂ (الفاظ) ’’فَانْتَهَى النَّاسُ‘‘ (لوگ باز آگئے) مدرج (یعنی باہر سے داخل کی ہوئی بات )ہے…… جو زُہری کے کلام میں سے ہے، خطیب (بغدادیؒ) نے اسے وضاحت سے بیان کیا ہے اور امام بخاریؒ نے اپنی (کتاب) تاریخ میں نیز ابوداوٗد، یعقوب بن سفیان، ذُھْلِیْ اور خَطَّابِی وغیرہ نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے.(التلخيص الحبير لابن حجر العسقلاني، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة) { FN 4958 }؂ یہ ایسی (بات) ہے جس میں اُن کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے.

Page 65

کہیں گے اور فہم ِصحابی مرفوع کے مقابلہ میں حجت نہیں بلکہ حجت ہی نہیں.جواب تیسرا.اس حدیث سے اگر حدیث کو مان لیں منازعت کی ممانعت نکلتی ہے اور وہ محل نزاع سے ہی خارج ہے.ہم نے مانا کہ منازعت ممنوع ہے.بھلا فرمائیے آہستہ فاتحہ پڑھ لینا منازعت میں کہاں داخل ہے.مقتدی کے جہر پڑھنے میں منازعت ہوتی ہے.آہستہ پڑھنے میں تو منازعت مفقود ہے.ہمارے ایک صوفی مشرب مولوی صاحب کے رشید شاگرد نے اس مقام پر ذکر کیا کہ جس وقت جناب رسول اللہ صلعم نے مَالِیْ اُنَازِعُ { FR 4959 }؂ صحابہ کو فرمایا تھا.اس وقت انہوں نے جہراً قراءت نہیں پڑھی تھی بلکہ آہستہ پڑھتے تھے اگر جہراً پڑھی ہوتی تو ھَلْ قُرِأَ مَعِیْ { FR 4960 }؂ کیوں فرماتے.استفہام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلعم کو ان کا پڑھنا سنا ئی نہیں دیا نفس پڑھنے کے گناہ نے نبی کے صاف قلب پر صدمہ دیا اور اس صدمہ نے منازعت کا لفظ کہلایا.اوّل بجواب ان کے گزارش ہے کہ آپ نے شاید انکاری استفہام کلام عرب اور قرآن و حدیث میں نہیں سنا.۲.علاوہ بریں یہ عموم یا اطلاق عبادہ کے خاص یا مقید حدیث کا مقابلہ کب کر سکتا ہے.سیوم.مخالـجہ اور مخالطہ کی حدیث سے جو آگے آتی ہے آپ کا یہ تو ہم کہ استفہام انکاری نہیں بشرط انصاف رفع ہو گا انشاء اللہ.چہارم.منازعہ کی حدیث کا راوی جَہْرِی نمازوں میں بعد زمان نبوی قراءت فاتحہ خلف الامام کا عامل اور مفتی تھے اور قول صحابی اور تفسیر راوی آپ کی یہاں حجت ہے.ایک عجیب قاعدہ عامہ حنفیوں کا اس وقت یاد آیا ہے.میرے اہل حدیث بھائی اگر اس کو یاد رکھیں گے تو حنفیوں کے بہت سے جوابوں میں الزاماً ان کو کام آوے گا.الزاماً اس لئے کہتا ہوں کہ یہ قاعدہ اور { FN 4959 }؂ مجھے کیا ہوا ہے کہ مجھ سے چھینا جارہا ہے.{ FN 4960 }؂ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ ساتھ پڑھا ہے؟

Page 66

اس کے فروع میرے اور منصف محققوں کے نزدیک صحیح نہیں.وہ یہ ہے.احاد خبریں ایسے امور میں جن کی ضرورت عام ہو حنفیہ کے نزدیک مردود ہیں یا منسوخ.یا مأوّل اور اس قاعدہ کی فروع یہ ہیں.نَقْضُ الْوُضُوْءِ مَسِّ ذَکر سے ثابت نہیں.رَفْعِ یَدَیْن رکوع اور رکوع سے اٹھتے وقت نہیں مانتے.بسم اللہ کا جہراً پڑھنا تسلیم نہیں کرتے.اپنے گھر میں تو خبراحاد سے انکار کرنے کے ایسے قواعد گھڑ لئے اور انہیں قواعد کو فراموش کر کے خبرِاحاد سے خود ہی استدلال بھی پکڑنے لگے.قراءت خلف الامام بھی تو مَا يَعُمُّ الْبَلْوٰى{ FR 4961 }؂ میںداخل تھی.اُس کے بارے میں ایک خبرِواحد سے دلیل پکڑ کے وجوبِ سکوت اور کَرَاہَةِ قِرَاءَتْ بلکہ فسادِ صلوٰة مقتدی کے حق میں کیسے ثابت کر لیا.پانچواں اعتراض عمران بن حصین سے روایت ہےأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ فَجَعَلَ رَجُلٌ يَقْرَأُ خَلْفَهٗ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلٰى فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ أَيُّكُمْ قَرَأَ أَوْ أَيُّكُمُ الْقَارِی.ئُ فَقَالَ الرَّجُلُ أَنَا فَقَالَ قَدْ ظَنَنْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ خَالَجَنِيْهَا.{ FR 5038 }؂ اس حدیث میں ِسرّی نمازوں میں ایک شخص نے قراءت پڑھی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو منع فرمایا.خَالَـجَنِیْھَا کے معنوں میں لکھا ہے خَالَـجَنِیْھَا اَیْ نَازَعَنِیْھَا.{ FR 5039 }؂ { FN 4961 }؂ روزمرہ کے درپیش امور { FN 5038 } ؂ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی تو ایک آدمی آپؐ کے پیچھے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلٰى پڑھنے لگا.جب آپؐ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ تم میں سے کس نے پڑھا؟ یا (فرمایا:) تم میں سے پڑھنے والا کون تھا؟ اِس پر اُس آدمی نے عرض کیا کہ میں.آپؐ نے فرمایا: مجھے گمان ہوا تھا کہ جیسے تم میں سے کوئی مجھے اس (قراءت) میں اُلجھا رہا ہے.{ FN 5039 }؂ اُس نے مجھ سے اسے چھینا.

Page 67

جواب پہلا.اس اعتراض کو اصل مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں.محلِّ نزاع فاتحہ کا پڑھنا ہے نہ سورة کا.جواب ۲.خَالَـجَنِیْھَا اور نَا زَعَنِیْھَا کے معنے جب ایک ہوئے تو جو حدیث منازعت میں جواب دیئے.وہ جواب یہاں بھی سمجھ لیجیے.علاوہ براں یہاں مخالجت سے بھی منع نہیں نکلتی.اسی حدیث کے نیچے بخاری نے شعبہ سے روایت کیا کہ میں نے قتادہ راوی سے پوچھا كَأَنَّهٗ كَرِهَهٗ؟ فَقَالَ: لَوْ كَرِهَهٗ لَنَهَانَا عَنْهُ.{ FR 4963 }؂ ہاں دارقطنی نے حجاّج بن ارطاة سے نَهٰى عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ { FR 4964 }؂ روایت کی ہے مگر دارقطنی نے آپ ہی کہہ دیا ہے حجا ّج کے ساتھ احتجاج نہیں کیا جاتا اور قتادة کے اور اصحاب نے حجاج کی مخالفت کی ہے.اُن میں سے شعبہ اور سعید وغیرہ ہیں بلکہ مسلم اور بخاری کی جُزْءُ الْقِرَاءَ ةِ میں ہے.قتادہ کہتا ہے لَوْ کَرِھَہٗ نَـہٰـی عَنْہٗ.شعبہ کے سوال اور قتادہ کے جواب میں جو اس روایت صحیحہ میں ہے حجاج بن ارطاة کی تکذیب ہے جس نے حدیث کو بدلا ہے.تیسرا جواب.یہ ایک خاص واقعہ کا بیان ہے اور اس کو عموم نہیں ہوتا.دیکھو اصول حنفیہ اور( الزاماً سمجھو) چھٹے اعتراض کا جواب اعتراض کی تفصیل یہ ہے.حدیث میں آیا ہے.خَلَطْتُّمْ عَلَیَّ الْقُرْآنَ.{ FR 4965 }؂ اور قراءت { FN 4963 }؂ گویا کہ آنحضورصلی اللہ علیہ و سلم نے اسے ناپسند فرمایا؟ اس پر انہوں نے کہا: اگر آپؐ اسے ناپسند فرماتے تو ضرور ہمیں اس سے منع فرما دیتے.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُوْمِ) { FN 4964 }؂ آپؐ نے امام کے پیچھے (قرآن) پڑھنے سے منع فرمایا.{ FN 4965 }؂ تم نے مجھ پر قرآن ملا جلا دیاہے.

Page 68

خلف الامام میں خلط امام پر لازم آتا ہے.جواب.بخاری نے محمد بن مقاتل سے روایت کیا اور اس نے نضر سےحدیث کی ‘ نضر نے کہا یونس نے ہمیں خبر دی ابواسحاق سے ‘اس نے ابو الاحوص سے‘ اس نے عبد اللہ سے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک قوم کو یقرؤون القرآن فیجھرون بہ خلطتّم علیّ القرآن.ترجمہ.پڑھتے تھے قرآن اور زور سے پڑھتے تھے.تم نے ملا دیا مجھ پر قرآن.پوری اور مفصل روایت میں آپ نے دیکھ لیا کہ آپ کا جھگڑا ہی فیصلہ ہے کیونکہ یہاں تصریح ہے کہ مقتدی جہر کرتے تھے اور ان کے جہر پر خَلَطْتُّمْ فرمایا نہ آہستہ پڑھنے پر.علاوہ بریں جہر سے اگر نماز فاسد ہوتی تو اِعاَدہ کا حکم فرماتے.اگر کراہت ہوتی منع کرتے.مگر ہم اس جواب سے اس لئے درگزر کرتے ہیں کہ شاید ہمارے مجیب خلاف مذہب خود جواز تاخیر بیان کا مسئلہ پیش کریں گے.حالانکہ ان کو مفر ہے.ساتواں اعتراض انس سے روایت ہے.أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ … قَالَ أَتَقْرَءُوْنَ فِيْ صَلَاتِكُمْ وَالْإِمَامُ يَقْرَأُ؟ فَسَكَتُوْا … قَالَ فَلَا تَفْعَلُوْا.{ FR 4595 }؂ ا س حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مقتدی کو فعل قراءت سے منع فرمایا.جواب پہلا.یہ لَاتَفْعَلُوْا کی حدیث ابوداؤد اور ترمذی میں اور نسائی اور دارقطنی میں موجود ہے.اس کو دیکھیے ایک دو سندیں ہم بھی بیان کر کےآپ کو انصاف کی راہ دکھاتے ہیں.بخاری نے اسی انس کی حدیث کو یوں روایت کیا.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَنْبَأَنَا { FN 4595 }؂ نبی ﷺ نے فرمایا: کیا تم اپنی نماز میں قراءت کرتے ہو، جبکہ امام (بھی) قراءت کر رہا ہوتا ہے.وہ خاموش رہے.…… آپؐ نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو.(القراءة خلف الإمام للبخاري, باب لا يجهر خلف الإمام بالقراءة, صفحه61)

Page 69

عَبْدُ اللَّهِ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِيْ قِلَا بَةَ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِأَصْحَابِهٖ، فَلَمَّا قَضٰى صَلَاتَهُ أَقْبَلَ عَلَيْهِمْ بِوَجْهِهٖ فَقَالَ: أَتَقْرَءُوْنَ فِيْ صَلَاتِكُمْ وَالْإِمَامُ يَقْرَأُ؟ فَسَكَتُوْا فَقَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ قَائِلٌ أَوْ قَائِلُونَ: إِنَّا لَنَفْعَلُ قَالَ: فَلَا تَفْعَلُوْا وَلْيَقْرَأْ أَحَدُكُمْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِيْ نَفْسِهٖ.(القراءة خلف الإمام للبخاري, باب لا يجهر خلف الإمام بالقراءة)ترجمہ.نبی صلعم نے اپنے صحابہ کو نماز پڑھائی.جب پڑھ چکے ان کی طرف منہ کر کے فرمایا.کیا تم نماز میں پڑھتے ہو جبکہ امام پڑھتا ہے پس لوگ چپ کر گئے.تین مرتبہ فرمایا پھر لوگوں نے عرض کیا.ہم ایسا کرتے ہیں.فرمایا پھر مت کرو اور پڑھ لے ایک تمہارا فاتـحة الکتاب کو آہستہ.مولوی صاحب اب اگر انصاف ہے تو ہمارے جھگڑے اس مسئلہ کے اس حدیث نے فیصل کردیئے.دوسری روایت اسی بخاری کی عبادہ بن صامت سے سنیے.قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْغَدَاةِ … فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ فَقَالَ إِنِّيْ لَأَرَاكُمْ تَقْرَءُوْنَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ؟ قَالَ قُلْنَا أَجَلْ يَا رَسُوْلَ اللهِ قَالَ فَلَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَّمْ يَقْرَأْ بِهَا.(القراءۃ خلف الإمام للبخاري، باب لا يجهر خلف الإمام بالقراءة )ترجمہ.نماز پڑھائی ہم کو رسول اللہ صلعم نے صبح کی نماز پس بھاری ہوئی ان پر قراءت پھر فرمایا.میں دیکھتا ہوں تم پڑھتے ہو امام کے پیچھے کہا ہم نےہاںیارسول اللہ فرمایا‘ پھر نہ کیجیو مگر فاتـحة الکتاب تحقیق نماز نہیں ہوتی اس کی جس نے نہ پڑھا اس کو.احمد نے اس حدیث کو بیان کیا اور بخاری نے اس کی تصحیح کی.ابن حباّن اور حاکم اور بیہقی نے صحیح کہا.دارقطنی نے کہا کہ اس کے سبھی رِجَال ثِقَات ہیں.ثقہ کی زیادتی آپ کے نزدیک مقبول ہے.اب اس زیادت کو خواہ مخواہ ماننا پڑا.

Page 70

آٹھواں اعتراض عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهٗ قَالَ: «مَنْ صَلَّى رَكْعَةً فَلَمْ يَقْرَأْ فِيْهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا وَرَاءَ الْإِمَامِ».ترجمہ.جابر سے وہ نبی صلعم سے.فرمایا جس نے پڑھی ایک رکعت اور نہ پڑھی اس میں اَلْـحَمْد تو اس نے نماز ہی نہ پڑھی مگر امام کے پیچھے.اس حدیث میں امام کے پیچھے اَلْـحَمْدُسے ممانعت ہے.جواب اوّل.امام مالک اور ترمذی نے اس حدیث کو موقوف روایت کہا ہے نہ مرفوع.دوسرا جواب.دارقطنی نے کہا اس کا راوی یحی بن سلام ضعیف ہے اور عبد البرّ نے کہا ہے اس حدیث کو مرفوع کہنا صحیح نہیں بلکہ جابر پر موقوف ہے.تیسرا جواب.مرفوع ثابت نہیں جیسے گذرا اور موقوف کی حجیت ممنوع ہے.چوتھا جواب.یہ اثر آثار متخالفہ میں سے ہے اور آثار متخالفہ جیسے آتا ہے حجت نہیں ہوتی.پانچواں جواب.استثنا آپ کے مذہب میں صدر کے مخالف حکم کا مثبت نہیں پس مقتدی کو قراءت فاتحہ سے منع کا مثبت نہ ہوگا.دیکھو توضیح والا کہتا ہے.عِنْدَنَا … أَنَّ الْاِسْتِثْنَاءَ لَا يُثْبِتُ حُكْمًا مُخَالِفًا لِحُكْمِ الصَّدْرِ بِخِلَافِ التَّخْصِيْصِ.تلویح.{ FR 4966 }؂ أَنَّ الْاِسْتِثْنَاءَ مِنَ الْإِثْبَاتِ هَلْ هُوَ نَفْيٌ أَمْ لَا فَعِنْدَ الشَّافِعِيِّ نَفْيٌ إلٰى أَنْ قَالَ وَعِنْدَ أَبِيْ حَنِيْفَةَ لَا.اِنْتَهٰى.ارشاد.{ FR 4967 }؂ اَلِاسْتِثْنَاءُ مِنَ النَّفْيِ فَذَهَبَ الْجُمْهُورُ إِلٰى أَنَّهٗ إِثْبَاتٌ، وَذَهَبَتِ الْحَنَفِيَّةُ إِلٰى أَنَّ الْاِسْتِثْنَاءَ لَا يَكُونُ { FN 4966 } ؂ ہمارے نزدیک یہ بات ہے کہ تخصيص کے برعکس، استثناء کسی بنيادی حکم کے خلاف حکم ثابت نہيں کرتا.(التلويح على التوضيح، اَلْقِسْمُ الْأَوَّلُ مِنَ الْكِتَابِ فِي الْأَدِلَّةِ الشَّرْعِيَّةِ، اَلرُّكْنُ الثَّانِي فِي السُّنَّةِ، بَابُ الْبَيَانِ، فَصْلٌ فِي الِاسْتِثْنَاءِ) { FN 4967 }؂ استثناء ثابت شدہ احکام ميں نفی کرتا ہے يا نہيں؟ امام شافعی کے نزديک يہ نفی کرتا ہے اس تک جو اُس نے کہا.اور امام ابو حنيفہ کے نزديک يہ (حقیقی) نفی نہيں کرتا.

Page 71

إِثْبَاتًا.{ FR 4968 }؂ اور ہم لوگ اہل حدیث اگرچہ استثناء بخلاف حنفیہ مثبت حکم مانتے ہیں.اِلاَّ کہتے ہیں حدیث مرفوع صحیح نہیں اور موقوف مرفوع کے مقابلہ حجت نہیں.چھٹا جواب.اس موقوف استثناء کا مدلول اشارة ہے اور ابوہریرہ کا نہایت قوی اثر جو جواب میں إِنِّيْ أَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ{ FR 4969 }؂کے.ابوہریرة نے فرمایا.اِقْرَأْ بِـھَا الخ { FR 4970 }؂ اور آثار مثبت فاتحہ عبارة ہیں اور اشارہ عبارة کا مقابلہ نہیں کر سکتی.ساتواں جواب.استثناءکا مدلول اشارہ ہے اور احادیث مثبتہفاتحہ کی مرفوع منطوق کا مقابلہ نہیں کر سکتی.نواں اعتراض ابوسعید سے روایت ہے.لَاصَلوٰةَ اِلَّا بِفَاتِـحَةِ الْکِتَابِ اَوْ غَیْرِہَا.{ FR 4971 }؂ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے.فَاتحہ بِـخصوصیة فرض نہیں.جب فاتحہ فرض نہ ہوئی تو اس کا امام کے پیچھے پڑھنا کیسے ضروری ہو گا.پہلا جواب.نَیْلُ الْاُوْطَارِ میں لکھا ہے.ابن سید الناس کہتے تھے معلوم نہیں ہوا کہ یہ لفظ کہاں سے آیا.دوسرا جواب.نَیْلُ الْاُوْطَارِ میں ہے.ابوسعید سے جیسے ابوداؤد میں ہے.ابوسعید کہتے تھے ہم حکم دیئے گئے اس بات کا کہ پڑھیں فاتـحة الکتاب اور مَا تَيَسَّرَ اور اسناد اس کا صحیح ہے اور رُواة اس کے ِثقات ہیں.{ FN 4968 }؂ نفی سے استثناء کرنے کے متعلق جمہور اس طرف گئے ہيں کہ یہ ثابت ہے اور حنفيوں کا موقف ہے کہ یہ استثناء ثابت نہيں ہے.(ارشاد الفحول، المقصد الرابع فی الأوامر والنواھی والعموم، الفصل الرابع فی الخاص والتخصیص والخصوص، المسألة التاسعة: الاستثناء من النفي والخلاف فيه) { FN 4969 }؂ میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں.{ FN 4970 }؂ اسے (اپنے دل میں) پڑھ لو.(القراءۃ خلف الإمام للبخاری) { FN 4971 }؂ سورہ فاتحہ یا کوئی اور سورۃ پڑھے بغير نماز نہيں.

Page 72

دسواں اعتراض احمد اور ابوداؤد نے ابوہریرہ سے روایت کیا.نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم کیا اس کو یہ کہ نکل کرپکار دے لَاصَلوٰةَ اِلَّابِقِرَا ئَ ةِ فَاتِـحَةِ الْکِتَابِ فَـمَا زَادَ.{ FR 4972 }؂ یہاں زیادت کا حکم ہے پس صرف فاتحہ پڑھنے والوں پر الزام ہے.جواب ۱.ابوداؤد کے طریق میں جعفربن میمون ہے.نسائی نے کہا لَیْسَ بِثِقَةٍ.{ FR 4973 }؂ ا حمدنے کہا لَیْسَ بِقَوِیٍّ { FR 4974 }؂ ابن عدی نے کہا یُکْتَبُ حَدِیْثُہٗ فِی الضُّعَفَآءِ { FR 4975 }؂ اور عبادہ کی شاہد حدیث جو مسلم اور ابوداؤد اور ابن حباّن میں ہے.بخاری نے جزء القراء ة میں اس کو معلول کہا ہے.جواب ۲.مانا کہ فَصَاعِدًا والی حدیث صحیح ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ یہ دفع تو ہم کے واسطے ہے کوئی سمجھ نہ لے کہ حکم قرا ء ت فاتحہ ہی پر محصور ہے.امام بخاری نے جزء القراءت میں کہا ہے قولہ فَصَاعِدًا نَظِیْرُ قَوْلِہٖ تُقْطَعُ الْیَدُ فِیْ رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعِدًا.{ FR 4976 }؂ { FN 4972 }؂ سورۂ فاتحہ کی قراءت کے بغیر نماز نہیں اور جو (اس سے) زیادہ ہے (اس کے بغیر بھی نہیں.) (سنن أبی داود، کتاب الصلاة، أبواب تفریع استفتاح الصلاة، بَابُ مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ) { FN 4973 }؂ وہ ثقہ نہیں.{ FN 4974 }؂ وہ (روایت میں) مضبوط نہیں.{ FN 4975 }؂ اس کی روایات ضعیف راویان میں درج کی جاتی ہیں.{ FN 4976 }؂ (سورۂ فاتحہ سے) کچھ زائد (پڑھنے کے حکم) کی طرح یہ قول بھی ہے کہ چوتھائی دینار یا اس سے کچھ زائد (چُرانے) پر (بھی) ہاتھ کاٹا جائے.(نيل الأوطار، کتاب اللباس، أبواب صفة الصلاة، بَابُ وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ)

Page 73

جواب ۳.زیادت علی الفاتحہ کی فرضیت جناب عمر ؓ اور ابن عمرؓ اور عثمان بن ابی العاص کا مذہب ہے.آپ کے نزدیک قول صحابی حجت ہے.پس یہ حدیث مع آثار آپ پر الزام ہے.جواب ۴.وہ حدیثیں جن سے بخصوصیت مقتدی پر قرا ء ت فاتحہ کی فرضیت ثابت ہوتی ہے.ان میں صرف فاتحة الکتاب ہی کا ذکر ہے.مَا زَادَ عَلَی الْفَاتِـحَةِ کا ذکر نہیں.پس ہم مَا زَادَ عَلَی الْفَاتِـحَةِ کا حکم امام اور منفرد کے واسطے اگر سمجھ لیں اور احادیث مثبتہ صرف فاتحہ باعث تخصیص مان لیں تو آپ کا کوئی الزام ہم پر عائد نہیںہو سکتا.جواب۵.ہم کہتے ہیں.مَا زَادَ عَلَی الْفَاتِـحَةِ کا پڑھنا بالکل ممنوع نہیں.گیارہواں اعتراض قِرَائَ ةُ الْاِمَامِ لَہٗ قِرَا ءَ ةٌ پر صحابہ کا اجماع ہے اور فاتـحة الکتاب کا پڑھنا اس اجماع کے خلاف ہے.جواب اوّل.اگر یہ اجماع ہوتا تو شافعی جیسا صاحب مذہب اس اجماع پر مطلع نہ ہوتا.جواب دوم.صحابہ اور تابعین سے قراءت خلف الامام احسن وجوہ سے ثابت ہے پس اجماع نہ ہوا.سنیے بخاری نے کہا ہے.حَدَّثَنَا مُسَدَّ دٌ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيٰى عَنِ الْعَوَّامِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوْنَضْرَةَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْ رِيُّ عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فَقَالَ: بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ.{ FR 4977 }؂ { FN 4977 }؂ مسدّد نے ہم سے بیان کیا.انہوں نےکہا: یحيٰ نے ہمیں بتایا.انہوں نے عوام (بن حمزہ مازنی) سے روایت کی.انہوں نے کہا: ابونضرہ نے ہمیں بتایا.انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابو سعید خدریؓ سے امام کے پیچھے قراءت کرنے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: (امام کے پیچھے) سورۂ فاتحہ (پڑھو.) (القراءۃ خلف الإمام للبخاري، بَابُ هَلْ يُقْرَأُ بِأَكْثَرَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ خَلْفَ الْإِمَامِ)

Page 74

وَبِرِوَايَةٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَانَ يَقُولُ: لَا يَرْكَعَنَّ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، قَالَ الْبُخَارِیُّ: وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ ذَالِكَ{ FR 4978 }؂ (قَالَ الْبُخَارِيُّ :) قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنِ ابْنِ جُرَيْـجٍ عَنْ عَطَاءٍ قَالَ : «إِذَا كَانَ الْإِمَامُ يَجْهَرُ فَلْيُبَادِرْ بِقِرَاءَةِ أُمِّ الْقُرْآنِ.{ FR 4979 }؂ (قَالَ الْبُخَارِيُّ: )عَنْ أَبِي السَّائِبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَا يَقْرَأُ فِيْهَا بِأُمِّ الْكِتَابِ فَهِيَ خِدَاجٌ ، ثُمَّ هِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ ثَلَاثًا» قُلْتُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ: كَيْفَ أَصْنَعُ إِذَا كُنْتُ مَعَ الْإِمَامِ؟ وَهُوَ يَجْهَرُ بِالْقِرَاءَةِ قَالَ: وَيْلَكَ يَا فَارِسِيُّ، اقْرَأْ بِهَا فِيْ نَفْسِكَ فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ: «قُسِمَتِ الصَّلَاةُ.{ FR 4980 }؂ وقَالَ الْبُخَارِيُّ: عَنِ { FN 4978 }؂ اور ایک روایت میں ہے کہ عبد الرحمٰن بن ہرمز سے مروی ہے کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: تم میں سے کوئی رکوع نہ کرے جب تک کہ وہ سورۂ فاتحہ نہ پڑھ لے.(امام بخاریؒ نے) کہا: اور حضرت عائشہؓ بھی ایسا ہی فرماتی تھیں.(القراءۃ خلف الإمام للبخاري، بَابُ هَلْ يُقْرَأُ بِأَ كْثَرَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ خَلْفَ الْإِمَامِ) { FN 4979 } ؂ (امام بخاریؒ نے کہا:) عبد الرزاق نے ابن جریج سے روایت کرتے ہوئے بتایا کہ ابن جریج نے عطاء سے روایت کی.انہوں نے کہا: جب امام قراءت بالجہر کرے تو اُمّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) جلدی جلدی پڑھنی چاہیئے.(القراءۃ خلف الإمام للبخاري، بَابُ هَلْ يُقْرَأُ بِأَ كْثَرَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ خَلْفَ الْإِمَامِ) { FN 4980 }؂ (امام بخاریؒ نے کہا:) ابو سائب سے روایت ہے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی.انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز پڑھی اور اس میں اُمّ الکتاب (یعنی سورۂ فاتحہ) نہ پڑھی تو وہ (نماز) ناقص ہے، پھر (فرمایا) وہ (نماز) ناقص ہے.تین بار فرمایا کہ وہ نامکمل ہے.میں نے کہا: ابوہریرہؓ! جب میں امام کے ساتھ ہوں اور وہ قراءت بالجہر کر رہا ہو تو (اس پر عمل) کیسے کروں؟ انہوں نے کہا: اے فارسی! تجھ پر افسوس، اسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر.کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے.آپؐ فرماتے تھے: اللہ تعالیٰ نے کہا کہ نماز (میرے اور بندے کے درمیان) تقسیم کی گئی ہے.(القراءۃ خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ)

Page 75

الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مِثْلَهٗ.{ FR 4981 }؂ قَالَ الْبُخَارِيُّ: عَنْ أَبِي الْمُغِيرَةِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ.… عَنْ أَبِي سِنَانٍ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْهُذَيْلِ قَالَ: قُلْتُ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ قَالَ: نَعَمْ.{ FR 4982 }؂ قَالَ الْبُخَارِيُّ: عَنِ ابْنِ أَبِيْ رَافِعٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ وَيُحِبُّ أَنْ يُقْرَأَ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ سُورَةٍ وَفِي الْأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ.{ FR 4983 }؂ وَقَالَ الْبُخَارِيُّ: عَنْ أَبِي مَرْيَمَ سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ «يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ.{ FR 4984 }؂ وَقَالَ الْبُخَارِيُّ: عَنْ سُفْيَانَ وَقَالَ حُذَيْفَةُ: يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ.{ FR 4985 }؂ حَدَّثَنَا أَبُوْ نَضْرَةَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا سَعِيدٍ عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فَقَالَ: فَاتِحَةَ { FN 4981 }؂ امام بخاریؒ نے کہا: علاء بن عبد الرحمٰن سے روایت ہے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہؓ سے ایسی ہی روایت کی.{ FN 4982 }؂ (امام بخاریؒ نے کہا:) ابومغیرہ سے روایت ہے، انہوں نے حضرت اُبَيّ بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ امام کے پیچھے (سورۂ فاتحہ) پڑھا کرتے تھے.(نیز) ابو سنان عبد اللہ بن ہذیل سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت اُبَيّ بن کعبؓ سے پوچھا: کیا میں امام کے پیچھے (سورۂ فاتحہ) پڑھوں؟ انہوں نے کہا: ہاں.(القراءۃ خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 4983 }؂ (امام بخاریؒ نے کہا:) ابن ابی رافع سے روایت ہے، انہوں نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ حکم دیتے تھے اور پسند فرماتے تھے کہ ظہر اور عصر کی نمازوں میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ اور ایک ایک سورۃ پڑھی جائے اور دوسری دو رکعتوں میں (صرف) سورہ فاتحہ پڑھی جائے.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 4984 }؂ (اور امام بخاریؒ نے کہا:)ابو مریم سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو امام کے پیچھے قراءت کرتے ہوئے سنا.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 4985 }؂ (اور امام بخاریؒ نے کہا:) سفیان سے روایت ہے اور حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ وہ امام کے پیچھے پڑھے.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ)

Page 76

الْكِتَابِ.{ FR 4986 }؂ وَ عَنْ مُجَاهِدٍ إِذَا نَسِيَ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ لَا تُعَدُّ تِلْكَ الرَّكْعَةُ.{ FR 4987 }؂ (وَقَالَ الْبُخَارِيُّ:) عَنْ مُجَاهِدٍ سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرٍو «يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ.{ FR 4988 }؂ و عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي الْأُولَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَتَيْنِ وَفِي الْأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ.{ FR 4989 }؂ و عَنْ.........عَبْدِ اللهِ بْنِ زُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثُمَّ هِيَ خِدَاجٌ».{ FR 4990 }؂ وعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ ‘ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَقْرَؤُونَ خَلْفِيْ؟ قَالُوا: نَعَمْ إِنَّا لَنَهُذُّ هَذًّا { FN 4986 }؂ ابونضرہ نے ہمیں بتایا.انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابو سعید خدریؓ سے امام کے پیچھے قراءت کرنے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: (امام کے پیچھے) سورۂ فاتحہ (پڑھو.) (القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 4987 }؂ مجاہد سے روایت ہے کہ جب کوئی سورۂ فاتحہ پڑھنا بھول جائے تو وہ رکعت شمار نہیں ہوتی.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 4988 }؂ (اور امام بخاریؒ نے کہا:) مجاہد سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمروؓ کو امام کے پیچھے قراءت کرتے ہوئے سنا.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 4989 }؂ حضرت عبد اللہ بن مغفلؓ سے روایت ہے کہ وہ امام کے پیچھے ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور کوئی دو سورتیں پڑھا کرتے تھے اور دوسری دو رکعتوں میں (صرف) سورہ فاتحہ پڑھتے تھے.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 4990 }؂ یحيٰ بن عباد بن عبد اللہ بن زبیر سے روایت ہے، انہوں نے اپنے والد (عباد) سے، ان کے والد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی.انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے نماز پڑھی اور اس میں اُمّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) نہ پڑھی تو وہ (نماز) ناقص ہے، وہ (نماز) نامکمل ہے.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوْبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ)

Page 77

قَالَ: فَلَا تَفْعَلُوْا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ.{ FR 4991 }؂ وَ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةً جَهَرَ فِيهَا فَقَرَأَ خَلْفَهٗ رَجُلٌ فَقَالَ: «لَا يَقْرَأَنَّ أَحَدُكُمْ وَالْإِمَامُ يَقْرَأُ إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ{ FR 4992 }؂ وَكَانَ عُبَادَةُ يَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَأَبُو نُعَيْمٍ يَجْهَرُ.{ FR 4993 }؂ قَالَ الْبُخَارِيُّ: وَقَالَ ابْنُ خُثَيْمٍ: قُلْتُ لِسَعِيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ: " أَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ قَالَ: نَعَمْ، وَإِنْ كُنْتَ تَسْمَعُ قِرَاءَتَهٗ.{ FR 4994 }؂ قَالَ الْبُخَارِيُّ قَالَ لَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سُلَيْمَانَ الشَّيْبَانِيِّ عَنْ جَوَّابِ التَّمِيمِيِّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ شَرِيْكٍ قَالَ: سَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ: أَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: وَإِنْ قَرَأْتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينِ قَالَ: وَإِنْ قَرَأْتُ.{ FR 4995 }؂ { FN 4991 }؂ عمرو بن شعیب سے روایت ہے وہ اپنے والد سے، وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں.انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میرے پیچھے قراءت کرتے ہو؟صحابہؓ نے عرض کیا: جی ہاں، ہم جلدی جلدی کر لیتے ہیں.آپؐ نے فرمایا: ام القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) کے سوا ایسا نہ کیا کرو.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 4992 }؂ اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز پڑھائی، جس میں آپؐ نے قراءت بالجہر کی تو ایک شخص نے آپؐ کے پیچھے قراءت کی.پھر آپؐ نے فرمایا: جب امام قراءت کر رہا ہو تو تم میں سے کوئی (بھی) قراءت نہ کرے سوائے اُمّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) کے.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 4993 }؂ اور حضرت عبادہؓ امّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) پڑھ رہے تھے جبکہ ابو نعیم (امامت کرواتے ہوئے) قراءت بالجہر کررہے تھے.{ FN 4994 }؂ (امام بخاریؒ نے بتایاکہ) اور ابن خثیم نے کہا: میں نے سعید بن جبیر سے پوچھا: کیا میں امام کے پیچھے قراءت کروں؟ انہوں نے کہا: ہاں، اگرچہ تم اس کی قراءت (بھی) سن رہے ہو.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 4995 }؂ امام بخاریؒ نے بتایا کہ اور محمد بن یوسف نے ہمیں کہا کہ سفیان نے ہم سے بیان کیا ، انہوں نے سلیمان شیبانی سے، سلیمان نے جوّاب تمیمی سے، انہوں نے یزید بن شریک سے روایت کی.انہوں نے کہا: میں نے حضرت عمر بن خطابؓ سے پوچھا: کیا میں امام کے پیچھے قراءت کروں؟ انہوں نے کہا: ہاں.میں نے عرض کیا: یا امیر المومنین! اگر آپ قراءت کررہے ہوں تو بھی؟ انہوں نے کہا: خواہ میں بھی قراءت کررہا ہوں.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ)

Page 78

قَالَ الْبُخَارِيُّ قَالَ مُجَاهِدٌ: إِذَا لَمْ يَقْرَأْ خَلْفَ الْإِمَامِ أَعَادَ الصَّلَاةَ وَكَذَ الِكَ قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الزُّبَيْرِ.{ FR 4597 }؂ مولوی صاحب سنئے.اس قدر اثار ایک ہی کتاب سے نقل کر دیئے.صحابہ اور تابعین کے آثار میں امام اَئـِمة المسلمین من الفقہاء و المحدثین کا ایک اور پیار اقول نقل کرنے کو جی چاہتا ہے وہ بھی سن لیجیے.بخاری صاحب فرماتے ہیں.وَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: اقْرَأْ خَلْفَ الْإِمَامِ.قُلْتُ: وَإِنْ قَرَأْتَ، قَالَ: نَعَمْ، وَإِنْ قَرَأْتُ.وَكَذَالِكَ قَالَ قَالَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وَحُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ وَعُبَادَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ.وَيُذْكَرُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ وَعِدَّةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ ذَالِكَ.وَقَالَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ: كَانَ رِجَالٌ أَئِمَّةٌ يَقْرَؤُوْنَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَقَالَ أَبُو مَرْيَمَ: سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ وَقَالَ أَبُو وَائِلٍ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنْصِتْ لِلْإِمَامِ وَقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: «دَلَّ أَنَّ هٰذَا فِي الْجَهْرِ، وَإِنَّمَا يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيمَا سَكَتَ الْإِمَامُ.وَقَالَ الْحَسَنُ وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَمَيْمُونُ بْنُ مِهْرَانَ، وَمَا لَاأَحْصَى مِنَ التَّابِعِيْنَ، وَأَهْلِ الْعِلْمِ: إِنَّهٗ يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ وَإِنْ جَهَرَ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا تَأْمُرُ بِالْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ» وَقَالَ خَلَّالٌ: حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي الْمُغِيْرَةِ، قَالَ: سَأَلْتُ حَمَّادًا عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي الْأُوْلٰى { FN 4597 } ؂ (امام بخاریؒ نے کہا:) مجاہد نے بتایا کہ جب کوئی امام کے پیچھے (سورۂ فاتحہ) نہ پڑھے تو نماز کو دُہرائے.اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے بھی ایسا ہی کہا.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ)

Page 79

وَالْعَصْرِ، فَقَالَ: كَانَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ يَقْرَأُ فَقُلْتُ: أَيُّ ذَالِكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ فَقَالَ: أَنْ تَقْرَأَ ".انتہٰی.{ FR 4996 }؂ یہاں مَالَااُحْصٰی مِنَ التَّابِعِیْنَ وَ اَہْلِ الْعِلْمِ اور اپنے اجماع کا موازنہ فرمائیے اور آیت شریفہ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ اور اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌ کا اس وقت تدبر کیجیے.آپ کے صاحبِ کافی کا قول بھی ان آثار سے کذب بحث ثابت ہو گیا.جس میں وہ فرماتے ہیں.مِنْھُمُ الْمُرْتَضٰیؓ.کیونکہ مرتضیٰ ؓ کا خلف الامام قراءت پڑھنا ثابت ہے.مولوی صاحب.آپ کے بھائی بندوں نے منع آثار کے اکٹھے کرنے میں بڑا زور مارا ہے.آپ کو محدّثین اور فقہا کے بیان کئے ہوئے آثار میں جستجو کرنے کی سبکدوشی کے واسطے فقیر ہی عرض کرتا ہے.{ FN 4996 }؂ اور حضرت عمر بن خطابؓ نے کہا: امام کے پیچھے (بھی) قراءت کرو.(راوی نے کہا:) میں نے عرض کیا: اور اگر آپؐ قراءت کررہے ہوں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں اگر میں بھی قراءت کررہا ہوں.اور حضرت اُبَيّ بن کعب، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت عبادہ رضی اللہ عنہم نے بھی ایسا ہی کہا.اور حضرت علی بن ابی طالبؓ، حضرت عبد اللہ بن عمروؓ، حضرت ابوسعید خدریؓ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد صحابہ سے بھی ایسا ہی بیان کیا جاتا ہے.اور قاسم بن محمد نے کہا: بہت سے لوگ جو اَئمہ تھے وہ امام کے پیچھے قراءت کیا کرتے تھے.اور ابومریم نے کہا: میں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو امام کے پیچھے قراءت کرتے ہوئے سنا.اور ابووائل نے حضرت ابن مسعودؓ سے روایت کرتے ہوئے کہا: امام کی خاطر خاموشی اختیار کرو.اور ابن مبارک نے کہا: یہ بات جہری نمازوں پر اطلاق پاتی ہے.اور جن میں امام خاموش ہو، صرف انہی میں امام کے پیچھے قراءت کی جائے.اور حسن (بصری)، سعید بن جبیر، میمون بن مہران اور بے شمار تابعین اور اہل علم نے کہا: (مقتدی) امام کے پیچھے قراءت کرے خواہ وہ جہراً پڑھا رہا ہو.اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا امام کے پیچھے قراءت کا حکم دیا کرتی تھی.اور خلال نے کہا کہ حنظلہ بن ابی مغیرہ نے ہم سے بیان کیا.انہوں نے کہا: میں نے حماد سے پہلی نماز اور عصر کی نماز میں قراءت خلف الامام کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: سعید بن جبیر پڑھا کرتے تھے.پھر میں نے پوچھا: آپ کو کیا طریق پسند ہے؟ انہوں نے کہا: تیرا پڑھنا.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ)

Page 80

پہلا.بخاری نے ابوسلمہ سے یُرْوٰی کے لفظ سے بیان کیا.صَلَّى عُمَرُ ۲ وَلَمْ يَقْرَأْ فَلَمْ يَعُدْهُ.{ FR 4997 }؂ دار۲قطنی نے اور بخاری نے علی مرتضیٰ ؓ سے روایت کیا مختار ابن عبد اللہ ابولیلیٰ کے واسطے سے اور اس نے اپنے باپ سے اور اس نے علی مرتضیؓ سے.مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الْإِمَامِ فَقَدْ أَخْطَأَ الْفِطْرَةَ اور ابن ابی شیبة نے جا۳بر سےقَالَ لَا يُقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ، لَا إِنْ جَھَرَ وَلَا إِنْ أَسَرَّ، مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيْهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَّكُونَ وَرَاءَ الإِمَامِ، قَالَ التِّرْمُذِيُّ هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.{ FR 4605 }؂ ۴.عبد بن حمید اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم اور ابوشیخ نے جیسے سیوطی نے.درِّمنثور میں ہے کہاہے.ابن مسعود نے اپنے اصحاب کے ساتھ نماز پڑھی.فَسَمِــعَ نَاسًا يَقْرَؤُوْنَ خَلْفَهُ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: أما آن لكم أَن تفهموا أما آن لكم أَن تعقلوا {وَإِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَأَنْصِتُوْا} كَمَا أَمَرَكُمُ اللهُ.{ FR 5042 }؂ ابن۵ عمر سے مالک نے مؤطا میں کہا عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهٗ كَانَ إِذَا { FN 4997 }؂ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی اور قراءت نہیں کی.پھر آپؓ نے اس (نماز) کو نہیں دُہرایا.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ هَلْ يُقْرَأُ بِأَكْثَرَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ خَلْفَ الْإِمَامِ، صفحہ۵۸) { FN 4605 } ؂ جس نے امام کے پیچھے قراءت کی اس نے فطرت کی خلاف ورزی کی.ابن ابی شیبہ نے جابر سے کہا.امام کے پیچھے قراءت نہ کی جائے، اگر وہ (نماز) جہراً پڑھے تو بھی نہیں اور اگر وہ سِرًّا پڑھے تو بھی نہیں.جس (شخص) نے ایک رکعت (ایسے) پڑھی کہ اُس میں اُمّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) نہ پڑھی تو اُس نے نماز ہی نہیں پڑھی، سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو.امام ترمذیؒ نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ - صفحہ ۱۳) (سنن الدار قطني، کتاب الصلاۃ، بَابُ ذِكْرِ قَوْلِهٖ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ كَانَ لَهٗ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهٗ قِرَاءَةٌ ) { FN 5042 }؂ پھر انہوں نے کچھ لوگوں کو اپنے پیچھے قراءت کرتے ہوئے سنا.جب وہ (نماز سے) فارغ ہوئے تو فرمایا: کیا تم پر (ابھی) وقت نہیں آیا کہ سمجھو، کیا تم پر (ابھی) وقت نہیں آیا کہ عقل سے کام لو.یعنی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموشی اختیار کرو.(الدرّ المنثور، تفسیر سورة الأعراف، آیت: وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَأَنْصِتُوا)

Page 81

سُئِلَ هَلْ يَقْرَأُ أَحَدٌ مَعَ الإِمَامِ؟ قَالَ إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ مَعَ الإِمَامِ فَحَسْبُهٗ قِرَاءَةُ الإِمَامِ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا يَقْرَأُ.{ FR 4606 }؂ وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنَّ سَالِمًا قَالَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَنْصِتُ لِلْإِمَامِ فِيْمَا جَهَرَ فِيْهِ وَلَا يَقْرَأُ مَعَهُ.{ FR 5581 }؂(مؤطا کی تقیید اسی سے ہے) مؤطا محمد میں ابن عمر سے ہے مَنْ صَلّٰی خَلْفَ الْاِمَامِ کَفَتْہُ قِرَا ئَتُہٗ { FR 5549 }؂اور ابن۶ مسعود سے تَکْفِیْکَ قِرَا ءَ ةُ الْاِمَامِ{ FR 5550 }؂ اور مؤطا میں ہے.امام محمد سے إِنْ تَرَكْتَ فَقَدْ تَرَكَهٗ نَاسٌ يُقْتَدٰى بِـهِمْ وَإِنْ قَرَأْتَ فَقَدْ قَرَأَهُ نَاسٌ يُقْتَدٰى بِـهِمْ.{ FR 5043 }؂ (اور زید۷بن ثابت سے ہے.بخاری نے کہا ہے.عمروبن موسیٰ بن سعد نے زید بن ثابت سے روایت کیا مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الإِمَامِ فَلَا صَلَاةَ لَهٗ { FR 5555 }؂ اور مسلم میں ہے.عطابن یسار سے اُس نے زید سے پوچھا امام کے ساتھ قرا ء ت کا کیا حکم ہے.کہا لَا قِرَاءَةَ مَعَ الْإِمَامِ فِيْ شَيْءٍ.{ FR 5556 }؂ اور عبد اللہ۸ بن عباس سے ابوحمزہ روایت کرتا ہے جیسے طحاوی نے بیان کیا.قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ أَقْرَأُ وَالْإِمَامُ بَيْنَ يَدَيَّ؟ فَقَالَ لَا.{ FR 5557 }؂ اور طحاوی نے کثیر بن مُرَّہ سے اس نے ابود۹رداء سے روایت { FN 4606 }؂ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے جب پوچھا جاتا کہ کیا کوئی امام کے ساتھ قراءت کرے؟ تو وہ کہتے: جب تم میں سے کوئی امام کے ساتھ نماز پڑھے تو امام کی قراءت اُس کے لیے کافی ہے.اور حضرت ابن عمرؓ (امام کے ساتھ) قراءت نہیں کرتے تھے.(موطأ إمام مالك، ابواب الصلاة، باب افتتاح الصلاة) { FN 5581 }؂ اور عبد الرزاق نے کہا کہ سالم نے بتایا: حضرت ابن عمرؓ امام کی خاطر اُن (نمازوں) میں جن میں وہ قراءت بالجہر کرتا، خاموش رہتے تھے اور آپؓ اُس کے ساتھ قراءت نہیں کرتے تھے.{ FN 5549 }؂ جس نے امام کے پیچھے پڑھی اس کی (امام کی) قراءت اس کے لئے کافی ہو گی.{ FN 5550 }؂ امام کی قراءت تیرے لئے کافی ہے.{ FN 5043 }؂ اگر تم نے (قراءت خلف الامام) چھوڑی تو ایسے لوگوں نے بھی اسے چھوڑا ہے جن کی پیروی کی جاتی ہے.اور اگر تو نے قراءت (خلف الامام) کی تو ایسے لوگوں نے بھی یہ قراءت کی ہے جن کی پیروی کی جاتی ہے.(موطأ امام مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني، ابواب الصلاة، باب افتتاح الصلاة) { FN 5555 }؂ جس نے امام کے پیچھے قراءت کی تو اس کی نماز (ادا) نہیں ہوتی.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ- صفحہ ۱۴) { FN 5556 }؂ امام کے ساتھ کچھ بھی قراءت کرنا درست نہیں.(مسلم، کتاب المساجد، باب سجود التلاوة) { FN 5557 }؂ میں نے حضرت ابن عباس سے پوچھا: کیا میں قراءت کروں جبکہ امام میرے آگے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں.(شرح معاني الآثار، کتاب الصلاة، باب القراءة خلف الإمام)

Page 82

کیا.أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ فِيْ كُلِّ الصَّلَاةِ قُرْآنٌ؟ قَالَ نَعَمْ فَقَالَ رَجُلٌ مِّنَ الْأَنْصَارِ وَجَبَتْ قَالَ وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ أَرَى أَنَّ الْإِمَامَ إِذَا أَمَّ الْقَوْمَ فَقَدْ كَفَاهُمْ.{ FR 5558 }؂ یہ آٹھ نو آثار ہیں جو اس مسئلہ میں زیادہ تر مشہور ہیں.وعید کے آثار ہم نے علیحدہ رکھے ہیں وہ اس کے بعد ذکر ہوں گے اگر بفرض محال اور آثار کا وجود ہم مان لیں گے تو ان آثار کے حالات اور جوابات پر ان کے حالات اور جوابات کو قیاس کر لینا.۱پہلا اثر جناب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے.بخاری نے کہا ہے وَيُرْوَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَهُوَ مُنْقَطِعٌ لَا يُثْبَتُ وَيُرْوَى عَنِ الْأَشْعَرِيِّ عَنْ عُمَرَ أَنَّهٗ أَعَادَ.{ FR 4663 }؂ اور علی۲ مرتضیٰ کا اثر دارقطنی نے بیان کیا اور زیلعی حنفی نے کہا ہے رَوَاهُ ابْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ … وَقَالَ (الدَّارَقُطْنِيُّ): لَا يَصِحُّ وَقَالَ ابْنُ حَبَّانَ … بَاطِلٌ وَيَكْفِيْ فِيْ بُطْلَانِهٖ إجْمَاعُ الْمُسْلِمِينَ عَلٰى خَلَافِهٖ....… وَابْنُ أَبِي لَيْلَى … مَجْهُولٌ.{ FR 4664 } ؂ اور امام بخاری نے فرمایا ہے اس کا راوی مختار معلوم نہیں ہوتا کون ہے اور معلوم نہیں ہوتاکہ اس نے اپنے باپ سے سنا یا نہ اور اس کے باپ نے علی مرتضیٰ ؓ سے سنا ہے یا { FN 5558 }؂ کہ ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہر نماز میں قرآن (کی قراءت) ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں.پھر انصار میں سے ایک شخص نے کہا: یہ (قراءت تو) واجب ہوگئی.راوی نے بیان کیا کہ حضرت ابودرداءؓ نے کہا: میرا خیال ہے کہ امام جب لوگوں کی امامت کرواتا ہے تو (اُس کا پڑھنا) اُن کے لیے کافی ہوجاتا ہے.(شرح معاني الآثار، کتاب الصلاة، باب القراءة خلف الإمام) { FN 4663 } ؂ ابوسلمہ سے بیان کیا جاتا ہے.اور یہ (روایت) منقطع ہے ثابت نہیں ہوتی.اور اشعری کی حضرت عمرؓ سے روایت بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے (نماز) دُہرائی تھی.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ هَلْ يُقْرَأُ بِأَكْثَرَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ خَلْفَ الْإِمَامِ، صفحہ۵۸) ؂ ابن ابی شیبہ اور عبد الرزاق نے اسے روایت کیا.اور دارقطنی نے کہا: اس کی سند صحیح نہیں.اور ابن حَبَّان نے کہا: (یہ سند) باطل ہے، اور اس کے خلاف مسلمانوں کا اِجماع ہونا ہی اس کے باطل ہونے پر کافی دلیل ہے.اور (عبد اللہ) بن ابی لیلیٰ مجہول ہے.(نصب الراية، کتاب الصلاة، فصل فی القراءة فتح القدیر شرح الھدایة لابن الھمام، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فصل فی القراءة)

Page 83

نہیں وَلَا يَحْتَجُّ أَهْلُ الْحَدِيثِ بِمِثْلِهٖ.{ FR 5054 }؂ پھر بخاری نے کہا ہے علی مرتضیٰؓ کا وہی اثر اوّل اور صحیح ہے جس کو زُہری نے ابن ابی رافع سے اور اس نے علی مرتضیٰ ؓ سے روایت کیا ہے.اَنَّهٗ كَانَ يَأْمُرُ وَيُحِبُّ أَنْ يُقْرَأَ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَسُورَةٍ سُورَةٍ وَفِي الْأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ.{ FR 5055 }؂ اور جناب امیر کے اس اثر کی نسبت جس میں ابواسحاق نے حارث سے روایت کیا ہے.سُئِلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُ عَمَّنْ لَّمْ يَقْرَأْ، فَقَالَ: أَتِمَّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُوْدَ وَقُضِيَتْ صَلَاتُكَ.{ FR 5056 }؂ گذارش ہے کہ بخاری نے کہا ہے شعبہ کہتا ہے ابواسحاق نے حارث سے کل چار ہی حدیثیں سنیں اور یہ ان میں نہیں اور یہ اثر حجت کے قابل نہیں انتہٰی.ترجمہ قول البخاری.جا۳بر کی اثر پر اوّل تو حنفیوں کو خود ہی کلام ہے اس لئے کہ فرضوں کی کل رکعتوں میں قرا ءت ضروری نہیں سمجھتے اور اثر میں ہر رکعت میں الحمد پڑھنے کا حکم ہے.دوم.جابر کا فعل خود مخالف ہے.ابن ماجہ نے اپنی سنن میں لکھا ہے.عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ كُنَّا نَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ وَفِي الْأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ.{ FR 5057 }؂ تیسرے بخاری نے روایت کیا ہے { FN 5054 }؂ اور اہل حدیث اس جیسی روایت کو حجت نہیں بناتے.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 5055 }؂ کہ وہ حکم دیتے تھے اور پسند فرماتے تھے کہ ظہر اور عصر (کی نمازوں) میں امام کے پیچھے (پہلی دو رکعات میں) سورۂ فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھی جائے اور دوسری دو (رکعات) میں (صرف) سورۂ فاتحہ پڑھی جائے.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 5056 } ؂ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے قراءت نہ کی، تو آپؓ نے فرمایا: رکوع اور سجدے کو پورا کرو ، تمہاری نماز ادا ہوجائے گی.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ هَلْ يُقْرَأُ بِأَكْثَرَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ خَلْفَ الْإِمَامِ) { FN 5057 }؂ حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے.انہوں نے کہا: ہم ظہر اور عصر (کی نمازوں) میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعات میں سورۂ فاتحہ اور کوئی ایک سورت پڑھا کرتے تھے اور دوسری دو (رکعات) میں (صرف) سورۂ فاتحہ پڑھتے تھے.(سنن ابن ماجة، کتاب إقامة الصلاة، باب القراءة خلف الإمام)

Page 84

عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَوْلٰى جَابِرِ.۴ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ لِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: اقْرَأْ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ.{ FR 5059 }؂ اور ابن مسعود.۵سے ثبوت قَرَءْتُ خَلْفَ الْاِمَامِ اوپر گذر چکا.اور ابن عمرو.۶ کی اثر کی نسبت (قَالَ الْبُخَارِيُّ) حَدَّثَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ بِمَكَّةَ أَقْرَأُ فِي الصَّلَاةِ قَالَ: إِنِّي لَأَسْتَحْيِیْ مِنْ رَبِّ هَذِهِ الْبِنْيَةِ أَنْ أُصَلِّيَ صَلَاةً لَا أَقْرَأُ فِيْهَا وَلَوْ بِأُمِّ الْكِتَابِ.{ FR 5060 }؂ وَعَنْ يَحْيٰى … (سُئِلَ) ابْنُ عُمَرَ عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فَقَالَ: مَا كَانُوْا يَرَوْنَ بَأْسًا أَنْ يَّقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِي نَفْسِهٖ.{ FR 4665 }؂ اور زید.۷بن ثابت کی اثر پر بخاری نے کہا ہے لَا يُعْرَفُ لِهٰذَا الْإِسْنَادِ سَمَاعَ بَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ وَلَا يَصِحُّ مِثْلُهٗ.{ FR 5061 }؂ ابودردا کی اثر پر خود ابودردا.۸ کا قول کافی ہے کہ وہ کہتا ہے أَرَیٰ اور اپنے خیال کو اپنی ہی طرف منسوب کر کے مرفوع نہیں کرتا اور اس کی اَرَیٰ کے مقابلہ میں عبادہ بن ثابت کا اثر سنئے محمود بن ربیع نے بیان کیا عبادہ سے سَأَلْتُهُ عَنْ رَجُلٍ نَسِيَ الْقِرَاءَةَ قَالَ: أَرَىٰ يَعُودُ لِصَلَاتِهٖ وَ إِنْ ذَكَرَ ذٰلِكَ وَهُوَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ وَلَا أَرَىٰ إِلَّا أَنْ يَّعُوْدَ { FN 5059 }؂ زُہری سے روایت ہے.انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ کے آزاد کردہ غلام سے روایت کی.(انہوں نے کہا:) مجھے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ظہراور عصر میں (امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ) پڑھا کرو.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 5060 }؂ (امام بخاریؒ نے کہا:) ابوالعالیہ نے ہم سے بیان کیا کہ میں نے حضرت ابن عمرؓ سے مکہ میں پوچھا: کیا میں نماز میں قراءت کروں؟ انہوں نے فرمایا: میں تو اس گھر کے ربّ سے حیا کرتا ہوں کہ میں کوئی نماز پڑھوں اور اس میں قراءت نہ کروں اگرچہ سورۂ فاتحہ ہی ہو.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 4665 }؂ اور یحيٰ …… سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمرؓ سے امام کے پیچھے قراءت کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ (یعنی صحابہ) اپنے دل میں سورۂ فاتحہ پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 5061 }؂ اس سند کے راویوں کے ایک دوسرے سے سماع کا علم نہیں ہوتا.اور ایسی روایت صحیح نہیں ہوتی.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ)

Page 85

لِصَلَاتِهِ.{ FR 5062 }؂ اب رہا عبد اللہ بن.۹ عباس کا اثر اس کے جواب میں بخاری صاحب فرماتے ہیں.قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُجَاهِدٌ: لَيْسَ أَحَدٌ بَعْدَ النَّبِيِّ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) إِلَّا يُؤْخَذُ مِنْ قَوْلِهٖ وَيُتْرَكُ إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.{ FR 5063 }؂ یہ حال آپ کے ان آثار کا ہے جن کے بھروسے آپ لوگوں نے نصوص صحیحہ مرفوعہ کو چھوڑا اور شروح و حواشی میں بڑے شدومد کے ساتھ ان سے استدلال پکڑا.ان کے ماوراء اگر آپ لوگ کچھ اور آثار ثابت کردکھلائیں گے تو اس وقت آپ دیکھیں گے.دوسرا جواب یہ آثار جن سے آپ لوگ عمل بالحدیث و الوں پر ملامت کی تلوار کھینچ رہے ہیں ایسے ہیں جیسے ان کا حال آپ کو عرض کیا.اب ان کے مقابلہ میں جو آثار ہم نے بیان کئے ہیں.جیسے اثر قراءت خلف الامام کا حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ اور عبادہؓ اور ابوہریرةؓ عائشہؓ اور ابوسعیدؓ اور ابی بن کعبؓ اور حذیفہؓ اور عبد اللہ بن عمروؓ وغیرہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے انصاف سے دیکھو اور مقابلہ کرو کون سے آثار کو ترجیح ہے.تیسرا جواب.آپ کے مفید مطلب آثار ثابت نہیں اگر مان لیں کہ ثابت ہیں تو آثار مثبتہ قراءت فاتحة الکتاب کے متعارض ہوں گے اور آثار معارضہ حجت نہیں.اپنا اصول کھول کر دیکھو.چوتھا جواب.اکثر ان آثار سے جن کو آپ لوگ بیان کرتے ہیں سوائے آثار وعید جن کا بیان آگے آتا ہے انشاء اللہ تعالیٰ منع نکلتے ہی نہیں بلکہ کفایت نکلتے ہیں اور وہ آپ کا مدعا نہیں.پانچواں جواب.مطلق آثار ہی کی حجت خیر منع میں ہے یہ مسئلہ نہ مبین اور مبرہن.چھٹا جواب.آثار صحابہ کرام مرفوع کے مقابلے حجت نہیں اور فاتحة الکتاب خلف الامام کا { FN 5062 }؂ کہ میں نے آنحضورصلی اللہ علیہ و سلم سے اُس شخص کے متعلق پوچھا جو (نماز میں ) قراءت کرنا بھول جائے.آپؐ نے فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ وہ اپنی نماز دُہرائے اور اگر اُسے دوسری رکعت میں ہوتے ہوئے یاد آجائے تو بھی میری یہی رائے ہے کہ وہ اپنی نماز دوبارہ پڑھے.(القراءة خلف الإمام للبخاري) { FN 5063 }؂ حضرت ابن عباسؓ اور مجاہد نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس کے قول کی وجہ سے کچھ اختیار کیا جائے اور چھوڑا جائے، سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے (قول کے سبب.) (القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ)

Page 86

مسئلہ مرفوع حدیث سے فقیر ثابت کر چکا ہے.ساتواں جواب.اہل حدیث نے بفضل الٰہی.حدیث منع قراءت خلف الامام اور آیت شریفہ اَنْصِتُوْا اور آیت فَاقْرَءُوْا اور آثار کفایت بلکہ منع قراءت خلف الامام اور احادیث قراءت فاتحة الکتاب اور حدیث فَصَاعِدًا سب پر عمل کیا اور کرتے ہیں اور کریں گے ذَالِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ امام کے پیچھے بخوفِ منازعہ اور مخالجہ اور مخالطہ جہراً نہیں پڑھتے.فاتحة الکتاب آہستہ پڑھ کر چپ رہتے ہیں.سورة کا پڑھنا ضروری نہیں جانتے.اس میں امام کے پڑھنے کو کافی سمجھتے ہیں.فاتحة الکتاب کے ساتھ منفرد ہوں یا امام ہوں تو سورة ضرور ملا لیتے ہیں مقتدی کو ملا لینا جائز سمجھتے دیکھو تو سب احکام الٰہیہ پر سرتسلیم کو جھکائے بیٹھے.ایں سعادت بزورِ بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ پھر یہ آثار سنا کر آپ سے عرض ہے کہ یہ حال آپ کے ان مسائل کا ہے جن میں آپ لوگ اجماع کا دعویٰ کر بیٹھتے ہیں.آٹھواں جواب.قَالَ الْبُخَارِيُّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكُمْ مَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَحُكْمُهٗ إِلَى اللهِ وَ إِلٰى مُحَمَّدٍ { FR 4666 }؂ برفرض محال.اگر ہم مان لیں کہ جو آثار آپ لوگ ذکر فرماتے ہیں صحیح ہیں اور جو آثار آپ کے خلاف ہیں وہ تو خود صحیح ہی ہیں ان میں کلام نہیں پس آثار میں حسب تسلیم اختلاف ہوا اب آپ اس اختلاف کو احکام الٰہیہ فَاقْرَؤُوا وَ مَااَتَاکُمُ الرَّسُوْلُ.وغیرہ پر اور احادیث صحیح ثابتہ فی قراءت فاتحة الکتاب پیش کیجیے.نواں جواب.مولوی صاحب یہ اجماع کب ہوا کہاں ہوا.وہ نقل متواتر کہاں ہے جس سےثابت ہوا آپ کا عینی‘ امام شافعی ؒکے عدم اطلاع پر دم بخود ہے اور کہتا ہے خبرِواحد سے ثابت ہوا.سبحان اللہ کیا یہی اجماع آپ کے اصول میں حجت ہے.خدا سے ڈرو لوگوں کو ایسے { FN 4666 } ؂ (امام بخاریؒ نے کہا:) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس چیز میں بھی تم اختلاف کرو تو اُس کا فیصلہ اللہ اور محمد (ﷺ) سے ہوگا.

Page 87

بڑے بڑے لفظ سنا کر کیوں دھوکہ دیتے ہو.دسواں جواب.آپ نے اور آپ کے عینی نے ہدایہ شریف کے عیب ڈھانکنے کو خود ہی لکھ دیا ہے.(سَمَّاہُ اِجْمَاعًا بِاِعْتِبَارِ الْاَکْثَرِ) { FR 5066 }؂ اس پر گذارش ہے کہ آیا اِجْمَاعُ الْاَکْثَر اصول میں حجت ہے یا اِجْمَاعُ الْکُل جو اجماع اصول فقہ میں بعد السنہ حجت مانا گیا ہے اور جس اجماع سے صاحب ہدایہ استدلال پکڑ رہے ہیں وہ حسبِ بیان آپ کے جمہوری اجماع ہے اور وہ حجت نہیں.گیارہواں جواب.تسلیم محال مانا کہ اجماع جمہوری بھی حجت ہے اِلَّا کہتے ہیں ترمذی نے عبادہ کی حدیث میں وُجُوْبُ فَاتِـحَةِ الْکِتَابِ خَلْفَ الْاِمَامِ میں فرمایا ہے.وَالعَمَلُ عَلٰى هٰذَا الْـحَدِيثِ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِينَ.اِنْتَہٰی { FR 5067 }؂ اور امام بخاری نے جزء القرأ ة میں فرمایا.وَمَالَا أُحْصٰى مِنَ التَّابِعِينَ وَأَهِلِ الْعِلْمِ: إِنَّهٗ يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ وَ إِنْ جَهَرَ.{ FR 5068 }؂ تنبیہ.آپ لوگ عمل بالحدیث پر یہ اعتراض بھی فرمایا کرتے ہیں کہ احادیث میں بعض ایسے اطلاق کا ذکر ہے جو اصل میں مقید ہے.فقہا (مقلّدین خاص ایک امام اور اس کے شاگردوں نے) خوب مفصل بیان کر دیا اور مطلق کو جہاں مقید کرنا تھا وہاں مقید کر دیا.اب آپ کی تقریر سے ثابت ہو گیا کہ بعض فقہا کے مطلق بھی قابل تقلید ہیں جو روک عمل بالحدیث میں آپ بیان کرتے تھے وہ یہاں بھی پائی گئی.بارہواں جواب.جن صحابہ سے آپ نے ترک قراءت ثابت کیا ہے.ان سے فعل قرایت { FN 5066 }؂ انہوں نے اکثریت کے اتفاق کرنے کی وجہ سے اسے اجماع کا نام دیا ہے.(البناية شرح الهداية للعینی، کتاب الصلاة، باب فی صفة الصلاة، أدنى ما يجزئ من القراءة في الصلاة، قراءة المؤتم خلف الإمام) { FN 5067 } ؂ امام کے پیچھے قراءت کرنے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ اور تابعین میں سے اکثر اہل علم کا عمل اس حدیث کے مطابق ہے.(ترمذي، أبواب الصلاة، بَابُ مَا جَاءَ فِي القِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ) ؂ اور بے شمار تابعین اور اہل علم (نے کہا ہے) کہ امام کے پیچھے (سورۂ فاتحہ کی) قراءت کرے، خواہ امام قراءت بالجہر کررہا ہو.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ)

Page 88

اور امربالقراءت ہم نے ثابت کر دیا.عمر رضی اللہ عنہ مرتضیٰ رضی اللہ عنہ ابن مسعودؓ ابن عمر ؓ ابن زبیرؓ.اب آپ کو کافی کا یہ قول وَمِنْهُمُ الْمُرتَضٰى وَالْعَبَادِلَةُ(الثَّلَاثَةُ).{ FR 5069 } ؂ معلوم ہو گیا کہ کہاں تک سچ تھا.بات یہ ہے کہ بالکل غلط ہے.تیرہواں جواب.یہ آثار ثابت ہی نہیں.چودہواں جواب.بہت آثار کو جہر قراءت کے منع پر حمل کر سکتے ہیں اور وہ آثار جہر کے مانع ہیں.نہ ِسر کے.پندرہواںجواب.اگر مرفوع کے تعارض میں کہو مرفوع کلام سے محفوظ نہیں اوّل تو یہ کہنا صحیح نہیں اگر مان لیں تو یہ آثار اور آپ کے اور دلائل بھی کلام سے محفوظ نہیں.اوّل تو یہ کہنا صحیح نہیں اگر مان لیں تو یہ آثار اور آپ کے اور دلائل بھی کلام سے محفوظ نہیں.اگر کہو یہ حکماً مرفوع ہیں تو گذارش ہے کہ آثار مخالفہ ان آثار کے بھی حکماً مرفوع نہیں.دویم.حکمی مرفوع حقیقی مرفوع کا مقابلہ نہیں کر سکتا.علاوہ بریں ابودرداء کے اثر میں تم نے دیکھ لیا کہ وہ کہتا ہے (اَرَیٰ جب اَرَیٰ کا لفظ کہہ کر صحابہ اظہار کرتے ہیں کہ یہ ہمارے اپنے قول ہیں مرفوع نہیں پھر آپ کیسے مرفوع کہہ دیتے ہیں) سولہواں جواب.جس حالت میں جمع ممکن پھر تعارض ہی کہاں رہا.فائدہ عینی نے بنایہ میں جو کچھ فرمایا اس پر گذاش ہے.عینی نے ھدایة کے اس قول کے نیچے عَلَيْهِ إِجْمَاعُ الصَّحَابَةِ رِضْوَانُ اللهُ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِيْنَ.{ FR 5070 }؂ عبادہ اور ابوہریرہ وغیرہ کا اختلاف دیکھ کر کہا.(قَالَ الْعَيْنِيُّ) قُلْتُ سَمَّاهُ إِجْمَاعًا { FN 5069 }؂ (حضرت علی) مرتضیٰؓ اور عبد اللہ نامی تین (صحابہ یعنی حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ) ان میں سے ہیں.{ FN 5070 } ؂ اس پر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع ہے.

Page 89

بِاعْتِبَارِ … الْأَكْثَرِ، فَإِنَّهٗ يُسَمّٰى إِجْمَاعًا عِنْدَنَا.{ FR 5071 }؂ ترجمہ مصنف نے باعتبار اکثر اجماع کہا اور جمہوری اجماع کو ہمارے یہاں اجماع کہتے ہیں.پہلا جواب.فقیر عرض کرتا ہے.اس مقام پر عینی کو مناسب تھا فِیْ کُتُبِ الْفِقْہِ اَیْضًا کا لفظ زیادہ کر دیتے تو کہ ان کا کہنا بھی سچا ہو جاتا اور حق بھی ظاہر ہو جاتا.کیونکہ جس جمہوری اجماع کو کتب فقہ میں اجماع کہا ہے وہ حجت نہیں اور جس اجماع کو قائلین حجیت اجماع نے حجت کہا ہے وہ اجماع الکل ہے جمہور اجماع نہیں.دوسرا جواب.عینی کا فرمانا باعتبار الاکثر کل صحابہ کرام کے لحاظ سے ہے یا مختلفین فی مسئلة فاتحة الکتاب و القراءة کے اعتبار سے شق اوّل صریح البطلان ہے اگر کچھ بھی اس شق کی راستی کا گمان ہوتو حنفی کل صحابہ کی تعداد بیان کریں اور پھر ان میں اکثر سے قول ترک القراءت ثابت کریں وَ اَنّٰی لَھُمْ.اگر مختلفین کے لحاظ سے ہے تو بھی صحیح نہیں.کیونکہ جس قدر ترکِ قراءت کے آثار مسندہ حنفیہ میں موجود ہیں ان کی روایت کی تعداد مجوّزین قراءت کی تعداد سے زیادہ نہیں اور اگر آثارِ صحیحہ کو دیکھیں تو تابعین کی تعداد مجوّزین اور آخرین کے سامنے برائے نام بھی نہیں.تارکین قراءت کے اقوال کا مسند ثابت نہ ہونا پھر ان کا منع قراءت پر علی العموم دَالّ نہ ہونا فقیر ظاہر کر چکا ہے.جن کے آثار ترکِ قراءت پر لاتے ہیں.ان میں سے اکثر ایسے ہیں جن سے قراءت ثابت ہے.فقیر نے موازنہ کر کے دکھلایا.عینی یا عینی کا کوئی حمائتی مقابلہ میں اہل ِ حدیث کے اُن آثار کا موازنہ کر کے دیکھے اور دکھلائے.تیسرا جواب.عینی یا ان کا حمایتی معتمد سند سے ثابت کر دے کہ عشرہ مبشرہ اور ابن عمر‘ ابن مسعود ‘ابن عباس اور ستر ّبدری درکنار سات ہی بدریوں نے قراءت فاتحة الکتاب کو سرًّا بھی بعد حکم { FN 5071 }؂ (البناية شرح الهداية للعینی، کتاب الصلاة، باب فی صفة الصلاة، أدنى ما يجزئ من القراءة في الصلاة، قراءة المؤتم خلف الإمام، جزء۲ صفحہ ۳۱۷)

Page 90

فاتحة الکتاب منع کیا ہو یا عام ممانعت ان سے ثابت کردے.اور بخاری صاحب کا یہ قول اس وقت مدنظر رہے.بخاری نے جزء القراءتمیں کہا ہے.قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: اِقْرَأْ خَلْفَ الْإِمَامِ.قُلْتُ: وَإِنْ قَرَأْتَ، قَالَ: وَإِنْ قَرَأْتُ.وَكَذَالِكَ قَالَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وَحُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ وَعُبَادَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَيُذْكَرُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ وَعِدَةٌ مِّنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ ذَالِكَ، وَقَالَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ: كَانَ رِجَالٌ مِنَ الْأَئِـمَّةِ يَقْرَؤُوْنَ خَلْفَ الْإِمَامِ.وَقَالَ أَبُوْ مَرْيَمَ: سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ (رَضِيَ اللهُ عَنْهُ )يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ.وَقَالَ أَبُوْ وَائِلٍ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنْصِتْ لِلْإِمَامِ.وَقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: دَلَّ عَلٰی أَنَّ هٰذَا فِي الْجَهْرِ، وَ إِنَّمَا يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيْـمَا سَكَتَ الْإِمَامُ.وَقَالَ الْحَسَنُ وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَمَيْمُونُ بْنُ مِهْرَانَ وَمَالَا أُحْصٰى مِنَ التَّابِعِينَ وَأَهْلِ الْعِلْمِ: إِنَّهٗ يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ وَ إِنْ جَهَرَ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا تَأْمُرُ بِالْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ.{ FR 5072 }؂ { FN 5072 }؂ حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا: امام کے پیچھے (بھی) قراءت کرو.(راوی کہتے ہیں:) میں نے عرض کیا: اگر آپؐ قراءت کررہے ہوں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں اگر چہ میں بھی قراءت کررہا ہوں.اور حضرت اُبَيّ بن کعب، حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت عبادہ رضی اللہ عنہم نے بھی ایسا ہی کہا.اور حضرت علی بن ابی طالبؓ، حضرت عبد اللہ بن عمروؓ، حضرت ابوسعید خدریؓ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد صحابہ سے بھی ایسا ہی بیان کیا جاتا ہے.اور قاسم بن محمد نے کہا: بہت سے لوگ جو اَئمہ تھے وہ امام کے پیچھے قراءت کیا کرتے تھے.اور ابومریم نے کہا:میں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو امام کے پیچھے قراءت کرتے ہوئے سنا.اور ابووائل نے حضرت ابن مسعودؓ سے روایت کرتے ہوئے کہا: امام کی خاطر خاموشی اختیار کرو.اور ابن مبارک نے کہا: یہ بات جہری نمازوں پر اطلاق پاتی ہے.اور جن میں امام خاموش ہو، صرف انہی میں امام کے پیچھے قراءت کی جائے.اور حسن (بصری)، سعید بن جبیر، میمون بن مہران اور بے شمار تابعین اور اہل علم نے کہا: (مقتدی) امام کے پیچھے قراءت کرے خواہ وہ قراءت بالجہر کر رہا ہو.اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا امام کے پیچھے قراءت کا حکم دیا کرتی تھیں.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ)

Page 91

(وَقَالَ) كَانَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ وَعُرْوَةُ وَالشَّعْبِيُّ وَعُبَيْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ اللهِ وَنَافِعُ بْنُ جُبَيْرٍ وَأَبُو الْمَلِيْحِ وَالْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَأَبُوْ مِجْلَزٍ وَمَكْحُولٌ وَمَالِكُ بْنُ عَوْنٍ وَسَعِيْدُ بْنُ أَبِيْ عَرُوبَةَ يَرَوْنَ الْقِرَاءَةَ.وَكَانَ أَنَسٌ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيُّ يُسَبِّحَانِ خَلْفَ الْإِمَامِ.وَرَوَىٰ سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَوْلٰى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ لِيْ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: اقْرَأْ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ خَلْفَ الْإِمَامِ وَرَوَى سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، وَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ مِثْلَهُ.اِنْتَہٰی.{ FR 4668 }؂ (قَالَ الْعَیْنِيُّ) رُوِىَ مَنْعُ الْقِرَاءَةِ … عَنْ ثَمَانِينَ (إِلٰی قَوْلِہٖ) بِمَنْزِلَةِ الْإِجْمَاعِ.{ FR 5073 }؂ فقیر عرض کرتا ہے.اوّل وہ آثار اور روایتیں کہاں ہیں.کن سے مروی ہیں.آثار کی کون سی کتابوں میں ہیں.دوئم اَلْقِرَاءَ ة معرفہ ہے عام نہیں پس ہو سکتا ہے کہ اَلْقِرَاءَ ة سے وہی قِرَاءَ ة جَہْرًا یا منازعہ اور مخالطہ اور مخالجہ والی قراءت مراد ہو.وَ إِذَا جَاءَ الِاحْتِمَالُ بَطَلَ الِاسْتِدْلَالُ.(قَالَ الْعَیْنِیُّ) ذَكَرَ الشَّيْخُ الْإِمَامُ عَبْدُ اللهِ بْنُ يَعْقُوبَ الْحَارِثِيُّ السنديوتي.{ FR 5074 }؂ { FN 4668 }؂ (اورامام بخاریؒ نے کہا:) سعید بن مسیب، عروہ، شعبی، عبیداللہ بن عبداللہ، نافع بن جبیر، ابوملیح، قاسم بن محمد، ابومجلز، مکحول، مالک بن عون اور سعید بن ابی عروبہ قراءت(خلف الامام) کرنے کی رائے رکھتے تھے.اور حضرت انسؓ اور حضرت عبد اللہ بن یزید انصاریؓ امام کے پیچھے سبحان اللہ کیا کرتے تھے.اور سفیان بن حسین سے روایت ہے، انہوں نے زُہری سے، زُہری نے حضرت جابر بن عبد اللہ کے آزاد کردہ غلام سے روایت کی.(انہوں نے کہا) کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا: ظہر اور عصر میں امام کے پیچھے (سورۂ فاتحہ) پڑھا کرو.نیز سفیان بن حسین سے روایت ہے اور ابن زبیر نے بھی اسی طرح کہا.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 5073 }؂ (علامہ عینی نے کہا: امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ) پڑھنے کی مناہی اَسی(80) افراد سے روایت کی گئی ہے.(ان کے اس قول تک) کہ یہ بمنزلہ اجماع ہے.(البناية شرح الهداية للعینی، کتاب الصلاة، باب فی صفة الصلاة، أدنى ما يجزئ من القراءة في الصلاة، قراءة المؤتم خلف الإمام) { FN 5074 }؂ جب کوئی شک پیدا ہوجائے تو استدلال باطل ہوجاتا ہے.(علامہ عینی ؒ نے کہا:) شیخ امام عبد اللہ بن یعقوب حارثی سندیوتی نے ذکر کیا ہے.(البناية شرح الهداية للعینی، کتاب الصلاة، باب فی صفة الصلاة، أدنى ما يجزئ من القراءة في الصلاة، قراءة المؤتم خلف الإمام)

Page 92

فقیر کہتا ہے.عینی خطبہ کتاب میں فرما چکے ہیں.ان بعضھم ذکر فی معرض الاستدلال فی الفصول اخبارًا لیس لھا اصل فی الاصول و ہل ہذا الا کذب علی الرسول صلی اللہ علیہ و سلم و قد روینا من طریق البخاری وغیرہ عن انس ؓ قال قال النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَعَمَّدَ عَلَيَّ كَذِبًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ، ثم قال ہذا حدیث متواتر مقطوع بہ رواه مائتان من الصحابہ انتہٰی.{ FR 4669 }؂ اور یہاں اگر تقلید نے سب کچھ بھلا دیا عینی یا ان کے حمائتی فرماویں یہاں میںنے خود ہی بعض کا طرز اختیار کیا جس پر اعتراض کیا تھا.اس سند یوتی کے اخبار کا اصول میں کہاں اثر ہے.سند یوتی تو محدثین کے نزدیک بڑا مجروہ شخص ہے.سند یوتی کی یہ روایت کذب بحت ہے.دیکھو آثار میں بخاری کے اقول جناب عمر اور مرتضیٰ اور عبادة ‘ابن عمر‘ ابن مسعود‘ ابن الزبیر سے قراءت خلف الامام کیسے ثابت ہے.علاوہ بریں اَلْقِرَاءَ ةُ یہاں بھی معرفہ ہے.سند لیوتی کے ثقاہت رجال جرح و تعدیل سے ثابت کیجیے اور اس کی روایت کا مخرج بتائیے اور اس کی سند بیان کیجیے تو کہ اس پر غور کا موقع ملے.(قَالَ الْعَیْنِیُّ:) ثَبَتَ (الْإجْـمَاعُ) بِنَقْلِ الْآحَادِ.{ FR 5075 }؂ فقیر عرض کرتا ہے.عینیؔ‘ شافعیؔ اور عمروؔ مرتضیٰ ؔاور ابوہرؔیرہ ‘عبادہؔ وغیرہ رضوان اللہ علیہم کا { FN 4669 }؂ ’’الفصول‘‘ میں بعض نے استدلال کرتے ہوئے ایسی روایات بھی بیان کی ہیں جن کی اصول میں کچھ بھی حقیقت نہیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر محض کذب بیانی ہے.اور ہم نے امام بخاریؒ وغیرہ کے واسطے سے حضرت انسؓ کی روایت بیان کی ہے.انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ارادۃً مجھ پر جھوٹ باندھا تو چاہیئے کہ وہ آگ میں اپنا ٹھکانہ بنالے.پھر انہوں نے کہا: یہ حدیث متواترِ قطعی ہے.اسے دو سو صحابہ کرام نے روایت کیا ہے.{ FN 5075 }؂ یہ اجماع آحاد روایات کے نقل کرنے سے ثابت ہوا ہے.(البناية شرح الهداية للعینی، کتاب الصلاة، باب فی صفة الصلاة، أدنى ما يجزئ من القراءة في الصلاة، قراءة المؤتم خلف الإمام، جزء۲ صفحہ۳۱۸)

Page 93

خلاف اجماع میں دیکھ کر دَرپئے تاویل ہوئے اور یہ نہ سوچا.مسئلہ کو ہدایہ و الہ اجماع سے ثابت کر رہا تھا.اوّل تو اجماع اجماع الکل نہیں جو حجت ہے.پھر اجماع جمہور لیا جو حجت نہیں.آخر میں ایسے گرے کہ اس جمہوری اجماع کااثبات خبرِواحد سے کرنے لگے.انصاف بالائے طاق رکھ دیا حضرت جب اس اجماع کا مدار خبرِاحاد پر ہو گیا.تو اب بھی یہ اجماع وہی اجماع رہا جو حجت ہے اور رفع نزاع کو کافی ہو گیا.اگر کہو یہ معاضد بالنصوص ہے تو یاد رہے اس کا خلاف بھی معاضدبالنصوص.قَالَ الْعَیْنِیُّ ثَبَتَ نَـہْیُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرَةِ { FR 5076 }؂ فقیر عرض رساں ہے.کہاں اور کب اور کس کے پاس.ا س نہی کو بیان کیجیے اور اس کا نشان دیجیے اور اس کو اپنے مطلب پر صحیح صریح مَقْطُوْعُ الدَّلَالَة کر دکھائیے.(قَالَ) فَإِنْ قُلْتَ: قِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهٗ قِرَاءَةٌ مُعَارِضٌ بِقَوْلِهٖ تَعَالٰى فَاقْرَءُوْا (المزّمل:۲۱) فَلَا يَجُوْزُ تَرْكُهٗ بِخَبَرِ الْوَاحِدِ، قُلْتُ جَعَلَ الْمُقْتَدِي قَارِئًا (حُکْمًا).{ FR 4671 }؂ فقیر سبحان اللہ یہاں قراءت حکمی مان لی اگر آیت شریفہ میںقراءت حکمی ہے تو حقیقةً قراءت مراد نہ ہو گی اور یہ بات آپ کے نزدیک کیا دنیا کے مسلمانوں میں مسلّم نہیں.شاید حقیقت مجاز کی جمع یہاں ضرورتاً آپ نے جائز کر لی.گھر کے اصولوں کا یہی حال ہے.جب چاہا انکار کر دیا جب چاہا مان لیا.(قَالَ) قُلْتُ : لَيْسَ فِيْ شَيْء مِّنَ الْأَحَادِيْثِ بَيَانُ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِــيْمَا جَهَرَ، { FN 5076 }؂ (علاّمہ عینی ؒ نے کہا:) عشرہ مبشرہ کی (اس امر میں) مناہی ثابت ہے.{ FN 4671 } ؂ (علامہ عینی ؒ نے کہا:) اگر تم کہو کہ قِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهٗ قِرَاءَةٌ (یعنی امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے) اللہ تعالیٰ کے قول فَاقْرَءُوْا (یعنی پس تم پڑھو) کے خلاف ہے اور خبرواحد سے اس کو ترک کرنا جائز نہیں.تو مَیں کہتا ہوں کہ (اللہ تعالیٰ نے) مقتدی کو حُکْمًا قاری بنا دیا ہے.(البناية شرح الهداية للعینی، کتاب الصلاة، باب فی صفة الصلاة، أدنى ما يجزئ من القراءة في الصلاة، قراءة المؤتم خلف الإمام)

Page 94

وَالْفرق بَين الْإِسْرَار والجهر لَا يَصِحُّ.{ FR 4672 }؂ فقیر.مسلم { FR 4120 }؂ کی حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی اور ابوداؤد‘ ترمذی ‘نسائی ‘دارقطنی کی عباد ة والی حدیث جس کے حق میں دارقطنی کہہ چکا کُلُّھُمْ ثِقَاتٌ.{ FR 5077 }؂ وغیرہ جن کا ذکر اوپر ہو چکا.آپ دیکھیے آپ کو لَیْسَ فِیْ شَیْ ءٍ کی راستی یا تقلید جیسے تا بینا کرنے والی چیز کی برائی معلوم ہو جاوے اور یہ بھی معلوم ہو کہ جہر و اسرار میں فرق یہی ہے.اَعَاذَنَا اللہُ مِنْ ہٰذِ ہِ الْـحَمِیَّةِ.(قَالَ) تَرْجَـحُ مَا قُلْنَا، لِأَنَّهٗ مُوَافِقٌ لِقَوْلِ الْعَامَّةِ وَظَاهِرِ الْكِتَابِ وَالْأَحَادِيْثِ الْمَشْهُوْرَةِ.{ FR 5078 }؂ فقیر عامہ سے صحابہ مراد ہیں یا تابعین یا عام حنفی لوگ اگر صحابہ اور تابعین مراد ہیں تو غلط ہے.کَمَا ذَکَرْنَا مِرَارًا.{ FR 5080 }؂ اور اگر تیسری شق مراد ہے تو وہ ہم کو مضر نہیں.ظاہر کتاب کا حال یہ ہے کہ آپ نے فَاقْرَؤ وْاوالی قراءت کو حکمی قراءت مانا.کیا یہی ظہورِ کتاب ہے اور لفظ احادیث مشہورہ کی نسبت گزارش ہے.آپ برُا نہ مانیں یہی عینی ہیں.بَابُ صِفَة ِالصَّلوٰ ةِ میں حدیث { FN 4672 } ؂ (علاّمہ عینی ؒ نے کہا:) میں کہتا ہوں احادیث میں ایسا کچھ بھی بیان نہیں کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کا تعلق جہری نمازوں سے ہے اور (اس معاملہ میں) خفی اور جہری کا فرق کرنا درست نہیں ہے.(البناية شرح الهداية للعینی، کتاب الصلاة، باب فی صفة الصلاة، أدنى ما يجزئ من القراءة في الصلاة، قراءة المؤتم خلف الإمام) { FN 4120 }؂ یہ وہی مسلم ہے جس کو آپ جبل من جبال ائمة الحدیث کہہ چکے ہیں.{ FN 5077 }؂ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں.(سنن الدار قطنی، کتاب الصلاۃ، بَابُ وُجُوبِ قِرَاءَةِ أُمِّ الْكِتَابِ فِي الصَّلَاةِ وَخَلْفَ الْإِمَامِ) { FN 5078 }؂ (علامہ عینی ؒ نے کہا:) ہماری بات کو ترجیح حاصل ہے کیونکہ یہ عامۃُ الناّس کے قول کے مطابق ہے اور کتاب اللہ اور احادیث ِمشہورہ کا واضح بیان ہے.(البناية شرح الهداية للعینی، کتاب الصلاة، باب فی صفة الصلاة، أدنىٰ ما يجزئ من القراءة في الصلاة، قراءة المؤتم خلف الإمام) { FN 5080 }؂ جیسا کہ ہم نے متعدد بار ذکر کیا ہے.

Page 95

لَاصَلوٰ ةَ کی نسبت کہہ چکے ہیں یہ حدیث مشہور نہیں.اور عدم شہرت کی وجہ میں فرمایا اَلْمَشْھُوْرُ مَا تَلَقَّاہُ التَّابِعُوْنُ.{ FR 5079 }؂ اور تابعین نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے پس حدیث مشہور نہ ہوئی.اَلتَّابِعُوْنَ سے کل تابعین بِوَجْہٍ وَجِیْہٍ مراد لئے.پھر یہاں آ کر اسی مسئلہ میں تقلید کی آفت نے وہ ساری بات ہی بھلا دی اور احادیث تَرْکُ الْقِرَاءَ ةِ خَلْفَ الْاِمَامِ کو مشہور کہہ دیا اور یہ نہ سوجھا تَرْکُ الْقِرْأَ ةِ میں بھی تابعین کا اختلاف ہے.پس ان احادیث کو میں کس مونہہ سے مشہور کہتا ہوں اگر یہ عذر تراشا جاوے کہ صاحب ہدایہ نے ترکِ قراءت پر صحابہ کا اجماع بیان فرمایا ہے شاید عینی کو اس اجماع کے حرف نے تابعین کے عدم اختلاف کی راہ بتائی توصحیح نہیں کیونکہ بدر عینی نے خود ہی اجماع کو اجماع جمہوری کہا ہے.اجماع کا مقید کرنا مثبت اختلاف ہے اور اگر ترمذی کے اس قول کو کہ قراءت خلف الامام اکثر صحابہ کا مذہب ہے اور بخاری کے اس قول کو کہ قراءت خلف الامام اتنے تابعین کا مذہب ہے کہ میں ان کو شمار نہیں کر سکتا.جیسے گزرا.دیکھیں تو انکاراختلاف اطفال کا مضحکہ ہے.اور اختلافِ تابعین بقول عینی مبطل شہرت ہے.قال یَـجُوْزُ اَنْ یَّکُوْنَ رَجُوْعُ الْمُخَالِفِ ثَابِتًا.{ FR 5081 }؂ فقیر عرض کرتا ہے.سِرًّا قراءت فاتحة الکتاب خلف الامام کا صحابہ میں کوئی مخالف نہیں اور آہستہ قراءت فاتحہ خلف الامام پڑھنے والوں کے دانت توڑنے والا اور منہ میں نتن ڈالنے والا (معاذ اللہ منہ) صحابہ کرام میں کوئی نہیں.یہ تمہارے گھر کی بے گھڑت باتیں ہیں.بفرض محال اگر مان لیں کہ قراءت خلف الامام پر کچھ صحابہ نے انکار کیا ہے تو بطور آپ کے کیا ہم { FN 5079 }؂ مشہور (روایت) وہ ہے جسے تابعین نے اختیار کیا ہو.(البناية شرح الهداية للعینی، کتاب الصلاۃ، باب فی صفة الصلاة، سنن الصلاة، الواجب من القراءة في الصلاة) { FN 5081 } ؂ (علاّمہ عینی ؒ نے کہا:) ممکن ہے کہ (اس معاملہ میں) مخالف کا رجوع ثابت ہوجائے.(البناية شرح الهداية للعینی، کتاب الصلاة، باب فی صفة الصلاة، أدنى ما يجزئ من القراءة في الصلاة، قراءة المؤتم خلف الإمام)

Page 96

نہیں کہہ سکتے کہ اکثر صحابہ سے قراءت خلف الامام ثابت ہے.وَيَجُوْزُ أَنْ يَّكُوْنَ رُجُوْعُ الْمُخَالِفِ ثَابِتًا فَتَمَّ الْإِجْمَاعُ مَعَنَا عَلٰی مِثْلِ مَا قُلْتَ.{ FR 5082 }؂ بااینکہ قراءت فاتحہ اور مطل قراءت میں فرق ہے.قَالَ الْعَیْنِیُّ: وفي حديث عبادة محمد بن إسحاق بن يسار وهو مدلّس.قال النووي: ليس فيه إلا التد ليس، قلنا: المد لّس إذا قال عن فلان لا يحتج بحديثه عند جميع المحدثين، مع أنه قد كذ به مالك وضعفه أحمد وقال: لا يصح الحديث عنه.وقال أبو زرعة الرازي: لا يقضى له بشيء.انتہٰی.{ FR 4673 }؂ فقیر عرض کرتا ہے.عینی صاحب بھلا اور تو اور آپ نے ابودائود بھی نہ دیکھا ہو.واللہ عقل میں نہیں آتا.اس شخصی تقلید کا ستیاناس ہو.اس نے آنکھ پر پٹی باندھ دی.صاحب: عبادہ کی حدیث کو ابودائود نے زیدبن واقد سے اور اس نے مکحول سے اور سعید بن عبد العزیز اور عبد اللہ بن علا اور ابن جابر نے مکحول سے روایت کیا ہے.مردِ خدا ابن اسحاق کی روایت تجھے نظر پڑی اور اسی روایت کے ساتھ زید اور سعید اور عبد اللہ اور ابن جابر کی حدیثیں جو ابوداؤد میں ابن اسحاق کے سوائے موجود تھیں نظر نہ آئیں معلوم ہوتا ہے.بحت اللہ کے واسطے احادیث کو نہیں دیکھا.صرف حمایت کا خیال تھا.جہاں موقع ملا اور اعتراض کی جگہ پائی اسی کو دیکھا.اگر ہم مان لیں کہ { FN 5082 }؂ ممکن ہے کہ (اس معاملہ میں) مخالف کا رجوع ثابت ہوجائے اور تمہارے کہنے کی طرح ہی ہمارے ساتھ اجماع مکمل ہوجائے.{ FN 4673 } ؂ (علاّمہ عینی نے کہا:) اور عبادہ کی روایت میں محمد بن اسحاق بن یسار (راوی) ہے جو مدلّس ہے.نوویؒ نے کہا: اس میں تدلیس کے سوا کچھ نہیں.ہم نے کہا: مدلّس(راوی) جب کہے: ’’فلاں سے روایت ہے‘‘ تو تمام محدثین کے نزدیک اس کی روایت حجت نہیں ہوتی.اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ امام مالکؒ نے اسے جھوٹا قرار دیا ہے اور امام احمد (بن حنبلؒ) نے اسے ضعیف کہا ہے.اور انہوں نے کہا: اس کی حدیث صحیح نہیں ہے.اور ابوزرعہ رازی نے کہا: اس (کی روایت) سے کسی بات کا فیصلہ نہیں ہوسکتا.(البناية شرح الهداية للعینی، کتاب الصلاة، باب فی صفة الصلاة، أدنى ما يجزئ من القراءة في الصلاة، قراءة المؤتم خلف الإمام)

Page 97

ابنِ اسحاق مدلّس ہے تو کہیں گے حنفی تدلیس کو جرح نہیں کہتے.منار وغیرہ اصول کی کتابوں میں لکھا ہے.لایقبل الطعن بالتدلیس لان غایتہ انہ یوہم شبہة الارسال وحقیقة الارسال لیس بـجرح فشبہتہ اَوْلٰی.انتہٰی.ماناکہ تدلیس جرح ہے مگر حاکم اور بیہقی کی روایت میں ابن اسحاق سے تحدیث پر تصریح تھی اس کو کیوں بھلا دیا اگر یاد تھی تو تدلیس کا جواب موجود تھا.اب آپ کے اتباع کو ابودائود سے راوی کا عمل بھی سنائے بغیر نہیں رہ سکتے.قَالُوْا: فَكَانَ مَكْحُوْلٌ يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَالصُّبْحِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِيْ كُلِّ رَكْعَةٍ سِرًّا قَالَ مَكْحُوْلٌ: اِقْرَأْ بِـهَا فِــيْمَا جَهَرَ بِهِ الْإِمَامُ إِذَا قَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَ سَكَتَ سِرًّا فَإِنْ لَمْ يَسْكُتْ اِقْرَأْ بِـهَا قَبْلَهٗ وَمَعَهٗ وَبَعْدَهٗ لَا تَتْرُكْهَا عَلٰى كُلِّ حَالٍ.{ FR 4674 }؂ دیکھو راوی کا روایت پر کیسا عمل ہے.(ابن اسحاق کی نسبت بحث) بخاری کا قول اس علم (تحقیق رُوات) میں ایسا مسلّم ہے کہ سمجھ دار اہل سنت و جماعت مقلّد یا غیر مقلّد اس پر چون و چرا نہیں کریں گے اس لئے پہلے ان کا ہی قول نقل کرتا ہوں پھر محققین حنفیہ کے ممتاز ابن الھمام کا پھر دو تین اور اَئمہ جرح و تعدیل کا بگوش ہوش سنئے.اس میں تکذیب امام مالک کا بھی ذکر آجاوے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.قَالَ الْبُخَارِيُّ (فِی الْقِرَاءَةِ) رَأَيْتُ عَلِيَّ بْنَ عَبْدِ اللهِ يَحْتَجُّ بِحَدِيثِ ابْنِ إِسْحَاقَ، وَقَالَ عَلِيٌّ عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا يَتَّهِمُ ابْنَ إِسْحَاقَ.… (قَالَ) وَالَّذِيْ يُذْكَرُ عَنْ مَالِكٍ فِي ابْنِ إِسْحَاقَ لَا يَكَادُ يُبَيِّنُ، وَكَانَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِيْ أُوَيْسٍ مِنْ أَتْبَعِ مَنْ رَأَيْنَا مَالِكًا أَخْرَجَ لِيْ كُتُبَ ابْنِ إِسْحَاقَ عَنْ أَبِيْهِ عَنِ الْمَغَازِيْ وَغَيْرِهِمَا فَانْتَخَبْتُ مِنْهَا كَثِيْرًا.وَقَالَ لِيْ إِبْرَاهِيْمُ بْنُ حَمْزَةَ: كَانَ عِنْدَ إِبْرَاهِيْمَ بْنِ سَعْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ نَحْوَ مِنْ سَبْعَةَ عَشَرَ أَلْفَ حَدِيْثٍ { FN 4674 } ؂ انہوں نے کہا: مکحول مغرب، عشاء اور فجر کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ اِخفاء ًا پڑھا کرتے تھے.مکحول نے کہا: جن نمازوں میں امام (سورۂ فاتحہ) جہراً پڑھےتو تم بھی اسے پڑھو.جب وہ سورۂ فاتحہ کی قراءت کرے اور (اس میں) رُکے تو خاموشی سے (پڑھ لو) لیکن اگر وہ (قراءت کے دوران) وقفہ نہ کرے تو اسے اُس سے پہلے اور اُس کے ساتھ اور اس کے بعد پڑھ لو، ہر حال میں اسے مت چھوڑو.(سنن أبي داود، کتاب الصلاة، أبواب تفريع استفتاح الصلاة، باب من ترک القراءة فی صلاته بفاتحة الكتاب)

Page 98

فِي الْأَحْكَامِ سِوَى الْمَغَازِيْ وَ إِبْرَاهِيْمُ بْنُ سَعْدٍ مِنْ أَكْثَرِ أَهْلِ الْمَدِيْنَةِ حَدِيْثًا فِي زَمَانِهٖ.وَلَوْ صَحَّ عَنْ مَالِكٍ تَنَاوُلُهٗ مِنْ اِبْنِ إِسْحَاقَ فَلَرُبَّمَا تَكَلَّمَ الْإِنْسَانُ فَيَرْمِيْ صَاحِبَهٗ بِشَيْءٍ وَاحِدٍ وَلَا يَتَّهِمُهٗ فِي الْأُمُوْرِ كُلِّهَا.… (وَقَالَ) وَلَمْ يَنْجُ كَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ مِنْ كَلَامِ بَعْضِ النَّاسِ فِيْهِمْ … (قَالَ) لَمْ يَلْتَفِتْ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيْ هٰذَا النَّحْوِ إِلَّا بِبَيَانٍ وَحُـجَّةٍ وَلَمْ يَسْقُطْ عَدَالَتُهُمْ إِلَّا بِبُرْهَانٍ ثَابِتٍ وَحُـجَّةٍ … (قَالَ) وَقَالَ عُبَيْدُ بْنُ يَعِيشَ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ قَالَ سَمِعْتُ شُعْبَةَ يَقُولُ: مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ أَمِيْرُ الْمُحَدِّثِيْنَ لـِحِفْظِهٖ.وَرَوَى عَنْهُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ إِدْرِيسَ، وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَيَزِيدُ بْنُ زُرَيْـــعٍ، وَابْنُ عُلَيَّةَ، وَعَبْدُ الْوَارِثِ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَكَذَالِكَ احْتَمَلَهٗ أَحْمَدُ وَيَحْيَى بْنُ مُعِيْنٍ، وَعَامَّةُ أَهْلِ الْعِلْمِ.اِنْتَہٰی.{ FR 5559 }؂ { FN 5559 } ؂ امام بخاریؒ نے (اپنی تصنیف القراءة خلف الامام میں) کہا: میں نے علی بن عبد اللہ کو دیکھا، وہ ابن اسحاق کی روایت کو حجت سمجھتے تھے.اور علی نے ابن عیینہ سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ ابن اسحاق کو متہم کہتے میں نے کسی کو نہیں دیکھا.… (امام بخاریؒ نے کہا:) امام مالک سے ابن اسحاق کے متعلق جوکچھ ذکر کیا جاتا ہے وہ واضح نہیں.اور اسماعیل بن ابی اویس کو ہم نے امام مالک کی پیروی کرنے والوں میں سے دیکھا ہے،انہوں نے ابن اسحاق کی کتابیں جو اُن کے والد (اسحاق بن یسار) کی روایت سے مغازی وغیرہ کے متعلق تھیں نکال کر میرے سامنے رکھیں تو میں نے اُن میں سے بہت سی (روایات) چُن لیں.اور ابراہیم بن حمزہ نے مجھے کہا: ابراہیم بن سعد کے پاس محمد بن اسحاق کی احکام کے متعلق سترہ ہزار روایات مغازی کے علاوہ تھیں.اور ابراہیم بن سعد اپنے زمانہ میں اہل مدینہ میں سے سب سے زیادہ حدیثیں روایت کرنے والے تھے.اور اگر امام مالک کا ابن اسحاق سے روایت لینا درست ہے تو بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان بات کرتے ہوئے اپنے کسی ساتھی پر کسی ایک معاملہ میں جرح کرتا ہے جبکہ وہ اسے تمام معاملات میں موردِ الزام نہیں ٹھہراتا.… (اور امام بخاریؒ نے کہا:) اور لوگوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اپنے متعلق بعض لوگوں کے کلام سے محفوظ نہیں رہے.… (امام بخاریؒ نے کہا:) اہل علم نے کسی واضح انکشاف یا دلیل کے سوا اس قسم کی باتوں کی طرف توجہ نہیں کی.اور کسی ثابت شدہ دلیل اور ثبوت کے بغیر اُن کا راست رَو ہونا ساقط نہیں ٹھہرتا.… (امام بخاریؒ نے کہا:) اور عبید بن یعیش نے کہا کہ یونس بن بُکَیر نے ہم سے بیان کیا.انہوں نے کہا: میں نے شعبہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ محمد بن اسحاق اپنے حفظ کی وجہ سے امیر المحدثین ہیں.اور ثوری، ابن ادریس، حماد بن زید، یزید بن زُرَیع، ابن علیہ، عبد الوارث اور ابن مبارک نے ان سے روایت کی ہے.اور اسی طرح امام احمد بن حنبل، یحيٰ بن معین اور عموماً اہل علم نے ان (سے روایت لینے) کو جائز سمجھا ہے.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ هَلْ يُقْرَأُ بِأَكْثَرَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ خَلْفَ الْإِمَامِ)

Page 99

ایک عجیب بات عینی خود اسی محمد بن اسحاق سے تعجیل صلوٰة مغرب میں استدلال پکڑ چکا ہے.وہاں بولا بھی نہیں اور کیوں بولتا مطلب کے موافق بات تھی.تحقیق حق منظور ہوتی یا تعجیل کا مخالف ہوتا تو ردّکرنے کو ضرور وہاں بھی بولتا ابن ہمام نے بَابُ تَعْجِیْلُ صَلوٰةِ الْمَغْرِبِ میں کہا ہے.هَذَا إنْ صَحَّ الْحَدِيثُ بِتَوْثِيقِ ابْنِ إِسْحَاقَ وَهُوَ الْحَقُّ الْأَ بْلَجُ، وَمَا نُقِلَ عَنْ مَالِكٍ فِيْهِ لَا يَثْبُتُ، وَلَوْ صَحَّ لَمْ يَقْبَلْهُ أَهْلُ الْعِلْمِ، كَيْفَ وَقَدْ قَالَ شُعْبَةُ وَهُوَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي الْحَدِيثِ.وَرَوَى عَنْهُ مِثْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنُ إدْرِيسَ وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ وَيَزِيدُ بْنُ زُرَيْـــعٍ وَابْنُ عُلَيَّةَ وَعَبْدُ الْوَارِثِ وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَاحْتَمَلَهٗ أَحْمَدُ وَابْنُ مُعِيْنٍ وَعَامَّةُ أَهْلِ الْـحَدِيْثِ غَفَرَ اللهُ لَهُمْ، وَقَدْ أَطَالَ الْبُخَارِيُّ فِيْ تَوْثِيْقِهٖ فِيْ كِتَابِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ لَهٗ، وَذَكَرَهُ ابْنُ حَبَّانَ فِي الثِّقَاتِ وَأَنَّ مَالِكًا رَجَعَ عَنِ الْكَلَامِ فِي ابْنِ إِسْحَاقَ وَاصْطَلَحَ مَعَهٗ وَبَعَثَ إِلَيْهِ هَدِيَّةً ذَكَرَهَا.اِنْتَہٰی.{ FR 4676 }؂ { FN 4676 } ؂ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو ابن اسحاق کی ثقاہت سے ہے اور یہ ایک کھلا سچ ہے.اور امام مالک سے ان کے متعلق جو نقل کیا گیا ہے وہ ثابت نہیں ہوتا.اور اگر وہ صحیح ہوتا تو اہل علم انہیں قبول نہ کرتے.(ان پر جرح کرنا) کیسے (درست) ہوسکتا ہے جبکہ شعبہ کہہ چکے ہیں کہ وہ حدیث میں امیر المؤمنین ہیں.اور ثوری، ابن ادریس، حماد بن زید، یزید بن زُرَیع، ابن علیہ، عبد الوارث اور ابن مبارک جیسے (علماء) نے ان سے روایت کی ہے.اور امام احمد بن حنبل، (یحيٰ) بن معین اور اکثر اہل حدیث اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے، نے ان (سے روایت لینے) کو جائز سمجھا ہے.اور امام بخاریؒ اپنی کتاب ’’القراءة خلف الامام‘‘ میں ان کے ثقہ ہونے کے متعلق مفصل بیان کرچکے ہیں.اور ابن حباّن نے (اپنی تصنیف) الثقات میں ان کا ذکر کیا ہے.اور امام مالک نے ابن اسحاق کے خلاف تبصرہ کرنے سے رجوع کر لیا تھا اور ان سے صلح کرلی تھی اور ان کی طرف تحفہ بھی بھیجا تھا جس کا انہوں نے ذکر کیا ہے.(فتح القدير لابن الهمام، کتاب الصلاة، باب المواقیت، قَوْلُهٗ وَيُسْتَحَبُّ تَعْجِيْلُ الْمَغْرِبِ، جزء۱ صفحه۲۲۸)

Page 100

اس کلام میں ھو الحق.لم یثبت.و لو صحّ لم یقبلہ اہل العلم‘ امیری المؤمنین عامة اہل الحدیث.اور یہ کہ جزء القراء ة بخاری سے ہے.وغیرہ قابل غور ہیں.پھر وَ اِنَّ مَالِکًا رَجَعَ بھی فراموشی کے قابل نہیں.ذَہبی نے کاشف میں کہا ہے.محمد بن إسحاق … رأى أنسا وروى عن عطاء والزهري وطبقة وعنه شعبة والحمادان والسفيانان ويونس بن بكير … كان صدوقا … واختلف في الاحتجاج به وحديثه حسن وقد صححه جماعة.{ FR 5095 }؂ ابن سید الناس اور منذری نے ابن اسحاق کی نسبت لمبی بحث کی ہے.فقیر اس میں سے چند فقرے نقل کرتا ہے.قال (علي) بن المديني: ما رأيت أحدا يتهم (محمد) بن إسحاق.… وحديثه عندي صحيح، قلت له: فكلام مالك فيه، قال: لم يجالسه ولم يعرفه، وقال الأثرم: سألت أحمد بن حنبل عنه فقال: هو حسن الحديث.{ FR 5096 }؂ استشهد به مسلم وصحح له الترمذي حديث سهل واحتج به ابن خزيمة في صحيحه.{ FR 5097 }؂ قال: وأما مالك فإنه كان ذٰلك منه مرة واحدة ثم عاد له إلى ما يحب، وذٰلك لأنه لم يكن بالحجاز أحد أعلم { FN 5095 }؂ محمد بن اسحاق نے حضرت انسؓ کو دیکھا ہے اور عطاء اور زُہری سے روایت کی ہے.اور ان سے شعبہ، حمادان (یعنی حماد بن زید اور حماد بن سلمہ)، سفیانان (یعنی سفیان بن عیینہ اور سفیان ثوری) اور یونس بن بُکَیر نے روایت کی ہے.وہ سچے تھے ، لیکن ان (کی روایت) کے حجت ہونے کے متعلق اختلاف کیا گیا ہے.اور ان کی احادیث حسن ہیں اور ایک جماعت نے انہیں صحیح کا درجہ دیا ہے.(الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة للذھبی، حرف المیم، محمد بن إسحاق، جزء۲صفحہ۱۵۶) { FN 5096 }؂ علی بن مدینی نے کہا: میں نےمحمد بن اسحاق پر تہمت لگاتے کسی کو نہیں دیکھا.…… اور میرے نزدیک ان کی روایات صحیح ہیں.(يعقوب بن شیبہ نے کہا:) میں نے ان سے پوچھا: امام مالک کا ان کے متعلق جو کلام ہے (اس کا کیا معاملہ ہے؟) انہوں نے کہا: امام مالکؒ ان کے ہم جلیس نہیں تھے اور انہیں پہچان نہیں پائے.اور اثرم نے کہا: میں نے امام احمد بن حنبلؒ سے ان کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: وہ حسن حدیث کے راوی ہیں.(عيون الأثر في فنون المغازي والشمائل والسير لابن سید الناس، ذكر الكلام في محمد بن إسحاق والطعن عليه، جزء۱ صفحہ۱۳ تا ۱۴) { FN 5097 }؂ امام مسلمؒ ان (کے قول) کو بطور شہادت لائے ہیں.اور امام ترمذیؒ نے حضرت سہلؓ کی حدیث کو ان (کی روایت) سےصحیح قرار دیا ہے.اور ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں ان (کے قول) سے دلیل قائم کی ہے.

Page 101

بأنساب الناس وأيامهم.من ابن إسحٰق، وكان يزعم أن مالكا من موالي ذي أصبح، وكان مالك يزعم أنه من أنفسها، فوقع بينهما لذلك، … فلما صنّف مالك المؤطا قال ابن إسحق: ائتوني به فأنا بيطاره، فنقل ذلك إلٰى مالك فقال: هذا دجّال من الدَّجَاجِلَة يروى عن اليهود، وكان بينهما ما يكون بين الناس، حتى عزم (محمد) ابن اسحٰق على الخروج إلى العراق، فتصالحا … وأعطاه عند الوداع خمسين دينارًا … ولم ینکر مالک علیہ من أجل الحديث، إنما كان ينكر عليه تتبعه غزوات النبي صلّى الله عليه وسلّم من أولاد اليهود الذين أسلموا وحفظوا قصة خيبر وقريظة والنضير، وما أشبه ذٰلك من الغرائب عن أسلافهم.وكان (ابن إسحق) يتتبع ذٰلك عنهم ليعلم ذٰلك من غير أن يحتج بهم، وكان مالك لا يروي الرواية إلا عن متقن صدوق.{ FR 5098 }؂ { FN 5098 }؂ انہوں نے کہا: اور امام مالکؒ جو ہیں تو اُن سے ایسی بات صرف ایک بار ہوئی ہے.پھر وہ ان کے معاملہ میں پسندیدہ بات کی طرف لَوٹ گئے تھے.اور (حقیقت) یہ ہے کہ لوگوں کے انساب اور حالات کا عالم حجاز میں ابن اسحاق سے بڑا کوئی نہ تھا.اور وہ خیال کرتے تھے کہ امام مالکؒ ذوأصبح کے آزاد کردہ غلاموں میں سے ہیں.اور امام مالکؒ سمجھتے تھے کہ وہ اس کی نسل میں سے ہیں.اس وجہ سے ان کے درمیان کچھ کشیدگی ہوگئی.…… پھر جب امام مالکؒ نے مؤطا تصنیف کی تو ابن اسحاق نے کہا: میں اس کا سلوتری(گھوڑوں کا ڈاکٹر) ہوں.یہ بات امام مالکؒ سے بیان کی گئی تو انہوں نے کہا: یہ تو دجالوں میں سے ایک دجال ہے، یہود سے روایات بیان کرتا ہے.اور ان دونوں کے درمیان ایسی ہی باتیں تھیں جیسی لوگوں میں ہوجاتی ہیں.یہاں تک کہ محمد (بن اسحاق) نے عراق کی طرف نکل جانے کا ارادہ کرلیا.پھر دونوں میں صلح ہوگئی …… اور رُخصت کرتے وقت (امام مالکؒ) نے انہیں پچاس دینار دیئے.اور امام مالک نے حدیث کی وجہ سے اُن کا عیب بیان نہیں کیا.وہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کو صرف یہود کے اُن بچوں سے جو مسلمان ہوگئے تھے اور انہوں نے خیبر، قریظہ، نضیر اور ان سے ملتے جلتے مشکل واقعات کو اپنے بڑوں سے یاد رکھا تھا، ٹوہ لیتے ہوئے تلاش کرنے کی وجہ سے ان سے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے تھے.اور ابن اسحاق تو اِن کو حجت بنائے بغیر اُن سے یہ واقعات اس لیے لیتے تھے تاکہ ان کے متعلق علم ہوجائے.جبکہ امام مالک تو صرف متقی اور صادق ہی سے روایت لیتے تھے.(عيون الأثر في فنون المغازي والشمائل والسير لابن سید الناس، ذكر الكلام في محمد بن إسحاق والطعن عليه)

Page 102

بارہواں اعتراض قراءت فاتحہ یا مطلق قراءت خلف الامام پر وعید ثابت ہے.پس احتیاط اس میں ہے کہ بالکل قراءت نہ پڑھیں.جواب پہلا.آپ نے تخریج مواعید کا بیان نہ کیا اوّل وہ بھی سن لو پھر جواب لو.عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الْإِمَامِ فَقَدْ أَخْطَأَ الْفِطْرَةَ.رواہ ابن أبي شیبة.{ FR 5099 }؂ وعن عمر من قرء خلف الامام مُلِیَٔ فُوْہُ حَـجَرًا أوْ فِيْ فَمِ الَّذِيْ يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ حَجَرًا.{ FR 5100 }؂ عَنْ أَنَسٍ مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الْإِمَامِ مُلِئَ فُوْهُ نَارًا.{ FR 5101 }؂ عَنْ سَعْدٍ … وَدِدْتُ أَنَّ الَّذِي يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيْ فِيْهِ جَـمْرَةٌ – أوْ حـجر.{ FR 5102 }؂ و عن عبد اللہ من قرء خلف الامام ملیٔ فوہ ترابًا.{ FR 5103 }؂ وروی عن زید بن ثابت وسعد من قرأ خلف الامام فلاصلاة لهُ.{ FR 5104 }؂ عَنْ إبْرَاهِيمَ مَنْ قَرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ مُلِئَ فُوْهُ نَتِنًا.قیل یستحب ان یکسر { FN 5099 }؂ حضرت علیؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جس نے امام کے پیچھے قراءت کی وہ فطرت سے ہٹ گیا.اسے ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے.(مصنف ابن أبي شيبة، کتاب الصلوات، باب مَنْ كَرِهَ الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ) { FN 5100 }؂ اور حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ جس نے امام کے پیچھے قراءت کی اُس کا منہ پتھروں سے بھردیا گیا.یا (فرمایا:) جو امام کے پیچھے قراءت کرتا ہے اُس کے منہ میں پتھر.{ FN 5101 }؂ حضرت انسؓ سے روایت ہے جس نے امام کے پیچھے قراءت کی اُس کا منہ آگ سے بھر دیا گیا.{ FN 5102 }؂ حضرت سعدؓ سے روایت ہے کہ میں چاہتا ہوں جو شخص امام کے پیچھے قراءت کرتا ہے اُس کے منہ میں آگ کا انگارہ پڑے یا (کہا:) پتھر پڑے.{ FN 5103 }؂ اور حضرت عبد اللہ (بن مسعودؓ) سے روایت ہے جس نے امام کے پیچھے پڑھا اُس کا منہ مٹی سے بھر دیا گیا.{ FN 5104 }؂ اور حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت سعدؓ سے روایت ہے کہ جس نے امام کے پیچھے پڑھا اُس کی نماز نہیں.

Page 103

اسنانه.قَالَ السَّرْخَسِيُّ: تَفْسُدُ صَلَاتُهٗ فِيْ قَوْلِ عِدَّةٍ مِّنَ الصَّحَا بَةِ.{ FR 4678 }؂ یہ آپ کے وعید والے آثار ہیں.اب جواب سنئے.علیؓ کا اثر صحیح نہیں.بخاری نے کہا.اس کا راوی مختار معروف نہیں اس کا سماع عبد اللہ بن ابی لیلی سے معلوم نہیں ہوا.عبد اللہ مجہول ہے.(قال البخاری:) لَا يَحْتَجُّ أَهْلُ الْحَدِيْثِ بِمِثْلِهٖ.{ FR 5105 }؂ وَقَالَ (الدَّارَقُطْنِيُّ): لَا يَصِحُّ إسْنَادُهٗ وَقَالَ ابْنُ حَبَّانَ … بَاطِلٌ.{ FR 4679 }؂ علاوہ بریں یہ اثر فعل مرتضیٰ ؓ کے خلاف ہے جیسے عمرؓ اور عبد اللہ کا فتویٰ اوپر گزرا کہ اس کے خلاف ہے.انس ؓ کا اثر موضوع اور باطل ہے وَاضِع اس کا مامون بن احمد کذّاب ہے.حافظ نے درایہ میں بیان کیا.سعد کا اثر امام بخاری نے کہا ہے.اس کا راوی ابْنُ نَجَادٍ لَمْ يُعْرَفْ وَلَاسُمِّيَ.{ FR 5106 }؂ عَلی قَارِی نے تذکرے میں موضوع کہا ہے.زید کا اثر بھی موضوع ہے اور اس کا وَاضِع احمد بن علی بن سلیمان کذّاب ہے.امام بخاری نے کہا ہے.لَا يُعْرَفُ لِهَذَا الْإِسْنَادِ سَمَاعٌ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ وَلَا يَصِحُّ مِثْلُهٗ.{ FR 5107 }؂ اور ابن عَبْد الْبِرّ نے کہا قَوْلُ زَيْدِ … مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الْإِمَامِ فَصَلَاتُهٗ تَامَّةٌ وَلَا إِعَادَةَ عَلَيْهِ { FN 4678 } ؂ ابراہیم سے روایت ہے جس نے امام کے پیچھے قراءت کی، اُس کا منہ گندگی سے بھر گیا.کہا گیا کہ پسند کیا جاتا تھا کہ اُس کے دانت توڑے جائیں.سرخسی نے کہا: متعدد صحابہ کے قول کے مطابق اس کی نماز ناقص ہوجاتی ہے.{ FN 5105 }؂ (امام بخاریؒ نے کہا:) اہل حدیث اس جیسی روایت کو حجت نہیں سمجھتے.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 4679 } ؂ اور دارقطنی نے کہا: اس کی سندیں صحیح (کے درجہ پر) نہیں ہیں.اور ابن حباّن نے کہا: (یہ روایت) باطل ہے.(نصب الرأية، کتاب الصلاة، فصل فی القراءة) { FN 5106 }؂ ابن نجاد معروف نہیں ہے اور نہ ہی اس کا نام معلوم ہے.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 5107 }؂ اس سند کے راویوں کا ایک دوسرے سے سماع کا علم نہیں.اور اس جیسی روایت صحیح نہیں ہوتی.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ)

Page 104

فَدَلَّ عَلٰى فَسَادِ مَا رُوِيَ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ.{ FR 5108 } ؂ سعد کے اثر پر ابن عبد البر نے کہا ہے حدیث مُنْقَطِعٌ لَا يَصِحُّ وَلَا نَقَلَهٗ جَـمَاعَةٌ.{ FR 5109 } ؂ ابراہیم کے واہی قول پر امام بخاری نے کہا ہےلَيْسَ هٰذَا مِنْ كَلَامِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَمْلَأَ أَفْوَاهَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (معاذ اللہ).{ FR 5110 } ؂ پھر بخاری نے کہا ہے.قَالَ حَمَّادٌ: وَدِدْتُ أَنَّ الَّذِيْ يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ مُلِئَ فُوْهُ سَكَرًا.{ FR 5111 } ؂ قیل والے حنفی صاحب اور سرخسی کے واسطے خود عینی ہی کا وہ قول جو اس نے خطبہ کتاب میں کہا ہے کافی ہے اور ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں.وعید کے آثار کا حال سن کر ایک منصف آدمی یقین کر سکتا ہے.اگر ترجیح عدم قراءت فاتحہ کا موجب بھی آثار ہیں تو یہ ترجیح مرجوع ہے.اِلاَّ جہاں تقلید شخصی کے جمود نے تحقیق سے دُور پھینک دیا وہاں بقول ؂ طولِ اہل وصال کیا ہو کم ہے شبِ ہجر کی درازی { FN 5108 }؂ حضرت زیدؓ کے قول کے متعلق یہ بات ہے کہ جس نے امام کے پیچھے قراءت کی، اُس کی نماز مکمل ہے اور اسے دُہرانے کی ضرورت نہیں.پس یہ بات حضرت زید بن ثابتؓ سے جو روایت بیان کی جاتی ہے اس کی خرابی پر دلالت کرتی ہے.(الإستذکار لابن عبد البر، کتاب الصلاة، بَابُ تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ) { FN 5109 }؂ یہ حدیث منقطع ہے، صحیح نہیں اور نہ ہی اسے ثقہ راویوں نے نقل کیا ہے.(الإستذکار لابن عبد البر، کتاب الصلاة، بَابُ تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ) { FN 5110 }؂ یہ اہل علم کا کلام ہرگز نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے منہ (نعوذ باللہ) ایسی چیزوں سے بھر جائیں.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 5111 } ؂ حماّد نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ جو شخص امام کے پیچھے قراءت کرتا ہے اُس کا منہ شکر سے بھرجائے.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ)

Page 105

حق کو ماننا معلوم.اِلَّا بامتثال کنتم خیر امة اخرجت للناس بامتثال کنتم خیر امة اخرجت للناس { FR 5112 }؂ اور حدیث الدین النصح { FR 5113 }؂ گذارش کیا ؂ فقل ما یفیض اللہ من غیر سامع ففی الدہر من یرجی بہ الفوز ظافرًا { FR 5125 }؂ تیرہواں اعتراض علماء حنفیہ نے امام کے پیچھے اَلْـحَمْدُ پڑھنے کو مکروہ فرمایا ہے.جواب پہلا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر نماز میں فاتحہ کے پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے.مقتدی کی نماز ہو یا منفرد کی یا امام کی اس دعویٰ کے دلائل یہ ہیں.فرمایا.لَاصَلوٰةَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِـحَةِ الْکِتَابِ نماز ہی نہیں اس کی جس نے فاتحہ نہ پڑھی.روایت کیا اس حدیث کو جماعت نے (منتقٰی) اور فرمایا لَاتَجْزِیُٔ صَلوٰةٌ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِـحَةِ الْکِتَابِ کوئی نماز جائز نہیں اس کی جس نے فاتحة الکتاب نہ پڑھی.روایت کیا اس کو دارقطنی نے اور کہا اسناد اس حدیث کا صحیح ہے.اور اس کا مرفوع شاہد اِبْنِ خُزَیْـمَہ اور اِبْنِ حَبَّان وَغَیْرُہُمَا نے بیان کیا اور فرمایا لَاتُقْبَلُ صَلوٰةٌ لَایُقْرَأُ فِیْھَا بِاُمِّ الْقُرْآنِ.وہ نماز ہی قبول نہیں جس میں اُمُّ الْقُرْآن نہیں پڑھا گیا اور یہ حدیث انسؓ سے مسلم اور ترمذی میں اورا بوقتادہؓ سے ابوداؤد اور نسائی میں.عبد اللہؓ سے ابن ماجہؓ میں اور ابوسعید سے احمد و ابوداؤد و ابن ماجہ میں.ابودرداء سے نسائی‘ ابن ماجہ میں.اور جابر سے ابن ماجہ میں.علیؓ سے بیھقی میں اور عائشہ صدیقہؓ سے مسند احمد‘ ابن ماجہ میں اور ابوہریرہؓ سے { FN 5112 }؂ سوا اس پیروی کے کہ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے (فائدہ کے) لیے بنائی گئی ہے.{ FN 5113 } ؂ دین تو خیرخواہی ہے.{ FN 5125 }؂ پس نہ سننے والے کو کم ہی اللہ تعالیٰ نے (حق کی طرف) لوٹایا ہے اور دُنیا میں جو بھی کامیابی کی خواہش رکھتا ہے کامیاب ہوجاتا ہے.

Page 106

احمد‘ ابودائود میں.اور عبادہ ؓسے ابوداؤد اور ترمذی میں ؂ بےجا ہے بام یار سے دعوٰیٔ ہمسری ممکن نہیں کہ یوں دُرِّمقصد تجھے ملے اپنی ذرا بساط تو اے آسمان دیکھ اس جنس کی تلاش میں اِک اِک دکان دیکھ اور نفی ذات حقیقت ہے ترک حقیقت باوجود امکان جائز نہیں.اعرابی مُسِی فی الصلوٰة کی حدیث میں امام احمد.ابوداؤد.ابنِ حَبَّان میں ہے.ثُمَّ اقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ { FR 5127 }؂ علاوہ بریں مَاتَیَسَّرَ کا لفظ مجمل مبین ہے یا مطلق مقید یا مبہم مفسر یا مَاتَیَسَّرَسے مَازَادَ عَلَی الْفَاتِـحَة یا ماتیسّرغیرمستطع کے حق میں یا منسوخ ہے.یاد رہے ان احتمالات کی ضرورت بھی اس وقت تھی جب حدیث مُسِی میں اُمُّ القرآن کا صریح لفظ نہ ہوتا یا ہمیں اور آپ کو نہ پہنچتا.اور صریح فاتحہ خلف الامام پڑھنے کی حدیث عبادہ سے ابوداؤد اور ترمذی میں اور فَلَاتَقْرَؤُوْا بِشَیْءٍ مِّنَ الْقُرْآنِ اِذَا جھَرْتُ بِہٖ اِلَّا بِاُمِّ الْقُرْآنِ.کچھ قرآن نہ پڑھو جب میں جَھْرًا پڑھوں مگر فاتحہ.ابوداؤد.نسائی.دارقطنی میں.اور دارقطنی نے کہاا س کے سب راوی ثقہ ہیں اور امام احمد اور بخاری نے جُزْءِ قِرَاءَت میں.اور تصحیح کی اس کی بخاری.ابنِ حَبَّان.حاکم.بیہقی نے.محمد بن اسحاق کی روایت میں بیہقی اورابنِ حَبَّان نے تحدیث پر تصریح کی ہے اور اس کے تابع زید.سعید.عبد اللہ.ابن جابر ہو چکے ہیں اوربا لتخصیص آہستہ فاتحة الکتاب خلف الامام پڑھنے کے منع پر کوئی صحیح صریح مرفوع حدیث نہیں اور حدیث مثبت فاتحہ بتصریح بخاری متواتر ہے.اگر خبرِواحد ہی مان لیں تو خبرِواحد قطعی اور باعث یقین بھی ہوتی ہے.تذکرہ راشد میں مولوی عبد الحی صاحب نے لکھا ہے خبرِواحد کی نسبت قطعیت کا انکار جہالت ہے اصول فقہ سے.جواب ۲.جب فاتحہ خلف الامام کا پڑھنا ثابت ہوا (دیکھو جواب اوّل) اور حنفیہ سے حسبِ فرمودہ جناب کراہت قراءت بلکہ فساد بالقراءت فاتحہ خلف الامام ثابت ہے.پس اس مسئلہ میں آپ کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان اختلاف ہوا.راقم اور کل { FN 5127 }؂ پھر تم امّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) پڑھو.

Page 107

اہل ِحدیث رسول صلعم کی بات کہتے ہیں.میرا یہ جواب محی الدین ابن عربی کے اس جواب کی طرح ہے جو انہوں نے فتوحات میں فرمایا اور یہ وہی محی الدین ہیں جن کو بحرالعلوم حنفی نے خاتم الولایة مانا ہے.فَصْلُ مِنْ اَوْلٰی بِالْاِمَامَةِ (ترجمہ امامت کے لئے کون بہتر ہے) قال رسول اللہ علیہ وسلم أقرأہم و قالت المالکیّة و الشافعیّة افقھہم لا أقرأ ھم فھذہ مسئلة خلاف بین رسول اللہ صلعم و بین المالکیّة و الشافعیّة و بقول رسول اللہ اقول و لاسیّما والنبی یقول فان کانوا فی القراءة سواءً فاعلمھم بالسنة ففرّق صلعم بین الفقیہ والقاری و اعطی الامامة للقاری مالم یتساویا فی القراء ة الی ان قال و ھو حدیث متّفق علیہ صحتہ و بہ قال ابوحنیفة و ھو الصحیح الذی یعول علیہ وأما التاویل المخالف للنص بان الأقرء فی ذلک الزمان کان افقہ فقد رد ھذا التأویل قولہ علیہ السلام فاعلمھم بالسنة و اعلم ان کلام اللہ لاینبغی ان یقدم علیہ شیء اصلًا.{ FR 5128 } ؂ افسوس ہمارے تو حنفی بھی اس مسئلہ تقدیم اَقْرَأُ میں مخالف ہیں اور اعلم کی تقدیم ابوحنیفہ کا قول بتاتے ہیں.{ FN 5128 }؂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُن میں سے جو (قرآن) زیادہ پڑھا ہو (وہ امامت کا حقدار ہے.) مالکی اور شافعی کہتے ہیں: اُن میں سے (قرآن کی) زیادہ سمجھ بوجھ رکھنے والا(مراد ہے)، نہ کہ اُن میں سے زیادہ پڑھا ہوا.پس اس مسئلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مالکیوں اور شافعیوں میں اختلاف ہے.اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق ہی کہتا ہوں.بالخصوص یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اگر وہ (قرآن کے) پڑھنے میں برابر ہوں تو اُن میں سے جو سنت کا زیادہ علم رکھتا ہو (وہ زیادہ حقدار ہے).پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فقیہ اور قاری کے درمیان فرق کیا ہے.اور امامت (کا حق) قاری کو دیا ہے جب تک کہ قراءت میں دو (شخص) برابر نہ ہوں.اس بات تک کہ انہوں نے کہا: یہ حدیث متفق علیہ صحیح ہے.اور امام ابوحنیفہ نے اس کے متعلق کہا ہے: یہ صحیح (روایت) ہے، جس پر بناء کی جاتی ہے.اور اس نص کے مخالف یہ تشریح کرنا کہ اُس زمانہ میں سب سے زیادہ (قرآن) پڑھا ہوا ہی سب سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھنے والا ہوتا تھا تو اس تشریح کو آپ علیہ السلام کا یہ قول ردّ کر چکا ہے کہ ’’پھر اُن میں سے جو سنت کا زیادہ علم رکھتا ہو‘‘.اور جان لو کہ حقیقتًا کلام اللہ پر کسی اور چیز کو ترجیح دینا جائز نہیں.(فتوحات محی الدین ابن العربی، فصل من أولی بالإمامة)

Page 108

فائدہ متعلقہ مسئلہ فاتحہ فتوحات سے ابن عربی نے کہا ہے.العالم العاقل الأدیب مع اللہ لایناجیہ فی الصلوٰة الا بقراءة اُمّ القرآن فکان ھذا الحدیث (قسمت الصلوٰة بینی و بین عبدی) مفسّرًا لما تیسّر من القرآن، واذا ورد أمر مجمل من الشارع ثم ذکر الشارع وجھا خاصا مما یکون تفسیرًا لذلک المجمل کان الاولی عند الادباء من العلماء الوقوف عندہ { FR 5129 }؂ اگرچہ عینی وغیرہ نے مَاتَیَسَّرَ کے مجمل کہنے پر کہا ہے اَلْقَوْلُ بِالْاِجْمَالِ مِنْ عَدْمِ مَعْرِفَةِ الْاُصُوْلِ { FR 5130 }؂ اِلَّا ہم کو نقل کلام ابن عربی سے یہ غرض ہے کہ ابن عربی جیسے بھی اس اصل کے فہم سے ناواقف ہیں.جواب۳.رسول اللہ صلعم کی اطاعت حضرت حق سبحانہٗ تعالیٰ کی اطاعت ہے قال اللہ تَعَالٰی مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ.ترجمہ.جس نے رسول اللہ صلعم کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی کیوں نہ ہو مَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّاوَحْیٌ یُّوْحٰی.پس حسب حدیث شریف جس نے فاتحہ پڑھ لی.اس نے آیت فَاقْرَؤوْا پر عمل کر لیا.{ FN 5129 }؂ ایک سمجھ دار باادب عالم نماز میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ مناجات امّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) کی قراءت سے ہی کرتا ہے.پھر یہ حدیث کہ میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردی ہے، اس امر کی تفسیر ہے کہ قرآن میں سے جو میسر ہو (اسے پڑھو).اور جب شارع ؑ کی طرف سے کوئی حکم اجمالاً ملتا ہو، پھر شارعؑ ہی کسی خاص رُجحان کا ذکر کردے جو اُس مجمل اَمر کی وضاحت کررہا ہو تو باادب علماء کے نزدیک موقف اختیار کرنے کے لحاظ سے یہی فوقیت رکھتا ہے.(ابن عربی فتوحات) { FN 5130 }؂ اجمال کی بات کرنا اصول سے عدم واقفیت ہے.

Page 109

جواب ۴.کل انبیاء و رُسل علیھم الصلوٰة والسلام کے اقوال قول نبی آخر الزمان خاتم الانبیاء صلعم کے سامنے قابل عمل اور حجّت نہیں بنتے.بھلا علماء کے اقوال سامنا کریں ممکن ہی نہیں ؂ کبھی فروغ نہ پائیں گے پیش یار چراغ وہ شمس ایک طرف ایک طرف ہزار چراغ جواب ۵.اکثر صحابہ کرام جیسے ترمذی نے بیان کیا وجوب قراءت فاتحہ خلف الامام کی طرف ہیں اور خاکسار نے ان کے اقوال بتفصیل بیان کر دیئے ہیں.پس قول احناف بکراہت فاتحہ ان کے مقابلہ میں اگر خفگی نہ کرو تو......ہو گا.جواب ۶.بخاری نے جزء القراءة میں کہا ہے قراءتِ فاتحہ خلف الامام پرمَالَاأُحْصٰى مِنَ التَّابِعِينَ وَأَهْلِ الْعِلْمِ { FR 5131 }؂ کا فتویٰ ہے.بھلا ایک طرف مَالَا أَحْصٰى مِنَ التَّابِعِينَ وَأَهْلِ الْعِلْمِ ہوں اور ایک طرف ایک ابوحنیفہ رحمة اللہ جیسا تابعی (اگر مان لیں) ہو بتائو کس کو ترجیح دیں بایںکہ جمہوری کی طرف نصّ صریح بھی ہو.جواب۷.خود علماء حنفیہ استحسان قراءت فاتحة الکتاب خلف الامام کے قائل ہیں.اگر علماء حنفیہ ہی کے قول پرچلتا ہے تو استحسان کا فتویٰ معاضد بالنَّص مع تطبیق موجود ہے.امام الکلام میںہے.یُقْرَءُ عِنْدَ سَکُوْتِ الْاِمَامِ عَمَلًا بِـحَدِیْثٍ لَاصَلوٰةَ اِلَّا بِقِرَآ ءَ ةِ فَاتِـحَةِ الْکِتَابِ وَبِالْاِنْصَاتِ { FR 5132 }؂ اور منہیّہ میں کہا ھذا اَشَدُّ المذاہب و اَصْفَی المشارب.اَیْضًا فِیْہِ نُقِلَ عن شیخ الاسلام امام ائمة الأعلام فی العالم محی مراسم الدین بین الامم الماحی { FN 5131 }؂ بے شمار تابعین اور اہل علم.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ) { FN 5132 }؂ حدیث ’’فاتحہ الکتاب کی قراءت کے بغیر نماز نہیں‘‘ پر عمل کرتے ہوئے (مقتدی) امام کی رُکنے کے وقت (سورۂ فاتحہ) خاموشی سے پڑھ لے

Page 110

بسطوتہ سیاط البدع و آثار الظلم السعید الشہید نظام الملة والدین عبد الرحیم المشہور بین الأنام بشیخ التسلیم وھو مجتہد فی مذھب ابی حنیفة باتفاق علماء ما وراء النہر وخراسان انه کان یقول یستحب للاحتیاط فیما یُروی عن محمدٍ ویعمل بذلک ویقول لو کان فی فمی جمرة یوم القیمة احبّ الیّ من أن یُّقال لاصلاة لک.{ FR 4680 } ؂ ا ور مجتبٰی مختصر قدوری کی شرح میں ہے.فی شرح الکافی للبزدوی ان القراءة خلف الامام علی سبیل الاحتیاط حسن عند محمدٍ.وقال ایضًا ان قراءة الفاتحة مستحسنة و مستحبة فی السریة مکروہ فی الجہریة فی روایةٍ عن محمدٍ کما ذکرہ صاحب الہدایة و الذخیرة و غیرھما و ھو روایة عن ابی حنیفة کما ذکرہ الزاھدی فی المجتبی.و ھو الذی اختارہ ابوحفص و شیخ التسلیم کما مرّ ذکرہ بل جماعة من الحنفیة و الصوفیة کما قال صاحب التفسیر الاحمدی و قال ایضًا اذًا ظھر حق الظھور ان اقوی المسالک التی سلک علیھا اصحابنا استحسان القراءة فی السریة کما ھو روایة عن محمد بن الحسن و اختارھا جماعة من فقہاء الزمن وھو وإن کان ضعیف روایة لکنہ قوی درایةً.وقال ایضًا وما أحسن قول صاحب تنویر العینین فی رفع الیدین فی بحث القراءة خلف الامام دلائل { FN 4680 }؂ یہ (عقیدہ) مسالک میں سردار اور رُجحانات میں پسندیدہ ہے.نیز اس میں شیخ الاسلام، دُنیا کے مشہور اماموں کے امام، قوموں کے مابین دین کی روایات کو زندہ کرنے والے، اپنے اثرورسوخ سے بدعات کی ملونی اور ظلمت کے نقوش کو مٹانے والے، خوش بخت شہید، قوم ومذہب کے منتظم عبد الرحیم جو عوام میں شیخ التسلیم کے لقب سے مشہور ہیں اور وسط ایشیا اور خراسان وغیرہ ممالک کے علماء کی متفقہ رائے میں وہ امام ابوحنیفہ کے مسلک کے مجتہد ہیں، سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے : جو کچھ محمد (بن اسحاق) سے مروی ہے اُس میں احتیاط واجب ہے اور (ان سے حضرت عبادہؓ والی) اس (روایت) پر عمل کیا جاتا ہے.اور وہ کہتے تھے کہ اگر قیامت کے دن میرے منہ میں انگارہ ہو تو یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ کہا جائے کہ تیری کوئی نماز نہیں.

Page 111

الجانبین فیہ قویة لکن یظھر بعد التأمل فی الدلائل ان القراءة اولی من ترکھا فقد عولنا علی قول محمدٍ کما نقل عنہ صاحب الہدایة.انتہٰی.{ FR 4681 }؂ جواب ۸.اگر قائلین باستحسان قراءت فاتحہ خلف الامام کو ترجیح نہ دیں تو قائلین بکراہت اورقائلین باستحسان کو آپس میں متعارض سمجھ کر ساقط کردیں گے.میرے حنفی مہربان قلت اور کثرت قائلین کاعذ رپر پیش فرماویں.کیونکہ شیخ عبد الحق دہلوی نے سفرسعادت کی شرح میں جہاں صاحب سفر نے اثبات رفع یدین میں چار سو جز اور اثر کا ذکر کیا ہے کہا ہے.و حق آنست کہ باقطع نظر از کثرت و قلت طرق و روایات.اخبار وآثار در ہر دو جانب موجود ہست انتہٰی.گو یہاں شیخ جی کی قطع نظر عجیب ہے کیونکہ جہاں قلت کے باعث خبرواحد یا غریب رہے اور بقول متأخرین حنفیہ تخصیص عموم قرآن کے موجب نہ ہوسکے اور کثرت کے باعث مشہور بلکہ متواتر اور قطعی اور مخصص عموم قرآن بن جاوے.قلّت و کثرت سے قطع نظر کرنا غلو قبیح ہے اِلاَّ آپ لوگوں پر ان کا قول حجت ہے.اس لئے بیان ہوا.{ FN 4681 } ؂ شرالکافی شرح البزدوی میں ہے کہ امام محمد (بن حسن) کے نزدیک احتیاط کے پیش نظر امام کے پیچھے (سورۂ فاتحہ) پڑھنا حسن ہے.اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ محمد (بن حسن) کی ایک روایت کے مطابق سورۂ فاتحہ سرّی نمازوں میں پڑھنا پسندیدہ اور مستحب ہے اور جہری نمازوں میں پڑھنا ناپسندیدہ ہے.جیسا کہ صاحب الہدایہ اور ذخیرہ وغیرہ نے اس کا ذکر کیا ہے.اور اُن کی یہ روایت امام ابوحنیفہ سے ہے جیسا کہ زاہدی نے مجتبیٰ میں اس کا ذکر کیا ہے.اور یہ وہی ہیں جنہیں ابوحفص اور شیخ التسلیم نے قبول کیا ہے جیسا کہ اس کا ذکر گذر چکا ہے، بلکہ جیسا کہ تفسیر احمدی کے مصنف نے کہا ہے کہ احناف اور صوفیاء میں سے ایک جماعت نے (انہیں قبول کیا ہے.) اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جب (یہ معاملہ) کماحقہ ظاہر ہوچکا ہے تو سب سے مضبوط مسلک یہی ہے جس پر ہمارے ساتھی چلے ہیں یعنی سرّی نمازوں میں (سورۂ فاتحہ) پڑھنا مستحسن ہے.جیسا کہ محمد بن حسن کی روایت میں ہے اور اسے زمانہ کے فقہاء کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے.اور اگرچہ یہ روایت کے لحاظ سے کمزور ہے لیکن درایتاً مضبوط ہے.اور انہوں نے یہ بھی کہا: ’’تنویر العینین فی رفع الیدین‘‘ کے مصنف کا امام کے پیچھے (سورۂ فاتحہ) پڑھنے کے متعلق کیا ہی اچھا قول ہے کہ اس بارے میں دونوں طرف کے دلائل مضبوط ہیں لیکن ان دلائل پر غور کرنے کے بعد یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ قراءت کرنا اُس کو چھوڑنے سے زیادہ بہتر ہے.اور ہم محمد (بن حسن) کے قول پر اعتبار کرتے ہیں جیسا کہ اُن سے صاحب الہدایہ نے نقل کیا ہے.

Page 112

جواب ۹.حنفیہ کے اقوال اس مسئلہ میں مضطرب ہیں اور حنفیہ فی قلتین کی صحیح حدیث کو صرف مضطرب سمجھ کر باوجودیکہ اس میں اضطراب نہ تھا چھوڑ دیا تو حنفیہ کو اپنے علماء کا اضطراب اس مسئلہ میں دیکھ کر ان کے اقوال مضطربہ چھوڑ دینے تھے.حنفیہ کا اضطراب فی الامام منہم من اکتفی بعدم القراءة و نفیھا و منھم من صرح بالنّھی ومنھم من کرھھا و منھم من قال بحرمتھا و منھم من تفوّہ بالفساد و منھم من استحسن.{ FR 4682 }؂ جواب ۱۰.قول بالکراہة بے دلیل ہے اور شرع لم یأْذن بہ اللہ.چودہواں اعتراض علماء حنفیہ فاتحة الکتاب کا پڑھنا مفسدِ صلوٰة کہتے ہیں.پس پڑھنا فاتحہ کا خلف الامام جائز نہ ہو گا.پہلا جواب.جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں.لَاصَلٰوةَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ{ FR 5141 }؂.اور لَایَجْزِیْ صَلوٰةٌ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ { FR 5143 }؂ اور لَایُقْبَلُ صَلوٰةٌ لِّمَنْ یَقْرَأُ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ { FR 5145 }؂ اور وَلَاتَقْرَؤُا بِشَیْ ءٍ مِنَ الْقُرْآنِ اِذَا جَھَرْتُ اِلَّابِاُمِّ الْقُرْآنِ { FR 5146 }؂ جن اسناد پر { FN 4682 } ؂ ان میں سے بعض نے عدمِ قراءت اور اس کے ہونے سے انکار پر اکتفاء کیا ہے اور بعض نے صریحاً مناہی کا ذکر کیا ہے اور بعض نے اسے مکروہ جانا ہے اور بعض نے اس کی حرمت بیان کی ہے.اور ان میں سے بعض نے اسے فساد کا موجب گردانا ہے اور بعض نے مستحسن قرار دیا ہے.{ FN 5141 }؂ اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی.(بخاري,كتاب الآذان, بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا) { FN 5143 }؂ جس نے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی اُس کی نماز ادا نہیں ہوتی.{ FN 5145 }؂ وہ نماز قبول نہیں ہوتی جس میں اُمُّ القرآن یعنی سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے.(نیل الأوطار، کتاب اللباس، أبواب صفۃ الصلاۃ، بَابُ وُجُوبِ قِرسَاءَةِ الْفَاتِحَةِ) { FN 5146 }؂ جب میں (نماز میں) قراءت بالجہر کروں تو تم امّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) کے علاوہ قرآن سے کچھ نہ پڑھا کرو.(ابو داؤد،کتاب الصلاۃ، بَابُ مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهٖ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ)

Page 113

دیکھیے.اور یہ دلائل قراءت فاتحہ پر نصّ ہیں.یاد رہے اگر اجماع حجت ہے تو صحیحین کی تفضیل پر اجماع الکل ہے اور اجماع الاکثر کا تو مجھے یقین ہے آپ کو بھی انکار نہ ہو گا.گو ابن ہَمّام اور اس کے اتباع کا انکار آپ کی نظر سے گذر چکا ہو.پنجاب کے ممتاز اذکیا مولوی ابوسعید محمد حسین نے اس مسئلہ میںمنح الباری فی ترجیح البخاری لکھی ہے اور صاحب دراسات نے ایک نہایت ہی لطیف دراسہ لکھا ہے.فقیر تطویل سے ڈر کر اس مقام میں صرف ان دونوں کتابوں کا حوالہ کافی جانتا ہے.انشاء اللہ اس دراسہ کا ترجمہ عنقریب لکھوں گا اور استقصاء میں امامیہ نے جو اعتراض صحیحین پر کئے ہیں ان کا بھی بالاستیعاب جواب دوں گا.سچ ہے بعد کتاب اللہ صحیحین کے علو کے سامنے اور کتب کو کیا وقعت ہے ؂ ادنیٰ کی قدر کچھ نہیں اعلیٰ کے سامنے دریا کے آگے کیا ہے حقیقت حباب کی جواب۲.مولوی عبد الحی صاحب لکھنوی حنفی (ان صاحبوں کی مختلف علوم پر بڑی نظر ہے.بظاہر تعصب بے جا کم فرماتے ہیں انہوں نے اس قول کی نسبت فرمایا ہے.ومنهم من تفوه بفساد الصلاة بـها وهذا القول الأخير أضعف الأقوال في هذا المبحث وأوهنها بل هو باطل قطعًا وأحق بأن لايلتفت اليه جزمًا وينظم في سلك الاقوال المردودة التي لم يقم صاحبها عليها حجة ودليلًا.وهو مشتمل على تفريط كبير متضاد غاية التضاد لقول من قال إن الصلاة تفسد بترك قراءتها حتى أن المقتدي إذا أدرك الإمام في الركوع فاقتدى به ولم يتيسر له قراءة الفاتحة تفسد صلاته فإنه مشتمل على افراط كبير بل التفريط في الحكم بفساد الصلاة بقراءتها أكثر من الافراط في الحكم بفسادها بترك قراءتها { FR 5147 }؂.(وقَالَ أيضًا:).وخامسھا.أن الصلاة تفسد بالقراءة خلف الإمام كما ذكره { FN 5147 }؂ اور اُن میں سے بعض نے اس (قراءت) کو نماز خراب کرنے والا ٹھہرایا ہے اور اس بحث میں یہ آخری قول تمام اقوال میں سے کمزور ترین اور بے طاقت ہے.بلکہ یہ تو قطعی بے بنیاد ہے.اور اس لائق ہے کہ اس کی طرف بالکل بھی توجہ نہ کی جائے.اور اسے ایسے ردّ شدہ اقوال کی لڑی میں ڈال دیا جائے جس سے کہنے والا حجت یا دلیل قائم نہیں کرسکتا.اور یہ تو ایک بہت بڑی کوتاہی پر مبنی ہے، جو اُس شخص کے قول سے غایت درجہ متضاد ہے جس نے کہا کہ نماز سورۂ فاتحہ کی قراءت چھوڑنے سے فاسد ہوجاتی ہے، حتّٰی کہ مقتدی جب امام کو رکوع میں پاتا ہے پھر وہ اُس کی اقتداء کرتا ہے اور اُسے سورۂ فاتحہ پڑھنا میسر نہیں ہوتا تو اُس کی نماز ناقص ہوجاتی ہے کیونکہ یہ ایک بڑے افراط کا موجب ہے.بلکہ (حقیقت تو یہ ہے کہ) سورۂ فاتحہ پڑھنے سے نماز کے فاسد ہونے کا حکم دینے میں کوتاہی کا پایا جانا زیادہ (ممکن) ہے بنسبت اس کا پڑھنا ترک کرنے سے نماز کے فاسد ہونے کا حکم دینے میں زیادتی ہونے سے.(إمام الکلام فیما یتعلق بالقراءة خلف الإمام، صفحہ9، مطبوعہ مطبع مصطفائی)

Page 114

في دُرر البحار ومر أنه خلاف الأصح.فهذه خمسة اقوال لأصحابنا أضعفها وأوهنها بل أوهن جميع الأقوال الواقعة في هذه المسئلة القول الخامس وهو نظير رواية مكحول النسفي الشاذة المردودة التي عن أبي حنيفة أن رفع اليدين عند الركوع وغيره مفسد للصلاة وبناء بعض مشائخنا عليها عدم جواز الاقتداء بالشافعية، وكلاهما من الأقوال المردودة التي لايحل ذكرها الّا للقدح عليها وان ذكرا في كثير من الكتب الفقهية لأصحابنا الحنفية وقد أوضحتُ ذٰلك في رسالتي الفوائد البهية في تراجم الحنفية وفي تعليقاتي عليها المسماة بالتعليقات السنية فلتطالع، وليست شعري هل يقول عاقل بفساد الصلاة بما ثبت فعله عن النبي صلى الله عليه وسلم وجماعة من أكابر أصحابه ولو فرضنا أنه لم يثبت لا من النبي صلى الله عليه وسلم ولا من أصحابه أو ثبت وصار منسوخًا فغايته أن يكون خلاف السنة أو مكروهًا تنزيهًا أو تحريمًا وهو لا يستلزم فساد الصلاة به بل لو فرضنا أنه حرام حرمة قطعية لا يلزم منه فساد الصلاة أيضًا فليس ارتكاب كل حرام في الصلاة مفسدًا لها ما لم يكن منافيًا للصلاة ومن المعلوم أن قراءة القرآن في نفسها ليست بمنافية للصلاة بل الصلاة ليست الّا الذكر والتسبيح والقراءة، ألا ترى إلى ما أخرجه ابن جرير من طريق كلثوم بن المصطلق عن ابن مسعود قال أن النبي صلى الله عليه وسلم كان عودني أن يرد على السلام في الصلاة فأتيته ذات يوم فسلمت عليه فلم يرد علي وقال إن الله يحدث في أمره ما شاء وانه قد أحدث لكم في الصلاة أن لا يتكلم أحد الّا بذكر الله وما ينبغي من تسبيح وتمجيد وقوموا لله قانتين ذكره السيوطي في الدر المنثور وأخرج مسلم وأبو داؤد والنسائي وأحمد وابن أبي شيبة عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ قَالَ بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِّنَ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَرْحَمُكَ اللهُ فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ فَقُلْتُ وَاثُكْلَ أُمِّيَاهْ، مَا شَأْنُكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُصَمِّتُونَنِيْ لَكِنِّيْ سَكَتُّ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبِأَبِيْ هُوَ وَأُمِّيْ مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهٗ وَلَا بَعْدَهٗ أَحْسَنَ مِنْهُ فَوَاللهِ مَا كَهَرَنِيْ وَلَا ضَرَبَنِيْ وَلَا شَتَمَنِيْ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هٰذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيْهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيْحُ وَالتَّكْبِيْرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ.واداء الأذكار ليست بمنافية للصلاة فكيف يصحّ الحكم بفساد الصلاة بها وكون ذٰلك

Page 115

مكروهًا أو حرامًا بما لاح من الدلائل لايستلزم ذٰلك واني والله لفي تعجب شديد من صنيع من نقل هذا القول في كتبهم ساكتًا عليه ولم يحكموا بكونه غلطًا مردودًا وغاية ما قالوا أن عدم الفساد أصحّ ولم يحكموا بكونه صحيحًا وكون ما يخالفه غلطًا صريحًا وغاية ما أستدل أصحاب هذا القول الواهي ببعض آثار الصحابة كأثر من صلى خلف الإمام فلا صلاة له، وستعرف أنه مما لايحتجّ به ولا يستقيم الاستدلال به، وما ذكره السرخسيّ ومن تبعه أن فساد الصلاة مذهب عدة من الصحابة يقال له أيُّ صحابي قال بهذا وأيُّ مُخرّج خرّج هذا وأيُّ راوى روى هذا ومجرد نسبته اليهم حاشاهم عنه من دون سند مسلسل محتج بروايته مما لايعتد به.{ FR 4684 }؂ { FN 4684 } ؂ (انہوں نے یہ بھی کہا کہ) اور پانچویں بات یہ ہے کہ امام کے پیچھے قراءت کرنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے جیسا کہ انہوں نے دُرَرُ البحار میں اس کا ذکر کیا ہے اور (ان کی) اس بات کا زیادہ صحیح بات کے خلاف ہونا گزر چکا ہے.پس ہمارے ساتھیوں کے یہ پانچ اقوال ہیں، ان میں سے سب سے زیادہ ضعیف اور کمزور ترین یہی ہے.بلکہ یہ پانچواں قول تو اس مسئلہ میں پیش کیے جانے والے تمام اقوال میں سے سب سے زیادہ کمزور ہے.اور یہ مکحول نسفی کی اُس شاذ اور مردود روایت کی طرح ہے جو اُس نے امام ابوحنیفہ سے نقل کی ہے کہ رکوع وغیرہ کے وقت رفع یدین کرنا نماز کو فاسد کرنے والا ہے.اور ہمارے بعض بزرگوں کا اس پر اعتماد شوافع کی پیروی کےجواز سے انکار کی وجہ سے ہے.اور یہ دونوں (باتیں) ایسے ردّ شدہ اقوال میں سے ہیں، جن کا جرح کے بغیر ذکر کرنا جائز نہیں.اگرچہ ہمارے حنفی دوستوں کی بہت سی فقہی کتابوں میں ان کا ذکر کیا گیا ہے.اور میں اپنے رسالہ ’’الفوائد البهية في تراجم الحنفية‘‘ اور اس پر اپنے حواشی بنام ’’التعلیقات السنية‘‘ میں اس کی وضاحت کرچکا ہوں، پس چاہیے کہ اسے غور سے دیکھا جائے، یہ محض میرا خیال نہیں ہے.کیا کوئی عقل مند اُسے جس کا کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابر صحابہ کی ایک جماعت سے ثابت ہو، نماز کی خرابی کہہ سکتا ہے؟ اور اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ یہ ثابت نہیں ہے نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اور نہ آپؐ کے صحابہؓ سے، یا ثابت تو ہے لیکن منسوخ ہوگیا تھا تو اس کا منتہیٰ یہ ہوگا کہ یہ (امر) خلافِ سنت ہے یا مکروہ ہے پاکیزگی کی خاطر یا حرمت کی وجہ سے، اور اس سے نماز کا فساد لازم نہیں آتا.بلکہ اگر ہم فرض کرلیں کہ یہ قطعی حرام ہے تو بھی اس سے نماز کی خرابی لازم نہیں آتی.اور نماز میں ہر حرام کا ارتکاب اسے فاسد کرنے والا نہیں جب تک کہ وہ نماز کے منافی نہ ہو.اور یہ معلوم (باتوں) میں سے ہے کہ فی ذاتہٖ قرآنِ کریم کی قراءت ہرگز نماز کے منافی نہیں ہے.نماز تو ہے ہی ذکر، تسبیح اور قراءت.کیا تم نے وہ روایت نہیں دیکھی جسے ابن جریر نے بسند کلثوم بن مصطلق (حضرت عبد اللہ) بن مسعودؓ سے روایت کیا.انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں میرے سلام کا جواب دے دیتے تھے، پھر ایک دن میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ کو سلام کیا مگر آپؐ نے مجھے جواب نہ دیا.پھر فرمایا:پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے امر میں سے جو چاہتا ہے بیان فرماتا ہے اور اُس نے نماز کے متعلق تمہارے لیے یہ (نیا حکم) بیان فرمایا ہےکہ کوئی شخص (اس میں ) بات نہ کرے،

Page 116

پندرہواں اعتراض قراءت فاتحہ خلف الامام عقل (قیاس) کے خلاف ہے.احادیث اور آثار باہم متخالف بقیہ حاشیہ : سوائے ذکر الٰہی اور مناسب حال تسبیح اور تمجید کےاور اللہ کے فرمانبردار ہوکر کھڑے ہوجاؤ.سیوطی نے درّ منثور میں اس کا ذکر کیا ہے اور مسلم، ابوداؤد، نسائی، احمد اور ابن ابی شیبہ نے حضرت معاویہ بن حکم سلمیؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا: اس دوران کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ لوگوں میں سے ایک شخص نے چھینک ماری تو میں نے کہا: يَرْحَمُكَ اللهُ (یعنی اللہ تجھ پر رحم کرے)اس پر لوگ مجھے گھورنے لگے.میں نے کہا: ہائے! میری ماں مجھے کھوئے، تمہیں کیا ہوا ہے کہ مجھے (اس طرح) دیکھ رہے ہو؟ اس پر وہ اپنے ہاتھ مارنے لگے، جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کروا رہے ہیں تو میں خاموش ہوگیا.پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی، میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، میں نے آپؐ سے اچھا معلّم نہ تو آپؐ سے پہلے کوئی دیکھا اور نہ آپؐ کے بعد.اللہ کی قسم! آپؐ نے نہ تو مجھے ڈانٹا اور نہ ہی مارا اور نہ ہی بُرا بھلا کہا.آپؐ نے فرمایا: اس نماز میں لوگوں کا کچھ بھی بات کرنا درست نہیں، یہ تو صرف تسبیح، تکبیر اور تلاوتِ قرآن کرنا ہے.اور یہ اذکار کرنا ہرگز نماز کے منافی نہیں، تو ان کی وجہ سے نماز کے فساد کا فیصلہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے! اور جیسا کہ دلائل سے ظاہر ہے اس کا مکروہ یا حرام ہونا بھی لازم نہیں آتا.اور اللہ کی قسم میں تو اس کام سے سخت تعجب میں ہوں کہ یہ قول ان کی کتابوں میں درج ہے، اس حال میں کہ وہ اس پر خاموش ہیں اور انہوں نے اس کے غلط اور قابل ردّ ہونے کا فیصلہ نہیں دیا.اور جو انہوں نے کہا اُس کا لُبِّ لباب یہ ہے کہ عدمِ فساد ہونا زیادہ درست ہے اور انہوں نے اس کے صحیح ہونے اور جو اس کی مخالفت کرے اُس کے صریحاً غلط ہونے کا حکم نہیں دیا اور اس کمزور قول کے ماننے والوں نے اس اثر کی طرح کہ جس نے امام کے پیچھے پڑھا اس کی نماز نہیں، بعض آثار صحابہ سے جو انتہائی استدلال کیا ہے (اس کی غلطی کی طرف توجہ نہیں دلائی) اور تم جان لو گے کہ یہ بات ایسی ہے کہ جسے حجت نہیں بنایا جاتا اور جس سے استدلال نہیں کیا جاتا.اور(علّامہ سَرْخَسِیْ ) اور اُن کے پیروکاروں نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ نماز کے فاسد ہونے کا عقیدہ متعدد صحابہ کا ہے تو اُن سے کہا جائے کہ کس صحابی نے یہ بات کہی ہے اور کس محقق نے اس کی تخریج کی ہے اور کس راوی نے اسے روایت کیا ہے؟ اور (سَرْخَسِیْ) کی ایسی روایت کو حجت بناتے ہوئے جو کسی شمار میں نہیں، بغیر کسی متصل سند کے محض اس بات کا ان (صحابہ) کی طرف منسوب کرنا، اُنہیں اس سے بری کرتا ہے.(إمام الکلام فیما یتعلّق بالقراءة خلف الإمام، صفحہ 12، مطبوعہ مطبع مصطفائی)

Page 117

ہیں اور اعلیٰ کے تخالف میں ادنیٰ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے.اس لئے یہاں رجوع کر کے دیکھا تو مدرک فی الرکوع تارک قراءت فاتحہ کو بالاجماع مدرک رکعت کہتے ہیں.نہ تارک تکبیر اور قیام کو.اس اجماع سے صاف معلوم ہوتا ہے.قراءت فاتحہ یا مطلق قراءت بھی مقتدی کے حق میں فرض نہ تھی حالت ضرور ت میں سقوط مستلزم عدم فرضیت سے مدرک فی الرکوع سے تکبیر اور قیام بخوف فوت ادراک فی الرکوع ساقط نہیں ہوتے.اگر قراءت بھی فرض ہوتی تو وہ بھی بضرورت خوف ادراک فوت نہ ہوتی.پہلا جواب.اَلْـحَمْدُ لِلہِ معترض نے تعارض مانا ہمارے حنفی تو قراءت فاتحہ کی کوئی دلیل بھی نہیں مانتے.۲جواب.قرآن اور احادیثِ ثابتہ میں کوئی تعارض اور تخالف نہیں.قرآن بالبداہت اہلِ اسلام کے نزدیک کلام الٰہی ہے (اس کے حروف بھی اللہ کی طرف سے ہیں کیونکہ کلام الٰہی بھی صوَت اور حروف رکھتا ہے) اور حدیث حسبِ فرمان ( مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى) حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا فرمان ہے.اور باری تعالیٰ فرماتا ہے.لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا (النسآء:۸۳) یہ تو اجمالاً عدم اختلاف کا ثبوت ہے.تفصیل اجمال اعتراضات کی جوابوں میں دیکھ لیجئے اور اجمال اور تفصیل کا بین بین بیان یہاں سن لیجئے.آیت فَاقْرَؤُوْا مَا تَیَسَّرَ میں ما کا کلمہ ضرور عام مخصوص البعض ہے.ابن ھمام حاشیہ ہدایہ میں لکھتے ہیں.وَلَنَا قَوْلُهٗ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ مَنْ كَانَ لَهٗ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهٗ قِرَاءَةٌ، فَإِذَا صَحَّ وَجَبَ أَنْ يُخَصَّ عُمُومُ الْآيَةِ وَالْحَدِيْثِ عَلٰى طَرِيقَةِ الْخَصْمِ مُطْلَقًا { FR 4689 }؂ (خصم اہلِ حدیث اور امام شافعی وغیرہ بلکہ خود ابوحنیفہ و سَلف ہیں).فَيَخْرُجُ الْمُقْتَدِيْ وَعَلٰى طَرِيْقَتِنَا (متأخرین حنفیہ یا ہم مان لیں کل حنفیہ بلکہ خود امام ابوحنیفہ ) يُخَصُّ أَيْضًا لِأَنَّهُمَا عَامٌّ خُصَّ مِنْهُ { FN 4689 } ؂ اور ہمارے لیے آنحضور علیہ السلام کا قول (کافی) ہے کہ جس کا امام ہو تو امام کی قراءت ہی اس (مقتدی) کی قراءت ہے.پھر جب یہ صحیح ہے تو جھگڑے کی صورت میں واجب ہے کہ آیت اور حدیث کے عموم کو مطلقاً مخصوص لیا جائے.

Page 118

الْبَعْضُ، وَهُوَ الْمُدْركُ فِي الرُّكُوعِ إجْمَاعًا فَجَازَ تَخْصِيصُهُمَا.انتہٰی.{ FR 5149 }؂ اور عام مخصوص کی تخصیص بالاتفاق ممنوع نہیں پس لَاصَلوٰةَ کی متواتر حدیث سے تخصیص کیوںممنوع ہو گی.باایں مَاتَیَسَّرَ محتمل الوجوہ ہے کَمَا مَرَّ اور آیت اِذَا قُرِیَٔ الْقُرْآنُ کی تخصیص اہلِ حدیث کے بیان مطلق اور آپ کے یہاں اس لئے کہ مخصوص ہے کَمَا مَرَّ حَدِیْثٌ لَا تَقْرَءُوْا بِشَيْءٍ مِّنَ الْقُرْآنِ إذَا جَهَرْتُ بِهٖ إلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ.{ FR 5150 }؂سے ممنوع نہ ہو گی اور احادیث میں اس لئے تعارض نہیں کہ اعرابی کی حدیث میں فاتحہ کا صریح حکم موجود ہے دیکھو ابن حباّن اور مسند احمد.اگر تصریح نہ ہوتی محتمل تھی کَمَامَرَّغَیْرَمَرَّةٍ.{ FR 5151 }؂ یاجیسے ابن ھمام نے کہا ہے أَنَّ وُجُوْبَهُمَا (الفاتحة و السورة) كَانَ ظَاهِرًا.{ FR 5152 }؂ پس ہم بھی کہتے ہیں.ان لزوم الفاتحة کان ظاہرًا او المقصود ماتیسر بعد ہا لظہور لزومھا کما قال ابن الہمام { FR 5153 }؂ اور حدیث قراء ة الامام اور اذا قریٔ فانصتوا.دونوں اوّل تو شاذ ہیں ان کا شذوذ ابن ھمام نے مانا ہے گو شاذ مقبول کہا ہے.(قَالَ) وَإِذَا قَرَأَ...هَذَا هُوَ الشَّاذُّ الْمَقْبُولُ، وَمِثْلُ هَذَا هُوَ الْوَاقِعُ فِي حَدِيثِ «مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهٗ قِرَاءَةٌ«انتہٰی.{ FR 5560 }؂ { FN 5149 }؂ اور مقتدی (اس مندرجہ بالا ارشادِ نبوی سے) نکل جائے گا اور ہمارے طریق کے مطابق بھی اسے مخصوص کیا جائے گا.کیونکہ یہ دونوں (موقف ہی) عمومی ہیں جو ایک اجماعی امر سے مخصوص کیے گئے ہیں اور وہ رکوع میں (نماز) پا لینے والا ہے.پس دونوں (مفاہیم) کی تخصیص کرنا جائز ہے.(فتح القدیر لابن ھمام، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فصل فی القراءة) { FN 5150 }؂ جب میں قراءت بالجہر کروں تو اُمّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) کے سوا قرآن کریم میں سے کچھ بھی قراءت نہ کرو.{ FN 5151 }؂ جیسا کہ متعدد مرتبہ گزر چکا ہے.{ FN 5152 }؂ کہ ان دونوں (یعنی سورۂ فاتحہ اور کسی اور سورۃ کی قراءت) کا واجب ہونا واضح ہے.{ FN 5153 }؂ کہ سورۂ فاتحہ(کی قراءت) کا لازم ہونا ظاہر ہے یا جیسا کہ ابن ہمام نے کہا کہ اس کے بعد مَا تَیَسَّرَ (کے حکم) کا مقصد اس کے لازم ہونے کو ظاہر کرنا ہے.{ FN 5560 } ؂ انہوں نے کہا: اور جب (امام) قراءت کرے( تو خاموش رہو.) یہ (روایت) تو شاذ مقبول ہے اور ایسی ہی بات ایک حدیث یعنی ’’جس کا امام ہو تو امام کی قراءت ہی اس (مقتدی )کی قراءت ہے‘‘ میں آئی ہے.(فتح القدیر لابن ھمام، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فصل فی القراءة)

Page 119

ابن ھمام اور وجوہ ِمرقومة الصدر کے سوا ئے حسب ِقول ابن ھمام (حَيْثُ قَالَ:) يُحْمَلُ...ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ … عَلَى غَيْرِ حَالَةِ الِاقْتِدَاءِ جَمْعًا بَيْنَ الْأَدِلَّةِ { FR 5561 }؂ ہم کہتے ہیں مَا تَیَسَّرَ مَعَکَ اور لَہٗ قِرَاءَةٌ اور إِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوْا کُلٌّ فِیْ سوی الفاتحة جمعًا بین الادلّة{ FR 5562 }؂.یاد رہے ابن الھمّام نے ان دونوں حدیثوں کی نسبت کہا ہے.الاوّل صحیح علٰی شرط الشیخین و الثانی علٰی شرط مسلم{ FR 5563 }؂ حالانکہ بخاری اور مسلم نے اپنے شروط کی کہیں تصریح نہیں کی.ان کی تفضیل تلقی الامة بالقبول { FR 5564 }؂ہے جو کسی کتاب کو بعد کتاب اللہ صحیحین کے ماوراء حاصل نہیں.(امداد) صحیحین کے مطاعن دیکھنے ہوں تو دیکھو شیعہ اثنا عشریہ کی کتابوں میں بہت لکھے ہیں اور یہ میرا کلام صرف اس لئے ہے کہ مولوی صاحب مخاطب خاص صحیحین کی عظمت کے قائل نہیں اور منازعہ اور مخالجہ اور مخالطہ کی حدیثیںجہری قراءت کی مانع ہیں نہ آہستہ پڑھنے کی اور لَاتَفْعَلُوْا کی حدیث سے بالتصریح فاتحہ مستثنیٰ ہے.اِلَّاوَرَاءَ الامام کی حدیث میں استثنا کا اشارہ عبارت کا معارض نہیں ہو سکتا.اور اَدِلّہ مثبتہ قراءت فاتحہ‘ قراءت فاتحہ پر نصّ ہیں اور منع کے ادِلّہ سے بالتصریح فاتحہ کی ممانعت نہیں نکلتی اور آثار میں آثارِ َمنع ثابت نہیں بہ تسلیم محال مرفوع مثبت کے مقابل حجت نہیں بامنازعت اور مخالجت اور مخالطت کے مانع ہیں.۳جواب.حسب تحقیق سابق جب تعارض نہیں تو مسئلہ منصوص ہو گیا اور قیاس بمقابلہ نص حجت نہیں.{ FN 5561 } ؂ (جہاں انہوں نے یہ کہا ہے کہ) دلائل کی مجموعی صورت میں (قول) ’’پھر …… جو تمہیں میسر ہو پڑھو‘‘ عدمِ اقتداء کی حالت پر (یعنی انفرادی نماز پر) محمول کیا جائے گا.(فتح القدیر لابن ھمام، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فصل فی القراءة) { FN 5562 }؂ ’’جو تمہیں میسر ہو (پڑھو)‘‘ اور ’’(امام کی قراءت ہی) اس کی قراءت ہے‘‘ اور ’’جب (امام) قراءت کرے تو خاموش رہو.‘‘ یہ سب (احادیث) دلائل کی مجموعی صورت میں سورۂ فاتحہ (کی قراءت) کے علاوہ ہیں.{ FN 5563 }؂ پہلی (روایت) شیخین یعنی بخاری اور مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے اور دوسری (روایت) مسلم کی شرائط کے مطابق ہے.{ FN 5564 }؂ امت کے قبول کرلینے سے ہے.

Page 120

۴جواب.مُدرکِ رکوع تارکِ قراءت کے اعتداد رکعت کا مسئلہ متنازع فیھا ہے اجماعی نہیں اور مولوی عبد الحی سَلَّمَہٗ رَبُّہٗ کا فرمانا.اِلَّا ان یّقال انّ الخلا ف ثابت بعد عصر الصحابة وھم متّفقون علٰی ذٰلک و لم ینقل منھم مایدلّ علٰی خلافہ { FR 5157 }؂ صحیح نہیں جیسے بیان ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ اور مولوی صاحب کا اِلَّا اَنْ یُّقَالَ جیسا لفظ خود مومی ہے.۵ جواب.تکبیر اور قیام بقدر طمانینت اَمْرَین غَیرمُـمْتَدَّ ین کا عدم سقوط عند الضرورت مستلزم عدم سقوط قراءت جیسے فعل ممتد کا نہیں کیونکہ قراءت فاتحہ میں رکعت کے فوت ہونے کا ڈر ہے بخلاف تکبیر اور قیام.۶جواب.بعض فرض بھی ضرور ت کے وقت ساقط ہو جاتے ہیں دیکھو قیام عند العجر اور رکوع اور سجود عند العجز.۷جواب.سقوط عند الضرورة مستلزم عدم فرضیت نہیں.یہ کئی جواب مولوی عبد الحی صاحب کے امام الکلام سے لئے گئے.دوسری وجہ قراءت خلف الامام کے مخالف عقل ہونے کی جمہور علماء کے نزدیک مطلق خطبہ کا سننا کتاب و سنت سے واجب ہے.یہی مذہب ہے امام ابوحنیفہ اور امام مالک اور امام شافعی کا.اور قرآن کا سننا خواہ مخواہ خطبہ سے کم نہ ہو گا.لِاِشْتِرَاکِ الْعِلَّةِ.پہلا جواب.اہلِ حدیث کے نزدیک خطبہ کی حالت میں رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ کا پڑھ لینا جائز ہے.استماع خطبہ ان کا مانع نہیں کیونکہ رَکْعَتَیْن کا حکم ہے ایسے ہی استماعِ قرآن قراءتِ فاتحہ کا مانع نہ ہوگا.لِاِشْتِرَاکِ الْعِلَّةِ وَ ھِیَ الْاَمْرُ بِـھَا{ FR 5158 }؂.{ FN 5157 }؂ سوائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ اختلاف صحابہ کرام ؓکے زمانہ کے بعد سے ثابت ہے اور وہ (یعنی صحابہؓ) اس پر متفق تھے.اور اُن سے ایسی کوئی بات نقل نہیں کی گئی جو اس کے خلاف دلالت کرے.{ FN 5158 }؂ قدرِ مشترک ہونے کی وجہ سے اور اس کے متعلق یہی حکم ہے.

Page 121

۲جواب.جس شخص کی فجر کی نماز قضا ہو جاوے اس کے حق میں اداء صلوٰة عِنْدَ الْـخُطْبَةِ حنفی جائز رکھتے ہیں.جس دلیل سے یہ خلاف استماع یا تخصیص استماع مانی گئی.ایسی ہی دلیل سے قراءت فاتحہ جائز ہے.تیسری وجہ دو قرائتیں ایک حقیقی اور ایک حکمی جمع ہو گی.اگر مقتدی امام کے پیچھے فاتحہ پڑھے گا.جواب.پھر کیا حرج.کوئی جرح شرعی ثابت کر دیجیے.چوتھی وجہ مقتدی مُنَازِعَة سے پڑھے گا یا عِنْدَ السَّکْتَاتَ مُنَازعہ ممنوع ہے اور عِنْدَ السَّکْتَاتَ پر یہ اعتراض ہے کہ امام پر سکتہ فرض نہیں.پس اسے اختیار ہے سکتہ نہ کرے.جواب.مقتدی بدوں منازعت سِرًّا قراءت پڑھے جَہْرًا نہ پڑھے.امام صاحب کا مناظرہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ دلیل محکم میں یہ مناظرہ لکھا ہے اِلَّا افسوس رسالہ اس وقت پاس نہیں اور جب دیکھا تھا اس وقت راقم نہایت صغیرالسن تھا.حافظہ میں جس قدر ہے اسے لکھتا ہوں.پانچ سو عالم امام صاحب کی خدمت میں ترکِ فاتحہ کے مخالف جمع ہوئے ان کو جناب نے فرمایا.تم سب سے ایک آدمی بات کرے ممکن نہیں اپنی جماعت میں سے منتخب کرو.آخر ایک کو منتخب کیا تب جناب امام نے فرمایا.کیا اس کا کہنا تمہارا کہنا ہو گا اور اس کا قول تمہارا قول.سب نے جواب دیا.ہاں امام نے فرمایا.یہی تمہارا جواب ہے.جب ایک شخص کو بہت آدمیوں نے امام بنایا تو اس کا پڑھنا مقتدیوں کا پڑھنا ہو گا.اس پر سب علماء ساکت ہو گئی.جواب.اوّلؔ نقل صحیح اور ایسے قیاس مع الفارق کا معارضہ کیا.دوئمؔ.معلوم ہوا اُس وقت کے بھی پانچ سو عالم اس مسئلے میں امام صاحب کے مخالف تھے.سیومؔ.یہ ظریفانہ دلیل اگر صحیح ہے تو رکوع اور سجود وغیرہ میں بھی جاری ہو سکتی ہے.اس کا بھی انکار کردو.نماز روزہ حج وغیرہ میں ایک

Page 122

شخص کو امام بنایا اور چھٹی ہو ئی ؂ پایاں نہیں جدال کا انصاف شرط ہے بے اصل بات اشترِگرگیں کا ضرط ہے وَاللہُ یُـحِقُّ الْـحَقَّ وَ یَـھْدِیْ اِلَیْہِ مَن یَّشَآءُ.ھٰذَا آخر الکلام فی اثبات الفاتحة خلف الامام{ FR 5159 }؂.مولوی عبد الحی صاحب کا انصاف و من نظر بنظر الإنصاف وغاص فی بحار الفقه و الأصول متجنّبًا عن الاعتساف یعلم علمًا یَقِیْنِیًّا أن أکثر المسائل الفرعیة و الأصلیة التی اختلف العلماء فیھا فمذهب المحدثین فیھا أقوی من مذاهب غیرهم و إنّی کلّما أسیر فی شُعَب الاختلاف أجد قول المحدّثین فیه قریبًا من الإنصاف فلِلہ درّھم وعلیه شکرھم کیف لا، وهم ورثة النبی صلی اللہ علیه وسلم حقًّا ونواب شرعه صدقًا.حشرنا اللہ فی زمرتھم وأماتنا علی حبّھم و سیرتھم.خلاصہ ترجمہ.جو کوئی انصاف سے دیکھے اور فقہ و اصول کے سمندر میں اعتساف سے بچ کر غوطہ لگاوے یقیناً جان لے گا کہ جن اصولی اور فروعی مسائل میں علماء کا اختلاف ہوا وہاں محدثین ہی کا مذہب بہت قوی پائے گا اور میں جب اختلافوں کو دیکھتا ہوں محدثین ہی کا قول اقرب بانصاف پاتا ہوں.خدا ان کی قدردانی کرے کیوں نہ ہو وہی رسول اللہ کے وارث ہیں اور وہی شرع کے نواب ہیں.اللہ ہم کو اٹھاوے ان کے زمرہ میں اور موت دے انہیں کی حُبّ اورطرزمیں.اقول فی حقّ المنصف و فی حقّی و حقّ احبّائی آمین یاربّ العالمین.{ FN 5159 }؂ اور اللہ تعالیٰ حق کو سچ کردکھاتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کی طرف رہنمائی کرتا ہے.امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ(پڑھنے)کے ثبوت میں یہ آخری بات ہے.

Page 123

مولوی محمد فضل الدین صاحب گجراتی حنفی کا جواب اور اس پر جو کلام ہے اس کی طرف اشارہ قال فاتحہ خلف الامام نزد علماء ِماجائز نیست بلکہ قائل بکراہت شدہ اند.فقیر.مولوی صاحب یہ عموم صحیح نہیں آپ کے علماء تو اس مسئلہ میں حیران ہیں.کوئی مکروہ بتاتا ہے.کوئی پڑھنے کو احتیاط کہتا ہے اور کوئی مستحسن کہتا ہے.کوئی منع کرتا ہے.کوئی مطلق نفی پر اکتفا کرتا ہے.کوئی مفسد ہے کوئی محرم ہے.آپ حنفی فقہ ملاحظہ فرمائیے.جہاں یہ اختلاف ہے.حضرت عام علماء کا لفظ بولنا انصاف نہیں.ہاں نزد بعض علماء کا لفظ اگر بولتے ممکن تھا اِلَّا کیوں بولتے اگر بعض کا لفظ بولتے تو ایک منصف آپ کو کہہ سکتا تھا فاتحہ خلف الامام نزد بعض علماء حنفی جائز است بلکہ مستحسن کما ذکر نا عن الامام.پس اقوال متعارض ہوئے.قال فی الہدایہ و لایقرأ المؤْتـمّ خلف الامام (ای شَیْئًا یَسِیْرًا مِنَ الْقِرَاءَ ةِ) خَلَافًالِلشَّافِــعِیْ فِی الْفَاتِـحَةِ { FR 5160 }؂.فقیر.اگر ہدایہ میں یہ لکھا ہے لَایَقْرَأُ الْمُؤْتَمَّ { FR 5161 }؂ تو قرآن میں کل نمازیوں کو فَاقْرَؤُوْا { FR 5162 }؂ کا ارشاد ہے امام اور منفرد پر حصر نہیں.مقتدی کی تخصیص باعث نسخ ہو گی اور عموم قرآنی توڑنا جس کو آپ پسند نہیں کرتے.یہ تو قرآن کا خلاف ثابت ہوا اور حدیث میں آیا ہے كَمَا رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ عَنْ أَنَسٍ أَتَقْرَؤُونَ فِيْ صَلَاتِكُمْ وَالْإِمَامُ يَقْرَأُ ؟ إلٰى أَنْ قَالَ فَلَا تَفْعَلُوْا وَلْيَقْرَأْ أَحَدُكُمْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِيْ نَفْسِهٖ.{ FR 5582 }؂ وَعَنْ عُبَادَةَ صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ { FN 5160 }؂ انہوں نے ہدایہ میں کہا:سورہ فاتحہ کے متعلق امام شافعی کے خلاف ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی قراءت میں سے کچھ بھی نہ پڑھے.{ FN 5161 }؂ مقتدی قراءت نہ کرے.{ FN 5162 }؂ پس تم پڑھو.{ FN 5582 }؂ جیسا کہ امام بخاری نے حضرت انسؓ سے یہ روایت کی ہے کہ کیا تم اپنی نماز میں قراءت کرتے ہو، جبکہ امام (بھی) قراءت کر رہا ہوتا ہے؟ اس تک کہ آپؐ نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو.اور تم میں سے ہر ایک کو سورۂ فاتحہ اپنے دل میں پڑھنی چاہیے.

Page 124

عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ القِرَاءَةُ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ إِنِّيْ أَرَاكُمْ تَقْرَءُوْنَ وَرَآءَ إِمَامِكُمْ، قُلْنَا إِيْ وَاللهِ، يَا رَسُوْلَ اللهِ قَالَ فَلَا تَفْعَلُوْا إِلَّا بِأُمِّ القُرْآنِ، فَإِنَّهٗ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِهَا.{ FR 5583 }؂ اور دارقطنی نے کہا رِجَالُهٗ کُلُّهُمْ ثِقَاتٌ { FR 5584 }؂ اور ایسے کئی ادلّہ جن کا ذکر ہو چکا.مولوی صاحب جی یہ شَیْئًا یَسِیْرًا جو آپ نے بطور حاشیہ ایزاد کیا قرآن کے صریحؔ فَاقْرَؤُوْا مَاتَیَسَّرَ اور اعرابی کی حدیث میں جو ثُمَّ اقْرَأْ مَاتَیَسَّرَ مَعَکَ { FR 5176 }؂ہے اس کے بھی خلاف ہے اور آپ نے جو فرمایا.خَلَافًا لِلشَّافِــعِی.اس پر والقرآن و الحدیث و اکثر اہل العلم من الصحابة و ما لایحصی من التابعین علٰی ماروی البخاری و الترمذی { FR 5179 }؂زیادہ فرما دیجیے.قَالَ وَلَنَا قَوْلُهٗ عَلَيْهِ السَّلَامُ قِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهٗ قِرَاءَةٌ.{ FR 5180 }؂ فقیر.واللہ لکم القیاسات خلافًا للنصوص.{ FR 5181 }؂ کیونکہ یہ حدیث جمع حفاظ کے نزدیک ضعیف ہے.دیکھو فتح البخاری اور تلخیص.پھر عام مخصوص البعض ہے کَمَا ذُکِرَ غَیْرَمَرَّةٍ.{ FR 5182 }؂ { FN 5583 }؂ اور حضرت عبادہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صبح کی نماز پڑھائی تو آپؐ پر تلاوت مشکل ہوگئی.جب آپؐ فارغ ہوئے توفرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ تم اپنے امام کے پیچھے پیچھے پڑھتے ہو.ہم نے عرض کیا: جی ہاں، یارسول اللہ! (ہم ایسا ہی کرتے ہیں.) آپؐ نے فرمایا: ام القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) کے سوا ایسا نہ کیا کرو.کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہے.{ FN 5584 }؂ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں.{ FN 5176 }؂ پھر (قرآن میں سے) جو تمہیں میسر ہو، پڑھو.{ FN 5179 }؂ اور قرآن، حدیث، اکثر اہل علم صحابہ اور بے شمار تابعین اس بات پر ہیں جو امام بخاریؒ اور ترمذیؒ نے روایت کی ہے.

Page 125

صاحبِ من آپ لوگوں نے تو اس مسئلہ میں ادلّہ قرآن و حدیث کو متعارض پایا ہے.اگر احادیث سے آپ کا دلیل پکڑنا کافی اور صحیح ہوتا تو عقل اور قیاس سے استدلال نہ پکڑتے اور نہ کہتے.قَدْ تَعَارَضَ الْاَدِلَّةُ فَرَجَعْنَا اِلَی الْقَیَاسِ.قَالَ (الْمَوْلَوِیْ) وَعَلَیْہِ اِجمَاعُ الصَّحَابَةِ (سَمَّاہُ اِجْمَاعًا بِاِعْتِبَارِ الأکثر).{ FR 4693 }؂ فقیر.بَلْ عَلٰی خَلَافِہٖ کَمَا رَأَیْتَ فَانْصَفْ.{ FR 5183 }؂ قال.و ھو رکن مشترک بینہما و لٰکن خطو المقتدی الانصات و الاستماع قال وَ إِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوْا.{ FR 4694 }؂ فقیر.نعم رکن مشترک.والقراءة السریّة لاینافی الانصات انظر الی حدیث فیہ ما اسکاتک بین التکبیر و القراءة ما تقرأ، مع ان اللفظ وھم والعام یبنی علی الخاص.و قد مرّ بسط الجواب.{ FR 4695 }؂ قال.و یکرہ عندہما (ای الشیخین).{ FR 5184 }؂ فقیر.اترک ذَینک الشیخین اذا لم { FN 4693 } ؂ دلائل میں اختلاف ہے لہٰذا ہم قیاس کی طرف لَوٹے ہیں.مولوی (عبد الحی) صاحب نے کہا: اور اس بات پر صحابہ کا اجماع ہے.(انہوں نے اکثریت کی وجہ سے اسے اجماع کا نام دیا ہے ) { FN 5183 }؂ لیکن یہ (اکثریت) تو اس کے خلاف ہے جیسا کہ تم نے دیکھ لیا ہے پس انصاف سے کام لو.{ FN 4694 } ؂ اور (نماز کا) یہ رُکن دونوں کے مابین مشترک ہے لیکن مقتدی کی اطاعت خاموش رہنا اور توجہ سے سننا ہے.آپؐ نے فرمایا: اور جب (امام) پڑھے تو خاموش رہو.{ FN 4695 }؂ ہا ں (نماز کا) یہ رُکن مشترک ہے.اور سرّی (نمازوں کی) قراءت خاموش رہنے کے منافی نہیں، اس حدیث کو دیکھو جس میں ہے کہ تکبیر اور قراءت کے درمیان آپؐ کی خاموشی کیونکر ہے، آپؐ (اس میں) کیا پڑھتے ہیں؟ اس (بات) کے ساتھ(دیکھو) کہ اس لفظ میں گمان ہے اور عام کی بناء خاص پر ہوتی ہے.اور (اس کا) تفصیلی جواب گذر چکا ہے.{ FN 5184 }؂ ان دونوں (بزرگوں یعنی امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف) کے نزدیک یہ ناپسندیدہ ہے.

Page 126

یذکرا عن سید الکونین و تمسک بحبل اللہ المتین القرآن و حدیث رسولہ الامین او اجعل الشیخین عمر الفاروق و علی المرتضٰی و اقرأ خلف الامام کما کانا یقرآن اتباعًا للرسول المجتبٰی.ثُمَّ لِاَیِّ اَمْرٍ تختار شیخیک علی الإمامین الـجلیلین البخاری و المسلم و کانا بالاجماع الشیخین.{ FR 4696 }؂ قال.لما فیہ من الوعید انتہٰی بتغیّر یسیر.انتہٰی.{ FR 5185 }؂ فقیر.ما فی اتباع القرآن والحدیث من الوعید انما الوعید لمن ترکھما و اتخذھما ظھریًا بل فی اتباعہما وعد الصدق و تغیرک الیسیر موجب للخطأ الکبیر و الخیانة الکثیر عفا اللہ عنک موصل الی السعیر.ترکت قول الہدایة و یستحسن علی سبیل الاحتیاط وما خفت من الرب القدیر.{ FR 4697 }؂ قال.وما یروی عن محمد انه لیستحسن علی سبیل الاحتیاط فردّہ ابن الھمام حیث قال ان الاحتیاط لیس فی قراءة خلف الإمام بل فی عدمه لان الاحتیاط { FN 4696 }؂ ان دو بزرگوں کو چھوڑو جبکہ ان دونوں نے سیدالکونین صلی اللہ علیہ و سلم سے (اسے) بیان نہیں کیا.اور اللہ کی مضبوط رسی قرآنِ کریم اور اس کے رسول امین کی حدیث سے چمٹ جاؤ.یا حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت علی مرتضیٰؓ کو شیخین تسلیم کرکے امام کے پیچھے قراءت کرلو، جیسا کہ وہ دونوں رسولِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع میں قراءت کیا کرتے تھے.پھر تم کس بات پر اپنے ان دو بزرگوں کو اُن جلیل القدر دو اَئمہ بخاری اور مسلم پر اختیار کرتے ہو، جو بالاجماع شیخین ہیں.{ FN 5185 }؂ کیونکہ اس میں چھوٹی سی تبدیلی کرنے کے متعلق بھی وعید ہے.{ FN 4697 } ؂ قرآن اور حدیث کی اتباع میں کیا وعید؟ وعید تو صرف اُس کے لیے ہے جس نے ان دونوں کو چھوڑا اور پس پشت ڈال دیا.بلکہ ان دونوں کی اتباع کرنے میں تو ایک سچا وعدہ ہے.اور تمہاری چھوٹی سی تبدیلی کرلینا بہت بڑی خطا اور بہت بڑی خیانت کی مستلزم ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں بھڑکتی ہوئی جہنم تک پہنچنے سے محفوظ رکھے.تم نے ہدایت کی بات چھوڑی اور احتیاط کی راہ سے اسے مستحسن قرار دیتے ہو، اور ربِّ قدیر سے نہیں ڈرتے.

Page 127

ھو العمل بأقوی الدلیلین ولیس مقتضی اقویھا القراءة.{ FR 4698 }؂ فقیر.ترکتَ ترجیح الھدایة و ذکرت کأنہ لیْس قولھا وبئس الترک و الرد وقد رأیت حال اقوی الدلیلین فیما سلف.{ FR 4699 }؂ قال.وقد روی عن عدة من الصحابة فساد الصلاة بالقراءة خلفہ فأقویھما المنع انتہٰی ملخّصًا.انتہٰی.{ FR 4700 }؂ فقیر.وما اتبعتَ هٰٓؤُلَآءِ الصحابة وما رجـعت الفساد فـخالفتَ عدة من الصحابة وما اتبعت أقوی الأدلّة وما لـخصتَ اِلّا لہتک استارک.فما نقول لک الا أین اسناد تلک الآثار، بین حتی انظر، او ینظر غیری من ذوی الأیدی و الأبصار.{ FR 4701 }؂ قال.وفی البناية منع المقتدی من القراءة مروی من ثمانین نفرًا من الصحابة قال صاحب الکافی مِنْهُمُ الْمُرتَضَى وَالْعَبَادِلَة.وفی الکرمانی عن الشعبی ادرکت سبعین { FN 4698 } ؂ اور جو کچھ محمد (بن حسن) سے مروی ہے کہ وہ احتیاط کے پیش نظر اسے مستحسن کہتے تھے، تو ابن ہمام نے اسے ردّ کیا ہے جہاں انہوں نے کہا ہے کہ احتیاط امام کے پیچھے قراءت کرنے میں نہیں بلکہ قراء ت نہ کرنے میں ہے، کیونکہ احتیاط ایسا عمل ہے جو دونوں دلیلوں میں سے مضبوط ترین ہے، اور مضبوط ترین سے مقصود قراءت کرنا نہیں ہے.{ FN 4699 }؂ تم نے ’’الہدایۃ‘‘ کی ترجیح کو چھوڑ دیا اور ایسے ذکر کیا کہ گویا یہ اس کا قول ہی نہیں.اور یہ چھوڑدینا اور ردّ کردینا بہت ہی بُرا ہے.حالانکہ تم دونوں دلیلوں میں سے مضبوط ترین دلیل کا حال جیسا کہ گذرا ہے دیکھ چکے ہو.{ FN 4700 }؂ اور امام کےپیچھے قراءت سے نماز کا فاسد ہونا متعدد صحابہ سے روایت کیا گیا ہے.پس خلاصۃً ان دونوں (دلیلوں) میں سے مضبوط رُکنا ہی ہے.{ FN 4701 }؂ ا ور تم نے ان صحابہ کی پیروی نہیں کی اور نہ ہی تم نے فساد سے رجوع کیا، پس تم نے متعدد صحابہ کی مخالفت کی اور مضبوط ترین دلیل کی اتباع نہیں کی.اور صرف اپنی پردہ دَری کروانے کو ہی اختیار کیا ہے.پس ہم تمہیں صرف یہی کہتے ہیں کہ ان روایات کی اسناد کہاں ہیں؟ واضح کرو تاکہ میں دیکھ لوںیا میرے علاوہ صاحب دسترس اور صاحب بصیرت لوگوں میں سے کوئی دیکھ لے.

Page 128

بدریًّا کلھم علی انہ لایقرأ خلف الامام.کذا ذکرہ علی القاری.{ FR 4702 }؂ فقیر.لیس البنایة من کتب الحدیث والآثار بل ولا من الکتب التی علیہا شیء من الاعتبار بل اقول صاحب النہایة والکافی قد کذبا کذبًا صریحًا و ارتکبا غلوًّا قبیحًا فان کنت فی شک مما انزلنا الیک فاسئل الذین قد وسعوا النظر فی الاسناد وھم اھل الذکر و الاعتماد.{ FR 4703 }؂ مسئلہ مدرک رکوع کی بحث اصل سوال.مدرک رکوع مدرک رکعت میشود یانے.جواب.رکوع کا مدرک اگر رکوع سے پہلے فرائض اور شرائط کو ادا کر چکا ہے تو مدرک رکعت ہے اگر ادا نہیں کر چکا تو نہیں.مثلاً مدرک رکوع بدوں وضو شریک نماز ہوا اس کی رکعت نہیں ہوتی.یا بدوں تکبیر شامل ہوا تو اس کی رکعت اور نماز نہیں ہوئی یا بدوں قراءت فاتـحة الکتاب اور قیام بقدر طمانینت شامل نہ ہو تو اس کی رکعت نہیں.وغیرہ وغیرہ.قراءت فاتـحةالکتاب میں ہمارے پاس والے بھائی مخالف ہیں.اس لئے اوّل فاتحہ کے ہر رکعت میں فرض ہونے کے دلائل بیان کرتا ہوں پھر اس مسئلہ کی وجہِ بنا اس پر پھر اُن اعتراضوں کا جواب جو قائل عدم اعتدا د رکعت پروارد ہوتی ہیں دوں گا.پھر اخیر میں مولوی صاحب کے دلائل پر مختصر کلام کروں گا.انشاء اللہ تعالیٰ.{ FN 4702 }؂ اور ’’ البناية (شرح الهداية للعینی) ‘‘ میں ہے کہ مقتدی کو قراءت سے منع کرنا صحابہ میں سے اَسی (80) افراد سے مروی ہے.الکافی کے مصنف نے کہا کہ (حضرت علی) مرتضیٰؓ اور عبد اللہ نامی (صحابہ) ان میں سے ہیں.اور کرمانی میں شعبی سے روایت ہے کہ میں نے ستر(70) بدری صحابہ کو اس موقف کا حامل پایا، کہ امام کے پیچھے قراءت نہیں کی جاتی.جیسا کہ ُملاّ علی القاری نے اس کا ذکر کیا ہے.{ FN 4703 }؂ البنایة حدیث اور آثار کی کتب میں سے نہیں ہے.بلکہ اُن کتب میں سے بھی نہیں ہے جن پر کچھ اعتبار ہوتا ہے.بلکہ میں کہوں گا کہ البنایہ اور الکافی کے مصنفین نے کھلم کھلا کذب بیانی کی ہے اور ان دونوں نے نہایت ناپسندیدہ غلو کا ارتکاب کیا ہے.پھر بھی اگر تم اس کے متعلق جو ہم نے تمہارے سامنے بیان کیا ہے کسی شک میں ہو تو اُن لوگوں سے پوچھ لو، جنہیں علم اسناد میں وسعت ِ نظر حاصل ہے، اور وہی لوگ نصیحت واعتماد والے ہیں.

Page 129

پہلی دلیل بخاری اور مسلم کی متفق حدیث میںمُسِيء فِي الصَّلَاة.{ FR 5190 }؂ کا اصل قصہ آچکا ہے چنانچہ ہمارے مولوی صاحب نے بھی مطلق قراءت قرآن میں اسی سے استدلال پکڑا ہے.عن أبی ھریرة مرفوعًا فی قصّة المُسِيْ ئِ علّمنی فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا قمت الی الصلاة فکبّر ثم اقرأ ما تیسر معک من القرآن.وفی روایة لأحمد وابن حبان ثم اقرأ بأم القرآن ثم اقرأ بما شئت.وفی روایة لأبی داوٗد والنّسائی مِنْ حَدِيْثِ رِفَاعَةَ: فَإِنْ كَانَ مَعَكَ قُرْآنٌ فَاقْرَأْ بِهٖ وَ إِلَّا فَاحْمَدِ اللهَ وَكَبِّرْهُ وَهَلِّلْهُ.وفی روایة لأبی داود مِنْ حَدِيْثِ رِفَاعَةَ: ثُمَّ اقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَبِمَا شَاءَ اللهُ تَعَالٰى.ثم فی المتفق علیه: ثُمَّ ارْكَعْ حَتّٰى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا.وفی النووی: ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ اتَّفَقَا فَقَالَا ثُمَّ افْعَلْ ذٰلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا.وعند أحمد وابن حبان والبیهقی کما فی التلخیص ثم اصنع ذٰلک فی کلّ رکعة.{ FR 5569 }؂ اس حدیث میں { FN 5190 }؂ نماز میں غلطی کرنے والا.{ FN 5569 }؂ (نماز میں) غلطی کرنے والے کے واقعہ کے متعلق حضرت ابوہریرہؓ سے مرفوع روایت ہے کہ (اُس نے کہا:) آپؐ مجھے سکھائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، پھر قرآن میں سے جو تمہیں میسر ہو پڑھو.اور امام احمد اور ابن حبان کی ایک روایت میں ہے کہ (آپؐ نے فرمایا:) پھر اُمّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) پڑھو، پھر (قرآن سے) جو چاہو پڑھو.اور ابوداؤد اور نسائی کی ایک روایت میں ہے جو حضرت رفاعہؓ کی حدیث ہے کہ پھر اگر تمہیں قرآن (میں سے کچھ) ياد ہو تو اسے پڑھو، وگرنہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور کبریائی بیان کرو اور لا الہ الا اللہ کہو.اور ابو داؤد کی ایک روایت میں ہے جو حضرت رفاعہؓ ہی کی حدیث ہے کہ پھر تم اُمّ ِالقرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) پڑھو اور (وہ بھی پڑھو) جس کی اللہ تعالیٰ توفیق دے.پھر ایک متفق علیہ (روایت) میں ہے کہ پھر تم رکوع کرو، یہاں تک کہ رکوع میں تمہیں اطمینان ہوجائے.پھر اُٹھو، یہاں تک کہ بالکل ٹھیک کھڑے ہوجاؤ.پھر سجدہ کرو، یہاں تک کہ سجدہ میں تمہیں اطمینان ہوجائے.پھر اُٹھو، یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ.اور نووی میں ہے: پھر سجدہ کرو، یہاں تک کہ اطمینان سے سجدہ کرلو.پھر (امام بخاری ومسلم) دونوں نے متفقاً کہا ہے کہ پھر اپنی ساری نماز میں اسی طرح کرو.اور جیسا کہ التلخیص میں ہے کہ احمد، ابنِ حباّن اور بیہقی کے نزدیک یہ ہے کہ پھر ہر رکعت میں اسی طرح کرو.

Page 130

دیکھو اور یہ بھی یاد رکھو زیادت ثقہ کی مقبول ہے.قال ابن الهمام فی حاشیة الهدایة: لَوْ تَفَرَّدَ الثِّقَةُ وَجَبَ قَــبُوْلُهٗ (وَقَالَ) زِيَادَةُ الثِّقَةِ مَقْبُوْلَةٌ.انتہٰی.{ FR 5570 }؂ اس حدیث میں خلاّد بن رافع کو جس نے نماز میں کچھ غلطی کی تھی.جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ڈانٹا اور کہا صَلِّ فَاِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ.{ FR 5571 }؂ پھر قراءت اُمّ القرآن اور بِـمَا شَآءَ کا حکم دے کر فرمایا ہر رکعت میں اور تمام نماز میں ایسا ہی کر.پس ثابت ہوا کہ قراءت فاتحہ ہر رکعت میں ضروری ہے.پندرہ برس کا عرصہ گذرا کہ مجھ سے کسی عامل بالحدیث نے یہ مسئلہ دریافت کیا تھا.اس وقت میں نے عدم اعتداد رکعت کا اس مدرک رکوع کے حق میں جس نے ترک قراءت فاتحہ کی فتویٰ دیا اور پھر اس جستجو میں تھا کہ کوئی اور بھی اہل حدیث سے اس فتویٰ میں میرا شریک ہے یا نہیں مدت کے بعد سنا کہ مولوی محمد حسین صاحب بھی یہی فتویٰ دیا کرتے ہیں.پھر ایک حنفی سے گفتگو کا اتفاق پڑا تو ان سے پوچھا گیا کہ ہر رکعت میں رکوع کرنے کی آپ لوگوں کے پاس کیا برُہان ہے چونکہ آپ صاحبوں کے نزدیک ہر رکعت میں رکوع کا کرنا فرض ہے اس لئےاَدِلَّہ قَطْعِیَّہ لَاشُبْھَةَ فِیْہَا.{ FR 5572 }؂ سے ثابت ہونا چاہیئے اِلاَّ انہوں نے اس وقت کوئی دلیل نہ فرمائی.مجھے امید تھی کہ اگر کوئی ایسی دلیل بیان فرماتے جس سے ہر رکعت میں رکوع کا فرضاً کرنا ثابت ہو جاتا تو اسی ہی دلیل سے ہر رکعت میں فرضاً فاتحہ الکتاب پڑھنے کی بھی دلیل نکل آتی(افسوس) پھر مدت کے بعد سنا کہ شوکانی بھی اسی طرف ہیں.تھوڑا عرصہ گذرا کہ محض خدا کے فضل سے شوکانی کی نَیلُ الْاَوطار راحت جان اور مزید { FN 5570 }؂ ابن ہمام نے ھدایة کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ اگر ثقہ اکیلا ہو تو بھی اس کا قبول کرنا واجب ہے (اور انہوں نے کہا) ثقہ کی زیادت مقبول ہے.(فتح القدیر شرح الھدایة لابن الھمام، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة) { FN 5571 }؂ پھرنماز پڑھو ، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی.(صحيح البخاری، کتاب الأذان بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا) { FN 5572 }؂ ایسے قطعی دلائل جن میں کوئی شبہ نہ ہوسکے.

Page 131

ایمان ہوئی.(الحمد للہ اللّھم زدنی علمًا و ایمانًا آمین) اس میں اس مسئلہ کو دیکھ کر وہ خوشی حاصل ہوئی جس کے بیان کو کاغذ میں وسعت نہیں.نواب بھوپال.جن کی کوشش سے یہ کتاب چھپی اور قاضی شوکان کے حق میں جزاہما اللہ احسن الجزاء کہتا ہوں.پھر کئی روز کے بعد امام الکلام مولوی عبد الحی صاحب دیکھ کر معلوم ہوگیا کہ فتویٰ عدم اعتداد رکعت کا خلاف قوی نہیں بلکہ اس کا خلاف کچھ بھی نہیں.وَاللہُ اَعْلَمُ وَ عِلْمُہٗ اَتَمَّ.امام الکلام کے بعض ان اعتراضوں کا جواب فقیر عرض کرے گا جو بظاہر مستحکم ہیں ومن اللہ التّوفیق.دوسری دلیلہررکعت میں قراءت کی یہ ہے.امام بخاری نے جزء القراءت میں فرمایا ہے.عَنْ أَبِي السَّائِبِ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى رَجُلٌ والنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ فَلَمَّا قَضٰى صَلَاتَهٗ قَالَ ارْجِعْ فَصَلِّ (إلٰى أَنْ) قَالَ فَحَلَفَ لَهٗ كَيْفَ اجْتَهَدْتَ فَقَالَ لَهٗ اِبْدَأْ فَكَبِّرْ وَتَحْمَدُ اللهَ وَتَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ ثُمَّ تَرْكَعُ حَتّٰى يَطْمَئِنَّ صُلْبُكَ.{ FR 5197 }؂ و فی روایة عن البخاری: كَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ، (ثُمَّ كَبِّرْ) ثُمَّ ارْكَعْ.{ FR 5200 }؂ وقال البخاري عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلاَةِ فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ { FN 5197 }؂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص حضرت ابوسائبؓ سے روایت ہے (انہوں نے کہا) کہ ایک آدمی نے نماز پڑھی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم اسے دیکھ رہے تھے.جب اس نے اپنی نماز ختم کی تو آپؐ نے فرمایا: واپس جاؤ اور نماز پڑھو ، (اس بات تک کہ) پھر اس نے آپؐ سے قسم کھا کر پوچھا کہ آپؐ کیسی کوشش چاہتے ہیں؟ آپؐ نے اُس سے فرمایا: (نماز) شروع کرو تو اللہ اکبر کہو ، اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرو اور ام القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) پڑھو.پھر رکوع کرو یہاں تک کہ تمہاری کمر پر اطمینان ہوجائے.(القراءۃ خلف الإمام للبخاری، بَابُ هَلْ يُقْرَأُ بِأَكْثَرَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ خَلْفَ الْإِمَامِ) { FN 5200 }؂ اور امام بخاریؒ سے ایک روایت میں ہے کہ تکبیر کہو، پھر قرآن میں سے جو میسر ہو، پڑھو.(پھر تکبیر کہو) پھر رکوع کرو.(القراءۃ خلف الإمام للبخاری، بَابُ هَلْ يُقْرَأُ بِأَكْثَرَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ خَلْفَ الْإِمَامِ )

Page 132

مَعَكَ مِنَ القُرْآنِ ثُمَّ ارْكَعْ.{ FR 4707 } ؂ ان احادیث میں صاف حکم ہے کہ رکوع کو قراءت کے بعد کرو.تیسری دلیل امام بخاری نے مختلف طُرق سے ابوقتادہ اور انس اور ابوہریرہ سے مرفوعاً روایت کیا.إِذَا أَتَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا.{ FR 5201 }؂ اس حدیث کے لحاظ سے جس شخص سے قراءت یا قیام فوت ہو گیا تو حسب الحکم شارع علیہ السلام اس کو پورا کرنا ضرور ہو ا اس کے شواہد یہ ہیں.جیسے ابن ماجہ نے ابوسعید سے روایت کیا.امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نقرأ بفاتحة الکتاب فی کل رکعة { FR 5202 }؂ اگرچہ اس کے راوی طریف بن شہاب اور محمد بن فضیل میں کلام ہے اِلَّا شاہد لانے میں حرج نہیں.چوتھی دلیل.امام بخاری نے جزأ القراء ة میں فرمایا ہے حَدَّثَنَا أَيُّوبُ (إلٰى أَنْ قَالَ) عَنْ أَبِيْ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصَّلَاةِ رَكْعَةً فَقَدْ أَدْرَكَ إِلَّا أَنْ يَقْضِيَ مَا فَاتَهٗ.{ FR 4708 }؂ یہ حدیث میں نے اس لئے بیان کی ہے کہ میرے بعض مخالف ابوہریرہ کی حدیث میں رکعت کے معنے رکوع لیا کرتے ہیں اور فرماتے ہیں رکعت کے معنے رکوع حقیقت لغوی ہے.اب اِلَّا اَنْ یَّقْضِیَ کے لفظ سے اپنی تسلی کریں اور اگر بدوں قراءت رکو ع میں شامل ہوئے تو حسبِ فرمان نبوی قراءت فوت شدہ کے قضا کر لیں.قال اللہ تعالٰی اِنْ تُطِیْعُوْہُ { FN 4707 } ؂ اور امام بخاریؒ نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت بیان کی کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ اکبر کہو پھر قرآن میں سے جو تمہیں میسر ہو پڑھو.پھر رکوع کرو.(بخاري,كتاب الآذان, بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا) { FN 5201 }؂ جب تم نماز کے لیے آؤ تو جو تم پا لو ، پڑھ لو اور جو تم سے رہ جائے اُسے (بعد میں) پورا کرو.(القراءۃ خلف الإمام للبخاری، بَابُ هَلْ يُقْرَأُ بِأَكْثَرَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ خَلْفَ الْإِمَامِ) { FN 5202 }؂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا.{ FN 4708 }؂ ایوب نے ہم سے بیان کیا.(یہاں تک کہ انہوں نے کہا) ابو سلمہ سے روایت ہے، انہوں نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز کی ایک رکعت پالی تو اس نے (نماز) پالی، مگر یہ کہ جو اُس سے رہ گیا، اُسے پورا کرلے.(القراءۃ خلف الإمام للبخاری، بَابُ هَلْ يُقْرَأُ بِأَكْثَرَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ خَلْفَ الْإِمَامِ)

Page 133

تَہْتَدُوْا{ FR 5204 }؂ سچ ہے.ہدایت یاب وہی ہیں جنہوں نے اطاعت رسول اللہ صلعم کی اختیار کی اور رسول اللہ صلعم اِقْرَأْ ثُمَّ ارْکَعْ { FR 5205 }؂ فرماتے ہیں پس مطیع وہی ہوا جس نے قراءت پڑھی پھر رکوع کیا رکوع قبل القراءت اور رکوع بعد القیام بدوں القراءت میں اطاعت نہیں قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللهُ.{ FR 5206 }؂ پس ہم لوگ قراءت کو رکوع سے پہلے پڑھتے ہیں.نبدأ بمابدأ اللہ پر عمل کرتے ہیں اگر قراء ت فوت ہو جائےتو اس کی قضا کرتے ہیں(اور رسول کا فرمانا اللہ کافرمانا یقین کرتے ہیں).پانچویں دلیل.ہر رکعت میں فاتحہ پڑھنے کی فرضیت پر بخاری کی روایت سے قتادہ کی حدیث میں آیا ہے.اِنَّ النَّبِیَّ صَلْعَمْ کَا نَ یَقْرَأُ فِیْ کُلِّ رَکْعَةٍ بِفَاتِـحَةِ الْکِتَابِ.ترجمہ رسول اللہ صلعم ہر رکعت میں الحمد پڑھتے تھے.بخاری ہی کی روایت سے ثابت ہوا صَلُّوْاکَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ نماز پڑھو جیسے مجھے پڑھتے دیکھا.دونوں حدیثوں کے ملانے سے معلوم ہوا کہ ہر رکعت میں قراء ت فاتحہ فرض ہے اور اس کے شواہد سے ہے.ابوسعید کی حدیث.أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِيْ كُلِّ رَكْعَةٍ رَوَاهُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي التَّحْقِيقِ (إلٰى أَنْ) قَالَ: وَمَا عَرَفْتُ هٰذَا الْحَدِيْثَ وَعَزَاهَا غَيْرُهٗ بِرِوَايَةِ إسْمَاعِيْلَ.قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْهَادِيْ فِي التَّنْقِيحِ: رَوَاهُ إسْمَاعِيْلُ هٰذَا وَهُوَ صَاحِبُ الْإِمَامِ أَحْمَدَ، وَفِيْ سُنَنِ ابْنِ مَاجَهْ مِنْ حَدِيْثِ أَبِي سَعِيْدٍ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَّمْ يَقْرَأْ فِيْ كُلِّ رَكْعَةٍ بِالْحَمْدِ وَسُورَةٍ فِي فَرِيضَةٍ أَوْ غَيْرِهَا.{ FR 4709 }؂ یہ صرف شواہد { FN 5204 }؂ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر تم اس کی اطاعت کرو تو ہدایت پاجاؤگے.{ FN 5205 }؂ قراءت کرو پھر رکوع کرو.{ FN 5206 }؂ ہم اس سے شروع کرتے ہیں جس سے اللہ نے شروع کیا ہے.{ FN 4709 } ؂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھا کریں.ابن جوزی نے ’’التحقیق فی احادیث الخلاف‘‘ میں اسے روایت کیا.(اس بات تک کہ) انہوں نے کہا: اور میں اس حدیث کو نہیں جانتا، اور ان کے علاوہ کسی اَور نے اسے اسماعیل (بن سعید) کی روایت کی طرف منسوب کیا ہے.ابن عبد الہادی نے التنقیح میں کہا ہے کہ اسے اسماعیل نے روایت کیا جو امام احمد (بن حنبل) کے ساتھی تھے.اور سنن ابن ماجہ میں حضرت ابوسعیدؓ کی ایک حدیث ہے کہ اُس کی نماز نہیں جس نے فرض یا اس کے علاوہ (سنت ونوافل) کی ہر رکعت میں الحمد للہ اور کوئی اور سورۃ نہ پڑھی.

Page 134

ہیں.ان کا ضعف ہمیں مضر نہیں.یہ پانچویں دلیل میں نے تبرکاً لکھی ہے.تبرکاً اس لئے کہ امام بخاری سے اسی طرز کے قریب جزء القراء ة میں موجود ہے.اِلَّا بخاری نے شواہد نہیں لکھے.اس دلیل کے تمام ہوتے ہی مجھے یہ خیال پیدا ہو گیا کہ بعضے ناظر اس دلیل پر جوش کریں گے کیونکہ کیدانی نے رسول اللہ صلعم کی مواظبت کو سنیت کا مستلزم بنایا ہے نہ فرضیت کا.اس لئے فقرات ذیل گذارش ہیں.عینی نے ہدایہ کے حاشیہ میں کہا ہے.دیکھو باب النوافل.فإن قلت: قَوْله تَعَالٰى: ارْكَعُوْا وَاسْجُدُوْا (الحج: ۷۷) أمر ومع هذا يتكرر في كل ركعة.قلتُ ذلك لفعل النبي عَلَيْهِ السَّلَامُ لأنه لم ينقل عنه الاكتفاء بركوع واحد ولا الاكتفاء بسجود.{ FR 5573 } ؂ سوال کا خلاصہ یہ ہے امر تکرار کا مقتضی نہیں پھر ہر رکعت کے رکوع و سجود کی فرضیت کیونکر ثابت ہو گی.جواب میں کہا ہے کہ یہ فرضیت فعل نبوی سے ثابت ہے.کیونکہ ایک ہی رکوع یا ایک سجود پر اکتفا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول نہیں ہوا.اس جواب میں صاف ظاہر ہے کہ مواظبت سے فرضیت ثابت کی ہے.ُطرہ یہ کہ َعدمُ النقل کو نقلُ العدَم سمجھا ہے.اب حسب قول آپ کے ہم بھی کہتے ہیں ہر رکعت میں فاتحة الکتاب پڑھنے پر رسول اللہ صلعم نے مواظبت فرمائی ہے.عدم قراءت فاتحہ پر اکتفا منقول نہیں کسی حدیث مرفوع اور صحیح میں اکتفا بعدم القراءت کا ذکر نہیں پس قراءت فاتحہ ہر رکعت میں فرض ہو گی.اور صحیحین کے مقابل کی اصح الکتب ہدایہ شریف میں رکعت ثانیہ میں قراءت کی فرضیت پر ایک ایسے عجیب قیاس سے کام لیا ہے جس کی نسبت زپائے تا بسرش ہر کجا کہ منکرم کرشمہ دامن دل میکشد کہ جا اینجا است بیان اجمال یہ ہے کہ حنفیہ فرضوں کی دو رکعتوں میں اور وتروں نفلوں کی کل رکعتوں میں { FN 5573 } ؂ اگر تم یہ کہو کہ اللہ تعالیٰ کا قول ’’رکوع کرو اور سجدہ کرو‘‘ ایک اَمر ہے اور اس کے ساتھ ہر رکعت میں تکرار کی جاتی ہے.تو میں کہوں گا کہ یہ نبی علیہ السلام کے عمل کی وجہ سے ہے، کیونکہ آپؐ سے ایک رکوع پر اکتفاء کرنا اور ایک سجدہ کو کافی سمجھنا نقل نہیں کیا گیا.(البناية شرح الهداية، کتاب الصلاة، باب النوافل، فصل فی القراءة، حکم القراءة فی الفرض)

Page 135

قراءت کو فرض بتاتے ہیں.اگر کسی حنفی نے واجب کہا ہے تو اس کے واجب کی تفسیر عینی وغیرہ نے یوں فرمائی ہے أَيْ لَازِمَةٌ وَفَرِيْضَةٌ.{ FR 5207 }؂ صاحبِ ہدایہ نے اس مسئلہ پر برہان قائم فرمائی ہے امر تکرار کا مقتضی نہیں اور ہم نے دوسری رکعت میں قراءت کی فرضیت پہلی رکعت پر قیاس کر کے ثابت کی ہے.کیونکہ پہلی اور دوسری رکعت باہم ایک طرح کی ہیں.اور دونوں دوسری دونوں پہلیوںسے علیحدہ ہیں دیکھو سفر میں آخر کی دونوں(رکعات)ساقط ہوجاتی ہیں.پہلیوںمیں اگر جہر ہے تو ان میں جہر نہیں جتنی لنبی قراءت پہلیوںمیں ہے اتنی ان پچھلی دو میں نہیں.کئی حنفیوں نے وجوب کا تفرقہ بھی مانا ہے کیا معنے جس پر پہلی رکعت واجب ہے اس پر دوسری بھی واجب ہے اور تیسری چوتھی کا وجوب اس پر ضروری نہیں دیکھو رباعی میں مسافر پر پہلی دوسری رکعت تو فرض ہے مگر تیسری چوتھی فرض نہیں.ہدایہ کی اصل عبارت وَاَلْأَمْرُ بِالْفِعْلِ لَا يَقْتَضِي التَّكْرَارَ، وَإِنَّمَا أَوْجَبْنَا فِي الثَّانِيَةِ اِسْتِدْلَالًا بِا لْأُوْلٰى لِأَنَّــهُمَا يَتَشَاكَلَانِ مِنْ كُلِّ وَجْهٍ فَأَمَّا الْأُخْرَيَانِ فَيُفَارِقَانِـهِمَا فِي حَقِّ السُّقُوْطِ بِالسَّفَرِ وَصِفَةِ الْقِرَاءَةِ وَقَدْرِهَا.{ FR 4711 }؂ اس کلام پر گذارش اوّل جب امرتکرار کا مقتضی نہیں تو ایزاد تکرار نسخ ہو گا یعنی ابطال اطلاق اور نسخ بالقیاس جائز نہیں.دوئم.امام صاحب کے مناقب اور حنفیہ کے اصول میںلکھا ہے کہ امام کے نزدیک حدیث ضعیف قیاس سے مقدم ہے.میرے خاص مخاطب اوران کے بڑے معین کو شیخ عبد الحق دہلوی کا قول نہایت قوی دلیل ہے اس لئے بتصدیق ان کا قول نقل کرتا ہوں شیخ صاحب فرماتے { FN 5207 }؂ یعنی لازمی اور فرض ہے.{ FN 4711 }؂ کسی کام کا امر (اسے)بار بار دُہرانے کا تقاضا نہیں کرتا.اور پہلی (رکعت) سے استدلال کرتے ہوئے ہم نے دوسری (رکعت) میں قراءت کو واجب قرار دیا ہے، کیونکہ یہ دونوں (رکعتیں) ہر طرح سے ہم شکل ہیں، اور دوسری دونوں جو ہیں وہ تو سفر میں ساقط ہونے اور قراءت کی صفت اور اس کی مقدار کے سبب سے اِن دونوں (پہلی رکعتوں) سے فرق رکھتی ہیں.(الهداية في شرح بداية المبتدي، کتاب الصلاة، باب النوافل، فصل فی القراءة)

Page 136

ہیں وآنچنانکہ تقیید و اتباع امام ابوحنیفہ باحادیث واقوال صحابہ است دیگربرانیست امام حافظ ابومحمد بن حزم (یہ لفظ ناظرین کو یاد رہے) گفتہ کہ اصحاب ابوحنیفہ ہمہ متفق اندکہ حدیث ہر چند ضعیف باشد مقدم ترواولیٰ تراز قیاس واجتھا دست و وَے رضی اللہ عنہ تابحدِّ ضرورت نرسد عمل بقیاس نکند وعمل بحدیث باقسامہ ازدست ندہد.الی ان قال.و از اقسام قیاس نیز جز بقیاس مؤثر عمل نکندوقیاس تناسب و قیاس شبہ وقیاس طرد ہمہ نزد وی د متروک وغیر معمول ست.فقیر.عرض کرتا ہے تعجب ہے ہمارے حنفیہ کا عمل درآمد امام صاحب کے اس چال پر کیوں نہیں.شیخ صاحب کے اس قول سے کئی باتیں نکلتی ہیں.اوّل یہ کہ قیاس نہایت ہی گری ہوئی چیز ہے کتاب اللہ یا حدیث صحیح یا حسن کے سامنے کیا بلکہ ضعیف کے سامنے بھی حجت نہیں.دوم.حدیث ضعیف کے بعد بھی اس کی کوئی قسم بجز قیاس مؤثر قابل نہیں اس کی سب قسمیں متروک ہیں.سیوم.تقیید و اتباع باحادیث و آثار کمال کا موجب ہے.چہارم.ابن حزم حافظ اور امام ہیں.(حنیفہ نے ان پر بہت بہت طعن کئے ہیں).پنجم.امام ابوحنیفہ صاحب رحمة اللہ جب ضعیف حدیث پر عمل کر لیتے تھے جیسے شیخ نے کہا اور اسے قیاس پر مقدم کرتے تھے تو معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے فرمایا ہے کہ مجتہد کا استدلال کسی حدیث پراس حدیث کی تصحیح ہے یا کہا ہے کہ امام صاحب کے استدلال کی حدیثیں اگر آج ضعیف ہیں تو امام کے وقت وہ ضرور قوی تھیں بالکل صحیح نہیں کیونکہ امام کے نزدیک جب احادیث ضعیفہ سے استدلال درست تھا تو ان کے کل دلائل حدیثیہ پر صحت کا کس طرح یقین ہو سکتا ہے بلکہ حنفیہ منقطع مرسل موقوف اور مدلّس کی حدیث اور اثر صحابی سے حجت پکڑنے کے مجوزہیں پس ان کے دلائل پر یقین کر ناکہ وہ کتاب اللہ اور سنت صحیحہ پر مبنی ہیں صحیح نہ ہو گا.اب صاحب ہدایہ کی طرف توجہ کیجیے.جناب نے دوسری رکعت میں اثبات فرضیت

Page 137

قراءت پر قیاس سے کام لیا ہے اور بخلاف امام ابوحنیفہ احادیث صحیحہ اور ضعیفہ اور ان کے نصوص اور عبارات کو چھوڑ دیا ہے.شیخ عبد الحق صاحب دہلوی نے سفر السعادت کی شرح میں ہدایہ والے کی نسبت سچ کہا ہے غالباً اشتغال وقت ان استاد درعلم حدیث کمتربودہ است (کم کے لفظ کے ساتھ تر کا اضافہ بھی لطیفہ ہے) مسیکی صحیح حدیث اور احادیث مثبتہ بعدیت رکوع قراءت سے باایں کہ وہ حدیثیں بلامعارض ہیں اور احادیث ضعیفہ سے ابوسعید کی مرفوع حدیث ان النبی ﷺ أمر بقراءة فی کل رکعة { FR 5211 }؂ کو جو تحقیق ابن جوزی میں ہے اور ابن ماجہ کی لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ اِلٰی آخِرِہٖ { FR 5213 }؂ کو.اور یہ حدیثیں پانچویں دلیل کے شواہد میں گذری ہیں اور آثار صحابہ سے جن کا ذکر آتا ہے استدلال کو ترک کر دیا ہے.اور قیاس سے استدلال پکڑا پھر قیاس بھی وہ جو متروک ہے یعنی قیاس شبہ جس کو فقہا اِسْتِدْلَالٌ بِالشَّیْءِ عَلٰی مِثْلِہٖ { FR 5214 }؂ کہتے ہیں اور وہ فرع کا الحاق ہے اصل کے ساتھ لِکَثْرَةِ اِشْبَاہِہٖ لِلْاَصْلِ فِی الْاَوْصَافِ { FR 5215 }؂ اور اصول کے کتابوں میں ہے.انه لیس بحجة عند اکثر الحنفیة و الیه ذهب من ادعی التحقیق منھم و الیه ذهب قاضی ابوبکر والاستاد ابوالنصر و ابواسحاق المروزی و ابواسحاق الشیرازی و الصَّیْرَفِیُّ و الطبری { FR 4712 }؂ اور یہ قیاس بھی صحیح نہیں کیونکہ قولہ اَلْاَمْرُ لَایَقْتَضِی التَّکْرَارِ { FR 5216 }؂ کو اگر اَلْعِبْرَةُ { FN 5211 }؂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر رکعت میں قراءت کرنے کا حکم دیاہے.{ FN 5213 }؂ اُس کی نماز نہیں جس نے ہر رکعت میں قراءت نہ کی……(آخر تک) { FN 5214 } ؂ کسی چیز کے ساتھ اُس کے مثل قرار دے کر استدلال کرنا.{ FN 5215 }؂ صفات میں اصل کے ساتھ کثرتِ مشابہت کی وجہ سے.{ FN 4712 }؂ اکثر احناف کے نزدیک یہ حجت نہیں ہے.اور اس کی طرف وہی گیا ہے جس نے اُن میں سے تحقیق کا دعویٰ کیا ہے اور قاضی ابوبکر، استاذ ابوالنصر، ابواسحاق مروَزی، ابواسحاق شیرازی، صیرفی اور طبری ہی اس (سے استدلال) کی طرف گئے ہیں.{ FN 5216 }؂ اَمر تکرار کا تقاضا نہیں کرتا.

Page 138

لِعُمُوْمِ اللَّفْظِ { FR 5217 }؂ کے ساتھ ملاویں تو حسب امر آیت فَاقْرَؤُوْا مَاتَیَسَّرَ مطلق قراءت کی فرضیت ثابت ہوتی ہے مکلّف کو اختیار ہے کسی وقت پڑھ لے بلکہ اگر بخلاف اَلْعِبْرَةُ لِعُمُوْمِ اللَّفْظِ فَاقْرَؤُوْا کے ساتھ فِی الصَّلوٰةِ کی قید بھی آیت میں لگادیویں تو پہلی رکعت کی تخصیص پر بھی نہیں نکلتی جب حکم قراءت اصل میں ہی ثابت نہ ہوا تو فروع میں کیونکر ثابت ہو گا.قولہ.لِاَنَّـہُمَا مُتَشَاکِلَانِ.{ FR 5220 }؂ فقیر.اگر تشاکل موجب فرضیت ہے تو نفس فرضیت میں سب رکعتیں متساوی ہیں اور قیام رکوع سجود جیسے رکنوں میں بھی سب رکعتیں متساوی ہیں پس حسبِ قیاس یا استدلال جناب بھی سب رکعتوں میں قراءت فرض ہونی چاہیے.یاد رہے میں نے یہاں تَشَاکُلْ فِی الْقِرَائَةِ { FR 5221 }؂ اور تَشَاکُل فِی السُّقُوْطِ وَ الْوُجُوْبِ { FR 5222 }؂ سے اس لئے قطع نظر کر لی ہے کہ نفس قراءت کی فرضیت اور عدم فرضیت دوسری رکعت میں تشاکل سے پہلے ثابت نہیں پس صفت قراءت اور قدر قراءت سے تشاکل ماننا صحیح نہ ہو گااور تَشَاکُلْ فِی الْوُجُوْبِ وَ السُّقُوْطِ کا یہ حال ہے کہ وتروں میں اگر کوئی ایک ہی رکعت پر اکتفا کرے تو اس پر دوسری رکعت کا پڑھنا واجب اور فرض نہیں دوسری رکعت پڑھنی عند اللہ ساقط ہو جاتی ہے پس پہلی اور دوسری میں بھی بلحاظ وجوب اور سقوط تشاکل نہ رہا.فَالتَّفْرِقَةُ بِالثَّنَاءِ وَ التَّعَوُّذِ وَ التَّکْبِیْرِ وَالْبَسْمَلَةِ کَمَا قُلْتُمْ بَلِ التَّفْرِقَةُ بِالسُّقُوْطِ وَالْوُجُوْبِ بَعْدَ الْاِتِّـحَادِ فِی الرُّکْنِیَّةِ لَایَضُرُّ { FR 5223 }؂ اور اور ثلاثی نماز میں تو اتحاد فی السقوط { FN 5217 }؂ نصیحت لفظ کے عموم سے ہوتی ہے { FN 5220 }؂ کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے مماثلت رکھتی ہیں.{ FN 5221 }؂ قراءت کرنے کی مماثلت { FN 5222 } ؂ ساقط اور واجب ہونے کی مماثلت { FN 5223 } ؂ جیسا کہ تم نے کہا (کہ مماثلت ہے) تو ثناء، تعوذ، تکبیر (تحریمہ) اور بسم اللہ پڑھنے کے فرق کا کیا معاملہ ہے؟ بلکہ (حقیقت تو یہ ہے کہ) رُکنیتِ صلوٰۃ ہونے میں مشترک ہونے کے بعد ساقط اور واجب ہونے کا فرق کوئی نقصان نہیں پہنچاتا.

Page 139

والوجوب تیسری رکعت کو بھی حاصل ہے پس حسبِ استدلال ثلاثی نماز کی تیسری رکعت میں قراءت فرض ہونی چاہیے.یا بالعکس یوں کہیے کہ پہلی رکعت میں تعوّذہے‘ ثنا ہے‘ تکبیر تحریمہ ہے‘ قعدہ اور تشہد اس کے ساتھ نہیں بخلاف دوسری رکعت کے اور ایک رکعت کے ساتھ والی فرض ضرور نہیں کہ دوسری رکعت کے ساتھ بھی ہوں.دیکھو پہلی رکعت کے ساتھ تحریمہ ہے.دوسری کے ساتھ نہیں یا رباعی نماز کی رکعت اخیر کے ساتھ قعدہ فرض ہے اور اس کی تیسری کے ساتھ فرض نہیں.پس اگر قراءت پہلی رکعت میں فرض ہے تو دوسری میں بِـاِ یْـجَابِ تَشَاکُل فرض نہ ہونی چاہیے علاوہ بریں آپ کا استدلال اگر صحیح ہوتا تو پہلی اور دوسری رکعت میں یا تیسری اور چوتھی ہی میں قراءت فرض ہوتی حالانکہ آپ لوگ بالاتفاق اس کے قائل نہیں.دیکھیے عینی نے کہا ہے.قال الإمام الأسبيجابي "قال أصحابنا: القراءة فرض في الركعتين بغير أعيانهما إن شاء في الأوليين وإن شاء في الأخريين، وإن شاء في الأولى والرابعة، وإن شاء في الثانية والثالثة، (إلٰی أَنْ قَالَ) وأفضلها في الأوليين، وكذا قال القدوري.{ FR 4713 }؂ بلکہ خود بدولت کے متن میں بھی رکعتیں کو مطلق رکھا ہے.اولیین کے ساتھ مقید نہیں کیا بھلا جب جب دوسری اور تیسری رکعت میں یا پہلی اور چوتھی میں کسی نے قراءت پڑھی تو کیا آپ کے استدلال کا خلاف نہ کیا ضرور کیا بلکہ جس نے پہلی رکعت میں قراءت پڑھی اس پربخيال استدلال دوسری رکعت میں بھی قراءت فرض ہونی چاہیے اِلاَّ اُس نے دوسری میں نہیں پڑھی‘ چوتھی میں پڑھی ہے پس دوسری رکعت میں فرض کا تارک ہوا ایسے ہی جب اس نے چوتھی میں پڑھی تھی تو حسب استدلال تیسری میں بھی قراءت فرض تھی اور اس نے نہیں پڑھی کوئی یہ جواب نہ دے کہ یہ استدلال بِدَلَالَةِ النَّصْ ہے نہ بقیاس شبہ کیونکہ { FN 4713 } ؂ امام اسبیجابی نے (طحاوی کی شرح میں )کہا کہ ہمارے ساتھیوں نے کہا ہے کہ قراءت کرنا دو رکعتوں میں فرض ہے بغیر ان (رکعات) کی تعیین کے، اگر چاہے تو پہلی دو میں (کرلے) اور اگر چاہے تو دوسری دو میں (کرلے) اور اگر چاہے تو پہلی اور چوتھی میں (کرلے) اور اگر چاہے تو دوسری اور تیسری میں (کرلے، یہاں تک کہ انہوں نے کہا:) اور افضل پہلی دو ہیں اور قدوری نے بھی ایسا ہی کہا ہے.(البناية شرح الهداية، کتاب الصلاة، باب النوافل، فصل فی القراءة، حکم القراءة فی الفرض)

Page 140

دَلَالَةُ النَّصْ کی تعریف میں لکھا ہے هِيَ مَا علم (أَي مَعْنى علم إِنَّهٗ) عِلّةٌ لِلْحُكْمِ الْمَنْصُوصِ عَلَيْهِ (أَي اَلْحُكْمُ الَّذِيْ وَرَدَ بِهِ النَّصُّ) لُغَةً (أَيْ يَعْرِفُ عِلَّتَهٗ مَنْ هُوَ عَارِفٌ بِلُغَةِ الْعَرَبِ وَنَحْوِهَا) لَااِجْتِهَادًا وَلَااِسْتِنْبَاطًا (أَيْ لَا يَحْتَاجُ فِي مَعْرِفَةِ عِلَّتِهٖ إِلَى التَّأَمُّلِ وَالْاِسْتِنْبَاطِ).{ FR 4714 }؂ جیسے قرآن کریم میں ہے لَاتَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ مکلف کو حکم ہوا ماں باپ کو اُف مت کرو سننے والا عَالِمٌ بِاللُّغَةِ سمجھ سکتا ہے کہ والدین کو مارنا پیٹنا ضرور ممنوع ہو گا.اور یہاں نہ تو رکعت سے رکعت لُغوی مراد ہے اور نہ صلوٰة سے صلوٰة لُغوی اور نہ قراءت اپنے عموم پر ہے کیونکہ قرائت کے معنی ہیں مطلق پڑھنا اور یہاں قراءت قرآن مراد ہے.نہ شارع نے دونوں رکعت میں تسویہ کا حکم دیا نہ فی الواقع تسویہ ہے.ارکان کے لحاظ سے اکثر رکنوں میں سب رکعتیں مساوی ہیں.بعض صفات کا تفرقہ سب میں ہے.اِقْرَأْ فِی الصَّلوٰةِ کا مخاطب عالم باللُّغة یہ تو سمجھ سکتا ہے کہ دعا میں کچھ پڑھو اگر اسے صلوٰة کے شرعی معنے بتاویں تو پھر بھی شَفَع اور قیام کی تخصیص قراءت کے واسطے ہرگز نہیں سمجھ سکتا.علاوہ بریں اگر ایسا ہی تبادر ہوتا جیسا ابن الہمّام نے لکھا ہے.(قَالَ ابْنُ الهُمَامِ:) مَنْ فَهِمَ اللُّغَةَ ثُمَّ عَلِمَ تَسْوِيَةَ الشَّارِعِ...ثُمَّ سَمِعَ...اِقْرَأْ فِي الصَّلَاةِ تَبَادَرَ إلَيْهِ طَلَبُ الْقِرَاءَةِ فِي الشَّفْعِ الْأَوَّلِ أَوِ الثَّانِي { FR 4715 }؂ تو اَئمہ مذاہب میں ایسا اختلاف نہ ہوتا اور مسئلہ کا اختلاف نو طرح تک نہ پہنچتا.صاف ظاہر ہے کہ اِقْرَأْ فِی الصَّلوٰةِ کا مخاطب صرف اس خطاب کے لحاظ سے حسب لغت دعا میں کچھ پڑھ { FN 4714 } ؂ یہ وہ علم ہے (یعنی علم کا معنی یہ ہے) کہ منصوص علیہ کے حکم (یعنی ایسا حکم جس کے متعلق نصّ آئی ہو، یعنی قرآن وحدیث میں ذکر ہو) کی علّت ُلغت سے ثابت ہو، (یعنی اس کی علت کو عربی زبان اور اس کے اصول کو جاننے والا معلوم کرلے) اجتہاد سے نہ ہو اور نہ ہی استنباط سے ہو، (یعنی اس کی علت کو سمجھنے کے لیے غوروفکر اور استنباط کی ضرورت نہ پڑے).(أصول الشاشي، بحث كَون حكم دلَالَة النَّص عُمُوم الحكم الْمَنْصُوص عَلَيْهِ) { FN 4715 } ؂ (ابن ہمام نے کہا:) جس نے لغت کو سمجھ لیا پھر اس نے شارع کے فیصلہ کو بھی جان لیا… پھر اس نے سنا … نماز میں قراءت کرو تو قراءت کی طلب اُس سے پہلی دورکعات میں یا دوسری دورکعات میں جلدی کروائے گی.(فتح القدیر لابن الھمام، کتاب الصلاة، باب النوافل، فصل فی القراءة)

Page 141

لینے کا مامور ہے اور اگر اسے بتادیں کہ قِرَاءَ ة سے قرآن کا پڑھنا مراد ہے اور َصلوٰة سے شرعی صلوٰة مراد ہے نہ ُلغوی تو پھر یہی مختار ہو گا قرآن کو نماز کے قیام میں پڑھے یا رکوع یا سجدہ یا قعدہ میں اور بلحاظ قاعدہ اَلْاَمْرُ لَایَقْتَضِی التَّکْــرَار.{ FR 5235 }؂ ایک ہی دفعہ پڑھنے پر اکتفا کرے.قال العینی: روينا عن علي أنه قال: اقرأ في الأوليين وسبح في الأخريين وكفى به قدوة.انتہٰی.{ FR 5236 }؂ وَقَالَ فِي الْهَدَايَةِ: وَهُوَ الْمَأْثُوْرُ عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَعَائِشَةَ - رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ.{ FR 5237 }؂ أَقُوْلُ رَوَيْنَا فِيْ جُزْءِ الْقِرَاءَةِ: حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ قَالَ حَدَّثَنَا الْبُخَارِيُّ قَالَ وقَالَ لَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ عَنِ ابْنِ أَبِيْ رَافِعٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهٗ كَانَ يَأْمُرُ وَيُحِبُّ أَنْ يُّقْرَأَ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَسُوْرَةٍ سُوْرَةٍ وَفِي الْأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ.{ FR 5238 }؂ فَاقْرَءُوْا خلف الإمام وکفی به قدوة ثم اعلم ان اثرک المرویّ منقطع صرّح به ابن الهمام وما ثبت اَثر عائشة هذا { FN 5235 }؂ اَمر تکرار کا تقاضا نہیں کرتا.{ FN 5236 }؂ عینی نے کہا: حضرت علیؓ سے ہم نے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: پہلی دو (رکعتوں) میں قراءت کرو اور دوسری دو میں تسبیح کرو، اور اقتداء کرنے کے لحاظ سے یہ کافی ہے.عینی کی بات ختم ہوئی.(البناية شرح الهداية، کتاب الصلاة، باب النوافل، فصل فی القراءة، حکم القراءة فی الفرض) { FN 5237 } ؂ اور ہدایہ میں کہا ہے کہ یہ حضرت علی، حضرت ابن مسعود اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے.(الهداية في شرح بداية المبتدي، کتاب الصلاة، باب النوافل، فصل فی القراءة) { FN 5238 }؂ میں کہتا ہوں کہ جزء القراءۃ سے ہم نے روایت نقل کی کہ محمود (بن اسحاق) نے ہم سے بیان کیا انہوں نے کہا: امام بخاری نے ہمیں بتایا.انہوں نے کہا: اور آدم نے ہم سے کہا کہ شعبہ نے ہمیں بتایا کہ سفیان بن حسین نے ہم سے بیان کیا کہ میں نے زُہری سے سنا.انہوں نے ابن ابی رافع سے روایت کی.انہوں نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ حکم دیتے تھے اور پسند فرماتے تھے کہ ظہر اور عصر (کی نمازوں) میں امام کے پیچھے (پہلی دو رکعات میں) سورۂ فاتحہ اور ایک ایک سورۃ پڑھی جائے اور دوسری دو (رکعات) میں (صرف) سورہ فاتحہ پڑھی جائے.(القراءة خلف الإمام، وجوب القراءة للإمام والمأموم)

Page 142

کما ذکر العینی البدر التمام وثبت عنھا وابن مسعود خلافکم فی القراءة خلف الامام کما ذکر البخاری وقد طبع فی الدهلی بفضل الباری وافھم این للاثار مع التخالف مقابلة المرفوع وهذا عند اولی النهی ظاهر مقطوع.ومن قال فی المواظبة أنھا کانت مع ترک أو فی اغلب الاحوال.أقول له من اجبرک علی التفوہ بالترک والأغلب بیّن ان انت من الرجال.واللہ لن تستطیع انت مع الناصرین.فاسکت فاِنَّکَ فِی الْـخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْن.{ FR 4716 }؂ چھٹی دلیل.ہر رکعت میں فاتحہ پڑھنے کی جس کو حنفی بھائیوں نے امام شافعی کی طرف سے بغرض تردید لکھا ہے.اور فقیر اس مسئلے میں شافعی کا قول سچا یقین کر کے بامید نصرت جس کا وعدہ وَلَیَنْصُرَنَّ اللہَ مَنْ یَّنْصُرُہٗ { FR 5240 }؂میں ہو چکا ہے اس کو بغرض تائید بیان کرتا ہے.قالوا قال‘ قال رسول اللہ صلعم لاصلوٰة الابفاتحة الکتاب و کل رکعة صلوٰة نکرہ حیز نفی میں عموم کا فائدہ دیتا ہے.پس ترجمہ یہ ہو گا.حنفیہ نے کہا شافعی کہتا ہے.رسول اللہؐ نے فرمایا کوئی نماز فاتحہ کے سوائے نہیں ہوتی.اور ہر رکعت نماز ہے.عَینی نے اس پر کہا ہے.میں کہتا ہوں تو (شافعی کو) صلوٰة سے ُلغوی صلوٰة لیتا ہے یا شرعی‘ لُغةً صلوٰة دعا ہے اور دعا کے کسی فردمیں قراءت شرط نہیں اور { FN 4716 } ؂ پس تم امام کے پیچھے (سورۂ فاتحہ) پڑھو.اور اقتداء کرنے کے لحاظ سے یہ کافی ہے.پھر جان لو کہ تمہارا روایت کردہ اثر منقطع ہے،ابن ہمام نے اس کی وضاحت کی ہے.اور یہ حضرت عائشہؓ کا اثر بھی ثابت نہیں ہے جیسا کہ علاّمہ عینی …… نے ذکر کیا ہے اور ان سے (یعنی حضرت عائشہؓ سے) اور حضرت ابن مسعودؓ سے تمہارے خلاف امام کے پیچھے قراءت کرنے کے متعلق ثابت ہے، جیسا کہ امام بخاریؒ نے ذکر کیا ہے اور باری تعالیٰ کے فضل سے یہ (کتاب) دہلی سے شائع ہوچکی ہے.اور سمجھو کہ ایسے مخالف آثار کا مرفوع کے ساتھ کہاں مقابلہ ہے.اور عقلمندوں کے نزدیک یہ بات واضح اور قطعی ہے.اور جس نے مداومت کے متعلق اور غالب صورتِ حال کے متعلق کہا کہ وہ چھوڑنے کے ساتھ ہے تو میں اسے کہوں گا تمہیں کس نے اس پر مجبور کیا ہے؟ ترک کرنے اور غالب صورتِ حال کے متعلق غور کرو اور واضح کرو اگر تم مردوں میں سے ہو.اللہ کی قسم! تم مددگاروں کے ساتھ بھی اس کی استطاعت نہیں رکھتے.پس خاموش ہوجاؤ کیونکہ تم بحث میں غیر واضح بات کرنے والے ہو..{ FN 5240 }؂ اور اللہ یقیناً اس کی مدد کرتا ہے جو اُس (کے دین) کی مدد کرتا ہے.

Page 143

شرعی نماز میں قراءت تو فرض ہے اِلاَّ ایک رکعت شرعی نماز کافرد نہیں کیونکہ شارع نے بُتَیْرا سے منع فرمایا ہے.انتہٰی.جوابِفقیر.عینی کے اعتراض کا مدارصرف یہ ہے کہ ایک رکعت شرعی نماز نہیں.پس میں اگر ایک رکعت کا شرعی نماز ہونا ثابت کردوں تو عینی کا جواب ہو گیا.سو سنیے.عَنْ ابْنِ عُمَرَ...قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنٰى مَثْنٰى فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ.رواہ الجماعة.منتقٰی.ترجمہ.ابن عمر سے.فرمایا.رسول اللہ نے رات کی نماز دو دو رکعت ہے جب صبح کا ڈر کرے تو ایک رکعت وتر پڑھے.فائدہ حنفیہ نے اَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ کا ترجمہ فرمایا ہے.طاق کردے پہلی نماز کو ایک رکعت ملا کر.پھر جب ان کو سنایا گیا.زاد احمد: تُسَلِّمُ فِيْ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ.و کذا مسلم من ابن عمر { FR 5241 }؂ تو کہہ دیا تَسَلَّمْ کے معنی ہیں اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ کہنا اور اسے تشہد اوسط کا اثبات مطلوب ہے.صدق البخاری یکثر الکلام لیعلم.{ FR 5242 }؂ اب ان کے ترجمہ اور تاویل کی غلطی سنیے.روی البخاری عن ابن عمر انہ کان یسلّم بین الرکعتین و الرکعة فی الوتر حتی کان یأمر ببعض حاجة.ترجمہ.ابن عمر وتروں کی دو رکعت اور ایک رکعت کے درمیان سلام پھیرتے یہاں تک کہ اپنے مطلب کی بات کہہ لیتے.اور اسے صریح.عن ابن عمر وابن عباس انھما سمعا النبی { FN 5241 }؂ امام احمد نے یہ الفاظ زیادہ بتائے ہیں کہ تو ہر دو رکعتوں میں سلام پھیرے.اور امام مسلم نے بھی حضرت ابن عمرؓ سے ایسا ہی بیان کیا ہے.{ FN 5242 }؂ امام بخاریؒ نے سچ کہا ہے کہ زیادہ کلام اس لیے ہوتا ہے تاکہ علم ہوسکے.

Page 144

صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یقول الوتر رکعة من آخر اللیل رواہ احمد و مسلم.{ FR 5245 }؂ ترجمہ.وتر ایک رکعت ہے بلکہ ایک ہی رکعت ہے.وروی سعید بن منصور باسناد صحیح صلی ابن عمر رکعتین ثم قال یا غلام ارجل لنا ثم قام و اوتر برکعة.ابن عمر نے دورکعتیں پڑھیں پھر کہا اوغلام سواری کس دے پھر کھڑا ہوا اور ایک رکعت وتر پڑھ لی.اور عائشہ ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ گیارہ رکعت پڑھتے.یُسَلِّمُ بَیْنَ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَ یُوْتِرُ بِوَاحِدَةٍ.{ FR 5246 }؂ اور ظاہر ہے کہ گیارہ رکعتوں میں یُسَلِّمُ کے معنے اوسط تشہد کے حنفیہ کے نزدیک بھی نہیں بن سکتے.راوی کی تفسیر راوی کا قول اگر حنفی حجت جانتے ہیں اگر عبارةُ النَّص کو ترجیح دیتے ہیں اگر انصاف کا خون نہیں کرتے اگر ابن عمر کو فقیہ مانتے ہیں.اگر اسے عاشق اتباع سمجھتے ہیں (یہ عاشق کا لفظ یاد رکھنے کا ہے) اور وہ جو محمد بن کعب قرظی سے نَـھٰی عَنِ البُتَیْرَاء کی حدیث مروی ہے.اس کی نسبت عراقی نے کہا ہے مرسل ضعیف اور ابن حزم( یاد کرو قول شیخ عبد الحق)نے کہا ہے لَمْ يَصِحَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهْيٌ عَنْ الْبُتَيْرَآءِ، وَلَا فِي الْحَدِيثِ عَلَى سُقُوطِهٖ بَيَانُ مَا هِيَ الْبُتَيْرَآءُ.قَالَ قَدْ رُوِّينَا مِنْ طَرِيقِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ...عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: الثَّلَاثُ بُتَيْرَآءُ يَعْنِي الْوِتْرَ، قَالَ: فَعَادَ الْبُتَيْرَآءُ عَلَى الْمُحْتَجِّ بِالْخَبَرِ الْكَاذِبِ فِيْهَا.{ FR 5248 }؂ اور ابن مسعود کے اثر مَا { FN 5245 }؂ حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ اُن دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپؐ فرماتے تھے: وتر رات کے آخری حصہ میں ایک رکعت ہے.امام احمد اور امام مسلم نے اسے روایت کیا ہے.{ FN 5246 }؂ آپؐ ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت سے وتر کرلیتے.(صحيح مسلم، کتاب الصلاة المسافرین، بَابُ صَلَاةِ اللَّيْلِ، وَعَدَدِ رَكَعَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اللَّيْلِ، وَأَنَّ الْوِتْرَ رَكْعَةٌ، وَأَنَّ الرَّكْعَةَ صَلَاةٌ صَحِيحَةٌ) { FN 5248 }؂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کٹی ہوئی (اکیلی رکعت پڑھنے) کی مناہی کی روایت صحیح نہیں ہے.اور نہ ہی حدیث میں اس کے ساقط ہونے کے متعلق کوئی بیان ہے کہ یہ بُتَیراء کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہم سے بواسطہ عبد الرزاق حضرت ابن عباسؓ کی روایت کی گئی ہے کہ تین (رکعت) یعنی وتر ناقص ہے.انہوں نے کہا: پس اس کے متعلق جھوٹی خبر کے باعث نقص دلیل قائم کرنے والے پر ہی اُلٹ جاتا ہے.

Page 145

أَجْزَأَتْ رَكْعَةٌ قَـــطُّ.{ FR 4717 }؂ پر نووی نے شرح مہذّب میں کہا ہے.إنَّهُ لَيْسَ بِثَابِتٍ عَنْهُ.قَالَ: وَلَوْ ثَبَتَ لَحُمِلَ عَلَى الْفَرَائِضِ، فَقَدْ قِيلَ: إنَّهٗ ذَكَرَهُ رَدًّا عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ قَوْلِهٖ: اَلصَّلَاةُ فِيْ حَالِ الْخَوْفِ رَكْعَةٌ وَاحِدَةٌ.بَلْ رَوَى ابْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ عَنِ ابْنِ سِيْرِينَ: سَمَرَ حُذَيْفَةُ وَابْنُ مَسْعُودٍ عِنْدَ الْوَلِيدِ وَهُوَ أَمِيْرُ مَكَّةَ، فَلَمَّا خَرَجَا أَوْتَرَ كُلُّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا بِرَكْعَةٍ.{ FR 4718 }؂ یہ اگرچہ مرسل ہے اِلاَّمرُ سل حنفیہ کے نزدیک موقوف کی طرح حجت ہے.وتر کی ایک رکعت کس کس صحابی کا مذہب ہے خلفاؔء اربعہ‘ سعدؔبن ابی وقاص ‘معاذؔ ‘ابی ؔبن کعب ‘ابوؔموسیٰ ‘ابودؔرداء ‘حذؔیفہ ‘ابنؔ مسعود ابنؔ عمر ‘ابن ؔعباس ‘معاوؔیہ ‘تمیمؔ داری ‘ابوؔایوب ‘ابوؔہریرہ ‘فضاؔلہ بن عبید ‘عبدؔ اللہ بن زبیر ‘معاؔذ بن حارث اس کی صحبت میں اختلاف ہے.تابعین اور علماء جن کے نزدیک وتر ایک رکعت ہے ساؔلم بن عبد اللہ‘ عبدؔاللہ بن عیاش ‘حسنؔ بصری ‘محمدؔ بن سیرین ‘عطاؔ ‘عقبہؔ ‘سعیدؔ بن جبیر‘ نافعؔ ‘جبیر جابرؔبن زید‘ ؔزہری ‘ربیعہؔ اور ائمہؔ میں سے.امامؔ مالک ‘شاؔفعی ‘اوزاؔعی ‘احمدؔ ‘اسحاؔق‘ ابوؔثور ‘داوؔد ابن حزمؔ.انتہیٰ.نَیل.{ FN 4717 } ؂ ایک رکعت (اکیلی) کبھی ادا نہیں ہوتی.{ FN 4718 } ؂ یہ (روایت) ان سے ثابت نہیں ہے.انہوں نے کہا: اور اگر ثابت ہو جائے تو فرائض پر محمول کی جائے گی.اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے یہ (بات) حضرت ابن عباسؓ کے اس قول کے ردّ میں ذکر کی ہے کہ خوف کی حالت میں نماز ایک رکعت ہوتی ہے.بلکہ ابن ابی شیبہ اور محمد بن نصر نے ابن سیرین سے روایت کی ہے کہ حضرت حذیفہؓ اور حضرت ابن مسعودؓ نے ایک رات ولید (بن عقبہ) کے پاس مجلس کی.پھر جب وہ دونوں باہر نکلے تو اُن دونوں میں سے ہر ایک نے ایک رکعت سے وتر کیا.

Page 146

بلکہ ابوہریرہ نے مرفوعاً روایت کیا ہے.لَا تُوتِرُوا بِثَلَاثٍ وَ أَوْتِرُوا بِخَمْسٍ أَوْ سَبْعٍ وَلَا تَشَبَّهُوْا بِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ.{ FR 5249 }؂ ترجمہ.تین رکعت وتر مت پڑھو.وتر کرو پانچ یا سات.مت مشابہ کرو ساتھ نماز مغرب کے.دارقطنی نے کہا.اس کے سب راوی ثقہ ہیں.حاکم نے تصحیح کی اور ابن حبان نے ذکر کیا.اگر کسی نے موقوف کہا ہے تو موقوف آپ کے یہاں حجت ہے.عراقی نے کہا.عائشہ سے صحیح ہوا.قَالَتْ وَاِنِّیْ لَاَکْرَہُ اَنْ یَّکُوْنَ ثَلَاثًا بُتَیْرَآءُ.{ FR 5251 }؂ اور سلیمان بن یسار سے تین رکعت وتر کا مسئلہ پوچھا گیا.فکرہ الثّلاث{ FR 5252 }؂ اور کہا.لایشبہ التطوّع بالفریضة اوتر برکعة.انتہیٰ.{ FR 5253 }؂ آپ لوگوں نے دیکھا ایک رکعت کی نماز شرع میں کیسے ثابت ہے بلکہ بقول ابن عباس فرض کی ایک رکعت بھی ثابت ہے.گو اہل حدیث کے نزدیک صلوٰة خوف کی نماز ایک رکعت نہیں.پس عینی کا قول کہ ایک رکعت شرعی نماز نہیں ہرگز درست نہ ہوا.پس شافعی پر انکار صحیح نہ ہوگا.فائدہ وتروں میں اصل بات یہ ہے کہ وتر علی سبیل اختلاف الانواع کئی طرح ثابت ہیں.ایک ر۱کعت جیسے گذرا اور تین ر۲کعت ایک سلام سے کما ذکرنا عن اُبَـیّ مَرْفُوْعًا عند النسائی { FR 5254 }؂ اِلَّا ان میں بھی سَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ اور سُورہ کافرون اور سُورہ اخلاص کی تخصیص ہے.خلافًا للحنفیة اور تین ر۳کعت جن میں ایک ہی تشہد اخیر ہو کما ھو مذہب جماعة من { FN 5249 } ؂ (شرح معاني الآثار، کتاب الصلاة، باب الوتر) { FN 5251 } ؂ حضرت عائشہ ؓ نے کہا: میں ناپسند کرتی ہوں کہ تین رکعتیں اکیلی ہوں.{ FN 5252 } ؂ انہوں نے تین رکعتیں (پڑھنا) ناپسند کیا.{ FN 5253 }؂ نوافل کو فرض کے مشابہہ نہ بناؤ، ایک رکعت سے وتر کرلو.{ FN 5254 }؂ جیسا کہ ہم نے نسائی کی حضرت اُبَيّ (بن کعبؓ) سے مرفوع روایت ذکر کی ہے.

Page 147

السلف ذکرہ الحافظ لحدیث لاتشبہوا.{ FR 5257 }؂ اور پانچ ر۴کعت ایک تشہد سے کما ذکرت عائشة عن فعله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُوتِرُ مِنْ ذٰلِكَ بِخَمْسٍ‘ لَا يَجْلِسُ فِيْ شَيْءٍ مِنْهُنَّ إِلَّا فِيْ آخِرِهِنَّ.{ FR 4719 }؂ متفق علیہ اور سات رکعت کل دو تشہد کے ساتھعَنْ عَائِشَةَ: أَوْتَرَ (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) بِسَبْعِ رَكَعَاتٍ، لَمْ يَجْلِسْ إِلَّا فِي السَّادِسَةِ وَالسَّابِعَةِ، وَلَمْ يُسَلِّمْ إِلَّا فِي السَّابِعَةِ، کما عند احمد والنسائي و أبي داؤد.{ FR 4724 }؂ اور سات رکعت صرف ایک ہی تشہد سے عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا أَسَنَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَ اللَّحْمَ صَلَّى سَبْعَ رَكَعَاتٍ لَا يَقْعُدُ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ.{ FR 4723 }؂ نسائی.اور نو رکعت عَنْ سَعْدٍ قَالَ لِعَائِشَةَ: أَنْبِئِيْنِيْ عَنْ وِتْرِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، (إِلٰى أَنْ) قَالَتْ: وَيُصَلِّيْ تِسْعَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيْهَا إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ، فَيَذْكُرُ اللهَ وَيَحْمَدُهٗ وَيَدْعُوْهُ، ثُمَّ يَنْهَضُ وَلَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يَقُوْمُ فَيُصَلِّي التَّاسِعَةَ، ثُمَّ يَقْعُدُ فَيَذْكُرُ اللهَ وَيَحْمَدُهٗ وَيَدْعُوْهُ، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيْمًا.رواہ احمد والنسائی ومسلم و ابوداؤد.{ FR 4770 } ؂ پس وتر ایک { FN 5257 }؂ جیسا کہ یہ گذشتہ بزرگوں کی ایک جماعت کا مذہب رہا ہے، حافظ نے اسے حدیث لَا تَشَبَّهُوْا کے تعلق میں ذکر کیا ہے.{ FN 4719 }؂ جیسا کہ حضرت عائشہؓ نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا ذکر کیا ہے کہ آپؐ ان (تہجد کی رکعات) میں سے پانچ رکعت سے وتر کرتے، سوائے ان میں سے آخری کے آپؐ ان میں بالکل بھی نہ بیٹھتے.{ FN 4724 } ؂ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضورصلی اللہ علیہ و سلم نے سات رکعت وتر ادا کیے.آپؐ صرف چھٹی اور ساتویں رکعت میں ہی بیٹھے اور سلام صرف ساتویں رکعت میں ہی پھیرا.جیسا کہ یہ احمد، نسائی اور ابوداؤد کے نزدیک ہے.{ FN 4723 } ؂ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے.انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمررسیدہ ہوگئے اور آپ کا جسم فربہ ہوگیا تو آپؐ سات رکعتیں پڑھتے اور اُن میں سے صرف آخری میں ہی بیٹھتے.(سنن النسائي، کتاب قیام اللیل، باب کیف الوتر بسبع) { FN 4770 }؂ سعد (بن ہشام) سے روایت ہے.انہوں نے حضرت عائشہؓ سے عرض کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے متعلق بتائیں.(یہاں تک کہ) حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا … آپؐ نوَ رکعات پڑھتے تھے اُن میں بیٹھتے نہ تھے سوائے آٹھویں رکعت کے.پھر آپؐ اللہ کا ذکر کرتے اور اس کی حمد بیان کرتے اور اُس سے دعا کرتے تھے.پھر اُٹھ کھڑے ہوتے اور سلام نہ پھیرتے.پھر قیام کرتے اور نویں رکعت پڑھتے.پھر بیٹھ جاتے اور (اللہ کا) ذکر کرتے اور اس کی حمد بیان کرتے اور اس سے دعا کرتے.پھر سلام پھیر لیتے تھے.احمد، نسائی، مسلم اور ابوداؤد نے یہ روایت بیان کی ہے.

Page 148

اور تین اور پانچ اور سات اور نو رکعت سب درست ہیں.اور یہ اختلاف اختلاف انواع ہے.نہ تضاد ہے اور نہ اضطراب.جیسے لوگوں نے گمان کیا ہے اختلاف انواع کی مثالیں.تشہد کے الفاظ میں اختلاف اَ بُوْمَـحْذُوْرَہ اور بلال کی اذان واقامت میں اختلاف یا نماز میں قراءت کا کبھی جناب رسول اللہؐ نے کوئی سورہ پڑھی اور کبھی کوئی سورة.ادائے صلوٰة خوف میں اختلاف تکبیر تحریمہ کے پیچھے اور قراءت سے پہلے کبھی سبحانک اللہ کبھی اللہ اکبر کبیرا کبھی اللّٰھم باعد بینی و بین خطائی.اذکار اور ادعیہ میں اختلاف.حج میں مَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ وَ مَنْ تَأَخَّرَ.......دوسرا اعتراض.حنفیہ کا امام شافعی پر لاصلوٰة میں ایک رکعت کو نمازکہنے کے باعث تقریر اعتراض.لاصلوٰة میں نماز سے نماز کامل مراد ہے اور وہ دو رکعت سے کم نہیں ہوتی (ثبوت).اگر کوئی حلف کرے لایصلّی صلوٰة پھر ایک رکعت نماز پڑھ لے وہ حانث نہیں ہوتا اگر دو رکعت پڑھے تو حانث ہو جاتا ہے اگر صرف لَایُصَلِّیْ کا لفظ کہے تو ایک رکعت کے پڑھنے سے بھی حانث ہو جاتا ہے.جواب ۱.پس حسب اقرار آپ کے ایک رکعت کا نماز ہونا بھی ثابت ہوا.کیونکہ لایصلّی کا مشتق منہ صلوٰة ہے اگر لایصلّی کہنے والے کی ایک رکعت پڑھنے سے نماز نہ ہوتی وہ حانث کیوں ہوتا.جواب۲.نکرہ نفی کے نیچے مفید عموم ہے.اور تخصیص کمال بطور آپ کے نسخ عموم ہے اور نسخ شریعت آپ کا عہدہ نہیں.جواب۳.ایمان کا مدار آپ کے یہاں عرف پر ہے اور حنفیوں کی عرف ایک رکعت کو کامل نماز کہنے کے خلاف ہے.پس ان کے نزدیک لایصلی صلٰوة میں حالف کا ایک رکعت کے پڑھنے سے حانث نہ ہونا اس امر کا مستلزم نہیں کہ فی الواقع بھی ایک رکعت کی نماز کامل نہیں.جواب۴.ایسے حالف کا حانث نہ ہونا ممنوع ہے.جواب۵.لایصلی صلوٰة میں صلوٰة کا لفظ مکررہے ایک دفعہ تو یصلّی کے ضمن میں اور

Page 149

دوسری بار صریح صلوٰة کا لفظ موجود ہے.پس دو رکعت کا لایصلی صلوٰة میں مراد ہونا بباعث تکرار لفظ ہے.دیکھو لایصلی کے لفظ میں ایک رکعت کی پڑھنے میں بھی حانث ہوجاتا ہے.اور حدیث لا صلوٰة میں تو ایک ہی لفظ ہے.جواب۶.صفت کمال کا ایزاد آپ کے یہاں مشعر اس بات کا ہے کہ ایک رکعت بھی نماز ہوتی ہے دیکھو جو اپنے لفظ خداج میں تاویلیں کی ہیں.جواب۷.کسی نمازی کی نماز کا جواز یا عدم جواز کمال یا عدم کمال آپ کے یا ہمارے کہنے پر موقوف نہیں.یہ شارع کا عہدہ ہے.دیکھو چار رکعت کی نماز بدوں قراءت فاتحہ یا بترک فاتحہ اُخریین ہیں اور بدوں طمانینت رکوع اور سجود بلکہ بدوں لفظ اللہ اکبر اور سلام آپ کے نزدیک جائز ہے اور حسبِ احادیث صحیحہ وہ جائز نہیں اور جس متیمم نے ایک ہی ضرب سے تیمم کیااور اس نے ایک ہی ضرب سے مونہہ اور پہنچوں تک ہاتھوں پر بدوں استیعاب مسح کیا اور وتر کی ایک ہی رکعت پڑھ لی اور اس میں طمانینت سے قیام اور رکوع اور سجود اور قومہ اور جلسہ بین السجدتین کیا اور فاتحہ پڑھی.سور ة کا ضم کیا بلکہ اس رکعت میں رکو ع کو جاتے اور اس سے سراٹھاتے وقت رفع یدین کی وہ سنت بھی ادا کر لی جس کے ۱ حق میں مع اس رفع کے جو رکعت ثالثہ کے ابتدا کی جاتی ہے.صدہا اخبار اور آثار صحیحہ وارد ہو چکے ہیں.۲ جس کا کرنا تا آخر روز رحلت جناب رسالت مآب سے ثابت ہے.۳جس کے راوی صحابہ ہیں.سترہ اور بیس ہی نہیں بلکہ پچاس تک پہنچ چکے ہیں ۴ جس کے اثبات پر دراسات کے نہایت لطیف فقرے راحت بخش ہیں.۵ جس کے اثبات میں امیرالمومنین امام بخاری نے ایک کتاب ہی لکھ دی (دہلی میں معہ ترجمہ چھپی ہے) جس۶ کا معارض کوئی نہیں.۷ جس کی نسبت بخاری نے کہا ہے.لَمْ يَثْبُتْ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهٗ لَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ.{ FR 5575 }؂ جس۸کی نسبت بخاری نے کہا ہے.قال علی المدینی وکان { FN 5575 }؂ اہل علم کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی ایک سے بھی ثابت نہیں ہے کہ اُس نے رفع یدین نہیں کیا.(قرّة العينين برفع اليدين في الصلاة للبخاري)

Page 150

اعلم اہل زمانہ رفع الیدین حق علی المسلمین بما روی الزہری عن ابیہ.{ FR 5576 }؂ ۹ جس کی نسبت ابوحمید نے دس صحابیوں میں بیٹھ کر کہا.أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ{ FR 5577 }؂ پھر تفصیل کے وقت رکوع وغیرہ میں رفع یدین کو بیان کیا اور کسی نے انکار نہ کیا ۰جس کے انکار میں عاصم بن کلیب سے نفی کا اثر جناب امیر کی مرفوع اور مثبت حدیث کا مقابل نہیں ہو سکتا ۱ ۱جس کے نہ کرنےپر ابن عمر حصاة مارتے تھے (پس جس نماز میں مجاہد نے ابن عمر کو رفع یدین کرتے نہیں دیکھا.اس نماز میں ابن عمر نے سہواً ترک کی ہے یا حصین راوی کا وہم ہے جس نے مجاہد سے نقل کیا.یا مجاہد کا اثر ابوبکر بن عیاش سے معلول ہے)بااینکہ مجاہد خود رفع یدین کرتا تھا ۲ ۱جس کے باعث ابن الزبیر نے کُنَّا لَنُأَ دَّبُ عَلَیْہِ وَ نَحْنُ غِلْمَانٌ.{ FR 5578 }؂ کہہ کر عبد اللہ بن عامر کو (اس شخص نے اپنے بھائی کو رفع یدین کرنے پر پیٹا تھا) اپنے مکان پر آنے کی اجازت نہ دی.میں کہتا ہوں ایسوں کا بیج آج درخت ہو گیا.و الی اللہ المشتکی.جس ۳ا کی نسبت عاصم کی روایت میں اگرچہ ابن مسعود سے کبر فی الاولی ثم لم یعد { FR 5264 }؂ مروی ہے اِلاَّ امام احمد نے یحییٰ سے سنا کہ عبد اللہ بن ادریس کی کتاب میں جو عاصم سے مروی تھی دیکھا تو اس میں ثم لم یعد کا لفظ نہ پایا والکتاب احفظ { FR 5265 }؂ جس کی نفی پراگر براء کی روایت ہے تو اس کے راوی کو لقنوہ ثم لم یعد فقال ثم لم یعد { FR 5266 }؂ کا واقعی الزام دیا گیا جس ۴ ۱کے بارے جابربن سمرہ کی حدیث سے { FN 5576 }؂ علی المدینی جو کہ اپنے زمانہ کے بڑے عالم تھے کہتے ہیں کہ زُہری نے اپنے والد سے روایت کی ہے جس کے مطابق رفع یدین کرنا مسلمانوں پر ایک حق ہے.{ FN 5577 }؂ تم میں سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو زیادہ جاننے والا ہوں.{ FN 5578 }؂ جب ہم لڑکے تھے تو اس (بات) پر ہماری سرزنش کی جاتی تھی.{ FN 5264 }؂ آغاز میں تکبیر کہی پھر (رفع یدین کو) نہیں دُہرایا.{ FN 5265 }؂ اور کتاب زیادہ محفوظ ہے.{ FN 5266 }؂ لوگوں نے اس کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ ’’پھر آپؐ نے دوبارہ نہیں کیا.‘‘ تو اُس نے کہا: ’’پھر آپؐ نے دوبارہ نہیں کیا.‘‘ (قرة العينين برفع اليدين في الصلاة للبخاري روایت نمبر۳۳)

Page 151

استدلال پکڑنے والے کو لاحظ لہ من العلم { FR 5268 }؂ کہا گیا.سچ ہے اگر لاترفعوا ایدیکم کانہا اذ ناب خیل شمس { FR 5269 }؂سے استدلال صحیح تھا تو حنفی تکبیر اولیٰ اور قنوت اور عیدین وغیرہ میں رفع یدین کرنا درست نہ کہتے.۶ ۱ جس کے حق میں ابن سیرین کہتا ہے انہ من تمام الصلوٰة.{ FR 5270 }؂ جس کے ثبوت میں احادیث متواترہ موجود ہیں دیکھو سیوطی کی ازھار متناثرہ فی الاخبار المتواترہ ۷ جس کے معارضہ میں امام صاحب کا مناظرہ اوزاعی سے آج تک معلق ہے کوئی اسے مسند نہیں کر سکا.۸ اجس کے معارض کی نسبت ابن جوزی نے کہا ما ابلد من حاول معارضة حدیث الرفعات بما روی من الاحادیث فی عدمھا.{ FR 5271 }؂ اور اس ایک رکعت وتر پڑھنے والے نے قیام کے وقت سینے پر ہاتھ باندھے جیسے صحیح ابن خزیمہ میں ثابت ہوا اور اس کا مخالف اثر مسند احمد اور بیہقی اور ابوداؤد میں بروایت ابن الاعرابی عبد الرحمٰن بن اسحاق واسطی سے مروی ہے اور یہ اثر اوّل تو اس لئے کہ یہ عبد الرحمٰن مُتّفقٌ عَلٰی ضُعْفِہٖ ہے پھر اس لئے کہ جس صحابی سے (فَدَاہُ نَفْسِیْ) یہ اثر مروی ہے اسی سے وضع علی الصدر بھی مروی ہے قابل حجت نہیں اور اس نمازی نے یہ سمجھ کر کہ حنفیہ نے عورتوں اور مردوں میں اس کا تفرقہ بے وجہ شرعیہ کیا ہے جیسے پہلے تشہد میں مردوں اور عورتوں کو جُلُوْس عَلَی الْیُسْرٰیاور نَصْبُ الْیُمْنیٰ کا حکم ہے اور دوسرے میں دونوں کو تُورک اِلاَّ حنفیوں نے عورتوں کو دونوں جگہ تُورک کا حکم دیا اور مردوں کو دونوں جگہ منع کر دیا اور احادیث صحیحہ کے خلاف کی پرواہ نہ کی.اگر یہ نمازی عورت تھی تو اس نے سجدہ میں بازو اپنی پسلیوں سے علیحدہ رکھے اور سینہ کو ران سے اور ران کو پنڈلیوں سے.اور اس نمازی نے تمام تشہد میں آخر تک رَفْعِ سَبَا بَہ کی نہ یہ کہ { FN 5268 }؂ اُس کا علم میں کوئی حصہ نہیں.{ FN 5269 }؂ اپنے ہاتھوں کو (اس طرح) نہ اُٹھاؤ گویا کہ یہ سرکش گھوڑوں کی دُمیں ہیں.{ FN 5270 }؂ یہ (بات) نماز کو مکمل کرنے میں سے ہے.{ FN 5271 }؂ کیا ہی کمزور رائے ہے وہ جس نے رفع یدین کی حدیث پر اعتراض کرنے کی کوشش کی ہے اس وجہ سے کہ احادیث میں اس کے نہ ہونے کو (بھی) روایت کیا گیا ہے.

Page 152

اَنْ لَّآاِلٰہَ میں اٹھائی اور اِلَّا اللہ میں رکھ دی.جیسے بدوں دلیل بعضے لوگ کرتے ہیں.یا رباعی نماز میں چوتھی رکعت پر قعدہ بھول گیا اور کھڑا ہو گیا اور پانچویں رکعت پڑھ کر سجدہ سہو کر لیا.یا کسی نمازی نے صبح کی ایک رکعت جس میں اس نے آمین بالجہر کہی تھی پڑھی پھر سورج نکل آیا اور اس شخص نے طلوع کی تحرِّی بھی نہیں کی تھی جو لَایَتَحَرَّیٰ{ FR 5274 }؂ کا مخالف سمجھا جاتا اور نماز کو عین طلوع کے وقت شروع بھی نہیں کیادیکھو ان سب صورتوں میں احادیث صحیحہ کے لحاظ سے نماز کامل ہو چکی اور آپ کے یہاں کامل کیا بعض کے قول کو دیکھیں تو جائز بھی نہیں ہوئی.ہر رکعت میں قرآن بلکہ فاتحہ الکتاب پڑھنے کے دلائل احادیث مرفوعہ سے تمام ہوئے.وَالْـحَمْدُ لِلہِ تَعَالیٰ اس اتمام پر اثبات مسئلہ میں ایک اشارہ بھی سن لیجیے امام بخاری نے قراءت میں ابوسعید سے روایت کیا کہ جناب رسول اللہ پہلی رکعت کو لمبا کرتے تھے اور بعض نے کہا یہ اس لئے تھا کہ لوگ پہلی رکعت میں مل جا وین وَ لَمْ یَقُلْ فِی الرُّکُوْعِ وَ لَیْسَ فِی الْاِنْتِظَارِ فِی الرُّکُوْعِ سُنَّةٌ.{ FR 5275 }؂جب فاتحہ کا پڑھنا ہر رکعت میں فرض ہوا اور یہ بھی ثابت ہوا کہ رکوع کا وقت قراءت کے بعد ہے اور یہ بھی کہ ماَفاَت کی قضا ضرور ہے اور بالکل ظاہر ہے کہ جس نے قبل القراءت رکوع کیا اس نے قراءت کا فرض ادا نہیں کیا اور اس کا رکوع بعد القراءت نہیں اور صرف سجدہ کے ادراک سے رکعت کا ادراک بالاتفاق مسلّم نہیں پس ایسے مدرک رکوع کی رکعت ہرگز ادا نہ ہوئی اور ایسے شخص کو حسب الحکم اِقْضُوْا مَا فَاتَکُمْ { FR 5276 }؂ اس رکعت کا پھر پڑھنا پڑا.حنفیہ پر اتمام حجت کے لئے چند آثار اس مسئلہ کے باب میں بیان کرتا ہوں کیونکہ صحابی کا قول ان کے یہاں حجت مسلّمہ ہے اگرچہ امام بخاری نے فرمایا جب حکم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہو چکا تو پھر لوگوں کے مذہب بیان کرنے کی ہم کو کچھ حاجت نہیں.{ FN 5274 }؂ وہ (سورج نکلنے یا غروب ہونے کی) جستجو میں نہ رہے.{ FN 5275 }؂ اور انہوں نے رکوع کے متعلق ایسا نہیں کہا اور نہ ہی رکوع میں انتظار کرنا سنت ہے.{ FN 5276 }؂ جورکعت تم سے رہ جائے اُسے پورا کرلو.

Page 153

قَالَ بِسَنَدِهٖ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ‘ قَالَ: «إِذَا أَدْرَكْتَ الْقَوْمَ رُكُوعًا لَمْ تَعْتَدَّ بِتِلْكَ الرَّكْعَةِ.{ FR 5279 }؂ وَقَالَ: قَالَ أَبُو سَعِيدٍ (رَضِيَ اللهُ عَنْهُ) لَا يَرْكَعْ أَحَدُكُمْ حَتّٰى يَقْرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ.قَالَ الْبُخَارِيُّ: وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُوْلُ ذٰلِكَ، { FR 5280 }؂ وَقَالَ الْبُخَارِيُّ أَنَّهٗ ذَهَبَ إِلٰى ذٰلِكَ كُلُّ مَنْ ذَهَبَ إلَى وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ { FR 5282 }؂ اور ظاہر ہےکہ وجوب قراء ة خلف الامام جمہور کا مذہب ہے پس عدم ِاِعتاد اس رکعت کا جس میں کوئی نمازی بدوں قراءت امام سے رکوع میں ملا جمہور صحابہ کا مذہب ہو گا.اور عراؔقی اور شبکیؔ نے اور حسب تصریح ابن سیّدالناس ابوبکر ضبعی اور بعض اہل ظاہر اور ابن خزیمہ نے تو اس مسئلہ میں صاف فتویٰ دیا کہ بدوں قراءت مدرک رکوع کی نماز نہیں ہوتی.(قَالَ الْبُخَارِيُّ:) فَإِنِ احْتَجَّ فَقَالَ إِذَا أَدْرَكَ الرُّكُوعَ جَازَتْ فَكَمَا أَجْزَأَتْهُ فِي الرَّكْعَةِ كَذٰلِكَ تُجْزِيهِ فِي الرَّكَعَاتِ قِيلَ لَهُ إِنَّمَا أَجَازَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَابْنُ عُمَرَ وَالَّذِينَ لَمْ يَرَوُا الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ فَأَمَّا مَنْ رَأَى الْقِرَاءَةَ، فَقَدْ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ لَا يُجْزِيْهِ حَتّٰى يُدْرِكَ الْإِمَامَ قَائِمًا.{ FR 5281 }؂ { FN 5279 }؂ انہوں نے اپنی سند سے عبد الرحمٰن اَعْــرَج سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے.انہوں نے کہا: جب تم لوگوں کو رکوع میں پاؤ تو اُس رکعت کو شمار نہ کرو.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ مَنْ قَرَأَ فِي سَكَتَاتِ الْإِمَامِ إِذَا كَبَّرَ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ) { FN 5280 }؂ انہوں نے کہا کہ حضرت ابوسعید (خدری) رضی اللہ عنہ نے کہا: تم میں سے کوئی رکوع نہ کرے یہاں تک کہ وہ اُمّ القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) نہ پڑھ لے.امام بخاریؒ نے کہا: اور حضرت عائشہؓ بھی ایسے ہی کہا کرتی تھیں.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ هَلْ يُقْرَأُ بِأَكْثَرَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ خَلْفَ الْإِمَامِ) { FN 5282 }؂ اور امام بخاریؒ نے کہا: ہر کوئی جو امام کے پیچھے قراءت کے واجب ہونے کی طرف گیا ہے اُس کا یہی مذہب ہے.{ FN 5281 } ؂ (امام بخاریؒ نے کہا:) اگر کوئی دلیل دے اور کہے کہ جب اُس نے رکوع پالیا تو (اس کی رکعت) ادا ہوگئی، پس جس طرح ایک رکعت میں (قراءت نہ کرنا) اس کے لیے جائز ہے، اسی طرح (باقی) رکعات میں بھی اس کے لیے جائز ہے.تو اسے کہا جائے گا کہ صرف حضرت زید بن ثابتؓ، (حضرت عبد اللہ) بن عمرؓ اور اُن لوگوں نے ہی اسے جائز قرار دیا ہے جو امام کے پیچھے قراءت کرنے کی رائے نہیں رکھتے.اور وہ لوگ جنہوں نے قراءت کرنے کی رائے دی ہے (وہ تو اس کے قائل نہیں.) اور حضرت ابوہریرہؓ نے کہا ہے کہ اُس سے (رکعت) ادا نہیں ہوتی جب تک کہ وہ امام کو قیام کی حالت میں (یعنی رکوع سے قبل) نہ پالے.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ)

Page 154

اور عبد الرحمٰن الاعرج کے مخالف عبد الرحمٰن بن اسحاق کا اثر ابوہریرہ سے اگر کوئی پیش کرنا چاہے تو اسے یہ بھی سن رکھنا چاہیے کہ امام الائمہ نے اس کی نسبت کہا ہے.وَلَيْسَ هٰذَا مِمَّنْ يُعْتَدُّ عَلٰى حِفْظِهٖ إِذَا خَالَفَ مَنْ لَيْسَ بِدُونِهٖ وَكَانَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ (بْنُ إِسْحَاقَ) مِمَّنْ يَحْتَمِلُ فِي بَعْضٍ.وَقَالَ إِسْمَاعِيْلُ بْنُ إِبْرَاهِيْمَ: سَأَلْتُ أَهْلَ الْمَدِيْنَةِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، فَلَمْ يَحْمَدْ مَعَ أَنَّهٗ لَا يُعْرَفُ لَهٗ بِالْمَدِينَةِ تِلْمِيْذٌ إِلَّا أَنَّ مُوسَى الزَّمْعِيَّ رَوَى عَنْهُ أَشْيَاءَ فِيْ عِدَّةٍ مِنْهَا اضْطِرَابٌ.{ FR 4772 }؂ مدرک رکوع تارک قراءت کے عدم اعتدا و رکعت کے فتویٰ دینے والے پر اعتراض اور ان کا جواب پہلا سوال.ابوہریرہ سے مروی ہےمَنْ أَدْرَكَ الرُّكُوْعَ مِنَ الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَلْيُضِفْ إِلَيْهَا أُخْرٰى.رواہ الدّارقطنی.{ FR 4773 } ؂ ابن عمر سے ہےمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ صَلَاةِ الْجُمُعَةِ أَوْ غَيْرِهَا...الخ.{ FR 5284 }؂ ۱ جواب.اس حدیث میں بشربن معاذ متروک ہے.ایسا ہی سلیمان بن ابوداؤد اور ابن ماجہ کی روایت میں عمروبن حبیب متروک ہے.عمدہ طُرق میں اوزاعی کی روایت تھی مگر اس میں ولید { FN 4772 }؂ اور یہ (عبد الرحمٰن بن اسحاق) ایسا شخص نہیں کہ اس کے حافظہ پر اعتماد کیا جائے، جبکہ اس کی مخالفت کرنے والا اس سے کمزور نہیں ہے.اور عبدالرحمٰن (بن اسحاق) بعض (روایات) میں قابل برداشت بھی ہے.اور اسماعیل بن ابراہیم نے کہا: میں نے مدینہ والوں سے عبدالرحمٰن کے متعلق پوچھا تو اس کی صرف یہی تعریف کی گئی کہ مدینہ میں اس کا ایک ہی شاگرد معروف ہے یعنی موسیٰ زمعی نے اس سے متعدد ایسی چیزیں روایت کی ہیں جن میں اضطراب ہے.{ FN 4773 } ؂ جس نے جمعہ کے دن دوسری رکعت کا رکوع پالیا تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے ساتھ دوسری رکعت ملالے.اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے.(سنن الدار قطني، کتاب الجمعة، بَابٌ فِيمَنْ يُدْرِكُ مِنَ الْجُمُعَةِ رَكْعَةً أَوْ لَمْ يُدْرِكْهَا) { FN 5284 }؂ جس نے نمازِ جمعہ یا اس کے علاوہ (کسی نماز) کی ایک رکعت پالی (تو اس نے نماز پالی) (سنن ابن ماجه، کتاب إقامة الصلاة، بَابُ مَا جَاءَ فِيمَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْجُمُعَةِ رَكْعَةً)

Page 155

مدلّس ہے ابن حبان نے کہا ہے اس کے سارے طریقے معلول ہیں.ابن ابی حاتم نے کہا لااصل لہذا الحدیث.{ FR 5288 }؂ پھر دارقطنی اور ابن ابی حاتم نے کہا صرف اتنا متن مَنْ اَدْرَکَ مِنَ الصَّلوٰةِ رَکْعَةً فَقَدْ اَدْرَکَھَا.{ FR 5287 }؂ صحیح ہے.صحیح متن ہمارے خلاف نہیں اس کے ایک اور طریقہ میں یحییٰ بن راشد ہے اور وہ ضعیف ہے.دارقطنی نے کہا اس کی حدیث محفوظ نہیںاور ایک اور طریقہ میں ابن قیس متروک ہے.ابن عمر سے ابن حباّن کی روایت میں ابراہیم منکر الحدیث ہے.اوھیثم بڑا مدلّس ہے.تمام ہوا تلخیص الجیر کا خلاصہ.اور تلخیص میرے پاس اللہ کے فضل سے موجود ہے.علاوہ بریں ابن عمر کی روایت میں مَنْ اَدْرَکَ رَکْعَةً ہے اور وہ ہمارے خلاف نہیں.۲جواب.ابوہریرہ کی یہ حدیث حقیقت میں یہ حدیث ہے إِذَا أَدْرَكَ أَحَدُكُمْ رَكْعَتَيْنِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَقَدْ أَدْرَكَ الْجُمُعَةَ، وَإِذَا أَدْرَكَ رَكْعَةً فَلْيَرْكَعْ إِلَيْهَا أُخْرٰى.{ FR 4775 }؂ اس روایت میں رکوع کے بدلے رکعت کا لفظ موجود ہے اگرچہ یہ روایت بھی سلیمان جیسے متروک اور صالح جیسے ضعیف سے مروی ہے.اِلاَّ جس کے معارضہ میں ہے وہ اس سے بھی ضعیف ہے.جواب۳.جمعہ کی تقیید آپ کی تقریب کو تام نہیں ہونے دیتی.جواب۴.راوی کا عمل اپنی روایت کے خلاف ہے اور حنفیہ کے اصول میں ہے کہ راوی کا عمل اگر اس کی روایت کے خلاف ہو تو راوی کی روایت قابل حجت نہیں کیونکہ اگر روایت حجت تھی تو راوی آپ خلاف نہ کرتا.یاد رکھو یہ اصل ہم لوگ صحیح نہیں مانتے کیونکہ ممکن ہے راوی کو اپنی روایت ایک وقت بھول گئی.ممکن ہے خطا کر گیا.ممکن ہے روایت عزیمت تھی.راوی نے رخصت پر عمل کیا یا روایت رخصت تھی راوی نے عزیمت پر عمل کیا وغیرہ وغیرہ وغیرہ.{ FN 5288 }؂ اس حدیث کی کوئی بنیاد نہیں ہے.{ FN 5287 }؂ جس نے نماز (باجماعت )کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز کو پا لیا.{ FN 4775 } ؂ جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن دونوں رکعتیں پالے تو اُس نے جمعہ پالیا اور جب ایک رکعت پائے تو اس کے ساتھ دوسری پڑھ لے.(المعجم الأوسط للطبرانی، باب المیم، من اسمه مطلب)

Page 156

۵جواب.مَنْ اَدْرَکَ الرُّکُوْعَ میں مَنْ کا کلمہ عام ہے اور ظاہر ہے کہ یہاں اپنے عموم پر نہیں.دیکھو ایک شخص نے وضو نہیں کیا اور مدرک رکوع ہو گیا یا اللہ اکبر نہیں کیا نہ اس کے بدلےخدائے بزرگ کہا اور مدرک رکوع ہو گیا یا قیام نہیں کیا.اب فرمایئے ایسے مدرک رکوع کی رکعت ہوئی یا نہ ہوئی درصورت اوّل اجماع کے یا آپ کے ضرور خلاف اور دوسری صورت میں سوال ہے کہ عام عام نہ رہا.کیونکہ حدیث مَنْ اَدْرَکَ میں یہ بیان نہیں کہ مَنْ اَدْرَکَ الرُّکُوْعَ بَعْدَ التَّکْبِیْرِ وَ بَعْدَ الْقِیَامِ بَلْ وَ بَعْدَ الْوُضُوْءِ اگر آپ لوگ اور دلائل سے یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ شمول رکوع بعد وضو اور تکبیر اور قیام ہو پس جیسے دلائل سے رکوع کے پہلے وضو اور تکبیر او ر قیام کی ضرورت ثابت کرتے ہیں ویسے ہی دلائل سے رکوع کے پہلے قراءت فاتحہ کی ضرورت کیوں نہیں مانتے.دوسرا سوال.عَنِ الْـحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ أَنَّهٗ اِنْتَهَىٰ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ رَاكِعٌ فَرَكَعَ قَبْلَ أَنْ يَّصِلَ إِلَى الصَّفِّ، فَذَكَرَ ذٰلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: زَادَكَ اللهُ حِرْصًا وَلَا تَعُدْ.متّفق علیه.{ FR 4776 }؂ تفصیل اعتراض یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابوبکرہ کو اعادہ کا حکم نہیں دیا باوجودیکہ ابوبکرہ نے قراءة نہیں پڑھی تھی.معلوم ہو ارکعت اس کی رکوع میں ملنے سے پوری ہوئی کیونکہ ضرورت کے وقت سکوت بیان ہوتا ہے اور سکوت تقریر ہے.اور تقریر حجت ہے.۱جواب.امام بخاری نے اس سوال کا نہایت لطیف جواب دیا.نفسی فدا جوابه ما اعجبه و ما احسنه، قَالَ (الْإِمَامُ) الْبُخَارِيُّ: فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَعُودَ لِمَا نَهَى النَّبِيُّ صلَّى اللهُ { FN 4776 } ؂ حسن (بصریؒ) نے حضرت ابوبکرہؓ سے روایت کی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایسے وقت پہنچے جبکہ آپؐ رکوع میں تھے تو انہوں نے صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی رکوع کرلیا.پھر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ آپؓ کو (نیکی کی) حرص میں اَور بڑھائے، پھر ایسا نہ کرنا.(صحیح البخاری، کتاب الأذان، بَابُ إِذَا رَكَعَ دُونَ الصَّفِّ)

Page 157

عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ (قَالَ الْبُخَارِيُّ) وَلَيْسَ فِيْ جَوَابِهٖ أَنَّهُ اعْتَدَّ بِالرُّكُوْعِ عَنِ الْقِيَامِ.{ FR 4777 }؂ ۲جواب.کہاں لکھا ہے کہ ابوبکرہ نے بدون القراءة یا قبل القراء ة رکوع کیا تھا اگر کہو اس روایت میں قراءت کا ذکر نہیں اور عدم ذکر قراءت سے عدم قراءت لیتے ہیں تو اس کا جواب ہے کہ اس ابوبکرہ کی حدیث میں تکبیر تحریمہ کہنے اور ابوبکرہ کے وضو کرنے کا بھی ذکر نہیں پس اس کا بھی انکار کردو.اور اگر کسی جگہ وضو اور تکبیر کا ثبوت ہے تو کسی ایسی ہی جگہ قراءت کا بھی ثبوت ہے.اگر فَرَکَعَ کی فَاسے عدم قراءت آپ لوگوں نے سمجھا ہے تو نحو کی کتابوں میں فا کی بحث دیکھو اور ان امثلہ پر غور کرو.زَوَّجَ زَیْدٌ فَوَلَدَلَہٗ { FR 5292 }؂ اور دَخَلْتُ مَکَّةَ فَمَدِیْنَةَ.{ FR 5293 }؂ اور آیت اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ا.فَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّةً.{ FR 5294 }؂ اور آیت شریفہ.ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً.{ FR 5295 }؂ ان جملوں کی فائوں کو دیکھ کر سوچو کہ زید کے بیاہ کرنے پس بچہ پیدا ہونے میں کوئی فاصلہ ہوتا ہے یا نہیں ایسے ہی مکہ میں داخل ہونے پھر مدینہ کے داخل ہونے میں اور مینہ کے بادلوں سے اترآنے اور زمین کے سبزہ زار ہونے میں اور عَلقہ کے مُضغہ ہونے میں اگر ان جگہوں میں فاء فصل کے مانع نہیں تو ابوبکرہ کی حدیث فَانْتَہَیٰ فَرَکَعَ میں فصل (تکبیر اور فاتحہ پڑھنے کا فصل) کا کون مانع.۳.جواب.کہاں ثابت ہوا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اعادہ یاقضا کا حکم نہیں دیا.{ FN 4777 }؂ میری جان آپ کے جواب پر قربان، کیا ہی خوبصورت اور کیا ہی پیارا (جواب) ہے.امام بخاریؒ نے کہا: کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس (کام) کی طرف لَوٹے، جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہو.(امام بخاریؒ نے کہا:) اور آپؐ کے جواب میں یہ بات نہیں ہے کہ آپؐ نے قیام کے بغیر ہی رکوع کو شمار کر لیا تھا.(القراءة خلف الإمام للبخاري، بَابُ هَلْ يُقْرَأُ بِأَكْثَرَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ خَلْفَ الْإِمَامِ) { FN 5292 }؂ زید نے شادی کی پھر اس کے ہاں اولاد ہوئی.{ FN 5293 }؂ میں مکہ میں داخل ہوا، پھر مدینہ (گیا) { FN 5294 }؂ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اُتارتاہے، پھر زمین سرسبز ہوجاتی ہے.{ FN 5295 }؂ پھر بنایا ہم نےاُس سیال کو بستہ خون ‘ پھر بنایا بستہ خون کو گوشت کا ٹکڑا.

Page 158

۴.جواب.کہاں ثابت ہوا ہے کہ ابوبکرہ نے قضا نہیں کی.کیا عدم النقل نقل العدم ہے.ابن الہمام حنفی نے کہاہے.بالجملة عدم النقل لاینفی الوجود.انتہٰی.{ FR 5297 }؂ ۵.جواب.لزوم فاتحہ کا مسئلہ مشہور اور معلوم تھا اس لئے ابوبکرہ کو حکم نہ دیا ہو.ابن ہمام نے اثبات وجوب فاتحہ میں اعرابی کی نسبت جو مَاتَیَسَّرَ کا حکم ہوا اس پر کہا ہے اِنَّ وُجُوْبُـہُمَا کَانَ ظَاہِرًا.{ FR 5298 }؂ اور کہا ہے یا مَا تَيَسَّرَ بَعْدَ هَا (الفاتحة) لِظُهُورِ لُزُوْمِهَا.{ FR 5299 }؂ پس ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلعم نے فاتحہ کے باب میں ابوبکرہ کو کچھ حکم نہ دیا لِظُهُوْرِ لُزُوْمِهَا وَلِأَنَّ وُجُوْبَهَا كَانَ ظَاهِرًا.{ FR 5300 }؂ ۶.جواب.یہاں تقریر ہی نہیں اس مقام میں تو رسول اللہ صلعم نے ابوبکرہ پر انکار کیا ہے.پھر تقریر کہاں رہی.۷.جواب.ماناکہ سکوت تقریر ہے اِلاَّ تقریر قول کا معارضہ نہیں کر سکتی.۸.جواب.جواز تاخیر بیان میں اصولیوں کا اختلاف ہے.سائل کا مطلق ممنوع کہنا صحیح نہیں.۹ـ.جواب.بعد فرض و تسلیم تاخیر عن وقت الحاجة ممنوع ہے نہ الی وقت الحاجة اور یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سکوت الی وقت الحاجة ہوا اور یہ سکوت جمہور کے نزدیک جائز ہے.۱۰.جواب.ابوبکرہ کی حدیث میں طبرانی نے صَلِّ مَا اَدْرَکْتَ وَ اقْضِ مَا سَبَقَکَ.{ FR 5301 }؂ زیادہ کیا ہے.تو شیخ سیوطی من امام الکلام للمولوی عبد الحی صاحب او رزیادہثقہ بلکہ تفرد ثقہ بزیادہ مقبول ہے.صَرَّحَ بِہِ ابنُ الْہَمَّام پس بیان ہو گیا تاخیر تر ہے.{ FN 5297 }؂ ازاں جملہ تحریر کا نہ ہونا اُس کے وجود کی نفی نہیں کرتا.{ FN 5298 }؂ ان دونوں کا واجب ہونا ظاہر ہے.(فتح القدیر شرح الھدایة لابن الھمام، کتاب الصلاة) { FN 5299 } ؂ اس (یعنی سورۂ فاتحہ کے پڑھنے) کے بعد جو تمہیں میسر ہو (پڑھو) اس کے لازم ہونے کے اظہار کے لیے.(فتح القدیر شرح الھدایة لابن الھمام، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة) { FN 5300 }؂ اس (یعنی سورہ فاتحہ) کے لازم ہونے کے اظہار کے لیے اور اس لیے کہ اس کا واجب ہونا ظاہر ہے.{ FN 5301 }؂ جو (حصہ باجماعت نمازکا) تم پالو، پڑھو لو اور جو تمہارے آنے سے پہلے گذر جائے اُسے پورا کرلو.

Page 159

تاخیر بیان وغیرہ کے انکار پر الزام افعال حج کے بیان میں حج نبوی کا قصہ دیکھ جائو اور اس میں جن لوگوں سے رَمی اور ذَبح اور حَلق وغیرہ کی تقدیم اور تاخیر ہو گئی ان کی نسبت حضرت امام اعظم سیّد ولد آدم شفیع الامم صلی اللہ علیہ و سلم کا فتویٰ.اِفْعَلْ وَلَاحَرَجَ.اِفْعَلْ وَلَاحَرَجَ.{ FR 5304 }؂ پڑھو.پھر اپنے وجوب دم کا حکم اس کے مقابلہ لاکر دیکھو.اور سوچو کہ تاخیر بیان یا عدم نقل حکم وجوب دم موجود ہے یا نہیں.اور جس شخص نے صحابہ میں سے اپنی بی بی کے ساتھ رمضان میں بحالتِ صوم جماع کیا اور تمرات عطیہ نبویہؐ بھی اپنے گھر والوں کو ہی کھلا دیں.اس کے حق میں آپ کا فتویٰ ہے کہ کفارہ اور قضا اس کے ذمہ رہا حالانکہ کسی حدیث میں ثابت نہیں ہوا کہ اسے رسول اللہؐ نے کفارے اور قضا کا حکم دیا.پس یا تو تاخیر بیان مانا یا عدم نقل کو نقل عدم نہ کہا یا یہ کہو گے اِنَّ لزومہا کان ظاهرًا وان وجوبھما کان مشهورًا { FR 5305 }؂ جو عذر یہاں تراشو وہی.ابوبکرہ کے قصہ میں قراءت فاتحہ کے واسطےسمجھ لو.۱۱.جواب.لاتعد بفتح تا اور ضم عین عود سے صحیح روایت میںآیا ہے اگر آپ لوگوں نے عدو یا اعادہ سے مشتق مانا تو لاتعد محتمل ہوا وَ اِذَا جَآءَ الْاِحْتِمَالُ بَطَلَ الْاِسْتِدْلَالُ.{ FR 5306 }؂ تیسراسوال.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا: إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سُجُوْدٌ فَاسْجُدُوْا، وَلَاتَعُدُّوْهَا شَيْئًا، وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ، فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ.{ FR 4778 }؂ یہاں رکعت سے رکوع مراد { FN 5304 }؂ یوںکر لو (اس میں) کوئی حرج نہیں‘ یوںکر لو (اس میں) کوئی حرج نہیں.{ FN 5305 }؂ یقیناً اس کا ضروری ہونا ظاہر ہے اور ان دونوں کا واجب ہونا مشہور ہے.{ FN 5306 }؂ جب امکان موجود ہو تو استدلال زائل ہوجاتا ہے.{ FN 4778 }؂ حضرت ابوہرہرہؓ سے مرفوع روایت ہے کہ جب تم نماز کے لیے آؤ اور ہم سجدہ میں ہوں، تو تم بھی سجدہ کرو اور اسے کچھ بھی شمار نہ کرو.اور جس نے رکوع پالیا اُس نے نماز کو پالیا.(سنن أبي داؤد، کتاب الصلاة، تفریع أبواب الرکوع والسجود، بَابٌ فِي الرَّجُلِ يُدْرِكُ الْإِمَامَ سَاجِدًا كَيْفَ يَصْنَعُ)

Page 160

ہے نہ مجموعہ قیام اور رکوع.۱.جواب.یہ حدیث منکر ہے اس کا راوی یحییٰ بن سلیمان المدنی منکر الحدیث ہے.قالہ البخاری یحییٰ کا سماع زید اور ابن المقبری سے ثابت نہیں وَلَا تَقُومُ بِهِ الْحُجَّةُ كَمَا قَالَ الْبُخَارِيُّ.{ FR 5309 }؂ ۲.جواب.رکعت کے شرعی اور عرفی معنے چھوڑنے اور مجاز شرعی (گو وہ حقیقت لغوی ہے) لینے پر کس نے مجبور کیا.شرع نے بدوں قرینہ کہیں رکعت کے معنی رکوع نہیں لئے اور شرعی رکعت میں قیام‘ قراءت‘ رکوع‘ سجود سب کچھ ہے.۳.جواب.جواب یہاں فرضیت فاتحہ کے ادلّہ رکعت کے معنے رکوع لینے کے خلاف ہیں پس صارف عن المجاز موجود ہو گیا.۴.جواب.یہاں رکعت بمقابلہ سجدہ نہیں بلکہ جملہ بمقابلہ جملہ ہے پس مقابلہ کا قرینہ صارف عن الحقیقت نہ ہوا.۵.جواب.اگر یہاں رکعت کے معنے رکوع ہیں تو حسبِ حدیث قیام بقدر طمانینت اور سجود اور تکبیر بھی فرض رہی یا نہیں.اگر ہیں تو گذارش کہ حدیث میں مذکور نہیں اگر کہو اور اور احادیث سے یہ چیزیں ثابت ہیں تو عرض ہے کہ ایسے ہی اور احادیث سے قراءت ثابت ہے.اگر کہو یہ باتیں فرض نہیں تو خلاف ِاجماع اور خلافِ حنفیہ ہے.۶ـ.جواب.اگر رکعت سے مراد رکوع ہے تو صلوٰة سے خواہ مخواہ آپ کو تمام رکعت لینا پڑا کیونکہ بقول آپ کے یہ ترجمہ ہو گا جس نے رکوع پایا اس نے صلوٰة پائی.اور ظاہر ہے کہ صرف رکوع سے نماز نہیں ہوتی جب صلوٰة کے معنے رکعت تامہ ہوئے تو آپ کو یاد دلادیں گے کہ صحیح حدیث میں آیا ہے لاصلوٰة لمن لم یقرأ بفاتحة الکتاب یعنی کوئی پوری رکعت نہیں اس کی جس نے فاتحہ نہ پڑھی پس ہر رکعت میں فاتحہ فرض ہو گئی.{ FN 5309 }؂ اور اس سے دلیل قائم نہیں ہوتی، جیسا کہ امام بخاریؒ نے کہا ہے.

Page 161

۷.جواب.احادیث ذیل میں دیکھو.مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ صَلَاةِ الْغَدَاةَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَهَا، وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَهَا، رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ { FR 5312 }؂ اور حدیث صلوٰةُ الـخَوف میں آیا ہے صَلَّى بِهَؤُلَاءِ رَكْعَةً وَبِهَؤُلَاءِ رَكْعَةً وأمثالها.{ FR 4779 }؂ رکعت سے مراد کیا صرف رکوع بدون القراء ة ہے اور کیا منفرد پر مَنْ اَدْرَکَ کی حدیثیں صادق نہیں اور کیا رسول اللہ صلعم نے امام ہو کر ہر ایک طائفہ کے ساتھ صرف رکوع ہی ادا فرمایا تھا.ہرگز نہیں ‘ہرگز نہیں.آثار کا جواب.اوّل ان آثار کو نقل کرتا ہوں جن سے مدُرکِ رُکوع تارک قراءت کے جواز رکعت کا استدلال پکڑا گیا.پھر ان کا انشاء اللہ تعالیٰ جواب دوں گا.پہلا اثر.ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے.مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الصَّلَاةِ فَقَدْ أَدْرَكَ.{ FR 5313 }؂ (جس نے ایک رکعت پا لی اس نے نماز پا لی)اور ابن وہب نے یحییٰ بن حمید سے روایت کیا.قَبْلَ أَنْ يُّقِيْمَ الْإِمَامُ صُلْبَهٗ.{ FR 5314 }؂(امام کے کمر سیدھی کرنے سے پہلے) اور دوسرا ابن وھب سے طحاوی نے بیان کیا دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ أَنَا وَابْنُ مَسْعُودٍ فَأَدْرَكْنَا الْإِمَامَ وَهُوَ رَاكِعٌ فَرَكَعْنَا ثُمَّ مَشَيْنَا حَتَّى اسْتَوَيْنَا فِي الصَّفِّ فَلَمَّا قَضَى الْإِمَامُ الصَّلَاةَ قُمْتُ لِأَقْضِيَ‘ فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: قَدْ أَدْرَكْتَ الصَّلَاةَ.{ FR 4780 }؂ تیسرا طحاوی سے وَعَنْ طَارِقٍ...دَخَلْنَا الْمَسْجِدَ فَرَأَيْنَا النَّاسَ رُكُوعًا فِي مُقَدَّمِ { FN 5312 }؂ جس نے صبح کی نماز کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سے پہلے پا لی، تو اُس نے اسے پالیا.اور جس نے عصر کی نماز کی ایک رکعت سورج غروب ہونے سے پہلے پا لی تو اُس نے اسے پالیا.امام بخاریؒ نے اسے روایت کیا ہے.{ FN 4779 }؂ آپؐ نے ان لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی اور دوسرے لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی اور اسی طرح کیا.{ FN 5313 } ؂ جس نے نماز کی ایک رکعت پالی تو اُس نے (نماز) پالی.{ FN 5314 }؂ اس سےپہلے کہ امام اپنی کمر سیدھی کرلے.{ FN 4780 }؂ (زید بن وہب نے کہا:) میں اور (حضرت عبد اللہ) بن مسعودؓ مسجد میں داخل ہوئے تو ہم نے امام کو رکوع کرتے ہوئے پایا.ہم نےرکوع کرلیا پھر چلے حتیٰ کہ صف میں جا شامل ہوئے.جب امام نے نماز مکمل کرلی تو میں اُٹھ کھڑا ہوا تاکہ نماز مکمل کرلوں.تو حضرت عبد اللہ نے کہا: تم نماز پاچکے ہو.(شرح معانی الآثار للطحا

Page 162

لْمَسْجِدِ فَرَكَعَ وَمَشٰى وَفَعَلْنَا مِثْلَ مَا فَعَلَ.{ FR 4781 }؂ چوتھا.طَحَاوِیْ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ...قَالَ: رَأَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَالنَّاسُ رُكُوعٌ فَمَشٰى حَتّٰى إِذَا أَمْكَنَهٗ أَنْ يَّصِلَ إِلَى الصَّفِّ وَهُوَ رَاكِعٌ....فَرَكَعَ ثُمَّ دَبَّ وَهُوَ رَاكِعٌ حَتَّى وَصَلَ الصَّفَّ.{ FR 5316 }؂ اور نیز زیدبن ثابت سے مروی ہے أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ كَانَ يَرْكَعُ عَلَى عَتَبَةِ الْمَسْجِدِ وَوَجْهُهٗ إِلَى الْقِبْلَةِ ثُمَّ يَمْشِيْ (إِلَى الصَّفِّ) ثُمَّ يَعْتَدُّ بِهَا إِنْ وَصَلَ إِلَى الصَّفِّ أَوْ لَمْ يَصِلْ{ FR 4782 }؂.پانچواؔں.محمدؒ کی مؤطا میں مالک سے ہے.عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابن عمر… إِذَا فَاتَتْكَ الرَّكْعَةُ فَاتَتْكَ السَّجْدَةُ.{ FR 5317 }؂ مالک نے مؤطا میں کہا بلغه أن عبد الله بن عمر وزيد بن ثابت كانا يقولان: من أدرك الركعة فقد أدرك السجدة.وَکَذَا عَنْ أَبِی ھُرَیْرَةَ إِلَّا زَادَ مَنْ فَاتَهٗ قِرَاءَةُ أُمِّ الْقُرْآنِ فَقَدْ فَاتَهٗ خَيْرٌ كَثِيرٌ.{ FR 4783 }؂ { FN 4781 } ؂ اور طارق (بن شہاب) سے روایت ہے کہ …… ہم مسجد میں داخل ہوئے تو ہم نے مسجد کے اگلے حصہ میں لوگوں کو رکوع کی حالت میں دیکھا.اس پر (حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے) رکوع کرلیا اور چلتے گئے.ہم نے ویسا ہی کیا جیسا انہوں نے کیا.{ FN 5316 }؂ حضرت ابوامامہؓ …سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے حضرت زید بن ثابتؓ کو دیکھا، وہ مسجد میں داخل ہوئے اور لوگ رکوع میں تھے تو وہ چلتے رہے یہاں تک کہ جب اُن کے لیے رکوع کی حالت میں صف میں شامل ہونا ممکن ہوگیا… تو انہوں نے رکوع کیا ، پھر رکوع کی حالت میں ہی سرکنے لگے یہاں تک وہ صف میں شامل ہوگئے.{ FN 4782 }؂ کہ حضرت زیدبن ثابتؓ مسجد کی دہلیز پر ہی رکوع میں (شامل) ہوجاتے تھے اور اُن کا رُخ قبلہ کی طرف ہوتا تھا.پھر وہ (صف کی طرف) چلتے اور خواہ وہ (رکوع کی حالت میں ہی) صف میں مل پاتے یا نہ مل پاتے، اسے شمار کرلیتے تھے.{ FN 5317 }؂ نافع نے حضرت ابن عمرؓ سے روایت کی کہ جب تم سے رکوع چھوٹ جائے تو وہ رکعت تم سے رہ گئی.

Page 163

ساتوا ں.اخرج الحلبی فی شرح المنیة عن عمر: إِذَا أَدْرَكْتَ الْإِمَامَ رَاكِعًا فَرَكَعْتَ قَبْلَ أَنْ يَّرْفَعَ رَأْسَهٗ فَقَدْ أَدْرَكْتَ الرَّكْعَةَ وَإِنْ رَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَرْكَعَ فَقَدْ فَاتَتْكَ الرَّكْعَةُ.{ FR 4784 }؂ ۱.جواب.پہلے اثر کی نسبت امام بخاری نے کہا.يَحْيَى بْنُ حُمَيْدٍ فَمَجْهُولٌ لَايُعْتَمَدُ عَلٰى حَدِيثِهٖ غَيْرُ مَعْرُوفٍ بِصِحَّةٍ خَبَرُهٗ مَرْفُوعٌ وَلَيْسَ هٰذَا مِمَّا يَحْتَجُّ بِهٖ أَهْلُ الْعِلْمِ.{ FR 5320 }؂ پھر بخاری نے کہا ہے.مالک کے تابع ہوئے (مالک نے قبل ان یقیم صلبہ کا لفظ زیادہ نہیں کیا) عبید اللہ اور یحی بن سعید اور ابن الحاد‘ یونس ‘معمر ‘ابن عیینہ شعیب بن جریج عراک (الی ان قال) وَهُوَ خَبَرٌ مُسْتَفِيْضٌ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْحِجَازِ وَغَيْرِهَا.{ FR 5321 }؂ اور اگر زیادتی مان بھی لیں تو کہتے ہیں قبل ان یقیم الامام صلبہ ایسا ہے جیسا.الحج عرفة.اور الحج عرفہ کے معنے ہیں کہ جس نے عرفہ سے پہلے اور پیچھے کے ارکان پائے اور عرفہ نہیں پایا ا س کا حج نہیں.ایسے ہی یہاں جس نے تکبیر وغیرہ اور سجدہ بدوں رکوع پایا.اس کی رکعت نہیں ہوئی.علاوہ بریں من { FN 4784 }؂ حلبی نے شَرْحُ الْمُنْیَہ میں حضرت عمرؓ سے روایت کی ہے کہ جب تم امام کو رکوع کی حالت میں پاؤ، پھر تم اس کے سر اُٹھانے سے پہلے رکوع کرلو تو تم نے رکعت کو پالیا اور اگر اُس نے تمہارے رکوع کرنے سے پہلے (سر) اُٹھا لیا تو تمہاری رکعت چھوٹ گئی.{ FN 5320 }؂ یحيٰ بن حمید تو مجہول ہے، اس کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جاتا.صحت کے لحاظ سے غیر معروف (راوی) ہے، اس کی خبر مرفوع ہوتی ہے لیکن ایسی نہیں کہ جسے اہل علم حجت سمجھیں.{ FN 5321 }؂ (یہاں تک کہ انہوں نے کہا:) اور یہ خبر حجاز وغیرہ کے اہل علم کے نزدیک پھیلی ہوئی ہے.{ FN 5322 }؂ جس نے رکوع کو پایا یعنی وضو کرنے ، تکبیر کہنے، قیام کرنے اور سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد رکوع کو پایا.

Page 164

یہاں اگر قرأة الفاتحہ کی زیادتی کی وجہ دریافت فرمائو تو ہم انشاء اللہ وہ بھی کہہسکتے ہیں پوچھو وہ کیا ہے.جواب دیں گے وہی جو توضّأَ اور کَبَّــرَ اور قَامَ کی آپ نے نکالی ہے.باقی آثار کی نسبت اوّل تو عرض ہے کہ محمد اور طحاوی اور حلبی ملتزم الصحّة نہیں ان کی سندیں بیان کرو اور کسی تصحیح کے امام کی تصحیح دکھلائو.اور امام مالک کی بلاغات کا حال سنیے.سیوطی نے تدریب میں کہا ہے.وَمِنْ بَلَاغَاتِهِ أَحَادِيثُ لَا تُعْرَفُ، كَمَا ذَكَرَهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.{ FR 5325 }؂ دوم.طارق کا اثر صرف شرکت کا مظہر ہے نہ اعتداد رکعت کا.سیوم.ابوہریرہ کی اثر میں رکعت سے رکوع مراد لینا ممنوع ہے کیونکہ وہ شرعی رکعت نہیں.چہارم.بعض ان آثار سے صاف واضح ہوتا ہے کہ ان صحابہ نے وہی کام کیا جو ابوبکرہ نے کیا پس جیسے رسول اللہ ؐ کا حکم لاتعد ابوبکرہ کو تھا ان کو اس حکم نبوی کا محکوم کیوں نہ سمجھا جاوے.پنجم.ان کا فعل بعینہٖ ابوبکرہ کا فعل ہے اور یہ ثابت نہیں کہ ان کو لاتعد کا حکم پہنچا پس ان کے افعال باوجود امکان اختفاء الحکم عنھم { FR 5326 }؂ کیونکر حجت ہوں گے.مولوی صاحب کا جواب مدرک رکوع کے حق میں.مدرک رکوع مدرک رکعت ست اذا ادرک الامام فی الرکوع فانہ کان مدرکًا بتلک الرکعة صغیری.{ FR 5327 }؂ اگر شخص امام رادریا بد ہرجاکہ امام را در یابددرہماں رکن داخل شود.اگر رکوع یافت رکعت یافت واِلاَّ رکعت نیافت مالابدمنہ.وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهٗ كَانَ يَقُوْلُ: مَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ السَّجْدَةَ، رَوَاهُ مالِكٌ.واطلاق الرکعة علی الرکوع واقع کما فی حدیث البخاری عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ....{ FN 5325 }؂ اور (امام مالک کی) بلاغات میں ایسی احادیث بھی ہیں جوغیرمعروف ہیں.جیسا کہ ابن عبد البر نے (بھی) اس کا ذکر کیا ہے.(تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي، النوع الأول الصحیح، أَوَّلُ مُصَنَّفٍ فِي الصَّحِيحِ الْمُجَرَّدِ صَحِيحُ الْبُخَارِيِّ ثُمَّ مُسْلِمٍ) { FN 5326 }؂ اُن سے حکم کا مخفی رہنا.{ FN 5327 }؂ جب وہ امام کو رکوع میں پالے تو وہ صرف اُس چھوٹی سی رکعت (یعنی رکعت کے چھوٹے سے حصہ) کو ہی پانے والا ہے.

Page 165

ُنَّا...نُصَلِّي وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهٗ مِنَ الرَّكْعَةِ قَالَ: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهٗ.کتبہ محمد فضل الدین.{ FR 5328 }؂ فقیر.صغیری اور مَالَا بُدَّ مِنْہُ میں کوئی دلیل مذکور نہیں.پس ان سے فتویٰ دینا لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِـمَا اَرَاکَ اللہُ { FR 5329 }؂ کا امتثال نہیں.ابوہریرہ کا اثر موقوف ہے اور وہ حجت مسلّمہ نہیں.ابوہریرہ کے فتوے اور عمل کے خلاف ہے.باایں ہمہ رکعت کے حقیقی اور شرعی معنے چھوڑ نے کی کوئی دلیل نہیں.رکعت کے معنے بدوں قرینہ رکوع لینے کے شرع میں کوئی نظیر نہیں.دیکھو آپ نے بھی جو حدیث بیان فرمائی اگر یہی الفاظ مان لیں جو آپ نے لکھے تو اس میں بھی رکعت کے معنی رکوع لینے پر فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَہٗ { FR 5330 }؂ کا لفظ صریح قرینہ صارفہ موجود ہے.مولوی صاحب سچ ہے.علمی کہ نہ ماخوذ زمشکوٰة نبی ست واللہ کہ سیرابئی او تشنہ لبی ست جائکہ بود جلوہ حق حاکم وقت تابع شدن حکم خرد بے ادبی ست قال اللہُ تعالَى: يَاأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُوْلِهٖ.هٰذَا آخر ما اردنا من الجواب الآن فی عدم اعتداد الرکعة لمدرک الرکوع و تارک ام القرآن.و الحمد للہ الذی بنعمتہ تتمّ الصالحات.و اعلم یا ایھا الناظر انما الاعمال بِالنّیّات.{ FR 5331 }؂ { FN 5328 }؂ اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے جس نے رکوع پالیا اُس نے رکعت پالی، امام مالک نے اسے روایت کیا ہے.اور لفظ رکعت کا اطلاق رکوع پر واقع ہوا ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ حضرت رفاعہ بن رافعؓ سے روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپؐ نے رکوع سے اپنا سر اُٹھایا تو کہا: اللہ نے سن لی اس شخص کی جس نے اس کی تعریف کی.(محمد فضل الدین نے(بھی) ا سے درج کیا ہے).{ FN 5329 }؂ تاکہ تو لوگوں کے درمیان اس کے ذریعہ سے جو اللہ نے تجھے دکھایا ہے فیصلہ کرے.{ FN 5330 }؂ پھر جب آپؐ نے اپنا سر اُٹھایا.{ FN 5331 }؂ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے آگے بڑھ بڑھ کر باتیں نہ کیا کرو.یہ اب آخری بات ہے جس کا جواب کے لیے ہم نے ارادہ کیا ہے کہ رکوع کو پانے والے اور امّ القرآن کو چھوڑنے والے کی رکعت کا شمار نہیں ہے.اور سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس کی نعمت سے نیکیاں تکمیل پاتیں ہیں.اور اے دیکھنے والے جان لے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہی ہے.

Page 166

فائدہ جنازہ کی نماز میں تکبیر اُولیٰ کے بعد فاتحہ کا پڑھنا سنت صحیحہ سے ثابت ہے.اخرج البخاری فی صحیحه عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ (رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا) عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ.قَالَ: لِيَعْلَمُوْا أَنَّـهَا سُنَّةٌ.وقول الصحابی انها سنة رفع الحدیث فلاینافی وجوب الفاتحة.وحدیث ابن عباس اخرج الترمذی وقال حسن صحیح.{ FR 4785 }؂ واخرج البخاری وغیرہ کما مرّ غیرمرة.لَاصَلٰوة اِلَّابفاتحة الکتاب.{ FR 5336 }؂ اور صلوٰة جنازہ بھی صلوٰة ہے.افسوس ہمارے حنفی بھائی کہیں تو قرآن سے اس مسئلہ فاتحہ کا ایسا استدلال پکڑتے رہے کہ لَاصلوٰة کی حدیث کو چھوڑ دیا اور عذر کر دیا فَاقْرَؤُوْا مَاتَیَسَّرَ کے عموم کے خلاف ہے.یہاں صلوٰة جنازہ میں سرے سے فاتحہ کیا مطلق قرآن ہی فرض نہ مانا.ناظرین غور کریں فقہ کے ابتدائی متون میں کیدانی ہے.جو ہندوپنجاب میں مروج ہے.اس پر مُلاَّعلی قاؔری { FN 4785 } ؂ امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں طلحہ بن عبد اللہ بن عوف سے روایت بیان کی کہ انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے ایک جنازہ کی نماز پڑھی تو انہوں نے سورۂ فاتحہ پڑھی، انہوں نے کہا: تاکہ لوگ جان لیں کہ یہ سنت ہے.اور قولِ صحابی ہے کہ یہ سنت ہے، انہوں نے اس حدیث کو مرفوع بیان کیا.پس فاتحہ کے واجب ہونے کا انکار نہیں ہوسکتا.اور حضرت ابن عباسؓ کی حدیث ترمذی نے بھی بیان کی ہے اور انہوں نے کہا کہ یہ (روایت) حسن اور صحیح ہے.{ FN 5336 }؂ اور جیسا کہ متعدد بار گزر چکا ہے کہ امام بخاریؒ وغیرہ نے اس (روایت) کو بیان کیا ہے کہ نماز نہیں مگر سورۂ فاتحہ کے ساتھ ہی.

Page 167

نے فرمایا.وقد اغرب الکیدانی حیث قال والعاشر من المحرّمات الاشارة بالسّبابة کاھل الحدیث ای مثل اشارة جماعة یجمعہم العلم بحدیث رسول اللہ صلعم وھذا منہ خطأ عظیم و جرم جسیم منشأہ للجھل عن قواعد الاصول و مراتب الفروع من المنقول ولولا حسن الظن وتأویل کلامہ بسببہ لکان کفرہ صریحا و ارتدادہ صحیحا فھل لمومن ان یحرم ما ثبت فعلہ صلعم ما کاد ان یکون نقلہ متواترًا و یمنع ما علیہ عامة العلمائ کابر عن کابر والحال ان الامام الاعظم و الھمّام الاقدم قال لایحلّ لاحد ان یاخذ بقولنا مالم یعرف ماخذ من الکتب والسّنة و اجماع الامّة والقیاس الجلیّ فی المسئلة وقال الشافعی اذا صح الحدیث علی خلاف قولی فاضربوا قولی علی الحائط و اعملوا بالحدیث الظاہر الی ان قال مع انہ یکفی فی موجب تکفیر الکیدانی اھانتہ المحدّثین الذین ھم عمدة الدین المفہومة من قولہ کاھل الحدیث المفضیّة الی قلّة الادب المفضی بسوئ الخاتمة لان من المعلوم ان اھل القرآن اھل اللہ و اھل الحدیث اھل رسول اللہ و انشد فی ھذا المعنی شعر اھل الحدیث ھم اھل النبی و ان لم یصحبوا نفسہ انفاسہ صحبوا.انتہٰی.کیداؔنی نے انوکھی ہی بات کہی جو کہا نماز کے محرمات سے دسواں حرام سبابہ کا اشارہ ہے.اہلِ حدیث کی طرح کیا معنے اس جماعت کی طرح جس کو رسول اللہ صلعم کی حدیث نے ایک کیا اور یہ کہنا کیدانی کا بڑی خطا ہے اور بھاری جرم ہے.اس جرم کا منشا اصول کے قواعد اور منقول کے فروع کے مراتب سے جہالت ہے اگرحسنِ ظن کا حکم نہ ہوتا اور اس کے باعث کیدانیکے کلام میں تاویل نہ کی جاتی تو اس کا کفر صریح اور ارتداد صحیح تھا.کیا مومن نبی کے اس فعل کو حرام کہہ سکتا ہے جو قریب بتواتر ثابت ہوا اور کیا مومن منع کر سکتا ہے جس پر تمام علماء ہیں.بڑوں سے بڑے لیتے آئے.بڑے امام اور اقدام سردار (ابوحنیفہ) نے کہا کسی کو حلال نہیں کہ ہماری بات پر عمل

Page 168

کرے جب تک قرآن اور حدیث اور اجماع امت اور جلی قیاس مسئلہ میں نہ جان لے.شافعی نے کہا جب کوئی حدیث میری بات کے خلاف صحیح ثابت ہو.میری بات دیوار پر پھینک دو اور عمل کرو حدیث پر جو ظاہر ہو یہاںتک کہ کہا کیدانی کی تکفیر کو یہی کافی ہے کہ اس نے محدثین کی اہانت کی وہ جو وہی دین کے عمائدہین اور اس کا قلت ادب اس لفظ سے سمجھا جاتا ہے جو اس نے کہا کاہل الحدیث اور یہ ادب کی کمی سوء خاتمہ کا سبب ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ اہل قرآن اہل اللہ ہیں اور اہلِ حدیث اہل رسول اللہ ہیں (اتنا تفرقہ بھی غلط) اور پڑھا نبی کے اہل اہل حدیث یہی ہیں.اگرچہ یہ لوگ جناب کی صحبت میں نہیں بیٹھے اس کی باتوں کے صحبتی ہیں.اور اوسط متون میں مختصر وقایہ ہے اس کے ایک لفظ پر دراسات میں کہا.و من اقبح ذالک و اشنعہ ما فی المختصر وشرحہ لابی المکارم سن المختصر ان یوجہ الی القبلة کما ھو السنة فی القبر و اختیر الاستلقائ و ان کان الاول سنّة لکونہ ایسر لخروج الرّوح انتہٰی.فلفظ الاضطجاع والتوجّہ الی القبلة منصوص معناہ لا احتمال لہ و معہذ اخالفوہ من غیرمبالاة و مع المخالفة شھدوا علی انفسھم انھا لیست من جھلھم بالحدیث حتی یعذ رون بجہلھم بل مع العلم عمد اومع العمد صرّحوا انھا لیست ھی لاحتمال ان یکون مستند اھل الاختیار و الفتوٰی علی ما ھو مخالف قول نبیھم صلعم حدیثا آخر نا سخا لہ اوراجحا علیہ بوجہ من وجوہ الترجیح بل التّرجیح بامرلایعرف الّانقلا عن الاطبّائِ واللہ تعالیٰ اعلم بایسر منھما کما فی فتح القدیر اللّٰھمّ الا ان یقال ھو امر طبّيٌ مظنون فان یسرخروج الروّح فی ھیئة الا ستلقائ شیئی مزاجیّ ربما یحکم بہ بقواعد الامزجة و مع ھٰذَا التصریح صرّحوا بانّ ھٰذا الامر المجھول الغیر المستند الی حجة الا الی الطّب علی الظّن الضعیف فی ذٰلک ایضا لیس ممّا فیہ المصلحة دینہ بل الدنیویّةالمحضة لکونہ یسرا مزاجیا لایسرا روحیّا و مفروغ فی الشریعة ان اکثر عسر المزاج یوجب یسر الروح فی عالمہٖ و ھو دارالآخرة و لھذا کانت الشدّة فی

Page 169

السکرات من احوال سیّد الرسل علیہ افضل الصّلٰوة و التسلیمات و من ذٰلک عدّت من لوازم منصب القطابة و معلوم انہ لیس الیسر فی الحقیقة الا فیما وردت بہ الشریعة و ان کان فی الظاھر یورث عُسرًا و یفھم من ھٰذا ان من قال باختیار الاستلقائِ وافتٰی بہ معلّلًا بالیسر رَأَی الیسر علّتہ و من راٰہ علّة یلزمہ اعتقاد طردھا و من اعتقد طردھا یلزمہ القول بترک کلّ سنّةٍ فیھا عسر مزاجیّ فان اعتبار الیسر فی ترک السنّة علی شرف الھلاک حیث یتیقّن فاقد مزاج من اصلہ یوجب ان یّکون اعتبارہ فی حاک الحیٰوة حیث یکون حفظ المزاج مما لم یھملہ الشرع من باب الاوّل و اذا کان کذالک یلزمہ التجویز لترک ماٰتٍ من السنن و تلک مفسدة لاتخفی قبآئـحھا و ھٰذا مما لایحتاج الی الاعماق فی تقبیحہ و ھذہ المسئلة اوردھا فی الھدایة ایضًا.لکن لاعلی ھذہ الفظاعة و عزی العمل بالاستلقائ علی خلاف السنّة الی اھل بلادہ من غیر تصریح باختیارہ من اھل الفتوٰی و ھو کلام یحتمل الطعن علی ما خالف السّنة من اھل بلادہ فتعین حملہ علیہ اخراجا لکلام عالم عما یشینہ فیما یمکن من المحامل بخلاف الکلام السّابق و الی اللہ سبحانہ لشکوی من بعض اھل زماننا حیث یحاولون الجواب عن ھذہ الھفوة و تصحیحھا بدندنة لا یشحنھا سمع سامع فضلا من ان یدرکھا فھم فاھم ثم ان توجیہ المحتضر الی القبلة ثبت بقضیّة برائ ابن معرور و ھی انہ صلّی اللہ تعالیٰ علیہ و سلّم لمّا قدم المدینة سأل عن البرائ بن معرور فقالو ا توفّی و اوصی بثلٰث مالہ لک و اوصی ان یوجہ الی القبلة لما احتضر فقال صلعم اصاب الفطرة وقد رددت ثلثہ علی ولدہ رواہ الـحاکم و اما ان السنة کونہ علٰی شقّہ الایمن فقیل یمکن الاستدلال علیہ بحدیث النّوم فی الصحیحین عن البرائ بن عازب عن النبی صلعم اذا اتیت مضجعک الحدیث وماروی امام احمد عن ام سلمة عن فاطمة (رضی اللہ عنھا)انّھا اضطجعت و استقبلت القبلة وجعلت یدھا تحت خدّھا ثم قالت یا امّہ انی مقبوضة الآن وقد

Page 170

تطھرت فلایکشفنی احدوفقبضت مکانھا.ضعیف.نہایت برُا اور شنیع خلاف مختصر اور اس کی شرح ابوالمکارم کا ہے جو کہا.مختصر کے لئے سنت ہے مونہہ کر دینا قبلہ کو قبر میں اور پسند کیا گیا چت لٹا دینا اگرچہ پہلی بات سنت ہے کیونکہ اس میں روح آسانی سے نکلتی ہے.کروٹ پر لٹانا اور قبلہ کو مونہہ کر دینا ایسی نص میں آچکا ہے جس میں احتمال نہیں اور پھر بے پرواہی سے خلاف کیا اور بایں مخالفت کہہ دیا کہ ہم حدیث سے بے خبر نہیں اگر نہ کہتے تو جہالت کے معذور کہے جاتے بلکہ جا ن کر عمداً مخالف ہوئے اور باایں عمد تصریح بھی کر دی کہ یہ احتمال نہ کرو کہ استلفاء پسند کرنے والوں سے فتویٰ خلاف اپنے نبی کے کسی ناسخ اور راجح حدیث کے باعث ہے.نہیں نہیں بلکہ ترجیح صرف ایسی بات سے ہے جو صرف اطباّ سے نقل ہے اور اللہ خوب جانتا ہے جس میں روحانی آرام ہے.فتح القدیر میں ہے ہو سکتا ہے کہ کہا جاوے یہ طبیّ اور ظنیّ بات ہے کیونکہ استلقاء میں روحانی آرام ماننا ایک طبعی امر ہے اور علم طبعی کے قواعد اس پر حکم کرتے ہیں باایں تصریح ان لوگوں نے صاف کہہ دیا کہ اس صرف طبیّ ڈھکوسلا میں جو صرف ایک ُسست وہم پر مبنی ہے.دینی کوئی مصلحت نہیں صرف دنیوی فائدہ ہےمزاجی آسائش ہے روحانی آرام نہیں اور شرع میں ثابت ہو چکا ہے کہ اکثر مزاجی تکلیف روحانی عالم (دارآخرة) میں روحانی راحت کا موجب ہے اسی لئے.سکرات کی شدت سیّد رُسل صلعم کا حال ہے یہی سبب ہے کہ یہ تکلیف منصب قطب میں ضرور بات سے شمار ہوئی اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ حقیقی آرام اس میں ہے جس میں شرع وارد ہوئی اگرچہ ظاہر میں تکلیف ہی ہو.اس بات سے صاف واضح ہے کہ جس نے استلقا پسند کیا اور آرام کو علّت بنا کر استلقا کا فتویٰ دیا جب آرام کو علّت مانا تو اسے ضرور ہوا علّت کو مطرد مانے اور جس نے مطرد مانا اسے ضرور پڑا کہ ان تمام سنتوں کو چھوڑ دے جن میں مزاجی تکلیف ہے کیونکہ آرام کا خیال سنت کے ترک میں مرتے وقت جبکہ مزاج کے اصل ہی سے گم ہو جانے کا یقین ہے واجب کرتا ہے کہ زندگی کی حالت میں جہاں مزاج کی حفاظت کو شرع نے بھی مہمل نہیں رکھا ضرور بہتر ہو گا جب یہ بات ہے تو ایسے لوگوں کو صدہا سنتوں کا ترک کر دینا ضرور ہوا

Page 171

اور یہ ایسی برا ئی ہے جس کی قباحت کھلی ہے اور یہ وہ قباحت ہے جس کی زیادہ برائی بیان کرنے کی حاجت نہیں اور اس مسئلہ کو ہدایہ والا بھی لایا ہے.اِلاَّنہ اس برُی طرح.اور نسبت کیا استلقاء کا عمل سنت کے خلاف اپنے ملک والوں کی طرف بدوں اس کے کہ تصریح کرے کہ اہل فتویٰ نے اسے پسند کیا.پس ہدایہ کا کلام محتمل ہے کہ طعن ہو سنت کے مخالفوں پر اس کے ملک والوں سے.اور ضرور ہوا کہ یہی بات قرار دین تو کہ عالم کا کلام حتی الامکان اس بات سے نکل جاوے جس میں عالم کی برائی نکلے.بخلاف کلام مختصر کے.اور خدا کے آگے دکھ ظاہر کرتے ہیں جبکہ زمانہ والوں کو دیکھتے ہیں کہ ایسی برُی بات کا جواب دینے لگتے ہیں اور اس کی تصحیح ایسے کلام سے کرتے ہیں جس کے لئے سننے والے کے کان بھی نہیں اٹھتے.چہ جائے کہ سمجھنے والا کچھ سمجھے.قبلہ کی طرف منہ کرنا برَاء بن مَعرور کے قصہ سے ثابت ہے وہ یہ کہ جب(رسول اللہ) صلعم مدینہ میں آئے برَاء کا حال پوچھا.لوگوں نے عرض کیا وہ مر گیا اور تہائی مال آپ کے لئے کہہ گیا اور وصیت کی مرتے وقت کہ قبلہ کی طرف اس کا مونہہ کیا جاوے.رسول اللہؐ نے فرمایا فطرت کو پہنچا ثلث اس کا اس کی اولاد کے لئے روایت کیا حاکم نے اِلاَّ یہ کہ دائیں کروٹ پروہ لٹایا جاوے.پس کہا گیا کہ ہو سکتا ہے اس پر استدلال نوم کی حدیث سے صحیحین میں برَاء ابن عاَزب سے آپ نے رسول اللہ صلعم سے روایت کیا جب آئے تو اپنے بستر پر الخ اور وہ جوروایت کیا امام احمد نے اُمّ سلمہ سے اس نے فاطمہؓ سے وہ کروٹ پر قبلہ کو منہ کر کے سوئی اور اس نے ہاتھ کو رخسارے کے نیچے رکھا پھر کہا ماں میں مرتی ہوں اور ستھری ہو چکی ہوں میرے کپڑے کوئی نہ اتارے.پس مر گئی.یہ بات ضعیف ہے.انتہا کی درسی کتابوں میں ہدایہ ہے اس کے مقدمہ میں ہدایہ پر کہا ہے و منھا (المسامحات) قولہ فی باب صلوة الجنائز کذا قالہ رسول اللہ صلعم حین وضع ابادجانة فی القبر الخ ھذا غلط فان ابادجانة توفی بعد رسول اللہ فی وقعة الیمامة سنة اثنی عشرة فی خلافة ابی بکر الصدّیق کَمَا رواہ الواقدی فی کتاب الرَدّة کذا قال الزیلعی و قال العینی ھذا و ھم فاحش فان ابادجانة قتل یوم الیمامة کما اسندہ الطبرانی فی

Page 172

معجمہ عن محمد بن اسحاق و سبب ھذا لوھم التقلید فان شیخ الاسلام ذکر فی المبسوط ایضًا ھٰکذا و کذا ذکرہ صاحب البدایع و الّذی وضعہ رسول اللہ فی قبرہ.ھو ذوالبحادین و اسمہ عبد اللہ و کان اولا اسمہ عبد العزیٰ فغیرہ رسول اللہ صلعم الیہ مات فی غزوة تبوک و البِجاد بکسر البائ الموحدة الکسائ الغلیظ و لّما اراد المصیر الی رسول اللہ قطعت امّہ بجاد ا لھا فارتدئ باحدھما واتزر بالاخری فلقب بہ انتہی کلامہ قلت لقد صدق فی ان سبب ھذا لوھم التقلید وقد قلدھم العینی ایضا فی منحة السلوک شرح تحفة الملوک فذکر ما ذکرہ صاحب الھدایة فلم یصب و قصة دفن ذی البجادین مرویة فی حلیة الاولیائ للحافظ ابی نعیم وغیرہا.ہدایہ کی مسامحات سے ہے قول اس کا باب جنائز میں ایسا ہی کہا رسول اللہ صلعم نے جب ابودجانہ کو قبر میں رکھا الخ اور یہ بات غلط ہے کیونکہ ابودجانہ رسول اللہ صلعم کے بعد یمامہ کی لڑائی میں سنہ بارہ ہجری میں فوت ہوا.جناب ابوبکر صدیق کے زمانہ میں جیسے واقدی نے کتاب الردةمیں بیان کیا.ایسا ہی زیلعی نے کہا اور عینی نے کہا یہ کھلا وہم ہے کیونکہ ابودجانہ یمامہ کی لڑائی میں مارا گیا جیسے طبرانی نے اپنی معجم میں ابن اسحاق سے روایت کیا ہے کہ اس وہم کا موجب تقلید ہے کیونکہ شیخ الاسلام نے مبسوط میں بھی ایسا ہی ذکر کیا ہے اور ایسا ہی ذکر کیا.بدایع والے نے اور جس کو رسول اللہ ؐنے قبر میں رکھا.وہ ذوالبجادین ہے اور اس کا نام عبد اللہ ہے.پہلے اس کا نام عبدالعزّٰی تھا پھر رسول اللہ صلعم نے بدل دیا.یہ شخص غزوہ تبوک میں مرا.بِـجاد بے کی زیر سے موٹی چادر کو کہتے ہیں جب اُس شخص نے رسول اللہؐ کی طرف جانا چاہا تو اس کی ماں نے اپنی چادر پھاڑ دی.اس نے ایک ٹکڑا اوڑھ لیا اور دوسرا کمر میں باندھ لیا.پس وہ اسی سے نامزد ہو گیا.یہ ٹھیک ہے کہ اس وہم کا باعث تقلید ہے اور عینی نے منحة السلوک شرح تحفة الملوک میں ایسی ہی تقلید کی ہے اور ایسا ذکر کیا جیسا ہدایہ والے نے کہا اور غلطی کھائی اور ذوالبجادین کا قصّہ حِلیةُ الاولیاء میں حافظ ابونعیم وغیرہ نے بیان کیا.

Page 173

اور کتب اصول میں شاشی اور فصول وغیرہ سے لے کر تلویح تک یہ حدیث بیان کی گئی.تکثر لکم الاحادیث من بعدی فاذاروی لکم عنی فاعرضوہ علی کتاب اللہ { FR 5339 }؂ الخ.اور یہ بھی لکھ دیا ہے کہ حدیث بخاری میں ہے فصول کی عبارت مفصل مذکور ہو چکی اور علامہ نے تلویح میں اس پر فرمایا وایراد البخاری ایاہ فی صحیحہ لاینافی الانقطاع او کون احد رواتہ غیر معروف بالروایة.{ FR 5340 }؂ اور اس پر ایک ایسا اصولی قاعدہ جمایا گیا جس کے ذریعہ سے صدہا احادیث ردّ کر دیں حالانکہ بخاری میں یہ روایت بالکل نہیں اور ان سب یا اکثر اصولیوں کا نسبت کرنا محض غلط ہے.مجھے اس تذکرہ سے یہ مطلب ہے کہ ناظرین رسالہ سوچیں اور یہ یقین کریں کہ اکابر علماء سے بھی غلطی ہو جاتی ہے اور نفس الامر کے خلاف ان سے سرزد ہو جاتا ہے.پس ترک تحقیق اور جمود علی التقلیب حق طلبی کے بالکل خلاف ہو گا اور اہل حدیث کی نسبت کیدانی جیسوں کے اقوال پسند کر کے اپنی عاقبت خراب نہ کریں.علی قاری کے فقرات اور مولوی عبد الحی صاحب کے اس انصاف کو دیکھیں جو مذکور ہے اور طحطاوی نے دُرّمختار کی شرح میں اس فرقہ اور اس کی کتابوں کے حق میں جو کہا اسے بغور پڑھیں.قال فان قلت ما وقوفک علی انک علی صراط مستقیم و کل واحد من ھذہ الفرق یدعی انہ علیہ قلت لیس ذلک بالادعاءِ و التّشبّث باستعمالھم الوھم القاصر والقول الزاعم بل بالنقل عن جھابذة ھذہ الصنعة و علماء اھل الحدیث الذین جمعوا صحاح الاحادیث فی امور رسول اللہ صلعم واقوالہ و افعالہ و حرکاتہ و سکناتہ واقوال الصحابة و المہاجرین و الانصار الذین اتّبعوھم باحسان مثل امام البخاری و مسلم { FN 5339 }؂ میرے بعد تم سے احادیث کثرت سے بیان کی جائیں گی.پس جب میرے متعلق تم سے کوئی حدیث بیان کی جائے تو اسے اللہ کی کتاب پر پرکھ لینا.{ FN 5340 }؂ اور امام بخاریؒ کا اسے اپنی صحیح میں لانا (سند کے) منقطع ہونے یا اس کے کسی راوی کے روایت میں غیرمعروف ہونے کی نفی نہیں کرتا.

Page 174

وغیرھما من الثقات المشھورین الذین اتفق اھل المشرق و المغرب علی صحة ما اورد وا فی کتبھم من امور النبی صلعم و اصحابہ رضی اللہ عنھم ثم بعد النقل ینظر الی الذی تمتدہ بھدیھم و اقتفٰی اثرھم و اھتدی بسیرھم فی اللاصول و الفروع فیحکم بانہ من الذین ھمھم وھذا ھو الفارق بین الحق و الباطل و الممیّز بین من ھو علی صراط مستقیم و بین من ھو علی السّبیل الذی علی یمینہٖ و شمالہٖ.اگر کہے کہ تجھے کیونکر معلوم ہوا کہ تو سید ھے راہ پر ہے حالانکہ سب فرقوں کے لوگ یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سیدھے راہ پر ہیں.میں کہتا ہوں یہ صرف دعویٰ اور وہمی بات نہیں اور نہ ظنی بات ہے بلکہ یہ ہماری راستی حدیث کے بڑے ماہروں اور عالموں سے ثابت ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے صحیح حدیثوں کو جمع کیا اور رسول اللہ ؐ کے امور اور ان کی باتیں اور ان کے افعال اور حرکات اور سکنات اور مہاجرین اور انصار صحابہ اور ان کی عمدہ باتوں کے تابعین کے اقوال اکٹھے کئے جیسے امام بخاری اور مسلم اور ان کے سوا اور مشہور ثقہ لوگ جن کی نسبت مشرق اور مغرب کے لوگوں نے اتفاق کیا کہ جو کچھ یہ لوگ اپنی کتابوں میں رسول اللہ صلعم اور آپ کے صحابہ سے لائے صحیح ہے.اب ان نقول کے بعد دیکھا جائے کہ کس نے ان کی ہدایت کو مضبوط پکڑا اور کون ان کے پیچھے ہو لیا اور ان کے سیر سے ہدایت یاب ہوا.اصول میں اور فروع میں جو ان کے مطابق ہے وہی ان میں سے ہے.یہی بات حق وباطل کا تفرقہ ہے اور یہی سیدھے اور ٹیڑھے راہ کے ممیز ہے.خاتمہ پر عموماً کل ناظرین اور سامعین اور خصوصاً شہر کے امراءاور حکما سے عرض ہے کہ مولوی عبد الحی حنفی کا انصاف اور علی قاری رحمة اللہ کا دینی جوش اور طحطاوی کی مدح سرائی اور حضرت شاہ جیلان علیہ الرحمة و الغفران کے علامات کو دیکھیں اور سوچیں کہ اہل حدیث کس درجہ کے لوگ ہیں باقی اقوال اوپر گذر چکے ہیں.حضرت پیر کافرمان یہ ہے.و اعلم ان لاہل البدع علامات یعرفون بھا فعلامتہ اہل البدعة الوقیعة فی اہل الاثر.الی ان قال کل ذالک عصبة و غیاظ لاہل السنة ولا اسم لھم الا اسم واحد و ھو اصحاب الحدیث

Page 175

و لایلتصق بھم مالقبوھم اہل البدع (بالنجدی والوہابی وغیرہ) کما لایلتصق بالنبی صلعم تسمیة کفار مکة ساحرًا شاعرًا مجنونًا مفتونًا و کاہنًا و لم یکن اسمہ عند اللہ و عند ملائکتہ و عند انسہ و جنّہ و سائر خلقہ الا رسولًا نبیًا بریامن العاہاتِ کلھا.قال اللہ تعالیٰ.انظرکیف ضربوالک الامثال فضلّوافلایستطیعون سبیلا.غنیة للطالبین صفحہ ۱۸ ترجمہ.بدعتیوں کے ایسے نشان بھی ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں.اہل حدیث کی غیبت کرنا یہاں تک کہ کہا کہ یہ سب اہل سنت کے ساتھ تعصب اور غیظ ہے اور ان کا سوائے اصحاب الحدیث کے اور کوئی نام نہیں اور جو نام بدعتی بولتے ہیں وہ ان پر چسپاں نہیں.جیسے رسول خدا صلعم کو مکہ کے کافر ساحر‘ شاعر ‘مجنون ‘مفتون ‘کاہن کہتے تھے اور وہ خدا اور فرشتوں اور انسانوں اور جنوں اور تمام مخلوقات میں رسول تھے اور برُے عیبوں سے پاک.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.دیکھ تجھے کیسا کہا.پس گمراہ ہوئے اور راہ پر نہیں آ سکتے.اَللّٰھُمَّ ثَبِّتْنَا عَلَی الصِّرَاطِ المُسْتَقِیْمِ.وَاَمِتْنَا فِی اتِّبَاعِ خَاتَمِ الْاَنْبِیَآءِ وَ شَفِیْعِ یَوْمِ الْـجَزَآءِ اَلرَّؤُفِ الرَّحِیْمِ.آمین{ FR 5341 }؂ جواب خط متضمن مسئلہ ناسخ و منسوخ العائذ باللہ ابوُاسامہ اپنے عزیز نجم الدین کو السلام علیکم لکھتا ہے.تمہارے تاکیدی خط بدر یافت مسئلہ نسخ مکرر پہنچے.میرا منشا تھا کہ اس مسئلہ میں مفصل رسالہ لکھوں اِلاَّ فی الحال کئی موانع درپیش ہیں.آپ چند روز اور انتظار فرمائیے.اگر زندگی باقی ہے تو انشاء اللہ وہ تفصیل آپ کی نگاہ سے گذرے گی.اس وقت خط میں ضروری باتوں پر اکتفا کرتا ہوں.مجھے حق سبحانہٗ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ میری یہ چند باتیں آپ کو اور ناظرین اور سامعین کو بھی مفید { FN 5341 }؂ اے اللہ جو نہایت مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے! ہمیں صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رکھنا اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم اور جزا سزا کے دن کے شفیع کی پیروی میں ہمیں موت دینا.آمین

Page 176

ہوں گی.فانی فی مقام النصح و لم لا اکون و الدین النصح و انما الاعمال بالنیّات وانما لامرء مانویٰ..{ FR 4787 }؂ میرے دل میں جو ش زن ہے.جہاں تک آپ سے ہو سکے یہ خط احباب کو دکھلائیے.کیونکہ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتّٰى يُحِبَّ لِأَخِيْهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهٖ { FR 5343 }؂جناب رسالت مآب کا فرمان ہے.میرے عزیز اب میں اس مضمون کو چند فقروں میں بیان کرتا ہوں.فقرہ اوّل.نسخ کے معنی.نسخ لغت میں باطل کر دینے اور دُور کر دینے کو کہتے ہیں اور نقل اور تحویل اور تغیر کے معنوں میں بھی آیا ہے.قاموس میں لکھا ہے.نَسَخَهٗ کَمَنَعَهٗ اَ زَالَهٗ وَغَیَّرَهٗ وَ اَبْطَلَهٗ وَاَقَامَ شَیْئًا مَقَامَهٗ وَ الشَّیْءَ مَسَخَهٗ وَالْکِتَابَ کَتَبَهٗ.(قاموس) { FR 4788 }؂ اَلنَّسْخُ اِبْطَالُ شَیْءٍ وَ اِقَامَةُ غَیْرِهٖ مَقَامَهٗ، نَسَخَتِ الشَّمْسُ الظِّلَّ وَھُوَ مَعْنَی مَا نَنْسَخْ (مجمع البحار) { FR 4789 }؂ و نسخ الکتاب ازالة الحکم بحکم تعقیبہ قال تعالیٰ ماننسخ من آیة(خفاجی){ FR 5365 }؂ النسخ النقل و کنقل کتاب من آخر و الثانی الابطال و الازالة و ھو { FN 4787 } ؂ میں تو خیرخواہی کے مقام پر ہوں اور میںخیرخواہ کیوں نہ بنوں جبکہ دین تو ہے ہی خیرخواہی.اور اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور آدمی کے لیے وہی ہے جس کی اُس نے نیت کی.{ FN 5343 }؂ تم میں سے کوئی ایمان نہیں لاتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے.{ FN 4788 }؂ نَسَخَهٗ کے معنٰی مَنَعَهٗ کی طرح ہیں، یعنی اُس نے اسے روک دیا، دُور کردیا اور اُس نے اسے تبدیل کردیا، باطل کردیا اور کوئی چیز اُس کی جگہ کھڑی کردی، اور نَسَخَ الشَّیْءَ کے معنی ہیں اُس نے وہ چیز مٹا دی، اور نَسَخَ الْکِتَابَ کے معنی ہیں کہ اُس نے اُسے لکھا.{ FN 4789 } ؂ اَلنَّسْخُ کے معنٰی ہیں کسی چیز کو ختم کرنا اور اس کی جگہ کسی اور کو کھڑا کردینا.نَسَخَتِ الشَّمْسُ الظِّلَّ یعنی سورج نے سایہ کو ختم کردیا اور مَا نَنْسَخْ کے یہی معنٰی ہیں.؂ اور نسخ الکتاب کے معنی ہیں کسی حکم کو اُس کے بعد دوسرا حکم لا کر زائل کرنا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: جو بھی آیت ہم زائل کردیں.

Page 177

لمقصود ھٰھنا (ابوسعود){ FR 5366 }؂ النسخ فی اللغة الابطال و الازالة و یراد بہ النقل و التحویل والاکثر علی انہ حقیقة فی الازالة مجاز فی النقل (حصول){ FR 5367 }؂ النسخ النقل و التحویل و الثانی الرفع و الازالة (مظہری){ FR 4790 }؂ فقرہ دوم.فقرہ اوّل میں معلوم ہو چکا کہ نسخ کے معنی ابطال اور تغییر اور نقل کے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آیة ماننسخ میں ابطال کے ہی معنی مطلوب ہیں.جیسے ابوسعود‘ مجمع البحار اور خفاجی سے ظاہر ہے.علاوہ بریں جب ہم ناسخ اور منسوخ کا ذکر کرتے ہیں تو نقل والے معنے ضرور نہیں لئے جاتے.کیونکہ اس صورت میں سارا قرآن منسوخ ہے اور تغییر کے معنی بھی مراد نہیں کیونکہ مطلق کی تقیید اور عام کی تخصیص اور ایزاد شروط اور اوصاف کو اگر نسخ کہیں تو قرآن کی منسوخ آیتیں سینکڑوں کیا ہزاروں ہو جاتی ہیں.تخصیص اور نسخ اور تقیید اور نسخ کا تفرقہ ثابت ہے.ونثبت انشاء اللہ تعالیٰ یاد رکھو کہ ابطال ہی کے معنے میں نسخ کا لفظ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے.والقرآن یفسر بعضہٗ بعضًا قال اللہ تعالَى: إِلَّا إِذَا تَمَنّٰى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهٖ فَيَنْسَخُ اللهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ الخ اَیْ یُزِیْلُهٗ وَ یُبْطِلُهٗ.{ FR 5368 }؂ اور یاد رکھو کہ نسخ کے حقیقی معنی ابطال اور ازالہ کے ہیں حقیقی معنی کو بدوں ضرورت چھوڑنا جائز نہیں اور ان معنے کے لحاظ سے قرآن میں کوئی آیت { FN 5366 }؂ اَلنَّسْخُ کے معنی ہیں نقل کرنا، اور ایک کتاب کی دوسری (کتاب) سے کاپی تیار کرنا.اور اس کے دوسرے معنی ہیں روک دینا اور زائل کردینا اور یہاں یہ ہی مقصود ہے.{ FN 5367 }؂ لغت میں نسخ کے معنی ہیں باطل کرنا اور مٹا دینا اور اس سے مراد ہے نقل کرنا اور تبدیل کردینا.اور اکثر کا خیال ہے کہ اس کے حقیقی معنی زائل کرنے کے ہیں اور مجازی معنی نقل کے ہیں.{ FN 4790 }؂ نسخ کے معنی ہیں نقل کرنا اور تبدیل کردینا.اور اس کے دوسرے معنی اُٹھا لینا اور زائل کردینا بھی ہیں.{ FN 5368 }؂ اور قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصہ کی وضاحت کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے کہا: مگر جب بھی وہ کوئی خواہش کرتا ہے تو شیطان اُس کی خواہش میں رکاوٹ ڈال دیتا ہے پھر اللہ اُس کو جو شیطان ڈالتا ہے مٹا دیتا ہے …… یعنی اسے زائل کردیتا ہے اور ختم کردیتا ہے.

Page 178

منسوخ موجود نہیں ہے.یاد رہے کہ میں محض و قوع کا منکر نہیں.فقرہ سیوم.جن لوگوں نے منسوخ مانا ہے اُن کے معانی کرنے میں نسخ کے ماننے والوں نے ضرور کچھ تساہل کیا ہے.مجھے ایک زمانہ میں اس مسئلہ کی جستجو تھی.اس وقت ایک رسالہ ایسا ملا جس میں پانسو آیت منسوخ کا بیان تھا.میں اسے سوچتا اور مصنف کی لاپرواہی پر تعجب کرتا تھا.تھوڑے دنوں بعد سیوطی کی اتِّقَان دیکھی تو ایسی خوشی ہوئی جیسے بادشاہ کو ملک لینے کی یا عالم کو عمدہ کتاب ملنے کی یا قوم کے خیرخواہ کو کامیابی کی ہوتی ہے.مجھ کو امام سیوطی کی آیات میں بھی تردّد تھا.اِلاَّ چھوٹا منہ بڑی بات پر خیال کر کے خاموش رہا اس کے چند دنوں بعد فوز الکبیر فی اصول التفسیر راحت بخش دل مضطر ہوئی اس میں مصنف علاّمہ نے صرف پانچ آیتیں منسوخ مانی ہیں.میں نے ان پانچ مقام کی تحقیق تفاسیر سے کی تو ان پانچ مقامات کا بھی منسوخ ماننا نفس الامر کے مطابق پایا.فقرہ چہارم.عزیز من ایمان اور انصاف کا مقتضٰی ہے کہ اگر ہم دو احکام شرعیہ کو متعارض دیکھیں تو بحکم لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا یقین کریں کہ یہ تعارض ہمارے فہم کی غلطی ہے اگر تطبیق دو آیتوں یا حدیثوں کی ہمیں نہیں آئی تو اللہ کے ہزاروں ایسے بندے ہوں گے جو تطبیق دے سکتے ہوں گے.ہم بڑے نادان ہیں اگر اپنے عجز کو نہیں سمجھتے.بڑی غلطی پر ہیں اگر اس فیض الٰہی کے منتظر نہ رہیں جس کے ذریعہ تطبیق حاصل ہو.بڑی نااُمیدی ہے اگرقبض کی حالت میں بسط کا انتظار نہ ہو.صاف دھوکہ ہے اگر فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٍ ہمیں بھول جائے.فقرہ پنجم.فوزالکبیر میں لکھا ہے.شیخ جلال الدین سیوطی در کتاب اتقان بعد ازانکہ از بعض علماء آنچہ مذکور شدبہ بسط لایق تقریر نمود و انچہ بر رائے متأخرین منسوخ است بروفق شیخ ابن العربی محرر کردہ قریب بست آیت شمردہ.فقیر را در اکثر آں بست نظر است فلنورد کلامہ مع التعقب فمن البقرة کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدُکُمُ الْمَوْتَ اِنْ تَرَکَ خَیْرًا الوَصِیَّةُ

Page 179

لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ اَلْاٰیَةُ مَنْسُوْخَةٌ.قِیْلَ بِاٰیَةِ مَوَارِیْث وَ قِیْلَ بِحَدِیْثٍ لَاوَصِیَّةَ لِوَارِثٍ وَقِیْلَ بِالْاِجْمَاعِ حَکَاہُ ابْنُ الْعَرَبِیْ.{ FR 4791 }؂ اس پر مؤلف علاّمہ کہتا ہے کہ یہ آیت آیت یُوْصِیْکُمُ اللہ سے منسوخ ہے اور لَاوَصِیَّةَ لِوَارِثٍ کی حدیث اس نسخ کو ظاہر کرتی ہے.فقیر.کہتا ہے یہ آیت منسوخ نہیں.کیونکہ کُتِبَ کے معنے ہیں لکھے گئے تم پر جب آجاوے ایک کو تم سے موت اگر چھوڑے مال الوصیت ماں باپ اور نزدیکیوں کے لئے.اور ظاہر ہے کہ جب موت حاضر ہو گئی تو آدمی مر گیا.اِنْ تَرَکَ کا لفظ وجود موت پر قرینہ ہے.اس آیت شریفہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص مال چھوڑ ے تو اس کے حق میں کوئی وصیت لکھی گئی ہے.جب ہم نے قرآن کریم میں جستجو کی تو اس میں پایا.یُوْصِیْکُمُ اللہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ.آہ.معلوم ہوا کہ والدین اور رشتہ داروں کے حق میں یہ وصیت لکھی ہوئی ہے.وَالْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا { FR 5371 }؂ اور اسی وصیت کے اجرا کا کُتِبَ عَلَیْکُمْ والی آیت میں حکم ہے پس یہ آیت کُتِبَ عَلَیْکُمْ اور آیت یُوْصِیْکُمُ اللہُ آپس میں متعارض نہ ہوئیں بلکہ ایک دوسرے کی ممد ٹھہریں اور لَاوَصِیَّةَ لِوَارِثٍ { FR 5373 }؂ والی حدیث بھی معارض نہ رہی کیونکہ بلحاظ حدیث یہ حکم ہے کہ یُوْصِیْکُمُ اللہُ میں وارثوں کے حقوق مقرر ہو چکے ہیں اور شارع نے ان کے حصص بیان کر دیئے ہیں.اب { FN 4791 } ؂ پس ہم اس کا کلام ہی تبصرہ کےساتھ پیش کرتے ہیں جیسا کہ سورۂ بقرہ میں آیا ہے: کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ …… یعنی جب تم میں سے کسی پر موت (کا وقت) آجائے تو تم پر بشرطیکہ وہ (مرنے والا) بہت سا مال چھوڑے، والدین اور قریبی رشتہ داروں کو وصیت کرنا فرض کیا گیا ہے.(کہاجاتا ہےکہ) یہ آیت منسوخ ہے.کہا گیا ہے کہ آیت میراث سے (منسوخ ہے) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حدیث ’’وارث کے لیے وصیت نہیں‘‘ سے (منسوخ ہے) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اجماع سے منسوخ ہے.ابن عربی نے اسے بیان کیا ہے.{ FN 5371 }؂ اور قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصہ کی وضاحت کرتا ہے.{ FN 5373 }؂ وارث کے لیے وصیت نہیں.

Page 180

وارث کے لئے وصیت نہیں رہی.ہاں وارثوں کے سواء اور لوگوں کے حق میں وصیت ہو تو ممنوع نہیں.آگے کی آیت میں حکم ہے جس نے بدلا وصیت کو سننے کے بعد ضرور اُس کا گناہ بدلنے والوں پر ہوا.اور اللہ ہے سننے والا جاننے والا (کیوں نہ ہو خدائی وصیت کا بدلنا مسلمان کا کام نہیں) اور آیت فَـمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا کا ترجمہ ہے جس کو ڈر ہو کہ کسی موصی نے کجی کی یا گناہ کیا پس اس نے سنوار دیا تو اسے گناہ نہیں.تحقیق اللہ بخشنے والا مہربان ہے.ظاہر ہے جس موصی نے خدائی وصیت کے خلاف کیا اس نے بیشک کجی......سنوارنے والے پر کوئی گناہ نہیں اور ہو سکتا ہے کہ موصی سے وہ وصیت والا مراد ہو جس نے ثُلُث سے زیادہ وصیت کی یا ثُلُث میں اور ثُلُث کے اندر کسی برُے کام پر اور برُی طرز پر روپیہ لگا دینے کی وصیت کی اور آیات یُوْصِیْکُمْ میں مِنْ بَعْدِ وَصِیَّةٍ بدوں تقیید مذکور ہے.اس لئے یہاں بتادیا کہ کجی اور گناہ کی سنوار معاف ہے اس سنوار نے پر کوئی جرم نہیں اگر اُس نے اس موصی کی وصیت میں اصلاح کی اور اس میں ایما ہے کہ اصلاح کے وقت گناہ بھی ہو جاتے ہیں اِلاَّ اُن کی معافی ہے.دوسری وجہ.آیت کے منسوخ نہ ہونے کی اَلْوَالِدَیْنِ اور اَلْاَقْرَبِیْنَ یہاں معرف باللام ہیں پس کہتے ہیں کہ یہاں خاص والدین اور اقارب کا ذکر ہے.اور چونکہ آیت یُوْصِیْکُمْ اللہُ میں اکثر وارثوں کے حق بیان ہو چکے ہیں اور حدیث لَاوَصِیَّةَ لِوَارِثٍ میں وارث کے حق میں وصیت کرنے کی ممانعت آ چکی ہے.اس لئے اَلْوَالِدَیْنِ اور اَلْاَقْرَبِیْنَ سے وہ ماں باپ اور رشتہ دار مراد ہیں جو وارث نہیں مثلاً کسی شخص کے ماں باپ غلام ہوں یا مورث کے قاتل ہوں یا کافر ہوں اور ایسے وہ اقارب ہوںجو محروم الارث ہیں.یا آیت مخصوص البعض ہے.اگریہ تردّد ہو کہ یہ وصیت اکثر اہل اسلام میں فرض نہیں اور یہاں کُتِبَ کا لفظ فرضیت ظاہر کرتا ہے تو اس کا ازالہ یہ ہے کہ اوّل تو بِالْمَعْرُوْفِ کا لفظ مذب کی دلیل ہے.دوم ابن عباس ‘ حسن بصری‘ مسروق طائوس مسلم بن یسار‘ علا بن زیاد کے نزدیک اس وصیت کا وجوب ثابت ہے.

Page 181

دوسری آیت وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ، قیل منسوخة بقولہ فَـمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ وقیل محکمة ولامقدرة قلت عندی وجہ آخر وھو ان المعنیٰ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَ الطَّعَامَ فِدْیَةٌ ھِیَ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فاضمر قبل الذکر لانہ متقدمة رتبة وذکر الضمیر لان المراد من الفدیة ھو الطعام والمراد منہ صدقة الفطر.عقب اللہ تعالی الامر بالصیام فی هذہ الآیة بصدقة الفطر کما عقب الآیة الثانیة بتکبیرات العید.{ FR 4792 }؂ خلاصہ کلام یہ ہوا کہ کسی نے کہا ہے کہ آیت منسوخ ہے آیت فَـمَنْ شَہِدَ کے ساتھ اور کسی نے کہا منسوخ نہیں اور لَا مقدرہے.یاد رہے کبیر (یعنی الفوز الکبیر)میں لکھا ہے.اَلْوُسْعُ اِسْمٌ لِمَنْ كَانَ قَادِرًا عَلَى الشَّيْءِ عَلٰى وَجْهِ السُّهُوْلَةِ أَمَّا الطَّاقَةُ فَهُوَ اِسْمٌ لِمَنْ كَانَ قَادِرًا عَلَى الشَّيْءِ مَعَ الشِّدَّةِ وَالْمَشَقَّةِ.{ FR 4793 }؂ پس لا کا مقدر کہنا نہ پڑا.یااس کے معنے ہیں جو لوگ طعام دینے کی طاقت رکھتے ہیں فطرانہ میں ایک مسکین کا کھانا دے دیں.فقیر کہتا ہے.لَا مقدر کرنے کی حاجت اس لئے بھی نہیں کہ بابِ اِفعال کا ہمزہ سلب کے واسطے بھی آتا ہے دیکھو مفلس کے معنی فلوُس والا نہیں بلکہ یہ ہیں جس کے پاس فلوُس نہ ہوں پس یہاں یُطِیْقُوْنَ الخ کے معنے ہوئے جس میں طاقت نہ ہو روزہ کی وہ روزہ کے بدلے کھانا کھلا دے { FN 4792 }؂ آیت کریمہ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ (یعنی اور اُن لوگوں پر جو اس کی طاقت رکھتے ہوں فدیہ ہے) کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ منسوخ ہے اللہ تعالیٰ کے قول فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ سے (یعنی تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو دیکھے تو چاہیئے کہ وہ اس کے روزے رکھے)، اور کہا گیا ہے کہ یہ حکم ہے استطاعت کا معاملہ نہیں ہے.میں کہتا ہوں میرے پاس ایک اور توجیہ ہے اور وہ یہ کہ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَ الطَّعَامَ.یعنی اُن لوگوں پر جو کھانا کھلانے کی طاقت رکھتے ہیں ایک مسکین کا کھانا کھلانا فدیہ ہے.اور اسے ذکر کرنے سے پہلے مضمر رکھا گیا ہے کیونکہ یہی (ضمیر) مرتبہ میں مقدم ہے.اور ضمیر کو (پہلے) اس لیے ذکر کیا گیا ہے کیونکہ فدیہ سے مراد کھانا کھلانا ہے، اور اس سے مقصود فطرانہ ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں روزوں کا حکم فطرانہ کے حکم کے بعد رکھا ہے، جیسا کہ اُس نے دوسری آیت میں عید کی تکبیرات کا ذکر بعد میں کیا ہے.{ FN 4793 }؂ اَلْوُسْعُ اس کا نام ہے جو کسی چیز پر سہولت سے قدرت رکھتا ہو، اور طاقة اس کا نام ہے جو کسی چیز پر شدت و مشقت سے قدرت رکھتا ہو.(التفسير الكبير للرازي، تفسیر سورة البقرة آیت184: وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهٗ)

Page 182

جیسے بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت.اس آیت کا منسوخ نہ ہونا بیان کیا بخاری نے ابن عباس سے اور حافظ ابونصر بن مردویہ نے عطاء سے.میں کہتا ہوں بوڑھے ہی پر کیا حصر ہے.حمل والی اور دودھ پلانے والی عورت (جیسے شافعی اور حسن بصری نے کہا) اور قطب شمالی اور جنوبی کے قریب کے رہنے والوں اور تمام ان لوگوں کو (جن سے روزہ کی برداشت نہیں ہو سکتی) یہی حکم ہے.وَخَلَافُہٗ لَیْسَ بِثَابِتٍ.{ FR 5396 }؂ تیسری آیت.كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ الخ منسوخ بقولہٖ تعالیٰ اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآىِٕكُمْ اور دلیل میں لکھا ہے کہ موافقت کا مقتضی تھا کہ اہلِ کتاب کی طرح عورت سے صحبت کرنا اور کھانا نیند کے بعد حرام ہوتا ہے.فوزالکبیر والے فرماتے ہیں.یہ تشبیہ نفس وجوب میں ہے پس آیت منسوخ نہ ہوئی اور سچ ہے تشبیہ میں کل وجوہ کی مساوات نہیں ہوا کرتی.چوتھی آیت.يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْهِ الخ منسوخ ہے قَاتِلُوْا الْمُشْرِكِيْنَ كَآفَّةً کے ساتھ.فوز الکبیر میں ہے.یہ آیت تحریم قتال پر دلالت نہیں کرتی بلکہ یہ آیت تو قتال کی مجوّز ہے.البتہ یہ آیت عِلّت کو تسلیم کر کے مانع کا اظہار کرتی ہے.پس یہ معنے ہوئے کہ اَشْہُرِ حُرم میں قِتَال بڑی سخت بات ہے لیکن فتنہ اس سے بھی بڑا ہے پس فتنہ کے مقابلہ میں قتال برُا نہ ہو گا.پانچویں آیت.وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ اِلٰی قَوْلِہٖ مَتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ الخ منسوخة بآیة اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّعَشْرًا والوصیة منسوخة بالمیراث والمسکن باقیة عند قوم منسوخة عند آخرین.{ FR 5397 }؂ فوز الکبیر میں ہے کہ جمہور حنفیہ اسے منسوخ کہتے ہیں.{ FN 5396 }؂ اور اس کے خلاف ثابت نہیں ہے.{ FN 5397 }؂ آیت کریمہ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ …… (یعنی وہ لوگ جو تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ اپنی بیویوں کے حق میں ایک سال تک فائدہ پہنچانے کی وصیت کرجائیں) آیت کریمہ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا (یعنی چار مہینے اور دس دن) سے منسوخ ہے.اور وصیت کرنا ورثہ (کی آیت) سے منسوخ ہے اور رہائش دینا ایک جماعت کے نزدیک باقی ہے اور دوسروں کے نزدیک منسوخ ہے.

Page 183

پھر کہا ويمكن أن يقال: يستحب أو يجوز للميت الوصية ولا يجب على المرأة أن تسكن في وصيته، وعليه ابن عباس وهذا التوجيه ظاهر من الآية.{ FR 5399 }؂ میں کہتا ہوں کہ اس ظہور میں کچھ کلام نہیں.مجاہد اور عطا سے مروی ہے کہ آیت منسوخ نہیں اور حسب اس وصیت کے سال بھر کامل اگر عورت اپنے شوہر کے گھر میں رہنا چاہے تووارثوں کا منع کرنا درست نہیں اور اگر چار مہینے دس دن کے بعد یا وضع حمل کے بعد نکلنا چاہے اور دوسری جگہ چلی جائے تو مختار ہے اور یہی مذہب ہے ایک جماعت کا اور پسند کیا اس کو ابن تیمیہ ؒ نے.چھٹی آیت.قَوْلُہٗ تَعَالیٰ.وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْۤ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ منسوخة بقولہ تعالیٰ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا.{ FR 5400 }؂صاحب فوز الکبیر فرماتے ہیں.یہ مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ عام مخصوص البعض ہے.لَایُکَلِّفُ اللہُ کی آیت شریف نے بیان کر دیا کہ مَافِیْ اَنْفُسِکُمْسے مراد اخلاص اور نفاق ہے نہ وہ توہمات جو دل پر بے اختیار آجاتے ہیں.کیونکہ طاقت سے باہر باتوں کا حکم نہیں.اور نہ انسان کو اس کی تکلیف.ساتویں آیت.اِتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ قیل منسوخة بقولہ.فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ.و قیل لابل محکمة.{ FR 5401 }؂ فوز الکبیر میں ہے.حَقَّ تُقٰتِهٖ کا حکم شرک اور کفر اور اعتقادی مسائل میں ہے اور مَااسْتَطَعْتُمْ کا حکم اعمال میں ہے مثلاً جو کوئی وضو نہ کر سکے تیمم کرلے جو کوئی کھڑا نماز نہ پڑھ سکے بیٹھ کر پڑھ لے اور یہ توجیہ سیاق آیت سے ظاہر ہے.{ FN 5399 }؂ اور ممکن ہے کہ کہا جائے کہ یہ پسندیدہ ہے یا میّت کے لیے وصیت کرنا جائز ہے اور عورت پر لازم نہیں ہے کہ وہ وصیت کے مطابق رہے، حضرت ابن عباسؓ اسی موقف پر ہیں اور یہ توجیہ آیت کے ظاہر کے مطابق ہے.{ FN 5400 }؂ اللہ تعالیٰ کا قول وَإِنْ تُبْدُوْا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ (یعنی اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خواہ تم اُسے ظاہر کرو یا اُسے چھپائے رکھو، اللہ تم سے اس کا حساب لے گا) اللہ تعالیٰ کے قول لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (یعنی اللہ کسی شخص پر سوائے اس کے جو اُس کی طاقت میں ہو کوئی ذمہ داری نہیں ڈالتا) سے منسوخ ہے.{ FN 5401 }؂ کہا گیا ہے کہ آیت کریمہ اِتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ اللہ تعالیٰ کے قول فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ سے منسوخ ہے.اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ نہیں بلکہ یہ تو محکم ہے.

Page 184

آٹھویں آیت.وَ الَّذِيْنَ عَقَدَتْ اَيْمَانُكُمْ فَاٰتُوْهُمْ نَصِيْبَهُمْ منسوخة بقولہ تعالیٰ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فوز الکبیر میں ہے.آیت کا ظاہر یہ ہے کہ میراث وارثوں کے لئے ہے اور احسان و سلوک مَوْلَی الْمَوَالَاةِ کے واسطے نسخ کوئی نہیں.نویں آیت.وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ.آہ یہ آیت منسوخ ہے اور کہا گیا منسوخ نہیں لوگوں نے سستی کی اس پر عمل کرنے میں.ابن عباس نے کہا یہ اِسْتِحْبَابِیْ حکم ہے.سچ ہے بھلا اس کا نسخ کرنے والا کون ہے.دسویںآیت.وَ الّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ کہا گیا منسوخ ہے.آیت سورہ نور سے.فوزالکبیر میں ہے.یہ بالکل منسوخ نہیں.بلکہ وَاللَّاتِیْ آہ میں حکم ایک غایت کے انتظار کاہے سورہ نور میں اس غایت کا بیان ہوا اور رسول اللہ صلعم نے فرمایا.یہ وہ سبیل ہے جس کا وعدہ دیا تھا پس نسخ نہ ہوئی.گیارہویں آیت.وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ اس مہینے میں اباحت قتال کے ساتھ منسوخ ہے.فوز الکبیر میں ہے.قرآن اور سنت ثابتہ میں اس کا نسخ موجود نہیں.بارہویں آیت.فَاِنْ جَآءُوْكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ.آہ منسوخ ہے وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا اَ نْزَلَ اللّٰهُ کے ساتھ.فوز الکبیر میں ہے کہ اس کے معنی ہیں اگر تو حکم کرے اہل کتاب کے مقدمات میں تو مَااَ نْزَلَ اللہُ پر حکم کر اور ان کی خواہشوں پر نہ جا.حاصل یہ ہو اکہ یا تو ہم اہل ذمہ کو چھوڑ دیں وہ اپنے مقدمات اپنے افسروں کے پاس لے جاویں اور وہ اپنی شریعت کے موافق فیصلہ کریں.اگر ہمارے پاس آویں تو حسبِ شریعت خود فیصلہ کر دیں.تیرہویں آیت.اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَيْرِكُمْ منسوخ ہے وَ اَشْهِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ کے ساتھ.فوز الکبیر میں ہے کہ امام احمد نے آیت کے ظاہر پر حکم دیا ہے اور اس آیت کے معنے اور لوگوں نے یہ کئے ہیں اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَيْرِكُمْ ای من غیر اقاربکم فیکونون

Page 185

من سائر المسلمین.{ FR 5427 }؂ چودہویں آیت.اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ الآیة منسوخة بالآیة بعدہا.{ FR 5428 }؂ میں کہتا ہوں ان میں کوئی تعارض نہیں اوّل تو پہلی آیت شرطیہ جملہ ہے امر نہیں جو مجموعہ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ کا مخاطب ہے اس وقت اس کے صابر دس گنے دشمنوں کو کافی تھے اور جو لوگ اٰلآن کے وقت نکلے اس مجموعہ کے صابر دوچند کے مقابلہ میں غالب ہو سکتے تھے.اگر یہ پچھلے وہی پہلے ہوں تو بھی مختلف اوقات میں انسانی حالت کا تبدل کوئی تعجب انگیز نہیں.الآن اور عَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعفًا صاف تفرقہ کی دلیل ہے.پندرہویں آیت.اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا الخ.مَنْسُوْخَةٌ بِآیةِ الْعُذْرِ و ھو قولہ لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ و قولہ لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَآءِ.{ FR 5429 }؂ فوز الکبیر میں کہا ہے.خِفَافًا کے معنے ہیں.کہ نہایت تھوڑے جہاد کے سامان (جیسے ایک سواری ایک نوکر اور معمولی زادِراہ سے بھی لڑائی کرو.اور ثِقَالًا کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے نوکر اور سواریاں اور زادِراہ تمہارے پاس ہو.سولہویں آیت.اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً.مَنْسُوْخَةٌ بِقَوْلِہٖ اَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ.{ FR 5430 }؂ فوز الکبیر میں ہے امام احمد ظاہر آیت پر حکم کرتے تھے اور امام احمد کے سوا اور لوگوں نے کہا کہ کبیرہ کا مرتکب زانیہ ہی کا کفو ہے یا یہ کہ زانیہ کا نکاح پسند کرنا اچھی بات نہیں اور آیت شریفہ میں حُرِّمَ کا اشارہ زنا اور شرک کی طرف ہے پس نسخ نہ ہوئی.یا فَانْکِحُوا لْاَیَامٰی عام ہے اور عام خاص کا ناسخ نہیں ہوتا.{ FN 5427 }؂ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَيْرِكُمْ سے مراد ہے کہ تمہارے رشتہ داروں کے علاوہ لوگوں میں سے ہوں اور وہ تمام مسلمانوں میں سے ہوسکتے ہیں.{ FN 5428 }؂ آیت کریمہ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ اپنے بعد کی آیت سے منسوخ ہے.{ FN 5429 }؂ آیت کریمہ اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالًا معذوروں والی آیت سے منسوخ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے کہ لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ اور یہ قول بھی کہ لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَآءِ.{ FN 5430 }؂ (اللہ تعالیٰ کا قول) اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً اللہ کے قول أَنْكِحُوا الْأَ يَامٰى مِنْكُمْ سے منسوخ ہے.

Page 186

سترہویں آیت.لِيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ بعض اسے منسوخ کہتے ہیں اور بعض منسوخ نہیں کہتے مگر لوگوں نے اس پر عمل کرنے میں ُسستی کی ہے.فوز الکبیرمیں ہے.ابن عباس کہتے تھے منسوخ نہیں اور یہی وجہ اعتماد کے لائق ہے.اٹھارہویں آیت.لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ الآیة.منسوخة بقولہ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ، قلت یحتمل ان یکون الناسخ مقدمًا فی التلاوة و ھو الاظہر.{ FR 5477 }؂ میں کہتا ہوں بعد کا مضاف الیہ اَلْاِجْنَاسُ الْاَرْبَعَةُ الَّتِیْ مَرَّ ذِکْرُہَافِیْ قَوْلِہٖ اِنَّا اَحْلَلْنَا الآیة ہے.{ FR 5478 }؂ پس معنی آیت کے یہ ہوں گےکہ اے نبی تجھے حلال نہیں عورتیں ان چار قسم کے سوا (تیری بیبیاں اور مملوکہ اور بنات عم‘ بنات عمات ‘بنات خال ‘بنات خالات ‘ جنہوں نے ہجرت کی اور وہ مومنہ جس نے اپنا آپ تجھے بخش دیا.) اور والآن تبدل اس کی تاکید ہے.انیسویں آیت.اِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا.الآیة.منسوخة بالآیة بعدہا.{ FR 5479 }؂ میں کہتا ہوں یہ استحبابی حکم ہے اور اس استحباب کو مٹانے والی قرآن میں کوئی آیت نہیں.بیسویں آیت.فَاٰتُوا الَّذِيْنَ ذَهَبَتْ اَزْوَاجُهُمْ مِّثْلَ مَا اَنْفَقُوْا.قِیْل منسوخة بآیة السیف و قیل بآیة غنیمة و قیل محکم.{ FR 5480 }؂ فوز الکبیر والے فرماتے ہیں.ظاہریہی ہے کہ آیت منسوخ نہیں.یہ حکم اس وقت ہے جب ادھر ُسستی ہو اور کافر زور پر ہوں.{ FN 5478 }؂ چاروں اقسام جن کا ذکر اللہ تعالیٰ کے قول إِنَّا أَحْلَلْنَا میں گذر چکا ہے.{ FN 5479 }؂ آیت کریمہ اِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا اپنے بعد کی آیت سے منسوخ ہے.{ FN 5480 }؂ کہا گیا ہے کہ آیت کریمہ فَآتُوا الَّذِينَ ذَهَبَتْ أَزْوَاجُهُمْ مِثْلَ مَا أَنْفَقُوْا قتال والی آیت (یعنی فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّـمُوْهُمْ) سے منسوخ ہے.اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ غنائم والی آیت سے منسوخ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ (آیت) محکم ہے.

Page 187

اکیسویں آیت.قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِيْلًا آ خر سو ر کے ساتھ منسوخ ہے.پھر یہ آخر سورہ پانچ نمازوں کے ساتھ منسوخ ہے بات یہ ہے کہ قیام اللیل ایک امر مسنون ہے.آیاتِ شریفہ میں فرضیت قطعی نہیں اور سنیت قیام اللیل کی بالاتفاق اب بھی موجود ہے.فقرہ ششم.ضُعف اور قِلّت کے وقت صبر اور درگذر کا حکم قرآن کریم میں بہت جگہ ہے لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیتیں آیت ِقتال سے منسوخ ہیں.اور یہ بات صحیح نہیں بلکہ قتال کا حکم تاخیر میں رہا ہے.سیوطی نے کہا دیکھو باب ناسخ منسوخ اِتّقان میں.اَلثَّالِثُ: مَا أُمِرَ بِهٖ لِسَبَبٍ ثُمَّ يَزُوْلُ السَّبَبُ كَالْأَمْرِ حِيْنَ الضَّعْفِ وَالْقِلَّةِ بِالصَّبْرِ وَالصَّفْحِ ثُمَّ نُسِخَ بِإِ يْـجَابِ الْقِتَالِ وَهٰذَا فِي الْحَقِيقَةِ لَيْسَ نَسْخًا بَلْ هُوَ مِنْ قِسْمِ الْمُنْسَإِ كَمَا قَالَ تَعَالٰى: {أَوْ نُنْسِهَا} فَالْمُنْسَأُ هُوَ الْأَمْرُ بِالْقِتَالِ إِلٰى أَنْ يَقْوَى الْمُسْلِمُونَ … (إِلٰى أَنْ قَالَ) وَبِهٰذَا يَضْعُفُ مَا لَهِجَ بِهٖ كَثِيْرُوْنَ مِنْ أَنَّ الْآيَةَ فِي ذٰلِكَ مَنْسُوْخَةٌ بِآيَةِ السَّيْفِ وَلَيْسَ كَذٰلِكَ بَلْ هِيَ مِنَ الْمُنْسَإِ بِمَعْنٰى أَنَّ كُلَّ أَمْرٍ وَرَدَ يَجِبُ اِمْتِثَالُهٗ فِي وَقْتٍ مَّا لِعِلَّةٍ يقتضي ذٰلِكَ الْحُكْمَ ثُمَّ يَنْتَقِلُ بِاِنْتِقَالِ تِلْكَ الْعِلَّةِ إِلٰى حُكْمٍ آخَرَ وَلَيْسَ بِنَسْخٍ إِنَّمَا النَّسْخُ اَلْإِزَالَةُ لِلْحُكْمِ حَتّٰى لَا يَجُوزَ امْتِثَالُهٗ.{ FR 5483 }؂(یہ حتّٰی لَا یَـجُوز کا لفظ یاد رکھنے کے قابل ہے خصوصاً الآن خَفَّفَ اور أَ أَشْفَقْتُمْ وغیرہ میں) { FN 5483 }؂ اور تیسری بات یہ ہے کہ جو حکم دیا گیا وہ کسی سبب کے باعث تھا پھر وہ سبب ختم ہوگیا جیسے کمزوری اور تنگ دستی کی حالت میں صبر اور درگذر کرنا، پھر قتال کے واجب ہونے کی وجہ سے وہ منسوخ ہوگیا، اور یہ حقیقت میں ہونا ہے نہ کہ (کسی حکم کا) منسوخ ہونا.بلکہ یہ بھلا دی جانے والی قسم میں سے ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ’’یا ہم اُسے بھلا دیتے ہیں.‘‘ پس قتال کے سبب سے وہ معاملہ مسلمانوں کے طاقتور رہنے تک بھلا دیا جانے والا ہے …… (یہاں تک کہ انہوں نے کہا:) اور اس وجہ سے وہ کمزور ہوجاتا ہے جو اکثر لوگوں کو شوق ہے کہ اس بارہ میں یہ آیت قتال والی آیت سے منسوخ ہے.حالانکہ ایسا نہیں ہے.بلکہ یہ تو بھلا دی جانے والی بات ہے اس معنی میں کہ ہر حکم جو آتا ہے اُس کی تعمیل ایک وقت سے متعلق ہوتی ہے، کوئی علت نہیں ہوتی جو اس حکم کی متقاضی ہو، پھر اُس علت کے چلے جانے سے وہ حکم بھی دوسرے حکم کی طرف منتقل ہوجاتا ہے.اور یہ نسخ نہیں ہے.نسخ تو کسی حکم کو ختم کردینا ہے یہاں تک کہ اُس کی تعمیل کرنا جائز نہ رہے.(الإتقان في علوم القرآن للسیوطی، النَّوْعُ السَّابِعُ وَالْأرْبَعُونَ فِي نَاسِخِهٖ وَمَنْسُوخِهٖ )

Page 188

فقرہ ہفتم.بعض صحابہ اور سلف سے تقیید اور تخصیص اور ابطال وغیرہ کو نسخ کہنا ثابت ہے اِلاَّ اوّل تو ان کے اور ساتھ والوں نے نسخ کے ایسے عام معنے نہیں لئے.دویم.اگر وہ تغییر کو نسخ کہتے تھے تو ان کے یہاں ایسے معنوں کی نسخ قرآن میں آحاد اخبار سے ممنوع نہ تھی.ہمارے صاحبان نسخ کے معنوں میں انکا محاورہ لیتے ہیں اور پھر سنن ثابتہ سے قرآن کی یہ نسخ تجویز نہیں کرتے عملدرآمد میں اس اصطلاحی نسخ کونسخ بمعنی رفع الحکم کا مرتبہ دے رکھا ہے.فقرہ ہشتم.مَا نَنْسَخْ کا جملہ جملہ شرطیہ ہے اور شرط کا وجود ضرور نہیں.دیکھو اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًااِلٰی آیت.پس آیت مَا نَنْسَخْ سے مطلق نسخ کا وقوع بھی ثابت نہیں ہو سکتا.قرآن میں آیات منسوخة کا موجود ہونا اِس سے کیونکر ثابت ہو سکتاہے.یاد رکھو مَیں مطلق وقوع نسخ کا انکار نہیں کرتا بلکہ کہتا ہوں کہ قرآن اور صحیحین اور ترمذی میں بالاتفاق منسوخ کوئی حکم نہیں (ترمذی میں جمع صلٰوتَین ظُہْرَین و مَغْرَبَیْن اور قتل شارب کی حدیث بھی منسوخ نہیں.تفصیل اس کی دراسات وغیرہ میں موجود ہے) فقرہ نہم.میں نے بہت ایسے لوگ دیکھے جن کا یہ ڈھنگ ہے کہ جب دو بظاہر متعارض حکموں کو دیکھا اور تطبیق نہ آئی لَا اَعْلَمُ کہنے سے شرم کھا کر ایک میں نسخ کا دعویٰ کر دیا.یا جب کوئی نصّ اپنے فتویٰ کے خلاف سنی اوّل تو لگے اس میں تو جیہات جمانے جب یہ کوشش کارگر نہ ہوئی جھٹ دعویٰ کر دیا کہ ان میں سے فلاں حکم اجماع کے خلاف ہے.جب اجماع کی غلطی معلوم ہوئی.تو اجماع کو مقید کر دیا اور کہہ دیا کہ یہ اجماع اکثر کے اعتبار سے ہے.جب اس کو بھی کسی نے خلا ف واقعہ ثابت کیا تو نسخ کا دعویٰ کر دیا.حالانکہ بظاہر متعارض حکموں میں ایک کو عزیمت پر محمول کر لینے اور ایک کو رخصت پر یا اُن کے اختلاف کو اختلاف انواع سمجھنے پر محمول کرنے اور اباحت اصلیہ کو عارضی حرمت پر ترجیح کا موجب جان لینے اور شریعت کو اسباب اور موانع کا مبین مان لینے سے قریباً کل تعارض دفع ہو سکتے ہیں.یہ عجیب قاعدہ تفصیل طلب ہے.الا خط میں گنجائش نہیں.چند مثالیں سن رکھو.

Page 189

مَسِّ ذَکَرسے وضو کرنا.یا عدم انزال میں غسل کر لینا ایسا ہی ایک مومن صابر کا دس کفار کا مقابلہ کرنا.اور رسول سے گوشہ کرنے میں صدقہ دینا عزیمت ہے اور یہ کام نہ کرنا رخصت.وتر کی ایک یا تین یا پانچ یا سات یا نو رکعتیں باختلاف انواع سب درست ہیں اور یہ اختلاف ایسا ہے جیسے نماز میں کبھی رسول اللہ صلعم نے کوئی سورت پڑھی کبھی کوئی.خرگوش کے استعمال میں اگر کوئی کراہت کی دلیل پیش کرے (گو دلائل پیش شدہ صحیح نہیں ہیں) تو اس کا کھانے والا اباحت اصلی کو بعد تسلیم تعارض مرجح کہہ سکتا ہے.مومن کا عمداً قتل ابدی سزا کا سبب ہے اور قاتل کا سچا ایمان اور رحمت الٰہیہ اور شفاعت شافعین بلکہ توبہ وغیرہ اس ابدی سزا کے مانع ہیں اس تجاذب کی حالت میں قویٰ کامؤثر ہونا ظاہر ہے.فقرہ دہم.روزمرہ کے مسائل میں رَفعِ یدَین اور فاتحہ کا مسئلہ لو.جناب شیخ عبد الحق دہلوی سفر السعادت کی شرح میں فرماتے ہیں.علماء مذہب ما بایں مقدار اکتفا نمی کنند و گویند کہ حکم رفع (رفع یدین عند الرکوع والرفع فسد الرفع فی ابتداء الثالثة) { FR 5506 }؂ منسوخ است وچوں ابن عمر را کہ راوی حدیث رفع ست دیدندکہ بعد رسول اللہ صلعم عمل بخلاف آں کردہ ظاہر شد کہ عمل رفع منسوخ است و از ایں ہمام نقل فرمودہ درنماز ابتداء حال اقوال و افعال از جنس ایں رفع (رفع یدین در سجدتین) مباح بودہ کہ منسوخ شدہ ست پس دور نیست کہ ایں نیز ازاں قبل باشد و مشمول نسخ بود.انتہیٰ.شیخ نے نسخ کا مدار اوّل تو ابن عمر کے نہ کرنے پررکھا.دوم اس پر کہ جب سجدہ کے رفع یدین اجماعاً منسوخ ہے تو رکوع کو جاتے اور اٹھتے اور تیسری رکعت کی رفع بھی منسوخ ہو گی اور یہ دونوں باتیں تعجب انگیز ہیں.اوّل تو اس لئے کہ ابن عمر کا رفع نہ کرنا ابوبکربن عیاش نے روایت کیا ہے اور یہ شخص معلول مختلط الخبر ہے.دیکھو بخاری کی جزء الرفع اور ابن معین نے کہا توہمٌ من { FN 5506 }؂ رکوع کے وقت اور (رکوع سے) اُٹھتے وقت اور تیسری رکعت کے شروع میں اُٹھتے وقت رفع یدین کرنا.

Page 190

ابن عیاش لَا اَصْلَ لَهٗ.{ FR 5509 }؂ دوئم.عینی نے بیہقی سے روایت کیا کہ مجاہد کی روایت (ابن عیاش والی) ربیع لیث طاؤس‘ سالم ‘نافع ‘ابوالزبیر ‘محارب بن د ثار جیسے ثقوں کے خلاف ہے یہ ثقہ لوگ ابن عمر سے اس رفعِ یدَین کا کرنا نقل کرتے ہیں.سیوم.ابن عمر سے مسند احمد میں مروی ہے انہ اذا رَأَی (ابن عمر) مصلیا لم یرفع حَصَیَہٗ { FR 5510 }؂ اور بخاری نے جزء الرفع(قرّة العینین برفع الیدین فی الصلاة) میں کہا.رماہ بالحصٰی.{ FR 5511 }؂ بھلا جو شخص یہ تشدد کرے کہ رفع یدین نہ کرنے پر پتھر مارے وہ خو دنہ کرے.چہارم.بخاری نے جزو میں فرمایا ہےلَمْ يَثْبُتْ عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهٗ لَمْ يَرْفَعْ.{ FR 5512 }؂ پنجم.ناسخ کو منسوخ کے مساوی ہونا چاہئے.یہاں ایک طرف ابن عمر کا معلول اور بے اصل اثر دوسری طرف ابن عمر سے صحیح ثابت اثر بلکہ مرفوع روایت اور بیہقی کی حدیث جناب ابوبکر سے اور دارقطنی کی عمرؓ سے بلکہ پچاس صحابہ کی روایت اور بیہقی کی وہ روایت جس میں فَمَا زَالَتْ تِلْكَ صَلَاتُهٗ حَتّٰى لَقِيَ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ { FR 5513 }؂ موجود ہے.اور سیوطی کا اس حدیث کو ازھار میں احادیث متواتر سے شمار کرنا.ششم.مانا کہ ابن عمر سے عدم رفع ثابت ہے پھر کیا غیر معصوم پر صرف یہ حسنِ ظن کر { FN 5509 }؂ ابن عیاش کی وجہ سے یہ روایت مشکوک ہے، اس کی کوئی اصل نہیں.{ FN 5510 }؂ جب (حضرت ابن عمرؓ ) کسی کو نماز پڑھتا دیکھتے کہ وہ رفع یدین نہیں کررہا تو اُسے کنکر مارتے.(التلخیص الحبیر، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة) { FN 5511 } ؂ وہ اُسے کنکر مارتے.(التلخیص الحبیر، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة) { FN 5512 }؂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کے متعلق یہ ثابت نہیں ہے کہ اُس نے رفع یدین نہیں کیا.(التلخیص الحبیر، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة) { FN 5513 }؂ اور آپؐ کی نماز یہی رہی ، یہاں تک کہ آپؐ اللہ عزوجل سے جاملے.(معرفة السنن والآثار للبیھقی، کتاب الصلاة، التَّكْبِيرُ لِلرُّكُوعِ وَغَيْرِهِ)

Page 191

کے کہ اس نے خلاف امر مشروع لکھا ہو گا.نبی معصوم کے ثابت فعل کو منسوخ کہہ دینا انصاف ہے اور کیا صحابی کا عدم فعل فعل شرعی کا ناسخ ہو سکتا ہے.ہفتم.صحابہ پر بڑا سوء ظن ہے کہ انہوں نے منسوخ حدیث رَفعِ یدَین کو بیان کیا اور ناسخ کی روایت نہ کی.ہشتم.جائز ہے کہ ابن عمر نے رفع یدین کو عزیمت خیال فرمایا اور عدم رفع کو رخصت اور رخصت پرعمل کیا.نہم.قیاس نص کا ناسخ نہیں ہو سکتا.دہم.یہاں اصل یعنی سجدہ کی رفع یدین کو منسوخ کہنا صحیح نہیں فروع یعنی نسخ رفع عند الرکوع والرفع عنہ والرفع عند الثالثة { FR 5516 }؂ کیونکر ثابت ہو سکتا ہے.فائدہ ابن زبیر سے یہ رفع ثابت ہے اور نسخ کی روایت ان سے بالکل ثابت نہیں ایسا ہی ابن مسعود سے نصاًّ نسخ ثابت نہیں.دوسری بات کی غلطی سجدتین کی رفع نسائی میں مالک بن حویرث سے ابوداؤد میں عبد اللہ بن زبیر سے جس کی تصدیق ابن عباس نے کی ابن ماجہ میں ابوہریرہ سے موجود ہے.ان روایات پر جو کچھ کلام ہے اس کا محل اور ہے اور سجدتین کی رفع.انس.ابن عمر.ابن عباس.حسن بصری ‘عطا‘ طاوس ‘امام مالک ‘شافعی کا مذہب ہے.اگر اجماعاً یہ رفع منسوخ ہوتی تو یہ خلاف کیوں ہوتا.دویم.اثبات کی روایات کو ایسی جگہ نفی کی روایات پر خواہ مخواہ ترجیح حاصل ہے.سیوم.ثقہ کی زیادتی مقبول ہونے میںجمہور کا اتفاق ہے اور سجدتین کی رفع ثقات کی زیادتی ہے.چہارم.جن لوگوں نے نفی کی روایت کی ہے ان کی روایت اس لئے مضر نہیں کہ یہ رفع یدین سجدتین کے وقت رسول اللہ نے کبھی ترک کی اور راوی نے رفع یدین کرتے نہ دیکھا.اس لئے عدمِ { FN 5516 }؂ رکوع کے وقت اور اس سے اُٹھتے وقت اور تیسری رکعت کے لیے اُٹھتے وقت رفع یدین کا منسوخ ہونا.

Page 192

رفع کی روایت کی.صاحبِ ہدایہ نے ترک فاتحہ خلف الامام پر اجماع صحابہ کا دعویٰ کیا ہے.ابطال دعویٰ اجماع کی تفصیل کا محل نہیں انشاء اللہ کسی اور جگہ مذکور ہو گا.صرف اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ترمذی نے عبادہ کی حدیث میں کہا کہ اکثر اہل علم صحابہ کرام سے فاتحہ خلف امام کے وجوب پر ہیں اور بخاری نے جزأ القراء ة میں فرمایا.بے شمار تابعین قراءت خلف الامام کا فتویٰ دیتے تھے.وَلم يكن أحد يقدم على الحَدِيث الصَّحِيح عملًا وَلَا رَأْيًا وَلَا قِيَاسًا وَلَا قَول صَاحبٍ وَلَا عدم علمه بالمخالف الَّذِي يُسَمِّيه كثير من النَّاس إِجْمَاعًا ويقدمونه على الحَدِيث الصَّحِيح وَقد كذب أَحْمد من ادّعى الْإِجْمَاع وَلم يسغْ تَقْدِيمه على الحَدِيث الثَّابِت وَكَذَلِكَ الشَّافِعِي أَيْضا نَص فِي رسَالَته الجديدة على أَن مَالا يعلم فِيهِ خلاف لَا يُقَال لَهُ إِجْمَاع وَلَفظه مَالا يعلم فِيهِ خلاف فَلَيْسَ إِجْمَاعًا ونصوص رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عِنْد الإِمَام أَحْمد وَسَائِر أَئِمَّة الحَدِيث أجل من أَن يُقَدِّموا عَلَيْهَا توهم إِجْمَاعًا مضمونه عدم الْعلم بالمخالف وَلَو سَاغَ لتعطلت النُّصُوص وساغ لكل من لم يعلم مُخَالفا فِي حكم مَسْأَلَة أَن يقدم جَهله بالمخالف على النُّصُوص فَهَذَا هُوَ الَّذِي أنكرهُ الإِمَام أَحْمد وَالشَّافِعِيّ من دَعْوَى الْإِجْمَاع لَا مَا يَظُنّهُ بعض النَّاس أَنه استبعاد لوُجُوده.{ FR 5519 }؂

Page 193

فقرہ.سورہ کافرون میں لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَ لِیَ دِیْن کا جملہ عام لوگوں کی زبان پر منسوخ ہے اور فی الواقع منسوخ نہیں کیونکہ دین کے معنی لغت میں جزا اور سزا کے ہیں پس آیت کے معنی یہ ہوئے کہ جس کو تم پوجتے ہو ہم اسے نہیں پوجتے اور جس کو ہم پوجتے ہیں تم نہیں پوجتے.تم کو تمہاری سزا ہے اور ہم کو ہماری جزا.دیکھو حماسہ.ولم يبق سوى العدوان دناهم كما دانوا { FR 5522 }؂اوركَمَا تَدِينُ تُدَانُ{ FR 5525 }؂ مشہور ہے اور اگر دین کے مشہور معنے لیں تب آیت کا یہ مطلب ہو گا کہ ہرگاہ تم باز نہیں آتے اور سچے معبود ہی کی پرستش نہیں کرتے اور بتوں کی پرستش کرتے ہو.تو ہم بھی وہ کریں گے جو ہمارے دین میں ہے کہ تم سے بجہاد پیش آویں گے.غرض آیت جہاد کی مانع نہیں.فقرہ.عزیز من خاتمہ خط پر ایک ضروری فائدہ لکھ کر خط کو ختم کرتاہوں.فائدہ حدیث یا قرآن کریم کے موافق ہے یا قرآن کی تفسیر ہے ایسے حکم کے مثبت ہے جن کا ذکر قرآن میں نہیں.حدیث زائد علی کتاب اللہ رسول اللہ صلعم کی تشریح ہے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ.وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ.دیکھو حدیث سے بھتیجی کا نکاح اس کی پھوپھی پر اور بھانجی کا اس کی خالہ پر حرام ہے.حدیث سے رضاعت کی حرمت نسبی حرمت کی طرح ثابت ہے حالانکہ قرآن میں اُحِلَّ لَکُمْ مَاوَرَاءَ ذَالِکُمْ عام موجود ہے.وَلِمَنْ میں رہن کا رکھنا جدّہ کو وارث بنانا بنت الابن کو سدس دلانا ‘ حائض پر روزہ‘ نماز چند روز موقوف سمجھنا نہایت ضعیف خبر سے نبیذ التمر کے ساتھ وضو کر لینا حالانکہ قرآن میں پانی نہ ہو تو تیمم کا حکم ہے.ادنیٰ مہر کے لئے ضعیف حدیث سے دس درم معین کرنا { FN 5522 }؂ اور ظلم وزیادتی کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہا جیسے وہ قریب آئے ویسے ہی وہ بھی اُن کےقریب ہوا.{ FN 5525 }؂ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے.

Page 194

لایرث المسلم الکافر { FR 5527 }؂ پر عمل کرنا‘ چور کا پاؤںکاٹنا حالانکہ قرآن میں ہاتھ کا کاٹنا مذکور ہے.طواف میں قیاساً طہارت کی شرط کا ایزاد کرنا حالانکہ قرآن مطلق ہے مغمیٰ علیہ سے اعمال حج دوسرا ادا کر دے اسے جائز قرار دینا حالانکہ صوم عن المیت میں اَنْ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَاسَعٰی کا عذر ہے عاقلہ پر دیت کا حکم لگانا اور وَلَاتَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخرٰی کا خلاف نہایت ہی ضعیف حدیث سے نماز میں ہنس پڑنے کو ناقض وضو جاننا اور اونٹ کے گوشت کھانے کو ناقض وضوضعیف خبر سے غسل جنابت میں مضمضہ و استنشاق کو فرض کر دینا.یا اینکہ وضو میں مضمضہ و استنشاق کی فرضیت سے انکار ہے.موَزہ پر َمسح کرنے میں جواز کا فتویٰ باآنکہ عمامہ پر َمسح سے انکار ہے اور حدیثیں دونوں کی مساوی ہیں اور ایسے ہی صدہا جگہ احادیث سے قرآن پر ایزاد مان کر حنفیہ نے انکار بھی کر دیا اور مقدام بن معدیکرب کی اس حدیث پر خیال نہ کیا جس میں رسول اللہ نے فرمایا.أَلَا إِنِّيْ أُوْتِيْتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهٗ مَعَهٗ أَلَا يُوْشِكُ رَجُلٌ … شَبْعَانًا عَلٰى أَرِيكَتِهٖ يَقُوْلُ عَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ … أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمْ … الْحِمَارِ الأَهْلِيِّ وَلَا كُلُّ ذِيْ نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ … وَلَا لُقَطَةٌ … مُعَاهَدٍ.{ FR 5528 }؂ میں اب اس خط کو تمام کرتا ہوں.ربنا آتنا فی الدنیا حسنة و فی الآخرة حسنة وقنا عذاب النّار.دوسرا خط ایک شیعہ دوست کے نام ابواسامہ.نور الدین سے اس کے دوست (ع.و.ح) کو السلام علیکم دیں.ایک ایسی تسلی ہے جو اکراہ کا ثمرہ نہیں.تیرہ سو برس کے جھگڑے ایک خط میں طے ہوں محال ہے.اِھْدِنَا { FN 5527 }؂ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا.{ FN 5528 }؂ غور سے سنو! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس جیسا ہی دیا گیا ہے.سنو! عنقریب ایک آدمی اپنے تخت پر متمکن کہے گا: قرآن کریم کو لازم پکڑلو.غور سے سنو! پالتو گدھے اورنوک دار دانتوں والے درندے تمہارے لیے حلال نہیں ہیں.اور کسی معاہد کی گری پڑی چیز بھی (تمہارے لیے حلال نہیں ہے).(مسند أحمد بن حنبل، مسند الشامیین، حديث المقدام بن معديكرب)

Page 195

الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کا بہت پڑھنا جمیعت اور طمانینت کا موجب ہے.میرا حال پوچھتے ہو میں کس مشرب کا ہوں سنو.ابتدا تمیز سے اس وقت تک اصحاب الحدیث کی جماعت میں شامل ہوں وَاَرْجُوْمِنَ اللہِ اَنْ اَمُوْتَ وَ اُحْشَرُ فِیْ حُبِّـھِمْ اِنْشَائَ اللہُ تَعَالٰی.{ FR 5530 }؂ وہ اہل حدیث جن کی وساطت سے تمام لوگ رسول اللہ صلعم کے اقوال اور افعال اور احوال پر واقف ہوئے.وہ جنہوں نے قدریہ جہمیّہ شیعہ خوارج سے حفظ اور عدالت کو دیکھ کر روایت لینے میں بے جا تعجب نہیں کیا.روایت میں جب صحت کی شروط دیکھی پھر اخذِ روایت میں ہٹ دھرمی نہیں کی اس حزب الٰہی کی عمدہ کتاب بخاری کی صحیح ہے.شیعہ کے ایک ممتاز متکلم نے استقصاء میں اس کتاب اور اس کے مصنف پر قدح کرنے میں بڑے زور لگائے.اِلاَّ اس خیرخواہِ اسلام پر جھوٹھ اور نسیان کا الزام نہیں لگا سکا اس کے کسی راوی پر اگرجرح کی ہے تو یہ ثابت نہیں کر سکا کہ بخاری ایسے راوی کی روایت شواہد میں نہیں لایا بلکہ اصل مسئلہ کے اثبات میں کیا ہے یا اس روایت کو بخاری بدوں معاضد چھوڑ گیا.پھر اب جانتے ہو صراف کھوٹا کھرا پہچان سکتا ہے.آپ نے تَشْیِیْدُالْمَطَاعِنْ کی چار جلدیں میرے مطالعہ کے لئے مرحمت فرمائیں.آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں.میں نے کتاب کو بغور دیکھا سچ کہتا ہوں کہ علاّمہ مصنف نے صرف نکتہ چینوں پر وقت صرف کیا اور کئی ضروری باتوں پر توجہ نہیں فرمائی.مثلاً سوچو کہ قرآن کریم میں آدم علیہ السلام جیسے خلیفہ کو عَصٰی کا فاعل بنایا گیا اور حضرت خاتم الانبیا ءامام الاصفیاء صلعم کو اِسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ کا مخاطب کیا گیا.حضرت کلیم کے ایک اقرار کو اَ نَا مِنَ الضَّآلِّیْنَ کے الفاظ سے بیان کیا.مومن ہمیشہ ان الفاظ کی توجیہات کرتے ہیں اور ان الفاظ کو سن کر انبیاء کی عصمت میں شک نہیں کرتے اور کوئی مسلمان وہم بھی نہیں کرسکتا کہ یہ حضرات خلافت عظمیٰ اور امامت کبریٰ کے قابل نہ تھے یا عصیان ‘ذنب ‘ضلالت کے سبب معزول ہو گئے.موسیٰ اور خضر کا قصہّ قرآن میں موجود ہے.وہاں دیکھو خضر بظاہر ملزم تھے اِلاَّ اصل اسباب پر جب اطلاع ہوئی تو معلوم ہوا کہ بالکل برَی ہیں.پھر تم جانتے ہو کہ اجتہادی غلطیاں اجر کا { FN 5530 }؂ اور میںاللہ سے یہ امید کرتا ہوں کہ وہ میرا حشر ان لوگوں میں کرے گا جو ان کی محبت میں غرق ہیں.انشاء اللہ تعالیٰ

Page 196

موجب بھی ہوتی ہیں.مشورہ اگر عیب ہے تو وَشَاوِرْ ہُمْ میں تامل کیجیے.سنو سنو سنو نہایت کا کمال چاہیے ہدایت کا نقصان کچھ ضرر نہیں دے سکتا سلف کا کیسا سچا فقرہ ہے.اِنَّ الذُّنُوْبَ قَدْ یُوْصِلُ الْـجَنَّةَ وَ الْعِبَادَةُ قَدْ یَدْخُلُ النَّارَ.{ FR 5533 }؂ کیا معنے معاصی سے کبھی توبہ کی راہ کھل جاتیہے اور عبادت سے کبھی انسان کبر اور ُعجب میں مبتلا ہو کر بالکل تباہ ہو جاتا ہے.امام کا اگر معصوم ہونا اس لئے شرط ہے کہ لوگوں کی اصلاح ہوعام لوگ غلطی میں مبتلا نہ ہوں تو آپ جانتے ہو صرف امام کی عصمت سے یہ فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا اس لئے کہ امام کے اہلکار اور اس کے ملکوں پر چھوڑے ہوئے حاکم نہ معصوم ہونے ضرور ہیں اور نہ ان کا منصوص ہونا شرط ہے.جناب پیغمبر اور جناب امیر کے نواب اور ُعماّل ہی کو دیکھ لو.پس مناط حکم میں ان سے غلطی کا وقوع ممکن ہے اور آپ جانتے ہیں کہ اکثر لوگ امام تک نہیں پہنچ سکتے ُکل کا پہنچنا کیونکر ہو سکتا ہے.اور آپ جانتے ہیں کہ صرف امام کی عصمت سے جب تک اس کا تسلط نہ ہواور ظاہر ی حکم نہ ہو لوگوں کو فائدہ کیونکر ہو سکتا ہے.صاحب الزمان علیہ السلام کی حالت ملاحظہ کرو.آپ جانتے ہیں کہ شخصی معاملات اورمنزلی انتظامات کے واسطے ہر ہر شخص کو ہروقت کے جزئیات کے لئے امام سے رجوع کرنا صریح محال ہے اگر کلیات جزئیات لے گا تو ضرور ہی اجتہاد میں غلطی کرے گا پس جس غرض پر عصمت اور امامت کو شیعہ امامیہ ثابت کرتے ہیں صرف اسی سے دنیا میں اصلاح کا قائم ہونا معلوم کیا یعنی اگر باری تعالیٰ اصلاح چاہتے تھے تو بقول آپ کے باری پر واجب تھا کہ امام کو تسلط دیتے.دوسری بات جس کو فروگذاشت کیا یہ کہ مہاجرین ؓ کے حق میں لَاُکَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِـھِمْ وَلَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَـجْرِیْقرآن میں موجود ہے.بھلا جن لوگوں کی نسبت کفارہ اور جنت میں لے جانے کا وعدہ ہو وہ آخر سز اپائیں واللہ عقل نہیں مانتی.سنو سنو سنو مکفرات ذنوب بہت ہیں.اوّل خالص توبہ.دوم استغفار.سیوم اعمال صالحہ.چہارم مومن کی دعا.پنجم رسول اللہ کی دعا.ششم آپؐ کی شفاعت.ہفتم احوال و صدمات جو مابعد الموت طاری { FN 5533 }؂ گناہ بھی جنت میں پہنچا دیتے ہیں اور عبادت بھی آگ میں داخل کر دیتی ہے.

Page 197

ہوتے ہیں.ہشتم.وہ اعمال اور صدقات جن کا اثر میّت کو پہنچنا شرَع سے ثابت ہے جیسے میّت کی طرف سے روزہ رکھنا.حج کر لینا.میّت کی اولاد صالح.میّت کا وہ علم جس کا نفع جاری رہے.نہم.دنیویہ صدمات.دہم.کرب قیامہ.یازدہم.اقتصاص عند المیزان.دوازدہم.صدق توحید.سیزدہم.رحمت اَرحم الراحمین جس کی سبقت غضب پر منصوص ہے.علاّمہ مصنف نے یہ خیال نہ فرمایا کہ اگر صحابہ سے معاصی سرزد ہوئے تو کیا مکفرات ان کے لئے محال ہو گئے تھے.نہیں نہیں نہیں ابوبکر کی نسبت آپ کا یہ الزام کہ ان میں حزن اور خوف تھا اور یہ بات شجاعت کے خلاف ہے.غار کی آیت میں ان کو صاحب کہا گیا.فرمایا اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَـحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا اور صاحب ہونا اہل نارکی صفت ہے بھلا خائف بزدل حزن والا صاحب خلافت کے لائق ہے.پیارے سچ کہتا ہوں قرآن ہی وہ کتاب ہے جس کو شَفَاءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ { FR 5534 }؂ کہنا بالکل سچ ہے.اب اس وہم کی دوا سنو.موسیٰ علیہ السلام نے اللہ جلّ شَانُہٗ کے سامنے اقرار کیا ہے فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ اور یعقوب علیہ السلام نے فرمایا اِنَّـمَا اَشْکُوْ بَثِّیْ وَ حُزْنِیْ اِلَی اللہِ اور سُبْحَانَہٗ وَتَعَالیٰ حضرت امام الانبیاء علیہ ا لصَّلوٰة والسلام کو صاحب کا خطاب دے کر فرماتا ہے وَمَا صَاحِبُکُمْ بِـمَجْنُوْنٍ.جس حالت میں ان اولوالعزم کو خوف اور حزن اور صاحب ہونے نے امام اور رسول اللہ اور نبی ہونے سے نہیں روکا اور مطعون نہیں کیا تو ابوبکر کو خلافت سے کیوں مانع ہوئے اور کیوں مطعون کیا.اور یہ وہم اور خلاف واقعہ الزام کہ معاذ اللہ منافق تھے.پیارے نہایت ہی غلط ہے جس حالت میں وہ جناب رسالت مآب صلعم کے ساتھ ہوئے.جانتے ہواس وقت جناب کی کیا حالت تھی اور ایسی ابتدائی حالت میں ساتھ دینا کس بہادر اور عاشق کا کا م ہے اور پھر غور کرو اور سوچو اس نے اپنی خلافت کے وقت کفر کے کون سے مسئلہ کی اشاعت کی.اپنی قوت اور سطوت { FN 5534 }؂ سینے کی بیماریوں کے لیے شفاء ہے.

Page 198

میں کفر کی رسوم میں کس کو پھلایا.کیا اپنی اولاد کو جانشین بنانے میں کو شش کی.کوئی قوم کے حقوق مقرر کئے.صاحب اکثر صحابہ کو اگر منافق کہو گے یا کافر معاذ اللہ تو دین پہنچنے کا سلسلہ مفقود ہو جائے گا کیونکہ بطور آپ کے صحابہ دوگروہ ہوں گے.ایک وہ جَمِّ غَفِیر اور سوادِ اعظم جو غاصبوں اور ظالموں اور منافقوں کا مجموعہ ہے اور ہمارے نزدیک اور فی الواقع جس کے سبب تمام عرب درست ہو گئے.فارس اور شام اور روم اور مصر میں وہ بات پھیلی جس کی تصریح وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی میں تھی اور جس نے کفار ہی سے لڑائی کی.اور دوسرا وہ جو تقیہ کو فرض کہے.پہلے سلسلہ کی ہر ایک روایت اگر قابل عمل نہیں تو دوسرے کی ہر بات میں یہ شبہ ہے کہ شاید یہ بات بڑے گروہ کے خوف سے کہی یا اپنے مریدوں کے بھاگ جانے کا ڈر تھا اس لئے یہ سخن کہا اور قرآن خود بے ترتیب پھیلا.معاذ اللہ دیکھو کیسی غلطی ہے.آپ نے اہل بیت کی مدح پر زور دیا ہے.پیارے سنیوں میں کون ہے جو جناب امیر علیہ السلام اور ان کی اولاد کو بزرگ نہیں جانتا.کیا ان کے مناقب ہماری حدیث کی کتابوں میں بہ بسط تمام موجود نہیں.اگر احادیث صحیحہ کو بیان کرتے تو کیا ان میں کمی تھی.نہیں پیارے.آیت تطہیر سے اس مضمون کی وہ تسکین کہاں جو آپ چاہتے ہیں اور سنو سنو سنو.اہل بیت کا لفظ قرآن میں کل تین جگہ آیا ہے اوّل بارہویں سپارہ میں دیکھو سورہ ہود قَالُوْا اَتَعْجَبِيْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ.دوم بیسویں سپارے میں دیکھو سورہ قصص وَ حَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰۤى اَهْلِ بَيْتٍ يَّكْفُلُوْنَهٗ لَكُمْ اور بائیسویں سپارہ میں دیکھو سورہ احزاب وَ قَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ.وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا.وَ اذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى.ان تین جگہ کے سوا قرآن میں اہلِ بیت کا لفظ نہیں آیا.پہلی دو جگہ میں صریح بیان باتفاق ماوشما اہلِ بیت میں شامل ہیں.اور تیسری آیت کا ماقبل اور مابعد دیکھو اور انصاف کا خون نہ کرو تو بیبیوں ہی کو خطاب ہے.پھر آپ نے بیبیاں ہی اہل بیت سے

Page 199

نکال دیں.یادرکھو کُمْ کا لفظ اہل کے لحاظ سے یاشمول کے لحاظ سے ہے.میرے ایک شیعہ جلیس نے ایک دفعہ جواب دیا کہ آیت میں ترتیب عثمانی نے یہ نقصان دیا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ تم ایسا برُا عذر نہ کرو گے کیونکہ جیسا گذرا حدیث میں وہ بے اعتبارے تھے.اس صورت میں پھر قرآن بھی قابل اعتماد نہیں رہتا.دوم.عجم لوگ بھی گئے گذرے زمانے میں ہزاروں حافظ ہیں اور میرے جیسے کم ذہن باہمہ کثرت شواغل سال میں یاد کر سکتے ہیں.کیا ممکن ہے کہ عربوں نے جن کے حافظہ کو مؤرخ بالاتفاق مان چکے ہیں باہمہ فہم فصاحت و بلاغت قرآن کو تئیس برس میں یاد نہ کیا ہو.پھر اس وقت جب اسلام میں داخل ہونے والوں کو ابتدا سے جوش تھی پھر یہ بات بھی عقل میں نہیں آتی کہ شیعہ کے ہزاروں مصنف اور داعی اپنی تصانیف کو ‘اپنے خیالات کو دنیا میں پھیلا دیں اور قرآن جیسی ضروری چیز کو صاحب الزمان غار میں لے کر کالعدم کر دیں پھر یُرِیْدُ کا لفظ آپ کے مطلب کو پورا نہیں ہونے دیتا.دیکھیے ان آیات کو یُرِیْدُاللہُ بِکُمُ الْیُسْرَ.حالانکہ سب لوگ یسر میں نہیں.وَاللہُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْکُمْ اور سب تائب نہیں.اصل بات یہ کہ ارادہ دو قسم ہے.ایک شرعی اور ایک کونی اور کسی چیز کا ارادہ ظاہر کرنے سے اس چیز کی پسندیدگی ثابت ہوتی ہے اور آپ نے جو اَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ کی تفسیر فرمائی ہے وہ اس وقت تسلی بخش تھی اگر ظَنُّوالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِاَنْفُسِہِمْ خَیْرًا اور لَاتَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ.اور تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَ لَاتَلْمِزُوْا اَنْفُسَکُمْکی تفسیر بھی مجھے یا د نہ ہوتی اور حَسْبُکَ اللہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ میں آپ نے عطف کے کرنے میں سخت غلطی کی ہے.یہ مَنِ اتَّبَعَکَ حسب کا مفعول ہے اور کاف پر معطوف ہے.اَیْ حَسْبُکَ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ اللہ جناب حکیم مہدی صاحب نے فقیر سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ امیر علیہ السلام کی بلافصل امامت کو قطعی الدلالہ نصّ سے ثابت کر دیں گے.ان سے عرض کر دیجیے.قبل از ارقام مسئلہ ان کلمات کو دیکھ رکھیں.تَشْیِیْدُالْمَطَاعِن کے صفحہ ۳۷۴ میں ہے.اکثر احکام از قرآن مستنبط نمی شود وآنچہ مستنبط می شود در غایت اجمال واشکال و تشابہ است واختلاف عظیم در فہم احکام ازانہا شدہ بعضی گفتہ اند محکم ترین آیات کریمہ آیت و ضوا ست و قریب بصد تشابہ

Page 200

در ان است.ودرقرآن ناسخ و منسوخ محکم تشابہ ظاہر وماول عام خاص مطلق مقید وغیر اینہا است پس چگونہ کتاب خدا برائے رفع اختلاف کافی باشد انتہٰی.و قال قال علی ؑ اَ نَا کلام اللہ الناطق و ہذا کلام اللہ الصامت.{ FR 5542 }؂ ترتیب عثمانی کا بگاڑ مزید براں رہا.یہ تو قرآں غیرُذِی عوجٍ اور عربی مبین کا آپ کے ہاں حال ہے جس کو خدا نے اختلاف مٹانے کو نازل کیا.قال اللہ وانزل معہم الکتاب بالحق لیحکم بین الناس فیما اختلفوا فیہ اور خدائی کتاب کا ناطق ہونا اس آیت سے ثابت ہے.ہذا کتابنا ینطق علیکم بالحق اور کلام اللہ الناطق علیہ السلام کے اقوال کی حجیت کا یہ حال ہے کہ تقیہ کا احتمال آپ کے ہر ایک کلام میں موجود ہے دیکھو تَـہْذِیْبُ الْاَحْکَامِ میں ابوجعفر ُطوسی نے جناب امیرؑسے روایت کی.قال علیہ السلام حرّم رسول اللہ صلعم لحوم الحمرالاَہْلِیَّةِ وَ نِکَاحُ الْمُتْعَةِ.{ FR 5543 }؂ شیعہ علما کہتے ہیں.تقیہ کے باعث کہا ہے اور حدیث مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہٖ.{ FR 5544 }؂ احادیث کی معتبر کتابوں میں موجود ہے نہیں پھر اس میں تخصیص امام اور عدم فصل کا ذکر نہیں پھر باتفاق ماوشمااس زمانہ کے امام رسول اللہ صلعم ہیں یا قرآن امام ہے اور کتاب کا امام ہونا مِنْ قَبْلِہٖ کِتَابُ مُوْسٰی اِمَامًامیں دیکھیے.عبقات میں حدیث غدیر پر زور دیا ہے.اِلاَّ مصنف ہر ایک سلسلہ سند میں صرف ایک راوی کی مدح کسی کتاب سے نقل کرتا ہے پھر مادح کی مدح پر اس کی کتاب کی مدح میں تطویل کرتا ہےتمام کتاب میں سند کے ُکل رجال کا حال نقل نہیں کرتا پس یادھوکہ میں ہے یا دھوکہ دیتا ہے.واللہ اعلم فقط.ابواسامہ نور الدین.تــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــمّ { FN 5542 }؂ اور انہوں نے کہا کہ حضرت علیؓ نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کا بولتا کلام ہوں اور یہ اللہ تعالیٰ کا خاموش کلام ہے.{ FN 5543 }؂ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں کا گوشت اور نکاح متعہ حرام کیا.{ FN 5544 }؂ جو ایسی حالت میں مرا کہ اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانا…….

Page 200