Language: UR
فیشن پرستی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید انذار وانتباہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام وخلفائے احمدیت کی زریں نصائح شائع کرده نظارت نشرو اشاعت فادیان
نام کتاب مرتبہ طبع اول قادیان طبع ثانی قادیان تعداد مطبع فیشن پرستی نظارت نشر و اشاعت قادیان 2007 : 2011: 1000 : فضل عمر پر نٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان گورداسپور ( پنجاب ) بھارت ISBN: 978-81-7912-333-1
بسم الله الرحمن الرحيم شیطان نے قیامت تک لوگوں کو گمراہ کرنے اور خدا سے دور لے جانے کی خدا سے اجازت لی ہے اور کہا کہ میں راہ راست سے ہٹانے کے لئے تیری مخلوق کو بہکانے کے لئے تمام حربے استعمال کروں گا.ان کے دائیں سے بھی اور بائیں سے بھی آؤں گا.ان کے آگے سے بھی اور پیچھے سے بھی ان پر حملہ آور ہوں گا.اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میرے بندے ہوں گے ان پر تیرا تسلط اور غلبہ نہیں ہو سکے گا.یعنی وہ تیرے قابو میں یا تیرے بہکاوے میں ہرگز نہیں آئیں گے خواہ تو کتنا زور لگائے اور ہر قسم کے حربے استعمال کرے.اس لئے ازل سے لے کر ابد تک انسان اور شیطان کی یہ جنگ جاری ہے اور جاری رہے گی اور شیطان مختلف کرداروں سے خدا کی مخلوق کو آزما تا اور بہکا تا رہے گا.ہر زمانے میں اس کے نئے نئے ہتھیار اور ہتھکنڈے ہوتے ہیں.کبھی وہ ناچ گانے کے روپ میں بہ کا تا ہے تو کبھی بد رسوم و رواج کے ذریعہ آزماتا ہے.کبھی فلموں اور تھیٹروں کے ذریعہ تو کبھی ٹی وی، کیبل کے ذریعہ اور کبھی انٹر نیٹ اور نئے نئے فیشنوں کے ذریعہ خدا کی مخلوق کو سبز باغ دکھا کر گمراہ کرتا اور خدا اور رسول کی پسندیدہ راہوں سے دور لے جاتا ہے.اس وقت جس امر کی طرف توجہ دلا نا مقصود ہے وہ ہے فیشن پرستی.کیونکہ دین بگڑتا ہی فیشن پرستی اور بد رسوم سے ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو یہ نصیحت فرماتا ہے.اے مومنو! فرمانبرداری کے دائرہ میں سب کے سب داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدم به قدم نہ چلو ( کہ یقینا وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے.(البقرة:209)
صلى الله آنحضور علیہ فرماتے ہیں: بہترین باتوں میں سے کتاب اللہ قرآن سب سے بہتر ہے.اور ہدایتوں میں سے بہترین ہدایت محمد ﷺ کی ہدایت ہے اور بدترین امور وہ ہیں جو نئے نئے ایجاد کر لئے جائیں ( یعنی نئے نئے فیشن ، رسم ورواج اور بدعات وغیرہ ) بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں لے جائے گی.اسی طرح ایک اور حدیث ہے جو فیشن کی اندھا دھند تقلید کے بارہ میں ہے.فرمایا: کہ جو بھی کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ ان میں سے ہے.یعنی ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ) " ( ابو داؤد ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے کا ایک یہی طریق ہے کہ آنحضرت ﷺ کی سچی فرمانبرداری کی جاوے.دیکھا جاتا ہے کہ لوگ طرح طرح کی رسومات میں گرفتار ہیں.رسومات کی بجا آوری میں آنحضرت ﷺ کی صرف مخالفت ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ہتک بھی کی جاتی ہے اور وہ اس طرح سے کہ گویا آنحضرت ﷺ کے کلام کو کافی نہیں سمجھا جاتا.“ پھر فرمایا: ( ملفوظات جلد سوم مطبوعہ 2003 انڈیا صفحہ 316) ”ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ ایک موت اختیار کرے.نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچے اور اللہ تعالیٰ کو سب شئے پر مقدم رکھے.بہت سی ریا کاریوں اور بیہودہ باتوں سے انسان تباہ 66 ہو جاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد سوم مطبوعہ 2003 انڈیا صفحہ 458) 2
فیشن پرستی اور اس کی اندھا دھند تقلید بھی نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے ہی جنم لیتی ہے اور ان کا حصہ ہے.تو گویا فیشن پرستی انسان اور معاشرے کو تباہ کر دیتی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ حدیث من تشبه بقوم کی تشریح میں فرماتے ہیں: یہ وہ زمانہ ہے جس میں عیسائیت نے اگر دلوں کو کا فرنہیں بنایا تو اس نے انسانی چہروں کو ضرور کا فر بنا دیا ہے اور بہت سے نوجوان اس مرض میں مبتلاء ہیں کہ وہ مغربی تہذیب اور مغربی تمدن کے دلدادہ ہو رہے ہیں وہ اپنے سروں کے بال ، اپنی داڑھیوں اور اپنے لباس میں مغرب کی نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی شکل کا فروں والی بن جاتی ہے.اور رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ.جوشخص اپنی ظاہری شکل کسی اور قوم کی طرح رکھتا ہے وہ ہم میں سے نہیں.یعنی جب ہم کسی کو دیکھیں گے کہ اس کی شکل ہندوؤں سے ملتی ہے یا عیسائیوں سے ملتی ہے تو ہمیں اس پر اعتبار نہیں آئے گا.اور ہم سمجھیں گے کہ یہ بھی انہی سے ملا ہوا ہے.اور جب ہمیں اعتبار نہیں آئے گا تو یہ لازمی بات ہے کہ کوئی ذمہ داری کا کام اس کے سپر نہیں کیا جائے گا.اور اس طرح وہ نیکی کے بہت سے کاموں سے محروم ہو جائے گا.پس میں نو جوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ مومن دل اور مومن شکل بنائیں اور مغربیت کی تقلید کو چھوڑ دیں.میں نے پچھلے سال بھی بتایا تھا کہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم مغربی تہذیب کو تباہ کر دو اور اس کی بجائے اسلام کی تعلیم ، اسلام کے اخلاق ، اسلام کی تہذیب اور اسلام کے تمدن کو قائم کرو.“ مشعل راه جلد اول مطبوعه اکتوبر 2006 انڈیا صفحہ 339-338) 3
اندھی تقلید : جب بھی کوئی نیا فیشن آتا یا رسم و رواج جنم لیتا ہے تو بے سوچے سمجھے اندھا دھند اس کی تقلید شروع ہو جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور شرم و حیا کے تمام پردے چاک ہو جاتے ہیں.حضرت مصلح موعودا اپنی نا پسندیدگی اور اس کے سد باب کا ذکر کرتے ہوئے مردوں کے ایک خطاب میں جو عورتوں کے لئے بھی یکساں مفید ہے فرماتے ہیں.”میرے نزدیک ہمیں زیادہ توجہ جس طرف دینی چاہئے وہ تعلیم ہے اور وہ بھی مذہبی تعلیم.یہی تعلیم ہماری اولا د کے ہوش وحواس قائم رکھ سکتی ہے.میں تو نو جوانوں کی موجودہ تر کو دیکھ کر ایسا بد دل ہوں کہ چاہتا ہوں یورپ کی ہر چیز کو بدل دیا جائے.ہمارے ملک کے لوگ اس طرح دیوانہ وار یورپ کی تقلید کر رہے ہیں کہ اسے دیکھ کر شرم و ندامت سے سر جھک جاتا ہے...غرض یورپ کی تقلید میں لوگ بالکل اندھے ہورہے ہیں.ہمیں نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ دوسروں کو بھی بچانے کے لئے یہ کوشش کرنی چاہئے کہ لوگوں کو محسوس کرائیں.ہمارا تمدن ناقص اور کمزور نہیں.نقص یہ ہے کہ اس کا استعمال درست طور پر نہیں کیا گیا.پس ہم نے اپنے تمدن کو غلط طور پر استعمال کر کے نقائص پیدا کر لئے ہیں ورنہ اس میں نقص نہیں.“ الازھار لذوات الخمار مطبوعہ 2008 انڈ یا صفحہ 213) 4
فیشن کی اقسام فیشن کی بہت سی اقسام ہیں.بعض تو وہ ہیں جو صرف مردوں سے متعلق ہیں اور بعض صرف عورتوں سے.اور بعض اقسام فیشن کی دونوں میں مشترک ہیں.یہاں چند ایک کا ذرا تفصیلی ذکر کیا جاتا ہے کہ ان کے کیا مضر اثرات ہیں اور ہماری دینی تعلیم اس بارہ میں کیا ہے.لباس کا فیشن: آجکل ایک یہ فیشن چل نکلا ہے کہ مرد اور عورتیں ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں سے مشابہت کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں سے مشابہت کرتی ہیں.( بخاری ) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: دوزخیوں کے دو گروہ ایسے ہیں کہ ان جیسا میں نے کسی گروہ کو نہیں دیکھا.ایک وہ جن کے پاس بیل کی دموں کی طرح کوڑے ہوتے ہیں جن سے وہ لوگوں کو مارتے پھرتے ہیں اور دوسرے وہ عورتیں جو کپڑے تو پہنتی ہیں لیکن حقیقت میں وہ جنگی ہوتی ہیں.ناز سے لچکدار چال چلتی ہیں لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے جتن کرتی پھرتی ہیں.بختی اونٹوں کی لچکدار کو ہانوں کی 5
خير طرح ان کے سر ہوتے ہیں.ان میں سے کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگی اور اس کی خوشبو تک نہ پائے گی حالانکہ اس کی خوشبو بہت دور سے آسکتی ہے.“ (مسلم کتاب اللباس باب النساء الكاسيات العاريات ) لباس کے بارہ میں قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ لباس التـــــوى ذالک تقویٰ کا لباس اگر انسان اوڑھ لے تو وہ سب سے زیادہ بہتر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک دوست نے سوال کیا کہ ہندوؤں والی دھوتی باندھنی جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا: تشبیہ بالکفار تو کسی رنگ میں بھی جائز نہیں.اب ہندو ماتھے پر ایک ٹیکہ سالگاتے ہیں کوئی وہ بھی لگالے.یاسر پر بال تو ہر ایک کے ہوتے ہیں مگر چند بال بودی کی شکل میں ہندور رکھتے ہیں اگر کوئی ویسے ہی رکھ لیوے تو یہ ہرگز جائز نہیں.مسلمانوں کو اپنی ہر ایک چال میں وضع قطع میں غیرت مندانہ چال رکھنی چاہئے.ہاں البتہ اگر کسی کو کوئی نئی ضرورت در پیش آئے تو اسے چاہئے کہ ان میں سے ایسی چیز کو اختیار کرے جو کفار سے تشبیہ نہ رکھتی ہو.اور اسلامی لباس سے نزدیک تر ہو.جب ایک شخص اقرار کرتا ہے کہ میں ایمان لایا تو پھر اس کے بعد وہ ڈرتا کس چیز سے اور وہ کون سی چیز ہے جس کی خواہش اب اس کے دل میں باقی رہ گئی ہے کیا کفار کی رسوم اور عادات کی؟ اب اسے ڈر چاہئے تو خدا کا.اتباع چاہئے تو محمد رسول اللہ ﷺ کی کسی ادنیٰ سے گناہ کو خفیف نہ جاننا چاہئے بلکہ صغیرہ ہی سے کبیرہ بن جاتے ہیں اور صغیرہ ہی کا اصرار کبیرہ ہے.“ ( ملفوظات جلد سوم مطبوعہ 2003 صفحہ 247-246) 6
یہی مضمون ایک دوسرے راوی نے یوں بیان کیا ہے: مثلاً کوئی مسلمان ہندوؤں کی طرح بودی وغیرہ رکھ لیوے تو اگر چہ قرآن اور حدیث میں اس کا کہیں ذکر صریح نہیں ہے مگر چونکہ کفار سے اس میں مشابہت پائی جاتی ہے اس لئے اس سے پر ہیز چاہئے.“ نیز فرمایا: ( ملفوظات جلد سوم مطبوعہ 2003 صفحہ 246 حاشیہ ) انسان کو جیسے باطن میں اسلام دکھانا چاہئے ویسے ہی ظاہر میں بھی دکھلانا چاہئے.جو شخص ایک قوم کے لباس کو پسند کرتا ہے تو پھر وہ آہستہ آہستہ اس قوم کو اور پھر ان کے دوسرے اوضاع و اطوارحتی کہ مذہب کو بھی پسند کرنے لگتا ہے اسلام نے سادگی کو پسند کیا ہے اور تکلفات سے نفرت کی ہے کیونکہ پھر آہستہ آہستہ انسان کی نوبت تنتبع کی یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ ان کی طرح طہارت کرنا بھی چھوڑ دیتا ہے.“ ( ملفوظات جلد چہارم مطبوعہ 1984 لندن صفحه 387) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: و جس نے عاجزی اور انکساری کی وجہ سے عمدہ لباس ترک کیا حالانکہ وہ اس کی استطاعت رکھتا ہے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ اختیار دے گا کہ ایمان کی پوشاکوں میں سے جو پوشاک چاہے پہن لے.“ حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : (ترمذیى كتاب الصفة القيامة) ہر کام کے لئے ایک لباس ہے.گھوڑے کی سواری کا لباس ہے.7
ایک سوگز دوڑ کا لباس ہے.مسجد میں آنے کا لباس ہے.گھر کا بھی ایک لباس ہے لیکن ایک لباس مسلمان کا ہے اور مسلمان کالباس ہے لباس التقویٰ.اور ایک مسلمان کی ساری بھلائی اس لباس میں ہے..لیکن ایک ایسا لباس ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور وہ تقویٰ کا لباس ہے.یہ نہیں کہ کبھی تقویٰ کا لباس اوڑھا ہوا ہے اور اس سے نور کی شعاعیں باہر نکل رہی ہیں اور کبھی شیطان کا دامن اپنے گرد لپیٹ لیا ہے اور ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا ہے.مشعل راه جلد دوم مطبوعہ 2006 انڈیا صفحہ 280) ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العز یز لباس اور فیشن کے طور پر جو لباس بنایا جاتا ہے اس کے بارے میں فرماتے ہیں : اب دیکھیں کہ آج کل بھی شادی بیاہوں میں صرف ایک دو دفعہ پہننے کے لئے دلہن کے لئے یا دولہا کے لئے بھی اور رشتہ داروں کے لئے بھی کتنے مہنگے جوڑے بنوائے جاتے ہیں جو ہزاروں میں بلکہ لاکھوں میں چلے جاتے ہیں.صرف دکھانے کے لئے کہ ہمارے جہیز میں اتنے مہنگے مہنگے جوڑے ہیں یا اتنے قیمتی جوڑے ہیں یا ہم نے اتنا قیمتی جوڑا پہنا ہوا ہے.صرف فخر اور دکھاوا ہوتا ہے.کیونکہ پہلے تو یہ ہوتا تھا پرانے زمانے میں کہ قیمتی جوڑا ہے تو آئندہ وہ کام بھی آجاتا تھا.کام سُچا ہوتا تھا اچھا ہوتا تھا پھر اب تو وہ بھی نہیں رہا کہ جو اگلی نسلوں میں یا اگلے بچوں کے کام میں آجائیں ایسے کپڑے یونہی ضائع ہو جاتے ہیں.ضائع ہورہے ہوتے ہیں.پھر فیشن کے پیچھے چل کر دکھاوے اور فخر کے اظہار کی رو میں بہہ کر قرآن کریم کے اس حکم کی 8
بھی خلاف ورزی کر رہے ہوتے ہیں کہ اپنی زینتوں کو چھپاؤ.فیشن میں بس ایسے ایسے عریاں قسم کے لباس سل رہے ہوتے ہیں.کسی کو کوئی خیال ہی نہیں ہوتا.تو احمدی بچوں اور احمدی خواتین کو ایسے لباسوں سے جن سے ننگ ظاہر ہوتا ہو پر ہیز کرنا چاہئے اور پھر فخر کے لئے لباس پہنیں گے تو دوسری برائیاں بھی جنم لیں گی.اللہ تعالیٰ ہر احمدی بچی ہر احمدی عورت کو ایمان کی پوشاک ہی پہنائے اور دنیوی لباس جو دکھاوے کے لباس ہیں ان سے بچائے رکھے.اسی طرح مرد بھی اگر دکھاوے کے طور پر کپڑے پہنتے ہیں ، لباس پہن رہے ہیں تو وہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں.صاف ستھرا اچھا لباس پہننا منع نہیں.اس سوچ کے ساتھ یہ لباس پہننا منع ہے کہ اس میں فخر کا اظہار ہوتا ہو ، دکھاوا ہوتا ہو.“ نگے سر پھرنے کا فیشن: خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 9-8 مطبوعہ 2005 انڈیا) نگے سر پھرنا بھی نو جوانوں کا ایک فیشن ہے اور آج کل عورتوں میں بھی یہ وباء عام ہو رہی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارہ میں فرماتے ہیں : مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر ہمیں کوئی حرکت نہیں کرنی چاہئے.مغربی تہذیب یہ سکھاتی ہے کہ ٹوپی کے اتارنے میں عظمت ہے.لیکن اسلامی تہذیب یہ ہے کہ ٹوپی پہنی چاہئے.یورپین تہذیب یہ کہتی ہے کہ عورت اپنے سرکو ننگا رکھے لیکن اسلامی تہذیب یہ سکھاتی ہے کہ عورت اپنے سر کو ڈھانک کر رکھے.چنانچہ فقہاء نے اس بات پر بخشیں کی ہیں اور انہوں نے لکھا ہے کہ نماز میں اگر عورت کے سر کے بال ننگے ہوں تو اس کی نماز نہیں ہوتی.پس میں نے انہیں کہا کہ آپ لڑکوں کو یہ بتائیں کہ اسلامی شعار ٹوپی پہنے میں ہے 9
ٹوپی اتارنے میں نہیں ہاں اگر کسی کے پاس ٹوپی نہ ہو تو وہ ننگے سر بھی مسجد میں نماز کے لئے جاسکتا ہے جس طرح یہ مغربیت ہوگی کہ کسی کے پاس ٹوپی ہو اور وہ پھر بھی اسے نہ پہنے اور ہر وقت بالوں کی مانگ نکالنے ، تیل ملنے اور سکھی کرنے میں ہی مصروف رہے.“ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : نگے سر پھر نا آوارگی کی علامت ہے.“ نا 66 (مشعل راه جلد اول صفحه 340) حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں فرمایا : احمدی نوجوانوں کو ہمیشہ ٹوپی پہننے کی عادت ڈالنی چاہئے اور یہ بات اپنے شعار میں داخل کرنی چاہئے.“ جسمانی حسن کی نمائش (مشعل راه جلد سوم 94-93) یہ بھی مردوں اور عورتوں کی یکساں بیماری اور کمزوری ہے.اس کے بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اسلام جسمانی حسن کی زیادہ نمائش پسند نہیں کرتا کیونکہ اس طرح کئی قسم کی بدیاں پیدا ہو جاتی ہیں.لیکن اسلام یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ کوئی ننگے بدن پھرنے لگ جائے کیونکہ ننگے بدن پھر نا بھی کئی قسم کی بدیاں پیدا کرنے کا موجب بن جاتا ہے.نیز فرمایا: (مشعل راه جلد اول صفحه 340) ” مرد کا حسن اس کے بناؤ سنگھار میں نہیں بلکہ اس کی طاقت اور کام 10
میں ہے.“ (مشعل راه جلد اول صفحه 342) ظاہری بناؤ سنگھار کی بجائے اچھے اخلاق دلوں پر اثر کیا کرتے ہیں مگر جو شخص اپنا وقت چھوٹی چھوٹی باتوں میں ضائع کر دیتا ہے وہ نیکی کے بڑے بڑے کاموں سے محروم رہ جاتا ہے.“ (مشعل راه جلد اول صفحه 343) حسن ہر رنگ میں اچھا ہے مگر خیال رہے دانہ سمجھے ہو جسے تم کہیں وہ دام نہ ہو تم نے دنیا بھی جو کی فتح تو کچھ بھی نہ کیا نفس وحشی و جفا کیش اگر رام نہ ہو بھولیومت کہ نزاکت ہے نصیب نسواں مرد وہ ہے جو جفا کش ہو گل اندام نہ ہو ناخن بڑھانے کا فیشن : پہلے تو یہ عورتوں کا فیشن تھا اب بعض نوجوان مرد بھی اس بیماری کا شکار ہو رہے ہیں.حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ اس مرض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اسی طرح ناخن بڑھا لینا یہ بھی نیچر کا تبع نہیں بلکہ اپنے آپ کو وحشی ثابت کرنا ہے.گو آجکل مغربیت کے اثر کے ماتحت فیشن ایبل عورتوں نے بھی ناخن بڑھانے شروع کر دیئے ہیں.یورپین عورتیں تو اس میں اس قدر غلو سے کام لیتی ہیں کہ وہ آدھ آدھ انچ تک اپنے ناخن بڑھا لیتی ہیں اور پھر سارا دن ان ناخنوں سے میل نکالنے ، انہیں صاف کرنے اور ان پر رنگ اور روشن کرنے میں صرف کر دیتی ہیں ،مگر وہ اتنا بڑا گڑھا ہوتا ہے کہ آسانی سے تمام میل نہیں نکل سکتی.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ تو وہ میل نکالتی ہیں اور کچھ اس میل کو چھپانے 11
کے لئے اس پر روغن کرتی ہیں اور چونکہ ناخنوں کی میل کی وجہ سے پھر بھی کچھ نہ کچھ بد بو آتی ہے اس لئے پھر یو ڈی کلون کا استعمال کرتی ہیں گویا وہ اپنی عمر کا ایک معتد بہ حصہ صرف ناخنوں کی صفائی پر ہی خرچ کر دیتی ہیں اور اس طرح اپنی زندگی کو برباد کر دیتی ہیں.اس قسم کی باتوں میں دوسروں کی تقلید اختیار کرنا حض مغربیت ہے اور جب ہم کہتے ہیں مغربیت کے اثر سے متاثر مت ہو تو اس کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ اپنے اوقات کو ظاہری جسم کی صفائی اور اس کے بناؤ سنگھار کے لئے اس قدر خرچ نہ کرو کہ اور کاموں میں حرج واقع ہونے لگ جائے اور تم دینی کاموں میں حصہ لینے سے محروم رہ جاؤ.“ برقعہ کا فیشن : مشعل راہ جلد اول صفحه 342-341) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارہ میں فرماتے ہیں: عورتوں کو اس حد تک آزادی دینی چاہئے جو اسلام نے انہیں دی ہے اور وہی ان کے لئے بہترین اور مفید آزادی ہے اس سے آگے انہیں قدم نہیں بڑھانا چاہئے.میں اس برقعہ کو پسند کرتا ہوں جو نئی طرز کا نکلا ہے.اس میں عورت زیادہ آزادی سے چل پھر سکتی ہے مگر بعض نے اس کا بھی غلط استعمال شروع کر دیا ہے انہوں نے اسے کوٹ بنا لیا ہے جس سے جسم کی بناوٹ نظر آتی ہے اس طرح یہ نا جائز ہو گیا ہے.شریعت نے جلباب کا کیوں حکم دیا ہے کیوں کر نہ ہی نہیں رہنے دیا.اس لئے کہ جسم کی بناوٹ ظاہر نہ ہو.ڈھیلا ڈھالا کپڑا اوڑھا جائے کسی بات کی اندھا دھند تقلید نہ کی جائے.اسلام وہ ہے جو نہ 12
شرقی ہے نہ غربی.اس لئے مسلمانوں کو نہ ایشیا کی نقل کرنی چاہئے نہ مغرب کی، اس لئے کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو.“ الازهارلذوات الخمار صفحہ 2114 مطبوعہ 2008 بھارت) ہمارے پیارے موجودہ امام حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: برقعوں میں حد سے زیادہ فیشن کے رجحان کو بھی کم کریں.ہر اجلاس میں احمدی بچی کا مقام اس کو بتا ئیں.مجھے زیادہ بڑے کام نہیں چاہئیں.ان باتوں پر دھیان دیں.نمازوں کی عادت، پردہ کی پابندی ، اولاد کی تربیت اور فیشن کی اندھا دھند تقلید سے بچنا ، ان تمام پہلوؤں کے حوالے سے جائزہ لیں.(خط بنام صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ پاکستان محررہ 2003-11-2) بے پردگی بھی کئی قسم کی ہوتی ہے.چہرے کی بے پردگی، جسم کی اور اعضاء کی.اسی طرح مکس پارٹیاں جہاں مردعورت اکٹھے ہوں یا اسکولوں کالجوں میں اکٹھی تعلیم وغیرہ وغیرہ.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں.یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے.جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا اُن کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو.اگر اس کی آزادی اور بے پردگی سے اُن کی عفت اور پاکدامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور 13
عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطر ناک ہوں گے.بد نظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے.پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا.“ ( ملفوظات جلد چہارم مطبوعہ 2003، صفحہ 104) اس بارہ میں خلفاء احمدیت کے ارشادات ملاحظہ ہوں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام میں جو اصل پردہ رائج تھا وہ گھونگٹ تھا اور وہی اصل پردہ ہے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے یہ نسبت اس پردہ کے جو آجکل ہمارے ملک میں رائج ہے زیادہ محفوظ تھا.چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ ہمیں گھونگٹ نکال کر دکھایا کرتے تھے اور بتایا کرتے تھے کہ پردہ کا اصل طریق یہ ہے.اگر اس طرح گھونگٹ نکالا جائے تو لازماً موٹے کپڑے کا چہرہ پر سایہ پڑے گا اور صحیح معنوں میں پردہ قائم رہ سکے گا.لیکن موجودہ نقاب کا طریق ایسا ہے جس میں پو را پردہ نہیں ہوسکتا.بہر حال ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اسلامی احکام پر عمل کرے اور اگر کہیں اس کے عمل میں کمزوری پائی جاتی ہو تو اس کو دور کرے.“ ii.(الازهار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ 157) شرعی پردہ جو قرآن شریف سے ثابت ہے یہ ہے کہ عورت کے بال، گردن اور چہرہ کانوں کے آگے تک ڈھکا ہوا ہو.اس حکم کی تعمیل میں مختلف ممالک میں اپنے حالات اور لباس کے مطابق پردہ کیا جا سکتا ہے.“ الفضل 03 نومبر 1924ء) ہاتھ کے جوڑ کے اوپر سارے کا سارا حصہ پردہ میں شامل ہے.“ الازھار لذوات الخمار حصہ دوم مطبوعہ 2008 انڈیا صفحہ 157) 14
نیز فرمایا: وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اسلام میں منہ چھپانے کا حکم نہیں ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ زینت چھپاؤ اور سب سے زیادہ زینت کی چیز چہرہ ہی ہے.اگر چہرہ چھپانے کا حکم نہیں تو پھر زینت کیا چیز ہے جس کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے.بیشک ہم اس حد تک قائل ہیں کہ چہرہ کو اس طرح چھپایا جائے کہ اس کا صحت پر کوئی برا اثر نہ پڑے.مثلاً باریک کپڑا ڈال لیا جائے.یا عرب عورتوں کی طرز کا نقاب بنالیا جائے جس میں آنکھیں اور ناک کا نتھنا آزا در ہتا ہے مگر چہرہ کو پردہ سے باہر نہیں رکھا جاسکتا.“ ( تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 301 مطبوعہ 2004 بھارت) حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: قرآن نے پردہ کا حکم دیا ہے.انہیں بہر حال پردہ کرنا پڑے گا.یاوہ جماعت کو چھوڑ دیں.کیونکہ ہماری جماعت کا یہ موقف ہے کہ قرآن کریم کے کسی حکم سے تمسخر نہیں کرنے دیا جائے گا نہ زبان سے اور نہ عمل سے.اسی پر دنیا کی ہدایت اور حفاظت کا انحصار ہے.“ (الفضل 25 نومبر 1978ء) اوسلو ناروے میں ایک موقع پر فرمایا: میں ایسی خواتین سے جو یہاں پردہ کو ضروری نہیں سمجھتیں پوچھتا ہوں کہ انہوں نے پردہ کو ترک کر کے اسلام کی کیا خدمت کی ؟ کچھ بھی نہیں.آج بعض یہ کہتی ہیں کہ ہمیں یہاں پردہ نہ کرنے کی اجازت دی جائے.پھر کہیں گی ننگ دھڑنگ سمندر میں نہانے اور ریت پر لیٹنے کی اجازت 15
دی جائے پھر کہیں گی شادی سے پہلے بچے جننے کی اجازت دی جائے.میں کہوں گا پھر تمہیں دوزخ میں جانے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے وہ اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں قبل اس کے کہ خدا کا قہر نازل ہو.“ (دوره مغرب 1980 ، صفحہ 238-239) حضرت خلیفہ مسیح الرابع حمداللہ تعالی فرماتے ہیں: مستورات کی تقریر میں میں نے ” پردے“ کو موضوع کے طور پر اختیار کیا.کیونکہ میں محسوس کر رہا تھا کہ دنیا میں اکثر جگہ سے پردہ اس طرح غائب ہو رہا ہے کہ گویا اس کا وجود ہی کوئی نہیں اور اس کے نتیجے میں جو انتہائی خوفناک ہلاکتیں سامنے کھڑی قوم کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی ہیں ، ان ہلاکتوں کا کوئی احساس نہیں ہے.ماں باپ اپنی بے عملی اور غفلتوں کے نتیجہ میں اپنی نئی نسلوں کو ایک معاشرتی جہنم میں جھونک رہے ہیں اور کوئی نہیں جو اس کی پر واہ کرے.یہ صورت حال ساری دنیا میں اتنی سنگین ہوتی جا رہی ہے کہ مجھے خیال آیا کہ اگر احمدیوں نے فوری طور پر اسلام کے دفاع کا جھنڈا اپنے ہاتھ میں نہ لیا تو معاملہ حد سے آگے بڑھ جائے گا اور ساری دنیا میں اسلامی پردے کی حفاظت کا سہرا احمدی بچیوں کے سر رہے گا انشاء اللہ.ہم نے سب کھوئی ہوئی اقدار کو واپس حاصل کرنا ہے.ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک حضرت محمد مصطفی عملے کے معاشرے کی حفاظت نہیں کریں گے اور اسے دوبارہ دنیا میں قائم اور نافذ نہیں کر دیں گے.پھر ایسی خواتین ہیں جن کو باہر تو نکلنا پڑتا ہے لیکن وہ سنگھار پٹار کر کے نکلتی ہیں.اب کام کا سنگھار پٹار سے کیا تعلق ہے.سنگھار پٹار ان کے اس فعل کو جھٹلا دیتا ہے کہ اگر تم 16
فلاں کام کے سلسلے میں نرم پردہ کرنے پر مجبور ہو تو کم از کم پردے کے جو دوسرے تقاضے ہیں ان کو تو پورا کرو.پورے سنگھار پٹار اور زیــنـتــوں کے ساتھ باہر نکلو اور پھر کہو کہ اسلام ہمیں اجازت دیتا ہے کہ یہاں نسبتا نرم پردہ کر لیں ، یہ غلط بات ہے.اسلام کے نام کو غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی عورتیں مجھتی ہیں کہ اگر ہم اس دنیا میں جہاں سے پردے اٹھ رہے ہیں ، اپنی سہیلیوں کے سامنے برقع پہن کر جائیں گی تو وہ کہیں گی کہ یہ اگلے وقتوں کی ہیں، پگلی ہیں ، پاگل ہو گئی ہیں، یہ کوئی برقعوں کا زمانہ ہے اور یہی بات مردوں کو بھی تکلیف دیتی ہے.حالانکہ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ عزت نفس اور دوسرے کا کسی کی عزت کرنا انسان کے اپنے کردار سے پیدا ہوتا ہے.دنیا کی نظر میں لباس کی کوئی بھی حیثیت نہیں رہتی.اگر کوئی آدمی صاحب کردار ہو تو اس کی عزت پیدا ہوتی ہے اور یہ عزت سب سے پہلے اپنے نفس میں پیدا ہونی چاہئے.عظمتِ کردار اپنے نفس سے شروع ہوتی ہے اور جب اپنے نفس میں عزت پیدا ہو جائے تو پھر دوسروں کی دی ہوئی عزتیں بے معنی رہ جاتی ہیں.بہر حال یہ ایک خطرناک رجحان ہے جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانی چاہتا ہوں.آپ اپنے کردار کے اندر ایک عظمت پیدا کریں اور اس کا احساس پیدا کریں.اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا قانون از خود آپ کو آپ کے وجود کے اندر معزز بنا دے گا اور ایسے معززین کو پھر دنیا کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں رہتی.وہ ایک کوڑی کی بھی پرواہ نہیں کرتے.پس جن بچیوں کے دل میں یہ خوف ہوں ان کو یہ بات سمجھانے کی 17
ضرورت ہے کہ آپ ایک عظیم مقصد کے لئے پیدا کی گئیں ہیں.آپ نے دنیا میں ایک عظیم انقلاب بر پا کرنا ہے.آپ دنیا والوں سے مختلف ہیں.اس لئے اپنی ذات میں خوش رہنے کی عادت ڈالیں چونکہ ہر کام آپ محض اللہ کر رہی ہوں گی اس لئے اپنے متعلق محسوس کریں کہ خدا نے آپ کو عزت بخشی ہے اور آپ کو ایک اکرام بخشا ہے اور جود خت کرام ہوا سے دنیا کی عزتوں کی کیا ضرورت ہے.اس کے باوجود بھی اگر آپ کو کوئی کہتا ہے کہ یہ اگلے وقتوں کی ہیں تو آپ کہیں کہ ہاں ہاں، ہم اگلے وقتوں کی ہیں لیکن ان اگلے وقتوں کی جو حضرت محمد مصطفی اللہ کے وقت تھے.مجد مصطفی ہے کے وقت میں ہی تو وقت نے رفعت اختیار کی تھی اور زمانی قیود سے آزاد کر دیا گیا تھا.وہی وقت تھا جوسب سے آگے تھا اور ہمیشہ آگے رہے گا اور انسان کا مستقبل کروڑہا کروڑ سال تک آگے چلتا چلا جائے گا.تب بھی مستقبل کا انسان کبھی بھی حضرت محمد مصطفے مت اللہ سے آگے نہیں بڑھ سکے گا.پس کہو اور جرات سے کہو کہ ہم اگلے وقتوں کی ہیں لیکن ان اگلے وقتوں کی جومحمد مصطفی ﷺ کے وقت تھے.وہ کہتے ہیں پگلیاں ہوگئی ہو تو کہو کہ ہاں ہم پگلیاں ہیں، دیوانیاں ہیں لیکن محمد مصطفے مے کی پگلیاں ہیں ، اور دنیا کی فرزانگیوں سے ہماری کوئی بھی نسبت نہیں ہے.نہ ہی ہم اس فرزانگی کو حرص کی نظر سے دیکھتی ہیں.ہماری دیوانگی جو آنحضور ﷺ کی محبت اور پیار کی دیوانگی ہے تمہاری فرزانگی سے کروڑوں گنا افضل اور زیادہ پیاری ہے.خطبات طاہر جلد اول صفحہ 361 تا 368 مطبوعہ 2007 بھارت ) حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: اس مضمون ( پردہ.ناقل ) کو خلاصہ دو تین مرتبہ پہلے بھی مختلف 18
توجہ دلائی: اوقات میں بیان کر چکا ہوں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس مضمون کو کھولنے کی مزید ضرورت ہے.کیونکہ بعض خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی بہت سے ایسے ہیں جو اس حکم کی اہمیت کو یعنی پردے کی اہمیت کو نہیں سمجھتے.کوئی کہہ دیتا ہے کہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے کیا صرف پردہ ہی ضروری ہے؟ کیا اسلام کی ترقی کا انحصار صرف پردہ پر ہی ہے؟ کئی لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ فرسودہ باتیں ہیں، پرانی باتیں ہیں اور ان میں نہیں پڑنا چاہئے ، زمانے کے ساتھ چلنا چاہئے.گو جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت معمولی ہے لیکن زمانے کی رو میں بہنے کے خوف سے دل میں بے چینی پیدا ہوتی ہے اور اس معمولی چیز کو بھی معمولی نہیں سمجھنا چاہئے.ایسے لوگوں کو میرا ایک جواب یہ ہے کہ جس کام کو کرنے یا نہ کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اور اس کامل اور مکمل کتاب میں اس بارہ میں احکام آگئے ہیں اور جن اوامر و نواہی کے بارہ میں آنحضرت ﷺ ہمیں بتا چکے ہیں کہ یہ صحیح اسلامی تعلیم ہے تو اب اسلام اور احمدیت کی ترقی اسی کے ساتھ وابستہ ہے.چاہے اسے چھوٹی سمجھیں یانہ سمجھیں.“ ( خطبات مسر در جلد دوم صفحہ 85 مطبوعہ 2005 بھارت) حضور انور نے جلسہ سالانہ 2006 کے موقعہ پر لجنہ سے خطاب کرتے ہوئے یوں پس ہر احمدی عورت ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھے کہ لہو ولعب، فیشن پرستی اور دنیا داری کے پیچھے نہیں چلنا بلکہ دائی جنت کا وارث بننے کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرنا ہے.اس کی عبادت کرنی ہے 19
اور شیطانی حملوں سے بچنے کے لئے بہت دعا کرنی ہے.ہر احمدی عورت کا ایک تقدس ہے اس لئے کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے آپ کے تقدس پر حرف آتا ہو بلکہ اپنی زندگیوں میں پاک روحانی انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کریں.اللہ نے پردہ کا حکم دیا ہے اس کی پابندی کریں.اللہ کے کسی حکم کو کم اہمیت کا حکم نہ سمجھیں.آپ کے عمل صالح دعوت الی اللہ کے لحاظ سے بھی ، نومبائعین اور آپ کی آئندہ نسلوں کے لئے بھی مفید ثابت ہوں گے.پس عبادت پر زور دیں.قرآن سیکھیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں.کبھی احساس کمتری میں مبتلاء نہ ہوں بلکہ احساس برتری کی سوچ پیدا کریں.اپنے مقصد پیدائش کو ہمیشہ مد نظر رکھنے، اسے پورا کرنے کی کوشش کریں.پس اس نعمت عظمی یعنی احمدیت کی قدر کریں اور اپنے پیچھے ایسی نسل چھوڑیں جو اللہ کے احکامات پر عمل کرنے والی ہو.“ اسراف ( الفضل 02 اگست 2006ء) آج کل ایک فضول خرچی اور بے حد اسراف کی شکل مووی کیمرہ بھی ہیں.شادی بیاہ ہمنگنی ، نکاح کے موقع پر مووی بنانا ایک اہم ضرورت سمجھا جا رہا ہے.اور اس حد تک بعض موقعوں پر اسراف ہوتا ہے کہ چار چار پانچ پانچ موویاں بن رہی ہوتی ہیں اور ساتھ ساتھ کئی کئی کیمروں کا بھی استعمال ہورہا ہوتا ہے.پھر ا کثر جگہ بے پردگی بھی ہو جاتی ہے.یہ ایک الگ گناہ کمانے والی بات ہے.بہر حال ایسے مواقع پر بے جا اسراف سے بچنا نہایت ضروری ہے اور کوشش یہ ہونی 20
چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ اپنی اقدار کا لحاظ رکھا جائے اور خدا کی ناراضگی اور قہر کو بھڑ کانے والی کوئی حرکت سرزد نہ ہو.بیوٹی پارلروں کا فیشن: آج کل ایک شکل فیشن کی بیوٹی پارلروں کی بھی نکل آئی ہے پہلے صرف عورتوں کے لئے تھی اب مرد بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں.شادی بیاہ ہو ، نکاح ہو یا منگنی جیسی رسم ہو.دولہا دلہن بیوٹی پارلروں سے تیار ہو کر آتے ہیں.جس سے نہ صرف یہ کہ وقت کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ پیسے کی بربادی بھی بہت ہوتی ہے اور حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا.چند گھنٹوں میں اتنا وقت اور پیسہ برباد جاتا ہے کہ الامان.یہی رو پید اگر کسی غریب کو دے دیا جائے یا کسی اور نیک مقصد میں خرچ ہو تو کتنا ثواب ہو اور کتنی دعائیں ملیں.الغرض ان تمام فیشنوں اور رسم و رواج کو ترک کرنا ضروری ہے یہ سب شیطانی راہیں ہیں خدا سے دور لے جانے والی.خدا کو ناراض کرنے والی اور وقت ، روپیہ پیسہ برباد کرنے والی اور جن سے سوائے گناہ ، حسرت و یاس اور پچھتاوے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا.بد رسوم کو ترک کرنے کے لئے ایک مضبوط عزم وارادہ کی ضرورت ہے اور یہی دراصل جہاد کبر ہے جو اپنی اصلاح کا جہاد ہے.اس جہاد کا اعلان کرتے ہوئے حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں ہر گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اور ہر گھرانے کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف اعلان جہاد کرتا ہوں اور جو احمدی گھرانہ بھی آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوششوں کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہوگا وہ یہ یادر کھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس 21
کی جماعت کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے اور وہ اس طرح جماعت سے نکال کر باہر پھینک دیا جائے گا جس طرح دودھ سے لکھی.پس قبل اس کے کہ خدا کا عذاب کسی قہری رنگ میں آپ پر وارد ہو یا اس کا قہر جماعتی نظام کی تعزیر کے رنگ میں آپ پر وارد ہوا اپنی اصلاح کی فکر کرو.اور خدا تعالیٰ سے ڈرو اور اس دن کے عذاب سے بچو کہ جس دن کا ایک لحظہ کا عذاب بھی ساری عمر کی لذتوں کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے کہ اگر یہ لذتیں اور عمریں قربان کر دی جائیں اور انسان اس ایک لحظہ کے عذاب سے بچ سکے تب بھی یہ سودا مہنگا نہیں سستا سودا ہے.“ کن لوگوں کا فیشن اختیار کریں؟ انصار الله ر بو داگست 1977 صفحه 36) اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر انسان کسی قسم کا فیشن اختیار کرے اور کس کی تقلید کرے؟ تو جواب بڑا آسان ہے.ہمارا مذ ہب ایک کامل مذہب ہے اس نے انسانی زندگی کی ہر ضرورت کو پیش کیا ہے.اور رہنمائی کی ہے.اور ایسے طریق بیان فرمائے ہیں کہ ان پر چل کر کبھی انسان ذلیل و رسوا نہیں ہوتا.کبھی مصیبت اور پریشانی میں مبتلا نہیں ہوتا.کبھی ٹھو کر نہیں کھاتا.کبھی خدا سے دور نہیں جاتا بلکہ دن بدن اس کا پیار اس کا قرب اور اس کی رضا حاصل ہوتی ہے اور اس میں وہ ترقی کرتا چلا جاتا ہے.چنانچہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة لمن كان يرجوا الله واليوم الآخر 22
تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول میں (ایک عظیم الشان ) اسوہ حسنہ ہے ہر اس فرد بشر کے لئے جو اللہ تعالیٰ کا خواہاں ہے اور یوم آخرۃ میں سرخرو ہونا چاہتا ہے.“ صلى الله اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو اسوہ حسنہ یعنی ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے کہ تم زندگی کے فیشن ان سے سیکھو اور ان راہوں پر چلو جن پر یہ ہمارا رسول چلتا ہے.تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تم خدا کو پالو گے اور یوم آخرۃ میں بھی سرخرو ہو گے.تمہارا انجام بخیر ہوگا.تمہیں خدا کی رضا اور محبت حاصل ہوگی.جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: قل ان كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله ويغفر لكم ذنوبكم ”اے رسول یہ اعلان عام کر دو کہ اگر تم خدا کے محبوب بننا چاہتے ہو تو میری پیروی کرو.خدا تم سے محبت کرنے لگ جائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا“.(آل عمران : 32) اس آیت میں بھی یہ اعلان کیا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے طریق جو انہوں نے اختیار کئے اور تمہارے لئے بطور اسوہ حسنہ چھوڑے ان کو اختیار کرو.ان کے نقش قدم پر چلو کہ وہی حقیقی زندگی کے فیشن ہیں جو ابدی ہیں.جن میں قیامت تک کوئی تبدیلی نہیں ہوگی.دوسرے فیشن تو ہر روز بدلتے رہتے ہیں.لوگ ان سے بددل ہو جاتے ہیں اور خدا کی ناراضگی بھی مول لینی پڑتی ہے.مگر یہ ایسا فیشن ہے کہ نہ تو بدلتا ہے نہ لوگ اس سے بددل ہوتے ہیں اور نہ ہی خدا ناراض ہوتا ہے بلکہ محبت خداوندی حاصل ہوتی ، گناہ بخشے جاتے اور انجام بخیر ہوتا ہے.23
پھر اس سوال کا جواب حضرت مصلح موعودؓ نے بھی بتلایا ہے کہ ہمیں کیسا اور کن لوگوں کا فیشن اختیار کرنا چاہئے اور فیشن ایجاد کرنے والے کون لوگ ہوتے ہیں.فرمایا ہے: حضرت صاحب کا ایک الہام ہے.زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے“ فیشن کے معنی ہیں طریق اور زندگی بسر کرنے کا راستہ.ظاہر ہے کہ راستہ مقرر کرنے والے خاص لوگ ہوتے ہیں جس طرح اس ظاہری لباس کے فیشن کی ایجاد کے لئے چند لوگ ہوتے ہیں.روحانی زندگی کے فیشن کے لئے بھی چند لوگ ہوتے ہیں.یہ غلط خیال ہے کہ فیشن عام لوگوں کے رواج کا نام ہے بلکہ فیشن کے موجد عام لوگ نہیں ہوتے.اس طرح روحانی زندگی میں بہت سے لوگوں کی پیروی نہیں کی جاتی بلکہ چند افراد کی اور وہ انبیاء و رسل اور اولیا ء ہوتے ہیں....مگر حیرت ہے کہ لباس میں تو فیشن کی پیروی کی جاتی روحانیت میں ایسا نہیں کیا جاتا.بلکہ الٹی جہلاء کی پیروی کی جاتی ہے...اگر یہ دیکھا جائے کہ خدا اور اس کے رسول اور اولیاء نے کیا طریق مقرر کیا ہے تو ان کو زندگی کی مصیبتوں سے نجات ہو جائے مگر لوگ اس کی پابندی نہیں کرتے....پس مومنوں کو چاہئے کہ زندگی کا فیشن مقرر کرنے کے لئے ان لوگوں پر نظر کرے جو اس فن کے ماہر اور واقف ہیں اور وہ انبیاء ورسل اور اولیاء وصلحاء ہوتے ہیں.جو شخص اہل فنون کو چھوڑ کر نا واقفوں کے پیچھے چلتا ہے دکھ اٹھاتا ہے زندگی کو مبارک اور با آرام کرنے کے لئے ان کی ضرورت ہے.“ خطبات محمود جلد سوم صفحه 133-132 ) 24
حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : بعض لوگ اپنی بیوقوفی کی وجہ سے اس بات کو نہیں سمجھتے.وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی فیشن میں ہے.حالانکہ فیشن میں کوئی زندگی نہیں.اصل زندگی تو اُس فیشن میں ہے جو دین کا فیشن ہے.اس میں نہیں ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا کہ یہ زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں.پس زندگی کا فیشن تو ہم آنحضرت ﷺ سے سیکھیں گے نہ کہ کسی اور سے.“ ( خطبات طاہر جلد اول صفحہ 367 مطبوعہ 2007 بھارت ) اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.25
علافت احمدیه صد سالہ جوبلی 2008 کے لئے حضرت خلیفة المسیح الخامس ایده الله تعالیٰ بنصره العزيز کی دعاؤں اور عبادات کی تحریک سید نا حضرت خلیفۃ اصیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خلافت احمدیہ صد سالہ جو بلی 2008ء کی کامیابی کے لئے جماعت کو دعائیں کرنے نفلی روزہ رکھنے اور نوافل پڑھنے کی تحریک فرمائی.جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: -2 -3 -4 ہر ماہ ایک نفلی روزہ رکھا جائے جس کے لئے ہر قصبہ ، شہر یا محلہ میں مہینہ میں کوئی ایک دن مقامی طور پر مقرر کر لیا جائے.دو نفل روزانہ ادا کئے جائیں جونماز عشاء کے بعد سے لیکر فجر سے پہلے تک یا نماز ظہر کے بعد ادا کئے جائیں..سورہ فاتحہ روزانہ کم از کم سات مرتبہ پڑھیں.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِيْنِ (روزانہ کم از کم 11 مرتبہ پڑھیں) (البقرة:251) ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کا فرقوم کے خلاف ہماری مددکر.5- رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً جِ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ 26 (آل عمران: 9)
(روزانہ کم از کم 33 مرتبہ پڑھیں) ترجمہ: اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو.اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر.یقینا تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے :6 والا ہے.اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَ نَعُوْذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ (روزانہ کم از کم 11 مرتبہ پڑھیں) ترجمہ: اے اللہ ہم تجھے ان (دشمنوں) کے سینوں میں کرتے ہیں.( یعنی تیرا رعب ان کے سینوں میں بھر جائے ) اور ہم ان کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں.:7 اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلَّ ذَنْبٍ وَّاتُوبُ إِلَيْهِ ( روزانہ ک از کم 33 مرتبہ پڑھیں) ترجمہ: میں بخشش مانگتا ہوں اللہ سے جو میرا رب ہے ہر گناہ سے اور میں جھکتا ہوں اسی کی :8 طرف.سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيْمِ اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّد - (روزانہ کم از کم 33 مرتبہ پڑھیں) ترجمہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ اللہ پاک ہے اور بہت عظمت والا ہے.اے اللہ حمتیں بھیج محمد اللہ اور آپ کی آل پر.:9 اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ وَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ - اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ وَ عَلَى آل إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ.(روزانہ کم از کم 33 مرتبہ پڑھیں) 27
ترجمہ: اے اللہ رحمتیں بھیج محمد اللہ اور آپ کی آل پر جس طرح تو نے ابراھیم اور ان کی آل پر رحمتیں بھیجیں.یقینا تو تعریف اور بزرگی والا ہے.اے اللہ برکتیں بھیج محمد اللہ پر اور آپ کی آل پر جس طرح تو نے ابراھیم اور ان کی آل پر برکتیں بھیجیں.یقیناً تو تعریف اور بزرگی والا ہے.نوٹ : حضور انور کا ان دعاؤں کے متعلق یہ ارشاد ہے کہ ان پر غور کر کے پڑھیں.28