Fasl-ul-Khitab Li-Moqaddamati Ahl-ul-Kitab

Fasl-ul-Khitab Li-Moqaddamati Ahl-ul-Kitab

فصل الخطاب لمقدمۃ اہل الکتاب

Author: Hazrat Hakeem Noor-ud-Deen

Language: UR

UR
عیسائیت

یہ کتاب  دہلی سے سن 1305ہجری بمطابق 1888ء میں دو جلدوں میں 428 صفحات پرشائع کی گئی جو  مذہب عیسائیت کے رد میں ایک زبردست تصنیف ہے۔ اس میں ان تمام اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو عیسائی پادریوں کی طرف سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام پر کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خصوصیات ِاسلام، حقیقتِ جہاد، اسلامی احکام کی حکمت اور آنحضور ﷺکی افضلیت پر سیر حاصل بحث ہے۔ اس کتاب کی حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب  نے چار جلدیں لکھیں تھیں، جن میں سے صرف دو شائع کی گئی تھیں۔باقی دو جلدیں تیار کی گئی تھیں مگرکتاب کی تیاری کا محرک بننے والے حضورؓ کے  ہم جماعت حافظ قرآن نے کہا کہ باقی کی ضرورت نہ ہے۔ دہلی سے مزید کتب نہ شائع کی گئیں۔ یہ کتاب اطاعت امام کی بھی اعلیٰ مثال ہے۔ حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب بتاتے ہیں ’’میں جب حضرت مرزا صاحبؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپؑ سے پُوچھا کہ آپ کی مُریدی میں کیا مجاہدہ کرنا چاہیئے کہ خداتعالیٰ کی محبت میں ترقی ہو۔ آپ نے فرمایا کہ میں یہ مجاہدہ بتاتا ہوں کہ آپ عیسائیوں کے مقابلہ میں ایک کتاب لکھیں۔‘‘ یوں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم پر عیسائیت کے خلاف کتب لکھ کر مجاہدہ کیا تھا۔ جس کی تیاری اور طباعت  کی تفصیل بھی نہایت ایمان افروز ہے۔ ضیاء الاسلام پریس ربوہ سے محترم مولانا جلال الدین شمس صاحب نے 2 دسمبر 1963ءکو الشرکۃ الاسلامیۃ لیمیٹڈ کمپنی ربوہ کی طرف سے دو جلدوں میں شائع کیا، جس کی فہرست مضامین مولوی عبداللطیف صاحب بہاولپوری فاضل کی مرتب کردہ ہے۔قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کا اردو ترجمہ فٹ نوٹ میں درج کیا گیا ہے۔یوں ان دونوں جلدوں کے شروع میں فہرست مضامین تو درج ہے لیکن آخر پر انڈیکس موجود نہ ہے۔ کاتب کی لکھائی  میں 448 صفحات کی اس کتاب کا ایک ایڈیشن 1924ء میں بھی شائع کیا گیا تھا۔


Book Content

Page 1

يَا أَهل فصل الخطاب لحقد مد أهل الكتاب از افاضات

Page 2

پیش لفظ فصل الخطاب لمقدمتہ اہل الکتاب اس کتاب کے فاضل مؤلف نخبة المتكلمين زبدة المؤلفين حاجی الحرمین حضرت مولوی حکیم نور الدین خلیفة المسیح قول رضی اللہ تعالے عنہ اس کی وجہ تالیف یہ بیان فرماتے ہیں :." میں جب حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ کی مُریدی میں کیا مجاہدہ کرنا چاہیئے کہ خدائے تعالی کی محبت میں ترقی ہو.آپ نے فرمایا کہ میں یہ مجاہدہ بتاتا ہوں کہ آپ عیسائیوں کے مقابلہ میں ایک کتاب لکھیں.) مرقاة اليقين في حياة نور الدین صفحه ۱۴۷ - ۱۳۸ شائع کرده الشرکت ال اسلایم ( آپ فرماتے ہیں کہ جب مجھے یہ ارشاد ہوا اس وقت مجھ کو نہ تو عیسائی مذہب سے واقفیت تھی اور نہ ہی عیسائیوں کے اعتراضات کا مجھے علم تھا.مزید براں جموں میں مجھے بہت ہی کم فرصت ہوتی تھی.جب میں قادیان سے یہ حکم لے کر اپنے وطن بھیرہ

Page 3

پہنچا تو وہاں میرا ایک ، ہم مکتب حافظ قرآن مسجد کا امام میرے سامنے تقدیر کا مسئلہ نے بیٹھا.اور اُس نے اس شوخی سے اس مسئلہ پر بحث کی کہ مجھے اُسے علیحدگی میں کہنا ڑا کہ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ عیسائی ہو گئے ہیں.اُس نے جواب دیا کہ عیسائی ہو گئے ہیں تو سوچ ہی کیا ہے.میں نے کہا.اپنے گرد سے ذرا مجھے کو بھی ملاؤ، چنانچہ وہ مجھے پنڈ دادنخان ایک انگریز پادری کی کوٹھی پر لے گیا.مگر اُس پادری نے باوجود میری بخشش اور حافظ صاحب کے زور لگانے کے بحث سے گریز کیا اور کہا کہ میں زبانی گفتگو نہیں کردونگا ہاں بعد میں اعتراضات لکھ کر بھیجوا دونگا.میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ جب تک ان کے اعتراضات ہمارے پاس نہ پہنچیں اور ہماری طرف سے اُن کا جواب نہ ہوئے اُس وقت تک آپ بپتسمہ نہیں.پھر حافظ صاحب آپ کے مطالبہ پر کہ اگر کوئی اور بھی اُن 20 کی طرح عیسائیوں کے زیر اثر ہے تو اُس کے پاس لے چلیں آپ کو اسٹیشن ماسٹر کے پاس لے گئے.اسٹیشن ماسٹر نے تو بڑی دلیری سے کہا مذہب عیسائی کا مقابلہ تو کسی مذہب - ہو ہی نہیں سکتا.میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ یہ تو پھنس گئے ہیں.اور وہ حافظ صاب دہ سے پیر کو پادری صاحب خاور ہو گئے اور گفتگو نہیں کی حیران ہو گیا.آخر اس پادری نے ایک بڑا ملدمار اعتراضوں کو لکھ کر بھیجا.میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ بتاؤ یہ کوئی ایک دن کا کام ہے ؟ انہوں نے کہا.نہیں.میں نے کہا تم ہی مدت ئے مقرر کرو.حافظ صاحب نے کہا کہ ایک، برس تک کتاب چھپ کر ہمارے پاس پہنچ جاتے میں عیبوں آیا.اُس زمانہ میں زارا نے بہت آئے تھے ، راجہ پونچھ کا بیٹا زلزلوں کے سہب پاگل ہو گیا.اس نے جوں کے راجہ کو لکھا کہ ہم کو ایک اعلیٰ درجہ کے طبیب کی ضرورت ہے.چنانچہ میں وہاں گیا.بھکو شہر سے باہر ایک تنہا مکان دیا گیا.بس

Page 4

ایک مریض کا دیکھنا اور تمام دن تنہائی میں وہاں بائیل اور قرآن شریف پڑھنے لگا.ان تمام اعتراضات کو پیش نظر رکھ کر با میل پر نشان کرتا رہا.پھر اس کے بعد قرآن شریف پڑھتا رہا اور نشان کرتا رہا.اس کے بعد کتاب لکھنی شروع کی.اور چار جلد کی ایک کتاب ر فصل الخطاب ) لکھی.ادھر کتاب تیار ہوئی اُدھر راجہ کا لڑکا اچھا ہو گیا.اب روپیہ کی فکر تھی کہ کتاب چھپے.راجہ پونچھے نے کئی ہزار روپیہ دیا.جب جموں آیا تو راجہ صاحب جنہوں نے پوچھا کیا دیا.میں نے وہ تمام روپیہ اُن کے آگے رکھ دیا.وہ بہت ناراض ہوئے کہ بہت تھوڑا روپیہ دیا.چنانچہ اُسی وقت حکم دیا کہ ان کو سال بھر کی تنخواہ اور انعام ہماری سرکار سے ملے.میں نے وہ رو پید اور دو جلدیں رتی بھیج دیں.وہاں سے چھپ کر آئیں.تو حافظ صاحب اور مثل اُن کے دوسرے لوگوں کو بھیجیں.انہوں نے جواب میں لکھا کہ ہم سچے دل سے اب مسلمان ہو گئے باقی ضرورت نہیں " (مرقاۃ الیقین صفحہ ۱۴۹-۱۵۰) اس کتاب میں میں حکیمانہ انداز اور خوش اسلوبی سے عیسائیت کی تردید اور دین اسلام اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن مجید پر اعتراضات کے تسلی بخش جواب دیگر اُن کی حقیقت، اور صداقت کو آفتاب نیمروز کی ماننار واضح کیا گیا ہے اس کتاب کی خوبیوں اور محاسن سے متعلق مجھے اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں.بلکہ سلطان العلم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کتاب (فصل الخطاب) اور اس کے مؤلف کی دوسری تصنیف تصدیق براہین ! " سے متعلق جو تعریفی کلمات اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں بزبان عربی تحریر فرماے ہیں اُن کے ترجمہ کا پیش کرنا ہی اس غرض کو پورا کرنے کے لئے کافی ہے.

Page 5

حضرت اقدس علیه السلام مولف کتاب ہذا کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ پ نے ایسی کتابیں تصنیف کی ہیں جو بہت سے مفید مطالب اور بہت سے نکات پر مشتمل ہیں.جن کی نظیر پہلے لوگوں کی کتابوں میں نہیں پائی جاتی.ان یت کی عبادتیں باوجود مختصر ہونے کے فصاحت سے پیر ہیں.اور ان کے الفاظ نہاں دلربا خوبصورت اور عمارہ ہیں.جو غور سے پڑھنے والوں کو پاکیزہ شربت پلاتی ہیں.اور اس کی کتابوں کی مثال اس ریشم کی مانند ہے جو مشک سے معظم ہو.اور مزید براں اس میں موتی اور یا قوت اور بہت سی کستوری ملائی گئی ہو.پھر اس میں عنبر ملا کر معجون کی طرح بنایا گیا ہو.آپ کی تصنیفات کیا بلحاظ مضامین کی جامعیت اور تنوع کے اور کیا بلحاظ جاذب قلوب دلائل و براہین کی قوت کے دوسرے لوگوں کی تصانیف پر فوقیت لے گئی ہیں.مبارک ہو اُس شخص کو جو انہیں حاصل کرے.اور دوسروں کو اُن کی حقیقت سے آگاہ کرے اور انہیں منظر غائمہ پڑھے.وہ انکی مانند کوئی مدد گار نہیں پائیگا.اور جو شخص چاہے کہ قرآن مجید کے عقدوں کو حل کرے اور خدا تعالیٰ کی کتاب کے اسرار پر واقف ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ ان کتابوں کی پوری توجہ سے ورق گردانی کرے اور اس پر دوام اختیار کرے کیونکہ یہ کتب کفیل ہیں اس امر کی جو ایک ذہین طالب علم کا مقصود ہوتا ہے.ان کے ریحان کی خوشبو دلوں کو فریفتہ کرتی ہے.ان کی شاخوں میں کثرت سے میوے ہیں اور کوئی شک نہیں کہ وہ اس باغ کی طرح ہیں

Page 6

جس کے خوشے جھکے ہوئے ہیں.اور اس میں کوئی لغو بات سنائی نہیں دیتی.اور پاک لوگوں کے لئے وہ مقامی راحت یا مہمانی ہے.ان میں سے ایک کا نام فصل الخطاب مقدمہ اہل الکتاب ہے.اور دوسری کا نام تصدیق براہین احمدیہ ہے.ان میں با وجود متانت الفاظ اور لطافت (مبانی ) مضامین کے قیمتی معانی پرو دیئے گئے ہیں یہاں تک کہ وہ مولفین کے لئے اسوہ حسنہ ہو گئی ہیں.علمائے کلام خواہش رکھتے ہیں کہ وہ انہیں کتابوں کی طرز پر رکھیں.اور بڑے بڑے علماء نے ان کتابوں کی مدح سرائی کی ہے.اور مؤلف فاضل نے این کتابوں میں قرآن شریف کے نکات کی تفسیر کے لئے پوری کوشش کی ہے اور اپنی تحقیق میں روایت و درایت کے متفق کرنے کی طرف توجہ مبذول کی ہے.پس آفرین ہے اُس کی عالی ہمت کے لئے اور اُسکے روشن پسند یدہ افکار کے لئے." وہ مسلمانوں کا فخر ہے.اور اسے قرآن کے دقائق کے استخراج میں اور فرقان حمید کے حقائق کے خزانوں کو پھیلانے میں عجیب ملکہ ہے.بلا شک وہ مشکوۃ نبوت کے انوار سے منور ہے اور شان مردمی کے مناسب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار سے منور ہے.وہ ایک عجیب غریب بلند ہمت مرد ہے.اس کے ایک ایک لمحہ کے ساتھ انوار کی مہریں بہتی ہیں.اس کے ایک ایک رشحہ کے ساتھ فکروں کے مشرب پھوٹتے ہیں.اور یہ خدائے تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہے عطا کرتا ہے.اور وہ سب سے بہتر عطا کرنے والا ہے." (آئینہ کما باب السلام محور۵۸۵۵۸۴)

Page 7

دوستوں کو چاہیے کہ وہ اس پر از معارف و حقائق مبارک کتاب کو لے کر نہ صرف خود غور سے پڑھیں بلکہ دوسروں کو بھی پڑھنے کے لئے دیں تا وہ نور ایمان سے منور ہوں اور مخالفین اسلام عیسائیوں کا علی وجہ البصیرت مقابلہ کر سکیں.اے ہمارے عظیم و بصیر و قادر خدا : تو اس کتاب کو لوگوں کے لئے نافع اور و باعث ہدایت بنا.آمین ۲ دسمبر ۹۹۳ ( مطبر هنيا و الاسلام وبو

Page 8

بسم الله الرحمن الرحيمة الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذُ وَلَد وَلَمْ يَكُن لَه شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ دَلِي مِن اللَّهِ رَكَبَره تكبرَاهُ الصّلوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِهِ الْمُخَاطَب بَيَا أَيُّهَا النَّ اِنَّا اَرْسَلْنَاكَ شَاهِدٌ أو مبشر رَاوَدَاعِيَا إِلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وسمَ وسِرَاجًا منيراهُ اما بعد خاكسار الْعَارِدُ بِاللهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ كَاسْمِهِ أَبو مُسَامَةَ نُور الدين امین - معرض پرداز ہے.فقیر تقریب رخصت جموں سے اپنے وطن بھیرہ ضلع شاہ پور میں پہنچا.وطن میرے چند احباب نے کئی اعتراض ایک پادری صاحب کی طرف سے پیش کئے.اور مجھ سے کہا.ہم لوگ ان اعتراضات کو دیکھ کر حیران ہیں.اور مضطرب و پریشان.میں نے اُن سے کہا.اگر پادری صاحب کہیں قریب ہیں تو زبانی مباحثے سے جلد تصفیہ ہوسکتا ہے.مگر ان سب کا منشا یہی پایا کہ تحریر کا حجاب تحریر ہی چاہیئے.مجھے جلد تر جموں دارالریاست یرمیں واپس آنا پڑا.اور وہاں سے حسب الحکم پونچھ ریاست کو چلاگیا.وقتا فوقتاً ے سراہئیے الہ کو جینے نہیں کبھی والا اور نہ کوئی اس کا سابھی سلطنت میں اور نہ کوئی اس کا مدگار ورکر کے وقت پر اور اسکی بڑائی کو یا جانکر اور رحمت کامل اور سلام نازل ہو ان رسول پر و خطاکئے گئے کہ اے میں ہم نے تھا بھیجا تا نیا اور خوشی بنانیوالا اور ڈرانے والی اور کیلا نیوالا الہ کی طرف اور اسکے حکم سے اور پرا رخ روشن ۱

Page 9

جواب لکھتا رہا.مگر کوہستانی سفر میں کتب کی وقت رہی.ادھر احباب نے مستورات کیے انے کی تاکید کی.فرصت کہاں تھی جو ترتیب دیتا.یا مکر نظر کرتا مطبع بھی نزدیک نہ تھا جو کائی دیکھتا.الغرض جیسی ترتیب جلدی میں بن پڑی انکو چھپوا کر ہدیہ ناظرین کرتا ہوں.اور میں اپنی کم مائیگی کا معترف ہوں.چونکہ یہ میری پہلی تصنیف مناظرے میں ہو.اگر اس میں کچھ تساہل ہو.تو مہربان ناظرین مجھپر یہ احسان کریں کہ اطلاع دیں.انشاء اللہ تعالی غلطی پر مصر نہ ہو گا.رجوع کرنا میرے نزدیک بہت سہل ہے.میں نے جو لکھا ہو نیک نیتی سے اپنے خیالات کے مطابق لکھا ہے.میں نے الزامی جوابات بھی اس کتاب میں ضرور دئے ہیں.جنیر میرے نوجوان محسن مولوی عبد الکریم کسی قدر خوش نہیں تھے.الا مجھے دو امر باعث تحریر الزامی جوابات کے ہوئے.اول مسیح نے فرمایا.الزام مت لگاؤ.تمپر الزام لگا یا جا ئیگا.عجیب مت لگاؤ.جس طرح تم عیب لگاتے ہو.اسی طرح تمی عیب لگایا جا ئیگا.متی ، باب ۲.پس ہمارا الزامی جواب پادریوں کے الزام کے بعد سیے کی تصدیق ہے.اگر ہم الزام کے بدلے الزام نہ لگاتے تو آپ کی تصدیق نہ ہوتی.دوم- الزامی جواب میں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ جب مخالف کو الزامی جواب ملتا ہے.اُس وقت مخالف معترض کا دل اسلئے کہ اسپر الزام قائم ہوا.جواب کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اسکا دل جواب لینے کو مستعد اور طیار بن جاتا ہو.پھر جب حقیقی جواب ملا.غالباً اس کا قلب بشر طیکہ راستی پسند ہو اس جواب کو قبول کرلیتا ہے.علاوہ بریں مسیح کی عادت تھی الزامی جواب ضرور دیتے تھے.شاید پادری اون کے طرز تعلیم کو پسند کریں.اسلئے ہم نے بھی الزامی جوابوں سے دریغ نہ کیا.وَاللهُ يَقُولُ الْحَقِّ وَهُوَ يَهْدِى السَّبِيلَ -

Page 10

حصل اول بسم الله الرحمن الرحیم آیات علامات نبوت محمد بن عبدالله بن الحيل بن ابراہیم صلوات الله وسلام علیهم اجمعین آیت اور علامت نبوت سے وہ آیت اور علامت نبوت مراد ہے جو نبوت کو لازمی اور نبوت سے غیر منفک ہو.خاکسار نے عنوان میں بجائے لفظ آیت اور علامت کے جو مفرد ہو.آیات اور علاقات جمع کے لفظ استعمال کئے ہیں.میری غرض اس میں یہ ہے.کہ جو جو نشان نبوت مختلف انبیاء علیہم السّلام میں پائے جاتے ہیں.وہ تمام نشانات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ایک جیا موجود ہیں.ایک ہی علامت نبوت جسے لوگ معجزہ کہتے ہیں.آپکے لئے نہیں تھی بلکہ مجرات مع دیگر علامات آپ میں موجود تھے.بعض لوگوں نے آیت کے معنی معجزے کے لئے ہیں.مگر یاد رہے یہ معنی اصلی معنی آیت یا نشان یا علامت کی ایک شاخ ہیں.کیونکہ اکیلا معجزہ یقینی دلیل نبوت کی نہیں ہو سکتا.ول.اس لئے کہ توریت استثنا ۱۳ باب ۱- ۵ میں لکھا ہو کہ اگر کوئی نبی یا خواب دیکھنے والا تم کو کوئی نشان یا معجزہ دکھلائے.اور وہ بات جو اس نے دکھلائی واقع کے مطابق ہو.پھر وہ نبی معجزات دکھلانے والا اگر ایسے معبودوں کی طرف بلائے جنہیں تم نے نہیں جانا.اور کہے آؤ انکی بندگی کریں.تو ایسے نہی کے کہنے پر کام مت معرفی

Page 11

کیونکہ وہ آزمائش ہے.اور ایسا نبی قتل کیا جاویگا.پادری صاحبان ب خورد کرد کتاب استثناسے معلوم ہو تا ہو کہ نمابر کاذب اور جھوٹے.نبی بھی معجزات دکھا سکتے ہیں.نمابر یہ بھی معلوم ہوا کہ جونہی ایسے غیر معبودوں کی طرف بلائے جنہیں بنی اسرائیل نہیں جانتے.وہ جھوٹا ہے.نابر یہ بھی معلوم ہوا.کہ جھوٹا نہی مجزات دکھانیوالا مارا جائے گا.لطیفہ.بتاؤ تو سہی.یہود بھی ابن مریم اور اردو کو جو الیت کی ستم اور اموات اس کی خدا جانتے تھے.ہرگز نہیں.ہرگز نہیں.پس جب بقول آپ لوگوں کے سیخ نے خدا بیا اور خدا روح القدس کی عبادت کے لئے بلایا.اور بنی اسرائیل کو ایسے معبودوں کی طرف کھینچنا چاہا جنہیں وہ نہیں جانتے تھے.تو بے ریب اگر چہ انہوں نے معجزات دکھلائے.تب بھی بقول عیسائیوں کے بطور استثنا ۳ ا باب ۱-۵- سچے نہ تھے.بلکہ اگر مسیح نے ایسے خدا باپ کی طرف بلایا بھی جو حد و درحم میں مجسم ہوا.اور یہود کے ہاتھ سے پیٹا گیا.تو بھی وہ بنی اسرائیل کا جانا ہوا خدا نہیں تھا.جس کی طرف مسیح نے بلایا.پھر طرہ یہ کہ مسیح بقول عیسائیوں کے مار ڈالے گئے.اور یہ بھی جھوٹے نبی کی پہچان تھی.دیکھو استثنا ۱۳ باب -۱-۵- پہ قربان جائیے اس نبی پر.اس خاتم الانبیاء ہیں.اس رسول پر جس نے بنی اسرائیل کو اسی خدا کی طرف بلایا جیسے وہ جانتے تھے اور اسی معبود کی عبادت کی طرف انکو جھکانا چاہا جس کی عبادت کی طرف اُنکے آبا و اعداد نے ٹھکانا چاہا تھا.شک ہو تو پڑھو آیت:.ام كُنتُمْ شُهَدَاء إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ الهَكَ وَإِلَهَ ابَاتِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَعيلَ وَاسْحَقَ الهَا وَاحِدٌ أَو نَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ، سورۂ بقر - سیپاره اول - رکوع -14 لے کیا تم حضر تھے جسوقت پہنچی یعقوب کو موت جب کہ اپنے بیٹوں کو تم کیا و جوگے میرے پیچھے بولی ہم عبادت کرینگے تیرے اور تیرے باپ دادوں کےرب کی.ابراہیم اور معیل اور الحق دہی ایک رب اور ہم اس کے حکم یہ ہیں "

Page 12

۵ بلکہ حضرت سج کے ذقے سے بھی غیر معبودوں کی پرستش کا الزام اُٹھایا اور فرمایا.وقال المسيح يدى استراسل اعْبُدُوا اللهَ رَبّى وَرَتكم انه من يُشرك بال فَقَدْ حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَاونهُ التَّارُ سُوره مائده.سیپاره 1 رکوع ۱۰ - اور سیح کے عدم قتل کی نسبت دعوی کیا.جس کا ثبوت ہماری اسی کتاب میں مختلف جگہ ملیگا.اور جس کی صداقت پرسیح کی صداقت موقوف ہے.ومَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبَهَ لَهُمْ وَاِنَ اللَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتَّبَاعَ الظَّيْنَ، وَمَا قَتَلُوهُ يَقِيْنَا، سُوره نساء سیپاره رکوع - مگر یاد رہے.عیسائیوں کے نزدیک سیح نے بنی اسرائیل کو اُن کے جانے ہوئے خدا کی طرف نہیں بلایا.اور پھر مسیح بقول عیسائیوں کے مارے گئے.جب سے صاف جانا جاتا ہے کہ وہ جھوٹے تھے.پس اسے عیسائی صاحبان میری عرض یہ ہے.تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكد قف إِلا نَعْبُدَ إِلا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِم شَيْئًا وَ لا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ سُورة ال عمران - سيارة ك عیسائی صاحبان تمہارے طور پر تو حضرت مسیح کی صداقت ممکن ہی نہ تھی.اور تورات کتاب استثنا سے بقول تمہارے بیج کی صاف تکذیب ہوتی تھی.پر دیکھو اسلام کا ل او سیح نے کہا ہو کہ اے بنی اسرائیل بندگی کرو اللہ کی جوت ہے میرا اور تمہارا مقرر جس نے شریک کیا اتنا سو حرامہ کی اللہ نے اسپر جنت اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے کیا ے اور نہ اس کو مارا ہے اور نہ مصلوب کیا لیکن اُن کو اشتباہ ہوا.اور جولوگ اس میں کئی باتیں نکالتے ہیں ؟ اس جگہ شبہے میں پڑے ہیں.کچھ اُن کو اسکی خیر نہیں مگر انکل پر چلنا اور اسکو مارا نہیں بیشک سے اسے کتاب والو آؤ ایک سیدھی بات ہمارے تمہارے درمیان کی کہ بندگی نہ کریں راشد کو اور شریک براون اُس کی کوئی چیز اور نہ پکڑ یں آپس میں ایک ایک کو رب سوائے اللہ کے یا

Page 13

احسان عام نے مسیح سے الزام کو دور کیا.اور سی کی تصدیق کر دی.اور حضرت محمد کی نبوت اور صداقت اور انکا معجزہ یہ ہو کہ ایک طرف توحید کی تعلیم کی اور شرک سے جو ایسے معبودوں کی طرف بلاتا ہو.جن کو بنی اسرائیل نہیں جانتے منع فرمایا.إن الله لا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ، وَ مَنْ يشْرِكْ بِاللهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً بعيدا - سوق نساء - سیپاره - رکوع ۱۴ - واعْبُدُوا الله ولا تشركوا بِهِ شَيْئًا سوره نساء - سیپاره رکوع - اور دوسری طرف اپنے بچاؤ یہ عام مجالس میں قرآن کی یہ آیت سُنائی.اور صاف بتایا.میں مارا نہ جاؤں گا.ياتها الرسول بلغ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِنْ تَرَتِكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلُ فَمَا بَلَغَتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.سورۂ مائدہ - سیپارہ - رکوع ۱۳ - ایک میرے دوست پادری صاحب نے مجھکو فرمایا.کہ محمد صاحب بھی زہر سے مارے گئے.آنکی گرامی خدمت میں عرض ہے.حضور زہر کب دیئے گئے اور انکی وفات کب ہوئی.پھر یہ کہ جس کو زہر دیا جائے اُسے مقتول کہتے ہیں یا مسموم.علاوہ بریں حدیثیں تو ہمارے نزدیک محبت نہیں پھر اُن کے بھروسے کیوں قتل کا خیال پیدا ہوا.دوم - مرقس 1 باب ۱۷ میں لکھا ہے.جو ایمان لائیں گے، وہ میرے نام سے دیو نکالیں گے.اور نئی زبانیں بولیں گے.سانپوں کو اُٹھائیں گے.مہلک چیزیں پیٹیں گے او ے اللہ یہ نہیں بخشتا کہ اس کا شریک ٹھیرائے.اور اس سے نیچے بخشتا ہے جس کو چاہیے.اور جس نے اللہ کا شریک ٹھیرایا.وہ دُور پڑا بھول کر ا Ꭸ اور عبادت کرو اللہ کی.اور سا بھی نہ کرو ساتھ اُس کے کچھ ۱۲ س لے رسول پہنچا جو تجھ کو اترا تیرے رب سے اور اگر یہ نہ کیا تو نے کچھ نہ پہنچایا اس کا پیغام.اور اللہ تجھ کو بچا لیگا لوگوں سے ۱۲

Page 14

نقصان نہ ہوگا.بیماروں کو ہاتھ رکھکر جنگا کرینگے.مرقس ۱۶ باب ۱۷ اس آیت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ ہر ایک عیسائی مؤمن معجزات دکھاتا ہے.پس معجزہ نبوت کے لئے لازمی دلیل نہ ہوا.جب جناب شیخ نے یہ کرشمے عامہ مؤمنین کیلئے نشان ٹھہرائے.تو صرف معجزات خاصہ نبوت نہ ٹھہرے.سچ ہے حقیقت میں معجزات عمدہ تعلیمات ہی ہیں.غور کرو عیسائی صاحبان تم میں سے بھی کوئی صاحب ایمان ہو.اگر ہو تو مرقس 14 باب ۱۷ پر ذرا اسے پر رکھ لے.اگر کہوان کرامات اور معجزات کی مسیح کے وقت ضرورت تھی.آپ اُن کی ضرورت نہیں.تو پھر انصاف سے کہو محمد صاح کے وقت انکی ضرورت کیوں مانتے ہو.تم کو کسی امر نے مجبور کیا.کہ تم اپنی بے ایمانی کو جو مرقس ۱۶ باب ۱۷ سے ثابت ہوتی ہی عدم ضرورت سے چھپالو.اور محمد صاحب کے واسطے معجزات کی ضرورت تجویز کرو.مجھے اس وقت سر و کیم میور کے اس قول پر ہنسی آتی ہے اگر محر صاحب مجزات دکھایا تولوگ ضرور انپر ایمان لاتے ، میور صاحب کو یاد نہیں رہا کہ فرعون نے کیسے کیسے تجزات دیکھے.اور اُس کا دل سخت ہی رہا سیج کے وقت اُنکے دشمنوں نے کیسے کیسے معجزات دیکھے.(اگر ثابت ہوں، مگر ذرا بھی اُن پر دھیان رکھنے والے نہ ہوئے.یا کیا فرعون اور شیخ کے مخالفوں نے کوئی معجزہ نہیں دیکھا.میور صاحب ک فرمانا اس زمانے میں نئے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے آگے داد کے قابل ہے.تقریر بالا کے لحاظ سے حسب تورات اور انجیل ثابت ہوگیا کہ صرف معجزات مثبت نبوت نہیں ہو سکتے حضرت مرزا غلام احمد نے براہین میں لکھا ہے.جس معجزے کو عقل شناخت کر کے اُس کے منجانب اللہ ہونے پر گواہی دے ، وہ ان معجزات سے ہزار ہا درجے افضل ہو جو بطور قصہ مذ منقولات میں بیان کئے جاتے ہیں

Page 15

اور اس کے دو باعث ہیں.اقول منقولی مجزات صد ہا سال کے بعد ہمارے لئے مشہود او محسوس کا حکم نہیں رکھتے.اور اخبار منقولہ ہونے کے باعث ان معجزات کو وہ درجہ حاصل نہیں ہو سکتا.جو مرئیات تو اور مشاہدات کو حاصل ہوتا ہے.دوم جن لوگوں نے ایسے معجزات مشاہدہ کیئے جو تصرف عقلی سے بالاتر ہیں انکے لئے بھی وہ مجودات تستی نام کا موجب نہیں ٹھہر سکتے.بہت عجائبات شعبدہ باز بھی دکھاتے ہیں مختلف کو کیونکر ثابت کر دکھاویں کہ موسوی عجائبات اور عیسوی کرشمبات دست بازیوں سے منزہ تھے.بلکہ یوشاہ باب ۲- ۵ میں ایک صحت بخش حوض کا ذکر لکھا ہی شیخ بھی وہاں اکثر جاتے تھے.پس کیا تعجب سے میسیج نے ایسی قوم میں جو ہوا کے پانی کو تمام امراض کا شافی سمجھتی تھی.اسی حوض کے پانی سے کوئی کمال اوڑا یا ہو.ایسے تماشوں کے دکھانے میں عرصہ بھی قلیل ہوتا ہے جس میں غور اور فکر کا موقع ملے.انت ہے.میں کہتا ہوں سیٹی جزات پر میں نے رسالہ ابطال اکو ہی سہی میں تحقیقی اور انجیلی مذاق پر فصل کلام کیا ہو.اسکے دیکھنے سے واضح ہوسکتا ہے کہ منقولی مجرات کافی شہادت ہو سکتے جب صرف معجزات اور اکیلے کرشمے صحیح نشان نبوت کا نہ ٹھہرے اور یہ بات عقل و نقل سے ثابت ہوگئی.تو مجھے ضرور ٹھہرا کر قبل از بیان معجزات آپ کی پاکی تعلیم کو نہایت جانچ کی نگاہ سے بقدر ضرورت دکھا دوں.مگر ہر نصف تسلیم کریگا کہ اگرکسی شخص کی تعلیم کی عمدگی ثابت کرنا ہو تو پہلے اُس معلم کے پہنتی افعال اور کردار کو دیکھا جائے.واعظ کے عادات اور اطوار اسکے حالات و کردار اگر تا پسند ہونگے.تو اُسکے پسندیدہ اقوال کا سارا دفتر گاؤ خورد ہو جا ویگا.اوسکے نصائح کی عمارت اُسکے سامنے ہی خاک میں مل جائیگی.پھر ایسا واعظ خدا کی طرف سے کیونکر مقرر ہو سکتا ہے.

Page 16

q.نمونے کو دکھانے سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں جس کے باعث دوسرے کے قلب پر پورا اثر پی کے بانی اسلام کی اعلی صداقتوں میں قرآن اور آپکی پا تعلیم ہے.اور اس صداقت کے لیئے پہلا مصداق ، اس عمارت کا پہلا پتھر آپکی گرامی ذات ہے.اگر آپ جبلت میں اس کی تعلیم کے قابل نہ بنائے جاتے.تو اسکی خوبی میں تامل ہوتا.آپکی تعلیم کیسی پاک اور حکیمانہ ہو.اوری میں یقین ہوا کہ تعلیم خدا کا قول ہو.اسلئے کہ ہمارے فطری قومی اور تمام ملکی صفات ایک زبان ہو کر اسکی صداقت کے گواہ ہیں.مجھے یہ مزہ نہیں بھول سکتا.میں ایک فعہ قرآن پڑھ رہا تھا کیسی تذکرے میں بات پر بات چلی تمام بھلائیوں اور برائیوں پر جب ہمارے فطر می قوٹی گواہی دیتے ہیں.تو انبیاء اور رسل کی ضرورت کیا تھی.اُسوقت یہ آیت سامنے کھڑی پکار رہی تھی.تم نہیں سمجھتے تمہارے نبی کے حق میں الہی کلام اور میرا متکلم کیا کہتا ہے.فذَكِّرُ إِنَّمَا انْتَ مُذَكِّر - سوره غاشیه - سیپاره ۳ - رکوع ۱۳ - رسول خدا محمد رسول اللہ صلعم صرف مذکر ہیں.اگر انکا اتباع کرو گے تمہارے بھولے بسرے اور کھوئے ہوئے متاع تم کو ملینگے.اگر اس نبی کو علم الکتاب کا خطاب ملا ہے يد تو پھر جس کتاب کا معلم ہے وہ کتاب بھی ذکر ہی ہے.دیکھو صنعت قرآن.نا نحن لنا الذكر و إنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ، سُوره حجر سيارة - ركوع - براہموں کے سامنے اثبات نبوت کے واسطے یہ لطیف اشارہ ہے.لم کایہ کا کچھ کم حجز ہو کہ آپکی تاریخ خصوصا اتمام رسالت کے حالات کمال بس تفصیل کیساتھ دنیا میں موجود ہیں.اگر کوئی نیک نیتی سے چھان بین کرے.اُس کے لئے اصلی واقعات پر پہنچ جانے کے لئے بہت سامان موجود ہیں.قرآن اور قیمی روایات اور آپکے مساعی جمیلہ کی یاد گار اور آثار بھلا کسی نبی کو یہ بات نصیب ہے.حضرت مسیح کی اے سو تو سمجھا تیرا کام یہی ہے سمجھاتا ہوں ہ ہم ہی نے اتارا قرآن کو اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں "

Page 17

پیدایش نہایت مختصر سه سالہ تاریخ جس کو اناجیل اربعہ یا عہد جدید کہتے ہیں موجود ہجر ہمیں مسیح پر غور کرو.کہیں ابن داؤد ہے.کہیں ابنِ انسان کہیں ابن یوسف ہے.کہیں ابن الله اگر عام قانون قدرت سے یہ پیدائیش نرالی ہے.تو کیسی تاریک حالت میں ہوں.کیا آچھا ہوتا.اگر کسی مرد سے پیدا ہو جاتے مسیح کی موت کی بات سنیئے.حاکم وقت قتل کا خواہا نہیں.خون سے ہاتھ دھوتا ہو.مئی ۲۷ باب ۲۴ چھوڑنا چاہتا ہے.حاکم کی جو ر میسیج کی سپارشی ہے.متی ۲۷ باب ۱۸ - ۱۹ - ایک دولتمند سیم کا حامی اور شاگرد حاکم کا قرب مسیح کی لاش مانگنے والا.اور اپنے ہی طور پر قبر میں رکھنے والا.قبر پر مٹی کی مہر بے ایمان یہود کو سبت کا دھندا پڑا ہے.صوبے دار نسیح کا معتقد.بھلا یقین نہیں ہو سکتا ہو.کہ اُس بے گناہ کو اللہ تعالیٰ نے ان بدکاروں کی شرارت سے محفوظ رکھا.دید کے مہم (اگر ویدوں کو الہامی کہیں کون تھے، کیسے تھے، کہاں تھے.انکا پال چلن کیا تھا.کب ہوئے.کوئی کہتا ہے وید بر ہما کے پیار منہ سے نکلا تعلیم یافتہ گروہ کہتا ہما ہے (گو اُنکا کہنا صرف ایک شخص کی تقلید پر ہے، دید جنیر نازل ہوا ابتدائی زمانے کے چند آدمی پھر اُن کے حالات سے پوچھو.تو چپ متشخص ہونے میں بھی کام ہو.یہی حال زرتشت اور گر و صاحب کا ہو.ایک سفر نامہ آپکا خوش اعتقادوں کے پاس ہے جس میں قاضی نظام الدین با رکن الدین کے سامنے لگے کا گر و صاحب کے پاؤں کی طرف پھر بیا تا لکھا ہو.حالانکہ اس نام کے قاضی کبھی لگے میں نہیں ہوئے.منصف آدمی کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات اور عادات پر غور کرنے سے اچھی طرح معلوم ہو سکتا ہو کہ آپکا دلی ارادہ کیا تھا یہ مقصود بالذات کیا امر تھا.آپکے افعال اور اقوال سے بقدر مشترک اتنا تو ثابت ہے کہ آپ دیوانے اور کم عقل نہ تھے.بھلا اتنا بڑا کام (عرب جیسے ملک سے بت پرستی کا استیصال کیا ایک کم عقل کا کام ہو.خدا کے لئے ذرا ایر میا ۲ باب کو پڑھ لو کیا کہتا ہے.قیدار میں جاکر خوب سوچو اور دیکھو.ایسی بات

Page 18

ال کہیں ہوئی.میسی یہ بات ہے.کیا کسی قوم نے اپنے الہوں کو جو حقیقت میں خدا نہیں بدل ڈالا معلوم ہوتا ہے کہ یہ میا کے زمانے تک یہودی تعلیم کا اثر عرب پر نہیں پڑا اور کچھ نہیں پڑا.یادر کو انہبی کی ضرورت تھی یا نہ تھی.جانتے ہو قیدار کون ہیں.قیدار اسمعیل بن ابراہیم کا بیٹا ہو.یہاں اسی کی قوم کی نسبت فرماتا ہو.بتاؤ عرب کی ایسی بت پرست قوم کو کس نے خدا پرست بنایا.کیا کسی مرگی زدہ مینوں نے سبحان اللہ کسطرح فطرت کا خالق فطرت کی طرف متوجہ کرتا ہے اور کہتا ہے.قل انما أعظكُمْ بِوَاحِدَةٍ ، أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنى وَفَرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُو مَا بِمَا حِبَكُمْ مِنْ جِنَّةِ سُوره سبا سیپاره ۲۲ رکوع ۱۲ جنگل اور بیابان سے بلکہ بدوں سامان اسباب اپنے دیکھتے دیکھتے یا شخص صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو اپنا ہمخیال بناگیا.ہزاروں ہزار مخلوق کو اپنے اوپر جان ومال سرفدا کر گیا.نہ کسی نے تیں روپے پر پکڑھایا.نہ کسی نے اُسے ملعون کہ کر انکار کیا.سوچو.متی ۲۶ باب ۱۷ و ۴ نے پادری صاحبان ! اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مرگی کے مبتلا اور دیوانے تھے اور پھر اتنی دنیا پر ایسا قابو پا گئے.تو سچ سمجھو بڑا معجزہ کر دکھایا.معجزے کے کیا معنی دوسے کو عاجز کر دینے والا.اتنی دنیا کے رسوم و عادات کو بدل دینا.اور عرب کی متفرق جماعت کو ایک اسلام کے رشتے میں منسلک کر دینا.اور سب کو اُس کا مصدق بنا دینا ایک بہت بڑا معجزہ ہے.باذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَالفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَاصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ اِخْوَانًا سُوع ال عمران - سیپاره - رکوع - لے تو یہ میں تو ایک ہی نصیحت کرتا ہوں تم کو کر اٹھ کھڑے ہو اللہ کے کام پر دو دو اور ایک ایک بھر دھیان کرو.اس تمہارے صاحب (رفیق) کو کچھ سودا نہیں ہے یا کے اور یاد کرو احسن الہ کا اپنے اوپر یہ ھے تم آپسمیں دشمن پھر الفت دی تمہارے دل میں اب ہوگیا اسے فضل سے بھائی کا

Page 19

۱۲ والف بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ انْفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعًا ما الفت بَيْنَ قُلُوبِهِمْ والكِنَّ اللهَ الَفَ بَيْنَهُمُ - سوره انفال - سیپاره ۱۰ - رکوع ۳ - معجزے کے معنی کسی نے تخرق عادت کے لئے ہیں.ناظر بن عیسائیو! کہیں عادت میں بینظیر دیکھتے ہو جو آنحضرت صلعم نے قائم کر کھائی.ذرا ہادیوں کی تاریخ قدیم وجدی ٹول لی.اگرنہ پاؤ تو سمجھو ایک ایسے شخص کے ہاتھ سے جسے تم لیوان مرگی زد کہتے ہو یہ کام انجازا و خرق عادت نہیں تو اور کیا ہے تمام مخالف اور جنگجو قومیں باوجود قومی اتفاق اور حمائت رو ساد امراء کے ایک طرف ہوں اور مختلف قوموں کے مختلف بلاد کے غریب و مساکین ایک طرف ہوں.پھر اسی کی کامیابی ہو.جسے تم کمال جنون سے مجنون کہتے ہو.یہ مجزہ نہیں تو کیا ہے.یکیں عنقریب معجزے اور خرق عادت کے لفظ پر بحث کرونگا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال عقل ثابت ہوگا.تو پھر متصف کو غور کرنے کا موقع ملیگا.و شخص بنی چالیس برس تک کامل سچائی راستی وفاداری.ملک کی خیر خواہی پر زندگی بسر کی.وہ اپنی آخری عمر میں ایک سراسر جھوٹے سلسلے کی تحریک کریگا.وہ آخر عمر میں بے ایمانی کو اور صریح دعا کو اختیار کریگا.حالانکہ اس کو اس مکاری میں بجز اسکے کچھ بھی ہاتھ نہ آیا، کہ کروڑوں آدمیوں کو صرف خدا کی محبت اور اسکی اطاعت اور اسکی فرمانبرداری میں نہ فانی خواہشوں میں اپنا ہم خیال بنا گیا.سچے ہو.اپنا مخیال بنا لینا بھی بڑی خوشی اور کامیابی ہے.میں آپ کے مختصر سوانح عمری لکھتا ہوں.آپ قریش کے خاندان جو تمام قبائل عرب میں مکرم او منظم ہو اور جسکی عظمہ کے سامنے تمام وحشی قو میں عرب کی ممکن نہ تھا کہ ملکے کی سرزمین میں کبھی کشت و خون کر سکیں.بلکہ سگے کو امن کی جگہ اور حرم کہتے تھے، بنو ہاشم کے گھرانے عبد المطلب کے بیٹے عبداللہ کے گھر میں آئین کے ے اور ان کے دل میں الفت ڈالی.اگر تو خرچ کرتا ہو سارے ملک میں ہے تمام نہ الفت دے سکتا اُنکے دل میں لیکن اللہ نے الفت وی اُنکے درمیان ۱۳

Page 20

شکم سے پیدا ہوئے.۱۳ مشرکین عرب میں آپکے والد کا نام یا اور ان کی والد کا نام آمنہ بھی کم معجزه ہیں جو تو کو.یہ نام سے لی اور آپکی تعلیم سےکیسے مناسب ہیں.آپکے نجیب الطرفین لطیف ہونے میں کسی کو کلام نہیں.آپکی پیدائیش کی پہلی برکت ہے کہ ایسینیا کے عیشی بادشاہ ہمیشہ حجاز پر چڑھائیاں کرتے تھے اور ان کے دانت کھتے پر لگے رہتے تھے مینجی قوم منفی ملک ایسے پیدا ہوئے.کہ جس سال وجود باجود نے ظہور پا یا خارجی دشمنوں کا نام ونشان بھی نہ رہا.ہمارے بادشاہ ماجوج جزائر کے رہنے والے.حزقیل ۳۹ باب 4 آیت.جن کا تسلط ہزار سال ہجرت کے بعد موافق مکاشفات یوحنا ضرور تھا.۲۰ باب ۷ وہ آیت.جزائر برطانیہ سے یہاں پہنچے.پر انہی چھاؤنی اُن سے محفوظ رہی.عزیز شہر کا گھیر نا کبھی دور ہی رہا.کیا یہ امراور یہ نصرت الہی بت پرستی کی حفاظت کے لئے تھی.رسالت آپ کا پیدا ہونا ہر کے لئے کیسی خوش قسمتی ہوئی کوئی بادشاہ ان پر مسلط جونواں نہ رہا.آزاد ہو گئے تعجب ہے.لڑکی سلطان جو برائے نامہ اُن کے بادشاہ ہیں.بھی دم تمرین ہونا فخر مجھے.دیکھو آپ وجود باجود عر کے لئے کیسا نشان نبو ہے.دنیا میں کوئی شخص قوم کا آزادی بخش اگر ایسا ہوا ہے.تو اسکی نظیر پیش کرو.اگر تمام مخلوق میں ایسے وجود باجود کے پیش کرنے سے عاجز ہو.تو ہمارے ہادی کا اصل یقینا معجزہ اور خرق عادت سمجھو جس نے اپنے سامنے پوری کامیابی کو دیکھ لیا.آپ کا تمام ملک آپکی تمام قوم آزاد ہو کر آپکی فرمانبردار اور مکرم اور دنیا پر متاز بن گئی مسیح کی کامیابی جیسی ہوئی.اس پر انا جیل کی شہادت کو دیکھ لو.وید کے علمہ (اگر ملہم ہیں، دشمنوں کی تباہی اور اپنے فتوحات ہی مانگتے رہے.اُن کی الہامی دُعاؤں کی برکت آریہ ورت پر الٹی ہی پڑی.غور کرو.ایسا نا کامیابی کا الہام کو بھر سے ہوا.دید اور سیح اور موسی

Page 21

۱۴۷ موسی کا خیال مت کرو.اول تو وہ آنحضرت صلعم کے مثیل ہیں.دوم موسی نے اپنی قوم کو بیابان ہی میں چھوڑا.منزل مقصود تک نہ پہنچا.بلکہ موسی آپ بھی ملک موجود میں نہ پہنچے.محروم ہی رہے.تورات استثنا ۳۲ باب ۵۲ آیت.میرے اس مضمون کو قرآن سے تصدیق کرنا ہوتو پڑھو ابتد کے نعمت پرقرآن فرماتا ہے.الم تَرَكَيفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ اَلَمْ يَجْعَلُ كَيْدَ هُمْ فِى تضليل - سوره فیل - سیپاره ۳۰ رکوع ۳۰ اور آخری نعمت پوری کا میابی پر جو سچائی کا معیار ہے.فرمایا.اليومَ يَسَ الَّذِينَ كَفَرُ وا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخَشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ - اليوم أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي - سوره مائده سیپاره ۶ رکوع ۵ اسے قوم کے حامیو قوموں کے مصلحین کے قدر کرنیوالو.اسے قوم کو عروج کیطرف بلانے والوں کے قدر دانو.اس منجی قوم - عامی قوم.فخر ملک کے خرق عادت پر قربان ہو جاؤ.آؤ.اُسی کا اتباع کریں.اُسی کا طرہ اختیار کریں.صلی اللہ علیہ وسلم - آپنے قیمی میں پرورش پائی.ابتداء عبد المطلب کے پاس جو آپ کے دادا تھے.پھر اپنے چھا ابوطالہ کے گھر.تمام مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ حضور کے اعلیٰ درجہ کے چال چلن سر چھا اور بھی ہے میں پرلے درجہ کی محبت ہوگئی تھی.اور آپ تمام شہر میں ہر دلعزیز بن گئے تھے.ابو طالب سیر یا سفر میں آپکو علیحدہ نہ کرسکے.بلکہ ساتھ ہی لے گئے.حالانکہ آپ کا سن اُس وقت نو برس کا تھا.(دیکھیں ابو الفداء یہ بات فراموشی کے قابل نہیں کیونکہ عیسائی کہتے ہیں آپ نے یہود سے لے تونے نہ دیکھا کیسا کیا تیرے اپنے ہاتھی والوں سے.کیا نہ کردیا اُن کا داؤ غلط ۱۲ کہ آج نا امید ہوئے کافر تمہارے دین سے سو اُن سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو.آج میں پورا دے چکا تم کو دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان ۱۳

Page 22

۱۵ یا ہے.پائی کیا نو برس میں ایسی تعلیم اور ہو میں یا عیسائیوں میں ابتک الہی علم ہیں ؟ ایسا ہے کہ اب تک یہود نے مسیح کو بھی نہ جاتا.اور عیسائیوں نے کبھی اللہ کو اللہ تم یقین کیا.کبھی مریم کی تصویر پر گوٹے کناری کے کپڑے چڑھائے یہی معلم ہیں.اس سفر میں بحیرہ نام راہی نے اپنی فراست سے ابو طالب کو کہا.یہ لڑ کا ایک نہایت ہی درجے کا عظیم الشان ہونے والا ہے اور پرلے درجے کا روشن دماغ ہے بیسن اخلاق اور فیاضی میں بینظیر ہونے کے علاوہ یہ بے ریب قوم کو نجات دینے والا ہوگا.اسکی سخت حفاظت کیجیو.ہوازن کی خطر ناک لڑائی میں جو نو برس تک رہی.آپنے اپنے آپکو چودہ پندرہ برس کی عمر میں بڑا ہی لائق اور قوم کا محافظ شابہت کیا.آپ کی لیاقت اور راستی اور سچی شرافت اور سادہ چال میلین کے باعث آپ کو قوم کی طرف سے امین کا خطا سے ملا.پیش برس کی عمرمیں خدیجہ نام ایک قریشیہ دولتمند بی بی کی جانب سے آپ تجار کے طور پر بلاد شام کو تشریف لے گئے.یہ سفر بھی چند روز اور تجارت میں گذرا.یاد رہے گل دو ہی سفر حضور نے کیئے ہیں.سفر میں ایسی وفاداری اور لیاقت اور دیانت اور امانت کو عمل میں لائے کہ ان بی بی نے اسکے شکریے میں آخر آپکے ساتھ بڑی دھوم دھام سے شادی کی.تمام نامی اور گرامی روسائے حجاز طرفین سے اس شادی میں جمع ہوئے.اور بڑے لطیف اور پر زور فصاحت و بلاغت کے خطبے پڑھے گئے.یہ خطب ابن ہشام اور زرقانی اور ابن اثیر نے بیان کیئے ہیں.پھر آپنے پراکنش برس سے زیادہ عمر تک اسی ایک بی بی خدیجہ کے ساتھ زندگی بسر کی.جس کے ساتھ آپکا پچیس برس کی عمر میں نکاح ہوا.اور وہ بی بی نکاح کے وقت چالیس برس کی ابن ہشام - ابن الاثیر جلد ۲ - طبری ۵۲ ابن ہشام ۵۳ ابن ہشام - طبری جلد ۲ - 114 116 ۲۲۵ ۱۱۴

Page 23

14 سلمہ کی تھیں.اور اس خوبی سے اس تعلق کو پورا کیا کہ وہ بلا تامل حضور کی دعوت اسلام پر پہلے ہی روز ایمان لائیں.میں خدیجہ کی شہادت سے چشم پوشی نہیں کر سکتا.جو انہوں نے آپ کے ابتدائی دعوی نبوت میں دی ہے.حضور علیہ السلام نے جب نداے الہی سنی اور دیکھا کہ تمام دنیا اس وحفظ کی مخالفت کریگی.جب آپنے فر مایا.خدیجہ مجھے اپنی جان پر خوف بن گیا.تو وہ کہتی ہیں.انشر نو الله لا يُخْرِيكَ اللهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحْمَ وَتَصْدُ فَالْحَدِيثَ وتحمل الكل وتكسب المعدومَ وَتَقْرِ الضَّيفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ.بخارى تفسير سورة اقرأ خور گر و بچپن سالہ بی بی آپکی ہم قوم جو پندرہ سال سے آپکے بیاہ میں ہو کیا گواہی دیتی ہے.خدیجہ کی گواہی ایسے وقت میں جبکہ آپ غمگین اور مضطرب تھے.فور کے قابل ہے.اگر آپ میں یہ صفات نہ ہوتے.تو حدیبیہ کا بیان اسوقت ہرگہ تسلی کا موجب نہ ہوتا.حضور کی قوم میں کوئی دینی کتاب کوئی قانون نہ تھا.کوئی سلطنت نہ تھی حضور نے نبوت پہلے ایک عجیب تحریک کی جسکو دیکھ کر اور شنکر انسانیت والے انسان عش عش کر جاویں.بنو ہاشم اور بنو مطلب بنو اسد بنو زہرہ تیم بن مرہ کے درمیان ایک معاہدے کی تحریک فرمائی.اور معاہدہ یہ تھا.کمزور اور مظلوم ظلم نہ ہو اور انکی حفاظت کی مجاوے.ابن اثیر جلد ۲ صفحہ ۲۹ - کعبے کی مرمت میں کونے کے پتھر حجر اسود کے رکھنے پر تمام قبائل تجاز میں اس بات پر نفاق شروع ہوا کہ اس کونے کے پتھر کوکون شخص اُٹھا کر رکھے.قریب تھا تمام قوم کٹ کر ہلاک ہو.اس حقیقی کونے کے پتھر نے جسکی پیشینگوئی کیلئے تصویری زبان میں دانیال ۲ باب ۳۴ منتی ۲۱ باب ۲۲ یسعیاہ ۲۸ باب ۱۶ میں مذکور ہے.وہ پتھر قدیم سے عرب کے مقام مکہ معظمہ کے کونے میں ان خوش بوی خدا کی قسم کبھی بھی اشد ولی نہ کریگا.تو بیشک صلہ رحمی کرتا اور سچ بولتا ہے.اور دکھ والے کا دکھ برداشت کرتا اور مفلس کو دیتا اور مہمان نوازی کرتا اور پھلے کاموں میں وقتا فوقتا مدد دیتا ہو یا تخبز اسود

Page 24

۱۷ دھر تھا، اس کا ایسا فیصلہ کیا کہ قوم پر ثابت کر دیا.میرے ہاتھ کے چھونے سے تم کو آرام در نجات ہے.مجمل قصہ یوں ہے.جب قوموں میں اس پتھر کے رکھنے میں اختلاف ہوا کہ اس پتھر کو کون کہے.تو ان لوگوں نے یوں ٹھانی.جو پہلے دروازے سے اندر آوے.وہی اس کا رکھنے والا ظہر ہے.رق اتنے میں حضور آنکھئے.آپ نے اپنی چادر بچھا دی.اور پھر اس میں رکھ کر حکم دیا کہ تمام قومیں اتنا اس چادر کو اُٹھا لیں.اس سچے سبت اور سچے کونے کے پتھر نے اس آفت قتل و قتال سے قوم کو آرام بخشا.یہ واقعہ آپ کی پینتیس سال کی عمر میں ہوا.ایک نہایت عجیب واقعہ سنائے بغیر ابتدائے ایام نبوت کے حال سے میں خاموش نہیں رہ سکتا.عثمان بن ہو یرہ ایک عرب عیسائی ہو گیا.اس دشمن قوم نے قسطنطنیہ کے دربار میں قصیر روم سے جاکر وعدہ کیا کہ حجاز کا ملک میں آپکے قبضے میں کرائے دیتا ہوں.پھر اس شیطان نے یہاں مکہ معظمہ میں اپنا منشا پورا کرنے کے لئے کارروائی شروع کی.مگر اس دشمن ملک کا ند ا ز صرف حضور کی عاقبت اندیشی سے کھل گیا.اور اس شیطان دشمن قوم کو اس خسران کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا.کہ خائب و خاسر ہلاک ہوا.کائن دی پر سول جلد را صفحه ۳۳۵ میور جلد ۲ صفحه ۴۴ - سوالات هر قل قیصر روم جوابات ابو سفيان محمد قوم کا کیسا ہے.(انبیا اشراف جبکہ ابوسفیان آپ کا سخت منکر تھا..ا.ا.قوم کا بڑا شریف اور نجیب الطرفین ہے.-- تمہاری قوم قریش میں کسی نے ان کو آگے.ایسا دھوتی ہماری قوم میں کسی نے کبھی ہوتے ہیں.بھی امری نبوت کا موتی کیا ہو.دو کوئی عادت نہ ہوں نہیں کیا..اسکے بزرگوںمیں کوئی ایسا بادشاہ گذرا ہو سکتی.ایسا کوئی بادشاہ اُس کے آبا و بادشاہت جاتی رہی ہو.بادشاہت کا خیال ہوں اعداد میں نہیں گذرا.ملکی اور قومی کام

Page 25

A ہم.امیر لوگ علی العموم اس کے فرماں بردار ہم غالبا غریب اور مسالکین لوگ اس کے تابع ہوتے ہیں.(اکثر اتباع انبیا غربا ہوئے) ہوتے ہیں یا غریب دن بدن سلمان بڑھتے جاتے ہیں ایک ہوتے جاتے ہیں.۵.دن بدن بڑھتے ہیں.کوئی آدمی محمد کے دین میں داخل ہو کر ان 4.کوئی مرد نہیں ہوتا.محمد کے دین کو برا مان کر اُسے کوئی نہیں چھوڑتا.دنوں گزند ہوتا ہے یا نہیں.ہے.اس دعوے سے پہلے یہ شخص جھوٹ کا ہے.اس کو ہم لوگ ہمیشہ سچا اور راست گو یقین ہم لوگ عادی تھا یا نہیں.کرتے تھے.ار کیا لڑائی میں عریش کنی کرتا ہے یا نہیں.ہر آجا کے وہ نیکی نہیں کی کے لکھنے کیا کرتا ہے 4- 1- تمہارے اور اسکے درمیان لڑائی ہوتی ہے یا 100 کبھی دو سالح پاتا ہے.اور کبھی ہم نہیں.اگر ہوتی ہے تو کون فتحیاب ہوتا ہے.غالب آتے ہیں..تم کو کیا حکم کرتا ہے.-1-4- ۹-۱۰ الا اللہ کی بندگی کرو.ذرہ بھی شرک نہ کرو.ان جا با یکے بعد ہر قل نے کہا.مجھے یقین مشرکوںکی تقلید مت کر وا و حکم کرتا ہو نماز پڑھنے ہو گیا.وہ پہچانی ہو.یہی باتیں انبیا کے نشان ہیں.سچ بولنے اور گتا ہوں ہر بچنے اور صلہ رحمی کا.جب کے کے رؤسانے تجمع ہو گی آپکے مرتی چھا ابو طالب سے کہا کہ وہ آنحضرت صلعم کو نئے دین کے وعظ سے روکے یا اُس کی حفاظت سے دست کش ہو.بال نے بھی قومی غیظ و نصب پسند نہ کی اور یہ کہ انار مسلم توی یکی عطا سے رک جاوں.تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب دیا کہ اسے سچا ؟ اگر یہ نور افتاب کو میرے داہنے اور ماہتاب کو بائیں لائیں.اور مجھے اس کام کے ترک کرنے کو کہیں تو یقینا یقینا میں باز نہ رہونگا.جب تک دینا انہی ظاہر نہ ہو.یا میں ہلاک نہ ہو جاؤں.یک بار اہل کرنے جمع ہوکر کہا اگر تھے دوا کی خواہش ہے تو مال جمع کردیتے ہیں اگر

Page 26

19 ریاست کا خیال ہے.توہم تجھے رنگیں بنانے کو طیار ہیں.وغیرہ وغیرہ.تو آپنے سورہ ہم کو جس میں لکھا تھا.قل انما اناس مثلكم يوحى الي انما الهكم إله واحدٌ فَاسْتَقِيمُوا اللهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ - اور یہ بھی سر مایا.ما أطلب أموالكم ولا الشَّرنَ فِيكُم وَلا الْمُلْكَ عَلَيْكُم - اور قرآن میں بار بار فرمایا.ا سالتكم من آخر فَهُوَ لَكُمْ إِنْ أَجْرِى إِلا عَلَى اللهِ سُوره سبا سیپاره بن صعصعہ کے قبیلے سے ایک شخص نے لگتے ہیں جب آپ کو سخت تکالیف لاحق تھے.کہا اگر تیم تیرے معین و مدد گار ہوں.تو اپنے پیچھے ہم کو جانشین بنائیگا.میں تو آپ نے فرمایا.الأَمْرُ إلَى اللهِ حَيْثُ شَاءَ - ابن هشام جلد اول - صفحه - را سپروہ آدھی بگڑ ا.مگر آپ نے کچھ پرواہ نہ کی.مسیلمہ پیامہ کا رہنے وال سیسکو اکثر اسلامی کتابوں میں سیلمہ کذاب کہتے ہیں.اور کذاب اسلئے کہ وہ بھی مدعی نبوت ہوا.مگر وہ ابو بکر کے زمانے میں قتل کیا گیا.اور تورات اور نبیوں کی کتابوں میں لکھا تھا کہ جھوٹا ہی قتل کیا جائیگا.یہ شخص بہت سے کے ترکہ میں بھی آدمی ہوں جسے تم محکم آنا ہو بیکو کہ تم پر بندگی یک حاکم کی ہر سوتی ہے رہو اس کی طرف ، اور اُس سے گناہ بخشوار.اور خرابی سے شرک والوں کی ۱۲ ے میں تمہارے مالی نہیں مانگتا.تم پر بزرگی نہیں چاہتا.تم پر بادشاہ ہو نا مجھے مطلوب نہیں ہوا سے.جو میں نے تم سے مانگا کچھ نینگ سو تمہیں کو پہنچے.میرا ایک ہے اسی اللہ پر " ہے.یہ بات خدا کی طرف سے ہے جہاں چاہیے.

Page 27

۲۰ ینے میں لیکر آیا.لاکھ سے زیادہ لوگ اسکے مطبع تھے، اور کہا اگر آ نحضرت صلعم مجھے پنا جانشین اتا ہے تو میں اس کا حامی ہو جاتا ہوں.پر آپکو کسی کی اعانت سے کیا کام تھا.یہی آپ نے جواب دیا.اور آپکے ہاتھ میں اُس وقت کھجور کی شائع تھی.لوا النتين هذِهِ قِطْعَةُ جَرِينِ الْقِطْعَةَ مَا أَعْطَيْتَكَهَا وَلَنْ تَعْدُ وَ أَمْرَ اللهِ فِيكَ وَلَئِن أَدْبَرَت لَيَعْقِرَنَّكَ اللهُ - بخاری نصف اول جلد ۲ صفه ۳۲۸ - معرض آپ کی تمام اس کارروائی سے ثابت ہوتا ہوں کہ آپکو اپنی راستی پر خدا کی ادا پر پورا بھرو تھا.اور کچھ بھی دنیوی لگاؤ نہ تھا.انس آپ کا خادم کہتا ہو.میں نے دس برس آپ کی آخر ایام وفات تک خدمت کی.مجھے بھی اپنے کاموں میں نہ فرمایا کہ تونے یہ کام کیوں کیا.یا یوں نہ کیا.اگر بی بی صاحبان میں سے کوئی بی بی مجھ اسے پر بوجھ سے خفا ہوتیں تو آپ بھر کسی ایسے کام پر ہو مجھ سے بگڑ جاتا.خفا ہوتیں.تو آپ فرماتے.فعل ما قدر - اور اپنی تعظیم اور تکریم کی نسبت فرماتے ہیں.تَقُومُوا كَمَا يَقُومُ الأَعاجِمُ.ایک وفعہ کا ذکر ہو.آپ بیمار تھے.کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے.بیٹھ گئے صحابہ جو پیچھے نماز کو جو کھڑے تھے.انہیں اشارہ کیا.تم سب بیٹھ جاؤ.ایسا نہ ہو یہ بات میری خاص تعظیم خیال کی جائے.شرک کی گرفتار تو میں نئی نئی توحید میں داخل ہوئیں.ایک نے آکر کہا.شاہان فارس اور رومی اُن کی رعایا سجدہ کرتی ہوں.کیا ہم آپ کو سجدہ نہ کریں.آپنے فرمایا.سجدہ صرف اللہ تعالی کو کرو اے اگر تو مجھ سے یہ کھجور کی شاخ مانگے تو میں تجھے نہ دونگا تو نہ بڑھ نکالیگا خدا کے حکم سے جو تیرے حق میں ہو چکا اور اگر تو نہ جائے اور منہ پھیر لے.تو ضرور خدا تیری کچیں کاٹے گا یا ے رہی ہوا.جو مقدر میں تھا.۱۲ سے ایسے مت کھڑے رہو.جیسے اور قوموں میں رواج ہے کیا یہاں پیر زاد سے اور فقیر مد نظر نہیں

Page 28

M کسی دوسر کو سجدہ نہ کرو.یہی قومیں مین کے رگ و ریشے میں شرک رچا ہوا تھا.اور جو مافوق الفطرت طاقتیں مقربان بارگاہ حق کی ذات میں یقین کرتی تھیں.اُن کو بار بار سنایا.قل لا أقولُ لكُم عِنْدِي خَزائن الله وَلا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلا أَقُولُ لَكُم اِنّى مَلَكُ - سورة الانعام - سیپاره ، رکوع 11 - قُل لَّوْانَ عِنْدِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ لَقَضِى الأمر بيني وبينكم والله اَعْلَمُ بِالظلمين - سوره انعام - سیپاره ، رکوع ۱۳ - وعنده مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلا هُوَ سُوره انعام - سیپاره -- ایک شخص نے اتنا ہی کہا.مَا شَاءَ اللهُ وَشت تو آپ گھبرائے.اور فرمایا.اَجَعَلْتَنِي پله پیدا کیا تو نے مجھے خدا کا شریک ٹھہرایا.شرک کے گرفتار توحید میں آتے ہیں.خدائی بپتسما پاتے ہیں.مِبعَةُ اللهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ الله صبح میں رنگین ہوتے ہیں.ایسا نہ ہوا رنگ اللہ کا اور کون اچھا ہے اللہ کے رنگ میں اپنے ہادی کو نافع وضاد سمجھ بیٹھیں اُن کو حکم ہوتا ہے.ان المَسَاجِدَ لِلهِ فَلا تَدْعُوا مَعَ اللهِ أَحَدًا - وَإِنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا قُلْ إِنَّمَا ادْعُو رَبِّ وَلَا أَشْرِكُ بِهِ أَحَدًا - - ے تو کہ میں نہیں کہا تم سے کہ مجھے اس میں خزانے اللہ کے نہ میں جانوں غیب کی بات امد نہیں کہوں تم سے کہیں فرشتہ ہوئے.این تو کہ اگر میرے پاس ہو جسکی شتابی کرتے ہو.تو فیصل ہو چکے کام میرے تمہارے بیچ اور اللہ کو خوب معلوم ہیں بے انصاف سے اور اسی کے پاس کنجیاں ہیں غیب کی نہیں جانتا اُن کو کوئی اس کے سوا ۱۲ ے اور یہ کہ سجدے کے ہاتھ پاؤں حق اللہ کا ہو.سو مت پکار اللہ کے ساتھ کسی کو اور یہ کہ جب کھڑا ہوا انہ کا بندہ س کو پکارتا لوگ کرنے گئے ہیں پر پڑھا تو کہ میں تو ہی پکارتا ہوں اپنے رب کو اور شریک نہیں کرتا اس کا کس کی تو کہ میرے ہاتھ میں نہیں تمہارا بیرا.اور نہ راہ پر لانا.تو کہ مجھ کونہ بچا ویگا الہ کے ہاتھ سے کوئی اور نہ پاؤنگا اسکے سوال کہیں سرک رہنے کو جگہ ۱۲ شے اور حدیث میں آیا ہو جعلت لي الأرض مسجدا.میرے لئے زمین مسجد بنائی گئی.پیش مساجد کے معنی زمینیں ہیں یا منہ بلکہ

Page 29

قُلْ إنّا لا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَر او لا رَشَدًا قُلْ إِلَى لَن تُجِيرَنِي مِنَ اللهِ أَحَدٌ ، وَلَنْ اجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَدًا - سوره جن - سیپارہ ۱۹ - رکوع ۱۱ - جس نے آکر نَستَشفَع بِاللهِ إِلَيْكَ کہا اسیر غضب طاری ہوا.سیارشی لاتے ہیں سند کو تیری طرف موجودہ زمانہ ہوں گذرا.حالت مرض موت میں آگے کی طیاری ہوتی ہو.اس میں دیکھو توحید ہی کی طرف کیا تو جبہ ہے.لمن الله اليهود والنصري الخَذُوا تُبُورَ انْبِيَالِيهِمْ مَسَاجِدَ وَلا نظروني تحد كما أطرتِ النَّصْرَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ.- صحابہ نے توحید کا ایسا خیال رکھا کہ آپ کی قبر کو بالکل ہند کر دیا.تاکہ نظر بھی نہ آوے اور سجدہ گاہ نہ بنے.قذاقی منافع کا کال شنو اپنے اور اپنی تمام قوم بنو ہاشم پر صدقات کو حرام کر دیا.مرنے کے ایام میں آنا پاس نہیں.کہ آخر عمر میں بقدر ایام مرض آرام سے کھاتے پیتے.اُن دنوں کے لحاظ سے ضروری اور نہایت ضروری سامان حرب زرہ ہوتی ہے.وہ بھی چند آثار جو کے دانے کے عوض میں ایک یہودی کے پاس رہیں تھی.ایک صاع غلہ (آٹھ سیر کے قریب گھر میں رات کو نہ رہتا حالانکہ آپکی تو بیبیاں تھیں.کھلی اور سادہ چٹائی پر بستر تھا.کھجور اور پانی پولیس اوقات تھی.یا ہمہ کثرت عیال اور کھنے کے.باوجود اتنی فتوحات کے باوجود اسقدر شاگرد پیشہ کے.بیویوں کے واسطے قرآن کریم میں حکم ہوتا ہے.ياتها النبي قل لأزواجِكَ إِن كُنتُنَ تُرِدْنَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا وَزِينَه ها فَتَعا اے یہود اور نصاری پر خدا کی لعنت ہو.انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنا یا.میری بڑائی ایسی نہ کیجیوں جیسے نصاری نے مسیح ابن مریم کی کی ہے.ے سے نہیں کہ سے اپنی بیویوں کو اگر تم چاہتی.دنیا کا جینا اور یہاں کی رونق تو آؤ کچھ فائدہ دُوں تم کو اور رخصت کر دوں بھلی طرح سے ۱۲

Page 30

۲۳ امَتعُكُنَ وَأُسَتِ حُكنَ سَرَا حَا جَلا سُوره احزاب سیپاره ار تعظیم کا خیال ہو.تو نظر کرو.عباس آپکے پہلا صاحب فرماتے ہیں.مَا كَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مَنْ رَسُولِ اللهِ وَكَانُوا إِذَا سَرَأَوْهُ لَمْ يُقِيمُوا یورپین کی شہادت محمد صاحب کی نسبت واشنگٹن ارونگ اپنی انگریزی کتاب موسوم لا لف آن محمد کے صفحہ ۱۹۴ میںلکھتے ہیں کہ اُنکے او اہل زمانے سے وسط حیات تک کے حالات سے تو ہمیں کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ ان کو ایسے ناراست اور مجیب افترا سے جس کا انپر الزام لگایا گیا ہو.کس مقصد کا حاصل کرنا مراد تھا.کیا حصول بال مقصود تھا.خدیجہ کے ازدواج سے تو فی الحال وہ صاحب ثروت ہو چکے تھے.اور اپنی وحی ادعائی کے اظہار سے تو سالہا سال پیشتر انہوں نے صاف کہ دیا تھا کہ مجھے اپنے سر تے کے اضافے کی خواہش نہیں.تو کیا حصول جاہ مراد تھی.حالانکہ وہ پہلے ہی اپنے وطن میں عقل اور امانت میں رفیع المرتب اور قریش کے عالیشان قبیلے اور اسکے معزز اور ممتاز شعبے میں سے تھے.تو کیا حصول منصب مطلوب تھا.گرگئی پشتوں سے تو تولیت کعبہ اور امارت حرم خاص اُنھیں کے قبیلے میں تھی اور انکو اپنی وقعت اور حالات سے اور بھی عالی مرتبہ ہونیکا یقین تھالیکن جبیں دین میں انہوں نے نشو و نماکی تھی.اسی کے استیصال کرنے میں تو انہوں نے ان سب بن نافع کی بینکنی کردی.حالانکہ اسی مذہب پر تو اُنکے قبیلے کی جاہ و عزت کا دار و مدار تھا.اسکی بیخ کنی کرنے سے ضرور ہوا کہ انکے اقرب کی عداوت اور اہل شہر کے غیظ و غضب اور تمامی اہل ممالک عابدین کعبہ کی دشمنی و عناد پیدا ہو گیا.انکی تمشیت خدمات نبوت میں کوئی شے ایسی روشن اور صریح نہ تھی جو اُنکے ان مصائب کی اجر جزیل ہوتی اور جسکی ملمع کے دھوکے میں پڑتے.بلکہ بر خلاف اس کی اسکی ابتدا تو اشتباہ و اختظا میں ہوئی.برسوں تک تو اُس میں کوئی معتد بہ کامیابی نہ ہوئی.جیسے ے کوئی بھی صحابہ کرام کو محمد رسول اللہ سے بڑھ کر پیارا نہ تھا اور صحابہ کا رویہ تھاکہ جب کو دیکھتے تو کھڑے نہ ہوتے ہو

Page 31

۲۴ جیسے انہوں نے اپنی تعلیمات کا اظہار اور وحیوں کو آشکار کیا.ویسے ہی اور اسی قدر لوگوں نے اُن سے ہنسی اور ٹھٹھا اور بُرا کہنا شروع کیا.اور آخر کو بوری بری طرح سے اذیتیں دیں جب سے اُن کی اور اُن کے رفقا کی ریاستیں برباد ہو گئیں.اور چند نکے اقربا اور اصحاب غیر ملک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے اور انہیں خود بھی اپنے شہرمیں چھپے رہنا پڑا.اور بالآخر گھر ڈھونڈ نے کیلئے ہجرت کرنی پڑی.پس کس غرض سے وہ برسوں تک اسی تزویر کی صورت میں اصرار کرتے جس سے اسی طرح سے ان کی سب دنیوی دولتیں اُنکی زندگی کے ایسے وقت میں کہ انکو پھر مجددا حاصل کرنے کا بھی زمانہ نہیں رہا تھا.خاک میں مل جائیں.انتھی کلامہ.راڈویل دیباچہ ترجمہ قرآن شریف کے صفحہ ۲۳ مطبوعہ انٹر میں لکھتے ہیں.بلکہ دلیلوں سے ثابت ہو کہ محمد کے سب کام اس نیک نیتی کی تحریک سے ہوتے تھے.کہ اپنے ملک کے لوگوں کو جہالت اور ذلت کی ثبت پرستی سے چھوڑ دیں.اور یہ کہ نہایت مرتبے کی خواہش ان کی یہ تھی کہ سب سے بڑے امر حق یعنی توحید الہی کا جو ان کی روح پر بدرجہ فایت مستولی ہورہی تھی.اشتہار کریں.ڈاکٹر اے اسپر نگر.اپنی کتاب سیرت محمدی کے صفحہ اور میں لکھتے ہیں.محمد تیز فہم اور نہایت مرتبے کے عالی نظر تھے.صاحب رآئے اور عالی مذاق تھے.گو وہ شاعر کے نام کو نا پسند کرتے تھے.مگر بہت کر کے تو شاعر تھے.اور قرآن کی عبارت باہم متشابہ اور مضامین عالی اس کے عمدہ فضائل ہیں.انکے خیال میں ہمیشہ خدا کا تصور رہتا تھا.اُن کو نکلتے ہوئے آفتاب برستے ہوئے پانی اور اگتی ہوئی روئیدگی میں خدا ہی کا یہ قدرت نظر آتا تھا.اور بجلی کی کڑک اور آوانہ آپ اور پرندوں کے نغمے حمد الہی میں خدا ہی کی آواز سنائی دیتے تھے.اور سنسان جنگلوں اور پرانے شہروں کے خرابات میں خدا ہی کے قہر کے آثار دکھائی دیتے تھے.گاڈ فری ہینگس اپالوجی مطبوعہ علماء میں لکھتا ہے.محمد کے رویے جانچنے میں

Page 32

۲۵ تم کہتے ہو.آپ شریر اور مکار تھے.ہم کہتے ہیں.آپ زمانے کے سقراط تھے.جب ہم آپ کو برائیوں سے متصف سنتے ہیں.تو آپ کے رویے کی طرف نظر کرتے ہیں.جو فریقین کے قول سے ابتدائے عمر اور ایام شباب میں رہا ہے.ہم پوچھتے ہیں.اس عجیب روئیے سے آپنے کیا مقصد سونچا.اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ آپ کا مقصد دو حظ نفسانی تھے.اول عورتوں سے عشرت کرنا.دو کم استیعاب بلند و سنگی جس سے یہ غرض ہو کہ ایک شہر کے تاجر بنکر اپنے آپکو بادشاہ دنیا بنا دیں.اس کی طیاری کے لئے آپنے چودہ برس خلق سے کنارہ کیا.اور اپنے طور بے عیب رکھا.اب ہم دریافت کرتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی بات اسکے مثل اور بھی پائی جاتی ہے.اگر عورتوں سے عشرت مقصود تھی.تو یہ عجیب و غریب معاملہ ہو کہ آپنے ۲۵ برس کی عمر میں جو وقت کہ خاص جوش جوانی کا خیال کیا جاتا ہے.صرف خدیجہہ ہی سے نکاح کیا.جو آپ سے پندرہ برس بڑی تھیں.اور گو بموجب قواعد اپنے ملک کے آپ بہو سے نکاح کر سکتے تھے.مگر آپ اس قاعدے سے متمتع نہ ہوئے اور تا حین حیات اس بیوی کے اُسی کیساتھ ۲۰ برس مع خیال کثیر کے نباہ کیا.اگر محمد کا مقصد صرف بلند حوصلگی ہی تھی.تو بذریعہ سازش کے کوشش کر کے اپنے آپکو محافظ کعبہ کیوں نہ کرا لیا.اس عہدے پر پہلے آپکے آباء و اجداد مامور تھے.اور جس شخص کے نام یہ عہدہ ہوتا تھا.وہ گل ریاست بلکہ واقع میں تمام عرب کے اندر اول درجے کا ر میں گہنا جاتا تھا.اگر صرف بلند حوصلگی مقصود تھی.تو یہ امر کہ اپنے آپکو یہودیوں کا مسیح بیان کرتے.بہتر تھا بہ نسبت اس طریق کے جو آپنے اختیار کیا بیتی آپ کو مسیح کا پیرو ظاہر کیا.اس میں شک نہیں کہ اگر آپ اور آپکے جانشین اس رویے کو اختیار کرتے اور بیت لندن کو اپنا مسکن بناتے تو کل کمبخت یہودی آپکے زمرے میں داخل ہو جاتے.اور عیسائیوں میں بھی کم سے کم اسقدر آتے جس قدر کہ دوسری صور کے اختیار کرنے میں شامل ہوئے.دفع انت بیشتان ے نوٹ.جو صفحہ ۲۳ پر درج ہے کیا

Page 33

۲۶ نوٹ ترین برس کی عمر کے بعد جب شہوانی قوائے قدرت کم ہو جاتے ہیں.آپنے چند بیوہ اور ایک کنواری بی بی سے شادی کی جن کی کل تعداد تو سے زیادہ نہیں.حالانکہ آپکے ملک میں کوئی عیب نہ تھا.اگر جانی میں کئی بیاہ کر لیتے.اور نہ قانون قدرت کی ممانعت تھی.مگر ان بیاموں کے بھی چند اسباب تھے.اول.عام عورتوں کیلئے جو اسلام میں داخل ہوتی تھیں معلمات کی ضرورت تھی.دوم.ان ایام میں چند غریب عورتوں کی پرورش.اگر بدون نکاح حضور تکفل ہوتے.تو پادری اور الزام پر کمر باندھتے.سوم بعض ملکی مفسلمتیں جو ایسے ملکوں اور ایسی قوموں میں نکاح کرنے سے پیدا ہوتی ہیں.صلحة جولوگ پکی تعلیم و یار ہے کیسے نمور تعلیم محمدی کے تراور و موسی لوگ تھی.اور عیسی علیہم السلام کی تعلیم میں تھے وہ کیسے نمونہ تھے.ایک نمونہ وہ ہیں.جنکو فرعون کی غلامی سے موٹی کے سبب آزادی علی مصر کے آہنی تنور سے.پر میا " باب ۴.بہت کچھ مال و اسباب لے کر بڑے سمندر سے خشکی پر نکلے.موسی کے ذریعہ من و سلوٹی کھایا.جب موسیٰ نے حکم دیا حالانکہ موسی بنی اسرائیل کے لئے خدا سا تھا.خروج ، باب ۱۰) تو صاف انکار کر گئے.دیکھو گفتی ۱۳ باب ۲۳- وگفتی ۱۴ باب ۱-۳ قرآن شریف میں بھی اس کا اشارہ ہے.قالوا لموسى انَ فِيهَا قَرُ مَا جَارِينَ وَإِنَّا لَن نَدْخُلَهَا حَتَّى يخو حوا مِنها - قَالُو مُوسَى إِنَّا لَن نَدْ خُلَهَا وَبَكَ امَادَ ا مُوا فِيهَا - فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلا انا ههنا فَاعِدُون - سوره مائده رکوع ۴ اے بولے اسے موسی وہاں ایک قوم ہے زبر دست اور ہم ہرگز وہاں نہ جا ئینگے جب تک وہ نہ نکل مکیں وہاں سے ہ ہوئے اسے موسی ہم ہرگز وہاں نہ جا دینگے جب تک وہ اس میں رہیں گے.سو تو جا اور تیرارت اور دونوں لڑو ہم یہاں ہی بیٹھیں گے یا

Page 34

۲۷ ایک نمونہ وہ ہیں جن میں سے کسی نے تیس روپے پر اپنے را ستہانہ استاذ کو پکڑوایا.دوسراکلیا کا وہ پہلا پتھر ہےجسکو آسمان کی تبیاں عطا ہوئیں اوروہ ملعون ہیکر اپنے مخلص رب سے انکار کر گیا.ایک ہیں.ہاری کے پہاڑ پر آنے میں آٹو پر کی دیگی.تو پھڑوں کو اپنامعبود بنالیا.دیکھو خروج ۳۲ باب.ایک ہیں.خاکسار بندے کے سر پر الوہیت کا تاج رکھا ہوا یقین کرلیا.اسی کے طعون ہونے میں اپنی نجات سمجھے.راد عصر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کو دیکھے.آپ کے اتباع میں وطن سے نکالے گئے.اموال و اسباب سے محروم ہو گئے.کمال مصیبت کی حالت میں پوری کمزوری کے وقت میں کہتے ہیں.ل نقول كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى اِذْهَبُ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلا - ولكنا نقاتل عَنْ عَيْنِكَ وَعَنْ شِمَالِكَ وَ بَيْنَ يَدَيْكَ وَخَلْفَكَ.( بخاری جلد ۲ - كتاب المغازي - مطبوعه مصر صفحه ۳) وہ انصاری لڑ کے جنگ بدر میں جس میں ابتدا کفار کی طرف سے ہوئی تھی.میں سرکہ جنگ میں ایک صحابی سے پوچھتے ہیں.يا عم ارني أبا جهل فَإِنِّي مَا هَدتُ اللهَ إِن رَأَيْتُه أَن أَقْتُلَه او اموت تسمیہ عمار بن یا سر کی والدہ کو مکے میں ابو جہل نے سخت سخت ایذائیں دیں اور اتنا ہی چاہا کہ بظاہرمحمدصلی اللہ علیہ وسلم سے انکار کرے لیکن اس نے اپنی جان دیدینا اختیار کیا.ہیں اے ہم نہیں کہتے جیسے موسی کی قوم نے کہا جا تو موسی اور تیرارب اور دونوں لڑوایا ہے لیکن ہم تیرے داہنے اور تیرے بائیں اور تیرے آگے اور تیرے پیچھے تیرے دشمنوں سے لڑینگے " اے اسے چھا مجھے ابو جہ کو دکھا دو کیونکہ میں نے خدا سے عہد کیا ہے.اگرمیں اسے دیکھے پاؤں تو اسے مار ڈالوں گا.یا اُس کے آگے مرجاؤنگا.کیونکہ وہ عمر کو گالی دیتا ہے.

Page 35

۲۸ اور ایک کلمہ بے ادبی کا منہ سے نکالا.اس عورت کی شرمگاہ میں اس شقی نے برچھی ماری اور حلق کی راہ سے نکالی.ایک طرف بچھڑوں کی پرستش کا نمونہ جوکچھ بنی اسرائیل نے دیکھار تورات دیکھنے والے منفی ہیں دوسری طرف تمام عیسائیوں نے میسج جیسے خاکسار بندے کو خدا مان لینے میں جوکہ عیسائی تعلیم سے مسیح کا نمونہ دکھا رہے ہیں، اس کا مقابلدان چند باتوں سے کر لو.اور پھر سوچو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگردوں اور موسیٰ مسیح کے شاگردوں میں کیا فرق ہے.آپ کا جب انتقال ہو گیا جسوقت نبی عرب دنیا سے خدا کے پاس جا پہنچے.ابوبکر نے مسجد نبوی میں لکھ دیا.جس کا خلاصہ یہ ہے.الا من كان يعبد محمد افات محمد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ الله فإن الله حي لا يموت وَقَالَ اِنَّكَ مَيْتَ وَإِنَّهُمْ ميتون.وَقَالَ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُول قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإن مات أو قتِلَ انْقَلَبُهُ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَ اللهَ شَيْئًا - و سجزى الله الشاکرین - سیپاره ۲ - رکوع ۶ - قَالَ فَشَبَّ النَّاسُ يَبْكُونَ آپ کے جانشینوں میں ابو مر ہیں.ایام سلطنت اور خلافت میں ہر روز آپ کا اور آپکے تمام گھر کا مع عیال و اطفال کے کل دو درہم معنی آٹھ آنے کے قریب خرچ ہے.وفات پر پرانی ے شہر دار ہو جاؤ جو کئی محمد کو وجود بانتا ہو وہ جان لے محمد وفا پانےکے اور جوکوئی الہ تعالی کو پوجا کرتا ہو ہیں جان لے للہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہو.مرتا نہیں.اور پھر کہا بیشک تو اسے میں مرنے والا ہے اور اگلے بھی مر چکے ۱ ہے اور ابو بکر نے کہا.اور محمد تو ایک رسول ہو پہلے اس سے بہت رسول ہو چکے.پھر کیا اگروہ مرجاوے یا قتل کیا جائے تو پھر جاؤ گے الٹے پاؤں پر اور جوکوئی پھر باد گیا الٹے پاؤں وہ نہ بگاڑ سکے گا اللہ کا کچھ او نزدیک ہے کہ اللہ ثواب دیگاش کر کرنے والوں کو.پس لوگ چلا اٹھے روتے ہوئے."

Page 36

۲۹ سے مقابلہ اسلامی تعلیم اور اس.چادروں میں دفن کیئے گئے.اور عمر فاروق ہیں جنہوں نے فارس اور روم و شام اور جزائر کو فتح کیا.آپکے کرتے ہیں بیسیوں پیوند تھے اور ایک چمڑے کا ٹکڑا بھی.انکے سے پالار ابو عبیدہ جیسے امین اور دنیا کے تالک اور فارس کے حاکم سعد بن ابی وقاص جو مشورہ خلافت کے وقت عمرہ کے بعد یا اینکه اصحاب شورتی میں تھے.فقیرانہ حالت اور نہایت مسکنت سے گھر میں رہتے تھے.آپ کی تعلیم کا حال سنیئے.اور کہیں کہیں اور مذاہر سے بھی مقابلہ دیکھئے محمد صاحب پلی تعلیم اور پہلے روز کا الہام ہے.قرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ، خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَى اقْرَ أَوَرَبِّكَ الْأَكْرَمُهُ الَّذِي عَلَمَ بِالْقَلَمِهِ عَلَمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ - سوره علق سیپاره ۳۰- ان آیات میں آپکی ترقی اور کامیابی اور کمالات پر جو کہ لفظ ارتبات اور خَلَقَ الانسان من علق اور ربك الاكرم اور علم الانسان سے ظاہر ہوسکتا ہے.وہ عقل والے آدمی سے مخفی نہیں.پھر یہ پیشینگوئی جیسی گوری ہوئی وہ بالکل معجزہ ہے.دوسرا الہام کو آپ کو ہوا.يا بنتها المكثر قمْ فَانْذِرُ ورَبِّكَ فَكَبَرُ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ وَالرُّجْزَ فَا فُجُرُ وَلا تَمانُ تَسْتَكْثِرُ - وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرُ سُوره مدثر سیپاره - آن آیات میں انذار اور کبر نہایت خود کے قابل ہے.ابتدا ہی میں دشمنوں کو ڈر جانے ے پڑھانے کے نام سے جس نے بنایا با آدمی ہو کی پھٹکی سے.پڑھے اور تیرا رب بڑا کریم عزت والا ہے جس نے علم سکھایا قلم سے.سکھا یا آدمی کو جو نہ جانتا تھا یا نے کے لحاف میں لپیٹے ہوئے دیا شاہ قبل نبوت کی حالت پر ہی کھڑا ہو پھر ڈرنا اور اپنے رب کی بڑائی بولی اور اپنے کپڑے پاک رکھ اور کتھری کو چھوڑ دو.اور نہ کرکہ احسان کرے.اور بہت پچا ہے اور اپنے رب کی راہ دیکھا سے ثیاب کے معنی نفس اور دل کے بھی ہیں.محاورہ ہو.سلے ثيابي من ثيابك الى قلبي عن قلبك لا منه

Page 37

اور عظمت انہی کے بنانے کا حکم ہوتا ہے.آپ نے (صلعم) اصول اسلام میں پہلی اصل یہ قرار دی ہے.شہادت آن لا إله إلا الله اور یہی اقرار اور اسپر یقین اور اسپر عملدر آمد آپکے تمام اصولوں کی اصل ہوا اور اس فقرے کا مطلب یہ ہے.کامل یقین سے گواہی دینا تمام صفات کا طہ کا موصوف اور تمام برائیوں سے پاک اور نچا اور واقعی معبود صرف ایک ہی ہے جس کا نام اللہ ہو.اس کے سواد و سر کوئی بھی نہیں.اسی واسطے قرآن شریف میں کلمہ اللہ کو ہر جگہ موصوف کیا ہے اور نیز کہا ہے.މވ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ السَّمِيعُ البَصِير - سورة حمعسق - سیپاره ۲۵ رکوع ۱۳ فاعلم أنه لا إله إلا الله - سورة محمد - سیپاره ۲۶ - خدا کی عبادت ایسے طور سے کیجاوے کہ کوئی چیز خدا کے سوا دل ہیں، زبان میں سرکات میں.سکنات ہیں.معبود نہ ہے.قرآن مجید فرماتا ہے.واعبدوا الله ولا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا سُوره نساء - سیپاره -٥ - ما أمر و الالا ليعبدوا الله مخلصين له الدين حتفاء سوره لم یکن سیاره یہودی اور عیسائی اس اسلامی اصل کا بظا ہرا اقرار کرتے ہیں.اور سب کتب مقدسہ خود اسلام کے مخالف نہیں کیونکہ ان کے یہاں بھی شروع کا بڑا اور پہلا حکم یہی ہو کہ خداوند کو بو تیرا خدا ہے.اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان.اور اپنی ساری سمجھ سے پیار کر.رمتی ۲۲ باب ۳۷ - استثناء ۶ باب ۵) فائدہ.خلوص کا لفظ اور لاتشرک کا لفظ اس سارے سارے ساری کہنے سے انے اس کے مانند کوئی نہیں اور وہ ہے سنتا دیکھتا ۱۲ کے سو تو جان رکھے کسی کی بندگی نہیں سوائے اللہ کے با س اور بندگی کرو اللہ کی.اور مت ملاؤ ساتھ اُس کے کسی کو یا ہے اور انہیں حکم کئے گئے.گریہ کہ عبادت کریںاللہ کی خالص اسکے واسطے بندگی ایک طاقت ہو کر یا ابراہیم کی راوپر)

Page 38

Fi مقابلہ عیسائی مذہب ہے اعلیٰ درجے پر ہے.انصاف کرو.عیسائیوں کے صرف لسانی اور کتابی اقرار کی کیا قدر کی جاوے.جب وہ اُسکے ساتھ مسیح بن مریم جیسے خاکسار بندے کے سر پہ الوہیت کا تاج دعا یقین کرتے ہیں اگر وہ کہیں سے کوئی علیحدہ اللہ نہیں.بلکہ اسی اللہ علق زمین و آسمان جامع صفات کا ملہ تمام نقائص سے منزہ نے جب جسم کو قبول فرمایا.تو مسیح ابن اللہ کہلایا.ذاتا وہ ایک ہی ہے.تو یہ بڑی سخت نا فہمی اور غلطی ہوگی.کیوں ؟ عیسائی خدا کو بے حد اور بے انت مانتے ہیں.اور اُسے ہر جگہ موجود یقین کرتے ہیں.جب اللہ تعالٰی بیحد ہر جگہ ہے تو وہ صرف محمد ود رحیم مریم میں کیونکر سمایا.جب وہ محیط کل ہو محدود تو جسمانی محدود نے اُس کا کیسے احاطہ کیا.اگر ابن مریم با اعتبار مظہر او بیت ہونے کے ابن الله اور آلہ مجسم ہے.تو پھر کیوں تمام مخلوق منظر نہیں ہو سکتی ار کیوں ابن اللہ اور آلہ جسم مانی نہیں جاتی میسی کھاتا پیتا لڑکی سے تین ہی نہیں کی تحریک پہنچا جو کھانے پینے کا محتاج ہوا.وہ تمام مخلوق کا محتاج ہوا.پانی.ہوا.چاند سورج مئی.نباتات جمادات سب کی ضرورت اُسے لاحق ہوئی جب محتاج بنا تو خدا صفات کاملہ کا منصف نہ رہا.پھر عیسائی کہتے ہیں.یہود کے ہاتھ سے پٹا اوران کے مشھوں میں اُڑایا گیا.آخرایلی ایلی پکارتے جان دی.یہ عذاب اور پھر جامع صفات کا ملہ اور الوہیت کا مستحق.عیسائیو.جب نظروں سے غائب تھا.اس نے سب کچھ بنایا.نیر کے وعظ پیکان نہ رکھنے والوں پر موسی کے مخالفوں پر پانی پھیر دیا.جب مجسم سوکر ظاہر ہوا.پٹا.مارکھائی انجیر کے پیڑ کے پاس بھوکا پہنچا.پر اس نے پھل نہ دیا.کیا نظروں سے پوشیدہ رہنا اُس کے لئے بہتر نہ تھا ؟ ظاہر ہو کر کیا گیا.بعض عیسائی شتر مرغ کا طرز اختیار کر کے کہتے ہیں یہ نقائص بلحاظ انسانیت ہیں

Page 39

۳۲ ز لحاظ الوہیت.مگر میں کہتا ہوں جب ابتدا ندارحم میں رونق افروز ہوئے جسوقت میں جسمانی کی پہلی آن تھی.اُس وقت رحم آپکو حیط تھا.یا آپ رحم کو پھر تم کو اور اقتاروں کے مانے والوں پر کیا اعتراض ہو.اسکی زیادہ تفصیل بحث الوہیت مسیج میں ہے.بلکہ ہر ایک انسان ایسا دعوی کر سکتا ہو کہ میں بھی الہ مجسم ہوں.جب کسی نے کہا کہ کوئی قدرت دکھاؤ.اور نہ دکھا سکے.تو کہدیا یہ نقص ملمحاظ انسانیت ہے.نہ بلحاظ الوہیت.کفاره کفارے کے مسئلے پر خود کرنے سے صاف صاف عیاں ہو کہ عیسائی اس قدوس کو منتصف بصفات کا مرہ اور منزہ فائل سے اور قادر مطلق نہیں سمجھتے.حقیقت کفارہ یہ کہتے ہیں.تمام آدمی گنہگار ہیں.اول تو آدم کے گناہ سے اُن کا سرچشمہ پیدایش مکدر ہوا.پھر خود بھی اس کی اولا دستان کا ارتکاب کرتی رہی.خدا کے عدل نے چاہا ان سب کو گناہ کی سزا دے.اللہ اسکے رحم نے دستگیری کی.ان اللہ جو اللہ مجسم تھا اور حقیقت میں نور خدا تھا.تمام ایمان والوں کے کنا اپنے سر پر لیے.اور ملعون ہو گیا.اور ایماندار نجات پاگئے.غور کرو.اقل آدم کے گناہ سے اولاد کو گنہ گار کرنا بظا ہر خدا کی قدوسیت اور عدل اور رحم کے خلاف ہو.اور یہی صفات کا ملہ ہیں.(یہ کار خصم کے مسلمات پر ہے) دوم معلوم ہوتا ہے.حضرت کو مغفرت کی کوئی تدبیر نہ سوجھی.اور آپکی فی حمد و طاقت نانا بھی کر دکھایا.دل کو قائم رکھکر تم کوپورا کرتے.عیسائیوں کے خدا نے اپنی ذات پاکے طعون کیا اور قدوسیت سے دُور پھینکا.جیسے گناہ سے پاک تھے.ویسے ہی عیسائیوں کے گناہوں سے آلودہ ہوئے.اور پھر بھی رحم پورا نہ ہوا.رحم کی صفت کا ظہور کامل طورپر نہ ہوا کیونکہ خدا کا ملعون ہونا بمصلوب ہونا حسب اعتقاد نصار کی اس لئے تھا کہ گناہگار نجات بھی پاوے اور عدل بھی قائیم رہے.

Page 40

۳۳ یں پوچھتا ہوں عیسائیوں کے سوا کل قومیں توسیح پر ایمان نہیں لائیں ان پر بلکہ انسانی قوم کو چھوڑو.شیطان کی بتلاؤ.اُس پر عدل ہوگا، یا ختم ہوگا.یا دونوں شیطان پر اگر عدل ہیں ہوگا.تو رحم کہاں گیا.پھر جہان کیلئے تو یہ تجویز کی کہ ایک گناہ کی سزا ابدی ٹھہرائی.اور اپنے لئے یا اپنے بیٹے کیلئے یہ خصوصیت گھڑ لی.کہ تین دن سزا پاکر چھوٹ گئے.عرض کفارے کا مسئلہ صاف ظاہر کرتا ہو کہ نہ تو خدا قدوس ہے اور نہ رحیم نہ عادل ہے.یہ کفارہ تمام بد کاربوں اور بیساکیوں کی بڑ ہے.اور توہمات کا سر چشمہ.پر قربان جائیے اسلامی کفاروں کے کیسے عقل اور فطرت کے مطابق.اور انکی صداقت پر قانون قدرت کی کیسی صاف شہادت ہے.اسلامی کفارات کیا ہیں.گناہوں کی سزائیں.گنا ہوں پر جرمانے اور گناہ کے پیچھے نیکی کیا سچ ہو.اِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ - دنیکیاں دُور کر دیتی ہیں برائیوں کو قانون قدرت میں بھی دیکھو.قانون قدرت کی خلاف ورزی سے جب سزائیں آتی ہیں.تو اس خلاف ورزی کے بعد قانون کی متابعت اور خلاف ورزی کے نقصان پر کچھ خرچ ہی کرنا پڑتا ہے.عیسائی عقاید کے موافق اقرار توحیب کے ساتھ اقرار تثلیث بھی نہایت ضروری ہے.ایک ہی بیز ک من کل الوجوه واحد بوحدت حقیقیہ ماننا اور پھر اسے تین کہنا اور عقل کو میز کو.یا عقل اور تمیز کو اسکا منجانب اللہ مکلف ٹھہرانا خدا کے رحم اور عدلی کو باطل کرنا ہے.ایک طرف محفل کو تیز کو اس مسلے کے فہم سے قصر کیا اور پھر سے مکلف بنایا.گویا خدا نے تکلیف مالا يطاق کا بوجہ اسکے سر پر رکھا.اور یہ بات رحم اور عدل کے خلاف ہے ؟ یہودی اللہ تعالی کو جامع صفات کا ملہ یقین کرتے ہیں.پر اسکی روحانی تربیت کے لیئے ایک ہی یونیورسٹی یہ وسلم جیسے آریہ ورت ہی کو آریہ لوگ یقین کرتے ہیں اور ایک ہی قوم کیلئے خدا کی فرزندی کو محدود کرتے ہیں.اور کہتے ہیں انبیاء اور خدا کی طرف سے مندر ایک نہیں قوم بنی اسرائیل سے پیدا ہوئے.گویا عموم رحمت الہیہ کے قابل نہیں.قربان جائیے قرآن شریف یہودی مذہب سے مقابلہ

Page 41

۳۴ دو کے جو فرماتا ہے :- و أن من أُمَّةٍ الاخلا في ما نن ير - سوره فاطر سیپاره ۲۲ - رکوع ۱۵- فائدہ اسلامی عقاید میں یہ امر ضروری المتسلیم ہو کہ سب انبیاء و رسل پر ایمان لایا جائے جو قوموں کے نذیر گذرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اور رسول ہو کر آئے.آریہ بھی اپنے اصول کے بیان میں ایسی اسلامی پہلی اصل میں اسلام کے ساتھ ہیں اور کہتے ہیں.اصل اول بو پکہ ار تھے (اشیا) ست و دیار علم حقیقی سے جانے جاتے ہیں.ان سبب آدمی مولی را بتدائی اصل ایشر (خدا) ہے.اور انکی دوسری اصل میں موجود ہے.الی سرب تكتيمان ديالو سرشتی کرتا ہے.اور بے ریب یہ کا مر صفات ہیں اور اسکی ذات پاک کو نقائص سے منزہ بھی کہتے ہیں.انتماء لم يلد ولم يولد ) آب (حی) امر (قیوم) اور پیم لیس کنشلہ اور اسے پانسا نوگ (معبود) بھی بتاتے ہیں.پر ساتھ اس کے وہ اعتقاد کرتے ہیں.ا.تمام ارواح مع اپنے خواص کے بعد کی مخلوق نہیں.اس کی بنائی ہوئی نہیں.تمام ذرات عالم مع اپنے خواص عجیبہ کے خدا کے پیدا کئے ہوئے نہیں.ہمیشہ کی نجات کا حصول ممن نہیں.ابدی آرام انسانی مخلوق کو کبھی نہ ہوگا.۴.وید ہی ہاں صرف و ید ہی دنیا میں خدا کی طرف سے آریہ کیلئے خدا نے الہام فرمایا.میں کہتا ہوں.ذراتِ عالم جنہیں پر مانو کہتے ہیں.اور ارواح اور ان کے خواص (و دیا) علم سے معلوم ہوئے.حسب اصل اور اعتقاد اول چاہیئے تھا.ان کا خالق اور آدمی مول الیشر ہوتا.پر آریہ کہتے ہیں ذرات عالم اور ارواح خدا کی مخلوقیت سے علیحدہ ہیں.وہ تو خود بخود ہمیشہ سے ہیں.بلکہ اگر وہ نہ ہوتے تو خدا اپنی کوئی صفت کا ملہ نہ دکھا سکتا.اتفاقات سے ہے اور کوئی فرقہ نہیں میں میں نہیں ہو چکا کوئی ڈرانے والا ہے خدا قادر مطلق رحیم خالق " پر مانوں اجزائے لا نتیجزی یا.مر

Page 42

۳۵ خود بخود اُسے اسباب مل گیا.تو اسکے صفات نے ترکیب کر دکھلائی.دیا گور کر پائی.زبان سے کہتے ہیں پر عدل کے سامنے اُسکے رحم و کرمہ کا یہ حال ہے کہ بے سزا دیے کسی کو نہیں چھوڑتا.حلانکہ نیا کاری کا لفظ جس کے معنی عادل کے ہیں.یہانتک میں نے پوچھا وید میں نہیں مگر قرآن کہتا ہے اور مسلمانوں کا اعتقاد ہے.ولَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكَ فِي المُلكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَة تَقدِيرًا- سورة -JA ވ فرقان - سیپاره.سلُونَكَ عَنِ الرُّوح قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبّي - سورة بنى اسرائيل سيپار - ال لَهُ الْخَلْق وَالأمْرُ سُوره اعراف سیپاره ۸ - رکوع ۱۴ - قرآن اور اسلام تمام اشیاء پر خدا کو محیط کہتا ہے.حانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْئًا تُحِيطًا - سُوره نساء - سیپاره آریہ کی طرح نہیں کہتا کہ ذرات عالم اور انکے خواص اور ارواج اور اُنکے خواص احاطہ قدرت خداوندی اور اُسکے خلق کے احاطے سے باہر ہیں.جہاں تک میں نے آریوں سے مادہ عالم کے غیر مخلوق ہونے کے دلائل سنے ان کا سر دفتر یہی دلیل ہے.علت مادمی کے سوا فاعل کچھ نہیں کر سکتا.پس اگر یہ مانو اُسکی مخلوق ہیں.تو اُس نے اُن کو کس مادے سے بنایا.میں کہتا ہوں یہ دلیل تب چل سکتی ہے.جب خدائی طاقت (الیشر کی شکستی مخلوق کی سی کتی ہوتی.ہم تم بدول مادہ کچھ نہیں بنا سکتے.اسلئے ہم کہدیں خدا بھی بلوں مادہ کچھ نہیں اے رحیم و کریم ہوں تلے اور نہیں کوئی اس کا ساتھی راج میں اور بنائی ہر چیز اور ٹھیک کیا اُس کو ماپ کر (1) للہ اور تجھ سے پوچھتے ہیں روح کو تو کہ روح ہے میرے رب کے حکم سے لا جھے سن لو اُسی کا کام ہے بنانا اور حکم فرمانا ہو نے اور اللہ کے ڈھب میں ہے سب چیز ۱۲

Page 43

۳۶ بنا سکتا.حالانکہ اپنے اصول کے بیان میں آریہ نے اسے انو یم کہا جس کے معنی کیس كَ مِثْلِهِ شَيْ ء کے ہیں.لطیفہ.دیانند نے ستیار تھا اور یہ ھو جسکا میں لکھا ہو.اگر کوئی سوال کرے.پر میشر کے تو زبان نہیں.قلم اور دوات اور ہاتھ نہیں رکھتا تھا.اس نے دید کس طرح بنائی.اور کیسے سنائی تو اس کا جواب یہ ہو کہ وہ قادر مطلق ہے.اسکو اسباب کی ضرورت نہیں.وہ سب کچھ بدون اسباب کے کر سکتا ہے.ستیارتھ پرکاش صفر ۲۵۶ ۲۵۷ ۲۱۸۸۵ پر یہ جواب مادہ عالمہ میں بھول گیا.آریہ یہ بھی کہتے ہیں فدات عالم سے پہلے کیا بیکار تھا.اگر بیکار تھا.تو معطل ہوا.اگر یا کار تھا.تو کیا کرتا تھا.ہم کہتے ہیں وہ ہمیشہ سے خالق اور ہمیشہ سے متکلم ہے.جیسے ہمیشہ سے ذرات عالم تمہارے نزدیک اسکے ماتحت رہے ویسے ہی ہمیشہ سے خالق بھی ہو.پھر سوال کرتے ہیں.اس نے کس زمانے میں ذرات عالم کو بنایا.پھر ہم کہتے ہیں.زمانہ بھی اسی کا بنایا ہوا ہے.زمانہ کیا ہے فعل کی مقدار کا نام ہے.باری تعالے کے فعل سے ایک مقدار پیدا ہوئی.اُسی مقدار کا نام زمانہ ہے.مدت کی بات ہے مجھپر ایک پنڈت کول نے یہ شخص کچھ زمانے تک مجھ سو نے تعصب رہا ہے) نہایت نا عاقبت اندیشی کے ساتھ آریہ سماج کی بد محبت کا خطرناک زہر اگلا میں تیقی حامی اُس کی تلافی کرے.آمین.نہ میری رضامندی سے بلکہ اپنی ہی رضا مندی سے کال کا نام کسی مقام کا مباحثہ دکھایا.اس مباحثے میں ایک طرف آریہ ہیں.اور دوسری طرف کوئی مسلمان مولوی.آریہ نے سوال کیا ہے مولوی صاحب یا اگر آپ رُوح کا حدوث ثابت کر دیں تو ہم آریہ کا دعوی تناسخ خود بخود باطل ہو جاتا ہے.مولوی صاحب ! فرمائیے.اگر ارواح قدیم نہیں تو کب حادث ہوئے.تجھے اس مباحثے کو دیکھ کر تجبآیا اور میرا تجب بیجانہ تھا.مولوی نے اتنا کیوں نہ

Page 44

۳۷ حدثت ارواح نہ کہا.ہم لوگ اور تمام دنیا روح کو حادث دیکھتی ہے.صریح ہمارا مشاہدہ ہے زمین سے مٹی سے نباتات اُگے اُن سے غلہ پیدا ہوا.اس کو حیوانات نے کھایا.مثلاً انسان کے نر اور مادہ سے ایک جانب منی پیدا ہوئی یمن میں کیا کیا اجزا ہیں.اور اس میں کیا کیا چیزیں ہیں.یہ مقام اس تحقیق کا محل نہیں.دوسری طرف مادہ میں مادہ کے رحم اور خصیہ الرحم میں بھی اسی غذا سے کسی قسم کی رطوبت پیدا ہوئی.نر اور مادہ کی روح اور ہم یہ دونوں قسم کے حیوانی مواد نکلے.نر اور مادہ کے فطری اور طبعی اتفاق سے رحم میں منی اور چند اجزا جو مادے سے حاصل ہوئے باہم ملے اور خاص طور پر جمع ہوئے.اُس اجتماع سے ایک اور تیسرا انسانی شخص بننا شروع ہو گیا.اس صریح مشاہدے سے واضح ہوتا ہے.روح کہیں نر یا مادہ کے جسم ہی میں پیدا ہوئی اور یہ بات قریب قریب پھلدار اور پیوندی در نعتوں میں مشاہدہ ہوتی ہے.اس صریح مشاہدے سے تو روح کا حدوث ثابت ہوتا ہے.آریہ صاحبان اب قدم رُوح کی دلیل آپ بتائیے.یہ بھی یادرکھنے کے قابل ہو.نباتی اجزا حیوانی جسم میں کچھ ایسا عجیب تغیر پاتے ہیں کہ انکا ایک حصہ اس حیوان غذا کھانے والے کے جسم کے مشابہ ہو جاتا ہو.اور کچھ حصہ بول و براز وغیرہ فضول ہو کر الگ ہو جاتا ہے.غرض نباتی اجزا حیوان میں پہنچکر میوانی اجزاء بن بجاتے ہیں.ناظرین یہ مقام اس بحث کے واسطے اجنبی ہے.آپ میری اس تحریر کہ دیکھیں جس میں میں نے بہت سو احادیث صحیحہ اور آیات صریحہ قرآنیہ کا اس مسئلے میں بسط سرو کر گیا ہو اور بتایا ہے کہ اعتقاد و جو دروح بعد الجسد کے معارض کوئی نص صریح قطعی الدلالت نہیں.اس بحث کو ابن قیم نے بھی کتاب الروح میں لکھا ہو.اور وہ خلق روح بعد الجسد کا قائل ہوا ہے.اور آیت وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمُ وَ أَشْهَدَهُمْ عَ ہے جب کی تیرے آپ نے اولاد آدم سے ان سے انکی اولاد اور گواہ کیا انکو ان کی جانوں پر کیا میں تمہارا رہے ہیں انہوں نے کہا بیشک ہم قائل ہیں.کبھی کہو قیامت کے دن ہم کو اس کی خبر نہ تھی یا

Page 45

۳۸ انفسهم الست بربكمْ قَالُ: ابْل شَهِدْ نَا أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا مَن هذَا غُفِلِينَ سُوره اعراف - سیپاره ۹ - یعنی آدمی کو اللہ تعالیٰ نے آدمیوں سے بنایا.اور آدمی میں ایسی عقل اور نفرت رکھی.جس سے وہ اپنے رب کا قائل اور اپنے خالق کی ربوبیت کا اقرار ضرور کرتا ہے.یہ اسلئے کہ محکمہ جیتا او سزا میں ایسا نہ کہدے کہ مجھے تو خیر نہ تھی.من ظهور ھر کا ترجمہ.اُن سے کیا گیا.اسلئے کہ لخت کی کتابوں میں لکھا ہو.بین اظهر عمر اے وسطھر.اور کنت بین اظہرنا.اسے پینتا.اس آیت کا ذکر اسلئے کیا.کہ اس آیت شریف سے کوئی روح کا قبل المجسد موجود ہونا نہ سمجھ لے.آریہ یہ بھی کہتے ہیں.نجات ہاں ابدی نجات کا اُسکے گھر میں کوئی سامان نہیں.ارواح چند (چاہے اسے پچاس کلب کہیں بے دست و پا آرام دہ انعامات الہیہ سے محروم رہینگی.اور یہی نجات ہے.دنیوی عیش و آرام بھی بدکاری کا نتیجہ ہے.ول تو اسلئے کہ من اور نجم میں آنا ہی عذاب ہے.دوکم لوگ بد کار بنے.لوگوں نے گناہ کیئے.تو ہمارے لئے یہ گھوڑے.ہاتھی.نچر.اونٹ پیدا ہو گئے.تعجب آتا ہو.یہ لوگ روح کو مکہ مختار) مانتے ہیں اور پھر کہتے ہیں زمین کو نجات کبھی صیب نہ ہوگی.آریہ صاحبان ایک فاعل مختار کو جسے اپنے افعال میں اختیار ہو جس کا وجود تمہارے نزدیک ذاتی ہے.کوئی خدا کا دیا ہوا وجود نہیں.اُس کا سزا دینے والا خدا کیا تو.کڑی اور رحیم و کریمی ہو سکتا ہے.جب کسی مختار نے اپنے اختیار سے کام کیا اور ایک دوسرے نے اگر اس مختار کو سزا دی.یہ سزا دینے والا منصف ہو سکتا ہے.آریہ آؤ کینے اور بغض اور عداوت سے پاک و صاف ہو کہ ہماری ایڈا سے باز آؤ.آؤ سری کتمان قادر طلق اند نیم لیس کمثلہ شی، دیالو رحیم کی عبادت کریں.اسی کے آگے ہاتھ باندھیں.اسی کے آگے سر جھکا دیں.اُسی کے آگے گریں.اُسمی کی استنتی (حمد) کریں.اُسی سے دُعا ان میں جنسی نیست سے ہست بنا یا.اپنے کمال قدرت سے ہاں قدرت ہی سے

Page 46

آلات اور مانے کے کام لیے.ارواح اور انکے خواص ذرات عالمہ اور اُس کے خواص اسی نے بین اُس بادی کیلئے دعا کریں جسے ہمیں یہ راہ سکھائی.سچے دل سے گناہ کا مرتکب قبل نزول بلا اُسکے آگے عذر کرے.اپنے گناہ سے رجوع کرے نیکی کی طرف متوجہ ہو، اس کو یہ رحیم کا عدل و رحم دونوں ایسے محتاج سائل کی دستگیری کو تیار ہیں.وہ ارواح کو نجات دیگا.ابدی نجات بخشے گا.اُن کو کامل عیش اور آرام میں لیجائے گا.اس اصل نقل اسلام کا.جس کا ذکر میں نے کیا ہے اور وہ شہادت NOT ANA : الا اللہ ہے).نہایت عمدہ نیرہ شہادت آن مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُه ہے.عمدگی کی وجہ یہ ہو.ہر ایک قوم کی ہدایت کو اللہ تعالیٰ نے مندر اور خدا کی نافرمانیوں پر ڈر سنانے والے بھیجے.مگر قوم کی سابقہ بت پرستی کی عادت اپنے ہادیوں کی محمد سے ایسی ملی.کہ آخر ہادی ہی معبود بنائے گئے.حضرت مسیح جیسا خاکسار بندہ خدا بنایا گیا.خوش اقتصاد وں نے اعتقادوں کمال جہالت کے زمانے میں معبود یقین کیا.اب تھوڑے ہی دنوں سے علوم کے واقف ہوتے گر آبائی تقلید نے جکڑ رکھا.ئے ایک نہایت ہی ذلیل قوم یہود سے پٹا پر عہدہ الوہیت سے معزول نہ ہوا.سری رام چندر جیسے صدر رسید بادشاہ اللہ جسم اور اوتا بنائے گئے سری کرشن جینکو ایک تیر کے صدمے نے دنیا سے جواب دیا.پرمیشر سمجھے تھے.اگتی اور وایو اور سورج وغیرہ عنصری اشیا.اسلئے کہ وہ اُن لگنی اور وایو اور سورج کے ہمنام تھے.جینیر ویدا اتر ے پرستش کئے گئے.سکھوں کے گرو جو صرف الہی عشق کے مست اور اسی کی مدح سرائی میں شیار تھے.اب اس زمانے میں حاجت روا اور پر میرا اور اوتار ہوگئی.محمد رسول اللہ پرتعلیم توحید کا خاتمہ ہے جنہوں نے اپنی مودی سے قرار کو توحید الہی کے اقرام کے ساتھ لاز میں کر دیا.وید میں انجیل میں یہ بات ہوتی اور ان لوگوں کے اصولوں میں ہادی کی نسبت عبودیت کا اقرار لازمی رہتا.تو شاید یہ قومیں قوم عرب کی طرح شرک سے محفوظ رہیں.انگریزوں میں علم تھوڑی مدت سے آیا.ضمیمہ توحید

Page 47

۴۰ ایک طرف عرب کی اس خطرناک بت پرستی کو دیکھو جو قبل از اسلام تھی اور ایک طرف اس تیرہ سو برس کی خالص توحید کو دیکھو.پھر بتاؤ کسی قوم میں اتنی دیر تک اس طرح على العموم تو محفوظ رہی ہے.اگر نہیں تو اس کلمہ توحید کا آخری جزو بے دیں سخت معجزہ اور خرق عادت ہو گیا.اسلامی دوسری اصل نماز ہر نماز کی بابت مفصل بحث علیحدہ اسمی کتاب میں موجود ہے؟ نماز کیا ہے.خدا سے دلی نیاز.اور یہ عبادت تمام مذاہب میں اصل عبادت ہے.اور کچھ شک نہیں دلی جوشوں کا اثر ظاہری حرکات اور سکنات پر ضرور پڑھتا ہو اور ظاہر حرکات و سکنات کی تاثیر قلب پر ضرور پہنچتی ہے.باریتعالی ہی کے دست قدرت میں محبوس رہنے کا ثبوت اور اسکی بارگاہ میں بجمال ادب حاضر ہونے کا بیان اگر ہمارے اعضا کر سکتے ہیں.تو نماز کا قیام اور نماز میں ہاتھ باندھنا بے شک عمدہ نشان ہیں.دلی عجز وانکسار غایت درجے کا تذلل اگر کوئی ظاہری نشان رکھتا ہے.تو حالت رکوع وسجدہ ہرگز کم نہیں.اسلامی نماز میں جو کلمات ہیں.ان میں صرف باری تعالٰی کا معبود ہونا.اور اس کی رحمت عامہ اور ناقہ اور سزا اور جزا کا بیان ہے.پھر اسی مالک کی معبودیت کا اقرار اور اُسی کی امداد کا اعتراف ہے.پھر نمازی اپنے اور تمام لوگوں کے لئے راہ راست پر چلنے کی دعا مانگتا ہے.اور بارگاہ حق میں عرض کرتا ہے مجھے ایسے لوگوں کی راہ دکھا جنیر تیر افضل ہے.اور اُن بڑوں کی راہ سے بچا.جن پر الہی تیرا غضب ہے.یا جو لوگ راہ سے بہک گئے.پھر کچھ الہی تعریف کے الفاظ ہیں.پھر تمام نیک لوگوں کے لئے دعا ہے.پھر واعظ توحید ابراہیم راستباز پر جو تمام بنی اسرائیل پر اور بنی اسمعیل کے مورث اعلیٰ ہیں اور جن کی اولاد میں محمد صاحب بھی ہیں اور محمصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعا ہے.کیونکہ اُن کی مساعی جمیلہ سے شرک کا بڑا استیصال ہوا.اور توحید نے عروج پایا.پھر اپنے لیے دُعا ہے.انسان کا خاصہ ہے اُس کے دل پر کسی واعظ کی نصیحت کا اثر ایک ہی بار کچھ نہیں پڑتا.انسان کے دل کا زنگ جو اسے محسوسات میں لگائے رکھنے سے پیدا ہو جاتا ہے.ایک دفعہ کے اسلامی نوکری اصل وارات بنات ست

Page 48

۴۱ قوم جود تذکار سے دور نہیں ہوتا.قانون قدرت میں محسوسات میں زنگ زدہ اشیاء ایک دفعہ کے مصقلہ پھیرنے سے روشن اور چمکدار نہیں ہوتیں.سورۂ فاتحہ بھی بڑی بڑی روحانی بیماریوں کے زنگ کا مصقلہ تھی.اسی واسطے ایک نماز میں کئی بار پڑھی جاتی ہے.بتاؤ کون قوم ہے جو مناروں پر چڑھ کر بلند آواز سے کمال دلیری اور جوش سے اپنے معبد اور نہایت ہی بڑائی والے خدا کی عظمت اور اسکے معبود ہونے کی شہادت دے اور اپنے محسن ہادی کی رسالت پر شہادت دے.پانچ وقت سریر الفاظ سے اللہ تعالی کی عبارت کی طرف بڑی بلند آواز سے مناسے پر چڑھ کر بلاو.اور اپنی عبادت کی خوبی بتا ہے.اور پھر اپنی اس منادی کوخدا کی مالی تعظیم ختم کرے.سوچو یہی معنی کلمات اذان کے ہیں.ہاں ہادی اسلام نے قوم کو کھنٹوں بیٹیوں نا قوری ہیں.سارنگیوں.بربطوں سے قوم کو معافی بخشی.بلکہ یوں کہیئے بچا لیا.فائدہ.وقت پر یاد آیا.یہ اصلاحی ہی مذہب کی خصوصیت ہے کہ اپنی ہر ایک کتاب کی ابتداء میں اپنے خالق کی ستائش کریں اپنے محسن کی تعریف کریں.اس کے لئے دُعائیں مانگیں.لکھوں کی ابتداء میں یہی حال ہے آنکھ کا ترجمہ خطبہ ہے، بلکہ کھر کی خوبی بھی اسلامیوں پرختم ہے.کھڑے ہوکر لکچر دینا تو اُن کی ہر نماز جمعہ میں دیکھ لو.گرغور کے قابل یہ ہو کہ عین لکچر میں جہاں اور قوموں کو تالی بجانے کا موقع ملتا ہے وہاں اسلام میں اللہ اکبر اور سبحان اللہ موزوں ہے.توجہ الی القبیلہ کا تذکرہ بحث حج اور مفصل بحث نماز میں ہے.اسلامی تیسری اصل زکوۃ ہے.زکوتہ کیا ہے.ایک قومی اور مشنری چندہ ہے جس میں سوائے خاص مصرفوں کے تین نفس کی خصوصیت نہیں.زکوۃ اور اور صدقات کن لوگوں کے لئے ہیں.دیکھو قرآن.إنما الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَة ات بومی و مفلسی کا ہو میت جوں کا اور اس کام پرجانیوالوں کا.اور جن کابل و چاتا ہو.اور گردن چھوٹا نے میں.(غلاموں اور قیدیوں کا چھوڑانا، اور جوتا ان بھریں اورال کی راہ میں اور ان کے مسافر کو ٹھہرا دیا اللہ کایا

Page 49

۴۲ قلوبهم و في الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً من الله - سوره توبه - سیپاره ۱۰ رکوع ۱۴ - مان محمد صاحب کی قوم بنو ہاشم پر زکوۃ اور صدقہ حرام ہے.انکو جائز نہیں کہ ان مشتری پور چندوں سے کچھ لیں.گو کیسے ہی غریب اور مسکین کیوں نہ ہوں منصفو ! یہ استثنا بھی قابل غور ہے.امام حسین رضی اللہ عنہ بچے تھے.تو آپنے صدقے کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اُٹھائی اور چاہا کہ منہ میں ڈالیں.جناب رسالتماب نے منع فرمایا اور منہ سے نکلوا دی.مقابلہ یہودی شریعت کے رو سے ایسے چند سے خاص لادیوں ( قوم موسی و ہارون) کا حق.یا مسکن کے خوج تھے.ثبوت سنو.ہدایا مسکن کے لئے.سونا.سونے کے برتن - بڑے مینڈھے.بیل- بخور گفتی ، باب ۱۱ و ۱۸ باب ۸ و ۳۵ باب ۲ - گھر کے لئے سال میسال ثلث مثقال تخمیناً ه باب ۳۲ - آدمی پیچھے پانچ مشتعمال یہ قدیم ہارون اور اسکی اولاد کے لئے گفتی ہم باب دوم خروج ۳۰ باب ۱۳ - ۲۶ - ۲ - تاریخ ۲۴ باب ۹۶ - کاہنوں کے حقوق شانہ کنپٹی.جھوجھ.پہلا غلہ.پہلی شراب (یہ بھی صدقات میں ہے) پہلا تیل.پہلی اون کیونکہ وہ برگزیدہ ہیں.استثناء ۱۸ باب ۳ - رومن کیتھولک اور آریہ کے ایسے چند سے پاپا اور برہمنوں کے لئے ہیں.ا مقابلہ - ہادی اسلام کو اسی واسطے قرآن عہدہ کہانت سے الگ کرتا ہو.اور کہتا ہے.إنه لَقَولُ رَسُول كريم وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِ قَلِيلًا مَا تُؤْمِنُونَ وَلا بِقَوْلِ كَاهِبِ قَلِيلا ما تذكرون - سورة الحاقة - سيپاره ۲۹ - اور ہادی السلام علیہ الصلوۃ والسّلام فرماتے ہیں.ہ یہ بات ہے ایک پیغام لانے والے سردار کی اور نہیں یہ بات کسی شاعر کی تم تھوڑا یقین کرتے.اور نہ یہ بات کا ہن کی تم تھوڑا دھیان کرتے ہو دو میں شراب بھی صدقات میں داخل ہو.

Page 50

ما مَا لَكُمْ مِنْ أَجْرٍ فَهُوَ لكمان أجرى الا على الله سُورۃ سبا - سیپارہ ۲۲ ہادی اسلام کو مدینے میں یہودیوں کے اموال سے جس کا ذکر جہاد میں میں نے کیا ہے.کچھ مال ہاتھ آیا.وہ مسلمانوں کے لشکریوں کی فتوحات سے نہ تھا.اس مال کی نسبت سورہ حشر سی پارہ ۲۸ میں حکم ہوتا ہے.یہ حال تمہی ضرورت اور نبوی احتیاجوں اور رشتہ داروں کے لئے.اور یتیموں مسکینوں مسافروں کی واسطے ہے.یہ مال مہاجروں اور انصاروں اور اُن سے پیچھے آنے والے لوگوں کا ہے.جو پہلوں کے تق میں دُعائیں کرتے اور تیرا نہیں بولتے.پھر خاص حصہ نبوی کی نسبت بجناب رسالتمآب فرماتے ہیں.نُورَت مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ تارک الدنیا فرودگی بنی اسرائیل اور انکے گھرانے کا خاتم حضرت سی زکوۃ کی نسبت کیا فرماتے ہیں.مال اپنے لئے آسمان پر جمع کر جہاں کیڑا نہ مورچہ خراب کرے.نہ پور سیندھ دے.جہاں مال ہے.وہاں دل ہے.منتی ۶ باب ۲۰ د ۲۱.ایک دولتمند نے حضور کے پاس رہنا اور خدائی بادشاہت میں داخل ہونا چاہا.اُسے حکم دیتے ہیں.تمام مال و اسباب دے ڈال تب میرے ساتھ رہ.متی ۱۹ باب ۱۶ - ۲۱.وہ بیچاره با وجود شوق داخل نہ ہوسکا.انسانی فطری کمزوری نے روک لیا.غور کرو.کیا تمام لوگوں کے ایسے حوصلے ہوتے ہیں جیسی مسیح کی خواہش ہے.جو کل کی فکر آج کرے جسب تعلیم مسیح...پنجاد ہے.تعجب ہے.اتنے بڑے دولتمند اور بادشاہ عیسائی جو برسوں کا فکر آج کر رہے ہیں.کیسے انہی بادشاہت میں داخل ہونگے.اونٹ کا سوئی کے ناکے سے نکلنا آسان اور اے جو میں نے تجھ سے مانگا کچھ بیگ.سو تمہیں کو پہنچے میرا نینگ ہے اسی اللہ پر لا تلے ہمارے ترکہ کا کوئی وارث نہیں کیونکہ وہ صدقہ ہے " میسج اور نہ کوہ.

Page 51

تهم لهم دولتمند کا خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا محال.متی ۱۹ باب ۲۴ - مستی کی تعلیم ناص وقت اور خاص محل پر اور خاص طبائع میں موثر ہے ریب اور بعض طبائع کو پسند اور پیاری معلوم ہو سکتی ہے.مگر ہر حال اور ہر ایک کے لئے اس تعلیم کا خدا کی طرف سے حکم ہو.قانون فطرت کی گواہی اور عملدرآمد سے اس کی تصدیق نہیں ہوں ہو سکتی بردود البتہ فطرت کے مطابق کہا جی کہا.ولا تَجْعَلُ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطُهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدُ ملو ما تحسُورا - سوره بنی اسرائیل سیپاره ۱۵ رکوع ۳ - يَسْتَلُونَكَ مَا ذ ا يُنْفِقُونَ، قُلِ الْعَفْوَ - سوره بقر - سیپاره ۲ رکوع - صدقات کیسے مال سے دیں کس قدر صدقہ نہایت ضرور ہے.اسکے قواعد جیسے اسلام میں فصل موجود ہیں.مجھے معلوم نہیں کہیں اور جگہ بھی ہوں مسیح فرماتے ہیں.جو کوئی تجھے سے مانگے اُسے دے.کہاں سے دے.چوری حرام کاری سے بھی.بڑی چیز مانگے محال بھی مانگے.کیا تب بھی ہم دین.مگر قرآن فرماتا ہے.ايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمُ مِنَ الاَرْضِ وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُم بأخذيه - سورة البقر- سیپاره ۳ - اسلامی چو تھی اصل روزہ ہے.اس عبادت کا پتہ عہد عقیق میں دیکھنا ہو.تو دیکھو.میں نے اہاوا کے دریا پر منادی ہے اور نہ رکھ اپنا ہاتھ بندھا اپنی گردن کے ساتھ اور نہ کھو اسے اسکو ہر کھولنا.پھر توبیٹھے رہے الزام کھایا گیا اور پوچھتے ہیں تجھ سے کیا خرچ کریں.تو کہ جو افر ود ہو حاجت سے) سلہ اے ایمان والو خون کو مشتری چیزیں اپنی کمائی میں سے اور جو ہم نے نکال دیا تم کو زمین میں سے اور نیت نہ رکھتی گندی چیز پر کہ خرچ کرو اور تم آپ نہ لو ۱۲

Page 52

کرائی کہ روزہ رکھیں اور خدا کے آگے دکھ کھینچیں اور اس سے دعا مانگیں تو کہ اپنے اور اپنی اولاد اور مال کے لئے سیدھی راہ پاویں.عز را ۸ باب ۲۱ - روزے کی نسبت یسعیا ۵۸ باب ۳ - ۲ موئیل ۱۲ باب ۲ - دانیال و باب ۳ - استر ۴ باب ۱۶- یونسیل ۲ باب ۱۲ و ۲ باب ۱۵- یہود پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے.لوقا ۱۸ باب ۱۲- اور روزے کا حکم عہد جدید میں اس طرح ہے.۱۲.مسیح کے شاگر دسیح سے کہنے لگے.ہم کیوں دیو نہ نکال سکے.تو آپ فرماتے ہیں.اپنی بے اعتقادی کے سبب میں تمہیں سچ کہتا ہوں.اگر تمہیں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہوتا تو پہاڑ کو وہاں سے یہاں چلا سکتے اور کوئی بات تم سے انہونی نہ ہوتی.پر یہ جنس دُعا اور روزے کے بغیر نہیں ملتی.متی ۱۷ باب ۱۹-۲۱ - غور کرو عیسائیو.مسیح کے شاگر د حسب شہادت مسیح بے اعتقاد اور بے ایمان ہیں کہ نہیں.یہاں ذرا ہمارے ہادی کے جان نثاروں کو یاد کر لو.آجتک وہ دعاؤں اور روزوں کی بدولت مسیح کے قول کی تصدیق کرتے ہیں.عیسائیو ا یورپ اور چند افریقہ اور امریکہ میں حسب آیت مستی کے ا باب 19 کوئی تم میں رائی برابر بھی ایمان رکھتا ہے یا نہیں.سنو.پولوس اور برنباس مسیح کے شاگرد بھی روزہ رکھتے تھے.۱۳ باب ۲- اعمال - مگر انہوں نے بھی انہونی کو ہوتا نہ کر دکھایا.اس عبادت کا فائدہ قرآن نے خود بیان کیا.كتب عليكم الصيامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ أَيَّا مَا مَعْدُودَاتٍ - اسلامی پانچویں اصل حج ہے.حج کیا ہے ریج اور اسکے اعمال مفصل بحث مکہ معظمہ کا ثبوت مقدسہ کہر سے علیحدہ اسی کتاب میں مندرج ہے، اہل اسلام کے قومی اجتماع کا ے ترجمہ لکھا گیا تم پر روزہ جس طرح لکھا گیا اگلوں پر.تو ہر بیچ رہو چھ گنتی کے دن یا پانچویں ان.مسیح اور روزہ

Page 53

ایک سفر مسلمان بھائی محلے حملے کے ا م ا و ر و ا ن اور پانچ نمازوں میں باہم مل لیاری یہ بات محلوں کی مسجدوں میں پانچ بار حاصل ہو جاتی ہے.اور شہر شہر کے اہل اسلام کا باہم لنا برسویں روز حج کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے.فیضان وقت مساجد کی نظافت کا اہتمام اس بات سے دریافت ہو سکتا ہے.ابتدائے اسلام میں جب اسلام اپنی اصلی حالت پر تھا.ہادی اسلام اور اُسکے جانشینان با اکرام تک کے لئے مساجد میں وضو کرنے کا کوئی مکان نہ ہوتا تھا.نہ مساجد میں طہارت خان اور بجائے ضرور ہوتے تھے.صاف ظاہر ہوتا ہے.رطوبات متحفتہ سینڈہ وغیرہ کو مخل صحت اور ایسے موقع اجتماع کا منافی سمجھا.ہم پچھلے لوگوں کے اطوار اور کردار کے ذمہ دا نہیں.رسالتمآب کے وقت مساجد میں خوشبو جلائی جاتی تھی.اور مساجد میں یا اُن کے قریب اجتماع رطوبت کا کوئی مکان نہیں ہوتا تھا.گھروں میں وضو کر کے سجدوں میں جانا جناب رسول اللہ صلعم سے ثابت ہے اور اسی کی فضیلت بیان کی گئی.تمام شہر اور اُسکے حوالی میں رہنے والے مسلمانوں کے اجتماع کیلئے جامع مسجد اور جمعے کی نماز تجویز ہوئی اور کثرت اجتماع کے لحاظ سے حکم ہوا مجھے سے پہلے نہا لینا پڑے بدلنا بشرط امکان خوشبو لگانا.اذان کے وقت جو خطبے (لکچر) کی ابتدا میں ہوتی ہے.جمعے کو آؤ.اور ظہر کی نماز سے آدھی دو رکعت کی نماز پڑھکر اپنے اپنے کاموں پر چلے جاؤ.زیادہ دیر تک کے اجتماع کو جو مخل صحت تھا منع کر دیا.بعد الجمعہ وعظ کی عادت ابتدائی اس میں نہ تھی.قصبات اور دیہات اور شہری اہل اسلام کے اجتماع کو سال میں دوبار عید الفطر اور عید الاضحے پر تجویز کیا.کثرت بھیٹر میں عدم صحت کا اندیشہ اس طرح مٹایا.نہاؤ کپڑے بدلو.سخت گرمی سے پہلے ہی شہر سے باہر کھلے میدان میں زن و مرد سب جاکہ جمع ہوا.وہاں دو رکعت کی نماز ہے اور اسکے بعد ضرورتوں پر خطبہ (لیکچر) ام بلاد اسلام کے مسلمان بھائیوں کے اجتماع کے اسے صدر مقام و جگہ تجویزہوئی مسجد کی نظامت جماعت

Page 54

جہاں سے ایسے عظیم الشان حکیمانہ مذی کی نشو ونما اور ابتدا شروع ہوئی.لاہر ایک سلمان فقیرو یا امیر ہر سال اس کا وہاں جانا خلاف فطرت تھا اور خلاف امکان.اسلیئے حکم ہوا.آسودہ لوگ استطاعت والے مسلمان وہاں بہا دیں مختلف بلاد کے حالات جاننے اور اُنکے علوم و فنون کے ادھر سے اُدھر اُدھر سے ادھر لانے میں اصحاب استطاعت ہی غالباً عمدہ طور پر کامیابی کا ذریعہ ہوسکتے ہیں.کمال اتحاد اور با ہم پہلے درجے کی یکتائی کے واسطے اور اس لحاظ سے بھی کہ امرا اور روسان کے اور رورہے کے ساتھ اُنکے غریب کا کر چا کہ کبھی ہونگے اور ضرور ہے کوئی عاشق الہی غریب اور سکین مسلمان بھی وہاں جا پہنچے.حکم دیا تمام حجاج سادہ لباس صرف دو چادروں پر اکتفا کریں کسی کے سر پر عمامہ اور ٹوپی نہ ہو.کوئی کرنہ نہ پہنے.کمال درجے کی بے تکلفی اور سادگی سے با ہم میں اومد لَبَيْكَ لَبَيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لا شَرِيكَ كك کی صدا بلند کریں.اتنا بڑا اجتماع اس صدر مقام میں کہاں ہو شہر سے کئی کوس کے فاصلے پر نہایت وسیع میدان میں جہاں کسی مخلوق کی تعظیم کا نام و نشان ہی نہیں نہ کوئی پتھر نہ کوئی درخت نہ کوئی ندی نہ کوئی رتھے.حج کی بحث مفصل علیحدہ لکھی ہو.اُسے دیکھو وہاں ہر ایک فعل جو کی نسبت کلام کیا ہو.لطیفہ.ذرا ناظرین صاحبان اس امر پر غور کریں.میرے اکلوتے فرزند نے سلمہ اللہ و سلم جس کی جدائی سے نہایت سخت رنج میں ہوں.وَاشْكُو بَنِي وَحُزْنِي إِلَى اللهِ اللهُم اطلب وصاله إن كان مع رضاك ) مجھ سے نماز اور زکوۃ اور روزے اور حج کے اسرار پر سوال کیا.اس وقت میں نے اُسے جواب دیا.نیازمندی دو قسم ہوتی ہو.ایک نیازمندی خادمانہ.خدام کی نیاز مندی اپنے آقا اور بادشاہ کے سامنے.دوسری نیازمندی عاشقانہ عاشق کی محبوب کے ساتھ.پہلی قسم کے نیاز مند کو مناسب ہے.درباری لباس پہن کر بڑے ادب اور وقار سے مالک کے دربار میں حاضر ہو.اور تمام حکام اور مرتبوں کی اطاعت سے کان پر ہاتھ رکھکر اطاعت کا اقرار کرے.ہاتھ باندھ حکم کا منتظر رہے.مجھک کر تعظیم دے.زمین پر

Page 55

ما تھار کھے.حضور کے غریب نوکروں کیلئے نذر ہے.یہی مجملا حقیقت نماز اور زکواتی ہے.عاشقانہ نیاز میں ضرور ہو.عاشق اپنے محبوب کے سامنے عشق میں بھوک اور پیاس بھی دیکھے.نہایت درجے کے اُس عزیز کو بھی جسکی نسبت لکھا ہے.انسان ماں باپ چھوڑ کر اُس سے متحد اور ایک جسم ہوگا کچھ دیر کیلئے ترک کرے.اور جہاں یقینی طور پر سن لیا ہو کہ میرے محبوب کی عنایات اور توجہات کا مقام ہر وہاں دور تا گود نا س کے عمامے اور ٹوپی سے بے خبر پہنچے.پروانہ وار وہاں فدا ہو.کہیں تہمتوں کی روک ٹوک کی جگہ من پائے تو وہاں پتھر چل دے.یہی مجمل حقیقت روزے اور جن کی سمجھو.مولوی محمد قاسم مرحوم نے یہ صوفیانہ تقریر مفصل اپنے کسی رسالہ میں لکھی ہے.اس جواب پر میرے عزیز فرزند نے مجھے کہا.آپ جب اسرار شرائع اسلام بیان کرتے ہیں.تو انپر دو اعتراض وارد ہوتے ہیں.اول یہ اسرار جو آپ بیان کرتے ہیں.اگر واقعی اور سچے ہیں.تو خود خدا نے یا جناب رسالتم آپ نے یا آپ کے صحابہ نے کیوں بیان نہ کیئے.دوم.ان اعمال کے ساتھ اسلام نے یہ سند رکعات اور دعائیں کیوں لگا دیں.اگر رفت اجتماع قومی ہی جمعہ اور جماعت عیدین اور حج میں مقصود تھا.خاکسار نے اُس عزیز سے کہا.قانون قدرت پر نظر کرو.فوٹو گراف لیتھو گراف - ٹیلیگراف - چھا پہ.ریل اسٹیم کے اسرار عناصر میں اسوقت سے موجود ہیں.جب سے عناصر کو خالق عناصر نے پیدا کیا یہاں میرا عزیز غور کرے.الا نہ خدا نے اُسوقت ان اسرام کو بیان فرمایا.نہ اُسکے اُن مقربین بارگاہ نے جو اسوقت تھے انکی تشریح کی پھر کیا اسوقت کے بیان نہ کرنے سے لازم آتا ہو کہ یہ اسرار موجود ہی نہ تھے.اور یہ منافع جو آج ظاہر ہوئے.ان عناصر میں اسی زمانے میں موجود ہو گئے ہیں.عزیز من قانون شریعت ہاں اسلام بعینہ قانون الہی سمجھو.عزیز من قانون قدرت اور طبیعیات میں صرف وہی اسرار اور منافع نہیں جو حکمائے ا پیدائیش ۲ باپ ۲۴.-

Page 56

۴۹ یونان اور یورپ اور بقول آریہ سماج وا نایان ہند (توبہ آریہ دیش نے بیان کئے.بلکہ اور بے انت اسرار بھی ہیں.اگر طبعی قانون کے اسرار بے انتہا ہیں.اور صرف اس قدر نہیں جو ابتک حکما نے بیان کئے ہیں تو احکام اسلام کے اسرار بھی ایسے ہی سمجھو.معلوم نہیں زمانے کی ترقی پر کیاکیا اسرار قانون قدرت اور قانون شریعت میں ظاہر ہونگے.سلف امت اگر اسرار بیان کرتے.تو کسقدر اور کیا بیان کرتے.لطیفہ - اُسوقت جب میں یہ باتیں کر رہا تھا.یا اسکے قریب.ایک ہند و یا آریہ آتشک کا مبتلا بغرض علاج میرے پاس آیا.بیمار کو دیکھا.اُس کا وہ چھڑا جو مرد کی شرمگاہ پر ہوتا ہے اور ختنے میں کاٹ دیا جاتا ہے.اندر سے زخمی تھا اور مکن نہ تھا.پیچھے ہٹ سکے.ناچار اس بیمار کا ختنہ کیا گیا.میں نے کہا سبحان اللہ آج ختنے کی ضرورت مشاہدے میں آئی.اور ایک آرین کو ایک اسلامی مسئلہ بمجبوری ماننا پڑا.دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے.(ا) صرف اجتماع قومی ہی مقصود بالذات نہیں ہوتا.بلکہ اسلامہ کا منشاء ہو کہ ہر ایک فعل میں ہر ایک قول میں ہم کو ہمارا خالق اور رازق مرتی یاد رہے.کوئی فصل اور قول بدوں شمول نام باری و رضائے ایزدی نہ ہو.ہر وقت خانی اشیاء سے بقا کی طرف جسم سے روح کی طرف توجہ رہے.دیکھو پائخانے کو جاتے ہوئے ایک جسمانی نجاست پھینکنے کی جگہ جاتے ہیں.اسلام سکھاتا ہے.پاخانے میں جاتے وقت کہو.لصور اور جب پائخانے سے نکلے.تو اس واسطے کہ ایک جسمانی دُکھ سے نجات پائی.اورحیم سے جسمانی نجاست دور ہو گئی.روحانی نجاستوں کے دُور ہونے کی دعامانگے اور کہے غُفرانك یعنی ہر ایک برائی پر تیری مغفرت مانگتا ہوں.دوسری بات بجواب اعتراض دوم یہ ہے کہ اگر یہ روحانی محرکات الہی اذکار اور الہی نے اسے اللہ میں تجھ سے پلید یوں اور خبائث سے پناہ مانگتا ہوں".روحانی محرکات

Page 57

عبادتیں ان اعمال کے ساتھ نہ ہو تیں.تو یہ اعمال متروک ہو جاتے.باہمی اختلافات سے یہ انجمنیں مثل اور دنیوی انجمنوں کے فنا ہو جاتیں.یا یہ اعمال صرف دنیوی منافع پر محدود رہ جائے.اب ان اصول خمسہ اسلام کا ثبوت قرآن سے سُن لو.قرآن کے پہلے سیپارے پہلی سورت کی ابتدا میں ہے.Ľ ذلك الكتابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِيْنَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيمُونَ الصَّلوة وَمِمَّا رَزَ فَنْهُمْ يُنْفِقُونَ - ابتدای قرآن رَزَقْنا ياأيها الذين امنوا كتب عليكم القِيامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ - سُوره بقر - سیپاره ۲ - اللهِ عَلَى النَّاسِ حِبُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا سُوره ال عمران سیپاره لطیفہ.حج کے بیان میں دینی اور دنیوی دونوں قسم کے منافع کا بیان ان آیات سے نکلتا ہو.اول رکوع الْحَجَّ اشْهُرُ مَعْلُومَات میں لکھا ہے.فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَ مَالَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وقِنَا عَذَابَ النَّارِ - سوره بقر - سیپاره ۲ - ے اس کتاب میں کچھ شک نہیں راہ بتاتی ہے ڈر والوں کو جو یقین کرتے ہیں بن دیکھے (اللہ ) اور درست کرتے ہیں نماز اور ہمارا دیا کچھ خرچ کرتے ہیں.الغیب ہو اللہ تعالے ۱۳ ابن عباس !! سلک اے ایمان والو حکم ہوا تم پر روزے کا جسے حکم ہوا تھا تم سے اگلوں پر شاید ہم پر ہیز گار ہو جاؤ ہوں ہے اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا اس گھر کا جو کوئی پادے اس تک راہ ۱۳ وہ پھر کوئی آدمی کہتا ہے اسے رب ہمارے دے ہم کو دنیا میں اور اس کو آخرت میں کچھ حصہ نہیں.اور کوئی ان میں کہتا ہے اے رب ہمارے دے ہم کو دنیا میں خوبی اور آخرت میں نوبی ۱۳ دیکھو خالص دنیوی منافع اسلام میں ناپسند ہیں.

Page 58

۵۱ و اذن فِي النَّاسِ بِالحَج يَأْتُوكَ رِجَالًا وَ عَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فجر عَمِيقٍ لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ سُوره حج - سیپاره ۱۷ - فائدہ - حج میں فوائد کی تحصیل کا خیال رہے.غور کرو لفظ لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ پر.انسان پیدا ہوا لڑ کی بالٹ کا.تمام بلاد میں علی العموم اور عرب میں بالخصوص رواج تھا.لڑکیوں کو مار ڈالتے تھے اور لڑکوں کی نسبت کثرت اولاد کو ناپسند کرتے تھے.ایک یونانی حکیم کا قول ہے لنگڑے لڑکے قانونا ہارے جاویں.کثرت اولاد پر استقاط جنین اور مانع حمل ادویہ پوچھنے والے بہت سے لوگ میرے پاس آئے.انسانی قربانی کا جسے مہندمیں تو لی کہتے ہیں یہود میں عام رواج تھا.عرب کے ثبت پرست بھی اس بلائے بد میں گرفتار تھے مگر حضور تے ان امراض کا علاج ایسا کیا.جس کی نظیر نہیں.اور یہی بات خرق عادت ہے کہ ان امراض کا نام و نشان ملک عرب میں نہ رہا.دیکھو قرآن ان قبیح رسوم پر کیا فرماتا ہے.اذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ بِآتِ ذَنْبٍ قُتِلَتْ - سوره تکویر - سیپاره ۳۰ - تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمُوا يا كمان قتلهم - كَانَ خِطأُ كَبِيرًا - سورۂ بنی اسرائیل - سیپاره ۱۵ وَكَذلِكَ زَيَّنَ لِكَثِير مِنَ الْمُشْرِكين مثل أولادهم شركا وهم لِبُرُدُوهُمْ وَلِيَلْبِسُوا عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ سُوره انعام - سیپاره -۸ بیتائی کی تربیت اور پرورش اور قیموں کے حفظ اموال و اسباب کی تاکید فرمائی.لے اور پکارے لوگوں میں حج کے واسطے کہ آئیں تیرے پاس پیدل اور سوار ڈیلے ڈبلے اونٹوں پر چلتے آتے راہوں دور سے.کہ پہنچیں اپنے بھلے کی جگہوں پر یا ے جب بیٹی جیتی گاڑ دی کو پوچھے کس گناہ پر وہ ماری گئی ہوا کے اور مار ڈالو اپنی اولاد کو ڈر سے علی کے ہم روزی دیتے ہیں انکو در تم کو بیشک ان کا مار نابڑی چوک ہے " ہے اسی طرح بھی دیکھائی ہو بہت مشرکوں کو اولاد مارتی آنکے شریکوں نے کہ انکو ہلاک کریں اور انکا دین غلط کریں.

Page 59

۵۲ و أن تَقُومُوا لِليَمى بِالْقِسْطِ - ان الذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ اليَمى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِيم نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا - سورۀ نساء - سیپاره ۴ - أمْوَالَهُمْ إِلَى أَمْوَالِكُمْ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كبيرًا - سوره نساء - سیپاره -۴ پھر بچوں کے پیدا ہونے پرکسی فضول رسم کا نام ونشان نہیں.بچے کے پیدا ہونے کے بعد کلمات اذان کا بچے کے کان میں کہ دینا.اور ساتویں روز ایسے نام رکھنے کا حکم ہے جس میں الہی عظمت اور بزرگی ہو.اور باری تعالیٰ کے جامع صفات کا ملہ کا بیان ہو.یا اس کی رحمت عامہ کا تذکرہ.ات الاسراء إلَى اللهِ عَبْدُ اللهِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ اور بشرط وسعت محتاجوں کے لئے عمدہ غذا گوشت مہیا کر دینا قرآن نے سچ کہا ہے جو آپ کے حق میں کہا.وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأَغلال التي كانت عليهم - سوره اعمال سیپاره - توریت اور انجیل میں اول درجے کے دو ہی حکم ہیں.ایک باریتعالی سے پیار - دوسرا پڑوسی سے سلوک.قرآن پڑوسی کے ملوک سے آگے بڑھتا ہوں.اور میسوری تعلیم نے اور کھڑے ہو جاؤ یتیموں کے لئے انصاف کے ساتھ کلا لے جو لوگ کھاتے ہیں مال میموں کے ناحق وہ بھی کھاتے ہیں اپنے پیٹ میں آگ اور اب بیٹھیں گے آگ میں ".سے اور دے ڈالو یتیموں کو انکے مال اور بدل نہ لوگند استھرے سے اور نہ کھاؤ ان کے مال اپنے مالوں کے ساتھ یہ ہے بڑا وبال " کے ناموں میں بہت ہی پیارا نام اللہ کے نزدیک عبداللہ اور عبد الرحمن ہے.یا بہت ھے اور اُتارتا ہے اُن سے بوجھ اُن کے اور پھانسیاں جو انپر تھیں.۱۲

Page 60

۵۳ کی تکمیل کرتا ہے اور کہتا ہے.وَاعْبُدُ والله ولا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَ بِالْوَا لَدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبى والتقى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي القربى والجَارِ الْجُنبِ وَالصَّاحِب بالجنب وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ سُوره نساء - سیپاره ۵ - ناظرین! ذرا سوچو.جن لوگوں کو قرآن نے پڑوسی سے مقدم کیا ہو.وہ تقدیم کے قابل ہیں یا نہیں.قانون ازدواج میں اول تبتل کو منع فرمایا.پھر کثرت ازدواج کو جو نامه ایشیا کے مقدسوں اور شرف اور عوام میں مروج تھا.اس کو اخلاقی خوبی پر رکھکر محدود کیا.و انكحوا الا يا طي مِنْكُم وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ إِمَائِكُمْ إِن تَكُونُوا فقر او يُعيهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ سُوره نور - سیپاره ۱۸.ما نكحوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً - سوره نساء - سیپاره ۴ - غرض عدالت کی اخلاقی شرط لگا کر بیجا کثرت ازدواج کو روک دیا.گو کثرت ازدواج لحاظ قانون قدرت حرام نہیں.اور میں دلیری سے کہتا ہوں.توریت اور انجیل اور وید میں کثرت ازدواج کی نسبت صریح ممانعت کیا اتنی تحدید بھی نہیں.بلکہ ابراہیم جو کامل و راستباز اور تمام یہود اور نصاری اور اہل اسلام کا مورث اعلیٰ گذرا جو کچھ کثرت ازدواج کا نمونہ دکھا گیا.کتب مقدسہ کے دیکھنے والوں سے مخفی نہیں.اے اور بندگی کرواللہکی اور ملاؤ مت اُسکے ساتھ کسی کو.اور ماں باپ سے نیکی کرو اور قرابت والے سے اور یتیموں سے اور فقیروں سے اور ہمسائے قریب سے اور ہمسائے اجنبی سے.اور برابر کے رفیق سے اور راہ کے مسافر سے اور ہاتھ کے مال سے یہ اور بیاہ دور انڈوں کواپنے اندر اور بونی ہو اسلام انڈیا گروہ ہو تاکوتی کردیگا.پی نکاح کرو جو تم کو خوش آمین عورتیں دو دو تین تین چار چار پھراگر ڈرو کہ برابر رکھو گے تو ایک ہے "

Page 61

۵۴ موسی نے خود بہت سی بیبیاں کیں اور تحدید کا کوئی قاعدہ نہ فرمایا" و او د جو ہمیشہ خدا کی مرضی پر چلا.اس نے سو کی تعداد کو جس طرح پورا کیا.وہ حاجت بیان نہیں رکھتا.بیٹے کو ابتدا ہی عروج میں دنیا سے چلنا پڑا.اور جسقدر ہے.حضور کو سر رکھنے کی جگہ نہ علی شادی کہاں کرتے.رگوید- انو کا ۱۷ سکت ۱۰ - (۱۶) میں بہت سی کنواریوں کی اجازت صاف صاف ہوتی ہے.(عورتوں سے سلوک) یورپ میں.ہاں انگلستان میں کوئی عورت کوئی معاہدہ نہیں کر سکتی.جائداد کی مالک نہیں.نفقے کا دعوی کرے تو وہ دعلومی مسموع نہیں.شوہر کے ایام مفارقت میں جو کچھ کمائے.وہ سب کچھ شوہر کا زنا کی مجرم نہیں.خیانت مجرمانہ میں مجرم نہیں.مگر قرآن کہتا ہے.ه يُحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهَا سُوره نساء - سیپاره ۴ - ولَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ - سورة بقر- سیپاره ۲ - الرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا التسبواو اليسا و نَصِيبُ مِمَّا النسان - سوره نسا ببارد دیکھو قرآن کیسی مساوات کرتا ہے.اور پھر اس قدرتی فوقیت کو جو مردوں کو عورتوں پر سے کس لطافت سے بیان فرماتا ہے.الرجال قوامون على النِّسَاءِ سُوره نساء سیپاره -٥ والرجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةً سُوره بقر - سیپاره ۲ لے حلال نہیں تم کو میراث میں لے عورتیں زور سے ہے اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا ان پر حق ہے یا سے مردوں کو حصہ ہے اپنی کمائی سے اور عورتوں کو حصہ ہے اپنی کمائی سے !! کے مرد حاکم ہیں عورتوں پر کا اور مردوں کو اُن پر درجہ ہے ۱۲

Page 62

موشی یعقوب نے جو کامل کہلاتے ہیں محسر کی خدمت کر کے اپنے اپنے نکاح کی ہی الخدمت کا کا نفع عورت کے سوا دوست کو پہنچایا.پیدائیش ۱۳۹ بانت و خروج سحاب سموئیل ۱۰ و ۲۵ باب یوشع ۳ باب ۲ مگر قرآن کہتا ہے.اتُوا النِّسَاءَ صَدُقاته نحلة - سورة نساء - سیپاره ۴ - ا تُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً سُوره نساء - سیپاره -۵- عورت رکھنے کے فائدے اور معاشرت پر فرمایا.م لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ - سوره بقر - سیپاره ۲ - خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجَا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم موَدَّةً وَرَحْمَةً - سوره روم - سیپاره ۲۱ - ران آیات میں عورت اور مرد کی معاشرت کی نسبت باری تعالی اپنا عندیہ ظاہر فرماتا ہو.اور یہ فرما کر زن و مرد کے باہمی تعلق کو دائمی کر دیا.مُقْصِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ - سوره نساء - سیپاره ۵ - میرے خاص معترض با پادری صاحب - محصنین غیر مصالحین کا کلمہ حلالہ اور متعہ کو بھی حرام کرتا ہے.مگر آپ نے ان دنوں خاص خطہ میں حلالہ اور متعہ کے بارے میں مجھے ارقام فرمایا ہے.سو گزارش ہے.حسب قرآن اور احادیث صحیحہ یہ دونوں فعل اور دونوں میعاد معینہ کے نکاح حرام ہیں.نکاح میں تعیین مدت کا حکم کسی صریح آیت اور صحیح حدیث میں نکال دینا آپ سے نے اور دے دو عورتوں کے مہر اُن کے خوشی سے یا! لے حق.اُن کو دو اُن کے حق جو مقرر ہوئے ہوا میں وہ پوشاک ہیں تمہاری اور تم پوشاک ہو اُن کی 1 کے بنادی تم کو تمہاری قسم سے جوڑی کہ چین پکڑو اُن کے پاس اور کیا تمہارے بیچ پیار اور ہر یا کے قید میں لانے کو نہ ہستی مٹانے کچھ ۱۲ حلالہ اور متعة النساء

Page 63

۵۶ قیامت تک نا ممکن ہو سنیئے ہادی اسلام نے فرمایا ہے.(حلالے کی نسبت) عن على قال لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحلل والمحلل لها - یہ حدیث مسند احمد میں ہے.ترمذی اور ابن قطان اور ابن دقیق العید اور ابن اسکن نے اسکی تصحیح کی ہو.اور یہ حدیث علی مرتضیٰ سے امام احمداور ترندی اور ابو داؤد اور ابن ماجہ نے روایت کی ہو اور حتی تنکح زوجا غیرہ میں وہ نکاح مراد ہو جس کو شریع اسلام نے جائزہ رکھا اور شرعی نکاح پر لعنت کا حکم نہیں لگ سکتا معلوم ہوا حلالہ شرعی نکاح نہیں.اور متعہ النساء کی نسبت.عل له على بن ابي طالب أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن متعه النساء تو مذی وغیرہ نے اس حدیث کی تصحیح کی اور حرمت نفت النساء پہ آنحضرت صلعم کے اصحاب کا یقین تھا.ابن عباس قدیم ملکی روایات اور عادت کے باعث چند روز مجوز رہے جب انکو شرعی حکم کی اطلاع ہوئی تجویز متعہ سے رجوع کردی متعہ کی حرمت تمام حنفیہ اورشافعیہ اور مالکیہ اور حنابلہ اور اہلحدیث اور صوفیہ میں متفق ہے.متعہ کی ابدی تحریم اگر دیکھنی ہو تو دیکھو مسلم اور بخاری اور ترمذی یہ بات قانون قدرت میں صاف صاف مشاہدہ کیجاتی ہو.مختلف اسباب سے میاں بی بی میں جدائی کی نوبت پہنچتی ہے.اور باہمی نہایت تنفر پیدا ہو جاتا ہے.گو اسلام نے جدائی کی روکیں رکھی تھیں اور فرمایا.ا انْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ - اس آیت میں حکم دیا بی بی کو قبل نکاح پسند کر لو.پھر نکاح کرد اور فرمایا.وَعَاشِرُوا هُنَّ بِالْمَعْرُونِ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا ے روایت ہے علی مرتضیٰ رضو سے لعنت کی رسول اللہ نے حلالہ نکالنے والے اور نکلوانے والے پر ۱۳ علی مرتضیٰ سے روایت ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا عورتوں سے متعہ کرنا لا سل تو نکاح کرو جو تم کو خوش آویں عورتیں " ہے اور گذران کر عورتوں کے ساتھ معقول جولوگوں میں پسندہوں پھراگر وہ تم کو نہ بھاویں.توتم کو نہ بھاوے ایک چیز اور اللہ رکھے اس میں بہت خوبی ۱۲

Page 64

۵۷ وَيَجْعَلُ اللهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا.سُوره نساء - سیپاره ۴ - ناظرین با منصفانہ طور پر اس آیت کے معنی میں غور کرو تاکید معاشرت کے واسطے قرآن مذہبی طور پر کیسے سخت اور لطیف طرز اختیار کرتا ہے.اس آیت میں فرمایا.اگر کسی باعث سے بی بی ناپسند اور ناگوار ہوتب بھی سلوک ہی کرو.اس سلوک کے بدلے ہم تم کو بہت سی بھلائی دینگے.!!! اس عجیب و غریب انعام کے سننے پر بھی اگر کوئی کار بند نہ ہو تو اور تندا پر فرمائیں دیکھو.ا الَّتِي تَخَافُونَ نَشُورَ هُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُ وَ هُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ نَشُوزَهُنَّ سوره نساء - سیباره ۵ - وان خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنَهُمَا فَا بعنواحَكَما مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَما مِن أَها ها إن تُرِيدا اصلا حا تُونِي اللهُ بَيْنَهُمَا سُورۂ نساء - سیپاره ۵ - أمسك عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ الله - سوره احزاب سیپاره ۲۲ - الصلح خير- سورۂ نساء - سیپاره :- و ببُولَتَهُنَّ أَحَقُّ بِرَدّ مِنَ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا- سوره بقر سیپاره ۲ ހވހހހ ہاں زنا کا بد فعل اگر عورت سے سرزد ہو.اور یہ فعل منشائے نکاح کے بالکل خلاف تھا.اس ظہور کے وقت فرمایا.اے اور جن کی بدخوئی کا ڈر ہو تم کو تو اُن کو سمجھاؤ.اور جدا کرو سونے میں اور مارولا ے اور اگر تم لوگ ڈرو کہ وہ دونوں آپس میں منقدر رکھتے ہیں.تو کھڑا کرو ایک منصف مردوں میں سے اور ایک منصف عورتوں میں سے.اگر یہ دونوں چاہیں گے صلح تو اللہ ملاپ کر دیگا اُن میں ۱۲ کو رہنے دے اپنے پاس اپنی جو رو اور ڈر اللہ سے " ہے اور مسلح اچھی بات ہے کیا ھے اور اُن کے خاوندوں کو پہنچتا ہے پھر لینا اُن کا.اگر چاہیں صلح کر لیں کیا

Page 65

۵۸ ولا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا أَتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ - سوره نساء - پاره ۴ - وَلا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُ جُنَ إِلا أَن يَأْتِينَ بِعَامِشَة مبينة - سورة طلاق - سیپاره ۲۸ - جب ان تدابیر سے باہمی معاشرت میں فتور ہوا.اور دلی روابط زن و شوئے ٹوٹ گئے.تو صرف جسمانی تعلق کو جوایک جسم بلا روح تھا.روحانی شارع سے پسند فرمایا اورطلاق کی اجازت بخشی مالکن ایک ہی طلاق کی اور تین مہینے تک باہمی مصالحے کی مہلت دی اور فرمایا.إِذَا طَلَقْتُمُ النِّسَاء فَطَلِقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَاحْصُوا الْعِدَّةَ وَ اتَّقُوا الله سوره طلاق - سیپاره ۲۸ - اسْكُنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وَجدِ كُمْ وَلا تُصَارُ وهُنَّ لِتُضَيقُوا عَلَيْهِنَّ - سوره طلاق - سیپاره ۲۸ - މށްމ.فإذا بلغت أجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِ تُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ سوره طلاق - سیپاره ۲۸ ولا تُمْسِكُوهُنَّ مِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَل ذلك فقد ظلم نَفْسَه.رسوره بقر - سیپاره ۲ - - اے اور نہ اُن کو بند کرو.کہ لے لو اُن سے کچھ اپنا دیا.مگر جب وہ کریں بی پائی ہو م کو.وہ اور مت نکالو ان کے گھروں سے اُن کو.اور وہ بھی نہ نکلیں مگر جو کریں صریح بیحیائی یا مگر سے اے نبی جب تم طلاق دو عورتوں کو تو انکو طلاق دو انکی خدمت پر اور گنتے رہو عدت اور ڈر واللہ سے ملا کے گھر دو انکو رہنے کو جہاں سے آپ رہو.اپنے مقدور سے اور ایذا نہ چاہو انکی یا تنگ پکڑو انکولا ہے پھر جب پہنچیں اپنے وعدے کو تو رکھ لو ان کو دستور سے یا چھوڑ دو ان کو دستور سے ۱۲ ے اور سمت بند کرو ان کے ستانے کو نا زیادتی کرو اور جوکوئی یہ کام کرے اس نے برا کیا اپنا ہیں

Page 66

۵۹ فلا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكَحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ - سوره بقر - سیپاره ۲ - سوچو تو صحیح نکاح میں طرفین کی رضا مندی اور باہمی پسندیدگی جیسے آیت فانکی وال مَا طَابَ لَكُم - اور حدیث عقبہ بن عامر سے ثابت ہے.نه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ أَتَرْضَى أَنْ أَزْوَجُكَ فَلَانَةً قَالَ نَعَمْ وَقَالَ لِلْمَرْأَةِ أَتَرْضَيْنَ أَنْ أَزَوْجُكَ فَلَانَا قَالَتْ نَعَمْ - فَزَوَجَ احَدُهُمَا صَاحِبَہ اور طرفین کے اولیا اور اقارب کی رضا مندی جو حدیث.نكاح الأبولي وَشَاهِدَ کے عدل - احمد دار قطنی بہقی نے روایت کی تاب ہے.اور پھر اگر خاوند کوئی بد سلوکی کرے یا کہیں پیغبر ہو کر چلا جاوے.یا ایسے امراض اور اسباب میں گرفتار ہو جاوے جب سے عورت کو ضرور ہو.تو اسپر فرمایا.ولا تُمْسِكُوهُنَّ مِرَارًا وَلا تُضَارُ وهُنَّ - سوره طلاق سیپاره ۲۸ ما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَج - سوره حج - سیپاره ۱۷ - جو کوئی خدا سے ڈرے شرعی احکام پر پابند ہو.اور آیات متذکرہ بالا پر عمل کرے.اُسے کوئی تکلیف نہیں.من يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا سُوره طلاق سیپاره ۲۸ - ربے موقع نہ ہو) پادری صاحب کی ایک اور اعتراض اسوقت سامنے آگیا.فرماتے ہیں.ے تو اب نہرو کو انکو کہ نکاح کر لیں اپنے خاوندوں سے " سے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے پوچھا کہ آیا تو راضی ہو اسپر کہ تیرا نکاح فلاں غور کیے تھے کیا دوں.اُس نے کہا ہاں.پھر آپنے ایک نور سے فرمایا کہ آیا تو راضی ہوا اسپر کہ تیرا نکاح فلاں مرد کے ساتھ کرا دوں.اُس نے عرض کیا ہاں.پس آپنے ان دونوں کا نکاح کر دیا.سے یعنی بغیر دو گواہ عادل اور ولایت ولی کے نکاح صحیح کامل نہیں ہوتا یا ہے اور مت بند کرو اُنکے سنانے کو ۱۲ اور ایذا نہ پہنچاؤ انکو یا نہیں رکھی تیر دین میں کچھ مشکل کیا ہے اور جو کوئی ڈرتا ہو ان سے وہ کر دیتا ہو اسکا گذاشت

Page 67

۶۰ اسلام نے (خدا کی پناہ عور سے خلاف وضع فطرت جائزہ رکھا ہے.پادری صاحب ! اللہ تعالے نے قرآن میں عورت کو کھیتی کہا ہو.اور خلاف وضع فطرت میں عورت کھیتی نہیں رہتی.دیکھو.نساء كُم حَرُثُ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ ـ سُوره بقر - سیپاره ۳ باہمی معاملات میں راستی اور سچائی (ا) وَيْلَ لِلْمُطَفِينَ الَّذِينَ إِذَا الْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ - وَإِذَا كَالُوهُمْ اوور نُوهُمْ يُخْسِرُونَ ، سور و تقطیف سیپاره ۳۰- (۲) أَوْفُوا الكَيْلَ إِذَا كُلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ المُسْتَقِيم - سورة بنى اسرائيل سيپارةُ (۱) اوفوا بِالْعَهْدِ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْدُولاً - سورة بنی اسرائیل - سیپاره ۱۵ - ۱۵ (ا) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَخُونُوا اللهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا آمَا نَتِكُمْ سُو انقال بارة - نَ اللهَ يَأْمُرُكُمْ لَن تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا سُوره نساء سیپاره ۵ (۲) وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَ لَوْ كَانَ ذَا قُربى وَبِعَهْدِ اللهِ أو فَوا ذلِكُمْ وَضَا كميم - سوره انعام - سیپاره ۸ ے عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تمہاری سو جاؤ اپنی کھیتی ہیں یا ین خرابی ہو گھٹانیوالوں کی وہ کہ جب ناپ لیں لوگوں سے پورا بھرلیں اور جب ناپ دیں ان کو یا تول دیں تو گھٹا کر دیں سے پورا بھر دو باپ جب باپ دینے لگو اور تو لو سیدھی ترازو سے ۱۲ اور پورا کرو قرار کو بیشک قرار کی پوچھ ہے.تھے اور پورا کرو قرار اللہ کا جب آپس میں فرار دو اور نہ توڑو قسمیں کھی کیئے اچھے ؟ نے اے ایمان والو چوری نہ کرو اللہ سے اور رسول سے یا پوری کرو آپس کی امانتوں میں لا ک اللہ تمکو فرماتا ہے کہ پہنچاؤ امانتیں امانت والوں کو بیلا 22 اور جب بات کہو تومن کی کہو.اگرچہ وہ ہو اپنے ناتے والا اور ان کا قول پورا کرو یہ تم کو کہ دیاہے یا ۰۵

Page 68

۶۱ (۱) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أو الْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ سُوره نساء - سیپاره -۵- (۳) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَ أَمْ لِلَّهِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَنْ لَا تَعْدِلُوا اعْدَلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوى - سوره مائده - پاره + - سانه ها الَّذِينَ امَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ - سُوره مائده - سیپاره - 4 والحفظوا أيْمَانَكُمْ سُوره مائده - سیپاره باہمی محبت - إنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُم تُرْحَمُونَ - سوره حجرات - سیپاره ۲۶ - ياأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْم مَنْ قَوْمٍ عَسَى أَن تَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلا نِسَاء مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُن خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تنا بزُوا بِالأَلْقَابِ بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الإِيمَانِ - وَمِن لَم يتب فولاكَ هُمُ الظَّلِمُونَ - سورة حجرات سیپاره ۲۶ ے اے ایمان والو قائم رہو انصاف پر گواہی دو اللہ کی طرف اگرچہ نقصان ہو اپنا یا با یک یا قرابت والوں کا ۱۲ اے ایمان والو کھڑے ہو جایا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو انصاف کی اور ایک قوم کو شمنی کے باعث عدال نہ چھوڑو.عدل کرو.یہی بات لگتی ہے تقوے سے ۱۲ سے اسے ایمان والو پورا کرو اقرار ۱۲ - ہے اور نگاہ رکھو قسمیں اپنی ۱۲.ٹے مسلمان جو ہیں سو بھائی ہیں.سو ملا دو اپنے دو بھائیوں کو اور ڈرتے رہو الہ سے شاید تم پر رحم ہو گا اے ایمان والو ٹھٹھانہ کریں ایک لوگ دوسروں سے شاید وہ بہتر ہوں اُن سے.اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے شاید وہ بہتر ہوں اُن سے.اور عیب نہ دو ایک دوست کو اور نہ نام ڈالو پڑھ ایک دوسر کی.برا نام ہے گنہ گاری پیچھے ایمان کے اور جو کوئی تو بہ کرے تو وہی ہیں بے انصاف ۱۳ -

Page 69

۶۲ يا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِ انهُ وَلَا تجَسَّسُوا وَ لَا يَغْتَبْ بَعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ تَوَّابُ رَّحِيم - سوره حجرات سیپاره ۲۶ - رکوع ۱۴ - بايُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُم مِّن ذَكَرٍ وَ أُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لَتَعَارَفُوا اِن أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِير - سوره حجرات - پاره ۲۶ - اور حدیث میں آیا ہے.لَا يُؤْ مِن اَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ الأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ.اور قرآن کریم نے مخالف قوموں سے سلوک کی بابت فرمایا.ولا تستوى الْحَسَنَةُ وَلا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وبينَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلَى حَمِه وَمَائِلَة هَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلقها إلا ذُو حَظٍّ عَظِيمٌ - سوره سجاده - سیپاره ۲۴ - رکوع ۱۹ - ويدرهُونَ بِالْحَسَنَةِ السيئة أولئِكَ لَهُمْ مُقه الدارِ سُوره رعد - پاره أُولئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَرَّتَيْنِ مَا صَبَرُوا وَيَدْرَهُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَة.سوره قصص - سیپاره ۲۰ - ے اسے ایمان والو بچتے رہو بہت تہمتیں کرنے سے مقر بعضی تہمت گناہ ہے اور نہ بھی ٹو لوسی کا اور بدنہ کہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کو.بھلا خوش لگتا ہے تم میں کسی کوکھا وے گوشت اپنے بھائی کا جو مردہ ہو.سو گھن آتی ہو تم کو اُس سے اور ڈرتے رہو اللہ سے بیشک اللہ معاف کرنے والا ہے مہربان " ے اسے آدمیو! ہم نے تم کو نا یا نر و مادہ اور کر دیں تم میں ذاتیں اور قبیلے تاکہ پہچان لو بیشک بزرگ تم میں سے اللہ کے نزدیک بڑے ادب والا ہے.بیشک اللہ جاننے والا ہے خبر دار ہے اور برابر نہیں ہوتی نیکی اورنہ ہی جواب میں تو کہ اس سے بہت پر جو دیکھے تو میں تجھ میں شمنی تھی جیسے دوستدا ہے نانے والا اور یہ بات ملتی ہو انھیں کو جو سہارا ر کھتے ہیں اور یہ بات ملتی ہو اسکو جسکی بڑی قسمت ہے.اور کرتے ہیں برائی کے مقابل بھلائی اُن لوگوں کو ہر پچھلا گھر ۱۲ ش وہ لوگ پادینگے اپنا حق دو ہرا اسپر کہ ٹھیرے رہے اور بھلائی دیتے ہیں برائی کے جواب میں کیا

Page 70

۶۳ ر عملدر جو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں اور اسلام کے مسائل سے انکو انکار ہے.اگروہ حمہ آور ہوں اور اسلام کے استیصا پر کمر باندھیں تو اسلام جو خلق فطرت کا کلام و علی العلیم لوگوں کو کمزوری کی علیم ہوتے رنے کی اور طاقت سے باہر تکلیف نہیں دیتا.ہر ایک منصف اپنے دل میں سوچ لے.ایک گال پرطمانچہ کھا کر دو سے گال کو سامنے رکھنا.جو ایک میل بیگاریں لیجاوے.اُسکے ساتھ دو میل پہلے جانا عام لوگوں سے دلی محبت کے ساتھ ہو سکتا ہے.نگر نہیں ہو سکتا.تو عالمگیر مذہب میں ایسا کلام بے فائدہ ہوگا.اسی واسطے اسلام فطری قومی میں انتقامی طاقتوں کو مد نظر رکھ کر غور کرو کس لطافت کے ساتھ اخلاقی شریعت کی تکمیل کرتا ہے جزاء سَيِّئَةٍ سَيِّئَةَ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ - سوره شوری - سیپاره ۲۵ - رکوع ۴ - ران ما قبتُم فَعاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُو قِبْتُمْ بِهِ وَلَئِن صَبَرُ تُم لَهُوَ خَيرُ للصَّابِرِينَ - سوره نحل - پاره ۱۴ - رکوع ۲۲ - وقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِین - سوره بقر - سیپاره ۲ - رکوع ۸ محمد رسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ سُوره فتح پاری على العموم منکرین اسلام سے جنگ جائز نہیں.غور کرو آیات سابقہ پر.ے اور برائی کا بدلہ برائی ویسی ہو.پھر جو کوئی معاف کرے اور سنوار سے سو اس کا ثواب ہے اللہ کے فرقے کیلا اور اگر بدا لو تم میں بدلہ لو برابر اس چیز کے کہ ایزا دیئے گئے ہو تم ساتھ اس کے اور البت اگر مہر کہو تم البتہ وہ بہتر ہے واسطے صبر کرنے والوں کے یہ اور پر خدا کی راہ میں سر جوڑ میں تم سو اور ہرگنہ زیادتی مت کرو.بیشک اللہ پسند نہیں کرنا زیادتی کرنیو الی یکی میں محمد للہ کا رسول اور اس کے ساتھ والے منکروں پر سخت اور آپس میں نرم دل اور رحیم ہیں یا

Page 71

۶۴ يَنْكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ اَن تَبَرُّوهُم وتُقْسِطُوا إِلَيْهِمُ اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ إِنَّمَا يَنهيكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّيْنِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهِرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوهُمْ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَئكَ هُمُ الظَّلِمُونَ.سُوره ممتحنه - پاره ۲۸ - رکوع - - فَاعْفُ عَنْهُمْ وَقُل سَلَام - سوره زخرت - سیپاره ۲۵ - فالته عَنْهُمْ وَاصْفَحات اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ سُوره مائد سيارة.واليَعْفُوا وَ ليَصْفَحُوا أَلا تَحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللهُ لَكُمُ سُوره نور سیپاره -۱۸ غلامی کی نسبت فرمایا فا ممَّا مَنَّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا سُوره محمد سیپاره - ركوع اسلام میں مخالف قیدی جب جنگ سے آتے اور اُس وقت اُنکا واپس کرنا مصلحت نہ ہوتا.تو پر ورش اور تربیت کے واسطے مجاہدین کے سپرد ہوتے.اور حکم ہوتا جو کھاناتھ کھاؤ.ران کو دو جو تم پہنو انکو پہناؤ.طاقت سے زیادہ کام مت بتاؤ.ہاں جیل خانوں اور دریائے شور کے دُکھ نہ دیئے جاتے تھے.لہ نہیں من کرتا تم کو ان ان لوگوں سے کہ نہیں لڑے تم سے بیچ دین کے اور نہیں نکال دیا ت کو گھروں تمہارے سے یہ کہ احسان کر و تم ان سے اور انصاف کرو طرف اُن کے تحقیق اللہ دوست رکھتا ہے انصاف کرنے والوں کو سوائے اسکے نہیں کہ منع کرتا ہے تم کو الہ ان لوگوں سے کہ لڑے تم سے بیچ دین کے.اور نکال دیا تم کو گھروں تمہارے سے اور مددگاری کی اوپر نکال دینے تمہارے کے.یہ کہ دوستی کہ تم ان سے.اور جو کوئی دوستی کرے اُن سے پس یہ لوگ وہ ہیں ظالم اسے پھر عضو کر اُن سے اور کہ سلام یا سال پس اُن سے عضو کہ اور درگذر بیشک احسان والے خدا کو پیارے ہیں یا اور ضرور عفو کرو اور درگذر کیا تم نہیں چاہتے تمہاری مغفرت ہو " شه پس یا احسان کی جو پیچھے اسکے اور یا بدار لیمو یہاں تک کہ رکھنے بوسے لڑائی بوجھ اپنے ہیں

Page 72

محرمات کی نسبت فرمایا قُلْ إِنَّمَا حَرَمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللهِ مَا لَمْ يُنَزِّلُ بِهِ سُلْطَا نَّا أَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ - نکاح میں قریب کے رشتے کو رام فرمایا ماں ہوں وغیرہ کے ساتھ نکاح کو نامنع کیا.امام مشرب میں شراب اور گرد آر اور ایسے چرند و پرند کا کھانا حرام کیا جن کا کھاناجسم یا اخلاق کے لیے مضر ہو.مثلا سورگندگی کا عاشق.بے حیا.حملے میں نا عاقبت اندیش جانوروں میں ایک ہی ایسا ہے.جو نہ سے جماع کرے اور لواطت کا مرتکب ہو.اور جسکے گوشت میں کدو دانے کا مادہ ہے.اور گتا جو پچاس من کے مردار کے پاس اپنے ہم قوم کو آنے نہ دے.با اینکہ اسکی ضرورت سے زیادہ موجود ہے.اسکو بھوک کی طاقت نہیں اور حد سے زیادہ خوشامدی اور بیجا اور درندے آرام کیئے.اسلام کا احسان عام اول توحید الہی کو کھایا اور بتایا.خدا ہی متصف بصفات کا ملہ اور ہر برائی سے پاک ہو.خدا ہی عبادت کے لائق ہے.ندوہ کسی کا بیٹا نہ وہ کسی کا باپ.نہ ممکن کہ وہ یہود سے مار کھائے.نہ مکن پتھروں میں حلول کرے.جو رو نہیں رکھتا.جو بہکا لیجانے والے سے لڑائی کی اُسے صحابیت ہو.کل شیء کا خالق ہے.ارواح اور ذرات عالم اور انکے خواص اور زمانہ وغیرہ سب اسی کا بنایا ہوا ہے.وہ پیدا کرنے میں کسی چیز کا محتاج نہیں.دوم تمام مقدسوں کی بے ادبی سے منع کیا.اور فرمایا.لا تسبوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ.سوره انعام - سیپاره ا تو کیہ ضرور حرام میں میرے رب نے کھلی اور چھپی ہے جیائیاں اور گناہ اور بغاوت ناحق.اور مشرک جیپر کوئی دلیل نہیں.اور خدا پر لگانا ہے علمی سے ۱۲ اور تم لوگ بُرا نہ کہو جن کو وہ پکارتے ہیں اللہ کے سوا کہ وہ برا کہ بیٹھیں الہ کو بے ادبی سے بے سمجھے گا

Page 73

۶۶ سوم.کل دنیا میں مندرین کا آنا تسلیم فرمایا.اور انصاف سحر مذاہب پر کلی انکار نہیں کیا.بلکہ تمام انبیا ورسل پر یقین کرنا.اور انپر ایمان لانا بنایا اور فرمایا.دو ان مِنْ أُمَّة الأَخَلَا فِيهَا نَذیر - سوره فاطر - سیپاره ۲۲ - والَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا نُزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ أولياكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ - سوره بقر سيپاره ۱- رکوع ۱ - چهارم کسی نبی کی نسبت طعن نہیں کیا انہی کی تعلیم پر کہیں بھی نکتہ چینی نہیں کی ایک نصائح کو بدون طحن تشنیع بیان کیا ہے.مطاعن بیان کرنے میں بالکل سکوت فرمایا.یہود اور عیسائیوں کو فرما سکتے تھے.تم کن لوگوں کے تابع ہو.لوط اور یعقوب.داؤود اور سلیمان حسب کتب عہد عقیق کیے تھے.بلہ تمام بزرگان یہود اور مسیح کی عظمت بیان کی.برائے نام بھی ان کے مطاعن کا تذکرہ نہ فرمایا.بڑی مدح سرائیاں کیں.عیسائیوں آریوں یہودیوں کی عادت ہے کسی کی مذہبی خوبیوں سے چشم پوشی کر کے اسکے مطاعن بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں.عیسائیوں کی مقدسہ کتب میں ایسے ایسے خطرناک حالات انبیا کے مندرج ہیں جن کے پڑھنے سے ان بزرگوں کے چال چلن پر حرف آتا ہو.اور پھر جب قائل کی حقارت ثابت ہوتی ہو تو اسکے کلمات کی عظمت خاک بھی نہیں رہتی.مقدس کتابوں میں اگر لکھا ہو کہ فلا شخص حسب عام رائے ہمعصروں کے شرابی اور کھاؤ اور بدکاروں کا دوست تھا.تو ایسے شخص کی تعلیم پر کیا توجہ ہوگی.پنجو علم کی ترقی پر بڑی ترغیب دی.انَّمَا يَخْشَى اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَماء - سوره فاطر سیپاره ۲۲ رکوع ۱۵ ے کوئی بھی گروہ نہیں مگر اُن میں نذیر گذر ہے.(انتہ.معلم خیر ) ۱۲ اور جو یقین کرتے ہیں.جو کچھ اترا تجھ پر اور جو اترا تجھ سے پہلے اور آخرت کو وہ یقین جانتے ہیں.انہوں نے پائی راہ اپنے رب کی.اور دیہی مراد کو پہنچے.۱۲ ہ اللہ کے بندوں میں سے اللہ سے علم والے ہی ڈرتے ہیں "

Page 74

۶۷ و فَعَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ سُوره مجادله سیپاره قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ - سُوره زمر- سیپاره ۲۳ قُل رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا - سُورة بنى اسرائيل - سیپاره ۱۵ - اعوذُ بِاللهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ - سوره بقر - سیپاره ۱ رکوع ۸ تعلم علم اور تعلیم کی نسبت فرمایا اعلی تعلی قول انفَرَ مِن كُل فرقة منْهُمْ طَائِفَة لِيَتَفَقَهُوا فِي الدّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إذَا رَجَعُوا اللَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ - سوره توبة - سيپاره ۱۱ - ا تَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُم لَا تَعْلَمُونَ سُوره نحل سیپاره -۱۴ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَه سُوره آل عمران - سیپاره ۴ - وَمَنْ أَحْسَنُ قَوَلا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا - سوره سجده فصلت سیپاره نے اللہ تم سے ایمان والوں اور علم والوں کے ہی در حبات بڑھاتا ہے ہوا ملے تو کہ علم والے اور بے علم کیا برابر ہونگے.نہیں کیا ے تو کہ اسے میرے رب مجھے علم میں ترقی دے.It میوں میں پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ ہو جاؤں جاہل ۱۲ ه سو کیوں نہ نکلے ہر فرقے میں سے اُن کے ایک حصہ تا سمجھ پیدا کریں دین میں اور تا خبر پہنچا وہیں جب پھر آویں اُن کی طرف شاید وہ بیچتے رہیں ۱۲ ذکر والوں سے پوچھ لو.اگر تم نہیں جانتے " ہے اور جب لیا اللہ نے پختہ اقرار کتاب والوں سے کہ اسکو بیان کرو گے لوگوں کے پاس اور نہ چھپاؤ گے یا شے اُس سے اچھا کون ہے بولنے میں مری نے خدا کی طرف بلایا.اور اچھے عمل کیئے.

Page 75

ششم جمہوری سلطنت قائم کی رعایا کی آزادی کو دیکھو.هم شُوا بَيْنَهُمْ سوره شوری سیپا الذينَ اسْتَجَابُو الرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَاَمْرُهُـ شاوِرُهُمْ في الأمر - سورة آل عمران - سیپاره ۴ - انمار ليكُمُ اللهُ وَرَسُولُهُ - سوره مائده - سیپاره -4- اتین اور بغاوت کی بیخ کنی کی.۲ ا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالاثْمَ والْبَغْيَ سُوره اعراف - سیپاره تمام نیکیوں کا مدار قیامت پرایمان لانا تھا.قیامت کو کیسے کیسے دلائل ہو ثابت کیا.که عقل دنگ رہ جاتی ہے.توریت میں قیامت کا صاف صاف تذکرہ بھی نہیں اسید اسکوی یہود کا ایک فرقہ بالکل منکر تھا.مسیح کو بدقت ثابت کرنا پڑا.الا قانون قدرت کے دلائل سے ثابت نہ کیا.بخلاف قرآن کے کہ اُس نے قیامت کا مسئلہ مہر مہین کر دیا.موت.جو ایک ضروری اور ہر ایک فقیر و امیر کے لئے قدرتی اور لابدی ہے اسکے وقوع پر بائیں خیال کہ مردے کے اجزا ہوا میں نہ پھیلیں.گہری زمین میں گاڑ نا تجویز کیا غسل دیا سادے ایک یا تین کپڑوں میں لپیٹ کر دفن کیا.اور مردے کیلئے کھڑے ہو کر دعا مانگنے کا مدیا و دیبا پر کاش میں لکھا ہے گائے کا گوشت پکانے سے ہوا میں ردی اجزا پیدا ہو کر پھیلتے ہیں.اور ایک پرچے میں لکھا ہے.ہیضے والے کے کپڑے جلا نا بری بات ہو.اس سے ہوا میں روی اجزا اپھیلتے ہیں.پھر مردے کے جلانے کے فوائد حجب بیان کرنے لگا.وہ پہلا مضمون 17 نے اور ایمان والے وہ جنہوںنے حکم مان اپنے رب کا.اور درست رکھی نماز اور انکی حکومت ہر مشورے سے آپس میں یا ہے اور مشورہ کر لیا کر اُن سے حکم میں ملا سے تمہارا ولی اللہ اور اُس کا رسول ہے.کہ بیشک عوام کیا میرے رہنے بے حیا باتیں کھلی اور چھیں اور گناہ اور بغاوت ہیں くす

Page 76

49 بھول گیا.سچ ہے در ونگو را حافظہ نباشد - مرنے کے بعد بھی نا امید نہیں کیا.دیکھو مقالات ابو الحسن الاشعری اور مستند احمد میں اسود این تشریح اور ابو ہریرہ کے احادیث جن میں برزخ اور میدان محشر میں شرعی احکام اور ان کی تکالیف کا حکم ہے.اور دیکھو شرح منازل ابن قیم میں ہے.وَمَن طَعَنَ فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ بِأَنَّ الْأَخِرَة دَارُ جَزَاء لَا دَارُ تكليف فهذه في الأحاديثُ مُخَالِفَة لِلْعَقْلِ فَهُرَجَاهِلَ فَإِنَّمَا التَّعلِيفُ أن ينقطع يد حول أي القرار الجنة والنار پھر الہی رحمت کی نسبت اسلام میں آیا.كتب رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ وَرَحْمَتُ، سَبَقَتْ عَضَبَه - غرض اسلام نے تو عید - صبر اور شکر.خوف اور باری تعالیٰ سے امید اور رضا اور زہد اور عبادت - تقومی.قناعت سخاوت - احسان حسن ظن حسن خلق حسن معاشرت صدق - اخلاص - عفت - شجاعت علم وعمل اور تمام بھلائیوں کے کرنے کی تاکید فرمائی.شرک اور غل اور کینہ اور حسد - تکبر حب الثنا- ریا - غضب - عداوت يغض طمع بخل فخر لا یعنی میں نوض - عیاشی اور شکستی بحرا مخوری- بیحیائی - قلت رحمت - مکر - دعا.خیانت چغلی جہل جین اور ہر ایک برائی سے ممانعت کر دی.طعن کیا گیا ہے مسلمانوں میں کسل اور مستی حرام خوری عیاشی فضول خرچی - فرود پر یہ صرف اسلام کی تعلیم کا نتیجہ ہے پر سنو.یہ آیات کن لوگوں کی مقدس کتاب میں ہیں.ے اور جس نے ان احادیث میں طعنہ کیا کہ آخرت دار جیہا ہے نہ دار تکلیف.پس یہ احادیث عقل کے خلاف ہیں وہ جاہل ہے.کیونکہ تکلیف جنت اور نارمیں پہنچنے پر موقوف ہوگی کیا ہے یعنی لازم کر لیا تمہارے پروردگار نے اپنی ذات پر رحمت کو اور رحمت اسکی خالی ہے اس کے غضب پر کیا

Page 77

ايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا انْفَقُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا كَسَبْتُم وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ - سورۃ بقر - سیپاره ۳ - بانيها الذين امنوا كُلُوا مِن طيبت ما رزقناكم وَاشْكُرُوا الله إن كُنتُم إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ - سوره بقر - سیپاره ايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْدُ لُوَابِهَا إلَى الكامي لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالاثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ سُوره بقر سیپاره ۲ هوا مِهَارَزَ فَكُمُ اللهُ عَلا لا يا وَ اتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنتُمْ بِهِ مُؤْمِنُونَ سُورَهُ مانده پارَةً.وَلا تَقْرَبُوا الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلاً- سورة بنى اسرائيل سيپار يا أَيُّهَا الَّذِينَ امنوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَ المَيْسِرُ وَالأَنْصَابُ وَالاَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ وَكُلُوا -L عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ سُورۂ مائدہ - سیپاره ، عیاشی کو یہانتک نفرت دلائی که بد کار عورتوں اور سیلیوں سے نکاح کے بارے میں کہا.الزَّافِ لَا يَنكِمُ إِلَّا زَانِيَةُ أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَة لا ينكها الاذاب أَوْ مُشْرِكَ وحرم ذلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ - سوره نور سیبار ١٨ ے ایمان والو خرچ کر وشتری چیزیں اپنی کمائی سے اور اسے جو ہم نے نکالیں تمہارے لئے زمین سے ۱ ہے اسے ایمان والو کھاؤ ہمارے رزق سے ستھرے اور اللہ کا شکر کرو.اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو کیا سکھ اسے ایمان والو مت کھاؤ آپس میں مال ناحق اور نہ پہنچاؤر اُن کو مالکوں تک کہ کھا جاؤ کاٹ کر لوگوں کے ۱۲ قال سے مارے گناہ کے اور تم کو معلوم ہے یا ہے اور کھاؤ اس میں سے جو دیا تم کو خدا نے حلال اور تھرا اور خدا سے ڈرو جسر تمہارا یقین ہے یا ے زنا کے نزدیک بھی مت جاؤ بے شک یہ بے حیائی ہے اور تیری راہ ۱۲ ان اے ایمان والو شراب اور جہا اور بت اور فالیں.گندی باتیں شیطانی کام میں پیس بچو.تاکہ نجات پاؤ.که بد کار مرد نہیں بیاہتا مگر عورت بدکار یا شرک والی.اور بد کار عورت کو بیاہ نہیں لیتا مگر بدکار مرد یا شرک والا.اور یہ حرام ہوا ہے ایمان والوں پر کیا

Page 78

اسراف اور حق تلفی اور غرور کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے.وَاتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَدِّرُ تَبْذِيرًا - إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ - سورۂ بنی اسرائیل - سیپاره ۱۵ - ولا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولا كل ذلك كَانَ سَيْتُه عِندَ رَتِكَ مَكْرُوها - سورة بنی اسرائیل سیپاره -۱۵ رکوع مسائل ذات و صفات باریتعالی اور توب او از کار او شر و شر کا ناک کو تعلیم قرآنی کو چند آیات کی تحریر پر ختم کرتا ہوں.دیکھو آخر سورۂ فرقان.عِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَ إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قالوا سلاما - والذين يبيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَ يَا مَا وَ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِف هنا عذابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَا مَا إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرَّ أَو مُقَامًا - الَّذِينَ إِذَا انْفَقُو الم يسي قُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا - و الَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ الها اخر ولا يَقْتُلُونَ النَّفْس التي حرم الله نے اور دے رشتہ دار کو امر کا حق اور مسکین کو اور مسافر کو اور اسراف مت کہ اسراف والے شیطان کے بھائی ہیں.ہے اور مت چل زمین پر اترانا.تو پھاڑ نہ ڈالی گازمین کو اور نہ پہنچے گا پہاڑوں تک لمبا ہو کہ.یہ جتنی باتیں ہیں.اُن میں سب سے بری چیز ہے تیرے رب کی بیزاری ۱۲ ملہ اور بندے رحمن کے وہ جو چلتے ہیں زمین پر لیے پاؤں اور جب بات کریں ان سے بے سمجھ لوگ کہیں صاحب سلامت ۱۲ ے اور جودات کا مٹتے ہیں اپنے رب کے آگے سجد سے میں کھڑے اور وہ جو کہتے ہیں اسے رب ہٹا ہم سے دوزخ کا عذاب بیشک اس کا عذاب بڑی چٹی ہے وہ بری جگہ ہے ٹھہراؤ کی اور بری جگہ ہے رہنے کی ۱۲ کے اور وہ کر عجب خرچ کرنے لگیں نہ اڑا وہیں اور نہ تنگی کریں اور ہو اسکے بیچ ایک سیدھی گذران ۱۳ نے اور وہ جو نہیں پکارتے اللہ کے ساتھ اور معبود اور نہیں خون کرتے جان کا جو کی اللہ نے مگر جہاں چاہیئے.اور بدکار نہیں اور جو کوئی کرنے یہ کام بڑے گناہ سے دو نا ہو اسکو عذاب دن قیام کے دو پڑا ہے میں زمین -

Page 79

۷۲ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلُ ذلِكَ يُلْقَ أَنَا مَا يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ القِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا - اسلامی دعائیں تو ایسی ہیں کہ اُن کا عشر عشیر بھی اور مذاہب میں نظر نہیں آتا عجیب غریب دعا ملحد ہے جسکی تفسیر این احمدی میں قابل دید ہے میں اس بیان کو ایک فون دعا پرختم کرتا ہوں.ذرا اس میں تامل کیجئے.اور سیح کی دُعا.متی 4 باب 9 کو دیکھئے.اللهمَّ اقْسِمُ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا تَمُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ وَمِنْ طَات مَا تُبَلِغْنَا بِهِ جَنَّتَكَ وَمِنَ الْيَقِينِ مَا تُهَودُ بِهِ عَلَيْنَا مَصَابِ الدُّنْيَا اللهم مَتَّعْنَا باسماء عِنَا وَابْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْيَيْتَنَا وَاجْعَلْ ثَارَنَا عَلَى مَنْ ظَلَمْنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى مَنْ عَادَ انَا وَلا تَجْعَلُ مُصِيبَتَنَا فِي دِينِنَا وَ لا تَجْعَلِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَاوَ لا مَبْلَغَ - علمنا ولا تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لا يَرْحَمْنَا - لنا اتنا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ہوئی اسلام کے معجزات پر انکار کے لئے پادریوں اسلام کے مخالفوں نے ان چند باتوں سے استدلال کیا ہے.اول خرق عادت یا فعل ما فوق العادت کا لفظ جو معجزے کا مترادف ہے بلکہ خود معجزے کا لفظ بھی قرآن میں محمد صاحب کے حق میں نہیں آیا.جواب.قرآن میں تو یہ الفاظ کسی نہیں کے نشانات نبوت میں نہیں بولے گئے محمد صاب ے اے اللہ ہے ہم کو اپنا ڈر جو روک ہو رہا ہے اور گناہوں میں اور عبادت میں لگا جس سے ہم تیری جنت میں پہنچیں.اتنا یقین ہے کہ دنیا کے مصائب آسان ہوں اے اللہ ہم کو کانوں اور آنکھوں اور قوت سے زندگی بھر نفع دے اور کر ہمارا غلبہ ظالموں پر اور ہماری حمایت کر حد سے نکلنے والے پرہ.ہم کو دین میں مصیبت نہ رہے.دنیا کا زیادہ خیال نہ رہے.صرف دنیا ہی علم کا پورا نتیجہ نہ ہو اور نہ کر غالب ہم پر وہ جو رحم نہ کرے کہ اسے ہمارے رب دے ہم کو دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھلائی اور بیچا آگ کے عذاب سے ۱۲

Page 80

۷۳ کیلئے کیسے بولے جاتے.مگر یاد رہے ان الفاظ کا نہ بولا جانا بھی ایک معجزہ اور خرق عادت بلکہ نشان نبوت ہے.جسے آیت نبوت بھی کہتے ہیں.کیونکہ یہ لفظ نہایت کمز و را در ناقص میں ان الفاظ کا استعمال ان نشانات نبوت پر جو واقعی نشان تھے.عمدہ نہ تھا.اس لئے ترک کیا.د سبحان اللہ علمی ترقی میں جو الفاظ نکلے وہ ناقص اور قرآنی الفاظ کامل) کیونکہ خرق عادت کے معنی ہیں عادت کا خلاف.اور پھر سب سلیم یہود و نصاری وغیرہ انبیاء اور رسولوں کیساتھ جب ہمیشہ ایسے امور کا ظہور ہوتا ہے.تو یہ امور عادت میں داخل ہو گئے.یہ عجائبات سنت اللہ میں شامل ہو گئے.تبدیل منت اللہ یا خلاف عادة اللہ نہ ہوئے.پیس ایسے عجیبہ امور بانشانات کو خرق عادت کہنا کیسا غلط ہوا.اگر معجزے کے بھی یہی معنی ہیں تو سکا اطلاق بھی غلط ٹھہرا.اور اگر حسب لغت اسکے معنی عاجز کر دینے والے کے لئے جاویں تو بھی یہ لفظ کمزور ہے.دیکھو یہودان یروشلم اور پلائس سے بقول اناجیل اربعہ ایسا فعل سرزد ہوا جس نے مسیح اور انکے تلامنہ کو عاجز کردیا.پس کیا یہود دشمنان مسیح اور پلاطس اصحاب علاوہ بریں توریت استثنا ۱۳ باب ۵۰۱ سے معلوم ہوتا ہو کہ صرف معجزه ثبت نبوت نہیں ہو سکتا.بلکہ جھوٹے انبیا بھی معجزات دکھا سکتے ہیں.مرقس 14 باب ۷ اسے معلوم ہوتا ہے.ہر ایک مومن عیسائی معجزات دیکھا سکتا ہے.پھر مجز، نشان نبوت کیسے ہوگا.اسلئے معجزہ اور خرق عادت کا لفظ قرآن کیا حدیث صحیح اور اسلامی، علی طبقے کی کتابوں میں نہیں آیا.بلکہ بجائے اس کے آیت اور علامت کا لفظ آیا ہے.غور کرو اگر تعلیم یافتہ نوجوانوں کے کہنے پر مان لیں ترقی کے زمانے میں جو لفظ نکلا وہ ناقص ہے.اور رسالت مآب کا لفظ پورا اور کامل ہے پادری صاحبان آنحضرت مسلم کی نسبت قرآن بلکہ صحیح حدیث اور صحابہ کے زه بان پر بھی صدور معجزہ یا خرق عادت کا لفظ نہیں آیا.تو آپ یاد رکھیں کوئی نقص نہیں.

Page 81

ہوا.علی ثبوت کمال ہے.۷۴ دوم - دلیل انکار معجزات پر قرآن میں آیا ہے.وَمَا مَنَعَنَا أن ترسل بالآيَاتِ إِلا أَن كَذَبَ بِها الاولُونَ میں پوچھتا ہوں الآیات عربی لفظ ہے.دو کلموں سے بنا ہوا ایک آئی اور دوسرا آیا ہے جو آیت کی جمع ہے.آئی کے معنے عربی میں کبھی خاص کے آتے ہیں اور کبھی کھل کے معنی دیتا ہو.اگر لفظ آل کے خاص معنے لیئے جاویں تو آیت کا مطلب اور معنے یہ ہونگے.ہمیں ان خاص نشانیوں کے بھیجنے سے (جنہیں منکر لوگ طلب کرتے ہیں) کوئی امر مانع نہیں ہوا.مگر یہ کہ ان نشانیوں کو اگلوں نے جھٹلایا.اس کے بعد کی آیت بھی ان معنوں کی تاکید کرتی ہے جس کا مطلب ہے نمود کی قوم نے ایک نشان مانگا پھر انہوں نے تکذیب کی.اور اس نشان پر ظلم کیا.اس قسم کے نشانات کی نفی صرف آنحضرت صلعم ہی کے وقت نہیں ہوئی.بلکہ غور کرو.مرقس ، با فریسیوں نے مسیح کے نشانات طلب کیے.اس نے آہ کھینچ کے کہا.اس زمانے کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں.میں تم سے سچ کہتا ہوں.اس زمانے کے لوگوں کو کوئی نشان دیا نہ جاوے گا.اور میں نشان دکھانے کا وعدہ ہوتا ہے.کبھی اب تک ظلمت میں ہے.اور لوقا ۲۳ باب ، میں ہے.میرود لیس کو بڑی خواہش تھی.کچھ سیحی معجزے دیکھے.باوجود اصرار مسیح اسکے سامنے بولے بھی نہیں.آخر اس نے ناچیز ٹھہرایا.غور کیجئے ذرا انصاف سے سنیے.انجیل میں لکھا ہے.اگر کسی میں رائی برابر بھی ایمان ہوں تو پہاڑوں کو کہے یہاں سے وہاں چلے جاؤ تو وہ پہلے جاو بینگے.بیماروں کو ہاتھ رکھ کر چنگا کرے گا.وغیرہ وغیرہ.مرقس ۱۶ با شلبت عیسائی انصاف سے کہیں تمام دنیا میں کوئی عیسائی مومن ہے.یا سب کے سب کا فر ہیں.اگر کوئی ہے تو اپنے ایان کو

Page 82

مرقس بات پر رکھ کر دیکھے اگر کہے کہ اسوقت معجزات کی ضرورت نہیں تو ہم کہتے ہیں.ایسی ہی محمد صاحب کے وقت بھی ضرورت نہ تھی.دوم.اگر ان کے معنے جو الآیات میں ہو.محل کے لیئے جا دیں تو یہ معنے ہونگے ہمیں کل معجزات بھیجنے سے کوئی امر مانع نہیں ہوا.مگر اگلوں کا اُن معجزات کو جھٹلا نا یعنی مستقاً معجزات ہماری قدرت میں ہیں وہ سب کے سب ظاہر نہیں کیے گئے.پادری صاحبان ! اس سے بالکلیہ معجزے کی نفی نہیں نکلی.اسکی مثال ایسی سمجھو.ایسی کوئی کہے میں نے کل مطالب بیان نہیں کئے.اس کلام سے کوئی بھی سمجھ سکتا ہے.کہ قائل نے کوئی مطلب بھی بیان نہیں کیا.سوم دلیل انکار معجزات یا آیات نبوت پر.آیات نبوت یا معجزات صرف احادیث میں ہیں اور احادیث دوسری صدی کے بعد لکھے گئے.قابل اعتبار نہیں ہو سکتے.جواب - آیات صرف حدیث میں نہیں بلکہ وہ آجتک قانون قدرت میں موجود ہیں.قرآن میں انکا بیان مفصل آچکا.اور اگر حدیث میں ہی ہوتیں تو حد ہیں جناب رسالتی آب کے وقت لکھی جاتی تھیں.اس جواب میں میں نے تین دعوے کئے ہیں.اول تیسرے بچوہے کا ثبوت سنو.بخاری جلد ۲ صفحہ ۱۴۵ میں ہو.اور صفحہ ۱۶۵ میں.ایک شخص نے جناب کی مرتضی رسالت آب کے خلیفہ سے پوچھا.آپکے پاس قرآن کے سوا کچھ اور وی کی باتیں بھی ہیں.تو آپنے فرمایا.ہاں میرے پاس اس کا غذ میں چند احکام رسول کریم کے لکھوائے ہوئے جن میں جرمانوں کے حکم اور قیدی کے چھوڑانے کے متعلق چند حکم وغیرہ ہیں.-۲- کتاب الزکوۃ بخاری میں دیکھے جلد اصفحہ ۱۸۹ ۱۹۰۰- ابو بکر رسالتخاب کے جانشین نے جوز کوتہ کے احکام لکھا ہے وہ سب رسول خدا کے لکھوائے ہوئے یا بتائے ہوئے تھے.۳.بخاری جلد ا صفحہ ۲۱ میں ہے.عبداللہ صحابی) بن عمر (خلیفہ ہمیشہ دیشیوں کو لکھ

Page 83

رکھتے تھے.64 آپ نے حج میں خطبہ الیکچر، پڑھا.یہ آپ کے آخری حج میں واقع ہوا.پھر اس بڑے لمبے چوڑے خطبے کو جب رسالتمآب تمام کر چکے تو ابو شاہ نام صحابی نے عرض کیا.یارسول اللہ یہ خطبہ مجھے لکھوا دیجئے.آپ نے حکم دیا.ابوشاہ کو کھدو - غرض اس طرح کی کئی ایک شہادتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے.حدیثیں مختلف طور پرکھی جاتی تھیں.علاوہ بریں قومی روایات ہو با وجود اختلاف شدید مشترک ہوں اور ایک دوسرے کی تصدیق قومی ثابت کرتی ہوں.اناجیل کے ثبوتوں سے صحیح احادیث کا ثبوت کچھ کہ نہیں.یاد رہے بخاری اور مسلم کی بڑائی صرف بخاری اور مسلم کہنے سے نہیں ہوئی.بلکہ ان کی کتابیں کتب سابقہ ور کتب زمانہ بخاری اور مسلم او کتب محققین بعد زمانہ بخاری اورمسلم کے ساتھ موازنہ کی گئیں.اور بعد موازنہ ان کو تر جیح حاصل ہوئی.کسی حدیث کا اعتبار صرف ایک راوی کے کہنے سے نہیں ہوتا.بلکہ مختلف روات کی روایت سے کہ کوئی ان میں سے عراق کا رہنے والا اور کوئی شام کا اور کوئی جاز کا.کوئی مصرکا اور با وجود اسقدر دوری کے اُن کے الفاظ متقارب اور انکی حدیثیں متحد المعنیٰ ہوں تعجب آتا ہے.دو صحیح مدیتیں ایک درجہ کی باہم متخلف اور متعارض وہ نہیں ہوئیں.اور یہ کیسا بڑا ثبوت علم حدیث کی سچائی کا ہے.پادری اس بات پر ہمیشہ زور دیتے ہیں.حدیث دیکھنے والوں کی تحریر نہیں.صاحبو - تاریخی امور کا ثبوت اسپر موقوف نہیں کہ دیکھنے والا کسی تحریر میں اپنا معائینہ بیان کرے.بلکہ معتبر کے رو برو بیان کرنا کافی ہے.اگر کسی تحریرمیں اس کا اقرار پایا گیا تو تحریر بھی جب ہی قابل اعتبا ہو سکتی ہو کہ کسی کے روبرو اسکا بانی اقرار موجود ہو کہ یہ میری تحریر ہے.پھر وہ تحریر بھی ہر طرح سے محفوظ رہے.بہر حال زبانی اقرار پر مار رہا.فقط تحریر سے کام نہ چلا.اور حدیثوں میں دونوں طرح کا ثبوت موجود ہے.تحریری بھی اور زبانی بھی.اسی واسطے محدثین صرف کتابوں کو دیکھ کر روایت کرنے والے کا اعتبار نہ کرتے تھے.

Page 84

bn ba الا معجزة آپ کے دلائل نبوت اور علاماتت رسالت جن کو قرآن کریم نے آیات اور بر مان کر کے تعبیر فرمایا ہے.قانون قدرت میں مشہود اور قرآن میں موجود ہیں.اگر ان دلائل کو معجزہ کہیں جس کے معنی ہیں غیر کو عاجزہ کر دینے والا یا خرق عادت کہیں تو بالکل بجا ہے.اقل آنحضرت صلعم کے وقت دنیا کی تاریخ پر نظر کرو.جس ملک میں آپ پیدا ہوئے وہ کیسا تھا.عامہ عرب کسی مذہب کے پابند نہیں.کوئی کتاب نہیں رکھتے.کوئی پتھروں کی پوجا کرتا ہے.کوئی درختوں کی.کوئی سیاروں کی.کوئی بھوت اور پریت کی جزا اور سزا کے منکر ہیں.سیاست و تمدن کو نہیں جانتے.چوری ، قمار بازی، باہمی جنگ اور بغض اور عناد - جہالت.فخر اور کبر انکے صفات ہیں.اور شاعریت پر کمال کا مدار ہے.عرب کی مشرق میں ایک طرف ہندوستان ہو جس میں تو ان کی ایسی چھائی ہے کہ مرد کی شرم گاہ سے لنگ کہتے ہیں اور عورت کی شرمگاہ جسے بھگ کہتے ہیں.بے طعن پوچی جاتی ہے.منتر ، فال وغیرہ توہمات کا سمندر موج مار رہا ہے.دوسری طرف ایران ہے.جس میں آگ کی پرستش ستیاروں کی معبودیت - نور و ظلمت دو خداؤں کی سلطنت پر اعتقاد ہو.شمال و مغرب اور عین وسط میں کچھ عیسائی پوپ کے بندے رومن کیتھولک وغیرہ پروٹسٹنٹ مذہب کے علاوہ راس مذہب کے بانی لوتھر ہے، مریم اور سیح کے یو جاری.اور ان میں پوپ صاحب بہشت بانٹنے والے اور تمام عیسائی خاکسار بندے ابن مریم کو خدا مانے والے چین کے حق میں قرآن فرماتا ہو.پاندا بعضنا بعضا از بابا من دُونِ الله اور کچھ یہود لعل اور مولک اور عمارات کے پوجاری.اور ایسے سخت بے ایمان جو عرب کے سخت ثبت پرستوں کو کہتے ہیں.المُتَرَ إِلَى اللَّذِينَ أوتُوا نَصِيباً من الكتب يُؤْمِنُونَ بِالحَبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هُوَ لَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلاً - سیپاره ۵ - رکوع ۵ - ے نہ پکڑ میں بعض ہمارے بعض کو رب سوائے اللہ کے ہلا سے تو نے نہ دیکھے جن کو ملا ہے کچھ حصہ کتابکا مانتے ہیں بنوں اور شیطان کو اور کہتے ہیں کافروں کو یہ زیادہ پائے ہیں مسلمانوں سے راہ ۱۲۲

Page 85

LA دنیا کی ایسی حالت میں ایک بے سازو سامان ہے فوج و ملاک توحید کا واعظ کھڑا ہو گیا.اور دعویٰ کیا کہ مجھے خدا نے بھیجا اور حکم دیا ہے.قُم فَانْذِرُ وَرَبَّكَ فَكَبَرُ.اُس نے تمام رسومات باطلہ پر ایک قلم خط نسخ کھینچنا چاہا.تمام زمیں اور امیر غریب اور فقید اس واعظ کے جانی دشمن ہو گئے پیش جان اللہ کیسا مخالف اُٹھا.اپنی قوم کو جاہ اور انکے زمانے کو جاہلیت کا زمانہ کہتا ہو.قوم کا ایسا مخالف نہیں.جیسے ایک شخص صلح قوم کہتا ہے.یہی سمجھ میں نبیوں کی کتابیں منسوخ کرنے آیا.اور ایک کہتا ہے وید ایسے ہیں کہ تمام علوم اور فنون کا مخزن ہیں.پھر اپنی امیدیں خاک میں لے گیا.تمام ملک اور تمام اہل شہر مارنے کے درپے ہیں اوریہ کہا جاتا ہے.يُريدُونَ لِيُطْفِها نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتَمَّ نُورِهِ وَلَوْكَرَة الْكَافِرُونَ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِظْهِرَ : عَلَى الدِّينِ كُلِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ - سوره صف - سیپاره ۲۸ - رکوع ۹ - AKELL الجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ - سوره قمر - سیپاره ۲۷ - رکوع ۱۰ - اور پھر ایسا کامیاب ہوا.ایسا کامیاب ہوا کہ اپنے سامنے اسکو یہ سورۃ پہنچ گئی.إِذَا جَاءَ نَصُرُ اللهِ وَالْفَتح وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَزْوَاجًا - جس قوم میں اُٹھا اس قوم میں ایک بھی نہ رہا جو اسکے آخری ایام میں مخالف ہوتا.اپنے ارا دوں میں پورا کامیاب ہوگیا.اور کامیابی دیکھ اپنی ڈیوٹی کو پورا کر کے رفیق اعلی سے جاملا.کو لے کھڑا ہو کر ڈریستا.اور اپنے رب کی بڑائی کر ہوں ہے چاہتے ہیں کہ بجھا دیں اللہ کی روشنی اپنے منہ سے اور اللہ کو پوری کرنی ہے اپنی روشنی اور پڑے برا مانیں منکر.وہی ہے جس نے بھیجا اپنا رسول راہ کی سوجھ لیکر اور سچا دین کہ اُس کو غالب کرے او پر تمام دینوں کے اور پڑے بُرا مانیں مشترک ۱۲ اب شکست کھا دے گا میں اور بھاگیں گے پیٹھ دے کر ۱۲ کن جب پہنچ چکی اللہ کی عمر اور فیصلہ اور تو نے دیکھے لوگ بیٹھتے اللہ کے دین میں فوج فوج ہوں

Page 86

69 بتائیے.یہ معجز و ابتک نظر میں آتا ہے یا نہیں.اگر یہ خرق عادت نہیں تو اُس کی نظیر دکھائیے.اور معجزہ یعنی حاجت کنندہ نہیں تو اس کے ہم شہر اور ہم قوم دشمنو کا نام ونشان ڈھونڈ ہے.عیسائی مذہب کا ریت اور انکا خدا کیا نظیر ہو سکتا ہے.جو بقول عیسائیوں کے قوم سے پٹا مارا گیا.اُس کی مخالفت اس کی قوم اب تک موجود ہے.موسی کب نظیر ہو سکتا ہے جس نے خود بھی وہ ملک نہ دیکھا جس کی اُمید پر مصر سے قوم کو لے چلا.وید کے متبع کیا کھائیں گے.جن کے مقدس مکان دوسروں کے قبضوں میں نظر آتے ہیں جن کی الہامی دعائیں خدا کی بتائیں رہیں ہمیشہ الٹی پڑیں.زرتشتی کیا نظیر دکھائینگے.جن کو اپنے ملک میں سر رکھنے کی جگہ نہیں ملی.دوسری آیت نبوت یا دوسرا معجزہ اور خرق عادت جو محسوس اور مشہور ہو.آپکی حیات میں آپ کا اپنے ملک پر پورا السلط اور اپنی قوم پر پوری حکومت.جونہ آپ کے پہلے کبھی ایسی کامیابی سی مدعی نبوت کو ہوئی اور نہ آپ کے بعد حضور علی اسلام کیسے آزادی بخش اپنی قوم کے ہو کہ آپ شہر آجتک غیروں کی غلامی سے آزاد ہو گیا.سلطان شر کی جو برائے نام وہاں کے بادشہ ہیں.خادم الحرمین کا لقب رکھتے ہیں.راس موقع پر قید کی الہامی دعائیں اور انکی کوششیں جو وید کے مومن ہیں اور عیسائیوں کے مخلص نجی کی جانفشانی اور موسی کے بڑے معجزات اور ابراہیم اور یعقوب کے ساتھ خدائی وعدے کنعان کی ابدی وراثت کی بابت.اور پارسیوں کے الہامی ہادیوں کی دعائیں فراموش کرنے کے قابل نہیں.قومی آزادی کے قدر دان قوم کے مسلمین کے قربان انصاف کریں.ہادی عرب کمزوری کی حالت میں کیا کر گئے.جاءَ الْحَقِّ وَ ما بدی الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ - سوره سبا - سیپاره -۲۲ - رکوع ۱۲ آیا دین سچا.اور جھوٹ کو نہ پہلا اور نہ دوسرا.

Page 87

A.انا ارسلت اليكم سُولاً شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنا إلى فِرْعَوْنَ رَسُتون فَعَطَى فِرْعَوْنَ الرَّسُولَ فَأَخَذَ نَاهُ أَخَذ او بيلا - سوره مزمل - پاره ۲۹ - اور آرام کا وعدہ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ في الأرض - سوره نور سیپاره ۱۸ رکوع ۱۳ پھر اپنے وعدے کو سچ کر دکھاتا ہے.مدعی نبوت سے ایسی کامیابی بے نظیر اور خرق عادت نہیں تو اور کیا ہے.تیسرا معجزه یا خرق عادت.بلکہ آیت نبوت.إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ - سوره حجر - سیپاره ۱۴- رکوع ۱ - کس طرح قرآن کی حفاظت ہوئی.دنیا میں کوئی مذہب دکھاؤ جس کی کتاب اپنے ہادی کی زبان میں بعنیہ اس طرح شہرت پذیر ہو.تراجم کا اعتبار نہیں.تراجم مترجمین کے خیالات ہیں.انجیل کی تو ایسی حفاظت ہوئی.کہ الامان انجیل کی حالت ناگفتہ بہ ہے.آجتک پتہ نہیں لگتا مسیح کی اصل کتاب عبیری تھی یا یونانی پھر انکا کلام بالکل حواریوں کے کلام سے مخلوط ہے ممتاز نہیں.وید کی حالت شب و روز آنکھ کے سامنے ہو.حاجت بیان نہیں پھر علی العموم تلاوت سے محروم ہیں.اگر دنیا بنصرت الہی کسی مذہبی کتاب کی حافظ و ناصر ہے تو قرآن کریم لے ہم نے بھی ھاتمہاری طرف رسول بتانے والا تمہارا.جیسے بھیجا فرعون پاس رسول.پس کہا نہ مانا فرعون نے رسول کا.پھر پکڑی ہم نے اُس کو پکڑو بال کی ۱۳ ہلے وعدہ دیا اللہ نے جو لوگ تم میں ایمان لائے ہیں اور کئے ہیں نیک کام البتہ پیچھے اُن کو حاکم کردے گا ہوا پادری ٹھا کر د اس کو اس آیت میں مینکم کا لفظ یاد نہیں رہا.اور نہ وہ سمجھے کہ الارض معرفہ معرف با سلام ہے.یعنی ارض موجود اور مقدر کے و عرب و کنعان کی زمین.دیکھو اس کا رسالہ لے کر امت ۱۲ سے ہم نے آپ آبادی ہے یہ نصیحت اور ہم آپ اس کے نگہبان ہیں.تیسر العجزة

Page 88

시 پہلا متجردة اول نمبر پر ہے.قرآنی معجزے یا خرق عادت بنگہ آیات نبوت یعنی وہ آیات جن کا ذکر قرآن میں ہے.اول - إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَ ادْعُوا شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَدِقِينَ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ - سُوره بقر - سیپاره ۱ - رکوع ۳ - قُل لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنَّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ - وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظهير - سورة بنی اسرائیل سیپاره ۱۵ ایک اتنی (بلکہ فرض کرو اہل کتاب کا بقول نصاری شاگرد) یہ دعوئی کرے اور کوئی مخالف تکذیب نہ کر سکے معجزہ نہیں تو کیا ہے.ہم نے مانا کہ ہومر من شکسپیر بالمیک- حافظ وغیرہ بے نظیر کلام کہے گئے مگر گیا انہوں نے ایسا دعوی کیا.اگر دعوی کے بعد اور ایسے زبر دست دعوئی کے بعد امتحان میں کامیاب نکلتے.تو ان کا کلام بے ریب ممتنع النظیراور مجھ سمجھا جاتا.عام لوگ عربی دان تو اس بے نظیری پیر علم الیقین کر سکتے ہیں.اور جاہل الروج کہ وہ جانتے ہیں.تیرہ سو برس گزر چکے یہ دعوئی اپنی راستی پر بدستور محکم ہو حضرت رسالتی آپ نے قرآن کریم کے بے نظیر ہونے کا بارہا ذکر فرمایا.مکتے ہیں سورہ یونس اور سورہ ہود اور سورہ طور میں.پھر مدینے میں اس دھونے کا اعادہ کیا.سورۂ بقر میں منصفو اذرا حدیث کی عربی اور قرآن کی عربی غور کرو.صاف معلوم ہوتا ہو کہ محمد صاحب بھی اسکے مثل سے عاجز ہیں.آپ کے کامل درجے کے عقیل ہونے میں کسی کو کلام نہیں.بھلا منصفو غور کرو.ایک انا اسکو دنیا میں اپنی اگر تم شک میں ہو اس کلام سے جوا تارا ہم نے اپنے بندے پر لیس لے آؤ ایک سورت اس قسم کی اور بلا تو تین کو حاضر کرتے ہو اللہ کے سوا اگر سچے ہو.پس اگر نہ کرو اور البتہ نہ کر سکو گے تو بچے آگ سے ۱۲ تان کی اگر جمع ہوں میں آدمی اور جن اسیر کہا میں ایسا قرآن نہلا دینگے ایسا قرآن اور پڑ سے مدد کریں ایک کی ایک ا

Page 89

تصدیق مقصود ہے.اپنی ابتدائی حالت میں بدوں یقین کامل ایسے دعوے کی جرأت ہو سکتی ہے.جو آیت مذکورہ یعنی لئن اجتمعت الجز میں کیا گیا ہے.دوسرا معجزه یا خرق عادت بلکہ آیت نبوت بدر کی لڑائی ہے.یادر ہے اس جنگ میں چھوٹے سو گروہ کا بڑے گروہ پرفتحیاب ہونا معجزہ اور خرق عادت یا برہان نبوت نہیں.بلکہ یہ جنگ اسلئے آیت ہو کہ رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کی شکست ہو اُن پر آپ کی مخالفت سے وبال آنے کی خبر دی تھی اور کہ دیا تھا.مخالف ! تمہاری فنا کا ابتدائی زمانہ سال بھر کے بعد شروع ہونے والا ہے.جب میں مکے سے چلا جاؤنگا.اسکے ایک سال بعد تمپر ہلاکت آویگی.اور یہی خبر سابقہ کتب مقدسہ میں درج تھی.پس یہ جنگ سابقہ کتب کی تصدیق تھی.اور اس جنگ میں فتحیابی کے باعث آنحضرت صلعم مصدق کتب مقدسہ ہوئے.اسی واسطے قرآن جنگ بدر کو آیت کہتا ہے.یہاں لکھتا ہے.قَد كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي نِتَيْنِ الْتَقَتَا- وَإِن كَادُ و لَيَسْتَفِرُ ونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخرجُوكَ مِنْهَا وَ إذ الا يلبتُونَ خلافك إلا قليلا - سورہ بنی اسرائیل - سیپاره ۱۵۰ - رکوع ۸ - جب کفار نے پوچھا.اچھا کب ہم پہ ہلاکت شروع ہوگی.تو آپنے بلکہ آپکے خدا نے فرمایا.لُ لَكُمْ مِيعَادُ يَومٍ لا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ سوره سبا ياره یوم کا لفظ اگر بدوں منتیج اور ہنسا کے ہو تو نبوت میں ایک برس کا بھی ہوتا ہے اندرونه بمبیل صفحه ۵۹ و ۱۳۳ - ے بیشک تمہارے لئے نشان تھا.دوگروہوں کی بھیڑیں ( بدر کی لڑائی.- للہ یقینا یہ لوگ ( اہل مکہ تجھے (محمد صلعم) اس زمین کے سے نکال ڈالنے والے ہیں.مگر تیرے بعد یہ لوگ بھی تھوڑی ہی دیر بعد رہیں گے یا سکے تو کہہ تمہارے واسطے ایک سال کی میعاد ہے.اس سے ایک ساخت ادھر ادھر نہ کر سکو گے ہیں تو دوسرا معجزه

Page 90

۸۳ کتب سابقہ میں اس کا ذکر یسعیانہیں.رسالتماب کی ہجرت اور دشمنوں کے تعاقب کا ذکر کر کے عرب کی بابت الہامی کلام میں کہتا ہے.خداوند نے مجھکو یوں فرمایا.ہنوز ایک برس ہاں مزدور کے سے ٹھیک ایک برس میں قید است کی ساری حشمت جاتی رہے گی.اور تیر اندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائینگے یسعیا ۲۱ باب ۱۶-۱۷ میں نے زیادہ تفصیل پیشین گوئیوں میں کی ہے.غور کرو جنگ بدر کیسی آیت اور کیسا معجزہ ہے.قیدار عرب میں کون ہیں.کیا قریش ہی نہیں.کیا بدر میں ان کے تیسرا معجزہ جو قرآن سے ثابت ہے.اس معجزے کے بیان سے پہلے یہ چند باتیں نا مناسب نہ ہونگی.گو تبعا ان کا ذکر بارہا ہو چکا ہے.یادداشت - کتاب اللہ (قرآن) اور سنت رسول اللہ (حدیث میں بجائے لفظ مجز اور خرق عادت کے جو نہایت کمزور اور ناقص تھے.آیت اور برجمان کا لفظ مستعمل ہوا ہے.جو دلائل اثبات نبوت اور علامت رسالت کے واسطے جامع اور محیط ہونے کے علاوہ ہر زمانے کے موافق اور ہر ایک عقل صحیح کے مناسب ہے.فطرت اور قانون کے نزدیک صحیح ہے.دیکھو آیت کا استعمال معجزات میں اگر لیا مہا دے.وأدخل يدك في جيبك تخرج بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ آيَةً أُخْرى سياره -۱۹ - رکوع ۱۶ - -19 أني قد يشتكم بايَةٍ مِنْ ربَّكُم إِلَى اخْلُقُ لَكُومِنَ الطَّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَا لفخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْر باذن الله - سیپاره ۳ - رکوع ۱۳ لے اور ڈال اپنا ہا تھ اپنی جیب میں نکالیگا سفید نہ بُرا یہ نشان اور ہے " بیشک میں لایا تمہارے پاس تمہارے رب سے نشانی بیشک میں بناتا تمہارے لئے مٹی.جانوں کی شکل پس پھونکتا اس میں پس وہ ہو جاتا جانور اللہ کے حکم سے " یاد داشت

Page 91

۸۴ قال رَبِّ اجْعَل لى أية قال ايتك أن لا تكلم النَّاسَ سیپاره ۱۳ رکوع ۱۲ اور یہ ہان کا لفظ معجزات یا آیات کے معنے ہیں.دیکھو قرآن میسی کے عصا اور ید بینا کو جو عیسائیوں اور یہودیوں میں مسلم معجزہ ہے بُرہان کہتا ہے.قدانك برها تن من ربك - سياره ۲۰ - ركوع --- اور آنحضرت صلعم کی گرامی ذات کو بھی برہان ( معجزہ یا خرق عادت) فرمایا جہاں کہا.کی کوبھی یا ياتها النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانَ مَنْ تكم و انر لنا اليكم نُوراً مبينا - اَيُّهَا رَّيّكُمْ وَاَنْزَ مُّبِينًا - یہود اور نصاری نے کہا.ہم لوگ بھی بہشت میں جائینگے تو انکو قرآن کہتا ہے.ن ها و برهانكم إن كُنتُمْ صَادِقِينَ - پاره - رکوع ۱۳ - معجزے کے معنی غیر کو عاجز کردینے والے کا محاورہ قرآن میں.در وما انتم بمعجزين - پاره ، رکوع ۳ - وَمَاهُم بمعجزيین - سیپاره ۲۴ رکوع ۲ - مطلق عاجزہ کر دینا چونکہ نشان نبوت نہ تھا جیسے بارہا ذکر کیا.رسالت آب کے اثبات نبوت میں قرآن نے یہ ناقص لفظ ترک کر کے آئیت اور آیات اور برہان کا لفظ استعمال فرمایا.اور خرق عادت کا لفظ چونکہ بالکل غیر صحیح تھا اسلئے اُسے صاف ترک کر دیا.انصاف سے دیکھو ایسے لفظوں سے بیچ رہنا ہی اعجاز ہے یا نہیں.ان پڑھ وہ لفظ بولے جو شبہات سے پاک ہوں اور پڑھے ناقص لفظ سبحان اللہ عیسائی اور تمام تاریخی مذاہب پابند علی العموم مانتے ہیں کہ معجزات ہمیشہ ہوتے رہے.بھلا جو چیز ہمیشہ ہوتی رہے وہ خرق عادت ہو سکتی ہے.یا وہ تبدیل سنت اور تحویل عادۃ اللہ ہوگی.لے اُس نے زکریا ، کہا میرے رب بنا میرے لئے نشانی کہا تیرے لئے نشانی ہو کہ توبات نہ کریگا لوگوں سے " ہے پس یہ دونوں (خصا اور ید بیضا) دو برہان ہیں تیرے ربت سے ۱۲ سے اسے لوگو بے ریب آئی تمہارے پاس برہان تمہارے رب سے اور اتارا تمہاری طرف نور ظاہر ا ہے کہ لاؤ دلیل اپنی اگر تم سچے ہو یوں ہے یعنی نہ تھم عاجزہ ہو اورنہ وہ عاجز ہیں ملا لاکہ

Page 92

۸۵ بعد اس تمہید کے سور کا شعرا کی چند آیتوں پر غور کرو.یہ تیسرا معجزہ نہ ہوگا بلا کسی مجبورت ہونگے.یہ سورہ شعرا سکتے میں اُتری جب کہ آپ بالکل اکیلے تھے.کچھ لوگ جو ایمان لائے تھے.وہ بھی جینے کو ہجرت کر گئے تھے.منکروں کو آپ فرماتے ہیں.تم میری تکذیب کرتے ہو.اسکا و بال دیکھو گے تمہاری حالت زمین کے پودوں کی طرح ہوگی.جو آج ہے.اور کچھ مدت کے بعد فنا ہو گا.فَقَدْ كَذَّبُوا فَسَيَاتِيهِمْ أَنْبَاءُ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهُرْمُونَ - أَوَلَمْ يَرُوا إِلَى الْأَرْضِ كمْ اثْبَتَنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوج كريم - إن في ذلك لا يَة وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ - پاره ۱۹ - رکوع ۵ - پھر موسیٰ کا قصہ بیان کیا.اور بتایا کہ فرعون مخالفت کے سبب سزا یاب ہوا.اور موسی بیچ رہا.ينَا مُوسى وَمَنْ مَعَهُ أَجْمَعِينَ ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْأَخَرِينَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لوية وما كان أكثر هُمْ مُؤْمِنِينَ - سیاره ۱۹ - رکوع - پھر ابراہیم اور انکی کامیابی اور انکے دشمنوں کی تباہی کا ذکر کیا اور کہا.ا في ذلك ريَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ.پان 19 رکوع و پھر نوع اور انکے ہمراہیوں کی نجات اور انکی مخالف قوم کی ہلاکت کا ذکر کر کے فر مایا.ان في ذلك لا يَة وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤمنين پاره ۱۹- رکوع ۵ ۰ ۸ ۹ ۱۰ ۱۱ ۱۲ ۱۳ ۱۴ لے سوجھٹلا چکے.اب پہنچیگی ان پر حقیقت اس بات کی جس پٹھٹھے کرتے تھے.کیا نہیں دیکھتے زمین کو کتنی لگائیں اس میں ہم نے ہر بھانت بھانت چیزیں اس میں البتہ نشان ہے اور وہ بہت لوگ نہیں مانتے.ہلے اور بچا دیا ہم نے موسیٰ کو اور جو لوگ تھے اسکے ساتھ سارے پھر ڈوبا یا اُن دوسروں کو البتہ اس میں ایک نشانی ہے اور نہیں وہ بہت لوگ ماننے والے ۱۲ ۱۲ سے البتہ اس میں ایک نشانی ہے اور وہ بہت لوگ نہیں ماننے والے "

Page 93

۸۶ پھر عاد اور اُن کے دشمنوں کی ہلاکت کا تذکرہ ہے اور اس کے بعد یہ کہا.به كَذَبُوهُ فَأَهْلَكْنَاهُمْ اِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً - پاره 19 - رکوع 11 - پھر شود کی نجات اور اُن کے دشمنوں کی ہلاکت کا ذکر کر کے کہا.لانا GET TONGUETTE AN NANA في ذلك لاية - سيپاره ۱۹- رکوع ۱۲ - پھر لوط کا ذکر اور انکے مخالفوں کی تباہی کا حال بیان کر کے کہا.ان في ذلك لآية - پھر شعیب کی کامیابی کا بیان ہے اور آخر کہا کہ شعیب کے مخالفت ہلاک ہوں گے.ان في ذلك لآية.یعنی البتہ اس میں ایک نشانی ہے.قالُوا لَيْن لَم تَلتَه بلوط لتكونن من المخرجين - سياره ١٩ ركوع ١٣ ایسا ہی کفار نے جناب رسالتی آپ کو بھی کہا.اور سزا پائی.یہ باتیں روح الحق اور روح القدس سے کہیں.قرآن نے آیات اور معجز ایسے بعد کہا.نَزَّلَ بِهِ الرُّوحُ الأَمِينُ عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ - پاره 19- كون یوسف کا تذکرہ بھی سورہ یوسف میں ہے.اور کئی ایک آیات اور معجزات کا اشارہ ہے.جیسے فرمایا.لقد كان في يوسف واخويه ايات للسائلين - پاره ۱۲ - رکوع ۱۲ یوسف کے بھائیوں نے جس طرح کا سلوک کیا.اسی طرح اہل مکہ نے آپ کو نکالا.آخر شدید قحط میں آپ کے پاس دُعا کے لئے آئے.اے پھر اُس کو جھٹلانے لگے توہم نے اُنکو کھپا دیا.اس بات میں البتہ نشانی ہے یا at پس لے لیا اُن کو عذاب نے.اس بات میں البتہ نشانی ہے." ہ بولے اگر نہ چھوڑے گا تو اسے ٹوٹ تو تو نکالا جار ے گا.کے لیے اُترا ہے اُس کو فرشتہ معتبر تیرے دل پر کہ تو ہو ڈر سنانے والا " شے البتہ ہیں یوسف اور اس کے بھائیوں کے مذکور میں نشانیاں پوچھنے والوں کو ۱۳

Page 94

AL يوم تأتي السَّمَاء يد خان مبین - سوره دخان پاره ۲۵ رکوع ۱۳ اس آیت کے شان نزول میں لکھا ہے.مکے میں جب قحط نہایت سخت پڑا.ابوسفیان آپ کے پاس آئے اور کہا.تو صلہ رحمی کا حکم کرتا ہے اور دیکھ تیرے باعث ہم کیسے وبال میں ہیں.تو دعا کر.آپ نے دُعا کی.جناب یوسف نے تو فرعونی خزانے سے غلہ دیا تھا.آپ نے انہی خزانے سے دیا.بخاری سورۂ دخان.اسی واسطے سورہ یوسف کی ابتدا میں فرمایا.لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَ اِخْوَيهِ ايات للسائلین.اس سورہ شعرا اور سورۃ یوسف میں گویا رسول خدا بتاتے ہیں.تم مجھے کیسے ہی تکالیف دو.آخر تم مانند مخالفین انبیائے سلف کے اپنی جھوٹی ٹونی کی حمایت میں ہرگز کامیاب نہ ہو گئے.کفار کی تباہی میرے سامنے ہو جائے گی.اور چونکہ آپ موسی کے مثیل تھے.اسی واسطے یہ کہا.إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إلَى فِرْعَوْنَ رَسُولاً فَعَطَى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذَ نَهُ أَخَذَ او بیلا سیپاره ۲۹ سوره مزمل - رکوع ۳ موسی کی پیشین گوئی سنو.شاید یہ پیشین گوئی بشارات میں نہیں لکھی یا اس طرح نہ ہوگی.فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قد وسیوں کے ساتھ آیا.اور اسکے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت اُن کے لیے تھی.استثنا ۳۳ باب ۲.تعجب ہے ماجوج کی عقل پر کیا پتھر پڑے.اس بشارت میں دس ہزار قد و سیوں کا ذکر ہے.اور بخاری مطبوعہ مصر و ہند میں لکھا ہو.جب محمد رسول اللہ مکہ معظمہ میں تشریف لائے.خاران کے پہاڑ سے ٹھیک دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوئے.دیکھو یہ بشارت اے جس دن لاہ سے آسمان دھو آل صریح ۱۲ ہلے ہم نے بھیجا تمہاری طرف رسول بتانے والا تمہارا جیسے بھیجا فرعون کے پاس رسول پھر کہا نہ مانا فرعون نے رسول کا.پس پکڑی ہم نے اس کو پکڑ وبال کی ۱۴

Page 95

M کیسی صادق آئی.دیکھو بخاری مطبوعہ مصر تصف ثانی صفحه ۵۰ و مطبوعہ ہند صفحه ۶۱۳ میں اپنے ایمان اور وجدان سے حلفاً کہتا ہوں.مجھے یہ بشارت دہریوں کی واسطے بھی کا فی نظر آتی ہو.اگر انصاف کریں.اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اکثر ان انبیا کا ذکر کیا.جنکو اہل مکہ جانتے تھے.یہ اشارہ تھا، کہ گویا آپ مختلف شرائع انبیا کے جامع ہیں.آپکی ذات گرامی کل آن عمدہ صفات کی جامع ہو.جو فردا فردا اور انبیا میں پائی گئی ہیں.آپ کا حکم ایسا تھا کہ اپنے ذاتی معاملات میں کسی سے بدلہ نہ لیا.شجاعت ایسی کہ توحید الہی کے واسطے اپنے ملک اور قوم میں شرک کا نام نہ چھوڑا ور تمام دنیا کو ہوشیار اور خبر دار کر دیا.عیسائیوں میں پروٹسٹنٹ نکلے.پوپسے انکار ہوا.آریہ بھی کہہ اُٹھے.دید مشرک سے پاک اور شرک کا مخالف ہے.آپ کا کرم ایسا کہ کسی سال کو بشرطیکہ اس کا سال خلاف تعلیم الہی نہ ہو بھی محروم نہ کیا.آپ کی دُنیا سے بے رغبتی ایسی کہ مرنے کے دن تک با وجود اعلیٰ درجے کی حکومت سے آپ کی زرہ پچند دوا نہ ہو پر رہن تھی.آپ کی شیرین کلامی ایسی کہ کسی دشمن کے حق میں ثقیل لفظ نہ بولے.کسی ہادی اور مصلح پر نکتہ چینی نہ کی.آپ صاحب تدبیر ایسے کہ آپ کی تدابیر صائب کے سامنے تمام دنیا کے اعداء کی تدبیری بیکار ہوگئیں.آپ کا ولو با چال چلن ایسا جس میں بلحاظ احادیث صحیحہ اور تاریخ کے حروف گیری کا موقع نہیں.آپکا تو کل ایسا کہ تمام اہل مکہ مخالف ہیں اور پھر ذرا استان و ملال نہیں کسی مسیح حدیث میں نہیں اور یقیناً نہیں کہ اتنی بڑی عداوت عرب اور حالت غربت میں آپ اکثر محزون رہتے ہوں.ابو بکرہ یار غار آپکے ہجرت فرمانے سے گھبرائے.تو آپ فرماتے ہیں.تحزن ان الله معنا - سوره هود - سیپاره ۱۰ - رکوع ۱۲ لے ڈرو نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے.۱۲

Page 96

۸۹ آپ کی صداقت وہ کہ صدیق مرید ہو گئے.آپکے صحابہ میں ایک بھی نہیں گذر جینے کبھی کسی حدیث کے بیان میں جھوٹ کہا ہے.اور بڑی صداقت بڑی صداقت نہایت بڑی صداقت میرے وجد ان کے مطابق علم حدیث کی صداقت اور محمد صاحب کی صداقت پر یہ دلیل ہے کہ دو حدیثیں صحیح ایک مرتبے کی اور دو آیتیں اور احادیث صحیحہ اور آیات قرآنید باہم متعارض نہیں.سچ ہے دروغگو را حافظہ نباشد، اگر آپ جھوٹ بولتے یا آپ کے صحابہ کو جھوٹ کی عادت ہوتی.ضرور انکی اس بات میں جو رسالت مآب کی طرف نسبت کرتے ہیں.سخت تعارض ہوتا.یادر ہے یا ہم متعارض اور موضوع احادیث کی برائی او غلطی اور انکا کذب اس بہت سے ہوتا ہے کہ صحابہ سے نیچے کے راوی کذب بولتے ہیں.متعارض اور موضوع احادیث ان نیچے کے راویوں سے پیدا ہوتے ہیں.اگر مرفوع حدیث کا سلسلہ عمدہ وسائط سے صحابہ تک پہنچ جاتے تو پھر تعارض نہیں رہتا.اگر کہیں کوئی تعارض دکھلائے تو ہم ذمہ دار ہیں.متحد المعنی احادیث صحیحہ کے الفاظ دیکھو تو متقارب ہیں.روایات دیکھو تو ایک دوسر کی تصدیق کرتے ہیں.سچ ہے اور بالکل سچ ہے.لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلافا كثيرا سیپاره ۵ رکوع - یعنی اگر قرآن یا یہ دین خدا سے نہ ہوتا.تو البتہ اس میں اختلاف ہوتا اور بہت اختلاف ہوتا.حلانکہ اس میں ذرا بھی اختلاف نہیں.تیس برس دکھ اور سکھر کی مختلف اوقات میں باتیں کیں.مختلف احکام دئے سبحان اللہ پھر سب کے سب باہم موافق - قرآن آیات کو اسی واسطے متشابہات اور منشایہ کہتا ہو کہ ایک آیت دوسے کی مصدق اور مثل ہے.میں دعوی کرتا ہوں.کوئی شخص دو حدیث صحیح ایک مرتبے کی میرے سامنے لاوے میں اُسے تطبیق کر کے دکھائے دیتا ہوں.آپ کو اپنی صداقت پر ایسا یقین تھا کہ کبھی جنبش ظہور میں نہ آئی.

Page 97

9.انبیا اور مسلما کے نیک ارادوں میں ہمیشہ شیطان اور شریر القاکرتے ہیں مگر الہی نصرت شیطانی القا کو ہمیشہ باطل کر دکھاتی ہے.اور اللہ تعالیٰ اپنے آیات کو استحکام بخشتا ہو حضور کا استقلال تمام دنیا سے تھی ہیں جس کام کو اٹھایا اورین امرکا ارادہ کیا.اسی میں سامنے دیکھ لی تب دنیا سے چلے.جب سن لیا.اليوم أكملت لكم دينكم واتممتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُم الاسلام دینا.اور ندائے الہی آگئی.اب تم اپنا کام کر چکے آؤ.إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدُ خُلُونَ فِي دِينِ اللهِ افواجا فسبح بحمد ربك - سوره نصر - سیپاره ۳۰ - میرا قلم صفات کے بیان سے رکنا نہیں چاہتا.مگر کیا کروں معذور ہوں.اب مختصر میں ایک اور نظر آپکی تعلیم پر کرتا ہوں.جیسے آپ تمام انبیاء کے عمدہ صفات کے جامع ہیں.ویسی ہی آپ کی حکیمانہ پاک تعلیم تمام دنیا کی عمدہ تعلیموں اور مشترک ضرورتوں کی حاوی ہے.اسی واسطے قرآن کی صفت ہے.و انزلنا إليك الكتب بالحقِّ مُصَدِ فَا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَبِ وَ مُهَيْمِنَّا عَلَيْهِ - سوره مائده - سیپارہ 4 - رکوع ۱۱ - اسلام نے کوئی عمدہ تعلیم اورپسندیدہ بات ہیں ان کا حکم دیا ہواور کوئی بڑی اونا پسند یت نہیں جس کی ممانعت نہ کی ہو.بارہا سوال ہوا.اسلام کو ہماری معاشرت اور دنیوی امور میں دخل ہے یا نہیں.مجھے یقین ہے.اسلام ہمارے اُن امور میں جن کا تعلق ہماری عام حالت ے آئی میں پورا یک کانگو میں تہارا اور پورا کیا میری نے احسان اپنا اور ہند کیا میں نے تمہارے واسطے دین اسلام سے جب پہنچ چکی عدو اللہ کی اور فیصلہ اور تونے دیکھے لوگ بیٹھتے اللہ کے دین میں فوج فوج اب سمیع کرامد بول اپنے رب کی خوبیاں " سے اور تجھیر ہم نے اتاری کتاب تحقیق سچا کر تی اگلی کتابوں کو اور سب پر شامل ۱۳

Page 98

۹۱ صحت اور مرض سے ہے راحت بخش مقنن ہے.یہ صحت یا مرض رُوحانی ہو یا جسمانی.ہاں ایسے امور میں جو خاص ملک یا خاص آب و ہوا یا اور خاص اسباء مختص الزمان يا مختص المكان کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں.اسلام آزاد می بخش مذہب ہے..- توحید کا وہ بیان کہ ہادی اپنی عبودیت کا اقرار ایمان کا لازمی جز وفرار ہے.کوئی انکار کر سکتا ہے کہ کتب سابقہ کے ان الفاظ نے.اسرائیل میرا پلو ٹھا ہو.میرا اکلوتا بیٹا موسی ندا سا وغیرہ وغیرہ.او سجدے کی عام رسم نے توحید الومیت میں نقصان نہیں پہنچایا.ویدوں میں اگر صاف صاف حکم ہو تا کہ سورج اور چاند اور منصری آگ اور دیوں کو بجد اور عبادت نہ کرو.تو یہ جھگڑا جواز یا عدم جواز بت پرستی کا آریہ ورت میں کیوں پڑتا.اخلاق وہ کسی نبی پر کوئی اعتراض نہیں سب کا مانناس کا ادب اسلام میں ضرور ہوا.قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنَا، وَلَا تَسُبُوا الذِيْنَ يَدُعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ (سُورَةُ انعام پارہ ۷.رکوع ۱۹) سے بڑھ کر کون حکم ہو.جو اخلاق کا مصدر بن سکے تعجب آتا ہو الزامی طور پر بھی قرآن عیوب کا اشارہ نہیں کرتا.آپ نے کوئی حکم ایسا نہیں فرمایا جس میں آج ہم کو کہنا پڑے کہ کاش اسلام میں یہ حکم نہ ہوتا.کسی ایسی چیز سے منع نہیں فرمایا.جس میں آج ہمیں یہ کہنے کی ضرورت ہو کہ کاش اسلامیوں کو منع نہ فرماتے.تمام عمدہ اور سنہری چیزوں کی اجاز ہے.گل بری اور تبعیت اشیاء سے ممانعت ہے.نہایت پسندیدہ صفات میں عدل تھا.اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ - فرما کر تاکید کی.اور ظلم سے لا لعنة الله على الظلمین - کہکر سخت ممانعت کی اشرک بڑا ظلم لَعْنَةُ الظَّالِمِينَ کی سے کہو لوگوں کو اچھا سا سے اور تم لوگ بُرا نہ کہو ان لوگوں کو جنکو پکارتے ہیں اللہ کے سوا.۱۲ ل تحقیق اللہ حکم دینا ہے عدل کا ا سے آگاہ ہو لعنت اللہ کی ظالموں پر ہے ؟ ۱۲

Page 99

۹۲ اور عدل کی ضد ہے) صدق میں.ايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصادقین کہا.اور کذب کے حق میں لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِ بِبَيْنَ فرمایا منشاء صفات کا ملہ علم ہے اُس کیلئے قل رَّبِّ زِدْنِي عِلما آیا.منشاء شرور قبل ہے.اُسے إِلَى أَعِظُكَ اَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ کہکر ہٹایا.احسان کی ترغیب إن رَحْمَةُ اللهِ قَرِيب من المحسنین سے ظاہر ہے.اور مدمقابل کی برائی.وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ سے عیان - معاد اور قیامت کا اعتقاد جو ہر خوبی اور سیکی اور دلی محبت و سلوک کا سر چشمہ اور تمام خوشیوں اور امیدوں کی غایت ہے ایسے دلائل قویہ قانون قدرت سے مستحکم کئے ہیں کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں.ہاں علوم میں جادو ٹونے.نجوم کا عملی حصہ وغیرہ مرویات سے واتبعوا ما تتلوا الشيطين عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ - فرما کر منع کیا.تمام امت کو کس امر کی تاکید کی.امت کو کیا کام سپرد کیا.كسها خيرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُتَكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِالله - سوره آل عمران - پاره ۳ - رکوع ۴ - ہ اے مومنو ڈر و اللہ سے اور ہو تم ساتھ سچوں کے ۱۲ سے لعنت اللہ کی او پر جھوٹوں کے ۱۲ سے کہہ تو اسے ربت زیادہ کہ مجھکو علم سے میں نصیحت کرتا ہوں تجھکو یہ کہ نہ ہو جائے تو جاہلوں سے ی تحقیق رحمت اللہ کی تقریب سے نیکی کرنے والوں سے ۱۲ اور جب علیہ پھیر سے دوڑتا پھرے ملک میں کہ اُس میں ویرانی کرے اور ہلاک کرے کھیتیاں اور جائیں اور اللہ خوش نہیں رکھتا فساد کرنا ۱۲ کے اور پیچھے لگے ہیں اس علم کے جو پڑھتے تھے شیطان سلطنت میں سلیمان کی ۱۳ شد تم جو بہتر سب اُمتوں سے جو پیدا ہوئی ہیں لوگوں میں حکم کرتے ہو پسند بات پر اور منع کرتے ہونا پسندے اور ایمان لاتے ہو اللہ پر ۱۲ الامنة معلم الخیر بخاری اللہ

Page 100

۹۳ اسلام کی خوبی کیا بتائی.میں حُسنِ اسلام المرءِ تَرَكَهُ مَا لَا يَعْنِيهِ - دیکھئے ایمان کا مدار اسپر رکھا.لا يُؤْ مِنْ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبُّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ.ایسے ملک میں جو سراسر جہالت ہو.اور کوئی کتاب اُس ملک میں نہ ہو.ایسی سیرت اورتعلیم کا آدمی جس کی تمام تعلیم قوائے فطری اور قانون قدرت کے موافق ہو جس میں تمام روحانی ضرورتیں موجود ہوں.اگر معجزہ اور خرق عادت نہیں تو نظیر دو - ایکبار گنگیش داس نام سکھ نے کہا.سکھوں کا مذہر تمام مذاہی سے بے عیب ہے.کیونکہ اُس میں بجز تو حید اور حمد باریتعالے کے کسی امر سے سروکار نہیں.میں نے عرض کیا.بتائیے ماں بہن کے نکاح میں سکھی مذہب والا آزاد ہو.یا اس قسم کے مسائل میں آریوں.ہندوؤں مسلمانوں کا محتاج بتقدیر اقل آپ نمونہ دکھائیے.بتقدیر ثانی سکھوں کا مذہب کا مل نہیں.اور عام اور مشترکہ ضرورتوں میں کافی نہیں.احادیث میں جسقدر معجزات اور آیات نبوت اور علامات رسالت اور دلائل کمالات نوید کا ذکر ہے.پادری اور مخالف گروہ اُن پر اتنا ہی اعتراض کرتے ہیں کہ احادیث معتبر نہیں مگر قومی روایات کے طور پر انکو تسلیم کرنے سے چارہ نہیں رکھتے.اسلامی مختلف مذاہب میں بطور اشتراک وجود معجزات تواتر سے شاہ ہے.اور اگر تو اتر حجت نہیں تو عیسی بن مریم اور موسی نبی بنی اسرائیل کے نفس وجود سے انکار ممکن ہوگا.جو ایک سفسطہ ہے.قحط میں آپنے دعا فرمائی اور معا مینہ برسا.بار ہا تھوڑا پانی آپکی دعا سے بہتوں کو کافی ہوا.قیصر اور کسریٰ کی نسبت خبر دی کہ پھر قیصر و کسری نہ ہوں گے.تیرہ سو برس ہو اس کی تصدیق ہوتی ہو.قیصر ہند نہ تو مطلق قیصر ہے نہ قیصر ہند ہے.بلکہ قیصرہ ہند ہو.حدیث سیح میں آیا ہو.ہمیشہ میری امت میں ایک گروہ رہیگا جو حق پر غالب رہیگا.کوئی مخالف انکو اے بیعنی مسلمان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے فائدہ اور غیر مقصود چیز کو چھوڑ دے ۱۲ ے لیے کوئی تم میں میں کام نہیں ہوتا ہے یہانتک کہ دوست رکھے اپنے بھائی مسلمان کو اسے وہ چیز و پروتک کی اسکے

Page 101

۹۴ ضرر نہ دے سکیگا.اول تو ایسی پیشینگوئی کوئی صاحب مذہب اپنی مقدس کتاب میں بہتا ہے.پھر اُس کی تصدیق کر دکھائے.مردوں کو زندہ کرنا آپ کا عام کام تھا.سنو قرآن کہتا ہے.يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ستَجيبُو اللَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ سوره انفال - پاره ۹ - رکوع ۱۹ مسیحی طرز کے کرشمے آپ کے اسقدر ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتے.اور پھر انجیلی بو سے کہیں زیادہ ثبوت رکھتے ہیں.کیونکہ ہزاروں اولیائے کرام اور مشائخ عظام گذرے.جن کے کرامات اور خوارق عادات اُنکے مریدوں نے اپنے چشم دید واقعات کر کے اُن بزرگوں کی زندگی میں لکھے ہیں.اگر پادری لوگ دو میں بھوں یا جگروں کی تحریر یہ بایں خیال کہ انہوں نے چشم دید واقعات کو مسیح کے زمانے میں قلمبند کرلیا تھا یقین کرتے ہیں.اور حدیث پر اس لئے اعتماد نہیں کرتے کہ وہ صحابہ کے زمانے میں قلمبند نہیں ہوئی.تو اسلامی اولیا اور صلحاء کے کرامات اُن کے مُریدوں کے ہاتھ سے مشائخ اصحاب کرامت کے وقت کے لکھے ہوئے موجود یں.پھر نہ تو انکار کی کوئی وجہ اور بیان نہیں کرینگے.ان کرامات کوتسلیم کریں اور چونکہ یہ سب کرامات محمد رسول اللہ کے اتباع سے حاصل ہوئے ہیں.ان میں ان کا وجود یوجہ اتم ماننا پڑیگا.اگر انصاف اور خدا کا ڈر ہو) ایک پادری نے ان دنوں ایک رسالہ لکھا ہے.اور معجزے کو مرادف کرامت خیال کر کے رسالت مآب کو لے کر امت کہا ہے.صاحب کرامت کے معنی عربیت والے کے ہیں.اور محمد صاحب ایسے معزز ہوئے جن کی عزت کی نظیر تمام دنیا میں نہ پاؤ گے.کیا کانٹوں کا تاج اُن کو پہنایا گیا.کیا انہوں نے طمانچے کھائے.کیا ان کو سر کہ پلایا گیا کہ بے کرامت ہوئے.خیر ہم اُن کے بے کرامت رسالے کو انشاء اللہ تعالیٰ انھی طرح ذلیل کرینگے.واللهُ يَقُولُ الحَقِّ وَهُوَ يَهْدِ والسَّبِيلَ.ے ایمان والو انو حکم الہ کا اور رسول کا جسوقت بلاہ سے تم کو ایک کام پر جس میں تمہاری زندگی ہے ؟

Page 102

۹۵ تحقیق اجبار واکراہ عیسائیوں کا اعتراض اکراہ اور جہر کے ذریعے سے غیر مذہب والوں کو محمدی بنانا اسلام کا خاصہ ہے.جواب مخالف صاحبان یہ آپ کا محض افترا ہے.اسلیئے کہ محمد یوں میں مومن اور محمدی سلمان بننے کے لئے یہ امر لازمی اور ضروری ہے کہ دل کے کمال خلوص سے باریتعالے کی توحید اور محمد صاحب کی نبوت اور قیامت وغیرہ باتوں پر پورا پورا یقین ہوا اور ظاہر ہے کہ جبر سے اور زور سے دلی اعتقاد پیدا نہیں ہوتا.پس جبر سے محمدی مسلمان بنانا ممکن ہی نہیں.قرآن کی آیات ذیل پر غور کرو.صاف ظاہر کرتی ہیں کہ جبر واکر اسی محمدی مسلمان بنانا جائز نہیں.پہلی آیت سورۃ بقر میں موجود ہے اور یہ سورت مدینے میں نازل ہوئی.اس آیت میں یہ عذر بھی آپ نہیں کر سکتے کہ یہ آیت سلگتے میں اتری.جبکہ اہل اسلام کمزور تھے.اور جہاد کی آیتیں اترنے کا آنحضرت صلعم نے دعوی نہیں کیا اور یہ وہ سورت ہے جس میں قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ - سُوره بقره - سیپارہ ۲- رکوع ۲۲- کا حکم ہوچکا تھا.وہ آیت جیس کا ذکر مجھے مطلوب ہے، اور جس میں واضح ہو کہ جبر اور کراہ اسلام میں جائز نہیں یہ ہے.ا إكراه في الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرَّشْدُ مِنَ الْغَيِّ سُوره بقر سیپاره ۳ - رکوع ۳۳ - پادری صاحبان کیسے صاف طور سے قرآن نے اکراہ اور جبر کی نفی کی ہے.اب میں چاہتا ہوں کہ آپکو قرآن کی بہت سی ایسی آیتیں سنا دوں جو سکے اور مدینے میں اُتری ہیں اور اُن میں جبر و اکراہ سے دین میں لانے کا ابطال موجود ہے.جہاد کے مسئلے پر اے اللہ کے راستے میں انھیں لوگوں سوال و جوتی سو اڑاتے ہیں اور میسو پڑھنے جاؤ.کیونکہ زیادتی کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا ہو کہ اسلام میں جبر نہیں ہے ہدایت اور گمراہی میں کھلا فرق ہو گیا ہے کیا

Page 103

94 آپکو ایک لمبا چوڑا مضمون علیحد پنائیں گے.قَالَتِ الْأَعْرَابُ امَنا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا و لكن قُولُوا أَسْلَمْنَا - وَلَمَّا يَد خلي الايمان في قلوبكم سوره حجرات سیپاره ۲۶ - رکوع ۲ - امانت تكره النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ - سوره یونس سیپاره رکوع ۱۵ من يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ تَوَلَّى فَمَا اَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حفيظاً - سوره نساء سياره ۵ - رکوع - ران احد من الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَاجِرُهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ ابَلِعَهُ مَا مَنَة - ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْم لا يعلمون - سوره توبه - پاره ۱۰ - رکوع ۱ - جن لوگوں نے غلطی سے یہ بجھا ہو کہ اسلام تمام مذاہب میں ایسا سخت مذہب ہے کہ اپنے سوا دنیا کے ہر ایک مذہب کا تلوار سے استیصال کرتا ہو.اور لڑائی اور زور سے دوسرے مذاہب کو باطل کرنا چاہتا ہے.ران لوگوں کی غلط فہمی آیات مذکورۃ الصدر سے بالکل ظاہر ہے اور اسلام اور صاحب اسلام اور اُسکے جانشینوں خلفائے راشدین کے اس چال و چلن سے صاف آشکارا ہو کہ اسلام میں صلح یا فتح کے بعد رھایا اور صلح سازوں کو خواہ مخواہ مسلمان نہیں کیا جاتا.کیا رسول خدا محمد مصطفے کے وقت خیبر کے باشندوں کو جو قسی القلب یہود تھے.اپنے مذہب پر نہیں رکھا گیا.اور یہودان خیر کے لیئے صلح کے بعد یہودیت پر عملدر آمد کرنے میں کوئی روک له اعراب نے کہا ہم ایمان لائے تو کہ کہ تم مومن نہیں ہوئے.لیکن یولو کہ ہم فرمانبردار ہوئے اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا یہ ہے کیا تو راے محمد لوگوں کو مومن بھنے پر مجبور کرتا ہوں نہیں" سے ہر شخص رسول کی اطاعت کرے یقینا اس نے اس کی اطاعت کی اور جو پیٹھ پھیر سے اسکی توشی ہم نے تجھ کو اُن پہ نگاہیاں نہیں بھیجا ہے " ہے اور اگر کوئی مشرکین سے تیرے پاس پناہ چاہے اُسے پناہ دے کہ وہ خدا کا کلام کی لے پھر اُس کو اُس کی امن کی جگہ پہنچا دے اس لئے کہ وہ لوگ جانتے نہیں ہے צן

Page 104

96 ٹوک تھی.کیا بحرین والے عیسائیوں پر تشدد کیا گیا ہے کہ تم عیسائی مذہب کو ترک کرو.کیا بیت المقدس کی فتح کے بعد حضرت عمر نے یروشلم کے یہودیوں اور عیسائیوں کو وہاں آباد ہونے نہیں دیا.ہاں ایک قسم کا ٹیکس ایسی رعایا سے لیا جاتا تھا جسکو عربی زبان میں جو یہ کہتے ہیں اور وہ ٹیکس بھی نہایت خفیف درجے کا ہوتا تھا.جس کا لگانا انھیں لوگوں کے امن اور چین کے لئے ضروری تھا مسلمانوں کی جائیں اور مال جس امن کے قائم رکھنے کیلئے خرچ ہوتے تھے.اسی امین کے واسطے اسلام کے سوا دوسرے مذہب والوں سے چند پیسے لئے جاتے تھے.یادداشت جز یرقتل کا بچاؤ نہیں تھا.کیونکہ قتل کا بچاؤوا من صلح معاہدہ خال عن الجزیہ سے ہوسکتا تھا.جز یہ تو ماتخت رعایا سے لیا جاتا تھا.جنکی حفاظت کے ذمہ وار مسلمان ہوں.مسلمانوں سے سخت ٹیکس.سالانہ زکوۃ اور لڑائی کے وقت سامان جنگ لینے کا حکم.اور مسلمانوں کے سوا اور مذاہب والے ان محاصل سے بری صرف اردو آنے دیگر آزاد ہو جاتے تھے.ایک روپے کا مالدا مسلما کم سے کم ڈھائی ہزار روپ ہی کو ہے اور کافرین روپے کئی آنے اتنی ہی ملکیت پر.پس جز یہ مسلمان بنانے پر رغبت نہیں دیتا.بلکہ دنیا کی حقیقت والے کو اسلام سے مانع ہے.(خلاصہ تقریر سید) ضروریات سلطنت اور امن کیلئے ہمیں ہندوستان کے ٹیکس اور محاصل جس وقت دکھائی دیتے ہیں، اُس وقت پادری صاحبان کے اعتراض پر تعجب آتا ہے.اس زمانے میں ہر تہما کی فتح کا خرچ غریب ہندوستان پر.اور اسکے خزائن اور دفائن اور منافع تجارت اور معتز از ترین نوکریوں کے فوائد اہل انگلستان کو حاصل ہیں.رہا بادشاہان اسلام کا چال چلین جو انہوں نے ملک گیری اور فتوحات میں دکھلایا.انہیں بعض کے حد سے بڑھ جانے کا اسلام ذمہ وار نہیں ہو سکتا.اور اُن لوگوں کی رفتار اور کرد آرسے اصول اسلام پر حرف نہیں آسکتا کیونکہ انگلستان اور فرانس بلکہ یورپ کے بعض وحشی مزاج

Page 105

۹۸ سنگدل بادشاہوں کی بداطواری خاکسار عیسومیت کو قابل ملامت ٹھہرا نہیں سکتی.بیشک اسلام اور اہل اسلام - بانی اسلام اور اسکے جانشینان بریتی یعنی خلفائے راشہرین کے غزوات اور جہادات کے ذمہ وار ہیں.اور انشاء اللہ تعالیٰ مضمون جہاد میں ثابت کردیا گیا کہ وہ سب دفاعی تھے.یعنی خود حفاظتی پر اُن سب کی بنا تھی.آخرین سرولیم میور کا یہ فقرہ لکھنا نا مناسب نہ ہوگا.وہ لکھتے ہیں یہ گوشہ ملک نے بطوع ور ثبت آنحضرت کی عظمت کوتسلیم کرلیا مگر ابھی تمام باشندوں نے بھی اسلام قبول ہیں کیا تھا.ایسا معلوم ہوتا ہو کہ آپکا شاید بینا ہو گا کہ اہل مکہ کو مدینے کے طور پر چھوڑ دیا جائے که رفته رفته خود بخود بلا اکراہ و اجبار اسلام میں داخل ہوتے جائیں گے " (لائف آف محمد از سرولیم میور جلد ۴ صفحه ۱۳۶) ہمیں کتب مغازی میں (خواہ کیسی ہی نا قابل وثوق کیوں نہ ہوں کوئی ایک بھی ایسی مثال نظر نہیں آتی.کہ آنحضرت نے کسی شخص کسی خاندان کسی قبیلے کو بزور شمشیر و اجبار مسلمان کیا ہو.ترولیم لیم میور صاحب کا فقرہ کیسا صاف صاف بتا تا ہو کہ شہر مدینے کے ہزاروں مسلمانوں میں سے رصاحب صاف ہوں کوئی ایک شخص بھی بزور و اکراہ اسلام میں داخل نہیں کیا گیا.اور کتے میں بھی آنحضرت کا یہی رویہ اور سلوک رہا.بلکہ ان سلاطین عظام محمود غزنوی سلطان صلاح الدین اورنگ ہیں؟ کی محققانہ اور صحیح تواریخ میں کوئی ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ کسی شخص کو انہوں نے بالجبر مسلمان کیا ہو.ہاں ہم اُنکے وقت میں غیر قوموں کو بڑے بڑے عہدوں اور مناصب پر ممتاز و سرفراز پاتے ہیں.یس کیسا بڑا ثبوت ہو کہ اہل اسلام نے قطع نظر مقاصد کی کے اشاعت اسلام کیلئے کبھی تلوار نہیں اُٹھائی.جهاد آنحضرت صلعم کے دشمنوں اسلام کے مخالفوں نے کار یعنی کیا ہو کہ آپکاوین بزور شمشیر شائع ہوا ہو.اور تلوار ہی کے زور سے قائم رہا.جن مورخین عیسائیوں نے آنحضرت صلعم کا تذکرہ - عالمگیری لڑائی اگر کسی ہندو راجہ سے ہوئی ہے تو اُسکی لڑائی تاناشاہ سے بھی ہوتی ہے جوک اور عالمگیری لڑائی اپنے باپ بھائیوں سے بھی ہوئی ہے.اس عالمگیری جنگ مذہبی تنہاد نہ ہوئی ۱۳

Page 106

٩٩ یعنی لائف لکھی ہو.آپ پڑھن کرنا انہوں نے اپنا شعار کہ لیا ہے اور انکے طعن کی وجہ فقط می علوم ہوتی ہو کہ آپنے اپنے تئیں اور اپنے رفقا کو دشمنوں کے حملوں سے بچایا.یہ سچ ہے کہ بعض برگزیدگان خدا دنیا میں وقتاً فوقتاً پیدا ہوئے ہیں.اور سوء اتفاق اور گردش تقدیر سر خدا کی راہ میں اور اعلائے کلمۃ اللہ کی کوشش میں شہید ہوئے ہیں.اور بعض لوگ ایسے بھی گذرے ہیں.جنہوں نے خلل دماغ کی وجہ سے اس امر کا دعوی کیا جس کی تکمیل اُن سے نہ ہوسکی.الغرض مخبوط بھی گذرے ہیں اور مجذوب بھی ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی مجنونانہ حرکات کی سزا پائی مگر اُس سے یہ کہاں لازم آتا ہو کہ مثلاًاگر حضرت مسیح مصلوب ہوئے یا مسیلمہ کذاب اپنی کہ بہیت اور مجذوبیت کی سزا کو پہنچا تو معاذاللہ آنحضرت صلح کو بھی ان کی تقلید کرنا فرض تھا.اور بغیر اپنی رسالت کے اتمام و تکمیل کے شہید ہو جانا لازم تھا.وانین اسلام کے مافی قسم کی آزادی در می اورمذہب والوں کو خشی گئی و سلطنت اسلام کے مطیع و حکوم تھے ا الراءَ فِي الدِّينِ (سوره بقره سیپارہ (۳) دین میں کوئی اجبار نہیں.یہ آیت کھلی دلیل اس امر کی ہے کہ اسلام میں اور اہل مذاہب کو آزادی بخشنے اور اُن کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم ہے.ان تَبرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمُ انَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ سُوره ممتحنه بارة یہ آیت کسی بے قابو مجذوب کا قول نہیں ہے.نہ کسی فلسفی کا خیال خامہ ہے.بلکہ اس شخص کا فرمودہ ہے.جوالسیسی سلطنت کا بادشاہ تھا جو اتنی قدرت رکھتی تھی.اور جس کا انتظام ایسا عمدہ تھا کہ جیسے اُصول کو چاہتی نافذ کر سکتی تھی.اور فرقوں اور اشخاص نے دین میں بھی اور سیاست مدن میں بھی مذہبی آزادی بخشنے کی ترغیب دی ہے.گر اسکے عملدرآمد کی تاکید صرف اُس وقت تک کی ہے.جب تک وہ خود ہے قابو اور کمزور رہے ہیں لیکن شارع السلام نے ند مہبی آزادی کی ترغیب ہی نہیں دی بلکہ اس کو احکام شریعت میں داخل کر دیا ہو.رسول اللہ کے احسان کرو تم اُن سے اور انصاف کر و طرف اُن کے تحقیق اللہ دوست رکھتا ہے انصاف کرنیوالوں کو ۱۳

Page 107

1.نے بنی حارث اور بنی نجران کے بڑے استقف اور اساقفہ کو اور اُنکے مُریدوں اور راہبوں کو بایں مضمون نامہ لکھا.کہ ہر چیز قلیل و کثیر جس حیثیت سے اب تمہارے کنائس اور خانقاہوں میں ہے.اُسی حیثیت سے وہ تمہارے پاس ہیں اور تم سے اسی طرح کام میں لاؤ جس طرح اب لاتے ہو.خود خداوند عالم اور اس کا رسول عہد کرتا ہے کہ کوئی انصف اعظم اپنی عملداری سے اور کوئی راہب اپنی خانقاہ سے اور کوئی اسقف اپنے عہدے سے برخاست نہ کیا جاویگا.اور انکی حکومت اور حقوق میں کچھ تغیر و تبدل نہ کیا جائیگا.اور نہ اس بات میں کچھ تغیر کیا جا ویگا جو اُن میں مرسوم و مروج ہو.اور رجب تک و صلح و تدین کو اپنا شعار رکھیں گے.اُن کو کسی قسم کا جور نہیں کیا جاونگا.ندوہ کسی پر جور و ظلم کرنے پائیں گے.جس زمانے میں آنحضرت صلعم مبعوث ہوئے اُس زمانے میں مختلف قوموں کے باہمی فرائض کو کوئی جانتا بھی نہ تھا کہ ایک قوم کودوسری قوم سے کیا سلوک کرنا چاہیئے.یہ مختلف قومیں یا بیلے باہم لڑتے بھڑتے تھے، تو نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ضعیف آدمی تہ تیغ بے دریغ کئے جاتے اور بے گناہ لونڈی غلام بنائے جاتے اور قوم فاتح قوم مفتوح کے معبودوں لینے بتوں کو لوٹ لیجاتی تھی.تیرہ سو برس کے عرصے میں رومیوں نے ایک ایسا سلسلہ قوانین اختراع کیا تھا.جو وسیع بھی تھا اور مضامین عالیہ سے مملو بھی تھا.مگر اس اخلاق اور اُس انسانیت و مروت کو جو ایک قوم کو دوسری قوم سے کرنی چاہیئے.رومی خاک بھی نہیں سمجھتے تھے.وہ فقط اس غرض سے لڑائیاں لڑتے تھے.کہ گرد و نواح کی قوموں کو مغلوب و مقہور کریں.انکے نزدیک عہد و پیمان کا نقض کر دینا کچھ بڑی بات نہ تھی.بلکہ مصالح وقت پر مبنی تھی.دین مسیحی کے جاری ہونے سے بھی اُن خیالات میں کچھ تغیر و تبدل نہ ہوا.عیسائیوں کے زمانے میں کبھی لڑائی میں وہی بے رحمیاں اور وہی قتل اور لوٹ مار ہوتی تھی.جو رومیوں کے عہد میں ہوتی تھی.اور فاتحین مفتوحین کو بلا تکلف لونڈی غلام بنا ڈالتے تھے.اور عہد و پیمان

Page 108

1-1 کر کے پھر توڑ ڈالنا بے ایمان سرداران فوج کی رائے پر موقوف تھا.الغرض دین سیخی نے قومی اخلاق کا کچھ تصفیہ نہ کیا.اس زمانے کے محققین سیجی نے اس قومی اخلاق کے فقدان کو اپنے دین میں ایک نقص عظیم نہیں قرار دیا ہے.حالانکہ یہ نقص راس وجہ سے پیدا ہوا تھا.کہ ان کا دین ناقص اور نا تمام چھوڑ دیا گیا تھا.مذہب پروٹسٹنٹ نے جب فرض پایا.تب بھی علمائے مسیحی کی مذہبی تعدی میں کچھ فرق نہ آیا.ہالم صاحب اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ اس مہذب دین درپروٹسٹنٹ کے مختلف شعبوں اور فرقوں سے اعظم معاصی یہ عصبیت سرزد ہوئی کہ بندگان خدا پر دین میں جبرو اکراہ کرتے ہیں.اور یہ گناہ ایسا ہے کہ ہر ایک ایماندار آدمی جتنی زیادہ کتب کی سیر کر تا ہے.اتنی ہی اُسکو اُن سے کدورت اور نفرت ہوتی جاتی ہے.الغرض عیسائیوں کے جدید فرقوں میں باہم یا کلیسائے روم سے اعتقادات مذہبی میں کیسا ہی اختلاف عظیم ہو.مگر اس باب خناس میں وہ سب متفق الرائے ہیں.کہ جو قومیں دین سیمی کے دائرے سے باہر ہیں.اُن سے کوئی سلسلہ مواجب و حقوق مشترکہ کا قائم رکھنایا کسی قسم کا فرض ان کی نسبت بجالانا حرام مطلق ہے.بر خلاف دین مسیحی کے یہ بات اسلام کی طبیعت میں داخل نہیں کہ اور اہل نداہر سے کنارہ کشی اختیار کرے.اور اس زمانہ جاہلیت میں جبکہ نصف دنیا پر اخلاقی اور تمدنی ریکی چھائی ہوئی تھی آنحضرت نے دو اصول تمام بنی آدم کی اور کے تعلیم رائے جنکی قدر سادات اور مذہبوں میں بہت کم کیجاتی تھی.چنانچہ وہ لائق مورخ ( الم صاحب جس کا قول ہم نے پہلے نقل کیا ہے لکھتا ہے کہ دین اسلام بندگان خدا پر عرض کیا گیا.گر کبھی ان سے جبڑا نہیں قبول کرایا گیا.اور جس شخص نے اس دین کو بطیب خاطر قبول کیا.اُس کو وہی حقوق بخشے گئے جو فاتح قوم کے تھے.اور اس دین نے مغلوب قوموں کو اُن شہر الطا سر بری کردیا جو ابتدائے خلقت عالم سے پیغمبر اسلام کے زمانے تک ہر ایک فاتح نے م فاتح نے مفتوحین پر قائم کیئے تھے " پیر امر آر پی اور

Page 109

۱۰۲ ہم اس امر کا قطعی انکار کرتے ہیں کہ اسلام نے کبھی لوگوں کو زبر دستی مسلمان کرنا چاہا ہو.اسلام نے فقط اپنی ذات کی حفاظت کے لئے تلوار پکڑی اور اسی غرض سے شمشیر بکف رہا.عیسائیوں کے نزدیک اختلاف مذہب ایک وجہ وجیہ جنگ وجدل کی تھی.جیسے قوم سیکشن وفرسین کو اور دیگر اقوام جرمنی کو شارمین شاہ جرمنی نے قتل و قمع کیا.جس وقت سے صوبہ سینز کو اور صوبہ پر تین لاکھاں بندگان خدا تہ تیغ کئے گئے ہیں زمانے سے فرقہ الجنس فرانس میں مقتول و مذبوح ہوا.اور جسوقت سے اُن خون ریز لڑائیوں میں جو تاریخ یورپ میں جنگہائے سنتی سالہ کے نام سے مشہور ہیں، بڑی بڑی خونریزیابی ہوئیں.اُس وقت سے اُس زمانے تک جبکہ سکاٹ لینڈ میں پیروان مسلک کا کون نے اور انگلینڈ میں تابعان دین لوتھر نے شد یا ظلم و تعدی کی ایک غیر منقطع سلسله جبر و اکراہ اورتعصب نفسانیت اور غلو بیجا کا امور دینی میں چلا آیا ہے.جو دین سیمی کے لئے مخصوص ہے.اور جس سے اسلام بحمد اللہ ہمیشہ بر ہی رہا ہے.غزوات صلیبی میں ملاحظہ کیجئے مجاہدین عیسائی کا کر دار مسلمانوں کے مقابل میں کیا رہا ایک معتبر مورخ لکھتا ہو کہ جب خلیفہ ثانی امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ کہ میں بیت المقدس میں داخل ہوئے.تو گھوڑے پر سوار سفر ونیوس اسقف اعظم کے ساتھ بیت المقدس کی عمارات قدیم وغیرہ کی باتیں کرتے ہوئے شہر کے اندر چلے گئے اور جب نماز ظہر کا وقت آیا.تو آپنے اس کلیسائے بزرگ میں نماز پڑھنا پسند نہ کیا جہاں اُس وقت کھڑے تھے.بلکہ ایک اور کلیسا کے زینے پر فریضہ نماز ظہر ادا کیا.اور اسقف اعظم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اگر میں اس کلیسائے بزرگ کے اندر نماز پڑھتا.تو آئندہ مسلمان اس معاہدے کے خلاف کرتے.جو ہم سے اور تم سے ہو گیا ہو اور یہ حیلہ کرتے کہ جب خلیفہ نے اس گرجا میں نماز پڑھی ہو تو پھر ہم کوکون مانع ہے.مگر جب مجاہدین عیسائی نے ے یہ دونوں صوبے جنوبی امریکہ کے ہیں.یہاں اہل ہسپانیہ نے لاکھ ا ا د میں کو صرف بوجود اختلا در قبال کیا.

Page 110

١٠٣ بیت المقدس پر قبضہ پایا تو مسلمین کے اطفال خورد سال کو دیواروں سے ٹکرا کراکر انکے بھیجے پھاڑ ڈالے.اور جوانوں کو زندہ بھون بھون کر مارا اور بعضوں کے پیٹ چاک کر ڈالے کہ دیکھیں سونا تو نہیں نگل گئے ہیں.اور یہود کو اُنکے العابد میں بند کر کے زندہ جلا دیا.اور تقریباً ستر ہزار بندگان خدا کو تہ تیغ بے دریغ کیا.الغرض اسلام نے اپنے نفس کی حفاظت کیلئے تلوار پکڑی تھی مگر دین سمجھی نے اس غرض سے شمشیر زنی کی کہ آزادئی خیال اور آزادی اعتقاد کو صفحہ کروزگار سے مٹادے.قسطنطین اعظم نے جب درین سیمی قبول کرلیا تو یہ دین تمام ملک مغربی میں پھیل گیا.اور اُسوقت سے اس دین کو کسی دشمن کا خوف باقی نہ رہا.مگر جس ساعت سے اس مذہب کو فروغ ہوا.اسی ساعت سے اُسکی سچی خاصیت ظاہر ہونے لگی.یعنے اور ادیان سے نفرت و بیزاری کرنے لگا.اور جہاں جہاں دین میں شائع ہوا.وہاں وہاں لوگوں کو اور کسی مذہب پر چلتا ہے ایڈا اٹھائے غیر تمکن ہو گیا.برخلاف عیسائیوں کے اہل اسلام صرف صلح و عافیت کی ضمانت طلب کرتے تھے.اور حفظ جان و مال اور مساوات کامل کے عوض میں کچھ برائے نام جزیہ مانگتے تھے.عیسائیوں نے اس مضمون کے (جہاد) خصوص میں نہایت نفرت انگیز تحریرات دنیا میں پھیلاتے ہیں.اور نا واقفان تاریخ اور سادہ دلوں کو واہم تزویر میں پھنسانا چاہا ہے.انہوں نے انجیل کے ایک دو فقیرانہ فقروں کو قرآن کریم کی ملکی تمدنی اخلاقی اور عادت اللہ کے موافق تعلیمات سے مقابلہ کرنے میں نہایت بے رحمی سے بیش بہا وقت ضائع کیا ہے.اس لیے ضرور ہوا.کہ ہم غزوات محمد یہ لکھنے سے پہلے توریت شریف کے موافق ٹولیں کہ عادت انہیں اس بارے میں کس طرح پر جاری ہو.اور باوجود رحیم و کریم ہونے کے ذرا سی اپنے قانون لی خلاف ورزی پر کیسی کیسی سزائیں مثلا لعنت و با بیماری فیشل حرق حرق انسان پر نافذ کے اقل سے یہانتک تنقید الکلام سے اقتباس کیا گیا ہے مفصل دیکھنا ہو تو اصل کتاب مال کے

Page 111

۱۰۴ کرتا ہے.یا لفظ دیگر قانون قدرت دلار آونیچر پر حملہ کرنے والوں اور احکام اللہ کے عاصیوں کے دفاع میں کیسے کیسے سخت جہاد کرتا ہے اور کرتا جائے گا.پھر توریت کے نبیوں کے جہادات پر سرسری نظر کر جائیں.اور پھر ذرا سی نگاہ اس لے لیں نجل معلم کے مخفی انتظام آمیز فقرات پر کریں تاکہ مغرور نصاری پر اس مجبور خاکساری مگر خفیہ غضبناکی کی قلعی کھل جائے.الہی انتقام گناه عصیان عدول حکمی نقض قانون قدرت حکام دنیوی کی بغاوت.یہ ایسے خوارض ہیں.جن کے باعث انسان قابل سزا ہو جاتا ہے.پیدائش سے باب.خدا نے آدم کو ایک درخت کا پھل کھانے سے منع کیا.سانپ نے حوا کو پھر قوانے آدم کو بہکایا.اسپر خدا نے سانپ کو طعون کیا.عورت کو دروزہ میں مبتلا کیا.زمین کو بے قصور مطعون کیا.آدم کو آرام کی جگہ سے نکالہ یا ، جب نوع کے وقت انسان کی بدی بڑھ گئی.تو خدا انسان کے پیدا کرنے سے بچتا یا اور نہایت دلگیر ہوا.پیدائس ، باب ہے.اور خدا وند نے کہا کہ میں انسان کو جسے میں نے پیدا کیاروئے زمین پر سے مٹاڈا لونگا.انسان کو اور حیوان کو بھی اور کیڑے مکوڑے اور آسمان کے پرندوں تک کیونکہ میں ان کے بنانے سے بچتا تا ہوں.پیدایش ، باب ۷.باب میں لکھا ہو کہ اس نے غضب میں سب کو غرق کر دیا.پیدائیش ۱۲ باب ۱۳ ابراہیم سے فرمایا جو تجھے برکت دیتے ہیں اُنھیں برکت ڈونگا.اور جو تجھ پر لعنت کرتے ہیں.اُن پر ے لعنت کروں گا.خروج باب کے تا ۱۰ - یعقوب اور ابراہیم کے خدا نے فرعون کا دل خود ہی سخت کیا.پھر سے جوؤں.کہو.سوؤں.وبا شمالہ باری.آگ.ڈی.اور اقسام اقسام کے عذابوں

Page 112

۱۰۵ میں مبتلا کرتے کرتے آخر غرق ہی کر کے چھوڑا.غرض تمام کتب مقدسہ ایسے مضامین سے بھری پڑی ہیں کہ فلاں قوم پر خدوند کا غضب نازل ہوا.فلاں ملک تباہ و برباد ہوا.نبیوں کی واویلا کی آواز میں ابھی توریت کی لپیٹوں میں گونج رہی ہیں.عموما قانون قدرت کی خلاف ورزی سے جو سزا اقوام دنیا نے پائی اور پا رہی ہیں اس پر ہم کچھ لکھنا نہیں چاہتے کیونکہ میں بات ہے اور بچے اور پاگل اور کم عقل کوئی بھی اس سزا یا بی سے مستثنے نہیں.یابی بنی اسرائیل خاندان سی کا قتل I پیدایش ۳۴ باب ۲۵ - کس فریب اور دھوکے سے تسکم اور جمور اور انکے شہر والے بنی اسرائیل کے ہاتھ سے قتل ہوئے.دیکھو اعداد اس باب ،.انہوں نے دریانوں سے لڑائی کی.جیسا خداوند نے موسی سے فرمایا تھا.اور سارے مردوں کو قتل کیا.آیت آوشی اور رقم اور ستور اور تورا اور رنج کوجو مادیانیوں کے پانچ بادشاہ تھے.جان سے مارا.مادیان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کیا.معاشی اور مال و اسباب کو لوٹا.شہروں اور قلعوں کو ٹھونک دیا.آیت ۱۵ موسی انپر اسلئے غصے ہوا کہ عورتوں کو کیوں جیتا رکھا.یہ تو گناہ کا باعث نہیں.کل باب ملاحظہ ہو.اور ضرور.اعداد ۲۳ - ۵۵ پر اگر تم زمین کے باشندوں کو اپنے آگے سے دفع ہ کرو گے.تو یوں ہوگا کہ جنہیں تم رہنے دو گے.تمہاری آنکھوں میں خار ہونگے اور کانٹوں کے مانند تمہارے پہلوؤں میں مجھیں گے بالو افتاد ۳۵ باب 4 سے ۱۵ تک.۴۸ شہر لاویوں کے لئے.استثنام باب ۴.اور ہم نے اُسی وقت اسکے سب شہر لے لیئے.وہاں ایک شہر بھی نہ رہا.جو ہمنے اُن سے نہ لے لیا.ساٹھ شہر.ارجوب کا سارا ملک.سارا باب دیکھ جاؤ.

Page 113

1-4 ايضا ا باب ۳۴.مردوں اور عورتوں اور بچوں کو حرم کیا.ایضاً ۱۷ باب ۲ سے ہم تک.اُن کے بتوں کو توڑ ڈالیو - گھنے باغوں میں آگ لگا ئیو.اُن کے معبودوں کی گھری ہوئی مورتوں کو چکنا چور کیجیو.ایضا ۲۰ باب ۱۰ و ۱۳ جزیہ لینا.لوٹ مارنا اور خوبصورت عورتوں کا پسند کرنا.ایضا، باب اسے 4 تک.جب خدا وند تیرا خدا اسات قوموں کو تیرے حوالے کرے انھیں ماریو.حرم کیجیو.اُن سے عہد نہ کریں.انپر رحم نہ کریو وغیرہ وغیرہ.اعداد ۲۱ ۱۶ و ۳۱ باب ملا حظہ کرو.یشوع ، باب ۱۴ ماہی فرشتہ یشوع کا لشکر ہو کر آیا.تب اُس شورع نے تمام لوگوں کو جو شہر میں تھے کیا مرد یا عورت کیا جوان کیا بوڑھا.کیا بیل کیا بھیڑ اور گد تھا.سب کو ایک لخت ہلاک کیا.تہ تیغ کیا.حرم کیا.یشوع ، باب ۲۱ - ایضا ب باب ۲۴.سب کچھ پھونک دیا.مگر سونا اور روپا.العنا، باب - انبیائے بنی اسرائیل کا مارشل لا جنگی قانون، دکھ مجرم آدمیوں کا جلانا.ایضا، باب ۲۵ و ۸ باب ۲۴ در باب ۲۹ و ۱۰ باب هم سنگسار کر کے جلانا اور پھر اسپر پتھروں کا تو وہ لگا نا قتل عام کرنا.بادشاہوں کو پھانسی دیگر پتھراؤ کرنا.بادشاہوں کو فن کرنا.بلکہ حسب الحکم خدا وندی کوئی ذی روح باقی نہ رکھا.ایک بادشاہ بھاگ کر یا عمیل کے خیمے میں آیا.اُس نے قریب سے اُس کے سر میں مسیح گاڑ دی.قاضی ۴ باب ۲۱.پھر قاضی ۵ باب ۲۴ - راس وحشیانہ حرکت سے مبارک ٹھہرے.قاضی ۵ باب ۳۰.دو دو کنواریوں کو سپاہیوں کے لیے رکھا.قاشی و باب ۲۹ شکم کے برج میں آگ لگا کر لوگوں کو جلا دیا.قاضی در باب ۱۲ سپاہ کو روٹی نہ دینے سے کس قدر لوگ قتل کیئے گئے.اسموئیل ۱۲ باب ۳- داؤد نے رہ کے بادشاہ کا تاج اوتار اپنے سر پر رکھا.

Page 114

1-6 لوگوں کو آروں اور کلہاڑوں اور لوہے کی داونی گاڑیوں کے نیچے کیا اور اینٹوں کے سجلتے پزا وے میں جلا دیا.ا تاریخ ۲۰ باب ۲ دیکھو.-146 -۲- سلاطین ۱۰ باب - یا ہے نے اخیر اب کے سارے گھرانے کو بالکل نابود کیا.۲.سلاطین ۱۵ باب ۱۶.مناحم نے تمام عاطر عورتوں کے پیٹ پھاڑ ڈالے.۲- سلاطین ۲۳ باب ۱۶- قبروں سے ہڈیاں نکلوا کے الہی حکم سے جلو ائیں.ہم نے عہد عتیق سے مختصراً انبیائے بنی اسرائیل کے آتش افشاں جہاد نقل کر کے رکھ دیتے ہیں.ہم دعوی کرتے ہیں کہ یہ غضب پر ستم یہ مکانوں کو ڈھانا شہروں کو آگ لگا دینا.باغوں اور ہرے درختوں کو جلانا قتل عام کرنا سروں میں مین گاڑنا.آروں، کلہاڑوں سے پروانا.پزادوں میں حلوانا - حاملہ عورتوں کے پیٹ پھاڑنا.اسپر بھی قوت عصبی کا فرو نہ ہونا.تو قبر سے ہڈیاں نکلوا کر جبلوا کر ہی ٹھنڈا کرنا.ہائے ستم یہ افعال ہرگز ہرگز اسلام اور رحیم بانی اسلام سے سرزد نہیں ہوئے.کون شخص اس حکم کو شنکر کانپ نہیں اُٹھا " تو ان سے عہد مت باندھیو" " ان پر رحم نہ کریو بخلاف اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اُنکے جانشینان برحق جب کسی طرف کو لشکر روانہ کرنے لگتے اول نصیحت سردار لشکر کو یہ ہوتی.ملک مفتوح کی عورتوں.بچوں بوڑھوں.خانقاہوں.عبادت گاہوں خانقا نشینوں سے تعرض مت کرنا.کھیتوں کو مت جلانا.پھلدار درختوں کو مت کاٹنا.انصاف سے سوچنا چاہیئے.اس سے بڑھ کر کیا رحم ہوسکتا ہے.انبیائے بنی اسرائیل جیسے حضرت داؤد یشوع و موسی وغیرہ کے سخت جھادوں کی نسبت جب کوئی معترض اعتراض کرتا ہوں.عیسائی لوگ بیا کی سو فورا پکار اٹھتے ہیں کہ انہوں نے خطا کی وہ معصوم انسان نہ تھے.اوریہ کہ انہوں نے دین کے واسطے جنگ نہیں کی.

Page 115

۱۰۸ یادر ہے یہ اس قوم کا سخت دھوکا ہی.توریت اعلان کر رہی ہو کہ موسی میرا برگزیده رسول میرا اکلوتا.میری مرضی پر چلنے والا ہے.ابتک بنی اسرائیل میں کوئی نبی نہیں اُٹھا.الا جس سے خداوند آمنے سامنے آشنائی کرتا.استثنا ۳۴ باب ۱۰.حضرت داؤد کی نسبت جسے بڑھکر سفا کی شاید اور کسی سے کمتر ہوئی ہوگی لکھا ہے.داؤد نے میرے سارے حکموں کو حفظ کیا.اور اپنے سارے دل سے میری پیروی کی.تاکہ فقط وہی کرے جو میری نگاہ میں اچھا تھا.(اسلاطین ۱۲ باب م) داؤد نے خداوند کی نگاہ میں نیکو کاری کی.(اسلاطین ۱۵ باب (۵) اور میری شریعتوں اور حکموں پر اپنے باپ داؤد کیطرح چلتا.(اسلاطین ا باب ۳۳) یشوع بن نون روح قدس دانائی کی روح سے معمور تھا.(استثنا ۳۴ باب ۹) یہ تمام مدح و ثنا و توریت ان نبیوں کی نسبت کرتی ہو.کیا رائیگان ہو.نہیں نہیں وہ بالکل خداوند خدا کی مرضی پر چلے اور اسی کے حکم سے سب کام کیئے.پس ان سب برگزیدوں کا فعل اصل نفس جہاد کی اباحت اور استحسان کی کافی دلیل ہے.رہی یہ بات کہ اُنہوں نے دین کی خاطر نہیں کیا.تو پھر کیا دنیا کی خاطر کیا.یا بیہودہ اور لغو کام کیا.اور اگر ان قوموں کے معاصی کی سزا ہے.تو صاف معلوم ہوا دین کی خاطر جنگ کی.اگر وہ خدائی قوم بنی اسرائیل کی طرح ٹھیک موسی یا تو ریت کے مطبع ہوتے.تو کاہے کو ایسی خطرناک سزائیں پاتے.ہم بڑے زور اور رات سے بھی کرتے ہیں کہ نبی عربی مسلم نے بھی کسی کو دعوی اگر ایا مسلمان کرنے کیلئے تلوار نہیں اُٹھائی.اور جب اُٹھائی تو صرف خود حفاظتی اور دفاع میں اُٹھائی.اور پھر اس میں بھی کمال رحم و رافت کو مرعی رکھا.سخت سے سخت ے بھی امت دشمن سے بھی کبھی توریت والا معاملہ نہیں کیا.اور یہی بات ہم انشاء اللہ غزوات محمدیہ میں دکھا دینگے :

Page 116

1-9 غزوات مسیحیہ متی ۲۴ باب ۳۰.حضرت شیخ فرماتے ہیں.جب میں آؤنگا دنیا کی ساری قومیں چھاتی پیٹیں گی.متی ۱۶ باب ۲۷ - کیونکہ ابن آدم اپنے باپ کے جلال میں اپنے فرشتوں کیسا تھا آئیگا.تب ہر ایک کو اُسکے کام کے موافق سزا دیگا.بعضنے ابھی موت کا مزہ نہ چکھینگے.سبحان الله خاکسار علیم بر کیسے تزک و احتشام سے تشریف لاتا ہو.اور کیسے جنگ جو مزاج سے.اگر انجیل اور پیروان انجیل کے عقائد پر نظر کی جائے تو مسئلہ جہاد کا اور مخالفوں سے جنگ کرنے کا عجیب طریقہ پریل سکتا ہے.عیسائی علما آیت مذکور الصدر کی بہ تاویل کرتے ہیں کہ مسیح کا آنا ہی لطیس رومی کا آنا ہے جس نے خطرناک خونریز کی یروشلم میں کی.اور جس یروشلم میں سیخ نے کسی زمانے میں کبوتر بیچنے کی شدید ممانعت کی تھی.اسمیں اُسنے سور کی قربانی کرائی.شاید روحی بت پرست سیخ کے فرشتے تھے.اس آیت سے یہ بات آشکار ہے کہ اجسام انسانی میں جناب پھر پھر حلول کر کر آتے ہیں.سبحان اللہ بھیس بدل بدل خفیہ خفیہ کارسازیاں کرتے ہیں.دکھانے کے....اور کھانے کے اور.جس حالت میں مسیح کا اجسام میں حلول کر آنا اور دوسے انسانوں کے جسم میں آکر عاصیوں اور باغیوں کو انتقام لینا انجیلی مذاق پر سلم ہوں.تو کہنے والا اس عقیدے کی بنا پر کہ سکتا ہے کہ عرب میں اسی منتقم نے جو پہلے زمانوں میں لوگوں کو وباؤں نقطوں اور جنگوں سی پلاک کرتا رہا.اور خاکساری بے بسی کی حالت میں یہودیوں کی منتیں کرتا رہا کہ مجھے مانو.اور کبھی دھمکاتا کہ دیکھو مجھے مانو ورنہ فرشتوں کے لشکروں کے ساتھ اگر تمہیں تباہ کر دونگا.ہاں اُسی منتقم نے عبد اللہ اور آمنہ کے گھر میں جنم لیا.اور بت پرستوں اور الہی باغیوں سے واجبی انتقام لیا.ہم نہیں سمجھے کہ عقلمند پادری صاحبان اس بات کو کیونکر رد کر سکتے ہیں ،

Page 117

11- اور سنیئے.منی ، باب ۳۲ - سوروں کے غول کو مسیح نے ملاک کیا.یا درمی کلارک اور پادری لاہنر صاحب کہتے ہیں کہ وہ سٹار تعداد میں دو ہزار تھے.اور وہ اسلئے ہلاک ہوئے کہ آدمی کی جہان کا نقصان کرتے تھے.اور اسلئے بھی کہ ملک والوں کو معلوم ہو.کہ مسیح کون ہیں.اور اسلئے بھی کہ ایک کی نجات دو ہزار سور کی ہلاکت سے بہتر ہے اور اسلئے کہ مخالف شریعت یہودیوں کا مال تھا.یا ایسی غیر قوم کا مال تھا.جو شریعت کی بے عزتی کرنے والی تھی.اور دونوں صورتوں میں ان سوروں کی ہلاکت جائز تھی.اب اس تفسیر پر اور انپر گہری نگاہ کر کے دیکھو.اور سوچو کہ سٹوروں کا ہلاک کرنا جائز ہے.منتی ، باب 4 جو پاک ہے کتوں کو مت دو.اور اپنے موتی سوروں کے آگر نت پھینکو.اس سے معلوم ہوا کہ بعض آدمی بھی سور ہیں.اب غور کرنا چاہیئے کہ سوروں کا بلاک کرنا سیح سے ثابت ہے اور بعض آدمیوں کا موڑ اور کہتا ہونا مسح کے کلام سے ثابت نہیں آدمیوں سے جو سور اور کتے ہوں.اجتناب کرنا اور انہیں قتل کرنا کیسے ممنوع ہوگا.پادری صاحبان ! اگر چه هم اتنا قبول کرنا گوارا کرلیں کہ بیٹا باپ سے جو طوفانوں اور وباؤں سے لوگوں کو ہلاک کرتا ہو کسی قدر زیادہ رحیم ہے.مگر کیا کریں خود انجیل اور اس کا آدمیوں کو سٹور اور کتے کہنا اور انکو ہلاک کرنا ثابت ہوا جاتا ہے.ہاں انجیل تو میں لفظ سور کے استعارے کے تعلیے میں قتل ابن آدم کو چھپایا چاہتے ہیں.بیشک بیٹے میں اتنی بات ضرور ہو کہ ایک زمانے تک وہ اپنے ضعف و ناتوانی اور قلت انصار و اعوان کے سب سے پٹتا رہا ور طا ہر کھاتا رہا.الا جب فرشتوں کے لشکر کے ساتھ آیا تب اُس کا رحم و فضل اور نمود کی مسکینی سب غائب ہوگئی.اور لگا دھڑا دھڑ منکروں اور تھوکنے والوں سے بدلے لینے.سچ ہے کمزوری کھلے جہاد کا فتویٰ کا ہیکو دینے دیتی کہ منگران کلام حق سے علانیہ موسیٰ کی طرح انتقام لیتے.موہومی دھمکیوں (جب میں آؤنگا، اور گھاس کے مٹھوں سے ڈرانے میں تو کچھ کو تا ہی نہیں کی.مگر حضور کی ان سرسوں بھری توپوں سے

Page 118

کا مسکو کوئی ڈرنے لگا تھا.عیسائیوں کو آجا کے بڑا فخر اس بات پر ہوتا ہو کہ مسیح کمال بردباری اور حمل کی تعلیم دیتا ہے کہ جو کوئی تجھے ایک گال پر تپانچہ ان سے دوسرا گال بھی پھیر دے.اور اگر ایک کریں بیگار میں پکڑ کر لیجائے.تو دوکوس چلا جا.اگر کوئی تیرا کیڑا پکڑے تو اسے دیدے؟ میں کہتا ہوں.نہیں بلکہ عقل سلیم اور فطرت تقسیم کہتی ہے کہ کبھی ایک لمحہ بھر کے لیے یہ خیالی احکام تعمیل ہوئے.یا کبھی کسی نے کوشش کی.ایسی گوش خوش کن باتوں پر نازاں ہونا دانشمندی نہیں.بودھ اور آرین اور چینیوں کے اصول اس سے بی این دلیل اور خیالی رم می بینی ہی کہ کیسی ایک ذی روح کو ستانا منذ مبارہ جائز نہیں سمجھتے.مگر ایسی گھڑ توں سے کیا فائدہ.اور ان بے مغز متوں پر فخر کے کیا معنے کوئی نہیں جواب ہے سکتا کہ ان احکام کی بھی عمل ہوا.یا عادۃ اللہ انپر عمل کرنیکی مختلف القویٰ او میبائن الاوضاع انسان کو اجازت دے سکتی ہے.متقدمین نصاری کا ذکر جانے دو.جن پر اول اول روح القدس نے جلوہ کیا.اور جنکی رفتار بنی نوع کے ساتھ ہم مقدمے میں ذکر کر آتے ہیں.آجکل کی مہذب ترقی یافتہ یورپ کی سلطنتوں کو دیکھ لو.کیا اُنکے قوانین ملی کا مدار اسی پر ہے.اس ادعائے ترقی کے زمانے میں شب و روز جهان کش آلات جنگ کے ایجاد و اختراع میں لگا رہنا ہر وقت لڑائی کے داتو ی پیچ بچارتے رہنا اور پھر ہم مذہب کمیشن پر کمیشن بھی جگہ بڑے بڑے خداع اور خیال سو ممالک غیر کر میں ریشہ دوانی کرنا.ایک کو دنیا.ایک کو لالچ.ایک سر قطع.ایک سے وصل.صاحبو! یہ احکام سیمی کی تعمیل ہے.پادری صاحبان با صاف دل لوگوں کو بہت جلد دھوکا دینے پر آمادہ ہوتے ہیں.کہ فلاں افریقہ کے بادشاہ نے ملکہ معظمہ قیصرہ ہند سے پوچھا کہ آپکی ترقی سلطنت کی کیا وجہ ہے.ملکہ محمد وحد نے اُسکے جواب میں انجیل بھیجدی یا الہ اللہ سوچو عقل کو کام فرما کہ دھو کے بازیوں

Page 119

۱۱۲ سے کیا فائدہ.اصلیت کہاں چھپی رہتی ہے.گریبان میں منہ ڈالو.ذری ہسٹری آف انڈیا ہی اُٹھا کر دیکھ لو.کہا تک یہ امر یار صداقت کو پہنچا ہوا ہی مصلحت ملی مانع ہو کہ ہر ایک یں پہلو کو بالوضوح ہمہ ثابت کردیں.بعض بلد باز کرسچن جھوٹ بول اُٹھیں گے کہ معاملات پولیٹیکل کو ان سحر کیا نسبت.بیشک ہم بھی بڑے خوش ہونگے پس اسلامہ کے دفاع اور آیات جہاد یہ قرآنی کو پولیٹیکل مشکلات کا حل مانتے ہوئے اُنھیں کونسی بات مانع ہے.صاحبوا یہ تعلیم سیجی اسوقت ہوئی.یا یوں کہہ سکتے ہو کہ ایسے وقت کے لئے مناسب تھی جبکہ اُس تعلیم کا معلم ایسا کمزور تھا کہ اپنے شاگردوں تک تو اس کو اعتماد نہ تھا.کوئی تیس روپے پر گرفتار کروانے کو موجود کوئی بزدلی سے اصلاً ہی انکار کو حاضر میلیون کہنے کو آمادہ.اُدھر یہود کی وہ سرکشی وہ قساوت کہ ایسی خاکساری پر بھی بقول آپ کے جیتا نہ چھوڑا.بھلا فرمائیے ڈرتے کیا نہ کرتے.دوستو تعلیم کی خوابی تو یہ ہو کہ قوائے فطرت انسانی سے مناسب اور موزون کام لینے کو کہے غضب اور انتقام سے اپنے موقع پر.رحم اور علم سے اپنی جگہ پر غرض جو جو افعال و خواص قوائے موجودہ میں ودیعت کیئے گئے ہیں وہی صادر ہوں.یہی تعلیم قرآن و اسلام کی ہے.اور اسی پر مصالح دنیوی و اخروی کے قیام کا مدار ہے.اور جو قوم تہذیب و شائستگی کا میلان رکھتی ہے.انھیں قوانین پر عملدرآمد کرنے کی سعی کرتی ہو.ہمیں حیرت پر حیرت آتی ہو کہ اس روشنی کے زمانے میں ان پرانی لکیر کے فقیر با دریا کی آنکھ نہیں کھلتی.وہی ابلہ فریب ڈھکوسلے ہانکے چلے جاتے ہیں.دنیا دار ملکی آدمیوں کو جانے دور جو کہتے ہیں کہ اتوار کے روز انجیل کے موافق اگر دیل چلانا تار کا محکمہ ڈاک کا محکمہ اور بعضے اور کار زمانوں کو قطعاً بند کر دیا جائے.تو ابھی مصالح دنیوی..درہم برہم ہو جاتے ہیں گویا انجیل کی تعلیم کے نقص کے قائل ہیں اور ایک تھیوری

Page 120

١١٣ غزوات محمدية سے زیادہ اُسے نہیں سمجھتے) ان دیندار پادریوں ہی سے پوچھو نہیں.دیکھو یہی جنہوں انجیل کے خلاف فطرت تعلیم کے اثبات کا خواہ مخواہ ٹھیکہ لیا ہے.انہیں حضرت معقول تنخواہ پر کہ کبھی خود بھی ان احکام پر پہلے ہیں.افسوس صد افسوس اسلام اور قرآن پر اعتراض غزوات محمدية آنحضرت صلتم ایک ایسی قوم میں مبعوث ہوئے تھے جو ضلالت مجسم اور مبل مرکب تھی.جسکے رسوم و عادات خبیث و وحشیانہ تھے.جو جدال و قتال کو حاصل زندگانی سمجھتی تھی.پہلے تو آنحضرت کی زجر و توبیخ پر اس جاہل قوم نے سخریہ کیا.بعد اسکے اس قوم کو غیظ آیا اور خواہش انتقام پیدا ہوئی.مگر تا ہم آپ کے اصحاب کی کثرت ہوتی گئی.قریش کا غیظ و غضب عادة اس طرف متوجہ ہوا.کہ دین جدید کے پیروؤں کو سخت تکلیف پہنچانی شروع کی.بہت سے لوگ تیم رسول کے اشارے سے جو اُنکے مصائب کو دیکھنا گوارا نہیں کر سکتا تھا.اپنے وطن مالوف کو چھوڑ کر ایک اجنبی ملک افریقہ کو نقل کر گئے.مگر آپ اکیلے الہی امداد و توفیق کے سہارے پر اُسی وحشت انگیز خوفناک مقام میں ٹھہرے رہے.کیونکہ اپنی قوم کی وحشیانہ اور الہی غضب کی مستوجب حالت آپکے رحیم وکریمہ تا ہے وہیں قیام کیلئے زبان حال سے فرمائیش کرتی تھی.آپ قلباً آرزو مند تھے کہ گویا جان مخاطرے میں کیوں نہ پڑے.پر اس نالائق قوم کو خدا کے رحم و فضل میں شامل کیا جاوے بحب قوم نے ذاتی تکالیف و شدائد قطعا آپ کے دل سے بھلا دیئے تھے کہ آپ اپنی پیاری میگر نا قدرشناس قوم کے گھر گھر تشریف لیجاتے اور بڑی شفقت و محبت سے انہیں فرماتے.له ابن بہت م جلد اول صفحه ۱۱۰ - ۵۲ ابن ہشام جلد را صفحه ۱۳۸ -

Page 121

انَ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَعْبُدُوهُ وَلا تُشركوا به شيئًا اللہ تمہیں حکم کرتا ہو کہ اُسکی عبادت کرو.اور کسی کو اُسکے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ.یہ صاف اور سیدھی تعلیم بہت جلد گھرگھر اثر کرنے لگی.اور خداوند خدا کی جدید برگزیدہ جماعت کے افراد دن بدن بڑھنے لگے.اب اس ترقی کو دیکھ کر سرکش بہت پرست اور بھی آگ بگولا ہو گئے.قریش کا اشتعال طبع عادہ کچھ تعجب انگیز بات نہیں کیونکہ ابتک الہی الہامی آواز سے اُنکے کان آشنا نہیں ہوئے تھے.اسرار علم و نبوت کے اور اک کئے عادی نہ تھے مسیح جیسے خاکسا علیم پر بنی اسرائیل جیسے اہل کتاب تعلیم یافتہ قوم کیسے جھنجھلائے کہ کوئی دقیقہ ایڈا کا فروگذاشت نہیں کیا.ناچار بقیہ مسلمان پھر بش کو بھاگ گئے اور وہاں کے بادشاہ کے پاس جاکر پناہ گزین ہوئے.اسکو اسلام میں ہجرت ثانیہ کہتے ہیں.اس قلیل مدت میں صرف ایک شہر مکے سے تراسی (۸۳) آدمی جینے کو ہجرت کر گئے یہ یہ امر نہات قابل غور ہے کہ آتشیں بت پرستوں کی غضبی حرارت اسپر بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی.انہوں نے اپنے سفیر حبشی بادشاہ کے پاس بھیجے اور بڑے بڑے لطائف الجمیل مہجور الوطن مسلمانوں کی گرفتاری کیلئے عمل میں لائے.مگر جعفر بن ابی طالب کی پراثر تقریر سے بادشاہ جیش نے متاثر ہو کر ظالم قریش کونا کامیاب واپس پھیر دیا.اب سفیروں کا اس طرح اپنا سا منہ لے کے لوٹنا قریش کی غضبناک طبیعت پر اور بھی تازیانے کا کام کرگیا.اب تو اُن کی ایذا رسانی کی کوئی حد ہی نہ رہی.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تم ان تکالیف کا ذکر کیا جاوے جو اسوقت قریش سے آپکو اور آپکے اصحاب کو پہنچی ہیں.اگرچہ انحصر میبلعم کی ذاتی وجاہت اور بنی مطلب کی قومی عصبیت آپ کیلئے ذاتی اور جانی ضرر پہنچنے کے مقابل سیہ عظیم تھی.مگر اور خارجی مصائب پر آپکی بشری له ابن ہشام جلد را صفحه ۱۴۵ - ۵۳ ابن ہشام جلد را صفحه ۱۱۴

Page 122

۱۱۵ حالت ضرور مضطرب ہوتی تھی.آپ ایک دفعہ نماز پڑھ رہے تھے.جب سجدے میں گئے.ایک ریمیں بد کردار کے اشارے سے آپکے دوش مبارک پر خون اور گوبر کا لتھڑا ہوا اونٹنی کا بچہ دان ڈالا گیا.قریش کے اس بے رحم مقابلے نے آخر آپکو طائف کی طرف متوجہ کیا کہ شاید وہیں کوئی منفس راہ حق کی طرف آجاؤ سے آخر وہاں تشریف لے گئے.صرف زبیدہ آپکا خادم ساتھ تھا عبد یا میل اور دیگر رؤسائے طائف کو دعوت حق کی.اُن لوگوں نے اُس شفقت کا یہ عرض کیا کہ غلاموں اور قلاشوں اور لڑکوں کو آپکے عقب میں لگا دیا.اور وہ تین کوس تک آپ کو پتھر مارتے ٹھٹھا کرتے اور گالی گلوج دیتے چلے گئے.اس معرکے میں زید آپکا خادمہ سخت زخمی ہوا.اور خود ذات مبارک بھی لہو لہان کہنے کو واپس تشریف لائے.اثنائے راہ میں ایک فرشتے نے طائف والوں پر بد دعا کیلئے کہا.مگر رحیم رسول نے جواب میں فرمایا کہ گو اہل طائف نے مجھے اچھا سلوک نہیں کیا.الائیں امید کرتا ہوں کہ انہیں لوگوں سے خدا ایسی اولاد پیدا کریگا.جو اسی واحد لا شریک لہ کی عبادت کرینگے.پھر آپ نے مواسم حج میں یعنے جب اطراف کے لوگ حسب قاعدہ قدیم بیت الہ کی زیارت کو آتے.وعظ کہنا شروع کیا.اور مٹی میں جب لوگ جمع ہوتے وہیں انکو اسلام کی طرف بلاتے.اس سے اکثر اہل مدینہ زائران بیت اللہ مسلمان ہو گئے کیونکہ دینے کے اہل کتاب سے جو حسب وعدہ کتب الہا میں ایک نبی کے منتظر تھے.بشارات سُن سُن اُن کی قوت انفعالی جلد اثر قبول کرنے کے قابل ہو چکی تھی.بعضے مظلوم مسلمانوں کو ایک نئی جائے پناہ سوجھی جسے اُنکے نئے ایمانی بھائیوں نے بخوشی خاطر بہم پہنچانے کا وعدہ کیا.کتے میں جو جو مصائب اُن لوگوں پر گذر سے انہیں پڑھکر جگر شق ہوا جاتا ہے.ابو جہل سفاک نے عمار کی ماں سمیہ کو ایسا ستایا کہ اس بیچاری کے اندام نہانی میں بہ چھے مارے.اُس نے اُس تازہ فضل کے شکریے میں ہیبتناک

Page 123

114 قتل کو گوارا کر لیا - کامل ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۲۶ - اور سکینمسلمانوں پہیہ گذرتی کہ سنگدل قریش پتھروں کو دھوپ میں گریہ کرتے اور وہ صحابہ کے سینوں پر رکھتے.اور جب دھوپ سے پتھر گرم ہوتے.تو اون پر -1.4.لٹاتے.ابن ہشام - صفحہ ۱۰۹ پس اسکے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا تھا کہ مسلمان اس مبارک بستی (مدینہ کو اپنے نئے خیر خواہوں کے یہاں چلے جاویں.ملک افریقہ میں پناہ لینے والوں کا حال سُن ہی چکے ہو اب ان عدی نے سیانے والوں کی سنیئے.کہ دشمن وہاں تک بھر مار کرتے ہیں.عیاش ابن ربیعہ مسلمان ہو کر مدینے چلے گئے.ابو جہل اور حرث دونوں عجیب اؤں سے اُسکو مکے میں لائے.کہ تیری ماں تیری جدائی میں سخت بدحال ہو اور اسنے قسم کھائی ہے کہ جب تک تجھے نہ دیکھے کنگھی نہ کریگی.یہاں پہنچکر ا سے ایسی اذیتیں پہنچائیں کہ سُن کر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں.ابن ہشام جلد ما صفحہ ۱۶۷.صہیب نے چاہا کہ لگے سے چلا جاوے.کفار نے اُس کا مال و اسباب کچھ بھی اُس کو ساتھ لے جانے نہ دیا.کامل ابن اثیر جلد ۲ صفحہ ۲۷ - سبحان اللہ آپکے اتباع کا تو یہ عالم ہو رہا تھا.اور ادھر اسپہ بھی ! اسلام گھرگھر پھیلا جاتا تھا.اب اہل مکہ نے تمام اپنی تدابیر کو اسلام کی رو میں کمزور دیکھکر مایا کہ نبی عرب کو قتل ہی کر ڈالیں.گر بعضی قومی اور رسمی بندشوں کی وجہ سے بنی مطالب سے ڈر گئے.اسلئے دارالندوہ میں ایک انجمن منعقد کی.وہاں یہ تجویز ٹھہری کہ مختلف قبیلوں کے چند نوجوان ہوشیار ملکہ ایک ہی دفعہ محمد رسول اللہ صلعمہ پر ٹوٹ پڑیں اور تلوار سے اُس کا کام تمام کر ڈالیں.جو مطلب کس کس لط بنگر الہام الہی کے مخبر سے اطلاع پاکر منع ابوبکر صدیق اپنے خالص فیق کے مدینے کو چلے گئے.اس کمیٹی کی مختلف راؤں اور سے یہ قریش کے پاریمنٹ کی جگہ تھی بھی قریش کے اور قوم کا آدمی پالس برس کی عمر کا اہل نہیں ہوتا تھا.

Page 124

116 فیصلے کی بابت قرآن میں یوں آیا ہے.إِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُ وا لِيُثْبِتُوكَ اَويَقْتُلُوكَ اَوْ يُخْرِجُوكَ ، وَيَمُكُرُ اللهُ وَالله خَيْرُ الْمَاكِرِينَ سُوره انقال - سیپاره -4 رکوع - - آپ کے پکڑ لانے پر نٹو اونٹ کا انعامی اشتہار دیا گیا.عرب مفلس جنگجو اور تو اونٹ کا انعام خوب قابل لحاظ ہے.....خدا کے فضل سے آپ تو مدینے میں پہنچ گئے.اور بڑے اعزاز و اکرام سے وہاں قبول کیئے گئے.اُسوقت سے قریش اور انکے شرکا نے یہودوں کے بغض و عناد سے مسلمانوں کو اپنی حراست اور حفاظت نہایت بیدار مغربی کے ساتھ کرنی پڑی سبحان اللہ ایک چھوٹے سے شہر پر ہزارہ قبائل عرکے متفق و متواتر حملوں کو روکنا پڑا.پس ایسے مہنگام میں سخت تدارک کرنے کی ضرورت ہوتی تھی.تاکہ مسلمانوں کے گروہ کا وجود باقی رہے.ادھر لگتے ہیں جو غریب سلمان رہ گئے تھے.انکی چشم دید تکالیف یاد آ کر آپکو سنج دیتی تھیں اسپر باریتعالے کو رحم آیا.اور انسانی دفاع وحمایت کر نیو الے نے یوں بیدار فرمایا.وَمَا لَكُمْ لا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا احْ جَنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهلُهَا وَاجْعَلْ لنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيَّادَ وَ اجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا - سوره نساء پاره رکوع ۱۰ اور قتال کی پہلی اجازت دینے والی آیت اتری :- لے جب کافر یہی بابت تجویزیں خفیہ لڑا رہے تھے کہ تجھے قید کریں یا نکالدیں یا مار ڈالیں اور اللہ بھی تجویز کر رہا تھا اور اللہ تدابیر میں سب پر غالب ہے ۱۲ اور تم کو کہا ہے کہ نہ لڑو اللہ کی راہ میں اور واسطہ اُن کے جو مغلوب ہیں مرد اور عورتیں اور لڑ کے جو کہتے ہیں اے رب ہمارے نکال ہم کو اس بستی سے کہ ظالم ہیں اُس کے لوگ اور پیدا کر ہمارے واسطے اپنے پاس سے کوئی حمایتی اور پیدا کر ہمارے واسطے اپنے پاس سے مدد گار.

Page 125

HA أذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتِلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ بِالَّذِينَ أخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ إِلَّا أَن يَقُولُو ارتُنَ اللهُ سُور و حج پاره - رکوع کتے میں مسلمان دکھ دیتے جاتے کہ اسلام کو چھوڑ دیں.اُنکے لئے حکم ہوا :- وقاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ - یعنی اسلئے لڑو کہ لوگ آزمائیشوں اور دین میں پھسلائے بجانے سے بچ جا دیں اور ظاہر باطن میں مسلمان ہو کر بسر کریں.ایسا نہیں کہ ڈر کے مارے اندرستی سلمان اور باہر سے کافر.اب ان تمام مقدمات کالازمی نتیجہ وہ دفاعی غر وات ہیں.جو مظلوم مسلمانوں اور بانی اسلام کو قریش سے کرنے پڑے ہیں اسلئے مناسب معلوم ہوتا ہو کہ اول آیات قتال کو لکھدیا جاو ہے.تاکہ ہر منصیف دوراندیش کو اس بات کے سوچنے کا موقع ملے کہ قرآن کریم نے قتال و جہاد کے کیا علی اور حدود بیان فرمائے ہیں.اس امر کو خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ جیسا محرکوں اور میدانہائے جنگ میں مبارزین کی تقویت اور ترغیب کیلئے دانشمند سے پیار ہر طرح کی تجاویز عمل میں لاتے ہیں.مثلاً باجوں دل افزا تقریروں اور دیگر اسبا سے اُنکے حوصلوں کو بڑھاتے ہیں اور انکی ہمت کو اُبھارتے ہیں.ویسا ہی موقع پڑنے پر اور مشکلات کے پیش آنے پر قرآن کریم بھی ایسی تدابیر کو کام میں لایا ہے.اور ٹھیک اہل عرب کے دستور کے موافق جیسے وہ معر کہائے قتال میں رجز پڑھتے اور اُن ، زمیہ اشعار سے تیر تفنگ سے بڑھ کر کام نکالتے.حکم ہوا ان کو جن سے لوگ لڑتے ہیں اسواسطے ہ ان پرظلم ہوا اور اورا کی دورکرنے پر قادر ہوہ جنون کال اُنکے گھروں سے اور کچھ دعوالے نہیں سوائے اسکے کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے " کے اور لڑانیوالوں سے لڑو تاکہ دین سے پھلھن نہ رہے اور پورا دین ہو جاہ سے ظاہر و باطن میں سلمان رہو) اى حَتَّى لَا يُفْتَنَ مُؤْمِنَ عَنْ دِينِهِ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ - اى حَتَّى يَعْبُدُ اللهَ لا يَعْبُدُ مَعَهُ غَيْرَة - ابن هشام جلد اول صفحه ۱۷۴ -

Page 126

119 قرآن نے بھی شکستہ دل مسلمانوں کے انتظہار اور قوت قلبی کو قومی کرنے کے لئے رجز یہ اشعار کے بجائے یہ تاثیر آیات بیان فرمائی ہیں.جنہوں نے قومی اور کثیر مخالفین کے مقابلے میں سیف و ستان کا کام دیا.اوران تمام آیات کے ضمائر کے مرجع اور اسمائے اشارات کے مشار الیہم اور عہد ذہنی الف لام کے معہود فی الذہن مخصوصا وہی ظالم و جابر حملہ آور مقاتلین ہیں.جن سے اہل اسلام کو پالا پڑتا تھا.مخالفین ان کو استغراقی الف لام گمان کر کے اور مختص المقام آیات نہ سمجھ کے سخت غلطیوں اور دھوکوں میں پڑے ہیں.اور اکثر سادہ مفسرین بھی اس غلطی میں پڑنے سے محفوظ نہیں رہے ہیں.ایک اور امر بھی ملحوظ رہنا چاہیئے کہ جسقدر لڑائیاں قریش سے ہوئی ہیں.اُن کے وجوہ و اسباب کے تلاش کرنے کیلئے ہم کو زحمت اٹھانے کی ضرورت نہ ہوگی کیونکہ اُن کا وہی عذر و ستم جو مذکور ہو چکا ہے اہل اسلام کی جنگ کے لئے کافی عذر خواہ خیال کیا جا سکتا ہے اور ایسا ہی حال یہودان مدینہ کے ساتھ قتال کرنے کا ہو.جنہوں نے اقسام اقسام کے خفیہ نفاقوں.عذروں اور جیلوں سے دین جدید کے استیصال میں کوئی کوشش اُٹھا نہ رکھی.گریم اللہ کی رو سے ہر غزوے کے وجوہ و اسباب قلمبند کرنے سے کوتاہی نہ کریں گے.قرآن کریم کی آیات ذیل پر غور کرو.وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ - وَاقْتُلُوا هُمُ حَيْثُ تَقِفْتُمُوهُمْ وَاخْرِجُوهُمُ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ اَشَدُ مِنَ الْقَتْلِ وَلا تُقَاتِلُو هم عِبْد المَسْجِدِ الْحَرَامَ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فيهِ فَإِنْ قَاتِلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ - فَإِنِ انْتَهُوا مِانَ اللهَ غَفُورُ حِيمٌ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوا فَلَا ترحیم - وفات نے والا اللہ کی راہ میں ان سے بولتے ہیں تم سے اور زیادتی مت کرو اللہ نہیں چاہتا زیادتی والوں کو اور ارو انک میں جگہ پاؤ.اور نکال دو انکو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا اور دین بھلانا مارنے سے زیادہ ہے اور نہ لڑو

Page 127

١٣٠ ا عدوان الا على العلمين - سوره بقره - سیپاره ۲ رکوع ۲۴- لونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالِ فِيهِ ، فَلَى قِتَالَ فِيْهِ كَبِير قُل قِتَالُ بَيْهِ كَبِيرُ وَ صَدَّ عَن سَبِيلِ اللهِ وَكَفَرَ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللهِ وَالْفِتْنَةُ اكبر مِنَ الْقَتْلِ وَلاَ يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى.يَرُدُّ وكُمْ عَن دينكم إنِ اسْتَطَاعُوا - سوره بقره - سیپاره ۲ - رکوع ۲۷ - ولولا دفع الله النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الأَرض.سورة بقره سیپاره ۲ رکوع ۳۳ - - بقیہ حالیہ ان سے مسجدالحرام کے پاس جب تک وہ نہ لڑیں تم سے اس جگہ پھر اگروہ لڑیں توان کو مارو یہی سزا ہو منکروں کی.پھراگروہ باز آویںتو اللہ بخشنے والا مہربان ہے.اور لڈو اُن سے جبتک نہ باقی رہے فساد اور اور حکم رہے اللہ کا.پھر اگروہ باز آگئیں تو زیادتی نہیں مگر بے انصافوں پر ۱۲ لے تجھ سے پوچھتے ہیں مہینے حرام کو اور اس میں لڑائی کرتی تو وہ لڑائی میں بڑا گناہ ہو اور روکنا ان کی راہ سے ه ماه رجب مطابق نومبر ساء میں مدینے میں خبر آئی کہ اہل مکہ سامان جنگ کر رہے ہیں.عبداللہ بن جحش کو آٹھ آدمیوں کے ساتھ دشمن کی سراغ رسانی پر بھیجا گیا عبداللہ نے مقام محل میں پوشیدہ ہوکر دشمن کے حرکات کو دیکھا کہ ایک چھوٹا سا کارواں چلا آتا ہے وہ اپنے تھوڑے ہمراہیوں کی شرارت کو روک نہ سکا انہوں نے اس قافلے پر حملہ کر کے ایک کو قتل اور دو کو گرفتار کر مع مال غنیمت دینے کی را ولی.آپنے عبد اللہ بن جحش کو اس قتل پہ سمی علامت کی کہ میں نے تجھے لڑنے کو نہیں کہا تھا.یہود ومشرکین کو آنحضرت کی بدگوئی کرنے کا ایک حیلہ ہاتھ آگیا.جو مسلمان ابتک قریش کے قبضے میں تھے.انہوں نے آنحضرت سے پوچھوایا کہ اس بدگوئی کا کیا جواب دیا جاوے.آپ نے اُس کے جواب میں یہ آیت پڑھی ۱۲ ے اور اُس کو نہ ماننا اور سجد الحرام سے روکنا اور نکال دینا اسکے لوگوں کو وہاں سے، اس سے زیادہ گناہ ہے اللہ کے نزدیک اور دین سے پھلانا مارنے سے زیادہ اور وہ تو لگے ہی رہتے ہیں تم سے لڑانے کو یہاں تک کہ تم کو پھیر دیں تمہارے دین سے اگر مقدور پاویں سے اور اگر دفع نہ کرواو سے اللہ لوگوں کو ایک کو ایک سے تو خراب ہو جا وے ملک ۱۲

Page 128

۱۲۱ أذِنَ لِلذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ الله عَلى نَصْرِهِمْ لَقَدِيدُ اللَّذِينَ أخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَير حَق إِلا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِمَتْ صَوَامِعُ وَبَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَا جِديد كر بيها وَمَسَاجِدُيدٌ اسم الله كثيرا - سوره حج - سیپاره ، رکوع ۶ - کی غزوات نبوی مدیة آپ کے مغازی میں پہلا غزوہ وہ ان کا غزوہ ہے یہ جگہ کا نام سر اور اس مقام کے پاس چھ میل کے فاصلے پر ایک جگہ ابوا نامہ ہے اسلئے اس غزوے کو غزوہ ابو بھی کہتے ہیں، یہ لڑائی قریش مکہ سے ٹھنی مگر جنگ نہوئے پانی اور بنو عمرہ نامہ قوم سے اس شرط پر صلح ہوئی کہ بنو ضمرہ صاحب اسلام سے نہ لڑائی کریں اور نہ اس سے لڑنے والوں کے شریک و معاون ہوں.غزوات نبومی غزوہ بواط ربواط ایک پہاڑ کا نام ہے مدینے سے چار منزل پر یہ جنگ بھی غزہ تصرف قریش سے ہوئی.نہیں بلکہ ہوتے ہوتے رہ گئی ہے غزوة العشيره رعشیرہ ایک گاؤں کا نام ہے منبع کے پاس یہ جملہ بھی صرف غزوہ قریش پر تھا.مگر لڑائی نہ ہوئی.اور بنو مالج سے جو کنانہ میں سے تھے صلح کی ٹھہری.اور مضمون صلح کا یہ تھا کہ بنو رج کے جان و مال کو امن ہو گا اور مصائب کے ہنگام پر انکی امداد کیجا دیگی.بشرطیکہ اہل اسلام سے نہ لڑیں اور مسلمانوں سے متفق رہیں.بخاری نے ے حکم ہوا ان کو جن سے لوگ لڑتے ہیں.اسواسطے کہ این ظلم ہوا.اور انشانکی مد کرنے پر قادر ہورہ مین کو نکالا نکے گھروں سے اور کچھ دعوئی نہیں سوائے اسکے کہ وہ کہتے ہیں ہمارات اللہ اور اگر نہ ہٹا کرتا ان لوگوں کو ایکے ایک سے تو ڑ ہائے جاتے تکئے اور مدرسے اور عبادت خانے اور مسجدیں جن میں نام پڑھا جاتا ہے اللہ کا بہت ۱۲ ابن هشام جلد ۲ صفحه ۲ ۱۳ ابن ہشام جلد ۲ صفحه ۱۲۵ سکه ابن هشام جلد ۳ صفحه ۶ سے

Page 129

۱۲۲ غزوہ وجوه جنگ کہا کہ یہ غزوہ پہلے ہوا ہے.غزوه بکار اولی.غزوہ عشیرہ کے دس روز بعد ہوا.کورز بن جابر الفہری نے شخص مشرکین مکہ کے رؤسا میں سے تھا، مدینے پہنچکر مسلمانوں کے مویشی لوٹ لیئے یہ مخصوص نے اُس کا تعاقب سفوان تک جو بدر کے پاس ہو گیا.مگر سلامت نکل گیا.جنگ بدر.یہ لڑائی بھی صرف قریش سے ہوئی.اس لڑائی تک بھی مسلمان کمزور اور قلیل التعداد تھے.چنانچہ اُن کے حالات قرآن یوں بیان فرماتا ہے.ولقد نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدَرِ وَ انْتُمْ أَذِلَّه.اور اللہ نے تم کو بدر میں نصرت دی اور تم قلیل التعداد تھے.مسلمان کل تین سو اور قریش ہزار کے قریب تھے.حاصل الامر اس لڑائی میں مسلمان فتحیاب ہوئے اور ستر کے قریب اسیران قرایش گرفتار ہوئے.جن میں سے دو فقط مصلحتاً قتل کئے گئے اور باقی چھوڑ دیئے گئے.ان غزوات کے وجوہ و اسباب میں اسقدر کہتا دلیل قطعی کا پایہ رکھتا ہے کہ اس فساد کے بانی قریش ہیں.وہی معاندین جنکے اوصاف و سلوک کا شمہ ہم ذکر کر آئے ہیں.اسلئے ان دفاعی جنگوں کے لئے اور زیادہ معذرت گستری ضرور نہیں ہے.ایک اور عجیب دلیل اس امر کے ثبوت میں کہ قریش سے یہ جنگ دفاعی تھی ہم نقل کرتے ہیں.اور یقیناً ایسے دلائل فطرت انسانی کے نیچے صحیح فلسفے کا نتیجہ ہوتے ہیں نہ فضول اختراعی منطق کی بے معنی بک بک جھک جھنگ اور وہ دلیل یہ ہو کہ جب بدر میں کفار کی لاشیں ایک کنوئیں میں دفن کی گئیں اُسوقت آنحضرت نے عبرت انگیز الفاظ میں اُن مقتول کفار کی حیات حال سے خطاب کر کے فرمایا.مس عشيرة النبي كُنتُمْ لِنُبِيكُمْ كُنَّابُهُ وَنِي وَصَدَّ قَنِيَ النَّاسُ وَ بلس أَخْرَجْتُمُونِي وَأَوَانِي النَّاسُ وَقَاتَلْتُمُونِي وَنَصَرَ فِي النَّاسُ ( ابن شام جلد ۲ صفحه ۲۲) اے نبی کے تم بڑے رشتے دار تھے.تم نے میری تکذیب کی.اور لوگوں نے میری تصدیق کی.تم نے مجھے وطن سے نکالا.لوگوں نے مجھے جگہ دی.تم نے مجھ سے لڑائی کی.اور لوگوں نے مردد می ۱۲

Page 130

١٢٣ غزوة الكدر ر ایک چشمے کا نام ہے اور اُسے ذوقر قرہ بھی کہتے ہیں یہ جملہ غزوہ سلیم اور خلطفا قبیلوں پر کیا گیا گر لڑائی نہ ہوئی.یہ جملہ اول کی پہلی تاریخ بند کی لڑائی خطای او او او او ایل بدر کی لڑائی کے سات روزہ بعد ہوا.اش غزوة الانمار.یہ غزوہ بھی غطفان سے ہوا.اس غزوے کو غزوہ انہار اور غزوہ غزوہ ذی امر بھی کہتے ہیں.یہ حملہ نجد کی طرف ہوا.اس میں بھی لڑائی نہ ہوئی.غزوہ نجران - اور اسے غزوہ بنی سلیم بھی کہتے ہیں.اسمیں بھی لڑائی نہوئی.غزوہ بنو سلیم اور غطفان اسلام کے سخت دشمن تھے.انکی عداوت کا تھوڑا سا حال سُن لو.بنو ثعلبہ بن سعد بن قیس بن خلفان مدینے پر شب خون مارنے کو تجمع ہوئے.دعشور نام ایک شخص اُن کا سرغنہ بنا.اس دکتور کو عورتوں نے غورت اور اورک بھی لکھا ہے.ایسے ہی بنی سلیم بھی اکٹھا ہوئے.آنحضرت اس اجتماع کی خبر شنکر از راه خود حفاظتی و احتیاط و عاقبت اندیشی وہاں پہنچے.مگر وہ لوگ متفرق ہو گئے.اس لئے آپ نے مگروہ تعاقب نہ فرمایا.غطفانیوں کے حملے میں ایک عجیب قصہ یاد رکھنے کے قابل ہے.وہ یہ کہ اس غزوے میں مینہ برسا.آنحضرت صلعم کے کپڑے بھیگ گئے تھے.آپنے اوتار کر ایک درخت پر سکھلانے کولٹکا دیئے.اور آپ اُس درخت کے سائے میں لیٹ گئے.دعشور نے دیکھا.آپ تنہا ہیں.نادان بہادری کے گھمنڈ میں تلوار کھینچے ہوئے سر پر آپہنچا اور پکار کر کہا.مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِى اليوم - آج کون تجھے مجھ سے بچا سکتا ہو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا.اللہ اسپر الہی قدرت نے ایسا دھنگا دیا.کہ رعب زدہ ہو کر گر پڑا.اور تلوار اُس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی.آنحضرت نے ویسے ہی اُسکی تلوارا اپنے ہاتھ میں لیکر للکارا کہ اب تو بتا تجھے کون بچا سکتا ہے.اُس نے کہا کوئی نہیں.آپ نے اُسے ا مجلد ۲ صفحه ۱۷- مواهب و زرقانی ۱۲ وجوہ ہر سہ غره دات

Page 131

۱۲۴ 4.عروج چھوڑ دیا اور فرمایا میں رحم کرنے کے لئے آیا ہوں قتل کر نیکے لئے نہیں.اس فوق العادة رحم کو دیکھ اور اپنی عداوت کو سوچکر وہ مسلمان ہو گیا.اور اپنی قوم کو بھی دعوت اسلام کر کے راہ حق پر لے آیا.اسی غطفانی جملے میں بقول واقدی و ابن سعید یہ آیت اتری.ياتها الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْم أَن يَبْسُطُوا الَيْكُمُ ايْدِيَهُمْ فَكَتَ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ - سوره مائده سیپاره ۶ رکوع ۲ - بے شک آنحضرت صلعم کی ذات مبارک کی سلامتی ایسے موقعہ میں محض اُسکے کی میں فضل و کرم سے ہوئی.غزوة السويق - جب بد میں اسلام کی فتح اور کفار کی شکست ہوئی اور سکتے کے بڑے بڑے اسلام کے دشمن مارے گئے.ابوسفیان نے قسم کھائی اور نذر مانی کہ جنگ محمد سے نہ لڑوں جنابت کا غسل نہ کرونگا.پھر دو سو سوار لیکر مدینے کو پھلا اور راہ میں مدینے سے ایک منزل پر خیمہ زن ہوا.اور رات کو کر سلیم می شکم یہودی کے یہاں دعوت اڑائی.اُس غدار یہودی نے مسلمانوں کے حال کی مخبری اسکے پاس کی.ابوسفیان نے اپنے ڈیرے پر آکر چند سپاہی بھیجے.انہوں نے مدینے کی کھجوروں کو آگ لگادی اور دو آمیوں کو مارڈالا اور کتے کی راہ لی مسلمانوں نے قرقرة الدہر مقام تک تعاقب کیا.ابو سفیانی لشکر اپنے کھانے کے ستو چھوڑ سکے کو چلتے ہوئے.اسلئے اس غزوے کو غزوۃ السویت یعنے سنوٹوں والی جنگ بولتے ہیں.تنبی.اس حملے کو یاد رکھو کیسا ہے وجہ ہوا.اور یہودیوں نے کیسی دعا کی.غزوہ اُحد راصد ایک پہاڑ ہے دینے سے ڈھائی میل کے فاصلے پر) دشمن کے سے چکر مدینے پہنچے.وہ لڑائی کا سامان جو ابو سفیان شام سے لایا تھا.اور جس کی لہ اے ایمان والو اللہ کی نعمت و جو تم پر ہے یاد کرو.جب ایک قوم نے تم پر دست درازی کرنی چاہی.پھر اُن کے ہاتھوں کو تم سے ہٹا رکھا ہوا.

Page 132

۱۲۵ پیشبندی اور دفع دخل کیلئے آنحضرت کو بدر تک سفر کرنا پڑا تھا.اور جس میں کفر کی شوکت ٹوٹ گئی تھی.اب وہی سامان مسلمانوں کے مقابلے کے لئے جمع کیا گیا.قرآن آیت ذیل میں اُسے اور اس کے خرچ کرنے والے کی طرف اشارہ کرتا ہے.ان الَّذِينَ كَفَرَ وَ انْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللهِ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً - اس جنگ میں قریش کے ساتھ قبیلہ بنی تہامہ اور بنی کنانہ بھی شریک ہو گئے تھے.کفار کی فوج کی تعداد میں ہزار تک پہنچ گئی اور سب فوج مسلح سات سو اُن میں زرہ پوش سوار تھے.اور سرکے سب کئے ہوئے تھے کہ جلد مسلمانوں سے انتقام لیں.اس چھوٹے چھوٹے قبائل کی مکمل پر غیط فوج نے بسرداری ابوسفیان مدینے کے شمال مشرق میں ایک مختص مقام میں اپنا مورچه خوب مضبوط کر لیا.اوراس میں اور شہر مدینے میں حد فاصل صرت کوہ احد کی کھائی گئی.اس مقام پر مورچہ باندھ کر کفار نے اہل مدینہ کے کھیتوں اور باغوں کو تباہ کرنا شروع کیا.سپر صحابہ کو نہایت غصہ آیا اور میت اسلام محرک انتظام ہوئی.آنحضرت سے بکمال اصرار دفاع کی درخواست کی.آپ ہزار آدمیوں کو ساتھ لیکر مقابلے کو مدینے سے باہر نکلے.عبداللہ بن ابی ایک سردار جو مدینے میں رہتا تھا اور جو بظاہر مسلمانوں کے ساتھ تھا.اب عین معرکہ جنگ اور اس آڑے وقت میں اپنے تین سو آدمیوں سمیت مسلمانوں سے الگ ہو گیا جب سے مسلمانوں کی جمعیت ہزار سے اب سات سو رہگئی.اس قلیل جمعیت میں کل دو گھوڑے تھے.گر مجاہدین قدم ہمت برابر آگے بڑہائے پہلے جاتے تھے.اور نخلہائے خرما میں سے گذرکر کوہ احد پر پہنچ گئے.لشکر اسلام رات بھر اس پہاڑ کی کھو میں پڑا رہا.صبح نماز فجر پڑھ کر میدان میں آجا.آنحضرت نے کوہ احمد کے نیچے نیچے فوج کی صف کو آراستہ کیا.اور عبداللہ بن جبیر کو چند آدمیوں سمیت عقب لشکر ایک ٹیلے پر متعین کر کے قطعی حکم دیا کہ جو ہو سو ہو.خبر دار وہاں سے سے یقین ہو لوگ کافر ہیں.اپنے مالوں کو فریج کرتے ہیں اسواسطے کہ اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکیں.سو ابھی اور خرچ کریں گے.پھر وہی مال اُن پر حسرت بنجائے گا.۱۲

Page 133

۱۲۶ نہ ملنا مشرکین کو اپنی کثرت پر بڑا گھمنڈ تھا.اپنے بتوں کو قلب لشکر میں رکھ کر وہ فوراً میدان میں چلے آئے.اور اُن کے سرداروں کی بیبیاں لڑائی کے گیت گاتی اور ڈھول بجاتی تھیں.قریش نے بڑے زور وشور سے حملہ کیا.مگر مسلمانوں نے بڑی بہادری سے انکو پس پا کر دیا حضرت حمزہ لشکر کفار کو پریشان دیکھ کر قلب لشکر میں گھس گئے.گو یا مسلمانوں کی فتح ہو چکی تھی.کہ عبداللہ بن جبیر کے ساتھی آنحضرت کے حکم کو فراموش کر با مید مال غنیمت مورچہ چھوڑ نیچے اتر آئے.دشمن مورچہ خالی دیکھ سواروں کو سمیٹ فوج اسلام کے عقب پر آگرے جنگ عظیم ہوئی.حضرت امیر حمزہ اور عبد اللہ بن جبیر شہید ہوئے.حضرت علی اور حضرت عمر اور حضرت صدیق رضی اللہ عنہم بھی مجروح ہوئے.ہندہ بنت عتبہ زوجہ ابوسفیان نے امیر حمزہ کا جگر چیر کر چھایا.اور مسلمان مقتولوں کے گوش و بینی کاٹ کر اور اُسکے ہار بنا کر گلے میں پہنے.یہ بے ادبیاں شہیدوں کی لاشوں سے دیکھ کر مسلمانوں کی آنکھوں میں خون اتر آیا.یہانتک کہ خود آنحضرت پر ایسی رقت طاری ہوئی.اور ایسا غیظ آیا کہ آپنے بھی حکم دیا کہ اب جو تمہاری فتح ہو تو تم بھی کفار کی لاشوں سے ویسا ہی سلوک کرنا.چنانچہ اپنے عز یز ماں منشار چچا کو دیکھ کر فرمایا.لامثلن بسبعين منهم مكانك - یعنی تیرے عوض میں اُنکے ستر کو مثلہ کرونگا.مگر فطری رحم جبلی لینت نے بشری عارضی غضب پر غالب آگر آیت ذیل کے نزول کی تحریک کی ان عاقبتُهُ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ مَا هُوَ قِبْتُم بِهِ ، وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ امیر حمزہ خير للصَّابِرِينَ - سیپاره ۱۴ - سوره نحل - رکوع ۱۶ - ایسے موقع اور ایسی حالت میں یہ صبر سُبحان اللہ.سچ ہے.ما ارسلناك إلا رحمة للعالمين - سیپاره ، سوره انبياء - رکوع اے زرقانی بر مواہب لدنیہ جلد ۲ صفر ۶۰ ۶۱ - ے اگر تم سزا دینی چاہو تو بس اتنی ہی جلتی تمہیں تکلیف دی گئی.اور اگر تم برداشت کر جاؤ یہ امر صابرین کے لئے بہت اچھا ہے " ہے اور نہیں بھیجا ہم نے تم کو رائے محمد ) مگر رحمت واسطے تمام جہان کے ۱۲

Page 134

۱۲۷ پس اُس روز سے لاشوں کی پامالی کرنے اور انکے مثل کرنے کی رسم قبیح جو اگلے زمانے کی سب قوموں میں جاری تھی مسلمانوں میں قطعا حرام ہو گئی ہے اور صرف اسلام ہی کو یہ فخر عطا ہوا.لی اور یہ اس لڑائی میں گو بڑا صدمہ مسلمانوں کو پہنچا اور عبداللہ بن جبیر کی سپاہ کی خطا سے یہ بالا آئی.مگر ایک فائدہ عظیم بھی حاصل ہوا کہ منافقوں کا نفاق اور یہودیوں کا بغض و عناد صاف صاف عیاں ہوگیا.اور خالص مسلمان ممتاز ہو گئے.وَالْحَمدُ لِلهِ عَلى ذالك اولا و اخراو ظَاهِرًا وَ بَاطِناً - غزوہ حمراء الاسماء مدینے سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے) آمد کے واقعے غزوہ پر مسلمانوں نے اہل مکہ کا تعاقب نہیں کیا.مگر سب اہل مکہ قریب آٹھ دس میل کے چلے گئے.تو پھر اُن کو یہ خیال آیا کہ جو ہو سو ہو آؤ ایک دفعہ مسلمانوں کا استیصال کر ڈالیں.اس خبر پر آنحضرت مع ان احباب کے جو اُحد میں شریک ہوئے تھے.مقابلے کو روانہ ہوئے.مشرکین حمراء الاسد میں قریش کو کہہ رہے تھے.محمد قتلتُم وَلا الكَوَاعِبَ ازْدَفْتُمْ بِئْسَ مَا صَنَعْتُمُ ارْجِعُوا.آپ نے پیشتر دو جاسوسوں کو بھیجا مشرکین نے ان کوقتل کر ڈالا.حمراء الاسد میں لڑائی نہ ہوئی.کیونکہ قریش سیدھے لکھے کی طرف آئے.پھر مدینے کو نہ لوٹے.تنبیھا.میں نے یہودیوں کے غزوات کو اہل عرب کے غزوات سے علیحدہ بیان کرنا تنبیه مناسب سمجھا ہے.اسلئے عروہ بنی قینقاع.بنی تغیر اور بنی قریظہ کو یہاں چھوڑ دیا آگے بیان ہوگا.غزوۂ ذات الرقاع ریہ ایک جگہ کا نام ہے، زمین وہاں کی کچھ سفید کچھ سیاہ ہے.عربوں اے یہود اپنے قیدیوں کو زندہ جلادیتے اور مقتولین کی لاشوں کو بڑی بے رحمی سے پامال کرتے.رومیوں فارسیوں اور یونانیوں میں بھی یہ قبیح رسم جاری تھی دین کی نے بھی اس ہولناک رسم میں کوئی اصلاح نہ کی اور سولہویں صدی عیسوی تک زندہ آدمیوں کے اعضا کاٹ کاٹ اُن کو مار ڈالتے تھے ہلا تنقید الکلام سے نہ تم نے محمد کو مارا اور نہ مسلمانوں کی جوان عورتیں اپنے دیکھے پڑھا ئے اٹوٹ کر تم نے بڑا کی لوٹ جاتا

Page 135

۱۲۸ ۱۳ ره وه ۱۴ عزوه اسلئے اُسے ذات الرقاع کہتے ہیں.اس غرز و س کو غزوہ محارب غزوہ بنی التمار اور غزوہ بنی تعلیہ بھی کہتے ہیں.یہ وہی بنی تعلبہ ہیں جن سے سابق غزوہ بنی خطفان میں مقابلہ ہوا چاہتا تھا.اب کی دفعہ یہ لوگ پھر جمع ہوئے اور دینے پر لوٹ مار کرنے کا قصد کیا.آنحضرت انیر چڑھے اور نخل مقام میں خیمہ لگایا.دونوں لشکر آمنے سامنے رہے.یہیں آپنے نماز خون از افرمائی.بدر الموعد - احمد کی جنگ میں ابوسفیان آئندہ سال کی جنگ کی دھمکی دے گیا تھا کہ پھر ہمارے تمہارے بذر پر لڑائی ہوگی.اسلئے غزوہ ذات الرقاع سے واپس آکر آپ نے اس خوفناک و عید کیلئے طیاری کا حکم دیا.مگر ابو سفیان راستے ہی سے لوٹ گیا لڑائی نہ ہوئی.۱۵ غزوہ دومۃ الجندلی رسیہ ایک مقام ہر مدینے سے پندرہ سولہ منزل پر دو ماہ ابن ملی علیہ الصلوة والسلام کا بنایا ہوا یہاں دشمنان اسلام جمع ہوئے اور مسافرین کو غارت کرنا شروع کیا.اور اُن کا قصد یہ تھا کہ مدینے پر جاپڑیں.اسلئے بنظر پیش بندی حضور علیہ السلام نے وہاں کا عزم کیا.مگر وہاں پہنچنے پر دشمنوں کی تبعیت پراگندہ ہو گئی.غزوۃ المریسیع.اس کو غزوہ بنی المصطلق بھی کہتے ہیں الحر کے نام ایک شخص اپنی تمام قوم اور ان تمام عربوں میں پھرا جن پر اسکی تقریب کا اثر مکن تھا اور انہیں اہل اسلام کی مخالفت میں بر انگیختہ کیا.آنحضرت اس خبر کی تحقیق کر کے مریسیع تک جا پہنچے.مخالفین کی طرف پہلے تیر چلا.تب سلمانوں کی طرف سے بھی حملہ کیا گیا.غزوہ خندق جسے غزوہ اختر اب بھی کہتے ہیں وجہ تسمیہ اسکی یہ ہو کہ آپ نے عزوه سلمان کے کہنے پر اپنی فوج کے گردا گرد خندق کھور والی تھی.جیسا اُس زمانے میں اہل فارس کا دستور تھا) اس موقعہ پر مر کے بہ سے قبائل اہل اسلام کے استیصال کو اکٹھے ہوئے.یہود کی ایک جماعت سلام بین حقیق نفرمی و حسین بن اخطب نفری و کنانہ بن ربیع بن ابی حقیق نصری و ہودہ بن قیس و ائلی و ابو عمار واعلی بنی نضیر اور بنی وائل قبیلے بہت سے لوگوں کو ساتھ لیکر زرقانی جلد ۲ صفحه ۱۱۵-۱۳ له زرقانی جلد ۲ صفحہ ۱۳۱۱۷

Page 136

۱۲۹ خیبر سے چلکہ قریش مکہ کے پاس آئے اور انہیں اپنی ملک رفاقت کے قومی و عدسے دیگر آنحضرت سے لڑنے کو کہا.اور سخت ترغیب دی کہ ایک دفعہ ملکر مسلمانوں کا استیصال کر ہی ڈالیں.قریش نے انہیں کہا.اسے گروہ یہود تم لوگ پہلے اہل کتاب ہو.اور تم ہمارے او محمد صل اللہ علیہ وسلم) کے درمیان اختلاف کی وجہ کو جانتے ہو.یہ تو بتاؤ کہ ہمارا دن اچھا ہے یا دین محمد.انہوں نے یہود بنی اسرائیل.اہل کتاب - موحد - ثبت پرستی کے دشمن کہا تمہارا دین اسے کہیں بہتر ہے؟ اور اس سے زیادہ حق یہ ہویے انہیں کے حق میں یہ آیت اتری - أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أَو تُو نَصِيبا من الكتب يُؤْمِنُونَ بِالبتِ والطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ الذين كفر هؤلاء أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ امَنُوا سَبِيلًا - پاره ۵ سوره نسا، رکوع...ام يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا الهُمُ اللهُ مِن فَضْلِم فَقَد بَيْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ.الكتب والحكمة واليناهُمْ مُلكًا عَظيم - سیپاره ۵ سوره انسان رکوع - قریش اس بات سے نہایت خوش ہوئے اور اجتماع عظیم کیا.پھر وہ یہ خلفان تیر کے پاس آئے.اور یہی مضمون پیش کیا اور کہا کہ وپیش سب اس امر میں ہم سے متفق ہیں وہ بھی جمع ہوتے.قریش اور خلفان نکل کھڑے ہوئے.قریش کا سپہ سالا را ابوسفیان تھا اور غطفان کا ٹیکہ ہی حسین فزاری.غرض وہ ہزار فوج جرار بڑے بڑے منصوبے باندھ کر خدائی لشکر کے مقابلے کو روانہ اے نوٹ کی کان الله عداوت اور نبض دیکھئے.اہل کتاب قریش مکہ کی بت پرستی کو عمدا اسلام پر ترجیح دیتے ہیں.یقینا ہی ایک بات کا فی ثبوت عداوت کا ہے.جو یہودان مدینہ نے اسلام کی نسبت ظاہر کی.اور اس عداور پنے انہیں بڑے بڑے عذروں اور مکروں پر آمادہ کیا جن کا لازمی نتیجہ وہ تمام غزوات ہوئے جو یہود سے گھیرے " ملے تونے نہ دیکھے وہ لوگ جن کو ملا ہے کچھ حصہ کتاب کا.مانتے ہیں بتوں کو اور شیطانوں کو اور کہتے ہیں کافروں کو یہ زیادہ پاتے ہیں مسلمانوں سے راہ " للہ یاحسد کرتے ہیں لوگوں کا سپر جو دیا انگ اللہ نے اپنے فضل سے سوہنے تودی ابراہیم کے گھر میں کتاب ۱۲ اور علم اور انکو دی ہمنے بڑی سلطنت " که سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحه ۱۲۸ -

Page 137

ہوئی.قریش تو مدینے کے اُس طرف اُترے جہاں بارشی ندیاں بہتی تھیں.بنی کنانہ اہل تنہا بنی قریظہ.بنو نضر- غطفان - اہل نجد وغیرہ احد کی طرف اُترے.اور مسلمان وہاں اُترے جہاں سکے نام پہاڑ اُن کے عقب میں تھا.اور تعداد میں فقط تین ہزار تھے.حیی بن اخطب خیبر کا ایک یہودی کعب بن اسد قرظی رئیس بنی قریظہ کے پاس آیا.اور کعب قبل اسکے اپنی قیم کیجانب سے آنحضرت کے ساتھ مسالمت کا معاہدہ کر چکا تھا.کعب قرظی نے یہ کہکر دروازہ بند کر لیا.کہ میں نے آنحضرت سے معاہدہ کر لیا ہے.اور میں نے اُس شخص کو سوائے وفا و صدق کے نہیں دیکھا.اسلئے میں نقض معہد نہیں کریگا.ابن اخط نے بڑے زور سی اُس سے کہا کہ او کمبخت.میں تول کر کرار اور فوج جزار تیرے پاس لایا ہوں.دیکھ و مجتمع الارسال دندیاں بہنے کی جگہ) میں اُترے پڑے ہیں.اور غطفان اُن کے مقدمتہ الجیش ہیں.وہ احد کے پاس ٹھیرے ہیں.اور مجھ سے ان سب جماعتوں نے مضبوط عہد باندھا ہے کہ محمد (صلی اللہ سلم کے استیصال کئے بغیر یہاں سے ملیں گے نہیں.غرض بڑے الحاح و اصرار سے کعب راضی ہو گیا.اور نقض عہد کی شامت سے نہ ڈرا.جب ی خبر آ نحضرت کو ہوئی.آپنے سعد بن معاذ اور تسعد بن عبادہ اور ابن رواح اور خوات کو اسلئے بھیجا کہ یہود کی خبر لا میں کہیں کفار مکہ سے مل تو نہیں گئے.جب یہ لوگ وہاں پہنچے دیکھا.یہو د سخت بگڑے ہوئے ہیں اور مخالف ہو گئے.یہ لوگ واپس چلے آئے.اور اس واقعے کو نبی عرب پر ظاہر کیا.عقل اور قارہ نے جیسے اصحاب الرجیع کے ساتھ مندر اور مکاری کی ہو.ایسی ہی اس تکلیف کے وقت یہود نے بہت کہنی کی.اسی واسطے اس غزوہ احتر آب اور خندق کے واقعے میں قرآن فرماتا ہے.انجام و كُم مِّن فَوْقِكُم وَ مِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمُ و إِذْ زَاغَتِ الإِبصَارُ وَ بَلَغَتِ القُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُنُّونَا - هُنَالِكَ ہ جب آئے تھر اوپر کیڑوں سے اور نیچے سے اور جب ڈگنے لگیں آنکھیں اور پہنچے دل گلوں تک اور انکل کرنے کیطرف گے تم اللہ پرکئی کئی انکلیں وہاں جانچے گئے ایمان والے اور بلائے گئے سخت ہٹانا ۱۲

Page 138

۱۳۱ ل الْمُؤْمِنُونَ وَزُلَى لُوا زِلْنَا لا شَدِيدًا - واذ يقول المُنافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللهُ وَ رَسُولُهُ الأغْرُورًا - سیپاره ۲۱ - سوره احزاب رکوع ۲ - اس لڑائی میں نوفل بن عبداللہ کفار کی طرف سے حملہ آور ہوا.اور خندق میں گر کر مر گیا دشمنوں نے خوں بہا دیگر اس کی لاش لینی چاہیں.مگر نبی اللہ نے مفت دیدی.اس شدت کی حالت میں مختلف اقوام عرب اور نواحی مدینہ کے یہود کی حملہ آوری اور اسلام کی کمزوری کو منافق اور کمزور لوگ دیکھ کر میں نکلے.اور کل تین سو آدمی آپکے پاس رہ گیا.اس قبیل جمعیت میں خدائی لشکر اسلام کی امداد کو آیا.ہوا کی تیزی اور مسردی.نے دشمن کے ڈیرے خیمے اکھیڑ دشمن کو راتوں رات بھگا دیا.اور کفی الله المؤْمِنِينَ الْقِتَالَ کی تصدیق ظاہر ہوئی.اس لڑائی میں خطفان اور بنو قریکی اور بونیر اور این خیر کا سلوک برگ هرگز هرگز فراری کرنے کے قابل نہیں.ان بدعہد.عہ رکن قوموں کی لڑائی کی جڑ یہی واقعات ہیں.اس لڑائی میں پانچ نمازیں ایک وقت میں پڑھی گئیں.اور اس کی آیت کی جند بنا هنا نت مهزوم من الأحزاب اسی لڑائی میں تصدیق ہوئی.سترہواں غزوہ بنو لحیان کی لڑائی.یہ لڑائی خندق اور قریظہ کے بعد ہوئی.غردت اس لڑائی کا باعث یہ تھا.عقل اور قارہ عرب کے دو قبیلے تھے.ان لوگوں کے سفیر جنگ اُحد کے بعد آنحضرت کے پاس آئے اور عرض کیا ہم لوگ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں.آپ چند آدمی دین کی سمجھ والے جو ہم کو دین کی تعلیم دیں ہمارے ساتھ روا نہ کیجئے.پیغمبر خدا کی راستی پسند لے اور جب کہنے لگے منافق اور جن کے دلوں میں روگ ہے جو وعدہ دیا تھا.ہم کواللہ نے اور اسکے رسول نے سب فریب تھا ۱۲

Page 139

۱۳۲ طبیعت نے ان دھوکے باز سفیروں کے ساتھ عاصم اور ضعیب مرند اور زبید عبد اللہ بن طارق خالد حزم اور محنت کو روانہ فرمایا یہ بے ایمان فی جب ان فقہائے اسلام کو رجیع نام زید کے ماسوا سب کو قتل کر ڈالا.اور ان دو بچے ہوؤں کو لگے میں لاکر بیچ ڈالا.جنریل کا بیٹ لحیان تھا.اس لئے ان معاونین قتل کو بنو لحیان کہتے ہیں.اس مکار قوم کو کیفر اعمال پر پہنچانا نہایت ضروری تھا.اگر ایسی خطر ناک برائیوں سے چشم پوشی کیجاتی.تو وہ بھی قومیں تمام دنیا کی تہذیب وادیان و قوانین سے آزاد و بیباک استیصال کے در پے ہو جائیں.اوران کی بلاطواری بنی آدم کو کبھی آرام اور چین نہ لینے دیتی.مصلح بنی آدم نے بخیال کمال اصلاح اس غدار قوم پر حملہ کیا.مگروہ لوگ پہاڑ میں بھاگ گئے.اور رسول خدا بدوں لڑائی اور تعاقب کے واپس تشریف لائے.ابتدائی تعلیم میں اتنی سرزنش بھی اُن کی دلیری توڑنے کے واسطے کم نہ تھی.اٹھارواں غزوہ ذوقی د.اس لڑائی کو خانہ کی لڑائی بھی کہتے ہیں.اس کا باعث کردوه یہ تھا کہ آپ کی میں اونٹنیاں دودھ دیتی ہوئی تھیں.جنکی حفاظت پر ابوزر مع اپنے بیٹے کے معین تھے.اور ابو ذر کی بیبی بھی وہاں رہتی تھی.ان پر عیینہ بن حصن فزاری کے بیٹے نے چھاپا مارا.اس لٹیرے کی ٹوٹ میں ابوزر کا بیٹا مارا گیا.اور ابوذر کی بیبی اور اونٹنیوں کو عیینہ لے گیا.کئی روز کے بعد ابوذر کی بیبی عضباء نام رسول خدا کی خاص سواری کی اونٹنی پر جو ٹوٹ میں چلی گئی تھی.سوار ہوکر عیبیہ کی قید سے بھاگ آئی.ایسی ٹوٹوں کے آئیندہ انسداد کے لئے فراریوں پر حملہ کیا اور اونٹنیاں واپس لے لیں.اور با اینکہ موقع اور طاقت تھی آپنے اس قوم کا تعاقب نہ کیا.انیسواں غزوہ فتح مکہ ہے اس عظیم الشان فتح کا حال سنیئے جس کے حاصل ہونے سے دین الہی میں فوجوں کی فوجیں بھرتی ہوئیں.رسول خدا نے اس لڑائی سے پہلے ایک فعہ وه

Page 140

۱۳ نکہ معظمہ کی زیارت کا قصد فرمایا.جب حدیبیہ نامہ مقام میں پہنچے.اہل مگر نے شہر مکہ میں جانے سے روک دیا.آپنے فرمایا میں لڑائی کے لیے یہاں نہیں آیا.غرض وہاں صلح ہوگئی اور صلح کے شرائط یہ ٹھہرے.اب کی دفعہ مسلمان مدینے کو واپس جائیں اور سکتے میں داخل نہوں.اگر مسلمانوں کو سال آئندہ میں بطور زیارت کتے کا آنا مطلوب ہو تو کھلے ہتھیاروں نہ آدیں.اور تین دن سے زیادہ نہ ٹھیریں.اگر کوئی مسلمان اسلام کا منکر ہو کر اہل مکہ سے ملانا چاہے تو اُسے آزادی ہے.دین اسلام کو چھوڑ کر شرک اور کفر اختیار کرے.اگر کوئی آدمی کف رنگی سے مسلمان ہو کر مسلمانوں سے ملنا چاہیے.تو مسلمانوں پر ضرور ہو گا کہ اسے واپس کر دیں.جس قوم کی مرضی ہو.اسی وقت مسلمانوں کی طرف ہو جاوے.اور جس کی مرضی ہو.اہل مکہ کے ساتھ رہے.اس شرط کے بعد پیغمبر خدا بدوں ادائے رسم عمرہ مدینے کو واپس چلے آئے.بنو بکرنا قبیلہ قریش کے عقد و عہد میں ہوا.اور خزاعہ اسلامیوں کے طرفدار بن گئے.بنو بکر اور خزاعد ہیں با ہمہ مدت سے جنگ و جدال چلا آتا تھا.اسلام کے پھیلنے اور اسلام کے نئے شغل نے ان دونوں قوموں کو لڑائی سے روک رکھا تھا.جب اہل نگر اور اہل اسلام میں صلح ہوگئی.تو اس جنگجو قوم کو نچلا بیٹھنا محال ہوگیا.نوفل بن معاویہ بن نفاشت الدیلی بنو بکر میں سے ایک نامور پاہی تھا اس نے خزاعہ پر شب خون مارا.خزاعہ کے لوگ اُسوقت بیخوف و خطر و تیر نام پیشے پر غافل پڑے تھے.نوفل کے حملے سے چونک اٹھے.اور لڑائی شروع ہوگئی.بنوبکر ہٹتے ہٹتے حرم مکہ میں پہنچ گئے.وہاں کفار مکہ نے پہلے اُن کی امداد ہتھیاروں سے کی.جب اندھیرا ہوگیا.بنو بکر کے ساتھ تشریک ہو گئے.جب بنو بکر کو اہل مکہ کی مدد ہوگئی.توخزاعہ قوم کمزور ہوگئی.اور بدیل بن ور فاختہ ائی اور رافع کے گھر میں پناہ گزیں ہوئے.مگر خزاعہ بیچارے صبح تک بہت مارے گئے.صبح کے ہوتے ہی اپنی تباہ حالت کو دیکھ کر بھاگے.اور آپنے مامن کو پہنچکر عمر بن سالم

Page 141

۱۳۴ خزاعی کو چالیس آدمی کے ساتھ دینے کو حضور علیہ السلام کی خدمت میں روانہ کیا.عمرو بن سالم نے آکر عرض کیا.上 يارب إلى ناشد محمدًا حلت ابينا وابيه الاسللا ان قريشا الخلفوك الموحدا ونَقَضُوا مِينَاقَكَ الْمُؤكدا وَزَعَمُوا أَنْ لَسْتَ تَدْعُوا أَحَدًا فَانصُرُ هَدَاكَ اللهُ نَصْرًا ابدا وادْعُ عِبَادَ الله يَأْتُوا مَدَدًا فِيهِمْ رَسُولُ اللهِ قَدْ تَجَرَّدًا إن سِيمَ حَسْفا وجهة تريَّدَاهُ ونَا بِالْوَثِيرِ هُدًا لوقتَلُونَا رُكَعَاوَ سُجَدا لا زَعَمُوا أَن لَستُ ادْعُوا أَحَدًا ان واقعات اور پیچھے اقوال کو منکر آنحضرت نے فرمایا.نصرت یا عمر و بن سالم ادمهر کفار کلمہ کو اپنے کرتوت کا جیسے ہر ایک گناہ کا نتیجہ افسوس ہوتا ہو.افسوس ہوا اور پشیمان ہوئے.ابوسفیان اپنے رئیس کو اس بدا فعالی کے ثمرات سے بچ رہنے کیلئے مدینے کو روانہ کیا ابوسفیان کو یقین تھا.رسول خدا کو اب تک اس عہد شکنی کی خبر نہیں.اسی خیال پر آنحضر ی سے کہا.میں حدیبیہ کی صلح میں موجود نہ تھا.اسلئے میں چاہتا ہوں کہ آپ عہد سابقہ کی تجدید کریں اور صلح کی مدت کو بڑھا دیں.آنحضرت کی بد عہدیوں کو بارہا دیکھ چکے تھے اور خزاعہ کے مقابلے میں بنو بکر کی امداد خلات عہد صد یعید کی خبر عمرو بن سالمہ کے ذریعے پہنچ چکی تھی.آپنے ابوسفیان کو ے اے میرے خدا میں محمد کو قسم دیتا ہوں.قسم اپنے اجداد اور اس کے آبائے قدیم کی ، میر آمین قریشی نے تجھ سے وعدہ خلافی کی ہے اور توڑ دیا ان لوگوں نے تیرے وعدے مضبوط کو ، اور اُن لوگوں نے یقین کر لیا کہ تو سی کو نہیں کہا ہے تو درد را تجھ کو ہمیشہ کی نہر کی راہ دکھائے خلق خدا کو پکار وہ لوگ برابر بڑھتے آئیں گے.ان لوگوں میں اللہ کا رسول تنہا ہوگیا ہے ؟ اگر زمین کے دھس جانے سے وہ لوگ مغلوب ہوئے تو اُن کا چہرہ متغیر ہوا.انہوں نے ہم لوگوں پر سوتے میں و تیر پر شب خون ماراہ اور ان لوگوں نے ہم سبھوں کو رکوع اور نجد سے میں بلاک کیا.انوار انہوں نے جا کہ ہم کسی کو نہیں مانتے ہے ۱۲

Page 142

۱۳۵ جواب دیا کہ تم نے کوئی عہد شکنی کی ہے جوتم عہد کی تجدید چاہتے ہو.ابوسفیان نے کہا معاذ اللہ ایسا نہ ہو.تب آپنے فرمایا.الحال سابقہ عہد و پیمان کو رہنے دو.آخر ابوسفیان واپس لگتے کو چلا گیا.ابوسفیان کے جانے کے بعد آنحضرت نے ایک سفیر کتے کو بھیجا.اور حسب دستور ملک کہلا بھیجا.نہیں نہیں بلکہ حسب قانون اخلاق کہلا بھیجا یا تو خزاعہ کے مقتولوں کا خون بہا دید یا بنو بکر کی جانبداری اور حمایت سے الگ ہو جاؤ.یا حدیبیہ کی صلح کا عہد جو ہمارے اور تمہارے میان ہے اُسے پھیر دو.اہل مکہ نے دیکھا.اہل اسلام ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں اور اس نصرت ی اور امداد خداوندی کو بھول گئے.ہو اسلام ہاں سچے اسلام کی ہمیشہ حامی و مددگار ہے.صلح کا عہد پھیر دیا.کیا معنے کہو یا حدیبیہ والی صلح جو ہمارے تمہارے درمیان تھی نہ رہی قطع عہد اور انکی بے ایمانی اور خزاعہ کے بدلہ لینے کے لئے آپنے سکے پر چڑھائی کی اور اس حملے میں وہ نرمی اور اخلاقی شریعت کی پا بندی کی جسکی نظیر دنیا میں مفقود ہے.فرمایا.ہو کوئی ابوسفیان کے گھر میں گھس جاوے اُسے امان جو کوئی اپنا پھاٹک بند کر لے اُسے امان جو کوئی مسجد میں چلا جا وے اُسے امان.غرض فتح نہ ہوا.اور کچھ بڑی خونریز کی ہاں ہ ہوئی.اور کوئی حتما بر مسلما نہ کیا گیا جب کہ فتح ہو گیا.خبرآئی ہوازن قوم اہل اسلام سے لڑنے کو اکٹھی ہوئی ہے اور اُن کا سب پالار مالک بن عوف نفری تھا.جب انپر اسلامیوں کی چڑھائی ہوئی مسلمانوں کی بڑی بھاری جمعیت کو اپنی کثرت کا گھمنڈ ہوگیا.اور اس خدا داد طاقت کو جس کا نامحر م اور احتیا ہے کمزور کر بیٹھے.ہوازن قوم کے تیر اندازوں نے اچانک تیروں کی بوچھاڑ کردی.اور کثرت کے گھمنڈیوں کا منہ پھیر دیا.گر الہی نصرت اسلام کے شامل حال تھی.بہت جلد تتر بتر ہوئے اٹھے ہو گئے.اور یہ بیسواں غزوہ ہوازن کا فتح و غزنود عززه نصرت کے ساتھ ختم ہوا.دشمن وہاں سے بھاگ اوطاس نام داری میں پہنچے.اس لئے اکیسواں غزوہ اوطاس وقوع میں آیا.اور ثقیف قومہ کے لوگ اوطاس سے بھاگ قلعہ طائف میں جمع ہوئے.اسلئے بائیسواں غزوہ طائف قرار پایا.اور قلعہ طائف کا غریب ہے عزوه

Page 143

اہل اسلام نے محاصرہ کیا.جب پناہ گزین گھبرائے.آپنے فرمایا.جو کوئی قلعے سے اُتر آئے.وہ آزاد اس عہد کے سنتے ہی بہت غلام اتر آئے.جب ثقیف مسلمان ہو گئے.تب انہوں نے اپنے یہ غلام طلب کئے.الا رسول خدا نے فرمایا اب وہ آزاد ہو چکے ہیں.غرض بعد چند ایام آپ نے دُعا کی اور فرمایا اللهُمَّ اهْدِ تَقِيفًا وَأَتِهِمْ مُسْلِمِينَ - الغرض نصف آخر رمضان میں وہ سب مسلمان ہو کہ مدینے میں پہنچے.اور اسی لڑائی پر سکتے ہیں بلکہ عرب میں کفر کا خاتمہ ہوا اور اسکے ساتھ کفار قریش کی لڑائی کا بھی خاتمہ ہوا.ان لڑائیوں میں کوئی آدمی جبر و اکرام مسلمان نہیں کیا گیا.اگر کوئی شخص صحیح روایت سے ثابت کردے کہ زور سے کوئی متنفس مسلمان کیا گیا.تو اُسے ہم دسہزار روپیہ انعام دینے کو طیار ہیں.غزوات نبویہ جو یہود سے ہوئے.دیکھو ابن ہشام جلدا صفحہ ۲۰۱ و ۲۰۴ و ۶۹ - و زرقانی جلد ا صفحه ۵۵۱ و ۵۵۳ - جلد ۲ صفحه ۱۰ و ۲۶۳ و ۱۲۵ - جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ کے بغض و عدا وایسے لگتے سے ہجرت کر کے حسب استدعائے اہل مدینہ مدینے میں تشریف لائے.آپ اسوقت صرف واعظ ہی نہ تھے اور نہ مکن تھا کہ اس جنگجو ملک اور جاہل عصبیت والی قوم میں صرف واعظ بنگر اُنکے بد رسومات پر نکتہ چینی کر سکتے.حال کی آزادی ممکن نہ تھی.اور نیز آپکا گروہ با شکوہ مچھوں اور ٹوریوں کا مجمع نہ تھا.ایک وحشی ملک میں نیادین اختیار کر کے بدوں اسکے کہ خود حفاظتی سامان کرتے کیا ممکن تھا کہ اپنے آپکو یا اپنے ہادی کو بچا سکتے.حضرت بیج کی خاکساری، بردباری کو دیکھ چکے تھے.اس بیچارے نے صرف اخلاقی تعلیم شروع کی.اور ابتدائے پرائمری میں نا کامیاب دنیا سے چل بسا.نہ نیز اسلامیوں کے باہمی تعلقات اور غیر قوموں سے معاملات اور اس ملک عرب میں نہ کوئی شخصی سلطنت اور نہ جمہوری انتظام کا نام.پس آنحضرت کو واعظ ہونے کے سوا قاضی اور حاکم بننا پڑا.اور انسانی فطرت کے لحاظ سے یہ امر نہایت ضروری تھا.

Page 144

۱۳۷ مدینے کی رونق افروزی کے وقت عرب میں قسم کے لوگ تھے.کھلے دشمن جیسے قریش اور اُنکے حلیف.دو سے معاہدین جیسے یہود کے مختلف قبائل تیسرے منافق بظاہر اسلام کے ساتھ اور باطن گغار کے دوست.عامتہ عرب میں بعض تو میں اسلام کی ترقی خواہ تھیں.جیسے خزاعہ.اور بعض دشمن کی فتح کے طالب جیسے بنو بکر اور بعض قومیں بالکل خاموش اور حیران تھیں.آنحضرت نے مدینے میں پہنچتے ہی یہود سے ایک عہد کیا جس کا خلاصہ یہ ہے.به فرمان حمد رسول الہ نے تمامسلمان کو خواہ وہ قاری ہوں خواہ اپل شیر دینے کا پرانا ہے) اور سب لوگوں کو چاہے کسی مذہب اور قوم کے ہوں جنہوں نے مسلمانوں سے صلح و آشتی رکھی ہے لکھدیا ہے صلح اور جنگ کی حالت میں سب مسلمانوں کے لئے عام ہوگی.مامان و بی اختیار نہ ہوگا کہ ان برادران اسلام کے دشمنوں سے صلح با جنگ کریں ہو جو ہماری حکومت اسلامیہ سے تعلق رکھتے ہیں.تمام ذلتوں اور اذیتوں سے بچائے جائینگے اور ہماری اُمت کے ساتھ مساوی حقوق انکو ہماری نصرت اور حمایت اور حسن سلوک کے حاصل رہینگے.یہودان بنی عوف بنی نجار بنی حارث بن حسم بنی غالب بنی اوس اور سب ساکنان بیشتر مسلمانوں کے ساتھ ملکر ایک قوم سمجھے جائینگے.اور وہ اپنے اعمال مذہبی کو ویسی اوریسی آزادی کے ساتھ بجالائینگے.جیسے مسلمان اپنے رسومات دینی کو ادا کرتے ہیں.یہود کی حفاظت اور حمایت میں جو لوگ ہیں یا جو اُن سے دوستی رکھتے ہیں.انکو یہی تحفظ اور آزادی حاصل رہیگی.مجرموں کا تعاقب کیا جائیگا اور انکو سزادی جائے گی.یہود مسلمانوں کی شرکت شرب کو سب دشمنوں سے بچانے میں کرینگے.اور تمام وہ لوگ جو فرمان کو قبول کرینگے.یثرب میں محفوظ و مامون رہینگے مسلمانوں اور بیہود کے دوست آشنا کا کبھی ویسا ہی اعزاز کیا جائیگا.جیسا خود اُن کا کیا جاویگا.سب سچے مسلمان اس شخص سے بیزار رہیں گے جوکسی گناہ یا ظلم نا اتفاقی یا بغاوت کا

Page 145

۱۳۸ مرتکب ہوگا.اور کوئی شخص کسی مجرم کی حمایت نہ کریگا.گو وہ کیسا ہی عزیز و قریب ہوا ہے.آئندہ جو تنازعات ان لوگوں میں ہونگے.جو اس فرمان کو قبول کرینگے اُن کا فیصلہ خدا وند عالم کے حکم کے موافق رسول اللہ فرمائیں گے.تھوڑے دنوں بعد یہود آن بنی نضیر اور بنی قریظہ اور بنی قینقاع اس معاہدے میں شامل ہو گئے.اس فرمان سے وہ قبیح رسم دفع ہو گئی.جو عرب میں رائج تھی کہ مظلوم ظالم سے انتقام لینے میں اپنی ذاتی قوی یا اپنے اعزہ کی طاقت پر بھروسا کرتا تھا.اور رسی اور عدل گستری جنگ و جدل پر موقوف تھی.ابن ہشام صفحه ۱۷۸ اولائف آف محمد صفحه ۷۲ - یہود بڑے قسی القلب تھے.چونکہ وہ اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ بھی تھے اور عقیل بھی اور فرقہ منافقین سے اُنکو اتفاق تھا.اور باہمی بھی یہود میں اتفاق تھاد بر خلاف عرب جن میں باہمی سخت نا اتفاقی تھی لہذا وہ نہایت خطرناک دشمن اس جمہوری سلطنت کے تھے.جو شارع اسلام کے زیر حکومت قائم ہوئی تھی.نا تربیت یافتہ قوموں میں شاعروں کا وہی مرتبہ ہوتا ہے اور شاعر و ہی اقتدار رکھتے ہیں جو اہل اخبار مہذب قوم میں.شعرائے یہود چونکہ نہایت ذی علم اور ذی شعور تھے.لہذا اہل پہنیں پر بڑے عادی تھے.اس قوت کو انہوں نے اس میں صرف کیا کہ مسلمانوں میں نفاق ڈالنے لگے اور ان میں اور فریق مخالف میں بغض و عداوت کو ترقی دینے لگے.بلکہ میں کہتا ہوں یا ہم اسلام میں اختلاف و عناد کا بیج بوتے تھے.شاس بن قیس یہودی نے ایک بار دیکھا کہ انصار سلمان امدینے کے اصل باشند سے با ہم کمال محبت و اتفاق سے بیٹھے ہیں.اور خیال کیا یہ وہی گروه اوس اور خروج کا ہے ہو ا ہمیشہ جنگ و جدل میں بسر کرتے تھے.اب بالکل شیر وشکر ہیں.اور اسلام کی پاکی تعلیم کی بدولت کمال اتحاد اور اخوت کے ساتھ ملے مجلے ہیں.اس اتفاق کو دیکھے اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا.اور ایک جو ان یہودی سے کہا.تو ان میں بیٹھ جا.

Page 146

۱۳۹ اور باتوں باتوں میں بعاث کی لڑائی کا قصہ چھیڑ دے اور وہ اشعار پڑھ منا جو اسوقت پڑھے گئی تھے.غرض اُس بد ذات نے وہی کر توت شروع کی.آخر وہ نئے نئے اپنی قدیمی حال پر آگئے.اور با ہم کہنے لگے.آؤ اس معاملے کو نیا کر دکھلائیں.خلاصہ کلام سترہ نامہ جگہ مقام جنگ تجویز ہوا.اور ہتھیار لینے کو وہاں سے چل دیئے.مصلح عالم خیر خواہ بنی آدم کو خبر ہوگئی.آپ جھٹ پہنچ گئے.اور فرمایا اے مسلمانوں الله الله ابدعوى الجاهلية وانا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ بَعْدَ أَن هَدْ كُمُ اللهُ الْجَاهِلِيَّةِ وَأَنَا لِلْإِسْلَامِ وَ اَكْرَمَكُمْ بِهِ وَقَطَعَ بِهِ عَنْكُمْ أَمْرَ الْجَاهِلِيَّة وَاسْتَنْقَذَكُمْ بِه مِنَ الْكَفِّ وَأَلَّفَ بِهِ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ غرض یہ آرام بخش اور حیات افزا بات سُن کر رو پڑے اور باہم گلے ملے اور آپ کے ساتھ شہر میں چلے آئے.اُس وقت یہ آیت اتری.يا هل الكِتابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ أَمَنَ تَبعُونَهَا عِوَجًا اور انصار اہل اسلام کو قرآن نے بتایا.ا أيها الذين امنوا إِن تُطِيعُوا في بيقا مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ يُردوكم بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ كَافرين - سیپاره -۴- سورة آل عمران - رکوع ۱ - بدر کی لڑائی میں چونکہ مسلمانوں کی فتح پر ایک طرف قریش مکہ آگ بگولا ہو گئے تھے.اور ایک طرف اُن یہود کو غضب آیا اور ابو خنک نام یہودی نے آپکے مار ڈالنے پر کوشش کی ے باہم اوس اور خر رج کی ایک سخت جنگ ہوئی تھی اور ایں اتاری اور کاہاتھ رہا تھا لہ الا للہ یہ جہال کے دعوے او میں تمہارے درمیان ہوں سکے پیچھے کہ تم کواللہ تعالیٰ نے اسلام کیطرف ہدایت کی اور کایات کو بخشی اورجہالت کی باتی م س کا میں اور سلام کیا تم کو کون سے نکلا اور تم کو باہمی الفت میں سے اسے کتاب والو! کیوں روکتے ہو خدا کی راہ سے ایمان والے کو.چاہتے ہو اس میں ٹیڑھا پن " جھے اسے ایمان او اگر تم اطاعت کرو گے ایک گروہ کی اپنی کتاب کے پیر نے وہ لوگ تم کو بعد تمہارے ایمان کے کافر

Page 147

۱۴۰ اور بہت اشعار میں لوگوں کو نبی عرب کے مار ڈالنے کی ترغیب دی.اسواسطے وہ مارا گیا.کچھ عداوت سابقہ اور کچھ اس ابو عفک کا مارا جانا یہود کی خطرناک کارروائیوں کا باعث ہوا.یہودان بنی قینقاع صنعت اور حرفت والی قوم تھے.مگر اسکندر کے یہودیوں کی طرح شریہ و غدار.فائق : فاجر تھے.ایک روز ایک نوجوان مسلمان لڑکی اُنکے بازارمیں گئی اور بضرورت اپنے کاروبار کے ایک یہودی لوہار کی دکان پر پہنچیں.نوجوانان بیہود نے حرمت نسوان اور مہمان نوازی کے اصول کو بالائے طاق رکھ اُس نوجوان عورت کی ہتک حرمت اور آبروریزی چاہی.وہاں ایک مسلمان را بگیر اس خورمت کا شریک ہو گیا اور خوب مار پیٹ ہوئی.ہو یہودی شرارت کا بانی تھا مارا گیا.تب یہودیوں نے جمع ہو کر اس مسلمان کو قتل کر ڈالا اور فتنہ عظیم برپا ہوا.ادھر مسلمان جوش میں آگئے اور ہتھیار لے یہودیوں پر جا پڑے.اور طرفین میں لوگ مارے گئے.جونہی مصلح عالم صلی ! جونہی صلح عالم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے فساد و فر کیا.مسلمانوں کا کو طیش کم ہوا.اس عاقبت اندیش اور دور بین مصلح نے دیکھا.غور کیا کہ اگر یہی حالت مدینے کی رہی تو انجام اچھا نہ ہو گا.مدینہ باہمی فسادوں کا جنگ گاہ ہی نہ رہیگا.بلکہ مخالف فرقوں کے لئے بے تردّد حملہ آوری کا باعث ہوگا.یہود خلاف عہد کر ہی چکے تھے.آنحض سیستم فورا یہود کے محلے میں جا پہنچے اور یہ حکم قرآنی اُترا.وا ما تخافن مِن قَوْمٍ خِيانة فالبد اليهمُ عَلَى سَوَاءٍ إِنَّ الله لا يُحِبُّ الخاينين - سوری انفال - سیپاره ۱۰ - رکوع ۳ - صلعم اور اسی واسطے آپنے خود تشریف لیجا کر یہود سے فرمایا.یا تو مسلمان ہو جاؤ.یا یہاں سے چلدو - یہود نے بڑی سختی سے جواب دیا کہ قریش کو شکست دیگر ر بدر میں نازاں نہ ہو ( وہ فنون جنگ سے ناواقف ہیں.اگر ہم سے لڑا تو دیکھے گا.لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں.یہ اوراگر و و و و و و یک قوم کی دوا کا تو جواب دے گی کو بارہ کے بابر ان کو خوش نہیں آتے دفا باز - له ابن ہشام ۱۲ -

Page 148

۱۴۱ ایک قلعہ بند ہو گئے اور آنحضرت کی حکومت سے با ہمہ عہد سرکش بن گئے.اس شریہ قوم کافتند فرد کرنا نہایت ضروری تھا.بنا براں اُن کا محاصرہ کیا گیا.پندرہ روز کے بعد قلعہ بند لوگ گھبرا گئے.اور یہ کہکر اتر آئے محمد صلعم جو ہماری نسبت فیصلہ فرمائیں وہ فیصلہ ہمیں منظور ہے.آپنے پہلے سخت سزا تجویز فرمائی.مگر آپکے جیلی رحم طبعی خلق آن کے سزا دینے پر غالب آگیا.اور عبداللہ بن اُبی نے بھی سفارش کی.اسلئے بنو قینقاع صرف جلا وطن کئے گئے.یہود کے ساتھ دوسری لڑائی کا نام غزوۂ بنو تفسیر ہے.کعب بن اشرف یہود میں ہاں بنو نضیر میں کا سردار تھا اور بڑا شاعر.برخلاف عہد نامہ بدر کی لڑائی کے بعد قریش مکہ کے پا پہنچا اور انکو برایش دلایا.اور وعدہ کیا کہ ہم تم کو لینے میں امداد دینگے تم اسلام پر حملہ کرو.اور اپنی جادو انگیز تقریر سے قریش کو انتقام پر آمادہ کیا.آخر قریش کعب بن اشرف کی اثر بھری تقریروں سے مدینے پر حملہ آور ہوئے.مدینے ہو تین میل کے فاصلے پر جبل احد کے پاس لڑائی ہوئی اور نیز کعب بن اشرف نے رسول خدا کے قتل پر منصوبہ باندھا.مگر قدرت الہی سے وہ راز کھل گیا.اور یہ کعب بن اشرف اپنی ایسی ایسی حرکتوں سے مارا گیا.بنو نفیر کے دلوں میں اُسکے قتل کا رنج پیدا ہوا.اور اسپر یہ طرہ ہوا کہ ابو براء نام عامری آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوا.اور دم دلا سا دیکر اپنے ہمراہ رسول خدا کے ستر حواری جو قرآن کے قاری تھے.اس عہد پر ساتھ لے گیا کہ انکو ہر طرح امداد دیجائے گی.جب اپنے ملک میں پہنچا اور صحابہ کرام نے آنحضرت کا خط عامر عامری اہل نجد کے رئیس کے پاس پہنچایا.تو عامر نے ایلچی کو مار ڈالا.اور عصیبہ اور تکل قبیلوں کے لوگوں کو اپنا محمد بناکر ا ستر قاریوں محمد رسول اللہ صلعم کے اصحابوں پر آپڑا.اور ان مسلمانوں کو مار ڈالا.صرف دو آدمی بچ گئے.ایک تو زخمی تھا اور دوسرا قید کیا گیا.اس مقید کا نام عمرو ابن امیہ تھا.اور اسلئے کہ مصری قوم کا تھا.اسکو عامر ابن طفیل نے اپنی ماں کے کسی کفارے میں آزاد کر دیا.یہ قیدی عمرو بن امیہ آزاد ہو کر "

Page 149

۱۴۲ دینے کو آتا تھا.راستے میں اُسے دو عامری مل گئے.یہ دونوں عامری اگر چہ اُس قوم کے تھے جنہوں نے غداری سے ستر آدمیوں کو مع اٹیمیں مارا تھا.مگر یہ دو عامری بخلاف اپنی قوم کے رسول اللہ صلعم کے ہم عہد تھے اور عمرہ اس عہد سے ناواقف تھا.عمرو نے موقعہ پاکر ان دونوں عامر یوں کو مار ڈالا جب رسول اللہ کو خبر ہوئی کہ عمرو بن امیہ نے اُن دو عامر یوں کو مار ڈالا ہے جو ہمارے ہم عہد تھے.تو آپ نے تجویز کی.ان دو مقتولوں کا خون بہا ر بدل قتل دیا جاوے.حسب عہد نامہ مذکورہ سابق یہودیوں کو بھی اس خون بہا کے چندے میں شریک ہونا ضرور تھا.آپ یہود کے پاس تشریف لے گئے.دونوں مقتولین کے وارث بنو نضیر کے دوست تھے اور انہیں کہ یہ چندہ دیا جاتا تھا.اسلئے آنحضرت کو بنو تفسیر کی شرکت کا اس چندے میں بڑا یقین تھا.اور خیال کیا.اول تو حسب معاہدہ یہود کو اس چندے میں شریک ہونا ضروری ہے.دوم جن کو روپیہ دیا جاتا ہے وہ اُن کے دوست ہیں.- جب آنحضرت صلعم یہودان بنو نضیر کے محلے میں تشریف لے گئے تو انہوں نے چندہ دینے سے انکار کیا.اور اُسوقت ایک دلیر بہادر عمرو بن حجامش نام یہودی سے کہدیا کہ ایک بڑا بھاری پتھر کو ٹھے کی چھت پر سے آنحضرت صلعم پر لڑھکا دے اور انکا کام تمام کر سلام بن مشکم نے یہود کو بہت روکا اور منع کیا.مگر وہ اس غدر سے باز نہ آئے.آخر اس بچے حافظ حقیقی نے جن بلغ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ تَرَتِكَ فَانْ لَمْ تَفْعَلُ فَمَا بَلَغَتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ کہا تھا خبر دے دی.زرقانی نے لکھا ہے ایک یہودی عورت نے اپنے مسلمان بھائی کے ذریعے سے جناب کو یہود کی غداری کی اطلاع دیدی.اسلئے یہودان بنو نضیر کا محاصرہ کیا گیا.آخر چھ لے پہنچائے جو تجھ کو اترا تیرے رب سے اور اگریہ نہ کیا تو نے کچھ نہ پہنچایا اس کا پیغام اوراللہ تجھ کو بچائے گالوگوں سے ۱۲

Page 150

۱۴۳ دن کے بعد انہوں نے صلح چاہتی.مگر عبداللہ بن ابی منافق نے کچھ اپنی امداد کا ایسا حکم دیا کہ پھر باغی بن بیٹھے.اسلئے پھر محاصرہ کیا گیا.بہت دنوں بعد لا چار ہو کہ جلا وطنی پر راضی ہوگئے رسیال خدا کو جبر و اکراہ سے مسلمان بنانا منظور ہی نہ تھا، انکو اجازت دیدی.مدینے سے چلے جاویں اور مدینے کو امن و امان کا محل بنایا اور وہ خیبر کو چلے گئے.غزوہ قریظہ.خندق اور احزاب کی لڑائی میں تم دیکھ چکے ہومشرکوں کے مختلف گرو اور یہودی اور غطفانی خاص مدینے میں اسلامیوں پر چڑھ آئے.حیی ابن اخطب یہودی، بنو نصیر کی جلا وطنی کے بعد قریش کو تشخیص دیتا.اور کنانہ ابوالحقیق کا پوتا خطفانیوں کو اکسایا اور ان سے وعدہ کیا.خیبر کی آمدنی سے نصف آمدنی میں دونگا اگر مسلمانوں پر حملہ آوری کرو.سلام بن مشکم اور ابن ابو الحقیق اور خیبی اور کنانہ یہ سب بنو نصیر ستے میں پہنچے اور کہا ہم تمہارے ساتھ ہیں اگر تم اسلام پر حملہ آوری کردیله ان یہودیوں کی کارستانی اور عبادو بیانی قریش کے غیظ و غضہ سے ملکر تمام عرب کو مدینے پر چڑھا لائی.جب یہ مختلفہ اقوام بغرض استیصال اسلام مدینے میں پہنچے.جیتی این اخطب یہودی میری نفری کعب بن اسد قرظی ریشخص بنو قریظہ کا ہم عہد تھا، کے پاس پہنچایا پہلے تو کعب نے جی کو گھر میں گھٹنے نہ دیا اورکہا ہمارا اور اسلامیوں کا باہم معاہدہ اور اتحاد ہے.اور بنو قینقاع اور بنو تفسیر پر جو کچھ بدعہدی کا وبال آیا اُسے یاد کیا.مگر جی نے کہا.میں تمام قریش اور ھر کے مختلف قبائل کو مدینے پر چڑھا لایا ہوں.اور ان تمام اقوام عربنے عہد کر لیا ہے کہ جب تک اسلام کا استیصال نہ کرلینگے مدینے سے واپس نہ جائیں گے کہ بنے کہ نہ پہلے پہل بہت ٹالہ ٹالا کیا اور کہا.محمد بڑا راستگو راستی پسند انسان ہے اور عہد کا بڑا پکا ہے بہت مالا مال کیا اور اورعہد بڑا ہم کو مناسب نہیں اُسکے ساتھ بد عہد نہیں مگر آخر دشمنوں کی کثرت اور اُنکے استقلال کو دیکھ وری کے پھسلانے اور عداوت اسلام کی قدیم بدعہدی میں آکر باغی بن گیا اور تمام عہدوں اے زرقانی جلد ۲ صفحه ۱۳۳-۱۳۵ - ۱۲۱

Page 151

۱۴۴ کو بالائے طاق رکھ کر اس عبرت بخش عاقبت اندیش عقل کو کھو بیٹھا جو معاملات بنو قینقاع ور بی نظیریں تجربہ کار ہو چکی تھی اور میں جنگ کے وقت آنحضرت کو ان یہودیوں کی بد عہدی کی بر پہنچی.آپ نے بہت سے آدمی تحقیق خبر کے لئے روانہ فرمائے اور کہا ان لوگوں کو فہمایش کر و عہد پر قائم رہیں.مگر یہود نے درشت جواب دیا.اور کہا رسول اللہ کیا ہیں جو ہم اُن کی اطاعت کریں.ہمارا اُن کا کوئی عہد نہیں.ان تمام آدمیوں نے جو یہود کے مقابلے کی خبر لینے گئے تھے.آ کر عرض کیا ہیو د دشمن کے ساتھ ہو گئے.قرآن بھی اسکی خبر دیتا ہوں اور احزاب کے قصے میں کہتا ہے.إذْ جَارُونَهُ مِن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُووَ إِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُو بلعت القلوب الحناجر وتظنون بالله الظُّنُونَا هُنَالِكَ ابتل الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلزالاً شَدِيد - سیپاره ۲۱- رکوع ۱۸ - سوره احزاب - جہاں یہود کی سزا کا قرآن نے تذکرہ کیا ہو.وہاں صاف و جہ سزا کو بیان فرمایا ہے.اور اسی صورت میں کہا ہے.انْزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُ وهُمْ مِنْ أَهْلِ الكَتِبِ مِنْ حِيَا صِهِمْ وَ قدت في قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَ نامِرُونَ فَرِيقًا سیپاره ۲۱ رکوع ۱۹ - سوره احزاب - آپکے ساتھی گھبرا گئے.ادھر تھوڑے سے معد و دگر وہ پر سارے عرب کی چہ ہائی اُدھر گھر میں یہود کی بد عہدی.پھر یہود مدینے کی طرق اور راستوں کی کیفیت سے واقف ہے جب آئے وہ لوگ اوپر تمہارے اور نیچے نہاتے سر اور جب کچھ ہوئیں آنکھیں اور پہنچ گئے دل گلوں تک اور تم گمان کرتے تھے اللہ کے ساتھ طرح طرح کے اُس جگہ ایمان والے آزمائے گئے اور ہلائے گئی ملا نا سخت کیا ے اور اتارا اللہ نے اُن لوگوں کو جنہوں نے اہل کتا ہے انگی مرد کی انکے قلعوں سے اور ڈالا ا نکے دلوں میں خوف کو.ایک گروہ کو تم ہلاک کرتے ہو.اور ایک گروہ کو تم قید کرتے ہو "

Page 152

۱۴۵ معاصرین کفار و غیر محفوظ مقام بن سکتے تھے اسلئے بڑا خوف ہوا.علاوہ برا منافقوں کا کل بھاگنا اور کمزور دلوں کا گذر بلاؤں پہ بلائیں لایا.قربان جائیے الہی عاجہ نوازی کے اُسی کے جنود نے ان سب اعدا کو بھگوڑا بنایا.اورتخمینا ایک مہینے کے محاصرے پر کفار غرب الہی اسبابوں سے بھاگ گئے.کیونکہ دس ہزار کی بھیڑ کے ساتھ تین ہزار اسلامیوں میں سے صرف تین سو باقی رہ گئے تھے.دوہی جو سچے مسلمان تھے ، جب دشمن خود بخود بھاگ گئے اور آپکو انکی طرف سے امن ہوا.اور یہ اندیشہ مٹ گیا.تو اہل اسلام کو ایک نیا کھٹکا ہوا کہ بنو قریظہ عورت کنی کر چکے ہیں.اگر انہوں نے مدینے پر شبخون مارا.تو ہر ایک اسلام و الا قتل ہو جائیگا.لہذا مقتضی عاقبت اندیشی نے بتایا تو آپ مقام جنگ سے جہاں خود حفاظتی کے لئے آپ نے کھائی کھود لی تھی.مدینے تشریف لائے اور قلعہ جات بنو قریظہ کا محاصرہ کیا.دس پندرہ روز محاصرے میں لگ گئے.اب قلعہ بند لوگ گھبرائے.اللہ تعالیٰ نے اُنکے دِلوں میں رعب ڈالا رو قَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرعب) تب یہودان بنو قریظہ کا رئیس کعب بن اس قوم میں کھڑا ہوا.اور وہ ایسے دی جس میں کہا.اسے قوم نمکو منا ر ہے.تین باتوں میں سے ایک بات مان لو.یا تو اس شخص ( محمد) پر ایمان لاؤ.تم کو صاف عیاں ہو چکا ہو.شخص بیشک نبی ہے اور یہ وہی ہے جس کی بابت توریت میں پیشین گوئی اور بشارت ہو چکی ہے.تم اور تمہارا مال واسباب اور تمہاری جانیں بیچ رہیں گی.قوم نے اسپر انکار کیا.تب اس نے کہا.آؤ عورتوں اور بچوں کو قتل کر ڈالیں اسکی سزا پائی اور تلواریں کے مسلمانوں پر گر پڑیں یہانتک کہ شہید ہو جاویں.قوم نے کیا.اگر ہم جیت گئے تو بال بچوں اور عورتوں کے بغیر ہماری زندگی کیونکر ہو گی.تب کرتی نے کہا آج سبت کی راہ ہے.محمدی جانتے ہیں.آج ہم غافل ہیں اور سست ہیں.آؤ غفلت میں مسلمانوں پر حملہ آوری کریں.تب قوم نے کہا.تجھ کو قوم نے خبر نہیں.سبت کی بیحرمتی سے ہمارے بڑوں پر کیسے وبال آئے.وہ سور اور بندر بن گئے.ل اور ڈالا نکے دلوں میں خوف کو.یہ آیت سیپارہ اور کورن ۱۹ شور کا احزاب میں ہے یہ

Page 153

آخر قوم کے اتفاقات سے یہود نے ایک سفیر جناب رسالتمآب کے حضور روانہ کیا.اور کہا ابولبابہ بن منذر کو ہمارے پاس بھیجے ہم اس سے صلاح لینگے.جب ابولبابہ انکی درخواس سے وہاں آئے.عورتیں اور بچے چلائے اور یہود نے کہا.کیا تیری صلاح ہے.ہم لوگ محمد کے فیصلے پر دروازہ کھول دیں.اُس نے کہا بیشک نگر اشارہ کیا وہ تمکوذبح کا فتویٰ دینگے پھر ابو لبابہ بچایا اور اپنے آپکو مسجد میں جا باندھا.جب محاصرے پر مدت گذری اور وہ یہود تنگ ہوئے.تو ان کمبخت لوگوں نے کہلا بھیجا.ہماری نسبت جو سعد بن معاذ فیصلہ کرے وہ فیصلہ ہمکو منظور ہے.بدقسمتوں نے حرمت العالمین کو حکم نہ بابا بلکہ حد کے فتوے پر راضی ہو گئے اور قلعے سے نکل آئے.رسول خدا نے سعد بن معاذ کو بلایا اور کہا یہ لوگ تیرے فیصلے پر ہمارے پاس آئے ہیں.اس سپاہی کو اس قوم کی بد چلنی اور بد عہدی اور ناعاقبت اندیشی اور بنو قینقاع اور بنو نضیر سے عبرت نہ پکڑنے پر یہی سوجھی کہ اس بد ذات قوم کا قصہ تمام کرو.اس نے کہا.ان کے قابل جنگ لوگ مارے جاویں.اور باقی قید کئے جاویں.غرض کئی سو آدمی قریظی مدینے میں لا کر قتل کیا گیا." مانا انسانی فطرت کا خاصہ ہے.چاہے کوئی کیسے جرائم اور معاصی کا مرتکب ہو جب اُس سے کوئی ایسا سلوک کیا جائے جو ہمارے نزدیک سختی اور بے رحمی ہو.تو اسوقت ہیں خواہ مخواہ ایک نفرت اور کراہت معلوم ہوتی ہیں اور ہمارے دلمیں رحم عدل کی جگہ کو چین لیتا ہے.مگر رحم کے باعث عدل چھوڑنا.اور جرائم کی سزا سے درگذر نہ چاہئیے.یہود نے دغادی.بد عہدی کی.عین شہر کا امن کھو دیا مسلمانوں کی توحید اور موسی و توریت کی تعظیمی ثبت پرست قوم کے مقابلے میں بھولا دیا.بہر حال مسلمانوں کا حکم قریظہ کی نسبت گرامول کے حکم سے بہت کم تھا جس کے بموجب آئرلینڈ میں شہرورڈ ہیڈا کے سب باشندے بلا فرق تہ تیغ بے دریغ کئے گئے کار لائل لکھتا ہو.سچ ہے شریر کا سو مرتبہ قتل ہونا بہتر ہے کہ وہ بے گناہوں کو اغوا کر ہے.یہ اسلام کا فعل اسوقت کے مارشل لاء سے

Page 154

۱۴۷ بہت نرم تھا.اور حضرت داؤد کی سزا سے جس میں انہوں نے جیتے آدمی چلتے پزادوں میں جلائے.اور پھر ہمیشہ خدا کے مطبع کہلائے.نہایت نرم ہے.غزوہ خیبر خرده خراب کا بیان گردی کا سلام من نم اور اب بی قایق اور تقی اور کنانہ اور ہودہ اور ابو عمار خیر سے قریش پاس پہنچے اور انکو اور عرب کے مختلف اقوام خطفان اور فزارہ کو مدینے پر چوٹ ہالائے.پھر ابو رافع سلام بن کم ہو یہودیوں کا اس میں تھا اپنی ایسی حرکتوں و ماراگیا.اور یہود نے اُسکے جا پہ اکسیر بن رزاہم یہودی کو اپنا امیر بنایا اور اس لئے امیر نے اپنی بڑائی کے لئے یہ تدبیر نکالی کہ خلفان قبیلے میں پہروں اور انکو ہمراہ لے کے اسلامیوں پر چڑ ہائی کروں.اسی فکر میں تھا مصلح عالم کو خبر ہوگئی.آپنے اپنا سفیر بھیجا.اس نے جا کہ اس نئے امیر کو فہمائش کی اور ہمراہ لایا.الا نئے امیر کو پھر ایک خبط سوجھا.اور چاہا.ان سفیروں کو مار ڈالے.اس امر کی اطلاع پر عبد اللہ انیس نے اسیر کو مار ڈالا.غرض اہل خیبر سے یہ معاملات صادر ہوتے رہے.علاوہ بریں خیبر والوں سے بنو نضیرو بنو قینقاع جاملے تھے اُن کے شور فساد کرنے کے خیال سے آپ نے نیبر کا عزم کیا.اور وہاں کی بجز صاف اسباب اور وجہ جنگ کو ظاہر کرتی ہے.ات الأولى قد بغوا علينا ، إِذا أَرَادُوا فِتْنَةٌ أبيناء خیبر کی اور سب تو میں اسی سازش میں رہتی تھیں کہ مسلمانوں کی بیخ کنی کریں لیے اسلام نے اس بات کا تدارک یہ کیا کہ چودہ سو سپاہیوں کے ساتھ خیبر جلد یئے.اول اسلام نے صلح کا پیغام بھیجا.جب نجیبر یوں نے نہ مانا تب اُن پر حملہ کیا.خیبر میں یہود کے بہت قلعے تھی لے تحقیق پہلی جماعت نے بغاوت کی ہیں جبکہ ارادہ کیا فتنہ باپوں ہمارے گا اللہ کہ وہ صحرائی قومیں اُن کے ساتھ متفق تھیں اور ہمیشہ ان لوگوں کی یہ حالت تھی.لوٹ مار کی.جب اُدھر سے حملہ ہوا.جنگلوں میں بھاگ گئے.۱۲ اے میرے نزدیک یہ لفظ آیا تا ہے ہم نے انکار کیا خمین

Page 155

اور آہستہ آہستہ وہ سب فتح ہو گئے.آخر بڑا قلعہ القموس نام تھا.اسپر لڑائی ہوئی.جب وہ فتح ہوا یہود کو شکست کا یقین ہوگیا.تب انہوں نے معافی مانگی.اور انکی درخواست پر معافی دی گئی.مگر اُن کی نیک کرداری کی ضمانت (کاسن دی پر سول جلد۲ صفحه ۱۹۳ و ۱۹۴) جائداد غیر منقولہ سے کی گئی.اور رسومات مذہبی کی نسبت یہود کو آزادی دی گئی.چونکہ کوئی باضابطہ ٹیکس اُن پر نہ تھا.اور سلطنت کے خرچ میں شرکت اُن پر فرض نہ تھی.آنحصر مسیحیم نے اُن کی حفاظت کے معاوضے میں جو اب اُن کو حاصل ہوئی.ایک محصول بقدر نصف پیداوار انکی اراضی کے اُن پر مقر رکیا.اور منقولہ جائداد جو لڑائی اور محاصرے کے بعد قلعوں سے نکل اور ضبط ہوئی.وہ لشکر اسلام میں سپاہیوں کو قسم کیگئی.پادریوں اور انکے مدلوگوں کی یہ روایت غلط ہے کہ کنانہ کو خزائن ودفائن بتانے کیلئے عذاب دیا گیا.یہاں آنحضرت کو زہر دینے کا منصوبہ ہوا.اور اس دغا باز قوم نے گوشت میں زہر ملا کر آپکو کھلانا چاہا.اس دعوت میں ایک اصحابی اسی زہر سے مر گئے اور آنحضرت کو سے..ہر کی بڑی تکلیف رہی.مگر آپنے اس عورت کا جرم معاف کیا جس نے زہر دیا تھا.غزوة تبوك - آنحضرت صلعم نے حارث بن عمر الازدی کو امیر بصری کے پاس ایک خط دے کے روانہ کیا.جب یہ قاصد موتہ نام مقام پر پہنچا تو وہاں کے حاکم شرجیل نسانی عیسائی نے اس قاصد کو مار ڈالار یہ عیسائی صاحبوں کی تہذیب اور خاکساری ہے ) اس واقعے کی جب مدینے میں اطلاع ہوئی.تو آپ نے زید بن حارث کو تین ہزار سپاہ کا افسر بناکر موت کی طرف روانہ کیا.اور فرمایا جہاں حارث مارا گیا وہاں جاؤ.اور یہ ارشاد فرمایا.أوصيكم دَى اللهِ وَبِمَن مَّعَكُم مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا أَعْزو البِسْمِ اللهِ فِي سَبِيلِ اللهِ مَنْ كَفَرَ بِاللهِ لا تَخْدَرُ وا وَلا تَعْلُوا وَلا تَقْتُلُوا وليد اولا اے میں وصیت کر تا ہوں ہمکو اللہ کے ساتھ پر میز گاری کی اور اپنے ساتھی مسلمانوں کے ساتھ نیکی کرنے کی راہ خدا میں اللہ کے نام سے اُس شخص کے ساتھ لڑاو جر نے اللہ کے ساتھ کفر کیا ہے اور بیوفائی اور سرکشی نہ کرو.الده

Page 156

۱۴۹ اِمْرَأَةٌ وَلَا كَبِيرًا فَانِيَّا وَلا مُنْعَراً بصومَعَةٍ وَلا تَقْرَبُوا فَخَلا وَلا تَقْطَعُوا شجر ا ولا تهدموا بناء عرض به فوج ظفر موج و ہاں به بنی اور موتہ کے لوگ مقابلے کو کھڑے ہوئے.زید سپاں مارا گیا.اور اسکی جگہ عبداللہ بن رواحہ مقدر ہوا.پھر جعفر بن ابی طالب علی بن ابی طالب کے بھائی سپہ سالار ہوئے.اُنکے نصف بدن میں انٹی سے زیادہ زخم تھے اور وہ سب آگے کی جانب.پھر خالد بن ولید سپہ سالار ہوئے.اور یہ تدبیر کی ہ میمنہ اور میسرہ اور سائق اور قدام کو بدل دیا.دشمن نے سمجھا کہ ان کی مدد آگئی ہے.غرض وہاں مخالف کو شکست ہوئی.لڑائی میں مخالف ہر قل شاہ روم کے ماتحت تھے.اسلئے عرب کی طرف روم کا خیال بڑھ گیا.پہلے بھی وہ فتح عرب کے خواہاں تھے.اب وہ خواہش دو بالا ہو گئی.ہجرت کے نویں سال شام کے نجار سے خیبر ملی.ہر قل ایک لاکھ سپاہ کے ساتھ حملہ آوری کی طیاری کر رہا ہو.جب یہ خبر مدینے میں پہنچی.ان دنوں بڑی گرمی پڑتی تھی.آپنے جب کوچ کیا ر استے میں اونٹوں کے اوجھ سے پانی میسر ہوتا تھا.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس جنگ میں ایک ہزار اونٹ مع ساز و سامان اور ستر گھوڑے اور دوسو او قئے چاندی کے بلکہ ہزار اشرفی کا چندہ دیا جس پر آپ نے فرمایا.یعنی عثمان ا عمل بعد ہا.اور ابوبکر رضی اللہعنہ نے اپنا تمام مال واسباب چار ہزار درد کا اور مرضی الد عنہ نے نصف مال دیا.غرض اس جنگ میں عثمان رضی اللہ عنہ کی امداد تہائی لشکر کو کافی تھی منافقوں نے لوگوں کو بہت بہ کا یا.الا خالص مسلمان جس قدر تھے وہ سب ساتھ ہولئے تھیں.ہزار سپاہ آپ کے ساتھ تھی.اور اسمیں دس ہزار گھوڑے تھے.غرض آپ تبوک پہنچے.المیہ کے رئیس نے ٹیکسی منظور کر کے صلح کر لی.پھر آپنے خالد بن ولید کو دومتہ الجندل میری اور بچے اور عورت اور بڑھے اور عباد تھانے گوشہ نشینوں کو نہ مارو اور باغ کے نزدیک نہ جاؤ.اور درخت نہ کاٹو.اور مکانات کو نہ ڈھاؤ ۱٣

Page 157

۱۵۰ " بھیجا.وہاں ہود سے لڑائی ہوئی اور اکیدر اور کار میں نظریہ ہوگیا اک در این صورت کے سامنے لایا گیا.اس نے جزیہ منظور کیا.اسواسطے ر ہ کیا گیا.اور بدستور میں بنایا گیا.پھر آنحضرت نے ہر قل کو خط لکھا اور چونکہ بڑا بھاری سفر فوج کیلے کرنا پڑا.اور تبوک میں کھانا چارہ پانی زیادہ تھا اور نیز ہر قل کی خبر کو جاسوس بھیجے گئے تھے.اسلئے آپ نہیں روز وہاں ٹھہرے.تبوک نصت راہ شام سے تھا.وہاں معلوم ہوا.ہرقل کو اندرونی مشکلات ایسے آپڑے ہیں کہ وہ مدینے کو فوج نہیں پہنچا یا اس لیئے وہاں سے واپس تشریف لائے.است.ازواج مطہرات محمد رسول الله الله علیہ سلم کی سعیہ پادریوں کی بیہودہ سرائی اعتراض - عائشہ کو دُعا گویوں نے متہم کر دکھلایا.جواب - پادری صاحبان الزام مت لگاؤ.اگر الزام لگاؤ گے.تو تم پر بھی الزام لگایا جائے گا.پادریو تم تہذیب کے مدعی اور بیج کے اتباع کا دعوی کرتے ہو ی نو نہ لگاؤ.کہ تم پر بھی عجیب لگایا جاے.، باب امتی.عائشہ کا انتہام صرف اتہام ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں.اپنے گھر میں دیکھئے ایک کنواری کے رحم میں سے لڑ کا پیدا ہوا اور بقول تمہارے وہ تمہاری نجات کا منتقل ہوا.ایک متہم ہوئی.اور اتہام لگا نیو الے وجوہ اتہام کے بیان سے عاجز آئے اور دوسر لگانیو ہ ہوئی.اور کنوارے پن میں (بقول عیسائیوں کے لڑ کا جن چکی.پھر بدنامی سے بچگی اور روح القدس سے حاملہ کہلائی.را حاب فاحشہ یسوع ا باب - یہود کی بہو تھی کسی بنی.پیدائش ۳۸ باب ۱۴ و ۱۵- اور یہ دونوں تمہارے مخلص رب کی پر دادیاں ہیں.منی باب ا باب ۳-۵- 1-10

Page 158

۱۵۱ یاد رکھو جس طرح تم عیب لگاتے ہو.اسی طرح میری بھی عجیب لگایا جاویگا منی ، باب ۲ - ناظرین اس لمبے چوڑے سوال اور اس سوال کی تہذیب کو دیکھئے.سوره تحریم کے پہلے رکوع کی تفسیر میں ہجر محمد صاحب اپنی پادری کا سوال اور زوجہ حفصہ کے گھر گئے اور اسکی لونڈی ماریہ قبطیہ سے اپنی زوجہ کی غیر حاضری میں ہم بستر ہوئے.حفصہ مذکور یہ معلوم کر کے ناراض ہوگئی.تب محمد جب نے اس شہرت بد کو بند کرنے کے لئے اور اپنی زوجہ حفصہ کو راضی کرنے کیلئے قسم کھائی اور کہا کہ میں پھر اس لونڈی سے ہم بستر نہ ہونگا.اور اپنی زوجہ حفصہ سے فرمایا کہ یہ بات تیرے پاس امانت ہے سو یہ ماجرا تو کسی پر ظاہر نہ کرنا.جب محمد صاحب اُسکے محمد گھر سے چلے گئے تو حفصہ نے یہ تمام احوال عائشہ پر ظاہر کر دیا.اور پھر عائشہ سے جب محمد صاحب کو معلوم ہو گیا کہ یہ ا جا چپ نہ سکا تو قرآن میں بمقام مذکورہ الصدر ایک آیت نازل کرلی کہ بیشک قسم کو توڑ کر لونڈی سے ہم بستر ہوتے رہے.اپنی عورتوں کی خوشنودی نہ چاہیئے.پس اس ماجرے سے تین گناہ محمد صاحب پر ثابت ہیں.اول - گناہ زنا کا جسکے سبب محمد صاحب نے اپنی زوجہ حفصہ سے ملامت اٹھائی اور ہد نامہ ہو کر اس گناہ کے چھپانے کی کوشش کی اور آخر کار قسم اٹھا کر جان چھوڑانی پڑی.دوم.گناہ قسم پر قائم نہ رہنے کا کہ وہ پھر اسی لونڈی سے ہمبستر ہوتے رہے کن نہ کا کہ پھراس اور اسی سبب محمدیوں پر بھی قسم کا توڑ نا جائز کر دیا.سوم.ایسے ناشائ نہ فعل میں یعنی لونڈی سے ہمبستر ہوتے رہے.اورقسم کے سوم: توڑنے میں خدا کو بھی شریک کر کے اجازت دینے والا قرار دیا.جواب - محور فرمانے والے ناظرین سنور عیب گیر پادری صاحب اول تو قرآن سے نکال کر یہ اعتراض نہیں دکھا سکتے بلکہ کسی تفسیر سے نیچے ہے قرآن کریم اسے اعتراضات کا اناجیل کی طرح منشاء نہیں ہو سکتا.

Page 159

۱۵۲ رہیں تفاسیر سیل صاحب اور رنڈ ویل نے تفاسیر قرآن لکھی ہیں پھر کیا ان تفاسیر کے باعث اسلام یا قرآن یا صاحب قرآن محل اعتراض ہو سکتا ہے.دوم - پادری کہتے ہیں حفصہ کی لونڈی ماریہ قبطیہ - حال آنکه ماریہ قبطیہ ہمارے بچے اور پاک.ہاں نہایت سچے اور نہایت پاک خاتم الانبیاء محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ام ولد اور سریہ بی بی تھیں.ماریہ حفصہ کی لونڈی ہرگز نہیں.ہاں ہرگز نہیں.- یہ ماریہ قبطیہ وہ ہے جسکے امہ ولا بننے سے مصر اور اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس کے ساتھ تعلقات پیدا ہوئے.افسوس آپکو گھر کی خبر بھی نہیں.یہ مقوقس عیسائی تھا.زرقانی شرح مواہب.یہ ماریہ وہی ہے جس کی حقیقی بہن حست ان کے گھر میں تھی اور عبد الرحمن بین احسان اُس کے پیٹ سے پیدا ہوئے.مواہب لدنیہ یہ ماریہ وہ ہے جسکے ساتھ شہباء چری آئی.جسے مسلمان دلدل کہتے ہیں.پا در یو آپکے تمام اعتراض کا زور اسی پر تھا کہ ماریہ قبطیہ حفصہ کی لونڈی تھی جب حفصہ کی لونڈی ہونا ماریہ کا ثابت نہ ہوا تو آپ کی ساری یا وہ سرائی بیہودہ گوئی اڑگئی.سوم.پادری کہتے ہیں.محمد صاحب نے ایک آیت سورہ تحریم کی ابتدا میں نازل کرلی.پادری لوگ آیت تو نہیں لکھتے.صرف اُسکے بدلے یہ اُردو عبارت لکھ دیتے ہیں.بیشک قسم توڑ کر لونڈی سے ہمبستر ہوتے رہے.اپنی عورتوں کی خوشنودی سچا ہیئے.اعتراض میں یہی عبارت مرقوم ہے.اب تمام ناظرین کی خدمت میں التماس ہو.قرآن کریم تمام عمرانات میں موجود ایسی کوئی آیت تمام قرآن میں نہیں میں کہا یہ ترجمہ ہو.اس محترف قوم کے تعصبات کی حد نہیں.جان بوجھ بے ایمانی پر مگر

Page 160

۱۵۳ اور کیوں نہ ہوں.کفارے کے بیہودہ خیالی پلاؤ نے انکو گناہ سے بے ڈر کر رکھا ہے.پادریوں نے آخر تین اعتراض اس قصے پر جمائے.جب قصہ ہی سرے سے غلط ٹھیرا تو یہ نتیجہ کیونکر قابل التفات ہوگا..ماریہ قبطیہ جب امر ولد بی بی ٹھیری تو زنا کیسا ہوش کی لو.ماریہ قبطیہ جب ام ولد بی بی ٹھیریں تو قسمہ کیا اور قسم توڑنا کیا.ماریہ قبطیہ جب ام ولد بی بی ٹھیر ہیں.تو ناشائستہ فعل کیا.معترض کہتا ہے قسم توڑنے کی آیت نازل کر لی قسم توڑنے کی کوئی آیت سورۂ تحریم میں نہیں اور نہ اسکے بعد کوئی قسم توڑنے کی آیت اتری.ہاں قسم کے توڑنے اور پر کفارہ دینے کا قرآن میں سورہ مائدہ میں ذکر آیا ہے.گھر یا د ر ہے سورہ مائدہ سورہ تحریم اُتری سے پہلے اتر کی ہے.ہاں مجھے ضروری معلوم ہوتا ہے.سورۂ تحریم کی پہلی چند آیت کی تفسیر لکھدروں.يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَ اللهُ لَكَ ، تَبْتَغِي مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ ، وَاللهُ غَفُورٌ رَحِيمُ قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ إِيْمَانَكُمْ- سيارة سوره تحریم رکوع آنحضرت صلعم نے اپنی بی بی زینب کے گھر میں شہد پیا.عائشہ اور حصہ نے زینت پر غیرت کی اور رسول خدا سے عرض کیا.آپکے منہ سے معافیر کی بو آتی ہے.آپنے فرمایا کہ میں نے زینب کے گھر میں شہر پیا ہے.اب پھر شہد نہ پیونگا.یہ بات اسلئے کہی کہ جب عورتوں کو شہد کی بو سے نفرت ہے تو اسکا پینا کیا ضرور.معاشرت میں نقص آتا ہے.باری تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا.حلال اشیاء کا ترک کرنا او را سپر حلف کرنا کیوں.ایسے امور میں عورتوں کی رضامندی ضرور نہیں.قسم سے بچ رہنے کیلئے سورہ مائدہ میں کفارے کا حکم ہوا پر عمل کروں اے اے نبی تو کیوں چھوڑے جو مال کی اللہ نے تجھ پہ چاہتا ہے رضا مندی اپنی عورتوں کی اور اللہ بخشنے والا ہے.مہربان ٹھہرا دیا ہے الہ نے تم کو کھول ڈالنا اپنی قسموں کا ہیں

Page 161

۱۵۴ قد فَرَضَ الله لكم تحلَّةَ أَيْمَا نِکھ میں فَرَضَ ماضی کا صیغہ ہے حال یا استقبال نہیں.یہ زینب کا قصہ اور اسپرایت کا نازل ہونا.بخاری مسلم وغیرہ حدیث کی اعلیٰ کتابوں میں موجود ہے.اور قرآن کی تفسیر با خود قرآن سے با لغت عرب سے یا قرآن کی تفسیر صحیح احادیث سے تفسیر کا اعلیٰ درجہ ہے.بعض مفسر لوگوں نے زینب کے بدلے میں ماریہ قبطیہ کا نام لیا.الا ماریہ بھی رسول خدا کی بیبی ہیں.اور ایک بیٹے کی ہاں اس بیٹے کی ماں ہیں جس نے لڑکپن ہیں انتقال کیا.تب بھی کوئی حرج نہیں.الا یہ مفسروں کا قول حدیث کے مقابلے میں التفات کے قابل نہیں بلکہ محققین نے ماریہ کے وجود پر بھی انکار کیا ہے.اعتراض.سورہ احزاب ۵ رکوع محمد صاحب نے اپنے لے پالک کی جو رو سے عشق کیا.پھرلوگوں سے ڈرے تو ایک آیت اُتار لی.جواب معترض نے عشق کا ثبوت تو کوئی نہ دیا.لوگوں سو ڈرنا مقتضائے بشریت ہے حضرت مسیح بقول آپ کے باوجود الوہیت کے لوگوں (یہود) سے ڈرتے رہے اور حاکم کے سامنے حضرت سے کچھ بن نہ پڑا یسم و کم سے رو گئے.بھلا صاحبان جس صبح کو کپڑے گئے.اُس رات مسیح کی کیا حالت تھی.متی ۲۶ - باب ۳۸ - اگر لے پالک کی جورو سے شادی منع ہے تو اس کا ثبوت تو ریت یا انجیل یا شرع محمدی (قرآن) سے یا دلائل عقلیہ سے دیا ہوتا.بلکہ میں کہتا ہوں سارے عیسائی لیپالک بیٹے ہیں د نامہ رومیاں ، باب (۵) تو اب کیا وہ باہمی عقد میں بہنوں سے نکاح کرتے ہیں.توریت میں بھی بہن سے نکاح حرام ہے.اگر کہو وہاں حقیقی بین مراد ہے تو کیا دینی بہن سے نکاح جائز ہے.پولوس صاحب فرماتے ہیں یہ کیا ہمیں اختیار ہے کہ دینی بہن.نکاح کرلیں (قرنتی ۹ باب (۵) ہم کہتے ہیں اسی طرح حقیقی بیٹے کی بورو سے نکاح منع ہونہ لیپالک کی جو روسی جواب الزام

Page 162

۱۵۵ ر غزل الغزلات ، باب ۱۰ ده باب ۱) مجھے اسوقت مولوی لطف اللہ لکھنوی یاد آگئے.اُن سے بھی ایک پادری صاب نے مجمع عام میں یہی سوال کیا تھا.آپ نے کیا خوب ہو اب دیا...سارے راستباز خدا کے فرزند ہیں تو یوسف نجار بھی فرزند تھا.پھر اسکی مورو سے خدا نے فرزند لیا.پس اگر اس کے رسول نے لیپالک کی بی بی مطلقہ سے نکاح کیا.تو کیا عیب کیا.اگر جماع عیب ہے، تو ایک عضو کی نسبت سارے کوچے خدا کا رحم میں از راه پہلا جانا اور پھر مجسم بن کر نکل کر کھڑا ہونا تو شاید اور بھی معیوب ہوگا.زید نے تو طلاق کبھی دے ڈالی تھی.یوسف سے تو کسی نے براءت نامہ بھی نہ لیا.ہاں شاید الوہیت اور رستا میں بھی فرق ہوگا.کہ اس میں طلاق کی ضرورت نہیں رہتی یہ کتب مقدسہ کے محاورات تمہیں تعجب انگیز معلوم نہیں ہوتے کے میری زوجہ اے میری بہن تیرا عشق کیا خوب ہے.تیری محبت کے سے کتنی زیادہ لذیذ ہے.حقیقی جواب.اصل قصہ یوں ہے کہ زینب ایک بڑے خاندان کی عورت تھی.آنحضرت نے اپنے خادم زید کے لئے اُس کے وارثوں کو ناتے کا پیغام دیا.وہ اپنی عظمت اور شرافت شان کے خیال سے اول تو ناراض ہوئے پھر آخر کار راضی ہو گئے.کچھ مارت تو جوں توں کر کے بسر ہوئی.آخر زید نے اسکی تعلی اور طنز و تعریض ستر تنگ آکر اُسکے چھوڑ دینے کا ارادہ ظاہر کیا.چونکہ آپ بذاتِ مبارک اس شادی کے انصرام کے متکفل ہوئے تھے.اس لئے اس طلاق کے انجام اور اُسکے مفاسد پر قومی دستوروں اور حالات معاشرت ملکی کے لحاظ سے آپ کے دل میں کھٹکا پیدا ہوا.اسمیں شک نہیں کہ رفتہ جو کفار اور حیاہ طلب معاندین کو رسما و عرفا ایسے موقع پر بہت ملامت و طنز کا قا بول سکتا تھا.اور آپ گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ اس مفارقت اور معاشرتی نا چاقی کا حال مخالفین منکرین پر کھلنے پائے جو انکی زبان درازی اور تعریض کا باعث ہو.اور نیز زینب کے وارثوں کا خیال ایک رسمی اور قومی خیال تھا جو آنحضرت صلعم کے دل کو

Page 163

۱۵۶ اور اور بھی مضطرب کرنے کا موجب ہو سکتا تھا.بنا بر آں آپنے زید کو بہت روکا اور تلخی معاشرت پر صبر کرنے کی بہت نصیحت و ہدایت کی اور سخت الحاج و اصرار کیا کہ وہ اس ارادے سے باز آجائے.مگر خدا کو ایک عظیم الشان کام پورا کرنا اور ایک خلافت قدرت مصر معاشرت زنم کا توڑ نا منظور تھا.اس موقع پر قرآن کے الفاظ جن میں آنحضرت کی ولی حالت کی تصویر کھینچی گئی ہے.الہامی حقیقت پہچاننے والے منصف کے نزدیک وَ اوط قابل غور ہیں.إذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنعم اللهُ عَلَيْهِ وَ انْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمَسِيكَ زَوْجَكَ : اتَّقِ اللهَ وَتُخْفِى فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَهُ فَلَمَّا قضى زيد مِنْهَا وَطَراز جنهَا لِكَيْلا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ ادْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرَ أو كَانَ آمَدُ اللهِ مَفْعُوا - سیپاره ۲۲ سوشی احراب کوع خصوصاً آیت امسک الخ : اپنی بی بی کو نگاہ رکھ اور اللہ سے ڈر بہت غور کے قابل ہو " خدا سے ڈر یہ ایسے الفاظ ہیں کہ باز داشت اور زبر کیلئے اس سے زیادہ اور نہیں کہا جا سکتا.عیسائیوں کی شوخی اور جرات سخت قابل افسوس ہو کہ آنحضرت صلعم نے اوپر سے دل سے زید کو منع کیا دلالت آن محمد از سرولیم میو صفحه ۲۲۸) معلوم نہیں صادق کے دل کے اظہار ما فی الضمیر کا اور کیا رات ہو سکتا ہے.کسی سوسائٹی کے رسوم و آئین کی اصلاح میں اگر کسی صلح کو تکالیف و زحمات اٹھانی پڑتی ہیں تو آنحضرت صلعم کو چند در چند صعوبات اٹھانی پڑتیں اور پڑنے والی تھیں.ے اور جب تو کہنے لگا اس شخص کو جیر اللہ نے احسان کیا اور تو نے احسان کیا رہنے دے اپنے پاس اپنی جور و اور ڈر اللہ سے اور تو چھپاتا تھا اپنے ان میں ایک چیز کو مادہ اسکو کھولا چاہتاہوں وہ توڑتا تھا لوگوں پر اور الہ سے زیادہ چاہیئے ڈرنا تجھ کو ہے پھر جب زید تمام کر چکا اس عورت سے اپنی غرض ہم نے وہ تیرے نکاح میں دی تانہ رہے سلمانوں پرانا نکال کرلیا پنے لیپالکوں کی جو میں وہ نام کی ی ی ی ی ی ی ر ی اور ان کا حکم کیا گیا.

Page 164

۱۵۷ جن کے در پیش عرب جیسی غیر مہذب انگھڑ سوسائٹی کے خلاف قدرت اور مضر معاشرت رسوم کا اصلاح کرنا تھا.عرب میں (ہندوؤں کی طرح متبنی (منہ بولا بیٹا، صلبی بیٹے کے مان سمجھا جاتا تھا.اس رسم قبیح سے جو نتائج فاسدہ دنیا میں ہوئے ہیں اور ہوتے ہیں عیاں ہیں.اور حقیقی قدرت کہاں اجازت دیتی ہو کہ پر حقیقی اور متبنی دونوں مساوات کا درجہ رکھیں.قرآن نے اس مضر اصل کی بیخ کنی کر دی کہ منہ بولے بیٹے تمہارے بیٹے نہیں ہیں.تمہارے بیٹے یہی ہیں جو تمہارے نطفے سے ہیں.اب یہاں قوم و ملک کے رسوم کے مخالف رو عظیم مشکلوں کا سامنا آپ کو کرنا پڑا.ایک تو خدا کے قول و فعل کے مطابق رسم تبعیت کار کہ حقیقی بیٹے کے مانند ہیں توڑنا.اور دوسرا ایک مطلقہ عورت سے رب سے شادی کرنا عرب جاہلیت میں سخت قابل ملامت و نفرت اور ذلت تصور کرتے تھے) نکاح کرنا.مگر چونکہ عقلاً و رسما و شرعا یہ افعال معیوب نہ تھے.اور ضرور تھا کہ مصلح و ہادی خود نظیر بنے تاکہ تابعین کو تحریک و ترغیب ہو.آپ پہلے بیشک بمقتضائے بشریت گھبرائے.اور بالآخر ان مشکلات پر غالب آکر ایک عجیب نظیر قائم کر دکھلائی.پادری صاحب کی عقل پر تعجب آتا ہے.جو کہتے ہیں محمد نے لوگوں سے ڈر کے آیت او تار لی کونسی آیت او بار لی اور ڈر ہی کیا تھا.یہ منحضرت کو اس بات کا ڈر تھا اور لوگوں کی طرف سے خوف تھا کہ دشمن اس بات کا طعنہ دینگے کہ انکا اپنے ہاتھ سے کیا ہوا کام انجام کو نہ پہنچا.کیونکہ آنحضرت مسلم خود اس مزا وجت کے تکفل اور منصرم ہوئے تھے اور بڑے اصرار سے زینہ کے وارثوں سے اُسکو زید کے لئے مانگا تھا.اور اب اس مفارقت پر دشمن طعنہ دے سکتے تھے.بیشک اس بات کا آپ کو خوف تھا اور ان کی اس ناچاقی کو وہ اخفا کرنا چاہتے تھے جو بالآخر چھوٹ نکلی.اسی خوف و اخفا کی نسبت قرآن کریم فرماتا ہے کہ تو لوگوں سے ڈرتا تھا.حالانکہ ڈرنا تو مجھ سے چاہیئے.یہ ایک عجیب محاورہ قرآنی

Page 165

۱۵۸ ہے.مطلب ایسے جملے کا یہ ہوتا ہو کہ جو ام حسب مقتضائے قانون الہی ہو سکے اجرا ت میں میں انسان سے ڈرنا یعنی اُس کا عمل میں نہ لانا محبت ہے.ناقص العقل یا دری اتنا بھی خیال نہیں کر سکتے کہ اگر اس عقد میں کوئی امر معیوب اور قادح نبوت ہوتا تو یقیناً اول منکر زید ہوتا.حال آنکه بعد ازاں بہت دنوں تک اسلام اور تیر ہادی کی خاطر بڑے بڑے معرکوں اور ملکوں میں جان نثاری کرتا رہا.اور بڑے بڑے غیور جری صحابہ رہو یقینا کچھوؤں اور باج گیروں سے بہت بڑھ کر وقعت و غیرت میں تھے) جو اسلام کے رکن رکین تھے بہت جلد ہاں اُسی دم آپ کے پاس سے ٹوٹ پھوٹ جاتے اور یہ تانا با نادرہم برہم ہو جاتا.میں سچے دل سے کہتا ہوں کہ اس قصے کا ہونا قرآن کے کلام اللہ ہونے کا بڑا بھاری ثبوت ہے.اور یہ نبی عرب کی ترکیب و آورد کار جیسے منکرین سمجھتے ہیں، کلام نہیں.کیا امانت کا حق ادا کیا ہے.کیا صادق امین ہے کہ تمام الہی واردات اور ربانی الہامات و واقعات بلا کم و کاست دنیا کے آگے رکھ دیئے.پانچی انتَ وَ امّي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم - ما تعلہ ک فَلْيَنَظُ الْإِنْسَانُ مِمَّا خُلِقَ ، خُلِقَ مِنْ مَاءٍ والتراب - سیپاره ۳۰ سوره طارق - رکوع ۱ - - کئے انکی لے قریہ کے لشکر کا افسر لشکر مین سلیم کے منتشر کرنے میں اور بنی علیہ اور وادی القربی اور جنس وغیرہ جنگی کاموں پر افسر رہا ۱۲.لے پس دیکھ لے کس چیز سے آدمی بنایا گیا ہے.بنایا گیا ہے اچھلتے پانی سے جو نکلتا ہے صلب اور ترائین کے درمیان کی جگہ سے ۱۲.لك الترائب جمع تربية وهى عظم الصدر من رجل او امرأة صحاح - ترائب جمع ہے - تربیه کی اور تربیبہ سینے کی ہڈی کو کہتے ہیں.مرد کی ہو یا عورت کی ۱۲ -

Page 166

۱۵۹ اس آیت قرآنی پر جس میں انسان کی فطرت کا بیان مشاہدے کے طور پر بتایا گیا.ہے پادری صاحب اعتراض کرتے ہیں.افسوس ہے کہ یہ لوگ کبھی قرآن کے صلی لڑیحیہ سے واقفیت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے.عوام کی سنی سنائی باتوں کو دل میں رکھ کر اعتراض جمانے لگتے ہیں کیسی کتاب پر اعتراض کرنے سے پہلے اسکے اصلی ادب سے بلا واسطہ واقت ہونا فرض ہے.اعتراض نیچرل فلاسفی کے ڈاکٹر صاف صاف دکھلا سکتے ہیں کہ منی خصیے ہیں.پیدا ہوتی ہو یہ بات غلط ہو کہ معنی باپ کی میٹھا اور ماں کے سینے میں ہو جیسے قرآن میں ہے.جواب.ہم کو نہایت تعجب آتا ہو جب ہم پادریوں کو نیچرل فلاسفی وغیرہ سائنٹیفک ہچکچاتی ہو کہ میدان میں نکل کر سائیس سے مقابلہ کرے.پادری ڈی ڈبلیو ٹا میں (تشریح التثالیت صفحہ ۲۲) معما تثلیث کے حمل سمو عاجز آکر کیسے بے اختیار کہ اٹھے ہیں " خلقت دنیچر قانون الہی کے ی احوال سے استدلال اور عقلی دلائل اس میں چل نہیں سکتے.اس کا ثبوت بہم کلام الہی مصطلحات بولتے سنتے ہیں.انجیل اور فلاسفی انجیلی سیم تنش موقوف ہے.“ نیچرل فلاسفی با بڑا لفظ بولا.دوسرے مذہب پر اعتراض کرنے کیلئے تو بے اختیار یہ لفظ زبان سے نکلیگا.اندرون خانہ تو امید ہے کہ ہی استعمال کرنیکا موقع آتا ہو گا.پادری صاحب! نیچرل فلاسفی کے ڈاکٹر یوشع بن نون کی خاطر سورج کا کھڑا ہونا.مردوں کا زندہ کرنا.مجسم شخص کا آسمان پر چڑھ جانا.بے بانکے لڑکا پیدا ہونا کو تسلیم کرتے ہیں.پہلے انہیں ہی نیچرل فلاسفی کی کسوٹی پر کس لیا ہوتا.اب حقیقی جواب دینے سے پہلے ایک دو باتوں کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہو.پرست تا که قرآن مجید کی عظمت بخوبی واضح ہو جاوے.شیخ سعدی ملک ایران میں پیدا ہوئے.جس ملک کی نسبت مؤرخوں نے

Page 167

14 ھا ہو کہ یونان اور عرب کے علوم مصر سے اور منصر کے علوم ہند یا ایران سے اور بہتوں کا خیال ہو کہ مہند کے علوم بھی ایران سولائے گئے.پھر اسلام کے ایسے زمانے میں پیدا ہوتا جبکہ مسلمانوں کے علوم اپنے اوج پر پہنچے ہوئے تھے.مزید بر آن حضرت شیخ نے اپنے علوم کو سیاحت اور تجربہ زمانہ سے اور بھی جلادی تھی.باایں ہمہ شیخ کی تحقیقات کا نتیجہ یہ ہے ان صلب آورد نطفه در شکم یا جسپر آجکل کی علمی دنیا ہنسی اڑاتی ہے.ملک عرب میں بھی بالخصوص صلب و اصلاب ہی کا محاورہ دائر وسائر تھا.اور یہیں تک اُنکے محدود ذہن کی رسائی تھی.مگر قرآن کریم پہ قربان جائیے.جو ہمیشہ ہر زمانے میں اپنی راستی اور صداقت دکھانے کو طیار ہے.اور ابد تک رہیگا.یہیں سو انسانی کلام اور الہی کلام کا تفرقہ معلوم ہوتا ہے لیئے اب قرآن کا مطلب سنیئے.سر ہوتاہے حقیقی جواب فَلْيَنظُرِ الانْسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِنْ مَّاءٍ دَافِقٍ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَرايب - سیپاره ۳۰ - سوره والسماء والطارق - ركوع.کیا معنی کہ نطفہ صلب اور ترائی کے بیچوں بیچ سے آتا ہو.صلب پیٹھ کی بڑی کو کہتے ہیں.ترائب جمع ہے تریبہ کی.سینے کی ہڈی.اب خور کر و نطفہ اور متنی شریانی خون سے بنتی ہو اور وہ شہریان دل سے نکلتا ہو.اور دل صلب و ترائب کے بیچوں بیچ ہے.اور طرح پر مطلب اس آیت کا یہ ہو کہ باری تعالی متکبر انسان کی گردن معجب توڑنے کو اُسے اُس کی خلقت جسمانی منبع کی طرف توجہ دلاتا ہو.اور چونکہ قرآن کلام الہی ہے اور یہ مجلس میں جوانوں، بوڑھوں، عورتوں میں پڑھا جاتا ہو اسلئے ضرور ہو کہ انسانی لے انسان کو چاہیئے.وحیان کرے کہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہو.پیدا کیا گیا ہے اُچھلتے پانی سے ہو پشت اور سینے کی ہڈیوں کے بیچوں بیچ سے ہو کو نکلتا ہے یا

Page 168

141 اصلاح کے ہر قسم کے مطالب اشارات اعلیٰ درجہ کی پاکیزگی اور تہذیہ سے ادا کرے.یہاں دانا سمجھ گئے ہونگے اور حق شناس تو سمجھتے ہی ہیں کہ گردن کش انسان توصیحت کو کرنا قرآن کریم کو منظور ہو اور کس جگہ کی طرف اشارہ اُسے مقصود ہے.گر الہ اللہ کس خوبی اور لطافت سے اس مضمون کو نبھایا ہے.یہی اس کتاب کریم کا اصلی اور سچا معجزہ ہے.معترضو ا خواہ مخواہ کی طعنہ زنی کے عاشقو اترائ سے نیچے نگاہ کرتے جاؤ.اور صلب کی طرف چلے جاؤ.عین بین یعنی بیچوں بیچ میں تم کو وہ پنپ یا فوارہ نظر آوے گا.جس میں سے وہ اچھلتا پانی نکلتا ہے.جو انسان کی پیدائش کا منہ یا مبدا ہو.خود کرو.سوچو.ایمان اور انصاف سے کام لو.کیا مقصود تھا.کیا مطلب تھا کس طرز پر ادا کیا.اس سے بڑھ کر فصیح اور پاک کلام کوئی دنیا میں ہے.علم ادب اور عربی سے آگاہی حاصل کرد - فصحائے عرب عضو تناسل کا نام حجب بتقاضائے وقت لازم ہو.ایسی ہی پہنچ سے لیا کرتے ہیں.چنانچہ انصح العرب را جرم ایک حدیث میں فرماتے ہیں.من يضمن لي ما بين لحييهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ فَأُضِينَ لَهُ المَنة يَضْمِن یعنی جو شخص اپنی زبان اور شرمگاہ کو فواحش اور منکرات سے روکے میں اُسے جنت دلواؤنگا الْحَمْدُ لِلّهِ عَلى ذلِكَ اِن هُوَ ا لا ما الهمنِى بِهِ رَبّى - اعتراض - سوره صافات ۲ رکوع - گناہگار اور انکی جور واں اور جو کچھ وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں مع اُنکے دوزخ میں جائینگے.سب پر روشن ہے بہت لوگ انبیاء و اولیاء کی پرستش کرتے ہیں اور عیسائی کیسے مسیح کی.تو کیا یہ سب اور مسیح دوزخی ہیں.الے ہو شخص مجھے ضمانت دے اس چیز کی جو اسکے دو جڑوں کے درمیان ہو یعنی زبان اور اس چیز کی جو اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے (یعنی عضو تناسل میں اُسکے واسطے جنت کا ضامن ہوتا ہوں ۱۳

Page 169

جواب معترض کی آیت مقتولہ یہ معلوم ہوتی ہے.الحروا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَ أَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَاوَايْتُهُ دُونَ مُونِ اللهِ فَاهَدُ وهُم إلى ترابط التفجير سياره ۲۳ - سورة الصفت - رکوع ۲ ازواج جمع میرج کی اور زوج کے معنی ہیں ساتھی (الازواج القرناء) یعنی ازواج بلیسنی ساتھی کے ہیں.سُبحانَ الَّذي خَلَقَ الأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُندتُ الآن من وَمِن انفُسِهِم - سیپاره ۲۳ - سوره لیس - مس کو ۳ - ثمانية أَزْوَاجُ مِنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْنِ اثْنَيْنِ - میداره ۸ - سوره انعام - رکوع ۱ - و آخرُ مِنْ شَكلِهِ أَزْواج - سیپاره ۲۳ - سوره ص - رکوع -۴- نيك إلى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ - سیپاره ۱۳ - سوره حجر رکوی - فاخر جناية أزواجات نبات ششی سیپاره - سوق طه رکوع - من دیکھو ان تمام محاورات میں تو روان معنی کرنا ہر گز صحیح نہیں.یہاں سر جگہ ازواج کے ሮ معنے ساتھ والے کے ہیں، مطلب آیت کا نہایت صاف ہو کہ بڑے بڑے ظالم بدکار اور اُن کی جنس کے سنگی ساتھی سب کو دوزخ میں لے جاؤ.گا کہ انہوں نے ظلم کیا اور کے ساتھی اور نہیں کے ہوتے ہیں ہیں انہیں ان کی اکیلا بیجار ے پاک ذات ہے وجہ اپنی بنائے بوڑھے سب چیز کے اس قسم سے جو اگتا ہو زمین میں اور ان کے نفسوں سے ۱۳ سین پیدا کیئے آٹھ نہ اور مادہ بھیڑ میں سے دو اور بکریوں میں مستند و و ۱۲ ا اور کچھ اور اسی شکل کا طرح طرح کی چیزیں ؟؟ سے مت پیار اپنی آنکھیں اُن چیزوں پر تو یہ تنے کو ہیں ہم نے ان کو کئی طرح کے لوگوں پرتا ات پھر کالا ہم نے اس سے بھا نہیں بھانت سبز و لا

Page 170

١٣ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللہ کی تشریح خود قرآن نے فرما دی ہے کہ مشرک کہیں کو پوجتے تھے.سنو.إن يَدْعُونَ مِنْ دُونِةٍ إِلا شَيْطَانًا مَّرِيدًا- نہیں پکارتے اُسکے سوانگر شیطان سرکش کو یعنی اصل اور حقیقت میں یہ مشرک لوگ شیطان کی پوجا کرتے ہیں.جسکے اغوا اور فرمان کے مطابق ماسوی اللہ کی عبادت کرتے ہیں.دیکھو." قرنتینون کو خط ا باب ۲۰- خیر قومیں قربانی شیطان کے لئے کرتی ہیں نہ خدا کے لئے.اور میں نہیں چاہتا کہ تم شیاطین کے شریک ہو جاؤ.تم خداوند کا پیالہ اور شیاطین کا پیالہ پی نہیں سکتے.معترض صاحب خوب سمجھ رکھیئے کہ جولوگ مسیح اور دیگر انبیاء اولیاء کی پرستش کرتے ہیں.وہ حقیقت میں شیطان لعین کی پرستش کرتے ہیں اور بخلاف مرضی اور فرمان انبیائے کرام کے شیاطین کو اپنا معبود ٹھہرا رکھا ہو اور چونکہ شیاطین کی پرستش کرتے اور اُن کے اغوا و اضلالی سے گمراہ ہوئے ہیں اور خدائے حقیقی کی عبادت چھوڑ کر مخلوق کی پرستش میں لگے ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ اور وں کو شریک کرتے ہیں اسلئے اس شرک کے بدلے وہ مشترک مخلوق پرست مع اپنے مغوی شیاطین کے دوزخ میں جائیں گے.قرآن اور اہل اسلام کب اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ مسیح نے یا دیگر انبیاء اولیاء نے لوگوں کو خدا کے سوا اپنی عبادت کرنے کو کہا ہے بلکہ وہ سب کے سب خدائے تعالے کی توحید اور اسی کی عبادت کی وحظ دنیا میں کرتے رہے.پس اگر کوئی عقل کا اندھا مشرک (عیسائی ہو یا ثبت پرست) اُن مقدسوں کی عبادت کرتا ہے.تو یہ اسکی کم فہمی ہو.حقیقت میں وہ شیطان کی پوجا کرتا ہے.اس میں مسیح اور دیگر انبیاء اولیاء کا کوئی قصور اور کوئی شرکت نہیں ہو.یاد رکھو مسیح کی پوجا مسیح کے فرمانے سے نہیں ہوتی بلکہ شیطان کے کہنے پر خود شیطان ہی کی ہوتی ہو.حضرت مسیح علیہ السلام اس شرکت سے بالکل بری ہیں.

Page 171

اس لئے اُن پر کوئی سزا نہیں ہو سکتی.دیکھو قرآن کریم مسیح و کی بریت عیسائیوں کے اس شرک سے بیان فرماتا ہے.وَإِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوني واقي الطين مِنْ دُونِ اللَّهِ - قَالَ سُحْنَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقِّ إِن كُنتُ قُلْتُهُ ود فَقَدْ عَلِمْتَه تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ مَا نِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنتَ عَلامُ الْغَير عاقلتُ لَهُمُ الأَما أمرتني به آن اعبُدُ اللهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا ما دُمْتُ فِيهِمُ فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِي كُنتَ اَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنتَ عَلَى كُلِّ شَيءٍ شهید - سیپارہ ۷.سورۂ مائده - رکوع ۱۶ - پادری صاحب سن لیا آپنے.قرآن تو اس طرح حضرت مسیح کو اس شرک وکفر سے بری کرتا ہے پس وہ اعتراض آپکا قرآن پر کس قدر بے معنی ہو.اب آؤ خدائے واحد خالق مسیح اورت مسیح کی عبادت مقدس اہل اسلام کے ساتھ مل کر کرو.اور شرک مخلوق پرستی سے کنارہ کش ہو جاؤ.تاکہ ابدی سزا سے بچو.اعتراض - سوره مؤمن ۳ رکوع ۲۶ - آیت - فرعون نے بنی اسرائیل کے لڑاکوں کو اسلئے مار ڈالا کہ وہ موسی پر ایمان لائے.یہ غلط ہے.بلکہ فرعون نے موسیٰ سے پہلے یہودی لڑکے اسلئے مارے کہ وہ بڑھ نہ جاویں.خروج ا باب.ہے اور جب کہیگا اللہ سے عیسی مریم کے بیٹے کیا تونے لوگوں کو کہا کہ مجھکو اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود ٹھہرا لو.وہ بولا تو پاک ہے مجھکو سزاوار نہیں ہے کہ کہوں وہ بات جو مجھے پہنچتی نہیں.اگر میں نے یہ کیا ہو گا تو تجھے معلوم ہوگا.جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور یکں نہیں جانتا ہو تیرے جی میں ہے بیشک تو ہی تھی بائیں جانے والا ہے.میں نے تو انہیں وہی کہا جس کا تونے مجھے علم کیا تھا یہ کہ عبادت کرو اللہ کی جو میرا اور تمہارا رب ہے اور یہیں اُن پر خبردار رہا جب تک میں اُن میں رہا.پھر جب تو نے مجھے وفات دی تو تو اُن پر خبردار تھا.اور تو ہر چیز پر خبردار ہے ؟"

Page 172

۱۶۵ جواب - اصل آیت جس پر اعتراض ہے یہ ہے.قَالُوا اقْتُلُوا ابناء الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْيُوا نِسَاءَ هُمْ وَ مَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ الا في ضَلَالٍ - سیپاره ۲۴- سوره مؤمن - رکوع ۳ - میں انصافا اور حفاظ کہتا ہوں کہ یہ اعتراض محض نادانی اور قرآن کے طرز اور زبان نہ سمجھنے سے پیدا ہوا ہے.خوب یادرکھنا چاہیے کہ صیغہ امر ہمیشہ کسی فعل کے وقوع کو مستلزم نہیں ہوا کرتا.قرآن کی اس آیت سے یہ کہاں پایا جاتا ہے کہ فرعون نے انہیں قتل کر ڈالا نصائح کی عادت میں داخل ہو کہ دھوکا دہی کے طور پر ایک ترجمہ فرضی اور ذہنی لکھ دیتے ہیں.جو اصل کلام منقول عنہ سے کچھ بھی مناسبت نہیں رکھتا.اس سے بجائے اس کے کہ اُن کا مقصود اغوا و اضلال بر آرے اہل انصاف کے نزدیک اُن کی اصلیت باطن اور غرض ظاہر ہو جاتی ہے.اگر زبان عرب سے ذرا بھی مس ہو.اور قرآنی طرز سے کچھ بھی واقفیت ہو تو باد نے تامل آشکار ہو سکتا ہے کہ آیت کا پچھلا حصہ معترض کے اعتراض کو باطل کئے دیتا ہو کہ کافروں کا کنید یعنی دھو کے اور فریب کی تدبیریں اکارت ہو جانیوالی ہیں، قرآن مجید کا یہ طرز ہے کہ جب منکروں اور کافروں نے خدا کے کسی برگزیدہ شخص کی نسبت ایذا رسانی یا قتل وغیرہ کا منصوبه باندها در خفیہ تدبیریں کیں.مگر بوجہ من الوجوہ ان کی تدبیریں کارگر ہوئیں.اور وہ برگزیدہ شخص اُن کے ابتلا کے دام سے محفوظ رہا.اس وقت قرآن میں شخص یا اشخاص کے سلامت رہنے اور دشمنوں کی تدابیر کے کارگر نہ ہونے کو اسی طرح پر لفظ کید کے اطلاق سے ذکر کرتا ہے کہ انہوں نے تدبیر کو کی اور منصوبہ تو باندھا نگران کا نہ لے بولے مارو بیٹے اُن کے جو یقین لائے ہیں اس کے ساتھ اور جیتی رکھو اُن کی عورتیں اور چھ داؤں ہے منکروں کا سوغلطی میں "

Page 173

144 کید یعنی داؤوں نہ چلایا ہمنے چلنے نہ دیا.نظیر دیکھو حضرت ابراہیم کے واقعے میں جب دشمنوں نے اُن کو آگ میں ڈالا اور ٹھونک کر جلا دینا چاہا.اور نصرت الہیہ سے جو ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کے شامل حال رہتی ہے.حضرت ابراہیم اُن کے مکان اور شر سے محفوظ رہیے.قرآن اس کو اس طرح پر بیان فرماتا ہے.وَأَرَادُوا بِهِ كيدا لجعلمُهُمُ الأخسرين - سيارة ، سورة انبياء روعه اور کفار مکہ جس وقت اُس بنی نوع انسانی کے نیچے خیر خواہ، رؤوف و رحیم مادی و و محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذارسانی کی تدابیر و فکر میں لگے ہوئے تھے.قرآن کہتا ہے.نهُمْ يَكيد من كيد او اكيد كيدا - سيارة - سورة طارق ركوع - غرض اسی طرح کسی واقعے کو بیان کرنا زبان عرب کا عموما اور قرآن خصوصا طرز ہے.ٹھیک ایسا ہی اس آیت میں ہے جسپر اعتراض کیا گیا ہے کہ فرعون نے کہا یا انچو ہالی موالی سے مشورہ کیا کہ مومنین کے بیٹوں کو مار ڈالو.مگر کسی وجہ سے اُس کا ارادہ یا قول یا مشورہ صورت پذیر نہ ہوا.جیسے قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ کفار کی تدابیر یا داؤں اکارت بہانے والا ہے.یعنی وہ امر وقوع میں نہیں آیا.بھلا پادری صاحبان ! اگر قتل والی بات غلط تھی تو کیوں بنی اسرائیل موسیٰ اور ہارون کو کہتے ہیں.تم نے کیوں فرعون کے ہاتھ میں تلوار دی ہے کہ وہ سے ہم کو قتل کریں.خروج ۵ باب ۲۲ - اعتراض مصنف الجواہر القرآن نے جو ایک عیسائی ہے آیت هُوَ الأَولُ والأخر والظاهر والباطن پر یہ اعتراض کیا ہو کہ قرآن نے خدا کا نام ظاہر یا تورت لے انہوں نے اس سے واؤں کرنے کا ارادہ کیا ہیں ہم نے انہیں کو لوٹا پانے والا کیا و ے وہ خفیہ داؤں بچارہے ہیں اور لیکن اُن کے داؤں کو باطل کرنے کے در پے ہوں ۱۲

Page 174

142 قافیہ بندی کے لئے لیا ہے یا ویدانتیوں کی مت پر مخلوق کو خدا کہا ہے.جواب پوری بحث اس آیت پر آریہ سماجوں کے جوابات میں دیکھنی چاہیئے.یہاں مختصرا اتنا ہی لکھ دینا کافی ہوگا کہ اس آیت میں پہلا نام الاول ہوا اور دوسرا نام الآخر یہ دونوں نام یسعیاہ ۴۴ باب 4 میں موجود ہیں.رب الافواج فرماتا ہے " یکی اول اور آخر ہوں اور میرے سوا کوئی خدا نہیں " تیسرا نام اس آیت میں الفظاہر اور چھ تھا الباطن ہے.ظاہر کے معنی لغت عرب میں غالب اور بڑے زور والے کے ہیں.اور ظاہر اونچے کو بھی کہتے ہیں اور باطن مخفی کو اب کیوں ٹھیک انہیں الفاظ کے مرادف معنی ایوب ، باب ، یہ وہ تو آسمان سا اونچا تو کیا کر سکتا ہے اور پاتال سے نیچے ہے تو کیا جان سکتا ہے؟ اور حدیث صحیح میں اس آیت کی تفسیر خود انصح العرب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مد رسول از نے فرمائی ہے.هُوَ الأَول لَيْسَ قَبْلَهُ شَی و یعنی جب مخلوق میں سے کسی موجود چیز کو دیکھو تو مندائے تعالیٰ کی ذات بابرکات اُس موجود مخلوق سے پہلے موجود ہے مخلوقات سے کوئی ایسی چیز نہیں جو خدا سے پہلے ہو.هُوَ الْأَخِرُ لَيْسَ بَعْدَهُ شَی.یعنی ہر چیز کی فنا اور زوال کے بعد اُس کی ذات پاک موجود ہے.هُوَ الظَّاهِرُ لَيْسَ فَوْقَهُ شَى.یعنی ہر چیز سے او پر اور غالب رہی ہو اس سے اُوپر اور غالب کوئی شے نہیں.هُوَ الْبَاطِنُ لَيْسَ دُونَه شَى - وہی پوشیدہ ہر سوا اس کے کوئی چیز نہیں ہے.یہ تفسیر خوب واضح کرتی ہے کہ زبان عرب میں ان الفاظ کا مفہوم اور مراد یہ ہے.اور وہی معتبر ہے.

Page 175

اعتراض - أَوَلَمْ يَر دا انا ناتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا - سيارة ".سورہ رعد رکوع 4- کیا نہیں دیکھتے ہم آتے ہیں زمین کو اُس کے کناروں سے گھٹاتے ہیں.یہ فلاسفی قرآن کی عجیب ہے.زمین کناروں سے گھٹتی چلی آتی ہے.جواب ہر زبان میں یہ محاورہ ہے کہ مکان سے مکان والے مراد ہوتے ہیں.جسے سنو میں ظرف بمعنی مظروف سے تعبیر کرتے ہیں.ذری مستی کی انجیل ا بابا اٹھا کر پڑھو." ہائے خور زمیں تجھ پر افسوس ہائے بیت صیدا تجھپر افسوس.کیونکہ یہ معجزے جو تم میں دکھلائے اگر صور و صیدا میں دکھلائے جاتے تو ٹاٹ اوڑھ کے اور خاک میں بیٹھ کے کلب کی توبہ کرتے یا پھر ستی ۲۳ باب ۳۷ دیکھو اسے یروشلم سے یروشلم جو نبیوں کو مار ڈالتا اور انہیں جو تیرے پاس بھیجے گئے سنگسار کرتا ہے.کتنی بار میں نے چاہا تیرے لڑکوں کو جمع کروں دیکھو منی کی ان آیات میں خور زمیں اور بہت صیدا اور پر تحکم سے اسکے مکین مراد ہیں بولتے ہیں تو مکان بولا گیا ہے پر مقصود مکان والے ہیں.ایسا ہی قرآن کریم کی اس آیت میں جو اعتراض میں مذکور ہے الارض سے جو معرف بالف لام ہو خاص زمین والے یعنی اہل مکہ مراد ہیں.مقصود آیت کا یہ ہے کہ باری تعالیٰ سکے کے رؤسا اور شرف کو نصیحت کرتا اور عبرتا ارشاد فرماتا ہے " کیا انہوں نے (اہل مکہ نہیں دیکھا کہ ہم بکنے والوں کے پاس آتے ہیں اور اُن کی طرف کو گھٹاتے چلے آتے ہیں.اطراف کے معنی سمجھنے کے لئے اُس فقرے پر غور کرنا واجب ہے جو ابو طالب نے وفات کیوقت اپنی آخری اس میچ میں کہا.وَهُوَ هذا - وَايْمُ الله كَان أنظر إلى صَعَالِيكِ الْعَرَبِ وَأَهْلِ الأَطرَانَ الْمُسْتَضْعَفِينَ اور خدا کی قسم میں دیکھتا ہوں عرب کے غریبوں اور اہل اطراف اور کمزور مِنَ النَّاسِ قَدْ أَجَابُو العُونَة - لوگوں کو کہ محمد کے کہنے کو مان لیا ہے.لم اے اہل اطراف وہ لوگ جو امیروں کے خدام اور اُن کے حواشی ہیں اور گاؤں کے لوگ ۱۲.

Page 176

149 اس اپنی میں ابو طالب گویا تمام روسائے مکہ کے روبرو اس آیت کی تصدیق کرتا.ہے.جو اعتراض میں مذکور ہے.اور کہتا ہے.اسے لگنے والو اہل اطراف نے تو اُسکی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو مان لیا ہے.اور تعلیم الہی اور کی مہربانی کا اطراف میں آنا یعنی پھیلنا گویا خدا کا اطراف میں آنا ہے.حاصل کلام آیت یہ ہوا کہ کفار کی تعداد کم ہوتی چلی جاتی ہے اور مسلمان دن بدن بڑھتے پہلے جاتے ہیں.پادری صاحبان با ملاحظہ فرمائیے اب وہ زمین درکہ گھٹے گھٹے بالکل فنا ہی ہوگئی.اور ایک نئی زمین جس پر توحید ہی تو حید ہو.اس کے عوض نکل آئی.خوب سوپیے.یہی اطراف کا کم کرنا اور اُن کا سمیٹنا ہے اور یہی مقصود آیت قرآنی کا ہے.افسوس دل دانا اور شہر جینا کہاں جو ان انہی اداروں کو دیکھے اور سمجھے.اب آئیے کتب انا جبیل کو ٹو لیئے.کہ اُن میں زمین کے کناروں" کا لفظ محاورہ پایا جاتا ہے یا نہیں.آئیے ہم نکالے دیتے ہیں.یسعیاہ ۲۱ باب ۵ " زمین کے کنارے ہراساں ہوتے و سے نزدیک آتے اور حاضر ہوتے ہیں..یسعیاہ - ۴۹ باب ۶ " تجھ سے میری نجات زمین کے کناروں تک پہنچی" س قبیل ، باب یہ اُس سرزمین کے چاروں کونوں پر آخر آن پہنچا ہے ؟ پادری صاحبان ! اگر زمین کے کناروں کا ہر انسان ہونا اور نزدیک آنا اور حاضر ہونا ممکن ہے.تو اُن کا گھٹنا کیا نا ممکن ہے.اصل یہ ہے کہ قرآن مجید کا مطلب تو صاف ہو اور عہد عتیق کے محاورات اُس کی صداقت کی گواہی دے رہے ہیں.مگر یہ چشم بستہ قوم جس صورت میں اپنی ہی کتابوں سے جاہل ہے.پھر بھلا قرآن پر غور کرنے کا موقع نہیں کیونکر ملے !

Page 177

اعتراض - اِنَّ السَّاعَةُ أُتِيَة أَكَادُ أَخْفِيهَا " تحقیق قیامت آنیوالی ہے.قریب ہے.میں اُسے چھپاؤں یہ یہ غلط ہے کیونکہ چھپانا اس کا ہوتا ہے جو ظاہر ہو.قیامت ظاہر ہی نہیں.اُس کا چھپا نا کیسا.جواب معترض کا ترجمہ غلط ہے.اور اس آیت کا اخیر جملہ شد ہ ہی اُس کی غلطی کو ظاہر کئے دیتا ہے.پوری آیت یہ ہے.اِنَّ السَّاعَةَ اتِيةَ أَكَادُ أَخْفِيهَا لِتُجْزِى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تسعى.سیپاره ۱۶ سورة طه رکوع اول - تحقیق وہ گھڑی آنے والی ہو.قریب ہے میں اُسے ظاہر کر دوں.تو کہ ہر جی اپنے کیئے کا بدلا پائے.یہ معنی بالکل صاف اور صیح ہیں.ان میں کشتی مہم کا خفا نہیں ہے.اور نہ ان کا کا معنوں پہ کچھ اعتراض ہو سکتا ہے.اگر کوئی کہے خفیہ ہا کا مادہ سے خفی اسکے معنی ظاہر کروں کیسے ہوئے.تو اسے زبان حرب میں غور کرنا چاہئیے.حقیقت یہ ہے کہ خفی کا لفظ متضاد معانی رکھتا ہے.اب حقی بمعنی ظاہر ہوا کا محاوره سُنو - خَفِى الْبَرْقُ خَفُوا وَخَفَوًا أَلَى لَمَعَ یعنی نی البرق کے معنی ہیں بجلی کی خفِ الشَّيْءُ آن هم یعنی چیز ظاہر ہوئی خَفِي المَطَرُ ای ظهر النافق یعنی مینہ نے چوہے کے چھپے بل کو ظاہر کر دیا.اگر خفی بمعنی چھپا کے لیں تو بھی و ہی ترجمہ جوئیں نے کیا ہے صحیح ہے.کیونکہ مخفی مزید یہ مجرد مادہ خفی کا ہے.اور اخفی افعال کا باب ہے جو کبھی کلب کے معنی دیتا ہے.یعنی بادۂ مجرد کے معنی کو دور کر دینا.دیکھو - آشگیت میں نے شکوہ دُور کیا.اسکلت میں نے مشکل کو دُور کیا.طاق يطيق مجرد بمعنی برداشت کرتا ہو اور اطاق يُطِيقُ مزيداً المعنی برداشت نہیں.کرتا.اسی طرح خَفی کے معنی ہیں چُھپا - اخفی ماضی کے معنی ہیں ظاہر کیا.اور أُخْفى مضارع کے معنی ہیں ظاہر کرونگا.ایک اور دلیل جو نہایت صفائی سے اس ترجمے کی صحت پر دلالت کرتی ہو یہ ہو.اکواد کے معنی ہیں " میں ارادہ کرتا ہوں.قرآن میں دوسری جگہ بھی یہ محاورہ موجود ہے.

Page 178

161 كَذلِكَ رِدْنَا لِيُوسُفَ - سیپاره ۱۳ - سورۂ یوسف - رکوع و یعنی ایسا ہی ہم نے یوسف کیلئے ارادہ کیا اور عریکا محاورہ ہوا افعَلُ وَلَام كَادُ.نہیں کرتا ہوں اور نہ میرا ارادہ ہے.پس الاد أخف برما کا ترجمہ ہوا میں ارادہ کرتا ہوں اسے ظاہر کروں.اعتراض - سور که انبیاء ۴ رکوع ۳۰.کیا نہیں دیکھا اُنہوں نے جو کافر ہوئے یہ کہ آسمان اور زمین تھے ملے ہوئے ہیں جدا کیا ہم نے ان دونوں کو یہ سب پر روشن ہے کہ کافر آسمان اور زمین کی جدائی سے پیچھے پیدا ہوئے.انہوں نے اپنی پیدائش سے پہلے خدا کو یہ کام کرتے ہوئے کیسے دیکھ لیا.الزامی جواب.پس کیا متی ۳ باب ۱۶ جھوٹ کہتا ہو یسوع بپتسما پا کے فوراً پانی سے نکل کے اوپر آیا اور دیکھو اسکے لئے آسمان کھل گیا.اور کیا تو اریوں کے اعمال ے باب (۵۶) میں کذب ہوتا ہے.دیکھو آسمان کھلا اور ابن آدمہ کو خدا کے داہنے ہاتھ کھڑے دیکھتا ہوں اب غور کرنا چاہیے کہ منی اور اعمال میں جن لوگوں کو کہا دیکھو کیا وہ دیکھتے اور دیکھ سکتے تھے یا اب بھی ان آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں.ہر گز نہیں.خدا ان لوگوں کی چشم دانش کو کھولے اور انہیں راہ حق دکھلائے عجیب عجیب اعتراض کرتے ہیں جن کا منشا جہل اور نادانی کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا.قرآن میں بیسیوں جگہ یہ لفظ موجود ہے.الم ترَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاصْحَابِ الْفِيلِ - سیپاره ۳۰ سُوره فیل ركوع.الم تركينَ فَعَل ربك بعاد - سیپاره ۳۰ - سوره فجر - رکوع - وغیره و خبره حال آنکہ اصحاب فیل اور عاد کا واقعہ ولادت آنحضرت سے پیشتر واقع ہو چکا ہو ایسے موقعوں میں لفظ دیکھایہ منی نہیں رکھتا کہ موجود و حاضر در این چشم سر دیکھا بلکہ وہ واقعات بوستم اور ستند اول لا ریب چلے آتے ہیں اور جنگی صداقت کو اخلاف واقعہ چشم دید سے کچھ کم اعتقاد لے کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے خدا نے اصحاب فیل کے ساتھ کس طرح کیا.سا کیا تو نے نہیں دیکھا کہ عاد کے ساتھ تمہارے غدرا نے کیسا کیا.

Page 179

۱۷۲ نہیں کرتے.لفظ دیکھا اسے تعبیر کئے جاتے ہیں اور یہ محاورہ ہر زبان کی عام بول چال میں پایا جاتا ہے.مثلاً کہتے ہیں.دیکھو مصر میں انگریز کیا کارروائی کر رہے ہیں.دیکھ آئر لینڈ کے کیسا.لوگ کیس ما فساد مچارہے ہیں وغیرہ وغیرہ.اب یہ فقرات ہند دستان میں بیٹھا ہوا ایک شخص کہہ رہا ہے.اس سے بی مقصود نہیں کہ اس کے اس کلام کے مخاطبین ان آنکھوں سے مصر اور آئرلینڈ میں موجود ہو کر وہ کارروائی اور فساد دیکھ رہے ہیں.حقیقی جواب.لغت میں رویت اور راسی کے معنی میں سے ہر کمی کا لفظ مشتق ہوا ہے غور کے قابل ہیں.دیکھو قاموس اللغت الرُّؤْيَةُ النَّظَرُ بِالْعَيْنِ والقلب والرأى الاعتقاد.یعنی رویت آنکھ سے دیکھنے اور دل سے دیکھنے اور رای اعتقاد کرنے کو کہتے ہیں.معترض نے زبان کی ناواقفیت کے سبب سے رویت کو آنکھ کے ساتھ دیکھنے ہیں پر حصہ بجھا ہو.پس آیت کے معنی یہ ہوئے ! کیا کفار نے نہیں سمجھا کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے.پس ہم نے اُن کو جدا کیا.اصلی حقیقی جواب.آیت یہ ہے :- اولمير الذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء كُل شَي حي سيپاره -۱۰ سوره انبياء - رکوع سماوات جمع ہے سما کی اور اس کے معنی ہیں اوپر کی چیز.اور بادل کو بھی کہتے ہیں.رتن کے معنی ہیں جوڑنا.بند کرنا.قحط خشک سالی.فتق ضد ہے رتق کی اسکے معنی ہیں پھاڑنا کھولنا.سمان جیسے ارزانی کہتے ہیں.دیکھو قاموس السَّماءُ كُلَّ مَا ارتفع إلى أن قَالَ وَالسَّحَابُ - الفتق الشق - فتقه شقه - والخصب والرتق ضده - پس ٹھیک ترجمہ آیت کا یہ ہوا.کیا وہ نہیں رکھتے نہیں سوچتے کہ اوپر کی سطح (بادل) لے کیا نہیں دیکھا انہوں نے کہ بیشک آسمان اور زمین دونوں اور انہیں کیا اور تم زندہ کیا ہر چیز کو پانی سے".

Page 180

۱۷۳ اور زمین بند ہوتے ہیں ریعنے خشک سالی واقع ہوتی ہے، پھر ہم انہیں کھو دیتے ہیں (یعنی مینہ برستا ہو اور ہر جاندار چیز کو پانی سے بناتے ہیں.یعنی آسمان سے مینہ برستا زمین سے نباتات نکلتے ہیں.سمان ہوتا ہے.ارزانی ہوتی ہے.اگر کوئی شخص سماوات پر جو سما کی جمع ہو اعتراض کرے تو اُسے ایوب ۳۸ باب ۳۷ پڑھنا چاہیئے.جہاں لکھا ہو کون اپنی دانش سے بادلوں کو گن سکتا ہوں یہ عربی او میری بائیں دونوں قریب قریب ہیں.یہی محاورہ کتب مقدسہ میں موجود ہے.دیکھو پیدائش ، باب 1- 1- آسمان کی کھڑکیاں کھل گئیں.چالیس دن اور رات پانی کی جھڑی لگی رہی.پیدائش ، باب ۲- آسمان کی کھڑکیاں بند ہوئیں اور آسمان سے مینہ تھم گیا.اول سلاطین ، باب -۳۵ پھر جب آسمان بند ہو جائیں اور بارش نہ ہو.تجھے اباب ۱۰ - آسمان بند ہے اوس نہیں کرتی.-۲- تاریخ ۶ باب ۲۶- اگر آسمان بند ہو جاویں.اور نہ برسیں.-۲- تاریخ ، باب ۱۳.جو میں آسمان کو بند کروں کہ بارش نہ ہو.لو قام باب ۲۵.ساڑھے تین برس آسمان بند رہا.زمین حاصل دینے سے باز آئی اور میں نے خشک سالی کو طلب کیا.اعتراض - (1) سورۃ ہود و رکوع - مومن بہشت میں رہیں گے جبتک آسمان 3 زمین قائم ہیں اور کافر دوزخ میں رہیں گے جبتک آسمان و ز میں قائم ہیں (ب) سورہ الحاقہ ۱۴ سے ۱۶ تک.جب صور پھونکا گیا آسمان پھٹ جائیگا اور زمین اُلٹائی جائیگی (ج) سُورۃ) الرحمن مارکوع سب کچھ فنا ہو جا دیگا.لیکن صرف منہ خدا کا باقی رہیگا سورہ الحاقہ اور الرحمن سے ظاہر ہے کہ نہ آسمان و زمین رہیں گے.اور نہ مومن بہشت میں نہ دوزخی دوزخ ہیں.کیونکہ سب کچھ فنا ہو جائے گا.تو یہ بھی سب کچھ کے احاطے سے باہر

Page 181

۱۷۴ نہیں.اس لئے یہ کذب ہے.جواب پس کیا ہی برا بول بولا.اور کیسا غلط الہاما در جھوٹی روح سے کہا اور یہ کہ اسے خدا وند تو نے ابتداء میں زمین کی نیوڈالی اور آسمان تیرے ہاتھ کی کاریگر می ہو.وئے نیست ہو جائینگے پر تو باقی ہے.وے سب پوشاک کے مانند گیرانے ہونگے اور چادر کی طرح تو انہیں لپٹیگا اور وے بدل جا وینگے پر تو ہی ہے اور تیرے برس جاتے نہ رہیں گے.(نامہ عبرانیاں - باب ۱۱-۱۳) کیا پطرس تجھوٹ کہتا ہو کہ خداوند کا دن جس طرح رات کو چھور آتا ہے آونگا اور اسی میں آسمان سنانے کی طرح جاتے رہیں گے.اور اجرام فلکی مبل کر گداز ہو جائیں گے.اور زمین ان کاریگروں سمیت ہو اس میں میں بھسم ہو جائیگی.ناظرین غور کرو.پطرس فرماتا ہو کہ اجرام فلکی اور زمین مع اپنی کاریگروں کے فنا ہو جاوے گی.ہم پوچھتے ہیں کہ جب یہ سب کچھ فنا ہو جا دینگے.تو میر سے کس کی عدالت کو آوینگے اور عیسائیوں کو ابدی آرام کیسے ملیں گا.سچ پوچھو تو اس یا جوجی قومہ کو اعتراض کرنے اور عجیب بینی کے سوا اور کچھ نہیں سوجھتا.حقیقت شناسی اور صداقت طلبی سے تو کچھ سروکار نہیں.کاش قرآن پر اعتراض کرنے سے پہلے کتب اناجیل کو بغور ملاحظہ کر لیا کریں.کہ ان کتابوں کا طرز ادائے مطلب کس قدر آپس میں ملتا جلتا ہے.چونکہ عبرانی اور عربی زبان کے محاورات نہایت ہی مشاہدا یک دو سکر سے ہیں.رسے اس لئے قرآن کے مجازات اور استعارات میں خوض کرنے سے قبل توریت کے طریق ادائے الك يوم تعلوى السماة كل المنتجاب الكتب كما بدا أنا أَوَّلَ خَلْقٍ تَعِيدُ 6 ترجمہ جہاں سیٹیں گے آسان کو مانت پیٹنے کا غذ کتاب کے جیسے ہم نے پہلے پیدائش کو شروع کیا.ہم دو ہرا دینگے اس کو ؟ لا

Page 182

مطالب میں بغور نگاہ کرنی اشد ضروری معلوم ہوتی ہے.اب انصاف سے دیکھو آیات قرآنی کا مقصود کس قدر صاف ہے.مطلب یہ ہے کہ بہشت اور دوزخ میں نیا آسمان اور نئی زمین ہوگی.اور یہ زمین اپنی موجودہ حالت پر نہ رہیگی.چنانچہ قرآن فرماتا ہو.يون تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ : DAWN NNNELGAKAWAT ENGLANGUAGELOKALAGAN - سیپاره ۱۳ - سوره ابراهیم رکوع » - جس آیت کا سوال میں اشارہ ہے اُس کے الفاظ یہ ہیں.ما حمرى السموات والأرضی جب تک (وہ) آسمان و زمیں قائم ہیں.ینے مومن بہشت میں اور دوزخی دوزخ میں رہیں گے جب تک آسمان و زمیں قائم ہیں عربی زبان میں الف لام خصو صیت کا نشان ہے.اُردو فارسی میں معرفے اور نگرے میں امتیاز کرنے کے لئے کوئی نشان نہیں.پس السموات اور الارض میں سموات اور ارض کے اول میں الف لام تخصیص کا اظہار کرتا ہے.اور نقص و اس تخصیص سے وہ خاص آسمان وزمین مراد ہیں.جو اس عالیہ آخرت کے مناسب اور اس مقام کی صورت طبعی کے اقتہ کے موافق ہونگے.غرض بہشت اور دوزخ میں خاص آسمان اور زمینیں ہونگی اور موجودہ آسمانان و زمین اپنی حال سے بدل جائینگے.نافہم عیسائی اپنی کتب مسلمہ سے بیخبر اسی عدم امتیاز کے باعث ایسی فاحش غلطیوں میں پڑتے اور بیابان ضلالت میں ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں.انا جیل کا بھی یہی منشاء ہے جہاں لکھا ہے اور کہ تم خدا کے اس دن کے آنی کے منتظر ہو.جس میں آسمان جیل کو گداز ہو جا وینگے.پر ہم نئے آسمان اور نئی زمین کی جن میں راستبازی ہے اُسکے وعدے کے موافق انتظاری کرتے ہیں.(۲ پطرس ۳ باب) كُلِّ شَيْءٍ هَالِكُ إِلَّا وَجْهَهُ - سیپاره ۲۰ - سوره قصص - رکوع ۹ - بستی بدن بدل ڈالی جاودگی زمین سودا نے (اس موجودہ زمین کے اور آسمان اور اللہ واحد زبردسہ کے رو برو پیش ہونگے ان کی ذات کے سوا فنا ہونے والی یہ ہے ۱۲.

Page 183

144 كل من عليها نان ويبقى وجهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرَام - سيارة -٣٠- سورة الرحمن ركوع - ران آیات کا مطلب واضح ہو کہ بقا صرف ذاتِ الہی کے واسطے ہے.دیکھو المطاؤوس باپ ۱۲- لفظ وجہ کے معنی لغت عربی میں دیکھو - الْوَجْهُ مُسْتَقْبِلُ كُل شَيْءٍ وَنَفْسُ الشَّيء- یعنی وَجْهُ ہر چیز کے حصہ مقدم اور نفس شئے کو کہتے ہیں اس لئے ہم نے اُردو ترجمے میں وجہ کا ترجمہ ذات کیا ہے.اعتراض - سوره اعراف ۲۲ رکوع ۱۷۳- آدم کے بیٹے اسکی میٹھے سر نکالے گئے اور اُن سے وعدہ کرایا گیا کہ خدا کے سوا کوئی ماننے کے قابل نہیں یہ کذب ہے.ہنود کے مقبولہ مسئلہ تناسخ کے مثل معلوم نہیں خدا نے کب اقرار لیا.سچ ہو تو بھی خدا کا مطلب نہ نکلا.یہی کذب ہے.الزامی جواب مستی ، باب ۳- حواریوں کے رو برو جب مسیح مجسم تھے.موسمی و ایلیا مسیح کو ملے.ایوب ۳۰ باب ۵ - زمین کے کونے کا پتھر رکھتے وقت صبح کے ستارے مکے گاتے تھی.اور سارے نبی اللہ خوشی کے مارے للکارتے تھے.انصاف سے سوچنے کا مقام ہو کہ موسی تو مسیح مجسم سے سینکڑوں برس پہلے کر چکے تھے.ایلیا بھی ان سے قبل چل بسے تھے.پھر سیح بن مریم کو کیسے ملے.کیا پھر جنم دھارا.آدم حسب بیان پیدائش زمین کے ملنے کے بعد پیدا ہوئے.یہ سارے نبی اللہ کہاں سے آگئے.اور کب پیدا ہوئے.جو جواب اور تاویل بان آیات کی نسبت آپ بیان کرینگے وہی قرآن کریم کی آیت کی نسبت سمجھ لیجئے.کے سب جو اس زمین پر ہیں فنا ہو نیوالے ہیں اور بتا تیرے رب کی ذات کو ہو جو جلال اور اکرام والا ہے کیا

Page 184

یہاں ایک اور امر بھی اظہار کے قابل ہو کہ معترض نے آیت کے ترجمے میں متن ظہور ہم کا ترجمہ اس کی پیٹھ سے کیا ہو.اور یہ مجھے نہیں ہے.ہمہ پہلے اصل آیت کو لکھتے ہیں اور پھر صحیح ترجمہ نقل کرتے ہیں.واذا خَنَا رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ أَشْهَدَ هُمْ عَلَى أأَنْفُسِهِمُ اَلَسْتُ بِرَتِكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدُنا - بیپاره ۹ - سوره اعراف - رکوع ۲۲ - یادر ہے کہ من ظهورِ جم میں ظہور کا لفظ زبان عرب میں زائد آیا کرتا ہو دیکھو قامون مِنْ بيْنَ أَظْهُرِ هِمُ - آی وَسَطِهِمْ - بین کا لفظ وسط کے معنی دیتا ہو.اور اظہر کا لفظ زائد ہوں معنی اس فقرے کے اُن کے بیچ یا ان میں.حدیث میں بھی یہ محاورہ آیا ہو- رہ آیا ہو.دیکھو مشکوة باب الایمان صفحه 6 - كُنتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا.آپ تھے ہم میں.محاورہ عرب دیکھو.ما افصحكَ وَمَا خَرَجْتَ منْ أظهرنا - تو کیسا فصیح ہو.اور تو ہم سے الگ نہیں نکلا.اور عرب بولتے ہیں.کان بينشد عن ظهر قلبہ.یعنے وہ دل سے یا از بر شعر پڑھتا تھا.و ظہر کا لفظ زائد ہے.حقیقی جواب.اصل مطلب آیت کا یہ ہو کہ عادل ریمی قدوس خدا نے تمام بنی آدم میں اُن کی بدو فطرت میں ایک قوت ایمانیہ اور نور فراست ودیعت رکھا ہے جو ہمیشہ وجود اہلی اور اس کی ربوبیت کا اقرار یاد دلاتا رہتا ہے یا اقلا یوں کہو کہ اگر مثلاً کسی عارض کے باعث غافل بھی ہو سجا دے.تو بھی چونکہ اصل فطرت میں وہ قوت مجبور کی گئی ہے کسی بیرونی محرک کے سبب سے حرکت میں آجاتی ہے.ہاں اگر کسی بے ایمان کے اندر کسی باعث سے وہ قوت بالکل مرگئی ہو.اور وہ کم بخت اتہاہ کنویں میں جا پڑا ہو.اور شیطان کا فرزند بنگر آسمانی دفتر سے اُس نے اپنا نام کٹوا لیا ہو تو یہ اس کا اپنا قصور ہے.اور جب بھی تیرے رب نے آدمیوں سے اُنہیں کے درمیان سے اُن کی اول دا اور انہیں اپر گواہ ٹھہرایا کہ یں تمہارا رب نہیں ہوں انہوں نے کہا ہاں ہم گواہ ہوئے ۱۲.

Page 185

عادل خدا کی ذات اس سے منزہ ہے.اب اسی فطرت کے اقرار کو اسی ربوبیت الہی کے جیلی معترف فطرت کو الہامی زبان ربانی کلام اس طرز عبادت میں بیان فرماتا ہو.اور اس دقیق فطرت کے راز کو اس طرح پر انسان کو سمجھاتا ہو کہ انسان بدو فطرت میں میری ربوبیت کا اقرار کر چکا ہے.یعنی الوہیت ایز دی کا اعتراف انسان کا امر جبلی اور فطری ہے.اور اُس کی ترکیب و ہیئت ہی اس امر پر شاہد عادل کافی ہے.قرآن کا یہ عجیب معجز طریق ہو کہ وہ ایسے باریک مسائل کو اس پنج میں ادا کرتا ہو کہ اُس سے عالم و جاہل یکساں مستفید ہو سکتے ہیں.عیسائی ظاہر بین الفاظ پرست ان اصرار کو کیا سمجھیں.وہ تو کتب الہامیہ کے خصوصیات اور اُن کے طرق ادامی مطالب سے آشنا ہی نہیں ہوئے.خواہ مخواہ ہر ایک حقیقت پر اعتراض جمادینے کا بیڑہ اُٹھا رکھا ہے.گو وہ انا جیل ہی میں کیوں نہ ہو.اعتراض - سوره بقره ۱۸ رکوع - اعراف ۲۱ رکوع ۱۶۷- مائده رکوش ۶۵ میں ہو یہود بندر بن گئے.کب کسی ملک میں کسی شہرمیں یہ عظیم واقعہ ہوا.ان لوگوں کے قرب جوار والوں سے کس نے لگا تھا.الزامی جواب لیجئے صاحب گھبرائیے نہیں خدا کے فضل سو ہم بتائے دیتی ہیں.متی ۱۵ باب ۲۶- ایک عورت نے مسیح سے روٹی مانگی ( آپ کیس لطافت اور نرمی اور حسن خلق سے اُسے جواب دیتے ہیں لڑکوں کی روٹی لے لینی اور راتوں کو ڈالنی خوب نہیں " متی ، باب 4- جو پاک ہے گیتوں کو مت دو.اور اپنے موتی سوروں کے آگے مت پھینکو.متی ۲۳ باب ۳۳.اسے سانپو.اسے سانپوں کے بچہ تم بہنم کے عذاب سے کیونکر بچوگے.پادری صاحبان ! مہربانی کر کے آپ بھی ذری تکلیف اُٹھائیے اور حقیقت بینی کو مد نظر رکھ کر آپ ہی بتائیے.یہ کتنے اور ستور اور سانپ کون تھے.یہی عرفی اور مشاہدہ

Page 186

169 کے حقیر جانور تھے.کیا یہودی تھے.کیا و پیج کے معہود فی الذہن اور قابل ملامت بنی اسرائیل نہ تھے.اب بتا ہیے وہ کتب کس ملک اور کس شہر میں کتے اور ستور اور سانپ نہیں اور سچ مچ مسخ ہی ہوئے ہوئے تھے یا ہو گئے.خوب سمجھ رکھیے.جہاں یہ واقعہ عظیم واقع ہوا.وہاں ہی اور انہیں معنوں میں قرآن والا واقعہ عظیم گذرا.حقیقی جواب (اصل قصہ قرآن مجید میں یوں ہے) وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنكُمْ في السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَة خَاسِين - سیپاره ۱ - سوره بقر - رکوع - - قل هل أنتكم بسر من ذلِكَ مَتَّوْبَةٌ عِنْدَ اللهِ مَنْ لَعَنَهُ اللهُ وَ غَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِردة والفنان میباره سوره مائده رکوع ۱۳ لعن الذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَد - سیپاره -4 - سوره مائده - رکوع -11 - - - ۶ سبت لغت میں آرام کو کہتے ہیں.دیکھو قاموس السبت الراحة اور ہفتے کے دن کو بھی کہتے ہیں.یہودی آرام کے دنوں میں یا یوں کہو سبت کے دن نخدا وند خدا کی نافرمانی کرتے اور اُن کی سرکشی اور بغاوت پر جب باریتعالی کا منصب بھڑکتا تو ذلیل اور خوار ہو جاتے اور انکی حالت اس ذلت اور ادبار کی وجہ سے گویا بندروں اور ستور وں اور گھروں کی سی ہو جاتی راسی مجاز کو قرآن کریم بیان کرتا اور اہل کتاب کو جو زمانہ نبوی میں تھے، اُن کے اسلاف کا عبرت انگیر حال یاد دلاکر نصیحت دیتا ہو مسیح کی لعنت کا ذکر بنی اسرائیل پر جو قرآن کی آیت میں مذکور ہوا ہو.یاد رکھو.وہ وہی لعنت ہے جو الزامی جواب میں بیان فرمائی.اتے اور تم جان چکے ہو ان لوگوں کو جنہوں نے تم میں سے ہفتے کے ان میں زبانی کی ہیں ہم نے کہا تھا کہ ذلیل بندر جاؤں ہی تو کہ میں تمہیں بناؤں جسے خدا کے یہاں سخت سزا ملی وہ جنہیں اللہ نے ملعون کیا اور غضب کیا اسپر اور ان میں سو بندر اور سور بنائے ۱۲.ملک لعنت کیئے گئے وہ لوگ بنی اسرائیل سے کافر ہوئے داؤد اور عیسی بن مریم کی زبانی.

Page 187

١٨٠ ایسے جھاڑوں کو جو کتب الہامیہ میں خصوصیا اور مرزبان میں عموما مستعمل ہوتے ہیں.حقیقت اور نفس الامری سمجھ لینا سخت غلطی ہے.اور یہ خوش فہمی، انہیں حضرات نصاری سے ہی مخصوص ہے.پادری صاحبان ! ہماری مہربانی کا شکریہ ادا کیجئے.اور اس شکریے میں کلام حق پر جاہلانہ اعتراض کرنے سے باز آئیے ہم آپکی جہل کا پردہ اٹھائے دیتے ہیں اور گپ مقدسہ ہی سے اُس گاؤں کا پتہ لگائے دیتے ہیں.سکیئے.وہ گاؤں پر ظلم ہے.دیکھو تخمیا ۱۳ باب ۱۶.اور وہاں کے صور کے لوگ بھی سکتے تھے.جو مچھلی اور ہر طرح کی چیزیں لاکو سبت کے دن یہود او اور یروشلم کے لوگوں کے ہاتھ بیچتے تھے.تب میں نے یہوداہ کے تشریف لوگوں سے تکرار کر کے کہا کہ یہ کیا برا کام ہے جو تم کرتے ہو کہ سبت کے دن کو مقدس نہیں جانتے ہو.کیا تمہارے باپ دادوں نے ایسا کام نہیں کیا.اور ہمارا خدا ہم پر اور اس شہر پر یہ سب آفتیں نہیں لایا.تب بھی تم سبت کے دن کو پاک نہ مان کے یہ تم اسرائیل پر زیادہ خضب بھڑکاتے ہو.دیکھو یرمیاہ باب ۳۴- از قبیل باب ۱۲۰ ۴۴۱۲۲.سبقت کی عدم حفاظت پر عذاب الہی آتا تھا.زبور ۱۰۵ - ۲۹ - اُن کی مچھلیوں کو مار ڈالا.یہ گویا نشان قہر الہی ہے.حز قیل ۴۷ باب ۶ - ۱۲ مچھلیوں کی کثرت ہو گئی.یہ گو یا فضل الہی کا نشان ہو.بعض مچھلیوں کی ہلاکت اور کثرت گو یا خدا کے قہر لطف کی علامت ہوا کرتی تھی.قرآن مجید میں بھی اس واقعے کا ذکر ہے.جہاں فرمایا ہے.اذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَعًا - چونکہ یہود کو سبت کی حفاظت کی تاکید شدید تھی.جیسا خروج ۲۰ باب ۱۹ اور ۳۵ باب سے پایا جاتا ہے.مگروہ شریر قوم بخلاف حکم ربانی بغاوت اور عصیان کرتی تھی.اس لئے مضب

Page 188

IM خداوندی اُن پر نازل ہوتا.اور وہ ذلیل و مردود ہو جاتے.اور اس کو سور اور بندر کے استعارے میں مجازا ذکر کیا ہے.اعتراض.سورہ ہود تم رکوع ۲۲ ۲۳۰- نوح کا بیٹا طوفان میں ڈوب کر امیرین نے اُس کا نام کنعان بتایا ہے.اور یہ غلط ہو.کنعان بعد طوفان پیدا ہوا.جواب.الحمدللہ معترض نے بھی خود ہی اس بات کو تسلیم کر لیا ہو کہ قرآن میں کنعان وغیرہ نام کچھ نہیں لکھا ہو البتہ مفسرین نے دو نام لکھے ہیں.ایک یام بن نوح دیکھو تم البین اور قاموس لغت یوم.قرآن کو بغور پڑھیئے.اس میں یہ بھی نہیں لکھا کہ وہ نوح کا بیٹا حقیقی تھا.بلکہ قرآن کریم میں تو ہو.ان ابني من اهلی یعنی میرا بیٹا میری بیبی کی طرف سے.اور قرآن تو صاف کہتا ہے یہ لڑکا تیرے اہل کا بیٹا بھی نہیں.جہاں کہتا.إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ - إِنَّهُ عَمَلَ غَيْرُ صَالِحٍ - سیپاره ۱۲ سوره هود رکوع ۴ - اعتراض - سوره انفال ۴ رکوع - خدا محمد یوں پر عذاب نہ کریگا.جب تک محمد اُن میں ہے.یہ کذب ہے.مدینے میں محمد صاحب کی موجودگی میں قحط پڑا.بدر اور احمد میں محمد صاحب کے ہوتے محمد یوں پر دکھ آیا.الزامی جواب پھر لوقا کا کہنا کیسے صحیح ہو گیا.(لوقا ۲۱ باب ۱۸۱۹) بلکہ دے تم میں سے بعضوں کو قتل کرینگے.پھر لکھتا ہو کہ تمہارے سر کا ایک بال بھی گرایا نہ جاو نیگایا اور یہ الہامی کلام کیسے درست تریگا.(پیدائش ، ا باب ۸ جسمیں ابراہیم و یعقوب سے وعدہ ہوا کہ کنعان کی زمین میں تیری اولاد کو ابد کے لئے دونگا یہ ہزاروں برس ہو گئے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ملک بنی اسرائیل کے قبضے سے نکلا ہوا ہو.یہاں ایک آیت میں تو ہو.کہ قتل کئے جاؤ گے.اور ایک آیت کہتی ہے کہ تمہارے سرکا ایک بال بھی گرایا نہ جاونگا.ایک آیت ابد کا وعدہ دیتی ہے اور مشاہدہ اس کے خلاف میں شہادت دیتا ہے.اگر ان ے وہ نہیں تیرے گھر والوں میں.اس کے کام ہیں نا کا رہ.

Page 189

۱۸۲ آیات کی توفیق و تطبیق میں کوئی تاویل کی جاتی ہے.اور ضرور کرنی پڑتی ہے.تو قرآن کے محل مطلب میں اُسے کیوں بھول جانا چاہیئے.جواب حقیقی.میں نے سورہ انفال کو غور و تا رتبہ سے پڑھا ہی.جو بات اعتراض میں بیان ہوئی ہو و ہرگز ہرگز سورہ انفال تو کیا تمام قرآن بھرمیں کہیں نہیں ہو.مگر بعد غور کے معلوم ہوا کہ ایک آیت ہے جس کا مقدم و مؤخر کاٹ کر اور اصلی مطلب نہ سمجھ کر یہ اعتراض پیدا ہوا ہو.لہذا ہم تمام آیات متعلقہ، حل معانی کو لکھ کر اصل مطلب بتاتے ہیں.و إِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُ واليُثْبِتُوكَ اَوْ يَقْتُلُوكَ أَو جُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمُدُ اللهَ وَاللهُ خَيْرُ المَاكِرِينَ وَإِذَا تُتلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هذا رات هذا الما أسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ - وَإِذْ قَالُوا اللهُمَّ إِن كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقِّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ وَ أُتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّ بَهُمْ وَأَنتَ فِيهم - سیپاره ۹ - سوره انفال - رکوع ۴ - اب اس میں یہ آخری آیت زیر بحث ہے.یہ محض ناسمجھی سے تیز فہم معترض نے اعتراض جایا ہے.کہیں امید کرتا ہوں کہان تمام آیات کے ترجمہ لفظی سے ناظرین کو اصل مدعا کا پتہ لگ گیا ہوگا.مگر مزید توضیح کے لئے مختصراً کچھ لکھے دیتا ہوں.اس اخیر آیت میں لبعد بھم میں جو ھم کی ضمیر ہے اس کا مرجع وہی (الذین کفروا) اصل مطلب یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے بہ تنذیر قرآن کفار مکہ کو عذاب الہی سے ڈرایا کہ قرآن کی تکذیب و انکار پر ضرور ضرو ر غضب الہی اُن پر نازل ہو گا.اس پر ہے.لے اور جب فریب بنانے کے کافر کہ تجھ کو بٹھا دیں یا مار ڈالیں یا نکال دیں.اور وہ بھی فریب کرتے تھے اور اللہ بھی فریب کرتا تھا.اوراللہ کا فریب سے بہتر ہے.اور جب کوئی پڑھے ان پر ہماری آیتیں کہیں ہم سن چکے ہم چاہیں تو کر لیں ایسا یہ کچھ نہیں مگر سوال ہیں پہلوں کے.اور سب کہنے لگے کہ یا الہ اگریہی دین حق ہے تیرے پاس تو ہم پر ہے یا پھر آسمان سے بال ہم پر دکھ کی مار اور اللہ ہرگز نہ عذاب کر تا ان کو جب تک تو تھا ان میں.

Page 190

١٨٣ اُن جاہلوں نے از راہ کمال جرات وہ کہا.جس کا مضمون آیت سوم میں مذکور ہو.باری تعالیٰ نے فرمایا.کہ جب تک تو اے محمد ان لوگوں میں ہو یعنی سرزمین مکہ اور اس کے اہالی کے درمیان) تب تکہ ان پر عذاب نہیں آنے کا.اور بیشک یہ وعید الہی یہ پیشینگوئی ایک برس بعد ہجرت کے جب آپ کتے کو چھوڑ دینے چلے گئے.پوری ہوئی.کیسی صاف اور واضح بات تھی حضرت ز کی طبیعت معترض کہاں لے گئے.افسوس ان لوگوں کے قصور فہم یا عمدا دیدہ انصاف کے بند کر لینے کی کیا اور کہانتک شکایت کی جائے گو حقیقتہ یہ بے معنی اور پوچ اعتراضات ہرگز لائق التفات نہ تھے مگر ہم نے اس پر بھی محض بایں نیست کہ شاید اب کبھی کوئی دل تو رحیق سے منور ہو جائے.اس مخاطبے کو گوارا کیا ہے.اسی مضمون کو قرآن کی پیشینگوئیوں میں دیکھو.ایک اور بات خیال میں آئی جس کا لکھنا شاید بچسپی سے خالی نہ ہوگا.سنو ہم اسی بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بلحاظ اصل مطلب معترض کے معنی صحیح ہیں.گو سورہ انفال کی آیت کا مدعا یہ نہ ہو کہ جب تک محمد محمدیوں میں ہے.ان پر عذاب نہیں آویگا بیشک یہ درست اور نہایت درست بات ہے اور واقعی امر ہے کہ جب تک محمد محمدیوں میں ہو.انپر کوئی دُکھ کوئی وبال کوئی عذاب آ نہیں سکتا محمد محمدیوں میں ہو.اس کے یہ معنی کہ محمد رسُول اللہ کی اصلی اور واقعی تعلیم پر انکا ٹھیک ٹھیک عمل ہو.اور سہ مو اسکے پاک احکام سے وہ تجاوز و انحراف نہ کریں.پس کیا ہی صحیح بات ہو کہ جب تک محمد محمدیوں میں ہو.انپر کوئی عذاب نہ آئیگا.ہم دھوئی کرتے ہیں اور بڑی دلیری سے دعوی کرتے ہیں کہ اہل اسلام پر کوئی عذاب کبھی بھی نہیں آیا.جب تک محمد رسول اللہ صلعمہ اُن میں رہے.بایں معنی کہ اُن کے کلام مقدس پر اہل اسلامہ ٹھیک ٹھیک معمل رہا.تاریخ صاف شہادت دیتی ہے کہ جب اہل اسلام نے اپنے پیارے ہادی کے نصائح سے انحراف کیا.جب ہی اُن پر ادبار آیا.

Page 191

۱۸۴ اب مناسب معلوم ہوتا ہو کہ ہم ان معنوں کا ثبوت جو ہمنے اس فقر سے جب تک محمد محمدیوں میں ہوا میں لفظ " میں ہوا سے اُن کے کلام مقدس پر قرار واقعی عمل کرنے کے لئے ہیں.انجیل سے دیں.سنو.انجیل یوحناء ا باب ۱۹ مسیح فرماتے ہیں.جس طرح تو نے مجھے دُنیا میں بھیجا.میں نے بھی اُنہیں دُنیا میں بھیجا.اُن کے لئے بھی ہو ان (سواری) کے کلام سے مجھے پر ایمان لا دینگے.عرض کرتا ہوں تاکہ وے سب ایک ہوں.جیسا کہ تو اے باپ مجھ میں اور میں تجھہ میں وہ بھی تم میں ایک ہوں.یوحنا کا - - خط ۲ باب ۲۴- اسی واسطے جو م نے شروع سے سنا ہو.وہی تم میں بسے.رومیوں کو ۲ باب ۵.ایسے ہی ہم جو بہت سے ہیں مسیح میں ہو کے ایک بدن ہو ہیں.اخط یوحنا ۳ باب ۲۴.اور جو اسکے حکموں پر عمل کرتا ہے.یہ اسمیں اور وہ آسمیں رہتا ہے.اخط یوحنام باب ۱۲- اگر ہم ایک دوسے سے محبت کریں تو ہم خدا میں رہتے ہیں.اب دیکھو ان آیات سے صاف حمیان ہو کہ کسی کا کسی میں ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ پہلا شخص دوسرے کا تابع فرمان ہو.اور اُسکے نصائح پر پورا پورا کار بند ہو.اسی کے مطابق آیت قرآنی کے معنی لے لو.اب ہم بتاتے ہیں کہ جہاں جہاں کسی محمدی کو کوئی ایذا او تکلیف پہنچی ہو بیشک اُسوقت محمد رسول اللہ اُن میں نہ تھے.یعنی وہ لوگ نصیحت نبوی کو بھول گئے کو سنو.غزوہ حنین میں مسلمانوں کو تکلیف پہنچی.اس کا سبب خود ہی قرآن نے بتایا ہے.ن اعْجَبتَ كُم كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُم شَيْئًا وَ ضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَت ثُمَّ وَليَتُو مد برین - سیپاره ۱۰- سوره توبه - مرکوع ۲ - اہل اسلام اس غروے میں اپنی کثرت و جمعیت پر بھول گئے.اور رسول اللہ صلی اللہ الے جب تمہاری کثرت تمہیں گھمنڈ میں لائے ہیں تمہارے گروہ تمہارے کسی کام نہ آئے پھر تم بیٹھ دیکر بھاگ نکلے

Page 192

JAQ علیہ وسلم کے فرمان ہدایت نشان کو طاق پر دھر دیا.اور اس خدا داد قوت اور عطیے سے جسے حرام کہتے ہیں کام نہ لیا.اسلئے وہ چند لمحہ کی اور جلد تدارک پانے والی تکلیف نہیں پہنچی.چونکہ وہ لوگ حکم رسول سے غافل ہو گئے.پس یقینا رسول اللہ اُن میں اور وہ رسول اللہ میں اس وقت نہ تھے.گو تھوڑی دیر بعد پھر نصرت الہی نے اُن کا ہاتھ پکڑ لیا.ایسا ہی جو صدمہ اہل اسلام کو غزوہ اُحد میں پہنچا.اس کا سبب بھی رسول الله علم کی نافرمانی ہوا.کہ عبداللہ بن جبیر سے ہمراہیوں نے بخلاف حکم آنحضرت صلعم کے اُونچے ٹیلے کو جس پر ثابت رہنے کیلئے آپ کا تاکیدی حکم تھا چھوڑ دیا.اسلئے وہ صدمہ انہیں پہنچا.جس کا تدارک فضل ایزدی نے بہت جلد کر لیا ان سب کی تفصیل مضمون جہاد میں دیکھو، پس یہاں بھی کیسی صاف بات ہو کہ اس مصیبت کے نزول پر محمد رسول الله صحم اُن میں نہ تھے کہ عدول حکمی سے یہ سزا ان پر آئی.شاید کسی کے دل میں یہ وسوسہ گذرے کہ خود آنحضرت پر بھی تکلیف مصیبت آئی.سو یا د رکھنا چاہئے کہ قوم کا خیر خواہ اور ان کا دلی ہما ر و ہادی و مصلح ہر حال میں اپنی قوم کا شریک نیک و بد رہتا ہے.بعض اوقات میں اس لزوم کی وجہ سے ضرور ہو کہ ان لوگوں کے مصائب و آلام سے اُسے بھی حسب قانون قدرت بہرہ ملے.تاکہ ہر حال میں ان کا ہمدرد اور ستچار فیق و انہیں ثابت ہو.پس یو نہی ہوا کہ جب اس معرکے میں بعض کوتاہ اندیش آدمیوں کی غلطی کے سب سے مسلمانوں پر ایڈا آئی.بچے ہمدرد رسول مقبول نے اُن سے الگ ہونا گوارا نہیں فرمایا.بلکہ اُن کی شمولیت میں اس دُکھ سے حصہ لیا.اس لئے پاک وجود باجود کے طفیل پھر رحمت الہی اُن لوگوں کی محمد و معاون نہوئی.عیسائی مذاق پر ثبوت سن لو.مسیح کامل راستباز تھے.الا ملعون قوم کی خاطر ملعون ہوئے.گناہ اٹھائے.سزا سہی.موسے و ہارون پر اپنی قوم کی خاطر ملعون ہوئے.گناہ اُٹھائے.سزا سہی موسی و ہارون پر اپنی قوم کی شمولیت کی وجہ کتاب آیا اور کنان نہ پہنچے اور قوم کو چھوڑ خود ہی نہ ہوئے.ازاله وسوسه

Page 193

JAY اعتراض - سوره مومن ۳ رکوع - موسی فرعون اور ہامان کے پاس بھیجا گیا.یہ غلط ہے.موسیٰ فرعون کے پاس ضرور بھیجا گیا.لیکن ہامان تو موسیٰ کی موت کے ڈیڑھ سو برس بعد اخو بریس کا وزیر تھا.دیکھو استیر سا باب.الزامی جواب کیا خوب با عجیب اعتراض ہو.پادری صاحب ٹھیکہ پورا کرنا اسے ہی کہتے ہیں.کلام حق پر اعتراض کرنا اور یہ تغافل شعاری.یہ اعتراض ٹھیک ایسا ہی ہے جیسے کوئی عیسائیوں کو کہے.ساول داؤد سے پہلے سموئیل کے وقت بادشاہ ہوا مسیح کا رسول کیسے ہو گیا.یعقوب تو بنی اسرائیل کا باپ اسحاق کا بیٹا تھا مسیح کا بھائی کیونکر بن گیا.مریم تو موسیٰ اور ہارون کی مہین تھی مسیح کی ما کس طرح ہوگئی.افسوس صد افسوس ضد اور ہٹ انسان کو کس طرح موت کے انتہاء کنویں میں مجھکاتی ہے ! مینس اور غیرس نے موسیٰ کا مقابلہ کیا ( ۲ تمطاؤس ۳ باب (۸) بتاؤ توریت میں کہاں لکھا ہو کہ موسی کا مقابلہ انہیں دو آدمیوں نے کیا.اگر ساول یعقوب اور مریم کئی آدمیوں کے نام ہو سکتے ہیں.تو کیا نا ممکن ہو کہ ہامان فرعون کے افسر کا نام بھی ہو.اور خویرس کے وزیر کا بھی.گر کہو مینی اور غیرس کا نام گو توریت میں نہیں تو تمطاؤس چونکہ الہامی کام ہو اسلئے اُس میں ہونا بھی اُن کی صداقت کی کافی دلیل ہو تو ہم بھی قرآن کو الہامی اور انہی کلام مانتے ہیں.اور بہت صفائی سے وہی جواب دے سکتے ہیں.ہے حقیقی جواب ہامان کے معنی عربی میں محافظ کے ہیں.اور یہ وہ شخص ہے جو فرعون کی طرف سے بنی اسرائیل پر متعین تھا.کہ اُن سے اینٹیں پکانے کا کام لے.دیکھو خروج ، باب 1 حضرت موسیٰ اُس شخص کو بھی نصیحت فرماتے تھے اور بنی اسرائیل کیساتھ حسن سلوک کو کہتے تھے.قرآن مجید سے بھی یہی پایا جاتا ہو کہ یہ شخص افسر عمارت تھا.جہاں فرمایا ہے اور فرعون کا قول جو اُس نے ہامان کو کہا.نقل کیا ہے.

Page 194

يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَر حا- سیپاره ۲۴ سوره مؤمن - رکوع ۴ - اعتراض - سوره یونس ۹ رکورع ۸۷ - آییت - موسیٰ اور ہارون بھیجے گئے کہ اپنی قوم کے گھروں کے منہ رو بقبلہ بنا دیں.یہ باطل ہے کیونکہ کتب سماوی سے ظاہر ہو کہ موسی کو خدائے اسلیئے بھیجا کہ قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے چھوڑا کر ملک کنعان میں لابساتو نہ یہ کہ مصر میں رہنے دے.دیکھو خروج ۳ باب ، سے ، اتک.جواب.اس با ایمان معترض سے کوئی اہل انصاف پوچھے کہ قرآن کی کس آیت کا لفظی ترجمہ اس نے کیا ہو.حقیقت میں اسے بڑھ کر کیا دھوکے بازی ہو سکتی ہو کہ اپنے زعم میں ایک بات کو ادھر اُدھر سے کاٹ کر اس طرح پیش کرنا اور عوام کو جتنا کہ گویا مقصود مصنف یا کلام مصنف ہے.قرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ موسیٰ اور ہارون اسلیئے بھیجے گئے تھے الخ جیسا معترض نے اعتراض میں پیش کیا ہے.قرآن میں بھی بالکل وہی مطلب اور وہی مضمون ہے جو خروج میں لکھا ہے.فَاتِيَا فِرْعَوْنَ نَقُولا إِنَّا رَسُولُ رَبِّ الْعَلَمِينَ ، أَنْ أَرَضِيلُ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ سیپاره ۱۹ سوره شعرا - رکوع ۲ - وَلَقَدْ فَتَنَا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاءَ هُورَ سُول كريم آن ادا الى عِبَادِ كَرِيمَ اَنْ اَدُوا الله اِنّی اَدرُ رَسُولُ آمِين - سیپاره ۲۵.سورۂ دخان - رکوع ۱ رکو فَاتِيَا فَقُولَا أَنَا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبُهُمْ سِيَارَهُ سُوطه ے اسے ہامان میرے لئے ایک محل معیار کہا.مسلے پس جاؤ فرعون کے پاس اور کہو ہم پیغام لائے ہیں اس کے صاحب کے کہ بھیج سے ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو سنے اور ہر آئینہ آزمایا ہم نے ان سے پہلے فرعون کی قوم کو اور آیا ان لوگوں کو رسول بزرگ کہ حوالے کر وطرف میرے اللہ کے بندوں کو ہر آئینہ میں تم لوگوں کا امانتدار اور رسول ہوں " سکے سو جاؤ تم دونوں اُس کے پاس اور تم دونوں کہو کہ ہم دونوں تیرے پر وردگار کے بھیجے ہوئے ہیں اور تو بھیج ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو اور اُن کو دُکھ نہ و.وست ۱۷

Page 195

۱۸۸ جس آیت پر معترض کو دھوکا ہوا ہے.وہ آیت یہ ہے.وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُو قِبْلَه - سیپاره - سوره یونس - مرکوع ۹ - - 4 کرتے اب اس کی تشریح سنو.قبلہ ہو وہ جگہ تھی یا وہ قربانی کرتے تھے اور ص کی سی ادارے اور عبادت کرتے تھے.دیکھو میزان الحق صفحہ ۲۲.پھر یہ و سلم یہودیوں کا قربان گاہ اور عبادت گاہ تھا اور خدائے تعالیٰ وہاں اپنے تئیں ایسا ظاہر کرتا تھاکہ گویا اس جگہ میں رہتا تھا.انجیل لوک ۲ باب اہم سے ۲۲ تک اُسکے (مسیح) ماں باپ ہر برس یہ فصیح میں پر وسلم کو جاتے تھے.اور جب وہ بارہ برس کا ہوا ؤ سے عید فصیح کے دستور پر یروشلم کو گئے.خروج ۳۴ باب ۲۳- اور استثناء باب او ۱۶ میں بھی ایسی ہی باتیں لکھی ہیں اب اس سے واضح ہو گیا کہ یہ نشانات اور یہ حقیقت قبلہ یہود کی تھی.اب خروج ۱۲ باب ۳ سے ۷ تک اور ۲۲ سے ۲۴ تک دیکھ ڈالو.اس میں لکھا ہے کہ اسرائیلیوں کے سارے گروہ سے یہ بات کہو کہ اس مہینے کے دسویں دن ہر ایک مرد اپنے اپنے گھر باپ دادوں کے گھرانے کے مطابق ایک بزد گھر پیچھے اپنے لیے ہے.اور شام کو ذبح کرو.اور اس کا چھا پا دروازے پر لگاؤ یہ ۲۳ میں ہے.خدا وند در پر سے گزر کریگا.اور ہلاک کرنے والے کو نہ چھوڑیگا کہ تمہارے گھروں میں آکے تمہیں مارے اور خداوند کا یہ بھی حکم تھا کہ گھر سے باہر نہ نکلیں اور سیر کنم ما خاندان بھی تھا کہ سے باہرن کے گھر کے اندر ہی ادا ہو.یہ یہی مطلب قرآن کا ہے کہ گھروں کو قبلہ بناؤ.یعنی یہ رسم گھروں ہی میں ادا کرو.جواب.اہل اسلام کے نزدیک قبلہ وہ جگہ ہے جہاں قتل کا امن ضروری ہو.اور جس پر خاص خداوندی نظر ہو.چنانچہ دیکھو بیت اللہ کی نسبت جو اہل اسلام کا قبلہ ہے قرآن میں حرما امنا وارد ہوا ہے.اسلئے کہ وہاں قتل نفس حرام ہے اس طور پر بھی قبلہ کہنا صحیح ہو کہ اہے اور اپنے گھروں کو قبلہ بناؤ ۱۲.

Page 196

۱۸۹ فرشتے نے بنی اسرائیل کے گھروں کو امن دیا.اور فرعون کے پوٹھے مارڈالے.جواب.قبلہ کے معنی متقابلہ کے بھی ہیں.یعنی آمنے سامنے بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ اپنے اپنے گھر ایک دوسرے کے سامنے بنا دیں.اور صلحت اس میں یہ تھی کہ میدہ رات کو نکل جانے کے لئے اچھا موقع ملے.دیکھو گنتی.اعتراض - سورة ق - رکوع ۳ - وَيَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَاتِ وَتَقُولُ هل من مزيد - ترجمہ اور جہد ہم کہینگے دوزخ کو کیا تو بھری ہوتو وہ آہنگی کیا کچھ یہ ہے.اور دیکھو ترجمہ مشارق الانوار لا تزال جَهَنَّمُ تَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ حَتَّى يَضْع فيها رب العزة قدَمَا نَتَقُولُ قَط فقط ترجمہ کہ ہمیشہ دوزخ میں آیا کچھ بیچ سکے اللہ تعالی قدم اپنا.پس دوزخ کہیگی.بس بس.چار باتیں جواب طلب ہیں.ا کوئی معقول سبب بتا دیں جسکے باعث خدا کو دوزخ میں پاؤں ڈالنا ضروری ہو.۲- کسی آیت کی سند سے بتا دیں کہ خدا کے پاؤں کو دوزخ سے کبھی رہائی ملیگی یا ہمیشہ اُسی میں رہیگا.-۳- کسی سند سے بتا دیں کہ خدا کے پاؤں کے دوزخ میں جانے سے اُسکی جلانے والی تاثیر میں تبدیلی ہوگی یا نہیں.اگر تبدیلی ہوئی تو دوزخی مذاب سے چھوٹے ورنہ خدا کا پاؤں بھی جیلا.۴ - خدا جو بقول قرآن عرش پر بیٹھا ہو.وہیں سے بیٹھے بیٹھے دوزخ میں پاؤں لٹکا دیگا.یا عرش سر نیچے اتر پڑیگا.اور جب پاؤں دوزخ میں گیا روز منی بھی اُسے دیکھینگے یا نہیں.جواب.پادری صاحب نے اس اعتراض میں کمال قوت استنباطی کو خرچ کیا.اور شاید انہیں اپنے اس استخراج پر بڑا ناز ہوگا.صاحب اتنا ہی پوچھ لیا ہوتا کہ اس حدیث کا مطلب کیا ہے.ہمیں سچ سچ کہتا ہوں کہ حدیث کا مطلب صاف اور درست ہو مگریہ ہان اور محاورہ معرب نہ جاننے کے سبب پادری صاحب اس بھول بھلیاں میں جا پڑے ہیں جو

Page 197

19- نخود اُنکے چالاک ہاتھوں کی کرتوت ہے.بط اصل منشا آپکے اعتراض کا جملہ يَضَعَ فِي هَارَبُّ الْعِزَّةِ قَدَمَ ہے جس کا ترجمہ ہے.رکھینگا اس میں عزت والا اپنا قدم.اب ہم آپ کو ان الفاظ کا صحیح مطلب اور منشار بتاتے ہیں.جن سے آپ کو بوجہ عدم فہم زبان غرب دھو کا ہو ا ہے.گو الفاظ تو صاف تھے اور محاورہ عرب کی طرف ذرا سی سی رجوع کرنے سے بآسانی حل ہو سکتے تھے.مگر چونکہ عادة نصاری کا خاصہ ہے کہ کسی کام کا اصلی مقصد عمدا یا جہا بدون توضیح و تفسیر نہیں سمجھتے یا سمجھ نہیں سکتے اور یہ عادت نسلاً بعد نسل حضرات حوار بین سے وراثت میں انہیں ملی ہو کہ وہ سادہ مزاج بھی حضرت مسیح کے کلام کو بدون تفسیر و مثل سمجھے نہیں سکتے تھے.اسلئے ضرور ہوا کہ ہم پوری تفسیر ان الفاظ کی کر دیں.سنو.جواب.پہلا لفظ جسپر پادری صاحب کو دھوکا ہوا ہے لفظ رب ہو سُننا چاہیئے کہ رب کا لفظ بڑے بڑے آدمیوں پر بولا گیا ہے.جیسے یوسف علیہ السلام کا قول اس زندانی کو اذكر في عند ربك - سیپاره ۲ - سورہ یوسف می کوع ۵- کہ مجھے اپنے آقا کے روبرو یاد کرنا.اور فرعون کہتا ہے.انار تبكُمُ الأغلى سياره ٣٠- سورة النازعا - ركوع -- یکس تمہارا بڑا رب ہوں.یہ لفظ عام بڑے بڑے رئیسوں اور امیروں پر بھی اطلاق ہوتا ہو اس لیے اس کی جمع ارباب سے امرا اور دنیا دار مراد لیے جاتے ہیں.اور ٹھیک اسی طرح عبرانی زبان میں بھی جسے عربی کے ساتھ مشابہت تامہ ہے.استعمال ہوا ہے.چنانچہ رتی بڑے بڑے کا ہنوں اور عالموں پر بولا ہی جاتا ہے.اور بعض جگہ جب کسی اسم کے ساتھ ترکیب میں مذکور ہوتا ہے.جیسے مثلاً اسی جگہ رب العزة يا رب البيت يارب المنزل - اسوقت مرادوت لفظ صاحب کے ہوا کرتا ہے.مثلاً ہم کر سکتے ہیں.صاحب العزة - صاحب البيت السحب المنزل - عزت والا-

Page 198

191 گھر والا منقول والا، یا مالک منزل جواب اور غربت معنی حمیت - ضد جاہلیت ہے.دیکھو قرآن میں ایک جگہ اس کا استعمال ہوا ہے.اخَذَتْهُ الْحَةُ بِالاتر نسبة جَگنو.یعنی جب اُسے خدا سے ڈرنے کو کہا جاتا اُسے خدا سے ڈرنے ہے تو اسے عزت رصد و حمیت جاہلانہ گناہ پر آمادہ کرتی ہو.پس ایسے کیلئے جہنم میں ہے.اور عزیز کا لفظ جو اس سے مشتق ہوا ہو.قرآن میں (سورہ دخان شر یہ جہنمی پر جب جہنم میں ڈالا جائیگا.بول گیا ہو.ذُقُ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيم چکھ کیونکہ تو بڑی حمیت والا اور بزرگ بنا بیٹھا تھا.اور عزیز اور رب العزق کے معنی ایک ہی ہیں.پس رب العزت اُس شخص سے مراد ہو جو دنیا میں متکبر اور جبار اور بڑا مندی کہلاتا ہے.اسی حدیث کی بعض روایات میں آیا ہے.حَتَّى يَضَعَ فِيهَا الْجَبَّارُ قَدَمَهُ بسیار اور رب العزت کے ایک ہی معنے ہیں.یعنے متکبر سرکش حدود سے نکل جانیوالا پس گویا دونوں روایتیں علی اختلاف الفاظ معنی واحمد رکھتی ہیں.اب حدیث کے معنی یہ ہوئے کہ دوزخ زیادہ طلبی کرتی رہیگی.جب تک شریر متکبر اپنے تئیں عزیز جاننے والے اُس میں اپنا پاؤں رکھیں یعنے داخل ہوں.یادر ہے کہ اہل اسلام کے اعتقاد میں دوزخ شریروں اور بد ذاتوں کی جگہ ہے.جیسا حدیث ذیل میں مذکور ہے.مشکوۃ صفحہ ۲۹۶ - ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ دوزخ میں ایک وادی ہو اُس کا نام ہب سب ہو.اسکی تسکین کا باعث ہر ایک جبار ہو گا.اسکے آخری جملے کے الفاظ یہ ہیں - يُسَكِنَهُ كُلِّ جَبَّارٍ - جواب بعض روایات میں اگر آیا ہر حَتى يَضَعَ اللهُ فِيهَا قدماء - اول تو یہ روایت حدیث کے اعلیٰ طبقے کی روایت نہیں کیونکہ اسمیں روایت بالمعنی کا احتمال ہے.

Page 199

۱۹۲ اگر مان بھی لیا جاوے.تو قدم سے مراد اسرار ہیں.پاؤں نہیں.دیکھو قاموس اللغة - قدمة - اى الذين قدمهم من الاشرار فهم قدم الله النار كما أن الخيار قدمه للجنة- یعنے قدم سے مراد وہ شریر لوگ ہیں جنکو خدا نے دوزخ کے آگے دھر دیا.پس وہ لوگ خدا کی طرف سر آگ کیلئے آگے کئے گئے.جیسے اچھے لوگ خدا کی طرف سے جنت کی جانب آگے کئے گئے.پس حدیث کے یہ معنے ہوئے کہ دوزخ هَلْ مِنْ مزید پکارتی رہے گی.جب تک خدا استشرار کو اُس میں نہ ڈالیگا.پھر وہ لبس کریگی.جواب - وضع القدم - مثل للردع والقمع.یعنی وضع قدم ایک محاوره ای جسکے معنی ہیں روکتا اور تمام دینا.اب حدیث کے یہ معنے ہوئے کہ یہانتک اللہ تعالیٰ اپنی روک اور تھام رکھیگا اور ایسی روک کر دیگا کہ دوزخ هَلْ مِیں مزید کہنے سے رک جاؤنگی.جواب - وضع القدم (پاؤں رکھ دینا) ذلیل اور خوار کرنے پر بولا جاتا ہے.چونکہ عبرتی اور عربی قریب قریب زبانیں ہیں.اور کتب مقدسہ میں بھی یہ محاورہ برتا گیا ہے.بنظر ثبوت اتنا ہی بس ہے.یسعیاہ ۳۷ باب ۲۵.خدا فرماتا ہے میں اپنے پاؤں کے تلووں سے مصر کی سب ندیاں سکھا دونگا.۲ سموئیل ۲۲ باب ۳۹.ہاں وہ میرے قدموں تلے پڑے ہیں.ا سلاطین ۵ باب ۳- بهبتک کہ خُدا نے اُن کو اُسکے قدموں تلے نہ کر دیا.لوقا ۲ باب ۲۳ و مرقس ۱۲ باب - جبتک تیرے دشمنوں کو سر سے پاؤں کی چوکی کروں.دیکھو ان سب محاورات میں لغوی معنوں میں قدم کا لفظ نہیں بولا گیا بلکہ مجازی مناواں ہیں.پس حدیث کے یہ معنی ہوئے کہ یہانتک کہ خدا جہنم کو ذلیل و خوار کر ڈالے.اور اُسے چپ کرا دے " ہاں یہ محاورہ اس خطبے میں بھی آیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری

Page 200

۱۹۳ حج میں بمقام عرفات پڑھا.وَ دِمَاء الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةً تحت قدرى.فِي جواب.یہ جواب گو الزامی جواب ہے مگر ہم نے اس بارے میں مسیح کے اقوال کی پیروی کی ہے کہ الزام مت لگاؤ تاکہ تم پر الزام نہ لگایا جادے.اور نیز الزامی جواب اس لئے بھی اختیار کیا جاتا ہے کہ معترض ان مسلمی و مالوہ کتابوں سے اس قسم کے اشتباہ کو رفع کرے.اب جواب سنیئے.مستی اعتقاد میں منع ملعون ہوا د نعوذ باللہ اور ملوں کا ٹھکانا جہنم ہیں دیکھ حل الاشكال اور پو لوس نامه گلتیان ۳ باب ۱۳ بجو کاٹھ پر لٹکایا جائے وہ ملعون ہو.اور نیز مسیحی اعتقاد میں مسیح خدا ہیں اور رب العزة بھی ہیں (صاحب عزت نہیں معنے نم کو تسکین نہ ہوگی جب تک عیسائیوں کے خدا اس میں قدم نہ رکھیں اب سارے جوابوں کی آپ ہی کوشش کریں.حاصل الامر چونکہ پادری صاحب نے حدیث کا مطلب غلط سمجھا.اور بطور بنائے فاسد على الفاسد اُس سے غلط استنباطات کیئے.پس انکے اعتراض کے باقی شقوق بھی بیکار و معطل ہو گئے.اس لئے ہمیں اُن شقوں پر فضول خامہ فرسائی کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ فاسد مقدمے کا نتیجہ لابد فاسد ہی ہوا کرتا ہے.اگر قدم کے معنی پاؤں لیں.جیسے عام مشہور ہو تب بھی اعتراض نہیں رہتا اور عیسائی مذہب کے طور پر ہرگز محل اعتراض نہیں.دیکھو خروج ۱۳ باب ۲۱.خدا آگ کے ستونوں ہیں.اور خروج ۱۹ باب ۱۸ اور استثنا - باب ۳۳ - آگ کو خُدا کا قدم نہ جلانے میں بخلاف اور لوگوں کے بے ریب امتیاز ہو.دیکھو استثناہم بابا.پہاڑ جلا پر خدا نہ جلا اور اتناہم باب ۳۶ میں.خدا آگ میں کلام سنانا تھا.اور دیکھو دانیال ۳ باب ۲۵ - خدا کے چند پیارے کھلے آگ میں پھرتے تھے اور اگر انہیں نہیں جلاتی تھی.اور قانون قدرت میں دیکھو آگ ذرات عالم کو نہیں جلا سکتی.آگ کا کام تو چند اشیاء کو جلانے کا ہے وہ اشیاء جو الہی

Page 201

۱۹۴ مخلوق ہیں.نہ خالق کے جلانے کا.اعتراض - سوره ص ۲۰ رکوع وسخر ناله الريح شوي بأمره رخاء حيث اصاب یہ امر غلط ہے.اس کا ثبوت نہیں ملتا کسی معتبر یہودی مورخ کی گواہی سے ثابت کریں.جواب.افسوس ہم کہا نتک ہر ایک مضمون کے آغاز میں پادری صاحب کی نادانی اور لغت عرب سے جہل کی شکایت کرتے جائیں.پادری صاحب نے اسے کونسا غیر ممکن الوقوع واقعہ اپنے زعم میں سمجھا ہو کہ بڑے جوش میں آکر مورخان یہود کی گواہی کے خواستگار ہیں.صاحب یہ تو معمولی قدرتی اور مشہودہ واقعے کا ذکر ہے کہ شب و روز ہمارے تمہارے مشاہدے اور برتاؤ میں آرہا ہے.آپ صرف جہل لسان کی وجہ سے اس ورطے میں پڑے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں.میں تمہیں تھی اور اخلاصا کہتا ہوں کہ کیوں ناحق اپنی عاقبت بگاڑتے ہو.قرآن کریم جو اپنی ذات اور اصلیت میں صادق و مصدق کلام ہے.ایسے واہی اور پا در ہوا اعتراضوں سے معرض نقص و قدح میں نہیں آسکتا.لیجئے اصلی کیفیت ہم سنائے دیتے ہیں.اور نہ یہودی مؤرخ کی بلکہ خود خدا کی شہادت یعنی اسکے کام کی شہادت سے اس کا ثبوت دیتے ہیں.و ر تالة الريح تجري بأمرة محارٌ حَيْثُ أَصَابَ.سیپاره -٣- سوره من ركوع - سر وأخيرًا، ذللها وَكَفَهُ عَمَلاً بلا أجره یعنی ستر ا سکے میرا کے معنی میں اسکا مطیع کیا تَسْخِيْرًا- - سَخَّرَة اور اُسے مفت ہے مزدوری کام میں لگایا.قرآن میں بہت جگہ یہ محاورہ آیا ہے.دیکھو.ان پس صفت کا م میں انگار می سلیمان کے ہوا نرم چلتی اُس کے (اللہ کے حکم سے جہاں پہنچنا چاہتا.با مرہ کی ضمیر سب آیات ذیل باری تعالیٰ کی طرف سے ہو.

Page 202

۱۹۵ لوب ر لكم الفلك لتجري فيالبي بِأَمْرِهِ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الأَنْهَارَد عمى لكرة الشمس والقمرة الباين وسَخَّرَ لَكُمُ الَّيلَ وَالنَّهار- سیپاره ۱۳- سورة ابراهيم- رکوع ۵ - ذلِكَ سَخَّرَهَا لكم سیپارہ ۱۷ سوره حج - رکوع ۵ - المران الله سخر لكُم مَّا فِي الْأَرْضِ وَالغُلكَ تَجْرِي فِي الْبَحْ بِأَمْرِه.سیپاره ۱۷ - سوره حج - رکوع ۹ - الم تروا أن الله سخر لكم ما في السمواتِ وَمَا فِي الأَرض سيارة العمان كوح ٣- ان تمام محاورات سے لفظ تسخیر کا استعمال واضح ہوگیا کہ تسخیر مفت میں بلا مزدوری کام میں لگا دینے کو کہتے ہیں.بیشک کشتیاں جہاز دریا سمندر سورج چاند ستارے رات تین چار پائے مویشی باریستان جل شانہ نے محض اپنے لطف و کرم سے مفت ہمارے کام میں لگا رکھے ہیں.بایں معنی کہ ان کی خلقت اور فطرت ایسی بنائی ہے کہ بلا أبحرت ہمارے منافع اور مصالح دنیوی کے اتمام وانصرام میں لگے ہوئے ہیں.بلکہ حقیقہ ہماری زندگی و معاش انہیں اشیاء اور قومی طبعی کے وجود پر موقوف ہے.چونکہ ان بڑے بڑے قومی طبعی مثلاً سمندر ہوا سورج چاند ستارگان رات دن وغیرہ پر من حیث الخلق ہم قدرت نہیں رکھتے.اور نہ جبر و قہر ان سے کام لے سکتے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ اپنا فضل و امتنان و احسان جتا کر ہم سے اس مہربانی کی شکر گذاری لینے کے لئے اُن اشیاء کا اور اُن سے ہمیں منافع پہنچنے کا ذکر فرماتا ہے کہ دیکھو ایسی ایسی بڑی لے اور کام میں لگادی تمہاے کشتی تو کہ چھے سمندرمیں اسکے حکم سے اور تمہارے کام میں لگا دیں ندیاں اور کام میں لگادیا تمہارے سورج اور چاند ایک دستور پر اور کام میں لگا دیا تمہارے رات اور دن کو ۱۲ ان اور ایسے ہی کام میں اگا دیا تمہارے اُونٹ کو ۱۳ لہ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے بس میں کیا زمین والی چیز کو درشتیان در بائیں اسی کے حکم سے چلتی ہیں " کہ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے اختیار میں کر دیا جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے ۱۲

Page 203

194 زبر دست چیزیں جن پر تمہارے دست قدرت کو رسائی مکن نہ تھی مفت میں میں نے تمہارے کام میں لگادی ہیں.اُس کے بعنے خدا کے ہمارے کام میں ان اشیاء کو لگا دینے یا ہما سے انکو کام میں لانے کے معنی ہیں کہ ہمارے تمام منافع اور مصالح کا مدار ان سہی اشیاء کے وجود پر ہو.اور یہ سب تار و پود ہستی اور ہنگامہ با آب و تاب انہیں اشیاء کی مرد اور ذریعے سے نہھتا اور پیل رہا ہے.جولوگ قانون قدرت میں غور و فکر کرتے ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں کہ کس طرح پر ہم بعض قومی قدرت سے قدرتی طور پر اور بعض اشیاء کے خود استعمال صحیح سے متمتع ہو سکتے ہیں ہورہے ہیں.اہلِ یورپ نے انہیں قولے قدرت کی طرف توجہ کرنے اور اُنکے استعمال صحیح (تسخیر سے مثلاً ایک سٹیم (بخار) ہی کی تسخیر اور کام میں لانے سے کیسے کیسے منافع ایک دربار کی اور اُٹھائے ہیں.کیسے بیش بہا انجمن ایجاد کئے ہیں کہ تجارت اور تمول میں اہل عالم پر سبقت لے گئے.یہی عمل تسخیر ہے جسے قادر مطلق رحیم خدا نے فطرتاً بتفاوت پر انسان میں ودیعت رکھا ہے.مالا مال اور خوشحال وہ لوگ ہوئے جنہوں نے اس قدرتی عطیے اور فیض وہی سے کام لیا.یہ وہ عمل تسخیر نہیں ہے جسے عوام کالا تمام ڈھونڈھتے پھرتے ہیں اور شب و روز فضول جہد و مجا ہارے میں سرگردان اور منہمک رہتے ہیں.یا کوئی شخص کسی قسم کا کلمہ و کلام پڑھ کر سورج اور چاند کو مسخر کر سکتا ہے یا اُن کی معمولی قدرتی رفتار اور حرکات میں فرق ڈال سکتا ہے.نہیں نہیں یہ وہی قدرتی تسخیر ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے.اور اُسی ہی کو باری تعالیٰ امتنانا اور احساناً یاد دلاتا ہے.سعدی نے اس موقع پر کیا خوب کہا ہے.اور کیا خوب اس تسخیرو تسخیر کا مطلب حل کیا ہے.گویا سات سو برس قبل عقلمند پادری صاب کے مجہول اعتراض کا جواب دیدیا ہے ہے ابرومه و خورشید و فلک در کارند تا تو نانے بلکن آرمی و بغطات نخوری همه از بهر تو گشته و فرمانبردار شرط انصاف نباشند که تو فرمان نبری

Page 204

196 کیوں صاحب ! اب بھی سختر کے معنی حل ہوئے یا نہیں.پیچ گر اسپر بھی نہ تم سمجھو تو میں تم سے خدا سمجھے اجی جناب پادری صاحب! یہ وہ تسخیر نہیں جس کی اُستاد صاحب آپ کو تعلیم کرتے ہیں.کہ اگر تم رائی کے دانے کے برابر ایمان رکھتے تو اگر پہاڑ کو کہتے کہ اپنی جگہ سے مل جا تو مل جاتا ہے اب ہم مضمون آیت متنازعہ فیہا کی طرف رجوع کرتے ہیں.اصل قصہ یوں ہے کہ بنی اسرائیل میں پہلے پہل حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوا سے ایک خاص کام جس کا ذکر انعام کے طور پر باری تعالیٰ اس آیت میں کرتا ہے وہ بات یہ ہو کہ حضرت سلیمان نے جہازوں کے دو بیڑے بنائے تھے.ایک خلیج فارس اور بحر ہند میں.دوسرا بحر روم میں چلتا تھا.اس امر کا ثبوت معتبر یہودی تاریخ سے سُن لیجئے.سلاطین اول ۹ باب ۲۶- پھر سلیمان بادشاہ نے عصیون جبر میں جو ایلوت کے نزدیک ہے.دریائے قلزم کے کنارے پر جو دوم کی سرزمین ہے.جہازوں کے بحر بنائے اور حیرام نے اس بحر میں اپنے چا کہ ملاح جو سمندر کے حال سے آگاہ تھے سلیمان کے چاکروں کے ساتھ کر کے بھیجوائے اور دے او غیر کر گئے.(اور دیکھو اخبار الایام ۲ باب ۲-۱۶) اختبار الا یام دوم ۲ باب ۱۹.بادشاہ کے بہاز میرام کے نوکروں کے ساتھ پرمیس کو جاتے اور وہاں سے اُن پر تین برس میں ایک بار سونا اور روپا اور ہاتھی دانت اور بندر اور مور اُس کے لیے بھیجتے تھے.چونکہ زمانہ سابق میں جہاز کا چلنا صرف ہوا کی موافقت اور سازگاری ہی پر موقوف تھا اور حضرت سلیمان کے جہاز توفیق الہی ہوا کی ساز گاری سے حسب المرام چلتے اور کام دیتے تھے.بنا براں باری تعالیٰ اس جگہ امتنانا ریح پہنے ہوا کا ذکر کرتا ہے کہ ہم نے ہوا اسکے کام میں لگا دی.اور اسلئے کہ ہوا ہی محرک اور منشائے جہاز رانی کی متم اعظم تھی.

Page 205

۱۹۸ ہواہی کے ذکر پر اکتفا کیا اور کنایہ جہاز رانی مراد رکھی.اس آیت کے آگے فرمایا ہے.عُدُوهَا شَهرُ رَوَاحُهَا شهر سیپاره ۲۲- سوره سبا ، رکوع ۲ - - اس میں ان جہازوں کے سفر اور ملے مسافت کا بیان ہو کہ صبح و شام میں اتنی مسافت لے کر جاتے تھے.جو اُس زمانے میں لحاظ سفر بتی کے ایک مہینے کی راہ ہوتی تھی.بیشک اُس ابتدائی زمانے میں سفر یہ ہی کی دشواریوں اور صعوبتوں اور راہوں کے محفوظ و مامون نہ ہونے پر اگر نظر کی جاوے تو جہاز رانی جس کے ذریعے سے خشکی کی کوسوں کی راہ چند ہو الین گھنٹوں میں طے ہو جاتی تھی.خدا کے فضل اور قدرت کی ایک عظیم الشان آیت (نشانی) تھی.اور بنی اسرائیل کے لئے خصوصا جنہیں اوّل اوّل خدا نے یہ فن عطا کیا.خدا کے احسانات کے تذکر کی بڑی بھاری نشانی تھی.قرآن مجید کا یہ عجیب اور مخصوص طرز ہے کہ اس میں باری تعالیٰ انسان کو و منافع اور فوائد جو انسان قوی قدرت کے استعمال سے یا اللہ تعالیٰ کے محض فیض سے ان اشیاء سے حاصل کرتا ہے یاد دلا کر اور اپنا علتہ العلل ہونا اس کے ذہن نشین کرا کر اسکو اپنی طرف یلاتا ہو اور یہ مجیب طریقہ انسانی قوی پر تاثیر کرنیکا ہو جو حقیقہ قرآن کریم ہی سے مخصوص ہے اور اس بیان قوانین قدرت سے تمام قرآن لبریز ہو.ایسا ہی اس آیت میں بھی اس عادت جاریہ کے موافق حضرت سلیمان پر انعام و فضل کا ذکر کیا ہے.اس سے آگے والی آیت یہ ہے.تَجْرِي بِاخرة إلى الأَرْضِ التي باركنا فيها- سیپاره - سوره انبياء- ركوع - - چھلتے تھے وہ جہاز اُسکے سلیمان حکم سو اس زمین کیطرت جسمیں ہم نے برکت دیں.اس کا مطلب یہ ہو کہ وہ جہاز حضرت سلیمان کے حکم سے بلاد افریقہ یا ہند سے ہو کہ ارض شام کو آتے تھے.اعتراض.قرآن نے مریم مسیح علیہ السلام کی ماں کو اخت ہارون.ہارون کی بہن کہا.یہ بات صحیح نہیں.جواب سننے.نے صبح اُس کی ایک مہینے کی اور شام اس کی ایک مہینے کی ۱

Page 206

199 (1) معترض عیسائی لوگو ! کوئی الہامی اور روح القدس کی لکھائی ہوئی تاریخ ایسی نہیں.جس میں مریم کے خاندان کا مفصل حال مرقوم ہو.اور ایسی بھی کوئی کتاب عیسائیوں کے گھر میں نہیں جس سے مریم کے بھائیوں اور ماں باپ وغیرہ رشتے داروں کے نام کا یقینی پتہ لگے.پھر قرآن کے کلمہ اخت ہارون پر آپکا اعتراض کیا.(۲) پادری لوگو ! تم نسب ناموں اور قصوں پر اعتراض نہ کیا کرو کیونکہ پولوس لمطاوس کے پہلے خط میں لکھتا ہو.کہانیوں اور بے حد نسب ناموں پر لے ناموں پر لحاظ نہ کریں.یہ سب تکرار کا باعث ہوتا ہو.نہ تربیت الہی کا جو ایمان سے ہے.۱.طم طاؤس باب ۴.(۳) سنو.انجیل متی کی ابتدا میں مسیح کو ابن داود اور داؤد کو ابن ابراہیم لکھا ہو.میتی باب ! حالانکہ مسیح اور داؤد کے درمیان اور داؤد و ابراہیم کے مابین پشتها پشت کا فرق ہے.بلکہ بقول تمہارے مسیح ابن داؤد ہی نہیں.(۲) سنو ! البیسبات کو ہارون کی بیٹی کہا گیا.لوقا - باب ۵.حالانکہ الیسات اور ذکریا کے زمانے سے جن کا ذکر لو قانے کیا ہے بہت ہی مدت پہلے ہارون کر چکے تھے.اور ایسبات اور ہارون میں پیش ہا پشت کا فرق ہو ر ہنسی.اجی حضرت یہ الیسبات انگلستان کی ملکہ نہیں ہے.بلکہ اس سے بہت پہلے گزر چکی ہے) بات یہ ہے ناموں میں اشتراک بھی ہوتا ہے.دیکھو یوسف اور یعقوب مسیح کے بھائی بھی ہیں اور ان سے سینکڑوں برس پہلے یوسف اور یعقوب اسحاق نبی کے پوتے اور بیٹے بھی گزرے ہیں کیا ممکن نہیں کہ ایک ہارون موسی کے بھائی ہوں اور دوسرے مریم کے.(4) سنو ! عرب میں آج اور اخت کا لفظ وسیع معنوں میں مستعمل ہوتا ہو.حقیقی بھائی اور ایک ہی پشت کے بھائی پر محدود نہیں.دیکھو قرآن - إلى تَعُودَ أَخَاهُمُ صَالِحًا - سیپاره ۱۲ - سوره هود - رکوع ۶ - لے نمود کی طرف اپنے بھائی صالح ۱۲ -

Page 207

۲۰۰ و إلى عاد اخاهم هودا - سیپاره سوره هود - رکوع.حالانکہ صالح اور مہور اپنی اپنی قوم کے حقیقی بھائی نہ تھے.اور زرقانی شرح مواہب لدنیہ میں ازواج کی تاریخ میں صفیہ کے قصے میں لکھا ہو کہ صفیہ بی بی پر جو خیبر کے یہود سے تھیں.رسول اللہ کی اور بیبیوں نے کچھ طعن کیا اور صفیہ نے اُنکے طعن وتشنیع کا تذکرہ اپنے خاوند محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا.تونے کیوں نہ کہا.ابی هَارُونَ وَعَمِّى مُوسَى وَزَوجِي مُحَمَّدُم - دیکھو یہاں ہارون موسی نبی کے بھائی کو اب یعنی باپ کہا.حالانکہ بہت مدت پہلے گزر چکے.عرب کے لوگ عمدہ تلوار کو اخو ثقہ اور بڑے بہادر کو اخو غمرات الموت کہتے ہیں.غرض تھوڑے بہت تعلق پر اخوت کا اطلاق ہوتا ہو.مریم صدیقہ کا ہنوں میں پلی اور ذکریا کا ہن اُسکے قریب رشتے دار تھے.اور کاہن بے ریب و تر دو ہارون کے بھائی تھے.الی بات ہارون کی بیٹی مریم کی قریبی رشتے دار تھی.دیکھو لو قا.اباب.پس کیا اتعجب ہے.اگر قرآن نے کہد یا مریم ہارون کی بہن تھی.سوال - لِي لكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَرَ سيارة ٢٦ - سورة فتحنا - مركوع - وا اسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنین - سیپاره ۲۶- سوره محمد - رکوع ۲- ران آیات اور انکے امثال سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا گنہ گار ہونا ثابت ہوتا ہے.جواب.پھر کیا ہوا.سوچو تو سہی سیخ طعون بنیں اور اُن کی الوہیت اور خدائی میں بٹا نہ لگے.بایں ہمہ گناہگاری کہ تمام عیسائیوں کے معاصی سے گنہ گار ہوئے.اور بقبول ایوب عورت کے شکم سے نکل کر صادق نہیں ٹھہر سکتے تھے.دیکھو ایوب.وُہ جو غور سے مہ اور عاد کی طرف اُن کے بھائی ہود کو ۱۲ - له تاکہ بخشے اللہ تیرے پہلے اور پچھلے گناہوں کو ۱۲ - سلہ اور مغفرت مانگ اپنے لئے اور مومنوں کے لئے ۱۲.

Page 208

پیدا ہوا.کیا ہے کہ صادق ٹھہرے.۱۵ باب ۱۴- ایوب - پھر مریم جب بگناه مو روتی آدم گنہگار تھی.تو مسیح کو کوئی پاک نہیں ٹھہر سکتا.کون ہے جو نا پاک سے پاک نکالے.کوئی نہیں.ایوب ۱۴ باب.اور پھر عیسائیوں میں تمام آدمی آدم کے گناہ سے گہنگار میں اور آدم کا گناہ عورت سے شروع ہوا.تو مریم اور اس کا بیٹا کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں.ہوا.تو اور کی پس گنہگار اگر الوہیت سے معزول نہیں تو منہ گار نبوت اور رسالت سے کیسے معزول سے معزول نہیں تو گنہ اور سے کیسے مع ہو سکتا ہے.اور سنو ! کتب مقدسہ کا محاورہ ہے.مورث اعلی کا نام لیکر قوم کو مخاطب کیا جاتا ہے.دیکھو یثرون (یعقوب) موٹا ہوا.اور اس نے لات ماری تو تو موٹا ہوگیا چربی میں چھپ گیا.خالق کو چھوڑ دیا.استثنا ۳ باب ۹-۱۵- یعقوب کو جیسی اُسکی روشیں ہیں.سمراء بیگا.۱۲ باب ۲.ہوشیع.یعقوب کو اُس کا گناہ اور اسرائیل کو اُس کی خطا جتاؤں.میکه ۳ باب ۸.یہ تو عہد عتیق کا محاورہ سنایا.اب عہد جدید کو سنیئے.اس نے تو حد کر دی ہے.سنو سنو سنو.مسیح نے ہمیں مول لیکر شریعت سے چھوڑایا.کہ وہ ہمارے بدلے میں لعنت ہوا.نامه گلتیان ۳ باب ۱۳- ۲ قرنتی ۵ باب ۲۱ - پس میں کہتا ہوں.جب صاحب قوم قوم کے گناہ سے گنہگار کہا جاتا ہے اور جب قدم کو صاحب قوم کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے.تو آپ ان آیات میں جن سے محمدؐ صلی اللہ علیہ وسلم کا گنہگار ہونا ثابت کرتے ہیں.اس امر کو کیوں فرو گذاشت کئے دیتے ہیں.با اینہم جن آیات سے آپ لوگ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت الزام قائم کرتے ہیں.ان میں یقینی طور پر بلحاظ عربی بول چال کے اعتراض ہو ہی نہیں سکتا.مثلاً سوچو آیت واسْتَغْفِرُ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنین میں ہم کہتے ہیں.وَلِلْمُؤْمِنِينَ والا واو عطف فسیری کا واؤ ہے.اور و او تفسیری خود قرآن میں موجود ہو.دیکھو سور یا رعد -

Page 209

۲۰۲ تلك آيات الكتاب والذي أُنزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْحَقِّ بباره سوره رعد انا ايَاتُ وَالَّذِي تلال ايات الكتب وقران مبین - سیپاره ۱۳ - سوره حجر - رکوع ۱ - آیت وَوَجَدَكَ مالا میں کیا ہم نہیں کہ سکتے کہ امت مخاطب ہے اور ضال عاشق اور محب کو بھی کہتے ہیں.دیکھو محاورہ قرآنی.ވ الك إِن ضَلَالِكَ الْقَدِيمِ سیپاره ۱۳ سوره یوسف.رکوع :: یہ بات یوسف کے بھائی یعقوب کو کہتے ہیں.اور یہاں منال کے معنی گراہ کے ہرگز ہیں کیونکہ قرآن حمدصلی الہ علیہ اول سے مالات کی نفی بھی کرتا ہو وہاں فرماتا ہے.ما عمل صَاحِبُكُم وَمَا غولی - سیپاره ۲۷ - سوره نجم - رکوع - ماغوی کے لفظ کے ساتھ ماضل کا خوب بیان ہو گیا.فائدہ گناہوں کے وجود سے کبر اور عجب ریا اور جمعہ کا کیسا علاج ہوتا ہے.اور گناہ کس طرح تو یہ اور تجز انگستار کا باعث ہوتا ہے.یہ موقع اس امر کے بیان کا نہیں.اعتراض إنا فتحنا لک فتحا مُّبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِكَ اور وما تأخر - سیپاره ۲۲ - سوره فتحنا - رکوع - - اس آیت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی دلیری کی اور اپنے آپ کو باہم گنہگاری بے ڈر یقین کیا.جواب حقیقی.ایسے بشارات حسب کتب مقدسہ ضرور ہوا کرتے ہیں.دیکھو تی.پطرس نے جب کہا.ہم نے تیرے لئے سب کچھ چھوڑ دیا.تو مسیح نے فرمایا تم بادشاہت نے یہ آیتیں قرآن کی ہیں ار جواد تارا گیا ہے تیرے پاس خدا سے وہ سچ ہے ۱۲ لہ یہ آیتیں ہیں کتاب کی اور کھلے قرآن کی ۱۲ - سے ہر آئینہ تو اپنی پرانی غلطی میں ہے ۱۲ - ۵۲ نہیں بھٹ کا تمہارا رفیق اور نہ بہکا.سے ہم نے فتح دی تجھ کو فتح ظاہر کرتا کہ بخشے اللہ تمہارے پچھلے اور پہلے گناہوں کو ۱۲.

Page 210

٢٠٣ کے وقت بارہ تختوں پر بیٹھو گے.۱۹ باب ۲۹ متنی.اگر کہو سیمی بشارات اور پطرس کی خوشخبری مشروط تھی.بدون شرط نہیں.تو ہم کہتے ہیں سمجھی اور پطرسی شرط کا تو ذکر انجیل میں نہیں.قرآنی بشارات کا خود قرآن میں ذکر ہے دیکھو آيت لَئِنْ أشركت لتخبطنَ عملك مطلب یہ ہو کہ اگر خاتمہ ایمان پر ہوا.تو تیرے گناہ معان ہیں.اور سفو فتحنا لک فتحا مبینا کے معنے آپ لوگوں کو معلوم نہیں.اس آیہ شریف کی تفسیر کیلئے قرآن ہی عمدہ تفسیر ہے اور وہ آیت مفسرہ آیت اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ هو فتح سے مراد ہے دل پر علوم باری اور آسمانی بادشاہت کے اسرار کا کھولنا اور تب وہ کھلتے ہیں تو تو بہ او خشیت اور خوف الہی پیدا ہوتا ہے جسکے باعث گناہ نہیں رہتے.انسان نئی زندگی پاتا ہے.نیا جلال حاصل کرتا ہے.ایک اور جواب سنیئے میسیع حواریوں کو فرماتے ہیں.جن کو تم بخشو انکے گناہ بخشے جاتے ہیں.اور جنہیں تم نہ بخشو گے نہ بخشے جائیں گے.یوحنا ۲۰ باب ۲۳.بھلا جہاں مچھوں اور ٹوریوں کو گناہ بخشنے کا اختیار ہے.وہاں باری تعالیٰ کو ایک خاتم الانبیاء کے گنا بخشنے کا اختیار کچھ تعجب انگیز اور محل انکار ہے.ہر گز نہیں.بیشک اللہ تعالے نے نبی عرب حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو فتوحات دیں.ظاہری فتوح فتح مکہ غیر جسکے ظہور سے بت پرستی کا استیصال اس شہر سے کیا عرب جیسے بت پرست ملک سے ابد کے لئے ہوگیا.اور تمام دنیا میں توحید ربوبیت کے علاوہ توحید الوہیت کا شور مچ گیا.اور مختلف قبائل عرب لوٹ مار کرتے.منشراب خوری اور جوئے بازی پر فخر بگھارتے سراسر اخلاق مجسم پورے موحد ہو کر نیک چال پر آگئے.اتنی ہدایت پھیلانے سے ہادی کے گناہ معاف نہ ہوئے ہوں.بالکل عقل کے خلاف ہے.اور فتوحات باطنی کا حال آگے لکھ چکا ہوں.

Page 211

اعتراض - سوره طله ، رکوع.جو قرآن سے منہ پھیرے اُس کی معیشت تنگ ہوگی.یہ باطل ہے.کروڑوں قرآن کو نہیں مانتے اور اُن کی معیشت تنگ نہیں.اور متبعان قرآن تنگ ہیں.اور لڑائیوں میں دُکھی ہوئے.جواب بھلا کتب مقدسہ میں نہیں لکھا.ہاں شریر کا چراغ بجھایا جائے گا.۱ باب ۵ - ایوب - تنگ عالی اسکے پاس مستعد ر میگی ۱۸ باب ۱۲- ایوب.وہ ویران شہر میں ۱۸۵ یسے گا.۱۵ باب ۲۸ - پر جانتے ہو.بہت شریہ خوش ہیں.نہیں بات یہ ہے شریروں کی خوشی کرنی تھوڑے دن کی ہے.اور ریا کاروں کی شادمانی لمحے کی.۲۰ باب ۵ - ایوب پس جو لوگ قرآن کو نہیں مانتے.اُن پر معیشت بیشک تنگ ہے.اُن کا چراغ گل ہو گا.معیشت - خنگ تنگ حالی اُن کے پاس مستعد رہیگی.وہ ویران شہروں میں لیں گے.ان کی شادمانی لمحے کی ہے.قرآن بھی کہتا ہے.مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيل- پونجی دُنیا کی تھوڑی ہے.دوسرے جملہ اعتراض کا جواب.وہ دکھ جو خدا کے لئے ہو ایک بخشش ہے.فلپسی باب ۲۹ - وہ دکھ جو خدا کے لئے ہر خوشی کا باعث ہے.اعمال در باب ۴۱.کیونکہ باپ کے ہاتھ سے کتا ہے.یوحنا ، ایاب ۱۱- یہ پیالہ ہے نہ سمندر.زبور ۷۵ - ۸ - اسمیں غوطہ لگا کر مرتے نہیں ۷۵-۸ اور آرام سے نا امید نہیں.یسعیاہ ۴۳ باب ۲- ۲ قرنتی ۴ باب ۸ - پادری صاحبو.یہ ایسی بات ہے.جیسی لوقا کہتے ہیں.تمہارے سر کے بال بھی نہ ہیں.اور یہ بھی کہ دوسے قتل کرینگے لوقا ۲۱ باب ۱۶- ۱۸ - اورمتی ۲۴ باب ۹ - ایک اورحقیقی جواب بخاری میں لکھا ہو.منگ کے معنی شقاوت اور بار بختی کے ہیں.اور یہی معنی ابن عباس نے لیئے ہیں.پس سوال کا موقع ہی نہ رہا.اعتراض.سورہ کہف میں سکندر کا قصہ ایسا عجیب و غریب بیان ہوا ہر جسکی کچھ حد نہیں.یہ قصہ مصنف قرآن کی کم علمی پر بڑی دلیل ہو.سکندر روحی کے روز نا مجھے موجود ہیں.اُن میں کہیں یہ موجود نہیں.سکند سورج ڈوبنے اور سورج پڑھنے کی جگہ نک

Page 212

۲۰۵ گیا ہے.اور زمین چونکہ گول سے ممکن ہی نہیں سورج کہیں دلدل میں ڈوبتا ہو.کسی مورخ کی شہادت سے ثابت کرو.اور یونانیوں کی تاریخ ٹولو.پھر دیوار اور یا جوج کا پتہ دو.اتنی بڑی مخلوق کہاں کم ہو.جواب - اسکندر کا نام تمام قرآن میں نہیں سورہ کہف میں جو ایک جز و قرلکن ہے کہاں ہوگا جب محل میں نہیں تو جزو میں ہونا محال ہے.سورہ کہف میں میں بادشاہ کا ذکر ہے اُس کی قرآن نے تعریف ہی کی ہے.اور رومی سکندر ایک ثبت پرست کافر تھا.جو شرا بجنوری میں ہلاک ہوا.قرآن کہیں شہیدوں کی تعریف کرتا ہے.ہاں سورہ کہف میں ذوالقرنین کا تذکرہ ہے (زو) کے معنے صاحب یا والا کے ہیں.اور قرنین تشنیہ ہے قرآن کا.قرآن کے معنی سینگ - قرنین کے معنے دو سینگ.ذوالقرنین کے معنے دو سینگ والا.ذوالقرنین کے معنی سکندر ہرگز نہیں.ادنیٰ عربی دان سے یہ معنے پوچھ لو.محمد رسول اللہ صلعم نے اپنی نبوت میں یہود اور نصاری کو کہا تھا کہ مجھے اللہ تعالے الہامی کتاب کا مستر بنایا اور جو کچھ اگلی امتوں نے الہامی کتابوں کے فہم میں غلطی کی.اور غلطی سے ضروری مسائل میں باہم اختلاف کیا.یا حق کے مخالف ہو گئے.اس اختلاف کے مٹانے کو اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول کیا ہے.ضرورت نبوت کے اور وجوہ بھی ہیں جو ہم نے اسی کتاب میں کچھ اُن میں سے لکھے.مگر یہ بھی ضرورت تھی.قرآن میں میرے اس قول کی تصدیق یہ ہے.أن هذا القرآن يقص على بَنِي إِسْرَائِيلَ اَكْثَرَ الَّ فِى هُمْ فِيهِ يختَلِفُونَ - سيارة ۲۰ - سوره نمل - رکوع - - دیکھو صدوقی قیامت کے منکر تھے.انکو کیسے کیسے زبر دست دلائل قانون قدرت ے یہ قرآن بیان کرتا ہے.بنی اسرائیل پر اکثر وہ کہ جس میں اختلاف کرتے تھے

Page 213

سے قیامت کا ہونا بتلایا مسیح نے قیام کے وجود پر گواہی دی.مگر وہ گواہی بے دلیل قانون قدرت کے صرف ایک نقلی بات کے اشارے سے تھی.بخلاف دلائل قرآن.عیسائی خاکسا میسیج کی الوہیت کے قائل تھے.اُن کو رنگا رنگ یقین دلائل سمو قائل کیا دیکھو مبحث ابطال الوہیت مسیح مختصر یہ کہ سیخ کوجو تم ان اللہ کہتے ہو کس معنی کرکے.اگر ابن کے حقیقی معنی لیتے ہو تو ان معنوں میں بیٹے کا باپ کے نطفے اور آپکی جور و بیٹے کی ماں کے رحم سے ہونا ضرور ہے.اور مریم کا خدا کی جو رو ہونا تمہارے مذہب میں اور گل عقلاء کی نقل میں مسلم نہیں.اسپر قرآن نے کہا.الى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَهُ اور صاحبہ یعنی جورو کا قد کے لئے ہونا تمہارے ہاں ستم ہو پر بیٹا نے حقیقی کسے جگا و اگر او معنی ہیں.توان مانی نہیں ک ی ن ک ا ت وعلق اور علم کامل محیط گل اشیا لازم ہے.اور مسیح میں دونوں مفقود ہیں.دیکھو نفی صفت خلق میں متنی ۲۰ باب ۲۳ - اور تھی صفت علم میں - مرقس ۱۳ باب ۳۲ -متی ۲۴ باب ۳۶ - اعمال - باب ے.یہ دلیل قرآن میں یوں ہے.ان يكون لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَهُ صَاحِبَةً وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ بِكُلِّ ٣ شَيْءٍ عَلِيمٌ - سیپاره - - رکوع -14 - سُوره انعام - کفارے کے ابطال میں جس نے عیسائیوں کو ارتکاب معاصی میں بیباک کر رکھا تھا اور یقین دلایا تھا کہ میسج سب کے بدلے ملعون ہوئے.گلتی - با سال : لا تَزِرُ وَازِرَة و کہہ کر مٹایا.غرض رسول خدا صلعمہ کے دعوئی مفسر ہونے پر اہل کتاب نے چند سوال کیئے.ایک روح کے متعلق کیونکہ قدم روح کا ایک جہان قائل تھا.اور اس اعتقاد نے رُوح کے لے کیونکر ہوا اسکے لئے لڑکیا حالانکہ اسکی عورت نہیں ہے.سہلے کہاں سے اسے لڑکا ہوگا.حالانکہ اسکی عورت نہیں ہے اور ہر چیز کو پیدا کیا اور وہی ہر چیز کا جاننے والا ہے ".

Page 214

۲۰۷ غیر مخلوق مانے میں پھنسا رکھا تھا.اسی واسطے یہود نے اور اُن کے ساتھ اور لوگوں نے پوچھا روح کی نسبت فرمائیے.جیسے قرآن میں ہو.يَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ.پھر اُن کے جواب میں حکم ہوا.قل الروح من امر رتی تو کہہ کہ روح میرے رب کے حکم سے بنی ہو.یعنی مخلوق ہے قدیم نہیں.اور لوگوںکو جتایا کہ اگر روح پہلے سے موجود ہوتی تو اسے علم بھی ہوتا.لاکن دیکھتے ہو.ا الله أَخْرَجَكُم مِنْ بَطُونِ أُمَّهَاتِكُمُ لا تَعْلَمُونَ شَيْئًا.اسی طرح چند لوگوں نے علمائے یہود سے دانیال نبی کی مشکل کتاب میں سرہ باب کی تفسیر کو چھی.دیکھو قرآن سیپارہ ۶ سورة کہف - رکوع ۲- يَسْتَلُونَكَ عَن ذِى القرنين - تجھ سے پوچھتے ہیں ذوالقرنین کو.یہ وہی دوسیلنگ کا مینڈھا ہے جسے دانیال نے خواب میں دیکھا.دیکھو دانیال ۸ باب ۴.نبی عرب نے بتایا.دو سینگ والا مینڈھا جسے دانیال نے خواب میں دیکھا.وہ ایک بڑا بادشاہ ہے.جس کا نسلط ایک خاص زمین کی مشرق اور مغرب میں ہوا.پادری صاحبان اس کا نام کی قباد بھی مشہور ہے جو مشرق اور مغرب میدید اور ایلام لینے ایران و فارس کا ہے اسے پانچ سو پینتیس سال پہلے میں مادی قوم کا بادشاہ تھا.کسی خاص ملک کی مشرق اور مغرب پر سورج کا نکلنا اور ڈوبنا بنا دینا مقدس کتب عہد عتیق و جدید کا خاص محاورہ ہے.جیسے دانیال کی کتاب ۴ باب ۲۲ میں.اور ذکریا، باب میں لکھا ہے بند کر تیری سلطنت زمین کی انتہا تک پہنچے.اور میں اپنے لوگوں کو سورج کے نکلنے کے ملک اور اس کے غروب ہونے کے مُلک سے چھوڑ الاؤ نگا منصف عیسائیو! دیکھو ذکریا کی الہامی کتاب میں صاف لکھا ہے.سورج کے نکلنے اور غروب ہونے کے ملک سے.اور قرآن میں اعلیٰ درجے کی راستی سے کہا ہے.ذوالقرنین کو ایسا معلوم ہوا کہ سورج دلدل میں ڈوبتا ہے.ے اوراللہ نے نکالا تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے تم کچھ نہ جانتے تھے ۱۲.٠١٢٠

Page 215

Y-A جہاں فرمایا ہے.وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِة - سیپاره ۱۶ - رکوع ۲ - سوره کهف.انصاف تو کرو.کونسا کلام قابل اعترض ہے.اب رہی یا جوج ماجوج کی بات.سنو - ماجوج حسب باب دہم پیدائیش اور پہلی تاریخ کے باب ۵ کے یافث کا بیٹا ہے.اور حسب ۳۸ باب از قبیل نہر یورال کی مشرق میں بسا تھا.اور یا جوج حسب تاریخ ایام اول ۵ باب اور سلاطین اول کے ۱۵ باب و 14 یوٹیل بن روبن کا بیٹا ہو.اور اُس کی اولاد حسب فصول مذکورہ ممالک ماجوج بن یافت میں بسائی گئی.یعنے وہی یورال ندی کے مشرقی حصے میں.اور حسب حز قیل باب ۳۸ و ۵۵ - یا جوج رشید اور سبیر یہ پر مسلط ہوئے.اُن کی نسبت یہ بھی لکھا ہو کہ فارس اور جرمن اُن کے ساتھ ہونگے.اور کوش کی اولاد پر جو جیحون کے متصل باقی ہو.اور باب ۳۸ ستر قبیل میں ہے، گوھر کی اولا د یعنے حز مرد اور ہرات والوں پر اُن کا تسلط ہوگا.اور اسی فصل سے معلوم ہوتا ہو.کابل والے یعنے قبط اس کے ساتھ ہونگے.اور مکاشفات باب ۲۰ سے معلوم ہوتا ہو کہ یا جوج ماجوج کا زور اطراف ممالک معتقدین خدا وند چار یار نئی عرب پر ہزار سال ہجری کے بعد ہو گا.اور صاف ظاہر ہے کہ یا جوج والی رشیہ ہرات کے قریب پہنچ گیا.اور ماجوج جن کے قبائل جرمن اور شمال فرانس نارمنڈے اور انگلینڈ وغیرہ میں نہیں بلاء میں مطابق ہزار سال ہجری بلاد اسلام پر مسلط ہونے لگے غرض حسب مکاشفات - ۲ باب ممتاز یا جوج ماجوج وہ ہیں جو بلاد اسلام پر مسلط ہوں.اور کیقباد اور ذو القرنین کی دیوار.وہ ہے.جو ما بین آرمینیا اور آذربائجان بنام بارہ در بند اور یورال کی چوٹیوں پر قریب پانسو پینتیس سال قبل مسیح کے بنائی گئی.اور پلونا کے شمال میں جو قلعہ بنا ہے وہ بھی اسی میں ہے.لے پایا اس کو ڈوبتا ہے دلدل کے پیشے میں ۱۲ --

Page 216

ور چونه یه یا جوج ماجوج عیسائی شاخ یاز دہم ہرقل کے مذہب پر ہیں جس کو حسب دانیال ، باب نے ۱۰۰ حیوان فرمایا ہے اور وسیع کو اپنا ولی خیال کرتے ہیں.اور اکثر مریمکو معبود بناتے ہیں.اس واسطے قرآن کہتا ہے.الحب الذِينَ كَفَرُوا أَن يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِنْ دُونِي أَوْلِيَاءَ إِنَّا اَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ نُزُلا سیپاره ۱۶ - رکوع ۳ - سوره كهف - اور ان لوگوں کے دنیوی کمالات پر اور ان کی ظاہری صنعت پر جیسے.ریل تار.فوٹو گراف وغیرہ وغیرہ بنائے گئے.فرماتا ہے.هل ننتتكُم بِالاخْسَرِينَ أَعْمَالاً الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَلوة الدنيا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ مُنْعًا- أولئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِايَاتِ ربهم ولقائه تحبطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنا سیپاره ۱۶ - رکوع ۳ - سوره کهف.ވ اور اسی واسطے ہماری قصص کی کتابوں میں ان کو دراز گوش لکھا ہے کیونکہ درازگوش احمق کو کہتے ہیں.اور الہیات میں جو ضروری چیز ہے.ان کی عقل اسپر ہرگز رسا اور پوری نہیں.گو یا الہیات سے اُن کی تصویر یوں کو مناسبت ہی نہیں.اور جو اسلامی کتب میں کثرت اولاد یا جوج کی نسبت لکھا ہو.وہ بالکل سچ ہو.دیکھو با اینکہ لندن سے ہزاروں باہر نکل جاتے ہیں.تب بھی چھتیس لاکھ کے قریب ایک شہر میں ہیں.منصف عیسائیو غور کرو اور سو مصنف قرآن کتنا بڑا عالم ہو اوراس کا علم کیسا ے کیا کا فون نے سمجھا کہ سو میرے بندوں کو میرے مددگار بندوں نے کاروں کیلئے جہنم کو بہانہ بنایا ہوا ہ ہم بتا دیں تم کو کن کے کیئے اکارت ہیں وہ لوگ جن کی دور دنیا کی زندگانی ہیں.بھٹک رہے ہیں.اور وہ لوگ جانتے ہیں کہ خوب بناتے ہیں کام وہ ہی ہیں جو منکر ہوئے اپنے رب کی نشانیوں سے اور اسکے ملنے سے مٹ گئے.اُن کے کیئے پھر نہ کھڑی کرینگے ہم ان کے واسطے قیامت کے دن تول ۱۳

Page 217

۲۱۰ ہونے پر محیط ہو.یہ حکیم محمد حسن صاحب اور بھی کی کتابوں میں مفصل ہے.اعتراض - طہ میں ہو ضمیری نے بنی اسرائیل کی پرستش کے لئے بچھڑ نبھایا توریت سے صاف ظاہر ہے.ہارون نے بچھڑو بنایا.نہ ضمیری نے دیکھو خروج ۳۲.جواب.ضمیری کا نام قرآن میں نہیں.ثبوت - خروج ۳۲ باب ۱- کا اصل ترجمہ مع تفسیر اور اسکی صحت کے سنو.(1) جب قوم نے دیکھا موسٹی کی معاودت میں پہاڑ سے دیر ہوئی.تو ہارون کے پاس جمع ہو کے کہا ہمارے لئے قضات اور ائمہ بنا جو ہمارے آگے آگے چلیں.کیونکہ موسی جو ملک نہیں کیا ہوا.رشی ربی شلومو اسحق کی تفسیر - مصر سے ہم کو چھڑا جب موسی پہاڑ پر گئے تھے تو چالیس دن کا وعدہ کر کے گئے تھے کہ اس عرصے میں لوڈونگا مقصود موسی کا چالیس دن سوائے روز روانگی کے تھا.مگر قوم نے مع روز روانگی چالیش دن سمجھا جب اس عرصے میں موسی نے معاودت نہ فرمائی.تو قوم بے قرار ہوئی.کیونکہ ان کا مقصود شام کے ملک میں جلد پہنچنا تھا.ہوائے شام ان کے سر میں پیچیدہ تھی.اس عرصے میں شیطان نے ان سے کہا موسی مر گئے اور اُنکو موٹی کی صورت دکھائی کہ فرشتے اُنہیں آسمان پر لئے جاتے ہیں.جب قوم کو موسی کے کرنے کا یقین ہوا تو ہارون.درخواست خلیفہ کی گئی.لاکن پاروں کو موسٹی کے وعدے کی کیفیت معلوم تھی کہ ۳۲ سانت میں پہنچ جائیں گے.اس لئے قوم کو اسکے ارادے سے باز رکھنے کے لئے کہا.(۲) ہارون نے اُن سے کہا سونے کے حلقے جو تمہاری عورتوں اور لڑکوں کے کانوں میں ہیں.اُسے نکال کے میرے پاس لاؤ.تفسیر.ہارون کا مقصود یہ تھا.لڑکے اور عورتیں جلدی اپنا زیور نہ رینگی.اس میں اس قدر توقف ہو گا.کہ موسیٰ یہاں پہنچ بھائیں گے.(۳) قوم اُن سونے کے حلقوں کو جو ان کی عورتوں اور لڑکوں کے کانوں میں تھے.اتار

Page 218

۲۱۱ لائی زہارون پاس (۴) تو لے لیا ہارون نے اُسے اُن کے ہاتھ سے اور بند کیا اسے بھٹی میں بنایا اسے اُن لوگوں نے گوسالہ سحر اور کہا یہی بنی اسرائیل تمہارا معبود ہو.جو تم کو ملک مصر سے چھڑ ا لایا.تفسیر.یہ اول آیت ہے جسے لوگ کہتے ہیں.ہارون نے گو سالہ بنا یا ر دہریے اور عیسائی لاکن 4 1 کے 21 4- 4- جمع کا صیغہ ہے جس کے معنی بنایا.لہذا فاعل ااُس کا ہارون نہیں ہو سکتے.علیٰ ہذا القیاس 1 4 4 پی 1.جمع کا لفظ ہے.معنے اس کے ہیں.کہا.ان دونوں لفظوں کا فاعل ایک ہی ہے.وہ بسبب جمع ہونے فعل کے حضرت ہارون نہیں ہو سکتے.تفسیر.رہی.جب مولی مصر سے چلے تو اجنبی قوم ان میں بہت ساحر اور منافق بھی ساتھ ہو لئے تھے.اس واقعے میں جب ہارون نے زیورات کو آگ میں ڈالا تو سحرہ منافقوں نے وہاں جا کے اپنے سحر سے اُس کو گوسالہ بنا کے بنی اسرائیل کو اس کی پرستش کے لیے بہکایا.(۵) جب ہارون نے دیکھا تو ایک مذبیح اپنے سامنے بنایا.اور فرما دیا.کل خُدا کے لئے حج ہے.تفسیر.ہارون کے بھانجے حور نے گوسالہ پرستی سے منع کیا.تو لوگوں نے اُن کو شہید کیا.ہارون نے روک کے لئے تدبیر سوچی مذبع بنانے کا حکم دیا.مطلب یہ تھا.مذبح بنانے میں دیر لگے گی.اور کچھ حج میں اتنے میں موسیٰ پہنچ جائینگے.(۲۱) پھر موسی نے ہارون سے کہا.اس قوم نے تمہارا کیا کیا کہ اسکو ایسے سخت گناہ میں قبلہ کیا.(۲۲) ہارون نے کہا.آپ ناراض نہ ہوں.آپ جانتے ہیں یہ قوم شریر ہے (۲۳) ان لوگوں نے مجھ سے کہا ہمارے لئے قضات منفرد کر جو ہمارے آگے چلیں.وہ مرد موسیٰ جو تم کو مصر سے

Page 219

PIP چھڑان یا ہم نہیں جانتے اُسے کیا ہوا.(۲۳) میں نے اُن سے کہا سونے کے زیور جدا کر و.تو اُن لوگوں نے مجھے دیا اور میں نے اُسے آگ میں ڈالا تو یہ بھٹو نکلا.تفسیر یہ دوسرا مقام ہو جب ہارون کا گوسالہ بنا نا نکالتے ہیں.حالانکہ اس سے یہ بات نہیں نکلتی.(۳۵) اور فنا کیا خدا نے اس جماعت کو اسلئے کہ بنایا انہوں نے گوسالہ اُس کو جیسے ہارون نے آمادہ کیا.تفسیر.انہوں نے اُس سونے کو جسے ہارون نے آمادہ کیا ضرب دینار کو گوسالہ بنایا تو ان پر غضب ہوا.بیه ترجمه مولوی عنایت رسول صاحب پڑ یا کوئی کا ہو اور مولوی صاحب کا کہنا بالکل راست سے خود کتب مقدسہ اسکی تصدیق کرتی ہیں.دیکھو زبور ۱۰۷-۱۹.انہوں نے جواب میں ایک بچھڑا بنایا.اور ڈھالی ہوئی مورت کے آگے سجدہ کیا.اور نحمیا ؟ باب ۱۸ - ہاں جب انہوں نے اپنے لئے ایک ڈھالا ہوا بچھڑا بنا یا تھا.اور اعمال ، باب ۱.اور انہوں نے ان دنوں ایک بچھڑا بنایا.ان تمام مقامات میں بچھو کا بنانا کسی جماعت کیطرف منسوب ہے.نہ ہارون کی طرف بلکہ ہارون کو زبور 1914 میں مقدس کہا.اور اسکے حاسدوں کو زمین -- میں غرق کیا.اور زبور ۵ ۱۰-۲۶ - ہارون کو برگزیدہ کہا.گنتی ۰ ۲ باب ۲۴- ہارون کی نسبت الزامات کا ذکر ہے وہاں اس بھاری الزام کا تذکرہ نہیں.علاوہ بریں - خروج ۳۲ باب ۲۴- ہارون فرماتے ہیں.نکا بچھڑو.یہ نہیں فرماتے ہیں نے بنایا.اور ۳۳.آیت میں خدا وند نے موسیٰ سے کہا جس نے میرا گناہ کیا ہے.میں اُسی کو اپنے دفتر سے میٹ ڈونگا.اور خروج ۳۲ باب ۳۵ خدا نے بچھڑو بنانے کے سبب لوگوں یہ مری بھیجی.حالانکہ ہارون نچ کر ہے بلکہ ان کی نسل کے لئے کہانت کا عہدہ وہاں پہاڑ پر تجویز ہوا.اور آج تک ہارون کی اولاد کا بہن ہے.اس مضمون کا بہت حصہ مولوی مفتی فضل رسول صاحب

Page 220

۲۱۳ چریا کوٹی کا ہے.اعتراض من كفر باللهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِ إِلَّا مَنْ كُرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنُ بِالايْمَانِ سیپاره ۱۳ سوره نحل رکوع ۱۴ سے معلوم ہوتا ہی مجبوری جھوٹ بولنا جائز ہے.جواب.پھر کیا اعتراض ہوا.ابراہیم نے بخوف جان اپنی جورو کو بہن کہا.پیدائش ۱۲ باب ۱۳ - ۱۹ ایسا ہی اسحق نے کیا.پیدایش ۲۰ باب ، ولا یعقوب نے جھوٹ سے نبوت لی.اور جھوٹ میں ایسے کامیاب ہوئے کہ عیسو کی اولاد ابدال آباد کیلئے غلام بنگئی.پیدائش ۲۷ باب ۱۹ د ۲۹- داؤد بخوف جان جھوٹ بولے.ا سموئیل ۲۰ باب اور یونتن سے کہا تم نے جھوٹ کہہ دیا.اور ا سموئیل ۲۱ باب ۲ و ۸ و ۱۳ مجھے بادشاہ نے بھیجا ہے اور کہ ہتھیار میرے پاس نہیں اور اپنے آپ کو دیوانہ بنایا.بیباک عیسائی کہتے ہیں داد و ابراہیم و یعقوب معاذ ال اس کے سب خطا کار ہے اللہ تھے الائن رکھیں داؤد وہ ہیں جنکے حق میں حسب مقدسہ کر کے خدا کہتا ہوں داؤد نے کوئی گناہ جز اور یا دالے معاملے کے نہیں گیا.اور خداوند کے کسی حکم سے منہ نہ موڑا اور جب تک جیتا رہا.نیکوکار رہا.دیکھو اسلاطین ۱۵ باب ۵.یہ وہی داؤد جنکے فعل کی سند پر پہنچے کھیتوں سے سبت میں کھایا.دیکھو متی ۱۲ باب ۳.اور ہمیشہ رضامندی پر چلا.اسلاطین ۲ باب ۱۴- ابراهیم راستباز اور یعقوب وہ جس سے خدا راضی اور اسکے مقابلے میں عیسو پر ناراض ہوا.سمسون مبارک اور خدا کی روح سے بھر پور تھا.قضات ۱۳ باب ۲۴.پھر اسی رُوح القدس کے بھر پور نے عشق کیا.زنا کیا.اور کئی دفعہ جھوٹ بولا.قضات 4 باب ا -۱۵- - ۱۵- اگر خدا کی روح سے بھر پور ایسا کر سکتے ہیں تو انجیل نویسوں کی روح سے بھر پور ہونے پر خدا حافظ سلیمان خدا کے بیٹے اور بسیج جیسے ہوئے اُن کا معاملہ عیسائیوں پر مخفی نہیں.- سلاطین ۳ باب ۳ و ۱۱ باب ۵- پطرس حواری عیسی کا عضو اور کلیسیا کا پہلا پتھر وہی ار میں نے بھر کے ساتھ اورامان لانے کے کفر کیا تو نہیں رہی ہیں پر زیر دوستی کی گئی اور اس کا دل اما ایمان

Page 221

۲۱۴ جسکے ہاتھ میں آسمان کی کنجیاں تھیں میسی کو ملعون کہ اٹھا.بھلا لعن میں تو توجیہ ممکن جان پہچان سے انکار کر گیا.اور بارہ تختوں میں سے ایک تخت کا وارث بنا رہا بعفو ہونا.۱ قرنتی - - باب ۱۵ اور پہلا پتھر ہونا میتی ۱۶ باب ۱۸ کنجیوں کا مالک مینتی ۱۶ با ملے یہی پطرس پہلے تو یہ جھوٹ بولتا ہے کہ میں مسیح کو نہیں جانتا.متی ۲۶ باب ۷۰.پھر قسم کھاتا ہے میں مسیح کو نہیں جانتا.متی ۲۶ باب ۷۲ پھر سمیع کو ملعون کہتا ہے اور ملعون کہہ کر بولتا ہے.میں نہیں جانتا.متی ۲۶ باب ۷۴.حقیقی جواب - انسان کی کمزوری کبھی جبر و اکر او یوقت جھوٹ پر مجبور کرتی ہے.آیت مذکورہ سوال میں یہ لکھا ہے کہ ایسی حالت کے جھوٹ پر کفر کا فتویٰ نہیں والا شرک اور جھوٹ کی نسبت قرآن میں جو کچھ موجود ہو اسے دیکھو.لکھا ہو.لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ.اور قرآن میں ہے.إنما يقارى الكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِايَاتِ اللہ اور حدیث میں ہے.تُشْرِكْ بِاللهِ وَإِن تُطِعْتَ أَو حرقت ۱۴ اعتراض - وَالْجَانَ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ - سيپاره ، سورہ تجھی رکوع ۱۳ - ۲۷ آیت.ہم نے جان کو لو نکی آگ سے بنا یا سبحان الہ کیہ فلسفی ہو.جواب یہ سچی فلسفی الہی کلام ہے.تمام وہ لوگ جنکے اچھے اعمال نہیں یا اُنکے اچھے اعمال کم ہیں.وہ دوزخ میں جائینگے.دوزخ کی گود میں رہینگے.وہی انکی ماں ہو دیکھو قرآن أمَّا مَن حَقَّتْ مَوَازِينَا، فَأمَّهُ هَادِيَةٌ وَمَا أدْراكَ مَا هِيه نار حامية - سیپاره ۳۰ - سوره قارعه - رکوع - بھلا جن کی ہاں دور سے کی گرمہ تنگ ہوئی.اردو کی آگ سے نہ بنے ہوں تو پھر کس ہو نہیں.سے جھوٹ وہی لوگ بناتے ہیں جواللہ کی آمدن پر ایمان نہیں لاتے اللہ اللہ کا متریک نہ بنانا اگرچہ کاٹا جائے یا بلایا جائے اس سے اور کیکی تو ہکی ہوئی تو اسکا لن گانا گڑھا اور تجھ کو معلوم ہواکہ وہ کیا ہی آگ ہے دمکتی ہوئی ؟

Page 222

۲۱۵ سنہ سارے شریر شیطان یا شیطان کے فرزند ہیں.یہ سنام باب ۴۴ - منتی ۱۳ باب ۳۹ میتی ۱۶ باب ۲۳ - جس طرح شریر شیطان کا فرزند ہی اور عیسائی مسیح کے فرزند.اُسی طرح دوزخ کی آگ شریہ کی ماں ہے.اور وہ لوؤں کی آگ سے بنا ہو.بھلا صاحب سبب عام شہریروں کی ماں ہادیہ دوزخ تشہیری تو ان اشرار کا شرارتی آپ شیطان دشمن آدم لوؤں سے کیونکر نہ بنا ہوگا.ضرور وہ ہمارا دشمن نار السموم سے بنا وہ تو پہلے ہی سموم نارسی بنا تھا.اور یہی بچی فلسفی ہے.جس کے خلاف پر کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں.اعتراض - سوره بقره - ۳۳- رکوع -4 - طالوت یعنی ساول نے اپنے لشکر کو پانی پلا کر آزمایا.طالوت کا لشکر کو پانی پر آزمانا محمد عقیق میں مذکور نہیں.ہاں طالوت سو ایک سو چون برس پیشتر جدعون قاضی نے اس طرح لشکر کو آزمایا.پس وہی نئی عرب نے غلطی کی کتاب ior قاضی ، باب ۴.سموئیل.جواب.عہد عقیق میں کسی بات کے مذکور نہ ہونے سے بہ لازم نہیں آتا کہ وہ باست نفس الامر میں ہوئی ہی نہیں.دیکھو مستی -- باب ۱۳-۱۲- میں چند نام مذکور ہیں اور سوار رو بابل کوئی نام نہاد عقیق میں موجود نہیں.کیا اب انجیل متی یا اس کا پہلا باب غلط کہدیں.منتی ۷۳ باب ۳۵ میں.بارا خیا کے بیٹے ذکریا کا ذکر کیا ہے.حالانکہ ۲ تاریخ ۲۴ باب ۲۲ یہو یدع نامہ لکھا ہے.محمد عقیق میں یہودی کے دوسر نام کے سکو سے کیا ہم انہیں کو غلط کہدیں.ہ یہودا کے خط : آیت میں ہو.میکائیل نے شیطان سے تکرار کر کے موسی کی لاش کی بابت بحث کی عبرانی.۱.باب ۶ - پچوٹھے کے لئے فرشتوں کو سجانے کا حکم اول تمطاؤس سو باب -- ضرور کر کے شیطان کا عذاب میں مبتلی ہونا.یہ بائیں توریت و ۳ عہد عقیق میں نہیں.تو کیا ان کے مذکور نہ ہونے سے عہد جدید کے روح القدس کی لکھائی کتابیں غلط ہیں.میں کہتا ہوں ایسا نہ ہو یعنے اگر کتاب سموئیل میں سادل کے آزمانے کا ذکر نہیں کیا تو کیا حرج - سموئیل کی کتاب انکار بھی نہیں کرتی.جدعون قاضی نے اگر اپنے لشکر کو پانی پر آزمایاں جیسا کہ پائیے قاضی میں ہے تو کیا اس سے لازم آتا ہے کہ سلول نے اپنے شکر کو پانی پر نہیں آزمایا.

Page 223

٢١٩ سو پو پھر سے کو ایلیا نے زندہ کیا.سلاطین ۱۷ باب ۲۰- الیسع نے زندہ کیا.سلاطین آیا.تو اب کیا ہم کو جائز ہے ہم کہ دیں انجیل میں مسیح کا مردہ نہ ندہ کرنے کا قصہ غلط ہے.کیونکہ مسیح سے پہلے ایلیا اور الیسع نے مردے کو زندہ کیا ہو.انجیل نویسوں نے غلطی سے ایلیا اور الیسع کا قصہ مسیح کے ساتھ مادیا ہے.اگر کہو جنکو ایلیا اور الیسع نے زندہ کیا وہ اور تھے اور سی انے جن کو زندہ کیا وہ اور لو یہاں بھی ہم کہتے ہیں.جن کو جدعون نے آزمایا وہ اور تھے اور میں لشکر کو ساول نے آزمایادہ اور تھا.جس شہر یہ جد مون نے لشکریوں کو آزمایا دیا ور تھی اور نجس نہر پر سادل نے آزمایا وہ اور تھی.ہاں اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ یہاں ساول اور جالوت فلسطی کی لڑائی ہوئی وہاں نہر نہ تھی تو البتہ قرآن پر شبہ ہو سکتا ہے.مگر وہاں ندی موجود تھی.کیونکہ فلسطینی سوکوہ غریقاہ.افس.ولیم میں جمع تھے اور بنی اسرائیل وادی ایلاہ میں اور دونوں کے درمیان دریائے شورق واقع تھا.فلسطینی دریا کے جنوبی اوربنی اسرائیل دریا کے شمالی کنارے پر تھے بنی اسرائیل نے دریا سے عبور کر کے حملہ کیا اور ہمیشہ سپہ سالار ایسے طریقوں سر انتخاب کیا کرتے ہیں.اظہار عیسوی میں لکھا ہو قاضیوں کی کتاب دوسرے سموئیل سو پہلے تصنیف ہوئی نہ پہلے سموئیل سے پہلے.دیکھو اظہار عیسوی صفحہ ۱۷ ۱۸ پس کیا تعجب ہے طالوت کا قصہ جدعون کے قصے سے کتاب قاضی میں گڑ بڑ ہو گیا کتاب سموئیل کے واقعات نہ تو ترتیب سے میں اور نہ یہ بات ہو کہ طالوت کا کوئی وقد سموئیل سے فروگذاشت نہیں ہوا.کیونکہ موٹیل ۱۶ باب ۲۲۹۲۱ میں ہر طالوت نے داؤد کو اُنکے باپ سے بلا کر سلحہ برداروں میں رکھا اور داؤد سے واقف تھا اور ۱۷ باب ۳۱ ۳۹ میں ہو.داؤد نے جالوت سے لڑنے کا ارادہ کیا تو طالوت نے اپنا ذرہ بکتر دیامگر ایموئیل ، ا باب ۵۵ میں ہم جب داؤ د لڑنے کو بڑھا.تو ساول نے لشکر کے سردار سے پوچھا.یہ جوان کیس کا بیٹا ہو.جب داؤد سر کاٹ کر لایا.تو ساول نے پوچھا یہ لڑاکا کس کا بیٹا ہے.I

Page 224

PKL اس تعارف اور عد متعارف سے حیران ہو کر عیسائی مورخ کہتے ہیں.ا سموئیل میں قصہ الٹ پلٹ گیا ہے.مگر اس عذر پر بھی کچھ نہیں بنتا.کیونکہ 14 باب میں برابط نوازوں میں ساول سے ملاقات کرنا پایا جاتا ہے.متقدمین عیسائی کہتے ہیں.اسموئیل ، باب آیت ۱۲- ۳۱- اور ۵ ۵۸ تک صحیح ۱۲- ۵۵ نہیں.اسلئے سیپٹوا کینٹ کے قلمی نسخے اور کیٹن میں یہ آیتیں نہیں.۱۷ باب ۱۸-۲۱ - اور - ا باب ۳۳ - ۴۰ کے مطابق نہ ہونے سے بعض ، اباب کو الحاقی کہتے ہیں.صاحب اظہار عیسوی چھتیسویں فساد کے جواب میں کہتے ہیں.بعض جا واقعات کا بیان تاریخ وار نہیں اور آگے پیچھے لکھا گیا ہے.صفحہ ۲۴۶.ایک اور نیا جواب نہر بحرکت را غالباً آرام اور وسعت کو کہتے ہیں.پیش معنی یہ ہوئے ساول نے کہا خاتم کو آرام دیگا اور کھانے پینے کو بنی گا.تم زیادتی نہ کرنا بقدر ضرورت لے لینا.شرب اور طلحہ کا لفظ وسیع ہے.مگر لوگ ٹوٹ پر ٹوٹ پڑے اور گناہ کیا.اور اسکے بیٹے نے بھی کچھ کھایا.اور قوم نے اُسے سزایاب نہ ہونے دیا.دیکھو اسموئیل ۱۲ باب ۲۴-۳۶ پھر نہر کے معنے ندی کے ہی لیتے ہیں گھر قرآن میں یہ قول ساون کا مندرج ہو اور وہ عبری بولنے والا آدمی ہو اور عبری محاورے میں نہر کا لفظ قابل نخور ہے.خروج ۳ باب دودھ اور شہد موج مارتا ہو گفتی ۱۶ باب ۱۳ - تو ہمیں اُس زمین سے جہمیں دودھ اور شہد بہتا ہو.نکال لایا.گنتی ۱۳ باب ۲۷ - جہاں تو نے بھیجا.وہاں سچ مچ دودھ اور شہد بہتا ہے.اب دیکھو.اس سموئیل ۱۴ باب ۲۲- ساحل نے لوگوں کو کھانے پر قسم اور لعنت دی.سب لوگ بن میں پہنچے اور وہاں شہر تھا.روہی جو موج دار تا بتایا گیا، پوینشن ساول کے بیٹے نے عصا کی نوک سے شہد کے چھتے کو چھیدا اور ہاتھ میں لے کے منہ میں ڈالا.اور بنی اسرائیل یو متن کے جانبدار ہوئے (گویا سب نے پیا)

Page 225

۲۱۸ ایک اور نیا جواب.جالوت ہر ایسے آدمی کو کہتے ہیں.جو میدان میں اکیلا نکل کر ڑے.قرآن میں دو جالوتوں کا ذکر ہیں.ایک رجسکی لڑائی مطالوت سے ہوئی.اور ایک جالوت وہ جسے داؤد نے مارا.قرآن پر غور کرو.ولما برز و الجالُوتَ وَجَنُودِهِ قَالُوا بَنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبَرَ أَو تَبَتْ أَقدام وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ، فَهَرَ مُرُهُم بِاذْنِ اللهِ، سیپاره سوره بقره - رکوع ۳۳ یہاں وقف لکھا ہے اور اس بات کا اشارہ ہے کہ قصہ تمام ہوا.اور آگے اور قصہ شروع کیا.وقتل کہ اود جالوت عربی میں غالباً جب نکرے کا اعادہ ہوتا ہے.تو وہ پہلا مراد نہیں ہوتا.اسلامی تعلیم پر و اعتراض ہوئے ہیں انکے جوابات غالبہ اس کتاب میں دیئے جو ہیں صرف بہشتی نعمتوں کی نسبت کچھ ذکر نہیں کیا.اب اس وقت ان پر سرسری نظر کرتا ا ہوں.ناظرین غور سے دیکھیں.عیسائی صاحبان تمہارا اعتقاد ہم حضرت کیے اصل میں خدا تھی.اسی واسطے انکو خدا کا بیٹا کہتے ہو.قدوس خدا نے جسکو کھانے پینے کی کچھ بھی ضرورت نہ تھی جب جسم سے تعلق پیدا کیا اور مجتم ہوں اور ان اللہ کہلایا تودنیا میں بلحاظ جسم دو کھاؤ پیو شرابی تھا.بھلا جب ہم عام انسان قیامت کے روز مجسم ہونگے.جیسے تمہارا بھی اعتقاد ہو.تو ہم کو جسمانی نعمتوں سے کیوں محرومی ہوگی.کیا ہم خدا سے زیادہ ہونگے.تم کہتے ہو قرآن نے جسمانی ترغیبیں دیں.میں کہتا ہوں.کتب مقدسہ توریت و انجیل اس امر میں قرآن کی تصدیق کرتی ہیں.دیکھو مقابلہ :- ے اور جب وہ لوگ لڑنے کو نکلے واسطے جالوت اور اسکے لشکر کے وہ کہنے لگے لے میرے مالک ڈال ہم لوگوں پر صبر اور ٹھہرا ہمارے قدموں کو اور فتح سے ہم کہ کافروں کی قوم پر پیس بھگا دیا ان لوگوں نے جالوت کو اور اس کے لشکر کو حکم خدا سے ۱۲.-

Page 226

۲۱۹ قرآن توریت و انجيل جنة عرضها لعرض السماع خدا نازل ہوا مصریوں کے ہاتھ سے چھڑا کر اچھی ویسے زمین میں والأرضِ - سیپارہ ۲۵ کو جہاں دودھ اور شہد موج مارتا ہے.خروج ۳ باب.اور بہت سے سورة حديد - جسمانی منافع کا ذکر استثناء باتا اور 4 باب ۳ میں ہو.مثل الجنة التي وعد المتفقون خدا کے احکام پر حفاظت کر تو کہ تجھے ایسی زمین دے جہاں فيها انهار من تا به غیر اسی پانی کی نہریں اور جینے اور جھیلیں پہاڑوں سے نکلتی ہیں جہاں وَأَنْهَارُ مَنْ لَبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرُ گیہوں جو انگور - انجیر انار تیل.شہر ہوتا ہو.اور طَعْمُهُ ، وَأَنْهَارُ من خَمْرٍ تو نہ کسی چیز کا محتاج ہوگا.استثنا در باب تھے سر انسان لَذَةَ لِمُشَارِبِينَ : وَأَنْهَان اور خدا خوش قاضی و باب انگور سے خالص شریخ شیرا پیا.من عَسَلٍ مُصَفَ ، وَلَهُمْ فيها استثنا ۳۲ باب ۱۴- تو اسکی جو سراسر حق ہی پیروی کیجیو.مِن كُلِ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَة تا کہ تُو جیئے اور اس زمین کا جو تعداد ن تیرا خدا تجھ کو دیتا ہوں من ربهم - سوره محمد وارث ہووے.استثنا ۱۶ باب ۲۰ و ۶ باب ۱۸ - مید پاره ۲۶ - رکوع ۲- تیری اولاد کے عمر کے دن جس طرح سے آسمان کے دن جو وَنكُمْ فِيهَا مَا نَشْرِقِيهِ الْأَنْفُسُ زمین کے اوپر ہے.اس سر زمین میں بہت ہوں.ولد الامان سیپاره ۲۳ اگر تم حکموں پر عمل کرو گے تو بہت آسائش تم کو ملینگی اور رکوع ۱۳ - سوره زخرف.تمہاری زمین پر ہرگز تلوار نہ چلے گی.احبار ۲۶ باب ۳ - ے بہشتہ جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کے برابر ہے ۱۲ ہلے سالت اُس بہشت کی جو قولی دالوں سے وعدہ کیا گیا ہے.اُسمیں نہریں ہیں اس پانی کی جو نہیں ادیتی ہیں.اور نہریں ہیں اُس دودھ کی جس کا مزہ نہیں بدلتا اور نہریں ہیں شراب کی جسمیں مزا ہی پینے والوں کو اور نہریں ہیں صاف کیئے ہوئے شہد کی اور اس میں ہرقسم کا پھل ہے اور معافی ہو اُن کے خدا کی ۱۲.سکے اور تمہارے لئے اسمیں وہ چیزیں نہیں ہو نفس چاہتا ہے اور آنکھیں مزہ لیتی ہیں ۱۲ -

Page 227

۲۲۰ الحمد لله الذي صد فنا میرے حکموں کی محافظت کرنا اور انہی عمل کرنا کہ تم زمین پر وعده و اورتنا الأرض صحیح و سالم رہو گے.زمین تم کو اپنے پھل دیگی اور تم پیٹ نَتَبُورُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ بھر کے کھاؤ گے.اور اُس پر سلامت رہا کرو گے.نَشَاءُ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَمِلِينَ اخبار ۲۵ باب ۱۸ - سیپاره ۲۳ رکوع ۵ سوره زمین میں شاگردوں کو فرماتے ہیں.نئی بادشاہت میں تم بھی الله بين فيها ما دامت بار تختوں پر میٹھو گے اور بنی اسرائیل کی عدالت کرو گے.السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ - سیپارہ ہر ایک جرنے گھروں یا بھائیوں یا ماں باپ یا جور و یا رکوع ۹ سوره هود لڑکوں یاکھیوں کو میرے نامہ کیلئے چھوڑ دیا ہر سوگنا ہوگا.ونزعنا ما في صدور جید اور حیات ابدی کا وارث ہو گا.پر بہت سو جو پچھلے ہوں گے، تین غل - سیپاره ۱۳ رکوع ۴ پہلے ہونگے.اور پہلے پچھلے.متنی ۱۹ باب ۲۸ و ۲۹ - - یادہ ھے.یہ بات اُس وقت فرمائی جب شاگردوں - خلوها بسلام سیپارہ نے طمع ظاہر کی.۱۲ - سوره حجر - رکوع -- شیره انگور پینے کا وعدہ مسیح نے بہشت میں فرما یا متی كلُوا وَاشْرَبُوا هَنْيئًا بِمَا ۲۶ باب ۲۹ - اسلَفتُم في الايام الخالية ایک دولتمند نے دوزخ میں سے ابراہیم کو کہا الحزر کو سوره حاقه سیپارہ ۲۹ ہیں کہ انگلی کو پانی سے تر کر کے میری زبان کو ٹھنڈا کرے.ے سب تعریف اس خدا کو ہر ج نے ہم سے اپنے وعدے کو سچا گیا اور وارث کیا ہم کو زمین کا ہم رہیں اسمیں جہاں نا ہیں اور خوب ہے بدلہ عمل کرنے والوں کا اللہ ہمیشہ رہنے والے اسمیں جب تک آسمان و زمین رہیں ۱۳ سے اور نکالا ہم نے جو کچھ اُن کے سینے میں تھا کینہ ۱۲ - کے جاؤ اُس کے اندر امن و امان سے ۱۲.شہ کھاؤ پیو اچھی طرح بسبب اُس کے کہ تم کر چکے گئے دنوں میں ۱۲.

Page 228

۲۲۱ مان على سرر مصفوفة لوقا 14 باب ۲۴ - منتی ۶ باب ۳۰ - دیکھوسوسن کیسے کیسے ور وجنَاهُمْ بِعُدي علي لباس پہنتا ہے جو سلیمان کو بھی نصیب نہ ہوئے تھے.سورۂ طور سیپارہ ۲۷- رکو.پس اگر خدا کھیت کی گھانس کو جو آج ہے اور کل تنور میں ار أنت ثم أنت جھونکا جاتا ہے یوں پہناتا ہے تو اسے کم اعتقاد و کیا تم کو نعيما وَ مُنْكًا كَبِيرًا عَالِيَهُمْ زیادہ نہ پہنائیگا.استبرق ثيَابُ سُنْدُسٍ خُضْر و مکاشفات ۲۲ باب.آب حیات کی ندی اور زندگی کے درخت است برق وحُلُوا آسا در اور اُس کے پھلوں کا ذکر ہے.اور آخر میں کہا ہے.اس کے مِنْ نِضَةٍ وَسَقَاهُمْ رَبُّهُم بندے اُس کا منہ دیکھیں گے اور اس کا نام اُن کے ہا تھوں شرا با طَهُورًا سُوره انسان پر ہوگا.اور رات نہ ہوگی.اور دے چراغ اور سورج کی روشنی سیپاره -۲۹ رکوع ۱۹ کے محتاج نہیں.عیسائیوں میں مسلم امر ہے کہ موسیٰ نے جس کستان کا وعدہ کیا تھا.وہ اصلی کنشان کا نمونہ تھا.اور عیسائی یہ بھی کہتے ہیں مسیح شیطانی مصر سے نکالتا ہے.اور حقیقی کنعان کی راہ پر لاتا ہے.پس موسے جس خانی دُودھ اور شہد اور پانی شراب اور زمین کا ذکر کرتا ہے.اُس کے مقابلے میں باقی اور غیر فانی دودھ اور شہد اور پانی اور شراب اور نفیس زمین ضرور ملے گی.عیسائی صاحبان مشرآن کریم میں جن نہروں کا ذکر ہے.وہ وہی غیر فانی اور دائمی اور حقیقی کنعان کی نعمتیں ہیں.جسے بہشت کہتے ہیں.اگر کتب مقدسہ ے تکیہ لگائے ہوئے قطار تختوں پر اور بیاہ دیا ہم نے ان کو بڑی آنکھ والی گورمی عورتوں سے ۱۲ اور جب دیکھنے تو وہاں تو دیکھے نعمت اور سلطنت بڑی او پر ان کے کپڑا باریک ریشمی سبز اور گاڑھے اور پہنائے گئے کنگئیں چاندی کے اور پلا دے ان کو خدا ان کا شراب پاک ۱۲.

Page 229

۲۲۲ میں اور سیح کے کلام اُن کی تاویل ( تاویل کے معنے کچھ ہی لو) ہے.وہی تاویل قرآن میں کیوں نہیں کی جاتی.انصاف کرو.اسلام پر اعتراض کرتے ہو.اسلام جسمانی لذائد کی طمع دیتا ہے.سوچو تو سہی کتب مقدسہ میں کس قدر طمع دی گئی ہے.اور صاف واضح ہوتا ہے کہ کتب مقدسہ کا طمع دینا صرف جسمانی ہی تھا.کیونکہ یہود جو توریت کے اصل مخاطب ہیں اُن کے یہاں تو قیامت کے دجو دہی میں اختلاف تھا.انصاف کرو جب قیامت میں جسم بھی لوگوں کو عطا ہوگا ت یہ گول مدل شہوانی آلہ کیا اُس وقت بے وجہ ہو گا.یا اس کا کوئی فائدہ بھی ہو گا.انسان دو اجزاء سے مرکب ہے.ایک تفریح.دوسرا جسم.روح کی غذائر جانی چاہیئے.اور جسم کی غذا جسمانی.اور شنو ایوب ۲۰ باب ۱۵ شریہ بالشتیا سانپ کا زہر چہ سے گا.اور افعی کی جیسے اُسے مار ڈالے گی.وہ نالوں اور دریاؤں اور لکھن اور شہد کی نہروں کو دیکھنے بھی نہ پائے گا.انتہی.ایوب کی کتاب پر غور کرو میسیج کی اُس دلیل سے جو اُنہوں نے اثبات قیامت میں بیان فرمائی ہے.اس سے بھی کسقدر قوی دلیل اثبات انهار و انعامات جنت پہ ہم نے بیان کی ہے.میری تحریر کے ناظرین میں اگر کوئی خیال کرے تو قرآن کریم میں جن خوروں اور جوروؤں کا ذکر ہے.اُن کی صفات میں كَوَاعِبَ أَتْرَا با اور لَمْ يَطْمِثْهُنَّ قبلهم ترجمہ ( نوجوان عورتیں ایک عمر کی اور نہ چھوا اُن کو پہلے اُن سے ) وارد ہے.پس روحانی ٹوریں کیسے مُراد ہونگی.اول ہم کہتے ہیں.پھر کیا حرج ہے.ہم تو کہتے ہیں یہ حوریں جسمانی حوریں ہیں.

Page 230

۲۲۳ اور منی ۱۹ باب ۲۸ میں صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہم کو بہ نسبت عیسائیوں کے زیادہ ملیں گی.کیونکہ پچھلے پہلے ہونگے.اور پہلے پچھلے.دوم اتنے ہی اشارے سے صرف جسمیت حوران بہشتی کی ہرگنہ ثابت نہیں ہوتی.غور کرو اور حد قبیل ۱۶ باب تمام و کمال پڑھو.تمام نہیں تو صرف بچاپس آیت تک ہی سہی.خدا یہ وسلم کو کہتا ہے تیرے باپ اموری اور تیری ماں جیتے تھی.تیری ناف نہ کٹی.تو نہ نہلائی گئی.تجھ پر نمک نہ ملا گیا.میں نے تجھے پالا.تیری دونوں چھاتیاں طرح دار ہوئیں.تیرا وقت تھا کہ جس میں عشق پیدا ہو.تجھے غسل دیا روغن ملا.بُوٹے دار کپڑے پہنائے.تیری ناک میں نتھے.کانوں میں بالیاں پہنائیں.مہین میدہ چکنائی شہر تجھے کھلایا.پھر تو نہ تا کار ہوئی.تونے کسی خانہ بنایا.تو نے بڑے جسم والے مصریوں سے زنا کیا وغیرہ وغیرہ.پر تو سیر نہ ہوئی.تو نے سڑک کے سے پر کسی خانہ بنایا.سارے کسبیوں کو خرچی دیتے ہیں پر تو اپنے دھگڑوں کو ہدیہ دیتی ہے.او زانیہ سُن تیسرے یاروں کو تیرا مخالف بناؤنگا.وہ تجھے تنگی کر کے چھوڑیں گے تجھے سنگسار اور ٹکڑے کرینگے.لوگ کہینگے جیسے ماں ویسے بیٹی." نہایت مختصر طور پر میں نے چند فقرے نقل کئے ہیں ذرا ان میں غور کرو پیر وسلم کی نسبت کو اعب اتراب وغیرہ الفاظ کس طرح موجود ہیں.مکاشفات میں نئے پر ظلم کو یوحنا نے دلہن کے مانند دیکھا ہے.مکاشفات یوحنا ۲۱ باب ۲ سوال - اِعْمَلُوا مَا شِثْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ.کہ اہل بدر کو بڑی دلیری دی ہے.جواب ایسا دلیری دینا تو کتب مقدسہ کا علی العموم معمول ہے.پھر سیچی مقدس انجیل نبی عرب کا کلام ایسی انجیل نہ بنے.اپنے الہامی اور روح القدس

Page 231

۲۲۴ کے لکھائے کلام کو دیکھو.خدا نے بھی سیٹ کے لئے تمہیں بخشا ہے.نامہ اسی ۲ باب ۳۲.اُس نے تمہارے سب گناہ بخشد ہے.قاسی -۲- باب ۱۳ - ۱۴- ہم کو جو گناہوں کے سبب مردہ تھے.مسیح کے ساتھ جلا یا.تم فضل سے بچ گئے.افسی ۲ باب ۵ و ۱ - باب ۶ ۲۰ باب ۱ - لسی ۱- باب ۲۱.ہمیں فضل سے ہمیشہ کی تسلی اور امید آئی.تسلینقی ۲ باب ۱۲ میرے لئے راستبازی کا تاج دھرا ہے.۲ تمطاؤس ہم باب ۷.پاکوں کے لیے ب کچھ پاک ہے.طیطس ۱- باب ۱۵ - ٢٠ اب سب عیسائی جو حرام و حلال میں امتیاز نہیں کرتے اور توریت سے احکام حلت و حرمت کو پس پشت ڈال دیا ہے.اسی طبیطس کے ا.باب ۱۵ کے حامل ہیں.اور کیوں اُن سب کے بدلے ایک ہی ملعون ہو گیا.اور سارے پاک اور بے ڈر ہو گئے.زا باب ۱ و ۱۲ نامہ عبرانی.پس اسے بھائیو یہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اسی کے وسیلے تم کو گناہوں سے معافی کی خبر دی جاتی ہے.بلکہ اسی سے ہر ایک جو ایمان لاتا ہے ۱۳ اباب ۱- اعمال ۳۰.جنکے گناہوں کو تم بخنٹو اُن کے گناہ بخشے جاتے ہیں.جنہیں تم نہ بخشو گے.نہ بخشے جائیں گے.یوحنا ۲۰ باب ۲۳ - جہاں حواریوں کو گناہ بخشنے کی اجازت ہے.وہاں خدا کو نیچے عیسائیوں اہل اسلام اور اُن میں اہل بدر کے گناہ بخشتے کیا مشکل ہے.بعینہ یہی مضمون یوحنا ۳ ا باب ۱۰ میں ہے.تمام حواریوں کو سوا یہودا کے کہا تم پاک ہو.اور یوحنا کا پہلا خط ۴ باب ، امیں ہو اُسے محبت ہم میں کامل ہوتی ہو.کہ ہم عدالت کے دن نڈر ہیں.جو ڈرتا ہو.محبت میں کامل نہیں تمام هوا فصل الخطاب حصہ اول.

Page 232

۲۲۵ فهرست مضامین تحمرة و تصلى على رسوله الكريم نمبر شمارا 1 اسم الله الرحمن الرحیم فهرست مضامین فصل الخطاب جلد اول مضمون مقدمه ) مرسه مولوی عبد اللطیف صاحب بہاد پوری نان.نمبر شمار مضمون موجود ہے.۵ الزامی جوابات کے باعث آیات و علامات نبوت محمد صلی الله علیه وسلم مسلسل نحضرت صل اللہ علیہ وسلم کی مختصر سوانح عمری.۱۲ اکیا معجزہ نبوت کی دلیل نہیں ہو سکتا مت ۱۴ دید اور سیے اور موٹی کی کامیابی کا موازنہ آنحضرت پہلی بیل دوسر بی دلیل تو رات کی رو سے سچ کی تکذیب ہوتی تھی.اسلام کا احسان ہے کہیں کو الزام سے بری کیا.ست ۱۵ 14 صلی الہ علیہ وسلم کی معجزانہ کامیابی متال بحیرہ راہب کی فراست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مستقبل کے متعلق ١٥ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی لیاقت کے باعث آنحضرت نے بنی اسرائیل کو اس خدا کی طرف بلایا جس کو وہ جانتے تھے عمر سے نے ایسے خدا کی طرف بلایا جیسے وہ آپ کو چودہ پندرہ برس کی عمر میں قوم کی طرف سے نہیں جانتے تھے.امین کا خطاب ملا.منقول محجرات کسی کام کا موجب نہیں ٹھر سکتے سیحی معجزات کی حقیقت کا انکشاف صحت بخش ۱۷ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی شہادت آپکے ابتدائی حوض کے ذکر سے کسی شخص کی تعلیم کی عمدگی ثابت کرنے سے پہلے ۱۸ ۱۶ دعوی نبوت ہیں.نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے ئے اس معلم کے افعال و کردار کو دیکھا جا حال مظلوموں کی حفاظت کی خاطر ایک معاہدے کی 19 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ ہے کہ آپ تحریک فرمائی.کی تاریخ کمال لبسط و تفصیل کے ساتھ دنیا میں 19 تعمیر کعبہ کے موقعہ پر حجر اسود رکھنے کے متعلق آغفر صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مردانہ فیصلہ فرمایا جان مقام موجود ہے.۱۲ حضرت مسیح کی فراہ مسالہ تاریخ انا جیل میں قبائل مجاز کی مشتغل آگ کو فرو کردیا.مٹا

Page 233

۲۴ رنگ مجاز کو قیصر روم کے قبضہ سے بچانے کے لئے ۳۵ ضمیمہ توحید شہادت ان محمدا عبده ورسوله سے کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک زیر دست کار 14 تقل قیر در یک سوالات شمار قریش او نوی این مشکل آنحضرت کو وعظ تو جیب سے روکنے کیلئے مخالفین کی کردہ چالیں اور یہ نور کے جواب ۳۶ ۳۹ دوسری اسلامی اصل - نماز من ۳۷ سورہ فاتحہ بڑی بڑی روحانی بیماریوں کے رنگ کا مستقلہ ہے.۱۳۸ تیسری اسلامی اصل - زکوة ری میں لوگوں کی شہادت آن را ای الہ علیہ وسلم اقبته pipu ۴۱ ۳۹ ہو ہاشم کہ زکوۃ و صدقہ حرام کیا گیا در ۴۳ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد تک ھوں گے ہور میں شراب بھی صدقات میں داخل ہے ۴۳۰ اسباب - ۴۰ میچ اور زکوة ۴۳ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے اہم سی کی تعلیم خاص وقت اور خاص محمل کے لئے تیار ہوئے اُن کا مقابلہ ان لوگوں سے جو موٹی ருன் میں الی علیہ السلام کی تعلیم کا مرہ تھے.ص ۴۲ چو تھی اسلامی اصل.روزہ ۲۵ اسلامی تعلیم اور اس کا مقابلہ دوسرے مذاہب ۴۳ مسیح اور روزہ ۴۴۱ | پانچویں اسلامی اصل - حج ۲۷ ۲۸ اسلام کی پہلی اصل تو سید م۳ ۲۵ | مسجد کی نظافت عیسائی مذہب سے مقابلہ ص ۳۱ ۴۶ جماعت کفاره ۴۴ ۴۵ م حضرت خلیفہ اولی کا اپنے صاحبزادہ صاحب کو ۲۹ یہودی مذہب سے مقابلہ و ۳۳ از کات اور اسلام کے اسرار سنانا.مسٹ ۳ ۳۰ آرید مذہب سے مقابلہ ۳۱ لطیفہ - بیا تند کی ایک غلطی ۴۴ تبلیغہ.ایک نہرہ مریض کا ختنہ کرانا اور ضرورت خانہ کے افادہ کا مشاہدہ ص ۴۹ ۳۲ حدوث ارواح کا مشاہدہ ص۳۷ ۴۹ روحانی محرکات ہ درج جسم کی مکمل تیاری کے بعد پیدا ہوتی ہے دے ہے ۳۳ اریر اور بکات WA ۵۰ حج کے دینی اور دنیوی منافع کا بیان من ۳۴ قرآن کریم انسان کو مختار اور مجبور نہیں وہ خالص دنیوی منافع اسلام میں ناپسند ہیں

Page 234

مهرست ماهی بینائی کی تربیت پر مادرش اور حفظ اموال کی تاکید معجزات پر بحث حران میں.کی کرتا ہے.۵۳ دان مجاعت وی.نهار الام ۵۵ ام پادریوں کی کاری انکار راستے والی اور ان کے جوابات اسلام نے کثرت ازدواج کو محدود کیا.۵۳۰ کر محمد کیا.مجوزہ کا لفظ قرآن میں ہی کی اور اسکی گفت مد بود نمی یورپ میں عورتوں سے سلوک اور اسلام کی ان سے انکار معجزات کے متعلق پادریوں کی دوسری دلیل سے حسن سلوک کی تعلیم به حلالہ اور متعة النساء - QL کا جواب.طلاق کی اجازت کن حالات میں دی گئی ۷ ۷۴ تعمیری دلیل کا جواب.۵۸ باہمی معاملات میں راستی اور سچائی کی ۷۵ آیات نبوت محمدیہ آج تک قانون قدرت میں تعمیر ☑ موجود ہیں.۵۹ باہمی محبت کے متعلق ارشاد ملت 14 حدیث کے لکھنے کا رواج ابتدائے اسلام میں ہی اسلام میں اخلاقی شریعیت کی ہیں.سالہ ہو گیا تھا.+ 4 غلامی کی نسبت ارشاد - ۶۲ بخاری اور سلام کی عظمت بلا وجہ نہیں.م4 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مارا معجزه منه محرمات کے متعلق اسلامی تعلیم 120 ۶۳ اسلام کا احسان عام مجھے علم سیکھنے سکھانے کی بات قرآنی احکام من ۸۰ ۶۵ جمہوری سلطنت قائم کی 44 ا معجزه 49 قرآنی معجرے یعنی وہ آیات نبوت بن کا ذکر قرآن مردوں کے متعلق اسلامی تعلیم مشا؟ میں ہے.اسراف حق تلفی اور غرور کے بارے میں ۸۲ پیلام بجزره قرآنی ارشادات.صل ۳ وسر العجزه اسلامی دعائیں بین اخلاقی روحانی اور مدنی پر ساتن ۱۴ تیرا معجزه مات AY ه و پرمشتمل ہیں ان کا عشر عشیر بھی دوسرے مذاہب ۱۸۵ یادداشت بر آن وسنت میں نفت مسنجر کی جگہ آیت و میں نظر نہیں آتا.کہ ویران کا لفظ آیات موت اور سورہ اشارات سایت موسی ایک مسنون دعا کا سیخ کی دعا معائدہ ملے آغضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ان تمام

Page 235

فہرست مضامین ۸۸ صفات کی جامع ہے جو فرداً فردا دوسرے انبیاء جر اکراہ کی تردید سریم سور کے قلم ہے.مشره جو ۱۰۴ ۱۰۵ جہاد.عالمگیر کی جنگ نہ ہی جہاد نہ تھی غربی ؟ میں پائی جاتی تھیں.AA حضور صلی اللہ علیہ سلم کے اور تا میدہ کا بیا ہ ۱۰۶ حلم ۹۰ شجاعت 91 کرم ۹۳ شیرین کلامی ۹۳ آپ کا صائب الله بیر ہونا ۹۴ آپ کا دار با چال چنین.آپکا تو گل.۹۵ آپ کی صداقت 96 قوامین اسلام میں ہر قسم کی مذہبی آزاد می بیسی کی صدا؟ ناسی آزادی کے بارہ میں آنحضرت کے خطوط اپنی خاک در ینی نجران کے بڑے بڑے اسا قصہ کو منا ۱۰۷ مسیحی دین نے قومی اخلاق کا کوئی تصفیہ نہیں کیا ما آنحضرت نے انسانی مساوات کے اصول تعلیم فرمائے ملتا کے 19 اس کا اعتراف ایک انگریز مؤرخ کے قلم سے ۱۰۸ AA ለለ ለ..۱۱۰ غزوات میسی کے دوران عیسائی بجا باریکی کردار کی شہادت 三 ایک مورخ کے قلم سے ما نماهم ما بنی اسرائیل کا قتل مهذا غزوات مسیحی مثا غزوات محمدیہ ص ۱۱۳ آیات قتال ۱۲ قاطو هم حتی لاتکون فتنة کے معنے ملا 110 ۱۳ ۱۳۶۰ اوری 94 صحابہ میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں میں نے ۱۱۳ غزوات نبویہ جو عرب سے ہو.تشیخ هادی شده حدیث کے بیان میں جھوٹ کہا ہو.مثہ ۱۱۴ غزوات نبویہ تو یہود سے ہوتے آپ کی حکیمانہ تعلیم تمام دنیا کی عمد تعلیموں ۱۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدین میں تشریف میں کی جامع اور مشترک ضرورتوں پر حاوی منه کے وقت عرب میں تین قسم کے لوگ تھے ۱۳۷۰ مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہود ۹ اسلام ہمارے معاشرہ کے لئے بہترین راحت بخش مقنن ہے.99 ایک سکھ سے ساختہ 11 اور ۹۳ سے معاہارہ.یهودیان بنی نضیر بنی قریضیه از بنی قینقاع کا اس اسلامی معجزات کا ثبوت تواتر سے ۹۳ ام م تا بارے میں شمول مردوں کو زندہ کر تا آنحضرت کا عام کام تھا ؟ عیسائیوں کے اس اعتراض کا جواب کہ غیر باب ۱۱۸ شعرائے یہود کا کردار ۱۳۹ ۱۳۸ والوں کو جبر و کراہ سے اسلام بزور شمشیر 119 شاس بن میں بیوی کی مفسدانہ چال 12 م ۱۲۰ ابو جنگ یہودی کا اپنی خطرناک کاروائیوں کے سنوایا گیا.۱۰۲ جزیہ کا الزام اور اس کا جواب من 9 باعث مارا جانا.یاد داشت وزیر قتل کا بیا د نہیں.مٹ ۱۲۱ بیهودان بنی قینقاع کا کر دار مدینہ میں قتنده عظیم

Page 236

۲۲۹ فہرست مضامین بر پا کرنے میں.۱۲۲ غزوه بنو نضیر نتز ائن ودفائن بنانے کیلئے عذاب دیا گیا.مش ۱۴ ۱۳۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کو زہر دینے کا منصوب من ۱۳۳ کعب بن اشرف یہودی کیوں مارا گیا.۱۳۰ ۱۳۶ غزوہ تبوک اور اس کے اسباب مش ۱۲ ۱۲۴) ابو براء عامر نے ستر قرار قرآن کوقتل کر دیا.مل ۱۳۷) غزوہ تبوک میں حضرت ابو بکر حضرت عمرؓ اور ۱۲۵) عمر بن مجاش میبودمی کی تقدیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کے متعلق ۱۲۶ غزوہ بنو قریطه ۱۲۷ حضرت عثمان کا چناره IN9 ۱۳ ۱۳۸ ازواج مطہرات کی نسبت پادریوں کی بیہودہ سرائی ۱۳ 10.ی بن اخطب کی کارستانی اور اسکا خمیازہ ۱۳۳ ۱۳۹ لیسوع کا خاندان از روئے بائیل ۱۲۸ کعب بن اسد رئیس قریہ کی تقریہ کہ اس شخص محمد ۱۴۰ ماریہ قبطیہ کے معاملہ میں پادریوں کے اعتراض ۱۳۰ پر ایمان لاؤ.یہ رہی ہے جس کی بابت تو ریت کا جواب میں پیشین گوئی ہوچکی ہے.۱۴۵ مراها ۱۳ ۱۱ ام المومنین حضرت زینب کے نکاح کے متعلق قتیل تریطہ کے متعلق عیسائی فاضل کا ر لائل کا تبصر عتراض اور اس کا جواب ۱۵۴ شریر کا مومرتبہ قتل ہونا بہتر ہے کہ وہ بیگتا ہوں ۱۴۲ لے پالک کی جورو سے شادی کی ممانعت کا ذکر کو اغواء کیسے یہ نہ تورات میں ہے نہ انجیل میں اور نہ شروع محمدی ہیں.اور نہ ہی کوئی عقلی قوت بلا سکتا، ما السلام کا یہ فعل اس وقت کے مارشل لاء سے بہت نرم تھا.اور حضرت داؤد کی سزا سے سلام عہد جدید کی روسے سارے عیسائی سے پاک عباد نہایت نرم - ۱۳۱ غزوہ خیبر ۱۳۲ ۱۴۷ ۱۳۳۳ جنگ شہر کے اسباب کی نیند ہجویہ اشعار سے م۱۳ 105 ت ۱۵۸ آیات قرآنیہ پر با روش انفرادی اور اسکے جواتا مد10 آیت خلق من ماء داني الخرج من بين الصلب والتوائب پر اعتراض اور اس کا جواب ۱۵۹۰ ۱۳۳ یہود کے ایسے بڑے قلعہ الموں کے فتح ہونے پر ۱۴۵ آیت احشر و الذین ظلموا وازواجهم پر اعتراض سود کو اپنی شکست کا یقین ہونا.اور معافی اور اس کا جواب مانگنے پر معافی دیا جاتا.۱۴۶ آیت وقالوا أقالوا انباء الذين آمنوا معه واستحوا ۱۳۴ پادریوں کی یہ روایت غلط ہے کہ کنانہ کو نساده هم پر اعتراض اور اس کا جواب 140,

Page 237

فہرست مضامین ۱۴۷ آیت هو الاول والاخر والظاهر والباطن ۱۵۸ پر اعتراض اور اس کا جواب 197 مریم کو اشتہارون کس معنی میں کہا 1900 ۵۹ نيغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تأخر اور ۱۴۸ اولم بودا انا نأتي الارض تنقصها من اطرافها استغفر لذنبك وللمومنین کے معنے منا پر اعتراض اور اس کا جواب مثلا انا افتحنا لک فتحا مبین پر اعتراض اور اس کا جواب ۱۴۹ آیت ان الساعة آتية اكا واخفيها پر اعتراض ۱۹۱ آيت من اعرض عن ذكرى فان له معيشة اور اس کا جواب ۱۵۰ آیت اولم ير الذين كفرم ابن السموات : ۱۶۲ فنگا پر اعتراض اور اس کا جواب ص ۲۰۴ سورہ کہف میں ذوالقرنین کے ذکر پر اعتراض اور اس کا جواب.اس میں ذوالقرنین کا قازارہ ہے نہ کہ سکندر الارض كانتا رتقا پر اعتراض اور اس رومی کا جو بت پرست تھا.کا جواب - ۱۵۱ آیت اذ اخذ ربك من بني أدم من طور هم ذريتهم پر اعتراض کا جواب مشا ۱۶ ابطال الوہیت مسیح کی دلیل ۱۶۴ ابطال کفارہ کی دلیل 140 ۲۰۴ سونے کا بچھڑا بنانے والے کے متعلق قرآنی بیان پر عتراض اور اس کا جواب توریت سے اس بات کا ثبوت کو کھڑا ہارون نے ۱۵۲ میت کو نو اقروده ماشین پراعتراضی اور اسکا ہوتا ۱۷۵ آیت وما كان الله لبعد بہم پر اعتراض اور اس کا جواب.ILA " ۲۱۱ نہیں بنایا تھا.ایت من كفر بالله بعد ايمانه الا من اكر غلط استدلال انہ کی بنا پہ اعتراض اور اس کا جواب - ۲۱۳ ۱۳ نوح کا یونس بٹیا غرق ہوا.پادریوں کا اعتراض 14 آیت الجان خلقناه من قبل من نار السموم اور اس کا جواب JAV پر اعتراض اور اس کا جواب ٣١٤٠ ۱۵۴ ہامان کو حضرت موسی کا معاصر قرار دینے پر ۱۶۷ طالوت کے لشکر کو پانی پر آزمائش کئے جانے اعتراض اور اس کا جواب IAM گے قرآنی بیان پر اعتراض کا جواب ۲۱۵ ۱۵۵ آیت واجعلوا بيوتكم قبلة پر اعتراض پور ۱۶۸ بہشتی نعمتوں کے بارہ میں قرآنی سیانے کی تصدوق م کتب مقدسہ سے.اس کا جواب.10 آیت يوم نقول لجهنم هل امتلئت و تقول ۱۶۹ قرآن اور توریت اور انجیل کا مقابلہ ۳۱۹ هل من مزید پر اعتراض کا جواب منشا اعملوا ما شئتم فقد غفرت حکم پر اعتراض 106 آیت و مسخر الله الر کے تجری یا مره رخاء حیات الان اپ پر اعتراض اور اس کا جواب ١٩٤ آیت غددها شهر در را حتا شہر کے لئے 19 اور اس کا جواب ۳۲۳۵

Page 238

٢٣١ فہرست مضامین بسم الله الرحمن الرحيم فہرست مضائف فصل الخطاب حصہ دوم نمبر شمار ! مضمون نمبر شمار مضمون اثبات نبوت محمدیہ از روئے بشارات انبیا و عیسائیوں کے نزدیک موٹی سے پہلے نبیوں کی کتابیں سابقین.ہی موجود نہیں.نہیں اثبات نبوت کے لئے انبیائے سابقین کی 10 حضرت ایوب کی نسبت بھی بشارات موجود نہیں ۲۴۴ بشارات شرط نہیں.پادریوں کی یہ غلط بیانی ہے کہ آنحضرت 11 بشارات کے لئے یہ ضروری نہیں کہ انبیاء سابقین لی اللہ علیہ وسلم کے متعلق انبیائے سابقین کی کتب میں موجود ہوں بعض بشارتیں نیند نیستند کے م الم کی کوئی بشارت نہیں.چلی آتی ہیں.ن بی تقصین کے رویہ اور منصف مزاج | ۱۲ مستی کا قول کہ مسیح ناصرہ میں رہا تا کہ وہ بشارت ندازی طبائع کے مسلک میں فرق م۲۲۲ ۲۳۰ پوری ہو جو انبیاء کہتے آتے تھے کہ وہ ناصری اسلام یہ نہیں کھاتا کہ یہود کی طرح مسیح کی سبھی کہلائی کا یہ بشارت کسی کتاب میں نہیں ۲۴۳۵ بشارتوں پر شبہات پیدا کئے جائیں ۲۲۳۰ بشارات عموما عوام پرشتید رہتی ہیں.خواص بھی بشارات اور دیگر مضامین پر پہلی بحث من کی اصل حقیقت قرائن سے اور کبھی اس بیشتر انصاف پر مبنی ہے.نہی کی تفسیر سے معلوم کرتے ہیں ۲۳۵۰ اگر اثبات نبوت کے لئے بشارات کا ہونا ۱۴ عیسائیوں کے مذاق پر تو پیش گوئیاں میں مخفی توپیشینگوئیاں ۳۴۳۰ شرط ہو تو سب سے پہلا نبی نبی نہیں رہ سکتا.۱۵ ہوتی ہیں کہ انبیاء کو ان کا مصداق معلوم نہیں ہوتا.م ۳۴۵ یو منا ایلیاہ تھا مگر اس نے ایلیا ہونے سے ر روح ابراہیم اور موسی علیہ السلام کے متعلق سی ایل میں کوئی پیشگوئی نہیں منی ۲۳ ۲۳۳ انکار کیا.کتب ۲۴۵

Page 239

فہرست مضامین ۲۳۲ خود واریو کی رہنے ہوا سے بیمہ پایا ۳۴۵ ۲۷ دوسری بشارت اور اس پر تنقید یو جانے میرے کو اسوقت تک نہ جانا جنگ ۲۸ تیری بشارت اور اس پر تنقید ۲۳۵۰ ۲۹ مسیح نہ اسرائیکی میں نہ نسل اسرائیل سے امین شدن خدا نے یوحنا کو نہ بتایا.کاہنوں کے رئیس تیانا نے میسج کے کفر اور ۳۰ چوتھی بشارت مع تنقی.قتل کا فتوی دیا.19 شہارات نبوت کا مفصل ہونا ضروری نہیں.M.و ۲۴۹ ۲۵۰ ص۲۵۱ ۲۵۱ ہیرودیس کے ظلم کی کہانی عیسائیوں کی غلط بیانی ہے.گر ضروری ہوں تو اس پرو اعتراض پڑتے ہیں.۳۲ پانچویں بشارت مع تنقید ۲۴۶۰ ۲۵۱ ۲۵۲ ۳۳ چھٹی بشارت اور اسپر تنقید ۳۵۳۵ اسپرتنقید محمد رسول اله صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارات پر ۳۴ انا جیل کی روایات زبانی بلا سند میں جو سفانه اعتراض کبھی نہیں ہو سکتا مه ۲۳۳ لائق اعتبار نہیں.۲۵۳۰ ۲۱ متلاشیان حق کے لئے عیسوی اور محمدی بشارات ۲۵ احادیث کے صحیح اور مستند ہونے پر نوٹ حق کے لئے در کے اورمستند کا بیان مسیحی بشارات کو پہلے لکھنے کی حکمت مش ۲۴ هاشدی ۲ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ۳۶ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے تعلق بشارات ۲۵۳ قانون نظر خدا کا فعل گواہ ہے ۲۳۷۰ ۳۷ پہلی بشارت خطر ۲۵۳۰ ۲۳ کتب سابقہ کے علماء بھی گواہ میں ص۲۳۵ ۳۸ ۳ ابراہیمی دعا اور اس کی قبولیت کا ذکر ۲۴) اہل کتاب کی عام عادت ہے کہ اسماء کا ترجیہ تو رات میں مجمل اور قرآن میں فصل ہے ۲۵۴۰ کر دیتے ہیں میچ نہیں تفسیر مفسر کا خیال ۳۹ قرآنی آیات کی تطبیق تورات کی آیات سے ۲۵۵۰ ۲۵ I ہوتا ہے جس میں صحت اور غلطی دونوں کا ۴۰ حضرت ابراہیم کی دعا اسمعیل کے حق میں اور اس کی قبولیت کا ذکر تورات میں م ۲۵۵ احتمال ہو سکتا ہے.مسیح کی نسبت پہلی بشارت اور اس پر ۲۱ توریت کی اس بشارت کے مختلف پہلوؤں پر مسیح کا نام کسی نے عانوئیل نہیں رکھا ص۲۴۹ تفصیل بحث ص ۲۵۶ میسیج از روئے اناجیل ابن یوسف ہیں نہ کہ ۴۲ بنو اسمعیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر یر و برکت پانی جوانی سے نہیں پائی تھی ماں ابن مریم -

Page 240

۲۳۳ ۴۳ - عربوں نے بنی اسرائیل پر غلبہ بھی پایا.۲۵۶۵ ۶۲ - مصنف عمل الاشکال کے دو اعتراضوں کا جواب صا ۲۴.تو ان کے تھیلی اور اسحاقی وعدوں کا باہمی مقابلہ ۲۵۷ ۶۳- پادری عماد الدین اور تھا کہ اس کی اقوال کا رد ص ۲۷۳ ۴۵ - اولاد ابراہیم می مشترکه و عدوں کی تفصیل ۲۵۷۵..ایلیا ۶۴ بائیبل کی رو سے ایلیا کے معجزے.۲۷۳۰ ۴۶ - خاص خاص و عددلی کا بیان ی ی ی ی ی ال ای میل کا تعلق اشارات کہ وہ عربی مورای ۶۶ قرآن مجید نے میچ کے مبد ظہور کو تین اور زیتون ۳۵۸ ۲۵۹ ۶۵ تیسری بشارت تمدید ۲۸ - توربیت کے اردو ترجموں میں لفظ و ششی اور جنگی سے تعبیر کیا ہے.لفظ اتنی اور عربی کا ترجمہ ہے ۲۵۹۰ ۲۵۹۰ ۲۹ - دوسری بشارت تیل مومنی کی پیشگوئی 90 اس گوئی میں تو نصیحی امور کا تفصیلی بیان م۲۶ ا پیش گوئی کے ان تفصیلی امور کی تصدیقی شہادت قرآنی بالا ۵۰ ۵۴ آیات سے.۶۷.فاران کی تحقیق - دادی خاران اور دشت فارانی تغیر قرآن ۲۷۲۵ فار کی معنے دادمی غیر ذی زرع کے ہیں.مکہ کی یہی صفت قرآن میں مارگو ر ہے.ص۲۷۲ م خاران کی اتبدا وسینا کی جنوبی حد سے ہے م۲۷۵ ے.آنحضرت صلی الہ علیہ سلم کے یوں کیا اور ان مٹ گیا اے گی.ماریہ اور تمام حجاز خاران میں ہے.۲۷۵۰ قرآنی پیشگوئیاں نہایت صفائی سے پوری ہوئیں ۲۶ ۷۲.حضرت ہیں اور انکی والدہ حضرت ہاجرہ کا حال ت پانا.۵۳ - ممانعت شرک کے بارہ میں قرآنی آیات ۲۶۵ از روئے تورات آنحضرت کا خط جو یہود خیر کو کھا گیا.۲ حاشیہ ۷۳.حضرت سہیل کی پیدائش کے بعد خدا تعالیٰ کا حضرت ۵۵ - نبوت کا دن ایک برس کا ہوتا ہے.۲۶۰ براہیم علیہ السلام کہنا کہ اب تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ۵۶ - بدر کی لڑائی کو قرآن نے معجزہ قرار دیا ، ۳۶۹ ابراہام پکارا جا دیگا یعنی قوموں کا باپ.مٹ۲۷ ۵۷ یسعیاہ کی پیشنگوئی جنگ بدر کے متعلق ص۲۶۹ ۷۴ نفر ابراہیم کا میل کیلئے دعا کرنا اور قبولیت کی بشارت ۵۸ - بدر میں قیدار کے اکثر سردار مارے گئے.من ۲۷ ۵۹ - جنگ بادر اسلام کے حق میں دیسی فتح عظیم ہے جیسی ۷۵ حضرت نہیں کی اولا دیکثرت ہونے کی بشار سے ۲۷ جنگ ملوین برج دین سیمی کے حق ہیں.من 4 حضرت آہیں کا ختنہ ۱۳ برس کی عمرمیں ہوا.ص ۲۷ میل موسی والی شگوئی کے متعلق عیسائیوں یہ دعوئی کہ یہ یاد ہے.سارہ کی ناراضگی سے ہاجرہ اور ملال کا نکالا جانا مت ۳ مسیح کے حق میں یہ غلط ہے اور اس پر پانچ دلائل منگ ۳ ۷۸ - حضر ہاجرہ کی سکونت گاہ ہی دشت فاران تھی جو - مشیل موٹی والی پیشگوئی کے متعلق ہی شبہ کہ اس کا مصداق ہیں.دادی مادر میں ہے.اس پر متعدد دلائل مش ۲۷ اور بنی تطورا کیوں نہیں اور اس کا جواب صدائے ہے حضرت ابراہیم کے بارہ بیٹوں کی سکونت گاہ کی تعیین کمر قدیم جغرافیوں کی سند ہے.مش ۲۷ پر 29

Page 241

۴۳۴ A.۲ -99 عیسائیوں کا فارم کے متعلق اعتراض اور اسکا جواب ص ۲۹ - ۹ فقر دنیا کی دریا میں انار کی بدری سلطنت کی بشار مست مقام فرا کے متعلق عیسائیوں کی تین مختلف رائیں جنگ ۱۰۰ قل قیصر روم کی عادت سلطنت کے متعلق اشاره هنشت - فاران تین ہیں.ایک حجاز میں.دوسرا طور سینا کے ۱۱.آنحضرت کے سال پیدائش کی پیشگوئی صحیفہ دانیائی میں ایم کی بیان کی متعلق عیسائی مورخین کی معطلی مٹ ۱۰۲ پاس تغییر اسمر قند میں.۳- حضرت اسٹیل کی اولاد تجاز سے نکل کر تمام عرب میں ۴-۱ بیت اللہ کے کونے میں حجر اسود کا ہونا قدیم زمانہ حضرت خلیج فارس تک پھیل گئی.دانیال کی اس گوئی کو یاد کراتا آتا ہے.میں کے کے سہیل جا میں آباد ہوا جو اراک غرب میں مت ۱۰۴ حجر اسو تصویری زبان میں رسول خدا کی بہتات تھی، مشت ۵ 서.جس خاران کے آثار ملے ہیں وہ تو رات کا فاران نہیں ۱۰۵ - اس بشارت حجری کی تصدیق قرآن و حدیہ ہے جب ۲۸۳۵ موشی کے زمانہ میں اس کا وجود نہ تھا.۲۳ ۱۰۶.آنحضرت صلی اللہ علیہ کام اس محل سرا کی اینٹ ہیں جو - حضرت موسی کے ناران کوہ سینا کے شمال مشرق میں قادیش انبیاء کے وجود سے تیار ہوئی.کے قریب اقع تھا اور دہی مجاز کا بیابانی - ۲۸۳ ۱۰۷ جور ہوں اس بات کو یاد دل والا یادگاری پر ہے مصر PAN HAN ۸۷ - چوتھی بشارت محمدی من آنحضرت کے نام محمد کا ذکر غزل القران بیان میں ۲۸۲ ۲۸۴ ۲۸۵ ها ۱۰۸.اس کے ناتراشیدہ ہونے کی حکمت 109 یسوع کا حواریوں بارہ پتھر لیکر ان کا نشان بنانا مت ١١٠ h ۱ - آٹھویں بشارت محمد می زبور داود ہیں.ص ۲۹ ١٠١١٢ ۲۸۵۰ کے قابہ ۲۹۵ ۸۹ - محمدیم کہنے کی حکمت انونی با این نیکی که در تی وی کی دنیا ا ا ا ا ا ا ا ا ا و ویو میں بتاتے ہیں اس کی دریل مگ ۹۱ - لفظ محمد کے استعمال کی حکمت یا و ای ایس ایل کی دیدار که به تشریح کے حق میں ملنگ ۱۳ تبلیغ احکام النبین ۱۳ تبلیغ احکام الہند میں آنحضرت کے ثبات و استقلال می مونم ۹۳ - گاڈفری منیگٹیں اس بشارت کا حضرت ٹائٹی کے ایک واقعہ ہیں.سرداران قریش کا ابوطا ری کے ذریعہ من میں ہونے سے انکار کرتے ہیں.حضور کی خدمت میں پیغام بھیجنا اور حضور کا جوان ۳۹۷ ۹۴ چھٹی بشار الشعبانی کا کشت میں کو سیاروں کو چھینا ۱۱۴۳ عقبہ بن ریجی کی پیشکش اور حضور کا جواب ۲۹۶ یہ دوانیوں کی طرف اشارہ ہے.م ۱۱۵۸ مشرکین کی درخواست کا لطیف و بلیغ جواب با مد و ہے ۹۵ - گدھے کے عوا مسیح اور اونٹ کے حوار آنت میں جنگ جوانان ایران این موتور را اخرت کا انکار کرفرمانامه ۹۶ - ساتویں بشار کونے کے تھر کی محضر دانیال نبی کی طرق ۲۸۷ انا النبي لا كذب - انا ابن عبد المطلب - ۲۹۹ ۹۷ به اشارت الحضر کے سوا اور سی بی پیاری نہیں سکتی جنگ 14 - آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم ایام مام میں قبائل عرب کے قرآن مجید کے تھوڑا تھوڑا ہو کہ اترنے کی پیشنگوئی گھروں میں یہ نام الہی پہنچاتے.ڈیسعیاہ نبی کی طرف سے.٣٨٨ لث

Page 242

۴۳۵ ۱۱ سے.شرفاء قبائل عرب منور طیف خطاب ۲۹۹ ۱۳۴ - کتاب اندرونہ بائیل کی شہادت کی رو سے بیچ ظاہری ۱۹ پیروبن فراس کی اعتبار سے گفتگو اور حضور کا جوان سام لولاية خوبی سے محروم تھے.۳۰۷ ۱۲۰ - انظر ملے لہ علیہ وسلم ابتدا سے ہی اپنی قوم میں امین و ۱۳۵ - بشارات انجیلید مامون کے نام سے پکارے جاتے تھے.صدا سے ہو تین منجمه و منتظر تی پی لیا اور رد کنیم ۳ انہی ۱۲۱ - لوگ حضور کے پاس امانتیں رکھتے تھے.۳ ۱۳۷ وہ بنی مصور فارقلیط جس کا نام کمان نے محمد تا با مش۳ ۱۲۲ حضور کی امانت و دیانت کی شہرت زبان زدہ تھی.جنگ ۱۳۸ - انجیل یوحنا کی بشارت ۳۰۸ اسی کی بدولت مری نے آپو اپنے موال نا ا ا ا ا ا ا ا را ۱۳۹ انجیل مرقس کی بشارت اور تجرکے بعد حضور کی زوجیت کا شرف حاصل کیا ص۳۳ ۱۴۰- نوین بشار محمد ہیں.انگوروں کے باغ کی تمثیل من ۳ دیا ۱۳۴۳ شورائے مکہ کے اشعارمیں آپ کے امن و مامون ہچو کی ادا کی اور انبیا بلکہ بر کا بھی خدا کے تجھے ۳۱۴ صي شہادت.بیٹے ہیں.۱۳۵ - کعب بن زہیر کے اشعار.مٹ ۱۲۲ میسیج مصلوب نہیں ہوئے ۱۲ ابوا ایک شعار ا شارمین بن سلام کی نظر ان اسرای امامی دور ہوتے تھے اور آخری پوٹھے ملا ۱۲۷ - موت کے وقت بلو ا کی آنحضرت کے تعلق میت ص ۱۴۴ باغ والی مشی میں باغ سے مراد شام تھا جس کے باغبان پہلے تو ۱۲۸ حضور کے کمال حلم شوق سے چند واقعات لگے مینی اسرائیل.اب وہ باغ بنی انٹیل کے سپرد ہوا ۳۱۲۰ ۱۲۹ حضور کو حقیقیں کرے کیلئے ابوسفیان یکی یکی بیاد ۱۴۵ میسیج نے کونے کے پتھر کی پیش گوئی کے ظہور کا زمانہ اُسکے پکڑے جانے پر حضور نے اسے ختم کر دیا.جنگ اپنے بعد کا زمانہ بنایا.۱۳۲ م ۳۱۶ تمام بین اما این بود اگر دلوں کو نک بند کردیا اور ۱۴۶- احم نام رسول کی بیشتر قرآن اور انجیل سے م۳۱۶ اہل مگنہ کی درخواست پر حضور کے ارشاد سے تمامہ ۱۴۷ - فارقلیط اور روح حق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں مٹ ۱۸ عیسائی کی اس خیال کی تردید کہ یہ بات ارامیے کے حق میں ہے ۳۰۵۰ کا غلہ بھجوانا.۱۳۱ - اسلامی شریعت میں جو اعتدال اور میانہ روی پائی جاتی ہے اور روح القدس حواریوں پر اتری.ص۳۱ و کی دوسری شریعت میں نہیں پائی جاتی.ص۳۰۶ ۱۴۹ عیسائیوں کے اعتراضات اور اُن کے جوابات من ۳ یمایی یا اریایی باردار و کیلئے تھی ۳۰ ۱۵۰- اثبات نبوت محمدرسول الله صل للہ علیہ وسلم نیو قربیل و بنو نضیر کے یہودی یا ئیل کی پیش گوئی کے مطابق پیشینگوئیوں کی رو سے.اس فارقلیط کے ہیبت ناک ہاتھ سے مزایاب ۱۵۱ بیچی اور جھوٹی پیش گوئیوں کے پر رکھنے کا معیار ص۳۲۲ ۱۵۲ - موسوی پیش گوئیوں کی حقیقت ۳۲۳۰ ہوئے.۳۲۲۰

Page 243

۲۳۶ ۱۵۳.مسیحی شگوئیوں کی حقیقت ہے ۳۲۵ من ۳۳ بڑھے ہوئے ہوتے ہیں.۱۵۱- اگلے نبیوں کی امتیں جلد جلد مرتد ہوگئیں ۳۲۷ ۱۷۳ - فطرت انسانی کی تسخیر کے لئے قرآن سے بڑھ کر ۱۰۱۵۴ ۳۲۸ کوئی نسخہ نہیں.۱۵۵ - تواریان سیچ کی بیوفائی.نبی عمر کے حواریوں خلفائے اربعہ) کی وفاداری اور ۱۷۴- پانچویں منگوئی جنگ احزاب کے متعلق من ۳۳ ۱۷۵ - چھٹی پیشگوئی قریب ہی زمانہ میں نہ صرف عرب پر ثبات قارمی - ۱۵ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں ص۳۲۱ بلکہ عرب کے مشارق ومغارب پر بھی مسلمانوں کا ۱۵۷ ۱۵۸ - عرب کی ملکی حالت - ۱۵۹ - تمدنی اور منمنہ کی حالت ۱۶۰ - اخلاقی حالت 141 عیسائی پویش چرچ کی کیفیت من ۳۳ ۱۶۲.نبی عرب کی پہلی پیشگوئی -147 " دوسری پیشگوئی تسلط ہو گیا.۳۴۳۰۳۴۲۰ ۱۷ - ساتویں پیشگوئی مسلمان خلافت اسلامی کے وارث ہو گئے.اور بڑے جاہ وجلال سے دین اسلام کا جھنڈا لہرایا گیا.۳۴۳۰ ۱۷۷- قرآن شریف پیشگوئیوں کی محبت غریب علمی مضامین بھرا ہوا ہے.۱۶۴ - اہل عربسے خطاب مثیل موسی آگیا.فرعونی ۱۷۸ - ۱۷۸ - ترکوں سے لڑائی کی پیش گوئی.ه ۳۴۳ D ۳۴۴ طاقتیں فنا ہونگی - ۳۳۲۰ - ۳۳۳ ۱۷۹ - آنحضرت کے متعلق دشمنوں کے دائی حفاظت کا وعد در ۳۳۳ ۱۶۵ - افران امتوں کی بابت عادۃ الہیہ کی طرح جاری ۳۳ ۱۸۰ ہر کوئی ٹھیک اپنے وقت مقرر پر پوری ہوئی.۳۴۵ 14 ش مارے - تیسری پیشگوئی - والله يعصمك من الناس ۳۳ ۱۸۱ پیش گوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو منہ سے نکالنے کے بعد ۱۹۷ نبی جھوٹے نبی کے متعلق اپنی دعد کہ وہ قتل کیا جاتا، ۳۳۵ مکہ والوں کی طاقت ٹوٹ جائیگی.ص۳۲۶ ۱۶۸ مسیلمہ کذاب امور سی.اور حجاج بیت الی ار ہے گئے ۳۳ ۱۸۲ - پیشگوئی.وہ زبردست قحط کا شکار ہو جائینگے.اُن کی ۱۹.عیسائیوں کو عاون سے سمجھنے کاموقعہ نہ دیا کہ ایک معاون امن کی حالت خوف میں بدل جائیگی.۳۴۶ کی تکذی ہے تو رات کوجھٹلا رہے ہیں.ص ۳۳ ۱۸۳ پیشگوئی- انجام کار مومن متقین کا میاب ھے ۳۴۷ ہوئے " - ۱۸۴ نگے ۱۷۰ - صداقت اور حق بڑی قوت ہے م۳۳۱ پہلے نبیوں کی قوموں کے واقعات پر آ جائینگے مگ صادق میں ایک فوق العادت قوت مقناطیسی ہوتی ۱۸۵- ایک پادری کے رسالہ عام ضرورت قرآن کا جواب مک ۳۴ ہے جو سعید الفطرت حق بجو طبائع کو اپنی طرف ۱۸۶.پہلی ضرورت کھینچ لاتی ہے.۱۸۷ - دوسری ضرورت ۱۷۲ - صداقت کے وجدانی دلائل منطقی و فلسفی دلائل سے ۱۸۸ - تیسری ضرورت ۳۴۹ ۳۵۰

Page 244

۲۳۷ ۱۸۹ - دینی امورمیں اختلافات پڑنے پر ایم اختلافات کو ۲۰۱.ساتویں ضرورت.شیل موسی کی پیش گوئی کی تصدیق ٹانے کیلئے آسمانی کتاب کا نزول ضروری ہوتا ، ۳۵ آپ کے ظہور سے ہوئی.ت ۳۵۲۰ م۳۵۷ ۳۵۸ ۳۵۹۰ جھوٹوں پر اتمام حجت کرنےکے لئے حکم کی ضرور ہوتی ۳۵ ۲۰۲.عیسائیوں کے اس اعتراض کا جواب کہ اسلام کے حکم کی ۱۹۱ - ازروئے انجیل سے حکم نہیں تھے.۳۵ کتب مقدسہ کا اقتباس ہے.مٹ ۳۵ ۱۹۲ کیتھولک فرقه مریم کو تم مشکی قرار دیتا تھاگ ۲۰۳ - انبیاء علیہم اسلام اسمت کو خواب غفلت سے جگا کہ ۱۹۳ مینیس کی مجلس میں خدا کے علاوہ صیح اور مریم دو خدا آستانه الوہیت پر لاتے اور اپنے مالک و خالق قرار دیئے گئے.کا عاشق بنا دیتے ہیں.۱۹۴ - کفرو شرک کے ظلمات اور سیمی تنہا تا کو دور کر کے ۲۰۴ قرآن اُن تمام خوبیوں کا مجموعہ ہے جو دوسری خالص توحید قائم کرنے کیلئے قرآن کا نزول ہوا ص ۳۵ کتابوں میں پائی جاتی ہیں.کا ہوا ۱۹۵ - چو تھی ضرورت - انبیاء کی تعلیم تکمیل کی محتاج تھی ۲۰۵ - قرآن مجید کتب مقدسہ کے ان قوانین سے اختلاف جو آنحضرت کے وقت مکمل ہوئی.۳۵۳۰ رکھتا ہے جو مختص الزمان یا مختص المکان اور مختص 194.پانچویں ضرورت.توحید ربوبیت اور توحید القوم تھے.الوہیت کی تکمیل آنحضرت کے ذریعہ ہوئی ۳۵۵ ۲۰۶ مذہب عیسائی مذہب یہود کا محتاج ہے.منا ۳ ۱۹۷- توحید ربوبیت کی تعلیم تمام تاریخی مذاہب میں ۲۰۷ - پادریوں کی عجیب عادت ، کہ قرآن کی اس تعلیم کو موجود ہے مگر توحید الوہیت کے پیش کرنے کا فخر جس کی نظیر کتب سابقہ میں نہیں پائی جاتی از رات تصب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو ہے ۳۵۵۰ عند بیات محمد کہ کر ٹھکرا دیتے ہیں.ص ۳ ۱۹۸ - آپ نے اپنے متبعین کو توحید فی العبادت کا ۲۰۸ مسلمانوں کا یہ اعتقاد ہے کہ تمام انبیاء کا ایک ہی سبق سکھلا کہ پورا موجد بنا دیا.ص۳۵۶ دین تھا.ہم ہر بچے نبی کے پیرو ہیں.۱۹۹.خاتم الانبیاء ہونے کا حقیقی استحقاق آنحضرت ۲۰۹.ہر ملک ہر فرقے میں خدا نے نبی بھیجے ص۳۶۲ - ۳۵۹۰ That صل اللہ علیہ وسلم ہی کو ہے.آپنے بت پرست عرب ۲۱۰.عقیدہ تو حیدر تمام قوموں کا مشترک اصول کی کو ایسا موحد بنایا کہ تیرہ سو برس گزر گئے اب تک ۲۱۱ - اخلاقی اصول کی سب تو میں قائل ہیں.مگ بت پرستی کے قریب بھی نہ گئے.۳۵۶۰ ۲۴۱۲ - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاقی تعلیم کے ۲۰۰ چھٹی ضرورت - اسمعیلی برکت کے دیار کا ایفاء درجہ تکمیل تک پہنچایا.اس نئے خاتم المرسلین.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے کے خطاب کے مستحق ہوئے.۳۶۳۵ ہوا.- - ۳۵۷ کے ۳۶۴-۳۶۳ م ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا و و و انار کا اقتباس میں کا ۴۲۱۳

Page 245

۲۳۸ ۳۱۴.عہد عتیق کا بیان قابل شنید.۳۱۵ - نماز پر بحث ۳۱۶ - حقیقت نماز ۳۶۵ ٣٦٦ ۲۱۷ - باطن کو ظاہر سے تعلق ہے.م۳۶۷ ۳۱۸ - طہارت ظاہری اور وضو ۲۳۱ - آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت کی دعا مہ ۳۷ ۲۳۲ - سمت قبلہ کی حکمت.هنگ ۳۳۳ - نماز مسلمانوں کو دوسری قوموں سے امتیاز کرنے کا قومی نشان ہے.۳۶۵ ۲۳۴ - بیت اللہ زمانہ ابراہیم سے تمام قوموں کا قبیلہ ار ۲۱۹ - وضو اور غسل جنابت کی دعا مے سے اور مرکز عبادت ہے.۲۲۰ - طہارت باطنی اصل مقصود ہے وا۳۷ ۲۳۵ - آنحضرت مالہ میں بالہام الہی بیت المقدس کی فر مگر ۲۲۱ - قلبی حالت اعضاء اور جوارح کو حرکت دیتی مند کر کے نماز پڑھا کرتے تھے.من ٣ ہے.جذبات کا ثبوت اعضاء و جوارح کی زبان ۲۳۶ - استقبال قبلہ مقصود بالذات نہیں ص۳۸۲ حال سے مل سکتا ہے.۲۳۷ - ایک انگریز مورخ کا اسلامی مساجد کے متعلق ۲۲۲ - اسلامی نماز عبادت کی وہ عمور سے جیسے بڑھ کر تعريفي بيان - عقل میں کوئی اور صورت نہیں آسکتی.ایسا ۲۳۸ - پادریوں کے اس سوال کا جواب کہ نجات اعمالی جامع مانع طریق کسی مذہب میں رائج نہیں ما ۳۷ ہے یا شفاعت سے.۲۲۳ - اسلامی احکام و قسم کے ہیں.ایک احکام مایلید ۲۳۹ - گناہ کے تین اقسام شرک کبائر صغائر ۱۳۸۳ دوم محافظ احکام اصیلیہ ص ۳۷۳ ۲۴۰ - شرک کی نسبت قرآنی حکم ہے کہ وہ بدوں تو یہ معاف نہیں ہوگا.۳۸۴ ۲۲۴ - نماز کی علت غائی ۲۲۵ - اذان کی فلاسفی - دو سر مزا ہی سے مضایاند ۲۴۱.انجیل میں بھی ہے کہ روح کے خلاف کفر معاف ۳۷۵-۳۷۴ - م ۳۷۵ نہ ہوگا ۲۲۶ - ضبط اوقات ۲۲۷ - پانارکی اوقات میں قدرتی تاثیر ہے مٹک ۳ ۲۴۲ - صغائر کی نسبت قرآن میں یہ ارشاد ہے کہ اگر ۲۲ پنجگانہ نماز با جیتا اور معہ و عیدین کے قائم کرنے بڑے گناہوں سے بچ رہو تو ان کے مبادی معا ہو سکتے ہیں.۳۸۵۰ میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں.۲۲۹ - اسلامی توحید کے متعلق ایک عجیب نکند ۲۴۳ - نجات صرف رحم اور فضل سے ہے اور رحم اور - فضل کا استحقاق ایمان سے ہے.مت۳۸ انحر یا لایه ای کارونه مقدسه در منظم میں ۲۴۴ - نیک اعمال ایمان کے پھل میں.۳۸۰ نہ ہونے کی حکمت ۲۴۵ پیر

Page 246

۲۳۹ ۲۴۶.یہ میزان عدل اور قدوسیت کی ترازو ہے مت ۳۸ ۲۶۰ - الزامی جواب ۲۴۷ - شفاعت بلا اذن نہیں ہوگی.۲۶۱ - حقیقی جواب ۳۹۶ ۲۲۸ - بالاذن شفاعت بالا زن در حقیقت فضل ہے اور ۲۶۲ - قانون قدرت قانون شریعیت کا نمونہ ہے مست ؟ یہی تفصیلی نجات کا باعث ہے.مش ۳۸ ۲۶۳ - اتفاقات قانون قدرت کے مخفی اسباب کا ۲۴۹ - اللہ تعالٰی کا رحم کمزور ایمان کے ساتھ شفیح نام ہے.۴۰۰ کی شفاعت اور داعیوں کی دعا کو ملا کر اسے ۲۶ - خدا تعالیٰ کے عدل اور رحم کی نظیریں دنیا میں قوی کر دیا اور فضل کے لائق بنا دیتا ہے ۳۸۸۰ مام ۴۰۳ جنگ ۲۵۰ - نجات نہ اعمال سے ہے نہ شفاعت سے بلکہ ۱۹۶۵ میشکار تقدیر پر پا دیوانی اعتراض کا جواب تست ۳ صرف خدا کے فضل سے.ایمان فضل ربانی ۲۶۶ - عقارہ تقدیر ترقی کی جڑ ہے.کا جاذب ہے.٣٨٨ ۴۰ ۲۹۷۳۸۵ - اسلام کی تقدیر کا مضمون لوگ کم سمجھتے ہیں.جنگ.اسلام لوگ ہے.جنگ ۲۶۸ - قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جسے کسی فلاسفرد - | ۲۵۱ - مهار جبار یار بھی ریه ۲۵۲ - نجات فضل اور ایمان کی مثال ۳۶۹ محقق کے معقولی و منقولی اعتراض کا کوئی خطرہ ۲۵۳- اس سوال کا جواب کہ اگر شفیع کی ضرورت ہے نہیں.تو اس کے شرائط کیا ہیں.۳۹۰ ۲۶۹ - عهد عتیق و همد یار اور مسئلہ تقدیر مگ - ۲۵۴.اس سوال کا جواب کہ اگر نیک اعمال نجات ۲۷۰ نہ ہو میں ہے کہ خدا نے ایک تقدیر مقرر کی جو ٹل نہیں تو گل اوامر و نواہی کا سبجالانا ضروری ہے یا نہیں.سكتي.۲۵۵ ۲۵.نجات کی دو قسمیں ۳۹۲ ۲۷۱ - مسئلہ تقدیر کا حقیقی جواب مگ MI...۲۷۴ - اسلامی عقیدہ تقدیر سلمانوں کو برائیوں سے روکنے ۲۵۶ - اس سوال کا جواب کہ شفاعت کبری اور صغری اور نیکیوں پر آمادہ کرنے کا ایک بھاری ذریعہ کی کیا تعلیقیت ہے اور قرآن سے اس کے ثبوت کا مطالبہ ۳۹۳ ہے.۲۷۳.قرآن نے ہندوں کو کسب اعمال کا خود ذمہ دار ۲۵۷ - شفاعت پر پادریوں کے اعراض کا جواب ٹھیرایا ہے.۱۳۹۵ ۱۳ ۲۷۴.اعمال کو میناروں کی طرف منسوب کرنے کی مثالیں ۲۵۸ - شفاعت ایک قسم کی دعا ہے.ص۳۹۵ قرآن میں بے شمار ہیں.م ۴۱۲ ۲۵۹.جنگ خدا کے عدل اور تم پر اعتراض اور اسکا جواب ملگ ۲۷۵ - آیات قرآنیہ سے اس امر کا ثبوت کہ انسان پر

Page 247

۲۴۰ حصہ - ۴۳۲۰ بال اس کے بد اعمال کی دینہ آتا ہے م۴۱۵ - ۲۱۶ ۲۹۴ - طواف کی حکمت ۲۷۶ ہر تکلیف کا سرچشمہ گناہ ہے.صنم ۲۹۵ - طواف کا ثبوت زبور سے مگ ۲۷۷.ہر قسم کا تنزل اور مصیبت گناہ کا نتیجہ ہے مل ۹۶ - سر منڈانے کا رواج اسرائیلی شریعت میں ۴۳۳۳ ۲۷۸ انسان کو حیوانو سے دو باتوں کا امتیاز ہے جنگ ۲۹۷ - اسرائیلی شریعیت میں قربانیوں کا رواج مگ ۲۷۹ شیطان کسی انسان کو گناہ پر مجبور نہیں کرنا مت ۲۹۸ - استقبال قبلہ کی حکمت ۴۳۲۰ ۲۸۰ - ہدایت و ضلال کا انتخاب انسان کے اختیار ۲۹۹ - استقبال قبلہ ملت ابراہیمی کا نشان ہے.ما میں ہے اس پر مجبور نہیں.۲۸ - وہ آیات جن میں گمراہ کرنے کی نسبت شیطان کی ۳۰۰ دعا بیت اللہ میں مقبول ہے.۴۳۲ ۳۰۱.حجر اسود کے بن گھڑا پتھر ہونے اور اس کے ML طرف کی گئی ہے.۲۸۲ - اور وہ آیات جن میں اضلال کی نسبت انتزار بار کار بیت اللہ کے کونے میں نصب کئے جانے ر" ۴۱۸ کی حکمت ۴۳۵۰ لوگوں کی طرف ہے.۲۸۳ شیطانی طاقت کے محدود ہونے کا ثبوت قرآن - مش ۴۱ ۳۰۲ حجر اسود در حقیقت تصویری زبان میں گویاں ، انسان کو مجبور نہیں کرتی.ص ۴ ہے کہ نبوت کے پاک محل سرا میں سے ختم اللہ علی الایم پر اعتراض اور اس کا جواب جنگ کونے کا پتھر یہاں سے نکلے گا.۴۳۶۰ ۲۸۶.ان آیات کی تفسیر جن سے مسئلہ تقدیر کے متعلق ۳۰۳ - کعبہد اور بیت اللہ کا ثبوت تو اس سے.لنگ چیر کا پہلو نکال کر اعتراض کیا جاتا ہے من ۲ ۳ ۳۰۴ - پیدائش کے بعد جو فقرہ موجودہ تراجم ۲۸۵ ۲۸۷ - دلوں پر مہر کفر تکثیر اور بار اعمالی کے ارتکاب میں ہے وہ توریت کا فقرہ نہیں.سے لگتی ہے ۲۸۸ - حج کی بحث من ۴۲ ۲۹ ۳۰.نگہ کی تعریف حضرت یسعیاہ کی زبان سے م۴۳۷ ۲۸۹ - قومی اجتماع پر کل دنیا کی ترقی کامدار م۴۲۹ ۳۰۶ نسخ احکام شرعیہ اور تکمیل شریعت ۴۳۵ ۲۹۰ - اسلام میں قومی اجتماع کے متعدد مواقع ض۳ ۳۷.ختنہ کی ابادی رسم عیسائیوں کے ہاں منسوخ ص۴۳ ۳۹۱ - ارکان حج اور مناسک حج کی تفصیل ۴۳۰ ۲۹۲- احرام کی فلاسفی ہے.۴۴۳۵ ۲۳۲ ۳۸ - قربانیاں توریت کی ابدی روتا تھیں.عیسوی ۲۹۳ - احترام میں ممانعت حجامت کی نظیر شریعت نے بالکل اُڑا دیں.۴۴۳۵ کتب مقدسہ میں ۴۳۲ ـــتمـ

Page 248

۲۴۱ حقه دوم فصل الخطاب حصہ بِسْمِ اللهِ الرَّمْنِ الرَّحِيم اثبات نبوت محمد بن عبد الله بن اسمعیل بن ابرا علیم الصلوة والسلام کیلئے سابقہ انبیائے کرام علیہ السلام کے بشارات کی بحث میم یا درہے کہ کسی نبی کی نبوت اور رسول کی رسالت ثابت کرنے کے لیے سابقہ انبیا کی کتب اور اُن کے موجودہ اور مسلم صحت میں بشارات کا ہونا شرط نہیں ہے.گہ باری تعالیٰ کی ذات بابہ کات نے محض اپنے فضل و کرم سے خاتم الانبیا محمد عربی کی نبوت اور رسالت ثابت کرنے کے واسطے تمام ان وسائل کو ایک جا جمع کر دیا ہے جو اور اور انبیاء اور رسولوں کے اثبات نبوت اور رسالت کے لئے الگ الگ موجود ہوتے رہے.سچ ہے.آنچه خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری ع سمر دفتر معجزات اور مصدقات تعلیم کی عمدگی ہے.اور راستی کی نفس الامری معیار کامیابی اور نصرت الہیہ ہے.پیشینگوئیاں یا آئندہ کی ایسی خبریں جن میں با وجود فقدان قرائن اور اسباب کے الہی امدادوں کا تذکرہ ہو بیان کرنا.اور آیات بینات اور سارا قانون قدرت اور ہماری اداروں کا اور اور تمام طبعی خوشی اور واردات و غیره و غیره با اینکه یہ باتیں اکیلی اکیلی نبوت اور رسالت کیلئے کافی ثبوت ہیں.ا م م صلی اللہ علیہ وسلم کی گرامی ذات کے لئے ان تمام دلایل کو باری تعالئے نے جمع کر کے لوگوں کو ارادی اطاعت کی طرف بلایا.پادریوں نے وہم کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کوئی بشارت سابقہ انبیا نے بیان نہیں کی.بلکہ یہ سابقہ کتب میں

Page 249

محمد صاحب کے حق میں کوئی بشارت مندرج ہی نہیں.میں خدا کے فضل سے انھیں مقدسہ مروجہ کتب میں سے محمد یہ بشارات کو نکال کر.دکھلانا چاہتا ہوں.گر قبل اسکے کہ محمد یہ بشارات کو بیان کروں.مجھے مناسب معلوم ہوتا ہو کہ بشارات کی ضرورت اور عدم ضرورت اور انکا مقدمہ کتب میں ہونا یا ہونا.اور انکی حالت کہ آیا وہ بشارات مفصل ہوتے ہیں.یا مجمل بیان کر جاؤں.اور پھر قبل اسکے کہ محمد یہ بشارات کو لکھوں چند عیسوی بشارتوں کو لکھ لو تو کہ محمد یہ بشارات پر اعتراض کر نیوالے عیسائیوں کے پاس بیجا تعصب سے بچنے اور انصاف پر آجانے کا عمدہ ذریعہ موجود ہے.کچھ شک نہیں کہ ہر ایک مذہب کے پابند آدمی کو اپنا پسندیدہ مذہب بالکل لیے عجیب نظر آتا ہے.اگر بے عیب نہ سمجھے تو اور مذاہب پر اپنے مذہب کو ترجیح دیکر اسے کیوں پسند کرے.اور کیوں اپنے ہی مذہب کو باعث نجات یقین کرے.اور اس بات میں بھی کچھ شک نہں کہ سر یک شخص کو جو کسی مذہبا یا ہرج ہے.جب اپنے مقبول مذہب پر کوئی اعتراض سُنائی دیتا ہے.تو اس اعتراض کے اُٹھا نے پر حتی الوسع بہت کوشش کرتا ہے.اور اس مذہب کے پابند شخص کا قلب اس اعتراض کئے جواب دینے پر متوجہ ہو جاتا ہے.اور نہایت اضطراب سے جواب کے ڈھونڈھنے پر غفل وہم سے کام لینے لگ جاتا ہے.پھرا کر تھوڑا سا سہارا بھی موقع اختر اور اس کے لئے مل گیا.تو اس یا بندہ مذہب کی پابند سابقہ محبت اور الفت اپنے مذہب سے اس جواب کے ساتھ مل کر کو جواب کیسا ہی کمزور ہو اُس جواب کو قومی کر دکھلاتی ہے.اور دو سے باہر کیا حال اس پابند خاص مذہب کے سامنے اسکے بر عکس ہوتا؟ اس شخص کو جو ایک خاص مذہب کا باہتا ہے.دوسرے مذاہب کی عدم الفت اور انکے احکام سر عادی نہ ہونے کے باعث ابتدائی تنفر آن دوسے مذاہب کو ان

Page 250

w م ولفت پہلے ہی کمر زور کر دکھلاتا ہو جب اُن مذاہب پر تھوڑا ساطعن کا موقع مل گیا.تو وہ علم الہ اور ابتدائی تنفرد بالوں کہو، اُن دوسے مذاہب کی ناواقفی اس خفیف طعن کے ساتھ ملکہ طعن کو قومی کہ دکھلاتی ہے.یہی حالت مذاہب کی مباحث کی کتابوں کو مطالعہ کرنے سود کھلائی دیتی ہے.اور یہی شکل تقریری مناظروں میں نظر آتی ہو.اور منصف مزاج خدا تریس جزا سزا کے قائل لوگ نرا لاڈھنگ رکھتے ہیں.اور انکو خداوند کریم کی خالص رضا جوئی قیامت کا محکمہ قضا اور رہی سنگ میں رنگین کرتا ہوں.اور وہ صرف حق طلبی کا اصطباغ اور بیٹھا لئے رہتے ہیں.انکو رحمت اللہ کی تحقیقات پر برانگیختہ کرتی ہے.اسلیئے انکو بیجا تعصب اور نا مناسب حمایت حق کے قبول کرنے میں نہیں روک سکتی.ایسے عیسائیوں کو عیسائیت یہ نہیں سکھلاتی.کہ عیسوی بشارات کو بے وجہ قومی خوامخواہ مان لیں.اور محمد یہ بشارات پر سوفسطائیوں کی طرح ضرور ہی اعتراض کر دیں.اور ایسے ہی مسلمانوں کو اسلام ہرگز نہیں سکھلاتا کہ یہود کی طرح مسیح کی سچی اور واقعی بشارات پر شبہات پیدا کریں.اور محمدی بشارات کے لئے جھوٹ کو ہتھکنڈہ بناویں.میں نے جسقدر بشارات اور اور مضامین بحث کی ہو.اپنے عندیتے ہیں نہایت انسان ہو کی ہے.جاہلوں کی سی بیجا سمیت میرے دل میں نہیں - وَاللهُ عَلَى مَا نَقُولُ شَهِيدٌ - اور مجھے یقین ہو کہ وہ عادل اور رحیم اور قدوس میرا راستہ میری نیت کے نیک بیجوں کو اچھے اچھے پھلوں کا شہر درخت بنا دیگا.او خدا تو ایسا ہی کر.پھر یاد ہے کہ کسی نبی یا رسول کی نبوت اور رسالت ثابت کرنے کے لئے سابقہ انبیاء کی بشارات کا ہونا ہرگز ہرگز نا ز میں اور ضروری امر نہیں کیونکہ اثبات نبوت کیلئے بشارات کے سوا اور بہت دلائل ہوتے ہیں.علاوہ بہ میں اگر بشارت کا ہونا اثبات نبوت میں شرط ہو تو سب انبیاء سے پہلے نبی اور رسول کیلئے بشارات اور پیشین گوئیاں کیونکر ہونگی، اسلیئے کہ پہلے نہیں کی نسبت بشارت دینے والا خود نبی ہوگا.پس پہلا ہی پہلا نبی نہ رہا.دیکھو نوح اور اب ہمیں

Page 251

علیہما السلام کی نسبت کوئی پیشین گوئی نہیں بلکہ موسی جیسے رسول کو دیکھو.انکے واسطے بھی تب سابقہ میں کوئی پیشین گوئی نہیں اور کیونکر ہو سکتی.عیسائیوں کے نزدیک میسی سے پہلوں کی کتابیں ہی موجود نہیں.ایسے ہی ایوب کی نسبت بشارات موجود نہیں.اگر مان لیں کہ بشارات کا ہونا اثبات نبوت کے لئے ضروری ہے توہم کہتے ہیں کہ بشارات کا ہونا اس امر کا مستلزم نہیں کہ وہ بشارات سابقہ انبیا کی کتب میں موجود ہوں.جائز ہو کہ وہ ابشارات سینہ بسینہ چلی آتی ہوں.یہ میرا خیالی اور وہمی عندیہ نہیں.بلکہ نفس الامری اور واقعی ہے.دیکھو متنی ۳ باب ۲۳ میں کہتا ہے.بسیج ناصرت میں رہا.تاکہ وہ بشارت پوری ہو جو انبیا کہتے آتے تھے کہ وہ ناصری کہلا دے گا.حالانکہ انبیاء کہاں ایک نبی کی بھی کتاب میں نہیں لکھا کہ وہ ناصری کہلا دیگا ئیں یقین کرتا ہوں کہ حضرت متی اسی واسطے لکھتے ہیں کہ انبیا کہتے آتے تھے.اور یہ نہیں فرماتے کہ انبیا لکھتے یا لکھواتے آتے تھے.ناظرین یاد رکھو) ضرور یاد رکھو کہ مستی میں بھی انمیاد کہتے آتے تھے.جمع کا صیغہ ہے.یہ جمع کا صیغہ بہت سے بد زبان پادریوں کو شرمسار کرنے والا ہے.اور اگر مان لیں کہ سابقہ انبیاء کی مقدسہ کتب میں اُن بشارات کا لکھا ہوا ہونا ضرور ہے تو ہم دلیری سے کہہ سکتے ہیں.کل انبیا کی کتب کا موجود ہونا ضر و ر نہیں صاف عیاں ہے.آدمم اور نوی اور ابراہیم اور یعقوب اور پوست وغیرہ انبیاء کی کتا میں کہاں ہیں.پیدائیش کے پچاس باب میں یوسف نے جس خدائی قسم کا جو ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب سے ہوئی ذکر کیا ہے.اس کا علم پو سٹے نے کس کتاب سے حاصل کیا.اور اگر مانا جائے کہ بشارات کا مذکور ہونا ایسی کتابوں میں ضرور آکہ ہو موجود ہوں.تو کہا جاتا ہو کہ وہ کتب موجود تو ہیں.اتنی ہمارے پاس والے عیسائی انگریزوں کے نزدیک وہ کتابیں باغراض مختلفہ اور اسباب کشتی مشتبہ مقرر کی گئیں.گو ہمہ کافی

Page 252

۴۴۴۵ ثبوت ان کی صحت کا رکھتے ہیں.اور اگر مانا جاوے کہ بشارات کا کتب موجودہ اور غیر مشتبہ میں ہونا ضروری ہے.تو ہم کہتے ہیں کہ بشارات کا مفصل ہونا کہاں ضرور ہے.بشارات تو اکثر ایک معما اور چیستان اور پھیلیاں ہوتی ہیں.یا یوں کہیئے کہ خواب کا سا مضمون رکھتی ہیں.بشارات غالباً عوام پر مشتبہ رہتی ہیں.اور خواص پر کبھی قرائن سے اور کبھی اُس نبی کے ظہور پر جس کی نسبت وہ بشارتیں ہیں.یا اسکے اور دلائل سے ثبوت نبوت کے بعد اور اس مبشر نبی کی تفسیر سے ظہور پاتی ہیں.بلکہ عیسائیوں کے مذاق پر تو کہ سکتے ہیں کہ پیشین گوئیاں اور بشارتیں ایسی منفی اور باریک ہوتی ہیں کہ انبیاء کو بھی اُن کا مصداق معلوم نہیں ہوتا.علما، بیچارے کس گفتی اور شمار میں ہیں.عام انبیاء کیا عیسائیوں کے طرفہ پر جس نبی کی بشارت ہو وہ آپ بھی اپنی بشارت کو کبھی نہیں سمجھ سکتا.دیکھو انجیل یوحنا باب ۲۱ - یوحنا نے اپنے ایملیا ہو نے سم انکار کیا.حالانکہ انجیل متی اباب ۱۴- اور ۱۷ باب ۱۲ سے معلوم ہوتا ہو کہ بلوجن ایلیا تھا.مسیح اور پوھنا اور اس نبی کی بشارات اگر مفصل ہوتیں تو کاہنوں اور لادیوں کو پوجت سے پوچھنے کی کیا حاجت ہوتی.جیسے یوحنا ، ا باب ۲۰ و ۲۱ میں ہے.اگر بشارات مفصل ہوئیں.تو و اریوں کو یوحنا کی نسبت کیوں شعبه پر تا متی ۱۷ باب ۱۳ با اینکه سواری موسی سے بھی رہتے میں بڑے ہیں.اور حواریوں کا مخلص رب یوجنا کا شاگرد اور اسکے ہاتھ پر بیٹسما پانے والا تھا.اور جوار کی کئی دفعہ یوحنا سے ملے اور اُسے جانتے تھے.اور بی بی جانتے تھے کہ ایلیا کا مسیح سے پہلے آنا ضرور ہے.یوحنا - باب ۳۳ میں صاف مندرج ہے کہ یوحنا نے مسیح کو اُسوقت تک نہیں پہچانا.جب تک خدا نے یو منا کو نہ بتایا.کہ جسیر روح اترتی تو نہ دیکھے وہ روح القدس کا بیٹا دیگا.معلوم ہوا کہ میں برس تک یوحنا سا جلیل القدر رسول (متی ۱۱

Page 253

۲۴۶ باب (1) اپنے رب اور مخلص مالک سے بیخبر رہا.بلکہ منی ا باب ۲.اور لوقا ہے باب ۱۹.سے یوحنا کا تردد آشکارا ہے.کا بہنوں کا وہ ریس قیا ناچنے جناب سے اسے قتل اور کفر اور اہانت کا فتویٰ دیا.متی ۲۷ - باب - حسب انجیل یوحنا 1 - باب اللہ نہیں تھا.اگر وہ حضرت بیع کو اچھی طرح پہچانتا تو کا ہیکو ایسی سخت اور خطرناک فتوے کا مفتی بنتا.یو منانے یہ میاء کے ۲۰ باب ۳۰ سے جو پیشینگوئی اپنی نسبت فرمائی ہو کہ میں و جنگل میں پکارنے والے کی آواز ہوں کہ خدا وند کی راہ صاف کرو.دیکھو متی اور لوقا ۳ باب اور مرقس اور یوحتنا اباب.اس بشارت پر غور کرو کیسی عمل اور تا ہے.اگر جناب یوسنا اس بشارت کو اپنی نسبت بیان نہ کرتے.اور مصنفان اناجیل اس بشارت کو یوحنا کی نسبت تسلیم نہ فرماتے.تو کوئی بھی اس پیشینگوئی کو جناب یوسن پر منحصرنہ خیال کرتا اسلئی کہ یہ بشارت بہت سے اُن انبیاء پر بھی صادق آسکتی تھی.جو اشعیا کے بعد ہوئے.بلکہ جناب مسیح پر صادق تھی.جو آسمانی بادشاہت کے قرب کی منادی فرماتے تھے.اس تمام بحث سے یہ ثابت ہو گیا کہ بشارات نبوت کا مفصل ہونا ضرور نہیں.اگر بشارات کا مفصل ہونا ضروری ہو تو ہر ایک عاقل اور بشارات کا واقف اور انکی مباحث پر دھیان کرنیوالا جانتا ہو کہ بشارات پر دو قسم کے اعتراضات واقع ہوتے ہیں.ایک وہ اعتراض جس کی بنا ضدیت اور بہٹ دھرمی یہ ہوتی ہے.دوسری دو جنکا مدار انصاف اور راستی پہ ہو.پادریو ! تمہارے نزدیک جن لوگوں نے مسیح کی بشارت پر اعتراض کئے ہیں وہ لوگ ان اعتراضوں کے باعث ہندی اور ہٹ دھرمی خیال کیئے گئے کہ نہیں.ہاں یہ بات ضرور ہے.جب کوئی انسان کسی مذہب کا پابند ہو تو اس سے دوسرے مذاہب اور دوسرے ہادیان مذہب کی عظمت اور بزرگی کی جانچ میں غلطی ہو جاتی ہے.اور

Page 254

۲۴۷ عادت کے باعث ہے مذہب کے سخت سے سخت حبیب اور کمزور دلیل کو دو سے مذہب کی مندگی د قوی دلیل سے مقابلہ کرتے وقت اُسی عیب کو ترجیح دیئے جاتا ہے.اور اس ترجیح میں کبھی معذور سمجھا جاتا ہے.مگر منصف مزاج اور خداوند نیما کی بادشاہت کے طالب اور سزا سے ڈرنے والے کو یہ مرحلہ طے کر لینا بہت ہی سہل ہے.ئیں نہایت جرأت اور دلیری اور راستی اور سچائی سے کہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ کی بشارات پر منصفانہ اعتراض کبھی نہیں ہو سکتا.اور کوئی منصف بعد خورد قاتل کے ان محمد یہ بشارات کا انکار نہیں کر سکتا.ہٹ دھرمی اور ضدیت کا جواب خدا ہی دے.منصفوں اور نجات طلب تلاشیوں اور راستی سے جانچ پڑتال کرنیوالوں کے سامنے عیسو یہ بشارات اور محمد یہ بشارات کو بیان کرتا ہوں.تاکہ انکو مقابلے اور موازنے کا موقع ملے.میں نے بشارات کے بیان میں سیجی بشارات کو اسواسطے پہلے لکھا ہو کہ عیسائیوں کو تحصد سے بچنے اور عیسوی مذہب کے مقابلے میں محمد کی بشارات پر اعتراض کرنے میں نور ایمان اور راستی ملحوظ رہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اثبات نبوت پر قرآن ہدایت کرتا ہو اور سکھلاتا ہے کہ منکروں کو یہ جواب دو.وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرَ وَالسْتَ مُرْسَا، قُلْ كَفَى بِاللهِ شَهِيدٌ أَبَيْنِي وَبَيْنَكُم وَمَنْ عِنْدَه علم الكتاب - پاره ۱۳ - سوره رعد - رکوع ۶ - کیا معنی کہ محمد کی رسالت اور نبوت کے ثبوت پر قانون فطرت جو خدا کا فعل ہے.گواہ ہے.کیونکہ مذہب خدا کا قول اور قانون قدرت باریتعالی کا فعل ہے.اور لازم ہے.کہ باری تعالیٰ کے فعل اور قول دونوں باہم متوافق ہوں.ے اور کہنے میں منکرلوگ کہ تو رسول نہیں تو کہے میری نبوت پر خدائی ثبوت کائی ہے.اور وہ ثبوت جو الہامی کتاب کے علماء کے پاس ہے ۱۲.

Page 255

۲۴۸ اور کتاب سابق کا عالم بھی کافی گواہ ہے.سابق کتر کے علما و طرح گواہ ہیں.اول اس طرح کہ ان سے کتب سابقہ کو سیکھ کریم خود محمدی بشارات وکتب سابقہ سے نکالیں.دوم اس طرح پر کہ جس طرح وہ اپنے انبیاء اور رسل کی نبوت اور رسالت کو ثابت کریں.اسی طرز پر ہم بھی نبوت اور رسالت محمد عربی کو ثابت کریں جسقدر اور انبیاء کی بہو کے بوت دنیا میں لوگوں کے پاس نہیں.اس کی نظیر کے کل ثبوت اور قانون قدرت سے موافقت کا بھاری ثبوت محمد عربی کی نبوت اور رسالت کے واسطے موجود ہے.ایک لطیف امر یاد رکھنے کے قابل ہو کہ اسماء کا ترجمہ مضامین کو سخت وقت میں ڈالتا ہو.اور اہل کتاب کی عام عادت ہے کہ اسماء کا ترجمہ کر دیتے ہیں.ایسا ہی تفسیر کو متن سے ملا دینا بڑا عیب ہے.کیونکہ تفسیر تفسیر کا خیال ہوتا ہے.جس میں صحت اور غلطی دونوں کا احتمال قوی ہے.بشارات میں نقص نہایت مضر ہوا.محمدی بشارت جیسے سلیمانکی غزل الغزلات میں ہے.اگر اس میں لفظ محمدی کا ترجمہ نہ کیا جاتا.تو کیسی صاف تھی.اور نمونہ ۸ - باب ۳ - اشعیا - مہر شالال حشفیز نام بند.اور عربی ترجمہ شائر میں ہے.ادع اسمه اغنم بسرعة و انهب عاجلا شیخ کی پہلی بشارات رصین اور فتح نے باہمی اتفاق سے احاذ پر چڑھائی کی.احاذ نے گھبرا کر اشعیا سے پر تسلی چاہی تب اشعیا نے کہا کہ ایک علمہ (جوان یا کنواری) کو حمل ہوگا، اور وہ عمانوئیل نام بیٹا بنے گی.ابھی وہ ہوشیار نہ ہوگا کہ تیرا ڈر دور ہوگا.اشعیاء باب ۱۴.پھر اشعیا کے آٹھویں اور نویں باب میں ہو کہ وہ لڑکا پیدا ہوا.اور اسکا نام ماہر شالال ہا شبنز رکھا گیا.جب لڑکا اکیس برس کا ہوا فتح کا ملک خراب ہوگیا.اور حجاز کا ڈر جاتا رہا.بنسن کہتا ہے.یہ عورت اشعیا کی بی بی تھی.با این متی نے کہدیا.یہ بشارت مسیح کے حق

Page 256

میں ہے.جو کنواری سے پیدا ہوا ہے.متی 1 - باب ۱۸- ۲۳ - اول غور تو کر دوستی نے کیا کہ دیا.یہ بشارت کب اور کس مطلب پر کی گئی ہے.اور کہاں لگائی گئی.دوم پھر علمہ کا ترجمہ کنواری کیا.سلیمان کی امثال فنسن میں میں لفظ ہے اور وہاں اس کے معنی ایسی جوان کے ہیں.ہوا بیا ہی ہو.فری نی ڈکشنری ہیں.اور یونانی ترجموں ایکو ملا.اور تہوڈوشن اور کمیکس من جوان کے معنی ہیں.تہذیب الاخلاق - مونم مسیح کا نام کسی نے بھی عمانوئیل نہیں رکھا.نہ آپ نے نہ آپ کی ماں نے اور نہ باپ نے.بلکہ فرشتے نے بھی یہی کہا.کہ اسکا نامہ یسوع رکھنا.ہی چہارم اگر علمہ کے معنی کنواری لیں تو بھی سیج پر چسپاں نہیں مسیح حسب اقوال انا جبیل ابن یوسف ہیں.متی ۱۳ باب -۵۵ یوحنا باب ۲۲ و ۱۰ - باب ۴۵ - لوقا ۲ - باب ۳۷ - و ۴۱ - و ۴۸ - پس اناجیل کو صاف واضح ہو کہ سی این انسان تھے میتی میں خو نسب نامے میں کی این داؤد کہا ہے.اگر یہ عذر تراشا جائے کہ نسب نامہ لحاظ صدیقہ مریم کے ہو تو اسپر یہ اعتراض کہ یہودی شرح میں نسل کاسلسلہ اور کیطرف و قائم نہیں ہوسکتا.اور سب نام میں مریم کا نام بھی نہیں.اور یوسف نے کبھی باپ ہونے س انکار نہیں کیا.یہ کام صرف انجیلی فداق پر پچی خلاصہ بیتی نے اشعیا کی کتاب سے ایک بشارت مسیح کے حق میں نکالی.حالانکہ وہ واقعہ کنواری یا جو ان کے پیٹ سے عمانوئیل کے جمنے کا واقعہ مسیح سے پہلے اشعیا کے زمانے میں گذر سکا.یہ کام متی کا بالکل الہامی نہیں.والا ایسا غلط نہ ہوتا.دوسری پیشینگوئی به نسبت مسیح علیہ السلام میکاہ نبی نے بہت سے واقعات آئندہ کو اشارات اور کنایات میں بیان فرمایا اور انہیں

Page 257

۲۵۰ میں کہا.اسے بیت لحم مارا تا اگر یہ تو یہوداہ کے ہزاروں میں چھوٹا ہے.لاکن میرے لئے ایک شخص جو بنی اسرائیل میں سلطنت کریگا.اور اسکا ہونا بہت قدیم زمانے ہو تو ہو چکا ہے.تجھ میں سے نکالیگا.میکاہ - ۵ باب ۲ - متی نے ۲ باب ۶۳ میں کہا.یہ بشارت مسیح کے حق میں ہے.حالانکہ اقل تو مسیح نے بنی اسرائیل پر سلطنت ہی نہیں کی یسلطنت حضرت کو کہاں نصیب ہوتی یبنی اسرائیل سے وہ مصائب اُٹھائے جنکے سننے سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں.یہود نے..طمانچے مارے ہاتھ پاؤں چھیدے کانٹوں کا تاج پہنایا.لکڑی پر باندھا.خود حضرت ایسے گھبرائے کہ ایلی ایلی لما سبقتنی کہہ اٹھے.دوم مستی کی عبارت میکاہ کی عبارت سے موافق نہیں.بھارت کہتے ہیں میکاہ کی عبارت محرف ہے.بھلا عیسائی مفسر کہہ سکتا ہو کہ مستی نے غلط ترجمہ کیا.یادر ہے.یہاں روحانی سلطنت مراد نہیں ہوسکتی.کیونکہ مسیح کی روحانی سلطنت کو بنی اسرائیل سے خصوصیت نہیں مسیح کی رومانی بادشاہت عام ہے.سوم یواقیم نے جب دار ورخ کا لکھا ہوا.ارمیا کا صحیفہ جلا دیا.تو خدا نے فرمایا لو اقسیم کی نسل سے اور کرسی پر کوئی نہ بیٹے گا.یرمیاہ باب اور یج بو ایم کی اولاد ہیں ہیں.ہاہا.تیسری بشارت جبکہ اسرائیل بچا تھا.اُس کو میں پیار کرتا تھا.اور اپنے بیٹے کو میں نے مصر سے بلایا.ہوشیح - باب ! متی کہتا ہے.ہیرو نے مسیح کو مار ڈالنا چاہا.تو فرشتے نے یوسف سے کہا کہ سیج کو مصر لیجا.جب ہیر ، مر گیا.تو مسیح مصر سے واپس آگئے.پس یہ بشارت سیح کی ہوئی سنو سنو سنو خروج ۳ باب ۲۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر میں یہودی لوگ جب پست حالت میں تھے.تو ان کو

Page 258

۲۵ میٹی کی معرفت خدا مصر سے نایا.بنی اسرائیل اپنی پسنی کے باعث بچپن کی حالت میں تھی.اور بنی اسرائیل کا بیٹا ہونا ہو شیع.باب : روحی 4 باب ۲- استثنا ۱۲ باب ؛ و ۳۲ - باب ۱۹ - سے ثابت ہے.اسی احسان کو خدا ہمیشہ بنی اسرائیل پر مسیح سے آگے ظاہر کر تا رہا.دوم اس آیت میں مسیح کی خصوصیت نہیں.اور سی نہ اسرائیل.نہ اسرائیل کی نسل.کیونکہ عورت سے یہود میں نسل نہیں چلتی.سوم یہ دوسرا باب مستی کا لوقا کے دو کے باب سے متفق نہیں.اگر تا دیل سر موافق کرتا ہو.تو بشارات محمدیہ میں تاو بلا سے کیونکر انکار مکن ہی چہارم - تشیع کی کتاب مطبوعہ اسلام میں ہو.ان اسرائيل منذ كان طفلا انا احببته ومن مصر دعوت اولادہ اور ۳۳داء میں اولاد کی لفظ کو جو جمع تھی مفرد کر دیا گیا.اور غائب کی ضمیر کے بدلے میں تکلم کی ضمیر رکھ دی.نجم یہ قصہ اور اس کے مصداق وہ لوگ ہیں.جنہوں نے تعلیم ثبت کی قربانی کی اور لم بت پرست تھے.اور سیح بت پرست نہیں تھے.چوتھی بشارت مسیح کے حق میں برا ماہ میں دھاریں مار کہ رونے اور نالہ کرنے کی آواز سنائی دیتی ہو کہ راحیل اپنے بیٹوں کیلئے روتی ہے اور تسلی نہیں پاتی.کیونکہ وہ نہیں ہیں.پر میا اس باب ۱۵ حضرت ملتی اس کو مسیح کی بشارت یقین کرتے ہیں اور کہتے ہیں سیح پیدا ہوئے.تو ہیرود نے اس شبہے پر کہ کون بچا ہو ہو بیٹے ہوگا.بہت کم اور اسکی سرحد کے لڑکوں کو قتل کرایا.مستی ۲ - باب ۱۲- بنگر اول میرود کا یہ ظلم عیسائیوں کے سوا کسی مورخ نے بیان نہیں کیا.یوسفیں اور یہودی مورخ جو میرود کے معائب لکھنے میں دلیر ہیں اس قصے سے ساکت ہیں.دوم بہت کم کو علم لے اسرائیل کو بچپن سے میں نے پیار کیا.اور مصر سے، اُس کی اولاد کو بلایا.

Page 259

۲۵۲ کے پاس ہے اور ہیرو کے زیر حکم تھا.آسان طورسے میرہ تحقیق کرسکتا تھا کہ جوس کس گھر میں اُترے اور کس لڑکی کے آگے بزرگذرانی سوم پر سیاہ کی آیت کا ماقبل اور مابعد دیکھو صاف صاف یہ اس حادثے کا بیان ہے.ہو بخت نصر کے وقت بنی اسرائیل پر ارمیا کے جو زمانے میں نازل ہوا.اور ہزاروں اسرائیلی اِس میں قتل ہوئے.ہزاروں اسیر ہوئے اور بابل کی طرف جلا وطن ہوئے.اور ان میں اکثر راحل کی اولاد تھے.یادر ہے.ارمیا کی آیات سے معلوم ہوتا ہے.مرے ہوئے لوگوں کو برزخ میں اپنے اقارب کے دنیوی حالات پر اطلاع رہتی ہے اور انکے صدمات سے اموات کو صدمہ پہنچتا ہے اور یہ بات پر وسٹنٹی عقاید کے خلاف ہے.مسیح کی پانچویں بشارت تنگی کی ظلمت جس میں زمین مبتلا ہوئی ہے باقی نہ رہیگی میں طرح اگلے زمانے میں زبولو کی زمین اور نفتالی کی زمین کو حقیر کر کر.آخر اسی طرح در بیا کیطرف داردن و فرات کے کنارے جلیل میں بڑے بڑے قبیلے ہونگے.جو قوم کے اندھیرے میں چلتی ہو تو عظیم دیکھیں گی.اور مورکے سائے کی زمین کے رہنے والوں پر ایک نور چمکے گا.اشعیا - باب او ۲ - اشعیا نبی نے یہ بیان کرتے کرتے کہ اب بیت المقدس (یروشلم) میں تکلیف نہ رہیگی یہ بات فرمائی.متی کہتے ہیں.یہ بشارت سیح کے حق میں ہے.کیونکہ جب سیج نے سنا بھی گرفتار ہوا تو آپ جلیل کو چلے گئے اور ناصرہ کو چھوڑ کفر ناحوم میں دریا کے کنارے زبولوں اور نفتالی کی حدود میں جا رہے.متنی ۴.باب ۱۲ ۱۳ ۱۴ و ۱۵ نکر کرو اقل متی نے صرف اتنے لگاؤ پہ کہ مسیح دریا کے کنارے پر جا رہے اشعیا کا قول بشارت بنا لیا دوم اشعیا کی آیات کومت کی آیات سے مقابلہ کریں تو دونوں ایک معاومہ نہیں ہوتیں ہنوما شیاں

Page 260

۲۵۳ کی کتاب میں گذشتہ زمانہ کا حال معلوم ہوتا ہے.اگر آئندہ زمانہ لیں تو ہم کہ سکتے ہیں کہ گندی لوگوں اور اُن کی تعلیم کا اشارہ ہے جن کی بدولت اس ملک میں کامل تو جب پھیل.اور اقسام بت پرستی کا استیصال ہوا.اور مسیح بھی جیسے تھے.ویسے مانے گئے.مسیح کی چھٹی بشارت اب میں اپنے رسول کو بھیجوں گا.میری برا بر راه کو تیار کریگا اور جس خداوند کی تلاش میں ہو یعنی رسول عہد کی اور اُس سے خوش ہو.یکا یک اُسی رمیکل میں آجاوے گا.شکروں کا خداوند فرماتا ہے کہ اب وہ آتا ہے.ملا کی ۳- باب ! یہ بات ملا کی نہبی نے بنی اسرائیل کو ندا کی عدول حکمی پر ملامت کرتے کرتے فرمائی.اور اشعیا نبی نے بنی اسرائیل کو اور یروشلم کو تسلی دیتے فرمایا.پکار نیوالا پکارتا ہے.بیابان میں خدا وند کیلئے ایک راہ طیار کرو.اور جنگل میں ایک شاہراہ میری خدا کے لئے درست کرو.اشعیا ۴۰ - باب ۳ - متی مرک لوک - تینوں متفق اللفظ کہتے کہ یہ دونوں بشارتیں مسیح کے حق میں ہیں.کیونکہ یوحنا کا اصطباغ دینا مسح کیلئے راہ بنانا ہے.اور یوحنا کا کہنا کہ میرے پیچھے اور آتا ہے پکارنے والے کی آواز ہوگی.متنی ۳ باب - مرک - - باب - لوک - - - -باب- セッ غور کرو.یہ ور بخلاف اسلام مینی کو نبی نہیں مانتے.پرانے عہد میں صاف طور پر انکا ذکر نہیں.بیٹی کی کوئی کتاب موجود نہیں.اناجیل میں جو اقوال ہیں.وہ زبانی روایات ہیں.راویوں کا نام مندرج نہیں.عیسائی یقین کرتے ہیں کہ یہ کتا بیں روح القدس کے وسیلے سے مرقوم ہوئیں.اتھ مسلمان لوگ جس طرح اپنے جنابے کے حواریوں کی سند مانگتے ہیں.اس طرح نوٹ.عیسائی لوگ کبھی خوش نہیں ہوتے کہ مسلمان احادیث صحیحہ سے اُن کے سامنے کوئی مستند ا مر پیش کریں.بلکہ اسپر سخت جھنجھلاتے ہیں.افسوس ان مسکینوں کو علم حدیث سے مطلق واقفیت نہیں کہ اہل

Page 261

۲۵۴ مسیح کے حواریوں کی سند پوچھتے ہیں..بشارات ام مصطف مجتبی رحم عالم و عالمین صلی اللہ علیہ و سلم احمد پہلی پیشین گوئی.حضرت ابراہیم اپنے بیٹے جاب آملیں اور انکے سکن کیلئے دعا کرتے ہیں.چونکہ تورات میں ابراہیمی واقعات اور تعلیمات کا بہت مفصل ذکر نہیں.اور اسمعیلی معاملات کا اور بھی کم ذکر ہے.اسلیئے تو رات میں اس دعا کا ذکر جمال ہے.اور قرآن میں تفصیل اور نتیجہ دوعا اور اسکی قبولیت کا بیان چونکہ پیشین گوئی میں نہایت مطلوب تھا.اسلئے وہ نتیجہ توریت میں مجمل اور قرآن میں فصل بیان ہوا.د إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَكَدًا أمناء ارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الأخير سيارة - سورة بقر - ركوع -۱۵ 1 اذير فَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ رَبَّنَا وَ جَعَلْنَا مُسلميْنِ لَكَ وَمِنْ ذِرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةَ لَكَ وَارِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ - پاره -- سوره بقر رکوع ۱۵ - الے اور جب کہا ابراہیم نے اسے رب کہ اس شہر کو امن کا اور روزی سے اسکے لوگوں کو میوے، جو کوئی ان میں یقین ناوے اللہ پر اور پچھلے دن پڑا ہے اور سب اُٹھانے لگا اور اسی بنیادیں اس گھر کی اور ہمیں.اے رب ہمارے قبول کر ہم سے تو ہی ہی اصل سنتا جانتا.اسے اب ہمارا اور کرم کو کم بر دار اپنا اور ہماری اولاد میں کبھی ایک امت حکم بردار اپنی.اور بتا سجا دستور حج کرنیکے اور مہکو معاف کرہ تو ہی ہو اصل مربان کر نیوالا مہربان " بقیہ حا.اسلام نے کس قدر احتیاط علم کے اخذ میں کی ہو.دنیا میں اگر کوئی تاریخ کوئی بڑی جلیل الشان کتاب کوئی معتبر قوی روایت اعتبار کے قابل ہو سکتی ہے تو حدیث صحیح بطریق اولی قابل وثوق و وقعت ہو سکتی ہے.کس خوبی سے ہر ایک امر کا سراغ ہادی اقدس علیہ الصلاۃ تک لگایا گیا ہے.کہ خود محققین یو اپنے عقلا اسکے معجزہ ہونے کا اقرار کیا ہے.اناجیل اربعہ جو بعد زمانہ دراز مسیح کے مجهول الاسم و الرسم لوگوں نے تحریر میں حدیث صحیح ہے کچھ مناسبت نہیں رکھ سکتیں.ہمارے پاس قاطع دلائیں و مد اس امر کے ہوتے ہیں کہ کتابہ جمع الاحادیث کا کام آنحضرت کے مین حیات ہی ہمیں آغاز اور تابعین کے عہد میں تو مہ کمال کو پہنچا.ا

Page 262

۲۵۵ بنَا وَ ابْعَثْ فِيهِمْ رَسُوا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتاب و الْحِكْمَةَ وَيُزيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكيم- پاره 1- سوره بقر - رکوع ۱۵ - الى السكنتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ المُحرم رَبَّنَا ليقيمها الصَّلوةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِم و ارز تُرم من ربنا الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ - پاره ۱۳- سورة ابراهيم - رکوع ۲ - ۶ - نکتہ.اس آیت میں لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکایا.مجیب قابل غیر کلام ہے اور اس معزز گھر یعنی مکہ معظمہ کا ابراہیم کے زمانے سے جھوٹا اور آنحضرت کے زمانے سے خصوصا لاکھوں قسم کی مخلوقات کا مرجع و مرکز ہونا.وعدہ الہی کے ثبوت کی بڑی بھاری دلیل ہے.اب ان آیات قرآنی کو آیات توربیت سے تطبیق دیجاتی ہے.توریت میں لکھا ہو حضرت حق سبحانہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم سے آپ کے پوٹھے بیٹے حضرت اسمعیل کی نسبت وعدہ فرمایا." میں نے تیری دُعا اسمعیل کے حق میں قبول کی.دیکھ لیں اُسے برکت دوں گا.اور اُسے برومند کرونگا.اور اُسے بہت بڑھاؤنگا.اور اس سے بارہ سردار پیدا ہونگے.اور اؤس سے بڑی قومہ بناؤں گا یہ کتب اور المیہ تب سابقہ کے ناظرین او را امامی مضامین میں گہری نگاہ کر نیوالے اگر انصاف سے کے اے رب ہمارے اور اُٹھا ان میں ایک رسول نہیں ہیں کا.پڑھے اُن پر تیری آیتیں.اور سکھا دے اُن کو کتاب اور پکی یا تئیں.اور ان کو سنوار ہے.تو ہی ہے زبر دست حکمت والا۱۲ اے رب میں نے بسائی ہے ایک اولاد اپنی میدان میں جہاں کھیتی نہیں.تیرے ادب والے گھر پاکس.اس رب ہمارے تا قائم رکھیں نماز - سورکھ بہنے لوگوں کے دل جھکتے ان کی طرف اور روزی دے اُن کو میووں سے شاید وہ شکر کریں یا

Page 263

۲۵۶ دیکھیں تو یہ پیشگوئی صاف محمد بن عبد الله بن اسمعیل بن ابراہیم کے حق میں ہے.اس بشارت میں کئی امور غور طلب ہیں.اول یہ برکت دونگا.برومند کرونگا.بہت بڑھاؤ نگا نہایت انصاف سے دیکھنے کو مجبور کرتے ہیں اور بڑی بلند آواز سے کہتے ہیں کہ اسمعیلی وعدوں کو جسمانی مت کہو.صرف جسمانی وعدے میں برکت اور فضیلت نہیں بلکہ بالکل نہیں.وہ تو موت کے گہرے کنوئیں میں سہنے کا باعث ہو منصفو کیا.اگر ابراہیم کی اولاد بت پرست راہزن چقد- جاہل.بد تہذیب قمار باز- زانی- مکار بدکار ہی رہتی.توحضرت اسمعیل کو کوئی عاقل کر سکتا کہ تو برو مند ہوا.تجھے برکت ملی تجھے فضل عطا ہوا تجھ سے بڑی قوم بنی ہرگز نہیں.ہرگز نہیں.حقیقت تو یہ ہو کہ انکی اولاد میں ایک بڑاز بر دست رسول پیدا ہوا جب اپنے اس متفرق گروہ کو ایک قوم بنایا.اسی کے وسیلے سے وہ قوم برو مند ہوئی اور اسے یہانتک بڑھایا کہ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةُ كبكر ابد الآباد تک ہر ملک اور ہر جنس کی آئین آنیوالی نسلوں کو اُنکی ترقی کا ضمیمہ بنایا.فداه الى وَأُمِّي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم دوم - جو بشارات عہد جدید میں حواریوں اور اناجیل کے مصنفوں نے مسیح کی نسبت خیال کر کے مندرج کی ہیں.وہ سب کی سب اونٹی لگاؤ اور ابہام سے بڑھ کرکوئی وقعت نہیں رکھتیں.یہاں نہ صرف لگاؤ ہی لگاؤ بلکہ تصریح و توضیح موجود ہے.کہ بنی اسمعیل (قوم عرب) فضیلت والے.برکت والے برومند - امام قوم محمد رسول الله صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے عہد برکتِ مہد میں ہوئے.سوم - فضیلت اُسی وقت پوری فضیلت ہوتی ہو جب اپنے اقران و امثال پر ہو.اور تمام عالم شاہ ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سادہ سے پہلے عرب اور حجاز والوں بنی اسرائیل پر کبھی کوئی علی حاصل نہیں کیا.متعصب عیسائی نبی عرب کی بشارات پر ہمیشہ اعتراض کرتے رہے ہیں.جو یہودیوں کے اُن اعتراضوں سو کہ بشارات مسیح پر انہوں نے کئے ہیں زیادہ زور آور نہیں ہیں.چنانچہ اس بشارت پر یہ اعتراض کیا ہو.

Page 264

۲۵۷ اسحاق کی نسبت روحانی وعدہ ہے اور اہم میل کی نسبت جسمانی.اگر یہ اس کا جواب ابھی ہو چکا ہے الا مزید توضیح کے لئے کسی قد تفصیل کی جاتی ہے...ہم اسمعیلی اور اسحاقی وعدوں کو بمقابلہ یکد گر تورات سے جمع کر کے ناظرین با انصدمت کے سامنے پیش کرتے ہیں.اور ان کے نور ایمان اور انصاف سے پوچھتے ہیں کہ کس طرح سے وہی وعدہ اسمعیل کے حق میں تو جسمانی اور اسحاق کے حق میں روحانی ہو سکتا ہے.اور چونکہ باریتعالی کے وعد سے ابراہیم کے ساتھ دو طرح کے ہیں.ایک عام طور پر ابراہیم کی اولاد کے لئے.اور ایک خاص طور پر اسمعیل اور اسحاق کے لئے.اسلئے قبل از مقابلہ ہم مشترکہ ، عدسے بیان کرینگے کیونکہ وہ وعدے جیسے الحاق کے حق میں ہیں.ویسے ہی اسمعیل کے حق میں بھی ہیں.اگر اُن سے اسحاق کو تر جیح ہو سکے تو اُنھیں سے اسمعیل کو بھی ہو سکتی ہے.اگر یہ وعدے رُوحانی ہیں.تو اسحاق اور اسمعیل دونوں کے لئے.اور اگر جسمانی ہیں.تو بھی دونوں کے لئے.اور اگر عام ہیں کہ وحانی ہوں یا جسمانی تو کبھی دونوں کے لئے.مشتر کہ وعدے (1) جب ابراہیم کنعان میں پہنچا.تو خدا نے کہا.یہ زمین میں تیری اولاد کو دوں گا.پیدائیش ۱۲- باب (۲) جب ابراہیم لوط سے جدا ہوئے.خدا نے کہا.آنکھیں کھول چاروں طرف کی زمین تیری اولاد کو رونگا.۱۳ پیدائیش باب ۱۴ ۱۶۷ - (۳) مصر سے فرات تک کی زمین میں تیری اولاد کو دونگا.پیدایس باب ۱۵- ۱۸ (۴) تیری اولاد کو وسیع اور بے شمار کرونگا.پیدائیش باب ۱۵- ۵ - (۵) جب ابراہیم ننانوے برس کے ہوئے.خدا نے وعدہ کیا کہ تجھے زیادہ سے زیادہ کرونگا.تجھ سے تو میں پیدا ہونگی.اور بادشاہ ہونگے.اور کنعان کی زمین بوراشت دائمی

Page 265

۲۵۸ تجھ کو دونگا.پیدائش ۱۷- باب ۶ تا ۸ - یہ وہ وعدے ہیں.جو ابراہیم کی اولاد کے لئے مشترکہ ہیں.اور یہ خدا کے سچے وعد دونوں بھائیوں اسمعیل اور اسحاق کے حق میں ظاہر ہوئے.کنعان کا ملک ایک نے مانے تنگ بنی اسحاق کے قبضے میں رہا.پھر تیرہ سو برس سے جنگ بنی المیل یا انکے خادموں کے قبضے میں ہے.ایسا ہی وہ ملک جو لوط کے جدا ہوتے وقت ابراہیم نے دیکھا.اور ایسے ہی مصر سے فرات تک کا ملک دونوں صاحبوں کو ملا.اسمعیل اور اسحاق سے ابراہم کی اولاد بہت بڑھی.اُن سے تومیں پیدا ہوئیں.بادشاہ نکلے.کنعان کے مالک ہوئے.کوئی تخصیص بنی اسحاق کے لئے اس میں نہیں.بلکہ زبور ۱۵۰- 9 سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسحاق سے جسمانی و عدہ تھا.کیونکہ لکھا ہو کہ وہ عہد جو ابراہیم سو ہوا اور اسحاق سے اُس کی قسم کھائی.اور بنی اسرائیل سے دائمی با ندھا گیا.اور یعقوب سے بطور قانون کے مقرر ہوا.وہ کنعان کی زمین دینے کا وعدہ تھا" خاص خاص گر ہم معنی وعدوں کا بیان - تکوین - باب ۱۶ - ۱۷ - خاتون سارہ آپ کی اولاد بے شمار ہوگی.باب ۱۶ - ۱۵- خاتون ہاجرہ آپ کی اولاد بے شمار ہوگی."" " " " " " باب ۲۵ - ۱۱ - آپ کے فرزند اسحاق کو برکت دی اللہ تعالے نے.باب ۲۰۱۷ - آپ کے فرزند اسمعیل کو برکت دی اللہ تعالے نے.باب ۲۱-۱- آپ کے درد و غم کوشنا اللہ نے.باب ۱۶- ۱۱ - آپ کے درد و غم کو سُنا اللہ نے.پاپ ۲۶-۲۴- آپ کے فرزند کے ساتھ خدا تھا.باسی ۲۱-۲۰- آپ کے فرز بار کے ساتھ خدا تھا.

Page 266

۲۵۹ " پیدائش ۱۰ باب ۲۵ یہ تقسیم اللہ تعالیٰ نے زما نہ یقطان میں کر دی تھی.باب ۱۷ - ۸ - آپ کی اولاد کو زمین کنعان دی گئی.باب ۱۵-۱۸ - آپ کی اولاد کو زمین عرب عنایت ہوئی.باب ۱۷-۱۹- آپ کے فرزند کا اللہ تعالے نے نام رکھا.باب ۱۷-۱۱- آپ کے فرزند کا اللہ تعالیٰ نے نام رکھا." " " " " " باب ۱۹۱۷ - آپ کا فرزند بادشاہوں اور قوموں کا باپ ہوا.باب ۱۷- ۲۰- ۲۵-۲۶- آپ کا فرزند بادشا ہوں اور قوموں کا باپ ہوا.باب ۱۵- ۴.آپکا فرزند پہلوٹا اور وعدہ وراثت او تسلی کا پہلا مصداق تھا.ساره ہاجره باب ۱۲-۱۲- آپ کو برکت دی گئی اور فرزند کی بشارت دی گئی.اور آپ کو آپ فرزند دی اور بتایا گیا کہ وہ عربی ہو گا.نکتہ - اردو ترجموں میں لفظ وحشی اور جنگل کیا ہے یو ٹھیک لفظ عربی یا امی کا مرادف ہے.(دیکھیں تو اہل کتاب اسے کیونکر گوارا کر سکتے ہیں، پیدائیش ، باب ۱۵ آپکے فرزند کے باعث آپ سرے سے سرد ہوئیں.پیدائیش ، باب ۱۵- آپکے فرزند کے باعث آپ کے شوہر کا نام ابرام سے ابراہام ہوا.بشارت دوم مثلیت موسنی موسی کی پانچویں کتاب استثنار باب ۱۸-۱۷ تا ۲۲ ملاحظہ کرو.اور خداوند نے مجھے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا سوا اچھا کہا.میں اُن کے لئے اُن کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی بر پا کرونگا.اور اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالونگا.اور جو کچھ میں اُسے کہونگا.وہ سب اُن سے کہیگا.اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہیگا.نہ سنے گا تو میں اُسکا حساب میں سو لونگا.لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جسکے کہنے کا میں نے اُسے

Page 267

حکم نہیں دیا.یا اور معبودوں کے نام سے کہیے.تو ہ نہیں قتل کیا جا ویگا.اور اگر تو اپنے دل میں آنے میں کیونکر جانوں کہ یہ بات خداوند کی کہی ہوئی نہیں.تو جان رکھ کہ جب نبی کچھ خداوند کے نام سے کہے.اور وہ ہو اُس نے کہا ہو.پورا نہ ہو.یا واقع نہ ہو.تو وہ بات خدا وند نے نہیں کہی.بلکہ اس نبی نے گستاخی سے کہی ہے.تو اس سے مت ڈر.اس بشارت کا بیان دو حصوں میں منقسم کیا جاتا ہو.اول حصے میں اس امرکا ثبوت ہو که بهہ بشارت خاص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہو.اور دوسرے حصے میں یہ بیان کریں گے.کہ جن لوگوں نے اسکو محمد مرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نہیں مانا.اُن کے اعتراض صرف دھر کا ہیں.حصہ اول اس پیشینگوئی میں موسی نے بڑا بسط کیا ہے.اور جہانتک ممکن تھا.اس نبی کا نشان ظاہر کیا.اول اس نہیں کی قوم کو بتایا کہ وہ بنی اسرائیل کے بھائیوں سے ہوگا.دوم.وہ نبی مجھ سا ہوگا.تشبیہ عمل تامل ہو کہ کس امر میں موسیٰ سا ہو گا ) سوم، خدا کا کلام اُس کے منہ میں ہوگا.چهارم جو کچھ باری تعالٰی اس سے فرمائے گا.وہ سب کچھ کہ دیگا.پیجم جو کوئی اس کی مخالفت کریگا اور کہانہ سنے گا.وہ سزا یاب ہوگا.م اگر دو نبی بدون حکم باری تعالیٰ کے کچھ کہے.تو وہ مارا جائے گا.ہفتم.وہ نبی توحید کا واعظہ غیر معبودوں کی پرستش کا مانع ہو گا.اگر غیر معبودوں کے نام سے کچھ کہیگا.تو مارا جائے گا.ہشتم اسکی پیشینگوئیاں پوری ہونگی.اور جھوٹے نبی کی کوئی پیشین گوئی پوری نہ ہوگی.پوری کچھ کے لفظ پر غور کرو جو بشارت کے اس فقرے میں ہو.جب انہی کچھ خداوند کے نام سر کیے).ہ سچا اس قابل ہے کہ تو اس سے ڈرے، الا جھوٹا نہیں چونکہ جلد ہلاک ہو جا ئیگا.تھا

Page 268

اس سے مت ڈا.۲۶۱ یہی چند باتیں اس پیشینگوئی میں ہیں.جن پر ناظرین کو غور چاہیئے.موسیٰ نے اپنی مثالیت کے لئے اپنی کوئی خاص صفت اُن امور کے سوا بیان نہیں کی گو موسی میں ہزاروں اور صفات ہوں.الا یہ امرکہ دونبی مجھ سا کین صفات میں ہو گا.سو است اور مذکور یہ پیشینگوئی کے بیان نہیں فرمایا.پس ہم یقین کرتے ہیں.اور ہر نصف تسلیم کریگا.انہیں امور میں تشبیہ اور مثلیت موسی کو مقصود تھی.علاوہ بریں جب کسی چیز کو کسی چیز کا مثل کہا جاتا ہے.تو صرف چند امور محقہ میں تشبیہ مطلوب ہوتی ہے.اب ہم دکھلاتے ہیں کہ قرآن نے اس پیشینگوئی و محمدرسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ثابت ہونے کا صرف دعوی ہیں نہیں کیا.بلکہ کل مدارج طے کرکے سچا کر دکھایا.اور تمام امور مندرجہ پیشنگوئی کوتسلیم کر کے بڑے دعوے سے کہا کہ آنحضرت کے سوا اور کوئی اس کا مصداق ممکن نہیں.آمر اقل.بنی اسمعیل بنی اسرائیل کے بھائی ہیں.دیکھو قرآن میں آنحضرت کو کم ہوا وَانْذِرُ عَشِيرَتَكَ الآخر باين - پارد ۱۹.سورۂ شعراء - رکوع 11- اسپر آنحضرت اپنی قوم الاقربانی - - -- کو حکم دیتے ہیں.(1) وَ جَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَج مِلَّةَ اَيْكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَتَكَكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ - پاره -- سوره حج - ركوع.انا الي اسكنتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي ذَرُعٍ عِندَ بَيْتِكَ الحرام پاره ۱۳ - سوره ابراهيم - رکوع ۶- - IP ے اور ڈر سنادے اپنے نزدیک کے ناتے والوں کو ملے اور محنت کرو اللہ کے واسطے ہو چاہئیے اسکی محنت اُس نے تم کو پسند کیا اور نہیں رکھی دین میں تم پر کچھ مشکل.دین تمہارے باپ ابراہیم کا اس نے نام کا تمہارا مسلمان حکم بر دار پہلے سے ۱۲ اے رب میں نے بسائی ہے ایک اولاد اپنی میدان میں جہاں کھیتی نہیں ہے ہی کر ادب والے گھر کے پاس

Page 269

۲۶۲ دیکھو قرآن نے صاف بتایا.قرآن نے صریح کہا.قریش لوگو تم اپنے باپ ابراہیم کے مذہب کو اختیار کرو.امر وم.وہ نبی مومنی کا سا ہوگا.اور قرآن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت لکھا ہے.را، انَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إلى فرعون م سولار پاره -۲۹ سوره مزمل - رکوع ۱ - - (۲) قُل آب آنتُمْ إِن كَانَ مِن عِندَ اللهِ وَكَفَر تُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِن بَنِي إسرائيل على مِثْلِه - پاره -۲۶.سورۂ احقات - رکوع ۱ - شاہد کی تنوین واسطے تعظیم و تعلیم کے ہے.اور لفظ متکلم قابل غور ہے.(۳) قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى مُصَدِ قَا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِى إِلَى الْحَقِّ وَ إلى طريق مستقيم- پاره ۲۶ - سوره احقاف - رکوع ۴ - نوٹ.حضرت موسیٰ کا قصہ بتکرار و کثرت قرآن میں مذکور ہونا اس امر کا اشارہ اور اظہار کرتا ہے کہ قرآن اپنے رسول عربی کو مثیل موسی ثابت کرتا ہے.امر سوم کی نسبت فرماتا ہے.(1) وَ مَّا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إلا وحي يوحى - پاره ۲۰ سوره نجم.رکوع ۱ - لے ہم نے بھیجا تمہاری طرف رسول بنانے والا تمہارا.جیسے بھیجا فرعون کے پاس رسول ۱۲ ہلے تو کہ بھلا دیکھو تو گریہ و الہ کے یہاں سے اور تم نے اسکو نہیں مانا.اور گواہی دے چکا ایک گواہ بنی اسرائیل کا ایک ایسی کتاب کی پھر وہ یقین لایا.سے بولے اسے قوم ہماری ہم نے سنی ایک کتاب جو اُتری ہے موسی کے پیچھے سیچا کرتی سب اگلوں کو سمجھاتی سچا دین اور راہ سیدھی ۱۲ کے اور نہیں بولتا ہے اپنے چاؤ سے یہ تو حکم ہے جو بھیجتا ہے ۱۲

Page 270

۲۶۳ (۲) تحرك بِهِ لِسَانِكَ لتَعْمَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمَعَهُ وَقُرَانَهُ ، فَإِذَ اقْرَ أَنَاهُ فَاتَّبِعْ قرانه ثمَّ اِنَ عَلَيْنَا بَيَانَه - پاره ۲۹ - سوره قيامة - ركوع - - (۳) وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا لَنا عَلى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِثْلِهِ وَادْعُوا شهد الكُم مِّن دُونِ اللَّهِ اِنْ كُنتُم صدقین - پاره ۱ - سوره بقر - رکوع ۳ - ٹوٹے کا منہ میں ڈالنا بادل میں ڈالنا.اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ کلام اس نبی کے قلب نبوت پر لفظ یا معنی ہیں ترتیب بالتقدم و تا خدا کی طرف سوڈالا گیا ہے.آیت دوم میں خداوند خدا قرآن کا جامع اور قاری اپنی ذات مقدس کو ٹھہراتا ہے.اور آنحضرت کو صرف پڑھ سنانے والا مقرر فرماتا ہے.یہ بڑا بھاری اشارہ پیشین گوئی.کے امر سوم کی طرف ہے کہ میں اپنا کلام اس کے منہ میں دونگا.امر چهارم - حجتہ الوداع یعنی آخری حج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب لوگوں کی طرف خطاب کر کے فرمایا.چنانچہ چند الفاظ اس طویل خطبے کے آخر سے نقل کئے جاتے ہیں.اللَّهُم هَلْ بَلَغْتُ فَقَالَ النَّاسُ اللَّهُمَّ نَعَمْ فَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللهُمَّ اشْهَدُ (١) اليوم أكملت لكم دينكم واتممتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإسلام دينا- پاره 4 - سُوره مائده - رکوع ۱ - لے نہ چلا تو اس کے پڑھنے پر اپنی زبان کہ شتاب اس کو سیکھ لے.وہ تو ہمارا ذمہ ہے اس کو سمیٹ رکھنا اور پڑھانا.پھر جب ہم پڑھنے لگیں تو ساتھ رہ تو اس کے پڑھنے کے پھر مقرر ہمارا ذمہ ہے اسکو کھول بتانا ۱۲ ے اور اگر تم شک میں ہو.اُس کلام سے جو اُتارا ہم نے اپنے بندے پر تول او ایک سورت اس قسم کی اور بلاؤ جن کو حاضر کرتے ہو اللہ کے سوائے اگر تم سچے ہو ا ر سے اسے میرے پر وردگار کیا میں نے سب کچھ پہنچا دیا.لوگوں نے کہا ہاں.تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اے اللہ میرے تو گواہ رہ ۱۲ کے آج میں پورائے چپکا تم کو دین تمہارا اور پورا کیا میں نے تم پر احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے دین مسلمانی ۱۲ -

Page 271

۲۹۴ نوٹ.یہ آیت اور وہ حدیث با طہارت و با قرار عباد گواہی دیتی ہے کہ آنحضرت نے سب کچھ بتلایا.ار پنجم.تمام مکہ اور حجاز کے گرگم کو دیکھ تمام مخالفوں اور اسکا کہا نہ مانے والوں کا.اور کی تمام اور اسکا کہا نہ نام و نشان نہ رہا.اور دیکھو کہ آیت الل سائِكَ هُوَ الابتر کی پیشینگوئی کیسی ٹوٹی ہوئی اہل حجاز پر ہی کیا منحصر ہے تمام عرب اور بلا و شام پر غور کرو جو خدا کی خاص چھاؤنی اور کل انبیائے بنی اسرائیل کا ہیڈ کوارٹر اور کالیو ہے.دیکھو اسی پیشینگوئی کے مطابق قرآن فرماتا ہے.ن السَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كما أرسلنا إلى فِرْعَوْنَ رَسُولاً تعطى في عون الرَّسُولَ فَأَخَذَ نَاهُ أَخَذَ او بيلا - پاره ۲۹ - سوره مزمل - رکوع ۱ - (۳) يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوادَا عَلَى اللهِ وَمِنُوا بِهِ يَغْفِرُ الله من ذنوبكد و يجر كم من عَذَابِ اليْدِهِ وَمَن لا جب داعى اللهِ فَلَيْسَ مع فِي الْأَرْضِ وَلَيْسَ لَا مِن دُونِهِ أولياء أوالميكَ فِي ضَلَالٍ مُبینه پاره ۲۷- سوره احقاف - رکوع ۴ - ام ششمہ قرآن فرماتا ہے.(١) وَلَوْ تَعَزَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَوَادِيلِ الأَخذ نَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ: ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنهُ الوثينَ ، فَمَا مِنكُمْ مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِرِين: پاره ۲۹ - سوره حاقه - رکوع ۲ - اے بیشک جو بیری ہے تیرا ہی رہا پیچھا کیا ہے ہم نے بھیجا تمہاری طرف رسول بتانے والا تمہارا جیسے بھیا فرون کے پاس رسول.پھر کہا نہ مانا فرعون نے رسول کا.پھر پکڑ ا ہم نے اُس کو پکڑ وبال کی ۱۳ ا ا ا ا ا ا ا ا ل لانے والے کاور اسپری او کہ تم کو تمہارے گا اور اسے تم کو ایک کو کی مار سے اور جو کوئی نہ مانے گا اللہ کے بہانے والے کو تو وہ نہ تھکا سکیسگا بھاگ کر زمین میں اور کوئی نہیں اُس کو اُس کے سواعد دگار اور وہ لوگ بھٹکے ہیں صریح اور گریہ بنا تا ہم پر کوئی بات تو ہم پڑھتے اس کا داہنا ہاتھ.پھر کاٹ ڈالتے اس کی نا - پھر تم میں کوئی نہیں اس سے رو کھنے والا.

Page 272

۲۶۵ (۳) الم يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ إِنِ انتريتُه فَلاَ تَعْلَمُونَ لِى مِنَ اللهِ شَيْئًا، پاره ۲۶ تن سوره احقاف - رکوع ۱ - (٣) آياتها الرَّسُولُ بلغ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِنْ تَرَيَاكَ ، وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَغَتَ رِسَالَتَهُ ، وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ - پاره -- سوره مائده - رکوع -1- نوٹ.پہلی اور تیسری آیت کی مجمل تفسیر دیکھو مضمون قرآن کی پیشین گوئیاں.ار رفتم کی نسبت تمام قرآن مالامال ہو.فروگذاشت کے نو سو چند آیات مرقوم ہیں.ايات منع شرك (۱) قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوا إلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَاوَ بَيْنَكُمُرُ أَن لا نَعْبُدَ إِلا الله وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا لَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا را با مِن دُونِ اللهِ پاره - سوره عمران رکھتا - (۲) قُل تَعَالَوْا اتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًاءَ بِالْوَالِدَيْنِ إحْسَانًا، سیپاره ۸ - سوره انعام - رکوع ۱۹ - (س) قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَارَ ثُمَّ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَ أن تُشْرِكُوا بِاللهِ مَا لَمْ يُنَزِّلُ بِهِ سُلْطَانًا وَإِنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ سياره م کا اہتے ہیں یہ بنا یا.تو کہ اگرمیں بنایا ہوں تو یہ میرا بھلا نہیں کر سکتے اللہ کے سامنے کچھ ۱۴ للہ کے رسول پہنچا ہو اور تیرے رب کی طرف ہواور اگر تجھ کو بچالے گا لوگوں سے لے تو کہر اے کتاب و الو آؤ.ایک سیدھی بات پر ہائے تمہارے درمیان کی کہ بندگی نہ کریں ہم مرالہ کو اور شریک نہ ٹھہرا دیں اُس کا کسی چیز کو اور نہ پڑیں آپس میں ایک ایک کو رب سوائے اللہ کے ۱۴ ے تو وہ ہوا میں سانوں ادا کیا ہو تم پر تمہارے ب ے کہ شرک کو اسکے ساتھ کسی چیز کو اور ماں باپے نیکی " ھے تو کہ میرے رب نے منع کیا بتیائی کے کام کو جو کھلے ہی ان میں اورجو چھپے ہیں اور گناہ اور زیادتی ناحق کی اور یہ کہ شریک کرد اللہ کا جس کی اُس نے سنا نہیں اتاری.اور یہ کہ جھوٹ بولو اللہ پر جو تم کو معلوم نہیں ۱۲

Page 273

۲۶۶ سوره اعرافت - رکوع ۲ ا عبدوا الله ولا تشركوا به شینا، سیپاره ه - سوره نساء - رکوع - (۵) إِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ تُشْرِكُ بِاللهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا - سیپاره ۵ سوره نساء - رکوع - - (4) وَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ الهَةً لا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُون لا نفُسِهِم ضرًّا وَ لَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتَا وَلَا حَيرَةً وَلَا نُشُورًا - سیپاره ۱۸- سوره فرقان رکوع ۱ - وَإِذَارَ أَوكَ إِن يَتَخَذَنُ وَنَاكَ إِلا هُمْ وَا أَهَذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ رَسُولًا إِنْ كَادَ لِيُضِلُّنَا عَنْ الهَتِنَا لَوْلا أَنْ صَبَرُنَا عَلَيْهَا وَسَوفَ يَعْلَمُونَ حِينَ يَرُونَ الْعَذَابَ مَنْ أَصَل سَبِيلاً - سیپاره -۱۹.سورۂ فرقان - رکوع ۲ - امر ہشتم.اسپر ہم نے برہان نبوت کے واسطے ایک علیحدہ باب قائم کیا ہے.اور مفصل مضمون لکھا ہے.دیکھو مضمون قرآن کی پیشین گوئیاں.مگر اس جگہ مختصراً اس مضمون کی تجدید کی جاتی ہے.اے اور بزرگی کرو اللہ کی اور طائر مت اُس کے ساتھ کسی کو ۱۲." تحقیق اللہ نہیں بخشتا ہے یہ کہ اُس کا شریک پکڑ لے.اور بخشتا ہے اُس سے نیچے جس کو چا ہے.ور جس نے ٹھہرایا شریک اللہ کا اس نے بڑا طوفان باندھا.۱۲ اور سین اور لوگوں نے پکڑے ہیں اس سے ورے کتنے حاکم جو نہیں بناتے کچھ چیز اور آپ بنے ہیں.اور نہیں لک اپنے حق میں ہیں بُرے کے نہ بھلے کے اور نہیں مالک مرنے کے نہ جینے کے اور نہ جی اٹھنے کے یا سکے اور جہاں تجھ کو دیکھا کچھ کام نہیں تجھ سے گر ٹھٹھے کرتے کیا یہی ہے جس کو بھیجا اللہ نے پیغام دے کر یہ تو لگا ہو تھا کہ بھلا دے ہم کو ہمارے تھا کروں سے کبھی ہم نہ ثابت رہتے اُن پر.اور آگئے جائیں گے جس وقت دیکھیں گے عذاب کوئی بچلا ہے راہ سے ۱۲

Page 274

P46 له اقل اول آنحضرت نے کتے میں موسی کی مثلیت کا دعوی کیا.اور اپنے من الفین کو آنے والے عذاب سے مخالفت کے باعث ڈرایا.اسپر کفار مکہ نے کہا کہ اگر تو سچا ہو تو اس کا نشان نہیں دیکھا کہ ہم پر عذاب آوے.چنانچہ قرآن مجید اس معامے کی اسطرح خبر دیتا ہے.فَقَدْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ نَسَونَ يَأْتِيهِمْ أَنْبَا وَهُمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهُنَّ رُونَ ير و الم اهلكنا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ مَكَنَّا هُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَيَّنَ لَكُمْ وَ أرسلنا السماء عل مِّدْرَا وجعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَا هُمُ بِذُنُوبِهِمْ وَأَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قُرنا اخَرِينَ - سیپاره ، - سوره انعام رکوع ۱- اس آیت میں بدوں میعاد معینہ کے مطلق تکذیب پر ہلاکت کی خبر دی.پھر فرمایا.ے اس مقام پر آنحضرت کا خط ہو انہوں نے خیبر کے یہود کو کھا نقل کر نا مناسب معلوم ہوتا ہے.اس سے غرض یہ ہو کہ آپ بڑے استقلال اور قومی یقین سے مثلیت کا دعوی کرتے تھے.اور آپکے مخاطبین تعصب اور حسد کے سوا انکار کی کوئی وجہ نہیں رکھتے تھے.ابن ہشام.من محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم صاحب موسی و اخيه والمصدق لما جاء به موسى الا ان الله قد قال لكم يا معشر أهل التوراة وانكم لتجدون ذلك في كتابكم محمد رسول الله وانى انشدكم بالله الا الخبر تمونى هل تجدون فيما انزل الله عليكم ان تؤمنوا بمحمد فان كنتم لا تجدون ذلك في كتابكم فلا اكره عليكم قد تبين الرشد من الغى.ترجمہ محمد رسول اللہ کیطرف سے جو موسیٰ کا میل اور اس کا بھائی اور اسکی تعلیمات کو سچا کر نیوالا ہے.اسے گروہ اہل تورات دیکھو اللہ تعالیٰ نے تمہیں فرمایا اور تم اس بات کو اپنی کتاب میں پاتے ہو یہ محمداللہ کا رسول ہے ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ہو ہی جو کھا نے میرا ا ا ا م میں یہ ہیں کھا پاتے کہ تم لو محمد رایمان لائے.اگر تم اپنی کتاب میں نہیں پاتے ہو تو میں تمہیں مجبور نہیں کرتا.ضلالت اور ہدایت ممتاز ہو چکی ہو یا ابن ہشام جلد صفحه ۱۹۶۷ ل بھٹو اپنے حق بات کو جب اُن تک پہنچی اب آگے آریگا اُن پر متن اس بات کا جسپر ہنستے تھے.کیا دیکھتے نہیں کتنی ہلاک کیں پہنے پہلے دن سوسنگتیں انکو جایا تھا ہمنے مک میں جتنا تم کو جھایا اور چھوڑ دیا اپنے انپر آسمان پرستان اور بنادیں نہریں بہتی اُنکے نیچے پھر ہلاک کیا انکو انکے گناہوں پر اور کھڑی کی اُنکے پیچھے اور سنگت ۱۴

Page 275

PYA وَكَذَّبَ بِهِ تَوْمُكَ وَهُوَ الْحَق قُل لَّسْتُ عَلَيْكُم بِوَكيل و لكل نَبا مستقر ، - ون العلمي أردن - - - سیپاره ، - سوره انعام رکوع ۸ - وإذ قال: اللهم إن كان هذا هو المَن مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرُ عَلَيْنَا حِجَارَةً منَ السَّمَاءِ أَوِ اثْتِنَا بِعَذَابِ اليْه وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمُ سیپاره ۹ - سوره انفال - رکوع ۴ - اس آیت میں یہ بات بتائی.کہ تیرے یہاں ہوتے ہوئے.یعنی سکے ہیں وہ عذاب نہیں آئیگا.ويَقُولُونَ مَتَى هذا الوعد إن كُنتُمْ صَدِقِينَ وَقُلْ عَسَى أَن يَكُونَ سَرِينَ لَمَكُم بَعْضُ الَّذِي تَسْتَعْجِلُونَ ، سیپاره ۲۰ - سوره نمل - رکوع ۶ - اس میں بتایا کہ یہ عذاب کچھ حصہ اس عذاب موعود کا ہو گا.اور تمہاری تباہی اور استیصال کا شروع ہو گا.و يقولون متى هذا الوعد إن كُنتُمْ صَدِقِينَ ، قُلْ لَكُمْ مِبْعَادُ يَوْمٍ لا نَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ ، سیپاره -۲۲ - سوره سبا - رکوع ۳ نوٹ.نبوت کا دن ایک برس کا ہوتا ہے.جیسے دن جو ساتھ صبح اور شام کے نبوت میں لکھا ہوں یا شام با صبح سے شروع کرے تو جو میں گھنٹے کا شمار ہوتا ہے.ورنہ ایک سال کا.دیکھو اندرو نہ بائیں صفحہ ۳۱۳ - لے اور تیری قوم نے اسے جھٹلایا حالانکہ یہی ہے تو کہے اسےمحمد میں تم پر وکیل نہیں ہوں.ہر ایک خبر کے لئے ایک وقت مقرر ہے.پس عنقریب تم جان لو گے ۱۲ ہے اور جب کہنے لگے کہ یا الہاگہ یہی دین حتی ہے تیرے پاس سے تو ہم پر بر سا آسمان سے پتھر یاں ہم پر کھ کی مار اور اللہ ہرگز عذاب نہ کرتا اُن کو جب تک تو تھا اُن میں ۱۳ یں اور کہتے ہیں کب سے یہ وعدہ اگر تم سچے ہو تو کہ شاید تمہاری بیٹی پر پہنچی ہوا بعض چیز جسکی شتبانی کرتے ہویا ہے اور کہتے ہیں کہ ہے یہ وعدہ اگر تم سچے ہو.تو کہ تم کو وعدہ ہے ایک دن کا منہ دیر کرو گے اس سے ایک گھڑی نہ شتابی ۱۲ -

Page 276

پادری صاحبان غور کر و قرآن نے کیسا معجزہ دکھلایا.کہ ان کے زوال کا وقت بھی بتا دیا.اور یہ وعدہ جنگ بدر میں پورا ہوا.کیونکہ بندر کی لڑائی ٹھیک ایک برس بعد ہجرت کے واقع ہوئی.یعنی ۵ار جولائی ۶ " کو آنحضرت مکے سے ہجرت کر کے مدینے تشریف لے گئے.اور سایہ میں قریش سے جنگ بدر ہوئی اور اس بندر کی لڑائی کو قرآن بدر نے آیت یعنی بڑا نشان ٹھیرا با جو کامیال اسلامہ کا گویا آغاز ہو.چنانچہ فرمایا.قد كَانَ لَكُمْ آيَةً فِي يَستَيْنِ التَقَطَافِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ وَأُخْرَى كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُمُ مِثْلَيْهِمْ رَ أَي العَيْنِ وَاللهُ يُوَيْدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشَاءُ إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً لأ ولى الأبصار - سیپاره ۳ - سوره عمران - رکوع ۲- و لقد نَصَرَ كُمُ الله بيد يو انتُمْ أَذِلَةً فَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.سیپاره ۴ - سورة عمران - رکوع ۱۳ یہاں وہ پیشین گوئی جویستیا باب ۲۱ درس ۱۳ سے شروع ہوتی ہو پوری ہوئی نعرب کی بابت الہامی کلام پور کے صحرا میں تم رات کو کاٹو گے.اسے دوانیوں کے قافلو پانی لے کے پیاسے کا استقبال کرتے آؤ.اسے تیمار کی سرزمین کے باشندو.روٹی لے کے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو.کیونکہ سے تلواروں کے سامنے سے ننگی تلوار سے اور کھنچی ہوئی کمان ہو اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں.کیونکہ خدا وند نے مجھکو یوں فرمایا.ہنوزا ایک برس ہاں مزدور کے سے ٹھیک ایک برس قیدار کی ساری حشمت جاتی رہیگی.اور تیر اندازوں کی جو باقی رسی قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائینگے کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا ؟ ان، کریستین اسلام جلد اول مصنف ڈاکٹر لیر صفحہ ۲۷.مطبوعہ انجمن پنجاب لاہور.بھی ہو چکا ہوتم کو ایک نمونہ دو فوجوں میںجو بھڑی انہیں ایک فن ہے کہ ا ا ا ا ا ر ی اور دوسری منکر ہی یہ اک و کتی اپنی دو برابر صریح آنکھوں ے اور اللہ زور دینا ہر اپنی نہ دیا جسکو چاہیے اسی میں خبردار ہو جاویں جنکو آنکھ ہوں سل اور تمہاری مد کر چکا ہو اللہ بدر کی لڑائی میں اور تم بے مقدور تھے.ہو ڈرتے رہو اللہ سے شاید تم احسان مانوس

Page 277

۲۷۰ اس لڑائی میں قیدار کے اکثر سردار مارے گئے.اور وہ کامیابی جوسچائی کا معیار ہوتی ہے ر ہوگی اور یہ بدر کی فتح اسلام کے من میں ایسی ہی اکسیر اعظم ہائی جیسی جنگ ملوین برج کی نشتیم دین عیسوی کے حق میں.به تو میں امر کی نسبت قرآن فرماتا ہے.و قذفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ وَ أَي المُؤْمِنِينَ فاعتبروا يا ولي الأبصار - سیپاره ۲۰ - سوره حشر - رکوع ۱ تورات میں بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ پیسے نبی سے ڈریں لیکن اُن لوگوں نے کفار مکہ کی طرح نبی برحق کی مخالفت کی وعید الہی سے نڈر ہو گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنی نضیر ربنی اسرائیل) ویران اور تباہ ہو کر مدینے سے نکل گئے.بعض عیسائی کہتے ہیں کہ یہ بشارت مسیح کے حق میں ہے.پر یہ دھوئی اُن کا صحیح نہیں کیونکہ مسیح اور مکین کے حالات میں کسی قسم کی مالت جو پیشینگوئی میں مندرج ہو ہرگز نہیں پائی جاتی.وجہ اول یہ ہو کہ مسیح صاحب شریعت نہ تھے بلکہ شریعت موسوی کے پیرو تھے.چنانچہ اُن کے بیٹھا لینے.ختنہ کرانے.یورشلم میں آنے سے ظاہر ہے.دوئم میں نے خود بھی تو دعوئی نہیں کیا.کہ بشارت مثلیت میرے حق میں ہوا اور نہ اُنکے حواریوں نے اس بشارت کو انکی طرف منسوب کیا.بلکہ اعمال باب ۳ - ۱۹ سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح اس کا مصداق نہیں" پس تو بہ کرو اور متوجہ ہو کہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں تاکہ خداوندا کے حضور سے تازگی بخش ایام آویں اور یسوع مسیح کو پھر بھیجے جس کی منادی تم لوگوں کے درمیان آگے سے ہوئی.ضرور ہو کہ آسمان اُسے لئیے رہے.اُسوقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر اپنے ے پہاڑ ائی اردو میں قسطنطین عالم اور میگزیش قیصر میں ہوئی تھی در قیصرہ کو کو جو اس میں شکست ہوئی اسکو ایا عیسائی فتح مبین اپنے دین کی سمجھتے ہیں ۱۲ لے اور ڈالی کے دنوں میں ڈھاکہ اجاڑنے لگے اپنے گھراپنے ہاتھوں مسلمانوں کے ہاتھوں ہو سو پشت بانوانے آنکھ اور

Page 278

۲۷۱ سب پاک نبیوں کی زبانی شروع سے کیا.اپنی حالت پر آویں.کیونکہ موسی نے باپ دادوں سر کہا.کہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میتے مانند اٹھائیگا.جو کچھ وہ تمہیں کہے اُس کی سب ہو.اور ایسا ہوگا.کہ ہر نفس جو اس نبی کی نہ گئے.وہ قوم سے نیست کیا جا ئیگا.بلکہ سب نبیوں نے سموئیل سے لے کہ پچھلوں تک بتنوں نے کلام کیا اُن دنوں کی خبر دی ہے.تم نبیوں کی اولاد اور اس عہد کے ہیں.کہ خدا نے باپ دادوں سے باندھا ہے.جب ابرہام سے کہا کہ تیری اولاد سے دنیا کے سارے گھرانے برکت پادینگے تمہارے خُدا نے اپنے بیٹے یسوع کو اٹھا کے پہلے بھیجا کہ تم میں سے ہر ایک کو اسکی بدیوں سے پھیر کے برکت دے اس سے کئی باتیں ظاہر ہوتی ہیں.اول مسیح کی آمد اول کے بعد اور آمدثانی سے پہلے اس پیشین گوئی کا پورا ہونا ضروری ہے.دوم - مولی کے بعد یوشع اور اسکے بعد کے انبیاء اور سموئیل سے لیکر پھلوں تک کوئی بھی اس کا مصداق نہیں ہوا.سوم حضرت ابراہیم کی دُعا کو سوائے ارسال ان انبیا کے جو بنی اسرائیل میں سے مرسل ہوئے.کوئی خاص خصوصیت اُس نبی سے ہے.چهارم مسیح اُس نبی سے پہلے آیا.اب اُس دوسرے کی ضرورت ہوئی.پنج - حواری کے قول سے صاف ظاہر ہے کہ اس بشارت کا مصداق نبی مسیح سے پہلے نہیں گذرا.اور خود مسیح بھی نہیں.اس لئے کہ اس نہی کے آنے تک ضرور ہے.کہ آسمان مسیح کو لیتے رہے.سوال اگر کوئی شخص کہے کہ بنی عیسو اور بنی قطورا کیوں اُسکے مصداق نہیں ہو سکتے.جواب اقل اُن میں سے کسی نے اس پیشین گوئی کو اپنے حق میں ثابت نہیں کر دکھایا.دوم - پولوس نامہ رومیاں 1 باب - درس ۱۳ میں فرماتا ہے.خدا ونیز نے یعقوب سے

Page 279

۲۷۴ محبت کی.اور عیسو سے عداوت - عیسو نے مسور کی دال پر اپنی نبوت بیچدی- پیدائیش ۲۵ باب ۳۲-۲۳۳ ہارم.یعقوب نے فریب سے نبوت کا ورقہ اُس سے لے لیا.پیدائیش ۲۷ باب ۳۵ - بنوا بنا ئے قطور زندگی ہی میں خارج ہو چکے تھے.کرتے وقت صرف آمفیل اور اسحاق پاس تھے.پیدائیش ۲۵ - باب لغایت ۹ - حل الا اشکال میں اس پیشین گوئی پر اعتراض کیا کہ بشارت میں تجھ میں سے کا لفظ وارد کنی جواب (۱) خدا کے اس کلام میں جو موسی نے نقل کیا یہ لفظ نہیں.(۲) یہ لفظ تجھ میں سے اعمال باب ۳-۲۲ - میں نہیں.(۳) یونانی ترجمے میں نہیں.دوسرا اعتراض مسیح نے اس بشارت کو اپنی طرف نسبت کیا.جو اب رام چونکہ مسیح بقول آپ کے مصلوب و مقتول ہوئے تو اس کے مصداق نہ رہے.(۲) اس بشارت کو مسیح نے با تخصیص اپنی طرف نسبت نہیں کیا.دیکھو.یوحنا بات ۲۶ تخصیص بشارت کا پتا ہی نہیں دیا.اور یونہی گول مول رہنے دیا.(۳) صاحب محل الاشکال نے میزان میں - فصل -- باب ۲ میں لکھا ہو کہ پیدایش باب ۳ - ۱۵ میں سیح کی بشارت ہے.پھر یہی یوجنا.باب ۵ - ۲۶.میں کیوں نہیں.(۳) یوحنا باب ۱ - ۲۰-۲۵ اور اس نے اقرار کیا.اور انکار نہ کیا.بلکہ اقرار کیا.کہ میں مسیح نہیں.تب انہوں نے اُس سے پوچھا.کہ تو اور کون کیا تو الیاس ہے.اس نے کہا.میں نہیں ہوں.پس آیا تو وہ نبی ھے.اُس نے جواب دیا نہیں.یوحنا انجیلی.یوجنا بیٹسما دینے والے کی شہادت میں لکھتا ہے کہ نہ وہ مسیح ہے.نہ ایلیا.نہ وہ نہی.اور ریفرنس میں وہ نبی کا نشان استثنا باب ۱۸ - ۱۵ و ۱۸ا دیا ہے یعنی موسیٰ کے مثل نہیں.اور وہ صرف نبی عربی ہے.

Page 280

۲۷۳ پادری عماد الدین نے تحقیق الایمان میں اور پادری ٹھاکر داس نے عدم ضرورت قرآن میں مماثلت پر گفت گو کی ہو.اور بہت ہاتھ پاؤں مارے ہیں.جسے دیکھ کر ان کی ناکامیا.کوششوں پر سخت افسوس آتا ہے.پادری عماد الدین نے بچوں کا قتل.چالیس دن کاروزه معجزات اور شریعت روحانی ( معدوم الوجود) بمقابلہ شریعت موسوی کے وجہ مماثلت ٹھہرائی ہے.- تعجب کی بات ہے.کیونکہ موسی ع کے وقت بچوں کا قتل ہوا ہی نہیں.بلکہ فرعون نے حضرت موسی سے پہلے بنی اسرائیل کی کثرت کے خوف سے یہ کارروائی کی تھی.اور سے یہ چالیس دن کا روزہ تو ایلیا نے بھی رکھا.دیکھو اول سلاطین ۱۹ باب درسی ۸ - رہے معجزات ایلیا نے بھی مرد سے زندہ کئے.دیکھو اول سلاطین ۱۷ باب ۲۲ ۲۳۰ - و دوم سلاطین- باب ۴ - ۳۵ - ایلیا نے دریا کے دو حصے کر کے زمین خشک نکالی.اور دریا پار ہوا.دیکھو دوم سلاطین باب ۸۲ - ایلیا نے دوسروں کو معجزات کے لائق بنایا.دوم سلاطین باب ۲-۱۰- ایلیا جسم سے آسمان پر چلا گیا.دوم سلاطین باب ----- ایلیا نے تیل کو بڑھایا.دوم سلاطین باب ۴-۳- ایلیا کی روح سے الیشع نے کوڑھ اچھا کیا.دوم سلاطین باب ۵ - ۱۰ د۱۴.تیسری بشارت خدا سینا سے نکلا اور تعیر سے چمکا.اور خاران کے پہاڑ سے ظاہر ہوا.اسکے داہنے ہاتھ میں شریعت ہے.ساتھ لشکر ملائکہ کے آیا.توریت کتاب ۵ - باب ۲۳-۲ آئے گا اللہ جنوب سے اور قدوس فاران کے پہاڑ سے آسمان کو جمال سر چھپا دیا.اُس کی ستائش سے زمین بھر گئی.حبقوق - باب ۳-۳- سینا سے موسی جیسا بادشاہ صاحب شریعت ظاہر و باطن نکلا.سعیر سے جسکے پاس بیت لحم اور ناصرہ ہے.

Page 281

۲۷۴ میسج ظاہر ہوا.قرآن نے اس پیشینگوئی کو محمد رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی نسبت بیان کیا ہے.دیکھو.والتينِ وَالزَّيْتُونِ وَطُورِ سِينِينَ وَهَذَا الْبَادِ الْأَمِينِ.قسم انجیر کی اور زیتون کی اور طور سینین کی اور اس شہر امن والے کی ۱۲ یہ ان تین مقامات کی خصوصیت نہایت غور کے قابل ہے.عہد عقیق میں اسی خصیص بعد مفصل مذکور ہوئی تھی.قرآن کا طرز ہو کہ میں بات کی تفصیل شہد عقیق و جدید میں نہ ہو.اسکی تفصیل کرتا ہو.اور جس کا بیان وہاں مفصل ہو.اسکی طرف مجمل اشارہ کرتا ہے.اب دیکھو قرآن نے مسیح کے میدائے ظہور کو تین اور زیتون سے تعبیر فرمایا.اسکی وجہ یہ ہو کہ زیتون کے پہاڑ کے پاس سیح نے ایک گدھے کا بچہ منگوایا.اور اسکے ذریعے سے اپنی نسبت ایک بڑی پیشینگوئی کو ثابت کیا.دیکھو لو قا.باب ۱۹-۳۰ - متی- بالا - 1 ی وجہ مرقس باب 11-1 تین کے درخت کے پاس ایک معجزہ ظاہر کیا.دیکھو مرقس باب ۱۱- ۱۴.اور انجیر کا نشان دینے پر ایک شخص ایمان لایا.یوحنا باب - نش وادی خاران اور دشت فاران کی تفسیر قرآن نے یہ فرمائی ہو کہ فاران سے شہر مکہ مراد ہے.جہاں سے جیسا بشیر اور مو سے جیسا بشیر و نذیر نکلا.جسکی شریعت کی نعمت کہا گیا.اليوم المَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَثْمَتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ نو الْإِسلام دینا.سیپارہ 4 سوره مائده رکوع - (1) فاران کے پہاڑ سے ایسا ظا ہر ہوا کہ تمام دنیا اس کا وہ مان گئی.اسکے داہنے ہاتھ میں شریعت روشن ہے.اُس کا لشکر ملائکہ کا لشکر ہے.اُسکے سبب خدا جنوب سے آیا.اُس کی ستائش سے زمین بھر گئی.موافق اور مخالف نے محمد محمد یا احمد احمد پکارا.لے آج میں نے پورا کر دیا تمہارے لئے دین کو تمہارے اور پوری کر چکا ئیں اور تمہارے نعمت کو اپنی اور پسند کیا میں نے تمہارے لئے دین اسلام کو ۱۲

Page 282

۲۷۵ اس سے زیادہ زمین اور ستایش سے اور کیا بھورتی.دشمن بھی محمد کے نام سے پکارتے ہیں.پرانے عربی ترجموں میں اُس کی ستایش سے زمین بھر گئی " کے بجائے یہ لفظ لکھتے ہیں وامتلاء الْأَرْضُ مِنْ تَحْمِيدِ أَحْمَدَ -..و.نوٹ محمد یعنی ستایش کیا گیا.اور احمد بڑا استنائیش کیا گیا.کیونکہ صیغہ افعل مبالغہ فاعل اور مفعول دونوں کے لیے آتا ہے.(۲) سینا کی جنوبی حد سے فاران شروع ہوتا ہے.نگہ.مدینہ اور تمام حجاز فاران میں ہے کون دنیا کی ابتدا سے سوائے نبی عربی صاحب شریعت سالیش کیا گیا.یعنی محمد یا احمد کے خاران میں پیدا ہوا.(۳) وادی فاطمہ میں گل جدید یعنی پنجہ مریم بیچنے والوں سے پوچھو کہ وہ پھول کہاں سے لاتے ہیں.تو لڑکے اور بچے بھی یہی کہینگے.کہ مِن بَرِيَّة فاران یعنی دشت فاران سے.(۴) وہ کو نسا فاران ہے.جس میں سے خدا ظاہر ہوا.جہاں سے مسیح کے بعد رسول نکلا.اور اسپر روشن شریعت نازل ہوئی.وہ کونسا مذ ہب ہے جو فاران سے نکل کر (۵) اسمعیل کی اولاد کو برکت کا وعدہ تھا.وہ اولاد امیل کی عرب میں آباد ہوئی تھی اور اُن میں سے موسیٰ کا سانبی ظاہر ہونا تھا.(۲) فاران کے معنی دادی غیر ذی زرع کے ہیں.اور یہی لگنے کی صفت قرآن میں بیاں ہوئی.اس مضمون کے شروع میں دیکھ لو.نے اور بھر گئی زمیں ستایش سے احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ۱۲ - ہے وادی فاطمہ تھے اور مدینے کے درمیان ایک پڑاؤ ہے.ملکی زبانی روایتوں کے رو سے جو تواریخ قدیمہ کی جزو اعظم خیال کی جاتی ہیں یہ ثبوت بھی عجیب ثبوت ہے ۱۲.

Page 283

(۷) یسعیا ۲۱ باب ۱۶ میں دیکھ.قیداریوں کا عرب میں ہونا ثابت ہو.اور وہ اسمعیل کا بیٹا ہے.دیکھو نوریت باب لشکر ملائکہ کے ثبوت کے لئے.دیکھو یہودا کا عام خط بابا ۱۴.دیکھ خدا و ندا اپنے لاکھوں مقدسوں کے ساتھ آتا ہو.تاکہ سبھوں کی عدالت کرے.عیسائیوں نے اس بشارت پر بڑی کوششوں سے اعتراض جمائے ہیں.قبل اسکے کہ انکے اعتراض اور تردیدوں کا بیان کیا جائے.حضرت ہاجرہ والدہ اسمعیل اور اسمعیل کا قصہ مختصراً بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ اعتراضات اور جوابات میں امتیاز ہے.(۱) حضرت ابراہیم جب بہت بوڑھے ہوئے.چاہا کہ اپنے غلاموں سے کسی کو دارت بنادیں.خدائے تعالیٰ نے فرمایا.تیرا بیٹا ہی تیرا وارث ہو گا.پیدایش باب ۱۵-۴- (۲) حضرت ابراہیم کی پہلی بیبی حضرت سارہ بہت بوڑھی ہوگئی تھیں.اسلئے انہوں نے حضرت ہاجرہ کو حضرت ابراہیم کے نکاح میں دیدیا.پیدائیش باب ۱۶-۳- (۳) حضرت ہاجرہ سے سارہ کو جیسی کہ عادة سوتوں میں ایک رنجش پیدا ہو جاتی ہے.کچھ کشید گی سی ہو گئی.اسلئے حضرت ہاجرہ تنگ آکر وہاں سے نکلیں راستے میں فرشتے نے کہا واپس جا.اللہ تجھے برکت دیگا.تیری اولاد وسیع اور بے شمار ہوگی.تیرے ایک لڑکا ہوگا.اُس کا نام اسمعیل رکھنا.وہ عربی ہوگا.اس کا ہاتھ سب پر ہو گا.پیدایش ۱۶- آئے باب ۶-۱۱- ہ نوٹ.حال کے ترجموں میں اُس کا ہاتھ سب کی ضد میں یہ لکھا ہے.اگر یہ اس ترجمے کو نسلی اور برکت کا لفظ باطل کرتا ہے.الا پھر بھی ایک عجیب بات اسکے سچ ماننے پر ہمیں مایل کرتی ہے.وہ یہ ہے کہ اہل کتاب کو ہمیشہ سے حضرت اسمعیل اور بنی اسمعیل سے صدر رہتی تھی.یہ ایک قدرتی ثبوت ہم سے ظاہر ہوتا ہو کہ ان کے دل میں حضرت اسمعیل کی حقیقت کھٹکتی چلی آتی ہے.اور وہ بمقابلے اپنے بھائیوں کے سکونت کریگا.پیدائیش ۱۶ باب ۱۳.

Page 284

Plaka (۴) حضرت ہاجرہ حاملہ ہوئیں اور لڑکا نہیں.اور اس کا نام آکھیل ہوا.پیدائیش باب ۱۲-۱۵ (۵) پھر اللہ تعالیٰ نے ابراہیم سے کہا کہ اب تیرا نام ابرام نہ پکارا جاویگا بلکہ ایرا جام- کیونکہ تجھ سے بہت سی قومیں پیدا ہونگی.اور سب کا باپ کہلائیگا.پیدائیش ۱۷.باب ۵ - -12 (4) پھر ابراہیم نے اسٹیل کے لئے دعا کی.خدا نے کہا.میں نے تیری دُعا اسمعیل کے حق میں سنی.بیشک میں اُسے برکت ڈونگا.اور برومند کرونگا.اُسکی اولاد بکثرت ہو گی.اور اس کی پشت سے بارہ امام یا شاہزادے پیدا ہونگے.اور میں ان کو ایک قوم عظیم اور ممتاز کرونگا.پیدایش باب ۱۷ - ۲۰ - له (2) امیل کے لئے برکت اور عہد دونوں ہیں.پیدائیش باب ۱۷-۷- (۴) حضرت اسمعیل جب تیرہ برس کی ہوئے ان کا ختنہ ہوا.اور کہیں اسحاق پر پہنے.سارہ اسپر ناراض ہوئیں اور کہا ہاجرہ کو مع اسکے فرزند کے نکال ہے.اسلئے کہ یہ بشمول اسحاق وارے نہ ہو.خدائے تعالیٰ نے ابراہیم سے فرمایا رنجیدہ مت ہو.جیسے سارہ کہتی ہے ویسے ہی کر.اسحاق تیری اولاد ہے.مگر مجھے ہاجرہ کے فرزند سے ایک بنانا ہے.کیونکہ وہ تیرا نطفہ ہے.علی الصباح ابراہیم نے ہاجرہ اور امی کو روٹی اور پانی دے کر نکال دیا.اور انہوں نے بیر شیع پر راستہ گلہ کیا.قصہ مختصر خشک بیابان میں تکلیف اٹھاتے اُٹھاتے ایک دفعہ پانی سے ناچار ہوئیں اور درخت کے نیچے بچے کو کو ڈال دیا.اور آپ دُور جا بیٹھیں.تاکہ اس کی پیاس کی موت کو نہ دیکھیں.اور آسمان الے سارہ کا یہ کلام پخش اور کمزوری کے سب سے ہے.خدا کی طرف سے الہام نہیں کہ اسی استدلال کیا جائے.معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے دل سمارہ کی طرف سے بھرے ہوئے ہیں.ج اسمعیل کی نسبت اُن کے دل صاف نہیں ہوتے ۱۲.

Page 285

کی طرف منہ کر کے روئیں.تب فرشتے نے آواز دی.کیا تو بیمار ہے.خون مت کر خداوند نے تیرے بچے کی آواز سن لی.اسے ہاجرہ و اٹھ اور بچے کو اٹھا.اسواسطے کہ میں اُسے قوم لی اسے او ر کو کا بزرگ بناؤ نگا.اور خدا نے اُس کی آنکھیں کھولیں.تب انہوں نے ایک چشمہ پایا.روہی جیسے مسلمان چاو زمزم کہتے ہیں، اسمعیل بڑھتے اور تیر انداز ہوئے.حضرت اسمعیل کی والدہ ہاجرہ نے پھرتے پھر تے آخر کہاں مقام فرمایا اور کسی جگہ سکونت اختیار کی تحقیق طلب بات ہے.لیکن ہم دعوی کرتے ہیں کہ فار آن میدان میں بمقام بیت اللہ مکہ معظمہ میں وہ ٹھہریں.اور اس امر کے ثبوت کے لئے وجوہات ذیل ہیں.(۱) تواتر.اور یہ وہ دلیل ہے کہ اگر اسپر وثوق نہ رہے.تو پھر تواریخ قدیمیہ کے اثبات کا کوئی طریقہ باقی نہیں رہتا.تو رات کو موسیٰ کی کتاب مانا تو تواتر سے جیسے کو نا صری یا این داؤد مانا تو تواتر سے (۲) ملکی اور قومی روایات اور مشہورہ شکایات سے جن کا ذکر تواریخ میں اور لوگوں کی زبانوں پر غیر متبدل اور مستحکم چلا آتا ہے.اس لحاظ سے بھی اس قصے کی تصدیق ضروری اور لا بدی امر ہے.کیونکہ کسی تاریخی واقعے کی تکذیب کہ دینا با اینکه و عقل کے مخالف نہ ہوں سخت غلطی ہے.پس جبکہ ملکی روایات اور مشہور و حکایات اور تواریخ قدیمیہ متفقا ثابت کرتے ہیں کہ حضرت ہاجرہ نے وادی مکہ میں سکونت کی اور ملک حجاز - وہی دشت فارآن ہے.تو کونسی بات ان امور کے قبول کرنے سے نہیں مانع ہے.کیا کوئی قانون قدرت اسے محال بتلاتا ہے.یا عقل اُس کو باور کرنے سے کتراتی ہے.(۳) پرا نے جغرافیوں اور قدیم کھنڈرات کی تحقیقات کر نی چاہیئے کہ ہمیں کہاں آباد ہوئے جہاں وہ مقام ملے وہی انکی سکونت کا مقام ہوگا.اور وہی مقام وادی فاران ہے.

Page 286

۲۷۹ حضرت اسمعیل کے بارہ بیٹے تھے.پہلا بنا یوث عرب کے شمال مغربی حصے میں آباد ہوا.ریورنڈ کانری پی کار می ایم اے نے اپنے نقشے میں اس کا نشان ۳۸ ۳۰۱ درجہ عرض شمالی اور ۳۶ و ۳۸ درجه طول مشرقی کے درمیان میں لگایا ہے.ریورنڈ مسٹر فائٹر کہتے ہیں کہ بنا یوث کی اولاد عریبیا پیٹرا سے مشرق کی طرف عریبیاد یہ رتنا تک اور جنوب کی طرف خلیج الا متشک و حجاز تک پھیل گئی تھی.اسٹریر کے بیان سے پایا جاتا ہے کہ بنا یوث کی اولاد نے اس سے بھی زیادہ ملک گھیرلیا تھا.اور مدینے تک اور بندر تورا اور بندر بیو تک جو بھر قلزم کے کنارے پر ہے.اور مدینے سے جنوب مغرب میں واقع ہے.اُن کی عملداری ہو گئی.ریورنڈ مسٹر فاسٹر کہتے ہیں کہ اس مختصر بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنا یرث کی اولاد صرف پتھریلے میدانوں میں نہیں پڑی رہی.بلکہ حجاز اور نجار کے بڑے بڑے ضلعوں میں پھیل گئی.ممکن ہو کہ رفتہ رفتہ بناکریٹ کی اولاد نرس کے بہت بڑے حصے میں پھیل گئی ہو.الا یہ بات کہ بنا بوت کی سکونت اور اسکی اولاد کی سکونت عرب ہی میں تھی.بخوبی ثابت ہو.دوسرا بیٹا قیدار بنا یوث کے پاس جنوب کی طرف مجاز میں آباد ہوا.ریورنڈ مسٹر فاسٹر لکھتے ہیں کہ اشعیا نہیں کی کتاب ہے بھی صاف صاف قیدار کا سکن حجاز ثابت ہوتا ہے جس میں مکہ اور مدینہ بھی شامل ہے.اور زیادہ ثبوت اسکا حال کے جغرافیے میں شہر الحذر اور بنت سے پایا جاتا ہے.جو اصل میں القیدار اور بنا بوت ہیں.یورنیس اور بطلیموس اور پلیس نے اعظم کے زمانوں میں یہ قو میں حجاز کی باشندہ تھیں.کیڈری یعنی فیڈری.دری مخفف قیدری.اور ے معنی لفظ قیدار صاحب الابل - ابن خلدون جلد دوم صفحہ اس لفظ قیدار کے معنی ہیں.اُونٹوں والا.معلوم ہوا کہ قیدار ہی حضرت اسمعیل کے ولیعہد اور معنی شخص تھے.آپ کا نام بھی عرب اور اس کے خصوصیات سے عجیب مناسبت رکھتا ہے ۱۲.

Page 287

گڈرو نائینی بینی قیداری - کدر بتی یعنی فیڈری.دیکھو ہسٹری بجغرافیہ جلد اول صفحہ.پس بخوبی ثابت ہے کہ قیدار حجاز میں آباد تھا.کا تری پچی کاری نے اپنے نفستے میں قیدار کی آبادی کا نشان ۲۶ و ۲۷ درجه عرض شمالی- ۳۷ و ۳۸ درجه طول شرقی کے درمیان میں لگایا.تیسرا بیٹا دئبیل ہے.بموجب سند جواز نفس کے اور بیل بھی اپنے اُن ں دونوں بھائیوں کے ہمسائے میں آباد ہوا.چوتھا بیٹا مبسام ہے.مگر اس کی سکونت کے مقام کا پتا نہیں ملتا.پانچواں بیٹا مشجاع ہو میٹر فائٹر کا یہ قیاس صحیح ہو کہ عبرانی میں جس کو مشماع لکھا ہے.اسی کو یونانی ترجمہ سبھٹو ابھینٹ میں مسما.اور جو لیس نے مسماس اور بطلیموس نے مستریز رکھا ہے.اور عرب میں اُسی کی اولاد بھی مسما کہلاتی ہے.پس کچھ شبہ نہیں کہ یہ بیٹا اولاً قریب مسجد کے آباد ہوا..یہ اولا..چھٹا بیٹا دو ماہ تھا.مشرقی اور مغربی جغرافیہ دان قبول کرتے ہیں کہ یہ بیٹیا تھامہ میں آباد ہوا تھا.معجم البلدان میں لکھا ہے کہ دومتہ الجندل کا نامہ واقد کی کی حدیث میں دوماہ الجندل آیا.اور ابن تقیہ نے اس کو اعمال مدینہ میں گنا ہے.اس کا نام دوم ابن اسمعیل ابن ابراہیم کے نام پر ہوا.اور زجاجی کہتا ہو کہ اسمعیل کے بیٹے کا نام دومان ہو.بعضے کہتے ہیں کہ اس کا نام دمہ تھا.ابن کلبی کہتاہے کہ دو اہ اسمعیل کا بیٹا تھا.جب تہامہ میں حضرت اسمعیل کی بہت اولاد ہوگئی.تو دوتاہ وہاں سو نکلا اور لمقام دومہ قیام کیا.اور وہاں ایک قلعہ بنایا اور اس کا نام دو تاہم اپنے نامہ یہ رکھا.اور ابو عبید سکونی کا قول ہو کہ دومتہ جندل قلعہ اور گاؤں شاعر اور مدینے کے درمیان میں ہیں.قریب جبل طی کے اور درمہ وادی قرنی کے گاؤں میں سے ہو.مسٹر فاسٹر بھی اسکو تسلیم کرتے ہیں.اور ابنک یہ ایک مشہور جگہ عرب میں موجود ہے.

Page 288

۲۸۱ ساتواں بیٹا مشا تھا.یہ بیٹا حجاز سے نکلاہ مین میں آباد ہوا.اور تین کے کھنڈرات میں ابتک مسا کا نام قائم ہے.کاتری بی کاری نے اپنے نقشے میں اس مقام کا نشان ۱۳ در جے اور ۳۰ دقیقه عرض شمالی.اور ۲۳ درجے اور ۳۰ دقیقے طول شرقی میں قائم کیا ہے.آمیل اور انکی تمام اولاد حجاز میں تھی.بلاش ہر جب اولاد جوان ہوئی اور کثرت ہو گئی.تب مختلف مقاموں میں جاکر سکونت اختیار کی.مگر عمدہ بات قابل غور یہ ہے کہ سب کا پند عرب ہی میں یا حجاز میں یا حجاز کے آس پاس پایا جاتا ہو.اٹھواں بیٹا حدد- اسکو عہد عتیق میں حداد بھی لکھا ہے.یمن میں شہر جدیدہ ابتک اُسی کا مقام بہہ رہا ہے.اور توہم جدیدہ جوئین کی ایک قومہ ہو اسی کے نام کو یاد دلاتی ہے.زہیری مورخ کا بھی یہی قول ہے اور مسٹر فاسٹر بھی اسی کو تسلیم کرتا ہے.نوان بیٹا تیما تھا.اس کی سکونت کا مقام سنجد ہے.اور بعد کو رفتہ رفتہ فلیچ فارس تک پہنچ گیا.دسواں بیٹا یطور ہے.مسٹر فاسٹر بیان کرتے ہیں کہ اُس کا مسکن جدور میں تھا.جو جیل کسیونی کے جنوب اور جبل الشیخ کے مشرق میں واقع ہو.گیارھواں بیٹا نا فلیش تھا مسٹر فاسٹر جوزیفنس اور تورات کی سند سے لکھتے ہیں کہ عریبیا ڈیزرٹا میں اُن کی نسل کے نام سے آباد تھے.بارھواں بیٹا قید ماہ.انہوں نے بھی ٹین میں سکونت اختیار کی.مورخ مسعودی نے لکھا ہے کہ اصحاب الرس امنین کی اولاد میں سے تھے.اور وہ دو قبیلے تھے.ایک کو قدمان اور دوسے کو یا مین کہتے تھے، اور بعضوں کے نزدیک دعویل اور یہ مین میں تھے.اب اس تحقیقات سے ہو جغرافیے کے رو سے نہایت اطمینان کے قابل ہو دو بائیں ثابت ہو گئیں.ایک یہ کہ حضرت اسمعیل اور اُن کی تمام اولاد عرب میں آباد ہوئی.اور

Page 289

۲۸۲ دوسرے یہ کہ مرکز اس خاندان کی آبادی کا حجاز تھا.جہاں اسمعیل کی متقدم اولاد کا مسکن ہوا تھا.اور پھر اس مرکز سے اور طرف عرب میں پھیلے.پس ثابت ہوا کہ حضرت محیل نے حجاز میں سکونت اختیار کی تھی.اور اُسی کا قدیم نام فاران ہے.جو حضرت موسیٰ اور حضرت حبقوق نے اپنی اپنی بشارتوں میں بتایا.عیسائیوں کے اعتراض اگر چہ یہ بات نہایت صفائی سے ظاہر ہے کہ وادی مجاز اور وادی فاران دونوں ایک ہیں.اور اسمعیل کی اولاد کے ٹوٹے پھوٹے کھنڈر اس کی گواہی دے رہے ہیں.مگر یا ایہہ عیسائی اُس کو تسلیم نہیں کرتے.اور موقع فارآن کی نسبت مفصلہ ذیل تین رائیں قرار دیتے ہیں.(۱) یہ کہ وہ اس وسیع میدان کو جو بیر تشیع کی شمالی حد سے کوہ سینا تک پھیلا ہوا ہے.فاران کہتے ہیں.(۲) قادیش جہاں ابراہیم نے (بیر شیع ، کھودا اور خارانی ایک ہیں.(۳) فاران اسی وادی کا نام ہے جو سینا سے مغربی نشیب پر ہے.جہاں قبریں عمارتیں اب ملی ہیں.جواب.(1) بتاؤ یہاں اصیل اور اس کی صلبی اولاد کب آباد ہوئی.(۲) کتاب -۳-۱۲-۲۵ و ۲۶ وہ سردار کنعان کو دیکھ کر پھرے تو بیابان خاران میں سے قادیش میں پہنچے (قادیش شمالی حد فاران کی ہے، یاد رہے، اس آیت کی اصل عبری عبارت یہ ہے.الی مدبر فاران قادسيه لفظی ترجمه طرف وادی فار آن کے بہ نیل مرام - تاولیش کے معنی پائل کے بھی ہیں.دیکھو تر جمہ الفلس.فارآن تین ہیں.ایک حجاز ہیں.دوسرا طور پاسینا کے پاس.تیسر اسمر قند میں.

Page 290

PAY سمرقند والا فاران مبحث سے خارج ہے.اور جو فاران طور یا سینا کے قرب میں واقع ہو.وہ فاران نہیں جو ابراہیم کے وقت تھا.وہ نہیں جس کا تورات میں ذکر ہے.وہ نہیں جہاں ہاجرہ نے ہم جیل کے ہمراہ بیر شبیع میں راستہ گم کر کے اقامت کی.اور وہ نہیں جہاں ابتداء اسمعیل کی اولاد آباد ہوئی.وہ نہیں جہاں سے بعد سعیر خدا نے ظہور کیا.ہاں بلاشبہ زمانے کے دور میں اسمعیل کی اولاد حجاز سے ملکر تمام عرب میں خلیج فارس تک پھیل گئی.پس اگر حجاز کے سوا اور جگہ سے پڑانے ایسے کھنڈرات ملے ہوں.جو بنی اسمعیل کے ناموں کے مشابہ ہوں.یا مطابق تو وہ اس نفس الامری بات کو اُٹھا سکتے ہیں کہ اسمعیل حجاز میں آباد ہوا.جو فاران سینا کے مغرب میں ہے.اور جس کے آثار ملے ہیں.وہ توریت کا خاران نہیں.موسیٰ کے زمانے میں اس کا وجود نہ تھا.موسیٰ مصر سے نکلے.اور بحر احمد سے پار ہوئے.تو شور میں پہنچکر سن کو طے کر کے افبیدیم میں ٹھیرے.وہاں کرکے کتاب ۷۲ لغایت ، میں ہے.عمالیق آکر اترے.اس سے ثابت ہوتا ہے.عمالیق افیدیم ی نہ تھی.یہاں یاد رکھو کہ افیدیم کوہ سینا کے مغرب اور مصر کے شرق میں ہے.پھر فیدیم سے موسی مشرق کیطرف سینا کو چھلے اور سینا میں پہنچے.اس سینا کے غربی خاران کا ذکر موسی نے نہیں کیا.پھر سینا سے آگے بڑھے اور شمال مشرق کو چلے.اس راہ میں حضرت موسیٰ کہتے ہیں.بنی اسرائیل بیابان سے نکلے اور بادل بیابان فاران میں ٹھہر گیا.کتاب ۴-۱۰-۱۴- اس تقریر سے ثابت ہو گیا.کہ حضرت موسی کے وقت، خاران کوہ سینا کے شمال مشرق میں قادیش کے قریب واقع تھا.اور وہی حجاز کا بیابان ہے.نہ غربی نشیب سینا کا.البتہ ایسا معلوم ہوتا ہے.عرب کی ایک قوم جو فاران بن حمیر کی اولاد میں سے تھی.اور بینی فاران کہلاتی تھی کسی زمانے میں سینا کے مغرب میں آباد ہوئی ، اور اس سب سے وہ مقام فاران مشہور ہو گیا.یہ وہ فاران نہیں جس کا ذکر تورات میں ہے.و خطبات الاحمدیہ بتبديل يسير )

Page 291

سلام هر سوال چوتھی بشارت "-" میرا دوست نورانی گندم گوں.ہزاروں میں سردار ہے.اس کا سر میرے کا سا چمکدار ہے.اس کی زلفیں مسلسل مثل کوے کے کالی ہیں.اس کی آنکھیں ایسی ہیں جسے پانی کے گنڈل یہ کبوتر.دودھ میں ڈھلے ہوئے نگینے کے مانند جڑی ہیں خانے میں.اسکے رخسارے ایسے ہیں جیسے ٹی پر خوشبودار میل چھائی ہوئی.اور چکلی پر خوشبو گڑی ہوئی.اسکے ہونٹ پھول کی پنکھڑیاں جن سر خوشبو ٹپکتی ہو.اسکے ہاتھ ہیں سونے کے ڈھلے ہوئے.جواہر سے جڑے ہوئے.اس کا پیٹ جیسے ہاتھی دانت کی تختی ہو اہر سے لی ہوئی.اسکی پنڈلیاں ہیں جیسے سنگ موسی کے ستون سونے کے بیٹھکے پر جڑے ہوئے.اس کا چہرہ مانند ماہتاب کے جوان مانند صنوبر کے.اس کا گلا نہایت شیریں اور وہ بالکل محمد یعنی تعریف کیا گیا ہے.یہ ہو میرا دوست اور میرا محبوب.(بیٹیو یروشلم کی کتاب غزل الغزلات سلیمان باب ۵ آیت ، الغایت (۱) اگر چه اس مقام پر حضرت سلیمان نے خدا کی تسبیح میں گیت گایا ہے.اور ایسی مناجات کی ہے.گر ضرور وہ ایک کسی بڑے شخص قابل تعظیم و ادب کے آنے کے متوقع ہیں.اور اس کی بشارت دیتے ہیں.اور اسی کو اپنا محبوب بتاتے ہیں.اور اپنے اُس محبوب کی شاعرانہ تعریف کرتے ہیں.اور پھر صاف بتاتے ہیں کہ وہ میرا محبوب محمد ہو.صَلَّى اللهُ عليه و سلم- محمد کے معنی تعریف کئے گئے کے ہیں.پس حضرت سلیمان نے اپنی مناجات میں اپنے محبوب کی تعریف کرتے کرتے اس کا نام ہی لے لیا.کہ اگر اسکے معنی لوتو وہ بھی ایک لفظ تعریف ہے.ورنہ وہ صاف صاف نام ہی تو ہے.یہ مقام ایسا ہے جس میں صاف نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بتادیا گیا ہے.مگر ہمارے خطبے کے پڑھنے والوں کے دلوں میں شبہ جاویگا.کہ اگر نامہ بتانا تھا.تو محمد کہا ہوتا محمد یم کیوں کہا.مگر یہ بات یاد رکھنی چاہئیے.کہ عبرانی زبان میں تھی اور تھر علامت جمع کی ہو.

Page 292

۲۸۵ اور جب کوئی بڑی قدر کا شخص اور عظیم الشان ہوتا ہے.تو اُس کے اسم کو بھی جمع بنا لیتے ہیں.جیسا کہ خدا کا نام الوہ ہے.اس کی جمع الوهیم بنائی ہے.اور اسی طرح بعل 16 جو ایک بت کا نام تھا.جس کو نہایت عظیم الشان سمجھتے تھے.اس کی جمع بعلیم بنالی تھی.اور یہی قاعدہ اسم اسورت کا لگایا گیا ہے.جو دو کر بت کا نام ہے.پس اسی طرح اس مقام پر بھی حضرت سلیمان نے بسبب ذی قدر اور عظیم الشان ہونے اپنے محبوب کے اُسکے نام کو بھی صیغہ جمع کی صورت میں بیان کیا ہے.اور سچ ہے کہ محمد سے زیادہ کون شخص محمدیہ کہلانے کا مستحق ہو.پس یہ ایسی بشار ہے، جس میں صاف صاف نام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بتایا گیا ہے.خطبات الاحمدیہ.یا تجوس بشارت سب قوموں کو ہلا دونگا.اور حد سب قوموں کا آدیگا، اور اُس گھر کو بزرگی سے بھر ونگا.کہا خداوند خلائق نے کتاب بھی انہی.باب ۱۱ - آیت ۷ - اس آیت میں لفظ حمدت جو آیا ہے.اس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہتے ہیں کہ ہر قسم کی پاک چیزوں کے لیے بولا جاتا ہے.اسی مادے سے تحیر اور احمد اور حامد اور محمود ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نکلے ہیں.اور اس بشارت میں لفظ حمدت کے کہنے سے صاف اشارہ ہے کہ جس شخص کے مبعوث ہونے کی اس میں بشارت ہے وہ شخص ایسا ہے کہ اُس کا نام حمد کے مادے سے مشتق ہے.اور وہ کوئی نہیں سوائے محمد مصطفے احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے عیسائی مذہب کے پادری خیال کرتے ہیں کہ یہ بشارت حضرت جیسے کے مبعوث ہونے کی ہو.مگر یہ خیال دو وجہ سے صحیح نہیں.اول اسلیئے کہ حضرت مستی نے جسقدر بشارتیں عہد عتیق میں حضرت جیسے کی بیان کی ہیں.اُن سب کو با تفصیل آپنے انجیل میں لکھا ہو.کیونکہ وہ انجیل عبرانی زبان میں یہودیوں کی ہدایت کے لئے لکھی گئی تھی.اور اسی سب سے تمام بشارتیں جو توریت و انجیل و زبور و صحف انبیا میں تھیں.حضرت

Page 293

۲۸۶ متی نے لکھی تمھیں.مگر اس بشارت کا ذکر حضرت مستی نے نہیں کیا.اگر یہ بشارت حضرت پیسے سے متعلق ہوتی.تو ضرور حضرت متی اُس کا ذکر کرتے.دوسے یہ کہ حمد کے مادے سے حضرت عیسلے کے نام پر کسی طرح اشارہ نہیں ہوسکتا.بلکہ یہ اشارہ خاص اسی شخص کے نام کا ہے.جس کا نام اسی مادے سے مشتق ہوا ہے.اور اسی لئے یہ بشارت حضرت عیسی کی نہیں ہے.بلکہ اُس کی بشارت ہے جس کی نسبت حضرت عیسے نے بشارت دی تھی.که يَأْتِي مِنْ بَعْدِئ اسمه احمد گاڈ فری ہینگٹن نے بھی اپنی کتاب میں باستدلال قول ریورنڈ بارک ہرسٹ صاحب کے لکھا ہو.کہ یہ بشارت حضرت پیسے کی نہیں ہو سکتی.بلکہ اُس شخص کی ہے جس کے آنے کی بشارت خود حضرت عیسے نے دی تھی.آدینگا میرے بعد اسکا نام احمد ہے ) خطبات احمدیہ - چھٹی بشارت اور ایک جوڑی سواروں کی دیکھی.ایک سوار گدھے کا.اور ایک سوار اُونٹ کا.او خوب متوجہ ہوا.کتاب اشعیا نبی - ۲۱- باب ۷ - اس آیت میں حضرت اشعیا نبی نے دو شخصوں کی طرف اشارہ کیا ہے.جو خدا کی سچی پرستش کو از سر نو قائیم کرینگے.اُن میں سے ایک کو گدھے کی سواری کے نشان سے بتلایا ہے.اور اس میں کچھ شبہ نہیں کہ اس سے حضرت عیسی کی طرف اشارہ ہے.کیونکہ جناب محمد وح گدھے پر سوار ہو کر یروشلم بیت المقدس میں داخل ہوئے تھے.اور بلاشبہ حضرت عیسلے نے خدا کی سچی پرستش قائم کی اور یہودیوں نے جو مکاری اور دغابازی سے شریعت کے صرف ظاہری احکام کی ریا کاری سے پابندی اختیار کی تھی.اور ولی نیکی اور روحانی پاکیزگی کو بالکل چھوڑ دیا تھا.اس کو بتایا.اور کچی پرستش خدا کی قائم کی.دوسے شخص کو اونٹ کی سواری کے نشان سے بتلایا.اور اس میں کچھ شبہ نہیں کہ اس سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ ہے جو عرب کی خاص سواری ہے بچے سے بوڑھے تک اور عالم سے

Page 294

PAL جاہل تک جس چاہو پوچھو.اُونٹ کا نام لیتے ہی عرب کا اشارہ سمجھ جاویگا.اور جب رسول خدا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کئے میں داخل ہوئے.تو اونٹ پر سوار تھے اور بلاشبہ محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے خدائے واحد کی پرستش قائم کی.حضرت عیسے کے بعد جو لوگوں نے حضرت پینے کو خدا کا بیٹا مانا اور تین خدا قائم کر کے پھر تین سے ایک خدا بنایا تھا.اور خدائے واحد کی پرستش میں خلل آگیا تھا.اُسکو مٹایا.پھر نئے سر سے خدا کی سچی پرستش قائم کی اور یوں فرمایا.ب اهل الكتاب تعالوا إلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِلا نَعْبُدَ إلا الله - سیپاره ۳ - سورة ال عمران - رکوع ، - خطبات الاحمديه - ساتویں بشارت دانیالیہ تجربہ وہ پتھر جسے معماروں نے رد کیا.وہی کونے کا سرا ہوا.یہ خدا وند سے ہے اور ہماری رو نظروں میں عجیب.اسلئے میں تم سے کہتا ہوں خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی.اور ایک قوم کو جو اسکے پھل لاوے دیجائے گی.جو اس پتھر پر گرے گا.چورچور ہو جائے گا.پر جسپر وہ گرے گا.اُسے پیس ڈالے گا.متی ۲۱ باب ۴۲ تا ۴۴ - یہ بشارت خاص نبی عرب محمد مصطفے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.کسی دوسے نبی پر ہرگز ہرگز صادق نہیں آتی.اول کچھ شک نہیں کہ یہاں معمار بنی اسرائیل ہیں جنکو اسی ۲۱ باب کی ۳۳ آیت میں باغبان کہا.اور کچھ شبہ نہیں کہ بنی اسرائیل نے بنی اسمعیل کو اسحاق سے لیکر آجتک علی العموم رد کیا.اور آنحضرت کے زمانے سے آجتک یہود و عیسائی آنحضرت کو رو کیا کرتے ہیں.الا خدا کے فضل سے وہی نبی عرب کونے کے سرے کے پتھر ہوئے.اور بنی اسرائیل کی نظروں میں یہ بات مجیب ہوئی.لے اسے کتاب والو آؤ ایک سیدھی بات پر ہمارے تمہارے درمیان کی کہ بندگی نہ کریں ہم مگر اللہ کی ۱۲ -

Page 295

۲۸۸ دو کہ بنی اسرائیل سے.ہاں جنہوں نے مسیح کو مارا اور پٹیا.اُن سے بادشاہت لی گئی.اور دوسری قوم بنی اسمعیل کو دی گئی.یہ بادشاہت چاہے رومانی لو اور چاہیے ام جسمانی لو.دونوں طرح نبی عرب پر صادق ہے.پاک زمین کی سلطنت اور اس باغ کی باغبانی جسکے بدلے میں بنی اسرائیل موقوف ہوئے.جیسا مسیح فرماتے ہیں مہنتی ۲۱- باب ۳۳ - آجتک اسی کے قبضے میں ہے.خادم الحرمین اُسکے خدام اور اس جگہ کے بادشاہ ہیں.سوم جو اسلامیوں پر گرا چور ہوا.اور جسپر وہ گرے وہ پیس گیا.پہلی بات دیکھتی ہوں تو غزوہ بدر و غیر دیکھ لو.اور دوسری بات کے واسطے بابل وغیرہ بلاد کی سیر کر لو.وہ زنا کار بابل وہ کفرستان کن لوگوں کی طفیل پس گیا.چہارم.یسعیا نبی اس پیشین گوئی اور بشارت کی ابتدا میں کہتا ہو.دیکھو یہ یا ۲۰ با سہا.حکم پر حکم حکم بر حکم قانون پر قانون قانون پر قانون اونا جا تا.تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں.تاکہ وسے چلے جاویں.اور پچھاڑ ہی کرے اور شکست کھاویں.اور دام میں پھنسیں اور گرفتار ہو وہیں.اور یہ باتیں صاف صاف قرآن پر صادق آتی ہیں.جو کہ سکتے اور کھجے اور مدینے میں اُترا.اور جس کی مخالفت میں بنو نضیر بنی اسرائیل کا گر وہ جلا وطن ہوا.اور جسکے مناد پر بنو قریظہ جیسے شہر پر مقتول ہوئے.پنجم.اس بشارت کی مفصل تصدیق دانیال کی کتاب سے ہوتی ہے اور صاف صاف اس میں غور و فکر کرنے سے اس بشارت کا مصداق (ضد اب اُمی و آبی ظاہر ہوتا ہو، اور قربان ہوں ان پر ماں باپ ہمار سے ۱۲ وقت ظہور صافت، طور پر کھل جاتا ہے.اسلئے میں دانیال کی کتاب کا ضرور ہی عمدہ اور خلاصہ مع تفسیر ناظرین کو سناتا ہوں.دانیال نے خواب میں ایک مورت دیکھی جس کا سر سونے کا.بازو چاندی کے رانیں تانے کی ٹانگیں لوہے کی.اور دس انگلیاں لوہے اور مٹی کی ہیں.۲ باب ۲۲ - ۳۵ - دانیال (4) سونے کا سر بابل کا بادشاہ ہے.۲.باب ۳۷.دانیال.

Page 296

۲۸۹ (۲) چاندی کے بازو سے فارسی اور مادی مجموعہ سلطنت مراد ہے.کیونکہ دارا مادی تھا.۵ باب ۳۱ اور خور سے فارسی - ۶ باب ۲۸ - (۳) را نیں تانے کی.ایشیا اور یورپ کا بادشاہ سکندر - ۲۸ باب ۲.اور اسی کو ے باب میں تند و انچار سر والا کہا.اور یہی سکندر رومی ہے.باب ۲۱ - ذو القرن نہ قبر آن والا ذو القرنين (۴) ٹانگیں لوہے کی.۲ باب.اور اسی بادشاہت کو ہولناک دس سنگہ والا کہا.دیکھو باب غربی اور مشرقی رومی سلطنت ہے.جو آخر دس سلطنتوں میں منقسم ہوئی.اس سلطنت کو کہا ہے زمین کو نگلے گی.۷ باب ۲۳ - زمین سے زمین شام مراد ہے.یروشلمہ والی زمین.جبری میں عربی کے مانند معرفے اور نکرے کا امتیاز رہتا ہے.بخلاف اُردو کے.یاد رہے لو ہے اور مٹی کی دس انگلیاں و ہی دن سلطنتیں ہیں.جو بعض قوی اور بعض ضعیف تھیں.اس رومی سلطنت کی آخری گیارہویں شاخ ہر قل ہے.اسی کی نسبت کہا حق تعالے کے مخالف باتیں کرتا ہو گا.، باب - ۲۵.اور یہ اسلئے کہ ہر قبل مسیح کو خدا اور خدا کا بیٹا کہتا.اور مریم وسیح کی پرستش کرتا تھا.اب اس شاخ یاز دہم کے حق میں کرسیاں رکھی گئیں.اور قدیم الایام بیٹھ گیا.اس کا لباس برف سا سفید تھا.اور اسکے سر کا بال صاف وستھرا اون کی مانند اُس کا تخت آگ کے شعلے کے مانند تھا.اور اُسکے پٹھے جلتی آگ کے مثل تھے.عدالت ہو رہی تھی.کتا بیں کھلی تھیں.اور وہ گیارہویں شاخ ماری گئی.، باب ۹ - آیت ۱۳ میں ہے.ایک شخص آدم زاد کے مانند آسمان کے بادلوں کے ساتھ آیا.اور قدیم الایام تک پہونچا.دے اُسے اس کے آگے لائے.اور تسلط اور حشمت اور سلطنت اُسے دی گئی.کہ سب قومیں اور امتیں اور مختلف زبان بولنے والے اسکی خدمت گذاری کریں.اُس کی سلطنت

Page 297

ابد کی سلطنت ہے جو جاتی نہ رہے گی.اور اسکی مملکت ایسی ہے جو زائل نہ ہوگی.اس مقدس آدم زاد اور تسلط اور سمت والے سلطان کے مخالف کے حق میں دانیال کے ، باب ۲۵ میں ہے.وہ حق تعالیٰ کے مخالفت باتیں کریگا.اور حق تعالے کے منقدرسوں کو تصدیعہ دیگا.اور چاہیگا وقتوں اور شریعتوں کو بدل ڈا نے.اور و سے اسکے قبضے میں دیجائینگی.یہاں تک کہ ایک مدت اور مدنیں اور آدھی بمدت گزر جائیگی.پھر عادات بیٹھے گی.اور اسکی سلطنت اس سے لے لینگے کہ اُسے ہمیشہ کیلئے نیست و نابود کریں.اور لی تمام آسمان تلے وہ سارے ملکوں کی سلطنت اور مملکت اور سلطنت کی حشمت حق تعالیٰ کے مقدس لوگوں کو بخشی جائے گی.اس کی سلطنت ابدی سلطنت ہے اور ساری مملکتیں اس کی بندگی کرینگی.اور فرمانبردار ہوں گی.اس سارے دانیال کے مضمون پر غور کرو - هی قتل گیارہویں شاخ کب ہوا.نبی عرب کے وقت نبی عرب کا وجود باجود ظاہر ہوا.نبی عرب کی سلطنت بلا و شام اور عرب میں ابدی ہوئی.ھر قتل حق تعالیٰ کی مخالف باتیں کرنے والا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مدت، ایک سال اور ابو بکر کے ایام خلافت میں دو سال اور عمری خلافت میں بکر ایام میں دو چھ ماہ تک باہمہ شرارت پاک زمین کے سارے ملکوں اور اُس زمین کے تمام آسمانوں کے تلے رہا.پھر عدالت بیٹھی.یعنی عمر فاروق کے عہد عدالت مہر میں یہ باد ہوا.اور اسی عدالت کے وقت وہ بات پوری ہوئی.جو دانیال -۲- باب ۳۴ میں ہے.کہ ایک پتھر بغیر اسکے کہ کوئی ہاتھ سے کاٹ کے نکالے آپ سے نکلا.جو اس شکل کے پاؤں پر جھولو ہے اور مٹی کے تھے لگا.اور انہیں ٹکڑے کیا.تب لو ہا.اور مٹی.اور تانیا.اور چاند کی.اور سونا، ٹکڑے کڑے کئے گئے.یہانتک کہ ان کا پتہ نہ ملا.اور وہ پتھر جس نے اس عورت کو مارا پہاڑ بن گیا.اور تمام زمین کو بھر دیا.دانیال -۲- باب ۵ خود کرو وہ پتھر چھوٹا سا کیسا پہاڑ بن گیا.

Page 298

۲۹۱ وہ پتھر جب سے فارسی بادشاہت اور بابل اور پاک زمین سے روم تک نسیاہ ہوئی.بتاؤ کون ہے.کیا وہ سچ ہے جس نے یروشلم میں مارکھائی.کیا عیسائی مذہر ہے مسیح خود کہتا ت با خویان جب بیٹے کو سزا دینگے.تب وہ پیچھے نکلے گا.منی ۲ باب ۳۳ سے ۲۵ - پایا کہ جوا کری پھر بعد اسکے کسری نہیں ہے.اور ہلاک ہوا قیصر پاک سرزمین کب ہوئی.رہی تھی اس کے وقت دانیال کی کتاب سے اور طور پر بھی وقت کا پتا مل سکتا ہے.دیکھو دانیال 4 باب ۲۴ ہفتے کے بعد شرارت ختم ہوگی.اور اس نبوت پر مہر ہوگی.اور اسپر جوس سے زیادہ قدوس ہے مسیح کیا جاوے.انتہی.۴۹۰ یاد رکھو ایک دن نبوت کا ایک سال ہے.پس ستر ہفتے کے ۴۰۰ سال ہوئے.اس چار سو نوے سال کو آخر زمانہ ختم شرارت کا بنایا.مگر ابتدائے زمانہ معلوم نہ ہوا.اس لئے آیت ۲۵ سے دانیال نے ابتدائی وقت ظاہر کیا.اور سیح بادشاہزادے تک کی مدتیں بتائیں (حضرت مسیح چونکہ داؤد کی اولاد ہیں اور داؤد بادشاہ تھے.پس مسیح بادشاہزادے ہوئے) اور یہ بھی بتایا کہ وہ قتل کیا جاویگا.مگر مکاشفات ۵ باب 4 میں گویا ذبح کیا گیا.یعنی اصلی ذبح نہیں.ان کے زعم میں ذبح کیا گیا سخت تایا گیا.پھر دانیال و باب میں یروشلم کے غارت کو ذکر کیا.اور یہ بھی بتایا گیا.کہ اور یہ بھی بتایا غارت کرنے والے کی ہلاکت اور یہ وسلم کی نظارت ایک وقت میں ہوگی.یہاں ۱۳ باب یوحنا کے مکاشفات کا قابل غور ہے.اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ مسیح کے بعد یہ وسلم کا غارت کنندہ نشہ میں مرگیا.اب ۸۰ کو ۲۹۰ کے ساتھ جمع کیا تو نے یہ ہوئے.اور یہی سال پیدائیش نبی عرب احمد مجتبے مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.عیسائی مؤرخ کہتے ہیں کہ یہ وسلم کی غارت نشہ میں ہوئی.عیسائی

Page 299

۲۹۲ مورخ دانیال پر نظر نہیں کرتے.دانیال صاف لکھتا ہے کہ ہر مشکلم اور اس کا بر باد کننده اکٹھے فنا ہونگے.ششم زبور ۱۱۸ اور اشعیا ۲۸ باب.اور مئی ۲۱ باب رسم کی بشارت وہ پتھر جسے معماروں نے رد کیا.کونے کا سدا ہوا.یہ خدا وند سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب - ضرور.ہاں ضرور محمد عربی کے حق میں ہے.اسلیئے قدیم زمانے میں تصویری تحریہ کا عام رواج تھا.محسوسات کے اشکال پر اشتہارات اور کنایات سے گفتگو کرنا مروج تھا.عیسائی اس امر کو تسلیم کرتے ہیں.چنانچہ ہمیں اعتبار یہودیوں میں پولا ملانے کی رسم کو مسیح کا جی اُٹھنا خیال کرتے ہیں.یوشع کا یہ دن سے بارہ پتھر اٹھانا بارہ سواریوں کا اشارہ بتاتے ہیں.اور مینڈھے کی قربانی کرنا حقیقی بڑے کی قربانی خیال کرتے ہیں.خصوصا ان پڑھ قوم کے لئے یہ تصویری زبان نہایت ضروری تھی.اسی واسطے قدیم زمانے سے نبی عرب سے پہلے خاص لگے میں لکھے کے کونے پر ایک من گھڑا پتھر جیسے حجر اسود کہتے ہیں رکھا ہوا تھا.اور اس کو ہاتھ لگانا اور اسے چھونا اور اس سے ہاتھ ملانا.حج میں ضروری رسم تھی.اور اس پتھر کو بدُ الرَّحْمَنِ فِي الأَرضِ کہتے تھے.یہ پتھر رسول عربی کے شہر میں گویا رسول خدا کی بشارت تصویری زبان میں تھی.آپ رحمة للعالمین اور مظہر اسم رحمان تھے.آپ کی بیعت رحمن سے بیعت تھی.رآن کلام الہی بشارت مجریہ کی رمز سے قرآن کلام الہی بشارت جھریہ کی نسبت عجیب کنائے اور رمز سے اس پیشین گوئی کی خدا کا ہاتھ زمین میں ۱۲ طرف اشارہ کرتا ہے.ان الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَا بِعُونَ اللهَ (جو لوگ ہاتھ لاتے ہیں تجھ سے وے ہاتھ ملاتے ہیں اللہ سے ۱۷) اور حدیث میں ہے.دیکھو بخاری اور سلم.مَثْل وَمَثَلُ الأَنْبِيَاءِ كَمِثْلِ قَصْرٍ اَحْسَنَ بُنْيَانُه تُرِكَ مِنْهُ مَوْضِعُ لِبْنَةٍ

Page 300

۲۹۳ إلى أن قال فكنتُ أنا سَدَ ذَتُ مَوْضِعَ اليِّنَةِ وَفِي رِوَايَةٍ نَانَا تِلكَ اللينة - ترجمہ - یعنی دمیری اور ڈوگر نبیوں کی مثال ایک عظیم البنیان محل کی مثال ہو کہ ایک اینٹ کی جگہ اُس میں چھوڑ دیگئی.پس میں نے اس اینٹ کی جگہ کو پورا کر دیا.اور ایک روایت میں ہے کہ میں ہی وہ اینٹ ہوں ) اس آیت اور حدیث سے صاف واضح ہے کہ اس پتھر کی بیعت کو یا رحمن کی بیعت تھی.ایسے ہی رسول کی بیعت بھی رحمن کی بیعت ہے.اور رسول خدا ایک اینٹ اسی محل سرا کی ہیں.جو انبیاء کی ذات بابرکات سے طیار ہوئی.عرب کے لوگ رحمان کے نام سے اسی واسطے چونک اٹھتے ہیں.اور جب انپیر اُسْجُدُوا لِلرَّحْمنِ پڑھا جاتا ہے.تو کہتے ہیں.انسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ سجدہ کریں.خیرا کو ۱۲ کے نُفُور (( ترجمہ ) کیا سجدہ کریں ہم جسکو حکم کرے تو اور زیادہ کرتا ہو ں کو بھاگنا) ہاں محمد عربی کے بعد حجر اسود کی بیعت ضروری نہ رہی.جب اصل آگیا تو مجاز اٹھ گیا.بیشک اس کونے کے سے والے پتھر کا نتیجہ بہت بڑا ہوا.اور اسکے چھونے سے انبیا کی کتب سابقہ کی تصدیق ہوئی.اسلیئے وہ یادگاری کا پتھر بیشک ہمیشہ کے لئے کسی ایسے نشان کا مستحق ہے.جو آجتک مسلمان اسکی نسبت قائم رکھتے ہیں.والا یہ پتھر وہی ہے جسکی نسبت عمرو نے کہا.انكَ حَجَر تَنْفَعُ وَلا تَر تو و ایک پتھر ہے.تو جو نفع اور نقصان کچھ بھی پہنچا نہیں سکتا.بن گھڑا پتھر اسلیئے رکھا کہ بت پرستوں کا کام بہنا گھڑے پتھر سے نہیں تھا.بلکہ گھڑے ہوئے ہے.اس بات کو مفصل حج کے اسرار میں لکھیں گے.یہاں اتنا یاد رہے کہ یشوع نے یاروں سے بارہ پتھر لئے اور انکا نشان بنایا.ابراہیم اور یعقوب جہاں خدا کو دیکھتے وہاں بن گھڑا پتھر اس بات کی یادگار میں کھڑا کردیئے.یشوع که باب - پیدایش ۳۸ باب ۱۸ - پیدایش ۱۲ باب ۷ - سکتا لا الہ الہ کمال توحید اسے کہتے ہیں کن عاقل اس صادق و اداری کا سامان وی او د دوا کا اس بات کا کو ایم کی رکن

Page 301

۲۹۴ الهوين بشار تو بنی آدم میں سے از حد حسین ہے.اسے پہلوان تو جاہ و جلال سے اپنی تلوار حمائل کر کے اپنی ران پر لٹکا.امانت اور معلم اور عدالت پر اپنی بزرگواری اور اقبال مندی پر سوار ہو.تیرا وہنا ہاتھ تجھے ہیبت ناک کام دکھائے گا.۴۵ زبور - ۳ و ۴ - یہ بشارت صاف صاف نہی عرب کے حق میں ہے.عیسائیوں نے بھی اس امر کو سلیم کر لیا ہو کہ انبیائے سابقہ میں سے تو کسی کے حق میں نہیں.اب تصفیہ طلب بات صرف اسقدر ہو کہ عیسائی اس زبور کو مسیح کے حق میں کہتے ہیں.اور ہم مسلمان کہتے ہیں کہ حصرت ذات پاک نبی عربی اسکی مصداق ہے.اس با سچے فیصلے کیلئے امور ذیل قابل غور ہیں.(1) دا) تو بنی آدم میں سے از محمد حسین و جمیل ہے.سیرت و تواریخ کے جاننے والے اس بات سے ناراقت نہیں ہیں کہ آنحضرت " کے حسن و جمال کی تعریف سے تمام کتابیں بھری ہوئی ہیں.آپ کے معاصرین عرب عرباتے جس قدر اس بارے میں حقیقت و معنی کی داد دی ہے.دنیا میں اُس کی نظیر نہیں پائی جاتی.اور واقعی حقیقی بلا شائبہ مبالغہ آپ کا حلیہ مبارک قلم بند کیا ہے.میں اس وقت بلاش بر خلاف اپنے دلی ارادے کے اپنے قلم کو اس بات سے روکتا ہوں.کہ وہ سچا فوٹو کھینچنے والے اشعار آپ کے حسن و جمال کے وسعت کے تحریر کروں.جو صحابہ نے کمال دیوار قلابی سے اُس ہارگئی حق کی نعت میں کہے ہیں.کیونکہ وہ اس قدر دائر و سائرہ اور شائع ہیں کہ انکار کی گنجائش نہیں.ہاں ایک شعر لکھے بغیر تو میں بھی ہرگز نہیں رہ سکتا.جو ایک صحابی جلیل الشان کا کہا ہوا ہے.اور کس دلی سچی ارادت سے کہا ہے.

Page 302

۲۹۵ خَلِقْتَ مُبَرامِن كُلِّ عَيْبِ كَانَكَ قَدْ خُلِقْتَ كَمَا تَشَاءُ میں صرف اُسی شہادت پر اکتفا کرنا چاہتا ہوں جو یورپین فضلا نے طوعاً و کرہا اس بارے میں دی ہے.گو بقول ہے.آفتاب آمد دلیل آفتاب ہو وہ نبی مداحوں کی درح اور معرفوں کی تعریف سے مستغنی ہے.مگر بقول الشَّتَاءِ مَا شَهِدَتْ بِهِ الْأَعْدَاءُ - غیر قوم کی گواہی اور پھر نہ لوگوں کی اہل عالم کے طبائع کو مرغوب ہوتی ہے.ڈاکٹریٹ صاحب لکھتے ہیں."محور عرب کے نہایت عمدہ خاندان اور معزز قوم میں سے تھے.صورت میں تشکیل.اور طور ہیں رسیلے.اور بے تکلف تھے “ ترجمہ یا لوجی گاڈ فری ہینگس صفحہ ، دفعه ۱۰ مطبوعہ بریلی سے.دل ” جان ڈیون پورٹ کا کھتا ہے.نبی عرب - آپکی شکل شاہانہ تھی.خد و خال با قاعده؟ اور دلپسند تھے.آنکھیں سیاہ اور رسیلی تھیں.بلینی ذرا اٹھی ہوئی.دہن خوبصورت تھا.دانت موتی کی طرح چپکتے تھے.بخار سرخ تھے.اور اُن کی تندرستی عریاں تھی.آپ کا رای آویز تب تم عمدہ اور سینی آواز - موئید الاسلام ایڈورڈ گین صاحب بڑے مشہور مورخ لکھتے ہیں.آنحضرت حسن ہیں شہرہ آفاق تھے.اور یہ نعمت صرف انہیں لوگوں کو بُری معلوم ہوتی ہے.جن کو اللہ تعالی کی طرف سے عطا نہیں ہوئی.پیشتر اس کے کہ آپ کوئی بات فرما دیں.آپ کسی خاص آدمی یا گروہ کو اپنی طرف متوجہ کر لیا کرتے تھے.لوگ آنحضرت کی شاہانہ شکل.اور رسیلی آنکھوں اور وضعد از تبسم اور بکھری ہوئی ڈاڑھی اور ایسا چہرہ جو دل کے ہر ایک جذبے کی تصویر کھینچ سے اور ایسی حرکت اعتما ہو زبان کا کام دے دیکھ کر تعریف کیا کرتے تھے.موید الاسلام - صفحہ (۲) اے پہلوان، تو جاہ و بہلال سے اپنی تلوار حمائل کر کے ان پر لا نے تو ہر قسم کے جیب سے بری اور پاک پیدا کیا گیا.گویا ایسا تو چاہتا تھا.ویسا ہی پیدا کیا گیا.

Page 303

کل دنیا مخالف و موافق پر آشکار ہے کہ احکام الہی اور اپنی رسالت کی تبلیغ میں جو ثبات و استقلال جو جلادت و جلال آپ نے ظاہر کیا ہے.تاریخ عالم اسکی نظیر سے ساکت ہے.اور جس پہلوانی اور شجاعت سے اُن بڑے بڑے مواضعات کا جو - عرب کی تند خو غریدہ جو گرم مزاج وحشی قوم نے آپ کی رسالت کی راہ میں ڈالے.آپ نے مقابلہ کیا.حقیقت میں آپ کی صداقت کی بڑی دلیل ہے.قطع نظر اُن بڑے بڑے واقعات کے جن سے کتب سیر مشحون ہیں.ایک دو باتوں پر غور کرنے کے لئے ناظرین کی توجہ کی درخواست کیجاتی ہے کیونکہ تطویل مضامین ہمارا مقصود نہیں ہو.اس خطر ناک فطرت انسانی کو سخت امتحان میں ڈالنے والے ایک غیر صادق اور جعلساز آدمی کو جگہ سے ہلا دینے والے واقعے پر دھیان کرو.اور سوجو اور ذری واردات فطرت انسانی کی تصویر اپنی آنکھوں کے سامنے کھینی جسوقت کے کے بڑے بڑے سرداروں اور رئیسوں نے متفق ہو کر نفرت کے بیچا اور گارڈین ابو طال سے درخواست کی کہ وہ آنحضرت کے اس نئے دین کی وعظ سم رو کرے یا اسکی حفاظت سے دستکش ہوجاوے.اور ابوطالب نے بھی جسے نہ چاہا کہ اپنی قوم کو اس شہرت اور غیظ کی حالت میں دیکھے حضرت سے ان کی درخواست منظور کر لینے کوکہا.تو کیسی آپ کی صداقت ظاہر ہوئی.اور کیسی آپ کی پہلوانی ثابت ہوئی.خوب کھل گیا کہ وہ پہنچا اولو العزم نہیں جھیل اور بناوٹ سے بالکل مترا ہے.اسلئے کہ نبی کا نوشتہ را ہونا ضرور تھا.ہاں آپ نے جواب کیا دیا..اے پچا اگر یہ لوگ آفتاب کو میرے داہنے ہاتھ میں اور مہتاب کو میرے بائیں ہاتھ میں رکھ دیں.اور مجھے اس کام کے ترک کرنے کو کہیں یقینا یقینا میں بانہ نہ نہ ہونگا.جب تک خدا کا دین ظاہر نہ ہو.یا میں اسی

Page 304

496 کوشش میں ہلاک نہ ہو جاؤں.ایک اور واقعے پر نظر کرو.ایک روز آپ مسجد کے حجرے میں بیٹھے ہوئے تھے." علی اور اس سے تھوڑی دور ایک بڑا بھاری گروہ صنادید قریش کا تھا.ان میں سے عتبہ بن کی بیعہ نے دیدہ شخص آپ کا بڑا بھاری دشمن ہوا ہے) آپ کے قریب آکر عرض کیا.کہ ا پسر برادر.تو صاحب اوصاف حمیدہ اور عالی خاندان ہے.مگر اب تو نے ہماری میں تخم نفاق بودیا ہے.اور ہمارے قبائل میں تفرقہ ڈال دیا ہے.تو ہمارے دیوتاؤں اور دیلبیوں کی مذمت کرتا ہے اور ہمارے آبا و اجداد کو کافر اور بت پرست بناتا ہے.اب ہم ایک بات تجھ سے کہتے ہیں خوب سوچگر جواب دے کہ اس کا قبول کرنا تیرے حق میں بہتر ہوگا.آنحضرت نے فرمایا کہ اسے ابو الولید کیا کہتا ہے.میں تیری بات کو خُوب سُنونگا.عُتبہ نے کہا اے پسر بر اور اگر تو اس ادعائے رسالت سے مال و دولت حاصل کرنا چاہتا ہے تو ہم تجھ کو اتنی دولت جمع کر دینگے کہ ہم میں سے کسی کے پاس نہیں.اور اگر تجھ کو عزت و وقار حاصل کرنا منظور ہے.تو ہم تجھ کو اپنا سردار اور رئیس بنا ئینگے.اور کوئی بات ہے تیرے نہ کر ینگے.اگر تجھ کو بادشاہت منظور ہے.تو ہم تجھ کو اپنا بادشاہ بنائیں گے.اور اگر جنون تجھ پر غالب آگیا ہے تو ہم اطبا کو بلا ئینگے اور ان کو مال د یکہ تیرا علاج کرائینگے.جب عتبہ کی یہ تقریر ختم ہوئی.تو آپ نے پوچھا.ا ابا اولید تیرا کلام تمام ہوا.اس نے کہا ہاں یا محمدی آپ نے فرمایا اب میری سُن.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - حَمَّدٌ تَنزِيلَ مِنَ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ، كتب فَصَلَتُ آيَاتُهُ قُرْآنَا عَرَبِيًّا لِقَوْمٍ تَعْلَمُونَ بَشِيرًا وَ نَاذِ يُرَاء فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يسْمَعُونَ، وَقَالُوا فَتُوبُنَا فِي النَّةٍ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي أَذَانِنَا وَ قُر اے رحمن و رحیم کی جان ہے اترا ہوا.یہ کتا ہے، کی آیتیں کھلی کھلی میں قرآن عربی جاننے والے لوگوں کی واسطے بشیر نذیر ہے پر اکثر لوگوں نے منہ پھیرا اور دوسنتے ہی نہیں اور کہتے ہیں ہمارے دلوں پر خلاف پڑھے ہوئے ہیں تیری اس بات کی طرف سے

Page 305

۲۹۸ مِن بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَاب فَاعْمَالُ إِنَّنَا عَمِلُونَ ، قُل إنما أنا بشر مثلكم يُوحَى لى انَّمَا الهُكُمُ الهُ وَاحِدُ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ ، وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكوة وَهُمْ بِالآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَهُمْ أَجْرُ غَيْرُ مَمْنُونٍ - سیپاره ۲۴ سوره حم السجده (ع) یادر ہے کہ یہ سب ماجرے ایسے وقت ہوئے.جب آپ نے ابتداء پیغام الہی پہنچا نا شروع کیا ہے.مشرکین کی درخواست کا مضمون فقرة فقرة اور آنحضرت کا جو ملكوت السموات کے خارق تھے.اس نظیف درخواست پر دست رد مار نا نصاری کے بڑے بڑے مخالفانہ اعتراضوں کا حقیقی اور واقعی جواب ہے جسکی آنکھیں دیکھنے کی ہوں دیکھے، مگر مجھے نہایت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت کے فصیح اور پاکیزہ جواب کو بھی لکھیں.جو آیات قرآنی کے پڑھنے سے قبل آپ نے دیا ہے.وهو هذا.فقَالَ لَهُ رَسُول الله صلى الله عليه وسلّم مابي ما تقولون ماجئت يما جئت کد به اطلب اموالكم ولا الشرف فيكم ولا المُلك عليكم ولكن الله بعثنى بقیر حا جدھر تو ہمیں بلاتا ہے اور ہمارے کان ہو نہیں ہورہے ہیں اور تیرے اور ہمارے درمیان اوٹ ہے تو اپنے کام میں لگارہ ہم اپنے کام میں تو کہر سے رائے محمد ؟ میں ایک تمہیں سا بشر ہوں میری طرف خدا کا پیغام آتا ہے کہ تمہارا معبود واحد ہے اسی کی راہ پر سیدھے کھڑے ہو جاؤ اور اُن سے بخشش مانگو، پلاکت ان مشرکین کیو اسطے مجھے زکوۃ نہیں دیتے اور آخرت کے منکر ہیں.بانک ایماندار را اور نیکو کاروں کے لئے غیر منقطع امیر ہے.ا آپ نے فرمایا جو کچھ تم نے کہا اس میں سے مجھے کچھ بھی نہیں.میں تمہارے پاس دین تھی اسلئے نہیں لایا کہ تم سے مال مانگوں اور نہ میں تمیر کچھ بڑائی اور بادشاہت چاہتا ہوں.لیکن مجھے اللہ نے تمہارے پاس بھیجا رسول کرینگے.اور مجھ پر ایک کتاب اتاری ہے اور مجھے امر کیا ہے کہ میں تمہیں بشارت اور ڈرسنا دوں.پس میں نے اپنے رب کے پیغام تمہیں پہنچا دیئے اور تمہیں خیر خواہی کی باتیں سنا دیں جو کچھ میں لایا ہوں اگر تم نے مان لیا تو دنیا اور آخرت میں تمہاری سعادت ہے.اور اگر تم نے اُسے رد کیا تو لیکن صبر کرونگا جبتک تمہارے اور میرے درمیان فیصلہ کر نے اللہ ۱۴

Page 306

۲۹۹ اليكم رسولا و انزل على كتابا و امرنى ان اكون لكم بشيرا ونذيرا فبلغتكم رسالت ربي و نصیحت لكم فان تقب او امنی ما جئتكم به نهو حظكم في الدنياء الأخرة وان تر دوه عليكم اصبر حتى يحكم الله بيني و بدی کند به سهرت ابن هشام مطبوعه مصر جز و اول صفحه ۱۰ ناظرین غور کیجئے اور سرشتہ انصاف کو ہاتھ سے نہ دیجئے.کس عظمت و شان کا یہ جواب ہے.فامنوا بالله ورسوله تفوزوا - (۱) ایک اور واقعہ ستوجب آنحضرت دوسری بار سکتے سے طائف کو جاتے تھے اور آپکے ساتھ مومنین کی جمعیت تھی تو ایک بیک ایک پہاڑی پر سے بنی هوازن نے تیر چلانے شہ وغ کر دیئے.اہل اسلام جو بفراغ خاطر جارہے تھے.جیسا ایسے موقعوں پر ہونا ممکن.مضطرب ہو گئے.آنحضرت نے بنی ہوازن کو للکار کر فرمايا - أنا النبى لا كذب و انا ابن عبد الا مطلب کی ہی وہ نبی ہوں اس میں جھوٹ نہیں ہو.میں ابن عبد المطلب ہوا.اس موقع پر ایک لطیف مضمون جس کا لکھنا شاید ہے وجہ نہ ہو گا.گوسیاتی مضمون رواں سے نسبت بعید کیوں نہ رکھتا ہو.لکھا جاتا ہے.وہ یہ کہ." آنحضرت ہر موسم میں وعظ سنانے کو نکلا کرتے تھے.گھر گھراور قبیلے قبیلے کو پیغاما نچاتے.مثلاً قبائل بنی عامر بن صعصعہ و محارب و فزارم و غستان و مره و حنیفه وسلیم و نفر وغیرہ کے ہر ایک شریف سے صرف اتنا ہی فرمایا.لا اكره احدا منكم على شيء بل اريد ان تمنعوا من يوديني حتى ابلغ رسالات رتی.ربیعہ بن عباد کہتا ہوں.میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کو بازار ی المجاز میں دیکھا کہ لوگوں کے پیچھے پیچھے انکے ڈیروں میں جاتے تھے.جایہ کہتا ہو آ نحضرت لوگوں سے کہتے تھے.زرقانی شرح مواہب بلدا صفی ۳۷۳) مطل من رجل يحميني إلى قومه فان قريشا منعوني ان ابلغ كلام درتي - اے میں کسی کو تم میں سے کسی بات پر مجور نہیںکرتامیر فقط ان انشاء ہوکہ تم لوگ مجھے ایذا پہنچانے والوں کو روکہ ہو تاکہ میں رب کے پیغام پہنچا دوں اسے کوئی ہر سمجھے اپنی قوم میں ہجائے.کیونکہ قریش نے مجھے میرے رب کا کلام پہنچا نے سحر روک دیا گیا

Page 307

ایک روز قبیلہ بنی صعصعہ کے ایک شخص بحیرہ بن فراس نام نے آپکو دیکھا اور فرایزدی اور جلال کبریائی سے جو آپ کے بشرہ مبارک سے عیان تھا متا ثر ہو کر کہہ اٹھا.الله لو اني اخذت هذا الفتى من قريش لا كلت العرب پھر آنحضرت سے مخاطب ہو کر گذارش کی ار رأيت ان نحن تابعناك على امرك ثم أظهرك الله على من خالفك ايكون لنا الأمر من بعدك - آنحضرت نے اس کے جواب میں فرمایا.الأمر إلى الله يضعه حيث يشكو.(ابن هشام ملدا مشكلام اس بات کو سنگرہ وہ شخص کہنے لگا.افت هدن نحور تا للعرب دونك فاذا اظهرك الله كان الامر لغيرنا لا حاجة لنا بامرك.اس ذکر کے ایراد سے ہماری صرف یہ عرض ہو کہ آنحضرت کے مشن کی صداقت اور آپکا صرف اعلائے کلمہ اللہ کو مد نظر رکھنا دنیا پر آشکار ہو.اور اس نور نبوت سے چشم پوشی کرنے والے سوچیں کہ کیسی مصیبت اور کسقدر نازک وقت تھا جبکہ امداد کی سخت ضرورت تھی.عالم تنہائی اور امر رسالت بینک رفقاء ومعاونین کے وجود کا خواستگار تھا سے بخدا اگر یہ قریش کا جوان میرے بس میں ہوتا تو اس کے ذریعے سے سارے عرب کو قابو میں کر نیتا ۱۲.سے بھلا یہ تو بتائیے اگر ہم نے آپکا امربان بھی لیا اور خدا نے آپکو مخالفوں پر غالب بھی کر دیا اذ آپ کے پیچھے زما ہم حکومت ہمارے ہاتھ میں ہو گی ؟ ۱۲.سل سب امور اللہ کے دستِ قدرت میں ہیں جہاں حکمت سمجھتا ہے وہیں دیتا ہے ۱۲.سے کیا ہم آپکی خاطر عرب کے مقابل میں اپنے سینوں کونشانہ بنا دیں اور پھر جب آپ کا میاب ہوں تو امر دوسروں کے سپرد ہو.ہمیں آپ کے امر کی کچھ حاجت نہیں ۱۲.

Page 308

٣٠١ ایک بڑی قوم ذرا سے اشارے اور آیندہ کے وعدے پر ساتھ دینے کو طیار اور جان ینے کو موجود مگر اللہ للہ صداقت اور صفائی دیکھو کہ آپ نے کوئی موہوم اور استقبانی دھوکا دینا پسند نہیں کیا.ورنہ کیا تھا.ذراسا آسمان کی کنجیوں کے دینے کا لالچ دیدیتے کون مرے کون دیکھے (متی 14 باب ۱۸) اور خیالی تختوں کے وعدے سے دل لبھا لیتے (متی 19 باب ۲۸) ہم روزمرہ کے تجربے سے اہل عالم کی کارروائی سے مشاہدہ کر رہے ہیں کہ کسی شخص کو جب اپنی کار براری مقصود ہوتی ہے تو کیسے کیسے جیلوں اور دھوکوں اور کیسے کیسے بالفعل دل خوش کن وعدوں کو ہتھکنڈا بناتا ہے.زمانہ گذشتہ کے سلاطین کو جانے دو.حال کے مہذب یورپین سلطنتوں ہی کو دیکھ لو کہ معاملات ملکی میں کن کن خدا میتوں اور ملمع چالاکیوں سے کام نکالتے ہیں.یہی قدرتی حالات اور نسبتی واقعات ہیں جنکو ایک با ایمان منصف پڑھکر یقینا کہہ سکتا ہو کہ بیشک یہ رسول صادق و مصدوق ہو.امانت (۲) عجیب اور فی الحقیقت بے نظیر بات ہو کہ آپ اپنی قوم میں ابتدا ہی میں امین اور مامون کے نام سے پکارے جاتے.کل قوم آپکی طرف ایسی عزت اور وقعت کی نگاہ سر دیکھتی تھی کہ عرب کے تاریخ دان اُسے پڑھکر اچھنبے میں رہ جاتے ہیں.اپنی قوم میں ممتاز اور مشار الیہ ہونا اور اپنے ہمعصروں میں صفات فاضلہ کے لحاظ سے یگانہ سمجھا جانا.خصوصا ایسی قوم میں جسکا پیشہ ہی مثالب شماری اور عیوب گیری ہو.اور بچپن ہی سے بڑے بڑے بزرگان قوم اور زعیمان ملت میں فوق العاد تعظیم سے یاد کیا جاناطوعا دکر یا اور اس بات کے یقین کر لینے پر اہل انصاف کو مجبور کرتا ہو کہ قدرت خداوندی کا نمونہ اور نشان ایزدی اُنکے اقوال و افعال کے چہرے سے نمودار تھی.بعثت کا نمونہ ابھی دور ہو.خدائے جلال کے ساتھ تبلیغ رسالت کرنا ابھی مرحلوں پر ہے ہے.کوئی نہیں جانتا کہ اس نادر انسان ابن عبد الله ابن عبد المطلب کے کیا مدارج ہوتے ہیں.J گا

Page 309

۳۰۲ اور صادق و مصدوق امین و مامون ابھی سے خطاب دیا جارہا ہے.بڑی صاف بات ہے کہ ایک ایسی قوم میں جسکو شخصی کارناموں.ذاتی حسن و قبح اور حسبی نسبی انتیازات پر نظر ہو.ضرور تھا کہ خدا ایسے شخص کو مبعوث کرتا جسکے دامن حال پر ا ور متعارف قوم میں سے کسی ایک امر کا بصبانہ الگ سکے فطرت کا نا قابل انفسان قاعدہ کہ مصالح کی وجاہت و وقعت یعنی اُس کا حسب و نسب میں ممتاز ہونا اصلاح قوم میں دخل کلی رکھتا ہو اور خواہی نخواہی ارادت انگیز اثر اور جذب ملت کا دلوں میں ڈالتا ہے.کل دنیا کے ریفارمروں اور مسلموں کی لائف اسکی شہادت دیتی ہے.بنی اسرائیل کسی امید میں شب و روز بیکل ہورہے تھے.ان کے دیدۂ انتظار کدھر لگے ہوئے تھے.وہ تباہی اور ذلت اور مغلوبیت کی حالت میں کس امید بستہ سے غم غلط کر رہے تھے کہ ایک ذی شان رفیع المکان صاحب امتیازات بادی ان میں پیدا ہونے والا ہے.جس کی شوکت صلابت اور وجاہت اُنکے لئے بڑی قوت بازو ہو گی.اب وہ امید بستہ تو پوری ہوئی مگر ایسی دھندلی اور تاریکی شکل میں کہ دیدہ سفید مشترکان با وجود انتظار کبھی اُسے پہچان نہ سکے کہ انکی عروس مراد یہی ہو.وہ شخص موعود جیسا کہا جاتا ہے......سامان امیرانہ ایسا کہ بعد از وضع چرتی میں رکھا گیا.گمنام نشو نما پایا.عالم محاطہ میں قدم رکھا تو ابن نجار کہلایا.اور طبعا قوم کی جان ہے استغفار کی آنکھ سے دیکھا گیا.اور یوں بڑا عظیم فانہ مفقود و نابود ہوگیا.مگر مبارک ہوراں مرتب ہوا اس مولود مسعود کو جسکو قوم نے تمام صفات مختص القوم کا مجموعہ مانا.اسکے عین عالم شباب میں بڑے بڑے پیران قوم کا مرکز و مرجع ہوا.لگتے ہیں عام دستور تھا کہ جس شخص کے پاس کوئی عجیب اور بیش قیمت چیز ہوتی.جسے وہ اپنے پاس محفوظ نہ رکھ سکتا وہ آنحضرت کے پاس امانت رکھتا اور اس بات کی یہاں تک شہرت ہو گئی کہ قوم کے پیرو جوان کی زبان پر الامین المامون کے سوا آپکی نسبت اور کوئی لفظ ہی نہ آتا.بلکہ عرب کی ایک بڑی مالدار اور بزرگ عورت خدیجة

Page 310

۳۰۳ نے صرف آپ کی امانت اور صداقت کی صفت شنکر اپنے مال و تجارت کا محافظ آپ کو مقرر کیا.جس صفت کو کامل طور پر پرکھ کر بالآخروه برگزیده عورت شریف اسلام و رابطه زوجیت جناب سے مشرف ہوئی.اب میں اس امر کے ثبوت کے لئے کہ آپ موافق و مخالف میں الامین و المامون کے نام سے پکارے جاتے تھے ، چند اشعار کفار مکہ کے نقل کرتا ہوں.جیسے علاوہ اور محبت گنہ کے ایک طبی فائدہ یہ حاصل ہوگا کہ کفار و مخالفین با وجود عناد قلبی مذہبی کے آپکی ذاتی وجاہت اور قدوسیت کے کیسے قائل ہیں.کعب بن زہیر بن ابی سلمی سخت دشمن آپکا تھا.ہمیشہ وہ آپکی ہجو میں اشعار کہکہ قوم کو آپ سے منحرف کرتا.جب اُس نے سناکہ اُس کا قیقی بھائی متحیر ہوکر نبوی میں ہوگیا ہے تو کو سخت حقیقی بھائی بی یو مسلمان ہو کر خادمان نبوی میں داخل ہو گیا ہے تو اُس کو سخت ناگوار گزرا.آخر اس نے بھائی کو یہ اشعار لکھے ہے الا بلغَا عَنى بحيرًا رِسَالَةَ فَهَلْ لَكَ فيما قُلْتَ وَيْحَكَ هَلْ لَكَا سَقَاكَ بها الماموت كاسارويّةٌ فَانْهَلَكَ الْمَامُونُ مِنْهَا وَ عَلَكا فَفَارَقْتَ ففارقت اسباب الله وتَهُ عَلَى أَيِّ شَيْ ءٍ رَيْبَ شَرِكَ وَلكَا عَلَى مَنْ هَبِ لَمْ تُلْفِ أَتَاوَلا أَبا عَلَيْهِ وَلَمْ تَعْرِفُ عَلَيْهِ أَخَالَكَا (۳) جیسا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ کفار عرب نے ملکر ابو طالب کو مجبور کیا کہ وہ آنحضرت کو وعظ توحید سے روک دے اور ابوطالب نے بھی قوم کی رضا جوئی کو مقدم جان کر آپ سے باز رہنے کے لئے کہا.الا آنحضرت نے اسپر وہ جواب دیا جو ابھی ہم لکھ چکے ہیں.له بیر کو میری طرف سے پیغام پہنچا نہ کیا تو راضی ہے اپنے قول میں افسوس ہے تجھے کیا تو راضی ہو تجھے مامون نے اسلام کا سہراب پیالا پلایا ، پھر مامون خود اس سے ہلاک ہوا اور تجھ کو مگر شراب پلائی : پھر تو ہدایت خوب ہدایت تھی کے اسباب چھوڑ اُسکے پیچھے ہو لیا یہ کس بات کی راہ اس نے تجھے دکھائی اور تو اوروں کی طرح ہلاک ہو : : جس مذہب پر تو نے اپنے ماں اور باپ کو نہ پایا.اور نہ اپنے کسی بھائی کو اس مذہب پر دیکھا ۱۲.

Page 311

۳۰۴ اِس پر ابو طالب نے متاثر ہو کر یہ اشعار پڑھے ؎ اللهِ لَن يَصِلُوا اِلَيْكَ يَجعِهِمْ حَتَّى أَوَشَدَ فِي التَّرَابِ دَفِينا فَاصْدَعْ بِأَمْرِكَ مَا عَلَيْكَ غَضَاهَتُ والشروقر بذاك مِنْكَ عيونا ودعوتني وزَعَمْتُ أنك نامين ولقد صدقت وكنت ثم أمينا وَعَرَضْتَ دِين الاحالة أنَّهُ مِنْ خَيْرِ أَدْيَانِ الْبَرِيَّةِ دِينًا لَوْلا المُلَامَةُ أَو حِذَارِى سُبَة لَوَجَدْتَنِي سَمْعًا برَكَ مُبينا ابو طالب کے وہ فقرات جو اس نے موت کے وقت خطبہ طویل کے بعد کہے.قابل غورہ ہیں.ونَ أَوْصِيكُهُ بمُحَمَّدٍ خَيْرًا فَإِنَّهُ الآمنين في قريش والصديق في العرب قَدْ جَاءَ نَا بِأَمْرِقَبِلَهُ الْجِنَانُ وَأَنْكَرَهُ اللَّسَانُ مَخَافَةَ الشَنَان مواہب لدنيه و زرقانی شرح مواہب جلدا - صفحہ ۳۵۶ - غرض ایک مشہور اور دستور عام کی نظیر یں کہاں تک لکھوں مضمون طویل ہوا.جاتا ہے.اب آپ کے علم کی چند باتیں لکھتا ہوں.(1) ابوسفیان نے کسی زمانے میں اعدسے عدو تھا.اور جس کا حال ہماری اس کتاب ہ میں کئی جگہ آویگا.ایک شخص کو مقرر کیا کہ وہ خطبہ خفیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر ڈالے.آپ بنی عبد الاشہل کی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے.اور وہ بغل میں خنجر دبائے ے اللہ کی قسم یہ لوگ جب تک میں نہ مر جاؤں تیرے پاس نہ پھٹکیں گے تو اپنے ام کو ظاہر کردے تھے کوئی ذلت نہ ہو گی.خوش ہو اور اپنا جی ٹھنڈا رکھ : بی شک تو نے ایسا دین پیش کیا.جو مخلوقات کے دینوں سے افضل ہے.اگر علامت قوم اور بدنامی کا ڈر مجھے نہ ہوتا.تو مجھے اس دین کا ماننے اور ظاہر کرنے والا ضرور پاتا ۱۲.ے میں تم کو محمد سے اچھا سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں.کیونکہ وہ قریش میں امین ہے اور عرب میں صدیق ہے.وہ ایسا اور لایا جس کو دل نے تو مانا پر زبان نے بدنامی کے ڈر سے اس کا انکار کیا ۱۴ -

Page 312

۳۰۵ چلا آتا تھا.سامنے سے اُسے دیکھ کر الہام الہی نے آپ کو آگاہ کردیا.اور آپ نے حاضرین فرمایا کہ شخص غدر کے ارادے پر آتا ہے مگر خدای تعالی اسکے اور اسکی مراد کے درمیان سائل ہے.یعنی ناکامیاب ہو گیا- اسید بن حضہ پر صحابی نے آگے بڑھکر اُسکے کپڑے ٹٹولے جھٹ خنجر اُن میں سے گر پڑا.اسپر بھی رحیم رسول نے ارشاد فرمایا کہ اسکو معاف کر دو اور جانے دو.شرح زرقانی بر مواہب لدنیہ جز وثانی صفحه ۲۱۳ - (۲) ثمامہ بن اثال - ایک رئیس عربنے جس پر آنحضرت کی کمال عنایات مبذول ہوئی تھی.کفار مکہ کی سخت عداوت اور ایڈا کوجو وہ آنحضرت کو پہنچاتے تھے.دیکھ کر یمامہ سے غلے کا مکے میں جانا بند کر دیا.اسیہ کفار مکہ نے آپکو لکھا کہ آپ تو صلہ رحم کا وعظ فرماتے ہیں اور ہماری یہ گت ہو رہی ہے کہ بھو کے مررہے ہیں.آنحضرت نے شمامہ کو لکھا کہ کی راہ چھوڑ دے.شرح مواہب جز و ثانی صفحہ ۱۵۷ الہ اللہ اس سے بڑھ کر رحم وحلم کیا ہوسکتا ہے.کہ وطن سے نکالنے والوں ، ستون کے پیاسوں کے ساتھ یہ سلوک مرعی ہوتا ہے.صدق الله عز وجل وَمَا أَرْسَلْنَاكَ اِلاَرَحْمَة لِلعالَمين - ع جانا فدائے تو کہ عجب کار میکنی.(۳) ابتدائے حال میں لگنے سے نقل کر کے آپ طائف تشریف لے گئے.ایک ینہ بھر وہاں قیام کیا اور اشراف قبیلہ ثقیف کو اللہ کی طرف بلایا.اُن بدبختوں نے شہر کے سفلوں اور قلاشوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا.اُن کمینوں نے گالیاں دینی اور پتھر برسانے شروع کئے.اور جب آپ چلتے ٹھٹھے مارتے.اس طرح کی سخت اینڈا اٹھا کر آپ اُس شہر سے چلدیئے.پتھر سے پتھر دل کا کلیجہ بھی شنکر پانی ہو جائے.اگر ان تمام مصائب کا بیان لکھا جائے.اس وحی الہی نے جو ہمیشہ انبیاء کی رفیق باطن رہتی ہے.آواز دی کہ اگر تو چاہے تو اس شہر کو زیر وزبر کر دیا جائے.آپ نے فرمایا.بل اَرجُوا أَن يُخْرِجَ اللهُ تَعَالَى مِنْ اَصْلَا بِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللهَ وَحْدَهُ لا نت نري اے نہیں مجھے امید ہے کہ خدا ان سے ایسے لوگ پیدا کرے گا.جو اُسی اکیلے خدا کی عبادت کریں گے.

Page 313

عدالت کے معنی ہیں افراط و تفریطہ کو چھوڑ کر میانہ روی اختیار کرنا الہامی اصطلاح میں.ایسے احکام و اصول بیان کرنے جو عملا تو اسے انسانی اور اس کی فطرت کے مقتضائے حال کے موافق ہوں.ایسے قیاس اور فقیرانہ خیالات نہ ہوں جن کو عملی دنیا نے کبھی ایک لمحہ بھر کے لئے استعمال میں لانے کی کوشش نہیں کی.اور اگر ان کا دنیا میں معمول ہونا فرض کیا جائے تو عالم کا کیا حال ہو.یقینا شیرازہ انتظام عالم درہم برہم ہو جائے.یہ بناء علے ہذا.لیکن بڑی جرأت سے کہتا ہوں کہ جو اعتدال و عدل اور جو میانہ روی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت یعنی احکام قرآنی میں ملحوظ ہوئی ہے.کسی دوسری شریعت میں نہیں.اس خطبے میں میرا یہ منشار نہیں کہ دوسرے مذاہب کے اصول سے اصول اسلام کا مقابلہ کروں.امید ہے کہ ہماری اس کتاب کے متفرق مقامات میں ناظرین اس باب میں اطمینان خاطر کا سامان پائیں گے.لیکن ہر حال اتنا کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نصاری کی اس بارے میں نظر کدھر جاتی ہے.عیسائیوں کی سادہ لوحی یا تجاہل دیکھ کر ہمیں سخت افسوس آتا ہو.جب حضرت مسیح کی ایک دو صوفیانہ متون کو.یا چند ایک فقیرانہ خیالی تمثیلوں کو قرآن جیسی متین کتاب کے جلال و جمال آمیز اصول کے مقابل پیش کرتے ہیں.بیشک ایسی باتیں کانوں کو بہت اچھی لگتی ہیں.اور بادی المحال میں ایک خیالی شعر کے مانند سامعین انپر آہا ہا اور واہ واہ کا قہقہ لگاتے ہیں.مگر اتنا تو بتاؤ.اور خدا کے لئے انصاف سے کہو کہ یہ تکیں کبھی عمل میں بھی آئیں.یا ان کو عمل میں لانے کی کبھی کسی زمانے میں کوشش کی گئی.حضرت مسیح ایک مفلوک الحال آدمی تھے استعلا کی آرزو تو نہایت تھی.مگر اس قدر سامان نہ ملا.بنی اسرائیل جیسی متکبر بد دماغ قوم کے مقابل میں اگر ایسے احکام کی تعلیم نہ دیتے لہ جو کوئی تیرے ایک گال پر طمانچہ مارے دوسرا اس کے آگے کر دے.اور اگر تیرے پاس کوچ کے کھانے کے لئے ہے.تو کل کی فکر نہ کرو.وغیرہ وغیرہ.

Page 314

تو کیا کہتے.(۵) تیرا و اینا ہاتھ تجھے ہیبت ناک کام دکھائے گا.ان ہیبت ناک کاموں سے انکار ہو تو بنی قریظہ کی روحوں سے پوچھ لو.بنو نضیر کے بقایا سے دریافت کر لو.یہ وہی یہودی ہیں جنہوں نے بقول آپکے مسیے کو مارڈالا.اور آخر اس فارقلیط احمد محمد کے بہیبت ناک ہاتھ سے سزا یاب ہوئے.کسری اور قیصر کے ناپاک آثار پاک زمین میں تلاش کرو.حضرت مسیح کی بابت زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں بات صاف ہو.آپ کے حسن جمال کی نسبت اندرو نہ بائبل صفحہ ۱۷۶ دیکھ لو.کر ایسٹٹ ظاہر خوبی سے معرمی تھی جیسے کرشن دیو کالے رنگ کے حقیر تھے.پہلوانی اور تلوار باندھنا.گرفتاری.اسیری تباہی گریز - اختفا- کافی شہادتیں ہیں.عیسائی لوگ بیدار ہو جاویں کہ وہ زمانہ نہیں رہا کہ ان امور کی تاویل اور تحریف سننے کے قابل سمجھی جاوے.اعتقاد سے اور سادہ اپنی سے ایل کی صاف صاف باتوں کو ایر پھیر کر کے خوش ہو جاؤ.مگر یاد رکھو کہ حقیقۃ الامر کو کوئی بدل نہیں سکتا.علوم حکمیہ کی اشاعت نے سب قلعی انجیلی تعلیم کی کھول دی ہے.یورپ کا حال ملاحظہ کر لو.بشارات انجيليه يُوحنا باب ۲۰ جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہنوں اور لا دیوں کو بھیجا کہ یوجنا سے پوچھیں.کہ تو کون ہے.اُس نے اقرار کیا.اور انکار نہ کیا.بلکہ اقرار کیا کہ میں مسیح نہیں ہوں تب انہوں نے اُس سے پوچھا تو اور کون ہے.کیا تو ایلیاس ہے.اُس نے کہا میں وہ نہیں ہوں.انہوں نے کہا آیا تو وہ نبی لی ہے.یاد ہے کہ نبی پر ایران استار با لامحالہ دیا اور اسلام اللہ کی درد سے بخوبی نایت کر رہے ہیں.

Page 315

۳۰۸ ان اویہ کی آیتوں سے تین پیغمبروں کا ذکر ثابت ہوتا ہے.ایک حضرت الیاس کا اور دو سے حضرت عیسی کا.تیسرے اس پیغمبر کا جو علاوہ حضرت عیسی کے ہونے والا تھا.یہودی یقین کرتے تھے.پیغمبر الیاس کو جنکو مسلمان حصے پر کہتے ہیں کہ وہ مرے نہیں.بلکہ صرف انسان کی نظروں سے غائب ہو گئے ہیں.اور یہودیوں کو حضرت علیہ ہی کی نسبت یہ یقین تھا.اور اب بھی ہے کہ وہ کسی نہ کسی دن آ رہینگے.لیکن ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ علاوہ حضرت مسیح کے ایک اور پیغمبر کے آنے کی بھی امید رکھتے تھے.اور وہ پیغمبر ایسا مشہور تھا.کہ بجائے نام کے صرف اشارہ ہی اُسکے بتانے کو کافی تھا.جیسے کہ ہم مسلمان بھی پیغمبر کے نام کی جگہ صرف آنحضرت اشارے میں لکھتے ہیں اور بولتے ہیں.اور یہ مشہور پیغمبر کون ہوسکتا ہے بجز اُسکے کہ جس کے سبب خدائے تعالیٰ نے ابراہیم او اسمعیل کو برکت دی اور جسکی نسبت خدائے تعالیٰ نے موسی سے کہا کہ تیرے بھائیوں میں تجھ سا پیغمبر پیدا کرونگا.اور جسکی نسبت حضرت سلیمان نے کہا.میرا محبوب سرخ و سفید سب میں تعریف کیا گیا صحت تلا ہو.یہی میرا مطلوب اور یہی میرا محبوب ہے.اور مسکی نسبت حضرت عیسی نے فرمایا.میرا جانا ضرور ہے.تاکہ فارقلیط آئے.اب میں نہایت مضبوطی سے کہتا ہوں.کہ یہ نامی اور مشہور پیغمبر حضرت محمد ہیں.واللہ حضرت محمدؐ ہیں.صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وسلم - منقول از خطبات احمدید بشارت يوحنا باب ۱۲ - ۴۷ اگر کوئی شخص میری باتیں سنے اور ایمان لائے تو میں اسپرحکم نہیں کرتا کیونکہ میں اس لئے نہیں آیا، کہ جہان پر حکم کروں.بلکہ اس لئے کہ جہان کو بچاؤں.وہ جو مجھے رو کر دیتا اور میری باتوں کو قبول نہیں کرتا.اسکے لئے ایک حکم کرنے والا ہے.الے شای اللہ پر یشلم کو ٹیٹس کے بھیس میں اگر خوب سجایا.

Page 316

٣٠٩ مرقس 1 باب ۱۷- جو ایمان نہیں لاتا.اسپر سزا کا حکم کیا جائیگا.قرآن اور محمد صاحب کی چال میکن نے تمام دنیا پر آشکارا کر دیا، کہ یہ بشارت خاص محمد عربی رسول امین کے حق میں ہے.لِ حُكُمَ بَيْنَ النَّاسَ بِمَا أربك الله - سیپاره ۵- سوره نساء رکوع ۱۶ - ون حكم هُم بِمَا انْزَلَ اللهُ - سیپاره 4 - سُوره مائده رکوع - فلاورتكَ لا يُؤْمِنونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْتهم سيباره..سوره نساء - رکوع و - اور - ۵ ر دیکھو رسول عربی کا چال چلن یہودان بنی نضیر - بنو قریظہ کا عدول حکمی میں کیا حال کیا مسیح کے منکروں سے کیسے انتقام لیے.مرقس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح فرماتے ہیں منکروں پر سزا کا حکم کیا جاویگا.اب یہ حکم خود می تو نہیں کر سکتے تھے.کیونکہ وہ بقول ۱۲ باب یو تن حکم نہیں کرتے.اور رومی بھی اس کے مصداق نہیں ہو سکتے.کیونکہ وہ اس وقت بت پرست اور کا فر خدا کی نا فرمان قوم تھی.وہ خدا کی طرف سے حکومت کا عہدہ لینے کے قابل نہیں تھے.علاوہ بریں ان پر روح القدس کا نزول اور خدا کی وحی ممکن نہیں تھی.صاف معلوم ہوتا ہو کہ یہ بشارت اس نبی کی نسبت ہے.جو موسمی " کے مثل صاحب حکومت و احکام و صاحب شریعت حضرت مسیح کے بعد آنیوالا ہے.مبارک ہیں وہ لوگ جو اس صاحب شریعت رؤف و رحیم حاکم کے مطیع و انتقاد ہوئے کہ جسمانی اور روحانی دونوں قسم کے فیضوں سے بہرہ یاب ہوئے الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ ہے تاکہ تو حکم کرنے لوگوں میں اُس چیز سے جس سے الہ نے تجھ کو بنا یا ہے." ہے اور حکم کر تو ان میں سے اس چیز سے جو اللہ نے اتاری ہے تیری طرف ۱۳.سلے قسم ہوتیرے پروردگار کی دولوگ ایمان والے نہ ہونگے جبتک تجھ کو اپنے جھگڑوں میں حکم نہ کرینگے ۱۴

Page 317

۳۱ نوین بشارت باغ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلاً رَجُلَيْنِ جَعَلْنَ الأَحَدٍ هِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْتَابٍ وَحَفَقْهُمَا DOWNLOAا بِنَحْلِ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعَاهُ كُلْنَا الْجَنَّتَيْنِ أَتَتْ أُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمُ مِّنْهُ شَيْئًا وَ فَجَّرُنَا خِللَهُمَا نَهْرَا وَ كَانَ لَهُ تَمَرَ فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُجَاوِرُةٌ أَنَا أَكْثَرُ مِنْكَ مَا لاو اَعَن نَفَر أَو دَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمُ لِنَفْسِه قَالَ مَا أظن أن بنيد هذه ایگاه سیپاره ۱۵ سوره کهف - رکوع ۵ - اقترب لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ ، سیپاره، سوره انبياء ركوع یہ پیشینگوئی اور بشارت به نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہے.انجیل میں یہ بشارت نہایت تفصیل سے موجود ہے.وہ بڑا باغ اور بنی اسرائیل کا تاکستان یروشلم پر بنی اسرائیل اپنے ناپاک گھمنڈ میں اپنے بھائی بنی اسمعیل کو ہمیشہ حقیر و ذلیل جانتے رہے.اور اپنی باغبانی کے بقول مَا أَظُنُّ أَنْ تَبِيدَ هَذِهِ اَبَدا ) لازوال ہونے کا یقین کرتے رہے حضرت مسیح نے ان کو آگاہ کیا اور بتایا تمہاری باغبانی جاتی رہیگی.اب نیا افسر اور نئے باغبان آنے والے ہیں.اگر تم نے ان نئے باغبانوں پر حملہ کیا.تو پور ہو جاؤ گے.اور اگر وہ تم پر اور بیان کر واسطے اُن کے مشال دو مرد کی کہ گئے ہم نے واسطے ایک کے اُن میں سے دو باغ انگوروں سے اور یرا ہم نے ان دونوں کو ساتھ کھجوروںکے اور کی ہم نے درمیان ان دونوں کے کھیتی.دونوں باغوں نے دیا میوہ اپنا اورنہ کم کیا اس میں سے کچھ اور بہادی ہم نے درمیان ان دونوں کے نہر اور تھا واسطے اسکے میوہ نہیں کہا، اس نے واسطے ہمنشین اپنے کے اور وہ سوال جواب کرتا تھا اس سے میں زیادہ تر ہوں تجھ سے مال میں اور زیادہ عزت والا ہوں آدمیوںکو اور داخل ہوا باغ اپنے میں اور وہ ظلم کر نیوالا تھا جان اپنی پر کہا کہ میں نہیں گمان کرتا یہ کہ بلاک ہو ویسے یہ باغ کبھی ۱۲ - سکے نزدیک آیا ہے واسطے لوگوں کے حساب لیں کیا اور وہ بیچ غفلت کے منہ پھیر رہے ہیں ۱۲.

Page 318

گرے پس جاؤ گے.اس بشارت میں حضرت مسیح کی تفصیل شنو - متی ۲۱ باب ۳۳ مرقس ۲ باب ۱ - گو تا ۲۰ باب ۹- پھر لوگوں سے یہ تمثیل کہنے لگا.کسی نے ایک انگور کا بارغ لگا کے اُسے باغبانوں کے سپرد کیا.اور مدت تک پردیس جا رہا.تفسیر باغ لگانے والا وہی خدا وند بنی اسرائیل ہے.یسعیا ۵ باب ۲-۳- انگور بنی اسرائیل کی قوم ہے.مزبور 4- تاکستان یروشلم ہوں.غزل الغزلات ، باب ۱۳ یستیاه در باب ۳-۵-۲- قرآن بھی کہتا ہی.جَعَلْنَا الحَدِ هِمَا جَنَّتَينِ مِنْ أَعْنَابٍ -..یاد رکھو مانگ کے آنے تک دیر ہے.اور موسم پر ایک نوکر کو باغبانوں کے پاس بھیجا.تاکہ دوسے اس انگور کے باغ کا پھیل اسکو دیں.لاکن باغبانوں نے اس کو پیٹ کے خالی ہاتھ پھیرا.تفسیر - دیکھو پر میاه ۲۷- باب ۱۵- ۳۸ - پھر اس نے دوسرے نوکر کو بھیجا.انہوں نے اسکو پیٹ کے اور بے عزت کر کے خالی پھیرا.مار ڈالنا لکھا ہے.تفسیر یہ شخص اور یا تھا.یرمیاہ ۲۶ باب ۲۳- یہ اس لیے کہ منتی ۲۱ باب ۳۵ میں پھر اس لئے تیسرے کو بھیجا.انہوں نے گھائل کر کے نکال دیا.تفسیر - -۲- تاریخ ۲۴ - باب ۲۱ - تب باغ کے مالک نے کہا کیا کروں.میں اپنے پیارے بیٹے دی سیج ہیں کو بھیجوں گا شاید اسے دیکھ کر دب جاویں.جب باغبانوں نے اسے دیکھا.آپس میں صلاح کی اور کہا یہ وارث ہے.آؤ اسکو مار ڈالیں.میراث ہماری ہو جائے.تب اسکو باغ کے باہر نکال کر مارڈالا.اب باغ کا مالک ان کے ساتھ کیا کریگا وہ آویگا.اور ان باغبانوں کو

Page 319

۳۱۲ قتل کر دیگا.اور باغ اور وں کو سونپے گا.تفسیر: مرقس - ۲ باب 4- اب اُس کا ایک ہی بیٹا تھا.جو اُس کا پیارا تھا.بیٹے کا لفظ یہاں بمعنی صلح کار کے لیا ہے.بیٹے کا لفظ کتب مقدسہ میں وسیع معانی کے ساتھ مستعمل ہے.بیٹے کے حقیقی معنے باپ کے نطفے اور اس کی جورو کے رحم سے پیدا ہونیوالے کے ہیں.عیسائیوں کے نزدیک بھی یہ معنی صحیح نہیں.رہے مجازی معنی بیٹے کے.وسیع ہیں.ہم نے حسب حال صلح کار لئے منتی ۵ باب ۹ - مبارک دے جو صلح کار ہیں.کیونکہ خدا کے فرزند کہلائیں گے.اور سیح صلح کا شاہزادہ ہے.بیسعیاہ.4 باب 4 - حب بیان مرقس ایک ہی بیٹے رہ گئے.بنی اسرائیل میں کامل صلح مسیح میں تھی.اور اسی سے بنی اسرائیل کے گھرانے کی نبوت و رسالت کا خاتمہ ہوگیا.خدا کے فرزند کا محاورہ یکھنا ہو تو کھو صبحت الویت بیح.وہاں ثابت کیا ہے.حسب محاورہ کتب مقدسہ فرشتے خدا کے بیٹے ہیں.ایوب باب - اور انبیاء اُسکے بیٹے - ایوب ۳۸ باب ۷- اور بد کار خُدا بیٹے.یسعیاہ ۳۰ باب ۱.سب فرزند - یوحنا ا ا باب ۲۵ -- اب مار ڈالا کی تحقیق سُن لو.یہاں سخت ایذا کو مار ڈالنا کہا ہے.کیونکہ مکاشفات ۵ باب 4 میں ہے.گویا ذبح کیا.یہودی کہتے ہیں.ہم نے مسیح کو قتل کر ڈالا قتل کے تو عیسائی بھی منکر ہیں.پر قرآن کا مسیح کے قصے میں یہ کہنا.مَا قَتَلُوهُ بالکل سے ہوا.اور بعض یہود کہتے ہیں.ہم نے صلیب دی.اور یہ بھی غلط ہے.اس زمانے کی سولی یہ نہ تھی جیسے اسوقت ہوتی ہے.بلکہ آدمی کو کسی لکڑی پر ٹانگ دیتے تھے.اور مصلوب بھو کا پر یا سا ایذائیں پاتا مدت کے بعد مر جاتا تھا.اگر جلدی اتارتے تو ہڈیاں توڑ ڈالتے حضرت شیخ جلد اُتارے گئے مسیح کی ہڈیاں توڑی نہیں گئیں.پس قرآن کا یہ کہنا وَمَا صَلَبُودُهُ بالکل سچ ہو گیا.عربی میں مصلوب اُسی کو کہتے ہیں.جسکی پیٹھ کی بڑی توڑی جائے.دیکھو قاموس اسی

Page 320

۳۱۳ لغت صلب.اور سی ہڈی توڑنے سے محفوظ رہے.دیکھو یوحنا ۱۸ باب ۳۳- بات یہ ہے حاکم مسیح کا حامی تھا.دیکھو اس نے ہاتھ دھوئے اور کہا.میں اس راستباز کے خون سے پاک ہوں.متی ۲۷ باب ۲۴- حاکم کی عورت حامی اور مددگار تھی خصم کو کہتی ہو مجھے اس راستباز سے کام نہ ہو.متی ۲۷ باب ۱۹- صوبے دار اور یسوع کے نگہبان بھی حامی اور وہمی تھے.اور پھر عیسائی.متی ۲۷ باب ۵۴ - یوسف نام ارمینہ کا دولتمند.سائیڈرم مجلس شاہی کا ممبر بھی حامی منتی ۲۷ - باب ۷ ۵ - اور ست اگر منتظر بادشاہت تھا.مرقس ۱۵ باب ۴۳ - لوقا ۲۳ باب ۵۰ - یہود کے خوف سے خفیہ رہتا.یوحنا 14 باب ۳۸.اس شخص نے اٹکانے کے چند گھنٹے کے بعد جب اندھیرا ہوا.بادشاہ سے کہا.یسوع مرگیا ہے.لاش مجھے مرحمت ہو.پلاطس حاکم نے تعجب کیا.کہ ایسا جلد کیونکر مرا.اور یوسف اور صوبیدار معتقد گواہ ہیں اور یہود یہ مہلت کے بکھیڑے میں موجود ہی ہیں.قبر میں رکھا.اور مٹی کی مہر کی اور کوئی محافظ اسوقت نہ تھا.خیر خواہ اپنے خاکسار کو نکال لے گئے.بیشان سی مردہ یہودیوں سے جی اُٹھے.ابدی زندگی میں جلال پا گئے.ایت وار کو حفاظت شروع ہوئی نہیں صاف آشکار ہو.وہ بے گناہ بچ گئے.اسی واسطے قرآن کا کہنا.وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ کا بالکل راست ہے.یا انجیلی محققوں کے طور پر کہتے ہیں آپ کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں.ویسے ہی مر گئے.بے ایمان یہودی اسی بات پر یقین رکھتے.اور کہے گئے ہم نے کو مار ڈالا.و بیماری می که وَقَوْلُهُمْ إِنَّا قَتَلْنَا المسيح عيسى ابن مريعَ رَسُولَ اللهِ وَمَا نَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ ولكن تبه لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَى شَاكٍ مِنْهُ، مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ الے اور کہنا یہودیوں کا کہ ہم لوگوں نے عیسی مسیح رسول اللہ میم کے بیٹے کو قتل کی اور ان لوگوں نے نہ مارا ایک اور نه سولی پر چڑھایا اسکولیکن قتل اور سول لینے کا شبہ ہوا ان کو.اور ہر آئنہ جن لوگوں نے اختلاف کیا ہو اس میں وہ اسکے

Page 321

سم اسمر من علم إلا اتباع اللي وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينَا بَلْ تَرفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ وان مِنْ أَهْلِ الكتب إلا لِيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيمَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شیدا - سیپاره ۶- سوره نساء - رکوع ۲ - - - - بات دور چلی گئی.ان باغبانوں نے اپنے آخری نبی راستباز صلح کار کو اپنے زعم میں قتل کیا.مار ڈالا.بنی اسرائیل کے سارے نبی خدا کے پلوٹھے تھے.اور سیح آخری پہلوٹھے.اب باغ اوروں کے سپرد ہوا.باغ یروشلم تھا.پہلے اسکے باغبان بنی اسرائیل میں سے رہے.ان کی بے ایمانی سے اب وہ بالغ بنی اسمعیل کے سپرد ہوا.ماجوج در از گوش کہتے ہیں.وہ آخری آچکے اب محمد کون ہے.عقل والو سوچو.انجیل میں لکھا ہے.مالک باغ باغ اور وں کو سپرد کریگا.آخر کہاں آپکے.معاملہ ختم نہیں.کبھی پہلے بنی اسمعیل اس کے مالک ہوئے.اب تیرہ سو برس سے مالک ہیں.یہود اور عیسائیوں کے لئے عہدہ باغبانی نہیں رہا.باغ کا نام بھی بدل گیا.یروشلم سے بیت المقدس بنا.متی اس نئی قوم کے حق میں کہتا ہو.وہ موسم پر پھل دینگے.منتی ۲۱ باب ۳۱.اور عرب میں حج کے ایام کو موسم کہتے ہیں.پھر لوقا ۲۰ باب ۱۶.انہوں (بنی اسرائیل ) نے یہ سُن کے کہا.ایسا نہ ہو.تب اس نے انکی طرف دیکھ کے کہا.پھر وہ کیا ہے جو لکھا ہے کہ وہ پتھر جسے راجگیروں نے رد کیا وہی کونے کا سرا ہوا.ہر ایک جو اس پتھر پر گرے.چور ہوگا.اور جس پر وہ گرے اُسے پیس ڈالیگا.اور مستی ۲۱ باب ۴۳ - اسلیئے میں تمہیں کہتا ہوں اور ہے بقیت یا شک میں میں اور ان لوگوں کو اس کا کچھ بھی یقینی علم نہیں ہے مگر گمان کی پیروی.اور نہ مارا اس کو از راه یقین بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اُٹھا لیا ۱۳ - ے گا ایمان لایا تو اس کے پہلے اس کے اور ان ایام کے انگارو پرانے گوارا ے بنی اسرائیل کو خدا نے مصر سے لا کہ یروشلم میں آباد کیا.اور ان میں انبیاء ورسل بھیجے.یسعیاہ باب -

Page 322

۳۱۵ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جا دیگی.اور ایک قوم کو جو اسکے پھل لادے دی جاوے گی.یادر ہے بنی اسرائیل صرف روحانی بادشاہ نہ تھے.بلکہ روحانی اور جسمانی.عیسائی منصفو! یہ پتھر کہی ہے جسکو دانیال نے دیکھا اور وہ پھر پہاڑ بن گیا دانیال ۲ باب ۳۴- جو اسپر گرا چور ہوا اور نبی وہ گرا اسے میں ڈالا جہاد پر اعتراض نہ کرنا.قدیم زمانے میں تصویری زبان کا بڑا رواج تھا.اسی خیال پر عیسائیوں نے موسوی رسومات کو صرف نشان قرار دیا ہے.مثلاً کہتے ہیں.قربانی توریت مسیح کی قربانی کا نمونہ تھی.گو جانور خاموش جان دینا ہے.اور مسیح نے ایلی ایلی میکارتھے جہان دی.ظاہری طہارتیں اصلی طہارت کا نمونہ تھیں.پولا بلانا مسیح کا جی اٹھنا تھا.یوشع نے بارہ پتھر اٹھوائے اور بقول عیسائیوں کے وہ بارہ سواریوں کا گویا نشان تھا.یوشع ہم باب 4 - وغیرہ وغیرہ.اب سوچو - حجر اسود کے میں کونے کا پتھر تھا.اور اس اور اسلام سے پہلے سالہا سال کا موجود لوگ اسے چومتے اور اس کے ساتھ ہاتھ ملاتے تھے.گویا یہ پتھر کونے کا سرا کتے میں تصویری زبان میں کتب مقدسہ کا یہ فقرہ تھا.وہ پتھر جیسے معماروں نے رد کیا.وہی کرنے کے سرے کا پتھر ہوا.عرب اُمتی محض تھے.اور صاحب کتاب نہ تھے.اُن کے لئے بجائے کتاب یہی پتھر گو یا کلام الہی تھا.اس پتھر کو عرب یمین الرحمان کہتے تھے.اب جو اصل آگیا اور اس کی منزہ کہ کتاب میں اِنَّ الذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللہ کا فرمان اترا.عرب چونک اٹھے اور کہنے لالو اند لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورا سیپاره ۱۹ سوره فرقان رکوع ۵ سجده ا اخبار ۲۳ باب ۱۰ - سه اقرنتی ۱۵ باب ۲۰-۱۲ س جو لوگ ہاتھ ملاتے ہیں تجھ سے.وہ ہاتھ ملاتے ہیں اللہ سے ۱۲ - یہ آیت سیپارہ ۲۶ - سورۂ فتح.رکوع میں ہے.لہ رحمن کیا ہے.کیا سجدہ کرنے لگیں ہم میں کو تو فرما دیگا.اور بڑھتا ہو ان کا بھاگنا ہو.

Page 323

اسکے تشریف لاتے یروشلم کی باغبانی بنی اسرائیل سے چھن گئی جو اسیر کرا چور ہوا.جسپر وہ گرا پس گیا.یہ پتھر کونے کا سر نہ تو مسیح ہیں کیونکہ مسیح نے اس کے ظہور کے لئے اپنے بعد کا زمانہ بتایا.دیکھو لوقا ۲۰ باب ۱۶ - منتی ۲۱ باب ۴۳ - دانیال ۲ باب ۳۴ - بشارت ال قال عيسى ابن مريم يعني إِسْرَائِيلَ إِلَى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لمَا بَيْنَ يَدَى مِنَ التَّوْل ةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ تَحْدِى إِسْمَةَ أَحْمَدُ اس بشارت کو یوحنا نے اپنی انجیل میں لکھا ہے.دیکھو یوحنا م ا باب ۱۵ - ۱۷ میرے کلموں پر عمل کرو.میں اپنے باپ سے درخواست کرونگا.اور وہ تمہیں دوسرا تسلی دینے والا بخشی گا.کہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے.قرآن نے کہا ہر مسیح نے احمد کی بشارت دی اور یہ بشارت نبی عرب نے عیسائیوں کے سامنے پڑھ سنائی اور کسی کو انکار کرنے کا موقعہ نہ ملا.زمانہ دراز کے بعد جب قرآنی محاورات سے بے خبری پھیلی پادریوں نے کہدیا.یہ بشارت انجیل میں نہیں.بیشتر زمانے میں اناجیل کے باب اور درس نہ تھے.والا پرانے اہل اسلام نشان دیتے.فارقلیط اور پر کلٹیاس یا پر کلٹیوں پر بڑی بحثیں ہوئی ہیں.میں کہتا ہوں یوحنا ۱۴ باب ۱۵ میں ہو دوسرا نسلی دینے والا.اور عرب کی کتب لغت میں حمد کے مادے کو دیکھ جاؤ.العود احمد دوسرے آنے والے کو احمد کہتے ہیں.اور یہ بات بطور مثل عرب میں مشہور و معروف تھی.یہ بشارت قرآنیہ یوحنا م ا باب دا کے بالکل مطابق ہو.کیونکہ راہ اور جب کہا جینے مریم کے بیٹے نے اسے بنی اسرائیل میں بھیجا آیا ہوں اللہ کا تمہاری طرف سچا کرنا اس کو بو مجھ سے آگے ہو.تو راہ اور خوشخبری سناتا ایک رسول کی جو آویگا مجھے پیچھے اس کا نام ہے احمد ۱ یہ آیت سیپارہ ۲۸.سورہ صنف - رکوع میں ہے ؟

Page 324

اسم یوحنا ۱۶ باب ۱۲- میری اور بھی بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں.پر اب تم اس کی برداشت نہیں کر سکتے.لیکن جب کہ نہ ورح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا دی گی.اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہینگی.لاکن جو کچھ دو سنیں گی.سو کہینگی.اور تمہیں آئینڈ کی خبرس دیگی.اور وہ میری بزرگی کریگی.اسلئے کہ وہ میری چیزوں سے پاو گی اور تمہیں دکھلائیگی.سب چیزیں جو باپ کی ہیں میری ہیں.اسلئے میں نے کہا کہ وہ میری چیزوں سے لے گی.اور تمہیں دکھا دے گی.یوحنا 4 ا باب ۱۲.لاکن فارقلیط روح القدس و جیسے میں باپ کی طرف سے بھیجونگا.روح حق جو باپ سے نکلتی ہو تو وہ میرے لئے گواہی دیگی.اور تم کبھی گواہی دو گے.کیونکہ تم شروع سے میرے ساتھ ہو.میں نے تمہیں یہ باتیں کہیں کہ تم ٹھو کرنہ کھاؤ.۱۵ باب ۲۶ ۱۶ باب ۱.اس بشارت پر غور کر و صاف صاف نبی عرب کے حق میں ہے.روح القدس اور روح القدس اور روح الحق ہی قرآن لائے.دیکھو.قُل نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدْسِ مِنْ رَبِّكَ بالحَقِّ لِيُتيتُ الَّذِينَ آمَنُوا سياره ۱۳ - سوره نحل - رکوع ۲۰- رفيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو العَرشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ الثَّلَاتِ - سیپاره ۲۲ - سوره مومن - رکوع - بلکہ قرآن نے بڑے زور.ہاں نہایت بڑے زور سے کہا ہے.آنحضر مسلم مظہر اتم اور حق ہیں.غور کرو.- ے تو کہ اسکو اتارا ہی پاک فرشتے نے تیرے رب کی طرف سے تحقیق تا ثابت کرے ایمان والوں کو ۱۲ سے صاحب اُونچے درجوں کا مالک تخت کا اتارتا ہے بعید کی بات اپنے حکم سے چہر چاہے اپنے بندوں میں کہ وہ ڈراوے ملاقات کے دن سے ۱۲.وہ ڈراو دن سے ،

Page 325

( قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا - سباره سوره بر اسرائين جو ٹو (٢) إِنَّ الَّذِينَ يُمَا يَمُونَكَ إِنَّمَا يُبا بعون الله (٣) ) رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ الله رکی - سیپاره 4 - سُوره انفال.عیسائی خوش اعتقاد جیسے الوہیت مسیح اور کنارے پر یقین کر بیٹھے ہیں.ایسی ہی یہ بھی خیال و ہم کرتے ہیں کہ یہ بشارت سیح کے حق میں اور یا روح القدس کے حق میں ہے.جو حواریوں پر اتری.حالانکہ یہ خیال عیسائیوں کا نہایت غلط ہے.اول تو اسلئے مسیح فرماتے ہیں.میرے وصایا کو محفوظ رکھو.پھر اس روح کی خبر دیتے ہیں.پس اگر وہ روح مراد ہوتی جو جواریوں پر اتری.تو اسکی نسبت ایسی تاکید ضروری نہ تھی.لیونکہ جس پر نازل ہوتی ہو.اُسے اشتباہ ہی کیا ہوتا ہے.حواری تو نزول روح کے عادی تھے.دوم یوحنا باب ، میں اس روح کی تعریف میں لکھا ہو.وہ روح پاک میرے نام سے ہر بات تم کو سکھلا دیگی.اور یاد دلاویکی تم کو وہ باتیں جو میں نے کہی ہیں اعمال حواریوں سے معلوم نہیں ہوتا کہ مسیح کے فرمانے سے جواری کچھ بھول گئے تھے.اور اس روح القدس نے جو حواریوں پر اتری.جوانی کو کچھ یاد دلایا.ہاں نبی عرب نے بہت کچھ یاد دلایا.عیسائی مسیح کی خالص ہاں صرف انسانیت بھول گئے تھے.عام بت پرستوں کی طرح الوہیت کو انسانیت سے ملادیا تھا.مسیح کو معبود بنا رکھا تھا.اسی کو کفارہ اپنے معاصی کا بنا رہے تھے.نبی عرب نے سب کچھ یاد دلایا.اور سیدھا راستہ بتایا.سوم.یوجنا ہ ا باب ۲۶ و ۱۶ باب میں ہے.وہ روح میرے لئے گواہی دے گی.اور لے لو کہ آیا یے اور نکل بھاگا جھوٹ.بیشک جھوٹ ہے نکل بھاگنے والا ۱۳.at ہو لوگ ہاتھ ملاتے ہیں تجھ سے وہ ہاتھ ملاتے ہیں اللہ سے ۱۲.میں تو نے نہیں پھینکی مٹھی خاک جس وقت تھی اللہ تعالیٰ نے پھینکی ۱۲.

Page 326

۳۱۹ تمر بھی گواہی دیتے ہو.جواری تو مسیح کو خوب جانتے تھے.انہیں گواہی کی حاجت نہ تھی.اور اوروں کو اس روح نے جو حواریوں پر اتری گواہی دی نہیں.اور روح القدس نے کوئی گواہی دی ہے تو وہی گواہی ہے جو جواریوں نے دی.اس روح القدس نے حواریوں سے علیحہ : ہرگز کوئی گواہی نہیں دی.چہارم مسیح نے فرمایا میرا بہانا بہتر ہے.میں جاؤں تو وہ آو سے یوجناء اباب ہے.صاف عیان ہے مسیح کے وقت وہ روح نہ تھی.حال آنکه روح القدس یوحنا بیٹسما دینے والے کے وقت سے سی کے ساتھ تھی.یوحنا و ارباب ، میں ہے.وہ سزا دے گی.اور بالکل ظاہر ہے.وہ رُوح ہو حواریوں پر اتری.بلکہ خود مسیح اور سینے والی روح سزا دینے کے لئے نہ تھی دیکھو عيبا یوحنا س ا باب ۴ - ششم یوحنا باب ۱۲ میں ہے.مجھے بہت کچھ کہنا ہے.پر اب تم برداشت نہیں کر سکتے.وہ روح جس کی بشارت ہے.سب کچھ بتائے گی.یہ فقرہ بڑی سخت محنت یسا ہوں پر ہے.کیونکہ جو روح القدس حواریوں پر اتری.اُس نے کوئی سخت اور نہیں سنایا.تثلیث اور عموم دعوت غیر قوموں کی بلاہٹ تو بقول عیسائیوں کے خود سیح فرما چکے تھے.اور پولوس کی کارستانیوں نے تو کچھ گھٹایا ہے.بڑھایا نہیں.ہاں اس رُوح القدس اس روح الحق نے جس کو فارقلیط کیئے.پر کلیٹ اس.پار اکلیٹوس کہیئے.محمد کہیئے.احمد بو لیے.عبد اللہ اور آمنہ کے گھر جنم لے.صدہا احکام حلت و حرمت اور عبادات اور معاملات، کے قوانین سیحی تعلیم پر بڑھا دیئے.فداہ ابی اُمتی.ہفتم.یہ سناو ا باب ۱۳.وہ اپنی نہ کہے گی.اور یہی مضمون مقر آن میں یوحناء محمد بن عبد اللہ کی نسبت ہے.

Page 327

(۱) مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْى تُولى سيپاره ٢٠- سورة النجم - ركوعه - (٣) إن أتَّبِعُ الا مَا يُوحى إلى سياره، سوره انعام - رکوع ۱۲ (۳) كُل ما يكون إلى أن أبدِ لَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إلى - سیپاره السورة يونس - رکوع.عیسائیوں کے اعتراضا پہلا شبہ.ان بشارات میں جو بوستا نے لکھی ہیں.روح القدس روح المتن مراد ہے.اور وہ اقنوم ثالث ہے.جواب.اس روح کا اقتدم ثالث سے ہوتا تو صرف عیسائیوں کا دعوتی ہے.روح کا لفظ کتب مقدسہ میں وسیع معنے رکھتا ہے.جن قبل ۳۷ باب ۱۳ میں مردوں کو فرمایا میں اپنی روح تم میں ڈالونگا.دیکھو یہاں روح الہی.نفس حیوانی ہے یا قوتِ حیات.م باب ا.یوحنا کا پہلا خط - ہر ایک رُوح کی تصدیق مت کرو.بلکہ امتحان کرلیا کرو معلوم ہوتا ہے واعظوں کو روح کہتا ہے جیسے انجیل متی میں وہ نبی (آنحضرت سے مراد ظاہر نبی موسی کے مثل ہے.ایسا ہی انجیل یوحناء غیرہ سے رُوح القدس روح الحق وہی مظہر اتم ہے جس کا بیان قرآن میں ہو.قُلْ إِنَّ رَبّى يَقْدِبُ بِالْحَقِّ عَلامُ الْغُيُوبِ تو کہ میرا اب پھینکتا جاتا ہو سچا دین وہ جانے والا ہر چھپی چیزوں کا سے ظاہر ہے.دوسرا شبہ بشارات میں خطاب حواریوں کو ہو.اور نہ صاحب حواریوں کے وقت تشریف نہیں لائے.جواب متی ۲۷ باب ۶۴ میں کاہنوں کو مسیح نے فرمایا.تم ابن آدم (حضرت سخ) ے نہیں بولتا ہو اپنے بارہ سے یہ توحکم ہے جو بھیا ہوا ملے میں اس پر چلتا ہوں موجود کو حکم آتا ہے " لے تو کہ میرا کام نہیں کہ اس کو بدلوں اپنی طرف سے میں تابع ہوں اسی کا جو حکم آوے میری طرف ۱۲.

Page 328

۳۲۱ کو تخت پر اتر تا دیکھوگے.حالانکہ ان کا ہنوں میں سے کسی نے نہ دیکھا.بلکہ انہیں سوبرس کے قریب گزرتا ہے.اب تاک میں نہیں آئے.تیسرا شبہ فارقلیط کی تعریف میں ہے.تم اسے نہیں دیکھتے حالانکہ محمد صاب فارقلیط کی میں ہے تم اسے نہیں دیکھتے ملا میر صاب کو لوگوں نے دیکھا.جواب یہاں جسمی دیکھنا ہی سمجھیں جو جسم کے فرزند میں مسیح پر سب.روح القدس انتری وہ بھی کبوتر کی شکل میں لوگوں نے دیکھی.تو پھر روح القدس پر شبہ آگیا.وہ دیکھے گئے.بات یہ ہے یہاں حقیقت کی پہچان کو دیکھنا کہا ہے.اگر محمدی حقیقت کو لوگ پہچانتے تو اسکے منکر کیوں ہوتے ۱۱ باب ۲۷- یوسعنا در باب ۱۹ اشبہ وہ تمہارے ساتھ ہے اور محمد صاحب ہمارے ساتھ نہیں.یہ صیفہ معنی استقبال ہے دیکھو بعینہ یہ محاورہ از قبیل ۳۹ باب - اور یوحنا د باب ۲۵ میں بھی ہے.وہ ابھی جب مرے ابن اللہ کی آواز میں سنیں.انیس سو برس میں یہ (ابھی ظاہر نہیں ہوئی.پانچواں شبہ اس بشارت میں لکھا ہے.وہ میری چیزوں سے پاونگی.اور محمد صاحب نے مسیح کی چیزوں سے کیا یا یا.جواب.اسی فقرے کے بعد سیم فرماتے ہیں.سب چیزیں میرے باپ کی میری ہیں.اسلئے میں کہتا ہوں کہ وہ میری پیزوں سے لے گی.بلکہ اس فقرے سے مسیح کے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ روح بتدریج کامل ہوگی.اور آہستگی سے کمال حاصل کرے گی.چھٹا اعتراض.اعمال 1- باب ، میں ہے.اسکے آتے تک یروشلم میں رہو.میں معلوم ہوتا ہے وہ روح پروشلم میں حواریوں پر اتری.جواب - روح القدس کے اقسام میں ایک موعد الا ہے اور ایک فارقلیط

Page 329

۳۲۲ یوحنا نے فارقلیط کی نسبت بشارت کو لکھا ہے.اور لوقا نے اس نزول روح کا بیان کیا ہو جس کا تذکرہ اعمال میں موعد الاب کر کے ہی.غرض جو روح سواریوں پر اتری.وہ اور ہے.اور یہ روح الحمق جس کا اشارہ قُل نَزلَ رُوحُ الْقُدُسِ میں ہو اور ہے.اور یہ بھی ہے کہ یروشلم میں رہنا.اس جگہ کی شریعت کی پابندی اور اسے قبلہ سمجھنا آپ کے تشریف لانے تک یہود اور نصاری کو ضرور تھا.یہ مشکلم میں رہتے اور اُسی کی محبت کرتے جب بیت ایل منہ ہی قرار پایا تو نگو ضرور ہوا یہ اسمیں رہیں اور وہ آئینڈ ہے.اثبات نبوة محمد رسول الله صلى الله علي دلم پیشینگوئیوس ہر ایک عاقل اور تاریخی مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کا معتقد اس بات کو یقین جانتاہو کہ آیندہ زمانے کی نسبت پیشگوئی کرنا کبھی قانون قدرت کی عادت و آداب اور اُسکے اسباب پر نظر کرنے سے حاصل ہوتا ہے.کبھی قرآئن موجودہ کے لحاظ سے کبھی اپنے چیلوں اور مریدوں اور نوکروں کے ڈرانے یا خوش کرنے کے لئے.اور کبھی سچے الہام سے.مثلا میکی موسم سرما میں یہ پیشینگوئی کروں (اگرا سے پیشینگوئی کر سکیں کہ گرمی کے موسم میں یہاں ایسی سردی نہ ہوگی.تو ظاہر ہے کہ یہ پیشینگوئی حالات طبعی اور قانون قدرت کے با ترتیب غیر متبدل واقعات پر نظر کرنے سے ہوگی یا گرم مکان میں جسے عارضی حرارت پہنچائی گئی ہو.بیٹھا ہوا باہر کی برف اور سرما کو تصور کر کے کہدوں کہ اس مکان کے باہر کھلے میدان میں بیشک سردی ہوگی.تو یقیناً میرا ایسا کہنا صاف قرائن موجودہ کی امداد سے ہو گا.یا اگر میں اپنے مریدوں اور خادموں کو کہوں کہ تم کو میری اطاعت اور خدمت کے عوض میں ضرور جنت عطا ہو گی.اور تقصیر خدمت و عصیان کی صورت میں تم وبال

Page 330

FFF اور تہنم کے مستوجب ہوگے.اگر یہ کلام کسی را حق کی طرف بلانے والے کے منہ سے کلا ہے.تو اُسے ہم کتب الہامی کے محاورے کے رو سے و عاد و سعید کے الفاظ تعبیر کرتے ہیں.ورنہ ہم اُسے سوائے خدام کے ڈرانے یا خوش کرنے کے کچھ وقعت نہیں دے سکتے اور سچی الہامی پیشین گوئی کا مستحق اُسے کبھی نہ سمجھیں گے.نیکن اگر کوئی کہدے کہ فلاں قوم کی تباہی و زوال یا فلاں واقعہ تعظیم ایک سال یا پانچ ماہ کے اندر واقع ہوگا.یا فلانی خاص زیم با عادت و رواج خلال قوم و ملک سے ابد تک نیست و نابود ہو جاو گی.یا فلاں قوم ضعیف اسقدر محدود و معتین ابد عرصے میں الہی جلال اور شان و شوکت کے لباس سے ملبس ہو گی.تو اب ہمہ بغور دیکھیں گے کہ اس دعوے کے وقت ملکی تمدنی طبعی واقعات و حالات ایسے موجود تو نہیں یا ایسے کلیات تو پیش نظر نہیں جن سے ایسے جزئیات کا استخراج بآسانی ممکن الوجود ہے.کوئی قرینہ کو ئی سبب حاضر الوقت تو نہیں جو اس مخبر کی خبر کے ماخذ و منشا ہیں.یا صرف ترغیب و ترہیب ہی تو نہیں.تو بیشک و بے شبہ ایسے کلام کو نیچے واقعی الہام کا نتیجہ اورحقیقی عزت کا مستحق قرار دینگے.اب ہم اُس کامل محک کے اوپر موسی و عیسی ونبی عرب کی پیشین گوئیوں کو نہایت آزادی اور ایک انداری سے پرکھیں گے.اور دکھلائیں گے کہ سچی پیشینگوئی کے خطاب کا شہری تاج کیس مبارک سر پر جگمگ جگمگ کر رہا ہے.مثال شق اول موسی نے اپنی قوم بنی اسرائیل سے خطاب کرکے فرمایاکہ تم میرے بعد جلد مرتد ہو جاؤ گے.اور بدکاری اور ثبت پرستی کے مرتکب ہو گے اور ایسا ہی ہوا کہ بنی اسرائیل موسی کے بعد بہت جلدار نداد و برا فعالی کی بلا میں گرفتار ہو گئے.اب اسے پیشنگوئی کہو یا قیاس و فراست کا نتیجہ کہو بات صاف ہے.حضرت موسی بنی اسرائیل کے واقعات گزشتہ سے خوب واقف تھے.انکی گرگٹ.

Page 331

کی سی طبیعت انکی تعاون مزاجی انکی قدیم رفتار کے کار نامے موسی کی لوح حافظ سے مٹ نہیں گئے تھے.انکی قومی تاریخ نے کبھی موسیٰ کے اضطراب طبیع کو اطمینان سے مبدل نہیں تھا.انکے روزمرہ کے حالات و قرائن خاص کشش کے ساتھ موسی کی طبیعت کو ایسے بدیہی اور پیش پا افتادہ نتائج کے نکالنے پر مائل کرتی تھی.موسیٰ سے قبل کے حالات چھوڑ دو جو ایک لمحہ بھر کیلئے موسی کی عالمانہ یاداشت سے فراموش نہیں ہو سکتے تھے.خود موسٹی کے وجود کو اُن لوگوں کے درمیان اور انکی پر زور گرم تعلیم ہی کو ملاحظہ کر لو کہ کسی قدر اور کب تک اُسکے اثر کی جڑ اُنکی زمین سینے میں مضبوط رہی...کیسے بڑے بڑے کرشمے اور معجزات اُنکے ہاتھ سے دیکھے.فرعون اور اسکے پیروؤں کے مقابل میں کیا کچھ کرامات و کمالات مشاہدہ نہ کیئے.پھر بھی یہ بنی اسرائیل خدا کی برگزیدہ قوم.ہاں اُسکے اکلوتے بیٹے موسی و ہارون جیسے خیر خواہوں سے سمندر سے پار ہوتے ہی کیسی ناراض بلکہ صف آرا ہوئی.خروج ۱۶ - باب ۲.من جیسی نعمت کے کھاتے ہوئے مچھلی اور پیاز اور گندنا کے خواستگار ہوئے.من کے جمع کرنے سے روکے گئے تھے.پھر بھی جمع کرنے سے نہ ملے.بلکہ خدا فرماتا ہے کہ دس مرتبے یہ لوگ مجھے آزماتے اور میری آواز پر کان نہ دھرنے اور وسیع فرماتے ہیں.جس دن سے میں نے تم کو جانا تم خداوند سے سر کشی کرتے ہوئے صرف پالین روز کے وعدے پر موسٹی پہاڑ پر گئے.اور ہارون جیسے مقدس.خلیفہ وقت.نبی.وہی ہارون جس کی کہانت کے لئے موسیٰ اسے پہاڑ پر تجویز ہو رہی تھی.پس کس قدر تعجب کی بات ہے کہ زبر دست نبی کی زندگی اور فقط چند روزہ غیر حاضری کا خیال دل میں موجود اور ہارون جیسا ناصح مشفق نائب سر پر کھڑا.اسپر جھٹ بچھڑو بنا اسی کی خدائی کے قائل ہو گئے.اور بھٹو کی پوجاشہ ورع کر دی ہے.اه خروج ۱۶ پاپ نگفتی ۳ یا سی، ۰۲ ۲۳ استار و باب ۲۰ هد استثنار و باب ۱۶

Page 332

۳۲۵ اگر عیسائیوں کے اعتقاد پہ جاویں جنکے نزدیک خود ہارون جیسے کاہن مقدس اُس سخت بدعت کی اشاعت کے بانی ہوئے.تو اب ایسی قوم ہاں ایسی خوش اعتقاد متلون مزاج گروہ جو حضرت موسی کو اس قسم کے بدیہی انداز سے اور صاف صاف رائے لگانے پر اند مجبور کرے کیا اچھنبے کی بات ہے.اگر حضرت موسی انہیں کہیں کہ تم میرے پیچھے بگڑ جاؤ گے.اور تراشے ہوئے بتوں کی پرستش کرو گے.اور اگر اسے ترغیب و ترہیب ہی خیال کیا جائے تو بھی بات واضح ہے.اب لیجئے.حضرت مسیح کی سنیئے.آپ فرماتے ہیں.قوم پر قوم اور بادشاہت پر بادشاہت پڑھے گی ہے گی.ئی.کالی اور وبائیں پڑینگی.اور جگہ جگہ زلزلے واقع ہوں گے.اپنے شاگردوں کو فرمایا.جوکوئی اپنی جان بچانی چاہیے اُسے کھوئیگا.اور جو کوئی میرے لئے اپنی جان کھوئے اُسے پاوے گا.آپ نے پطرس کو فرمایا دو ہی پطرس نہ جو رسول اور صاحب کتاب ہوا.اور سب سے بڑی دلیری اور جرات سے استاد کو مون کہکر تین بار انکار کیا) یکیں آسمان کی بادشاہت کی کنجیاں تجھے دونگا.اور جو توزمین پر بند کریگا.آسمان پر بھی بند ہوگا.اور جو زمین پر کھولے آسمان پر بھی کھلا ہو گا.اور شاگردوں سے فرمایا کہ میرا سماله پہلی پیشین گوئی (اگر اسے پیشینگوئی کرسکیں، صاف قانونِ قدرت کے استمراری واقعات کا استنباط ہونے کی شہادت دیتی ہے.کیونکہ قوم پر قوم اور بادشاست پر بادشاہت کا پڑھنا اور کال اور زلزلے اور وہا کا واقع ہونا نیچر کی ایسی عادات میں سے ہے کہ اسکی نسبت کسی ایک کا بلا تعین وقت اور گول مول پیشین گوئی کرنا کبھی کبھی غلط نہیں جانا جا سکتا.دوسری اور تیسری پیشین گوئی کی بنا محض ترغیب و ترہیب پر ہے.اس قسم کی متی ۲۴ باب سے مئی ۱۶ باب ۲۵ - ۲۵۳ مئی ۶ ا باب ۱۹ - ۲ه ستی ۲۰ باب ۲۳ -

Page 333

ppy باتیں منصفانہ تھیوری (قیاس سے بڑھ کر کچھ رتبہ نہیں رکھتیں.پطرس کے باکس یا ڈکس کی کوئی خصوصیت نہیں ہو سکتی غیر فقد ر ضعیف ریفارمر ایسے ہی خیالی ٹوٹکوں چٹکلوں سے تو دل لبھایا کرتے ہیں.اور کس کس کو ذرہ ذرہ سی بات پر آسمان و زمین کی چابیاں نہیں بخشا کرتے.ایسی باتوں کے لئے فطرتی خارجی شہادت کیا ہو سکتی ہے.یہ حساب دوستان در دل کا سا معاملہ ہوتا ہے.چوتھی بات کچھ محتاج بیان نہیں.یہود کی سخت ہیبت ناک عداوت نے اُس حلیم مسکین انسان کو کمال بے چین اور بیدل کر رکھا تھا.جہان کے لالے پڑے ہوتے تھے.زندگی کا رشتہ ٹوٹتا نظر آتا تھا.چاروں طرف دشمن ہی دشمن دکھائی دیتے تھے صرف دو چار ٹوٹے پھوٹے انیس و جلیس گرد و پیش بیٹھے معلوم ہوتے تھے.بیشک آنے والی زبر دست مصیبت کا مقابلہ اور اپنا اور اپنے حامیوں کا ضعف عادتا اس b قسم کی پاس کے کلمات منہ سے نکالنے پر ایک بے بس انسان کو مجبور کر دیتا ہو.اب ہم نبی عرب کی پیشین گوئیوں کے جانچنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.لیکن آغاز مطلب سے پیشتر خدا کی برگنه با قوم بنی اسرائیل کا ہو وسط ایشیا کے انبیا کا میدان مشتق رہے ہیں.اور جنہیں مسلمین دیگر اقوام وطل کی تہذیب لکھی ومالی کی خوشخط سرمشق کہتے ہیں.تھوڑا سا اجمالی حال لکھتے ہیں.اور انصاف کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے شفیق ہادیوں کی تعلیم سے کسقدر بہرہ اٹھایا اور دنیا کی اور قوموں کیلئے نمونہ بنے کا کس قدر استحقاق حاصل کیا.اور کیونکر ایسی قوم کے آگے دوسری قومیں زانوئے تلمذ تہ کر سکتی تھیں.پھر قوم عرب کی ملکی تمدنی منزلی اخلاقی حالت کا اجمالی نقشہ کھینچتے ہیں کہ ہادی عرب و عجم کی بعثت سے قبل وہ کیسی تھی اور اس تاریخی الہامی سلسلے کی تحریک سے ہماری غرض یہ ہے کہ اس نیر جہاں افروز کی پیر حلال کرنوں سے نور حاصل کرنے کیلئے شکوک و او پام کے گرد و غبا اسے مطلع صاف کر دیا جاوے.

Page 334

۳۲۷ نہ یہی تاریخ شہادت دیتی ہو کہ بنی اسرائیل میں اسرائیل کے وقت سے مسیح کے وقت تک بلکہ مسیح کی تعلیم کی ترقی اگر کبھی ہوئی ہو ، اور سواریوں کے زمانے تک کسقدر اور لگا تار سینکڑوں نہیں ہزاروں انبیاء اور رسول گزرے اور کیسے کیسے فوق العادة کرشمے دکھلائے (کیا یہ سچ ہے) کہتے ہیں کسی نے سمندر کو لٹھ مار کو چیر دیا کسی نے بیر دن کو سکھا کر بالا پتھر لیکر بارہ سواریوں کی پیشینگوئی کی کیسی نے اپنی ہڈیوں اور اپنے مردہ جسم سے مردوں کو زندہ کیا.کوڑھیوں مفلوجوں کو اچھا کیا.مادر زاد اندھوں کو آنکھیں دیں.تھوڑی شراب کو بہت کر دکھایا.چند روٹیوں کو ہزاروں کے لئے کافی بنایا.ایک پیالے تیل کو گئی مشکوں کے برابر بڑھا یا فرض با وجود ایسے عجائبات کے متواتر مشاہد سے اور تعلیم کے ہر ایک نبی کی اہمت جلد جلد مرتد ہو جاتی.اور انہیں نبیوں کی جن سے ایسے فوق العادة امور دیکھتی دشمن و مخالف بنجاتی.موسی سے عالی ہمت سر گرم راہبر و واعظ سے کیا گذرا.اُن کے پہاڑ پر جاتے ہی گوسالہ پرستی شروع ہوگئی لیے " بعل پر بہت اور عشتارات اور آرام جیسی دیوں کی عام پرستش کرنے لگے لیے ساول خدا کا بنایا ہوا مسیح پھر مرتد ہو گیا.اور خبطیوں اور دیو زدوں سے غیب مبینی کرانے لگا.اور داؤد جیسے دلی خیر خواہ بہادر اور راستباز کا دشمن ہو گیا تیک امت تو ایک طرف رہی خود ہادیوں اور واعظوں کی وہ گت ہوئی کہ الامان.داؤد خدا کے بیٹے اور سی ہے بقول اہل کتاب اور یا کی بی بی سے کیس حرکت کے مرتکب ہوئے.اعاذنا اللہ تعالیٰ سلیمان کا حال بھی جو ر بقول اہل کتاب ) ابن اللہ اور مسیح ہیں.عیسائیوں پر ه استثناء و باب ۱۲ که قاضی ، باب ۳۳ الینا - بابت سموئیل ۱۲ باب ۲۳ سموئیل ۲۷ باب ۵ سلاطین ۲ باب ۲ سموئیل 1 باب - زبور ۸۹-۲۲۵۲۷۰۲۰ سموئیل ، بابا - اسلاطین - باب او ا سلاطین ارباب - - سموئیل کا باب ما

Page 335

ظاہر و باہر ہے.یہودا اسکیر یوطی جسکو مسیح نے معجزات و کرامت والا بنایا اور جس کے واسطے بہشت میں تخت بھی تیار ہوا کیسا پھرا کہ آشنا ہی نہ تھا.پطرس جیسے آسمان کی کنجیاں مرحمت ہوئیں کہ وہی پھر شیطان بن گیا ایم اپنے صادق معصوم استاد کو ملعون کہ اٹھا.اور بخوف جان سب حقوق آشنائی کو طاق پر دھر دیا یہ دسبحان اللہ ، یہ تو حواریوں کا حال ہے.جنہوں نے مسیح کی لائف و تعلیم لکھنے کا بیڑا اٹھایا.کیا خوب کیوں نہ قابل اعتبار ہے رہوں.اس صادق اول الم نبی عربی کیانی ایرای تعلیم کا اس سے مقابلہ کرو کہ کیونکر اُسکے حواری (خلفائے اربعہ) آخری دم تک ہزاروں مصائب اور حوادث کے سامنے سینہ سپر کئے ہوئے اپنے اُستاد کے عشق و محبت میں ثابت قدم رہے.اب آئیے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشینگوئیاں سنیئے.انصاف سے سنیے.نئی عرب کی پیشینگوئیاں اور ل سکے کہ ہم پیگیوں کا این شروع کریں کسی قدر کی عرب کی حالت کھانا ضرور ہو تاکہ ناظرین با انصاف کو اسکی صداقت و حقیقت کے اعتقاد کرنے میں تامل نہ رہے.حالت ملی عرب کی ایک بے آب و گیاہ ریگستان.ایک کس مپرس کونے میں پڑا ہوا وحشت ناک غولوں کا مسکن سیلویلیشن کے علمبرداروں نے کبھی اس طرف رخ نہیں کیا تھا.مرقس ۲ باب 14 سے منی ۲۶ باب ۱۴ سه متنی ۱۶ باب ۱۸ سکه هستی و باب ۲۳ شه منی ۲۶ باب ، د ۲ -

Page 336

۳۳۱۳۹ کیونکہ قدرت نے کوئی نیچرل خوبی سبزی اور نضارت اُسے مرحمت نہیں کی تھی.جو دنیوی فاتحوں حملہ آوروں کی تحریک کا باعث ہوتی.خود اہل ملک ایسے افلاس اور بے سرو سامانی کی گہری نیند میں پاؤں پھیلائے پڑے تھے.کہ برسوں سے کروٹ تک نہ بدلی تھی.اور ملکوں کی تسخیر کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا تو کیسا.ایسی حالت میں قوی روحانی اور ملکات فاضلہ انسانی کی شگفتگی اور ترقی معلوم - یادر ہے کہ فتوحات اور حملہ آوری اور ایک ملک کو دو سے ملک سے جنگ و کارزار ہمیشہ سے ابتداء تہذیب و سیو بازیشن کے پھیلنے کا ذریعہ ہوتے رہے ہیں.مقدس لڑائیوں کی وجہ سے یورپ میں تہذیب کی ریشہ دوانی کرنا ایک ایسا امر ہے ، جس سے مورخان مغربی انکار نہیں کر سکتے.تمدنی و منزلى حالت.ہزاروں قبیلے پھر انکے ہزاروں شعبے اور انکی ہزاروں چھوٹی چھوٹی شاخیں.ایک کی ایک سے لاگ.اتفاق و اختلاط کیسا کہ اگر کوئی سال کوئی مہینہ کوئی دن باہمی خونریزی سے خالی گزر جائے تو بس غنیمت.حکما جو انسان کو مدنی الطبع کہتے ہیں اور اس مسئلے کے اثبات میں کتابیں کی کتابیں لکھ گئے ہیں.اور آجکل کی دنیا اسکی شاہد ہے.کیا عرب کی اسوقت کی سوشل حالت ہی اس مسئلے کو باطل نہیں کئے دیتی تھی.درندہ بصورت انسان ایک تصویری زبان کا استعارہ ہے.مگر شیر عرب حقیقت میں اسکے مصداق تھے.اخلاقی حالت تو مکی و تمدنی حالت کی بیٹی ہو.اسی کی شائستگی و ترقی پر اسکی فلاح و صلاح کا مدار ہو.اچھا صاف صاف سُن لیجئے.بت پرستی اور تو ہمات باطلہ کی حکومت ان دنوں کل عالمہ پر محیط تو تھی ہی.لیکن ملک معرب پر اُس کا خاص سایہ عاطفت تھا.اجرا مہ علوی سسلی میں سے کوئی ایسا نہ تھا جب سے سادہ لوح عرب نے سیتی دلی ارادت کا رشتہ نہ ہوڑا تھا.سخت گھنونی نفرت انگیز اشیائے مادی اُنکے پکے

Page 337

اسم باطنی ایمان کی مجسم موتیں تھیں.اسپر حرام کاری زناکاری بیشتر بخوری (جو معبودان باطل کی پرستش کا لازمی نتیجہ ہے، کا وہ طوفان بیچ رہا تھا کہ خدانہ دکھائے.قمار بازی نے خانہ ویرانی میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا تھا.ہوٹ.ضد- حمیت - جاہلیت.قومی نفرت کا وہ عالم تھا.کہ با ایں ہمہ جہالت، دوسری ملتوں سے روشنی اور فیض لینا تو در کنار.الٹا انہیں عجمی (گونگا) کا خطاب دیتے تھے.اور یہود کی طرح سب قوموں کو میدن (غیر قوم کے نفرتی نام سے یاد کرتے.ان کے ہمسایوں بنی اسرائیل (یہودیوں) کا حال شن ہی چکے ہو.کیسی بد حالت میں مبتلا تھے.نبیوں کے زمانے میں ان کی رفتار اور گفتار کے چہرے نے خوبی و پسندیدگی کے خدو خال سے کچھ جمال حاصل نہ کیا.اور قبول عام کے زیور سے آراستہ نہ ہوئے.اب تو اپر اور بھی جہالت کی گھٹا کالی بداطواری یہ بد اخلاقی کی موسلادھار بارش برساتی رہی تھی.عیسائی پولیش چرچ کی کیفیت ایک دنیا پر ظاہر ہے.بت پرستی ایک کین معظم انکے پاک مذہب کا تھی.مریم کی صورت کی پرستش کن کن رنگوں سے اُن کی مقدس عبادتگاہوں میں جلوہ آراء تھی.اور وساوس و تو ہمات کی خدمت گداری کی تفصیل کا یہ مقام متکفل نہیں.کل یوروپین عالم اس کے شاہد ہیں.جارج سیل صاحب کا مقدمۃ القرآن اس کا گواہ بس ہے.یہ حال تو اہل کتاب کا ہو.جو عیسائی علما کے زعم میں قوم عرب کے جگانے والے ہیں اور جن سے بڑھ کر مثل (خفته را خفتہ کے کند بیدا) کا مصداق شاید ہو نہیں سکتا.اسوقت کی اور دنیا کی قوموں کا حال کہ کس قدر انسانیت کے شریف پائے سے گری ہوئی تھیں.اور مخلوق پرستی کے ناقابل ذکر بیماری نے کیسا انکے ملکات کو تباہ کر دیا تھا.مخفی و تاریک نہیں ہے.ہند کی بت پرستی کی طرف نظیراً اشارہ کیئے بغیر ہم رہ نہیں سکتے.جن میں سکتے کی پوجا اور لنگ کی پرستش اب تک معمول ہے.اور تفصیل سے تعرض کرنا چنداں ضروری نہیں.

Page 338

۳۳۱ ب تم میدان خود کو اور بھی وسیع کرنے کے لئے اس مضمون میں چند بانہیں بطور سوال کے لکھتے ہیں.اور ہمیں امید ہے کہ یہی دو ایک نفسیمیں منصف کے نزدیک اثبات مدعا کے لئے کافی ہیں.(۱) عرب کی اُسوقت کیا حالت تھی اور اسکی قومی تاریخ کیسے واقعات سے معمور تھی.(۲) اسباب اور قرائن اور قدرتی طبع حالات کیا بتا رہے تھے.(۳) ان دنوں میں اہل کتاب کی خصوصا اور دیگر اقوام دنیا کی عموما کیا حالت تھی.ایسی حالت میں ایسے وقت میں ایسے اضطراب میں کسی استقلال اور جلال والی آواز سے قرآن فرماتا ہے.پھر سکتے میں فرماتا ہے.پہلی پیشینگوئی قل إن رها يقدتُ بِالحَقِّ عَلامُ الْغُيُوبِ قُل جَاءَ الْحَقِّ وَمَائبُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ - سیپاره ۲۲ - سوره سبا - رکوع ۶ - نجات کے طالبو.دین حق کے خواستگار و خیالات این و آں سے تھوڑی دیر سر کو خالی کر کے ادھر منتوجہ ہو جاؤ.سوچو کیا یہ زبر دست پیشین گوئی پوری نہیں ہوئی.کیا ایک دنیا پر اسکی صداقت ظاہر نہیں ہو گئی.تیرہ سو برس ہوئے دین کامل - توحید - صداقت کے آفتاب نے سرزمین عرب میں طلوع کیا.جسکی روشنی نہ صرف عرب میں بلکہ کل اقطار عالم میں پھیلی اور پھیل رہی ہے.اور جب سے کبھی مشرک.کفر- بدعت - ثبت پرستی - بطلان کی کالی بدلی اس کے پر جلال نورانی چہرے کو محجوب نہ کر سکی.نے کہار سے (اے محمد) میرا رب حق د دین حق) پھینکتا ہے (یعنی آسمان سے اتارتا ہے، وہ غیبوں کا جانے والا ہے.تو کہر سے باطل ردین باطل، پھر نہ کبھی شروع ہوگا اور نہ خود کریگا ۱۲.

Page 339

۳۳۲ اسی پر کیا بس ہو.آپ نے بڑے اطمینان - الہی الہام سے پر جلال آواز بڑے جلسوں اور محفلوں میں تاکیدی الفاظ میں زور سے کہدیا.قل جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِل كان زهوقا.سیپاره ۱۵ سوره بنی اسرائیل رکوع ۹ پڑھنے والے دیکھے.کیا یہ کلام قادر مطلق علام الغیوب کا نہیں.کیا انسان کی کمزور زبان اپنے ناقص اور محدود علم سے ایسی پوری ہونے والی سچے اور بالکل بے خبر ے سکتی ہے.نہیں نہیں.ہرگز نہیں.یقینا یقینا یہ اسی ہمہ قدرت کا کلام ہے جس کا علم کامل غیر محدود ہے.جس کے دست قدرت میں قلب انسان کے انقلاب و تقلیب کی باگ ہے.اور زمانوں اور قوموں کی تبدیل و تغییر اسی کے بس میں ہے.اُسی پاک عالم الغیب خدا نے اپنے برگزیدہ عبد مگر رسول کے منہ میں اپنا کلام دیا.جو اسی کے بلائے سے بولا.اور اس کے بتائے سے بتایا.کیا ہی سچ بولا اور کیا ہی ٹھیک بنایا.فداہ اُمتی وابی صلی اللہ علیہ وسلم.دوسری پیشینگوئی اُسی انا ارسلنا اليكم سُوا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُومًاه نعطى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاهُ أَخَذَا و بیلاه سیپاره -۲۹ سُوره مزمل رکوع - اس جیگہ باری تعالیٰ اپنے پاک کلام میں میاں صادق کلام میں نبی عرب کو موسیٰ و کا مثیل و نظیر فرما کہ اہل عرب سے خطاب کرتا ہو کہ جیسے فرعونی موسی کے عصیان کے باعث تباہ ہوئے لے تو کہدے (اے محمد) اسلام آیا اور شرک بھاگا.بیشک مشرک بھاگنے والا ہے ۱۲ یہ زبر دست پیشینگوئی فتح مکہ کے دن پوری ہوئی.بیہقی میں این عمر یہ سے روایت ہر کلما مر بصنم اشار اليد بقضية و هو يقول الأية جب آپ کسی ب کے پاک سے ہو کر گزرتے اپنی لاٹھی سے اسکی طرف اشارہ کرتے اور آیت مسطور متن پڑھتے".سے ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھی ہے گواہ تمپر جب ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا.پس فرضوں نے اس رسول کا کہا نہ مانا پھر ہم نے اس کو ہلاک کرنے والی پکڑ سے پکڑا.۱۲

Page 340

۳۳۳ ویسے ہی اس نبی کے عاصی اور مخالف بھی تنہاہ اور ہلاک ہو جائینگے.اور پھر فرمایا.وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَنِ بَهُمْ وَأَنتَ فيهم - سیپاره ۹ - سوره انفال رکوع ۲ - پھر اس پیشین گوئی کا وقت صاف صاف بتا دیا.اور اس کی حمد باندھ دی کو حدی کردی.فرمایا - قُلْ لَكُمْ فِيهَا دُ يَولَا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ ، سیپاره : ۲۲ - سوره سبا - رکوع ۳ - پھر اور توضیح و تصریح کی منہ مایا.وَإِن كَادُوا لَيَسْتَفِرُ ونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا وَإِذْ أَلَّا يَلْبَثُونَ خلا فك إلا قليلاه سیپاره ۱۵ - سورۂ بنی اسرائیل- رکوع ۸ - اللہ اللہ یہ پیشین گوئی کیسی گوری ہوئی.عادت اللہ قدیم سے اس طرح پر جاری ہو کہ پیشینگوئی جن قوموں نے ہادیان برحق کے نصائح نہ سنے.اور اُن کے دل سوز مشفقانہ کلام پر دھیان نہ کیا.ضرور وہ کسی نہ کسی تباہی میں گرفتار ہوئے.اور جھوٹے نبی کا نشان یہ دیا گیا ہے کہ وہ قتل کیا جاویگا.اور جو کوئی اس نبی کی بات نہ مانے گا سزا پائیگا.اب کفار عرب اس سچے رؤف و رحیم ہادی کو جھٹلا چکے ہیں.طرح طرح کی اذیتیں.دل کو کپکپا دینے والے آزار دے چکے ہیں کیونکہ وہ نبی صادق و مصدوق ہے.اور وہ نبی وہ ہے جسکی نسبت موسی و عیسی بڑے فخر سے بشارت دیتے چلے آئے ہیں.اب خدائی غضب اُمنڈ آیا.لے جب تک تو اسے رسول ان میں سے اللہ انپر عذاب نہ لا ویگا.سے تو کہرے (اے محمد) تمہارے واسطے ایک سال کی میعاد ہے کہ اس سے ایک ساعت ادھر اُدھر نہ کر سکو گے سے یوم.دن.الہامی کتابوں میں نبوت کا ایک دن یعنی سال بھی مستعمل ہوتا ہے لغات عرب اسکے شاہد ہیں.اور عیسائی علماء اسکے منظر ہیں.دیکھو اندرونہ بلبل عبد الله آتشم صفحه ۱۶۹ و ۱۳۳ ۶۹۰ ۱۳۳۰ - ۵۲ یقینا یہ لوگ (اہل مکہ تجھے (محمد) اس زمین (مکہ) سے نکالڈا لنے والے ہیں جب تو تیرے بعد یہ لوگ بھی تھوڑی ہی دیر رہیں گے.۵۵ استثناء باب ۱۸-۲۰

Page 341

۳۳ کلمہ اللہ بر سبد انتقام آمادہ ہوا کہ اُن کے دشمنان دین حق کو بلاک کیا جائے.مگر بار بتائے با این ہمہ اپنے رسول سے فرماتا ہو کہ جب تک تو ان لوگوں میں موجود ہے (یعنے سرزمین کئے ہیں) اُن پر عذاب نہ ہوگا.اور عالم الغیب حق تعالیٰ ایک سال اسکی میعاد مقرر فرما تا ہو کہ یقینا اس عرصے میں بلا تقدم و تاخر ایک ساعت کے یہ واقعہ نہ وال وقوع میں آئیگا.قدرت حق کا کرشمہ مشاہدہ فرمائیے کہ کیونکر یہ وعدہ ایک سال بعد پورا ہوتا ہے.اب کفار عرب نے جن کا سرخنہ ابو جہل تھا.آنحضرت صلعم کے قتل کی مشورت کی.اسی واسطے ہار جلائی سنہ جمعے کے دن آپ نے لگے سے ہجرت کی اور مدینہ منورہ کو چلے گئے.دوسرے سال یعنی ۱۲ ء میں بازار کا معرکہ ہوا.جس میں وہ سب معاندین اور مافین تباہ اور عذاب الہی میں گرفتار ہوئے.وَالْحَمْدُ اللهِ عَلى ذلِكَ تیسری پیشینگوئی اسوقت جب ناصرین و معاندین اسلام کی جماعت نہایت قلیل تھی جب آ نحضرت کا جان و مال سخت معرض خطرہ میں تھا.اسوقت جبکہ شہر مکہ اور اسکے اطراف و حوالی میں کل قبائل قریش آنحضرت کے قتل و قمع کی سازشیں دوڑا رہے تھے.اور بیشک ان کی موجودہ حالت اور سامان نے اُنکے ارادوں کے پورا ہو جانے کی قومی امید دلار کھی تھی.خدا اپنے رسول کو تقویت دیتا اور اسکی عصمت اور حفظ کا ذمہ اٹھاتا ہے.ياتيها الرَّسُول بلغ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلُ فَمَا بَلَغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ سیپاره -- سوره مائده - رکوع ۱ - اس وعدہ الہی کو آنحضرت نے بآواز بلند پکار پکار کر دشمنوں کے مجمع کو سنایا کہ ران اسے رسول جو تجھ پر تیرے رب سے اترا ہے پہنچا دے.اور اگر تونے ایسا نہ کیا تو اس کے پیغام کو نہ پہنچایا.(ڈرمت) اور اللہ تجھ کو لوگوں سے محفوظ رکھینگا ۱۲.

Page 342

۳۳۵ میں ضرور ضرور تمہارے شر سے محفوظ رہونگا.اور تم میرا بال بیکا نہ کر سکو گے.کیا اس چڑہانے والی آواز سے وہ اور زیادہ نہیں جھلائے.اور اُن کے کینہ و انتقام کی آگ اور زیادہ نہیں بھڑکی کیوں نہیں.بلکہ آگے سے بڑھکر داؤ گھات میں رہنے لگے مگر خدا کا وعدہ پورا ہوا.اور اسی نبی برسی کی صداقت کی بڑی کامل دلیل دنیا پر ظاہر ہوئی.کہ آنحضرت اُس ذریعے اور مہلکے سے خدا کے حفظ و امان کے بدرقے کے ساتھ سلامت نکل گئے.اور وہ خدا کے دشمن.رسول کے دشمن.انسان کی فلاح و صلاح کے دشمن دانت پیستے اور ہاتھ کاٹتے رہ گئے.ہم کو سخت تعجب آتا ہو جب ہمہ قرآن کی اس آیت کو جھتے ہیں جسمیں باریتعالی بڑا ثبوت آنحضرت کی نبوت کی صداقت کا دیتا ہے.وَلَوْ تَقَولَ عَلَيْنَا بَعْضَ الأَقَاوِيلِ لاَ خَذَ نَاوِتُهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ، سیپاره ۲۹ - سوره حاقه - رکوع ۲ - یعنی اگر یہ شخص جھوٹا رسول ہوتا تو بیشک بیشک قتل کیا جاتا.تباہ ہو جاتا.مارا جاتا، کیونکہ خداوند خدا پہلے سے اپنے برگزیدہ نبی موسی کی معرفت اپنے اس اولو العزم نبی کی بابت ارشاد اور وعدہ فرما چکا تھا.اور اس سچے نبی کی صداقت نبوت کی پیچان بھی بتا چکا تھا کہ وہ زندہ رہیگا.ہاں وہ سلامت رہیگا.اور اسکے مخالفین معبودانِ باطل کے عابد ہلاک ہو جا دینگے.بیشک با ایں ہمہ ثبوت بین اُن لوگوں کی جہالت اور عصبیت سخت تعجب دلاتی ہے.مگر جس وقت اُس قوم گمراہ کے حقیقی وارث اس زمانے کے اہل کتاب (پادری صاحبان کو ہم دیکھتے ہیں.کہ وہ توریت کے وعدوں کو بالائے طاق رکھ کر ہے اور اگر یہ رسول ہماری نسبت جھوٹی باتیں بناتا ت ضرور ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑتے.پھر اس کی رگ حیات کو کاٹ ڈالتے ۱۲ -

Page 343

۳۳۶ اس حقیقی نبوت سے اعراض کر کے اپنے اسلاف کے مانند برابر عداوت کا بیڑا اٹھائے چلے آتے ہیں.تو ہمارا تعجب بالکل کم ہو جاتا ہے.خدا جانے یہ لوگ کب تک اُس مثیل موسیٰ کی اطاعت سے منحرف رہ کر اُس زمانے کے وحشی بدوؤں کی طرح اور زیادہ نشانوں اور آسمانی علامتوں کے خواستگار رہیں گے..اگر یہ لوگ دنیا پرستی اور حب نفس کو چھوڑ کر غور کریں تو آشکارا ہو جاو گی کہ بشارت مثلیت کا دعوی علمی ہی نہیں رہا.بلکہ عمل بھی پایہ ثبوت کو پہنچ گیا.سجاح بنت الحارث بن سوید عقیمہ نے پہلے سنہ خلافت میں پیغمبری کا دعویٰ کیا اور بنی تمیم اور تغلب کے قبیلے کے لوگ اُس کے تابع ہو گئے.اور انھیں دنوں میں مسیلمہ کذاب نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا.اور یہ انہیں دنوں خدائی وعید کے موافق قتل ہوئے اور ایسے ہی اور لوگوں نے بھی مثل عکسی وغیرہ کے گردن دعوئی بلند کی.مگر بہت جلد اُن سے اُن کا حساب لیا گیا.افسوس اس غفلت بخش عداوت نے عیسائیوں کو اتنا بھی سمجھنے نہ دیا کہ اس رسول کی تکذیب اور قرآن کی تکذیب میں توریت کی تکذیب لازم آتی ہے اور قرآن ک تصدیق میں توریت کی تصدیق متضمن ہے.کیونکہ رب الافواج توریت میں قرآن کی نسبت بشارت دے چکا ہے کہ میں اپنا کلام اسکے منہ میں دونگا) کلام اس کے منہ میں.کیا ٹھیک ترجمہ وحی کا ہے.یعنی ایسا کلام جو لفظی و معنا خدا کی طرف سے ہو.اور یہ صفت صرف قرآن کریم اور فرقان حمید کی ہے.قرآن بھی کس محبت بھرے الفاظ سے جو خالق کو اپنی مخلوق سے ہے.اہل کتاب کو آگاہ و بیدار فرماتا ہے کہ توریت میرے اس رسول کی بشارت دیتی ہے.میرا وجود اس کا مصدق ہے.اب میری اطاعت کرو.اور میری مکمل تعلیم کا سبق پڑھو.ایسا نہ ہو کہ میری تکذیب میں توریت کے کاذب ہو جاؤ.سنو کتاب حق کیا بولتی ہے.

Page 344

٣٣ وما كان هذا القران أن تُفتَرى مِن دُونِ اللَّهِ وَالمَن تَصْرِينَ الذى بين يديه - سیپاره ۱۱ - سوره یونس - رکوع ۲ - قَدْ جَاءَ كُمُ مِنَ اللهِ نُورُ وَكِتاب بين سيارة و شوره مانده رکوع ۳ و اب یہاں پر ایک اور بات بھی قابل بیان کے ہے کہ عیسائی علما نے عدیم فہمی قرآن سے تصدیق و مصدق کو جو قرآن میں جا بجا آیا ہے.کچھ اور ہی سمجھ کر خامہ فرسائی کی ہے.اصل مطلب یہ ہو کہ موسی نے پیشینگوئی کی کہ میرے مثل ایک نبی پیدا ہو گا.اور خدا کا کلام اُس کے منہ میں ڈالا جائیگا.اور یہ خبرا اپنے وقوع کی محتاج تھی.اور ضرور شینگوئی نے تھا کہ موسکی پیش نگوئی پوری ہو.میں آنحضرت کے وجود مبارک اور قرآن کریم نے اس کو پورا کر دیا.اب موسی کی پیشنگوئی کی تصدیق ہوگئی پیس تعریق و مصدق کے لفظ کے ہی معنی ہیں.اب اگر قرآن کو سچا نہ مانیں اور آنحضرت کو حضرت موسی کا مثیل ہونا تسلیم ندکریں.با اینکہ آپنے یہ دعوئی بڑے زور سے کیا اور خدا نے انہیں کامیاب کیا تو کتب مقدسہ کی اقدم و اعظم کتاب توریت کی تکذیب لازم آتی نہج.آگے اعتبار ہے.لا يَقُولُونَ تَقَوَلَهُ ، بَللاً ت فَلْيَاتُوا بِحَدِيث مِثْلِم أن یہی كانوا صدقين، سیپاره ۲۷ - سوره طوبی - رکوع -۲ باری تعالیٰ فرماتا ہے.کہ اگر اس کتاب کو تم لوگ مصنو بھی جانتے ہو.تو اس کے تم مثل کوئی کتاب لاؤ.اور فرمایا.سے یہ قرآن اللہ کے سوا اور کا بنایا ہوا نہیں لیکن تصدیق ہے، اس کتاب کی جو اسکے آگے ہے " سے بیشک تمہارے پاس (اہل کتاب اللہ کی جانب سے نور اور روشن کتاب آئی ہوا مان گا کیا وہ کہتے ہیں اس کو ایسے ہوں گھڑ لیا ہے.نہیں بلکہ وہ ایمان نہیں لائے.پھر اس کے مانند کوئی حدیث لاویں اگر وہ سچے ہیں یا

Page 345

۳۳ كُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَدِقِينَ، فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَتُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكفرين، سیپاره ۱- سوره بقر - رکوع ۳ - اور سکتے ہیں شرفاء و شعرائے قوم قریش کو خطاب فرمایا.قل لي اجتمعت الارنسُ وَالْجِن عَلَى أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهير گاه سیپاره ۱۵.سورۂ بنی اسرائیل - رکوع ۱۰- صداقت اور حق بھی بڑی قوت ہے.اُس شخص سے بڑھ کر جرات اور جسارت کسی آدھی میں ہو سکتی ہے جس کا قلب ایمان کا نشنس غرض تمام تو نے نفسانی اُس کو کلی یقین اور اطمینان دلا دیں کہ تو صادق ہے.اب اس اطمینان قلبی کی لازمی خاصیت یہ ہے کہ وہ صادق میں ایک مخصوص فوق العادۃ قوت اور زور پیدا کر دیتا ہے.اور اُس کے جذبات روحانی میں اس قسم کی شدید و حدید حرارت موجود ہو جاتی ہے کہ موجودات اور کائنات کی توالے طبعی سے کوئی قوت و وجود اُس (صادق) کے دل میں ہیبت انگیز مغلوب کرنے والا رعب نہیں ڈال سکتا.بلکہ اسکے مصدق کا جوش کرم مقناطیس کی طرح ضعیف مخلوق کے قوالی کے جہاز کو اپنی طرف منجذب کر لیتا ہے.یہی وجدانی اور کیفی دلائل ایسے ہوتے ہیں جو منطقی اور فلسفی دلائل سے بڑھ کر دائمی اثر سامعین لہ اگر تم شک میں ہو اس سے جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا تو اسکے مثل کوئی ایک ٹکڑا الاو.اور اللہ کے سوا پنے گواہوں کو بلاوا اگر ہے ہو پھر کریم نے کیا اور ہرگزنہ کر سکو گے تو وہ اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور بہتر ہیں جو کافروں کیلئے طیار کی گئی ہے " ہے تو کہدے کہ اگر جن اور انس اس قرآن کے مثل لانے پر متفق ہو جاویں تو اس کے مثل نہ لاویں گے.گویا ہمدگر مددگار بن جاویں ہے

Page 346

کے قونے پر کرتے ہیں کیونکہ یہ دلائل اس سرچشمہ فطرت (نیچر سے اخذ کیئے جاتے ہیں.جو کم و بیش ہر انسان میں ودیعت رکھی گئی ہے اور اسی لیے فطرت انسانی اُس کے فعل و انفعال پر بہت جلد آمادہ ہو جاتی ہے.ہوا اور بات ہو کہ بہت سے قسی القلوب مخشوش الفطرت انسان اُس پر کان بھی نہیں دھرتے.مگر عموم صحیح المزاج سلیم الفطرت اُس بوق کی سُریلی پر معنی آواز کی طرف بڑے شوق سے بے اختیار دوڑے چلے جاتے ہیں.ب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن نے بی اس قسم کے دلائل کو اختیار کیا اورفطرت انسانی کی تسخیر کے لیے ایک عجیب فوق التصور نسخہ ایجاد کیا.اور یہ امتیاز و فخر من قبل و مابعد کبھی بھی کسی کتاب کو میسر نہیں ہوا.اور اس خدائی ترکیب ترتیب نے جو اثر اس وقت کے عرب کی غیر مہذب غیور مگر فصیح وسیف اللسان دنیا پر کیا.اور جو ویسا ہی اب تک قانون فطرۃ کے راز دانوں اور دلدادوں کے دل پر کر رہا ہے.کچھ محتاج بیان نہیں.عیسائیوں نے نہایت کامیاب کوششیں قرآن کی اس حقیقت کے چھپانے کیلئے کی ہیں.اور چاند پر تھوکنے کیلئے بہت کھینچ تان کر گرونوں کو اٹھایا ہے.اور بقول ن يَتَسَبَتْ بِالْحَشيش سخت بے سر و پا دلیلوں کو اپنا مایہ ناز بنارکھا ہے..کبھی قرآن کے مقابل میں سواطع الالہام - مقامات حریری.سبعہ معلقہ وغیرہ پیش کرتے ہیں.اور کبھی ملٹن ہو مرے شیکسپیر کو بلالا تے ہیں.الخريق کچھ ضرورت نہیں کہ بار بار ان ہوا بات کا اعادہ کیا جائے.جو علمائے اہل اسلام نے ان اعتراضات پر دیئے ہیں.مگر ان آدمزادوں کی قوت ایمانی پر سخت حیرت اور تعجب آتا ہے کہ ایسے فضول افسانوں اور بد اخلاقی اور فحش محبتم مضمونوں کو ایک الہامی کتاب قرآن کے متقابل میں نے اخلاقی معاشرتی.تمدنی تعلیم کو تکمیل کے درجے پر پہنچایا.پیش کرتے ہیں.بیشک قرآن فصاحت و بلاغت میں اعلیٰ سے اعلیٰ درجے پر

Page 347

مام بعوام ہے اور چونکہ وہ یہ میں الفاظ و ترکیب آنحضرت کے قلب نبوت پر وحی کیا گیا ہو.بالضرور اسے ایسا ہی ہونا چاہیئے.مگر قرآن تحدی الفاظ کی بندش اور عبارت کی فصاحت کے در بابت نہیں.قرآن کا دعوئی تو یہ ہے کہ کوئی کتاب ایسی لاؤ جس میں ایسی روحانی اخلاقی مکمل تعلیم ہو.قرآن مجید کا یہ دعوئی ایسا ہو کہ حقیقتا اس کا کوئی جواب کسی سے آجتک بن نہیں پڑا.اور یوں ادھر ادھر کی فضولیوں کی کیا وقعت ہو سکتی ہے.پانچوین پیشینگوئی سورہ احزاب ہیں.تمام عرب کے مختلف فرقے مدینے پر پڑھ آئے اور مدینے یہودہ اور کل منافق لوگ ان حملہ آوروں کے ساتھ شریک ہو گئے اور مسلمانوں کی یہ حالت ہوئی کہ لوگوں نے کہدیا.يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُم - سیپاره ۲۱ - سوره احزاب - رکوع ۲ - اور یہانتک نوبت پہنچی کہ مظاہر کے ساتھی جن سے امداد کی امید تھی.وہ بھی الگ ہونے شروع ہوئے جس کا بیان اس آیت میں ہے.وستان فربن منهم التي يقولُونَ إِن بُيُوتَنَ عَوْرَةٌ ، وَمَا هِيَ بِعورَةٍ إن تُرِيدُونَ إلا سارا - سیپاره ۲۱ - سوره احزاب - رکوع ۲ - مسلمان پہلے ہی قلیل التعداد تھے.اور دس ہزار کفار کے مقابلے میں تین ہزار سے بھی کمتر ا نکی جمعیت تھی.اب ان لوگوں کے الگ ہو جانے سے ایسی خطر ناک حالت ہو گئی جس کا نقشہ قرآن شریف ان الفاظ میں کھینچتا ہے.ان اے مسلمان مدینے والو.تمہارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں ۱۲.اور ایک فریق ان میں سے نہی سے اجازت مانگتا کہ ہمارے گھر خالی ہیں.حالانکہ وہ غالی نہ تھے فشا اُن کا فقط سجاگی، جانا تھا.۱۲.

Page 348

۳۴۱ جَاءَ وَكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الأَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّونَ بِاللهِ الظَّنُونَاهِ هُنَالِكَ ابْن الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْتِي لَوا لذا لا شَديد اه سیپاره ۲۱- سوره احزاب - می کوع ۲ - اور اس واقعے کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے پہلے ہی سے مکے میں دیدی تھی کہ عرب کے احتراب اور ان کی سنگتیں ہمپر چڑھ آئینگی (جیسا کہ عنقریب آتا ہے) الا وہ سب بھاگ کر نا کامیاب پہلے جائیں گے.اور ایسا ہوا کہ جب مسلمانوں نے اُس فوج کشیر کو دیکھا با اینهمه قلت تعداد بول اُٹھے.ولَمَّارَ الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُواهد اما وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُوركَ وَصَدق الله وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمُ إِلَّا إِيْمَا نَا وَ تَسليما - سیپاره ۲۱ - سوره احزاب رکوع ۲- اس آیت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حملے کی بابت پہلے ہی خبردیدی تھی.اور یہ شہر علی العموم موافق و مخالف میں پھیلی ہوئی تھی.چنانچہ اذ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ مَّا وَعَدَ نَا اللهُ وَ رَسُولُ الأَغْرُورًا - سیپاره ۲۱ سوره احزاب - من کوع ۲ اس سے صاف ثابت ہو تا ہو کہ منافق وغیرہ مخالفین بھی پہلے ہی سے اس وعدے ہے جس وقت انہوں نے تم کو ہر طرف سے محصور کرلیا اور بوقت آنکھیں پتھر گئیں اور کلیجہ منہ کو آ گئے.اور طرح طرح کے ظلن اللہ کی نسبت تم کرنے لگے.اس موقعہ پر مومنین سخت بلا اور لرزے میں ڈالے گئے ۱۲.اور نیب لمانوں نے اُن جماعتوں کو دیکھا بول اُٹھے یہ تو وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے ونڈ کیا اور بنچ کیا اللہ اور اس کے رسول نے اور ان میں ایمان او تسلیم اور بھی بڑھ گیا تھا.سے اور جس وقت منافق اور بیمار ول لوگ کہنے لگے کہ الہ اور اسکے رسول نے تو ہم سے دعھد کا کھیلا ۱۲.

Page 349

۳۴۳ کو خوب جانتے تھے.گو اب بے ایمانی اور بز دیلی نے انہیں قائم نہ رہنے دیا.نکتہ - لفظ وعدہ نا جو مسلمانوں کے منہ سے نکلا صاف بتلاتا ہو کہ وہ شروع ہی سے اپنی کامیابی پر وثوق کلی رکھتے تھے.کیونکہ وعدہ کے معنی ہیں کسی کو اسکے مفید مطلب وعدہ دینا بخلاف ابعاد کے کہ اسکے معنے دھمکی دینا اور ڈرانا ہے.آب ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اس وعدے کا ذکر خود قرآن کی ایسی سورت میں موجود ہے جو سکتے میں اُتری ہے وہ آیت یہ ہے.جند ما هُنَالِكَ مَهُرُوم مِّنَ الأَحْرَاب سياره --- سُورهُ من ركوع الم يَقُولُونَ من جميع منتصر سيهزم الجمع ويولون الدبر - سیپاره ۲۰ الله سورة قمر - رکوع ۲ - و د ورور چھٹی پیشین گوئی جب آنحضرت اور اُنکے اصحاب قلت تعداد اور بے سروسامانی کے باعث کھتے ہو نکالے گئے.تو اُن سے اور ان کے ہادی سے قرآن نے پیشگوئی کے طور پر فرمایا.فَمَقِلِ الْكَافِرِينَ أمهلهور ويدا- سیپاره ٣٠- سوره طارق - ركوع اور اپنے آپکو چک مینی کے مشیل کہا تھا اسلئے آپنے دل بھر کے موسی کی اتباع کا حال سنایا.داور ثنا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يَسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَها.w سیپاره ۹ - سوره اعراف - مرکوع ۱۶ - ے احزاب (جماعتیں) احزاب کے بڑے بڑے لشکر اُس جگہ شکست کھا جائیں گے ملن کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بدلہ لینے والی جماعتیں ہیں.عنقریب یہ سب لوگ شکست دیئے جائیں گے اور بھاگ نکلیں گئے ۱۲ - ہ ان کافروں کو کچھ مدت فرصت وے ۱۲- ک اور ہم نے انھیں لوگوں کو جنہیں وہ ضعیف سمجھتے تھے نه مین (نگہ) کی مشرقوں اور مغربوں کا وارث بنا یا.

Page 350

۳۴۳ اور صاف صاف تاکید کی الفاظ سے لگے میں یہ آیت پڑھ پڑھ کر سنائی.ن الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرانَ لَادكَ إِلى مَعَادٍ - سياره ٢٠- سوره قصص رکوع ۹- یہ پیشینگوئیاں صاف صاف پوری ہوگئیں.کہ تھوڑے عرصے میں کل سرزمین گہ پر اہل اسلام کا تسلط ہو گیا.ساتویں پیشینگوئی وَعَدَ اللهُ اللَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَتْهُ وَالْأَرْضِ كَمَا اسْتَخلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارتضى لهم وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمَنَّاء يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا - سیپاره ۱۸- سوره نور - رکوع :- یہ پیشینگوئی صحابہ کے حق میں ایسی پوری ہوئی کہ تاریخ عالم میں اس کی نظیر نہیں.اب ہم اس مضمون کو بخوف طوالت ختم کرتے ہیں.کیونکہ ورکرنے والا ادیب خوب جانتا ے کہ تمام قرآن کریم پیشینگوئیوں کے عجیب عجیب مضامین سے بھرا ہوا ہے.لیکن پیشتر اس سے کہ اس مضمون کو ختم کریں.ایک نہایت لطیف و غریب مدین کا ذکرکرنا مناسب معلوم ہوتا ہے اور یہ حدیث صحت و صداقت میں وہ پایہ رکھتی ہو کہ احادیث کے معترضوں اور منکروں کو بھی دم مارنے کی جگہ نہیں کیونکہ یہ حدیث ایسی دس ہزار کتا بو سے ے بیشک وہ ہیں نے تجھے قرآن کا پابند بنایا یقین تھے اصلی وطن (کہ) میں پھیر لیجائے گا ۱۲.للہ اللہ نے تم میں سے مومنوں اور نیکو کاروں سے وعدہ کیا کہ انہیں اس سرز میں دیکھ، میں ضرور خلیفہ بنائیگا جیسا اُن سے پہلوں کو بنایا.اور وہ دین جو اُنکے لئے پسند کیا ہو اُسے اُن کی خاطر مضبوط کر دیگا.اور انکے خون کو امن سے بدل دیگا کہ وہ میری عبادت کرینگے اور کسی کو میرا شریک نہ ٹھہر آئیں گے ۱۲.

Page 351

کام کام سلام زیادہ میں مندرج ہے جودو قوع واقعے سے سینکڑوں برس پہلے تصنیف ہوئیں.اور وہ حدیث صحیح بخاری اور مسلم میں موجود ہے.وهو هذا.لا تقوم الساعة على تقاو التراك مقار الامين من الوجوه زلت الوركان تَقُومُ وُجُوهُمُ الْجان المطرقة ولا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا انْعَا أَهُمُ الشَّعْرُ ة ابوداود - وَيَنْزِلُ نَارِ مِنْ أُمَّتِي لِغَائِطِ يَسْتُونَهُ الْبَصَرَا عِندَ في يقال له يُقَالُ - دَجْلَة يَكُونُ عَلَيْهَا جَسْم كَثِيرُ أَهْلُهَا وَ يَكُونُ مِنْ أَمْصَارِ الْمُسْلِمِينَ.كَانَ أَخِرُ الزَّمَانِ جَاءَ بَنُو تَنْطُورٍ أَعْرَاضُ الْوُجُوهِ صِغَارُ الْأَعْيُنِ عَلَى يَنْزِلُوا عَلى شَطِ النَّهْرِ فَيَفْتَرِقُ أَهْلُهَا ثَلَاثَ فِرَقٍ - ہماری احادیث پرطعن کرنیوالے نوجوان اور پادری صاحبان حدیث کی صحت پر ذرہ غور کریں.کے دشمنوں سے آپکی حفاظت.آپکی طرف سے باری تعالے کا کافی ہونا.قَالَ تَعالى - فَاصْدَعْ بِمَا تُو مَرُ وَ أَعْرِضْ عَنِ المشركينَ إِنا كَفَيْنَاكَ المستمر بين الْمُسْتَمِ الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللهِ إِلَهَا أَخَرَ فَسَوفَ يَعْلَمُونَ - سیپاره ۱۲ سوره حجر رکوع ۷ ہے نہ قائم ہوگی قیامت یہانتک کہ تم لوگ انار کرو گے قوم ترک کو بھی چھوٹی بہ نہیں ہونگی شرخ چہرے ہو نگے پٹی لے ناکیں.گو یا منہ اُن کے ڈھالیں ہیں.تہ بہ بڑا پرانا ہوگا.یعنی گول مور ہو نگے اور نہ قائم ہوگئی قیامت یہاں تک کہ تم لوگ لڑو گے اس قوم سے بین کی جوتیاں بالوں کی ہیں.ے اور اترینگے تھوڑے لوگ ہماری آخرت کے پست رین کے نزدیک قریب ایک نہر کے اس کا نام بھر رکھیں گے او پردہ نہر دجلہ کہا جاتا ہے، اسکے اوپر ڈیل ہوگا.اسکے لوگ بہت ہونگے.اور وہ مسلمانوں کے شہروں سے ہوگا اور جب اخیر زمانہ ہوگا.تو بنو منظور چوڑے منہ والے اور پچھوٹی آنکھ والے آوینگے یہانتک کہ جب وہ لوگ نہر کے کنارے وارد ہونگے.تو اسکے لوگ تین گروہ پر علیحدہ ہوں گے ۱۲.سان سو کھو کر تاہے جو تجھ کو حکم ہوا اور دھیان ن کو شریک والوں کا اہم ہیں میں تیری طرف سے ٹھٹھے کرنیوالوں کو ہو ٹھہراتے ہیں اللہ کے ساتھ اور کسی کی بندگی سو آ گے معلوم کریں گے ۱۲

Page 352

۳۴۵ فإِن أَمَنُوا بِمِثْلِ مَا امَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِن تَوَلَّوْا وَانَّمَا هُمُ في شِقَاقٍ، فَسَيَكفِينَهُمُ اللهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ - سياره - سوره بقى ركوع ١٢- يَاتِهَا الرَّسُولُ بَلغ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النامين - سیپاره - - سوره مائدة - رکوع.1 - دیکھو قرآن میں کیسے کیسے وعدے نصرت و امداد الہی کے موجود ہیں.ایک مسکین اور غریب گروہ کو کثیر التعداد امراء اور روسا اور سپہ لاروں کے سامنے پھر انکے مذہب اور بت پرستی اور رسومات باطلہ کے مقابلے خالص خدا پرستی اور نئے اور عمدہ رسوم کی خوبی کا بیان.پھر یہ صرف جھانسا اور مصنوعی دعوئی ہی نہیں بلکہ اسکی صداقت اور سچائی تمام دنیا آنکھ سے دیکھ سکتی ہے.ہنی اور مسخرہ پن کرنیوالوں کا نام ونشان عرب میں نہ رہا.عداوت شتقاق خواب و خیال ہو گئے.نبی عرب خدا کی حفاظت سے صرف خدائی بلاہٹ پر دنیا سے عالم بالا کو تشریف لے گئے.آپ کی عظمت اس آیت سے بھی ظاہر ہوتی ہے.وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ قُلْ لَسْتُ عَلَيْكُم بِوَكيْلٍ لِكُلِّ نَبَاء مُسْتَقَر وسوف تَعْلَمُونَ ، سیپاره..سوره انعام - مر كوع - اہل کر جب آپ کو سخت سخت تکالیف پہنچاتے تھے.اور اسلام کے استیصال پر کمربستہ تھے.تو آپ نے اپنی کلام پڑھ سنایا اور کہا.لے پر اگر وہ بھی یقین اور اینطوری بر تمرین اسے تورام پاویں اور اگر پھر یہ ہیں.تو اب کہیں میں ضدیر.سواب کفایت ہے تیری طرف سے ان کو اللہ اور وہی ہے سنتا جہانہ ہوا - ہیل اے رسول پہنچا جو انزا تیرے رب کی طرف سے اور اگر یہ ہ کیا تو نے کچھ نہ پہنچا یا اس کا پی ام اور اللہ تجھ کو بچا لیگا لوگوں سے" ملے اور اُس کو جھوٹ بہن یا تیری قوم نے اور یہ حقیق ہے تو کہ کہ میں نہیں میر داروغہ ہر چیو کا ایک وقت ٹھہرا رہا ہے اور آگے جان لو گے ہوا

Page 353

وكان مِن قَرْيَةٍ هِيَ أَشَدُّ قوة من قريتك التي أخرجتك اهل انا هم فَلا نَاصِرَ لَهُم - سیپاره ۲۶ - سوره محمد - رکوع ۶ - وَضَرَبَ اللهُ مَثَلَا قَرْيَةً كَانَتْ مِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كل مكان فكفَرَتْ بِانْعُمِ اللهِ قَادَ افَها الله لباس الجوع والخوب بما كانوا يَصْنَعُونَ، سیپاره ۱۴ سوره نحل - مرکوع ۱۵ ولقد و لَقَدْ جَاء هُمْ رَسُولَ ر سول مِنْهُمْ فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظُلِمُونَ سیپاره ۱۴ - سوره نحل - مرکوع ۱۵ - پر غور کرو سوچو.تامل کرو.آپکی میں کیسی راست ہوئیں اور ناسمجھ کگار بدکردار کیسے ملاک ہوئے.کامیابی بھی راستی کی بڑی دلیل ہر خصوصا جب تکذیب کنندوں کی ہلاکت کے ساتھ ہو.خدا کو نوح کی قوم کا غرق کرنا اور عاد کی قوم کو ریح صر صر کے ساتھ تباہ کر دینا صالح کی قوم کا لڑک سے نیست و نابود بنانا شعیب کی قوم پر یوم ظلہ کی ذلت بھیجنا.لوط کی تکذیب سے قوم لوط اور انکی بستیوں کو تہ و بالا کر دیا.فرعون کے لاؤ لشکر کو بحر قلزم میں فناکرنا.یہ سب باتیں انبیاء کی کرامات اور انکی دوجاہت ہیں.تمام سورہ شعرا میں اس کا مفصل بیان موجود ہے.اور جہاں آیت ختم ہوتی ہے وہاں آتا ہے.ان اور کتنی تھیں بستیاں جو زیادہ تخصیص زور میں اس تیری بستی سے جس نے تجھے کو نکالا ہم نے ان کو کھا دیا.پھر کوئی نہیں اُن کا مددگار ۱۲.اور بنائی اللہ نے کہاوت.ایک بستی تھی.چین امن سے چلی آتی تھی.اُس کو روزی فراغت کی ہر جگہ سے.پھر نا شکری کی اللہ کے احسانوں کی.پھر چکھایا اس کو اللہ نے مزہ کہ اُن کے تن کے کپڑے ہوئے بھوک، اور ڈر بدلا اس کا جو کرتے تھے ۱۲.- ے اور ان کو پہنچ چکا سو انھیں میں کا پھر اسکو پھٹ یا پھر پکڑ ان کو عذاب نے اور وہ گنہگار تھے.

Page 354

۳۴۷ ان في ذلك لآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ ، سیپاره 19 - سوره شعراء- رکوع ۱ - - پھر بہت انبیاء کی نسبت اس طرح قصص کرتے کرتے قرآن کہتا ہے اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے.فَاصْبِرُ اِنَّ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ، سیپاره ۱۲ - سورة هود - رکوع ۴ - اور کہتا ہے.ان يكذِبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادُ وَ ثَمُودُ وَقَوْمُ إِبْرَاهِيمَ وَقَوْمُ لُوطٍ وَ اصْحَابُ مَدينَ وَكُذِبَ مُوسى فَامْلَيْتُ لِلْكَافِرِينَ ثُمَّ أَخَذ تم فكيف كان تکثیر - سیپاره ۱۷ - سوره حج - رکوع ۶ - غرض ان تمام مکیہ آیات میں دیکھو.جب کہ مسلمان نہایت کمز ور تھے کیسی کیسی پیشینگوئیاں ہوئیں اور صرف پیشین گوئی ہی نہیں تھی.بلکہ نصرت الہیہ کیساتھ تھی.اور پھر غور کرو.کس طرح پوری ہوئیں.ضرورت قرآن ایک پادری نے عدم ضرورت قرآن پر ایک کتاب لکھی ہے اور کتاب کا نام بھی خدم ضرورت قرآن رکھا ہے.اس کتاب کا تمام مطلب ان دو جملوں میں موجود ہے.رسالہ قدم ضرور کے مصنف اور اسکے ہمخیالوں کو قرآن کی ضرورت ثابت نہیں ہوئی اسلئے قرآن ضروری نہیں یا قرآن کے لے اس میں البتہ نشانی ہے اور وہ بہت لوگ نہیں ماننے والے " سے سو تو ٹھیرا رہ البتہ آخر بھلا ہے ڈر والوں کا ۱۲ ادرار و ما می توان سے پہلے نانا کی اس کا ا ا ا ا ا ا ا ا ا اور ان کی قوم اور ان کی قوم اور دین کے لوگ اور موٹی کو جھٹلا یا پھر میں نے ڈھیل دی منکروں کو پھران کو پکڑا تو کیسا ہوا میرا انکار.

Page 355

PNA عمدہ مضامین خدا کی ذات اور صفات اور عبادت، ذخیره کنه تعلق اور معاشرت و ندان و سیاست وغیرہ کی نسبت اور اخروی حساب و کتاب یا جزا اور سزا وغیرہ کے متعلق مع ضروری تواریخ قدیمیہ کتب سابقہ انبیاء میں تفصیل موجود ہیں پس قرآن کی کوئی ضرورت نہیں.یہی دو دعوے عدم ضرورت قرآن کیلئے رسالہ عدم ضرورت قرآن کے مصنف نے بیان کئے ہیں.جواب او نادان کیا تو اپنی تلاش سے خدا کا بھید پا سکتا ہے.(یاد رکھوں انسان اس کام کو جو خدا شروع سے کرتا آتا ہے نہیں دریافت کر سکتا.میں نے خدا کے سارے کام پر نگاہ کی اور ان کہ انسان اس کام کو سورج کے نیچے کیا جاتا ہے دریافت نہیں کرسکتا.اگر چہ انسان محنت سے اس کام کا کھوج کرنے پر کچھ دریافت نہ کریگا.نہایت یہ ہے کہ حکیم ہر چند گمان کرے کہ اسکو معلوم کریگا.پراس کا بھید کبھی نہ پاسکے گا.واہ خدا کی دولت اور حکمت اور دانش کی کیسی گہرائی ہے.اسکی عدالتیں در فایت سے کیا ہی پڑے ہیں.اور اُسکی راہیں پتہ منے سے کیا ہی دور میں کس نے خدا کی عقل کو جانا ہے یا کون اس کا اصلاح کار رہا.پادری صاحب کیا پہلا انسان تو ہی پیدا ہوا.کیا تو پہاڑوں سے پہلے بنایا گیا.کیا تو نے خدا کے بھیدوں کو سن پایا.سنو پادری صاحب.تمہاری اور تمہارے مہمخیالوں کی نسبت قرآن پہلے ہی کہ چکا ہو.اور ضرورتیں بتلا چکا ہو.دیکھو کيلى ضرورة پھلی قَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ اسنوا بالذي أنزلَ عَلَى الذين امنواوجة ے اور کہا ایک گروہ نے اہل کتاب ہی سے ان وہ کچھ اثر مسلمانوں پر دن پڑھے اور منکر ہو جاؤ آخر دن شاید دے

Page 356

MNG النَّهَارِ وَكَفَرُوا أَخرَة لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ وَ وَلَا تُؤْمِنُوا إِلا لِمَنْ تَبِعَ دِينَكُمْ، قُلْ اِنَّ الْهُدَى هُدَى اللهِ أَن يُولَى اَحَ مِثْلَ مَا أُوتِيتُهُ أَوْ يُحَ الجُوَاكُمْ عِندَ رَبِّكُمْ - قلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَنَا ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيدُه يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيدِ، سیپاره ۳ - سورة ال عمران رکوع ۸ - ان آیات میں بہت سی باتیں بتاکر باری تعالی فرماتا ہوکہ نبوت اور قرآن خداوند کریم کا فضل ہو اور فضل کے دینے میں اللہ تعالیٰ کو اختیار ہو جسے چاہے اپنے خاص فضل سے مخصوص کرے.خدا کا وہ ارادہ جس سے وہ اشیاء پیدا کرتا ہے.اس کی تکمیل ایک لا بدی امر ہے.کیونکہ اس قادر مطلق کی قدرت اور طاقت کے واسطے کوئی مانع نہیں.اسی ارادہ ازلی کی تکمیل کی ضرورت نے نزول قرآن اور نبوت محمد عربی کو ضرور پورا کر دیا.مثلاً نادانی سے کوئی کہے کہ پطرس اور یوحنا وغیرہ تو مسیح کے حواری ہو چکے تھے پولوس کو حواری بنانے کی کیا ضرورت تھی.تو اس کا ٹھیک جواب یہی ہوگا اور جتنے سوار کیا ہونیکے لیے ازل میں منظور ہو چکے تھے.وہ صہ ور سواری ہوئے.ضرور دوسرى ضرورة جن لوگوں کو پولوس کے ذریعے اور وساطت سے ایمان لانا تھا.اُنکے لئے پولوس کا آنا ضرور تھا.ایسا ہی جن لوگوں کو قرآن اور کرم صلعم کے ذریعے ایمی ندار ہوتا اور خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا تھا.ان کیلئے قرآن کا آنا اور میں مسلم کا بادی ہو نا ضرور تھا عرب کا ہو ی بت پرستی اور انکا باہمی ہمیں کینہ و عداوت کس فریم نے دور کیا.کیا یہودی نے ان کو وحده لا شريكَ لَہ میں ایک کر دکھلایا.کیا عیسائی اخلاق کی تاثیر اُن کے بغض و عداوت کو دنیا بقیه ای برای او یا یقین نہ کیا گیا اور پہلے تمہارے دین پر تو کہ ہدایت ہے جو ہر ایت الہ کرے.یہ اس واسطے ہ اور کو ملا.جیساکچھ کو تھا.یا مقابل کیا تم سے تمہارے رب کے آئیں تو یہ بڑائی اللہ کے ہاتھ ہو رہا ہے جس کو دیتا چا ہے.اور اللہ گنجایش والا ہے.خبردار خاص کر تا ہو اسی مہربانی پر ہی ہے.امیراشد کا تفصل بڑا ہے."

Page 357

۳۵۰ سے معدوم کر گئی.دریا ان آیات کی پر تاثیر آواز تھی جس نے دھر کے دم میں انکے کاٹے پلٹ دیئے.اعْتَصِمُ والحَبْلِ اللهِ جَمِيعًاوَ لَا تَفَى قُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْكُنْتُمْ أَعْدَاء فَأَلْفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَى شُفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَ كُمُ منها سیپاره ۴ - سوره آل عمران - رکوع ۱۱ - تیسری ضرورت كانَ النَّاسُ امَةً وَاحِدَةً تَن فَبَعَتَ اللهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ مَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الكتب بِالْحَقِّ لِيَحْكُم بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فيهِ - سیپاره ۲ - سوره بقره - رکوع - ان هذا القُرآنَ يَقُصُّ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَكْثَرَ الَّذِي هُمُ فِيْهِ يَخْتَلِفُونَ.سیپاره ۲۰ - سوره نمل - رکوع ۶.ان آیات میں قرآن نے ظاہر کیا ہے کہ جب بڑے بڑے دینی اور نہایت ضروری امور میں لوگوں کا اختلاف پڑ جاتا ہے.تو اس وقت خدا کی طرف سر اختلاف مٹانیوالی کتاب نازل ہوتی ہے.یہود میں فریسیوں کا اعتقاد تھاکہ وہ ابراہیم کی راستیاز کی سے راستباز ٹھہر کر نجات پاویں گے.قرآن نے بتا دیا.ے اور مضبوط پکڑو رتی اللہ کی دین اسلام سب ملکر اور پھوٹ نہ ڈالو.اور یاد کر و احسان اللہ کا اپنے اوپر جب تھے تم آپس میں دشمن.پھر اگفت دی تمہارے دلوں میں.اب ہو گئے اس کے فضل سے بھائی.اور تھے تم کنارے پر ایک آگ کے گڑھے کے پھر تم کو خلاص کیا اس سے ۱۲.لوگوں کا دین ایک تھا.پھر بھی اللہ نے نبی خوشی اور ڈر سنانے والے اور آتاری اُن کے ساتھ کتاب سیتی که فیصل کرے لوگوں میں جس بات میں جھگڑا کریں ۱۷- سے یہ قرآن سُناتا ہے بنی اسرائیل کو اکثر چیز جس میں دے پھوٹ رہے ہیں ۱۲.

Page 358

۳۵۱ وقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلا أَيَا مَا مَعْدُودَةً ، قُلْ اتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللهِ عَهْدًا فَلَن تُخْلِفَ اللهُ عَهْدَةُ امْ تَقُولُونَ عَلَى اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ عَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَ أحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولئِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ ، سیپاره 1 - سورة البقى - رکوع ۹- اسی لیے فرقے یہود کے خلوت نشین اور حتی سنتی مینگلوں میں وحشیانہ زندگی بسر کرتے تھے اور عیسائی پوپوں کی طرح خداد اد انعامات سے محروم تھے.اس بیجا تشدد کو آیت ورهبانية بِابْتَدَعُوهَا مَا كتبتها عليهم - سیپاره ۲۷ - سورة الحديد - رکوع فرما کر مٹادیا.اور قدرتی انعامات سے متمتع ہونے کے لئے آیہ لوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالحه سياره ١٨- سوره مؤمنون رکوخ قُلْ مَن حَرَمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَ الطَّبَتِ مِنَ الرِّزْقِ سياره، سوره اعضا - كوكي کا فرمان راحت عنوان جاری فرمایا.پھر یہود نے حضرت مسیح جیسے منجی اور ہادی کا انکار کیا.اور پرلے درجے کی بے دینی سے انکی جناب میں نامناسب کلمات کہے.بلکہ اپنی نادانی سے نیچے مسیح کو چھوڑ کر وہی مسیح کے منتظر ہو گئے.اور قرآن نے یہود کو بتلا دیا.کہ مسیح آچکے.اور ہزاروں یہودوں کو منوا دیا.اور انپر جنہوں نے انکار کیا الزام کو کامل کر دیا.ایسے مدعی کے لئے جو آپ حکم نہ دے سکے.اپنے مدعا علیہ کے عزم کرنے کے لئے صاحب حکم کی ضرورت اور کہتے ہیں ہم کو آگ نہ لگے گی.مگر کئی دن گنتی کے.تو کہ کیا لے چکےہو اللہ کے یہاں سے قرار تو اللہ قلات کہ یا الہ اپنا اقرار یا جوڑتے ہو اللہ پر جو معلوم نہیں رکھتے کیوں نہیں جس نے کما یا گناہ اور گھیر لیا اس کو اُس کے گناہ نے سوڈیسی ہیں لوگ دوزخ کے.اسی میں رہیں گے ۱۲ - اور ایک دنیا چھوڑ نا انہوں نے نیا نکالا.ہم نے نہیں لکھا تھا یہ اُن پر ۱۲.اے لوگو کھاؤ تھری چیزیں اور کام کر د بھلا ۱۳ - ہے تو ہر کر نے منع کی ہے روفی اللہ کی جو پیدا کی اس نے اپنے بندوں کے واسطے اور ستھری چیزیں کھانے کی.

Page 359

پڑتی ہے.دیکھو یوحنا کے ۱۲ باب ۷ ہم میں سبیح فرماتے ہیں.جو کوئی مجھپر ایمان نہ لاوے.میں اسپر حکم نہیں کرتا.معلوم ہوا حضرت سے بیس میں حکم کا اختیار نہیں رکھتے.اور مرقس ۱۶ باب ۱۷ میں فرماتے ہیں.جو کوئی ایمان نہیں لاتا اسپر سزا کا حکم کیا جا ویگا.معلوم ہوا.کہ مسیح کے بعد زمانہ میں مسیح کے منکروں پر حکم ہو گیا.اس واسطے ضرور ہوا.کہ قرآن اور صاحب قرآن آوے اور حضرت سیج کے سچا نسیم ہونے کی گواہی دیگر اختلاف کو مٹادے اور منکر کو ملزم کرے پھر حضرت سی جیسے ریم و کریم سکین و خاکسار آدمی کی نسبت غلو شروع ہو گیا.اس مقدس این انسان کی الوہیت کا بے وجہ دعویٰ کیا گیا.بلکہ کیتھولک فرقے نے بقول میشیم اور مالیم حضرت بی کی والدہ مریم صدیقہ کو امیت تثلیت کا مستم یقین کیا.کالر حرین حضرت مریم کی تصویر کو گوٹے کناری کے کپڑے پہنانے لگے اور شیر مال کی روٹی اُن پر نذر پر پانی شروع کر دی.منیس کی مجلس میں خدا باپ کے علاوہ اور دو خدا یکی مجلس میں: مسیح و مرکہ مانے گئے.فطرت انسانیہ اور نور ایمان ایسے لغو مسائل پر انکار کرنیکے لئے مضبوط کر باندھتے ہیں مگر اس تو تم کا لشکر اپنے سر پر ٹوٹ پڑتا ہو کہ دیکھ تجھے قانون قدرت کا مسلم پورا نہیں.خدائی اصرار پر پہنچنے کے لئے تیری رسائی نہیں.الہا نے ان مسائل پر اعتقاد کر، اسواسطے الہانا فطرت سلیم اور عقل مستقیم بیچے صاحب الہام کے فیصلے لینے کو ضرور متوجہ ہوتی ہے.الہام نبوت کے خاتم نے زور سے فرما دیا مسیح کی الوہیت الہامی نہیں.یہ اعتقاد ثبت پرستی اور کفر کی بڑ ہے.ی عقاید کی بیکینی اس وقت تک شروع نہ ہوئی جب تک عرب کے میدان سے سیجی سر یہ نش عیسائیوں پر نہ ہوئی.هم ورهبان ٹھہرائے ہیں اپنے عالم اور درویشوں کو خدا اللہ کو چھوڑ کر ۱۲ بسیار یہ

Page 360

۳۵۳ مندا در ایران مقتصر اور یونان بے ریب علوم و تحقیقات کے مخزن تھے.الا بت پرستی کے عام رواج نے ان ملکوں میں یہ طاقت کہاں باقی رکھتی تھی کہ مریم یا سیخ کی الو ہمیت کا کھلا باطل مسئلہ.اور عشائی ربانی میں روٹی اور شراب کا حقیقتا نہ مجاز مسیح کے گوشت اور لہو ہو جانے کا وہم اہل دنیا کے دلوں سے اُٹھاتی.پھر عرب کے سے جاہل اور سخت بت پرست ماہ سے کیا امید تھی کہ ان توہمات کا مقابلہ کرتا.کفارے کی لغو امید نے لوگوں کی یہ حالت کر دی تھی کہ اُن کے دلوں سے گناہ کا ڈر اُٹھ گیا تھا.کیونکہ پی سیج پر ایمان لانے والوں کے بدلے میں خود بسیج مطعون ہو گئے اور دہی سزا یاب ہو گئے.تو ایسے مومن کو بوسیح پر ایمان لایا گناہ کا ڈر ہی کیا رہا.جب کفر و شرک کی ایسی گھٹا چھائی ہوئی تھی.تو قرآن کی سخت ضرورت ہوئی.کہ دنیا میں اُترے.تاکہ حضرت مسیح سے ان اتہامات کو دور کرے اور دنیا میں خالص توحید کو جو اصل اور مقصود بالذات مواعظ ابراہیم اور موسی اور عیسے کا ہر پھیلائے.جو اللہ عَنَّا مَنْ نَزَلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ.ابطال الوہیت مسیح میں میں نے علیحدہ مضمون لکھا ہے.اور اُس میں یہ ظاہر کیا گیا ہو کہ بعض عیسائی قرآن کے نہ سمجھنے سے یہ کہتے ہیں کہ قرآن نے مسئلہ تثلیث کو سمجھا ہی نہیں.اور انسانیت کو ہیت کے اجتماع پر قرآن نے نظر نہیں کی.پادریوں کی اس غلطی کو وہاں واضح کر دیا ہے.دنیل صاحبکا ترجمہ صفحہ ۳۵- اور گین جلد مدا صفحه ۲- ۳ - موشیه جلد به صفحه ۲۳۲) چوتھی ضرورت دنیا میں انبیاء کی پاک تعلیم نے خدائے تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی اور اس کے عدل اور قدوسیت اور رحم اور قدرت کاملہ اور ربوبیت عامہ کا وعظ پھیلایا اور جنس مصلحان قوم نے بھی جن کی فطرت سلیم اور قوت ایمانی مستقیم تھی توحید کو حمدگی سے بیان فرمایا.مگر ان کے اتباع نے آخر اپنے ہاوسی ہی کو معبود بنا لیا.حضرت مسیح نے خداوند کریم کی بزرگی و عظمت کو

Page 361

سرم ۵ سر بیان تو کیا.مگر آخر عیسائیوں نے مسیح کو خدائے مجسم کہ دیا.بلکہ خوش اعتقادوں نے اُن کی والدہ مریم صدیقہ کو بھی مستمر با بیت تثلیت تجویز کیا.آریہ ورت مکمار اور عوام سری کرشن جی اور سری رامچندر جی کو خدا کا دو تار کہ اُٹھے گرو تا نیک صاح بے تارک الدنیا اخلاق مجمر پھیلے گرد صاحب کو او تار بنا گئے.پس ایسے واعظوں کے تعلیم یافتہ پیروں کی یہ حالت کیوں ہوئی.صرف اسلیئے کہ مریدوں کی اپنے ہادی سے دلی محبت سابقہ بت پرستی کی عادت سے مکر نور ایمان اور عقل صحیح پر غالب آگئی.اور کوئی ایسی قو می روک اُن کے ہادیوں نے نہیں رکھی تھی.جسکے ذریعے توحید مخالص اُنکے مشرکانہ طبائع کو فتح کرلیتی ہیں جب عیسائیوں اور ہنڈوں رسکھوں کے مقدس لوگوں کو شرک کرتے دیکھتا اور اُن کی زبان سے سنتا ہوں کہ وہ کہتے ہیں.ہمارے ہادی خدائے مجسم اور اوتار تھے.تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ بیشک یہ سچا سچے خدا کا کلام ہے.مَا كَانَ مُحَمَّدُ أَبا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِ وَلَكِن رَسُولَ اللهِ : خَاتَرَ النَّبِينَ.اور سیپاره - سوره احزاب رکوع ۵ - تفصیل اس اجمال کی ہے سنے کہ محمد مسلم نے عملا اور اُن کی اُمت نے حسب تعلیم معملا اپنے ہادی کے اصولاً اقرار تو میکے ساتھ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ! اقرار کو لازمی کیا ہو.اس کلمے کے ایزاد نے جوکچھ اثر دنیا پر دکھلایا وہ بالکل ظاہر ہے.اور یہی اس کے منجانب اللہ ہونے کی زبردست شہادت ہے.ہندوستان کے ہادیوں نے ملکہ ھے سکتے کی خطرناک پوچھا اور گنگ کی خلاف تہذیب پرستش و کم نہ کیا.اور یہود نے طافی کی پو جا اُس وقت تک نہ چھوڑی جب تک.ہ محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں لیکن رسول ہے اللہ کا اور مہر سب نبیوں پر ۱۲

Page 362

۳۵۵ الم تَرَ إِلَى الَّذِينَ أوتُوا نَمِي مِنَ الكتبية منون بالجبت والطاغوت سیپاره ۵ سوره نساء - اکوع ۸ - کی صدا عرب سے نہ سنی.عنوان نبی ناصری کی بڑی کوششوں اور محنتوں اور تکالیف بلکہ جا افشانیوں کو میں کس کامیابی کا بناؤں.جبکہ وہ آپ اور اُس کی ماں دونوں کو معبود قرار دیئے گئے مسیح تو عموما تمام عیسائیوں کے معبود ہیں اور انکی والدہ خصوصا رومن کیتھونک کے یہاں پوجی جاتی ہیں.بیشک انبیاء علیہم السلام کی تعلیم اس تکمیل کی محتاج تھی کہ وہ اپنی خالص عبودیت کو است وہ دینی تعلیم کا ضروری جز و قرار دیتے.اس ضرورت کو صرف قرآن اور محہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کی تعلیم نے پورا کیا.اسی فقرے کے اثر نے عرب جیسے خالص بت پرست، ملک سے بت پرستی کا استیصال ہی نہیں کیا.بلکہ یہود بھی چونک اٹھے.با اینکہ ہمیشہ مرتد ہو جاتے اور بت پرستی کرتے تھے.جیسے قاضیوں کی کتاب اور اُنکے بچھڑوں کی پرستش کرنے وغیرہ امور سے ظاہر ہے.اور آریہ کے معزز باشند سے دھوئی کرنے لگے کہ ہمارے مقدس وید ثبت پرستی کے دشمن اور توحید خالص کے حامی ہیں.پانچویں ضرورت خدا کی تو حید ذاتی اور توحید صفاتی کی تعلیم سے توحید ربوبیت کہتے ہیں اجمالا ور علما تمام تا ریخی مذاہب میں موجود ہے.اور ان مذاہب کے پیرو باری تعالے کی یکتائی ذات اور صفات میں بے شک ظاہر کرتے ہیں.اور اس کے مقر ہیں.الا وحید الوہیت کے پر تاثیر اور کامل واعظ حضرت قرآن کو اس فخر کا تاج پہنایا گیا.کہ اس نے ہر تہ اقسام توحید کو ہزاروں پہلوؤں اور مختلف انداز بیان سے مکمل کر دیا مخفقوں اور علمائے اسلام کا حال ان تو نے نہ دیکھے جن کو سنا ہے کچھ حصہ کہ آپ کا منتے ہیں ہوں اور شیطانوں کو.

Page 363

میں کیا لکھوں اُنکے حالات اور کمالات سے قطع نظر کر کے اگر زوائد اور رسومات کو نظر انداز کیا.جائے تو قرآن کے عام پیروؤں میں جاہل سے جاہل اور انتھی کیوں نہ ہو.جیسی تو حید کی زبر دست جڑ لگی ہوئی ہے.کسی اہل مذہب میں اس کی نظیر نہیں.اور اسی لئے وہ واجب التعظیم شخص جسپر ایسی کامل اور مکمل کتاب نازل ہوئی.واجبی او حقیقی استحقاق خاتم الانبیاء والمرسلین ہونے کا رکھتا ہے.اسرائیلی انبیاء برابر فرشتوں کے آگے سجدے کرتے اور انکو مالک اور خدا وندیپکار پکار کر اپنا محمد اور معاون جانتے.اور اُنکے آگے قربانیاں گذرانتے رہے.دیکھو یشوع کے وقت یشوع نے آنکھ اوپر اٹھائی تو دیکھا.ایک شخص تلوار کھینچے ہوئے کھڑا ہے کہ میں خدا دند کے لشکر کا سوار ہو کے آیا ہوں.تب یشوع زمین پر اوندھا گیا.اور سجدہ کیا.اور اس سے کہا.میرا ملک اپنے بندے کو کیا ارشاد فرماتا ہے.خدا کے لشکر کے سردار نے یشوع کو کہا.اپنے پاؤں سے جوتی اُتار کیونکہ یہ مقام جہاں تو کھڑا ہے مقدس ہے.محمد صلم کی تکمیل یہ تھی کہ توحید الوہیت کے وعظ سے جسے توحید فی الْعِبَادَتْ کہتے ہیں.اپنی بات کے ماننے والوں کو پورا موحد بنا دیا.فِدَاهُ أَبِى وَ أُمي اور ساد خدائی پرستش کے کام کو تعلیماً پورا کر دیا.اس میں سے قول کی شہادت موسی کے بعد یہود کی عام حالت اور محو صلعم کے بعد عرب کی حالت مقابلہ کرنے سے ظاہر ہوتی ہے.موسیٰ علیہ السلام پہاڑ پر تشریف لے گئے.اور اُنکے پیچھے بچھڑو کی پرستش شروع ہو گئی.بلکہ عیسائی عالموں کے نزدیک حضرت ہارون جیسے کاہن گوسالے کے بنانے والے ٹھیرے.اور کتاب قضات کے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ بنی اسرائیل کیسے جلد جلد مرتد ہو جاتے تھے.بخلاف اس کے عرب کے لوگ تیرہ ستر برس گزر گئے.اب تک بت پرستی کے ه ۵ باب ۱۵ شمع ، باب خروج ۹.اور خروج ۱۴ باب ۱۲۱۶

Page 364

۳۵۷ قریب بھی نہ گئے.چھٹی ضرورت ابراہیمہ کے پکوٹھے اسمعیل کے حق میں خدا تعالے نے برکت کا وعدہ کیا.اس وعدے کا ایفا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہونے تک دنیا میں مخفی رہا.ساتویں ضرورت موسی نے اپنے مثل نبی کے قائم ہونے کی پیشین گوئی فرمائی تھی.اور وہ پیشین گوئی اسوقت تک تصدیق نہ ہوئی جب تک اُس کا مصداق نہ آیا.اور سب اس پیشگوئی کا مصداق آگیا.تو اُس کی تصدیق ہوئی.سوال.محمدی تعلیم کی فضیلت ثابت کرو، کیونکہ اگران اقتباسات کو جو مقدسہ کتا ہے قرآن میں مندرج ہوئے ہیں نکال دیں.تو محمد صاحب کی خاص تعلیم ناقص پائی جاتی ہے.یہ اسلام تو مقدسہ کتب کا اقتباس اور محمدی عندیات کا مجموعہ ہے.جواب مل کے خیر خواہ اور قوم کے مصلح لوگ انبیاء علیہم السلام ہوں یا حکمائے عظام بشرطیکہ اس پچھلے گروہ کو طمع دامنگیر نہ ہو.اور نبوت کے چراغ سے روشنی یافتہ ہوں.تو وہ ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں میں سے اُن کی موجودہ برائیوں کو دور کریں.اور آئیندہ کے خطرات کا ایسا انتظام کریں جسکی باعث قوم اور عظام: ملک کی آئندہ نسلیں برائیوں سے محفوظ رہیں.سچے مصلحان ملک اور خیر خواہان قوم کا یہ بھی فرض ہوتا ہے کہ اگر ملک یا قوم میں آنکھی باتیں موجود نہ ہوں تو آئندہ وہ عمدہ باتیں پیدا کر دکھلائیں.یا پیدا کرنے کی کوشش کریں.کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگوں میں عمدہ باتوں کے اصول موجود رہتے ہیں.الا.ملک کی آب و ہوا اور قوم کے رسومات اور حکام کے ظلم یا یاشی اورتعلیم کی کمی یا

Page 365

۳۵۸ اصول حقہ کے ساتھ ناقص تعلیم کے ملجانے سے وہ عمدہ اصول چند برائیوں کے ساتھ ملھجاتے ہیں مسلمان یہ بھی ہوتاہے کہ ان عمدہ کو ناپاک عوارض سے و مصلحان قوم کا یہ بھی فرض ہوتا ہے کہ ان عمدہ اصولوں کو ناپاک عوارض سے پاک و یہ قوم پر فدا اور قوم کے دلدادہ بُرائیوں کے دشمن اور راستی کے جان دادہ ہوتے ہیں.انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اور حکمائے عظام کے وجود با سود سے تعظیم فائدہ دنیا کو پہنچتا ہو کہ وہ ان سب محمدہ رسوم اور پاکیزہ اصول کو جو انکے ظہور اور بعثت سے پہلے اُنکی رائج چلے آتے ہیں.خواہ وہ بطور عادت ہوں یا بطرز عبادت ادیان حصہ کا قوم میں را بقیہ ہوں یا کتب مقدسہ کا عطیہ انہیں انکی حالت پر قائیم اور بحال رکھتے ہیں.قوم اُس سوتے آدمی کے مانند ہوتی ہے جس کے دائیں بائیں آگے اور پیچھے ہرقسم کا سامان عیش و آرام کھانے پینے پہنے اور دیکھنے کا موجود ہو.الہ وہ غافل اس کے استلذاذ سے محروم ہو.اور نبی اُس بیدار اور ہوشیار خیر خواہ کے مثل ہوتا ہے.ہجو باقتضائے فطرت اور جبلت کے اس سوئی ہوئی غفلت ی ماری قوم کو جگاتا ہو اور اس سوئی ہوئی قوم کو ان آرام کی اشیاء سے بہرہ مند ہونے کی ترغیب دیتا ہو.انبیا علیہم السلام قدرتی صنائع اور بدائع کیطرف جن سے قوم غفلت کیوں سے چشم پوشی کر رہی ہے.توجہ دلا کر قوم کو خالق کا عاشق بنانا چاہتے ہیں.اور قدرتی اشیاء میں تدبر اور تفکر کی ترغیب دلا کر صانع عالمہ کا شکر گزار کرتے ہیں.کیا وہ کوئی امر اپنی اٹکل سے گھڑ کر و ہمیوں کا دل لبھانا چاہتے ہیں.اور کیا وہ مافوق الفطرة کرشمے دکھلا کر تو ہمات میں پھنسانے کی طرح ڈالتے ہیں.نہیں اڑھائی اینٹ کی جدا مسجد بنانا اُن کا کام نہیں اور یہی بات بقول ایک خیر خواہ اسلام کے انکی راستی اور سچائی خیر خواہی اور بے ریائی کا شان ہے.فِدَاهُم الى وامى -

Page 366

۳۵۹ کہا جسے کہا.کیس کا فرمت وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس قسم کے مدرسوں کی اس رانتی اور راست بازی کی قدر نہیں کی.بے ریب اسلام ان تمام خوبیوں کا مجموعہ ہے.جو اسلام کے سوا اور مذاہب میں فردا فردا موجود ہیں.قرآن کو کہہ بلکہ اسلام کو بیشک یہ فخر حاصل ہو.اگر صحیح الفطرة اور تقسیم العقل والے اسلام بیش سچے منصف بیجا تعصب کی آفت سے بچے ہوئے اسی پر خوش دل سے کہدیں سو ع آنچه خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری، ناظرین سُنو اور دل کی کھڑکیاں کھول کر نیچے دل سے سنو.اسلام انسان کی داخلی اور خارجی مگر مجھولی اور کھوئی ہوئی باتوں کو ہم ہی سے لیکر اور اسی عالم ناسوت اور مشاہدے سے لے کر ہمپر وار دکرتا ہے.اسی راستی اور پانی کی تائید اور حقہ اصول کے بحال رکھنے کے باعث اسلام کی حقیقت نہ سمجھنے والوں نے اسلام کو اقتباس کا الزام لگایا.میرا یہ کہتا کہ قرآن ان تمام خوبیوں کا مجموعہ ہے.جو دوسری کتابوں میں پائی جاتی ہیں.اور تمام آن پاک مضامین پر حاوی اور مشتمل ہے.جو اور اور انبیاء کی مقدسہ کتب میں فردا فردا موجود ہیں.بعینہ قرآن کریم میں موجود ہے.وأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الكتب بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَ مُقِيمِنَّا عَلَيْهِ - سیاره ۶ - سوره مائده - رکوع - ہاں قرآن مجید کتب مقدسہ کے ان قوانین سے اختلاف رکھتا ہو جو مقدسہ کتب میں مختص الزمان يا نفس المكان يا مختص القوم تھے.اور اسی اختلاف کے باعث سے اسلام کے نا آشناؤں نے اسلامہ کو اقتباسات اور عندیات کا مجموعہ خیال کیا ہو.یہود میں قیام کے منکر لوگ بھی موجود تھے.(فرقہ صدوقی) یہود میں ایک فرقے کا اور تھپر اُتاری ہم نے کتاب تحقیق سچا کرتی سب انگلی کتابوں کو اور سب پر شامل ۱۲.

Page 367

یہ بھی عقید ہ تھا.کہ بنی اسرائیل ابراہیم کی اولاد ہیں.ابراہیم کی راستبازی سے ضرور راستباز ٹھہریں گے (دیکھو عقاید فرقہ فریسی، عیسائیوں میں حضرت مسیح کی پرستش سے شرک جیسی بڑی آفت لکھو کہا بندگان الہی کے رگ و ریشے میں پھیل رہی تھی.رومن کیتھولک وغیرہ میں حضرت مسیح کی والدہ مریم صدیقہ کی عبادت نے جو ہند و عرب کی بت پرستی سے کسی طرح کم نہیں ہزار ہا مخلوق کی عقلی قومی پر چھری پھیر دی.عشائے ربانی کی رسم نئے جس میں رومن کیتھولک کا یہ عقیدہ بجز و ایمان ہے.کہ روٹی کے وہ ٹکڑے ہو شراب میں ترکیئے جاتے ہیں.اور وہ شراب حقیقت اور فی الواقع نہ مارا حضرت مسیح کا گوشت اور خوں ہو جاتی ہے.ایک جم غفیر کو انقلاب ماہیت کے کن بڑے تو ہمات میں پھنسا رکھا تھا جب کے سامنے کیمیا گروں کی بو الہوسی اور ثبت پرستوں کا مورتوں کو بیودان دینا اور اُنکا ادارہن کرنا بالکل گرد ہے.بین ادیان کی یہ حالت ہو اُن میں سے ایسا اقتباس کرنا جسپر تمام قانون قدرت گواہ ہو.اور جسکے لیے نور ایمان اور تمام قوائے عقلیہ آمنا و صدقنا کہ اُٹھیں کیسی آدمی کا کام ہے.آیا ایک بت پرست جاہل قوم کے نے الہام اتنی کا.نہیں نہیں نہیں بلکہ ایک خاتم الانبیا ر سرور اصفیا کا قداہ ابی و امی.ہم کو اس بات کے دیکھتے ہی کمال تعجب ہوتا ہو کہ عیسائیوں نے اپنی کتابوں اور تحریروں میں کیوں اس امر کے ثابت کرنے میں اس قدر بے فائدہ کوشش کی ہے.اور اپنا وقت ضائع کیا ہو.اور قوائے عقلیہ دماغیہ کو صرف کیا ہو جب سے ہم مسلمانوں کے مذہب میں بڑا تعلق ہو.اور پچھلا پہلے پر مبنی ہے.اور جب وہ اس امر کو نہایت سعی بے حاصل سے ثابت کر چکے ہیں.تو از راہ طعن ہمپر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہمنے فلاں فلاں یہودیوں کے مذہب ہے لی ہے.گو یا مذہب اسلام میں کوئی ایسی بات نہیں ہے.جو خود وہ اصول پر قائم ہو.بلکہ یہودیوں کے یہاں سے اقتباس کیا ہوا ہے.اور جب کہ مذہب عیسائی بالکل مذہب یہود کا محتاج ہے ایسا ہی مذہب اسلام بھی مذہب یہود کا محتاج ہے.

Page 368

کیا عجیب عادت ہے کہ جب یہ لوگ قرآن کی بعض تعلیمات اور قصص کو بعینہ توریت اور اپنی کتب مقدسہ میں موجود پاتے ہیں یا بہو کے تالو اور مجوس کی قدیم کتابوں میں دیکھ پاتے ہیں تو چلا اٹھتے ہیں کہ قرآن کتب سابقہ کا اقتباس ہے.راہ رجب بعض تعلیمات اور جدید قصص قرآن کے کتب سابقہ میں نہیں پاتے انھیں محمد صاحب کے عنایات کہدیتے ہیں.غرض دو ہی طرح کی باتیں قرآن میں ممکن تھیں.یا وہ جن کی نظیر اگلی کتابوں میں موجود ہو یا نہ ہو.سو تم اول کو اقتباس کہ دیا اور قسم دوم کا نام عندیات دھر دیا.اگرچہ یہ امر کہ کونساند شب نمانیا عیسائی زیادہ تر مذہب یہود اور دیگر مذاہب قدیمیہ کا محتاج ہے.ہر ایک پر روشن ہے.مگر ہم خوشی سے امر مذکورہ کو تسلیم کریں گے.کیونکہ جو مشابہت ان دونوں (مذہب یہود مذہب اسلام) ربانی الہامی مذہبوں میں پائی جاتی ہے.اس سے انکار کرنے کے بدلے ہم اس کو اپنا نہایت فخر سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمان ہی ایسے ہیں کہ ہر ایک سچے اور خدا کے بھیجے ہوئے نبی کے سچے پیرو ہیں.اور ہم ہی یقین کرتے ہیں کہ آدم و نوح و ابراہیم بقوب و اسحاق و اسمعیل " و موسی و عیسی اور محمد صلوٰۃ اللہ م اجمعین سب کا ایک ہی دین تھا.رحم 40 عليه ہم حیران ہیں کہ عیسائی صاحبان اتنا نہیں سوچتے.کہ خدا تعالیٰ نے مخلوق کو محض اپنی رحمت ایجادیہ سے وجود کا جامہ پہنایا.اور بلا سابقہ سوال یا درخواست یا خدمات و عبادات کے ہر طرح راحت و رفاہیت جسمانی کا سامان موجود کیا.چاند سورج - زمین آسمان - نباتات - جمادات حیوانات.غرض دنیا و مافیہا سب کچھ بنی آدم کی آب کش کے لئے خلق کیا.اب غور کرنا چاہیئے کہ جب

Page 369

" اس رحمن رحیم نے ایک فانی چیز یعنی جسم کی خاطر اسقدر اشیائے عجیبہ ابتداء ہی سے پیدا کر دیں.تو کیا روح انسانی کو جو باقی غیر فانی اور مقصود غائی آفرینش کی ہے.نظر انداز کر دیا ہوگا.نہیں نہیں کون شخص ایک لمحہ بھر کے لئے ایسا خیال کر سکتا ہے.اور اس قدوس کی ذات کامل الصفات پر ایسا عیب لگانا گوارا کر سکتا ہو.بیشک بیشک وہ اسی طرح پر ابتدا ہی سے رُوح کی تربیت و تہذیب کا سامان بھی بانواع مختلف مہیا کرتا چلا آیا ہے.اُس قادر مطلق نے جس طرح پر فیض ناسوتی (متعلق بعالم اجسام) کل اقطار و اطراف عالم پر مبذول فرمایا ہے.ویسے ہی اُمس ہمہ محبت ہمہ رحم نے فیض لا ہوتی در و حمانی کسی قوم کسی فرقے سے دریغ نہیں رکھا.ہر زمانے ہیں.ہر قوم ہیں.ہر ملک میں بلکہ ہر فرقے میں انبیاء بھیجے.اِن مِّنْ أُمَةٍ إِلَّا خَلَا وَيْهَا نَذِيرٌ - ر سیپاره ۲۲ - سوره فاطر - رکوع ۱۲ ترجمہ کوئی فرقہ نہیں میں میں نہیں ہو چکا کوئی ڈرانے والا) کتابیں اتاریں.حکما و علما پیدا کئے.اور خود انسان کی فطرت میں تعلیم و حانی رحمانی کے قبول کرنے کے لئے نور ایمان یا نور فراست ودیعت رکھا.اسلیئے غالب آباد بہائے عالم میں نجر اصول قائم ہو گئے یا ہوتے رہے.تمام اصول کی اصل توحید سب قوموں میں مشترک ہو گئی.اور اصول اخلاقی مثلا شیا سعت.عفت.عدل - رحم کی عظمت اور صفات رزیلہ مثلا بر جنین - شہوت ظلم غضب اور جہال کی برائی کی کل قومیں قابل ہوگئیں.گو نقص دکمال کا تفرقہ ہمیشہ سے چلا آیا اور ان مذاہب میں توحید صفاتی و عبادتی و حق و باطل میں کیا جاتا رہا.الا مادَةُ الأَشْيَاء یعنی توحید ذاتی و اخلاقی وغیرہ ضرور قائم رہی.اور بقدر معمول ہوتی رہی.ہمیشہ سے رب الاخوان کا پیش نیمہ ایک ہی چھاؤنی میں لگا نہیں رہا.اور ایک ہی یونیورسٹی اُس کی تعلیم کا مرکز نہیں رہی.ایک ہی قوم تمام بلاد اور تمام بنی نوع کل بادیوں کی ہدایت کا سر چشمہ نہیں ہوئے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یادی تھے.کو

Page 370

الالم مصلح تھے.بنی نوع انسان کے خیر خواہ تھے.کیا یہ ہوسکتا تھا اور روا تھا.کہ وہ اپنی اڑ جائی اینٹ کی بدا مسجد بناتے.اور کچھ نئی باتیں مافوق الفطرة اپنی امت کو گھر سناتے.شتو سنو.اُس افراط و تفریط کو جو صفات و عبادات ایزدی کے لیے تھی.اُس التباس تخلیط کو جو روحانی مسائل میں بدعتیوں ہوا پرستوں نے وضع کردی تھی، دُور کرنے آئے، اُس کے مٹانے کو تشریف لائے.اُس شہر عالم سوز کو تو مٹایا.اُن مذاہب سے استیصالی کیا.اور اخلاقی تعلیم کو درجۂ تکمیل وحسن تک پہنچایا.گویا قبح کو رد کیا.اور حسن کو بحال رکھا.اور اسی لیے بڑا وسیع التعلیم سچا نبی خاتم المرسلین کے خطاب کا ستخت ہوا.صلوات الله عليه و سلامه.اس مقدس نبی کو کچھ ضرور نہ تھا.کہ اپنی امت کو بعید از قیاس مسائل ہاں معما و چیستاں سکھاتا.اور تثلیث جیسے نغز کی تعلیم دیگر عقل کی رسائی کا ہاتھ کو تاہ کر دیتا.اور اُس کے پر پرواز کاٹ ڈالتا.اپنے پیروؤں کو بیباک ، بے ادب گستاخ سیاہ دروں کرنا اُسے منظور نہ تھا.جو کفارے کا آتشین جام اُنھیں پلاتا.بتکرار مضمون ہم پھر بتائے دیتے ہیں کہ اس رسول نے صرف اتنا ہی کام کیا.اور بڑا کام کیا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی اچھی باتوں کی تصدیق کر دی اور بری باتوں کی تکذیب اللہ اکبر یہی ایک بات ہے.اُس رسول کا ہر ملت کی صداقت کو تسلیم کر لیا.اور اپنی امت کو ہر ایک کی سچی بات مان لینے کی نصیحت کرنا.جسے ہم نے مانا.تصدیق کیا.سمجھا.اور خوب سمجھا کہ وہ رسول برحق ہے.سچا مصلح العالم ہے.اور یہی بارہ سے جب سے منکر کوتاہ فہمی یقت فطرت سے ناواقف.دُور دُور کے گمانوں اور وسوسوں میں ہر کا پھرتا ہے.است ہم یہ بات ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عیسائیوں کی بڑی تعلیم اور اُنکے عقاید جوانی سب تعلیمات کے گل سرسبد ہیں.کیسے ہندوؤں کی کتابوں سے اقتباس کیئے گئے ہیں.یا اگر وسعت حوصلہ کو کام میں لائیں.تو اتنا کہ سکتے ہیں کہ ہندوؤں کے عقاید سو مطابقت تھی

Page 371

۳۶۴ اور مشابہت تامہ رکھتے ہیں.(1) مجسم را حضرت مسیح کا خدائے مجسم ہونا.جیسا عیسائی لوگ کہتے ہیں.بعینہ ہندوؤں کے اس عقیدے کے مطابق ہے جو وہ کہتے ہیں کہ بھگوان نے اوتار دہا راہ لینے خدائے مجسم ہوا.اور ٹھیک بسیح دسویں اوتار کی طرح ہیں.(۲) مسیح کا دنیا میں آنا.عیسائی کہتے ہیں کہ اُنکے بچانے اور گناہ دور کرنے کیلئے ہوا.اور یہ عقیدہ بعینہ ایسا ہے.جیسے ہندو کہتے ہیں " کہ جب دُنیا میں پاپ بہت ہو جاتے ہیں.بھگوان باغراض مختلف جسمہ کو قبول کرتا مجسم ہوتا اور اوتار دھارتا ہے یہ (۳) تثلیث کا مسئلہ ہندوؤں کے تردید کہنے کے مساوی ہے.عیسائی کہتے ہیں.خدا ایک ہے اور تین بھی ہیں.بت پرست ہندو بھی ایسا ہی کہتے ہیں.کہ بھگوان ایک سے اور تین بھی ہیں.برھما - بشن - مهیش - (۴) عیسائیوں کا یہ عقیدہ کہ خدا باپ بیٹا اور باپ اور بیٹے سے روح القدس.بعینہ منڈوں کے اس قول کے مطابق ہو کہ نرگن سے سرگن ہوا.یا نرگن سر ستوگن.تم گن.رچوگن.(۵) عیسائیوں میں عشائے ربانی کا مسئلہ جسکی بابت کیتھولک اعتقاد ہو کہ اسوقت روٹی اور شراب بعینہ حقیقت نہ مجازاً مسیح کا گوشت اور لہو ہو جاتا ہے.اور پروٹسٹنٹ اُسے ستانہ اور مجاز کہتے ہیں.ٹھیک بت پرستوں کے اس اعتقاد کے برابر ہے.کہ بشند پتھر بن گیا.اور سا لگرام نام کہلا کر گند کا نڈے میں جاپڑا.اور تردید میٹر اور چیپل اور ڈھاگ بن گئی.ل فی الواقع پولوس صاحب نے دین سیمی کی تائید میں بڑے بڑے کارنمایاں کئے.اُسنے اپنے مرشد کے سیدھے سادھے احکام و نصائح میں فلسفہ فیثا غورث کے نہایت دقیق اصول داخل کردئے.اور یہ وہ فلسفہ تھا جس میں معقول عشرہ اور شلیث کا مسئلہ مشرقی ملکوں سے اخذ کر کے داخل کیا تھا لائف آن محمد از سید امیر علی ۱۲

Page 372

۳۶۵ (4) حضرت مسیح کا یہودیوں سے انتقام لینے کے لئے رومیوں میں آنا.جیسا کہ مفسران انجیل اور عیسائیوں کا اعتقاد ہے.ویدانتیوں کے اس خیال کے مساوی ہے جو کہتے ہیں.کہ پر میشر نے کہا میں نے چاہا.کہ ایک سے بہت ہو جاؤں اور بعینہ تناسخ کے مسئلے کے ہمشکل ہے.(4) کفارے کا مسئلہ ہندوؤں کی تو بکی نہیں تو اور کیا ہے.(۸) یوحنا اصطباغی کا ایلیا میں ہونا، بالکل ہندوؤں کے مسئلے اواگون کے ہم معنی یا اُسی کا نتیجہ ہے.متی ۱۷ باب ۱۲ - (4) یوجنا کا دریائے یہ دن میں بپتسما دینا.گنگا جی کی بڑکی نہیں تو اور کیا ہے.(۱۰) پولوس صاحب فرماتے ہیں کہ پالکوں کے لئے سب کچھ پاک وصاف ہے.پادری صاحبان با یه سرب بھنگیوں کا اعتقاد اورتعلیم نہیں تو اور کیا ہے.اب عہد عتیق کا بھی کچھ حال سُن لیجئے.(۱۱) نرسنگ بجانا اور اس کو دائمی ابدی رسم قرار دینا بعینہ ہندوؤں کی آرتی ہے.(۱۳) کا مہنوں کا ایک ہی قوم میں ہونا اور لاویوں کا مقرر کرنا بعینہ ہندوؤں کی اس رہتے مطابق جس میں یہ ہمن اور پروہت خاص قوم میں کے ہوتے ضرور ہیں.مذہبی چندوں میں لاویوں کی تخصیص بر ہمنوں کے خاص مصرف خیرات ہونے کا نشان بتاتی ہے.(۱۳) زیور ۲۶-۶- م میں جس عبادت کا ذکر ہے.وہ ہندوؤں کی سی پر کرما نہیں تو اور کیا ہے.(۱۴) سوختنی قربانی جس کا ذکر تمام توریت بھر میں ہے.مثلاً خروج باب ۱۹ - ۱۸- یہ لے عیسائیوں کے اس خیال کی بن متی باب ۱۸۱۲ کی تائید اور تصدیق کے لئے انکو اس تاویل کے گھڑنے کی ضرورت پڑی.اس مطلب کے لئے دیکھو تفسیر متی خزانہ الاسراء.اور دیکھو تفسیر منتی باب ۱۰-۱۳ اور غور سے پڑھو ۱۳

Page 373

ہندوؤں کی قوم کی رسم نہیں تو اور کیا ہے.سم (۱۵) اخبار باپ ۲۱- او گفتی باب ۶ - ۹ کی رسم ہندوؤں کے بھنڈر کا مقابلہ یا اقتباس نہیں تو اور کیا ہے.(۱۶) ایوب اور داؤد کا راکھ میں بیٹھنا.ایوب باب ۲-۸ ہندوؤں سناسیوں کی بھیجوت میں رہنے کی نظیر نہیں تو اور کیا ہے.(1) جدیگوان نے ایک بکری کا بچہ اور سیر بھر آٹے کی فطیری روٹیاں طیار کیں.گوشت کو نوکری میں رکھا.اور شور یا ایک کٹورے میں ڈالا اور ایک دیوتا کے لئے بلوط کے درخت کے تلے لاکر گذرا نا.تب اُس دیوتا نے کہا.فطیری روٹیوں کو اس چٹان پر رکھدے اور انپر شور باڈال.سوجد عون نے ایسا ہی کیا.قاضیوں باب ۲- ۱۹.اور دیوتا نے اپنے عصا کی نوک سے ہوا.اور اُسے آگ کھا گئی.پس ہندوؤں کی بلی کی رسم ہے.نماز اس مضمون میں پانچ امروں پر بالاختصار نظر کرینگے (۱) حقیقت نماز (۲) باطن کو ظاہر سے تعلق ہے (۳) ارکان نماز (۴) فوائد ضبط اوقات (۵) سمت قبلے کے تعین کی وجہ.دنیا کے مذاہب پر غور کرنے اور قریباً کل اقوام عالم کو ایک ہی بڑے مرکز اور مرجع کیطر بالا اشتراک رجوع ہو ہو دیکھنے اور قانون قدرت کے معجز بے نقص کتاب کے مطالعہ کرنے سے ) فطرت سلیم قوت ایمانی نور فراست کے اتفاق سے فورا شہادت دے اٹھتی ہے.کہ ایک ہمارا خالق زمین و آسمان ہے جس کی قدرت کاملہ کل عالم پر محبط اور تمام اشیاء میں جاری ساری ہے.فرض ایک ہمہ قدرت فوق الکل وجود کا خیال یا اعتقاد قریبا کل اقوام دنیا میں پایا جاتا ہے.یہ فطرت کا اشتراک اور قوائے باطنیہ کی اضطراری توجہ ایک اعلیٰ ہستی کی جانب وجود باری کی عجیب دل نشین دلیل ہے.اب عالم اسباب یا اسباب عالم پر جب انسان نظر کرتا ہے تو خوب سمجھتا ہے کہ عالم کون و فساد کے انقلابات میں وہ ہمیشہ مجبور ومعذور ہے

Page 374

ام عليكم اوریہ کہ تمام اختیارات کے مواد اور مقدورات کے اسباب اس کی قدرت سے باہر ہیں.مثلاً حجب دیکھتا ہے کہ بڑے بڑے قوائے طبعی سورج چاند ستارے ہوا بادل وغیرہ میرے ہے مرد خدمتگار ہیں.بلکہ جب وہ اپنے اسباب قریبہ یعنی جسم ہی کو دیکھتا ہو کہ کیسے مناسب آلات اور موافق ادوات اُس کو ملے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی مفقود ہو جائے اور اور تو جبیر کس کیلئے اس کا یا اسکے مثل بی نقص جزو کا موجودہ کرنا اسکے اسکان سے خارج ہو.پس یہ تصورات انسان کے دل میں ضرور سخت جوش اور عجیب جاذبات پیدا کرتے ہیں.اور ولی نیاز بڑی شکر گذار اسکے ساتھ ملکر اسکو ان منی انیم و حسن کی ستائش، وحمد کی طرف مائل کرتا ہے.اور جس قدر زیادہ اس کو اپنی احتیاج و افتقار کا علم اور فوق القدرات سامانوں کے بآسانی بہم پہنچ جانے کا یقین ہوتا ہے.اتنا ہی زیادہ اس کا دل اس منعم کے احسانات کی شکر گزاری سے بھر جاتا ہے.یہی ولی نیاز اور قلبی شکر گزاری ہو سچی محیمت باطنی اخلاص سے ناشی ہوتی ہے.اور یہی جوش و خروش جو انسان کے دل میں ہوتا ہے.واقعی اور اصلی نماز ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ ہمارے ظاہری اقوال و افعال حرکات و سکنات کا اثر ہمارے قلب پر پڑتا ہے.یا یوں کہو کہ جو کچھ ہمارے باطن میں مرکوز ہے حرکات ظاہری ہی اسکی آئینہ دار ہیں.بہت صاف بات ہو.کہ اچھا بیج اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.مشاہدہ گواہ ہے کہ جس وقت ہم کسی پیچھے دوست یا کسی بڑے محسن کو دیکھتے ہیں.جسکی مہربانیاں اور عطایات ہمارے شامل حال ہیں.تو بے اختیار بشاشت اور طلاقت کے آثار ہمارے چہرے پر آشکار ہوتے ہیں.اور اگر کسی مخالف طبیع طرف شکل کو دیکھ پا میں تم فی الفور کشیدگی اور انزجار کا نشان پیشانی پر نمودار ہو جاتا ہے.عرض اس سمو انکار کرنے کی وجہ نہیں ہو سکتی.کہ تمام واردات اور عوارض مثلاً انبساط - انقباض - یاس - رنجمان فرحت - تخم.محبت اور عداوت اعضائے ظاہری کو باطنی سمیت یکسان متغیر و متاثر باطن کو ظا ہر سے تعلق ہے.

Page 375

PYA کر دیتے ہیں.پس اب سوچنا چاہیئے کہ جب اس خالق مالک رازق منعم کا تصور انسان کے قلب میں گزریگا.اور اسکے عطایات اور نعمتوں کی تصدیق سے اس کا دل وجان معمور ہو جائے گا.تو یہ دلی جوش اور اضطراری ولولہ اس کو ساکن غیر متحرک چھوڑ دے گا.نہیں نہیں ضرور طوعا و کر یا اعضائے ظاہری سے ٹپک پڑے گا.جڑ کو صدمہ پہنچے اور شاخوں کو حق تک نہ ہو.غیر معقول بات ہے.غیر مہذب اقوام کے مذہبی رسوم کے آزاد دل سے تحقیقات کرو.تو عجیب و دلکش اصول کا مجموعہ تمہیں ملے گا.کہ اس اُوپر دیکھنے والی ہستی نے قوائے رُوحانی کی ابتدائی شگفتگی کے زمانے میں جسکو زمانہ حال کے جہد بین زمانہ جہانت و تاریکی بولتے ہیں.کن کن صورتوں اور رنگوں میں اس فیاض مطلق کی حمد و سپاس کے قلبی زیر دست اثر کوظاہر کیا ہے.خارجی بد آثاری اور عوارض کو چھوڑ دو.اصلی بے رنگ و بے لوث فطرت پر غور کرو.تو تمہیں دنیا کی قوموں میں رنگارنگ حرکات دکھائی دینگے جو با اینهمه رنگا نہ نگی کیسے اُس بے رنگ کا معبود ومسجود ہونا ثابت کر رہے ہیں.اس بیان سے صر است در مقصود ہے کہ قوم کے نزدیک کوئی نہ کوئی طریق معبود حقیقی کی یاد کا ضرور ہے.جسکو وہ لوگ اپنی نجات کی دستاویز سمجھتے ہیں اور یہ کہ عقاید باطنی کے حسن و قبح کی تصویر اعضا و جوارح کے آئینے میں دیکھی جا سکتی ہے.ہر قوم میں جوش قلبی کی تحریک اور اسکی آگ بھڑ کانے کے لئے کئی ایک ظاہری اعمال کا التزام پایا جاتا ہے.مثلا بدان کو پانی سے طاہر کرنا.کپڑا صاف رکھنا.مکان لطیف و نظیف رکھنا.ظاہری صفائی اور حسب فطرت اصلاح بدن سے بیشک اخلاق پر قومی اثر پڑتا ہے.نجاست گندگی.ناپاکی - چرک نچلا پن سے کبھی وہ علو ہمت بلند حوصلگی.پاکیزگی اخلاق پیدا نہیں ہو سکتی جو واجبی صفائی اور طہارت کا لازمی نتیجہ ہو.بدیہی بات ہے کہ ہاتھ منہ دھونے وغیرہ افعال جوارح سے حتما ایک قسم کی بشاشت اور تازگی عقلی قومی میں ہارت ظاہری.وضو -

Page 376

٣٦٩ پیدا ہوتی ہے.علی الصباح بستر غفلت سے اٹھ کر بدنی طہارت کی طرف متوجہ ہونا.تمام مہذبین بلاد میں ایک عام لازمی عادت ہے.صاف عیان ہوتا ہے کہ تقاضائے فطرت سے اُس کے زور و اجبار سے یہ دائمی عادات پیدا ہوئے ہیں او طبیعت اعضا و جوارح سے میرا اس خدمت کا لینا پسند کرتی ہے.نہیں اگر ایسی عبادت میں جس میں روحانی ہوشوں اور اصلی باطنی طہارت کا اظہار مقصود ہو.ایسی طہارت ظاہری کو لازمی اور لا بدی کر دیا جاوے.تو کس قدر اُس شوق و ذوق کو تائید ہوگی.صاف واضح ہے کہ جہاں فانی طہارت اور ظاہری صفائی کا حکم ہوگا.وہاں باطنی طہارت اور باقی صفائی کی کتنی اور زیادہ تاکید ہوگی.خو راس میں شک نہیں کہ صفائی ظاہر کی طرف طبعا ہر قوم متوجہ ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ نہایت بد بخت سیاه درون ہیں.جو صرف جسمانی صفائی اور ظاہری زیب و زینت کی فکر میں لگے رہتے ہیں.یقینا بہت سے انہیں ظاہری رسوم کی پابندی اور انہیں فانی قیود میں ایسے اُلجھے ہیں کہ قساوت قلبی اور بداخلاقی کے سوا کوئی نتیجہ اُن کے اعمال و افعال پر مترتب نہیں ہوا.اسکی وجہ صرف یہ ہوئی کہ انہوں نے ظاہر ہی کو مقصود بالذات اور قبلہ ہمت ٹھہرالیا.یا اُن کے پاس کوئی روحانی شریعت نہ تھی.جو عجاز سے حقیقت کی طرف اُن کو لیجاتی.مگر اس سے نفس فعل طہارت قبیح یا مستوجب علامت نہیں ٹھیرتا.اس تعلی افراط و تفریط کے اور نہی موجبات اور یو ابحث ہیں.ہمیں اسوقت اور قوموں کے رسوم سے تعرض کی ضرورت نہیں.اسوقت ہم اسلامی طہارت، (وضو) کو پیش نظر رکھتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ غیر قوموں نے اسلامی اعمال پر ؟ انصاف سے غور نہیں کیا.انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ مسلمانوں نے ہاں محمد رسول اللہ مسلم کی سنت پر چلنے والوں نے ہر گز ظاہر کی طہارت میں خوض نہیں کیا.وہ اسی کو منفصور بالذات نہیں سمجھتے.کیونکہ ایک پیچھے آنے والے جلیل الشان حقیقی فعل نماز کا یہ عمل مقدمہ ہونا ثابت.

Page 377

کرتا ہے کہ یہ عمل تو صرف نشان یا دلیل دوس سے امر کی ہے.وضو میں مسلمانوں کو جو دعا پڑھنے کی نصیحت کی گئی ہے.یقیناً معترض کو راہ حق پر آنے کوجو کی ہدایت کرتی ہے سنو اور غور کرو.وَهُوَ هذا.اللهمَّ اجْعَلْنِي مِن التوابين واجعَلْنِي مِنَ الْمُطَهَّرِينَ سُبْحَانَكَ اللهُم التَّوَّابِينَ وبحمدك اشهد ان لا اله إلا أنتَ اسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إلَيكَ.غسل جنابت میں بھی یہی دعا مانگی جاتی ہے.اور بعد اس دُعا کے یہ فقرہ کہا جاتا ہے.اب نسل پورا ہوا یہ یعنی ظاہر باطن سے ملکر پورا ہوا.یا درکھنا چاہیئے کہ عذر اور ضرورت کے وقت یہ طہارت ساقط ہو جاتی ہے.یہ کافی دلیل اس امر کی ہے کہ عمل بھی صرف مقصود بالعرض ہے.مثلاً پانی نہ ملنے کی صورت میں غسل اور ونو دونوں حالتوں میں اس آسان شریعت نے تم کولینے کا حکم دیا ہو جیسے مقصود اتنا ہے کہ اعضائے ظاہری کا بنرس بجا کہ قوائے باطنی کے غافل قافلے کو بیدار اور بر سر کار کیا جائے.یہ ناپاکی اور پاکی د طہارت کا لفظ اور اس کا مفہوم اسلام میں ایسا نہیں بنتا گیا.جیسا وسوسہ ناک طبائع اور وہی مزاجوں کے درمیان معمول ہوا ہے کہ انسان کی ذات میں کوئی ایسی نجاست نفوذ کر گئی ہے جس نے اس کو گھنونا اور لوگوں کے پرہیز و اجتناب کا محل بنا دیا ہے.اور میں کا ازالہ سوائے اس نظاہر ہی طہارت کے ہو نہیں سکتا.میں سچ سچ تمہیں بتاتا ہوں کہ اسلام ان تو ہمات سے بالکل پاک ہے.احبار اباب اور ۱۸ باب ۱۵ میں ہے کہ " جریان والا کپڑے دھو ہے اور غسل کرے شمام تک نا پاک ہے.اور جسپر وہ سوار ہو اور ہو کوئی اس کی سواری کو چھونے وہ بھی ناپاک ہ اے اللہ مجھے اپنی طرف خالص رہوے کرنے والوں سے بنا اور مجھے پاک رہنے والوں کی جماعت ہیں شامل کر.اے اللہ تو قدوس سے تیری محمد ہی میں دل سے شہادت دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور تیری طرف رجو ع لاتا ہوں.

Page 378

61 - اور خروج 19 باب ۱۰." اور خدائے موسی سے کہا کہ لوگوں کے پاس جا.اور انہیں پاک کر.اور اُن کے کپڑے دھلوا.اور تیسرے دن طیار رہیں کہ خدا وند تیسرے دن لوگوں کی نظروں میں کوہ سینا پر اُتر آئیگا اسلامی شریعت کے احکام سے انہیں مقابلہ کر لو.صاف کھل جائیگا.اسلامی شریعت نے روحانیت کی کیسی توجہ دلائی ہے.ذرا سنگ یا پانی چھڑکنا.اور چالو بھر میں.کفار سے والی بادشاہت میں داخل ہونے کی شرط قرار دی گئی ہے.اسپرسوم ظاہری سے انکار با قرآن کیئے.اسکے مقابل میں کیا فرماتا ہے.صبْغَةَ اللهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ الله سبعة - سياره ١- سوره بقر رکوع ۱۶ یہی اعتقاد قدیم سے مسلمانوں میں چلا آیا ہے.کہ طہارت باطنی ہی راسا مطلوب ہے.چنانچہ اسلام کے قدیم فلاسفر امام غزالی نے اُن لوگوں کی نسبت ہو صرف ظاہری طہارت پر مرتے ہیں اور جن کے قلوب کبرو ریاء سے بھرے ہوئے ہوتے میں لکھا ہو کہ رسول اللہ صلعم فرمایا کرتے تھے کہ سب سے اہم اور اعظم طہارت پاک کرنا دل کا ہے تمام کری خواہشوں اور بیہودہ رغبتوں دل اور دفع کرنا ہے نفس سے تمام مکروہ و مذموم خیالات کو اور ان تصورات کو جو انسان کے میل کو خدا کی یاد سے باز رکھتے ہیں.جب ہم نے اتنا ثابت کر دیا کہ قلبی حالت اعضا و جوارح کو حرکت دیئے بغیر رہ نہیں سکتی.اور یہ کہ ظاہر و باطن میں لازم و ملزوم کی نسبت ہے.تو گویا نفس ارکان نماز سے کچھ بحث نہیں.کیونکہ جذبات قلب اور اسکی واردات کا ظہور اور کیفیت روحانی کے عروض کا ثبوت انعضا و جوارح کی زبان حال ہی سے ہل سکتا ہے.البتہ گفتگو اس امر میں رہ جاتی ہے کہ آیا یہ ہیئت مقتضائے فطرت انسانی سے مناسبت رکھتی ہے یا نہیں.یا اس سے بڑھ کر اور پسندیدہ صورت و ترکیب فلان قانون اور فلاں مذہب میں رائج ہو یا اب نئی صورت وہم و تصور میں آسکتی ہے.اے رنگ اللہ کا اور کس کا رنگ اللہ سے بہت ہے ؟

Page 379

۳۷۲ یکی بڑی خبرأت اور قومی ایمان سے کہتا ہوں.کہ اسکی مثال یا اس سے بڑھکر مقبول و مطبوع صورت نہ تو کسی مذہب میں رائج ہے.اور نہ اور نئی معقل میں آسکتی ہے.یہ جامع مانع طریق آن تمام عمدہ اصولوں اور مسلمہ خوبیوں کو حاوی ہے.جو دنیا کے اور مذاہب میں فردا فردا موجود ہیں.اور تمام اُن نیاز مندی کے آداب کو شامل ہے جو ذو الجلال معبود کے عرش اعظم کے سامنے قوائے انسانی میں پیدا ہونے ممکن ہیں.وہ خاص او را و و کلمات جو اس مجموعی ترکیب کے اجزا - قومہ - رکوع - قعدہ سجود - جلسے وغیرہ میں زبان سے نہیں دل سے نکالے بہاتے ہیں.اسکی بے نظیری کے کافی ثبوت ہیں.انصاف سے سوچئے کہ یہ ہیات قوائے قلبی پر کسندر قومی اثر کرنے والی ہے تعیین ارکان سے کون قوم انکار کر سکتی ہے.دعا میں سرنگا کرنا سیدھا کھڑا ہونا.آنکھیں بند کرنا آخر میں برکت دیتے وقت ایک ہاتھ لمبا کرنا.اور ذرا انگلیوں کو نیچے کی طرف مجھکانا.اور کبھی کبھی خاص حالت میں گھٹنے ٹیکنا یا گھٹنے پر کہنی لگا کر اسپر سر رکھ دینا.یہ سب امور بتقاوت نصاری میں معمول ہیں.کوئی اُنہیں کہے ان ظاہری رسوم سے کیا نکلتا ہے.عبادت دل سے تعلق رکھتی ہے.اُس پر اکتفا کرنا چاہیئے.صاف بات کا وہ کیا جواب دینگے.پس اسلامی صورت سے کیوں پڑتے ہیں.مجھے امید ہے کہ نصاری نفس وجود ارکان سے تو کچھ تعرض نہ کرینگے.کیونکہ اس طبیعی حالت میں وہ اضطراراً اہل اسلام کے ساتھ شریک کر دئے گئے ہیں.بایں معنی کہ وہ کبھی ایا نماز میں کسی کسی صورت و کین کا ہوتا تو وہ تسلیم کرتے ہیں.اگر زبان سے اور مذہبی مباحث کے وقت نہیں ملا تو ثابت کر رہے ہیں.پس اب اصل وجود ارکان پر زیادہ قلم فرسائی کرنے کی ضرورت نہیں رہی.ہاں شاید مقابلہ بین الصور تین منظور ہوتو خدا پرست کی تعصب کی اعانت سے غور کریں کہ اسلامی طریق میں کیسا جلال ، کمال تمکین اور وقار پایا جاتا ہے.اس بے رنگ بیچوں ، احمد احمد لم یلد لم یولدہ کے حضور اقدس میں ہے رنگ بے تصویر

Page 380

۳۷۳ 10: مکان میں با وقار ہا تھ باندھ کر کھڑے ہونا.اللہ اکبر سے افتتاح کرنا اور سورہ فاتحہ پایسی پر معنی دُعا کا پڑھنا.اور پھر فرط انکسار سے اللہ اکبر کی عظمت کا تصور کر کے کیش مستقیم کو جھکا کر سبحان ربی العظیم پڑھنا.اور پھر زمین پر نہ رکھکر بال گراگر سبحان ربی از ملے کہنا کیا یہ کم اثر کرنے والے اعمال ہیں.کیا یہ فطرت انسانی کے موافق نہیں ہیں ؟ میں نہیں سمجھتا کہ ایک ایسے شخص کو جو عبادت حق کو کسی صورت میں کیوں نہ ہو.انسان کی عبودیت کا لازمی فرض جانتا ہے.اسلامی صورت نماز سے انکار ہو.یہاں ایک اور لطیف بات سوچنے کے قابل ہے کہ اسلامی احکام دو قبر کے ہیں.احکام اصلی اور تابع یا محافظ اصلی مقصود بالذات احکام اصلی ہوتے ہیں.اور احکام محافظ صرف احکام اصلی کی بقا اور حفاظت کے لئے وضع ہوئے ہیں.نماز کے سب ارکان ظاہری احکام محافظ ہیں.اور اس امر کا ثبوت اُس وقت بخوبی ہوتا ہے جب یہ ارکان عذر کی حالت میں انسان کے وقے سے ساقط ہو جاتے ہیں.مثلاً نماز میں بحالت مرض على اختلاف الاحوال قومه - قعدہ - جلسہ وغیرہ سب معاف ہو جاتے ہیں.مگر وہ اصلی حکم اور حقیقی فرض جو مقصود بالذات ہے یعنی قلبی خشوع و خضوع.جب تک قالب عنصری میں سانس کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے.کبھی بھی انسان کے ذمے سے نہیں ملتی.یہی اور صرف یہی نماز ہے.جسے اسلام نے لائق اعتبار اور مستحق ثواب کہا ہے سنو.الذكورتك في نَفْسِكَ تَضَر عاوَ خِيفَةً وَدُونَ المجهي مِنَ القوي بالعدد الْجَهْرِ بِالْغُدُةِ وَالأَصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ ، سیپاره ۹ - سوره اعراف - رکوع ۲۲ - لے اور یاد کرتارہ اپنے رب کو دل میں گڑ گڑانے اور ڈرنے اور پکارنے سے کم آواز بولنے میں صبح اور شام کے وقتوں اور مت رہ بے خبر ۱۲ -

Page 381

و ل ما أوي إليكَ مِنَ الكتب و أقمِ الصَّلوةَ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَ، ولذكر الله اكبر و اللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ : سیپاره ۲۱- سوره عنکبوت ربوع ده وَلِذِكُرُ اور ان آیات سے نماز کی علت خائی خوب ظاہر ہوتی ہو کہ نماز منکرات اور فواحش سے محفوظ رہنے کے لئے فرض کی گئی ہے.اگر نماز کی اقامت اور مداومت سے نمازی کے اقوال افعال میں کچھ روحانی ترقی نہیں ہوئی.تو شریعت اسلامی ایسی نماز کو ستخن درجات ہرگز نہیں ٹھہراتی.اب مجاز و ظاہر کہاں رہا.نبی عرب علیہ الصلوۃ کے لئے کچھ کم فخر کی بات نہیں.اور اس کے خدا کی طرف سے ہونے کی قومی دلیل ہو کہ اُس نے خدا کی عبادت کو طبلوں مزاروں سارنگیوں اور پر بطوں سے پاک کر دیا.اللہ کے ذکر کی مسجدوں کو رقص و سرود کی محفلیں نہیں بنایا.اور یہانتک احتیاط کی کہ تصاویر اور مجسمہ بنانے کی او مسجدوں میں موسم بالشرک نقش و نگار کرنے کی قطعی ممانعت کردی کہ ایسا نہ ہو یہی مجاز رفته رفته مبدل حقیقت ہو کر اور یہی مجسمی معبودی تماثیل بینکر توحید کے پاک پیٹھے کو کندر کر ڈالیں.جب ہم ایک خوش قطع گرجا میں عیسائی جھنڈ کو بزعم عبادت جمع ہوئے دیکھتے ہے قطع جائیں سجے سجائے بنے تھے.نیٹو انیاں اور گوری گوری پور پانیاں قرینے سے کرسیوں پر ڈٹی ہوئیں اُس وقت ہمیں عیسائیوں کا یہ فقرہ کہ مسلمانوں میں صرف رسمی اور مجازی عبادت ہے " بڑا حیرت انگیز معلوم ہوتا ہے.یقینا اہل اسلام کی غیور طبیعت نصاری کی اس حقیقت سے آشنا ہونے کی کبھی کوشش نہ کرے گی.اس موقع پر طریق آذان پر بھی کچھ تھوڑا سا لکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے.ہر قوم نے پراگندہ افراد کو جمع کرنے یا منشائے عبادت کو حرکت دلانے کے لئے کوئی ے تو پڑھ جو اتری تیری طرف کتاب اور کھڑی رکھ نماز بیشک نماز روکتی ہے بیحیائی سے اور بری بات سے اور اللہ کی یاد ہے سب سے بڑی اور اللہ کو خبر ہے جو کرتے ہو.! -

Page 382

۳۷۵ نہ کوئی آلہ بنا رکھا ہے.کسی نے ناقوس نرسند گا.کسی نے گھنٹے گھنٹیاں.مگر انصاف شرط ہے.ان میں سے کوئی وضع بھی اذان سے مقابلہ نہیں کر سکتی ہے.اُس پیارے رسول نے جسکی واقعی صفت میں قرآن فرماتا ہے.12 ويضع عنهم أصرهم الاغلال التي كانت عليم ان تمام رسمی بندشوں سیپوں اور سینگوں کی تعاش سے اُمت کو سبکدوش کر دیا.ذری انصاف سے ان کلمات کو سوچو.اس ترکیب کے سر پر نگاہ کہ کہ کوئی قوم بھی تب میں ہے جو اس شد و مد سے پہاڑوں اور میناروں پر پڑھ کر اپنے پیچھے اصولوں کی ندا کرتی ہے.عبادت کی عبادت اور بلاہٹ کی بلا ہٹ.دُنیا میں ہزاروں حکما اور ریفار مرگ : رے ہیں اور قومی گڈر کے پیدا ہوئے ہیں.مگر تتر بتر ہوئی بھیڑوں کے اکٹھا کرنے اورایک بہت میں لانے کا کس نے ایسا طریق نکالا کس نے کبھی ایسی ترنی پھونکی.یوں کی دل کش آوانت معا روحانی جوش اور ولولہ تمام ظاہر و باطن میں پیدا کر دے.اللہ اکبر کیسی صداقت ہو کہ ایک قوم علی الاعلان صبح و شام پانچ دفعہ اپنے بے عیب عقیدے کا اشتہار دیتی ہے.! تعیین اوقات.پابندی وقت آہ کیسے مقبول کلمات ہیں کہ جب کسی قوم کی ترقی کی راہ کھیلی.اسی مشعل جان افروز کے نور سے تمام مدافعات کی تاریکی دور ہوئی شریعیت موسوی میں احکام نماز منضبط نہیں ہوئے تھے.توریت طریق نماز سے بالکل ساکت ہے.صرف علمائے دین کو وہ یکی دیتی اور پہلوٹھے لڑکے کو سیکل مقدس میں لاکر ندر دیتی.وقت خاص دعا پڑھی جاتی.اور لڑکے کا باپ تمام احکام شرعی کو بجالا کہ یہوداہ سے دعا مانگتا تھا.کہ اس اسرائیلی لڑکے کو برکت دے.جیسے تو نے اس کے آبا و اجداد پر برکت نازل کی تھی.لیکن سب یہود اور اُنکے علما کا اعتقاد باری تعالیٰ کی نسبت زیادہ تر معقول اور پاکیزہ ہو گیا.اور خدا وند عالم کے شکل بشکل انسان ہونے کا فاسہ عقید, دفع ہونے لگا.تب نماز یا دعا کی اور اُتارتا ہے اُن سے بوجھہ اُن کے اور پھانہ میاں جو اُن پر تھیں.نبط اوقات

Page 383

حقیقت اُن کی سمجھ میں آنے لگی.کہ نماز انسان کے لئے بارگاہ الہی سے تقریب کا وسیلہ ہے.گریم ناکہ شریعت موسوی میں کوئی خاص قائد و نماز کا مقرر نہ تھا.اہذا روایت اور رواج پر مدار رہا.اور بقول ڈالنجر صاحب کے یہود بھی ایک نماز گذار قوم ہو گئے.اور ہر روز تین گھنٹے عبادت خدا کے قرار دیئے گئے.یعنی نو بجے اور بارہ بجے اور تین بجے.مگر چونکہ نماز میں اور مجتہدین کی ضرورت تھی.اور اس کا علم قطعی نہ تھا.کہ خود حضرت موسی کیونکہ نماز پڑھتے تھے لہذا اکثر اوقات یہود کی نماز صرف ایک مصنوعی فعل ہوتا تھا.حضرت مسیح نے جو آخری رسول یہود کے تھے.اور اُنکے حوار مین نے بھی عبادت کی تاکید کی.مگر افسوس اُس میں بھی یہ نقص رہ گیا کہ کوئی محدود و معتی قاعدہ نماز کا انہوں نے ترتیب نہ دیا.اسلئے چند عرصے کے بعد عبادت خدا کا معاملہ بالکل عوام الناس کی رائے پر موقوف ہو گیا.اور پادریوں ہی کے اختیار میں رہا.جنہوں نے نماز کی تعداد اور مدت اور الفاظ وغیرہ مقرر کرنا اپنے ہی فرقے میں منحصر کر دیا.اسی وجہ سے دُعاؤں کی کتابیں تصنیف ہوئیں اور تقسیسین کی کمیٹیاں اور مجلسیں منعقد ہوئیں تاکہ اصول دین اور ارکان ایمان مقرر کریں.اور اسی وجہ سے راہبوں نے عجیب پر تکلف طریقہ عبادت کا نکالا.اور گرہوں میں ہفتہ وارنماز قرار دی گئی.یعنی چھ روز کی غذائے رومانی نہ ملنے کی مکافات صرف ایک روز کی نماز سے کی گئی.الغرض یہ سب خرابیاں منتہی درجے کو پنچ گئیں کہ ساتویں صدی عیسوی میں رسول عربی نے ایک مہذب اور معقول مذہب تلقین کرنا شروع کیا.آنحضرت نے نماز پنجگانہ کا طریقہ اسلئے جاری کیا کہ آپ خوب جانتے تھے کہ انسان کی روح حق سبحانہ و تعالیٰ کی حمد وستائیش کرنے کی کیسی مشتاق رہتی ہے.اور نماز کے اوقات مقرر کر دینے سے آپنے ایک ایسا مضبوط قاعدہ نماز گذاری کا معین کردیا.کہ نماز کے وقت انسان کا دل عالم روحانی سے عالمہ مادی کی طرف ہرگز متوجہ نہیں عالم - ہو سکتا.جو صورت اور ترکیب آپ نے نماز کی اپنے قول و فعل سے مقرر کر دی ہے

Page 384

ام اُس میں یہ خوبی ہے کہ اہل اسلام ان خرابیوں سے محفوظ رہے ہیں.جو اس لڑائی جھگڑے میں یہ کہ سے پیدا ہوتی تھیں.جو عید مائیوں میں نماز کی ترکیب پر ہمیشہ ہوا کرتے تھے.اور پھر ہر مسلمان کو گنجائش رہی کہ یکمال خشوع و خضوع عبادت خدا میں مصروقت ہوتے.پابندی اوقات میں ایک قدرتی تاثیر ہو کہ وقت معینہ کے آنے پر قلب انسانی پر بے اختیا جذب و میلان اُس ڈیوٹی کے ادا کرنے کے لئے پیدا ہو جاتا ہے.اور روحانی قومی اُس مفروض عمل کی طرف طلوعا و کرنا منجذب ہو جاتے ہیں.جونہی اس غیر مصنوعی ناقوس (اذان) کی آواز سنائی دیتی ہے ایک دیندار مسلمان فی الفور اس ایکٹریسیٹی کے عمل سے متاثر ہو جاتا ہے.پابند صوم صلوۃ گویا ہر وقت نماز ہی میں رہتا ہے.کیونکہ ایک نماز کے ادا کرنے کے بعد معا دوسری نماز کی طیاری اور فکر ہو جاتی ہے.نماز پنجگانہ کا باجماعت پڑھنا.اور جمعہ وعیدین کی اقامت جس حکمت کے اصول پر مبنی ہیں انتظامات ملکی کا دقیقہ شناس اُسکی خوبی سے انکار نہیں کر سکتا.ہزاروں برسول کے دور کے بعد جو دنیا نے ترقی کی.اور چاروں طرف غلغلہ تہذیب بلند ہوا.اس سے بڑھکر اور کوئی تجویز کسی کی عقل میں نہ آئی.کہ گلب بنائے جائیں.انجمنیں منعقد ہوں.اور وقت کی ضروریات کے موافق قوم کو بیدار کر نیوالی تقریریں کھائیں لیکن ظاہر ہے.کہ با اینہمہ ترقی علوم ایسی انجمنوں کے قیام و استحکام میں کسقدر وقتیں واقع ہوتی ہیں.گر مبار کی ہو اس افضل الرسل خاتم الرسالۃ کو کہ اس نے کیسے وقت میں کیسی انجمنیں قائم کیں.اُنکے قیام واستحکام کے کیا کیا طریقے نکالے.جنہیں کوئی مزاحم کوئی مانع توڑ نہیں سکتا.اعضائے انجمن کے اجتماع کے لئے ٹکٹ جاری کیئے جاتے ہیں.اشتہار چھاہے جاتے ہیں.اس الہی طریق میں وقت معین پر اذان دی جاتی ہے.ہو اس پاک انجمن (مسجد) میں.پہنچائے بغیر چھوڑ ہی نہیں سکتی.....تنقيد الكلام ترجمہ لائف آف محمد - بانی سید امیر علی ۱۲ -

Page 385

قرب و جوار کے لوگوں کا ہر رونہ پانچ مرتبہ ایک ہنسہ میں جمع ہونا ، اور پھر شانے سے شانہ جوڑ اور پاؤں سے پاؤں ملاکر ایک ہی سچے معبود کے حضور میں کھڑا ہو نا قومی اتفاق کی کیسی بڑی تدبیر ہے.ساتویں دن جمعہ کو آس پاس کے چھوٹے قریوں اور نہ نتیوں کے لوگ صاف و منظف ہو کر ایک بڑی جامع مسجد میں اکٹھے ہوں.اور ایک عالم ملیغ تقریبہ (خطبه ) حمد و نعت کے بعد ضروریات قوم پر کرے.عیدین میں کسی قدر دور کے شہروں کے لوگ ایک فراخ میدان میں جمع ہو اور اپنے ہادی کی شوکت مجسم کثیر جماعت بنگر دنیا کو آفتاب اسلام کی سمک دکھا رہیں.اور بالآخر اس پاک سر زمین میں اُس فاران میں جہاں سے اولا نور توحید چمکا.کل اقطار عالم کے خدا دوست حاضر ہادی سیاری بچھڑی ہوئی متفرق امتیں اسی دنگل میں اکٹھی ہوں.وہاں نہ اُس مٹی اور پتھر کے گھر کی بلکہ اس رب الارباب معبود الکل کی جنسی اُس ارض مقدسہ سے توحید کا عظیم الشان واعظ بے نظیر ہادی نکالا.حمد وستائش کریں.اسی طرح ہر سال اس یادگار ربیت اللہ کو دیکھ کر ایک نیا جوش اور تازہ ایمان دل میں پیدا کریں.جو بحسب تقاضائے فطرت ایسی یادگار وں اور نشانوں سے پیدا ہونا ممکن ہے.سخت جہالت ہو.اگر کوئی اہل اسلام کیسی موحد قوم کو مخلوق پرست کا الزام نگاه ایسے شخص کو انسانی طبیعت کے عام میلان اور جذبات کو مدنظر رکھکر ایک واجب القدر اهر پر غور کرنا چاہیئے.کہ اگر قرآن کے پورے اور خالص معتقدین کے طبائع میں بت پرستی ہوتی نکتہ تو ان کو اپنے ہادی منجی مد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مقدسہ سے بڑھ کر کونسا مجمع تھا.اللہ تعالیٰ نے مکہ معظمہ میں آنحضرت کا مرقد مبارک نہیں ہونے دیا.تاکہ توحیہ انہی کا سر چشمہ پاک ہر قسم کے شائیوں اور ممکن خیالات کے گرد و غبار سے پاک صاف رہے اور مخلوق کی فوق العادة تعظیمہ کا استعمال بھی اٹھ جائے.مسلمانوں کے ہادی علیہ الصلوۃ والسلام کی آخری دُعا :- ب

Page 386

اللهُم تَجْعَل قبرِى مِن بعد عيد اے اللہ میری تیر کو میسر بند عید نہ بنائی.نخوب یاد ہے.اور وہ بیجان و دل اپنے نبی کی اس دعا کے ظاہر نتیجے کی تصدیق کر رہے ہیں اور ہمیشہ اَشْهَدُ أَنتَ وَإِلَهَ إِلَّا اللَّه کے ساتھ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ پڑھ کر اللہ اور عہد میں امتیاز بین دکھلاتے ہیں.بہت صاف امر ہے اور تقیقت شناس عقل کے نزدیک کچھ بھی محل اعتراض نہیں.اُس ہادی کو جس نے تمام دنیا کی متداول عباد کے طریقوں سربین میں شرک اور مخلوق پرستی کے نجزه و اعظم شامل تھے.اپنے طریق عبادت کو خالص کرنا منظور تھا.اور ایک اضح وممتاز مسلک قائم کرنا ضرور اسلئے واجب ہوا کہ وہ اپنی امت کے رخ ظاہر کو بھی ایسی سمت کی طرف پھیرے.جس میں قوائے روحانی کی تحریک اور اشتعال کی قدرت و مناسبت ہو.ہر ایک سلمان کو یقین ہو کہ سکتے ہیں بیت اللہ کو تو حید کے ایک بڑے واعظ نے تعمیر کیا.اور آخری زمانے میں ایسی کی اولاد میں سے ایک زبر دست کامل نبئی مکمل شریعت لیکر ظاہر ہوا جس نے اُس پہلی تلقین تعلیم کو پھر زندہ اور کام کیا.پس نماز میں جب اُدھر رخ کرتے ہیں یہ تمام تصور آنکھوں میں پھر جاتے ہیں اور اس مصلح عالم کی تمام خدمات اور جانفشانیاں جو انی اعلائے کلمتہ اللہ میں دکھلائیں یاد آجاتی ہیں.یادر ہے کہ نماز علاوہ اُن تمام خوبیوں کے جو اسپر مداومت کا لازمی نتیجہ ہیں بڑا بھاری قومی امتیاز اور نشان ہے.روزہ حج زکوۃ وغیرہ میں ایک منافق مسلمانوں کو دھوکا دینے یا اُنکے رازوں پر مطلع ہونے کیلئے شامل ہو سکتا ہے.اور اسکی قوم کو اسپر اطلاع بھی نہ ہو.کیونکہ ان امور کی تیجا آوری میں اپنی قوم کے نزدیک وہ کسی بیماری - لزوم - فاقہ سفر و تفرج یا خیرات کا حیلہ تراش سکتا ہے.اور مسلمان بھی اُسے بے تردد وفادار سلیمانی کہہ سکتے ہیں.بشرطیکہ انہیں امور میں مسلمان ہونا محصور ہو.مگر سخت مشکل اور پردہ برانداز امر نماز ہے.جسے کوئی شخص بھی جو اپنے مذہب کا کچھ بھی پاس اور مصیبت دل میں رکھتا ہے

Page 387

۳۸۰ کبھی بھی ادا کرنا گوارا نہیں کہ سکتا.خصوصا ایک علیحدہ قومی نشان اور ایک بالکل الگ ہیئت میں الگ مذہبی سمت کی طرف متوجہ ہو کر.اور با اینہمہ اپنی قوم میں بھی شامل رہے نا ممکن ہے.اب غور فرمائیے آنحضرت کو اس خصوص میں کیا مشکلات پیش آئیں.تاریخ اور قومی روایت متفقاً شہادت دیتی ہے کہ بیت اللہ زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے برا بہ ابا عن جد قوموں کا مرکزہ اور سہائے تعظیم چلا آیا ہے.کفار مکہ کو بہت پرستی کے لباس میں تھے.اس بیت ایل کو مقدس عبادت گاہ یقین کرتے.جب آنحضرت نے دین حق کا وعظ مشروع فرمایا.اور خدا کا کلام دن بدن پھیلنے لگا.اور دشمنان دین مخالفت میں ہر طرح کے زور لگا کر تھک گئے.آخر یہ حیلہ سوچا کہ نفاقا اسلام میں داخل ہو گئے اور اس طرح وہ لوگ سخت تازیتیں اور منفی دیر پا اب مسلمانوں کو پہچانے لگے بناؤ علئے ہذا بانی مذہب کو ضرور ہوا کہ اس معجون مرکب کے اجزا کی تحلیل کیلئے کوئی بھاری کیمیاوی تجویز نکالے.آپ نے ابتداء سکتے میں بیت المقدس کی جانب نماز میں منہ پھیر - اس دربانی الہامی تدبیر سے قریش مکہ جو نہایت بت پرست تھے.اور اہل کتاب اور انکے مذاہب کو بہت برا جانتے تھے مسلمانوں کی جماعت سے بالکل الگ ہو گئے.اب کوئی منافق ظاہر طور پر بھی شامل ہونے کو گوارا نہ کرسکا.اور خاص لگتے ہیں بجز خالص مخلص اصحاب اور یارانِ حبان نشار کے اور کوئی پیرو نہ بنا.اس تدبیر سے ایک اعظیمہ فائدہ یہ ہوا کہ بانی کو اپنے مشن کی ترقی اور خالص پیرووں کا اندازہ معلوم ہو گیا.اور آئیندہ کے واسطے معتمد وفاداروں اور غدار منافقوں میں امتیاز کلی ہوگیا.پھر جب مدینے میں آپ تشریف لے گئے.جہاں بکثرت یہود رہتے تھے.اور جو اول اول با غراض مختلفہ آپ کی تشریف آوری سے خوش ہوئے.اور آپکے تابعین ہیں خوب مل مل گئے.پھر آخر اپنی اُمیدوں کے برخلاف دیکھ کر خفیہ خفیہ اضرار و افساد میں ریشہ دوانی کرنے لگے.تب آنحضرت نے ربانی الہامی ہدایت سے جو ایسے تاریک شفقتوں

Page 388

۳۸۱ میں اپنے پاک نبیوں کو کشائیش کی راہ دکھاتی ہے.اصلی قدیمی ابراہیم اسمعیل کے بہیت اللہ کی طرف نماز میں توجہ کی.اس سے خالص انصار اور غدار یہودیوں میں امتیاز کی راہ نکل آئی.قرآن بھی اسی مطلب کا اشارہ کرتا ہے.وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ سیپاره ۲ - سوره بقر - رکوع ۱۷ - اس بات کو بھولنا نہیں چاہیئے.کہ ایسی جدید قومہ کو جس کے استیصال کے در پے مختلف قومیں ہو رہی تھیں.ایسے نئے مذہب کو جسے اولا مخلصین و منافقین میں تمیز کرنا اور دشمنوں کے جابرانہ حملوں کا اندفاع اختیار کہ نا تھا.نہایت ضرور تھا اور عقلا نفق لا اس سے بہتر نہیں ہو سکتا تھا.کہ ایسی ہی تدبیر سے کام لے- پس گو ابتداء میں سمت قبلہ کسی مصلحت کے لئے معین کی گئی ہو.اور عادۃ اللہ نے اُس میں کوئی راز مرکوز رکھتا ہو.مگر انتہا میں بھی یادگار کے طور پر اور اس امر کے نشان اور یاد آوری کے لئے کہ یہ کامل مذہب یہ توحید کا آفتاب اُسی پاک زمین سے نمودار ہوا.وہ خدا وندی حکمت بحال رکھی گئی.ورنہ اہل اسلام کا عقیدہ تو یہ ہو کہ خدائے تعالی کی ذات مکان اور بہت کی قید سے منزہ ہے.اور عنصری و کونی صفات سے اعلیٰ اور مہترا ہے.کوئی بہت نہیں جس میں وہ مقید ہو.کوئی خاص مکان نہیں جس میں مخصوصا وہ رہتا ہو.اسی مطلب کی طرف قرآن کریم اشارہ کرتا ہے.اور معترضین کے اعتراض کو اپنے علم بسینہ سے پہلے ہی رد کر دیا ہے.وبله المشرق والمغرب وأينما تُولَّوْا فَتَقَ وَجْهُ الله سیپاره - سوره بقي ركوع فَأَيْنَمَا پھر اور زیادہ مقصود حقیقی کی راہ بتاتا اور فرماتا ہے.ہے اور وہ قدم جو ہم نے شہر اور ہیرو تھا نہیں مگراسی واسطے کہ علوم کریں کون تابع ہر سال و در کو پھر جاونگا الٹے پانی اور اللہ کی ہے مشرق اور مغرب سو جس طرف تم منہ کرو دونوں ہی متوجہ رہے اللہ ۱۲ -

Page 389

PAY بر آن تولوا و مو حلو قِيلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرة المليكة والكتب والنبيين وَإِلَى الْمَالَ عَلَى مُحَتِهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَى والمساكين وابن السبيل والسائلين وفي الرقاب واقام الصلوة والى الركوة والْمُؤْتُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّبِرِينَ فِي الْبَاسَاءِ وَالضَّرَّاء وَحِيْنَ البامن أو اليك الذينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ، سياره ۲ - سوره بقى ركوع - ان آیات نے صاف بتا دیا کہ سمت قبلہ کی جانب توجہ کرنا مقصود بالذات اور اہم نہیں ہے.اصلی اور بدی نیکیاں اور آسمانی خزانے میں جمع ہونے والی خوبیاں یہی ہیں جو ان آیات میں مذکور ہوئیں.ایک اور لطیف بات قابل غور ہے کہ آغاز نماز میں جبکہ مسلمان رو بقیلہ کھڑا ہوتا ہے یہ آیت پڑھتا ہے.التي وجهتُ وَجْدِي لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ حَنِيْنًا زَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ، سیپاره ، - سوره انعام - ركوج - اور یہ آیت ان صلوق ومسن ونیای وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ وَلا شَرِيكَ لَمْ وَ بِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ، سیپاره - سوره انعام - مرکوع ۲۰ ے نیکی یہی نہیںکہ منہ کہ اپنے مشرق کی طرف ، مغرب کی.ولیکن نیکی وہ ہے جو کوئی ایمان لاوے اللہ پر اور پچھلے دن پر اور فرشتوں پر اور کتابوں پر اور نبیوں پر اور دیوہ سے مال اسکی محبت پر تانے والوں کو اور یتیموں کو اور مختا جال کو اور رام مگر مسافر کو اور مانگنے والوں کو اور گردنیں پھڑانے میں اور کھڑی رکھنے نماز اور دیا کہر سے زکوۃ اور پورا کرنے والے اپنے اقرار کو جب پورا کریں اور شہر نے والے سختی میں اور تکلیف میں اور وقت ایا رائی کے وہی لوگ ہیں جو سچے ہوئے اور وہی چاؤ میں آئے " سے نہیں نے اپنا منہ کیا اس کی طرف جسں نے بنائے آسمان اور زمین ایک طرف کا ہو کر اور میں نہیں شریک کرنے والا ۱۲ سے میری نماز اور قربانی اور میرا جینا اور مرنا اللہ کی طرف ہے کوئی نہیں اس کا شریک اور یہی مجھ کوحکم ہوا اور میں سب سے پہلے حکم بردار ہوں ۱۲ -

Page 390

۳۸۳ 66 اس آیت کا افتتاح میں پڑھنا خوب آشکار کرتا ہے کہ اہل اسلام کا باطنی ریح اور قلبی توجہ کدھر ہے.کعبہ حقیقی اور قبلہ تحقیقی انہوں نے کس چیز کو ٹھہرا رکھا ہے.ایک انگریز مورخ لکھتا ہو کہ فضائل اسلام میں سے ایک یہ بھی فضیلت ہے کہ اسلام کے معاہدہ ہاتھ سے نہیں بنائے جاتے اور خدا کی خدائی میں ہر مقام پر اس کی عبادت ہو سکتی ہے انمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ - سیپاره ۱ سوره بقر رکوع ۱۴- جس مقام پر خدا کی عبادت کی بجائے وہی مقام مقدس ہو اور اسی کو مسجدسمجھ لیجئے مسلمان چاہیے.سفر میں ہو چاہے حضر میں.جب نماز کا وقت آتا ہے.چند مختصر اور پُر جوش فقرات میں اپنے خالق سے اپنے دل کا عرض حال کہ لیتا ہے.اسکی نماز اتنی طولانی نہیں ہوتی کہ اُس کا جی گھبرا جائے اور نماز میں جو کچھ وہ پڑھتا ہے اس کا مضمون یہ ہوتا ہو کہ اپنے عجز و نیا کساری کا اظہار اور خدا وند عالم کی عظمت اور بلال کا اقرار اور اسکے فضل و رحمت پر تو کل.عیسائی کیا جا نہیں کہ اسلام میں عبادت خدا کا مزا کیسا کوٹ کوٹ کے بھرا ہے.انسان کی نجات قیامت کے روز کیونکر ہوگی.آیا صرف اعمال حس کسی شفیع کی شفاعت ہے یا اعمال حسنہ اور شفاعت شفیع کے اجتماع سے.جواب.مخلوق کی نجات کا مدار ایسا تنگ اور محدود نہیں ہو پادریوں نے بیان کیا کیا خدائی ارادے محدود ہیں.کیا اس بیحد ہستی کے کام کسی مخلوق کے خیال اور وہم پر موقوف ہیں.بندگان خدا کی نجات قیامت کے روز محض باری تعالیٰ کے فضل و کریم سے ہو گی اور صرف اُس کے رحم اور غریب نوازی سے ہم نجات پائیں گے.اگر اعمال وغیرہ سے نجات ہے تو فضل کچھ بھی نہیں.ناظرین یقین کرو کہ فضل و کرم خدا وندی ہے نجات ہے.اور یہی فضل و کریم اسلام میں نجات کا باعث ہر دیکھو سور کا یخدان.اس میں اہل جنت کے انعامات کا ذکر ہوتے ہوتے بتایا ہے کہ جنت میں جانے والے ے جس طرف ته مسته کرد وہاں ہی متوجہ ہے اللہ ہا لے تنقید الکلام ترنیمه لائف آف محمد از سید امیر علی ۱۲

Page 391

دوزخ سے اللہ کے فضل سے بچے.دو قهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمَ فَضْلاً مِن تربك - سیپاره ۲۵ سوره دخان رکوع - اور سورہ حدید میں ہے.لامن سابقوا إلى مَغْفِرَ و من ربكم وجنة عرضها لعرض السماوة الأرمن أعدت وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَ اللهُ ذُوا الْفَضْلِ العظيمه سیپاره -۲۷ - سوره حدید - رکوع ۳ - ن يطيع الله والرسول فأولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ والصَّدِيقِينَ وَالشُّهَلَ ارَ وَالصَّلِحِينَ ، وَحَسَنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا، ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللهِ وَكَفَى بِاللهِ عَلِيماه سیپاره د سورۀ نساء - رکوع ۹- قرآن بیان کرتا ہے گناہ تین قسم کے ہوتے ہیں.اول شرک.قوم کیا کر بسام ضفائر شرک کی نسبت قرآن کریم فیصلہ دیتا ہے کہ وہ ہرگز بدوں تو بہ معاف نہ ہو گا.اس کی سزا يَغْفِرُ بھگتنی ضرور ہے.ان الله لا يغفر أن يشرك به وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذلك سياره - سوره نساء رو - ربوع انجیل بھی با اینکہ بڑی بشارت اور نبیشر ہے.فرماتی ہے.متی ۱۲ باراستے روح ملے اور بپا یا اُن کو دوزخ کی مار سے فضل سے تیرے رب کے ۱۲ سے دوڑو اپنے رب کی معافی کی طرف اور بہشت کو جس کا پھیلاؤ ہے جیسے پھیلاؤ آسمان اور زمین کا.رکھی گئی ہے اُن کے واسطے جو یقین لائے اللہ پر.اور آر کے رسولوں پر یہ بڑائی اللہ کی ہے.دیو سے اس کو جس کو چاہے.اور اللہ کا فضل بڑا ہے ۱۲ اور جو لوگ چلتے ہی حکم میں الہ کے اور رسول کے سوائے انکے ساتھ میں جنکو اللہ نے نوازا نہیں اور صدیق اور شہید اور نیک بخت اور خوب ہے اُن کی رفاقت - فیضل ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ بس ہے خبر رکھنے والا۱۳ له الله یہ نہیں بخشتا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جاوے اور اس سے نیچے بخشتا ہے ؟

Page 392

۳۵ کے خلاف کا کفر معاف نہ ہو گا ہے دوسری قسم گناہوں کی وہ کبائر اور بڑے بڑے گناہ جو شرک کے نیچے ہیں اور صغائر یا مبادی کبائر سے اوپر.اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ ہر ایک کبیرہ اور بڑے گناہ کی ابتداء میں چھوٹے چھوٹے گناہ ہو اس کبیرہ سے کم ہیں ہوتے ہیں.مثلاً جو شخص زنا کا مرتکب ہوا.ضرور ہو کہ ارتکاب زنا سے پہلے وہ اُس نظر بازی کا مرتکب ہو جس سے زنا کے ارتکاب تک نوبت پہنچی.یا ابتداء وہ باتیں سنیں جنکے باعث اس بدکاری کے ارتکاب تک، اس نہ ناکننده کی نوبت پہنچی.ایسے ہی ان باتوں کا ارتکاب جنکے وسیلے سے اسکو و شخص ملا.جیسے زانی نے زنا کیا.اور بالکل ظاہر ہے کہ ان ابتدائی کارروائیوں کی برائی زنا کی برائی سے ضرور کی پر ہے.ایسے کار اور بڑے گناہوں کی نسبت قرآن کریم فرماتا ہے.أن تجتنبوا كبَائِرَ مَا تُنهون عنهُ نُكَرٌ عَنْكُمْ سَيَأْتِكُم سياره سُوره نساء ركوع - کیا معنی جن بڑے بڑے گناہوں کے ارتکاب سے تم لوگ منع کئے گئے.اگر ان بڑے گناہوں سے بچے رہو.تو اُن کے مبادی اور اُن کے حصول کی ابتدائی کاروائی صرف ان بڑے گنا ہوں سے بچ رہنے کے باعث معاف ہوسکتی ہے.مثلاً کسی شخص نے کسی ایسی عورت سے جماع کرنا چاہا جو اس کے نکاح میں نہیں اور اس عورت کے بلانے پر کسی کو ترغیب دی.یا کچھ مال خرچ کیا اور اسے خالی مکان میں لایا.! اُسے دیکھا.بلکہ اُس کا بوسہ بھی لے لیا.لیکن جب وہ دونوں برضا و رغبت بُرائی کے ان قرآن مجید کی تقدیر و تشہیر بر خلاف توریت و انجیل کی افراط و تفریط کے ٹھیک انسان کی حالت امید و بیم کے مناسب ہے جو بحسب فطرت اس کی جبلت میں مرکوز ہے.کیا ہی عجب آیت قرآن کی ہے نبی عبادی آنی انا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَإِنَّ عَذَ الى هُوَ الْعَذَابُ الوَلِيدُه سیپاره -۱۴ سوره حجر - ركوع ترجمد ی خبر سنادے میرے بندوں کو کہ میں اصل بخشنے والا مہربان ہوں اور یہ بھی کہ میری مار ہی دکھ کی مار ہے سے اگر تم بیچتے رہو گے بڑی چیزوں سے جو تم کو منع ہوئیں تو ہم اُتار دینگے تم سے تقصیر میں تمہاری ۱۴

Page 393

ہونے لگے.اور کوئی چیز روک اور بار کاری کی مانع وہاں نہ رہی اور اس بد کارروائی آخری بد نتیجہ بھی ظاہر نہ ہوا تھا.کہ اس زمانی کے ایمان نے آکر اسے زنا سے روک دیا.اب پتی شخص یا این که مال خرچ کر چکا ہے.یا ثانی کی رضامندی پاسکا.صرف ایمان کے باعث ہاں صرف ایمان ہی کے باعث اور خدا سے با ہمہ وسعت و طاقت اس بڑی برائی کے ارتکاب سے ہٹ گیا.اور اس کا مرتکب نہ ہوا.تو صرف اسی اجتناب سے اس کی ابتدائی کاروائیاں جو حقیقت میں مبادی گنا، اور گناہ کی محرک تھیں.معان ہو جائینگی.کیونکہ اس کا ایمان بڑا تھا جس نے آخری حالت میں خدا کے فضل سے دستگیری کی.اور تیسری قسم گناہ کی صفا ئر ہیں.جن کا ذکر کبائر میں ضمناً آ گیا.ناظرین انجات صرف رحم اور فضل سے ہیر اور رحم اور فضل کا ستحق ایماندار ہیں.ان رَحْمَةُ اللهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسنين، سياره - سوره اعراف.كوم - اور ایمان کے پھل نیک اعمال ہیں.پس کل اعتمال یا اکثر اعمال اگر عمدہ ہیں تومعلوم ہوا.کہ ان عمدہ اعمال کے عامل کا ایمان بڑا اور قومی تھا.جب ایک نان بڑا اور قومی ہوا.تو بہت بڑے فضل کا جاذب ہوگا.اور اگر نیک اعمال کے ساتھ تیسری قسم کے چھوٹے بد اعمال یا چھوٹے بڑے دونوں قسم کے بُرے اعمال مل گئے تو ظاہر ہے کہ ایسے شخص کے ایمان میں مد مقابل کچھ کر بھی ہو جس کے بد ثمرات یہ معاصی جھوٹے اور بڑے ہیں.کیونکہ ایمان کا پھل تو یہ بد اعمال ہو نہیں سکتے.پھر لا محالہ کفر سے یہ ثمرات ہونگے.گو وہ پھوٹا ہی کفر کیوں نہ ہو.اور کفر فضل کا جاذب نہیں.بلکہ فضل کو روکتا ہے.جیسے اندھیری کوٹھڑی کی دیواریں اور چھت سورج کی روشنی کو روکتی ہیں.پس ایسے شخص میں ضرور جنت اور نجات کے اسباب اور فضل کے کھینچنے اور لینے کے ایسے اور ذریعے دوزخ میں جانے کے اسباب اور بہشت پنجات میں جانے کی روکیں مل جائیں گی.اد بے شک مہر اشہ کی نزدیک سے نیکی دالوں سے ہو.

Page 394

اس لیئے ایک میزان کی ضرورت پڑی نگری میزان دکانداروں کی ترازو سے یا ریلوے والوں کی ماپ تول سے نرالی ہے.دیکھو اسیموئیل ۲ باب ۳ - یہ ترانہ و خدا کے عدل اور قدوسیت کی ترازو ہے.نیک اعمال کی زیادتی میں ایمان کی قوت ظاہر ہے.اسلیے وہ ایمان بڑے فضل کا لینے والا ہوا.اور مساوات اور کسی کی صورت میں قرآن کی اس امید بھری آیت ہے.وَأَخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطَوا عَمَلًا صَا لِحَاوَ أَخَرَ سَبَا عَسَى اللَّهُ أَنْ عَليهِمْ إِنّ الله غفو غَفُورٌ رَحِیمه سیپاره - سوره توبه - رکوع ۱۳ ۱۱- امید ہے کہ خداوندی رحم اس کے منصب پر سبقت لیجا و سے اور اس کا فضل بچالے.الا یہی فضل کبھی کسی شفیع کو اپنے پہنچنے کےلئے ذریعہ بنالیتا ہے.اہل اسلام میں بے اذن شفاعت ثابت نہیں.اور جب اذن سے شفاعت ہوئی.تو وہ شفاعت حقیقت میں فضل ہو گیا.یہی فصل نجات کا باعث ہے.اور اس بالاذن شفاعت کا ثبوت جیسے خدا کے رحم اور فضل نے گنہ گاہ کے بچانے کے لئے تشریک دی.قرآن میں یہ ہے.دورود وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَارُوكَ فَاسْتَغْفِرُ اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُ هُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوّابات جیما - سیپاره ۵ - سوره نساو - رکوع و - یا در کھو.جب نیک استعمال کثرت سے نہیں ہوتے اور ایمانی قوت کا قومی ہونا ثابت نہیں ہوتا.اُسوقت بڑے فضل کو یہ چھوٹا سا ایمان نہیں کھینچ سکتا و فصل لینے کے سبب میں اور بہنے لگوں نے ان انا انا گناہ ایا ایک کام نیک ار دوسرا بد شاید اللہ معاف کرے کہ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے.سلے اور ان لوگوں نے جس وقت اپنا بڑا کیا تھا اگر آتے تیرے پاس پھر اللہ سے بخشواتے اور بخشوا تا اُن کو رسول تو اللہ کو پاتے معاف کرنے والا مہربان ۱۲.اعمال - ایمان - گناہ.تو اب فضل.ان سب اصطلاحات کی نسبت حکیمانہ طور پر ہمارا خیال کچھ کیوں نہ ہو.اور عیسائی مفہوم اور مذاق سے بالکل الگ کیوں نہ ہو لیکن بہر حال ان اصطلاحات کا اطلاق مخاطبین ہی کے مذاق کے موافق ہم کیئے جاتے ہیں.کیونکہ ہماری اس کتاب کا موضوع و منشاء بھی یہی ہے ۱۲

Page 395

کمزوری ہوتی ہے.اس لئے باری تعالی کار رقم اور کرم چھوٹے سے ایمان کے ساتھ کی شفیع کی شفاعت اور دائیوں کی دوعا کو ملا دیتا ہو اور اسی کمزور ایمان کو اس ذریعے سے قوت دے کر فضل کے لائق بنا دیتا ہے.بلکہ صرف ایمان ہی ابدی سزا سے بچانے کے لیئے اس فصل کو لے لیتا ہو جسکے ساتھ انسان دوزخ کی ابدی سزا سے بیچ جہاد ہے.پادری صاحب پولوس بھی کیا کہتا ہو.پھر اگر فضل سے ہو تو اعمال سے نہیں.نہیں تو فضل فضل نہ رہیگا.اور اگر اعمال سے ہو تو پھر فضل کچھ نہیں.نہیں تو عمل عمل نہ رہیگا.نامہ رومیان 1 باب - پادری صاحبان.آپ کو عہد جدید میں دکھلا دیا کہ آپکا یہ سوال کہ نجات اعمال سے ہے یا شفاعت سے کیسا کمزور ہے.نجات نہ اعمال سے ہے نہ شفاعت سے.نجات صرف خدا کے فضل سے ہے.ہاں.اتنی بات رہی کہ خدا وندی فضل کو کون چیز جذب کرتی ہو.اور کس کے ذریعے ہم محض فضل سے نجات پاسکتے ہیں.تو اس کا جواب یہی ہے کہ ایمان فضل ربانی کو جذب کرتا ہے.قرآن فرماتا ہو.فَأَمَا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيَدُ خِلْهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ فضل - سیپاره ۷ - سورۂ نساء - رکوع ۲۴ اس آیت سے صاف و انج ہوتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے.اُن کو خدا وند کریم فضل و رمت میں داخل کریگا.عہد جدید بھی یہی کہتا ہے.دیکھو نامہ رومیان ۲ باب ۲۰ کیو نکہ ہنے یہ نتیجہ نکالا ہو کہ آدمی ایمان ہی سو بے اعمال شریعت کے راستباز ٹھہرتا ہے.اور نامه رو میان ۴ باب ۳ فرشتہ کیا کہتا ہو.یہی کہ ابر نام خدا پر ایمان لایا.اور یہ اُسکے لئے راستبازی کیا گیا.اہ سو جو یقین لائے اللہ پر اور اسکو مضبوط پکڑا.تو انکو داخل کہ بیگی اپنی مہر میں اور فضل میں ۱۴

Page 396

نجات اور فضل اور ایمان کی مثال بعینہ ایسی ہو کہ ایک شخص جسکی آنکھیں تندرست ہیں.ایک ایسے مکان میں جو بالکل بند ہے.بیٹھا ہے.اور کہیں اس مکان میں روشنی آنے کا راستہ نہیں.اب اس شخص کو ایک نہایت عزیز اور پیارے دوست کا دیدار مطلوب ہے.اور وہ دوست بھی اس مکان میں موجود ہے.اور ظاہر ہے کہ روشنی کے بدون اپنے دوست کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا.اور اس دوست سکھ دیدار تو اس طالب دیدار کے دل اور روح کو کوئی راحت نہیں مل سکتی.جب تک روشنی نہ آوے.اور دوست کا چہرہ نہ دکھلا دے.روشنی لینے کے مختلف ذریعے ہیں.یا تو اس مکان میں روشندان نکالے یا چراغ وغیرہ سے روشنی لے تو دوست کے دیدار سے وہ دیدار کا طالب آرام پاسکتا ہے.ایسا ہی دیدار اور دیدار سے آرام تو نجابت ہو.اور وہ روشتی فصل اور کرم خداوندی پر ایمان ایک روشندان با سراغ پر وافضل کی روشنی کو کھینچتا ہو اور ایمان کو اس روشنی کا جاذب قرآن نے بھی کہا ہے.الله وين الذين امنوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّور سيارة ٣ - سوره بقر.رکوع ۲۴ - پس جس قدر مومن کا ایمان بڑھتا ہے.اسی قدر وہ بڑے فضل کو جذب کرتا ہو اور اسے حاصل کرتا ہو جیسے جس قدر روشندان اور فتیلہ بڑا ہو گا.اُسی قدر زیادہ روشنی کھینچے گا.اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ سب ایمان فضل کو بلاتا ہے.اور فضل سے نجات ہے تو اعمال کیا ہوئے کیا اعمال اخو اور بیکار ہونگے.تو معلوم ہوا کہ سائل نے ایمان اور اعمال نیک کا تعلق نہیں سوچا.کیونکہ نیک اعمال اور سچا ایمان ایک وہ سرے کو لازم و ملزوم ہو.سچا ایمان نیک اعمال کا بیج ہے اور اچھے پیج کا ضرور ہاں.اچھے بیج کا ضرور اچھا ہی پھل ہوتا ہے.اے اللہ کام بنانے والا ہے ایمان والوں کا نگا لتا ہے ان کو اندھیروں سے انجانے میں ۱۲

Page 397

پولوس نامہ رومیان 4 باب میں صاف فرماتے ہیں کہ تم فضل کے اختیار میں ہو.پس تو کیا ہم گناہ کیا کریں.اس لئے کہ ہمہ شریعت کے اختیار میں نہیں بلکہ فصل کے اختیار میں ہیں.ایسا نہ ہو.کیا تم نہیں جانتے کہ جس کی تابعداری میں تم اپنے آپ کو غلام کے مانند سونپتے ہو.اسی کے غلام ہو جسکی تابعداری کرتے ہو.خواہ گناہ کی جس کا انجام موت ہے.خواہ فرمان برداری کی جس کا پھل راستبازی ہے.بھلا کچھ شک ے کہ درخت اپنے پھلوں سے ہی پہچانا جاتا ہے.بالکل سچ ہے کہ سچا ایمان اچھے اور نیک اعمال کا باعث ہو اور کفر اقسام بدکاریوں کا شہر انسان کی کمزوریاں کبھی اسے کفر کے باعث فضل کے لینے میں بد نصیب کر کے گناہ کا مرتکب بناتی ہیں.اور غفلت کی حالت میں شیطان کڑوے بیج ہوتا ہو.متی ۱۳ باب ۲۵ اس واسطے عادل خدا کی ذات بابرکات نے اس کی تدبیر فرمائی.ވ حمن زعامت اية أوليك هم المفلحون ، سماره، سوره اعراف رکوع شه وَمَن عَمِلَ صَالِحًا من ذكر أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِكَ يَدْخَلُونَ الجَنَّةَ يرزقون فيه ما بغير حساب - سیپاره ۲۲ سوره مؤمن - رکوع ۵- کیا معنی کہ جب ایک انسان بر اور نیک اعمال دونوں قسم کے عملوں کا مرتکب ہوتا ہے.بر تو معلوم ہوا کہ اس میں ایمان اور اُسکے مد مقابل کے بیج بوئے گئے ہمیں اسلئے میزان کی ضرورت ہوئی.تاکہ عدل کی صفت پوری ہو.پس جس کے نیک اعمال بڑھ گئے.عدل اور رحم اسکا شفیع ہوا.اور فضل و کرم سے ایسے شخص کا بیڑا پار ہو گیا.سچی ہے.بھلے اور چنگے کو طبیب کی ضرورت نہیں.متی 4 باب ۱۲.اور جسکے اعمال نیک اور بدھے جملے ہیں.لے سوجن کی توئیں بھاری پڑیں سو رہی ہیں جن کا بھدا ہوا ۱۲ یں اور جب پینے کی ہے بھلائی..مرد ہو یا عورت اور وہ یقین رکھتا ہو.سو وہ لوگ بھائیں گے بہشت میں.روزی یہ ہو...پلائیں گے وہاں بے شمار ہو

Page 398

۳۹۱ تو اس کے لئے بھی رحم اور کرم کا پتہ امید ہے کہ فضل سے بھاری ہو جاوے.سوال گر شفیع کی ضرورت ہے تو اس کے شرائط اور و بر خصوصیت کیا ہے؟ جواب شفیع کے شرائط وہی جانے سے شفیع بنانا ہو.یعنی جس کے رحم اور کرم اور فضل نے شفیع بنایا ہو.الا جہاں یہاں شفاعت کا ثبوت ہے.وہاں وہاں قرآن نے دو شرائط وہ بتلا دئے ہیں.غور کرو انبیاء اور ملائکہ کی شفاعت اُسی کے رحم اور فضل سے ہے.اور اسی کے اذن اور اجازت سے دیکھو.a ل مَادٌ تُرمُونَ لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ سياره ۱ سورة انبياء - رکوع ۲ - لا يموت إلا لمن ارتضی - سیپاره ۱۰ سوره انبیاء - رکوع -۲ لا يملكُ الذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَ يَعْلَمُونَ ، سیپاره ۲۵- سوره زخرت - رکوع ۷ - وَاسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَى وَرَحْمَةٌ وَمِمَّا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَتِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيم - سیپاره ۲۴ سوره مؤمن - رکوع ۱ لے لیکن وہ بندے ہیں جنکو عزت دی ہو اسے بڑھکر نہیں بول سکتے اور وہ اسی کے حکم پر کام کرتے ہیں ۱۲ ہے اور سفارش نہیں کرتے مگر اُس کی جس سے وہ راضی ہو ۱۲ سن اور اختیار نہیں رکھتے جن کو یہ پکارتے ہیں سفارش کا.مگر جی نے گواہی دی سچی اور انکو شہر تھی ۱۳ اور گناہ بخشہ اتے ہیں ایمان والوں کے اے رب ہمارے ہر چیز سمائی ہے تیری مہر اور غیر میں سو معاف کر اُن کو ہو تو بہ کریں اور چنیں تیری راہ اور بچا اُن کو آگ کی مار سے ۲)

Page 399

وَاسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الأَرض سیپاره ۲۵ - سوره شوری - رکوع ۱ - سوال اگر نیک اعمال سو نجات ہو تو نیک اعمال سے کل اوامر اور نواہی کا بجالانا ضرور ہو یا جسقدر ہوسکیں ؟ جواب صاحب کہات فضل سے اور قتل کو ایمان لے سکتا ہے ایمان اچھے پھلوں کا بیج ہو اچھے بیج سے اچھے ہی پھل حاصل ہوتے ہیں.اگر ایمان بڑا اور قومی ہے تو اعمال نیک ہی ہوں گے.پس آپکے اگر مگرہ کی گنجائش ہی کہاں ہمیں نو.نجات دو قسم کی ہو.ایک جہنم میں ہمیشہ رہنے سے بچے رہنا.وہ تفصیل سے ہوگی.بشر طیکہ ایمان ہو.اور فضل کو چاہے بلکہ صحیح مسلم جیسی بھی انجیل شریف میں محمد رسول اللہ مسلحم فرماتے ہیں.بغیر عمل عَمَلُوهُ وَلَا خَيْرِ قَدَمُوهُ.یعنی جنت میں ایسے لوگ بھی جائیں گے جنہوں نے کوئی عمل اور شیر نہیں کی.اور جن کہائر گناہوں پر ابدی سزا کا ہونا بیان ہوا.وہ بیان بالکل راست ہے.وہ کیا تو ایسے ہیں کہ ابدی سزا میں پھنسا ئیں.الا خدا پر ایمان لانا اور اسکی توحید پر ثابت قدم ہونا.اور میں بلائے بد شرک میں مشترک پھنس کر تباہ ہوئے.اس بلا سے الگ ہو جانا بلکہ صرف رحم بھی ایسے فضل کے دائیں کر دیتا ہے.کہ بڑے گناہ کے مرتکب کو وہ فضل ابدی جہنم سے نکال لاتا ہے.اور اس ابدی سزا کے موجب پر یہ فضل نجات کا موجب غالب آجاتا ہے.مثلاً ایک شخص نے تھوڑی سی گرم جدید کھالی وہ گرم چیز ضرور گرمی کرے گی.الا اگر اس کے ساتھ بہت سی سرد چیز کھائی گئی.تو ظاہر ہے کہ اس سرود کی سردی اس گریہ کی گرمی کو باطل تونکی کر دے گی.اور دوسری قسم کی نجات، لکن نیک اعمال کی کثرت سے ہوگی.جو مجھے ایمان کا ثمرہ ہیں.خدا کے فضل و کرم سے حاصل ہوگی.اور گنا و بخشوانے میں زمین والوں کے ہیں

Page 400

۳۹۳ انَ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السريات - سیپاره ۱۲ سوره هود - رکوع ۱۰ - إن تَجْتَنِبُوا كَب يرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ يُكفر منكم بنا کر سیپاره سوره نسامع - اور بصورت کمی اعمال کے بعضو الہی اور شفاعت شفیع خدا کے فضل سے ضعیف ایمان کے ساتھ مل کر فضل بلکہ نجات کو حاصل کرینگے.قانون قدرت اور دنیا کے اسباب اور موانع پر غور کرنے سے یہ بات بہت آسانی سے حمل ہو سکتی ہو.شفاعت کبری اور صغری کی کیا تعریف ہے.شفاعت کبری یا صغری کا قرآن سے یہ نسبت محمد صاحب کے کیا ثبوت ملتا ہی لفظی معنی لکھ کے آیت سے ثابت کریں.تاویلیں اور مرادی معنے مطلوب نہیں.جواب پادری صاحب.آپ نے کتنا پُر زور سوال کیا ہو.اور اعتراض میں کے میں کتنے پہلوؤں پر نگاہ رکھی ہو.اور جواب سے بزعم خود روکا ہو.الا میں سچ کہتا ہوں.یہ قرآن ہی و کتاب ہے جو ہر زمانے کے فلسفے میں اپنے آپکو راستباز ثابت کرتی رہی اور ثابت کر دیگی.جسقدر علوم دنیا میں ترقی پا ینگے یہ کتاب اُن کے نیچے اصولوں سے کبھی مخالفت نہ کریگی اور اپنا صدق ظاہر کرنے کو بے تعصب محققوں کو اپنی راستی پر کھینچ لائے گی.اگر حق طلبی مدنظر ہے.اسی سوال کے جواب پر اکتفا کیجئے اور لیجئے.ہم آپ کے تمام پہلوؤں کو دیکھ کے جواب دیتے ہیں اور لفظی معنی لکھ کر آیتیں دکھلاتے ہیں.اور دونوں سم کی شفاعتوں کا قرآن سے ثبوت دیتے ہیں.شفاعت کے معنی سفارش - صغری کے معنی چھوٹی اور کبری کے معنی بڑی شفاعت صغری چھوٹی سپارش بشفاعت کبری بڑی ے البتہ نیکیاں دور کرتی ہیں برائیوں کو ۱۳ A اگر تم بچتے رہو گے بُری چیزوں کو جو تم کو منع ہوئی تو ہم انار دینگے تم سے تقصیریں تمہاری ۱۲

Page 401

سپارش.ہاں نہیں سپارش بڑی.چھوٹا اور بڑا ہونا ایک نسبتی امر ہی جیسے ایک اور تین.ایک تین سے چھوٹا اور تین ایک سے بڑا.اب قرآن سے ثبوت لیجئے.اور ثبوت بھی کیسا جسمیں یہ بات بھی ثابت ہو جائیگی کہ دونوں قسم کی سفارش آنحضرت صلعم کے حق میں ثابت ہے، پہلے چھوٹی سفارش.وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاوَرُكَ فَاسْتَغْفَرُ الله وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لوَجَدُوا الله تو ابار حماه سیپاره ۵ - سوره نساء - رکوع و - وود خُذ من أموالهم صدقة تظهرُهُمْ وَتُرَ لَيْهِمْ بِهَا وَصَلَّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلونَكَ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً سَكَنَ لَهُمُ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمه سیپاره ۱۱ - سوره توبه - رکوع ۱۳ - 1 - دیکھو یہاں صرف منافقوں کے گروہ کی شفاعت کا تذکرہ ہے.اسلئے پیشفاعت صغری شفاعت ہوئی.اور کبر کی شفاعت کا ذکر ان آیات شریفہ میں سر جنکے ذریعے آپ بڑے جوش و خروش سے آنحضرت مسلم کے گھر کا ہونے کا استدلال کرتے ہیں وہ آیات اس قسم کی ہیں.وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ، سیپاره ۲۶ سوره محمد - رکوع ۲ آپکے ان اعتراضات کا جواب کہ اس قسم کی آیات سے آنحضرت کا گنہگار ہونا ثابت ہوتا ہے.عنقریب آتا ہے.لے اور ان لوگوں نے جسوقت اپن برا گیا تھا.اگر آتے تیرے پاس پھر اللہ سے بخشواتے اور بخشوا تا انکو رسول تو اللہ کو پاتے معاف کرنے والا مہربان ۱۲ سے لے اُن کے مال میں سے زکواۃ کہ اُن کو پاک کرے اُس سے اور تربیت اور دعا د ہے اُن کو البتہ تیری ڈھا اُن کے واسطے آسودگی ہے اور اللہ سب سنتا ہے جانتا ۱۲ سے اور معافی مانگ اپنے گناہ کے واسطے اور ایماندار کردوں اور عورتوں کے لئے ۱۲

Page 402

۳۹۵ سوال کوئی گنہگار گنہگار کو بہشت میں داخل نہیں کر سکتا.اور قرآن و حدیث سے ثابت ہو نا ہو کہ محمد صاحب خود گنہگار ہیں.اسلئے وہ اس لائق نہیں کہ وہ شفاعت صغرنی اور کبری کرنے کا اختیار پاویں.بلکہ سات آشکارا ہر کہ وہ خود بھی نجات نہ پائینگے.جواب نجات اور بہشت میں پہنچنے کی راہ اور اس کا طریقہ بیان کر چکا ہوں کہ نجات فضل سر ہے.اور فضل ایمان کے وسیلے سے مل سکتا ہے اور ایمان نیک اعمال کا بیج ہے.الا آپ کا یہ فقرہ کہ گنہ گار گنہگار کو بہشت میں نہیں پہنچا سکتا.کیا کوئی الہامی کلام ہے یا عہد عقیق یا عہد جدید کا حکم ہے.کیا روح القدس سے نکلا.نہیں نہیں.بلکہ آپ کا خیال ہو یا آپکی عقل کی تجویز- یہ فقرہ نہ تو کلام الہی ہے نہ روح القدس کی تحریر.اور آپ کے خیالات اور تجاویز سے واقعات نفس الامریہ کا ابطال محال ہے.آپ کو اگر اپنی عقل پر کچھ بھروسا ہو تو اسے پہلے تثلیث کے مسئلے پر اور کفارے کے خیال پر پر کچھ لیجئے اور دیکھئے.کارگر ہو یا نہیں.پھر کتب اللہ میں سے مقدسہ کتب پر نظر کیجئے.جن میں صاف لکھا ہو کہ ابراہیم.ایوب اور موسی اور ایڈیا اور سموئیل.دانیال - با اینکہ سب کے سب عیسائی اعتقاد کے موافق گنہگار ہیں.کیونکہ شفیع ہوئے.دیکھو یرمیاہ باب ۱ - زبور ۹۹ باب ۶ - حز قیل ۱۴ باب -۱۴ پیدایش ۱۸ باب -۲۳ خروج در باب ۸ و ۳۰-۱۴ باب ۱۸ و ۱۹ - شفاعت ایک قسم کی دُعا ہو اور دعا کا موثر ہونا کل مذاہب تاریخیہ میں مسلم اور دعا کے لئے یا دعا کی قبولیت کے لئے گناہوں سے پاک ہونا ہرگز ہرگز شرط نہیں.سوال لفظی معانی قرآن سے ثابت کرو.خدا کے عدل و رحم میں بھی فرق نہ آوے اور گنہ گار بے سزا پائے بہشت کا جاودانی آرام پائے.قرآن کے لفظوں سے خدا کا قدوس رحیم و

Page 403

494 عادل ہونا ثابت کرو.الزامي جواب متی ۲۱ باب ۲۳ - ۲۲ مسیح سے کو بہنوں اور بزرگوں نے پوچھا " تو کس اختیار سے یہ کرتا ہے اور کس نے تجھے یہ اختیار دیا مسیح نے کہا.میں بھی تم سے ایک بات پوچھتا ہوں اگر وہ مجھ سے کہو تو میں بھی تم سے کہونگا " سوئیں بھی بطور سیح تم سے پوچھتا ہوں.بتاؤ شیطان بھی گنہگار ہو.یہودا اکر لوطی بھی برینی مسیح کو پکڑوایا گنہگار ہے.اور کا نا جس نے مسیح کے قتل کا فتوی دیا گنہگار ہیں.اب بتائیے بے سزا پائے بہشت میں کیونکر داخل ہوں گے.تمام بت پرست قومیں اور تمام منکرین سیح کیا ہے سزا جنتی ہیں.جس دولتمند نے دوزخ میں ابراہیم سے عرض کی کہ احاذر کو بھیج پانی سے میری زبان ٹھنڈی کرے.(لوقا ۱۹ باب ۲۲۳۲) کیا وہ گنہگار ہے سزا پائے جاودانی آرام میں داخل ہوا.اب آپ لوگ ان تمام مثالوں میں اپنی انجیل سے جس کے معنی بشارت ہیں رحم و عدل کو جمع کر دیں.شیطان کی نجات کا ذریعہ انجیل سے نکال دیں.اگر صرف رحم اس طرح باعث نجات ہو کہ اعمال یا ایمیان نہ ہو اور بد کار نجات پاد تو چھٹی ہوئی.بقول معترض مسیح ملعون ہوا.پادریوں کو کیوں منادی کی فکر ہے.اور ہم مسلمان تو ضرور ہی نجات پا دینگے.کیونکہ بقول (لوقا باب ۵۰ جو مسیح کے خلاف نہیں کو مسی کی پیروی نہیں کرتا وہ مسیح کی طرف ہے" ہم مسلمان تو حضرت مسیح کے بچے پیرو ہیں.ان کو دل سے مانتے ہیں اور اُن کی سب سے اعلیٰ اور آخری وصیت پر دل سے کاربند ہیں.جو بعضا ، باب ۲ میں مذکور ہو.میں صدق دل سے اصالتا اور تمام اہل اسلام کی طرف سے وکالتا اقرار کرتا ہوں کہ

Page 404

خدا اکیلا سچا خدا ہی اور یسوع مسیح جسے اُس نے رسول کر کے بھیجا واعظ نجات اور ست چار سول ہو اور آخر میں ہزاروں صلوات و سلام اس مبارک فخر امر سلین ہادی کو جسی آخری زمانے میں کل نبیوں کی اصلی اور واقعی تعلیم کو پھر دنیا میں پھیلایا.اور مسیح کی خالص اور پانی تعلیم کو تمام کفر و شرک کے شائیوں اور انکی خلاف منشا آمیزشوں سے مبرا کر کے ہزاروں لاکھوں مخلوق کو اباری نجات کی راہ بتائی اور بڑی صفائی سے فرمایا.14 قولُوا آمَنا الشو وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا انْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ - سياره سوره بقى ركوع قل ياهل الكتب تَعَالَوْا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم تم الا نعبد إلا الله وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَ لَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَا بَا مِّن دُونِ اللهِ سیپاره ۳ - سورة ال عمران - رکوع -- عدل و رحم یہ دو لفظ اکثر نصاری کی گفتگو کا سرمایہ ہیں.ہم حیران ہیں کہ ان الفاظ کا مفہوم ان لوگوں نے کیا سمجھا ہو.کیا عدل یوں ہی قائم ہوتا ہے کہ خدائے قدوس ایک عورت کے پیٹ میں کسی طرح گھس کے اور پھر اس میں سر نکل کے مصلوب و ملعون ہو.تب لوگ نجات پائیں.لا اله الا الله لا حول ولا قوة إلا باللهِ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُوارْتَ إِلَّا گرن با سیپاره ۱۵- سوره کهف - رکوع ۱ - اس موقعہ پر مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا جس کا بیان کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا.ایک پادری صاحب رحم و عدل کی منادی کر رہے تھے.وہاں ایک سلیم الفطرت زمیندار آنکلا.اُس نے پادری صاحب سے عرض کیا.میں نہایت غریب آدمی ہوں.اتنا اثاثہ بھی نہیں، ے کہو ہم نے یقین کیا اللہ پر اور جو اترا ہم پر اورجو اترا ابراہیم پر ۱۲ ہ تم کہو اے کتاب والو آؤ ایک سیدھی بات پر ہمارے تمہارے درمیان کی کہ بندگی نہ کہیں ہم مگراند کو اور شریک نہ ٹھہرا دیں اس کا کسی چیز کو.اور نہ پکڑیں آپس میں ایک ایک کو رب سوائے اللہ کے ۱۲ کیا بڑی بات ہو کر نکلتی ہے اُن کے منہ سے سب جھوٹ ہے جو کہتے ہیں ۱۲

Page 405

جس سے رات کو میرے بچے پیٹ بھر کھاویں اور میری اولاد کثیر ہے اور ہر سال میرے یہاں ایک بچہ پیدا ہوتا ہو.اور میرے پڑوس میں ایک ذیلدار بڑا معزز مالدار ہو مگر بالکل لا ولد ہے.اب پادری صاحب ہمارے دیکھتے دیکھتے دنیا ہی میں خدا کا دل و رحم جمع کر دکھلا ہے اگر یہاں جمع نہیں تو قیامت میں کیسے ثابت ہو کہ جمع کریگا.پادری صاحب نے جھنجلا کر کہا.اونا دان کیا تو خدا کا بھید پاسکتا ہے.کیا تو سمندر کو چلو سے ناپتا ہے.اسپر زمیندار بولا.پس او نادان ہمیں کیسے کہتا ہے کہ جمع کا بھید بتلاؤ.کیا تو ہم سے سمندر کو چھٹو سے نہواتا ہے.حقیقی جواب خدا کے رحم و عدل اور اسکی قدوسیت کے بیان سے تمام قرآن مالا مال ہے سنو.هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ - هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلا هُوَ الْمَلِكُ القدوسُ السَّلَامُ - سیپاره ۲۸ - سوره حشر رکوع ۳- عِبَادِى إِنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيم - سیپاره ۱۴ - سوره حجر - رکوع ۴ - من يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا، إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ - سیپاره ۲۴ - سوره زمر - رکوع ۶ - وَرَحمَتِي وَسِعَتْ كُلّ شَى ط سیپاره ۹ - سوره اعراف - رکوع ۱۹ - ي عِبَادِ لا خَوْنَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلا انته تر نون ، سیپاره ۲۵ سوره زخرفت رکوع ے وہ ہے مہربان رحم والا ہے وہ اللہ ہے جس کے سوا بندگی نہیں اور کہ وہ بادشاہ ہے پاک ذات چنگا ۱۲ س خبر سنادے میرے بندوں کو کہ میں اصل بخشنے والا مہربان ہوں ۱۲ ے کہد والے بندو میرے جنہوں نے زیادتی کی اپنی جان پر نہ آس توڑو اللہ کی مہر سے بیشک اللہ بخشتا ہے سب گناہ وہ جو ہے وہی ہے گناہ معاف کرنے والا مہربان ۱۲ شے اور میری مہر شامل ہے ہر چیز کو ۱۲ ے اسے بند و میرے نہ ڈر ہو تم پر آج کے دن اور نہ غم کھاؤ ہو.

Page 406

كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَة - سيپاره ، سوره انعام رکوع ، حيمَةُ رَبِّكَ صِدْ قَا وَ عَدْ لا، لا مبدل لكلمته : سیمباره سوره انعام رکوع - ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَى وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِه سیپاره ۲۷ سوره ق رکوع ۲ إن الله لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَة سیپاره ۵ سوره نساء رکوع ۶ ان الله لا يُخَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُخَبِرُوا مَا بِأَنفُسِهِم سیپاره ۱۳ سوره رعد رکوع ۲ ومار بكَ بِظَلَّامٍ لَلْعَبِيدِه سیپاره ۲۴ سوره حم سجده رکوع ۶ افَمَن كانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقاء لا يستون ، سیپاره - سوره سجده رکوع ۲ وَمَا يَسْتَوى الاعمى وَالْبَصِيرُ ولا الظُّلُمَاتُ وَلا النُّورُه وَلَا الظل ولا الحرورة - 3 وَمَا يَسْتَوِي الأَحْيَاء وَلَا الْاَمْوَاتُ سیپاره ۲۲ سوره فاطر رکوع ۳ - وَلمَّا ظَلَمْنَهُمْ وَلكِن ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ - سیپاره ۱۲ سوره هود - رکوع ۹ قرآن کا عدل و رحم تو یہ ہو اور بیشک یہ نصاری کے فرضی ذہنی اور سلم عدل ورحم کے خلاف ہے.جب ہم فطرت انسانی پر اور عادۃ اللہ پر جو اس عالم مشاہدہ میں جاری ہو اور جس سے آئیندہ اور بعد الموت عالم غیب پر ایمان و ایقان لانے کی راہ اور ثبوت ملتا ہے.بغور نظر کرتے ہیں تو انسانی حالت اور اس کے قومی کی ترکیب اور اسکے فطری تقاضے اور لازمی افعال و اعمال کو ٹھیک اسی رحم و عدل کے مطابق اور بالکل موافق پاتے ہیں جسکی بابت قرآن کریم کی آیتیں خبر دیتی ہیں اور اسی لئے ہم اس مقدس کتاب کو خدا کا کلام کہتے اور اعتقاد کرتے ہیں کہ اے لکھی ہے تمہارے رب نے اپنے اوپر مہر کرنی ۱۲ سے تیرے رب کی بات پوری سچ ہے انصاف کی کوئی بدلنے والا نہیں اس کے کلام کو ۱۲ سال بدلتی نہیں بات میرے پاس در بین ظلم نہیں کرتا بندوں پر ۱۳ ملکه ال حق نہیں رکھتا کسی کا ایک ورسے برابر ہے اللہ نہیں بدلتا ہو ہے کسی قوم کی بیشک وہ نہ بدلیں تو اپنے بچے ہو اور تیر اب ایسا نہیں کہ ظلم کے بندوں پر اک بھلا ایک جو ہے ایمان پر برابر ہے.اسکے جو بے حکم ہی نہیں برا بر ہوتے اور نہیں باہر اندھا اور دکھتا اور نہ اندھیرا اور نہ اُجالا اور نہ سایہ اور نظیر.اور برا بر نہیں جیتے نہ مرتے ۱۲.این ایام من کی ایک ظلم کرگئےاپنی جان پر ہم پر "

Page 407

۴۰۰ خدا کے فعل بینی قانون قدرت کے مطابق ہدایات کرتا ہے.چونکہ قانون قدرت ٹھیک نمونه شرعی قانون کا ہے یا یوں کہو کہ شرعی قانون ایک مکتوبی صورت اور سچا فوٹو قانون قدرت کا ہے.اور انسان کو معاملات عقبی اور حالات اُخروی کے فہم کی راہ اسی عالم مشاہدے اور محسوسات کے ذریعے سے گھلی ہو اور خود خدا نے بھی اپنی ذات وصفات کے غیب الغیب اسرار کو اسی عالم کے مجازی محسوسی صورتوں اور تمثیلوں سے مطابق کرکے سمجھایا ہے.اس لئے ہم کو ضرور ہوا.اور لازمی طور پر ہم پابند کئے گئے.کہ ان صفات ( عدل ورحم) کی ملک اس کے فعل یعنی قانون قدرت کو ٹھیرا وہیں کہ وہ قدوس اپنے فعل سے ان موجودات میں کیسا صفاتی نمونہ بتاتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ انسان جتنا معلومہ قوانین قدرت کا اتباع کرتا ہے.اور اپنی قولے سے اُن کی ترکیب اور فطرت کے اصلی تقاضے کے موافق کام لیتا ہو.اتنے ہی زیادہ فائدے اور متع اُٹھاتا ہے.اگر اس کے ثمرات شخصی محنت اور ذاتی ہمت سے حاصل ہونے والے ہیں.تو شخصی محنت ہی اُن کی تحصیل کرنے والی ہوتی ہے.اور اگر قومی کوشش اور متفق سعی اُن کے حصول کا سبب ہے.تو شخصی محنت وہاں کارگر نہیں ہو سکتی ہے.اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ قانون قدرت کے ان خفی اسباب سے جن کا علم سر دست علی العموم لوگوں کو حاصل نہیں.ایک انسان کو آرام و راحت محاصل ہو جاتی ہے.جسے قدرت کے اسرار سے ناآشنا اور کتاب اللہ سے ناواقف لوگ اتفاقی بات کہتے ہیں.اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی اعمال کے نظرات تدربھالتے ہیں.اور کبھی نہایت جلد گویا عمل کے تابع اور لازم ہوتے ہیں.مغرض ہر چیز کا ایک اندازہ اور تقدیر ہے.جس سے حتما سر مو تفاوت ممکن نہیں.ایسا ہی حال شرعی قانون کے دعید و و عد یعنی اُخروی آلام و نعما کا ہی.بحسب مراتب دفعات کوئی فرد بشر ان کے نتائج سے محروم اور غیر محفوظ رہ نہیں سکتا.اور

Page 408

شخصی عبادت اور شخصی نیکیوں کے ثمرات قومی عبادات اور قومی نیکیوں کے نتائج اور وہی فیضان الہی پر غور کرو.اور شخصی نافرمانیوں بدکاریوں اور قومی یہ کار ہوں اور بغض و طغیان، پر نگاہ دوڑاؤ کوئی بادشاہ ہوں.کوئی دولتمند.کوئی میعادی قیدی.کوئی دائیم المجلس کوئی بیمار کوئی نہایت صحیح الحال - فارغ البال.ایسا ہی بحسب قانونِ قدرت قیامت کے دن کوئی انہو لقا سے لذائذ و نعمت میں سرشار.کوئی عالم آرام ہیں کوئی خدائی خوشنودی کے بلند تختوں پر.کوئی دانت پیستا انتھاہ کو میں میں جھونکا ہوا.پیاس سے مرا جاتا ہے.با اینکه خدائے تعالیٰ سوقت بھی حادل و رحیم ہے.پھر کوئی آرام میں ہے کوئی آلام میں ایسا ہی آخرت میں بھی کوئی بہشت میں کوئی دوزخ میں.پھر بھی خدا وایسا ہی قدوس و رحیم و عادل رہیگا.تدائی عدل و رحم کی عجیب نظیر ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ مخلوق کو آر ائمہ محتاج بنایا رحم ! اور اُسکے قومی میں اُن کی ترکیب کے بموجب مختلف تقاضے اور جذبات اور گوناگون میلان اور تعلقات رکھ دیئے.اور پھر اس عالم میں اسباب و آلات بھی اُس کی قومی کے تعلقات کے مناسب پیدا کر دئے.اگر کوئی شخص عمداً یا سہواً قانون قدرت کی خلاف ورزی کے سبب سے کسی مرض و علت میں گرفتار ہوا.اور عدل نے اُسے ماخوذ کیا.تو معا رحم نے ہزاروں لاکھوں دوائیں اس کے لئے بہم پہنچائیں.اور فضل نے اُسے اُس بلا سے نجات دیگر پھر اعلی صحت کا مزہ چکھا دیا.ایسا ہی ایک بدکار قانون شرع کی خلاف ورزسی میں اپنی عافیت تباہ کر چکا اور قریب تھا کہ دار العدالت میں پہنچکر ابدی عذاب میں مبتلا ہو.رحم الہی نے مٹ سچی توبہ ہو اے آریہ توبہ ورحم سے بینجبر ہیں.اس قانون پر نظر کریں ۱۲ OVER THE

Page 409

نابت ہو حقیقی محرک رحم ہے.اس کے لئے مہیا کر دی.اگر اس نے خلوص قلب سے سچی توبہ کی اور بڑی تفریح سے اپنے معالق کی طرف رجوع کی تو فصل اُسکے سارے گناہوں کے دفتر کو دھوڈالتا ہے.اس لئے اور اسی لئے ہم کہتے ہیں اور مشاہرے.کہتے ہیں کہ فضل کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے کبھی بند نہیں ہوا.مگر جس طرح روشنی اور اسکے انوار فی حد ذاتہ روشنی بخش ہیں.الا اگر کوئی تاریک جھونپڑے میں گھتا ہوا ہو.اور اسے روشنی نہ پہنچے.تو اسے یہ لازم نہیں آ کہ روشنی نور بخش نہیں ہے.نہیں وہ فی ذاتہ نور ہے.اور اسی لئے نور بخشش ہے.مگر اُسے حاصل کرنا چاہیئے.اور روشنی لینے اور اُسکے انوار کا مظہر بنے کیلئے جمیع سامان کی ضرورت پڑتی ہے.مثلاً اندھیری کوٹھڑی سے باہر اور اسکے خطوط شعاعی کے محیط میں موجود ہونا.ایسا ہی آخرت کے نور اور اُس کے سامان کے حصول کے لئے یہاں فضل اور نجات کے سامان کی ضرورت ہے.اور وہ سامان جاذب فضل اور مقناطیس رحم سچا ایمان ہو.جسے قرآن بیان کرتا ہے.الله ولى الذين امنوا يخرجُهُم مِنَ الظُّلمت إلى النور والذين كفروا أوليا و هم اللغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمتِ - سیپاره ۳ سوره بقى ربوع ٣٣ - پس جو شخص ولایت الہیہ کو اختیار کرے اور سچا ایمان باریتعالی کے ساتھ رکھو.یقیناً فضل اُس کا دستگیر ہوگا.پر جس طرح درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہو اور بیج کی خوبی اپنے ثمر سے ظاہر ہوتی ہے.اسی طرح جسکے اندر سچا ایمان ہو گیا.اور جس کے حل میں ایمان کے پاک بار آور درخت نے جڑ پکڑی ہوگی.لا محالہ اُسکے پھل یعنی ن اللہ کام بنانے والا ہے یمان والوں کا.نکالتا ہے اُن کو اندھیروں سے اُجالوں میں.اور جو منکر ہیں.اُنکے رفیق میں شیطان نکالتے ہیں اُن کو اُجالے سے اندھیروں میں ۱۲

Page 410

۴۰۳ اعمال وافعال بھی اچھے ہونگے.اور جس کا ایمان ناقص ہے.اسکے اعمال بھی ناقص ہونگے جسکی مثال قرآن اس طرح پہ بیان فرماتا ہے.مساهمة طيبة الشجرة طَيِّبَةٍ أَصلها ثابت وفرمها في اللاء سیپاره ۱۳ - سوره ابراهیم - رکوع ۲ - - یہی سچی تعلیم ہو اور یہی واقعی باریتعالی کا عدل و رحم و انصاف ہو جسے قرآن تنظیم اور فرقان حمید تعلیم کرتا ہے.نہ یہ کہ ایک شخص کے مصلوب مقتول ومعون ہونے سے کوئی بھی کیوں نہ ہو ، انسان کی نجات ہو.اور عدل و رحم کی تکمیل میں کی کوئی نظیر عالم ر مشاہدے میں پائی نہیں جاتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس کفارہ میسج کے اعتقاد نے جن کی تسلیم کل اخلاقی نیکیوں اور قوائے فطرت کے اصلی مقتضیات کی راساً جڑ کاٹ ڈالتی ہے.ان فرضی اور مخترع متقدرات ذہنی پر نصار مئی کو مجبور کر رکھا ہے.اور اس کو اولا ایک عقیدہ مسلمہ اور اصول موضوعہ کے طور پر فرض کر کے پھر ایسے ناشر نی امور کا بیڑا اٹھایا ہے کہ فعال صورت میں عدل و ریم جمع ہو سکتا ہے.اور فلاں صورت میں نہیں ہو سکتا.مگر افسوس یہ لوگ ان الفاظ کا موضوع اصلی اور مفہوم حقیقی سمجھنے سے قاصر رہے ہیں اور اپنے ذہنی اور فرضی مخترعات کو قانون قدرت کی محک پر کسنے کی کبھی کوشش نہیں کی.مسئلہ تقدیر پادری صاحب کے اعتراض کا خلاصہ مسلمان گناہ کو ایک خفیف سی حرکت اور وہ بھی خدا کی کرائی جانتے ہیں مسلمان گناہ کو خدا کا فعل اور اسی کے مجبور کرنے سے سرزد ہوا ہوا یقین کر کے گناہ کرنے میں ایک مثال ایک بات نہری جیسے ایک درخت سنہرا اس کی جڑ مضبوط ہے اور ٹہنی آسمان میں ۱۲

Page 411

بے باک ہیں.مسئلہ تقدیر نے مسلمانوں کو بے دست و پا کر کے ایسا سست کر رکھا ہے اس قوم کی ترقی کی کبھی امید نہیں ہوسکتی.جواب معترض کے تصور فہم پر مجھے سخت تعجب آتا ہے.کیونکہ یہی مسئلہ اسلام میں ترقی کی جڑ تھا.اور یہی اصل حقیقت میں تمام بلند ہمتیوں کا ریشہ تھا.جسے معترض صاحب نے مانع ترقی اور سبب تنزل تصور کیا ہے.بیشک مدتوں سے یہ مسئلہ زیر بحث ہے.اور ایک عالم نے اس پر خامہ فرسائی کی ہے.غالباً عالم کی کل قوموں میں یہ مشترک خیال پایا جاتا ہے حقیقت یہ ہے.جسوقت انسان با وجود موجودگی اسباب اور ترتب سامان کے امر مطلوب کے حصول سے محروم رہ جاتا ہے.یا کبھی کسی دوسرے آدمی کو بے ترتیب اسباب کا میاب دیکھتا ہے تو طبعاً اپنی کمزوری کا معترف ہو کر اور اپنے مجھ کوتاہ دوستی سے گھبرا کر فطرتا اس ہمہ قدرت محیط علی الکل مستی کی طرف آنکھ اٹھاتا ہے اور قوائے طبعی اور اسباب معدہ کو اپنے قبضہ قدرت سے خارج اس علیہ العلل مخفی ذات ہی کے قابو میں یقین کرتا ہے.جب تو لا محالہ کوئی تقدیر - کوئی قسمت کوئی فیٹ یا پریڈ سٹینشن کوئی پرمیشر بھادی وغیرہ اس قسم کے الفاظ استعمال کرتا ہے.بیشک ایسے وقت میں اس کو اپنی عبودیت کے ضعفت اور اپنے معبود کی فوق الفوق قدرت کا نہایت کامل اعتقاد ہو جاتا ہے میں سے صفت تذلل وخشوع و خضور اس کے قلب میں پیدا ہو جاتی ہے.غرض یہ امر طویل البحث ہے.دوسری قوموں میں اس کی نسبت کچھ ہی خیال کیوں نہ ہو گریچ تو یوں ہے کہ اسلام کی تقدیر کا مضمون کم ہی سمجھتے ہیں.اور اکثر جو سمجھے ہیں تو غلط سمجھے ہیں اس عدم فہم کا بھاری باعث قرآن مجید کی آیات پر بحالت مجموعی طورنہ کرنا ہے.BO

Page 412

۲۰۵ الگ الگ ایک ایک آیت سے کچھ آیت سے کچھ کا کچھ استدلال کر لیا ہے.اور یہ بات اس مضمون میں ہم دکھلا دیں گے.دو قسم کے لوگ آجکل معترض کے خطاب سے سرفراز ہیں.اصحاب قول یا منقول اصحاب معقول سے ہمارے بر اور وہ لوگ مراد ہیں جو کسی ایک کتاب کے الہامی آسمانی کتابوں سے قائل نہیں.وہ لوگ تو ہماری کتاب کے موضوع اور منشا سے خارج ہیں.اب اہل منقول رہ گئے.از انجملہ اہل کتاب اس وقت ہمارے مخاطب ہیں.گویا وہ اور ہم آسمانی کتابوں کے ماننے اور ان کتابوں کے طرز عبارات، وطریق نئی ادا مطالب کے اعتقاد کرتے ہیں مسادی ہیں.اگر ایک فریق کی کتاب میں کوئی بیان یا مجاز یا اصل ایسی ہو جو اصحاب حقول کے نزدیک بظاہر محل اعتراض ہو.اگو نفس اللہ میں نہ ہو) اور دوسرے فریق کی کتاب میں بھی ڈالیں ہی یا اس کے قریب قریب پایا جائے تو یقین اطمینان دلاتا ہے.اور عقل گواہی دیتی ہے کہ ہر دو فریق میں سے کوئی ایک دوسرے پر اعتراض کرنے کی حراست نہ کرے گا کیونکہ اعتراض کی زد (اگر وہ اعتراض ہے) دونوں پر پڑتی ہے.بلکہ دونوں سے اس کے ڈیفنس اور وفاع میں متحد زور لگانے کی درخواست کی جاوے گی.اب ہم عیسائی قوم کے وتیرے کو اس مادے میں دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ قلمند با حیا قوم کس مسلک پر چلتی ہے.بہٹ - ضد تعصب بیجا حملہ مشہورانہ زد اچانک یہ سب چیزیں ان کی صورت حال میں نہیں دکھائی دیتی ہیں.افسوس یا تو یہ لوگ اپنی مستلم الہامی کتابوں کا بالاستقصا تشخیص نہیں کرتے.یا عمد احمق کا خون کرنے پر کر باندھ کھڑے ہو جاتے ہیں.خدا کے لئے کوئی حق کا طالب اس بے قوت دلیر قوم سے پوچھے کہ الہامی کتابوں کا دلیر یا مہم شخصوں کا کچھ پاس بھی ان لوگوں کو ہے.کس طرح اُن کا دل گواہی دیتا ہے کہ بیا کانہ قرآن مجید کے اس مسئلے کو تیر اعتراض کا نشانہ بنا دیں جو بالسویہ توریت وانجیل میں بھی

Page 413

۴۰۶ موجود ہے.کاش یہ لوگ سوچتے اور پھر سمجھتے کہ عبری اور عربی زبان کا طریق ادائے مطالب خصوصاً مادہ الہام میں بہت ہی متشابہ ہے.بلکہ بہت نزدیک ہے کہ متحد ہو جادسے پھر قرآن پر اعتراض کرنے سے پہلے اپنے یہاں ٹولئے.یقیناً تعصب کی تاریک رات میں ہوائے نفس کے سرکش گھوڑے پر سوار ہو کے بہالہ اپنے ہی گھروں پر آپ بخون مارتے ہیں.ہم بڑی جرات سے قرآن کے اصول ومسائل کو ہر قوم و فرقے کے رو بہ و کلام حق ثابت کرنے کو طیارہ ہیں.کیونکہ ہمارا کامل اعتقاد اور با دلائل اعتقاد ہے کہ صرف قرآن ہی ایسی کتاب ہے جسے کسی عالم معقول منقول یا کسی فلاسفر حق کے اعتراض کا کچھ بھی خطر نہیں.بنا براں قرآن کی ہر آیت کی صداقت کے اثبات میں وسیع دلدلیل مضمون کا کو ہم آمادہ ہیں مگر اس مضمون کی تفویل ولبہ میں اس قدر زحمت ہم گوارا نہ کریں گے کیونکہ بات واضح ہے.ہاں ایک غافل اور مست خواب قوم کی تنبیہ اور اشعار کے لئے اول کتب سابقہ انبیاء سے اسی مضمون کی آیتیں پیش کریں گے.پھر قرآن کریم کی آیات کو لکھ کر تھوڑا ترجمہ کر دیں گے اور آیات کی تطبیق بھی بیان کر دیں گے.عہد عتیق اور جدید اور مسئلہ تقدیر لکھنے ار خروج ۴۰ باب ۲۱- اور خداوند نے موسیٰ کو کہا کہ جب تو منہ میں داخل ہوئے.تو دیکھ سب معجزے جو میں نے تیرے ہاتھ میں رکھتے ہیں فرعون کے آگے دکھلائیو.لکین میں اسکے دل کو سخت کروں گا.کہ وہ ان لوگوں کو جانے نہ دیگا.-- خروج - ۷ باب ۳.اور اس نے فرعون کے دل کو سخت کر دیا.کہ اُس نے اُن کی بیسا خداوند نے کہا تھا نہ سنی.خروج ۱۰- باب -۲۰- پر خداوند نے فرعون کے دل کو سخت کر دیا.۴- استشنا ۲- باب ۱۲۹ ۳۰ -حسبون کے بادشاہ سیحون نے ہم کو یہاں گذرنے

Page 414

م نہ دیا، کیونکہ خداوند تیرے خدا نے اُس کا مزاج گڑا کر دیا، اور اس کے دل کو سخت تاکہ اُسے تیرے ہاتھ میں دیوے.جیسا آج ہے.-۵- استثنا ۲۹ - باب ۴ - لاکن خداوند نے تم کو وہ دل جو سمجھے.اور و سے آنکھیں جو دیکھیں.اور وے کان جوئنیں.آج تک نہیں دئے.4- بیشوع ۱۱- باب -۲- کیونکہ یہ خدا وند کی طرف سے تھا کہ اُن کے دل سخت ہو گئے تھے.تاکہ دے جنگ کے لئے اسرائیل کا مقابلہ کریں تاکہ وہ ان کو حرم کرے تاکہ وہ موڑ رحم کے نہ رہیں.بلکہ وہ اُن کو نیست و نابود کر دی ہے.۷.زبور - ۲۵۰۰۵ - اُس نے اُن کے دلوں کو پھیرا.کہ وسے اس کے لوگوں سے عداوت کرنے لگے.اور اس کے بندوں سے دغا بازی.سلاطین ۲۲- باب ۲۱ ۲۲- جھوٹی روح بد ترغیب کو آئی.۳۹ زبور.اس نے ایک تقدیر مقرر کی جو ٹل نہیں سکتی.- یسعیاہ - باب 9- اور اُس نے فرمایا کہ جا.اور ان لوگوں کو کہ کہ تم نا کرو.پر سمجھو نہیں.تم دیکھا کرد.پر پوچھو نہیں.ا حز قیل ۱۵ باب ۶ - اس لئے خداوند یہواہ یوں کہتا ہے کہ جس طرح تاک کی - لکڑی بن کے اور درختوں کی بہ نسبت کہ جسے میں نے آگ کے لئے ایندھن بھرایا.اسی طرح میں نے یروشلم کے باشندوں کو ٹھہرایا ہے.ھاں.میں نے اپنا منہ ان کے برخلاف ثابت کیا ہے.۱۲- امثال - 4 - باب ۴.خدا نے ہر ایک چیز اپنے لئے بنائی.بھاں شریروں کو بھی اُس نے میرے دن کے لئے بنایا.۶۳ باب ، ا یسعیاہ اسے تو نے کیوں گمراہ کیا اور ہمارے دل سخت بنائے.۱۳ - صفین - ۲ پاپ - تم عقل پکڑو اور تامل کرو.اسے ناپسند قوم اس سے آگے کہ

Page 415

تقدیر الہی ہے.یسعیاہ دہم باب ہے.میں سلامتی کو بناتا اور بلا کو پیدا کرتا ہوں.الے آخر کمار سے کیے.۱۴- یسعیاہ ۲۹ - باب ۹.ٹھہر جاؤ.اور تعجب کرو.نعیش و عشرت کرو.اور اندھے ہو جاؤ.کے مست ہیں.پرائے سے نہیں.دے لڑکھڑاتے ہیں.پر نئے سے نہیں کہ خدائی نے تمپر اونگھنے والی روح کو ڈھالا ہے.اور تمہاری آنکھیں جو کہ بنی ہیں موندی ہیں.۲-۱۵- سموئیل - ا - باب ۲۴ میں ہے.بعد اس کے خداوند کا حصہ بنی اسرائیل پر بھیڑ کا کہ اس نے داؤد کے دل میں ڈالا جو بنی اسرائیل اوربنی یہودا کو گئے.پھر اس گنے پر کیسا میرا نتیجہ داؤد اور اُس کی رعایا پر گذرا.) 16- ۱-۱۶- باب ۲.ملا کی.لاکن میں نے یعقوب کو پیارا اور سو سے دشمنی رکھی.القضاة.و باب ۲۳ تب خدا نے ابلی ملک اور سکم کے لوگوں کے درمیان روح فساد کو بھیجا.۱۸- ۲ باب ۲.نامہ تسلو نیکیوں کی آیت نہیں ہے.اس لئے خدا ان کے پاس تاثیر کرنیوالی دنا کو بھیجیگا.یہاں تک کہ وہ جھوٹ کو سچ جائینگے.۱۹ مرقس - ام باب ۲۵ د متی ۱۳ باب ۱۳.اسلئے کہ جس کے پاس کچھ ہے اسے دیا جائے گا.اور جس کے پاس کچھ نہیں اس سے وہ بھی جو اس کے پاس ہے لے لیا جائے گا.۲۰- یوحنا 4 باب ۴۴- کوئی شخص مجھے پاس آنہیں سکتا.گھر میں حال کہ باپ نے مجھے بھیجا ہے.اُسے کھینچ لاوے.۱-۲۱ عمال ۱۳ باب ۲۴.اور جیتنے ہمیشہ کی زندگی کیلئے طیارہ کئے گئے تھے.ایمان لائے.۲۲- نامه رومیان - - باب -۲۴- اس واسطے بنا نے بھی اُن کے دلوں کی خواہش پر انہیں اپاکی میں چھوڑ دیا..نامہ رومیان و باب - - - بلکہ ریقہ بھی جب ایک سے یعنی ہمارے باپ اضحاق سے حاملہ ہوئی.تب ہی اُس سے کہا گیا کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کریگا میخطوط وحدانی میں لکھا.

Page 416

۴۰۹ اور جب ہنوز لڑ کے پیدا نہ ہوئے.اور نہ نیک وبد کے فاضل تھے.تاکہ جننے میں خدا کا ارادہ جو کاموں پر نہیں.بلکہ بلانے والے پر موقوف ہے قائم رہے.جیسا لکھا ہے کہ میں نے یعقوب سے محبت رکھی اور عیسو سے عدادت.پس ہم کیا کہیں کیا خدا کے یہاں بے انصافی ہے.ایسا نہ ہوئے کہ وہ میسی سے کہتا ہے.میں میں یہ ریم کیا چاہتا ہوں اس پر رحم کروں گا.اور جس پر مہر کر نی چا ہتا ہوں.اس پر مہر کروں گا پیس یہ نہ چاہنے والے پر نہ دوڑنے والے پر بلکہ خدائے رحیم پر موقوف ہے.کیونکہ کتاب میں وہ فرعون سے کہتا ہے کہ میں نے اس لئے تجھے برپا کیا ہے کہ تجھ پر اپنی قدرت ظاہر کر دوں اور میرا نام تمام روئے زمین پر مشہور ہو دے.پس وہ جس پر چاہتا ہے رحم کرتا ہے.اور جیسے چاہتا ہے سخت کرتا ہے.پس تو یہ مجھ سے کہیگا.پھر وہ کیوں الزام دیتا ہے.کس نے اسکے ارادے کا مقابلہ کیا.اسے آدمی تو کون ہے جو خدا سے تکرار کرتا ہے.کیا کا ریگری کا ریگر کو کاریگر کہہ سکتی ہے.کہ تو نے مجھے کیوں ایسا بنایا.کیا کمہار کا مٹی پر اختیار نہیں کہ وہ ایک ہی لوندے میں سے ایک برتن عزت کا اور دوسرا بے عزتی کا بنا ہے اگر خدا اس ارادے سے اپنے غصے کو ظاہر کرے اور قدرت کو دکھا دے.قہر کے برتنوں کی جو تباہ کرنے کے لائق تھے.نہایت برداشت کی اور اپنے بے نہایت جلال کو رحم کے برتنوں پر جو اس نے حشمت کے لئے آگے تیار کئے تھے ظاہر کیا توکیا ہوا.قلتی ۲ بالبلاد اسی بات ) ۲۳- تمطاؤس - - باب ۹.اُس نے ہمیں بچایا.اور پاک بلاہٹ سے بلایا.نہ ہمارہ سے کاموں کے سبب سے بلکہ اپنے ارادے ہی اور اس نعمت سے بوسیح یسوع کے واسطے ازل میں ہمیں دی گئی.لوقا - باب --.اُس نے کہا کہ خدائی بادشاہت کا بھید جاننا تمہیں دیا گیا ہے.پر اور دل کو تمثیل ہیں کہ وہ دیکھتے ہوئے نہ دیکھیں.اور سنتے ہوئے نہ سمجھیں.۲۴.منی -- ا باب ۲۹.کیا پیسے کو دو چڑیاں نہیں بجتیں اور ان میں سے ایک بھی

Page 417

۴۱۰ تمہارے باپ کی بے مرضی زمین پر نہیں گرتی تنب خُدا نے سر کی چھوڑ دیا.کہ آسمان کی فوج کو پوجیں.۷ باب.۴۲ - اعمال - ۲۵ - منتی - ا باب - ۱۲۵-۲۶ - تیری ستائش کرتا ہوں کہ تو نے ان باتوں کو عالموں اور داناؤں سے چھپایا.اور بچوں پر ظاہر کیا.ہاں اسے باپ کے ہونہیں تجھے پسند آیا.-۲۶ - متی ۳ باب - اُس نے جواب دے کئے انہیں کہا اس لئے کہ تمہیں آسمان کی بازی است کے بھیدوں کی سمجھ دی گئی ہے پر انہیں دی گئی ہے.ں ۲۷ متنی ۱۸ باب کہ ٹھوکروں کا آنا تو ضرور ہے.پر افسوس آدمی پر جس کے سبب ٹھوکر آوے.-۲۸ و اقترنتی ا باب ۱۹ آیت اور تاکہ کامل غیر کامل ظاہر ہوں.استثناء ۱۳ باب و یوحنا - - باب ۱۰- یہودا کا خط.ا باب م.کیونکہ بعضے شخص چپکی سے گھسے جو آگے سے قدیم زمانے میں اس سفر کے حکم کے واسطے لکھے گئے تھے.اے بے دین ہیں اللہ ہمارے خدا کے فضل کو شہوت پرستی سے بدل کرتے ہیں.اور خدا کا جو اکیلا مالک ہے اور ہمارے خداوند یو بی سیح کا انکار کرتے ہیں.تحقیقی جواب مسئلہ تقدیر پر مختصرا تقدیر کے معنی حسب لغت عرب اور محاورہ قرآن کے کسی چیز کا اندازہ اور مقدار گھبرانا ہیں.دیکھو آیات مرقومہ الذیل.والحلق كُلَّ شَى و فقدره تقديرا - سیپاره ۱۸ سوره فرقان - رکوع ۱ نَا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ - سیپاره ۲۷ - سوره قمر- رکوع ۲ - ے اور بتائی ہر چیز بھر ٹھیک کیا اس کو باپ کریں ہ ہم نے ہر چیز بنائی پہلے ٹھہرا کر ۱۲

Page 418

وكل شي عنده بمقدار - سیپاره ۱۳ - سوره رعد - رکوع ۲- خدا تعالے نے ہر ایک چیز کو موجودات سے ایک خلقت (نیچر) اور انداز سے پھر بنایا ہے.اور جیسا اس کی ترکیب اور ہیئت کذائی کا مقتضا ہو.لابد ویسے افعال اور آثار اس سے سرزد ہوتے ہیں.گویا جیسے اس کے مقدمات ہوں گے.لامحالہ ویسا نتیجہ اس سے ظہور پذیر ہوگا.ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص ان خدائی حدوں کو توڑ سکے اور اُن اصلی خواص کو جو فقدرت نے کسی چیز میں خلق کئے ہیں.بدوں اُن اسباب کے سین کو خالق نے بمقتضائے فطرت اُن کا سبب معطل قرار دیا ہو کوئی شخص کسی اور طرح پر باطل کر وے سی سلیہ کا ئنات کے خالق کا کلام اس مطلب و مقام میں فرماتا ہے.تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا سیپاره ۲۲ ، سوره فاطر رکوع ۵ - وَلَن تَجِدَ لِسُنَّة الله تحويلا - سیاره ۲۲ - سوره فاطر ركوعه - مثلاً توحید اور عبادت اور طاعت اور اتفاق اور صحیح کوشش اور پتی کو من ثمرات اور پھلوں کا درخت بنایا ہے.ممکن نہیں.کہ دہی پھل اور وہی ثمرات بشرک اور ترک عبادت اور بغاوت اور باہمی نفاق اور تفرق اور غلط کوشش اور سستی سے حاصل ہو سکیں.جن باتوں کے لئے تریاق کا استعمال ہوتا ہے اُن باتوں کے لئے زہر بار سے کام نکلنا دشوار کیا حال ہے.ع گندم از گندم بر دید بوز جور گناہ اور جرائم کے ارتکاب سے نیکی اور فرمانبرداری کے انعامات کو طلب کرنا ہے رب تقدیر اور خدائی اندازے کے خلاف ہے.اور نیکی اور فرمانبرداری پر دوزخ میں جانے کا یقین ہے شیر ریم اور کریم عادل ذات پاک پر ظلم کا الزام قائم کرتا ہے.قرآن کہتا ہے :- لے اور ہر چیز کی ہے اُس کے پاس گنتی ۱۲ سو تو نہ پاوے گا.اللہ کا دستور بدلتا ۱۲ ے اور نہ پاوے گا اللہ کا دستور ٹلتا ہوا

Page 419

ا فَمَنْ كَانَ مُؤْمِناً كَمَن كَانَ فاسِقاء لا يستوون - سیپاره ۲۱ سوره سجده رکوع - ال نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كالفجار - سیپاره ۲۳ - سورة ص - رکوع ۳- اسلام تقدیر کے مسئلے پر یقین دلا کر اہل اسلام کو اس بات پر ابھارتا ہے.کہ میہ سے کاموں کے نزدیک مت جاؤ بڑے بیج بڑا پھل لاتے ہیں.آرام و آسودگی کے سلمان مہیا کرد.بیدل مت ہوں کیونکہ ہر ایک چیز کا اندازہ خدا کی درگاہ سے متعین ہو چکا ہے.نقصان کے انداز سے والی چیزی نافع نہ ہوں گی.اور منافع کی مثمر اشیاء دکھوں کی موجب نہ ہوں گی میں ہر ایک چیز اپنی فطرت پر ضرور قائم ہے اور تمہارا ہر فعل وجوباً دیہی نتیجہ دیگا جو اس کی ترکیب کا مقتضا ہے.نظرة اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيمُ سیپاره ۲۱ - سوره روم - رکوع ۴ - أن لَيْسَ لِلْإِنسَانَ إِلا مَا سَعَى وَأَنَّ سَعْيَه سَوفَ يُرى - سیپاره سوره نجم من كوع من - ۲۷ با تفصیل سنئے.قرآن میں اللہ تعالے نے بائیوں کہو قرآن نے بندوں کو انکے کیوں اور اعمال اور افعال کا کاسب اور عامل و فائل فرمایا ہے.دیکھیو کا سب اور کسی کا ثبوت.( وَ لَوبُونَ اللهُ النّاسَ بِمَا كَسَبُوا سياره -۲۲ سوره فاطر: رکوع.(1) نہ بھلا ایک جو ہے ایمان پر برابر ہے اس کے جو بے حکم نہیں برابر ہوتے.سے کیا ہم کریں گے ڈروالوں کو برابر ڈھیٹ لوگوں کے سے دیہی تراش اللہ کی میں پر تراش لوگوں کو بدلتا نہیں اللہ کے بنائے کو یہی ہے دین سیدھا ۱۲ لکھے اور یہ کہ آدمی کو وہی متا ہے جو کھایا اور یہ کہ اسکی کمائی اس کو دکھاتی ہے " اور اگر پکڑ کرے اللہ لوگوں کو ان کی کمائی پر ۱۲ -

Page 420

(٢) لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا السبت - سیپاره ۲۲ سوره فاطر - رکوع ۵ (۳) وَمَنْ يَكْسِبُ خَطِيئَةً أَو إِثْمًا ثُمَّ يَرْم بِهِ بَرِينَا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا - سیپاره -۵ سوره نساء - رکوع ۱۶ اور عامل ہونے اور عمل کا ثبوت (1) ومن يحبك مگر شود سوة أو يُظْلِمُ - - نَفْسَه - سیپاره ۵ - سوره نساء - رکوع ۱۶ - (۲) مَنْ عَمِلَ صَالِى النسيم - سیپاره ۲۴ - سوره سجده رکوع ۶ - (٣) لمثل هذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ، سیپاره ۲۳ سوره صافات - رکوع ۲ - اور فاعل ہونے کا ثبوت (ا) وَ مَنْ يَفْعَلُهُ مِنْكُمُ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاء السبيل - سیپاره ۲۸ - سوره ممتحنه - رکوع - (۲) كُل عَلِمْتُم مَّا فَعَلْتُم بِيُوسُفَ وَ اخيه - سیپاره ۱۳- سوره یوسف - رکوع ۱۰- (۳) فَعَلْها إِذَا أَنَا مِنَ الضَّالِّينَ - سیپاره -۱۹ سوره شعراء - رکوع ۲ - بلکہ خالق بھی کہا ہے یہاں فرمایا.و تخلقُونَ انگا - سیپاره - ۲ سوره عنکبوت رکوع ۳ - اور بناتے ہو چھوٹی باتیں نے اسی کو متا ہے جو کمایا اور اسی پر پڑتا ہے جو کیا ۱۳ ہے اور جو کوئی کہ دے تقصیری گناہ.پھر لگا دے بہے گناہ کو میں نے سردھرا لوفان اور گناہ صریح " سکے اور جو کوئی گناہ کرے یا اپنا برا کرے ۱۲ جس نے کی بھلائی سو اپنے واسطے ۱۲ ہ ایسی چیزوں کے واسطے چاہے محنت کریں محنت کرنے والے ہو ے اور جو کوئی یہ کام کرے تم میں سے دو بھولا سیدھی راہ عود کچھ غیر رکھتے ہوتم کیا کیا تم نے یوسف سے اور اسکی بھائی سے وہ شہ کیا تو ہے میں نے دو اور تھا میں کچھ کہنے والا ۱۲

Page 421

نم اهم اور مختلف افعال کی نسبت بندوں کی طرف قرآن میں ہزاروں جگہ موجود ہے.رکھیو نمونہ تبعَ هُدَايَ - سیپاره ۱ - سوره بقر - رکوع ۴ - ضلوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثيرًا - سیپاره 4 - سُوره مائده - رکوع ۱ - دان اهْتَدَيْتُ بِمَا يُوى إلى تي سي پاره ۲۲ - سوره سبا - رکوع ۶ - پھر اتنی ہی بات پر اکتفا نہیں کیا.بلکہ یہ بھی فرمایا کہ تمہارے برے افعال و تقبیح اعمال کے سبب سے تم کو زوالی آتا ہے.(۱) ان الله لا يُخَيرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيّروا ما بانفسهم - سیپاره - سوره رعد - رکوع ۲- بِأَنفُسِهِمْ (۳) ضي بتُ عَلَيْهِمُ الزِّلَةَ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُ وَا بِغَضَبٍ مِّنَ اللهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِایت الله - سیپاره ۱ - سوره بقر - رکوع - - (۳) فَكَيْفَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ ايديم - سیپاره - سوره نساء رکوع - (۴) وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نفسك سيپاره ۵ - سوره نساء - رکوع ۱۱ - (۵) وَ اللهُ اَرُ كَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوا - سیپاره ۵- سوره نساء - مرکوع ۱۲- (4) فَأَخَذْ نَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكسِبُونَ - سیپاره ۶ - سوره اعراف - مرکوع ۱۲ - جو کوئی چلا میرے بتانے پر ۱۲ جو بہک گئے ہیں آگئے اور بہکا گئے بہتوں کو ۱۳ سلہ اور اگر میں سوجھا ہوں تو اس سب سے کہ وحی بھیجتا ہے مجھ کو میرا رب " للہ اللہ نہیں پاتا جو ہے کسی قوم کو جب تک دے نہ بد ہیں جو اپنے بیچ ہے ہو ٹ ڈالی گئی ان پر ذلت اور محتابی در کمال نے قصہ اللہ اس پر کہ سے تھے زمانے محکم اللہ کے ۱۴ پھر وہ کیسا کہ جب ان کو پہنچے مصیبت اپنے ہاتھوں کے لئے سے " ک اور جو تجھ کو برائی پہنچی سو تیرے نفس کی طرف سے ہے ۱۲ ش اور اللہ نے اُن کو الٹ دیا ان کے کاموں پر ۱۳ تو پکڑا ہم نے اُن کو بدلا اُن کی کمائی کا ۱۲

Page 422

۴۱۵ () أو اليك مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يكسبون - سیپارہ 1- سوره یونس - رکوع - (۸) فَبِمَا نَقْضِمِ مِيثَانَهُمْ لَعَنَّاهُمْ - سیپاره 4 - سُوره مائده - رکوع - - (۹) سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَ مُوا صَغَارُ عِنْدَ اللهِ وَعَذَابَ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يمكرون سپاره ۸ - سوره انعام - مرکوع ۱۵ (١٠) و نقولُ ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ، سیپاره -۴- سورة ال عمران - رکوع ۱۹ (1) وَ لَمَّا أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْنُهُ مَثْلَيْهَا قُلْتُمْ إِلَى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنْفُسِكُمْ - سیپاره ۲ - سوره ال عمران سی کوع ۱۷ (۱۲) فَلاَ سُلْنَا عَلَيْهِمْ مِن جُز ا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَظْلِمُونَ - سیپاره و سوره -1 اعراف - رکوع ۲۰- ) كَذَلِكَ نَبْلُوهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُون - سیپاری و سوره اعراف - رکوع ۲۱ - (١٣) ، لكَ جَزَيْنَهُمْ مَا كَفَرُ وا وَ هَل مُجازِي إِلَّا الكفور ، سیپاره ۳۲ سوره سياد ركوع.عن آیات کریمہ سے صاحت واضح اور ظاہر ہے کہ آدمی کے اعمال بد اور افعال مکروہ سے ے پیسوں کا ٹھکانا.ہے آگ بدلا اُس کا جدہ کھاتے تھے IF سے سوان کے عہد توڑنے پر ہم نے ان کو لعنت کی ہے سے اب پہنچے گی گنہگاروں کو ذلت اللہ کے یہاں اور مذاب تخت بدلہ حیلہ بنانے کا ۱۳ اور کہیں گے کھوبین کی مار.یہ بدلہ اس کا جوتم نے بھیجا اپنے ہاتھوں اور الہ ظلم نہیں کرتا بند دل پر ۱۲ نہیں ۱۳ ہ کیا جس وقت تم کو پہنچے ایک تکلیف کر رہا ان کے جواس کے برابر آتے ہو یہ کہاں سے آئی توکہ یہ آئی ملک این طور سے تے پھر بھیجا ہم نے ان پر عذاب آسمان سے بالا ان کی شرارت کا ۱۲ کہ یوں ہم آزمانے لگے ان کو اس واسلئے کہ یہ حکم تھے ۱۴ كه شه یہ بدلا دیا ہم نے ان کو اس پر کہ ناشکری کی اور ہم بدلا اسی کو دیتے ہیں جو ناشکرا ہو "

Page 423

آدمی پر وبال آتا ہے.جب ہر ایک تکلیف کا ستیہ گناہ ٹھہرا.جب ہر ایک گناہ کا نتیجہ تکلیف نهری تو منصفو.بیجا تعجب میں ہلاک نہ ہونے والو.قیامت میں نجات کے امید وار در راستی پسند و سوچو اور اندازه کرده که س تقسیم قرآن حضرت انسان کو گناہ سے کیسی نفرت ضرور ہے اور آدمی کو خدا کی نافرمانی سے بچنا کیسا ابد ہوا.بھلائی کے لینے میں اور برائی سے بچنے کے لئے مسلمانوں قرآن کے ماننے والوں کو کیسی تاکید ہوئی جب ہر ایک منزل اور مصیبت گناہ کا نتیجہ ہوا.تو اہل اسلام کو کہاں تک ترقی کرنے اور عصیان اہی سے بچنے کی سعی کرنی چاہیئے.جن نافہم لوگوں نے کہا ہے کہ گناہ کو مسلمان ایک خفیف حرکت اور وہ بھی خدا کی طرف سے مان کر گناہ میں بیناک ہیں.وہ سوچیں کہ ان کی بات کچھ بھی راست ہے.میں ان آیات کا مفصل ذکر کروں گا جنکے معانی نہ سمجھنے سے عربی لغت یا قرآنی مہارت ہے بے بہرہ لوگوں نے یہ غلط خیال کیا ہے کہ قرآن جبر کی تعلیم دیتا ہے اور انسان کو جسے حیوانوں سے صرف دو ہی باتوں میں امتیاز حاصل ہے کہ انسان غیر محدود ترقی کی استعداد رکھتا ہے.اور حیوانات محدود و عروج کی انسان کسی ترقی دوسرے بنی نوع یا بنی جنس کو سکھا سکتا ہے اور حیوان اس میں عاجز ہے.لیکن ان آیات کے بیان سے پہلے اس امر کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ شیطان کو مذنب اسلام میں ایسا اختیار حاصل نہیں کہ وہ آدمیوں کو خواہ مخواہ گاہ کردے یا گناہ کرنے پرمجبور کر دے.شیطان چاہو اُسے موجود خارج عن الانسان مانو چاہو اسے انسانی قوت چاہے کسی بڑے شریر کو کہو.چاہے ان شریہ امر کو کہ جن کی خوشامد اور ڈر سے آدمی کسی وقت معاصی کا نجیب ہوتا ہے.غرض شیطان کو یہ اختیار نہیں کہ انسان کی اُس استطاعت اور قدرت کو جسکے باعث انسان نیک وبد کا فاعل اور عامل اور کا سب کہا کیا سلب کر دے.ے اہل اسلام میں طرح اس قوت امارہ اس کی بین جنبین یاخون کے مانند انسان کے رگ دلنے میں چلنے والیا تو سہی کی تری تحدید کرتے ہیں ہرگز عقل کے نزدیک محل اعتراض نہیں بلا خیلی شیطان کا سودا کے مقابل باقی صفیہ اہم پر)

Page 424

جبکہ ہدایت اور ضلالت کی نسبت قرآن نے صاف بتایا ہے کہ وہ مکلف انسان کی روحت اور استطاعت میں ہے.دیکھو آیات ذیل.کو مَنْ شَاء فَلْيُرُ مِن وَمَن شَاء فَلْيَكُفر - سپاس ۱۵۵ - سوبر و کوفت - م کو ۴۶ - در آيه الا المُورُ نَهَدَيْنَهُمْ فَاسْتَحَبُّ الْعَمَى عَلَی الهدی، سیا نا.حم سجدہ سر کو ۲۶۴ يف الله نفسا الارشعرها - سیپاره ۳ - شور ہوا بہتر رکوع مهم اب ہم ان آیات کو لکھتے ہیں جن میں گمراہ کنند وں کا تذکرہ ہے.ان پر غور کرو.الشَّيْطَانُ أَن يُظْلَهُمْ - سیپار ۵۷ - سوره نساء - رکوع ۹- ورين لَهُمُ الشَّيْطَان احیا کسی پار ۱۹ سوره نمل - رکو۳۴ ان آیات مذکورہ بالا میں شیطان کی ترغیب ثابت ہے اور یہ ظاہر امر ہے شیطان کا انسان کو مجبور کر نا ثابت نہیں.بقیه شادیہ صفحہ 114:- ایک اور قادر مطلق مانا گیا ہے جس کے ہاتھ سے تنگ آکر اور جس کی دست درازی سے سخت مجبور ہو کر اپنے بندونکے بچانے کیلئے اُسے پھانسی ملنا پڑا اور پھر بھی وہ دین دریدہ شیر انکی ذریت کے پیچھے ہی لگا رہا.اور سینکڑوں روح القدسوں کے دل خوش کن دندے خداکے بیٹوں کواس کے ہاتھوں سے چھڑا نہ سکے.وہ زیر است محیط جس نے میسج کو ایک ٹیلے پر چڑھ کر کل دنیا دکھا دی.وہ چالاک جس نے پطرس سیسیوں سے عجیب کھیل کھیلے.عیسائیوں کو فلسفے کے موافق ثبوت دینا ضرور ہے.قرآن کو مبارک ہو کہ ان مضحکات سے پاک اور بالکل پاک ہے.ہاں ایوب کی کتایا پہلا دو سر باب مضرور مر در مطالعہ فرمائیے اور انصاف اور ایمان سے سوچ کر قرآن پر اعتراض کیجئے.اور جو کوئی چاہیے مانے اور جو کوئی چاہیے نہ مانے.جو نمود تھے سو ہم نے اُن کو راہ بتائی پھر ان کو خوش لگا اندھے رہنا.اللہ تکلیف نہیں دیتا کسی شخص کو گر جو اس کی گنجائش ہے.چاہتا ہے شیطان کہ ان کو بہکائے ۱۲ شہ اور بھلے دکھاتے ہیں ان کو شیطان نے ان کے کام - ۱۲

Page 425

۴۱۸ اعْلَمُ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ ، وَمَنْ أَضَـ تبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ الله سیپاره ۲۰- سوره قصص رکوع ۵ ط میچ و تتبع الهوى فَيُضِكَ عَن سبیل الله سپاری - سوسری من بیر کو ۴ ۲ ا نَفْسى مَّارَةٌ ري نَنى مِنَ النَّفْسَ لا ما لا بالشور- سیپا۱۳۷- سومر لا یوسف - حکوم کا ے.ان آیات میں اضلال اور گمراہ کرنے کی نسبت انسانی خاص قوی کی طرحت ہے.يُرِيدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أن تميلى ميلاً عظيماً سیپاره - سوره نساء- مخ- ومَا صَلَنَا إلا المجرمون - سیپارہ ۱۹- سوره شعرا - رکوع ۵- نك ان تذرهُمْ يُضِلُّوا عبادك - سیپار۲۹۷- سورة نوح - رکوع ۲- ان آیات میں اعتدال کی نسبت اشرار اور بدکار لوگوں کی طرف ہے.كذالك زين لكثير من المشتركين قتل از لارهِمْ شُرَكَاؤُهُمْ - سباره سوره انعام الع اسونا سیبان ها - سوره اعراف - رکوع ۴ - ܧܘ ٣ - والَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاءهُمُ الطَّافُوت - سیپای ۳۵۷- شوری بقی - مسی کوع ۳۴ - ے تو جان لے کہ دے چلتے ہیں پر سے اپنی خواہش کے اور سی بی یا کون جو سے اپنی خواہش پر ہیں یہ بتائے الہ کے ہو اور تر میں بھی کی چاہ پر پھر تجھ کو بہکا دے اللہ کی راہ سے ۱۲ اور میں پاک نہیں کہتا، اپنے جی کہ بی تو سکھاتا ہے برائی.۱۳ ے اور جولوگ ہیں اپنے عروں کے پیچھے.کہے چاہتے ہیں کہ تم مر جاؤ راہ سے بہت دور ۱۲۰ شہ اور ہم کو راہ سے بھلایا.ان گنہگاروں نے ۱۴ شه اگر تو چھوڑے تو یقیناً بہکا میں تیرے بند دل کو.ہ اور اسی طرح بھی دکھائی ہے بہت مشرکین کو اولاد مامانی ان کے شرکیوں نے ہوں شہ کہ پھلوں نے یہوں کو اب ہمارے ہم کو انہوں نے گمراہ کیا.۱۲ شہ اور وے منکر ہیں ان کے رفیق ہیں شیطان) ۱۲۰

Page 426

۴۱۹ وَقَالُوا رَبَّنَا أَنَا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَ اثْنَا فَاضَلُّونَا السَّبِيلا سیپاره - سوره احزاب ركوع ه فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِن كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا - سیپاره ۱۳ سوره ابراهیم - رکوع ۳ يقولُ اللَّذِينَ اسْتُضْعِمُ اللَّذِينَ اسْتَكْبَرُ الوَلَا أَنتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ - سپاه سور سبا کوع سیپارا يَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا يَا وَيْلَتَى تَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاَ نَّا خَلِيلًا - سیپاره ۱۹- سوره فرقان - رکوع ۳ - قانون فطرت پر نظر کرنے سے یہ سب اضلال کے اسباب ظاہر وباہر ہیں.اب شیطانی طاقت کے محدود ہونے کی دلیل قرآن سے سنو.ان عبادِي لَيْسَ بَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطان - سیرای ۱۴۷ سوسر کا مجر - رکوع ۳ ل الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُ و فاتخذرُهُ عَدُدًا ط اِنَّمَا يَدَ عُوا حِزْيَهُ لِيَكُولُوا مِنْ افْتَحَابِ الشعير سب سپاسی ۲۲۵ - سوس لا قاطی می کوم - يَقُولُ اللَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُ الوَلا أَنتُمْ لَكُنَّا مُؤمن قال اللَّذِينَ اسْتَكْبَرُ الَّذِينَ اسْتُضْعِمُوا المَن صَدَدْنَاكُمْ عَنِ الْهُدَى بَعْدَ إِذْ ے اور کہیں گے اے رب ہم نے کہا مانا اپنے سرداروں کا اور اپنے بڑوں کا پھر انہوں نے بہکا دیا ہم کوراہ سے ۱۲ پھر کہیں گے کمزور بڑائی والوں کو ہم تھے تمہارے پیچھے.۱۳ سے کہتے ہیں جن کو کر در بجھا تھا.بڑائی کرنے والوں کوتم نہ ہوتے تو ہم ایماندار ہوتے ۱۲ اور میں دن کاٹ کاٹ کر کھاوے گا گنہگار اپنے ہاتھ کہے گا کسی طرح میں نے پکڑی ہوتی رسول کے ساتھ راہ.اسے خرابی میری کہیں نہ پکڑی ہوتی ہیں نے فلانے کی دوستی.۱۲ هه بو میرے بندے ہیں تجھ کو اُن پر کچھ زور نہیں ۱۲ تحقیق شیطان تمہارا دشمن ہے.سو تم سمجھ رکھو اس کو دشمن وہ تو بلاتا ہے اپنے گروہ کواسی واسطے.کہ ہو وہیں دوزخ والوں میں.۱۲ ٹ کہتے ہیں جن کو کمز ورسمجھا تھا بڑائی کرنے والوں کو تم نہ ہوتے تو ہم ایماندار ہوتے ۱۲۰ ے کیے گئے بڑائی کرنے والے کمزور کئے گیٹوں کو کیا ہم نے روک رکھ تم کو سوجھ کی بات ہے.تمہارے پاس پہنچے پیچھے کوئی نہیں تمہیں تھے گنہگار ۱۲

Page 427

جاء كم بل كنتم مجرمین - سپاس ۲۲۷ - سوس لا سیاسی کو ہم ہم.معلوم ہوگیا شیطان کی طاقت ہم کو ہرگز ہرگز مجبور نہیں کرتی کہ ہم طونا و کریا ملالت کی طرف کھینچے چلے جاویں.اب میں ان آیات کریمہ کا ذکر کرتا ہوں جن سے پادری صاحبوں یا اور نا فہموں نے استہ نکال یا نا استدلال کیا ہے کہ انسان مجبور ہے.یہ مجبور ک لفظ عربی ہے.تمام قرآن اور کسی حدیث میں اس کا ثبوت نہیں اور نہ یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے خدا کو کیا ضرور ہے کہ کسی کو مجبور کر رہے.پھلی ایت حكم اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْد على انتصار هند نشارة سيار لا لا ابر - اكوام سوال : جب خدائی مہر دلوں پر لگ گئی تو ہدایت کیونکر ممکن ہوگی.جواب.اسی قرآن میں مہر کی وجہ اور میں لاکھ کی مہر ہے اس کا پتہ اور اس کا سبب مرقوم ہے وہ سبب اور وہ شہر اور وہ لاکھ ہٹا دو وہ خدائی مہر خود اکھڑ جائے گی مینو.ذَلِكَ يَطْبَعُ اللهُ عَلَى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبرِ سیباسط سیپاره ۲۴ - سوبر مومن پر کو ۴۴۶ ۲۴۷.و ہم ہم.تَرانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ.سب پیار ۳۰۵.سورہ مطففین - سر کو ۱۴.دیکھو گے اور تیر اور بداعمالی کے کیسے مہر لگتی ہے ان بری باتوں کو چھوڑ دو مہر ٹی ہوئی دیکھ اور خدائے تعالے نے اپنے قانون قدرت میں یہ بات رکھ دی ہے کہ جن قومی سے کام نہ لیا جائے دہ قومی بتدریج اور آہستہ آہستہ مزدور ہوتے جاتے ہیں.یہاں تک کہ وہ قومی امین سے کام نہیں لیا سے مہر کر دی اللہ نے ان کے دار پیر اور اُن کے کانوز پید اور نکلی کی آنکھیں پھر پردہ ہے اور اس کہنے پر کہ ہمارے دل پر غلاف ہے.کوئی نہیں پر اللہ تعالے نے مہر کی ہے ان پر مارے کھر کے ۱۳ اسی طرح مہر کرتا ہے اللہ ہر دل پر غرور والے سم کش کے ۱۲ کہ کوئی نہیں پر زنگ پکڑ گیا ہے اُن کے دلوں پر جود سے کھاتے تھے.

Page 428

گیا اسی طرح سے بیکار اور معطل رہتے رہتے بالکل نکمے ہو جاتے ہیں.اور ان پر صادق آتا ہے کہ اب ان قوسی پیر اور ان قومی کے رکھنے والوں پر مہر لگ گئی ہے.ہر ایک گناہ کا مرتکب دیکھ لے جب پر ٹی وہ پہلے پہل کسی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس وقت اس کے ملکی قومی کیسے مضطرب ہوتے ہیں پھر جیسے وہ ہر روز برائی کرتا جاتا ہے ویسے آہستہ آہستہ وہ اضطراب اور حیا اور تامل جو پہلے دن اس بد کار کو لاحق ہوا تھا وہ اُڑ جاتا ہے تمہیں تعجب اور انکار کیوں ہے.انسانی نیچر اور فطرت اور اُس کے محاورے کی بولی پر غور کرو.شریر اور بد نامی آدمی کو ایک ناصح فصیح نہیں کہتا کہ ان کی عقل ہیں پتھر پڑ گئے.ان کے کان بہرے ہو گئے.ان کی سمجھ میں تالے لگ گئے کیا ان جوانوں سے حقیقت مراد ہوتی ہے.دوسری آیت فريقا هدى وَفَرِيقًا حَنَ عَلَيْهِمُ الضَّلال ہے.سیپارہ سوری کا اعتراف کی کو ۳۴ اس کا جواب خود اسی آیت کے آگے موجود ہے.یک نهما تخَذَنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ اللَّهِ وَتَحْسَبُونَا أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ سی پاشه سور ه اثرات سی کو ہم ۳ جب شیطان کی محبت چھوڑ دی جاوے تو یہ سزا اٹھ جاتی ہے.تیسری است لقد حَى القَوْل عَلى الكثرِهِمْ فَهُمْ لَا يُو ممنو اس کا جواب قرآن کریم دئے کا ہے.شہ ایک فرقے کو راہ دی اور ایک فرقے پر ٹھیری گھر ہیں.انہوں نے پکڑ اش میخانوں کو رفیق اللہ چھوڑ کر اور سمجھتے ہیں کہ دے راہ پر ہیں.سلہ ثابت ہو چکی ہے بات ان بہتوں پر سود سے نہ بنائیں گئے ہو

Page 429

۴۲۲ وكذلك حقت كلمة ربك على اللذين كفروا أنهم تحب الناي مسي ان كا سوال مومن بع ونَ يا حَقِّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ، إِنَّهُمْ اتَّخذ والشياطين اولياء - سيائي لا شكل اعراف مي كولم مواد قول اور کلمے کے معنی وہ لازمی معین سزا اور عذاب ہے جو بحسب قانونِ قدرت اعمال بد ا نتیجہ ہواکرتا ہے.انہیں اور کو الہامی زبان میں اس قسم کے محاورات میں ادا کیا جاتا ہے.اُنکے لئے معین ہو چکا ہے.ان کے لئے لکھا گیا.وغیرہ وغیرہ.ان امور مشاہدہ کا کون انکار کر سکتا ہے.چوتھی آیت ۲۹ فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ ، وَمَا يَذْكُرُونَ إِلا ان شاء الله سيا- سوره مدثر.مرکوع ۲ من شَالَ مِنكُمْ أَن يَسْتَقِيمَ وَمَا تَشَاءُون الا ان يت ان الله رب العالمين مالو سکوت جواب معدوم کو موجود کرنا خدا کا کام ہے مخلوق میں ہال حیوان اور انسان کے دل میں کسی ارادے اور شیت کا پیدا کر د بیا بیشک باری تعالیٰ کا کام ہے.الا ہر ایک منصف جاتنا ہے کہ صرف مشیت اور ارادے کے وجود سے کس فعل کا وجود ضروری اور لازمی امر نہیں.یقیناً قوسی فطری کا فلق اور عطا کرنا جن پر سرگونہ افعال کا وجود و ظہور مترتب ومتفرع ہو سکتا ہے.خالق ہی کا کام ہے اس لطیف نکتے کے سمجھانے کے لئے اور نیز اس امر کے اظہار کرنے کو کہ قومی طبعی اور کائنات سے کوئی وجو د اصل امرخلق میں شریک نہیں سب اشیاء کی علت العلل میں سہی ہوئی باری تعالی اسب افعال کو بلکہ ان افعال کو بھی جو ہم معائنے اور مشاہدے کے طور پر انسان اور ے اور ویسی ہی ٹھیک ہو چکی بات تیرے رب کی منکروں پر کہ یہ ہیں دو نخ دار ہے ۱۲ ے اور ایک فرقے پر ٹھہری گمراہی انہوں نے پکڑ ا شیطان کو رفیق " کے اور پیر کی ان پر بات اس واسطے کہ انہوں نے شرارت کی.سود سے کچھ نہیں بولتے ؟ سے پھر جو کوئی چاہے اُسے یاد کرے اور ا سے بات نہیں کریں کہ چاہے اللہ ہ شہ اور جو کوئی چاہے تم میں سے کہ سیدھا چلے اور تم یہی چاہو کہ چاہے اللہ جہان کا صاحب ۱۳

Page 430

۲۳م حیوان سے سرزد ہوتے دیکھتے ہیں اپنی طرف نسبت کرتا ہے.کہیں قرآن میں فرماتا ہے ہوابا د ولسان کو ہانک لاتی ہے.کہیں فرماتا ہے ہم بادلوں کو ہانکتے ہیں.ہم ہی گالیوں اور بھینسوں کے تھنوں میں دودھ بناتے ہیں ہم ہی اناج بوتے ہیں ہم ہی کھیت اگاتے ہیں اور تامل کے بعد یہ سب نسبتیں جو نا ہو ا متضاد الطرفین ہیں بالکل صحیح اور حقیقت بالکل صداقت ہیں.پانچویں این بين ايد اور TOTO ول فِي أُمَيمٍ قَدْ خَلَتْ ! - من قبلور من الجن والان الله او مفسرین سیها ۲۳۰ سوره فصلت محکوم ۳ اس آیت کے اشکال کو خود قرآن نے مل کر دیا ہے اور منشینوں کے باعث تعین اور وجہ تقریر کو بتلا دیا ہے.ومن يعي من ذكر الرحم لتبيض له شيطان فهو كه ترین سیپالا سوال زخرف کو ۲۴ اب ظاہر ہے کہ ذکر الہی کے چھوڑ دینے کے سب سے شیطان نے اُس پر تسلط پایا.چھٹی ایت ولو شاء الله ما اشرکوا سیپاره ، سوره انعام - سرکوع ۱۳ - وَلَوْ شَاء رَبِّكَ مَا فَعَلُوهُ - سیپاره ۸ - سوره انعام - س کوع ۱۴ یہ حمد شرطیہ ملی ہے اور اس کا مطلب صاف ہے کہ اگرہم چاہتے تو ایسا کر سکتے لیکن با تعالی على العموم لوگوں کو ہدایت محض اور ضلالت محض پر محمول نہیں کیا.اور ہ حکمت ایندی اس امر کی متقاضی ہو سکتی تھی یہی معنی اس آیت ک ہیں کہ اگر ہم چاہتے تو وہ شرک نہ کرتے یعنی من کو نہایت ے اور لگا دی ہم نے میں پر تعیناتی پھر انہوں نے بھلا دکھایا اُن کو جوائن کے آگے بعد ان کے پیچھے اور ٹھیک پڑی اُن پر قائل کر سب فرقوں میں جو ہو چکے ہیں ان سے آگے جنون کے اور آدمیوں کے کئے تھے ٹوٹے والے کا ے اور جو کوئی آنکھ چراہ سے رکھنی کی یاد سے ہم اس پر تعین کریں ایک شیطان پھروہ ہے اس کا ساتھی.۱۳ ے اور اگر اللہ چاہتا تو شرک نہ کرتے.اور اگر تیار چاہا تو یہ کام ترکرتے ۱۴

Page 431

مساهم محض پر مجبول و مخلوق کر دیتے.رہا یہ امرکہ کیوں ایسا نہ کیا.یہ جہا حکیمانہ محبت ہے اور خدا کے نفس سے ہم خوب فیصلہ کرسکتے ہیں گر یا مرہماری اصل مبحث سے خارج ہے.کیونکہ یہ سب باتیں مخاطبین کے مسلمات سے ہیں.ہاں آریہ کے جواب میں اس وجہ کو ہم نے مفصل لکھا ہے اور کچھ اشارة آگے آتا ہے.ساتوس ایت بك لامل جهنم لا من جهنم منك ومن تبعك منهم أجمعين - سيار ۲۳- سون - سكوم 2- - - سرکوع پس اوپر کی آیت کی تفسیر نہایت سات ہے اور الناس اور الجنہ پر الف لام عہد دینی ہے.جس کی تشریح اس اگلی آیت نے شیطان اور اسکے تابعین سے کر دی کہ وہ سب کون لوگ ہیں.اٹھویں آیت يضل به كثير و يَهْدِي بِهِ كَثيراً ، وما يضل به الا الفستين سيار سر بر سکوت کیسا صاف مطلب ہے کہ فاسق ہی اس کتاب کریم کہ پڑھ کر گمراہ ہوتے ہیں ورنہ مومنوں کے لئے شنا اور راحت اور نور ہے.نهد نویس ایت آیت اپنے ماقبل اور اپنے ، ابعد کے ساتھ ملانے سے مات کا ہر کرتی ہے کہ منافقتوں کے حق میں ہے اور صریح اہل نفاق کے جن میں وارد ہے منافق اپنے کئے پر گراہ ہوئے.چھرا ہوا کلمہ تیرے رب کا کہ البتہ بھروں گا دوزخ جنوں سے، اور آدمیوں سے اکٹھے.۱۲ مجھ کو بھرو او د زرخ تجھ سے اور جو ان میں تیری راہ پہلے ان سے سارے ۱۲ لے گری کرتا ہے اسے بہترے اور راہ پر اتا ہے اس بہتیرے گمراہ کرتا ہے انہیں کوجو بے حکم ہیں ۱۲ ہے کیا تم چاہو کہ راہ سلاد میں وگمراہ کیا ہے اورمیں کوالہ راہ نہ دے پھر تو نے پہلے اس کے واسطے کوئی راہ ہوں

Page 432

۴۳۵ سیپاره ۵ سوره نساء میں کوع ۱۲ بذبين بين ذالك لا إلى هؤلاء ولا إلى هؤلاء وَمَن يُضْلِلِ اللَّهِ، فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلا سن - سوره نساء - ع ۲۱ ن الذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُ ثُمَّ امَنُوا ثم كفروا لما ازدادو اكثر لم يكن اللهُ اليَغْفِرَ لَهُمْ وَلا ليهديهم سبیلا سیپاره ۵ - سورة النساء من كوم ۲۰ ن الذين لم وعالم لم يكن الله ليَغْفِرَ لَهُمْ وَلا لِيَهْدِيَهُمْ طَرِيقًا الاطرِيقَ جَهَنَّمَ خالدين فيها، ایک ا - سیپاره ۶ - سوس که نساء می کوبع ۲۳ دسویں آیت وليزيدن كثير منهم ما أنزل النيك من شريك طبيا مال اللي أمد القينا بينهم العداوة أُنزِلَ إِلَيْكَ طُغيان و كُفى والبغضاء إلى يوم القيمة - سيباس 48- سوس لا مائده - سر کو ع 9 تشرح وتوضيح ن الذين قالو انا نَصَارَى بَذْنَا مِيثَا فَهُمْ فَسَسُوا حَظَّا مَا ذَكَرُوا العداوة والبغضاء إلى يوم القيمة ط سیپار لو - سوره مائده - س کو ۳۴ اور اللہ نے ان کو الٹ دیا اُن کے کاموں پر.۱۳ کے لکھتے دونوں کے بیچ ادھر ہیں نہ ان کی طرف نہ ان کی طرفروری کو کہتا ہے اللہ پر تو اپنے اسکے واسطے کہیں نا.جو لوگ مسلمان ہوئے پھر منکر ہوئے پھر سلمان ہوئے پھر منکہ ہوئے پھر پڑھتے گئے انکار میں الٹ ان کو بخشنے والا نہیں اور نر اُن کو دیوے راہ -۱۲ ہولوگ منکر ہوئے اور من دبا رکھا.مگر اللہ بخشنے والا نہیں اکواور نہ ان کو اس ماہ میرا وزن کی بہے ہیں اسمیں ہمیشہ اور اس کم سے جو تجھ کو اترا تیرے رب کی طرف سے ان کو پڑھے گی اور شرارت اور انکار ہم نے ڈال رکھی ہے او میں دشمنی اور پھر قیامت کے دن تک ۱۲ اور وے جو کہتے ہیں اپنے تئیں نصاری ان سے بھی لیا تھا ہم نے عہد اُن کا پھر بھول گئے ایک فائدہ اپنا اس نصیحت سے جو ان کو کی تھی.پھر ہم نے لگا دی گنتے آپس میں دشمنی اور کینہ قیامت کے دن تک ۱۴

Page 433

۴۲۶ یعنی القائے عداوت اور ازدیاد طغیان اور کفر کی علت.بھول جانا اس نصیحت کا اور توڑنا اس عہد ا ہے جو چند دن سے باندھا، کیسا انصاف علت و معلول اور سبب مسبب کا سلسلہ ہے اور نو کینے پر کچھ بھی اشکال نہیں رہتا.گیارھویں ایت ومن يقبل الله فلا هادی که در سیسیا ۱۷ شور ۱۹ علامت - رکوع ۲۳ بارھویں ایت له يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِين من يشاء سپاری ۲۲ - سورس و قاطر - رکوع ۲ تشریح و توضیح قرآن نے ان دو گروہوں کی تفصیل فرما دی.اول گروہ جن کو خدا تعالے نے گمراہ کیا.اللهُ ليَغْفِرَ لَهُمْ وَلالة كن الك يُضِيلُ الله مَنْ هُوَ مُسْرِ مُرْتَابُ بِالَّذِيْنَ يَجَادِلُونَ فِي آبَتِ اللَّهِ بِغَيرِ سُلْطَانٍ د اللَّهِ وَعِشْرَ الَّذِيْنَ مَنُوا كَذَ الكَ يَطْبَعُ اللهَ عَلَى كُلِّ قَدْ لنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُو ت الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَة حَجَابًا ہیں ۱۲۴.سوئی مومن نے ہم.سوری کیٹی اسرائیل ع ۵ یعنی کفر تکلم اسراف ارتیاب اللہ کی آیات میں مجادلہ آخرت پر ایمان نہلانا پیری مان ضدالت کے ہیں.ے جس کو اللہ بہکاوے اُسے کوئی نہیں راہ دینے والا ۱۳ کیونکر بھٹکاتا ہے اللہ جس کو چاہے اور سمجھانا ہے جس کو چاہے ۱۲ تترجمہ اس آیت کا گذر چکا ۱۲ ه ای طرح یہ کھاتا ہے اللہ اس کو جو موزیادتی والا شک کرنے سے جھگڑتے ہیں ان کی باتوں میں ہی سنت کے پہنچی ان کو بڑی بیزاری ہے الہ کے یہاں اور ایمانداروں کے یہاں اسی طرح ہر کرتا ہے الہ ہر دل پر غرور والے سرکش کے ۱۲ ش کر دیتے ہیں ہم نیچے میں تیرے اور ان لوگوں کے جو نہیں جانتے کھنا ہی ایک پردہ ڈھالناس

Page 434

ا اور دوسری قسم مهد بین.فالنا الذين امنوا بالله واعتصمو به سَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صراطا مستقيماً ط سیپاره 4 - شور ها نساء سکوع ۲۴ - وو جَارَكُمْ مِنَ اللهِ تُو زَ كتابٌ مُّبِين يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ سُبُلَ السَّلَامِ وَ ورود الظلمات إلى التومي ويهديهم إلى صراط مستقيم سيارات - سوكل مائده ۳- اذا لا تليهم من لدنا والور نهم فعلوا مايو تَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِـ ا مستقیما سیپاره - سوره نساء - ع --- پا نما نهم - سیپار ۱۱۵ سوره یونس - رکوع ۱ - سبلناه سپاس ۲۵ - سوره عنکبوت - رکوع - ه موجو یقیں لائے اللہ پر اور اس کو مضبوط پکڑا توی کو دل کرے گا اپنی مہر یں اور نفس میں اور پہنچا دے گا اپنی طرف سیدھی راہ پر ۱۳ ہ تمہارے پاس آئی ہے اللہ کی طرف سے روشنی اور کتاب بیان کرتی ہے جس سے اللہ راہ پر لاتا ہے جو کوئی تابع ہو اس کی رضا کا بھائی کی راہ پر اور اُن کو نکاتیا ہے اندھیروں سے روشنی میں اپنے حکم سے اور اُن کو چلاتا ہے.سیدھی راہ ۱۴ اور اگر یہی کریں جو ان کو نصیحت ہوتی ہے تو ان کے حق میں بہتر ہو اور زیادہ ثابت ہو دین میں اور ایسے ہم دیں ان کو اپنے پاس سے بڑا تو اب اور بہاریں کئی کو سیدھی راہ ۱۲ کے راہ دے گا اُن کو رب اُن کا اُن کے ایمان سے ۱۲ ے اور جنہوں نے محنت کی ہمارے واسطے ہم کچھ نہیں گئے اُن کو اپنی راہیں ہو پھر جو چلا میری بتائی کراہ پر نہ پہلے گا وہ اور نہ تکلیف میں پڑے گا ۱۳.

Page 435

تیر هوس است تیرهو دار العلو فاحشة قالوا وجدنا عليها ابانا الله أمَانَا بِهَا قُلْ إِنَّ اللهَ لا يَا في بالفشار سپاسه د سوره اعراف سی کو بیع ۳-....شاء الـ لهم سيقولُ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اشْتَرَكْنَادَها اَبَا نَادَ من شيء كذالك الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتَّى ذَاتُوا بِأَسَنَاء قُلْ هَلْ عِندَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتَخْجُونُ لَنَاسِ مِن تَتَّبِعُونَ إلا الفن وان انتم لا تحرمون ، قُل فَللَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَكَوْا شَكَرَ الَهَا كُمْ أَجْ سی پایه سوره انعام - ع ۱۸ اپنے آپ کو مجبور کہنے والوں کو کیسے کیسے سخت جواب دئے ہیں بلکہ یہ بھی کہ دیاکہ جو سمجھنے والے یکے جھوٹ بولتے ہیں میرے ایک دوست فرماتے ہیں تها كم اجمعين ما قبل کے خلاف معلوم ہوتا ہے افسوس انہوں نے نہایت لطیف بات نہ بھی باریتعالی واتا ہے اگر ہم جو کرنے کو ہوتے اور خواہ مخواہ کسی کوایک طرف لگانا چاہتے تو ہماری ذات بابرکات کس کو گمراہ نہ بناتی بھی جاہل اور چھوٹے شخص کا خیال ہے ہم مجبول کرتے تو سب کو خواہ مخواہ ہدایت پر چلنے کیلئے پیدا کردیتے اور جیسے تندرست آنکھ کو دیکھنے کے لئے پیدا کیا ہے.اس لئے وہ دیکھتی ہے سُن نہیں سکتی.اور کانوں کو سننے کے لئے بنایا ہے اور وہ دیکھ نہیں سکتے.ایسے ہی اگر تمام لوگ ہدایت کے لئے بنائے جاتے ا اور جب کریں کچھی کام کہیں ہم نے پایا اس پر اپنے با او اور ان کی ایک کم کیا تو کہ کہ دل شکم نہیں کرنا عیب کے کام کو ۱۳ اور کہتے ہیں گر چاہتا میں ہم نہ پوجتے ان کو کچھ خبر نہیں ان کو اس کی یہ سب انگلیں دوڑاتے ہیں ۱۴ لے جب کہیں گے مشرک اگر اللہ چاہتا تو شریک نہ ٹھہراتے ہی نہ ہو اس پاپ اور حرام کرلیتے کوئی میر اس پر پہنائے گئے اُن سے لکھے جب تک لکھا مارا عذاب توکی کے علم بھی ہے تمہارے پاس کہ ہمارے آگے نکالو میری اکل پر چلتے ہو تجویزیں کرتے ہو تو کہ یہ اللہ کا الزام پورا ہے اگر وہ چاہتا تو و دو یا تم سب کو اور

Page 436

تو سب نیک ہی ہوتے.اور اگر تمام کفر کے لئے بنائے جاتے تو سارے کا فر ہو جاتے.الا جس حالت میں ہماری ذات بابرکات نے سب کو خواہ مخواہ ہدایت یاب ہونے پر مجبول نہیں کیا تو کیا یہ بات صحیح ہو سکتی ہے کہ ہم نے او مسٹر کو تم کو مشرک بننے پر محمول کیا ہے.نہیں آ بات غلط ہے.غرض نہ اللہ تعالی نے علی العموم لوگوں کو ہدایت پر محمول کیا ہے اور نہ شرک پر اسے جہ کرنے کی کیا حاجت.وہ برائی کرنا چاہیے اور پھر بر کرا دے.دیکھو ہم کو کوئی زور سے بہر سے کام پر لیجانا ہے.نہیں ہرگز نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو وسعت اور قدرت دی ہے اور تکلیفات شرعیہ پر ہمیں کہا ہے ا يكلف الله نفسا إلا وسعها اور فرمایا ہے.فَمَنْ شَاءَ فَلْيُوم زمین و من فليكفر - سیپاره ۱۵ - سور الکهف - رکوع ۴ - ވ.ވ وامات بلکہ شریعی طاقت اور استطاعت عقلی طاقت اور استطاعت سے بھی وسیع ہے.دیکھو اور ل الله نفسا إلا وسعها د س - سوس لا يقر - ركوع -م - الله على الناس حجم البيت من استطاع إليه سبيلا سيارة - سورة ال عمران - ع - سب پیاس ۳۰۷ - سومر هلیل رکوع ۱ - } کل دنیا کی ترقی کا مدار قومی اجتماع پر ہے.تمام مہذب بلاد میں جب تہذیب شروع ہوئی اس وقت بھی یہی کھبی انجمنیں نہیں حضور علیہ السلام کے دین میں اللہ تعالی نے قومی اجتماع کے پھر جوکوئی چاہے مانے اور جو کوئی چاہے زمانے.ے اور جو شو و تمھے سو ہم نے ان کو راہ بتائی پھر ان کو روشن لگا اندھے رہنا سو چھنے سے ۱۲ اللہ تکلیف نہیں دیتا کسی شخص کو مگر جو اس کی گنجائش ہے.۱۴ اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر سے کرتا اس گھر کا جو کوئی پائے اس تک ماہ ۱۲ تو سچ سچ پہنچادیں گے ہم اس کو آسانی میں ۱۲

Page 437

۴۳۰ مجیب نے غریب سامان تجویز فرمائے.اور ایسے روحانی محرک مان میں رکھے میں کے باعث ان مجریان کے برہم ہونے کا خطرہ نہ رہا.اہل محلہ کے روزانہ اجتماع کے لئے پانچ وقت کی سماعت کو واجب کیا.رات کو سب لوگ اپنے گھروں میں سوتے ہیں شبیہ واقعات میں اگر ہمدردی کی ضرورت ہے تو علی الصباح مازنجر کی جماعت میں یہ امر حاصل ہے.اب بازار کی آمد و رفت شروع ہوئی مختلف معاملات خارجہ پیش آئے تو دوپہر کے بعد جماعت کا وقت آگیا.بحر روزانہ اوقات کا اختتام ہے اور ابھی اہل تجارت حرفہ غالب عمانات میں گھر نہیں پہنچے عین اس وقت کے معاملات پر اگر ہمدردی کی ضرورت ہے تو عصر کی جماعت کا عمدہ موقع ہے.شام کو گھر پہنچے وہاں کے نئے معاملات جو غیبوبت میں مہیئے اگر باعث اجتماع ہیں تو جماعت نماز شام اس کے لئے موز دن ہے ۹ ، ۱۰ بجے رات کو الگ الگ ہونے کا وقت آگیا.مناسب ہے سب آپس میں الوداعی رخصت کر لیں اور یہی عشا کا وقت ہے.اس روزانہ پانچ وقت کے اجتماع میں اگر تمام اہل بلاد کو تکلیف دی جائے تو ایک قسم کی ملایطاق ہے.اس لئے تمام شہر کے اہل اسلام کے واسطے ہفتے میں ایک دن جمعے کا اس اجتماع کے لئے تجویز یوال کین اس اجتماع کے لئے حفظ صحت کے سامان کے واسطے نہانا، کپڑے بدلنا، صفائی ایک ضروری تھا.بنا براں اس کا وقت قریب نصف النہار تجویز کیا گیا.اور اس میں موسی والی تشدید ک سیبت میں کام کرنے والے کو جلا دیا جائے عالمگیر مذہب میں جس کا نام اسلام ہے مناسب نہ سمجھی زیادہ دیر تک اجتماع کو مخل صحت خیال کر کے اصل نماز سے اس نماز کو نصف کر دیا گیا.اور ای خطیب ( اسپیکر کو حکم دیاگیا.کہ ضروریات پرکھڑے ہوکر لکچر دے اور بعد ختم نا مہ کے حکم ہے چلے جاؤ.اور منتشر ہو جاؤ.قصبات اور دیہات کے اجتماع کے لئے عید کی نماز تجویز ہوئی.چونکہ یہ جلسہ بھاری اور سال میں گل دو دفعہ ہوتا تھا.اور اس میں لوگوں کی کثرت تھی.اس لیئے تبدیل لباس اور معطرو خوشبو لگا جیسے تجھے میں حکم تھا.اس میں بھی رہا اور زیادہ تر اجتماع کے لحاظ سے حکم ہوا عید کا جلسہ شہر سے باہر میدان میں ہوتا کہ فرش امیر تازہ ہوا) کی روک نہ رہے چونکہ میدان

Page 438

محل انجمن ٹھہرا اور غالب عمرانات میں دھوپ کا خوف ہوا.اس لئے ابتدائے روز عید کا وقت ٹھہرایا گیا.عید میں روحانی محرک دورکعت کی نماز ہے اور بعد نماز کے ضروری نر دری باتوں پر کچھ ہے.جسے خطبہ کہتے ہیں).تمام قوموں میں میلوں کا رواج ہے.اور میلوں کا ہونا عمدہ مصالح دنیوی پر مبنی ہے.مکمل مذاہب اور تمام اقوم کے میلے خالص توحید سے بالکل بے بہرہ ہیں.کہیں غیر اللہ کی پرستش ہے.کہیں صرف دنیوی خیال ہے جو فانی اور غیر باقی ہے.اُن کو عظمت الہی سے کچھ سروکار نہیں.اسلامی میلہ عید کا تمام دنیا کے میلوں سے اُدھانیت میں بڑھا ہوا ہے.اب تمام اہل اسلام کے اجتماع کے لئے صدر مقام کی ضرورت تھی.تاکہ مختلف براو کے بھائی اور اسلامی رشتے کے سلسلے میں یکتا باہم مل جادیں عمر ایسے اجتماع کے لئے اول تو کل اہل اسلام کا اکٹھا ہونا اور امیرو فقیر کا جانا محال تھا.علاوہ بریں فقرا اور محتاجوں کے جانے میں کوئی بڑے فائدے مترتب ہو نیکی امید بھی نہیں ہو سکتی تھی.اس لئے حکم ہوا.والله عَلى النَّاسِ حجم البَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اليه سبيلاً سياره ۴ - رکوع ۱ اور یہ بھی ہے کہ امرا کے حق میں عیش اور کبری مہلک امراض اور ترقی کے دشمن ہیں دور و درانه کا سفر کرنا.احباب اور اقارب کو چھوڑنا.سردی اور گرمی کی برداشت کرنا مختلف بلاد کے علوم اور فتون اور اقسام مذاہب اور عادات پر واقف ہونا شستی اور نفس پر دری کا خوب استیصال نج کے اعمال کبر د برائی کے سخت دشمن ہیں.زیب وزینت کو ترک کرنا غربا کے ساتھ ننگے سر کوسوں چلنا دنیا داروں مستوں ، عیاشوں کو کیسی کیسی بہت بڑھانے کا موجب ہے.غرض حج کیا ہے اسلامیوں کو تجربہ کار اور ہوشیار بناتا ہے بے ریب ایک ملک کے فوائد کو دوسرے ملک تک پہنچانے میں میسی طاقت دولت مند

Page 439

۴۳۲ رکھ سکتے ہیں ویسی علی العموم غریب لوگ نہیں رکھ سکتے.ایسے صدر مقام کے لئے کون سا مکان تجویز ہوتا ہیں مکہ معظمہ سے کوئی مکان بہتر نہ تھا.کیونکہ اول تو وہ مقام مبدء اسلام تھا.دوم اس میں ایسے لوگوں کی یادگاری تھی جن کی سعی اور کوشش سے سخت سے سخت بت پرستی کا دنیا سے استیصال ہوا اور خالص الہی تو سید قائم ہوئی.تمام مساعی جمیلہ اشاعت اسلام کے جن لوگوں سے سرزد ہوئے ان کا اس مولد وہی شہر تھا.اگر کوئی چیز یاد گار جوش دلانے والی دنیا میں ہو سکتی ہے تو سکتے سے بہتر کوئی بھی نہیں.الا امرا کے ساتھ جن پر حج فرض ہے.ممکن بلکہ ضرور تھا کہ ان کے نوکر چاکر بھی حج کرنے کو ساتھ جا دیں.اور کچھ لوگ غربا میں سے عشق کے مجبور کئے ہوئے بھی وہاں پہنچیں.اس لئے اسلام نے لفرض کمال اتحاد اہل اسلام تجویز فرمایا کہ سب لوگ سادہ دو چادروں پر اکتفا کر کے امیرد غریب یکساں سر سے ننگے کرتے سے الگ سادہ وضع پر ظاہر ہوں تاکہ ان کی بینائی اور اتحاد کامل درجے پر پہنچے.ا.اس حالت کا نام احرام ہے.کچھ علی محسن اس کا من چکے ہو کچھ اور سن لو.زیر بے زینت کی پہلی سیڑھی حجامت بنوانا ، بال کٹوانا ہے.اور اس کی ان ایام میں ممانعت ہے.جو وضع کے پابندوں کو محال نظر آتی ہے اور کتب مقدسہ میں اس طرز کی نظیر موجود ہے.زیر کے سر پیر استرانہ پھیرا جائے جب تک دے دن جن میں اُس نے اپنے آپ کو خدا وند کے لئے نذر کیا ہے گزر نہ جاویں.سر کے بال بڑھنے دے گفتی 4 باب ۵ ا.پھر اس مسجد میں میں کے وجود اور جس کی عظمت کا عنقریب ہم ثبوت دیں گے.ابراہیمی عبادت کی طرح پر ایک عبادت ہے، جسے طوادت کہتے ہیں.پر دانہ دار چند بار الی مسجد کے گرد گھومنا اس طوبت کا ثبوت اگر دیکھنا ہو زیور ۳۶ کو دیکھو..پھر صفا اور مروہ کے درمیان بیادگار ام اسمعیل ہاجرہ علیہا السلام ملتا.باجرہ کو جب ابراہیم نے یہاں چھوڑا تو انہوں نے ابراہیم سے پوچھا تو ہمیں کس کے سپرد کرتا ہے.تو ابراہیم نے

Page 440

۳۳ فرمایا خدا کے سپرد اور اُسی کے حکم سے.تب ہاجرہ نے کہا جاؤ.وہ اللہ تعالی ہم کو ضائع نہ کرے گا آخر پیاس کی شدت میں پانی کی جستجو میں سب یہاں دوڑیں تو خدا نے زمزمہ سے انکی امداد کی.اس قسم کی یادگاریں اولاد ابراہیم میں مروج تھیں.دیکھو پیدائش ۳۵ باب ۱۵ بلکہ کشور نے بارہ پتھر جن کا ذکر شیوع ہم باب میں ہے دریا سے صرف یادگار کے لئے اٹھائے اور دریا کے باہر لا کر رکھے.پولا ملانے کی رسم سیب کا ذکر اعتبار ۲۳ بات میں عیسائی مانتے ہیں مسیح کے بھی اُٹھنے کی یادگار ہے.۴.پھر عرفات کے میدان میں جانا ایک ضروری نفس حج کا ہے یہاں نہ کوئی پتھر نہ کوئی درخت صرت الہی یاد ہے.اور اسی سے دعا.دیکھو موسی ابھی فرعون کو کہتے ہیں.خدا وند اسرائیل کا تارا یوں فرماتا ہے کہ میرے لوگوں کو جانے دے تاکہ دے بیابان میں میرے لئے عید کریں.۵.پھر ملتی ہے جس کی وجہ یہ ہے.بہت دنوں سے سر کھلا رہا.گردو غبار پڑا.عام لوگوں کو سامان سرد ہونے کا اسی بہتر کیا ہے کہ سر منڈوا دیں یا بالوں کو کٹوائیں تخلیق کار دارج اور اس کا ثبوت مقدسہ کتب میں موجود ہے.دیکھو ایوب-ا- باب ۲۰- نذیر جماعت کے خیمے کے دروازے پر سر کی منت منڈالو سے گنتی 4 باب ۸ بلکہ احبار ۱۴ باب ؟ میں تو چار ابر و کاصفایا مندرج ہے.متی کہ باب ہم میں اس کا جواز اور ان رسوم کا اتباع دیکھ لو.قربانی.نذیر کے پاس اگر کوئی ناگہاں مر جاوے.تو ایسی تمریاں یا کبوتر ایک خط کی قربانی اور ایک سوختنی قربانی گذرانے اور نذیر قربانی بے عیب یکسالہ برہ ایک خلا کی قربانی.دوسرا سوختی قربانی کے لئے اور فطیری روٹی چپڑی ہوئی اور مہدی.میدے کے کچھ تیل سے چھیڑے ہوئے کا اہن کو دے گفتی 4 - باب ۱۰- اور دیکھو پیدائش ، باب ۱۲۰ ۱۲ باب ۸ کثرت قربانی - ۲ تاریخ ، باب - اسلاطین و باب میں دیکھنے کے قابل ہے.ہاں اتنی بات رہ گئی.مقدسہ کتب میں اجتماع کے لئے ترکئی اور ناقوس کی ابدی رسم ہے.اسلام نے اس کے بدلے کہیں اذاں کے لطیف کلمات اور حج میں.

Page 441

هم ساهم لبيك لبيك الهم لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد و النعمة لك وملك لا شريك لك.توجہ الے القبلہ.سچ ہے شک نہیں.سجدہ پرلے درجے کا معجز اور نیاز ہے.یہ عمد فصل قبلے کی طرف منہ پھیرد ضرور ہے.کسی طرف واقع ہو.اور کوئی طرف ہو اس میں مخلوق کا ہونا ضروری ہے.اس لئے شارع نے خود ایک جہت مقرر کر دی جس میں کئی فائدے ہیں.اول یہ اشارہ کہ سب کو چاہئے ایک دل ہو کر معبود حقیقی کی عبادت کریں.روم اہل اسلام اور منافقین میں مایہ الامتیاز ہو اسی دا سٹے سکے میں آپ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے.اور مدینے میں جب تشریف لائے تو بعد چند مدت کے کھنے کی طرف توجہ فرمائی.قرآن خود س ستر اور بھید سے آگاہ کرتا ہے جہاں فرماتا ہے.وجَعَلْنَا القِبلة التي كُنتَ ليها الا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عقبيه - سوره بقر - سیپاره ۲ سوم جماعت کے انتظام میں حل نہ ہو.اور تمام دنیا کے اہل اسلام ایک بہت رہیں.چہارم قبلے کی طرف منہ کرنا.ملت ابراہیمی کا نشان اور ان کی اولاد کا معمول ہے.دکھیو میشوع اور سارے اسرائیلی بزرگوں نے اپنے کپڑے پھاڑے اور خداوند کے عہد کے صندق کے آگے شام تک اوندھے پڑے رہے بیشوع ، باب ۶-۱- سلاطین ، بات - ۳۸ ترکیب آنے کی مقدس میں اخبار 14 باب.ملا کی ۳ باب ہم.اور تیرے آگے سجدہ کریں گے اسے تیرے آگے منت کریں گے.اور کہیں گے یقیناً خدا تجھ میں ہے لیہ سیاہ ۴۵ - باب ۱۴ دعا بیت اللہ میں مقبول ہے.۲ تاریخ ، باب ۱۵ - لہ حاضر ہوں اے میرے خدا حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ہے.حاضر ہوں بے شک حمد اور قیمت اور ملک تیرے ہی لئے ہے.تیرا کوئی شریک نہیں ہے." اور نہیں کیا تا ہے وہ بہ جس پر تو تھا مراسلئے کہ ظاہر ہواہے کہ کون رسول کے تابع ہے اسے جو پھر جاتا ہے ایڑی پر ۱۲

Page 442

۴۳۵ دانیال اپنی کو ٹھری کا دریچہ ہو یروشلم کی طرف تھا.کھول کر دن میں تین دفعہ گھٹنے ٹیک کر اور داؤ د بیت ایل کی طرف خدا کے حضور دعا اور شکر گذاری کرتے رہے.دانیال و بات زیور ۹۹-۹ اور زیور ۲۰۱۳۸ حجر اسود کیا ہے.ایک من گھڑا پتھر ہے چونکہ گڑے ہوئے پتھروں کی عبادت ہوتی تھی اس واسطے ابراہیم اور ان کی اولاد نے یادگار یانشان کے لئے بنی گھڑے تھر رکھے تھے پیدائش ۲۸ باب ۱۸- یعقوب نے پتھر کھڑا کیا.اور اس پترنسیل ڈالا.اور پیدائش ۳۵ باب ۱۵- اور رشوع م باب ۵-۶- ہر ایک تم میں سے بنی اسرائیل کے فرقوں کے مطابق ایک ایک اپنے کاندھے پر رکھے.تو کہ تمہارے درمیان نشان ہو.پادری ان باتوں سے انکار نہیں کر سکتے.پرانے زمانے میں کیا اس زمانے میں بھی تصویری زبان کا رواج ہے.اکثر آریہ ورت کے قصص تصویری زبان میں ہیں.اور کئی اخباروں میں تصویری زبان معمول ہے.سکند را در دارا کے قصے میں تصویری زبان کی کنکور مشہور ہے.عیسائی بھی تسلیم کرتے ہیں پیشوں کے بارہ پتھورا حواریوں کا اشارہ جانتے ہیں.یہودی قربانیان مسیح بڑے کی پھانسی بتاتے ہیں.بلکہ ختنہ بھی نیسے ابن مریم کے قتل کا نشان کہتے ہیں پولا ملانا جس کی نسبت احبار ۲۳ باب ، ہمیں حکم ہے مسیح کا جی اٹھنا بیان کرتے ہیں.میں کہتا ہوں میتی ۲۱ باب ۳۳ ۴۲ میں لکھا ہے.بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے آباد کیا.ایک باغ کا مہتم بنایا ایک شرع کا مگر انہوں نے نافرمانی کی یہاں تک کہ اپنے آخری صلح کار اکلوتے بیٹے) کو مار ڈالا.اس لئے خدا ان کو سزا دے گا.کونے کے پتھر سے بے معماروں نے نا پسند کیا یہی مضمون سیحیا ۲۰ باب ۱۶ میں ہے اور دانیال ۲ باب ۳۴ میں ہے.یہود غیر قوموں کو بھی پتھر کہتے تھے.اور ہمیشہ بنی اسمعیل کو یہ معمار قوم حقیر جانتے تھے.الاعرب میں قدیم سے اس لئے کہ وہ ان پڑھ قوم تھی تصویری زبان میں بطور پیشین گوئی اور بشارت کے سی سیم یا ۲۸ بائی.اور منتی ۲۱ باب ۲ہ اور دانیال ۲ باب ۳۴ اللہ کلام کے ہیں اس طرح سے

Page 443

لهم تحریر ہو کہ بیت اللہ کے کونے پر ایک بن گھڑا پتھر نصب کیا گیا ہے جس کے ساتھ یہ بات کیجاتی تھی کہ اُسے صرف ہاتھ لگاتے جو بیعت اور اقرار کا نشان ہے.مطلب یہ کہ اس پاک شہر میں وہ کونے کا پتھر ہوگا جس کے ہاتھ پر بیعت کرنا ضرور ہے جو کوئی اس پر گرے گا چور ہو گا جس پر یہ گیرا اُسے پیس ڈالے گا یحسب بیاین دانیال ۲ باب بابل کا حال دیکھ لو.نادان کہتے ہیں مسلمان تھر کی پرستش کرتے ہیں.آریہ اور عیسائی بتائیں عبادت کسے کہتے ہیں.عبادت میں اتنی حمد اور تعریف.پرارتھنا.یعنے دیا.اور اُپاشنا یعنی دھیان ضرور ہے بتائیں مسلمان کب اُس پتھر کی تعریف اور اُس سے دُعا اور اس کا دھیان کرتے ہیں.اسلامی کسی عبادت میں اس پتھر کا ذکر بھی نہیں.بلکہ عبادات اسلامیہ میں تو سکے کا ذکر بھی نہیں.اس کی عبادت کیا ہوگی.اگر اس کو ہاتھ لگانا.یا چومنا عبادت ہے.تو سب لوگ بہا ہی ہوئی عورتوں کے عابد اور خدا کو سجدہ کرنے والے زمین کے پجاری ہوں گے.بات یہ ہے کہ مقدس مقام میں تصویری زبان کے اندر یہ گفتگو ہے کہ نبوت کی پاک محل سرا میں کونے کا پتھر بیاں سکے سے نکلے گا.بلکہ مسیح نے منتی ۲۱ باب ۳۳ میں خود کہا ہے کہ یہ تمثیل ہے انتہے.نفس وجود کعبہ اور بیت اللہ کا ثبوت پیدائش ۱۲ باب ---- ابراہیم نے خداوند کے لئے کنعان میں ایک قربان گاہ بنائی اور وہاں سے روانہ ہو کے اُسنی بیت ایل کے پورب ایک پہاڑ کے پائیں اپنا ڈیرہ کھڑا کی.بیت ایل اس کے پچھم اور علی اس کے پورب تھا.اور وہاں اس نے خدا کے لئے ایک قربانگاہ بنائی اور خداوند کا نام لیا.اور ابرام رفتہ رفتہ دکھن کی طرف گیا.یہاں حبس بیت ایل کا تذکرہ ہے.وہ سرور مکہ ہی ہے.کیونکہ کنعان عرب کے حدود میں ہے.اور لکھا ہے قربانگاہ بنا کے جب روانہ ہوا.پھر ایک جگہ ڈیرا لگایا.اور وہاں دوسرا قر با نگاہ بنایا.اور اس کے پھر ایک سائیں کا بیان کیا.جو بیت ایل سمندری ہے.یم سمندر کو کہتے ہیں اور وہاں لفظ بیت اہل یم ہے.اور

Page 444

نیز آخر میں کہا ہے ابرام رفتہ رفتہ دکھن پہنچا.اور مسیح فرماتے ہیں کہ دکھن کی ملکہ شہر یا کی شہزادی تھی جو سلیمان کے پاس آئی.اور صاف ظاہر ہے کہ بیت اللہ جسے مکہ کہتے ہیں.کنعان سے دکھن کی طرف واقع ہے.علاوہ بریں پیدائش ۱۳ باب ۳ میں ابرام کی نسبت لکھا ہے کہ وہ دکھن کی طرف پھیلا اور سفر کرتا دکھن سے بیت ایل میں پہنچا.اور تراجم موجودہ میں مبو فقرہ اس کے بعد لکھا ہے وہ توریت کا فقرہ نہیں اور قومی روایات ملکی تو اتر- رسومات کا توافق ابراہیمی عبادات سے فتنے کی رسم قربانی وغیرہ مناسک میں اتحاد تمام اقوام عربک اس بات پر نسلاً بعد نسل اتفاق صاف گواہی دیتا ہے کہ ابراہیم کو ا مسجد سے تعلق ہے جسے بریالیے کہتے ہیں.پھر کوئی امر قانون قدرت میں اور کوئی ضروری اور بدیسی علم نہیں اس اعتقاد سے پھرنے پر علم مجبور نہیں کر سکتا.یسعیا.باب - اونٹنیاں کثرت سے تجھے آکے چھپا لیں گی.مدیان اور عفیفہ کی جوان اونٹنیاں کیسے سب جو سبا کے ہیں آدیں گے...قیدار (پسر اسمعیل) کی ساری بھیڑیں تیرے پاس جمع ہوں گی.نبیط (پسر امیل) کے مینڈھے تیری خدمت میں حاضر ہوں گے.وہ میری منظوری کے واسطے میرے منبع پر چڑھائے جاویں گے.اور میں اپنی شوکت کے گہر کو بندگی دوں گا.یہ کون ہیں جو بدلی کی طرح اڑتے آتے ہیں.اور کبوتر کی مانند اپنی کا بنک کی طرف یقیناً سحری مملک تیری راہ تکیں گے.اور ترکیس کے جہاز پہلے آدیں گے.-1 اجنبیوں کے بیٹے بھی تیری دیوار اٹھائیں گے.اور ان کے بادشاہ تیری خدمت گزاری کریں گے.اگرچہ میں نے اپنے قہر سے تجھے ملا پر اپنی مہربانیوں سے تجھ پر رکھا کروں گا.اور تیری بھا میں نبیت کھلی رہیں گی.وسے دن رات کبھی بند نہ ہوں گی.اہاں وہ سب جنہوں نے تیری تحقیر کی تیرے پاؤں پڑیں گے اور وہ خدا کا شہر اسرائیل کے قدوس کا صیہون (سنگلاخ زمین) تیرا نام رکھیں گے.اس کے بدلے کہ تو ترک کی گئی.اور تجھ سے نفرت ہوئی.اے آخرہ پادری انصاف کریں

Page 445

۴۷۳۸ یسعیا م کا باب -- ارسی با رنج تو جو نہیں بنتی تھی رکھے اور قوم قریش میں کوئی نبی اور رسول نہ ہوا اسلئے اُسے بانج کہا) خوشی سے للکار تو جو حاملہ نہ ہوتی تھی وجد کرے گا اور خوشی سے چلت کیونکہ خداوند فرماتا ہے.سیکس چھوڑی ہوئی کی اولاد خصم والی کی اولاد سے زیادہ ہیں (اہل اسلام یہود سے زیادہ ہیں.اور عیسائی مجوس اور موجودہ یروشلم سے الگ ہو بیٹھے ہیں وہ ظاہری میں مسلم کی اولاد ہی نہیں) اپنے خیمے کو بڑھا دے.ہاں مسکن کے پر دے پھیلا.دریغ مست کر.اپنی.ڈوریاں لمبی اور اپنی میں مضبوط کر.اس لئے کہ تو داہنی اور بائیں طرف بڑھے گی.اور تیری نسل قوموں کی وارث ہوگی.اور اُجاڑ شہروں کو بسا دے گی مت ڈر کہ تو پھر پریشان نہ ہو گی تومت گھبرا کہ توپھر روانہ ہوگی.تواپنی جوانی کے تنگ بھول جائے گی اور اپنی ہوگی کی ا پھر یاد کرگی کیونکہ تیرا خالق تیرا شوہر ہے.اس کا نام ربت الافواج ہے.اور تیرا نجات دینے والا اسرائیل کا قدوس ہے.وہ ساری زمین کا خدا کہلائے گا.کیونکہ تیرا خدا کہتا ہے خدا وند نے جو مجھے طلاق کی ہوئی اور دل آزردہ عورت سے ہے.اور جوانی میں کی ایک جور و کے مانند جورو کی گئی ہو.پھر بلایا ہے.لاکن اب میں بہت سی مہربانیوں کے ساتھ تجھے سمیٹ لونگیہ شدت قہر کے حال میں میں نے اپنا مو نہ تجھ سے ایک لحظ چھپایا.پر اب میں ابدی عنایت سے تجھ پر رحم کردوں گا.خداوند تیرا بچانے والا یوں فرماتا ہے.میرے آگے یہ نوح کے پانی کا سا معاملہ ہے.جس طرح میں نے قسم کھائی تھی.کہ پھر زمین پر نوح کا ساطوفان کبھی نہ دے گا.اسی طرح اب میں نے قسم کھائی کہ میں تجھ سے پھر بھی آزردہ نہ ہوں گا.غرض یسعیاہ ۵۴ باب میں دور تک یہ مضمون ہے.یسعیاہ ۶۰ اُٹھ روشن ہو تیری رہ دشتی آئی اور خداوند کے جلال نے مجھ پر طلوع کیا.دیکھ تاریکی زمین پر بھا گئی.اور تیری قوموں پر بھی تاریخی نے اثر کیا ملاکن خداوند تجھ پر طالع ہوگا اور اس کا جلال تجھے پر نمود ہوگا.اور قومیں اور بڑے بادشاہ تیری روشنی اور تیرے طلوع کی تجلی میں ملیں گے.اتنی مختصر ہم یقینی طور پر کہتے ہیں یہ سب کے کی تعریف ہے.اگر نہیں تو بتاؤ میان اور حیفہ اور سبا کی اونٹنیاں کہاں جمع ہوتی ہیں.قیدار کی بھیٹریس اور میلا کے مینڈھے کسی مذبح پر چڑھائے جاتے

Page 446

۴۳۹ ہیں.بیری میں جس پیز کی زیادہ تعریف کرن مطلوب ہوتا ہے اُسے ملکہ اور عورت کر کے تعبیر کرتے ہیں.اگر اشکار ہے تو دیکھو حز قیل ۲ باب الی آخرہ.نسخ احکام یا تکمیل اور احکام کا پورا ہونا آخر اول.عیسائیوں اور مسلمانوں میں اس جھگڑے کوٹ کر بڑا تجب آتا ہے.اگر مباحث میں تھوڑا انصاف بھی مدنظر ہوتا تو یہ قضیہ جلد طے ہو جاتا.کیونکہ پادری صاحبان اور اُن سے سُن کر بہبودو آرین یہ کہتے ہیں کہ نسخ کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ کوئی حکم کسی وقت دیا گیا یا کوئی کام کیا گیا پھر اس میں..دوسرے وقت تنظیم علم ہو یا پہلے حکم یا کم سے دوسرا اور حد کم یا کام جومیں آیا تو ہے ہم کو اٹھا کر دوسرا حکم جاری کر دیا.یا پہلے کام کو ترک کر کے دوسرا کام شروع کر دیا.نسخ کے ان معنی سے خداوند تعالے کے کمال علمی اور تقدس کو نقص ثابت ہوتا ہے اور الیسا اعتقاد کفر ہے.اسے برادران اسلام ان معترض صاحبوں کی خدمت میں عرض کر دو کہ اسلامی شریعیت میں ہم ایسے نسخ کے قائل نہیں.اور جن اعتقادات سے ذات پاک میں نقص لازم آوے اُن کو ہم لوگ کفر یقین کرتے ہیں ہم نہیں کہتے کہ موسی کے زمانے میں خدا و علم یا تجربہ کم تھا پھرداؤد کے وقت زیادہ ہوا میسج کے زمانے میں اور زیادہ.اور نبی عربی کے دور دورے میں اور بھی زیادہ ہو گیا.تو یہ تو بہ توبہ.پس جھگڑا طے ہوا.امر دوم.بعض متعصیان مدعی علم کہتے ہیں.قرآن میں لکھا ہے.کہ زبور کے آنے سے توریت اور انجیل سے زبورا در قرآن سے انجیل منسوخ ہوگئی.اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ قرآن میں یہ بات نہیں لکھی.زیور تو مناجات کی کتاب ہے.اس کو نسخ سے کیا تعلق معلوم نہیں ہو سکتا.یہ دھوکا معترض کو کہاں سے ہوا.کیونکہ قرآن میں یہ باتیں ہرگز ہرگز نہیں.نسخ کے معنے عربی لغت میں بدلنے اور باطل کرنے کے ہیں.قرآن میں لکھا ہے.

Page 447

مام فيسم الله مايبقى الشيطن- سیپاره ۱ سوره حج رکوع - ۱۷ اور قرآن توریت اور انجیل کی نسبت فرماتا ہے.انزلنا التوراة فِيْهَا هُدًى وَتُو ريَ كُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ اللَّهِ بها النبيُّونَ اللَّذِينَ اسْلَمُ اللَّذِينَ هَادُوا وَالربانيون والاخبار بِمَا اسْتَعْقِفُوا مِن كتب اللهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَار فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَا خَشْوَنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِالتِي تَمنَّا قَلِيلًا، وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللهُ فأركيكَ هُمُ الكفرون، سیپار 40 سوره مائده - رکوع - یہ تو توریت کی نسبت ارشاد ہوا.تَفَيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِعَنِ ابْنِ مَرْ يديه من التوارية من و أَتَيْنَهُ لو الانجيل فِيهِ هُدًى وَكُوهُ وَ مُصَدِ قَالِما بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ ينَ ، وَ لْيَحْكُمْ أَهْلُ الإِنجِيلِ مَا انْزَلَ اللهُ فِيهِ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ مَا انْزَلَ اللهُ فَاوَلَيْكَ هذا الفاستون - سیپار 48 سوره مائده - رکوع یہ فرمان انجیل کی نسبت ہے یہاں ( آثار ہ اور مسروق) کا نہ نا قابل غور ہے.اب ایک اور آیت شنا کر آپ سے داد چاہتا ہوں اور محمدا سے اجر.پر موقوف کر دیتا ہے اللہ جو اللہ ہے شیطان - ۱۷ ے فرار ہم نے بھیجی توریت اس میں ہدایت اور اور ہے.اس کا حکم یہ دار ہیں اور درویش اور نام یہود کو کم کرتے ہیں.اس لئے کہ خدا کی کتاب کے محافظ بنائے گئے.اور اس کی خبر داری پر تھے.مجھ سے ڈرو نہ لوگوں سے اور آیات کو دنیا کھانے کا ذریعہ نہ بناؤ.جولوگ خدا کے اترے حکموں پر عمل نہیں کرتے وہی کافر ہیں.۱۳ سکے اور پھاڑی میں بھیجا ہم نے انہیں کے قدموں پر جیسے مریم کا بیٹا پیچ بتایا توریت کو جو آگے سے تھی اور اس کو دی ہم نے انہیں میں میں بات اور روشنی اور ریاکاری اپنی ای توریت کو اور را تا اور نصیحت در دالوں کو اور چاہئے کہ کم کریں نہیں ملے اس پر جواللہ نے اتارا اس میں اور جو کوئی حکم ذکر الہ کے ادارے پر سو وہی لوگ ہیں ہے حکم ۱

Page 448

والوانهما قاموا الثورية والانجيل وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِمْ مِنْ رَّبِّهِمْ لَا كُلُوا مِن فَوْتِهِمْ ر مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ مِنْهُمْ أُمَّةٌ.مقتصدة دولتير يَا رَكُمْ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ سیپار 40 - سوسئی مائدہ.کسی کو ۹۴ دیکھو قرآن نے کس قدر توریت و انجیل کی مدحت سرائی کی ہے.اور غور کر دغور غوری اور سنو ہاں گیند پھر سنو.کس قدر یہودی اور عیسائی مذہب والوں کو آزادی دی ہے.کیسے کردار کر رہی فی الدین کا اظہار کیا ہے.سوچو یہ سورت مدنی ہے.کی نہیں اور ان آیات کو منسوخ نہیں کیا.ہم نے ان آیات کو لکھ کر ثابت کر دیا ہے کہ قرآن نے توریت اور انجیل کو منسوخ نہیں کیا.بلکہ ہدایت اور نور کہہ کر یہود اور نصاری کو اُن پر مل کی تاکید کی ہے.بھلا کوئی کر سکتا ہے کہ یہ آیات منسوخ کرنے کو آئی ہیں.ام سوم.کچھ شک نہیں کہ حسب اختلاف اوقات اور باختلافت بلاد اور باختلات اقوم مشترکی قانون میں خصوصیات کا لگا نا ضروری ہوتا ہے.مثلا کپڑا پہنتا تمام بلاد مہذبہ کا ایک ضروری قانون سے مالی موسم گرما اور بلاد گرم کے لئے کسی طرح کا.اور موسم سرما اور بلاد سرو کے لئے کسی دوسری طرح کا ضروری ہے کیچڑ میں کام کرنے والے مزدور کے لئے ایک قسم کا.اور بادشاہوں کے لئے جشن میلوس کے دن کے واسطے اور قسم کا.مصلحان قوم یا مقتننان شروع پر نگاه کر دی جب دنیا میں آدمی تھوڑے جب اُن کی بلاد دور دست میں آمد و رفت کم ہوگی جب لوگوں کی تہذیب ابتدائے سین طفولیت میں تھی اس وقت کے قوانین اور پھر جب کثرت ہوگئی.باہمی تعلقات بڑھ گئے.تہذیب کو نشود نما ہونے لگا.تو اس وقت کے قوانین بیصلح ان قوم یا مقنتان دین برابر بیان کر سکتے اور اُن سے فائدہ پہنچا ے اور اگر وہ قائم یہ کھیں توریت اور انجیل کو اور جو اترا ان کو ان کے رب کی طرف سے تو کھا دیں اپنے اوپر سے اور پاؤں کے پیچھے سے کچھ لوگ ان میں ہیں سید ھے اور بہت ان کے میرے کام کر رہے ہیں.۱۲ ہ یہ آیت سی پارہ ۳.سورہ بقر م کو ہم میں ہے.ترجمہ.زور نہیں دین کی بات میں.۱۲

Page 449

مام سکتے تھے.بلکہ غریب ومسکین ہے دست و پا مقنن و مصلح اور قومی د زور آور رعب و داب والے مصلح و متن کے قوانین برابر نہیں ہو سکتے.پس یہی وجہ ہے کہ یہ شرائع انبیاء میں اور مصلی و محکمان یں کچھ باہم تیر موجود ہے دراصل سب کے ایک ہیں خصوصیات عارضہ میں اختلاف ہے.ایک ہی قوم میں مختلف اوقات پر مختلف احکام شرعیہ ہوتے رہے.ہم ذیل میں نظائر بیان کریں گے.الا عیسائی اسے تکمیل کہتے ہیں.نسخ نہیں کہتے میں مسلمانوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں حقیقت میں یہ اختلاف تکمیل ہے.قرآن بھی آخر میں فرماتا ہے.نعمتی ت کو کیا ضرورہے کہ تیر اور تبدیل ان کو باہمت کی کمی کا کردار یا نیوی کی خدمت میں بھی عرض ہے کہ حسب لغت عرب یا اصطلاح اگر مسلمان ان تغییرات کو فسخ کہیں تو یہ معنی میں ہے.تم کیوں برا مانتے ہو.اصل چہارم.تعجب ہے جب کتب مقدسہ شرعیہ خدا کے افعال و احکام میں بڑا تغیر و تبدیل ہوتا رہا ہے اور عیسائی مقدسوں نے اس تغیر کو ایسے الفاظ سے بیان کیا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے نادانی سے پہلا کلمبیا کام کیا.لا وہاں تاویلیں کرنے کو شروع ہو جاتے ہیں اور قرآن میں ایسا ایک لفظ بھی نہیں.اور وہاں اعتراض ہائے تعصب تیرا استیا ناس ہوس نو خدا نے انسان کو بنایا اور بڑھایا.پیدائش ۲ باب اللہ باب پیدائش میں لکھا ہے.آیت 4 - ا.تب خداوند زمین پر انسان کے پیدا کر نیسے پتایا اور نہایت دلگیرا ہوا.پیدائش 4 باب -4- ۲.تب خداوند نے اس بدی سے جو چاہا تھا کہ اپنے لوگوں سے کرے پچتا یا خروج ۳۲ باب ۱۴- -۳- تو بھی سموئیل ساول کی بابت غم کھاتا رہا.اور خداوند بھی بیچتا یا کہ اس لئے ساول کو بنی اسرائیل کا بادشاہ کیا.سیموئیل ۱۵ باب ۳۵ (خدا نے سادل کو سیع کیا پھر وہ مرتد ہو اس لئے بیچتا یا ) بنی اسرائیل پر عذاب نازل ہونے کو تھا.کہ انہوں نے عاجزی کی.اس پر کتب مقدسہ میںلکھا ہے ے آج میں پورا دے چکا تم کو دین تمہارا اور پورا کیا میں نے تم پر احسان اپنا ۱۲

Page 450

سام تهم تب خدا کا جی اسرائیل کی پریشانی سے نگین ہوا.قاضی.اباب ۱۶.اس پر طرہ بھی ختنہ ابراہیم کی اولاد میں بدی رسم تھی.پیدائش ، اباب ۱۴.اور حضرت مسیح نے بھی ختنہ کرایا.ابا ۲۱ لوقا مگر ۵ ا باب اعمال میں منسوخ کیا گیا.بلکہ پولوس نامہ گلتیاں کے دیاب اور میں کیسا تشددکرتا ہے اور کسی زورسے فتنے کی ممانعت کرتا ہے اور اعمال سے معلوم ہوتا ہے اس کے ابطال پر پہلے کمیٹی ہوئی اور پولوس فرماتے ہیں.اگر تم ختنہ کراؤ وتم وسیع سے کچھ فائدہ نہیں جس نے ختنہ کرایا.اُسے تشریعیت پر عمل واجب ہے.اور جس نے شریعت سے راستباندی چاہی اُسے سیخ سے جدائی ہوئی.نامہ گلتی - ۵ باب.قربانیاں توریت کے لحاظ سے ابدی رسومات تھیں.شریعیت عیسوی نے بالکل اٹھا دیں.ور کہ زیادہ پیٹ کے نمونے تھے کل احکام توریت کی نسبت خونی کھینے گیا حالانکہ متی ۳۱ باب احکام فقہائے یہود کی تعمیل کی تاکید تھی.دیودها اباب ۲۴ اعمال میں لکھا ہے کہ ہم نے سُنا ہے کہ لوگ تمہیں کہتے ہیں کہ ختنہ کرا - شرعیت پر ملو.روح القدس اور ہم نے بہتر جانا.ان ضروری باتوں کے سوات پر اور بوجھ نہ ڈالیں.تم بتوں کے چڑھا دے اور لہو اور گلا گھونٹی چیز اور حرامکاری سے پر ہیز کرو (میں حرامکاری کے بدلے اصل لفظ سیر ہے اور وہ سیاق کے مناسب پھر پولوس نے اس پر حاشیہ چڑھایا.اور حواریوں نے جس قدر حصہ باندھی تھی اس پر آزادی بخشی ۴ باب ۱۴رومیاں مجھے یسوع سے معلوم ہوا.اور میں نے یقین کر کے جانا کہ کوئی چیز ناپاک نہیں لاکن جو اُسے ناپاک جانتا ہے اس کے لئے ناپاک ہے.پھر تعجب آتا ہے حرام کاری بھی کہیں اسی میں آگئی.شاید اسی واسطے شریعیت عیسوی میں حد نہیں.نامہ عبرانیاں ، باب ۱۸ آیت میں لکھا ہے.پس اگلا قانون اس لئے کہ کمزور اور بے فائدہ تھا اُٹھ گیا.کیونکہ شریعت نے کچھ کال نہ کیا.(صافت نسخ کا اقرار ہے ) نامہ گلتیاں ۳ باب میں ہے کہ کوئی خدا کے نزدیک شریعہ سے راستہاز نہیں ٹھہرتا.کیونکہ زندگی ایمان سے ہے پر شریعت کو ایمان سے کچھ نسبت نہیں بلکہ منی اس پر عمل کیا.سو اسی ہی سے بھے گا میسیج نے ہمیں مول لے کر شریعیت کی لعنت سے چھ یا ایمان

Page 451

ا کے معنی بھی آگے سمجھ لو ) ۳ باب ۲۳- نامہ گلتیاں.لاکن ایمان کے آنے سے پیشتر ہم شریعیت کے بند میں تھے.اور اس ایمان تک جو ظاہر مونیوالا تھا.گھیرے میں ہے.پس شریعت میں تک پہنچانے کو ہماری استاد ٹھہری تاکہ ہم ایمان سے راستباز گنے جا دیں پر جب ایمان آچکا تو ہم بھڑاستاد کے تحت میں نہیں رہتے.۲ باب ۲۱ گلتی - راستبازی اگر شرد ب راستبازی اگر شریعت سے ملتی تو مسیح عبث ہوا.۲ باب ۱۵ نامہ افساں میں نے اپنا ہم دیکے دشمن یعنی شریعیت کے حکموں اور رسموں کو کھو دیا.۷- باب ۱۸۱۳ نامه عیبرانیاں.جب کہانت بدلی تو شریعت بھی ضرور بدل گئی.اور آیت میں شریعت بی فائدہ ہم باب ۱۳ حز قیل میں ہے کہ تو کھاناگرہ سے پکا کر کھائے گا.پھر جب آئے مزاری کی تو فرمایا.اچھا گو بر سے پکا کر کھائیں.اباب دوستی ان بارہ تہوں کو یسوع نے بھی اور انہیں حکم دے کے کہا کہ غیر قوموں کی طرف مت جاؤ.اور سامریوں کے کسی شہرمیں داخل مست ہو.بلکہ خصوصا استیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جاؤ آیت میں راستے کے لئے جھولے نہ دو.کرتے نہ جوتیاں نہ لاٹھی لو.کیونکہ مزدور اپنی خوراک کے لائق ہے.میتی ۱۵ باب ۲۴.اس نے جواب دوسے کے کہا کہ میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.لکن ب باشی مرقس میں ہے کہ تمام جہان میں جاؤ اور تمام مخلوق کو انھیں سناؤ اور لوقا باب ۳۶ میں اس بات کی اجازت دیدی.متی ۲۳ باب امیں ہے جو کچھ فریسی اور فقیہی جو موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں م کوکہیں اور کم کریں وہ یاد کرو اور ہی کام کرو اور بالکل ظاہر ہے کہ وہ توریت پر مسل کر بتلاتے.انا جیسے گذرا حواریوں اور پولوس نے منسوخ کر دیا.بلکہ شریعیت پر چلنے والا جہنمی شود گیتی ہ باب ہم.نہایت عجیب بات یاد رکھنے کے قابل ہے.یوحنا 14 باب ۲۵ یہ باتیں میں نے تمثیلوں یں کہی ہیں پر وہ وقت آتا ہے میں تمہیں تمیوں میں چھ نہ کہوں گا.بلکہ باپ کی صاف خبر پھر تمہیں دوں گا.گوستا 4 باب ۱ میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں پر اب تم تمثیل برداشت نہیں کر سکتے.دیکھو تبدل وقت سے تبدل احکام کیسے ثابت ہوتا ہے میں کہتے ہیں اب تو کیے تمثیل میں بات کرتی ہوں مگر اور وقت پر صاف کہوں گا.اور فرماتے ہیں کئی ایک باتیں تم سے کہنا

Page 452

۴۴۷۵ چاہتا ہوں گر ابھی تم کو برداشت نہیں معلوم ہوا دت کے بعد سب لوگ قابل برداشت ہو جائیں گے مسیح اور قسم کی باتیں لوگوں سے کہیں گے.ابراہیم نے اپنی سوتیلی بہن سے نکاح کیا جس کی اولاد سے تمام انبیاء بنی اسرائیل پیدا ہوئے.پیدائش ۲۰ باب ۱۲ موسی نے ایسے نکاح کو بالکل حرام کیا.دیکھو ۸ ا باب ۲۰۱۹ باب ۱۷ اخبار داستثناء ۲۷ باب ۲۲ آدم کے وقت حلال چرند پرند کا خون اور جی بی لال تھی.پیدایش باب ۱۲۰ ۹ باب ۳ - نوح کے وقت خون حرام واستشناء ۱۴ باب ۹ و اشعیا ر ا باب ہم د هر طلاق دینا اور طلاق نامہ لکھ دیا موسی کے وقت جائز تھے.استثناء ۲۴ باب امیج نے یا تو مطلق طلاق کو منع کیا.مرقس باب یا جز الزام نامنع فرمایا باب ۳۱- متی.اور وہ یہ بتائی کہ تمہاری سخت مزاجی سے طلاق جائزہ ہوا تھا یعقوب نے حقیقی دو بہنوں سے ایک کے بیتے نکاح کیا.۲۹ باب ۲۸ پیدائش میموسی نے اس جمع و حرام فرمایا پہنی اسرائیل سے عہد جدید باندھنے کا وعدہ تھا.۳۱ باب ۳۱ یرمیاہ.وہ جدید شریعت بقول پولوس وہی آزاد شریعت ہے جس میں توریت کے کل احکام اٹھا دئے گئے.، باب نامہ عبرانیاں جو شور کا گوشت اور مکروہ چیزیں اور چوہا کھاتے ہیں.وہ سب کے سب فنا ہو جائیں گے.محمد فرماتا ہے 44 باب ۷ الیسعیا.اور طبیطس اباب ۱۵ میں سب کچھ پاک کر دیا.تمام شـ

Page 453

ततन قطعه تاریخ طبع از نتالی عالی عالم نام و فاضل گرامی جناب مولانا مولوی محمد عبد العلی صاحب اسی ادام اللہ رب الاناسی در فیضان احمد وا ہے آئے جس کا جی چاہیے یہ بحر فیض ہے غوطے لگائے جس کا جی چاہے چلیسیا میں یہی تکیٹ کی توحید سے کوسوں احمد کی وحدت اس احمد میں پائے جسکا جی چاہے اسی میں ہے اللہ اور حمد و تفضیل اور دنداں کہاں پیمت نہیں میں دکھائے جس کا جی چاہے بنامیم ایدہ ہے نامی نام اس احمد کا محمد بھی کوئی محمود اور ایسا بتائے جس کا بھی چاہیے ہے حامد نام اور بھی ہے عمید اس میدانکل کا ہو ماخذ ایک مشتق اتنے لائے جس کا جی چاہے کہاں آیا جہ اس کے مدح میں محمد درج گل عالم جو آیا ہو تو نام اس کا بتائے ہیں کا جی چاہے اُسی کا فضل تلی ہے ہر اک جزئی میں عالمہ کے قضیہ ہے یہ کلیہ مٹائے جس کا جی چاہیے فضل ہراک دلیل لمی واتی سے اس کا فضل گل اکل مدلل ہے.بگاڑے یا بنائے جس کا جی چاہے ہو چاہے جائے جنت میں تو آئے دین احمد میں نہ آئے آتش دوزخ میں جائے جس کا جی چاہے گیا باطل وہ حق آیا کہ حق ہم نے حق کہا اس کو اب اس احقاق حق کا حق چھپائے جس کا جی چاہے سراسر ظلم ہے اندھیر ہے اور ناسپاسی ہے اس احقاق حقیقت کو بھلائے جس کا جی چاہے اسی احقاق حق کے واسطے یہ چھپ گیا نسخہ بتحقیق اس میں حق دیکھے دکھائے جسکا جی چاہے ے یعنی احمد میں اگر میم ساکت کرو تو احد ہو جائے اور الف ساکت کر و تو حمد بن جائے اور پھر بھی صنعت مقلوب بعض مرچ بھی ہو جائے.اور بات ڈیم کو حال رکھو تو دو میلے ہیں میرا اصل تفصیل ذکر وسیله های خلیت نفر شهر قایم بندہ ایٹم عبدالحکیم کا اب کتاب ہذا.ے جو قیاس کے مقدمات یقینیہ سے مرکب ہو اور صد و سطاسکی سہب اور علت محکم کی نفس الامر در زمین میں واقع ہویا میں میں ايلة علت سے محلول کی طرف دلیل لاتے ہیں اس کو لی لی اور بال کی اس کے دلیل لی کہتے ہیں.مومنہ س جیسا کہ فرمایا حق تعالی نے اس آیہ کریمیہ میں (بقیہ دیکھیں مست ۴۴ پر )

Page 454

مام هم جو منصف ہے سر تسلیم خم کر دے وہ اس جن کے میرا انصاف سے گردن جھکائے جس کا جی چاہے یہ نسخہ ناسخ تثلیث ہے اور ثبت توحید کوئی اس فن کے نسخوں سے ملائے جس کا جی چاہے جو تا جور فخر دیں نامی ہے پہنتا قادیاں اُن سے بار سال ثمن اس کو منگائے جس کا جی چاہے مصنف نے ہیں توڑے یک قلم تثلیث کے حملے جو دعوے ہو قلم کو پھر اٹھائے جس کا جی چاہے میں میدان قلم کو ہے علم کرنے کا دشمن پر قدم اپنا جمائے یا ہٹائے جس کا جی چاہے وہ آئے سامنے اُن کے جو کوئی مرد میدان ہو والا اپنے گھر میں غل مچائے جس کا جی چاہے کیا قائل ہراک کو اُن کے ہے اقوال میں سے کوئی برعکس اس کے کر دکھائے جس کا جی چاہے مناظر میں بڑے اس فن کے وہ اسے پادر اعصاب لڑائے جسے اُن کو یا بھڑائے جس کا جی چاہے معاذاللہ ملائے کم بیڈ کے میں ولد سیسے تو دادا کون ہے اُن کا بتانے میں کا ہی چاہیے خُدائے لم یلیز اُن جس جی نہیں وہ بند میں تقریر اور تحریر دونوں میں اگر با دور نہ ہو تو آزمائے جس کا جی چاہیے نہ ! اگر اُن کی نہ مانے کوئی جنٹلمین عیسائی نہ مانیں گے ہم اس کو اور منائے میں کا ہی چاہیے.یہی ہے معرکہ آرائی کا میدان ہی چوگاں سخن رانی کے گھوڑے کو بڑھائے جسکا بھی چاہے کوئی فصل الخطاب ایسی کتاب ابتک نہیں نکلی لکھنا اس کا ظاہر ہے چھپائے جس کا جی چاہے ہوئی تاریخ اس کی لاجواب اور با جواب آسی کتاب تو کوئی ایسی بتائے جس کا جی چاہے ۳۰۵اه جی بقیه خاليه صفحه ۴ بـ قُل جاء الحق وزهق الباطل ان الباطل کان زھوتا.یعنے اے محمد کہ د کافروں سے کہ آیا اور ظاہر ہو گیا حق اور مٹ گیا اور جاتا رہا باطل بے شک باطل ہے جانے حالا.اور جینے والا پس مرادی سے ذلت آنحضرت مصلح عالم غیر حجم ملی علیہ وسلم ہے یا قرآن و ایمان یا توحید و اسلام یا آیات و معجزات اور مراد باطل سے کفر و شرک ہے یا شیطان یا مدیا سابقہ کما فصل بہتہ المعاني في الكرمانے والقسطلانے و فتح الباري شروح البخاري في كتاب التفسير تحت قوله تعالے - قل جاء الحق الخر ۲ منه

Page 455

قطعه تاریخ از کاتب کو نصاری کا ہوا جبکہ ہوا کیا اسلام کانفر گر جاہیں چھپا جب یہ میں عمدہ کتاب سال طبع اس کا لکھا اسے عہد حکیم کا تب واہ کیا رو نصاری میں لکھی عمدہ کتاب سنہ اشاعت اول ۱۳۰۵ مجری تمام شُد ۱۳۰۵ھ سنہ اشاعت دوئم ۱۹۲۴ ء ۱۴ شعبان مطابق ۲۰ مارچ

Page 455