Language: UR
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے اپنی گوناں گوں مصروفیات کے باوجود وقتاً فوقتاً اپنے خطبات، تقاریر، قضائی فیصلوں، سوال و جواب کی مجلسوں اور خطوط کے جوابات میں جو دینی مسائل بیان فرمائے اور جو روزنامہ الفضل میں 1914ء سے 1963ء کے علاوہ جماعت کے دیگر اخبارات و رسائل مثلاً الحکم، رسالہ ریویو، مصباح، رپورٹ مجلس مشاورت وغیرہ اور حضور کی کتب اور تفاسیر میں شائع ہوگئے۔ نیز دیگر دفاتر، شعبہ جات اور ماخذوں کی فائلوں سے مطبوعہ و غیر مطبوعہ مواد مصنف نے اپنے ذوق کے مطابق یکجا کر دیا ہے۔ یوں قارئین کو بنیادی عقائد، عبادات، لین دین کے معاملات، انشورنس، سود کے مسائل، شادی بیاہ، رسوم و رواج ، حدود و تعزیرات وغیرہ پر رہنمائی کے لئے ایک ماخذ میسر آگیا ہے۔ 1988ء میں انعامی مقالہ کے طور نمایاں اعزاز پانے والے اس مسودہ کو کتابی شکل دیتے ہوئے حوالہ جات کو اصل ماخذوں سے چیک کرکے قابل قدر کام کیا گیا ہے۔
فرموداتِ مصلح موعود درباره فقهی مسائل کے مرتبہ
فرموداتِ مصلح موعود درباره فقهی مسائل
عرض ناشر مکرم سید شمس الحق صاحب مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے 1988ء میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے تحت ہونے والے علمی مقابلہ کے لئے حضرت مصلح موعود کے فتاویٰ کو یکجا کرنے کا کام سرانجام دیا.اس کاوش پر انہیں منصفین کے جائزہ کے بعد انعام کا مستحق قرار دیا گیا تھا.اس مجموعہ میں بالخصوص فقہی ترتیب کوملحوظ رکھا گیا ہے اور حضور کے ان ارشادات کو بہت محنت سے مرتب کیا گیا ہے جن کا تعلق بنیادی عقائد، عبادات، لین دین کے معاملات ، انشورنس ، سود کے مسائل ، شادی بیاه ، رسوم و رواج ، حدود و تعزیرات وغیرہ سے ہے.اس کی اشاعت میں بنیادی کام حوالہ جات کی از سرنو چیکنگ تھی.چنانچہ نظارت ھذا نے تمام حوالہ جات کو ان کے اصل ماخذ سے چیک کیا اور جہاں جہاں حوالہ درج ہونے میں غلطی تھی اس کی تصحیح کی نیز الفاظ میں کمی بیشی کو بھی دور کیا.نظارت ھذا نے کچھ مزید حوالہ جات بھی اس مجموعہ میں درج کیے ہیں جنہیں اس مقالہ کے آخر میں بطور ضمیمہ شامل کیا گیا ہے.اس مرحلہ پر محترم منصور احمد ضیاء صاحب اسٹنٹ مفتی سلسلہ نے بڑے شوق اور محنت کے ساتھ اس کام کی تکمیل فرمائی ہے.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.اس مجموعہ میں بعض حوالہ جات ” فائل مسائل دینی“ کے نام سے درج کیے گئے ہیں.یہ فائل ان استفسارات کے جواب پر مشتمل ہے جو حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے مختلف احباب کو ان کے خطوط کے جواب میں بھجوائے تھے.یہ ریکارڈ ہمیں میسر نہیں ہو سکا اس لیے جو حوالہ جات اس فائل سے متعلقہ ہیں ان کی توثیق نہیں ہو سکی.حضرت مصلح موعود کے یہ ارشادات بہت سے پیچیدہ علمی مسائل کو سمجھنے میں کلید کی
حیثیت رکھتے ہیں.آپ نے نہایت مشکل مسائل کو آسان پیرایہ میں بیان کر کے ہر ایک کے لیے ان معاملات تک رسائی آسان کر دی ہے.اس مجموعہ میں فقہی مسائل کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور کی نادر روایات بھی شامل ہیں جسے آپ نے اپنے حوالہ سے بیان کیا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس مجموعہ کو جماعت کے علمی اور عملی معیار میں اضافہ کا موجب بنائے.آمین ناشر
پیش لفظ سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیلة اسم الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے گوناں گوں مصروفیت کے باوجود وقتاً فوقتاً اپنے خطبات ، تقریروں، قضائی فیصلوں، سوال و جواب کی مجلسوں اور خطوط کے جوابات میں جو دینی مسائل بیان فرمائے اور جوروز نامہ الفضل میں 1914ء تا 1963 ء کے علاوہ جماعت کے دیگر اخبارات رسائل مثلاً الحکم، رسالہ ریویو، رسالہ مصباح ، رپورٹ مجلس مشاورت وغیرہ اور حضور کی کتب اور تفاسیر میں شائع ہو گئے.نیز جو نظامت دار القضاء، دار الافتاء ، امور عامه، اصلاح وارشاد کے ریکارڈ میں موجود تھے یا وہ خطوط کی فائلیں جو دینی مسائل کی صورت میں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری صاحب حضرت خلیفہ المسیح الثانی میں 1963 ء تک محفوظ تھیں خاکسار نے ان تمام مطبوعہ و غیر مطبوعہ مواد سے اپنے ذوق کے مطابق حضور کے بیان فرمودہ فتاوی یکجا کئے ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ جن کے بارہ میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ علوم ظاہر اور باطنی سے پر کیا جائے گا کے یہ ارشادات اور فتاوی جماعت کے لئے بہت اہم اور بلند مقام رکھتے ہیں اور آئندہ نسلوں کی راہنمائی کا موجب ہوں گے.میرے انتخاب اور ترتیب میں نقص ہو سکتا ہے تا ہم خاکسار نے حصول ثواب کی نیت سے اپنی سی کوشش کی ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری اس حقیر خدمت کو قبول فرمائے اور اس مجموعہ کونافع الناس بنائے.اللہم آمین
حصہ اوّل صفحہ نمبر // ۱۴ // ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ // فہرست مضامین حصہ اول و دوم خدا تعالیٰ کی صفات از لی ہیں قرآن کریم مقام حدیث روح اور نفس میں فرق روحیں بلا ئی نہیں جاسکتیں مضامین عقائد ونظریات موجودہ دنیا سے پہلے لوگوں کی جزا سزا جنت دوزخ کا مقام جنت کی حوریں نئی دنیا کا آدم مسلمان کی تعریف خلفاء کی اطاعت خلیفہ اور انبیاء کا منکر مسائل فقہیہ میں خلیفہ سے اختلاف ہوسکتا ہے خلیفہ کی موجودگی میں مجدد اسلام کفر کے سارے گناہ مٹادیتا ہے مسیح موعود علیہ السلام کے منکر کی پوزیشن انسان محض گناہ سے خارج ایمان نہیں ہوتا بعث بعد الموت اجساد انبیاء لَا يَمَسُّهِ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کا مطلب عیب جوئی نمبر شمار ۱۱ ۱۲ ۱۳ ۱۴ 17 ۱۸ ۱۹ ۲۱
نمبر شمار ۲۴ ۲۵ 2 مضامین بوقت ضرورت کسی شخص کا عیب بیان کرنا گناہ نہیں تو بہ سے اُخروی سزا معاف ہوتی ہے دنیاوی سزا نہیں کسی شخص کو مرتد یا یہودی کہنا جائز نہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا خاندانی بت خانہ توڑا تھا ۲۶ پھٹی ہوئی جراب پر مسح طہارت ۲۷ حیض و نفاس کی حالت میں ذکر الہی اور تلاوت قرآن کریم اگر بدن پلید ہونے کی وجہ سے غسل نہ کر سکتا ہو تو تیم کر لے ۲۹ ناپاک ہونے کی صورت میں نماز اگر نفاس سے چالیس روز قبل پاک ہو جائے نماز اور اس سے متعلقہ مسائل ۳۱ } } اسلام کا سب سے بڑار کن نماز ہے فلسفه نماز ۳۳ مدارج نماز ۳۴ نماز کی اہمیت ۳۵ نماز کی پابندی ۳۶ تارک نماز ۳۷ نماز کا ترک گناہ ہے ۳۸ جو لوگ درمیان میں نماز چھوڑتے رہتے ہیں ان کی سب نمازیں رڈ ہو جاتی ہیں باجماعت نماز نہ پڑھنے والا منافق ہے حصہ اوّل صفحہ نمبر ۱۹ ۲۱ ۲۵ N // ۲۸ ۳۱ } } } ۳۴ " ۳۵ ۳۶ ۳۷ لده نماز سب سے مقدم ہے ام باجماعت نماز نہ ادا کرنے والے کو جماعت سے خارج کر دیا جائے
حصہ اوّل صفحہ نمبر ۳۸ ۳۹ ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۸ ` है है ता दृ // // ۵۱ ۵۳ ۵۴ // ۵۵ 3 مضامین نمبر شمار ۴۲ نماز نہ پڑھنے والوں پر مالی تاوان ۴۳ نماز میں خیالات کا پیدا ہونا ۴۴ نماز میں خیالات کا انتشار ۴۵ ایک مسجد میں دوسری جماعت ۴۶ اسلامی نماز اور مسجد میں اسلامی عبادات اور مسجدیں ۴۷ مسجد کا دروازہ ہر مذہب وملت کے شرفاء کے لئے کھلا ہے ۴۸ مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا ۴۹ مساجد کی تین اہم اغراض مسجد کے ساتھ کا حجرہ مسجد کا حصہ نہیں ہوتا ۵۱ مسجد میں فلم دکھانا ۵۲ گوردوارہ کی اینٹیں تعمیر مسجد کے لئے غیر احمدی اگر اپنی مساجد میں نماز سے نہ روکیں ۵۴ نیت نماز ۵۵ | ترتیب نماز ضروری ہے ۵۶ نماز میں صفیں سیدھی رکھو ۵۷ قبلہ کی طرف پاؤں کرنا ۵۸ بچے اگلی صف کی بجائے پچھلی صف پر بیٹھیں ۵۹ کیا اذان با جماعت نماز کے لئے ضروری ہے ۶۰ ۶۱ ۶۲ مقتدی سورہ فاتحہ کب پڑھے مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے جہراً بسم اللہ پڑھنا
حصہ اوّل صفحہ نمبر ۵۷ ۵۸ // ۵۹ // // ۶۱ ۶۲ // // ۶۳ " ۶۴ ۶۴ S ۶۶ " لا ۶۹ 4 نمبر شمار ۶۳ مضامین کیا بسم اللہ ہر سورۃ کا حصہ ہے ! ۶۴ تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھی جائے ۶۵ سنتیں اور ان کی رکعات کی تعداد 44 ง امام اور مقتدی ساتھ ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں پانچوں نمازوں کے اوقات نماز کے لئے اوقات مقرر کرنے کی حکمت اپنی رائے جماعت کی رائے پر قربان کرنا چاہئے نماز میں سوز و گداز کے لئے راگ کا استعمال ا ادائیگی نماز بذریعہ ریڈیو ۷۲ میدان جنگ میں نماز ۷۳ اندھیرے میں نماز پڑھنا ۷۴ چھوٹی ہوئی نمازیں ۷۵ کفاره نماز قبر کے بالمقابل نماز پڑھنا ۷۷ سور کی کھال پر نماز پڑھنا امام کی پوری اقتداء کرنی ضروری ہے ۷۹ عورت عورتوں کی جماعت کراسکتی ہے ۸۰ غیر مبائعین کے پیچھے نماز غیر مبائع کے پیچھے نماز غیر احمدی کولڑ کی دینے والے کے پیچھے نماز ۸ غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا ۸۴ سودی کاروبار کر نیوالے کے پیچھے نماز
نمبر شمار 5 مضامین ۸۵ ایسے امام کے پیچھے نماز جس سے لوگ نفرت کرتے ہوں خلافت کے دعویدار کے پیچھے نماز حج کے ایام میں غیر احمدی امام کے پیچھے نماز کیا امام اپنی زبان میں بلند آواز سے دعا کر سکتا ہے ۸۹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ کیا امام کسی لفظ کی قرائت کو بار بار دہراسکتا ہے ۹۱ سجدہ میں قرآنی دعائیں اور حضرت مسیح موعود کی الہامی دعائیں پڑھنا حصہ اوّل صفحہ نمبر // اے ۷۴ 24 ۷۹ ΔΙ ۸۲ ۸۳ ۸۸ ۸۹ ۹۰ ۹۱ ۹۲ // ۹۳ ۹۵ // ۹۶ ۹۲ ننگے سر نماز ۹۳ نمازیں جمع کرنا ۹۴ جمع بین الصلاتین ۹۵ غیر معمولی علاقوں میں نماز کے اوقات ۹۶ سجدہ سہو ۹۷ قبولیت دعا کے سات اصول ۹۸ درس قرآن کریم کے بعد دعا ۹۹ غیر احمدی والدین کے لئے دعا مغفرت نماز کے بعد دعا ۱۰۱ نماز قصر کرنا ۱۰۲ نماز قصر سفر میں نماز ۱۰۴ مقیم مسافر امام کے ساتھ دو رکعت پڑھے یا چار نماز وتر ۱۰۵ دعائے قنوت پڑھنا ضروری نہیں
نمبر شمار ۱۰۶ جمعہ کے ضروری احکام ۱۰۷ ایک شہر میں دو جمعے 6 مضامین جمعہ کے ضروری احکام ۱۸ نماز جمعہ دو آدمیوں سے ہوسکتی ہے ۱۰۹ | سفر میں نماز جمعہ ۱۱۳ جمعہ کی سنتیں نماز جمعہ نما ز جمع کرنے کی صورت میں پڑھنی چاہئیں خطبہ مختصر ہونا چاہئے خطبہ کھڑے ہو کر دینا چاہئے خطبہ کوئی اور دے اور نماز کوئی اور پڑھائے خطبہ ثانیہ عربی کا پڑھنا ضروری ہے ۱۱۵ خطبہ جمعہ کے دوران بولنا ۱۱۶ نماز کسوف ۱۱۷ عید اور جمعہ اگرا کھٹے ہو جائیں ۱۱۸ عید اور جمعہ کا اجتماع ۱۱۹ قربانی کے مسائل ۱۲۰ قربانی کا فلسفہ اور حکمت ۱۲۱ قربانی ، مسائل ۱۲۲ قربانیوں کے گوشت ۱۲۳ قربانی اور صدقہ میں فرق ۱۲۴ عقیقہ قربانی کے مسائل حصہ اوّل صفحہ نمبر ۹۹ : : 1+1 ۱۰۲ ۱۰۲ ۱۰۳ ۱۰۴ // ۱۰۴ ۱۰۵ 1+4 = // ۱۱۲ ۱۱۴ // ۱۱۵
نمبر شمار ۱۲۵ مسئلہ جنازه ۱۲۶ احمدیت.بیعت کی اہمیت غیر مبائع کا جنازہ ۱۲۷ ۱۲۸ غیر احمدی بچے کا جنازہ ۱۲۹ غیر احمدیوں کا جنازہ ۱۳۰ غیر احمدی کا جنازہ ۱۳۱ غیر احمدی بچے کا جنازہ 7 مضامین نماز جنازه ۱۳۲ بیعت کے فوراً بعد مرجانے والے کا جنازہ ۱۳۴ نظام جماعت سے خارج شدہ افراد کا جنازہ ۱۳۵ | احمدیوں کے بچوں کا جنازہ ۱۳۹ خودکشی ۱۳۷ اماننا دفن شدہ میت کا چہرہ دیکھنا کا ۱۳۸ تابوت یا میت پر کلمہ اور قرآنی آیات کی لکھی ہوئی چادر ڈالنا ۱۳۹ مزار کا بوسہ لینا ۱۴۰ مزار پر گنبد بنوانا ، قبہ بنوانا ۱۴۱ قبر پرستی ۱۴۲ قرآن خوانی.فاتحہ - قل و غیره ۱۴۳ میت کے لیے قرآن خوانی ۱۴۴ قبر پر قرآن خوانی ۱۴۵ زیارت قبور - قبر پر دعا ۱۴۶ فاتحه خوانی ۱۴۷ دسواں و چالیسواں وغیرہ حصہ اوّل صفحہ نمبر ۱۱۹ ۱۲۰ // ۱۲۱ ۱۲۴ ۱۲۵ ۱۲۸ // ۱۲۹ ۱۳۰ ۱۳۱ ۱۳۱ ۱۳۲ ۱۳۳ ۱۳۴ ۱۳۵ // ۱۳۶ //
نمبر شمار ۱۳۸ مصیبت کے دفعیہ کے لیے چلہ ۱۴۹ ٹونے ٹوٹکے ۱۵۰ زکوة ۱۵۱ زکوۃ کب واجب ہوتی ہے ۱۵۲ زکوۃ نہ دینے والا یقیناً چور ہے ۱۵۳ تجارتی اموال پر زکوۃ ۱۵۴ زیور کی زکوة ۱۵۵ | مصارف زکوة ۱۵۶ مؤلفة القلوب ۱۵۷ رؤیت هلال 8 مضامین ۱۵۸ ماہ رمضان کی فضیلت.مسافرکون؟ ۱۵۹ | اسلامی روزه ۱۶۰ مسائل رمضان کن لوگوں پر روزہ رکھنا فرض ہے ۱۶۲ مریض روزہ نہ رکھے.فدیہ روزہ ۱۶۳ روزہ رکھنے کی عمر ۱۶۴ مسافر اور مریض روزہ نہ رکھیں ۱۶۵ نزلہ میں روزہ زكوة روزه امتحان دینے والے،مرضعہ ، حاملہ اور بچے روزہ نہ رکھیں ۱۶۷ بعض بیماریوں میں روزہ رکھا جا سکتا ہے حصہ اوّل صفحہ نمبر // ۱۳۷ ۱۴۱ ۱۴۲ ۱۴۵ ۱۴۶ ۱۴۷ " ۱۴۹ ۱۵۵ ۱۵۶ ۱۵۸ ۱۵۹ 17.171 ۱۶۲ ۱۶۴ ۱۶۵ ۱۶۶ ۱۶۷
نمبر شمار ۱۶۸ 9 مضامین روزہ کس حالت میں چھوڑا جا سکتا ہے ۱۶۹ قیام رمضان ۱۷۰ نماز تراویح میں غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر لقمہ دینا ۱۷ بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا ۱۷۲ جسے ماہ رمضان کا علم نہ ہوسکا ۱۷۳ | اعتکاف حصہ اوّل صفحہ نمبر ۱۶۸ ۱۶۹ ۱۷۰ // لا 121 // ۱۷۲ // // ۱۷۳ ۱۷۴ ۱۷۵ // K24 ۱۷۹ // ۱۸۰ 33 ۱۸۱ ۱۸۲ ۱۷۴ فدیہ رمضان ۱۷۵ صدقة الفطر ۱۷۶ صدقة الفطر ۱۷۷ صدقۃ الفطر غیروں کو دے سکتے ہیں ،سیدوں کو نہیں ۱۷۸ عیدی ۱۷۹ عید کارڈ ۱۸۰ شوال میں چھ روزے ۱ عید الاضحی اور عید الفطر میں فرق ۱۸۲ عبدالاضحی کے دن نفلی روزہ رکھنا ۱۸۳ فرضیت حج ۱۸۴ حج کا فلسفہ ۱۸۵ واذن فى الناس بالحج ياتوك رجالا....الآيه ۱۸۶ مسائل حج ۱۸۷ حج بدل ۱۸۸ حجر اسود
10 نمبر شمار مضامین نکاح لڑکا لڑکی ماں باپ کے مشورہ سے شادی کریں لڑکی کو لڑ کا منتخب کرنے کا حق دینا چاہئے لڑکی کو نکاح سے پہلے دیکھنا رضا صفحہ نمبر ۱۸۷ ۱۸۸ // ۱۸۹ ۱۹۱ ۱۹۲ ۱۹۳ ۱۹۵ ۱۹۶ ۱۹۷ ۲۰۰ ۲۰۱ ۲۰۲ " ۲۰۴ ۲۰۵ ۲۰۶ ۲۰۶ ۲۰۷ مینی طریق نکاح كفو احمدی غیر احمدی کا نکاح اور کفو کا سوال غیر احمدیوں میں لڑکی کا رشتہ نہ کرو غیر احمدیوں کو لڑکی دینا غیر احمدی کو لڑکی دینا ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ 17 رضاعت ولی نکاح ولی کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں ولایت نکاح ولایت ۱۷ بغیر ولی کی وساطت کے نکاح ۱۸ مہر ۱۹ شرعی مهر ۲۱ مہر اپنی حیثیت سے بڑھ کر مقرر نہیں کرنا چاہئے مہر کی مقدار
11 نمبر شمار مضامین ۲۲ مهر طرفین کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہئے ۲۳ مهر حیثیت سے کم باندھنے والے گنہگار ہیں ۲۴ مہر کی ادئیگی سے قبل مہر کی معافی ۲۵ مهر - عورتوں کے حقوق ۲۶ مہر معاف کرانا N ۲۷ ۲۸ مہر ضر ورا دا کرنا چاہئے عورت مہر کی رقم اپنے ماں باپ اور خاوند کو دے سکتی ہے ۲۹ شادی بیاہ کی رسومات ۳۰ نکاح شغار.وٹے سٹے کی شادی ۳۱ جہیز اور مطالبہ جہیز ۳۲ جہیز اور زیور کا مطالبہ اور اس کی نمائش ۳۳ جہیز کی نمائش ۳۴ جہیز اور بری کی رسوا ۳۵ | اعلان نکاح بذریعہ دف ۳۶ شادی کے موقع پر گانا، گھڑا بجانا وغیرہ ۳۷ شادی کے موقع پر فلمی گانے صفحہ نمبر ۲۰۷ ۲۰۸ ۲۰۹ // ۲۱۰ ۲۱۱ ۲۱۳ ۲۱۵ ۲۱۶ // ۲۱۷ ۲۱۹ ۲۲۰ ۲۲۱ ۲۲۲ ۲۲۳ ۲۲۳ ۲۲۴ ۲۲۶ // مہندی سہرا ولیمه ۳۸ ۳۹ لڑکی کی شادی پر دعوت کرنا بدعت ہے ۴۲ لڑکی والوں کی طرف سے دعوت ۴۳ لڑکی کے رخصتانہ کے موقع پر دعوت طعام
صفحہ نمبر ۲۲۷ " ۲۲۸ " ۲۲۹ ۲۳۱ ۲۳۲ // ۲۳۳ ۲۳۷ ۲۳۸ // ۲۳۹ ۲۴۲ ۲۴۵ // ۲۴۶ 12 مضامین نمبر شمار ۴۴ دولہا سے لاگ وصول کرنا ۴۵ بہائی عورت سے شادی ۴۶ ہندو عورت سے شادی ۴۷ ایک مسلمان ہندولڑ کی سے شادی کر سکتا ہے ۴۸ برتھ کنٹرول ۴۹ برتھ کنٹرول بوجہ کی آمد ۵۰ برتھ کنٹرول بوجہ کی اجناس ۵۱ دوسری شادی.نکاح ثانی ہر بیوی کے لئے علیحدہ علیحدہ مکان ہونے چاہئیں ۵۳ بیوی کو مارنا، گالی دینا درست نہیں ۵۴ | میاں بیوی کے حقوق ۵۵ | طلاق طلاق ۵۶ معلقہ بیوی کب سے مطلقہ سبھی جائے گی ۵۷ طلاق واقعہ ہونے کا عرصہ طلاق کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ایک فتوی کی تشریح ۵۹ ایک ساتھ تین طلاقیں یا زائد دی گئیں ، ان کا حکم ۶۰ تَمَسُّوهُنَّ سے مراد خلع | خلع خلع کی درخواست خاوند کے گھر رہتے ہوئے دیں خلع
13 نمبر شمار مضامین ۴ فیصلہ خلع قاضی کے توسط سے ہونا چاہئے ۶۵ مختلعہ پہلے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے خلع کے لئے وجہ منافرت زیر بحث آنا چاہئے خلع کی صورت میں لڑکی کیا کیا سامان واپس کرے لڑکی کی شادی کی عمر و خیار بلوغ ۶۹ خیار بلوغ خیار بلوغ کی مدت ا خیار بلوغ کا عرصہ آٹھ نو ماہ کچھ زیادہ نہیں کفارہ ظہار قسم کا کفارہ ۷۲ ۷۳ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے ۷۴ نان نفقه ۷۵ 24 لعان معہ حق حضانت صفحہ نمبر ۲۴۷ ۲۴۸ ۲۴۹ ۲۵۱ ۲۵۲ ۲۵۳ // ۲۵۴ ۲۵۵ ۲۵۶ ۲۵۷ // ۲۵۸ ۲۵۸ ۲۵۹ ۲۶۳ ۲۶۵ ۲۶۷ ۲۶۸ ۷۸ | نامرد ۷۹ عدت : لونڈی اور غلام اسلام نے جنگ کی اجازت کن حالات میں دی جنگی قیدیوں کے متعلق اسلام کے احکام لونڈی کو بغیر نکاح کے بیوی بنانا لونڈی کو بغیر نکاح کے لونڈی بنانا ۸۴ چار آزا د منکوحہ عورتوں کی موجودگی میں لونڈی رکھنا
صفحہ نمبر ۲۶۹ ۲۷۳ ۲۷۴ ۲۷۶ ۲۸۰ ۲۸۳ ۲۸۴ // ۲۸۵ ۲۸۶ // ۲۸۸ ۲۸۹ ۲۹۰ ۲۹۱ ۲۹۲ ۲۹۷ // ۲۹۸ 14 نمبر شمار مضامین ۸۵ موجودہ دور میں ہندو مسلم جنگ کی صورت میں ہند وعورتوں کو لونڈی بنانا حدود ۸۶ زنا کا الزام ۸۷ الزام زنا میں شھادت ۸۹ زنا کی سزا سو کوڑے زنا ثابت کرنے کے لئے چار گواہوں کی شہادت مقرر کرنے کی وجہ ۹۰ زنا کی سزار جم نہیں ۹۱ جانور کے ساتھ بد فعلی کرنے والے کی سزا ۹۲ حد قذف ۹۳ خائن کی سزا نہ مقرر کرنے کی وجہ ۹۴ کیا امام وقت قرآنی سزا کو موقوف کر سکتا ہے ۹۵ سٹرائک و ہڑتال قانون شکنی کی تلقین کرنے والوں سے ہم کبھی تعاون نہیں کر سکتے ۹۷ اصول شہادت ۹۸ | ثبوت کے بغیر دعویٰ قابل قبول نہیں ۹۹ | اسلامی سزاؤں کا اصول ۱۰۰ نفاذ قانون قضاء کا کام ہے قانون کی پابندی فخ بیع ۱۰۲ معاہدہ مضاربت بیع سلم ۱۰۳ ۱۰۴ | اجاره و احتکار معاملات
صفحہ نمبر ۲۹۹ // ۳۰۰ ۳۰۱ ٣٠٣ ۳۰۴ ۳۰۵ ۳۰۸ ۳۰۹ ۳۱۰ ۳۱۱ ۳۱۲ ۳۱۳ ۳۱۴ ۳۱۵ ۳۱۷ ۳۲۰ ۳۲۱ // 15 مضامین نمبر شمار ۱۰۵ حق شفع ۱۰۶ قرض کی تعریف ۱۰۷ تجارتی قرضہ ۱۰۸ قرض پر منافع لینے کی شرط قرض دیتے وقت اسے ضبط تحریر میں لانا ضروری ہے ۱۱۰ نقد اور ادھار بیع کی قیمت میں فرق 11 وقت مقررہ پر قرضہ واپس نہ کرنے والے سے ہرجانہ وصول کرنا ۱۱۲ سود کی تعریف ۱۱۳ سودی لین دین ۱۱۴ سودی حساب کتاب رکھنے کی ملازمت کرنا ۱۱۵ حالت اضطرار میں بھی سود منع ہے ۱۱۶ قمار بازی لغو چیز ہے اس سے بچنا چاہئے لاٹری سے کمایا ہوا روپیہ ۱۱ مسئلہ پوٹل اور سیونگ سرٹیفیکیٹ ۱۱۹ رہن میں وقت مقرر کرنا 119 ۱۲۱ مکان مرھونہ کا کرایہ زررھن کے حساب سے مقرر کرنا ۱۲۲ بیوی کے نام صبہ کرنا ۱۲۳ ایک لڑکے کے نام ساری جائیدا دھبہ کرنا ۱۲۴ امتیازی هبه ۱۲۵ اپنی زندگی میں دی ہوئی چیز ھبہ ہے، وصیت میں نہیں آتی ۱۲۶ صبہ اور وصیت میں فرق
16 نمبر شمار ۱۲۷ غیر شادی شدہ عورت کی وصیت ۱۲۸ طالب علم کی وصیت ۱۲۹ ورثه مضامین یتیم پوتا اپنے دادا کا کیوں وارث نہیں ہوتا ۱۳۱ عاق کرنا جائز ہے ۱۳۲ انشورنس کے متعلق جماعت احمدیہ کا نظریہ ۱۳۳ | انشورنس کیوں جائز نہیں ۱۳۴ پسماندگان کی مدد ۱۳۵ پراویڈنٹ فنڈ ۱۳۶ ڈالی دینا ۱۳۷ رشوت و نذرانہ صفحہ نمبر ۳۲۲ ۳۲۳ // ۳۲۴ ۳۲۵ ۳۲۷ ۳۲۸ ۳۳۱ ۳۳۲ ۳۳۳ ۳۳۴ ۳۳۹ " ۳۴۱ // ۳۴۲ ۳۴۳ ۳۴۴ ۳۴۵ ۳۴۷ پرده ۱۳۸ پرده ۱۳۹ | پردہ سے مراد ۱۴۰ پردہ میں تشد و ۱۴۱ چھوٹی عمر میں لڑکیوں کا برقعہ اوڑھنا ۱۴۲ پردہ کن افراد سے کیا جائے ۱۴۳ بوڑھی عورتیں اور پردہ ۱۴۴ عورتوں کا عورتوں سے پردہ کرنا ۱۴۵ پردے کی قسمیں ۱۴۶ منہ پردہ میں شامل ہے ۱۴۷ پردہ کی پابندی
17 نمبر شمار ۱۴۸ برقعہ کی بناوٹ مضامین ۱۴۹ شعار اسلامی (ڈاڑھی) کے متعلق ۱۵۰ ہر احمدی کو ڈاڑھی رکھنی چاہئے ۱۵۱ ڈاڑھی کے متعلق اسلامی حکم ۱۵۲ ذبیحہ اہل کتاب ۱۵۳ مسئله ذبیچه ۱۵۴ مچھلی کو کیوں ذبح نہیں کیا جاتا ڈاڑھی ذبیحہ اہل کتاب ۱۵۵ ہندوؤں اور عیسائیوں کے ساتھ مل کر کھانا کھانا ۱۵۶ ہندوؤں اور عیسائیوں کے گھر کا کھانا کھانا ۱۵۷ سور کی چربی ۱۵۸ عورت کا ذبیحہ ۱۵۹ حقه نوشی ۱۶۰ تمباکونوشی ۱۶۱ ناچ گانا ۱۶۲ سینما ۱۶۳ | سینما اور تماشے ۱۶۴ سینما چلانے کے کاروبار حقہ نوشی ناچ گانا صفحہ نمبر ۳۴۹ ۳۵۳ ۳۵۵ ۳۵۶ ۳۶۳ // ۳۶۵ ۳۶۸ ۳۶۹ ۳۷۵ ۳۸۱ ۳۸۲ ۳۸۴
18 نمبر شمار ۱۶۵ سچی فلمیں ۱۶۶ ناچ ۱۶۷ قوالی ۱۲۸ گانا بجانا ۱۶۹ ۱۷۰ شطرنج غیر مسلموں کو السلام علیکم کہنا ۱۷۱ رسم و رواج مضامین متفرق ۱۷۲ شب برات، گیارھویں، بارہ وفات ، نیاز وغیرہ کا کھانا ۱۷۳ تعویذ وغیره ۱۷۴ خاندانی روایات ۱۷۵ مردوں کو ریشمی کپڑا پہننا منع ہے ۱۷۶ پیشہ ور فقیروں کو خیرات دینا ۱۷۷ سادات کے لئے صدقہ کو نا جائز کرنے میں حکمت ۱۷۸ قتل حسین میں یزید کی فوج بھی ذمہ وار ہے ۱۷۹ بچوں کے نام ۱۸۰ شعر گوئی ۱۸۱ مسئله اشاعت فوٹو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۲ فوٹو بت پرستی تو نہیں ۱۸۳ خلافت جوبلی منانا ۱۸۴ طبی ریسرچ کے لئے نعش کی وصیت ۱۸۵ حفاظت کمرہ رہائش و وفات حضرت اماں جان صفحہ نمبر ۳۸۴ ۳۸۵ ۳۸۶ ۳۹۱ " ۳۹۲ ۳۹۳ ۳۹۵ ۳۹۷ ۳۹۸ ۳۹۹ ۴۰۰ ۴۰۱ ۴۰۳ ۴۰۴ ۴۰۵ ۴۰۷ ۴۰۸
صفحہ نمبر ۴۰۸ ۴۰۹ ۴۱۰ ۴۱۱ ۴۱۲ " ۴۱۳ // ۴۱۸ ۴۱۹ ۴۲۰ ۴۲۳ // // ۴۲۴ // ۴۲۵ ۴۲۶ 19 مضامین نمبر شمار ۱۸۶ پیشہ زراعت گوبر (پاتھی ) سے کھانا پکانا ۱۸۸ مشتر کہ بنائی ہوئی مسجد میں نماز ادا کرنا ۱۸۹ وطن کی آزادی کے لئے لڑنے والا شہید جس شخص کو دین کے کام پر لگایا جائے وہ مستعفی نہیں ہوسکتا ۱۹۱ اصول فقه استخراجی مسائل ۱۹۲ محکمہ فتاوی ۱۹۳ یہ عورتیں ملازمت کرسکتی ہیں ۱۹۴ | ایک مسجد میں دوسری جماعت ضمیمه ۱۹۵ | سادات اور بنی ھاشم کے لئے زکوٰۃ کا مسئلہ ۱۹۶ میت کی منتقلی پر دوبارہ جنازہ ۱۹۷ چور کی سز ا قطع ید ۱۹۸ بیماری کی حالت میں روزہ نہ چھوڑنے کی وضاحت ۱۹۹ اسلامی سزائیں ۲۰۰ ڈاڑھی منڈوانا نا جائز ہے ۲۰۱ | تجدید بیعت ۲۰۲ نام کے ساتھ احمدی لکھنا گھر میں نماز پڑھنا ۲۰۴ نماز کا ترجمہ ۲۰۵ سنتیں پڑھنی چاہئیں پانچوں نمازوں کے اوقات اور ان کی رکعات
20 نمبر شمار ۲۰۷ جمعہ کی دو سنتیں مضامین ۲۰۸ وفات یافتگان کی طرف سے قربانی کرنا ۲۰۹ وفات یافتگان کی طرف سے کپڑے وغیرہ بنوا کر دینا ۲۱۰ بہشتی مقبرہ کی زمین کے بارہ میں ۲۱۱ بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا ۲۱۲ کفارہ کے بارہ میں ۲۱۳ شراب کی دوکان پر ملازمت ۲۱۴ محصن کو رحم ۲۱۵ غیر احمد والدین سے حسن سلوک ۲۱۶ ناقصات العقل والدین سے ہونے کا مطلب صفحہ نمبر ۴۲۶ ۴۲۷ ۴۲۷ ۴۲۸ " ۴۲۹ ۴۳۳ ۴۳۴
درباره فقهی مسائل حصہ اوّل مشتمل: عقائد ونظریات نماز روزہ زکوۃ.حج
عقائد نظريات
خدا تعالی کی صفات ازلی ہیں عقائد ونظریات سوال :.خدا کی صفات اس کے ساتھ ہی ازلی ہیں یا پیدا شدہ.یعنی کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ اس کی صفات اس سے علیحدہ نہیں ہوسکتیں یا یہ کہ وہ نئی صفات پیدا کرسکتا ہے اور جب چاہے موجودہ صفات کو برباد کر سکتا ہے؟ جواب :.صفات الہیہ مخلوق نہیں ہیں بلکہ وہ ذات کے ساتھ ہی ازلی ابدی ہیں.قرآن کریم الفضل ۹ جولائی ۱۹۲۹ء.جلد ۱۷ نمبر ۳) سوال : کیا قرآن کریم گزشتہ زمانوں میں موجودہ یا کسی اور شکل میں موجود تھا.کیا اسلام ہی ان لوگوں کا مذہب تھا.ان جہانوں میں کون کون انبیاء تھے؟ جواب :.قرآن کریم اس کتاب کا نام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اگر پہلی مخلوق اس درجہ کمال تک پہنچی ہوئی تھی کہ وہ کسی کلام الہیہ کی محتاج تھی تو یقینا اس کے لئے کوئی نہ کوئی وحی الہی نازل ہوئی ہوگی لیکن اس کا نام ہم قرآن نہیں رکھ سکتے.ہاں ان لوگوں کے مذہب کا نام اسلام ضرور رکھیں گے کیونکہ جو وحی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے گی اس کا ماننا ضروری ہوگا اور ہر اس مذہب کا نام اسلام ہے جس میں خدا تعالیٰ کی وحی کا ماننا ضروری قرار دیا گیا ہے.آپ کے سوال کا آخری حصہ نہایت عجیب ہے.آپ پوچھتے ہیں ان زمانوں کے نبیوں کے کیا نام تھے.جب ان عالموں کا ہم سے کوئی تعلق نہیں اور ان کی تفصیلی حیثیت سے ہمیں آگاہ نہیں کیا گیا تو ان کے نبیوں کے نام بتانے کی کیا ضرورت تھی اور بغیر بتائے ہم کس طرح آپ کو بتا سکتے ہیں.(الفضل ۲ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۷۶ )
عقائد ونظریات مقام حدیث سوال :.قرآن مجید کے جن احکام کی خود خدا تعالیٰ نے تفصیل نہیں بتائی تو کیا یہ اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ نے حالات پر اس کی تفصیل چھوڑ دی ہے خواہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جزئیات بتادی ہوں تو کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت محض وقتی سمجھی جائے گی نہ کہ دائگی مثلاً زکوۃ کا حکم خدا تعالیٰ نے دیا لیکن اس کی شرح نہیں بتائی رسول اللہ نے 212 فیصد شرح مقرر فرمائی.تو کیوں نہ اس کو وقتی سمجھا جائے؟ جواب :.سوال یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیل تو بتادی مگر یہ نہ بتایا کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ وقتی ہے اور پھر خدا تعالیٰ نے نعوذ باللہ یہ آیت قرآن کریم میں بلا وجہ نازل کر دی کہ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ گویا کہا تو یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے میری رضا مل سکتی مگر حقیقت یہ تھی کہ محمد رسول اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بتایا وہ وقتی تھا اور دائمی طور پر اس پر عمل ہو ہی نہیں سکتا تھا اس صورت میں تو اللہ تعالیٰ کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں نہیں بلکہ کسی اور کی اتباع میں تم میرے محبوب بن سکتے ہو.آخر سوچنا چاہیے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات وقتی تھیں تو پھر اس آیت کے کیا معنی رہے؟ اسی طرح قرآن کریم کی اور بیسیوں آیات ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو بنی نوع انسان کے لئے ضروری قرار دیتی ہیں اور اس کی اہمیت پر دلالت کرتی ہیں پھر یہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے کہ ان احکام کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں وقتی قرار دیں اور اسی طرح آپ کی دائگی انتباع سے جس پر قرآن کریم نے زور دیا ہے انکار کر دیں.آخر اتنا بڑا مسئلہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام وقتی ہیں امت محمدیہ کے اربوں افراد کی زندگی پر اثر رکھنے والا تھا اور ضروری تھا کہ انہیں اس بارہ میں علم دیا جاتا تاکہ وہ غلط راستہ پر نہ چلتے مگر خدا تعالیٰ بھی اس بارہ میں خاموش رہا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش رہے اور صلحائے امت بھی خاموش رہے.اور پھر
عقائد ونظریات خدا تعالیٰ نے یہ عقیدہ اپنے مامور کے ذریعہ بھی نہ کھولا.اگر کھولا تو دفتر کے کلرکوں کے ذریعہ کھولا.کیا کوئی عقل مند انسان اسے تسلیم کر سکتا ہے؟ حضرت عمرؓ کو ایک دفعہ کشفی طور پر جنگ کا ایک نظارہ دکھایا گیا اور آپ نے بآواز بلند فرمایا یا ساریۃ الجبل اب دیکھو یہ کتنی چھوٹی سی چیز تھی جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی لیکن جس مسئلہ سے اربوں ارب آدمی امت محمدیہ کا گمراہ ہوسکتا تھا، دین سے بے راہ ہوسکتا تھا اس کے لئے کسی کو الہام نہ کیا.پھر لطف یہ ہے کہ غیر احمدیوں کے نزدیک خدا تعالیٰ کو حق نہیں کہ کسی الہام کے ذریعہ کسی شخص کو اپنا منشاء بتائے.لیکن عربی زبان سے ناواقف اور قرآن کریم سے بے بہرہ افراد کوئی تشریح کر دیں اور بعدۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو گمراہ کر دیں تو یہ ان کے نزدیک درست ہے.باقی رہا یہ سوال کہ تفصیل کو قرآن کریم نے کیوں چھوڑا.سواس تفصیل کو اسی لئے چھوڑا کہ قرآن کریم کو حفظ کرایا جانا تھا اگر ساری تفصیل قرآن کریم میں آجاتی تو وہ حفظ نہ ہوسکتا اور اس کی حفاظت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتی.اگر ساری تفصیل اس میں درج ہوتی تو رازی، ابن جریر، ابن محیط ، روح المعانی ، روح البیان، کشاف، بیضاوی اور خازن وغیرہ تفاسیر بھی تفصیلات میں آنی چاہئے تھیں.پھر میری تفسیر کبیر بھی آنی چاہئے تھی.ایسی صورت میں قرآن کریم کو کون حفظ کر سکتا تھا.پھر ان اعتراض کرنے والوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ حدیثوں کا حجم قرآن کریم سے بیسیوں گنا زیادہ ہے.( فائل مسائل دینی نمبر 1 1-51-1-6269/15 DP) روح اور نفس میں فرق سوال :.روح اور نفس میں کیا فرق ہے اور روح نفس اور دماغ میں ، دماغ کی کیا حیثیت اور کام ہیں؟ جواب :.روح اور نفس میں نمایاں فرق ہے.روح ایک وجود ہے اور نفس ایک قوت فعلیہ کا نام ہے.روح انسانی دماغ کے ذریعہ سے انسان سے کام لیتی ہے اور اس کے اثرات جس وقت دماغ میں
عقائد ونظریات ایک معین صورت اختیار کرتے ہیں تو اس کا نام نفس ہوتا ہے جیسے تار دینے والا جب آلہ تار کوحرکت دیتا ہے تو دوسری طرف اس کے خیالات کا اظہار ہوتا چلا جاتا ہے.روح جو ہے وہ تار دینے والا وجود ہے.دماغ آلہ تار ہے اور اس کے حرکت دینے سے جو ایک معین مفہوم پیدا ہوتا چلا جاتا ہے وہ گویا نفس ہے لیکن یہ مثال مکمل نہیں ہے اس سے کسی قدرا اندازہ کیا جاسکتا ہے بعض نقائص اس میں ہیں.(الفضل ۹ر جولائی ۱۹۲۹ء.جلد ۱۷.نمبر ۳ صفحہ ۶) روحیں بلائی نہیں جاسکتیں سوال :.کیا مردوں کی روحیں زندوں کے پاس آسکتی ہیں اور باتیں کر سکتی ہیں؟ جواب:.ہاں روحیں آسکتی ہیں اور باتیں کر سکتی ہیں مگر خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت.خود بخود نہیں آسکتیں اور نہ زندہ انسان انہیں بلا سکتے ہیں جب تک دنیا کے لوگوں سے خدا تعالیٰ ان کا واسطہ نہ پیدا کرے.روحیں نہیں آسکتیں اور نہ کلام کر سکتی ہیں وہ لوگ جو روحیں بلانے کے دعوے کرتے ہیں ان کا دعویٰ نہایت ہی مضحکہ خیز ہے.ولایت میں اس قسم کے لوگ میرے پاس آئے تو میں نے انہیں کہا.کیا آپ اس طرح کر سکتے ہیں کہ کچھ آدمی علیحدہ علیحدہ بٹھا دیں اور پھر ان سب پر ایک ہی روح بلائیں.اگر سب کے سب یہ کہیں کہ ان پر روح آگئی ہے تو یہ غلط ہو گا.کیونکہ ایک روح ایک وقت میں ایک ہی جگہ مصروف ہوسکتی ہے نہ کہ مختلف جگہوں میں اور اگر کہو کہ روحیں مرنے کے بعد اتنی طاقت حاصل کر لیتی ہیں کہ ایک ہی روح ایک ہی وقت مختلف جگہوں میں جاسکتی ہے تو اس کا تجربہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک ہی روح کچھ مختلف آدمیوں پر بلا کر اس سے ایک ہی قسم کے سوالات کئے جائیں اگر ان کے، سب ایک ہی جواب دیں تو ہم مان لیں گے کہ روحیں آسکتی ہیں اور بلائی جاسکتی ہیں مگر اس بات کو کسی نے تسلیم نہ کیا.الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۳۳ء.جلد نمبر ۲۱.پر چہ نمبر ۸۵ صفحہ۵ )
عقائد و نظریات موجودہ دنیا سے پہلے لوگوں کی جزا و سزا سوال :.کیا جزا سزا اور قیامت ان لوگوں کے لئے بھی جو گزشتہ جہانوں سے تعلق رکھتے تھے قائم کی گئی اور ان کی روحیں اب اپنے اعمال کے مطابق دوزخ یا بہشت میں ہوں گی یا یہ کہ جب ایک نئی دنیا پیدا کی جاتی ہے تو گزشتہ جہانوں کی روحیں تباہ ہو جاتی ہیں کیونکہ خدا روحوں کو پیدا کرتا ہے اور ان کو برباد بھی کر سکتا ہے.تمام روحیں اس کی قدرت یا مرضی کے ماتحت ہیں؟ جواب:.یہ بالکل صحیح ہے کہ وہ انسان جو ہماری دنیا سے پہلی دنیا میں گزر چکے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے انعامات اور اس کی جزاء حاصل کر رہے ہوں یا وہ تباہ کر دیئے گئے ہوں اور ان کی جگہ ایک نئی دنیا پیدا ہوگئی ہو لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہم سے پہلے جو مخلوق گزر چکی ہے اس کی ارواح کس حد تک کمال کو پہنچ چکی تھیں اور نہ ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سزا دائمی تھی یا محدود اس لئے ہم بالجزم یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ آیا اس مخلوق کی ارواح دائمی انعامات پارہی ہیں یا سزا حاصل کر رہی ہیں یا بوجہ اس کے کہ ان کی ارواح موجودہ انسانی ارواح سے نامکمل تھیں.وہ تباہ کر دی گئیں.اس سوال کا جواب چونکہ ہماری بہتری یا ہماری روحانی ترقی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا اس لئے قرآن کریم اس بارہ میں خاموش ہے.وہ خدا تعالیٰ کی صفت پر روشنی ڈالنے کے لئے صرف اتنا بتا تا ہے کہ ہم سے پہلے بھی مخلوق ہوا کرتی تھی اور یہ کہ خدا تعالیٰ کی صفات میں تعطل نہیں ہوتا.یہ بالکل صحیح ہے کہ ارواح خدا تعالیٰ کی مرضی کے ماتحت ہیں اور وہ تباہ کرسکتا ہے مگر ضروری نہیں کہ وہ تباہ کر بھی دے.اگر وہ چاہے اور قائم رکھے تو کوئی اس کے راستہ میں روک نہیں بن سکتا.الفضل ۲ / جولائی ۱۹۲۹ء.جلد ۱۷.صفحہ ۶) جنت دوزخ کا مقام سوال :.جنت اور دوزخ کہاں ہیں؟
عقائد ونظریات جواب :.دوزخ اور جنت کا مقام ہم کوئی تجویز نہیں کر سکتے.در حقیقت ان دونوں چیزوں کے لئے مقام تجویز کرنا بھی غلط ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں مادی مقامات سے بالا ہیں.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں کا بدلہ تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہوگا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یہ بدلہ ادنی مومن کا بدلہ ہے اگر کوئی مادی مقام جو کسی سہارے سے مخصوص ہونا جنت کے لئے قرار دیا جاتا تو ایک ادنی مومن کا بدلہ آسمانوں اور زمین کے برابر کس طرح ہو سکتا تھا.جنت کی حوریں الفضل ۲ / جولائی ۱۹۲۹ء.جلد ۱۷ - صفحہ ۶) سوال :.مردوں کو جنت میں حوریں ملیں گی.عورتوں کو کیا ملے گا.کیا انہیں بھی حوریں ملیں گی ؟ جواب: غلطی اس سے لگی ہے کہ یہ سارے استعارے ہیں.اگلے جہان کی زندگی کے لئے بھی اور اس دنیا کے لئے بھی.اور یہ بھی غلطی ہے کہ ساری آیتوں کو اگلی زندگی پر ہی لگالیا گیا ہے.بلکہ اس دنیا میں مسلمانوں کو کامیابیوں کی خوشخبری ہے کہ نہ صرف مرد نیک ہوں گے بلکہ عورتیں بھی.قرآن شریف میں حور کا لفظ ہے جس کے معنی کالی آنکھ والی کے ہیں.سو ایران پہلے مسلمان ہوا اور ایرانیوں نے اسلام کے شوق میں اپنی بیٹیاں مسلمان سپاہیوں سے بیاہی ہیں چنانچہ خود حضرت حسن و حسین کے گھر میں بھی ایرانی بیویاں تھیں.پس جہاں تک قرآنی پیشگوئی کا سوال ہے مسلمان قوم اگر بحیثیت قوم مسلمان ہوگی تو ان کی بیویاں بھی نیک ہوں گی اور بیویوں کے خاوند بھی نیک ہوں گے.کسی غیر عورت کا سوال ہی نہیں.نہ کسی غیر مرد کا سوال ہے.مردو عورت دونوں انعام میں برابر ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلامی اصول کی فلاسفی میں اس پر سیر کن بحث کی ہے.( فائل مسائل دینی نمبر DP 4/13-5-57-32-B) نئی دنیا کا آدم سوال :.کیا موجودہ دنیا کی تباہی اور قیامت کے بعد ایک نئی دنیا پیدا ہوگی.جس کے انسانوں کی
عقائد ونظریات شکل اس آدم کی شکل پر ہوگی جس کو سب سے پہلے پیدا کیا جائے گا؟ جواب :.قرآن کریم سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کے تباہ کرنے کے بعد پھر ایک اور دنیا پیدا کرے گا.کیونکہ اعادہ صفات الہی کمال الوہیت کے لئے ضروری ہے.جب ایسا کرنا لازمی ہے تو یہ بات ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی کوئی آدم پیدا کرے گا جو اپنی آئندہ نسل کے لئے نمونہ ہوگا.مسلمان کی تعریف الفضل ۲ جولائی ۱۹۲۹ء.جلد ۷ اصفحہ ۶) سوال :.ایک شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے لیکن اس کے عقائد کافرانہ ہیں ایسے شخص کو غیر مسلم سمجھنا جائز ہے؟ جواب:.ہم ایسے لوگوں کو مسلمان ہی کہتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں.جہاں تک نام کا سوال ہے ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ مسلمان نہیں البتہ جب ان کے بعض عقائد اسلام کے خلاف ہوتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ یہ بگڑے ہوئے عقائد اسلام ہیں مثلاً اگر دودھ میں کیچڑ پڑا ہو تو آپ اسے دودھ ہی کہیں گے مگر پئیں گے نہیں.پھر یہ گند زیادہ بھی ہو سکتا ہے اور کم بھی.لیکن ایسے شخص سے سوشل سلوک ویسا ہی کیا جائے گا جیسے دوسرے مسلمانوں سے کیا جاتا ہے.ایسے شخص کو غیر مسلم سمجھنے کے تو معنے ہی میری سمجھ میں نہیں آتے.چونکہ ایک شخص کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اس لئے ہم اسے مسلمان کہتے ہیں لیکن چونکہ بعض عقائد اس کے غیر اسلامی ہوتے ہیں اس لئے ہم ان عقائد کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ غیر اسلامی ہیں ورنہ اسلام اور غیر مذاہب آپس میں بہت سی اصولی باتوں میں اشتراک رکھتے ہیں.مثلاً اسلام کا بڑا عقیدہ خدا تعالیٰ کا مانا ہے اور ہندو، عیسائی اور یہودی سب خدا تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں.اسی طرح عبادت مذہب کا ایک ضروری حصہ ہے اور ہندوؤں، عیسائیوں اور سکھوں کی بھی یہی تعلیم ہے کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہئے.غرض کوئی ایسی چیز ان میں نہیں پائی جاتی جس کے مشابہ چیزیں اسلام میں بھی نہ پائی جاتی ہوں.لیکن کوئی مقررہ
عقائد ونظریات سٹینڈرڈ نہیں سب نسبتی امر ہیں.اس لئے جن امور کا تقویٰ سے تعلق ہے یا دین کی حفاظت سے تعلق ہے ان میں ہم ان لوگوں سے اجتناب کرتے ہیں.جن کے بعض عقائد یا اعمال غیر اسلامی ہوں اور سوشل تعلقات یا سیاسی تعلقات میں ہم ہر مسلمان کہلانے والے کو مسلمان ہی کہتے ہیں اور وہی اس سے سلوک کرتے ہیں کیونکہ اس میں تقویٰ کا سوال یا حفاظت دین کا سوال پیدا نہیں ہوتا.بلکہ اسلام تو سیاسی امور میں غیر مسلم کو بھی مسلم والے ہی حقوق دیتا ہے.مسلمان کہلانے والا تو بدرجہ اولیٰ اس مساوات کا مستحق ہے.( فائل مسائل دینی نمبر 1 1-51-1-6269/15 DP) خلفاء کی اطاعت خلفاء،ان کے لئے ضروری نہیں کہ اسوہ ہوں اور ان کی اطاعت ویسی نہیں ہوتی جیسی انبیاء کی ہوتی ہے.نبی تو جو کہتا ہے وہ ماننا ضروری ہوتا ہے لیکن ایک خلیفہ اگر اپنے وقت میں کوئی مسئلہ بیان کرتا ہے اور کوئی اسے سمجھ نہیں سکتا تو اس میں اختلاف ہو سکتا ہے اور اس کی مثالیں موجود ہیں.حضرت ابوبکر کے وقت آپ ایک مسئلہ اور رنگ میں بیان فرماتے اور بعض صحابہ اور رنگ میں.اور سوائے سیاسی اور انتظامی معاملات کے اس وقت خلیفہ جو کہتا اس پر عمل ہوتا.تو مسائل میں اختلاف کیا جاتا تھا چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابو بکر نے کہا میں ان سے کافروں والا معاملہ کروں گا.حضرت عمر اور دوسرے صحابہ اس کے خلاف تھے مگر حضرت ابو بکر نے کسی کی نہ مانی اور ان لوگوں کو قید کیا اور غلام بنائے گئے.اسی طرح اور خلفاء کے زمانہ میں بھی بعض مسائل میں اختلاف ہوتا رہا ہے.تو رسول کی اطاعت اور خلیفہ کی اطاعت میں فرق ہے.رسول سے کسی بات میں اختلاف کرنا نادانی اور جہالت ہے اور یہ اختلاف ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ خدا نے غلطی کی ہے کیونکہ رسول کا کلام خدا تعالیٰ کے کلام کی تفسیر ہوتا ہے.انبیاء کی ہر بات مانی ضروری ہوتی ہے کیونکہ وہ خدا کے کلام کی تفسیر ہوتے ہیں مگر خلفاء ایسے نہیں ہوتے.اگر ہوں تو یہ ان کا ذاتی کمال ہو گا خلافت سے اس کا تعلق نہیں.اس لئے ان کی اطاعت نبی
عقائد ونظریات کی اطاعت کے مقابلہ میں محدود ہوتی ہے اور وہ یہ کہ انتظامی معاملات جن میں جماعت کو جمع رکھنا ہوتا ہے ان میں ان کا حکم مانا جائے مثلاً قاضیوں نے جو فیصلہ کرنا ہوگا وہ خلیفہ کے حکم کے ماتحت کرنا ہوگا.تو خلفاء کی اطاعت محدود ہوتی ہے اور صرف چند باتوں میں ہوتی ہے جو انتظامی معاملات سے تعلق رکھتی ہیں مسائل فقہ سے تعلق نہیں رکھتیں.( خطبه جمعه فرموده ۱۷ اگست ۱۹۲۳ء - الفضل ۲۴ /اگست ۱۹۲۳ء - جلد ۱۱ صفحه ۶) ایک شخص جو خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اسے سمجھنا چاہئے کہ خلفاءخدا مقررکرتا ہے اور خلیفہ کا کام دن رات لوگوں کی راہ نمائی اور دینی مسائل میں غور وفکر ہوتا ہے.اس کی رائے کا دینی مسائل میں احترام ضروری ہے.اور اس کی رائے سے اختلاف اُسی وقت جائز ہو سکتا ہے جب اختلاف کرنے والے کو ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہو جائے کہ جو بات وہ کہتا ہے وہی درست ہے پھر یہ بھی شرط ہے کہ پہلے وہ اس اختلاف کو خلیفہ کے سامنے پیش کرے اور بتائے کہ فلاں بات کے متعلق مجھے یہ شبہ ہے اور خلیفہ سے وہ شبہ دور کرائے.پس اختلاف کرنے والے کا فرض ہے کہ جس بات میں اسے اختلاف ہوا سے خلیفہ کے سامنے پیش کرے نہ کہ خود ہی اس کی اشاعت شروع کر دے ورنہ اگر یہ بات جائز قرار دی جائے کہ جو بات کسی کے دل میں آئے وہی بیان کرنی شروع کر دے تو پھر اسلام کا کچھ بھی باقی نہ رہے.اگر کوئی شخص اس طرح نہیں کرتا اور اختلاف کو اپنے دل میں جگہ دے کر عام لوگوں میں پھیلاتا ہے تو وہ بغاوت کرتا ہے.(انوار العلوم جلد ۹، منہاج الطالبین صفحه ۱۶۳،۱۶۲) تمہیں امر بالمعروف میں میری اطاعت اور فرمانبرداری کرنی ہوگی اگر نعوذ باللہ کہوں کہ خدا ایک نہیں تو اسی خدا کی قسم دیتا ہوں جس کے قبضہ قدرت میں ہم سب کی جان ہے جو وحدہ لا شریک اور لیس کشمله شی ہے کہ میری ایسی بات ہرگز نہ ماننا.اگر میں تمہیں نعوذ باللہ نبوت کا کوئی نقص بتاؤں تو مت مانی...ہاں میں پھر کہتا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ امر بالمعروف میں میری خلاف ورزی نہ کرنا.الفضل کا غیر معمولی پر چہ ۲۱ / مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۲)
۱۲ عقائد ونظریات خلیفه اور انبیاء کامنکر سوال :.کیا خلیفہ کا منکر کا فر ہے؟ جواب :.میرا اب تک یہی مذہب ہے کہ صرف انبیاء ورسل کا منکر کا فر ہوتا ہے.غیر مامورخلیفہ یا مامور خلیفہ کا منکر کا فرنہیں ہوتا.بلکہ فاسق ہوتا ہے.ہاں اگر اس کا انکار شرارت سے ہوتا ہے یا ایذاء رسانی میں یہ شخص بڑھ جاتا ہے تو پھر رفتہ رفتہ اس کا ایمان ضائع ہونے لگتا ہے اور آخر یہ کافر ہو جاتا ہے.الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۱۵ء.جلد ۲.نمبر ۹۲ صفحیم) مسائل فقهیه میں خلیفہ سے اختلاف هوسکتاهے سوال :.کیا خلیفہ کے لئے سلطنت ضروری ہے؟ جواب :.فرمایا.خلافت کے معنے ایک بادشاہ کے ہیں اور ایک نیابت کے.اور جو جس کا خلیفہ ہوگا وہ اسی بات میں ہو گا جو اس کے اصل میں ہو گی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض بھی روحانی اصلاح تھی.اور خلیفہ عربی کے لحاظ سے بادشاہ کو بھی کہنا درست ہے ہر ایک سلطان بھی خلیفہ ہے.ہاں مسلمانوں نے اس کو خاص کر لیا ہے.الفضل ۲۸ / نومبر ۱۹۲۱ء - جلد ۹ نمبر ۴۲) سوال : کیا ایک شخص مسائل میں اختلاف رکھ کر خلیفہ سے بیعت کر سکتا ہے؟ جواب :.مسائل فقہیہ میں سوائے نبی کے ہر ایک شخص سے اختلاف ہوسکتا ہے.حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان، حضرت علی سب اپنے اپنے وقت میں، صحابہ، بعض باتوں میں اختلاف رکھتے تھے.ہمیں کئی مسائل میں حضرت خلیفہ اول سے اختلاف تھا مثلاً حضرت خلیفہ اول کا یہ اعتقاد تھا کہ نبی قتل نہیں ہوسکتا.مگر ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ نبی قتل ہو سکتا ہے اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے
عقائد ونظریات بھی لکھا ہے کہ حضرت سخی قتل کئے گئے.گو یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ الزامی طور پر لکھا ہے مگر یہاں الزام کی کوئی بات نہیں.پس اصولی بات میں اختلاف نہیں ہوسکتا.یہ نبی ہی ہوتا ہے جو کہتا ہے یہ بات یوں ہے پھر خواہ وہ سمجھ میں نہ آئے مانی پڑتی ہے.الفضل ۵ فروری ۱۹۲۴ء.جلد۱۱ نمبر ۶۱) بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلیفہ سے چونکہ اختلاف جائز ہے اس لئے ہمیں ان سے فلاں فلاں بات میں اختلاف ہے.میں نے ہی پہلے اس بات کو پیش کیا تھا اور میں اب بھی پیش کرتا ہوں کہ خلیفہ سے اختلاف جائز ہے مگر ہر بات کا ایک مفہوم ہوتا ہے.اس سے بڑھنا دانائی اور عقلمندی کی علامت نہیں ہے.پس اختلاف کی بھی کوئی حد بندی ہونی چاہئے.ایک شخص جو خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اسے سمجھنا چاہئے کہ خلفاء خدا مقرر کرتا ہے اور خلیفہ کا کام دن رات لوگوں کی راہ نمائی اور دینی مسائل میں غور و فکر ہوتا ہے.اس کی رائے کا دینی مسائل میں احترام ضروری ہے.اور اس کی رائے سے اختلاف اُسی وقت جائز ہوسکتا ہے جب اختلاف کرنے والے کو ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہو جائے کہ جو بات وہ کہتا ہے وہی درست ہے پھر یہ بھی شرط ہے کہ پہلے وہ اس اختلاف کو خلیفہ کے سامنے پیش کرے اور بتائے کہ فلاں بات کے متعلق مجھے یہ شبہ ہے اور خلیفہ سے وہ شبہ دور کرائے.پس اختلاف کرنے والے کا فرض ہے کہ جس بات میں اسے اختلاف ہوا سے خلیفہ کے سامنے پیش کرے نہ کہ خود ہی اس کی اشاعت شروع کر دے ورنہ اگر یہ بات جائز قرار دی جائے کہ جو بات کسی کے دل میں آئے وہی بیان کرنی شروع کر دے تو پھر اسلام کا کچھ بھی باقی نہ رہے.اگر کوئی شخص اس طرح نہیں کرتا اور اختلاف کو اپنے دل میں جگہ دے کر عام لوگوں میں پھیلاتا ہے تو وہ بغاوت کرتا ہے.اسے اپنی اصلاح کرنی چاہئے.انوار العلوم جلد ۹، منہاج الطالبین صفحه ۱۶۳،۱۶۲)
۱۴ عقائد ونظریات خلیفه کی موجودگی میں مجدد سوال :.کیا خلیفہ کی موجودگی میں مجدد آ سکتا ہے؟ جواب :.خلیفہ تو خود مجدد سے بڑا ہوتا ہے اور اس کا کام ہی احکام شریعت کو نافذ کرنا اور دین کو قائم کرنا ہوتا ہے.پھر اس کی موجودگی میں مجدد کس طرح آسکتا ہے.مجد دتو اس وقت آیا کرتا ہے جب دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے.الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۴۷ء مجلس عرفان صفیه ) اسلام کفر کے سارے گناہ مٹا دیتا ھے یہاں سے ایک اور مسئلہ کا بھی استنباط ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شخص مسلمان ہو جائے اس کے کفر کے سارے گناہ مٹ جاتے ہیں.یہ ایک عام مشہور مسئلہ ہے اور احادیث سے بھی اس کا پتہ چلتا ہے.مگر اس مسئلہ میں کچھ ترمیم کی ضرورت ہے خواہ وہ ترمیم اصلاحی نہ ہو بلکہ تکمیل کی ہو.حدیثوں میں آتا ہے...کہ قیس ابن عاصم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ میں نے کچھ لڑکیاں جاہلیت میں زندہ دفن کی ہیں.آپ نے فرمایا ہر مو ودہ کے بدلہ میں ایک غلام آزاد کر دو.اس نے کہا یا رسول اللہ ! إِنِّى صَاحِبُ الإِبِل میں تو صاحب الابل ہوں.غلام کہاں سے لاؤں.اونٹوں کے متعلق فرما ئیں.تو ان کو نحر کرنے کے لئے تیار ہوں.آپ نے فرمایا فَانُحَرُ عَنْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ بُدْنَةٌ (ابن کثیر ) کہ ہر ایک کے بدلہ میں ایک اونٹ قربان کر دو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے گناہ جو انسان کی فطرت پر بھاری ہوں باوجود ان کی بخشش کے اور باوجود اسلام نصیب ہو جانے اور توبہ قبول ہو جانے کے پھر بھی اگر انسان کفارہ ادا کرتار ہے تو تکمیل روحانیت کے لئے یہ بات بہت مفید ہوتی ہے.(تفسیر کبیر جلد ہشتم ،سورۃ التکویر صفر ۲۲۲)
۱۵ عقائد ونظریات مسیح موعود علیه السلام کے منکر کی پوزیشن سوال :.وہ لوگ جو مرزا صاحب کو قبول کرنے کے بغیر مر جاتے ہیں ان کی پوزیشن کیا ہوگی؟ جواب :.حضرت مرزا صاحب کو قبول نہ کرنے والے دو قسم کے ہیں.ایک وہ جنہوں نے آپ کے متعلق پوری طرح سنا لیکن توجہ نہ کی اور ایک وہ جنہوں نے آپ کی نسبت کچھ سُنا ہی نہیں.ہم بلحاظ شریعت کے نام رکھنے کے دونوں کو کافر کہیں گے.لیکن سزا کے متعلق ہمیں معلوم نہیں کہ کیا ہوگا.البتہ یہ معلوم ہے کہ اسلام کا خدا ظالم نہیں ہے.آپ کے نہ ماننے کی ان لوگوں کو سزا نہیں دے گا جنہوں نے حضرت مرزا صاحب کا نام ہی نہیں سنا اور انہیں کو دے گا جنہوں نے نام سُنا مگر توجہ نہ کی لیکن تفصیلاً ہم کچھ نہیں بتا سکتے ہاں احادیث سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں تک حق نہ پہنچ سکا ہوان کو پھر ایک اور موقع دیا جائے گا.الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۱۶ء.جلد ۳ نمبر ۸۰ صفحه ۶،۵) انسان محض گناہ سے خارج ایمان نهیں هوتا ایک مسلمان اگر نماز نہیں پڑھتا مگر اندر ہی اندر نادم ہوتا ہے اور نماز کا انکار تو نہیں کرتا بلکہ اپنی سستی اور غفلت کا اقبال کرتا ہے اور کسی کے پوچھنے پر شرمندگی سے سر نیچا کر لیتا ہے، گردن ڈال دیتا ہے اور خاموش ہو جاتا ہے تو وہ مومن ہے اور مسلمان ہے.لیکن اگر اباء کرتا ، استکبار دکھاتا اور اپنے گناہ پر مصر ہے اور اسے مستحسن سمجھتا ہے تو وہ ایمان سے خارج ہو جائے گا.محض گناہ انسان کو ایمان سے خارج نہیں کرتا خواہ انسان اعمال ظاہری میں سُست ہی کیوں نہ ہو.لیکن بظاہر پابند شریعت ہوکر اباء واستکبار کر نے والا کبھی بھی مومن نہیں رہ سکتا.الفضل ۶ ستمبر ۱۹۲۰ء صفحہ ۹.خطبات عیدین - صفحه ۱۸۲) بعث بعد الموت بعث بعد الموت پر ایمان ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی
۱۶ عقائد ونظریات محبت پیدا کرتی ہے اور اس کے اعمال کی اصلاح کا ایک اہم ذریعہ ہے.اگر آئندہ زندگی پر ایمان نہ رہے تو نہ صرف تمام کارخانہ عالم کا ایک عبث اور لغو چیز ہونا تسلیم کرنا پڑتا ہے بلکہ نیکی اور تقویٰ میں ترقی بھی ایک بیکار عمل قرار پاتا ہے.مگر یہ خیال کہ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند، ستاروں اور سیاروں اور آسمان اور زمین کے درمیان کی ہزار ہا چیزیں پیدا کر کے اور ان میں اپنی قدرت کے ہزار ہاراز ودیعت کر کے ایک ایسے انسان کو پیدا کیا جس نے چند سالہ زندگی بسر کر کے ہمیشہ کے لئے فنا ہو جانا ہے اور اس کی زندگی کا کوئی اہم مقصد نہیں.ایک ایسا خیال ہے جسے کوئی عقل تسلیم نہیں کر سکتی.انسان کے لئے اس قدر وسیع کائنات کا پیدا کرنا اور اس پر عقل کے ذریعہ انسان کو حکومت بخشنا بتاتا ہے کہ اس کے لئے اس محدود زندگی کے علاوہ کوئی اور مقصد بھی مقرر کیا گیا ہے اور اسلام کہتا ہے کہ وہ مقصد یہی ہے کہ اسے ایک دائمی حیات کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور دائمی روحانی ترقیات کا راستہ اس کے لئے کھولا گیا ہے.پس موت کے صرف اتنے معنے ہیں کہ انسانی روح جسم سے جدا ہوگئی ورنہ روح پر کوئی فنا نہیں اور وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے غیر متناہی مراتب حاصل کرتی رہتی ہے.( تفسیر کبیر.جلد ششم ، سورۃ مومنون.صفحہ ۷۲ صفحه ۱۷۱ ۷۲ از بر آیت أَيَعِدُكُمْ أَنَّكُمْ إِذَا مِتُّمْ وَكُنتُمْ تُرَابًا) اجساد انبیاء جو شخص مٹی کے نیچے دفن ہے وہ مٹی کا ایک ڈھیر ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں.میں اس بات کا بھی قائل نہیں کہ انبیاء کے جسم محفوظ رہتے ہیں اور مٹی انہیں نہیں کھاتی.یہ بائیبل سے صاف ثابت ہے کہ حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام کی ہڈیاں مصر سے کنعان لائی گئیں.بعض احادیث میں بھی اس کا ذکر ہے.پس یہ غلط خیال ہے کہ انبیاء کا جسم محفوظ رہتا ہے.جو شخص مٹی کی قبر میں دفن ہے وہ مٹی ہے.جس
عقائد ونظریات طرح انبیاء کھانا کھاتے اور پاخانہ کرتے تھے یہ نہیں ہوتا تھا کہ پاخانہ کی بجائے مشک ان کے جسم سے نکلے.اسی طرح انسان کے مادی جسم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو قوانین بنائے ہیں وہ ان کے جسم پر بھی عائد ہوتے ہیں.باقی رہا بعض لوگوں کے جسموں کا محفوظ رہنا اور ہمارے مشاہدہ میں اس بات کا آنا سواس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ بعض زمینیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں جسم گلتے نہیں بلکہ سلامت اور محفوظ رہتے ہیں لیکن اس میں نبی یا مومن کی کوئی شرط نہیں.ایک کافر بھی وہاں دفن کیا جائے گا تو اس کا جسم محفوظ رہے گا.اس کے مقابلہ میں بعض زمینوں میں اس قسم کے کیمیاوی مادے ہوتے ہیں کہ وہاں جو شخص دفن ہواس کا جسم تھوڑے دنوں میں ہی مٹی ہو جاتا ہے.وہاں کا فر مومن، نبی اور غیر نبی جو بھی دفن ہوگا میرا یقین ہے کہ اس کا جسم کچھ عرصہ کے بعد ضرور متغیر ہو جائے گا.پس یہ خیالات جو مشرکانہ ہیں ہم ان کے قریب بھی نہیں جاتے.اگر کسی احمدی کے دل میں ایسا خیال ہو تو اسے اپنے دل سے اسے بالکل دور کر دینا چاہئے.اس میں شبہ نہیں کہ روح کو اس ظاہری قبر کے ساتھ ایک لگاؤ اور تعلق ضرور ہوتا ہے اور گومر نے والوں کی روحیں کسی جہان میں ہوں اللہ تعالیٰ ان ظاہری قبروں سے بھی ان کی ایک رنگ میں وابستگی پیدا کر دیتا ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ ایک بزرگ کی قبر پر دعا کرنے کے لئے تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا جب میں دعا کر رہا تھا تو صاحب قبر اپنی قبر میں سے نکل کر میرے سامنے دوزانو ہوکر بیٹھ گیا.مگر اس سے مراد بھی یہ نہیں کہ ان کی روح اس مٹی کی قبر سے باہر نکلی بلکہ ظاہری تعلق کی وجہ سے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مٹی کی قبر پر کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ کو اپنی اصل قبر سے آپ تک آنے کی اجازت دے دی.وہی قبر جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَاقْبَرَهُ.اس قبر میں مرنے کے بعد انسان کی روح رکھی جاتی ہے ورنہ یہ قبریں دنیا میں ہمیشہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد کھودی جاتی ہیں اور ان کے اندر سے کچھ بھی نہیں نکلتا بلکہ ایک قبر کا اوپر کا نشان جب مٹ جاتا ہے تو اسی جگہ دوسرا شخص دفن کر دیا جاتا ہے پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اسی جگہ تیسرا شخص دفن کر دیا جا تا ہے.یہاں تک کہ ایک
۱۸ ایک قبر میں بعض دفعہ یکے بعد دیگرے سوسو آدمی دفن ہو جاتے ہیں.عقائد ونظریات ( الفضل ۷ مئی ۱۹۴۴ء) تابعین اصحاب احمد حصہ سوئم صفحہ ۹۸ تا ۱۰۰) لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کا مطلب سوال :.کیا مومنوں پر قرآن کریم کے نئے نئے معارف گھلتے رہتے ہیں؟ جواب :.اس بات پر تو خدا تعالیٰ نے خود بہت زور دیا ہے.چنانچہ فرمایا لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ - اس کے یہ معنے تو ہو نہیں سکتے کہ قرآن کریم کو ہاتھ میں صرف پاک لوگ ہی یعنی مومن ہی پکڑ سکتے ہیں اور کوئی شخص نہیں پکڑ سکتا.کیونکہ ہندو، عیسائی سکھ وغیرہ ہر مذہب کے لوگ اس طرح قرآن کریم کو مس کر سکتے ہیں.پھر یہ بھی نہیں کہ پہلے لوگ قرآن کریم کے جو معارف اور نکات لکھ گئے ہیں انہیں پاک لوگ ہی پڑھ سکتے ہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایک ہندو یا عیسائی کا حافظہ ایک مسلمان کی نسبت زیادہ اچھا ہو اور وہ تفسیروں کو پڑھ کر اس سے زیادہ باتوں کو یاد کر لے اس لئے لَا يَمَسُّهِ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کا یہی مطلب ہے کہ قرآن کریم کے نئے نئے معارف اور حقائق پاک لوگوں پر گھلتے رہتے ہیں اور یہ مومنوں کی خاص علامت ہے.الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۱۹ء.جلدے نمبر ۲۴ صفیه ) سوال :.اگر کوئی چار پائی پر بیٹھا قرآن شریف پڑھ رہا ہوتو کیا سجدہ تلاوت وہیں پر ہوسکتا ہے؟ جواب: فرمایا.چار پائی پر سجدہ جائز ہے.الفضل یکم اپریل ۱۹۱۵ء.جلد ۲.نمبر ۱۱۹) عیب جوئی قَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ
۱۹ عقائد ونظریات شریعت کہتی ہے کہ جس شخص کے متعلق کوئی بُری بات تمہارے پاس بیان کی جائے تم ہمیشہ اس کے متعلق حُسنِ ظن رکھو اور بُری بات کہنے والے کو جھوٹا سمجھو کیونکہ اس نے دوسرے کی عزت پر حملہ کیا ہے.اگر زید تمہارے پاس ایک شخص کی بُرائی بیان کرتا ہے اور تم زید کی بات سُن کر اس پر فوراً یقین کر لیتے ہو اور جس کے متعلق کوئی بات کہی گئی ہو اس کو مجرم سمجھنے لگ جاتے ہو تو تم بدظنی کا ارتکاب کرتے ہو اور اگر وہ عیب ایسا ہے جس کے لئے شریعت نے گواہی کا کوئی خاص طریق مقرر کیا ہوا ہے تو نہ صرف عیب لگانے والا شریعت کا مجرم بنتا ہے بلکہ جو اس کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے اور اس کی تائید کرتا ہے وہ بھی مجرم ہے ایسے مواقع پر شریعت کی یہی ہدایت ہے کہ جس کا جرم بیان کیا جاتا ہے اسے یری سمجھو اور جوکسی کا عیب بیان کرتا ہے اس کا جرم چونکہ ثابت ہے اسے کبھی سچا قرار نہ دو.( تفسیر کبیر.جلد ششم سوره نور صفحه۲۷۲ ۲۷۳) بوقت ضرورت کسی شخص کا عیب بیان کرنا گناہ نھیں ہر موقع پر کسی کا عیب بیان کرنا بر انہیں ہوتا.بلکہ بعض جگہ ضروری ہوتا ہے.اس وقت اس کو غیبت نہیں کہا جائے گا.غیبت ایک اصطلاح ہے اور یہ اسی وقت استعمال کی جائے گی جبکہ خواہ مخواہ کسی کے عیب بیان کئے جائیں.لیکن اگر کوئی شخص کسی کا عیب بیان کرنے پر مجبور ہے یا اوروں کو اس کے بیان کرنے سے فائدہ پہنچتا ہے تو اس کا بیان کرنا نیکی اور ثواب کا کام ہوگا.مثلاً ایک ایسا شخص ہے جو جماعت یا قوم کے خلاف کوئی سازش کرتا ہے یا بُری باتیں پھیلاتا ہے تو اس کے متعلق اطلاع دینا اور اس کی شرارتوں سے ذمہ دار لوگوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے.تو کسی بات کے بیان کرنے اور بتانے میں یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کے بیان کرنے میں نفع ہے یا نقصان.اگر اس سے کوئی اچھا نتیجہ نکلتا ہوں کسی بُرائی کا سد باب ہوتا ہو، کسی کو فائدہ پہنچتا ہو تو اس کا نہ بیان کرنا گناہ ہو گا جس طرح غیبت کرنا گناہ ہے.الفضل ۴ رنومبر ۱۹۲۰ء.جلد ۶ نمبر ۳۴)
عقائد ونظریات توبه سے اُخروی سزا معاف هوتى هے دنیاوی سزانهيں بعض فقہاء کہتے ہیں کہ تو بہ کرنے پر اللہ تعالیٰ ان کو فاسقوں میں سے نکال دے گا.اور بعض کہتے ہیں کہ ساری سزا ہی معاف کر دی جائے گی.اور بعض کہتے ہیں صرف شہادت قبول نہ کرنے کی اور فاسق ہو جانے کی کہ جو سز تھی اس سے انہیں بچالیا جائے گا.یعنی اگر قاضی فیصلہ کر دے کہ فلاں شخص اپنی غلطی پر بچے طور پر نادم ہے اور آئندہ کے لئے اس نے اپنی اصلاح کرلی ہے تو اجازت ہے کہ اس کی شہادت قبول کر لی جائے.اور خدا تعالیٰ بھی اسے فاسق ہونے سے بچالے گا.میرے نزدیک یہی بات درست ہے کہ بدنی سزا سے تو اسے نہیں بچایا جائے گا البتہ دوسری سزائیں اس کی اصلاح ثابت ہونے پر معاف ہو سکتی ہیں.اس آیت ( إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَالِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ( النور : ٦) سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض گناہوں کی سزادی جانی ضروری ہوتی ہے.کیونکہ تمدن کے قیام کے لئے سزا بھی ایک ضروری چیز ہے لیکن اگر بندہ اس سزا کو برداشت کر لے اور اپنے فعل پر نادم ہو تو اللہ تعالیٰ اس مقررہ سزا سے جو قیامت کے دن ملنے والی ہوتی ہے اسے محفوظ کر دیتا ہے اور اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے لیکن اس دنیا کی سزا کو معاف نہیں کرتا کیونکہ وہ بندوں کے اختیار میں ہے.(تفسیر کبیر.جلد ششم، سوره نور صفحه ۲۶۶) کسی شخص کو مرتدیایھودی کہنا جائز نھیں سوال :.کیا غیر مبایعین کو یہودی یا مرتد کے لفظ سے یاد کرنا درست ہے؟ جواب :.گالی دینا خواہ کسی کو گالی دی جائے منع ہے.مرتد اگر کافر کے معنے میں استعمال نہ کیا جائے تو غیر مبایعین کے لئے یہ لفظ استعمال ہو سکتا ہے مگر ان الفاظ سے حتی الوسع مؤمن کو اجتناب کرنا
۲۱ چاہئے.کیونکہ دوسرے کا دل دُکھانا اسلامی طریق کے خلاف ہے.عقائد ونظریات الفضل ۲۲ رمئی ۱۹۲۲ء.جلد ۹ نمبر ۱ ۹ صفحه ۶) حضرت ابراهیم علیه السلام نے اپنا خاندانی بت خانه توڑا تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس بت خانہ کے بت توڑے تھے وہ کسی دوسرے کا نہیں تھا بلکہ ان کا اپنا خاندانی بت خانہ تھا.اگر وہ دوسروں کا ہوتا تو اس کا توڑنا ان کے لئے جائز نہ ہوتا.یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کا اپنا بت خانہ تھا اور انہیں ورثہ میں ملا تھا اور چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بچپن سے ہی شرک سے سخت نفرت رکھتے تھے اس لئے انہوں نے اس بت خانہ کو جو ان کی آمدنی کا ایک بڑا بھاری ذریعہ اور ملک میں ان کی عزت اور نیک نامی کا باعث تھا، تو ڑ دیا.جب انہوں نے بتوں کو تو ڑا تو سارے ملک میں ایک شور مچ گیا.بادشاہ کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا گیا.ملک کے دستور اور بادشاہ کے قوانین کے مطابق اس فعل کی سزا جلاد دینا تھا.یہ ایک پرانی رسم تھی کہ جو بتوں کی ہتک کرتا اُسے جلا دیا جاتا تھا.کیونکہ بتوں کی ہتک کرنا ارتداد سمجھا جاتا تھا اور ارتداد کی سزا پرانے زمانہ میں یا تو جانا تھی یاسنگسار کرنا.چنانچہ یورپ میں جب پراٹسٹنٹ عقیدہ کے عیسائی پیدا ہوئے تو انہیں مرتد قرار دے کر آگ میں جلایا جاتا تھا.اس کے مقابلہ میں ایشیاء میں سنگسار کرنے کا رواج تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معلوم تھا کہ بتوں کو توڑنے کی وجہ سے یہ سزا تجویز ہوگی.مگر خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ اپنا نشان دکھائے.آخر ان لوگوں نے آگ جلائی اور اس کے اندر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ڈال دیا لیکن عین اس موقعہ پر بادل آیا جس نے آگ کو ٹھنڈا کر دیا.( تفسیر کبیر.جلد پنجم سوره انبیاء صفحه ۵۳۲،۵۳۱ - زیر آیت قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ )
۲۳ طہارت
۲۵ طہارت پھٹی ہوئی جراب پر مسح خاص خاص مسائل پر چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ لکھے جائیں تا کہ عام لوگ ان کو پڑھ کر مسائل دین سے پوری طرح واقف ہو جائیں تا ایسا نہ ہو کہ بعض پاک ممبر کہلانے والوں کی طرح ان کی جرابیں ایڑیوں سے پھٹی ہوئی ہوں اور انہیں کوئی پروا نہ ہو.انہی پاک ممبر کہلانے والوں میں سے میں نے ایک کو دیکھا ہے کہ ایک ٹانگ پر بوجھ ڈالے اور دوسری کو ڈھیلا چھوڑے نماز پڑھا کرتا تھا.اور ایک دیوار سے ٹیک لگا کر پڑھتا تھا.وجہ یہ کہ اس نے حضرت صاحب کو اس طرح پڑھتے دیکھا تھا حالانکہ آپ بیمار تھے اور بعض دفعہ یک لخت آپ کو دورانِ سر کا دورہ ہو جاتا تھا جس سے گرنے کا خطرہ ہوتا تھا اس لئے آپ ایسے وقت میں کبھی سہارا لے لیا کرتے تھے.انوار العلوم جلد ۳، انوار خلافت صفحه ۱۳۷) حیض ونفاس کی حالت میں ذکرالهی اور تلاوت قرآن کریم اس سے ( یعنی فَكُلِي وَاشْرَبِى وَقَرَى عَيْنًا فَإِمَّا تَرَينَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا.الآية (مریم: ۲۷) اس سے یہ بھی پتہ لگ گیا کہ نفاس اور حیض کی حالت میں ذکر الہی منع نہیں لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی حالت میں دل میں بھی ذکر الہی نہیں کیا جاسکتا.حالانکہ اگر ذکر الہی منع ہو جائے تو روحانیت بالکل مرجائے.بلکہ بعض لوگ تو منہ سے بھی ذکر الہی کرنا جائز سمجھتے ہیں.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ عورت حیض کے دنوں میں بھی قرآن کو کسی کپڑے یا رومال سے پکڑ کر اور پھر صاف ستھرے کپڑے پر رکھ کر پڑھ سکتی ہے.ہاتھ سے پکڑنا اس لئے منع ہے کہ ممکن ہے ہاتھ کو حیض کی نجاست لگی ہوئی ہو.چنانچہ جن عورتوں نے حضرت خلیفہ اول سے قرآن پڑھا ہے وہ اب
۲۶ طہارت بھی حیض کے ایام میں کپڑے پر قرآن رکھ کر پڑھ لیتی ہیں.میرا یہ عقیدہ نہیں.لیکن اگر کوئی پڑھے تو ہم اسے کہتے کچھ نہیں.کیونکہ قرآن بہر حال خدا تعالیٰ کا کلام ہے اگر کسی کے نزدیک حیض کی حالت میں اسے دیکھ کر پڑھنا جائز ہو تو کیا حرج ہے.سوال:.کیا حائضہ قرآن کریم کو ہاتھ لگا سکتی ہے؟ ( تفسیر کبیر.جلد پنجم ،سورہ مریم صفحہ ۱۸۷) جواب: - حائضہ عورت کو اجازت نہیں کہ قرآن شریف پڑھے یا ہا تھ لگائے.افضل ۱۵؍ جولائی ۱۹۱۶ء صفحه ۲ جلد نمبر۳) سوال :.قرآن مجید کی تلاوت بھی کسی وقت منع ہے مثلاً سورج نکلتے وقت یا دو پہر کو یا قرآن مجید ہر وقت پڑھا جاسکتا ہے؟ جواب :.تلاوت کسی وقت منع نہیں سوائے اس کے کہ انسان جنبی ہو گو بعض فقہاء نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ بھی کر سکتے ہیں مگر زبانی.فائل مسائل دینی نمبر A-12-8-61-32 ) جوعورتیں ایسی ہیں کہ ان پر ان ایام میں ایسی حالت ہے کہ وہ بلند آواز سے قرآن کریم نہیں پڑھ سکتیں.ان کو چاہئے کہ وہ دل میں ان آیتوں کو دہراتی چلی جائیں اور جن عورتوں کے لئے ان ایام میں قرآن کریم پڑھنا جائز ہے وہ زبان سے بھی ان آیتوں کو دہرائیں.بہر حال جن عورتوں کے لئے ان ایام میں زبان سے پڑھنا جائز نہیں وہ زبان سے پڑھنے کی بجائے صرف دل میں ان آیتوں کو دہراتی رہیں.کیونکہ شریعت نے اپنے حکم کے مطابق جہاں مخصوص ایام میں تلاوت قرآن کریم سے عورتوں کو روکا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ دل میں بھی ایسے خیالات نہ لائیں یا دل میں بھی نہ دہرائیں.بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک صرف قرآن کریم کو ہاتھ لگانا منع ہے مگر احتیاط یہی ہے کہ کثرت سے جس بات پر مسلمانوں کا عمل رہا ہے اسی پر عمل کیا جائے.پس بجائے زبان سے دہرانے کے وہ دل میں ان آیتوں کو دہراتی چلی جائیں.( الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۶۰ء صفحه ۵ )
۲۷ طہارت اگر بدن پلید هونے کی وجه سے غسل نه كرسكتا هو تو تیمم کرلے سوال :.ایک مجذوم غیر احمدی نے دریافت کیا ہے کہ میرا بدن پلید رہتا ہے.بار بار پاک نہیں کر سکتا نہ وضو.تو کیا بے وضو نماز پڑھ لوں؟ جواب :.صرف تیم کر لیں.اگر ظاہری نجاست ہو تو بشرط امکان اس کا ازالہ کرلیں اور بس.الفضل ۲۹ را پریل ۱۹۱۵ء صفحه ۲ جلد ۲ نمبر ۱۳۳) اگر کسی کو صاف کپڑا میسر نہ ہو تو وہ گندے کپڑوں میں ہی نماز پڑھ سکتا ہے.خصوصاً وہم کی بناء پر نماز کا ترک تو بالکل غیر معقول ہے جیسا کہ ہمارے ملک میں کئی عورتیں اس وجہ سے نماز ترک کر دیتی ہیں کہ بچوں کی وجہ سے کپڑے مشتبہ ہیں اور کئی مسافر نماز ترک کر دیتے ہیں کہ سفر میں طہارت کامل نہیں ہو سکتی.یہ سب شیطانی وساوس ہیں لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا الہی حکم ہے جب تک شرائط کا پورا کرنا اختیار میں ہوان کے ترک میں گناہ ہے لیکن جب شرائط پوری کی ہی نہ جاسکتی ہوں تو ان کے میسر نہ آنے کی وجہ سے نماز کا ترک گناہ ہے اور ایسا شخص معذور نہیں بلکہ نماز کا تارک سمجھا جائے گا.( تفسیر کبیر، جلد اوّل ، سوره بقره صفحه ۱۰۴) ناپاک ھونے کی صورت میں نماز فرمایا : کوئی ناپاک نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ بامر مجبوری نا پاک حالت میں بھی نماز پڑھے نماز پھر بھی جائز ہے.خواہ آپ لید سے بھرے ہوئے ہوں تب بھی نماز پڑھیے کیونکہ آپ اپنی خوشی سے تو ایسا نہیں کرتے ہاں جتنی طہارت ممکن ہو کریں باقی مجبوری امر ہے.نماز پڑھیں، نماز نہ چھوڑیں.(فائل دینی مسائل A-32)
۲۸ طہارت اگر نفاس سے چالیس روز قبل پاك هوجائے سوال :.اگر عورت چالیس روز سے پہلے نفاس سے پاک ہو جائے تو کیا وہ صوم وصلوٰۃ کی پابند قرار دی جاسکتی ہے یا بہر صورت مدت مقررہ یعنی چالیس روز پورے کرنے ضروری ہیں؟ جواب :.چالیس روز سے پہلے اگر عورت نفاس سے پاک ہو جائے تو عبادت بجالا سکتی ہے.الفضل ۱۹ را گست ۱۹۱۱ء صفحه ۲ جلد نمبر ۱۳)
۲۹ نماز اس اور متعلقه مسائل
۳۱ اسلام کاسب سے بڑا رُکن نماز ھے نماز سے متعلقہ مسائل شریعت کے جو موٹے موٹے احکام مثلاً نماز ، حج ، زکوۃ وغیرہ ہیں ان میں سے سب سے بڑا رکن نماز ہے.جو شخص اس بڑے رکن یعنی نماز کا تارک ہے وہ درحقیقت اسلام کا تارک ہے اور جب تک وہ نماز نہیں پڑھتا تب تک وہ جھوٹا اور منافق ہے.اس کا اور کاموں میں کوئی حصہ نہیں ہوگا.اس کا بخشش کرنا ، اس کا چندہ دینا اور دینی کام کرنا خدا کے حضور کچھ حیثیت نہیں رکھتا.میں نے تو جہاں تک غور کیا ہے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جو شخص نماز پڑھتا ہے خواہ وہ عیبوں میں کہاں تک نکل جائے اس کے لئے پھر بھی بچاؤ اور نجات کی صورت ہے لیکن جو شخص نماز نہیں پڑھتا وہ خواہ کس قدر بھی اور نیکیاں بجالائے اس کے لئے پھر بھی خطرہ ہے.میرے نزدیک تو جو شخص سال میں ایک نماز بھی چھوڑتا ہے اس کا وہ تارک ہے بلکہ پندرہ سال میں بھی اگر ایک دفعہ نماز چھوڑی ہے تو وہ تارک ہے کیونکہ نماز میں ایک ایسا لطف و سرور ہے کہ اس کی وجہ سے وہ کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑ سکتا.جب سے وہ ایک دفعہ تو بہ کر لیتا ہے پھر اس کے بعد اگر ایک بھی نماز چھوڑتا ہے تو وہ تارک کہلائے گا.نماز جو ہے وہ پہلا قدم ہے عبودیت کا.جو شخص کبھی کبھی نماز چھوڑ دیتا ہے وہ یہودیوں اور ضالین میں شمار ہوگا.جو شخص نماز چھوڑتا ہے میں اس کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کو کبھی ایمان کی موت نصیب نہ ہوگی.موت سے پہلے کوئی ضرور ایسا حادثہ ا سے پیش آجائے گا کہ جس کی وجہ سے وہ ایمان سے محروم ہوگا اور اس طرح بے ایمان ہو کر مرے گا.(الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۲۳ء)
نماز سے متعلقہ مسائل فلسفه نماز چونکہ نماز خدا تعالیٰ کی ملاقات کا ایک ذریعہ ہے اس لئے اسلام نے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ انسان تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد خدا تعالیٰ کا نام لے اور نماز کے لئے کھڑا ہو جائے خواہ جنگ ہورہی ہو ، دشمن گولیاں برسا رہا ہو ، پانی کی طرح خون بہہ رہا ہو پھر بھی اسلام یہ فرض قرار دیتا ہے کہ جب نماز کا وقت آجائے تو اگر ممکن ہو مومن اسی وقت اللہ کے حضور جھک جائے.بے شک جنگ کی وجہ سے نماز کی ظاہری شکل بدل جائے گی لیکن یہ جائز نہیں ہوگا کہ نماز میں ناغہ کیا جائے.مگر آج کل مسلمانوں میں جہاں اور بہت سی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں وہاں ان میں ایک نقص یہ بھی پیدا ہو گیا ہے کہ وہ ریل میں آرام سے بیٹھے ، سفر کر رہے ہوں گے مگر نماز نہیں پڑھیں گے اور جب پوچھا جائے کہ تم نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ تو کہیں گے سفر میں کپڑوں کے پاک ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اس لئے ہم نماز نہیں پڑھتے.حالانکہ سفر تو الگ رہا میر اعقیدہ تو یہ ہے کہ اگر سر سے پیر تک کسی شخص کے کپڑے پیشاب میں ڈوبے ہوئے ہوں اور اس کے پاس اور کپڑے نہ ہوں جن کو بدل سکے اور نماز کا وقت آجائے تو وہ انہی پیشاب آلودہ کپڑوں کے ساتھ نماز پڑھ لے.یا اگر پردہ ہے تو کپڑے اتار کر ننگے جسم کے ساتھ نماز پڑھ لے اور یہ پرواہ نہ کرے کہ اس کے کپڑے پاک نہیں، یا جسم پر کوئی کپڑا نہیں کیونکہ نماز کی اصل غرض یہ ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد خدا تعالیٰ کا نام لیا جائے اور اس طرح اس کی یاد کو اپنے دل میں تازہ کیا جائے.جس طرح گرمی کے موسم میں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد انسان ایک ایک دو دو گھونٹ پانی پیتا رہتا ہے تا کہ اس کا گلا تر رہے اور اس کے جسم کو طراوت پہنچتی رہے.اسی طرح کفر اور بے ایمانی کی گرمی میں انسانی روح کو حلاوت اور تر و تازگی پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعدنماز مقرر کی ہے تا کہ وہ گرمی اس کی روح کو جھلس نہ دے اور اس کی روحانی طاقتوں کو مضمحل نہ کر دے.(تفسیر کبیر.جلد ہفتم سوره عنکبوت صفحه۶۵۰)
۳۳ نماز سے متعلقہ مسائل مدارج نماز یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ نماز کی پابندی کئی رنگ کی ہوتی ہے.سب سے پہلا درجہ جس سے اُتر کر اور کوئی درجہ نہیں یہ ہے کہ انسان بالالتزام پانچوں وقت کی نمازیں پڑھے.جو مسلمان پانچ وقت کی نمازیں پڑھتا ہے اور اس میں کبھی ناغہ نہیں کرتا وہ ایمان کا سب سے چھوٹا درجہ حاصل کر لیتا ہے.دوسرا درجہ نماز کا یہ ہے کہ پانچوں نمازیں وقت پر ادا کی جائیں.جب کوئی مسلمان پانچوں نماز وقت پر ادا کرتا ہے تو وہ ایمان کی دوسری سیڑھی پر قدم رکھ لیتا ہے.پھر تیسرا درجہ یہ ہے کہ نماز باجماعت ادا کی جائے.باجماعت نماز کی ادائیگی سے انسان ایمان کی تیسری سیڑھی پر چڑھ جاتا ہے.پھر چوتھا درجہ یہ ہے کہ انسان نماز کے مطالب کو سمجھ کر ادا کرے.جو شخص ترجمہ نہیں جانتاوہ ترجمہ سیکھ کر نماز پڑھے اور جو تر جمہ جانتا ہو وہ ٹھہر ٹھہر کر نماز کو ادا کرے یہاں تک کہ وہ سمجھ لے کہ میں نے نماز کو کما حقہ ادا کیا ہے.پھر پانچواں درجہ نماز کا یہ ہے کہ انسان نماز میں پوری محویت حاصل کرے اور جس طرح غوطہ زن سمندر میں غوطہ لگاتے ہیں اسی طرح وہ بھی نماز کے اندر غوطہ مارے.یہاں تک کہ وہ دو میں سے ایک مقام حاصل کر لے.یا تو یہ کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہو اور یا یہ کہ وہ اس یقین کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو کہ خدا تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے....اس کے بعد چھٹا درجہ ایمان کا یہ ہے کہ نوافل پڑھے جائیں.یہ نوافل پڑھنے والا گویا خدا تعالیٰ کے حضور یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں نے فرائض کو تو ادا کر دیا ہے مگر ان فرائض سے میری تسلی نہیں ہوئی اور وہ کہتا ہے کہ اے خدا میں یہ چاہتا ہوں کہ میں ان فرائض کے اوقات کے علاوہ بھی تیرے دربار میں حاضر ہوا کروں....
۳۴ نماز سے متعلقہ مسائل ساتواں درجہ ایمان کا یہ ہے کہ انسان نہ صرف پانچوں نمازیں اور نوافل ادا کرے بلکہ رات کو بھی تہجد کی نماز پڑھے.سیہ وہ سات درجات ہیں جن سے نماز مکمل ہوتی ہے اور ان درجات کو حاصل کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ رات کے وقت عرش سے اُترتا ہے اور اس کے فرشتے پکارتے ہیں کہ اے میرے بندو خدا تعالیٰ تمہیں ملنے کے لئے آیا ہے.اُٹھو اور اس سے مل لو.( تفسیر کبیر، جلد ششم ، سوره مومنون صفحه ۱۳۵، ۱۳۶ ملخصا) نماز کی اهمیت اسلام کا پہلا رکن نماز ہے.کوئی مسلمان نہیں جو اس کے حکم سے مستثنی ہو.جس وقت سے بچہ کو ہوش آتی ہے یعنی سات برس کی عمر سے اس فرض کی ادائیگی کی تاکید شروع ہوتی ہے اور والدین کو حکم ہے کہ سات برس کی عمر سے بچہ کو تاکید کریں.دس برس کی عمر میں تو پھر بہت تاکید ہے.بلوغت کے بعد بیماری، تندرستی، سفر، حضر ہر حالت میں یہ فرض لازم رہتا ہے اور کسی پر سے ساقط نہیں ہوتا.(الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۱۳ء) نماز تو رکن اسلام ہے جو نماز نہیں پڑھتا وہ خدا کے نزدیک مسلمان نہیں.سینما اپنی ذات میں ناجائز نہیں.اس میں نا جائز بات ہو تو نا جائز ہے.مگر جو دین کی خدمت نہیں کرتا اور سینما دیکھتا ہے وہ برا کرتا ہے.( الفضل ۲۲ مئی ۱۹۲۲ء) نماز کی پابندی اول نماز ہے اس کی پابندی نہایت ضروری ہے.عام طور پر عورتوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ چھوٹی
۳۵ نماز سے متعلقہ مسائل عمر میں کہتی ہیں ابھی بچپن ہے جو ان ہو کر نماز پڑھیں گی.جب جوان ہوتی ہیں تو بچوں کے عذر کر دیتی ہیں اور جب بوڑھی ہو جاتی ہیں تو کہتی ہیں اب تو چلا نہیں جا تا نماز کیا پڑھیں.گویا اُن کی عمر ساری یونہی گزر جاتی ہے.نماز کوئی ورزش نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی عبادت ہے اس لئے اسے سمجھ کر اور اچھی طرح جی لگا کر پڑھنا چاہئے.اور کوئی نماز سوائے ان ایام کے جن میں نہ پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے نہیں چھوڑنی چاہئے.کیونکہ نماز ایسی ضروری چیز ہے کہ اگر سال میں ایک دفعہ بھی جان بوجھ کر نہ پڑھی جائے تو انسان مسلمان نہیں رہتا.پس جب تک ہر ایک مسلمان مرد اور عورت پانچوں وقت بلا ناغہ نمازیں نہیں پڑھتے وہ مسلمان نہیں ہو سکتے.الازھار لذوات الخمار صفحه ۴۱ ۴۲) اوّل نماز ہے جس کا ادا کرنا نہایت ضروری ہے مگر اس میں نہایت سستی کی جاتی ہے اور خاص کر عورتیں بہت سست نظر آتی ہیں.کئی قسم کے عذر پیش کیا کرتی ہیں مثلا یہ کہ میں بچہ والی جو ہوئی.کپڑے کس طرح پاک رکھوں کہ نماز پڑھوں لیکن کیا کپڑے پاک رکھنا کوئی ایسی مشکل بات ہے جو ہو ہی نہیں سکتی.ایسی تو نہیں ہے.اگر احتیاط کی جائے تو کپڑے پاک رہ سکتے ہیں لیکن اگر احتیاط نہیں کی جاسکتی تو کیا یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ایک جوڑا ایسا بنا لیا جائے جو صرف نماز پڑھنے کے وقت پہن لیا جائے اور اگر کوئی عورت ایسی ہی غریب ہے کہ دوسرا جوڑ انہیں بنا سکتی تو اُسے بھی نماز معاف نہیں ہے وہ پلید کپڑوں میں ہی پڑھ لے.اول تو انسانیت چاہتی ہے کہ انسان پاک وصاف رہے اس لئے اگر کپڑا نا پاک ہو جائے تو اسے صاف کر لینا چاہئے لیکن اگر فرض کر لیا جائے کہ کوئی ایسی صورت ہے جس میں صاف نہیں کیا جاسکتا تو بھی نماز نہیں چھوٹ سکتی.الازھار لذوات الخمار صفحه ۲۳ تا ۲۶.ایڈیشن دوئم)
۳۶ نماز سے متعلقہ مسائل تارك نماز قُلْ لِعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلوةَ تو انہیں کہہ دو کہ وہ نمازوں کو ہمیشہ اور باشرائط ادا کیا کریں اور اپنے مالوں کو چھپ چھپ کر اور ظاہراً بھی خرچ کیا کریں.اس حکم سے میرے نزدیک یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو شخص ایک نماز بھی جان بوجھ کر چھوڑتا ہے وہ نمازی نہیں کہلا سکتا.(تفسیر کبیر جلد سوم ،سورہ ابراہیم صفحه ۴۷۹) نماز كاترك گناه هے يُقِيمُونَ الصَّلوة دوسرے معنے اقامہ کے اعتدال اور درستی کے ہیں.ان معنوں کی رو سے يُقِيمُونَ الصَّلوة کے یہ معنے ہیں کہ متقی نماز کو اس کی ظاہری شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اس کے لئے جو قواعد مقرر کئے گئے ہیں ان کو توڑتے نہیں.مثلاً تندرستی میں یا پانی کی موجودگی میں وضو کر کے نماز پڑھتے ہیں اور وضو بھی ٹھیک طرح ان شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں جو اس کے لئے شریعت نے مقرر کی ہیں.اسی طرح صحیح اوقات میں نماز ادا کرتے ہیں.نماز میں قیام، رکوع سجدہ ، قعدہ کو عمدگی سے ادا کرتے ہیں.مقررہ عبارات اور دعا ئیں اور تلاوت اپنے اپنے موقع پر اچھی طرح اور عمدگی سے پڑھتے ہیں.غرض تمام ظاہری شرائط کا خیال رکھتے ہیں اور انہیں اچھی طرح بجالاتے ہیں.( تفسیر کبیر جلد اول، سوره بقره صفی ۱۰۵،۱۰۴) جولوگ درمیان میں نماز چھوڑتے رھتے ھیں ان کی سب نمازیں رڈ ھوجاتی ہیں اقامۃ الصلواۃ کے معنے باقاعدگی سے نماز ادا کرنے کے ہیں.کیونکہ قام علی الامر کے معنے کسی چیز پر ہمیشہ قائم رہنے کے ہیں.پس يُقِيمُونَ الصَّلوة کے یہ معنے ہوئے کہ نماز میں ناغہ نہیں کرتے.ایسی نماز جس میں ناغہ کیا جائے اسلام کے نزدیک نماز ہی نہیں کیونکہ نماز وقتی اعمال سے نہیں بلکہ اسی وقت مکمل
۳۷ نماز سے متعلقہ مسائل عمل سمجھا جاتا ہے جبکہ تو بہ یا بلوغت کے بعد کی پہلی نماز سے لے کر وفات سے پہلے کی آخری نماز تک اس فرض میں ناغہ نہ کیا جائے.جو لوگ درمیان میں نمازیں چھوڑتے رہتے ہیں ان کی سب نمازیں ہی رڈ ہو جاتی ہیں.پس ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جب وہ بالغ ہو یا جب اسے اللہ تعالیٰ توفیق دے اس وقت سے موت تک نماز کاناغہ نہ کرے کیونکہ نماز خدا تعالیٰ کی زیارت کا قائم مقام ہے اور جو شخص اپنے محبوب کی زیارت سے گریز کرتا ہے وہ اپنے عشق کے دعوی کے خلاف خود ہی ڈگری دیتا ہے.( تفسیر کبیر.جلد اول ، سورہ بقرہ صفحه ۱۰۴) باجماعت نماز نہ پڑھنے والا منافق هے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ساری نمازوں میں شامل نہ ہونے والا تو الگ رہا صبح اور عشاء کی نمازوں میں شامل نہ ہونے والا بھی منافق ہے.(الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۲۵ء.خطبہ جمعہ ) نماز سب سے مقدم ھے دنیا میں نیکی کے اور بھی بہت سے کام ہیں لیکن نماز کو خدا تعالیٰ نے سب سے مقدم قرار دیا ہے اور سوائے اس کے کہ کوئی معذوری ہو یا کوئی ہنگامی کام پڑ جائے نمازوں کے اوقات میں مسجد میں آنا نہایت ضروری ہے.ہنگامی کاموں سے مراد یہ ہے کہ مثلا کسی جگہ آگ لگ گئی ہو تو اس وقت آگ بجھانا ضروری ہوگا.نماز بعد میں ادا کر لی جائے گی.لیکن اس قسم کے استثنائی حالات کے بغیر جوشخص نماز با جماعت کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے وہ ایک بہت بڑے جرم کا مرتکب ہوتا ہے.( تفسیر کبیر.جلد ہفتم ،سورہ نمل صفحه ۳۳۰) باجماعت نمازنہ اداکرنے والے کو جماعت سے خارج کردیاجائے ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ جن احکام شرعی پر سزادی جائے گی وہ ایسے ہوں گے جو نصوص سے
نماز سے متعلقہ مسائل ثابت ہوں.ایسے نہیں جن کا اجتہاد سے تعلق ہو ، میں نے مناسب سمجھا ہے کہ پہلے ایک مسئلہ لیا جائے اور وہ مسئلہ نماز ہے.اس کی سختی سے پابندی کرائی جائے جو پابندی نہ کر سکے ایک مدت معینہ کے بعد اس کو علیحدہ کر دیا جائے.میں دیکھتا ہوں کہ ایک جماعت ایسے لوگوں کی ہو گئی ہے جو نظر آتی ہے اور وہ نماز میں سست ہے.بعض لوگ ایسے ہیں جو بالکل نماز پڑھتے ہی نہیں، بعض سست ہیں، بعض باجماعت نماز کے تارک ہیں.اب میں اعلان کرتا ہوں کہ وہ سب لوگ با قاعدہ ہو جائیں اور ستی کو چھوڑ دیں اور نماز باجماعت ادا کیا کریں.جو عمیل نہ کرسکیں تین مہینہ تک ہم ان کا انتظار کریں گے اور اس کے بعد دو با تیں ہوں گی.اول یہ کہ وہ ہمیں قرآن وحدیث سے ثابت کر دیں کہ نماز با قاعدہ ادانہ کرنا ان کے لئے نہیں ہے.اگر وہ ثابت نہ کر سکیں تو پھر ہم یہ کریں گے ہم اعلان کر دیں گے کہ فلاں فلاں لوگ چونکہ ہم پر یہ ثابت نہیں کر سکے کہ نماز با جماعت ان کے لئے نہیں ، نہ وہ اس کی پابندی کرتے ہیں اس لئے یہ لوگ جماعت سے خارج ہیں.(الفضل ۶ رفروری ۱۹۲۲ء) نمازنه پڑهنے والوں پرمالی تاوان سوال :.نماز کی پابندی کرانے کے لئے یہ تجویز کی گئی ہے کہ جو دانستہ نماز با جماعت میں غفلت کرے ایک آنہ جرمانہ ادا کرے اور جو عورت دانستہ نماز میں غفلت کرے وہ دو پیسے اور جو نماز جمعہ میں دانستہ غفلت کرے اس سے چار آنہ جرمانہ لئے جائیں؟ جواب:.جوش تو اچھا ہے اور قابل قدر ہے مگر جرمانہ بدعت ہے.وہی نماز مفید ہوسکتی ہے جس کے ادا کرنے میں اگر کسی قسم کی سستی ہو جائے تو خود دل اس پر جرمانہ کرے.نماز کی غفلت روح کی قربانی سے دور ہو سکتی ہے.پیسوں کی قربانی سے نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تارک نماز با جماعت کے متعلق یہی فرمایا ہے کہ میرا جی چاہتا ہے کہ ایسے شخص کا گھر جلا دوں.کجا
۳۹ نماز سے متعلقہ مسائل یہ کہ بکلی نماز کا تارک ہو.جو شخص جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی کوشش نہیں کرتا اور ہر ایک نماز اس کی جماعت سے رہ جاتی ہے اور اس کے لئے سخت دکھ اور صدمہ کا باعث نہیں ہوتی اس شخص کے دل میں در حقیقت اسلام داخل ہی نہیں.اس کا ظاہری علاج نصیحت ہے اور وعظ ہے اور باطنی علاج دعا ہے جو اس سے بھی نہ سمجھے خلیفہ وقت سے اجازت لے کر اسے اپنی جماعت سے الگ سمجھنا چاہئے.نماز اسلام کا ایک رکن ہے فوج میں لنگڑے آدمی نہیں رکھے جاسکتے.نماز میں خیالات کا پیدا هونا الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۲۱ء) سوال :.ایک صاحب نے عرض کیا کہ نماز میں اگر مختلف خیالات پیدا ہوں تو کیا کیا جائے؟ جواب :.خیالات پیدا ہوں تو ان کا مقابلہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ تم جب نماز کے لئے کھڑے ہو تو یہ سمجھو کہ تم اپنا فرض ادا کر رہے ہو اگر تمہیں خشوع و خضوع نصیب ہو جائے تو یہ خدا تعالیٰ کا انعام ہوگا اور اگر خشوع و خضوع نصیب نہیں ہوتا اور تم بار بار کوشش کرتے ہو کہ تمہارے دل میں خیالات پیدا نہ ہوں تو پھر بھی تم ثواب کے مستحق ہو.کیونکہ تمہاری شیطان سے لڑائی ہورہی ہے اور جو شخص لڑائی کر رہا ہو وہ گنہگار نہیں ہوتا.جو شخص اپنے خیالات میں لذت محسوس کرے اور کہے کہ اگر خیالات پیدا ہوتے ہیں تو بے شک پیدا ہوں وہ ضرور گنہ گار ہے لیکن جو شخص ان خیالات کا مقابلہ کرتا ہے وہ خدا کا سپاہی ہے اور ثواب کا مستحق ہے.الفضل ۹ جون ۱۹۴۴ء.نمبر ۱۳۴) نمازمیں خیالات کا انتشار سوال :.آپ نے ایک موقع پر کہا ہے کہ سب سے آسان ذریعہ خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا نماز ہے
نماز سے متعلقہ مسائل لیکن اگر نماز میں خیالات ادھر اُدھر منتشر رہیں اور توجہ قائم نہ ہو تو اس کا کیا علاج ہے؟ جواب:.نماز میں توجہ قائم نہ ہونے کے کئی وجوہ ہوتے ہیں.ہمیں پہلے ان وجوہ کو تلاش کرنا چاہئے اور پھر علاج کرنا چاہئے کیونکہ مرض کی تشخیص کے بغیر علاج نہیں کیا جاسکتا..ایک وجہ نماز میں توجہ قائم نہ ہونے کی یہ ہوتی ہے کہ نماز کی طرف رغبت ہی نہیں ہوتی اور جب رغبت نہ ہو تو توجہ کس طرح پیدا ہوسکتی ہے.بعض دفعہ دماغی کمزوری کی وجہ سے توجہ قائم نہیں رکھی جاسکتی..اگر کسی امر کی طرف حد سے زیادہ توجہ کی جائے تو اس کے نتیجہ میں بھی بے تو جہگی اور دماغی انتشار پیدا ہو جاتا ہے.غرض مختلف اسباب ہوتے ہیں کوئی ایک قانون نہیں بنایا جا سکتا.ان اسباب کی تشخیص کر کے پھر ان کا علاج کیا جاسکتا ہے.سوال :.نماز پڑھتا ہوں مگر تسلی نہیں ہوتی ؟ (الفضل ۱۶ اکتوبر ۱۹۴۶ء.نمبر ۲۴۴) جواب: تسلّی کا یہ ذریعہ ہے کہ وضو اچھی طرح سے کرے پھر نماز کے بعد کچھ دیر استغفار پڑھے سنتیں پہلی اور پچھلی اچھی طرح توجہ اور سنوار کر پڑھے.نماز اچھی طرح ٹھہر ٹھہر کر اور معنےسمجھ کر پڑھے.پھر بھی اگر اپنے دل میں سکون اور اطمینان نہ پائے تو گھبرائے نہیں بلکہ بار بار ایسا ہی کرے کیونکہ یہ ایک دو دن کا کام نہیں بلکہ تمام عمر کا کام ہے.ايك مسجد میں دوسری جماعت ( الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۲۰ء) ڈیوٹی پر متعین افراد نماز با جماعت کے بعد دوبارہ باجماعت نماز ادا کر سکتے ہیں“ حضرت سید سر ورشاہ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ
۴۱ نماز سے متعلقہ مسائل ”جو لوگ نماز با جماعت کے وقت پہرہ دیتے ہیں سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ نے ان کو اجازت دی ہوئی ہے کہ نماز کے بعد دوسری جماعت کر لیا کریں.چنانچہ وہ پانچوں وقت مسجد مبارک میں دوسری جماعت کرتے ہیں.رجسٹر فتاوی حضرت سید سرور شاہ صاحب نمبر ۲ صفحه ۳)
۴۳ اسلامی عبادات اور مسجدیں
۴۵ اسلامی نماز اور مسجدیں اسلامی عبادات اور مسجد میں قرآن خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے زمین کے ہر ٹکڑہ کو سحق عبادت سمجھتا ہے کوئی ٹکڑہ اس بارہ میں دوسرے سے فضیلت نہیں رکھتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قرآنی حکم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے جُعِلَتْ لِىَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا خدا تعالیٰ نے ساری زمین کو ہی میرے لئے مسجد بنادی ہے.آپ کے اس فقرہ کے کئی معنے ہیں مگر ایک معنی یہ بھی ہیں کہ دنیا کے ہر حصہ میں اور ہر جگہ پر مسلمان نماز پڑھ سکتا ہے.اس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ کسی گرجا میں جائے یا مندر میں جائے.اس کے لئے ضروری نہیں کہ ضرور کوئی پادری اس کو نماز پڑھانے والا ہو.اسلام پادریوں، پنڈتوں کا قائل نہیں.وہ ہر نیک انسان کو خدا تعالیٰ کا نمائندہ سمجھتا ہے اور ہر نیک انسان کونماز میں رہنمائی کرنے کا حق دیتا ہے.بے شک اسلام میں مساجد بھی ہیں لیکن وہ مساجد اس لئے نہیں کہ وہ جگہیں نماز کے لئے زیادہ مناسب تھیں بلکہ مساجد صرف اس لئے ہیں کہ کسی نہ کسی جگہ پر لوگوں کو جمع ہو کر اجتماعی نماز بھی ادا کرنی چاہئے.(دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۲۹۴۲۹۳) مسجد کادروازه هر مذهب وملّت کے شرفاء کے لئے کھلا ھـ مسجد کسی خاص فرد کے لئے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی ہے.اس میں غریب اور امیر اور مشرقی اور مغربی کا کوئی امتیاز نہیں اس کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھلا ہے.اس کے لئے بھی جو اس میں بیٹھ کر خدا کی عبادت کرتا ہے اور اس کے لئے بھی جو جنگلوں میں رہتا ہے.تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک عیسائی قبیلہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مذہبی تبادلہ خیالات کرنے کے لئے آیا.جب ان کی نماز کا وقت آگیا جس میں ان کے بڑے بڑے پادری شامل تھے.مسجد میں گفتگو شروع ہوئی اور گفتگو لمبی ہوگئی.معلوم ہوتا ہے وہ اتوار کا دن تھا جو عیسائیوں میں عبادت کا دن ہے.
۴۶ اسلامی عبادات اور مسجد میں جب اُن کی نماز کا وقت آگیا تو اس قافلہ کے ایک پادری نے کہا کہ اب ہماری عبادت کا وقت ہے.آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم باہر جا کر نماز ادا کر آئیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.آپ لوگوں کو باہر جانے کی کیا ضرورت ہے.ہماری مسجد میں ہی عبادت کر لیں.( تفسیر جامع البیان المعروف تفسیر طبری لابن جریر طبری جلد ۳ صفحه۱۰۰) یہ تاریخی واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کے نزدیک مسجد کا دروازہ ہر مذہب و ملت کے شرفاء کے لئے کھلا ہے اور وہ اپنے اپنے طریق کے مطابق اس میں عبادت بجالا سکتے ہیں.اسلام نے امامت کے لئے بھی کسی خاندان یا کسی خاص قوم کی خصوصیت نہیں رکھی.عیسائیوں میں مقررہ پادری کے سوا کوئی دوسرا آدمی نماز نہیں پڑھا سکتا.سکھوں میں گرنتھی کے سواد وسر الشخص گرنتھ صاحب کا پاٹھ نہیں کراسکتا.لیکن اسلام پادریوں اور پنڈتوں کا قائل نہیں وہ ہر نیک انسان کو خدا تعالیٰ کا نمائندہ سمجھتا ہے اور ہر نیک انسان کو نماز میں رہنمائی کا حق دیتا ہے.( تفسیر کبیر جلد ششم ،سوره حج صفحه ۲۴) مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا ہاں مسجد میں خالص ذاتی کاموں کے متعلق باتیں کرنا منع ہے مثلاً اگر تم کسی سے پوچھتے ہو کہ تمہاری بیٹی کی شادی کا کیا فیصلہ ہوا یا کہتے ہو کہ میری ترقی کا جھگڑا ہے افسر نہیں مانتے تو یہ باتیں مسجد میں جائز نہیں ہوں گی سوائے امام کے کہ اس پر تمام قوم کی ذمہ واری ہوتی ہے اور اس کا حق ہے کہ وہ ضرورت محسوس ہونے پر ان امور کے متعلق بھی لوگوں سے باتیں کرے.بہر حال مسجد میں خالص ذاتی کاموں کے متعلق باتیں کرنا منع ہے مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے تو وہ اس کے متعلق مسجد میں اعلان نہ کرے.( صحیح مسلم مع شرح النوری جلد اول صفحه ۲۱۰ مطبوعہ اصح المطابق دہلی)
۴۷ اسلامی عبادات اور مسجد میں پس مساجد صرف ذکر الہی کے لئے ہیں لیکن ذکر الہی ان تمام باتوں پر مشتمل ہے جو انسان کی ملی ، سیاسی علمی اور قومی برتری اور ترقی کے لئے ہوں.لیکن وہ تمام باتیں جو لڑائی، دنگہ، فساد یا قانون شکنی سے تعلق رکھتی ہوں خواہ ان کا نام ملی رکھ لو یا سیاسی قومی رکھ لو یا دینی ، ان کا مساجد میں کرنا ناجائز ہے.اسی طرح مساجد میں ذاتی امور کے متعلق باتیں کرنا بھی منع ہے کیونکہ اسلام مسجد کو بیت اللہ قرار دیتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے مخصوص قرار دیتا ہے.(تفسیر کبیر جلد ششم - تفسیر سوره حج صفحه ۲۹) مساجد کی تین اہم اغراض اوّل مساجد اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ مسافران سے فائدہ اُٹھا ئیں.دوئم.مساجد اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ شہر میں رہنے والے ان سے فائدہ اُٹھا ئیں.سوئم.مساجد اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ رکوع وجود کرنے والے یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے والے اور تو حید کامل پر قائم لوگ ان سے فائدہ اُٹھا ئیں.مسافر تو مسجد سے اس رنگ میں فائدہ اُٹھا سکتا ہے کہ اگر اسے کوئی اور ٹھکانہ نہ ملے تو وہ اس میں چند روز قیام کر کے رہائش کی دقتوں سے بچ سکتا ہے اور مقیم اس رنگ میں فائدہ اُٹھا سکتا ہے کہ مسجد شور و شغب سے محفوظ مقام ہوتا ہے وہ اس میں بیٹھ کر اطمینان اور سکون سے دعا ئیں کر سکتا ہے اور اپنے رب سے مناجات کر سکتا ہے اور وہ لوگ جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کر دیتے ہیں ان کا اصل ٹھکا نہ تو مسجد ہی ہوتا ہے کیونکہ مسجد مومنوں کے اجتماع کا مقام ہوتی ہے اور دعاؤں اور ذکر الہی کی جگہ ہوتی ہے.ایسے مقام سے کوئی سچا عشق اور تعلق رکھنے والا انسان جدا ہی نہیں ہوسکتا مگر یہ امر بھی یا درکھنا چاہئے کہ ذکر الہی کا قائم مقام وہ تمام کام بھی ہیں جو قومی فائدہ کے ہوں خواہ وہ قضاء کے متعلق ہوں یا جھگڑوں اور فسادات کے متعلق ہوں یا تعلیم کے متعلق ہوں یا کسی اور رنگ میں مسلمانوں کی ترقی اور ان کے تنزل
کے ساتھ رکھتے ہوں.۴۸ اسلامی عبادات اور مسجد میں چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو اگر دیکھا جائے تو لڑائیوں کے فیصلے بھی مسجد میں ہوتے تھے، قضاء بھی وہیں ہوتی تھی تعلیم بھی وہیں ہوتی تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد صرف اللہ اللہ کرنے کے لئے ہی نہیں بلکہ بعض دوسرے کام بھی جو قومی ضرورتوں سے تعلق رکھتے ہیں مساجد میں کئے جاسکتے ہیں.( تفسیر کبیر.جلد ششم، سوره حج صفحه ۲۸،۲۷ زیر آیت وَطَهَّرُ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ) مسجد کے ساتھ کاحُجرہ مسجد کاحصه نهیں هوتا میں جب عرب ممالک میں گیا تو اس وقت میں نے دیکھا کہ ایک مسجد کی ایک جہت میں ایک حجرہ بنا ہوا تھا.اور اس کے اردگرد کٹہرا لگا ہوا تھا میں نے بعض لوگوں سے اس کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ پرانے زمانہ میں جب بادشاہ آتے تھے تو وہ اس حجرہ میں نماز پڑھا کرتے تھے اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ ایک دفعہ کوئی بادشاہ آیا اور اس کے ساتھ ہی ایک جھاڑو دینے والا بیٹھ گیا.اس کے نوکروں نے اسے ہٹانا چاہا تو سب مسلمان اور قاضی پیچھے پڑگئے اور انہوں نے کہا یہ خدا کی مسجد ہے.یہاں چھوٹے اور بڑے کا کوئی سوال نہیں.مسجد میں اگر بڑے سے بڑا آدمی بھی بیٹھا ہو تو اس کے ساتھ اُس دن کا نو مسلم جو خاکروبوں یا سائنسیوں میں سے آیا ہو کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتا ہے.چاہے وہ بڑا آدمی بادشاہ ہی کیوں نہ ہو.چنانچہ اس کو نہ اُٹھایا مگر بادشاہ پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ اس نے جگہ بدل کر پیچھے کی طرف اپنے لئے تجرہ بنوالیا.میں نے جب یہ واقعہ سُنا تو اپنے دل میں کہا کہ اسلام کے ایک حکم کی بے حرمتی کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے آئندہ اس سے مسجد میں نماز پڑھنے کی توفیق ہی چھین لی کیونکہ جس جگہ حجرہ بنایا گیا تھا وہ مسجد کا حصہ نہیں تھا.( تفسیر کبیر جلد ششم - تفسیر سوره حج صفحه ۲۴۲۵)
۴۹ اسلامی عبادات اور مسجد میں مسجد میں فلم دکھانا سوال :.کیا کوئی علمی فلم مسجد میں دیکھی جاسکتی ہے؟ جواب :.مسجد میں ایسی فلم دکھلانے والا بڑا خبیث اور دیوث ہے.علمی فلم کوئی نہیں ہوتی.میں تھوڑا بہت گانا بھی شامل ہوتا ہے.یو.این.اے کی بعض علمی فلمیں ہیں وہ مفت دکھاتے ہیں مگر مسجدوں میں نہیں دکھاتے.(فائل مسائل دینی 12.3.57/DP 1140/12.3.57)(32-A) گوردوارہ کی اینٹیں تعمیر مسجد کے لئے سوال:.ایک صاحب نے عرض کیا کہ گوردوارہ کی اینٹیں مسجد کی تعمیر میں استعمال کی جاسکتی ہیں جبکہ سکھوں نے ایسا کرنے کی اجازت دے دی ہے؟ جواب :.فرمایا.اگر سکھوں نے اجازت دے دی ہے تو بے شک یہ اینٹیں مسجد میں استعمال کی جاسکتی ہیں.لیکن اگر انہوں نے اجازت نہ دی ہو تو پھر انہیں استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کسی چیز کو بغیر اس کے مالکوں کی اجازت کے استعمال کرنا اسلام میں منع ہے.(الفضل یکم جنوری ۱۹۴۸ء.لاہور ) غیراحمدی اگر اپنی مساجد میں نماز سے نہ روکیں سوال :.اگر ( کسی مسجد میں ) غیر احمدی نماز پڑھ رہے ہوں تو ہم احمدی و ہیں علیحدہ نماز پڑھ لیں؟ جواب :.ہاں.مگر ان کی نماز میں روک نہیں ہونا چاہئے.( الفضل ۱۹؍ جنوری ۱۹۲۲ء)
اسلامی عبادات اور مسجد میں نیت نماز انسان نماز کو خدا تعالیٰ کے لئے خاص کر دے.اور جب پڑھنے لگے تو اسے یہی خیال ہو کہ میں یہ نماز خدا تعالیٰ کی خاطر اور اس کے قرب اور وصال اور دیدار کی خاطر پڑھتا ہوں اور یہ اصل نیست (ہے).ور نہ یہ نیت نہیں کہ چار رکعت فرض نماز ظہر.ترتیب نماز ضروری ھے الفضل ۲۴؍ دسمبر ۱۹۴۱ء.خطبہ جمعہ ) اگر امام عصر کی نماز پڑھارہا ہو اور ایک ایسا مخلص مسجد میں آجائے جس نے ابھی ظہر کی نماز پڑھتی ہو یا عشاء کی نماز ہورہی ہو اور ایک ایسا شخص مسجد میں آجائے جس نے ابھی مغرب کی نماز پڑھنی ہو اسے چاہئے کہ وہ پہلے ظہر کی نماز علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو یا مغرب کی نماز پہلے علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو.جمع بین الصلاتین کی صورت میں بھی اگر کوئی شخص بعد میں مسجد میں آتا ہے جبکہ نماز ہورہی ہو تو اس کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی فتویٰ ہے کہ اگر اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ امام عصر کی نماز پڑھا رہا ہے تو اُسے چاہئے کہ وہ پہلے ظہر کی نما ز علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو.اسی طرح اگر اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ امام عشاء کی نماز پڑھا رہا ہے تو وہ پہلے مغرب کی نماز کو علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو لیکن اگر اسے معلوم نہ ہو سکے کہ یہ کون سی نماز پڑھی جا رہی ہے تو وہ جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے.ایسی صورت میں وہی نماز اس کی ہو جائے گی.بعد میں وہ اپنی پہلی نماز پڑھ لے.مثلاً اگر عشاء کی نماز ہورہی ہے اور ایک ایسا شخص مسجد میں آجاتا ہے جس نے ابھی مغرب کی نماز پڑھنی ہے تو اگر اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ عشاء کی نماز ہے تو وہ مغرب کی نماز پہلے علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ
۵۱ اسلامی عبادات اور مسجد میں شامل ہولیکن اگرا سے معلوم نہ ہو سکے کہ یہ کون سی نماز ہورہی ہے تو وہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے.اس صورت میں اس کی عشاء کی نماز ہو جائے گی.مغرب کی نماز وہ بعد میں پڑھ لے.یہی صورت عصر کے متعلق ہے.اس موقع پر عرض کیا گیا کہ عصر کے بعد تو کوئی نماز جائز ہی نہیں پھر اگر عدم علم کی صورت میں وہ عصر کی نماز میں شامل ہو جاتا ہے تو اس کے لئے کس طرح جائز ہوسکتی ہے.حضور نے فرمایا یہ تو صحیح ہے کہ بطور قانون عصر کے بعد کوئی نماز جائز نہیں مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اگر اتفاقی حادثہ کے طور پر کوئی ایسا واقعہ ہو جائے تو پھر بھی وہ بعد میں ظہر کی نماز نہیں پڑھ سکتا.ایسی صورت میں اس کے لئے ظہر کی نماز عصر کے بعد جائز ہوگی.میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ مسئلہ سُنا ہے اور ایک دفعہ نہیں دو دفعہ سُنا ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب دوبارہ اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میں اس کے متعلق وضاحت کر چکا ہوں کہ ترتیب نماز ضروری چیز ہے.لیکن اگر کسی کو معلوم نہ ہو سکے کہ امام کون سی نماز پڑھا رہا ہے، عصر کی نماز پڑھا رہا ہے یا عشاء کی نماز پڑھا رہا ہے تو وہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے جو امام کی نماز ہوگی وہی اس کی نماز ہو جائے گی اور بعد میں وہ اپنی پہلی نماز پڑھے.مولوی محمد الدین صاحب کی اس بارہ میں جو روایت شائع ہوئی ہے یا تو غلط فہمی پرمبنی ہے یا کسی اور سے انہوں نے سُنا ہے اور ذہن میں رہ گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سُنا ہے.الفضل ۲۷ جون ۱۹۴۸ء.فرموده ۱۴ جون ۱۹۴۸ء بمقام کوئٹہ ) سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحب صفحه ۱۶۰ تا ۱۶۳) نمازمیں صفیں سیدھی رکھو بعض باتیں چھوٹی نظر آتی ہیں لیکن ہوتی بہت بڑی ہیں اور ان سے بڑے بڑے فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں.بس ان چیزوں کو چھوٹا سمجھ کر نظر انداز نہیں کر دینا چاہئے بلکہ ان کے فوائد کو مدنظر رکھ کر ان
۵۲ اسلامی عبادات اور مسجد میں پر زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.میں یہ بات محبت الہی کے سلسلہ میں بیان کر رہا تھا لیکن اس کے علاوہ دوسرے امور میں بھی یہی قاعدہ چلتا ہے مثلاً نماز کو ہی لے لو.اس میں بھی یہی قاعدہ چلتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نماز میں صفیں سیدھی نہیں رکھو گے تو تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے.اب صفوں کا سیدھا رکھنا بظاہر ایک غیر دینی چیز ہے یا محض نظام کا ایک حصہ ہے خود نماز کے مقصد اور اس کے مغز کے ساتھ اس کا زیادہ تعلق نہیں لیکن باوجود اس کے کہ نماز میں صفیں اپنی ذات میں مقصود نہیں ہوتیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اتنی اہمیت دی کہ فرمایا کہ اگر تم نماز میں صفیں سیدھی نہیں کرو گے تو تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے کیونکہ گو بعض چیزیں اپنی ذات میں مقصود نہیں ہوتیں لیکن ان کا اثر ایسا پڑتا ہے کہ وہ اپنے سے بڑی چیزوں کو بھی اپنی زد میں بہالے جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ اسلام کے بعض علماء نے اپنے وقت میں قشر پر زیادہ زور دیا تھا لیکن ان سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے اس پر اتناز ور دیا کہ مغز جا تا رہا.حقیقت یہ ہے کہ مغز ہی اصل مقصود ہوتا ہے اور اگر مغز کو نظر انداز کر دیا جائے تو چھلکا کسی کام کا نہیں ہوتا.چنانچہ صوفیاء نے یہ دیکھتے ہوئے کہ علماء اسلام چھلکے پر زیادہ زور دے رہے ہیں.مغز پر زور دینا شروع کر دیا.مگر یہ بھی ان کی غلطی تھی کیونکہ مغز چھلکے کے بغیر نہیں رہ سکتا.غرض جن لوگوں نے قشر پر زیادہ زور دے دیا اور مغز کونظر انداز کر دیا انہوں نے بھی غلطی کی ہے.حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے کوئی چیز بلا وجہ پیدا نہیں کی جس خدا نے چھلکا بنایا ہے اس نے مغز بھی بنایا ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے چھلکے اور مغز دونوں کو قیمت بخشی ہے.میں نے یہ تمہید اس لئے باندھی ہے کہ میں نے بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ہماری جماعت بعض اوقات چھلکے کونظرانداز کردیتی ہے اور صرف مغز کو مدنظر رکھتی ہے مثلاً نماز میں صفوں کو سیدھا رکھنا ہے ہماری جماعت اس طرف توجہ نہیں کرتی یا پھر اذان ہے اس کی تصحیح کی طرف توجہ نہیں دی جاتی.(الفضل ۲۸ / مارچ ۱۹۶۲ء) (الفضل ۱۸ / اپریل ۱۹۶۵ء)
۵۳ قبلہ کی طرف پاؤں کرنا اسلامی عبادات اور مسجد میں سوال : کیا قبلہ کی طرف مجبوری سے بھی پاؤں کرنا منع ہے.بعض لوگ اسے کفر قرار دیتے ہیں؟ جواب : : قبلہ کی طرف پاؤں کرنا کفر تو نہیں البتہ ادب کے خلاف ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب وغیرہ کے متعلق فرمایا ہے کہ اگر آگے دیوار نہ ہو تو ادھر منہ کر کے پیشاب نہیں کرنا چاہئے.مگر دوسری جگہ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ کو ایسا کرتے دیکھا گیا.اس کی یہی تشریح کی گئی ہے کہ سامنے دیوار تھی.قبلہ کی طرف پاؤں نہ کرنا ادب کا طریق ہے لیکن اگر کوئی کرے گا تو بد تہذیب کہلائے گا.آخر مومن کو ضرورت کیا ہے کہ بدتہذیب بنے.پھر مجھے اس میں بھی کوئی مجبوری نظر نہیں آتی کہ قبلہ کی طرف پاؤں کرنے پڑیں.( الفضل ۲۹ جون ۱۹۴۶ء) بچے اگلی صف کی بجائے پچھلی صف پربیٹھیں سوال:.مسجد میں چھوٹے بچے اگلی صف میں پہلے آکر بیٹھ جاتے ہیں.بعد میں بڑی عمر کے لوگ آتے ہیں تو وہ بچوں کو اُٹھا کر خود آگے بیٹھنا چاہتے ہیں اس طرح بچوں کی حق تلفی ہوتی ہے؟ جواب :.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یہی ہے کہ بچے پیچھے بیٹھیں اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یہ ہے کہ پیچھے بیٹھیں خواہ وہ پہلے آکر آگے بیٹھ جائیں.ثواب اسی بات میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اطاعت کی جائے اور بڑوں کے آنے پر پیچھے ہٹ جائیں مگر یہ حکم اسی وقت تک ہے جب تک نماز کھڑی نہیں ہوتی.جب نماز کھڑی ہو جائے تو بچوں کو پیچھے ہٹایا نہیں جاسکتا.(الفضل.ارمئی ۱۹۶۰ء)
۵۴ اسلامی عبادات اور مسجد میں کیا اذان باجماعت نماز کے لئے ضروری ھے سوال :.کیا اذان جماعت کے لئے ضروری ہے؟ جواب :.ہاں اذان ہونی چاہئے لیکن اگر وہ لوگ جنہوں نے جماعت میں شامل ہونا ہے وہیں موجود ہوں تو اگر اذان نہ کہی جائے تو کچھ حرج نہیں.لوگوں نے اس کے متعلق مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے مگر میں ایک دفعہ حضرت صاحب کے ہمراہ گورداسپور کو جارہا تھا راستہ میں نماز کا وقت آیا عرض کیا گیا کہ اذان کہی جائے؟ فرمایا کہ احباب تو جمع ہیں کیا ضرورت ہے.اس لئے اگر ایسی صورت ہو تو نہ دی جائے ورنہ اذان دینا ضروری ہے کیونکہ اس سے کسی دوسرے کو بھی تحریک نماز ہوتی ہے.(الفضل ۱۹؍ جنوری ۱۹۲۲ء) سوال :.اگر غیر احمدیوں نے اذان کہی ہو تو کیا اسی اذان کی بناء پر احمدی نماز پڑھ سکتے ہیں؟ جواب :.اذان علیحدہ طور پر خود کہنی چاہئے کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ اذان سے شیطان بھاگتا ہے جس کی اذان نہیں اس سے شیطان نے کیا بھا گنا تھا.مقتدی سوره فاتحه کب پڑھے ( الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۲۲ء) سوال :.جن نمازوں میں امام بلند آواز سے قراءت ادا کرتا ہے ان میں مقتدیوں کو سورہ فاتحہ کب پڑھنی چاہئے؟ جواب:.مقتدی کو چاہئے کہ جب امام سورہ فاتحہ پڑھ رہا ہو تو اس کے ساتھ ساتھ سورہ فاتحہ پڑھتا جائے یا جب ایک آیت پڑھ چکے تو اس کے بعد اسی آیت کو پڑھے.( الفضل یکم دسمبر ۱۹۴۴ء)
۵۵ اسلامی عبادات اور مسجد میں مقتدی کے لئے سوره فاتحہ پڑھنا ضروری هے سورہ فاتحہ ہر نماز میں اور ہر رکعت میں پڑھنی ضروری ہے سوائے اس کے کہ مقتدی کے نماز میں شامل ہونے سے پہلے امام رکوع میں جا چکا ہو.اس صورت میں تکبیر کہہ کر بغیر کچھ پڑھے رکوع میں چلے جانا چاہئے.امام کی قراءت ہی اس کی قراءت سمجھ لی جائے گی.سورہ فاتحہ کی نماز میں پڑھنے کی تاکید مختلف احادیث میں آتی ہے.صحیح مسلم میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ نے روایت کی ہے کہ قال من صلى صلوة لم يقرء فيها بام القرآن فهي خداج (مسلم کتاب الصلوۃ باب وجوب قراءة الفاتحه ) یعنی جس نے نماز ادا کی مگر اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے اور بخاری، مسلم میں عبادہ بن الصامت کی روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لا صلواة لمن لم يقرء بفاتحة الكتاب ( بخاری کتاب الصلوۃ باب وجوب قراءة الامام والماموم في الصلوة کلھا ) مسلم باب وجوب القراءة الفاتحة في كل ركعتة ) یعنی جس نے فاتحۃ الکتاب نہ پڑھی اس کی نماز ہی نہیں ہوئی.ایک جگہ حضرت عبادہ امام الصلوۃ تھے.ایک دفعہ وہ دیر سے پہنچے اور ابو نعیم نے نماز شروع کرادی.نماز شروع ہو چکی تھی کہ عبادہ بھی آگئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا.ہم صفوں میں کھڑے ہو گئے.ابو نعیم نے جب سورہ فاتحہ پڑھنی شروع کی تو میں نے سنا کہ عبادہ بھی آہستہ آہستہ سورہ فاتحہ پڑھتے رہے.جب نماز ختم ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ جبکہ ابونعیم بالجہر نماز پڑھا رہے تھے آپ بھی ساتھ ساتھ سورہ فاتحہ پڑھتے جارہے تھے یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ہمیں نماز پڑھائی اور سلام پھیر کر جب بیٹھے تو پوچھا کہ جب میں بلند آواز سے نماز میں تلاوت کرتا ہوں
۵۶ اسلامی عبادات اور مسجد میں تو کیا تم بھی منہ میں پڑھتے رہتے ہو.بعض نے کہا ہاں بعض نے کہا نہیں.اس پر آپ نے فرمایا لاتقرءوا بشيء من القرآن اذاجهرت الابأم القرآن.(ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب من ترك القراءة في صلوته ) جب میں بلند آواز سے قرآن کریم نماز میں پڑھوں تو سوائے سورۃ فاتحہ کے اور کسی سورۃ کی تلاوت تم ساتھ ساتھ نہ کیا کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ سورۃ فاتحہ امام کے پیچھے بھی پڑھنی چاہیئے.خواہ وہ جہر نماز پڑھ رہا ہو.سوائے اس کے کہ مقتدی رکوع میں آکر ملے.اس صورت میں وہ تکبیر کہہ کر رکوع میں شامل ہو جائے اور امام کی قراءت اس کی قراءت سمجھی جائے گی.یہ ایک استثناء ہے.استثناء سے قانون نہیں ٹوٹتا.اسی طرح یہ بھی استثناء ہے کہ کسی شخص کو سورۃ فاتحہ نہ آتی ہومثلا نومسلم ہے جس نے ابھی نماز نہیں سیکھی یا بچہ ہو جسے ابھی قرآن نہیں آتا تو اس کی نماز فقط تسبیح و تکبیر سے ہو جائے گی.خواہ وہ قرآن کریم کا کوئی حصہ بھی نہ پڑھے.سورۃ فاتحہ بھی نہ پڑھے.جهراً بسم اللہ پڑھنا ( تفسیر کبیر جلد اول.سورہ فاتحہ صفحہ ۷ تا ۹) سوال :.بخاری اور مسلم کے علاوہ دوسری کتابوں میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بسم اللہ الرحمن الرحیم جہراً پڑھا کرتے تھے.امام شافعی کا مشہور مذہب یہی ہے کہ انها آية في كل سورۃ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ بسم اللہ ہر سورۃ کی مستقل آیت ہے.مولوی عبدالکریم بھی جہر پڑھا کرتے تھے.اس اختلاف کو دیکھتے ہوئے میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ حضور سے استصواب کرلوں.اگر حضور جہراً بسم اللہ پڑھنے میں کوئی حرج خیال نہیں فرماتے تو جہراً پڑھوں ورنہ چھوڑ دوں؟
۵۷ اسلامی عبادات اور مسجد میں جواب :.بخاری اور مسلم میں آیا ہے کہ بالجبر نہیں پڑھی تو کیا پھر یہ دوسری کتا ہیں بخاری مسلم سے زیادہ فضیلت رکھتی ہیں.فائل مسائل دینی 9.4.54/A-32) کیا بسم الله هر سورة کاحصه هے بسم اللہ کے متعلق بعض علماء نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ہر سورۃ کا حصہ بسم اللہ نہیں بلکہ صرف سورۃ فاتحہ کا حصہ بسم اللہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ کسی سورہ کا بھی حصہ نہیں ہے لیکن یہ خیال درست نہیں.بسم اللہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورتوں کا جز وقرار دیا ہے مثلاً سورہ فاتحہ کا حصہ ہونے کے متعلق دارقطنی نے مرفوعاً ابوہریرہ سے روایت کی ہے: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا قرأتم الحمد لله فاقرؤا بسم الله الرحمن الرحيم انها ام القرآن وام الكتاب والسبع المثاني وبسم الله الرحمن الرحيم احدى ايتها.( دار قطنی جلد اول باب وجوب قرآة بسم اللہ ) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم الحمد للہ پڑھو تو بسم الله الرّحمن الرحیم پڑھا کرو کیونکہ سورۃ فاتح ام القرآن ہے اور ام الکتاب اور سبع مثانی ہے اور بسم الله الرحمن الرحیم اس کی آیتوں میں سے ایک آیت ہے.اس حدیث میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ دوسری سورتوں کا بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم حصہ ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورہ فاتحہ کا حصہ ہے بلکہ اس کے حصہ ہونے کی دلیل دی ہے.اور وہ یہ کہ چونکہ یہ ام الکتاب اور ام القرآن ہے اس لئے بسم اللہ اس کے ساتھ ضرور پڑھنی چاہئے اور یہ دلیل اسی صورت میں ٹھیک ہوتی ہے جب یہ آیت باقی سورتوں کا بھی حصہ ہو.اور دلیل بالا ولی کے طور پر کہا گیا ہو
۵۸ اسلامی عبادات اور مسجد میں کہ جب باقی سورتوں کا بسم اللہ الرحمن الرحیم حصہ ہے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ سورۃ فاتحہ جو ام الکتاب اور ام القرآن ہے اس کا حصہ بھی ضرور ہوگی.پس اس کی تلاوت سے پہلے اس آیت کو ضرور پڑھا کرو.( تفسیر کبیر.جلد اوّل ، سورہ فاتحه صفحه ۱۳) تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سوره فاتحہ پڑھی جائے جب دورکعت سے زائد کی نماز ہو تو پہلے تشہد کے بعد ایک یا دو رکعت جو وہ پڑھتا ہے ان میں صرف سورہ فاتحہ پڑھتا ہے.قرآن کریم کی زائد آیات نہیں پڑھتا.( تفسیر کبیر، جلد اول سوره بقره صفحه ۱۱۲ ۱۱۳) سنتیں اوران کی رکعات کی تعداد ان (فرض ) نمازوں کے علاوہ کچھ نشتیں ہوتی ہیں یعنی ایسی زائد نماز جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالالتزام ادا فرمایا کرتے تھے.اور گو آپ ان کو فرض قرار نہ دیتے تھے لیکن ان کی تاکید کرتے رہتے تھے.صبح کی نماز سے پہلے دور کعتیں پڑھی جاتی ہیں.ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتیں ہیں اور بعد میں بھی چار رکعتیں ہیں.چار کی جگہ دو دو بھی پڑھی جاسکتی ہیں.عصر کے ساتھ کوئی ایسی سنتیں نہیں ہیں.مغرب کے بعد دورکعتیں پڑھی جاتی ہیں.اور عشاء کے بعد دو یا چار رکعتیں پڑھی جاتی ہیں.( تفسیر کبیر، جلد اول بقره صفحه ۱۱۴)
۵۹ اسلامی عبادات اور مسجد میں امام اور مقتدی ساتھ ساتھ کھڑے ھوسکتے هیں سوال :.اگر امام اور مقتدی ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر نماز ادا کر رہے ہوں تو کیا امام صف میں تھوڑا سا آگے کھڑا ہو؟ جواب:.اگر امام اور مقتدی ایک ہی صف میں ہوں تو کوئی ضرورت نہیں کہ مقتدی پیچھے ہو.حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس کو اپنے ساتھ کھڑا کیا اور اگر امام یہ بتانے کے لئے کہ اصل مقام اس کا آگے ہے.آگے کھڑا ہو جائے تب بھی کوئی حرج نہیں.فائل مسائل دینی 1951 اگست /11 ) ( الفضل، ارگست (۱۹۵۱ء) پانچوں نمازوں کے اوقات أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ اس آیت میں پانچوں نمازوں کے اوقات بتائے گئے ہیں.دلوٹ کے تین معنی ہیں اور ہر ایک معنی کی رو سے ایک نماز کا وقت ظاہر کر دیا گیا.ا مالت وزالت عن كبد السماء - یعنی زوال كو دلوک کہتے ہیں.اس میں ظہر کی نماز آ گئی.۲.اصفرت:.جب سورج زرد پڑ جائے تو اس کو بھی دلوک کہتے ہیں.اس میں نماز عصر کا وقت بتایا گیا.۳.تیسرے معنی غربت یعنی غروب شمس کے ہیں.اس میں نماز مغرب کا وقت بتایا گیا ہے.۴.غسق اللیل کے معنی ہیں ظلمة اول اللیل یعنی رات کے ابتدائی حصہ کی تاریکی.اس میں نماز عشاء کا وقت مقرر کر دیا گیا.۵.قرآن الفجر کہہ کر صبح کی نماز کا ارشاد فرمایا.اس کے سوا کوئی اور تلاوت صبح کے وقت
۶۰ اسلامی عبادات اور مسجد میں فرض نہیں ہے.(تفسیر کبیر.جلد چہارم ، سورہ بنی اسرائیل.صفحہ۳۷۳) نماز کے لئے اوقات مقرر کرنے کی حکمت نماز مل کر پڑھنے کا حکم ہے یعنی یہ کہ اکٹھے ہو کر باجماعت پڑھو.اب اگر امام کو آنے میں دیر ہو جائے اور کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ لے تو یہ اس کے لئے ہرگز جائز نہیں ہے.شریعت نے ہر نماز کے لئے وقت کا اندازہ مقرر کیا ہے کہ فلاں وقت سے لے کر فلاں وقت تک نماز ہوسکتی ہے.اس کا یہی مطلب ہے کہ اگر تھوڑی دیر آگا پیچھا ہو جائے تو کوئی حرج نہیں.اگر یہ مدنظر نہ ہوتا تو شریعت میں خاص وقت مقرر کر دیا جاتا کہ عین فلاں وقت پر فلاں نماز ادا کرو.مگر ایسا نہیں کیا گیا.الفضل ۳ جولائی ۱۹۶۳ ء - فرموده ۲۶ فروری ۱۹۲۶ء) اپنی رائے جماعت کی رائے پرقربان کرنا چاھئے سوال:.ساڑھے پانچ بجے صبح کی جماعت کھڑی ہو جاتی ہے اس وقت صبح صادق نہیں ہوتی.جماعت کے ساتھ شامل ہونے یا نہ ہونے کے بارہ میں کیا حکم ہے؟ جواب: من فارق الجماعة شبرا فليس منا.آخر دوسرے لوگ وقت سمجھ کر ہی نماز پڑھتے ہوں گے.یوں ہی نماز کو ضائع نہیں کرتے ہوں گے.اس واسطے ایک شخص کو اپنی رائے باقی جماعت کی رائے پر قربان کردینی چاہئے اور علیحدگی نہیں اختیار کرنی چاہئے.(الفضل ۴ رمئی ۱۹۲۲ء) نمازمیں سوزوگداز کے لئے راگ کا استعمال سوال :.مجھ میں خود بخود یہ ملکہ پیدا ہو گیا ہے کہ اگر کوئی گا تا ہو تو اسی لئے میں فورا نقل اُتار سکتا
۶۱ اسلامی عبادات اور مسجد میں ہوں.میں اس ملکہ سے فائدہ اُٹھا کر نماز اور دعا میں سوز و گداز پیدا کرنے میں مدد لیتا ہوں اور دھیمی آواز سے اس کا استعمال کر لیتا ہوں مگر اس وجہ سے کہ کہیں صراط مستقیم کو نہ چھوڑ بیٹھوں.استدعا کرتا ہوں کہ میں راگ واشعار وغیرہ سے کہاں تک فائدہ اُٹھا سکتا ہوں؟ جواب :.راگ کا استعمال کرنا نماز اور دعا میں مکروہ ہے.نماز کے علاوہ بھی راگ بداثر ڈالتا ہے.اس سے قوت فہم اور فراست باطل ہو جاتی ہے.مگر خوش الحانی منع نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی دعاؤں میں سوز و گداز پیدا ہوتا تھا یا نہیں.اگر ان میں پیدا ہوتا تھا تو آپ میں بغیر راگ کے کیوں نہیں ہوسکتا.( الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۲۲ء) ادائیگی نماز بذریعه ریڈیو سوال :.اگر قادیان کی مسجد مبارک میں ریڈیو لگا دیا جائے تو کیا اس پر تمام دوسرے ممالک میں نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ جواب نہیں کیونکہ اس سے دو نقصان واقع ہوتے ہیں.اول.اگر اس امر کی اجازت دے دی جائے تو لوگ گھروں میں ہی نماز پڑھ لیا کریں اور مسجدوں میں نہ آئیں اور اسی طرح جماعت سے جو اتحاد اور اخوت پیدا کرنے کی غرض ہے وہ مفقود ہو جاتی ہے.دوسرا نقص یہ واقع ہو سکتا ہے کہ لوگ قرآن کریم یاد کرنا چھوڑ دیں.وہ یہی خیال کر لیں کہ ہمیں قرآن یاد کرنے کی کیا ضرورت ہے.جب قادیان کی مسجد میں قرآن پڑھا جائے گا تو ہم بھی سن لیں گے.اس طرح چونکہ قرآن کریم کے علم سے توجہ ہٹ جاتی ہے اس لئے اس طریق پر
نمازیں پڑھنا جائز نہیں.۶۲ اسلامی عبادات اور مسجد میں ( الفضل ۱۴ / اپریل ۱۹۳۱ء) میدان جنگ میں نماز سوال :.میدانِ جنگ میں نماز کیسے پڑھیں؟ جواب :.جس طرح بن پڑے ہر حال میں پڑھ لو.چھوڑ نا ہرگز نہیں چاہئے.ایک سے زیادہ اوقات کی ملا کر ہی پڑھ سکو.سوال :.میدان کارزار میں قصر صلوۃ اور روزہ کے متعلق کیا حکم جواب : : نماز قصر پڑھیں اور روزہ نہ رکھیں.(الفضل یکم جولائی ۱۹۱۵ء) الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۱۵ء) اندھیرے میں نماز پڑھنا سوال:.کیا اندھیرے میں نماز پڑھنا منع ہے؟ جواب :.کوئی منع نہیں.احادیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں نماز پڑھتے تھے اور جب سجدے کو جاتے تو آگے حضرت عائشہ پڑی ہوتی تھیں.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں اپنے پیروں کو اکٹھے کر لیا کرتی تھی.چھوٹی ھوئی نمازیں سوال : اگر کوئی شخص کسی وقت نماز پڑھنا بھول جائے.تو پھر کیا کرے؟ ( الفضل ۱۹؍ جنوری ۱۹۲۲ء)
۶۳ اسلامی عبادات اور مسجد میں جواب :.جس وقت یاد آئے اس وقت پڑھ لے.(الفضل.ارجولائی ۱۹۳۴ء) سوال :.اگر ایک نماز چھوٹ جائے تو کیا ساری پچھلی نمازیں جاتی رہتی ہیں؟ جواب : کوئی نماز چھوٹ جائے تو استغفار کرے اور دوبارہ پڑھے.فائل مسائل دینی 12.10.61/A-32) سوال :.اگر کوئی عام بھلائی کے سب کام کرتا ہے لیکن نماز با قاعدہ نہیں پڑھتا تو اس کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے؟ جواب :.خدا تعالیٰ کے صریحاً حکم کی خلاف ورزی کرے گا.تو خواہ وہ اور نیکیاں بھی کرے ان کا کوئی فائدہ نہیں.فائل مسائل دینی 17.10.60/A-32) کفاره نماز سوال:.ایک بیمار نے بارہ دن نماز نہ پڑھی تو اس کا ۱۳،۱۲ روپیہ کفارہ دیا.کیا یہ درست ہے؟ جواب : نماز جان بوجھ کر چھوڑی یا بیماری کی وجہ سے نہ پڑھ سکا دونوں صورتوں میں کوئی کفارہ نہیں.(الفضل ۶ رمئی ۱۹۱۵ء) قبر کے بالمقابل نماز پڑھنا سوال :.بلا اعتقاد کے مزار یعنی قبر کے بالمقابل نماز پڑھنی جائز ہے یا نہیں؟ جواب :.مزار یعنی قبر کو جانتے ہوئے اس کے بالمقابل نماز نہیں پڑھنی چاہئے خواہ اس کے خیال میں اس مزار اور قبر کی تعظیم نہ بھی ہو.(الفضل ۵ را گست ۱۹۱۵ء)
۶۴ سور کی کھال پر نماز پڑھنا اسلامی عبادات اور مسجد میں سوال :.سو ر کی صاف کی ہوئی کھال پر حضور نے نماز پڑھنا جائز قرار دیا ہے مگر ایک سائل کے جواب میں حضور نے فرمایا تھا کہ سور کی ہر چیز حرام ہے.اس کے بالوں کا بُرش بنانا حرام ہے کیونکہ یہ نجس العین ہے.اس صورت میں کھال کیوں کر جائز ہوسکتی ہے؟ جواب:.مجھے یاد نہیں.کسی جگہ سور کی کھال پر نماز پڑھنا میں نے جائز قرار دیا ہوگا.مگر یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لحم الخنزیر کو حرام کیا ہے نہ کہ اس کی باقی چیزوں کو.سور کی حرمت کی وجہ اس کی بے حیائی ہے سو اس کا اثر کھانے سے پیدا ہوتا ہے دوسرے استعمال سے نہیں اور بعض سابق اکابر سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے.الفضل ۲۳ را گست ۱۹۴۴ء) امام کی پوری اقتداء کرنی ضروری ھے بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کر رہے ہوں تو پوری اقتتداء نہیں کرتے.یہاں تک کہ امام اگر سجدہ سے سر اُٹھاتا ہے تو وہ سجدے میں پڑے ہوتے ہیں اور جب امام دوسرے سجدہ میں جانے کے لئے تکبیر کہتا ہے تو وہ پہلے سجدہ سے سر اٹھاتے ہیں.ایسے سجدے سجدے نہیں ہوتے کیونکہ امام کی اقتداء میں نہیں ہوتے بلکہ اپنی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں.وہ سمجھتے ہوں گے امام تو ایک منٹ سجدہ کر کے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے ہم دومنٹ سجدہ کریں گے تو زیادہ ثواب ملے گا.مگر یہ بات غلط ہے.ایسے موقع پر امام کی اقتداء میں ہی ثواب اور نیکی ہے.سجدہ وہی ہے جو امام کے ماتحت ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگ امام کے پیچھے بیٹھے رہتے ہیں یا امام سے آگے چلے
اسلامی عبادات اور مسجد میں جاتے ہیں ان کا سر گدھے کے سر کی طرح بنادیا جائے گا.پس اس سے بچنا چاہئے.نادان اسے نیکی سمجھتے ہیں لیکن یہ نیکی نہیں.نیکی اس میں ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے.الفضل ۳ جولائی ۱۹۶۳ء.فرموده ۲۶ فروری ۱۹۲۶ء) اسلامی شریعت نے مسلمانوں کو بتایا کہ اگر امام بھول جائے اور بجائے دورکعت کے چار رکعت پڑھ لے تو تم بھی اس کے ساتھ چار ہی رکعت ادا کرو اور اگر وہ چار کی بجائے پانچ پڑھ لے تو تم بھی اس کی اتباع کرو.الفضل ۳۱ را گست ۱۹۱۵ء) عورت عورتوں کی جماعت کراسکتی ھے سوال :.کیا عورت جماعت کراسکتی ہے؟ جواب:.ہاں.الفضل ۱۴؍ جنوری ۱۹۲۲ء) سوال :.کیا عورتیں علیحدہ طور پر اکٹھی ہو کر جمعہ پڑھ سکتی ہیں؟ جواب:.اگر کوئی خاص مجبوری ہو اس کی بناء پر عورتوں کو علیحدہ اکٹھے ہوکر جمعہ پڑھنے کی اجازت دی جاسکتی ہے تاکہ ان میں دینی روح قائم رہے لیکن اگر عام حالات میں بھی ایسا کرنے کی اجازت دے دی جائے تو مردوں اور عورتوں میں اختلاف پیدا ہونے کا امکان ہے.مردوں کے خیالات اور طرف جارہے ہوں گے، عورتوں کے اور طرف.اس لئے عام حالات میں حکم یہی ہے کہ مرد اور عورتیں ایک مقام پر جمعہ کا فریضہ ادا کریں.الفضل ۱۱/اکتوبر ۱۹۴۶ء نمبر ۲۳۸)
۶۶ غیرمبائعین کے پیچھے نماز اسلامی عبادات اور مسجد میں ایک مستنفر کولکھایا جس نے غیر مبائعین کو امام بنانے کے متعلق بعض مقامی مجبوریوں کا ذکر کیا تھا.اگر اس شرط پر نماز اکٹھی ہو سکے کہ امام مبائعین میں سے ہو اور خطبہ میں خلافت کا کوئی ذکر نہ ہوتو کر لیں.میں یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ مستقل امام ان کا ہو.ان کے پیچھے نماز کی اجازت کے یہ معنی ہیں کہ اگر کبھی اتفاق ہو جائے تو پڑھ لیں یعنی حرام نہیں.غیر مبائع کے پیچھے نماز ( الفضل ۲ مارچ ۱۹۱۵ء نمبر ۱۱۱) سوال :.جنہوں نے بیعت نہیں کی (غیر مبائع ) کیا ان کے پیچھے ہماری نماز جائز ہے؟ جواب :.ہاں کچھ حرج نہیں ان کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو.(الفضل ۱۸ را پریل ۱۹۱۴ء) جواحمدی غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھتا ہے اس کے پیچھے نماز جائز نہیں.الفضل ۱۳ جون ۱۹۱۵ء) سوال:.کیا غیر مبائع امام کے پیچھے نماز ہوسکتی ہے یا نہیں؟ جواب :.جو غیر مبائع غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل نہیں اس کے پیچھے بوقت ضرورت نماز جائز ہے.الفضل ۲۲ مئی ۱۹۲۲ء) دوسری بات وہ (غیر مبائعین ) یہ پیش کرتے ہیں کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لی جایا کرے.لیکن اس شرط کے مان لینے کے یہ معنی ہیں کہ ہم اپنے ہاتھ آپ کاٹ دیں.ہمارا اختلاف
۶۷ اسلامی عبادات اور مسجد میں کسی جدی وراثت کے متعلق نہیں کہ فلاں نے زیادہ مال لے لیا اور فلاں نے کم بلکہ ہمارا اختلاف دین کے متعلق ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُوْنَ بِي شَيْئًا وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ.(النور: ۵۶) ہم تو قرآن کریم کے اس ارشاد کے ماتحت اختلاف کرتے ہیں کہ جو ایسے خلیفہ کو نہیں مانتا وہ فاسق ہے.اب ایک طرف تو ہم کہیں کہ جو خلیفہ کو نہیں مانتا وہ فاسق ہے اور دوسری طرف اعلان کریں اور حکم دیں کہ ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو یہ نہیں ہوسکتا.غیر مبائعین کی اس بات کو تسلیم کر لینے کے تو یہ معنی ہوئے کہ ہماری خلافت اس آیت کے ماتحت نہیں کیونکہ اگر اس کے ماتحت ہو تو پھر اس کے منکروں کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دینے کے کیا معنی.مجبوری کے وقت مثلاً ان کی مسجد میں کوئی شخص بیٹھا ہو اور نماز کھڑی ہو جاوے تو ان کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو حرام نہیں کہتے لیکن ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دینا بالکل مختلف ہے.مجبوری سے کسی کام کا کرنا اور معنی رکھتا ہے اور بلا مجبوری اس کا کرنا اور معنی رکھتا ہے.ہم نے (انوار العلوم جلد ۴ صفحه ۴۰۷، ۴۰۸) غیر احمدی کولڑکی دینے والے کے پیچھے نماز بعض لوگ ایسے ہیں کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ کسی شخص سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم کے خلاف ہوا مثلا کسی نے اپنی لڑکی غیر احمدی کو دے دی تو وہ فورا اس کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں.لیکن ان کا یہ حق نہیں کہ خود بخود اس کا بائیکاٹ کریں.ان کو چاہیئے کہ ہم تک معاملہ پہنچائیں.پھر ہم دیکھیں گے کہ وہ
۶۸ اسلامی عبادات اور مسجد میں مجرم ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اس نے کن اسباب کے ماتحت ایسا کیا ہے آیا بے علمی سے اس سے یہ کام ہو گیا یا کوئی اور وجہ ہے.پس آپ لوگوں کا فرض ہے کہ جب کوئی ایسی بات دیکھیں تو بجائے اس کے خود بخود یہ فیصلہ کرلیں کہ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھیں یا اس کو احمدی نہ سمجھیں ہمیں اطلاع دیں اور جب تک یہاں سے کوئی فیصلہ نہ ہو اس وقت تک خود ہی کوئی فیصلہ نہ کریں اس سے فساد بڑھتا ہے.الفضل ۲۰ فروری ۱۹۱۷ء.خطبہ جمعہ ) ایسا شخص جس نے باوجود علم کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احمدی لڑکی کا رشتہ غیر احمدی سے کرنا منع فرمایا ہے اپنی لڑکی غیر احمدی کو دے دی.اگر وہ تائب نہیں ہوا تو اس کے پیچھے نماز پڑھنی منع ہے.(الفضل ۱۹؍ دسمبر ۱۹۱۵ء) سوال :.ایک احمدی جو متقی اور پرہیز گار ہے، چندہ بھی دیتا ہے مگر غیر احمدی کو رشتہ لڑکی کا دے دیا ہے اس کے بارہ میں کیا حکم ہے؟ جواب :.جس نے حضرت اقدس کا صریح حکم ٹال دیا وہ احمدی کہاں ہے جب تک وہ تو بہ نہ کرے اور اپنی تو بہ ثابت نہ کر دکھائے وہ احمدی نہیں.حضرت اقدس نے تو یہاں تک فرمایا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنے والے کے پیچھے نماز نہ پڑھو پھر جو غیر احمدی کولڑ کی دے وہ احمدی کس بات کا ہے.(الفضل یکم اپریل ۱۹۱۵ء) سوال :.جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب دعاوی کا مصدق ہومگر بیعت نہ کی ہواس کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ جواب :.غیر احمدی کے پیچھے جس نے اب تک سلسلہ میں با قاعدہ بیعت نہ کی ہو خواہ حضرت صاحب کے سب دعاوی کو بھی مانتا ہو نماز جائز نہیں.اور ایسا شخص سب دعاوی کو مان بھی کس طرح سکتا ہے.جو حضرت صاحب بلکہ خدا کا صریح حکم ہوتے ہوئے آپ کی
بیعت نہیں کرتا.44 ۶۹ اسلامی عبادات اور مسجد میں غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا الفضل ۱۵ را گست ۱۹۱۵ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سختی سے تاکید فرمائی ہے کہ کسی احمدی کو غیر احمدی کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے.ان لوگوں کو اپنا امام نہیں بنانا چاہئے جنہوں نے حضرت مسیح موعود کو قبول نہیں کیا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور مغضوب ٹھہر چکے ہیں اور ہمیں اس وقت تک کسی کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے جب تک کہ وہ بیعت میں داخل نہ ہو جائے اور ہم میں شامل نہ ہو.خدا تعالیٰ کے مامور ایک بڑی چیز ہوتے ہیں جو ان کو قبول نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں قبول نہیں ہوسکتا.اس میں شک نہیں کہ بعض غیر احمدی ایسے ہوں گے جو سچے دل سے حضرت مسیح موعود کو صادق نہیں مانتے.اس لئے قبول نہیں کرتے لیکن ہم بھی مجبور ہیں کہ ایسے لوگوں کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کیونکہ خواہ کسی وجہ سے سہی وہ حق کے منکر ہیں.غیر احمدیوں کا اس بات پر چڑنا کہ ہم ان کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے.ایک لغو امر ہے.وہ غیر احمدی جو یہ سمجھتا ہے کہ مرزا صاحب جھوٹے ہیں وہ ہم کو مسلمان کیونکر سمجھتا ہے اور کیوں اس بات کا خواہاں ہے کہ ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں.ہمارا اس کے پیچھے نماز پڑھ لینا اسے کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے.ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں.(انوار العلوم جلد ۳.انوار خلافت صفحہ ۱۴۸،۱۴۷)
اسلامی عبادات اور مسجد میں سودی کاروبار کرنیو الے کے پیچھے نماز سوال :.ایک شخص جو سودی کاروبار کرتا ہے کیا اس کے پیچھے نماز پڑھنی جائز ہے؟ جواب:.ایسا شخص جو سود پر روپیہ دیتا ہے اس کے پیچھے تو بالصراحت نماز جائز نہیں.جو شخص روپیہ قرض لے کر سود ادا کرتا ہے.احادیث میں اس کو اس کے برابر قرار دیا گیا ہے جوسود لیتا ہے.لیکن چونکہ قرآن شریف کے الفاظ کے معنوں میں اختلاف کیا گیا ہے اور اس لئے کہ ایک شخص مشکلات میں مبتلا ہو کر ایسا کرتا ہے گو کمزوری ایمان ہے مگر اس کا نقص اس حد تک نہیں پہنچا ہوا ہے.قرآن کریم کے ادب کو مد نظر رکھتے ہوئے میں اس شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کو حرام نہ کہوں گا.اگر کسی صورت میں نماز پڑھ لی جائے تو میں مکروہ قرار دوں گا باطل نہیں.بشرطیکہ لوگوں کو علم ہی نہ ہو تو کوئی بات نہیں.( الفضل ۴ / دسمبر ۱۹۲۳ء) ایسے امام کے پیچھے نماز جس سے لوگ نفرت کرتے ھوں سوال :.کیا ایسے شخص کو امام بنایا جاسکتا ہے جولوگوں کو ذاتی مال منقولہ یا غیر منقولہ کا نقصان پہنچاتا ہے؟ جواب:.امامت کثرت رائے پر ہوتی ہے اگر ایک جماعت کے لوگ کثرت سے کسی کو امام بناتے ہیں تو پڑھی جائے.(الفضل ۴ دسمبر ۱۹۲۳ء) خلافت کے دعویدار کے پیچھے نماز سوال :.ایک شخص عابد علی نے خلیفہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے.کیا ہم اس کے پیچھے
نماز پڑھ سکتے ہیں؟ اے اسلامی عبادات اور مسجد میں جواب :.اگر اس نے خلافت کا دعویٰ کیا ہے تو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں الفضل ١٨ / مارچ ۱۹۱۶ء ) حج کے ایام میں غیر احمدی امام کے پیچھے نماز نا ناصاحب جناب میر صاحب نے فرمایا کہ حضرت خلیفہ امسیح کا حکم ہے کہ مکہ میں ان کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہئے.حکیم محمد عمر صاحب نے بیڈ کر حضرت خلیفتہ اُسی کے پاس شروع کر دیا.آپ نے فرمایا ہم نے ایسا کوئی فتویٰ نہیں دیا.ہماری یہ اجازت تو ان لوگوں کے لئے ہے جو ڈرتے ہیں اور جن کے ابتلاء کا ڈر ہے.وہ ایسا کر سکتے ہیں کہ اگر کسی جگہ گھر گئے ہوں تو غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیں اور آکر دہرا لیں.(انوار العلوم جلد ۶.آئینہ صداقت صفحه ۱۵۶،۱۵۵) سوال :.آپ نے فرمایا کہ احمدی غیر احمدی کے پیچھے نماز وغیرہ نہ پڑھیں مگر جولوگ حج کے لئے جاتے ہیں وہ تو وہاں پر حج کی نماز تو دوسرے لوگوں کے پیچھے ہی پڑھتے ہوں گے.اگر احمدی لوگ وہاں پر ان کے پیچھے ہی نماز پڑھتے ہیں تو اس طرح تو آپ کا فرمان پورا نہیں ہوتا ؟ جواب :.نماز کے متعلق تو فقہاء کا مسئلہ ہے کہ نیت سے نماز ہوتی ہے.اگر آدمی نیت کر لے کہ میں اپنی الگ نماز پڑھ رہا ہوں تو وہاں ساتھ شامل ہونے میں کیا حرج ہے.یہ اجازت صرف حج کے لئے ہے اور نمازوں کے لئے نہیں.دوسری نمازیں تو انسان گھر پر ہی پڑھ سکتا ہے.حج صرف وہاں ہی ہوتا ہے.( فائل مسائل دینی.دفتر پرائیوٹ سیکرٹری) سوال :.قراءت بالحجر والسر میں کیا حکمت ہے.دن کی نمازوں میں قراءت مخفی اور رات کی نمازوں میں بالجبر کیوں پڑھی جاتی ہے؟
۷۲ اسلامی عبادات اور مسجد میں جواب :.اس کا ظاہری جواب تو یہ ہے کہ دن کے وقت شور ہوتا ہے اور طبیعتوں میں سکون نہیں ہوتا.اس لئے خدا کے کلام سنانے سے جو غرض ہوتی ہے کہ دلوں میں رقت پیدا ہوا اور خدا کا جلال سامنے آجائے وہ اچھی طرح پوری نہیں ہوسکتی.اس لئے دن کی نمازوں میں قراءت بالجبر نہیں ہوتی.رات کی نمازوں میں قراءت بالجبر کی یہی حکمت ہے کہ اس وقت خاموشی کا عالم ہوتا ہے.طبیعتیں سکون اور اطمینان میں ہوتی ہیں.خدا کا کلام سُن کر رقت پیدا ہوتی ہے.خدا کا کلام تو دن کو پڑھا جائے یا رات کو ہر وقت اثر پیدا کرتا ہے.مگر انسانوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں.اس لئے ایک ہی بات ایک وقت کچھ اثر رکھتی ہے اور دوسرے وقت میں کچھ اور کسی نے سچ کہا ہے ہر سخن وقتے و ہرنکتہ مقامی دارد اس کے علاوہ اس کا روحانی جواب بھی ہے اور وہ یہ کہ جب تاریکی کا زمانہ ہو اس وقت خوب بلند آواز سے خدا تعالیٰ کے نام کی اشاعت ہونی چاہئے.اور روشنی کے زمانہ میں اگر کم بھی ہو تو بھی کام چل سکتا ہے.(الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۲۹ء) سوال :.نمازوں میں سے تین بآواز بلند پڑھی جاتی ہیں.دو کیوں خاموش پڑھی جاتی ہیں.علاوہ ازیں چار رکعت والی ہیں، دو بآواز بلند اور دو خاموش؟ جواب :.بلند آواز سے پڑھی جانے والی رات کی نمازیں ہیں اور خاموشی سے پڑھی جانے والی دن کی ہیں.دن کے وقت شور زیادہ ہوتا ہے.امام اگر بلند آواز سے سُنانا چاہے تو اس پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے.یہ جسمانی حکمت ہے.روحانی حکمت یہ ہے کہ دن کے وقت نور ہوتا ہے ہر شخص دیکھ سکتا ہے رات کو تاریکی ہوتی ہے کسی کو اندھیرے میں سوجھتا ہے کسی کو نہیں.ان نمازوں میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب سب کو ہدایت مل جائے تو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر کے ہدایت پھیلا ؤ اور جب تاریکی پھیل جائے تو ایک دوسرے کو بلند آواز سے خبر دار کرتے رہو.کیا آپ نے دن کے وقت اکٹھے چلنے والے اور رات کے وقت اٹھنے چلنے والے مسافروں کو نہیں دیکھا.دن کو چلنے والے مسافر ایک دوسرے کو آواز نہیں دیتے ، رات کو چلنے والے آواز میں دیتے جاتے ہیں کوئی کہتا ہے
اسلامی عبادات اور مسجد میں دیکھنا گڑھا ہے، کوئی کہتا ہے بچنا کیچڑ ہے، پانی ہے.پس ایک روحانی حکمت یہ ہے کہ سہولت اور آسانی اور نور کے وقت ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے چلیں اور جب تاریکی اور بدی پھیل جائے تو اس وقت صرف عمل ہی کافی نہیں بلکہ تلقین بھی ضروری ہے.جسم کے ساتھ زبان بھی شامل ہونی چاہئے.رات کی نمازوں میں سے بعض حصہ کی قراءت بلند کی جاتی ہے اور بعض حصہ کی خاموش.اس میں کیا راز ہے سو اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں ظاہری حکمتیں بھی ہیں اور ایک باطنی بھی.مغرب کی نماز میں دو رکعت بلند آواز سے ہیں اور ایک رکعت خاموشی سے ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کے وقت ایک طرف خاموشی طاری ہو جاتی ہے اور آواز سُنائی جاسکتی ہے لیکن ساتھ ہی وہ تاریکی کی ابتداء کا وقت ہوتا ہے اور ہر حالت سے دوسری حالت کی طرف گریز کرتے وقت اعصاب کو ایک صدمہ پہنچتا ہے.اس لئے بلند آواز کا حصہ زیادہ رکھا اور خاموشی کا کم.اور عشاء کے وقت اور بھی آواز کے پہنچانے میں سہولت ہوتی ہے لیکن انسان ابتدائی صدمہ سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اس کے مختی بالطبع ہونے کا وقت آجاتا ہے اس لئے اس میں دونوں حالتوں کو برابر رکھا ہے.صبح کے وقت انسان پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے اکثر لوگ قریب میں ہی سوکر اُٹھے ہوتے ہیں اور آواز بھی اچھی طرح سُنائی جاسکتی ہے اس لئے دور کعتوں میں قراءت رکھی تا کہ لوگوں میں سستی نہ پیدا ہو اور غنودگی دور ہو.ان جسمانی وجوہ کے علاوہ روحانی وجوہ بھی ہیں.در حقیقت نماز میں ہم کو یہ بتایا گیا ہے کہ انسانی روح کے کمال کے لئے دوسرے کے ساتھ تعاون وعظ و تذکیر اور مراقبہ یہ تین چیزیں ضروری ہیں.مراقبہ کا قائم مقام خاموش نمازیں ہو جاتی ہیں جن میں انسان اپنے مطلب کے مطابق زور دیتا ہے.وعظ و تذکیر کا نشان قراءت ہے جو انسان کو باہمی نصیحت کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہے اور تعاون کا نشان جماعت ہے.جماعت کے علاوہ جو سب اوقات میں مدنظر رکھی گئی ہے.دوسری دونوں
۷۴ اسلامی عبادات اور مسجد میں کیفیتوں کو مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ نے رکھ دیا ہے ان میں دن کے وقت خاموشی کی وجہ کو میں بیان کر چکا ہوں.دن کے وقت کی نمازوں میں جمعہ کی نماز مستثنیٰ ہے.اس میں جو قراءت نماز میں بلند آواز سے پڑھی جاتی ہے وہ اس لئے ہے کہ جمعہ اجتماع کا دن ہے اس لئے اس میں قراءت بالجبر ضروری تھی.اب یہ کہ رات کی نمازوں میں سے بعض میں قراءت اور خاموشی کو جمع کر دیا گیا ہے اور بعض میں صرف قراءت کو لے لیا گیا ہے جیسے صبح کی نماز ہے اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جب کسی تنزل کی ابتداء ہوتی ہے تو وعظ و تذکیر اور مراقبہ کے متفقہ نسخے سے قوم کی اصلاح ہوتی ہے.ابھی لوگ نور سے تازہ تازہ نکلے ہوتے ہیں اور قلب کی حالت پر غور کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں لیکن جس وقت تنزل اپنی انتہاء کو پہنچ جائے.جیسے رات کی تاریکی ہوتی ہے تو اس وقت فَذَكَّرُ إِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْری کا زمانہ ہوتا ہے اور حکم ہوتا ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا کی ہو وہ لوگوں کو جگائیں اور یہ زمانہ انبیاء کا زمانہ ہے.چنانچہ قرآن کریم میں بھی اسی زمانہ کے متعلق فرمایا وَالَّليْلِ إِذَا عَسْعَسَ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ ایسے زمانہ میں تاریکی کی لمبائی کی وجہ سے اور نیند کے جمود کی وجہ سے لوگوں کے حواس معطل ہو جاتے ہیں.ایسے زمانہ میں لوگوں کو جگانے والا ہی جگا سکتا ہے.پس اس نماز میں مراقبہ کا حصہ ہٹا دیا گیا ہے.( الفضل ۵ ستمبر ۱۹۳۶ء) کیا امام اپنی زبان میں بلند آواز سے دعاکرسکتا ھے سوال :.ایک جماعت کا امام نماز میں بلند آواز سے اردو زبان میں دعائیں مانگتا ہے؟ جواب :.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو فتویٰ ہے وہ میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں.حال ہی میں الفضل میں بھی وہ شائع ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی ارشاد
۷۵ اسلامی عبادات اور مسجد میں ہے کہ نماز میں صرف ادعیہ ماثورہ بلند آواز سے پڑھنی چاہئیں.ہاں اگر اپنی زبان میں کوئی دعا کرنی ہو تو بجائے بلند آواز کے دل میں ہی کر لینی چاہئے.میرا عمل اس سلسلہ میں یہ ہے کہ ادعیہ ماثورہ کے پڑھتے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کو بھی شامل کرلیا کرتا ہوں کیونکہ جو حکمت قرآن مجید اور احادیث کی دعائیں پڑھنے میں ہے وہی حکمت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں بھی موجود ہے.اصل بات یہ ہے کہ جہاں تک ذاتی ضرورت اور خواہش کا سوال ہے انسان اپنی زبان میں ہی زیادہ مؤثر طریق اور عمدگی کے ساتھ دعا کر سکتا ہے.جس زبان میں انسان سوچتا ہے اور غور کرتا ہے اس میں اسے پوری مہارت ہوتی ہے.اس لئے وہ صحیح رنگ میں اسی زبان میں اپنے دلی جذبات اور اندرونی کیفیات کا اظہار کر سکتا ہے اگر وہ کسی ایسی زبان میں دعا کرے گا جس پر اسے پورے طور پر تصرف حاصل نہیں تو وہ اپنے جذبات کا پورے طور پر اظہار نہیں کر سکے گا.پس جہاں تک انفرادی طور پر خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق کا سوال ہے اپنی زبان میں دعا مانگنا ایک ضروری چیز ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ایسی دعائیں بلند آواز سے کی جائیں یا اگر کوئی شخص امام ہو تو وہ اردو یا کسی اور زبان میں اونچی آواز سے دعائیں مانگنے لگ جائے وہ اپنے دل میں تو ایسی دعائیں مانگ سکتا ہے اور اسے ضرور مانگنی چاہئے مگر بلند آواز سے بالخصوص ایسی حالت میں جب کوئی شخص امام ہو صرف ایسی دعا ئیں ہی مانگنی چاہئیں جوادعیہ ماثورہ میں شامل ہوں اور جن کا قرآن وحدیث میں ذکر آتا ہو.اس میں ایک یہ بھی حکمت ہے کہ اگر اپنی زبان میں دعا کی جائے تو یہ ضروری نہیں ہوتا کہ انسان صحیح طور پر شریعت کے تقاضے کو پورا کر سکے مثلاً دعا کرتے وقت بعض دفعہ انسان خدا تعالیٰ کو اس کی صفات یاد دلاتا ہے بعض دفعہ خدا کے بندے کے ساتھ جو تعلقات ہیں ان کا واسطہ دیتا ہے.(الفضل ۱۸ جون ۱۹۴۷ء)
اسلامی عبادات اور مسجد میں حضرت مسیح موعود علیه السلام کافتوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس امر کو جائز سمجھتے تھے کہ نمازی مسنون دعاؤں کے بعد جوعربی زبان میں پڑھی جاتی ہیں اپنی زبان مثلاً اردو یا پنجابی میں بھی دعائیں کرے.بلکہ تاکید فرمایا کرتے تھے کہ نماز کے اندر اپنی زبان میں بھی دعا کیا کرو.کیونکہ اس میں انسان اپنے جذبات کو اچھی طرح سے ظاہر کر سکتا ہے.ایک دفعہ کسی دوست نے عرض کی کہ حضور لوگ کہتے ہیں کہ نماز کے اندر اپنی زبان بولی جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے.حضور نے ہنس کر فرمایا ان لوگوں کی نمازیں تو پہلے ہی ٹوٹی ہوئی ہیں.الفضل ۴ جنوری ۱۹۳۹ء.تقریر حضرت مفتی محمد صادق صاحب ) امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ نماز میں بلند آواز سے قرآن حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی دعائیں بھی مانگے.نماز میں بلند آواز سے اپنی زبان میں دعائیں مانگنا جائز نہیں.اس میں مقتدیوں کے لئے شبہات اور وساوس کی گنجائش ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ یہی ہے کہ نماز با جماعت میں امام کو ادعیہ ماثورہ ہی مانگنی چاہئیں.ہاں اپنے طور پر کوئی شخص جب اکیلا نماز پڑھ رہا ہو تو اپنی زبان میں دعائیں مانگ سکتا ہے.میری رائے اور عمل یہ ہے کہ ایسے مواقع پر قرآن کریم اور احادیث کی دعاؤں کے علاوہ میں وہ دعائیں بھی مانگ لیا کرتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاما بتائی ہیں.کیونکہ قرآن کریم کی دعاؤں اور ماثورہ دعاؤں میں جو حکمت ہے وہی حکمت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی دعاؤں میں بھی پائی جاتی ہے.اصل بات یہ ہے کہ انسان اگر اپنے طور پر اپنی تڑپ اور ذاتی خواہشات کے مطابق دعامانگنا چاہے تو اپنی زبان میں ہی دعا مانگنا اس کے لئے اچھا ہے کیونکہ جو شخص جس زبان کا ماہر ہوتا ہے وہ اسی زبان میں اپنے خیالات کا اچھی طرح اظہار کر سکتا ہے اور اپنے دعا کے جوش کو پورا کر سکتا ہے.پھر وہ
22 اسلامی عبادات اور مسجد میں کسی دعا کے متعلق سوچے گا بھی اسی زبان میں جو اس کی اپنی ہوگی مثلاً اردو زبان جانے والا جب کسی امر کے متعلق سوچے گا تو وہ اردو میں ہی سوچے گا.اسی طرح عربی جاننے والا جب کسی امر کے متعلق سوچے گا تو وہ عربی زبان میں سوچے گا.پس ہماری ضروریات کے متعلق جو خیالات ہمارے دلوں میں آتے ہیں وہ اسی زبان میں آتے ہیں جو ہماری زبان ہوتی ہے اور جس کے ہم ماہر ہوتے ہیں یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک اردو جاننے والا انگریزی زبان میں سوچتار ہے اور ایک انگریزی دان فارسی میں سوچتا رہے.پس چونکہ انسان کو اس کی حاجتوں اور خواہشات مخفی کا علم اس کی اپنی زبان میں ہوتا شخص ہے.اس لئے وہی اس کی خواہشات کی ادائیگی کے لئے بھی موزوں اور مناسب ہے.پس اگر کوئی شخص انفرادی طور پر اپنی زبان میں دعائیں مانگتا ہے تو یہ اس کے لئے جائز ہے بلکہ یہی اس کے لئے بہتر ہے.مگر ایک امام کے لئے ایسا کرنا درست نہیں کیونکہ بسا اوقات وہ ایسی دعا بھی مانگ جاتا ہے جو مقتدیوں کے لئے بار ہوتی ہیں.اس لئے امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ نماز میں اگر بلند آواز سے دعائیں مانگنا چاہے تو قرآن کریم اور احادیث کی دعائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی دعائیں مانگے.کیونکہ ان دعاؤں میں غلطی کا امکان نہیں ہے اور یہ سب دعا ئیں ایسی ہیں جو مقتدیوں کے لئے مسلمہ ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخ دعا مانگ رہا تھا اور وہ کہنا تو یہ چاہتا تھا کہ اے خدا میں گنہگار ہوں تو مجھ پر رحم کر لیکن جوش میں اس کے منہ سے نکل گیا کہ اے خدا تو گنہ گار ہے میں تجھ پر رحم کرتا ہوں.آپ نے فرمایا جب وہ شخص یہ دعا مانگ رہا تھا تو اللہ تعالیٰ اس کی غلطی پر ہنس رہا تھا کہ میرا بندہ سمجھ نہیں سکا کہ وہ کہنا کیا چاہتا تھا اور کیا کہ رہا ہے.لیکن اگر کوئی امام یہی دعا غلطی سے مانگنا شروع کر دے اور بجائے اے اللہ رحم کر کہے کہ اللہ میں تجھ پر رحم کرتا ہوں کہتا چلا جائے تو مقتدی کیا کہیں گے.امام بننے کی صورت میں اس کے لئے اپنی زبان میں دعائیں مانگنا جائز نہیں ہے.امام بننے کی صورت میں ضروری ہے کہ وہ ایسی دعائیں مانگے جو مقتدیوں کے نزدیک مسلمہ ہوں اور مقتدیوں
LA اسلامی عبادات اور مسجد میں کے نزدیک وہی دعائیں مسلمہ ہیں جو قرآن کریم ، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی دعائیں ہیں.( الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۶۱ء) سوال : کیا امام اونچی آواز سے اردو میں دعا کر سکتا ہے؟.جواب :.فرمایا.اس طریق کو میری طبیعت نہیں مانتی.اس موقع پر مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ ہے کہ اس طرح دعا کرنا جائز نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ حسب ذیل ہے:.سوال:.امام اگر اپنی زبان میں بآواز بلند دعا مانگتا جائے اور پیچھے آمین کرتے جاویں تو کیا یہ جائز ہے جبکہ حضور کی تعلیم ہے کہ اپنی زبان میں دعائیں نماز میں کر لیا کرو؟ جواب :.فرمایا.دعا کو بلند پڑھنے کی ضرورت کیا ہے.خدا تعالیٰ نے تو فرمایا تَضَرُّعًا وَّ خُفية اور دون الجهر من القول سوال :.قنوت تو پڑھ لیا کرتے ہیں؟ جواب :.فرمایا.ہاں ادعیہ ماثورہ جو قرآن و حدیث میں آچکی ہیں وہ بے شک پڑھ لی جاویں.باقی دعائیں جو اپنے ذوق کے مطابق ہیں.دل ہی میں پڑھنی چاہئیں.( بدر نمبر ۳۱.جلد ۶ - صفحه ۱۲ - ۱۹۰۷ء) (الفضل.ار جولائی ۱۹۳۴ء) سوال:.کیا مسنون دعاؤں کے ساتھ غیر مسنونہ دعا ئیں اونچی آواز سے پڑھی جاسکتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ البدر یکم اگست 19ء میں ہے کہ ادعیہ ماثورہ بے شک اونچی آواز سے پڑھ لی جاویں.باقی دعائیں جو اپنے ذوق و حال کے مطابق ہوں وہ دل میں ہی پڑھنی چاہئیں.جواب :.حضور نے فرمایا:.اس زمانہ میں ناسخ و منسوخ کا سوال نہیں.وہ فتویٰ کب شائع ہوا ہے اور کس نے کیا ہے.یہ درست ہے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں دوسری دعائیں
و اسلامی عبادات اور مسجد میں پڑھتے ہوئے خودسُنا ہے.(فائل افتاء.رجسٹر اصلاح وارشاد صفحہ ۱ - ۲۰ ستمبر ۱۹۴۳ء) کیا امام کسی لفظ کی قراءت کوباربار دھرا سکتا ھے سوال :.کیا امام الصلوۃ کا اس طرح سے قراءت بالجہر پڑھنا جائز ہے..الحمد للہ کا بار بار پڑھنا.سورہ فاتحہ کے بعد بسم اللہ پڑھ کر کسی سورہ کا کوئی حصہ جو شروع سورہ نہ ہو پڑھنا.معوذتین کو اس طرح پڑھنا قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ یہ کلمات تمجید ہیں.بہتر ہے کہ مخفی پڑھ لے کیونکہ یہ کلمات اس وقت پڑھے جاتے ہیں جس وقت طبیعت میں جوش آتا ہے ان کا پڑھنا قلب کی حالت پر ہوتی ہے اگر قلب کی حالت واقعی طور پر ایسی ہے کہ وہ کلمات تمجید پڑھنے پر مجبور ہے تو ثواب کا باعث ہو گا.اگر ایسی کیفیت نہ ہوگی تو پھر بالجہر پڑھنا گناہ بن جائے گا اس لئے یہ کلمات کہنے ہوں تو آہستہ کہہ لیں..اس کا حکم نہیں اعوذ کا حکم ہے شروع سورہ پر بسم اللہ پڑھنی چاہئے ورنہ بدعت ہے..یہ دعا ہے اس لئے سمجھا جائے گا کہ دعا کے طور پر دہرا لیتا ہے قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ والى تلاوت سمجھی جائے گی باقی دعا.(الفضل ۲ رمئی ۱۹۵۱ء) سجدہ میں قرآنی دعائیں اور حضرت مسیح موعود کی الهامی دعائیں پڑھنا سوال : سجدہ میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا کیوں ناجائز ہے حالانکہ سجدہ انتہائی تذلیل کا مقام ہے؟
۸۰ اسلامی عبادات اور مسجد میں جواب :.میرا تو یہی عقیدہ رہا ہے کہ سجدہ میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا جائز ہے لیکن بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ایسا حوالہ ملا جس میں آپ نے سجدہ کی حالت میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا نا جائز قرار دیا ہے.اسی طرح مسند احمد بن مقبل میں بھی اسی مضمون کی ایک حدیث مل گئی لیکن اگر میرے عقیدے کے خلاف یہ امور نہ ملتے تب بھی یہ دلیل میں معقول قرار نہ دیتا کہ سجدہ جب انتہائی تذلیل کا مقام ہے تو قرآنی دعاؤں کا سجدہ کی حالت میں پڑھنا جائز ہونا چاہئے.امام مالک کا عقیدہ تھا کہ سمندر کی ہر چیز حلال ہے ایک دفعہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا سمندر میں سور بھی ہوتا ہے کیا اس کا کھانا بھی جائز ہے.آپ نے فرمایا سمندر کی ہر چیز کھانی جائز ہے مگر سور حرام ہے اس نے بار بار یہی سوال کیا مگر آپ نے فرمایا میں اس سوال کا یہی جواب دے سکتا ہوں کہ سمندر کی ہر چیز حلال ہے مگر سور حرام ہے.یہی جواب میں دیتا ہوں کہ سجدہ بے شک تذلل کا مقام ہے مگر قرآن کریم کی چیزیں، اس کی دعا ئیں سجدہ کی حالت میں نہیں پڑھنی چاہئیں.دعا انسان کو نیچے کی طرف لے جاتی ہے اور قرآن انسان کو اوپر کی طرف لے جاتا ہے.اس لئے قرآنی دعاؤں کا سجدہ کی حالت میں مانگنا نا جائز ہے.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک بات مل گئی تو پھر اس کے خلاف طریق اختیار کرنا درست نہیں گو وہ ہماری عقل میں نہ آئے.اس پر قیاس کر کے ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی دعائیں بھی سجدہ کی حالت میں پڑھنی ناجائز ہیں.سوائے اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے اس کی اجازت ثابت ہو جائے.(الفضل ۱۶ ر اپریل ۱۹۴۴ء - صفحه ۸۸) سوال:.کیا یہ جائز ہے کہ سجدہ میں دعا کرتے وقت کچھ قرآنی الفاظ اور کچھ اپنے الفاظ ہوں؟ جواب : سجدہ میں قرآنی دعا ئیں تو جائز نہیں ہیں لیکن اگر انسان کے اپنے الفاظ ہوں اور ان میں
ΔΙ قرآن کی کسی آیت کا ٹکڑا آ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں.سوال :.کیا حالت سجدہ اردو میں دعا مانگنا جائز ہے؟ اسلامی عبادات اور مسجد میں جواب :.جائز ہے.(الفضل یکم دسمبر ۱۹۴۴ء.نمبر ۲۸) ننگے سر نماز سوال :.کیا بلا ضرورت کوئی شخص ننگے سر نماز ادا کرسکتا ہے؟ جواب : نماز میں یوں تو اچھا لباس پہنے کا حکم ہے.جیسا کہ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ - باقی نوافل اور گھر کی نماز میں بدوں ضرورت کے محض جواز کے طور پر ایک چادر میں بھی پڑھنا ثابت ہے.بحسب الحکم مولوی محمد سرور شاہ صاحب نے جواب لکھا.(الفضل ۵ اگست ۱۹۱۵ء) سوال :.مصری لوگ اکثر ننگے سرنماز پڑھتے ہیں مگر ہم سرڈھانپ کر نماز پڑھتے ہیں کیا اس کے متعلق کوئی حکم ہے؟ جواب :.ہمارے ملک میں چونکہ احترام کا نشان سرڈھانپنا ہے اس لئے ہمارے ملک میں یہی مناسب ہے کہ سر ڈھانپا جائے مگر کئی صحابہ کے متعلق ذکر آتا ہے کہ ننگے سر پڑھتے تھے.مگر ہم لوگ اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ ان کے پاس کپڑے پورے ہوتے ہی نہ تھے کیا کرتے.مگر حافظ روشن علی صاحب کو اس روایت پر اتنا غلو تھا کہ وہ سر پر ٹوپی ہوتی بھی تو اس کو اتار لیتے تھے.میں ان سے ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ حافظ صاحب جس حدیث پر آپ کو اتنا غلو ہے وہ ان لوگوں کے لئے ہے جن کو کپڑا نصیب نہیں ہوتا تھا.آپ کو نصیب ہے پس اتنا غلو ثابت ہو گیا کہ نگا سر رہنے سے نماز ٹوٹتی نہیں ہاں عورتوں کے متعلق فقہاء کا قطعی فیصلہ ہے کہ ان کو سر ڈھانک کر نماز پڑھنی چاہئے.(فائل مسائل دینی 4/13.5.57 B.DP-32)
۸۲ اسلامی عبادات اور مسجد میں اسلام نے یہ کیا ہے کہ نماز وغیرہ کے مواقع پر سر پر ٹوپی یا پگڑی رکھی جائے، سرنگا نہ ہو.عورتوں کے متعلق علماء میں یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ اگر ان کے سر کے اگلے بال ننگے ہوں تو آیا ان کی نماز ہو جاتی ہے یا نہیں.اکثر علماء کا یہی خیال ہے کہ اگر اگلے بال ننگے ہوں تو نماز نہیں ہوتی.پرانے فقہاء کا خیال ہے کہ ننگے سرنماز نہیں ہوتی.لیکن ہمارے ہاں مسائل کی بنیاد چونکہ احادیث پر ہے اور احادیث میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ بعض صحابہ نے ننگے سر نماز پڑھی اس لئے ہم اس تشدد کے قائل نہیں کہ ننگے سر نماز ہوتی ہی نہیں.ہمارے نزدیک اگر کسی کے پاس ٹوپی یا پگڑی نہ ہواسی طرح سرڈھانکنے کے لئے کوئی رومال وغیرہ بھی اس کے پاس نہ ہو تو ننگے سرنماز پڑھی جاسکتی ہے.(الفضل ۹ رفروری ۱۹۵۵ء) سوال :.کیا ننگے سرنماز جائز ہے؟ جواب :.ایسی صورت میں ننگے سر نماز پڑھنا غلطی ہے جبکہ سرڈھانپنے کے لئے کوئی کپڑا وغیرہ موجود ہو.منع نہیں.کئی صحابہ پڑھتے تھے.مگر میرا خیال ہے کہ ان کے پاس سرڈھانکنے کے لئے کپڑا نہیں ہوتا تھا.حدیثوں میں آتا ہے کہ صحابہ کے پاس بسا اوقات تہہ بند کے لئے بھی پورا کپڑا نہیں ہوتا تھا.الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۹۴۶ء.نمبر ۲۴۳) سوال :.بنگر پہن کر نماز پڑھنے کے بارہ میں کیا حکم ہے؟ جواب :.اگر کسی کے پاس نگر ہے اور دوسرا کپر انہیں تو نکر پہن کر جائز ہے بلکہ اگر اس کے پاس کپڑا نہیں تو نگر چھوڑ لنگوٹی میں بھی نماز جائز ہے لیکن جان بوجھ کر ایسا کرنا جبکہ اور کپڑا موجود ہو نا جائز ہے.( الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۹۴۶ء) نمازیں جمع کرنا بادل اور کیچڑ کی وجہ سے مغرب وعشاء جمع ہوئیں بعض احباب نے اختلاف کیا کہ معمولی باتوں پر نماز جمع کرالی جاتی ہیں؟
۸۳ اسلامی عبادات اور مسجد میں حضور نے فرمایا : یہ فتویٰ درست ہے.معمولی اجتماعوں میں نماز جمع نہ ہونی چاہئے.نماز جمع صرف قومی اجتماعات میں ہم کرتے ہیں اور اس کے بغیر جب انتظام میں تکلیف مالا يطاق ہو یا سفر یا بارش ہو یا سخت کیچڑ ہو ، رات کو چلنا خطرناک ہو.الفضل ۱۸ ستمبر ۱۹۴۴ء.جلد نمبر ۳۱ نمبر ۲۲۰) سوال : اگر کوئی شخص مصروفیت کی وجہ سے ظہر وعصرا کٹھی اور مغرب وعشاءاکٹھی پڑھ لے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ جواب :.مجبوری اور غلطی سے پڑھی تو معاف ہے، ارادتا جمع نہیں کرنی چاہئے.فائل مسائل دینی 17.10.1960/A-32) سوال: نمازیں جمع کرنے کی صورت میں سنتیں پڑھنی چاہئیں یا نہیں؟ جواب :.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے تو اس بات کے متعلق علماء میں اختلاف تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عمل سے ہم نے جو کچھ تو اتر سے دیکھا ہے اور پوچھنے والوں کے جواب میں آپ نے ہمیشہ جو کچھ فرمایا ہے وہ یہی ہے کہ نمازیں جمع کرنے کی صورت میں فرضوں سے پہلی سنتیں بھی اور بعد کی سنتیں بھی معاف ہو جاتی ہیں.سوال :.اگر نماز جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز جمع کی جائے تو کیا پھر بھی سنتیں معاف ہیں؟ جواب :.نماز جمعہ سے قبل جو سنتیں پڑھی جاتی ہیں وہ دراصل جمعہ کے نفل ہیں اور جمعہ کے ساتھ مخصوص ہیں اس لئے نماز جمعہ سے قبل سنتیں بہر حال پڑھنی چاہئیں.(الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۴۶ء نمبر ۲۴۰) جمع بين الصلوتين اگر مقتدی کو معلوم نہ ہو کہ کون سی نماز ہے اس صورت میں مقتدی کی وہی نماز ہوگی جو امام کی تھی
۸۴ اسلامی عبادات اور مسجد میں خواہ اس نے اس کے خلاف ہی نیت باندھی ہو.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ ہے لیکن اگر مقتدی کو معلوم ہو جائے کہ یہ بعد کی نماز ہے تو پہلے پہلی نماز الگ پڑھے پھر جماعت میں شامل ہو.یہ فتوی خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے میں نے سُنا ہے.( الفضل ۷ ستمبر ۱۹۴۰ء) سوال: نمازیں جمع ہور رہی ہوں اور ایک شخص بعد میں آئے جسے معلوم نہ ہو کہ کون سی نماز پڑھی جارہی ہے ظہر یا عصر.وہ ظہر سمجھ کر شامل ہو جاتا ہے مگر وہ عصر کی نماز ہو تو اس کی کون سی نماز ہوگی؟ جواب :.ایسی صورت میں جونیت امام کی ہوگی وہی اس کی سمجھی جائے گی.لیکن اگر اسے معلوم ہو جائے کہ عصر کی نماز ہورہی ہے تو پہلے اسے ظہر کے فرض پڑھنے چاہئیں اور پھر عصر کی نماز میں شریک ہونا چاہئے.(الفضل.ارجولائی ۱۹۳۴ء) غیر معمولی علاقوں میں نماز کے اوقات غیر معمولی علاقوں میں نماز کی فرضیت اور اس کے لئے وقت مقرر کرنے کا اصول الف: نماز کی فرضیت دنیا کے ہر علاقہ میں قائم ہے اور کسی علاقہ کے غیر معمولی حالات کی وجہ سے یہ فرضیت ساقط نہیں ہوسکتی.ب:.غیر معمولی علاقوں میں نماز کے اوقات اندازہ سے ہوں گے اور اوقات کی پابندی لفظاً نہیں ہوگی.نماز کے اوقات کے لحاظ سے غیر معمولی علاقے غیر معمولی علاقوں سے مراد وہ علاقے ہیں الف:.جہاں دن رات چوبیس گھنٹوں سے زیادہ کے ہیں.ب.جہاں دن رات اگر چہ چوبیس گھنٹوں کے ہیں لیکن ان میں باہمی فرق اتنازیادہ ہے کہ وہاں قرآن وسنت کی رو سے نمازوں کے پانچ معروف اوقات کی تفریق ممکن نہیں یعنی وہ علاقے جہاں شفق
۸۵ اسلامی عبادات اور مسجد میں شام اور شفق صبح کے درمیان امتیاز نہ ہو سکے.گویا درمیان میں غسق حائل نہ ہو.سال کے جن ایام میں یہ حرج واقع نہ ہو ان میں معروف شرعی اوقات کی پابندی ضروری ہو جائے گی اور ان ایام کے لئے وہ علاقے غیر معمولی قرار نہیں دیئے جائیں گے..غیر معمولی علاقوں میں نماز کے اوقات اندازہ سے مقرر کرنے کے بارہ میں اصولی ہدایات غیر معمولی علاقوں میں نماز کے اوقات مندرجہ ذیل اصولی ہدایات کی روشنی میں متعین کئے جائیں.الف:.موقتہ نمازوں کے اصل اوقات وہی ہیں جوطلوع وغروب اور سورج کے دوسرے افقی تغیرات کے مطابق عام معروف طریق سے متعین ہوتے ہیں.اس لئے جن نمازوں میں ممکن ہو اسی طریق کی پابندی کی جائے.ب:.جہاں ایسا کرنا ممکن نہ ہو وہاں مقامی حالات کو مد نظر رکھ کر نمازوں کے اوقات چوبیں گھنٹوں کے اندر اس طرح پھیلائے جائیں کہ وہ پانچوں نمازوں کے معروف اوقات سے حتی الوسع ملتے جلتے ہوں.یہ نہ ہو کہ دن یا رات کے کسی ایک حصہ میں وہ اکٹھے ہوں اور ایک دوسرے کے بالکل قریب واقع ہوں.(الفضل ۶ را گست ۱۹۶۳ء - صفحه ۳) فیصلہ مجلس افتاء جسے حضور انور نے منظور فرمایا.فیصلہ نمبر ۱۰) تھوڑے دن ہوئے انگریزی اخبارات میں ایک تار چھپا تھا بعد میں اس کا ترجمہ اردو اخبارات میں بھی چھپ گیا تھا.اس میں بتایا گیا تھا کہ فن لینڈ کے مسلمانوں نے مصر کی از ہر یونیورسٹی کے علماء سے ایک خط کے ذریعہ دریافت کیا ہے کہ آج کل ہمارے ملک کے لحاظ سے ۲۲ گھنٹوں کا ایک دن ہوتا ہے اس صورت میں ہم رمضان کے روزے کس طرح رکھیں؟ ہندو اور انگریزی اخبارات نے ایسے انداز سے اس پر تنقید کی تھی گویا یہ ایک ایسا مشکل سوال ہے جس کا اسلام میں کوئی حل موجود نہیں.بہر حال یہ اعتراض ان پر بھی پڑتا ہے کیونکہ بعض علاقوں میں چھ چھ مہینوں کا ایک دن بھی ہوتا ہے.اب ایسے علاقوں میں وہ کس طرح روزہ رکھ سکتے ہیں؟
۸۶ اسلامی عبادات اور مسجد میں پس یہ اعتراض در حقیقت ہم پر نہیں بلکہ دوسرے مذاہب پر پڑتا ہے کیونکہ عیسائیت کے نزدیک بھی گناہ کا دیو روزے کے بغیر نہیں نکلتا اور خود حضرت مسیح روزے رکھتے رہے ہیں اور ہندوؤں میں بھی روزے موجود ہیں.اگر ایک روزہ بھی ہو.پھر بھی جس علاقہ میں چھ ماہ کا ایک دن ہے وہاں متواتر چھ ماہ کا روزہ رکھنا پڑے گا.اگر بارہ روزے رکھنے ہوئے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ چھ سال تک متواتر روزے رکھے جائیں.ہمارے مذہب میں تو اس سوال کا جواب موجود ہے.ایک صحابی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ مسیح موعود کے زمانہ میں جب چھ چھ ماہ کے دن ہوں گے تو اس صورت میں روزہ کس طرح رکھا جائے الله اور نماز کس طرح ادا کی جائے.آپ ﷺ نے فرمایا اقدروا له قدره (مشكوة ، كتاب الفتن) یعنی ایسی صورت میں ایک اندازہ مقرر کر لیا کرو.چوبیس گھنٹے کا دن اور رات فرض کر کے اس میں سے اندازہ کے مطابق روزہ رکھ لیا کرو.اسی طرح نماز کے متعلق بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے.یہ اندازہ سورج کے حساب سے نہیں ہوگا.بلکہ گھنٹوں کے حساب سے ہوگا.یعنی یہ دیکھ لیا جائے گا کہ وسط دنیا میں نمازوں کے کیا اوقات ہیں ان سے اندازہ لگا کر نماز ادا کر لی جائے گی.یہ قانون ان ممالک کے لئے ہے جہاں معتاد لیل و نہار کے وقت یعنی چوبیس گھنٹے سے زیادہ کا دن رات ہوتا ہے.مثلا تین تین ماہ کا دن ہے یا تین تین ماہ کی رات ہے.باقی رہا یہ جہاں ۲۲ گھنٹے کا دن ہو اور دو گھنٹے کی رات وہاں کیا کیا جائے.سو وہاں پر ۲۲ گھنٹے کا روزہ رکھنا چاہئے.یہ آٹھ پہر کا روزہ ہوگا اور یہ کوئی ایسی مشکل بات نہیں ہے.ہمارے ملک میں ہزاروں لوگ ایسے روزے رکھتے ہیں.پھر فن لینڈ جیسے ملک میں تو یہ سہولت بھی ہے کہ اگر ۱۸ سال تک ۲۲ گھنٹے کا روازہ رکھنا پڑتا ہے تو اس کے بعد متواتر ۱۸ سال غیر معمولی طور پر چھوٹا یعنی صرف چار گھنٹے کا روزہ رکھنا پڑے گا.گویا با ئیس گھنٹے کے روزے کی کسر دوسری طرف نکل جائے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو متواتر ایک مہینہ تک وصال کے روزے بھی رکھا کرتے تھے.یعنی افطاری کے وقت صرف
۸۷ اسلامی عبادات اور مسجد میں روزہ کھول لیتے تھے لیکن کھانا نہ کھاتے تھے اور اسی حالت میں اگلے دن پھر روزہ رکھ لیتے.صحابہ کو آپ کے نقش قدم پر چلنے کا اتنا شوق تھا کہ انہوں نے بھی ایسے روزے رکھنے کی اجازت چاہی لیکن آپ نے انہیں منع کرتے ہوئے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ خود اپنے پاس سے غذا کھلا دیتا ہے.الفضل ۷ ار ستمبر ۱۹۴۶ء.جلد ۳۴.نمبر ۱۱۶) سوال : قطبین میں جہاں چھ ماہ کے دن اور رات ہوتے وہاں اسلامی نظام کے مطابق نماز ، روزہ کس طرح ادا ہوسکتا ہے.اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ اسلام عالمگیر مذہب نہیں؟ جواب :.فرمایا.میں سمجھتا ہوں کہ یہ سوال در حقیقت اسلام کی فضیلت ثابت کرنے کا ذریعہ ہے اور ملائکہ کی تحریک سے ہوا ہے.چونکہ روزہ اور عبادت تو سب مذاہب میں موجود ہیں اور یہ دونوں چیز میں نوعیت کے اختلاف کے باوجود دن اور رات کے اوقات سے تعلق رکھتی ہیں.اسلام کے سوا کوئی اور مذہب ایسا نہیں جس میں اس کا حل موجود ہو کہ اگر کسی جگہ چھ ماہ کا دن ہو اور چھ ماہ کی رات ہو تو وہاں عبادت کیسے ادا کریں.پس یہ اعتراض اگر اعتراض ہے تو سب مذاہب پر وارد ہوتا ہے.ہاں اتنا فرق ہے کہ اسلام میں اس سوال کا جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے موجود ہے مگر باقی کسی مذہب کے بانی کی طرف سے اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہور د قبال کے ذکر میں فرمایا کہ چھ چھ ماہ کا دن ہو گا.حضور علیہ السلام کا یہی مطلب تھا کہ مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں جو قاتل دجال ہے ایسے علاقوں کا انکشاف بھی ہوگا جہاں چھ چھ ماہ کا دن ہوتا ہے.صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ پھر نمازوں کا کیا بنے گاوہ کس طرح ادا کی جائیں گی.آپ نے فرمایا فاقد روالہ کہ اس کے لئے اوقات کا اندازہ کر لیا جائے گا.اندازہ کر کے نماز ادا کرلیں.اسلامی تعلیمات کا یہ مسئلہ بہت بڑی حکمت اپنے اند رکھتا ہے.ایک تو اس میں پیشگوئی ہے کہ ایسے ایسے علاقوں کا پتہ لگے گا جہاں معمول سے زیادہ لمبے دن ہوتے ہیں لیکن چونکہ وہ علاقے ابھی
۸۸ اسلامی عبادات اور مسجد میں دریافت نہ ہوئے تھے اس لئے براہ راست ان کا ذکر نہ کیا گیا ورنہ ان کی دریافت تک صد ہا سال لوگ اس ذکر کی وجہ سے اسلام پر حملے کرتے رہتے.مگر دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد فاقدروا لہ سے پیش آنے والی ضرورت کا جواب بھی دیا گیا.اصل بات تو یہ ہے کہ قطبین کے لوگوں کے بارے میں دوسرے تمام مذاہب پر حملہ کیا جاتا اور ان کے عجز کو ظاہر کیا جاتا.مگر مسلمانوں کی ناواقفیت ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ اسلام پر خواہ مخواہ اعتراض کرتے ہیں.الفضل ۱۹ را پریل ۱۹۴۶ء- جلد نمبر ۳۴ نمبر ۹۳) سوال :.سول ملٹری گزٹ ۶ ستمبر ۱۹۴۶ء کے پرچے میں صفحہ ۲ پر فن لینڈ کے مسلمانوں کا یہ سوال جو جامعہ ازہر کے مفتی سے پوچھا گیا ہے شائع ہوا ہے جو یہ ہے کہ اس دفعہ رمضان المبارک گرمیوں میں آیا ہے اور یہاں پر ۲۲ گھنٹے کا دن ہے اور صرف دو گھنٹے کی رات ہے اس لئے روزہ کے بارہ میں کیا حکم ہے؟ جواب :.حضور نے تحریر فرمایا:.یہ تو کوئی سوال نہیں آٹھ پہر کا روزہ رکھنا عام طور پر مسلمانوں میں رائج ہے.دوسرے یہ کہ اگر گرمیوں میں ان لوگوں کو بائیس گھنٹوں کا روزہ رکھنا ہوگا تو کیا سردیوں میں پانچ گھنٹوں کا روزہ نہ ہوگا.الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۴۶ء- جلد نمبر ۳۴ نمبر (۲۱۴) سجده سهو سوال :.کیا نماز میں ہر غلطی پر سجدہ سہو ادا کرنا ضروری ہے؟ جواب: سجدہ سہو اس غلطی کی بناء پر ہوتا ہے جو قائم ہو جائے مثلاً اگر ایک شخص نے پہلی رکعت کے سجدوں کے بعد دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہونا تھا لیکن غلطی سے وہ بیٹھ گیا.اس صورت میں اگر تشہد شروع کرنے سے پہلے اسے اپنی غلطی کا علم ہو گیا اور وہ اُٹھ کھڑا ہوا تو نماز کے بعد اسے سجدہ
۸۹ اسلامی عبادات اور مسجد میں سہوادانہیں کرنا چاہئے لیکن اگر اسے اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوا جبکہ اس نے تشہد پڑھنا شروع کر دیا تو پھر اسے کھڑا نہیں ہونا چاہئے بلکہ بیٹھے رہنا چاہئے.اس صورت میں نماز کے بعد سجدہ سہوا دا کرنا ضروری ہوگا.پس سجدہ سہو اسی صورت میں ہے جبکہ کوئی غلطی ہو جائے اور پھر وہ غلطی استحکام پکڑ جائے.اگر استحکام نہیں پکڑتی اور اس غلطی کا احساس ہوجاتا ہے تو اس صورت میں اسے درست کر لینا چاہئے اور سجدہ سہوادانہیں کرنا چاہئے.قبولیت دعا کے سات اصول ( الفضل ۱۴ / اکتوبر ۱۹۴۶ء) 1.جس مقصد کے لئے دعا کی جائے وہ نیک ہو.ایسے نہیں کہ چور چوری کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے تو وہ بھی قبول کر لی جائے گی.خدا کا نام لے کر اور اس کی استعانت طلب کر کے جو دعا کی جائے گی لازماً ایسے ہی کام کے متعلق ہوگی جس میں اللہ تعالیٰ کی ذات بندہ کے ساتھ شریک ہوسکتی ہو.میں نے بہت لوگوں کو دیکھا ہے وہ لوگوں کی تباہی اور بربادی کی دعائیں کرتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوئی.بعض لوگوں نے جھوٹا جامہ زہد وانتقاء کا پہن رکھا ہے اور ناجائز امور کے لئے تعویذ دیتے اور دعائیں کرتے ہیں حالانکہ یہ سب دعا ئیں اور تعویذ عاملوں کے منہ پر مارے جاتے ہیں.2.دوسرا اصل الـحـمـد لله رب العالمین میں بتایا ہے یعنی دعا ایسی ہو کہ اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے دوسرے بندوں کا بلکہ سب دنیا کا فائدہ ہو یا کم از کم ان کا نقصان نہ ہو اور اس کے قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ کی حمد ثابت ہوتی ہے اور اس پر کسی قسم کا الزام نہ آتا ہو.3.تیسرے یہ کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کو جنبش دی گئی ہوا اور اس دعا کے قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت ظاہر ہوتی ہو.4.چوتھے یہ کہ اس دعا کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفت رحمیت سے بھی ہو یعنی وہ نیکی کی ایک ایسی بنیاد
اسلامی عبادات اور مسجد میں ڈالتی ہو جس کا اثر دنیا پر ایک لمبے عرصہ تک رہے اور جس کی وجہ سے نیک اور شریف لوگ متواتر فوائد حاصل کریں.یا کم سے کم ان کے راستہ میں کوئی روک نہ پیدا ہوتی ہو.5.پانچویں یہ کہ دعا میں اللہ تعالیٰ کی صفت ملک یوم الدین کا بھی خیال رکھا گیا ہو یعنی دعا کرتے وقت ان ظاہری ذرائع کو نظر انداز نہ کر دیا گیا ہو جو صحیح نتائج پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تجویز کئے ہیں کیونکہ وہ سامان بھی اللہ تعالیٰ نے ہی بنائے ہیں اور اس کے بنائے ہوئے طریق کو چھوڑ کر اس سے مدد مانگنا ایک غیر معقول بات ہے.گویا جہاں تک وہ موجود ہوں یا ان کا مہیا کرنا دعا کرنے والے کے لئے ممکن ہو ان کا استعمال بھی دعا کے وقت ضروری ہے.6.چھٹا اصل یہ بتایا ہے کہ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق ہو اور اس سے کامل اخلاص حاصل ہو اور وہ شرک اور مشرکانہ خیالات سے کلی طور پر پاک ہو.7.اور سا تو میں بات یہ بتائی ہے کہ وہ خدا کا ہی ہو چکا ہو اور اس کا کامل تو کل حاصل ہو اور غیر اللہ سے اس کی نظر بالکل ہٹ جائے اور وہ اس مقام پر پہنچ جائے کہ خواہ کچھ ہو جائے اور کوئی بھی تکلیف ہو مانگوں گا تو خدا تعالیٰ ہی سے مانگوں گا.( تفسیر کبیر جلد اول صفحه ۶،۵) درس قرآن کریم کے بعد دعا سوال :.درس قرآن کریم کے بعد دعا کرنا بدعت تو نہیں؟ جواب:.فرمایا.ہر روز درس کے بعد دعا کرنا یہ کوئی مسنون طریق نہیں.ہاں اگر قرآن کریم ختم ہو یا کوئی اور خصوصیت ہو یا کوئی خاص موقع اور ضرورت ہو تو دعا کرنا جائز ہے.سوال:.اس پر ایک صاحب نے عرض کیا.کیا درس کے بعد ہر روز دعا کرنا گناہ ہے؟ جواب : فرمایا.جتنی بدعتیں ہوتی ہیں وہ نیکیاں ہی سمجھی جاتی ہیں.کنچنیاں نچانا بدعت نہیں بلکہ
۹۱ اسلامی عبادات اور مسجد میں بدی ہے مگر بدعت جو ہوتی ہے وہ بدی نہیں ہوتی.وہ عبادات اور اعمال نیک ہی ہوتے ہیں.مگر جب ان کو شریعت کا خاص حکم یا عمل قرار دیا جاتا ہے تو وہ گناہ ہو جاتے ہیں.میرا مطلب یہ ہے کہ جتنی بدعتیں ہیں وہ ثواب ہی کی نیت سے کی جاتی ہیں مگر وہ نیکی نہیں ہوتیں مثلاً خیرات کرنا نیکی ہے لیکن ایسے طریق پر تقسیم کرنا کہ وہ ایک مسئلہ بن جائے اور وہ شریعت کا مسئلہ نہ ہو بدعت ہو جاتا ہے.جو کام نیکی کی غرض سے کیا جاتا ہے مگر شریعت اس کا حکم نہیں دیتی وہ بدعت ہے.کھانا وقت مقرر کر کے خاص طریقہ پر کھلانا بدعت ہے مگر دوستوں کی دعوت نہیں.کیونکہ بدعت وہی ہے جو ثواب کی نیت سے نیکی سمجھ کر کوئی کرتا ہے اور جس کام میں خواہ کوئی دنیاوی فائدہ ہو یا نہ ہو بلکہ یونہی اس کا کرنا لازمی سمجھتا ہے وہ رسم ہے اور رسموں کو بھی اسلام مٹانا چاہتا ہے کیونکہ یہ ایسی قیدیں پیدا کرتی ہیں جو منع ہیں.الفضل ۲۳ را کتوبر ۱۹۲۲ء.جلد ۱۰ نمبر ۳۲) غیر احمدی والدین کے لئے دعا مغفرت سوال :.ایک شخص نے دریافت کیا کہ اگر غیر احمدی ( جسے دعوت پہنچی اور اس نے قبول نہ کیا ) والد کے لئے دعائے مغفرت نا جائز ہے تو میں رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ چھوڑ دوں؟ جواب :.حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے جواب لکھا کہ والد میں تو باپ دادا بھی آسکتے ہیں.نام نہ لیا جائے اور یہ دعا نہ چھوڑی جائے.الفضل ۱۶ / مارچ ۱۹۱۵ء نمبر ۱۱۴) سوال :.کیا غیر احمدی متوفی والدین کے لئے نماز میں دعائے مغفرت جائز ہے؟
۹۲ جواب :.دعا تو جنازہ ہی ہے (اور جنازہ ناجائز ) ان کو خدا کے حوالہ کرو.اسلامی عبادات اور مسجد میں نماز کے بعد دعا سوال:.نماز کے بعد امام کا مع مقتدیان دعا کرنا کیسا ہے؟ جواب: - حضرت اقدس علیہ السلام اسے پسند نہیں فرماتے تھے.سوال :.بعد از نماز ہاتھ اُٹھا کر دعامانگنا جائز ہے یا نہیں؟ (الفضل ۲ / مارچ ۱۹۱۵ ء.نمبر ۱۱۱) الفضل ۱۱ فروری ۱۹۱۵ء) جواب :.نماز کے بعد دعا جائز ہے.ہاں دوام اور التزام نہیں چاہئے.نماز قصر کرنا الفضل ۱۸ / مارچ ۱۹۱۶ء) اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسان تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد خدا کا نام خود لیا کرے.سفر کی نمازوں کے متعلق قصر کا لفظ غلط طور پر استعمال ہوتا ہے.ہمارے ہاں سفر کی نمازوں کے متعلق قصر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے.یہ درحقیقت ایک غلط محاورہ ہے جو استعمال ہو رہا ہے.قصر کے معنی چھوٹا کرنے کے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ سفر میں نماز قصر نہیں ہوتی بلکہ حضر میں جب انسان اپنے گھر پر موجود ہو نماز زیادہ پڑھی جاتی ہے.احادیث اور تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلے نماز کی دوہی رکعت نماز ہوتی تھی بعد میں دو کی بجائے چار رکعتیں کر دی گئیں.یعنی ظہر ، عصر اور عشاء کی نمازوں میں دو دو رکعتیں بڑھا دی گئیں.صبح کی نماز اسی طرح رہی.اسی طرح مغرب کی نماز بھی اسی طرح رہی.پس قصر کا سوال در حقیقت سفر کے ساتھ
۹۳ اسلامی عبادات اور مسجد میں پیدا ہی نہیں ہوتا.کیونکہ جتنی نماز پہلے پڑھی جاتی تھی سفر میں اتنی ہی پڑھی جاتی ہے لیکن جو لوگ اپنے اپنے گھروں میں مقیم ہیں ان کو دوگنی پڑھنی پڑتی ہے.قرآن کریم میں جو قصر کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ سفر کی نمازوں کے متعلق نہیں لیکن مسلمانوں نے اپنی غلطی سے اسے سفر کی نمازوں کے متعلق سمجھ لیا.یہی وجہ ہے کہ انہیں قصر کے معاملہ میں غلط فہمی ہوئی اور وہ غلط راستہ پر جا پڑے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ اگر تمہیں خوف ہو تو تم نمازوں کو قصر کر سکتے ہو.اس سے مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ اگر امن ہو تو پھر مسافر کے لئے قصر کرنا جائز نہیں.حالانکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ سفر میں اتنی ہی نماز پڑھی جاتی ہے جتنی پہلے پڑھی جاتی تھی.البتہ حضر میں وہ دوگنی کر دی گئی ہے.الفضل ۶ / مارچ ۱۹۵۱ء.خطبہ جمعہ ) نماز قصر - سفرمیں نماز سوال :.مجھے اپنے کام کے سلسلہ میں اکثر کئی کئی کوس پیدل چلنا پڑتا ہے.کیا میں نماز قصر اور روزہ افطار کر سکتا ہوں؟ جواب :.جس کا پیشہ اور ملازمت ہی ایسی ہو کہ اس میں سفر کرنا پڑتا ہواس کے لئے نماز کا قصر اور روزہ کا قضاء کرنا جائز نہیں.(الفضل ۱۵؍ جولائی ۱۹۱۵ء صفحہ۱ ) سوال : مبلغین نے پوچھا کہ ہم سفر میں رہتے ہیں روزہ افطار اور نماز قصر کر سکتے ہیں یا نہیں؟ جواب :.سفر چھوٹا کر دو.روزے برابر رکھو.یہ آپ لوگوں کا فرض منصبی ہے.اس لئے آپ سفر پر نہیں سمجھے جاسکتے.(الفضل ۱۶ جولائی ۱۹۱۴ء)
۹۴ اسلامی عبادات اور مسجد میں طلباء کے نگران نے سوال کیا کہ امتحان دینے کے لئے جو طلباء بٹالہ جارہے ہیں وہ نمازیں جمع اور قصر کریں یا نہیں.پہلے ہم کرتے رہے ہیں؟ جواب :.فرمایا.چونکہ سفر کے کوسوں اور مدت رہائش (تین ہفتہ سے پندرہ روز ) میں بھی اختلاف ہے اس لئے جو قصر کرتے ہیں وہ قصر کریں جو نہیں کرتے نہ کریں.ایک دوسرے پر اعتراض نہ ہو.ہاں جمع کے سوا چارہ نہیں کیونکہ امتحان ہے.سوال :.نماز کس وقت تک قصر کی جاوے؟ الفضل ۲۲ را پریل ۱۹۱۵ء) جواب :.جب تک سفر ہو قصر کر سکتے ہیں اور اگر کہیں ٹھہر نا اور پندرہ دن سے کم ٹھہر نا ہوتو بھی قصر کریں اور اگر پندرہ دن سے زیادہ ٹھہرنا ہو تو پوری پڑھیں.(الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۱۶ء) میں نماز قصر کر کے پڑھاؤں گا اور گو مجھے یہاں آئے چودہ دن ہو گئے ہیں مگر چونکہ علم نہیں کہ کب واپس جانا ہوگا.اس لئے میں نماز قصر کر کے ہی پڑھاؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ گورداسپور میں دوماہ سے زیادہ عرصہ تک قصر نماز پڑھتے رہے کیونکہ آپ کو پتہ ہی نہیں تھا کہ کب واپس جانا ہوگا.الفضل ۲۵ رمئی ۱۹۴۴ء.نمبر ۱۲۱) سوال :.قادیان میں جولوگ بطور مہمان آتے ہیں کیا انہیں نماز قصر کرنی چاہئے؟ جواب:.انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ مسجدوں میں جاکر باجماعت نماز ادا کریں.اگر وہ باجماعت نماز پڑھنے سے رہ جاتے ہیں تو قصر کر سکتے ہیں.وہ قادیان میں جو سنتیں پڑھیں گے وہ نفل ہو جائیں گی.پس یہاں عبادت جتنی زیادہ سے زیادہ ہو سکے کرنی چاہئے.(الفضل، ار جولائی ۱۹۳۴ء نمبر ۵)
۹۵ مقیم مسافر امام کے ساتھ دورکعت پڑھے یاچار سوال :.اگر مسافر امام کے ساتھ نماز میں اس وقت شامل ہو جبکہ امام پہلی دو رکعتیں پڑھ چکا ہو تو کیا مسافر دو رکعت پڑھ کر امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دے یا چار پڑھے؟ جواب :.جب مسافر مقیم امام کے ساتھ شامل ہو تو اس کو چاروں رکعتیں ہی پڑھنی چاہئیں.(الفضل ۲۳ / جنوری ۱۹۲۲ء) نماز وتر ایک نماز وتر کہلاتی ہے.اس نماز کی بھی مغرب کی طرح تین رکعتیں ہیں.مگر فرق یہ ہے کہ مغرب کی نماز میں پہلے تشہد کے بعد جو تیسری رکعت پڑھی جاتی ہے اس میں سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کی زائد تلاوت نہیں کی جاتی لیکن وتر کی نماز میں تیسری رکعت میں بھی سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کی چند آیات یا کوئی چھوٹی سورۃ پڑھی جاتی ہے.(ترمذی جلد اول کتاب الصلواة ابواب الوتر ما جاء ما يقرء في الوتر) دوسرا فرق اس میں یہ ہے کہ نماز وتر کو مغرب کی نماز کے برخلاف دوحصوں میں بھی تقسیم کیا جاسکتا ہے.یعنی یہ بھی جائز ہے کہ دور کعتیں پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیر دیا جائے اور پھر ایک رکعت الگ پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیر دیا جائے.(نسائی کتاب قيام الليل وتطوع النهار باب كيف الوتر بثلاث و باب كيف الوتر بواحدة) ( تفسیر کبیر ، جلد اول، سورۃ بقرۃ صفحہ ۱۱۳) سوال :.حضرت مسیح موعود علیہ السلام وتر دورکعت پڑھ کر سلام پھیر تے تھے یا تین پڑھ کر ؟ جواب :.فرمایا.عموماً دو پڑھ کر.مولوی سید سرورشاہ صاحب نے کہا جس قدر واقف لوگوں سے اور روایتیں سنی ہیں ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ دو پڑھ کر سلام پھیر تے تھے
۹۶ پھر ایک پڑھتے.( الفضل ۱۲ جون ۱۹۲۲ء) سوال:.کیا وتر اس طرح پڑھے جاسکتے ہیں کہ تینوں رکھتیں اکٹھی پڑھی جائیں اور درمیان میں دورکعتوں کے بعد تشہد نہ بیٹھا جائے؟ جواب: وتر کا صحیح طریق یہ ہے کہ دورکعت پڑھ کر تشہد بیٹھے پھر سلام پھیر دے.پھر کھڑا ہوکر ایک رکعت پڑھے اور التحیات کے بعد سلام پھیرے یا دوسری رکعت کا تشہد پڑھ کر کھڑا ہو جائے اور تیسری رکعت پڑھے اور تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے.الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۳۵ء.جلد نمبر ۶۶ نمبر ۲۳) دعائے قنوت پڑھناضروری نہیں سوال :.کیا حضور دعائے قنوت کے قائل ہیں؟ جواب:.دعائے قنوت کا تو میں قائل ہوں لیکن اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ اس کا پڑھنا ضروری اور فرض ہے.میرے نزدیک دعائے قنوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک خاص زمانہ کا فعل ہے.جسے غلطی سے فرائض میں داخل کر لیا گیا تھا.( الفضل ۱/۸اپریل ۱۹۴۷ء مجلس عرفان ) ☆☆☆
۹۷ جمعہ کے ضروری احکام
۹۹ جمعہ کے ضروری احکام جمعه کے ضروری احکام إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ جمعہ کے دن جس وقت نماز کے لئے آواز آوے تو بیع چھوڑ دیا کرو.فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللهِ.اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ نماز کے لئے بھاگتے ہوئے جاؤ بلکہ یہ ہیں کہ کوشش کرو، سامان مہیا کرو، جمعہ کی نماز کے یہ سامان ہیں غسل کرنا واجب ہے.کپڑے بدلنا ، خوشبو لگانا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ میں دیکھا کہ بعض لوگوں کے میلے کپڑے ہیں تو فرمایا ایسے لوگ جمعہ کے لئے کپڑے بنوا رکھیں جن کو جمعہ کے دن پہن لیا کریں اور پھر اُتار کر رکھ دیا کریں.جمعہ کی نماز کے لئے وقت سے پہلے مسجد میں آنا چاہئے.جتنا کوئی پہلے آتا ہے اُتنا ہی زیادہ ثواب کا مستحق ہوتا ہے.حدیث میں آیا ہے کہ جو سب سے پہلے آوے اس کو ایک اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہے اور جو اس کے بعد آوے اس کو گائے کا، اسی طرح پانچ درجے مقررفرمائے ہیں.خطبہ میں بالکل خاموش رہنا چاہئے.بہت لوگ خطبہ میں بولتے ہیں.حدیثوں میں سخت منع ہے یہاں تک کہ اگر کوئی آدمی بول رہا ہو تو اس کو آواز سے منع بھی نہیں کرنا چاہئے بلکہ اشارہ سے روکنا چاہئے.بولنا مکروہ لکھا ہے کیونکہ خطبہ میں حرج ہوتا ہے.ایک شہر میں دوجمعے الفضل ۲۲ اپریل ۱۹۱۴ء صفحه ۲۲) سوال:.حلقہ شالا مارٹاؤن دارالذکر سے بہت دور ہے خصوصاً گرمیوں کے موسم میں عورتوں اور بچوں کو دارالذکر جا کر جمعہ پڑھنا مشکل ہوتا ہے.اگر ہم جمعہ اپنی مسجد میں ادا کر لیں تو کوئی حرج تو نہیں؟
جمعہ کے ضروری احکام جواب : کئی جگہ جمعہ پڑھنا جائز نہیں.فائل مسائل دینی 15.5.61/A-32) نماز جمعه دو آدمیوں سے ھوسکتی ھے فرمایا :.جمعہ گھر میں گھر کے آدمیوں کے ساتھ ہو سکتا ہے.سوال :.کیا دو آدمیوں کا بھی جمعہ ہوسکتا ہے؟ الفضل ۲۷ مئی ۱۹۱۵ ء ) جواب :.ہوسکتا ہے.( الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۲۲ء) سوال : بعض وقت آفیسر عین جمعہ کے وقت آجاتے ہیں اس وجہ سے نماز جمعہ نہیں پڑھ سکتے اس کے متعلق کیا حکم ہے.جواب :.ملازم اگر معذوری سے جمعہ نہ پڑھ سکے تو معذور ہے.سفرمیں نماز جمعه الفضل ۱۴ / اکتوبر ۱۹۱۵ء) سفر میں جمعہ کی نماز پڑھنا بھی جائز ہے اور چھوڑنا بھی جائز ہے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سفر میں پڑھتے بھی دیکھا ہے اور چھوڑتے بھی دیکھا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقدمہ پر گورداسپور تشریف لے گئے ہوئے تھے اور آپ نے فرمایا کہ آج جمعہ نہیں ہوگا کیونکہ ہم سفر پر ہیں.ایک صاحب جن کی طبیعت میں بے تکلفی ہے وہ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ سنا ہے حضور نے فرمایا آج جمعہ نہیں ہوگا.ے
1+1 جمعہ کے ضروری احکام حضرت خلیفتہ امیج الاول یوں تو ان دنوں گورداسپور میں ہی تھے مگر اس روز کسی کام کے لئے قادیان آئے تھے ان صاحب نے خیال کیا کہ شائد جمعہ نہ پڑھے جانے کا ارشاد آپ نے اسی لئے فرمایا ہے کہ مولوی صاحب یہاں نہیں ہیں اس لئے کہا حضور مجھے بھی جمعہ پڑھانا آتا ہے.آپ نے فرمایا ہاں آتا ہو گا مگر ہم تو سفر پر ہیں.ان صاحب نے کہا کہ حضور مجھے اچھی طرح جمعہ پڑھانا آتا ہے اور میں نے بہت دفعہ جمعہ پڑھایا بھی ہے.آپ نے جب دیکھا کہ ان صاحب کو جمعہ پڑھانے کی بہت خواہش ہے تو فرمایا کہ اچھا آج جمعہ ہوگا.تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سفر کے موقع پر جمعہ پڑھتے بھی دیکھا ہے اور چھوڑتے بھی اور جب سفر میں جمعہ پڑھا جائے تو میں پہلی سنتیں پڑھا کرتا ہوں اور میری رائے یہی ہے کہ وہ پڑھنی چاہئیں کیونکہ وہ عام سنن سے مختلف ہیں اور وہ جمعہ کے احترام کے طور پر ہیں.( الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۴۲ء.نمبر ۲۱) جمعه کی سنتیں، نماز جمعه، نمازِ جمع کرنے کی صورت میں پڑھنی چاھئیں مجھ سے ایک سوال کیا گیا ہے.ابھی جمعہ کی نماز کے وقت بعض دوستوں میں یہ اختلاف ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ ہے کہ اگر نمازیں جمع کی جائیں تو پہلی پچھلی اور درمیانی سنتیں معاف ہو جاتی ہیں.اس میں شک نہیں کہ جب ظہر و عصر جمع ہوں تو پہلی اور درمیانی سنتیں معاف ہوتی ہیں.یا اگر نماز مغرب و عشاء جمع ہوں تو درمیانی اور آخری سنتیں معاف ہو جائیں گی.لیکن اختلاف یہ کیا گیا ہے کہ ایک دوست نے بیان کیا کہ وہ ایک سفر میں میرے ساتھ تھے میں نے جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھا ئیں اور جمعہ کی پہلی سنتیں پڑھیں.یہ دونوں باتیں صحیح ہیں.نمازوں کے جمع ہونے کی صورت میں سنتیں معاف ہو جاتی ہیں.یہ
۱۰۲ جمعہ کے ضروری احکام بات بھی صحیح ہے اور یہ بھی صحیح کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز سے قبل جوسنتیں پڑھا کرتے تھے، میں نے وہ سفر میں پڑھیں اور پڑھتا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کی نماز سے پہلے جو نوافل پڑھے جاتے ہیں ان کو دراصل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے اعزاز میں قائم فرمایا ہے.جب سفر میں جمعہ پڑھا جائے تو میں پہلی سنتیں پڑھا کرتا ہوں اور میری رائے یہی ہے کہ وہ پڑھنی چاہئیں کیونکہ وہ عام سنن سے مختلف ہیں اور وہ جمعہ کے احترام کے طور پر ہیں.خطبه مختصرهونا چاهئے الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۴۲ء.نمبر ۲۱) گورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خطبہ کا یہی طریق تھا کہ جمعہ کی نماز جو دورکعت ہوتی ہے اس کی نسبت مختصر ہوتا ہے مگر اس زمانہ کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر خطبہ لمبا کیا جاتا ہے.مختصر خطبہ پڑھنا سنت یا فرض نہیں کیونکہ عرب میں رواج تھا کہ بڑی سے بڑی نصیحت کو چھوٹے سے چھوٹے فقرے میں ادا کرتے تھے اور لمبی سے لمبی بات کو ضرب المثل کے طور پر بیان کر دیتے تھے.ہمارے ملک میں لوگ لمبی گفتگو سے مطلب سمجھتے ہیں مگر عرب میں کوشش کی جاتی تھی کہ وسیع مضمون کو دو جملوں میں ادا کیا جائے.چونکہ خطبہ سے غرض اصلاح ہے اس لیے ملک کی حالت کو مدنظر رکھ کر لمبا خطبہ بیان کرنا پڑتا ہے.مگر جس طرح چھوٹا خطبہ پڑھنا فرض نہیں اسی طرح لمبا خطبہ پڑھنا بھی فرض نہیں.الفضل اار جنوری ۱۹۲۴ء.نمبر ۵۴ - جلد۱۱) خطبه کھڑے ہو کر دینا چاهئے اسلامی سنت تو یہی ہے کہ خطبہ کھڑے ہو کر پڑھا جائے مگر میں کچھ دنوں سے بیمار ہوں
کھڑا نہیں ہوسکتا.۱۰۳ جمعہ کے ضروری احکام (حضور اس وقت کرسی پر بیٹھے تھے ) (الفضل یکم اپریل ۱۹۱۵ء) چونکہ مجھے نقرس کا دورہ ہے اس لیے میں خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ابتداء میں یہ حکم تھا کہ جب امام کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھا سکے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھا کریں لیکن بعد میں خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت آپ نے اس حکم کو بدل دیا اور فرمایا کہ اگر امام کسی معذوری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی نہ بیٹھیں بلکہ وہ کھڑے ہوکر ہی نماز ادا کریں.پس چونکہ میں کھڑے ہو کر نما زنہیں پڑھا سکتا اس لیے میں بیٹھ کر نماز پڑھاؤں گا اور دوست کھڑے ہو کر نماز ادا کریں.( الفضل ۳ جولائی ۱۹۵۱ء) خطبه کوئی اور دے اور نماز کوئی اور پڑھائے قادیان نبوت ۲۷ ہش ۱۳۲۱...آج حضور نے خطبہ جمعہ پڑھا جس کے لیے حضور آرام کرسی پر بیٹھ کر جسے چند دوستوں نے اٹھایا ہوا تھا مسجد میں تشریف لائے اور بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرمایا.نماز حضور نے بیٹھ کر پڑھی جو حضرت مولوی شیر علی صاحب نے پڑھائی.(الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۴۳ء صفحہ نمبر ) قادیان ۲۶ صلح هش ۱۳۲۴ - - آج مختصر خطبہ جمعہ حضور نے خود پڑھا مگر نماز حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے پڑھائی.(الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۴۵ء.صفحہ نمبرا)
۱۰۴ جمعہ کے ضروری احکام خطبه ثانیه عربی کا پڑھنا ضروری ھے سوال :.نماز جمعہ کے بعد دو خطبے ہوتے ہیں ایک تو لمباجو اردو یا جونسی زبان میں چاہیں پڑھیں.دوسرا جوعربی میں ہوتا ہے کیا دوسرا خطبہ پڑھنے کی بجائے ہم دعائیں یا صرف درود شریف پڑھ سکتے ہیں.جواب :.دوسرا خطبہ وہی مسنون عربی کا ہی پڑھنا ضروری ہے وہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا ہے.الفضل ۱۰ را گست ۱۹۵۱ء) خطبه جمعه کے دوران بولنا فرمایا.کوئی شخص خطبہ کے دوران بولا تھا.اسے جو کہنا ہے اب کہہ لے.عرض کیا گیا کہ کسی نے بلند آواز سے دعا کی تھی.فرمایا :.جب امام بلائے تو بولنا جائز ہے ورنہ خطبہ کے دوران میں بولنا سخت غلطی اور گناہ عظیم ہے.اگر دعا کرنی ہو تو آہستگی سے کرنی چاہئے کہ دوسرے کو یہ دھوکہ نہ لگے کہ کوئی بول رہا ہے بعض جگہوں سے اطلاع آتی ہے کہ لوگ خطبہ کے دوران میں بول پڑتے ہیں یہ غلطی ہے اور گناہ ہے اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے.(الفضل ۲۶.۲۹ جون ۱۹۱۷ء، جلد نمبر ۹، صفحہ نمبر ۱۰۲۰۱۰) نماز کسوف جمعہ کے روز 12 6 بجے کے قریب سورج گرہن ہوا نما ز کسوف نہیں پڑھی گئی.استغفار اور صدقہ کے ارشاد کی تعمیل ہوئی.(الفضل ۲۳ اگست ۱۹۱۴ ء صفحه ۱ )
۱۰۵ عید اور جمعه اگر اکھٹے ھو جائیں جمعہ کے ضروری احکام شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ عید اور جمعہ اکٹھے ہو جائیں تو جائز ہے کہ جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھ لی جائے.لیکن یہ بھی جائز ہے کہ عید اور جمعہ دونوں پڑھ لیے جائیں.کیونکہ ہماری شریعت نے ہرامر میں سہولت کو مدنظر رکھا ہے.چونکہ عام نمازیں اپنے اپنے محلوں میں ہوتی ہیں.لیکن جمعہ کی نماز میں سارے شہر کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اسی طرح عید کی نماز میں بھی سب لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک دن میں دو ایسے اجتماع جن میں دور دور سے لوگ آ کر شامل ہوں مشکلات پیدا کر سکتا ہے اس لیے شریعت نے اجازت دی ہے کہ اگر لوگ برداشت نہ کر سکیں تو جمعہ کی بجائے ظہر پڑھ لیں.بہر حال اصل غرض شریعت کی یہ ہے کہ مسلمان اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ عرصہ کے لیے اکٹھے بیٹھ سکیں کیونکہ اسلام صرف دل کی صفائی کے لیے نہیں آیا.اسلام قومی ترقی اور معاشرت کے ارتقاء کے لیے بھی آیا ہے اور قوم اور معاشرت کا پتہ بغیر اجتماع میں شامل ہونے کے نہیں لگ سکتا.المصلح کرائی اور کو بر۱۹۵۳) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا :.جب جمعہ اور عید جمع ہو جائیں تو اجازت ہے کہ جو لوگ چاہیں جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ادا کر لیں مگر فر ما یا ہم تو جمعہ ہی پڑھیں گے.کل بھی میرے پاس ایک مفتی صاحب کا فتویٰ آیا تھا کہ بعض دوست کہتے ہیں اگر جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ہو جائے تو قربانیوں میں ہم کو سہولت ہو جائے گی اور انہوں نے اس قسم کی حدیثیں لکھ کر ساتھ بھجوادی تھیں.میں نے ان کو یہی جواب دیا تھا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں جمعہ اور عید جب جمع ہو جائیں تو جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھنے کی اجازت ہے مگر ہم تو وہی کریں گے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اگر کوئی جمعہ کی بجائے ظہر پڑھنا
1+4 جمعہ کے ضروری احکام چاہے تو اسے اجازت ہے مگر ہم تو جمعہ ہی پڑھیں گے.میں بھی یہی کہتا ہوں جو شخص چاہے آج جمعہ کی بجائے ظہر پڑھ لے مگر جو ظہر پڑھنا چاہتا ہے وہ مجھے کیوں مجبور کرتا ہے کہ میں بھی جمعہ نہ پڑھوں میں تو وہی کروں گا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم جمعہ ہی پڑھیں گے.ہمارا رب کیا سخی ہے کہ اس نے ہمیں دو دو (عید) دیں.یعنی جمعہ بھی آیا اور عید الاضحیہ بھی آئی اور اس طرح دو عید میں خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے جمع کر دیں.اب جس کو دو دو بچپڑی ہوئی چپاتیاں ملیں وہ ایک کو رد کیوں کرے گا وہ تو دونوں لے گا.سوائے اس کے کہ اسے کوئی خاص مجبوری پیش آ جائے اور اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہے کہ اگر کوئی مجبور ہو کر ظہر کی نماز پڑھ لے اور جمعہ نہ پڑھے تو دوسرے کو نہیں چاہئے کہ اس پر طعن کرے اور بعض لوگ ایسے ہوں جنہیں دونوں نمازیں ادا کرنے کی توفیق ہو تو دوسرے کو نہیں چاہئے کہ ان پر اعتراض کرے اور کہے کہ انہوں نے رخصت سے فائدہ نہ اٹھایا.( الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۳۸ء) میں نے عید کے خطبہ میں بیان کیا تھا کہ اگر عید جمعہ کے دن ہو تو اگر چہ نماز ظہر ادا کرنی بھی جائز ہے مگر میں جمعہ ہی پڑھوں گا.جمعہ کا اجتماع بھی دراصل ایک عید ہی ہے اور اس میں دوسبق دیئے گئے ہیں ایک تو قومی اتحاد کی طرف اس میں توجہ دلائی گئی ہے دوسرے تبلیغ کی طرف.خطبہ کے لیے جمعہ کی نماز میں ظہر کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے دو رکعت کی کمی کر دی.خطبه جمعه ۱۱ار فروری ۱۹۳۹ء ( الفضل ۱۹ار فروری ۱۹۳۹ء) عید اور جمعہ کا اجتماع شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر عید اور جمعہ اکٹھے ہو جائیں تو جائز ہے کہ جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھ لی جائے.لیکن یہ بھی جائز ہے کہ عید اور جمعہ دونوں پڑھ لیے جائیں کیونکہ ہماری
۱۰۷ شریعت نے ہر امر میں سہولت کو مدنظر رکھا ہے.چونکہ عام نمازیں اپنے اپنے محلوں میں ہوتی ہیں.لیکن جمعہ کی نماز میں سارے شہر کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اسی طرح عید کی نماز میں بھی سب لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک دن میں دو ایسے اجتماع جن میں دور دور سے لوگ آ کر شامل ہوں مشکلات پیدا کر سکتا ہے اس لیے شریعت نے اجازت دی ہے کہ اگر لوگ برداشت نہ کر سکیں تو جمعہ کی بجائے ظہر پڑھ لیں.فیصلہ مجلس افتاء جسے حضور نے منظور فرمایا (فیصلہ نمبر ۴-۹/۴/۱۹۶۲)
1+9 قربانی کے مسائل
قربانی کے مسائل قربانی کے مسائل قربانی کے جانور کے لیے یہ شرط ہے کہ بکرے وغیرہ دوسال کے ہوں.دنبہ اس سے چھوٹا بھی قربانی میں دیا جا سکتا ہے.قربانی کے جانور میں نقص نہیں ہونا چاہئے لنگڑا نہ ہو.بیمار نہ ہو.سینگ ٹوٹا ہوا نہ ہو یعنی سینگ بالکل ہی نہ ٹوٹ گیا ہو.اگر خول اوپر سے اتر گیا ہواور اس کا مغز سلامت ہو تو وہ ہو سکتا ہے کان کٹا نہ ہولیکن اگر کان زیادہ کٹا ہوا نہ ہو تو جائز ہے.قربانی آج اور کل اور پرسوں کے دن ہو سکتی ہے لیکن سفر ہو یا کوئی اور مشکل ہو تو حضرت صاحب کا بھی اور بعض بزرگوں کا بھی خیال ہے کہ اس سارے مہینہ میں قربانی ہو سکتی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ ان دنوں میں تیسرے دن تک تکبیر تحمید کیا کرتے تھے اور اس کے مختلف کلمات ہیں اصل غرض تکبیر و حمید ہے خواہ کسی طرح ہو اور اس کے متعلق دستور تھا کہ جب مسلمانوں کی جماعتیں ایک دوسری سے ملتی تھیں تو تکبیر کہتی تھیں.مسلمان جب ایک دوسرے کو دیکھتے تو تکبیر کہتے.اٹھتے بیٹھتے تکبیر کہتے.کام میں لگتے تو تکبیر کہتے لیکن ہمارے ملک میں یہ رائج ہے کہ محض نماز کے بعد کہتے ہیں اس خاص صورت میں کوئی ثابت نہیں اور یہ غلط طریق رائج ہو گیا.باقی یہ کہ تکبیر کس طرح ہو یہ بات انسان کی اپنی حالت پر منحصر ہے جس کا دل زور سے تکبیر کہنے کو چاہے وہ زور سے کہے جس کا آہستہ وہ آہستہ مگر آواز کلنی چاہئے.الفضل ۱۷ اگست ۱۹۲۲ء ) ( الفضل ۱۱ ستمبر ۱۹۵۱ء) قربانی کا فلسفہ اور حکمت لَنْ يَّنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَا ؤُهَا قربانیوں میں یہ حکمت نہیں کہ اُن کا گوشت یا اُن کا خون خدا اللہ تعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ ان میں حکمت یہ ہے کہ ان کی وجہ سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور وہ تقوی خدا تعالیٰ کو پسند ہے.بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ کیا خدا تعالیٰ نعوذ باللہ ہندوؤں کے دیوتاؤں کی طرح خون کا پیاسا اور
۱۱۲ قربانی کے مسائل گوشت کا بھوکا ہے کہ وہ جانوروں کی قربانی کرنے کا حکم دیتا ہے اور اُن کی جان کی قربانی کو شوق سے قبول فرماتا ہے اور قربانی کرنے والوں کو بہشت کی بشارت دیتا ہے.اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ دیا ہے کہ قربانیوں میں یہ حکمت نہیں ہے کہ ان کا گوشت یا اُن کا خون خدا تعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ اس میں حکمت یہ ہے کہ ان کی وجہ سے انسانی قلب میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور وہ تقویٰ خدا تعالیٰ کو پسند ہے.پس وہ لوگ جو بکرے یا اونٹ یا گائے کی قربانی کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو پا لیا وہ غلطی کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ یہ کوئی چیز نہیں کہ خود ہی جانور ذبح کیا اور خود ہی کھا لیا.اس سے اللہ تعالیٰ کو کیا.یہ تو تصویری زبان میں ایک حقیقت کا اظہار ہے جس کے اندر بڑی گہری حکمت پوشیدہ ہے جیسے مصور ہمیشہ تصویر میں بناتے ہیں مگر ان کی غرض صرف تصویر بنانا نہیں ہوتی بلکہ ان کے ذریعہ قوم کے سامنے بعض اہم مضامین رکھنے ہوتے ہیں.اسی طرح یہ ظاہری قربانی بھی ایک تصویری زبان ہے جس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ جانور ذبح کرنے والا اپنے نفس کی قربانی پیش کرنے کے لیے تیار ہے پس جو شخص قربانی کرتا ہے وہ گویا اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کر دوں گا.اس کے بعد دوسرا قدم یہ ہوتا ہے کہ انسان جس امر کا تصویری زبان میں اقرار کرے عملاً بھی اسے پورا کر کے دکھاوے کیونکہ محض نقل جس کے ساتھ حقیقت نہ ہو کسی عزت کا موجب نہیں ہوسکتی.( تفسیر کبیر - جلد ششم سورة الحج زیر آیت لَنْ يُنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَا ؤُهَا صفحه ۵۷) قربانی،مسائل مسائل متعلقه ذى الحجه محکم حضرت خلیفہ المسیح الثانی 1.بعد نماز عید قربانی کرنی چاہئے.قربانی کا وقت عید کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے اور بارہویں تک اتفاقا ختم ہوتا ہے لیکن بعض کے نزدیک تیرھویں تاریخ کے عصر تک ہے.
قربانی کے مسائل 2.قربانی سنت موکدہ ہے جس شخص میں قربانی دینے کی طاقت ہو وہ ضرور کرے.3 قربانی کا گوشت خواہ خود استعمال کرے چاہے صدقہ کرے اور اس کی کھال اگر گھر میں رکھے تو ایسی چیز تیار کرائے جس کو عام استعمال کر سکیں.احمدیوں کو صدرانجمن احمد یہ قادیان میں کھال یا اس کی قیمت صدقات میں ارسال کرنا چاہئے.4.اگر دوسالہ مینڈھایا بکرانہ ملے تو ایک سالہ بھی ہوسکتا ہے اور دنبہ سال سے کم کا بھی ہوتب بھی جائز ہے.5.جو لوگ قربانی کرنے کا ارادہ کریں ان کو چاہئے کہ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے لے کر قربانی کرنے تک حجامت نہ کرائیں.اس امر کی طرف ہماری جماعت کو خاص توجہ کرنی چاہئے کیونکہ عام لوگوں میں اس سنت پر عمل کرنا مفقود ہو گیا ہے.الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۱۷ء جلد ۵ صفحه ۲۴) عید کے احکام یہ ہیں کہ ہر ایک خاندان کی طرف سے بکری کی قربانی ہوسکتی ہے اگر کسی میں وسعت ہو تو ہر شخص بھی کر سکتا ہے ورنہ ایک خاندان کی طرف سے ایک قربانی کافی ہے.یہاں خاندان سے تمام دور ونزدیک کے رشتہ دار مراد نہیں بلکہ خاندان کے معنے ایک شخص کے بیوی بچے ہیں اگر کسی شخص کے لڑکے الگ الگ ہیں اور اپنا علیحدہ کماتے ہیں تو ان پر علیحدہ قربانی فرض ہے.اگر بیویاں آسودہ ہوں اور اپنے خاوند سے علیحدہ ان کے ذرائع آمد ہوں تو وہ علیحدہ قربانی کر سکتی ہیں ورنہ ایک قربانی کافی ہے.بکرے کی قربانی ایک آدمی کے لیے ہے اور گائے اور اونٹ کی قربانی میں سات آدمی شامل ہو سکتے ہیں.ائمہ کا خیال ہے ایک گھر کے لیے ایک حصہ کافی ہے اگر گھر کے سارے آدمی سات حصہ ڈال لیں تو وہ بھی ہوسکتا ہے ورنہ ایک گھر کی طرف سے ایک حصہ بھی کافی ہے.الفضل ۱۷ اگست ۱۹۲۲ء جلد ۱۰، صفحہ ۱۳.خطبہ عید الاضحی)
۱۱۴ قربانی کے مسائل قربانیوں کے گوشت قربانیوں کے گوشت کے متعلق یہ حکم ہے کہ یہ صدقہ نہیں ہوتا.چاہئے کہ خود کھا ئیں دوستوں کو دیں.چاہے سکھا بھی لیں.امیر غریبوں کو دیں.غریب امیروں کو.اس سے محبت بڑھتی ہے لیکن محض امیروں کو دینا اسلام کو قطع کرنا ہے اور محض غریبوں کو دینا اور امیروں کو نہ دینا اسلام میں درست نہیں.امیروں کے غریبوں اور غریبوں کے امیروں کو دینے سے محبت بڑھتی ہے اور مذہب کی غرض جو محبت پھیلانا ہے پوری ہوتی ہے.الفضل ۱۷ اگست ۱۹۲۲ء ۱۱۷ارستمبر ۱۹۵۱ء.جلد نمبر ۱۰ نمبر ۱۳) سوال : کیا قربانی کا گوشت ہندو یا عیسائی یعنی غیر مذاہب کے دوستوں کو دینا جائز ہے یا نہیں؟ جواب :.خواہ کوئی ہندو ہو یا عیسائی تحفہ دینا جائز ہے.( الفضل یکم جولائی ۱۹۱۵ء.جلد نمبر۳.نمبر۴ ) سوال :.ایک شخص نے قربانی کا گوشت گھر میں رکھ کر اس کی بڑیاں بنالیں کیا جائز ہے؟ جواب: منع تو نہیں.حدیثوں میں اس کا ذکر آتا ہے مگر بہتر یہی ہے کہ مسکینوں کو دیا جائے.الفضل ۱۹؍ دسمبر ۱۹۱۵ء.جلد نمبر ۳.نمبر ۷۱ ) قربانی اور صدقہ میں فرق ابرا نہیمی سنت کے ماتحت مسلمانوں کو بھی قربانی کا حکم ہے اور اس پر مسلمان ہمیشہ سے عمل کرتے چلے آئے ہیں مگر چونکہ اس رؤیا کے دونوں پہلو ہیں مندر بھی اور مبشر بھی.اسی وجہ سے اس قربانی اور صدقہ میں فرق ہے.صدقہ کا گوشت انسان کو خود کھانا جائز نہیں.مگر اس قربانی کا گوشت انسان خود بھی استعمال کر سکتا ہے اور اپنے دوستوں اور غرباء ومساکین میں بھی تقسیم کیا جاسکتا ہے.الفضل ۲۰ ستمبر ۱۹۱۹ء.خطبات عیدین صفحه ۷۲ )
۱۱۵ سوال :.کیا دوسروں کی طرف سے قربانی ہوسکتی ہے؟ جواب :.کئی لوگ غریب ہوتے ہیں اس لئے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ کوئی شخص قربانی سے محروم نہ رہ جائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ غرباء امت کی طرف سے ایک قربانی کر دیا کرتے تھے.اس طریق کے مطابق میرا قاعدہ یہ ہے کہ اپنی جماعت کے غرباء کی طرف سے ایک قربانی کر دیا کرتا ہوں.(الفضل ۱۷ اگست ۱۹۲۲ء) عقیقه عقیقہ کے واسطے تاریخ ساتویں مقرر ہے.تاخیر کرنی ٹھیک نہیں.ہاں اگر کوئی عذرِ ضروری ہو تو جائز ہے.گوشت کے متعلق آدمی کو اختیار ہے کہ جس طرح چاہے عمل میں لاوے.اصل غرض خون بہانا ہے.سوال :.عقیقہ کے بکرے کی عمر کتنی ہو؟ جواب :.جو قربانی کے جانور کے لئے ہیں ( یعنی میسہ دوندا ) یہ بھی یادر ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ.( الفضل ۱۸ / مارچ ۱۹۱۶ء) سوال :.کیا عقیقہ میں گائے جائز ہے؟ الفضل یکم اپریل ۱۹۱۵ء.جلد نمبر۲.نمبر ۱۱۹) جواب: فرمایا.اس کی ضرورت ہی کیا ہے.کیا بکر امل نہیں سکتا.کئی چیز میں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی ذات میں رواج اور سنت کا رنگ رکھتی ہیں مثلاً عقیقہ ہی ہے اس میں لڑکے کے لئے دو بکرے اور لڑکی کے لئے ایک قربانی رکھی گئی ہے اس میں اس لحاظ سے کہ بکرے ذبح کئے جائیں کوئی خاص حکمت تو نظر نہیں آتی کیونکہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کوئی اس مال سے غرباء کو کپڑے لے دے یا نقد روپیہ ہی
دے دے.مگر شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی.یہ ایک رسم کی صورت اختیار کر چکی ہے اور شریعت ایسی رسموں کو برقرار رکھتی ہے.اس لئے اسی پر تعامل چاہیئے.( الفضل ۷ نومبر ۱۹۴۶ء.نمبر ۲۵۹)
112 نماز جنازه
۱۱۹ نماز جنازه مسئله جنازه مجلس افتاء نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خط بجواب جناب مولا بخش صاحب سیالکوٹی مورخه ۲۳/۲/۱۹۰۲ ( جس کا متن آخر میں درج ہے) پر غور کیا ہے اس خط کے علاوہ باقی سب حوالہ جات مسئلہ جنازہ کی حقیقت مصنفہ مرزا بشیر احمد صاحب میں موجود ہیں ان کو بھی دوبارہ دیکھا گیا.مجلس کے نزدیک اس خط میں مشتبہ الحال شخص سے مراد ایسا شخص ہے جو اگر چہ با قاعدہ طور پر جماعت احمدیہ میں داخل نہ ہو مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مکذب بھی نہ ہو بلکہ احمدیوں سے میل جول رکھتا ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق ان کی ہاں میں ہاں ملا کر ایک گونہ تصدیق کرتا ہو ایسے شخص کے جنازہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظاہراً کوئی حرج نہیں سمجھا.اگر چہ انقطاع کو بہتر قرار دیا ہے.جماعت احمدیہ کا عمل ایسے شخص کے بارہ میں بھی حضور کے ارشاد کے آخری حصہ پر ہے.یعنی انقطاع کو بہر حال بہتر خیال کیا گیا ہے.مناسب حالات میں پہلے حصے پر بھی عمل کرنے میں کچھ حرج نہیں (جس کی اجازت لی جاسکتی ہے بشرطیکہ امام احمد یوں میں سے ہو.اگر نماز جنازہ میں امام احمدی نہ ہوسکتا ہو تو پھر ایسے شخص کے جنازہ کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا.ا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خط مؤرخہ ۲۳/۲/۱۹۰۲ جو شخص صریح گالیاں دینے والا ، کافر کہنے والا اور سخت مکذب ہے اس کا جنازہ تو کسی طرح درست نہیں مگر جس شخص کا حال مشتبہ ہے گویا منافقوں کے رنگ میں ہے.اُس کے لئے کچھ ظاہراً حرج نہیں ہے کیونکہ جنازہ صرف دعا ہے اور انقطاع بہر حال بہتر ہے.فیصلہ مجلس افتاء جسے حضور نے منظور فرمایا (فیصلہ نمبر ۱۱-۲۲/۷/۱۹۶۳)
۱۲۰ نماز جنازه احمدیت.بیعت کی اہمیت ایک صاحب نے لکھا لوگ مجھے کہتے ہیں اگر اس جماعت میں بیعت کی اور مرگیا تو یہاں پر کوئی نماز جنازہ بھی نہ پڑھے گا ؟ جواب :.فرمایا.اسے لکھ دو جب حق مل گیا تو جنازہ نہ پڑھا جاوے (وہ بھی اہل باطل کی طرف سے) تو بھی کچھ حرج نہیں.غیر مبائع کاجنازه (الفضل ۲۵ / مارچ ۱۹۱۵ء نمبر ۱۱۸) سوال:.غیر مبائع جس کا جنازہ غیر احمدی نہ پڑھیں تو کیا ہم احمدی اس کا جنازہ پڑھ سکتے ہیں؟ جواب :.اگر کسی جگہ پر کوئی غیر مبائع حضرت صاحب کی نبوت کا صاف لفظوں میں منکر نہ ہو بلکہ تاویل سے کام لیتا ہو اور بد گونہ ہو تو ہماری جماعت کو چاہئے کہ اس کا جنازہ پڑھ دیا کریں.جبکہ اس کے ہم خیال جنازہ پڑھنے والے نہ ہوں یا نہ پڑھیں یا کسی کا رشتہ دار یا قریبی نہ ہو.الفضل ۱۹ رجون ۱۹۱۷ء.نمبر ۱۰۰) سوال :.کیا غیر مبائعین احمدی اصحاب کا جنازہ پڑھ لینا جائز ہے یا نہیں؟ جواب :.جائز ہے بلکہ اگر کوئی اور جنازہ پڑھنے والا نہ ہو تو واجب ہے.( الفضل ۲۲ مئی ۱۹۲۲ء.نمبر ۹۱) سوال:.میرے بہنوئی ڈاکٹر ایس ایم عبداللہ انچارج دوو کنگ مشن لندن گو غیر مبائع تھے مگر بے حد شریف الطبع اور حضور کا ذکر نہایت ادب اور احترام سے کرنے والے.کیا میں ان کا جنازہ غائبانہ مولوی صدرالدین صاحب یا کسی غیر مبائع کے پیچھے پڑھ لوں یا الگ پڑھ لوں؟ جواب :.مولوی صدرالدین صاحب غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں اس لیے ان کے
۱۲۱ نماز جنازه پیچھے نہ پڑھیں الگ بے شک پڑھ لیں.میں نے بھی شیخ رحمت اللہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کا جنازہ پڑھا تھا.( فائل مسائل دینی 1.5.1953/RP 3684/26.5.56)(DP 957/28.5.56)(32-A) غیر احمدی بچے کا جنازہ سوال :.ایک صاحب نے عرض کیا کہ غیر مبائع کہتے ہیں کہ غیر احمدی بچے کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے.وہ تو معصوم ہوتا ہے اور کیا یہ مکن نہیں کہ وہ بچہ جوان ہو کر احمدی ہوتا ؟ جواب :.فرمایا.جس طرح عیسائی کے بچے کا جنازہ نہیں پڑھا جا سکتا اگر چہ وہ معصوم ہی ہوتا ہے اسی طرح ایک غیر احمدی بچے کا بھی جنازہ نہیں پڑھا جا سکتا.جس طرح ایک غیر احمدی بچے کے متعلق امکان ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر احمدی ہوتا اسی طرح کا امکان ایک عیسائی کے بچے کے متعلق بھی ہوسکتا ہے.(الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۲۳ء.نمبر ۳۲) غیر احمدیوں کا جنازہ کہا جاتا ہے کہ فلاں غیر احمدی کا جنازہ حضرت مسیح موعود نے پڑھایا تھا.ممکن ہے آپ نے کسی کی درخواست پر پڑھایا ہو.لیکن کوئی خدا کی قسم کھا کر کہہ دے کہ میں نے حضرت مسیح موعود کو کہا تھا کہ فلاں غیر احمدی فوت ہو گیا ہے آپ اس کا جنازہ پڑھ دیں.اصل بات یہ ہے کہ آپ کو کہا گیا کہ فلاں کا جنازہ پڑھ دیں اور آپ نے یہ سمجھ کر کہ وہ احمدی ہوگا پڑھ دیا.اس طرح ہوا ہوگا.میرے متعلق تو سب جانتے ہیں کہ میں کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں سمجھتا لیکن مجھے بھی اس طرح کی ایک بات پیش آئی تھی اور وہ یہ کہ یہاں ایک طالبعلم ہے اس نے مجھے کہا کہ میری والدہ فوت ہوگئی ہے اس کا جنازہ پڑھ دیں.میں نے پڑھ دیا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ غیر احمدی تھی.وہ لڑکا مجھ سے اپنی والدہ کے لیے دعا بھی کراتا رہا کہ وہ احمدی ہو جائے لیکن اس وقت مجھے یادنہ رہا.اسی طرح اگر حضرت مسیح موعود
۱۲۲ نماز جنازه علیہ السلام نے کسی کا جنازہ پڑھ دیا تو وہ ہمارے لیے حجت نہیں ہے.ہاں اگر چند معتبر آدمی حلفیہ بیان کریں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود کو کہا تھا کہ فلاں غیر احمدی فوت ہو گیا ہے آپ اس کا جنازہ پڑھ دیں اور پھر آپ نے پڑھ دیا تو ہم مان لیں گے.کیا کوئی ایسے شاہد ہیں.پس جب تک کوئی اس طرح نہ کرے یہ بات ثابت نہیں ہوسکتی کہ آپ نے کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز قرار دیا ہے.اور ہمارے پاس غیر احمدی کا جنازہ نہ پڑھنے کے متعلق ایک بڑا ثبوت ہے اور وہ یہ کہ یہاں حضرت مسیح موعود کے اپنے بیٹے کی لاش لائی گئی اور آپ کو جنازہ پڑھنے کے لئے کہا گیا تو آپ نے انکار کر دیا.پھر سرسید کے جنازہ پڑھنے کے متعلق مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کا خط موجود ہے کہ آپ نے اس کا جنازہ نہیں پڑھا.کیا وہ آپ کو کافر کہتے تھے ہر گز نہیں.ان کا تو مذہب ہی یہ تھا کہ کوئی کافر نہیں ہے جب ان کے جنازہ کے متعلق خط لکھا گیا تو جیسا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مندرجہ ذیل خط میں ایک دوست کو تحریر فرماتے ہیں آپ نے اس پر جنگی کا اظہار فرمایا:.متوفی کی خبر وفات سن کر خاموش رہے.ہماری لاہور جماعت نے متفقانہ زورشور سے عرضداشت بھیجی کہ وہاں جنازہ پڑھا جائے اور پھر نوٹس دیا جائے کہ سب لوگ جماعت کے ہر شہر میں اس تقلید پر جنازہ پڑھا جائے.اور اس سے نوجوانوں کو یقین ہوگا کہ ہمارا فرقہ صلح گل فرقہ ہے.اس پر حضرت صاحب کا چہرہ سرخ ہو گیا.فرمایا اور لوگ نفاق سے کوئی کارروائی کریں تو بچ بھی جائیں مگر ہم پر تو ضرور غضب الہی نازل ہو.اور فرمایا ہم تو ایک محرک کے تحت میں ہیں.بے اس کی تحریک کے کچھ نہیں کر سکتے نہ ہم کوئی کلمہ بد اس کے حق میں کہتے ہیں اور نہ کچھ اور کرتے ہیں.تفویض الی اللہ کرتے ہیں.فرمایا جس تبدیلی کے ہم منتظر بیٹھے ہیں اگر ساری دنیا خوش ہو جائے اور ایک خدا خوش نہ ہو تو کبھی ہم مقصود حاصل نہیں کر سکتے.“ 66 پس ہم کس طرح کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز سمجھ سکتے ہیں.الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۱۵ء) متفرق امور صفحه ۴۲۴ ۴۲۳.انوار العلوم جلد ۳)
۱۲۳ نماز جنازه ایک سوال غیر احمدی کے جنازہ پڑھنے کے متعلق کیا جاتا ہے.اس میں ایک یہ مشکل پیش کی جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض صورتوں میں جنازہ پڑھنے کی اجازت دی ہے.اس میں شک نہیں کہ بعض حوالے ایسے ہیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے اور ایک خط بھی ملا ہے جس پر غور کیا جائے گا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عمل اس کے برخلاف ہے.چنانچہ آپ کا ایک بیٹا فوت ہو گیا جو آپ کی زبانی طور پر تصدیق بھی کرتا تھا جب وہ مرا تو مجھے یاد ہے آپ ٹہلتے جاتے اور فرماتے کہ اس نے کبھی شرارت نہ کی تھی بلکہ میرا فرمانبردار ہی رہا ہے.ایک دفعہ میں سخت بیمار ہوا اور شدت مرض میں مجھے غش آگیا جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ میرے پاس کھڑا نہایت درد سے رورہا تھا.آپ یہ بھی فرماتے کہ یہ میری بڑی عزت کیا کرتا تھا لیکن آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا.حالانکہ وہ اتنا فرمانبردار تھا کہ بعض احمدی بھی اتنے نہ ہوں گے.قرآن شریف سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص جو بظاہر اسلام لے آیا ہے لیکن یقینی طور پر اس کے دل کا کفر معلوم ہو گیا ہے تو اس کا جنازہ بھی جائز نہیں.پھر غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے.(انوار العلوم جلد ۳.انوار خلافت صفحه ۱۴۸، ۱۴۹) اگر یہ کہا جائے کہ کسی ایسی جگہ جہاں تبلیغ نہیں پہنچی کوئی مرا ہو اور اس کے مر چکنے کے بعد کوئی احمدی وہاں پہنچے تو وہ جنازہ کے متعلق کیا کرے؟ اس کے متعلق یہ ہے کہ ہم تو ظاہر پر ہی نظر رکھتے ہیں چونکہ وہ ایسی حالت میں مرا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نبی اور رسول کی پہچان اسے نصیب نہیں ہوئی اس لئے ہم اس کا جنازہ نہیں پڑھیں گے.اگر وہ شخص خدا کے نزدیک بخشش کا مستحق ہے تو ہمارے جنازہ پڑھے بغیر ہی خدا اُسے بخش دے گا.اور اگر وہ بخشش کے لائق نہیں تو ہمارے جنازہ پڑھنے سے بھی نہیں بخشا جائے گا.پس جہاں ہم ہیں وہاں
۱۲۴ نماز جنازه احمدیت کی تبلیغ ہوگی.اس لئے کسی کے جنازہ کے متعلق صاف بات ہے اور جہاں ہم نہیں ہیں وہاں ہمیں جنازہ پڑھنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی.(الفضل ۶ مئی ۱۹۱۵ء نمبر ۱۳۶) غیر احمدی کاجنازه ایسے لوگ جو جنازے پڑھتے ہیں یہ ایک خطرناک غلطی ہے.میں کہتا ہوں اگر تمہارا یہ خیال ہو کہ تمہارے جنازہ پڑھنے سے مردہ بخشا جائے گا تو تمہیں معذور سمجھا جا سکتا ہے لیکن کیا تم خیال کرتے ہو کہ تمہارے جنازہ پڑھنے سے وہ غیر احمدی بخشا جاتا ہے یا تم اس بات کے ذمہ دار ہو کہ وہ جہنم سے بچ جائے.اگر نہیں.تو پھر کیا وجہ ہے کہ تم کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھتے ہو؟ کیا یہی نہیں کہ تم رشتہ داروں یا تعلق والوں کا منہ رکھتے ہو.اور کہتے ہو کہ اگر جنازہ نہ پڑھا تو ان کو کیا منہ دکھا ئیں گے؟ حالانکہ وہی منہ دکھانا قابل عزت و فخر ہو سکتا ہے جو بے عیب ہو مگر جو کافر کا جنازہ پڑھتا ہے اور خدا کے نبی کو گالیاں دینے اور جھٹلانے والے کا جنازہ پڑھتا ہے اس کا منہ تو چھپانے کے قابل ہے نہ کہ دکھانے کے قابل.تم منہ دکھانے کے قابل اسی وقت ہو سکتے ہو جب خدا تعالیٰ کے دین کی محبت تمہارے اندر ہو.اگر تمہاری ایسی حالت ہو اور میناروں پر چڑھ کر بھی اپنے منہ دکھاؤ تو بھی جائز ہے مگر جب تم خدا کا کوئی حکم توڑتے ہوتو تمہیں غاروں میں گھس کر چھپنا چاہئے.کیونکہ تم علی الاعلان سینکڑوں آدمیوں میں جا کر عملی طور پر کہتے ہو کہ مرزا صاحب کے متعلق جو عقیدہ ہے وہ غلط ہے پس اس فعل سے بچو.(اصلاح نفس صفحہ ۴۴۲.انوار العلوم جلد ۵)
۱۲۵ نماز جنازه غیر احمدی بچے کاجنازه سوال:.کیا آپ نے انوار خلافت کے صفحہ ۹۳ پر کہا کہ اب ایک اور سوال رہ جاتا ہے کہ غیر احمدی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکر ہوئے اس لئے ان کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے.لیکن اگر کسی غیر احمدی کا چھوٹا بچہ مرجائے تو اس کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے.وہ تو مسیح موعود علیہ السلام کا مکفر نہیں؟ میں یہ سوال کرنے والے سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہندوؤں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا.جواب:.ہاں لیکن یہ بات میں نے اس لئے کہی تھی کہ غیر احمدی علماء نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ احمدیوں کے بچوں کو بھی مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا جائے.واقعہ یہ ہے کہ احمدی عورتوں اور بچوں کی نعشیں قبروں سے اُکھاڑ کر باہر پھینکی گئیں.چونکہ ان کا فتویٰ اب تک قائم ہے اس لئے میرا فتویٰ بھی قائم ہے.البتہ اب ہمیں بانی سلسلہ کا ایک فتوی ملا ہے جس کے مطابق ممکن ہے کہ غور و خوض کے بعد پہلے فتویٰ میں ترمیم کر دی جائے.ایک صاحب نے سوال کیا کہ ایک شخص حضرت اقدس کو بزرگ سمجھتا تھا مگر جماعت میں شامل نہ تھا کیا اس کا جنازہ پڑھ لیں؟ جواب : فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بیٹے فضل احمد کی وفات پر آنسو بہائے اور فرمایا کہ اس نے ہماری کبھی مخالفت نہیں کی تھی ہمیشہ فرمانبردار رہا.باوجود اس کے اس کا جنازہ نہیں پڑھا.الفضل ۱۴ فروری ۱۹۱۵ء نمبر ۱۰۴) بیان عبدالحمید شاہ صاحب ابن میر حامد علی شاہ صاحب جو عدالت میں دیا میں غیر احمدی ہوں.احمدی نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، احمدی حج کرنے کے واسطے جاتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں، خدا کی وحدانیت کو مانتے ہیں اور رسول اکرم کو اس کا رسول مانتے ہیں،
۱۲۶ نماز جنازه قیامت کو مانتے ہیں.میں مرزا صاحب کو نبی نہیں مانتا، ان کو ریفارمر سمجھتا ہوں.جواب : فرمایا.چونکہ عدالتی گواہی تحریری ہے ایسا شخص فوت ہو تو اس کا جنازہ اپنے امام کے پیچھے پڑھنے میں حرج نہیں.دستخط مرزا محمود احمد - ۱۳/۱۱/۵۴ (فائل مسائل دینی A-32) عبدالکریم صاحب ڈار لکھتے ہیں کہ والد صاحب عموماً بیمار رہتے ہیں.ان کی عمر ۹۰ سال کے قریب ہے.اگر چہ احمدی نہیں لیکن احمدیوں کو برا نہیں سمجھتے اور ہمارے کئی جلسوں میں بھی قادیان آتے رہتے ہیں ان کے جنازہ کے متعلق استفسار ہے کہ ہم ان کی اولاد جو ساری کی ساری احمدی ہے.اسے ایسے موقع پر کیا رو بیا تیار کرنا چاہئے؟ فرمایا.کہ ابھی یہ مسئلہ زیر غور آنا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر کے مطابق اگر ان کے بیٹے اپنے میں سے ایک کو امام بنا کر جنازہ پڑھ لیں تو جماعت کو اعتراض نہیں کرنا چاہئے.جماعت اس لئے نہیں پڑھ سکتی کہ اسے حالات کا علم نہیں ہوسکتا.ایک خط کے جواب میں فرمایا :.فائل مسائل دینی DP 12059/15.2.54-32-A) ان کو لکھا جائے کہ خواب آنا اور ان کی والدہ کا نذرانہ دینا کافی ہے.جب اس نے مخالفت چھوڑ دی اور چندہ دیا تو پھر حضرت خلیفہ اول کا فتویٰ ہے کہ جو مخالفت نہ کرے اس کا جنازہ جائز ہے.(فائل مسائل دینی RP 13308/7.3.56-32-A) جنازہ ہم ایسے شخص کا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہتک کرنے والا نہ ہو یا مکفرین کے پیچھے نماز پڑھنے والا نہ ہو جائز سمجھتے ہیں مگر ہر جائز کام ہر ایک نہیں کرتا.شخصی ضرورتوں یا مجبوریوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.فائل مسائل دینی A-2.10.54-32)
۱۲۷ نماز جنازه.میری دادی غیر احمدی ہیں اور احمدی کی بیوی ہیں.دو تین مرتبہ قادیان بھی اپنے خاوند کے ساتھ گئیں تھیں.ربوہ بھی ایک دفعہ گئی ہیں اور ہمیشہ وہ قادیان کا نام قادیان شریف لیا کرتی ہیں.ان کے منہ سے کبھی بھی کسی قسم کی بد کلامی یا نفرت والی بات نہیں سنی.ان سے حضرت صاحب کی بابت پوچھتے تو ہمیشہ وہ یہی کہتی ہیں کہ وہ بہت چنگے بندے ہیں لوگ جو کچھ کہتے ہیں غلط کہتے ہیں.ان کی وفات کی صورت میں ان کا جنازہ پڑھا جائے یا نہیں؟ جواب :.فرمایا.آپ حالات سے باخبر ہیں.آپ جنازہ پڑھ سکتے ہیں.الگ یا خود امامت کرا کے.دوسرے احمدی جو حالات سے واقف نہیں انہیں اس کے لئے نہ کہیں.فائل مسائل دینی RP 21253/18.1.55-32-A) ایک اور سوال رہ جاتا ہے کہ غیر احمدی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکر ہوئے اس لئے ان کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے.لیکن اگر کسی غیر احمدی کا چھوٹا بچہ مرجائے تو اس کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے وہ تو مسیح موعود علیہ السلام کا مکفر نہیں.میں یہ سوال کرنے والے سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہندوؤں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جا تا اور کتنے لوگ ہیں جوان کا جنازہ پڑھتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جو ماں باپ کا مذہب ہوتا ہے شریعت و ہی مذہب ان کے بچہ کا قرار دیتی ہے.پس غیر احمدی کا بچہ بھی غیر احمدی ہی ہوا.اس لئے اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہئے.پھر میں کہتا ہوں کہ بچہ تو گنہ گار نہیں ہوتا اس کو جنازہ کی ضرورت ہی کیا ہے.بچہ کا جنازہ تو دعا ہوتی ہے اس کے پسماندگان کے لئے.اور اس کے پسماندگان ہمارے نہیں بلکہ غیر احمدی ہوتے ہیں اس لئے بچہ کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہئے.باقی رہا کوئی ایسا شخص جو حضرت صاحب کو تو سچا مانتا ہے لیکن ابھی اس نے بیعت نہیں کی یا احمدیت کے متعلق غور کر رہا ہے اور اسی حالت میں مر گیا ہے اس کو ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی سزا نہ دے
۱۲۸ نماز جنازہ لیکن شریعت کا فتویٰ ظاہری حالات کے مطابق ہوتا ہے اس لئے ہمیں اس کے متعلق بھی یہی کرنا چاہئے کہ اس کا جنازہ نہ پڑھیں.(انوار العلوم جلد ۳.انوار خلافت صفحه ۱۵۰ ۱۵۱) میراں بخش صاحب بوجہ غیر احمدی کولٹر کی دینے کے جماعت سے اخراج شدہ ہیں مگر ان کی حالت رو با صلاح ہے اور طلب معافی کے لئے تیار ہیں.اگر اس حالت میں ان کے نابالغ بچے کا جنازہ جماعت بٹالہ نے پڑھ لیا ہے تو اس میں کوئی حرج تو نہیں؟ ہدایات حضور :.میراں بخش صاحب کو سنز املی تھی نہ ان کے لڑکے کو پس جنازہ جائز تھا.جوشخص اپنے آپ کو احمدی کہتا ہو اور اسے سزا کے طور پر الگ کیا گیا ہو.اگر اس کا چھوٹا بچہ یا بیوی فوت ہو جسے سزانہ ملی ہو تو اس کا جنازہ یقیناً جائز ہے.ہاں جو جوان لڑکا ہو اور اپنے کو غیر احمدی کہتا ہو تو پھر جائز نہیں.(فائل غیر احمدی سے رشتہ ناطہ دفتر اصلاح وارشاد سے ) بیعت کے فوراً بعد مرجانے والے کاجنازہ سوال :.ایک شخص نے ہمالت بیماری بیعت کا خط لکھا اور اس کے بعد تین گھنٹہ کے اندر فوت ہو گیا.وہاں کی احمدی جماعت نے اس کے جنازہ کے متعلق حضرت خلیفتہ اسیح ثانی سے دریافت کیا.جواب:.جو شخص بیعت کرتا ہے خواہ ایک منٹ کے بعد فوت ہو جائے اس کا جنازہ پڑھ دینا چاہئے ہاں منصوبہ نہ ہو.الفضل ۷ اگست ۱۹۲۳ء.نمبر ۹) نظام جماعت سے خارج شده افراد کاجنازه سوال :.ایک شخص جماعت کے ممبروں اور کارکنوں کے روبرو بیعت کا خط لکھتا ہے.تندرستی کی حالت ہے اور ہوش و حواس قائم ہیں.کسی کا خاص دباؤ وغیرہ نہیں اور اپنی خوشی سے بیعت کا خط لکھتا
۱۲۹ نماز جنازه ہے جواب آنے سے قبل فوت ہو جاتا ہے.کیا اس کا جنازہ پڑھ سکتے ہیں؟ جواب :.جب کوئی بیعت کا اظہار کرے اگر وہ جماعت سے نکالا ہوا نہ ہو تو اس کا جنازہ پڑھنا چاہئے.خواہ جواب آئے یا نہ آئے.( الفضل یکم جنوری ۱۹۴۷ء.جلد نمبر ۳۵.نمبر۱) جو شخص اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے اور ایسے کام جن کی وجہ سے انسان احمدیت سے خارج ہو جا تا ہے وہ نہیں کرتا تو اس کا جنازہ پڑھ لینے میں حرج نہیں ہے.خارج از احمدیت ہونے سے میری مراد ایسے امور ہیں کہ جن کی وجہ سے کفر کا فتویٰ لگ سکتا ہے.چنانچہ غیر احمدی کو لڑکی کا رشتہ دینا بھی اسی قسم میں سے ہے.الفضل ۴ رمئی ۱۹۲۲ء.جلد نمبر ۹ نمبر ۸۶) سوال پیش ہوا کہ غیر احمدی کو لڑکی دینے والے آدمی کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ جواب : فرمایا.اس کی شادی میں کم از کم شامل نہ ہونا چاہئے اگر وہ تو بہ نہ کرے تو اس کا جنازہ نہ پڑھا جائے.بلکہ اس کا چندہ بھی نہیں لینا چاہئے.(الفضل ۱۵ مئی ۱۹۲۲ء.جلد نمبر ۹) جن کا مقاطعہ ہوا گر وہ فوت ہو جائیں تو کیا ان کا جنازہ پڑھا جائے یا نہ؟ جواب :.حضور نے فرمایا.ایسے لوگوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں.بعض صورتوں میں ان کا جنازہ نہیں پڑھا جائے گا اور بعض میں پڑھا جائے گا.الفضل ۱۹ را پریل ۱۹۴۶ء.جلد نمبر ۳۴ نمبر ۹۳) احمدیوں کے بچوں کاجنازہ احمدیوں کے بچے احمدی ہیں اور جب تک کسی احمدی کا لڑکا یا لڑکی بلوغت کو پہنچ کر احمد بیت کا انکار نہ کرے وہ احمدی ہی سمجھا جائے گا.اور اس سے احمدیوں کا سا ہی معاملہ ہوگا.کیونکہ اولا د جب تک ان
نماز جنازه میں سے کوئی بالغ ہو کر باپ کے مذہب کی مخالفت کا اعلان نہ کرے باپ کے مذہب پر ہی شمار ہوگی.بلکہ احمدی ماں کے بچے بھی احمدی ہی سمجھے جائیں گے خواہ باپ غیر احمدی ہی کیوں نہ ہو.پس ایسے تمام لڑکے، لڑکیوں کا جنازہ جائز ہے.خاکسار مرز امحمود احمد الفضل ۱۵ / اکتوبر ۱۹۱۸ء.جلد نمبر ۶ نمبر ۲۸) ایک دوست نے لکھا.متوفی بچے کے لئے دعا کرنے کو از حد دل چاہتا ہے.دعا کس طرح کی جاوے؟ فرمایا.بچے کے لئے کیا دعا کرنی ہے.اس کے لئے تو یہی دعا ہو سکتی ہے کہ اس کو ہماری ترقیات اور ثواب کا موجب کرے.الفضل ۷ دسمبر ۱۹۲۲ء.جلد نمبر ۱۰ نمبر ۴۵) خودکشی خودکشی اسلام میں حرام ہے.ایسی حرام کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو خودکشی کرتا ہے وہ جہنمی ہے اور جس کا انجام کسی جہنمی فعل پر ہو اس کے انجام کی نسبت شک نہیں ہوسکتا.اس لئے اس کا جنازہ جو دعائے بخشش ہے پڑھنا جائز نہیں اور نہ میں میری جماعت کے لوگ اس کا جنازہ پڑھ سکتے ہیں.مقبرہ بہشتی میں ایسا شخص کسی صورت میں دفن نہیں ہو سکتا.خود کشی بہادری نہیں بلکہ جنون کا ایک شعبہ ہے سوائے عارضی جنون کے خود کشی کا فعل مکمل نہیں ہوسکتا.جو عارضہ جنون میں مبتلا نہیں ہوتے عین وقت پر خود کشی سے باز آجاتے ہیں.ڈاکٹروں نے ہزاروں تجارب کے بعد یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچادی ہے.اگر جنون ہے تو سزا کیسی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فعل خود کشی باعانت جنون ہوتا ہے.لیکن ارادہ کے لئے جنون کی شرط نہیں وہ مایوسی سے پیدا ہوتا ہے اس لئے سزا ارادہ ناجائز کی ملتی ہے اور اگر خود کشی
۱۳۱ نماز جنازه نہ کر سکے اور بچ جائے تو پھر اس کی توبہ کی وجہ سے وہ سزا سے محفوظ رہ سکتا ہے.خود کشی کرنے والے کے لئے صدقے وغیرہ کرنا نا جائز ہے.الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۱۲ء.جلد نمبر ۴ نمبر ۴۵) (فائل دینی مسائل DP 5629/5.1.52-65-A) سوال :.میرا بھائی عمر میں یا بائیس سال.دینی و دنیوی حالت میں قابل تعریف.گلے میں رسی ڈال کر خود کشی کر لی.اس کا جنازہ غائب پڑھا جائے.ماموں کے کہنے پر بغیر جنازہ سپر د خاک کیا.کیا اس کی روح کی مغفرت کے لئے دعا کی جائے یا نہیں.وہ احمدی تھا خود کشی کر کے بڑا مجرم بنا؟ جواب:- اگر خودکشی ثابت ہو تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جنازہ منع فرمایا ہے.چنانچہ جب مولوی عبد السلام صاحب عمر کے لڑکے نے خود کشی کی تھی تو جماعت نے جنازہ نہیں پڑھا تھا.(فائل مسائل دینی A-32) اما نگادفن شده میت کاچهره دیکھنا میری والدہ کی وفات پر تقریبا چھ مہینے گزر چکے ہیں.اب تابوت ربوہ لانے کا ارادہ ہے.وفات کے وقت میں گھر پر موجود نہیں تھا کیا اب تابوت کھول کر چہرہ دیکھ سکتا ہوں؟ جواب :.فرمایا.دیکھنے کی اجازت ہوتی ہے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا ایوب بیگ کی نعش کو دیکھنے کی اجازت دی تھی اور وہ تابوت میں بھی نہ تھی.مگر لاش کی حالت کے متعلق ڈاکٹر بتا سکتا ہے.مفتی نہیں بتا سکتا.اگر لاش کی حالت خراب ہو تو اس سے بُرا اثر پڑتا ہے.فائل مسائل دینی 12.12.58/A-32) تابوت یامیت پر کلمه اورقرآنی آیات کی لکھی ھوئی چادر ڈالنا سوال:.ایک کپڑا ایسا ہے جس پر قرآن کریم کی آیات لکھی ہوئی ہیں جسے مُردے پر ڈال
نماز جنازه کر قبرستان لے جایا جاتا ہے.بعض احمدی بھی اس مرض میں مبتلا ہیں.ایسے کپڑے کے متعلق کیا ارشاد عالی ہے؟ جواب :.احمدی غلطی کرتے ہیں.یہ بدعت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق نہیں.مزار کابوسه لینا فائل مسائل دینی 12.6.61/A-32) ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کو بوسہ دینے کے متعلق پوچھا تو فرمایا:.یہ جائز نہیں لغو بات ہے.اسی قسم کی حرکات سے شرک شروع ہوتا ہے.اصل چیز نبی کی تعلیم پر عمل کرنا ہے.مگر لوگ اسے چھوڑ کر لغو باتوں میں جا پڑتے ہیں.الفضل ۱۸ مئی ۱۹۴۶ء.جلد نمبر ۳۴ - نمبر ۱۱۷) مزار پر گنبد بنوانا،قبه بنوانا سوال :.بطور یادگار بزرگوں کی قبریں محفوظ رکھنے کے لئے قبے بنائے جائیں تو کیا حرج ہے؟ جواب :.اگر قبر کی حفاظت کے لئے ضروری نہ ہو تو قبہ وغیرہ کی ضرورت نہیں.اور اگر یادگار کے خیال سے قبہ بنایا جائے تو میں ایسی یاد گار کا قائل نہیں کہ اس کے لئے قبہ ضروری ہو.یہی خیال ہے جس سے آگے شرک پیدا ہوتا ہے.پس پروٹیکشن (حفاظت) تو ٹھیک ہے لیکن میموریل (یادگار ) ٹھیک نہیں کیونکہ قبر کی اس رنگ میں یاد گار ہی وہ چیز ہے جو آگے شرک تک پہنچا دیتی ہے بے شک ہم تو احترام کے طور پر قبے بنائیں گے لیکن دوسرے لوگ اس احترام کو اس حد تک پہنچا دیں گے کہ جس سے شرک شروع ہو جائے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پر جو قبہ بنایا گیا ہے وہ بھی حفاظت کے لئے ہے نہ کہ اس لئے کہ مزار کی عزت کی جائے.الفضل یکم مارچ ۱۹۲۷ء.جلد نمبر ۱۴ نمبر ۶۹)
۱۳۳ نماز جنازه سوال :.قبروں پر قبہ بنانا کیوں جائز نہیں؟ جواب :.انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے کہ جن وجودوں کے ساتھ اسے محبت ہوتی ہے.اُن کے مرنے کے بعد بھی جہاں تک ہو سکے ان کا احترام کرنا چاہتا ہے.یوں تو جب کوئی شخص مرجاتا ہے اس کی لاش اگر کتے بھی کھا جائیں تو اسے کیا تکلیف ہو گی لیکن اس سے محبت رکھنے والے جو زندہ انسان ہوں ان کی فطرت گوارا نہیں کرتی کہ لاش کی یہ حالت ہو.اس لیے وہ اپنے طور پر اس کا احترام کرتے ہیں مگر یہ کوئی شرعی احترام نہیں ہوتا.کیونکہ شرعی طور پر احترام جائز نہیں کیونکہ اس سے شرک پھیلتا ہے.بچوں وغیرہ کی قبر پر کوئی قبہ نہیں بنا تا مگر بزرگوں کی قبر پر قبہ بناتے ہیں کیونکہ ان کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ ان سے کچھ حاصل ہوگا.الفضل یکم مارچ ۱۹۲۷ء.جلد ۱۴ نمبر ۶۹) قبر پرستی عورتوں میں بہت سی باتیں ایسی پائی جاتی ہیں جو شرک ہیں.قبروں پر چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں.چراغ جلائے جاتے ہیں.مثنیں مانی جاتی ہیں یہ سب شرک ہے.خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی کو کھڑا کرنا شرک ہے جو بہت ہی بڑا گناہ ہے اور اس سے خدا کا غضب بھڑک اٹھتا ہے.دیکھو اگر کوئی اپنے باپ کے سامنے ایک چوہڑے کو اپنا باپ کہے تو اس کے باپ کو کس قدر غصہ آئے گا اور وہ کس قدر ناراض ہو گا.اسی طرح ایک ادنیٰ مخلوق کو جو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کیڑے کی حیثیت بھی نہیں رکھتی اپنا حاجت روا سمجھنا خدا تعالیٰ کی بہت بڑی ناراضگی کا موجب ہے.ایک قبر میں دفن شدہ مردہ جس کی ہڈی بھی گل گئی ہوں جس کے جسم کو کیڑے کھا گئے ہوں اس کو جا کر کہنا کہ تو میری مراد پوری کر کتنی بڑی پاگلا نہ بات ہے خدا تعالیٰ جب زندہ ہے اور مانگنے
۱۳۴ نماز جنازه والوں کو دیتا ہے تو جو کچھ مانگنا ہو اس سے مانگنا چاہئے.جو مٹی میں دفن ہو چکا ہو اس کے متعلق کیا معلوم ہے کہ نیک تھا یا کیسا تھا.( خطبہ نکاح فرموده مصلح موعود - ۲۰ / نومبر ۱۹۲۰ء - الازهار لذوات الخمار صفحه ۴۲ ۴۳) سوال :.کیا زیارت کربلا جائز ہے؟ جواب:.اگر اس خیال سے کوئی جائے کہ وہاں جا کر ان کے لیے دعا کرے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اُن کے احسانات کا دعا کے ذریعہ معاوضہ دینا چاہے تو جائز ہے اور اس کا اسے ثواب ملے گا لیکن اگر اس لیے وہاں جاتا ہے کہ اپنے لیے وہاں دعا کرے اور جو بزرگ قبروں میں دفن ہیں ان سے مدد مانگے تو یہ نا جائز ہے.(الفضل یکم مارچ ۱۹۲۷ء.جلد۱۴ نمبر ۶۹) قرآن خوانی - فاتحه قل وغیره سوال :.ہمارے ملک میں یہ جو رواج ہے کہ جب کوئی مرجاتا ہے تو اس کے مرنے کے بعد فاتحہ پڑھتے ہیں پھر چہلم کرتے ہیں اس کے بارہ میں کیا حکم ہے؟ جواب :.فاتحہ.قل یہ سب بدعات ہیں.ایک شخص کے خط کے جواب میں حضور نے لکھوایا..تلاوت قرآن کا ثواب مردہ کی روح کو نہیں پہنچتا.(الفضل ۲ مارچ ۱۹۱۵ء.نمبر ۱۱) قبر پر قرآن پڑھنا بروایت فتویٰ حضرت مسیح موعود بے فائدہ ہے بلکہ ڈر ہے کہ بد نتیجہ پیدا کرے..غیر احمدی بچہ کا جنازہ پڑھنا درست نہیں.(الفضل ۴ رمئی ۱۹۲۲ء.نمبر ۸۶)
۱۳۵ نماز جنازه میت کے لیے قرآن خوانی سوال:.کیا مردہ کے لیے قرآن خوانی کرنی جائز ہے؟ جواب:.فرمایا: اسے قرآن کا ثواب نہیں پہنچتا مگر صدقہ و خیرات کا ثواب مردے کو پہنچتا ہے کیونکہ قرآن کا پڑھنا عبادت ہے.صدقہ بھی مردے کے اعمال میں نہیں لکھا جاتا بلکہ کسی اور رنگ میں اس کا ثواب ملتا ہے.سوال :.جب مردے کی طرف سے حج میں قائم مقام ہوسکتا ہے تو قرآن کریم کا ثواب کیوں نہیں پہنچتا ؟ جواب :.فرمایا: حج ہر ایک مسلمان پر ہر ایک حال میں فرض نہیں اس لیے اگر کسی وجہ سے کسی شخص کو موقع نہ ملے تو اس کی طرف سے حج قائم مقام ہوسکتا ہے مگر نماز ہر مسلمان پر فرض ہے اس لیے کوئی دوسرا کسی کی طرف سے نماز نہیں پڑھ سکتا.قیر پر قرآن خوانی سوال:.کیا قبر پر قرآن پڑھنا جائز ہے؟ جواب:.فرمایا: بدعت ہے.(الفضل ۳ جولائی ۱۹۲۲ء.جلد۱۰.نمبرا) الفضل ۲۷ رمئی ۱۹۱۵ء.جلد ۲.نمبر ۱۴۵) زیارت قبور قبر پر دعا سوال :.کیا قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعامانگنا جائز ہے؟
۱۳۶ نماز جنازه جواب:.قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعامانگنا جائز ہے.فاتحه خوانی (الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۱۶ء) غیر احمدی فوت ہو جاتے ہیں تو عموماً اس کے متعلقین کے پاس اظہار افسوس کے لیے جانا پڑتا ہے.اس موقع پر بعض غیر احمدی بھی آجاتے ہیں اور تھوڑی دیر بیٹھ کر اٹھنے سے قبل کہتے ہیں اچھا دعائے خیر کر لیں یہ کہ کر وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں متوفی کے وارث بھی ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اس موقعہ پر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ فرمایا:.اس کا نام فاتحہ نہ رکھیں تو یہ دعا جائز ہے.میں نے کئی غیر احمدیوں کے لیے اس طرح دعا کی ہے.بد گومکفر نہ ہو.فائل مسائل دینی.DP 5842/16.3.54-32.A) دسوان و چالیسواں وغیره سوال :.گاؤں میں رسم ہے کہ جب کوئی بوڑھا مر جاتا ہے تو اس کے ورثاء چالیسویں کی رسم ادا کرتے اور گھر گھر کھانا بانٹتے ہیں.آیا اس کا کھانا جائز ہے؟ جواب :.فرمایا :.بدعات کی روٹی کھانی جائز نہیں.(الفضل ۱۹؍ دسمبر ۱۹۱۵ء.نمبر اے ) مصیبت کے دفعیه کے لیے چلّه سوال :.کیا مصیبت کے دفعیہ کے لیے قرآن کا چلہ جائز ہے؟ جواب:.فرمایا:.میں تو چلہ کے طریقہ سے ناواقف ہوں.قرآن شریف تو سارا ہی پڑھنے کے
۱۳۷ نماز جنازه قابل ہے اور خاص سورتیں خاص مضامین کے انکشاف کے پڑھی جاتی ہیں یا تلاوت کے لیے، مصائب کی دوری کے لیے تو اسماء الہی ہیں.اور خدا کا حکم ہے کہ میرے اسماء کے ساتھ مجھ سے دعا کیا کرو.پس جس طریقہ سے دینے والا کہے کہ اس طرح سے مانگا کرو وہی طریقہ درست ہے.الفضل ۱۱ مئی ۱۹۲۲ء - جلد ۹ نمبر ۸۸) ٹونے ٹوٹکے عورتیں ٹونے ٹو ٹکے کرتی ہیں.اگر کوئی بیمار ہوتا ہے تو کچا تا کہ باندھتی ہیں کہ صحت ہو جائے.حالانکہ جس کو ایک چھوٹا بچہ بھی توڑ کر پھینک سکتا ہے وہ کیا کر سکتا ہے.اس طرح عورتوں میں اور کئی قسم کی بدعتیں اور بُرے خیالات پائے جاتے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.اور جن سے سوائے اس کے کہ ان کی جہالت اور نادانی ثابت ہو اور کچھ نہیں ہوتا.پس خوب اچھی طرح یاد رکھو کہ ٹونے.ٹوٹکے.تعویذ گنڈے منتر جنتر سب فریب اور دھو کے ہیں جو پیسے کمانے کے لیے کسی نے بنائے ہوئے ہیں یہ سب لغوا اور جھوٹی باتیں ہیں ان کو ترک کرو.ایسا کرنے والوں سے خدا تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے....تم ان بے ہودہ رسموں اور لغو چیزوں کو قطعاً چھوڑ دو اور اپنے گھروں سے نکال دو.الازهار لذوات الخمار - صفحہ ۳۹.ایڈیشن دوم)
زكواة الهم
۱۴۱ زكوة زكوة يقيمون الصلوة ويؤتون الزكوة زکوۃ کی ضرورت اور اس کی اہمیت در حقیقت غربت کے سوال سے پیدا ہوتی ہے اور غربت ایک ایسی چیز ہے جو کبھی بھی بنی نوع انسان سے جدا نہیں ہوئی.عام طور پر لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ جب دنیا کی آبادی بڑھ جاتی ہے تو ایک حصہ غریب ہو جاتا ہے.حالانکہ یہ بات درست نہیں.آبادی کی کمی کی صورت میں بھی ہمیں غربت ویسی ہی نظر آتی ہے جیسے اس کی کثرت کی صورت میں.چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں باوجوداس کے کہ اس وقت صرف چند ہی افراد تھے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بھی بعض پر غربت کا زمانہ آیا تھا کیونکہ فرماتا ہے کہ اگر تو اس جنت میں رہے گا تو تو پیاسا نہیں رہے گا.تیرے ساتھی بھو کے نہیں رہیں گے.(تفسیر کبیر.جلد ہفتم سورۃ النمل.صفحہ ۳۳۰) نماز کے علاوہ خدا تعالیٰ نے یہ بات بھی مقرر فرمائی ہے کہ اگر انسان کے پاس ۴۰ روپے ہوں تو وہ ایک روپیہ اللہ کی راہ میں دیوے.یہ زکوۃ ہے.زکوۃ کے معنے پاک کر دینے کے ہیں.پس یہ مرد، عورتوں کا فرض ہے کہ وہ زکوۃ دیا کریں.حضرت محمد رسول اللہ اس کی بہت تاکید فرمایا کرتے تھے.حضرت ابو بکر کے وقت میں بعض لوگ زکوۃ کے منکر ہو گئے انہوں نے کہا کہ ہم زکوۃ نہیں دیتے حتی کہ اتنا شور ہو گیا کہ مدینے اور ایک بستی کے سوا بہت مرتد ہو گئے.اس وقت حضرت عمرؓ نے جو بہت بہادر تھے حضرت ابو بکر سے کہا کہ آپ اس وقت ان سے نرمی کریں پھر آہستہ آہستہ مان لیں گے مگر حضرت ابو بکر نے کہا کہ دیکھو تم کو ڈر ہے کہ یہ بہت ہیں اور ہم تھوڑے اس لیے میں اکیلا جاؤں گا اور زکوۃ کے واسطے ان سے لڑوں گا اور اگر یہ ایک رتی بھی کم کر دیں گے تب بھی میں ان سے لڑائی کروں گا.یہ خدا کا حکم ہے
۱۴۲ زكوة دیکھو! ان لوگوں نے ایک حکم کی خلاف ورزی کی اور سب کام مسلمانوں جیسے کیا کرتے تھے پھر بھی ان کے ساتھ کا فروں کا سا سلوک ہوا.جس سے معلوم ہوا کہ زکوۃ کیسی ضروری بات ہے.ہاں جو زیور پہنا جاوے اس پر ز کو نہیں.الفضل ۶ / مارچ ۱۹۲۲ء.الازھار لذوات الخمار صفحه ۵۶) زکوة کب واجب ھوتی ھے نماز کے بعد دوسرا حکم زکوۃ کا ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ جس مال پر ایک سال گزر جائے اس غریبوں اور مسکینوں کی امداد کے لیے چالیسواں حصہ نکالا جائے اگر اسلامی حکومت ہو تو اس کو وہ حصہ دے دیا جائے.اگر نہ ہو تو جو انتظام ہو اس کو دیا جائے.زیوروں کے متعلق یہ حکم ہے کہ اگر پہنے جاتے ہوں تو ان کی زکوۃ نہ دی جائے اور اگر ان کی بھی دی جائے تو اچھی بات ہے.ہاں اگر ایسے زیور ہوں جو عام طور پر نہ پہنے جاتے ہوں کبھی بیاہ شادی کے موقعہ پر پہن لیے جاتے ہوں ان کی زکوۃ دینا ضروری ہے اور جو عام طور پر پہنے جاتے ہوں ان کی زکوۃ دی جائے تو جائز ہے اور نہ دی جائے تو گناہ نہیں.ان کا گھسناہی زکوۃ ہے.ہمارے ملک میں عورتوں کو زیور بنوانے کی عادت ہے اس لیے قریباً سب عورتوں پر زکوۃ فرض ہوتی ہے وہ اس کا خیال نہیں رکھتیں حالانکہ یہ اتنا ضروری حکم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب کچھ لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا جب تک زکوۃ کی اونٹ باندھنے کی رسی تک نہ دیں گے میں ان سے جنگ کروں گا.اور یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ جو ز کوۃ نہ دے وہ مسلمان نہیں.تم اپنی حالت پر غور کرو کہ تم میں سے بہت سی نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے مسلمان نہیں رہتیں اور جو اس سے بچ جاتی ہیں ان میں سے اکثر ز کوۃ نہ دینے کی وجہ سے مسلمان نہیں کہلا سکتیں.الازھار لذوات الخمار - صفحہ ۴۲ ۴۳.ایڈیشن دوم )
۱۴۳ زكوة وَأمُرَاَهْلَكَ بِالصَّلوةِ وَاصْطَبِرُ عَلَيْهَا لَا نَسْتَلُكَ رِزْقاً یہ قانون قدرت ہے کہ بچے ماں باپ کے پیچھے چلتے ہیں.اس لیے عیسائیوں کی ترقی کے زمانہ میں ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنی اولاد کو نماز کی تاکید کرتا رہے اور خود بھی نمازوں کا پابندر ہے تا کہ اس کی اولا دبھی اسی رنگ میں رنگین ہو کیونکہ جو شخص عبادت پر قائم رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ضرور حلال رزق دیتا ہے اور اس سے رزق مانگتا نہیں.بظاہر یہ بات غلط معلوم ہوتی ہے کیونکہ تمام انبیاء دین کی خدمت کے لیے چندے مانگتے چلے آئے اور اسلام نے بھی زکوۃ اور صدقات پر خصوصیت سے زور دیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جولوگ زکوۃ یا صدقہ میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ بڑھتا ہے اور اس کا فائدہ خود لوگوں کو ہی پہنچتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.مَا أَتَيْتُمُ مِنْ زَكَوةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ (روم:۴) یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں وہی اپنے مالوں کو بڑھانے والے ہوتے ہیں پس چندے لینا یا صدقہ و زکوۃ وغیرہ اس آیت کے خلاف نہیں.(تفسیر کبیر.جلد پنجم سورة طه - صفحه ۴۸۳،۴۸۲) زکوۃ کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ انہیں دیتا ہے وہ آگے لوگوں میں تقسیم کر دیتے ہیں پس نبیوں کا زکوۃ دینا درحقیقت ان کا اپنے مریدوں کو اس کی تلقین کرنا ہوتا ہے.(تفسیر کبیر.جلد پنجم سورۃ مریم صفحہ ۲۲۳) زکوۃ تو ایسی ضروری چیز ہے کہ جو نہیں دیتا وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے.مگر بہت لوگ ہیں جوز کو نہیں دیتے.جب انہیں کہا جائے تو کہتے ہیں اچھا یہ بھی فرض ہے.پھر ایک سال یونہی گزار دیتے ہیں گویا انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں دوسرے سال پھر سنتے ہیں مگر ایسا ہی سنتے ہیں گویا نہیں سنا.مگر اس طرح وہ اس فرض کی ادائیگی سے بچ نہیں سکتے.جو شخص زکوۃ کو چھوڑتا ہے اس سے وہی
۱۴۴ زكوة معاملہ جائز ہو جاتا ہے جو کفار سے کیا جاتا ہے چنانچہ حضرت عمرؓ نے جب حضرت ابو بکر کو زکوۃ نہ دینے والوں کے متعلق کہا کہ یہ مسلمان ہیں ان سے کافروں والا معاملہ نہ کیا جائے تو حضرت ابو بکر نے کہا نہیں ان سے کا فر والا ہی معاملہ کیا جائے گا چنانچہ ان کو پکڑ کر غلام بنایا گیا.زکوۃ جس رنگ میں رکھی گئی ہے اس میں تو یہ حکمت ہے کہ اگر یونہی صدقہ کا حکم دیا جا تا رقم اور وقت مقرر نہ ہوتا تو بہت لوگ نہ دیتے اس لیے تھوڑے سے تھوڑا چندہ شریعت نے خود مقرر کر دیا کہ اس قدرا اپنے مال میں سے ضرور دیا جائے.اس سے زائد جود ے وہ انعام کا مستحق سمجھا جائے.اور جو اس حد تک بھی نہ دے وہ مجرم ہوگا پس اس حد کو پورا کرو.دوسرا اس کے مقرر کرنے میں یہ فائدہ ہے کہ بعض لوگوں کو جو ضروریات آپڑتی ہیں ان کو فرداً فرداً پورا نہیں کیا جاسکتا مثلاً ایک شخص غریب ہے اس کو لاکھ روپیہ کی ضرورت آپڑتی ہے کوئی کہے کہ غریب اور پھر لاکھ روپیہ کی ضرورت کا مطلب؟ مگر ہوتی ہے.مثلاً ایک تاجر ہے اس کو کاروبار میں گھانا پڑ گیا ہے اس کے چلانے کے لیے روپیہ کی ضرورت ہے ایسے لوگوں کی بھی زکوۃ سے مدد کی جاسکتی ہے تو زکوۃ غرباء کو بھی دیا جاتا ہے تا کہ اپنی ضروریات پوری کریں مگر ان کو بھی دیا جاتا ہے جنہیں کاروبار چلانے کے لیے ضرورت ہو اور پیشہ ور ہوں.پس زکوۃ کے فنڈ سے ایسے لوگوں کو دیا جاتا ہے.افراد کے چندہ سے ان کا کام نہیں چل سکتا.پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسرے کا احسان اٹھانا پسند نہیں کر سکتے وہ بھوکے مر جائیں گے مگر یہ گوارا نہیں کریں گے کہ زید کے سامنے جائیں اور اپنی ضروریات کے لئے اس سے کچھ حاصل کریں.چونکہ ایسی طبیعت کئی لوگوں کی خدا نے بنائی ہوئی ہے اور ان کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے اس لیے شریعت نے یہ رکھا ہے کہ حکومت امراء سے لے اور ایسے لوگوں کو دے تا کہ وہ طبائع جو کسی کا احسان نہیں اُٹھانا چاہتیں وہ اس طرح مدد پائیں.اصلاح نفس.انوار العلوم جلد ۵ صفحه ۲ ۴۵ تا ۴ ۴۵)
۱۴۵ زكوة زکوة نہ دینے والا یقیناً چور هے اگر کوئی شخص زکوۃ نہیں دیتا تو وہ یقینا چور ہے.خواہ وہ یہ کہے کہ میں نے رات اور دن محنت کر کے کپڑے کی تجارت سے روپیہ کمایا ہے، خواہ وہ یہ کہے کہ میں نے رات اور دن محنت کر کے لوہے کے کارخانے سے روپیہ کمایا ہے، خواہ وہ یہ کہے کہ میں نے رات اور دن محنت کر کے مٹی کے تیل کی تجارت سے یہ روپیہ کمایا ہے، خواہ کسی چیز کی تجارت سے اُس نے روپیہ کمایا ہو اس میں ساری دنیا کا حصہ ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ اُس حصہ کو ادا کرے.اور اگر وہ بغیر اس ٹیکس کو ادا کرنے کے رو پید اپنے گھر میں لے جاتا ہے تو اسلام اُسے قطعاً مومن کہنے کے لئے نہیں.ہاں ایک بات یاد رکھنی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں چونکہ ٹیکس دوہرا ہو گیا ہے یعنی گورنمنٹ بھی ٹیکس لیتی ہے اور اسلام بھی ایک ٹیکس لیتا ہے.اس لیے جس چیز پر گورنمنٹ کی طرف سے ٹیکس عائد ہوتا ہے.اگر اس کے ٹیکس کی رقم زکوۃ کے برابر یا زکوۃ سے زیادہ ہو تو پھر زکوۃ دینا واجب نہیں ہوگا.مگر اس کے ساتھ ہی یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ گورنمنٹ جمع شدہ مال پر ٹیکس نہیں لیتی بلکہ آمد پر ٹیکس وصول کرتی ہے.لیکن اسلام اس مال سے زکوۃ وصول کرتا ہے جو انسان کے پاس جمع ہو.اور جس پر ایک سال گزر گیا ہو.ہاں اس مال پر جس میں سے گورنمنٹ نے زکوۃ کے برابر یا اس سے زائد ٹیکس لے لیا ہوز کو ۃ واجب نہیں.مگر کچھ نہ کچھ رقم ثواب میں شمولیت کے لیے اسے طوعی طور پر پھر بھی دینی چاہئے.ہاں اگر ائم ٹیکس یا مالیہ کم ہو اورز کو ۃ یا عشر اس پر زیادہ عائد ہوتا ہو تو پھر جتنی کمی رہ جائے گی اُس کو پورا کرنا اُس کا فرض ہوگا.( تفسیر کبیر.جلد ششم ،سورۃ نور صفحه ۳۴۱،۳۴۰) زکوۃ دینے کا رواج عورتوں میں کم ہے حالانکہ مردوں سے زیادہ عورتیں ہیں جن پر زکوۃ فرض ہے کیونکہ مرد تو وہی لوگ صاحب زکوۃ ہیں جو مالدار اور صاحب جائیداد ہیں اور یہ بہت کم ہوتے ہیں مگر عورتیں تو بہت کم ہوں گی جن کے پاس کچھ بھی زیور نہ ہو.عام طور پر عورتوں کے پاس کچھ نہ کچھ زیور ضرور ہوتا ہے مگر انہیں کوئی توجہ نہیں دلاتا کہ وہ اس کی زکوۃ ادا کریں.الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۱۴ء.جلدا.نمبر ۳۳ صفحه ۱۱)
۱۴۶ زكوة سوال:.ایک دوست نے دریافت کیا کہ زکوۃ دارالامان بھیجوں یا یہیں کسی غریب کو دی جاسکتی ہے؟ جواب: فرمایا:.زکوۃ امام کے پاس جمع ہونی چاہئے.اجازت سے وہاں خرچ ہوسکتی ہے.الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۱۵ء.جلد نمبر ۱۱۳) حضور نے ایک شخص کو لکھوایا کہ زکوۃ کا زیادہ پسندیدہ امر یہی ہے کہ آپ وہاں کی انجمن میں جمع کروا کر ترقی اسلام میں بھجوا دیں.اگر کوئی شخص اس مقام میں مستحق زکوۃ ہو تو اس کا نام بذریعہ سیکرٹری انجمن مقامی بھیج دیں یہاں سے اس کو زکوۃ کا روپیہ بھیج دیا جائے گا.اس طرح ایک نظام قائم رہتا ہے.ایک صاحب کو لکھوایا کہ لڑکی کو زکوۃ دی جاسکتی ہے.الفضل ۱۳ جون ۱۹۱۵ء - جلد ۲ - نمبر۱۵۲) الفضل ۲۷ مئی ۱۹۱۵ ء - جلد ۲ نمبر ۱۴۵) تجارتی اموال پر زکوة زکوۃ جو ہر امیر پر واجب ہے.ہر شخص جو کوئی روپیہ اپنے پاس جمع کرتا ہے یا جانور تجارت کے لیے پالتا ہے اس پر ایک رقم مقرر ہے.اسی طرح ہر کھیتی کی پیداوار پر ایک رقم مقرر ہے.کھیتی کی پیداوار پر دسواں حصہ اور تجارتی مال پر انداز ڈاڑھائی فیصدی.یہ 212 فیصدی صرف نفع پر نہیں دیا جاتا بلکہ رأس المال اور نفع سب پر دیا جاتا ہے.اس میں حکمت یہ ہے کہ اسلام اس ذریعہ سے روپیہ جمع کرنے کو روکنا چاہتا ہے.زمین کے لیے دسواں حصہ اور تجارتی مال کے اوپر اڑھائی فیصدی میں جو فرق ہے یہ بظاہر غیر معقول نظر آتا ہے مگر در حقیقت اس میں بڑی بھاری حکمت ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ زمین کی
۱۴۷ زكوة پیداوار پرٹیکس دیا جاتا ہے اور تجارتی مال میں رأس المال پر بھی ٹیکس ہوتا ہے.چونکہ زمین کے رأس المال پر ٹیکس نہیں لگا اس لیے پیداوار پر دسواں حصہ لیا گیا اور تجارتی مال میں چونکہ رأس المال پر بھی ٹیکس لگ گیا اس لیے صرف اڑھائی فیصدی نسبت رکھی گئی.زیور کی زکوة زکوۃ کے متعلق ایک دوست کو حضور نے لکھوایا (دیباچه تفسیر القران - صفحه ۲۹۶،۲۹۵) زکوۃ صرف اس مال پر ہوتی ہے جس پر ایک سال گزر جاوے.آپ کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک سال نہیں گزرا اور نہ اس وقت تک گزرے گا جب تک کہ آپ اس روپے کو دوسروں کے حوالے کر دیں گے.اس لیے اس پر زکوۃ نہیں.زیور کے متعلق یہ حکم ہے کہ اگر وہ پہنا جاتا ہے تو جائز ہے کہ اس کی زکوۃ نہ دی جاوے لیکن اگر وہ عام طور پر رکھا رہتا ہے صرف کسی خاص تقریب پر پہنا جاتا ہے تو اس پر زکوۃ ہے.جس کے پاس مال نہ ہو وہ اس زیور میں سے زکوۃ ادا کرے.یا کبھی کبھی غریبوں کو استعمال کے لیے دے دیا کرے یہ بھی اس کی زکوۃ ہوتی ہے.الفضل ۲۹ مئی ۱۹۲۲ء.جلد ۹ نمبر ۹۳) مصارف زکوة إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِين (التوبة) یعنی زکوۃ کے خرچ کرنے میں مندرجہ ذیل آٹھ مدات ہیں.۱.فقراء ۲.مساکین ،۳.زکوۃ کے کام پر مامور عملہ.۴.مولفتہ القلوب یعنی جن لوگوں کی تالیف قلب مد نظر ہو.۵.فی الرقاب یعنی جو غلام ہوں یا مصائب میں پھنسے ہوئے ہوں ان کی گلوخلاصی
۱۴۸ زكوة کرانے میں.۶.غار مین یعنی وہ لوگ جو اپنے کسی قصور کے بغیر مالی ابتلاء میں پھنس گئے ہوں.۷.فی سبیل اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے یا اس کی رضاء کے کاموں میں.۸.ابن السبیل یعنی مسافر.زکوۃ کا پہلا مصرف فقراء ہیں یعنی وہ لوگ جو کلی طور پر یا جزوی طور پر اپنا گزارہ چلانے کے لیے دوسروں کی مدد کے محتاج ہیں.مثلاً پانچ ہیں ، معذور ہیں، یتامی و بیوگان ہیں.ایسے تمام لوگوں کی ذمہ واری قوم پر ہوتی ہے اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو قوم ذلیل ہو جاتی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ایسا حکم دے دیا جس سے دائمی طور پر قابل امداد لوگوں کی امداد ہوتی رہے اور قوم اور ملک میں ضعف پیدا نہ ہو.قرآنی آیات میں فقراء کا لفظ اللہ تعالیٰ نے پہلے رکھا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ ہر حالت میں اس کو تمام دوسرے اخراجات پر ترجیح دی جائے گی.بلکہ اس کے صرف یہ معنے ہیں کہ عام حالات میں اس کو ترجیح دی جائے گی.ورنہ ایسے حالات بھی آسکتے ہیں جب کہ حکومت کو خود اپنی ذات میں خطرہ ہو.ایسے وقت میں افراد خواہ کتنے ہی غریب ہوں انہیں ملت کے لیے قربانی کی دعوت دی جائے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لیے غریبوں اور امیروں سب کو بلاتے تھے اور انہیں دیا کچھ نہیں جاتا تھا.پس معلوم ہوا کہ اگر قوم و ملک کی آزادی خطرے میں ہو تو اس وقت غرباء کو بھی قربانی کے لیے بلایا جا سکتا ہے پس یہ ترتیب جو قرآنی آیت میں فقراء کو نمبر اول پر رکھ کر قائم کی گئی ہے فرض نہیں مرجح ہے.آیت میں فقراء کے بعد مساکین کا لفظ ہے.لغت میں مسکین کے معنی بھی درحقیقت فقیر ہی کے ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ مسکین ساکن فقیر کو کہتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے ساکن فقیر کے یہ معنے گئے ہیں کہ وہ جو اپنے گھر میں بیٹھ جائے اور سوال کے ذریعہ کسی کو اپنی غربت کا پتہ نہ لگنے دے.یعنی صرف اس کے حالات سے علم ہو کہ قابل امداد ہے.باوجود اس کے فقیر اور مسکین کے الفاظ ایک ہی قسم کی غربت پر دلالت کرتے ہیں.انہیں الگ الگ بیان کرنے میں یہ حکمت ہے کہ اسلامی حکومت کا یہ فرض مقرر کیا گیا ہے وہ صرف نادار لوگوں کا ہی فکر نہ
۱۴۹ زكوة کرے بلکہ ایسے لوگوں کی بھی جستجو کرے جو نادار ہیں لیکن اپنی ناداری لوگوں پر ظاہر نہیں ہونے دیتے اور تلاش کر کے ان کی مدد کرے.تیسری مدخرچ کی والعاملین علیها کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے بعض جو لوگ زکوۃ کا انتظام کرنے پر مقرر ہوں ان کی تنخواہیں وغیرہ بھی اس سے ادا کی جائیں.در حقیقت و الـعـامـلـيـن عليها کے الفاظ میں وسعت ہے.ملکی فوج بھی عاملین کی ذیل میں آجاتی ہے کیونکہ اگر فوج نہ ہوگی تو ملک کا امن برقرار نہ رہ سکے گا.نہ تجارت ہو سکے گی نہ زمینداری اور اگر تجارت و زمینداری نہ ہوگی تو زکوة کہاں سے آئے گی.پس زکوۃ کے جمع ہونے میں فوج کا بھی بڑا دخل ہے.بہر حال زکوۃ کے نظم ونسق کے کارکن اول درجہ پر عاملین کی ذیل میں آتے ہیں.( تفسیر کبیر.جلد دہم، سورۃ الکفرون صفحه ۴۲۶،۴۲۵) مؤلفة القلوب چوتھی مد مؤلفۃ القلوب بیان کی گئی ہے...مؤلفة القلوب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے دل اسلام یا اسلامی حکومت کی طرف مائل ہو چکے ہوں.لیکن کفار کے ملک میں ہونے کی وجہ سے اپنے اسلام یا اپنی ہمدردی کو پوری طرح ظاہر نہ کر سکتے ہوں اُن کو اسلامی ملک میں لانے یا ان کی دلی حالت کو قائم رکھنے میں مدد دینے کے لئے بھی زکوۃ کا روپیہ خرچ کیا جا سکتا ہے یا ایسے لوگ جن کے دل اسلام کی صداقت کے قائل ہوچکے ہیں لیکن اگر وہ اسلام کو ظاہر کردیں تو غیر ممالک میں ان کی ملازمتیں خطرے میں پڑ جاتی ہیں اور گزارے کی صورتیں ختم ہو جاتی ہیں.ان کی بھی مدد کی جاسکتی ہے.مؤلفة القلوب سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ کسی کو روپیہ دے کر اسلام کی طرف مائل کیا جائے کیونکہ اسلام روپیہ دے کر لوگوں کو مسلمان بنانے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا.اس کی ذاتی خوبیاں ہی اس کے پھیلانے کے لئے کافی ہیں.پانچویں مدفی الرقاب بیان کی گئی ہے یعنی غلاموں کے آزاد کرانے میں بھی زکوۃ کا روپیہ خرچ
۱۵۰ زكوة کیا جا سکتا ہے.ابتدائے اسلام میں عرب میں غلامی کا رواج تھا اس لئے ان کے آزاد کر وانے کا حکم تھا کیونکہ اسلام بیع وشراء والی غلامی کو مطلقاً حرام کرتا ہے لیکن اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ اگر کوئی جابر قوم ظالمانہ طور پر کسی کمزور قوم کو روند ڈالے اور ان کے ملک پر قبضہ کرلے اور ان کو غلام بنالے تو کمزور قوم کی مدد کی جائے اور ان کو ظالموں کے ہاتھوں سے آزاد کرایا جائے.اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کا قرض ادا نہ کر سکنے کی صورت مصیبت میں مبتلا ہو تو اس کی زکوۃ کے مال سے گلو خلاصی کرائی جائے.چھٹی مد غارمین کی بیان کی گئی ہے.اس کی ذیل میں وہ لوگ آجاتے ہیں جن کو بعض اوقات ایسی رقوم ادا کرنی پڑ جاتی ہیں جن کے براہ راست وہ ذمہ وار نہیں ہوتے.مثلاً کسی کی ضمانت دی اور جس کی ضمانت دی تھی وہ فوت ہو گیا یا کسی اور طرح سے غائب ہو گیا.تو ضامن کے پاس مال نہ ہو سکنے کی صورت میں اس کی امداد کی جاسکتی ہے.اسی طرح اس کی ذیل میں وہ تاجر بھی آسکتے ہیں جن کی تجارت ملک کے لئے مفید ہو.مگر کسی اتفاقی حادثہ کی وجہ سے ان کا نقصان ہو جائے اور تجارت بند ہو جانے کا خطرہ ہو.ایسی صورت میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان لوگوں کو روپیہ دے تا کہ وہ اپنی تجارت کو بحال کر کے ملک کو فائدہ پہنچاسکیں.ساتویں مدفی سبیل اللہ کی ہے.اس مد میں وہ تمام کام شامل ہیں.جو قومی یا ملکی تنظیم ، استحکام، حفاظت یا ان کی ترقی کے لئے کئے جائیں.اس میں فوجیں بھی شامل ہیں اور تعلیم بھی شامل ہے.سڑکیں، ہسپتال اسی قسم کے وہ تمام کام جو صرف کسی فرد کے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ تمام قوم کے لئے ہوتے ہیں.شامل ہیں.فقراء، مساکین، عاملین علیہا، مؤلفتہ القلوب اور غار مین کے ذکر میں درحقیقت فردی امداد کا ذکر ہے.اور اس کے بعد ابن السبیل کا لفظ رکھ کر یہ بتایا گیا ہے کہ بعض اوقات ایسے کام پیش آ جاتے ہیں جو کسی فرد کی طرف منسوب نہیں کئے جاسکتے.بلکہ قوم کی طرف یا ملک کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور اس قسم کے کاموں میں اجتماعی خرچ ہوتا ہے جو ملک اور ملت کے استحکام اور ترقی کے لئے کیا جانا ضروری ہوتا ہے چونکہ ایسے خرچ کئی قسم کے ہو سکتے ہیں اس لئے اس کی تفصیل بیان نہیں کی بلکہ ایک مجمل اور جامع لفظ رکھ دیا تا کہ ضرورت پیش آنے پر ذمہ وارلوگ اس کو خرچ کرسکیں.
۱۵۱ زكوة آٹھویں مدابن السبیل کی ہے.ابن السبیل کے معنے مسافر کے ہیں.یعنی مسافروں کی امداد کرنا حکومت کا فرض ہے.یعنی سڑکوں کا بنانا اور ان کی مرمت وغیرہ کا خیال رکھنا، مسافر خانے اور ڈاک بنگلے بنانا اپنے ملک میں سفر کرنے کے لئے معلومات اور سہولتیں بہم پہنچانا.اس کے متعلق لٹریچر شائع کرنا تا کہ غیر ملکوں کے لوگ آئیں اور اسلامی حکومت کو دیکھیں اور مسلمان غیر مسلمانوں سے واقف ہوں اور غیر مسلمان مسلمانوں سے واقف ہوں.اور سیاحوں کے آنے کی وجہ سے ملک کی دولت بڑھے اور غیر ملکوں کے ساتھ تعلقات قائم ہونے کی وجہ سے اسلامی ملک کی ساکھ دوسرے ممالک میں قائم ہو اور بین الاقوامی تعلقات بہتر ہوں.گویا یہ سب اغراض ابن السبیل کی مد میں آجاتی ہیں.( تفسیر کبیر.جلد دہم ، سورۃ الکفرون صفحه ۴۲۵ تا ۴۲۷) فرمایا:.تعجب ہے کہ ہماری انجمن میں زکوۃ کا بھی ایک بجٹ تیار ہوتا ہے.زکوۃ کا مال جمع کرنے کے لئے نہیں وہ تو خرچ کرنے کے لئے ہے اور اس کے مصارف اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ میں بتا دیئے ہیں.(الفضل ۲۲ / جون ۱۹۱۴ء.جلد ۲.نمبر ۳) دوسرا حکم زکوۃ کا ہے اگر کسی کے پاس 52 تولے چاندی یا 40 روپے سال بھر جمع رہیں تو ان پر ایک روپیہ زکوۃ دے جو مسکینوں، یتیموں اور غریبوں کے لئے ضروری ہے اور جہاں نماز کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں زکوۃ کے حکم سے بندوں کا حق ادا کرنے کی تاکید ہے.خدا تعالیٰ خود بھی براہ راست اپنے بندوں کو سب کچھ دے سکتا ہے لیکن اس نے آپ دینے کی بجائے بندوں کے ذریعہ دینا چاہا ہے تا کہ دینے والے بھی ثواب اور اجر کے مستحق ہوں.الاز ہار لذوات الخمار صفحه ۲۴، ۲۶، ۲۷) اگر کسی کے پاس 52 تولے چاندی یا ۴۰ روپے سال بھر تک جمع رہیں تو ان پر ایک روپیہ زکوۃ دے.☆☆☆ الفضل ۲۷ /اکتوبر ۱۹۱۷ء.جلد ۵ - نمبر ۳۴)
۱۵۳ روزه
۱۵۵ روزه رؤیت هلال اس دن مطلع ابر آلود تھا اس لئے چاند دکھائی نہ دیا.دوسرے دن ہائی سکول کے ایک لڑکے اور دو مستورات نے شہادت دی کہ ہم نے چاند دیکھا ہے لیکن شہادت میں اختلاف ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہ سمجھی گئی.حیدر آباد دکن سے بھی چاند دیکھنے کی تارآ ئی تھی لیکن اس پر بھی روزہ افطار کرنے کا فتویٰ دینا مناسب نہ سمجھا گیا.الفضل ۲۱/۲۴ جولائی ۱۹۱۷ء.نمبر ۵۰۶) هلال عید بوجہ غبار جمعرات کو دکھائی نہ دیا لیکن بعض شہادتوں کی بناء پر عید جمعہ کے روز کی گئی.( الفضل ۱۷ راگست ۱۹۱۵ء نمبر ۲۴) سوال :.رمضان کا روزہ پیر سے شروع ہے ایک شخص نے اس خیال سے روزہ نہیں رکھا کہ چاند اتوار کو ابر کے باعث نظر نہیں آیا؟ جواب :.اس کے عوض رمضان کے بعد رکھ لیوے.(الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۱۶ء.نمبر۴) محمد طاہر صاحب سیکرٹری جماعت احمدیہ پاڈانگ کے سوالوں کے جوابات جو حضور ایدہ اللہ نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمائے.سوال :.کیا اس ملک میں جہاں پر عموماً چاند دکھائی نہیں دیتا روزہ اہل فلک کے حساب کے مطابق رکھا جاسکتا ہے؟ مثلا سماٹرا و جاوا میں عام طور پر لوگ اہل فلک کے حساب کے مطابق روزہ رکھتے ہیں کیونکہ وہاں پہاڑ اور بادل کی وجہ سے عموماً چاند دکھائی نہیں دیتا.اور اس ملک میں جہاں پر چھ مہینہ دن اور چھ مہینہ رات ہوتے ہیں جیسا North Pole میں کس طرح روزہ رکھا جا سکتا ہے.اگر وہاں بھی روزہ رکھا جاسکتا ہے تو سحری اور افطار کا کیا حساب ہوگا ؟
۱۵۶ روزه جواب :.جہاں چاند نکلتا ہے وہاں یہ حساب ہوگا کہ چاند دیکھنے پر روزہ اور عید ہوا گر ۲۹ دن کے بعد چاند نکلتا ہے اور اگر ۳۰ دن ہو جائیں تو پھر بغیر دیکھے حساب پر روزہ رکھنا یا عید کرنا اسلامی تعلیم کے مطابق ہیں.جہاں چاند نہیں نکلتا وہاں روز ہ ۱۲ گھنٹہ کا دن فرض کر کے ہوگا.چونکہ بیرونجات سے یہ خبریں پہنچتی ہیں کہ پہلا روزہ ہفتہ کا ہے بلکہ ایک دوست جوالہ آباد کے علاقہ سے آئے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ وہاں میں نے خود چاند دیکھا ہے اور لوگوں نے دیکھ کر ہفتہ کا روزہ رکھا.اس لئے حضور نے پسند فرمایا کہ جمعرات کے دن بیسویں تاریخ قرار دے کر اسی روز اعتکاف بیٹھ جاویں.علاقہ نظام (حیدرآباد دکن ) میں تو جمعہ کے روز پہلا روزہ ہوا.الفضل ۱۶ را گست ۱۹۱۴ء.نمبر ۲۶) ماہ رمضان کی فضیلت.مسافر کون؟ یہ زمانہ روحانی ترقیات کا ہے اور روحانی ترقیات میں روزے ضروری ہیں اس لئے ان کومت چھوڑو.دعاؤں کے ذریعہ قرب تلاش کرو.ہاں جو بیمار ہیں جن کو عرف میں بیمار کہتے ہیں اور جوسفر میں ہوں ان کے لئے بھی روزے معاف نہیں.وہ دوسرے ایام میں رکھیں.اگر تندرست سے تندرست شخص بھی طبیب کے پاس جائے تو وہ کوئی نہ کوئی مرض تلاش کر کے بتائے گا.ایسا مرض نہیں بلکہ عرف میں جس کو مرض کہتے ہیں وہ مرض ہوتا ہے اور اسی طرح سفر بھی وہ جو اتفاقی طور پر پیش آئے.لیکن جو شخص تاجر ہے یا جو غلام ہے اور اس کا کام ہے کہ وہ دورہ کرے یہ سفر نہیں.سفر اتفاقی سفر کو کہتے ہیں جس کو مستقل سفر پیش رہے وہ مسافر نہیں جیسے پھیری والا.زمیندار کہتے ہیں کہ ہمیں کام سخت کرنا پڑتا ہے ہم نہیں روزہ رکھ سکتے سو ان کو معلوم ہو کہ ان کا جو کام ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے لئے جسمانی تکلیف کم ہو گئی ہے.اس سخت کام کے باعث ان کے پٹھوں کی حس کم ہو گئی ہے.تم نے دیکھا ہوگا کہ ایک دماغی کام کرنے والا اگر آپریشن کرائے تو اس کے لئے کلورا فارم کی
۱۵۷ روزه ضرورت ہوتی ہے اور زمیندار کہہ دیتا ہے کہ کلو را فارم کی ضرورت نہیں.وجہ یہ کہ دماغی کام کرنے والے کی جس تیز ہے اور اس کی کمزور.پس دماغی کام کرنے والے جو ہیں وہ اس محنت کو برداشت نہیں کر سکتے.اس لئے دھوپ سے بچ کر کام کرتے ہیں اور زمینداروں کو جسمانی کام کرنا پڑتا ہے اس لئے اگر وہ روزہ رکھیں تو ان کی سختی پسند حالت کے باعث ان کے لئے کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی.پڑھنے والا پڑھ کر کمزور ہو گیا ہے اور زمیندار کو مضبوط بنایا گیا ہے اس لئے اس قدرت کے سامان کے ماتحت زمینداروں کے لئے روزہ کچھ مشکل نہیں.الفضل ۱۷ رجون ۱۹۲۰ء) سوال پیش کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے روزہ کے متعلق یہ فتویٰ دیا ہے کہ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا.ادھر الفضل میں میرا اعلان شائع کیا گیا ہے کہ احمدی احباب جو جلسہ سالانہ پر آئیں وہ یہاں آکر روزے رکھ سکتے ہیں مگر جو نہ رکھیں اور بعد میں رکھیں ان پر کوئی اعتراض نہیں.اس کے متعلق اول تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا کوئی فتوی الفضل میں شائع نہیں ہوا ہاں ایک فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا میری روایت سے چھپا ہے.اصل بات یہ ہے کہ زمانہ خلافت کے پہلے ایام میں میں سفر میں روزہ رکھنے سے منع کیا کرتا تھا کیونکہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا تھا کہ آپ مسافر کو روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے.ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ مرزا یعقوب بیگ صاحب رمضان میں آئے اور انہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا لیکن عصر کے وقت جبکہ وہ آئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہہ کر روزہ کھلا دیا کہ سفر میں روزہ رکھنا نا جائز ہے.اس پر اتنی لمبی بحث اور گفتگو ہوئی کہ حضرت خلیفہ اول نے سمجھا کہ شائد کسی کو ٹھوکر لگ جائے اس لئے آپ ابن عربی کا ایک حوالہ دوسرے دن تلاش کر کے لائے کہ وہ بھی یہی کہتے ہیں.اس واقعہ کا مجھ پر یہ اثر تھا کہ میں سفر میں روزہ رکھنے سے روکتا تھا.اتفاق ایسا ہوا کہ ایک رمضان
۱۵۸ روزه مولوی عبد اللہ صاحب سنوری یہاں رمضان گزارنے کے لئے آئے تو انہوں نے کہا میں نے سنا ہے آپ باہر سے یہاں آنے والوں کو روزہ رکھنے سے منع کرتے ہیں مگر میری روایت ہے کہ یہاں ایک صاحب آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ مجھے یہاں ٹھہرنا ہے اس دوران میں روزے رکھوں یا نہ رکھوں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہاں آپ روزے رکھ سکتے ہیں کیونکہ قادیان احمدیوں کے لئے وطن ثانی ہے.گومولوی عبداللہ صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے مقرب تھے مگر میں نے صرف ان کی روایت کو قبول نہ کیا اور لوگوں کی اس بارے میں شہادت کی تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان کی رہائش کے ایام میں روزہ رکھنے کی اجازت دیتے تھے.البتہ آنے اور جانے کے دن روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے.اس وجہ سے مجھے پہلا خیال بدلنا پڑا.اسلامی روزه الفضل ۴ جنوری ۱۹۳۴ء.نمبر ۸۰) وہ علاقے جہاں دن رات ۲۴ گھنٹے سے لمبے ھیں وہ وقت کا اندازہ کریں اسلامی روزہ بھی دوسرے لوگوں کے روزوں سے مختلف ہے.ہندوا اپنے روزوں میں کئی چیزیں کھا بھی لیتے ہیں پھر بھی ان کا روزہ قائم رہتا ہے.عیسائیوں کے روزے بھی اسی قسم کے ہیں.کسی روزے میں گوشت نہیں کھانا کسی میں خمیری روٹی نہیں کھانی.اسلامی روزہ نماز کی طرح انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی.چنانچہ تمام مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ وہ سال کے مختلف اوقات میں نفلی روزے رکھا کریں مگر رمضان کے مہینہ میں دنیا کے تمام مسلمانوں کو خواہ وہ کسی گوشہ میں رہتے ہوں ایک وقت میں روزے رکھنے کا حکم ہے.وہ صبح پو پھٹنے سے پہلے کھانا کھاتے ہیں اور پھر سارا دن سورج کے ڈوبنے تک نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں.سورج ڈوبنے کے بعد صبح تک ان کو کھانے پینے کی اجازت ہوتی ہے.ان سے امید کی جاتی ہے
۱۵۹ روزه کہ وہ ان دنوں میں جہاں کھانے سے پر ہیز کریں وہاں اپنے نفس کو زیادہ سے زیادہ نیکی پر قائم کرنے کی کوشش کریں.کیونکہ روزہ انہیں یہ سبق دیتا ہے کہ جب تم خدا کے لئے حلال چیزوں کو چھوڑ دیتے ہو تو حرام چیزوں کو چھوڑ نا تمہارے لئے بدرجہ اولیٰ ضروری ہے.یہ روزے تمام ایسے ممالک میں جہاں دن چوبیس گھنٹے سے کم ہے اور جہاں رات اور دن چوبیس گھنٹے کے اندر الگ الگ وقتوں میں ظاہر ہوتے ہیں اس شکل میں ہیں جو اوپر بیان کی گئی ہے لیکن جن ملکوں میں رات اور دن چوبیس گھنٹوں سے لمبے ہو جاتے ہیں ان علاقوں میں رہنے والوں کے لئے صرف وقت کا اندازہ کرنے کا حکم ہے.(دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۲۹۵) مسائل رمضان بعد اجازت و نظرثانی خلیفه (ثانی ا.چاند کے بارہ میں تارخبر معتبر ہے.اعتبار کی وہی صورت ہے جو عام معاملات میں ہوتی ہے.ایک شہر والوں کا چاند دیکھنا دوسروں پر حجت ہے جب تک اختلاف مطالع نہ ہو.۲.روزے کے لئے نیت ضروری ہے.بغیر نیت روزے کا ثواب نہیں.نیت دل کے ارادے کا نام ہے.(ب) افق مشرق پر سیاہ دھاری سے سفید دھاری شمالاً جنو با ظاہر ہونے تک کھانا پینا جائز ہے.اگر اپنی طرف سے احتیاط ہو اور بعد میں کوئی کہے کہ اس وقت سفیدی ظاہر ہو گئی تھی.تو روزہ ہو جاتا ہے.( ج ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانا کھانے اور نماز فجر میں پچاس آیت پڑھنے تک وقفہ ہوتا تھا.(د) پو پھٹنے کے بعد تک جنبی رہنا منع نہیں..اپنی بیوی کے بوسے، مباشرت بغیر جماع، احتلام ،مسواک خشک یا تر ، آنکھوں میں دوائی ڈالنے، خوشبو سونگھنے، بلغم حلق میں چلے جانے ، گردو غبار حلق میں پڑ جانے کلی کرنے ، بھول
۱۶۰ روزه کر کھا پی لینے سے روزہ نہیں ٹو تھا.سرمہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے.دن کولگا نا مکروہ ہے.۴.جماع ( خواہ بغیر انزال ہو ) کلی کرتے ہوئے پانی اندر چلے جانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے.عمداً جماع سے ۶۰ روزے یا ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلانا ضروری ہے.جسے غروب آفتاب کے متعلق غلطی کا علم بعد میں معلوم ہو وہ اس روزہ کو پھر رکھے.۵- بیهوشی، جمل، ارضاع ( دودھ پلانا ) جیل خانہ عذر ایسے ہیں کہ بعد میں لازم ہے.حاملہ مرضعہ کو وقت نہ ملے تو فدیہ طعام مسکین دے.مسافر دوسرے وقت میں روزہ رکھے.سات کوس سفر ہے.مگر جس کا فرض منصبی یا پیشہ سفر ہو وہ مسافر نہیں.مریض صحت یاب ہوکر روزہ رکھے.مرض کی تحدید نہیں.دائم المریض شیخ فانی ہر روزہ پر ایک مسکین کو دونوں وقت کھانا کھلائے.کھانا اپنی حیثیت کو مد نظر رکھ کر مہینے کے خرچ کا اوسط جو ایک دن پر پڑے.جو کام بطور پیشہ کئے جاتے ہیں ان کے عذر سے روزہ چھوڑنے کا حکم نہیں.عورت بحالت حیض روزہ نہ رکھے بعد میں قضا کرے.استحاضہ والی روزہ رکھے.۶.روزہ کھولنے کے وقت یہ دعا پڑھی جاوے.اللهم لك صمت وعلى رزقك افطرت ذهب الظمأ وابتلت العروق ے.روزہ طاق کھجور سے یا پانی سے کھولنا مستحب ہے.( الفضل ۲۸ / جولائی ۱۹۱۴ء.نمبر ۱۸) کن لوگوں پر روزہ رکھنا فرض هے ان ایام میں ہم پر بعض ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں یعنی پو پھٹنے سے لے کر تمام وہ عاقل بالغ جو بیمار نہ ہوں، بچے کمزور اور بوڑھے نہ ہوں یا پھر حائضہ ، حاملہ یا دودھ پلانے والی عورتیں جو گو بیمار نہ ہوں لیکن روزہ کو برداشت نہ کر سکتی ہوں عام طور پر اکثر عورتوں کو حمل یا دودھ پلانے کی حالت میں
۱۶۱ روزه غیر معمولی تکلیف کا امکان ہوتا ہے یا پھر مسافر کے سوا باقی سب کے لئے غروب آفتاب تک روزہ رکھنا فرض ہے.(الفضل ۳۱ - ۳۰ء.نمبر ۸۸) مریض روزه نه رکهے - فدیه روزه رمضان کے لئے یہ شرط ہے کہ اگر انسان مریض ہو خواہ وہ مرض لاحق ہوا ہو یا ایسی حالت میں ہو جس میں روزہ رکھنا یقیناً مریض بنا دے گا.جیسے حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت یا ایسا بوڑھا شخص جس کے قومی میں انحطاط شروع ہو چکا ہے یا پھر اتنا چھوٹا بچہ جس کے قومی نشو ونما پا رہے ہیں تو اسے روزہ نہیں رکھنا چاہئے اور ایسے شخص کو اگر آسودگی حاصل ہو تو ایک آدمی کا کھانا کسی کو دے دینا چاہئے اور اگر یہ طاقت نہ ہو تو نہ سہی ایسے شخص کی نیت ہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے روزہ کے برابر ہے.اگر روک عارضی ہو اور بعد میں وہ دور ہو جائے تو خواہ فدیہ دیا ہو یا نہ دیا ہوروزہ بہر حال رکھنا ہوگا.فدیہ دے دینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہوتا بلکہ یہ تو محض اس بات کا بدلہ ہے کہ ان دنوں میں باقی مسلمان کے ساتھ مل کر اس عبادت کو ادانہیں کرسکتا.یا اس بات کا شکرانہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ عبادت کرنے کی توفیق بخشی ہے.کیونکہ روزہ رکھ کر بھی فدیہ دینا مسنون ہے اور نہ رکھ کر بھی.روزہ رکھ کر جوفد یہ دیتا ہے وہ زیادہ ثواب کا مستحق ہوتا ہے کیونکہ روزہ رکھنے کی توفیق پانے پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے اور جو روزہ رکھنے سے معذور ہو وہ اپنے اس عذر کی وجہ سے دیتا ہے آگے یہ عذر دو قسم کے ہوتے ہیں عارضی اور مستقل.ان دونوں حالتوں میں فدیہ دینا بھی چاہئے.پھر جب عذر دور ہو جائے تو روزہ بھی رکھنا چاہئے.غرضیکہ خواہ کوئی فدیہ بھی دیدے لیکن سال دو سال، تین سال بعد جب بھی صحت اجازت دے اسے پھر روزہ رکھنا ہوگا.سوائے اس صورت کے کہ پہلے مرض عارضی تھا اور صحت ہونے کے بعد وہ ارادہ ہی کرتا رہا کہ آج رکھتا ہوں، کل رکھتا ہوں کہ اس دوران
۱۶۲ روزه میں اس کی صحت پھر مستقل طور پر خراب ہو جائے.باقی جو بھی طاقت رکھتا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے ایام میں روزے رکھے.روزہ رکھنے کی عمر الفضل ا ر ا گست ۱۹۴۵ء) میں نے دیکھا ہے عام طور پر لوگ ایک پہلو کی طرف لگ جاتے ہیں کئی ہیں جو نمازوں میں سست ہیں اور باقاعدہ وقت پر نمازیں ادا نہیں کرتے.کئی جو نماز تو پڑھتے ہیں لیکن باجماعت نماز نہیں پڑھتے یا کم از کم با جماعت نماز ادا کرنے کا ان کو خیال نہیں ہوتا.لیکن روزوں کے ایام میں وہ روزوں کی ایسی پابندی کریں گے کہ خواہ ڈاکٹر بھی ان کو کہہ دے کہ تمہارے حق میں روزہ اچھا نہیں اور تم خطرے میں پڑ جاؤ گے تب بھی روزہ ترک نہیں کریں گے حتی کہ بیماری میں روزہ رکھیں گے.روزہ رکھنے کی عمر:.پھر کئی ہیں جو چھوٹے بچوں سے بھی روزہ رکھواتے ہیں حالانکہ ہر ایک فرض اور حکم کے لئے الگ الگ حدیں اور الگ الگ وقت ہوتا ہے.ہمارے نزدیک بعض احکام کا زمانہ چار سال کی عمر سے شروع ہو جاتا ہے اور بعض ایسے ہیں جن کا زمانہ سات سال سے بارہ سال تک ہے اور بعض ایسے ہیں جن کا زمانہ پندرہ یا اٹھارہ سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے.میرے نزدیک روزوں کا حکم پندرہ سال سے اٹھارہ سال تک کی عمر کے بچے پر عائد ہوتا ہے اور یہی بلوغت کی حد ہے.بچوں کو روزہ رکھانا:.میرے نزدیک اس سے پہلے بچوں سے روزے رکھوانا ان کی صحت پر بہت بُرا اثر ڈالتا ہے کیونکہ وہ زمانہ ان کے لئے ایسا ہوتا ہے جس میں وہ طاقت اور قوت حاصل کر رہے ہوتے ہیں.پس اس زمانہ میں کہ وہ طاقت اور قوت کے ذخیرہ کو جمع کر رہے ہوتے ہیں اس وقت ان کی طاقت کو دبانا اور بڑھنے نہ دینا ان کے لئے سخت مضر ہے.بارہ سال کی کم عمر کے بچے سے روزہ رکھوانا تو میرے نزدیک ایک جرم ہے اور بارہ سال سے پندرہ سال کی عمر کے بچے کو اگر کوئی روزہ رکھواتا ہے تو غلطی کرتا ہے.پندرہ سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور اٹھارہ سال کی عمر میں روزے فرض سمجھنے چاہئیں.
۱۶۳ روزه مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روزہ رکھنے کا شوق ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے.اور بجائے اس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر روزہ کا رعب ڈالتے تھے.تو بچوں کی صحت کو قائم رکھنے اور ان کی قوت بڑھانے کے لئے روزہ رکھنے سے انہیں روکنا چاہئے.اس کے بعد جب ان پر وہ زمانہ آجائے جب وہ اپنی قوت کو پہنچ جائیں جو پندرہ سال کی عمر کا زمانہ ہے تو پھر ان سے روزے رکھوائے جائیں اور وہ بھی آہستگی کے ساتھ.پہلے سال جتنے رکھیں دوسرے سال اس سے کچھ زیادہ اور تیسرے سال اس سے زیادہ رکھوائے جائیں.اس طرح بتدریج اس وقت ان کو روزہ کا عادی بنایا جائے.روزہ نہ رکھنے والے:.اس کے مقابل میں میرے نزدیک ایسے لوگ بھی ہیں جو روزہ کو بالکل معمولی حکم تصور کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی وجہ کی بناء پر روزہ ترک کر دیتے ہیں بلکہ اس خیال سے بھی کہ ہم بیمار ہو جائیں گے روزہ چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ یہ کوئی عذر نہیں کہ آدمی خیال کرے میں بیمار ہو جاؤں گا.میں نے تو آج تک کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جو یہ کہہ سکے کہ میں بیمار نہیں ہوں گا.پس بیماری کا خیال روزے ترک کرنے کی جائز وجہ نہیں ہو سکتا.پھر بعض اس عذر پر روزہ نہیں رکھتے کہ انہیں بہت بھوک لگتی ہے حالانکہ کون نہیں جانتا کہ روزہ رکھنے سے بھوک لگتی ہے جو روزہ رکھے گا اس کو ضرور بھوک لگے گی.روزہ تو ہوتا ہی اس لئے ہے کہ بھوک لگے اور انسان اس بھوک کو برداشت کرے.جب روزہ کی یہ غرض ہے تو پھر بھوک کا سوال کیسا.پھر کئی ہیں جو ضعف ہو جانے کے خیال سے روزہ نہیں رکھتے.حالانکہ کوئی بھی ایسا آدمی نہیں جس کو روزہ رکھنے سے ضعف نہ ہوتا ہو.جب وہ کھانا پینا چھوڑ دے گا تو ضرور ضعف بھی ہوگا اور ایسا آدمی کوئی نہیں ملے گا جو روزہ رکھے اور ضعف نہ ہو.(الفضل ۱۱ر اپریل ۱۹۲۵ء.نمبر ۱۱۳) سوال:.پوچھا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ بیمار رہتے تھے کیا روزہ رکھتے تھے؟
۱۶۴ روزه جواب :.فرمایا : - حضرت صاحب خوب روزہ رکھتے تھے مگر چونکہ آخر میں کمز ور زیادہ ہو گئے تھے اور مرض میں بھی زیادتی تھی اس لئے تین سال کے روزے نہیں رکھے.(الفضل ۱۲ جون ۱۹۲۲ء.نمبر ۹۷) مسافر اور مریض روزہ نہ رکھیں مسافر اور بیمار کے لئے روزہ رکھنا ایسا ہی بے ہودہ ہے جیسا حائضہ کے لئے روزہ رکھنا.اورکون نہیں جانتا کہ حائضہ کا روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں بلکہ بے وقوفی اور جہالت ہے اور بعض تو شائد اس بات پر ناراض ہی ہو جائیں کہ دین کا استخفاف کیا جا رہا ہے.بعینہ یہی حال بیمار اور مسافر کا ہے.اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں.اسی طرح بوڑھا جس کے قومی مضمحل ہو چکے ہیں اور روزہ اسے زندگی کے باقی اشغال سے محروم کر دیتا ہے اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں.پھر وہ بچہ جس کے قومی نشو ونما پا رہے ہیں اور آئندہ پچاس ساٹھ سال کے لئے طاقت کا ذخیرہ جمع کر رہے ہیں اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں ہو سکتا.مگر جس میں طاقت ہے اور جو رمضان کا مخاطب ہے وہ اگر روزہ نہیں رکھتا تو گناہ کا مرتکب ہوتا ہے.(الفضل ۲ فروری ۱۹۳۳ء) سوال : محمد الدین صاحب دیہاتی چٹھی رساں نے روزہ کے متعلق پوچھا کہ میں بوجہ سفر روزہ نہیں رکھ سکتا.جواب :.فرمایا :.جن کی ملازمت سفر کی ہو ان کو روز ہ معاف نہیں ہوسکتا.اگر بیمار ہو جائے تو اور بات ہے.(الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۱۵ء نمبر ۱۰) سوال :.ایک صاحب نے لکھا کہ مجھے صبح سات بجے سے شام کے چار بجے تک پہاڑوں پر دورہ کرنا پڑتا ہے اور بہت تکلیف ہوتی ہے اس لئے ماہ رمضان میں کوئی روزہ نہیں رکھ سکتا.دین
۱۶۵ روزه کو دنیا پر مقدم کرنے کے لئے کیا ملا زمت چھوڑ دوں؟ جواب :.حضور نے لکھوایا کہ روزہ رکھنا چاہئے.اب اتنے دنوں زیادہ خرچ برداشت کر کے سواری کا کوئی انتظام کر لیں.روزہ نہیں چھوڑا جاسکتا.( الفضل ۲۲ مئی ۱۹۲۲ء نمبر ۹۱ ) بیمارا گر کہتا ہے کہ میں روزہ رکھ سکتا ہوں اور رکھتا ہے تو بُرا کرتا ہے.اسی طرح جو شخص سفر کرتا ہے اور روزہ رکھتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے انعام کر رد کرتا ہے.سفر کے متعلق میرا عقیدہ اور خیال یہی ہے ممکن ہے بعض فقہاء کو اس سے اختلاف ہو کہ جوسفرسحری کے بعد شروع ہو کر شام کو ختم ہو جائے وہ روزہ کے لحاظ سے سفر نہیں.سفر میں روزہ رکھنے سے شریعت روکتی ہے مگر روزہ میں سفر کرنے سے نہیں روکتی.پس جو سفر روزہ رکھنے کے بعد شروع ہو کر افطاری سے پہلے ختم ہو جائے وہ روزہ کے لحاظ سے سفر نہیں.روزہ میں سفر ہے سفر میں روزہ نہیں.(الفضل ۲۵ ستمبر ۱۹۴۲ء نمبر ۲۲۴) جن بچوں کے سینے چھوٹے اور کمزور ہوں ان کو روزوں پر مجبور کرنا بلکہ ان کو روزے رکھنے دینا بھی درست نہیں.ہاں پندرہ سال کی عمر سے ان کو عادت ڈلوانی اور مشق کروانی چاہئے خواہ ان کے قویٰ شہوانی بارہ برس کی عمر سے ہی بلوغت کو پہنچ گئے ہوں.(الفضل ۱۴ را پریل ۱۹۲۵ء) نزله میں روزه میرے نزدیک نزلہ خواہ کتنا ہی خفیف کیوں نہ ہوایسی بیماری ہے جس کا روزہ سے تعلق ہے اور ایسے لوگوں کے لئے جنہیں نزلہ ہوتا ہے روزے رکھنے بہت مضر اور بڑے نقصان کا موجب ہوتے ہیں.
۱۶۶ روزه نزلہ کے نتیجہ میں انسان کو پیاس زیادہ لگتی ہے.اب روزے کے ساتھ جب وہ پیاس کو دبائے گا تو وہ اور بھی زیادہ بڑھے گی اور یہ نزلہ کے لئے بہت مضر ہے.پس بسا اوقات بعض بیماریاں دیکھنے میں تو معمولی ہوں گی لیکن روزے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ان کا نقصان بہت بڑا ہو گا.اس لئے ایسی بیماری میں روزہ نہ رکھنا چاہئے.سوال :.کیا ذیا بیطیس کا مریض روزہ رکھ سکتا ہے؟ ( الفضل ۱۱ را پریل ۱۹۳۵ء) الفضل ۱۱ر اپریل ۱۹۲۵ء.نمبر ۱۱۳ - جلد ۱۳) جواب :.بیماری میں روزہ جائز نہیں اور ذیا بیطیس کے لئے تو بہت ہی مضر ہے.الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۱۵ء.نمبر ۱۰.جلد ۳) سوال:.گزشتہ سال روزے رکھنے کے نتیجہ میں مجھے کچھ حرارت رہنے کی تکلیف ہو گئی تھی ڈاکٹروں نے اسے روزے کی خشکی کی وجہ قرار دیا کہ جگر کو گرمی پہنچی ہے.گرمیوں میں تکلیف زیادہ ہوگئی.اگر چہ اب بھی پیشاب زردی مائل آتا ہے.آنکھوں میں جلن کی سی کیفیت رہتی ہے ان حالات میں کیا اس دفعہ روزے رکھوں یا نہ رکھوں؟ جواب :.نہ رکھیں اور فدیہ دے دیں.فائل مسائل دینی 21.2.60/A-32) امتحان دینے والے مرضعه ، حاملہ اور بچے روزہ نہ رکھیں قرآن کریم میں صرف بیمار اور مسافر کے لئے روزہ نہ رکھنا جائز قرار دیا ہے.دودھ پلانے والی عورت اور حاملہ کے لئے کوئی ایسا حکم نہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیمار کی حد میں رکھا ہے.اسی طرح وہ بچے بھی بیمار کی حد میں ہیں جن کے اجسام ابھی نشو ونما پارہے ہیں خصوصاً وہ جو امتحان کی تیاری میں مصروف ہوں.ان دنوں ان کے دماغ پر اس قدر بوجھ ہوتا ہے کہ بعض پاگل
۱۶۷ روزه ہو جاتے ہیں.کئی ایک کی صحت خراب ہو جاتی ہے.پس اس کا کیا فائدہ ہے کہ ایک بار روزہ رکھ لیا اور پھر ہمیشہ کے لئے محروم ہو گئے.الفضل ۳۱ - ۱۹۳۰ء.نمبر ۸۸ - جلد ۱۸) بیماروں کے لئے روزہ معاف ہے.یا عورت دودھ پلاتی ہو اور روزہ سے اس کے دودھ کو نقصان ہوتا ہو تو شریعت نے اس کے لئے آسانی رکھی ہے.الفضل ۲۸ / جنوری ۱۹۱۴ء.نمبر ۳۳ صفحه۱۱) بعض بیماریوں میں روزہ رکھا جاسکتاہے بعض بیماریاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں انسان سارے کام کر لیتا ہے مثلاً پرانی بیماریاں ہیں ان میں انسان سب کام کرتا رہتا ہے.ایسا بیمار، بیمار نہیں سمجھا جاتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک دفعہ یہ فتویٰ پوچھا گیا کہ کیا اس ملازم کا سفر سفر شمار کیا جائے گا جو ملا زم ہونے کی وجہ سے سفر کرتا ہے.آپ نے فرمایا:.اس کا سفر سفر نہیں گنا جا سکتا.اس کا سفر تو اس کی ملازمت کا حصہ ہے.اسی طرح بعض ایسی بیماریاں ہوتی ہیں جن میں انسان سارے کام کرتارہتا ہے.فوجیوں میں بھی ایسے ہوتے ہیں جو ان بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں مگر وہ سارے کام کرتے رہتے ہیں.چند دن پیچش ہو جاتی ہے لیکن اس کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لئے کام کرنا چھوڑ نہیں دیتے.پس اگر دوسرے کاموں کے لئے وقت نکل آتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ایسا مریض روزے نہ رکھ سکے اس قسم کے بہانے محض اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ ایسے لوگ دراصل روزہ رکھنے کے خلاف ہوتے ہیں.بے شک یہ قرآنی حکم ہے کہ سفر کی حالت میں اور اسی طرح بیماری کی حالت میں روزے نہیں رکھنے چاہئیں اور ہم اس پر زور دیتے ہیں تا قرآنی حکم کی ہتک نہ ہومگر اس بہانہ سے فائدہ اُٹھا کر جو لوگ روزہ رکھ سکتے ہیں اور پھر وہ روزہ نہیں رکھتے یا ان سے کچھ روزے رہ گئے ہوں اور وہ کوشش کرتے تو انہیں پورا کر سکتے تھے لیکن وہ ان کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو وہ ایسے ہی گنہگار ہیں
۱۶۸ روزه جس طرح وہ شخص گنہ گار ہے جو بلا عذر رمضان کے روزے نہیں رکھتا.اس لئے ہر احمدی کو چاہتے کہ جتنے روزے اس نے کسی غفلت یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے نہیں رکھے وہ انہیں بعد میں پورا کرے یا اگر اس کے کچھ روزے غفلت یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے پانچ چھ سال سے رہ گئے ہوں تو وہ انہیں بھی پورا کرے تا عذاب سے بچ جائے.یہ کوئی بڑی قربانی نہیں بلوغت کے زمانہ کے بعد کے جتنے روزے رہ گئے ہوں وہ بڑھاپے سے پہلے پہلے پورے کرنے چاہئیں محض اس قرضہ کے زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ انہیں نظر انداز نہیں کر سکتا اور نہ پچھلے روزے معاف ہو جاتے ہیں.اگر بیماری کی سہولت سے فائدہ اُٹھایا تھا تو اسے چاہئے کہ اپنے چھوٹے ہوئے روزے پورے کرے.سارا سال ہی اس کی یہ حالت نہیں رہتی کہ وہ روزے نہ رکھ سکے.کوئی نہ کوئی زمانہ ایسا آتا ہے جب انسان روزے رکھ سکتا ہے اگر وہ گرمیوں میں روزے نہیں رکھ سکتا تو سردیوں میں رکھ لے.بعض فقہاء کا یہ خیال ہے کہ پچھلے سال کے چھوٹے ہوئے روزے دوسرے سال نہیں رکھ سکتے لیکن میرے نزدیک اگر کوئی لاعلمی کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکا تو لاعلمی معاف ہوسکتی ہے.ہاں اگر اس نے دیدہ دانستہ روزے نہیں رکھے تو پھر اس پر قضاء نہیں.لیکن اگر بھول کر روزے نہیں رکھے یا اجتہادی غلطی کی بناء پر اس نے روزے نہیں رکھے تو میرے نزدیک وہ دوبارہ رکھ سکتا ہے.(الفضل ۸ مارچ ۱۹۶۱ء) روزہ کس حالت میں چھوڑا جاسکتا ھے روزہ ایسی حالت میں ہی ترک کیا جا سکتا ہے کہ آدمی بیمار ہواور وہ بیماری بھی اس قسم کی ہو کہ اس میں روزہ رکھنا مضر ہو کیونکہ شریعت کے احکام بیماری کی نوعیت کے لحاظ سے ہوتے ہیں مثلاً ایک بیمار
روزه کے لئے اجازت ہے کہ وہ تیم کرے لیکن کسی کی بیماری اس قسم کی ہو کہ وضو کرے تو اسے فائدہ ہوتا ہو.تو با وجود بیمار ہونے کے اس کے لئے تیم جائز نہیں ہو گا.اسی طرح وہ بیماری کہ جس پر روزہ کا کوئی اثر نہیں پڑتا اس کی وجہ سے روزہ ترک کرنا جائز نہیں ہوگا.بیماری سے مراد وہی بیماری ہوگی جس کا روزہ سے تعلق بھی ہو اور ایسی حالت میں خواہ بیماری کتنی خفیف کیوں نہ ہو اس میں مبتلا روزہ ترک کر سکتا ہے کیونکہ جب روزہ کا مضر اثر اس بیماری پر پڑتا ہے تو وہ بڑھ جائے گی.پس جس مرض پر کہ روزے کا بداثر پڑتا ہو خواہ وہ نزلہ ہی ہوایسے مرض میں خواہ وہ خفیف ہی ہو روزہ رکھنا جائز نہیں اور اگر کوئی روزہ رکھے تو اس کا روزہ نہیں ہوگا.بلکہ اس کے بدلے اس کو پھر روزہ رکھنا پڑے گا.(الفضل (۱۱ارا پریل ۱۹۲۵ء نمبر ۱۱۳) قیام رمضان ا.قیام رمضان جسے عوام الناس تروایح کہتے ہیں کوئی الگ نماز نہیں وہی تہجد کی نماز ہے جسے متقی مسلمان بارہ مہینے پڑھتے ہیں.ہاں رمضان میں زیادہ اہتمام کرتے ہیں.اول طریق یہ ہے کہ تہجد اپنے اپنے گھروں میں پڑھیں.ب لیکن عام طور پر یہی مناسب ہے کہ اگر کوئی حافظ میسر ہو تو سحری کھانے سے پہلے پچھلی رات با جماعت ادا کر لیں.کیونکہ بعض لوگ اکیلے اکیلے پڑھنے میں سستی کرتے ہیں.ج اگر پچھلی رات نہیں پڑھی جاسکتی تو عشاء کی نماز کے بعد نماز پڑھ لیا کریں.حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں صحابہ کو ایک امام کے پیچھے جمع کر دیا.د مگر آج کل جو رسم کے طور پر تراویح پڑھی جاتی ہے اس سے حتی الوسع احتر از لازم ہے.ه ارکعت مع وتر
۱۷۰ روزه و.تراویح اور تہجد ایک ہی چیز ہے.بعض لوگ جو ان کو دوا لگ عبادتیں خیال کر کے دونوں کو ادا کرتے ہیں یہ غلطی ہے.الفضل ۲۸ / جولائی ۱۹۱۴ء.نمبر ۱۸) نماز تراویح میں غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر لقمہ دینا رمضان شریف میں تراویح کے لئے کسی غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر حافظ کو بتلانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو حضور نے فرمایا:.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ اس کے متعلق نہیں دیکھا.اس پر مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے جائز قرار دیا ہے.فرمایا جائز ہے تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے اور اس کے لئے یہ انتظام بھی ہوسکتا ہے کہ ایک ہی شخص تمام تراویح میں بیٹھ کر نہ سنتار ہے بلکہ چار آدمی دو دورکعت کے لئے سنیں اس طرح ان کی بھی چھ چھ رکعتیں ہو جائیں گی.عرض کیا گیا کیا فقہ اس صورت کو جائز ٹھہراتی ہے؟ فرمایا :.اصل غرض تو یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن کریم سننے کی عادت ڈالی جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فتویٰ تو ضرورت اور مجبوری کی وجہ سے ہے جیسے کوئی کھڑا ہوا نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر ہی پڑھ لے اور بیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر پڑھ لے.یا جس طرح کسی شخص کے کپڑے کو غلاظت لگی ہو اور وہ اسے دھو نہ سکے تو اسی طرح نماز پڑھ لے.یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ضرورت کی بات ہے.الفضل ۱۲ فروری ۱۹۳۰ء.نمبر ۶۶) بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا سوال :.سحری کے وقت ایک شخص کی آنکھ نہیں کھلی اس روز اس نے روزہ باعث سحری نہ کھانے
کے نہیں رکھا.اس کے متعلق کیا فتویٰ ہے؟ 121 روزه جواب :.اگر آٹھ پہر روزہ نہیں رکھ سکتا تو اس کے عوض رمضان کے بعد رکھ لیوے.( الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۱۶ء) جسے ماہ رمضان کاعلم نه هوسکا سوال :.(امریکہ کے نومسلم بشیر الدین صاحب کا خط ) اس وقت میں روزے رکھ رہا ہوں گو مجھے صحیح علم نہیں کہ رمضان کس تاریخ کو شروع ہوا.میں نے روزے گزشتہ ماہ کی ۲۱ تاریخ کو شروع کئے تھے اور اس ماہ کی ۲۰ تاریخ تک رکھوں گا ؟ جواب:.آپ کا خط ملا اس بات کو معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ آپ روزے رکھ رہے ہیں.رمضان المبارک ۵ مئی سے ۲ جون تک رہا اور سار جون کو عید ہوئی.لیکن جس شخص کو علم نہ ہو وہ جس وقت بھی روزے رکھے خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی مقبول ہیں.کیونکہ ہمارا خدا ہمارے علم کے مطابق ہم سے معاملہ کرتا ہے.اگر وہ اپنے علم کے مطابق ہم سے معاملہ کرے تو دنیا کا کوئی انسان بھی نجات نہ پاتا.(الفضل ۲۸ / جولائی ۱۹۵۴ء) اعتکاف سوال :.کیا گھر میں اعتکاف ہوسکتا ہے؟ جواب :.مسجد کے باہر ا عتکاف ہو سکتا ہے مگر مسجد والا ثواب نہیں مل سکتا.فائل مسائل دینی 25.5.54/A-32)
۱۷۲ روزه فدیه رمضان سوال:.میری بیوی دائم المرض ہے روزہ نہیں رکھ سکتی.اس کا فدیہ یہیں کسی کو کھلا دیں یا اس کی قیمت قادیان بھیج دیں؟ جواب :.خواہ یہاں بھیج دیں خواہ وہیں مستحق مساکین کو کھلا دیں جن میں احمدی و غیر احمدی کی کوئی تخصیص نہیں.( الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۱۵ء) آپ نے فدیہ دے دیا ٹھیک کیا.اگر کسی وقت طاقت روزے کی ہوتو روزہ رکھنا.فدیہ قربانی کہلائے گی فرض نہیں کہلائے گی.اگر روزے کے ساتھ انسان فدیہ کی طاقت رکھتا ہے تو فدیہ بھی ساتھ ساتھ ضرور دے.صدقة الفطر فائل مسائل دینی 10.2.58/A-32) ہر عید کے موقعہ پر رمضان کے بعد عید کی نماز سے پہلے ہر مؤمن کے لئے فرض ہے کہ وہ کم از کم ڈیڑھ سیر گندم یا اور مناسب غلہ خدا کے لئے غرباء کی امداد کی خاطر دے.خواہ غریب ہو یا امیر.غریب اس میں سے دے جو اس کو اس دن ملا ہو اور امیر اس میں سے دے جو اس نے پہلے سے کما چھوڑا ہو.(دیباچ تفسیر القرآن صفحه ۲۹۵) صدقة الفطر سوال :.کیا غیر احمدی کو صدقہ فطر نہیں دینا چاہئے خواہ کیسا ہی بے کس اور غریب ہو؟
۱۷۳ روزه جواب:.دینا چاہئے.ہاں اگر جمع کرنے اور تقسیم کرنے کا کوئی انتظام ہوتو اس میں شامل ہونا چاہئے.صدقة (الفضل ۱۹ ر ا گست ۱۹۱۶ء) ـة الفطر غیروں کودے سکتے ہیں، سیدوں کونهیں جہاں تک ہو سکے رمضان سے عملی سبق لینا چاہئے.یہاں کے لوگ یہاں صدقہ کر سکتے ہیں اور باہر کے باہر.یہ شرط نہیں ہے کہ اپنے ہی ہاں دیا جائے.غیروں کو بھی دینا چاہئے.غیروں کو بلکہ ضرور ہی دینا چاہئے تا خدا کی مخلوق سے ہمدردی عام ہو.میرے نزدیک کتے بلیاں اور چوہے بھی مستحق ہیں کہ ان کو بھی کھلانا پلانا چاہئے.یہ تو صدقہ کے متعلق تھا مگر ایک بات اور بھی یادرکھو ایک جماعت ہے جو صدقہ نہیں کھا سکتی وہ محتاج ہے،غریب ہے، نادار ہے.اس کی بھی مدد کی صورت نکالنی چاہئے.کیونکہ وہ سب سے زیادہ مستحق ہیں وہ سیدوں کی جماعت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نسل کو صدقہ سے منع فرمایا ہے.بعض نے کہا ہے اب سیدوں کے لئے صدقہ لینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ نادار ہیں مگر میرے نزدیک درست نہیں.جس بات سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اس کو جائز کیا جائے.صدقہ کے علاوہ اور بھی طریق ہو سکتے ہیں جن سے ان کی مدد ہو سکتی ہے اور اس طرح محبت بھی بڑھ سکتی ہے وہ ھدایا کا طریق ہے.پس سیدوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق نسبتی ہے اس لئے جہاں میں آپ لوگوں کو صدقات کی طرف متوجہ کرتا ہوں وہاں یہ بھی بتا تا ہوں کہ میں نہیں چاہتا کہ صدقہ کسی فتوی سے سیدوں کے لئے جائز کر دیا جائے.(الفضل ۲۴ /۲۱ جولائی ۱۹۱۷ء.نمبر ۵،۶)
۱۷۴ عیدی روزه سوال :.جمعۃ الوداع میں عیدی کیوں نہیں دی جاتی اور عید پر عیدی کیوں دی جاتی ہے حالانکہ جمعۃ الوداع روزوں کے دنوں میں آخری جمعہ ہے اور سب دنوں سے پاک دن ہے.اس میں بھی تو لوگ بڑی مستعدی سے نہا دھو کر مسجد میں جمع ہوتے ہیں اور اسی شان سے ہوتے ہیں جس شان سے کہ عیدین میں؟ جواب :.اس کی وجہ یہ ہے کہ جمعۃ الوداع لوگوں کا خود ساختہ ہے.خدا اور رسول نے اس دن کو کوئی اہمیت نہیں دی اور عید کو خدا اور رسول نے اہمیت دی ہے.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.یہ امت کے لئے خوشی کا دن ہے اور کھانے پینے کا دن ہے.چونکہ کھانے پینے کا دن ہے اس لئے کھانے پینے کے لئے مسلمان عیدی دیتے ہیں جو خود ایک ایجاد ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عیدی بچوں کو دینا ثابت نہیں.(الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۵۱ء) عید کارڈ (عید الفطر کے موقعہ پر حضرت خلیہ آج ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے نام بھی رنگین عید کارڈ ایدہ باہر سے آئے.حضرت امام نے فرمایا کہ ) یہ اسراف ہے اور بے ضرورت روپیہ ضائع کیا جاتا ہے.بہتر ہو کہ لوگ اس کو دین کی تبلیغ میں خرچ کریں.ہم نے دیکھا ہے کہ نو جوانوں اور چھوٹے بچوں میں اس کا بہت رواج ہے بچے بلکہ بعض ادھیڑ عمر حضرات بڑی بڑی قیمت کے کارڈ خرید کر پھر لفافوں میں بند کر کے دوستوں کو بھیجتے ہیں.یہ بہت بُرا دستور ہے.احباب کو چاہئے کہ اس رسم کو ترک کر دیں اور سب سے پہلے قادیان میں اس پر عمل ہو.اگر کوئی دوکاندار لائے تو اس سے نہ خریدے جائیں.لوکل سیکرٹری صاحب کی توجہ درکار ہے.کیونکہ یہ فضول خرچی ہے اور اسلام فضول خرچی کو نہایت
نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے.۱۷۵ روزه شوال میں چھ روزے (الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۱۷ء.نمبر۲۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ شوال کے مہینے میں عید کا دن گزرنے کے بعد چھ روزے رکھتے تھے.اس طریق کا احیاء ہماری جماعت کا فرض ہے.ایک دفعہ حضرت صاحب نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ تمام قادیان میں عید کے بعد چھ دن تک رمضان ہی کی طرح اہتمام تھا.آخر میں چونکہ حضرت صاحب کی عمر زیادہ ہوگئی تھی اور بیمار بھی رہتے تھے اس لئے دو تین سال بعد آپ نے روزے نہیں رکھے.جن لوگوں کو علم نہ ہو وہ سن لیں اور جو غفلت میں ہوں ہوشیار ہو جائیں کہ سوائے ان کے جو بیمار اور کمزور ہونے کی وجہ سے معذور ہیں چھ روزے رکھیں.اگر مسلسل نہ رکھ سکیں تو وقفہ ڈال کر بھی رکھ سکتے ہیں.(الفضل ۸/ جون ۱۹۲۲ء) ( خطبات عید بین صفحه (۲۱۶) ( خطبات محمود جلد اول صفحہ اے.ایڈیشن اول) عیدالاضحی اور عیدالفطر میں فرق اس عید میں اور اس سے پہلی عید میں جو عید الفطر کہلاتی ہے یہ فرق ہے کہ عید الفطر میں بوجہ اس کے کہ رمضان کا تمام مہینہ طاقت رکھنے والے مسلمان روزے رکھتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عید کے دن یہ سنت تھی کہ آپ صبح ناشتہ کر کے عید پڑھنے کے لئے جاتے تھے.مگر آج کی عید کے دن پہلا حصہ نیم روزہ اور پچھلا حصہ قربانی کا ہوتا تھا.اور آپ کی سنت تھی کہ عید پڑھنے سے پہلے کچ
K24 تناول نہ فرماتے تھے.بعد میں جا کر قربانی کے گوشت سے کھاتے تھے.اس لئے یہ عید اپنے اندر دو نمونے رکھتی ہے کیونکہ اس کا ایک حصہ روزے کا اور دوسرا حصہ کھانے کا ہے مگر پہلی عید ایک ہی رنگ رکھتی ہے کہ مہینہ بھر روزے رکھے جاتے ہیں اور اس دن کھایا پیا جاتا ہے.الفضل ۲۰ ستمبر ۱۹۱۹ء.خطبات عیدین صفحه ۱۴۸) عید الاضحی کے دن نفلی روزہ رکھنا اسی طرح مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھے لکھا ہے کہ جو روزہ اس عید کے موقع پر رکھا جاتا ہے وہ سنت نہیں ، اس کا اعلان کر دیا جائے.مگر رسول اللہ ﷺ کا یہ طریق ثابت ہے کہ آپ صحت کی حالت میں قربانی کر کے کھاتے تھے.تاہم یہ کوئی ایسا روزہ نہیں کہ کوئی نہ رکھے تو گنہگار ہو جائے.یہ کوئی فرض نہیں بلکہ نفلی روزہ ہے اور مستحب ہے.جو رکھ سکتا ہور کھے مگر جو بیمار ، بوڑھایا دوسرا بھی نہ رکھ سکے وہ مکلف نہیں اور نہ رکھنے سے گنہ گار نہیں ہوگا.مگر یہ بالکل بے حقیقت بھی نہیں جیسا کہ مولوی بقا پوری صاحب نے لکھا ہے.میں نے صحت کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس پر عمل کرتے دیکھا ہے.پھر مسلمانوں میں یہ کثرت سے رائج ہے اور یہ یونہی نہیں بنالیا گیا بلکہ مستحب نفل ہے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعامل رہا اور جس پر عمل کرنے والا ثواب پاتا ہے مگر جو نہ کر سکے اسے گناہ نہیں.(خطبات محمود جلد ۲ صفحه ۲۶۳) ☆☆☆
771
129 فرضیت حج حج چوتھا حکم حج کا ہے.اگر سفر کرنے کے لئے مال ہو، راستہ میں کوئی خطرہ نہ ہو، بال بچوں کی نگرانی اور حفاظت کا سامان ہوسکتا ہو تو زندگی میں ایک دفعہ حج کرنے کا حکم ہے.(الاز ہار لذوات الخمار صفحه ۲۴) اگر خدا تعالیٰ کسی کو توفیق دے تو حج کرے اس کے لئے کئی شرطیں ہیں مثلا مال ہو، رستہ میں امن ہو اور اگر عورت ہو تو اس کے ساتھ اس کا خاوند یا بیٹا یا بھتیجایا ایسا کوئی اور رشتہ دار محرم جانے والا ہو.حج کافلسفه ( الا زہار لذوات الخمار صفحه ۴۷) اسلام کا ایک رکن حج ہے جو اجتماع قومی کا زبر دست ذریعہ ہے.دنیا کے کسی مذہب میں حج فرض نہیں لیکن اسلام نے سال میں ایک دفعہ تمام صاحب استطاعت لوگوں کو ایک مرکز میں اکٹھا ہونے کا حکم دیا ہے.اس سے کئی قسم کے فوائد حاصل ہوتے ہیں.جب امیر اور غریب ، حاکم اور محکوم، عالم اور جاہل سب ایک جگہ اکٹھے ہوں گے تو وہ قومی ضرویات پر غور کریں گے.اپنی کمزوریوں پر نگاہ دوڑائیں گے.اور ان کو دور کرنے کی کوشش کریں گے.اسی طرح حج کے ذریعہ اسلام نے مرکز کی اصلاح کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جس سے آگے قوم کی درستی ہوتی ہے اور وہ ترقی کی طرف اپنا قدم بڑھا سکتی ہے.( تفسیر کبیر.جلد دہم ،سورۃ الکوثر - صفحہ ۳۰۰) واذن فى الناس بالحج ياتوك رجالا ---- الآيه حج کی اصل غرض روحانی طور پر یہ ہے کہ انسان ہر قسم کے تعلقات کو تو ڑ کر دل سے خدا کا ہو جائے
દ ۱۸۰ مگر اس غرض کو پورا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک ظاہری حج بھی رکھ دیا اور صاحب استطاعت لوگوں پر یہ فرض قرار دے دیا کہ وہ گھر بار چھوڑ کر مکہ مکرمہ میں جائیں اور اس طرح اپنے وطن عزیز واقرباء کی قربانی کا سبق سیکھیں.کیونکہ اسلام جسم اور روح دونوں کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے.جس طرح دنیا میں ہر ایک انسان کا ایک مادی جسم ہوتا ہے اور جسم میں روح ہوتی ہے اسی طرح مذہب اور روحانیت کے بھی جسم ہوتے ہیں جن کو قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے مثلاً اسلام نے نماز کی ادائیگی کے لئے بعض خاص حرکات مقرر کی ہوئی ہیں.اب اصل غرض تو نماز کی یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہو.اس کی صفات کو وہ اپنے ذہن میں لائے اور ان کے مطابق اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کرے.ان باتوں کا بظاہر ہاتھ باندھنے یا سیدھا کھڑا ہونے یا زمین پر جھک جانے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا.مگر چونکہ کوئی روح جسم کے بغیر قائم ہی نہیں رہ سکتی اس لئے خدا تعالیٰ نے جہاں نماز کا حکم دیا وہاں بعض خاص قسم کی حرکات کا بھی حکم دے دیا.جن مذاہب نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا اور انہوں نے اپنے پیروؤں کے لئے عبادت کرتے وقت جسم کی حرکات کو ضروری قرار نہیں دیا وہ رفتہ رفتہ عبادت سے ہی غافل ہو گئے ہیں اور اگر ان میں کوئی نماز ہوتی بھی ہے تو ایک تمسخر سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.اسی طرح گوحقیقی حج یہی ہے کہ انسان ہر قسم کے تعلقات کو منقطع کر کے خدا کا ہو جائے.مسائل حج ( تفسیر کبیر.جلد ششم ،سورہ حج صفحه ۳۱) سوال :.موجودہ گرانی کے وقت صاحب استطاعت حج کرے یا نہ کرے؟ جواب:.جو شخص خواہ تنگی مال یا راستہ کی خرابی یا ضعف و بیماری کی وجہ سے حج نہیں کر سکتا اور نیت رکھتا ہے کہ روک دور ہو تو حج کروں وہ ایسا ہی ہے گویا اس نے حج کیا.( الفضل ۴ رمئی ۱۹۲۲ء)
۱۸۱ حج حج عورت کے لئے تبھی فرض ہے جب کہ محرم ساتھ ہو.جن کے محرم ہوں اور وہ حج پر بھی جائیں ان پر حج فرض ہے ورنہ نہیں.حج بدل الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۱۴ء.نمبر ۳۳ صفحه۱۱) سوال :.ڈار فیملی نے خواہش کی ہے اور کہا کہ میں ان کی والدہ مرحومہ کی طرف سے حج بدل کروں.اور یہ کہ وہ سب اخراجات اس غرض کے لئے دیں گے؟ جواب :.حج بدل کے لئے شرط یہ ہے کہ پہلے خود حج کر چکا ہو.کیا آپ حج کر چکے ہیں.اس صورت میں اجازت ہے.سوال :.کیا والدہ مرحومہ کی وصیت کے مطابق ان کی طرف سے حج بدل کرایا جائے یا اسی قدر رقم ان کی طرف سے یا دونوں والدین مرحومین کی طرف سے بطور صدقہ جاریہ کے چندہ وقف جدید میں ادا کر دی جائے ؟ جواب :.والدہ کی خواہش کو پورا کریں اور حج بدل کرانے کی کوشش کریں مگر حج بدل وہی کر سکتا ہے جس نے پہلے حج کیا ہوا ہو.سوال :.میری خواہش حج کرنے کی ہے لیکن صحت اور عمر اجازت نہیں دیتی.میرا بڑا لٹر کا کہتا ہے کہ میری جگہ وہ حج پر چلا جائے اس کا خرج حج کا سب میں ادا کروں.کیا اس طرح میرا حج بھی ہو جائے گا ؟ جواب :.جائز ہے.بیٹا ماں کی طرف سے ( حج بدل) کر سکتا ہے.غیر کے لئے شرط یہ ہے کہ اگر اس نے خود حج کیا ہوا ہو تو پھر وہ حج بدل کرسکتا ہے ورنہ نہیں.فائل مسائل دینی.دفتر پرائیویٹ سیکرٹری)
۱۸۲ حجر اسود یہ غلط بات ہے کہ حجر اسود ٹوٹے ستارے کا پتھر ہے.یہ پادریوں کی بنائی ہوئی بات ہے.در حقیقت یہ پتھر وہ ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی بنیا د رکھی تھی.اس کی یاد میں اس کو بوسہ دیا جاتا ہے مگر وہ بوسہ شرکیہ نہیں ہے.چنانچہ حضرت عمر نے حجر اسود کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا تھا کہ میں اس لئے تجھے بوسہ دیتا ہوں کہ یہ ایک نیک یادگار ہے میں تجھے خدا کا شریک نہیں سمجھتا.(فائل دینی مسائل A-32) ☆☆☆
درباره فقهی مسائل کے حصہ دوم مشتمل بر نکاح طلاق خلع.حدود معاملات پردہ.داڑھی.ذبیحہ.اہل کتاب
۱۸۵ نكاح
۱۸۷ نکاح لڑکا لڑکی ماں باپ کے مشورہ سے شادی کریں اسلام نے لڑکے لڑکی کو آزادی دی ہے شادی کے بارے میں ،مگر اس کے ساتھ ایک عجیب بات بھی رکھی ہے اور وہ یہ کہ لڑکا ہو یا لڑ کی ماں باپ کے مشورہ سے شادی کریں.اگر بغیر مشورہ کے شادی کرے تو ماں باپ کو اختیار ہے کہ اسے کہیں طلاق دے دیں اور لڑکے کو اس کی تعمیل کرنی چاہئے تو لڑکے کو مشورہ کرنے کا پابند قرار دیا ہے لیکن اگر ماں باپ بضد ہوں اور بغیر کوئی نقص اور خطرہ بتائے زور سے روکیں تو لڑکا کر سکتا ہے.ہاں اسے یہ حکم ہے کہ والدین کی خواہش کو جہاں تک ممکن ہو پورا کرے.مگر جب یہ سمجھے کہ ایسا کرنا اس کے لئے مضر ہے تو شادی کر لے.اگرلڑ کا ماں باپ سے پوچھے بغیر شادی کرے تو وہ اسے طلاق دینے کا حکم دے سکتے ہیں.اس میں حکمت یہ ہے کہ ماں باپ اس تعلق کو اور نظر سے دیکھتے ہیں اورلڑکا اور نظر سے دیکھتا ہے.لڑکے کے سامنے حسن ، جذبات اور شہوات یا اور معاملات ہوتے ہیں لیکن ماں باپ کے مدنظر لڑکے کا آرام اور اس کا فائدہ ہوتا ہے.اس لئے شریعت نے رکھا ہے کہ والدین سے اس بارے میں مشورہ کیا جائے تاکہ ان کے مشورہ سے مفید باتیں اس کے سامنے آجائیں جن پر وہ اپنے جذبات کی وجہ سے اطلاع نہیں پاسکتا تھا.لیکن اگر وہ اپنے لئے مفید سمجھے تو ماں باپ کی رضا مندی کے بغیر بھی شادی کرسکتا ہے.ا غرض شریعت نے اس پر بڑا زور دیا ہے کہ سوچ سمجھ کر شادی کرنی چاہئے خواہ مرد ہو خواہ عورت.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.ولتنظر نفس ما قدمت لغد (الحشر : ١٩) وہ دیکھ لے کہ کل اس کے لئے کیا نتیجہ نکلے گا تو لڑکے اور لڑکی کو خود شادی کے متعلق غور و فکر سے کام لینا چاہئے.جس کا اسلام نے انہیں حق دیا ہے.لیکن شائد بھی یہ با تیں خواب ہیں اور ایسی خواب جس کی تعبیر آئندہ زمانہ میں نکلے گی تاہم ہمارا فرض ہے کہ ان کی طرف توجہ دلائیں خواہ وہ زمانہ جلد آئے یا بدیر.(خطبات محمود جلد ۳ - صفحه ۲۵۲ ۲۵۳)
۱۸۸ نکاح لڑکی کولڑ کامنتخب کرنے کاحق دینا چاھئے نکاح کا معاملہ انسان کی اپنی ذات سے تعلق رکھتا ہے اور شائد جس قدر د نیوی معاملات ہیں ان سب سے زیادہ اس کا تعلق انسان سے ہے لیکن یہ نہایت ہی عجیب بات ہے کہ وہ معاملات جن کا انسانی زندگی سے کم تعلق ہوتا ہے ان کو تو انسان لوگوں کے سپر د کر نے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور جس کا زیادہ تعلق ہے اسے اپنے ہاتھ میں رکھنا پسند کرتے ہیں.ایک کپڑا چھ مہینے نہیں ، سال نہیں، دو سال ، دو سال نہیں، تین سال، تین سال نہیں چار سال، چار سال نہیں پانچ سال چلتا ہے اور پھر پھٹ جاتا ہے مگر ماں باپ کپڑے کے متعلق تو لڑکے لڑکی کو اجازت دے دیں گے بلکہ پسند کریں گے کہ لڑکا لڑکی کپڑا خود پسند کر لے.حالانکہ اس کے انتخاب پر ان کی زندگی کا مدار نہیں ہوتا.مگر وہ بات جس میں ان کی پسندیدگی اور رضامندی کے بغیر غرض پوری نہیں ہوسکتی اس میں اجازت نہیں دیتے اور وہ بیاہ شادی کا معاملہ ہے.شادی ساری عمر کا تعلق ہوتا ہے اگر لڑکے لڑکی کا مزاج نہ ملے ایک دوسرے کو پسند نہ کرے ان کے تعلقات عمدہ نہ ہوں تو ان کی ساری عمر تباہ ہو جاتی ہے.خطبات محمود جلد ۳ صفحه ۲۵۲،۲۵۱) لڑکی کونکاح سے پہلے دیکھنا پھر اسلام نے اس کے متعلق بھی کئی اصول مقرر کئے ہیں مثلاً عورت کا مہر مقرر کرنا اور پھر عورت کو شادی سے پہلے دیکھنا تا کہ بعد میں جو فتنے پیدا ہو سکتے ہیں وہ نہ ہوں.شادی کے موقع پر جب سب باتیں رشتہ داروں میں طے ہو جا ئیں تو لڑکی کو دیکھ لینا بہت سے فتنوں کا سدباب کر دیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک نو جوان نے کسی لڑکی سے شادی کرنی چاہی.لڑکی والوں کے سب حالات اسے پسند تھے.اس نے لڑکی کے باپ سے کہا کہ
۱۸۹ نکاح مجھے اور تو سب باتوں سے اتفاق ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں لڑکی کو بھی دیکھ لوں.اس وقت پردہ کا حکم نازل ہو چکا تھا.لڑکی کے باپ نے کہا میں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا.وہ نو جوان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور اس نے عرض کیا کہ میں فلاں لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور تو مجھے سب باتیں پسند ہیں.میں صرف لڑکی کو دیکھنا چاہتا ہوں.میں نے لڑکی کے باپ سے اس کا ذکر کیا تھا مگر اس نے لڑکی دکھانے سے انکار کر دیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے جو کچھ کیا ہے غلط کیا ہے.شادی کے متعلق اگر سب باتیں طے ہوگئی ہیں تو تم لڑکی کو دیکھ سکتے ہو.الفضل ۲ / جولائی ۱۹۵۹ء.نمبر ۱۵۴.صفه ۳) رضا عورت کی مرضی کے بغیر اس کی شادی نہیں ہو سکتی.اسلام سے پہلے یہ رواج تھا کہ والدین جہاں چاہتے عورت کی شادی کر دیتے.اس کی مرضی کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا تھا اور عورت کو ان کی بات مانی پڑتی تھی.مسلمانوں نے بھی اس زمانہ میں اگر چہ یہ حق تلف کر دیا ہے مگر اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اسلامی تعلیم ناقص ہے.اسلام نے یہاں تک کہا ہے کہ عورت کی مرضی کے بغیر اگر کوئی شادی ہو تو وہ باطل ہے.(تفسیر کبیر جلد دہم.سورۃ الکوثر - صفحہ ۳۰۲) لڑکی کی اجازت کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہو سکتا.اگر لڑ کی انکار کر دے تو کوئی نکاح نہیں.مرداگر ولیمہ کی دعوت کرے تو کھانی جائز ہے اور اگر لڑ کی کی طرف سے ہو تو جائز نہیں.الفضل ۱۳ مئی ۱۹۱۶ء.جلد ۳.نمبر ۱۱۳) لڑکی کے معاملہ میں شریعت نے والدین کو ویٹو کا حق دیا ہے یعنی لڑکی اگر کہے کہ فلاں جگہ شادی کرنا چاہتی ہوں.والدین مناسب نہ سمجھیں تو وہ انکار کر سکتے ہیں.لیکن یہ محدود حق ہے یعنی دو دفعہ کے لئے حق ہے اگر تیسری جگہ بھی انکار کریں تو لڑکی کا حق ہے کہ قضاء میں درخواست کرے کہ والدین
190 نکاح اپنے فوائد یا اغراض کے لئے اس کی شادی میں روک بن رہے ہیں اس پر اگر قاضی دیکھے کہ یہ صحیح ہے تو لڑکی کو اختیار دے سکتا ہے کہ وہ شادی کر لے.پھر چاہے وہ اس پہلی جگہ ہی شادی کرے جہاں سے والدین نے اسے روکا تھا یہ جائز شادی ہوگی.(خطبات محمود جلد ۳ صفحه ۲۵۳) اسلام نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ علاوہ اس کے میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کی نسبت تسلی کرلیں.عورت کے رشتہ دار بھی تسلی کر لیں کہ واقع میں مرد ایسے اخلاق کا ہے کہ اس سے رشتہ کرنا عورت کے لئے بھی اور آئندہ نسل کے لئے بھی مفید ہوگا اور نکاح کے لئے یہ شرط لگائی ہے کہ مرد کی پسند ہو، عورت کی منظوری ہو اور عورت کے باپ یا بھائی یا جو خاندان کا بڑا مرد ہو اس کی منظوری ہو اور اگر کوئی مرد خاندان میں نہ ہو تو حاکم شہر اس امر کی تسلی کرے کہ کسی عورت کو کوئی شخص دھوکا دے کر تو شادی نہیں کرنے لگا.عورت اور مرد میں اس وجہ سے فرق رکھا گیا ہے کہ مرد طبعا ایسے امور میں حیا کم کرتا ہے اور خود دریافت کر لیتا ہے اور عورت شرم کرتی ہے اور اس کے احساسات تیز ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ جلد دھو کہ میں آجاتی ہے.پس اس کے لئے اس کے خاندان کے بڑے مرد کی تحقیق اور منظوری یا ایسے کسی آدمی کی عدم موجودگی میں حاکم شہر کی منظوری ضروری رکھی ہے.چونکہ اسلام میں پردہ کا حکم ہے اس لئے نکاح کے ابتدائی امور طے ہو جانے اور دیگر امور میں تسلی ہو جانے پر مرد اور عورت کو آپس میں ایک دوسرے کو کھلے طور پر دیکھنے کی اجازت دی ہے تا کہ اگر شکل میں کوئی ایسا نقص ہو جو بعد میں محبت کے پیدا ہونے میں روک ہو تو اس کا علم مرد وعورت کو ہو جائے.انوار العلوم جلد ۸ ، احمدیت یعنی حقیقی اسلام صفحہ ۲۷۲۲۷۱) جہاں تک قاضی صاحب کے اس فیصلہ کا تعلق ہے کہ ایسی صورت میں کہ لڑکی سے اجازت نہ لی ہو نکاح ہر صورت میں ٹوٹا ہوا سمجھا جاتا ہے.میں اس سے متفق نہیں.اگر یہ صورت ہو تو ہندوستان اور
۱۹۱ نکاح پنجاب کے قریباً تمام نکاح ٹوٹے ہوئے سمجھے جائیں گے اور سب اولا دیں ولد الزنا مجھی جائیں گی لیکن اس نکاح میں ایک نئی بات پائی جاتی ہے کہ نہ صرف نکاح بلا اجازت ہوا بلکہ لڑکی نکاح کے بعد عدم رضامندی ظاہر کرتی رہی ہے اور اس کا بیان ہے کہ میں صرف اس لئے گئی کہ میرا باپ تو میری بات نہیں مانتا شائد میر امنسوب میری بات مان لے کہ جب میں اس نکاح پر رضا مند ہی نہیں تو ہمارا نکاح باطل ہے گو اس کی توجیہ اور رنگ میں بھی کی جاسکتی ہومگر چونکہ لڑکی کی رضا مندی شروع سے ثابت نہیں ہے.اس لئے میں اس کے بیان کو رد کرنے کی کوئی وجہ نہیں پاتا اور مندرجہ ذیل فیصلہ کرتا ہوں :.1.لڑکی کا نکاح فسخ کیا جائے.2 لڑکے کے جتنے اخراجات ہوئے ہیں خواہ وہ کسی رنگ میں ہوئے ہیں اس کو لڑکی کے باپ سے دلوائے جائیں کیونکہ اس کے ساتھ دھو کہ بازی ہوئی.(فائل فیصلہ جات خلیفہ وقت نمبر ۲ - صفحه ۵۰.دارالقضاء، ربوہ) منگنی سوال :.ہمارے ملک کا رواج ہے کہ جب با قاعدہ منگنی ہو جائے اور لڑکی کو زیور اور کپڑے پہنا دیئے جائیں تو وہ نکاح کا قائم مقام سمجھی جاتی ہے.اس واسطے اس لڑکی کا کسی اور جگہ نکاح نہیں ہوسکتا؟ جواب :.فرمایا:.یہ کوئی دعوی نہیں.نہ منگنی کوئی شرعی بات ہے جب والدین راضی اور لڑکی راضی ہے تو کسی تیسرے شخص کو بولنے کا حق نہیں.(رجسٹر ہدایات حضرت خلیفہ مسیح الثانی.(۲۶.۶.۵۴ --- فیصلہ بلوغ کی صورت میں ) اگر لڑکی چاہتی ہے کہ اس کا نکاح توڑ دیا جاوے تو...اس قدر جھگڑے کی کوئی وجہ نہ تھی.ابھی دونوں آپس میں ملے نہ تھے.اس وقت اگر باہمی تنازع پیدا ہو گیا تھا تو ان کو خوشی سے اس نکاح کو تو ڑ دینا چاہئے تھا.کیونکہ ایسا نکاح در حقیقت ایک رنگ منتقلی کا رکھتا ہے
۱۹۲ نکاح اور یہی فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مجھے زبانی پہنچا ہے.(فائل فیصلہ جات خلیفہ وقت نمبر ۲.دارالقضاء، ربوہ ) طريق نکاح نکاح کا طریق سادہ ہے نہ باجے نہ کچھ.ایک نکاح خواں اور دو گواہ.اگر نکاح خواں نہ ہوتو انسان گواہوں کی موجودگی میں اپنا نکاح خود پڑھ سکتا ہے یا لڑکی کا ولی پڑھ سکتا ہے.نکاح کے بعد خرما یا کوئی اور چیز بانٹنا فرض نہیں.محض ایک پسندیدہ امر ہے اور سنت ثابتہ ہے.( خطبات محمود جلد ۳ - صفحه ۹۴) حاضرین میں کچھ چھوہارے تقسیم کئے جاتے ہیں لیکن اگر کوئی یہ بھی نہیں لاسکتا تو نہ لائے.اگر اپنے پاس کچھ نہ ہونے کی صورت میں چونی یا دونی کے بھی چھوہارے لاتا ہے تو وہ مسرف ہے.الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۲۳ء صفحہ ۷.خطبات محمود ۱۶۰/۳) كفو کفو جو شریعت نے مقرر کی ہے وہ دینداری ، تقویٰ اور آپس کے دنیاوی حالات کی مطابقت ہے.جن کو مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے اور یہ تو بھائیوں بھائیوں میں بھی ہوتا ہے مثلاً ایک بھائی مالدار ہے اور دوسرا غریب.ایسی حالت میں مالدار خیال کرے گا کہ میری لڑکی جو آرام و آسائش میں پلی ہے وہاں جائے گی تو تکلیف اٹھائے گی اور آپس میں شکر رنجی رہے گی یا لڑکے لڑکی کی طبائع میں فرق ہوتا ہے.دینداری کے لحاظ سے، یا علم کے لحاظ سے اس کا بھی خیال نہ رکھا جائے تو نتیجہ خراب نکلتا ہے.اس قسم کی باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے باقی قومیت وغیرہ کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا کیونکہ سب وحدت پر قائم ہوتے ہیں اور ایک خدا کو مانتے پر
۱۹۳ نکاح ہیں اور اس وحدت کا ثبوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت بھی ملتا ہے اور اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہی ہماری جماعت میں پایا جاتا ہے کہاں کہاں سے لوگ آتے ہیں اور آپس میں رشتے ہو جاتے ہیں.میرے نزدیک ایک وجہ مختلف جگہوں اور مختلف قوموں میں تھوڑے تھوڑے لوگوں ( کی ) احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق ملنے کی یہ بھی ہے کہ اس طرح قومیت وغیرہ کی بندشیں توڑی جائیں کیونکہ اگر ساری کی ساری قوم احمدی ہو جائے تو آپس میں رشتے کر سکتے ہیں.( خطبات محمود جلد ۳ - صفحه ۴۷) ہماری غرض دین ہی ہو عزیزہ امتہ السلام میرے بھائی کی لڑکی ہے مگر میں اپنی لڑکی کے متعلق بھی یہی پسند کروں گا کہ اگر دنیا میں کوئی دیندار نہ رہے اور ایک چوہڑا مسلمان ہوکر خدا کا محبوب ہو تو میں اس کوسو میں سے سو درجے پسند کروں گا اور مطلقا پر واہ نہ کروں گا کہ میں بڑے خاندان سے ہوں اور علم والے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں اور وہ ادنیٰ قوم سے ہے میں صرف خدا کی یاد کی خوبی کوسب سے بڑی خوبی جانوں گا.(خطبات محمود جلد ۳ صفحه ۱۹۱) احمدی غیر احمدی کانکاح اور کفو کاسوال تیسرا اہم مسئلہ جس پر میں آج کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں وہ احمدیوں اور غیر احمد یوں میں نکاح کا سوال ہے اور اسی ضمن میں کفو کا سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو شادیوں کے متعلق جو مشکلات پیش آتی ہیں.مجھے پہلے بھی ان کا علم تھا.لیکن اس 9 ماہ کے عرصہ میں تو بہت ہی مشکلات اور رکاوٹیں معلوم ہوئی ہیں اور لوگوں کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں ہماری جماعت کو سخت تکلیف ہے.
۱۹۴ نکاح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق یہ تجویز کی تھی کہ احمدی لڑکیوں اور لڑکوں کے نام ایک رجسٹر میں لکھے جائیں اور آپ نے یہ رجسٹر کسی شخص کی تحریک پر کھلوایا تھا تھا.اس نے عرض کیا تھا کہ حضور شادیوں میں سخت دقت ہوتی ہے.آپ کہتے ہیں کہ غیروں سے تعلق نہ پیدا کرو.اپنی جماعت متفرق ہے اب کریں تو کیا کریں؟ ایک ایسار جسٹر ہوجس میں سب ناکتخدا لڑکوں اور لڑکیوں کے نام ہوں تا رشتوں میں آسانی ہو.حضور سے جب کوئی درخواست کرے تو اس رجسٹر سے معلوم کر کے اس کا رشتہ کروا دیا کریں کیونکہ کوئی ایسا احمدی نہیں ہے جو آپ کی بات نہ مانتا ہو.بعض لوگ اپنی کوئی غرض درمیان میں رکھ کر کوئی بات پیش کیا کرتے ہیں اور ایسے لوگ آخر میں ضرور ابتلاء میں پڑتے ہیں.اس شخص کی بھی نیت معلوم ہوتا ہے درست نہ تھی.انہیں دنوں میں ایک دوست کو جونہایت مخلص اور نیک تھے.شادی کی ضرورت ہوئی اسی شخص کی جس نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ رجسٹر بنایا جائے.ایک لڑکی تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دوست کو اس شخص کا نام بتایا کہ اس کے ہاں تحریک کرو.لیکن اس نے نہایت غیر معقول عذر کر کے رشتہ سے انکار کر دیا.اور لڑ کی کہیں غیر احمد یوں میں بیاہ دی.جب حضرت صاحب کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ آج سے میں شادیوں کے معاملہ میں دخل نہیں دوں گا.اور اسی طرح یہ تجویز رہ گئی.لیکن اگر اس وقت یہ بات چل جاتی تو آج احمدیوں کو وہ تکلیف نہ ہوتی جواب ہورہی ہے.انوار العلوم جلد ۲- برکات خلافت صفحہ ۲۰۹) اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ذیل میں درج کیا جاتا ہے.(حاشیه) - اپنی جماعت کے لئے ضروری اشتھار میں نے انتظام کیا ہے کہ آئندہ خاص میرے ہاتھ میں مستور اور مخفی طور پر ایک کتاب رہے جس میں اس جماعت کی لڑکیوں اور لڑکوں کے نام لکھے رہیں.اگر کسی لڑکی کے والدین اپنے کنبہ میں ایسی شرائط کا لڑکا نہ پاویں جو اپنی جماعت کے لوگوں میں سے ہو اور نیک چلن اور نیز ان کے اطمینان کے موافق ہو.ایسا ہی اگر ایسی لڑکی نہ پاویں تو اس صورت میں اُن پر لازم ہوگا کہ وہ (بقیہ اگلے صفحہ پر )
۱۹۵ نکاح غیر احمدیوں میں لڑکی کارشته نه کرو ہماری جماعت کے لئے نہایت ضروری ہے وہ غیر احمدی کو رشتہ نہ دینا ہے.جو شخص غیر احمدی کو رشتہ دیتا ہے وہ یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کونہیں سمجھتا اور نہ یہ جانتا ہے کہ احمدیت کیا چیز ہے، کیا ہے.کوئی غیر احمد یوں میں ایسا بے دین ہے جو کسی ہندو یا کسی عیسائی کو اپنی لڑکی دیدے.ان لوگوں کو تم کا فر کہتے ہو مگر اس معاملہ میں وہ تم سے اچھے رہے کہ کافر ہو کر بھی کسی کا فر کولر کی نہیں دیتے.مگر تم احمدی کہلا کر کا فر کو دے دیتے ہو کیا اس لئے دیتے ہو کہ وہ تمہاری قوم کا ہوتا ہے.مگر جس دن سے کہ تم احمدی ہوئے تمہاری قوم تو احمدیت ہوگئی.شناخت اور امتیاز کے لئے اگر کوئی پوچھے تو اپنی ذات یا قوم بتا سکتے ہوورنہ اب تمہاری قوم ، تمہاری گوت، تمہاری ذات احمدی ہی ہے.پھر احمد یوں کو چھوڑ کر غیر احمد یوں میں کیوں قوم تلاش کرتے ہو.مومن کا تو یہ کام ہوتا ہے کہ جب حق آجائے تو باطل کو چھوڑ دیتا ہے.حضرت صاحب نے بہت صاف اور واضح طور پر فرمایا ہے کہ غیر احمد یوں کولڑ کی دینا گناہ ہے.ہاں لینا جائز ہے.پس جب لڑکی دینا گناہ قرار دیتے ہیں.تو پھر تم کس طرح دیتے ہو.انوار العلوم جلد ۵ - اصلاح نفس صفحه ۴۴۰ ، ۴۴۱ ) (بقیہ حاشیہ ) ہمیں اجازت دیں کہ ہم اس جماعت میں سے تلاش کریں اور ہر ایک کو تسلی رکھنی چاہئے کہ ہم والدین کے بچے ہمدرد اور غمخوار کی طرح تلاش کریں گے.یہ کتاب پوشیدہ طور پر رکھی جائے گی اور کسی لڑکے یا لڑکی کی نسبت کوئی رائے ظاہر نہیں کی جائے گی جب تک اس کی لیاقت اور نیک چلنی ثابت نہ ہو جائے.اس لئے ہمارے مخلصوں پر لازم ہے کہ اپنی اولاد کی فہرست اسماء بقید عمر و قومیت بھیج دیں تا وہ کتاب میں درج ہو جائے.مندرجہ ذیل نمونہ کا لحاظ رہے.نام.دختر یا پسر.نام والد.نام شہر بقید محلہ وضلع - عمر دختر یا پسر.(اشتہار جون ۱۸۹۸ء تبلیغ رسالت صفحه ۴۵ - جلد۷ )
۱۹۶ نکاح چنانچہ ایک شخص فضل الرحمن نام.ہیلاں ضلع گجرات کے رہنے والے ہیں.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک بار نہیں بلکہ کئی بار غیر احمدیوں کے ہاں اپنی لڑکی کا رشتہ کرنے کی اجازت مانگی.لیکن آپ نے اجازت نہ دی.آپ کی وفات کے بعد جب اس نے رشتہ کر دیا تھا تو حضرت خلیفہ اول نے اس کو اپنی جماعت سے نکال دیا اور وہ وہاں کے احمدیوں کا امام تھا اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے روک دیا.حضرت مولوی صاحب نے اپنی زندگی میں اسے داخل سلسلہ نہیں کیا.اب میں نے اس کی درخواست تو بہ قبول کر لی ہے.(انوارالعلوم جلد۳، متفرق امور صفحه ۴۲۲) غیر احمدیوں کو لڑکی دینا ایک اور بھی سوال ہے کہ غیر احمدی کولڑ کی دینا جائز ہے یا نہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس احمدی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے جو اپنی لڑکی غیر احمدی کودے.آپ سے ایک شخص نے بار بار پوچھا اور کئی قسم کی مجبوریوں کو پیش کیا لیکن آپ نے اس کو یہی فرمایا کہ لڑکی کو بٹھائے رکھو لیکن غیر احمدیوں میں نہ دو.آپ کی وفات کے بعد اس نے غیر احمدیوں کو لڑکی دے دی تو حضرت خلیفہ اول نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹا دیا اور جماعت سے خارج کر دیا اور اپنی خلافت کے چھ سالوں میں اس کی تو بہ قبول نہ کی.باوجود یہ کہ بار بار تو بہ کرتا رہا.پس وہ لوگ جو ایسے ہیں وہ سن لیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات پر بہت زور دیا ہے.اس لئے اس پر ضرور عمل درآمد ہونا چاہئے.میں کسی کو جماعت سے نکالنے کا عادی نہیں لیکن اگر کوئی اس حکم کے خلاف کرے گا تو میں اس کو جماعت سے نکال دوں گا.ابھی چند ماہ ہوئے ایک شخص نے غیر احمدیوں میں اپنی لڑکی دی تھی.میں نے اسے جماعت سے الگ کر دیا بعد میں اس نے بہت تو بہ کی
۱۹۷ نکاح اور معافی مانگی لیکن میں نے کہا کہ تمہارا یہ اخلاص بعد از جنگ یاد ہے اس لئے برکلہ خود با ندزد کے مطابق اپنے سر پر مارو.(انوار العلوم جلد ۳، انوار خلافت صفحه (۱۵۱) غیر احمدی کولڑکی دینا پھر ایک بات غیر احمدیوں کو لڑکی دینے کے متعلق ہے.اس کے متعلق جو روایت پیش کی جاتی ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا واقعہ نہیں اور نہ ہی آپ سے اس کے متعلق مشورہ لیا گیا.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ کہا تھا کہ میرے رشتہ دار کہتے ہیں کہ ایک لڑکی کا تم نے قادیان میں نکاح کر دیا ہے تو دوسری لڑکی ہمیں دے دو.اگر میں نے نہ دی تو وہ ناراض ہو جائیں گے.آپ نے فرمایا ہاں دے دو.لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ آپ کو یہ بھی علم تھا کہ جس لڑکے سے اس لڑکی کا نکاح ہونا ہے وہ غیر احمدی ہے.بعد میں جب آپ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ صاحبہ کو کہا کہ ڈاکٹر صاحب کو کہہ دیں کہ یہ نسبت انہوں نے کیوں کی ہے.پھر فرمایا اچھا تم ابھی ان سے نہ کہنا میں حقیقۃ الوحی دوں گا.وہ اس لڑکے کو پڑھنے کے لئے دی جائے اگر وہ اس کے بعد احمدی ہو جائے تو اس سے نکاح کیا جائے ورنہ نہیں.مگر بعد میں آپ کو یہ بات یاد نہ رہی.لیکن اس کے علاوہ ہمارے پاس ایسی گواہیاں موجود ہیں جو اس مسئلہ کو بالکل صاف کر دیتی ہے.چنانچہ ایک شخص فضل الرحمن نام ہیلان ضلع گجرات کے رہنے والے ہیں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک بار نہیں بلکہ کئی بار غیر احمدیوں کے ہاں اپنی لڑکی کا رشتہ کرنے کی اجازت مانگی لیکن آپ نے اجازت نہ دی.آپ کی وفات کے بعد جب اس نے رشتہ کر دیا تو حضرت خلیفہ اول نے اس کو اپنی جماعت سے نکال دیا.(انوار العلوم جلد ۳، متفرق امور صفحه ۴۲۲،۴۲۲۱)
۱۹۸ نکاح سوال:.ایک صاحب نے لکھا ہے کہ ایک لڑکی دائمۃ المرض ہے باوجود تین سالہ تلاش کے اس کے رشتہ کے لئے کوئی احمدی مائل نہیں ہوا.پس اس کا رشتہ ایک غیر احمدی سے کرتے ہیں کہ لڑکی کے رشتہ کی نسبت اس کے والدین کی حالت فَمَنِ اضْطُر کے ماتحت ہے؟ جواب : خلیفتہ امسیح الثانی نے جواب میں لکھایا کہ فَمَنِ اضْطُرَّ تو صرف کھانے کی چیزوں کے متعلق ہے.الفضل ۹ رمئی ۱۹۱۵ء.جلد نمبر ۱۳۷ صفحه ۲) سوال:.کیا جو شخص احمدی کہلاتا ہے، چندہ بھی دیتا ہے، تبلیغ بھی کرتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم صریح کے خلاف کہ غیر احمدی کو اپنی لڑکی نکاح میں دینا جائز نہیں ، اپنی لڑکی کا نکاح کر دیتا ہے.وہ ایک ہی حکم توڑنے سے مسیح موعود علیہ السلام کے منکروں سے ہو سکتا ہے؟ جواب :.جو شخص اپنی لڑکی کا رشتہ غیر احمدی لڑکے کو دیتا ہے میرے نزدیک وہ احمدی نہیں.کوئی شخص کسی کو غیر مسلم سمجھتے ہوئے اپنی لڑکی اس کے نکاح میں نہیں دے سکتا.اگرلڑ کی خود ہی غیر احمدی ہے تو یہ الگ امر ہے.یہاں اس بات کا سوال نہیں کہ ایسے آدمی نے شریعت کے ایک حکم کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ اس نے کون سا حکم توڑا ہے.ایسا حکم توڑنے والے کے دل میں ایمان کی کوئی قدر نہیں.سوال :.جو نکاح خواں ایسا نکاح پڑھا وے اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ جواب :.ایسے نکاح خواں کے متعلق ہم وہی فتویٰ دیں گے جو اس شخص کی نسبت دیا جا سکتا ہے.جس نے ایک مسلمان لڑکی کا نکاح ایک عیسائی یا ہندولڑکے سے پڑھ دیا ہو.سوال :.کیا ایسا شخص جس نے غیر احمدیوں سے اپنی لڑکی کا رشتہ کیا ہے دوسرے احمدیوں کو شادی میں مدعو کر سکتا ہے؟ جواب:.ایسی شادی میں شریک ہونا بھی جائز نہیں.غیر احمدیوں کے رشتہ میں کسی مذہبی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہورہی ہوتی جہاں چاہے کرے.لیکن جو احمدی ہو کر اپنی لڑکی کی شادی کسی
١٩٩ نکاح غیر احمدی سے کرتا ہے وہ شریعت کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے.پس ایسی شادی میں شرکہ نا جائز ہے.الفضل ۲۳ مئی ۱۹۲۱ء - جلد ۸ - نمبر ۸۸ صفحه ۹) سوال :.ایک احمدی اپنے رشتہ کی خاطر غیر احمدی بن گیا ہے اب اس کی شادی ہے کیا احمدی اس میں شریک ہو سکتے ہیں؟ جواب :.احمدی شامل نہ ہوں.( الفضل ۱۹ را گست ۱۹۱۶ ء صفحه ۲ ) سوال :.کیا غیر مبائعین سے رشتہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جواب :.جائز ہے مگر اسی طرح جائز ہے جیسے ایک بے نماز سے جائز ہے.کوئی مومن اپنی لڑکی کا ایمان خطرہ میں نہیں ڈال سکتا جب تک وہ خود کمز ور ایمان کا نہ ہو.الفضل ۲۲ مئی ۱۹۲۲ء صفحهیم ) بیہ درست ہے کہ کسی شخص کے اپنے آپ کو احمدی کہنے پر ہم اسے احمدی مجھنے پر مجبور ہیں اور اگر وہ کہتا ہے کہ میں دو سال سے دلی طور پر احمدی ہوں تو ہم اسے سچا سمجھیں گے لیکن یہ معاملہ صرف ایمان تک محدود ہے.معاملات میں یہ صورت نہ ہوگی.معاملات میں ہم ظاہر پر حکم صادر کریں گے کیونکہ ہم اس کے دل کی حالت کو دیکھ نہیں سکتے.پس جن لوگوں نے اسے احمدی قرار دے کر رشتہ دلانے کے حق میں رائے دی غلطی کی ہے.یہ کہنا کہ وہ گزشتہ دوسال کا چندہ دینے کے لئے بھی تیار ہے.معاملہ کو اور مشکوک کر دیتا ہے (.) کیونکہ اس طرح تو نہایت آسانی سے ہر شخص پچھلے چند سالوں کا چندہ دے کر رشتہ حاصل کر سکتا ہے.الفضل ۱۸ جون ۱۹۴۷ء جلد ۳۵ نمبر ۱۴ صفحه ۳) سوال :.بعض غیر احمدی احمدیوں سے رشتہ لینے کی خاطر احمدی بن جاتے ہیں ان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟
۲۰۰ نکاح جواب :.حضور نے لکھوایا کہ میرے نزدیک جو شخص کسی احمدی سے رشتہ طلب کرتا ہوا اور یہ سن کر کہ غیر احمدی کو احمدی لڑکی نہیں دیتے وہ احمدی ہو جائے تو ایسے آدمی کو ہرگز لڑکی نہیں دینی چاہئے.اگر وہ دین کے لئے احمدی ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو لڑکی دے گا.الفضل ۱۹ جون ۱۹۷۵ء.جلد ۲.نمبر ۱۵۵) رضاعت رضیعا کے معنی گودی کے بچہ کے ہوں گے نہ کہ دودھ پینے والے بچے کے اور اگر دودھ پینے والے بچے کے بھی معنی لئے جائیں تب بھی کوئی اعتراض کی بات نہیں.میں نے خود آٹھ آٹھ سال کے بچوں کو اپنی آنکھوں سے دودھ پیتے دیکھا ہے.کیا آپ کا یہ خیال کہ اسلامی شریعت ہمیشہ سے چلی آتی ہے اور جو قوانین ہمارے لئے ہیں وہی قوانین پہلی امتوں میں بھی جاری تھے.ایسا نہیں بلکہ ان کے لئے اور قوانین تھے اور ہمارے لئے اور...رضاعت کی دو سالہ مدت قرآن نے مقرر کی ہے.پہلی شریعتوں نے مقرر نہیں کی.میں نے آٹھ سالہ بچوں کو دودھ پیتے دیکھنے کی جو بات کہی ہے اس کی ایک مثال بھی میں دے دیتا ہوں.امتہ اٹھی مرحومہ سات آٹھ سال کی عمر تک اپنی والدہ کا دودھ پیتی رہی تھیں اور جو بچہ بھی پیدا ہوتا اس کے ساتھ شامل ہو کر دودھ پینے لگ جاتیں.آخر حضرت خلیفہ اسی اول نے ڈانٹا کہ یہ خلاف اسلام طریق ہے اسے چھوڑ و تب انہوں نے دودھ پینا چھوڑا.(الفضل ۷ مئی ۱۹۶۰ء صفحه ۴ ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیر منظور محمد صاحب کی لڑکی حامدہ خاتون کا نکاح حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کے لڑکے میاں عبدالئی صاحب مرحوم سے کر دیا.نکاح کے بعد میاں عبدائی صاحب کی والدہ کو یاد آ گیا اور انہوں نے کہا کہ لڑکی نے میرا دودھ پیا ہوا ہے.“
۲۰۱ نکاح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے جب یہ بات پیش ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ اس کے لئے شمس رضاعات“ کی شرط ہے یعنی یہ ضروری ہے کہ بچہ نے پانچ دفعہ دودھ پیا ہو.یہ نہیں کہ ایک ہی دفعہ میں اس نے پانچ گھونٹ دودھ پیا ہو.بلکہ الگ الگ وقتوں میں پانچ دفعہ دودھ پینا نے ضروری ہے مگر حضرت خلیفتہ امیج اول رضی اللہ عنہ فقہاء کے قول کے مطابق یہ سمجھتے تھے کہ اگر ایک دفعہ بھی بچہ پانچ گھونٹ پی لیتا ہے تو اس پر اس مسئلہ کا اطلاق ہو جاتا ہے.غرض خمس رضاعات“ کے ایک معنی وہ تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام لیتے تھے اور ایک معنی وہ تھے جو حضرت خلیفہ المسیح اول سمجھتے تھے.اور چونکہ یہ شادی کا معاملہ تھا اور حضرت خلیفہ اول فقہاء کی تشریح کو زیادہ قابل قبول سمجھتے تھے اس لئے آپ کو اس کا صدمہ ہوا کہ آپ کو اسہال شروع ہو گئے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ نکاح توڑ دیا جائے.یہ ایک فقہی مسئلہ ہے اس میں ضروری نہیں کہ میری تشریح کو ہی درست سمجھا جائے.ولی نکاح ( الفضل ۳ ستمبر ۱۹۶۰ء صفحه ۴ ) بعض لوگ عورتوں سے بغیر اُن کے ماں باپ یا بھائیوں یا چاؤں کی رضامندی کے محض عورت کی رضامندی دیکھ کر شادی کر لیتے ہیں اور اسے بالکل جائز سمجھتے ہیں چونکہ عام طور پر زمینداروں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ جب لڑکی بالغ ہو جائے اور کسی جگہ وہ اپنی رضا مندی کا اظہار کر دے تو ماں باپ یا بھائیوں یا چوں کی رضامندی کی ضرورت نہیں رہتی.اس لئے وہ ایسی لڑکیوں سے شادی کر لیتے اور انہیں اپنے گھروں میں بسا لیتے ہیں حالانکہ اسلام نے ایسے نکاحوں کی ہرگز اجازت نہیں دی.اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ”لا نکاح الابولی ولی کی رضامندی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوسکتا.اول ولی جو شریعت نے مقرر کیا باپ ہے.باپ نہ ہوتو پھر بھائی ولی ہیں اور اگر بھائی نہ ہوں تو بچے ولی ہیں.غرض قریب اور بعید کے جدی رشتے دار ایک دوسرے کے بعد ولی ہوتے چلے جاتے
۲۰۲ نکاح ہیں اور اگر کسی لڑکی کا باپ موجود ہو تو اس کی اجازت کے بغیر سوائے مذہبی تبائن اور پھر قضاء کی اجازت کے بغیر ہرگز نکاح جائز نہیں.اگر باپ نہ ہو تو بھائیوں کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں.اگر بھائی نہ ہوں تو چوں کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں.ہاں اگر کوئی بھی جدی رشتہ دار موجود نہ ہو تو قاضی یا عدالت کی اجازت سے اس لڑکی کا نکاح ہوسکتا ہے لیکن اس کے بغیر جو نکاح ہواگر مسلمان نے کیا ہو تو اس کا نام اسلام نے نکاح نہیں بلکہ اُدھالا رکھا ہے.الفضل ۲ جولائی ۱۹۳۷ء.جلد ۲۵ نمبر ۱۵۱ صفحه ۵) ولی کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نھیں جوڑ کی اپنے ولی کی رضامندی کے بغیر کسی خاص شخص پر نظر رکھ کر اس سے شادی کر لیتی ہے اسی کا نام اُدھالا ہے اور میں سمجھتا ہوں اگر کوئی غیر احمدی لڑکی اس طرح احمدیوں کے پاس آ جائے اور وہ کسی خاص آدمی کو مد نظر رکھ کر اس سے شادی کرنے کے لئے آئے.تو ہماری جماعت کے دوستوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ ایسی شادی ہرگز نہ ہو.تا ہماری جماعت میں اُدھالے کی رسم جاری نہ ہو.میں نے یہ مسئلہ اس لئے بتایا ہے تا وہ لوگ جو اس فعل کے ذمہ دار ہیں اور زمیندار بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ جہاں جہاں ایسے واقعات ہوں ان لوگوں سے ہمیں کوئی ہمدردی نہیں جوولی کی رضامندی کے بغیر کسی سے نکاح کر لیں.بلکہ ہماری ہمدردی ان لوگوں سے ہوگی جن کی لڑکیوں سے ایسا سلوک کیا گیا.(الفضل ۲ جولائی ۱۹۳۷ء) ہماری شریعت میں ولی مرد کو ہی ٹھہرایا گیا ہے چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت نکاح کرانے کے لئے آئی.تو آپ نے اس کے لڑکے کو جس کی عمر غالباً دس گیارہ سال تھی ولی بنایا.جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ولی مرد ہی ہوتے ہیں.اس عورت
٢٠٣ نکاح کا چونکہ اور کوئی مرد ولی نہیں تھا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لڑکے سے دریافت کرنا ضروری سمجھا.( خطبات محمود جلد ۳، صفحه ۴۷۵) ولایت نکاح ولایت کا پہلا حق باپ کو ہے اگر وہ نہ ہو تو بھائی ولی ہوتے ہیں اگر وہ بھی نہ ہوں تو پھر عورت کے بھائی ولی ہوتے ہیں اور اگر کوئی مرد ولی نہ ہو تو حکومت ولی ہوتی ہے خواہ حکومت روحانی ہو یا دنیاوی.البتہ حکومت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ لڑکی کی والدہ سے مشورہ کرے.ہمارے پاس اگر ایسے رشتے آئیں تو ہم لڑکی کی ماں سے مشورہ کرنے کے بعد ہی رشتہ کرتے ہیں اور بسا اوقات اس کی مرضی ہی مقدم رکھی جاتی ہے.مجھے تو یاد نہیں کہ اس قسم کا واقعہ ہوا ہوا گر ہوا ہو تو اس قدر کم کہ وہ اب یا د بھی نہیں رہا.بالعموم ماں کی مرضی دیکھی جاتی ہے.البتہ وکالت اور ولایت کوئی عورت نہیں کر سکتی تو ایسے حالات میں کہ لڑکی کا کوئی ولی نہ ہو خلیفہ یا اس کا کوئی نمائندہ اس کا ولی ہوگا.(خطبات محمود جلد ۳، صفحہ ۴۷۷) ولایت نکاحوں کے بارے میں ہمارے ملک میں ایک غلطی ہو رہی ہے کہ جہاں مردولی نہیں ہوتے وہاں عورتوں کو ٹھہرا دیا جاتا ہے.چنانچہ یہی فارم جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہے اس میں بھی اسی قسم کی غلطی کی گئی ہے یعنی لڑکی کی والدہ ولی ہے تو یہ صرف ایک اصطلاحی غلطی ہے کیونکہ لڑکی کی والدہ نے مجھ سے دریافت کر لیا ہے اور میرے مشورہ سے اس نے یہ کام کیا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ میرے کہنے پر اس نے یہ کیا ہے.صرف اصطلاح کے طور پر والدہ ولی بنی ہے مگر بہر حال ہماری شریعت میں
۲۰۴ نکاح ولی مرد کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت نکاح کرانے کے لئے آئی تو آپ نے اس کے لڑکے کو جس کی عمر غالباً دس گیارہ سال تھی ولی بنایا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ولی مرد ہی ہوتے ہیں.شریعت اسلامیہ کا قاعدہ ہے کہ جس عورت کا کوئی ولی نہ ہو اس کی ولایت حکومت کے ذمہ ہوتی ہے.حکومت خواہ سیاسی ہو خواہ دینی.اس کا فرض ہے کہ وہ اس لڑکی کی جس کا کوئی مرد ولی نہیں ، ولی بنے ہاں لڑکی کی والدہ سے مشورہ کرنا ضروری ہوتا ہے.دیگر رشتہ داروں سے بھی مشورہ کرے مگر آخری فیصلہ حکومت کے ہاتھ میں ہے اور اس کا حق ہے کہ جہاں اس کی والدہ یا دیگر رشتہ دار پسند کرتے ہیں.اگر اسے اس میں کوئی غلطی نظر آئے یالڑ کے میں کسی قسم کی عیب دیکھے تو انکار کر دے اور ان کے مشورہ کو رد کر دے.خطبات محمود جلد ۳، صفحه ۴۷۶،۴۷۵) بغیرولی کی وساطت کے نکاح سوال:.کیا عورت خود بخود جس سے چاہے بغیر ولی کی وساطت کے اپنا نکاح کرسکتی ہے؟ جواب :.ولی کا ہونا بہر حال ضروری ہے اور اگر ولی نہ مانیں تو حکومت کی معرفت نکاح کر لے.اس جگہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عورت کے ولی کسی حد تک عورت کو روک سکتے ہیں.یا کسی مرحلہ پر بھی انہیں یہ حق حاصل نہیں.اس کے متعلق امام مالک اور امام شافعی کہتے ہیں کہ ایک دو موقعوں تک تو اولیاء روک ڈال سکتے ہیں لیکن اگر وہ انکار ہی کرتے چلے جائیں اور کسی سے بھی اس کی شادی نہ ہونے دیں تو یہ اُن کے لئے جائز نہیں ہو گا.گویا ایک دوخواہشمندوں سے روکنا تو احتیاط میں شامل سمجھا جائے گا.لیکن ان کو اتنا وسیع اختیار نہیں ہوگا کہ جہاں اور جب بھی وہ عورت نکاح کرنا چاہے اُسے روک دیں.
۲۰۵ نکاح بعض کہتے ہیں کہ اگر بڑ اولی اجازت نہ دے تو دوسرے ولی کے ذریعے وہ اپنا نکاح کر سکتی ہے.بعض کہتے ہیں کہ بلا جائز ولیوں یا سلطان کے نکاح جائز نہیں اور یہی درست ہے.ہاں اگر ولی کسی صورت میں بھی رضامند نہ ہوں تو وہ حاکم وقت اور قاضی کے ذریعہ کسی دوسری جگہ جہاں وہ اجازت دے نکاح کر اسکتی ہے یا قاضی کی معرفت اولیاء پر دباؤ ڈال سکتی ہے کہ وہ روکیں نہ ڈالیں.( تفسیر کبیر - جلد دوم، سوره بقر ۵۲۵۰ - زیر آیت فلا تعضلوهن ان ينكحن) مهر مہر ایک معین رقم کا نام ہے جس کا شادی کے وقت مرد کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو ادا کرے گا.اور مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ حتی الوسع مہر مقرر کر کے شادی کیا کریں اور اگر کسی وجہ سے مہر مقرر نہ ہو سکے تو شریعت اسلام کی رو سے جو مہر اس مرد اور عورت کے رشتہ داروں میں رائج ہے اسی کے مطابق مہر عورت کو دلوادیا جائے گا.الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۱۳ء.جلدا.نمبر ۲۸ صفحه۱۱) سوال:.عورتوں کے مہر مقرر کرنے کی کیا فلاسفی ہے؟ جواب :.فرمایا.مہر کی فلاسفی یہ ہے کہ عورت کے لئے جائیداد مقرر ہو جس پر اس کا تصرف ہو.اس کی کئی ضروریات ہوتی ہیں جن کو مرد غیر ضروری سمجھتے ہیں مگر اس کے نزدیک وہ اہم ہوتی ہیں اور بعض باتیں مرد سے بیان بھی نہیں کر سکتی.شریعت نے اس کی ضروریات کو تسلیم کیا ہے اور اس کے لئے مستقل جائیداد کا انتظام کیا ہے اور مہر مقرر کر کے عورت کا حق ثابت کر دیا اور اس طرح اسلام نے تمدن کی بہت بڑی ضرورت کو پورا کیا ہے.ولایت میں عورت کی جائیداد نہیں ہوتی مگر جو کچھ وہ قرض کپڑوں وغیرہ کے لئے اُٹھائے وہ مرد کو ادا کرنا پڑتا ہے.سوال ہوا کہ حضرت عمرؓ نے کیوں زیادہ مہر سے روکا تھا.فرمایا اس لئے کہ لوگوں نے محض نمود و نمائش
۲۰۶ نکاح کے لئے بڑا مہر باندھنا شروع کر دیا تھا.ورنہ خود انہوں نے ام کلثوم بنت حضرت علی کا مہر چالیس ہزار باندھا.اور وہ پہلے ادا کر دیا تھا.الفضل ۵ فروری ۱۹۲۴ء- جلد نمبر ۶۱ صفحه ۶) شرعی مهر نکاح ، آرام ، راحت سکینت اور تقویٰ اللہ کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے مگر آج کل مسلمانوں نے رسومات اور بدعات سے اسے دکھ کا موجب بنالیا ہے.بڑے بڑے امراء 32 روپے حق مہر کرتے ہیں اور اس کا نام شرعی مہر رکھتے ہیں.حالانکہ یہ اُن کے لئے غیر شرعی ہے اور غرباء کئی کئی ہزار مقرر کرتے ہیں حالانکہ یہ ان کے لئے گناہ ہے.الفضل ۱۶ رمئی ۱۹۱۶ء.بد رسوم کے خلاف جہاد ) مهراپنی حیثیت سے بڑھ کر مقرر نھیں کرنا چاھئے ایک قضاء کی اپیل میں جو بغرض فیصلہ آخر حضرت امیر المومنین خلیفۃالمسیح الثانی کے حضور پیش ہوئی.ایک عورت کی طرف سے پانچ صد روپیہ مہر کا دعوی تھا اور خاوند کی طرف سے یہ جواب تھا کہ اس قدر رقم مہر اس کی حیثیت سے بہت زیادہ ہے.اس کو کم کیا جائے اور جو بھی دلایا جائے اس کی ادائیگی باقساط ہو.حضور نے حسب ذیل فیصلہ فرمایا :.میری رائے یہی ہے کہ مدعی علیہ کی حیثیت پانچ صد روپیہ یکمشت ادا کرنے کی ہر گز نہیں.لیکن چونکہ شریعت کے منشاء کے خلاف ہماری جماعت کے بعض افراد بھی بڑے بڑے مہر باندھنے پر اصرار کرتے چلے جاتے ہیں اور جو شریعت کا منشاء ہے کہ مہر یکمشت اور عند الطلب ادا ہونا چاہئے.اس صورت میں پورا نہیں ہو سکتا.اس لئے بطور سزا کے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ اگر مدعیہ اپنے خاوند کے گھر میں آجائے تو خاوند ایک ماہ کے اندر قادیان کے دفتر امور عامہ کی
۲۰۷ نکاح معرفت کل زرمہر مبلغ پانچ سوروپیہ اس کو ادا کر دے.بصورت عدم تحمیل امور عامہ کو مناسب تعزیری کارروائی کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے.اس فیصلہ کی ایک نقل امور عامہ کو بھجوائی جائے.الفضل ۴ رمئی ۱۹۴۰ء - جلد ۲۸ - نمبر ۱ ۰ ۱ صفحه ۳) لوگ مہر یا تو 32 روپے مقرر کرتے ہیں اور اسے مہر شرعی کہا جاتا ہے یا تین من سونا اور اتنے من چاندی اور اتنے گاؤں.یہ دونوں فضول باتیں ہیں.مہر طرفین کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہئے.الفضل ۲ فروری ۱۹۱۵ء - جلد ۲ - نمبر ۹۹ صفحه ۱ ) مهرکی مقدار میں نے مہر کی تعیین چھ ماہ سے ایک سال تک کی آمد کی ہے.یعنی مجھ سے کوئی مہر کے متعلق مشورہ کرے تو میں یہ مشورہ دیا کرتا ہوں کہ اپنی چھ ماہ کی آمد سے ایک سال تک کی آمد بطور مہر مقرر کر دو اور یہ مشورہ میرا اس امر پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے الوصیت کے قوانین میں دسویں حصہ کی شرط رکھوائی ہے.گویا اسے بڑی قربانی قرار دیا ہے.اس بناء پر میرا خیال ہے کہ اپنی آمدنی کا دسواں حصہ باقی اخراجات کو پورا کرتے ہوئے مخصوص کر دینا معمولی قربانی نہیں بلکہ ایسی بڑی قربانی ہے کہ جس کے بدلے میں ایسے شخص کو جنت کا وعدہ دیا گیا ہے.اس حساب سے ایک سال کی آمد جو گو یا متواتر دس سال تک کی آمد کا دسواں حصہ ہوتا ہے.بیوی کے مہر میں مقر رکر دینا.مہر کی اغراض کو پورا کرنے کے لئے بہت کافی ہے بلکہ میرے نزدیک انتہائی حد ہے.الفضل ۱۲؍ دسمبر ۱۹۴۰ء جلد ۲۸ نمبر ۲۸۲ صفحه ۱) مهر طرفین کی حیثیت کے مطابق ھونا چاھئے اسی طرح مہر ہے.لوگ اب اپنی حیثیت سے بہت بڑھ چڑھ کر مہر باندھتے ہیں بلکہ ہمارے ملک
۲۰۸ نکاح میں تو لاکھوں تک بھی مہر باندھے جاتے ہیں.مگر وہ مہر صرف باندھے ہی جاتے ہیں.ان کے ادا کرنے کی کوئی نیت نہیں ہوتی.اس وقت جس نوجوان کا نکاح ہے ان کے والد پیرا کبر علی صاحب کا نکاح بھی میں نے ہی پڑھایا تھا.اس میں مہر دس ہزار روپیہ تھا.میں جب نکاح پڑھنے لگا تو میں نے پیر صاحب سے کہا کہ اگر یہ مہر دینے کی نیت ہے تو اتنا مہر باندھیں ورنہ کم کر دیں.اس پر وہ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا حضور اب میں نیت کرتا ہوں کہ یہ مہر ضرور ادا کر دوں گا.شائد خدا نے ان کی اس وقت کی نیت اور نیک ارادہ کرنے کی وجہ سے بعد میں ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ انہوں نے دس ہزار روپیہ مہر ادا کر دیا.مگر لوگ تو ایسی حالت میں نکاح باندھتے ہیں کہ وہ خود کنگال ہوتے ہیں اور گھر میں کھانے تک کو کچھ نہیں ہوتا.یہاں تک کہ نکاح کے دو جوڑے بھی بنٹے سے قرض لے کر لاتے ہیں.مگر مہر دیکھو تو کیا ہوگا تین گاؤں ، ایک ہاتھی ،اتنے گھوڑے اور اتنے روپے وغیرہ.در حقیقت عورت کا مہر اس لئے رکھا گیا ہے کہ بعض ضروریات تو خاوند پوری کر دیتا ہے لیکن بعض ان سے بھی زائد ضرورتیں ہوتی ہیں جن کو عورت اپنے خاوند پر ظاہر نہیں کرسکتی.پس وہ اپنے اس حق سے ایسی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے.اس لئے اسلام نے مہر کے ذریعہ عورت کا حق مقر ر کیا ہے اور وہ خاوند کی حیثیت کے مطابق رکھا ہے مگر لوگ اتنا مہر باندھتے ہیں کہ بعض اوقات خاوند کی ساری کی ساری جائیداد دے کر بھی وہ مہر پورا نہیں ہوتا.اور اس طرح مقدمات ہوتے ہیں اور اب تو عدالتیں ایسے دعووں میں نصف مہر عورت کو دلا دیتی ہے اور بعض مجسٹریٹ اتنے بڑے مہروں کو ظالمانہ فعل کہہ دیتے ہیں اور بعض دفعہ مرد کی جائیداد سے دلا بھی دیتے ہیں.خطبات محمود جلد۳، صفحه ۵۰۲٬۵۰۱) مهرحیثیت سے کم باندھنے والے گنهگارهیں ہر مرد کے ذمہ عورت کا قرض ہے جس کا ادا کرنا ضروری ہے کسی صاحب نے ایک سوال پوچھا ہے کہ عورتوں کا جو مہر باندھا جاتا ہے وہ صرف دکھانے کے لئے ہی ہوتا ہے یا اس کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے.وہ یادرکھیں کہ مہر دینے کے لئے ہوتا ہے.اسلام اس قسم
۲۰۹ نکاح کی نمائش کو جو دھو کہ کا موجب ہو ہرگز جائز نہیں رکھتا.پس جولوگ صرف دوسروں کو دکھانے کے لئے بڑے بڑے مہر باندھتے ہیں اور ادا نہیں کرتے وہ گنہگار ہیں.اور جو اپنی حیثیت سے کم باندھتے ہیں وہ بھی گنہ گار ہیں.صحابہ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے ہی ادا کر دیتے تھے.پس ایسا ہی کرنا چاہئے.ہاں اگر کوئی ایک دفعہ سارا نہ ادا کر سکے تو کچھ مدت میں ادا کر دے.لیکن ادا ضرور کرے.متجل اور غیر منتقل کے الفاظ بعد کی ایجاد ہیں.شریعت اسلام سے ان کو ئی تعلق نہیں ہے.پس جہاں تک ہو سکے پہلے ادا کرنا چاہئے.ورنہ آہستہ آہستہ.یہ ایک قرضہ ہے جو عورت کی طرف سے مرد پر ہے.اس کا ادا کرنا بہت ضروری ہے.خطبات محمود جلد ۳ ( خطبات نکاح ) صفحه ۳۰،۲۹) مھر کی ادئیگی سے قبل مھر کی معافی عورت کو مہر ادا کئے جانے سے پہلے معافی کوئی حیثیت نہیں رکھتی.وہ مال اس کا حق ہے اس کو پہلے وہ مال ملنا چاہئے.پھر اگر وہ چاہے تو واپس دے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی فتویٰ ہے.آپ نے حکیم فضل دین صاحب مرحوم کے بیان کرنے پر کہ ان کی بیویوں نے مہر معاف کر دیا ہے.فرمایا کہ پہلے ان کو مہر دے دو.پھر وہ واپس دے دیں تو سمجھو کہ معاف کر دیا ہے.جب انہوں نے روپیہ دیا تو بیویوں نے لے لیا اور کہا کہ اب تو ہم معاف نہیں کرتیں.بعض فقہاء کا قول ہے کہ مہر دے کر فوراً بھی واپس ہو جائے تو جائز نہیں کچھ مدت تک عورت کے پاس رہے.تب واپس کرے تو جائز سمجھا جائے گا.(فائل فیصلہ جات نمبر ۲ - صفحه ۱۱،۱۲.دار القضاء، ربوہ) مهر عورتوں کے حقوق شادی کے ساتھ ہی شریعت اسلام نے عورت کے لئے علیحدہ جائیداد کا انتظام کیا ہے اور اس
۲۱۰ نکاح کو شادی کا ضروری جزو قرار دیا ہے.اسے اسلامی اصطلاح میں مہر کہتے ہیں.اس کی غرض یہ ہے کہ عورت کی ایک علیحدہ جائیداد بھی رہے تا کہ وہ اپنی حیثیت کو قائم رکھ سکے اور اپنے طور پر صدقہ دے سکے یا صلہ رحمی کر سکے.گویا مہر کے ذریعہ سے پہلے دن سے ہی مرد سے یہ اقرار کرالیا جاتا ہے کہ عورت اس امر کی حقدار ہے کہ اپنی الگ جائیداد بنائے اور خاوند کو اس کے مال پر کوئی تصرف نہیں ہوگا.پھر عورت کا یہ حق مقرر کیا ہے کہ خاوند عورت کو بلا کسی کھلی کھلی بدی کے سزا نہیں دے سکتا اور اگر سزا دینی ہو تو اس کے لئے پہلے ضروری ہوگا کہ محلہ کے چار واقف مردو عورت کو گواہ بنا کر ان سے شہادت لے کہ عورت واقعی میں خلاف اخلاق افعال کی مرتکب ہوئی ہے.اس صورت میں بے شک سزا دے سکتا ہے مگر وہ سزا تدریجی ہوگی.چنانچہ فرمایا: - والتـي تـخــافـون الآيــه (سوره نساء : ۳۵، ۳۶) یعنی پہلے وعظ.اگر وہ اس سے متاثر نہ ہو تو کچھ عرصہ کے لئے اس سے علیحدہ دوسرے کمرے میں سونا.اگر اس کا اثر بھی عورت پر نہ ہو تو گواہوں کی گواہی کے بعد بدنی وجہ سے سزا کا دینا جس کے لئے شرط ہے کہ ہڈی پر چوٹ نہ لگے اور نہ اس مارکا نشان پڑے.اور یہ بھی شرط ہے کہ یہ سزا صرف فحش کی وجہ سے دی جاتی ہے نہ کہ گھر کے کام وغیرہ کے نقصان کی سے قطع تعلق کی صورت میں حکم ہے کہ وہ چار ماہ سے زیادہ کا نہیں ہوسکتا.اگر چار ماہ سے زیادہ کوئی خاوند اپنی بیوی سے الگ رہے تو اسے قانون مجبور کرے گا کہ عورت کے حقوق ادا کرے اور خرچ کی ادائیگی سے تو وہ ایک دن کے لئے بھی انکار نہیں کر سکتا.مرد پر فرض ہے کہ عورت کے کھانے پہننے اور مکان کی ضروریات کو مہیا کرے خواہ عورت مالدار اور مرد غریب ہی کیوں نہ ہو.انوار العلوم جلد ۸ ، احمدیت یعنی حقیقی اسلام - صفحه ۲۷۲) مهرمعاف کرانا یوں تو عورت اپنے خاوند کو بھی مہر کا روپیہ دے سکتی ہے لیکن یہ نہیں کہ خاوند مہر ادا کئے بغیر ہی لینے کا اقرار کرا لے.اس طرح صورت بجھتی ہے مہر پہلے کون سا مجھے ملا ہوا ہے صرف زبانی بات ہے اس کا
۲۱۱ نکاح معاف نہ کرنا کچھ فائدہ نہیں دے سکتا.اس لئے کہ دیتی ہے میں نے معاف کیا.ورنہ اگر اُسے دے دیا جائے اور وہ اس کے مصارف جانتی ہو تو پھر معاف کرالینا اتنا آسان نہ ہو.حضرت عمر اور دیگر ائمہ کہار اور بزرگوں کا فیصلہ تو یہ ہے کہ کم از کم سال کے بعد عورت اپنا مہر اپنے خاوند کو دے سکتی ہے یعنی مہر وصول کرنے کے بعد ایک سال تک وہ اپنے پاس رکھے اور پھر اگر چاہے تو خاوند کو دے دے.( مصباح ماہ جون ۱۹۴۱ء - الازھار لذوات الخمار صفحہ ۱۵۹.ایڈیشن دوئم ) مهر ضرور ادا کرنا چاھئے حکیم فضل دین صاحب جو ہمارے سلسلہ میں السابقون الاولون میں سے ہوئے ہیں ان کی دو بیویاں تھیں.ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا مہر شرعی حکم ہے اور ضر ور عورتوں کو دینا چاہئے.اس پر حکیم صاحب نے کہا میری بیبیوں نے مجھے معاف کر دیا ہوا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا کیا آپ نے ان کے ہاتھ میں رکھ کر معاف کرایا تھا؟ کہنے لگے نہیں.حضور یونہی کہا تھا اور انہوں نے معاف کر دیا.حضرت صاحب نے فرمایا پہلے آپ ان کی جھولی میں ڈالیں پھر ان سے معاف کرائیں (یہ بھی ادنیٰ درجہ ہے.اصل بات یہی ہے کہ مال عورت کے پاس کم از کم ایک سال رہنا چاہئے اور پھر اس عرصہ کے بعد اگر وہ معاف کرے تو درست ہے ) ان کی بیویوں کا مہر پانچ پانچ سور روپیہ تھا.حکیم صاحب نے کہیں سے قرض لے کر پانچ پانچ سور و پیران کو دے دیا اور کہنے لگے تمہیں یاد ہے تم نے اپنا مہر مجھے معاف کیا ہوا ہے.سواب مجھے یہ واپس دے دو.اس پر انہوں نے کہا اس وقت ہمیں کیا معلوم تھا کہ آپ نے دے دینا ہے.اس وجہ سے کہ دیا تھا کہ معاف کیا ، اب ہم نہیں دیں گی.حکیم صاحب نے آکر یہ واقعہ حضرت صاحب کو سنایا کہ میں نے اس خیال سے کہ روپیہ مجھے واپس مل جائے گا ایک ہزار روپیہ قرض لے کر مہر دیا تھا مگر
۲۱۲ نکاح روپیہ لے کر انہوں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا.حضرت صاحب یہ سن کر بہت ہنسے اور فرمانے لگے درست بات یہی ہے کہ پہلے عورت کو مہر ادا کیا جائے اور کچھ عرصہ کے بعد وہ معاف کرنا چاہے تو کر دے ورنہ دیئے بغیر معاف کرانے کی صورت میں تو مفت کرم داشتن“ والی بات ہوتی ہے.پس عورتوں سے معاف کرانے سے پہلے ان کو مہر دیا جانا ضروری ہے.( مصباح جون ۱۹۴۱ء.الازھار لذوات الخمار صفحہ ۱۶۰.ایڈیشن دوئم ) ایک مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا:.میں فیصلہ کرتا ہوں کہ مہر سالم پانچ سو روپیہ مدعیہ کو دلایا جائے کیونکہ شریعت کی رو سے عورت کا حق ہے اور بسا اوقات اس کی معافی بھی قابل تسلیم نہیں کیونکہ اس کی ایک رنگ ماتحت حالت اس کی معافی کی وقعت کو اصول شرعیہ کے رو سے بہت کچھ گرادیتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ ہے.پس قبل از ادائیگی مہر معافی کوئی حقیقت نہیں رکھتی خصوصا جبکہ ہمارے ملک میں عورتوں میں یہ عام خیال ہو کہ مہر صرف نام کا ہوتا ہے بلکہ بعض اس کی وصولی کو بہتک خیال کرتی ہیں.(فائل فیصلہ جات نمبرا.صفحہ ۴۶.دارالقضاء، ربوہ) دونوں فریق پیش ہوئے.مدعیہ کے وکیل کا مطالبہ ہے کہ پورا مہر دیا جاوے.مدعاعلیہ کہتا ہے کہ بالکل نہ دیا جائے.مدعیہ کی طرف سے قدوری کا ایک حوالہ پیش کیا گیا ہے کہ عنین ہونے کی صورت میں جب اختلاف کیا جاوے تو مہر سارا دلایا جانا چاہئے.مگر اس کے ساتھ فقہاء کی طرف سے دلیل نہیں دی گئی جس کا شرعی اصول پر جواز نہ کیا جاسکے.اس لئے اس فتوی کی حقیقت محض ایک رائے کی ہے.اس سے زیادہ نہیں اور شریعت کی نص پر کسی انسان کی رائے کا اثر نہیں پڑسکتا.اس لئے میں فیصلہ کرتا ہوں کہ لڑکی کو صرف نصف مہر دلایا جاوے کیونکہ جس بناء پر اس نے طلاق حاصل کی ہے وہ بتاتی ہے کہ خاوند کے ساتھ اس کا تعلق مائل نہیں ہوا.(فائل فیصلہ جات نمبر ۲.صفحہ ۴۹.دارالقضاء، ربوہ )
۲۱۳ نکاح میں اس امر کو تسلیم کرتا ہوں کہ اگر عورت مرد پر حنین کا الزام لگائے تو مرد کا بھی حق ہے کہ وہ عورت کا معائنہ کروائے کہ وہ باکرہ ہے یا نہیں.(فائل فیصلہ جات نمبر ۲ - صفحه ۵۲ - دار القضاء، ربوہ ) عورت مھر کی رقم اپنے ماں باپ اور خاوند کودے سکتی ھے اگر عورت کو مہر مل جائے اور اس پر چار پانچ سال ہو گئے ہوں یا کم از کم ایک سال تک اس کے پاس رو پیدرہ چکا ہو تو پھر اگر وہ اسے اپنے خاوند یا ماں باپ کو دے دے تو میں کہوں گا درست ہے اور پسندیدہ.اگر کسی عورت کا مہر ایک ہزار ہو اور اُسے خاوند ایک لاکھ اپنی طرف سے دے دے تو میں کہتا ہوں وہ عورت اگر گھر بار کی ضروریات اور حالات سے واقف ہونے کے بعد ایک لاکھ ایک ہزار روپیہ بھی ماں باپ کو دے دے تو میں کہوں گا اس نے بہت اچھا کیا.لیکن اگر ماں باپ شادی کے وقت ہی لیتے ہیں تو یہ بردہ فروشی ہے جو گناہ ہے.لیکن جو عورت شادی کے بعد ماں باپ کی مدد کرے گی اور اپنی ضروریات کو سمجھتے ہوئے مہر کی رقم ہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ماں باپ کو دے گی وہ خدا تعالیٰ کی مقبول ہوگی ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی مقبول ہوگی اور ماں باپ کی خدمت کا نیک نمونہ پیش کرے گی.مصباح جون ۱۹۴۱ء.الازھار لذوات الخمار صفحہ ۱۶۱.ایڈیشن دوئم ) شادی بیاہ کی رسومات سوال :.جو مستورات دلہن کو پہلی دفعہ دیکھنے آتی ہیں وہ کچھ نہ کچھ مٹھائی ضرور لایا کرتی ہیں.خالی ہاتھ آنا پسند نہیں کرتیں.آیا یہ جائز ہے یا کہ اس دستور کو روکا جائے؟
۲۱۴ نکاح جواب :.ایک فضول رسم ہے نہ حرام کہہ سکتے ہیں نہ حلال.سوال :.یہ عورتیں جب پہلی ملاقات کے لئے آتی ہیں تو واپس جاتے وقت ان کو کچھ پتاشے وغیرہ دیئے جاتے جایا کرتے ہیں.اس متعلق کیا حکم ہے؟ جواب :.یہ بھی رسم ہے.ایسی سب باتیں حتی المقدور روکنی چاہیں.سوال :.دلہن کے گھر پہنچنے کی تقریب پر کیا مٹھائی احباب میں تقسیم کر دینی جائز ہے یا کہ صرف دعوت ولیمہ پر کفایت کی جائے ؟ جواب :.صرف ولیمہ.سوال :.دلہن کے آنے پر کیا مستورات جمع ہو کر کچھ شعر واشعار وغیرہ پڑھ کر خوشی منالیں؟ جواب:.بے شک.بے حیائی کی بات نہ ہو.سوال:.لڑکے کے بیاہ پر ایک دستور ہوتا ہے کہ دولہا کی بہنیں پھوپھیاں یا تو دلہن کے لئے پار جات اور زیور بنا کر لاتی ہیں اور اس سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ہم کو اس سے بڑھ کر واپس کیا جائے یا یوں بھی رواج ہوتا ہے کہ ان کو ایسے موقعوں پر کچھ کپڑے اور زیورات بنوا دیئے جائیں.اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ جواب : یہ بھی بدعت ہے.روکنا مناسب ہے.الفضل ۳ رمئی ۱۹۱۵ء - جلد ۲.نمبر ۱۳۵) اب مسلمانوں نے شریعت اسلام کو چھوڑ کر ہندوؤں کی رسمیں اختیار کر لی ہیں.بیاہ شادیوں میں انہی کی طرح تیل لگایا جاتا ہے.گانا باندھا جاتا ہے اور اسی طرح کی اور کئی فتیح رسمیں عمل میں لائی جاتی ہیں.ہمارے بعض احمد یوں میں بھی ابھی تک رسمیں چلی آئی ہیں.مجھے بچپن سے رسموں سے نفرت ہے.اس لئے دل جلتا ہے اور چاہتا ہوں کہ سختی سے روکوں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یاد آجاتی ہے کہ نئے نئے مسلمان ہونے والوں کا بھی ایک حد تک لحاظ رکھنا چاہئے.الفضل ، ار جولائی ۱۹۱۴ء.جلد ۲ نمبر، اصفحه ۵)
۲۱۵ نکاح سوال :.تاریخ شادی سے چند دن پہلے لڑکے یا لڑکی کی مایاں کرتے ہیں.کیا یہ رسم جائز ہے؟ جواب :.اگر لڑ کی کی مالش وغیرہ مراد ہے تو ہر ایک طریق جس سے اس کی شکل وصورت میں درستی ہو جائز ہے اور اگر بے وجہ کچھ کرنا بطور رسم مراد ہے تو درست نہیں.الفضل ۵ را گست ۱۹۱۵ء.جلد ۳ نمبر ۱۹ صفحه۲) سوال ہوا لبعض جوڑے نکاح پڑھوانا چاہتے ہیں اور روا جا کلمہ بھی پڑھ لیتے ہیں ایسے نکاح کا کیا حکم ہے؟ فرمایا:.یہ سیاسی نکاح ہے.حسب رواج ایجاب و قبول کرا دیا کریں.شرعی نکاح یہ نہیں ہے.باقی کوشش کریں کہ ایسے لوگ مسلمان ہو جاویں.اگر مسلمان ان کو اپنے قبضہ میں نہ لیں گے تو عیسائی اور آریہ لے جائیں گے.الفضل ۴ رمئی ۱۹۲۲ء جلد ۹ نمبر ۶ ۸ صفحه ۶) نکاح شغار.وٹے سٹے کی شادی اسلام نے اس قسم کی شادی کو نا پسند کیا ہے کہ ایک شخص اپنی لڑکی دوسرے شخص کے لڑکے کو اس شرط پر دے کہ اس کے بدلہ میں وہ بھی اپنی لڑکی اس کے لڑکے کو دے.لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اگر طرفین کے فیصلے الگ الگ اوقات میں ہوئے ہوں اور ایک دوسرے کولڑ کی دینے کی شرط پر نہ ہوئے ہوں تو کوئی حرج نہیں.( خطبات محمود جلد۳، صفحه ۲۸) ملک کا رواج ہے کہ لڑکی تب دیتے ہیں کہ جب کوئی ان کے لڑکے یا رشتہ دار کا بھی بندوبست کرے.ایسا باپ جولڑکی کے فوائد کو نظر انداز کر دیتا ہے اور اپنے فوائد کو مقدم کرتا ہے وہ سخت بُرا کام کرتا ہے.اس قسم کے رشتوں کو بقا کہتے ہیں اور یہ شریعت میں ناجائز ہے.یہ جائز ہے کہ ایک جگہ
۲۱۶ نکاح کسی کی لڑکی بیاہی ہو اور پھر لڑکی والوں کے ہاں لڑکے والوں کی لڑکی کا رشتہ ہو جائے.مگر مقرر کر کے رشتہ داری کرنا نا جائز ہے اور اپنے وکالت نامہ کا غلط استعمال ہے اور ابھی تک ہماری جماعت میں سے.یہ بھی نہیں گیا جب تک لوگ اس فرض کو نہ پہچانیں گے ہم اپنے وکالت نامہ کو خراب نہیں کریں گے.تب تک یہ رسم نہیں مٹ سکتی.( خطبات محمود جلد۳، صفحه ۱۴۴) جهیز اور مطالبه جهیز شادی کے موقعہ پر بیوی کے لئے کپڑے وغیرہ دینا سنت ہے لیکن اگر کوئی لڑکی والا یہ شرط کرے کہ اتنے کپڑے دو اور اتنا زیور لاؤ تو یہ بھی ناجائز ہے.اس کے سوا اگر کوئی بھی شرط کی جائے تو وہ نا جائز ہے اور وہ نکاح نکاح نہیں رہے گا بلکہ حرام ہو جائے گا.کیونکہ شریعت نے نکاح کے لئے صرف مہر کو ہی ضروری قرار دیا ہے اور جو شخص اس کے علاوہ شرائط پیش کرتا ہے وہ گویائی شریعت بناتا ہے.الفضل ۱۲ جون ۱۹۶۰ء جلد ۹ نمبر ۱۳۲ صفحه ۴ ) جس چیز کو شریعت نے مقرر کیا ہے وہ یہی ہے کہ مرد عورت کو کچھ دے.عورت اپنے ساتھ کچھ لائے یہ ضروری نہیں اور اگر کوئی اس کے لئے مجبور کرتا ہے تو وہ سخت غلطی کرتا ہے.ہاں اگر اس کے والدین اپنی خوشی سے کچھ دیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ ضروری نہیں.الفضل ۱۸ راپریل ۱۹۳۰ء جلد ۱۷ نمبر ۱ ۸ صفحه ۶) جهیز اور زیور کا مطالبہ اوراس کی نمائش نکاح کے لئے کسی روپیہ کی ضرورت نہیں.مہر عورت کا حق ہے جو مرد کی حیثیت پر ہے.وہ بہر حال دینا ہے.باقی جو یہ سوال لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے والوں سے ہوتا ہے کہ کیا زیور کپڑا دو گے.اور اسی طرح لڑکے والوں کی طرف سے یہ کہ کیا لڑکی کو دو گے بہت تباہی بخش اور ذلیل طریق
۲۱۷ نکاح ہے.اس طریق نے مسلمانوں کی جائیدادوں کو تباہ کر دیا اور کہتے ہیں کہ ناک نہیں رہتی.لوگ پوچھتے ہیں لڑکی کیا لائی اور اسی طرح لڑکے والوں کی طرف سے کچھ نہ ہو تو لڑکی والے کہتے ہیں ہماری ناک کٹتی ہے چونکہ اس طریق سے تباہی آتی ہے اس سے جماعت کو بچنا چاہئے.اور بجائے بڑے جہیزوں والی لڑکی اور بڑے زیور لانے والوں لڑکوں کے دیکھنا چاہئے کہ لڑکی جو گھر آئی ہے وہ مسلمان ہے اور لڑکا مسلمان ہے ورنہ بڑے بڑے زیور تباہی اور بربادی کا باعث ہو جاتے ہیں اور اس سے خاندان تباہ ہو جاتے ہیں اور دین بھی ضائع ہو جاتا ہے اور لوگ سود میں مبتلا ہوکر جائیدادوں کو کھو دیتے ہیں اور اس کی ایک جڑ ہے وہ یہ کہ لوگوں میں رواج ہے کہ جہیز وغیرہ دکھاتے ہیں اس رسم کو چھوڑ نا چاہئے.الفضل ۱۷ فروری ۱۹۲۱ء صفحہ ۶ - خطبات محمود جلد ۳ نمبر ۸۵ صفحه ۸۵) جهیز کی نمائش لڑکیاں جب اپنی سہیلیوں کے جہیز وغیرہ کو دیکھتی ہیں تو پھر وہ اپنے والدین سے ایسی ہی اشیاء لینا چاہتی ہیں اور اس طرح کی نمائش گویا جذبات کو صدمہ پہنچانے والی چیزیں بن جاتی ہیں جو کچھ بھی دیا جائے بکسوں میں بند کر کے دیا جائے.( رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ صفحه ۲۴) لوگوں میں رواج ہے کہ جہیز وغیرہ دکھاتے ہیں.اس رسم کو چھوڑ نا چاہئے.جب لوگ دکھاتے ہیں تو دوسرے پوچھتے ہیں.جب دکھانے کی رسم بند ہوگی تو لوگ پوچھنے سے بھی ہٹ جائیں گے.ہمیشہ اس بات پر جانب ینکی نظر ہونی چاہئے کہ ہمارے دین پر ، ہمارے اخلاق پر اس معاملہ کا کیا اثر پڑے گا.الفضل ۷ار فروری ۱۹۲۱ء) مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں نے اگر بعض رسمیں مٹائی ہیں تو دوسری شکل میں بعض اختیار بھی کر لی ہیں.نکاحوں کے موقع پر پہلے تو گھروں میں فیصلہ کر لیا جاتا ہے کہ اتنے
۲۱۸ نکاح زیور اور کپڑے لئے جائیں گے.پھر آہستہ آہستہ ایسی شرائط تحریروں میں آنے لگیں.پھر میرے سامنے بھی پیش ہونے لگیں.شریعت نے صرف مہر مقرر کیا ہے اس کے علاوہ لڑکی والوں کی طرف سے زیور اور کپڑے کا مطالبہ ہونا بے حیائی ہے اور لڑکی بیچنے کے سوا اس کے اور کوئی معنے میری سمجھ میں نہیں آتے.یہ تو خاوند کا کام ہے کہ اپنی بیوی کے لئے جو تحائف مناسب سمجھے لائے اسے مجبور کر کے تحائف لینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسی کوگردن سے پکڑے اور اس کے منہ پر مکا مار کر کہے مجھے چومو.وہ بھی کوئی پیار ہے جو مارکر کرایا جائے.اسی طرح وہ کیا تحفہ ہے جو مجبور کر کے اور یہ کہہ کر کہ اگر یہ چیزیں نہ دو گے تو لڑکی نہیں دی جائے گی ، وصول کیا جائے گا.یہ تحفے نہیں بلکہ جرمانہ ہوگا.جس سے محبت نہیں بڑھ سکتی بلکہ رنجیدگی پیدا ہوگی.میں آئندہ کے لئے اعلان کرتا ہوں کہ اگر مجھے علم ہو گیا کہ کسی نکاح کے لئے زیور اور کپڑے وغیرہ کی شرائط لگائی گئی ہیں یا لڑکی والوں نے ایسی تحریک بھی کی ہے تو ایسے نکاح کا اعلان میں نہیں کروں گا.اگر تم نے واقعہ میں اسلام قبول کیا ہے اور اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہوتو اصلاح کی صحیح صورت اختیار کرو.ایک طرف سے غلاظت پونچھ کر دوسری طرف لگا لینا صفائی نہیں.(خطبات محمود جلد ۳، صفحه ۳۰۰، ۳۰۱) اس زمانہ میں زیادہ تر شادی بیاہ کے موقعہ پر لوگ اپنی ناک رکھنے کے لئے زیورات وغیرہ پر طاقت سے زیادہ روپیہ خرچ کر دیتے ہیں جو انجام کار ان کے لئے کسی خوشی کا موجب نہیں ہوتا.کیونکہ انہیں دوسروں سے قرض لینا پڑتا ہے جس کی ادائیگی انہیں مشکلات میں مبتلا کر دیتی ہے اگر کسی کے پاس وافر روپیہ موجود ہو تو اس کے لئے شادی پر مناسب حد تک خرچ کرنا منع نہیں لیکن جس کے پاس نقد روپیہ موجود نہیں وہ اگر ناک رکھنے کے لئے قرض لے کر روپیہ خرچ کرے گا تو اس کا یہ فعل اسراف میں شامل ہوگا.مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسراف کی شکلیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں.مثلاً ایک شخص کی آمد دو چار ہزار روپیہ ماہوار ہے اور وہ پندرہ بیس روپے گز کا کپڑا پہنتا ہے یا پانچ سات سوٹ تیار کرا لیتا ہے تو اس کے مالی حالات کے مطابق اسے ہم اسراف نہیں کہیں گے لیکن اگر خدانخواستہ اس کے
۲۱۹ نکاح بیوی بچے بیمار ہو جائیں اور وہ ایسے ڈاکٹروں سے علاج کروائے جو قیمتی ادویات استعمال کروائیں اور ہزار میں سے پانچ سات سو روپیہ اس کا دواؤں پر ہی خرچ ہو جائے اور اس کے باوجود وہ اپنے کھانے پینے اور پہنے کے اخراجات میں کوئی کمی نہ کرے تو پھر اس کا یہی فعل اسراف بن جائے گا حالانکہ عام حالات میں یہ اسراف میں شامل نہیں تھا.( تفسیر کبیر جلد ششم.سورۃ الفرقان صفحه ۵۷۱) جهیز اوربری کی رسومات اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نہ صرف جہیز بلکہ بری بھی بُری چیز ہے.اپنی استطاعت کے مطابق جہیز دینا تو پھر بھی ثابت ہے لیکن بری کا اس رنگ میں جیسے کہ اب رواج ہے مجھے اب تک کوئی حوالہ نہیں ملا لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جہیز بھی اگر کوئی دے سکے تو نہ دے.ایسے موقعوں پر ہمارے لئے سنت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز عمل ہے.الازهار لذوات الخمار صفحه ۲۴۸) اصل بات یہ ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اگر کوئی دیتا ہے تو اچھی بات ہے لیکن جو شخص معمولی چیزیں بھی دینے کی استطاعت نہیں رکھتا اور پھر زیر بار ہوکر ایسا کرتا ہے تو شریعت اُسے ضرور پکڑے گی چونکہ اس نے اسراف سے کام لیا حالانکہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے اسراف تبذیر سے منع فرمایا ہے.لیکن اگر کوئی اپنی طاقت اور خوشی کے مطابق اس سے بہت زیادہ بھی دے دیتا ہے تو اس میں مضائقہ نہیں.اگر آج ایک شخص اس قدر حیثیت رکھتا ہے کہ وہ لڑکی کو دس ہزار روپیہ دے سکتا ہے تو بے شک دے.اگر اسکے بعد اس کی حالت انقلاب دہر کے باعث ایسی ہو جائے کہ دوسری لڑکی کو کچھ بھی نہ دے سکے تو اس میں اس پر کوئی الزام نہیں آسکتا کیونکہ پہلی کو دیتے وقت اس کی نیت یہی تھی کہ سب کو دے لیکن اب حالات بدل گئے ہیں.(مصباح ۱۵ مئی ۱۹۳۰ ء - الازهار لذوات الخمار صفحه ۲۴۹ ،۲۵۰.ایڈیشن دوئم )
۲۲۰ نکاح اعلان نکاح بذریعه دف اعلان نکاح کے لئے دف جائز ہے مگر آج دنیا ترقی کر گئی ہے.اور اس کو لوگ پسند نہیں کرتے ہیں اور جن باجوں کو لوگ پسند کرتے ہیں وہ جائز نہیں.اس لئے قدرت نے ہم سے یہ بھی چھڑوا دیا.اس کی بھی ضرورت نہیں رہی کیونکہ دف سے غرض اعلان تھا اور اعلان کا ذریعہ دف سے بھی بہت اعلیٰ درجہ کا نکل آیا جو اخبار ہے کہ اس میں اعلان ہو جاتا ہے.دف سے جو غرض تھی وہ دوسری صورت میں بطو راحسن پوری ہوگئی.( خطبات محمود جلد۳، صفحه ۹۴) ایک صاحب نے لکھا کہ نکاح کے موقع پر انگریزی با جا اعلان بالدف کا قائم مقام ہوسکتا ہے یا نہیں؟ حضور نے فرمایا:.اعلان بالدف بالکل جائز ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ آیا آج کل اس ذریعہ سے زیادہ پختہ ذریعہ اعلان کا موجود ہے یا نہیں.اگر موجود ہو تو اس کی کیا ضرورت ہے.لیکن اگر کوئی کرتا ہے تو وہ گنہگار نہیں.الفضل ۷ راگست ۱۹۲۳ء جلد نمبر ۹ صفحه ۶) شادی کے موقع پر گانا، گھڑا بجاناوغیرہ شادی بیاہ کے موقع پر شریعت کی روسے گانا جائز ہے.مگروہ گانا ایسا ہی ہونا چاہئے جو یا تو مذہبی ہو اور یا پھر بالکل بے ضرر ہو مثلاً شادی بیاہ کے موقع پر عام گانے جو مذاق کے رنگ میں گائے جاتے ہیں اور جو بالکل بے ضرر ہوتے ہیں ان میں کوئی حرج نہیں ہوتا کیونکہ وہ محض دل کو خوش کرنے کے لئے گائے جاتے ہیں ان کا اخلاق پر کوئی برا اثر نہیں ہوتا.ایک دوست نے سوال کیا کہ شادی کے موقع پر عورتیں بعض دفعہ گھڑا بجاتی ہیں اس کے متعلق
حضور کا کیا ارشاد ہے؟ ۲۲۱ نکاح حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو صرف دف بجائی جاتی تھی.گھڑا بجانے کے متعلق مجھے کوئی ذاتی واقفیت نہیں لیکن میر ناصر نواب صاحب چونکہ وہابی تھے اس لئے گھڑا بجانا وہ بہت برا سمجھتے تھے.حدیثوں میں صرف دف کا ذکر آتا ہے.الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۴۵ ء - جلد ۳۳ نمبر ۱۸ صفحه ۴ ) سوال :.ایک شخص نے حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ ہمارے ملک میں عورتیں ایسے گیت گاتی ہیں جن میں صرف دولہا دلہن کی باتیں ہوتی ہیں، ان کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ جواب :.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.شادی کے موقع پر کوئی گیت گا لیں تو گناہ نہیں بشرطیکہ اس میں فحش اور لغو بکواس نہ ہو اور بے حیائی سے نہ گایا جائے.الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۱۵ء.جلد ۳ - نمبر ۱۲ صفحه ۲) حکم ہے کہ تقویٰ سے کام لومگر سنا ہے کہ لوگ خصوصاً عورتیں اس موقع پر گالیاں دیتی ہیں اور مخش گیت گاتی ہیں جس سے دل پر زنگ لگتا ہے.( الفضل ۷ار فروری ۱۹۲۱ء) شادی کے موقع پرفلمی گانے یہ بھی ایک عیب ہوتا ہے کہ لوگوں کو ایک رونی جماعت بنادیا جائے اور حسن مذاق کا کوئی رنگ ان میں دکھائی نہ دے.لیکن جہاں اس قسم کے ہلکے مذاق اور پاکیزہ گانوں میں کوئی حرج نہیں وہاں اس گند کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ فلمی گانے جو نہایت ہی گندے اور غلیظ اور فطرت انسانی کومسخ کر دینے والے ہوتے ہیں وہ شادی بیاہ کے موقع پر گائے جائیں اور چوڑھیاں اور میراثنہیں نچوائی
۲۲۲ نکاح جائیں.یہ ایک بھاری نقص ہے جس کو روکنا بہت ضروری ہے.فلمی گانے اور ناچ کی رپورٹ پر حضور نے فرمایا :.الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۴۵ء جلد ۳۳ نمبر ۱۸ صفحه ۳) جو دوست یہاں بیٹھے ہیں جب اپنے اپنے گھروں میں جائیں تو اپنے بیوی بچوں کو اچھی طرح سے سمجھا دیں کہ اگر آئندہ کسی گھر میں ایسا طریق اختیار کیا گیا تو جماعت کے مردوں اور عورتوں کو یہ ہدایت کر دی جائے گی کہ وہ ایسے لوگوں کی شادیوں میں شامل نہ ہوا کریں.آخر سوائے اس کے اس گند کو دور کرنے کا اور کیا علاج ہو سکتا ہے کہ اعلان کر دیا جائے کہ ان لوگوں کی شادیوں میں ہماری جماعت کا کوئی فرد شامل نہ ہو.وہ میراثیوں اور چوڑھیوں کو بلا لیں اور یا پھرایکٹرسوں کو بلالیں کیونکہ ایسے لوگوں کے گھروں میں وہی جاسکتی ہیں کوئی اور نہیں جاسکتا.الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۴۵ء جلد ۳۳ نمبر ۱۸ صفحه ۳.رجسٹر اصلاح وارشاد ۴۴-۵-۱۲) مهندی شادی کے موقع پر مہندی اور اس کے ساتھ متعلقہ رسوم جو رائج ہیں ہمارے نزدیک غیر اسلامی ہیں.ہماری جماعت کو اس سے بچنا چاہئے.رخصتانہ کا طریق:.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء) یہ بات دونوں طرح ثابت ہے.لڑکے والے بھی جا کر لڑکی کو لے آتے ہیں اور ایسا بھی ثابت ہے کہ جو لڑکی والے لڑکے کے گھر لڑکی پہنچا دیتے ہیں بلکہ میرا مطالعہ تو یہ ہے کہ کثرت سے اس کی مثالیں ملتی ہیں کہ خود لڑکی والے لڑکے والوں کے گھر لڑکی لے آئے.الفضل ۱۸ را پریل ۱۹۳۰ء جلد ۱۷ نمبر۲ ۸ صفحه ۶)
۲۲۳ نکاح سهرا سہرا کے بارہ میں جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایہ واللہ تعالیٰ بنصر ودالعزیز سے پو چھا گیا تو آپ نے فرمایا:.سہرے کا طریق بدعت ہے.“ الفضل ۴ جنوری ۱۹۴۶ء جلد ۴ ۳ نمبر ۴ صفه ۲ ) سوال :.شادی کے موقع پر دولہا کو سہرا باندھنا کیسا ہے؟ جواب:.فرمایا.لغویت ہے.انسان کو گھوڑا بنانے والی بات ہے.دراصل یہ رسم ہندوؤں سے مسلمانوں میں آئی ہے.اس سے اجتناب کرنا چاہئے.(رسالہ بدرسوم کے خلاف جہاد شائع کردہ اصلاح وارشاد صفحه ۱۴) ( الفضل ۲۰/۴/۱۹۴۶ ) ولیمه ولیمہ اپنی استطاعت کے مطابق کرنا چاہیے.سویق (ستو) اور ثرید سے بھی ولیمہ ہو گیا ہے.الفضل مئی ۱۹۱۵ء.جلد ۲.نمبر ۱۳۶) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بڑے سے بڑا ولیمہ بھی اتنا ہوا ہو گا جتنے ہمارے ہاں چھوٹے ہوتے ہیں.حالانکہ ولیمہ پر دس پندرہ دوستوں کو بلا لینا کافی ہوتا ہے یا جیسا کہ سنت ہے ایک بکرا ذبح کیا شور با پکایا اور خاندان کے لوگوں میں بانٹ دیا.خطبه جمعه ۲۳ / نومبر ۱۹۳۷ء) ولیمہ کے متعلق بھی میں نے ہدایت دی کہ اس موقعہ پر صرف چند دوستوں کو بلالینا کافی ہوتا ہے.زیادہ لوگوں کو بلا کر اپنا روپیہ ضائع نہیں کرنا چاہئے.بلکہ یہ بھی کافی ہے کہ لوگ اپنا
۲۲۴ نکاح کھانا لا کر ولیمہ والے گھر میں بیٹھ کر کھا لیں اور ایک آدمی کا کھانا اس کے گھر والے کی طرف سے بھی ہو جائے.( تفسیر کبیر جلد ششم.سورۃ الفرقان - صفحہ ا۵۷۲۵۷) آج کل بڑی شان وشوکت سے ولیمے کئے جاتے ہیں خواہ اپنی حیثیت اس کے ولیموں کو برداشت نہ کر سکتی ہو.دیکھ لورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع کے لئے کیا حکم دیا ہے.آپ فرماتے ہیں:.اولم ولو بشاة بخارى كتاب النكاح) کہ ایک بکری ذبح کر کے ولیمہ کر دو اور لوگوں کو کھانا کھلا دو.(خطبات محمود جلد ۳ صفحه ۵۰۱٬۵۰۰) میرے نکاح کے موقع پر دفتر والوں نے مجھے فون کیا کہ مٹھائی دیں مگر میں نے کہا کہ یہ جائز نہیں.یہ چند روپوں کا سوال نہیں بلکہ شریعت کے احترام کا سوال ہے.شریعت نے ولیمہ رکھا ہے.اس کے سوا اور کچھ نہیں.اس لئے مٹھائی وغیرہ کو جائز نہیں سمجھتا.ایسی باتیں قوم کے لئے نقصان کا موجب ہو جایا کرتی ہیں.جب ایک شخص مٹھائی کھلاتا ہے تو پھر دوسرے بھی اس کو ضروری سمجھنے لگتے ہیں اور پھر ہر ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ولیمہ تین دن ہے اس کے بعض لوگ یہ معنی بھی کرتے ہیں کہ ولیمہ تین روز کے اندر اندر ہوسکتا ہے.یعنی اس عرصہ کے اندر اندر کر دیا جائے مگر دوسرے معنے یہ بھی ہیں کہ دعوت ولیمہ تین روز سے زیادہ ممتد نہیں ہونی چاہئے.اس دعوت ولیمہ کو اور بڑھائے جانے اور پھر مٹھائیاں وغیرہ تقسیم کرنا یہ سب بدعات ہیں جن سے پر ہیز لازم ہے.الفضل ۱۲ جون ۱۹۶۰ء) لڑکی کی شادی پر دعوت کرنا بدعت ہے الفضل میں کچھ عرصہ سے شادی کی تقریبوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ الفاظ ہوتے ہیں کہ فلاں
۲۲۵ نکاح شخص نے شادی کے موقع پر چائے کی دعوت دی.اس قسم کی عبارت پہلے نہیں ہوا کرتی تھی.یہ صرف کچھ مدت سے شائع ہونی شروع ہوئی اور شائد کسی بدعت کی بنیاد ڈالی جارہی ہے.واقعہ صرف یہ ہے کہ لڑکی والے بعض اپنے دوستوں کو دعا اور خوشی میں شمولیت کے لئے جمع کر لیتے ہیں اور بلا وے میں صرف اتنا لکھتے ہیں کہ ہماری لڑکی کی شادی ہے آپ بھی اس تقریب شامل ہوں اور دعا میں حصہ لیں.یا اسی قسم کے اور الفاظ ہوتے ہیں.اسی سلسلہ میں چونکہ برات آئی ہوئی ہوتی ہے ان کے اعزاز میں کھانے کی کچھ چیزیں رکھی جاتی ہیں تو یہ مدعومہمان اس میں شامل ہو جاتے ہیں.سادہ طور پر کوئی ہلکا ناشتہ اس موقع پر مہمانوں کے پیش کر دینا بری بات نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ایسے موقع پر دودھ وغیرہ پیش کیا ہے.لیکن اس تقریب کو یہ رنگ دینا کہ وہ ایک با قاعدہ چائے کی دعوت تھی ایک بدعت کا قیام ہے.جس کی تردید کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں.اور میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ الفضل نے سابقہ رویہ کے خلاف اس امر پر کیوں زور دیا کہ اس طور پر ہلکے سے ناشتہ کے پیش کرنے کو جو پہلے ایک ضمنی چیز سمجھی جاتی تھی اب ایک با قاعدہ دعوت کی تقریب کیوں قرار دیا جانے لگا ہے.نیز مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ الفضل میں گزشتہ ایام میں ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ کسی صاحب نے اپنی لڑکی کی شادی کی تقریب پر قادیان کے دوستوں کو با قاعدہ کھانے کی دعوت دی.یہ ایک ناجائز فعل تھا.جس نے دعوت دی اس نے بھی غلطی کی.جو شامل ہوئے انہوں نے بھی غلطی کی.الفضل نے اس خبر کو شائع کر کے ایک غلط امر کی تائید کی اور اس کی اشاعت میں حصہ لینے کا گناہ کیا.حضرت خلیفہ اول اس قسم کی دعوت کو خلاف شریعت قرار دیا کرتے تھے.میرے اپنے علم کی رو سے خواہ یہ خلاف شریعت نہ ہو مگر خلاف منشائے شریعت ضرور ہے اور احمدی احباب کو اس قسم کی حرکات سے بچنا چاہئے.الفضل ۹ ستمبر ۱۹۴۲ء جلد ۳۰ نمبر ۲۰۹ صفحه۱)
۲۲۶ نکاح لڑکی والوں کی طرف سے دعوت لڑکی والوں کی طرف سے دعوت جہاں تک میں نے غور کیا ہے ایک تکلیف دہ چیز ہے.لیکن اگر لڑکی والے بغیر دعوت کئے آنے والوں کو کچھ کھلا دیں تو یہ ہرگز بدعت نہیں.ہاں اگر یہ کہا جائے جو نہیں کھلا تا ہوغلطی کرتا ہے تو یہ ضرور بدعت ہے اور اسی طرح جو یہ کہے کہ جو جہیز نہیں دیتا وہ غلطی کرتا ہے اور جہیز ضرور دینا چاہئے تو وہ بھی بدعت پھیلانے والوں میں سے ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے لڑکی کو کچھ دیتا ہے یا آنے والے مہمانوں کو کچھ کھلاتا ہے تو یہ ہرگز بدعت نہیں کہلا سکتی.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مبارکہ بیگم کی شادی پر بعض چیزیں اپنے پاس سے روپیہ دے کر آنے والے مہمانوں کے لئے امرت سر سے منگوائیں.جو شخص یہ سمجھ کر کہ ایسا کرنا ضروری ہے.ایسا کرتا ہے وہ بدعتی ہے لیکن جو شخص اپنے فطری احساس اور جذبہ کے ماتحت آنے والوں کی کچھ خاطر کرتا ہے اسے بدعت نہیں کہا جا سکتا.( مصباح ۱۵ مئی ۱۹۳۰ء - الازهار لذوات الخمار - صفحہ ۲۴۹.ایڈیشن دوم) لڑکی کے رخصتانه کے موقع پر دعوت طعام رخصتانہ کے موقع پر مدعوین کو معمولی طور پر اسراف وفضول خرچی سے اجتناب کرتے ہوئے چائے وغیرہ پیش کرنا جائز ہے.دعوت طعام نا پسندیدہ ہے.جماعتی طور پر یہ پابندی لگائی جائے کہ کوئی شخص اس موقع پر اپنی استطاعت کو نظر انداز کر کے کسی طرح سے اسراف نہ کرے.فرمایا:.درست ہے.دستخط مرز امحمود احمد فیصلہ مجلس افتاء جسے حضور نے منظور فرمایا ) (فائل فیصلہ جات خلیفہ وقت ، فیصلہ نمبر ۱.۲۲/۴/۱۹۵۷)
۲۲۷ نکاح دولهاسے لاگ وصول کرنا سوال :.حجام، ماشکی، خاکروب وغیرہ ملا زم لوگ جو ماہوار تنخواہ لے کر کام کرتے ہیں شادی کے موقع پر ان کو لاگ دیئے جاتے ہیں؟ جواب :.فرمایا.نوکروں کو کچھ دینا برا نہیں.خوشی کے موقع پر یہ لوگ ضرور طالب ہوتے ہیں اور ایک حد تک مستحق بھی.ہاں طرف ثانی سے لے کر دینا رسم میں داخل ہے اور ایک حد تک کمینگی میں داخل ہے.الفضل ۵/ اگست ۱۹۱۵ء جلد ۳ نمبر ۱۹ صفحی ۲ ) بہائی عورت سے شادی یہاں ایک شخص بہائی عورت بیاہ کر لایا وہ اسے میرے پاس لایا.اس وقت میں گول کمرہ میں بیٹھا کرتا تھا.اور کہا کہ آپ اسے تبلیغ کریں.مجھے اس وقت ایسا معلوم ہوا میری اور اس کی روحیں آپس میں ٹکراتی ہیں.مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میرے جسم سے ایک چیز نکل کر اس سے ٹکراتی ہے.اس سے میں نے معلوم کر لیا کہ یہ عورت ہدایت نہیں پائے گی.چنانچہ وہ مدتوں یہاں رہی اور احمدی نہ ہوئی.ایک دفعہ اس نے بعض اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے احمدیت کا اظہار بھی کیا مگر بعد میں پھر وہ اپنی پہلی حالت پر آ گئی.(خطبات محمود، جلد ۳ صفحه ۴۸۰) هندوعورت سے شادی اسلام کی رو سے ایک ہندو اور ایک یہودی لڑکی کے ساتھ بھی نکاح ہو سکتا ہے اور گو یہ رواج آج کل
۲۲۸ نکاح نہیں ہے لیکن اب بھی اگر ایک مسلمان ہندولڑ کی سے یا یہودی لڑکی سے شادی کرلے تو ایک ہی وجود پر ایک طرف مسلمان اسے پوتا کہہ کر جان دے گا تو دوسری طرف ایک ہندواسے نواسہ کہہ کر جان دے گا اور آپس کے اختلافات بہت حد تک دور ہو جائیں گے.لیکن یہ بات تبھی کامیاب ہوسکتی ہے جب اسے کثرت سے رائج کیا جائے اور پھر بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھا جائے.مسلمانوں میں صرف اکبر نے اس پر عمل کیا لیکن جب باقی مسلمانوں نے اس پر عمل نہ کیا تو اکبر کا کام بھی بریکار ہوکر رہ گیا اور بجائے فائدہ رساں کے مضر ہو گیا.( تفسیر کبیر جلد ششم.سورۃ الفرقان - صفه ۵۲۴) ايك مسلمان ہندو لڑکی سے شادی کرسکتاھے اسلام کی رو سے ایک ہندو اور ایک یہودی لڑکی کے ساتھ نکاح ہو سکتا ہے گو یہ رواج آج کل نہیں ہے.اب اگر ایک مسلمان مرد ہندولڑ کی سے یا یہودی لڑکی سے شادی کرے تو اس پر دوسرے مسلمان کفر کا فتویٰ لگادیں.مگر اسلام میں ایسے نکاح کی اجازت ہے اور اس سے تعلقات وسیع ہوتے ہیں.کیا ہی اچھا ہو ایک ہی وجود پر ایک طرف مسلمان پوتا کہہ کر جان دیتا اور اس سے محبت کرتا ہو تو دوسری طرف ایک نواسہ کہ کر اس پر جان دیتا ہو اور اس سے محبت کرتا ہو.اس ذریعہ کو اختیار کرنے سے مذاہب کے اختلاف دور ہو جائیں گے.( خطبات محمود، جلد ۳ صفحه ۴۴۸) برتھ کنڑول میرے نزدیک خشية اطلاق کی وجہ سے تو برتھ کنٹرول نا جائز ہے لیکن بچہ یا عورت کی صحت کے خطرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے جائز ہے.یعنی اگر بچہ کے متعلق خطرہ ہو کہ دماغی یا جسمانی لحاظ سے ناکارہ پیدا ہوگا یا عورت کی صحت اس قدر کمزور ہو کہ بچہ پیدا ہونے کی وجہ سے اس کی جان کا خطرہ ہوتو برتھ کنٹرول کا طریقہ اختیار
۲۲۹ نکاح کیا جاسکتا ہے مگر عام طور پر برتھ کنٹرول کے حامی سب سے بڑی وجہ خشیۃ املاق ہی پیش کرتے ہیں.الفضل ۶ جون ۱۹۳۳ء.جلد ۲۰ نمبر ۴۵ صفحه ۷ ) لا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ (بنی اسرائیل) اولاد کی پیدائش کو صرف اس خطرہ سے روکنا منع ہے کہ اگر اولا دزیادہ ہو جائے گی تو پھر کھائے کی کہاں سے.اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اولا د کی پیدائش بند کر نا قتل اولاد کے حکم میں ہے اور قتل اولاد ہر حال میں منع ہے اور برا ہے.تو معنے یہ ہوئے کہ اطلاق کی وجہ سے قتل اولا د یعنی اس کی پیدائش روکنا منع ہے.البتہ بعض صورتوں میں جائز بھی ہو سکتی ہے مثلاً عورت بیمار ہو.اس وقت جائز ہوگا کہ اولاد پیدا کرنا بند کر دے.کیونکہ جس چیز کی وجہ سے قتل اولاد کوروکا گیا ہے وہ غیر محسوس ہے.ایسی وجہ کی بناء پر اولاد کی پیدائش کو روکنا جائز ہے.لیکن کسی محسوس اور مشاہد نقصان کی وجہ سے اولاد کی پیدائش کو روکنا منع نہیں.علاوہ پیدائش میں روک ڈالنے کے جو بچہ بن چکا ہو بعض حالات میں اس کا مارنا بھی جائز ہوتا ہے.مثلاً کسی حاملہ عورت کے متعلق زچگی کے وقت یہ شبہ ہو کہ اگر بچہ کو طبعی طور پر پیدا ہونے دیا گیا تو والدہ فوت ہو جائے گی.اس صورت میں بچہ کو ضائع کر دینا جائز ہے کیونکہ بچہ کے متعلق نہیں کہہ سکتے کہ وہ مردہ پیدا ہوگا یا زندہ.یا زندہ رہے گا یا نہیں.مگر ماں سوسائٹی کا ایک مفید وجود ہے اس لئے وہی نقصان سے حقیقی نقصان کو زیادہ اہمیت دی جائے گی اور بچہ کو تلف کر دیا جائے گا.( تفسیر کبیر جلد چہارم.سورہ بنی اسرائیل.صفحہ ۳۲۷) برتھ کنٹرول بوجه کمی آمد سوال :.ایک آدمی کی تنخواہ بہت قلیل ہے اور آمدنی کا اور کوئی ذریعہ سوائے تنخواہ کے نہیں اور تنخواہ مثلاً پچاس یا ساٹھ روپے ہے اور ظاہر ہے کہ اس قدر قلیل تنخواہ میں آج کل کے زمانہ میں بمشکل دو تین حد چار آدمیوں کا گزارہ ہو سکتا ہے.اب ایک خاندان میں دومیاں بیوی جوان اور تندرست ہیں اور ان کے سال بہ سال بچے ہو سکتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ اگر ان کے بچے زیادہ ہو جائیں گے تو ان کی
۲۳۰ نکاح پرورش اور صحیح رنگ میں تعلیم وتربیت مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے گی.تو از روئے اسلام ان میاں بیوی کو برتھ کنٹرول یعنی ضبط تولید کی اجازت ہے یا نہیں.اگر عورت کی زندگی یا صحت بچانے کے لئے ضبط تولید کی اجازت ہے تو بچوں کی صحت بچانے اور ان کی اچھی طرح سے پرورش کرنے اور تعلیم و تربیت کرنے کے لئے کیوں اس امر کی اجازت نہ ہو؟ جواب :.حضور نے فرمایا.آپ کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ پہلے اپنا ایک ماحول تجویز کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہمارے اس ماحول کے مطابق خدا تعالیٰ کا قانون یہ ہونا چاہئے.سوال تو یہ ہے کہ یہی ماحول لڑائی کے دنوں میں قوم کا ہوتا ہے یا نہیں؟ کیاما ئیں اس وقت نہیں کہتیں کہ ہمارے بچے قتل ہونے کے لئے کیوں جائیں.آپ اس وقت کیا کہیں گے.کیا یہ کہ اس قسم کا ماحول ہے بچے قتل ہوتے ہیں قوم کا نقصان ہوتا ہے ہم کیا کریں.آج کل تو آپ کہتے ہیں پچاس ساٹھ روپے ماہوار ملتے ہیں جس میں زیادہ آدمیوں کا گزارا نہیں ہوسکتا.سوال تو یہ ہے کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے یا نہیں کہ بعض کو پچاس بھی نہیں ملتے.بعض کو نوکری بھی نہیں ملتی.اس کو آپ روٹی کہاں سے کھلاتے ہیں.کیا اس کے لئے یہ جائز قرار دیتے ہیں کہ وہ ڈر کے مارے اور لوگوں کا مال اُٹھالے.تکلیفیں بے شک ہوتی ہیں لیکن ہمیشہ چھوٹی سکیمیں بڑی سکیم کے ماتحت قربان کی جاتی ہیں.بڑی سکیم یہی ہے کہ نسل انسانی کو بڑھنے دو.جیسا اس کے مصائب انتہا کو پہنچیں گے وہ خود اپنا علاج نکال لے گی اور قانون قدرت کی طرف لوٹے گی.آپ کی انہی دلیلوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کو تباہ کیا ہے.اگر مسلمان تبلیغ اسلام کرتا اور اگر مسلمان بچے پیدا کرتا تو اس میں کوئی شبہ نہیں وہ بھو کے مرتے لیکن بھوکے مرنے کی کوئی حد ہوتی ہے ایک دن جا کر بند ٹوٹ جاتا ہے اور وہی بھوکا مرنے والی قوم بادشاہ بن جاتی ہے.مسلمانوں کے ہاں تو کثرت ازدواج بھی ہے.وہاں تو اور بھی زیادہ بھوکے مرنے والے بچے پیدا ہونے چاہئیں.اگر یہ فاقہ کرنے والا بیس کروڑ ہندوستان میں ہو چکا ہوتا تو کیا وہ حال ہوتا جو آج ہوا.ہندوستان کی آزادی کے بعد مسلمان بجائے ایک ٹکڑہ پر راضی ہونے کے آج سارے ہندوستان پر حکومت کرتا.الفضل ۲۴ را پریل ۱۹۵۲ء جلد ۴۰ نمبر ۶ صفحه ۴)
۲۳۱ برتھ کنٹرول بوجه کمی اجناس نکاح بچوں کی پیدائش کو ضبط میں لانے کا مسئلہ ان لوگوں کے نزدیک درست ہے جو اول تو وطنیت کے پرستار ہیں.اسلام تو ساری دنیا کو ایک وجود قرار دیتا ہے.کس نے کہا کہ لوگ وطنیت کے پرستار ہو کر اپنے لئے مشکلات پیدا کر لیں.ان کو اپنا نقطہ نگاہ بدلنا چاہئے اور بین الاقوامی ذہنیت پیدا کرنی چاہئے.پھر ایک ملک میں آبادی کی زیادتی کے کوئی معنی ہی نہیں ہوں گے ساری دنیا کی زیادتی، زیادتی ہوگی اور جہاں تک دنیا کے پھیلاؤ کا سوال ہے ابھی دنیا کی آبادی کے بڑھنے کے لئے گنجائش باقی ہے.دوسرے یہ کہ اسلام اس کو تسلیم ہی نہیں کرتا کہ غذا کی پیدا وار اتنی ہو رہی ہے جتنی کہ ہونی چاہئے.قرآن کریم کی بعض آیات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ غلہ تین چار سومن فی ایکڑ پیدا ہوسکتا ہے.بلکہ اس سے بھی زیادہ پیدا ہوسکتا ہے.لیکن اوسط پیداوار دنیا کی پانچ من ہے.اس کے تو یہ معنی بنتے ہیں کہ ابھی اس زمین کا غلہ جو کہ زیر کاشت ہے اسی گنے بڑھایا جا سکتا ہے اور اگر ان زمینون کو بھی شامل کر لیا جائے جو افریقہ، آسٹریلیا اور کینیڈا وغیرہ ممالک میں اور روس کے بعض حصوں میں خالی پڑی ہیں تو ان کو ملا کر تو غلہ غالباً موجودہ غلہ سے تین چار سو گنے زیادہ پیدا ہوسکتا ہے یا دوسرے لفظوں میں دنیا کی آبادی تین چار سو گنے ابھی بڑھ سکتی ہے.لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کس نے کہا ہے کہ صرف زمین ہی ہمارے لئے غذا پیدا کرتی ہے.ممکن ہے کہ آئندہ سائنس ایسی ایجادیں کرلے جن کے ماتحت مصنوعی غذا ئیں تیار ہوسکیں یا سورج اور ستاروں کی شعاعوں اور روشنیوں سے غذا ئیں تیار کی جاسکیں پس پہلے اپنے ایک محدود علم کے ماتحت ایک نظریہ بنالینا اور پھر خدا کو اس کے تابع کرنا یہ کون سی عقل کی بات ہے.اسلام اس بات پر قطعی روشنی ڈالتا ہے کہ غذا کے خیال سے اولاد کو کم نہیں کرنا چاہئے.جس کے معنی یہ ہیں کہ اور بعض
۲۳۲ نکاح باتیں ایسی ہو سکتی ہیں جن کی وجہ سے اولاد بند کی جائے مثلاً عورت ایسی بیماری میں مبتلا ہو کہ ڈاکٹر کہہ دیں کہ اس کو حمل ہونا اس کی جان کے لئے خطرناک ہے اس صورت میں اسلام بے شک اس کو جائز قراردے دے گا.(الفضل ۱۷۵اپریل ۱۹۵۲، جلد۴۰ نمبر ۶ صفحهی) دوسری شادی نکاح ثانی ہماری جماعت میں بعض ایسے نکاح ہو چکے ہیں جو میرے زمانہ خلافت سے پہلے کے ہیں.اس میں بعض مصالح کی وجہ سے میں دخل نہیں دیتا مگر جو اب دوسرا نکاح کرتا ہے وہ چونکہ اس معاہدہ سے کرتا ہے کہ عدل وانصاف کرے گا.اگر وہ اس کے خلاف کرے تو اس سے مقاطعہ کرنا چاہئے کیونکہ کوئی ایک کو مرتد کرتا ہے کوئی دو کومگر ایسا آدمی لاکھوں کو اسلام سے متنفر کرتا ہے اور ہماری آنکھیں دشمن کے مقابلہ میں نیچی کراتا ہے.مگر مجھے افسوس ہے کہ ایسی شادیاں اس سال بھی ہوئی ہیں اور لوگ یہ جانتے ہوئے ان میں شامل ہوتے ہیں کہ پہلی بیوی سے تعلق نہ رکھا جاوے گا ایسے لوگ خواہ کتنے ہی عزیز ہوں ان سے سختی سے برتاؤ کرنا چاہئے.اور ان سے تعلق نہیں رکھنا چاہئے.یہ نکاح جنہوں نے کئے ہیں میرے نزدیک وہ لوگ ایسے ہیں جیسے کہ مر گئے.ہمارا اُن سے کوئی تعلق نہیں ہے.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء.صفحہ ۲۶) ھربیوی کے لئے علیحدہ علیحدہ مکان ھونے چاہئیں ہمارے ملک میں ۸۰ فیصدی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دو عورتوں کو پیٹ بھر کر روٹی نہیں دے سکتے.ایسے لوگوں کے لئے فواحدۃ کا حکم ہے کہ وہ ایک ہی شادی کریں باقی ہیں فیصدی لوگ رہ جاتے ہیں ان میں بعض لوگ عدل نہیں کر سکتے.بعض کے قومی جسمانی مضبوط نہیں ہوتے بعض کے جسمانی
۲۳۳ نکاح قویٰ تو مضبوط ہوتے ہیں اور اس صورت میں وہ دو یا دو سے زیادہ عورتیں کر سکتے ہیں مگر الگ الگ مکان بیویوں کے لئے نہیں بنا سکتے.حالانکہ شریعت یہ کہتی ہے کہ بیویوں کے لئے علیحدہ علیحدہ مکان ہونے چاہئیں.ہماری شریعت میں اس قسم کے جھگڑے بہت ہوتے ہیں کہ مرد اپنی بیویوں کے لئے علیحدہ علیحدہ مکان نہیں بنواتے تو ان معنوں کی رو سے جومیں نے عدل کے کئے ہیں سوا میں سے کوئی ہی ہوگا جو ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتا ہے.خطبات محمود، جلد ۳ صفحه ۴۷ ، ۴۸) بیوی کومارنا گالی دینا درست نھیں یہاں عام طور پر عورتیں شاکی ہیں کہ خاوند گالیاں دیتے ہیں.گالی دینا کمزوری اور بزدلی کی علامت ہے.بعض وجوہات سے اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر حاکم بنایا ہے لیکن یونہی مارنا پیٹنا اور گالیاں دینا جائز نہیں.گالیاں تو کسی صورت میں جائز نہیں.مارنا بھی مجبوری کے وقت جب عورت کھلی کھلی بے حیائی کرے وہ بھی اتنا کہ جسم پر نشان نہ پڑے.عورتوں سے رافت اور حسن سلوک کا حکم ہے.الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۲۱ء - جلد ۹ نمبر ۲۳ صفحه ۸) میاں بیوی کے حقوق سوال :.میرا خاوند کسی غیر ملک میں بغرض ملازمت جاتا ہے اور مجھے بھی ساتھ جانے کے لئے مجبور کرتا ہے؟ جواب :.عورت کو خاوند کی اطاعت ضروری ہے چلے جائیں.الفضل ۲۷ / جولائی ۱۹۱۵ء - جلد ۲۳ نمبر ۱۵ صفحه۱ )
۲۳۵ طلاق
۲۳۷ طلاق طلاق اسی طرح طلاق ہے.ایک آدمی ایک عورت کو دس پندرہ سال رکھتا ہے جب اس سے فائدہ اُٹھا لیتا ہے اور اس کی جوانی ڈھل جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں ہوتی جو جائز ہو کہ وہ طلاق دے دیتا ہے اور اس وقت دیتا ہے جبکہ وہ نکاح نہیں کر سکتی اور اس کو تباہ کر دیتا ہے.حالانکہ قرآن کریم کا حکم وابعثوا حكمًا من اهله وحكمًا من اهلها (النساء : ٣٦) کہ طرفین کی طرف سے حج مقرر ہونے چاہئیں، جو فیصلہ کریں.اگر کوئی شخص ایسا نہیں کرتا تو وہ اسلام کو بدنام کرتا ہے.پس عورتوں سے عدل نہ کرنے والے مجرم ہیں اور ان کے نکاحوں میں شامل ہونے والے بھی مجرم.کیونکہ وہ اسلام کو بدنام کرتے ہیں.ایسے شخصوں کی یہاں اطلاع دی جاوے ہم فیصلہ کریں گے پھر ان سے قطع تعلق کیا جاوے.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء.صفحہ ۳۱ ۳۲) معلّقه بیوی کب سے مطلقه سمجھی جائے گی سوال :.جو شخص اپنی عورت کو نہ گھر میں رکھے اور نہ خرچ دے کیا اس عورت کو مطلقہ سمجھا جائے؟ جواب :.فرمایا.جو شخص اپنی عورت کو گھر میں نہیں رکھتا اور ایک سال تک خرچ نہیں دیتا میرے نزدیک ایک سال کے بعد اس کو طلاق ہو جاتی ہے.پہلے فقہاء میں سے بعض نے چار سال کا فتویٰ دیا ہے.باقی اب قانون کو دیکھنا چاہئے.مگر میرے نزدیک یہ طلاق جو ہے ایک قاضی کے ذریعہ ہوتی ہے.اب اس زمانہ میں گورنمنٹ غیر مذہب کی ہے اگر اس کا قانون اجازت نہ دے تو دو صورتیں ہیں.اول اگر میاں بیوی احمدی ہیں تو آسان ہے احمدی قاضی کے ذریعہ طلاق حاصل کریں.
۲۳۸ طلاق دوئم.اگر میاں غیر احمدی ہے تو پھر برادری کے لوگوں یا دوسرے لوگوں کو بیچ میں ڈال کر علیحدہ کرالیں.الفضل ۱۲ مئی ۱۹۲۱ء - جلد ۸ - نمبر ۸۵ صفحه ۷ ) طلاق واقع هونے کاعرصه ہمارے نزدیک شریعت کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر کوئی مرد اپنی عورت سے کہہ دے کہ میں تیرے پاس نہیں آؤں گا ( یعنی میاں بیوی کے تعلقات منقطع کر دے) تو چار ماہ کے بعد اور زبان سے نہ کہے مگر سلوک ایسا کرے تو ایک سال کے بعد اور مفقودالخبر ہو تو تین سال کے بعد عورت پر طلاق واقع ہو جاتی ہے اور شرعی طور پر وہ دوسری جگہ نکاح کرنے کا حق رکھتی ہے.الفضل ۶ جون ۱۹۳۳ء.جلد ۲۰ نمبر ۴۵ صفحه ۷ ) طلاق کے متعلق حضرت خليفة المسيح الثاني کے ایک فتویٰ کی تشریح اخبار الفضل مجریہ ۶ راگست ۱۹۳۸ء میں طلاق کے متعلق چند فتاوی کی تشریح مولوی شریف احمد صاحب بنگوی کی طرف سے کی گئی تھی.اس میں ایک فتویٰ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ درج تھا کہ :.”ہمارے نزدیک شریعت کا فیصلہ ہے کہ اگر کوئی مرد اپنی عورت سے کہہ دے کہ میں تیرے پاس نہ آؤں گا ( یعنی میاں بیوی کے تعلقات منقطع کر دے) تو چار ماہ کے بعد اور زبان سے نہ کہے مگر سلوک ایسا کرے تو ایک سال کے بعد اور مفقود الخبر ہو تو تین سال کے بعد عورت پر طلاق واقع ہو جاتی ہے اور شرعی طور پر وہ دوسری جگہ نکاح کرنے کا حق رکھتی ہے.“
۲۳۹ طلاق اس فتوی کی تشریح مفتی صاحب سلسلہ عالیہ نے یہ کی تھی کہ اس فتوی کا نفاذ عدالت یا قضاء کے ذریعہ سے ہونا چاہئے.پہلی دوصورتوں میں جب تک عدالت یا قاضی خاوند سے اس کی بیوی کی شکایات کے متعلق پوچھ کر فیصلہ نہ کرے طلاق واقع نہیں ہوتی اور عورت کو نکاح ثانی کا حق حاصل نہیں.اس بارہ میں ایک دوست نے حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ سے دریافت کیا کہ کیا حضور سے فتویٰ لینے کے بعد بھی اس کا نفاذ قضاء کے ذریعہ سے ہی ہوسکتا ہے اور قضاء کے لئے خاوند سے دریافت کرنا ضروری ہے یا عورت حضور سے فتویٰ لینے کے بعد نکاح ثانی کرنے کی مجاز ہے؟ اس پر حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے کچھ فرمایا :.اگر تنازعہ مابین احمدیان ہو تو ضروری ہے کہ قضاء فیصلہ کرے گو بقیہ حصہ سے ہی متفق نہیں.پوچھنے کے صرف یہ معنے ہیں کہ وہ اسے عورت کے الزام کی تردید کا موقع دے ورنہ اس الزام کی تصدیق کے بعد کسی اور تفتیش کی قاضی کو اجازت نہیں.(الفضل ۱۱ را کتوبر ۱۹۳۸ء صفحه ۴ ) ایک ساتھ تین طلاقیں یا زائد دی گئیں، ان کاحکم ہمارے ملک میں عام رواج ہے کہ معمولی سے جھگڑے پر وہ اپنی بیوی کو کہہ دیتے ہیں تمہیں تین طلاق تمہیں تین ہزار طلاق تمہیں تین کروڑ طلاق تمہیں تین ارب طلاق.یہی رواج حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی عربوں میں ہو گیا.اب مُلاں کیا کہتا ہے کہ مرد کے تین طلاق کہنے پر تین طلاق واقع ہو جاتی ہیں.حالانکہ اسلام نے اس بیوقوفی کی اجازت نہیں دی.بلکہ اس طریق کو نا جائز قرار دیا ہے.اسلام نے یہ حکم دیا ہے کہ جس طہر میں خاوند بیوی کے پاس نہ گیا ہو اس طہر میں طلاق دی جائے.اگر سیہ امر ثابت ہو جائے کہ اس طہر میں وہ اپنی بیوی کے پاس گیا تھا تو طلاق واقع نہیں ہوگی.پھر آج کل کا ملاں کہتا ہے کہ تین دفعہ یکدم طلاق دینے کے بعد عورت سے دوبارہ نکاح نہیں ہوسکتا.حالانکہ اگر ایک عورت کو دس ہزار دفعہ بھی یکدم طلاق دے دی جائے تو وہ ایک ہی طلاق شمار کی
۲۴۰ طلاق جائے گی اور اس کے بعد عدت میں اسے رجوع کا اختیار حاصل ہوگا.اگر مرد اس عرصہ میں رجوع نہیں کرتا اور عدت گزر جاتی ہے تو عورت پر طلاق واقع ہو جائے گی اور دوبارہ تعلق صرف نکاح سے ہی قائم ہو سکے گا.لیکن اگر نکاح کے بعد مرد پھر کسی وقت عورت کو طلاق دے دیتا ہے اور عدت میں رجوع نہیں کرتا تو یہ دوسری طلاق ہوگی.اس کے بعد بھی نکاح کے ذریعہ مرد و عورت میں تعلق قائم ہوسکتا ہے لیکن ان دو نکاحوں کے بعد اگر پھر وہ کسی وقت غصہ میں طلاق دے دیتا ہے اور عدت میں رجوع بھی نہیں کرتا تو اس کے بعد اسے اپنی بیوی سے نکاح کی اجازت نہیں ہوگی جب تک وہ اور نکاح مکمل نہ کرے اور درحقیقت اس قسم کی طلاقوں کے بعد کوئی پاگل ہی ہوگا جو تیسری طلاق دے اور اگر وہ دیتا ہے اور پھر عرصہ عدت میں رجوع بھی نہیں کرتا تو شریعت اس عورت کے ساتھ اسے نکاح کی اجازت نہیں دیتی.لیکن آج کل کے ملاں منہ سے تین طلاق کہہ دینے پر ہی اس عورت کو مرد پر حرام کر دیتے ہیں اور دوبارہ نکاح کو نا جائز قرار دے دیتے ہیں.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اس قسم کے واقعات کثرت سے ہوئے تو آپ نے فرمایا اب اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بیک وقت ایک سے زیادہ طلاقیں دے گا تو میں سزا کے طور پر اس کی بیوی کو اس پر نا جائز قرار دے دوں گا.جب آپ پر یہ سوال ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایسا حکم نہیں دیا.پھر آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منشاء تھا کہ اس قسم کی طلاقیں رک جائیں.چونکہ تم اس قسم کی طلاق دینے سے رکتے نہیں اس لئے میں بطور سزا اس قسم کی طلاق کو جائز قرار دے دوں گا.چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا اور آپ کا ایسا کرنا ایک وقتی مصلحت کے ماتحت تھا اور صرف سزا کے طور پر تھا.مستقل حکم کے طور پر نہیں تھا.(الفضل ۵ نومبر ۱۹۵۴ء صفحه ۶) لوگ کرتے کیا ہیں جب غصہ آیا جھٹ کہہ دیا طلاق ، طلاق ، طلاق ، تین طلاق ، سوطلاق ، ہزار طلاق.تم میری ماں ہو، بہن ہو حالانکہ اس سے زیادہ بیہودہ بات کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی.ایک وقت میں تو تین طلاقیں جائز ہی نہیں ہیں.مگر لوگ اس طرح طلاق طلاق کہتے چلے جاتے
۲۴۱ طلاق ہیں کہ گویا اس عورت کو سوٹے لگ رہے ہیں.الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۳۸ء.جلد ۲۶ نمبر ۱۷ صفحہ ۷ ) عام طور پر اس زمانہ کے علماء یہ سمجھتے ہیں کہ جس نے تین دفعہ طلاق کہہ دیا اس کی طلاق بائن ہو جاتی ہے یعنی اس کی بیوی اس سے دوبارہ اس وقت تک شادی نہیں کر سکتی جب تک کسی اور سے نکاح نہ کرے مگر یہ غلط ہے کیونکہ قرآن کریم میں صاف فرمایا گیا ہے ”الطلاق مرتن“ یعنی وہ طلاق جو بائن نہیں وہ دو دفعہ ہوسکتی ہے اس طور پر کہ پہلے مرد طلاق دے پھر یا طلاق واپس لے لے اور رجوع کرے یا عدت گزرنے دے اور نکاح کرے، پھر ان بن کی صورت میں دوبارہ طلاق دے.پس ایسی طلاق کا دودفعہ ہونا تو قطعی طور ثابت ہے.پس ایک ہی دفعہ تین یا تین سے زیادہ بار طلاق کہہ دینے کو بائن قرار دینا قرآن کریم کے بالکل خلاف ہے.طلاق وہی بائن ہوتی ہے کہ تین بار مذکورہ بالا طریق کے مطابق طلاق دے اور تین عدتیں گزر جائیں.اس صورت میں نکاح جائز نہیں.جب تک کہ وہ عورت کسی اور سے دوبارہ نکاح نہ کرے اور اس سے بھی اس کو طلاق نہ مل جائے لیکن ہمارے ملک میں یہ طلاق مذاق ہو گئی ہے اور اس کا علاج حلالہ جیسی گندی رسم سے نکالا گیا ہے.( تفسیر صغیر زیر آیت سورہ بقرہ نمبر ۲۳۰.ایڈیشن ششم صفحه ۵۶،۵۵) سوال :.ایک شخص نے اپنی عورت کو طلاق دے دی اور کا غذ بھی لکھ دیا.اس کے بعد پھر اس شخص نے اس عورت کو اپنی بیوی بنالیا ( رجوع کرلیا ) آیا یہ جائز ہے؟ جواب :.ایسے آدمی کے لئے عورت حلال ہے اور اس کو آئندہ ایسی حرکت سے پر ہیز رکھنا چاہئے.الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۱۶ء.جلد ۳.نمبر ۹۸ صفحه ۱۵) سوال :.ایک صاحب نے اپنی بیوی کو لکھا.اگر میں تمہیں اس مکان پر بلاؤں یا تم خود آؤ تو تم پر طلاق.اب وہ اپنی بیوی کو اس مکان پر بلانا چاہتے ہیں؟ جواب :.اس مکان میں آجانے پر ایک طلاق واقع ہوگا جس سے اُسی وقت بلا نکاح رجوع ہوسکتا
۲۴۲ طلاق ہے اگر عدت گزر جائے تو پھر بالنکاح رجوع ہوگا.الفضل ۱۴؍ مارچ ۱۹۱۵ ء - جلد ۲ نمبر ۱۱۳ صفحه ۲) سوال :.ایک شخص اپنی بیوی کا نام بدلنا چاہتا ہے کیا نکاح دوبارہ کرے؟ جواب :.نام بدلنے سے نکاح میں فرق نہیں آتا وہ تو دو ہی طرح ٹوٹ سکتا ہے ایک تو کوئی شخص اپنی بیوی کو خود طلاق دیدے یا بیوی خلع کرالے.دوسرے اس سے کہ مرد کا فر ہو جائے.الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۱۵ء.جلد ۳ نمبر ۶۵ صفحه۲) سوال :.نیز آیت تَمَسُّوهُنَّ سے مراد إِذَا نَكَحُتُمُ الْمُؤْمِنتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَالَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا اور آیت اِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ.میں میں سے مراد کیا ہے.خلوۃ صحیحہ یا مجامعت.دوسری آیت میں بعض فقہاء مس سے مراد خلوۃ صحیحہ لیتے ہیں؟ جواب :.دونوں جگہ مجامعت مراد لینی چاہئے سوائے اس کے اس کے خلاف کوئی حدیث ہو.اور اسے طلاق بائن ہی سمجھنی چاہئے کیونکہ عدت کا نہ ہونا بتاتا ہے کہ دوسرے ہی دن بلکہ اُسی وقت نکاح ہو سکتا ہے.( حضور نے یہ جواب خود تحریر فرمایا.یہ تحریر جٹ فتاوی نمبر ۲ دارالافتاء، فتوی نمبر۹/۲۷/۵/۵۲.صفحہ ۷ پر محفوظ ہے)
F.۲۴۳
۲۴۵ خلع خلع مرد یا درکھیں کہ عورت ایک مظلوم ہستی ہے.اس کے ساتھ محبت اور شفقت کے سلوک سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے.اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:."خيركم خيركم لاهله یعنی تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل وعیال سے بہتر سلوک کرتا ہے خصوصاًطلاق اور خلع کے مواقع پر مردوں کی طرف سے اچھے اخلاق کا مظاہرہ نہیں ہوتا.وہ طلاق کے وقت ہزاروں بہانے مہر نہ دینے کے لئے بناتے ہیں.اسی طرح ضلع میں باوجود اس کے کہ عورت اپنے تمام حقوق سے دستبردار ہوتی ہے.پھر بھی مرد اعتراض کرتے ہیں حالانکہ اگر عورت ساتھ رہنے پر رضا مند نہیں تو مردکو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے.(الفضل یکم جنوری ۱۹۵۵ء صفویه ) خلع کی درخواست خاوند کے گھررھتے ھوئے دیں مدعیہ کا ضلع منظور فرماتے ہوئے تحریر فرمایا:.آئندہ جو عورتیں خاوندوں سے ناراض ہوں انہیں یا درکھنا چاہئے کہ جب تک عدالت فیصلہ نہ کرلے یا اجازت نہ دیوے یا خاوند اجازت نہ دے انہیں خاوند کے گھر سے نکلنے کی اجازت نہ ہوگی اور جو عورت ایسا کرے گی اس کی خلع کی درخواست پر اس وقت تک غور نہ کی جاوے گی جب تک وہ خاوند کے ہاں واپس نہ جاوے.سوال :.کیا حضور کے اس فیصلہ کے تحت وہ عورتیں بھی جوا بھی خاوند کے گھر نہ گئی ہوں اور درخواست ضلع کی دیدیں آسکتی ہیں یا نہیں؟ جواب :.حضور نے بعد ملاحظہ فرمایا:.
۲۴۶ خلع جوعورتیں ابھی خاوند کے گھر نہ گئی ہوں وہ اس میں شامل نہیں ہیں.ان کی درخواست پر بغیر ان کے خاوند کے گھر جانے کے سماعت مقدمہ ہو سکتی ہے.(فائل فیصلہ جات خلیفہ وقت نمبر ا.صفحہ ۲.دارالقضاء، ربوہ) عورت کی طرف سے ضلع کی درخواست کے متعلق حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر رہ کر ضلع کی درخواست کرے بجز اس کے کہ عورت کو خاوند کے گھر رہ کر ضلع کی درخواست دینے سے جان اور ایمان کا خطرہ ہو.ایسی عورت قضاء کے ذریعہ منظوری لے کر خاوند کے گھر سے باہر بھی خلع کی درخواست کر سکتی ہے.در حقیقت جب پہلا فیصلہ کیا گیا تھا اس وقت صرف جوان عورتوں کا معاملہ سامنے تھا اور جن کے متعلق یہ شبہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ انہیں ورغلا کر کوئی شخص گھروں کا امن برباد کر رہا ہو.اس قسم کا معاملہ سامنے نہ تھا سو اس بارہ میں آئندہ کے لئے یہ اصول مقرر کیا جائے کہ پہلا فیصلہ ان عورتوں کے متعلق ہے جن کی عمر چالیس سال سے کم ہو.جن کی عمر چالیس سال سے زیادہ ہوان کے متعلق وہ قاعدہ نہ ہو گا بلکہ ان کا معاملہ قاضی کی مرضی پر ہو گا.حالات کے مطابق وہ ان کی درخواست کو خاوند کے گھر سے باہر پیش ہونے کی صورت میں بھی قبول کر سکتا ہے اور اگر ایسے حالات ہوں کہ اس کے نزدیک خاوند کے ہاں اس کا جانا نیک نتیجہ پیدا کر سکتا ہے تو وہ یہ حکم بھی دے سکتا ہے کہ عورت خاوند کے ہاں جا کر پھر درخواست دے ہاں یہ مد نظر رہنا چاہئے کہ عورت کو بلا وجہ خطرہ میں نہ ڈالا جائے.خلع الفضل یکم اگست ۱۹۴۲ء.جلد ۳۰ نمبر۱۷۷ صفحه ۲) اسلام میں خلع کا قانون ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ مرد جب چاہتا ہے اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے لیکن عورت اگر چاہے تو خلع نہیں کر اسکتی.ہم نے اس قانون کو اپنی جماعت میں جاری کیا ہے.لیکن ہمارے اندر اتنی طاقت نہیں کہ ہم اس قانون کو سارے ملک میں جاری
۲۴۷ خلع کر سکیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے نفرت کرتی ہے تو وہ اس سے الگ ہو سکتی ہے کیونکہ تعلقات زوجیت محبت پر مبنی ہوتے ہیں.اگر محبت نہیں رہی تو وہ اپنے خاوند سے الگ ہو جائے.اگر مرد کہتا ہے کہ اس کی بیوی کے اس سے اچھے تعلقات نہیں تو رشتہ داروں کا ایک بورڈ بیٹھے گا اور وہ اس امر کی تحقیقات کرے گا.اگر اس کی بات درست ثابت ہوئی تو اسے کہا جائے گا کہ تم اسے طلاق دے دو.اور اگر عورت کہتی ہے کہ اس کے خاوند کے اس سے اچھے تعلقات نہیں تو اس طرح کا ایک بورڈ عورت کے متعلق بیٹھے گا.جو معاملہ کی تحقیقات کرے گا اور اگر واقعہ درست ثابت ہوا تو عورت کو خلع کی درخواست قضاء میں پیش کرنے کی اجازت دی جائے گی.( الفضل ۵/نومبر ۱۹۵۴ء صفحه ۶) فیصله خلع قاضی کے توسط سے ھونا چاھئے خلع قاضیوں کی معرفت ہوتا ہے اور اس میں حقوق کے باطل ہونے کا صاف ذکر ہونا چاہئے.چونکہ اس طرح نہیں کیا گیا اس لئے اس کو خلع نہیں کہا گیا.چونکہ یہ طلاق ہے اور مہر ادا کرنا ہوگا.(فائل فیصلہ جات نمبر ۲ - صفحه ۱۲.۱۱.دارالقضاء، ربوہ ) میرے نزدیک قاضی کی معرفت فیصلہ کرنے کی غرض یہ ہے کہ لڑکی پر جبر کا شبہ نہ رہے اور اعلان ہو.بدکاری میں روک ڈالی جائے اور صرف ایسی صورتوں میں قاضی روک ڈال سکتا ہے.اگر لڑکی اپنی خوشی سے نکاح کو توڑنا چاہے تو قاضی نصیحت کر سکتا ہے.فیصلہ کو ایک مناسب عرصہ تک پیچھے ڈال سکتا ہے تا کہ دونوں ٹھنڈے ہو جائیں.لڑکی کی درخواست کو رد نہیں کر سکتا.(فائل فیصلہ جات خلیفہ وقت نمبر۲.صفحہ ۱۴.دارالقضاء، ربوہ) جب کوئی خلع کی درخواست آوے تو قاضی متعلقہ کو چاہئے کہ خلع کی درخواست کنندہ پارٹی کو تاریخ پیشی دے اور دوسرے فریق کو بالکل اطلاع نہ دے اور اسے سرسری تحقیق کے طور پر تسلی
۲۴۸ خلع کرے کہ یہ درخواست ایسی ہے کہ خاوند کے گھر سے باہر رہ کر دی جاسکتی ہے تو با قاعدہ کارروائی کرے اور اگر اس کے نزدیک خاوند کے گھر میں جانے کے بغیر نہیں دی جاسکتی تو بغیر دوسرے فریق کو اطلاع دینے کے درخواست واپس کر دے پھر اس سرسری کا رروائی کی اپیل نہیں ہوگی اور نہ اس کی مسل رکھی جاوے گی تا کہ وہ دوبارہ اپنے نفع نقصان سمجھ لیں.اس کے بعد اگر وہ دوبارہ نالش کریں تو چونکہ انہوں نے اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں کو سمجھ لیا ہوگا اس لئے ایسی درخواست کے دوبارہ پیش ہونے پر فریق ثانی کو نوٹس دیا جاوے اور حسب قاعدہ سماعت ہومگر اس میں بھی پہلے یہ سوال زیر غور آئے گا کہ کیا درخواست دہندہ کو خاوند کے گھر سے باہر رہ کر درخواست کرنے کا حق ہے یا نہیں.اس کی اپیل ہو سکے گی.(فائل فیصلہ جات نمبر ۲.صفحہ ۴۷.دارالقضاء، ربوہ ) مختلعه پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ھے نقل طلاق نامہ سے بالکل واضح ہے کہ یہ ضلع ہے اور اس پر لڑ کی کی تصدیق بھی موجود ہے.اور جب لڑکی کا اپنا بیان ہے کہ وہ علیحدگی چاہتی ہے اور مہر چھوڑتی ہے جسے خاوند نے منظور کر لیا ہے تو یہ خلع ہوا اور خلع میں رجوع کا سوال پیدا نہیں ہوتا.ہاں اگر لڑکی چاہے تو نکاح جدید ( پہلے خاوند سے ) کرسکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو حوالجات پیش کئے گئے ہیں ان سے مراد یہ ہے کہ اگر عورت کے کہنے پر خاوند اسے نکاح سے آزاد نہ کرے تو عورت خود بخود آزاد نہیں ہو سکتی بلکہ اس صورت میں اسے قاضی کے ذریعہ طلاق حاصل کرنی پڑے گی یعنی جیسا کہ مرد اگر عورت کی رضامندی کے بغیر بھی اسے طلاق دے دے تو وہ اس کے عقد زوجیت سے آزاد ہو جائے گی.لیکن عورت کے مطالبہ طلاق کی صورت میں اگر مردا سے طلاق نہ دے تو عورت خود بخود آزاد نہیں ہو سکتی بلکہ اسے قاضی کے ذریعہ فیصلہ کرانا ضروری ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب چشمہ معرفت کے صفحہ ۲۳۸ پرتحریر فرمایا ہے اگر پہلی بیوی اس نکاح میں اپنی حق تلفی مجھتی ہے تو وہ طلاق لے کر اس جھگڑے سے خلاصی پا
۲۴۹ خلع سکتی ہے اور اگر خاوند طلاق نہ دے تو بذریعہ حاکم وقت وہ خلع کراسکتی ہے.الفضل ۲۲ جون ۱۹۵۴ء صفحه۲ ) ( فائل فیصلہ جات نمبر ۲.دارالقضاء- صفحه ۵۳) خلع کے لئے وجہ منافرت زیر بحث آنا چاھئے قاضی عدالت اولی نے فیصلہ کیا ہے اس میں جو وجہ بتائی گئی ہے کہ منافرت کی وجہ سے ضلع کیا جاتا ہے درست نہیں کیونکہ منافرت کا سوال ابتداء میں ہوتا ہے.شکل و شباہت یا تعلقات شہوانی کے ادا کرنے کے متعلق تو پہلے چھ آٹھ دن میں ہی اور اخلاق کے متعلق پہلے پانچ چھ ماہ میں اندازہ ہو جاتا ہے.اس کے بعد خصوصاً جب کہ لمبا عرصہ گزرجائے منافرت کا سوال نہیں ہوتا.ضرور ہے کہ اس وقت اختلاف کے کوئی اور بواعث ہوں.چاہئے کہ وہ زیر بحث لائے جاویں گواس وقت بھی بعض امور ایسے ہو سکتے ہیں جن کو عدالتی طور پر زیر بحث لا نا مناسب نہ ہو.مگر بہر حال قاضی کو اپنے فیصلہ میں یہ بتانا چاہئے کہ اس نے پورے طور پر تسلی کر لی ہے کہ عورت اور مرد کی صلح کی کوئی صورت نہیں.(فائل فیصلہ جات نمبر ۲ - صفحه ۴۴.دارالقضاء، ربوہ) خلع کے لئے اتنا کافی ہے کہ عورت کو خاوند سے شدید نفرت ہے اور اس کی اس نفرت کا موجب کوئی غیر شرعی امور نہیں.(فائل فیصلہ جات نمبر ۳.صفحہ ۲۹.دارالقضاء، ربوہ) مومن کا فرض ہے کہ اگر اس کی عورت ذرا بھی انقباض ظاہر کرے تو وہ اسے فوراً چھوڑ دے.احادیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ آتا ہے کہ آپ نے ایک عورت سے شادی کی.جب آپ اس کے پاس گئے تو اس نے کہا ” اعوذ بالله منك “ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے مجھ سے بڑی طاقت کی پناہ مانگی ہے اس لئے میری طرف سے تمہیں طلاق ہے.تو مومن کا یہ کام ہے کہ اگر اس کی عورت اس کو نا پسند کرتی ہو تو فوراً اسے چھوڑنے پر تیار ہو جائے.اگر وہ ایسا نہیں
۲۵۰ خلع کرتا تو وہ تو حید کے بھی خلاف کرتا ہے کیونکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس عورت کے بغیر اس کا گزارہ نہیں ہو سکتا.حالانکہ تو حید کامل یہ کہتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا ہمارا کوئی گزارہ نہیں.تو ہم مشرک ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور یقین سے دور چلے جاتے ہیں.الفضل ۱۳ فروری ۱۹۵۹ء) ایک عورت اگر ضلع چاہتی ہے تو مرد کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے وہ تو اگر ایک دفعہ مانگتی ہے تو یہ دودفعہ دیوے.اس کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے.پھر جب وہ بیچاری ضلع مانگتی ہے تو وہ اپنا حق آپ چھوڑ دیتی ہے.مہر چھوڑ دیتی ہے اور کئی قسم کے حقوق جو شریعت نے اس کے لئے مقرر کئے ہیں سارے ترک کر دیتی ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ اس کے راستہ میں روک پیدا کی جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو ایک عورت نے ایک دفعہ ایسی ہی بات کہہ دی پیچھے اس نے بتایا کہ مجھے سکھایا گیا تھا کہ ایسا ہی کہنا اچھا ہوتا ہے لیکن بہر حال وہ دھوکا میں آگئی اور اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں آپ کے پاس آنا پسند نہیں کرتی.اسی وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے گئے اور آپ نے فرمایا اس کو مہر وغیرہ اخراجات دیدو.اور اس کو رخصت کر دو.دیکھو یہ چیز ہے جو اسلام سکھاتا ہے کہ اس کی درخواست کو اور اس کے اس فقرہ کو ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضلع سمجھا اور اسے خلع قرار دے دیا.پس اگر ایک عورت خلع مانگتی ہے تو جس طرح تم کو طلاق دینے کا حق ہے عورت کے لئے شریعت نے ضلع رکھا ہے.تم کیوں خواہ مخواہ اس پر لڑا کرتے ہو.پھر طلاق دیتے ہیں تو مہر کے لئے ہزاروں بہانے بناتے ہیں کہ میں نے مہر نہیں دینا.اگر مہر دینے کی طاقت نہیں تو اس کو طلاق ہی کیوں دیتے ہو.(الفضل ۲۳ را کتوبر ۱۹۵۵ء صفحه ۳) شریعت کا حکم ہے کہ عورت خاوند کی اجازت کے بغیر باہر نہ جائے مگر اس کے باوجود مرد عورت کو اس کے والدین سے ملنے سے نہیں روک سکتا.اگر کوئی مرد ایسا کرے تو یہ کافی وجہ خلع کی ہو سکتی
۲۵۱ خلع ہے.والدین سے ملنا عورت کا حق ہے مگر وقت کی تعیین اور اجازت مرد کا حق ہے مثلاً خاوند یہ کہ سکتا ہے کہ شام کو نہیں صبح کو مل لینا یا اس کے والدین کو اپنے گھر بلالے یا اس کو والدین کے گھر بھیج دے مگر جس طرح مرد اپنے والدین کو ملتا ہے اسی طرح عورت کا بھی حق ہے سوائے ان صورتوں کے کہ دونوں کا سمجھوتا ہو جائے مثلاً جب فساد کا اندیشہ ہو یا فتنہ کا ڈر ہو.مرد تو پہلے ہی الگ رہتا ہے مگر عورت خاوند کی مرضی کے خلاف باہر نہیں جاسکتی.ہاں خاوند اگر ظلم کرے تو قاضی کے پاس وہ شکایت پیش کر سکتی ہے لیکن اگر خاوند اس میں روک ڈالے اور گھر سے باہر نہ نکلنے دے تو پھر وہ گھر سے بلا اجازت باہر نکل سکتی ہے مگر اس کا فرض ہے کہ جلدی ہی مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کر دے تا قاضی دیکھ لے کہ آیا اس کے باہر نکلنے کی کافی وجوہ ہیں یا نہیں.پھر وہ اس کو خواہ باہر رہنے کی اجازت دیدے یا گھر میں واپس لوٹنے کا حکم دے.پس اگر خاوند ظلم کرتا ہو اور حقوق میں روک ڈالتا ہو اور قضاء میں جانے نہ دے تو پھر عورت بلا اجازت شوہر باہر نکل سکتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ قلیل ترین عرصہ میں وہ اس کے خلاف آواز اُٹھائے مثلاً ۲۴ گھنٹے کے اندر یا اگر مقدمہ عدالت میں ہو تو جتنا عرصه درخواست کے دینے میں عموماً لگتا ہے.ہمارے ملک میں یہ بالکل غلط طریق رائج ہے کہ عورت خاوند سے لڑ کر اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاتی ہے اور وہاں بیٹھی رہتی ہے.والدین اس کی ناحق طرفداری کرتے ہیں اور فساد بڑھتا ہے دونوں کا معاملہ شریعت کے مطابق ہونا چاہئے.الفضل ۲۲ را پریل ۱۹۲۷ء.جلد ۱۴ نمبر ۸۳ صفحه ۵ ) خلع کی صورت میں لڑکی کیا کیا سامان واپس کرے سوال : خلع ، طلاق کی صورت میں لڑکی کیا تمام سامان واپس کرے؟ جواب :.صرف وہ چیزیں جو بصورت جنس تھیں واپس ہونی چاہئے یاوہ روپیہ جو جنس کی صورت میں دیا گیا اور لڑکی کی طرف سے جو ملا ہے اسے شریعت نہیں دلاتی بلکہ اس کا مال دلاتی ہے.اسی طرح
۲۵۲ خلع میرے نزدیک اگر لڑکے والوں نے لڑکی کے رشتہ داروں کو کچھ دیا تو وہ واپس نہ ملے گا کیونکہ وہ تحائف ہیں اور تحائف دوسرے لوگوں کو دے کر واپس نہیں لئے جا سکتے.شریعت کا اصول یہ ہے کہ خلع کا مطالبہ لڑکی کی طرف سے ہوتا ہے اور شریعت اسے یہ اختیار دیتی ہے کہ خاوند کا مال اسے دے کر خلع کرالے.تبادلہ مال کا مسئلہ شریعت کا نہیں ہے.نہ معلوم اس کا خیال کس طرح پیدا ہو گیا.میں نے جو تبادلہ لکھا تھا اس کا یہ مطلب تھا کہ جو مال لڑکی کا (خاوند) کے پاس تھا وہ اسے واپس دلایا جائے.پس صرف ایسا ہی مال واپس کیا جا سکتا تھا جولڑ کی کا مال سمجھا جاتا تھا اور گھر جاتے ہوئے لڑکی بھول گئی یا اسے لے جانے نہیں دیا گیا.جو مال لڑکی کا نہیں یعنی اس وقت اس کی ملکیت نہیں وہ اسے نہیں دلایا جا تا.اس کی کوئی سند شریعت میں نہیں.اسی طرح وہ روپیہ جولڑ کی کے مملوکہ مال کی صورت میں ( خاوند ) کے ذمہ ہے وہ انہیں دینا پڑے گا.(فائل فیصلہ جات خلیفہ وقت نمبرا.صفحہ ۷۳.دارالقضاء، ربوہ) لڑکی کی شادی کی عمر و خیار بلوغ لڑکیوں کی شادی اس عمر میں جائز ہونی چاہئے جبکہ وہ اپنے نفع اور نقصان کو سمجھ سکیں اور اسلامی حکم یہی ہے کہ شادی عورت کی رضا مندی کے ساتھ ہونی چاہئے اور جب تک عورت اس عمر کو نہ پہنچ جائے کہ وہ اپنے نفع ونقصان کو سمجھ سکے.اس وقت تک اس کی رضامندی بالکل دھوکہ ہے.لیکن ہمارے مذہب نے اشد ضرورت کے وقت اس بات کی اجازت دی ہے کہ چھوٹی عمر میں بھی لڑکی کی شادی کی جاسکتی ہے لیکن اس صورت میں لڑکی کو اختیار ہوگا کہ وہ بڑی ہو کر اگر اس شادی کو پسند نہیں کرتی تو مجسٹریٹ کے پاس درخواست دے کر اس نکاح کو فسخ کرائے.عام طور پر باقی فرقہائے اسلام اس بات کے قائل ہیں کہ ایسا نکاح اگر باپ نے پڑھوایا ہوتو نکاح فسخ نہیں ہوسکتا لیکن ہماری جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ ہر صورت میں نکاح فسخ ہوسکتا ہے خواہ باپ نے کرایا ہو یا کسی اور نے.کیونکہ جب لڑکی کی رائے بلوغت میں باپ کی رائے پر مقدم مجھی گئی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ باپ کے پڑھوائے
۲۵۳ خلع ہوئے نکاح کے بعد جب لڑکی بالغ ہو تو اس حق رضا مندی کو اسے واپس نہ دیا جائے.الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۲۹ء.جلد ۱۷.نمبر ۳۳ صفحه ۲۱) خیار بلوغ یہ امر کے ماں کے کئے ہوئے نکاح کے متعلق لڑکی کو یار البلوغ حاصل نہیں ہے میرے نزدیک درست نہیں.میرے نزدیک لڑکی کو شریعت نے رضا کا حق دیا ہے اور جب وہ بالغ ہو جائے اس وقت اس کا حق اس کو مل جائے گا کوئی نکاح کرے.لڑکی بالغ ہو کر اس حق کو جو اسے خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کی معرفت دیا ہے طلب کر سکتی ہے اور کوئی انسانی فقہ اس حق کو اس سے چھین نہیں سکتی.گورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی کوئی روایت ثابت نہیں کہ نابالغ لڑکی کا نکاح ماں باپ نے کر دیا ہو اور آپ نے لڑکی کی درخواست پر اسے توڑ دیا ہو.لیکن یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بالغ لڑکی کا نکاح اس کے باپ نے بلا اجازت کردیا اور آپ نے اسے توڑ دیا.چنانچہ ابن عباس سے احمد ابوداؤد اور ابن ماجہ میں جابر ، حضرت عائشہ اور حضرت عبد اللہ بن بریدہ سے یہ بات روایت کی گئی ہے.پس جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کی رضا کو ایسا ضروری سمجھا ہے کہ اس کی فریاد پر باپ کے کئے ہوئے نکاح کو تو ڑ دیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس حق کو نکاح صغر سے باطل کر دیا جاوے.جب وہ اس حق کو استعمال کرنے کے قابل ہو جائے گی اس کو یہ حق دیا جاوے گا.(فائل فیصلہ جات خلیفہ وقت نمبر ۲ - صفحه ۱۴.دارالقضاء، ربوہ) خیار بلوغ کی مدت سوال :.عرض کیا گیا کہ خیار بلوغ کی کوئی مدت معین ہے یا اس کی کوئی خاص میعاد نہیں؟ جواب:.فرمایا.یہ محض عقلی چیز ہے.عقلاً کسی لڑکی کے متعلق جتنا عرصہ ضروری سمجھا جائے گا اس کے لئے ہم خیار بلوغ کی وہی میعاد قرار دیں گے.اس میں سالوں یا عمر کی تعین نہیں کی جاسکتی.خیار
۲۵۴ خلع بلوغ کی تشریح آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نہیں فرمائی.گزشتہ فقہاء نے کی ہے اور چونکہ یہ تشریح فقہاء نے کی ہے اس لئے ہر زمانہ کے فقہاء کو اختیار ہے کہ وہ اس بارہ میں عقلی طور پر جو فیصلہ مناسب سمجھیں کریں.ایک وقت ایسا تھا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگر دصحابہ کی تمام جماعت رہتی تھی.اور فتویٰ جماعت کے تمام افراد میں اسی وقت پھیل جاتا تھا.لیکن اب وہ زمانہ ہے کہ لوگ دینی مسائل سے اکثر نا واقف ہوتے ہیں.اس ناواقفیت کی بناء پر جتنی دیر ضروری سمجھی جائے گی اس کو ملحوظ رکھنا پڑے گا.کیونکہ دینی مسائل سے ناواقفیت خودا اپنی ذات میں ایک ایسی چیز ہے جو فتوی کو بدل دیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک عورت پر الزام لگایا گیا کہ اس نے بدکاری کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے خاوند کو بلایا اور اسے سمجھایا کہ یہ اس قسم کی جاہل عورت ہے کہ اسے پتہ ہی نہیں کہ دین کیا ہوتا ہے اور اخلاق کیا ہوتے ہیں.ایسی عورت پر شریعت کا وہ فتویٰ نہیں لگے گا جو اس عورت پر لگ سکتا ہے جسے شریعت کا علم ہواور اسلامی احکام سے واقفیت رکھتی ہو.الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۴۴ء.جلد ۳۲ نمبر ۲۵۵ صفحه۱) خیار بلوغ کاعرصه آٹھ نوماہ کچھ زیادہ نھیں یہ دعوی کیا ہے کہ چونکہ ان کا نکاح قبل بلوغت کیا گیا تھا اور اب وہ بالغ ہیں اور نکاح پر راضی نہیں ہیں اس لئے ان کے نکاح کو فسخ کیا جاوے.قاضی صاحب عدالت ابتدائی نے اور عدالت اپیل نے فسخ نکاح کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے خلاف میرے پاس اپیل کی ہے.جواب دعوی کی بنیاد اس امر پر ہے کہ لڑکی کی بلوغت اور فنخ نکاح کی درخواست میں بہت بڑا فاصلہ ہے اس لئے لڑکی کے مطالبہ کو مستر د کرنا چاہئے.گواہوں کے اختلاف سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جو شہادتیں لڑکی کی طرف سے اظہار نفرت کی گزری ہیں وہ قابل سند نہیں ہیں.میرے نزدیک یہ اعتراض درست نہیں.شاہد اوقات کے متعلق غلطی
خلع کر سکتے ہیں جبکہ معاملہ ایسا ہو کہ جس کے یادر کھنے کی ضرورت انہیں اس وقت محسوس نہ ہوتی ہو اور یہ معاملہ اس قسم کا ہے کہ اظہار نفرت کے وقت کسی شخص کو یہ خیال پیدا نہیں ہوسکتا تھا کہ کل کو ا سے اس واقعہ کا پھر بھی ذکر کرنا ہوگا.ایسے امور کو انسان کما حقہ یاد نہیں رکھتا پس جبکہ گواہ اس بات پر متفق ہیں کہ لڑکی اظہار نفرت کرتی تھی اور ان میں ایسے گواہ بھی ہیں جو بے تعلق ہیں اور ثقہ ہیں تو ہمیں ان کے بیان پر اعتماد کر لینے میں کوئی تامل نہیں ہوسکتا.لیکن میرے نزدیک جس قدر فرق لڑکی کی بلوغت اور درخواست میں بتایا جاتا ہے وہ اتنا نہیں ہے کہ اس کے متعلق یہ کہا جائے کہ ناراضگی کا اظہار بعد کی بنی ہوئی بات ہے.نکاح کا معاملہ ایسا معاملہ نہیں ہوتا جس کا کسی خاص وقت کے ساتھ تعلق ہو.ایسے امور میں بعض دفعہ انسان یہ بھی سوچنے لگتا ہے کہ کیا با وجود ناراضگی کے اتحاد سے رہنے کی کوئی صورت پیدا ہوسکتی ہے.بعض دفعہ بعض ایسے رشتہ دار جونرم ہوتے ہیں معاملہ کو عدالت میں پیش کرنے سے روکتے رہتے ہیں.اس تذبذب کی حالت کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے.ہو سکتا ہے کہ یہ تذبذب کی وجہ سے بعض دفعہ صلح کی طرف مائل ہوں.اظہار نفرت نکاح کے بعد معقول طور پر قریب عرصہ میں ثابت ہے اور سوال بہت قریب کا ہے تو میرے نزدیک ایسے مشکوک فرق کے لئے عورت کے حق کو ہم باطل نہیں کر سکتے خصوصاً جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خیار بلوغ کا مسئلہ ایسا مسئلہ نہیں ہے جس سے عام طور لوگ واقف اور آگاہ ہوں.ایسے مسائل کے متعلق قدرتی طور پر لوگوں میں تر ڈد زیادہ ہوتا ہے.پس میرے نزدیک آٹھ نو مہینے کا فرق ایسے غیر معروف مسئلے کے متعلق کوئی ایسا فرق نہیں ہے جس کو خاص طور پر وقعت دی جائے اور میرے نزدیک عورت کا حق ہے کہ اس کی درخواست کو منظور کیا جاوے.رجسٹر ہدایات دار القضاء، ربوہ - صفحه ۱۲) کفاره ظهار قسم کا کفاره سوال : کسی نے اپنے بیوی سے ناراض ہو کر ظہار کر لیا ہے یعنی اپنی بیوی سے اس نے کہا کہ جیسی
خلع میری ہمشیرہ ویسی ہی تو ہے.اگر طلاق لینا چاہتی ہے تو وہ بھی لے لے.اور وہ بالکل مفلس اور بے روزگار ہے اس کا باپ دس روپے کا ملازم اور عیالدار ہے.وہ اپنی حرکت سے پشیماں ہے.اس کے اوپر کیا کفارہ لازم آتا ہے.اور باعث غریبی عدم ادائیگی کفارہ کے وہ کیا طریق اختیار کر سکتا ہے.جواب :.آپ نے جواب دیا.غریب کا کفارہ یہ ہے کہ اس کو نصیحت کی جائے.ایک شخص نے تقریباً دو سال سے اپنی بیوی کے ساتھ ہم صحبت ہونے کی قسم کھا رکھی تھی.اب وہ جواب:.اسے لکھا گیا کہ قسم کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے.یہ ادا کر نے کے بعد دوبارہ رجوع چاہتا ہے؟ نکاح ہو سکتا ہے.الفضل ۲۵ / مارچ ۱۹۱۵ء.جلد ۲.نمبر ۱۱۸) حامله کی عدت وضع حمل ھے والئ يئسن من المحيض من نسائكم اور وہ عورتیں جو حیض سے ناامید ہوگئی ہوں بوڑھی ہوں جن کو حیض نہ آتا ہو یعنی سن بلوغت تک نہ پہنچی ہوں.وہ جو کہ بیمار ہوں یعنی استحاضہ والی.ان کے لئے تین ماہ کی عدت ہے اور حمل والیوں کی عدت ان کے ایام حمل ہی ہیں.جب بچہ جن چکیں تو عدت ختم ہوگئی.اس پر لوگوں نے بڑی بڑی بحثیں کی ہیں کہ اگر تین ماہ سے پہلے بچہ پیدا ہو جائے تو کیا عدت ختم ہو جائے گی.بعض کہتے ہیں کہ کم سے کم تین ماہ ہوں گے.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک واقعہ ہوتا تھا کہ ایک عورت کو تین ماہ سے پہلے ہی وضع حمل ہو گیا تھا اور اسے آپ نے دوسری شادی کی اجازت دیدی تھی.اس لئے اس بات کا فیصلہ ہو چکا ہوا ہے.الفضل ۴ رمئی ۱۹۱۴ء.جلد نمبر ۴۷ ب صفحہ ۱۴)
۲۵۷ خلع نان نفقه عورت اگر خاوند کی مرضی کے بغیر والدین کے گھر جاوے تو شریعت خرچ نہیں دلاتی.لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ لڑکی جب خاوند کے پاس تھی تب بھی وہ خرچ نہ دیتا تھا.تب شریعت اسے خرچ دلائے گی کیونکہ اس صورت میں اس پر مقام کی تبدیلی نے کوئی نیا اثر پیدا نہیں کیا.(۲/۱۰/۱۹۴۶) (رجسٹر ہدایات امیرالمومنین.ہدایت نمبر ۱۳۸.دارالقضاء، ربوہ) لعان والذين يرمون ازواجهم ولم يكن لهم شهداء (النور:۷) وہ لوگ جو اپنی بیویوں پر بدکاری کا الزام لگاتے ہیں اور کوئی بیرونی گواہ نہیں رکھتے صرف ان کا نفس ہی گواہ ہوتا ہے ان میں سے ہر شخص چار دفعہ حلفیہ گواہی دے کہ واقعی میں نے اپنی عورت کو بدکاری کرتے دیکھا ہے اور میں سچا ہوں اور پانچویں دفعہ یہ کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مجھ پر لعنت ہو.جب خاوند اس طرح قسم کھا چکے تو عورت بھی چار دفعہ قسم کھا کر کہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے اور پانچویں بار یہ کہے کہ اگر یہ سچا ہے تو مجھ پر خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہو.جب دونوں طرف سے قسمیں کھالی جائیں تو پھر ان دونوں کو جدا کر دیا جائے گا یعنی ضلع کا حکم دیدیا جائے گا لیکن اگر خاوند بیوی پر قذف تو کرے مگر نہ گواہ لائے نہ لعان کرے تو خاوند پر حد لگے گی.( یعنی اسے اسی کوڑے لگیں گے ) ہاں اگر وہ لعان کرے تو پھر وہ حد سے آزاد ہو جائے گا یعنی کوڑے کھانے سے بچ جائے گا.لیکن اگر بیوی بھی لعان کر دے تو پھر بیوی پر زنا کا الزام ثابت نہیں ہوگا اور دونوں طرف کا معاملہ برابر سمجھا جائے گا.یہ لعان کسی مخفی مقام پر نہیں ہوتا بلکہ ضروری ہوتا ہے کہ ایسا شخص اول لوگوں کے مجمع میں قسم کھائے.دوئم کسی مقدس مقام پر کھائے.سوئم جب وہ لعنت کرنے لگے تو اس کو کہا جائے گا کہ دیکھو
۲۵۸ خلع خوب سوچ سمجھ لو خدا کی لعنت جس شخص پر نازل ہوتی ہے اسے تباہ کر دیتی ہے.( تفسیر کبیر جلد ششم تفسیر سوره نور صفحه ۲۶۷) متعه سوال :.متعہ کے متعلق جناب کا کیا خیال ہے؟ جواب :.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پہلے متعہ کا رواج تھا.جب تک شریعت میں اس کے متعلق کوئی حکم نہیں تھا.تب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع بھی نہیں کیا.آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے حکم سے اس کو حرام قرار دیدیا.حدیث میں اس کے حرام ہونے کے متعلق بیان آتا ہے.( الفضل یکم مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۶) حق حضانت شریعت کا فیصلہ ہے کہ لڑکی ماں کے پاس رہتی ہے.چچازاد بھائی کو نکاح کا اختیار ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بچہ لایا گیا تو آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تم کدھر جانا چاہتے ہو تو اس نے کہا کہ میں اپنی خالہ کے پاس رہنا چاہتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اس کو الہام کیا ہے اور بچہ کو اس کی خالہ کے سپر د کر دیا.( فائل مسائل دینی A-32) نامرد اس مقدمہ میں صرف ایک ہی سوال تھا اور وہ یہ کہ آیا مد عاعلیہ نا مرد ہے یا نہیں.مدعا علیہ کو موقع
۲۵۹ دیا گیا تھا کہ وہ اس بارہ میں طبی شہادت پیش کرے.مگر انہوں نے کہا کہ میں اس شرط پر سرٹیفیکیٹ پیش کر سکتا ہوں کہ قاضی صاحب یہ مان لیں کہ پھر ضرور میری بیوی کو میرے گھر پر بھیج دیا جائے گا.قاضی اول نے جائز طور پر کہا کہ آپ کا کام شہادت پیش کرنا ہے.فیصلہ کرنا قاضی کا کام ہے مگر انہوں نے سرٹیفیکیٹ پیش نہیں کیا لہذا اپیل مسترد کیا جاتا ہے.مگر اس موقع پر میں قاضیوں کو پھر ایک دفعہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ طلاق یا خلع کے مقدمات میں پورا زور صلح پر لگانا چاہئے تا کہ جماعتی اخلاق بگڑ نہ جائیں.قضائی فیصلہ بصورت مجبوری لیا جاوے.(فائل فیصلہ جات نمبر ۲.صفحہ ۴۲.دارالقضاء، ربوہ ) عدت عدت کے سوال میں میرے نزدیک بہت پیچیدگی ڈالی گئی ہے.مرد سے حیض کا ثبوت مانگنا نہایت نا واجب بات ہے اور دایہ کا مقرر کرنا خلاف شریعت ہے کیونکہ ستروں کا ظاہر کرنا صرف خاص حالات، بیماری وغیرہ میں جائز ہوتا ہے.مالی مطالبات کے فیصلہ کے لئے ستر کا ظاہر کرنا ہر گز جائز نہیں.پس اس طریق کو میں اسلامی شعار کے بالکل خلاف سمجھتا ہوں گو کسی فقیہ یا بہت سے فقیہوں نے ہی کیوں نہ ایسا لکھا ہو.میرے نزدیک اس کے فیصلہ کے لئے بھی وہی طریق رکھنا چاہئے جو شریعت کا عام فیصلوں کے لئے ہے.یعنی مدعی سے بعینہ ( گواہ ) طلب کیا جائے یا عورت کو حلف (قسم) دیا جائے گو یہ حلف شرعی ہونی چاہئے یعنی قاضی کی موجودگی میں بعد از پند و نصیحت و تذکیر.عدت ، حلف نہ اُٹھانے کی صورت میں تین ماہ تک سمجھی جائے گی ورنہ دودھ پلانے کے عرصہ تک کیونکہ دودھ پلانے کے بعد اگر حیض نہیں آتا تو وہ ایک قسم کی بیماری خیال کی جاوے گی.(فائل فیصلہ جات خلیفہ وقت نمبرا.صفحہ ۴۷.دارالقضاء، ربوہ) ☆☆☆
۲۶۱ لونڈی وغلام
۲۶۳ لونڈی اور غلام اسلام نے جنگ کی اجازت کن حالات میں دی ان آیات سے جو مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دینے کے لئے نازل ہوئی ہیں ظاہر ہے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے جنگ کی اجازت صرف اسی صورت میں ہوتی ہے جب کوئی قوم دیر تک دوسری قوم کے ظلموں کا تختہ مشق بنی رہے اور ظالم قوم اسے ربنا الله“ کہنے سے روکے.یعنی اس کے دین میں دخل دے اور وہ جبراً اسلام سے لوگوں کو پھرائے یا اس میں داخل ہونے سے جبر أبا زر کھے اور اس میں داخل ہونے والوں کو صرف اسلام قبول کرنے کے جرم میں قتل کرے.اس قوم کے سوا کسی دوسری قوم سے جہاد نہیں ہوسکتا.لیکن اگر جنگ ہوگی تو صرف سیاسی اور ملکی جنگ ہوگی.جو وہ مسلمان قوموں میں ہوسکتی ہے مگر اس کا نام جہاد نہیں رکھا جاسکتا اور اس جنگ میں شامل ہونا ہر مسلمان کا فرض نہیں ہوگا بلکہ صرف انہی مسلمانوں کا فرض ہوگا جو اس لڑنے والی حکومت میں بس رہے ہوں.کیونکہ یہ جنگ حب الوطنی کی جنگ کہلائے گی.دینی جنگ نہیں کہلائے گی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.حبّ الوطن من الايمان یعنی وطن کی محبت بھی ایمان کا ایک حصہ ہے.نفسیر کبیر جلد ششم تفسیر سوره حج - صفه ۶۳) جنگی قیدیوں کے متعلق اسلام کے احکام ا.یا تو ان قیدیوں کو احسان کر کے چھوڑ دیا جائے (سورہ محمد ) اور یہ ایسے قیدیوں کے متعلق ہی ہوسکتا ہے جو اپنی غلطی کا اقرار کریں اور آئندہ جنگ میں شامل نہ ہونے کا معاہدہ کریں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ایک قیدی ابو عزہ نامی کو رہا کیا.یہ شخص جنگ بدر میں پکڑا گیا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے عہد لے کر چھوڑ دیا تھا کہ وہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شامل نہیں ہو گا.مگر وہ جنگ احد میں مسلمانوں کے خلاف پھر لڑنے نکلا اور آخر جمراء الاسد کے جنگ میں مارا گیا.
۲۶۴ لونڈی اور غلام ۲.اگر اسلامی حکومت کی مالی حالت ایسی نہ ہو کہ وہ احسان کر کے چھوڑ دے تو پھر قیدی کو حق ہے کہ وہ فدیہ دے کر اپنے آپ کو چھڑالے لیکن اگر قیدی کو فدیہ کی طاقت نہ ہو تو پھر حکم ہے کہ اسلامی ملک کی زکوۃ میں سے اگر ممکن ہو تو اس کا فدیہ دے کر اس کو آزاد کر دیا جائے.اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو قیدی کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مکاتبت کرے یعنی حکومت سے یہ عہد کرے کہ وہ کمائی کر کے آہستہ آہستہ اپنا فدیہ دے دے گا.اور اسے آزاد کر دیا جائے گا چنانچہ وہ اس معاہدہ کے بعد فوراً آزاد ہو جائے گا اور قسط وار اپنا فدیہ ادا کرے گا.یہ یا درکھنا چاہئے کہ پُرانے زمانہ میں جنگیں افراد کرتے تھے اور اپنے اخراجات جنگ وہ خود برداشت کرتے تھے.اس لئے ان کا بوجھ اُتارنے کے لئے دوسری قوم سے تاوان نہیں لیا جاتا تھا بلکہ افراد پر حسب طاقت تاوان ڈالا جاتا تھا.اب چونکہ قومی جنگ ہوتی ہے اور حکومت خرچ کی ذمہ وار ہوتی ہے.لازماً اس نظام میں بھی موجودہ حالات کے لحاظ سے تبدیلی کرنی ہوگی اور قیدی سے تاو سے تاوان نہیں لیا جائے گا بلکہ حملہ آور قوم سے بحیثیت قوم تاوان لیا جائے گا.۳.جب تک تاوان جنگ ادانہ کرے اس سے خدمت لی جاسکتی ہے لیکن کام لینے کی صورت میں مندرجہ ذیل احکام اسلام دیتا ہے.ایتم کسی قیدی سے اس کی طاقت سے زیادہ کام نہ لو.ب.جو کچھ خود کھاؤ وہی قیدی کو کھلا ؤ اور جو کچھ خود پہنو وہی قیدی کو پہناؤ.ج کسی قیدی کو مارا پیٹا نہ جائے.د.اگر کوئی شادی کے قابل ہواور انہیں علم نہ ہو کہ کب تک وہ جنگی قیدی رہیں گے تو ان کی شادی کر دو.( تفسیر کبیر جلد دہم.تفسیر سوره الكفرون صفحہ۴۵۴) قیدی بنانا صرف اس صورت میں جائز ہے جب کسی قوم سے با قاعدہ جنگ ہو اور عین میدان جنگ میں دشمن قوم کے افراد کو بطور جنگی قیدی گرفتار کر لیا جائے گویا وہ قوم جس کے خلاف اعلان جنگ
لونڈی اور غلام نہیں ہوا اس کے افراد کو پکڑنا جائز نہیں ہے.اسی طرح وہ قوم جس سے جنگ ہو اس کے افراد کو بھی میدان جنگ کے علاوہ کسی اور جگہ سے بعد میں پکڑ نا جائز نہیں ہے.صرف لڑائی کے دوران میں لڑنے والے سپاہیوں کو یا ان کو جو لڑنے والے سپاہیوں کی مدد کر رہے ہوں پکڑ لیا جائے تو یہ جائز ہوگا کیونکہ اگر ان کو چھوڑ دیا جائے تو وہ بعد میں دوسرے لشکر میں شامل ہوکرمسلمانوں کو نقصان پہنچاسکتے ہیں.لیکن ان کے بارہ میں بھی اللہ تعالیٰ یہ ہدایت دیتا ہے کہ إِمَّا مَنَّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً (محمد : ۵) یعنی بعد میں یا تو ان کو احسان کے طور پر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر چھوڑ دو.پس یہ صورت تو اسلام میں جائز ہی نہیں کہ باوجود اس کے کہ کوئی شخص اپنا فدیہ پیش کرتا ہو پھر بھی اس کو غلام رکھا جائے.اسے بہر صورت یا تو احسان کے طور پر رہا کرنا پڑے گا یا فدیہ لے کر چھوڑنا پڑے گا.مگر یہ امر یا درکھنا چاہئے کہ موجودہ زمانہ میں یہ قاعدہ ہے کہ تاوان جنگ لڑنے والی قوم سے لیا جاتا ہے لیکن اسلام نے یہ طریق رکھا ہے کہ خود جنگی قیدی یا اس کا رشتہ دار اس کا فدیہ ادا کرے.بظاہر یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے زمانہ تک تنخواہ دار فوجیں نہیں ہوتی تھیں بلکہ دونوں طرف سے رضا کارلڑنے کے لئے آتے تھے.پس چونکہ یہ لڑائی رضا کاروں کی لڑائی ہوتی تھی اس لئے فدیہ بھی رضا کاروں پر رکھا گیا.اب چونکہ جنگ قومی ہوتی ہے اس لئے فدیہ قوم پر رکھا گیا ہے.( تفسیر کبیر جلد ششم.سورۃ النور - صفحہ ۳۰۸) لونڈی کوبغیر نکاح کے بیوی بنانا الاعلى ازواجهم او ما ملکت ايمانهم (المومنون :) داہنے ہاتھ مالک ہوئے:.کی تشریح کے بارہ میں یہ امر یا درکھنا چاہئے کہ بعض لوگ تو اس میں نوکرانیوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں اور بعض ان لونڈیوں کو بھی جو چھاپہ مارکرکسی کمزور قوم کے اندر سے زبردستی اغوا کر لی جاتی ہیں اور پھر فروخت کر دی جاتی ہیں اور بعض لوگ ان الفاظ کے یہ معنے لیتے ہیں کہ جو عورتیں
لونڈی اور غلام جہاد میں حاصل ہوں بغیر نکاح کے گھروں میں رکھنی جائز ہیں لیکن یہ سب معنے غلط ہیں.قرآن کریم میں اور احادیث میں نوکروں اور غلاموں کا الگ الگ ذکر ہے اس لئے نوکر اس میں شامل نہیں.اور غلاموں کے متعلق قرآن کریم صاف طور پر فرماتا ہے کہ ماكان لنبى ان يكون له اسرى حتى يثخن في الارض (الانفال: ۶۸) یعنی کسی نبی کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی پُر امن قوم میں سے مرد جنگی قیدی یا عورت جنگی قیدی زبر دستی پکڑ لائے جب تک کہ اس کے اور اس کے دشمن کے درمیان خونریز جنگ نہ ہوئے.یعنی یونہی کسی قوم میں سے جو جنگ نہ کر رہی ہو قیدی پکڑنے جائز نہیں جیسا کہ سینکڑوں سال سے حجاز کے لوگ حبشہ سے غلام پکڑ لاتے ہیں جیسا کہ گزشتہ صدیوں میں عراق کے لوگ ایران سے یا روم سے یا یونان سے یا اٹلی کے جزیروں سے غلام پکڑ کر لے آتے تھے.ایسی غلامی اسلام میں جائز نہیں صرف جنگی قیدی پکڑنے جائز ہیں اور جنگی قیدی پکڑ نے بھی صرف اس وقت جائز ہیں جبکہ دشمن سے با قاعدہ جنگ ہو جائے اور ایسے وقت میں بھی یہ حکم ہے کہ جنگی قیدی کا فدیہ لے کر اسے چھوڑ دو.اور اگر اس کے پاس فدیہ نہ ہو یا اس کی قوم اس کا فدیہ دینے کو تیار نہ ہوتو پھر حکومت اسلامیہ اسے احسان کے طور پر چھوڑ دے (سورہ محمد ).اور اگر احسان کے طور پر چھوڑنا اس کے لئے مشکل ہو تو زکوۃ کے روپیہ میں سے اس کا فدیہ دے کر اسے چھوڑ دے ( تو بہ ) اور اگر اس میں بھی مشکل ہو تو قیدی کو مکا تبت کا اختیار دیا جائے (نور).مکاتبت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ جنگی قیدی اپنے مالک سے یہ کہتا ہے کہ تم مجھے آزاد کر دو میں محنت اور کمائی کر کے اپنا فدیہ ادا کر دوں گا اور اس وقت تک اپنی ذاتی تجارتوں وغیرہ میں آزاد سمجھا جاؤں گا.صرف اسلامی ملک میں رہنے کا وہ پابند ہوتا ہے.اب ظاہر ہے کہ اگر کوئی عورت اوپر کے تمام طریقوں کا باوجود آزاد ہونا نہ چاہے گی تو وہ عورت ایسی ہی ہوگی جو اپنے ملک میں جانا اپنے لئے خطرناک سمجھتی ہوگی اور مسلمان مرد کے پاس رہنے کا جو خطرہ تھا اس کے راستے کھلے ہونے کے باوجود ان کو استعمال کرنا پسند نہ کرے گی اور جو عورت باوجود ہر قسم کی سہولت کے مسلمان گھرانے سے نکلنا پسند
۲۶۷ لونڈی اور غلام نہ کرے گی اس عورت سے جبر اشادی کر لینے کے سوا مسلمان مرد کے لئے کوئی چارہ نہیں کیونکہ اگر وہ آزاد نہ ہوگی اور مسلمان مرد اس سے جبر اشادی نہ کرے گا تو وہ گھر میں اور علاقہ میں بدکاری پھیلائے گی.اور اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.پس آزاد عورتوں اور جنگی عورتوں میں اتناہی فرق ہے کہ آزاد عورت کے لئے اپنی مرضی سے نکاح کرنا جائز ہوتا ہے اور وہ عورت جو جنگی قیدی ہو وہ یا تو ان طریقوں سے اپنے آپ کو آزاد کرا لیتی ہے جو اسلام نے اس کے لئے کھلے رکھے ہیں یا پھر جس گھر میں وہ ہوتی ہے اس کا کوئی مرد اس سے شادی کر لیتا ہے تا کہ بدکاری نہ پھیلے اور اگر اس کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے تو وہ پھر آزاد ہو جاتی ہے.پس داہنے ہاتھوں کی ملکیت کے الفاظ سے کوئی شخص دھو کہ نہ کھائے.( تفسیر کبیر جلد ششم سوره مومنون صفحه ۱۳۰) لونڈی کوبغیرنکاح کے لونڈی بنانا سوال : لونڈی کو بغیر نکاح کے گھر میں بمنزلہ بیوی کے رکھنا کہاں تک درست ہے.علماء کا فتویٰ ہے کہ لونڈی سے نکاح کی کوئی ضرورت نہیں بلا نکاح تعلق رکھنا جائز ہے.یہ درست ہے یا نا درست؟ جواب:.اس سوال کا جواب لونڈی کی تعریف پر منحصر ہے.اگر لونڈیوں سے وہ لونڈیاں مراد ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر حملہ کرنے والے لشکر کے ساتھ ان کی مدد کرنے کے لئے ان کے ساتھ آتی تھیں اور وہ جنگ میں قید کر لی جاتی تھیں.تو اگر وہ مکاتبت کا مطالبہ نہ کریں تو ان کو بغیر نکاح کے اپنی بیوی بنانا نا جائز ہے یعنی نکاح کے لئے ان کی لفظی اجازت کی ضرورت نہیں تھی.در حقیقت جو میں نے اوپر مکاتبت کا ذکر کیا ہے وہ اس سوال کو پوری طرح حل کر دیتا ہے اور اجازت نہ لینے کی حکمت اس سے نکل آتی ہے لیکن یہ ایک لمبا مضمون ہے.اگر لونڈیوں سے مراد وہ لونڈیاں ہیں جنہیں آج کل لوگ لونڈیاں کہتے ہیں تو ان سے ایسا تعلق بغیر نکاح نا جائز ہے.اب دنیا میں کوئی ایسی لونڈی نہیں جس کا ذکر قرآن میں ہے.الفضل ۵ ستمبر ۱۹۳۶ء.جلد ۲۴.نمبر ۵۷ صفحه ۵)
۲۶۸ لونڈی اور غلام چار آزاد منکوحہ عورتوں کی موجودگی میں لونڈی رکھنا سوال: کیا اب بھی کوئی مسلمان چار آزاد عورتوں کے بغیر (علاوہ ) لونڈیاں رکھ سکتا ہے؟ جواب :.اس وقت دنیا بھر میں مذہب بدلوانے کے لئے کوئی جنگ نہیں ہورہی.اس لئے لونڈی نہ ہے نہ ہوسکتی ہے.پس یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا.سوال :.قیدی عورت اور لونڈی میں کیا فرق ہے؟ ایک عورت اسلام لا کر بھی لونڈی کی حیثیت میں رہ سکتی ہے تو پھر اسے آزاد کیونکر کہا جائے گا.اگر آزاد عورت کا مقام دیا جائے تو چار سے زائد بیویاں رکھنے پر اسے طلاق دینی پڑے گی ؟ جواب :.قیدی وہ جو سیاسی جنگ میں آئے اور لونڈی وہ جو ایسی جنگ میں قید ہو جس میں ایک فریق دوسرے سے اس لئے لڑے کہ اس کا مذہب بدلوانا چاہے.الفضل ۲۳ /اگست ۱۹۴۴ء - جلد ۳۲ نمبر ۱۹۱ صفحه۲) سوال :.کیا آزاد عورت کی موجودگی میں لونڈیوں کے ساتھ تعلقات قائم کئے جاسکتے ہیں؟ کیا قرآن کریم نے لونڈیوں کے ساتھ نکاح کو ضروری قرار دیا ہے؟ کیا لونڈی کے ساتھ اس کی مرضی کے خلاف جبراً تعلقات قائم کئے جاسکتے ہیں؟ جواب: لونڈی کے ساتھ نکاح ضروری ہے مگر طریقہ نکاح مختلف ہے.اور اگر لونڈی چاہے کہ الگ ہو جائے اور وہ کسی شخص کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تو وہ شریعت کے مطابق فور امکا تبت کی درخواست کرے.مکاتبت کے بعد کوئی شخص اس کو نہیں رکھ سکتا.( فائل مسائل دینی نمبر 1.DP6269/15.1.51) سوال :.شریعت میں چار بیویاں ایک ہی وقت میں مساوات کے ساتھ رکھنا جائز ہیں مگر مابعد اس کے جو خادمہ زرخرید رکھی جاتی ہے آیا ان سے بلا نکاح مباشرت کرنی جائز ہے.اگر جائز ہے تو زانیہ اور اس میں کیا تفاوت ہے؟
۲۶۹ لونڈی اور غلام جواب:.کوئی فرق نہیں.زرخرید کرنا پہلا گناہ ہے.اس سے مباشرت کرنا دوسرا گناہ ہے.قرآن کریم میں لونڈیوں کا ذکر ہے وہ بالکل اور ہیں آج کل وہ ہیں ہی نہیں.الفضل ۱/۸ اکتوبر ۱۹۴۵ء - جلد ۳۳ نمبر ۲۳۵ صفحه ۲) سوال :.اگر یہ جائز ہے تو خادمہ کی اولاد کو ورثہ جائداد کیوں نہیں ملتا.کیا وہ اولاد اپنے باپ کو باپ کہنے کی مستحق نہیں ہے.اگر اس کو شرعا باپ مانا جاتا ہے تو پھر اس کو اس کی جائیداد سے کیوں محروم کیا جاتا ہے؟ جواب :.اوپر جواب آچکا ہے مگر آپ کی دلیل غلط ہے.الفضل ۱/۸ کتوبر ۱۹۴۵ء - جلد ۳۳ نمبر ۲۳۵ صفی ۲) موجودہ دورمیں ہندو مسلم جنگ کی صورت میں هندو عورتوں کولونڈی بنانا سوال :.آج کل ہندومسلم جنگوں کے نتیجہ میں جو عورتیں آتی ہیں کیا ان سے تعلق جائز ہے؟ جواب:.اس کو جنگ کون قرار دیتا ہے.کیا جنگ میں لڑنے والے کو بعد میں پھانسی دی جاتی ہے؟ مگر یہاں تو پھانسی ملتی ہے.جنگ تو ایک حکومت کے دوسری حکومت کے خلاف با قاعدہ طور پر نبرد آزما ہونے کو کہتے ہیں نیز اسلام نے ایسے تعلقات کی جو اجازت دی ہے وہ ہر جنگ میں نہیں بلکہ صرف جہاد میں ہے.دراصل اس جنگ میں جو عورتیں لونڈی بنائی جاتی ہیں ان سے بھی تعلق اس کی رضامندی کے بغیر نہیں ہوتا.اور چونکہ وہ لونڈی ہوتی ہے اس لئے عام اعلان کی ضرورت نہیں ہوتی.باہم رضامندی کافی ہے اور اس کے حقوق بھی بیویوں کے سے ہوتے ہیں بلکہ اسلام نے ایسی عورت کو یہ بھی حق دیا ہے کہ مکاتبت کر کے آزاد ہو جائے.الفضل ۳ جولائی ۱۹۴۷ء.جلد ۳۵ نمبر ۱۵۶ صفحه ۲)
۲۷۰ لونڈی اور غلام سوال :.لونڈی سے نکاح کرنے یا نہ کرنے کے متعلق حضور کا کیا خیال ہے؟ جواب :.فرمایا.نکاح ایک اعزاز ہے جو عورت کو حاصل ہوتا ہے.لونڈی کو یہ اعزاز دینے کا کیا مطلب.وہ تو اس قوم سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہے جو اسلام کو مٹانے کے لئے حملہ آور ہوتی ہے.لونڈیاں اس قوم کی عورتیں بنائی جاسکتی ہیں جس نے مسلمانوں پر ان کا مذہب بدلوانے کے لئے حملہ کیا ہو.پولیٹیکل جنگ میں اگر فتح حاصل ہو تو لونڈیاں بنانا جائز نہیں.یہ دراصل اس قوم کے لئے سزا ہے جو مذہب بدلوانے کے لئے حملہ آور ہو.الفضل ۱۴ را گست ۱۹۳۴ء - جلد ۲۲ نمبر ۲۰ صفحه ۵)
1721 ม
۲۷۳ حدود زناکا الزام چونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں عام طور پر لوگوں کو ٹھوکر لگی ہوئی ہے اس لئے میں اپنے ہاتھ سے اس خط کا جواب لکھتا ہوں.قرآن کریم کی رو سے زنا کا الزام لگانے والے دو قسم کے لوگ ہو سکتے ہیں.ا.خاوند یا بیوی ۲.غیر مرد یا عورت اگر الزام لگانے والا خاوند یا بیوی ہو ( خاوند کا صریح ذکر قرآن کریم میں ہے.بیوی کا معاملہ اس پر قیاس کیا جاوے گا کیونکہ قرآن کریم میں سوائے خاص طور پر مذکور ہونے کے بالمقابل حکم بیان ہوتے ہیں ) تو گواہوں کی عدم موجودگی میں ملاعنہ ہوگا یعنی ایک دوسرے کے مقابل اسے قسم دی جاوے گی.ایک گواہ کے مقابل ایک قسم ہوگی.اور پانچویں دفعہ لعنت ہوگی.جھوٹے پر عذاب نازل ہونے کی دعا کی جاوے گی.اگر غیر خاوند یا غیر زوجہ الزام لگاوے تو اس کے لئے صرف چار گواہ لانے ہوں گے نہ اس کے کہنے پر قسم دی جاسکتی ہے نہ الزام لگانے والے کی قسم کچھ حقیقت رکھتی ہے.بغیر گواہوں کے الزام لگانے والا بہر حال جھوٹا سمجھا جائے گا اور اس کے الزام کے مقابل پر قسم نہ کھانے والا ہرگز ہرگز زیر الزام نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے جب الزام کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب تک دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر مانتی ہوں تو جھوٹ ہے اور اگر انکار کرتی ہوں تو لوگ نہ مانیں گے پس میں جواب ہی کچھ نہیں دیتی.خدا شاہد ہے،خدا نے ان کے اس فعل کی تائید کی اور ان کو بری قرار دیا.پس پبلک میں اس پر قسم لینا بطور عدالت کے ناجائز ہے نہ ایسی قسم حجت ہے اور شرعاً الزام لگانے والا جھوٹا ہے اور اس کو ہم اس وقت تک جھوٹا سمجھیں گے جب تک وہ چار گواہ نہیں لاتا اور اگر اسلامی شریعت ہو تو اس کو کوڑے لگیں گے.اگر اس نے فی الواقع کچھ دیکھا بھی ہے تو اس کا فرض ہے کہ خاموش رہے اور خدا تعالیٰ کی ستاری کے مقابل نہ کھڑا ہو جائے.الفضل ۷ اگست ۱۹۲۳ء.جلد نمبر ۹ صفحه ۶)
۲۷۴ حدود سوال: - والتي ياتين الفاحشة من نسائكم فاستشهدوا عليهن اربعة منكم فان شهدوا فامسكوهن.(النساء :۱۴) میں فاحشہ چار مرد گواہوں ، عورتوں کو گھروں میں رکھنا اور يجعل الله لهن سبیلا کے الفاظ سے کیا مراد ہے؟ جواب :.فاحشہ سے مراد ایسی برائی کے بھی ہوتے ہیں جو عریاں ہو اور نمایاں طور پر بری نظر آئے اور ضروری نہیں کہ یہ برائی زنا ہی ہو.بلکہ ہر بداخلاقی، بدکلامی اور بد معاملگی مخش کہلا سکتی ہے.جو عورت بہت زیادہ بد کلام ہوا سے عربی میں فاحشہ سے موسوم کیا جاتا ہے.اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کوئی عورت اگر بعض بُرے اخلاق میں انتہاء کو پہنچ چکی ہو تو اس کا علاج یہ ہے کہ اسے سمجھانے کی کوشش کی جائے لیکن جب اس کی مرض لا علاج صورت اختیار کر چکی ہو تو پھر اسے گھر میں مقید رکھنا بہتر ہوگا.حتی کہ یا تو ایسی حالت میں اسے موت آجائے یا پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسے ہدایت دیدے اور اس کے اخلاق درست کر دے.الفضل ۳ جولائی ۱۹۴۷ء نمبر ۱۵۶ صفحه ۲) الزام زنا میں شہادت سوال:.ایک صاحب نے الزام زنا کے متعلق شہادت اور اس کے اثرات وغیرہ کے متعلق استفسار کیا ہے؟ جواب:.فرمایا.دنیا کی سزا اصل میں فتنہ کو روکنے کے لئے ہے وگرنہ اصل سزا ”مالك يوم الدين “ کا کام ہے.اسلام نے دنیا میں سزا صرف اس لئے رکھی ہے کہ فتنہ کا سد باب ہو جائے اور جس جگہ فتنہ مکمل نہ ہو وہاں سزا دینے کا کوئی حق نہیں.اگر الزام زنا میں چار گواہ شہادت دے دیں تو خواہ ملزم بے گناہ ہی ہوا سے سزا دیدی جائے گی.کئی مقدمات ایسے ہوتے ہیں کہ مجسٹریٹ مجرم سمجھ کر سزا دے دیتا ہے اور سزا دہی کے لئے شہادت بھی کافی ہوتی ہے مگر حقیقت میں سزا پانے والا بے گناہ ہوتا ہے.بعض جرائم ایسے ہی ہوتے ہیں جن میں ایک شاہد کا فی ہوتا
۲۷۵ حدود ہے مثلاً میں جارہا ہوں اور میں نے دیکھا کہ زید بکر کو مار رہا ہے.پس اس کے لئے چارشاہدوں کی ضرورت نہیں.میں بحیثیت مجسٹریٹ خود اپنی شہادت پر ہی اسے سزا دے سکتا ہوں.دراصل وہ جرائم جن میں چار گواہوں کی شہادت اسلام میں قرار دی گئی ہے وہ سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے جرائم ہیں اور ایسے جرائم میں گواہوں کو مجسٹریٹ خود نہیں بلا سکتا جب تک وہ خود بطور مدعی پیش نہ ہوں.اور یہ نہ کہیں کہ ہم فلاں بات کے گواہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ فلاں شخص پر مقدمہ چلایا جائے.لیکن مقدمہ شروع ہونے کے بعد اگر ان میں سے ایک بھی الزام لگانے سے انکار کر جائے تو باقی تین کو سزا ملے گی جیسا کہ حضرت عمر کے زمانہ میں ہوا.ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اگر پہلا ہی گواہ مکر جائے تو باقی اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ اپنی شہادت بند کر دیں اور کہہ دیں کہ ہم اب شہادت دینا نہیں چاہتے.لیکن اگر پہلے وہ الزام زنا میں شہادت دے چکے ہوں اور چوتھا مگر جائے تو شہادت دینے والوں کو سزا دی جائے گی.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اسی طرح ہوا تھا کہ تین گواہوں کے بعد جب چوتھے کی باری آئی تو اس کی شہادت مشتبہ پائی گئی.اس پر شہادت دینے والوں کو سزادی گئی.دراصل شریعت کا منشاء یہ ہے کہ ایسی باتوں کی اشاعت نہ کی جائے.سوال :.عرض کیا گیا کہ آیا قاضی کو کوئی بات بتانا بھی قذف کا مستحق بناتا ہے یا صرف لوگوں میں اشاعت کرنا ؟ جواب :.فرمایا.رپورٹ کرنا اور چیز ہے.اس کے ماتحت دوسرا مجرم نہیں قرار پاسکتا ہے.مگر مقدمہ کے طور پر اگر معاملہ لے جایا جائے اور پھر چار عینی گواہوں کے ذریعہ ثابت نہ کیا جائے تو یہ جرم ہے اور شریعت نے اس کی سزار کھی ہے.سوال :.عرض کیا گیا کہ کیا ایسی شہادت کو دوسروں سے مخفی رکھنے کا حکم ہے؟ جواب:.فرمایا.مجھے تو کوئی ایسا حکم معلوم نہیں بلکہ حضرت عمرؓ کے زمانہ کے واقعہ سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ دوسرے لوگوں کو سننے کی اجازت ہے کیونکہ اس موقعہ پر حضرت علی کی موجودگی بھی ثابت ہے.چنانچہ آتا ہے انہوں نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ چونکہ تینوں گواہ صحابی ہیں اس
حدود لئے انہیں سزا نہ دی جائے مگر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فتویٰ پر ضرور عمل کروں گا.بات یہ تھی کہ پہلے تین گواہوں نے تو الزام کی تائید میں گواہی دی مگر چوتھے نے کہا کہ میں نے یہ واقعہ دیکھا تو ہے مگر میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کوئی غیر عورت تھی یا اس کی اپنی بیوی تھی.اس شہادت نے پہلے تینوں گواہوں کو سزا کا مستحق بنادیا.الفضل ۱۶ جون ۱۹۳۱ء - جلد ۱۸ نمبر ۴۵ صفحه ۵).زنا ثابت کرنے کے لئے چارگواھوں کی شہادت مقرر کرنے کی وجه چونکہ بعض لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ کیوں قرآن کریم نے چار گواہوں کی شرط لگائی ہے اور کیوں دوسرے الزمات کی طرح صرف دو گواہوں پر کفایت نہیں کی.اس لئے یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دو کی بجائے چار گواہوں کی شرط لگانا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قسم کے واقعات میں کثرت سے جھوٹ بولا جاتا ہے.بس اسی وجہ سے زیادہ گواہوں کی شرط لگادی گئی ہے اور پھر ایک ہی واقعہ کے متعلق چار کی شرط اس لئے لگائی کہ ایک وقت میں پانچ آدمیوں کا اکٹھا ہونا یعنی الزام لگانے والے اور چار گواہوں کا.یہ ایک ایسا امر ہے کہ اس کا جھوٹ آسانی سے کھولا جا سکتا ہے اور جرح میں ایسے لوگ اپنے قدم پر نہیں ٹھہر سکتے کیونکہ پانچ آدمیوں کا ایک جگہ موجود ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جس کا اخفاء مشکل ہوتا ہے اور پانچ آدمی مل کر یہ جھوٹ بہت کم بنا سکتے ہیں کیونکہ اس میں بعض کی نسبت یہ ثابت کرنا آسان ہوتا ہے کہ یہ تو اس وقت فلاں جگہ پر بیٹھا تھا.پس چونکہ زنا ایک ایسا فعل ہے جس کے لئے بیرونی دلائل نہیں ہوتے.اس لئے اس پر الزام لگانا آسان ہوتا ہے اس وجہ سے شریعت نے چوری اور قتل کے لئے تو دو گواہوں کی گواہی کو تسلیم کیا لیکن بدکاری کے الزام کے متعلق چار گواہوں کی شرط لگائی اور
۲۷۷ حدود الزام لگانے والوں سے ہمدردی کو بھی سخت جرم قرار دیا اور الزام سنتے ہی اس کو جھوٹا قرار دینے کی نصیحت کی.( تفسیر کبیر جلد ششم - تفسیر سوره نور صفحه ۲۶۳) والذين يرمون المحصنت ثم لم ياتوا باربعة شهداء (النور :۵) اس آیت میں الزام زنا کی شہادت کا طریق بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ دوسرے پر زنا کا الزام لگانے والا چار گواہ لائے جو اس الزام زنا کی تصدیق کرتے ہوں.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے اقوال سے ثابت ہے کہ اگر گواہ مختلف جگہوں کے متعلق شہادت دے رہے ہوں تو وہ شہادت ہرگز تسلیم نہیں کی جائے گی.اور چاہے وہ چار گواہ ہوں پھر بھی وہ ایک ہی جگہ کے متعلق الزام لگانے والے کے علاوہ چار عینی شاہد ہوں اور دوسرے ان کی گواہی اتنی مکمل ہو کہ وہ اس کی تکمیل کی شہادت دیں.فقہاء نے لکھا ہے کہ وہ چاروں گواہ یہ گواہی دیں کہ انہوں نے مرد و عورت کو اس طرح اکھٹے دیکھا ہے جس طرح سرمہ دانی میں سلائی پڑی ہوتی ہے.فقہاء کے نزدیک مجرم پر حد زنا تین طرح لگتی ہے.اول قاضی کے علم سے.دوئم اقرار سے.سوئم چار گواہوں کی شہادت سے.مگر قاضی کے علم سے حد لگانا میرے نزدیک قرآن کریم کی رو سے غلط ہے کیونکہ قاضی بہر حال ایک شاہد بنتا ہے لیکن قرآن کریم کی رو سے پانچ شاہد ہونے چاہئیں.ایک الزام لگانے والا اور چار مزید گواہ بلکہ میرے نزدیک اگر قاضی کو کوئی ایسا علم ہو تو اسے مقدمہ سننا ہی نہیں چاہئے.بلکہ اس مقدمہ کو کسی دوسرے قاضی کے پاس بھیج دینا چاہئے اور خود بطور گواہ پیش ہونا چاہئے.قاضی صرف امور سیاسیہ میں اپنے علم کو کام میں لاسکتا ہے حدود شرعیہ میں نہیں.کیونکہ حدود شریعہ کی سزا خود خدا تعالیٰ نے مقرر کی ہوئی ہے.اسی طرح گواہی کا طریق بھی مقرر کردہ ہے.اقرار کے متعلق بھی یہ امر یا درکھنا چاہئے کہ اقرار وہ ہے جو بغیر جبر اور تشدد کے ہو ورنہ پولیس کئی دفعہ مار پیٹ کر بھی اقرار کروا لیتی ہے.حالانکہ وہ اقرار جبر کا نتیجہ ہوتا ہے.پھر یہ اقرار ایک دفعہ کافی نہیں بلکہ
۲۷۸ حدود چار دفعہ بغیر پولیس کے قاضی کے سامنے ہونا چاہئے.اور اقرار بھی قسمیہ ہونا چاہئے.تب اس کو حد لگے کی.لیکن اگر ایسا شخص چار دفعہ اقرار کرنے کے باوجود بعد میں انکار کر دے تو اس کو حد زنا نہیں لگے گی.ہاں اگر اُس نے کسی عورت کا نام لیا ہو تو حد قذف اس کو لگے گی.کیونکہ اس نے ایک عورت پر زنا کا الزام لگایا.قذف کے متعلق فقہاء میں یہ بحث ہے کہ وہ کس طرح ہوتا ہے.اگر صریح ہو تو اس پر حد ہے اور اگر کنایہ ہو جیسے یہ کہہ دے کہ اے فاسقہ، یا اے مواجرہ، یا اے ابنتہ الحرام تو اسے قذف نہیں سمجھا جائے گا جب تک اس کے ساتھ نیت نہ ہو.بلکہ عام طور پر یہ گالی سمجھی جائے گی اور اگر تعریضاً ہو جیسے کوئی کہے کہ میں تو زانی نہیں اور وہ اشارہ یہ کہنا چاہتا ہو کہ تو زانی ہے یا کسی کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ دے کہ اے ابن حلال اور اس کا مقصد یہ ہو کہ مخاطب ابن حلال نہیں تو امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک تو تعریض قذف نہیں لیکن امام مالک کے نزدیک قذف ہے اور امام احمد کے نزدیک غصہ کی حالت میں ایسا کہا گیا ہو تو قذف ہے ورنہ نہیں.لیکن میرے نزدیک جو کلام بھی کسی ایسے رنگ میں ثابت ہو جائے کہ اس کے سننے والوں پر کسی الزام کا اثر ڈالنا مقصود ہوتو وہ قذف ہے اور اس طرح قابل سزا ہے جس طرح آزاد آدمی اگر قذف کرے تو اس کے لئے اسی کوڑے سزا مقرر ہے اگر غلام قذف کرے تو اسکے لئے چالیس کوڑوں کی سزا مقرر ہے.لیکن اس کا فیصلہ قاضی کرے گا.پبلک کا کام نہیں کہ اس کا فیصلہ کرے.اگر غیر شادی شدہ عورت یا غیر شادی شدہ مرد پر کوئی قذف کرے تو قرآن کی رو سے اس پر کوئی حد نہیں ہاں قانون یا قاضی مناسب حال سزا اس کے لئے تجویز کرے گا.گویا ایسے مقدمہ کا فیصلہ صرف اس بناء پر ہوگا کہ قاضی اس کو مجرم قرار دیدے.اس کے بعد حکومت اس سے مجرموں والا سلوک کرے گی ورنہ نہیں.گویا اسلام نے دونوں کو پابند کر دیا.قاضی کو طریق شہادت سے پابند کر دیا اور حکومت کو قاضی کے فیصلہ سے پابند کر دیا اور اگر کوئی شخص کسی غیر محصنہ پر جس کو پہلے کبھی سزامل چکی ہو الزام لگائے تو اس کو تعزیر کی سزا ملے گی کیونکہ پھر عزت کا سوال نہیں بلکہ فتنہ ڈالنے کا سوال ہوگا.لیکن اگر الزام کسی ایسے شخص پر لگایا جائے جو مشہور بدنام اور آوارہ ہو اور
۲۷۹ حدود قاضی بھی اُسے بد نام اور آوارہ قرار دے دے تو پھر الزام لگانے والے کوصرف فتنہ پیدا کرنے کی سزادی جائے گی.یہ بھی فقہاء نے بحث کی ہے کہ گو یہاں محصنات کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.محسنین کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا مگر اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں وہ کہتے ہیں کہ جبکہ مردوں کے ذکر میں عورتیں شامل سمجھی جاتی ہیں تو عورتوں کے ذکر میں مرد کیوں نہ شامل سمجھے جائیں گے.پس وہ اس آیت کو مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے سمجھتے ہیں.پھر فقہاء نے یہ بھی کہا ہے کہ اس جگہ محصنات کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے اور محنین کا نہیں کیا گیا تو اس سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ گومر د بھی اس حکم میں شامل ہیں مگر عورتوں کی عزت بچانا سوسائٹی کا پہلا فرض ہے.کیونکہ جھوٹے الزاموں سے عورت کو زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور مرد کی عزت کو کم.اگر چار گواہ نہ ہوں وہ تین ہوں تو ان پر حد لگے گی اور اگر چار گواہ تو ہوں لیکن فاسق ہوں تب بھی بعض فقہاء کے نزدیک گواہوں پر حد لگے گی.لیکن میرے نزدیک حد نہیں لگے گی.کیونکہ فاسق قرار دینے کا فیصلہ قاضی کے اختیار میں تھا اور گواہ کو اس کا کوئی علم نہیں ہوسکتا تھا کہ مجھے فاسق قرار دیا جائے گا یا نہیں ہاں قاضی کو تعزیر کا اختیار ہوگا یعنی حالات کے مطابق سزا دینے کا تا کہ آئندہ احتیاط رہے اور جس پر الزام لگایا گیا ہو اس کی برأت کی جائے گی.قرآن کریم کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ قاذف کے علاوہ چار گواہ ہوں گے یعنی کل پانچ نہ کہ قاذف سمیت چار.بعض لوگوں نے اس بارہ میں اختلاف کیا ہے کہ شہادت ایک مقام پر ہوگی یا مختلف مقامات پر لیکن میرے نزدیک یہ بحث فضول ہے.قاضی جس طرح چاہے گواہی لے لےلیکن یہ ضروری ہے کہ گو مقام شہادت مختلف ہوں مگر جس واقعہ کی شہادت ہو وہ ایک ہی ہو تا کہ وہ احتیاط جو غلطی سے بچنے کے لئے کی گئی تھی ضائع نہ ہو جائے اور منصوبہ بازی کا ازالہ ہو جائے.یہ حکم اس زمانہ میں خوب یا درکھنے کے قابل ہے کیونکہ جس قدر بے حرمتی اور ہتک اس زمانہ میں اس کی ہورہی ہے اور کسی حکم کی نہیں ہو رہی.بلا دلیل اور بلا وجہ اور بلاکسی ثبوت کے محض کھیل اور تماشہ
۲۸۰ حدود کے طور پر دوسروں پر الزام لگائے جاتے ہیں اور قطعاً اس بات کی پرواہ نہیں کی جاتی کہ یہ کتنا بڑا گناہ ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کی کس قدر سزا مقرر کی ہوئی ہے.ایسا الزام لگانے والے کے لئے خدا تعالیٰ نے اسی کوڑے سزا رکھی ہے جو زنا کی سزا کے قریب قریب ہے.یعنی اس کے لئے سو کوڑے کی سزا ہے لیکن الزام لگانے والے کے لئے اسی کوڑے کھا لینے کے بعد بھی یہ سزا ہے کہ کبھی اس کی گواہی قبول نہ کرو.پھر اس پر بس نہیں بلکہ سزا اور زیادہ آگے بڑھتی ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا انسان خدا تعالیٰ کے حضور فاسق ہے اور جسے خدا تعالیٰ فاسق قرار دیدے اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ مومن اور متقی ہے یونہی خدا نے اس کا نام فاسق رکھ دیا ہے بلکہ اس میں یہ اشارہ مخفی ہے کہ الزام لگانے والا خود اسی بدی میں مبتلا ہو جائے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ بلاوجہ کسی کا نام نہیں رکھتا بلکہ جب بھی کسی کا کوئی نام رکھتا ہے تو اس کے مطابق اس میں صفات بھی پیدا کر دیتا ہے.( تفسیر کبیر جلد ششم.سورہ نور صفحه ۲۶۰ تا۲۶۲) زنا کی سزا سو کوڑے الزانية والزانى فاجلدوا كل واحد منهما مائة جلدة ( النور :٣) قرآن کریم کی اس آیت سے بالبداہت ثابت ہے کہ زانی مرد اور زانیہ عورت کی سزا ایک سو کوڑے ہے.اور سورہ نساء میں آتا ہے کہ یہ سزا ان عورتوں اور مردوں کے لئے جو آزاد ہوں.جو عورتیں آزاد نہ ہوں ان کی سزا بد کاری کی صورت میں نصف ہے یعنی پچاس کوڑے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فاذا أُحصِنَّ فان أتين بفاحشة فعليهن نصف ما على المحصنت من العذاب (النساء : ۲۶) یعنی جو عورتیں آزاد نہ ہوں دوسروں کے نکاح میں آجائیں تو اگر وہ کسی قسم کی بے حیائی کی مرتکب ہوں تو ان کی سزا آزاد عورتوں کی نسبت نصف ہوگی.اس آیت سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ مقرر سزا ایسی ہے جو نصف ہو سکتی ہے اور سو کوڑوں کی نصف پچاس کوڑے بن جاتی ہے.
۲۸۱ حدود لیکن بعض لوگ اس آیت کے متعلق یہ بیان کرتے ہی کہ یہ سزا بعد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی شکل میں بدل دی تھی.یعنی آپ نے یہ حکم دیا تھا کہ بجائے اس کے کوڑے مارے جائیں رحم کرنا چاہئے.لیکن ظاہر ہے کہ اگر یہ معنے کئے جائیں تو نہ صرف محولہ بالا آیت نور ہی منسوخ ہو جاتی ہے بلکہ سورہ نساء کی آیت بھی بالکل بے معنی ہو جاتی ہے کیونکہ اس میں بتایا گیا ہے کہ لونڈی کی سزا آدھی ہے اور رحم آدھا قیاس میں بھی نہیں آسکتا.پس اس آیت کی صریح اور واضح مفہوم کے ہوتے ہوئے اور سورہ نساء کی آیت کی تصدیق کی موجودگی میں یہ بات بغیر کسی شک وشبہ کے کہی جاسکتی ہے کہ قرآن کریم میں زنا کی سزا آزاد عورت اور مرد کے لئے سو کوڑے ہیں اور لونڈی یا قیدی کے لئے پچاس کوڑے ہیں.اب رہا یہ سوال کہ رجم کا دستور مسلمانوں میں کس طرح پڑا؟ سواس بارہ میں یہ یادرکھنا چاہئے کہ احادیث سے یہ امر ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدکار عورت اور مرد کے متعلق رجم کا حکم دیا.پس اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمانوں میں کبھی نہ کبھی اور کسی نہ کسی صورت میں رجم کا حکم یقینا تھا.سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ آیا رجم نے کوڑے مارنے کے حکم کو منسوخ کیا یا کوڑے مارنے کے حکم نے رجم کے حکم کو منسوخ کیا.یا یہ دونوں حکم ایک وقت میں موجود تھے.اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ اس حکم کے متعلق ناسخ اور منسوخ کا قاعدہ استعمال ہوا ہے تو ہمارے اپنے عقیدہ کے رو سے تو معاملہ بالکل صاف ہو جاتا ہے کیونکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ کوئی منسوخ حکم قرآن کریم میں موجود نہیں.قرآن کریم میں جتنے احکام موجود ہیں وہ سب غیر منسوخ ہیں.اس عقیدہ کے رو سے ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اگر رجم کا کوئی حکم تھا تو اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے تھا اور اس آیت نے اسے منسوخ کر دیا لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی اور حکم بعد میں نازل ہوا اور اس نے اس حکم کو منسوخ کردیا اور اگر کوئی حدیث اس کے خلاف ہے تو وہ مردود ہے کیونکہ وہ قرآن شریف کو ر ڈ کرتی ہے.نیز اگر یہ آیت منسوخ ہو گئی ہوتی تو پھر یہ قرآن سے نکال دی جاتی.یہ جو بعض فقہاء نے مسئلہ بنایا ہوا ہے کہ بعض آیتیں ایسی ہیں کہ تلاوتاً
۲۸۲ حدود قائم ہیں اور حکما منسوخ ہیں.یہ نہایت ہی خلاف عقل، خلاف دلیل اور خلاف آداب قرآنی ہے.ہم اس مسئلہ کو ہرگز تسلیم نہیں کرتے.ہمارے نزدیک اگر منسوخ آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں تو پھر سارے قرآن کا اعتبار اُٹھ جاتا ہے.بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض لوگوں کو رجم کر نامحض یہودی تعلیم کی اتباع میں تھا.لیکن اس کے بعد جب قرآن کریم میں واضح حکم آ گیا تو پہلا حکم بھی بدل گیا اور وہی حکم آج بھی موجود ہے جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے یعنی اگر کسی کی نسبت زنا کا جرم ان شرائط کے ساتھ ثابت ہو جائے جو قر آن کریم میں بیان ہوئے ہیں تو اسے سو کوڑے لگائے ہیں.66 کوڑوں کی تشریح قرآن کریم نے بیان نہیں فرمائی لیکن قرآنی الفاظ یہ بات ثابت ہے کہ کوڑا ایسی طرز پر مارا جانا چاہئے کہ جسم کو اس کی ضرب محسوس ہو کیونکہ جلدة بالسياط “ کے معنی ہوتے ہیں ضربه بها واصاب جلدہ (اقرب ) یعنی کوڑے سے اس طرز پر مارا کہ جلد تک اس کا اثر پہنچا.پس کسی چیز سے جس کی ضرب اتنی ہو کہ جسم محسوس کرے سزا دینا اور لوگوں کے سامنے سزاد بنا.اس حکم سے ثابت ہوتا ہے خواہ وہ کوڑا چمڑے کا نہ ہو بلکہ کپڑے کا ہو.یہ ضروری نہیں کہ وہ کوڑا وہی ہو جو جیسا کہ آج کل عدالتیں استعمال کرتی ہیں اور جس کی ضرب اگر سو کی حد تک پہنچے تو انسان غالبا مر جائے.سورہ نساء کی آیت نے ثابت کر دیا ہے کہ ایسے کوڑے مارنے ناجائز ہیں جن کے نتیجہ میں موت وارد ہو جائے ایسے کوڑے مارے جاسکتے ہیں اور اتنی ہی شدت سے مارے جاسکتے ہیں جن سے انسان پر موت وارد ہونے کے کوئی امکان نہ ہو.یعنی نہ تو کوڑا ایسا ہونا چاہئے جس سے ہڈی ٹوٹ جائے کیونکہ جلده بالسياط کے معنوں میں یہ بات داخل ہے کہ صرف جلد کو تکلیف پہنچے ہڈی کے ٹوٹنے یا اس کو نقصان پہنچے کا کوئی ڈر نہ ہو اور نہ ایسا ہونا چاہئے کہ اس کی ضرب سے انسان پر موت وارد ہونے کا کوئی امکان ہو.یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں صرف زانی یاز انسیہ کا لفظ نہیں رکھا بلکہ الزانية
۲۸۳ حدود والـزانــی کے الفاظ رکھے ہیں یعنی الف لام کی زیادتی کی گئی ہے اور الف لام کی زیادتی ہمیشہ معنوں میں تخصیص پیدا کر دیا کرتی ہے.پس اس جگہ الزانية والزانی سے صرف ایسا شخص مراد ہو سکتا ہے جو یا تو زنا کا عادی ہو یا علی الاعلان ایسا فعل کرتا ہو.اور اتنا نڈر اور بے باک ہو گیا ہو کہ وہ اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہ کرتا ہو کہ کوئی اس دیکھ رہا ہے یا نہیں یا اس میں شہوت کا مادہ تو نہ ہو پھر بھی وہ زنا کرتا ہو جیسے بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت.ان معنوں کے لحاظ سے حدیث کی بھی ایک رنگ میں تصدیق ہو جاتی ہے جس میں یہ ذکر آتا ہے:.الشيخ والشيخة اذازنيافارجموها البتة ایک بڑی عمر والا مرد یا ایک بڑی عمر والی عورت اگر زنا کریں تو ان کو پتھر مار مار کر مار دو.گویا الزانية والزانى كے معنى الشيخ و الشيخة کے ہی ہیں.( تفسیر کبیر جلد ششم سوره نور صفحه ۲۴۸ تا ۲۵۷ ملخصا) زنا کی سزا رجم نھیں سوال :.زنا کی سزا رجم کا ذکر قرآن مجید میں نہیں.احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سزا کو دیا.آیا حدیث کو ہم خلاف قرآن سمجھ کر ترک کر دیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کی کیا تشریح کریں؟ جواب :.احادیث ہر زمانہ کے متعلق ہیں.سزائے رجم کے متعلق احادیث قرآنی احکام نازل ہونے سے پہلے کی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ جب تک قرآن کریم میں معین احکام نازل نہ ہوئے آپ تو رات کے احکام کی تعمیل کرواتے تھے اور تورات میں رجم موجود ہے.پس اب رجم کی سز اسلام میں نہیں کوڑوں کی سزا ہے جو قر آن کریم میں مذکور ہے.فائل مسائل دینی اا.DP6269/15.1.51) ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ Stoning اسلام میں جائز نہیں.پرانے علماء کا عقیدہ تھا کہ سٹونگ
۲۸۴ حدود (Stoning) جائز ہے.حدیثیوں میں مذکور ہے لیکن قرآن اس کے خلاف ہے.ہمارے نزدیک شادی شدہ کی سزا کوڑے ہی ہوں گے سوائے اس کے کہ Adultry کا عادی ہو اور لڑکیوں کو خراب کرے.اس کو بے شک Stoning کا مستحق سمجھیں گے مگر شرائط وہی ہیں کہ چار عینی گواہ ہوں جو ملنے قریباً ناممکن ہوتے ہیں.فائل مسائل دینی 17.6.58/A-32) جانور کے ساتھ بدفعلی کرنے والے کی سزا سوال :.اگر کوئی شخص کسی جانور سے زنا کرے تو اس جانور کو قتل کر کے دفنا دیا جائے تو زانی پر حد قائم کیا جائے؟ جواب :.کیا لغو بات ہے جانور کے متعلق یہ خیال فاسد ہے.جانور کا کیا قصور اور کیا جانور ہر ایک جانور سے بغیر نکاح مجامعت نہیں کرواتا.آپ نے یہ مسئلہ کہاں سے نکالا.ایسا فعل کرنے والا انسان ایک خلاف فطرت فعل کا مرتکب ہے.جانور کا نہ قصور ، نہ وہ ذمہ وار، نہ زنا کا مسئلہ جانور کے متعلق ہے.( فائل مسائل دینی RP 7302/13.12.52.51- 65A) حد قذف اگر کوئی شخص اقرار کرنے کی بجائے کسی دوسرے پر اتہام لگائے تو جس پر انتہام لگایا جائے گا اس سے پوچھا بھی نہیں جائے گا اور نہ اس سے قسم یا مباہلہ کا مطالبہ کرنا جائز ہوگا.کیونکہ حدود میں قسم یا مباہلہ کرنا شریعت کی ہتک ہے اور یہی پرانے فقہاء کا مذہب ہے چنانچہ امام محمد اپنی کتاب مبسوط میں لکھتے ہیں:.والحدود لاتقام بالايمان (المبسوط.جلد ۹ صفحه ۵۰۲) یعنی جن امور کا فیصلہ بہر حال گواہوں کی گواہی پر منحصر ہوگا.پھر اگر کوئی الزام لگانے والا تین گواہ
۲۸۵ حدود بھی لے آئے تو ان گواہوں کو بھی اور اتہام لگانے والے کو بھی اسی اسی کوڑوں کی سزادی جائے گی کیونکہ انہوں نے ایک ایسی بات کہی جس کا ان کے پاس کوئی شرعی ثبوت نہیں تھا.کسی کا اپنے جرم کو ظاہر کرنا یا اس کا اقرار کر لینا یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ بڑا نیک ہے کیونکہ شریعت تو گناہ کو ظاہر کرنے سے روکتی ہے.جب تک قاضی کے سامنے شہادت کے موقع پر اس کا بیان کرنا از روئے شریعت ضروری نہ ہو.پس جو شخص بلا وجہ اپنی طرف بدکاری اور عیوب منسوب کرتا ہے اس کو تو شریعت شاہد عادل قرار نہیں دیتی کجا یہ کہ اس کے اقرار کوکوئی اہمیت دی جائے یا اسے اس کے تقویٰ کا ثبوت سمجھا جائے.( تفسیر کبیر جلد ششم تفسیر سوره نور صفحه ۲۶۵) خائن کی سزانه مقرر کرنے کی وجه سوال :.اس کی کیا وجہ ہے کہ چور کی تو یہ سزا رکھی گئی کہ اس کے ہاتھ کاٹے جائیں مگر خائن کو ایسی سزا نہیں دی گئی حالانکہ بعض اوقات خائن چور سے بھی زیادہ نقصان پہنچا دیتا ہے؟ جواب :.یہ اس لئے کہ خائن کے متعلق اپنا اختیار ہوتا ہے.چاہے ہم اس کے پاس اپنا مال ام کا رکھیں چاہے نہ رکھیں اور جب ایک دفعہ کسی شخص کی خیانت لوگوں پر واضح ہو جائے تو ناممکن ہے کہ کوئی دوسرا اس کے پاس پھر مال بطور امانت رکھے.لیکن چور کے متعلق ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا وہ بغیر ہمارے علم کے آتا ہے اور مال چرا کر لے جاتا ہے.پس اس وجہ سے خائن کے لئے وہ سزا تجویز نہیں کی گئی جو چور کے لئے رکھی گئی ہے کیونکہ چور پر ہمارا اپنا اختیار نہیں ہوتا انسان بے بس ہوتا ہے اور لاعلمی میں اس کا مال چرالیا جاتا ہے.لیکن خائن کے متعلق دنیا کو علم ہو جاتا ہے که یہ امین نہیں.اس لئے جب یہ علم ہو جاتا ہے تو کوئی شخص اس کے پاس امانت رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور اگر رکھے تو یہ اس کا اپنا قصور ہو گا.پس چونکہ ان دونوں میں فرق ہے اس لئے سزا بھی علیحدہ رکھی گئی.الفضل ۳۰ / مارچ ۱۹۳۱ء - جلد ۱۸.نمبر۱۱۳)
۲۸۶ حدود کیا امام وقت قرآنی سزا کوموقوف کرسکتاہے سوال :.قرآن مجید میں جو شرعی سزا ئیں جرائم کی مقرر کی گئی ہیں کیا امام وقت بعض حالات میں ان کو موقوف کر سکتا ہے اور اس کی جگہ دوسری سزائیں رکھ سکتا ہے؟ جواب:.ایسی کوئی سزا نہیں جسے منسوخ کرنے کی ضرورت ہو اور اس کی بجائے کسی نئی شریعت کے احکام کی ضرورت ہو.یہ ان لوگوں کا نظریہ ہے جو مغربی خیالات کے خلاف کہنے سے ڈرتے ہیں.یہ لوگ ابن الوقت ہیں.جو طاقت زمانہ میں زیادہ ہواس کے آگے سر جھکا دیتے ہیں.ایسے لوگوں سے پوچھ کر مجھے لکھیں کہ کون سے احکام کے بدلنے کی ضرورت ہے اور وہ اس وقت نا قابل عمل ہیں.ہاں قرآنی اصول کے مطابق ناواقفیت سزا کو ہلک یا موقوف کر دیتی ہے.سواگر کوئی قوم حدیث العہد بالا سلام ہو یا زمانہ میں جاہلیت کا دور دورہ ہو تو تعلیم کے مکمل ہونے تک سزاؤں میں اسلامی حاکم تخفیف کر سکتا ہے اور یہ شریعت کا بدلنانہ ہوگا بلکہ تعلیمی دور کہلائے گا.( فائل مسائل دینی نمبر 11-6269/15.1.51 RP) سٹرائك و هڑتال لیبر پارٹی اور مزدوروں اور کسانوں کی انجمن کے متعلق جماعت احمدیہ کے سابقہ رویہ میں تبدیلی.احباب کو معلوم ہے کہ جماعت احمدیہ کا سابق رویہ یہ رہا ہے کہ کسی قسم کی لیبر انجمنوں کی تحریک وغیرہ میں ہماری جماعت کے لوگ حصہ نہ لیں کیونکہ ایسی مجالس بعض دفعہ سٹرائک کا اعلان کرتی ہیں اور سٹرائک کرنے کو ہماری جماعت اس لئے نا پسند کرتی ہے کہ اس میں زبر دستی اور زور کا دخل ہے.جہاں تک اصول کا سوال ہے ہم اب بھی اسی اصل کو مانتے ہیں لیکن جہاں تک قانون کا سوال ہے میں دیکھتا ہوں کہ پاکستان گورنمنٹ نے بھی اور دنیا کی اور بہت سی گورنمنٹوں نے بھی
۲۸۷ حدود سٹرائک وغیرہ کے اصول کو تسلیم کر لیا ہے اور اس کو جائز قرار دے دیا ہے.گو بعض شرائط اس پر لگادی ہیں.اس لئے چونکہ قانون ایک چیز کو جائز قرار دیتا ہے کوئی وجہ نہیں کہ اس سے ہماری جماعت کے لوگ فائدہ نہ اُٹھا ئیں.پس اس اعلان کے ذریعہ سے میں جماعت کے لوگوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آئندہ شوریٰ کے فیصلہ تک ہماری جماعت کے مزدور یا ملازم اپنے پیشہ کی انجمنوں یا لیبر تحریکوں میں حصہ لے سکتے ہیں.صرف اس شرط کے ساتھ کہ وہ کسی ایسی سٹرائک میں شامل نہ ہوں جس کو قانونا نا جائز قرار دیا گیا ہو.باقی اپنے پیشہ کے لوگوں کی ترقی کے لئے ہر قسم کی جدو جہد وہ کر سکتے ہیں اور جو سٹرائک قانونا جائز ہے اس میں وہ حصہ لے سکتے ہیں لیکن میں نے بتایا ہے کہ ان کو یقین یہی رکھنا ہو گا کہ سٹرائک بذاتہ نا جائز ہے.لیکن چونکہ ملک کا قانون اور حکومت کا طریق ایسا ہے کہ سٹرائک کے بغیر حقوق حاصل کرنے کا کوئی راستہ اس نے نہیں کھولا اور اسی وجہ سے اس نے خود سٹرائک کو اکثر حالات میں جائز قرار دے دیا ہے.اس لئے ان مجبوریوں کی وجہ سے ایک احمدی ایسی انجمنوں میں حصہ لیتا ہے.اگر یہ حالات بدل جائیں اور حکومت ایسے قوانین بنادے کہ جن کے ذریعہ سے مزدور اور ملازم پیشہ لوگ اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہوں تو قانوناً بھی اور شرعاً بھی سٹرائک نا جائز ہو جائے گی.ہماری جماعت کے لئے بڑی دقت یہی تھی کہ جب وہ ایسی انجمنوں میں شامل ہوتے تھے تو ان سے سوال کیا جاتا تھا کہ کیا آپ لوگ سٹرائک میں شامل ہوں گے؟ اور احمدی کہتے تھے نہیں کیونکہ ہمارے نزدیک یہ جائز نہیں لیکن چونکہ اب رائج الوقت قانون نے دو قسم کی سٹرانگیں قرار دے دی ہیں ایک جائز اور ایک ناجائز.اس لئے احمدی کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہر قسم کی جائزہ کوشش میں حصہ لیں گے اور جائز سٹرائک میں بھی حصہ لیں گے لیکن اگر کوئی خلاف قانون سٹرائک ہوئی تو ہم حصہ نہیں لیں گے اور اگر کسی عہدہ پر ہوئے تو اس سے استعفیٰ دے دیں گے اس صورت میں میں سمجھتا ہوں کہ جوشکوہ مزدوروں اور ملازموں کی انجمنوں کو احمدیوں سے تھا وہ بہت حد تک کم ہو جائے گا اور ان کی غلطی بہت حد تک دور ہو جائے گی.
۲۸۸ حدود پس اس اعلان کی روشنی میں احمدی اپنے پرانے طریق کو بدل لیں اور اپنے پیشے یا اپنے محکمہ کی ایسی انجمنوں میں شامل ہو جائیں جو کہ اس پیشہ یا اس محکمہ کے ملازموں کے حقوق کے لئے بنائی گئی ہیں اور اگر ایسی سٹرائک اس محکمہ یا کارخانہ کے کارکن کریں جس کو قانون منع نہیں کرتا تو بے شک اس سٹرائک میں بھی شامل ہو جائیں کیونکہ حکومت امن کی ذمہ وار ہے جب وہ ایک سٹرائک کو جائز قرار دیتی ہے تو ہمارے لئے اس کونا جائز قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں.خصوصا جبکہ حکومت کی پالیسی کے بنانے میں ہمارا کوئی اختیار نہیں.میں اس مسئلہ کو ایک دفعہ جماعت کی مجلس شوری کے سامنے بھی رکھوں گا اور مجلس شوریٰ میں غور کرنے کے بعد جو فیصلہ ہوگا وہ آخری فیصلہ ہوگا مگر میں جماعت کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے از خود ہی موجودہ اعلان کر رہا ہوں.اگر بعد میں کسی تبدیلی کی ضرورت سمجھی گئی تو وہ صیح کی جائے گی.مرز امحمود احمد ۲۱/۸/۵۲ ( الفضل ۲۴ اگست ۱۹۵۲ء صفحه ۲) قانون شکنی کی تلقین کرنے والوں سے هم کبھی تعاون نہیں کرسکتے بعض جماعتیں ایسی ہیں جو بغاوت کی تعلیم دیتی ہیں، بعض قتل و غارت کی تلقین کرتی ہیں، بعض قانون کی پابندی کو ضروری نہیں سمجھتیں.ان معاملات میں کسی جماعت سے ہمارا تعاون نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ہماری مذہبی تعلیم کے خلاف امور ہیں اور مذہب کی پابندی اتنی ضروری ہے کہ چاہے ساری گورنمنٹ ہماری دشمن ہو جائے اور جہاں کسی احمدی کو دیکھے اسے صلیب پر لٹکا نا شروع کر دے پھر بھی ہمارا یہ فیصلہ بدل نہیں سکتا کہ قانون شریعت اور قانون ملک کبھی نہ تو ڑا جائے.اگر اس وجہ سے ہمیں شدید ترین تکلیف بھی دی جائیں تب بھی یہ جائز نہیں کہ ہم اس کے خلاف چلیں.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ہم اس ملک کو چھوڑ دیں اور کسی اور ملک میں چلے جائیں.(الفضل ۶ راگست ۱۹۳۵ء صفحه ۱۰)
۲۸۹ سوال :.ملتان کا نفرنس میں ہماری یونین نے فیصلہ کیا ہے کہ ا را کتوبر کو ہڑتال کریں؟ جواب :.پرائیویٹ سیکرٹری ۱۹/۹/۵۹ حضور نے سٹرائک کو جائز قرار نہیں دیا.حدود (رجسٹر اصلاح وارشاد ) اصول شهادت سلسلہ کی عدالتوں میں شہادت کے متعلق یہ اصول رہے گا کہ جن امور کے متعلق بیان دینے سے شریعت نے روک دیا ہے.اگر ان کے متعلق دوران شہادت میں قاضی کوئی سوال کرے تو گواہ کو کہہ دینا چاہئے کہ اس کے جواب میں مجھے ایسی باتیں ظاہر کرنی پڑیں گی جن میں حدود شریعہ کا سوال آجائے گا.اس لئے مجھے جواب دینے سے معذور سمجھا جائے.اگر اس کے بعد قاضی پھر مجبور کرے کہ سوال کا جواب دیا جائے تو ایسی صورت میں گواہ کو یہ کہنا چاہئے کہ اس امر کے متعلق مجھے اپیل کا موقع دیا جائے.جس پر عدالت کا فرض ہوگا کہ مقدمہ کی کارروائی کو روک کر مناسب موقع پر اپیل کر دے.اگر عدالت مرافع بھی گواہ کے خلاف اپیل کرے تو اس کا فرض ہوگا کہ اس امر کے متعلق خلیفہ وقت کے سامنے اپیل کرے.پھر اگر خلیفہ وقت بھی فیصلہ کرے کہ اسے اس سوال کا جواب دینا چاہئے تو اس کا فرض ہوگا کہ سوال کا جواب دے.لیکن اس صورت میں آیت گواہ ایسے الزام سے جو اس سوال کے جواب سے اس پر یا کسی دوسرے میں آیت گواہ ایسے الزام سے جواس سوال کے جواب سے اس پر یا کسی دوسرے پر عائد ہوتا ہے.بری سمجھا جائے گا لیکن بہر حال کوئی گواہ کسی عدالت کے سامنے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس سوال کا جواب نہیں دوں گا.ایسا کہنا عدالت کی بہتک سمجھا جائے گا.وہ صرف اپیل کی اجازت لے سکتا ہے نیز اگر وہ اپیل کئے بغیر ایسے سوال کا جواب دیدے تو بھی وہ مجرم سمجھا جائے گا.اور اس حصہ شہادت کو مسل سے خارج کیا جائے گا.(فائل فیصلہ جات خلیفہ وقت نمبرا - صفحه ۳۴.دارالقضاء، ربوہ)
۲۹۰ حدود ثبوت کے بغیر دعویٰ قابل قبول نھیں الْخَبِيثُتُ لِلْخَبِيثِينَ (النور : ۲۷) بعض لوگ اس آیت کے یہ معنے کرتے ہیں کہ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لئے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لئے ہیں لیکن یہ معنے واقعات کے بھی خلاف ہیں اور عقل کے بھی خلاف ہیں.قرآن کریم نے حضرت لوط اور حضرت نوح کی بیویوں کو مجرم قرار دیا ہے تو کیا حضرت لوط اور حضرت نوح کو بھی مجرم قرار دیا جائے گا.یہ آیت در حقیقت ایک عام قانون پر مشتمل ہے اور اس میں بتلایا گیا ہے کہ الزام قبول کرنے سے پہلے ملزم کی عام حیثیت کو دیکھ لو اگر وہ عام طور پر نیک سمجھا جاتا ہے تو بادی النظر میں الزام کو فوراً جھوٹا قرار د ید و.اسی طرح یہ بھی دیکھ لو کہ الزام لگانے والے کن اخلاق کے آدمی ہیں اور آیا وہ گواہ عادل ہیں یا نہیں.اگر وہ راستباز نہ ہوں یا ان کی دماغی کیفیت قابل تسلی نہ ہو تو ان کی گواہی کو کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں سمجھا جائے گا.تاریخ قضاء میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے امام ابن تیمیہ کے خلاف ایک دعویٰ کیا.قاضی نے آپ کے خلاف سمن جاری کر دیا.اتفاقاً آپ اس سے ملنے چلے گئے.قاضی نے اُن سے ذکر کیا کہ ایسا ایسا دعوئی آپ کے خلاف ہوا ہے اور میں نے سمن جاری کیا ہے.امام ابن تیمیہ نے کہا کہ آپ نے قرآن وحدیث کے خلاف کیا ہے.آپ کو سمن جاری کرنے سے پہلے معاملہ کی تحقیق کرنی چاہئے تھی کیونکہ میری شہرت اس الزام کے خلاف ہے.پس چاہئے تھا کہ آپ مدعی سے ثبوت طلب کرتے اور اگر کوئی معقول ثبوت اس کے پاس ہوتا تو پھر بے شک مجھے اپنی برات پیش کرنے کے لئے بلاتے.قاضی نے ان کی اس دلیل کو قبول کر لیا اور ان کے سمن کو منسوخ کر دیا.( تفسیر کبیر جلد ششم تفسیر سوره النور - صفحه۲۹۱،۲۹۰)
۲۹۱ حدود اسلامی سزاؤں کا اصول اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سزا کے متعلق فرماتا ہے کہ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا (الشورى : ۴۱) کہ اصول سزا کا یہ ہے کہ جیسا جرم ہو اس کے مطابق سزا ہو.دوسرے قرآن اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سزا کی برابری سے مراد اس کی ظاہری شکل نہیں ہوتی.یہ نہیں کہ کوئی عورت گزر رہی ہو اور کوئی بد معاش اسے چھیڑے یا اس کا برقع اتار لے تو سزا دیتے وقت اس کی بیوی یا بہن کو بلایا جائے اور اس کا برقع اتارا جائے بلکہ برابری سے مراد باطنی برابری ہے گو بعض جگہ ظاہری شکل بھی لی جاتی ہے.خصوصاً جسمانی حملہ کی صورت میں لیکن عام طور پر باطنی شکل لی جاتی ہے جیسے زنا ہے اس کی سزا شریعت نے بعض حالتوں میں کوڑے اور بعض حالتوں میں سنگساری رکھی ہے گوسنگساری کی سزا میں اختلاف ہے مگر میں اس وقت مسئلہ بیان نہیں کر رہا بلکہ ایک مثال دے رہا ہوں.اب زنا کا کوڑوں یا سنگساری سے کیا تعلق ہے.صاف پتہ لگتا ہے کہ سزا کی برابری سے مراد ظاہری شکل کی برابری نہیں.مگر جسمانی ایڈا کے متعلق عام طور سزا میں ظاہری شکل قائم رکھی جاتی ہے.قرآن کریم میں آتا ہے.الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ اگر زید بکر کو یا بکر زید کو جسمانی طور پر کوئی ایذا دیتا ہے اور زید بڑا آدمی ہے تو یہ نہیں ہوگا کہ اگر بکر نے زید کو ایک لٹھ ماری ہے تو زید کے بڑے ہونے کی وجہ سے بکر کو پانچ سولھ ماری جائیں.اس نے اگر ایک سوئی ماری ہے تو اسے بھی ایک ہی سوئی ماری جائے گی.اس خیال سے دو نہیں ماری جائیں گی کہ زید بڑا اور بکر چھوٹا ہے.تیسرے شریعت اسلامی نے ایذا اور اس کے نتیجہ کو الگ الگ جرم قرار دیا ہے.اس بارہ میں شریعت اسلامی انگریزی قانون سے مختلف ہے.انگریزی قانون کے ما تحت اگر کوئی شخص کسی کو قتل کرتا ہے تو اسے قتل کی ہی سزا دی جائے گی.وہ یہ نہیں دیکھیں گے کہ کس طرح قتل کیا گیا.فرض کرو ایک شخص گولی مار کر دوسرے کو مارد بتا یا تلوار چلا کر اس کی گردن اڑا
۲۹۲ حدود دیتا ہے یا اپنی طرف سے تو اسے مار دیتا ہے لیکن وہ چند دن بیمار رہ کر مرتا ہے.اب مارنے والے کی نیت فوری طور پر اسے مارنا تھی.یہ نہیں تھی کہ ایذا دیدے کر مارے.گو یہ الگ بات ہے کہ وہ ایذا سہہ سہہ کر مرالیکن ایک اور شخص ہے وہ اپنے دشمن کو پکڑتا ہے اور پہلے اس کی ایک انگلی کاٹتا ہے پھر دوسری پھر تیسری پھر چوتھی.اس طرح وہ ایک ایک کر کے دوسرے ہاتھ کی انگلیاں کا تا ہے.پھر پاؤں کی انگلیاں کا تا ہے پھر ناک کاٹ دیتا ہے پھر آنکھیں نکال دیتا ہے اور اس طرح ایذا دیدے کر مارتا ہے.ہماری شریعت ایسے موقعوں پر ایڈا کی الگ سزا دے گی اور قتل کی الگ دے گی.اگر قاتل نے فوری طور پر قتل کیا ہے تو اسے بھی قتل کر دیا جائے گا.اور اگر اس نے ایذا دے دے کر مارا ہے تو اسے بھی ایذا دے دے کر مارا جائے گا.جیسے احادیث میں آتا ہے کہ کچھ لوگ بعض صحابہ کو پکڑ کر لے گئے اور لوہے کی گرم گرم سلاخیں انہوں نے ان کی آنکھوں میں پھیر میں اور پھر قتل کر دیا.جب وہ پکڑے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں بھی اسی طرح مارو.پہلے لوہے کی سلاخیں گرم کر کے ان کی آنکھوں میں ڈالو اور پھر قتل کر دو.الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۳۵ء.جلد ۲۳ نمبر ۲۱ صفحہ ۷ ) نفاذ قانون قضاء کا کام ھے قانون کی پابندی اسلام ہمیں قانون کی پابندی کا حکم دیتا ہے اور ہمیں کسی امر کی صداقت کا خواہ کس قدر بھی یقین ہو وہ ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ ہم اپنے یقین کی وجہ سے کسی کو خود ہی سزا دے دیں اور اگر ہم ایسا کریں تو اسلام ہمیں مجرم ٹھہراتا ہے اور قابل سزا گر دانتا ہے.اس امر میں اسلام نے اس قدر سختی سے کام لیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سزادینے والے کو ویسا ہی مجرم قرار دیا ہے جیسا کہ بلاوجہ حملہ کرنے والے کو.چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ اگر کوئی شادی شدہ زنا کرے تو اس کی سزار حجم ہے.آپ نے فرمایا کہ ہاں.
۲۹۳ حدود اس نے کہا یا رسول اللہ اس صورت میں اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اپنی بیوی سے بدکاری کرتے ہوئے دیکھے اور اسے قتل کر دے تو اس پر کوئی گناہ تو نہ ہوگا.آپ نے فرمایا سزادینا اس کا کام نہیں.یہ عدالت کا کام ہے.( الفضل ۲۰ اگست ۱۹۳۷ء)
۲۹۵ معاملات
۲۹۷ معاملات فسخ بيع یہ مسئلہ کوئی شرعی نہیں بلکہ اس کا فیصلہ عرف عام پر ہوسکتا ہے.اگر مشتری جان بوجھ کر دیر کرے جس سے بائع کا نقصان ہونا ممکن ہو تب اس پر ہر جانہ ڈالا جاسکتا ہے یا بعض حالات میں بیع فسخ کی جا سکتی ہے لیکن جب دیر صرف بارہ تیرہ گھنٹہ کی ہے کیونکہ اگر وہ اس دن صبح بھی آجاتے تب بھی رجسٹری کروا سکتے تھے.اور آتے ہی انہوں نے مکان کی خرید پر آمادگی ظاہر کی ہے اس لئے یہ دیر نہ تو جان بوجھ کر کی گئی ہے اور نہ اس نے بائع کا حقیقتاً کوئی نقصان ہوا ہے.اس لئے بیع قائم ہے اور بائع پر اپنی شرط پوری کرنی واجب ہے.معاهده مضاربت (فائل فیصلہ جات نمبر ۲.دارالقضاء، ربوہ ) اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو اس معاہدہ کے تحت روپیہ دے کہ وہ اسے تجارت پر لگائے اور جو نفع ہو وہ ایک معین نسبت سے ( مثلاً نصف نصف) باہم تقسیم ہو اور اگر نقصان ہوتو کام کرنے والے کی محنت ضائع اور روپیہ دینے ولے کا اسی قدر روپیہ ضائع ہوگا.تو کاروبار کی یہ صورت مضاربت یا قراض کہلاتی ہے جو اسلام میں جائز ہے.اس میں روپیہ دینے والے کا اس روپیہ پر تصرف جاری رہتا ہے.جس تصرف کے لئے تفصیلی شرایط فریقین کے درمیان طے کی جاسکتی ہیں.قرض میں یہ تصرف والی صورت نہیں ہوتی.الفضل ٢ / مارچ ۱۹۶۱ء) فیصلہ افتاء جسے حضور نے منظور فرمایا.فیصلہ نمبر ۳.نمبر ۳) بیع سلم سوال :.اگر کوئی شخص کسی سے یہ معاہدہ کرتا ہے کہ تیرا جتناغلہ ہوگا وہ میں خریدلوں گا اور بھاؤ مقرر
۲۹۸ معاملات کر کے کچھ بیعانہ بھی دے دیتا ہے تو کیا یہ سٹہ ہوگا ؟ جواب :.حضور نے فرمایا.یہ سٹہ نہیں ، یہ سودا ہے اور اس میں گندم موجود ہے جس کا سودا کیا گیا ہے.سٹہ میں یہ نہیں ہوتا.اُس میں تو چیز کے ہونے کا امکان ہی نہیں ہوتا.اگر کوئی فصل نکلنے سے پہلے نرخ مقرر کر لیتا ہے ایسا نرخ جو امکان کے اندر اندر ہو اگر غیر معمولی طور پر نرخ بڑھاتا ہے تو یہ لغو ہوگا ) اور جتنی رقم کا غلہ خریدنا چاہے وہ پیشگی دے دے تو یہ جائز ہے اور یہ بیع سلم ہے.اسی طرح غلہ دینے والا اگر یہ کہے کہ جیسی بھی گندم ہوگی چاہے خراب ہو چا ہے اچھی.وہ لینی ہوگی تو یہ ناجائز ہوگا.دراصل غیر معین چیز کا سودا کرنا نا جائز ہے.حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر غلہ کا ڈھیر پڑا ہو اور غلہ والا خریدار سے کہے کہ یہ جو غلہ پڑا ہے یہ لیتے ہوتو یہ نا جائز ہے.آپ نے ایک دفعہ غلہ کے ڈھیر میں ہاتھ ڈال کر اندر غلہ نکال کر دکھایا کہ وہ گیلا تھا.بیع سلم میں پہلے یہ بات طے ہو جانی چاہئے کہ اس قسم کی گندم دی جائے گی سفید یا سرخ اور خرید نے والا سارا روپیہ پہلے دے دے اور اگر وہ اس وقت تھوڑا روپیہ دے تو شرط یہ ہو کہ غلہ نکلنے کے وقت جو منڈی کا بھاؤ ہو گا وہ لوں گا اس طرح گویا اس کی غرض سودا کرنا ہوگی.الفضل ۳۰ مئی ۱۹۳۳ء - جلد ۲۰ نمبر ۱۴۲ صفحه ۹) اجاره و احتکار جب فتح خیبر ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ زمین اپنے خاندان کے لئے وقف کر دی جس سے ان کے گزارہ کا سامان ہوتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زمینوں پر خود کام نہیں کرتے تھے بلکہ جس طرح اجارہ پر زمین دی جاتی ہے وہ زمین دوسروں کو دے دی گئی تھی اور اس سے جو حصہ آتا تھا وہ آپ خاندان میں تقسیم کر دیتے تھے.الفضل ۶ / جنوری ۱۹۶۰ء صفحه ۲ خطبه جمعه فرموده ۱۹ اگست ۱۹۴۹ء) سوال :.موجودہ طریقہ تجارت میں بعض اشیاء کو اس کے موسم پر سٹاک کر کے اس کے بعد
۲۹۹ معاملات فروخت کیا جاتا ہے.کیا ایسی تجارت کی اجازت ہے؟ جواب :.عموماً مال کو روکنے کو شریعت نے پسند نہیں کیا.خصوصاً جبکہ ملک کو ایسے مال کے چکر میں آنے کی ضرورت ہو.فائل مسائل دینی 16.5.59 -32) حق شُفَع فی الحال فیصلہ یہی ہے کہ شفع بغیر اشتراک راستہ کے نہیں چل سکتا.راستہ سے مراد وہ راستہ ہے جو پرائیویٹ ہو.ان دونوں میں مشترک ہو.اس کے علاوہ کوئی شفع نہیں.ہاں ایک شخص اس بناء پر دعوئی کر سکتا ہے کہ اسے اس زمین یا مکان کی فروخت سے کوئی حقیقی نقصان خواہ مالی ہو خواہ اخلاقی خواه مدنی پہنچتا ہے.اس صورت میں نالش کرنے والے پر بار ثبوت ہوگا کہ وہ ان امور کو ثابت کرے.محض تخمین و قیاس پر اس کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا.الفضل ۶ فروری ۱۹۴۴ء.جلد۳۲ نمبر ۳۲ - صفحه ا قرض کی تعریف روپیہ یا کوئی اور چیز جس کی مثل ہوتی ہو.کسی شخص کو اس معاہدہ پر دی جائے کہ وہ اس کی مثل واپس کرے گا ( نہ کم نہ زیادہ ) قرض کہلاتا ہے.( الفضل ٢ / مارچ ۱۹۶۱ء صفحه ۴ ) فیصلہ افتاء جسے حضور نے منظور فرمایا.فیصلہ نمبر ۲.نمبرا) تجارتی قرضه ایک شخص نے دوسرے شخص کو تجارت کے لئے روپیہ دیا اور نفع لینے کی شرط کی.لیکن نقصان کی
۳۰۰ معاملات ذمہ داری قبول نہیں کی بلکہ اپنے روپیہ کو قرض قرار دیا.معاملہ کی یہ صورت مضاربت یعنی تجارت کی ہے.قرض کی شرط فاسد ہے اور تجارت کا یہ معاہدہ صحیح ہے.( الفضل ٢ / مارچ ۱۹۶۱ء صفحه ) فیصلہ افتاء جسے حضور نے منظور فرمایا.فیصلہ نمبر ۳.نمبر ۴ ،الف) قرض پر منافع لینے کی شرط اگر کسی نے خالص قرض دیا ہو لیکن ساتھ منافع لینے کی شرط کی ہو تو قرضہ کی رقم کے بارہ میں شرعی حکم کیا ہے؟ فیصلہ:.ایسی صورت میں اگر مقروض سے اصل رقم وصول ہو سکتی ہو.ان معنوں میں کہ وہ رقم ادا کر سکتا ہے تو مقروض سے اصل رقم دلوائی جائے گی اور منافع معین کی شرط باطل ہوگی اور اگر نہ دے سکتا ہو تو قضاء قرضہ کی رقم نہیں دلوائے گی.(الفضل ۲ / مارچ ۱۹۶۱ء صفحه ۴ ) فیصلہ افتاء جسے حضور نے منظور فرمایا.فیصلہ نمبر ۳.نمبر ۵،الف) سوال :.روپیہ بطور قرض لیا گیا.تحریر میں قرض لکھا گیا.معاوضہ یا نفع کا اس میں کوئی ذکر نہ ہوا.اگر چہ روپیہ لیتے وقت قرض خواہ نے زبانی طور پر بلا مطالبہ مقرض، غیر معین منافع کالالچ دیا.قرض خواہ نے کچھ عرصہ بعد کچھ رقم غیر معین منافع کے طور پر بلا مطالبہ منقرض کو دی.مقرض نے وہ قبول کر لی.اس کے بعد نقصان ہو گیا.اور سارا روپیہ ضائع ہو گیا.کیا روپیہ دینے والا (مقرض ) اس نقصان میں شریک ہوگا.اگر شریک نہیں ہوگا تو وصول کردہ منافعہ کی کیا صورت ہوگی.کیا وہ اصل رقم میں سے وضع کیا جائے گا یا نہیں؟ جواب :.الف.سوال میں معاہدہ کی جو شکل ذکر کی گئی ہے، مجلس افتاء کے نزدیک وہ قرض کی شکل ہے اور جائز ہے.
معاملات ب.وصول کردہ منافع کی رقم اصل قرض سے وضع کی جائے گی.(الفضل ۸/اگست ۱۹۶۲ء صفحه ۵) فیصلہ مجلس افتاء جسے حضور نے منظور فرمایا.فیصلہ نمبر ۸) قرض دیتے وقت اسے ضبط تحریر میں لانا ضروری ھے ولا تسئموا ان تكتبوا صغيرا او كبيرا الى اجله ) کی آیت میں ) دوسرا سبب قومی تنزل کا یہ بتایا ہے کہ لین دین کے معاملات میں احتیاط سے کام نہیں لیا جاتا.قرض دیتے وقت تو دوستی اور محبت کے خیال سے نہ واپسی کی کوئی میعاد مقرر کرائی جاتی ہے اور نہ اسے ضبط تحریر میں لایا جاتا ہے اور جب روپیہ واپس آتا دکھائی نہیں دیتا تو لڑائی جھگڑا شروع کر دیا جاتا ہے.یہاں تک کہ مقدمات تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور تمام دوستی دشمنی میں تبدیل ہو کر رہ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپس کے تعلقات کو خراب مت کرو اور قرض دیتے یا لیتے وقت ہماری ان دو ہدایات کو محوظ رکھو.اول یہ کہ جب تم کسی سے قرض لوتو اس قرض کی ادائیگی کا وقت مقرر کر لو.دوم.روپیہ کا لین دین ضبط تحریر میں لے آؤ.اس شرط کا ایک بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اس طرح مقروض کو احساس رہتا ہے کہ فلاں وقت سے پہلے پہلے میں نے قرض ادا کرنا ہے اور وہ اس کی ادائیگی کے لئے جدو جہد کرتا رہتا ہے اور پھر ایک اور فائدہ یہ ہے کہ قرض لینے والا ایک معین میعاد تک اطمینان کی حالت میں رہتا ہے اور اسے یہ خدشہ نہیں رہتا ہے کہ نہ معلوم قرض دینے والا مجھ سے کب اپنے روپیہ کا مطالبہ کر دے.غرض اس میں دینے والے کا بھی فائدہ ہے اور لینے والے کا بھی.قرض دینے والے کا فائدہ تو یہ ہے کہ مثلاً ایک مہینے کا وعدہ ہے تو وہ ایک مہینہ کے بعد جا کر طلب کرے گا یہ نہیں کہ اس کو روز روز پوچھنا پڑے اور قرض لینے والے کا فائدہ یہ ہے کہ جب وہ قرض لینے لگے گا تو سوچے گا کہ میں جتنے عرصے میں ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہوں، اتنے عرصہ میں ادا کر سکوں گا یا نہیں.اس کے علاوہ یہ شرط اس لئے
معاملات بھی عائد کی گئی ہے کہ بعض کمزور لوگ اعتراض کر سکتے تھے کہ ہم سود پر روپیہ اس لئے دیتے ہیں کہ قرض لینے والے کو اس کی ادائیگی کا فکر رہتا ہے اور وہ کوشش کرتا ہے کہ جلد اس قرض سے سبکدوش ہو جاؤں.لیکن اگر سود نہ لیا جائے تو اسے ادا ئیگی کا احساس نہیں رہتا.اس وسوسہ کے ازالہ کے لئے فرمایا کہ جب تم ایک دوسرے کو قرض دو تو معاہدہ لکھوالیا کرو کہ فلاں وقت کے اندراندر ادا کر دوں ا.تا کہ تمہارا روپیہ بھی محفوظ رہے اور دوسرے شخص کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس رہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر قرض الی اجل مسمی پر تو لکھ لیا کرو اور اگر الی اجل مسمی نہ ہو تو بے شک ن لکھو.اس لئے کہ جب کوئی شخص کسی کو قرض دیتا ہے تو بہر حال ایک اجل مسمی کے لئے ہی دیتا ہے خواہ وہ میعاد تھوڑی ہو یا بہت.اس کے بعد وہ اسے وصول کرنے کا حقدار ہوتا ہے.یہ تو کبھی نہیں ہوا کہ کسی نے دوسرے کو قرض دیا ہو اور پھر اس کے واپس لینے کا اس کے اندر کوئی احساس ہی نہ ہو.حدیث یا امداد کے رنگ میں اگر کسی کوکوئی رقم دی جائے تو وہ ایک علیحدہ امر ہے لیکن جس چیز پر قرض کے لفظ کا اطلاق ہوگا وہ بہر حال الی اجل مسمی ہی ہو گی خواہ زبان سے کوئی میعاد مقرر کی جائے یانہ کی جائے.ہاں اگر خاص وقت کے لئے قرض نہیں بلکہ یونہی ایک دو گھنٹہ کے لئے یا ایک دودن کے لئے ہے تو ایسی صورت میں اگر نہ لکھا جائے تو کوئی شرعی گناہ نہیں.( تفسیر کبیر تفسیر سوره بقره - صفحه ۶۴۳ تا ۶۴۴) (الفضل ۵ را گست ۱۹۶۵ء صفحه ۸) نقد اور اُدھار بیع کی قیمت میں فرق محمد طاہر صاحب سیکرٹری جماعت پاڈانگ کے سوالوں کے جوابات جو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمائے.سوال :.ایک دوکان میں دو بیج ہوتی ہے.ایک نقد اور دوسرا قسط وار.قسط واری بیع نقد کی بیچ سے زیادہ گراں ہوتی ہے.جب تک مشتری بیج کی قیمت کو ادا نہ کرے وہ اپنے وعدہ کے مطابق ماہ میں
٣٠٣ معاملات یا ہفتہ میں کچھ نہ کچھ رقم بائع کے حوالہ کر دیتا ہے.جب وہ جمع شدہ رقوم اصل قیمت پر پہنچ جائے تو اس وقت بائع مشتری کو رسید لکھ دیتا ہے کہ تم نے چیز کی قیمت ادا کر دی ہے اور اس دوران میں وہ چیز مشتری اپنے استعمال میں لاسکتا ہے اور وہ تھوڑی تھوڑی رقم جوادا کرتارہتا ہے اس چیز کا کرایہ سمجھا جاتا ہے.بالفرض اگر مشتری دوران ادائیگی میں آگے مقرر کردہ رقم ادا نہیں کر سکتا اور میعاد گزر جائے تو قانون کے لحاظ سے بائع اس چیز کو مشتری سے واپس لے سکتا ہے اور جتنی بھی رقوم مشتری ادا کر چکا ہے ضائع شدہ کرایہ کے طور پر سمجھا جائے گا.کیا یہ بیج اسلامی نقطہ نگاہ سے جائز ہے یا نہیں مثلاً Singer سلائی مشین کی بیع وغیرہ؟ جواب :.قسط وار بیع کی قیمت اگر مقر رہی زیادہ ہو تو جائز ہے لیکن اگر سود کی طرح بڑھتی گھٹتی ہو تو جائز نہیں.وقت مقرره پرقرضه واپس نه كرنے والے سے هرجانه وصول کرنا سوال :.زید نے بکر کو اپنا مال مقررہ قیمت پر فروخت کرنے کے لئے دیا.زید نے مال فروخت کرنے کے بعد رقم بکر کو ادا نہ کی جس کو کم و بیش ایک سال گزر گیا.کیا زید اس رقم کے روکنے کی وجہ سے بکر سے ہرجانہ طلب کر سکتا ہے.اگر کر سکتا ہے تو کیا شریعت نے کوئی شرح مقرر کی ہے.آریہ دھرم صفحہ ۱۰ حاشیہ در حاشیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اس مدت تک وہ تجارت کے کام کا روپیہ جو اس کے انتظار پر بند رہے گا 66 اس کا مناسب ہرجانہ اس کو دینا ہوگا.“ جواب:.میں نے (حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب) یہ حوالہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سامنے پیش کیا ہے اور حضور نے اس پر فرمایا ہے کہ تجارتی سود میں اور اس میں فرق باریک ہے.جو ہر ایک اس بار یک فرق تک نہیں پہنچ سکتا.اس واسطے جو قاعدہ ہم نے پہلے جاری
۳۰۴ معاملات کیا ہوا ہے وہی ٹھیک ہے کہ قاضی اگر دیکھے کہ مدیون نے دائن کو تکلیف دی تو قاضی اس پر جرمانہ تو کردے لیکن جرمانہ کی رقم انجمن کو دے تاجر کو نہ دے.(فتوی 123/2.11.43 رجسٹر فتاوی حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب صفحه ۳۸) ہر جانے کے متعلق میرا یہ فیصلہ ہے کہ وہ شرعاً درست ہے اگر باوجود تاکید کے لوگ معاملات میں زیادہ صفائی اور قرض دینے والے کے فوائد کا خیال نہ رکھیں تو اس صورت میں قاضیوں کو ہر جانہ مقرر کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہئے تا کہ جماعت کے معاملات میں اصلاح ہو اور وہ مؤمنانہ فرائض کو زیر نظر رکھا کریں.(رجسٹر قضائی فیصلہ جات حضرت خلیفہ اسیح الثانی صفحہ ۵.دارالقضاء، ربو) قاضیوں کا فیصلہ ہرجانہ کا سود مشابہ نہیں ہے کیونکہ سود وہ ہوتا ہے جو قرض دینے والے کو دیا جائے اور یہ ایک جرمانہ کی حیثیت ہے جس کی غرض یہ ہے کہ قرض لینے والے ناجائز طور پر قرض خواہ کو دق نہ کریں اور لوگوں کے کاروبار میں ہرج نہ ہو اور یہ روپیہ جبکہ قرض خواہ کو نہیں دلوایا گیا نہ اس سے اسے کوئی فائدہ پہنچا ہے اس لئے یہ سود نہیں کہلا سکتا.(رجسٹر قضائی فیصلہ جات حضرت خلیفہ مسیح الثانی صفحه - دارالقضاء ، بود) ۵.مولوی عبد اللطیف صاحب ٹھیکیدار بھٹہ نے حضور کی خدمت میں شکایت کی کہ فضل عمر ہوٹل کے ذمہ خاکسار کی ایک رقم ۱۹ صد روپے ۱۹۴۷ء سے واجب الادا چلی آتی ہے تا حال ادا نہیں ہوئی.اس پر حضور نے فرمایا:.قضاء فیصلہ کرے.اگر ان کا مطالبہ درست ثابت ہو تو دس فیصدی سالا نہ ہرجانہ دلوایا جائے.فائل ارشادات حضور - صفحہ ۵ ۶ - دار القضاء ، ربوہ ) سود کی تعریف شرع میں سود کی یہ تعریف ہے کہ ایک شخص اپنے فائدہ کے لئے دوسرے کو قرض دیتا ہے اور فائدہ
۳۰۵ معاملات مقرر کرتا ہے جو محض روپیہ کے معاوضہ میں حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ گھاٹے کا عقلاً امکان نہیں ہوتا.یہ مالی فائدہ مدت معینہ پر پہلے سے مقدار جنس یا رقم کی صورت میں معین ہوتا ہے.( الفضل ٢ / مارچ ۱۹۶۱ء صفحریم ) (فیصلہ قضاء جسے حضور نے منظور فرمایا.فیصلہ نمبر ۳.نمبر ۲) سودی لین دین مولوی رحمت علی صاحب نے کہا سماٹرا کے علماء سود کا لین دین کرتے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے ادارے قائم کئے ہیں.وہ کہتے ہیں قرآن شریف میں اضعافاً مضاعفہ“ ہے یعنی بڑھ چڑھ کر اور دُگنا تگنا سود نہ لو.تھوڑا سود بنک والا منع نہیں؟ حضور نے فرمایا اگر اضعاف کے معنی دگنے کے ہیں تو لِكُلّ ضعف “ کے کیا معنی ہوں گے.اصل بات یہ ہے کہ عرب میں اس زمانہ میں دو قسم کا سود رائج تھا.ایک یہ کہ غرباء اپنی اشد ضرورت کے لئے سود لیتے تھے تو سا ہو کا راپنی حسب منشاء جس قدر چاہتے سود منوا لیتے.بیچارے غرباء اپنی ضرویات کی وجہ سے مجبور ہوتے تھے.اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا کہ سودخواہ تھوڑا ہو یا بہت ہمیشہ بڑھتا ہی 66 رہتا ہے جب تک رو پیدا دا نہ کیا جائے.پس اضعافاً مضاعفة “ سے دو چند سہ چند مراد نہیں بلکہ بڑھنا مراد ہے اور لا تاكلوا الربو اضعافا کا یہ مطلب ہے کہ ایمان والوسود بالکل نہ لو.دوسرا سود تجارتی کاروبار کے لئے لیا جاتا تھا چونکہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے جانتا تھا کہ آخر زمانہ میں ایک بنکوں والا سود بھی جاری ہوگا.اس کے لئے قرآن شریف میں ایک الگ آیت نازل کی کہ لِيَرْبُوا فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرُبُوا عِندَ اللَّهِ کہ اس طریق سے جو لوگ اپنے اموال بڑھاتے ہیں وہ اللہ کے نزدیک جائز نہیں.الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۲۹ء.جلد ۱۷.نمبر ۴۰ - صفحه ۶) سوال:.کیا سود لینا جائز ہے.ہندو ہم سے سود لیتے ہیں اگر ہم نہ لیں گے تو ہمارا سارا مال
۳۰۶ معاملات ہندوؤں کے ہاں چلا جائے گا ؟ جواب :.اس بارے میں ہمارا مسلک دوسرے لوگوں سے مختلف ہے اس وقت جو کچھ میں بیان کروں گا یہ احمدی عقیدہ ہوگا.یہ نہیں کہ دوسرے علماء کیا کہتے ہیں ہمیں ان سے اختلاف ہے.ہمارے سلسلہ کے بانی نے یہ رکھا ہے کہ سود اپنی ذات میں بہر حال حرام ہے.ترکوں نے پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ بنکوں کا سود سود نہیں.حنفی علماء کا فتویٰ تھا کہ ہندوستان میں چونکہ انگریزوں کی حکومت ہے اور یہ حربی ملک ہے اس لئے غیر مسلموں سے سود لینا جائز ہے اور اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ کوئی یہ مسئلہ پوچھتا ہی نہیں.لوگ کثرت سے سود لیتے اور دیتے ہیں.ہم کہتے ہیں چاہے بنگ کا سود ہو چاہے دوسرا دونوں حرام ہیں.لیکن بانی سلسلہ احمدیہ نے ایک فیصلہ کیا ہے جو اسلام کے دوسرے مسائل سے مستنبط ہوتا ہے.ایک حالت انسان پر ایسی بھی آتی ہے جو وہ کسی بلا میں مبتلا ہو جاتا ہے.اس سے بچنے کے لئے یہ کہنا کہ فلاں چیز جائز ہے اور فلاں ناجائز یہ فضول بات ہے.مثلاً ایک آدمی گند میں گر جائے جو کئی گز میں پھیلا ہو اور اسے کہا جائے کہ گند میں چلنا منع ہے تو وہ کس طرح اس گند سے نکل سکے گا.بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ رکھا ہے کہ اگر کوئی اس لئے سود لے کہ سود کی بلا سے بچ جائے تو وہ لے سکتا ہے مثلاً ایک جگہ وہ بیس فیصدی سود ادا کرتا ہے اگر اسے پانچ فیصدی سود پر بنک سے رو پیل سکتا ہے تو وہ لے لے.اس طرح امید ہوسکتی ہے کہ وہ سود کی بلا سے بچ سکے.سود لینا بھی گناہ اور سود دینا بھی گناہ.الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۲۹ء.جلد ۱۶ نمبر ۱ ۵ صفحه ۶) الفضل ۳۰ / مارچ ۱۹۱۵ء.نمبر ۱۲۱،۱۲۰) سود پر روپیہ لینا جائز نہیں.جو احمدی ہو کر ایسا کرتا ہے اس کا دین اور دنیا دونوں ضائع ہو جا ئیں گے.الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۱۶ء.جلد ۳.نمبر ۹۹ ۱۰۰- صفحه ۲) سوال :.سرکاری رو پس یہ نقاوی سود پر ملتا ہے کیا لے لیں؟
۳۰۷ معاملات جواب :.فرمایا.سود ہر حالت میں نا جائز ہے.الفضل ۱۱ اپریل ۱۹۱۵ء نمبر ۱۲۵.جلد ۲ صفحہ۱) سوال :.بنک میں کچھ روپیہ جمع ہے جس کا سود ملتا ہے کیا کیا جائے؟ جواب :.اگر واپس کر سکتے ہیں تو کر دیں ورنہ اگر لینا ہی پڑتا ہے تو لے کر اشاعت اسلام کی مد میں دے دیں.سوال :.کیا سودی قرضہ لے سکتا ہوں؟ الفضل ۳۱ / جنوری ۱۹۲۱ء نمبر۵۷ صفحه ۶).جواب :.فرمایا.ایک شخص بھوکا مرتا ہو اور سوائے سور کے گوشت کے اور کچھ نہ ملتا ہو تو اس کو جائز ہے کہ سور کا گوشت کھالے.لیکن سود کی صورت میں جائز نہیں.اس سے آپ سود کی حرمت کا اندازہ کر سکتے ہیں.الفضل ار جنوری ۱۹۱۶ء.جلد ۳ نمبر ۷۹ ) سوال:.موجودہ زمانہ میں بنگ جو اپنی پارٹیوں کو (Over Draw) یعنی زائد رقم دیتے ہیں اور پھر اس پر کمیشن یا سود وصول کرتے ہیں.کیا اس قسم کا روپیہ لینا جائز ہے؟ جواب :.سود کسی صورت میں جائز نہیں البتہ اگر کسی حکومت کے ادارے یا دوسرے ادارہ کی طرف سے یا بنک کی طرف سے لازماً سود دیا جاتا ہو تو وہ اشاعت اسلام کے لئے خرچ کر دینا چاہئے.(فائل مسائل دینی A-32) سوال : محترم حضرت نواب عبداللہ خان صاحب کی طرف سے استفسار ہوا، حکومت سے روپیہ تعمیر مکانات کے لئے قرض لیا جائے جس کی ادائیگی کے وقت حکومت کچھ زائد رقم لیتی ہے؟ جواب :.فرمایا.سود کا نام نہ آئے بلکہ نقد قیمت کی شکل دی جائے تو جائز ہے یعنی وہی مکان گروی ہو جائے پھر اس گردی پر روپیہ ملے یا اس کو فروخت سمجھا جائے اور کمپنی بعد میں قسط وار زیادہ رقم وصول کرے.(فائل مسائل دینی DP 306/16.11.56-32-A)
۳۰۸ معاملات سوال:.ایک صاحب کو جو احمدی ہیں پراویڈنٹ فنڈ کے سود سے قریب بارہ تیرہ سوروپے ملنے والے ہیں ان کا خیال ہے اگر یہ روپیہ مسجد وغیرہ مدات میں صرف کرنے کی اجازت اگر حضور دے دیں تو میں یہ رقم ان مدات میں خرچ کرنے کے لئے دے دوں گا؟ جواب : فرمایا.آپ کا خط ملا.ان مدات میں سود کی رقم خرچ کرنے کی اجازت ہے.فائل مسائل دینی 4-32-149/6.5.56 DP) سوال:.ایک جگہ %25 سود دینا پڑتا ہے اگر ایک مسلمان ایسے شخص سے کہے کہ میں %5 سود پر قرض دیتا ہوں تو کیا 5 فیصدی سود لینے والا جائز کام کرتا ہے کیونکہ وہ زیادہ شرح کے سود سے بچاتا ہے؟ جواب :.دوسری جگہ زیادہ سود ادا کرنے والا اگر کم شرح سے سود لینے والے سے روپیہ لے کر سود ادا کرتا ہے تو یہ اس کے لئے جائز ہے مگر جو اس طرح سود لیتا ہے وہ ناجائز کرتا ہے اور گنہگار ہے کیونکہ وہ اپنے فائدہ کے لئے سود لیتا ہے.کسی بڑی مضرت سے بچنا اس کی غرض نہیں.الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۲۹ء - جلد ۱۶ نمبر ۵۹ - صفحه ۶) آج کل سود کے متعلق عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ تو بنکوں کا سود ہے اس کے لینے میں کیا حرج ہے.حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.نام خواہ کچھ رکھ لیا جائے وہ بہر حال سود ہے اور اس کا لینا ناجائز اور حرام ہے.( الفضل ۲ جولائی ۱۹۵۹ء صفحه ۳ ) سودی حساب کتاب رکھنے کی ملازمت کرنا ایک صاحب نے لکھا کہ وہ ایک سردار صاحب کے پاس ملازم ہیں جو روپیہ سود پر دیتے ہیں انہیں اس کا حساب رکھنا پڑتا ہے.ایسی حالت میں انہیں کیا کرنا چاہئے؟ حضور نے فرمایا.آپ کے لئے سردار کا کام جائز ہے اور آپ نہایت ایمانداری سے کام کریں.
۳۰۹ معاملات اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.دیانتداری کے صرف یہ معنے نہیں کہ انسان دوسرے کا روپیہ نہ کھا جاوے بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ پورا وقت اس کے کام پر لگائے اور آنکھیں کھول کر اور عقل سے اس کا کام کرے.الفضل ۱۷ دسمبر ۱۹۲۲ء.جلد ۱۰.نمبر ۴۵ - صفحه ۸) جس ملازمت میں سود لینے یا اس کی تحریک کرنے کا کام کرنا پڑتا ہو وہ میرے نزدیک جائز نہیں.ہاں مگر ایسے بنک کے حساب کتاب کی ملازمت جائز ہے.(الفضل ۷ / مارچ ۱۹۱۶ء.جلد ۳.نمبر ۹۵) سوال :.دیہاتی بینکوں میں سرکاری ملازمت ملتی ہے جن کا تمام روپیہ سودی ہوتا ہے کیا جائز ہے؟ جواب :.بینک کی ملازمت بے شک کر لیں.( الفضل ۱۲ فروری ۱۹۱۶ء.نمبر ۸۸) جس ملازمت میں سود کی تحریک کرنی پڑے وہ ناجائز ہے.کلر کی اور حساب رکھنا بہ تسلسل ملازمت جائز ہے.( الفضل ۱۳ مئی ۱۹۱۶ء - صفحه ۸ ) حالت اضطرار میں بھی سود منع ھے فمن اضطر غير باغ ولاعاد فلا اثم عليه.فمن اضطر في مخمصة غير متجانف لاثم....(الآية) بعض لوگوں کو اس اجازت کے حکم کو دیکھ کر دھو کہ لگا ہے اور انہوں نے اس کو وسیع کر لیا ہے.چند ہی دن ہوئے کہ ایک شخص نے مجھ سے سود کے متعلق فتویٰ پوچھا تھا میں نے اسے لکھایا کہ سود کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو سکتا.اب اس کا خط آیا ہے کہ بعض علماء کہتے ہیں اصل حالت میں تو یہ فتویٰ
۳۱۰ معاملات ٹھیک ہے کہ سود جائز نہیں لیکن مضطر کے لئے یہ فتویٰ درست نہیں ہے اور ساتھ یہ مثال دی ہے کہ ایک شخص کو شادی کرنے کے لئے روپیہ کی سخت ضرورت ہے کہیں سے اسے مل نہیں سکتے.اگر وہ سودی روپیہ لے کر شادی پر لگالے تو اس کے لئے جائز ہے.میں نے پہلے بھی اسی قسم کے واقعات سنے تھے چنانچہ جو لوگ اہل قرآن کہلاتے ہیں انہوں نے اسی قسم کے فتوے دیئے ہیں.لیکن اس قسم کے تمام فتوے قرآن کریم کے احکام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے دیئے گئے ہیں.الفضل ا ا ر اپریل ۱۹۱۶ء.جلد ۳ نمبر ۱۰۵ صفحہ ۱۰.خطبہ جمعہ فرموده ۷ ا پریل ۱۹۱۶ ملخصا ) قمار بازی لغو چیز ھے اس سے بچنا چاھئے آجکل قمار بازی یورپ اور امریکہ کے لوگوں کا نہ صرف محبوب مشغلہ ہے بلکہ ان کے تمدن کا ایک جز ولا ینفک ہو گیا ہے.زندگی کے ہر شعبہ میں جوئے کا کسی نہ کسی صورت میں دخل ہے.معمولی طریق کا جوڑا تو مجالس طعام کے بعد ان کا ایک معمول ہے لیکن اس کے علاوہ لاٹریوں کی وہ کثرت ہے کہ یوں کہنا چاہئے کہ تجارت کا کام بھی ایک چوتھائی حصہ جوئے کی نذر ہورہا ہے.ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک سب لوگ جوا کھیلتے ہیں اور کبھی کبھی نہیں قریباً روزانہ اور جوئے کی کلمبیں شائد سب کلبوں سے زیادہ امیر ہیں.اٹلی کا کلب ”مانٹی کارلو“ میں جو امراء کے جوئے کا مقام ہے.بعض اوقات ایک ایک دن میں کروڑوں روپیہ بعض لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر بعض دوسرے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے.غرض اس قدر جوئے کی کثرت ہے کہ یہ کہنا نا درست نہ ہوگا کہ تمدن جدید میں سے جوئے کو نکال کر اس قدر عظیم الشان خلاء پیدا ہو جاتا ہے کہ اسے کسی اور چیز سے پر نہیں کیا جاسکتا.حالانکہ جوا ایسی خطرناک چیز ہے کہ اس کا عادی انسان محض آدھ گھنٹہ کے جوا کی خاطر اپنی ساری جائیداد برباد کر دیتا ہے اور اگر جیتتا ہے تو اور ہزاروں گھروں کی بربادی کا موجب بن کر.پھر جوئے باز میں روپیہ کوٹھانے کی عادت لازمی طور پر پیدا ہو جاتی ہے.شائد ہی کوئی جوئے باز ایسا ہوگا جو اپنے روپیہ کو سنبھال کر رکھتا ہو.بالعموم سارے جوئے باز بے پرواہی سے اپنا مال لگا دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ
۳۱۱ معاملات روپیہ کمانے کے لئے انہیں جدو جہد نہیں کرنی پڑے گی.گویا ایک طرف تو وہ دوسرے لوگوں کو برباد کرتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنے مال سے بھی صحیح رنگ میں فائدہ نہیں اٹھاتے کیونکہ روپیہ کمانے کے لئے انہیں کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی.پھر جو ا عقل و فکر کو بھی کمزور کر دیتا ہے اور جوئے باز ہار جیت کے خیال سے ایسی چیزوں کے تباہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے جنہیں کوئی دوسراعظمند تباہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.پس یہ ایک لغو چیز ہے جس سے اجتناب کرنا چاہئے.( تفسیر کبیر جلد ششم.سورۃ الفرقان - صفحہ ۵۸۸،۵۸۷) اسلام نے جوئے کو حرام قرار دے دیا کیونکہ اس کے ذریعہ بھی انسان ایسے طور پر کماتا ہے جس سے بہت لوگوں کو نقصان پہنچ جاتا ہے اور صحیح تجارت سے رغبت ہٹ جاتی ہے.لاٹریاں بھی اسی میں شامل ہیں.آجکل مسلمان یہ کام کرتے ہیں مگر یہ بھی جوئے میں شامل ہے اور جؤا نا جائز ہے.خواہ وہ کسی شکل میں ہو.خواہ قرعہ ڈال کر کھیلا جائے یا نشا نہ مار کر کھیلا جائے.اسلام نے اسے ناجائز قرار دیا ہے.لاٹری سے کمایاہوا روپیه ( الفضل ۲ جولائی ۱۹۵۹ء صفه ۳) مولوی رحمت علی صاحب نے عرض کیا.ایک شخص لاٹری کے ذریعہ سے لاکھ روپیہ حاصل کرتا ہے.اگر وہ اس میں سے پچیس ہزار روپیہ مجھے مدرسہ یا کسی اور نیک کام کے لئے دے تو میرے لئے اس نیک کام پر اس روپیہ کا خرچ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جواب :.حضور نے فرمایا.اگر آپ کی لاٹری جیتنے والے کے ساتھ کسی قسم کی شرکت نہیں تو جائز ہے.الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۲۹ء.جلد ۱۷.نمبر ۴۰ صفحه ۶)
۳۱۲ معاملات مسئله پوسٹل اورسیونگ سرٹیفیکیٹ ہر ایسا مالی معاہدہ جس پر سود کی تعریف صادق آتی ہے خواہ وہ فرداور فرد کے درمیان ہو یا حکومت اور فرد کے درمیان ہو.ایک ہی حکم رکھتا ہے اور شرعاً حرام ہے.رائج الوقت پوسٹل اور سیونگ کے معاہدات بھی ابھی موجودہ شرائط کے رو سے سود قرار پاتے ہیں.موجودہ صورت میں حکومت کے جاری قرضہ جات پر بھی سود کی تعریف اطلاق پاتی ہے لیکن جائز ہوگا کہ سود لئے بغیر حکومت کو قرض دیا جائے اور اگر بامر مجبوری سود لینا پڑے تو اُسے اشاعت اسلام میں دیدیا جائے.حضور نے فرمایا.ٹھیک ہے.فیصلہ مجلس افتاء جسے حضور نے منظور فرمایا.فیصلہ نمبر ۲۲) رهن میں وقت مقرر کرنا سوال :.ایک شخص دو ہزار روپے میں ایک مکان رھن لیتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دو سال تک راحن سے روپیہ واپس نہ لے.کیا ھن کرتے وقت اس قسم کی شرط رکھی جاسکتی ہے یا نہیں؟ جواب : فرمایا.فقہاء کا مذہب تو یہ ہے کہ وقت کی پابندی جائز نہیں.جب بھی راھن روپیہ دے وہ اپنا مکان مرتہن سے چھڑا سکتا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پابندی کو جائز قرار دیا ہے چنانچہ جب مرزا نظام الدین صاحب کی دوکانیں حضرت ام المومنین نے رھن لیں تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت فرمایا کہ کیا وقت معین کیا جا سکتا ہے تو آپ نے اسے جائز قرار دیا.پس یہ شرط میرے نزدیک جائز ہے بشرطیکہ رھن جائز ہو.اگر رھن ہی ناجائز ہے تو پھر سال دو سال وغیرہ کی مدت کوئی حقیقت نہیں رکھتی.وہ پہلے دن سے ہی نا جائز ہے.الفضل ۲۶ جون ۱۹۴۶ء - جلد ۳۴ نمبر ۱۴۸ صفحه ۳) (الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۶۰ء)
۳۱۳ معاملات مکان مرهونه کاکرایه زررهن کے حساب سے مقرر کرنا سوال :.بعض لوگ کسی کا مکان رھن رکھتے ہیں اور پھر ایک مقررہ رقم بطور کرایہ اسی مالک مکان سے وصول کرتے رہتے ہیں.کیا یہ جائز ہے؟ جواب :.فرمایا.اگر تو یہ شرط ہو کہ کرایہ مقرر اور معین نہ ہو جب رھن لینے والا چاہے کرا یہ بڑھا دے یا مکان خالی کرالے اور جب رھن دینے والا چاہے وہ کرا یہ کم کرنے کا مطالبہ کرے اور کم نہ ہونے کی صورت میں مکان خالی کر دے تو پھر جائز ہے وگرنہ نہیں.یہ صورت کہ کرایہ معین طور پر دینا پڑتا ہے اور خالی کرنے کرانے کا بھی اختیار نہیں ہوتا.یہ ناجائز ہے اور مقررہ کرایہ سود ہے.رھن رکھنے والے کو اختیار ہونا چاہئے کہ جب چاہے چھوڑ دے یا کرایہ کم کرالے اور لینے والا جب چاہے بڑھا دے یا مکان خالی کرالے.الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۲۹ء.جلد ۱۷ نمبر ۴۲۶ - صفحه ۹) سوال :.اگر کوئی شخص کسی سے دو ہزار میں مکان رھن لے اور پچیس روپیہ اس کا کرایہ مقرر کر کے یہ طے کر لے کہ پانچ روپیہ کرایہ میں سے مرمت کے وضع ہوتے رہیں تو کیا یہ جائز ہے؟ جواب : فرمایا.یہ ناجائز ہے.مرمت وغیرہ رھن لینے والے کو خود کرانی چاہئے.اور یہ بھی ناجائز ہے کہ مکان لینے سے پہلے ہی کرایہ مقرر کر کے مالک مکان سے کرایہ نامہ کا اسٹامپ لکھوا لیا جائے.ہاں اگر کسی دوسرے سے کرایہ نامہ لکھوالیا جائے تو یہ جائز ہے.مختصر یہ ہے کہ مکان والے کی حیثیت جب تک بالکل ایک اجنبی کی سی نہیں ہوتی یہ جائز نہیں ہے.الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۲۹ء.جلد ۱۷ نمبر ۴۲ صفحه۱۰) سوال :.کیا کوئی احمدی کسی کی زمین یا کوئی دیگر چیز رھن رکھ سکتا ہے یا کہ نہ.شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ جواب :.جائز ہے.
۳۱۴ معاملات سوال :.اگر کوئی آدمی احمدی یا غیر احمدی کی زمین گروی رکھے.بعد رھن رکھنے کے اس رھن شدہ زمین کی سالانہ آمدنی مرتہن کو یک صد روپیہ یا کچھ کم و بیش آوے تو کیا مرتہن کے پاس جتنی رقم میں زمین رھن ہو وہ سالانہ مجرا دے.راھن کو یا نہ؟ جواب :.رھن با قبضہ کی صورت میں منافع اس کا ہوگا.رقم قائم رہے گی.سوال :.بصورت حکم شرع شریف مرتہن کو اگر رقم مجرا دینی پڑے.مگر وہ دیدہ دانستہ لالچ میں آکر مجرا نہ دیوے تو اس احمدی کے لئے کیا حکم ہے؟ وہ جماعت سے خارج تصور ہوگا یا نہ؟ جواب :.رھن با قبضہ کی صورت میں اصل رقم ادا ہی الگ کی جاتی ہے نہ کہ آمد سے.الفضل ۱۳/ مارچ ۱۹۴۳ء - جلد ۳۱ نمبر ۶۲ - صفحه ۲) هبه بہ بخشش کا نام ہے.اس کا وصیت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ علیحدہ چیز ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق بعض قیود مقرر کر دی ہیں مثلاً فرمایا ہے کہ ایسا ہبہ نہ کیا جائے جس سے ورثاء میں امتیاز پیدا ہو.میں سمجھتا ہوں رسول کریم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اہم اشیاء کے متعلق ہے.چھوٹی موٹی چیزوں کے متعلق نہیں مثلاً اگر ہم کیلا کھا رہے ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک بچہ جو سامنے موجود ہوا سے ہم دیدیں اور دوسرا محروم رہے.حدیثوں میں گھوڑے کی مثال آتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا کہ یا تو وہ اپنے سب بیٹوں کو ایک ایک گھوڑا دے اور یاکسی کو بھی نہ دے.مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ عربوں میں گھوڑے کی قیمت بہت ہوتی تھی.پس یہ حکم اس چیز کے متعلق ہے جس میں ایک دوسرے سے بغض پیدا ہونے کا امکان ہو.معمولی چیزوں کے متعلق ہیں مثلا فرض کرو ایک بچہ ہمارے ساتھ چلا جاتا ہے اور ہم اسے دوکان سے کوٹ کا کپڑا خرید دیتے ہیں تو یہ بالکل جائز ہوگا اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ جب تک ساروں کے لئے ہم کوٹ خرید کر نہ لائیں ایک بچہ کو بھی کوٹ کا کپڑا خرید کر نہیں دیا
۳۱۵ معاملات جاسکتا.بہر حال جائیداد ایسی ہی ہونی چاہئے جو خاص اہمیت نہ رکھتی ہوا گر کوئی شخص ایسا ہبہ کرے جس سے دوسروں میں بغض پیدا ہونے کا امکان ہو تو قرآن کریم کا حکم ہے کہ وہ اسے واپس لے لے اور رشتہ داروں کا بھی فرض ہے کہ وہ اسے اس گناہ سے بچائیں.بیوی کے نام هبه کرنا (الفضل ۱۶ را پریل ۱۹۶۰ء صفحه ۵) خاوند اگر اپنی بیوی کو کچھ دیتا ہے تو تفاضل بین الاولاد کا مسئلہ بیوی کے متعلق اس صورت میں دیگر وارث ہیں نہیں لگتا.بھائی اصل وارث نہیں.وہ اولاد کی عدم موجودگی میں وارث ہوتے ہیں.قرآن مجید نے صاف فرما دیا ہے کہ وہ کلالہ کے وارث ہوتے ہیں نہ کہ ذوالارث کے.اس لئے تفاضل کا اصل یہاں نہیں لگتا.اس میں صرف ایک ہی اصل دیکھا جائے گا کہ کس شخص نے بعض جائز حقداروں کو محروم کرنے کے لئے ایسا فعل کیا ہے.جس سے وہ اپنے حق سے محروم ہو جاتے ہیں لیکن اگر ایک شخص اپنی جائیداد کا کوئی حصہ اپنی بیوی کے حق میں صبہ کرتا ہے تو قرآن کریم کی رو سے ایسا کر سکتا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ اگر قناطير مقتطرۃ بھی اپنی بیوی کو دو تو اس کو واپس نہ لو.اگر کوئی شخص یہ دیکھتے ہوئے کہ اس کی زندگی میں یا اس کے بعد اس کی بیوی کے معیشت کا کافی سامان موجود نہیں ہے اگر بیوی کے نام کچھ جائیدا دھبہ کر دے یا بشر طیکہ اس سے اس کے ہمراہ درست وارث یعنی ماں باپ یا بیٹے بیٹیوں کے حقوق کو کوئی نمایاں نقصان نہ نظر آتا ہو تو قرآن کریم کے مذکورہ بالا حکم کی موجودگی میں ہم اسے تفاضل نہیں قرار دیتے.آخر وجہ کیا ہے کہ قرآن کریم نے بیوی کے متعلق تو یہ فرمایا کہ تم اسے قناطير مقنطرہ بھی دے دیتے ہو تو واپس نہ لومگر یہ نہ فرمایا کہ اگر اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو قناطر مقنطرہ دے دیتے ہو تو اس سے واپس نہ لو.پس شریعت اور عقل عامه صبہ کو کلی طور پر باطل نہیں کرتی.(فائل فیصلہ جات دارالقضاء نمبر ۲.صفحہ ۵۱)
۳۱۶ معاملات اس وقت میں جس حکمت کو بیان کرنا چاہتا ہوں وہ صبہ کے متعلق ہے.مثلاً ایک والد نے اپنی ساری جائیداد ایک لڑکے کے نام ہبہ کر دی ہے اور دوسرے لڑکے کو محروم کر دیا ہے.آیا یہ صبہ جائز ہے یا نا جائز ؟ سب سے پہلے ہمیں اس کے متعلق قرآن کریم کا حکم دیکھنا پڑے گا جو اس نے جائیداد تقسیم کے متعلق دیا ہے.قرآن کریم نے اس قسم کے ھبہ کو بیان نہیں کیا بلکہ ورثہ کو بیان کیا ہے جس میں سب مستحقین کے حقوق کی تعیین کر دی ہے اور قرآن کریم کے مقرر کردہ حصص کو بدلا نہیں جاسکتا.اب دیکھنا یہ ہے کہ ان احکام کے مقرر کرنے میں حکمت کیا ہے.وراثت کی رو سے کیوں سب لڑکوں کو برابر ملنا چاہئے اور ایک لڑکے کی شکایت پر کیوں رسول اللہ علیہ وسلم نے اس کے باپ کوارشاد فرمایا کہ یا تو تم اس کو بھی گھوڑا لے دو یا پھر دوسرے سے بھی لے لو.اس میں حکمت یہ ہے کہ جس طرح اولا د پر والدین کی اطاعت فرض ہے اسی طرح والدین کے لئے بھی اولا د سے مساویانہ سلوک اور یکساں محبت کرنا فرض ہے لیکن اگر والدین اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنبہ داری سے کام لیں تو ممکن ہے کہ اولا د شاید اپنے فرائض سے تو منہ نہ موڑے لیکن ان فرائض کی ادائیگی یعنی والدین کی خدمت کرنے میں کوئی شادمانی اور مسرت محسوس نہ کرے بلکہ اسے چھٹی سمجھ کر ادا کرے.بعض لوگوں کا اس قسم کا رویہ اولاد کے لئے مضر اور محبت کو تباہ کرنے والا ہوتا ہے جو اولا داور ماں باپ میں ہوتی ہے اس لئے اسلام نے اس سے منع کیا ہے.لیکن وصیت اور ہبہ جو کہ اپنی اولاد کے لئے نہیں ہوتا بلکہ دین کے لئے ہوتا ہے جائز ہے کیونکہ وہ شخص اس سے خود بھی محروم رہتا ہے صرف اولاد ہی کو نقصان نہیں پہنچتا بلکہ اس کی ذات کو بھی پہنچتا ہے چونکہ خدا تعالیٰ کے رستے میں خرچ ہوتا ہے.اس لئے اولا د بھی اس سے ملول خاطر نہیں ہوتی.لیکن اگر ہبہ یا وصیت کسی خاص اولاد کے نام ہو، نا جائز ہوگا.اس میں ایک بات سمجھنے والی یہ ہے کہ ایک وقتی ذمہ واری ہوتی ہے جسے ادا کرنا ضروری ہوتا ہے.اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ ایک شخص کے چار لڑکے ہیں اور اس نے سب سے بڑے لڑکے کو ایم اے کی تعلیم دلا دی اور دوسری چھوٹی جماعتوں
۳۱۷ معاملات میں پڑھ رہے تھے کہ اس کی نوکری ہٹ گئی اور چھوٹے بچوں کی تعلیم رک گئی.اب یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ اس نے بڑے لڑکے سے امتیاز روا رکھا.بلکہ یہ تو اتفاقی بات ہے.اس کی تو کوشش تھی کہ میں پہلے بڑے کو پڑھاتا ہوں پھر دوسروں کو باری باری ایم اے تک پڑھاوں گا.یعنی وقتی ضروریات کے ماتحت اس نے ذمہ واری کو تقسیم کیا کہ اس وقت یہ کام کر لیتا ہوں اور جب دوسرے کا وقت آئے گا تو وہ کرلوں گا.مگر پھر حالات بدل گئے اور وہ اپنی خواہشات پوری نہ کرسکا.لیکن اس کے برعکس اگر ایک والد اپنے بڑے لڑکے کو جو عیالدار ہو گیا ہو، دو ہزار روپیہ دے کر الگ کر دے کہ تم تجارت کرو مگر جب دوسرے لڑکے بھی صاحب اولا د ہو جا ئیں تو انہیں کچھ نہ دے، یہ نا جائز ہے اور امتیازی سلوک ہوگا.ہماری جماعت کو ایسی باتوں سے احتراز کرنا چاہئے.بچوں کی ضرورتوں میں تو اختلاف ہوسکتا ہے اور وہ بھی اس کو برا نہیں مناتے لیکن مستقل جائیداد میں امتیاز خطرناک نتائج پیدا کر دے گا.ہاں اگر کوئی یہ کر دے کہ میں نے بڑے لڑکے کو ایم اے تک پڑھا لیا ہے اور ابھی چھوٹے پڑھ رہے ہیں زندگی کا اعتبار نہیں.ان میں سے ہر ایک کے نام اتنی رقم کر دیتا ہوں جس سے وہ ایم اے کی تعلیم حاصل کر سکے تو یہ جائز ہوگا.کیونکہ اس میں امتیاز نہیں بلکہ وہ خطرات سے بچنے کے لئے ایسا کرتا ہے.ایسے حالات میں دوستوں کو چاہئے کہ وہ شریعت کے احکام کی حکمت کو دیکھیں اور پھر اس کے مطابق عمل کریں.رجسٹر اصلاح وارشاد سے ارشاد حضور ) ایک لڑکے کے نام ساری جائیداد هبه کرنا میرے سامنے جو مقدمہ پیش ہوا ہے.وہ یہ ہے کہ ایک والد نے اپنی ساری جائیداد اپنے ایک بیٹے کے نام ہبہ کر دی ہے اور دوسرے کو محروم الارث کر دیا ہے.اب سوال یہ اُٹھایا گیا تھا کہ ہبہ جائز ہے نا جائز ؟
۳۱۸ معاملات بعض صحابہ اور فقہاء نے اسے جائز قرار دیا ہے لیکن ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ قرآن کریم اس بارہ میں ہماری کیا راہنمائی کرتا ہے اور قرآن کریم کے احکام کے ساتھ جو حکمتیں کام کر رہی ہیں ان کی روشنی میں ہبہ کے متعلق کیا صورت اختیار کی جاسکتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہبہ کا ذکر احادیث میں آتا ہے لیکن قرآن کریم نے ”ورثہ کے قوانین کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ فلاں کو اتنا ، بیٹوں کو اتنا اور بیٹیوں کو اتنا دو.اور آگے فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص ان احکام کی خلاف ورزی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے آگ میں داخل کرے گا.ان احکام پر اتنا زور دیا ہے تو کسی باپ کو یہ کیا حق ہے کہ وہ اپنی تمام جائیداد کسی اور ایک بیٹے کے نام منتقل کر دے اور دوسروں کو محروم الارث قرار دے دے.پھر اس بارہ میں ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا بھی ایک واقعہ بطور مثال نظر آتا ہے.ایک دفعہ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے باپ نے میرے بھائی کو گھوڑا دیا ہے اور مجھے نہیں دیا.آپ نے اس کے باپ کو بلوایا اور اس سے فرمایا یا تو اپنے اس دوسرے بیٹے کو بھی گھوڑا دو.اور اگر تم اس کو نہیں دے سکتے تو اُس سے بھی گھوڑا واپس لے لو.اب اس میں کیا حکمت تھی.یہی حکمت تھی کہ قرآن کریم نے ہر بچے کا یہ فرض قرار دیا ہے کہ وہ ماں باپ کی خدمت کرے اور اس بارہ میں بڑا زور دیا گیا ہے.........اس کے مقابلہ ماں باپ کے لئے بھی ایک فرض بچوں کے حقوق کا مقرر کیا گیا ہے اور ان کا فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی اولاد میں سے کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کریں.کیونکہ اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ محبت جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے وہ پیدا نہیں ہو سکے گی.ایک باپ جس کے دو بیٹے ہوں وہ اگر ان میں سے ایک ساتھ امتیازی سلوک کرے تو دوسرے کے دل میں قدرتی طور پر یہ خیال پیدا ہو گا کہ باپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے اور میرے دوسرے بھائی سے زیادہ ہے اور گووہ شریعت کے کہنے پر اپنے باپ کی خدمت تو کرے گا مگر اس کے دل میں اپنے باپ کے لئے دلی محبت نہیں ہوگی.جہاں تک دنیوی باتوں کا تعلق ہے ان کی فرمانبرداری ضرور ہونی چاہئے مگر ماں باپ کے
۳۱۹ معاملات - لئے بھی حکم ہے کہ اپنی اولاد میں سے کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کریں.یورپ کے لوگ اپنی ساری جائیداد اپنے سب سے بڑے بیٹے کو دے دیتے ہیں یا جس کو جتنا چاہیں اتنا دیتے ہیں.لیکن ہم ان کے سامنے یہ بات پیش کرتے ہیں کہ اسلام نے ہر ایک کا حصہ مقرر کر دیا ہے.پس اگر مسلمان بھی اپنی اولاد کے ساتھ امتیازی سلوک کریں تو اسلام نے جو تقسیم حصص میں حکمت رکھی ہے وہ باطل ہو جاتی ہے.اسلام کے حکم کے مطابق دین کے لئے وصیت میں زیادہ سے زیادہ ۳ را دیا جا سکتا ہے اور ہبہ میں ساری جائیداد دی جاسکتی ہے مگر وہ بات بالکل الگ ہے.دین کے لئے بے شک ساری جائیداد انسان ہبہ کر سکتا ہے مگر اولاد میں سے کسی ایک کے نام ہبہ نہیں کر سکتا یا پھر ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک شخص سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے چار بیٹوں میں سے بڑے تین بیٹوں کو کافی جائیدا دتجارت وغیرہ کے لئے دی ہوئی ہے اور چھوٹا لڑکا ابھی کسی کام پر نہیں لگایا اس کے پاس کوئی جائیداد نہیں ہے.اس لئے اگر وہ یہ سمجھتے ہوئے کہ بڑے لڑکے کھاتے پیتے ہیں اور ان کے پاس کافی ذخیرہ ہے.اپنی جائیداد کو چھوٹے کے نام ہبہ کر دیتا ہے تو یہ ایک جائز صورت ہے مگر اس میں بھی شرط یہ ہے کہ دوسرے بیٹوں کو اعتراض نہ ہو.اگر ان کو اعتراض ہو تو ایسا نہیں کر سکتا مگر کھاتے پیتے بیٹیوں کو جن کو باپ پہلے ہی کافی دے چکا ہوا ایسا اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ کہیں گے ہمارے پاس سب کچھ موجود ہے.بیسیوں باپ ایسے ہوتے ہیں جن کی آمد اپنے بیٹوں کی آمد سے بہت کم ہوتی ہے.اس لئے ایسی صورت میں شریعت نے ہبہ کرنے کی اجازت دی ہے مگر باپ کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اپنے دوسرے بیٹوں کا جائزہ لے.جن کو وہ ہبہ سے محروم کر رہا ہے.اگر وہ کھاتے پیتے ہوں تو کسی ایسے بیٹے کے حق میں جس کو باپ کی جائیداد سے تھوڑا حصہ ملا ہو ہبہ کیا جاسکتا ہے ورنہ نہیں.اور اگر ان سب بیٹوں کی حالت یکساں ہوتو کسی ایک کے نام ہبہ کرنا جائز نہ ہوگا.دین کے لئے ساری جائیداد کا ہبہ کرنے کی صورت تو یہ تھی کہ اس میں وہ اپنے آپ کو بھی محروم کر لیتا ہے اور بیٹوں کو بھی.مگر کسی ایک بیٹے کے نام ہبہ کرنے کی صورت میں وہ اپنے آپ کو محروم
نہیں کرتا اور یہ نا جائز ہے.۳۲۰ معاملات یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ فقہاء نے جو ہبہ کی اجازت دی ہے اس کی حقیقت لوگوں نے نہیں سمجھی.اصل بات یہ ہے کہ ایک وقتی ذمہ داری ہوتی ہے.جس کے متعلق اور احکام ہیں اور ایک مستقل تقـ ہوتی ہے جس کے متعلق اور احکام ہیں.ہبہ یہ ہے کہ کوئی شخص پوری جائیدا دیا اس کا کوئی بڑا حصہ کسی کے نام منتقل کر دے.یہ ہبہ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں سوائے استثنائی صورتوں کے قطعی طور پر نا جائز ہے لیکن ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ وقتی ضرورتوں کے ماتحت کسی ایک بیٹے کو دوسرے بیٹوں سے کچھ زائد دے دیا جائے.یہ صورت چونکہ تربیت حالیہ سے تعلق رکھتی ہے.اس لئے جائز ہے مثلاً کسی شخص نے اپنے ایک بیٹے کو ایم اے کروایا مگر اس کے بعد اس کی نوکری جاتی رہی یا اسے تجارت میں نقصان پہنچ گیا تو اس صورت میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنے باقی بیٹوں پر بھی اتنا خرچ کرے جتنا کہ اس نے اپنے ایم اے بننے والے بیٹے پر کیا تھا.الفضل ۲۴ اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحه ۳ تا ۵) امتیازی هبه ایسا بہ کرنا جس میں امتیاز پایا جاتا ہو اسلامی روح کے خلاف ہے.اس لئے ہماری جماعت کے دوستوں کو اس سے پر ہیز کرنا چاہئے.قاضیوں کو بھی اس مسئلہ کے متعلق اچھی طرح علم ہونا ضروری ہے.اگر کوئی ایسا معاملہ ان کے سامنے پیش ہو جس میں نظر آئے کہ اس میں امتیاز پیدا ہورہا ہے تو ان کا فرض ہے کہ اس امتیازی سلوک کی تردید کرتے ہوئے حقدار کوحق دلائیں اور اگر اس معاملہ میں امتیازی سلوک نہ ہو بلکہ مصلحت وقت کے ماتحت کسی نے ایسا کیا ہو تو اسے قبول کر لینا چاہئے مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے اپنے بڑے بچوں کو پڑھا لیا ہے اور اب میرے چھوٹے بچے رہ گئے ہیں جن کو تعلیم دلانا مقصود ہے اور میں بوڑھا ہو چکا ہوں اس لئے چھوٹے بچوں کے لئے میں اس قدر رو پید ریز رو کر دینا
معاملات چاہتا ہوں تو یہ جائز ہو گا اس میں یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے دوسرے بیٹوں کو محروم کرنا چاہتا ہے.(الفضل ۲۵/اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحه ۳) اپنی زندگی میں دی ہوئی چیز هبه هے، وصیت میں نہیں آتی سوال :.نواب محمد عبدالرحمن صاحب مرحوم کی امانت کے سامان اور کیش جس کے بارہ میں انہوں نے اپنی وفات سے قبل اڑھائی سال یہ تحریر دی تھی کہ ”میرا جو سامان یعنی چار عدد بکس بڑے چھوٹے صدر انجمن احمد یہ ربوہ میں امانت رکھوائے ہوئے ہیں اور تمام رقوم جو امانت رکھی ہوئی ہے.اس تمام سامان اور روپیہ کی مالک میری بیگم محمودہ بیگم ہیں.اس پر میرے کسی رشتہ دار کا حق نہیں.میری زندگی اور وفات کے بعد اس کی مالک میری بیگم ہیں.“ جواب:.ارشاد انور :.ٹھیک ہے جب وصیت موجود ہے تو ان کے قول کے مطابق ان کی بیوہ مالک ہیں.یہ مال ان کی بیوی کا ہی ہے.زیادہ سے زیادہ مفتی سے فتویٰ لے لو.جو چیز انسان کسی کو زندگی میں دے جائے یا کسی کی قرار دے جائے وہ میرے نزدیک وصیت کے نیچے نہیں آتی.“ (رجسٹر دار الافتاء - فتوى 101/21.2.51) هبه اور وصیت میں فرق صدقہ وخیرات جو ایک بہت بڑی نیکی ہے اس میں بھی اسلام نے میانہ روی سے کام لینے کی
۳۲۲ معاملات ہدایت فرمائی ہے اور اپنا سارا مال خرچ کرنے کی اجازت نہیں دی.ہاں اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں صبہ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے.اس لئے کہ حبہ کی تکلیف خود اسے بھی پہنچتی ہے مثلاً ایک شخص جس کی سالا نہ آمد ایک لاکھ روپیہ ہے وہ اگر اس آمد کوھبہ کرنا چاہے تو کرسکتا ہے اس لئے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالتا ہے.وہ صبہ سے پہلے اگر آٹھ ہزار یا چار ہزار یا تین ہزار روپیہ ماہوار میں گزارہ کر رہا تھا تو صبہ کے ذریعہ اس نے اپنے آپ کو بھی اس آمد سے محروم کر لیا.پس صبہ ایک علیحدہ چیز ہے اور اسلام نے اسے جائز رکھا ہے کیونکہ ھبہ میں انسان اپنی بیویوں اور اپنے بچوں کو ہی اپنی جائیداد سے محروم نہیں کرتا بلکہ اپنے آپ کو بھی اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر لیتا ہے اور اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے قربانی کرنے کے لئے تیار ہو تو شریعت اس کے جذبہ قربانی میں روک نہیں بنتی لیکن اگر وہ اپنی زندگی میں ایک لاکھ روپیہ سالانہ آمد اپنے نفس پر خرچ کرتا رہتا ہے اور مرتے وقت چاہتا ہے کہ اپنا سارا مال خدا کی راہ میں دیدے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ خود تو سارے روپیہ سے فائدہ اٹھاتا رہا لیکن جب مرنے لگا تو اس نے چاہا کہ اب اس کے بیوی بچے اور دوسرے رشتہ دار جس طرح چاہیں گزارہ کریں اور ان کے لئے کوئی روپیہ باقی نہ رہے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرنے والا صرف ایک تہائی تک کی وصیت کرے.(الفضل ۲۵ / جولائی ۱۹۵۷ء) غیر شادی شدہ عورت کی وصیت سوال :.اگر وصیت کے لئے مہر کی شرط کی گئی تو غیر شادی شدہ عورتوں کی وصیت کے متعلق کیا ہوگا ؟ جواب :.سو یاد رکھنا چاہئے کہ غیر شادی شدہ عورت جو بھی اپنی جائیداد بتائے گی ہم اسے تسلیم کرلیں گے.اگر وہ کہے گی کہ میرے پاس ایک روپیہ ہے تو ہمارا فرض ہوگا کہ اس ایک روپیہ کو ہی تسلیم کر لیں.کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ غیر شادی شدہ رہنا منع ہے.آخر دو چار سال تک تو وہ غیر شادی
۳۲۳ معاملات رہے گی لیکن اس کے بعد وہ بہر حال شادی کرے گی اور جب وہ شادی کرے گی تو مہر والی صورت پیدا ہو جائے گی کیونکہ وصیت کی ایک شق یہ بھی ہے کہ اگر کوئی جائیداد آئندہ ثابت ہوگی تو اس پر بھی میری وصیت حاوی ہوگی.ہاں اگر کوئی عورت یہ کہے کہ میں مرنے تک شادی نہیں کروں گی تو یہ درست نہیں ہوگا.اگر خدانخواستہ ایسا حادثہ پیش آجائے کہ کوئی لڑکی وصیت کرنے کے بعد بغیر شادی کے فوت ہو جائے تو وہ چاہے ایک روپیہ وصیت میں لکھوائے.ہم بہر حال اسے تسلیم کریں گے کیونکہ اس نے اپنے اخلاص کا ثبوت دیدیا.ہمارا کوئی حق نہیں کہ اس کی وصیت کو ر ڈ کر دیں.طالب علم کی وصیت ( الفضل ۲ ؍ جولائی ۱۹۵۸ء صفحه ۵) سٹوڈنٹ پر بھی چندہ واجب ہے.خواہ پیسہ ماہوار ہو اور جو کچھ بھی کسی کے پاس ہواس کے حصہ کی وصیت ہوسکتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ مال نہیں دیکھتا بلکہ اخلاص دیکھتا ہے.ورثه الفضل ۱/۲۹ اپریل ۱۹۱۵ء.جلد ۲.نمبر ۱۳۳) سوال :.لڑکیوں کو ورثہ دینے کے بارہ میں سوال کیا کہ کیا ان (کو) جائیداد کی بجائے زیور کی صورت میں حصہ دیا جا سکتا ہے؟ جواب :.فرمایا.چونکہ قانون انگریزی لڑکیوں کو حصہ نہیں دلاتا.اس لئے جب تک یا تو لڑکیوں کو حصہ دینے کا قانون نہ بن جائے یا احمدیت کی حکومت نہ قائم ہو جائے.جہاں یہ خطرہ ہو کہ باپ کے مرنے کے بعد لڑ کے جائیداد میں سے بہنوں کو حصہ نہ دیں گے وہاں با قاعدہ حساب کر کے جتنا سہ بنے اتنے کا زیور دیدیا جائے تو کوئی بُری بات نہیں.بلکہ اچھی بات ہے.نیز حضور نے فرمایا.شریعت نے باپ کی وصیت کے بعد اولا دکوترکہ کا وارث بنایا ہے اگر باپ
۳۲۴ معاملات اپنی زندگی میں جائیداد کا حصہ صبہ کردے اور لڑکی باپ کی زندگی میں ہی فوت ہو جائے تو وہ جائیدادان لوگوں کے پاس چلی جائے گی جن کو شریعت نے اس کا وارث نہیں بنایا.الفضل و ر مئی ۱۹۴۵ ء - جلد ۲۳ - نمبر ۱۰۹ صفحه ۲) سوال :.کیا غیر احمدی مسلمان ایک احمدی مسلمان کی وفات پر اس کی جائیداد سے بروئے قانون شریعت حصہ لے سکتا ہے؟ جواب:.یقیناً لے سکتا ہے.یہ ایسا اختلاف نہیں کہ ورثہ روک دے.ہاں لوگ ورثہ نہ دیتے ہوں تو بدلہ کے طور پر ان سے دوسرا سلوک ہوسکتا ہے.الفضل ۴ رمئی ۱۹۵۴ ء صفحه ۲ ) سوال :.احمدیوں نے اپنے بزرگوں کے مذہب کو ترک کر دیا ہے اس لئے یہ ان کے وارث نہیں ہو سکتے ؟ جواب :.فرمایا.یہ میچ نہیں کہ احمدیوں نے بزرگوں کے مذہب کو ترک کر دیا ہے بلکہ احمدی ان تمام باتوں کو مانتے ہیں جو ان کے بزرگ مانتے تھے البتہ ایک بات ان میں زائد ہے اور وہ یہ کہ ان بزرگوں میں جو ایک پیشگوئی چلی آرہی تھی کہ ایک شخص آنے والا ہے.وہ ان کے زمانہ میں مبعوث ہوا اور انہوں نے ان تمام نشانات سے جو اس کے لئے پہلے سے مقرر تھے اس مامور کو پہچان کر قبول کر لیا.پس احمدیوں کا اختلاف اپنے بزرگوں سے نہیں بلکہ موجودہ لوگوں سے ہے.اس لئے ان کے حقوق تلف نہیں ہو سکتے.الفضل ۲۸ فروری ۱۹۲۱ء.جلد ۸ نمبر ۶۴ صفحه ۷ ) یتیم پوتا اپنے دادا کاکیوں وارث نهیں هوتا سوال : یتیم پوتا اپنے دادا کا کیوں وارث نہیں ہوسکتا؟
۳۲۵ معاملات جواب: فرمایا.کیوں کا کیا سوال ہے.شریعت کا فیصلہ یہی ہے کہ وارث نہیں ہوگا.لیکن اگر وہ ورثہ سے حصہ نہیں لے سکتا تو داد اپنے تیسرے حصہ سے اس کے متعلق کیوں وصیت نہیں کر دیتا جس کا خدا نے اسے حق دیا ہے.کیا اسے پتہ نہیں کہ اس کا بیٹا مر چکا ہے.جب وہ جانتا ہے تو وہ کیوں اسی وقت اپنے ورثہ میں سے اس کے متعلق وصیت نہیں کر دیتا.جبکہ وہ جائیداد کا تیسرا حصہ وصیت میں دے سکتا ہے.ایک خط کے جواب میں لکھوایا :.( الفضل ۱۶ / اپریل ۱۹۶۰، صفحه ۵) ایسے پوتوں کو ورثہ دینا جن کے باپ اپنے والد کی زندگی میں فوت ہو چکے ہوں شرعی لحاظ سے ضروری قرار نہیں دیا گیا.البتہ وصیت کے قانون کے ماتحت سفارش کی تھی.سو اس کے متعلق تحریک تو کی جاسکتی ہے مگر جبری انتظام نہیں کیا جا سکتا سوائے اس کے کہ مزید تحقیق کے نتیجہ میں مسئلہ کی صورت دوسری ثابت ہو.فائل مسائل دینی A-18.5.59-32 ) عاق کرنا جائز ھے عاق کرنا جائز ہے.لیکن اس کی بنیاد ایسے امور پر ہونی چاہئے جس میں شریعت بچے کو عاق کرنا جائز قرار دیتی ہو مثلاً اگر کسی شخص کو معلوم ہو جائے کہ میرا بیٹا چوری ،شراب خوری، جوئے بازی کرتا ہے اور کنچیوں وغیرہ پر روپیہ ضائع کر رہا ہے اور اس کی اس کی تمام حرکات مذہب اور سوسائٹی کے اصل کے خلاف ہیں تو وہ اس کو عاق کر سکتا ہے.الفضل ۲۵/اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۴.خطبہ جمعہ فرموده ۹/جون ۱۹۴۷ء) سوال :.ایک شخص کا لڑکا بالغ جو مسیح موعود علیہ السلام کو جھوٹا نبی تصور کرتا ہے اور مسیح موعودعلیہ السلام کو برا جانتا ہے آیا اس کو عاق لکھنا اور کل جائیداد سے بے دخل کرنے کا حکم ہے؟ جواب:.اس میں حکم کا تعلق نہیں.ایک شخص جو ہم سے عقیدہ میں اختلاف رکھتا ہے اس سے
معاملات ہمیں لڑنے کی کوئی وجہ نہیں.جس طرح غیر احمدی باپ کا وارث احمدی بیٹا ہوسکتا ہے.اسی طرح احمدی باپ کا غیر احمدی بیٹا وارث ہوسکتا ہے.غیر مذاہب والوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوتا ہے.فقہاء نے مختلف فتوے دیئے ہیں.بعض کہتے ہیں کا فرمسلمان کا وارث ہوسکتا ہے اور بعض کہتے ہیں نہیں اور اس کی بناء انہوں نے بعض احادیث پر رکھی ہے.لیکن میرے نزدیک یہی بات ہے جو میں نے بتائی.الفضل ۴ دسمبر ۱۹۲۳ء.نمبر ۴۵ ۴۴.جلدا اصفحه ۶) سوال:.اگر ایک آدمی کی نالی دوسرے آدمی کے مکان سے گزرتی ہو یا ایک آدمی کا پر نالہ دوسرے کے مکان یا صحن میں سے گزرتا ہو یا کسی نے دوسرے کی زمین پر مخالفانہ قبضہ کر لیا ہو.اور اس کو مدت مدید گزر جائے.ایسے مقدمات میں شریعت حقدار کو حق دلائے گی.لیکن ضرورت اور آپس کے تعلقات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ایسے حقوق کے ٹوٹ جانے کی کوئی حد مقرر ہونی چاہئے.لیکن شریعت نے اس کی کوئی تحدید نہیں کی.اسلامی ممالک میں جہاں شریعت کے مطابق فیصلہ جات ہوتے ہیں یہ حق خلیفہ یا امیر کا رکھا گیا ہے کہ وہ اس میعاد کی تعین کرے.چنانچہ شامی میں لکھا ہے کہ سلطان ترکی نے ارث وقف کے سوا باقی میں تیرہ سال کی حد رکھی ہے سو اس کے متعلق حضور کا کیا فیصلہ ہے کہ یہ میعاد کتنی ہونی چاہئے؟ جواب :.میرے نزدیک یہ سوال گہرے غور و فکر کے بعد طے ہونے والا ہے لیکن عارضی طور پر میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ.اگر کسی شخص کے سامنے جائیداد موجود ہو تو اس کا تیرہ سال کے بعد مقدمہ کاحق نہ ہوگا بشرطیکہ جائیداد کی صورت بدل گئی ہو یا اسے نئے قابض نے آگے فروخت کر دیا ہو.۲.اگر اس کی صورت نہ بدل گئی ہو اور نہ اُسے فروخت کیا گیا ہو تو قاضی کی مرضی پر ہوگا کہ اگر وہ سمجھے کہ اس زمانہ میں ثبوت ضائع نہیں ہوئے اور انصاف کے راستہ میں کوئی روک نہیں تو وہ تیرہ سال کے بعد بھی کیس کو سن لے.۳..جائیداد کی صورت بدلنے کے معنی اس میں معتد بہ تبدیلی پیدا ہونے کے ہوں گے جس کے
۳۲۷ معاملات بعد اس کی ملکیت میں تبدیلی قابض پر ایک ناواجب بوجھ بن جائے گا.۴.نابالغ بچہ کے مقدمہ میں اس کی جوانی کے چھ سال تک مقدمہ کو سنا جاسکتا ہے اور جوانی کی حد ہماری عدالتوں میں اکیس سال کی ہوگی.یعنی مقدمات مالی کے لئے..اگر کوئی شخص باہر گیا ہوا ہو تو اس کے لئے پچیس سال کا عرصہ رہے.اس عرصہ میں وہ نالش کر سکتا ہے..اگر یہ ثابت ہو جائے کہ قابض کو علم تھا کہ وہ جائیداد اس کی نہیں اور اس پر وہ قابض ہوا تو اس پر ہرجانہ میعاد فائدہ کا ڈالا جاسکتا ہے اور جرمانہ بھی کیا جاسکتا ہے اور اگر یہ ثابت ہو کہ مالک کو علم تھا کہ اس کی جائیداد پر قبضہ کیا جا رہا ہے اور وہ خاموش رہا اور اس نے مقدمہ نہ کیا تو اسے اپنے ہرجانہ کے مطالبہ کے ایک حصہ سے محروم بھی کیا جا سکتا ہے.یہ قاضی کی مرضی پر ہوگا.(فائل فیصلہ جات خلیفہ وقت نمبرا.صفحہ ۳.دارالقضاء، ربوه محرره ۲۰ جون ۱۹۳۲ء) انشورنس کے متعلق جماعت احمدیه کانظریه انشورنس نہ تو عربی کا لفظ ہے نہ ہی شرعی اصطلاح ہے.اس لئے نام کے متعلق تو نہ ہی اس کے خلاف اور نہ اس کے حق میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے.مثلاً کوئی ایسا جانور ہو جو ہمارے ملک میں نہ پایا جاتا ہو بلکہ افریقہ یا آسٹریلیا سے پکڑا ہوا آئے تو حدیث اور فقہ کا فتویٰ تو اس پر لگ نہیں سکتا.کیونکہ اس کے نام کو وہ جانتے نہ تھے.اس کے متعلق فتویٰ صرف اس صورت میں لگ سکے گا کہ ہمیں اس جانور کے حالات معلوم ہوں.وہ حالات اگر حلال جانور کے مشابہ ہوں گے تو حلال ہوگاور نہ حرام.مثلاً اگر کوئی جانور شکار کھانے والا ہو، گندگی کھانے والا اور خلاف فطرت فعل کرنے والا ہوتو وہ حرام ہوگا.اگر پھل، ترکاری ہسبزی وغیرہ کھانے والا ہو.اس میں درندگی کے افعال نہ پائے جائیں.گندگی نہ کھاتا ہو اور نہ گندے افعال کرتا ہوتو حلال ہوگا.پس اسی رنگ میں انشورنس کے متعلق فتوئی ہو گا.میں یہ نہیں کہ سکتا کہ انشورنس حلال ہے یا حرام.
۳۲۸ معاملات ہاں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت تک جتنی انشورنس کی کمپنیوں کے قواعد میں نے پڑھے ہیں.قواعد کی رو سے ان میں حرمت کی وجہ پائی جاتی ہے.اگر کوئی ایسی انشورنس کمپنی ہے جس کے قواعد اسلام کے مطابق ہو تو ہم اسے جائز سمجھیں گے.ہمیں انشورنس کے لفظ سے چڑ نہیں.ہمیں تو اس کی تفصیل سے غرض ہے.پس جو یہ فتویٰ پوچھتا ہے اس سے پوچھا جائے کہ جس کمپنی کے انشورنس کے متعلق وہ پوچھتا اس کے قواعد کیا ہیں.پھر ہم اس کے جائز یا نا جائز ہونے کا بتا سکیں گے.یہ اس کو بتا دیا جائے کہ کینیڈا، پاکستان اور ہندوستان کی انشورنس کمپنیوں کے قواعد جتنے میں نے پڑھے ہیں حرمت کے فتوے والے قواعد ہیں.(الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۵۲ء صفحه۲) انشورنس کیوں جائز نھیں یہ بات درست نہیں کہ ہم انشورنس کو سود کی ملونی کی وجہ سے ناجائز قرار دیتے ہیں.کم از کم میں تو اسے اس وجہ سے ناجائز قرار نہیں دیتا.اس کے ناجائز ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ کہ ا.انشورنس کے کاروبار کی بنیا د سود پر ہے اور کسی چیز کی بنیاد سود پر ہونا اور کسی چیز میں ملونی سود کی ہونا ان میں بہت بڑا فرق ہے.گورنمنٹ کے قانون کے مطابق کوئی انشورنس کمپنی ملک میں جاری نہیں ہوسکتی.جب تک ایک لاکھ کی سیکوریٹیز گورنمنٹ نہ خریدے.پس اس جگہ آمیزش کا سوال نہیں بلکہ لزوم کا سوال ہے.۲.دوسرے انشورنس کا اصول سود ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ کے مطابق اسلامی اصول یہ ہے کہ جو کوئی رقم کسی کو دیتا ہے یاوہ ھدیہ ہے یا امانت ہے یا شراکت ہے یا قرض ہے.حد یہ یہ ہے نہیں.امانت بھی نہیں کیونکہ امانت میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی.یہ شراکت بھی نہیں کیونکہ کمپنی کے نفع و نقصان کی
۳۲۹ معاملات ذمہ داری اور اس کے چلانے کے اختیار میں پالیسی ہولڈر شریک نہیں.ہم اسے قرض ہی قرار دے سکتے ہیں اور حقیقت یہ ہوتا بھی قرض ہی ہے کیونکہ اس روپیہ کو انشورنس والے اپنے ارادہ اور تصرف سے کام پر لگاتے ہیں اور انشورنس کے کام میں گھانا ہونے کی صورت میں روپیہ دینے والے پر کوئی ذمہ واری نہیں ڈالتے.پس یہ قرض ہے اور جس قرض کے بدلہ میں کسی قبل از وقت سمجھوتہ کے ماتحت کوئی نفع حاصل ہوا سے شریعت اسلامیہ کی رو سے سود کہا جاتا ہے.پس انشورنس کا اصول ہی سود پرمبنی ہے.۳.تیسرے انشورنس کا اصول ان تمام اصولوں کو جن پر اسلام سوسائٹی کی بنیا درکھنا چاہتا ہے باطل کرتا ہے.انشورنس کو کلی طور پر رائج کر دینے کے بعد تعاون باہمی ، ہمدردی اور اخوت کا مادہ دنیا سے مفقود ہو جاتا ہے.الفضل ۱۸ ستمبر ۱۹۳۴ء - جلد ۲۲ نمبر ۳۲ صفحه ۵) فرمایا.بیمہ کی وہ ساری کی ساری اقسام جو اس وقت تک ہمارے علم میں آچکی ہیں نا جائز ہیں.ہاں اگر کوئی کمپنی یہ شرط کرے کہ بیمہ کرانے والا کمپنی کے فائدہ اور نقصان میں شامل ہوگا تو پھر بیمہ کرانا جائز ہوسکتا ہے.ہاں ایک طرح کا بیمہ جائز ہے اور وہ یہ کہ مجبوراً کرانا پڑے جیسے بعض محکموں میں گورنمنٹ نے ضروری کر دیا ہے کہ ملازم بیمہ کرائیں.یہ چونکہ اپنے اختیار کی بات نہیں ہوتی اس لئے جائز ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ موجود ہے.آپ نے فرمایا ہے پراویڈنٹ فنڈ جہاں مجبور کر کے جمع کرایا جاتا ہے وہاں اس رقم پر جو زائد ملے وہ لے لینا چاہئے.الفضل کے جنوری ۱۹۳۰ء.جلد ۱۷ نمبر ۵۳ صفحه ۴) سوال :.کیا شریعت میں زندگی بیمہ کرانے کا کوئی جواز ہے یا نہیں.یعنی زندگی کو انشورنس کرنا جائز ہے یا نا جائز ؟ جواب :.فرمایا.بیمہ کی موجودہ کمپنیوں سے ان کے طریق پر تو ناجائز ہے لیکن بیمہ ایک نئی اصطلاح ہے اگر کوئی کمپنی ایسے قانون بنائے جو اسلام کے مطابق ہوں تو وہ جائز ہو جائیں گی.(فائل مسائل دینی DP 709/29.11.55-32-A)
زندگی کے بیمہ میں سودضرور ہوتا ہے.اس لئے جائز نہیں.اور جوا بھی ہوتا ہے.معاملات ( الفضل ۱۸ / مارچ ۱۹۱۶ء صفحه ۱۵) سوال :.فرمایا.ایک صاحب نے سوال کیا ہے کہ آج کل فسادات کی وجہ سے جو نقصانات ہورہے ہیں ان میں مسلمانوں کا نقصان زیادہ ہو رہا ہے کیونکہ ان کی مالی حالت کمزور ہے اور دوسری قوموں کے پاس چونکہ روپیہ ہے اس لئے وہ اپنی حفاظت کے سامان کر سکتی ہیں.کیا ایسی صورت میں بیمہ جائز ہے یا نا جائز ؟ جواب :.اس کا جواب یہ ہے کہ جس چیز کو شریعت نے ناجائز قرار دیا ہے وہ بہر حال ناجائز ہے چاہے نقصان ہی کیوں نہ ہو جائے آخر وفاداری کا پتہ بھی تو نقصان یا دکھوں کے وقت ہی لگا کرتا ہے.نفع اور آرام کے وقت تو ہر شخص وفاداری دکھا سکتا ہے.بیمہ کوئی ایسی چیز تو ہے نہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی تھی.اس لئے لفظ بیمہ کا ثبوت نہ تو ہمیں قرآن کریم سے ملتا ہے اور نہ ہی احادیث سے ملتا ہے.قرآن کریم اور احادیث سے کسی چیز کے جائز یا نا جائز ہونے کے اصول کا پتہ ضرور لگ جاتا ہے اور ان اصول کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ موجودہ صورت میں بیمہ جن اصول پر چلایا جارہا ہے وہ شریعت کے خلاف ہیں.شریعت میں سود بھی منع ہے اور جوا بھی منع ہے اور یہ دونوں چیزیں بیمہ کے اندر پائی جاتی ہیں.بیمہ کے موجودہ اصول کے مطابق نہ تو یہ سود کے بغیر چل سکتا ہے اور نہ جوئے کے بغیر.پس سود اور جوئے کی وجہ ہماری شریعت بیمہ کی موجودہ صورت کو جائز قرار نہیں دے سکتی.یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ بیمہ منع ہے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ بیمہ کی موجودہ صورت منع ہے.ہمیں بیمہ کے لفظ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کی تفصیل کے ساتھ تعلق ہے.ہوسکتا ہے کہ کوئی وقت ایسا بھی آجائے جبکہ بیمہ زندگی کی موجودہ صورت بدل جائے اور سود اور جوا دونوں ہی اس میں نہ رہیں اور اسے خالص اسلامی اصول کے ماتحت چلایا جائے.ایسی صورت میں اس کے جواز کا فتویٰ دیدیا جائے گا.بہر حال ہم لفظ بیمہ کو نا جائز قرار نہیں دیتے بلکہ بیمہ کی موجودہ شکل اور اس کی موجودہ
۳۳۱ معاملات تفاصیل کوناجائز قرار دیتے ہیں.ایک دوست نے یہ سوال کیا کہ یوپی گورنمنٹ نے حکم دیا ہے کہ ہر شخص جس کے پاس کوئی موٹر ہے وہ اس کا بیمہ کرائے.کیا یہ جائز ہے؟ اس کے متعلق بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ حکم صرف یو پی گورنمنٹ کا ہی نہیں بلکہ پنجاب میں بھی گورنمنٹ کا یہی حکم ہے.یہ بیمہ چونکہ قانون کے ماتحت کیا جاتا ہے اور حکومت کی طرف سے اسے جبری قرار دیا گیا ہے اس لئے اپنے کسی ذاتی فائدہ کے لئے نہیں بلکہ حکومت کی اطاعت کی وجہ سے یہ بیمہ جائز ہے.الفضل مر نومبر ۱۹۶۱ء صفحه ۳ - فرموده ۲۵ جون ۱۹۴۷ء) پسماندگان کی مدد اسی طرح ایک ضروری امر پسماندگان کی مدد ہے.جب ہم کہتے ہیں کہ سب کچھ دین کے لئے قربان کر دو تو جولوگ اس پر عمل کرتے ہیں ان کے فوت ہونے پر ان کے پسماندگان کے لئے کچھ نہیں بچتا.ایسے حاجتمندوں کے لئے ایک فنڈ ہونا ضروری ہے.جس میں چندہ دینا لازمی نہ ہو بلکہ مرضی پر ہو.اور اس کے لئے ایسا قانون بنادیا جائے کہ جو اتنا چندہ دیدے اسے اتنے عرصہ کے بعد اتنی رقم بالمقطع دی جائے گی یا اگر فوت ہو جائے تو پسماندگان کو اتنی رقم ادا کر دی جائے.اگر کسی ایسے فنڈ کا انتظام ہو جائے تو پسماندگان کا انتظام ہوسکتا ہے.اس کے متعلق میں تفصیلی طور پر اس وقت بیان نہیں کر سکتا.میرا ارادہ ہے کہ مجلس مشاورت میں اسے پیش کیا جائے اور اسے ایسے رنگ میں رکھا جائے کہ سود نہ رہے، انشورنس نہ ہواور کام بھی چل جائے.مثلاً یہی فیصلہ ہو کہ اس عمر تک پسماندگان گوگزارہ دیا جائے گا یا یہ کہ بچوں کو اس قدر تعلیم دلائی جائے گی.(انوار العلوم جلد ۹.منہاج الطالبین صفحہ ۱۷۱) سوال :.کیا چٹھیوں کو ڈاکخانے میں انشور کرانا جائز ہے؟ جواب : فرمایا کہ ہاں چٹھیوں کا پہنچادینا ڈاک خانہ کا فرض ہے لیکن کسی اور سے جس کا یہ فرض نہ ہو انشور کرانا جوئے کی طرح ہو جاتا ہے.یہ نا جائز ہے.
۳۳۲ معاملات ریل یا جہاز کی کمپنی سے انشورنس کرانا جائز ہے لیکن ٹامس لک وغیرہ جس کا فرض اسباب کو پہنچا دینا نہیں اس سے انشور کرانا نا جائز ہے.زندگی کا بیمہ کرانا جائز نہیں ، مکانوں کو انشور کرانا بھی جائز نہیں.سوال :.پچاس یا سو آدمی مل کر ایک قسم کا فنڈ بنا ئیں.جس میں سب چندہ دیا کریں تا کہ اگران میں سے کسی کے مکان کو آگ لگ جائے تو اس کی مدد کی جائے تو کیا یہ جائز ہے؟ جواب:.ہندوستان میں بہت سی کو آپریٹو سوسائٹیاں بن رہی ہیں جن کا مقصد لوگوں کی مدد کرنا ہوتا ہے.اسی طرح اگر لوگ مل کر ایک سوسائٹی اس مقصد کے لئے بنائیں کہ سب چندہ دیا کریں اور اگر ان میں سے کسی ایک کا کچھ نقصان ہو جائے جو کہ اس کی غفلت کا نتیجہ نہ ہو تو اس کے ایسا ثابت کرنے پر اس کی مدد کی جائے تو یہ جائز ہے.لیکن یورپ میں بہت سے لوگ اپنے مال کو انشور کرا کے خود اپنا نقصان کر لیتے ہیں تا کہ بیمے کا روپیہ حاصل ہو جائے.الفضل ۲۸ / اپریل ۱۹۲۱ء - جلد ۸ نمبر ۱ ۸ صفحه ۶) پراویڈنٹ فنڈ سوال:.سود اسی کو کہا جاتا ہے جو روپیہ بغیر محنت کے زائد مل جائے اس صورت میں کیا پراویڈنٹ فنڈ سود نہیں؟ جواب : نہیں.پراویڈنٹ فنڈ میں کام کرانے والا ادارہ کارکن کی امداد کرتا ہے اور وہ امداد اس کے روپیہ کے عوض میں نہیں ہوتی.وہ ادارہ اس سے رو پید اپنے فائدہ کے لئے نہیں کاٹتا بلکہ اس روپیہ کا فائدہ بھی کارکن کو ہی دیتا ہے اور جہاں گورنمنٹ جبر اروپیہ وضع کرتی ہے اور پھر اس پر منافع دیتی ہے وہ جائز ہے اور سود نہیں.کیونکہ سود تو روپیہ کے عوض میں ہوتا ہے جو اس نیت سے کسی کو خود دیا جائے کہ مجھے زیادہ ملے گا.بیمہ میں بھی یہی صورت ہے اس میں آدمی اسی نیت سے روپیہ جمع کراتا ہے کہ اگر کل مرجاؤں
۳۳۳ معاملات تو بہت زیادہ روپیہ وارثوں کومل سکے گا.اس میں ایک شرط یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی قسط ادا نہ کی جائے تو سب ضائع ہو جاتا ہے.یہ پورا جوا ہے ہم نے اس کے حلال کی یہ تجویز کی تھی کہ لوگ روپیہ دیں اور آپس میں معاہدہ کر لیں کہ اس کا کچھ منافعہ تو حصہ وارانہ تقسیم کیا جائے گا اور کچھ جوممبر مر جائیں ان کے ورثاء میں تقسیم کر دیا جائے گا.منافع کوئی مقرر نہ ہو بلکہ جو بھی ہو تقسیم کر دیا جائے.اگر نہ ہو تو نہ کیا جائے.قواعد اس کے بھی اسی طرح رکھے جائیں کہ جو قسط نہ دے گا اس کی رقم ضبط ہوگی تا کہ ادائیگی قسط سے کوئی شخص رکے نہیں.لیکن ایسا کیا نہ جائے.یہ رقم جمع کر کے میرا ارادہ تھا کہ زمین اور مکانات رہن لے لئے جائیں یہ تجارت بہت اچھی ہے اس میں خسارہ کا احتمال نہیں ہوتا.اگر کوئی شخص کسی کا مکان رہن لیتا ہے اور وہ مکان گر جائے تو مالک کا فرض ہے کہ اسے تعمیر کرائے کیونکہ جو چیز اس نے روپیہ کے بدلہ میں دی تھی وہ جب رہی نہیں تو رہن کیسا.ہاں جب تک تعمیر نہ ہوگا اس وقت تک کرایہ نہ ملنے کے خسارہ رہن رکھنے والے کو بھی ہوگا.ڈالی دینا الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۲۹ء.جلد ۱۷.نمبر ۴۲ صفحه ۱۰۷۹) ایک صاحب نے اپنے محکمہ میں اپنی حق تلفی کا ذکر کیا جو اس وجہ سے ہوئی کہ وہ افسران بالا سے مل کر ڈالی وغیرہ نہ دے سکے تھے ؟ فرمایا :.آپ بھی ڈالی دے دیتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے دوسرے کی حق تلفی کے لئے نہیں.لیکن اپنا حق حاصل کرنے کے لئے ڈالی دے دینا نا جائز نہیں.اس پر ایک صاحب نے کہا یہ بات بظا ہر ایک احمدی کے لئے موزوں معلوم نہیں ہوتی کہ رشوت دے.فرمایا:.احمدیت کے بانی نے تو اس کی اجازت دی ہے.بے شک یہ ایک کمزوری ہے لیکن ہماری اپنی حکومت تو نہیں کہ سب نقائص دور کر دیں.انفرادی اخلاق قومی ضروریات کے ماتحت ہوتے ہیں یہ تو ایک انفرادی خلق ہے کہ رشوت نہ دی جائے.لیکن اگر اسی طرح ہماری جماعت کے
۳۳۴ معاملات لوگ پیچھے رہتے چلے جائیں تو جماعت کی ترقی رک جائے گی.الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۲۹ء.جلد ۱۷.نمبر ۵ صفحه ۷ ) رشوت و نذرانه ایک صاحب کو حضور نے رشوت کی یہ تعریف لکھائی.وڈھی (رشوت ) اس رقم کو کہتے ہیں جو کسی ایسے شخص کو دی جائے کہ جس کے ہاتھ میں کسی امر کا فیصلہ ہوتا ہے جس کے ساتھ دو غیر شخصوں کے فوائد وابستہ ہوتے ہیں.جور تم کہ اس غرض کے لئے دی جاتی ہے کہ وہ شخص اس امر میں فیصلہ کرتے وقت اس روپیہ دینے والے کی تائید کرے اور اس کے حق میں کلی طور پر یا جزئی طور پر فیصلہ دیدے وہ رشوت ہوتی ہے.اگر بلاکسی سمجھوتے کے خواہ وضا حنا ہو یا اشارۃ اور کنایہ کسی ایسے کام کے متعلق جس میں دوسروں کو نقصان نہ پہنچتا ہوا گر کوئی رقم کسی سرکاری کارکن کو دے دی جائے تو وہ رشوت کی تعریف کے ماتحت نہیں آئے گی.ہاں اکثر حالات میں چونکہ ایسی رقوم افسروں کے اخلاق کے بگاڑنے کا موجب ہو جاتی ہیں اس لئے اس سے حتی الوسع پر ہیز کرنا چاہئے.بعض ایسی بھی صورتیں ہو جاتی ہیں کہ بعض سرکاری کارندے کسی کا حق تلف کئے بغیر زائد وقت خرچ کر کے اور محنت کر کے کسی شخص کا کوئی کام کر دیتے ہیں ایسے وقتوں میں اگر کچھ رقم دی جائے اور وہ سرکاری قانون کے خلاف نہ ہوتو وہ اخلاق حسنہ کے خلاف نہیں بلکہ عین مطابق ہوگی.الفضل ۴ دسمبر ۱۹۲۳ء - جلد ۱۱ نمبر ۴۴، ۴۵ صفحه ۶) سوال :.ایک صاحب پوچھتے ہیں جو ڈا کٹر دیہات میں جاتے ہیں اگر نمبر دار انہیں ایک روپیہ نذرانہ دیں اور حکام اسے جانتے بھی ہوں تو کیا جائز ہے؟ جواب :.فرمایا.رشوت حرام اور علاج کی فیس جائز.الفضل ۲۵ را پریل ۱۹۱۵ء - جلد ۲ نمبر ۱۳۱ صفحه ۲).
۳۳۵ معاملات ایک دوست نے دریافت کیا کہ اہلکار ان جو روپیہ لوگوں سے بطور بالا کی آمدنی لے لیتے ہیں اگر وہ اس میں سے از خود کچھ حصہ دیں تو اس کو لے لیا جائے اور آیا وہ کسی کارخیر میں خرچ کرنا جائز ہوگا؟ حضرت خلیفہ ثانی نے ان کو جواب لکھایا کہ وہ روپیہ حرام ہے.مسکین فنڈ میں بھی داخل نہیں ہوسکتا جور تم آچکی ہو وہ کسی محتاج کو دے دیں اور آئندہ ہرگز نہ لیں.الفضل ۱۵ جون ۱۹۱۵ء - جلد ۲ نمبر ۱۵۳ صفی ۲) ایک دوست نے پوچھا کہ محکمہ ریلوے میں جو مال سٹیشنوں پر آتا ہے اس کے چھڑانے کے وقت بیو پاری مجھے پیسے اپنے خوشی سے دیتے ہیں کیا یہ لینے جائز ہیں؟ فرمایا.بالکل حرام ہیں.☆☆☆ الفضل ۶ رمئی ۱۹۱۵ء.جلد ۲.نمبر ۱۳۶ صفحه ۲ )
۳۳۷ پرده
۳۳۹ پرده پرده ” إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا “ کے یہ معنے ہیں کہ وہ حصہ جو آپ ہی آپ ظاہر ہو اور جسے کسی مجبوری کی وجہ سے چھپایا نہ جاسکے خواہ یہ مجبوری بناوٹ کے لحاظ سے ہو یا بیماری کے لحاظ سے ہو کہ کوئی حصہ جسم علاج کے لئے ڈاکٹر کو دکھانا پڑے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو یہاں تک فرمایا کرتے تھے کہ ہوسکتا ہے ڈاکٹر کسی عورت کے متعلق تجویز کرے کہ وہ منہ نہ ڈھانپے.اگر ڈھانپے گی تو اس کی صحت خراب ہو جائے گی اور ادھر اُدھر چلنے کے لئے کہے تو ایسی صورت میں اگر وہ عورت منہ ننگا کر کے چلتی ہے تو بھی جائز ہے.بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور کوئی اچھی دایہ میسر نہ ہواور ڈاکٹر یہ کہے کہ اگر یہ کسی قابل ڈاکٹر سے اپنا بچہ نہیں بنوائے گی تو اس کی جان خطرہ میں ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ کسی مرد سے بچہ جنوائے تو یہ بھی جائز ہوگا بلکہ اگر کوئی عورت مرد ڈاکٹر سے بچہ نہ جنوائے اور مر جائے تو خدا تعالیٰ کے حضور وہ ایسی گنہگار سمجھی جائے گی جیسے اس نے خود کشی کی ہے.پھر یہ مجبوری کام کے لحاظ سے بھی ہوسکتی ہے جیسے زمیندار گھرانوں کی عورتوں کی میں نے مثال دی ہے کہ ان کے گزارے ہی نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ کاروبار میں اپنے مردوں کی امداد نہ کریں.یہ تمام چیزیں الاماظهر منھا میں ہی شامل ہیں.پردہ سے مراد ( تفسیر کبیر جلد ششم تفسیر سوره نور ۲۹۹) پردہ سے مراد وہ پردہ نہیں جس پر پرانے زمانہ میں ہندوستان میں عمل ہوا کرتا تھا اور عورتوں کوگھر کی چاردیواری میں بند رکھا جاتا تھا اور نہ پردہ سے مراد موجودہ برقعہ ہے.یہ برقعہ جس کا آج کل رواج ہے صحابہ کے زمانہ میں نہیں تھا.اس وقت عورتیں چادر کے ذریعہ گھونگھٹ نکال لیا کرتی تھیں جس طرح شریف زمیندار عورتوں میں آجکل بھی رواج ہے.
۳۴۰ پرده جو چیز منع ہے وہ یہ ہے کہ عورت کھلے منہ پھرے اور مردوں سے اختلاط کرے.ہاں اگر وہ گھونگھٹ نکال لے اور آنکھ سے رستہ وغیرہ دیکھے تو یہ جائز ہے لیکن منہ سے کپڑا اٹھا دینا مکسڈ پارٹیوں میں جانا جبکہ ادھر بھی مرد بیٹھے ہوں یہ نا جائز ہے.اسی طرح عورت کا مردوں کو شعر گا گا کر سنانا بھی ناجائز ہے کیونکہ یہ ایک لغو فعل ہے.غرض عورتوں کا مکسڈ مجالس میں جانا مردوں کے سامنے اپنا منہ نگا کر دینا اور ان سے ہنس ہنس کر با تیں کرنا یہ سب ناجائز امور ہیں لیکن ضرورت کے موقع پر شریعت نے بعض امور میں انہیں آزادی بھی دی ہے بلکہ قرآن کریم نے الا ما ظهر منها “ کے الفاظ استعمال فرما کر بتا دیا کہ جو حصہ مجبوراً ظاہر کرنا پڑے اس میں عورت کے لئے کوئی گناہ نہیں.اس اجازت میں وہ تمام مزدور عورتیں بھی شامل ہیں جنہیں کھیتوں اور میدانوں میں کام کرنا پڑتا ہے اور چونکہ ان کے کام کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ ان کے لئے آنکھوں اور ان کے اردگرد کا حصہ کھلا رکھنا ضروری ہوتا 66 ہے ورنہ ان کے کام میں دقت پیدا ہوتی ہے اس لئے الا ما ظهر منها “ کے تحت ان کے لئے آنکھوں سے لے کر ناک تک کا حصہ کھلا رکھنا جائز ہوگا.اور چونکہ انہیں بعض دفعہ پانی میں بھی کام کرنا پڑتا ہے اس لئے ان کے لئے یہ بھی جائز ہوگا کہ وہ پاجامہ اڑس لیں اور ان کی پنڈلی تنگی ہو جائے.بلکہ ہمارے علماء کا یہ فتویٰ ہے کہ اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور کوئی اچھی دایہ میسر نہ آسکے اور ڈاکٹر یہ کہے کہ اگر یہ کسی مرد ڈاکٹر سے اپنا بچہ نہیں جنوائے گی تو اس کی زندگی خطرہ میں ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ کسی مرد سے بچہ نہیں جنوائے گی تو یہ گناہ ہوگا.اور پردے کی کوئی پرواہ نہیں کی جائے گی.حالانکہ عام حالات میں منہ کے پردے سے ستر کا پردہ زیادہ ہے.لیکن اس کے لئے اعضاء نہانی کو بھی مرد کے سامنے کر دینا ضروری ہوگا.بلکہ اگر کوئی عورت مرد ڈاکٹر سے بچہ نہ جنوائے اور مرجائے تو خدا تعالیٰ کے حضور وہ ایسی ہی سمجھی جائے گی جیسے اس نے خود کشی کی ہے.الفضل ۲۷ ؍جون ۱۹۵۸ء صفحه ۵ )
۳۴۱ پرده پردہ میں تشدد اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض علاقوں میں پردہ کے متعلق ایسے تشدد سے کام لیا جاتا تھا کہ وہ ڈولیوں کو بھی پردوں میں سے گزارتے تھے چنانچہ میں نے دیکھا کہ عورتوں کو ڈولی میں لاتے اور پھر ڈولی کے ارد گرد پردہ تان کر انہیں گاڑی میں سوار کراتے اور بعض قوموں میں اس سے بھی بڑھ کر یہ پردہ ہوتا تھا کہ وہ کہتے تھے عورت ڈولی میں آئے تو پھر جنازہ ہی گھر سے نکلے مگر یہ لوگوں کے خودساختہ پردے ہیں جو صریح ظلم ہیں اور ان کا اثر عورتوں کی صحت اور ان کے اخلاق اور ان کے علم اور ان کے دین پر بہت گندہ پڑا ہے.قرآن اور حدیث سے اس قسم کے کسی پردے کا پتہ نہیں چلتا.قرآن کریم سے صریح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو باہر نکلنے کی اجازت ہے اگر انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہ ہوتی تو غض بصر کے حکم کی بھی ضرورت نہ ہوتی.( تفسیر کبیر شم تفسیر سوره نور صفحه ۳۰۰۳) چھوٹی عمر میں لڑکیوں کا برقعہ اوڑھنا اسلامی تعلیم کے ماتحت پر دے کے قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے عورت ہر قسم کے کاموں کے شریک حال ہو سکتی ہے.وہ مردوں سے پڑھ سکتی ہے ان کا لیکچر سن سکتی ہے اور اگر کسی جلسہ میں کوئی ایسی تقریر کرنی پڑے جومرد نہیں کر سکتا تو عورت تقریر بھی کر سکتی ہے.مجالس وعظ اور لیکچروں میں مردوں سے الگ ہو کر بیٹھ سکتی ہے ضرورت کے موقعہ پر اپنی رائے بیان کر سکتی ہے اور بحث کر سکتی ہے کیونکہ ایسے امور جن میں عورتوں کا دخل ہو ان امور میں عورتوں کا مشورہ لینا ضروری ہوتا ہے.اسی طرح عورت ضرورت کے ماتحت مرد کے ساتھ مل کر بھی بیٹھ سکتی ہے.جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں ایک نو جوان لڑکی کو جو پیدل جارہی تھی اونٹ پر اپنے پیچھے بٹھا لیا.(مسند احمد.جلد ۲ صفحہ ۳۸۰)
۳۴۲ پرده جو چیز منع ہے وہ یہ ہے کہ عورت کھلے منہ پھرے اور مردوں سے اختلاط کرے ہاں اگر گھونگھٹ نکال لے اور آنکھوں سے راستہ وغیرہ دیکھے تو یہ جائز ہے لیکن منہ سے کپڑا اٹھا دینا یا مکسڈ پارٹیوں میں جانا جبکہ ادھر بھی مرد بیٹھے ہوں اور اُدھر بھی مرد بیٹھے ہوں اور ان مردوں سے بے تکلفی کے ساتھ غیرضروری باتیں کرنا یہ نا جائز ہے.اسی طرح عورت کا مردوں کو شعر گا گا کر سنانا بھی ناجائز ہے کیونکہ یہ ایک لغو فعل ہے.میرے نزدیک یہ بھی ظلم کیا جاتا ہے کہ چھوٹی عمر میں ہی لڑکیوں کو برقعہ اوڑھا دیا جاتا ہے.اس سے ان کی صحت پر بھی اثر پڑتا ہے اور ان کا قد بھی اچھی طرح نہیں بڑھ سکتا.جب لڑکی میں نسائیت پیدا ہونے لگے اس وقت اسے پردہ کرانا چاہئے اس سے پہلے نہیں.( تفسیر کبیر جلد ششم.سورہ نور صفحه ۳۰۵،۳۰۴) پرده کن افراد سے کیا جائے سوال :.کیا ان بارہ افراد (مذکورہ سورہ نور کے علاوہ سب سے پردہ لازمی ہے یا اور استثنائی صورتیں بھی ہیں مثلاً نبی موعود، خلفاء یا عام خلفاء کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :.میرے نزدیک جو بمنزلہ ایسے رشتہ داروں کے ہوں ان سے نیم پردہ جائز ہے یعنی بے تکلفی نہ ہو.مگر سر ڈھانک کر سامنے ہو جائے تو منع نہیں گووا جب بھی نہیں.سوال :.اس وقت عام رواج کے مطابق دیور، بہنوئی ، چا یا ماموں کے لڑکوں یا اسی طرح کے نزد یکی رشتہ داروں سے پردہ نہیں کیا جاتا اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ جواب :.ان سے پردہ ہے ہاں یہ پردہ دوسروں سے کم ہے یعنی جو کم سے کم پر دہ ہے وہ ان سے ہے.سوال :.بعض حالات میں رشتہ دار عورتیں رشتہ داری کی وجہ سے پردہ نہیں کرتیں حالانکہ قرآنی احکام کے مطابق ان کو پردہ کرنا چاہئے.تو کیا ان کو مجبور کیا جائے کہ پردہ کریں اور انسان خود سامنے آنے سے پر ہیز کرے یا جو پردہ نہ کریں ان کے سامنے آنے میں کوئی حرج نہیں؟ جواب :.جو خود پر دہ نہیں کرتی اگر اس پر اختیار ہو تو رو کے ورنہ اس پر گناہ نہیں.ہاں خلوت میں
بیٹھے، بے تکلف نہ ہو.۳۴۳ پرده الفضل ۷ار جولائی ۱۹۳۸ء.جلد ۲۶ نمبر ۱۶۲ صفحه ۲) بوڑھی عورتیں اور پردہ وَ الْقَوَاعِدُ مِنِ النِّسَاءِ الَّتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ.....( النور :٢١) جو عورتیں بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو جائیں اور نکاح کے قابل نہ رہیں وہ اگر معروف پر دہ چھوڑ دیں تو جائز ہے.ہاں خواہ مخواہ زیور پہن کر اور بناؤ سنگھار کر کے باہر نہ نکلیں.یعنی پردہ ایک عمر تک ہے اس کے بعد پردہ کے احکام ساقط ہو جاتے ہیں.ہمارے ملک نے پردہ کے احکام کو ایسی بری طرح استعمال کیا ہے کہ جوان عورتیں پردہ چھوڑ رہی ہیں.اور بوڑھی عورتوں کو جبراً گھروں میں بٹھایا جا رہا ہے.ہمارے ملک کے لحاظ سے ساٹھ سالہ اور یورپ کے لحاظ سے ستر پچھتر سالہ عورت پر اس اجازت کا اطلاق ہوسکتا ہے کیونکہ اس عمر میں بوڑھی عورتوں کے لئے چلنا پھرنا مشکل ہوتا ہے اور پھر پردہ کے کپڑوں کو سنبھالنا تو ان کی مشکل کو اور بھی بڑھا دیتا ہے.لیکن شریعت پھر بھی یہی کہتی ہے کہ اگر وہ پردہ کو قائم رکھیں تو نتائج کے لحاظ سے یہ زیادہ بہتر بات ہے.( تفسیر کبیر جلد ششم.سورہ نور صفحه ۳۹۷) عورتوں کاعورتوں سے پردہ کرنا اَوْ نِسَاءِ هِنَّ سے پتہ لگتا ہے کہ بعض عورتوں سے بھی پردہ کرنا ضروری ہوتا ہے.ہر ملک میں یہ رواج ہے اور ہمارے ملک میں بھی تھا گواب کم ہو گیا ہے کہ بدچلن لوگوں نے آوارہ عورتیں رکھی ہوئی ہیں جو گھروں میں جا کر آہستہ آہستہ عورتوں کو ورغلاتی اور انہیں نکال کر لے جاتی ہیں.اس قسم کی عورتوں کو روکنے کے لئے شریعت نے یہ حکم دیا ہے کہ ہر عورت کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہئے.بلکہ وہی
۳۴۴ پرده عورتیں آئیں جن کے متعلق اس قسم کا کوئی خطرہ نہ ہو.اور ان کے حالات سے پوری واقفیت ہو.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عورتوں کے متعلق بھی پہلے تحقیق کرلیا کرو کہ ان کا چال چلن کیسا ہے اور جب تمہیں اطمینان ہو جائے تو پھر انہیں گھر میں آنے کی اجازت دو اور یہی نِسَاء هِنَّ سے مراد ہے یعنی وہ عورتیں جو تمہارے گھروں میں آئیں ایسی دیکھی بھالی ہوں کہ گویا تمہاری اپنی ہی عزیز ہوں.( تفسیر کبیر جلد ششم سوره نور - صفحه ۳۰۲) پردے کی قسمیں حکم قرآنی یہ ہے کہ عورتوں کے لئے خدا کی طرف سے پردہ مقرر کیا گیا ہے جو حالات کے ماتحت تین قسم کا ہے.ا.ان عورتوں کا پردہ جن کو کام کاج کے لئے مجبوراً نکلنا پڑتا ہے.بغیر باہر نکلنے اور روزی کے کچھ کام کرنے یا خاوند کو روزی میں مدد دئیے بغیر کنبہ کا گزارہ نہیں ہوسکتا.ایسی عورتوں کے لئے جائز ہے کہ کام کاج کے وقت ہاتھوں اور پاؤں کو اور ماتھے سے لے کر ٹھوڑی اور کانوں کے سامنے تک چہرہ کو ننگا کرلیں.۲.اس سے اوپر کے درجہ کی عورتیں جن کو کام کاج کے لئے مجبوراً باہر نکلنا پڑتا وہ تمام جسم کو چھپا دیں سوائے قد اور چال کے جو مجبور ظاہر ہوتے ہیں.۳.تیسرا درجہ امہات المومنین کا ہے کہ وہ اکثر گھر سے باہر نہ نکلا کریں.(الفضل کیکم ستمبر ۱۹۲۱ء.جلد ۹.نمبر ۷ صفحہ ۹) ایک دوست کو لکھوایا کہ پردہ ان عورتوں کے لئے جو کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں صرف جسم کا پردہ ہے.آنکھیں اور ناک کھلے رکھ کر اگر کام کرنے چاہیں تو کچھ حرج نہیں.الفضل ۹ رمئی ۱۹۱۵ء.جلد ۲.نمبر ۱۳۷ صفحه ۲)
۳۴۵ پرده چهره پردہ میں شامل ھے زیادہ سے زیادہ پردہ تو یہ ہے کہ منہ سوائے آنکھوں کے اور وہ لباس جو جسم کے ساتھ چسپاں ہو چھپایا جائے باقی الا ماظهر “ کے ماتحت کسی مجبوری کی وجہ سے جتنا حصہ ننگا کرنا پڑے کیا جا سکتا ہے مثلاً ایک زمیندار عورت منہ پر نقاب ڈال کر گوڈی وغیرہ زمینداری کا کام نہیں کر سکتی.اس کے لئے جائز ہے کہ ہاتھ اور منہ ننگے رکھے تا کہ کام کر سکے.لیکن جن عورتوں کو اس قسم کے کام نہ کرنے ہوں بلکہ یوں سیر کے لئے باہر نکلنا ہوان کے لئے یہی چاہئے کہ منہ کو ڈھانکیں.دیکھنا یہ چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کیا معنی سمجھے اور پھر صحابہ نے کیا سمجھے اور اس پر کس طرح عمل کیا.اس کے متعلق جب دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت منہ پردہ میں شامل تھا.صاف طور پر لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک نواسہ کے لئے شادی کی تجویز کی تو ایک عورت کو بھیجا کہ وہ جا کر دیکھ آئے لڑکی کا رنگ کیسا ہے.اگر اس وقت چہرہ چھپایا نہ جاتا تھا تو پھر عورت کو بھیج کر رنگ معلوم کرنے کی کیا ضرورت تھی.اسی طرح حضرت عمر نے ایک عورت سے کہا ام ہانی میں نے تمہیں پہچان لیا ہے نہ یہ کہ شکل دیکھ کر کیونکہ ایسے انسان کو جو واقف ہو یہ کہنا کہ میں نے تمہاری شکل دیکھ کر تمہیں پہچان لیا ہے کوئی خوبی کی بات نہیں ہے.اس قسم کے بہت سے واقعات سے پتہ لگتا ہے کہ کھلے منہ عورتیں نہ پھرتی تھیں.ہاں کام کے لئے باہر نکلتی تھیں.مردوں سے باتیں کرتی تھیں.جنگوں میں شامل ہوتی تھیں.اصل میں بات یہ ہے کہ پردہ کے متعلق بے جا جو تشدد کیا گیا اس کا یہ نتیجہ ہے کہ پردہ کو بالکل اُڑا دینے کی کوشش کی جارہی ہے.موجودہ جو پردہ ہے میں تو اسے سیاسی پردہ کہا کرتا ہوں کیونکہ حالات اس قسم کے ہیں کہ انگریزی قانون میں عصمت کی قیمت روپیہ رکھا گیا ہے.اس لئے احتیاط کی ضرورت ہے ورنہ جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو وہاں عورتیں بھی باہر آزادی کے ساتھ چل پھر سکتی ہیں.الفضل ۶ جولائی ۱۹۲۸ء - جلد ۱۶ نمبر ۲ - صفحیم)
۳۴۶ پرده بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ عورت کے لئے منہ کا پردہ نہیں.حالانکہ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کے کیا معنے سمجھے اور پھر صحابیات نے اس پر کس طرح عمل کیا.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں منہ چھپانے کا حکم نہیں ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ زینت چھپاؤ اور سب سے زیادہ زینت کی چیز چہرہ ہی ہے.اگر چہرہ چھپانے کا حکم نہیں تو پھر زینت کیا چیز ہے.جس کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے.بے شک ہم اس حد تک قائم ہیں کہ چہرہ کو اس طرح چھپایا جائے کہ اس کا صحت پر کوئی بُرا اثر نہ پڑے مثلاً باریک کپڑا ڈال لیا جائے.یا عرب عورتوں کی طرز کا نقاب بنالیا جائے جس میں آنکھیں اور ناک کا نتھنا آزاد رہتا ہے مگر چہرہ کو پردے سے باہر نہیں رکھا جاسکتا.( تفسیر کبیر جلد ششم.سورہ نور صفحه ۳۰۰ تا ۳۰۱) اسلام کہتا ہے کہ مردوں کو چاہئے کہ وہ غیر محرم عورتوں کو نہ دیکھیں اور عورتوں کو چاہئے کہ وہ غیر محرم مردوں کو نہ دیکھیں اور اس طرح اپنے ایمان اور تقویٰ کی حفاظت کریں مگر بعض لوگوں نے جو حقیقت پر غور کرنے کے عادی نہیں.غلطی سے اس حکم سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ غیر محرم عورت کے کسی حصہ پر بھی نظر ڈالنا اسلامی احکام کی رو سے جائز نہیں حالانکہ یہ درست نہیں.اگر شریعت اسلامیہ کا یہی منشاء ہوتا ہے کہ عورت کے جسم کے کسی حصہ پر بھی نظر نہ ڈالی جائے تو عورتوں کو چار دیواری سے باہر قدم رکھنے کی اجازت ہی نہ ہوتی اور مکان بھی بند در بچوں کے بنائے جاتے جس قسم کے ظالم بادشاہ پرانے زمانہ میں قید خانے بنایا کرتے تھے.حالانکہ عورت بھی اس قسم کی انسان ہے جس قسم کا مرد ہے اور اس کی طبعی ضروریات بھی مرد ہی کی طرح ہیں اور خدا تعالیٰ کا طبعی قانون بھی دونوں پر یکساں اثر کر رہا ہے اور وہ قانون صحت کی درستی ہے اور جسم کی مضبوطی کے لئے اس امر کا مقتضی ہے کہ انسان کھلی ہوا میں پھرے اور محدود دائرہ میں بند ہونے کا خیال اس کے اعصاب میں کمزوری پیدا نہ کرے.اور جبکہ شریعت عورت کو باہر پھرنے کی اجازت دیتی ہے تو لازماً جب وہ باہر نکلے گی اس کی نظر مردوں کے جسم کے بہت سے حصوں پر اُسی طرح پڑے گی
۳۴۷ پرده جس طرح عورت کے بعض حصوں پر مرد کی پڑتی ہے.خواہ وہ کپڑوں کے نیچے چھپے ہوئے ہوں اور یہ چیز ممنوع نہیں.اصل چیز جو پردہ کی جان ہے اور جس کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے وہ دونوں کی نظر کو ملنے سے بچانا ہے اور جسم کا وہ حصہ جس پر نگاہ ڈالتے ہوئے آنکھیں ملنے سے رہ ہی نہیں سکتیں یا اس امر کی احتیاط نہایت مشکل ہو جاتی ہے.وہ چہرہ ہی ہے.پس غض بصر کے حکم کا یہ منشاء نہیں کہ عورت کے لئے مرد کے جسم کے کسی حصہ پر بھی نظر ڈالنا منع ہے یا مرد عورت کے جسم کے کسی حصہ پر بھی نظر نہیں ڈال سکتا بلکہ صرف دونوں کی نگاہوں کو آپس میں ملنے سے بچانا ہے.( تفسیر کبیر جلد ششم.سورہ نور صفحه ۲۹۷، ۲۹۸) سوال :.عورتیں نقاب باندھتی ہیں آدھے سر پر اور بازار میں چلتے وقت منہ اور ناک ڈھانکنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ما تھا اور آدھے سر کے بال ننگے رہتے ہیں؟ جواب: غلطی کرتی ہیں.ایسا طریقہ ہونا چاہئے جس میں شریعت پوری ہو جائے اور ان کے سر کے بال اور ماتھا ننگا نہ رہے.فائل مسائل دینی DP 474/23.2.56-32-A) پردہ کی پابندی دوسری چیز جس کی طرف میں عورتوں کو توجہ دلاتا ہوں وہ پردہ کی پابندی ہے.پرانے زمانے میں پر دے کو اتنی بھیا نک شکل دے دی گئی تھی کہ وہ اچھا خاصہ قید خانہ معلوم ہوتا تھا.ایسے پردے کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا.اسلامی تاریخ سے ایسے پردے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا.لیکن اس زمانہ میں پردے کی اس بھیانک صورت کا رد عمل اس رنگ میں ظاہر ہورہا ہے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں لگتا پر دہ آخر کس چیز کا نام ہے.عورتیں مردوں سے مصافحے کرتی ہیں، تقریریں کرتی ہیں ان میں آزادانہ پھرتی ہیں اور پھر بھی وہ اسلامی پردے کی قائل کہلاتی ہیں.اگر اسلامی پردہ اسی کو کہتے ہیں تو پھر پتہ نہیں بے پردگی
۳۴۸ پرده کس کا نام ہے.آخر قرآن مجید میں جو پردے کا حکم ہے اس کے کوئی نہ کوئی تو معنی ہوں گے.اگر اس کے کوئی معنی ہیں تو بہر حال اسے مسلمانوں نے ہی پورا کرنا ہے.بے پردگی کا رجحان :.جولوگ پر دے کے شروع سے پابند نہیں ہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ ایک دن میں پردے کے پوری طرح پابند ہو جائیں.مگر ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ اسلام کے نام پر نئی نئی رسمیں جاری کی جائیں اور سخت قسم کے پردے کے ردعمل کے طور پر عورتیں پردے سے بالکل ہی آزاد ہو جا ئیں.جولوگ ایک عرصہ سے پردہ چھوڑ چکے ہیں انہیں بے شک پہلے آہستہ آہستہ پردے کی حکمت کا قائل کرو اور بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے مسائل میں بڑی بڑی حکمتیں ہوتی ہیں لیکن جو لوگ محض اپنی دنیوی ترقی اور اعلیٰ طبقہ میں اپنے جھوٹے وقار کو قائم کرنے کے خیال سے اپنے گھروں میں بے پردگی کو رواج دے رہے ہیں وہ یقینا اپنے عمل سے کوئی اچھا نمونہ پیش نہیں کر رہے.یورپ والے دو ہی اعتراض پیش کیا کرتے ہیں.ایک یہ کہ پردے میں صحت برقرار نہیں رہ سکتی اور دوسرا یہ کہ تعلیم حاصل نہیں کی جا سکتی.ہم نے اپنے ہاں عملاً ان دونوں اعتراضوں کو غلط ہونا ثابت کر دیا ہے.ہمارے ہاں پردے کی پابندی کے باوجود سے اعلی تعلیم عورتیں حاصل کر رہی ہیں اور ان کی صحت پر بھی پردے نے کوئی بُرا اثر نہیں ڈالا.(الفضل یکم جنوری ۱۹۵۵ء) میں اس خطبہ کے ذریعہ ان لوگوں کو جو اپنی بیویوں کو بے پردہ رکھتے ہیں تنبیہ کرتا ہوں اور انہیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دلاتا ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ باقی احمدی بھی مجرم ہیں کیونکہ محض اس لئے کہ فلاں صاحب بڑے مالدار ہیں.تم ان کے ہاں جاتے ہو ان سے مل کر کھانا کھاتے ہو اور ان سے دوستی اور محبت کے تعلقات رکھتے ہو.تمہارا تو فرض ہے کہ تم ایسے آدمی کو سلام بھی نہ کرو.تب بے شک سمجھا جائے گا کہ تم میں غیرت پائی جاتی ہے اور تم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت کروانا چاہتے ہو.لیکن اگر تم ایسے شخص سے مصافحہ کرتے ہو اس کو سلام
۳۴۹ پرده کرتے ہواور اس سے تعلقات رکھتے ہو تو تم بھی ویسے ہی مجرم ہو جیسے وہ ہیں.پس آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جو لوگ اپنی بیویوں کو بے پردہ باہر لے جاتے ہیں اور مکسڈ پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اگر وہ احمدی ہیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم ان سے کوئی تعلق نہ رکھو، نہ ان سے مصافحہ کرو، نہ انہیں سلام کرو، نہ ان کی دعوتوں میں جاؤ اور نہ ان کو کبھی دعوت میں بلاؤ تا کہ انہیں محسوس ہو کہ ان کی قوم اس فعل کی وجہ سے انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے.اگر تم ایسے لوگوں سے تعلقات رکھتے ہو جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو صرف وہی نہیں بلکہ تم بھی پکڑے جاؤ گے.پس آئندہ ایسے احمدیوں سے نہ تم نے مصافحہ کرنا ہے نہ انہیں سلام کرنا ہے نہ ان کی دعوتوں میں جانا ہے، نہ ان کو کبھی دعوت میں بلانا ہے، نہ ان کے پیچھے نماز پڑھنا ہے اور نہ ان کو جماعت میں کوئی عہدہ دینا ہے.بلکہ اگر ہو سکے تو ان کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا.اسی طرح ہماری جماعت کی عورتوں کو چاہئے کہ ان کی عورتوں سے کسی قسم کے تعلقات نہ رکھیں.برقعہ کی بناوٹ الفضل ۲۷ / جون ۱۹۵۸ء صفحه ۵،۴) میں اس برقعہ کو پسند کرتا ہوں جونئی طرز کا نکلا ہے.اس میں عورت زیادہ آزادی سے چل پھر سکتی ہے مگر بعض نے اس کا بھی غلط استعمال شروع کر دیا ہے.انہوں نے اسے کوٹ بنالیا ہے جس سے جسم کی بناوٹ نظر آتی ہے.اس طرح یہ نا جائز ہو گیا.شریعت نے جلباب کا کیوں حکم دیا ہے کیوں کرتہ ہی نہیں رہنے دیا اس لئے کہ جسم کی بناوٹ ظاہر نہ ہو.ڈھیلا ڈھالا کپڑا اوڑھا جائے.اب اس غلط استعمال سے اس برقعہ کو برا نہیں کہا جائے گا مگر جو نقص ہوا ہے اُسے دور کرنا چاہئے.الفضل ار دسمبر ۱۹۲۸ء.جلد ۱۶.نمبر ۴۷ صفحه ۸ )
۳۵۱ دارمی
۳۵۳ شعار اسلامی (داڑھی)کے متعلق حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود کا ارشاد حضور نے ایک موقع پر فرمایا:.میں دیکھتا ہوں کہ نو جوانوں کے چہروں سے داڑھیاں غائب ہوتی جارہی ہیں.وہ دن بدن ان کو چھوٹا کرتے جارہے ہیں.حالانکہ ہم نے شخصی کی اجازت تو ان لوگوں کو دی تھی جو کہ اُسترا پھیرتے تھے.انہیں کہا گیا تھا کہ تم اُسترا نہ پھیر واور چھوٹی چھوٹی شخشی داڑھی ہی رکھ لولیکن یہ جواز جو کہ اُسترا والوں کے لئے تھا اس پر دوسرے لوگوں نے بھی عمل کرنا شروع کر دیا.اور جن کی بڑی داڑھیاں تھیں ان میں سے بھی بعض نے اس جواز سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے خشخشی کرلیں حالانکہ جواز تو کمزوروں کے لئے ہوتا ہے.ہمارا مطلب تو یہ تھا کہ جب اُسترا پھیرنے والے خشخشی داڑھیاں رکھ لیں گے تو پھر ہم ان کو کہیں گے کہ اب اور زیادہ بڑھاؤ اور آہستہ آہستہ وہ بڑی داڑھی رکھنے کے عادی ہوجائیں گے.لیکن اس جواز کا اُلٹا مطلب لیتے ہوئے بعض لوگوں نے بجائے داڑھیاں بڑھانے کے نے سے شخصی کرلیں....پس میں خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے حلقہ میں داڑھی کے متعلق خوب پرو پیگنڈا کریں.خدام نو جوانوں کو سمجھا ئیں اور انصار اللہ بڑوں کو سمجھا ئیں اور یہ کوشش کی جائے کہ جو شخص داڑھی منڈوا تا ہے.وہ شخشی داڑھی رکھے اور جو شخشی رکھتا ہے وہ ایک انچ یا آدھا انچ بڑھائے اور پھر ترقی کرتے کرتے سب کی داڑھی حقیقی داڑھی ہو جائے.اسلام کے تمام احکام میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے اور ہر حکم میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے کوئی ایک حکم بھی بغیر مصلحت کے نہیں.داڑھی رکھنے میں بھی کئی حکمتیں اور کئی مصالح ہیں.یہ جسمانی صحت کے لئے داڑھی
۳۵۴ بھی مفید ہے اور جماعتی تنظیم کے لئے بھی بہت فائدہ مند ہے.اسی طرح اگر ہماری جماعت میں بھی اسلامی شعار کو قائم رکھنے کا احساس ہو جائے.اور وہ بختی سے اس پر پابند ہو جائے.تو یقیناً اس کا بھی لوگوں کے دلوں پر رعب قائم ہو جائے گا اور لوگ یہ سمجھنے لگ جائیں گے کہ یہ لوگ اپنی بات کے پکے ہیں اور کسی کی رائے کی پرواہ نہیں کرتے.جب یہ لوگ داڑھی کے معاملہ میں اس قدرختی سے پابند ہیں تو باقی اسلامی احکام کے وہ کیوں پابند نہ ہوں گے.اگر ہم نے ان کی کسی دینی بات میں دخل اندازی کی تو یہ لوگ مر جائیں گے لیکن اپنی بات کو پورا کر کے چھوڑیں گے.اس کے مقابل میں اگر لوگ یہ دیکھیں کہ تم لوگوں کی باتوں سے ڈر کر اور لوگوں کی ہنسی سے ڈر کر داڑھی منڈوا لیتے ہو یا چھوٹی کر لیتے ہو تو وہ خیال کریں گے کہ جو لوگ دنیا کی باتوں سے ڈر جاتے ہیں وہ گورنمنٹ کے قانون اور پولیس کے ڈنڈے سے کیوں مرعوب نہ ہوں گے.پس تمہارا داڑھیوں کے معاملہ میں کمزوری دکھانا جماعت کے رُعب اور اثر کو بڑھانے کا موجب نہیں.بلکہ رعب اور اثر کو گھٹانے کا موجب ہے.اگر تم داڑھیاں رکھو گے تو دنیا میں اسلام کا رعب قائم ہونا شروع ہو جائے گا اور لوگ خیال کریں گے کہ اس دہریت کی زندگی میں اس فلسفیانہ فضا میں اس عیاشی اور نزاکت کی صدی میں جبکہ دنیا داڑھیوں سے جنسی اور ٹھٹھا کر رہی ہے.یہ لوگ اسلام کے اس حکم پر عمل کرتے ہیں اور کسی کی رائے کا خیال نہیں کرتے.واقعی ان کے دلوں میں اسلام کا درد ہے اور یہ لوگ وہی کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا حکم ہے.داڑھی الفضل ۲۱ فروری ۱۹۴۷ء صفحه ۴ تا ۶ - خطبہ جمعہ فرموده ۱۴ / فروری ۱۹۴۷ء)
۳۵۵ داڑھی هر احمدی کوداڑھی رکھنی چاھئے بعض باتیں بلا واسطہ فائدہ دیتی ہیں.انہیں میں سے ایک داڑھی رکھنا ہے.ایک صاحب میرے پاس آئے اور آکر کہنے لگے کیا داڑھی رکھنے سے خدا ملتا ہے.میں نے کہا داڑھی رکھنے سے نہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے سے خدا ملتا ہے.آپ نے چونکہ داڑھی رکھی اس لئے ہمیں بھی آپ کی تقلید میں داڑھی رکھنی چاہئے.ہم نے حکم دیا تھا کہ ایسے لوگ سلسلہ کے کاموں میں افسر نہ بنائے جائیں گے جو داڑھی منڈا ئیں اور فیصلہ کیا تھا کہ امپیریل سروس وغیرہ میں جہاں داڑھی منڈانے کی مجبوری ہو وہاں بھی ہم اجازت نہیں دیں گے کیونکہ ہم شریعت بدل نہیں سکتے ہاں اتنا کریں گے کہ ان کو عہدہ سے محروم نہ کریں گے مگر اس پر پوری طرح عمل نہیں کیا جارہا اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض مخلص نو جوانوں نے بھی داڑھی منڈانی شروع کر دی ہے.داڑھی رکھنا ایک ضروری امر ہے اور ہر احمدی کو اس کا احترام کرنا چاہئے.الفضل ۷ ارجنوری ۱۹۳۳ء.جلد ۲۰ نمبر ۸۵ صفحه۳) مجھے ہمیشہ حیرت ہوا کرتی ہے کہ لوگ داڑھی کیوں منڈواتے ہیں.میں بھی داڑھی رکھتا ہوں داڑھی منڈھانے کی کوئی وجہ مجھے نظر نہیں آتی.میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ کوئی شخص سر جھکائے چلا آتا ہو اور دریافت کرنے پر اس نے یہ کہا ہو کہ داڑھی کے بوجھ سے میرا سر جھکا جاتا ہے یا کسی شخص کو میں نے نہیں دیکھا کہ وہ بیتاب ہو رہا ہو اور گھبرایا ہوا جارہا ہواور دریافت کرنے پر اس نے یہ بتلایا ہو کہ سخت گرمی لگ رہی ہے، داڑھی منڈوانے جا رہا ہوں.اسی طرح میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی ضرورت کی بناء پر لوگ داڑھی منڈواتے ہوں.دوسروں کی دیکھا دیکھی داڑھی منڈواتے ہیں.محض اس وجہ سے کہ دوسرے ان پر ہنستے ہیں یا یہ کہ دوسرے بھی سب کے سب نہیں رکھتے.جب داڑھی منڈانے کی کوئی وجہ نہیں تو پھر ضرورت کیا ہے کہ داڑھی منڈوائی جائے.داڑھی اسلام کے شعائر میں
۳۵۶ داڑھی سے ایک شعار ہے.اب ایک غیر جو دیکھے گا کہ ایک شخص مسلمان کہلاتا ہے اور پھر داڑھی منڈوا تا ہے تو وہ یہی کہے گا کہ یہ کہلاتا تو مسلمان ہے لیکن اسلامی شعار کی اس کے دل میں کچھ حرمت اور وقعت نہیں.اس لئے وہ داڑھی منڈوا کر اسلام کی ہتک کرتا ہے.جب داڑھی کا کوئی بوجھ نہیں.نہ یہ کہ اس کی وجہ سے سخت گرمی محسوس ہوتی ہے اور ادھر داڑھی رکھنا اسلام کے شعار میں سے ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کا مطالبہ کیا ہے اور یہ حکم ہے بھی ایسا جس کی تعمیل کو ہر کوئی دیکھ سکتا ہے.سر کے اگلے حصہ پر رکھے ہوئے بال تو ٹوپی یا پگڑی کے نیچے انسان چھپا بھی سکتا ہے لیکن ٹھوڑی تو چھپائی نہیں جاسکتی.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری اور اسلامی شعار کی حرمت کے لئے اگر داڑھی رکھ لی جائے تو کون سی بڑی بات ہے.الفضل ۲۳ / جون ۱۹۲۵ء - جلد ۱۲ نمبر ۱۴۱ صفحه ۶ - الازهار لذوات الخمار صفحہ ۱۷۸) داڑھی کے متعلق اسلامی حکم سوال :.داڑھی کے متعلق اسلام کا کیا حکم دیتا ہے؟ جواب : حضور نے فرمایا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ داڑھی رکھو پس ہمیں بھی اسی بات پر زور دینا چاہئے کہ داڑھی ہو اور ایسی ہو کہ دیکھنے والے کہیں کہ یہ داڑھی ہے.باقی رہا یہ سوال کہ وہ کتنی ہو اس کے متعلق کوئی پابندی نہیں.بعض لوگ تزئین کراتے ہیں بعض نہیں کراتے.مگر صحیح طریق یہی ہے کہ داڑھی کی تزئین کی جائے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ثابت ہے کہ آپ تزئین کیا کرتے تھے.اگر ایک شخص کی داڑھی ایسی ہے جو زیادہ لمبی ہونے کی صورت میں بدزیب معلوم ہوتی ہے مثلاً صرف ٹھوڑی پر ہی بال ہیں تو ایسی صورت میں تر شوا کر چھوٹی کی جاسکتی ہے لیکن بعض لوگ جو زیرو مشین استعمال کرتے ہیں ان کی داڑھی واقعی میں داڑھی کہلانے کی مستحق نہیں.البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے داڑھی رکھنے کی کوشش کی ہے.ایسے لوگ مخنث قسم کے ہوتے ہیں.یعنی داڑھی رکھنے
۳۵۷ داڑھی والوں اور داڑھی منڈانے والوں دونوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں.باقی چھوٹی یا بڑی داڑھی رکھنا انسان کی اپنی طبیعت اور حالات پر مبنی ہے وہ جیسی چاہے رکھ لے.( الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحه ۴ ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ تو ثابت ہے کہ آپ نے داڑھی رکھی اور یہ بھی ثابت ہے کہ دوسروں سے کہا رکھو.مگر یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں کہ آپ نے ارشاد فر ما یا انی لمبی داڑھی رکھو.تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ بعض صحابہ کی داڑھی چھوٹی تھی چنانچہ حضرت علی کی چھوٹی داڑھی تھی اور مؤرخوں کی رائے ہے کہ عام طور پر صحابہ کی چھوٹی داڑھی تھی.مظہر جانِ جاناں کے متعلق بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی داڑھی مختصر تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تو یاد نہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق معلوم ہے کہ آپ تزئین کراتے اور داڑھی کے بال بھی تر شواتے تھے.میں بھی ہمیشہ اسی طرح کراتا ہوں.اس وقت میری جتنی داڑھی ہے اگر میں اسے بڑھنے دوں تو اور زیادہ لمبی ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہفتہ وار داڑھی کے بال کتراتے جو کئی آدمیوں نے بطور تبرک رکھے ہوئے ہیں.میرے پاس بھی ایک شیشی میں تھے جو کسی نے تبرک سمجھ کر اُٹھالی.ایک دفعہ میں نے طالب علموں کو کہا کہ داڑھی نہ منڈوایا کروتو انہوں نے استرے سے منڈوانی چھوڑ دی.لیکن استرے سے بھی نیچے کسی طرح قیچی پہنچا کر منڈ وادی جاتی اور جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہامنڈ وائی نہیں کترائی ہے.بات یہ ہے داڑھی ہونی چاہئے آگے خواہ وہ چاول کے دانہ کے برابر ہو چاہے لمبی ہو، یا پھر چاہے کوئی فیشن ہو.جب صحابہ میں ایسے تھے جن کی چھوٹی داڑھی تھی تو کسی کی لمبی داڑھی دیکھ کر کہنا کہ اتنی ہونی چاہئے.یہ شریعت سے معلوم نہیں ہوتا.ہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لمبی داڑھی تھی.اگر کوئی لمبی داڑھی رکھتا ہے تو وہ اس بارے میں بھی آپ سے محبت کا ثبوت دیتا ہے.پس چاہئے داڑھی ایک جو کے برابر ہو یا دو جو کے، چاہے بالشت کے برابر
۳۵۸ داڑھی ہو یہ اپنے اپنے ذوق پر منحصر ہے.کسی کو اس میں دخل دینے کا اختیار نہیں.اگر کوئی دخل دیتا ہے تو وہ شریعت میں دخل انداز ہوتا ہے.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء کمپوز ڈایڈیشن.صفی ۲۲۴) اب بہت سے لوگ شکایتیں کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے مبلغوں کی داڑھیاں چھوٹی ہوتی ہیں.میں نے بھی یہ نقص دیکھا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ حضرت علیؓ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان داڑھی چھوٹی تھی.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام لمبی داڑھی رکھا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی لمبی داڑھی تھی.اور میری داڑھی بھی لمبی ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی بڑی داڑھی تھی.حضرت ابو بکر حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کی بھی بڑی داڑھی تھی.یہ مان لیا کہ حضرت علیؓ کی چھوٹی داڑھی تھی مگر ممکن ہے اس کی وجہ ان کی کوئی بیماری ہو یا کوئی اور وجہ.اور اگر یہ بات نہ بھی ہو تب بھی کیوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل نہ کی جائے اور حضرت علی کی نقل کی جائے.بہر حال داڑھیوں میں نقص ہے.الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۱.خطبہ جمعہ فرمود ۱۱ جنوری ۱۹۳۵ء) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں داڑھی منڈانے کا رواج تھا مگر آپ نے مسلمانوں کو داڑھی رکھنے کا حکم دیا.اس کے آپ نے کوئی ایسے فوائد بیان نہیں کئے جو بظاہر نظر آتے ہوں بلکہ صرف یہ فرمایا کہ دوسرے منڈاتے ہیں اس لئے تم رکھو.اس کے علاوہ آپ نے کوئی ایسی بات نہیں بیان فرمائی کہ ہم کہیں اس کو مد نظر رکھتے ہوئے اس حکم کی پابندی اس زمانہ میں ضروری نہیں.لیکن اس کا ظاہری فائدہ یہ ہے کہ اس سے ایک مسلمان دوسرے کو دیکھتے ہی پہچان لیتا ہے.گویا یہ بطور نشان اور علامت کے ہے.پھر اس کے علاوہ یہ فائدہ بھی ہے کہ ظاہری مشارکت قلبی اتحاد کی تقویت کا موجب ہوتی ہے...ایک دفعہ ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ کیا داڑھی میں اسلام ہے؟ میں نے کہا ہرگز نہیں مر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں یقیناً اسلام ہے.
۳۵۹ جو ایک دفعہ یہ سمجھ کر کہ میں جس کی اطاعت اختیار کر رہا ہوں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے آئندہ کے لئے عہد کر لیتا ہے کہ جو نیک بات یہ کہے گا اسے مانوں گا اور اطاعت کی اس روح کو مدنظر رکھتے ہوئے سوائے ان صورتوں کے کہ گورنمنٹ کے کسی حکم یا نیم حکم سے داڑھی پر کوئی پابندی عائد ہو جائے سب کو دارڑھی رکھنی چاہے ہاں اس صورت میں داڑھی نہ رکھنے کی اجازت ہوسکتی ہے کیونکہ سرکاری ملازمتوں کے لحاظ سے بھی ہمیں جماعت کو کمزور نہیں ہونے دینا چاہئے.مگر یہ ایسی ہی صورت ہے جیسے بیماری کی حالت میں شراب کا استعمال جائز ہے.اس لئے اس حالت والے کو چھوڑ کر باقی سب دوستوں کو داڑھی رکھنی چاہئے اور اپنے بچوں کی بھی نگرانی کرنی چاہئے کہ وہ شعائر اسلامی کی پابندی کرنے والے ہوں اور اگر وہ نہ مانیں تو ان کا خرچ بند کر دیا جائے.اسے کوئی صحیح الدماغ انسان جبر نہیں کہہ سکتا.الفضل ۹ / اکتوبر ۱۹۳۰ ء - جلد ۱۸ نمبر ۳۴ صفحه ۷،۶.خطبه جمعه فرموده ۳ اکتوبر ۱۹۳۰ء) سوال :.انگریزی بال رکھنے چاہئیں یا نہیں ؟ میں نے کٹوا دیئے ہیں لیکن دل سخت بے چین ہے؟ جواب :.ایسے بال رکھنے نا پسندیدہ ہیں.ان باتوں میں رکھا کیا ہے کہ ان کے کاٹنے سے آپ کا دل بے چین ہو گیا.الفضل ۱۶ جولائی ۱۹۲۸ء.جلد ۱۶ نمبر ۲ صفحہ ۵) حافظ نور احمد صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں لکھا کہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی کے تذکرۃ المہدی میں سرمنڈانے کو منافق کی نشانی بتلایا گیا ہے.میں پہلے سر پر بال رکھا کرتا تھا مگر اب منڈوا دیا ہے آیا پھر مثل سابق بال رکھ لوں یا منڈالوں؟ جواب :.فرمایا.وہاں سرمنڈانے سے مراد استرے سے منڈوانا ہے.بال کتر و الینا نہیں.با الفاظ راقم ) الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۱۵ء.جلد ۳ - نمبر ۶۵ صفحه۲)
۳۶۱ ذبيحه اہل کتاب
۳۶۳ ذبیحہ اہل کتاب ذبیحه اهل کتاب ایسا جانور جو گردن پر تلوار مار کر مارا گیا ہو یا جو دم گھونٹ کر مارا گیا ہو کھانا جائز نہیں.قرآن کریم منع کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب ولایت جانے والوں نے پوچھا تو آپ نے منع فرمایا.پس اسے استعمال نہ کریں.ہاں اگر یہودی یا عیسائی گلے کی طرف سے ذبح کریں تو وہ بہر حال جائز ہے خواہ تکبیر سے کریں یا نہ کریں.آپ بسم اللہ کہہ کر اسے کھالیں.یہودی ذبح کرنے میں نہایت محتاط ہیں.ان کے گوشت کو بے شک کھائیں لیکن مسیحی آجکل جھٹکہ کر کے یادم کھینچ کر مارتے ہیں اس لئے بغیر تسلی ان کا گوشت نہ کھائیں.ان کا پکا ہوا کھانا جائز ہے مچھلی کا گوشت جائز ہے.شکار کا جو بندوق سے ہو گوشت جائز ہے.کسی مسیحی کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا پڑے تب بھی جائز ہے.انسان ناپاک نہیں ہاں ہر ایک ناپاک چیز سے ناپاک ہو جاتا ہے.عورتوں کو ہاتھ لگانا منع ہے.احسن طریق سے پہلے لوگوں کو بتا دیں.الفضل ۱۴ ستمبر ۱۹۱۵ء.جلد ۳.نمبر ۳۶ صفحه ۵،۴) سوال :.ایک فوجی نوجوان نے عرض کیا کہ ڈبوں میں جو گوشت آتا ہے اس کے کھانے کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ جواب :.فرمایا.ولایت سے ڈبوں میں آنے والا گوشت تو جھٹکہ کا گوشت ہوتا ہے وہ نہیں کھانا چاہئے.لیکن ہندوستان میں جو گوشت خشک کر کے ڈبوں میں بند کیا جاتا ہے اس کے متعلق جہاں تک ہمیں معلوم ہے ذبیحہ کا گوشت ہوتا ہے وہ کھا لینا چاہئے.(الفضل ۱/۸ اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحه۳ ) ( الفضل ۱۵ جون ۱۹۴۶ء - جلد ۳۴ نمبر ۱۳۹) ذبح کا اصل اسلامی طریق یہ ہے کہ ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کا نام لے کر چھری یا کسی اور تیز دھار آلہ سے جانور کی گردن کی شاہ رگ اور نرخرہ کاٹ دے اور اُس سے اچھی طرح خون بہہ جائے یا اونٹ کی گردن میں نیزہ مار کر نحر کرے.پس اصل حکم یہ ہے کہ مسلمان عام حالت میں ایسے ہی گوشت کو
۳۶۴ ذبیحہ اہل کتاب استعمال کرے اور اسی طریق کو رواج دینے کی پوری پوری کوشش کرے.اس کے علاوہ حلال ذبیحہ کی بعض اور بھی جائز صورتیں ہیں.مثلاً ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لینا بھول جائے یا جانور قابو میں کسی طرح نہ آئے اور کوئی مسلمان اللہ کا نام لے کر نیزہ، تیر یا بندوق جیسے ہتھیار سے اسے مارے.یا کوئی اہل کتاب اللہ تعالیٰ کا نام لے کر چھری یا کسی اور تیز دھار آلہ سے جانور کی گردن کی شاہ رگ اور نرخرہ کاٹ دے اور اس سے اچھی طرح خون بہہ جائے یا اونٹ کی گردن میں نیزہ مار کر نحر کرے یا بے قابو جانور کو اللہ کا نام لے کر نیزہ ، تیر یا بندوق جیسے ہتھیار سے مارے.اسی طرح اگر کوئی اہل کتاب ذبح کرتے وقت نہ اللہ تعالیٰ کا نام لے اور نہ غیر اللہ کا اور ذبیح معروف طریق کے مطابق کرے تو آیت کریمہ وطعام الذين أوتوا الكتاب حل لكم وطعامكم حل لهم (مائده) کے ماتحت ایسے گوشت کو بھی ضرورت پیش آنے پر بسم اللہ پڑھ کر استعمال کرنا جائز ہے.درست ہے.الفضل ۱۹؍ جنوری ۱۹۶۴ء صفحه ۵) فیصلہ مجلس افتاء جسے حضور نے منظور فرمایا.فیصلہ نمبر ۱۵) مسئله ذبیحه اہل کتاب میں عرفاً یہودی اور عیسائی دونوں شامل ہیں.لیکن جو عیسائی ذبیحہ کے بارہ میں تو رات کے احکام پر پورے طور پر عمل نہیں کرتے ان کے ذبیحہ کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہئے.لفظ ” معروف سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام لینے کے سوا باقی طریق ذبح اسلامی ہو.حضور نے فرمایا: درست ہے.( الفضل ا ار ستمبر ۱۹۶۴ء صفحه ۴ ) فیصلہ مجلس افتاء جسے حضور نے منظور فرمایا.فیصلہ نمبر۱۷)
۳۶۵ مچھلی کوکیوں ذبح نہیں کیا جاتا ذبیحہ اہل کتاب فرمایا.اسلام نے ان جانداروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا ہے جن میں دوران خون ہوتا ہے اور ہوا میں سانس لیتے ہیں اور ذبیحہ میں یہ حکمت ہے کہ خون جسے اسلام نے حرام قرار دیا ہے اور جس میں زہر ہوتا ہے ذبح کرنے سے نکل جاتا ہے لیکن جھٹکہ کرنے کی صورت میں خون جسم میں ہی رہتا ہے.ورنہ اسلام کو اس سے کیا کہ جانور کو گلے سے ذبح کیا جائے یا گردن کاٹی جائے.گردن میں ایسی رگیں ہوتی ہیں کہ ان پر چوٹ پڑنے سے ہی بیہوشی کی حالت طاری ہو جاتی ہے اور دوران خون رک جاتا ہے.مچھلی میں چونکہ دوران خون نہیں ہوتا اس لئے اسے ذبح کرنے کی بھی ضرورت نہیں.فكلوا مما رزقكم الله حلالا طيبا (الآية) ( الفضل ۱/۸ اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحه ۳) انما حرم عليكم الميتة والدم ولحم الخنزير وما اهل لغير الله به (الآية) یا در ہے کہ مال کی حلت ذریعہ کسب کے صحیح ہونے پرمبنی ہوتی ہے.مگر خوردنی اشیاء کے لئے اس کے علاوہ ایک اور شرط بھی ہے اور وہ یہ کہ وہ اس قسم میں شامل نہ ہوں جسے حرام کیا گیا ہے.پس اس سوال کو کہ کونسی اشیاء حلال ہیں اور کونسی حرام اس آیت میں حل کیا گیا ہے.الفاظ قرآنیہ بتاتے ہیں کہ اشیاء کی حلت و حرمت میں اصل حلت ہے اور حرمت ایک قید کے طور پر ہے.بعض لوگوں کو خیال ہے کہ ہر شے حرام ہے سوائے اس کے جسے خدا تعالیٰ نے جائز کر دیا ہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ مالک ہے اور مالک کی اجازت کے بغیر کسی چیز کا استعمال جائز نہیں ہوتا.لیکن یہ درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے کہ ہم نے ہر چیز انسان کے لئے پیدا کی ہے اور اس کے لئے مسخر کر دی ہے.پس اس عام حکم سے ہر چیز انسان کے لئے جائز ہوگئی سوائے اس کے جس سے نصایا اشارہ روک دیا گیا ہو.اس آیت میں جو لَحْمُ الْخِنْزِيرِ فرمایا اس کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے کہ ٹیم میں چربی بھی
ذبیحہ اہل کتاب شامل ہے یا نہیں.جہاں تک لغت کا سوال ہے ھم یعنی چربی کو لخم سے الگ قسم کا خیال کیا جاتا ہے.لیکن مفسرین کہتے ہیں کہ ٹم کے نام میں ھم بھی شامل ہے.گومفسرین کی دلیل ذوتی ہے اور لغت والوں کی بات اس مسئلہ میں زیادہ قابل اعتبار ہے.مگر اس کے باوجود میرے نزدیک سؤر کی مھم یعنی چربی جائز نہیں.اور اس کی دلیل میرے پاس یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مردہ جانور کی چربی حرام ہے.اور سؤر کی حرمت اور مردہ کی حرمت ایک ہی آیت میں اور ایک ہی الفاظ میں بیان کی گئی ہے.پس دونوں کا حکم ایک قسم کا سمجھا جائے گا.لیکن سؤر کی جلد کا استعمال جائز ہوگا کیونکہ وہ کھائی نہیں جاتی.احادیث میں ایک اور واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا کی ایک بکری مرگئی.چند آدمی اس کو اٹھا کر باہر لئے جا رہے تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم اس کا چمڑا کیوں نہیں اتار لیتے ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ تو مینہ ہے.آپ نے فرمایا کیا تم نے اسے کھانا ہے.پس معلوم ہوا کہ جس کا گوشت حرام ہو اس کے چمڑے کے استعمال میں کوئی حرج نہیں.ہاں سور کے بالوں کے بنے ہوئے بُرشوں کا مکروہ کہا جائے گا.کیونکہ ان کو منہ میں ڈالا جاتا ہے جو کھانے کا دروازہ ہے.اس آیت کے متعلق ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں چار چیزوں کی حرمت بیان کی گئی ہے.کیا یہی چار چیزیں حرام ہیں اور ان کے سوا اور کوئی چیز حرام نہیں.بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں پر جو حصر پایا جاتا ہے یہ حصر اضافی ہے.یعنی کفار کے حرام کو مدنظر رکھ کر اضافی طور پر ان چیزوں کو حرام کیا گیا ہے.(تفسیر کبیر جلد چہارم.سورہ انحل - صفحہ ۲۶۰) يايها الرسل كلوا من الطيبت (المؤمنون :۵۲) حقیقت یہ ہے کہ انسان کی خوراک کا اس کے اخلاق پر نہایت گہرا اثر پڑتا ہے اور جس قسم کے اثرات کسی غذا میں پائے جائیں ویسے ہی جسمانی یا اخلاقی تغیرات پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.
۳۶۷ ذبیحہ اہل کتاب چونکہ دنیا میں انسان کو اپنے تمام طبعی جذبات ابھارنے اور ان کو ترقی دینے کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ ان کا بر محل استعمال کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکے.اس لئے قرآن کریم نے ان غذاؤں کے استعمال سے منع فرمایا دیا ہے جس کا کوئی جسمانی، اخلاقی یا روحانی ضرر ظاہر ہو.مثلاً اللہ تعالیٰ نے مردار، خون اور سور کے گوشت کو حرام قرار دیا ہے.اسی طرح ہرایسی چیز کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو.اب ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اپنے اندر بہت بڑے نقصانات نہ رکھتی ہو.مُردار کو ہی لے لو.اگر کوئی جانور مر جائے تو اس کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ یا تو وہ بالکل بوڑھا ہوکر مرا ہے یاکسی زہر یلے جانور کے کاٹنے کی وجہ سے مرا ہے یا کسی بیماری اور زہر کے نتیجہ میں مرا ہے اور یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جو اس کے گوشت کو زہریلا اور نا قابل استعمال بنادیتی ہیں اور اگر وہ کسی سخت صدمہ سے مرا ہو مثلاً کنوئیں میں گر کر یا جانوروں کی باہمی لڑائی میں تب بھی اس کے خون میں زہر پیدا ہو جاتا ہے جو اس کے گوشت کو نا قابل استعمال بنا دیتا ہے اور خون تو اپنی ذات میں ہی ایسی چیز ہے جو کئی قسم کی زہریں اپنے اندر رکھتا ہے اور طبی لحاظ سے اس کا استعمال صحت کو تباہ کر نے والا ہے.یہی حال سور کے گوشت کا ہے اس کے استعمال سے بھی کئی قسم کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں اور پھر سور میں بعض اخلاقی عیوب بھی پائے جاتے ہیں جو اس کا گوشت استعمال کرنے والوں میں منتقل ہو جاتے ہیں.اور جو چیز غیر اللہ کے نام پر ذبح کی جائے اس کا استعمال انسان کو بے غیرت بنا دیتا ہے اور اس کے دل سے اللہ تعالیٰ کا ادب دور کر دیتا ہے.اسی طرح پینے کی چیزوں میں سے اسلام نے شراب کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ وہ انسانی عقل پر پردہ ڈالتی اور اس کی ذہانت اور علم کو نقصان پہنچاتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے جس قدر چیزوں کو حرام قرار دیا ہے اس کی وجہ ان کی جسمانی یا اخلاقی یا روحانی مضرات ہیں اور صرف ایسی ہی اشیاء کا کھانا جائز قرار دیا ہے جو انسان کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی ترقی کا موجب ہوں.اور پھر حلال اشیاء میں سے بھی طیبات کے استعمال پر زیادہ زور دیا ہے یعنی ایسی اشیاء پر جو انسان کی صحت اور اس کی طبیعت کے مطابق ہوں اور جن کے استعمال سے اُسے کوئی
۳۶۸ ذبیحہ اہل کتاب ضر ر لاحق ہونے کا اندیشہ نہ ہو.اس سے ظاہر ہے کہ اسلام نے اخلاق پر خوراک کے اثر کو تسلیم کیا ہے اور اس کو خاص قیود اور شرائط سے وابستہ کر کے اخلاق کے حصول کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے.( تفسیر کبیر جلد ششم - سوره مومنون - صفحه۱۸۱،۱۸۰) ھندوؤں اور عیسائیوں کے ساتھ مل کر کھانا کھانا سوال:.ایک شخص دس بارہ سال سے مسلمان ہے، احمدی ہے، مبائع ہے، چندہ بھی دیتا ہے،نماز بھی پڑھتا ہے وہ چوہڑوں اور عیسائیوں کے ساتھ کھانا کھالیتا ہے ایسے آدمی سے کیا سلوک ہو؟ جواب :.اگر حرام چیز لے کر کھاتا ہے تو اسے منع کر دو.اگر غیر مذاہب والوں سے مثلاً عیسائیوں سے کوئی حلال چیز لے کر کھائے تو کچھ حرج نہیں ہے.الفضل ۶ مئی ۱۹۱۵ ء - جلد ۲ - نمبر ۱۳۶ صفه ۲ ) سوال :.ہمارے ہاں پیشہ طبابت کی وجہ سے بعض اوقات ہندوؤں کے ہاں سے بیاہ شادی کے موقعوں پر مٹھائی وغیرہ کا جو حصہ آجاتا ہے اس کا کھانا کیسا ہے اور اگر کوئی دیوی دیوتا کے چڑھاوے میں سے کچھ بھیج دے تو اس کی نسبت کیا ارشاد ہے؟ فرمایا:.شادی بیاہ کا حصہ اگر اکل حلال ہو تو جائز ہے اور چڑھاوے کا کھانا منع ہے.الفضل ۱۰ نومبر ۱۹۱۵ء.جلد۳.نمبر۶۰ صفحه ۲) سوال :.ایک عیسائی نے لکھا کہ میں ایک احمدی سے قرآن کا ترجمہ پڑھتا ہوں اور اس کا حقہ بھی پی لیتا ہوں.احمدی لوگ اس احمدی کو تنگ کرتے اور کہتے ہیں کہ تم عیسائی کے ساتھ کیوں حقہ پیتے ہو.آپ اس کے متعلق کیا فتویٰ دیتے ہیں؟ جواب:.عیسائی کے ساتھ حقہ پینا جائز ہے مگر بہتر ہے کہ احمدی حقہ پینا ہی چھوڑ دے کیونکہ یہ ایک لغو عادت ہے.الفضل یکم جولائی ۱۹۱۶ء.جلد ۳.نمبر ۱۲۲ صفحہ ۷ )
۳۶۹ ذبیحہ اہل کتاب سوال :.کیا میں اپنے بھائی کے ساتھ جس نے مسیح موعود کی بیعت نہیں کی خوردونوش اور بودو باش سے تعلق رکھوں؟ جواب:.ان کے ساتھ کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں اس قدر اختلاط وتعلق نہ ہو جس سے دینی نقصان کا اندیشہ ہو.الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۱۵ ء - جلد ۲ نمبر ۱۱۸ صفه ۲ ) ھندوؤں اور عیسائیوں کے گھر کا کھانا کھانا چھوت چھات کے متعلق فرمایا کہ یہ مسئلہ تو ہے ہی غلط جو شخص بھی غلیظ ہوگا اس سے پر ہیز کیا جائے گا اور اگر چوہڑا صاف ستھرا ہو یا اپنے سامنے اس کے ہاتھ دھلوا لئے جائیں ( کیونکہ وہ اہل کتاب تو نہیں آخر غلاظت میں کام کرتا ہے.تو کھانے پینے کی چیز کو اس کے ہاتھ بھی لگوائے جاسکتے ہیں اور اگر حرام چیز کسی اہل کتاب کے ہاتھ کو لگی ہوئی ہے مثلاً شراب یا سور کا گوشت تو اس کے ہاتھ لگنے سے بھی کھانے کی چیز نا پاک ہو جائے گی.الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۲۲ء.جلد ۱۰ نمبر 9 صفحہ ۷ ) سوال :.ایک صاحب نے عرض کیا کہ کیا چوہڑے کے ہاتھ کا کھانا جائز ہے اگر وہ صاف ستھرا ہو اور کوئی غلاظت یا مکروہ چیز اس کے جسم اور لباس پر نہ ہو؟ جواب :.فرمایا.صاف آدمی کے ہاتھ سے چیز کھانا جائز ہے البتہ غیر اہل کتاب کے ہاتھ کی پکی ہوئی کھانی منع ہے.سوال ہوا کہ ہندو اور سکھ کے ہاتھ کی پکی ہوئی کھانا جائز ہے؟ جواب :.ہند واہل کتاب ہیں اور سکھ بھی کیونکہ وہ مسلمانوں ہی کا بگڑا ہوا فرقہ ہیں.سوال ہوا کہ سکھ جھٹکا کرتے ہیں؟ فرمایا:.وہ ناجائز ہے.اہل کتاب کے ساتھ کھانے کے یہ معنی نہیں کہ جو چیزیں شریعت اسلام میں ناجائز ہیں وہ بھی ان کے ساتھ کھانے سے جائز ہو جاتی ہیں.الفضل ۷ار جولائی ۱۹۲۳ء.جلد ۱۰.نمبر ۵ صفحه ۵)
ذبیحہ اہل کتاب سور کی چربی آیت میں جولَحْمُ الْخِنْزِیرِ فرمایا اس کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے کہ تم میں چربی بھی شامل ہے یا نہیں.جہاں تک لغت کا سوال ہے تم یعنی چربی کو لخم سے الگ خیال کیا جاتا ہے لیکن مفسرین کہتے ہیں کہ تم کے نام میں شھم بھی شامل ہے.گومفسرین کی دلیل ذوقی ہے اور لغت والوں کی بات اس مسئلہ میں زیادہ قابل اعتبار ہے.مگر اس کے باوجود میرے نزدیک سؤر کی شھم یعنی چر بی جائز نہیں اور اس کی دلیل میرے پاس یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مردہ جانور کی چربی حرام ہے اور سور کی حرمت اور مردہ کی حرمت ایک ہی آیت میں اور ایک ہی الفاظ میں بیان کی گئی ہے.پس دونوں کا حکم ایک قسم کا سمجھا جائے گا.لیکن سؤر کی جلد کا استعمال جائز ہوگا کیونکہ وہ کھائی نہیں جاتی.احادیث میں ایک اور واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا کی ایک بکری مرگئی.چند آدمی اس کو اٹھا کر باہر لئے جارہے تھے.نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم اس کا چمڑا کیوں نہیں اتار لیتے ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ تو مینہ ہے.آپ نے فرمایا کیا تم نے اسے کھانا ہے.پس معلوم ہوا کہ جس کا گوشت حرام ہو اس کے چمڑے کے استعمال میں کوئی حرج نہیں.ہاں سور کے بالوں کے بنے ہوئے بُرشوں کو مکر وہ کہا جائے گا کیونکہ ان کو منہ میں ڈالا جاتا ہے جو کھانے کا دروازہ ہے.( تفسیر کبیر جلد چہارم.سورہ انحل - صفحه ۲۶۰) عورت کا ذبیحه سوال :.کیا مرد کی غیر موجودگی میں عورت کا ذبیحہ جائز ہے؟ جواب :.بہر حالت جائز ہے.ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں البتہ بعض ملانوں کو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ منع کرتے ہیں.الفضل ۷ / مارچ ۱۹۱۶ء.جلد ۳.نمبر ۹۵ صفحه ۹)
۳۷۱ آیا مسلمان شراب کا ٹھیکہ اپنی طرف سے لے کر دوسرے شخص کو دے سکتا ہے؟ جواب: - حضور نے لکھایا.مسلمان کے لئے شراب کے کام میں کسی طرح بھی حصہ لینا جائز نہیں.الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۱۵ء.جلد ۳ نمبر ۶۳ صفحه ۱) سوال:.میں نے اپنی دوکان کرایہ پر دی ہے جس میں کرایہ دار نے شراب فروشی کا کام شروع کیا ہوا ہے.اس کا کرایہ میرے لئے حرام ہے یا حلال؟ جواب :.دوکان خالی کرالو.(الفضل ۱۳ مئی ۱۹۱۶ء.صفحہ ۸) سوال :.کیا میں بوجہ حاجت اپنے مکان کا نصف حصہ مسکرات کے ٹھیکیدار کو دے سکتا ہوں؟ جواب :.فرمایا.یہ بھی ایک قسم کی مدد ہے اس لئے نہ دیں.الفضل ۲۵ / مارچ ۱۹۱۵ء.جلد ۲.نمبر ۱۱۸- صفحه ۲)
حقه نوشی
۳۷۵ حقه نوشی حقہ بہت بُری چیز ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو یہ چھوڑ دینا چاہئے.بعض لوگوں نے مجھے کہا ہے ہم نے ایسے ملہم دیکھے ہیں جو حقہ پیتے تھے اور ان کو الہام ہوتا تھا.اگر ہم یہ تسلیم بھی کر لیں کہ حقہ پینے والے کو خدائی الہام ہوتے ہیں تو کہنا پڑے گا کہ وہ الہام اعلیٰ درجہ کے نہ ہوں گے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ لہسن کھا کر مسجد میں نہ آؤ.اس کو بد بوکی وجہ سے فرشتے نہیں آتے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچا لہسن رکھا گیا تو آپ نے نہ کھایا.صحابہ نے پوچھا رسول اللہ ہم نہ کھائیں.فرمایا تم سے خدا کلام نہیں کرتا تم کھا سکتے ہو.ان حدیثوں کے ہوتے ہوئے کس طرح مان لیں کہ حقہ پینے والے کے پاس فرشتے آتے ہیں.جبکہ حقہ کی بد بو لہسن سے بھی زیادہ خراب ہوتی ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حقہ سے کم بد بو والی چیز کے متعلق فرماتے ہیں کہ میں اسے استعمال نہیں کرتا میرے پاس فرشتے آتے ہیں.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر احتیاط کرتے تھے تو جو شخص الہام کا مدعی ہے یا جسے خواہش ہے کہ اُسے الہام ہو اُسے بھی حقہ سے بچنا چاہئے.اور میں اس کی شکل دیکھنا چاہتا ہوں جو یہ کہے کہ مجھے الہام کی خواہش نہیں.اگر کوئی ایسا شخص نہیں تو پھر کسی کو حقہ بھی نہیں پینا چاہئے.(انوار العلوم جلد ۹.منہاج الطالبین صفحہ ۱۶۳ ۱۶۴) غلاظتوں میں ملوث ہونے والوں کے ساتھ بھی فرشتے تعلق نہیں رکھتے.اسی دلیل میں حقہ پینے والے بھی آگئے.حقہ پینے والے کو بھی صحیح الہام ہونا ممکن ہے.انوار العلوم جلد ۵ - ملائکۃ اللہ - صفحه ۵۶۲) تمباکو نوشی سوال :.ایک دوست نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.
ان المبذرين كانوا اخوان الشيطين اور تمباکو نوشی بھی تو فضول خرچ ہی ہے.اس کو حرام قرار دینا چاہئے؟ جواب :.حضور نے فرمایا.آپ بے شک حرام قرار دے دیں.میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتویٰ سے آگے نہیں بڑھ سکتا.اسی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مکروہ اور نا پسندیدہ قرار دیا ہے.اس لئے ہم بھی اس فتویٰ کے خلاف کوئی فتویٰ نہیں دے سکتے.آپ جانتے ہیں کہ چلتی ہوئی ریل کو یکدم روکا نہیں جاسکتا.آہستہ آہستہ ہی اسے روکا جاسکتا ہے.اسی طرح سگریٹ کی ریل جس میں سے دھواں نکلتا ہے آہستہ آہستہ ہی رکے گی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ سخت مضر صحت چیز ہے اور اعصاب پر اس کا بہت برا اثر پڑتا ہے لیکن اس وقت ایک رواس کی تائید میں چل رہی ہے.اس لئے لوگ اس رو میں بہہ کر اس کا استعمال کرتے جارہے ہیں.جب اس کے خلاف رو زیادہ طاقتور ہو جائے گی تو لوگ خود بخود اس سے نفرت کرنے لگ جائیں گے.(الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۶۰ء صفحه ۴) ایک سوال کے جواب میں فرمایا:.حقہ کبھی کبھی پی سکتے ہیں حرام نہیں مکروہ ہے.حتی الوسع پر ہیز کرنا چاہئے.صرف Test کے لئے پی لیا کریں.فائل مسائل دینی A-31.10.1958-32) چوتھی چیز جو لغویات میں شامل ہے اور جس کا ترک کرنا نہایت ضروری ہے وہ حقہ ہے.لوگ پہلے تو اس کو اس لئے شروع کرتے ہیں کہ اس سے قبض کھل جاتی ہے مگر پھر ان کی ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ پاخانہ میں بیٹھ کر تین تین دفعہ چلمیں بھرواتے ہیں تب انہیں اجابت ہوتی ہے اور پھر حقہ پینے والوں کو ہمیشہ گلے اور سینہ کی خرابی اور کھانسی کا عارضہ لاحق رہتا ہے کیونک جو چیز جسم کوشن کر دیتی ہے ہے وہ آخر میں اعصاب کو ڈھیلا اور کمزور کر دیتی ہے اور کئی امراض کا موجب بن جاتی ہے مگر اس زمانہ میں حقہ اور سگریٹ کا اس قدر رواج ہے کہ اکثر نوجوان بلکہ بچے بھی اس میں مبتلا دیکھے جاتے ہیں.مگر چونکہ یہ ایک نشہ آور چیز ہے اس لئے رفتہ رفتہ وہ اس کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ اگر ضرورت
۳۷۷ محسوس ہونے پر انہیں حقہ یا سگریٹ یا نسوار وغیرہ نہ ملے تو وہ پاگلوں کی طرح دوڑے پھرتے ہیں.( تفسیر کبیر جلد ششم.سورۃ الفرقان - صفحہ ۵۸۸) ہمارے ملک میں عام نشہ والی چیز حقہ ہے.یوں تو اس کا نشہ اس طرح نہیں ہوتا جس طرح دوسری نشہ آور چیزوں کا ہوتا ہے.مگر اس کی وجہ سے اعصاب بے حس ہو جاتے ہیں.میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم میں جو لوگ حقہ پینے کی عادت رکھتے ہیں وہ چھوڑ دیں.اور اگر خود نہ چھوڑ سکیں تو اپنے بچوں میں اس عادت کو نہ جانے دیں.اول تو ہم یہی چاہتے ہیں کہ حقہ کی عمران کی عمر سے چھوٹی ہو یعنی وہ اپنی زندگی میں ہی حقہ کا خاتمہ کر دیں.لیکن اگر انہیں اتنا ہی عزیز ہے کہ جیتے جی نہیں چھوڑنا چاہتے تو اپنی عمر کے ساتھ ہی اس کا بھی خاتمہ کریں.اور اپنے پیچھے اپنے بچوں میں اسے نہ چھوڑیں.یہ ایک لعنت ہے اور ایسی لعنت ہے کہ روٹی کے لئے نہیں مگر اس کے لئے گندی سے گندی اور ذلیل سے ذلیل مجلس میں جانا پڑتا ہے.انوارالعلوم جلد۵ - اصلاح نفس.صفحہ ۴۳۸ تا ۴۴۰ ) ایک صاحب نے حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ حقہ پینا کیسا ہے؟ حضور نے فرمایا:.حقہ پینا نا پسند امر ہے گو حرام نہیں لیکن لغو اور داخل اسراف ہے اور نقصان دہ شئی ہے پس ہر ایک احمدی کو اس سے اجتناب لازمی ہے.الفضل ۱۳/ جولائی ۱۹۱۵ء.جلد ۳.نمبر ۹ صفحه ۲) ⭑☆☆☆
۳۷۹ ناچ گانا
۳۸۱ ناچ گانا ناچ گانا والذين لا يشهدون الزور زور کے معنی مجلس الغناء یعنی گانے بجانے کی مجلس کے ہیں.اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ رحمن کے بندے گانے بجانے کی مجلس میں نہیں جاتے تا کہ اس کے زہر یلے اثرات سے وہ محفوظ رہیں اور خدا تعالیٰ سے غافل ہو کر ہوا و ہوس کے پیچھے نہ چل پڑیں.اسی بناء پر میں نے اپنی جماعت کو ہدایت کی ہے کہ وہ سینمانہ دیکھا کرے.کیونکہ اس میں بھی گانا بجانا ہوتا ہے جو انسانی قلب کو خدا تعالیٰ کی طرف سے غافل کر دیتا ہے.پہلے یہ چیز تھیٹر میں ہوا کرتی تھی لیکن جب سے نا کی نکل آئی ہے سینما میں بھی یہ چیزیں آگئی ہیں بلکہ تھیڑ سے زیادہ وسیع پیمانہ پر آئی ہیں کیونکہ تھیٹر کا صرف ایک شو ہوتا ہے جس میں بڑے بڑے ماہر فن گویوں کو بلانا بہت بڑے اخراجات کا متقاضی ہوتا تھا جس کو وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے اور پھر ایک شوصرف ایک جگہ ہی دکھایا جا سکتا تھا.مگر اب ایک شو سے ہزاروں فلمیں تیار کر کے سارے ملک میں پھیلا دی جاتی ہیں اور بڑے بڑے ماہرفن گویوں اور موسیقاروں کو بلایا جاتا ہے.اس لئے تھیٹر سے سینما کا ضرر بہت زیادہ ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ گانا بجانا اور باجے وغیرہ یہ سب شیطان کا ہتھیار ہیں جن سے وہ لوگوں کو بہکا تا ہے مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی اس واضح ہدایت کو بھلا دیا اور وہ اپنی طاقت کے زمانہ میں رنگ رلیوں میں مشغول ہو گئے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر انہیں اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا.سینما ( تفسیر کبیر جلد ششم - سورة الفرقان - صفحه ۵۸۵) موجودہ زمانہ میں جو لغویات پائی جاتی ہیں ان میں سب سے مقدم سینما ہے جو قومی اخلاق کے
۳۸۲ ناچ گانا لئے ایک نہایت ہی مہلک اور تباہ کن چیز ہے اور تمدنی لحاظ سے بھی ملکی امن کے لئے خطرہ کا موجب ہے.میں نے کچھ عرصہ ہوا فرانس کے متعلق پڑھا کہ وہاں کئی گاؤں صرف اس لئے ویران ہو گئے کہ لوگ سینما کے شوق میں گاؤں چھوڑ چھوڑ کر شہروں میں آکر آباد ہو گئے تھے اور گورنمنٹ کو فکر پڑ گئی کہ اس رو کوکس طرح روکا جائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سینما اپنی ذات میں برانہیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اس کا بُرے طور پر استعمال کر کے اس زمانہ میں اسے انتہائی طور پر نقصان رساں اور تباہ کن بنادیا گیا ہے.ورنہ اگر کوئی شخص ہمالیہ پہاڑ کے نظاروں کی فلم تیار کرے اور وہاں کی برف اور درخت اور چشمے وغیرہ لوگوں کو دکھائے جائیں.اس کی چٹانوں اور غاروں اور چوٹیوں کا نظارہ پیش کیا جائے اور اس میں کسی قسم کا با جایا گانا نہ ہو تو چونکہ یہ چیز علمی ترقی کا موجب ہوگی.اس لئے یہ جائز ہوگی.اسی طرح اگر کوئی فلم کلی طورپر تبلیغی ہو یا تعلیمی ہو اور اس میں گانے بجانے یا تماشہ کا شائبہ تک نہ ہوتو اس کے دیکھنے کی ہم اجازت دیں گے.اسی طرح تربیتی یا جنگی اداروں کی طرف سے جو خالص علمی تصاویر آتی ہیں جن میں جنگلوں، دریاؤں کے نظارے یا کارخانوں کے نقشے یا لڑائی کے مختلف مناظر ہوتے ہیں وہ بھی دیکھے جاسکتے ہیں کیونکہ ان کے دیکھنے سے علمی ترقی ہوتی ہے یا بعض صنعتی یا زرعی تصویریں ہوتی ہیں جن میں کسانوں کو کھیتی باڑی کے طریق سکھائے جاتے ہیں.فصلوں کو تباہ کرنے والی بیماریوں کے علاج بتائے جاتے ہیں.زراعت کے نئے نئے آلات سے روشناس کیا جاتا ہے.عمدہ بیج اور ان کی پیداوار دکھائی جاتی ہے.ایسی چیزیں لغو میں شامل نہیں کیونکہ ان کے دیکھنے سے علمی لحاظ سے انسان کو ایک نئی روشنی حاصل ہوتی ہے اور اس کا تجربہ ترقی کرتا ہے اور وہ بھی اپنی تجارت یا صنعت یا زراعت کو زمانہ کی دوڑ کے ساتھ ساتھ بڑھانے اور ترقی دینے کے وسائل اختیار کر سکتا ہے لیکن جھوٹی فلم خواہ جغرافیائی ہو، خواہ تاریخی ، ناجائز ہے مثلاً نپولین کی جنگوں کی کوئی شخص فلم بنائے تو یہ جھوٹی ہوگی.جغرافیائی اور تاریخی فلم سے مراد محض کچی فلم ہے ، جھوٹی فلم مراد نہیں.بہر حال سینما کی وہ فلمیں جو آجکل تمام بڑے بڑے شہروں میں دکھائی جاتی ہیں اور جن میں ناچ بھی ہوتا ہے اور گانا بجانا بھی ہوتا ہے یہ ایک بدترین لعنت ہے.جس نے سینکڑوں شریف گھرانوں کے لوگوں کو گویا اور سینکڑوں
۳۸۳ ناچ گانا شریف خاندانوں کی عورتوں کو ناچنے والی بنادیا ہے.میں چونکہ ادبی مسائل وغیرہ دیکھتا رہتا ہوں میں نے دیکھا ہے کہ سینما کے شوقین اور اس سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے مضامین میں عموماً ایک تمسخر ہوتا ہے اور ان کے اخلاق اور ان کا مذاق ایسا گندہ ہوتا ہے کہ حیرت آتی ہے.سینما والوں کی غرض تو محض روپیہ کمانا ہوتی ہے نہ کہ لوگوں کو اخلاق سکھانا اور وہ روپیہ کمانے کے لئے ایسے لغو اور بیہودہ افسانے اور گانے پیش کرتے ہیں کہ جو اخلاق کو سخت خراب کرنے والے ہوتے ہیں اور شرفاء جب ان کو دیکھنے جاتے ہیں تو ان کا اپنا مذاق بھی بگڑتا ہے اور ان کے بچوں اور عورتوں کا بھی مذاق بگڑ جاتا ہے جن کو وہ سینما دکھانے کے لئے ساتھ لے جاتے ہیں یا جن کو واپس آکر وہاں کے قصے سناتے ہیں.غرض سینما ملک کے اخلاق پر ایسا تباہ کن اثر ڈال رہے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں اگر میری طرف سے ممانعت نہ ہوتی تب بھی ہر بچے اور مخلص مومن کی روح اس سے اجتناب کرتی.بعض احمدی پوچھتے ہیں کہ انگریزی فلموں میں تو کوئی لغو بات نہیں ہوتی ، ان کو دیکھنے کی اجازت دی جائے حالانکہ کوئی انگریزی فلم ایسی نہیں ہوتی جس میں گانا بجانا نہ ہواور گانا بجانا اسلام میں سخت منع ہے اور قرآن کریم کی اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کا بندہ ہی نہیں بن سکتا جب تک وہ گانے بجانے کی مجلسوں سے الگ نہ ہو.تفسیر کبیر جلد ششم.سورۃ الفرقان.صفحہ ۵۸۷،۵۸۶) سینما اور تماشے سینما اور تماشے کے متعلق میں جماعت کو حکم دیتا ہوں کہ کوئی احمدی کسی سینما، سرکس تھیٹر وغیرہ غرضیکہ کسی تماشہ میں بالکل نہ جائے اور اس سے کلی پر ہیز کرے.ہر مخلص احمدی جو میری بیعت کی قدر و قیمت کو سمجھتا ہے اس کے لئے سینمایا کوئی اور تماشہ وغیرہ دیکھنا یا کسی کو دکھانا نا جائز ہے.( مطالبات تحریک جدید - نمبر ۳۷) سینما اپنی ذات میں بُرا نہیں بلکہ اس زمانہ میں اس کی جو صورتیں ہیں وہ مخرب الاخلاق ہیں.اگر
۳۸۴ ناچ گانا کوئی فلم کلی طور پر تبلیغی ہو یا تعلیمی ہو اور اس میں کوئی حصہ تماشہ وغیرہ کا نہ ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں.اگر چہ میری یہی رائے ہے کہ تماشہ تبلیغی بھی ناجائز ہے.( مطالبات تحریک جدید - نمبر ۳۹) سینما چلانے کے کاروبار سینما فی ذاتہ بری چیز نہیں.اگر اس میں علمی اور واقعاتی فلمیں دکھائی جائیں تو وہ ایک مفید چیز ہے.البتہ مخرب اخلاق فلموں کی صورت میں سینما دیکھنا اور سینما دکھانے کا پیشہ سخت مکروہ اور نا پسندیدہ ہو چکا ہے.( الفضل ۶ / اگست ۱۹۶۳، صفحه۳) فیصد مجلس فتار منظور کردہ حضرت خلیفہ المسح الثانی.فیصل نمبر۱۳) سچی فلمیں بعض نوجوانوں کا خیال ہے کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہسٹار یکل پکچرز دیکھنے کی اجازت دی ہوئی ہے.ہم نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں لکھا تھا کہ اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ حضور نے ارشاد فرمایا کہ:.جو شخص کہتا ہے کہ میں نے ہسٹار یکل پکچرز دیکھنے کی اجازت دی ہے وہ کذاب ہے.میں نے ہرگز ایسا نہیں کہا نہ اس خط میں اس کا ذکر ہے.لفظ مشتبہ ہے.میں نے جو اجازت دی ہے وہ یہ ہے کہ علمی یا جنگی اداروں کی طرف سے جو خالص علمی پکچرز ہوتی ہیں مثلاً جنگلوں ، دریاؤں کے نقشے یا کارخانوں کے نقشے یا جنگ کی تصاویر جو سچی ہوں ان کو دیکھنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ علم ہے.الفضل ۲۵ را پریل ۱۹۴۳ء - جلد ۳۱ نمبر ۹۸ صفحه ۲)
۳۸۵ ناچ گانا جغرافیائی اور تاریخی فلم سے مراد سچی فلم ہے جھوٹی فلم کی ہرگز اجازت نہیں دی گئی.تاریخی فلم ایسی ہے جیسے کہ سان فرانسسکو کے جاپان کے معاہدہ کی مجلس کی فلم ہوگی.جغرافیائی سے مراد یہ ہے کہ پہاڑ پر جا کر یا مثلاً جاوا جا کر وہاں کے جنگلوں ، دریاؤں کے فلم لے.جھوٹی فلم خواہ جغرافیائی ہو خواہ تاریخی ، ناجائز ہے مثلاً نپولین کی جنگوں کی کوئی شخص فلم بنائے تو یہ جھوٹی ہوگی باوجود نام نہاد تاریخی فلم ہونے کے وہ ناجائز ہوگی.(الفضل ۲۵ ستمبر ۱۹۵۱ء صفحه ۲) ناچ تیسری چیز جو موجودہ زمانہ کے لحاظ سے لغو میں شامل ہے وہ ناچ ہے.انگریزوں میں کسی زمانہ میں ناچ بہت برا سمجھا جاتا تھا مگر آہستہ آہستہ لوگوں نے اسے اختیار کرنا شروع کر دیا.پہلے عورت اور مرد صرف ہاتھ پکڑ کرنا چھتے تھے پھر سینہ کی طرف سینہ کر کے ناچنے لگے.پھر یہ سلسلہ اور بڑھا اور درمیانی فاصلہ تین انگشت تک آ گیا.اب بہت جگہ پر یہ بھی اڑ گیا ہے.قرآن کریم نے ولا يضربن بارجلهن ليعلم ما يخفين من زينتهن (نور) میں عورتوں کے لئے اپنی پیروں کو اس طرح پر مار کر چلنے سے بھی منع فرمایا ہے جس سے ان کی زینت کا اظہار ہواور ناچ میں تو زینت کے اخفاء کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس ناچ بھی مال اور اخلاق کو تباہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے.دنیا میں ایسے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کنچنیوں کے ایک ایک ناچ پر اپنی ساری جائیداد میں دے دیتے ہیں.ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو ڈوموں کے لطیفوں پر اپنی قیمتی اموال لٹا دیتے ہیں.پس گانے کی طرح ہر قسم کا ناچ بھی ایک لعنت ہے جس سے نو جوانوں کے اخلاق بگڑتے اور قوم کے اموال تباہ ہوتے ہیں.( تفسیر کبیر جلد ششم.سورۃ الفرقان - صفحہ ۵۸۸)
ناچ گانا قوالی سوال :.قوالی کے متعلق کیا حکم ہے کیونکہ قوالی سننے سے بہت اثر اور سرور حاصل ہوتا ہے؟ جواب : فرمایا.آپ نے کیا کبھی بھنگ پی ہے؟ بھنگ پینے والوں کو تو اتنا اثر اور اتنا لطف حاصل ہوتا ہے کہ اس کا عشر عشیر بھی قوالی سننے والوں کو حاصل نہیں ہوسکتا.بھنگ پینے والوں کو تو ا تناسرور حاصل ہوتا ہے کہ وہ دیکھتا ہے کہ آسمان کے طبقات اس پر کھل گئے اور کبھی وہ فلک کی سیر کرتا ہے اور کبھی اور دوسرے بلند مقامات پر اڑتا پھرتا ہے.پس اگر لطف حاصل کرنا ہے تو آپ قوالی سن کر چھوٹی چیز پر قناعت کیوں کرتے ہیں.کیوں زیادہ سرور د ینے والی چیز اختیار نہیں کرتے.سوال :.قوالی سننے سے بعض اوقات بے اختیار رقت طاری ہو جاتی ہے؟ جواب :.فرمایا.تھیٹر دیکھنے اور جھوٹے ناولوں کے پڑھنے سے بھی رقت طاری ہو جاتی ہے اور انسان بے اختیار رونے لگتا ہے.رہا یہ کہ لوگوں کو قوالی میں حال آجاتا ہے اس کے متعلق ابن سیرین نے لکھا ہے کہ ایک شخص کو کسی اونچی دیوار پر بٹھا کر اس کے سامنے تمام قرآن مجید پڑھ جاؤ.پھر میں دیکھوں گا کہ اسے کس طرح حال آتا ہے.گانا بجانا الفضل ۶ / جون ۱۹۳۱ء.جلد ۱۸ نمبر ۱۴ صفحه ۷ ) سوال :.ریڈیو یاریکارڈ کے ذریعہ غیر عورت کا گانا سننا شریعت اسلام کی رو سے کیسا ہے؟ جواب :.فرمایا.میں اس بات کا قائل نہیں کہ کسی عورت کا گانا آمنے سامنے ہوکر سننا یا ذریعہ ریڈیو یا گراموفون سنا ایک ہی بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ مرزا افضل بیگ صاحب مرحوم کے گراموفون پر ایک غزل گائی جاتی تھی میرے سامنے سنی اور اس کو منع قرار نہیں دیا البتہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس طرح بُرا اثر پڑ سکتا ہے اور ضیاع وقت ہے اس بات کو روکا جا سکتا
۳۸۷ ناچ گانا ہے مگر اس دلیل کی بناء پر اس کی حرمت کا فتویٰ میں دینے کو تیار نہیں ہوں.الفضل ۱۴ جون ۱۹۴۰ء - جلد ۲۸ نمبر ۱۳۵ صفی ۲) خوش الحانی علیحدہ چیز ہے اور راگ میں الفاظ کو مد نظر نہیں رکھا جا تا بلکہ سر اور تال کو دیکھا جاتا ہے مگر خوش الحانی میں صرف آواز کا خیال ہوتا ہے.الفاظ کو نہیں بگاڑا جاتا.اور ڈھولک تو بالکل ہی اور چیز ہے.اس کے سننے سے اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا نہیں ہوسکتا.(چشمہ عرفان - صفحہ ۲۷) سوال : حضرت نظاریه است امید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں ریڈیو کے گانے سے متعلق :.حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب اور مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم کا فتویٰ پیش کیا گیا.اس فتویٰ میں ان ہر دو علماء نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ریڈیو کے ذریعہ غیر عورت کا گانا سننا شریعت اسلامی کی رو سے ناجائز ہے؟ جواب: - حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ میں اس بات کا قائل نہیں کہ کسی عورت کا گانا آمنے سامنے ہو کر سننا یا بذریعہ ریڈیو یا گراموفون سننا ایک ہی بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ مرزا افضل بیگ صاحب مرحوم کے گراموفون پر ایک غزل گائی جاتی تھی میرے سامنے سنی اور اس کو منع قرار نہیں دیا البتہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس طرح برا اثر پڑسکتا ہے اور ضیاع وقت ہے اس بات کو روکا جاسکتا ہے مگر اس دلیل کی بناء پر اس کی حرمت کا فتویٰ میں دینے کو تیار نہیں ہوں.☆☆☆ رجسٹر ہدایات اصلاح و ارشاد )
۳۸۹ متفرق
۳۹۱ متفرق شطرنج سوال :.لوگ کہتے ہیں کہ شطرنج کھیلنے سے دماغی تربیت ہوتی ہے.حضور کا کیا خیال ہے؟ جواب :.فرمایا.ہر وہ کھیل جو انسان کو کلیہ اپنی طرف متوجہ کر لے اور انسان کو علمی ترقی سے روک دے.اس میں حصہ لینا شریعت نا پسند کرتی ہے.شطرنج ایسی کھیل ہے کہ کھیلنے والوں پر اتنی محویت طاری ہو جاتی ہے کہ وہ کئی کئی دن حتی کہ بعض دفعہ چھ چھ مہینے تک اس میں مصروف رہتے ہیں اور دوسرے کاموں میں حصہ نہیں لیتے.لیکن شریعت چاہتی ہے کہ حد سے باہر قدم نہ رکھا جائے.ورنہ جس حد تک کھیل سے دماغی تازگی پیدا ہونے کا تعلق ہے شریعت اس سے منع نہیں کرتی خواہ کوئی بڑا آدمی ہو یا چھوٹا اسے کوئی نہ کوئی ایسا شغل ضرور چاہئے جس سے اس کے دماغی بوجھ میں کمی واقع ہو سکے.ہمارے پنجاب میں ایک کھیل بارہ ٹہنی کھیلی جاتی ہے اس کے کھیلنے میں کوئی حرج نہیں.لیکن اگر کسی وقت میں یہ دیکھوں کہ ہر جگہ لوگ بارہ ٹہنی کھیل رہے ہیں اور اپنے اوقات کا اکثر حصہ اسی کھیل میں صرف کر رہے ہیں تو اس وقت اگر کوئی مجھے پوچھے تو میں یہی کہوں گا یہ بخت بُری کھیل ہے مگراب چونکہ اس میں لوگوں کا زیادہ تو غل نہیں اس لئے کبھی کبھی کھیلنے میں حرج نہیں ہے.الفضل ۱۴ را پریل ۱۹۳۱ء.جلد ۱۸.نمبر ۱۱۹ صفحه ۵) غیرمسلموں کو السلام علیکم کہنا میرا اپنا طریق تو یہ ہے کہ سب کو السلام علیکم کہتا ہوں.ہاں کوئی شقی جیسا کہ لکھر ام تھا جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سلام نہیں کیا.اگر ملے تو ممکن ہے کہ طبیعت رکے.عام لوگ باوجود دشمن ہونے کے دھو کہ خوردہ ہیں اور سلام کی دعا کے مستحق.الفضل ۲۱ را گست ۱۹۴۶ء - جلد ۳۴ نمبر ۱۹۵ صفحیم ) سوال : ملا غیر احمدی مکفر واشد مخالف سلسلہ کو سلام میں سبقت کرنا جائز ہے؟
۳۹۲ متفرق جواب :.سبقت جائز نہیں بلکہ جواب دینا بھی ناجائز ہے.اشد مخالفین سے حضور ( مسیح موعود ) نے کلام بھی ترک کیا ہے.(الفضل ۲ مارچ ۱۹۱۵ء.نمبر۱۱۱ صفحه ۲ ) سوال :.اگر کوئی شخص ( غیر احمدی ) آپ کو السلام علیکم اسلامی طریقہ پر کہے تو آپ اس کو کیا جواب دیں گے؟ جواب:.ہم اس کو وعلیکم السلام کہیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہودیوں کو کہتے تھے.ہم تو غیر احمدیوں کو جو مکذب نہ ہوں ابتداء بھی کریں گے.کیونکہ یہ رواج ہے.اب اس کو وہ بات حاصل نہیں جو پہلے تھی.جس قوم میں سلام کا رواج ہے اس کو ہم سلام ہی کہتے ہیں.الفضل ۶ ستمبر ۱۹۱۹ء.جلدے.نمبر ۲۰ صفحہ ۹) حضور نے ایک دوست کو لکھوایا کہ ہندوؤں کو یا کسی کو بندگی کہنا یا پائے لاگی کہنا یہ سب ناجائز ہے.دراصل سجدہ کے قائم مقام ہے.الفضل ۲۰ / ۷ ارمئی ۱۹۱۵ء - جلد ۲ نمبر ۱۴۲، ۱۴۱ صفحه۱ ) رسم و رواج فرمایا.ایک دفعہ جب میں چھوٹا تھا تو مولوی صاحب مرحوم (مولوی برہان الدین صاحب ) قادیان تشریف لائے.میری بچپن کی عمر تھی محرم کا مہینہ تھا.لوگوں کی دیکھا دیکھی گلے میں سرخ دھا گا جسے مولی کہتے ہیں ڈالا ہوا تھا.مولوی صاحب نے مجھے پکڑ لیا کہ یہ بدعت ہے.ابھی اس کو اتارو.میں بچپن میں بوجہ شرم با ہر کم نکلتا تھا اس لئے اجنبی آدمی سے سخت ڈرا کرتا تھا.بھاگ کر گھر گیا اور مجھے بخار ہو گیا.حضرت صاحب نے مولوی صاحب کو بلا کر سمجھایا کہ بچوں پر اتنی سخی نہیں کرنی چاہئے.الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۲۰ء - جلد ۸ نمبر ۱۹ صفحه ۲)
۳۹۳ متفرق سوال:.ہماری قوم کی رسم ہے کہ جب لڑکا پیدا ہو تو میراثی جو ہمارے آباء واجداد سے لیتے چلے آئے ہیں اس کی دوہائی مانگتے ہیں.انہیں حسب توفیق کچھ دے دیا جاتا ہے اور ان کی حالت اور چال چلن کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا ؟ جواب :.مومن کو اپنا مال ضائع نہیں کرنا چاہئے.یہ لغو رسومات ہیں ان سے جہاں تک ہو سکے بچیں.الفضل یکم جولائی ۱۹۱۵ء.جلد ۳.نمبر ۳ صفحہ ۸) شب برات گیارھویں بارہ وفات، نیاز وغیره کاکھانا سوال: سنی لوگ محرم کے دنوں میں خاص قسم کے کھانے وغیرہ پکاتے اور آپس میں تقسیم کرتے ہیں ان کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ جواب:.فرمایا کہ یہ بھی بدعت ہیں اور ان کا کھانا بھی درست نہیں اور اگر ان کا کھانا نہ چھوڑا جائے تو وہ پکانا کیوں چھوڑنے لگے.بارہ وفات کا کھانا بھی درست نہیں اور گیارہویں تو پورا شرک ہے.قرآن کریم میں آتا ہے.وَمَا أُهِلَّ بَهِ لِغَيْرِ الله یہ بھی ان میں داخل ہے کیونکہ ایسے لوگ پیر صاحب کے نام پر جانور پالتے ہیں.الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۲۲ء - جلد ۱۰ نمبر ۸۲ صفحه ۷،۶ ) سوال :.کیا شب برات کے روز حلوہ مانڈہ وغیرہ تیار کرنا احمدیوں کے لئے جائز ہے؟ جواب : نہیں یہ بدعت ہے.الفضل ۳۰ را پریل ۱۹۵۴ء صفحه ۲ ) سوال :.میری بیوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نیاز مانی تھی جیسے کہ اولیاء وغیرہ کی نیاز مانی جاتی ہے.اس کے متعلق کیا ارشاد ہے؟
۳۹۴ متفرق جواب :.حضرت صاحب یا کسی دوسرے بزرگ کے لئے نیاز مانی بدعت ہے.الفضل ۱۲ر ستمبر ۱۹۱۵ء.جلد ۳.نمبر ۳۵ صفحه۱) سوال :.کیا مسمریزم سیکھ کر اس کے ذریعہ علاج کر سکتا ہوں؟ جواب: مسمریزم سے علاج کا طریق سیکھنا منع نہیں ہے مگر افسوس کہ دوائیوں سے علاج کرنے والے باوجود کثرت سے مریضوں کے شفا پانے کے اپنے کام پر نازاں نہیں ہوتے مگر مسمریزم سے علاج کرنے والے اپنی ولایت کی طرف اس کام کو منسوب کرتے ہیں.حالانکہ یہ ایک دنیا وی علم ہے اس لئے احتیاطاً واقف کاروں نے اس علم میں پڑنے سے منع کیا ہے ورنہ یہ اور علموں کی طرح ایک علم ہے اور میرے خیال میں ایک دن میں آدمی سیکھ سکتا ہے.اس کے سیکھنے کے لئے کوئی بڑا مجاہدہ نہیں کرنا پڑتا.سوال :.نظر کوئی چیز ہے یا نہیں؟ الفضل ۱۵ر جولائی ۱۹۱۶ء.جلد۴.نمبر۳) جواب : لکھوایا.انسان کی نظر میں ضرور اثر ہے اور احادیث سے بھی ثابت ہے اور اس کا علاج دعا ہے.طبی طور سے بھی ثابت ہے کہ نظر میں ایک طاقت ہوتی ہے.الفضل ۱۳ مئی ۱۹۱۶ء.جلد ۳.نمبر ۱۱۳ صفحه ۲) اللہ کے ذکر کے متعلق دریافت کیا جسے ضرب لگانا کہا جاتا ہے.فرمایا:.یہ ذکر کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ یہ مصلحت وقت کے ماتحت ہندوستانیوں کو خدا کی توحید کا قائل کرنے کے لئے اس وقت کے بزرگان نے جاری کیا تھا کیونکہ اس وقت اس ملک میں مسمریزم کا بہت رواج تھا.چنانچہ اب تک بھی مدراس کے علاقہ میں اس کا بہت رواج ہے.ان لوگوں میں جب اسلامی تعلیم پیش ہوئی تو ان کے جو بزرگ تھے ان کی مثالیں لوگوں نے پیش کیں کہ وہ لوگ ایسے ایسے کمالات دکھاتے تھے اور کہ یہ باتیں ہمارے ہندو مذہب کی صداقت کے دلائل ہیں.پس ہم ان کے مقابلہ میں اسلام کو کس طرح سچا مذ ہب سمجھ لیں.اس وقت ان لوگوں کے مقابل پر مسلمانوں نے یہ
۳۹۵ متفرق باتیں پیش کر دیں اور اس طرح سے سمجھایا کہ یہ باتیں کسی مذہب کی صداقت کے ساتھ تعلق نہیں رکھتیں.رام رام کی جگہ اگر خدا کا نام لیا جاوے تو وہی اثر ہوتا ہے.آخر رفتہ رفتہ جو باتیں تعلق باللہ کے ذریعہ سے حاصل ہوتی تھیں وہ تو ہٹ گئیں اور صرف نام رہ گیا.تعویذ وغيره الفضل ۱۵ مئی ۱۹۲۲ء.جلد ۹ نمبر ۸۹ صفحه ۷ ) سوال:.ایک صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں تحریر کیا کہ میری بیوی مدت سے بیمار ہے.علاج و معالجہ سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا.عوام الناس کا خیال ہے کہ اس کو کسی نے سحر کیا ہوا ہے.حضور اس امر کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ جواب :.فرمایا.سحر کوئی نہیں.آپ روز رات کو آیت الکرسی ،قل ھواللہ اور سورۃ الفلق اور الناس پڑھ کر تین دفعہ پھونک دیا کریں اور ہینگ تھوڑی سی صبح و شام دودھ کے ساتھ پلا دیا کریں.الفضل ۱۸ ستمبر ۱۹۲۲ء.جلد ۱۰ نمبر ۲۲ صفحه ۶) سوال:.ایک صاحب کا خط پیش ہوا کہ ان کی سوتیلی ماں تعویذ کراتی رہتی ہے جن سے تکلیف ہوتی ہے؟ جواب :.حضور نے لکھوایا کہ سوتے وقت قل هو الله، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس تین دفعہ پڑھ کر ہا تھوں پر پھونک کر جسم پر مل لیا کریں.اور آیت الکرسی اگر شروع میں پڑھ لیں تو اور بھی اچھا ہے.(الفضل ۱۰ / فروری ۱۹۲۱ء صفحه ۶ ) سوال :.ایک صاحب نے عرض کیا کہ تعویذ جولوگ کراتے ہیں ان کا اثر ہوتا ہے یا نہیں؟ جواب : فرمایا.میرے نزدیک تعویذ تحریری دعا ہے اور دعا کا اثر مضر نہیں ہوسکتا.باقی مسمریزم وغیرہ کے ذریعہ جو کسی کے خلاف اثر ڈالے جاتے ہیں ان سے محفوظ رہنے کے لئے انسان دعا ئیں
۳۹۶ متفرق پڑھ کے سور ہے تو کچھ نقصان نہیں ہو سکتا اور اگر انسان یہ توجہ کرے میں ایسا اثر قبول نہیں کروں گا تو اس پر اثر نہیں ہوگا.کیونکہ وہ انسانی اثر ہوتا ہے اور انسانی اثر کو انسان روک سکتا ہے اور چونکہ دفاعی طاقت زیادہ ہے اس لئے اثر نہیں ہو سکتا.جن لوگوں میں روحانی طاقت ہوتی ہے ان پر مسمریزم وغیرہ کا کچھ اثر نہیں ہوتا.الفضل ۲۱ فروری ۱۹۲۱ء - جلد ۸ نمبر ۶۳ صفحه ۵) سوال :.ایک صاحب نے لکھا کہ حضور کی خدمت میں اگر کوئی چیز دم کرنے کے لئے مثلاً سرمہ بھیجی جائے تو حضور کی اس میں کیا رائے ہے؟ جواب :.فرمایا.میں تو دم کا ایسا قائل نہیں ہوں.دم جو ہیں تو بیماری والے مریض پر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ عقلاً اس کا فائدہ اور اس کی حکمت معلوم ہوتی ہے باقی چیزوں پر دم کر کے بھیجنا نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے.گواس میں بھی بعض حالات میں فائدہ کم ہے اور نقصان زیادہ ہے.یہ روحانیت پر ایسا اثر ڈال دیتی ہیں کہ خدا تعالیٰ سے دور کر دیتی ہیں اور انسان مادی چیزوں کی طرف ہی راغب ہو جاتا ہے.دم کی مثال بالکل اس شخص کی ہے جیسے کوئی شخص کسی افسر کے اپنے کسی کام کے لئے درخواست کرنے کے لئے جاوے اور پھر بجائے اس کے کہ خود اس کو بار بار توجہ دلائے اس کو کہہ دیوے کہ اپنی میز پر ایک کا غذ لکھ کر رکھ چھوڑیں جس سے میرے معاملہ کی یاد تازہ ہوتی رہے.یہ چیزیں انسان کو دعا سے غافل کر دینے والی ہیں اور خدا کی طرف بار بار رجوع کرنا جو ایمان کی جڑ ہے اس سے انسان کو دور کر دیتی ہیں.الفضل ۲۶ فروری ۱۹۲۴ء.جلد نمبر ۶۷ صفحه ۸) سوال :.عام خیال ہے کہ بچوں کو نظر لگ جاتی ہے.کیا یہ درست ہے؟ اگر درست ہے تو اس کا علاج کیا ہے؟ جواب:.ہاں لگ جاتی ہے.وجہ یہ ہے کہ انسان کے اندر ایسی طاقت رکھی ہے کہ ایک کے خیالات کا اثر دوسرے کے اوپر جا پڑتا ہے.جب انسان ہر چیز کو نہایت ہی محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے
۳۹۷ متفرق تو اس وقت اس کے دل میں اگر محبت کے خیالات پیدا ہوتے ہیں تو ساتھ ہی مخفی طور پر ایک خطرہ بھی پیدا ہوتا ہے اور ایسے ہی دوسرے شخص میں.بچہ ہو خواہ جوان منتقل ہو کر ایک قسم کا احساس کمزوری یا مایوسی کا کر دیتے ہیں.جس کے نتیجہ میں بیماری پیدا ہو جاتی ہے.یہ ایک طبعی بات ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقوال سے بھی مستنبط ہوتا ہے.شریعت نے اس کو غیر معقول قرار نہیں دیا.ایسے لوگ جن کے دل زیادہ برداشت نہیں کر سکتے تھوڑی تھوڑی باتوں پر ان کی توجہ بہت ہی گہری ہو جاتی ہے.ان لوگوں کے ایسے خیالات جو ہیں وہ دوسرے کے دل پر اثر کر جاتے ہیں اور اسی کا نام نظر ہونا ہے.پس اگر ایسی حالت میں کوئی بیمار ہو جائے تو اس صورت میں سورہ فاتحہ یا قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کے بچے پر دم کیا جاوے یا اگر بچہ نہیں جانور وغیرہ ہے تو اس پر ہاتھ پھیر دیا جاوے تو یہ دعا کی دعا بھی ہوتی ہے اور توبہ کی تو بہ بھی.الفضل ۴ / مارچ ۱۹۲۴ء.جلد۱۱.نمبر ۶۹ صفحه ۵) سوال :.ایک شخص نے دریافت کیا کہ ایک جگہ ہے جہاں کی نسبت مشہور ہے کہ یہاں کسی بزرگ کی دعا ہے.یہاں جو کھڑا ہو کر خون نکلواتا ہے صحت پاتا ہے.کیا میں اپنے مرض کے ازالہ کے لئے وہاں جاسکتا ہوں؟ جواب :.فرمایا.بعض لوگ اپنی دواؤں اور طریق علاج کے ساتھ ایسی باتیں اس علاج کی عظمت کے لئے لگا دیتے ہیں.آپ ایسی لغویات کی پروا نہ کریں اور وہاں سے بہ نیت علاج جا کر خون نکلوا لیں.علاج کروالیں.شفاء اللہ دینے والا ہے.الفضل ۱۶ جون ۱۹۱۵ء.جلد۲ نمبر ۱۴۹.صفحہ۲) خاندانی روایات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں سے بعض نے ٹوپیاں پہنی شروع کر دی ہیں.بعض نے نکٹائیاں لگانی شروع کر دی ہیں اور بعض ڈاڑھیاں منڈواتے ہیں اور انہیں یہ جس ہی نہیں کہ وہ کیا کر رہے
۳۹۸ متفرق ہیں.اس وقت ان کے باپ دادا کی عزت کا سوال تھا.انہیں چاہئے تھا کہ وہ خاندانی روایات کو قائم رکھتے اور اپنے باپ دادا کے اچھے نمونہ کو قائم رکھتے لیکن انہوں نے اس طرف کوئی توجہ نہیں کی.(الفضل ۲۲ /اگست ۱۹۶۲ء صفحه ۳) مردوں کو ریشمی کپڑا پھننا منع ھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب اپنے زمانہ خلافت میں بیت المقدس تشریف لے گئے تو آپ نے دیکھا کہ بعض صحابہ نے ریشمی کپڑے پہنے ہوئے ہیں.ریشمی کپڑوں سے مراد وہ کپڑے ہیں جن میں کسی قدر ریشم ہوتا ہے ورنہ خالص ریشم کے کپڑے تو سوائے کسی بیماری کے مردوں کو پہنے ممنوع ہیں.تفسیر کبیر جلد ششم.سورۃ الفرقان - صفحه ۵۷۰) سوال:.کیا مردوں کے لئے سونے کی انگوٹھی جائز نہیں؟ جواب :.فرمایا.ہاں مردوں کے لئے سونے کی انگوٹھی جائز نہیں.در حقیقت اسلام کا منشاء یہ ہے کہ وہ چیزیں جو کہ قیمت کے طور پر کام آتی ہیں ان کو روک کر اپنے پاس نہ رکھا جائے.اگر لوگ سونے چاندی کو بند کر کے رکھ دیں تو تجارت پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے اور خزانوں میں سکے کی کمی پیدا ہو جاتی ہے.اسی لئے اسلام نے سونے چاندی کے برتنوں سے منع کیا ہے.اگر سونے چاندی کے برتن بنائے جائیں گے تو وہ گھر میں بند ہو جائیں گے اور اس کا سکوں پر بُرا اثر پڑے گا.اگر سونے چاندی کو لوگ گھروں میں بند کر دیں گے تو صرف نوٹ ہی نوٹ سکہ کے طور پر رہ جائیں گے.اس لئے اسلام نے مردوں کو تو بالکل منع فرمایا کہ وہ سونا پہنیں اور عورتوں کے ان زیورات پر جو وہ نہیں پہنتیں چالیسواں حصہ زکوۃ لگادی.اس طرح چالیس و پچاس سال میں آہستہ آہستہ وہ سارا سونا خود بخود نکل آئے گا.اور اگر ز کوۃ ادا نہیں کریں گی تو بے دین بنیں گی.جو لوگ زکوۃ دیتے ہیں وہ خود محسوس کر لیتے ہیں کہ زکوۃ ہی ہمارا ساراسونا ختم کر دے گی.میں نے
۳۹۹ متفرق اپنے گھروں میں بھی دیکھا ہے کہ جب چند سال زکوۃ ادا کرتے ہیں تو آخر کہہ دیتے ہیں کہ اس زیور کو فلاں جگہ پر لگا دیجئے.الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۶۰ء صفحه ۶) پیشه ور فقیروں کوخیرات دینا سوال:.پیشہ ور فقیروں کو کچھ دینا چاہئے یا نہیں؟ جواب :.فرمایا.پیشہ ور فقیر کے لئے پہلے سوچنا پڑے گا کہ وہ پیشہ ور کیوں بنا.کیونکہ خود پیشہ اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں.اگر تو وہ شخص اس لئے پیشہ ور بنا ہے کہ اس کے ہمسائے یا گاؤں کے مسلمان یا ہندو اس قسم کے ظالم یا سنگدل ہیں کہ وہ اس پر رحم نہیں کرتے اور باوجود یکہ وہ مددکا مستحق ہے اس کی مدد نہیں کرتے.تو ایسے شخص کا پیشہ ور ہونا اس کا اپنا قصور نہ ہوگا اس کو تو تم لوگوں نے اس کی مدد نہ کرنے کی وجہ سے اس پیشہ کے لئے مجبور کیا ہوگا.ایسے شخص کو تو دینے یا نہ دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا اسے تو اتنا دینا چاہئے کہ وہ اس پیشہ کو ہی چھوڑ دے بلکہ جب ایسا شخص مانگنے کے لئے آئے تو اسے کہنا چاہئے کہ ہم سے غلطی ہوئی کہ ہم نے یہ معلوم ہوتے ہوئے بھی کہ تم مدد کے مستحق تھے تمہاری مدد نہ کی.اب تم گھر بیٹھو ہم تمہیں گھر پر ہی سب کچھ پہنچایا کریں گے.( الفضل ۶ / دسمبر ۱۹۶۰ء صفحه ۳ ) سادات کے لئے صدقہ کوناجائز کرنے میں حکمت میرے نزیک رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو جو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان کی اولاد کے لئے صدقہ جائز نہیں تو اس میں یہی حکمت تھی کہ کہ امت اسلامیہ کو بتایا جائے کہ اس محسن عظیم کی اولاد سے جو سلوک کیا جائے وہ صدقہ ہو ہی نہیں سکتا.وہ تو اس محسن کے احسان کا بدلہ اتارنے کی ایک ادنیٰ کوشش ہوگی.
۴۰۰ متفرق مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان اس مسئلہ کو خاص زور سے بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ایسے بے نفس تھے کہ آپ نے اپنی اولاد کے لئے صدقہ کو حرام کر دیا.اور انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ آپ ایسے بے نفس تھے تو مسلمان ایسے نفس کے بندے کیوں ہو گئے ہیں کہ آپ کے احسان کا بدلہ اتارنے کی ادنی کوشش بھی نہیں کرتے محسن کسی بدلہ کا خیال نہیں کرتا.مگر کیا جس پر احسان کیا جائے اس کی شرافت نفس اس کا تقاضا نہیں کرتی کہ وہ محسن کے احسان کا شکر یہ عمل سے ادا کرے.میرے نزدیک اس حکم سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ ادب سکھایا تھا کہ اگر حضرت رسالت مآب کی اولاد میں سے کوئی غریب ہو تو وہ اس کے ساتھ حضور کے احسان کی یاد میں سلوک کریں.کیونکہ آپ کی اولاد کے ساتھ صدقہ کا معاملہ کیا ہی نہیں جا سکتا.کیا اپنے بھائیوں کولوگ صدقہ دیا کرتے ہیں پھر کیا اس روحانی باپ کی اولاد سے اُن کا سلوک بھائیوں جیسا نہیں ہونا چاہئے؟ افسوس کہ اس حکمت کے نہ سمجھنے کی وجہ سے مسلمان دو حکموں میں سے ایک کو توڑنے لگ گئے ہیں.یا تو وہ سادات پر صدقہ اور زکوۃ خرچ کرنے لگ گئے ہیں یا اُن کی خدمت سے بالکل محروم ہو گئے ہیں.( تفسیر کبیر جلد اوّل.سورہ بقرہ.صفحہ ۱۳۱) F قتل حسین میں یزید کی فوج بھی ذمه وار هے سوال :.یزید کی فوج کے ہاتھوں جو واقعہ شہادت امام حسینؓ کا ہوا تھا.کیا وہ فوج بھی اس معاملہ میں گنہگار ہے یا نہیں یا صرف یزید ہی اس بات کا ذمہ وار ہے اور وہی قابل سزا ہے.اگر فوج کو بھی سزا ملنی چاہئے تو کیوں فوج نے اولی الامر منکم کے تحت ایسا کیا تھا؟ جواب :.اس بات کے متعلق یزید بھی ذمہ وار تھا اور اس کے ماتحت بھی کیونکہ وہ سب ظلم کر رہے تھے.ظلم کرنے میں اولی الامر کی اطاعت کرنی ضروری نہیں.انسان اس شخص کی اطاعت چھوڑ دے جو ظلم کرواتا ہے.الفضل یکم جولائی ۱۹۱۶ء صفحہ ۷.جلد ۳ نمبر ۱۲۲)
۴۰۱ متفرق سوال :.ایک شخص نے حضرت صاحب کی خدمت میں سوال پیش کیا کہ کوئی طریقہ ایسا ہو کہ بندہ کو ہمیشہ کرتا رہے اور ہمیشہ ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیدار سے مشرف ہوتار ہے؟ جواب :.دیدار حقیقی کے تو یہ معنی ہیں کہ ان کی روح سے ملاقات ہو.یہ خیال کرنا کہ نبی روزانہ لوگوں سے ملنے آجایا کریں یا ان کو ان کے پاس پہنچایا جایا کرے.یہ خیال عقل و دانش سے بعید ہے.یہ تواللہ تعالیٰ کا ایک فعل ہوتا ہے اس کے ماتحت وہ کبھی اپنے بندوں کو زیارت کرا دیتا ہے.یہ اصل رویت ہے جسے یہ رویت نصیب ہو جائے.صوفیاء کے نزدیک وہ صحابہ میں شامل ہو جاتا ہے اور ایک رویت ایسی ہوتی ہے کہ جس بات کا انسان خیال کرتا ہے اس کا ایک واہمہ سامنے آجاتا ہے.ایسی رویت تو بعض کو روزانہ بھی ہوتی رہتی ہے مگر اس کا کچھ فائدہ نہیں.انسان کو چاہئے کہ بجائے اس رویت کے روحانی رویت کا طالب ہو.ان کے اسوہ حسنہ کی اتباع کرے تا کہ فائدہ بھی حاصل ہو.الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۲۰ء.جلد ۸ - نمبر ۴۷ صفحه ۷ ).مسلمانوں میں جو امیر شریعت کی تحریک ہے اس کے متعلق فرمایا کہ اسلام میں امیر شریعت کا کوئی عہدہ نہیں ہوتا تھا اور نہ ہو سکتا ہے.خدا تعالیٰ کا مامور تو یہ حیثیت رکھتا ہے مگر اور کسی کو یہ درجہ نہیں.حضرت عمر جیسا انسان جب کہتا ہے کہ السماء بالماء حدیث میں ہے کہ جب عورت سے صحبت میں انزال ہو تو غسل واجب ہوتا ہے وگرنہ نہیں.تو اس وقت بحث چھڑ گئی اور ایک صحابی نے کہا کہ اس مسئلہ کو تو ہمارے بچے بھی جانتے ہیں کہ جب مرد مجامعت کرے خواہ انزال ہو یا نہ ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل واجب کیا ہے تو حضرت عمر کو مانا پڑا.پس حضرت عمر بھی امیر شریعت نہ رہے.الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۲۲ء - جلد ۹ نمبر ۵۷ صفحه ۸) بچوں کے نام سوال :.ایک دوست نے عرض کیا ہے ہم حضرت کرشن اور حضرت رام چندر جی کو نبی مانتے ہیں.
۴۰۲ متفرق پھر ان کے ناموں پر اپنے بچوں کے نام کیوں نہیں رکھتے ؟ جواب :.فرمایا.نام تو آپ لوگ نہیں رکھتے اور پوچھتے آپ مجھ سے ہیں.میں نے تو کئی نام اس قسم کے رکھے ہیں کرشن احمد اور منظور کرشن وغیرہ.جولوگ شرح صدر سے اس قسم کے نام قبول کر لیتے ہیں میں ان کے ایسے نام رکھ دیتا ہوں.دراصل جو نام لوگ قرآن کریم میں پڑھتے ہیں ان ناموں پر نام رکھنے کی رغبت پیدا ہوتی ہے.ہندوؤں سے زبان کی وجہ سے چونکہ بعد ہے.اس لئے عام طور پر لوگوں کی توجہ اس طرف نہیں جاتی.اسی طرح آجکل لڑکیوں کے ناموں کے ساتھ بعض ایسے الفاظ لگانے کا شوق پایا جاتا ہے جو ہمارے نزدیک پسندیدہ نہیں مثلاً اختر ، انجم، زہرہ اور ثریا وغیرہ حالانکہ عام طور پر ایسے نام کمپنیوں کے ہوتے ہیں.آجکل لڑکیاں فاطمہ، خدیجہ یا زینب وغیرہ نام سے گھبراتی ہیں.ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ لڑکیوں کو سمجھائیں کہ وہ ایسے نام نہ رکھا کریں.اصل بات یہ ہے کہ لوگ نام کی حکمت کو نہیں دیکھتے بلکہ رواج اور فیشن کو دیکھتے ہیں.(الفضل ۸/اکتوبر ۱۹۶۰ ء صفحه ۳) ہماری جماعت میں لڑکیوں کے ناموں کے متعلق ایک غلطی ہو رہی ہے جو مشرکانہ ہے اور جس کی اصلاح نہایت ضروری ہے.میں نہیں سمجھ سکا کہ یہ غلطی کیوں ہورہی ہے.اگر دوسروں میں یہ غلطی ہو تو اس قد رافسوس پیدا نہیں ہوتا کیونکہ وہ پہلے ہی اسلام سے دور ہیں لیکن ہم لوگ تو وہ ہیں جو اسلام کو خوب سمجھتے ہیں.پھر ہمارے اندر وہ نقص کیوں پیدا ہو.ہماری ایک بہن کا نام مبارکہ بیگم ہے اور ایک کا نام امتہ الحفیظ.ایک بہن جو چھوٹی عمر میں ہی فوت ہوگئی تھی اس کا نام عصمت تھا.اسی طرح ایک دوسری بہن کہ وہ بھی چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو گئی تھی اس کا نام شوکت تھا.گویا سوائے ایک بہن کے اور کسی کے نام میں خدا تعالیٰ کا نام نہیں آتا.ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام سے وابستگی کی وجہ سے ہمارے خاندان کے لڑکوں کے ناموں میں احمد کا نام آتا ہے، خدا تعالیٰ کا نہیں آتا.پس مجھے بُر الگا کہ خدا تعالیٰ کا نام ہمارے خاندان کے ناموں سے جاتا رہے.چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ
۴۰۳ متفرق لڑکیوں کا نام میں امہ کے نام پر رکھا کروں گا تا کہ خدا تعالیٰ کا نام ہمارے گھروں میں قائم رہے.چنانچہ ہمارے خاندانوں میں سے جو لوگ مجھ سے اپنی لڑکیوں کا نام رکھواتے ہیں میں ہمیشہ امتہ کے ساتھ ان کے نام رکھتا ہوں اور جنہوں نے یہ نام نہیں رکھوانا ہوتا وہ مجھ سے پوچھتے ہی نہیں.بعض دفعہ حقیقت کو نظر انداز کر کے بغیر سوچے سمجھے نام رکھ دیئے جاتے ہیں حالانکہ وہ مشرکانہ ہوتے چنانچہ اس جلسہ میں تین لڑکیاں ایسی معلوم ہوئیں جن کے نام مشر کا نہ تھے.ان کا نام امة البشير ، امۃ الشریف تھا.شعر گوئی (الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۵۱ء صفحه ۴ ) نظم کے متعلق میں نصیحت کرنا چاہتا ہوں نظمیں عام طور پر پڑھی جاتی ہیں.میں بھی نظم کو بہت پسند کرتا ہوں اور خود شاعر ہوں.مگر اب نہ صرف کوئی شعر کہتا ہی نہیں بلکہ کہ ہی نہیں سکتا.جس سے میں نے سمجھ لیا ہے کہ اس طرف سے میری طبیعت ہٹ گئی ہے لیکن اس سے پسندیدگی کے بارہ میں کوئی کمی نہیں ہوئی.تو میں خود شاعر ہوں یا شاعر تھا ، شعروں کو پسند کرتا ہوں اور مجھے رویاء میں بتایا گیا ہے کہ قوم کی زندگی کی علامتوں میں سے ایک علامت شعر گوئی بھی ہے اور میں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم شعر کہا کرو رویاء میں مجھے بتایا گیا ہے کہ اپنی جماعت کے لوگوں کو شعر کہنے کی تحریک کروں.(الفضل ۴ ۱ تا ۷ ارجون ۱۹۱۹ء.جلد ۶ نمبر ۹۵ - صفحہ۴) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے کلام میں کوئی ایک شعر بھی نہیں اور قرآن کریم خود کہتا ہے کہ یہ کلام کسی شاعر کا نہیں.اس لئے یا درکھنا چاہئے کہ جب قرآن کریم کے متعلق یا پہلے نبیوں کی نسبت شاعر کا لفظ آتا ہے تو اس سے مراد عرف عام والا شاعر نہیں ہوتا بلکہ محض جذبات سے کھیلنے والا انسان ہوتا ہے.بانی سلسلہ احمدیہ بھی کبھی شعر کہتے تھے مگر وہ شاعر نہیں کہلا سکتے وہ خود کہتے ہیں.
۴۰۴ متفرق کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے زمینداراخبار چالیس سال سے اس بات پر تمسخر اڑا تارہا ہے کہ مرزا صاحب شعر کہتے ہیں حالانکہ نہ ان کے شعروں میں کوئی لطافت ہے نہ فصاحت اور نہ زباندانی کی جھلک.غریب زمیندار تو یہ سمجھتا رہا کہ اس سے وہ مرزا صاحب کی تردید کر رہا ہے حالانکہ وہ اس ذریعہ سے احمدیوں کو یہ ہتھیار مہیا کر کے دے رہا تھا کہ باوجود کچھ موزوں کلام کہنے کہ مرزا صاحب شاعر نہیں کہلا سکتے اور ان کے ملہم ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.تفسیر کبیر جلد پنجم.سورہ انبیاء - صفحه ۴۹۳_ زیر آیت بل افتراه بل هو شاعر) مسئله اشاعت فوٹو حضرت مسیح موعود علیه السلام ا صحیح مقاصد کے لئے فوٹواتر وانا شرعاً جائز ہے چنانچہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دینی اور جائز مقاصد کی خاطر ہی اپنا فوٹواتر وایا.۲.ایسے دینی اور جائز مقاصد کی تعیین اور فوٹو کی طرز اشاعت کے فیصلہ کا حق خلیفہ وقت یا آپ کے مقرر کردہ فرد یا ادارہ کے سوا اور کسی کو نہیں ہے..حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ مامور من اللہ ہیں.اس لئے یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ آپ کے فوٹو کی بے جا نمائش سے شرک خفی کا رجحان پیدا ہو جائے.اسی بناء پر خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے فوٹو کو درودیوار پر آویزاں کرنے کی ممانعت فرمائی ہے.حضور کا یہ حکم ادارہ جات پر بھی اُسی طرح اطلاق پاتا ہے جیسے گھروں اور دوکانوں وغیرہ پر.( الفضل ۱۸؍ دسمبر ۱۹۶۴ء صفحه ۳) فیصلہ مجلس افتاء جسے حضور نے منظور فرمایا.فیصلہ نمبر ۲۰) دستی تصویر اور عکسی تصویر میں بہت فرق ہے.عکسی تصویر میں حقیقت اور اصلیت ظاہر ہوتی ہے جیسے
۴۰۵ متفرق خد و خال اصل میں ہوتے ہیں.عکسی میں ہو بہو وہی ظاہر ہو جاتے ہیں لیکن دستی تصویر میں ہوسکتا ہے کہ کوئی مصور کسی نبی کی تصویر بنائے اور اس کے چہرے پر نشانات ڈال دے.جن سے اس کی معصومانہ صورت تبدیل ہو جائے اور وہ ایک بُرے انسان کی شکل میں دکھائی دے یا کسی پاکدامن اور شریف عورت کی آنکھوں میں ایسی علامات بھر دے جن سے وہ شریر ظاہر ہو.چونکہ دستی تصویر میں محض اظہار حقیقت مراد نہیں ہوتی بلکہ اس میں مصور کے خیالات کا دخل ہوتا ہے اور مصور نیکوں اور پاکبازوں کی تصاویر میں شرارت بھی کر سکتا ہے اور شریف کو شریر کی شکل میں دکھا سکتا ہے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویر کی ممانعت فرمائی.اور بذریعہ عکس جو فوٹو لیا جاتا ہے اس کی ممانعت نہیں فرمائی کیونکہ اس سے حقیقت آشکارا ہوتی ہے.الفضل ۲۶ اپریل ۱۹۳۶ صفحہ۳.جلد۳۴ نمبر ۹۸) سوال :.حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت خلیفہ مسیح الاول اور خود حضور کی تصاویر بکتی ہیں.کیا یہ حضور کو پسند ہے؟ جواب :.سوائے کسی خاص ضرورت کے ایسی تصویروں کا خرید نا یا بیچنا میں نہایت ہی نا پسند کرتا ہوں.الفضل ۱۴ر جنوری ۱۹۱۵ء صفحہ ۷.جلد ۲ - نمبر ۹۱) فوٹو بت پرستی تو نہیں سوال :.ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فوٹو کا ذکر کیا اور عرض کیا لوگ کہتے ہیں یہ بت پرستی ہے؟ جواب: فرمایا.کیا بت پرستی ہے؟ کیا کسی کی شکل دیکھنا بت پرستی ہے.رہا یہ امر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ایسا نہیں ہوا.سو اس وقت تو کیمرہ ایجاد بھی نہیں ہوا تھا.رسول
۴۰۶ متفرق کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز سے منع کیا ہے وہ فوٹو نہیں بلکہ تصویر ہے.مصور انسانی جذبات کا اظہار تصویر میں دکھاتا ہے مگر فوٹو گرافر صرف شکل دکھاتا ہے.اس میں باطنی جذبات کا اظہار نہیں ہوتا.انبیاء کی تصویر اسی لئے ناجائز ہے کہ انبیاء کا کیرکٹر اپنے اندر گونا گوں خصوصیات رکھتا ہے اور ممکن ہی نہیں کوئی مصور ان کا نقشہ تصویر میں دکھا سکے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر نہیں بلکہ فوٹو ہے اور یہ محض شکل ہے.مصور کی غرض یہ ہوتی ہے کہ تصویر کے چہرے پر ایسے اثرات ڈالے جس سے اس انسان کے اخلاق پر روشنی پڑے اور انبیاء کے باطنی کمالات کا اظہار کوئی مصور نہیں کر سکتا.بالکل ممکن ہے ایک مصور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کھینچے مگر آپ کے چہرے پر وحشت کا اثر ڈالے وہ تصویر تو ہوگی مگر لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت پیدا ہو گی.حدیث میں جو تصویر کا ذکر آتا ہے اس سے مصور کی بنائی ہوئی تصویر ہی مراد ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فوٹو آپ کی صورت کا عکس ہے اور عکس کو تو وہابیوں نے بھی جائز تسلیم کیا ہے.یہ ایسا ہی ہے جیسے شیشہ میں انسان اپنی شکل دیکھے اور اگر عکس نا جائز ہے تو پھر شیشہ دیکھنا بھی جائز نہیں ہونا چاہئے.اسی طرح پانی میں بھی عکس آجاتا ہے مگر اسے کوئی نا جائز نہیں کہتا.ان میں اور فوٹو میں فرق صرف یہ ہے کہ فوٹو تو انسان کی شکل محفوظ رکھتا ہے مگر شیشہ یا پانی کا عکس محفوظ نہیں رہتا.الفضل ۱۴ را پریل ۱۹۳۱ء صفحه ۶،۵- جلد ۱۸ نمبر (۱۱۹) سوال :.ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں لکھا کہ ایک احمدی نے مندرجہ ذیل فتوی دیا ہے.”ہم تصویر کو بالکل ناجائز سمجھتے ہیں.اگر مرزا صاحب کی تصویر کو خراب کیا جائے یا جلایا جائے تو کوئی گناہ نہیں.یا خراب غلیظ جگہ پر پڑی ہو تو کوئی حرج نہیں سمجھتے.“ کیا یہ فتویٰ صحیح ہے.اگر نہیں تو اسے جماعت سے خارج کریں؟ جواب :.ہماری جماعت فتویٰ دینے والی جماعت نہیں.اگر کوئی شخص اپنے علم کی کمزوری کی وجہ
۴۰۷ متفرق سے غلط فتوی دیتا ہے تو ہم اتنا ہی کہیں گے کہ اس نے غلطی کی.جس بات پر اس کو بولنے کا حق نہیں تھا اس میں وہ بولا.نہ یہ کہ اس کو احمدیت سے خارج کر دیں یا کافر قرار دے دیں.حضرت کی تصویر کو جو شخص جان بوجھ کر ہتک کے لئے بگاڑتا ہے درحقیقت وہ حضرت مسیح موعود کی ہتک کرتا ہے اور وہ اگر وہ شخص اس کو اس لئے جلاتا ہے یا پھاڑتا ہے کہ اس کے ذریعہ شرک پھیلنے کا خطرہ ہوتو وہ ایک ثواب کا کام کرتا ہے.فتویٰ دینے والے نے جس نیت سے فتویٰ دیا ہے اس کا حال خدا تعالیٰ جانتا ہے میں تو دلوں کا حال نہیں جانتا.الفضل ۱۵ اگست ۱۹۱۵ء - جلد ۳ نمبر ۲۳ صفه ۲) خلافت جوبلی منانا ایک معتد بہ عرصہ تک کسی نیک کام کے بخیر و خوبی سرانجام پانے پر اگر اللہ تعالی کے شکرانے کے طور پر انفرادی یا قومی سطح پر خوشی منائی جائے تو اسے بدعت سیئہ قرار نہیں دیا جاسکتا.سوائے اس کے کہ خوشی کا اظہار فی ذاتہ غیر شرعی رنگ رکھتا ہو.البتہ خوشی کے اظہار کے لئے کسی نص شرعی کے بغیر کسی خاص عرصہ پر تو اتر اختیار کر لینا بدعت ہے جو آئندہ قبیح رسومات کا پیش خیمہ بن سکتی ہے.لہذا خلافت ثانیہ کے دوسرے چھپیں سالہ دور کے کامیابی اور کامرانی کے ساتھ اختتام پذیر ہونے پر خلافت جوبلی کی تکرار یا کسی جشن کا انعقاد کوئی شرعی حیثیت نہیں رکھتا اس لئے اسے نہیں منانا چاہئے.(الفضل ۱۸؍ دسمبر ۱۹۶۴ء صفحه ۳ ) فیصلہ مجلس افتاء جسے حضور نے منظور فرمایا.فیصلہ نمبر ۱۹) طبی ریسرچ کے لئے نعش کی وصیت بعض لوگ وصیت کر جاتے ہیں کہ ان کی وفات پر ان کی نعش طبی تجربات کے لئے وقف ہوگی.
۴۰۸ متفرق یا یہ کہ ان کا معدہ، دل یا دماغ یا آنکھیں نکال لی جائیں اور طبی ریسرچ کے لئے استعمال کی جائیں.آج کل تو ایسے تجربات بھی ہورہے ہیں کہ مرنے والے کی آنکھیں نکال کر محفوظ کر لی جاتی ہیں اور اندھوں کے فٹ کر دی جاتی ہیں یا جو لاشیں لاوارث ہوتی ہیں وہ طبی ریسرچ کے لئے استعمال میں لائی جاتی ہیں یا جو قدیم لاشیں دستیاب ہوتی ہیں انہیں طبی ریسرچ کے کام میں لایا جاتا ہے.ضرورتاً بیان کردہ سب صورتیں جائز ہیں.لیکن میت کا احترام اور ورثاء کی اجازت ضروری ہے.نیز موصی لیہ کو اس کے متعلق کوئی قانونی حق نہ ہوگا.الفضل ۱۹؍ جنوری ۱۹۶۴ء صفحه ۳) فیصلہ مجلس افتاء جسے حضور نے منظور فرمایا.فیصلہ نمبر ۱۴) رض حفاظت کمره رهائش و وفات حضرت اماں جان حضرت ام المومنین رضی اللہ عنھا ر بوہ میں جس کچے کو ٹھے میں قیام پذیر تھیں اور جواب تک موجود ہے اس کا نقشہ اور پیمائش اور فوٹو محفوظ کر لینا شرعاً جائز ہے تا کہ تاریخی لحاظ سے یہ امور محفوظ رہ جائیں.لیکن اس کمرہ کو محفوظ رکھنے سے بعض خلاف شریعت رسوم اور قباحتیں پیدا ہو جانے کا خطرہ ہے.حضور نے فرمایا.درست ہے.( الفضل ار ستمبر ۱۹۶۴ء صفحه ۶ ) فیصلہ مجلس افتاء جسے حضور نے منظور فرمایا.فیصلہ نمبر ۱۶) پیشه زراعت سوال :.حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کے گھر میں آلات کشاد زرعی رکھے دیکھا تو فرمایا کہ اس گھر سے دین اور برکت اُٹھ جائے گی.احیاء العلوم میں ایک حدیث مذکور
۴۰۹ متفرق ہے کہ اھل الکور اهل الكور“ یعنی دیہات والے قیدیوں کی مانند ہیں.الخ.جواب :.فرمایا.ہمیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ قریباً تمام صحابہ زمیندار تھے.مہدی کے متعلق حدیثوں میں ہے کہ حارث حراث ہو گا.وہ حدیث جس کی طرف اشارہ کیا ہے اس سے یہی مراد ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو زراعت کے کام مشغول کر دیتا ہے اور دین کی طرف توجہ نہیں کرتا وہ ذلیل ہو جاتا ہے.زمینداروں میں یہ نقص عام پایا جاتا ہے کہ وہ دوسرے کاموں کی طرف توجہ بالکل نہیں کرتے.ہمیشہ ان کی یہ شکایت رہتی ہے کہ اس وقت فلاں فصل کے کاٹنے کا وقت ہے اور اب فلاں فصل کے بونے کا وقت ہے اور اس وقت پانی دینے کا وقت ہے.اس نقص سے اگر انسان بچا رہے تو یہ پیشہ ایک بہترین پیشہ ہے اور اب تو اس پیشہ کی یہاں تک ترقی ہوگئی ہے کہ بالکل تجارت کے ہی رنگ میں اس کو کیا جاسکتا ہے یعنی کو اپر سیٹوں سوسائٹیوں کے ذریعہ سے.اصل بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ فتوحات کا زمانہ تھا اس وقت میں زمینداری کے فوائد کو عام اجماعی فوائد پر فوقیت دینا موجب ذلت اور رسوائی تھا.پس ایسے لوگوں کے حق میں جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اپنے رنگ میں بجا تھا اور یہ بات اپنے رنگ میں درست ہے کہ زراعت ایک معزز پیشہ ہے.گوبر (پاتھی) سے کھانا پکانا (الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۲۰ء صفحه ۷ ) لوگ گوبر جیسی پلید چیز کو پاتھ کر گھروں میں جلاتے ہیں حالانکہ گو بر کا جلانا صحت کے لئے بھی مضر ہے اور اقتصادی نقصان کا بھی موجب ہے.دوسرے ممالک کے لوگ گوبر کا صحیح استعمال کرتے ہیں اور کھاد بنا کر اپنی زمینوں میں ڈالتے ہیں.اس طرح وہ گوبر سے فائدہ بھی اُٹھاتے ہیں اور گندگی سے بھی بچتے ہیں.یہاں کی عورت جو اپنے آپ کو بڑی صاف ستھری سمجھتی ہوگی اس کو اگر گھر کی صفائی کا بہت زیادہ خیال آجائے تو.جانوروں نے گوبر کیا ہو تو اس کی زیادہ سے زیادہ یہ
۴۱۰ متفرق احتیاط کرے گی کہ اُپلے بنا کر گھر میں جلائے گی جس سے ہاتھ بھی نجس ہوں گے اور جو چیز اس سے پکائی جائے گی وہ بھی مکروہ ہوگی یعنی اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے جانوروں کے گوہ کے ساتھ روٹی پکائی.تورات میں جن قوموں پر لعنت کی گئی ہے انہیں کہا گیا ہے تم گوہ سے روٹی پکاؤ گے.یعنی جو چیز غلہ کو بڑھاتی ہے اور ایک زمیندار کے لئے نہایت مفید چیز ہے اس کو وہ جلاتا ہے اور ایک طرف تو اتنی مفید چیز کو ضائع کر دیتا ہے اور دوسری طرف اس سے کام ایسا لیتا ہے جو بالکل نجس ہے حالانکہ زمیندار کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اپنی زمینوں میں درخت اُگائیں اور ان کی لکڑی بھی جلایا کریں اور دوسرے فوائد بھی اُٹھا ئیں تا کہ وہ گوہ سے روٹی پکانے والی لعنت سے بچ جائیں.مگر کوئی بھی زمیندار اس طرف توجہ نہیں کرتا.اگر زمیندار اپنی زمینوں کے کنارے درخت لگائے اور اپنے گھر میں درخت لگائے تو اس کا گھر بھی خوشنما ہو جائے گا.وہ لکڑی بیچ بھی سکتا ہے اور..گو بر جلانے کی بجائے اپنے کھیت میں ڈالے گا.الفضل ۲ / دسمبر ۱۹۴۶ء.جلد۳۴ - نمبر ۲۸ صفحه۳۲) مشترکه بنائی هوئی مسجد میں نماز ادا کرنا سوال :.غیر احمدی مل کر ایک مسجد بناتے ہیں پھر ان میں سے کچھ لوگ احمدی ہو جاتے ہیں جنہیں غیر احمدی وہاں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں.کیا احمدی وہاں نماز پڑھنے سے رک جائیں؟ جواب :.یہ تو سوال ہی غلط ہے.اصل بات یہ ہے کہ ایسے معاملات میں حالات پر غور کر لینا چاہئے.اگر وہ احمدی سمجھتے ہیں کہ بغیر فساد کے وہ اپنا حق لے سکتے ہیں تو انہیں اپنا حق لے لینا چاہئے اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس جھگڑے میں لمبا وقت صرف ہوگا مومن کا کام یہ ہے کہ جتنا وقت اس کا مقدمہ پر خرچ ہو سکتا ہے اتناوقت تبلیغ پر خرچ کرے اور مقدمہ بازی نہ کرے.(الفضل ۷ مئی ۱۹۶۰ء صفحه ۵ )
۴۱۱ متفرق وطن کی آزادی کے لئے لڑنے والا شهید اس (انڈونیشیا) کی آزادی کی تحریک میں حصہ لیتے ہوئے مرنے والا شہید ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو من قتل دون اصله وماله فهو شهید کا کیا مطلب ہے؟ جواب :.آزادی کی کوشش میں حصہ لینے والا شہید تو ضرور ہے.مگر یہ شہادت دینی نہیں.ورنہ ہر انگریز اور جرمن بھی شہید ہونا چاہئے.شہید سے مراد یہ ہے کہ قوم کا ہیرو ہوگا، یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کا ہیر و ہو گا.خدا تعالیٰ کا ہیر ووہی ہو گا جو دین کے لئے شہید ہو.الفضل ۲۵ /جنوری ۱۹۴۶ء صفحه ۳) جس شخص کودین کے کام پر لگایا جائے وہ مستعفی نهیں هوسکتا شرعی حکومت میں استعفیٰ کا قانون نہیں.حکومت کے ماتحت وہ کام کرتے ہیں جوان کو پسند ہوتے ہیں.لیکن شریعت میں یہ نہیں ہوتا کہ وہ کام کریں جو لوگوں کو پسند ہو بلکہ وہ کرنا پڑتا ہے جس کا شریعت حکم دے اور اس شخص کا حق نہیں ہوتا کہ وہ جواب دے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ کو کمانڈرانچیف مقرر کیا.یہ نہیں کہ وہ اہلیت زیادہ رکھتے تھے بلکہ وہ ایک حکم تھا جس کی اطاعت اسامہ پر فرض تھی.اسامہ نے بھی انکار نہیں کیا اور اسامہ کے ماتحت عمر اور عمرو بن العاص جیسے شخصوں کو کر دیا جن کے نام سے ایشیاء کے لوگ تھرا اٹھتے تھے..پس ایسی حالت میں اسامہ نے اپنے تئیں اس کام کے جو اسے سپرد کیا تھا نا قابل ظاہر کر کے علیحدگی نہیں چاہی اور یہ نہیں کہا کہ میں استعفیٰ پیش کرتا ہوں.اور اگر وہ ایسا کرتا تو اس کے معنے ہوتے کہ میں دین سے علیحدہ ہوتا ہوں.الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۱۹ء.جلدے نمبر ۳۹ صفحہ ۸، ۹- خطبه جمعه فرموده ۱۰ اکتوبر ۱۹۱۹ء)
۴۱۲ اصول فقه استخراجی مسائل متفرق یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب بھی کسی مذہب پر لمبا زمانہ گزر جاتا ہے.اس کے ساتھ فقہی پیچیدگیاں شامل ہو جاتی ہیں.فقہ کی اصل غرض تو یہ ہوتی ہے کہ جو مسائل الہی کتاب میں نص کے طور پر نہیں آئے ان کا استخراج کیا جائے.لیکن آہستہ آہستہ جب فقہ میں ضعف آتا ہے خود اصل مسائل میں تصرف شروع ہو جاتا ہے.اس قسم کے نقائص کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو اباحت کی طرف لے جاتے ہیں اور کچھ ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو ظاہر کی طرف انتہاء درجہ کی شدت کے ساتھ بلاتے ہیں.محکمه فتاوی ( تفسیر کبیر جلد نہم.سورۃ البینہ - صفحہ ۳۶۴) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد زمانہ خلفاء میں قاعدہ تھا کہ شرعی امور میں فتویٰ دینے کی ہر شخص کو اجازت نہ تھی.حضرت عمرؓ تو اتنی احتیاط کرتے تھے کہ ایک صحابی نے ( غالباً عبداللہ بن مسعودؓ نے) جو دینی علوم میں بڑے ماہر اور ایک جلیل القدر انسان تھے ایک دفعہ کوئی مسئلہ لوگوں کو بتایا اور اس کی اطلاع آپ کو پہنچی تو آپ نے فوراً ان سے جواب طلب کیا کہ تم امیر ہو یا امیر نے تم کو مقرر کیا ہے کہ فتویٰ دیتے ہو.دراصل اگر ہر ایک شخص کو فتویٰ دینے کا حق ہو تو بہت مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں اور عوام کے لئے بہت سے فتوے ابتلاء کا موجب بن سکتے ہیں کیونکہ بعض اوقات ایک ہی امر کے متعلق دو مختلف فتوے ہوتے ہیں اور دونوں صحیح ہوتے ہیں مگر عوام کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ دونوں کس طرح درست ہیں.اس لئے وہ اس پر جھگڑا شروع کر دیتے ہیں مثلاً نماز ہی میں کئی باتیں مختلف طور پر ثابت ہیں.اب کئی لوگ اس پر لڑتے
۴۱۳ متفرق ہیں کہ فلاں یوں کرتا اور فلاں اسکے خلاف کرتا ہے حتی کہ وہ کسی کو اپنے خیال کے ذرا سا اختلاف کرتے ہوئے بھی دیکھیں تو اس کے پیچھے نماز توڑ دیتے ہیں حالانکہ اگر وہ سمجھیں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ دونوں باتوں میں کچھ ہرج نہ تھا.غرض عوام جو واقف نہ ہوں ان کے سامنے اگر دو جائز باتیں بھی پیش کی جاتیں تو وہ لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں.اس لئے فتویٰ دینے کے لئے ایک خاص محکمہ مقرر کیا گیا ہے.ہر قسم کے فتوے دینا اس کا کام ہوگا اور اور کسی کو اجازت نہ ہوگی کہ کوئی فتوی دے.(عرفان الہی - صفحہ ۸۱) یه عورتیں ملازمت کرسکتی ہیں ا.عورتیں کہتی ہیں کہ ہم نوکریاں کریں گی.حالانکہ اگر وہ نوکریاں کریں گی تو ان کی اولادمیں تباہ ہو جائیں گی.وہ بچوں کی تربیت کیونکر کر سکیں گی.یہ غلط قسم کی تعلیم ہی ہے جس نے عورتوں میں اس قسم کے خیالات پیدا کر دیئے ہیں.ولایت میں عورتوں کے اس قسم کے طریق اختیار کرنے پر ایک شور برپا ہے.چنانچہ جن ملکوں کے لوگوں میں اولا دیں پیدا کرنے کی خواہش ہے وہ یہی چاہتے ہیں کہ عورتوں کے لئے تمام ملازمتوں کے دروازے بند کر دیئے جائیں اور جس کام کے لئے عورتیں پیدا کی گئیں ہیں وہ ہی کام کریں.( مصباح ۱/۱۵/جنوری ۱۹۳۹ء - الازهار لذوات الخمار - صفحہ ۳۲۶) ۲.پھر تعلیم جو تم پاتی ہو اس سے تمہارا مقصد نوکری کرنا ہوتا ہے.اگر نوکری کروگی تو بچوں کو کون سنبھالے گا ؟ خود تعلیم انگریزی بُری نہیں لیکن نیت بد ہوتی ہے اور اگر نیت بد ہے تو نتیجہ بھی بد ہوگا.اگر غلط راستے پر چلو گی تو غلط نتیجے ہی پیدا ہوں گے.جب لڑکیاں زیادہ پڑھ جاتی ہیں تو پھر ان کے لئے رشتے ملنے مشکل ہو جاتے ہیں.ہاں اگر لڑکیاں نوکریاں نہ کریں اور پڑھائی کو صرف
۴۱۴ پڑھائی کے لئے حاصل کریں.اگر ایک لڑکی میٹرک پاس ہے اور پرائمری پاس لڑکے سے شادی کر لیتی ہے تو ہم قائل ہو جائیں گے کہ اس نے دیانتداری سے تعلیم حاصل کی ہے.(الفضل ۲۴ رمئی ۱۹۴۴ء - جلد ۳۲ نمبر ۱۲۰) ( الازهار لذوات الخمار - صفحہ ۳۸۳) ۳.کالج میں پڑھنے والی دو قسم کی لڑکیاں ہوسکتی ہیں.کچھ تو وہ ہوں گی جن کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیوی کام کریں اور کچھ وہ ہوں گی جن کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین کی خدمت کریں.میں دونوں سے کہتا ہوں کہ دینی خدمت بھی دنیا سے الگ نہیں ہوسکتی اور دنیا کے کام بھی دین سے الگ نہیں ہو سکتے.اسلام نام ہے خدا تعالیٰ کی محبت اور بنی نوع انسان کی خدمت کا اور بنی نوع انسان کی خدمت ایک دنیوی چیز ہے.پس جب اسلام دونوں چیزوں کا نام ہے اور جب لڑکی جو اس لئے پڑھتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیا کا کام کرے اور وہ لڑکی جو اس لئے پڑھتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین کا کام کرے، دونوں اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ جو لڑ کی اس لئے پڑھتی ہے کہ وہ دنیا کا کام کرے اسے معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت کرنا دین کا حصہ ہے.(مصباح اك ٩اء - الازهار لذوات الخمار - صفحه ۱۱۷٫۲) ☆☆☆
۴۱۵ ضمیمه
۴۱۷ ضمیمه ايك مسجد میں دوسری جماعت ڈیوٹی پر متعین افراد نماز با جماعت کے بعد دوبارہ باجماعت نماز ادا کر سکتے ہیں“ حضرت سید سرور شاہ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ جولوگ نماز با جماعت کے وقت پہرہ دیتے ہیں سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ نے ان کو اجازت دی ہوئی ہے کہ نماز کے بعد دوسری جماعت کرلیا کریں.چنانچہ وہ 66 پانچوں وقت مسجد مبارک میں دوسری جماعت کرتے ہیں.“ رجسٹر فتاوی حضرت سید سرور شاہ صاحب نمبر ۲ صفحه۳) سادات اور بنی ہاشم کے لئے زکوة کا مسئله حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں:.سادات اور بنو ھاشم کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ زکوۃ ان کو نہیں لینا چاہیے.لیکن ظاہر ہے کہ اگر وہ عامل ہوں تو ان کے لئے زکوۃ جائز ہوگی کیونکہ اس صورت میں وہ زکوۃ نہیں لیں گے بلکہ کام کی مزدوری لیتے ہیں اور حق تو یہ ہے کہ بنو ھاشم کے متعلق یہ حکم کہ وہ زکوۃ نہ لیں در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک تھا جبکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کی ایک خاص عظمت مسلمانوں میں تھی اور شریعت نے بھی ان کے لئے بھی خمس غنیمت میں حصہ مقرر کر دیا تھا لیکن جب اس زمانہ سے بعد ہو گیا اور اموال خمس کی آمد بند ہوگئی اور نبی کریم کی اولاد کی عظمت اس رنگ میں نہ رہی جس رنگ میں کہ قریب کے زمانہ میں تھی اور یہ خطرہ جاتا رہا کہ ارباب حکومت رسول کریم کی محبت کی وجہ سے تمام اموال زکوۃ رسول کریم کے خاندان میں ہی تقسیم کر دیں گے اور دوسرے لوگ اس سے محروم ہو جائیں گے تو حالات کی تبدیلی کی وجہ سے اس حکم میں بھی تبدیلی جائز ہوگئی.کیونکہ شمس کے بند ہو جانے کے بعد سادات یعنی خاندان نبی کریم کے غرباء کی
۴۱۸ ضمیمه حالت اضطراری ہوگئی اور ان کے گزارہ کے لئے اور کوئی رستہ کھلا نہ رہا.پس چونکہ اس حکم کی حکمت بدل گئی تو حکم بھی ساتھ ہی بدل گیا.لہذا ہمارے نزدیک موجودہ زمانہ میں جبکہ شمس وغیرہ کی آمدنیاں جن سے رسول کریم کے خاندان کے غرباء کی پرورش ہو سکے بند ہوگئیں تو سادات کو زکوۃ میں سے حصہ دینا جائز ہو گیا.یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب ہم رسول کریم کا خاندان کہتے ہیں تو بنی ھاشم کے دوسرے لوگ بھی اس میں شامل ہوتے ہیں.امام ابوحنیفہ بھی فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں بنوھاشم کوز کو ۃ دینی جائز ہے کیونکہ شمس غنیمت میں سے جو گزارہ انہیں ملتا تھا وہ اس آمد کے بند ہو جانے سے بند ہو گیا.(ردالمختار شامی جلد ۱۰۲/۲) اسی طرح امام طحاوی بھی لکھتے ہیں کہ بعض علماء جن میں امام ابوحنیفہ بھی شامل ہیں فرماتے ہیں کہ صدقات جو بنو ھاشم کے لئے حرام کئے گئے تو اس لئے حرام کئے گئے تھے کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے خمس غنیمت میں سے حصہ مقرر کیا تھا جب وہ آمدنیاں بند ہوگئیں تو وہ مال ( یعنی زکوۃ ) ان کے لئے حلال ہو گیا جو پہلے ان کے لئے حرام کیا گیا تھا.( طحاوی مترجم کتاب الزکوۃ جلد ۱۳/۲ ) ( تشریح الزکوۃ صفحه ۱۲۱ تا ۱۲۳) میت کی منتقلی پر دوباره جنازه حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب رضی اللہ عنہ آف کوٹ قاضی ضلع گوجرانوالہ کی بہو حضرت صالحہ بی بی اہلیہ حضرت قاضی عبد الرحیم صاحب ۱۲ ۱۳ نومبر ۱۹۵۰ء کو راولپنڈی میں فوت ہو گئیں.ان کی بابت لکھا ہے کہ آپ کو تابوت میں راولپنڈی میں دفن کر دیا گیا تھا.جب جنوری ۱۹۵۴ء میں قاضی عبدالسلام صاحب مشرقی افریقہ سے پاکستان آئے تو تابوت نکلوا کر ربوہ لے گئے.اس وقت قاضی عبد الرحیم رضی اللہ عنہ بھی وفات پا کر وہاں بہشتی مقبرہ کے قطعہ صحابہ میں دفن ہو چکے تھے.
۴۱۹ ضمیمه ان کے بالکل پہلو میں مرحومہ محترمہ کی تدفین عمل میں آئی.مرحومہ کا دودفعہ جنازہ راولپنڈی میں پڑھا گیا.ایک دفعہ درویشان قادیان نے پڑھا.سب سے بڑھ کر یہ کہ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی اید اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ یکم دسمبر ۱۹۵۰ء کو بعد نماز جمعہ آپ کا جنازہ غائب کوئی ڈیڑھ ہزار کے مجمع سمیت پڑھا تھا اور بڑی لمبی دعا فرمائی تھی.اب ربوہ میں تابوت لانے پر قاضی عبدالسلام صاحب کے عرض کرنے پر حضور نے از راہ زرہ نوازی ظہر کی نماز کے بعد مسجد مبارک کے صحن میں جہاں تابوت تھا دوبارہ جنازہ پڑھایا.اصحاب احمد جلد ششم صفحه ۷۸ جدید ایڈیشن) چور کی سزا قطع ید سوال: - السارق و السارقة فاقطعوا ايديهما(المائدہ:۳۹).یہ سز اسخت بتائی جاتی ہے.جواب :.یہ سزا ہر چوری کی نہیں بلکہ اس کے لئے شرطیں ہیں.اوّل.چوری اہم ہو، دوم.بلا ضرورت ہو یعنی عادۃ.طعام کی چوری پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سزا نہ دی.اسی طرح بھاگے ہوئے غلام کے متعلق ہے کہ ہاتھ نہ کاٹے جائیں گے.جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کما نہیں سکتا اور بھوک سے مجبور ہے.سوم.تو بہ سے پہلے گرفتار ہو پھر سزا ملے گی.چہارم.مال چوری کر چکا ہو.صرف کوشش سرقہ نہ ہو.پنجم.اس کی چوری مشتبہ نہ ہو یعنی اشتراک مال کا مدعی نہ ہو.جن کے گھر سے چوری کرے وہ اس کے عزیز یا متعلق نہ ہوں جن پر اس کا حق ہو.( بیت المال کی چوری پر حضرت عمرؓ نے سزا نہ دی ).مثلاً کسی مذہبی جنون کے ماتحت ہو جیسے بت چرا لینا.یہ مذہبی دیوانگی کہلائے گا اور حکومت تعزیزی کارروائی کرے گی.ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ دی جائے گی یا جوش انتقام میں چوری کرے.جیسے جانوروں کی چوری کرتے ہیں یا جبر آچوری کرائی جائے.ششم.وہ شخص نابالغ نہ ہو.ہفتم.عقل مند ہو.بے وقوف یا فاتر العقل نہ ہو.ہشتم.اس پر اصطلاح چور کا اطلاق ہوسکتا ہو.(اسلام کا آئین اساسی صفحہ ۱۸)
۴۲۰ ضمیمه بیماری کی حالت میں روزه نه چهوڑنے کی وضاحت حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں.آج الفضل کا پر چہ شائع ہوا ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ درج ہوا ہے جس کے متعلق مجھے خطرہ ہے کہ اسے صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے کسی کو ٹھوکر نہ لگے اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ” میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں تب روزہ چھوڑتا ہوں.طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی.یہ مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے نزول کے دن ہیں.“ عین ممکن ہے کہ بعض لوگ اس سے یہ بات نکال لیں کہ سفر اور بیماری میں جب تک موت کی حالت نہ ہو جائے روزہ نہیں چھوڑنا چاہئیے اور اس سے یہ دھو کہ لگ سکتا ہے کہ روزہ کے متعلق سفر اور بیماری کے احکام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک قابل قبول نہیں حالانکہ آپ کی مجلس میں بیٹھنے والے اور آپ کی صحبت سے فیض یاب ہونے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان باتوں میں آپ بڑا زور دیا کرتے تھے.مجھے خوب یاد ہے کہ غالبا مرزا یعقوب بیگ جو آج کل غیر مبائع ہیں اور ان کے لیڈروں میں سے ہیں.ایک دفعہ باہر سے آئے.عصر کا وقت تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زور دیا کہ روزہ کھول دیں اور فرمایا کہ سفر میں روزہ جائز نہیں.اسی طرح ایک دفعہ بیماریوں کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا.ہمارا مذہب یہی ہے کہ رخصتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیئے.دین سختی نہیں بلکہ آسانی سکھاتا ہے.جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بیمار اور مسافر اگر روزہ رکھ سکیں تو رکھ لیں ہم اسے درست نہیں سمجھتے.اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ اول نے محی الدین ابن عربی کا قول بیان کیا کہ سفر اور بیماری میں روزہ رکھنا آپ جائز نہیں سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک ایسی حالت میں رکھا ہوا روزہ دوبارہ رکھنا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سن کر فرمایا کہ ہاں ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے.پس الفضل میں مندرج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ کا یہ مطلب نہیں کہ بیماری اور سفر میں جب تک موت
۴۲۱ ضمیمه کے قریب انسان نہ پہنچ جائے روزہ نہ چھوڑے بلکہ یہ الفاظ بڑھاپے اور عام ضعف کے متعلق ہیں یعنی جب انسان بیمار نہیں بلکہ مثل بیمار ہوتا ہے.نفقہ کے ذریعہ پہلے مسلمانوں نے اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض امور کا فیصلہ کیا ہے.قرآن کریم میں صرف بیمار یا مسافر کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو بھی اس رخصت سے فائدہ اٹھانے کا حق دیا ہے.جس سے معلوم ہوا کہ تفقہ سے آپ نے ان کو بھی بیمار کی حد میں داخل کر دیا اور اس طرح جو شخص بمنزلہ بیمار کے ہوا سے بھی اجازت دے دی اور اس کے ماتحت یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان جب بوڑھا ہو جائے یا کمزور ہو تو اس وقت بھی وہ بیمار ہی سمجھا جائے گا لیکن بیماری کی بنیاد تو ظاہری حالت پر ہوتی ہے مگر بڑھا یا اجتہاد سے تعلق رکھتا ہے.بعض حالات میں بڑھاپا اور کمزوری نظر نہیں آتی.کئی لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ 30/35 سال کی عمر میں ہی یہ رٹ لگانے لگ جاتے ہیں کہ اب تو ہم بوڑھے ہو گئے اور کئی 60/70 سال کی عمر میں بھی یہ کہتے ہیں کہ ابھی ہماری عمر ہی کیا ہے؟ ابھی ہم کون سے بوڑھے ہو گئے ہیں یعنی کئی تو اتنی بڑی عمر تک پہنچ کر بھی اپنے آپ کو بوڑھا نہیں سمجھتے اور کئی چھوٹی عمر میں ہی بوڑھا خیال کرنے لگ جاتے ہیں.خصوصاً عورتوں میں تو یہ عام مرض ہے کہ تمہیں برس کے قریب پہنچ کر ہی وہ اس طرح ذکر کرنے لگ جاتی ہیں کہ گویا وہ دوسوسال کی بوڑھی ہیں.جب کوئی بات ہو تو کہتی ہیں کہ ابھی ہماری کوئی عمر ہے.وہ دن گئے جب ہماری عمر تھی حالانکہ ہندوستانی عورتوں پر تو وہ دن کبھی آتے ہی نہیں.وہ چونکہ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتیں.ورزش یا سیر وغیرہ نہیں کرتیں اس لئے ان پر وہ دن کبھی آتے ہی نہیں جب وہ اپنے آپ کو جوان کہہ سکیں.یا تو ان پر وہ دن ہوتے ہیں جب وہ کہتی ہیں کہ اب بھی ہم جوان نہیں ہوئے یا پھر فوراً ہی بڑھاپا شروع ہو جاتا ہے.تو بعض لوگ 50/40 سال کی عمر میں اپنے آپ کو بوڑھا سمجھنے لگ جاتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ روزہ رکھنے سے ضعف ہو جاتا ہے.میں نے اس پر ایک بار خطبہ بھی پڑھا تھا کہ ضعف کوئی بیماری نہیں.روزہ تو ہے ہی.اسی لئے کہ روزہ ہو.یہ تو بتا تا ہے کہ پیٹ بھر کر کھانے والے ان غریبوں کی حالت کا اندازہ کریں جن کی قریباً
۴۲۲ ضمیمه ہر وقت ایسی حالت رہتی ہے.اگر تو شریعت کہتی کہ روزہ کا منشا یہ ہے کہ انسان موٹا تازہ طاقت ور ہو جائے تو بے شک کہا جاسکتا تھا کہ ہمیں چونکہ روزے سے ضعف ہو جاتا ہے.اس لئے روزہ نہیں رکھ سکتے.مگر جب اس سے غرض ہی یہ ہے کہ جفا کشی اور ہمدردی کی عادت ڈالی جائے اور انسان خدا تعالیٰ کی صفات اپنے اندر داخل کرے تو پھر کمزوری اور ضعف کوئی عذر نہیں ہوسکتا.پس یہ ضعف والا معاملہ نازک ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ضعف بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے جو روزہ چھوڑا جائے وہ اس وقت تک نہ چھوڑا جائے جب تک سخت معذوری نہ ہو لیکن بیمار اور مسافر کے لئے یہ شرط نہیں.ایک مسافر خواہ کتنا ہی ہٹا کٹا کیوں نہ ہوا سے روزہ نہیں رکھنا چاہئیے.اسی طرح وہ شخص جسے ڈاکٹر کہتا ہے کہ بیمار ہے اگر روزہ رکھے گا تو اس کا روزہ نہیں ہوگا.وہ صرف بھوکا رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس حوالے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حالت جس میں انسان بمنزلہ بیمار کے ہواس میں بہت احتیاط سے کام لے.جو شخص بیمار یا مسافر ہووہ تو خدا تعالیٰ سے کہے گا کہ میں نے قیاس کیا کہ میں بیمار ہوں اس لئے میں نے روزہ نہ رکھا.اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ثبوت لاؤ کہ تمہارا قیاس ٹھیک تھا.بیمار اور مسافر سے تو کوئی ثبوت نہیں مانگا جائے گا.مگر مشابہت کے لئے ثبوت کی ضرورت ہے.اس لئے ایسے معاملہ میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منشا یہ ہے کہ انسان ایسے معاملہ میں جلد بازی سے کام نہ لے بلکہ احتیاط کرے تا کہ ایسا نہ ہو کہ اسے اجتہاد میں غلطی لگ جائے.پس یہ الفاظ ان امور کے متعلق ہیں جن میں انسان اجتہاد کر کے روزہ چھوڑتا ہے.اس طرح امتحان دینے والے طلبا ہیں وہ بھی اجتہاد سے کام لے کر ہی چھوڑ سکتے ہیں.اس لئے ان کو ایسا فیصلہ کرتے وقت اچھی طرح سوچ بھی لینا چاہئیے کہ کیا واقعی روزہ رکھنے سے ہم نقصان میں مبتلا ہو جائیں گے.اگر اس کے آثار ظاہر ہوں تو بے شک چھوڑ دیں لیکن اگر اس کا کوئی امکان نہ ہو تو وہ اپنے کو بمنزلہ بیمار قرار نہ دیں.پس یہ حکم صرف اجتہاد کے متعلق ہے بیمار اور مسافر کے لئے نہیں.خطبات محمود جلد ۳ صفحه ۳۶ تا ۳۹.خطبہ جمعہ فرموده ۳۰ /جنوری ۱۹۳۱ء)
۴۲۳ ضمیمه اسلامی سزائیں "سزا صرف قتل یا ضرب یا جرمانہ یا نفی عن الارض کی اسلام سے ثابت ہے خواہ نفی بصورت جلا وطنی ہو یا بصورت قید.اس کے سوا کوئی سزا اسلام سے ثابت نہیں اور نہ ائمہ اسلام نے کبھی ایسی سزا دی.اسلام میں اختلافات کا آغاز.انوار العلوم جلد ۴ صفحه ۲۴۵) ڈاڑھی منڈوانا نا جائز ھے ڈاڑھی منڈوانا اسلام کی رو سے منع ہے اور ساری حکومتوں میں سزا صرف وہی دی جاسکتی تھی جو مطابق اسلام ہو.یہ ہرگز جائز نہ تھا کہ کسی شخص کو سزا کے طور پر سو رکھلایا جاوے با شراب پلائی جائے یا ڈاڑھی منڈوائی جاوے کیونکہ یہ ممنوع امر ہے.“ (انوار العلوم جلد ۴ صفحه ۲۴۵) تجدید بیعت ایک دوست نے لکھا ہے کہ میں عرصہ آٹھ سال سے احمدی تھا مگر قریباً تین سال سے میری عملی حالت بہت کمزور ہو گئی تھی.اب میری غفلت دور ہو گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے دوبارہ توجہ دلائی ہے.کیا میں دوبارہ بیعت کروں.فرمایا: ” دعا کروں گا.بیعت جب تک انسان تو ڑے نہیں تجدید کی ضرورت نہیں.آپ استغفار کریں اور آئندہ کے لئے کوشش کریں.اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.جس قدر اس زندگی میں دین کا کام ہو غنیمت ہے.“ (الفضل ۱۸؍ دسمبر ۱۹۲۲ء صفحه ۵)
۴۲۴ ضمیمه نام کے ساتھ احمدی لکھنا ایک دوست نے لکھا :.میں اپنے نام کے ساتھ احمدی لکھتا ہوں.بعض لوگ عداوت سے افسروں کو میرے خلاف برانگیختہ کر دیتے ہیں.کیا میں احمدی لکھنا چھوڑ دوں؟ فرمایا: کوئی اگر شروع سے نہ لکھے تو کچھ حرج نہیں لیکن ڈر کر چھوڑ نا ٹھیک نہیں.گھر میں نماز پڑھنا (الفضل ۱۸؍ دسمبر ۱۹۲۲ء صفحه ۵) ایک دوست نے لکھا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں گھر میں نماز پڑھ رہا ہوں کہ ایک شخص آیا اور آتے ہی کہا کہ گھر میں نماز نہ پڑھو.اس طرح نماز کی قدر دل سے جاتی رہتی ہے.فرمایا: ” یہ خواب بہت صحیح ہے.اس کے متعلق میں نے بار بار جلسہ پر اور متعدد موقعوں پر توجہ دلائی ہے.“ (الفضل ۱۸؍ دسمبر ۱۹۲۲ء صفحه ۵) نماز کا ترجمه ایک بوڑھے زمیندار نے عرض کیا.جوز میندار نماز کاترجمہ نہیں جانتے ان کی نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟ حضور نے فرمایا:.نماز تو ہو جاتی ہے لیکن انہیں اپنے فارغ اوقات میں نماز کا ترجمہ سکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، ہل چلاتے ہوئے بھی ترجمہ یاد کر سکتے ہیں یہ کوئی مشکل بات نہیں.وہ شخص جو نماز کا ترجمہ جانتا ہو اس سے ایک دو الفاظ کا ترجمہ پوچھ لیا اور اسے خوب یاد کرنے کے بعد اور پوچھ لیا.جو لوگ نماز کا ترجمہ پڑھا سکتے ہیں انہیں چاہیے کہ دوسروں کو ضرور ترجمہ سکھائیں لیکن اگر کوئی دوسرے کی خواہش پر بھی نہیں پڑھاتا تو وہ مجرم ہے.(الفضل ۲۱ /اکتوبر ۲۰۱۰ء)
۴۲۵ ضمیمه سنتیں پڑھنی چاھئیں سماٹرا کے مربی حضرت مولوی رحمت علی صاحب نے عرض کیا.سماٹرا میں لوگ عام طور پر سنتیں بالکل نہیں پڑھتے.ان کے ترک پر کوئی عقاب نہیں ہاں جمعہ سے قبل دو رکعت پڑھتے ہیں جن کو تحیۃ المسجد کہتے ہیں.چار سنتوں کی نسبت وہ کہتے ہیں سند کے لحاظ سے یہ احادیث ضعیف ہیں.حضور نے فرمایا:.احادیث کے متعلق ہمارا معیار تو یہ ہے کہ جو قرآن شریف اور سنت کے خلاف نہ ہوں ان کو صیح سمجھا جائے.دوسرے ہمارا طریق سفن وغیرہ میں تو اتر پر ہے.اگر کوئی بات سواحادیث سے ثابت ہو اور امت کا تعامل اس کے خلاف ہو تو ہم تعامل کو ہی ترجیح دیں گے کیونکہ احادیث ہم تک بالقول پہنچی ہیں اور تعامل بالفعل اور اسی تعامل کا نام سنت ہے، اسلام کے چاروں فرقوں حنفی ، شافعی، مالکی اور حنبلی کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کے تیرہ سو سال کے تعامل سے جو بات ثابت ہو وہ یقینی ہے.اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا.اس لئے سنن اگر احادیث سے ثابت نہ بھی ہوں تب بھی پڑھنی چاہئیں.کیونکہ امت محمدیہ کا تیرہ سو سال کا تعامل اس پر شاہد ہے.کروڑوں لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک ان پر عمل کرتے چلے آئے ہیں.یہ تعامل خواہ اس کی تائید میں کوئی حدیث نہ ہو ایک زبر دست ثبوت ہے جس کے ماتحت سنن کا پڑھنا ضروی ہے.اگر سواحادیث ایک امر کوضعیف قرار دیں مگر امت کا تعامل اس پر چلا آیا ہو تو امت کے اس تعامل کو ترجیح دی جائے گی کیونکہ چند راویوں کی نسبت کروڑوں لوگوں کا تعامل بہت زیادہ معتبر ہے.حضرت مسیح موعود نے شریعت میں پہلے قرآن کو رکھا ہے.پھر سنت کو اور اُس کے بعد حدیث کو.سنت وہ نہیں جو حدیث سے مستنبط ہو بلکہ سنت وہ ہے جو امت کے لاکھوں کروڑوں صلحاء کے تعامل سے ثابت ہو.چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عہد سے لے کر آج تک کروڑوں لوگ نسلاً بعد نسل سنن پڑھتے چلے آ رہے ہیں اس لئے اس کا لحاظ رکھنا واجب ہے خواہ احادیث تائید کریں یا نہ کریں.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنتیں نہ پڑھی ہوتیں اور آپ کے بعد یک لخت یہ تغیر
۴۲۶ ضمیمه پیدا ہو گیا ہوتا تو تاریخ اسلام میں ضرور اس کا ذکر ہوتا کہ یہ تغیر مسلمانوں کے ہر ایک فرقے میں اور ہر ایک ملک میں کیونکر پیدا ہوا اور کب پیدا ہوا مگر ایسا کوئی ذکر نہیں ہے.(الفضل ۲۱ /اکتوبر ۲۰۱۰ ء صفحه ۳) پانچوں نمازوں کے اوقات اور ان کی رکعات ”نماز مسلمانوں پر پانچ وقت فرض ہے.ایک نماز صبح کی جس کا وقت پو پھٹنے سے لے کر سورج نکلنے کے وقت تک ہوتا ہے.یعنی سورج نکلنے سے پہلے یہ نماز ختم ہو جانی چاہیے.اس نماز کی دورکعت ہوتی ہیں.ایک نماز سورج ڈھلنے سے لے کر انداز اپونے تین گھنٹے بعد تک پڑھی جاتی ہے.گرمیوں میں یہ وقت ہندوستان میں کوئی تین گھنٹہ تک چلا جاتا ہے.اس نماز کو ظہر کی نماز کہتے ہیں اور اس کی چار رکعت ہوتی ہیں.اس کے بعد تیسری نماز کا وقت شروع ہوتا ہے.یہ نماز دھوپ کے زرد ہونے کے وقت تک پڑھی جاسکتی ہے.اسے عصر کی نماز کہتے ہیں اور اس کی بھی چار رکعت ہوتی ہے.اس کے بعد سورج ڈوبنے سے لے کر شفق یعنی مغرب کی طرف کی سرخی کے غائب ہونے تک چوتھی نماز کا وقت ہوتا ہے اور اسے مغرب کی نماز کہتے ہیں.اس کی تین رکعتیں ہوتی ہیں.اس کے بعد پانچویں نماز کا وقت شروع ہوتا ہے جسے عشاء کی نماز کہتے ہیں.اس کا وقت ہندوستان کے اوقات کے لحاظ سے غروب آفتاب سے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ بعد شروع ہوتا ہے اور نصف شب تک اور بعض کے نزدیک اس کے بعد تک بھی چلا جاتا ہے.اس نماز کی رکعتیں بھی چار ہوتی ہیں.“ جمعه کی دو سنتیں جمعہ سے قبل دورکعت کے متعلق فرمایا:.( تفسیر کبیر جلد اوّل صفحه ۱۱۳) بے شک یہ حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں آ کر جمعہ کی نماز سے قبل دو رکعت پڑھیں لیکن ایک اور حدیث ہے جو حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
۴۲۷ ضمیمه چار رکعت گھر میں پڑھ کر آتے تھے گو بخاری و مسلم نے چارسنتوں والی روایات کو ترجیح دی ہے لیکن دو سنتیں پڑھنا بھی جائز ہے.حضرت خلیفہ اول ظہر کی جماعت سے پہلے ہمیشہ چار سنتیں پڑھا کرتے تھے.میں بھی چار ہی پڑھتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے طاقت دی ہے تو کیوں نہ پڑھیں لیکن حضرت مسیح موعود کو میں نے سینکڑوں دفعہ دیکھا ہے اور متواتر دیکھا ہے آپ ظہر سے پہلے ہمیشہ دورکعت سنت پڑھا کرتے تھے.دراصل حضرت مسیح موعود کی یہ دو رکعت ہماری ہزاروں رکعتوں کے برابر تھیں.گویا حضرت مسیح موعود نے حدیث سے جو اقل سنتیں ثابت ہیں وہی پڑھی ہیں تا کہ باقی وقت آپ دعوت الی اللہ میں صرف کریں.(الفضل ۲۱ / اکتوبر ۲۰۱۰ صفحه ۳) وفات یافتگان کی طرف سے قربانی کرنا؟ سید نا حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں:.میں جب حج کے لئے گیا تو میں نے سات قربانیاں کی تھیں.ایک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ، ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے، ایک والدہ صاحبہ کی طرف سے، ایک حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی طرف سے، ایک اپنی طرف سے، ایک اپنی بیوی کی طرف سے اور ایک جماعت کے دوستوں کی طرف سے.الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۳۵ء صفحه ۱) وفات یافتگان کی طرف سے کپڑے وغیرہ بنوا کر دینا کسی شخص کی وفات کے بعد کپڑے وغیرہ بنوا کر دینے کی جو رسم ہے اس کے متعلق حضور نے ایک خط میں تحریر فرمایا:.کپڑے وغیرہ بنا کر دینا بدعت ہے اور اس سے مومن کو بچنا چاہیے.ہاں صدقہ بلاتعین تاریخ دینا متوفی کے لئے مفید ہوتا ہے.پس غریبوں کو ان تاریخوں میں جن میں لوگ رسماً صدقہ نہیں کرتے
۴۲۸ ضمیمه جو ہو سکے صدقہ دے دیں تو یہ منع نہیں بلکہ وفات یافتہ کو اس کا فائدہ پہنچ سکتا ہے.کوئی عبارت جیسے کہ تلاوت قرآن وفات یافتہ کو نہیں پہنچ سکتی.( الفضل ۱۷ را پریل ۱۹۲۲ء) بهشتی مقبرہ کی زمین کے بارہ میں ایک بھائی نے لکھا کہ میرا خیال ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام نے بہشتی مقبرہ اس زمین کا نام رکھا ہے جو کہ آپ کے وقت میں مقرر کی گئی اور کچھ وہ زمین جس کی قیمت کا اندازہ ایک ہزار روپیہ فرمایا.حضور نے جواب میں لکھوایا: یہ غلط ہے.بہشتی مقبرہ کا سلسلہ تو قیامت تک رہے گا.یہ جو ایک ہزار روپیہ زمین کے متعلق ہے سی اس وقت آپ کا منشا تھا کہ شامل کر لی جائے.الفضل ۱۷ ر ا پریل ۱۹۲۲ء ) بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا سوال : سحری کے وقت ایک شخص کی آنکھ نہیں کھلی اس روز اس نے روزہ باعث سحری نہ کھانے کے نہیں رکھا.اس کے متعلق کیا فتویٰ ہے؟ جواب:.اگر آٹھ پہر روزہ نہیں رکھ سکتا تو اس کے عوض رمضان کے بعد رکھ لیوے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (الفضل ۱۸؍ جولائی ۱۹۱۶ ء ) آج کل رمضان ہے اور روزہ کی وجہ سے زیادہ تقریر نہیں کی جاسکتی.دوسرے نیر صاحب نے رات کو میجک لینٹرن کے ذریعہ سفر یورپ اور تبلیغ افریقہ کے حالات دکھائے ہیں.گو اس سے بہت فائدہ ہے مگر سحری کو اس وقت آنکھ نہ کھلی جس وقت کھلنی چاہیے تھی اور میں دعا ہی کر رہا تھا کہ اذان
۴۲۹ ضمیمه ہوگئی.اس لئے میں کھانا نہ کھا سکا.میں آج کل شام کو کھانا نہیں کھایا کرتا بلکہ سحری کو کھاتا ہوں لیکن آج سحری کو بھی نہ کھا سکا.اس وجہ سے بھی لمبی تقریر کرنا مشکل ہے.تاہم میں کوشش کروں گا کہ جس قدر ہو سکے بیان کروں کیونکہ احباب دور دور سے آئے ہیں.کفارہ کے بارہ میں رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ء صفحه ۱۲ ۱۳۰) سوال :.کفارہ ظہار کے احکام میں تحریر رقبہ کو پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے اور کفارہ یمین میں تحریر رقبہ کو تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے نیز کفارہ ظہار میں اطعام مساکین کا حکم صیام کے حکم کے بعد رکھا گیا ہے اور کفارہ یمین میں صیام کا حکم اطعام، کسوۃ اور تحریر رقبہ کے حکم کے بعد رکھا ہے.پھر کفارہ بمبین میں اطعام کے بعد کسوہ کا ذکر کیا گیا ہے اور کفارہ ظہار میں یہ مذکور نہیں.پھر قبل ان يتماسا کے الفاظ کفارہ ظہار میں دو دفعه صرف تحریر رقبہ اور صیام کے ساتھ آئے ہیں لیکن اطعام کے ساتھ اس کا ذکر نہیں.پھر کفارہ ظہار کی پہلی آیت ذالکم تو عظون بہ میں اشارہ کرنے کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے اور دوسری آيت ذالك لتو منوا باللہ میں اشارہ کے لئے مفرد کا صیغہ استعمال کیا ہے.پھر کفارہ ظہار میں شہرین متتابعین فرمایا ہے کہ ساٹھ روزے متواتر رکھے مگر کفارہ یمین میں متواتر کی شرط نہیں رکھی؟ جواب: - حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:.اس میں باقی شقیں تو صرف تصوف کا رنگ رکھتی ہیں.دراصل جو بڑا سوال ہے وہ صرف یہی ہے کہ کفارہ ظہار میں تحریر رقبہ کی سزا کو پہلے رکھا ہے اور باقی سزائیں یعنی صیام اور اطعام مساکین کو بعد میں رکھا ہے اور کفارہ بیبین میں پہلے اطعام کو رکھا ہے اور پھر کسوہ کو رکھا ہے اور تحریر رقبہ کا تیسرے نمبر پر ذکر کیا ہے اور پھر اس کے بعد روزوں کا ذکر کیا ہے.غرض کفارہ ظہار میں پہلے تحریر رقبہ اس کے بعد روزے اور اس کے بعد کھانا اور کفارہ یمین میں پہلے کھانا پھر لباس پھر غلام کا آزاد کرنا اور پھر روزے رکھے گئے ہیں یعنی ایک تو ان سزاؤں کی ترتیب میں فرق ہے اور پھر ان سزاؤں میں بھی بعض میں اختلاف ہے اور بعض مطابق ہیں یعنی
۴۳۰ ضمیمه تحریر رقبہ تو دونوں جگہ ہے لیکن وہاں کفارہ ظہار میں شہرین منتا بعین یعنی متواتر ساٹھ روزوں کا ذکر ہے اور یہاں کفارہ یمین میں تین روزوں کا ذکر ہے اور اس کے ساتھ منتا بعین کا لفظ نہیں.اگر روزے تحریر رقبہ کا قائمقام ہیں تو کفارہ ظہار میں ساٹھ اور کفارہ بمبین میں تین کیوں ہیں اور پھر وہاں یہ ذکر ہے کہ متواتر رکھے اور یہاں متواتر کا ذکر نہیں.اسی طرح کفارہ ظہار میں ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانے کا ذکر ہے اور اس کے بالمقابل کفارہ یمین میں اطعام کا قائمقام کسوہ کو رکھا ہے مگر کفارہ ظہار میں اس کا ذکر نہیں.اس کے متعلق یا د رکھنا چاہیے کہ جرائم کی سزا جرم کے مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر ہوا کرتی ہے اور سزا کی ترتیب بھی اسی لحاظ سے ہوتی ہے.مثلاً بعض دفعہ جرم کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے اور بعض جگہ جرم کی اہمیت کم ہوتی ہے.جہاں جرم کی اہمیت زیادہ ہوگی وہاں اس جرم کی سزا بھی زیادہ ہوگی اور جہاں جرم کی اہمیت کم ہوگی وہاں اس جرم کی سزا بھی کم ہوگی.جہاں تک بنی نوع انسان کے حقوق کا تعلق ہے وہاں شریعت نے اس امر کو مد نظر رکھا ہے کہ جہاں نقصان زیادہ ہو وہاں اس جرم کی سزا بھی زیادہ رکھی ہے اور جہاں نقصان کم ہو وہاں اس کی سزا بھی کم رکھی ہے اور جو جرائم ایسے ہیں جن کا در حقیقت انسانوں سے تعلق نہیں بلکہ اخلاق کے ساتھ تعلق ہے ان کی سزا میں شریعت نے اس نقطہ نگاہ کو مدنظر رکھا ہے کہ اس کے لئے ایسی سزا تجویز کی جائے جو اخلاق کی نگہداشت کرنے والی ہو.اب بظاہر تو ظہار کا تعلق بندوں سے معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل اس کا تعلق اخلاق سے ہوتا ہے بندوں سے نہیں.ظہار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو کہہ دے کہ تو میری ماں کی طرح ہے یا یہ کہہ دے کہ تو میری ماں ہے.اگر اس جرم کا تعلق بندوں سے ہوتا تو پھر چاہیے تھا کہ تمام انسان اس کو برا مناتے مگر تمام انسان اس کو برا نہیں مناتے.حضرت خلیفہ اول ایک دفعہ ایک سکھ کو سمجھا رہے تھے کہ بیوی کو پیار میں آ کر بعض لوگ جو ماں کہہ دیتے ہیں اس طرح نہیں کہنا چاہیے.یہ بہت بری بات ہے تو وہ سکھ کہنے لگا اس میں کیا حرج ہے؟ ماں کا رشتہ محبت کا ہوتا ہے.اس لئے اگر اپنی محبت کے اظہار کے لئے بیوی کو ماں کہہ لیا جائے تو وہ ماں تھوڑی بن جاتی ہے.اسی طرح انگریزوں میں تو یہ عام رواج ہے کہ وہ خصوصیت سے بیوی کے متعلق
۴۳۱ ضمیمه ماں ہی کا لفظ استعمال کرتے ہیں.بیوی کو بلانا ہو تو کہتے ہیں مدر (Mother) ادھر آؤ.ان سے اگر پوچھا جائے کہ ایسا کیوں کہتے ہوتو جواب دیتے ہیں کہ بچے نے جوسیکھنا ہے.بچہ چونکہ ہماری نقل کرتا ہے اگر ہم مدر مدر نہ کہیں تو بچہ کس طرح مدد کہے گا.اس لئے ہم بیوی کو مدر کہتے ہیں تا کہ بچے کو بھی مدر کہنے کی عادت پڑے.غرض بعض قوموں کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ ان کی عورتیں بجائے اس کے کہ جب ان کے خاوندان کو ماں کہیں تو وہ اس کے خلاف پروٹسٹ کریں اور اپنے حقوق کی خاطر خاوندوں پر نالش کریں.وہ خوش ہوتی ہیں اور ان میں یہ ایک قسم کا تعیش پایا جاتا ہے کہ جب ان کے خاوند ان کو ماں کہیں تو بجائے شکوہ کے وہ اس پر خوشی کا اظہار کرتی ہیں.پس معلوم ہوا کہ بیوی کو ماں کہنا ایسا جرم نہیں جس کا تعلق انسانوں سے ہو اور جس سے بنی نوع انسان کے حقوق کا نقصان ہوتا ہو کیونکہ اگر یہ انسانی جرم ہوتا تو چاہیے تھا کہ جس طرح بیوی کو مارنے پر ساری عورتیں کھڑی ہو جاتی ہیں اور شور مچانا شروع کر دیتی ہیں کہ عورتوں پر ظلم ہو گیا ہے اور ان کے حقوق کو پامال کر دیا ہے اسی طرح جب کسی بیوی کو اس کا خاوند ماں کہہ دے تو ساری عورتیں کھڑی ہو جاتیں اور اس کے خلاف پروٹسٹ.لیکن ایسا نہیں بلکہ بعض عورتیں بجائے ناراضگی کے اس پر خوش ہوتی ہیں اور بجائے بُرا منانے کے اس کو اچھا مجھتی ہیں تو معلوم ہوا کہ بیوی کو ماں کہہ دینا ایسا جرم نہیں جو انسانی حقوق کے ساتھ تعلق رکھتا ہو.اگر بیوی کو ماں کہہ دینا انسانی حقوق کے خلاف ہوتا تو پھر ہر قوم اس کے خلاف ہوتی اور اس کو بُرا مناتی.مسلمان بھی اس کے خلاف ہوتے اور اس کو بُرا مناتے.یہودی بھی اس کے خلاف ہوتے اور اس کو بُرا مناتے.عیسائی بھی اس کو بُرا مناتے اور اس کے خلاف ہوتے.ہندوستانی بھی اس کے خلاف ہوتے اور اس کو بُرا مناتے.انگریز بھی اس کے خلاف ہوتے اور اس کو بُرا مناتے.امریکن بھی اس کے خلاف ہوتے اور اس کو بُرا مناتے.عیسائی بھی اس کے خلافت ہوتے اور اس کو بُرا مناتے.تمام مذاہب اور تمام قومیں اس کے خلاف پروٹسٹ کرتیں.تمام ملکوں میں اس کے خلاف احتجاج ہوتا.جس طرح گالی دینا یا مارنا ایسا جرم ہے کہ سب کے سب اس کو بُرا مناتے ہیں.مسلمان بھی مناتے ہیں ، ہندو، یہودی، عیسائی اس کو بُرا
۴۳۲ ضمیمه مناتے ہیں اور اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں لیکن بیوی کو ماں کہہ دینا نہ صرف یہ کہ بعض تو میں اس پر بُرا نہیں مناتیں بلکہ اس پر خوش ہوتی ہیں حالانکہ اگر یہ جرم انسانوں کے خلاف ہوتا تو سب کو اس کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے تھا.پس معلوم ہوا کہ یہ قومی جرم نہیں بلکہ خدائی اور اخلاقی جرم ہے.اخلاقی لحاظ سے بعض باتیں بری مشابہت کی وجہ سے جرم بن جاتی ہیں جس طرح یہودی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اعنا کہتے تھے تو خدا نے صحابہ کو حکم دیا کہ تم راعنا نہ کہا کرو بلکہ انظرنا کہا کرو.اب صحابہ راعنا کا لفظ بری نیت سے تو نہیں کہتے تھے یہودی یا دوسرے لوگ بری نیت سے کہتے تھے مگر صحابہ ادب اور احترام سے کہتے تھے مگر باوجود اس کے خدا نے صحابہ کو منع کر دیا کہ بے شک تمہاری نیت بری نہیں بلکہ تم ادب اور احترام سے یہ لفظ کہتے ہومگر اس لفظ میں چونکہ مشابہت گندی ہے اس لئے ہم تم کو منع کرتے ہیں کہ تم راعنا نہ کہا کرو بلکہ انظرنا کہا کرو.اسی طرح بیوی کو ماں کہنے سے منع کرنے کا حکم بھی اخلاق کی حفاظت کے لئے ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس حکم کی خلاف ورزی کرنا قومی جرم نہیں بلکہ ہمارا جرم ہے.ہم تمہیں روکتے ہیں کہ تم ایسا نہ کہا کرو.اسی وجہ سے فقہاء نے ظہار کے متعلق لکھا ہے کہ اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی یعنی جب تک طلاق والے احساسات ظہار کے ساتھ وابستہ نہ ہوں اس وقت تک خالی بیوی کو ماں کہہ دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی تو فقہاء کا بھی اس طرف خیال گیا ہے کہ ظہار پر سزا خدائی جرم کی وجہ سے ہے.پس جب یہ معلوم ہو گیا کہ یہ خدائی جرم ہے تو خدائی جرائم میں شریعت اسلامیہ کا سزا دینے کا طریق یہ ہے کہ جن جرائم کے محرکات اور موجبات زیادہ ہوں ان میں شریعت نے کم سزا رکھی ہے اور جن جرائم کے موجبات اور محرکات زیادہ ہوں اس کی سزا شریعت نے کم رکھی ہے اور جن جرائم کے موجبات زیادہ ہوں ان میں شریعت نے اس لئے سزا کم رکھی ہے کہ لوگ عام رو میں بہہ جاتے ہیں اور جہاں موجبات کم ہوں ان میں سزا اس لئے زیادہ رکھی ہے کہ جو شخص باوجود کم محرکات ہونے بھی اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے وہ گویا شریعت کی تضحیک کرتا ہے.اب کسی شخص کا اپنی بیوی کو ماں کہ دین یا یہ کہہ دینا کہ تو میری ماں کی طرح ہے اس کے کون سے موجبات اور محرکات ہیں جن کی وجہ سے وہ ماں کہتا ہے.
۴۳۳ ضمیمه اگر وہ طلاق دینا چاہتا تھا تو اس کے لئے اور کئی الفاظ موجود تھے.اس واضح طریق کو استعمال کرنے کی بجائے وہ ایسا طریق کیوں اختیار کرتا ہے جو بُری مشابہت رکھتا ہے.فرض کرو اس کی نیت اپنی بیوی کو طلاق دینے کی ہے تو پھر یہ شریفانہ طریق کیوں اختیار نہیں کرتا کہ میں تجھے طلاق دیتا ہوں.ایسے الفاظ کیوں استعمال کرتا ہے جن سے خدا تعالیٰ نے منع فرمایا ہے.پس جب وہ واضح طریق کو استعمال کرنے کی بجائے باوجود موجبات اور محرکات کے نہ ہونے کے ایسا طریق اختیار کرتا ہے جس سے شریعت نے روکا ہے تو لازمی بات ہے کہ وہ شریعت کی بے حرمتی کرتا ہے.مجلس عرفان فرمود ۲۰۰ دسمبر ۱۹۴۴ء الفضل ۲۶ جون ۱۹۶۰ء بحوالہ روزنامہ الفضل یکم مارچ ۱۹۶۳ء) شراب کی دوکان پر ملازمت سوال :.عرض کیا گیا شراب کی دوکان میں ملازمت کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جواب:.حضور نے فرمایا: شراب بنانے کے لئے ملازم ہونا جائز نہیں اور نہ بیچنے کے لئے.(الفضل ۲۱ /اکتوبر ۲۰۱۰ صفحه ۳) محصن کو رجم سوال :.جامعہ احمدیہ کے ایک طالب علم نے عرض کیا.محصن (شادی شدہ) اگر زنا کرے تو حکومت میں رجم کر دینے کا حکم ہے یا نہیں؟ جواب :.حضور نے فرمایا: یہ اختلافی مسئلہ ہے.حافظ روشن علی صاحب مرحوم شدت سے اس کا انکار کیا کرتے تھے اور کہتے تھے محصن کو رجم کرنے کا کہیں حکم نہیں.میری تحقیق اس بارے میں مکمل نہیں لیکن حضرت مسیح موعود نے رجم تسلیم کیا ہے.الفضل ۲۱ / اکتوبر ۲۰۱۰ صفحه ۳) غیر احمدی والدین سے حسن سلوك ایک دوست نے لکھا کہ میں احمدی ہوں اور میرے والدین کا میرے ساتھ مذہبی مخالف ہے.
۴۳۴ ضمیمه حضوران سے سلوک کے بارہ میں کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ جواب :.لکھوایا: دنیاوی طور پر ہر طرح سے سلوک کریں اور دین کے معاملہ میں ان کو سمجھاویں اور اپنی نیکی اور محبت اور والدین کی خدمت کا ایسا نمونہ دکھاویں کہ ان کو مانا پڑے کہ آپ نے احمدی ہوکر کچھ حاصل کیا ہے.( الفضل ۱۸ دسمبر ۱۹۲۲ء صفحه ۵) ناقصات العقل والدین ھونے کا مطلب سوال:.عرض کیا گیا حدیث میں آتا ہے کہ عورتیں ناقصات العقل والدین ہیں اس کا کیا مطلب ہے؟ جواب :.حضور نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں میں فطری کمزوری ہے جس کی وجہ سے وہ نبی ، امام اور خلیفہ نہیں بن سکتیں.اگر اس کا یہی مفہوم ہوتا جو آجکل سمجھا جاتا ہے کہ عورتیں کم عقل ہوتی ہیں اور دین میں ناقص تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ازواج مطہرات سے کبھی مشورہ نہ لیتے.حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دین کا بہت سارا حصہ مروی ہے.دیکھو حضرت عائشہ نے لا نبی بعدی کے کیسے اعلی معنے بیان کئے ہیں جن سے موجودہ زمانہ کے عظیم الشان مامور نے بھی فائدہ اٹھایا.مردوں میں سے جہاں اس بارے میں بڑے بڑے ائمہ اور علما فضلا نے ٹھو کر کھائی وہاں ایک عورت نے ایسی اعلیٰ راہنمائی کی جس سے آج بھی ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں.پس حدیث کا یہ مفہوم نہیں کہ عورتوں کی عقل ناقص ہوتی ہے اور وہ مشورہ دینے کے قابل نہیں ہوتیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ عورت کا رحم کا پہلو غالب ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ مرد کی طرح با اختیار اور خود مختار حاکم نہیں بن سکتی اور نہ نبی اور خلیفہ ہوسکتی ہے کیونکہ نبوت اور خلافت میں قوت حاکمانہ کی بھی ضرورت ہے جو عورتوں میں طبعاً کم ہے.اس لئے اگر خلیفہ یا بادشاہ بن جائیں تو ایسے مواقع پر جہاں جابرانہ احکام نافذ کرنے کی ضرورت ہو کمزوری دکھا ئیں.ملکہ وکٹوریہ کے متعلق ثابت ہے کہ جب کسی کو پھانسی وغیرہ کا حکم دینا پڑتا تو اس وقت نرمی دکھاتی اور انتہائی رحمدلی سے کام لیتی اور یہ بات تمام عورتوں میں ہے.پس چونکہ حاکمانہ قوت جس میں سخت احکام بھی نافذ کرنے پڑتے ہیں عورتوں میں نہیں ہے.اس لئے وہ ایسے موقعوں پر کمزوری اور نرمی دکھاتی ہیں جس سے حکومت میں خلل واقع ہونے کا اندیشہ ہے.لہذا
۴۳۵ ضمیمه عورت کو ناقص العقل والدین کہنے سے شریعت کی مراد یہ ہے کہ وہ خفی اور خشونت سے کام نہیں کراسکتیں جس طرح مرد کر اسکتے ہیں.یہ ایک فطری کمزوری ہے.سوال:.عرض کیا گیا ایک حدیث میں صاف طور پر آیا ہے کہ جب تمہارے معاملات کی باگ دوڑ عورتوں کے ہاتھ میں ہو تو تمہارے لئے اس وقت مر جانا بہتر ہے.جواب :.حضور نے فرمایا: حدیث نے خود ہی تشریح کر دی ہے کہ عورتیں خود مختار رئیس اور بادشاہ نہیں بن سکتیں یعنی اس سے مراد عورت کا بادشاہ ہونا ہے کہ اگر کوئی عورت تمہاری حاکم ہو جائے اور بکلی سیاہ وسفید کی وہی مالک ہو تو اس وقت حکومت تباہ ہو جائے گی.اس سے عورتوں سے مشورہ لینے کی نفی کہاں سے نکلی؟ ہاں شوریٰ میں عورت حاکم نہیں ہوسکتی.عورتوں کی طرف سے نمائندہ بن کر مشورہ دے سکتی ہے.سوال :.عرض کیا گیا : جدید تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ عورت کا دماغ مرد کی نسبت چھوٹا ہوتا ہے.جواب :.حضور نے فرمایا:.دماغ کے چھوٹے اور بڑے ہونے سے اخلاق اور عقل کو کوئی تعلق نہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ہر بڑے دماغ والا ہر بات اچھی کرے بعض دفعہ چھوٹی عقل والے بڑے کام کر جاتے ہیں.پس مشورہ دینے میں عورت کی عقل ہرگز کمزور نہیں.مردوں کی طرح عورتیں بھی مشورہ دینے کی اہل ہیں.سوال:.عرض کیا گیا: کیا عورت صدیق بن سکتی ہے؟ جواب :.حضور نے فرمایا:.کیوں نہیں.حضرت مریم اور حضرت عائشہ دونوں صدیقہ تھیں.صدیقیت ایک الگ مرتبہ ہے اور خلافت الگ.خلافت میں بعض دفعہ بختی کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو عموماً عورتوں میں نہیں اس لئے خلیفہ نہیں ہوسکتیں.سوال:.عرض کیا گیا: کیا عورت قاضی بن سکتی ہے؟ جواب:.حضور نے فرمایا:.ہاں بن سکتی ہے.سوال :.اس پر عرض کیا گیا : قاضی ہونے کی صورت میں حدود اور قصاص کے مقدمات میں
۴۳۶ ضمیمه عورت فیصلہ کرتے وقت کمزوری نہ دکھائے گی؟ جواب :.حضور نے فرمایا:.آگے اپیل کا دروازہ کھلا ہے.عورت حاکم اعلیٰ نہیں بن سکتی ماتحتی میں درجے اور عہدے حاصل کر سکتی ہے یعنی عورت بادشاہ یا خلیفہ کے ماتحت کسی منصب پر مامور ہوسکتی ہے.(الفضل ۷ار دسمبر ۱۹۲۹ء)