Language: UR
حضرت مولانا ابوالبرکات غلام رسول صاحب قدسی راجیکی کے بیٹے مبشر احمد راجیکی نے جولائی 1978ء میں اپنے والد گرامی کے مختلف مضامین کو تلخیص اور تسہیل کے بعدایک جدید ترتیب کے ساتھ مرتب کیا، اور اسے کتابی شکل میں نظامت ارشاد وقف جدید انجمن احمدیہ ربوہ پاکستان نے 2ہزار کی تعداد میں لاہور کے ایک پریس سے شائع کروایا۔ اس کتاب میں مولوی غلام رسول صاحب نے فیضان نبوت کے عنوان کے تحت مذہب و نبوت، ختم نبوت کی حقیقت از روئے قرآن، حدیث اور آیت خاتم النبیین کی تشریح پیش کی ہے۔ ختم نبوت اور تکمیل دین کے موضوع پر روشنی ڈال کر فیضان ربوبیت کے منکرین سے چند سوالات پیش کئے ہیں۔ جبکہ اس کتاب کے حصہ دوم میں ’’تنویر رسالت‘‘ کے عنوان کے تحت انقطاع نبوت کے متعلق دلائل دینے والوں کو 18 سوالوں کی شکل میں جواب دیا گیا ہے۔ رسالہ ’’تنویر رسالت‘‘ کا پس منظر یہ ہے کہ سال 1921ء میں مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کا جناب پیر بخش صاحب ایڈیٹر رسالہ ’تائید اسلام‘ سے لاہور میں تین دن تک مباحثہ ہوا تھا۔ موضوع مباحثہ ’امکان نبوت‘ تھا۔ یوں اس قیمتی کتا ب کا حصہ دوم جہاں علمی دلائل کا مجموعہ ہے وہاں تاریخ احمدیت کا وہ باب بھی ہے جب مخالف مناظر احمدی علماء کے دلائل کا جواب دینے سے قطعاً قاصر رہتے تھے، یہ اسی ناکامی کا اثر ہے کہ آج جماعت احمدیہ کے مخالفین اپنی علمی پردہ دری سے بچنے کے لئے مباحثہ اور مناظرہ کا دروازہ زور سے بند کر بیٹھے ہیں۔ کاتب کی لکھائی میں تیار ہونے والی اس قریباً دو صدصفحات کی کتاب کے آخر پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے تبلیغی و اصلاحی و اخلاقی و روحانی کارناموں کے بارہ میں بعض نامور اہل قلم حضرات کی آراء بھی پیش کی گئی ہیں۔
بسم الله ا من الرحیم محمد موصلى على رسوله الكريم عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَا وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًاه انسان آیت.اء والصَّلِحِينَ فیضانِ نبوت او افاضات ول صفاقد سی ویکی لی رضی اللہ عنہ - پیشکش
(ب) توضیح یه کتابچه در اصل حضرت والد ماجد رضی اللہ تعالی عنه کے مختلف مضامین کی تلخیص توسہیل ہے لیکن کسی قدر نئی ترتیب کے ساتھ : مرتبه مبشر احمد راہی کی
(ج) فہرست مضامین : فیضانِ نبوت - مذہب اور نبوت - ۳۵ تا ۲۴ ختم نبوت اور احادیث نبو ته ۳۰ تا ۴۰۴ مذہب کی اہمیت.مدیوں کا جائزہ ندی کے عالم وجود میں آنے کا باعث ختم نبوت اور قرآن مجید مذہب کا مفہوم.ختم کے مشتقات مذہب اور عقل.ایک مولوی صاحب سے گفت گو.مذہب اور امن.خاتم کا مطلب.مذہب اور غیر متناہی ترقیات عیسی علیہ السلام کی آمد ثانی.منصب نبوت کے لوازمات.کیا تا ویل جائز ہے.انبیاء کے اوصاف.امتی نبی کی اصطلاح.انبیاء کے اغراض و مقاصد آیت خاتم النبین کی تشریح انبیاء کی مخالفت کی وجہ.شان نزول - انبیاء کی تعلیم کے اثرات.دو قسم کے اعتراض.ختم نبوت کی حقیقت ۲۵تا۳۵ جواب کی مختلف صورتیں.بنی کے معنے اور اسکی تعریف.آیات قرآنی ذو الوجودہ ہیں.نبوت کی اقسام - بعض شمار سے گفت گو.آیت موصوفہ کا دوسرا مطلب.روحانی ابوت کی توجہیہ.کیا خاتم النب تین محل موج پر ہے ؟ آیت موصوفہ کا ماحصل.التامة
(د) بعض جید علماء کے حوالے.فیضان رؤوسیت کے منکرین سے ختم نبوت اور تکمیل دین و تا چند سوال - ملاقات واقعاتی جائزہ.۱۰۰ سوالات کی تفصیل.فهرست مضامین : تنوید رسالت انقطاع نبوت کے دلائل نویس سوال کا جواب کا جائزہ ثنا تا ۱۸۴ وسوس - ۱۳۹ تا ۱۳۱ ای ۱ تا ۱۴۴ پہلے سوال کا جواب رات گیارھویں ، " " ۱۲ تا ۱۴۷ د د سترگی ہے تیرے وتھے 家 پانچویں بریری " چھٹے ہے " ساتویں ہے مرگه آٹھویں " ۱۳۷ تا ۱۵۰ بارھویں " ۱۲۱ تا ۱۳۳ تیرھویں """ فه انا ۱۵۴ incurr racire ۱۵۲ تا ۱۵۶ چودھویں ، 4 ۱۵۶ تا ۱۵۸ پندرھویں : ۱۵۰ تا ۱۶۳ کورنگ مرگ ۱۲۹ تا ۱۳۳ سولہویں ہر کو آتا ہے تصور سترھویں ۱۳۷ تا ۱۳۹ اٹھارھویں - تاثرات - ۱۸۲۵ تا ۱۹۲ Icefiur APLICA
فیضانِ نبوت
اسلام کا خدا کسی پر اپنے فیض کا دروازہ بند نہیں کرتا، بلکہ اپنے دونوں ہاتھوں سے بلا رہا ہے کہ میری طرف آن اور جو لوگ پورے زور سے اس کی طرف دوڑتے میں ان کے لئے دروازہ کھولا جاتا ہے.....احقیقة الوحی ص۶۲۶)
بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مذہب اور نبوت لى رسوله الكريم مذہب کی اہمیت یا در ے کسی چیز کی افادیت کا ندازه یادر اہمیت شکل اس کی طویل العمری اور اس کی ہمہ گیری سے ہی لگایا جا سکتا ہے.اور نذسب عمر کے لحاظ سے انت ہی قدیم ہے جتنا کہ آدمزاد اور اس کی ہمہ گیری کا یہ عالم ہے کہ ربیع مسکون کا شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو جہاں اس کے پیرو کار موجود نہ ہوں حتی کہ افریقہ کے تاریک تر اعظم میں بھی مذہب کے شیدائی اسی طرح پائے جاتے ہیں جس طرح یورپ اور ایشیاء میں ظاہر ہے کہ کوئی غیر مفید چیز اپنا حلقہ اثر اتنا وسیع نہیں بنا سکتی.لا محالہ ماننا پڑے گا کہ مذہب میں نفع رسانی کے غیر معمولی جو ہر ہیں.اگر غور کیا جائے...ندہ کے عالم معجود میں آنے کا باعث تو معلوم ہوگا کہ بودی ہذیب کو دو چیزوں نے جنم دیا ہے.ایک خدا کی رحمت اور دوسر
انسان کی احتیاج نے اگر خدا رحیم اور انسان محتاج نہ ہوتا تومذہب بھی عالم وجود میں نہ آتا آیت کریمیہ ہے کہ :- كتب ربكم عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ - (انعام آیت (۵۵) تمہارے پروردگار نے اپنے آپ پر رحمت کو لازم کر لیا ہے.اور وجہ یہ بنائی کہ :.لياتها الناسُ انْتُمُ الْفُقَرَاءِ إِلَى اللهِ - فاطر آیت (14) اے لوگو تم سب کے سب اللہ تعالے کے محتاج ہو.اور تسلی بھی دی کہ : إنَّ عَلَيْنَا للهدى - دلیل آیت ۱۳) تمہارے لئے ہدایت کے سامان پیدا کرنا ہمارے ذمہ ہے.اور مایوسی کا یوں قلع قمع فرمایا کہ :- وان مِّنْ شَيْءٍ إِلَّاعِندَ نَا خَزَائِنُه حجر آیت ۲۲) ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے موجود ہیں.یا در ہے کہ مذہب کے لغوی معنے راستہ کے مذہب کا مفہوم انہیں جس کے ذریعہ انسان اپنی منزل مقصود پر پہنچتا ہے اور عقل بھی اس ضرورت کو تسلیم کرتی ہے کہ منزل مقصو پر پہنچنے کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور ہونا چاہیئے اور اصطلاحی معنوں کے لحاظ سے مذہب اس طریق کار کو کہتے ہیں جو خدا نے خود اپنے بندوں کے لئے الہام کے ذریعہ مقرر فرمایا ہو اور جس کو اختیار
کر کے انسان فلاح دارین حاصل کر سکے.ظاہر ہے کہ انسان کا جسم اور اس کی روح نہ تو اس کے اپنے پیدا کردہ ہیں اور نہ ہی اس کے اپنے خرید کرده که وہ اپنی زندگی کا راستہ خود مقرر کر ہے.لامحالہ اس کی زندگی کا راستہ مقرر کرنا بھی اسی کا حق ہے ہیں نے اس کو پیدا کیا ہے اور اس کی منزل مقصود متعین کرنا بھی اسی کا حق ہے جس نے اسے خلعت وجود بخشا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان اپنے اندر نہایت اعلیٰ قسم کی استعدادیں رکھتا ہے.لیکن جس طرح وہ اپنی جسمانی نشوو نما کے لئے مختلف سہاروں کا تاج ہے اسی طرح وہ اپنی روحانی نشود نما کے لئے بھی مختلف سہاروں کا محتاج ہے اور جس طرح عقل رکھنے کے باوجود وہ زمینی علوم کو خود بخود نہیں سیکھ سکتا بلکہ کسی استاد کی راہنمائی کا حاجتمند ہے اسی طرح آسمانی علوم کو بھی وہ محض اپنی عقل سے نہیں سیکھ سکتا بلکہ کسی استاد کی رہنمائی کا حاجت مند ہے.عقل بے شک ایک مفید چیز ہے لیکن جس طرح آنکھ خارجی روشنی کے بغیر کچھ نہیں دیکھ سکتی.اسی طرح عقل بھی الہام الہی کے بغیر شیاء کا صحیح ادراک نہیں کر سکتی.اور کس طرح انسان جو چیزیں خوردبین اور دوربین کے ذریعہ دیکھ سکتا ہے وہ محض آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا.اسی طرح خدا کا نبی جو کچھ وحی الہی کے ذریعہ معلوم کر سکتا ہے.وہ دنیا کے در انشور محض عقل سے دریافت نہیں کر سکتے اور نہ عقل کے ذریعہ انکشاف حقائق کا وہ یقینی مرتبہ ہی حاصل کر سکتے ہیں جو وحی الہی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے بلکہ عقل کی کوتاہ اندیشی تو
- اس بات سے ہی ظاہر ہے کہ حکمائے یونان اپنی عقلی تحقیقات کی بناء پر زمین کو ساکن اور آسمان کو چکی کی طرح متحرک کہتے تھے اور کو اکب کو ڈولوں کی طرح آسمان سے پیوستہ قرار دیتے تھے.لیکن موجودہ ہیئت دانوں کی عقلی تحقیقات نے ان تمام نظریات کو باطل ٹھہرایا ہے اور اب کائنات عالم کے متعلق بالکل اور یہی قسم کے نظریایت پیش کئے جارہے ہیں.اور بہت ممکن ہے کہ آگے چل کر ان نظریات کو بھی غلط قرار دے دیا جائے پیس عقلی موشگافیاں انسان کو یقین کامل کے مرتبہ پر نہیں پہنچا سکتیں اس کے لئے وحی الہی کی روشنی درکار ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانی عقل نے تمدنی قوانین ے ہیں لیکن ناقص طور پر جن کے ملک نتایج آئے دن اقوام عالم کو بھگتنے پڑتے ہیں.اور پھر مجبورا ان میں ترمیم و تنسیخ کرنا پڑتی ہے نہیں دنیا کو ایک ایسے مقتق کی ضرورت ہے جو انسان کی تمام ضروریات کا خیال رکھے اور ذاتی اور قومی اور ملکی مفادات سے بالا ہو.ظاہر ہے کہ ایسا مقنین خالق کائنات ہی ہو سکتا ہے.مفاد پرست انسان کی مصلحت اندیش عقل نہیں ہو سکتی اور نہ نبی انسانی قوانین کی گرفت کا خطرہ لوگوں کو پوری طرح جرائم سے روک سکتا ہے کیونکہ انسانی زندگی کا بہت تھوڑا حصہ ایسا ہے جو براہ راست قانون کی نگرانی میں ہوتا ہے اور اس کا معتدبہ حصہ ایسا ہے جو
قانون کی نگرانی میں نہیں ہوتا.ہائی خدائی ضابطہ حیات ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور خلوت و جلوت میں انسان کو جرائم سے روکتا ہے اور اس بارے میں کامیاب ثابت ہوا ہے کیونکہ خدا کے حاضر وناظر ہونے اور اس کے حضور اپنے اعمال کے لئے جوابدہ ہونے کا احساس ہر وقت انسان کے دل و دماغ پر ستولی رہتا ہے اور اسے ہرزہ کاری سے باز رکھتا ہے.پس یہ سوال نہیں ہو سکتا کہ مذہب کی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ ہر شخص کسی نہ کسی مذہب کیا پابند ہے اور اس کی ضرورت کو تسلیم کرتا ہے.البتہ یہ سوال ہوتا ہے کہ آیا وہ راستہ بہتر ہے جو خود انسان نے اپنے لئے تجویز کیا یادہ راستہ بہتر ہے جو خدا نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ہے.ظاہر ہے کہ ناقص انسان کی ناقص عقل کا تجویز کردہ راستہ اس راستہ کے برابر نہیں ہو سکتا جو خدا کی کامل ہستی نے اپنے کامل علم کی بناء پر خود اپنے بندوں کی فلاح وبہبود کے لئے مقرر فرمایا ہے.اگر کہا جائے کہ مذہب سے انسان کی مدیریت اور فضل الحق ناکارہ ہو جاتی ہے.تو اس کا جوا یہ ہے کہ ناکارہ وہ چیز ہوتی ہے جو استعمال میں نہ لائی جائے لیکن قرآن حکیم بار بار اس امر کی تلقین فرماتا ہے کہ عقل سے کام لو.اپنی حالت پر غور کرو.کائنات عالم کی تخلیق میں تدبر کرتے رہو.پس قرآن میر کا حکم مانتے کے نتیجہ میں تو عقل ناکارہ نہیں ہوسکتی.البتہ
• اس کے حکم سے روگردانی کی وجہ سے عقل کے ناکارہ ہو جا نیک احتمال ضرور ہے.علاوہ ازیں اس امر پر بھی غور کرنا چاہئیے کہ مذہب کا مقصد کیا ہے ؟ مذہب کا مقصد تو یہ ہے کہ انسان کا اس مہنتی سے تعلق استوار ہو جائے جو سراپا نور ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے.الله نُورُ السَّمَوَاتِ وَالاَرضِ - (فور- آیت ۳۶) ہیں ایسی ہستی کے ساتھ تعلق قائم ہونے سے عقل میں جلا تو پیدا ہو سکتی ہے وہ گند نہیں ہو سکتی.یادرکھنا چاہیئے کہ عقل کی مثال آنکھ کی طرح ہے.پس آنکھ کو جس قسم کا فائدہ خارجی روشنی یا خوردبین اور دوربین کے شیشوں سے حاصل ہوتا ہے.اسی قسم کا فائدہ عقل کو الہام کے نور یا کشف اور رڈیا کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے.اور یہ بات قرآن کریم سے بھی ظاہر ہے کہ انسان جہاں تک وحی الہی کی روشنی میں دیکھ سکتا ہے وہاں تک محض عقل کے ذریعہ سے نہیں دیکھ سکتا.یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جس قدر بانیان مذاہب گزرے ہیں ان میں سے ہر ایک نے اپنے دعوے کے ساتھ ہی یہ خبر بھی دے دی تھی کہ اس کی تعلیم پھیل کر رہے گی اور اس کے ساتھ ٹکرانے والا پاش پاش ہو جائے گا.اور باوجود اس کے کہ وہ دنیوی لحاظ سے نہایت کمزور تھے اور باوجود اس کے کہ ان کی تعلیم نمیماند کی رو کے خلاف بھی اور باوجود اس کے کہ ان کی شدید مخالفت کیگئی پھر بھی وہ کامیاب ہوئے اور ان کی تعلیم پھیل کر رہی اور محض عقل
پر بھروسہ کر کے ان کا مقابلہ کرنے والے ناکام ونامراد ہوئے مثال کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ پر غور کیجئے.کیا اس وقت کوئی شخص یہ گمان کر سکتا تھا کہ صنادید عرب اپنے تمام لاؤلشکر سمیت شکست کھا جائیں گے اور نبی اکرم جیسے آتی یکیں کو فتح حاصل ہوگی اور تھوڑے ہی عرصہ میں آپ کے غلام قیصر و کسری کی عظیم الشان حکومتوں کو تہ و بالا کر دیں گے.اور اسلام کی تعلیم دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل جائے گی ؟ ہرگز نہیں بلکہ اس وقت کے مخصوص حالات کو دیکھ کر ہر عقلمند ہی سمجھتا تھا کہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائیگا اور اسلام کا کوئی نام لیوا دنیا میں باقی نہیں رہے گا.ہاں اس بے سروسامانی کے عالم میں خدا کے رسول نے بے شک قبل از وقت یہ اعلان کر دیا تھا کہ انشاء اللہ ہم ہی غالب آئیں گے.اور ہمارا دشمن خائب و خاسر رہے گا.چنانچہ واقعات گواہ ہیں کہ ایسا ہی ہوا.پس ان تاریخی حقائق سے بھی ثابت ہے کہ الہامی بصیرت کے مقابلہ میں عقلی تخمینے کوئی حقیقت نہیں رکھتے.علاوہ ازیں اس امر پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عربوں کی حالت کیا تھی ؟ اور پھر وہی عرب حلقہ اسلام میں داخل ہو کر کہاں سے کہاں جا پہنچے اور نہ صرف ان کی روحانی اور اخلاقی حالت ہی بہتر ہوگئی.بلکہ انہوں نے
بادی علوم و فنون میں بھی ایسا کمال حاصل کیا کہ دنیا کے گوشے گوشے سے صدائے آفرین بلند ہونے لگی.پس جس مذہب نے اپنی قوت قدسیہ سے عربوں جیسی پسماندہ قوم کو زمین سے اُٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا وہ مذہب لائق صد تحسین ہے نہ کہ قابل نفرین.اور پھر اس امر پر بھی غور کرنا چاہئیے کہ عقل ہے کیا چیز ؟ فقط ایک قوت اور اک.اور اگر اس قوت ادراک کو تاریخ اور مشاہدہ ور تجربہ کی رہنمائی نقصان نہیں پہنچاتی تو الہام کی رہنمائی کیسے نقصان پہنچا سکتی ہے پس یہ ایک سراسر باطل خیال ہے کہ مذہب عقل کو ناکارہ بنا دنیا ہے ہے هست بر عقل منت الهام که از و تخت هر تصویر خام دور نمین فارسی خلاصہ کلام یہ کہ مذہب عقل کو بیکار نہیں کرتا بلکہ ان دوستانی تک پہنچاتا ہے.جن تک عقل کے لئے خود بخود پہنچنا سخت مشکل تھا اور اس طرح انسان کو ناحق کی سرگردانی سے بچا لیتا ہے کیونکہ عقلی تخمینوں میں غلطی کا صدور ممکن ہے لیکن عالم الغیب خدا کے الہام میں غلطی کا صدور ممکن نہیں.پس سنچا الهام فضل کو ترقی سے ہیں روکتا بلکہ سرگردانی سے روکتا ہے اور مختلف مشکوک راستوں میں سے اسی خاص راستے کی طرف اس کی رہنمائی کرتا ہے جو منزل مقصود
تک لے جاتا ہے.پس عقل اور الہام ایک دوسرے کے نقیض نہیں اور نہ ہی الہام عقلی ترقیات سے مانع ہے بلکہ عقل کا معاون ونڈ گار ہے اور اس کے لئے چراغ راہ کا کام دیتا ہے اور اسے کمال مطلوب تک پہنچاتا ہے.قرآن حکیم میں وحی الہی کی مثال نور کے علاوہ بارش سے بھی دی گئی ہے.پس جس طرح باران رحمت سے خشک زمین میں قوت نمو پیدا ہو جاتی ہے اور ہر طرف سبزہ ہی سبزہ لہلہانے لگتا ہے.اسی طرح وحی الہی کے فیض سے ناکارہ قوموں میں قوت عمل پیدا ہو جاتی ہے اور ان کا دامن حسناتِ دارین کے موتیوں سے بھر جاتا ہے.رہا یہ امر کہ مذہب فتنہ و فساد کا موجب ہے مذہب اور امن تو اس کے متعلق یا درکھنا چاہیئے کہ مذہب کی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں کبھی فساد رو نما نہیں ہوا اور نہ ہی کسی مذہب کی الہامی کتاب فتنہ و فساد کو جائز قبرا نہ دیتی ہے.اور قرآن مجید تو دانشگان الفاظ میں فرماتا ہے کہ لا تُفْسِدُوا في الارض (بقرہ آیت (۱۳) کہ زمین میں فساد نہ کرو.البتہ ندیسی لوگوں کے خلاف طاغوتی طاقتیں ضرور آمادہ فساد رہتی ہیں تا کہ ان کی تعلی خواہشات پوری ہو سکیں لیکن ظاہر ہے کہ حق کو اس لئے تصورار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ اس کی وجہ سے باطل کو فتنہ آرائی کا موقع ملتا
۱۲ ہے.باقی رہی وہ جنگیں جو وقتاً فوقتاً بانیان مذاہب کو کرنا پڑی ہیں تو معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ جنگیں یا تو دفاعی نوعیت کی تھیں یا قیام امن کے لئے یا مظلوموں کو ان کا حق دلانے کے لئے کی گئی تھیں.ظاہر ہے کہ دنیا کا کوئی انصاف پسند انسان ان جنگوں کی وجہ سے مذہب کو قابل مذقت قرار نہیں دے سکتا.اور اگر بعض لوگوں نے مذہب کا نام کے کر اپنے ذاتی مفاد کے لئے جنگیں کی ہیں تو ان کی وجہ سے بھی مذہب پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا بلکہ ان لوگوں کا ہی جرم ثابت ہوتا ہے جنھوں نے مذہب کا استحصال کیا.اور پھر اعتراض کر نیوالوں کو یہ بھی خیال کرنا چاہیئے کہ اگر مذہب کے نام پر چند خود غرض لوگوں کا جنگ کرنا قابل نفرت فعل ہے اور بقول ان کے یہ بات ان کو ترک مذہب پر مجبور کرتی ہے تو کیا آئے دن جو جنگیں دنیا داروں کے درمیان محض دنیوی مفادات کی خاطر ہوتی رہتی ہیں وہ اُنکی جنگ و جدل انسان کی جبلت ہے لیکن عجیب بات ہے جب یہی جنگ اتفاقاً مذہبی طبقات میں چھڑ جاتی ہے تو لوگ مذہب دشمنی کی وجہ سے اس کی ذمہ داری سجائے انسانوں کے اس مذہب پر ڈال دیتے ہیں جو نہ سب اتفاقا ان لڑنے والوں کا ہوتا ہے حالانکہ مذہب صرف دفاعی جنگ کی اجازت دنیا ہے اور وہ بھی حدود و قیود کے اندر.کیا مذہب اسلام سے قبل عرب قبائل نہیں لڑتے تھے اور کیا ان کی جنگیں مذہب کی خاطر ہوتی تھیں ؟
۱۳ وجہ سے دنیا چھوڑ دیں گے؟ دیده باید.علاوہ ازیں انہیں یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ محض عقل پر بھروسہ کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے ؟ کیا موجودہ نار حرب عقلمندوں کی سُوء تدبر کا نتیجہ نہیں ؟ کیا دنیا میں یہ تباہی و بربادی مذہب کی تعلیم پر عمل کرنے کی وجیسے پھیل رہی ہے یا مذہب کی تعلیم کو میں پشت پھینکنے کی وجسے ؟ اور پھر ستم بالائے ستم یہ کہ جب کوئی مغلوب قوم صلح کے لئے ہاتھ بڑھاتی ہے تو اُسے بلا شرط ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جاتا ہے حالانکہ غالب آنے والی قومیں اگر خود مغلوب ہو ئیں تو کبھی اس بات کو پسند نہ کرتیں.اور پھر یہ خیال بھی نہیں کیا جاتا کہ اگر سوء اتفاق سے آج ایک قوم مغلوب ہو گئی ہے تو کیا ممکن نہیں کہ کسی دوسرے وقت یہی مغلوب قوم غالب آجائے؟ کیا رات کا دور دائمی ہے یا دن کا دور ہمیشہ رہنے والا ہے ؟ انقلاب کے دروازہ کو پہلے کوئی بند کر سکا ہے کہ آئندہ وہ بند رہ سکے گا، پیس غالب کو مغلوب پر رقم کرنا چاہیئے کہ یہی مغلوب کو اس کے غلبہ کے وقت اپنے اوپر مہربان بنانے کی صحیح تدبیر ہے.دیکھئے انسانی جانوں کو ضیاع سے بچانے کے لئے اسلام اس بارے میں کیا ے پر حکمت تعلیم دیتا ہے کہ :- وان جنحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ إنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (انفال آیت ۶۲)
۱۴ معینی اگر کسی وقت تیرے دشمن مسلح کی طرف جھکیں تو تو فوراً ان کی بات مان لے اور یہ وہم مت کرو کہ شاید وہ دھو کہ دے رہے ہوں بلکہ اللہ پر توکل رکھے.وہ دعاؤں کانٹے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے.الغرض عقل کی ملمع کاریوں سے کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا دنیا میں جب بھی امن قائم ہوا ند سب کے ذریعہ قائم ہوگا اور مذاہب عالم میں سے بھی صرف اسلام کے ذریعہ قائم ہوگا کیونکہ قیام امن کے لئے جو تعلیم اسلام دنیا ہے وہی فطری تعلیم ہے اور اس پر سی عمل پیرا ہو کہ دنیا امن و سلامتی کا منہ دیکھ سکتی ہے.مثال کے طور پر قرآن حکیم کی ایک آیت ملاحظہ فرمائیے :-..إنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَابْنَاء ذِي الْقُرْنِي وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْي (نحل آیت (۹) یعنی بے شک اللہ تعالے عدل کا حکم دیتا ہے بلکہ اس سے بڑھکر احسان کا بلکہ اس سے بڑھ کر تمام بنی نوع انسان سے قریبی رشتہ داروں جیسا سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور ہم کی بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت کے طریقوں سے روکتا ہے.غور فرمائے جو بے نظیر تعلیم اس مختصر اور جامع آیت میں پیش کیگئی ہے
۱۵ کیا دنیا کے سارے فقلند مل کر بھی قیام امن کے لیئے اس سے بہتر تعلیم پیش کر سکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں.پس اس فطری تعلیم پراگرلوگ آج بھی عمل کرنا شروع کر دیں تو بلاریب یہ دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے اور اس کی تمام سیاسی اور معاشی اور معاشرتی مشکلات آن واحد میں حل ہو جائیں اور سارا جہان ایک ایسے کنبہ کی شکل اختیار کر جائے جس کا ہر فرد شفقت و محبت میں اپنی نظیر آپ ہو.خلاصہ کلام یہ کہ مذہب فتنہ و فساد کا باعث نہیں بلکہ ہر لحاظ سے امن وسلامتی کا موجب ہے.اس لحاظ سے بھی کہ مذہب دنیا کو امن وسلامتی کی تعلیم دیتا ہے اور اس لحاظ سے بھی کہ اس کے ذریعہ ایک ایسا نظام اخوت قائم ہوتا ہے جو فتنہ وفساد کو بیخ وبن سے اُکھاڑ پھینکتا ہے اور اس لحاظ سے بھی امن وسلامتی کا موجب ہے کہ جب لوگوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے دنیا پر خدا کا عذاب نازل ہونا ہے تو مومن اس عذاب سے امن میں رہتے ہیں.اور پھر اس لحاظ سے بھی مذہب امن و سلامتی کا موجب ہے کہ اس کے ذریعہ نسان اللہ تعالے کی حفاظت میں آجاتا ہے.اور زمانہ کے حوادثات اسے ہلاک نہیں کر سکتے.ارشادِ ربانی ہے:- وَمَن سَهُ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنُ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى (لقمان آیت (۲۳)
14 یعنی جوش جو شخص اپنی توجہ اللہ تعالے کی طرف پھیر دنیا ہے اور وہ اپنے عمل میں بھی پورا محتاط ہے تو گویا اُس نے ایک محکم جائے گرفت کو مضبوطی سے پکڑ لیا.اسلامی نقطۂ نگاہ سے مذہب اور غیر متناہی ترقیات انسان غیر متناہی ترقیات کے لئے پیدا کیا گیا ہے.چنانچہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقويم (التين آيت ) یعنی انسان کو اعلیٰ سے اعلیٰ استعدادیں دے کو پیدا کیا گیا ہے تاکہ وہ اعلیٰ سے اعلیٰ ترقیات حاصل کر سکے.پھر فرماتا ہے:.وَلَقَد كرمنا بني آدم ربنی اسرائیل آیت ١) انسان اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے کل مخلوقات پر فضیلت رکھتا ہے.پھر ارشاد ہوتا ہے :- هو الذي جَعَلَكُمْ خَليفَ فِي الْأَرْضِ (فاطرات من یعنی اللہ تعالے نئے انسان کو اپنا جانشین بنا کر دنیا میں بھیجا ہے تاکہ وہ اس کی صفاتِ حسنہ کو ظاہر کررہے.اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتا ہے :- وسخر تكُم مَّا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنه ربا برای (۱۳)
یعنی زمین و آسمان میں جو کچھ پایا جاتا ہے سب کا سب انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے تاکہ وہ قانونِ قدرت سے فائدہ اٹھا کر مخدوم کائنات کا منصب حاصل کر سکے.مذکورہ بالا آیات سے ظاہر ہے کہ انسان در حقیقت موجودات عالم کا مرکزی نقطہ ہے.اور اس کو اللہ تعالیٰ نے صاحب اختیار بنایا ہے کہ وہ جس قدر چا ہے اور جس قسم کی چاہے ترقی کرے.البتہ اس کی روحانی ترقی کو خدا اور رسول کی اطاعت سے مشروط کر دیا گیا ہے ارت در بانی ہے :- وَمَن يُطع الله وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِينَ والصديقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا - (نساء آیت (٢) یعنی جو لوگ اللہ تعالئے اور اس کے رسول محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے آئندہ انہیں کو روحانی ترقیات حاصل ہو سکیں گی اور وہی ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ تعالے نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین، شہداء اور صالحین میں اور یہ لوگ بہت ہی اچھے رفیق ہیں.
خلاصہ کلام یہ کہ جس طرح اللہ تعالے نے اپنی بے پایاں رحمت سے انسان کی جسمانی نشوونما کے لئے مختلف سامان پیدا کئے ہیں اسی طرح اس کی روحانی نشو و نما کے لئے بھی مختلف سامان پیدا فرمائے ہیں جن میں سے ایک نبوت کی نعمت بھی ہے تاکہ اس کے جسمانی اور روحانی نظام میں مطابقت قائم رہے اور دنیا کو یقین آجائے کہ وہ خدا جو رب العالمین کہلاتا ہے نہ صرف عالم اجسام کا رب ہے بلکہ عالم ارواح کا بھی رب ہے.وقال سبحانہ تعالیٰ : ياَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ هَلْ مِنْ خَالِقِ غَيْرُ اللهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ المَاءِ والْأَرْضِ - (فاطر آیت (۴) یعنی اے لوگو.اللہ تعالیٰ کی جو نعمت تمھیں عطا ہوئی ہے اس کا شکر ادا کرو.کیا اللہ تعالے کے سوا کوئی اور بھی خالق ہے جو تمہیں روحانی نشو و نما کے لئے آسمان سے رزق دے اور جسمانی نشو و نما کے لئے زمین سے.یادر ہے کہ نبی خدا کی طرح سے منصب نبوت کے لوازمات بشر اور نذیر بناکر بھیجا جاتا ہے اور وہ بشیر اور انذار کے ذریعہ سے لوگوں کی اصلاح کا فریضہ سرانجام دیتا ہے.اس کا عالم غیب سے نہایت گہرا تعلق ہوتا ہے وہ غیب کی آوازیں سنتا غیب کی چیزیں دیکھتا اور غیب کی خبریں
19 بتاتا ہے.اس کا قلب روح القدس کا ضبط ہوتا ہے اور اس کا سینہ اسرار الہی کا مخزن.خدا اس کو اپنے پاس سے علم دنیا ہے اور اس کے دل پر دقیق در دقیق نکات نازل کرتا ہے.بنی کے کمالات صرف پیشگوئیوں تک محدود نہیں ہوتے وہ دنیا کے سامنے انواع و اقسام کے معارف بھی پیش کرتا ہے.نبی اخلاق رذیلہ سے پاک ہوتا ہے کہ بدخو آدمی کسی کو خوش اطوار نہیں بنا سکتا.اس کے قول اور فعل میں کامل مطابقت ہوتی ہے کہ دو رنگی نبی کی شان کے شایاں نہیں.اس کو ایک محکم یقین دیا جاتا ہے کہ بغیر اس کے ہوائے نفس سے رہائی ممکن نہیں.اس پر ایک نیستی طاری کی جاتی ہے کہ خالص توحید کا یہی تقاضا ہے.اس کو ایک قوی توکل عطا کیا جاتا ہے کہ خدا کے تعلق کی یہی علامت ہے.وہ صر صر حوادث میں ثابت قدم رہتا ہے اور طوفان مخالفت میں مستقل مزاج.اگر اس کو ہاون مصائب میں ڈال کر کوٹا جائے تو اس کے اندر سے بحر محبت الہی کے اور کچھ نہیں نکلتا.اس کا بھروسہ خدا پر ہوتا ہے اور وہی اس کو ہر میدان میں فتح و کامرانی سے ہمکنار کرتا ہے.نبی امن کا شہزادہ ہوتا ہے اور ملک رُوحانی کے تخت کا دارت.اس کو خدا کی طرف سے ایک خاص رعب عطا کیا جاتا ہے اور شاہانہ استغناء اس کے چہرے سے سیکھتا ہے.وہ خدا کے
بالمقابل دنیا کو ایک مرے ہوئے کپڑے سے بھی کمتر سمجھتا ہے فقط اس قادر یگانہ کو جانتا ہے اور اسی کے خوف سے تریساں رہتا ہے نبی کے دامن سے ہی دنیا کو توحید کا آبدار موتی ملتا ہے اور اس کے ہاتھوں سے ہی لوگ معرفت کا شیریں جام لیتے ہیں یک چراغیست دریس خانه که از پر تو آس ہر کجا می نگری انجمن ساخته اند A نبی اللہ تعالیٰ کی صفات کا منظر ہوتا ہے اور اس کی معجزانہ زندگی دنیا پر ثابت کر دیتی ہے کہ واقعی خدا کی قدرتیں غیر محدود ہیں وہ دنیا کو روحانیت کی اعلیٰ اقدار سے روشناس کراتا ہے اور لوگوں کو سفلی خواہشات کی دلدل سے نکال کر عالم قدس کے اُس سدا بہا بان میں لا کھڑا کرتا ہے جس کے ہر گوشے سے رضائے الہی کے پھولوں کی مہک آتی ہے.نبی گناہ کی سنجاست سے پاک ہوتا ہے کہ گندے ہاتھوں سے میلے کپڑے صاف نہیں ہو سکتے.اس میں ایک مقناطیسی جذب ہوتا ہے جس سے سعید روحیں خود بخود اس کی طرف کھنچی چلی آتی ہیں.وہ معجزات بھی دکھاتا ہے مگر خدا کے اذن سے اس کی دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں مگر خدا کے فضل سے.اس کے زندگی بخش انفاس مردہ روحوں کے لئے مسیحائی کا کام دیتے ہیں اور اس کی روح پر و تعلیم دلوں کو اس یقین سے بھر دیتی ہے کہ واقعی انسان خیر متناہی ترقیات کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اس
۲۱ کے لئے نہ صرف اس دنیا میں ترقیات کے دروازے کھلے ہیں بلکہ عالم آخرت میں بھی ترقیات کا یہ سلسلہ جاری رہے گا.نبی لوگوں کو خدا پر ایمان لانے کی دعوت دنیا ہے اور روز است کا بھولا ہوا سبق ان کو یاد دلاتا ہے.حق یہ ہے کہ کائنات عالم میں نبی ہی ایک ایسا آئینہ ہے جس میں خالق کائنات کا روئے زیبا اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے اور انسان اس شاہد ستور کے دیدار کی اعلیٰ لذات سے شاد کام ہو سکتا ہے جس کی اہلی دل کو ہمیشہ تلاش رہتی ہے.یہی وجہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام تورات " میں فرماتے ہیں :- مراکش کہ خداوند کے سارے بندے نبی ہوتے.رگفتی ام یادر ہے کہ جسم اور روح اپنے حالات و کوائف روحانی معالج میں ایک دوسرے سے مختلف نہیں جس طرح قانون قدرت کی خلاف ورزی سے جسم بیمار ہو جاتا ہے اسی طرح قانون شریعت کی خلاف ورزی سے رواج بیمار ہو جاتی ہے اور میں طرح جسم کے بیمار ہونے سے انسان کی زبان کا ذائقہ بدل جاتا ہے اور اسے میٹھی سے سیٹھی چیز بھی کڑوی معلوم ہوتی ہے اسی طرح روح کے ہمارہ ہونے سے انسان کی فطرت صحیحہ کا توازن بگڑا جاتا ہے اور اسے نیک دید کی تمیز نہیں رہتی.سو جس طرح جسمانی امراض کے دفعیہ کے لئے جسمانی طبیبوں کی حاجت ہے اسی طرح روحانی خوارض
۲۲ کے ازالہ کے لئے روحانی معالجوں کی ضرورت ہے.انبیاء کے اوصاف انہی کی ذات خیر و برکت کا سر شمیہ ہوتی ہے اور اس کی تعلیم فلاح دارین کی ضامن جو لوگ اس کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں کامیاب ہو جاتے ہیں اور جو عمل نہیں کرتے ناکام رہتے ہیں.وہ داعی.ہادی مصلح بشیر نذیر مجھی.مزکی معلم اور امام ہوتا ہے.خدا خود اس کی رہنمائی کرتا ہے اور عالم غیب کے اسرار اُس پر کھولتا ہے.وہ بدیوں سے منزہ اور نیکیوں کا مجتمہ ہوتا ہے اور اس کی تمام زندگی طاعت خالق اور خدمت مخلوق کے لئے وقف ہوتی ہے.دعوت و تبلیغ سے اس کا مقصد کوئی دنیاوی معاوضہ شہرت.جاه طلبی جلب زر اور قیام سلطنت نہیں ہوتا بلکہ صرف احکام الی کی بجا آوری اور خلق خدا کی بہبودی اس کے پیش نظر ہوتی ہے.نبی مناسب وقت پر بھیجا جاتا انبیاء کے اغراض و مقاصد ہے اور جولوگ بیہودہ تو تبات غلط افکار اور قبیح عادات کے خار زاروں میں بھٹک رہے ہوتے ہیں ان کو گلشن عافیت سے ہمکنار کرتا ہے اور انہیں شک کی جگر یقین - جبل کی جگہ علم اور بدا طواری کی جگہ اعمال صالحہ کی پوست عطا کرتا ہے.اور اپنی روحانی تاثیرات سے ان کو عبودیت خاصہ کی اس بلندی پر پہنچا دیتا ہے جو انسانی پیدائش کی علت غائی ہے.
۲۳ نبی کی بعثت سے قبل لوگ منتشر اور پراگندہ ہوتے ہیں وہ ان کو مرکزیت سے آشنا کرتا ہے اور اپنی قوت قدسیہ سے ان میں حقیقی یگانگت اور سچی الفت پیدا کر کے ایسا خدا نما معاشرہ عالم ظہور میں لاتا ہے جس کو دیکھ کہ فرشتے بھی رشک کرتے ہیں.وجیہ کے سامنے جو لائحہ عمل نہی انبیاء کی مخالفت کی وجہ انتیش کرتا ہے وہ چونکہ افراطہ تفریط سے پاک ہوتا ہے اس لئے وہ لوگ جو بہیمانہ جذبات کے غلام ہوتے ہیں اسے اپنی طبعی آزادی کے خلاف پاکر اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے استیصال کے درپے ہو جاتے ہیں.حالانکہ انبیاء کی تعلیم کی یہ غرض نہیں ہوتی کہ انسان کے طبعی جذبات کو کچل دیا جائے بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے، کہ طبعی جذبات کو نقطہ اعتدال پر لا کر انسان کو حقیقی انسان بنایا جائے ایسا انسان جو نہ صرف با اخلاق ہو.بلکہ با خدا بھی ہو.آج دنیا میں اگر کوئی شخص انبیاء اء کی تعلیم کے اثرات اللہ تعالے کی عظمت کا قائل ہے یا اخلاقی اصولوں پر کار بند نظر آتا ہے تو یہ نبیوں کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے.امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ آج دسی لوگ ادا کر رہے ہیں جو نبیوں کے پیروکار ہیں.اور اگر ایسے
۲۴ افراد میں جو لا مذہب ہیں اوصاف حمیدہ کی کوئی جھلک نظر آتی ہے تو وہ بھی نبیوں کی تعلیم کا ہی فیض ہے.یہ الگ بات ہے کہ کوئی ان کی تعلیم سے دانستہ طور پر فیضیاب ہو رہا ہے اور کوئی نادانستہ طور پر بر کیف جو لوگ ذہنی طور پر نبیوں کے منکر ہیں وہ بھی عملی طور پر ان کی ضرورت کا اقرار کر رہے ہیں اور غیر شعوری طور پر ان کی ہدایات کو اپنائے ہوئے ہیں ہے منتہائے عقل تعلیم خداست هر صداقت را ظهور از انبیاست ر در تمین فارسی
۲۵ ختم نبوت کی حقیقت ی تنقید کی اور ان کا کہنا ہے کہ عقیدہ کی اصطلاح عملی اصلاح سے مقدم ہے.کیونکہ اس کے بغیر انسانی مساعی کا قدم صحیح جانب نہیں اٹھ سکتا.لہذا ضروری ہے کہ نبوت کی ماہیت سے آگاہ ہونے کی کوشش کی جائے اور معلوم کرنے کی کوشش کی جائے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے نبی کس کو کہتے ہیں اور نبی مبعوث کئے جانے کے اسباب کیا ہیں ؟ سے النبی کے معنے المخبر نی کے معنے اور اس کی تعریف کے جانا چاہئے کہ گوی لحاظ سو لغوی عن اللہ کے ہیں (اقرب الموارد) یعنی اللہ تعالے کی طرف سے خیر دینے والا.اور اصطلاحی لحاظ سے نبی اس برگزیدہ بندے کو کہتے ہیں جو اللہ تعالے کی طرف سے بکثرت امور غیبیہ پر مطلع کیا جائے اور اسی کی طرف سے نبی کا نام پا کر بلیغ ہدایت کے لئے مبعوث نبی پاک ہو اور وحی الہی کی رہنمائی میں لوگوں کو باطل کے اندھیرے سے نکال کر حق کی روشنی میں لائے.اس سلسلہ میں بعض اقوال ذیل میں ملاحظہ فرمائیے:.- حضرت شیخ اکبر محی الدین صاحب ابن عربی فرماتے ہیں :-
يسَتِ النُّبُوَةُ بِأَمْرِ دَائِدِ عَلَى الْأَخْبَارِ الالي " فتوحات مکیہ جلد ۲ ص ) یعنی نبوت اخبار الہی سے بڑھ کر کچھ نہیں.- حضرت امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: لَيْسَ مِنْ شَرْطِ الرَّسُولِ أَنْ يَأْتِيَ بِالشَّرِيعَةِ (كتاب النبوة) یعنی رسول کے لئے یہ شرط نہیں کہ وہ ضرور شریعت لائے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں :- نبی کے معنے صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر یا نیوالا ہو اور شرف مکالمہ مخاطبہ سے مشرف ہو.شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں.ضمیمہ براہین احمدیہ حد اللہ تعالے قرآن مجید میں فرماتا ہے :- وَ مَا كَانَ اللهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلكِنَّ الله يَجْتَبِي مِنْ رُّسُلِهِ مَنْ يَشَاؤُمَ ر آل عمران آیت (۱۸) یعنی اللہ تعالیٰ تم میں سے ہر ایک کو غیب پر مطلع نہیں کر سکتا مگر ہاں وہ اس امر کے لئے اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے.ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
علِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدَاهُ اِلَّا مَنِ ارْتَضى مِنْ رَسُولٍ - رحن آیت ۲۷-۲۸) یعنی غیب کا جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو بکثرت مطلع نہیں کرتا سوائے اپنے برگزیند رسول ہے.نبوت کی اقسام ایا درہے کہ قرآن مجید سے تین قسم کی نبوت ثابت ہے.اوّل تشریعی ،.جو شریعت پر مشتمل ہوتی ہے.جیسے کہ موسیٰ علیہ السلام کی نبوت تھی کہ جن پر تورات کی صورت میں شریعت نازل ہوئی یا جس طرح کہ ہمارے آقا سید نا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تھی کہ جن پر قرآن مجید کی شکل میں دائمی شریعت کا نزول ہوا.دو هر غیر تشریعی مگر مستقل نبوت.جو شریعت کے بغیر " ہوتی ہے مگر براہِ راست خدا سے ملتی ہے.جیسا کہ موسی علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل میں آنے والے نبیوں کی نبوت تھی.یہ نبی او کوئی نئی شریعیت نہیں لائے تھے.بلکہ موسوی شریعیت کے معادن تھے لیکن ان کی نبوت میں موسی علیہ السلام کی فیض رسانی کا کوئی دخل نہ تھا.بلکہ انہوں نے خدا سے براہ راست نبوت کا انعام پایا تھا.
۲۸ سوهر غیر تشریعی غیر مستقل نبوت.یہ نبوت نه توشی شرعیت پر مشتمل ہوتی ہے اور نہ ہی خدا سے براہِ راست ملتی ہے.بلکہ یہ محض اتباع نبوی سے مشروط ہے.نبوت کی یہ قسم جس کو ختی نبوت بھی کہتے ہیں.اور جس کا حامل اتنی نہی کہلاتا ہے ہمارے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ظهور میں آئی ہے.کیونکہ آپ سے پہلے نہ تو کسی نبی کو خاتم النبین کا بلت منصب ملا اور نہ ہی کسی کے دین کو ایسا کمال حاصل ہوا کہ اس کی پیروی کمالات نبوت بخش سکتی.پس امتی نہی ایک نئی اصطلاح ہے جو خاتم النبیین کی نئی اصطلاح سے معرض ظہور میں آئی ہے.یادر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کونسی نبوت بند ہے؟ کے بعد ہم دو قسم کی نبوتوں کو بند مانتے ہیں.ایک تشریعی نبوت اور دوسرے غیر تشریعی مگر مستقل نبوت - تشریعی نبوت کا بند مانتا آیت کریمہ: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (مائدہ آیت (۴) اور آیت کریمیہ :- إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَأَنَا لَه لمنطوق (ممرات کے اقتضاء سے ہے کیونکہ آیت کریمه الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دین گھر میں دین کے اکمال کا اعلان ہے اور آیت کریمہ انا
۲۹ نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ میں اس کی حفاظت کا وعدہ ہے اور جب دین مکمل ہو جانے کے بعد محفوظ بھی ہو گیا تو نئے دین کی ضرورت بھی نہ رہی کیونکہ یہ امر اس کے دائمی ہونے پر دال ہے اور نئے دین کی ضرورت اس وقت پیش آیا کرتی ہے جب گذشتہ دین ناقص و نا مکمل ہو یا غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے محترف و مبدل ہو چکا ہو.قرآنی شریعت چونکہ مکمل بھی ہے اور محفوظ بھی ہے اس لئے تشریعی نبی کی ضرورت بھی نہ رہی.دوسری قم کی نبوت سے ہم بند مانتے ہی وہ غیر تشریعی استقل نبوت ہے اور اسکا بندر ماننا آیت کریمہ :.ومَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَا وليكَ مَعَ الَّذِينَ العَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّنَ وَالصَّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ رنساء آیت ) کے اقتضاء سے ہے.اور اس آیت میں آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی اطا کی شرط پیش کر کے اس امر کی تحدید کر دی گئی ہے کہ اب اس شخص کو ہی نبوت کا انعام حاصل ہو سکتا ہے جو آپ کے حلقہ اطاعت میں داخل ہو وہیں.یوں مستقل نبوت کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے.اور اب کسی کو براہ راست نبوت کا انعام حاصل نہیں ہو سکتا.تیسری قسم کی نبوت کو جو غیر تشریعی غیر مستقل نبوت ہے ہم بند ہیں مانتے کیونکہ اگر وہ بند ہوتی تو آیت کریمہ وَمَنْ يُطِعِ الله
ܚܕ والرسول میں جو انعامات آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے وابستہ کئے گئے ہیں ان کے ساتھ نبوت کے انعام کا ذکر نہ کیا جاتا بلکہ جس طرح ایت کہ یمیر :- وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرَسُلِةٍ أُولئِكَ همُ الصّديقُونَ وَالشُّهَدَاء عِندَ رَبِّهِمْ حدید آیت ۲۰) میں دوسرے نبیوں پر ایمان لانے کا نتیجہ زیادہ سے زیادہ صدیقیت بیان کیا گیا ہے.آیت کریمہ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَاوَليكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِينَ والصديقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ ر نساء آیت ۷۰) میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نتیجہ بھی صدیقیت تک ہی محدود رکھا جاتا.لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ آپ کی اطلاعات کا نتیجہ صالحیت - شہید یت اور صدیقیت کے علاوہ نبوت بھی بیان کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا رتبہ دوسرے تمام انبیاء کی اطاعت کے رتبہ سے فائق ہے اور آپ کی اطاعت سے وہ انعام بھی حاصل ہو سکتا ہے جو دوسرے انبیاء کی اطاعت سے حاصل نہیں ہوتا تھا اور یہ ایسی
فضیلت ہے جس میں آپ منفرد ہیں کیونکہ آپ ہی نے زمرہ انبیاء میں خاتم النبتین کا لقب پایا ہے.بعض دیوبندی علماء سے گفتگو ا عرصہ ہوا ایک رند محمد حدیہ لاہور میں بعض دیوبندی.علماء تشریف لائے اور آتے ہی کہنے لگے ہم آپ سے ختم نبوت کے متعلق گفتگو کرنا چاہتے ہیں.میں نے عرض کیا بڑی خوشی ہے.چنانچہ ان میں سے ایک صاحب بولے کہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا ہے کیونکہ آپ خاتم النبین ہیں اور آپ نے سب نبیوں کو ختم کر دیا ہے میں نے عرض کیا.کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت خاتم النبتن کن نبیوں کو ختم کیا ہے ؟ آیا پہلوں کو یا پچھلوں کو ؟ اگر پہلوں کو ختم کیا ہے تو یہ آپ لوگوں کے اعتقاد کے خلاف ہے کیونکہ آپ حضرات سیج اسرائیلی کی نسبت اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر پہلے نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ مسیح اسرائیلی ختم نہیں ہوئے؟ اور اگر پچھلوں کو ختم کرنے والے ہیں تو بھی بات نہیں بنتی.کیونکہ آپ لوگوں کا اعتقاد ہے کہ مسیح اسرائیلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوبارہ آخری زمانہ میں بھی آئیں گے.پس دونوں صورتوں میں خاتم النبیین کے متعلق آپ لوگوں کا نظریہ درست
ثابت نہیں ہوتا کیونکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت ذہلے نیوں کو ختم کرتی ہے اور نہ ہی پچھلے نبیوں کو.اور مسیح اسرائیلی پہلوں میں بھی داخل ہیں.اور پچھلوں میں بھی.اب خود ہی بتائیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت خاتم النبیین اگر سب نبیوں کو ختم کر دیا ہے تو سیکس صورت میں ہے ؟ اس پر مولوی صفات جھنجلا کر بولے.کیا آپ لوگ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے ؟ میں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں جانتے ہیں اور صمیم قلب سے مانتے ہیں لیکن آپ لوگوں کی طرح نہیں کہ جی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبین ہونا بالکل بے بنے ہو کر رہ جاتا ہے ہم تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین ان معنوں میں جانتے ہیں کہ آپ سے پہلے زمانہ کا ہر نبی ایک پھول کی طرح تھا اور آپ ان پھولوں کے گلدستہ کی شکل میں ظاہر ہوئے ہیں اور آپ نہ صرف جامع کمالات انبیاء ہیں بلکہ خاتم کمالات انبیاء بھی ہیں.جیسا کہ مولنا روم فرماتے ہیں ہے تهر این خاتم شد است او که بخود مثل اوئے بو دئے خواہت ربود (مثنوی دفتر ششم یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وجہ سے خاتم النبین ہیں کہ فیض رسانی میں آپ کی شان کا رسول نہ تو کوئی
۳۲ پہلے ہوا ہے اور نہ آئندہ ہو گا.اس پہ مولوی صاحب فرمانے لگے پھر تو آپ لوگ ختم نبوت کے منکر ہوتے کیونکہ آپ نبوت کو بند نہیں سمجھتے.میں نے جوابا عرض کیا کہ نبوت تو نہ کبھی بند ہوتی ہے اور نہ کبھی بند ہوگی اور نہ کبھی دنیا نبوت سے خالی رہ سکتی ہے.ابتداء میں آدم علیہ السلام کی نبوت کا ظہور ہوا اس کو ختم ہونا ہی تھا کہ نوح علیہ السلام کی نبوت شروع ہوگئی اور پھر ابراہیم علیہ السلام کی اور پھر موسیٰ علیہ السلام کی اور پھر عیسی علیہ السلام کی اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی.اور آپؐ کی نبوت کے متعلق امت مسلمہ کا اعتقاد ہے کہ وہ قیامت تک کے لئے ہے پس اگر قیامت تک کے لوگوں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی ہیں اور آپ کی تشریعی نبوت ان سب کے لئے کفایت کرنے والی ہے تو وہ قیادت سے پہلے ختم نہیں ہو سکتی.اب آپ ہی بتائیں کہ نبوت ختم ہوئی تو کیونکر؟ یہ سنتے ہی مولوی صاحبان کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے اگر یال کی کھال اتارنا آتی ہے تو احمدیوں کو.اور وہاں سے تشریف لے گئے.اس میں کوئی شبہ نہیں ختم نبوت کو ہی وجہ نزارع بنارکھا ہے لیکن اس مسئلہ میں بھی کئی پہلوؤں پر ہمارا اور ان کا اتفاق ہے.مثلاً وہ یہ مانتے ہیں.کہ
آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے اور ہم بھی یہی مانتے ہیں.پھر وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو نئی شریعت لانے کا دعویدار ہو.اور ہم بھی یہی ؟ ی عقیده رکھتے ہیں.پھر وہ اس بات کے قائل ہیں کہ آنیوالا مسیح موعود شریعت محمدیہ کا تابع ہوگا نہ کہ شریعت محمدیہ کا ناسخ.اور ہم بھی اسی بات کے قائل ہیں.پھر وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ آنیوالا مسیح موجود نبی اللہ ہوگا اور ہمارا بھی یہی اعتقاد ہے.ہاں فرق ہے تو یہ کہ ہمارے مخالف علماء مسیح موعود سے مراد مسیح اسرائیلی لیتے ہیں اور ہم میسج موفود سے مراد یہ محمدی لیتے ہیں.لیکن چونکہ قرآن حدیث اور تاریخ سے یہ امر بالبداہت ثابت ہے کہ مسیح اسرائیلی وفات پاچکے ہیں اور فوت شدہ نبی دوبارہ دنیا میں نہیں آسکتا اس لئے لا محالہ یہی ماننا پڑے گا کہ آنے والا مسیح موعود اسی امت میں سے پیدا ہو گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ہی منصب نبوت پائے گا.الغرض علماء اگر خاتم النبیین کا مفہوم نبوت مطلقہ کی یعنی کی صورت میں میں تو اپنے عقیدہ کو خود باطل کرنے والے ٹھر ینگے کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا تو اس سے ایک طرف ان کا یہ عقیدہ
۳۵ ' باطل ٹھہرتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد مسیح موعود آئے گا جسے صحیح مسلم میں نبی اللہ قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف یہ اعتراض بھی وارد ہوتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبین ہونا سچے نبیوں کو تو راست میں آنے سے روکتا ہے لیکن جھوٹے نبیوں کو نہیں روکتا.کیونکہ حدیث میں آپ کے بعد میں جھوٹے نبیوں کا آنا بھی مروی ہے جو امت مسلمہ کے علاوہ دوسری امتوں کو بھی گمراہ کریں گے.اب غور طلب امر یہ ہے کہ کیا اس اعتقاد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبین ہونا محل مدح پر ثابت ہوتا ہے یا محل ذم بچہ ؟ إنه سيكون فِي أُمَّتِي ثَلَا تُونَ كَذَّابُونَ كُلُّهُمْ يوعَمُ النَّه نَبي (صحیح بخاری) یقیناً عنقریب میری امت میں نہیں کذاب ہوں گے.ہر ایکہ ان میں سے نبی ہونے کا دعوی کرے گا.d
۳۶ ختم نبوت اور اقامت والا بوتية اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حدیث کی کتابوں میں لا نبی بحری کے الفاظ بھی آئے ہیں لیکن ان کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کسی قسم کا نبی نہیں آئے گا.بلکہ ان سے یہ مراد ہے کہ آپ کے بعد شریعت والا نہی کوئی نہیں آئے گا یا ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کی شرعیت کو منسوخ کرے.بہر کیف اس حدیث سے ہر قسم کی نبوت کا انقطاع ثابت نہیں ورنہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے میسج کو نبی اللہ قرار نہ دیتے (صحیح مسلم) اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہ نہ فرمائیں : اے لوگو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین تو کہا کہ ولیکن یہ کبھی نہ کہنا کہ اپ کے بعد کسی قسم کا نبی نہ ہوگا.(تکملہ مجمع البحار ضة) یادر ہے کہ حضرت عائشہ " کا یہ قول قولواهُ خَالَمَ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لَا نبي بعده - تتك مجمع البحار منه ) تم نبوت کے سلسلہ میں ایک فیصلہ کن قول ہے اور اس سے دو باتیں
۳۷ بالکل واضح ہو جاتی ہیں.ایک یہ کہ خاتم النبیین کے الفاظ کو لانی بعد کے معنوں میں سمجھنا درست نہیں.اور دوسرے یہ کہ حضرت عائشہ کے نزدیک لانبی بعدی کا فقرہ بنی کی جنس کی نفی کے لئے نہیں بلکہ نبی کی جنس سے بعض نوع کی نفی کے لئے ہے یعنی تشریعی نبی اور مستقل نبی کے لئے.اور جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی اطات سے بنی ہو کر آنے والا ہو اور آپ کا اتنی ہو اس کے آنے میں یہ فقرہ مانع نہیں اور نہ ہی اس قسم کا نبی لانبی بعدی کے حکم کے نیچے ہے.اور اگر اس نفی سے مطلق نفی مراد ہوتی تو حضرت عائشہ ہرگز یہ نہ فرمائیں :- لا نبي بعدها مت کہو.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فرزند ابراہیم کی وفات پر قطعاً یہ ارشاد نہ فرماتے کہ لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا - ر این ماجه جلد احته ۲۳ مطبوعه مصر) یعنی اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور نبی ہوتا.اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ لا نبی بعدی سے مراد ترسیم کی نفی نہیں کیونکہ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زند رہتا تو بھی نبی نہ ہوتا بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اگر وہ زندہ رہنا تو ضرور نبی ہوتا جس سے صاف ظاہر ہے کہ ابراہیم کے نبی ہونے ہیں حدیث
۳۸ لا نبی بعدی اور آیت خاتم الفین وک تھی بلکہ اسکی وفات روس تھی.علاوہ ازیں اس سلسلہ میں آنے والے مسیح کے متعلق یہ حدیث ليْسَ بَيْنِي وَبَيْنَه نبی (بخاری.ابو داؤد - طبرانی) بھی خاص اہمیت کی حامل ہے اور اس سے تین باتیں بالکل واضح ہو جاتی ہیں.اول یہ کہ آنے والا سیح بہر حال نبی ہوگا.دوم یہ کہ حدیث لا نبی بعدی میں جو نبی کی نفی کی گئی ہے اس کا تعلق آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود کے درمیانی زمانہ سے ہے.سوھر اس سے حدیث اللهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلاثُونَ كَذَّابُونَ (بخاری) کا زمانہ بھی متعین ہو جاتا ہے کہ یہ تیس کذاب در اصل آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد اور مسیح موجود سے پہلے پیدا ہو نیوالے تھے.اور انہوں نے اس درمیانی زمانہ میں نبوت کا دعوی کرنا تھا.گویا حدیث ليس بينِي وَبَيْنَهُ نَبیؐ کا دوسرے الفاظ میں یہ مطلب ہوا کہ اگر کوئی شخص آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود کے درمیانی زمانہ میں نبی ہونے کا دعوی کرے گا تو وہ سچا نبی نہ ہوگا بلکہ حدیث ثلاثونَ كَذَّابُونَ کی رُو سے کذاب ہو گا.چنانچہ تیس کی حد بندی بھی صاف بتا رہی ہے.کہ
۳۹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب مدعیان نبوت کذاب نہیں ہوں گے.بلکہ بعض صادق بھی ہوں گے اور اگر سب کے سب کذاب ہونے تھے تو آپ یہ فرماتے کہ میری امت میں جو بھی مدعی نبوت کھڑا ہوگا وہ کذاب ہوگا.۱۰۳۵ اسی طرح ختم نبوت کے سلسلہ میں ایک حدیث ہے.لم يبقَ مِنَ النَّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ الجاري من بھی پیش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس سے ثابت ہے کہ آئندہ کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا.سو یا د رکھنا چاہیے کہ یہ ایک جامع حدیث ہے اور ماضی حال اور مستقبل تینوں زبانوں سے تعلق رکھتی ہے چنانچہ لم يبق جو ماضی کا صیغہ ہے اگر اس کو سابقہ ہوتوں کے متعلق سمجھا جائے اور النبوة کا الف ولام سابقہ نبوت کے لئے استغراق کا فائدہ دینے والا قرار دیا جائے تو اس صورت ہیں حدیث کا یہ مطلب ہوگا کہ تمام سابقہ شرائع محترف و مبدل ہو جاتے کی وجہ سے مفشوخ ہو گئی ہیں اور انکا دور ختم ہو گیا ہے سوائے مبشرات کے حصہ کے کہ جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود کے بارے میں پیش گوئیاں پائی جاتی ہیں.اور اگر اس حدیث کو زمانہ حال سے متعلق سمجھا جائے اور النبوة سے مراد صرف آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میری نبوت کا وہ حصہ جو احکام یعنی انواع نبوت میں سے صرف مبشرات کی نوع باقی ہے.
شریعت کی تعلیم سے تعلق رکھتا ہے بنا دیا گیا ہے لیکن میری نبوت کا وہ حصہ جو بعشرات پر مشتمل ہے اور جس کا دامن قیامت تک وسیع ہے اس کا ظہور ابھی باقی ہے.اور اگر یہ حدیث زمانہ مستقبل کے متعلق سمجھی جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ شریعت مکمل ہو جانے کی وجہ سے آئندہ ایسی دھی تو نہیں آ سکتی جو احکام شریعت پر مشتمل ہو.البتہ ایسی وحی آسکتی ہے جو بشارات پرمشتمل ہو یعنی دین کے مکمل ہو جانے سے آئندہ کے لئے تشریعی اور مان نبوت کا دروازہ تو بند ہو چکا ہے لیکن غیر تشریعی اور غیر مستقلہ نیت کا دروازہ کھلا ہے تاکہ ہر زمانہ میں اللہ تعالے کی صفتِ کلام کا ظور ہوتا ہے اور آنحضرت کی قوت قدسیہ کا ثبوت ملتا رہے.اور کے امکان نبوت کے سلسلہ میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ :- ابو بكر أفضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا أَن يَكُونَ نبيه ر گنوز الحقائق حت بحواله دیلمی ) یعنی ابو بکر میرے بعد سب لوگوں سے افضل ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی ہو اس صورت میں وہ نبی افضل ہوگا.دنیز الجامع الصغير صلا حوالہ طبرانی ، کنز العمال جلد ۲ ص ۱۳ تاريخ الخلفاء للسيوطي ص۳) ر
الم روحانی ارتقاء کا سلسلہ منقطع نہ ہونے پائے.بہر کیف اس حدیث سے مطلق نبوت کا انقطاع ثابت نہیں ہوتا کیونکہ قرآن مجید میں مبشرات کی کثرت کو ہی نبوت کا نام دیا گیا ہے رو یکھئے سوره جن آیت ستائیں اور اٹھائیس اور مبشرات کا دروازہ یہ حدیث بھی کھلا قرانہ دیتی ہے.اسی طرح انقطاع نبوت کے سلسلہ میں حدیث آنا اخر الانبياء بھی پیش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا چنانچہ ایک دفعہ بعض علماء نے مجھے بھی کہا کہ جب حدیث :- انا أخر الأَنْبِيَاءِ وَمَسْجِدِى هَذَا أَخِرُ الْمَسَاجِدِ (صحیح مسلم) سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں تو پھر آپ لوگ کیوں امکان نبوت کے قائل ہیں ؟ میں نے جوا با عرض کیا کہ آخری کا مفہوم ساتھ کے جملہ وَمَسْجِدِى هَذَا أَخِرُ الْمَسَاجِدِ سے واضح ہے.اب آپ ہی بتائیں کہ جب آنحضرت کی مسجد کے بعد اس وقت تک لاکھوں مسجدیں بن چکی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے تو آپ کی مسجد آخری کیونکر ہوئی ؟ فرمانے لگے کہ آنحضر کی مسجد کے بعد عینی مسجدیں بنی ہیں وہ چونکہ آنحضرت کی مسجد کی ہی تابع اور فل ہیں اور اسی کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے کے یعنی یکیں آخری بنی ہوں اور میری یہ مسجد آخری مسجد ہے."
نونم بنائی گئی ہیں اس لئے وہ آنحضرت کی مسجد کے آخری ہونے میں مزاحم نہیں ہو سکتیں.میں نے عرض کیا کہ اسی طرح اور بالکل اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے نبی جو آپ کے تابع اور طل ہوں گے اور آپ کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کیا ہی آئیں گے وہ آپ کے آخری نبی ہونے میں مزاحم نہیں ہو سکتے -- الغرض جس طرح آخری مسجد کے یہ معنے نہیں کہ آئندہ دنیا میں کوئی اور مسجد بنے گی ہی نہیں بلکہ یہ معنے ہیں کہ میری مسجد کے مقابل پر کوئی مسجد نہیں بنے گی.اگر بنے گی تو میری مسجد کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ہی بنے گی اور اس کی تابع اور طل ہوگی.اسی طرح آخری نبی کے بھی یہ معنے نہیں کہ آئندہ دنیا میں کوئی نبی آئیگا ہی نہیں بلکہ یہ معنے ہیں کہ اب میرے مقابل پر کوئی نبی نہیں آئے گا اگر آئیگا تو میرے دین کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ہی آئے گا.اور میرا تابع اور خل ہوگا.علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ محاورہ میں آخری کے معنے ایسے شخص کے بھی ہیں جو کسی فن یا کسی وصف میں انتہائی کمال پہنچ چکا ہو.تو بی نظم و نثر میں اس کی مثالیں بکثرت پائی جاتی چنانچہ ایک شاعر اپنے ممدوح کی شان میں کہتا ہے ہے شَرَى وَدَى وَشُكرِى مِنْ بَعِيدٍ لأَخِرِ غَالِبِ اَبَدًا رَبِيعَ (حاسه باب الادب)
۴۳ ترجمه در ربیع ابن زیاد نے میری دوستی اور شکر دور بیٹھے ایسے شخص کے لئے جو بنی غالب میں آخری یعنی ہمیشہ کے لئے عدیم المثل ہے خرید لیا ہے " یادر ہے کہ یہ ترجمہ مولنا ذو الفقار علی صاحب دیوبندی شارح حماسہ کے قلم سے ہے.اور مولنا موصوف نے یہاں آخری کے معنے عدیم المثل کے ہی کئے ہیں اور اس میں کیا شک ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کمالات نبوت میں عدیم المثل ہی ہیں.اسی طرح اُردو زبان میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے علامہ اقبال اپنے اُستاد و آغ دہلوی کے مرثیہ میں کہتے ہیں نے چل بسا د آغ آہ میت اس کی زیب دوسش ہے آخری شاعر یہاں آباد کا خاموش ہے ہے.ظاہر ہے کہ یہاں آخری شاعر کے الفاظ زمانی لحاظ سے استعمال نہیں کئے گئے کیونکہ داغ کی وفات کے وقت بھی دہلی کے متعدد شعراء نہ ندہ تھے.اور ان کی وفات کے بعد بھی دہلی میں کئی شاعر پیدا ہو چکے ہیں.بلکہ رشی لحاظ سے استعمال کئے گئے ہیں اور ان کا مطلب یہ ہے کہ دہلی کی ٹکسالی زبان میں شعر کہنے والا چوٹی کا شاعر فوت ہو گیا ہے.پس ان معنوں کی رو سے حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کمالات روحانی کے لحاظ سے تمام انبیاء میں چوٹی کے نبی ہیں اور آپ کی مسجد برکات سماوی کے لحاظ
۴۴ سے تمام مساجد میں چوٹی کی مسجد ہے.یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کیا حدیثیوں میں تضاد ہے؟ اگر یا حدیثوں میں تضاد ہے ؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک بعض روایات سے بادی النظر میں نبوت کا انقطاع ثابت ہوتا ہے اور بعض سے نبوت کا امکان لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حدیوں میں کوئی حقیقی تضاد نہیں وجہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں یہ فرمایا ہے کہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا.وہاں آپ کی مراد یہ ہے کہ میں تشریعی نبیوں میں سے آخری نبی ہوں اور میرے بعد سریعیت لانے والا نبی کوئی نہیں ہوگا اور جہاں آپ نے یہ فرمایا ہے کہ میرے بعد نبی آسکتا ہے اور آنے والا نسیح موعود نبی اللہ ہوگا.وہاں آپ کا یہ مطلب ہے کہ بغیر شریعیت کے نبی آسکتا ہے لیکن وہی جس کے اعمال پر میری اتباع کی مہر ہو اور جس نے میرے نور سے نور لیا ہو اور جو میری امت میں سے ہو.اندریں حضورت ہم کہہ سکتے ہیں کہ احادیث نبویہ میں کوئی حقیقی تضاد نہیں ہے.
۴۵ ختم نبوت اور قرآن کریم قرآن کریم میں آتا ہے :- ا خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ (بقره آیت ۲۸ الْيَوْمَ نَحْمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِمُنَا ايديهم - دیس آیت ۶۶ ) -٣ ختَامُهُ مِشك- مطففين) مندرجہ بالا آیات سے ختم کے مشتقات پیش کر کے بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ ان آیات میں ختم اور تختم اور ختام کے الفاظ چونکہ مہر کے معنوں میں آتے ہیں اور شہر سے عرض کسی چیز کا بند کرنا ہوتی ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حنا تم النبین یعنی نبیوں کی مہر ہونا نبیوں کے بند کرنے کے معنوں میں ہے.سو اس کے متعلق یا د رکھنا چاہیئے کہ آیت حکم اللہ علی قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ (بقرہ آیت ہی میں جن لوگوں کا ذکر ہے اور جن کے دلوں اور کانوں پر مہر لگائی گئی وہ تو کافر تھے اور اگر مہر کا کام کسی چیز کو بند کرنا ہی ہے تو چاہئیے تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے کا فرختم ہو جاتے
اور اس کے بعد کفر کا ظہور رک جاتا.لیکن عجیب بات ہے کہ با وجود مهر لگائے جانے کے کافروں کا سلسلہ برابر جاری ہے اور نمرود اور فرعون کے مثیل آئے دن پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن اس کے بالمقابل محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے نتیجہ میں نہ ابراہیم علیہ السلام کا مثیل پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی موسیٰ علیہ السلام کا.آخر مہر کی تاثیر میں یہ اختلاف کیوں ؟ دوسرے اگر ختم کے معنے گلی طور پر بند کرنا ہی ہیں تو پھرس کا نتیجہ کم سے کم یہ تو ہونا چاہیئے تھا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے کا فرنہ کوئی بات سن سکتے اور نہ ہی کوئی بات ان کے دل کے اندر داخل ہو سکتی.لیکن اس امر کی تصدیق واقعات نہیں کرتے کیونکہ وہ باتیں سکتے بھی تھے اور باتیں ان کے دل کے اندر داخل بھی ہوتی تھیں.پس ختم کے معنے کلی طور پر بند کرتا نہیں ہو سکتے بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ اللہ تعالے نے کافروں کے دلوں پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ واقعی ان کے دلوں میں کفر بھرا ہوا ہے اور ایسے ہٹ تھرم ہیں کہ صداقت کھل جانے کے باوجود وہ خدا اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ مہر کا کام تصدیق ہی ہے.ایک مولوی صاح سے گفتگو عرصہ ہوا کہ ایک مولوی جات نے میرے ساتھ ختم نبوت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
بحیثیت خاتم النبیین چونکہ نبیوں کی مہر ہیں اور شہر کا کام کسی چیز کو بند کرنا ہوتا ہے اس لئے آپ کے خاتم النبین ہونے کی وجہ سے نبی بند ہو گئے ہیں جیسا کہ آیت اليَومَ نَحْم عَلَى اقوا هم ا تُكَتِنَا ايْدِ یھم میں بھی تصریح ہے کہ قیامت کے دن مجرموں کے منہ پر مہر لگنے سے ان کے منہ بند ہو جائیں گے اور وہ کلام نہیں کرسکیں گے.میں نے جوا با عرض کیا کہ منہ بند کرنے کی مہر مجرموں کیلئے ہوگی غیر مجرموں کے لئے تو نہ ہوگی ؟ فرمانے لگے ہاں مجرموں کیلئے ہوگی میں نے عرض کیا کہ مجرموں کا بھی اس مہر سے مینہ ہی بند ہو ا کلام تو بند نہ ہو ا کیونکہ ساتھ ہی تصریح ہے کہ دنگل منا آید بھم یعنی منہ کی جگہ ان کے ہاتھ باتیں کریں گے.پس کلام تو پھر بھی بند نہ ہوا.ہاں اس کا ایک آلہ بند کر تے دوسری چیز کو آلہ بنا دیا یا.سو ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ مطلق نبوت بند نہیں ہوئی بلکہ مستقل نبوت بند ہوئی ہے اور مستقل نبوت کا دروازہ بند کر کے اس کی جگہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے ملنے والی تابع نبوت کا دروازہ کھول دیا گیا ہے.ہاں مجرموں کے لئے ان کی کج فہمی کی وجہ سے بند ہو تو ہو.اس پر مولوی صاحب کہنے لگے کہ قرآن کریم میں ختامه منائی بھی آیا ہے کہ جنتی لوگوں کو جو شراب پلائی جائے گی
۴۸ اس پر شک کی مہر ہوگی.گویا اس شہر سے شراب کے برتنوں کا منہ بند ہوگا.میں نے عرض کیا کہ اگر اس مہر کا مقصد برتن کا منہ بند رکھنا ہی ہے تو جنتی لوگ شراب پئیں گے کس طرح ؟ اور اگر یہیں گے تو ضرور ہے کہ شہر ٹوٹے اور برتن کا منہ کھلے.پس معلوم ہوا کہ مہر کی غرض یہاں دائمی طور پر منہ بند رکھنا نہیں بلکہ وہ شراب کی حفاظت اور اس کی نوعیت کے لحاظ سے بطورہ نشان کے ہے.اس پر مولوی صاحب فرمانے لگے.خواہ کچھ بھی ہو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا.اور یہی خاتم النبیین کے اصل معنے ہیں.اور پھر قرآن کریم میں آپ کو سراج منیر بھی کہا گیا ہے.پس سورج کے ہوتے ہوئے کسی چاند کی کیا ضرورت ہے ؟ میں نے جوابا عرض کیا کہ اگر خاتم النبیین کے یہ معنے ہیں کہ آپ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا تو پھر آپ لوگ عیسی علیہ سلا کی آمد کے کیوں منتظر ہیں ؟ اگر عیسیٰ علیہ السلام آگئے تو کیا ختم نبوت باطل نہ ہو گی ؟ کیونکہ نبی نبوت سے تو معزول نہیں ہو سکتا.جیسا کہ اہل اسلام کا مستہ عقیدہ ہے ہے وَإِنَّ الْأَنْبِيَاء لَفِي آمَانِ مِنَ الْعِصْيَانِ عَمَدَا وَ انْحِزَال (بدء الامالی) لے یعنی انبیاء نہ گناہ کے مرتکب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی نبوت سے معزول ہو سکتے ہیں.
۴۹ پس جب عیسی علیہ السلام آئیں گے تو بحیثیت نبی ہی آئیں گے.اور یہ کہنا کہ وہ نبی تو ہوں گے مگر کام نبوت کا نہیں کرینگے اور بھی مضحکہ خیز بات ہے کہ اللہ تعالے ایک نبی تو بھیجے مگر اس سے نبوت کا کام نہ لے ! کیا یہ امر ایک علیم و حکیم مستی کی شان کے شایاں ہے کہ وہ ایسے کام کے لئے ایک جلیل القدر نبی کو مبعوث کرے جو منصب نبوت سے تعلق نہیں رکھتا ؟ اور کیا اس سے عیسی علیہ سلام کی عزت اور خدا کی حکمت پر حرف نہیں آتا ؟ باقی رہا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا سراج منیر ہونا تو اس کے متعلق عرض ہے کہ اگر آپ کے بعد عالم اسلام پر رات کی تاریکی نہیں کچھ اسکتی تو بے شک کسی چاند کی ضرورت نہیں لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے :- ياتي عَلَى النَّاسِ زَمَانُ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلا اسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرَانِ إِلَّا رَسْمُةَ مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٍ مِّنَ الهُدى عَلَمَاؤُهُمْ شَرَّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ - (مشكوة كتاب العلم من ٣ ) معنی میری امت پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ نامہ کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا.اور الفاظ کے سو اقرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا.اس زمانہ کے لوگوں کی مسجدیں
۵۰ بظاہر تو آبا د نظر آئیں گی مگر ہدایت سے خالی ہوں گی.ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہونگے.گونه تو اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں چاند کے نمودار ہونے پر اعتراض کیسا ؟ اگر سراج منیر کا یہی مطلب ہوتا جو آپ بیان کر رہے ہیں تو امت مسلمہ اس طرح تنزل کا شکار نہ ہوتی اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پیش گوئی ہرگز نہ فرماتے کہ حمایت اسلام کے لئے ایک سیح آئے گا جو نبی اللہ ہوگا (صحیح مسلم، اور پھر یہ سوا اور پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ علماء اور فقہاء جو محض چراغ کی حیثیت رکھتے ہیں یا خلفائے راشدین اور مجددین اور محدثین کی سورج کی موجودگی میں کیا ضرورت ہے ؟ آخر دن کی روشنی میں تو چراغ روشن نہیں کئے جاتے ! لیکن عجیب بات ہے کہ سورج کے ہوتے ہوئے ان چراغوں کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور ان سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے.پس سراج منیر کا وہ مطلب نہیں جو آپ لوگ سمجھ رہے ہیں بلکہ مطلب ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہینگے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے نور لے کر باطل کی ظلمت کو دور کریں گے جیسے چاند سورج سے روشنی لے کر دنیا کے اندھیرے کو دور کرتا ہے ہے وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ شَمْسُ مُنيرة وَبَعْدَ رَسُولِ اللهِ بَدْرُ وكوكب
اس پر مولوی صاحب کہنے لگے کہ اگر آپ لوگ اسلام کو کامل دین مانتے تو آپ امکان نبوت کے ہرگز قائل نہ ہوتے ہیں نے عرض کیا کہ مانتے ہیں اور صمیم قلب سے مانتے ہیں.فرمانے لگے.کیا یہی دین قیامت تک نہیں رہے گا ؟ میں نے عرض کیا کہ بے شک یہی دین قیامت تک رہے گا.کہنے لگے پھر نبی کے آنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے جو ابا عرض کیا کہ نبی نیا دین لے کر یہی نہیں آیا کرتے بلکہ گذشتہ دین کی اعانت اور لوگوں کی اصلاح کے لئے بھی موت ہوا کرتے ہیں جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد آنیوالے نہی کوئی نیا دین لے کر نہیں آئے تھے بلکہ موسوی دین کی اعانت اور بنی اسرائیل کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے تھے.اور حدیث میں بھی آتا ہے کہ دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نہبی گزرے ہیں جن میں سے شریعت لانے والے رسول صرف تین سو پندرہ تھے.د مستند احمد بن خلیل مشکوة - مرقاة جلد پنجم م۳۵) الغرض انبیاء میں زیادہ تعداد ایسے نبیوں کی ہی ہے جو کوئی نئی شریعت نہیں لائے بلکہ سابقہ شریعیت کے ذریعہ سے ہی اصلاح کا فریضہ سر انجام دیتے رہے ہیں.پس یہ خیال صحیح نہیں کہ دین اسلام چونکہ قیامت تک کے لئے ہے اس لئے کوئی نبی نہیں آسکتا.قرآن کریم سے صاف ثابت ہے کہ دین گو کامل اور محفوظ بھی ہولیکن امت کے لوگ اگر محفوظ نہ ہوں اور باہمی اختلافات کی وجہ سے
۵۲ فرقہ فرقہ ہو چکے ہوں تو اس صورت میں بھی نبی آیا کرتے ہیں جیسا کہ آیت کریمہ ہے :- ليَحْكُم بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ - دبقرہ آیت ۲۱۴ یعنی نبیوں کی بعثت کی یہ غرض بھی ہوا کرتی ہے.کہ لوگوں کے مذہبی اختلافات کا فیصلہ کریں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جہاں یہ نشاندہی کی ہے کہ باہمی اختلافات کی وجہ سے میری امت تہتر فرقوں میں منقسم ہو جائیگی (مشکوۃ) وہاں آپ نے پیش گوئی بھی فرمائی ہے کہ میری امت میں ایک مہدی اور سیح آئیگا جو حکم اور عدل ہوگا اور امت کے مذہبی اختلافات کا فیصلہ کریگا.(مسند احمد بن حنبل) پس ان تصریحات کے باوجود یہ اعتقاد رکھنا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا ایک گمراہی کا اعتقاد ہے.به شنکر مولوی صاحب چونک پڑے اور چھیجا کر فرمایا کہ یہ کہاں لکھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ سورۃ مومن میں اور یہ آیت پڑھ کر سنائی :- وَلَقَدْ جَاءَ كُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَتِ فَمَا زِلتُم فِى شَاةٍ مِمَّا جَاءَ كُمْ بِهِ ، حَتَّى إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ تَبْعَثُ اللَّهُ مِنْ بَعد رَسُولَاء كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ
۵۳ مرتاب (مومن آیت ۳۵) یعنی یوسف اس سے قبل دلائل کے ساتھ تمہارے پاس آچکا ہے مگر جو کچھ وہ تمہارے پاس لایا تھا اس کے متعلق تم شک ہی میں رہے یہانتک کہ جب وہ فوت ہو گیا تو تم نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اللہ تعالے اس کے بعد کوئی کول مبعوث نہیں کرے گا.اسی طرح اللہ تعالیے ہر مشرف اور مرتاب کو گمراہ قرار دیتا ہے.دیکھئے یوسف علیہ السلام کے متعلق بھی لوگوں کا یہی اعتقاد تھا کہ اب ان کے بعد اللہ تعالے کوئی رسول مبعوث نہیں کریگا لیکن قرآن کریم ایسا اعتقاد رکھنے والوں کو مسرت اور مرتاب قرار دیتا ہے.اور ان پر گمراہی کا فتویٰ لگاتا ہے جیسا کہ کذلِكَ يُضِلُّ الله مَنْ هُوَ مُشْرِف مرتاب کے جملے سے ظاہر ہے.اس پر مولوی صاحب خاموش ہو گئے.اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ خاتم کا مطلب علیہ وسلم کے بعد سلسلہ نبوت کو منقطع مانتے ہیں انہوں نے مسیح موعود کی پیشگوئی سے صرف نظر کر کے تشریحی نبیوں کے ساتھ غیر تشریعی نبیوں کا انقطاع بھی ضم کر لیا ہے حالانکہ اگر خاتم کا معنے ختم کر نیوالا بھی تسلیم کر لیا جائے (اگر چہ یہ جائز نہیں کہ قائم کو خاتم کہا جائے.ڈر منشور) تو پھر بھی اس کا مطلب
۵۴ زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ان نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں جو آپ سے پہلے ہو گزرے ہیں اور وہ بھی ان معنوں میں کہ اب ان کی امتوں کو ان کی پیروی سے کوئی فیض حاصل نہیں ہوگا اگر فیض حاصل ہو گا تو آنحضرت قبلے اللہ علیہ وسلم کی پڑی سے حاصل ہوگا کیونکہ آپ گذشتہ نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں نہ کہ اپنے آپ کو.ا در حدیث میں جو عیسی علیہ السلام عیسی علیات سلام کی آمد ثانی کے دوبارہ آنے کا ذکر ہے.تو اس سے بھی یہ مراد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے آپ ہی کی امت میں سے ایک عیسے صفت انسان پیدا ہو گا اور انہیں حالات کے تحت پیدا ہو گا جن حالات کے تحت بنی اسرائیل میں علی سے علیہ السّلام مبعوث ہوئے تھے.اور بخاری کی حدیث اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ میں بھی اسی امر کی تصریح ہے کہ امت کا دہ امام امت میں سے ہی پیپ را ہوگا.اور اخبار نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالے نے موسی علیہ السلام کی درخواست پر بھی یہی جواب دیا تھا کہ اس امت کا نبی اسی امت میں سے پیدا ہو گا چنانچہ حدیث میں آتا ہے :- قَالَ مُوسَى يَا رَبِّ اجْعَلْنِى نَبِيِّ تِلْكَ الْأُمَّةِ قَالَ نَبِيُّهَا مِنْهَا - (الخصائص الكبرى للسيوطى (ص)
۵۵ یعنی موسی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی کہ مجھے امت محمدیہ کا نبی بنا دیجئے تو اللہ تعالے نے فرمایا کہ اس امت کا نبی اسی امت میں سے ہوگا.اور پھر یہ عقیدہ اسلام کی شان کے شایاں بھی نہیں کہ یہود و نصاری کے نقش قدم پر چلنے والے تو امت محمدیہ میں پیدا ہوں (مشکوۃ) مگر ان کی اصلاح کرنے والا امت اسرائیلیہ سے آئے.ہر کیف نیسی علیہ السلام کی آمد ثانی کی پیشگوئی اپنے اندر استعارات بھی رکھتی ہے اور اس کی بہر حال تاویل کرنا پڑے گئی.تجھے یاد ہے کہ عیسی علیہ السلام کی آمدثانی کیا تاویل جائز ہے؟ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ایک دفعہ ایک مولوی صاحب نے فرمایا تھا کہ بخاری میں صاف لکھا ہے.كَيْفَ أَنتُمْ كيف انتم إذَا نَزَلَ ابنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ منكم ابخاری کتاب الأجياد جلد امنش ) کہ عیسی علیہ السلام تم میں نازل ہوں گے جب نیسے علیہ السلام کو آسمان سے نازل نہیں ہونا تھا تو نزل اور ابن مریم کے الفاظ حدیث میں کیوں وارد ہوئے ہیں ؟ اگر احمدی حضرات نادیل سے کام نہ لیں تو بات بالکل صاف ہے.کہ عیسی علیہ السلام سجدہ آسمان سے نازل ہوں گے یکس نے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ کیا تاویل قرآن کریم کی نے اور ترندی میں آتا ہے آیاتِينَ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلى الم از ترند می کتاب الایه اے
04 رو سے ناجائز ہے؟ فرمانے لگے.ہاں ناجائز ہے.میں نے پوچھا کہ ہر صورت میں نا جائز ہے یا بعض صورتوں میں ؟ فرمانے لگے.ہر صورت ہیں نا جائز ہے.میں نے عرض کیا تو پھر قرآن کریم میں یہ کیوں آیا ہے کہ جب برادران یوسف اور ان کے والدین نے یوسف علیہ السلام کی شان و شوکت کو دیکھ کر اللہ تعالے کے حضور سجدہ کیا تو یوسف علیہ السلام نے کہا :- يا ابتِ هَذَا تَأْوِيلُ رُعْيَايَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقَاء (یوسف آیت (۱۰) یعنی اے میرے باپ یہ میرے پہلے سے دیکھے ہوئے خواب کی ا ویل ہے جسے اللہ تعالے نے پورا کر دیا ہے.اسی طرح قرآن کریم میں یوسف علیہ السلام کا یہ قول بھی درج ہے :- رَبِّ قد اتيتى مِنَ الْمَاكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تأويل الأحاديث ( یوسف آیت (۱۰۲) یعنی اے میرے رب تو نے مجھے حکومت کا ایک حصہ بھی خطا فرمایا ہے اور خوابوں کی تاویل کا بھی کچھ علم تو نے مجھے تو جب قرآن کریم سے تاویل کا جواز ثابت ہے تو تادیل ناجائز کیسے ہوگئی؟ علاوہ ازیں میں نے مولوی صاحب سے یہ بھی دریافت کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ حدیث گیف انتم إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَ
اِمَامُكُمْ مِنکم میں انتُمْ فِيكُمْ - اِمَا مُکر اور منگو کے الفاظ میں چار دفعہ جمع مخاطب کی ضمیر استعمال کی گئی ہے؟ کہنے لگے.ہاں یہ درست ہے.میں نے پوچھا اس حدیث میں جن لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشتم کے لفظ سے مخاطب فرمایا ہے وہ کون لوگ تھے ؟ کہنے لگے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے.میں نے عرض کیا تو کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن صحابہ کو مخاطب کر کے فرما یا تھا کہ ابن مریم تم ہیں نازل ہوں گے.ابن مریم ان میں نازل ہوئے ؟ اگر نہیں ہوئے تو کیا اللہ تعالے نے ابن مریم کے نزول تک ان صحابہ کو زندہ رکھنے کا کوئی اہتمام فرمایا ؟ اگر نہیں فرمایا بلکہ تمام صحابہ مدت سے فوت ہوچکے ہیں تو کیا اس سے حدیث کی صحت پر حرف نہیں آتا ؟ کیونکہ یہ تو آپ بھی مانتے ہیں کہ صحابہ کی زندگیوں میں ابن مریم کا نزول نہیں ہوا.اس پر مولوی صاحب کہنے لگے حدیث بالکل صحیح ہے.لیکن صحابہ کرام کی جگہ یہاں وہ مسلمان مراد ہیں جن میں عیسی علیہ السلام کا نزول ہوگا.میں نے عرض کیا کہ صحابہ کرام کی جگہ بعد کے زمانہ کے مسلمان مراد لینا تو تاویل ہے اور تاویل آپ کے نزدیک ناجائز ہے لیکن پھر بھی آپ نے اس حدیث میں جو ضمیر چار دفعہ صحابہ کرام کی طرف راجع ہے اس کی تاویل کی ہے اور اس سے مراد آئندہ زمانہ
۵۸ کے مسلمان لئے ہیں اور اس تاویل کو آپ اس لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ صحابہ کی وفات کی وجہ سے ان الفاظ کو ظاہر پرمحمول نہیں کیا جا سکتا.تو اگر احمدی ابن مریم کے لفظ کی تاویل کرتیں اور اس سے امت محمدیہ کا ایک فرد مراد لیں تو اس پر اعتراض کیسا؟ جبکہ عیسی علیہ اسلام کی وفات قرآن - حدیث اور تاریخ سے قطعی طور پر ثابت ہے.اگر آپ صحابہ کرام کی وفات کی وجہ سے حدیث میں چار جگہوں پر تادیل کر سکتے ہیں تو کیا احمدی عیسے علیہ السلام کی وفات کی وجہ سے ایک جگہ ابن مریم کے لفظ کی تاویل نہیں کر سکتے ؟..اس پر مولوی صاحب فرمانے لگے کہ ابن مریم توکنیت ہے اور کنیت قابل تاویل نہیں ہوتی.میں نے عرض کیا کہ قرآن کریم میں جو ابن الله - ابناء الله اور ابنُ السَّبِيلِ وغیرہ کے الفاظ بطور کنیت وارد ہوئے ہیں کیا ان کی تاویل نہیں کی جاتی ؟ اور کیا صحیح بخاری میں ابو سفیان اور قیصر روم کا جو مکالمہ منقول ہے اس میں ابو سفیان نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے متعلق ابن ابی کبشہ کے الفاظ استعمال نہیں کئے.اور کیا ابن ابی کبشہ اور ابی کبشہ دونوں کیتیں قابل تاویل نہیں ؟ پس یہ دعوسی بے دلیل ہے کہ کنیت قابل تاویل نہیں ہوتی.اردو کا مشہور شاعر مرزا غالب کتنا ہے ے
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی ردیوان غالب) باقی رہا نہ دل کا لفظ تو اس کے مصداق مسیح اسرائیلی نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ فوت ہو چکے ہیں.اور فوت شدہ آدمی کے متعلق قرآن کریم کا دو ٹوک فیصلہ ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آسکتا.لامحالہ ماننا پڑے گا کہ یہ لفظ اس مسیح موجود کے لئے ہی بطور را گرامی دارد ہوا ہے جس کو امت محمدیہ میں پیدا ہوتا ہے اور جو امتی نبی کہاں ہیگا ایا درہے کہ اتنی نبی ایک نئی اصطلاح ہے جو نئی سے معرض ظہور میں آئی ہے اور یہ اصطلاح آنحضرت صلے اللہ متی نبی کی اصطلاح ہے جو خاتم النبین کی تھی اصطلاح علیہ وسلم اور امت مسلمہ کے لئے باعث عربت ہے نہ کہ باعث منقصت کیونکہ امتی نبی سے مراد ایسا نہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے آپ کی امت میں سے آئے نہ کہ کئی دوسرے نبی کی امت میں سے اور آپ کے دین کی تجدید کے لئے مبعوث ہو نہ کہ کسی دوسرے نبی کے دین کی تجدید کے لئے.پس جس طرح خاتم النبین کی خصوصیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی نبی کو حاصل نہیں اسی طرح امتی نبی کی خصوصیت بھی است محمدیہ کے سوا اور کسی امت کو حاصل نہیں اور ان دونوں مو وسعتوں سے در اصل آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا کمال خصوصی دکھانا
۶۰ مقصود تھا اور یہی وہ کمال خصوصی ہے جس کی بناء پر آپ نے فرمایا.تو كان مُوسَى وَعِيْلى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إلا اتباعي - رالیواقیت والجواہر مرتبہ امام شعرانی جلد در هنگ) یعنی اگر مومنے اور عیسے بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری پیروی کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا.اور سرور کائنات فخر موجودات محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی کمال خصوصی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ تحریکہ فرماتے ہیں کہ :.اگر یکیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی مشرف مکالمہ مخاطبہ ہر گز نہ پاتا.کیونکہ اب نجز محمدی نبوت کے سب ہوتیں بند ہیں.شریعیت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے اُمتی ہوتے تجلیات الله ص ۲۵)
آیت تقام النبین کی تشریح مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کسی قدر آیت خاتم النبیین کی تشریح کر دی جائے کیونکہ اسی آیت کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگ نبوت کے دروازہ کو بند قرار دیتے ہیں.شان نزول ان دو رکھنا چاہئے کہ عرب میں لے پالک کے دہی حقوق یا السمجھے جاتے تھے جو قتی بیٹے کے مسلم ہی اللہ تعالی ہی نے اس قبیح رسم کے استیصال کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی اور آپ نے اس وحی کی بناء پر زید بن حارثہ کی مطلقہ سے جو لوگوں میں آپ کا مقبنی مشہور تھا نکاح کر لیا.جس میں علاوہ حضرت زینب کی دلجوئی کے یہ مصلحت بھی کار فرما تھی کہ متبنی کی مطلقہ سے نکاح کی حلت رسول کے فعل سے ثابت ہو جائے.اس پر مخالفین نے اعتراض کئے جن کے جواب میں آیت خاتم النبیین کا نزول ہوا.جس کے الفاظ یہ ہیں:.ما كان مُحمدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِ شَيْءٍ عَلِيمًا (احزاب آیت ۴۱) جانے لوگوں، محمد تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن وہ
۶۲ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر ایک چیز سے خوب آگاہ ہے.یادر ہے کہ مخالفین نے آنحضرت صلی اللہ دو قسم کے اعتراض تعلیہ حکم پر دوطرح کے اعتراض کئے وسلم تھے.ایک ابوت کے اثبات کے لحاظ سے.دوسرے ابوت کی نفی کے لحاظ سے یعنی ایک طرف تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو زید کا باپ قرار دے کر اعتراض کیا بجا لیکہ آپ جسمانی لحاظ سے زید کے باپ نہ تھے.اور دوسری طرف با وجود یکہ آپ روحانی لحاظ سے تمام مومنوں کے باپ تھے.ان مخالفین نے آپ کو ابتر کہا پس ان دونوں قسم کے اعتراضوں کی تردید آیت خاتم النبین کے ذریعہ کی گئی ہے.بلحاظ اثبات البوت اعتراض کی صورت یہ بھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب زید کی مطلقہ سے جو آپ کا منہ بولا بیٹا تھا خدا کے حکم سے نکاح کر لیا تو مخالفین نے اس نکاح کو رسم جاہلیت کے خلاف پا کر اعتراض کیا کہ محمدؐ کا اپنی بہو کے ساتھ نکاح کرنا جائزہ نہیں.یہ اعتراض در اصل بناء فاسد علی الفاسد کا مصداق تھا کہ پہلے آنحضرت کو زید کا باپ قرار دیا گیا.پھر باپ قرار دینے کے واسطہ سے زیدہ کو آپ کا بیٹا قرار دیا گیا.اور پھر زید کے واسطہ سے زید کی بیوی کو آپ کی ہو قرار دیا گیا.اور پھر آپ کے نکاح
۶۳ کو جو زید کی اس مطلقہ بیوی سے ہوا ہدف اعتراض بنایا گیا جس کی اس آیت میں تردید کی گئی ہے.اور اس اعتراض کو غلط قرارہ دے کو نکاح کو جائزہ قرار دیا گیا ہے.چنانچہ آیت کے پہلے فقره ما جواب کی مختلف صور میں كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ سے اس اعتراض کی تردید اس طرح فرمائی گہ جب محمد عمر میں سے کسی مرد کا باپ ہے ہی نہیں تو زیدہ محمدؐ کا بیٹا کس طرح ہوا.اور جب زید محمد کا بیٹا ہے ہی نہیں تو زید کی مطلقہ بیوی محمد پر حرام کیسے ہو گئی ؟ کیونکہ عقل سلیم اور فطرت صحیحہ اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے کہ جو شخص بکر کے نطفہ سے ہو اس کا باپ خالد کو قرار دیا جائے.پس زید جو محمدؐ کے نط سے نہیں ہے محمد اس کا باپ نہیں ہوسکتا اور جب باپ نہیں ہوتا تو نیچے کا واسطه در واسطه سلسلہ باطل ہو جانے کی وجہ سے باعث اختر احق نہ رہا.الغرض اس پہلے فقرہ میں عقل اور فطرت کی رو سے جواب دیا گیا ہے کہ جب محمد زید کا باپ ہے ہی نہیں تو زید محمد کا بیٹا کیونکر ہو سکتا ہے اور جب زید بیٹا نہیں تو زید کی بیوی محمد کی ہو کیونکر ہو سکتی ہے اور جب زید کی بیوی محمدؐ کی بہو ہے ہی نہیں تو وہ مطلقہ ہونے کے بعد محمد پر حرام کیسے ہوگئی ؟
۶۴....آیت موصوفہ کا دوسرا حملہ وَلكِنْ رَسُولَ اللهِ ہے جس میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو بطور رسول پیش کر کے اس اعتراض کی تردید کی گئی ہے اور وہ اس طرح کہ رسول.خدا کا پیغام یہاں ہوتا ہے اور رسول کے ذریعہ سے ہی خدا اپنی مرضی دنیا پر ظاہر کرتا ہے اور جو نمونہ خدا کا رسول اپنے عمل سے پیش کرتا ہے.حكم نقد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ را جز آب آیت (۲۲) و سی لوگوں کے لئے دستور العمل قرار پاتا ہے.اور اُسی کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ فعل جائز ہے یا ناجائز.میں آنحضرت کو اس دوسرے جملہ میں رسول اللہ کی حیثیت سے پیش کر کے لوگوں کے اعتراض کا یوں ر د فرمایا کہ کیا انہیں معلوم نہیں کہ محمد خدا کا رسول ہے اور خدا کا رسول نفسانی خواہش کے تحت کوئی کام نہیں کیا کرتا بلکہ وہی کچھ کرتا ہے جو خدا کی طرف سے اُسے کرنے کو کہا جاتا ہے.پس خدا کے رسول کا متبقی کی مطلقہ سے نکاح کرنا حیثیت منصب رسالت قابل اعتراض نہیں ہو سکتا.خصوصا ایسا اختراض جو رسم جاہلیت کی بناء پر ہو اس کا وجود تو خدا کے رسول کے فعل کے بالمقابل کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا.آیت موصوفہ کا تیسرا جملہ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ ہے.جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ANALGET TONGUE النش کر یکے اس اعتراض کی تردید کی گئی ہے اور وہ اس طرح کے خاتم
۶۵ بفتحہ تاؤ کے معنے شہر کے ہوتے ہیں اور مہر کی مرض تصدیق ہوتی ہے اور جس امر کے لئے مہر لگائی جاتی ہے وہ مصدقہ سمجھا جاتا ہے.پس اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبیوں کی شہر قرار دینا نبیوں کے مصدق ہونے کے معنوں میں ہے.یعنی ان معنوں میں کہ آپ نے معنی کی مطلقہ سے نکاح کو جائز قرار دینے میں تمام نبیوں کی تصدیق کی ہے کیونکہ دنیا میں کوئی ایک بھی نہیں ایسا نہیں گزرا جس کی تعلیم کی رہنے مندی کی مطلقہ سے نکاح کرنا حرام ہو.پس مخالفین کا یہ اعتراض نبیوں کی تعلیم کے خلاف ہے.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل ان کی تعلیم کے عین مطابق.الغرض اس جملہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور مصدق الفین کیش کر کے اس اعتراض کارود کا رد کیا گیا ہے.یادر ہے کہ خاتم النبین کے یہ معنے قرآن کریم کی تعلیم کے معائمہ نہیں کیو نکہ قرآن کریم میں اور بھی کئی جگہ آنحضرت کو مصدق قرار دیا گیا ہے.مثلاً آیت کریمیہ :- - وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدَقَ يما معهم (بقرہ آیت (۱۰) میں نیز آیت کریمہ :.بن جَاءَ بِالْحَقِّ وَصَدَنَ الْمُرْسَلِينَ - الصفت آت (1) میں بھی آپ کو مصدق قرار دیا گیا ہے.پس آیت خاتم النبیین میں
بھی آپ کو بطور مصدق النبین کشیش کر کے بنایا گیا ہے کہ قینی کی مطلقہ سے نکاح کو جائزہ قرار دیتے ہیں یہ رسول منظر د نہیں بلکہ ب نبیوں کی بھی تعلیم ہے اور اس سلسلہ میں یہ رسولی ان سب نبیوں کا مصدق ہے.چنانچہ ان معنوں کی تائید سورۃ احزاب کی مندرجہ ذیل آیت سے بھی ہوتی ہے :- مَا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيْمَا فَرَضَ الله لَهُ سُنَةَ اللهِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ - (احزاب آیت (۳۹) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ در علم پر اس فعل کی وجہ سے جو آپ پر اللہ تعالے نے فرض کیا ہے کوئی الزام نہیں ہیں طریق اللہ تعالے نے پہلے لوگوں میں جاری کیا تھا.پس جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبین ہونا محل کلام کے لحاظ سے مصدق النبیین کے معنوں میں ثابت ہے تو جو لوگ خاتم تو النبیین کے معنے آخر النبین کرتے ہیں ان پر لازم ہے کہ محل کلام کے لحاظ سے ہمیں دکھائیں کہ یہ معنے اس موقع پر کس طرح چسپاں ہوتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ اگر خاتم النبیین کے معنے آخر انشین کے کئے جائیں تو پھر آیت میں لیکن کا حرف استند راک بالکل بے معنے ہو کر رہ جاتا ہے.اور اس صورت میں آیت کے یہ معنے بنتے ہیں کہ:.محمد تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں لیکن وہ آخری نبی ہے.
غور فرمائیے کیا اس اعتراض کے جواب میں کہ آنحضرت کا اپنے متمنی کی مطلقہ سے نکاح کرنا جائز نہ تھا یہ کہنا کہ محمد اخری نبی ھے مناسب اور برمحل ہو سکتا ہے؟ اور کیا اس سے اعتراض کی تردید ہو جاتی ہے ؟ اگر ہو جاتی ہے تو کر کے دکھائیں کہ مخالفین کا متبنی کی مطاقہ کیے نکاح کے متعلق اعتراض کرنا غلط ہے.کیوں غلط ہے ؟ اس لئے کہ یہ محضر آخری نبی ہیں.کیا معمولی سوجھ کو جھے رکھنے والا انسان بھی اس اعتراض کے جواب میں یہ فقرہ کہہ سکتا ہے چہ جائیکہ خدائے علیم و حکیم کی طرف یہ فقرہ منسوب کیا جائے.اس آیت کا چوتھا حملہ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْ ءٍ عَلِيمًا ہے.اور اس میں اللہ تعالے نے اپنے کامل علم کو پیش کر کے اس اعتراض کی تردید کی ہے اور وہ اس طرح کہ اللہ تعالے چونکہ ہر ایک جن کا علم رکھنے والا ہے اس لئے دہی اس امر کو صحیح طور پر جانتا ہے کہ بنی نوع انسان کے لئے کونسی چیز مفید ہے اور کونسی چیز مضر ہے.پس اس کا اپنے وسیع اور کامل علم سے یہ قانون پاس کرنا کہ متبعی کی مطلقہ سے نکاح کرنا جائز ہے قابلِ اعتراض نہیں ہو سکتا.الغرض اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخری جملہ میں اپنے وسیع اور کامل علم کو پیش کر کے بتایا کہ محمد رسول اللہ پر ایسے فعل کی وجہ سے اض کرنا جو آپ کے منصب رسالت سے تعلق رکھتا ہے دراصل
اللہ تعالیٰ کے وسیع اور کامل علم پر اعتراض کرنا ہے اور اگر اسکا وسیع اور کامل علم قابل اعتراض نہیں تو پھر اس کے رسول کا یہ فعل جو مینٹی کی مطلقہ سے نکاح کرنے کی صورت میں ظاہر ہوا یہ بھی قابل اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ احکام شریعت کا چشمہ اللہ تعالیٰ کے وسیع او کامل علم سے ہی پھوٹتا ہے.آیت خاتم النبیین کا دوسرا پہلو جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے عہد نبوی کے مخالفین نے عجیب دوش اختیار کر رکھی تھی.ایک طرف تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ابتوت کا اثبات کر کے یہ اعتراض کیا جاتا کہ محمد زید کا باپ ہے اور بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرنا جائزہ نہیں.حالانکہ آپ زید کے باپ نہ تھے اور دوسری طرف آپ کی ابوت کی نفی کر کے ابتر کا اعتراض اٹھایا جانا کہ شخص جو کہ نرینہ اولاد نہیں رکھتا اس لئے اس کے مذہب کا سلسلہ اس کی زندگی تک ہی جاری رہ سکتا ہے جب یہ مرگیا تو ساتھ ہی اس کے مذہب کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا.حالانکہ نبیوں کے سلسلہ کی بقا جسمانی اولاد سے وابستہ نہیں ہوتی بلکہ اس کے قیام کے لئے روحانی اولاد کی ضرورت ہوتی ہے.الغرض مخالفین نے افراط و تفریط کی راہ اختیا کر کے ایک طرف ابوت جسمانی کے اثبات کی بناء پر اعتراض کیا اور دوسری طرف ابوت روحانی کی نفی کی بناء پر اعتراض اٹھایا اور اعتراض
۶۹ کی دونوں صورتیں ہی غلط پیش کیں.اعتراض کی پہلی صورت کا جواب آیات قرآنی ذوالوجوہ ہیں.ہو چکا ہے.اب اعتراض کی دوسری صورت کا جواب پیش کیا جاتا ہے.لیکن قبل اس کے کہ اعتراض کا جواب دیا جائے یہ عرض کرنا ہے محمل نہ ہوگا.کہ قرآن کریم کی آیات ذا لو جو ہیں اور ایک ایک آیت سے کئی کئی مطالب مستنبط ہو سکتے ہیں.اور کلام مجید کی آیات کی بیعجیب شان ہے کہ وہ صرف سیاق و سباق کے لحاظ سے ہی اپنے اندر مختلف مطالب نہیں رکھتیں بلکہ اپنی مستقل حیثیت سے بھی متعدد مطالب کی حامل ہیں.جیسے چراغ اور کو اکب اجتماعی صورت میں بھی روشنی دیتے ہیں.اور انفرادی حیثیت ہیں بھی راہ دکھانے اور روشنی پھیلانے کا موجب ہیں ے یا الہی تیرا فرقان ہے کہ اک عالم ہے رومین) جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا الغرض آیت خاتم النبیین کا ایک مطلب تو سیاق وسباق کے لحاظ سے ہے جو اد پر بیان ہو چکا ہے اور دوسر استقل حیثیت سے ہے جواب بیان کیا جاتا ہے.- یادر ہے کہ آیت خاتم النبیین کے آیت موصوفہ کا دوسرا مطلب اپنے فقرہ مَا كَانَ مُعَةٌ ؟ ابا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ میں اگر چہ اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے
کہ محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی نرینہ اولاد کوئی نہیں اور آپ ایسے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں جن کا جسمانی رشتہ بقائے نسل کے لئے ضروری ہوتا ہے لیکن بایں ہمہ آپ ابتر نہیں کہلا سکتے کیونکہ آپ صرف محمد ہی نہیں بلکہ رسول بھی ہیں اور آپ کی دو جنتیں ہیں ایک جسمانی یعنی محض محمد ہونے کے لحاظ سے.اور دوسری روحانی بعینی رسول اللہ ہونے کے لحاظ سے.گو محمد ہونے کے لحاظ سے آپ کسی مرد کے باپ نہیں لیکن رسول اللہ ہونے کے لحاظ سے آپ تمام مومنوں کے باپ ہیں.اور رسولوں کو اپنے سلسلہ کی فضاء کے لئے محض ریال کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ایسے ریبال کی ضرورت ہوتی ہے جو مومن ہوں رسول کی اگر جسمانی اولاد ہو بھی لیکن مومن نہ ہو تو بقائے سلسلہ کے لئے ایسی اولاد کچھ بھی کار آمد نہیں ہو سکتی.اس کے بریکس اگر ریول کی جسمانی اولاد نہ بھی ہو لیکن روحانی اولاد ہو تو بقائے سلسلہ میں کچھ خلل واقع نہیں ہوتا.پس مخالفین کے طعن کے جواب میں اللہ تعالے نے آپ کو بحیثیت رسول پیش کر کے اس اعتراض کا قلع قمع کر دیا جو جسمانی ابوت کی نفی کی بناء پر پیدا ہوتا تھا.واضح رہے کہ آپ کی روحانی ابوت آسیت که یمیر :- النَّبِي أولى بِالْمُؤْمِنِين مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَ ارد اجهُ أُمَّهَاتُهُمْ - (احزاب آیت (( سے بھی ثابت ہے کیونکہ اس آیت میں نبی کی بیویوں کو مومنوں کی بائیں
قرار دیا گیا ہے.ظاہر ہے کہ جب نبی کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہوئیں تو لامحالہ نبی مومنوں کا باپ ٹھہرا.یہی وجہ ہے کہ آیت انما المؤمِنونَ الْحَوَلا حجرات آیت (1) میں سب مومنوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا ہے.بہر کیف جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے.رسول اللہ کے الفاظ میں آپ کو مومنوں کا باپ ٹھہرایا گیا ہے اور پھر خاتم النبین کا کلمہ لا کر مضمون کو اور زیادہ وسعت دی گئی ہے کہ آپ صرف مومنوں کے باپ نہیں بلکہ نبیوں کے بھی باپ ہیں اور یہ آپ کی تاثیر قدسی سے دنیا میں جہاں مومن پیدا ہوتے رہیں گے وہاں نبی بھی پیدا ہوتے رہیں گے اس لئے قیامت تک نہ آپ کا مذہب مٹ سکتا ہے اور یہ ہی آپ کی ابوت کا سلسلہ منقطع ہو سکتا ہے.یاد رہے کہ آیت موصوفہ میں رسول اللہ کے بعد جو خاتم النبیین کا لفظ بطور معطوف واقع ہے وہ بھی رسول اللہ کے لفظ کی طرح آن کی روحانی ابوت کے اثبات کے لئے نہیں آیا ہے اور بس طرح رسول اللہ کے لفظ سے روحانی ابوت کا فائدہ حاصل ہوتا ہے سی طرح خاتم النبین کے لفظ سے بھی بوجہ عطف یہی فائدہ حاصل ہوتا ہے.پس جو لوگ خاتم النبیین کے معنے نبیوں کا ختم کرنے والا کرتے ہیں ان پر لازم ہے کہ محل کلام کے لحاظ سے ہمیں دکھائیں کہ یہ معنے اس موقع پر کس طرح چسپاں ہوتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ اگر خاتم النبیین
۷۲ کے معنے نبیوں کا ختم کرنے والا کئے جائیں تو پھر اس آیت میں لیکن کا حرف استدراک جو تلافی مافات کے لئے آیا ہے بالکل بے معنے ہو کر رہ جاتا ہے اور اس صورت میں آیت کے یہ معنے بنتے ہیں کہ :.ا محمد عمر میں سے کسی مرد کا باپ نہیں لیکن وہ نبیوں کا ختم کر نیواں ہے غور فرمائیے کیا اس اعتراض کے جواب میں کہ محمد نرینہ اولاد نہیں رکھتا اس لئے اس کا مذہب اس کے مرنے کے بعد مٹ جائے گا.یہ کہنا مناسب اور بر محل ہو سکتا ہے کہ محمد تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں لیکن وہ نبیوں کا ختم کر نیوالی ہے.اور کیا اس فقرہ سے مخالفین کے اعتراض کی تردید ہو جاتی ہے؟ ہرگز نہیں.سپین آیت موصوفہ کا یہی مطلب درست ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم جسمانی لحاظ سے تو تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن روحانی لحاظ سے وہ نہ صرف مومنوں کے باپ ہیں بلکہ نبیوں کے بھی باپ ہیں.اللهم صل على محمد الغرض اس آیت کے ذریعہ بالواسطہ نبوت کا دروازہ کھولا گیا ہے نہ کہ بند کیا گیا ہے.ہاں اس نبوت کا دروازہ بے شک بند کر دیا گیا ہے جو نئی شریعیت کی حامل ہو یا بلا واسطہ ہو.کیونکہ ایسی نبوت اگر جاری رہے تو اس سے ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کالا یا شہوانی ہے مٹ جاتا ہے اور دوسری طرف آپکی روحانی ابوت کا سلسلہ منقطع ہو جانا
۷۳ اور جس توجہہ سے رسول الله کا روحانی ابوت کی توجیہ الفظ مومنوں کے باپ کے معنوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ تبلیغ رسالت کے نتیجہ میں جو لوگ حق کو قبول کر لیتے ہیں اور خدا کے رسول پر ایمان لے آتے ہیں ان کے اندر اس ایمان کی وجہ سے ایک خاص قسم کی روح پیدا ہو جاتی ہے جس کے لئے اعمال صالحہ کا وجود بطورہ ایک جسم کے ہوتا ہے اور ان روحانی تولد پانے والے افراد کو مومن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور خدا کا رسول ان کے لئے بطور باپ کے ہوتا ہے.کیونکہ مومن کا روحانی تولد اور روحانی وجو د رسول کے توسط سے ہی ظہور میں آتا ہے.بہر کیف جس طرح جسمانی تولد کا باعث مرد کی رجولیت ہوتی ہے اسی طرح روحانی تولد کا سبب رسول کی قوت قدسیہ ہوتی ہے اور جس طرح جسمانی تولد کے لئے مناسب استعداد کا ہونا ضروری ہے اسی طرح روحانی تو لد کے لیئے بھی مناسب استعداد کا ہونا ضروری ہے.اور جس طرح جسمانی تو تر کے سبب اور توسط کا نام باپ رکھا جاتا ہے اسی طرح روحانی تولد کے سبب اور توسط کا نام بھی باپ رکھا جاتا ہے.اور جس توجیہ سے خاتم النبین کا لفظ نبیوں کے باپ کے معنوں میں لیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ لغوی لحاظ سے خَاتَم بفتح تاء کے منے مر کے ہیں کیونکہ تھا نستم اسم آلہ ہے نہ کہ اسم فاعل اور بھیا کہ
۷۴ سب جانتے ہیں کہ مر کے توسط سے نقوش پیدا کئے جاتے ہیں جو عمر کے لئے بمنزلہ اولاد کے ہوتے ہیں.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبیوں کی مہر کہنا دوسرے لفظوں میں آپ کو نبیوں کا باپ قرار دنیا ہے گویا رسول اللہ کے کلمہ سے آپ کو مومنوں کا باپ ٹھہرایا گیا ہے اور خاتم النبیین کے کلمہ سے نبیوں کا باتے.اور یوں آپ کی امتیازی شان ظاہر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ آپ دوسرے نبیوں کی طرح جرت نے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند آیت خانم النبین کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ :.جیسے خاتم بفتح تار کا اثر اور نقش مختوم علیہ میں ہوتا ہے ایسے ہی موصوف بالذات کا اثر موصوف بالعرض میں ہوتا ہے.حاصل مطلب اس صورت میں یہ ہوگا کہ ابوت معروفہ تو رسول الله صلعم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں یہ ابوت معنوی امتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے.انبیاء کی نسیت تو فقط خاتم النب تین شاہد ہے.....سودب ذات با برکات محمدی صلعم موصوف بالذا بالنبوۃ ہوئی اور انبیاء باقی موصوف بالعرض تو یہ بات اب ثابت ہوگئی کہ آپ والد معنوی ہیں اور انبیاء باقی آپ کے حق میں بمنزلہ اولاد معنوی (تحذیر الناس ملت)
ایسے مومنوں کے ہی باپ نہیں جو غیر نبی ہیں بلکہ آپ نبیوں کے بھی بنا ہیں.یعنی مخالفین تو آپ کو ابتر قرار دے کر طعنہ زن ہیں کہ آپ کی زینیہ اولاد کوئی نہیں اور نہ ہی آپ کا کوئی متبعثی رہا ہے اس لئے آپ کا سلسلہ آپ کی وفات کے بعد درہم برہم ہو جائے گا لیکن وہ نہیں جانتے کہ آپ جہاں رسول ہیں وہاں خاتم النب تین بھی ہیں اور آپ کی بکثرت روحانی اولاد ہو گی اور آپ کی تاثیر قدسی سے صرف مومن ہی پیدا نہیں ہونگے بلکہ نبی بھی پیدا ہوں گے جیسا کہ آیت کریمیہ - ومَن يطع الله وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النّبين و و الصديقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ (نساء) سے ظاہر ہے کہ آپ کی روحانی اولاد میں صالح.شہید اور صدیق ہی نہ ہونگے بلکہ نبی بھی ہوں گے جو آپ کے سلسلہ کو جاری رکھیں گئے اور ترقی دیں گئے پس مخالفین کا اعتراض لغوا اور پوچ ہے آپ ہرگز ابہترنہیں انشاء اللہ آپ کا دشمن ہی ابتر ثابت ہوگا.خلاصہ کلام یہ کہ ان حقائق کی بناء ایت موصوفہ کا ما حصل پر کھا جاسکتا ہے کہ اگر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی نرینہ اولاد نہیں تو نہ سہی اور اگر زید آپؐ کا مبلی نہیں رہا تو نہ سہی.آپ کی روحانی اولاد تو ہے جو آیت کے اغراض و مقاصد کو پورا کرتی رہے گی پس مخالفین کو یہ توقع نہیں
رکھنی چاہئیے کہ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے کے ساتھ ہی آپ کا سلسلہ مٹ جائے گا.مٹے گا نہیں بلکہ برابر ترقی کرتا چلا جائیگا کیونکہ اس کے قیام دبقا کے لئے آپ کی روحانی اولاد میں صرف مومن ہی پیدا نہیں ہوں گے بلکہ نبی بھی پیدا ہوتے رہیں گے.جو اشاعت اسلام کا فریضہ تا قیامت سر انجام دیتے چلے جائیں گے اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالے نے آپ کو جہاں صاحب کو ثر بنایا ہے وہاں صاحب خاتم بھی بنایا ہے.اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اپنی ایمان افروز تصنیف حقیقۃ الوحی میں تحریر فرماتے ہیں کہ :- اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاتم بنایا اور آپ کو افاضہ کمال کے لئے وہ مہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپؐ کا نام خاتم النبین ٹھہرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی یا (حقیقة الوحی مایہ صہ خاتم النبین کے متعلق خاتم النبیین کے متعلق بعض حوالے بعض جید علماء کے حوالے ذیل میں ملاحظہ فرمائیے.ا.اہلسنت کے ممتاز عالم حضرت امام ملا علی القاری تحریر فرماتے ہیں
قَوْله تَعَالَى خَاتَمَ النَبِيْنَ إِذَا الْمَعْنَى أَنَّهُ لا ياتي بعدها نَبِيَّ يَنْسَخُ مِلَّتَهُ وَلَمْ يَكُنْ مِن أمته (موضوعات كبير ص49 یعنی خاتم النبیین کے یہ معنے ہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرنے والا ہو اور آپ کی امت میں سے نہ ہو.۲.بارھویں صدی کے مجد د حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں:- خُتِمَ بِهِ النَّبِيُّونَ رَى لا يُوجَدُ مَنْ يَأْمُرُهُ الله سُبْحَانَهُ بِالنَّشْرِيعِ عَلَى النَّاسِ " رتضیمات المیہ جلد ۲ ص یعنی آنحضرت کے خاتم النبیین ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اب کوئی ایسا شخص نہیں ہو گا جسے اللہ تعالے لوگوں کے لئے شریعت دے کر مامور فرمائے یعنی اگر آئندہ نبی آئے گا تو بغیر نئی شریعت کے.جناب مولنا عبدالحئی صاحب فرنگی محلی لکھتے ہیں:.بعد آنحضرت کے یا زمانے میں آنحضرت کے مجرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شریع جدید ہونا البتہ متنع ہے.دو ساله دافع الوسواس صلا)
-۴- حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی مدرسہ دیویب تحریر فرماتے ہیں کہ :- را اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلے اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئیگا " ر تحذیر الناسر مش ) حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند لکھتے ہیں کہ :.آیت خاتم النبین اور آیت سرا جا منیرا سے حضور کی شان محض نبوت ہی نہیں نکلتی بلکہ نبوت بخشی بھی نکلتی ہے کہ جو بھی نبوت کی استعداد پایا ہوا فرد آپ کے سامنے آگیا نبی ہو گیا." (آفتاب نبوت مثا ) علام شبیر احمد صاحب عثمانی شیخ الاسلام پاکستان نظام البير کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جن کو نبوت ملی ہے آپ سہی کی مہر لگ کمرہ ملی ہے" (قرآن کریم مترجم حاشیه)
۷۹ ختم نبوت اور کمیل دین بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آیت کر یمیر :- الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسلام دينا - رائد آیت ٤) کے ذریعہ چونکہ دین کے اکمال اور نعمت کے اتمام کا اعلان ہو چکا ہے اس لئے اب کوئی نبی نہیں آسکتا.سو اس بارے میں یاد رکھنا چاہیئے کہ اس آیت میں جمع مخاطب رحم کی ضمیر استعمال کی گئی ہے اور اس خطاب میں امت مسلمہ کے وہ تمام افراد شامل ہیں جن کو قیامت تک پیدا ہونا ہے اور جب دین کی انہیں کے لئے تکمیل کی گئی ہے تو ظاہر ہے کہ نعمت کا اتمام بھی انہیں کے لئے کیا گیا ہو گا.پس جس طرح ان کو اسلام کے ذریعہ کامل دین ملے گا ویسے ہی ان کو اسلام کے ذریعہ نبوت کی نعمت بھی پوری پوری ملے گی.علاوہ ازیں اس ضمیر مخاطب لکھ میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے سوا نہ کسی اور اقت کو کامل دین ملا ہے اور نہ ہی پوری پوری نعمت مل سکتی ہے گویا آئندہ آنیوالا نہی امت محمدیہ سے ہی آئے گا نہ کہ کسی دوسری اقد سنتے
اور وہ اتنی نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی امت کے لئے بطور نشان فضیلت ہوگا.ہر کیف آیت کریمہ اليوم الملت لکم دینکر سے نبوت کا انقطاع ثابت نہیں ہوتا بلکہ امکان ثابت ہوتا ہے.تجدید دین کے لئے نبی آسکتا ہے لیکن تکمیل دین کے لئے اب کوئی نبی مبعوث نہیں ہو سکتا.(٢ یاد رہے کہ اگر آئممْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي کے یہ معنے کئے جائیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نبوت کی نعمت ختم ہوگئی ہے اور اب کوئی نبی نہیں آسکتا تو یہ قرآنی محاورہ کے خلاف ہوگا کیونکہ قرآن مجید میں صاف مذکور ہے کہ جب یوسف علیہ السلام نے اپنا خواب اپنے باپ یعقوب علیہ السّلام کو سُنایا تو انہوں نے فرمایا کہ ديم نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَى آلِ يَعْقُوبَ كما اتمهَا عَلَى أَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ و اسحق یوسف آیت )) یعنی اللہ تعالے تجھ پر اور یعقوب کی ساری آل پر اپنی نعمت پوری کرے گا جیسا کہ اس نے قبل ازیں تیرے دو بزرگوں ابراہیم اور اسحاق پر اپنی نعمت پوری کی ہے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ ابراہیم علیہ السلام پر بھی نعمت کا انتظام کیا
اور اسحاق نام پر بھی نعمت کا اتمام ہوا تو کیا ابراہیم ! اور اسحاق علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آیا ؟ جب ان کے بعد پے در پے نبی آتے رہے ہیں تو اتمام نعمت کے معنے نبوت کا ختم ہونا کیسے تسلیم کئے جا سکتے ہیں ؟ پس ANALOGEN عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی کے یہ معنے نہیں کہ اب امت محمدیہ میں کوئی نبی پیدا نہ ہوگا بلکہ یہ مطلب ہے کہ آئندہ اللہ تعالے امت محمدیہ میں ہی نبی پیدا کرے گا نہ کہ کسی دوسری امت میں.اللہ تعالے نے قرآن کریم میں نبوت کو نعمت قرار دیا ہے جیسا کہ آیت کریمہ ہے :- وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ اذْكُرُو العمة اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أنْبِيَاء وَجَعَلَكُمْ مُلُوكَا - (مائده آیت (۲) یعنی تم اس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا اسے میری قوم ! تم اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کروہ جو اس نے تم پر اس صورت میں کی کہ اس نے تم میں بنی مبعوث کئے اور تمھیں بادشاہ بنایا.اس آیت سے ظاہر ہے کہ نبوت ایک نعمت ہے پس تکمیل دین کیے، نتیجہ میں اللہ تعالے کی نعمتوں کا دروازہ اور زیادہ کشادہ ہونا چاہیے
۸۲ تھا نہ کہ بند.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالے بعض اوقات اپنی نعمتیں چھین بھی لیتا ہے.لیکن یہ اس صورت میں ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کی حالت حد سے زیادہ بگڑ جاتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے:- ذلك بِانَّ اللهَ لَمْ يَكُ مُفَيّرًا نِعْمَةَ انْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيّرُوا مَا بِأَنفُسِهِم ر انفال آیت ۵۴) یعنی اللہ تعالے جب کسی قوم پر کوئی نعمت نازل کرتا ہے تو اس نعمت کو بدلنا نہیں جب تک کہ وہ قوم اپنی حالت کو خود نہ بدل دے.لیکن خیرات کے متعلق یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ساری کی ساری اس قدر بگڑ جائے گی کہ اللہ تعالے دائمی طور پر اس کو اپنی نعمتوں سے محروم کر دے گا.اور اگر کہا جائے کہ تشریعی نبوت کیوں بند ہو گئی آخر وہ بھی تو نعمت ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تشریعی نبی اس وقت آتا ہے جب سابقہ شریعت ناقص اور نا مکمل ہو یا محترف و مبدل ہو چکی ہو قرآنی شریعت نہ ناقص اور نامکمل ہے اور نہ ہی خدائی وعدہ کے مطابق محترف و مبدل ہو سکتی ہے.اس لئے کوئی تشریعی نبی نہیں آسکتا.لیکن غیر تشریعی نبی اس وقت مبعوث ہوتا ہے جب دنیا میں ضلالت و
سم مراہی پھیل جاتی ہے اور شریعت کے ہوتے ہوئے لوگ راہ راست سے بھٹک جاتے ہیں اور ایسا بنی کوئی نیا دین نے کر نہیں آتا بلکہ سابقہ شریعت کے ذریعہ سے ہی لوگوں کی اصلاح کا فریضہ سر انجام دیتا ہے.بہر کیف اگر نبوت نعمت ہے تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ تکمیل دین کی وجہ سے خیر امت کو اس نعمت سے محروم کر دیا جائے.اگر تکمیل دین کا یہ مطلب لیا جائے کہ آئندہ کوئی نبی نہیں آسکتا تو سورہ فاتحہ کا ہر نماز میں بالالتزام پڑھنا عبث ٹھہرتا ہے اور خدا بقالے کی قدوس ذات پر اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اس نے سورہ فاتحہ کی دعا تو سکھائی لیکن اس دُعا کے نتائج سے جو انعام نبوت سے تعلق رکھتے ہیں امت مسلمہ کو محروم رکھا.کیونکہ سورہ فاتحہ کے ذریعہ یہ دعا مانگی جاتی ہے کہ اے خدا ! ہمیں انعام یافتہ لوگوں میں شامل فرما اور انعام یافتہ لوگوں سے مراد حبیبیا کہ سورۂ نساء میں بتایا گیا ہے.نبی.صدیق شہید اور صالح ہیں.اب غور طلب امر یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے تعود مسلمانوں کو انعام یافتہ لوگوں میں شامل ہونے کے لئے دعا سکھلاتی ہے اور انبیاء کرام کو انعام یافتہ لوگ قرار دیا ہے تو یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ کسی کو نبوت کا انعام نہیں مل سکتا.اسی طرح درود شریف کے ذریعہ بھی یہ دعا کی جاتی ہے.کہ اے
۸۴ خدا جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل کیں اسی طرح محمد صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر بھی تو اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما.اور قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی آل کو اللہ تعالے نے دوشتم کی نعمتوں سے نوازا تھا.ایک نبوت کی نعمت سے.دو ستر بادشاہت کی نعمت سے.اگر تکمیل دین کی وجہ سے ان نعمتوں کا دروازہ بند ہو چکا ہے تو درود شریف کی دُعا کے ذریعہ کس چیز کو طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے ؟ اور کیا اس چیز کے عطا ہونے کی بناء پر آل محمدہ آل ابراہیم کی طرح انعام یافتہ جماعت قرار دی جا سکتی ہے ؟ اللہ تعالے کی ایک صفت بادی بھی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ایک ہی ہے جیسا آتا ہے:.وَ اِنَّ اللهَ لَهَادِ - رحج آیت ۵۵ ).اور نبی خدا کی صفت ہادی کا مظہر ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی شوره یہ تقدمیں فرماتا ہے :.وَلِكُلِّ قَوْمِها ده (رعد آیت (۸) اور وہ وحی الہی کی رہنمائی میں لوگوں کو باطل کے اندھیرے سے نکا نکہ حق کی روشنی میں لاتا ہے.اگر یہ سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت معطل نہیں ہو سکتی تو پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے.کہ
۸۵ تکمیل دین کی وجہ سے نبوت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے ؟ مذہب کی علت غانی انسان کو خدا کا عہد بنانا ہے کیونکہ آیت کریمہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِس إِلَّا لِيَعْبُدُونَ.(ذاریات آیت ۵۷) میں اللہ تعالی نے انسان کی پیدائش کا یہی مقصد قرار دیا ہے.کہ وہ اس کا عہد بنے.نبی اللہ تعالے کا خیر کامل ہوتا ہے.اگر اسلام کسی کو عید کامل نہیں بنا سکتا تو وہ دین کامل کہلانے کا حقدار کیسے ہو سکتا ہے ؟ میں کوئی شبہ نہیں کہ ا صل اللہ علیہ وسلم کو الہ تعالے نے ایسی کامل کتاب عطا فرمائی جو نہ صرف عرب بلکہ ساری دنیا کے لئے کافی ہے لیکن کوئی کتاب اس وقت تک مفید اور کار آمد نہیں ہو سکتی جب تک اس کے ساتھ کوئی ایسا وجود نہ ہو جو اس کتاب کی عملی تصویر ہو.اگر صرف کتاب ہی تبلیغ ہدایت کا فریضہ سر انجام دے سکتی تو آنحضرت کی بعثت کی ضرورت کیا تھی اللہ تعالیٰ آپ کے بغیر بھی کتاب نازل کر سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ کتاب کو اس وقت تک نہیں بھیجا جب تک معلم کتاب کو دنیا میں نہیں بھیج لیا.پس تکمیل دین کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہو سکتا کہ آئند
خدا کی کتاب صامت اس کی کتاب ناطق کے بغیر تبلیغ ہدایت کا فریضہ سر انجام دیا کرے گی.تے یہ ٹھیک ہے کہ قرآن مجید بمنزلہ ایک تلوار کے ہے لیکن تلوار چلا کے لئے بھی قوت بازو اور فن حرب کی ضرورت ہوتی ہے اور جو شخص کمزور بازو رکھتا ہوا اور فن حرب سے نا آشنا ہو وہ تیز تلوار سے بھی وہ کام نہیں لے سکتا جو قوی بازو رکھنے والا اور جنگی فنون کا ماہر کند تلوار سے لے سکتا ہے.دُنیا اِس بات سے اچھی طرح آگاہ ہے کہ جب یہی قرآن رسول کریم کے طاقتورہ ہاتھوں میں تھا تو اس نے بلحاظ تبلیغ ہدایت کیا کیا کارنامے سر انجام دیتے اور کس طرح ایک پسماندہ قوم کو زمین سے اٹھا کہ آسمان پر پہنچا دیا.لیکن جب یہی قرآن بعد کے کمزور ہاتھوں میں آیا تو امت مسلمہ کا اقبال ادبار سے.اور ترقی منزل سے.اور استحاد تفرقہ سے بدل گیا.قرآن ایک کامل کتاب تو ہے.اور ہر قسم کے فیوض و برکات اپنے اندر رکھتی ہے لیکن یہ اسی وقت موثر اور کار آمد ہو سکتی ہے کہ جب آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا کوئی کامل متبع جسے خود اللہ تعالے نے دنیا کی اصلاح کیلئے کھڑا کیا ہوا اسے اپنے ہاتھوں میں لیکر تبلیغ ہدایت کا فریضہ سرانجام دے.آیت کریمہ:- (9)
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ - (حجر آیت ۱۰) میں اللہ تعالیٰ نے بے شک قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے لیکن یا درکھنا چاہیے کہ اس سے صرف لفظی حفاظت ہی مراد نہیں.بلکہ معنوی حفاظت بھی مراد ہے اور معنوی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ ہر زمانہ میں ایسے مظہر وجود پیدا ہوتے رہیں جو قرآنی تعلیمات کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر سکیں.کیونکہ قرآن کے بعض حصے ایسے کہ جب تک کوئی ان کا عملی نمونہ نہ دکھائے سمجھ میں نہیں آسکتے.مثلاً خدا کا عالم الغیب ہونا.مجیب الدعوات ہونا.قادر مطلق ہونا اور اس کا اپنے برگزیدہ بندوں پر الہام نازل کرنا اور ان کو نفرت غیبی سے نوازنا وغیرہ ایسے امور ہیں جو عملی نمونہ کے محتاج ہیں اور ایسے حصوں کو وہی لوگ دلنشین کر سکتے ہیں جو صاحب حال ہوں پس تکمیل دین کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی معنوی حفاظت سے دستکش ہو جائے.10 تزکیہ نفوس کے لئے نیک لوگوں کی صحبت از میں ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :- كُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ - (توبہ آیت (119) کہ راست بازوں کے ساتھ رہو.
^^ اور دنیا میں انبیاء سے بڑھے کہ کون راستباز ہو سکتا ہے ! کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ جن لوگوں کو انبیاء کی صحبت میسر آتی ہے اُن کے ایمان اور عمل کا اور رنگ ہوتا ہے.اور جن کو انبیاء کی صحبت میسر نہیں آتی ان کے ایمان اور عمل کا رنگ اور ہوتا ہے؟ اور اگر یہ بات نہیں تو کیا وجہ ہے کہ جو روح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں کار فرما تھی وہ ہمیں آج کے مسلمانوں میں نظر نہیں آتی ؟ میں اصلاح نفوس کے لئے ضروری ہے کہ یا صاح شریعیت نبی لمبی عمر پائے اور ہر زمانہ کے لوگوں کی براہ راست تربیت کرے اور یا اس کے ورثاء اور را ظلال جو اسی کے کمالات اپنے اند ر کھتے ہوں پیدا ہوتے رہیں تاکہ کسی دور کے لوگ بھی برکات رسالت سے محروم نہ رہیں.اللہ تعالے قرآن کریم میں فرماتا.میں جا تا ہے.وَأمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِي الْأَرْضِ د رعد آیت ۱۸) یعنی جو چیز لوگوں کے لئے نافع اور مفید ہوتی ہے وہ دنیا میں قائم رہتی ہے اور جو غیر نافع اور غیر مفید ہوتی ہے وہ دنیا سے نابود ہو جاتی ہے.اگر یہ درست ہے کہ نبوت ایک نافع اور مفید چیز ہے اور اس کے ذریعہ
۸۹ لوگوں کو دنیوی حسنات کے علاوہ اُخروی حسنات بھی حاصل ہوتی ہیں تو کیا اس کا انقطاع مذکورہ بالا آیت کے منافی نہ ہو گا ؟ or اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دینِ اسلام کامل بھی ہے اور الہی وعد کے مطابق محفوظ بھی ہے لیکن چونکہ امت کے افراد محفوظ نہیں اور ان کا گمراہ ہونا ممکنات سے ہے اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فرمایا ہے :- خَيرُ القُرُونِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثمَّ الَّذِينَ يَلُوْلَهُمْ ثُمَّ يَفْشُو الكَذِبُ.دبخاری جلد ۲ ص ۱ مطبوعہ مصری یعنی بهترین زمانہ میرا ہے پھر ان کا جو اُن سے متصل ہیں پھر ان کا جو ان سے متصل ہیں.پھر جھوٹ پھیل جائیگا.تو ایسی حالت میں سوائے اس کے اور کیا چارہ کا ر ہو سکتا ہے کہ خدا کی طرف سے کوئی مامور آکر اصلاح امت کا فریضہ سرانجام دے ہاں اگر تکمیل دین کے نتیجہ میں امت مسلمہ ہر قسم کے خطرات سے محفوظ ہو جاتی اور اس کی حالت ویسی ہی رہتی جیسی کہ آنحضرت کے زمانہ میں تختی تو پھر واقعی کسی مامور کے آنے کی ضرورت نہ تھی.لیکن جب خطرات موجود ہیں تو پھر ان کے تدارک کے لئے خدا کا مامور کیوں نہ آئے؟
9.اور اگر کہا جائے کہ اصلاح کے لئے علماء ہی کافی ہیں کسی نبی کی کیا ضرورت ہے ؟ تو یہ درست نہ ہوگا وجہ یہ کہ اس تاریک دور میں جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے علماء کی حالت تو خود قابل اصلاح ہوگی جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :- ا تكون في أُمَّتِي فَزَعَةً فَيَصِيرُ النَّاسُ إلى عَلَمَانِهِمْ يَا ذَا هُمْ قِرَدَةً وَخَنَازِيرُ (کنز العمال جلد ، من 19 ) یعنی ایک وقت آئے گا کہ میری امت میں گھبراہٹ پیدا ہو گی تب لوگ اپنے علماء کی طرف رجوع کریں گے تو انہیں معلوم ہو گا کہ وہ علماء نہیں رہے بلکہ بندر اور خنزیر ہو چکے ہیں.غور فرمائیے.کیا ایسی ناگفتہ بہ حالت میں علماء سے اصلاح کی توقع وابستہ کی جاسکتی ہے ؟ اور کیا ایسے تاریک دور میں سوادِ اعظم اور اجماع " کی کوئی حیثیت باقی رہ جاتی ہے ہے (۱۳) تعجب ہے کہ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ دین چو نکہ مکمل ہو چکا ہے اس لئے اب کوئی نبی نہیں آسکتا اور دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امت مسلمہ میں سنیں جھوٹے نبی پیدا ہوں گے گویا دین کی تکمیل جھوٹے نبیوں کی آمد میں تو روک نہیں جو مومنوں کو کا فراور
۹۱ موحدوں کو مشرک بنانے والے ہیں لیکن سچے بلیوں کی آمد میں روک ہے جو کافروں کو مومن اور مشرکوں کو موحد بنانے کے لئے آتے ہیں.کیا اس صورت میں دین کا اکمال محل مدح پر منصورہ ہوگا یا محل ذمہ پر ؟ گویا دین کا اکمال جھوٹے نبیوں کو تو نہیں روکتا.جو باطل کے اندھیرے کی طرف دھکیلتے ہیں مگر سچے نبیوں کو روکتا ہے جو حق کی روشنی کی طرف کھینچتے ہیں.وباؤں کو تو پھیلنے کی اجاز ہے کہ لوگ بیمار ہو کہ ہلاک ہوں مگر ڈاکٹروں کو آنے کی اجازت نہیں کہ مبادا کوئی شخص ان کے علاج سے چنگا ہو کہ ہلاکت سے نجات پا جائے.کیا خیر امت کے نصیب میں جھوٹے نبی ہی لکھے ہیں؟ اور کیا اسلام کے شجرہ طیبہ کی شاخوں سے کانٹے ہی جھڑتے رہیں گے؟ UM یا در ہے کہ دین کی تکمیل اس بات کو مستلزم نہیں کہ للہ تعا اس کی مناسب نگہداشت سے بھی دستکش ہو جائے مکان مکمل ہو جانے کے بعد بھی صفائی اور حفاظت کا محتاج رہتا ہے اور قصیر اسلام کے بارے میں تو خاص طور پر آنحضرت صلے اللہ علیہ ولم نے یہ ارشاد فرمایا ہے :- انَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُل مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا» (ابوداود) یعنی اللہ تعالئے اس امت کے لئے ہر صدی کے سریر
۹۲ ایسے لوگوں کو مبعوث کرتا رہے گا جو اسلام کے خوبصورت محل کو بیہودہ روایات اور غلط تشریحات کے گرد و غبار سے پاک وصاف کرتے رہیں گے.نیز امت کو آپ نے یہ انتباہ بھی فرمایا : مَنْ لَمْ يَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِهِ فَقَدْ مَاتَ مِينَةَ الْجَاهِلِيَّةِ دسمار الانوار جلد ۱۳ ۲۵۰ و کنز العمال م۲) یعنی جو شخص اپنے وقت کے امام کو شناخت کر کے اس کے حلقہ اطاعت میں داخل نہ ہوگا وہ جاہلیت کی موت مرے گا.پیش تکمیل دین کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہو سکتا کہ آئندہ اللہ تعالیٰ اسلام کی حفاظت و صیانت اور ترویج و اشاعت کے لئے بھی کوئی تدبیر عمل میں نہیں لائے گا.(۱۵ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن مجید کے نزول سے شریعت مکمل ہو چکی ہے اور اب کسی نئی شریعت کی ضرورت نہیں لیکن یا درکھنا چاہیئے کہ انبیاء نئی شریعت لیکر ہی مبعوث نہیں ہوا کرتے بغیر نئی شریعیت کے بھی مبعوث ہوا کرتے ہیں.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی گزرے ہیں جن میں سے شریعت
۹۳ لانے والے رسول صرف تین سو پندرہ تھے.(مشکوۃ مسند احمد بن حنبل) اور قرآن کریم سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرئیل میں جو نبی مبعوث ہوئے تھے ان میں سے ایک بھی نئی شریعیت لے کہ نہیں آیا تھا.بلکہ وہ سب کے سب موسوی شریعت کے قیام کے لئے مبعوث ہوئے تھے.جیسا کہ اللہ تعالے قرآن مجید میں فرماتا ہے :- ا وَلَقَدْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ وَقَقَيْنَا مِنْ بَعْدِ بالرسل - ربقرہ آیت ۸۸ یعنی ہم نے موسیٰ کو کتاب دی.اور پھر ہم نے اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے.إِنَّا لَنَا التَّوْرَاةَ فِيْهَا هُدًى وَنُور يحكم بها النَّبِيُّونَ الَّذِينَ اسْلَمُ اللَّذِينَ هَادُوا - زیانده آیت ۴۵ یعنی ہم نے موسیٰ پر تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور تھا اور اللہ تعالے کے فرمانبردارہ انبیاء اس کے مطابق یہود کے فیصلے کیا کرتے تھے.ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد جوبی میشوت ہوئے وہ کوئی نئی شریدیت لے کر نہیں آئے تھے اور نہ ہی کوئی نیا دین سکھانے کے لئے مبعوث ہوئے تھے بلکہ ان کے آئی کا مقصہ بھر یہ تھا کہ بنی اسرائیل کو تو رات کی تعلیم کے مطابق عمل کرانے کا فریضہ
۹۴ ادا کریں اور انہیں ضلالت و گمراہی کے اندھیروں سے نکالیں پس یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ قرآن مجیب چونکہ ایک مکمل کتاب ہے اس لئے اب کوئی نبی نہیں آسکتا.تورات بھی بنی اسرائیل کے لئے ایک مکمل کتاب تھی جیسا کہ اللہ تعالے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تَمَا مَا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَتَفْصِيلَا لِكُلِّ شی - دانعام آیت ۱۵۵) لیکن پھر بھی ان میں پے در پے نبی آئے.14 یاد رکھنا چا ہیئے کہ قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ سلام کو مثیل موسے بھی قرار دیا گیا ہے.جیسا کہ آیت کریمہ ہے :- انا ارسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلى فِرْعَونَ رَسُولًا رمزتل آیت (۱۶) یعنی بے شک ہم نے تمہاری طرف ایک ایسا رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے جس طرح کہ ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا.پس ضرور تھا کہ موسلئے علیہ السلام کی امت کی طرح اللہ تعالیٰ انحصر صلے اللہ علیہ وسلم کی امت پر بھی نظر رحمت فرماتا چنا نچہ اس نے انت محمدیہ کو بھی بشارت دی کہ اس میں بھی بنی اسرائیل کی طرح ایسے اشخاص پیدا ہوتے رہیں گے جو دین کے استحکام کا موجب ہوں گے.
90 آیت کریمیہ یہ ہے :- وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا تلختِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا ستَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيْمَنَنَ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيبَ لَتَهُم مِن بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّاه (نور آیت (۵۶) یعنی تم میں سے پوری طرح ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے خدا کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا اور جو دین اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے وہ ان کے لئے اسے مضبوطی سے قائم کر دے گا.اور ان کے خوف کی حالت کو امن کی حالت سے بدل دیگا.اور رسول خدا صلے اللہ علیہ وسلم نے ان خلفاء کے حق میں یہ دعا ریائی : اللهُمَّ ارْحَمْ خُلَفَانِي الَّذِينَ يَأْتُونَ مِنْ بَعْدِي الَّذِينَ يَرُدُّونَ أَحَادِينِي وَسُنَّتِي ويعلمُونَهَا النَّاسَ (الجامع الصغير للسيوطى) یعنی اسے میرے اللہ میرے خلفاء پر رسم کو جو میرے بعد آئیں گے اور میری باتیں اور میری سنت دنیا کے سہنے
۹۶ بیان کریں گے اور میری باتیں اور میری سنت ہی دُنیا کو سکھائیں گے.غور فرمائیے کہ خدائے اسلام خلفاء کے بارے میں وعدہ کر رہا ہے.اور پیغمبر اسلام ان خلفاء کے حق میں دُعا.تو یہ کیسے باور کیا جاتا ہے کہ امت مسلمہ کے باغ کی آبیاری کے لئے آئندہ کوئی مرد خدا ظاہر نہیں ہو گا ؟ کیا بنی اسرائیل کی طرح ہمارے دلوں کے پورے آسمانی آبپاشی کے محتاج نہیں ؟ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ خلیفہ کا لفظ قرآن کریم میں نبی کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ اللہ تعالے داؤد علیہ اسلام کے متعلق فرماتا ہے :- يَا دَاود اِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ - رص آیت ۲۷) اسے داؤد ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے.پس یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ خلیفہ کا لفظ غیر بنی کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے.(16) یا د رکھنا چاہیے کہ آیت کریمیہ :- الْيَوْمَ المَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی اور آپ ہی اس کا
95 صحیح مفہوم جانتے تھے اگر آیت موصوفہ کا یہ مطلب ہوتا کہ آئندہ کوئی مامور نہیں آسکتا تو آپ ہر گز یہ ارشاد نہ فرماتے :- لَن تَهْلِكَ أُمَّةً أَنَا فِي أَوَّلِهَا وَ المَسَيْحُ ابْنُ مريم في أخيها - (جامع الصغير السيوطي جلد مت) یعنی وہ امت ہرگز ہلاک نہیں ہو سکتی جس کے شروع میں میں ہوں اور جس کے آخر میں مسیح موعود ہوگا.مذکورہ بالا حدیث میں جس آنے والے موعود کی طرف اشارہ کیا گیا ہے صحیح مسلم میں اس کے متعلق أوحى الله إلى عيسى " کے الفاظ بھی آئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ موخود مورد وحی بھی ہوگا اور پھر مسلم کی اسی حدیث میں له اس کو چار دفعہ نبی اللہ بھی کیا گیا ہے.لے حدیث کے الفاظ یہ ہیں :- يُحمر نبي الله عیسی.نبی اللہ عیسے محصور ہو جائیں گے.فيرغب نبي الله عیسی - نبی اللہ عیسی خدا کی طرف رجوع کو نیگے.کر ثُمَّ يَهْبِطُ نَى الله عیسی.پھر نبی اللہ علیے ایک خاص مقام پر اتریں گئے.پھرنی اللہ رغب نبي الله عیسی بنی اللہ کیسے جناب انہی کی طرف متوجہ ہوں گے.( مسلم باب ذکر الدجال )
۹۸ جس سے ظاہر ہے کہ وہ موجود نبی بھی ہوگا.اور ابن ماجہ کی حدیث لا مَهْدِي الاعينى" 16 میں اُسے مہدی اور عیسی بھی قرار دیا گیا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ موجود ایک لحاظ سے مہدی ہو گا اور ایک لحاظ سے عیسی.اور صحیح بخاری میں اس کے متعلق:.إمامُكُم مِّنكُم کے الفاظ بھی آئے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ وہ موجود امت مسلمہ کا ہی ایک فرد اور محمد رسول اللہ کا ہی روحانی فرزند ہوگا اور قرآن کریم کو ہی دستور العمل قرار دے گا.اور آیت کریمہ :.تلَهُ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَّةَ مِّنَ الْآخِرِينَ ر واقعه آیت ۴۰-۴۱) سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اسلام کی نشاۃ اولیٰ کے دور میں نشانات اسلام کے لئے صحابہ کرام کے مقدس گروہ کو کھڑا کیا گیا تھا اسی طرح میسج موجود کے زمانہ میں بھی جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا دور ہے ایک ے علامہ اقبال کا مشہور شعر ہے :.ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہورہ (ہانگ (1) شان جمالی کی ترکیب میں اسی بابرکت دور کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
११ دوسرا گر وہ کھڑا کیا جائے گا اور اس سے بھی وہی کام لیا جائے گا ہو صحابہ کرام سے لیا گیا تھا.اور آیت کریمہ وَ اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ رجمعہ آیت ) سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آنے والا سیح اور مہدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی بروز ہو گا اور آپ کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ہی آئے گا.پس خدا اور اس کے رسول کے نزدیک اگر الْيَوْمَ اكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کا مطلب وہی ہوتا جو ہمارے مخالف بیان کرتے ہیں تو قرآن اور حدیث میں اس قسم کی تصریحات نہ پائی جاتیں اور دنیا میں ایسے حالا پیدا نہ ہوتے جو کسی مامور کی بعثت کے مقتضی ہوں.اور اللہ تعالے کی طرف سے امت محمدیہ کو یہ جانفزا مژدہ بھی نہ سُنایا جاتا :- وَ مَنْ يُطِعِ الله وَالرَّسُولِ فَا وَالئِكَ مَعَ الَّذِينَ انْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبيِّنَ وَالصَّدِّيقِينَ وَ الشُّهَدَاء وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولئِكَ رفيقا.ذلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ عَلِيمًا.نم رنساء آیت ۷۰-۷۱) یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے اس رسول کی اطاعت کر نیگے وہ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء- صدیقین.شہداء اور صالحین میں اور یہ
حضرات بہت ہی اچھے رفیق ہیں.یہ فضل خدا کی طرف سے ہے اور وہ خوب علم رکھنے والا ہے.ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالئے کسی کو ثبوت کے انعام سے محروم نہیں رکھنا چاہتا.البتہ اب یہ انعام دنیا کو اسلام کے ذرید سے ہی ملے گا.اور وہی شخص اس کو حاصل کر سکے گا جس کے اعمال پر اتباع نبوی کی مہر ہوگی.کیونکہ خاتم النبیین ہونے کی وجہ سے تمام انبیاء میں سے یہ خصوصیت ہمارے آقا محجر موجودات حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی حاصل ہے کہ آپؐ کی اطاعت ایک شخص مقام نبوت پر بھی فائز ہو سکتا ہے.اللهم صل على حمد ہم ہوئے غیر اہم تجھ سے ہی اسے خیر ارسل تیرے بڑھنے سے مقدم آگے بڑھایا ہم نے (درسین)
فیضان ربوبیت کے منکرین چند سوال فیضان ربوبیت کے منکرین سے ہمارا پہلا سوال تو یہ ہے کہ جب ربوبیت الہی کی فیض گستری کسی ایک زمانہ سے مخصوص نہیں بلکہ اس کا دامن ازل سے لے کر ابد تک پھیلا ہوا ہے تو پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد فیضان ربوست میں تعطل پیدا ہو گیا ہے اور آپؐ کے بعد روحانی ارتقاء کے تمام راستے مسدود ہو گئے ہیں اور ذوق عبودیت کی تکمیل کے لئے کوئی دروازہ کھلا نہیں رہا." دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا خاتمیت محمدی اپنے اندر تکوینی تاثیر نہیں رکھتی ؟ اگر تکوینی تاثیر رکھتی ہے تو کیا آپ کے فیض سے آئندہ کوئی ایسا کامل انسان پیدا نہیں ہو سکتا جو معاشرہ کی سربلندی کا موجب ہو ؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا گزشتہ زمانہ میں روحانی انقلابات غیر معمولی شخصیتوں کے ذریعہ سے نہیں آتے رہے ؟ اگر غیر معمولی فیقو کے ذریعہ سے ہی آتے رہے ہیں تو کیا آئندہ روحانی انقلاب کے لئے کسی غیر معمولی شخصیت کی ضرورت نہیں ؟ چوتھا سوال یہ ہے کہ کیا لوگوں کے اذہان اور طبائع میں اختلاف
ہونے کی وجہ سے اختلاف رائے ناگزیر نہیں ؟ اگر نا گز یہ ہے تو کیا است میں اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں کسی ایسے حق پرست منصف کی ضرورت نہیں جو وحی الہی کی رہنمائی میں حکم اور عدل کے فرائض سرانجام دے؟ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا حل شدہ مسائل ایک عرصہ کے بعد قابل نقل نہیں ہو جاتے ؟ اگر ہو جاتے ہیں تو کیا ان کے حل کے لئے کسی عقدہ کشا کی ضرورت نہیں ؟ چھٹا سوال یہ ہے کہ کیا آپ نئے مسائل حیات پیدا نہیں کہتے اگر ہو سکتے ہیں تو کیا قرآن حکیم سے ان کا حل پیش کرنے کے لئے کسی معیاری شخصیت کی ضرورت نہیں ؟ ساتواں سوال یہ ہے کہ قرآن مجید نے جواد صاف نبی کے بیان کئے ہیں کیا اب دنیا واقعی ان سے مستغنی ہو چکی ہے ؟ مثلاً ے نبی مورد وحی ہوتا ہے کیا اب دنیا کو آسمانی رہنمائی کی ضرورت ہیں سے بنی داعی ہوتا ہے کیا اب دنیا کو خدا کی طرف بلانے کی ضرورت نہیں؟ ے نبی مبلغ ہوتا ہے کیا اب دنیا کو پیغام حق پہنچانے کی ضرورت نہیں ؟ ے نبی ہادی ہوتا ہے کیا اب دنیا کو راہ ہدایت دکھانے کی ضرورت نہیں؟ ے نبی مصلح ہوتا ہے کیا اب دنیا کو اصلاح نفوس کی ضرورت نہیں؟ ے نبی بشیر ہوتا ہے کیا اب دنیا کو بشارتوں کی ضرورت نہیں ؟ ے نبی نذیر ہوتا ہے کیا اب دنیا کو بداعمالیوں کے عواقب سے ڈرا نر
١٠٣ کی ضرورت نہیں ؟ ے نبی بھی ہوتا ہے کیا اب دنیا کو زندگی بخش انفاس کی ضرورت نہیں؟ سے نبی منجی ہوتا ہے کیا اب دنیا کو شیطانی وساوس سے نجات دلانے کی ضرورت نہیں ؟ ے نبی مہر کی ہوتا ہے کیا اب دنیا کو فکر و عمل کی پاکیزگی کی ضرورت نہیں ے نبی معلم ہوتا ہے کیا اب دنیا کو درس معرفت کی ضرورت نہیں ؟ ے نبی نور ہوتا ہے کیا اب دنیا کو باطل کے اندھیرے سے نکا لکم حق کی روشنی میں لانے کی ضرورت نہیں ؟ ے نبی اسوہ حسنہ ہوتا ہے کیا اب دنیا کو تعمیر کے دار کے لئے کسی کامل نمونہ کی ضرورت نہیں ؟ ے نبی امام ہوتا ہے کیا اب دنیا کو مرکزیت کے قیام کے لئے کسی امام کی ضرورت نہیں ؟ الغرض قرآن مجید نے نبی کے جو اوصاف بیان کئے ہیں جب دنیا آن سے کسی وقت بھی مستغنی نہیں ہو سکتی تو پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ بنی کی پہلے زمانہ میں تو ضرورت تھی لیکن ہمارے زمانہ میں اس کی ضرورت نہیں.اگر خدا رہی ہے وہی اس کی صفات ہیں.وہی ہم ہیں وہی ہماری ضروریات ہیں تو نبوت کا دروازہ بند کیسے ہو گیا ؟ آخر نبوت ظلمت نہیں نور ہے.گمراہی نہیں ہدایت ہے.لعنت نہیں رحمت ہے.سزا نہیں انعام ہے تو پھر اس کے انقطاع پر اصرار (دیکھو حاشیہ صہ انہ)
۱۰۴ کیوں ؟ ان سادہ مزاجوں سے کوئی اتنا تو پوچھے فیضانِ خدا وند بھی ہوتے ہیں کبھی بند رختن رہتاسی) قرآن کریم میں اللہ تعالے پیغمبروں کے بارے میں فرماتا ہے :- لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِه - (بقره آیت (۳۸۷) یعنی رسولوں میں کوئی فرق نہیں وہ اپنی اصل کے لحاظ سے ایک ہی ہیں.اور حدیث میں آتا ہے:- الأنبياءُ الْحَوَل لِعَلَّاتِ أُمَّهَا تَهُمْ شَتَّى دينهم واحد - (بخاری) کے حاشیہ منا :- حضرت امام فخرالدین رازی لکھتے ہیں :- وَلَمَّا كَانَ الْخَلْقَ مُحْتَاجِينَ إِلَى البَعْثَهُ وَالرَّحيم الكوتيمُ قَادِرًا عَلَى الْبَعْثَةِ وَجَبَ فِي كَرَمِهِ ورحمتهِ أنْ يَبْعَثَ الرُّسُلَ إِلَيْهِمْ " ( تفسیر کبیر جلد 11 م192) جب مخلوق انبیاء کی محتاج ہے اور رحیم و کریم خدا بعثت پر قادر بھی ہے تو اس کے کرم اور رحمت کی رو سے واجب ہوا کہ وہ ان کی طرف رسول بھیجے ہے
۱۰۵ یعنی انبیاء ایسے بھائی ہیں جن کا باپ ایک ہے اور مائیں مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے.غور فرمائیے جب تمام پیغمبر اپنی اصل کے لحاظ سے ایک ہیں اور ان کا دین بھی ایک ہی ہے تو اگر مسیح موعود بحیثیت نبی مبعوث ہو.تو کیا فرق پڑتا ہے ؟ ہاں چونکہ شریعت مکمل ہو چکی ہے اس لئے بیشک ایسا نبی کو نہیں آسکتا جو نئی شریعیت لانے کا دعویدار ہو.اور احکام قرآنی کو کالعدم قرار دے لیکن بغیر شریعت کے نبی آسکتا ہے لیکن وہی جس کے اعمال پر اتباع نبوی کی عمر ہو.حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے روحانی ترقی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں نہ کہ کم.ہالی فرق ہے تو یہ کہ جس طرح کا رخ عالم کی تکمیل کے بعد اسی عالم آب وگل کے اندر ایک نئے مادی ارتقاء کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اسی طرح تصر دین کی تکمیل کے بعد دنیا تے اسلام کے اندر روحانی ارتقاء کا نیا دروازہ کھل گیا ہے.مگر اس میں وہی شخص داخل ہو سکتا ہے.جو قرآنی تعلیمات کو مشعل راہ بنائے اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو اپنے لئے موجب نجات سمجھے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اپنی پر معارف تصنیف حقیقۃ الوحی میں تحریر فرماتے ہیں کہ :.اسلام کا خدا کسی پر اپنے فیض کا دروازہ بند نہیں کرتا
بلکہ اپنے دونوں ہاتھوں سے بلا رہا ہے کہ میری طرف آؤ اور جو لوگ پور سے زور سے اس کی طرف دوڑتے ہیں.ان کے لئے دروازہ کھولا جاتا ہے.(حقیقۃ الوحی ص ۶۲)
1-6 تنویر رسالت
۱۰۸ ندرومى مکرکن در راه نیکو خدمتی تا نبوت یا بی اندر اُتنے یعنی نیکی کی راہ میں خدمت کی ایسی تدبیر کر کہ تجھے امت کے اندر نبوت مل جائے.ر مثنوی مولفت اروم دفتر اول جنگ
1.9 تنویر رسالت لہ کا ذکر ہے کہ جناب پر خش صاحب ایڈیٹر رسالہ تائید اسلام سے میرا لاہور میں مباحثہ ہوا جو تین دن جاری رہا.موضوع بحث امکان نبوت تھا.تیسرے روز جناب شمس الدین گنا شائق مباحثہ کے صدر مقرر ہوئے.انہوں نے یہ دیکھ کر کہ خیر احمدی مناظر احمدی مناظر کے پیش کردہ دلائل کا جواب دینے سے قاصر ہے مباحثہ کو اسی روز ختم کرنے کا اعلان کر دیا.ایڈیٹر صاحب نے مباحثہ کے دوران جو دلائل انقطاع نبوت کے سلسلہ میں پیش کئے تھے ان کے جوابات درج ذیل ہیں :- انقطاع نبوت دلائل کا جائزہ قوله لا آیت کرنیه ما كانَ مُحَمَّد أنا أحد من بحالكم ولكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ (احزاب آیت ۴۱) میں آنحضرت کو خاتم النبین قرار دیا گیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ آپ نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں.لہذا آپ کے
بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.اقول یاد رکھنا چاہیئے کہ خاتم النبیین کا معنے نبیوں کا ختم کر نیوالا کرنا.قرآن - حدیث - مشاہدہ اور لغت چاروں کے خلاف ہے.قرآن کے خلاف اس لئے کہ اس میں واضح طور پر آئندہ ما موروں کے آنے کی خبر دی گئی ہے.مثلاً سورہ حج میں آتا ہے :- -١ اللَّهُ يَصْطَفِى مِنَ الْمَلَئِكَةِ رُسُلًا وَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِير رج آیت 4) یعنی اللہ تعالے اپنے رسول منتخب کرتا ہے اور کرتا رہیگا فرشتوں سے بھی اور انسانوں سے بھی اور وہ بہت دعائیں سننے والا اور حالات پر خوب نظر رکھنے والا ہے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت تک فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے اپنے رسول منتخب کرتا رہیگا.کیونکہ تصطفی مضارع کا صیغہ ہے جو حال اور مستقبل دونوں زمانوں کے لئے آتا ہے اور لفظ رُسل جمع ہے جو ایک سے زیادہ رسولوں کے اصطفا کا متقاضی ہے.پس اس سے مراد کیلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہو سکتے.-۲ سوره عنکبوت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبوة - (عنکبوت آیت ۲۸)
یعنی ہم نے نبوت کو ابر اہیم کی ذریت سے مخصوص کر دیا.اور چونکہ ابراہیم علیہ اسلام کی ذریت کا سلسلہ قیامت تک محمد ہے اس لئے نبوت کا سلسلہ بھی قیامت تک جاری ماننا پڑے گا اور اگر کہا جائے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی ہے تو دوسرے لفظوں میں اس کا یہ مطلب ہوگا کہ آپؐ پر ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کا خاتمہ ہو گیا اور یہ بالبداہت غلط ہے کیونکہ انکی ذریت کا سلسلہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک محدود نہیں بلکہ قیامت تک وسیع ہے جس سے ظاہر ہے کہ نبوت کا سلسلہ بھی قیامت تک جاری رہے گا.- ایسی طرح ابراہیم علیہ سلام کے متعلق سورہ بقرہ میں آتا ہے.انّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَا مَا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لا يَنَالُ عَهْدِى الظَّلِمِينَ (بقره است (۱۲۵) یعنی اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو مختلف ابتلاؤں میں سے گزارنے کے بعد فرمایا کہ میں تجھے لوگوں کا امام مقرر کرنے والا ہوں.انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت میں سے بھی امام بنا ئیو تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہاں بناؤں گا نگر یہ منصب ظالموں کو نہیں ملیگا.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ منصب امامت سے محرومی کا باعث عالم ہوتا ہے تو کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک
۱۱۲ ابراہیم علیہ السلام کی ساری کی ساری ذریت ظالم ہوگی ؟ پس جب ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کے متعلق یہ باور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ قیامت تک ساری کی ساری ظالم ہوگی تو پھر اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو ظالم نہیں ہونگے ان کو منصب ضرور لالیگا اللہ تعالئے سورۃ اعراف میں تمام بنی آدم کو تاکید فرماتا ہے :.يبني ادما مَا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ يَقُونَ عَلَيْكُمْ أَبْيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْنَ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.(اعراف آیت ۳۶) یعنی اسے آدمزاد و! اگر تمہارے پاس تمہیں میں سے سیل آئیں جو تم کو میری آیات سُنائیں تو انہیں مان لینا ! ویر جو لوگ تقوی اختیار کرنیگے اور اپنی اصلاح کریں گے ان کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے.اس آیت میں چونکہ نبی آدم سے خطاب ہے اور نبی آدم کا سلسلہ آدم سے لے کر قیامت تک ممند ہے.اس لئے ماننا پڑیگا کہ رسولولہ کا سلسلہ بھی قیامت تک جاری رہے گا.-۵ سوره مومنون میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- ايُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَتِ وَاعْمَلُوا صلحا إلى بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيدُهِ وَإِنَّ هَذِهِ
امتكم أُمَّةً وَاحِدَةً وَ آنَارَ بُكُمْ فَاتَّقُونِ ر مومنون آیت ۵۲ - ۵۳) یعنی اسے رسولو.پاک چیزیں کھایا کرو.اور نیک عمل کیا کرو اور میں جانتا ہوں جو تم کرتے ہو.اور یہ تمہاری انت ہے ایک ہی وقت اور میں ہی تمہارا رب ہوں پس مجھے ہی مشکلات میں ڈھال بنایا کرو.یا درکھنا چاہیے کہ اس آیت میں الرمل کا لفظ آیا ہے جو جمع ہے اور ایک سے زیادہ رسولوں کے وجود کا متقاضی ہے جس سے ظاہر ہے کہ بعض رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی آنیوالے ہیں.جو قرآنی شریعت کے متبع ہونگے اور اس کی تجدید کے لئے آئیں گے.ور نہ کوئی وجہ نہ تھی کہ نزول قرآن کے وقت آنحضرت کو بجائے آیا تھا الرسول کے رجیسا کہ آپ کو قرآن میں کئی جگہ ان الفاظ سے مخاطب کیا گیا ہے، آیا تها الرُّسُل سے تو جمع کا صیغہ ہے مخاطب کیا جاتا.پس لا محالہ ماننا پڑے گا کہ یہ وہ رسول ہیں جو آنحضرت کے بعد آئیں گے اور ان سب کا آنا امت محمدیہ میں ہوگا.جیسا کہ وَإِن هَذِهِ أمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً میں ان سب کے لئے ایک ہی اُمت قرار دی گئی ہے.اور السرسکی سے مراد گذشتہ رسول اس لئے نہیں ہو سکتے کہ ان کی ایک امت نہ تھی بلکہ الگ الگ امتیں تھیں اور بلحاظ نہ ہیب
الگ الگ گردہ تھے جن کو ایک امت نہیں کہا جاسکتا.پس وہ اقت واحدہ امت محمدیہ ہی ہے جس کی طرف یہ رسل عند الضرورت آئیں گے.مذکورہ بالا آیات سے صاف ظاہر ہے کہ نبوت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا بلکہ قیامت تک جاری ہے.یہ الگ بات ہے کہ اب جو بھی کوئی مبعوث ہوگا وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا اُتنی ہو گا اور آپ کے دین کی خدمت کے لئے آئے گا.اور اگر کسی نامور کا آنا آیت خاتم النب تین کے مفہوم کے خلاف ہوتا تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کا منصب عطا کرنے والا علیم و خبیر خدا قرآن میں آئندہ ماموروں کے آنے کی خبر ہر گز نہ دنیا.کیا اللہ تعالے کے قول اور فعل میں تضاد واقع ہو سکتا ہے ؟ حاشا وکلا.ہرگز نہیں ہرگز نہیں اور یہ معنے حدیث کے خلاف اس لئے ہیں کہ اس میں صاف پیشنگوئی موجود ہے کہ آخری زمانہ ہمیں ایک مسیح آئے گا جو نبی اللہ ہوگا اور اس پر وحی نازل ہوگی (صحیح مسلم) اسی طرح اس موجود کے متعلق یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس میں تیسوای صفات بھی ہوں گی اور جہڑی صفات بھی.حدیث کے الفاظ یہ ہیں :- يُوشِكَ مَنْ عَاشَ مِنْكُمْ أَنْ يَلْقَى عِيسَى ابن مريم إمَا مَا مَهْدِيَّا وَحَكَمَا عَادِلًا - رمسند احمد بن حنبل جلد صلا۲ یعنی جو تم میں سے زندہ رہے گا وہ عیسی بن مریم کو ملینگا
۱۱۵ جو امام مہدی اور حکم عادل ہوگا.اور پھر حدیث میں یہ بھی تصریح ہے کہ وہ موجود امت میں کا ہی ایک فرد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی روحانی فرزند ہوگا نه که کسی دوسری امت کا فرد بخاری کی روایت ہے :- كَيْفَ اَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِّنكُمْ.(بخاری) یعنی تمہارا اس دن کیا حال ہو گا جس دن این مریم تم میں نازل ہوگا.اور تم جانتے ہو کہ ابن مریم کون ہے ؟ وہ تمہارا ہی ایک امام ہوگا اور تم میں سے ہی پیدا ہوگا.اسی طرح حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ امت محمدیہ کا نبی امت محمدیہ میں سے ہوگا :- قَالَ مُوسى رَبِّ اجْعَلْنِي نَبِيَّ تِلْكَ الْأُمَّةِ قَالَ نَبيُّهَا مِنْهَا ـ (الخصائص الكبرى للسيوطي صدا) یعنی موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی کہ مجھے امت محمدیہ کا نبی بنا دیجئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس امت کا نبی اسی امت میں سے ہوگا.مذکورہ بالا احادیث سے بھی ظاہر ہے کہ آئندہ امتی بنی آسکتا ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک امتی نبی کی پیشگوئی فرما رہے ہیں جو ایک لحاظ سے مری ہوگا اور ایک لحاظ سے عیسی - بر کیف
114 آیت خاتم النبین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی اور آپ ہی اس کا صحیح مفہوم جانتے تھے.اگر آیت خاتم النبیین کا مطلب دہی ہوتا جو ہمارے مخالف بیان کرتے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد کسی نبی کے آنے کی پیشگوئی ہرگز نہ فرماتے.اور یہ معنے مشاہدہ کے خلاف اس لئے ہیں کہ امت مسلمہ میں ہر طرف زندقہ والحاد کا دور دورہ ہے اگر آئندہ ماموروں کا سلسلہ بند کر دیا گیا تھا تو اس کا نتیجہ کم از کم یہ تو ہوتا کہ مسلمان ضلالت و گمراہی سے محفوظ ہو جاتے نہ ان کے عقائد بگڑتے اور نہ ہی ان کے اعمال خواب ہوتے اور وہ ویسے ہی متقی اور پرہیز گار نظر آتے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے لیکن ایسا نہیں بلکہ ہر طرف اخلاقی ہے ردھانی تنزل کے آثار نمایاں ہیں اور قوم کا درد رکھنے والے مسلمان پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ.اسے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں اب اسکی مجالس میں نہ بنتی نہ دیا ہے مولینا خالی اور علامہ اقبال سلمانوں کی حالت زار کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں سے وضع میں تم ہو نصاری تو تمتن میں منبود یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں ہو.(ہانگ (1)
116 غور فرمائیے کیا مسلمانوں کی یہ زبوں حالی بجائے خود اس امر کا ثبوت نہیں کہ ماموروں کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا اور نہ ہونا چاہئیے ؟ اور یہ معنے نعت کے خلاف اس لئے ہیں کہ لغوی لحاظ سے خاتم بفتحہ تاء کے معنے مہر کے ہیں نہ کہ ختم کرنے والا کے کیونکہ یہ ہم کہ ہے نہ کہ اسم فاعل اور خاتم جب کسی جمع کے صیغے کی طرف مضان ہو.مثلاً خاتم الشعراء - خاتم المصنفین اور خاتم الاولیاء وغیرہ تو اس کے معنے عربی زبان کے محاورہ میں افضل کے ہوتے ہیں پس آیت کریمییه : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ ولكن رسول اللهِ وَخَاتَمَ النَّبيِّنَ کے یہ معنے نہیں کہ محمد رسول اللہ نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں.اور آپؐ کے بعد کوئی نہیں نہیں آسکتا.بلکہ یہ معنے ہیں کہ آپ حیثیت محمد جسمانی لحاظ سے تو کسی مرد کے باپ نہیں مگر بحیثیت رسول روحانی لحاظ سے ضرور باپ ہیں لیکن یہاں یہ سوال اُبھر کر سامنے آجاتا ہے کہ بحیثیت رسول تو ہر رسول ہی اپنی امت کا باپ ہوتا ہے.پھر اس معاملہ میں آپ کی کیا خصوصیت ہوئی ؟ تو اس کا جواب خاتم النبین کے الفاظ میں دیا گیا ہے کہ آپ صرف رسول ہی نہیں بلکہ رسولوں کے سرتاج ہیں اور آپ کی شان ابوت زمانی اور میانی لحاظ سے ہی نہیں اہ حضرت امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں :.دیکھیں اگلے صفتہ پور)
بلکہ قوت افاضہ کے لحاظ سے بھی تمام انبیاء کی شان ابوت سے بڑھکر ہے.اگر پہلے نبیوں کے فیض سے ان کی روحانی اولاد میر یقیت کے مرتبہ تک پہنچ سکتی تھی تو آپ کے فیض سے آپ کی روحانی اولاد مقام نبوت پر بھی فائزہ ہو سکتی ہے.صلی اللہ علیہ وسلم.چنانچہ دوسرے رسولوں کے متعلق تو سورہ حدید میں صرف یہ تصریح ہے:.والذيْنَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أَولَيكَ همُ الصّديقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ - (حدید آیت ۲۰) یعنی جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی اپنے رب کے حضور صدیقوں اور شہیدوں کا درجہ پانے والے ہیں.لیکن سرور کائنات محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سورہ نساء حاشیه م الا ترى أنَّ رَسُولَنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا كَانَ خَالَمَ النَّبِيِّينَ كَانَ أَفْضَلُ الأَنْبِيَاء - ر تفسیر کبیر جلد 4 ماس دیکھو ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہوئے تو سب نبیوں سے افضل قرار پائے.
119 میں یہ ارشاد ہے :- ومَن يطع الله وَالرَّسُولَ فَا وليكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم مِّنَ البين و الصديقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَ حَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا - (آیت ٤) یعنی جو لوگ اللہ کی اور اس کے اس رسول کی اطاعت کرینگے وہ ان لوگوں میں شامل ہونگے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین ہیں اور یہ حضرات بہت ہی اچھے رفیق ہیں.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطات سے انسان نہ صرف صالح شہید اور صدیق بن سکتا ہے بلکہ نبوت کا مقام بھی حاصل کر سکتا ہے.(صلی اللہ علیہ وسلم) الغرض آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ان معنوں میں خاتم النبین نہیں کہ آئندہ آپ کے ذریعہ کسی کو کوئی روحانی انعام حاصل نہیں ہو سکتا.بلکہ آپ ان معنوں میں خاتم النبیین ہیں کہ تمام مراتب کمال آپ پر ختم نہیں اور جو اوصاف پہلے نبیوں میں جزوی طور پر پائے جاتے تھے وہ آپ میں مجموعی طور پر پائے جاتے ہیں اور آپ کا دائرہ استعداد اور قوت افاضہ تمام نبیوں کے دائرہ استعداد اور قوت افاضہ سے بڑھ کر ہے.اگر پہلے نبیوں کے فیض سے ان کی روحانی اولاد
۱۲۰ صدیقیت کے مرتبہ تک پہنچ سکتی تھی تو آپ کے فیض سے آپ کی روحانی اولا د مقام نبوت پر بھی فائز ہو سکتی ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا :- قَوْلُوا إِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لا ني بعدة - وتكملة مجمع البحار منه ) یعنی یہ تو کہو کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں لیکن یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا.قوله ۲ آیت کریمہ وَ مَنْ يُطِعِ الله وَالرَّسُولَ....الخ میں لفظ مع آیا ہے نہ کہ من جس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آنحضرت کی اطاعت کریں گے وہ نبیوں کے ساتھ ہوں گے مگر خود نبی نہ ہوں گے.اقول جوا با عرض ہے کہ اگر منع کے ان معنوں کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو پھر من النبیین کے بعد کے تینوں معطوف یعنی والصدیقی وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِین بھی اپنے معطوف علیہ کے حکم میں ہونے کی وجہ سے محے کے انہیں معنوں میں قرار دیئے جائیں گے اور اس صورت میں آیت کا ماحصل یہ ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے صدیقوں کے ساتھ ہوں گے مگر خود صدیق
۱۲۱ نہ ہوں گے وہ شہیدوں کے ساتھ ہوں گے مگر خود شہید نہ ہونگے اور وہ صالحین کے ساتھ ہوں گے مگر خود صالح نہ ہوں گے اور یہ مفهوم بالبدا بہت غلط اور مشاہدات کے خلاف ہے.بدیں وجہ ہی ماننا پڑے گا.کہ اس آیت میں لفظ مع بمعنی من ہی استعمال ہوا ہے جیسا کہ توقنَا مَعَ الْابْرَارِه (آل عمران آیت ۱۹۴) کی آیت میں مع معنی من استعمال کیا گیا ہے اور یہاں مع کا یہ معنے نہیں کہ جب نیک لوگوں کی وفات ہو تو ہمیں بھی ان کیے ساتھ ہی وفات دید ہے.بلکہ یہ معنے ہے کہ ہم میں بھی نیک بنا کر وفا دے.الغرض مع کا لفظ آیت موصوفہ میں نہ زمانی معیت کے معنوں میں آیا ہے اور نہ ہی مکانی معینیت کے معنوں میں.بلکہ رشی معیت کے معنوں میں وارد ہوا ہے.قوله ۳ اگر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے کوئی نبی بن سکتا تو اس وقت تک ہزاروں نبی بن گئے ہوتے لیکن جب ایسا وقوع میں نہیں آیا تو معہ کے معنے من کرنا درست نہیں.اقول یا درکھنا چاہیئے کہ نبوت اور بادشاہت شخصی انعام نہیں بلکہ قومی انعام ہے اور یہ انعام قوم میں سے جب کسی ایک فرد کو مل جائے
۱۲۲ تو ساری قوم کو ہی متصور ہوتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.و إذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَقَومِ ذَكَرُوا نَعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ أَنْبِيَاء وجَعَلَكُمْ مُلو گا.(مائدہ آیت (۲) یعنی تم اس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اسے میری قوم تم اللہ کے اس انعام کا شکر کرو جو اس نے اس صورت میں تم پر کیا کہ اس نے تم میں نبی مبعوث کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا.اب دیکھئے اس آیت میں موسیٰ علیہ السلام نبوت اور بادشاہت کو قومی انعام قرار دے رہے ہیں اور اپنی قوم کو شکر نعمت کی تلقین فرما رہے ہیں.پس آیت کریمہ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَا وليكَ مَعَ الَّذِينَ انْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ - میں جس انعام کا وعدہ دیا گیا ہے اس کا مقتضاء یہ نہیں کہ امت کا ہر فرد نبی بن جائے.بلکہ اس کا منشاء یہ ہے کہ بوقت ضرورت امت کا کوئی نہ کوئی فرد نبوت کے انعام سے ضرور نوازا جائیگا چنانچہ سورہ فاتحہ میں بھی صیغہ واحد کی بجائے جمع کا صیغہ اسی لئے استعمال کیا گیا ہے کہ یہ مشتر کہ دعا ساری قوم کے لئے فائدش
۱۲۳ ثابت ہو اور اللہ تعالئے بوقت ضرورت جس کو مناسب سمجھے لوگوں کی اصلاح کے لئے کھڑا کر دے.غرض نبوت کا انعام تو امت کو مل سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے قانون اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَه- (انعام آینده ۱۲۵) کی رعایت کے تحت ہی مل سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہی سنت چلی آتی ہے.کہ وہ بلحاظ فطرت اور بلحاظ زمان اور بلحاظ مکان جس کو بھی اور جب بھی اور میں جگہ بھی مناسب سمجھتا ہے اپنی رسالت کے لئے منتخب کر لیا ہے.آیت قوله ، يت كريمه يبنى ادم اِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْنَ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (اعراف آیت ۳۶) میں خطاب مہبوط آدم کے وقت کی اولاد آدم سے ہے نہ کہ آنحضرت کے بعد کی اولاد آدم سے لہذا اس آیت کو امکان نبوت کے سلسلہ میں پیش نہیں کیا جا سکتا.أقول یادر ہے کہ قصونَ عَلَيْكُمْ آیا تی کا جملہ صاف بتا رہا ہے گروہ آنیوالے رسول صرف قرآن کریم کے احکام اور اس کی تعلیمات کو
ہی پیش کریں گے.چنانچہ يَقُصُّونَ کا قرینہ اسی پر دال ہے اور ان کی بعثت کی غرض تقوی اور اصلاح ہوگی جس پر فمن اتقی و اصلاح کے الفاظ دلالت کر رہے ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ وہ رسول ہیں جو آنحضرت کی امت میں آنے والے ہیں اور جو شریعت اسلامیہ کے قیام کے لئے مبعوث ہونگے.اور بنی ادمر کے خطاب کو مہبوط آدم کے زمانہ کی اولاد آدم سے مختص کرنا اس وجہ سے بھی درست نہیں کہ حدیث میں نوح علیہ السلام کو اول الرسل قرار دیا گیا ہے.دنجاری، پس مبوط آدم کے وقت کی اولاد آدم میں اتنے رسول کیسے تسلیم کئے جاسکتے ہیں جو الرسل کے صیغہ جمع کے مصداق ہوں.اور پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو رسول ہبوط آدم کے زمانہ کے بعد مبعوث ہوئے ہیں کیا وہ اولاد آدم میں مبعوث نہیں ہوئے ؟ جب اولاد آدم میں ہی مبعوث ہوتے ہیں تو یہ خطاب سوط آدم کے وقت کی اولاد آدم سے کیسے مختص کیا جا سکتا ہے ؟ اور اگر بنی آدم سے مراد آدم علیہ السلام سے لے کہ آنحضرت تک کی اولاد آدم سمجھی جائے.بائیں وجہ کہ ان میں رسول آتے رہے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ آگے کے لئے کیوں رک گیا ؟ کیا آنحضرت سے پہلے کی اولاد آدم اس قابل تھی کہ خدا ان میں رسول بھیجتا رہے اور آنحضرت کے بعد کی اولاد آدم اس قابل
۱۲۵ نہیں رہی کہ خدا اس میں کوئی رسول بھیجے ؟ گویا آنحضرت سے پہلے کی اولاد آدم تو بنی ادھر کے خطاب کی اس لئے مستحق ہے کہ اس میں رسول آتے رہے ہیں مگر آنحضرت کے بعد کی اولاد آدم اس خطاب کی مستحق نہیں کیونکہ اس میں قیامت تک کوئی رسول نہیں آئی کا.تو او لا و آدم وہی ہوئی جس میں رسول آیا کریں سبحان الله ! آنحضرت کے بعد کی اولاد آدم رسولوں سے کیا محروم ہوئی لینی ادم کے آسمانی خطاب سے بھی محروم ہو گئی.باللعجب.اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی اولاد آدم اس لئے يُبنى آدم کے خطاب میں شامل نہیں سمجھی جا سکتی کہ اس میں رسولوں کی بعثت نہیں ہونے کی.تو میں عرض کروں گا.کہ کیا بعثت انبیاء کے اسباب آنحضرت کے بعد کی اولاد آدم میں وجود پذیر نہیں ہوں گے ؟ اگر نہیں ہو نے تو بات بن سکتی ہے.لیکن جب اختلافات کی صورت میں اسباب موجود ہیں اور اختلافات کا وجود بعثت انبیاء کی علت کو ظاہر کرتا ہے اور یہ علت آنحضرت کے بعد کی اولاد آدم میں متحقق ہے تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ الحصر کے بعد کی اولاد آدم میں رسول مبعوث نہ ہوں ؟ جب رسولوں کی ضرورت ثابت ہے تو یہ شرط انصاف نہیں کہ بنی آدم کے خطاب میں آنحضرت کے بعد کی اولادِ آدم کو شامل نہ سمجھا جائے کیا علاوہ ازین به امریهی قابل توجہ ہے کہ اس آیت سے پہلے بھی در
۱۲۶ آیات میں يُبنى ادھر کے الفاظ سے اولاد آدم کو مخاطب کیا گیا ہے.مثلاً يبني آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَ لا تُسْرِفُوا - (اعراف آیت ۳۲) یعنی اسے آدمزاد و امسجدوں کے پاس زیست کے سامان اختیار کر لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو یہ تو کیا ان خطابات میں صرف وہی اولاد آدھ شامل ہے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہو گزری ہے ؟ یا آپ کے بعد آنیوالی اولاد آدم بھی شامل ہے ؟ اگر کہا جائے کہ آنحضرت کے بعد کی اولا آدم بھی شامل ہے تو میں پوچھوں گا کہ کیوں اور کن وجوہ کی بناء پر شامل ہے ؟ اگر ان احکامات کی وجہ سے شامل ہے جن پر عمل پیرا ہونے کی سب اولاد آدم کو ضرورت ہے تو بوجہ ضرورت آنحضرت کے بعد کی اولاد آدم میں نبی کیوں نہیں آسکتا ؟ اگر کیا جائے کہ آنحضرت ہی قیامت تک کافی ہیں تو میں عرض کروں گا کہ با وجود کافی ہونے کے آپؐ نے یہ کیوں فرمایا کہ میری امت کے تہتر فرقے ہو جائینگے اور رفع اختلافات کے لئے خدا کی طرف سے ایک مسیح موجود آئے گا جو حکم اور عدل ہوگا ؟ جب آنحضرت اپنے کافی ہونے کے باوجود رفع اختلافات کے لئے ایک مسیح موعود کی پیش گوئی فرما چکے ہیں جو نبی اللہ ہو گا ر صحیح مسلم ، تو یہ کیسے باور کیا جائے کہ کافی
ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد قیامت تک کوئی رسول مبعوث نہیں ہو سکتا.قوله کیا آنحضرت موسی علیہ السلام سے افضل نہیں ؟ اگر فضل ہیں تو کیا وجہ ہے کہ امت موسویہ میں تو پے در پے رسول آتے لیکن امت محمدیہ میں بقول شما اب تک صرف ایک ہی رسول مبعوث ہوا ؟ کیا اس سے آنحضرت کی افضلیت پر حرف نہیں آتا ؟ اقول جوا با نوض ہے کہ امت موسویہ جیسا کہ تورات اور قرآن سے بت ہے.نہایت ہی ناہنجار قوم تھی اور اس کی ایمانی اور عملی حالت ت ہی ناقص تھی اس لئے ضروری تھا کہ اس کی تعلیم و تربیت اور صلاح و ہدایت کے لئے لیکے بعد دیگرے رسول مبعوث کئے جاتے یکن ملت اسلامیہ چونکہ خیر امت ہے اور اس میں خیرا الرسل کی قوت رسیدہ کار فرما ہے اس لئے اس کو لمبے عرصہ تک کسی رسول کی ضرورت پیش نہ آئی.دوسرے.یہ امر بھی یادرکھنا چاہیئے کہ بنی اسرائیل کے لئے جو نبی بعوث ہوئے ان میں سے ایک بھی موسی علیہ السلام کی پیروی کے نتیجہ ان نبوت کے مقام پر فائز نہیں ہوا بلکہ ان سب کو نبوت کا انعام
۱۲۸ براہ راست خدا کی طرف سے ملا تھا لیکن اس کے بالمقابل جو نبی امت محمدیہ میں مبعوث ہوا ہے اس نے نبوت کا انعام آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل کیا ہے اس لئے اُس کیے آنے سے خواہ وہ ایک ہی ہے ہرحال آنحضرت کی ہی افضلیت ثابت ہوگی.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ خود اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ : - یں نے خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے تیر ڈھولی فخر الا نبیا اور خیر الورٰی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا.سو میں نے جو کچھ پایا.اس پیروی سے پایا (حقیقۃ الوحی مت) تیسر ہے.اس سلسلہ میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ حدیث میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ آنحضرت کے بعد اور سیح موعود کی بعثت سے قبل کوئی نبی نہیں آئے گا.جیسا کہ ارشاد نبوی ہے.ليْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبي - انجاری ابود او در طبرانی) یعنی میرے اور مسیح موعود کے درمیان کوئی نبی نہ ہوگا.تو پھر اس واضح ارشاد کی موجودگی میں یہ اعتراض اٹھانا کہ آنے
۱۲۹ کے بعد اب تک صرف مرزا صاحب ہی کیوں نبی ہوئے کوئی اور نبی کیوں نہ ہوا محققانہ شان کے خلاف ہے اور یہ اعتراض در اصل ہم پر نہیں بلکہ حدیث پر ہے یا بالفاظ دیگر خدا کے رسول پر ہے تعجب ہے کہ بعض لوگوں کو اتنا علم بھی نہیں کہ یہ پیش کردہ صداقت احمدیوں کی اختراع نہیں بلکہ خدا کے رسول محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمودہ ہے.قوله ل آیت کریمہ الْيَوْمَ أَمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتى رائده آیت ۴) سے ظاہر ہے کہ آنحضرت کے ذریعہ دین مکمل ہو چکا ہے.لہذا اب کسی جدید نبی کی ضرورت نہیں کہ وہ نیا دین کا اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ نہ ہر نبی نیا دین لے کر آیا کرتا ہے اور نہ ہی بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ نیا دین نے کہ آئے ہیں.جب دونوں باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے تو اعتراض کیسا؟ 44 دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر دین مکمل ہو چکا ہے اور کسی نبی کے آنے کی ضرورت نہیں تو آنحضرت نے ایک نبی کے آنے کی پیش گوئی کیوں فرمائی کہ صحیح مسلم، اور تم لوگ کیوں مسیح اسرائیلی کی آمد کے
منتظر ہو کہ وہ بحیثیت نبی کسی وقت دنیا میں آئیں گے ؟ اگر کہو کہ وہ دین میں کسی کمی بیشی کے لئے نہیں بلکہ خدمت دین اور حمایت اسلام کے لئے آئیں گے تو معلوم ہوا کہ آنحضرت کے بعد ایسا نہی جو دین میں کوئی کمی بیشی نہ کرے بلکہ اس کا مقصد صرف خدمت دین اور حمایت اسلام ہو آسکتا ہے.سو اگر ایسے بنی کا آنا تمہارے نزدیک قابل اعتراض نہیں تو ہم تمھیں یقین دلاتے ہیں کہ بانی سلسلہ احمدیہ کا نبی ہو کہ آنا بھی انہیں اغراض و مقاصد کے لئے ہے کا غیر.اور اگر اس قسم کے نبی کا آنا بھی اکمال دین اور اتمام نعمت کے منافی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ تم لوگ مسیح اسرائیلی کی آمد کے منتظر ہو ؟ جائے حیرت ہے کہ مسیح اسرائیلی کے آنے سے تو اکمال دین اور اتمام نعمت میں کوئی خلل واقع نہ ہو لیکن بسیج محمدی کے آنے سے خلل واقع ہو جائے.تیسرا جواب یہ ہے کہ آیت کریمہ اليَومَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کا مفاد صرف قرن اول کے مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ اس کا دامن قیامت تک پھیلا ہوا ہے.اور قیامت تک کی مخلوق المال دین اور اتمام نعمت کے وسیع دائرہ فیضان کے اندر ہے توپھر امت مسلمہ میں کسی ایسے نبی کا آنا جو اکمال دین اور اتمام نعمت کے مقاصد کی تکمیل اور اس دعوی کے ثبوت کے لئے آئے اس آیت کے مفاد کے منافی کیونکہ ہوا ؟
چو تھا جواب یہ ہے کہ آیت کریہ الْيَوْمَ الْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُم وَاتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی کی رو سے اگر دین کا اکمال آنحضرت کے ذریعہ ہی تسلیم کیا جائے جس کا نتیجہ اتمام نعمت بھی ہے تو ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کر نا پڑے گا کہ آنحضرت سے پہلے کسی نبی کے ذریعہ دین کا وہ المال وقوع میں نہیں آیا جو آپ کے ذریعہ آیا ہے.جس کا لازمی نتیجہ یہ ماننا پڑتا ہے.کہ آنحضرت سے پہلے دین کے بالعمل رہنے کی وجہ سے نعمت بھی ناتمام کھتی اور واقعات تھی اسی امر کی تصدیق کرتے ہیں کیونکہ گذشتہ رسولوں کی اتباع سے انسان صرف صدیقیت کے رتبہ تک پہنچ سکتا تھا ( حدید آیت ۲۰) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے وہ تمام نبوت پر بھی فائز ہو سکتا ہے.(نسکہ آیت (۷) گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اگر ایک طرف اکمال دین ہوا تو دوسری طرف اتمام نعمت بھی ہو گیا.اصل بات یہ ہے کہ آیت کریمہ اليوم المَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَاتْمَمْتُ عَلَيْكُم نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا - میں امرت کو بشارت دی گئی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دین اور نعمت اپنے کمال کو پہنچ گئے ہیں اس لئے اب تمہیں اسلام کے سوا کسی اور نذ سب کی طرف رجوع کرنیکی ضرورت
۱۳۲ نہیں تمام مراتب کمال تمہیں اسی کے ذریعہ حاصل ہو جائیں گے.اور آیت کریمیہ :- وَمَنْ تُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَا وليكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ میں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ جو لوگ آنحضرت کی اطاعت دل و جان و سے کریں گے انہیں اللہ تعالے اپنے فضلوں سے نوازے گا اور وہ صالحیت شہیدیت - صدیقیت اور نبوت کے انعامات کے وارث ہوں گے.اور سورۃ فاتحہ کے الفاظ اهدنا الصراط المستقيم صِرَاطَ الَّذِيْنَ الْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے ذریعہ ان انعامات کے حصول کے لئے دُعا سکھائی گئی ہے کیونکہ انسان محض اپنی بہت سے نہ شرائط اطاعت کہاں سکتا ہے اور نہ ہی ثمرات اطاعت سے کما حقہ، متمتع ہو سکتا ہے لہذا اس کیلئے یہی واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی سے توفیق مانگتا رہے اور اسی کا فضل طلب کرتا رہے.اور آیت کریمیہ.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران آیت (11) میں یہ بتایا گیا ہے کہ امت محمدیہ چونکہ خیر امت ہے اس لئے اس کا ولی دوسری امتوں کے وکیوں سے بہتر ہو گا.اور اس کا نبی پوریا
۱۳۳ امتوں کے نبیوں سے بہتر.لہذا ہر مسلمان کے لئے لازم ہے کہ شسکی نعمت کے طور پر اپنی مساعی کو بتی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دے.وَقَالَ سُبْحَانَهُ تعالى :- لَئِن شَكَرْتُمْ لَا زِيدَ تَكُمْ (ابراہیم آیت ) یعنی اگر تم شکر کرو گے تو تمھیں اور زیاد نعمتیں ملینگی.قوله آیت کریمه تقال إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يحببكُمُ الله - (آل عمران آیت ۳۲) سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالے نے اپنی محبت کا ذریعہ نصرت کی پیروی کو ٹھرایا ہے.پس آپ کی پیروی سے انسان محبوب الہی تو بن سکتا ہے لیکن نبی نہیں.علاوہ ازیں اگر کوئی جدید رسول آیا تو اس سے آنحضرت کی محبت بجائے ایک رسول کے دو رسولوں میں بٹ جائے گی.اقول جوا با عرض ہے کہ یہ آیت بھی امکان نبوت کے منافی نہیں ، بلکہ اس کی مؤید ہے.کیونکہ نبی اللہ ہونا اور محبوب الہی ہونا کوئی متضاد چیزیں نہیں بلکہ محبوبیت الہی کے اعلئے مرتبہ کا نام ہی نبوت ہے جس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے نبوت کا مقام بھی حاصل ہو سکتا ہے.
۱۳ بہر کیف جس طرح آنحضرت کی اتباع سے محبوبیت الہی کا رتبہ پانا آپ کی شان محبوبی کو کم نہیں کرتا بلکہ آپ کی شان اور عظمت کو بڑھانے کا موجب ہے اسی طرح آپ کی اتباع سے نبوت کا مرتبہ پانا آپ کی شان نبوت کو کم نہیں کرتا بلکہ آپ کی شان اور عظمت کو بڑھانے کا موجب ہے.گویا آپ کی پیروی سے اگر کوئی شخص نبوت کا رتبہ پا کر بادشاہ بنے گا تو آپ اس سے شہنشاہ ثابت ہونگے.باقی رہا یه ک کسی جدید بی کے آنے سے رسول کریم کی محبت بجائے ایک رسول کے دو رسولوں میں منقسم ہو جائے گی تو یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ جب کوئی ایسا بنی آئے جسے آنحضرت کے دین سے کوئی سروکار نہ ہو.اور جو اپنے مقاصد کے لحاظ سے بالکل جدا گانہ حیثیت رکھتا ہو.لیکن ایسا نبی جس کے آنے کی غرض ہی یہ ہو کہ اسلام کا شجرہ طیبہ پھلے پھولے اور آنحضرت کی محبت اور عظمت دلوں میں جاگزیں ہو اس سے تعلق قائم کرنے کے نتیجہ میں آنحضرت کی محبت کیسے منقسم ہو سکتی ہے ؟ ایسے نبی کی اطاعت تو آنحضرت کی محبت بڑھانے کا موجب ہوگی نہ کہ کم کرنے کا.علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ احادیث میں تو یح موجود کے آنے کا وقت بتا یا گیا ہے اس کے متعلق تو خود آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :- ياتي عَلَى النَّاسِ زَمَانُ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ
۱۳۵ إِلَّا اسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ الأَرْسْمُهُ (مشكوة ) یعنی میری امت پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا اور الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا.تو کیا ایسے وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں باقی ہوگی جس کے منقسم ہونے کا آپ کو خدشہ لاحق ہے اور کیا یہ علامت آنحضرت کی محبت کا نتیجہ ہو سکتی ہے ؟ علاوہ ازیں یہ امر بھی غور طلب ہے.کہ اگر آنیوالے مسیح موعود کی محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت منقسم ہو جاتی ہے.تو پھر آنحضرت کے بعد تم لوگوں کو صحابہ کرام - آئمہ دین اور اولیائے عظام سے محبت کا کیوں دعوی ہے ؟ اگر مسیح موعود کی محبت سے آنحضرت کی محبت میں رخنہ پڑ سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ان بزرگوں کی محبت سے رخنہ نہیں پڑتا ؟ اور اگر رختہ نہ پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بزرگ آنحضرت کے دلی محبت اور آپ کے دین کے مخلص خادم تھے تو یقیں جانتے کہ آنیوالا موجود بھی ایسا ہی ہے.مثال کے طور پر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے چند اشعار ملاحظہ فرماہیے.آپ ایک تختیہ قصید میں اپنی قلبی کیفیات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں اور کسی والہانہ انداز میں فرماتے ہیں سے..
۱۳۶ بعد از خدا العشق محمد محترم - ۱ - گر کفر این بود بخدا سخت کا فرم ہر تار و پود من براند عشق او - ۲- از خود نهی و از غم آن داستان بودم جانم فدا شود بره دین مصطفے - ۳- این است کام دل اگه آید سیترم ترجمہ :.میں اللہ تعالے کے بعد محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے تعشق میں سرشار ہوں.اگر یہ کفر ہے تو خدا کی قسم میں بہتا کا فر ہوں.میرا رواں رواں اسی کے عشق میں نغمہ سرا ہے.لیکن اپنے غم سے خالی اور اس محبوب کے غم سے لبریز ہوں.اے کاش میری جان محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خد میں کام آئے یہی میرے دل کا مقصد ہے خدا کرے یہ مقصد مجھے حاصل ہو.مندرجہ بالا استعارہ پڑھیئے اور غور سے پڑھیئے اور خود ہی فیصلہ کیجئے.کہ کیا ایسے عاشق رسول کے ماننے سے محبت رسول میں کوئی رخنہ پڑ سکتا ہے ؟ پس یہ اصل ہی غلط ہے کہ کسی دوسرے نبی کی محبت سے آنحضرت صلے اللہ علیہ کی محبت میں فرق آجاتا ہے.کیا تم لوگوں کو آنحضرت کے علاوہ دوسرے انبیاء سے جو آپ سے پہلے ہو گزرے ہیں عدادت ہے ؟ اگر نہیں بلکہ محبت ہے تو کیا اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں فرق آگیا ہے؟ پس یہ سب فرضی ڈھکوسلے ہیں اور ان کا حقیقت سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے.
قوله آیت کریمہ آیا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا الله واطيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُم النساء آیت 4 سے ظاہر ہے کہ اب اللہ اور اس کے سیول محمد مصطفے کی اطاعت ہی کافی ہے.اگر جدید رسول آیا تو اقت انتشار کا شکار ہو جائے گی.اقول یادر ہے کہ یہ آیت بھی امکان نبوت کے منافی نہیں بلکہ اس سے مالان نبوت کی تائید ہوتی ہے.اطِیعُوا الله اور آطِیعُو الرَّسُول سے اس طرح کہ کسی نبی پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تحت پر ایمان لانا دوسرے لفظوں میں اللہ اور اس کے رسول کی ہی اطاعت ہے اور اُولی الامر کی وسعت میں مسیح موجود بھی اخل ہے اور اس کا مصوم مسیح موعود کی بعثت کے منافی نہیں اور نہ ہی کسی ایسے نبی کی بعثت کے منافی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی نیابت میں خدا کے حکم سے آپ کے مقاصد کی تکمیل کے لئے آئے.علاوہ ازیں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ اگر اطیعوا اللهَ وَ اطِيعُوا الرسول کا یہی مطلب تھا کہ آئندہ کوئی مامور نہیں آسکتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو یہ ارشاد
کیوں فرمایا :- ۱۳۸ من أدْرَكَ مِنكُمْ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ فَلْيَقْرَتَهُ منى السلام - (طبرانی و در منشور جلد ۲ ص ۴۲۵ یعنی جس شخص کو مسیح موعود کی ملاقات نصیب ہورہ میری طرف سے اس کو میرا سلام پہنچا دے ادے.جائے حیرت ہے کہ خدا کا رسول تو مسیح موخود کو سلام کا تحفہ بھیج رہا ہے اور تم لوگ سرے سے اس کی آمد کے ہی منکہ ہوں.اگر تمہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع و منقاد ہونے کا دعوی ہے تو تمہارا فرض تھا کہ سرور کائنات محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے تحت مسیح وقت کی خدمت میں سلام کا تحفہ پیش کرتے سلام باقی رہا یہ خدشه که جدید رسول کے آنے سے امت انتشار کا شکار ہو جائے گی تو یہ خدشہ بے بنیاد ہے.وجہ یہ کہ نبی تو آتا ہی اس وقت ہے جب ہر طرف تشتت و انتشار کا دور دورہ ہوتا ہے.اور کیمیتی و ہم آہنگی کا نام و نشان باقی نہیں رہتا پس ایسے وقت میں اس کا آنا اتحاد کا موجب ہو گا نہ کہ تفرقہ کا.دوسرے.نور تشریعی نبی کوئی نیا کلمہ لے کر نہیں آتا.اور نہ کسی نئے قبلہ کی طرف بلاتا ہے.اور نہ ہی کوئی نئی اقت بناتا ہے بلکہ ایسا نہی سابقہ شریعت کے ذریعہ ہی اصلاح کا فریضہ سر انجام دیتا ہے.اس لئے انتشار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.
۱۳۹ تیسرے.اگر نبی کی بعثت قومی سالمیت کے لئے خطرہ ہے تو تو کیا یہ متعلقہ قوم کا فرض نہیں کہ وہ ساری کی ساری خدا کے فرستادہ پر ایمان لا کر وحدت ملی کو برقرار رکھے؟ قوله على اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِينَ بنایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ سارے جہان کے لئے حمت ہیں اس لئے اب کسی جدید بنی کی ضرورت نہیں.اقول یا درکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کو بھی تمام بنی اسرائیل کے لئے رسول بنا کر بھیجا تھا.لیکن پھر بھی ان کے بعد بنی اسرائیل کے لئے پے در پے رسول مبعوث ہوئے جو کوئی نیا دین لے کر نہیں آئے تھے بلکہ ان کی بعثت کا مقصد صرف موسوی شریعت کا نفاذ تھا.میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سارے جہان کے لئے رحمت ہو نا رسولوں کی آمد میں مانع نہیں ملیکہ اس امر کا ضامن ہے کہ آپ کی اتباع سے جو نبی آئے گا وہ بھی آپ کا ظل ہونے کی وجہ سے سارے جہان کیلئے رحمت ہوگا.تعجب ہے کہ ایک طرف تو آپ لوگ یہ کتنے ہیں کہ آنحضرت یہ رحمة اللعالمین ہیں اس لئے آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور دوسری طرف آپ لوگ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ
۱۴۰ آنحضرت کے بعد امت مسلمہ میں تمہیں جھوٹے نبی پیدا ہونگے ربخاری، گویا آپ کے نزدیک آنحضرت کا رحمتہ للعالمین ہونا جھوٹے نبیوں کی آمد میں تو روک نہیں جو مومنوں کو کافر اور موحدوں کو مشرک بنانے والے ہیں مگر سچے نبیوں کی آمد میں روک ہے جو کافروں کو مومن اور مشرکوں کو موحد بنانے کے لئے آتے ہیں.کیا اس صورت میں آنحضرت کا رحمتہ للعالمین ہونا محل مدح پر ثابت ہوتا ہے یا محل ذم پر ؟ گویا آپ کا رحمۃ للعالمین ہونا جھوٹے نبیوں کو تو نہیں روکتا جو باطل کی تاریخی کی طرف دھکیلنے والے ہیں مگر بیچے نبیوں کو روکتا ہے جو حق کی روشنی کی طرف کھینچنے والے ہیں.وباؤں کو تو پھیلنے کی اجازت ہے کہ لوگ بیمار ہو کر ہلاک ہوں.مگر ڈاکٹروں کو آنے کی اجازت نہیں کہ مبادا کوئی شخص ان کے علاج سے چنگا ہو کر ہلاکت سے نجات پا جائے.کیا صاحب حمت کو دنیا کے لئے باعث رحمت نہیں ہونا چاہیئے ؟ علاوہ انہیں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر رحمتہ للعالمین کا منصب نلیوں کی آمد میں روگ ہے.تو علماء کی آمد میں کیوں وگ نہیں ؟ کیا موجودہ علماء کی جگہ رحمتہ للعالمین کے فیوض کافی نہیں؟ اور اگر اصلاح اور ہدایت کے لئے امت کی ہر نئی نسل کو نئے علماء کی ضرورت ہے تو علماء کے بگڑ جانے پر خود ان کی اصلاح او ہدایت کے لئے کیوں کسی نبی کی ضرورت نہیں ؟ اگر رحمتہ للعالمین
کے منصب کا یہی مطلب تھا کہ آنحضرت کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.تو پھر چاہیے تھا.کہ آپ کے بعد دنیا روحانی انحطاط کا شکار نہ ہوتی اور فرقہ بندیوں کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا اور یہود.نصاری اور میبود و غیرہ اقوام باہم متحد ہو جائیں.لیکن بجائے اس کے کہ اغیار کا تفرقہ دور ہوتا خود امت مسلمہ ہی کثیر التعداد فرقوں میں منقسم ہو چکی ہے کیا یہ فرقہ بندیاں سجائے خود کسی نبی کی بعثت کی متقاضی نہیں ؟ علامہ اقبال نے کتنی سچی بات کہی ہے یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا الله زبال جبریل) قوله نا قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت قیامت تک کے لئے مزکی اور معلم میں لہندا تزکیہ اور تعلیم کے لئے اب کوئی جدید بنی نہیں آسکتا.اقول جوابا عرض ہے کہ جدید نبی سے آپ کی کیا مراد ہے ؟ آیا ایسانی جو آنحضرت کے دین کے بالمقابل کوئی نیا دین پیش کرنے والا ہو ؟ یا ایسا نبی جس کی وحی آنحضرت کی وحی کی تاریخ اور آپ کی اتباع سے منحرف کرنے والی ہو؟ یا جس کا مزکی اور معلم ہونا آنحضرت کے مزکی اور محکم ہونے کے منافی ہو ؟ اگر تو آپ کی جدید نبی سے یہ مراد ہے
۱۴۲ تو یقین جانیے کہ ایسے نبی کی آمد کے قائل ہم لوگ بھی نہیں پھر آپ کو ہمارے متعلق ایسی شکایت کیوں ؟ باقی رہا ایسا نہی جو بانی اسلام کا موجود ہے اور جسکو علیہ سلام کیلئے آتا ہے تو اس آنا اگر آپکے نزدیک مسلمہ ہے تو یہ کے نزدیک بھی مسلمہ ہے اور اسی طرح اسے نبی ہونیکا نفر بانی سلسلہ احمدیہ کو دھوئی ہے.اور اسی قسم کا ہی ہم انکو مانتے ہیں اور اگر ایسے نبی کے آنے پر بھی آپ کو اعتراض ہے تو یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ آپ کو بانی اسلام حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا پاس نہیں.تعجب ہے کہ آپ اس شخص کی آمد پر بھی معترض ہیں جو آنحضر کی پیروی سے مرتبہ نبوت پانے والا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ امت مسلمہ کی تعلیم و تربیت اور خدمت اسلام کا فریضہ سر انجام دے تو پھر اس صورت میں آپ کے اعتراض کی زد سے صدیق اور شہیر اور صالح بھی کیونکر بیچے آخر وہ بھی تو آنحضرت کی نیابت میں آکر یہی کام کریں گے.اور اگر اس قسم کے نبی کے آنے سے آنحضرت کے مزکی اور معلم ہونے کی شان میں فرق آجاتا ہے تو کیا صدیقوں اور شہیدوں اور صالحین کے آنے سے فرق نہیں آئے گا ؟ علاوہ ازیں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ کیا آہنگ آپ لوگ بلا واسطہ ہی آنحضرت سے تزکیہ اور تعلیم کا فیضان حاصل کرتے رہے یا یہ فیضان حاصل کرنے کے لئے آپ ان علماء کے محتاج ہو گئے
۱۴۳ جنہیں آنحضرت کے فیضان کے حصول میں بطور وسیلہ سمجھا جاتا تھا ؟ اور اگر آنحضرت کے مزکی اور معلم مولے کی شان میں ان معمولی وسیلوں سے کوئی فرق نہیں آتا تو مسیح موعود جیسی عظیم شخصیت کے ذریعہ فیضیاب ہو جیسے کیوں فرق آنے لگا ؟ ! مسیح موجود بھی وہ جو کہ امت مسلمہ کا ہی ایک فرد اور آنحضرت کا ہی روحانی فرزند ہے.اور جس کے آنے کی غرض ہی خدمت اسلام اور اشاعتِ اسلام ہے اور جس نے جو کچھ پایا ہے، انحصرت صلے اللہ علیہ وسلم کے فیض اور برکت سے پایا ہے.جیسا کہ آپ خود اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں سے مصطفے پر تیرا بجد ہو سلام اور رحمت اس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے دورسین پس حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا مزکی اور معلم ہونا آنحضر صلے اللہ علیہ وسلم کے مزکی اور علم ہونے کے منافی نہیں بلکہ اس کا تصدیقی ثبوت اور علامت ہے.قوله لا حدیث بنوتى كَانَتْ بَنْوَاسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ الانبياء كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيَّ خَلَقَهُ نَبِيُّ وَ الد لاني بَعْدِي وَسَيَكُونَ خُلَفَاء - دبخاری جلدا مثه
۱۴۴ سے ظاہر ہے کہ آنحضرت کے بعد خلفاء تو آسکتے ہیں لیکن نہی کوئی نہیں آسکتا.اقول جو ابا عرض ہے کہ اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کے نیوں میں سے جب کوئی نبی فوت ہو جاتا تھا تو اس کی وفات کے مگا بعد جو اس کا جانشین ہو کر آتا وہ نبی ہوتا تھا.جس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت کی اس جگہ خلافت سے مراد خلافت متصلہ ہے نہ کہ منفصلہ.اور یہ فقرہ مستقبل قریب کے متعلق ہے نہ کہ مستقبل بعید کے متعلق جیسا کہ حدیث کے دوسرے جملہ وسیکون خلفاء سے بھی ظاہر ہے.اور لفظ سيكون جو مضارع کا مینو ہے اس پر اس کا حرف صاف مستقبل قریب پر دلالت کرتا ہے جس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت یہاں جس خلافت کا ذکر فرما رہے ہیں دہ مستقبل قریب کی خلافت ہے نہ کہ مستقبل بعید کی خلافت ہیں اس لحاظ سے اس حدیث میں لا نبی بعدی کا حملہ بالکل مناب اور بر محل ہے اور ہم بھی اس کے مصدق ہیں کہ آنحضرت کے معا بعد مستقبل قریب میں واقعی آپ کا کوئی خلیفہ نبی نہیں ہوا.لیکن اس حدیث سے آخری زمانہ میں جو مستقبل بعید سے تعلق رکھتا ہے آنیوالے نبی کی نفی کیونکہ ثابت ہوئی جبکہ آپ لوگ بھی ہماری طرح آنیوالے مسیح موعود کی نبوت کے قائل ہیں اور جس کے
۱۴۵ متعلق آنحضرت نے چار دفعہ نبی اللہ کا لفظ استعمال فرمایا دصحیح مسلم) اور جس کو قرب قیامت کی علامت قرار دیا ہے.اور اگر کہا جائے کہ عیسی علیہ السلام آخری زمانہ میں نبوت سے معزول ہو کہ آئیں گے تو یہ اسلام کے مسلم عقیدہ کے خلاف ہوگا.جیسا کہ حضرت امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں:.ومَن قَالَ بِسَلْبِ نُبْوَتِهِ كَفَرَ حَقًّا فَإِنَّهُ نَ لا يَا هَبْ عَنْهُ وَصْفُ النُّبُوَّةِ - ريج الكرامه مالي یعنی جس شخص نے عیسی علیہ السلام کے متعلق یہ کہا کہ وہ آخری زمانہ میں نبوت سے معزول ہو کر آئیں گے وہ پیکا کافر ہے کیونکہ وہ خدا کے ایک مستقلی نبی تھے اور یہ قوت کا وصف ان سے کسی طرح جُدا نہیں ہو سکتا.تعجب ہے کہ بعض لوگ ایک طرف تو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ آنحضرت کے بعد جوسیح موعود آنیوالا ہے وہ نبی اللہ ہوگا اور پھر دوسری طرف ہمارے سامنے آیت خاتم النبین اور حدیث لاني بعدی کو پیش کر دیتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ جس آیت اور عورت سے وہ احمدیوں کو ملزم قرار دیتے ہیں اس کی وجہ سے وہ خود بھی زیر الزام ہیں.اور اگر ان کے نزدیک آنحضرت کے بعد آنیوالے مسیح کا نبی اللہ ہونا استثنائی صورت رکھتا ہے تو جس طریق سے
۱۴۶ انہوں نے ایک استثناء قائم کر کے ایک نبی کے لئے گنجائش نکال لی ہے.کیوں اس طریق سے ہمارے لئے ایک استثناء قائم کرنا جائزہ نہیں ؟ اگر اس طریق سے ہم ملزم او خطا کار میں تو کیوں اس طریق سے خود وہ ملزم اور خطا کار نہیں ؟ اور اگر کہا جائے کہ مسیح اسرائیلی کے آنے اور مرزا صاحب کے آنے میں فرق ہے میسج اسرائیلی تو پہلے سے بنی ہیں اور مرزا صاحب بعد میں نبی ہوئے تو میں پوچھونگا کہ آیت خاتم النبیین کے کسی لفظ کے یہ معنے ہیں کہ جو پہلے سے بنی ہو وہ آسکتا ہے اور جو بعد میں پیدا ہو وہ نبی نہیں ہو سکتا ؟ جائے حیرت ہے کہ ایک طرف تو یہ لوگ خاتم النبیین کے معنے نبیوں کا ختم کرنے والا کرتے ہیں اور دوسری طرف سیخ اسرائیلی کے بھی منتظر ہیں.اگر مسیح اسرائیلی کو واقعی آنا ہے تو پھر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے آکر کیا ختم کیا ؟ گذشتہ انبیاء تو آپ کی بعثت سے قبل ہی فوت ہو چکے تھے اور ان کی رسالت کا دور ختم ہو چکا تھا.ایک مسیح علیہ اسلام ہی بخیال ایسان فوت نہیں ہوئے تھے اور ان کی رسالت کا دور ختم نہیں ہٹھا انتھا سودہ اب بھی ختم نہیں ہوئے اور ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ قیامت سے پہلے ضرور دنیا میں آئیں گے.تو پھر ہمارے سامنے آیت خاتم النبین اور حدیث لا نبی بعدی کوشش کر کے کس منہ سے یہ کہا بتاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
۱۴۵ نیوں کو ختم کر دیا ہے اور آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آسکتا.قوله حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت قصر نبوت کی آخری اینٹ ہیں ر بخاری جلد ۲ مشا، لہذا آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہو سکتا.اقول جوا با تو میں ہے کہ اول تو اس حدیث کو بعض علماء نے ضعیف قرار دیا ہے اور اگر اسے صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو اس سے صرف دو باتیں ثابت ہوتی ہیں.ایک یہ کہ اس محل سے مراد قصر شریعت ہے جس کی تعمیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اپنے کمال کو پہنچے گئی.اور دوسرے یہ کہ عیسے علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور اب " وہ قیامت تک امت محمدیہ کی طرف نہیں آسکتے کیونکہ وہ آنحضرت ہلی اینٹ تھے جو نبوت کے محل میں لگ چکی.اب آنحضرت کے بعد اگر ان کا آنا تسلیم کریں تو اس سے دو شکلیں پیش آئیں گی.ایک یہ کہ عیسی علیہ السلام کو جو آنحضرت سے پہلی اینٹ ہیں دوبارہ لانے یہ کے لئے اپنی جگہ سے اکھاڑنا پڑے گا.دوسری مشکل یہ کہ جب عینی علیہ السلام کی اینٹ اکھاڑی جائے گی تو آنحضرت کی اینٹ جو اوپر کی اینٹ ہے نیچے کی اینٹ کی جگہ آجائے گی اور نیچے کی اینٹ
مرسا اوپر کی اینٹ کی جگہ چلی جائے گی جس سے آخری نم بن جائیں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان حتمیت مشتبہ ہو جائے گی جس سے ظاہر ہے کہ یہ حدیث علیمی علیہ السلام کے دوبارہ آتے ہیں مانع ہے.پس اس حدیث کی بناء پر اعتراض اٹھانا کہ جب قصر موت کی آخری اینٹ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ہیں تو بانی سلسلہ احمدیہ کس طرح نبی ہو سکتے ہیں نہایت ہی بود اعتراض ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود باجود حس آخری اینٹ ے معنوی طور پر مشابہ ہے وہ ایسی اینٹ ہے جس کے اندر قرآن کریم کے توں پارے اور سب حدیث کی کتابیں اور تمام خلفاء اور میں دین اور اولیاء داخل ہیں.اور اسی طرح وہ مسیح موعود بھی داخل ہے جس کے متعلق صحیح مسلم میں چار دفعہ نبی اللہ کے الفاظ آئے ہیں اور جس کے متعلق آنحضرت نے امت کو یہ بشارت دی ہے.وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ يَوْشَكَ اَنْ تَنْزِلَ فيكم ابنِ مَرْيَمَ حَلَمَّا عَدْ لا فيكسر الصليب وَيَقْتُلُ الْخَرِيرَ وَيَضَعُ الْحَرَبَ - (بخاری) یعنی مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں ضرور رمسیح ابن مریم نازل ہوگا جو حکم اور عدل بن کر تمہارے اختلافات کا فیصلہ کریگا.وہ صلیبی مذہب کو پاش پاش کر دے گا اور خنز پر صفت لوگوں کو دلائل کی تلوار سے
۱۴۹ موت کے گھاٹ اتارے گا اور نذیبی جنگوں کو موقوف کر دے گا.اس حدیث سے بھی صاف ظاہر ہے کہ عیسائیت کے غلیہ کے وقت امت مسلمہ میں ایک مسیح موعود آئے گا.پس قصر نبوت کی آخری اینٹ کا اگر یہ مطلب ہوتا کہ آئندہ کوئی نبی نہیں آسکتا تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اپنے بعد کسی مامور کے آنے کی خبر ہر گز نہ دیتے.یھاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ نزول کا یہ مطلب نہیں کہ عینی علیه السلام خود بحیرہ آسمان سے نازل ہوں گے کیونکہ جب ان کا جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھنا ہی ثابت نہیں، تو ان کا پر جسم عنصری کے ساتھ آسمان سے اترنا کیسے باور کیا جا سکتا ہے؟ در اصل آسمانی کتابوں کا یہ عام محاورہ ہے کہ جو خدا کی طرف سے آتا ہے اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ آسمان سے نازل ہوا ہے اور اس حدیث میں تو آسمان کا لفظ بھی موجود نہیں.پس یہاں نزول عیسی سے ایسے شخص کا ہی ظہور مراد ہے جو اپنی فطرت.اخلاق اور روحانیت میں عیسی علیہ السلام کے مشابہ ہوگا اور امت میں سے بہی آئے گا.جیسا کہ بخاری میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ایسا مکم منکر کہ وہ تمہارا امام تم میں سے ہی پیدا ہوگا.الغرض مذکورہ بالا حدیث میں ایک مثیل مسیح کے آنے کی خیر دی گئی ہے نہ کہ خود مسیح کے آنے کی اور نزول کا لفظ اس کے اکرام
۱۵۰ کے لئے آیا ہے جیسا کہ آنحضرت کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ:- قد انْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا وَسُوَلا يَتْلُوا علیم ایت الله مُبَیتِ اطلاق آیت ۱۱-۱۲) یعنی اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے ایک صاحب شرف رسول نازل کیا ہے جو تم کو اللہ کے واضح احکام سناتا ہے.اب دیکھئے اس آیت میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی نزول کا لفظ آیا ہے اور جیسا کہ سب جانتے ہیں آپ آسمان سے نازل نہیں ہوئے تھے بلکہ آپ کی پیدائش مکہ میں ہوتی تھی.قوله ۱۳ کیا ہمارے زمانہ میں بعثت انبیاء کی کوئی ایسی علت موجود ہے جو مرزا صاحب کے ظہور کی اساس قرار دی جا سکے.اگر ہے تو کونسی؟ اقول قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالے کی قدیم سے یہ سنت چلی آتی ہے کہ دنیا میں جب بھی گھر ا ہی پھیلتی ہے اور مذہبی اختلافات حد سے بڑھ جاتے ہیں تو وہ لوگوں کی ہدایت اور اصلاح کیلئے ضرور کسی نبی کو مبعوث فرماتا ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے :- وَلَقَدْ ضَلَ قَبْلَهُمْ أَكثرُ الأَوَّلِينَ ، وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا فِيهِمْ مُنْذِرِينَ (الصقت آیت ۷۲-۷۳)
۱۵۱ یعنی ان سے قبل بھی بہت سی قومیں گمراہ ہو چکی ہیں اور ہم ان میں رسول بھیج چکے ہیں.اسی طرح سورہ بقرہ میں آتا ہے:- فَبَعَتَ اللهُ النَّبيّنَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الكِتَبَ بِالْحَقِّ لـ ليحكم بين النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيْهِ - (بقره آیت (۲۱۴) یعنی اللہ تعالے نے انبیاء کو مبشر اور مندر بنا کر بھیجا اور ان کے ساتھ حق پر مشتمل کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان باتوں کے متعلق جن میں انہوں نے اختلاف پیدا کر لیا تھا فیصلہ کرے.مذکورہ بالا آیات سے ظاہر ہے کہ نبیوں کی بعثت کی علت لوگوں کی ضلالت اور اختلاف ہے اور نبیوں کی بعثت محلول.پس جہاں حکمت پائی جائے گی وہاں معلول کا ہوا ضروری ہے.ہاں اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت مسلمہ میں قیامت تک گمراہی اور اختلاف راہ نہیں پاسکتے تو بے شک اس میں کوئی نبی بھی مبعوث نہیں ہو سکتا.اور اگر امت میں گھر اسی پھیل سکتی اور اس میں اختلافات راہ پا سکتے ہیں تو اس میں نبی بھی مبعوث ہو سکتا ہے اور حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ امرت مسلہ میں ضلالت و گمراہی بھی پھیلے گی اور وه افتراق و اختلاف کا شکار بھی ہوگی چنانچہ ارشاد نبوی ہے :-
۱۵۲ يَات عَلَى النَّاسِ زَمَانَ لَا يَبْقى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَلَا يَبْقى مِنَ الْقُرْآنِ الأَرَسمة مشكورة ) یعنی میری امت پر ایک ایسا دلت آئے گا کہ اسلام کا نفر نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کریم کے صرف الفاظ ہاتی رہ جائیں گے.نیز فرمایا : اِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى تِلتَيْنِ وَ سَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً - (مشكوة ) یعنی بنی اسرائیل تو مذہبی اختلافات کی وجہ سے بہتر فرقوں میں منقسم ہو گئے تھے اور میری امت تہیرے فرقوں میں منقسم ہو جائے گی.مذکورہ بالا حدیثوں سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت کے بعد ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ مسلمانوں میں گمراہی پھیل جائے گی اور اقت اختلافات کا شکارہ ہو جائے گی اور واقعات بھی بتاتے ہیں کہ یہ خبریں بالکل درست ہیں.چنانچہ مولنا حالی اپنے مشہور مقدس میں مسلمانوں کی حالت زار کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں.ره نا دین باقی نہ اسلام باقی اک اسلام کا رہ گیا نام باقی
۱۵۳ اور علامہ اقبال فرماتے ہیں سے فرقہ بندی ہے تمہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پہنچنے کی یہی باتیں ہیں (بانگ درا) پس جب ملت موجود ہے تو از گا اس کا نتیجہ معلول کی صورت میں ظاہر ہونا چاہیئے اور وہ ہے کسی نبی کی بعثت.اور جب اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہی سنت چلی آتی ہے کہ وہ گمراہی اور اختلافات کو دور کرنے کے لئے نبی مبعوث کرتا ہے تو اب وہ کیوں نبی مبعوث نہ کرتا ؟ کیا اب اللہ تعالے کی سفت بدل گئی ہے ؟ حالانکہ سورۃ احزاب میں وہ خود فرماتا ہے.وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا - (احزاب آیت ۶۳) یعنی تو کبھی بھی اللہ تعالی کی سنت میں تبدیلی نہیں آئیگا.پس ہی وہ صورت حال تھی جس کی بناء پر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے فرمایا ہے.وقت تھا وقت سبحانہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا ڈومین) نہ نیز خدا سے خبر پا کر اہل اسلام کو یہ یقین افزا بشارت دی کہ :- سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب پھر اپنے پورے کمال کے ساتھ پڑھے گا جیسا کہ
۱۵۴ پہلے چڑھ چکا ہے.دفتح اسلام صدا مطبوعہ 2 قوله ما حدثیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آنیوالا مامور سیح اسرائیلی ہو گا.نه که مسیح محمدی - لہذا امت کا کوئی فرد مسیح موعود تسلیم نہیں کیا جا سکتا.اقول یاد رکھنا چاہیئے کہ پیشگوئیاں اپنے اندر استعارات بھی رکھتی ہیں اور ان کی اصل حقیقت ظہور میں آنے کے بعد ہی کھلتی ہے بالخصوص حب کسی گذشتہ نبی کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی کی گئی ہو تو اس سے مراد ہمیشہ اس کا مثیل ہوا کرتا ہے نہ کہ اس کا عین جیسا کہ الیاس علیہ السلام کے متعلق ملاکی نبی نے پیشگوئی کی تھی کہ وہ دنیا میں دوبارہ آئیں گے لیکن مبعوث ان کی جگہ یحییٰ علیہ السلام ہوئے اور خود عیسی علیہ السلام نے بھی انہیں کو آنیوالا الیاس قرار دیا (انجیل تو بعض اوقات کسی خاص مماثلت کی وجہ سے ایک نبی کا نام دوسرے نبی کو دیدیا جاتا ہے اور ان حدیثوں میں بھی دراصل ایسے شخص کا ہی ظہور مراد ہے.جو شرف اور کمال میں عیسی علیہ السلام کے مشابہ ہوگا.نہ کہ خود عیسی علیہ السلام کا ظہور.کیونکہ قرآن - حدیث اور تاریخ ان کو وفات یافتہ قرار دیتے ہیں اور وفات یافتہ شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ کا دو ٹوک فیصلہ ہے کہ :.
۱۵۵ فَيُمْسِكُ التي قضى عَلَيْهَا الْمَوْتَ (زمر آیت ۴۳) یعنی جس پر موت وارد ہو جائے.وہ دنیا میں دوبارہ نہیں آسکتا.دور ہے.اگر مسیح اسرائیلی امت محمدیہ کی طرف رسول ہو کر آئیں تو اس سے خدا کے کلام کی تکذیب لازم آتی ہے کیونکہ قرآن مجید میں ان کو رَسُولاً إلى بني استر اونیل ( آل عمران آیت ۵۰) کہا گیا ہے کہ وہ صرف بنی اسرائیل کے لئے رسول تھے.اور پھر یہ امر بھی غور طلب ہے کہ کیا زمانہ قدیم کا قومی نبی عہد جدید کے عالمی تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے ؟ آخر بچپن کا لباس جوانی میں تو کام نہیں آیا کرتا.تیر کے.آنحضرت نے جو صلیہ سیم محمدی کا بیان فرمایا ہے وہ اور ہے اور جو حلیہ مسیح اسرائیلی کا بیان فرمایا ہے وہ اور ہے انجاری جلد ۲) جس سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح محمدی اور ہے اور مسیح اسرائیلی اور یہ کیونکہ ایک شخص کے دو کیلیے نہیں ہو سکتے.چوتھے.آنحضرت نے آنیوالے مسیح موعود کے بارے میں واضح طور پر نشاندہی کر دی ہے کہ ما مكر منكم (بخاری) کہ وہ تمہارا امام تم میں سے ہی پیدا ہو گا.یعنی آنیوالا مسیح موعود امت مسلمہ کا ہی ایک فرد اور آنحضرت کا ہی روحانی فرزند ہو گا پیس
104 ان تصریحات کے باوجود مسیح اسرائیلی کی آمد پر اصرار کیوں ؟ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اپنی تصنیف تذکرۃ الشہادتین مطبوعہ والہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ " مسیح موعود کا آسمان سے اترنا محض جھوٹا خیال ہے یاد رکھو.کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی آن میں سے عیسی ابن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسی ابن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی نب خدا ان کے دلوں میں گھبرا سوٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریکہ کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا تب انشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے" ر تذكرة الشهادتين ص ۶۵) قوله ها اگر آنحضرت کی اتباع سے کوئی نبی بن سکتا تو آپ کی اتباع سے اکیلے مرزا صاحب کو سہی نبی بننا تھا.صحانہ رضوان اللہ
۱۵۷ علیہم اجمعین کیوں نبی نہ بنے ؟ اقول یاد رکھنا ہیئے کہ اگر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ آنحضرت کی اتباع سے کیوں ایک مرزا صاحب بہی نبی ہوئے.تو یہ اعتراض بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی اتباع سے کیوں اکیلے ابو بر سی صدیق ہوتے باقی صحابہ کو یہ تمام کیوں حاصل نہ ہوا ؟ اور ساری امت کو اس اعزاز میں کیوں شریک نہ کیا گیا ؟ ".دوسرے.یہ امر بھی غور طلب ہے کہ اگر میں نہ میں سے کوئی نبی بن جاتا تو کیا اس سے حدیث نبوی پر حرف نہ آتا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح ارشاد ہے :- لَيْسَ بَيني وَبَيْنَه نَبی.(بخاری.الجداود - طبرانی) کہ میرے اور مسیح موعود کے درمیان کوئی نبی نہ ہوگا.تیسرے.یہ اعتراض کوئی نیا نہیں آنحضرت کے زمانہ میں بھی یہ کہا گیا تھا.لولا نول هذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ القَرْيَتَيْنِ عَظِيمه از حرف آیت ۳۲) یعنی یہ قرآن ایک تیم پر ہی نازل ہونا تھا.مکہ اور طائف کے کسی بڑے شخص یہ کیوں نازل نہ ہوا ؟ تو اللہ تعالے نے اس کے جواب میں فرمایا تھا :- أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ كريك - ( زخرف آیت ۳۳)
i ۱۵۸ کیا وہ تیرے رب کی رحمت کو تقسیم کرتے ہیں؟ وہ کی اور کیا انہیں اس بات کا علم نہیں کہ يَختَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ تَشَارُ وَاللَّهُ وَالْفَضْلِ العظيم (بقره آیت ۱۰۶) وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لئے چن لیتا ہے.اور اللہ بڑے فضل والا ہے.اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا اظہار حضرت مرزا صاحب نے بھی متعدد مقامات پر کیا ہے.چنانچہ آپ شکر نعمت کے طور پر اپنی ایک عم میں فرماتے ہیں ہے یہ سراسر فضل و احسان ہے کہ مکس آیا پسند ور نه در گر میں تری مجھ کم نہ تھے خدمت گذا ورشین قولة لا مرزا صاحب کے بعض کشف خلاف شرع ہیں.مثلاً عین اللہ والا کشف اور جو کشف خلاف شرع ہو وہ شیطانی ہوتا ہے.اقول جواباً عرض ہے کہ جس طرح گذشتہ انبیاء کے رویا و کشوف میں متشابہات بھی پائے جاتے ہیں اور محکمات بھی.اسی طرح حضرت مرزا صاحب کے رویا و کشوف میں متشابہات بھی پائے جاتے ہیں اور محکمات بھی مفتیش بتا کو ظاہر پر عمل کرنا اور ان کے محکمات کے خلاف معنے لینا اصول رویا کے تہ
۱۵۹ خلاف ہے اور علم دین سے ناواقفی کی علامت ہے.بہرکیف اگر متشا الہا کی وجہ سے بانی سلسلہ احمدیہ کے رویا و کشون کو خلاف شرع کہنا درست ہے تو میں آپ سے پوچھونگا کہ وہ رویا و کشوف جو آپ لوگوں کے مسلمات سے نہیں کیا ان کو بھی متشابہات کی وجہ سے خلاف شرع کہنا درست ہو گا.مثلاً یوسف علیہ السلام کے متعلق قرآن مجید میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سے کہا.إني رأيتُ أحَدَ عَشَرَ كَوْكَبَا وَالشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ - (یوسف آیت ۵) یعنی میں نے رویا میں گیارہ ستارے اور سورج اور چاند دیکھتے ہیں اور یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں.اور قرآن کریم میں دوسری جگہ آتا ہے کہ :- الم تر أنَّ اللهَ لَيَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوتِ تَرَ وَمَن فِي الأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالفَمَر و النجوم رج آیت 19) یعنی جو بھی آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے.اور سورج اور چاند اور ستارے وغیرہ سب کے سب اللہ تعالے کو سجدہ کر رہے ہیں.تو جب سجدہ خدا کا حق ہے اور خدا کے سوا کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں
14- تو کیا بقول شما یوسف علیہ السلام کا خواب خلاف شرع ہونے کی وجہ سے شیطانی ہے ؟ اور کیا آپ اسے شیطانی خواب گھنے کی جرات کر سکتے ہیں ؟ اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے.قال يا بنى إلى أرى فِي الْمَنَامِرات التحك فانظر ماذا ترى - رصفت آیت ۱۰۳) یعنی ابراہیم نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں." اور سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- لا تَقْتُلُوا اولاد کند - دبنی اسرائیل آیت ۳۲) اپنی اولاد کو قتل نہ کرو.اور وجہ یہ بتانی : إن قَتَلَهُم كَانَ خِطَاً كبيرا ر بن المرسل آیت ۳۳) یعنی انہیں قتل کرنا قانون شریعت کی رو سے بہت بڑا گناہ ہے.تو کیا ابراہیم علیہ السلام کا یہ خواب بقول شما خلاف شرع ہونے کی وجہ سے شیطانی ہے ؟ اور کیا آپ اسے شیطانی خواب کہنے کی جرات کر سکتے ہیں ؟ اگر نہیں تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ گذشتہ انبیاء کے رویا و کشون بھی اپنے اندر متشابہات کا پہلو رکھتے ہیں.اور
141 ہیئے اس بات کے محتاج ہیں کہ ان کی تعمیر محکمات کے تحت کی جائے.پس اگر حفتر بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا بھی کوئی کشف اپنے اندر متشابہات کا پہلو رکھتا ہے تو اس کی تعبیر بھی محکمات کے تحت ہونی چاہئے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ خود صاحب کشف نے اس کا کیا مطلب بیان کیا ہے نہ یہ کہ اپنی سے ایک مطلب گھڑ کے صاحب کشف کی طرف منسوب کر دیا جائے دیکھئے جنگ بدر کے تعلق میں اللہ تعالے نے آنحضرت کو مخاطب کر کے قرآن کریم میں فرمایا ہے.وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَفى - و انفال آیت ۱۸) یعنی جب تو نے پتھر پھینکے تھے تو تو نے نہیں پھینکے تھے بلکہ اللہ تعالے سے پھینکے تھے.اب دیکھیئے اس آیت میں اللہ تعالے نے آنحضرت کے فعل کو اپنا فعل قرار دیا ہے.کیا خدا اور اس کے رسول کے فعل میں کوئی فرق نہیں؟ اسی طرح تبعیت رضوان کے تعلق میں اللہ تعالے سورہ فتح میں فرماتا ہے :.ان الَّذِينَ يُنَا بِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يد اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ وفتح آیت (1) یعنی جو لوگ تیری محبت کرتے ہیں یقینا وہ تیری نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کی بہوت کرتے ہیں اور اللہ کا ہاتھ انکے ہاتھوں پر ہے.
۱۶۲ اس آیت میں آنحضرت کے ہاتھ کو اللہ تعالے کا ہاتھ قرار دیا گیا ہے کیا خدا اور رسول ایک ہی وجود کے دو نام ہیں ؟ اسی طرح صحیح بخاری میں آتا ہے :- بندہ نوافل ادا کرتا کرنا خدا کے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ خدا اس کے ساتھ محبت کرنے لگ جاتا ہے اور جب وہ اس کو اپنا دوست بنا لیتا ہے تو اس کے کان بن جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے.اس کی آنکھیں بن جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے.اس کے ہاتھ بن جاتا ہے.جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے.(بخاری کتاب الرقاق) غور فرمائیے.اللہ تعالے اگر مومن کے پاؤں بھی بن جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے تو بائی سلسلہ احمدیہ کے کشف پر اعتراض کیسا؟ کیا آپ ان مسلمات کے بارے میں بھی یہ کہیں گے کہ یہ ناجائز ہیں ؟ اگر نہیں اور یہ متشابہات آپ کے نزدیک جائز ہیں اور تعبیر طلب ہیں.تو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے متشابہات کیوں جائز نہیں اور ان کو تعبیر طلب کیوں قرانہ نہیں دیا جاتا.جبکہ خود انہوں نے بھی ان دیا کو تعبیر طلب قرار دیا ہے اور ان کی تعبیر کی ہے.باقی رہا عین اللہ والا کشف تو اس کا مطلب بھی حضرت پانی سلسلہ احمدیہ نے وہی بیان فرمایا، جو سبخاری کی مذکورہ بالا حدیث
۱۶۳ کا مطلب ہے.دیکھئے آئینہ کمالات اسلام، پس اختر اض کیسا؟ قوله كل خواب انسانی خیال کا ہی دوسرا نام ہے.پس خوابوں پر انحصار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسلام میں کی گنجائش ہے.اقول یادر ہے کہ اللہ تعالے رب اجسام ہی نہیں ربّ ارواح بھی ہے اور اس نے جہاں انسان کی جسمانی نشوو نما کے لئے متعد د سانان پیدا کئے ہیں وہاں اس کی رُوحانی نشود نما کے لئے بھی مختلف ساہی پیدا فرمائے ہیں.اور ان سامانوں میں سے ایک خواب بھی ہے اور اس کا مادہ ہر انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے.کسی میں کم اور کسی میں زیادہ.انبیاء بھی خواہیں دیکھتے رہے ہیں جن میں سے بعض کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے.پس خوابوں کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا.ابن سیرین فرماتے ہیں :- علامه این سر الرُّؤيَاء ثَلَتْ - حَدِيثُ النَّفْسِ وَتَخَونِفٌ الشَّيْطَانِ وَبُشْرَى مِنَ اللهِ فَمَنْ رَأَى شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلَا يَقُصُّهُ عَلَى أَحَدِ وَلْيَقُمْ فَلْيُصَلِّ - وتعطير الانام
14M یعنی خوابوں کی تین قسمیں ہیں.ایک حدیث النفس ہے دوسرے شیطان کی تخویف اور تغیر ہے.بشری جو اللہ تعالے کی طرف سے دکھائی جاتی ہے.اور جو مگر وہ خواب دیکھے اسے چاہیئے کہ وہ کسی سے بیان نہ کر ہے.اور اسی قویت اٹھے اور نماز کے ذریعہ دعا کرے تاکہ اس کے ضرر سے محفوظ رہے.یا درکھنا چاہیے کہ حدیث النفس سے مراد تو وہ خواہیں ہیں جو انسان اپنی طبیعت کی رو کے تحت عام طور پر دیکھتا رہتا ہے کیونکہ اس کا دماغ کسی وقت بھی بے خیال نہیں رہتا.بیداری کی حالت میں بھی اس کے دماغ میں خیالات آتے رہتے ہیں اور خواب کی حالت میں بھی.طالب علم جو دن کو پڑھنے میں مشغول رہتے ہیں طبیعت کی رو کے تحت رات کے وقت خواب میں بھی اسی شغل میں نئے رہتے ہیں.ایسا ہی پیشہ وروں کا حال ہے.درزی.درزی کے کام میں اور دھوبی.دھوبی کے شغل میں مصروف رہتا ہے.یہ الگ بات ہے کہ جس طرح بیداری میں خیالات آتے اور ساتھ ساتھ بھولتے جاتے ہیں.خواب میں بھی خیالات آتے اور ساتھ ساتھ بھولتے جاتے ہیں اور انسان اس بھول کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ اسے کوئی خواب نہیں آیا حالانکہ انسانی دماغ کسی وقت بھی خیالات کی آمد ورفت سند خالی نہیں رہ سکتا اور خواب میں بھی یہ سلسلہ برابر جاری رہتا ہے
190 بلکہ بعض اوقات یہ خیالات اس کی دبی ہوئی خواہشات سے ملکہ اُسے مختلف مناظر بھی دکھاتے رہتے ہیں جن میں سے بعض جاگنے پر یا د بھی رہ جاتے ہیں لیکن وہ حدیث النفس کے دائرہ سے باہر نہیں ہوتے اور ایسے خوابوں کی ایک بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ان کا قلب پر چندان اثر محسوس نہیں ہوتا.قرآن کریم میں ایسے خوابوں کے متعلق جو حدیث النفس کے دائرہ سے تعلق رکھتے ہیں أَضْغَاتُ الاحلام کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.(سورہ یوسف) اور شیطانی خوابوں کے متعلق امام ابن سیرین کا یہ قول بھی کہ ان میں تخریف کا پہلو پایا جاتا ہے قرآن کریم سے ہی مستنبط ہے اللہ تعالے سورہ آل عمران میں فرماتا ہے:.اِنَّمَا ذَ الكُمُ الشَّيْطَنُ يُخَونُ اَوْلِيَاء لَا فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُوْنِ إِنْ كُنتُمْ مُّؤْمِنِينَ د آل عمران آیت ۱۷۶) یعنی شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں کو ڈراتا ہے پس اگر تم سچے مومن ہو تو ان شیطانوں سے مت ڈرو اور صرف مجھ سے ہی ڈرو.گویا محجوب طبائع جو خالق اسباب کی بجائے اسباب پر نظر رکھتی ہیں چونکہ بصورت شرک شیطان سے ایک طرح کی مناسبت پیدا کر لیتی ہیں اس لئے شیطان بھی انہیں اس مناسبت کی وجہ سے
144 خوف زدہ کرتا رہتا ہے.چنانچہ قرآن حکیم میں ایک اور مقام پراشد تعالیٰ فرماتا ہے.إنَّمَا سُلْطَانَهُ عَلَى الَّذِيْنَ يَتَوَ لَوْنَهُ وَالَّذِينَ هم به مُشْرِكُون - رنحل آیت (۱۰) یعنی شیطان کا زور صرف انہیں لوگوں پر چلتا ہے جو اس سے دوستی کا تعلق رکھتے ہیں اور جو اس کی وجہ سے شرک کے مرتکب ہوتے ہیں.پر شیطانی خواب اسی کو آئے گا جو شیطان سے دوستی کا تعلق رکھینگا اور شرک کا مرتکب ہوگا.اور رحمانی خواب اسی کو آئے گا جو رحمن سے دوستی کا تعلق رکھے گا اور شرک سے مجتنب رہے گا.اور علامہ ابن سیرین کا یہ ارشاد بھی کہ مبشتر خواب اللہ تعالیٰ کی طرف دکھائے جاتے ہیں.دراصل قرآنی تعلیم سے ہی ماخوذ ہے سورہ یونس میں آتا ہے :- الا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُو يَتَعَونَ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَياةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ریونس آیت ۶۳ - ۶۴-۱۶۵ یادرکھو جو اللہ تعالے کے دوست ہیں ان پر نہ کوئی خوف طاری ہوتا ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں.یعنی وہ لوگ
146 جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا ان کے لئے اس ور ہی زندگی میں بھی بشارات کا انعام مقدر ہے اور اخروی زندگی میں بھی.مذکورہ بالا آیات سے ظاہر ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے دوستی کا تعلق استوار کرتے ہیں وہ نہ صرف شیطان کی تخریف سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ اپنے ایمان اور تقویٰ کے طفیل ایک طرح کی عالم قدس کے ساتھ مناسبت پیدا کر لیتے ہیں جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو اکثر ایسے خواب دکھائے جاتے ہیں جو بشارات پر مشتمل ہوتے ہیں اور دل میں آہنی میخ کی طرح گڑ جاتے ہیں.اور امام ابن سیرین کا یہ فرمانا کہ مکہ وہ خواب دیکھنے والا نماز کے ذریعہ دعا کرے اس بناء پر ہے کہ محافظ حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہی مکروہ خواب کے بداثرات سے بچا سکتا ہے اس لئے انسان کے لئے یہی لازم ہے کہ وہ نماز کے ذریعہ انسی سے دعا مانگے سورہ تمل میں آتا ہے:.امن يجيب المضطر إذا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السوء - رنمل آیت ۶۳) یعنی اللہ تعالے ہی بیکسوں کی دُعائیں سنتا ہے اور ان کی تکالیف کو رفع کرتا ہے.پین رو بلا کے لئے اسی کی طرف رجوع کرنا چاہیئے.
رویا کے بعض پہلوؤں پر حدیث میں بھی روشنی ڈالی گئی ہے مثلا بخاری اور مسلم میں آتا ہے :- الرؤيا الصالِحَةُ مِنَ اللهِ وَالْحُلُمُ مِنَ الشَّيْطَانِ فَإِذَا رَاتِ أَحَدُكُمْ مَا يُحِبُّ فَلَا يُحَدِّثُ بِهِ إِلَّا مَنْ تُحِبُّ وَإِذَا اى ما يكره فَلْيَتَعَوَّذُ بِاللهِ مِنْ شَرِهَا دَ مِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَليَتَفَلَ ثَلَانَّا وَلا يُحَدِّثُ بِهَا أَحَدًا فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرُّة - درواه بخاری و سلیم یعنی رویائے صالحہ اللہ تعالے کی طرف سے ہوتی ہے.اور حلم شیطان کی طرف سے.پس جب تم میں سے کوئی پسندیدہ خواب دیکھے تو صرف اس شخص کو بتائے جو اس کا دوست ہو اور جیب کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو اس کے شر اور شیطان کے شر سے بچنے کے لئے اللہ تعالے کی پناہ مانگے اور تین دفعہ تھوک دے اور یہ خواب کسی کو نہ بتائے تو اس صورت میں اس کا بُرا اللہ ظاہر نہیں ہوگا.اسی طرح صحیح مسلم میں آتا ہے :- إذا راى أَحَدُكُمُ الرُّؤْيَايَرَ هُهَا
فَلْيَصُقُ عَنْ يَسَارِهِ تَلَثاً وَلْيَتَعَوَّذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ تَلَنَّا وَلَيَتَحَوَّل مَنْ جِنْبِهِ الذي كانَ عَلَيْهِ - درواه مسلم یعنی جب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے.تو تین دفعہ اپنی بائیں طرف تھوک دے اور تین مرتبہ خود پڑھکر شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے اور میں پہلو پر لیٹا ہوا سے بدل دے.یاد رکھنا چاہئیے کہ مذکورہ بالا حدیث میں جو شیطانی خواب کیلئے حلم کا لفظ آیا ہے یہ بطور شرعی اصطلاح کے ہے ورنہ علم جس کی جمع احلام ہے لغت کی رُو سے رویاء کے معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے ہاں نور ویاء اللہ تعالے کی طرف سے دکھائی جاتی ہے اس کے لئے صالحہ کا لفظ بطور صفت کے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ شیطانی خوابوں اور رحمانی خوابوں میں خط امتیاز قائم رہتے اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ اچھا خواب صرف دوستوں سے بیان کیا جائے اس بناء پر ہے کہ دشمن بعض اوقات حسد کی وجہ سے مصیبت کا باعث بھی بن جاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کو ہدایت فرمائی تھی کہ اپنے بدخواہ بھائیوں کو اپنا خواب نہ سنانا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حسد کی وجہ سے تیرنے لئے کوئی
15- ابتلاء کی صورت پیدا کر دیں.ہاں خیر اندیش اہل قرابت سے اچھا خواب بیان کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ ان کے لئے ایسا خواب باحدث مسرت ہوگا اور ان کی دلی خواہش ہوگی کہ یہ خواب جلد از جلد پورا ہو.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ مکروہ خواب دیکھنے پر اس کے کثر سے بچنے کے لئے آمو د پڑھ کر خدا کی پناہ طلب کی جائے اور زمین دفعہ بائیں طرف تھو کا جائے اس بناء پر ہے کہ اگر وہ مکروہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی بطور ابتلاء کے ہے تو اس ابتلاء سے اللہ تعالے ہی سچا سکتا ہے اور اگر شیطان کی طرف سے ہے تو وہ کسی شیطانی مناسبت کی وجہ سے ہوگا اس لئے ایسا خواب دیکھنے پر تین دفعہ تھوکنے کے ذریعہ اظہار نفرت ہی کافی ہے.کیا بلحاظ خواب کے مکروہ ہونے کے اور کیا بلحاظ اس شیطانی مناسبت کے جس کی وجہ سے شیطان نے اس کو ایسا خواب دکھایا کیونکہ محکم هل انتكمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيْاطِينَ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ آفَاكِ اشتمه ( شعراء آیت ۲۲۲۲۲۱) شیطان انہیں لوگوں پر اترا کرتے ہیں جو دروغگو ہوتے ہیں وجہ یہ کہ دروشنگوئی کی عادت شیطان سے ایک طرح کی مناسبت پیدا کر دیتی ہے اور انسان کے قلب سلیم اور اس کی فطرت کیجے
11 کے توازن کو بگاڑ دیتی ہے جس کی وجہ سے شیطان اس پر مسلط ہو جانا ہے اور مکروہ خوابوں کے ذریعہ اس کے لئے باعث استلاء پنجا تا ہے.لیکن صالح اور صادق انسان چونکہ اپنی نیکی اور راستبازی سے شیطان کی راہیں اپنے اوپر بند کر لیتا ہے اس لئے اس پر ملائکہ کے نزول کا دروازہ کھل جاتا ہے اور اس کے اکثر خواب سچے نکلتے ہیں مگر اس کے برعکس کا ذب اور فاسق انسان پر چونکہ شیطان مسلط ہوتا ہے اس لئے اس کے اکثر خواب جھوٹے نکلتے ہیں.الغرض شیطانی خوابوں کی ایک وجہ درد و نگوئی کی عادت بھی ہے اور اگر درو نگوئی کی عادت نہ بھی ہو تو دوسرے معاصی سی شیطانی خواہیں دکھانے کا موجب ہو جاتے ہیں.جیسا کہ ارشاد ربانی لے حدیث میں آتا ہے کہ اَصْدَ قُكُمْ رُ ويَّا اَصْدَقُكُمْ حَدِثيا (جامع ترندی یعنی تم میں سے سب سے سچا خواب دیکھنے والا وہ س ہے جو سب سے زیادہ سچ بولنے والا ہے.یہ حدیث خواب کی نفسیات سمجھنے کے لئے کلیدی حیثیت کی حامل ہے لیکن یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ ماہرین نفسیات جس خواب کی تشریح کرتے ہیں وہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے اور چیز ہے اور رویائے صالحہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے اور میری ہے.ہے.
۱۷۲ تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَاكِ أَثِيمٍ میں اسیم کے لفظ سے ظاہر ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ مگر وہ خواب دیکھنے پر پہلو بدل لیا جاتا.تو یہ پہلو کا بدلنا بھی در اصل ایک طرح کا اظہارہ نفرت ہی ہے جیسا کہ تھوکنے کے فعل میں ایک طرح کا اظہار نفرت پایا جاتا ہے.اور یہ ارشاد اس لئے بھی ہو سکتا ہے کہ پہلو بدلنے سے خیالات کی رو بدل جائے اور اس لئے بھی کہ بعض اوقات سیدھا لیٹنے سے سینے پر ہاتھ آجاتا ہے جس کے نتیجہ میں قلب پر بوجھ پڑتا ہے اور متوحش خوابوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.اور اگر اس وقت پہلو بدلی لیا جائے تو وہ سلسلہ رک جاتا ہے.اسی طرح بائیں پہلو پر سونے سے بھی قلب پر بوجھ پڑتا ہے اور یہ بوجھ بعض اوقات مکروہ خواب کا بھی باعث بن جاتا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دائیں پہلو پر خواب استراحت فرما یا کرتے تھے.کیا عجب کہ یہ طریق رحمانی خوابوں کے قریب کرنے والا اور شیطانی خوابوں سے دور رکھنے والا ہو.کیونکہ دائیں بائیں کا تعلق بعض حالات میں خیر اور شہر سے بھی ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں نیکی والوں کو اصح ہے الیمین اور بدی والوں کو اصحاب استعمال قرار دیا گیا ہے.یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ
۱۳ کی طرف سے بھی منذر خواب دیکھایا جاتا ہے.لیکن جیسا کہ ڈاکٹر کے پیر نے پھاڑنے کا پر حکمت فعل اپنے اندر شفقت کا پہلو رکھتا ہے اسی طرح اللہ تعالے کی طرف سے دکھایا ہوا منذر خواب بھی صالحہ ہونے کی وجہ سے اپنے اندر رحمت کا پہلو ر کھتا ہے اور اس سے مقصود انسان کی اصلاح اور تادیب ہوتی ہے نہ کہ تخویف اور ترہیب.رویائے صالحہ کی اہمیت اس امر سے بھی ظاہر ہے کہ آنحضرت نے اسے نبوت کا چھیالیسواں حصہ قرار دیا ہے اور یہ ارشاد بھی فرمایا ہے کہ لَم يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَة آت - (بخاري) یعنی انواع نبوت میں سے صرف مبشرات والی نوع باقی ہے اور یہ عشرات والی نوع رویا، کشف اور الہام سب پر حاوی ہے اور ان سب کا تعلق قلب سے ہے جیسا کہ آیت کریمیہ :- ما كَذَبَ الْفَوَادُ مَا رَأَى - انجم) سے ظاہر ہے یعنی آنحضرت کے قلب پر جو انکشاف ہوا خواہ السلام سے خواہ کشف سے خواہ رویاء سے وہ کذب کے شائبہ سے پاک تھا جامع حدیث ہے اور اس میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ سردیا سالحہ کا دروازہ تا قیامت کھلا رہے گا.
کام کارا یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے بھی روحانی قوتوں کا سر حسیمہ قلب کو ہی قرار دیا ہے چنانچہ حضور اپنی پر معارف تصنیف حقیقۃ الوحی میں تحریر فرماتے ہیں کہ :.وہ خدا جو کریم و رحیم ہے جیسا کہ اس نے انسانی فطرت کو اپنی کامل معرفت کی بھوک اور پیاس لگادی ہے ایسا ہی اس نے اس معرفت کا ملہ تک پہنچانے کے لئے انسانی فطرت کو دو قسم کے قومی عنایت فرمائے ہیں ایک معقولی قوتیں جن کا منبع دماغ ہے اور ایک روحانی قوتیں جن کا منبع دل ہے.اور جن کی صفائی دل کی صفائی پر موقوت ہے اور جن باتوں کو معقولی قوتیں کامل طور پر دریافت نہیں کر سکتیں روحانی قوتیں ان کی حقیقت تک پہنچے جاتی ہیں.(حقیقۃ الوحی صل، اسی طرح حدیث میں یہ بھی تصریح ہے کہ اللہ تعالے بعض اوقات اپنے خاص بندوں کے لئے عام لوگوں کو بھی خواب دکھا دیتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :- الْمُؤْمِن برای آویری ته (مشكوة ) یعنی مومن کبھی خود خواب دیکھتا ہے اور کبھی دوسروں کو اس کے متعلق خواب دکھایا جاتا ہے.بلکہ بعض اوقات کا فروں کو بھی سچا خواب آجاتا ہے تا کہ وہ اللہ تعالے کے مومن بندوں کے
150 بچے خوابوں سے انکار نہ کر سکیں.اسی طرح حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ جب مہدی معہود کا ظہور ہو گا تو آسمان سے آواز آئے گی :- هذَا خَلِيفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِيُّ فَاسْمَعُوا وَ اطيعُوة - (حج الكرامه ها ۳۷ ) یعنی یہ مدی اللہ تعالے کا خلیفہ ہے اس کی سنو اور اس کی اطاعت کرو.اور آسمان آواز آنے کا یہی مطلب ہے کہ لوگ اللہ تعالے سے براہ راست بشارات پاکر اس خلیفہ اللہ کے حلقہ اطاعت میں داخل ہونے کی سعادت حاصل کریں گے.چنانچہ اس حدیث کے مطابق ہزاروں لوگ بذریعہ رویا و کشوف مہدی وقت کی صداقت پر مطلع ہوئے اور انہوں نے آپ پر ایمان لانے کی توفیق پائی.اور قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے علیہ السلام کے زمانہ میں بھی بعض لوگوں کی رہنمائی اللہ تعالے کی طرف سے کی گئی تھی اور وہ بذریعہ وحی ایمان کی دولت سے بہرہ یاب ہوئے تھے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:.وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِ بن أَنْ آمِنُوا بي وَبِرَسُولِی قَالُوا آمَنَّا - رمانده آیت ۱۱۲) یعنی اس وقت کو یاد کرو جب میں نے حواریوں کو
189 وجی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تو انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لاتے ہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ چونکہ مثیل مسیح بھی تھے اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے زمانہ میں بھی ایسا ہی وقوع میں آتا.اور لوگ بذریعہ وحی آپ پر ایمان لانے کی سعادت حاصل کرتے چنانچہ اسی طرح ہوا اور ہزاروں لوگوں نے بذریعہ وحی آپ پر ایمان لانے کی سعادت حاصل کی.انجیل میں بھی آتا ہے کہ آخری زمانہ میں لوگوں کو بکثرت بچے خواب دکھائے جائیں گے.حوالہ یہ ہے کہ :.خدا فرماتا ہے کہ آخری دنوں میں اليا ہو گا.کہ لیکن اپنی روح میں سے ہر بیشر پر ڈالوں گا اور تمہارے بیٹے اور تمہاری بیٹیاں نبوت کریں گی اور تمہارے نوجوان رویا اور تمہارے بڑھے خواب دیکھیں گے را عمال 10-15 چنانچہ آخری زمانہ میں آسمان کے دروازے کھولے گئے.اور زدحانی انوار کی موسلا دھار بارش ہوئی جس سے ہر شخص تقدیر استعداد فیضیاب ہوا.اور جیسا کہ اللہ تعالے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند حضرت میں رزا غلام احمد صاحب قادیانی بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو بشارت دی تھی کہ
146 يَنصُرُكَ رِجَالُ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ - ر تذکرہ) تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کو ہم آسمان سے رچی کرینگے.قریبا ہر ملک اور ہر قوم اور ہر طبقہ کے ہزار ہا لوگ اللہ تعالیٰ سے بشارات پا کر آپ کی مدد کے لئے کمربستہ ہو گئے اور مزید ہزار ہا سعید روحوں کی ہدایت کا موجب بنے.خلاصہ کلام یہ کہ جس طرح بمطابق آیت کریمیه الله أعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالتَه - انعام آیت) اللہ تعالے اپنے رسولوں کا انتخاب خود کرتا ہے اسی طرح نمطابق آیت کریمیه الله يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي الَيْهِ مَن يُنيب - رشوری آیت (۱۴) وہ رسولوں کے ممتاز صحابہ کا انتخاب بھی خود ہی فرماتا ہے " آسماں پر دعوت حق کے لئے آگ جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اثار اسمعوا صوت السماء جاء اس جال مسیح نیز بشنو از زمین آمد امامی کام گار رودوشین) قوله عطا مرز اصاحب مسیلمہ کذاب کی طرح جھوٹے مدعی نبوت
16A ہیں اور حدیث انهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كذابون كلهُمْ يَزْعَمُ اللَّهُ نَبِي (بخاری) سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ میں تیس جھوٹے دعویدار پیدا ہوں گے.اقول افسوس یہ اعتراض کرنے والے بالعموم ایسے لوگ ہیں جنھیں یہ علم ہی نہیں کہ مسیلمہ کذاب کون تھا اور حضرت مرزا صاحب کی تعلیم کیا ہے ؟ ورنہ اس قسم کا اعتراض کرنے کی جسارت ہرگز نہ کرتے بر صغیر کے مسلمہ عالم دین جناب نواب صدیق حسن خالفنا بھوپالوی مسیلمہ کذاب کے بارے میں لکھتے ہیں :- اس نے ادعا کیا کہ وہ نبوت میں آنحضرت صلعم کا شریک ہے اور زنا اور شراب کو حلال قرار دیا فریضہ نماز کو ساقط کر دیا.قرآن مجید کے مقابل سورتیں لکھیں پس شریها در مفسد لوگوں کا گر وہ اس کے تابع ہو گیا ہے امج الكرامه ۲۵ ۲۳ ترجمه از فارسی اب اس کے مقابل حضرت مرزا صاحب کی تعلیم ملاحظہ فرما ئیے.آپ اپنی ایمان افروز تصنیف کشتی نوح میں تحریر فرماتے ہیں.تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے
149 جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول یر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کے لئے روے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن - اور تمام آدمزادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں ملکر محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم.سو تم کوشش کر دو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے کلہی کے ساتھ رکھو اور اس کے بغیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ رکشتی نوح ۲۳۵) امید ہے کہ ان دو حوالوں سے ہی آپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ مسیلمہ کذاب کس قماش کا مدخی تھا اور حضرت مرزا صاحب کس شان کے مامور ہیں اگر ایک کا مقصد اسلام کا استیصال تھا تو دوسرے کا مقصد اسلام کا استحکام سے پھر اللہ تعالے اپنے جیب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قرآن مجید میں فرماتا ہے :- وَلَوْ تَقَولَ عَلَيْنَا بَعْضَ الأَقَادِيلَ وَ لَاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنِ ر الحاقہ آیت ۴۵-۴۶-۴۷)
یعنی اگر ریشخص بھی ہماری طرف جھوٹا العام منسوب کرتا خواہ ایک ہی ہوتا تو ہم یقینا اس کو دائیں ہاتی سے پکڑ لیتے اور اس کی رگِ جان کاٹ ڈلتے.ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹا الہام منسوب کرنے والا قتل ہو جاتا ہے.اور دنیا کی کوئی طاقت اسے تقول کی سزا سے بچا نہیں سکتی.یہی وجہ ہے کہ جمعیت وطاقت کے با وجو د مسیلمہ کذاب قتل ہو گیا اور آج دنیا میں اس کا کوئی سرکا نظر نہیں آتا لیکن محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم قتل سے محفوظ رہے اور باوجود شدید مخالفت کے آپ کا سلسلہ روزبر در ترقی کرتا چلا گیا یہانتک کہ دنیا پر محیط ہو گیا.اب آؤ اور اسی معیار نبوت سے بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کو پرکھ لو کہ آپ اپنے دعوے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح صادق ہیں.یا مسیلمہ کی طرح کا ذب؟ با وجودیکه دخوشی کے بعد آپ نے آنحضرت کے زمانہ نبوت سے بھی زیادہ زمانہ گزارا اور قریباً تیس سال تک اپنے الہامات شائع کرتے رہے.پھر بھی آپ قتل سے محفوظ رہے اور آپ کا سلسلہ ہزار ہا مخالفتوں کے باوجود دن دونی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے.کیا یہ امر آپ کی صداقت کا روشن ثبوت نہیں ؟ سچ سچ کہو اگر مرنہ ا صاحب منقول ہوتے تو کیا آپ تقول کی سزا سے بچ سکتے تھے؟ اور کیا وہ خدا جو اپنے جیب
سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم کی اس معاملہ میں رو رعایت کرنے کے لئے تیار نہیں اور آپ کی نسبت اعلان کر رہا ہے کہ بصورت تقول میں اس کی بھی رگِ جان کاٹ دیتا.وہ بصور تقول مرزا صاحب کو چھوڑ دیا اور ان کی رگِ جان نہ کاٹنا ؟ سوچو اور پھر سوچو.صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کردگار (در نین) باقی رہی بخاری کی حديث اللَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَا بُونَ كُلُّهُمْ يَزْعَمُ اللَّهُ نَبِی تو اس کے متعلق یا در رکھنا چاہیئے کہ یہ وہ تیس مدعیان نبوت ہیں جو اسلامی شریعیت کو منسوخ قرار دے کہ نئی شریعت لانے کے دعویدار تھے.اور جن کی تعدا د سیح موعود کی بعثت سے قبل پوری ہو چکی ہے جیسا کہ جج الکرامہ اور اکمال الاعمال وغیرہ کتب میں اس امر کی تصریح موجود ہے.اور لفظ سیلون کاس" بھی اسی امر پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں آنحضرت کے بعد مستقبل قریب میں پیدا ہونا تھا.علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس حدیث میں آنحضرت نے یہ نہیں فرمایا کہ میری امت میں جو بھی نبوت کا دعوئی کرے گا وہ کذاب ہو گا بلکہ یہ فرمایا ہے کہ میری است میں نہیں
TAY کذاب پیدا ہوں گے جو نبوت کا دعوی کریں گے.پس ان دونوں باتوں میں بہت بھاری فرق ہے اور تیس کی حد بندی صناف بتا رہی ہے کہ آنحضرت کے بعد بچے بنی بھی آئیں گے ورنہ آپ یہ فرماتے کہ میرے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعوی کر لے گا وہ کذاب ہوگا.الغرض اس حدیث سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آہوں میں موخو د اپنے دعو الے میں سچا نہیں.ماسوا اس کے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ جہاں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ امت مسلمہ میں نہیں جھوٹے دعویدار کھڑے ہوں گے جو یہ دعوی کریں گے کہ وہ نبی ہیں حالانکہ وہ نبی نہ ہوں گے وہاں آپ نے یہ پیشگوئی بھی فرمائی ہے کہ امت مسلمہ میں ایک سچا مامور تبھی آئے گا جس کی صداقت کے لئے اللہ تعالے آسمان پر دو نشان کرے گا.ایک یہ کہ رمضان کے مہینے میں چاند گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات یعنی تیرہ ماہ رمضان کو چاند گر میں ہو گا.اور دوسرا یہ کہ اسی ماہ رمضان میں سورج گرمین کے دنوں میں سے درمیا نے دن یعنی اٹھائیں ماہ رمضان کو سورج گرین ہوگا.اور یہ دونوں نشان ایسے ہیں کہ جب سے دنیا عالم وجود میں آئی ہے کسی مامور کیلئے ظاہر نہیں ہوئے.حدیث کے الفاظ یہ ہیں :- إنَّ لِمَهْدِينَا ايَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُندُخَلَقَ
InF السموت والارض ينكينُ الْقَمَرُ لاول ليْلَةٍ مِّن رَّمَضَانَ وَتَنْكَسِتُ الشمس في النِّصْبِ مِنْهُ وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ السَّمَوتِ وَالاَرضِ - ) دار قطنی جلد اول مشتا چنانچہ خدائے قادر و توانا کے اسلام اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق سوداء کے ماہ رمضان کا سا چہ میں عین انہیں تاریخوں کو جن کی حدیث میں نشاندہی کی گئی تھی چاند اور سورج کو گرہن لگا جس کے نتیجہ میں ہزار ہا سعید روحوں نے امامم وقت کو شناخت کر کے اس پر ایمان لانے کی سعادت حاصل کی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی وفات سے لے کر چودھویں صدی تک نبوت کے کئی دعویدار کھڑے ہوئے مگر ان میں سے کوئی بھی ایسا دعویدار نہیں تھا جس کی صداقت پر چاند اور سورج نے ماہ رمضان میں اس طرح مقررہ تاریخوں پر گواہی دی ہو.ایک بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلامحمد صاحب قادیانی ہی ایسے دعوید اللہ تھے جن کے وقت یہ عظیم الشان نشان ظاہر ہوا اور جنہوں نے اپنے آقا سرور کائنات فخر موجودا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض و برکات سے کامل حصہ پا کر یہ اعلان کیا کہ :- "اگر آسمانی نشانوں میں کوئی میرا مقابلہ کر سکے تو میں
جھوٹا ہوں.اگر قرآن کے نکات اور معارف بیان کرتے ہیں کوئی میرا ہم پلہ ٹھہر سکے تو میں جھوٹا ہوں.اگر غیب کی پوشیدہ بانیں اور اسرار جو خدا کی اقتداری قوت کے ساتھ پیش از قوت مجھ سے ظاہر ہوتے ہیں ان میں کوئی میری برا بری کر سکے.تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں" را یعین اول ) مازکورہ بالا حقائق کی روشنی میں اب آپ خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ مرزا صاحب صادق ہیں یا کاذب مقبول ہیں یا مرد و در مسیح ہیں یا دجال ؟ آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اللہ تعالے کی تائید اور نصرت انہیں لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو اس کے برگزیدہ اور راستبازہ بندے ہوتے ہیں نہ کہ ملعون اور مفتری.ارشاد ربانی ہے:.إنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الحيوة الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُه (مومن آیت ۵۲) ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی دنیوی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں اور اس روز بھی کریں گے جبکہ گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے.
۱۸۵ تأثرات حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے تبلیغی و اصلاحی و اخلاقی و روحانی کارناموں کے بارے میں بعض نامور اہل قلم حضرات کی آراء ذیل میں ملاحظہ فرما ہیے: ا فرقہ اہلحدیث کے مشہور لیڈر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی لاجواب تصفیف براہین احمدیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطرانہ ہیں :- را ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آجنگ اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں لعل الله يحدث بعد ذالك ا مرا اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی ومالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے.در ساله اشاعة السنه جلد مثلا) - مواطنا نیاز فتحپوری مدیر ماہنامہ نکار تحریر فرماتے ہیں کہ :.کلام مجید سے ہر زمانہ اور سر قوم میں کسی نہ کسی بادی و
JAY مصلح کا پیدا ہونا ثابت ہے اور میں یقین کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ مرزا صاحب جھوٹے انسان نہیں تھے وہ واقعی اپنے آپ کو مہدی موعود سمجھتے تھے اور یقینا انہوں نے یہ دعوا سے ایسے زمانہ میں کیا جب قوم کی اصلاح و تنظیم کے لئے ایک ہادی و مرشد کی سخت ضرورت تھی.علادہ اس کے دوسرا معیار جس سے ہم کسی کی صداقت کو جان سکتے ہیں نتیجہ عمل ہے سو اس باب میں احمدیہ جماعت کی کامیابیاں اس درجہ واضح و روشن ہیں کہ اس سے ان کے مخالفین بھی انکار کی جرات نہیں کر سکتے.اس وقت دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں ان کی تبلیغی جماعتیں اپنے کام میں مصروف نہ ہوں اور انہوں نے خاص عربت و وقار حاصل نہ کر لیا ہو.پھر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کامیابیاں بغیر انتہائی خلوص و صداقت کے آسانی سے حاصل ہو سکتی ہیں اور کیا یہ جذبہ خلوص و صداقت کسی جماعت میں پیدا ہو سکتا ہے اگر اسے اپنے ہادی و مرشد کی صداقت پر یقین نہ ہو ؟ اور کیا وہ ہادی و مرشد اتنی مخلص جماعت پیدا کر سکتا تھا اگر وہ اپنی جگہ صادق و مخلص نہ ہوتا.بہر حال
IAC اس سے انکار ممکن نہیں کہ مرزا صاحب بڑے مخلص انسان تھے اور یہ محض ان کے خلوص کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کی بے ھیں جماعت میں عملی زندگی کا احساس پیدا ہوا.اور ایک مستقل حقیقت بن گیا.رہاہنامہ نگار لکھنو اگست 1909ئ).اسی طرح مولنا موصوف نومبر کے شمارہ میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :." اس میں کلام نہیں کہ انہوں نے یقینا اخلاق اسلامی کو دوبارہ زندہ کیا اور ایک ایسی جماعت پیدا کر کے دکھا دی جس کی زندگی کو ہم یقینا اسوہ نبی کا پر تو کہ سکتے.81909 ہیں.(نگار ماہ نومبر شائد ) شاعر مشرق علامہ اقبال ستخر سے فرماتے ہیں کہ :- پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں.ر ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر من 24 - جناب شمس العلماء سید ممتاز علی صاحب مدير راكه تهذيب العنوان رسالة نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تخریبہ فرمایا کرون " مرزا صاحب مرحوم نہایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ تھے اور نیکی کی ایسی قوت رکھتے تھے.جو سخت سے سخت دل کو
JAA تسخیر کر لیتی تھی.وہ نہایت با خبر عالم بلند ہمت مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھے.ہم انہیں مذہبا مسیح موعود تو نہیں مانتے لیکن ان کی ہدایت اور رہنمائی مُردہ روحوں کے لئے واقعی مسیحائی تھی.در ساله تهريب النسوال شنوا و لا ہور) رہ جوالہ تشحید الاذہان جلد ۳ صنا - اخبار وکیل جس کے حلقہ ادارت میں اُس وقت مولفنا ابوالکلام آن آد بھی شامل تھے اس نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات پر لکھا کہ :.وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو.وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا.جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی.جس کی انگلیوں سے نقلاب کے تارا مجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں.وہ شخص جو نہ سہی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان بنا رہا جو شور ہو کر خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا.دنیا سے اٹھ گیا.مت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی ریت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے.ایسے لوگ جن سے
۱۸۹ ندسی با عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منتظر عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر کے دکھا جانتے ہیں.مرزا صاحب کی اس رحلت نے مسلمانوں کو ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ ہ اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات کے ساتھ وابستہ بھی خاتمہ ہو گیا.ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے.مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور نہیں آیا قبول نام کی سند حاصل کر چکا ہے.اور اس خصوصیت ہیں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں.اس لٹریچر کی قدر و قیمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے تمہیں دل سے تسلیم کرنا پڑتی ہے.اس مدافعت نے نہ صرف نیسائیت کے ابتدائی اثر کے پر خچے اڑائے جو سلطنت کے سایہ میں ہو نیکی وجہ سے
19.حقیقت میں اس کی جان تھا بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کہ اُڑنے لگا.غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنیوالی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹر بیج یاد گا چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون ہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے قائم رہے گا.اس کے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی کھلیاں توڑنے میں مرزا صاحب نے اسلام کی بہت خاص خدمت سر انجام دی ہے.آئندہ امید نہیں کہ مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص ہیدا ہو" (اختصارًا ، ۳) ر اخبار وکیل امرتسر منی و سجواله بد به ۸ ارجون والسلام وأخر دعوانا ان الحمد لله ربّ العلمين والصلوة والسلام على رسوله محمد واله و اصحابه اجمعين استغيث برحمتك يا ارحم الراحمين وبفضلك ارجو يا ذا الفضل العظيم أمين
ہمارا مذہب ر رقم فرمودہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علی الصلوة والسلام) ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں.اور سید نا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق ، اور حشر اجساد حق ، اور روز حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا ایک ذرہ زیادہ کر سے یا ترک فرائی اور اباحت کی بنیاد ڈالے، وہ بے ایمان اور اسلام سے گرشتہ ہے اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ پیچھے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ اور اسی پر مریں.اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ان سب پر ایمان ٹاویں اور صوم اور صلوٰۃ اور زکوۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے سول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھکر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک سلام پر کاربند ہوں.غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالحین کو اقتصادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہل سنت کی اجتماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں.ان سب کا ماننا فرض ہے اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے (ايام الصلح منه طبع اول ).
نام کتاب فیضانِ نبوت حترم مولانا ابوالبرکات غلام رسول نا قدسی را میکی از افاضات مرتبه طبع اول جولائی 19 مبشر احمد ر حیسکی مطبع اکیڈیک پریس کبیر سٹریٹ لامبور طابع وقف جدید امین احمدیہ دیوه ناشر تعداد دو ہزار