Language: UR
مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان نے عبدالرحمٰن یعقوب باوا کا مرتب کردہ ایک مختصر پمفلٹ بعنوان ’’فیصلہ آپ کریں !‘‘ شائع کرکے تقسیم کیا تو اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز نے اس دو ورقہ میں درج ہر اعتراض کا ترتیب سے جواب تیار کرکے مختصر کتابچہ کی شکل میں پیش کیا جسے ’’فیصلہ قرآن و سنت کا چلے گا کسی ایرے غیرے کا نہیں‘‘ کا عنوان دیا گیا۔ اس مختصر کتابچہ میں قریباً ایک درجن کے قریب ان اعتراضات کا جواب دیا گیا جو دراصل اس مخالف کی سیاہ بختی کی پیدا وار تھے۔ ورنہ ان سوالوں کا جواب پہلے بھی دیا جاچکا تھا لیکن اس مخالف مولوی کا مقصد وحید تو احمدیہ لٹریچر سے تحریرات کو سیاق و سباق سے قطع و برید کرکے عوام الناس میں اشتعال پیدا کرنا تھا جو اس نے اپنا یہ دو ورقہ مرتب کیا۔
فیصد قرآن و سنت کا چلے گا کسی ایرے غیرے کا نہیں بجواب فیصلہ آپ کریں ناشر اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ
Published by: Islam International Publications Ltd.Islamabad, Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, U.K.Printed by: Raqeem Press, Islamabad, U.K.©1991 ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD.ISBN 1 85372 434 3 Electronic version by www.alislam.org
12 4 5 6 10 12 14 1 فیصلہ فهرست -2 چاند اور سورج کا گرہن اور دعوی فضیلت ! -3 تیرا تخت سب سے اونچا بچھایا گیا ! 4 قدم پیچھے نہیں بلکہ آگے ! - آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا قادیان میں اترنا 6 ہر شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ سکتا ہے ! 7 " محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں " 8- سور کی چربی والا پنیر - مکہ اور مدینہ کی چھاتیوں کا دودھ ! -10 کشفی حالت میں حضرت فاطمہ کی ران مبارک پر سر رکھنا 11- گر کفر این بود بخدا سخت کا فرم 16 18.22
1 بسم الله الرحمن الرحیم فیصلہ! مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان نے ایک دو ورقہ شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے "فیصلہ آپ کریں " یہ دو ورقہ عبدالرحمان یعقوب باوا کا مرتب کردہ ہے.اس میں مذکور ہر اعتراض کے ترتیب وار جواب سے قبل ، تمہید کے طور پر ایک دلچسپ واقعہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں.یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ جھنگ میں دیوبندی حضرات اور دوسرے مسلمانوں کے مابین با قاعدہ اس موضوع پر مناظرہ ہوا کہ گستاخ رسول دونوں میں سے کون ہے ؟ سرکاری سرپرستی و نگرانی میں ہونے والے اس مناظرہ کیلئے فریقین نے بغرض " مالشی فیصلہ " بعض اصحاب علم و دانش پر اتفاق کیا اور ایک تحریر گواہان کے دستخطوں سے وجود میں آئی اور فریقین نے اقرار کیا کہ ان معزز ثالث حضرات کا فیصلہ ہمیں قبول ہو گا.پولیس کی حفاظت میں نظم وضبط کے ساتھ ”بنگلہ نول " میں ہونے والے اس مناظرہ کے بعد معزز عاشوں نے خدا کو حاضر ناظر جانتے ہوئے اور اپنی عاجزی و انکساری کے بعد کہا کہ ہمارے ذمہ فیصلہ سنانے کا ناخوشگوار فریضہ ادا کرنا ضروری ہے اور پھر انہوں نے فریقین کی موجودگی میں تحریری متفقہ فیصلہ دیا کہ دیو بندی گستاخ رسول ہیں.تفصیل کیلئے دیکھیں مطبوعہ " مناظرہ جھنگ " شائع کردہ مکتبہ فریدیہ ساہیوال.فیصلہ کی تحریر کا عکس صفحہ نمبر ۲۹۴ پر دیا گیا ہے.آج کی گستاخان رسول ہیں جو امت کے دوسرے عشاقانِ رسول پر گستاخی کا الزام لگا رہے ہیں.معزز قارئین ! ہم ان کے ایک ایک الزام کا جواب اور اس کی حقیقت آپکی خدمت میں پیش 000 کرتے ہیں.
2 بادا صاحب نے حضرت مرزا صاحب کے ایک عربی شعر کا ترجمہ درج کیا ہے کہ اس (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) کے لئے چاند کے خوف کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لئے چاند اور سورج دونوں کا.اب کیا تو انکار کرے گا." ( اعجاز احمدی صفحہ ائے ) جناب ہاوا صاحب اتنے کور باطن انسان ہیں کہ انہیں پر نہیں چلتا کہ اعتراض کسی پر کر رہے ہیں.حقیقت میں یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر اعتراض کر رہے ہیں تمام علماء جانتے ہیں کہ چاند سورج گرہن کی پیشگوئی حضرت مرزا صاحب نے نہیں کی بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی تھی اور یہ بھی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں چاند کا گرین ہوا تھا.اب کی بات حضرت مرزا صاحب نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے اظہار کے لئے بیان کی ہے.اور چاند اور سورج سے گرہن کو آج تک کسی احمدی عالم نے حضرت مرزا صاحب کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت کے طور پر پیش نہیں کیا لیکن یہ باوا صاحب اتنے جاہل ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی جو ایک روشن حقیقت کی طرح چلی آرہی ہے گزشتہ چودہ سو سال میں دین کے مفکرتین نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو ایک چاند ہی کو گرہن لگا تھا اور مہدی کے لئے دو کو گرہن لگے گا اور کسی نے اس وجہ سے مہدی کی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت کا نہیں سوچا.لیکن بادا صاحب کے ذہن میں ختنہ کو ندا ہے کہ مرزا صاحب نے اپنی تائید میں یہ نشان پیش کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی فضیلت کا اعلان کیا ہے.یہ باوا صاحب کی نیت کی کبھی نہیں تو اور کیا ہے.حملہ تو بظاہر حضرت مرزا صاحب پر کرتے ہیں لیکن عملاً ان باتوں پر کرتے ہیں جو حضرت مرزا صاحب کی تخلیق نہیں بلکہ وہ مسائل دینیہ ہیں جن کی سند محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے.اگرچہ کثرت کے ساتھ علماء نے چاند سورج گرہن کی پیشگوئی والی حدیث کو قبول کیا ہے اور ہندو پاکستان میں حضرت مرزا صاحب سے پہلے اس کا خوب چرچا تھا کہ چاند اور سورج کو گرہن لگے گا.لیکن اب مرزا صاحب کے بعد یہ اسے امام باقر کا قول قرار دینے لگے ہیں تاکہ مرزا صاحب سے کسی نہ کسی طریق سے چھٹکارا مل جائے جن کے زمانہ میں ۱۸۹۴ء میں معیشہ تاریخوں میں چاند اور سورج کو
3 کرہن لگا.یہ الگ بحث ہے لیکن اس وقت بحث یہ ہے کہ چاند اور سورج دو کا گرہن ہونا حضرت مرزا صاحب کی ایجاد نہیں کہ ان پر الزام دیا جائے کہ اپنی فضیلت کی خاطر ایک کی بجائے دو گرہن بنا لئے ہیں.اسے اگر حدیث نبوی نہ بھی مائیں تو یہ امام باقر جو تقریباً ۱۶ سال قبل گزرے ہیں، کی پیشگوئی ثابت ہے جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے اور امام زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ کے بیٹے تھے.کروڑ ہا شیعہ انہیں، امام مانتے ہیں.ان کی طرز روایت یہ نہ تھی کہ سلسلہ وار واقعات سناتے کہ انہوں نے فلاں تے سنا اور فلاں نے فلاں سے سنا بلکہ اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کی پرورش ہوئی.اور جو باتیں وہ وہاں سنتے تھے وہی بیان فرما دیتے تھے.اس لئے ان کی بیان فرمودہ روایت کو دوسرے پیمانے سے نہیں پر کھا جائے گا.بلکہ ان بزرگ آئمہ کے مقام اور ان کی نیکی اور تقوی کے اعلیٰ مقام اور مرتبہ کو محفوظ رکھتے ہوئے جو یہ آنحضرت کی طرف منسوب کریں اسے بدرجہ اولی ملحوظ رکھنا ہو گا.اب باوا صاحب مائیں نہ مانیں کروڑہا شیعہ امام باقر کی اس روایت کو ہی ماننے پر مجبور ہیں اور سنی علماء میں سے بھی ایک تعداد اس روایت کا احترام کرتی آئی ہے.اور بادا صاحب جیسے حج بحث بھی اس حقیقت سے بہر حال انکار نہیں کر سکتے کہ یہ حضرت مرزا صاحب کی بتائی پیشگوئی نہیں.اگر بنائی ہے تو پھر ضرور امام باقرآ نے بنائی ہے.پس کیا امام باقر نے ایسا امام مہدی علیہ السلام کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت ثابت کرنے کے لئے کیا تھا ؟ ضمنا" یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ یہ روایت حدیث کی کتاب دار قطنی میں موجود ہے جسے سنتی علماء ایک پائے کی کتاب تسلیم کرتے ہیں.علاوہ ازیں یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ بادا صاحب نے اپنی بددیانتی کا یہاں بھی کرشمہ دکھایا ہے جس نظم کا یہ شعر ہے اس میں دو شعروں کے بعد حضرت مرزا صاحب نے فرمایا ہے.واني لظل ان يخالف اصله فمافي في وجهي يلوح و يزهر یعنی سایہ کیونکر اپنے اصل سے مخالف ہو سکتا ہے پس وہ روشنی جو اس میں ہے وہ مجھ میں چمک رہی ہے.نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:." جو کچھ میری تائید میں ظاہر ہوتا ہے دراصل وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
کے معجزات ہیں" (تتمہ حقیقته الوحی صفحه ۳۵) اس باب میں آخری کلام یہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی مذکورہ بالا عبارت جو ان تمام امور میں فیصلہ کن ہے یہ باوا صاحب سادہ لوح عوام سے چھپاتے پھرتے ہیں جس کے بعد اس نوع کا ہر اعتراض جیسا انہوں نے کیا ہے مردود ہو جاتا ہے.____ بادا صاحب نے حضرت مرزا صاحب کے اس الہام کو ہدف اعتراض بنایا ہے.دنیا میں کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا ".( حقیقته الوحی صفحه ۸۹) اس نے بادا صاحب غالبا یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تخت سے بھی آپ کا تخت اونچا ہے.قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں کہ اس عبارت میں حضرت مرزا صاحب نے کہیں بھی اپنے آقا و موئی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر نہیں کیا.جو بات ہارا صاحب کہہ رہے ہیں یہ تو ایسے ہی ہے جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ یہود کو فرماتا ہے.انی فضلتكم على العالمین کہ میں نے تمام جہانوں پر تمہیں فضیلت دی.اگر کوئی یہ دعوئی کر دے کہ جب یہود تمام جہانوں سے افضل ہوئے تو اسلام کے جہان سے بھی افضل قرار پائے.ایسی ٹیڑھی سوچ والے کو انسان یہی کہہ سکتا ہے کہ عقل سے کام لو.بعض بیانات خاص زمانہ یا محدود وقت سے تعلق رکھتے ہیں.اسی طرح فصیح و بلیغ کلام میں بعض باتیں حذف ہوتی ہیں اور صاحب عرفان ایسی تحریروں سے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ ان سے کیا مراد ہے.اس لئے ایسی عبارتوں کو منے دینا جو ہرگز جائز نہ ہوں ، دیانتداری کے منافی ہے.پس جہاں جہاں بنی اسرائیل کی فضیلت کا ذکر ہے وہاں سب مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی یہی تشریح کرتے ہیں کہ اس کا اطلاق ایک محدود زمانہ پر ہوتا ہے ، ہمیشہ کیلئے اور ہر زمانہ کے لئے اس کا اطلاق نہیں ہوتا.حضرت مرزا صاحب کا مذکورہ بالا الہام بھی ایک محدود زمانہ سے تعلق رکھنے والا ہے اور ہرگز حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمانی تخت اس میں شامل نہیں.چنانچہ حضرت مرزا صاحب
5 کے ایک اور الہام میں اس کی تشریح ملتی ہے جس میں آپ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا." از فضلتك على العلمين" اربعین نمبر ۲ - روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۵۳) پس یہ وہی مضمون ہے کہ آسمان سے کئی تخت اترے اور تیرا تخت سب سے اونچا بچھایا گیا.مین فرق صرف یہ ہے کہ آپ کی اپنی زبان میں اس کی کھلی کھلی تشریح بھی موجود ہے جس کو پڑھنے کے بعد ہر صاحب انسانی مطمئن ہو جاتا ہے کہ نعوذ باللہ اس فضیلت میں یا یہاں بیان شدہ فضیلت میں ہرگز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے مقابلہ نہیں ہو رہا بلکہ ایسا مقابلہ تو جماعت احمدیہ کے نزدیک کھلا کھلا کفر ہے.دیکھئے حضرت مرزا صاحب کے اپنے الفاظ میں تشریح کیا ہے.فرمایا :- " جس قدر لوگ تیرے زمانہ میں ہیں سب پر میں نے تجھے فضیلت دی " ( اربعین نمبر ۲ - روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۷۲) پس حضرت مرزا صاحب کی طرف سے اس تشریح کے ہوتے ہوئے اس کے خلاف کوئی بات آپ کی طرف منسوب کرنا سراسر ظلم ہے.بادا صاحب نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی کتاب کلمتہ الفصل سے حسب ذیل اقتباس اعتراض کے طور پیش کیا ہے.ہر ایک نبی کو اپنی استعداد اور کام کے مطابق کمالات عطا ہوتے تھے ، کسی کو بہت کسی کو کم مگر مسیح موعود ( مرزا ) کو تو تب نبوت ملی جب اس نے نبوت محمدیہ کے تمام کمالات کو حاصل کر لیا اور اس قابل ہو گیا کہ ظلی نبی کہلائے پیس ظلی نبوت نے مسیح موعود (مرزا ) کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا بلکہ آگے بڑھایا اور اس قدر آگے بڑھایا کہ نبی کریم کے پہلو بہ پہلو لا کھڑا کیا".( كلمته الفصل ۰۱۳) قارئین کرام ! آپ کو معلوم ہے کہ پہلو میں کھڑا ہونا تو خدائی صحیفوں کا ایک محاورہ ہے جو ہر گز کسی کو ہم مرتبہ نہیں بناتا.برابری کے لئے ہم مرتبہ اور ہم پلہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ بادا صاحب کو اردو محاوروں کا ہی علم نہیں یا پھر جانتے بوجھتے ہوئے لوگوں کو دھوکہ دے رہے
ہیں.6 پہلو میں کھڑا ہوتا تو قرب کو ظاہر کرتا ہے نہ کہ مرتبے کی برابری کو.جس طرح ایک بچہ باپ کے پہلو میں کھڑا ہوتا ہے.اس قربت کو اناجیل کے ایسے محاورے ظاہر کرتے ہیں کہ جن میں لکھا ہے کہ مسیح خدا تعالٰی کے دائیں ہاتھ بیٹھ گئے چنانچہ دیکھیں :- متی باب ۲۶، آیت ۶۴ مرقس باب ۲۶ آیت ۱۹ لوقا باب ۲۲ آیت ۲۹ و غیره و غیره حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا کلام جماعت احمدیہ پر حجت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا.لیکن جو لوگ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تحریرات سے واقف ہیں وہ کامل یقین رکھتے ہیں کہ آپ حضرت مرزا صاحب کو کبھی خواب و خیال میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم مرتبہ نہیں سمجھتے تھے اور ایسے خیال کو کفر قرار دیتے تھے.پس " پہلو " سے بیان میں صرف حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کا مضمون بیان کیا گیا ہے کہ یہ مقدر تھا کہ باقی لوگ جہاں پیچھے پیچھے آرہے تھے امام مہدی کو خدا تعالی کمال خلوص کے ساتھ متابعت میں قدم مارنے کی برکت سے اتنا قریب کر دے گا کہ جیسے ایک ہونہار شاگرد اپنے استاد کے پہلو میں چلتا ہے یا ایک فرمانبردار بیٹا اپنے بزرگ باپ کے پہلو میں چلنے کی سعادت پاتا ہے بعینہ حضرت مرزا صاحب اپنے آقا و مولی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑے ہونے کی سعادت پاگئے.پس اگر یہ قابل اعتراض ہے تو پھر خدا کے پہلو میں اس کے دائیں ہاتھ بیٹھنے پر اس سے بھی زیادہ اعتراض پیدا ہوتا ہے.بادا صاحب نے کتاب کلمہ: الفصل صفحہ ۱۰۵ سے یہ عبارت تحریر کی ہے.اس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیان میں اللہ تعالی نے پھر محمد صلعم کو اتارا تا کہ اپنے وعدہ کو پورا کرے " معزز قارئین! یہ تو ان انبیاء علیم السلام کی عظمت شان کی دلیل ہے کہ جن کی ایک اور بعثت بھی مقدر ہوتی ہے جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں " و اعظم الانبياء شانا من له نوع اخر من البعث ايضا و ذالك ان يكون مراد الله تعالى فيه سببالخروج الناس من الظلمات الى النور وان
.7 يكون قومه خير امه اخرجت للناس فيكون بعث يتناول بعثا اخر " حمتہ اللہ البالغہ - جلد اول باب حقیقته النبوة وخواصها ) کہ شان میں سب سے بڑا ئی وہ ہے جس کی ایک دوسری قسم کی بعثت بھی ہو اور وہ اس طرح ہے کہ مراد اللہ تعالی کی دوسری بعثت میں یہ ہے کہ وہ تمام لوگوں کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لانے کا سبب ہو.اور اس کی قوم خیر امت ہو جو تمام لوگوں کیلئے نکالی گئی ہو.لہذا اس نبی کی پہلی پشت دوسری بعثت کو بھی لئے ہوئے ہو گی.اس پہلو سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سب انبیاء سے بڑھ کر بلند ، عظیم اور اعلیٰ مقام عطا ہوا ہے.کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی دوسری بعثت کا خود قرآن کریم میں وعدہ کرتے ہوئے فرمایا ہے.هو الذي بعث فى الاميين رسولا منهم يتلوا عليهم ابتد ويزكيهم و يعلمهما لكتاب والحكمته وان كانوا من قبل لفي ضلل مبين - وآخرين منهم لما يلحقوا بهم وهو العزيز الحكيم ( سورة الجمعه ۴۰۳) ترجمہ : وہ خدا ہے جس نے ان پڑھوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا.ان پر وہ اسکی آیتیں پڑھتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اگر چہ وہ لوگ اس سے پہلے صریح گمراہی میں پھنسے ہوئے تھے.اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی (وہ اسے بھیجے گا ) جو ابھی تک ان سے طبی نہیں اور وہ غالب اور حکمت والا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جب سورۃ جمعہ کا نزول ہوا تو حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے.عرض کی.یا رسول اللہ ! یہ " آخرین " کون لوگ ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا اور خاموش رہے.پھر وہی سوال کیا گیا مگر آپ پھر خاموش رہے.چنانچہ جب تیسری مرتبہ وہی سوال کیا گیا تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جو آپ کے ساتھ ہی بھٹے ہوئے تھے ، کے کندھے پر آپ نے ہاتھ رکھا اور فرمایا :- لو كان الايمان عند الشرب الناله رجل من هولاء
بخاری کتاب التفسیر تفسیر سوره جمعه ) که جب ایمان ثریا ستارے پر چلا جائے گا ان (یعنی اہل فارس ) میں سے ایک شخص ہو گا جو اسے واپس لائے گا.قار تین ! ملاحظہ فرمائیں ! کہ سوال یہ کیا گیا تھا کہ وہ " آخرین "کون ہیں لیکن جو جواب دیا گیا وہ یہ تھا کہ جب ایمان اس دنیا سے اٹھ جائے گا تو اسے واپس لانے والا اہل فارس میں سے ہو گا.دیکھئے کسی جامعیت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمایا کہ جب اہل فارس میں سے وہ شخص ایمان کو واپس لائے گا تو اس پر ایمان لانے والے اور اس کی اتباع کرنے والے اور اس کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں میں پہننے والے ہی "آخرین" ہونگے.جو " مہم " کے مصداق ہونگے یعنی وہ بھی صحابہ میں ہی شمار ہوگئے.پس یہ آیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیشگوئی ہے.ایسے نبی کی نسبت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی دوسری بعثت کا مصداق ہو.ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایسے لوگوں کا نام اصحاب رسول اللہ رکھا جائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہونے والے تھے ، جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا.بادا صاحب ! عقل کے ناخن لیں.خدا تعالٰی کے وعدوں پر اعتراض کرنا نادانی ہی نہیں خدا تعالٰی کی سخت نا فرمانی بھی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بعثت جو آخری زمانہ میں بروزی طور پر ہوئی مقدر تھی ، کا ہی وعدہ تھا جسے ایمان کو واپس لانے والے مہدی معہود میں پورا ہونا تھا.یہی وہ وجود تھا کہ جس کو بڑی کثرت سے بزرگان سلف نے ہمارے آقا و مولی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کا عکس کامل ، آپ کا بروز " آپ کے انوار کا عکاس ، حتی کہ اسکا باطن آپ ہی کا باطن قرار دیا.جیسا کہ ذیل کی چند مثالوں سے واضح ہے.حضرت امام عبد الرزاق کاشانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں." المهدي الذي يجيثي في اخر الزمان فقد يكون في الاحكام الشرعيه تابعا لمحمد صلی اللہ علیہ وسلم وفی المعارف والعلوم والحقيقة تكون جميع الأنبياء والأولياء تابعين له كلهم....لأن باطنه، باطن محمد صلی اللہ علیہ و سلم
9 ( شرح فصوص الحکم مطبوعہ مصر صفر (۵۳) یعنی آخری زمانے میں آنے والا مہدی احکام شرعیہ میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع ہو گا لیکن علوم و معارف اور حقیقت میں آپ کے سوا تمام انبیاء اور اولیاء مہدی کے تابع ہونگے کیونکہ مہدی کا باطن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن ہے.یہ قول سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا ہے.اس میں بھی انہوں نے امام مہدی کے باطن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن قرار دے کر انہیں آپ کا عکس اور حل و یروزی قرار دیا ہے.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اپنی کتاب الخیرا کثیر میں فرماتے ہیں.حق له ان ينعكس فيد انوار سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ويزعم العامه انداذا نزل الى الأرض كان واحدا من الامه كلابل هو شرح لاسم الجامع المحمدى و نسخه منتسخه منه فشتان بیند و بین احد من الامه ( الخيرا كثير صفحه ۷۲ مطبوع بجنور ) یعنی امت محمدیہ میں آنے والے مسیح کا حق یہ ہے کہ اس میں سید المرسلین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کا انعکاس ہو.عوام کا خیال ہے کہ صحیح جب زمین کی طرف نازل ہو گا تو وہ صرف ایک امتی ہو گا.ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اسم جامع محمدمی کی پوری تشریح ہو گا.اور اس کا دوسرا نسخہ ہو گا پس اس میں اور ایک عام امتی کے درمیان بہت بڑا فرق ہے.اس عبارت میں حضرت شاہ صاحب نے آنے والے مسیح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کا پورا عکس اور آپ کا کامل حل و بروز قرار دیا ہے.شیخ محمد اکرام صابری لکھتے ہیں :- در مجمد بود که بصورت آدم در میداء ظهور نمود یعنی بطور بروز در ابتداء عالم ، روحانیت محمد مصطفی صلی الله علیه و سلم در آدم متجلی شده و هم او باشد که در آخر بصورت خاتم ظاہر گردد یعنی در خاتم الولایت که مهدی است نیز روحانیت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بروز ظهور خواهد کرد و تصرفها خواهد نمود.اقتباس الانوار صفحه ۵۲ بحواله بیان المجاهد صفحه ۱۵۰ )
10 یعنی وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جنہوں نے آدم کی صورت میں دنیا کی ابتدا میں ظہور فرمایا یعنی ابتدائے عالم میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت بروز کے طور پر حضرت آدم میں ظاہر ہوئی.اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہونگے جو آخری زمانہ میں خاتم الولایت امام مہدی کی شکل میں ظاہر ہونگے یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانیت مہدی میں بروز اور ظہور کریگی.پس خدا تعالی کے اس وعدہ کا ذکر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی کتاب کا یہ الفصل میں بیان فرمایا ہے.اگر یہ قابل اعتراض بات ہے تو یہ اعتراض حضرت مرزا بشیر احمد صاحب پر نہیں بلکہ خدا تعالی پر ہے جس نے اپنے پاک کلام میں یہ وعدہ دیا.--۵- باوا صاحب نے اپنے اس دو ورقہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طرف حسب ذیل عبارت منسوب کی ہے تاکہ وہ یہ ثابت کر سکیں کہ نعوذ باللہ جماعت احمدیہ اپنے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والی ہے.چنانچہ بادا صاحب رقمطراز ہیں.یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پا سکتا ہے.حتی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ سکتا ہے" الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۲۲ء ) معزز قارئین! یہ عبارت نہ ۱۷ جولائی ۱۹۲۲ء کے الفضل میں کہیں موجود ہے نہ کسی اور شمارہ میں.یہ ہارا صاحب کا دجل ہے اور ایسی کھلی کھلی نہیں ہے کہ جس پر ہمیشہ جھوٹے سہارا لیا کرتے ہیں.اور یہ ہارا صاحب تو تلبیس اور خیانت کے ایسے استاد ہیں کہ خود ساختہ عبارت کو کسی اور کی طرف منسوب کرتے ہیں اور پھر بڑی ہٹ دھرمی سے چیلنج بھی دیتے چلے جاتے ہیں کہ کوئی ان کے پیش کردہ حوالہ جات کو غلط ثابت نہیں کر سکتا.قارئین کرام! حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی ، جن کی طرف بادا صاحب نے مذکورہ بالا عبارت منسوب کی ہے کا تو اپنے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس کے سوا اور کوئی عقیدہ نہ تھا کہ : کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جتا اور نہ قیامت تک کوئی ایسا بچہ جن سکتی ہے جو محمد
11 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ سکے." (خطبہ جمعہ فرموده حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ۸ فروری ۱۹۲۲) نہیں جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے لیکن دیکھئے بادا صاحب کیسے کیسے افتراء اس پر باندھتے ہیں.جو حوالہ باوا صاحب نے الفضل مما جولائی ۱۹۲۲ء کا دیا ہے وہاں بھی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے یہی مضمون بیان فرمایا ہے کہ کوئی شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہیں بڑھ سکتا.چنانچہ فرمایا: " ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالٰی نے کسی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھنے سے نہیں روکا.اگر کسی شخص میں ہمت ہے تو بدھ جائے مگر وہ بڑھے گا نہیں کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قربانی دی ہے کوئی وہ قربانی دینے کا اہل نہیں.یہ صاف بات ہے کہ بیھ سکتا اور چیز ہے اور پڑھنا اور چیز.بڑھ سکنے کے یہ معنے ہیں کہ ہر شخص کے لئے آگے بڑھنے کا موقعہ ہے اور یہ راستہ اس کیلئے بند نہیں بلکہ کھلا تھا لیکن جب کوئی شخص آپ سے بڑھا نہیں تو معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو عشق کا نمونہ دکھایا.دیسا نمونہ اور کوئی نہیں دکھا سکا.عام آدمی تو الگ رہے وہ نمونہ ابراہیم موسیٰ اور عیسیٰ بھی نہیں دکھا سکے " اہی مضمون آپ نے اور رنگ میں مزید وضاحت کے ساتھ یوں بیان فرمایا : و اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کوئی شخص بڑا درجہ حاصل کر سکتا ہے ؟ تو میں کہا کرتا ہوں کہ خدا نے اس مقام کا دروازہ بھی بند نہیں کیا مگر تم میرے سامنے وہ آدمی تو لاؤ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مقامات قرب کے حصول میں زیادہ سرعت اور تیزی کے ساتھ اپنا قدم اٹھانے والا ہو.ہو سکتا اور چیز ہے اور ہوتا اور چیز ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ عیسائیوں سے کہہ دو کہ اگر خدا کا بیٹا ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والا ہوتا.اب اس کا یہ تو مطلب نہیں کہ واقعہ میں خدا کا کوئی بیٹا ہے.اسی طرح ہم یہ نہیں کہتے کہ دنیا میں کوئی شخص ایسا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ
12 علیہ و سلم سے اپنے درجہ میں آگے نکل گیا.ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی شخص پڑھنا چاہے تو بیٹھ سکتا ہے خدا نے اس دروازے کو بند نہیں کیا مگر عملی حالت یہی ہے کہ کسی ماں نے ایسا کوئی بچہ نہیں جتا اور نہ قیامت تک کوئی ایسا بچہ جن سکتی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیٹھ سکے.خطبہ جمعہ فرموده ۱۱ فروری ۱۹۲۲ء ) پس آگے بڑھنے کا امکان عقلی تسلیم کرتے ہوئے بہت واضح طور پر کہا گیا ہے کہ واقعاتی طور پر واضح گیاہے نہ ایسا ہوا نہ قیامت تک ہو گا.قرب خداوندی کے میدان میں تمام بندے (ماضی، حال اور مستقبل کے سب کھلاڑیوں کی صورت دوڑ میں حصہ لے رہے ہیں اس میں کسی بندے یا کھلاڑی کو نہ روکا گیا ہے نہ اس کے پاؤں باندھے گئے ہیں کہ ضرور دوڑ میں پیچھے رہ جائے اگر ایسا ہو تو نا انصافی بلکہ ظلم کہلائے گا لہذا آگے بڑھ سکنے کے امکان عقلی سے انکار کسی بھی طرح مناسب نہیں البتہ واقعاتی حقیقت یہی ہے کہ : کسی ماں نے ایسا کوئی بچہ نہیں جنا اور نہ قیامت تک کوئی ایسا بچہ جن سکتی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھ سکے" (" مصلح موعود ") بادا صاحب نے قاضی ظہور الدین اکمل صاحب کے یہ دو شعر محمدم پھر اتر آئے ہیں ہم میں اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں محمدا دیکھنے ہوں جس نے اکمل تعلام احمد کو دیکھے قادیاں میں درج کئے ہیں تاکہ یہ ثابت کریں کہ گویا جماعت احمدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتی ہے....حالانکہ یہ وہ اشعار ہیں جو جماعت احمدیہ کے عقائد سے ہرگز تعلق نہیں رکھتے نہ ہی یہ شاعر جماعت کی طرف سے مجاز سمجھے جا سکتے ہیں کہ وہ جماعتی مسلک کو بیان کریں لیکن صرف یہی بات نہیں اگر اس طرح ہر کس و ناکس کے خیالات پر فرقوں اور قوموں کو پکڑا جائے تو پھر تو دنیا میں کسی قوم اور فرقے کا امن قائم نہیں رہ سکتا.اب غور سے سن لیں.جناب ہاوا صاحب! اگر اکمل صاحب یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ شخص جو قادیان میں بروز محمد " کے طور پر ظاہر ہوا وہ اس محمد صلی
" 13.اللہ علیہ وسلم سے اپنی شان میں بدھ کر تھا جو مکہ میں پیدا ہوا تو ہرگز یہ عقیدہ نہ جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے نہ کوئی شریف النفس جو حضرت مرزا صاحب کی تحریرات سے واقف ہو اسے احمدیت کی طرف منسوب کر سکتا ہے.حضرت مرزا صاحب تو زندگی بھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اس طرح بجز سے بچے رہے جس طرح قوموں کے لئے راہ بچھی ہو حتی کہ آپ نے اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کے کوچے کی خاک کے برابر قرار دیا ہے دیکھئے کس طرح والہانہ مشق کے ساتھ یوں گویا ہیں.جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آل محمد است اب بیٹے اکمل صاحب کے ان اشعار کی بات کہ واقعہ کیا ہوا تھا اور اس کا نتیجہ کیا نکلا.در حقیقت شاعر اپنی شعری دنیا میں بسا اوقات ایسی باتیں بیان کر جاتا ہے جو دراصل اس کے مانی الضمیر کو پوری طرح بیان نہیں کر پاتیں اور بارہا ایسا ہوا ہے کہ بعض اوقات شاعر کو خود اپنے شعروں کی وضاحت کرنی پڑتی ہے اور ان اشعار سے بھی جو غلط تاثر پیدا ہوتا ہے وہ غلط تاثر یقینا ہر احمدی کیلئے جس نے یہ پڑھا سخت تکلیف کا موجب بنا جب شاعر سے اس بارہ میں جواب طلبیاں ہوئیں اور مختلف احمدی قارئین نے ان اشعار کی طرز پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو ان صاحب نے ان اشعار کا جو مضمون خود پیش کیا وہ حسب ذیل تھا : مندرجہ بالا شعر دربار مصطفوی میں عقیدت کا شعر ہے.اور خدا جو علیم بذات الصدور ہے شاہد ہے کہ میرے واہمہ نے بھی کبھی اس جاہ و جلال کے نبی حضرت ختمیت آب کے مقابل پر کسی شخصیت کو تجویز نہیں کیا.اللہ تعالی بہتر جانتا ہے کہ یہ بات میرے خیال تک میں نہ آئی کہ میں یہ شعر ( آگے سے ہیں بڑھکر اپنی شاں میں ) کہہ کر حضرت افضل الاسل" کے مقابل میں کسی کو لا رہا ہوں.بلکہ میں نے تو یہ کہا.کہ محمدؐ کا نزول ہو ا یعنی بعثت ثانیہ اور یہ تمام احمدیوں کا عقیدہ ہے کہ نہ تو تاریخ صحیح ہے نہ دوسرے جسم میں روح کا حلول بلکہ نزول سے مراد اس کی روحانیت کا ظہور ہے اور جو کہ خدا تعالی فرماتا ہے کہ للآخرة خير لك من الاولی.ہر آنے والے دن میں تیری شان پہلے سے زیادہ نمایاں اور افزوں ہو گی.بوجہ درود شریف اور اعمال حسنہ امت محمدیہ جن کا ثواب جیسا کہ عمل کرنے والے کے نام لکھا جاتا ہے.ویسا ہی محرک و معلم کے نام بھی اس
14 لئے کچھ شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہر وقت بڑھ رہی ہے اور بڑھتی رہے گی اور خدا کے وسیع خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں پس میں نے صرف یہی کہا کہ یہ سینڈ نا محمد مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی برکات و فیوض کا نزول پھر ہو رہا ہے اور آپ کے اترنے سے یہی مراد ہو سکتی ہے اور آپ کی شان پہلے سے بھی بڑھ کر ظاہر ہو رہی ہے.اس شعر میں کسی دوسرے وجود کا مطلق ذکر نہیں ہے بلکہ اسی نظم میں آخری شعریہ ہے.غلام احمد مختار ہو کر یہ رتبہ تو نے پایا ہے جہاں میں یعنی حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام نے جو رتبہ مسیح موعود ہونے کا پایا ہے وہ حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی کی غلامی کے طفیل اور ان کی اتباع کا نتیجہ ہے." الفضل ۱۳ اگست ۱۹۴۴ء ) ظاہر ہے کہ یہ مفہوم قابل اعتراض نہیں.اگر پھر بھی کوئی کہے کہ یہ مفہوم بعد میں شاعر نے بنالیا ہے اور دراصل اس کا اصل مفہوم وہی تھا جو بظاہر دکھائی دیتا ہے اور جس پر باوا صاحب نے حملہ کیا ہے تو بے شک ایسا مجھے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ شاعر نے خود جو تشریح پیش کی ہو رہی دراصل اہل علم کے نزدیک قابل قبول ہوا کرتی ہے اور اگر یہ بات بھی کوئی تعلیم نہیں کرتا تو اکمل صاحب کی طرف گستاخی منسوب کر کے ان پر بے شک لعن طعن کرے لیکن ان کی طرف منسوب شدہ گستاخی کو ہرگز جماعت احمدیہ کی طرف منسوب کرنے کا اسے حق نہیں ہم ایک بار پھر یہ اعلان کرتے ہیں کہ اگر باوا صاحب کے اخذ کئے ہوئے معانی درست ہیں تو یقیناً یہ شعر لعنت اور ملامت کا سزاوار ہے لیکن احمدیت ہرگز اس لعنت کا نشانہ نہیں بن سکتی.--2- ہارا صاحب نے حضرت مرزا صاحب کے ایک مکتوب سے حسب ذیل عبارت سیاق وسباق سے علیحدہ کر کے بطور اعتراض تحریر کی ہے: آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے صحابہ عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے حالانکہ مشہور تھا کہ سور کی چربی اس میں پڑتی ہے." (مكتوب الفضل قادیان ۲۲ فروری ۶۱۹۲۴ )
15 یہ ایک طویل مکتوب ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی طلال کو محض شک کی بناء پر حرام قرار نہیں دینا چاہے.اسی تسلسل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا طریق بھی بیان فرمایا ہے: پتہ نہیں ہارا صاحب کو اعتراض کس بات پر ہے یا محض دھوکہ دینے کے لئے ایسی باتوں کو اعتراض کے طور پر پیش کر کے عوام الناس کو اشتعال دلانا چاہتے ہیں.اگر یہ اسلامی لٹریچر سے ذرا بھی واقف ہوتے تو انہیں علم ہو تا کہ : حضرت شیخ زین الدین بن عبد العزیز اپنی کتاب "فتح المعین شرح قراة العین " میں زیر عنوان " باب الصلواة " زير قاعده مهم مطبوعہ مصر مولفہ ۹۸۲ھ میں لکھتے ہیں : " وجوخ اشتهر عمله بلحم الخنزیر و جین شابي اشتهر عمله با نفحه الخنزير وقد جاءه صلی اللہ علیہ وسلم جبنه من عندهم و لم يسئل عن ذالک ذکره شیخنافی المنهاج" " اور جوخ جو مشہور ہے بنانا اس کا ساتھ چربی سٹور کے اور پنیر شام کا جو مشہور ہے بناتا اس کا ساتھ پیر مائع سٹور کے اور آیا جناب سرور علیہ الصلواۃ والسلام کے پاس پیران کے پاس ہے پس کھایا آنحضرت نے اس سے اور نہ پوچھا اس سے (یعنی اس کی بابت ) " یہ ترجمہ رسالہ " اظہار الحق دوباره جواز طعام اهل کتاب " سے ماخوذ ہے جو ۱۸۷۵ء میں مذکورہ بالا احادیث کی بنا پر ہوشیار پور کے قائم مقام اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر جناب خان احمد شاہ صاحب نے شائع کیا.اس رسالہ یا فتولی پر مولوی نذیر حسین صاحب دھلوی اور کئی دیگر علماء غیر مقلد کی مہریں بھی ثبت ہیں.پس یا تو بادا صاحب اسلامی لٹریچر سے بالکل کورے اور نابلد ہیں یا پھر سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے جھوٹ سے کام لے رہے ہیں.اگر ان میں دیانتداری کا ذرا بھی مادہ ہوتا تو حضرت مرزا صاحب پر حملہ کرنے سے قبل اپنے شیخ الکل مولانا نذیر حسین دھلوی اور ان کے ہمنوا علماء پر حملہ کرتے اور ان کا قلع قمع کرنے کے بعد حضرت مرزا صاحب کی طرف رخ کرنے کی بجائے ، اگر ان میں جرات ہوتی تو حضرت شیخ زین العابدین بن عبد العزیز کی طرف رخ کرتے.۸ بارا صاحب نے جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے حسب ذیل تین اقتباس درج کئے ہیں.
16 - قادیان تمام بستیوں کی اتم (ماں) ہے پس جو قادیان سے تعلق نہیں رکھے گا وہ کاتا جائے گا.تم ڈرو کہ تم میں سے نہ کوئی کاٹا جائے.پھر یہ تازہ دودھ کب تک رہے گا.آخر ماؤں کا دودھ بھی سوکھ جایا کرتا ہے کیا مکہ اور مدینہ کی چھاتیوں سے یہ دودھ سوکھ گیا کہ نہیں؟ ( حقیقته الرویا صفحه ۴۶ ) - جو تاریان نہیں آتا یا کم از کم ہجرت کی خواہش نہیں رکھتا.اس کی نسبت شبہ ہے کہ اس کا ایمان درست ہو.قادیان کی نسبت اللہ تعالیٰ نے انداوی القریہ فرمایا یہ بالکل درست ہے کہ یہاں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ والی برکات نازل ہوتی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام ( مرزا) بھی فرماتے تھے کہ : زمین قادیاں اب محترم ہے ہجوم خلق سے ارضِ حرم ہے منصب خلافت صفحه ۳۳ مصنفہ مرزا بشیر الدین ) " قرآن شریف میں تین شہروں کا ذکر ہے یعنی مکہ مدینہ اور قادیان کا." (خطبه الهامیه صفحه ۲۰ حاشیه ).یہ عبارتیں نامکمل تحریر کی گئی ہیں.اور تلبیس سے کام لیتے ہوئے یہ بھی نہیں بتایا کہ خطبہ الہامیہ والی عبارت ایک کشف کا بیان ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ گویا قادیان کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی طرح برکتوں کے نزول کی جگہ قرار دے کر ان مقدس ہستیوں کی تو نہین کی ہے.اگر کوئی تعصب کے زہر سے بھری نظر سے دیکھے تو اس سے ہماری بحث نہیں لیکن عام شریف النفس انسان سمجھ سکتا ہے کہ قادیان کے بارہ میں جو الفاظ ہیں ان سے بہت زیادہ قوت سے حضرت صوفی کامل خواجہ غلام فرید علیہ الرحمتہ کے موطن چاچڑاں شریف کا ذکر کیا گیا ہے.چنانچہ ان کے ایک مرید نے جو منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا وہ آج سرائیکی علاقہ میں زبان زد عام ہے کہ چاچڑ وانگ مدینہ ڈسے کوٹ مٹھن بیت اللہ ظاہر و بے وچہ یار فرید باطن دے ورچ اللہ اس ذکر کو نہ اس وقت کسی نے محل اعتراض سمجھا نہ اب سمجھا جا سکتا ہے.ہر معقول آدمی مجھ سکتا ہے کہ یہ باتیں تیر کا بیان کی جاتی ہیں اور یہ ظاہر کرنا مقصور ہوتا ہے کہ مکہ و مدینہ پر خدا
17 تعالی کا نور برستا ہے تو ان کے طفیل ان بستیوں پر بھی خدا تعالی کی طرف سے برکتیں نازل ہوتی ہیں ان بستیوں کو مکہ ومدینہ کے ہم مرتبہ قرار دینے کا نعوذ باللہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.چنانچہ حاجی امداد اللہ مہاجر کی فرمایا کرتے تھے.یہ فقیر جہاں رہے گا وہیں مکہ اور مدینہ اور روضہ ہے " خیر الافادات ( ملفوظات مولانا اشرف علی تھانوی ) ناشر ادارہ اسلامیات لاہور.اگست ۶۸۲ ) اسی طرح شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مولوی رشید احمد گنگوہی کے مرعبہ میں کہا.پھریں تھے کعبہ میں بھی پوچھتے گنگوہ کا رستہ جو رکھتے اپنے سینوں میں تھے ذوق و شوق عرفانی تشبیه تمہاری تربت انور کو دیگر طور سے کہوں میں بار بار ارنی ، میری دیکھی بھی نادانی اب بتائیں ، سادہ اہل اسلام کو اشتعال دلانے والے ملاں خصوصا وہ جو دیوبندی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے نہایت محترم بزرگ کے یہ الفاظ ہیں.ان پر آپ کو کفر کا فتویٰ لگانا کیوں یاد نہیں رہا اور کیوں ان کے خلاف اور ان کو مانے والے سب دیو بندیوں کے خلاف آگ بھڑ کانے کا خیال نہیں آیا.بیہ الفاظ تو بہت ہی خطرناک ہیں جو دیوبندیوں کے نہایت محترم بزرگوں نے بڑے طمطراق سے بیان کئے ہیں.حقیقت میں اگر گستاخی کی گئی ہے تو یہ ہے کہ باہر کی بستیاں مگہ سے برکات حاصل نہیں کر رہیں.بلکہ مکہ کی مقدس گلیوں میں ، جو ہماری مقدس آقا و مولی محبوب کبریا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدم چوما کرتی تھیں، مذکور مولانا صاحب کے نزدیک اہل ایمان کو اس وقت تک چین نہیں آ سکتا جب تک گنگوہ کا رستہ نہ پوچھ لیں.یعنی مکہ اور بیت اللہ قبلہ نما ہیں تو قبلہ گنگوہ کا قصبہ بن گیا.مزید تحریریں ملاحظہ فرمائیں.علامہ اقبال نے ہندوستان کے متعلق لکھا.گوتم کا جو وطن ہے جاپان کا حرم ہے میسی کے عاشقوں کا چھوٹا پیرو علم ہے باقیات اقبال صفحہ ۳۲۸ - ناشر آئینہ ادب چوک مینار.انار کلی لاہور.طبع دوم ۱۹۴۷ء )
18 حضور بابا فرید الدین گنج شکر مسعود العلمین نے فرمایا کہ درویش کو ستر ہزار مقامات ملے کرنے پڑتے ہیں ان سے پہلے ہی مقام پر درویش کے لئے یہ کیفیت پید اہو جاتی ہے کہ وہ ہر روز پانچوں وقت کی نماز عرش معلی کے گرد کھڑے ہو کر ساکنان عرش کے ہمراہ ادا کرتا ہے اور جب وہاں سے درویش واپس آتا ہے تو ہر وقت اپنے آپ کو خانہ کعبہ میں دیکھتا ہے اور درویش جب وہاں واپس آتا ہے تو تمام جہان کو اپنی انگلیوں کے درمیان دیکھتا ہے" (انوار صابری صفحه ۱۸) حضور سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی فرماتے ہیں." مجھے ایک مرتبہ حج خانہ کعبہ کا بڑا شوق ہوا.میں نے حج کیلئے جانے سے پہلے ارادہ کیا کہ ایک بار پاکپتن شریف حاضری دے لوں.چنانچہ جب میں پاکپتن شریف پہنچا اور حضور شیخ الاسلام حضرت بابا صاحب کی زیارت سے مشرف ہوا تو میرا مقصود حج پورا ہوا اور مزید انعامات الہی نصیب ہوئے اور فرمایا کہ کچھ مدت کے بعد پھر حج کا شوق غالب ہوا تو پھر پاکپتن شریف حاضر ہوا.اللہ کریم نے خصوصی انعامات سے نوازا.حضور سلطان المشائخ نے آبدیدہ ہو کر زبان مبارک سے فرمایا اں راہ بسوئے کعبہ برووائیں بسوئے دوست " انوار صابری از حافظ عبید اللہ صابری - اسلامی کتب خانہ گوجرانوالہ صفحه ۱۷۲) اب کیا یہ باوا صاحب ان عبارتوں کو بھی صدف ملامت بنائیں گے ؟ اگر ان میں یہ جرائت ہے تو ایسا کر کے دکھائیں.ہے بادا صاحب نے حضرت مرزا صاحب کی کتاب ” ایک غلطی کا ازالہ " سے یہ عبارت درج کی اور یمو جب اس حدیث کے جو کنزالعمال میں درج ہے بنی فارس بھی بنی اسرائیل اور اہلبیت میں سے ہیں اور حضرت فاطمہ نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں." ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۳ حاشیه )
19 بادا صاحب نے اپنے فاسدانہ خیالات کو سچا ثابت کرنے کے لئے حضرت مرزا صاحب کے اس مکمل کشف کو یہاں درج نہیں کیا جو اس تحریر کے ساتھ اسی صفحہ پر نیچے حاشیہ میں آپ نے درج فرمایا ہے...ان مولویوں کو ذرا حیا نہیں کہ ایک شخص حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر والدہ کی طرح کر رہا ہے اور خود کو ان کی نسل میں سے ثابت کر رہا ہے مگر یہ ، دلوی پھر بھی اپنے نفس کا گند ظاہر کرنے سے نہیں رکھتے.حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسی مقدس اور قابل صد احترام بزرگ ہستی کے متعلق ایسا رویہ اختیار کرنا بید خنک آمیز اور ناقابل برداشت ہے.ہم حضرت مرزا صاحب کی تحریر کردہ پوری عبارت پیش کرتے ہیں.اس سے قارئین کو اندازہ ہو جائے گا کہ مولوی اصل حق چھپا کر محض اپنے فاسدانہ خیالات کو سچ کر دکھانے کے لئے محمد ا مختصر تحریر پیش کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے قماش کے لوگوں کے خیالات غلط طرف موڑ سکیں.قارئین کرام ! دیکھیں حضرت مرزا صاحب مذکورہ بالا تحریر کے نیچے حاشیہ میں اپنے اس کشف کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.براہین احمدیہ میں یہ کشف بایں الفاظ درج ہے ” اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آلِ رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں ستریہی ہے کہ افاضہ انوار الہی میں محبت اہل بیت کو بھی بہت عظیم دخل ہے اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں یقین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں انکا وارث ٹھہرتا ہے.اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نماز مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک تھوڑی سی غیبت حق سے جو خفیف سے نشا سے مشابہ تھی ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے ایک دفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی جیسی بسرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے یعنی جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم و حضرت علی و حسنین و فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہم اجمعین.اور ایک نے ان میں سے اور انیسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادر مهربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا.پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو
20 دی گئی جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے جس کو علی نے تالیف کیا ہے اور اب علی وہ تفسیر مجھ کو دیتا ہے.فالحمد للہ علی ذالک " (براہین احمدیہ صفحہ ۵۷۷۴۴۷۶ حاشیه در حاشیہ نمبر (۳) ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۱۳) اس کشف کے ایک ایک حرف کو پڑھیں.آپ کو معلوم ہو گا کہ گویا یہ پا نچن پاک کمرے میں تشریف لائے ہیں اور کھڑے ہیں اور ان میں سے غالباً حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک شفیق اور مہربان ماں کی طرح آپ کو اپنے ساتھ لگایا ہے اور آپ اتنی عمر کے بچے کی طرح ہیں کہ بمشکل آپ کا قد اس بزرگ اور مہربان ماں کی رانوں تک پہنچتا ہے اور جس طرح ایک ماں پیار اور شفقت سے اپنے بچے کو اپنے ساتھ لگاتی ہے اسی طرح کا یہ نظارہ ہے جو آپ کو کشف میں دکھایا گیا.اب ایسے نظارے پر گند کی کھیتی کرنا گندی سرشت والے کا بھی کام ہے.سوائے اس شخص کے جسے اہل بیت کے تقدس اور احترام کا ذرہ بھر خیال نہ ہو اور کون اس پاکیزہ کشف پر تمسفر کر سکتا ہے؟ جها تک کشوف کا تعلق ہے امت کے کئی بزرگوں نے اپنے اسی نوع کے کشوف کا ذکر کیا ہے جن کے مطالعہ سے ہر کوئی اندازہ کر سکتا ہے کہ گستاخی کرنے والے اور اہل بیت کی خشک کرنے والے غلط قسم کے استنباط کرنے والے لوگ ہیں نہ کہ صاحب کشف و رویا بزرگ.اگر معترض کی سرشت کے لوگ ان کے زمانہ میں ہوتے تو کیا ان پر بھی وہ ہرزہ سرائی کرتے ؟ حضرت امام ابو حنیفہ نے دیکھا کہ : و آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی استخوان مبارک لحد میں جمع کر رہے ہیں.ان میں سے بعض کو پسند کرتے ہیں اور بعض کو نا پسند.چنانچہ خواب کی ہیبت سے بیدار ہو گئے." (تذکرة الاولياء باب ۱۸ کشف المحجوب مترجم اردو صلحه (۱۳) اور حضرت سید عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں.رات في المنام كاني في حجر عائشه ام المومنين رضي الله عنها وانا ارضع ثديها الايمن ثم اخرجت لديها الايسر فوضعته فدخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (قلائد الجواهر في مناقب الشيخ عبد القادر جیلانی مطبوعہ مصر محمد ۵۷ سطر ۸)
21 کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عائشہ کی گود میں ہوں اور ان کے دائیں پستان کو چوس رہا ہوں.پھر میں نے بایاں پستان باہر نکالا اور اس کو چوسا.اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے.یہ تو امت کے مسلمہ بزرگوں کے کشوف میں سے دو نمونہ کے طور پر قارئین کی خدمت میں پیش ہیں.اب سلسلہ قادریہ مجددیہ کے مشہور بزرگ پیر طریقت ، بادی شریعت حضرت شاہ محمد آفاق مشوقی ۱ اگست ۱۸۳۵ء کے اس کشف کو بھی پڑھ لیں جو انہوں نے اپنے ایک مرید فضل الرحمان تنج مراد آبادی کو بتایا.یاد رہے کہ شاہ محمد آفاق دیو بندیوں کے بزرگوں میں سے تھے.چنانچہ لکھا ہے.حضرت تقدة الملاء و اسوة الفضاء "بادی شریعت و طریقت واقف اسرار حقیقت و معرفت ، مرجع خواص و عوام قطب دوران ، غوث زمان مرشد نا و مولانا فضل الرحمان صاحب دامت بر کا تم و ممت فیوضاتم کی زبان فیض ترجمان سے ارشاد ہوا کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ ہمارے گھر میں جاؤ.مجھے جاتے ہوئے شرم آئی.اس لئے تامل کیا.حضرت نے مکرر فرمایا کہ جاؤ ہم کہتے ہیں.میں گیا.اندر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف رکھتی تھیں.آپ نے سینہ مبارک کھول کر مجھے سینہ سے لگا لیا اور بہت پیار کیا." ار شا د ر حمانی صفحه ۴۲ شائع کرده خانقاه مونیگر) پس تعجب ہے بادا صاحب کی عقل پر کہ اگر کوئی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کو کشف میں اپنی ماں کی طرح دیکھ لے تو اس پر یہ " تو ہین " " تو ہین " کے نعرے بلند کرتے ہیں.لیکن مولانا فضل الرحمن کے اس ارشاد " مذکورہ بالا کو پڑھ کر انہیں شرم تک نہیں آتی.حقیقت یہ ہے کہ کشوف تعبیر طلب ہوتے ہیں اور اگر ان کی عقل و سمجھ اور بصیرت کے مطابق مناسب تعبیر نہ کی جائے تو نتا ئج انتہائی بھیانک ہو جاتے ہیں جس کے ذمہ دار صاحب رویا و کشوف بزرگ نہیں بلکہ لوگ ہوتے ہیں جو ان کشوف کی غیر مناسب تعبیر کرتے ہیں یا تعبیر کی بجائے اسے ظاہر پر محمول کر کے پھر اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے ہیں.
22 گر کفر این بود بخدا است کافرم آخر میں ہم قارئین کی خدمت میں حضرت مرزا صاحب کی چند تحریریں پیش کرتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ایک بچے عاشق رسول تھے اور اہل بیت کی محبت میں سرشار تھے.اپنے آقا و مولی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے جس عشق و فدائیت کا اظہار آپ نے اپنی نظم و نثر میں فرمایا اور جس کثرت سے فرمایا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل بیت کے مقام کا جو عرفان اپنی جماعت کو عطا کیا اس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی.پس ایسے شخص پر گستاخ رسول " ہونے کا الزام لگانا یقینا ایک بہت بڑا افتراء ہے.حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں.جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم ثار کوچه آل محمد است دیدم بعین قلب و شنیدم بگوش ہوش ور ہر مکان ندائے جمال محمد است این چشمه روان که معلق خدا دیم یک قطره زیر کمال محمد است ترجمہ میرے دل و جان محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جمال پر خدا ہیں.میری خاک آل محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کوچہ پر قربان ہے.میں نے اپنے دل کی آنکھ سے دیکھا اور ہوش کے کان سے سنا کہ ہر جگہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جمال کی گونج پائی جاتی ہے.معارف کا یہ چاری چشمہ جو میں مخلوق خدا کو دے رہا ہوں.یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال کے سمندر کا ایک قطرہ ہے.-P افاضہ انوار الہی میں محبتِ اہلِ بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے.وہ انہیں قیستین طاہرین کی وراثت میں پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے." (براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیه در حاشیه نمبر ۳ صفحه ۵۰۳)
23 یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے.اگر وہ جلد میں تو وہ احمد ہے.اور اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد ہے صلی اللہ علیہ ہیلم براہین احمدیہ حصه چهارم حاشیه در حاشیه ۳ صفحه ۴۹۹ ) والله يعلم اني عاشق الاسلام و فداء حضرت خیر الانام و غلام احمد المصطفى ( آئینہ کمالات اسلام صفحه ۳۸۸) ترجمہ : اللہ تعالی جانتا ہے کہ میں اسلام کا حقیقی عاشق اور حضرت خیر الانام پر دل و جان سے خدا اور ان کا غلام ہوں.آخری وصیت یہی ہے کہ ہر ایک روشنی ہم نے رسول بنی آتی کی پیروی سے پائی ہے اور جو شخص پیروی کرے گا.وہ بھی پائے گا.اور ایسی قبولیت اس کو ملیکی کہ کوئی بات اسکے آگے انہونی نہیں رہے گی زندہ خدا جو لوگوں سے پوشیدہ ہے اس کا خدا ہو گا.اور جھوٹے خدا سب اسکی پیروی کے نیچے کیلے اور روندے جائیں گے.وہ ہر ایک جگہ مبارک ہوگا اور الہی قوتیں اس کے ساتھ ہوں گی." (سراج منیر صفحه ۷۳ ) - " یہ تمام شرف مجھے صرف ایک نبی کی پیروی سے ملا ہے جس کے مدارج اور مراتب سے دنیا بے خبر ہے یعنی سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم" (چشمه بسیجی صفحه ۲۳).اس نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نہیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید و موٹی فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا.سو میں نے جو کچھ پایا.اس پیروی سے پایا اور میں اپنے بچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجر پیروی اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا.اور نہ معرفت کا ملہ کا حصہ
پاسکتا ہے." 24 ( حقیقته الوحی صلح ) - " حضرت افضل الرسل خير الراحل فخر الريسل محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کو چھوڑ کر اور اس کی پاک اور کامل حدیث اور خدا کا سیانور اور بلاریب کلام ترک کرکے پھر اور کونسی بناہ ہے جس طرف رخ کریں اور اس سے زیادہ کونسا چہرہ پیارا ہے جو ہماری دلبری کرے." (احکم ۸ نومبر ۱۹۸ صفحه ۲) " بلا شبہ کلام الہی سے محبت رکھنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیبہ سے عشق پیدا ہونا اور اہل اللہ کے ساتھ حُب صافی کا تعلق حاصل ہوتا یہ ایک ایسی بزرگ نعمت ہے جو خدا تعالی کے خاص اور مخلص بندوں کو ملتی ہے اور دراصل بڑی بڑی ترقیات کی یہی بنیاد ہے اور یہی ایک قسم ہے جس سے ایک بڑا درخت یقین اور معرفت اور قوت ایمانی کا پیدا ہوتا ہے اور محبت ذاتیہ جل شانہ کا پھل اس کو لگتا ہے.覽 (الحکم ۳.مارچ 49 صفحہ ۳) میں خوب جانتا ہوں کہ ہماری جماعت اور ہم جو کچھ ہیں اس حال میں اللہ تعالی کی تائید اور نصرت ہمارے شامل حال ہو گی کہ ہم صراط مستقیم پر چلیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل بچی اتباع کریں ، قرآن شریف کی پاک تعلیم کو اپنا دستور العمل بنا دیں اور ان باتوں کو ہم اپنے عمل اور حال سے ثابت کریں نہ صرف قال سے.اگر ہم اس طریق کو اختیار کریں گے تو یقیناً یاد رکھو کہ ساری دنیا بھی مل کر ہم کو ہلاک کرنا چاہے تو ہلاک نہیں ہو سکتے.اس لئے کہ خدا ہمارے ساتھ ہو گا".اور فرمایا بعداز (احکم ۲۴ تمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۴) خدا بحق محمد عمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم
25 ہر تار و پود من پسر آینده بشق او از خد تمی و از غم آن دلستاں پرم ترجمہ = میں خدا تعالٰی کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں سرشار ہوں.اگر اس بات کا نام کفر ہے تو بخدا میں سخت کا فر ہوں.آپ کا عشق میرے وجود کے ہر رگ و ریشہ میں سرایت کرچکا ہے میں اپنے آپ سے خالی اور اس کے محبوب کے غم سے پر ہوں.000