Language: UR
<div class="couplet"> <h2>کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلّق</h2> <h2>اِس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدّعا یہی ہے</h2> </div> <h2 style="text-align: center;">ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ</h2> حضورؒ نے نوجوان نسل کو یہ نصیحت فرمائی کہ <blockquote>’’ وہ اپنے علم کو ان دلائل کے ساتھ پختہ بنائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بالخصوص درثمین کو کثرت سے پڑھیں۔‘‘ <cite class="text-muted">(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۷۰ء )</cite></blockquote>
در میشن حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود بانی جماعت احمدیہ کا پر معارف اُردو منظوم کلام
ارشاد حضرت خلیفه لمسیح الثالث حضور نے نوجوان نسل کو یہ نصیحت فرمائی کہ وو وہ اپنے علم کو ان دلائل کے ساتھ پختہ بنا ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بالخصوص در شین کو کثرت سے پڑھیں.“ روزنامه الفضل ربوہ مورخها ا/اکتوبر ۱۹۷۰ء)
عنوان نصرت الہی دعوت فکر پہلا مصرع خُدا کے پاک لوگوں کو خُدا سے نصرت آتی ہے یارو ! خودی سے باز بھی آؤ گے یا نہیں فضائل قرآن مجید جمال وحسن قرآں نورِ جانِ ہر مسلماں ہے ۴ عیسائیوں سے خطاب آؤ عیسائیو! ادھر آؤ! اوصاف قرآن مجید نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلی نکلا و حمد رب العالمین کس قدر ظاہر ہے نور اُس مبدء الانوار کا دنیا کی حرص و آز میں کیا کچھ نہ کرتے ہیں ۱۲ سرائے خام وید اُن کو سودا ہوا ہے ویدوں کا وفات مسیح ناصری علیہ السلام کیوں نہیں لوگو ! تمہیں حق کا خیال علامات المقر بين خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار قادر مطلق کے حضور اک کرشمہ اپنی قدرت کا دکھا اسلام اور آنحضرت عل عشق ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکا یا ہم نے 1.۱۳ ۱۴ Σ ۱۶ لا > ۱۸ ۲۱ Σ ۳۸ ۱۳ چوله بابا نانک یہی پاک چولا ہے سکھوں کا تاج ۱۴ تاثیر صداقت واہ رے زورِ صداقت خوب دکھلایا اثر
۳۹ ۴۷ है ۵۱ ۵۲ ۵۳ ۶۶ ۶۷ ۷۲ ۷۳ ii عنوان ۱۵ محمود کی آمین پہلا مصرع حمد وثنا اُسی کو جو ذات جاودانی خدا تعالیٰ کا شکر اور دعا بزبان ہے عجب میرے خدا میرے پر احساں تیرا حضرت اماں جان ائم الكتاب ۱۸ معرفت حق اے دوستو جو پڑھتے ہوائھم الکتاب کو آواز آرہی ہے یہ فونوگراف سے ۷۴ LL ۷۹ 1++ ۱۰۳ ۱۹ بشیر احمد.شریف احمد اور خدایا اے مرے پیارے خدایا مبارکہ کی آمین شان احمد عربی علیه زندگی بخش جام احمد ہے ۲۱ اشاعت دین بزور شمشیر حرام ہے اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال ۲۲ تعلّق باللہ ۲۳ جوش صداقت نسیم دعوت ۲۴ کبھی نصرت نہیں ملتی در مولیٰ سے گندوں کو کیوں نہیں لو گو تمہیں حق کا خیال نام اس کا نسیم دعوت ہے ۲۵ آریوں کو دعوت حق اے آریہ سماج پھنسومت عذاب میں ۲۶ پیشگوئی زلزلہ عظیمہ سونے والو! جلد جاگو یہ نہ وقت خواب ہے ۲۷ انذار دوستو ! جا گو کہ اب پھر زلزلہ آنے کو ہے اسلام سے نہ بھا گوراہ ہدی یہی ہے ۲۸ قادیان کے آریہ آریوں پر ہے صد ہزار افسوس ۲۹ شانِ اسلام ۳۰ آریوں سے خطاب عزیز و! دوستو! بھائیو اسنوبات ۳۱ غیرت اسلامی کو اپیل کیوں نہیں لوگو تمہیں حق کا خیال
۱۰۴ ۱۰۵ 1+4 1+1 iii ۳۲ عنوان پہلا مصرع تو بہ سے عذاب ٹل جاتا ہے کیا تضرع اور تو بہ سے نہیں ٹلتا عذاب ۳۳ اللہ تعالیٰ کو خاکساری پسند ہے الہی بخش کے کیسے تھے یہ تیر ۳۴ اتمام حجت ۳۵ انذار و تبشیر نشاں کو دیکھ کر انکار کب تک پیش جائے گا پھر چلے آتے ہیں یا ر و زلزلہ آنے کے دن ۳۶ صاحبزاده میرزا مبارک احمد مبارک کو میں نے ستایا نہیں کے متعلق ۱۱۴ لوح مزار میرزا مبارک احمد جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خو تھا ۱۱۳ ۳۸ محاسن قرآن کریم ہے شکر رب عز وجل خارج از بیاں ۳۹ مناجات اور تبلیغ حق اے خدا اے کارساز وعیب پوش وکر دگار ۱۴۴ وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو ۱۷۶ پیشگوئی جنگ عظیم یہ نشان زلزلہ جو ہو چکا منگل کے دن ۴۰ درس توحید ۴۲ بدظنی سے بچو اگر دل میں تمہارے شر نہیں ہے 122 ۱۸۰ ۱۸۱ ۱۸۲ ۱۸۷ ۱۸۹ ۴۳ ہجوم مشکلات سے نجات راک نہ اک دن پیش ہوگا تو فنا کے سامنے 000 حاصل کرنے کا طریق ۴۴ متفرق اشعار ۴۵ الہامی اشعار ۴۶ الہامی مصرعے
کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اِس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے ////
نصرت الہی خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے جب آئی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے وہ بنتی ہے ہوا اور ہر حسِ رَہ کو اُڑاتی ہے وہ ہو جاتی ہے آگ اور ہر مخالف کو جلاتی ہے کبھی وہ خاک ہو کر دشمنوں کے سر پہ پڑتی ہے کبھی ہو کر وہ پانی اُن پہ اک طوقان لاتی ہے غرض رُکتے نہیں ہرگز خدا کے کام بندوں سے بھلا خالق کے آگے خلق کی کچھ پیش جاتی ہے براہین احمدیہ حصہ دوم صفحه ۱۱۴.مطبوعہ ۱۸۸۰ء 000
دعوت فکر یارو! خودی سے باز بھی آؤ گے یا نہیں؟ خُو اپنی پاک صاف بناؤ گے یا نہیں؟ باطل سے میل دل کی ہٹاؤ گے یا نہیں ؟ حق کی طرف رجوع بھی لاؤ گے یا نہیں؟ کب تک رہو گے جد و تعصب میں ڈوبتے ؟ آخر قدم بصدق اٹھاؤ گے یا نہیں؟ کیونکر کرو گے رڈ جو حق ہے ایک بات؟ کچھ ہوش کر کے عذر سناؤ گے یا نہیں؟ سچ سچ کہو، اگر نہ بنا تم سے کچھ جواب! پھر بھی یہ منہ جہاں کو دکھاؤ گے یا نہیں؟ برا بین احمدیہ حصہ دوم.مطبوعہ ۱۸۸۰ء کرکے کرکے آرکا
فضائل قرآن مجید جمال وحسن قرآں نورِ جانِ ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا، ہمارا چاند قرآں ہے نظیر اُس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے بہار جاوداں پیدا ہے اُس کی ہر عبارت میں نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اُس سا کوئی بستاں ہے کلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز اگر لولوئے عماں ہے وگر لعل بدخشاں ہے خدا کے قول سے قول بشر کیوں کر برابر ہو وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہے ملائک جس کی حضرت میں کریں اقرار لاعلمی سخن میں اُس کے ہمتائی ، کہاں مقدور انساں ہے بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہرگز تو پھر کیونکر بنانا نور حق کا اُس پہ آساں ہے
ارے لوگو! کرو کچھ پاس شانِ کبریائی کا زباں کو تھام لو اب بھی اگر کچھ بُوئے ایماں ہے خُدا سے غیر کو ہمتا بنانا سخت کفراں ہے خدا سے کچھ ڈرو یارو، یہ کیسا کذب و بہتاں ہے؟ اگر اقرار ہے تم کو خُدا کی ذاتِ واحد کا تو پھر کیوں اس قدر دل میں تمہارے شرک پنہاں ہے؟ یہ کیسے پڑ گئے دل پر تمہارے جہل کے پردے؟ خطا کرتے ہو باز آؤ اگر کچھ خوف یزداں ہے ہمیں کچھ کہیں نہیں بھائیو نصیحت ہے غریبانہ کوئی جو پاک دل ہو وے دل و جاں اُس پہ قرباں ہے 000 براتین احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۱۸۲.مطبوعه ۱۸۸۲ء
عیسائیوں سے خطاب آؤ عیسائیو! ادھر آؤ ! نور حق دیکھو! راہ حق پاؤ ! جس قدر خوبیاں ہیں فرقاں میں کہیں انجیل میں تو دکھلاؤ ! سر پہ خالق ہے اُس کو یاد کرو یونہی مخلوق کو نہ بہکاؤ ! کب تلک جھوٹ سے کرو گے پیار کچھ تو سچ کو بھی کام فرماؤ ! کچھ تو خوفِ خدا کرو لوگو ! کچھ تو لوگو! خُدا سے شرماؤ ! عیش دُنیا سدا نہیں پیارو اس جہاں کو بقا نہیں پیارو تو رہنے کی جا نہیں پیارو کوئی اس میں رہا نہیں پیارو اس خرابہ میں کیوں لگاؤ دل ہاتھ سے اپنے کیوں جلاؤ دل کیوں نہیں تم کو دینِ حق کا خیال ہائے سو سو اٹھے ہے دِل میں اُبال کیوں نہیں دیکھتے طریق صواب؟ کس بلا کا پڑا ہے دل پہ حجاب؟ اس قدر کیوں ہے کین و استکبار؟ کیوں خُدا یاد سے گیا یک بار؟ تم نے حق کو بھلا دیا ہی بات دل کو پتھر بنا دیا ہیمات ے عزیزو! سُنو کہ بے قرآں حق کو ملتا نہیں کبھی انساں جن کو اس نور کی خبر ہی نہیں اُن یہ اُس یار کی نظر ہی نہیں
ہے یہ فرقاں میں اک عجیب اثر که بناتا ہے عاشق دلبر جس کا ہے نام قادر اکبر اُس کی ہستی سے دی ہے پختہ خبر کوئے دلبر میں کھینچ لاتا ہے پھر تو کیا کیا نشاں دکھاتا دل میں ہر وقت نور بھرتا ہے کو خوب صاف کرتا سینہ ہے ہے اُس کے اؤ صاف کیا کروں میں بیاں وہ تو دیتا ہے جاں کو اور اک جاں وہ تو چکا ہے نیر اکبر اُس ނ انکار وہ بحر ہو سکے کیونکر ہمیں داستاں تلک لایا اُس کے پانے سے یار کو پایا! حکمت ہے وہ ه کلام تمام عشق حق کا پلا رہا ہے جام بات جب اُس کی یاد آتی یاد سے ساری خلق جاتی ہے ہے ہے دل سینہ میں نقش حق جماتی سے غیر خُدا اُٹھاتی ہے دردمندوں کی ہے دوا وہی ایک ہے خدا سے خدانما وہی ایک ہم نے پایا خور ھدی وہی ایک ہم نے دیکھا ہے دل رُبا وہی ایک اُس کے منکر جو بات کہتے ہیں یوں ہی اک واہیات کہتے ہیں بات جب ہو کہ میرے پاس آویں میرے منہ پر وہ بات کہہ جاویں مجھ سے اُس دِل ستاں کا حال سنیں مجھ سے وہ صورت و جمال سنیں آنکھ پھوٹی تو خیر کان سہی نہ سہی یوں ہی امتحان سہی براہین احمدیہ حصہ سوم صفحه ۲۶۸.مطبوعه ۱۸۸۲ء
اوصاف قرآن مجید نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلی نکلا پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا حق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا پودا نا گہاں غیب سے یہ چشمہ اصفی نکلا یا الہی ! تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا سب جہاں چھان چکے ساری دُکانیں دیکھیں مئے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا کس سے اُس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں پھر جو سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلا ہے قصور اپنا ہی اندھوں کا وگرنہ وہ نور ایسا چمکا ہے کہ صد نَيْرِ بَيْضا نکلا زندگی ایسوں کی کیا خاک ہے اس دنیا میں جن کا اس نور کے ہوتے بھی دل ائمی نکلا جلنے سے آگے ہی یہ لوگ تو جل جاتے ہیں جن کی ہر بات فقط جھوٹ کا پتلا نکلا آگے آگے آگے براہینِ احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۲۷۴.مطبوعہ ۱۸۸۲ء
حمد رب العالمین کس قدر ظاہر ہے نور اُس مبدء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ انصار کا چاند کوکل دیکھ کر میں سخت بے گل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اُس میں جمالِ یار کا اُس بہار حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترک یا تا تار کا ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا چشمہ خورشید میں موجیں تری مشہور ہیں ہر ستارے میں تماشہ ہے تری چمکار کا تو نے خود رُوحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑ کا نمک اُس سے ہے شورِ محبت عاشقانِ زار کا کیا عجب تو نے ہر اک ذرہ میں رکھے ہیں خواص کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں کس سے کھل سکتا ہے پیچ اس عقد ہ دشوار کا خوبر ولیوں میں ملاحت ہے ترے اُس حسن کی ہر گل و گلشن میں ہے رنگ اس ترے گلزار کا چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا آنکھ کے اندھوں کو حائل ہو گئے سو سو حجاب ورنہ تھا قبلہ ترا رُخ کافر و دیندار کا
ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا تیرے ملنے کے لئے ہم مل گئے ہیں خاک میں تا مگر درماں ہو کچھ اس ہجر کے آزار کا ایک دم بھی گل نہیں پڑتی مجھے تیرے سوا جاں کھٹی جاتی ہے جیسے دل گھٹے بیمار کا شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا سرمه چشم آریہ صفحہ ۲.مطبوعہ ۱۸۸۶ء 000
۱۲ سرائے خام دنیا کی حرص و آز میں کیا کچھ نہ کرتے ہیں نقصاں جو ایک پیسہ کا دیکھیں تو مرتے ہیں زر سے پیار کرتے ہیں اور دل لگاتے ہیں ہوتے ہیں زر کے ایسے کہ بس مر ہی جاتے ہیں جب اپنے دلبروں کو نہ جلدی سے پاتے ہیں کیا کیا نہ اُن کے ہجر میں آنسو بہاتے ہیں پر اُن کو اُس سجن کی طرف کچھ نظر نہیں آنکھیں نہیں ہیں کان نہیں دل میں ڈر نہیں اُن کے طریق و دھرم میں گولا کھ ہو فساد کیسا ہی ہو عیاں کہ وہ ہے جھوٹ اعتقاد پر تب بھی مانتے ہیں اُسی کو بہر سبب کیا حال کر دیا ہے تعصب نے ، ہے غضب دل میں مگر یہی ہے کہ مرنا نہیں کبھی ترک اس عیال و قوم کو کرنا نہیں کبھی اے غافلاں وفا نہ کند ایں سرائے خامہ دنیائے دُوں نماند و نماند به کس مدام 000 سرمه چشم آریہ صفحه ۸۹ - مطبوعه ۱۸۸۶ء
۱۳ اُن کو سودا ہوا ہے ویدوں کا اُن کا دل مبتلا ہے ویدوں کا آریو! اس قدر کرو کیوں جوش کیا نظر آ گیا ہے ویدوں کا؟ نہ کیا ہے نہ کر سکے پیدا سوچ لو یہ خدا ہے ویدوں کا عقل رکھتے ہو آ آپ بھی کیوں بھروسہ کیا ہے ویدوں کا؟ بے خدا کوئی چیز کیونکر ہو یہ سراسر خطا ہے ویدوں کا ناستک مت کے وید ہیں حامی بس یہی مدعا ہے ویدوں کا ایسے مذہب کبھی نہیں چلتے کال سر پر کھڑا ہے ویدوں کا 000 سرمه چشم آریہ صفحہ ۱۷۲ - مطبوعه ۱۸۸۶ء
۱۴ عہد شد از کردگار وفات مسیح ناصری بے کیوں نہیں لوگو تمہیں حق کا خیال؟ دل میں اُٹھتا ہے میرے سو سو اُبال ابن مریم مر گیا حق کی قسم داخل جنت ہوا وہ محترم مارتا ہے اُس کو فرقاں سربسر اُس کے مر جانے کی دیتا ہے خبر وہ نہیں باہر رہا اموات سے ہو گیا ثابت یہ تیں آیات کوئی مُردوں سے کبھی آیا نہیں یہ تو فرقاں نے بھی بتلایا نہیں چگوں غورگن در أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ اے عزیزو! سوچ کر دیکھو ذرا موت سے بچتا کوئی دیکھا بھلا؟ یہ تو رہنے کا نہیں پیارو مکاں چل بسے سب انبیاء و راستاں ہاں نہیں پاتا کوئی اس سے نجات یوں ہی باتیں ہیں بنائیں واہیات کیوں تمہیں انکار پر اصرار ہے ہے یہ دیں یا سیرتِ کفار ہے برخلاف نص یہ کیا جوش ہے سوچ کر دیکھو اگر کچھ ہوش ہے کیوں بنایا ابن مریم کو خدا سنت اللہ سے وہ کیوں بنایا اُس کو باشان کبیر غیب دان و خالق و حتی و قدیر مر گئے سب پر وہ مرنے سے بچا اب تلک آئی نہیں اس پر فنا کیوں باہر رہا
۱۵ ہے وہی اکثر پرندوں کا خدا اس خدادانی تیرے مرحبا مولوی صاحب! یہی توحید ہے سچ کہو کس دیو کی تقلید ہے؟ کیا یہی توحید حق کا راز تھا؟ جس پہ برسوں سے تمہیں اک ناز تھا کیا بشر میں ہے خدائی کا نشاں؟ الاماں ایسے گماں سے الاماں! ہے تعجب آپ کے اس جوش پر فہم پر اور عقل کیوں نظر آتا نہیں راہ صواب؟ پڑ گئے کیسے یہ آنکھوں پر حجاب اور ہوش پر اور پر کیا یہی تعلیم فرقاں ہے بھلا کچھ تو آخر چاہیے خوف خدا مومنوں پر کفر کا کرنا گماں ہے یہ کیا ایمانداروں کا نشاں؟ ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں دل سے ہیں خدام ختم المرسلین شرک اور بدعت سے ہم بیزار ہیں خاک راه احمد مختار ہیں سارے حکموں پر ہمیں ایمان ہے جان و دل اس راہ پر قربان ہے دے چکے دل اب تن خاکی رہا ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا ہمیں دیتے ہو کافر کا خطاب کیوں نہیں لوگو تمہیں خوف عِقاب سخت شورے او فتقاد اندر زمین رحم کن برخلق اے جاں آفریں کچھ نمونہ اپنی قدرت کا دکھا تجھ کو سب قدرت ہے اے رب الوریٰ ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ ۷۶۴.مطبوعہ ۱۸۹۱ء
۱۶ علامات المقربین خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اُس پر نثار اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب؟ اُسے دے چکے مال و جاں بار بار ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار لگاتے ہیں دل اپنا اُس پاک ނ وہی پاک جاتے ہیں اس خاک سے نشانِ آسمانی صفحه ۴۶ حاشیہ مطبوعہ۱۸۹۲ء 000
آسمانی فیصلہ صفحہ ۸.مطبوعہ ۱۸۹۲ء لا قادر مطلق کے حضور اک کرشمہ اپنی قدرت کا دکھا تجھ کو سب قدرت ہے اے رب الوریٰ! حق پرستی کا مٹا جاتا ہے نام اک نشاں دکھلا کہ ہو حجت تمام کرکے لگا کرکے
۱۸ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلائے یہ ثمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا نور ہے نور اُٹھو دیکھو سنایا ہم نے اور دینوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے تھک گئے ہم تو انہی باتوں کو کہتے کہتے ہر طرف دعوتوں کا تیر چلایا ہم نے آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پر بلایا ہم نے یونہی غفلت کے لحافوں میں پڑے سوتے ہیں وہ نہیں جاگتے سو بار جگایا ہم نے جل رہے ہیں یہ بھی بغضوں میں اور کینوں میں باز آتے نہیں ہر چند ہٹایا ہم نے آؤ لوگو! کہ یہیں نورِ خدا پاؤ گے !! لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے آج ان نوروں کا اک زور ہے اس عاجز میں دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے
۱۹ جب سے یہ نور ملا نور پیمبر سے ہمیں ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے مصطفیٰ پر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت اُس سے یہ نور لیا بارِ خدایا ہم نے ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے اُس سے بہتر نظر آیا نہ کوئی عالم میں لائبرم غیروں سے دل اپنا چھڑایا ہم نے مورد قہر ہوئے آنکھ میں اغیار کے ہم جب سے شق اس کا نہ دل میں بٹھایا ہم نے زعم میں اُن کے مسیحائی کا دعوی میرا افترا ہے جسے از خود ہی بنایا ہم نے کافر و ملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں! نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب باراٹھایا ہم نے تیری اُلفت سے ہے معمور مرا ہر ذرہ اپنے سینہ میں یہ اک شہر بسایا ہم نے صف دشمن کو کیا ہم نے بحجت پامال سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے نور دکھلا کے تیرا سب کو کیا ملزم و خوار سب کا دل آتش سوزاں میں جلایا ہم نے نقش ہستی تری اُلفت سے مٹایا ہم نے اپنا ہر ذرہ تیری راہ میں اُڑایا ہم نے تیرا مے خانہ جو اک مربع عالم دیکھا کم کا کم منہ سے بصد حرص لگا یا ہم نے شانِ حق تیرے شمائل میں نظر آتی ہے تیرے پانے سے ہی اُس ذات کو پایا ہم نے
چھو کے دامن تر اہر دام سے ملتی ہے نجات کا جرم در پہ ترے سر کو جھکایا ہم نے دلبرا ! مجھ کو قسم ہے تری یکتائی کی آپ کو تیری محبت میں بھلایا ہم نے بخدا دل سے مرے مٹ گئے سب غیروں کے نقش جب سے دل میں یہ تیرا نقش جمایا ہم نے دیکھ کر تجھ کو عجب نور کا جلوہ دیکھا نور سے تیرے شیاطیں کو جلایا ہم نے ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گا یا ہم نے قوم کے ظلم سے تنگ آ کے مرے پیارے آج شور محشر ترے کوچہ میں مچایا ہم نے آگے آگے آگے آئینہ کمالات اسلام صفحه ۲۲۴ مطبوعه ۱۸۹۳ء
چولہ بابا نانک یہی پاک چولا ہے سکھوں کا تاج یہی کابلی مل کے گھر میں ہے آج یہی ہے کہ نوروں سے معمور ہے جو ڈور اس سے اُس سے خدا دور ہے یہی جنم ساکھی میں مذکور ہے جو انگد سے اس وقت مشہور ہے اسی پر وہ آیات ہیں بینات کہ جن سے ملے جاودانی حیات یہ نانک کو خلعت ملا سرفراز خدا سے جو تھا درد کا چارہ ساز اسی سے وہ سب راز حق پا گیا اسی سے وہ اسی سے وہ حق کی طرف آ گیا اسی نے بلا سے بچایا اُسے ہر اک بد گہر سے چھڑایا اُسے ذرا سوچو سکھو! یہ کیا چیز ہے؟ یہ اُس مرد کے تن کا تعویذ ہے یہ اُس بھگت کا رہ گیا اک نشاں نصیحت کی باتیں حقیقت کی جاں گرنتھوں میں ہے شک کا اک احتمال کہ انساں کے ہاتھوں سے ہیں دست مال جو پیچھے سے لکھتے لکھاتے رہے خدا جانے کیا کیا بناتے رہے گماں ہے کہ نفلوں میں ہو کچھ خطا کہ انساں نہ ہووے خطا سے جدا مگر یہ تو محفوظ ہے بالیقیں وہی ہے جو تھا اس میں کچھ شک نہیں اسے سر پہ رکھتے تھے اہل صفا تذلّل سے، سے، جب پیش آتی بلا ! جو نانک کی مدح و ثنا کرتے تھے وہ ہر شخص کو یہ کہا کرتے تھے
۲۲ کہ دیکھا نہ ہو جس نے وہ پارسا وہ وہ ده چولہ کو دیکھے کہ ہے رہنما جسے اُس کے مت کی نہ ہووے خبر دیکھے اسی چولہ کو اک نظر اُسے چوم کر، کرتے رو رو دعا تو ہو جاتا تھا فضل قادر خدا اسی کا تو تھا معجزانہ اثر کہ نانک بچا جس سے وقت خطر بچا آگ سے سے ر بچا آر اُسی کے اثر سے، نہ اسباب سے ذرا دیکھو انگر کی تحریر کو کہ لکھتا ہے اس ساری تقریر کو چولا قدرت کا جلوہ نما ہے کلام خدا اس ہے جابجا جو شائق ہے نانک کے درشن کا آج وہ دیکھے اسے، چھوڑ کر کام و کاج برس گذرے ہیں چار سو کے قریب یہ ہے نو بہ نو اک کرامت عجیب یہ نانک سے کیوں رہ گیا اک نشاں بھلا اس میں حکمت تھی کیا در نہاں یہی تھی کہ اسلام کا ہو گواہ بتا دے وہ پچھلوں کو نانک کی راہ خدا سے یہ تھا فضل اُس مرد پر ہوا اُس کے دردوں کا اک چارہ گر یہ مخفی امانت ہے کرتار کی یہ تھی اک کلید اُس کے اسرار کی محبت میں صادق وہی ہوتے ہیں کہ اس چولہ کو دیکھ کر روتے ہیں سنو مجھ سے اے لوگو! نانک کا حال سنو ! قصه قدرت ذُوالجلال ! وہ تھا آریہ قوم سے نیک ذات خردمند، خوش خو، مبارک صفات
۲۳ ابھی عمر سے تھوڑے گزرے تھے سال کہ دل میں پڑا اس کے دیں کا خیال اسی جستجو میں وہ رہتا مدام کہ کس راہ سے سچ کو پاوے تمام اُسے وید کی رہ نہ آئی پسند کہ دیکھا بہت اسکی باتوں میں گند جو دیکھا کہ یہ ہیں سڑے اور گلے لگا ہونے دل اس کا اوپر تلے کہا کیسے ہو خدا کا کلام ضلالت کی تعلیم، ناپاک کام ! ہوا پھر تو یہ دیکھ کر سخت غم مگر دل میں رکھتا وہ رنج و آلم وہ رہتا تھا اس غم سے ہر دم اُداس زباں بند تھی دل میں سو سو ہراس یہی فکر کھاتا اسے صبح و شام نہ تھا کوئی ہم راز ئے ہم کلام کبھی باپ کی جب کہ پڑتی نظر وہ کہتا کہ اے میرے پیارے پسر ! میں حیراں ہوں تیرا یہ کیا حال ہے وہ غم کیا ہے جس سے تو پامال ہے؟ نہ وہ تیری صورت نہ وہ رنگ ہے کہو کس سبب تیرا دل تنگ ہے؟ مجھے سچ بتا کھول کر اپنا حال کہ کیوں غم میں رہتا ہے اے میرے لال؟ وہ رو دیتا کہہ کر کہ سب خیر ہے مگر دل میں اک خواہش سیر ہے پھر آخر کو نکلا وہ دیوانہ وار نہ دیکھے بیاباں نہ دیکھا پہاڑ اُتار اپنے مونڈھوں سے دنیا کا بار طلب میں سفر کر لیا اختیار خدا کے لئے ہو گیا دردمند تَنَعُمُ کی راہیں نہ آئیں پسند
۲۴ طلب میں چلا بے خود و بے حواس خدا کی عنایات کی کر کے آس جو پوچھا کسی نے چلے ہو کدھر؟ غرض کیا ہے جس سے کیا یہ سفر؟ کہا رو کے حق کا طلب گار ہوں شارِ رہ پاک کرتار ہوں سفر میں وہ رو رو کے کرتا دعا کہ اے میرے کرتار مشکل گشا ! میں عاجز ہوں کچھ بھی نہیں خاک ہوں مگر بندہ درگہ پاک ہوں میں قرباں ہوں دل سے تیری راہ کا نشاں دے مجھے مرد آگاہ کا نشاں تیرا یا کر وہیں جاؤں گا جو تیرا ہو وہ اپنا ٹھہراؤں گا کرم کر کے وہ راہ اپنی بتا کہ جس میں ہواے میرے تیری رضا بتایا گیا اُس کو الہام میں مگر کہ پائے گا تو مجھ کو اسلام میں مرد عارف فلاں مرد ہے وہ اسلام کے راہ میں فرد ہے ملا تب خدا سے اسے ایک پیر کہ چشتی طریقہ میں تھا دستگیر ، شیخ وہ بیعت سے اس کے ہوا فیضیاب سنا پھر آیا وطن کی طرف اُس کے بعد ملی پیر کے فیض سے بخت سعد ذکر راه صواب کوئی دن تو پردہ میں مستور تھا زبان چُپ تھی اور سینہ میں نور تھا نہاں دل میں تھا درد و سوز و نیاز شریروں سے چھپ چھپ کے پڑھتا نماز
۲۵ پھر آخر کو مارا صداقت نے جوش تعشق سے جاتے رہے اُس کے ہوش ہوا پھر تو حق کے چھپانے سے تنگ محبت نے بڑھ بڑھ کے دکھلائے رنگ کہا یہ تو مجھ سے ہوا اک گناہ کہ پوشیدہ رکھی سچائی کی راہ یہ صدق و صفا سے بہت دُور تھا کہ غیروں کے خوفوں سے دل چور تھا تصوّر سے اس بات کے ہو کے زار کہا رو کے اے میرے پروردگار ! ترے نام کا مجھ کو اقرار ہے ترا نام غفار و ستار ہے ہلا ریب تو حی و قدوس ہے ترے بن ہر اک راہ سالوس ہے مجھے بخش اے خالق العالمین ! تو سبوح وَإِنِّي مِنَ الظَّالِمِينَ میں تیرا ہوں اے میرے کرتا ر پاک ! نہیں تیری راہوں میں خوف ہلاک کرتار تیرے در پہ جاں میری قربان ہے محبت تری خود مری جان ہے وہ طاقت که ملتی ہے ابرار کو وہ دے مجھ کو دکھلا کے اسرار کو خطاوار ہوں مجھ کو وہ ره بتا کہ حاصل ہو جس رہ سے تیری رضا اسی عجز میں تھا تذلل کے ساتھ کہ پکڑا خدا کی عنایت نے ہاتھ ہوا غیب ایک چولہ عیاں خدا کا کلام اس پہ تھا بے گماں شہادت تھی اسلام کی جابجا کہ سچا وہی دیں ہے اور رہنما یہ لکھا تھا اُس میں بخت جلی کہ اللہ کہ اللہ ہے اک اور اک اور محمد نبی
۲۶ ہوا حکم یہن اس کو اے نیک مرد! اتر جائیگی اس سے وہ ساری گرد جو پوشیدہ رکھنے کی تھی اک خطا یہ کفارہ اُس کا ہے اے باوفا ! یہ ممکن ہے کشفی ہو یہ ماجرا دیکھایا گیا ہو حکم خدا پھر لکھایا گیا خدا پھر پھر اُس طرز پر یہ بنایا گیا بحکم خدا مگر یہ بھی ممکن ہے اے پختہ کار کہ خود غیب سے ہو یہ سب کاروبار کہ پردے میں قادر کے اسرار ہیں کہ عقلیں وہاں پیچ و بے کار ہیں تو یک قطره داری ز عقل و خرد مگر قدرتش بحر بے حد و عد اگر بشنوی قصه صادقاں میاں تو خود را خردمند فهمیده مقامات خود چو مستہزیاں مرداں گیا دیده غرض اُس نے پہنا وہ فرخ لباس نہ رکھتا تھا مخلوق سے کچھ ہراس وہ پھرتا تھا گو چوں میں چولہ کے ساتھ دکھاتا تھا لوگوں کو قدرت کے ہاتھ کوئی دیکھتا جب اُسے دُور سے تو ملتی خبر اُس کو اُس نور سے جسے دُور سے وہ نظر آتا تھا اُسے چولہ خود بھید سمجھاتا تھا وہ ہر لحظہ چولے کو دکھلاتا تھا اسی میں وہ ساری خوشی پاتا تھا غرض یہ تھی تا یار خورسند ہو خطا دور ہو جو عشاق اُس ذات کے ہوتے ہیں پخته پیوند ہو وہ ایسے ہی ڈر ڈر کے جاں کھوتے ہیں
۲۷ وہ اُس یار کو صدق دکھلاتے ہیں اسی غم میں دیوانہ بن جاتے ہیں وہ جاں اس کی رہ میں فدا کرتے ہیں وہ ہر لحظہ سو سو طرح مرتے ہیں وہ کھوتے ہیں سب کچھ بصدق وصفا مگر اُس کی ہو جائے حاصل رضا یہ دیوانگی عشق کا ہے نشاں نہ سمجھے کوئی اس کو مجز عاشقاں غرض جوشِ اُلفت سے مجذوب وار یہ نانک نے چولا بنایا شعار مگر اس سے راضی ہو وہ دلستاں کہ اُس بن نہیں دل کو تاب و تواں خدا کے جو ہیں وہ یہی کرتے ہیں وہ لعنت سے لوگوں کی کب ڈرتے ہیں وہ ہو جاتے ہیں سارے دلدار کے نہیں کوئی اُن کا بجز یار کے وہ جاں دینے سے بھی نہ گھبراتے ہیں کہ سب کچھ وہ کھو کر اُسے پاتے ہیں وہ دلبر کی آواز بن جاتے ہیں وہ اُس جاں کے ہمراز بن جاتے ہیں وہ ناداں جو کہتا ہے در بند ہے نہ الہام ہے اور نہ پیوند ہے نہیں عقل اُس کو نہ کچھ غور ہے اگر دید ہے یا کوئی اور ہے یہ سچ ہے کہ جو پاک ہو جاتے ہیں سے خدا کی خبر لاتے ہیں اگر اس طرف سے نہ آوے خبر تو ہو جائے جائے یہ راہ زیر و زبر طلب گار ہو جائیں اس کے تباہ وہ مر وہ مر جائیں دیکھیں اگر بند راہ
۲۸ مگر کوئی معشوق ایسا نہیں کہ عاشق سے رکھتا ہو یہ بغض و کیں خدا پر کہ وہ تو پھر یہ گماں عیب ہے راحم و عالم الغیب ہے اگر وہ نہ بولے تو کیونکر کوئی یقیں کر کے جانے کہ ہے مُختفى وہ کرتا ہے خود اپنے بھگتوں کو یاد کوئی اُس کے رہ میں نہیں نامراد مگر وید کو اس سے انکار ہے اسی سے تو بے خیر و بے کار ہے کرے کوئی کیا ایسے طومار کو بلا کر دکھاوے نہ جو یار کو وہ ویدوں کا ایشر ہے یا اک حجر کہ بولے نہیں جیسے اک گنگ و گز تو پھر ایسے ویدوں سے حاصل ہی کیا ذرا سوچو اے یارو بہر خدا ! وہ انکار کرتے ہیں الہام سے که ممکن نہیں خاص اور عام سے یہی سالکوں کا تو تھا مدعا اسی سے تو کھلتی تھیں آنکھیں ذرا یہ نہیں پھر تو وہ مر گئے کہ بے سُود جاں کو فدا کر گئے یہ ویدوں کا دعویٰ سنا ہے ابھی کہ بعد اُن کے ملہم نہ ہو گا کبھی وہ کہتے ہیں یہ کوچہ مسدود ہے تلاش اس کی عارف کو بے سود ہے وہ غافل ہیں رحماں کے اُس داب سے کہ رکھتا کہ رکھتا ہے وہ اپنے احباب سے اگر اُن کو اس رہ سے ہوتی خبر اگر صدق کا کچھ بھی رکھتے اثر تو انکار کو جانتے جائے شرم یہ کیا کہہ دیا وید نے ہائے شرم !
۲۹ نہ جانا کہ الہام ہے کیمیا اسی سے تو ملتا ہے سنج لقاء اسی سے تو عارف ہوئے بادہ نوش اسی سے تو آنکھیں کھلیں اور گوش یہی ہے کہ نائب ہے دیدار کا یہی ایک چشمہ ہے اسرار کا اسی سے ملے اُن کو نازک علوم اسی سے تو اُنکی ہوئی جگ میں دھوم خدا پر خدا سے یقیں آتا ہے وہ باتوں سے ذات اپنی سمجھاتا ہے کوئی یار سے جب لگاتا ہے دل تو باتوں تو باتوں سے لذت اُٹھاتا ہے دل کہ دلدار کی بات ہے اک غذا اک غذا مگر تو مگر تو ہے منکر تجھے اس سے کیا نہیں تجھ کو اس رہ کی کچھ بھی خبر تو واقف نہیں اس سے اے بے ہنر ! وہ ہے مہربان و کریم و قدیر قسم اُس کی ! اُس کی نہیں ہے نظیر جو ہوں دل سے قربانِ ربّ جلیل نہ نقصاں اُٹھاویں نہ ہوویں ذلیل اسی سے تو نانک ہوا کامیاب کہ دل سے تھا قربان عالی جناب بتایا گیا اس کو الہام میں کہ پائے گا تو مجھ کو اسلام میں یقیں ہے کہ نانک تھا ملہم ضرور نہ کر وید کا پاس اے پرغرور! دیا اس کو کرتار نے وہ گیان اکیلا وہ گیان کہ ویدوں میں اُس کا نہیں کچھ نشان بھاگا ہنودوں کو چھوڑ مکہ کو ہند سے منہ کو موڑ گیا خانہ کعبہ کا کرنے طواف مسلماں بنا پاک دل بے خلاف
لیا اُس کو فضل خدا نے اُٹھا ملی دونوں عالم میں عزت کی جا اگر تو بھی چھوڑے یہ ملک ہوا تجھے بھی رتبہ کرے وہ عطا تو رکھتا نہیں ایک دم بھی روا جو بیوی اور بچوں سے ہووے جدا مگر وہ تو پھرتا تھا دیوانہ وار نہ جی کو تھا چین اور نہ دل کو قرار ہر اک کہتا تھا دیکھ کر اک نظر کہ ہے اُس کی آنکھوں میں کچھ جلوہ گر محبت کی تھی سینہ میں اک خلش لئے پھرتی تھی اُس کو دل کی تپش کبھی شرق میں اور کبھی غرب میں رہا گھومتا ومتا قلق اور کرب میں پرندے بھی آرام کر لیتے ہیں مجانیں بھی یہ کام کر لیتے ہیں مگر وہ تو اک دم نہ کرتا قرار ادا کر دیا عشق کا کاروبار کسی نے یہ پوچھی تھی عاشق سے بات وہ نسخہ بتا جس سے جاگے تو رات یہ کہا نیند کی ہے دوا سوز و درد کہاں نیند جب غم کرے چہرہ زرد وہ آنکھیں نہیں جو کہ گریاں نہیں وہ خود دل نہیں جو کہ بریاں نہیں تو انکار سے وقت کھوتا ہے کیا تجھے کیا خبر عشق ہوتا ہے کیا؟ مجھے پوچھو اور میرے دل سے یہ راز مگر کون پوچھے بجز عشق باز جو برباد ہونا کرے اختیار خدا کے لئے، ہے وہی بختیار
۳۱ جو اُس کے لئے کھوتے ہیں پاتے ہیں جو مرتے ہیں وہ زندہ ہو جاتے ہیں وہی وَحدَهُ لا شریک اور عزیز نہیں اُس کی مانند کوئی بھی چیز اگر جاں کروں اس کی راہ میں خدا تو پھر بھی نہ ہو شکر اُس کا ادا میں چولے کا کرتا ہوں پھر کچھ بیاں کہ ہے یہ پیارا مجھے جیسے جاں ذرا جنم ساکھی کو پڑھ اے جواں ! کہ انگر نے لکھا ہے اس میں عیاں که قدرت کے ہاتھوں کے تھے وہ رقم خدا ہی نے لکھا بہ فضل و کرم وہ کیا ہے یہی ہے کہ اللہ ہے ایک محمد نبی اُس کا پاک اور نیک بغیر اس کے دل کی صفائی نہیں بجز اس کے غم سے رہائی نہیں یہ معیار ہے دیں کی تحقیق کا کھلا فرق دجال و صدیق کا ذرا سوچو یارو! گر انصاف ہے یہ سب کشمکش اس گھڑی صاف ہے ٹانک سے کرنے لگے جب جُدا رہے زور کر کر کے بے مدعا کہا دُور ہو جاؤ تم ہار کے یہ خلعت ہے ہاتھوں سے کرتار کے بشر سے نہیں تا اُتارے بشر خدا کا کلام اس پہ ہے جلوہ گر دعا کی تھی اُس نے کہ اے کردگار! بتا مجھ کو رہ اپنی خود کر کے پیار
۳۲ یہ چولا تھا اُس کی دُعا کا اثر یہ قدرت کے ہاتھوں کا تھا سربسر یہی چھوڑ کر وہ ولی مر گیا نصیحت تھی مقصد ادا کر گیا اُسے مرده کہنا خطا ہے خطا کہ زندوں میں وہ زندہ دل جا ملا وہ تن گم ہوا یہ نشاں رہ گیا ذرا دیکھ کر اس کو آنسو بہا کہاں ہے محبت کہاں ہے وفا پیاروں کا چولا ہوا کیوں بُرا؟ وفادار عاشق کا ہے یہ نشاں کہ دلبر کا خط دیکھ کر نا گہاں لگاتا ہے آنکھوں سے ہو کر فدا یہی دیں ہے دلدادگاں کا سدا مگر جس کے دل میں محبت نہیں اُسے ایسی باتوں رغبت نہیں اُٹھو جلد تر لاؤ فوٹو گراف ذرا کھینچو تصویر چولے کی صاف کہ دنیا کو ہرگز نہیں ہے بقا فنا سب کا انجام ہے جز خدا سو لو عکس جلدی کہ اب ہے ہر اس مگر اس کی تصویر رہ جائے پاس چولا کہ قدرت کی تحریر ہے یہی رہ نما اور یہی پیر ہے یہ انگر نے خود لکھ دیا صاف صاف کہ ہے وہ کلام خدا بے گزاف وہ لکھا ہے خود پاک کرتار نے اسی تی و قیوم خدا نے جو لکھا وہ کب ہو خطا وہی ہے خدا کا کلام صفا یہی راہ ہے جس کو بھولے ہو تم اُٹھو یارو اب مت کرو راه گم و غفار نے
۳۳ ہے اپنی لگا نور خدا خدا سے ملا ارے جلد آنکھوں ارے لوگو! تم کو نہیں کچھ خبر جو کہتا ہوں میں اُس پہ رکھنا نظر زمانہ تعصب سے رکھتا ہے رنگ کریں حق کی تکذیب سب بے درنگ وہی دیں کے راہوں کی سنتا ہے بات کہ ہو متقی مرد اور نیک ذات مگر دوسرے سارے ہیں پر عناد پیارا ہے ان کو غرور اور فساد بناتے ہیں باتیں سراسر دروغ نہیں بات میں اُن کی کچھ بھی فروغ بھلا بعد چولے کے اے پر غرور ! وہ کیا کسر باقی ہے جس سے تو دُور؟ تو ڈرتا ہے لوگوں سے اے بے ہنر ! خدا سے تجھے کیوں نہیں ہے خطر؟ یہ تحریر چولہ کی ہے اک زباں سنو ! وہ زباں سے کرے کیا بیاں؟ دین خدا دین اسلام ہے جو ہو منکر اُس کا بدانجام ہے محمد وہ نبیوں کا سردار ہے کہ جس کا غدو مثل مُردار ہے تجھے چولے سے کچھ تو آوے حیا ذرا دیکھ ظالم کہ کرتا ہے کیا کہو جو رضا ہو مگر سُن لو بات وہ کہنا کہ جس میں نہیں پکش پات کہ حق جو سے کرتار کرتا ہے پیار وہ انساں نہیں جو نہیں حق گذار کہو جب کہ پوچھے گا مولی حساب تو بھائیو بتاؤ کہ کیا ہے جواب؟
۳۴ میں کہتا ہوں اک بات اے نیک نام ! ذرا غور سے اُس کو شنیو تمام کہ بے شک یہ چولہ پُر از نور ہے تمرد ، وفا سے بہت دور ہے دکھائیں گے چولہ تمہیں کھول کر کہ دو اُس کا اثر ذرا بول کر یہی پاک چولہ رہا اک نشاں گرو سے کہ تھا خلق پر مہرباں اسی پر دوشالے چڑھے اور زر یہی فخر سکھوں کا یہی ملک و دولت کا تھا اک ستوں عمل بد کئے ہو گئے سرنگوں خدا کے لئے چھوڑ اب بغض و کیں ذرا سوچو باتوں کو ہو کر امیں وہ صدق و محبت وہ مہر و وفا جو نانک سے رکھتے تھے تم برملا ہے سر بسر دکھاؤ ذرا آج اُس کا اثر اگر صدق ہے جلد دوڑو ادھر گُرو نے تو کر کے دکھایا تمہیں وہ رستہ چلو جو بتایا تمہیں کہاں ہیں جو نانک کے ہیں خاک پا جو کرتے ہیں اُس کے لئے جاں فدا کہاں ہیں جو اس کے لئے مرتے ہیں جو ہے واک اُس کا وہی کرتے ہیں ماں ہیں جو ہوتے ہیں اُس پر نثار جھکاتے ہیں سر اپنے کو کر کے کہاں ہیں جو ر کھتے ہیں صدق وثبات گرو سے ملے جیسے شیر و نبات کہاں ہیں کہ جب اُس سے کچھ پاتے ہیں تعشق سے قرباں ہوئے جاتے ہیں
۳۵ کہاں ہیں جو الفت سے سرشار ہیں جو مرنے کو بھی دل سے تیار ہیں کہاں ہیں جو وہ بخل سے دور ہیں محبت سے نانک کی معمور ہیں کہاں ہیں جو اس رہ میں پر جوش ہیں گرو کے تعشق میں مدہوش ہیں کہاں ہیں وہ نانک کے عاشق کہاں کہ آیا ہے نزدیک اب امتحاں کہاں ہیں جو بھرتے ہیں اُلفت کا دم اطاعت سے اطاعت سے سر کو بنا کر قدم گرو جس کے اس رہ پہ ہوویں فدا وہ چیلا نہیں جو نہ دے سر جھکا اگر ہاتھ سے وقت جاوے نکل تو پھر ہاتھ مل مل کے رونا ہے کل نہ مردی ہے تیر اور تلوار بنو مرد مردوں کے کردار سنو! آتی ہے ہر طرف سے صدا کہ باطل ہے ہر چیز حق کے سوا کوئی دن کے مہماں ہیں ہم سب سبھی خبر کیا کہ پیغام آوے ابھی گرو نے یہ چولہ بنایا شعار دکھایا کہ اس رہ پہ ہوں میں شار وہ کیونکر ہو ان ناسعیدوں سے شاد جو رکھتے نہیں اُس سے کچھ اعتقاد اگر مان لو گے گرو کا یہ واک تو راضی کرو گے اُسے ہو کے پاک وہ احمق ہیں جو حق کی رہ کھوتے ہیں عبث ننگ و ناموس کو روتے ہیں
۳۶ ادر آئین یکمین تصویر ہے کہاں ہیں جو ہر تے د الفت کا دم اطاعت مرد کو بنا کر قدم یہی پاک چولہ جہانگیر ہے نا ایک اسلامی اور گریہ کا ترکی است گرین قران پاک کیا ہے، سکھودی یا عمارت کے الاسلام ولكن الحاروف في ان المساوم الله محمد سُول الله و اور زور صداقت خوب در کالا یا اشد ہو گیا نان ماروین احمد سه بسته باسکانیده ال حاسعد الله الصمد لم يلد ولم يوا الأحبة ها الذي يشفع عنده الا ياتي تعلم ابن ايديهم وما خلفهم ا با شامو سم كه بسيه السمو والارض فيها بودر حفظه اوفس العلي العظة اذاجاء نصر الله والفتح وست الناس ليخلون في دین اور افولا نے محمل بات واستغفره انه كان توابا ر ایران این مین در روم داخل ہوتے ہیں ہیں، اپنے اپ کوریا کی کئے باند یاد کرا دینا کی سنانی یاد کرده تو بولی ند گلی مادر رفت آگئی ار تو نے لوگون کرد که بند کیے؟ جب نظر اتی ہے اس واہ کے ہر ر ا ل ہے سامنے آنمیوں کے آباد ہودہ سرخ گہر دیکھو اپنے دیں کو کس کی صدق سے کھیلا گیا ؟ وہ بہادر تھا نہ رکھتا تھا کسی دشمن سے ڈر
۳۷ وہ سوچیں کہ کیا لکھ گیا پیشو وصیت میں کیا کہہ گیا پر ملا کہ اسلام ہم اپنا دیں رکھتے ہیں محمد کی رہ پر یقین رکھتے ہیں اُٹھو سونے والو! کہ وقت آ گیا تمہارا گرو تم کو سمجھا گیا! نہ سمجھے تو آخر کو پچھتاؤ گے مرد کے سرائیوں کا پھل پاؤ گے ست بچن صفحہ ۴۱.مطبوعہ ۱۸۹۵ء تری کے در کے آگے
۳۸ تاثیر صداقت واہ رے زور صداقت خوب دکھلایا اثر ہو گیا نانک شار دین احمد سربسر جب نظر پڑتی ہے اس چولہ کے ہر ہر لفظ پر سامنے آنکھوں کے آ جاتا ہے وہ فرخ گہر دیکھو اپنے دین کو کس صدق سے دکھلا گیا وہ بہادر تھا نہ رکھتا تھا کسی دشمن سے ڈر 000 ست بچن صفحه ۵۲ - مطبوعه ۱۸۹۵ء
۳۹ محمود کی آمین حمدوثنا اُسی کو جو ذات جاودانی ہمسر نہیں ہے اُس کا کوئی نہ کوئی ثانی باقی وہی ہمیشہ غیر اس کے سب ہیں فانی غیروں سے دل لگانا جھوٹی ہے سب کہانی سب غیر ہیں وہی ہے اک دل کا یار جانی دل میں میرے یہی ہے سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي ہے پاک پاک قدر عظمت ہے اس کی عظمت لرزاں ہیں اہل قربت کت و بیوں پہ ہیبت ہے عام اس کی رحمت کیونکر ہو شکر نعمت ہم سب ہیں اس کی صنعت اس سے کرو محبت غیروں سے کرنا اُلفت کب چاہے اس کی غیرت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي جو کچھ میں راحت سب اس کی نجود و منت اُس سے ہے دل کو بیعت دل میں ہے اس کی عظمت بہتر ہے اُس کی طاعت، طاعت میں ہے سعادت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي سب کا وہی سہارا رحمت ہے آشکارا ہم کو وہی پیارا دلبر وہی ہمارا اُس بن نہیں گزارا غیر اُس کے جھوٹ سارا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي
یارب ہے تیرا احساں میں تیرے در پہ قرباں تو نے دیا ہے ایماں تو ہر زماں نگہاں تیرا کرم ہے ہر آں تو ہے رحیم و رحماں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي کیونکر ہوشکر تیرا تیرا ہے جو ہے میرا تو نے ہر اک کرم سے گھر بھر دیا ہے میرا جب تیرا نور آیا جاتا رہا اندھیرا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي تو نے یہ دن دکھا یا محمود پڑھ کے آیا دل دیکھ کر یہ احساں تیری ثنائیں گایا صد شکر ہے خدایا صد شکر ہے خدایا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِـي ہو شکر تیرا کیونکر اے میرے بندہ پرور تو نے مجھے دئے ہیں یہ تین تیرے چاکر تیرا ہوں میں سراسر تو میرا ربّ اکبر یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي ہے آج ختم قرآں نکلے ہیں دل کے ارماں تو نے دکھایا یہ دن میں تیرے مُنہ کے قرباں اے میرے رپ محسن کیونکر ہوشکرِ احساں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي تیرا یہ سب کرم ہے تو رحمت اتم ہے کیونکر ہو حمد تیری کب طاقت قلم ہے تیرا ہوں میں ہمیشہ جب تک کہ دم میں دم ہے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي
۴۱ اے قادر و توانا! آفات سے بچانا ہم تیرے در پہ آئے ہم نے ہے تجھ کو مانا غیروں سے دا غنی ہے جب سے ہے تجھ کو جانا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي احقر کو میرے پیارے اک دم نہ دُور کرنا بہتر ہے زندگی سے تیرے حضور مرنا واللہ خوشی سے بہتر غم سے تیرے گذرنا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي سب کام تو بنائے لڑکے بھی تجھ سے پائے سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے تو نے ہی میرے جانی خوشیوں کے دن دکھائے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِـي یہ تین جو پسر ہیں تجھ سے ہی یہ ثمر ہیں یہ میرے بارو بر ہیں تیرے غلام در ہیں تو سچے وعدوں والا منکر کہاں کدھر ہیں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي کر انکونیک قسمت دے انکو دین و دولت کر ان کی خود حفاظت ہو ان پر تیری رحمت دے رُشد اور ہدایت اور عمر اور عزت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اے میرے بندہ پرور کر ان کو نیک اختر رُتبہ میں ہوں یہ برتر اور بخش تاج وافسر ہے ہمارا رہبر، تیرا نہیں ہے ہمسر تو یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي
۴۲ شیطاں سے دُور رکھیو اپنے حضور رکھیو جاں پُر زِ نُور رکھیو دل پرسرور رکھیو ان پر میں تیرے قرباں! رحمت ضرور رکھیو یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي میری دعائیں ساری کریو قبول باری میں جاؤں تیرے واری کر تو مدد ہماری ہم تیرے در پہ آئے لیکر اُمید بھاری یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي لخت جگر ہے میرا محمود بندہ تیرا دے اس کو عمر و دولت کر دُور ہر اندھیرا دن ہوں مُرادوں والے پرنور ہو سویرا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اس کے ہیں دو برادر ، ان کو بھی رکھیو خوش تر تیرا بشیر احمد تیرا شریف اصغر کر فضل سب یہ یکسر رحمت سے کر معطر یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي یہ تینوں تیرے بندے رکھیو نہ ان کو گندے کر ان سے دُور یا رب دنیا کے سارے پھندے چنگے رہیں ہمیشہ کریو نہ ان کو مندے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي ے میرے دل کے پیارے اے مہرباں ہمارے کر ان کے نام روشن جیسے کہ ہیں ستارے یہ فضل کر کہ ہوویں نیکو گہر یہ سارے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي
۴۳ اے میری جاں کے جانی اے شاہ دو جہانی کہ ایسی مہربانی ان کا نہ ہووے ثانی دے بخت جاودانی اور فیض آسمانی یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي سُن میرے پیارے باری میری دعائیں ساری رحمت سے ان کو رکھنا میں تیرےمنہ کے واری اپنی پنہ میں رکھیوسُن کر یہ میری زاری یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اے واحد و یگانہ اے خالقِ زمانہ میری دعائیں سن لے اور عرض چاکرانہ تیرے سپرد تینوں دیں کے قمر بنانا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي فکروں میں دل حزیں ہے جاں درد سے قریں ہے جو صبر کی تھی طاقت اب مجھ میں وہ نہیں ہے ہر غم سے دُور رکھنا تو رب عالمیں ہے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اقبال کو بڑھانا اب فضل لے کے آنا ہر رنج سے بچانا دُکھ درد سے چھڑانا خود میرے کام کرنا یا رب نہ آزمانا! یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي یہ تینوں تیرے چاکر ہوویں جہاں کے رہبر یہ ہادی جہاں ہوں یہ ہو دیں نور یکسر یہ مرجع شہاں ہوں یہ ہوویں مہر انور یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي
۴۴ ہوویں اہلِ وقار ہوویں فخر دیار ہو دیں حق پر نثار ہوویں مولی کے یار ہوویں با برگ و بار ہوویں اک سے ہزار ہوویں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي تو ہے جو پالتا ہے، ہر دم سنبھالتا ہے غم سے نکالتا ہے، دردوں کو ٹالتا ہے کرتا ہے پاک دل کو حق دل میں ڈالتا ہے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي تو نے سکھایا فرقاں جو ہے مدار ایماں جس سے ملے ہے عرفاں اور دُور ہووے شیطاں یہ سب ہے تیرا احساں تجھ پر نثار ہو جاں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي تیرا نبی جو آیا اُس نے خدا دکھایا دین تقویم لایا بدعات کو مٹایا حق کی طرف بلایا مل کر خدا ملایا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي قرباں ہیں تجھ پہ سارے جو ہیں مرے پیارے احساں میں تیرے ہمارے گن گن کے ہم تو ہارے دل خوں ہیں غم کے مارے کشتی لگا کنارے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اس دل میں تیرا گھر ہے تیری طرف نظر ہے تجھ سے میں ہوں منور میرا تو تو قمر ہے تجھ پر مرا توکل ڈر پر تیرے یہ سر ہے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي
۴۵ جب تجھ سے دل لگا یا سو سو ہے غم اُٹھایا تن خاک میں ملایا جاں پر وبال آیا پر شکر اے خدایا! جاں کھو کے تجھ کو پایا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي دیکھا ہے تیرا منہ جب چمکا ہے ہم پر کوکب مقصودل گیا سب ہے جام اب لبالب تیرے کرم سے یا رب میرا بڑ آیا مطلب یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي احباب سارے آئے تونے یہ دن دکھائے تیرے کرم نے پیارے یہ مہرباں بلائے یہ دن چڑھا مبارک مقصود جس میں پائے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِـي مہماں جو کر کے اُلفت آئے بصد محبت دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي دُنیا بھی اک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جُدا ہے شکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھر ہی بے بقا ہے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِـي اے دوستو پیارو! عقبی کو مت پسا رو کچھ زادِ راہ لے لو، کچھ کام میں گزارو دُنیا ہے جائے فانی دل سے اسے اُتارو یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي
۴۶ جی مت لگاؤ اس سے دل کو چھڑاؤ اس سے رغبت ہٹاؤ اس سے بس دُور جاؤ اس سے یارو! یہ اثر دہا ہے جاں کو بچاؤ اس سے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي قرآں کتاب رحماں سکھلائے راہِ عرفاں جو اس کے پڑھنے والے اُن پر خدا کے فیضاں ان پر خدا کی رحمت جو اس پہ لائے ایماں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي ہے چشمہ ہدایت جس کو ہو یہ عنایت یہ ہیں خدا کی باتیں ان سے ملے ولایت یہ نور دل کو بخشے دل میں کرے سرایت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي قرآں کو یاد رکھنا پاک اعتقاد رکھنا فکر معاد رکھنا پاس اپنے زاد رکھنا اکسیر ہے پیارے صدق و سداد رکھنا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي آمین مطبوعہ ۷ جون ۱۸۹۷ء کرکے کرکے آپ کے
۴۷ خدا تعالیٰ کا شکر اور دعا بزبانِ حضرت اماں جان ہے عجب میرے خدا میرے پہ احساں تیرا کس طرح شکر کروں اے مرے سُلطاں تیرا ایک ذرہ بھی نہیں تو نے کیا مجھ سے فرق میرے اس جسم کا ہر ذرہ ہو قرباں تیرا سر سے پا تک ہیں الہی ترے احساں مجھ پر مجھ پہ برسا ہے سدا فضل کا باراں تیرا تو نے اس عاجزہ کو چار دئے ہیں لڑکے تیری بخشش ہے یہ اور فضل نمایاں تیرا پہلا فرزند ہے محمود، مبارک چوتھا دونوں کے بیچ بشیر اور شریفاں تیرا
۴۸ تو نے ان چاروں کی پہلے سے بشارت دی تھی تو وہ حاکم ہے کہ ٹلتا نہیں فرماں تیرا تیرے احسانوں کا کیونکر ہو بیاں اے پیارے مجھ پہ بے حد ہے کرم اے مرے جاناں تیرا تخت پر شاہی کے ہے مجھ کو بٹھایا تو نے دین و دنیا میں ہوا مجھ پہ ہے احساں تیرا کس زباں سے میں کروں شکر کہاں ہے وہ زباں کہ میں ناچیز ہوں اور رحم فراواں تیرا مجھ پہ وہ لطف کئے تو نے جو برتر زخیال ذات برتر ہے تری پاک ہے ایواں تیرا چن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لیے سب سے پہلے یہ کرم ہے مرے جاناں تیرا کس کے دل میں یہ ارادے تھے یہ تھی کس کو خبر کون کہتا تھا کہ یہ بخت ہے رخشاں تیرا پر مرے پیارے! یہی کام تیرے ہوتے ہیں ہے یہی فضل تری شان کے شایاں تیرا
۴۹ فضل سے اپنے بچا مجھ کو ہر اک آفت سے صدق سے ہم نے لیا ہاتھ میں داماں تیرا کوئی ضائع نہیں ہوتا جو ترا طالب ہے کوئی رسوا نہیں ہوتا جو ہے جو یاں تیرا آسماں پر سے فرشتے بھی مدد کرتے ہیں کوئی ہو جائے اگر بندہ فرماں تیرا جس نے دل تجھ کو دیا ہو گیا سب کچھ اُس کا سب ثنا کرتے ہیں جب ہووے ثناخواں تیرا اس جہاں میں ہے وہ جنت میں ہی بے ریب و گماں وہ جو اک پختہ تو کل سے ہے مہماں تیرا میری اولاد کو تو ایسی ہی کر دے پیارے دیکھ لیں آنکھ سے وہ چہرہ تاباں تیرا عمر دے، رزق دے اور عافیت و صحت بھی سب سے بڑھ کر یہ کہ پا جائیں وہ عرفاں تیرا اب مجھے زندگی میں ان کی مصیبت نہ دیکھا بخش دے میرے گنہ اور جو عصیاں تیرا
اس جہاں کے نہ بنیں کیڑے، یہ کر فضل ان پر ہر کوئی ان میں سے کہلائے مسلماں تیرا غیر ممکن ہے کہ تدبیر سے پاؤں یہ مراد بات جب بنتی ہے جب سارا ہو ساماں تیرا بادشاہی ہے تری ارض و سما دونوں میں حکم چلتا ہے ہر اک ذرہ پہ ہر آں تیرا میرے پیارے مجھے ہر درد و مصیبت سے تو ہے غفار یہی کہتا ہے قرآں تیرا صبر جو پہلے تھا اب مجھ میں نہیں ہے پیارے دُکھ سے اب مجھ کو بچا نام ہے رحماں تیرا ہر مصیبت سے بچا اے میرے آقا ہر دم حکم تیرا ہے زمیں تیری ہے دوراں تیرا اخبارالحکم.۷ارنومبر ۱۹۰۰ء 000
۵۱ أم الكتاب اے دوستو جو پڑھتے ہو ائم الکتاب کو اب دیکھو میری آنکھوں سے اس آفتاب کو سوچو دعاء فاتحہ کو پڑھ کے بار بار کرتی ہے یہ تمام حقیقت کو آشکار دیکھو خدا نے تم کو بتائی دُعا یہی اُس کے حبیب نے بھی پڑھائی دُعا یہی پڑھتے ہو پنج وقت اسی کو نماز میں جاتے ہو اس کی رہ سے در بے نیاز میں اُس کی قسم کہ جس نے یہ سورۃ اُتاری ہے اس پاک دل پہ جس کی وہ صورت پیاری ہے یہ یہ میرے رب سے میرے لیے اک گواہ ہے یہ میرے صدق دعویٰ پہ مُہر الہ ہے میرے مسیح ہونے پہ یہ اک دلیل ہے میرے لئے یہ شاہد رپ جلیل پھر میرے بعد اوروں کی ہے انتظار کیا ہے توبہ کرو کہ جینے کا ہے اعتبار کیا 000 اعجاز امسیح ٹائٹل پیج صفحه ۲.مطبوعہ ۲۰ فروری ۱۹۰۱ء
۵۲ معرفت حق آواز آرہی ہے یہ فونوگراف سے ڈھونڈ وخدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے جب تک عمل نہیں ہے دل پاک وصاف سے کمتر نہیں یہ مشغلہ بُت کے طواف سے باہر نہیں اگر دل مردہ غلاف سے حاصل ہی کیا ہے جنگ و جدال و خلاف سے وہ دیں ہی کیا ہے جس میں خدا سے نشاں نہ ہو تائید حق نہ ہو مدد آسماں نہ ہو مذہب بھی ایک کھیل ہے جب تک یقیں نہیں جو نور سے تہی ہے خدا سے وہ دیں نہیں دین خدا وہی ہے جو دریائے نور ہے جو اس سے دُور ہے وہ خدا سے بھی دُور ہے دین خدا وہی ہے جو ہے وہ خدا نما کس کام کا وہ دیں جو نہ ہووے گرہ کشا جن کا یہ دیں نہیں ہے نہیں اُن میں کچھ بھی دم دُنیا سے آگے ایک بھی چلتا نہیں قدم وہ لوگ جو کہ معرفت حق میں خام ہیں بت ترک کر کے پھر بھی بُتوں کے غلام ہیں 000 اخبار الحکم ۲۴ نومبر ۱۹۰۱ء
۵۳ بشیر احمد شریف احمد اور مبارکہ کی آمین خدایا اے میرے پیارے خدایا یہ کیسے ہیں تیرے مجھ پر عطایا کہ تو نے پھر مجھے یہ دن دکھایا کہ بیٹا دوسرا بھی پڑھ کے آیا بشیر احمد جسے تو نے پڑھایا شفا دی آنکھ کو بینا بنایا شریف احمد کو بھی یہ پھل کھلایا کہ اُس کو تو نے خود فرقاں سکھایا چھوٹی عمر پر جب آزمایا کلام حق کو ہے فرفر سنایا برس میں ساتویں جب پیر آیا تو سر پر تاج قرآں کا سجایا ترے احساں ہیں اے رب البرایا مبارک کو بھی پھر تو نے جلایا اپنے پاس اک لڑکا بُلایا تو دے کر چار جلدی سے ہنسایا جب غموں کا ایک دن اور چار شادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي اور ان کے ساتھ دی ہے ایک دختر ہے کچھ کم پانچ کی وہ نیک اختر کلام اللہ کو پڑھتی ہے فرفر خدا کا فضل اور رحمت سراسر ہوا اک خواب میں یہ مجھ پہ اظہر کہ اس کو بھی ملے گا بخت برتر
۵۴ لقب عزت کا پاوے وہ مقرر یہی روز ازل سے ہے مقدر خدا نے چار لڑکے اور یہ دختر عطا کی، پس عطا کی، پس یہ احسان ہے سراسر یہ کیا احساں ترا ہے بندہ پرور کروں کس منہ سے شکر اے میرے داور اگر ہر بال ہو جائے سخن ور تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر کریما! دُور کر، تو ان سے ہر شر رحیما! نیک کر اور پھر معتمر پڑھایا جس نے اُس پر بھی کرم کر جزا دے دین اور دنیا میں بہتر تعلیم اک تو نے بتا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْاعَادِي دیئے ہیں تو نے مجھ کو چار فرزند اگر چہ مجھ کو بس تجھ سے ہے پیوند بنا ان کو نکو کار و خردمند کرم سے ان پہ کر راہ بدی بند ہدایت کر انہیں میرے خداوند کہ بے توفیق کام آوے نہ کچھ پند تو خود کر پرورش اے میرے اخوند وہ تیرے ہیں ہماری عمر تا چند یہ سب تیرا کرم ہے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي مرے مولی مری یہ اک دُعا ہے تری درگاہ میں عجز و بکا ہے وہ دے مجھ کو جو اس دل میں بھرا ہے زباں چلتی نہیں شرم و حیا ہے مری اولاد جو تیری عطا ہے ہر اک کو دیکھ لوں وہ پارسا ہے لے قاعدہ میسر نا القرآن بچوں کے لئے بیشک بہت مفید ہے اس سے بہتر اور کوئی طریقہ تعلیم خیال میں نہیں آتا منہ.
تری قدرت کے آگے روک کیا ہے وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے عجب محسن ہے تو بــحــرُ الْآيَادِى فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي نجات ان کو عطا کر گندگی برات ان کو عطا کر بندگی رہیں خوشحال اور فرخندگی بچانا اے خدا ! بد زندگی ނ وہ ہوں میری طرح دیں کے مُنادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي ނ ނ عیاں کر ان کی پیشانی پہ اقبال نہ آوے ان کے گھر تک رُعب دقبال بچانا ان کو ہر غم ނ بہر حال نہ ہوں وہ دُکھ میں اور رنجوں میں پامال یہی امید ہے دل نے بتا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي دعا کرتا ہوں اے میرے یگانہ نہ آوے ان رنجوں کا زمانہ نہ چھوڑیں وہ ترا آستانه مرے مولی! انہیں ہر دم بچانا یہی امید ہے اے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي نہ دیکھیں وہ زمانہ بے کسی کا مصیبت کا، آلم کا، بے بسی کا
۵۶ یہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا جب آوے وقت میری واپسی کا بشارت تو نے پہلے سے سُنا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي ہمیں اُس یار سے تقویٰ عطا ہے نہ یہ ہم سے کہ احسانِ خدا ہے کرو کوشش اگر صدق و صفا ہے کہ یہ حاصل ہو جو شرط لقا ہے یہی آئینہ خالق نما ہے یہی اک جوہر سیف دُعا ہے ہر اک نیکی کی جڑ اتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے.یہی اک فخرِ شانِ اولیاء ہے بجز تقویٰ زیادت ان میں کیا ہے ڈرو یارو کہ وہ بینا خدا اگر ہے سوچو، یہی دار الجزاء ہے مجھے تقویٰ سے اُس نے یہ جزا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ مبارک وہ ہے جس کا کام تقویٰ سنو! ہے حاصل اسلام تقوی خدا کا عشق کے اور جام تقویٰ مسلمانو! بناؤ تقوی کہاں ایماں اگر ہے خام تقویٰ دولت تو نے مجھ کو اے خدا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي الہامی مصرعہ
۵۷ خدایا تیرے فضلوں کو کروں یاد فضلوں کو کروں یاد بشارت تو نے دی اور پھر یہ اولاد کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد خبر مجھ کو یہ تو نے بارہا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي مری اولاد سب تیری عطا ہے ہر اک تیری بشارت سے ہوا ہے یہ پانچوں جو کہ نسلِ سیّدہ ہے یہی ہیں پنج تن جن پر بنا ہے یہ تیرا فضل ہے اے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي دیئے تو نے مجھے یہ مہر و مہتاب یہ سب ہیں میرے پیارے تیرے اسباب دکھایا تو نے وہ اے ربّ ارباب کہ کم ایسا دکھا سکتا کوئی خواب یہ تیرا فضل ہے اے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي میں کیونکر رگن سکوں تیرے یہ انعام کہاں ممکن ترے فضلوں کا ارقام ہر اک نعمت سے تو نے بھر دیا جام ہر اک دشمن کیا مردود و ناکام یہ تیرا فضل ہے اے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْاعَادِي
۵۸ بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہو گا ایک دن محبوب میرا کروں گا دُور اُس مہ سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي مری ہر بات کو تو نے چلا دی مری ہر روک بھی تو نے اُٹھا دی مری ہر پیش گوئی خود بنا دی تراى نَسُلًا بَعِيدًا بھی دکھادی جو دی ہے مجھ کو وہ کس کو عطا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي بہار آئی ہے اس وقتِ خزاں میں لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں ملاحت ہے عجب اس دلستاں میں ہوئے بدنام ہم اس سے جہاں میں عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں ہوا پر وہ ظاہر میرا ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي کروں کیونکر ادا میں شکر باری فدا ہو اُس کی رہ میں عمر ساری مرے سر پر ہے منت اس کی بھاری چلی اس ہاتھ ނ کشتی ہماری مری بگڑی ہوئی اُس نے بنا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي تجھے حمدوثنا زیبا ہے پیارے کہ تو نے کام سب میرے سنوارے
۵۹ ترے احساں مرے سر پر ہیں بھارے چمکتے ہیں وہ سب جیسے ستارے گڑھے میں تو نے سب دشمن اُتارے ہمارے کر دیئے اونچے منارے مقابل میں مرے یہ لوگ ہارے کہاں مرتے تھے پر تو نے ہی مارے شریروں پر پڑے اُن کے شرارے نہ اُن سے رُک سکے مقصد ہمارے انہیں ماتم ہمارے گھر میں شادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي تیری رحمت ہے، میرے گھر کا شہتیر مری جاں تیرے فضلوں کی پند گیر حریفوں کو لگے ہر سمت سے تیر گرفتار آ گئے جیسے کہ نخچیر ہوا آخر وہی جو تیری تقدیر بھلا چلتی ہے تیرے آگے تدبیر خدا نے اُن کی عظمت سب اُڑا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي ہر اک شیخی مٹا دی مری اُس نے ہر اک عزت بنا دی مخالف کی مجھے ہر قسم سے اُس نے عطا دی سعادت دی، ارادت دی، وفا دی ہر اک آزار سے مجھ کو شفا دی مرض گھٹتا گیا جوں جوں دوا دی محبت غیر کی دل سے ہٹا دی خدا جانے کہ کیا دل کو سُنا دی دوا دی اور غذا دی اور قبا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي
مجھے کب خواب میں بھی تھی یہ اُمید کہ ہو گا میرے پر یہ فضل جاوید ملی یوسف کی عزت لیک بے قید نہ ہو تیرے کرم سے کوئی نومید مراد آئی ، گئی سب سب نامرادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي گا تری رحمت عجب ہے اے مرے یار تیرے فضلوں سے میرا گھر ہے گلزار غریقوں کو کرے اک دم میں تو پار جو ہو نومید تجھ سے، ہے وہ مُردار ہو آوارة وہ ہر دشت و وادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي ہوئے ہم تیرے آے قادر توانا ترے در کے ہوئے اور تجھ کو جانا ہمیں بس ہے تری درگہ پہ آنا مصیبت سے ہمیں ہر دم بچانا کہ تیرا نام ہے غفار و ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي دنیا میں ہے کس نے پکارا کہ پھر خالی گیا قسمت کا مارا تو پھر ہے کس قدر اس کو سہارا کہ جس کا تو ہی ہے سب سے پیارا ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي میں کیونکر رگن سکوں تیری عنایات ترے فضلوں سے پُر ہیں میرے دن رات
۶۱ مری خاطر دکھائیں تو نے آیات ترخم سے مری سُن لی ہر اک بات کرم سے تیرے دشمن ہو گئے مات عطا کیں تو نے سب میری مُرادات جو میرے غول بدذات پڑی آخر خود اس موذی یہ آفات ہوا انجام کا نامرادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي بنائی تو نے پیارے میری ہر بات دکھائے تو نے احساں اپنے دن رات ہراک میداں میں دیں تو نے فتوحات بد اندیشوں کو تو نے کر دیا مات ہر اک پگڑی ہوئی تو نے بنا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي تری نصرت سے اب دشمن سے تبہ ہے ہر اک جا میں ہماری تو پٹہ ہے ہر اک بد خواہ اب کیوں روسیہ ہے کہ وہ مثل خسوف مہرومہ ہے سیاہی چاند کی منہ نے دکھا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي ترے فضلوں سے جاں بستاں سرا ہے ترے نوروں سے دل شمس الضحی ہے اگر اندھوں کو انکار و ابا ہے وہ کیا جانیں کہ اس سینہ میں کیا ہے لے دشمن کے لفظ سے اس جگہ وہ حاسد مراد ہیں جو ہر ایک طور سے مجھے تکلیف پہنچانا چاہتے ہیں.لوگوں کو میری نسبت بدظن کرتے ہیں اور گورنمنٹ عالیہ انگریزی میں بھی جھوٹی شکائیتیں کرتے رہتے ہیں اور گورنمنٹ محسنہ کی نسبت جو میرے مخلصانہ خیالات ہیں ان کو چھپاتے ہیں.منہ
۶۲ کہیں جو کچھ کہیں سر پر خدا ہے پھر آخر ایک دن روز جزا ہے بدی کا پھل بدی اور نامرادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي پایا دلبر سمایا سب زور و قدرت ہے خُدایا تجھے پایا ہر اک مطلب کو ہر اک عاشق نے ہے اک بُت بنایا ہمارے دل میں وہی آرام جاں اور دل کو بھایا وہی جس کو کہیں رب البرايا ہوا ظاہر وہ مُجھ پر بــــــالایـــــادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي مجھے اُس یار سے پیوند جاں ہے وہی جنت، وہی دارالاماں ہے بیاں اس کا کروں طاقت کہاں ہے محبت کا تو اک دریا رواں ہے یہ کیا احساں ہیں ترے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي تری نعمت کی کچھ قلت نہیں ہے تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے شمار فضل اور رحمت نہیں ہے مجھے آب شکر کی طاقت نہیں یہ کیا احسان ہیں ترے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي ہے ترے کوچے میں کن راہوں سے آؤں وہ خدمت کیا ہے جس سے تجھ کو پاؤں محبت ہے کہ جس سے کھینچا جاؤں خدائی ہے خودی جس سے جلاؤں
۶۳ محبت چیز کیا کس کو بتاؤں وفا کیا راز ہے کس کو سناؤں میں اس آندھی کو اب کیونکر چھپاؤں یہی بہتر کہ خاک اپنی اُڑاؤں کہاں ہم اور کہاں دنیائے مادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي کوئی اُس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک آپ کو تب اُس کو پاوے جو مرتا ہے وہی زندوں میں جاوے جو جلتا ہے وہی مُردے جلاوے ہے ڈور کا کب غیر کھاوے چلو اوپر کو نیچے نہ آوے وہ نہاں اندر نہاں ہے کون لاوے غریق عشق موتی اُٹھاوے وہ وہ دیکھے نیستی رحمت دکھاوے خودی اور خود روی کب اُسکو بھاوے مجھے تو نے دولت اے خدا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي کہاں تک حرص و شوقِ مالِ فانی! اُٹھو ڈھونڈو متاع آسمانی کہاں تک جوش آمال و آمانی یہ سو سو چھید ہیں تم میں نہانی تو پھر کیونکر ملے وہ یار جانی کہاں غر بال میں رہتا ہے پانی کرو کچھ فکر ملک جاودانی ملک و مال چھوٹی مال جُھوٹی ہے کہانی بسر کرتے ہو غفلت میں جوانی مگر دل میں یہی تم نے ہے ٹھانی
۶۴ خدا کی ایک بھی تم نے نہ مانی ذرا سوچو یہی ہے زندگانی ! خدا نے اپنی رہ مجھ کو بتا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي کرو توبہ کہ تا ہو جائے رحمت دکھاؤ جلد تر صدق و انابت کھڑی ہے سر پہ ایسی ایک ساعت کہ یاد آ جائے گی جس سے قیامت مسلمانوں پہ مجھے یہ بات مولی نے بتا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي تب ادبار آیا کہ جب تعلیم قرآں کو بُھلایا بٹھایا رسُول حق کو مٹی میں سُلایا مسیحا کو فلک پر ہے یہ تو ہیں کر کے پھل ویسا ہی پایا اہانت نے انہیں کیا کیا دکھایا خدا نے پھر تمہیں اب ہے بلایا کہ سوچو ہمیں رہ خُدا نے خود دیکھا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي عزّت خیر البرایا کوئی مُردوں سے کیونکر راہ پاوے مرے تب بے گماں مردوں میں جاوے خدا عیسی کو کیوں مُردوں سے لاوے وہ خود کیوں مُہر ختمیت مٹاوے کہاں آیا کوئی تا وُہ بھی آوے کوئی اک نام ہی ہم کو بتاوے تمہیں کس نے یہ تعلیم خطا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي
وہ آیا منتظر تھے جس کے دن رات معمہ کھل گیا روشن ہوئی بات دکھائیں آسماں نے ساری آیات زمیں نے وقت کی دیدیں شہادات پھر اس کے بعد کون آئیگا ہیہات خدا سے کچھ ڈرو چھوڑو معادات خدا نے اک جہاں کو سنا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي مسیح وقت آب دنیا میں آیا خدا نے عہد کا دن ہے دکھایا مبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا وہی ئے اُن کو ساقی نے پلا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْأَعَادِي خدا کا ہم پہ بس لطف و کرم ہے وہ نعمت کون سی باقی جو کم ہے زمین قادیاں اب محترم ہے ہجوم خلق ނ ارض حرم ہے ظہور عون و نصرت دمبدم ہے حد سے دشمنوں کی پشت خم ہے سنو اب وقتِ توحید اتم ہے ستم اب مائلِ مُلک عدم ہے خدا نے روک ظلمت کی اُٹھا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي مجموعه آمین.مطبوعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۰۱ء 000
۶۶ شانِ احمد عربی زندگی بخش جام احمد ہے نام احمد ہے کیا ہی پیارا یہ انبیاء مگر بخدا ہوں سب سے بڑھ کر مقام احمد ہے باغ احمد سے ہم نے پھل کھایا میرا بستاں کلامِ احمد ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو سے بہتر غلام اس ہے احمد ہے دافع البلاء صفحه ۲۰ مطبوعہ ۱۹۰۲ تری کے کرکے آپ کے
۶۷ اشاعت دین بزور شمشیر حرام ہے اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال اب آ گیا مسیح جو دیں کا امام ہے دیں کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہے اب آسماں سے نُورِ خدا کا نزول ہے اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبی کی حدیث کو جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اُس خبیث کو کیوں بھولتے ہو تم يَضَعُ الحَرب کی خبر کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر فرما چکا ہے سید کونین مصطفے عیسی مسیح جنگوں کا کردے گا التوا جب آئے گا تو صلح کو وہ ساتھ لائے گا جنگوں کے سلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا پیویں گے ایک گھاٹ پر شیر اور گوسپند کھیلیں گے بچے سانپوں سے بے خوف و بے گزند یعنی وہ وقت امن کا ہو گا نہ جنگ کا بھولیں گے لوگ مشغلہ تیر و تفنگ کا یہ حکم سُن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا اک معجزہ کے طور سے یہ پیش گوئی ہے کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے لے یہاں جہاد سے مراد اسلام کو بزور شمشیر پھیلانا ہے جو کہ غیر اسلامی نظریہ ہے.( ناشر )
۶۸ القصہ یہ مسیح کے آنے کا ہے نشاں کر دے گا ختم آ کے وہ دیں کی لڑائیاں ظاہر ہیں خود نشاں کہ زماں وہ زماں نہیں اب قوم میں ہماری وہ تاب و تواں نہیں اب تم میں خود وہ قوت و طاقت نہیں رہی وہ سلطنت وہ رعب وہ شوکت نہیں رہی وہ نام وہ نمود وہ دولت نہیں رہی وہ عزمِ مقبلا نہ وہ ہمت نہیں رہی وہ علم وہ صلاح وہ عقمت نہیں رہی وہ نور اور وہ چاندسی وہ نور اور وہ چاند سی طلعت نہیں رہی وہ درد وہ گداز وہ رقت نہیں رہی خلق خدا یہ شفقت و رحمت نہیں رہی دل میں تمہارے یار کی اُلفت نہیں رہی حالت تمہاری جاذب نصرت نہیں رہی حمق آ گیا ہے سر میں وہ فطرت نہیں رہی گسنل آ گیا ہے دل میں جلادت نہیں رہی وہ علم و معرفت وہ فراست نہیں رہی وہ فکر وہ قیاس وہ حکمت نہیں رہی دنیا و دیں میں کچھ بھی لیاقت نہیں رہی اب تم کو غیر قوموں پر سبقت نہیں رہی وہ اُنس و شوق و وجد وہ طاعت نہیں رہی ظلمت کی کچھ بھی حد و نہایت نہیں رہی ہر وقت جھوٹ ، سچ کی تو عادت نہیں رہی نور خدا کی کچھ بھی علامت نہیں رہی سو سو ہے گند دل میں طہارت نہیں رہی نیکی کے کام کرنے کی رغبت نہیں رہی خوانِ تہی پڑا ہے وہ نعمت نہیں رہی دیں بھی ہے ایک قشر حقیقت نہیں رہی مولیٰ سے اپنے کچھ بھی محبت نہیں رہی دل مر گئے ہیں نیکی کی قدرت نہیں رہی سب پر یہ اک بلا ہے کہ وحدت نہیں رہی اک پھوٹ پڑ رہی ہے، موڈت نہیں رہی تم کر گئے تمہاری وہ عظمت نہیں رہی صورت بگڑ گئی ہے وہ صورت نہیں رہی
۶۹ اب تم میں کیوں وہ سیف کی طاقت نہیں رہی بھید اس میں ہے یہی کہ وہ حاجت نہیں رہی اب کوئی تم پہ جبر نہیں غیر قوم سے کرتی نہیں ہے منع صلوۃ اور صوم سے ہاں آپ تم نے چھوڑ دیا دیں کی راہ کو عادت میں اپنی کر لیا فسق و گناہ کو اب زندگی تمہاری تو سب فاسقانہ ہے مومن نہیں ہو تم کہ قدم کافرانہ ہے اے قوم! تم پہ یار کی اب وہ نظر نہیں روتے رہو دعاؤں میں بھی وہ اثر نہیں کیونکر ہو وہ نظر کہ تمہارے وہ دل نہیں شیطاں کے ہیں خدا کے پیارے وہ دل نہیں تقویٰ کے جامے جتنے تھے سب چاک ہو گئے جتنے خیال دل میں تھے ناپاک ہو گئے کچھ کچھ جو نیک مرد تھے وہ خاک ہو گئے باقی جو تھے وہ ظالم و سفاک ہو گئے اب تم تو خود ہی مورد خشم خدا ہوئے اُس یار سے بشامت عصیاں جُدا ہوئے اب غیروں سے لڑائی کے معنے ہی کیا ہوئے تم خود ہی غیر بن کے محلِ سزا ہوئے سچ سچ کہو کہ تم میں امانت ہے اب کہاں وہ صدق اور وہ دین و دیانت ہے اب کہاں پھر جبکہ تم میں خود ہی وہ ایماں نہیں رہا وہ نور مومنانہ وہ عرفاں نہیں رہا پھر اپنے کفر کی خبر آے قوم ! لیجیئے آیت عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ یاد کیجئے ایسا گماں کہ مہدی خونی بھی آئے گا اور کافروں کے قتل سے دیں کو بڑھائے گا اے غافلو! یہ باتیں سراسر دروغ ہیں بہتاں ہیں بے ثبوت ہیں اور بے فروغ ہیں یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا اب سال ستر کا بھی صدی سے گذر گئے تم میں سے ہائے سوچنے والے کدھر گئے
تھوڑے نہیں نشاں جو دکھائے گئے تمہیں کیا پاک راز تھے جو بتائے گئے تمہیں پر تم نے اُن سے کچھ بھی اُٹھایا نہ فائدہ منہ پھیر کر ہٹا دیا تم نے یہ مائدہ بخلوں سے یارو باز بھی آؤ گے یا نہیں جو اپنی پاک صاف بناؤ گے یا نہیں باطل سے میل دل کی ہٹاؤ گے یا نہیں حق کی طرف رجوع بھی لاؤ گے یا نہیں اب عذر کیا ہے کچھ بھی بتاؤ گے یا نہیں مخفی جو دل میں ہے وہ سُناؤ گے یا نہیں آخر خدا کے پاس بھی جاؤ گے یا نہیں اُس وقت اُس کو مُنہ بھی دکھاؤ گے یا نہیں تم میں سے جس کو دین و دیانت سے ہے پیار اب اس کا فرض ہے کہ وہ دل کر کے استوار لوگوں کو یہ بتائے کہ وقتِ مسیح ہے اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے ہم اپنا فرض دوستو اب کر چکے ادا اب بھی اگر نہ سمجھو تو سمجھائے گا خدا ضمیمہ تحفہ گولڑ و یه صفحه ۲۶.مطبوعه ۱۹۰۲ء 000
اے تعلّق باللہ کبھی نصرت نہیں ملتی در مولی سے گندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو ا و ہی اُس کے مقرب ہیں جو اپنا آپ کھوتے ہیں نہیں رہ اُس کی عالی بارکہ تک خود پسندوں کو یہی تدبیر ہے پیارو کہ مانگو اُس سے گُر بت کو اُسی کے ہاتھ کو ڈھونڈ وجلا ؤ سب کمند وں کو 000 ضمیمہ تریاق القلوب نمبر ۵ صفحہ اوّل.مطبوعہ ۱۹۰۲ء
۷۲ جوش صداقت کیوں نہیں لوگو تمہیں حق کا خیال دل میں آتا ہے میرے سو سو اُبال آنکھ تر ہے دل میں میرے درد ہے کیوں دلوں پر اس قدر یہ گرد ہے بخار دل ہوا جاتا ہے ہر دم بے قرار کس بیاباں میں نکالوں درد سے زیر و زبر کر گئے ہم پر نہیں تم کو خبر ہو گئے آسماں ہم پر غافلو اک جوش ہے کچھ تو دیکھو گر تمہیں کچھ ہوش ہے ہو گیا دیں کفر کے حملوں سے چور چُپ رہے کب تک خداوند غیور اس صدی کا بیسواں اب سال ہے شرک و بدعت سے جہاں پامال ہے بدگماں کیوں ہو خدا کچھ یاد ہے افترا کی کب تلک بنیاد ہے وہ خدا میرا جو ہے جو ہر شناس اک جہاں کو لا رہا ہے میرے پاس لعنتی لعنتی ہوتا ہے مرد مفتری یہ سروری کو کب ملے کرکے کرکے آپ کے اعجاز احمدی صفحه ۳۲.مطبوعہ ۱۹۰۲ء
۷۳ نسیم دعوت نام اس کا نسیم دعوت ہے آریوں کے لئے طالبوں کا رحمت ہے خلوت ہے یار خلوت گفر کے زہر کو دل بیمار کا درماں ہے یہ ہے تریاق ہر ورق اس کا جام صحت ہے خدا کے لئے نصیحت غور کر کے اسے پڑھو پیارو خاکساری سے ہم نے لکھا نہ تو سختی نہ کوئی شد قوم ہے ہے شدت ہے سے مت ڈرو، خدا سے ڈرو آخر اُس کی طرف ہی رحلت ہے سخت دل کیسے ہو گئے ہیں لوگ سر پہ طاعوں ہے پھر بھی غفلت ایک دنیا ہے مر چکی اب تک پھر بھی تو بہ نہیں حالت ہے ہے نسیم دعوت ٹائیٹل پیج.مطبوعہ ۱۹۰۳ء 000
۷۴ آریوں کو دعوت حق اے آریہ سماج پھنسومت عذاب میں کیوں مبتلا ہو یارو خیالِ خراب میں اے قوم آریہ تیرے دل کو یہ کیا ہوا تو جاگتی ہے یا تیری باتیں ہیں خواب میں کیا وہ خدا جو ہے تری جاں کا خدا نہیں ایماں کی بونہیں ترے ایسے جواب میں گر عاشقوں کی روح نہیں اُس کے ہاتھ سے پھر غیر کیلئے ہیں وہ کیوں اضطراب میں گر وہ الگ ہے ایسا کہ چھو بھی نہیں گیا پھر کس نے لکھ دیا ہے وہ دل کی کتاب میں جس سوز میں ہیں اُس کیلئے عاشقوں کے دل اتنا تو ہم نے سوز نہ دیکھا کباب میں جامِ وصال دیتا ہے اُس کو جو مر چکا کچھ بھی نہیں ہے فرق یہاں شیخ وشاب میں ملتا ہے وہ اُسی کو جو ہو خاک میں ملا ! ظاہر کی قبیل و قال بھلا کس حساب میں ہوتا ہے وہ اُسی کا جو اُس کا ہی ہو گیا ہے اسکی گود میں جو رگرا اس جناب میں پھولوں کو جا کے دیکھو اسی سے وہ آب ہے چھکے اُسی کا نور مہ و آفتاب میں اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ”خدا ہے نورزمین و آسمان کا ( آیت قرآن شریف )
۷۵ خوبوں کے حُسن میں بھی اُسی کا وہ نور ہے کیا چیز حسن ہے وہی چمکا حجاب میں اس کی طرف ہے ہاتھ ہر اک تارِ زُلف کا ہجراں سے اسکے رہتی ہے وہ تریچ و تاب میں ہر چشم مست دیکھو اسی کو دکھاتی ہے ہر دل اسی کے عشق سے ہے التہاب میں جن مورکھوں کو کاموں پر اسکے یقیں نہیں پانی کو ڈھونڈتے ہیں عبث وہ سراب میں قدرت سے اُس قدیر کی انکار کرتے ہیں ! سکتے ہیں جیسے غرق ہو کوئی شراب میں دل میں نہیں کہ دیکھیں وہ اُس پاک ذات کو ڈرتے ہیں قوم سے کہ نہ پکڑیں عتاب میں ہم کو تو اے عزیز دکھا اپنا وہ جمال کب تک وہ مُنہ رہیگا حجاب و نقاب میں 000 سناتن دھرم ٹائیٹل پیج - صفحه ۲ مطبوع ۱۹۰۳ء
24 پیشگوئی زلزلہ عظیمہ سونے والو! جلد جاگو یہ نہ وقت خواب ہے جو خبر دی وہی حق نے اُس سے دل بیتاب ہے زلزلہ سے دیکھتا ہوں میں زمیں زیر و زبر وقت اب نزدیک ہے آیا کھڑا سیلاب ہے ہے سر رہ پر کھڑا نیکوں کی وہ مولیٰ کریم نیک کو کچھ غم نہیں ہے گو بڑا گرداب ہے کوئی کشتی اب بچا سکتی نہیں اس سیل سے خیلے سب جاتے رہے اک حضرتِ تواب ہے 000 اشتهار النداء من وحي السماء مطبوعہ اخبار بدرمئی ۱۹۰۵ء
22 انذار اشتہار واجب الاظہار از طرف این خاکسار درباره پیشگوئی زلزلہ دوستو! جا گو کہ اب پھر زلزلہ آنے کو ہے پھر خدا قدرت کو اپنی جلد دکھلانے کو ہے وہ جو ماہ فروری میں تم نے دیکھا زلزلہ تم یقیں سمجھو کہ وہ اک زجر سمجھانے کو ہے آنکھ کے پانی سے یارو! کچھ کرو اس کا علاج آسماں اے غافلواب آگ برسانے کو ہے کیوں نہ آویں زلزلے، تقویٰ کی رہ گم ہوگئی اک مُسلماں بھی مسلماں صرف کہلانے کو ہے کس نے مانا مجھ کو ڈر کر کس نے چھوڑا ابغض و کیں زندگی اپنی تو اُن سے گالیاں کھانے کو ہے کا فرود جبال اور فاسق ہمیں سب کہتے ہیں کون ایماں صدق اور اخلاص سے لانے کو ہے جس کو دیکھو بدگمانی میں ہی حد سے بڑھ گیا گر کوئی پوچھے تو سو سو عیب بتلانے کو ہے چھوڑتے ہیں دیں کو اور دنیا سے کرتے ہیں پیار سو کریں وعظ ونصیحت کون پچھتانے کو ہے ہاتھ سے جاتا ہے دل دیں کی مصیبت دیکھ کر پر خدا کا ہاتھ اب اس دل کو ٹھہرانے کو ہے اس لیے اب غیرت اس کی کچھ تمہیں دکھلائے گی ہر طرف یہ آفتِ جاں ہاتھ پھیلانے کو موت کی رہ سے ملے گی اب تو دیں کو کچھ مدد ورنہ دیں اے دوستو! اک روز مر جانے کو ہے یا تو اک عالم تھا تر باں اُس پر یا آئے یہ دن ایک عبدالعبد بھی اس دیں کے جھٹلانے کو ہے چشم مسیحی ٹائیٹل پیج صفحہ ۲.مطبوعہ ۱۹۰۶ء
ZA قادیان کے آریہ.آریوں پر ہے صد ہزار افسوس دل میں آتا ہے بار بار افسوس ہو گئے حق کے سخت نافرماں کر دیا دیں کو قوم پر قرباں! وہ نشاں جس کی روشنی سے جہاں ہو کے بیدار ہو گیا لرزاں ان نشانوں سے ہیں یہ انکاری پر کہاں تک چلے گی طراری اُن کے باطن میں اک اندھیرا ہے کین و نخوت نے آ کے گھیرا ہے ނ ނ لڑ رہے ہیں خُدائے یکتا باز آتے نہیں ہیں غوغا قوم کے خوف سے وہ مرتے ہیں سو نشاں دیکھیں کو نشاں دیکھیں کب وہ ڈرتے ہیں موت لیکھو بڑی کرامت پر سمجھتے نہیں ہے میرے مالک تو ان کو خود سمجھا آسماں سے پھر اک نشان دکھلا شامت ہے 000 قادیان کے آریہ اور ہم ٹائیٹل پیج.صفحہ ۲.مطبوعہ ۱۹۰۷ء
۷۹ شان اسلام اسلام سے نہ بھاگو راہِ ہدیٰ یہی ہے آے سونے والو جاگوا شمس الضحی یہی ہے مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہمیں بنایا اب آسماں کے نیچے دینِ خدا یہی ہے وہ دلستاں نہاں ہے کس رہ سے اُس کو دیکھیں ان مشکلوں کا یارو! مشکل گشا یہی ہے باطن سیہ ہیں جن کے اس دیں سے ہیں وہ منکر پر آے اندھیرے والو! دل کا دیا یہی ہے دنیا کی سب دُکانیں ہیں ہم نے دیکھی بھالیں آخر ہوا یہ ثابت دار الشفاء یہی ہے سب خشک ہو گئے ہیں جتنے تھے باغ پہلے ہر طرف میں نے دیکھا بستاں ہرا یہی ہے
۸۰ دُنیا میں اس کا ثانی کوئی نہیں ہے شربت پی لو تم اس کو یارو! آب بقا یہی اسلام کی سچائی ثابت ہے جیسے سورج ہے پر دیکھتے نہیں ہیں دشمن بلا یہی ہے جب کھل گئی سچائی پھر اس کو مان لینا نیکوں کی ہے یہ خصلت راہِ حیا یہی ہے جو ہو مفید لینا جو بد ہو اُس سے بچنا عقل و خرد یہی ہے فہم و ذکا یہی ہے ملتی ہے بادشاہی اس دیں سے سے آسمانی کے طالبانِ دولت! ظل ہما یہی ہے سب دیں ہیں اک فسانہ شرکوں کا آشیانہ اُس کا ہے جو یگانہ چہرہ نما یہی ہے سو سو نشاں دکھا کر لاتا ہے وہ بلا کر مجھ کو جو اُس نے بھیجا بس مدعا یہی ہے کرتا ہے معجزوں سے وہ یار دیں کو تازہ اسلام کے چمن کی بادِ صبا یہی ہے
ΔΙ یہ سب نشاں ہیں جن سے دیں اب تلک ہے تازہ آے گرنے والو دوڑو دیں کا عصا یہی ہے کس کام کا وہ دین ہے جس میں نشاں نہیں ہے دیں کی میرے پیارو! زریں قبا یہی ہے افسوس آریوں پر جو ہو گئے ہیں شیتر وہ دیکھ کر میں منکر ظلم و جفا یہی ہے معلوم کر کے سب کچھ محروم ہو گئے ہیں کیا ان نیوگیوں کا ذہن رسا یہی ہے اک ہیں جو پاک بندے اک ہیں دلوں کے گندے جیتیں گے صادق آخر حق کا مزا یہی ہے ان آریوں کا پیشہ ہر دَم ہے بد زبانی ویدوں میں آریوں نے شاید پڑھا یہی ہے پاکوں کو پاک فطرت دیتے نہیں ہیں گالی پر ان سیہ دلوں کا شیوہ سدا یہی ہے افسوس سبّ و تو ہیں سب کا ہوا ہے پیشہ کس کو کہوں کہ ان میں ہرزہ درا یہی ہے
۸۲ آخر یہ آدمی تھے پھر کیوں ہوئے درندے کیا کون ان کی بگڑی یا خود قضا یہی ہے جس آریہ کو دیکھیں تہذیب سے ہے عاری رکس رکس کا نام لیویں ہر سُو وبا یہی ہے لیکھو کی بدزبانی کارڈ ہوئی تھی اس پر پھر بھی نہیں سمجھتے حمق و خطا یہی ہے اپنے کیے کا ثمرہ لیکھو نے کیسا پایا آخر خدا کے گھر میں بد کی سزا یہی ہے نبیوں کی ہتک کرنا اور گالیاں بھی دینا کتوں سا کھولنا منہ تخم فنا یہی ہے میٹھے بھی ہو کے آخر نشتر ہی ہیں چلاتے ان تیره باطنوں کے دل میں دعا یہی ہے جاں بھی اگر چہ دیویں ان کو بطور احساں عادت ہے ان کی گراں رنج دعنا نہیں ہے ہندو کچھ ایسے بگڑے دل پر ہیں بلخص و کہیں سے ہر بات میں ہے تو ہیں طرزِ ادا یہی ہے
۸۳ جاں بھی ہے ان پہ کمر ہاں گھر دل سے ہو وہیں صافی پس ایسے بدگنوں کا مجھ کو گلا یہی ہے احوال کیا کہوں میں اس غم سے اپنے دل کا گویا کہ ان غموں کا مہماں سرا یہی ہے لیتے ہی جنم اپنا دشمن ہوا یہ فرقہ آخر کی کیا اُمیدیں جب ابتدا یہی ہے دل پھٹ گیا ہمارا تحقیر سُنتے سنتے غم تو بہت ہیں دل میں پر جاں گڑا یہی ہے دنیا میں گرچہ ہو گی تو قسم کی بُرائی پاکوں کی جنگ کرنا سب سے بُرا یہی ہے غفلت یہ غافلوں کی روتے رہے ہیں مُرسل پر اس زماں میں لوگو! نوحہ نیا یہی ہے ہم بد نہیں ہیں کہتے اُن کے مقدسوں کو تعلیم میں ہماری حکم خُدا یہی ہے ہم کو نہیں سکھاتا پاک بد زبانی وہ ی کی جڑھ یہی ہے صدق وصفا یہی ہے
۸۴ پر آریوں کے دیں میں گالی بھی ہے عبادت کہتے ہیں سب کو جھوٹے کیا اتقا یہی ہے جتنے نبی تھے آئے موسی ہو یا کہ عیسی مگار ہیں وہ سارے ان کی ندا یہی ہے اک دید ہے جو سچا باقی کتابیں ساری جھوٹی ہیں اور جعلی اک راہنما یہی ہے یہ ہے خیال ان کا پربت بنایا تنکا پر کیا کہیں جب ان کا فہم و ذکا یہی ہے کیڑا جو دب رہا ہے گوبر کی تہ کے نیچے اُس کے گماں میں اُس کا ارض وسما یہی ہے ویدوں کا سب خلاصہ ہم نے نیوگ پایا اِن پستکوں کی رُو سے کارج بھلا یہی ہے لے اگر ایسے لوگ بھی ان میں ہیں جو خدا کے پاک نبیوں کو گالیاں نہیں دیتے اور صلاحیت اور شرافت رکھتے ہیں وہ ہمارے بیان سے باہر ہیں.منہ ے اس جگہ دید کے لفظ سے وہ تعلیم مُراد ہے جو آریہ سماج والوں نے اپنے زعم میں ویدوں کے حوالہ سے شائع کی ہے، ورنہ یا درکھنا چاہیے کہ ہم ویدوں کی اصل حقیقت کو خدا تعالیٰ کے حوالے کرتے ہیں.ہم نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے اسمیں کیا بڑھایا اور کیا گھٹایا.جب کہ ہندوستان اور پنجاب میں وید کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے صد بامذہب ہیں تو ہم کسی خاص فرقہ کی غلطی کو وید پر کیونکر تھوپ سکتے ہیں.پھر یہ بھی ثابت ہے کہ وید بھی محرف ہو چکا ہے.پس بوجہ تحریف اس سے کسی بہتری کی امید بھی لا حاصل ہے.منہ
۸۵ جس استری کو لڑکا پیدا نہ ہو پیا سے ویدوں کی رُو سے اُس پر واجب ہوا یہی ہے جب ہے یہی اشارہ پھر اس سے کیا ہے چارہ.جب تک نہ ہوویں گیارہ لڑکے روا یہی ہے ایشر کے گن عجب ہیں ویدوں میں اے عزیزو! اس میں نہیں مروت ہم نے سُنا یہی ہے دے کر نجات و کتی پھر چھینیتا ہے سب سے کیسا ہے وہ دیائو جس کی عطا یہی ہے ایشر بنا ہے منہ سے خالق نہیں کسی کا رُوحیں ہیں سب انادی پھر کیوں خدا یہی ہے روحیں اگر نہ ہوتیں ایشر سے کچھ نہ بنتا اس کی حکومتوں کی ساری پنا یہی ہے اُن کا ہی منہ ہے تکتا ہر کام میں جو چاہے گویا وہ بادشہ ہیں اُن کا گدا یہی ہے القصہ آریوں کے ویدوں کا یہ خدا ہے اُن کا ہے جس پہ تکیہ وہ بے نوا یہی ہے ا عورت خاوند
۸۶ اے آریو! کہو اب ایٹر کے ہیں یہی گمن جس پر ہو ناز کرتے بولو وہ کیا یہی ہے ویدوں کو شرم کر کے تم نے بہت چُھپایا آخر کو راز بستہ اُس کا کھلا یہی ہے قدرت نہیں ہے جس میں وہ خاک کا ہے ایشر کیا دین حق کے آگے زور آزما یہی ہے کچھ کم نہیں جُوں سے یہ ہندوؤں کا ایشر سچ پوچھئے تو واللہ بُت دوسرا یہی ہے ہم نے نہیں بنا ئیں یہ اپنے دل سے باتیں ویدوں سے اے عزیز و ہم کو ملا یہی فطرت ہر اک بشر کی کرتی ہے اس سے نفرت ہے پھر آریوں کے دل میں کیونکر بسا یہی ہے یہ حکم وید کے ہیں جن کا ہے یہ نمونہ ویدوں سے آریوں کو حاصل ہوا یہی ہے خوش خوش عمل ہیں کرتے اوباش سارے اس پر سارے نیوگیوں کا اک آسٹرا یہی ہے لے یادر ہے کہ وید کی تعلیم سے مراد ہماری اس جگہ وہ تعلیمیں اور وہ اُصول ہیں جن کو آریہ لوگ اس جگہ ظاہر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نیوگ کی تعلیم وید میں موجود ہے.اور بقول اُنکے وید بلند آواز سے کہتا ہے کہ جس کے گھر میں کوئی اولاد نہ ہو یا صرف لڑکیاں ہوں تو اس کیلئے یہ ضروری امر ہے کہ وہ اپنی
۸۷ پھر کس طرح وہ مانیں تعلیم پاک فرقاں اُن کے تو دِل کا رہبر اور مقتدا یہی ہے بقیه حاشیه صفحه نمبر ۸۶ بیوی کو اجازت دے کہ وہ دوسرے سے ہم بستر ہو اور اس طرح اپنی نجات کے لئے لڑکا حاصل کرے اور گیارہ لڑکے حاصل کرنے تک یہ تعلق قائم رہ سکتا ہے اور اس کا خاوند کہیں سفر میں گیا ہو تو خود اس کی بیوی نیوگ کی نیت سے کسی دوسرے آدمی سے آشنائی کا تعلق پیدا کر سکتی ہے تا اِس طریق سے اولا د حاصل کرے اور پھر خاوند کے سفر سے واپس آنے پر یہ تحفہ اس کے آگے پیش کرے اور اُس کو دکھاوے کہ تُو تو مال حاصل کرنے گیا تھا، مگر میں نے تیرے پیچھے یہ مال کمایا ہے.پس عقل اور غیرت انسانی تجویز نہیں کر سکتی کہ یہ بے شرمی کا طریق جائز ہو سکے.اور کیونکر جائز ہو؟ حالانکہ اس بیوی نے خاوند سے طلاق حاصل نہیں کی اور اس کی قید نکاح سے اُس کو آزادی حاصل نہیں ہوئی.افسوس بلکہ ہزار افسوس کہ یہ وہ باتیں ہیں جو آریہ لوگ وید کی طرف منسوب کرتے ہیں، مگر ہم نہیں کہہ سکتے کہ در حقیقت یہی تعلیم وید کی ہے.ممکن ہے ہندوؤں کے بعض جو گی جو مجر درہتے ہیں اور اندر ہی اندر نفسانی جذبات ان کو مغلوب کر لیتے ہیں اُنہوں نے یہ باتیں خود بنا کر وید کی طرف منسوب کردی ہوں یا تحریف کے طور پر ویدوں میں شامل کر دی ہوں، کیونکہ محقق پنڈتوں نے لکھا ہے کہ ایک زمانہ دیدوں پر وہ بھی آیا ہے کہ ان میں بڑی تحریف کی گئی ہے اور ان کے بہت سے پاک مسائل بدلا دیئے گئے ہیں، ورنہ عقل قبول نہیں کرتی کہ وید نے ایسی تعلیم دی ہو اور نہ کوئی فطرت صحیحہ قبول کرتی ہے کہ ایک شخص اپنی پاکدامن بیوی کو بغیر اس کے کہ اس کو طلاق دے کر شرعی طور پر اُس سے قطع تعلق کرے.یونہی اولاد حاصل کرانے کے لئے اپنے ہاتھ دوسرے سے ہم بستر کرا دے.کیونکہ یہ تو دیونوں کا کام ہے.ہاں اگر کسی عورت نے طلاق حاصل کر لی ہو اور خاوند سے اس کا کوئی تعلق نہ رہا ہو تو اس صورت میں ایسی عورت کے لئے جائز ہے کہ دوسرے سے نکاح کرے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور نہ اس کی پاکدامنی پر حرف ، ورنہ ہم بلند آواز سے کہتے ہیں کہ نیوگ کا نتیجہ اچھا نہیں ہے.جس صورت میں آریہ سماج کے لوگ ایک طرف تو عورت کے پردہ کے مخالف ہیں کہ یہ مسلمانوں کی رسم ہے.پھر دوسری طرف جبکہ ہر روز نیوگ کا ”پاک“ مسئلہ ان عورتوں کے کانوں تک پہنچتا رہتا
۸۸ جب ہو گئے ہیں ملزم اُترے ہیں گالیوں پر ہاتھوں میں جاہلوں کے سنگِ جفا یہی ہے بقیہ حاشیہ صفحہ نمبر ۸۷ ہے اور ان عورتوں کے دلوں میں جما ہوا ہے کہ ہم دوسرے مردوں سے بھی ہم بستر ہو سکتی ہیں، تو ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ ایسی باتوں کے سننے سے خاص کر جبکہ ویدوں کے حوالہ سے بیان کی جاتی ہیں کس قدر نا پاک شہوات عورتوں کی جوش ماریں گی بلکہ وہ تو دس قدم اور بھی آگے بڑھیں گی اور جبکہ پردہ کا پل بھی ٹوٹ گیا تو ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ ان ناپاک شہوتوں کا سیلاب کہاں تک خانہ خرابی کرے گا.چنانچہ جگن ناتھ اور بنارس اور کئی جگہ میں اسکے نمونے بھی موجود ہیں.کاش! اس قوم میں کوئی سمجھدار پیدا ہو! اور ہمیں یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ کتی حاصل کرنے کیلئے اولاد کی ضرورت کیوں ہے؟ کیا ایسے لوگ جیسے پنڈت دیانند تھا جس نے شادی نہیں کی اور نہ کوئی اولاد ہوئی مکتی سے محروم ہیں ؟ اور ایسی مکتی پر تو لعنت بھیجنا چاہیے کہ اپنی عورت کو دوسرے سے ہم بستر کرا کر اور ایسا فعل اس سے کرا کر جو عام دنیا کی نظر میں زنا کی صورت میں ہی حاصل ہو سکتی ہے اور بجز اس ناپاک فعل کے اور کوئی ذریعہ اس کی مکتی کا نہیں.اور یہ بھی ہم نہیں سمجھ سکتے کہ جو ہزاروں طاقتیں اور قوتیں اور خاصیتیں رُوحوں اور ذرات اجسام میں ہیں وہ سب قدیم سے خود بخود ہیں پر میشر سے وہ حاصل نہیں ہوئیں.پھر ایسا پر میشر کس کام کا ہے اور اس کے وجود کا ثبوت کیا ہے؟ اور کیا وجہ کہ اس کو پر میشر کہا جائے اور کامل اطاعت کا وہ کیونکر مستحق ہوسکتا ہے.جبکہ اس کی پرورش کامل نہیں اور جن طاقتوں کو اُس نے آپ نہیں بنایا اُن کا علم اس کو کیونکر ہے؟ اور جبکہ وہ ایک رُوح کے پیدا کرنے کی بھی قدرت نہیں رکھتا تو کن معنوں سے اُس کو سرب شکتی مان کہا جاتا ہے جبکہ اس کی شکتی صرف جوڑنے تک ہی محدود ہے.میرا دل تو یہی گواہی دیتا ہے کہ یہ نا پاک تعلیمیں وید میں ہرگز نہیں ہیں.پر میشر تو تبھی پر میشر رہ سکتا ہے جبکہ ہر ایک فیض کا وہی مبداء ہو.ویدانت والوں نے بھی اگر چہ غلطیاں کی ہیں، مگر تھوڑی سی اصلاح سے ان کا مذہب قابلِ اعتراض نہیں رہتا، مگر دیانند کامذہب تو سراسر گند ہی معلوم ہوتا ہے کہ دیا نند نے ان جھوٹے فلسفیوں اور منطقیوں کی پیروی کی ہے جن کو وید سے کچھ بھی تعلق نہ تھا بلکہ وید کے در پردہ پکے دشمن تھے.اسی وجہ سے ان کے مذہب میں پر میشر کی وہ تعظیم نہیں جو ہونی چاہئے اور نہ پاک دل جو گیوں کی طرح پر میشر سے ملنے کے لئے مجاہدات کی تعلیم
۸۹ رکتے نہیں ہیں ظالم گالی سے ایک دم بھی ان کا تو شغل و پیشہ صبح و مسا یہی کہنے کو دید والے پر دل ہیں سب کے کالے ہے پردہ اُٹھا کے دیکھو ان میں بھرا یہی ہے فطرت کے ہیں درندے مُردار ہیں نہ زندے ہر دم زباں کے گندے قہر خدا یہی ہے دین خدا کے آگے کچھ بن نہ آئی آخر سب گالیوں پہ اُترے دل میں اُٹھا یہی ہے شرم و حیا نہیں ہے آنکھوں میں اُن کے ہرگز وہ بڑھ چکے ہیں حد سے اب انتہا یہی ہے شخص بقیہ حاشیہ صفحہ نمبر ۸۸ ہے.صرف تعصب اور خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں سے کینہ اور گالیاں دینا ہی یہ کو بدنصیب اپنے چیلوں کو سکھا گیا ہے.بلکہ یوں کہو کہ ایک زہر کا پیالہ پلا گیا ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارا سب اعتراض دیانند کے فرضی ویدوں پر ہے نہ خدا کی کسی کتاب پر.وَاللهُ أَعْلَمُ منه اگر ایسے لوگ بھی ان میں ہیں جو خدا کے پاک نبیوں کو گالیاں نہیں دیتے اور صلاحیت اور شرافت رکھتے ہیں وہ ہمارے اس بیان سے باہر ہیں.منہ یادر ہے کہ یہ ہماری رائے اُن آریہ سماج والوں کی نسبت ہے جنہوں نے اپنے اشتہاروں اور رسالوں اور اخباروں کے ذریعہ سے اپنی گندی طبیعت کا ثبوت دیدیا ہے اور ہزار ہا گالیاں خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں کو دی ہیں جن کی اخبار اور کتابیں ہمارے پاس موجود ہیں، مگر شریف طبع لوگ اس جگہ ہماری مراد نہیں ہیں اور نہ وہ ایسے طریق کو پسند کرتے ہیں.منہ
ہم نے ہے جس کو مانا قادر ہے وہ توانا اُس نے ہے کچھ دکھانا اس سے رجا یہی ہے ان سے دو چار ہونا عزت ہے اپنی کھونا ان سے ملاپ کرنا راہ ریا یہی ہے بس اے مرے پیارو! عقبی کو مت بسارو اس دیں کو پاؤ یارو بدر الدجے یہی ہے میں ہوں ستم رسیدہ اُن سے جو ہیں رمیدہ شاہد ہے آپ دیدہ واقف بڑا یہی ہے میں دل کی کیا سناؤں کس کو یہ غم بتاؤں دکھ درد کے میں جھگڑے مجھ پر بلا یہی ہے دیں کے عموں نے مارا اب دل ہے پارہ پارہ دلبر کا ہے سہارا ورنہ فنا یہی ہے ہم مر چکے ہیں غم سے کیا پوچھتے ہو ہم سے اس یار کی نظر میں شرط وفا یہی ہے بر باد جائیں گے ہم گروہ نہ پائیں گے ہم رونے سے لا ئیں گے ہم دل میں رجا یہی ہے
۹۱ وہ دن گئے کہ راتیں کٹتی تھیں کر کے باتیں آب موت کی ہیں گھاتیں غم کی کتھا یہی ہے جلد آپیارے ساقی اب کچھ نہیں ہے باقی دے شربت تلاقی حرص و ہوا یہی ہے شکر خدائے رحماں! جس نے دیا ہے قرآں نچے تھے سارے پہلے اب کھل کھلا یہی ہے کیا وصف اس کے کہنا ہر حرف اس کا گہنا دلبر بہت ہیں دیکھے دل لے گیا یہی ہے دیکھی میں سب کتابیں مجمل ہیں جیسی خوا ہیں.خالی ہیں اُن کی قابیں خوانِ بدی یہی ہے اُس نے خدا ملایا وہ یار اُس سے را تیں تھیں جتنی گذریں اب دن چڑھا یہی ہے اُس نے نشاں دکھائے طالب سبھی بلائے سوتے ہوئے جگائے بس حق نما یہی ہے پہلے صحیفے سارے لوگوں نے جب بگاڑے دنیا سے وہ سدھارے نوشہ نیا یہی ہے
۹۲ کہتے ہیں حُسنِ یوسف دلکش بہت تھا لیکن خوبی و دلبری میں سب سے سوا یہی ہے یوسف تو سن چکے ہو اک چاہ میں گرا تھا یہ چاہ سے نکالے جس کی صدا یہی ہے اسلام کے محاسن کیونکر بیاں کروں میں سب خشک باغ دیکھے پھولا پھلا یہی ہے ہر جا زمیں کے کپڑے دیں کے ہوئے ہیں دشمن اسلام پر خدا سے آج ابتلا یہی ہے تم جاتے ہیں کچھ آنسو یہ دیکھ کر کہ ہر سو اس غم سے صادقوں کا آہ و بکا یہی ہے سب مشرکوں کے سر پر یہ دیں ہے ایک منجر یہ شرک سے چھڑاوے اُن کو اذی یہی ہے کیوں ہو گئے ہیں اس کے دشمن یہ سارے گمراہ وہ رہنما ہے رازِ چون و چرا یہی ہے دیں غار میں چھپا ہے اک شور کفر کا ہے اب تم دُعائیں کر لو غارِ حرا یہی ہے
۹۳ قربان وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے ٹور سارا نام اُس کا ہے محمد دلبر میرا یہی ہے سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے پہلوں سے خوب تر ہے خوبی میں اک قمر ہے اُس پر ہر اک نظر ہے بدر الذبے یہی ہے پہلے تو رہ میں ہارے پار اُس نے ہیں اُتارے میں جاؤں اُس کے وارے بس ناخدا یہی ہے پردے جو تھے ہٹائے اندر کی رہ دکھائے وہ یار لامکانی دل یار سے ملائے وہ آشنا یہی ہے وہ دلبر نهانی دیکھا ہے ہم نے اس سے بس رہ نما یہی ہے وہ آج شاہ دیں ہے وہ تاج مرسلیں ہے وہ طیب و امیں ہے اُس کی ثناء یہی ہے حق سے جو حکم آئے سب اُس نے کر دکھائے جو راز تھے بتائے نعم العطاء یہی ہے
۹۴ آنکھ اُس کی دُور میں ہے دل یار سے قریں ہے ہاتھوں میں جمع دیں ہے میری الضیاء یہی ہے جو رازِ دیں تھے بھارے اُس نے بتائے سارے دولت کا دینے والا فرماں روا یہی اُس ٹور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے دلبر یگانہ علموں کا خزانہ ہے باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا یہی ہے سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے ہم تھے دلوں کے اندھے سو سو دِلوں میں پھندے پھر کھولے جس نے جندے وہ مجتبی یہی ہے اے میرے ربّ رحمس تیرے ہی ہیں یہ احساں مشکل ہو تجھ سے آساں ہر دم رجا یہی ہے ل جندے سے مراد اس جگہ قفل ہے.چونکہ اس جگہ کوئی شاعری دکھلا نا منظور نہیں اور نہ میں یہ نام اپنے لئے پسند کرتا ہوں.اس لئے بعض جگہ میں نے پنجابی الفاظ استعمال کئے ہیں اور ہمیں صرف اردو سے کچھ غرض نہیں اصل مطلب امر حق کو دلوں میں ڈالنا ہے.شاعری سے کچھ تعلق نہیں ہے.منہ
۹۵ اے میرے یار جانی! خود کر تو مہربانی ور نہ بلائے دُنیا اک اژدھا یہی ہے دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چُوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے جلد آمرے سہارے غم کے ہیں بوجھ بھارے منہ مت چھپا پیارے میری دوا یہی ہے کہتے ہیں جوشِ اُلفت یکساں نہیں ہے رہتا دل پر مرے پیارے ہر دم گھٹا یہی ہے ہم خاک میں ملے ہیں شاید ملے وہ دلبر جیتا ہوں اس ہوس سے میری غذا یہی دُنیا میں عشق تیرا باقی ہے سب اندھیرا ہے معشوق ہے تو میرا عشق صفا یہی ہے غبار اپنا تیرے لئے اُڑایا جب سے سُنا کہ شرط مہر و وفا یہی ہے دلبر کا درد آیا حرف خودی مٹایا جب میں مرا جلایا جامِ بقا یہی ہے
۹۶ اس عشق میں مصائب سو سو ہیں ہر قدم میں پر کیا کروں کہ اس نے مجھ کو دیا یہی ہے حرفِ وفا نہ چھوڑوں اس عہد کو نہ توڑوں اس دلبر ازل نے مجھ کو کہا یہی ہے جب سے ملا وہ دلبر دشمن ہیں میرے گھر گھر دل ہو گئے ہیں پتھر قدر و قضا یہی ہے مجھ کو ہیں وہ ڈراتے پھر پھر کے در پہ آتے تیغ و تبر دکھاتے ہر سُو ہوا یہی ہے دلیر کی رہ میں یہ دل ڈرتا نہیں کسی سے ہشیار ساری دُنیا اک باؤلا یہی ہے اس رہ میں اپنے قصے تم کو میں کیا سُناؤں دُکھ درد کے ہیں جھگڑے سب ماجرا یہی ہے دل کر کے پارہ پارہ چاہوں میں اک نظارہ دیوانه مت کہو تم عقل رسا یہی ہے اے میرے یار جانی! کر خود ہی مہربانی مت کہہ کہ لَنْ تَرَانِی تجھ سے رجا یہی ہے فرقت بھی کیا بنی ہے ہر دم میں جاں کنی ہے عاشق جہاں پہ مرتے وہ کربلا یہی ہے
۹۷ تیری وفا ہے پوری ہم میں ہے عیب دُوری طاعت بھی ہے ادھوری ہم پر بلا یہی ہے مجھ میں وفا ہے پیارے بچے ہیں عہد سارے ہم جا پڑے کنارے جائے بُکا یہی ہے ہم نے نہ عہد پالا یاری میں رخنہ ڈالا پر تو ہے فضل والا ہم پر کھلا یہی ہے اے میرے دل کے درماں ہجراں ہے تیرا سوزاں کہتے ہیں جس کو دوزخ وہ جاں گزا یہی ہے اک دیں کی آفتوں کا غم کھا گیا ہے مجھ کو سینہ پر دشمنوں کے پتھر پڑا یہی ہے کیونکر تنبہ وہ ہووے کیونکر فنا وہ ہووے ظالم جو حق کا دشمن وہ سوچتا یہی ہے ایسا زمانہ آیا جس نے غضب ہے ڈھایا جو پیستی ہے دیں کو وہ آسیا یہی ہے شادابی و لطافت اس دیں کی کیا کہوں میں سب خشک ہوگئے ہیں پھولا پھلا یہی ہے آنکھیں ہر ایک دیں کی بے نور ہم نے پائیں سُرمہ سے معرفت کے اک سُرمہ سا یہی ہے
۹۸ لعلِ یمن بھی دیکھے دُرِ عدن بھی دیکھے سب جو ہروں کو دیکھا دِل میں جچا یہی ہے انکار کر کے اس سے پچھتاؤ گے بہت تم بنتا ہے جس سے سونا وہ کیمیا یہی ہے پر آریوں کی آنکھیں اندھی ہوئی ہیں ایسی وہ گالیوں پہ اترے دل میں پڑا یہی ہے بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بد زباں ہے جس دل میں یہ نجاست بیت الخلا یہی ہے گو ہیں بہت درندے انسان کی پوتیں میں پاکوں کا خوں جو پانچ سے وہ بھیٹر یا ہی ہے رکس دیں پہ ناز اُن کو جو ولید کے ہیں حامی مذہب جو پھل سے خالی وہ کھوکھلا یہی ہے اے آریو! یہ کیا ہے کیوں دل بگڑ گیا ہے ان شوخیوں کو چھوڑو راہِ حیا یہی ہے لے یادر ہے کہ وید پر ہمارا کوئی حملہ نہیں ہے.ہم نہیں جانتے کہ اسکی تفسیر میں کیا کیا تصرف کئے گئے آریہ ورت کے صد ہامذہب اپنے عقائد کا ویدوں پر ہی انحصار رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور با ہم اُن کا سخت اختلاف ہے.پس ہم اسجگہ وید سے مراد صرف آریہ سماج والوں کی شائع کردہ تعلیمیں اور اصول لیتے ہیں.منہ
۹۹ مجھ کو ہو کیوں ستاتے سو افترا بناتے بہتر تھا باز آتے دُور از بلا یہی ہے جس کی دعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے اچھا نہیں ستانا پاکوں کا دل دُکھانا گستاخ ہوتے جانا اس کی جزا یہی ہے اس دیں کی شان و شوکت یا رب مجھے دکھا دے سب جھوٹے دیں مٹا دے میری دعا یہی ہے کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے 000 ے پنڈت لیکھ رام قادیان کے آریہ اور ہم صفحہ ۴۸.مطبوعہ ۱۹۰۷ء
آریوں سے خطاب عزیزو! دوستو ! بھائیو! سُنو بات خدا بخشے تمہیں عالی خیالات ہمیں کچھ کہیں نہیں تم سے پیارو پیارو نہ کیں کی بات ہے تم خود بیچارو اگر کھینچے کوئی کینے کی تلوار تو اس سے کب ملے بچھڑا ہوا یار غرض پند و نصیحت ہے نہ کچھ اور خدا کے واسطے تم خود کرو غور کہ گر ایشر نہیں رکھتا طاقت کہ اک جاں بھی کرے پیدا بقدرت تو پھر اس پر خدائی کا گماں کیا وگر قدرت بھی پھر وہ ناتواں کیا کہاں کرتی ہے عقل اس کو گوارا کہ بن قدرت ہوا یہ جگت سارا وگر تم خالق اس کو مانتے ہو تو پھر اب ناتواں کیوں جانتے ہو بھلا تم خود کہو انصاف سے صاف کہ ایشر کے یہی لائق ہیں اوصاف کہ کر سکتا نہیں اک جاں کو پیدا نہ اک ذرہ ہوا اس سے ہویدا نہ اُن دن چل سکے اس کی خُدائی نہ اُن بن کر سکے زور آزمائی نظر سے اس کے ہوں مجوب ومكتوم نہ ہو تعداد تک بھی اس کو معلوم معاذ اللہ ! یہ سب باطل گماں ہے وہ خود ایشر نہیں جو ناتواں ہے اگر کھولے رہے اس سے کوئی جاں تو پھر ہو جاوے اس کا ملک ویراں
1+1 پیارو! روا ہرگز نہیں ہے خدا وہ ہے رب العالمیں ہے اگر یہ ایسی بات منہ سے مت نکالو خطا کرتے ہو ہوش اپنے سنبھالو اگر ہر ذرہ اُس بن خود عیاں ہو تو ہر ذرے کا وہ مالک کہاں ہو اگر خالق نہیں رُوحوں کی وہ ذات تو پھر کا ہے کی ہے قادر وہ ہیہات خدا پر عجز و نقصاں کب روا ہے ہے دیں یہی پھر گفر کیا ہے اگر اس بن بھی ہو سکتی ہیں اشیاء تو پھر اُس ذات کی حاجت رہی کیا اگر سب شئے نہیں اُس نے بنائی تو بس پھر ہو چکی اُس سے خدائی اگر اس میں بنانے کا نہیں زور تو پھر اتنا خُدائی کا ہے کیوں شور نا کامل خدا ہو گا کہاں سے کہ عاجز ہو بنانے جسم و جاں سے کہ جس سے جنگت رُوحوں کا جُدا ہے وہ ذرا سوچو کہ وہ کیسا خدا ہے سدا رہتا ہے ان رُوحوں کا محتاج انہیں سب کے سہارے پر کرے راج جسے حاجت رہے غیروں کی دن رات بھلا اس کو خدا کہنا ہی کیا بات جب اس نے ان کی گنتی بھی نہ جانی کہاں من من کا ہو انتر گیانی اگر آگے کو پیدائش ہے سب بند تو پھر سوچو ذرا ہو کے خردمند کہ جس دم پا گئی مکتی ہر اک جاں تو پھر کیا رہ گیا ایشر کا ساماں کہاں سے لائے گا وہ دوسری رُوح کہ تا قدرت کا ہو پھر باب مفتوح غرض جب سب نے اس مکتی کو پایا تو ایشر کی ہوئی سب ختم مایا
۱۰۲ تناسخ اُڑ گیا آئی قیامت کرو کچھ فکر اب حضرت سلامت عزیز و کچھ نہیں اس بات میں جاں اگر کچھ ہے تہ دکھلاؤ بمیداں بہت ہم نے بھی اس میں زور مارا خیالستاں کو جانچا ہے سارا مگر ملتی نہیں کوئی بھی بُرہاں بھلا سچ کس طرح ہو جائے بہتاں یہ باتیں کہے جاں آفریں پر نہ ہو گا کوئی ایسا مث زمیں پر کہ دُعا کرتے رہو ہر دم پیارو ہدایت کے لیے حق کو پکارو دعا کرنا عجب نعمت ہے پیارے دعا سے آ لگے کشتی کنارے اگر اس محل کو طالب لگائے تو اک دن ہو رہے برتھا نہ جائے ہمارا کام تھا وعظ و منادی سو ہم سب کر چکے وَالـــلــــه بادی الراقم مرزا غلام احمد رئیس قادیان الثامن من الشهر المبارك المحرم باركه الله لجميع المؤمنين ۱۲۹۵ هجرى المقدس على صاحبه الصلواة و السلام ا منشور محمدی بنگلور ۱۸۷۵ء مطابق ۱۵ ربیع الثانی ۱۲۹۵ھ
۱۰۳ غیرت اسلامی کو اپیل کیوں نہیں لوگو تمہیں حق کا خیال دل میں اُٹھتا ہے میرے سو سو اُبال اس قدر کین جس سے و تعصب بڑھ گیا کچھ ایماں جو تھا وہ سڑ گیا کیا یہی تقویٰ یہی اسلام تھا جس کے باعث سے تمہارا نام تھا حقیقۃ الوحی صفحه ۳۴۲ مطبوعہ ۱۹۰۷ء 000
۱۰۴ تو بہ سے عذاب ٹل جاتا ہے کیا تضرع اور توبہ سے نہیں ٹلتا عذاب کس کی یہ تعلیم دکھلاؤ تم مجھ کو شتا.ہے اے عزیزو ! اس قدر کیوں ہو گئے تم بے حیا کلمہ گو ہو کچھ تو لازم ہے تمہیں خوف خدا 000 تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۱۹.مطبوعہ ۱۹۰۷ء
۱۰۵ اللہ تعالیٰ کو خاکساری پسند ہے بخش کے کیسے تھے یہ تیر کہ آخر ہو گیا اُن کا وہ نخچیر اسی پر اس کی لعنت کی پڑی مار کوئی ہم کو تو سمجھاوے یہ اسرار نہیں ملتا وہ دلدار ملے جو خاک سے اُس کو ملے یار تكتبر کوئی اس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک آپ کو تب اُس کو پاوے پسند آتی اُس کو خاکساری تذلل ہے ره درگاه باری ہے عجب ناداں ہے وہ مغرور و گمراہ کہ اپنے نفس کو چھوڑا ہے بے راہ بدی غیر کی پر ہر دم نظر ہے مگر اپنی بدی سے بے خبر ہے 000 تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۱۵.مطبوعہ ۱۹۰۷ء
1.7 اتمام حجت نشاں کو دیکھ کر انکار کب تک پیش جائے گا ارے اک اور جھوٹوں پر قیامت آنے والی ہے یہ کیا عادت ہے کیوں کبھی گواہی کو چھپاتا ہے تیری اک روزاے گستاخ ! شامت آنے والی ہے ترے مکروں سے اے جاہل! مرا نقصاں نہیں ہرگز کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے اگر تیرا بھی کچھ دیں ہے بدل دے جو میں کہتا ہوں کہ عزت مجھ کو اور تجھ پر ملامت آنے والی ہے بہت بڑھ بڑھ کے باتیں کی ہیں تونے اور چھپایا حق مگر یہ یاد رکھ اک دن ندامت آنے والی ہے خدا رُسوا کرے گا تم کو میں اعزاز پاؤں گا سنواے مکرو! اب یہ کرامت آنے والی ہے
1.2 خدا ظاہر کرے گا اک نشاں پر رُعب و پُر ہیبت دلوں میں اس نشاں سے استقامت آنے والی ہے خدا کے پاک بندے دوسروں پر ہوتے ہیں غالب مری خاطر خدا سے یہ علامت آنے والی ہے 000 تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵۷ - مطبوعہ ۱۹۰۷ء
۱۰۸ انذار و تبشیر پھر چلے آتے ہیں یارو زلزلہ آنے کے دن زلزلہ کیا اس جہاں سے کوچ کر جانے کے دن تم تو ہو آرام میں، پر اپنا قصہ کیا کہیں پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے سخت گھبرانے کے دن کیوں غضب بھڑ کا خدا کا مجھ سے پوچھو غافلو! ہو گئے ہیں اس کا موجب میرے جھٹلانے کے دن غیر کیا جانے کہ غیرت اس کی کیا دکھلائے گی خود بتائے گا انہیں وہ یار بتلانے کے دن وہ چمک دکھلائے گا اپنے نشاں کی پنج بار خدا کا قول ہے سمجھو گے سمجھانے کے دن طالبو! تم کو مبارک ہو کہ اب نزدیک ہیں اُس مرے محبوب کے چہرہ کے دکھلانے کے دن وہ گھڑی آتی ہے جب عیسی پکاریں گے مجھے اب تو تھوڑے رہ گئے دجال کہلانے کے دن
1+9 اے مرے پیارے! یہی میری دعا ہے روز و شب گود میں تیری ہوں ہم اُس خونِ دل کھانے کے دن رکرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں فضل کا پانی پلا اس آگ برسانے کے دن اے مرے یار یگانہ! اے مری جاں کی پناہ! کروہ دن اپنے کرم سے دیں کے پھیلانے کے دن پھر بہار دیں کو دکھلا اے میرے پیارے قدیر! کب تلک دیکھیں گے ہم لوگوں کے بہکانے کے دن دن چڑھا ہے دُشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے اے مرے سُورج دکھا اس دیں کے چمکانے کے دن دل گھٹا جاتا ہے ہر دم جاں بھی ہے زیر و زبر اک نظر فرما کہ جلد آئیں تیرے آنے کے دن چہرہ دکھلا کر مجھے کر دیجئے غم سے رہا کب تلک لمبے چلے جائیں گے ترسانے کے دن کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شور ہے کیا مرے دلدار تو آئے گا مر جانے کے دن ڈوبنے کو ہے یہ کشتی آ مرے اے ناخدا آگئے اس باغ پر اے یار مُرجھانے کے دن
تیرے ہاتھوں سے مرے پیارے اگر کچھ ہو تو ہو ورنہ دیں میت ہے اور یہ دن ہیں دفنانے کے دن اک نشاں دکھلا کہ اب دیں ہو گیا ہے بے نشاں دل چلا ہے ہاتھ سے لا جلد ٹھہرانے کے دن میرے دل کی آگ نے آخر دکھایا کچھ اثر آ گئے ہیں اب زمیں پر آگ بھڑ کانے کے دن جب سے میرے ہوش غم سے دیں کے ہیں جاتے رہے طور دُنیا کے بھی بدلے ایسے دیوانے کے دن چاند اور سورج نے دکھلائے ہیں دو داغ کسوف پھر زمیں بھی ہو گئی بے تاب تھرانے کے دن کون روتا ہے کہ جس سے آسماں بھی رو پڑا لرزہ آیا اس زمیں پر اُس کے چلانے کے دن صبر کی طاقت جو تھی مجھ میں وہ پیارے اب نہیں میرے دلبر اب دکھا اِس دل کے بہلانے کے دن دوستو اُس یار نے دیں کی مصیبت دیکھ لی آئیں گے اس باغ کے اب جلد لہرانے کے دن اک بڑی مدت سے دیں کو کفر تھا کھاتا رہا اب یقیں سمجھو کہ آئے کفر کو کھانے کے دن
دن بہت ہیں سخت اور خوف و خطر در پیش ہے پر یہی ہیں دوستو اُس یار کے پانے کے دن دیں کی نصرت کے لئے اک آسماں پر شور ہے آب گیا وقتِ خزاں آئے ہیں پھل لانے کے دن چھوڑ دو وہ راگ جس کو آسماں گاتا نہیں اب تو ہیں اے دل کے اندھو دیں کے گن گانے کے دن خدمتِ دیں کا تو کھو بیٹھے ہو بغض و کیں سے وقت آب نہ جائیں ہاتھ سے لوگو! یہ پچھتانے کے دن مشتهره پیسه اخبار ۳۱ مارچ ۱۹۰۶ ء 000
۱۱۲ ایک دفعہ حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ ان کے بھائی صاحبزادہ مرزا مبارک احمد ( مرحوم ) ان سے ناراض ہو گئے ہیں اور کسی طرح راضی نہیں ہورہے.حضور نے جو اس وقت ایک کتاب تصنیف فرما رہے تھے مندرجہ ذیل اشعار لکھ کر دئیے جو حضرت نواب مبارکہ بیگم نے صاحبزادہ صاحب کے سامنے پڑھ دیئے تو وہ خوش ہو گئے.روایت حکیم دین محمد صاحب رجسٹر روایات جلد ۱۳ صفحه ۶۲ مبارک کو میں نے ستایا نہیں کبھی میرے دل میں یہ آیا نہیں میں بھائی کو کیونکر ستا سکتی ہوں وہ کیا میری اماں کا جایا نہیں الہی خطا کر دے میری معاف کہ تجھ بن تو ربّ البرایا نہیں! 000 الفضل ۷ جولائی ۱۹۴۳ء صفحہ ۳
۱۱۳ لوح مزار میرزا مبارک احمد (نوشته ماه ستمبر ۱۹۰۷ء ) جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک ٹھو تھا وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو خر میں بنا کر کہا کہ آئی ہے نیند مجھ کو یہی تھا آخر کا قول لیکن کچھ ایسے سوئے کہ پھر نہ جاگے تھکے بھی ہم پھر جگا جگا کر برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اُسے بلایا " بُلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پہ اے دل تو جاں فدا کر 000 جامبارک تجھے فردوس مبارک ہووے 66 میں جو غلام احمد نام خدا کا مسیح موعود ہوں.مبارک احمد جس کا اوپر ذکر ہے میرالڑ کا تھا وہ بتاریخ ے شعبان ۱۳۲۵ھ مطابق ۶ استمبر ۱۹۰۷ء بروز دوشنبه بوقت نماز صبح وفات پا کر الہامی پیشگوئی کے موافق اپنے خدا کو جاملا.کیونکہ خدا نے میری زبان پر اس کی نسبت فرمایا تھا کہ وہ خدا کے ہاتھ سے دنیا میں آیا ہے اور چھوٹی عمر میں ہی خدا کی طرف واپس جائے گا.۱۲.منہ بمطابق روایت حضرت میر محمد اسمعیل صاحب ( سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۵۲۸) خطبات محمود جلد اول صفحه ۸۳ خطبہ عید الفطر فرمودہ حضرت مصلح موعود - مؤرخہ ۶ مئی ۱۹۲۴ ء قادیان
۱۱۴ محاسن قرآن کریم ہے مشکرِ ربّ عز وجل خارج از بیاں جس کے کلام سے ہمیں اس کا ملا نشاں وہ روشنی جو پاتے ہیں ہم اس کتاب میں ہو گی نہیں کبھی وہ ہزار آفتاب میں اس سے ہمارا پاک دل و سینہ ہو گیا وہ اپنے منہ کا آپ ہی آئینہ ہو گیا اُس نے درختِ دل کو معارف کا پھل دیا ہر سینہ شک سے دھو دیا ہر دل بدل دیا اُس سے خدا کا چہرہ نمودار ہو گیا شیطاں کا مکر و وسوسہ بے کار ہو گیا وہ رہ جو ذاتِ عز وجل کو دکھاتی ہے وہ رہ جو دل کو پاک و معتبر بناتی ہے
۱۱۵ وہ رہ جو یار گم شدہ کو کھینچ لاتی ہے وہ رہ جو جام پاک یقیں کا پلاتی ہے اس کا پاتی ہے وہ رہ جو اس کے ہونے پر محکم دلیل ہے وہ رہ جو اس کے پانے کی کامل سبیل ہے اُس نے ہر ایک کو وہی رستہ دکھا دیا جتنے شکوک و شبہ تھے سب کو مٹا دیا افسردگی جو سینوں میں تھی دُور ہو گئی ظلمت جو تھی دلوں میں وہ سب نور ہو گئی جو دور تھا خزاں کا وہ بدلا بہار سے چلنے لگی نسیم عنایات یار سے جاڑے کی رُت ظہور سے اس کے پلٹ گئی عشق خدا کی آگ ہر اک دل میں آٹ گئی جتنے درخت زندہ تھے وہ سب ہوئے ہرے پھل اس قدر پڑا کہ وہ میووں سے لد گئے موجوں سے اُس کی پردے وساوس کے پھٹ گئے جو کفر اور فسق کے ٹیلے تھے کٹ گئے
قرآں خدا نُما ہے خدا کا کلام ہے! بے اس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے جو لوگ شک کی سردیوں سے تھر تھراتے ہیں اس آفتاب سے وہ عجب دُھوپ پاتے ہیں دنیا میں جس قدر ہے مذاہب کا شور و شر سب قصہ گو میں نور نہیں ایک ذرہ بھر پر یہ کلام نور خدا کو دکھاتا ہے اُس کی طرف نشانوں کے جلوہ سے لاتا ہے جس دیں کا صرف قصوں پہ سارا مدار ہے وہ دیں نہیں ہے ایک فسانہ گزار سچ پوچھئے تو قصوں کا کیا اعتبار ہے ہے قصوں میں جُھوٹ اور خطا بے شمار ہے ہے دیں وہی کہ صرف وہ اک قصہ گو نہیں زندہ نشانوں سے ہے دکھاتا رہ یقیں ہے دیں وہی کہ جس کا خدا آپ ہو عیاں خود اپنی قدرتوں سے دکھاوے کہ ہے کہاں
112 جو معجزات سنتے ہو قصوں کے رنگ میں اُن کو تو پیش کرتے ہیں سب بحث و جنگ میں جتنے ہیں فرقے سب کا یہی کاروبار ہے قصوں میں معجزوں کا بیاں بار بار ہے پر اپنے دیں کا کچھ بھی دکھاتے نہیں نشاں گویا وہ ربّ ارض و سما آب ہے ناتواں گویا اب اس میں طاقت و قدرت نہیں رہی وہ سلطنت، وہ زور، وہ شوکت نہیں رہی یا یہ کہ اب خدا میں وہ رحمت نہیں رہی نیت بدل گئی ہے وہ شفقت نہیں رہی ایسا گماں خطا ہے کہ وہ ذات پاک ہے ایسے گماں کی نوبت آخر ہلاک ہے بیچ ہے یہی کہ ایسے مذاہب ہی مر گئے اب اُن میں کچھ نہیں ہے کہ جاں سے گذر گئے پابند ایسے دنیوں کے دُنیا پرست ہیں غافل ہیں ذوقِ یار سے دُنیا میں مست ہیں
۱۱۸ مقصود ان کا جینے سے دُنیا کمانا ہے مومن نہیں ہیں وہ کہ قدم فاسقانہ ہے تم دیکھتے ہو کیسے دلوں پر ہیں اُن کے زنگ دنیا ہی ہوگئی ہے غرض، دین سے آئے ننگ وہ دیں ہی چیز کیا ہے کہ جو رہنما نہیں ایسا خدا ہے اس کا کہ گویا خدا نہیں پھر اُس سے سچی راہ کی عظمت ہی کیا رہی اور خاص وجہ صُفُوتِ مِلّت ہی کیا رہی نور خدا کی اس میں علامت ہی کیا رہی توحید خشک رہ گئی نعمت ہی کیا رہی لوگو سُنو! کہ زندہ خدا وہ خدا نہیں جس میں ہمیشہ عادت قدرت نما نہیں مُردہ پرست ہیں وہ جو قصہ پرست ہیں پس اس لئے وہ موردِ ذِلّ و شکست ہیں بن دیکھے دل کو دوستو! پڑتی نہیں ہے کل ققوں سے کیسے پاک ہو یہ نفس پرخلل
۱۱۹ کچھ کم نہیں یہودیوں میں یہ کہانیاں پر دیکھو کیسے ہو گئے شیطاں سے ہم عناں ہر دم نشانِ تازہ کا محتاج ہے بشر ققوں کے معجزات کا ہوتا ہے کب اثر کیونکر ملے فسانوں سے وہ دلبر ازل گر اک نشاں ہو ملتا ہے سب زندگی کا پھل قصوں کا یہ اثر ہے کہ دل پرفساد ہے ایماں زباں پہ سینہ میں حق سے عناد ہے دُنیا کی حرص و آز میں یہ دِل ہیں مر گئے غفلت میں ساری عمر بسر اپنی کر گئے آے سونے والو! جاگو کہ وقت بہار ہے اب دیکھو آ کے ذریہ ہمارے وہ یار ہے کیا زندگی کا ذوق اگر وہ نہیں ملا لعنت ہے ایسے جینے پہ گر اُس سے ہیں جدا اس رُخ کو دیکھنا ہی تو تو ہے اصل مدعا جنت بھی ہے یہی کہ ملے یار آشنا
۱۲۰ اے حُبّ جاہ والو! یہ رہنے کی جا نہیں اس میں تو پہلے لوگوں سے کوئی رہا نہیں دیکھو تو جا کے اُن کے مقابر کو اک نظر سوچو کہ اب سلف ہیں تمہارے گئے کدھر اک دن وہی مقام تمہارا مقام ہے اک دن یہ صبح زندگی کی تم پہ شام ہے اک دن تمہارا لوگ جنازہ اُٹھائیں گے پھر دفن کر کے گھر میں تأسف سے آئیں گے اے لوگو! عیش دُنیا کو ہرگز وفا نہیں کیا تم کو خوف مرگ و خیالِ فنا نہیں سوچو کہ باپ دادے تمہارے کدھر گئے کس نے بلا لیا وہ سبھی کیوں گزر گئے وہ دن بھی ایک دن تمہیں یارو نصیب ہے خوش مت رہو کہ کوچ کی نوبت قریب ہے ڈھونڈ و وہ راہ جس سے دل وسینہ پاک.نفس دنی خدا کی اطاعت میں خاک ہو
۱۲۱ ملتی نہیں عزیزو! فقط قصوں سے یہ راہ وہ روشنی نشانوں سے آتی ہے گاہ گاہ وہ لغو دیں ہے جس میں فقط قصہ جات ہیں اُن سے رہیں الگ جو سعید الصفات ہیں صد حیف اس زمانہ میں قصوں پہ ہے مدار قصوں پہ سارا دیں کی سچائی کا انحصار پر نقد معجزات کا کچھ بھی نشاں نہیں پس یہ خُدائے قصہ خُدائے جہاں نہیں دنیا کو ایسے قصوں نے یک سر تبہ کیا! مشرک بنا کے کفر دیا روسیه کیا جس کو تلاش ہے کہ ملے اُس کو کردگار اُس کے لئے حرام جو قصوں پہ ہو نثار اُس کا تو فرض ہے کہ وہ ڈھونڈے خدا کا نور تا ہووے شک و شبہ بھی اس کے دل سے دُور تا اُس کے دِل پہ نور یقیں کا نزول ہو تا وہ جناب عز وجل میں قبول ہو
۱۲۲ ققوں سے پاک ہونا کبھی کیا مجال ہے سچ جانو یہ طریق سراسر محال ہے ققوں سے کب نجات ملے ہے گناہ سے ممکن نہیں وصال خدا ایسی راہ سے مُردہ سے کب اُمید کہ وہ زندہ کر سکے اُس سے تو خود محال کہ رہ بھی گذر سکے وہ رہ جو ذاتِ عزّ وجل کو دکھاتی ہے وہ کہ جو دل کو پاک و مطہر بناتی ہے دہ رہ، جو یار گم شدہ کو ڈھونڈ لاتی ہے وہ رہ جو جامِ پاک یقیں کا پلاتی ہے وہ تازہ قدرتیں جو خدا پر دلیل ہیں وہ زندہ طاقتیں جو یقیں کی سبیل ہیں ظاہر ہے یہ کہ قصوں میں ان کا اثر نہیں افسانہ گو کو راہِ خدا کی خبر نہیں اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی نشاں سے ہے سچ ہے کہ سب ثبوتِ خدائی نشاں سے ہے
۱۲۳ کوئی بتائے ہم کو کہ غیروں میں یہ کہاں قصوں کی چاشنی میں حلاوت کا کیا نشاں یہ ایسے مذہبوں میں کہاں ہے دکھائیے ور نہ گزاف قصوں پر ہرگز نہ جائیے جب سے کہ قصے ہو گئے مقصود راہ میں آگے قدم ہے قوم کا ہر دم گناہ میں تم دیکھتے ہو قوم میں عفت نہیں رہی وہ ده صدق، وہ صفا، وہ طہارت نہیں رہی مومن کے جو نشاں ہیں وہ حالت نہیں رہی اُس یارِ بے نشاں کی محبت نہیں رہی اک سیل چل رہا ہے گناہوں کا زور سے سنتے نہیں ہیں کچھ بھی معاصی کے شور سے کیوں بڑھ گئے زمیں پر بُرے کام اس قدر کیوں ہو گئے عزیزو! یہ سب لوگ کور وکر کیوں اب تمہارے دل میں وہ صدق و صفا نہیں کیوں اس قدر ہے فسق کہ خوف و حیا نہیں
۱۲۴ کیوں زندگی کی چال سبھی فاسقانہ ہے کچھ اک نظر کرو کہ یہ کیسا زمانہ ہے اس کا سبب یہی ہے کہ غفلت ہی چھا گئی دنیائے دُوں کی دل میں محبت سما گئی تقویٰ کے جامے جتنے تھے سب چاک ہو گئے جتنے خیال دل میں تھے ناپاک ہو گئے ہر دم کے محبت وفسق سے دل پر پڑے حجاب آنکھوں سے اُن کی چھپ گیا ایماں کا آفتاب جس کو خدائے عز وجل پر یقیں نہیں اُس بدنصیب شخص کا کوئی بھی دیں نہیں پر وہ سعید جو کہ نشانوں کو پاتے ہیں وہ اُس سے مل کے دل کو اسی سے ملاتے ہیں وہ اُس کے ہو گئے ہیں اسی سے وہ جیتے ہیں ہر دم اُسی کے ہاتھ سے اک جام پیتے ہیں جس کے کو پی لیا ہے وہ اُس مے سے مست ہیں سب دشمن اُن کے اُن کے مقابل میں پست ہیں
۱۲۵ کچھ ایسے مست ہیں وہ رُخ خُوب یار سے ڈرتے کبھی نہیں ہیں وہ دشمن کے وار سے اُن سے خدا کے کام سبھی معجزانہ ہیں یہ اس لئے کہ عاشق یار یگانہ ہیں اُن کو خدا نے غیروں سے بخشا ہے امتیاز اُن کے لئے نشاں کو دکھاتا ہے کارساز جب دشمنوں کے ہاتھ سے وہ تنگ آتے ہیں جب بدشعار لوگ انہیں کچھ ستاتے ہیں جب اُن کے مارنے کے لئے چال چلتے ہیں جب اُن سے جنگ کرنے کو باہر نکلتے ہیں تب وہ خدائے پاک نشاں کو دکھاتا ہے غیروں پہ اپنا رُعب نشاں سے جماتا ہے کہتا ہے یہ تو بنده عالی جناب ہے مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے اُس ذاتِ پاک سے جو کوئی دل لگاتا ہے آخر وہ اُس کے رحم کو ایسا ہی پاتا ہے
۱۲۶ جن کو نشان حضرتِ باری ہوا نصیب وہ اس جناب پاک سے ہر دم ہوئے قریب کھینچے گئے کچھ ایسے کہ دُنیا سے سو گئے! کچھ ایسا نور دیکھا کہ اُس کے ہی ہو گئے ان دیکھے کیسے پاک ہو انساں گناہ سے اس چاہ سے نکلتے ہیں لوگ اُس کی چاہ سے تصویر شیر سے نہ ڈرے کوئی گوسپند نے مارِ مُردہ سے ہے کچھ اندیشہ گزند پھر وہ خدا جو مُردہ کی مانند ہے پڑا پس کیا اُمید ایسے سے اور خوف اُس سے کیا ایسے خدا کے خوف سے دل کیسے پاک ہو سینہ میں اس کے عشق سے کیونکر تپاک ہو دن دیکھے کس طرح کسی مہ رخ پر آئے دل کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی حُسن و جمال یار کے آثار ہی سہی
۱۲۷ جب تک خدائے زندہ کی تم کو خبر نہیں بے قید اور دلیر ہو کچھ دل میں ڈر نہیں سو روگ کی دوا یہی وصلِ الہی ہے اس قید میں ہر ایک گنہ سے رہائی ہے پر جس خدا کے ہونے کا کچھ بھی نہیں نشاں کیونکر شار ایسے پہ ہو جائے کوئی جاں ہر چیز میں خدا کی ضیاء کا ظہور ہے پر پھر بھی غافلوں سے وہ دلدار دُور ہے جو خاک میں ملے اُسے ملتا ہے آشنا اے آزمانے والے! یہ نسخہ بھی آزما عاشق جو ہیں وہ یار کو مر مر کے پاتے ہیں راه تنگ جب مر گئے تو اُس کی طرف کھینچے جاتے ہیں ہے پہ پہ یہی ایک راہ ہے دلبر کی مرنے والوں پہ ہر دم نگاہ ہے ناپاک زندگی ہے جو ڈوری میں کٹ گئی دیوار زہد خشک کی آخر کو پھٹ گئی
۱۲۸ زندہ وہی ہیں جو کہ خدا کے قریب ہیں مقبول بن کے اُس کے عزیز و حبیب ہیں وہ دُور ہیں خدا سے جو تقویٰ سے دُور ہیں ہر دم اسیر نخوت و کبر و غرور ہیں تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو کیمر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو اس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو اُس یار کے لئے رہ عشرت کو چھوڑ دو لعنت کی ہے یہ راہ سو لعنت کو چھوڑ دو ورنہ خیال حضرت عزّت کو چھوڑ دو سٹی کی زندگی کو کرو صدق سے قبول تلخی تا تم ہو ملائکہ عرش کا نزول اسلام چیز کیا ہے؟ خدا کے لئے فنا ترک رضائے خویش کے مرضی خدا جو مر گئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات اس رہ میں زندگی نہیں ملتی بجز ممات
۱۲۹ شوخی و کبر دیو لعیں کا شعار ہے آدم کی نسل وہ ہے جو وہ خاکسار ہے اے کرم خاک! چھوڑ دے کبر و غرور کو زیبا ہے کبر حضرتِ ربّ غیور کو بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دار الوِصال میں چھوڑو غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے ہو جاؤ خاک مرضی مولے اسی میں ہے تقویٰ کی جڑ خدا کیلئے خاکساری ہے عفت جو شرط دیں ہے وہ تقویٰ میں ساری ہے جو لوگ بدگمانی کو شیوہ بناتے ہیں تقویٰ کی راہ سے وہ بہت دُور جاتے ہیں بے احتیاط اُن کی زباں وار کرتی ہے اک دم میں اس علیم کو بیزار کرتی ہے اک بات کہہ کے اپنے معمل سارے کھوتے ہیں پھر شوخیوں کا بیج ہر اک وقت ہوتے ہیں
۱۳۰ کچھ ایسے سوگئے ہیں ہمارے یہ ہم وطن اُٹھتے نہیں ہیں ہم نے تو سو سو کئے جتن سب غضو سُست ہو گئے غفلت ہی چھا گئی قوت تمام نوک زباں میں ہی آ گئی یا بد زباں دکھاتے ہیں یا ہیں وہ بدگماں باقی خبر نہیں ہے کہ اسلام ہے کہاں تم دیکھ کر بھی بد کو بچو بدگمان ڈرتے رہو عقاب خدائے جہان سے شاید تمہاری آنکھ ہی کر جائے کچھ خطا شاید وہ بد نہ ہو جو تمہیں ہے وہ بدنما شاید تمہاری فہم کا ہی کچھ قصور ہو! شاید وہ آزمائش رب غفور ہو پھر تم تو بدگمانی سے اپنی ہوئے ہلاک خود سر پہ اپنے لے لیا محتشم خدائے پاک گر ایسے تم دلیریوں میں بے حیا ہوئے پھر اتقا کے، سوچو، کہ معنے ہی کیا ہوئے
۱۳۱ موسیٰ بھی بدگمانی سے شرمندہ ہو گیا قرآں میں، خضر نے جو کیا تھا، پڑھو ذرا بندوں میں اپنے بھید خدا کے ہیں صد ہزار تم کو نہ علم ہے نہ حقیقت ہے آشکار پس تم تو ایک بات کے کہنے سے مر گئے یہ کیسی عقل تھی کہ براہ خطر گئے بدبخت تر تمام جہاں سے وہی ہوا جو ایک بات کہہ کے ہی دوزخ میں جا گرا پس تم بچاؤ اپنی زباں کو فساد سے ڈرتے رہو عقوبت ربّ العباد سے دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کر بچائے گا سیدھا خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا وہ اک زباں ہے، عُضو نہانی ہے دوسرا یہ ہے حدیث سیدنا سید الوری پر وہ جو مجھ کو کاذب و مکار کہتے اور مفتری و کافر و بدکار کہتے ہیں
۱۳۲ اُن کے لئے تو بس ہے خدا کا یہی نشاں یعنی وہ فضل اُس کے جو مجھ پر ہیں ہر زماں دیکھو! خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا! گم نام پا کے شجرة عائم بنا دیا! جو کچھ مری مراد تھی سب کچھ دیکھا دیا میں اک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا دنیا کی نعمتوں سے کوئی بھی نہیں رہی جو اُس نے مجھ کو اپنی عنایات سے نہ دی ایسے بدوں سے اُس کے ہوں ایسے معاملات کیا یہ نہیں کرامت و عادت سے بڑھ کے بات جو مفتری ہے اُس سے یہ کیوں اتحاد ہے.کس کو نظیر ایسی عنایت کی یاد ہے مجھ پر ہر اک نے وار کیا اپنے رنگ میں آخر ذلیل ہو گئے انجام جنگ میں ان کیوں میں کسی کو بھی ارماں نہیں رہا سب کی مراد تھی کہ میں دیکھوں رہ فنا
۱۳۳ تھے چاہتے کہ مجھ کو دکھا ئیں عدم کی راہ یا حاکموں سے پھانسی دلا کر کریں تباہ یا کم سے کم یہ ہو کہ میں زنداں میں جا پڑوں یا یہ کہ ذلتوں سے میں ہو جاؤں سرنگوں یا مختمری سے ان کی کوئی اور ہی بلا آ جائے مجھ پہ یا کوئی مقبول ہو دُعا پس ایسے ہی ارادوں سے کر کے مقدمات چاہا گیا کہ دن مرا ہو جائے مجھ پہ رات کوشش بھی وہ ہوئی کہ جہاں میں نہ ہو کبھی پھر اتفاق وہ کہ زماں میں نہ ہو کبھی مُجھ کو ہلاک کرنے کو سب ایک ہو گئے سمجھا گیا میں بد پہ وہ سب نیک ہو گئے آخر کو وہ خدا جو کریم و قدیر ہے جو عالم القلوب و علیم و خبیر ہے انترا مری مدد کے لئے کر کے عہد یاد پس رہ گئے وہ سارے سیه روی و نامراد
۱۳۴ کچھ ایسا فضل حضرتِ ربّ الوری ہوا سب دشمنوں کے دیکھ کے اوساں ہوئے خطا اک قطرہ اُس کے فضل نے دریا بنا دیا میں خاک تھا اُسی نے ثریا بنا دیا میں تھا غریب ویکس و گم نام بے بینر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر لوگوں کی اس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی دیکھتے ہو کیسا رجوع جہاں ہوا اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا پر پھر بھی جن کی آنکھ تعصب سے بند ہے اُن کی نظر میں حال مرا ناپسند ہے میں مفتری ہوں اُن کی نگاہ و خیال میں دنیا کی خیر ہے میری موت و زوال میں لعنت ہے مفتری پہ خدا کی کتاب میں عزت نہیں ہے ذرہ بھی اُس کی جناب میں
۱۳۵ توریت میں بھی نیز کلام مجید میں لکھا گیا ہے رنگِ وعید شدید میں کوئی اگر خدا پہ کرے کچھ بھی افترا پھر ہو گا وہ قتل ہے یہی اس مجرم کی سزا یہ عجیب غفلت رب قدیر ہے دیکھے ہے ایک کو کہ وہ ایسا شریر ہے بچھپیں سال سے ہے وہ مشغول افترا ہر دن ہر ایک رات یہی کام ہے رہا ہر روز اپنے دل سے بناتا ہے ایک بات کہتا ہے یہ خدا نے کہا مجھ کو آج رات پھر بھی وہ ایسے شوخ کو دیتا نہیں سزا گویا نہیں ہے یاد جو پہلے سے کہہ چکا پھر یہ عجیب تر ہے کہ جب حامیانِ دیں ایسے کے قتل کرنے کو فاعل ہوں یا معیں کرتا نہیں ہے اُن کی مدد وقت انتظام تا مفتری کے قتل سے قصہ ہی ہو تمام
۱۳۶ اپنا تو اس کا وعدہ رہا سارا طاق پر آوروں کی سعی و مُجید پہ بھی کچھ نہیں نظر کیا وہ خدا نہیں ہے جو فرقاں کا ہے خدا پھر کیوں وہ مُفتری سے کرے اس قدر وفا آخر یہ بات کیا ہے کہ ہے ایک مفتری کرتا ہے ہر مقام میں اُس کو خدا بُری جب دشمن اس کو بیچ میں کوشش سے لاتے ہیں کوشش بھی اس قدر کہ وہ بس مر ہی جاتے ہیں اک اتفاق کر کے وہ باتیں بناتے ہیں سو جھوٹ اور فریب کی تہمت لگاتے ہیں پھر بھی وہ نامراد مقاصد میں رہتے ہیں جاتا ہے بے اثر وہ جو سو بار کہتے ہیں ذلت ہیں چاہتے یہاں اکرام ہوتا ہے کیا مُفتری کا ایسا ہی انجام ہوتا ہے اے قوم کے سرآمدہ! اے حامیانِ دیں! سوچو کہ کیوں خدا تمہیں دیتا مدد نہیں
۱۳۷ تم میں نہ رحم ہے نہ عدالت نہ اتقا پس اس سبب سے ساتھ تمہارے نہیں خدا ہو گا تمہیں کلارک کا بھی وقت خوب یاد جب مجھ پہ کی تھی تہمت خون از رو فساد جب آپ لوگ اس سے ملے تھے بدیں خیال تا آپ کی مدد سے اُسے سہل ہو جدال پر وہ خدا جو عاجز ومسکیں کا ہے خدا حاکم کے دل کو میری طرف اُس نے کر دیا تم نے تو مجھ کو قتل کرانے کی ٹھانی تھی یہ بات اپنے دل میں بہت سہل جاتی تھی تھے چاہتے صلیب پر یہ شخص کھینچا جائے تا تم کو ایک فخر سے یہ بات ہاتھ آئے جھوٹا تھا مفتری تھا تبھی یہ ملی سزا آخر میری مدد کے لئے خود اُٹھا خدا ڈگلس پہ سارا حال بریت کا کھل گیا عزت کے ساتھ تب میں وہاں سے بری ہوا
۱۳۸ الزام مجھ پہ قتل کا تھا سخت تھا یہ کام تھا ایک پادری کی طرف سے یہ اتہام جتنے گواہ تھے وہ تھے سب میرے برخلاف اک مولوی بھی تھا جو یہی مارتا تھا لاف دیکھو! یہ شخص اب تو سزا اپنی پائے گا اب دن سزائے سخت یہ بچ کر نہ جائے گا اتنی شہادتیں ہیں کہ اب کھل گیا قصور اب قید یا صلیب ہے، اک بات ہے ضرور بعضوں کو بددعا میں بھی تھا ایک انہماک اتنی دُعا کہ گھس گئی سجدے میں اُن کی ناک القصہ جُہد کی نہ رہی کچھ بھی انتہا اک سو تھا مگر ایک طرف سجدہ و دُعا آخر خدا نے دی مجھے اس آگ سے نجات دشمن تھے جتنے اُن کی طرف کی نہ التفات کیسا یہ فضل اس سے نمودار ہو گیا اک مفتری کا وہ بھی مددگار ہو گیا
۱۳۹ اُس کا تو فرض تھا کہ وہ وعدہ کو کر کے یاد خود مارتا وہ گردن کذاب بدنهاد گر اُس سے رہ گیا تھا کہ وہ خود دکھائے ہاتھ اتنا تو سہل تھا کہ تمہارا بٹائے ہاتھ یہ بات کیا ہوئی کہ وہ تم سے الگ رہا کچھ بھی مدد نہ کی نہ سُنی کوئی بھی دُعا جو مفتری تھا اُس کو تو آزاد کر دیا سب کام اپنی قوم کا برباد کر دیا جد و جہد وسعی اکارت چلی گئی کوشش تھی جس قدر وہ بغارت چلی گئی کیا "راستی کی فتح نہیں وعده خدا دیکھو تو کھول کر سخن پاک کمبریا پھر کیوں یہ بات میری ہی نسبت پلٹ گئی یا خود تمہاری چادر تقوی ہی پھٹ گئی کیا یہ عجب نہیں ہے کہ جب تم ہی یار ہو پھر میرے فائدے کا ہی سب کاروبار ہو
۱۴۰ پھر یہ نہیں کہ ہو گئی ہے صرف ایک بات پاتا ہوں ہر قدم میں خدا کے تــفــضـلات دیکھو وہ بھیں کا شخص کرم دیں ہے جس کا نام لڑنے میں جس نے نیند بھی اپنے پہ کی حرام جس کی مدد کے واسطے لوگوں میں جوش تھا جس کا ہر ایک دشمن حق عیب پوش تھا جس کا رفیق ہوگیا ہر ظالم و غوی! جس کی مدد کے واسطے آئے تھے مولوی ان میں سے ایسے تھے کہ جو بڑھ بڑھ کے آتے تھے اپنا بیاں لکھانے میں کرتب دکھاتے تھے ہشیاری مستغیث بھی اپنی دکھاتا تھا سو سو خلاف واقعہ باتیں بناتا تھا پر اپنے بدعمل کی سزا کو وہ پا گیا ساتھ اس کے یہ کہ نام بھی کاذب رکھا گیا کذاب نام اُس کا دفاتر میں رہ گیا چالاکیوں کا فخر جو رکھتا تھا بہہ گیا
۱۴۱ اے ہوش و عقل والو! یہ عبرت کا ہے مقام چالاکیاں تو بیچ ہیں، تقویٰ سے ہوویں کام جو متقی ہے اس کا خدا خود نصیر ہے انجام فاسقوں کا عذاب سعیر ہے جڑ ہے ہر ایک خیر و سعادت کی اتقا جس کی یہ جڑ رہی ہے عمل اس کا سب رہا مؤمن ہی فتح پاتے ہیں انجام کار میں ایسا ہی پاؤ گے سخن کردگار میں کوئی بھی مفتری ہمیں دنیا میں اب دکھا جس پر یہ فضل ہو یہ عنایات یہ عطا اس بد عمل کی قتل سزا ہے نہ یہ کہ پیت پس کس طرح خدا کو پسند آ گئی یہ ریت کیا تھا یہی معاملہ پاداش افترا کیا مفتری کے بارے میں وعدہ یہی ہوا کیوں ایک مفتری کا وہ ایسا ہے آشنا یا بے خبر ہے عیب سے دھوکے میں آ گیا
۱۴۲ آخر کوئی تو بات ہے جس سے ہوا وہ یار بد کار سے تو کوئی بھی کرتا نہیں ہے پیار بد بنا کے پھر بھی گرفتار ہو گئے یہ بھی تو ہیں نشاں جو نمودار ہو گئے تاہم وہ دوسرے بھی نشاں ہیں ہمارے پاس لکھتے ہیں اب خدا کی عنایت سے بے ہراس جس دل میں رچ گیا ہے محبت سے اسکا نام وہ خود نشاں ہے نیز نشاں سارے اسکے کام کیا کیا نہ ہم نے نام رکھائے زمانہ سے مردوں سے نیز فرقہء ناداں زنانہ سے اُن کے گماں میں ہم بد و بدحال ہو گئے اُن کی نظر میں کافر و دجال ہو گئے ہم مفتری بھی بن گئے اُن کی نگاہ میں بے دیں ہوئے فساد کیا حق کی راہ میں پر ایسے کفر پر تو فِدا ہے ہماری جاں جس سے ملے خدائے جہان و جہانیاں
۱۴۳ لعنت ہے ایسے دیں پہ کہ اس کفر سے ہے کم ہوتا ہے سو شکر ہے کہ ہو گئے غالب کے یار ہم کردگار اسی رہ سے دستگیر کیا جانے قدر اِس کا جو قصوں میں ہے اسیر وحي خدا اسی رہ فرخ سے پاتے ہیں دلبر کا بانکپن بھی اسی سے دکھاتے ہیں اے مدعی ! نہیں ہے ترے ساتھ کردگار یہ کفر تیرے دیں سے ہے بہتر ہزار بار کرکے آیا آمریکا براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ اول نصرة الحق مطبوعہ ۱۹۰۸ء
۱۴۴ مناجات اور تبلیغ حق اے خدا اے کارساز و عیب پوش و کر دگار اے مرے پیارے مرے حسن مرے پر وردگار ر کس طرح تیرا کروں اسے ڈوالممکن شکر و سپاس وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار بدگمانوں سے بچایا مجھ کو خود بن کر گواہ کر دیا دشمن کو اک حملہ سے مغلوب اور خوار کام جو کرتے ہیں تیری رہ میں پاتے ہیں جزا مجھ سے کیا دیکھا کہ یہ لطف و کرم ہے بار بار تیرے کاموں سے مجھے حیرت ہے اے میرے کریم کس عمل پر مجھ کو دی ہے خلعت قرب و جوار کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار یہ سراسر فضل و احساں ہے کہ میں آیا پسند ور نہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار دوستی کا دم جو بھرتے تھے وسوب دشمن ہوئے پر نہ چھوڑ ا ساتھ تونے آئے مرے حاجت برار کے مرے یار یگانہ آے مری جاں کی پسینہ بس ہے تو میرے لئے مجھ کو نہیں تجھ بن بکار میں تو مر کر خاک ہوتا گر نہ ہوتا تیرا لطف پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار
۱۴۵ اے فدا ہو تیری رہ میں میرا جسم و جان و دل میں نہیں پاتا کہ مجھ سا کوئی کرتا ہو پیار ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کے گود میں تیری رہا میں مثلِ طفلِ شیر خوار نسل انساں میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی بار غمگسار لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگہ میں بار اس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات و کرم جن کا مشکل ہے کہ تا روز قیامت ہو شمار آسماں میرے لئے تو نے بنایا اک گواہ چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار تو نے طاعوں کو بھی بھیجا میری نصرت کے لئے تا وہ پورے ہوں نشاں جو ہیں سچائی کا مدار ہو گئے بیکار سب حیلے جب آئی وہ بلا ساری تدبیروں کا خاکہ اُڑ گیا مثل غبار سرزمین ہند میں ایسی ہے شہرت مجھ کو دی جیسے ہووے برق کا اک دم میں ہر جا انتشار پھر دوبارہ ہے اُتارا تو نے آدم کو یہاں تا وہ مخل راستی اِس ملک میں لاوے ثمار لوگ و بک بک کریں پر تیرے مقصد اور ہیں تیری باتوں کے فرشتے بھی نہیں ہیں راز دار ہاتھ میں تیرے ہے ہ خسران و نفع و عسر وینر تو ہی کرتا ہے کسی کو بے نوا یا بختیار جس کو چاہے تخت شاہی پر بٹھا دیتا ہے تو جس کو چاہے تخت سے نیچے گرا دے کر کے خوار میں بھی ہوں تیرے نشانوں سجہاں میں اک نشان جس کو تو نے کر دیا ہے قوم و دیں کا افتخار فانیوں کی جاہ و حشمت پر بلا آوے ہزار سلطنت تیری ہے جو رہتی ہے دائم برقرار عزت وذلت یہ تیرے حکم پر موقوف ہیں تیرے فرماں سے خزاں آتی ہے اور بادِ بہار
۱۴۶ میرے جیسے کو جہاں میں تو نے روشن کر دیا کون جانے اے مرے مالک ترے بھیدوں کی سار تیرے اے میرے مربی کیا عجائب کام میں گرچہ بھا گئیں جبرسے دیتا ہے قسمت کے شمار ابتدا سے گوشئہ خلوت رہا مجھ کو پسند شہر توں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا میں نے کب مانگا تھا یہ تیر ہی نسب برگ و بار اس میں میر انجر م کیا جب مجھ کو یہ فرماں ملا کون ہوں تا رڈ کروں حکم شہ ذی الاقتدار اب تو جو فرماں ملا اس کا ادا کرنا ہے کام گرچہ میں ہوں بس ضعیف و ناتوان و دلفگار دعوت ہر ہر زہ گو کچھ خدمت آساں نہیں ہر قدم میں کوہ ماراں ہرگزر میں دشت خار چرخ تک پہنچے ہیں میرے نعرہ ہائے روز و شب پر نہیں پہنچی دلوں تک جاہلوں کے یہ پکار قبضہ تقدیر میں دل ہیں اگر چاہے خدا پھیر دے میری طرف آجائیں پھر بے اختیار گر کرے معجز نمائی ایک دم میں نرم ہو وہ دل سنگیں جو ہووے مثل سنگ کو ہسار ہاے میری قوم نے تکذیب کر کے کیا لیا زلزلوں سے ہو گئے صد ہا مساکن مثلِ غار شرط تقویٰ تھی کہ وہ کرتے نظر ا سوقت پر شرط یہ بھی تھی کہ کرتے صبر کچھ دن اور قرار کیا وہ سارے مرحلے طے کر چکے تھے علم کے کیا نہ تھی آنکھوں کے آگے کوئی رہ تاریک و تار دل میں جو ارماں تھے وہ دل میں ہمارے رہ گئے دشمن جاں بن گئے جن پر نظر تھی بار بار ایسے کچھ بگڑے کہ اب بنتا نظر آتا نہیں آہ کیا سمجھے تھے ہم اور کیا ہوا ہے آشکار کس کے آگے ہم کہیں اس درددل کا ماجرا اُن کو ہے ملنے سے نفرت بات سننا در کنار
۱۴۷ کیا کروں کیونکر کروں میں اپنی جاں زیروز بر کس طرح میری طرف دیکھیں جو رکھتے ہیں نقار اس قدر ظاہر ہوئے ہیں فضل حق سے معجزات دیکھنے سے جن کے شیطاں بھی ہوا ہے دلفگار پر نہیں اکثر مخالف لوگوں کو شرم و حیا دیکھ کر سوسو نشاں پھر بھی ہے تو ہیں کاروبار صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کر دگار دن چڑھا ہے دُشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے اے مرے سورج نکل باہر کہ میں ہوں بے قرار اے مرے پیارے فدا ہو تجھ پہ ہر ذرہ مرا پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں کیس کا شور ہے خاک میں ہوگا یہ سرگر تو نہ آیا بن کے یار فضل کہا تھوں سے اب اس وقت کر میری مدد کشتی اسلام تا ہو جائے اِس طوفاں سے پار میرے سقم و عیب سے اب کیجئے قطع نظر تا نہ خوش ہو دشمنِ دیں جس پہ ہے لعنت کی مار میرے زخموں پر لگا مرہم کہ میں رنجور ہوں میری فریادوں کوسُن میں ہو گیا زار و نزار دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعف دینِ مصطفے مجھ کو کراے میرے سُلطاں کامیاب و کامگار کیا سلائے گا مجھے تو خاک میں قبل از مراد یہ تو تیرے پر نہیں اُمید اے میرے حصار یا الہبی فضل کر اسلام پر اور خود بچا اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سُن لے پکار قوم میں فسق و فجور و معصیت کا زور ہے چھا رہا ہے ابر یاس اور رات ہے تاریک و تار ایک عالم مر گیا ہے تیرے پانی کے بغیر پھیر دے اب میرے مولیٰ اس طرف دریا کی دھار اب نہیں ہیں ہوش اپنے ان مصائب میں بجا رحم کر بندوں پر اپنے تا وہ ہو دیں رستگار
۱۴۸ کس طرح پیٹیں کوئی تدبیر کچھ بنتی نہیں بے طرح پھیلی ہیں یہ آفات ہر سُو ہر کنار ڈوبنے کو ہے یہ کشتی آمرے اے ناخدا آ گیا اس قوم پر وقت خزاں اندر بہار نور دل جاتا رہا اور عقل موٹی ہو گئی اپنی کجرائی پہ ہر دل کر رہا ہے اعتبار جس کو ہم نے قطرۂ صافی تھا سمجھا اور تقی غور سے دیکھا تو کیڑے اس میں بھی پائے ہزار دوربین معرفت سے گند نکلا ہر طرف اس وبا نے کھالئے ہر شاخ ایماں کے ثمار اے خدا بن تیرے ہو یہ آبپاشی کس طرح جل گیا ہے باغ تقویٰ دیں کی ہے اب اک مزار تیرے ہاتھوں سے مرے پیارے اگر کچھ ہو تو ہو ورنہ فتنہ کا قدم بڑھتا ہے ہر دم سیل وار اک نشاں دکھلا کہ اب دیں ہو گیا ہے بے نشاں اک نظر کر اس طرف تا کچھ نظر آوے بہار کیا کہوں دنیا کے لوگوں کی کہ کیسے سو گئے کس قدر ہے حق سے نفرت اور ناحق سے پیار عقل پر پردے پڑے سو سو نشاں کو دیکھ کر نور سے ہوکر الگ چاہا کہ ہوویں اہل نار گر نہ ہوتی بدگمانی کفر بھی ہوتا فنا اس کا ہووے ستیا ناس اس سے بگڑے ہوشیار بدگمانی سے تو رائی کے بھی بنتے ہیں پہاڑ پر کے اک ریشہ سے ہو جاتی ہے کو وں کی قطار حد سے کیوں بڑھتے ہو لوگو کچھ کرو خوف خدا کیا نہیں تم دیکھتے نصرت خدا کی بار بار کیا خدا نے اتقیاء کی عون نصرت چھوڑ دی ایک فاسق اور کا فرسے وہ کیوں کرتا ہے پیار ایک بدکردار کی تائید میں اتنے نشاں کیوں دکھاتا ہے وہ کیا ہے بدکنوں کا رشتہ دار کیا بدلتا ہے وہ اب اس سنت و قانون کو جس کا تھا پابند وہ از ابتدائے روزگار
۱۴۹ آنکھ گر پھوٹی تو کیا کانوں میں بھی کچھ پڑ گیا کیا خدا دھو کے میں ہے اور تم ہو میرے از دار جس کے دعوی کی سراسر افترا پر ہے بنا اس کی یہ تائید ہو پھر جھوٹ سچ میں کیا نکھار کیا خدا بھولا رہا تم کو حقیقت مل گئی کیا رہا وہ بے خبر اور تم نے دیکھا حال زار بدگمانی نے تمہیں مجنون و اندھا کر دیا ورنہ تھے میری صداقت پر براہیں بیشمار جہل کی تاریکیاں اور سُوء ظن کی تند باد جب اکٹھے ہوں تو پھر ایماں اُڑے جیسے غبار زہر کے پینے سے کیا انجام جز موت و فنا بدگمانی زہر ہے اس سے بچو اے دیں شعار کانٹے اپنی راہ میں ہوتے ہیں ایسے بدگماں جن کی عادت میں نہیں شرم و شکیب واصطبار یہ غلط کاری بشر کی بدنصیبی کی ہے جڑ پر مقدر کو بدل دینا ہے کس کے اختیار سخت جاں ہیں ہم کسی کے بغض کی پروا نہیں دل قوی رکھتے ہیں ہم دردوں کی ہے ہم کو سہار جو خدا کا ہے اُسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال کے روبہ زار ونزار ہے سر رہ پر مرے وہ خود کھڑا مولیٰ کریم پس نہ بیٹھو میری رہ میں اے شریران دیار سنت اللہ ہے کہ وہ خود فرق کو دکھلائے ہے تا عیاں ہوکون پاک اور کون ہے مُردارخوار مجھ کو پردے میں نظر آتا ہے اک میرا معین تیغ کو کھینچے ہوئے اُس پر جو کرتا ہے وہ وار دشمن غافل اگر دیکھے وہ باز و وہ سلاح ہوش ہوجائیں خطا اور بھول جائے سب نقار اس جہاں کا کیا کوئی داؤ نہیں اور دادگر پھر شریر النفس ظالم کو کہاں جائے فرار
۱۵۰ کیوں عجب کرتے ہو گر میں آگیا ہو کر مسیح خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ بادِ بہار آسمان پر دعوتِ حق کے لئے اک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اُتار آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگہ زندہ وار کہتے ہیں تثلیث کو اب اہلِ دانش ابو دَاع پھر ہوئے ہیں چشمہ توحید پر از جاں بنار باغ میں ملت کے ہے کوئی گل رعنا کھلا آئی ہے بادِ صبا گلزار گلزار سے مستانہ وار آ رہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اُس کا انتظار وقار ہر طرف ہر ملک میں ہے بُت پرستی کا زوال کچھ نہیں انسان پرستی کو کوئی عز و و آسماں سے ہے چلی توحید خالق کی ہوا دل ہمارا ساتھ ہیں گومُنہ کریں بک بک ہزار اسْمَعُوا صَوْتَ السَّمَاءِ جَاءَ الْمَسِيحَ جَاءَ الْمَسِيحُ نیز بشنو از زمین آمد امام کامگار آسماں بارد نشان انوقت می گوید زمیں ایں دوشاہد از پئے من نعرہ زن چوں بیقرار اب اسی گلشن میں لو گو راحت و آرام ہے وقت ہے جلد آؤ اے آوارگان دشت خار اک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار اے مکذب کوئی اس تکذیب کا ہے انتہا کب تلک تو خوئے شیطاں کو کرے گا اختیار ملت احمد کی مالک نے ڈالی تھی بنا آج پوری ہو رہی ہے اے عزیزان دیار
۱۵۱ گلشنِ احمد بنا ہے مسکن باد صبا جس کی تحریکوں سے سنتا ہے بشر گفتار یار ور نہ وہ ملت وہ آہ وہ رسم وہ دیں چیز کیا سایہ افگن جس پہ نور حق نہیں خورشید وار دیکھ کر لوگوں کے کینے دل مرا خوں ہو گیا قصد کرتے ہیں کہ ہو پامال دُرّ شاہوار ہم تو ہر دم چڑھ رہے ہیں اک بلندی کی طرف وہ بلاتے ہیں کہ ہو جائیں نہاں ہم زیرہ غار نور دل جاتا رہا اک رسم دیں کی رہ گئی پھر بھی کہتے ہیں کہ کوئی مصلح دیں کیا بکار راگ وہ گاتے ہیں جس کو آسماں گا تا نہیں وہ ارادے ہیں کہ جو ہیں برخلاف شہریار ہائے مار آستیں وہ بن گئے دیں کے لئے وہ تو فربہ ہو گئے پر دیں ہوا زار و نزار ان غموں سے دوستوئم ہوگئی میری کمر میں تو مر جاتا اگر ہوتا نہ فضل کردگار اس تپش کو میری وہ جانے کہ رکھتا ہے تپش اس اسم کو میرے وہ سمجھے کہ ہے وہ دلفگار کون روتا ہے کہ جس سے آسماں بھی رو پڑا مہر و مہ کی آنکھ غم سے ہوگئی تاریک و تار مفتری کہتے ہوئے اُن کو حیا آتی نہیں کیسے عالم ہیں کہ اُس عائم سے ہیں یہ برکنار غیر کیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے وہ ہمارا ہو گیا اُس کے ہوئے ہم جاں بنار میں کبھی آدم کبھی موسی کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار اک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب گر نہ ہوتا نام احمد جس پر میرا سب مدار دشمنو! ہم اس کی رہ میں مر رہے ہیں ہر گھڑی کیا کرو گے تم ہماری نیستی کا انتظار
۱۵۲ سرسے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے کہاں اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار کیا کروں تعریف حُسنِ یار کی اور کیا لکھوں اک ادا سے ہو گیا میں سیلِ نفسِ دُوں سے پار اس قدر عرفاں بڑھا میرا کہ کافر ہو گیا آنکھ میں اسکی کہ ہے وہ دُور تر از صحن یار اُس رخ روشن سے میری آنکھ بھی روشن ہوئی ہو گئے اسرار اُس دلبر کے مجھ پر آشکار قوم کے لوگو! ادھر آؤ کہ نکلا آفتاب وادئ ظلمت میں کیا بیٹھے ہو تم لیل و نہار کیا تماشا ہے کہ میں کافر ہوں تم مومن ہوئے پھر بھی اس کافر کا حامی ہے وہ مقبولوں کا یار کیا ابھی بات ہے کافر کی کرتا ہے مدد وہ خدا جو چاہیئے تھا مومنوں کا دوستدار اہل تقویٰ تھا کرم دیں بھی تمہاری آنکھ میں جس نے ناحق ظلم کی رہ سے کیا تھا مجھ پہ وار بے معاون میں نہ تھا تھی نصرت حق میرے سا تھ فتح کی دیتی تھی وحی حق بشارت بار بار پر مجھے اُس نے نہ دیکھا آنکھ اُس کی بند تھی پھر سزا پا کر لگایا سرمه دنباله دار نام بھی کذاب اس کا دفتروں میں رہ گیا اب مٹا سکتا نہیں یہ نام تا روز شمار اب کہو کس کی ہوئی نصرت جناب پاک سے کیوں تمہارا متقی پکڑا گیا ہو کر کے خوار پھر ادھر بھی کچھ نظر کرنا خدا کے خوف سے کیسے میرے یار نے مجھ کو بچایا بار بار قتل کی ٹھانی شریروں نے چلائے تیر مکر بن گئے شیطاں کے چیلے اور نسلِ ہونہار پھر لگا یا ناخنوں تک زور بن کر اک گروہ پر نہ آیا کوئی بھی منصوبہ اُن کو ساز وار ہم جگہ میں ان کی دجال اور بے ایماں ہوئے آتش تکفیر کے اُڑتے رہے پیہم شرار
۱۵۳ اب ذرا سوچو دیانت سے کہ یہ کیا بات ہے ہاتھ کس کا ہے کہ رڈ کرتا ہے وہ دشمن کا وار کیوں نہیں تم سوچتے کیسے ہیں یہ پردے پڑے دل میں اُٹھتا ہے مرکرہ رہ کے اب سوسو بخار یہ اگر انساں کا ہوتا کارو باراے ناقصاں ! ایسے کاذب کیلئے کافی تھا وہ پروردگار کچھ بھی حاجت تمہاری نے تمہارے مکر کی خود مجھے نابود کرتا وہ جہاں کا شہریار پاک و برتر ہے وہ جھوٹوں کا نہیں ہوتا نصیر ورنہ اُٹھ جائے اماں پھر بچے ہو دیں شرمسار اس قدر نصرت کہاں ہوتی ہے اک کذاب کی کیا تمہیں کچھ ڈر نہیں ہے کرتے ہو بڑھ بڑھ کے وار ہے کوئی کاذب جہاں میں لاؤ لوگو کچھ نظیر میرے جیسی جس کی تائید میں ہوئی ہوں بار بار آفتاب صبح نکلا اب بھی سوتے ہیں یہ لوگ دن سے ہیں بیزار اور راتوں سوہ کرتے ہیں پیار روشنی سے بغض اور ظلمت پہ وہ قربان ہیں ایسے بھی شہر نہ ہونگے گر چہ تم ڈھونڈ و ہزار سر پہ اک سورج چمکتا ہے مگر آنکھیں ہیں بند مرتے ہیں دن آب وہ اور در پہ نہر خوشگوار طرفہ کیفیت ہے اُن لوگوں کی جو منکر ہوئے یوں تو ہر دم مشغلہ ہے گالیاں لیل و نہار پر اگر پوچھیں کہ ایسے کا ذبوں کے نام لو جن کی نصرت سالہا سے کر رہا ہو کر دگار مُردہ ہو جاتے ہیں اس کا کچھ نہیں دیتے جواب زرد ہو جاتا ہے منہ جیسے کوئی ہو سوگوار ان کی قسمت میں نہیں دیں کے لئے کوئی گھڑی ہو گئے مفتونِ دُنیا دیکھ کر اُس کا سنگار جی چرانا راستی سے کیا یہ دین کا کام ہے کیا یہی ہے زہد و تقویٰ کیا یہی راہِ خیار کیا قسم کھائی ہے یا کچھ پیچ قسمت میں پڑا روز روشن چھوڑ کر ہیں عاشق شبہائے تار
۱۵۴ انبیاء کے طور پر حجت ہوئی ان پر تمام ان کے جو حملے ہیں ان میں سب نبی ہیں حصہ دار میری نسبت جو کہیں کہیں سے وہ سب پر آتا ہے چھوڑ دینگے کیا وہ سب کو کفر کر کے اختیار مجھ کو کا فرکہے کے اپنے کفر پر کرتے ہیں مہر یہ تو ہے سب شکل ان کی ہم تو ہیں آئینہ دار ساتھ ہیں کچھ برس میرے زیادہ اس گھڑی سال ہے اب تنیسواں دعوی پہ از روئے شمار تھا برس چالیس کا میں اس مسافرخانہ میں جبکہ میں نے وحی ربانی سے پایا افتخار اس قدر یہ زندگی کیا افترا میں کٹ گئی پھر عجب تریہ کہ نصرت کے ہوئے جاری بکار ہر قدم میں میرے مولیٰ نے دیئے مجھ کو نشاں ہر عدو پر حجت حق کی پڑی ہے ذوالفقار نعمتیں و ہ دیں مرے مولیٰ نے اپنے فضل سے جن سے ہیں معنی أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمُ آشکار سایہ بھی ہو جائے ہے اوقات ظلمت میں جدا پر رہاؤہ ہر اندھیرے میں رفیق و غمگسار اس قدر نصرت تو کا ذب کی نہیں ہوتی کبھی گر نہیں باور نظیریں اس کی تم لاؤ دو چار پھر اگر ناچار ہو اس سے کہ دو کوئی نظیر اس مہیمن سے ڈرو جو بادشاہ ہر دودار یہ کہاں سے سُن لیا تم نے کہ تم آزاد ہو کچھ نہیں تم پر عقوبت گو کرو عصیاں ہزار نعرة إِنَّا ظَلَمْنَا سُنّتِ ابرار ہے زہر منہ کی مت دکھاؤ تم نہیں ہونسل مار جسم کو مل مل کے دھونا یہ تو کچھ مشکل نہیں دل کو جو دھووے وہی ہے پاک نزد کر دگار اپنے ایماں کو ذرا پردہ اُٹھا کر دیکھنا مجھ کو کافر کہتے کہتے خود نہ ہوں از اہلِ نار
۱۵۵ گر دیا ہو سوچ کر دیکھیں کہ یہ کیا راز ہے وہ مری ذلت کو چاہیں پا رہا ہوں میں وقار کیا بگاڑا اپنے مکروں سے ہمارا آج تک اثر دہا بن بن کے آئے ہو گئے پھر سُوسمار اے فقیہو عالمو! مجھ کو سمجھ آتا نہیں یہ نشانِ صدق پا کر پھر یہ کہیں اور یہ نقار صدق کو جب پایا اصحاب رسول اللہ نے اُس پہ مال و جان و تن بڑھ بڑھ کے کرتے تھے نثار پھر عجب یہ علم یہ تنقید آثار و حدیث دیکھ کر سو سو نشاں پھر کر رہے ہو تم فرار بحث کرنا تم سے کیا حاصل اگر تم میں نہیں رُوحِ انصاف و خدا ترسی کہ ہے دیں کا مدار کیا مجھے تم چھوڑتے ہو جاہ دنیا کے لئے جاہِ دُنیا کب تلک دُنیا ہے خود ناپائیدار کون در پر وہ مجھے دیتا ہے ہر میداں میں فتح کون ہے جو تم کو ہر دم کر رہا ہے شرمسار تم تو کہتے تھے کہ یہ نابود ہو جائے گا جلد یہ ہمارے ہاتھ کے نیچے ہے اک ادنی شکار بات پھر یہ کیا ہوئی کس نے مری تائید کی خائب و خاسر رہے تم، ہو گیا میں کامگار اک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیر غار کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا معتقد لیکن اب دیکھو کہ چر چا کس قدر ہے ہر کنار اُس زمانہ میں خدا نے دی تھی شہرت کی خبر جو کہ اب پوری ہوئی بعد از مرور روزگار کھول کر دیکھو برا ہیں جو کہ ہے میری کتاب اس میں ہے یہ پیشگوئی پڑھ لواُس کو ایک بار اب ذرہ سوچو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے اس قدر امر نہاں پر کسی بشر کو اقتدار
۱۵۶ قدرت رحمان و مکر آدمی میں فرق ہے جو نہ سمجھے وہ نجمی از فرق تاپا ہے حمار سوچ لوالے سوچنے والو کہ اب بھی وقت ہے راہ حرماں چھوڑ دو رحمت کے ہو اُمیدوار سوچ لو یہ ہاتھ کس کا تھا کہ میرے ساتھ تھا کس کے فرماں میں مقصد پا گیا اور تم ہوخوار سی بھی کچھ ایماں ہے یارو ہم کو سمجھائے کوئی جس کا ہر میداں میں پھل حرماں ہے اور ذلت کی مار غل مچاتے ہیں کہ یہ کافر ہے اور دجال ہے میر تقع خود رکھتا ہوں اُن کے دیں اور ایماں سے مار گر یہی دیں ہے جو ہے ان کی خصائل سے عیاں میں تو اک کوڑی کو بھی لیتا نہیں ہوں زینہار جان و دل سے ہم شار ملت اسلام ہیں لیک دیں وہ رہ نہیں جس پر چلیں اہلِ نقار واہ رے جوشِ جہالت خوب دکھلائے ہیں رنگ جھوٹ کی تائید میں حملے کریں دیوانہ وار نازمت کر اپنے ایماں پر کہ یہ ایماں نہیں اس کو ہیر امت گماں کر ہے یہ سنگِ کو ہسار پیٹنا ہوگا دو ہاتھوں سے کہ ہے ہے مرگئے جبکہ ایماں کے تمہارے گند ہوں گے آشکار ہے یہ گھر گرنے پہ آکے مغرور لے جلدی خبر تا نہ دب جائیں ترے اہل وعیال و رشتہ دار یہ عجب بد قسمتی ہے کس قدر دعوت ہوئی پر اترتا ہی نہیں ہے جام غفلت کا خمار ہوش میں آتے نہیں سو سو طرح کوشش ہوئی ایسے کچھ سوئے کہ پھر ہوتے نہیں ہیں ہوشیار دن بُرے آئے اکٹھے ہوگئے قحط و و با اب تلک تو بہ نہیں اب دیکھئے انجام کار ہے غضب کہتے ہیں اب وحی خدا مفقود ہے اب قیامت تک ہے اس امت کا قصوں پر مدار
۱۵۷ عقیده برخلاف گفته دادار ہے! پر اُتارے کون برسوں کا گلے سے اپنے ہار وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سوہ کرتا ہے پیار گوہر وحی خدا کیوں توڑتا ہے ہوش کر اک یہی دیں کیلئے ہے جائے عزّ و افتخار یہ وہ گل ہے جس کا ثانی باغ میں کوئی نہیں یہ وہ خوشبو ہے کہ قرباں اس پہ ہو مشک تتار یہ وہ ہے مفتاح جس سے آسماں کے در کھلیں یہ وہ آئینہ ہے جس سے دیکھ لیں روئے نگار بس یہی ہتھیار ہے جس سے ہماری فتح ہے بس یہی اک قصر ہے جو عافیت کا ہے حصار ہے خدا دانی کا آلہ بھی یہی اسلام میں محض قصوں سے نہ ہو کوئی بشر طوفاں سے پار ہے یہی وحی خدا عرفان مولی کا نشان جس کو یہ کامل ملے اُس کو ملے وہ دوستدار واہ رے باغ محبت موت جس کی رہگذر وصل یار اس کاشمر پر اردگر داس کے ہیں خار ایسے دل پر داغ لعنت ہے ازل سے تا ابد جو نہیں اس کی طلب میں بیخود و دیوانہ وار پر جو دنیا کے بنے کیڑے وہ کیا ڈھونڈیں اسے دیں اُسے ملتا ہے جو دیں کے لئے ہو بے قرار ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار یاد وہ دن جبکہ کہتے تھے یہ سب ارکانِ دیں مہدی موعود حق اب جلد ہوگا آشکار کون تھا جس کی تمنا یہ نہ تھی اک جوش سے کون تھا جس کو نہ تھا اُس آنیوالے سے پیار پھر وہ دن جب آگئے اور چودھویں آئی صدی سب سے اول ہو گئے منکر یہی دیں کے منار
۱۵۸ پھر دوبارہ آگئی اخبار میں رسم یہود پھر مسیح وقت سے دشمن ہوئے یہ جبہ دار تھا کوشتوں میں یہی از ابتدا تا انتہا پھر مٹے کیونکر کہ ہے تقدیر نے نقش جدار میں تو آیا اس جہاں میں ابن مریم کی طرح میں نہیں مامور از بہر جہاد و کارزار اگر آتا کوئی جیسی انہیں امید تھی اور کرتا جنگ اور دیتا غنیمت بیشمار ایسے مہدی کیلئے میداں کھلا تھا قوم میں پھر تو اس پر جمع ہوتے ایکدم میں صد ہزار پر یہ تھا رحم خُداوندی کہ میں ظاہر ہوا آگ آتی گر نہ میں آتا تو پھر جاتا قرار آگ بھی پھر آگئی جب دیکھ کر اتنے نشاں قوم نے مجھ کو کہا کذاب ہے اور بدشعار ہے یقیں یہ آگ کچھ مدت تلک جاتی نہیں ہاں مگر توبہ کریں باصد نیاز و انکسار یہ نہیں اک اتفاقی امرتا ہوتا علاج ہے خدا کے حکم سے یہ سب تباہی اور تبار وہ خدا جس نے بنایا آدمی اور دیں دیا وہ نہیں راضی کہ بے دینی ہو ان کا کاروبار بے خدا بے زہد و تقویٰ بے دیانت بے صفا بن ہے یہ دنیاءِ دُوں طاعوں کرے اس میں شکار صید طاعوں مت بنو پورے بنو تم متقی یہ جو ایماں ہے زباں کا، کچھ نہیں آتا بکار موت سے گر خود ہو بے ڈر کچھ کرو بچوں پر رحم امن کی رہ پر چلو بن کو کرو مت اختیار بن کے رہنے والو تم ہرگز نہیں ہو آدمی کوئی ہے رو بہ کوئی خنزیر اور کوئی ہے مار ان دلوں کو خود بدل دے مرے قادر خدا تو تو رب العالمین ہے اور سب کا شہریار تیرے آگے محو یا اثبات ناممکن نہیں جوڑنا یا تو ڑنا کام تیرے اختیار
۱۵۹ ٹوٹے کاموں کو بنا دے جب نگاہ فضل ہو پھر بنا کر تو ڑ دے اک دم میں کر دے تارتار تو ہی بگڑی کو بناوے توڑ دے جب بن چکا تیرے بھیدوں کو نہ پائے سو کرے کوئی بچار جب کوئی دل ظلمت عصیاں میں ہوئے مبتلا تیرے دن روشن نہ ہووے گو چڑھے سورج ہزار اس جہاں میں خواہش آزادگی بے سود ہے اک تری قید محبت ہے جو کر دے رستگار دل جو خالی ہو گدا مشق سے وہ دل ہے کیا دل وہ ہے جس کو نہیں بے دلبر یکتا قرار فقر کی منزل کا ہے اوّل قدم نفی وجود پس کرو اس نفس کو زیر و زبر از بهر یار تلخ ہوتا ہے ثمر حجیتک کہ ہو وہ نا تمام اسطرح ایماں بھی ہے جبتک نہ ہو کامل پیار تیرے منہ کی بھوک نے دل کو کیا زیروز بر اے مرے فردوس اعلیٰ اب گرا مجھ پر شمار اے خدا اے چارہ ساز درد ہم کو خود بچا اے مرے زخموں کے مرہم دیکھ میرا دل فگار باغ میں تیری محبت کے عجب دیکھے ہیں پھل ملتے ہیں مشکل سے ایسے سیب اور ایسے انار تیرے بن اے میری جاں یہ زندگی کیا خاک ہے ایسے جینے سے تو بہتر مر کے ہو جانا غبار گر نہ ہو تیری عنایت سب عبادت نہیچ ہے فضل پر تیرے ہے سب جہد و عمل کا انحصار جن پہ ہے تیری عنایت وہ بدی سے دور ہیں رہ میں حق کی قوتیں اُن کی چلیں بن کر قطار چھے گئے شیطاں سجو تھے تیری الفت کے اسیر جو ہوئے تیرے لئے بے برگ و بر پائی بہار سب پیا سوں نکو تر تیرے منہ کی ہے پیاس جس کا دل اس سے ہے بریاں پا گیاؤ ہ آبشار
17.جس کو تیری دُھن لگی آخر وہ تجھ کو جاملا جس کو بے چینی ہے یہ وہ پا گیا آخر قرار عاشقی کی ہے علامت گریہ و دامانِ دشت کیا مبارک آنکھ جو تیرے لئے ہو اشکبار تیری درگہ میں نہیں رہتا کوئی بھی بے نصیب شرط رہ پر صبر ہے اور ترک نامِ اضطرار میں تو تیرے حکم سے آیا مگر افسوس ہے چل رہی ہے وہ ہوا جو رخنہ انداز بہار جیفہ دُنیا پہ یکسر گر گئے دُنیا کے لوگ زندگی کیا خاک اُن کی جو کہ ہیں مُردارخوار دیں کو دے کر ہاتھ دنیا بھی آخر جاتی ہے کوئی آسودہ نہیں بن عاشق و شیدائے یار رنگ تقویٰ سے کوئی رنگت نہیں ہے خوب تر ہے یہی ایماں کا زیور ہے یہی دیں کا سنگار سو چڑھے سورج نہیں بن روئے دلبر روشنی یہ جہاں بے وصل دلبر ہے شب تاریک و تار اے کے پیار کہاں میں تو ہی ہے اک بینظیر جو ترے مجنوں حقیقت میں وہی ہیں ہوشیار اس جہاں کو چھوڑنا ہے تیرے دیوانوں کا کام نقد پا لیتے ہیں وہ اور دوسرے امیدوار کون ہے جسکے عمل ہوں پاک بے انوار عشق کون کرتا ہے وفا بن اُسکے جس کا دل فگار غیر ہو کر غیر پر مرنا کسی کو کیا غرض کون دیوانہ بنے اس راہ میں لیل و نہار کون چھوڑے خواب شیریں کون چھوڑے اکل وشرب کون لے خار مغیلاں چھوڑ کر پھولوں کے ہار عشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پر خطر عشق ہے جو سر جھکا دے زیر تیغ آبدار.پر ہزار افسوس دنیا کی طرف ہیں جھک گئے وہ جو کہتے تھے کہ ہے یہ خانہ ناپائیدار
۱۶۱ جسکو دیکھو آجکل وہ شوخیوں میں طاق ہے آہ رحلت کر گئے وہ سب جو تھے تقویٰ شعار منبروں پر اُنکے سارا گالیوں کا وعظ ہے مجلسوں میں انکی ہر دم سب و غیبت کا روبار جس طرف دیکھو یہی دُنیا ہی مقصد ہو گئی ہر طرف اُس کے لئے رغبت دلائیں بار بار ایک کانٹا بھی اگر دیں کیلئے اُن کو لگے چیخ کر اس سے وہ بھا گیں شیر سے جیسے حمار ہر زماں شکوہ زباں پر ہے اگر ناکام ہیں دیں کی کچھ پروانہیں دنیا کے غم میں سوگوار لوگ کچھ باتیں کریں میری تو با تیں اور ہیں میں فدائے یار ہوں گو تیغ کھینچے صد ہزار اے میرے پیارے بتا تو کس طرح خوشنود ہو نیک دن ہوگاؤ ہی جب تجھ پر ہوویں ہم نثار جسطرح تو دُور ہے لوگوں سے میں بھی دور ہوں ہے نہیں کوئی بھی جو ہو میرے دل کا راز دار نیک ظن کرنا طریق صالحانِ قوم ہے لیک سوپر دے میں ہوں اُن سے نہیں ہوں آشکار بے خبر دونوں ہیں جو کہتے ہیں بد یا نیک مرد میرے باطن کی نہیں ان کو خبر اک ذرہ وار ابنِ مریم ہوں مگر اترا نہیں میں چرخ سے نیز مہدی ہوں مگر بے تیغ اور بے کار زار ملک سے مجھ کو نہیں مطلب نے جنگوں سے ہے کام کام میرا ہے دلوں کو فتح کرنا نے دیار تاج و تختِ ہند قیصر کو مُبارک ہو مدام ان کی شاہی میں میں پاتا ہوں رفاہِ روزگار مجھ کو کیا ملکوں سے میر املک ہے سب سے جُدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار
۱۶۲ ملک روحانی کی شاہی کی نہیں کوئی نظیر گو بہت دُنیا میں گذرے ہیں امیر و تاجدار داغ لعنت ہے طلب کرنا ز میں کا عز و جاہ جس کا جی چاہے کرے اس داغ سے وہ تن فگار کام کیا عز سے ہم کوشہرتوں سے کیا غرض گروہ ذلت سے ہوراضی اُس پر سو عز ت شار ہم اُسی کے ہو گئے ہیں جو ہمارا ہو گیا چھوڑ کر دُنیائے دُوں کو ہم نے پایا وہ نگار دیکھتا ہوں اپنے دل کو عرش رب العالمیں قرب اتنا بڑھ گیا جس سے ہے اترا مجھ میں یار دوستی بھی ہے عجب جس سے ہوں آخر دوستی آملی الفت سے اُلفت ہو کے دو دل پر سوار دیکھ لومیل و محبت میں عجب تاثیر ہے ایک دل کرتا ہے جھک کر دوسرے دل کو شکار کوئی رہ نزدیک تر راہ محبت سے نہیں طے کریں اس راہ مالک ہزاروں دشت خار اُس کے پانے کا یہی اے دوستو اک راز ہے کیمیا ہے جس سے ہاتھ آجائیگا زر بے شمار تیر تاثیر محبت کا خطا جاتا نہیں تیر انداز و! نہ ہونا سُست اس میں زینہار ہے یہی اک آگ تا تم کو بچاوے آگ سے ہے یہی پانی کہ نکلیں جس سے صدہا آبشار اس سے خود آ کر ملے گا تم سے وہ با را ازل اس سے تم عرفانِ حق پہنو گے پھولوں کے ہار وہ کتاب پاک و برتر جس کا طرقاں نام ہے وہ یہی دیتی ہے طالب کو بشارت بار بار جن کو ہے انکار اس سے سخت ناداں ہیں وہ لوگ آدمی کیونکر کہیں جب اُن میں ہے حمق حمار کیا یہی اسلام کا ہے دوسرے دینوں پہ فخر کر دیا قصوں پر سارا ختم دیں کا کاروبار
۱۶۳ مغز فرقانِ مطہر کیا یہی ہے زُہد خشک کیا یہی چوہا ہے نکلا کھود کر یہ کوہسار گر یہی اسلام ہے بس ہو گئی اُمت ہلاک رکس طرح رہ مل سکے جب دیں ہی ہو تاریک و تار مُنہ کو اپنے کیوں بگاڑانا اُمیدوں کی طرح فیض کے در کھل رہے ہیں اپنے دامن کو پسپار رکس طرح کے تم بشر ہو دیکھتے ہو صد نشاں پھرو ہی ضِد و تعصب اور وہی کین و نقار بات سب پوری ہوئی پر تم وہی ناقص رہے باغ میں ہو کر بھی قسمت میں نہیں دیں کے شمار دیکھ لو وہ ساری باتیں کیسی پوری ہو گئیں جن کا ہونا تھا بعید از عقل وفہم و افتکار اُس زمانہ میں ذرا سوچو کہ میں کیا چیز تھا جس زمانہ میں براہیں کا دیا تھا اِشتہار پھر ذرا سوچو کہ اب چرچا مرا کیسا ہوا کس طرح سرعت سے شہرت ہوگئی در ہر دیار جانتا تھا کون کیا عزت تھی پبلک میں مجھے کس جماعت کی تھی مجھ سے کچھ ارادت یا پیار تھے رجوع خلق کے اسباب مال و علم و حکم خاندانِ فقر بھی تھا باعث عز و وقار ایک ان چاروں سے میں محروم تھا اور نے نصیب ایک انساں تھا کہ خارج از حساب و از شمار پھر رکھایا نام کافر ہو گیا مطعُونِ خلق کفر کے فتووں نے مجھ کو کر دیا بے اعتبار اس پر بھی میرے خدا نے یاد کر کے اپنا اقول مرجع عالم بنایا مجھ کو اور دیں کا مدار سارے منصوبے جو تھے میری تباہی کیلئے کر دیئے اُس نے تبکہ جیسے کہ ہو گرد و غبار سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے کوئی بتلائے نظیر اس کی اگر کرنا ہے وار
۱۶۴ مگر انساں کو مٹا دیتا ہے انسان دگر پر خدا کا کام کب بگڑے کسی سے زینہار مفتری ہوتا ہے آخر اس جہاں میں روسیہ جلد تر ہوتا ہے برہم افترا کا کاروبار افترا کی ایسی دُم لمبی نہیں ہوتی کبھی جو ہو مثلِ مُدَتِ فخر الرسل فخر الخيار حسرتوں سے میرا دل پر ہے کہ کیوں منکر ہو تم یہ گھٹا اب جُھوم جُھوم آتی ہے دل پر بار بار یہ عجب آنکھیں ہیں سورج بھی نظر آتا نہیں کچھ نہیں چھوڑا حسد نے عقل اور سوچ اور بیچار قوم کی بدقسمتی اس سرکشی سے گھل گئی پر وہی ہوتا ہے جو تقدیر سے پایا قرار قوم میں ایسے بھی پاتا ہوں جو ہیں دُنیا کے کرم مقصد انکی زیست کا ہے شہوت وخمر و قمار مکر کے بل چل رہی ہے اُن کی گاڑی روز وشب نفس وشیطاں نے اُٹھایا ہے انہیں جیسے کہار دیں کے کاموں میں تو ان کے لڑکھڑاتے ہیں قدم لیک دُنیا کے لئے ہیں نوجوان و ہوشیار حلت و حرمت کی کچھ پروا نہیں باقی رہی ٹھونس کر مُردار پیٹوں میں نہیں لیتے ڈکار لاف زہد و راستی اور پاپ دل میں ہے بھرا ہے زباں میں سب شرف اور پیچ دل جیسے چمار اے عزیز و کب تلک چل سکتی ہے کاغذ کی ناؤ ایک دن ہے غرق ہونا بادو چشم اشکبار جاودانی زندگی ہے موت کے اندر نہاں گلشن دلبر کی راہ ہے وادی نظر بت کے خار اے خدا کمزور ہیں ہم اپنے ہاتھوں سے اُٹھا نا تواں ہم ہیں ہمارا خود اٹھا لے سارا بار تیری عظمت کے کرشمے دیکھتا ہوں ہر گھڑی تیری قدرت دیکھ کر دیکھا جہاں کو مُردہ وار
کام دکھلائے جو تو نے میری نصرت کے لئے پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے ہر زماں وہ کاروبار رکس طرح تو نے سچائی کو مری ثابت کیا میں ترے قرباں مری جاں تیرے کاموں آثار ہے عجب اک خاصیت تیرے جمال حسین میں جس نے اک چپکار سے مجھ کو کیا دیوانہ وار اے گے پیارے ضلالت میں پڑی ہے میری قوم تیری قدر سے نہیں کچھ دور گر پائیں سُدھار مجھ کو کا فرکہتے ہیں میں بھی انہیں مومن کہوں گر نہ ہو پر ہیز کرنا جھوٹ سے دیں کا شعار مجھ پہ اے واعظ نظر کی یار نے تجھ پر نہ کی حیف اُس ایماں پہ جس سے گفر بہتر لاکھ بار روضہ آدم کہ تھا وہ نامکمل اب تلک میرے آنے سے ہوا کامل نجملہ برگ وبار وہ خدا جس نے نبی کو تھا زر خالص دیا زیور دیں کو بناتا ہے وہ اب مثلِ سُنار وہ دکھا تا ہے کہ دیں میں کچھ نہیں اکراہ وجبر دیں تو خود کھینچے ہے دل مثل بہت سیمیں عذار بس یہی ہے رمز جو اُس نے کیا منع از جہاد تا اُٹھاوے دیں کی رہ سے جو اُ ٹھا تھا اک غبار تادکھاوے منکروں کو دیں کی ذاتی خوبیاں جن ہوں شرمندہ جو اسلام پر کرتے ہیں وار کہتے ہیں یورپ کے ناداں یہ نبی کامل نہیں پر وحشیوں میں دیں کو پھیلانا یہ کیا مشکل تھا کار بنانا آدمی وحشی کو ہے اک معجزہ معنی راز نبوت ہے اسی سے آشکار نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اک نور تھے قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار روشنی میں مہر تاباں کی بھلا کیا فرق ہو گرچہ نکلے روم کی سرحد سے یا از زنگبار
۱۶۶ اے مرے پیارو! شکیب وصبر کی عادت کرو وہ اگر پھیلائیں بدبو تم بنو مُشکِ تثار نفس کو مارو کہ اُس جیسا کوئی دشمن نہیں چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامان دمار جس نے نفس دُوں کو ہمت کر کے زیر پا کیا چیز کیا ہیں اُس کے آگے رستم و اسفند یار گالیاں سُن کر دعا دو پا کے دُکھ آرام دو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار تم نہ گھبراؤ اگر وہ گالیاں دیں ہر گھڑی چھوڑ دو ان کو کہ چھپوائیں وہ ایسے اشتہار چُپ رہو تم دیکھ کر اُن کے رسالوں میں ستم دم نہ ماروگر وہ ماریں اور کر دیں حالِ زار دیکھ کر لوگوں کا جوش و غیظ امت کچھ غم کرو شدت گرمی کا ہے محتاج بارانِ بہار افترا اُن کی نگاہوں میں ہمارا کام ہے یہ خیال، اللہ اکبر، کس قدر ہے نابکار خیر خواہی میں جہاں کی خوں کیا ہم نے جگر جنگ بھی تھی صلح کی نیت سے اور کیس سے فرار پاک دل پر بد گمانی ہے یہ شقوت کا نشاں اب تو آنکھیں بند ہیں دیکھیں گے پھر انجام کار جبکہ کہتے ہیں کہ کاذب پھولتے پھلتے نہیں پھر مجھے کہتے ہیں کا ذب دیکھ کر میرے شمار کیا تمہاری آنکھ سب کچھ دیکھ کر اندھی ہوئی کچھ تو اُس دن سے ڈرو یارو! کہ ہے روز شمار آنکھ رکھتے ہو ذرا سوچو کہ یہ کیا راز ہے کس طرح ممکن کہ وہ قدوس ہو کاذب کا یار یہ کرم مجھ پر ہے کیوں کوئی تو اس میں بات ہے بے سبب ہرگز نہیں یہ کاروبار رکردگار
۱۶۷ مجھ کو خود اس نے دیا ہے چشمہ توحید پاک تا لگاوے از سر نو باغ دیں میں لالہ زار دوش پر میرے وہ چادر ہے کہ دی اُس یار نے پھر اگر قدرت ہے اے منکر تو یہ چادر اُتار خیرگی سے بدگمانی اس قدر اچھی نہیں ان دنوں میں جب کہ ہے شور قیامت آشکار ایک طوفاں ہے خدا کے قہر کا اب جوش پر نوح کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہو رستگار صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار پشتی دیوار دیں اور مامنِ اسلام ہوں نارسا ہے دست دشمن تا بفرق ایں جدار جاہلوں میں اس قدر کیوں بدگمانی بڑھ گئی کچھ بُرے آئے ہیں دن یا پڑ گئی لعنت کی مار گچھ تو مجھیں بات کو یہ دل میں ارماں ہی رہا واہ رے شیطاں عجب ان کو کیا اپنا شکار اے کہ ہر دم بدگمانی تیرا کاروبار ہے دوسری قوت کہاں گم ہو گئی اے ہوشیار میں اگر کاذب ہوں کذابوں کی دیکھوں گا سزا پر اگر صادق ہوں پھر کیا غذر ہے روز شمار اس تعصب پر نظر کرنا کہ میں اسلام پر ہوں فدا پھر بھی مجھے کہتے ہیں کافر بار بار میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر میں وہ ہوں نورِخدا جس سے ہوا دن آشکار ہائے وہ تقویٰ جو کہتے تھے کہاں مخفی ہوئی ساربان نفسِ دُوں نے کس طرف پھیری مہار کام جو دکھلائے اس خلاق نے میرے لئے کیا وہ کر سکتا ہے جو ہو مُفتری شیطاں کا یار میں نے روتے روتے دامن کر دیا کر درد سے اب تلک تم میں وہی خشکی رہی با حالِ زار
۱۶۸ ہائے یہ کیا ہو گیا عقلوں پہ کیا پتھر پڑے ہو گیا آنکھوں کے آگے اُن کے دن تاریک و تار یا کسی مخفی سکنہ مخفی گنہ سے شامت اعمال ہے جس سے عقلیں ہو گئیں بریکار اور اک مُردہ وار گردنوں پر اُن کی ہے سب عام لوگوں کا گند جنکے وعظوں سے جہاں کے آ گیا دل میں غبار ایسے کچھ سوئے کہ پھر جاگے نہیں ہیں اب تلک ایسے کچھ بھولے کہ پھر نسیاں ہو اگر دن کا ہار نوع انساں میں بدی کا تختم ہونا ظلم ہے وہ بدی آتی ہے اُس پر جو ہواُس کا کاشتکار - چھوڑ کر فرقاں کو آثار مخالف پر جسے سر پہ مسلم اور بخاری کے دیا ناحق کا بار جبکہ ہے امکان کذب و کج روی اخبار میں پھر حماقت ہے کہ رکھیں سب انہی پر انحصار جبکہ ہم نے نور حق دیکھا ہے اپنی آنکھ سے جبکہ خود وحی خدا نے دی خبر یہ بار بار پھر یقیں کو چھوڑ کر ہم کیوں گمانوں پر چلیں خود کہو رؤیت ہے بہتر یا نقول پر غبار تفرقہ اسلام میں نفلوں کی کثرت سے ہوا جس سے ظاہر ہے کہ راہ نقل ہے بے اعتبار نقل کی تھی اک خطا کاری مسیحا کی حیات جس سے میں نصرانیت کا ہو گیا خدمت گذار صد ہزاراں آفتیں نازل ہوئیں اسلام پر ہو گئے شیطاں کے چیلے گردنِ دیں پر سوار موت عیسی کی شہادت دی خدا نے صاف صاف پھر احادیث مخالف رکھتی ہیں کیا اعتبار گر گماں صحت کا ہو پھر قابل تاویل ہیں کیا حدیثوں کے لئے فرقاں پہ کر سکتے ہو وار وہ خدا جس نے نشانوں سے مجھے تمغہ دیا اب بھی وہ تائید فرقاں کر رہا ہے بار بار
۱۶۹ سر کو پیٹو آسماں سے اب کوئی آتا نہیں عُمر دنیا سے بھی اب ہے آ گیا ہفتم ہزارے اس کے آتے آتے دیں کا ہو گیا قصہ تمام کیا وہ تب آئے گا جب دیکھے گا اس دیں کا مزار کشتی اسلام بے لطف خدا اب غرق ہے اے جنوں کچھ کام کر بریکار ہیں عقلوں کے وار مجھ کو دے اک فوق عادی خدا جوش و تپش جس سےہو جاؤں میں غم میں دیں کے اک دیوانہ وار وہ لگادے آگ میرے دل میں ملت کیلئے شعلے پہنچیں جس سے ہر دم آسماں تک بیشمار اے خُدا تیرے لئے ہر ذرہ ہو میرا فدا مجھ کو دکھلا دے بہار دیں کہ میں ہوں اشکبار خاکساری کو ہماری دیکھ اے دانائے راز کام تیرا کام ہے ہم ہو گئے اب بے قرار اک کرم کر پھیر دے لوگوں کو فرقاں کی طرف نیز دے توفیق تا وہ کچھ کریں سوچ اور بیچار ایک فرقاں ہے جو شک اور ریہ سے وہ پاک ہے بعد اس کے طرنِ غالب کو ہیں کرتے اختیار کتب سابقہ اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ عمر دُنیا کی حضرت آدم علیہ السلام سے سات ہزار برس تک ہے.اسی کی طرف قرآن شریف اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ.یعنی خدا کا ایک دن تمہارے ہزار برس کے برابر ہے اور خدا تعالیٰ نے میرے دل پر یہ الہام کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک حضرت آدم سے اسی قدر مدت بحساب قمری گذری تھی جو اس سورۃ کے حروف کی تعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتی ہے اور اس کے رُو سے حضرت آدم سے اب ساتواں ہزار بحساب قمری ہے جو دُنیا کے خاتمہ پر دلالت کرتا ہے اور یه حساب جوسوره والعصر کے حروف کے اعداد نکالنے سے معلوم ہوتا ہے یہود ونصاری کے حساب سے قریباً تمام و کمال ملتا ہے.صرف قمری اور شمسی حساب کو لحوظ رکھ لینا چاہیے اور ان کی کتابوں سے پایا جاتا ہے جو مسیح موعود کا چھٹے ہزار میں آنا ضروری ہے اور کئی برس ہو گئے کہ چھٹا ہزار گذر گیا.منہ
۱۷۰ پھر یہ قلیں بھی اگر میری طرف سے پیش ہوں تنگ ہو جائے مخالف پر مجال کارزار باغ مُرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب شمر میں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار مرہم عیسی نے دی تھی محض عیسی کو شفا میری مرہم سے شفا پائے گا ہر ملک و دیار جھانکتے تھے نور کو وہ روزن دیوار سے ایک جب در گھل گئے پھر ہو گئے غیر شعار وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے اُمید وار پر ہوئے دیں کے لئے یہ لوگ مار آستیں دشمنوں کو خوش کیا اور ہو گیا آزردہ یار غل مچاتے ہیں کہ یہ کافر ہے اور دجال ہے پاک کو ناپاک سمجھے ہو گئے مُردار خوار گو وہ کا فرکہ کے ہم سے دور تر ہیں جاپڑے انکے غم میں ہم تو پھر بھی ہیں حزین و دلفگار ہم نے یہ مانا کہ انکے دل ہیں پھر ہو گئے پھر بھی پتھر سے نکل سکتی ہے دینداری کی نار کیسے ہی وہ سخت دل ہوں ہم نہیں ہیں نا امید آیت لَا تَيْسُوا رکھتی ہے دل کو استوار پیشہ ہے رونا ہمارا پیش ربّ ڈوالیکن یہ شجر آخر کبھی اس نہر سے لائیں گے بار جن میں آیا ہے بیک وقت وہ منکر ہوئے مر گئے تھے اس تمنا میں خواص ہر دیار میں نہیں کہتا کہ میری جان ہے سب سے پاک تر میں نہیں کہتا کہ یہ میرے عمل کے ہیں شمار میں نہیں رکھتا تھا اس دعوئی سے اک ذرہ خبر کھول کر دیکھو بُرا ہیں کو کہ تا ہو اعتبار گر کہے کوئی کہ یہ منصب تھا شایانِ قریش وہ خُدا سے پوچھ لے میرا نہیں یہ کاروبار
مجھ کو بس ہے وہ خدا عہدوں کی کچھ پروانہیں ہو سکے تو خود بنو مہدی بحکم کردگار افتر العنت ہے اور ہر مفتری ملعون ہے پھر لعیں وہ بھی ہے جو صادق سے رکھتا ہے نقار تشنہ بیٹھے ہو کنار جوئے شیریں حیف ہے سرزمین ہند میں چلتی ہے نہر خوشگوار ان نشانوں کو ذرہ سوچو کہ کس کے کام ہیں کیا ضرورت ہے کہ دکھلاؤ غضب دیوانہ وار مفت میں ملزم خدا کے مت بنوا کے منکر و یہ خدا کا ہے نہ ہے یہ مفتری کا کاروبار خدا بنوائے فتوحات نمایاں یہ تواتر سے نشاں کیا یہ ممکن ہیں بشر سے کیا یہ مکاروں کا کار ایسی سرعت یہ شہرت نا گہاں سالوں کے بعد کیا نہیں ثابت یہ کرتی صدق قول کردگار کچھ تو سوچو ہوش کر کے کیا یہ معمولی ہے بات جس کا چرچا کر رہا ہے ہر بشر اور ہر دیار مٹ گئے چیلے تمہارے ہو گئی جنت تمام اب کہو کس پر ہوئی اسے منکر ولعنت کی مار بندہ درگاہ ہوں اور بندگی سے کام ہے کچھ نہیں ہے فتح سے مطلب نہ دل میں خوف ہار مت کرو بک بک بہت اُس کی دلوں پر ہے نظر دیکھتا ہے پاکی دل کو نہ باتوں کی سنوار کیسے پتھر پڑ گئے ہے ہے تمہاری عقل پر دیں ہے منہ میں گرگ کے تم گرگ کے خود پاسدار ہر طرف سے پڑ رہے ہیں دینِ احمد پر تبر کیا نہیں تم دیکھتے قوموں کو اور اُن کے وہ وار ے اب تک کئی ہزار خدا تعالیٰ کے نشان میرے ہاتھ پر ظاہر ہو چکے ہیں.زمین نے بھی میرے لئے نشان دکھلائے اور آسمان نے بھی اور دوستوں میں بھی ظاہر ہوئے اور دشمنوں میں بھی جن کے کئی لاکھ انسان گواہ ہیں اور ان نشانوں کو اگر تفصیلاً جد اجد اشمار کیا جائے تو قریباًؤ ہ سارے نشان دس لاکھ تک پہنچتے ہیں.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ مِنه
۱۷۲ کون سی آنکھیں جو اُس کو دیکھ کر روتی نہیں کون سے دل ہیں جو اس غم سے نہیں ہیں بے قرار کھا رہا ہے دیں طمانچے ہاتھ سے قوموں کےآج اک تزلزل میں پڑا اسلام کا عالی منار یہ مصیبت کیا نہیں پہنچی خدا کے عرش تک کیا تیئیس الدیں نہاں ہو جائے گا اب زیر غار جنگ روحانی ہے اب اس خادم و شیطان کا دل گھٹا جاتا ہے یا رب سخت ہے یہ کارزار ہرنبی وقت نے اس جنگ کی دی تھی خبر کر گئے وہ سب دعا ئیں بادو چشم اشکبار کے خدا شیطاں پہ مجھ کو فتح دے رحمت کے ساتھ وہ اکٹھی کر رہا ہے اپنی فوجیں بے شمار جنگ یہ بڑھ کر ہے جنگِ روس اور جاپان سے میں غریب اور ہے مقابل پر حریف نامدار دل نکل جاتا ہے قابو سے بیشکل سوچ کر اے مری جاں کی پناہ فوج ملائک کو اُتار بستر راحت کہاں ان فکر کے ایام میں غم سے ہر دن ہورہا ہے بدتر از شب ہائے تار لشکر شیطاں کے نرغے میں جہاں ہے گھر گیا بات مشکل ہوگئی قدرت دکھا اے میرے یار نسلِ انساں سے مرداب مانگنا بیکار ہے اب ہماری ہے تری درگاہ میں یارب پکار کیوں کریں گے وہ مردان کو مدد سے کیا غرض ہم تو کافر ہو چکے اُن کی نظر میں بار بار پر مجھے رہ رہ کے آتا ہے تعجب قوم سے کیوں نہیں وہ دیکھتے جو ہو رہا ہے آشکار شکر اللہ میری بھی آہیں نہیں خالی گئیں کچھ بنیں طاعوں کی صورت کچھ زلازل کے بخار اس طرف طاعون خونی کھا رہا ہے ملک کو ہو رہے ہیں صد ہزاراں آدمی اُس کا شکار
۱۷۳ دوسرے منگل کے دن آیا تھا ایسا زلزلہ جس سے اک محشر کا عالم تھا بصد شور و پکار ایک ہی دم میں ہزاروں اس جہاں سے چل دیئے جس قدر گھر گر گئے اُن کا کروں کیونکر شمار یا تو وہ عالمی مکاں تھے زینت و زیپ جلوس یا ہوئے اک ڈھیرا نیٹوں کے پُر از گردوغبار حشر جس کو کہتے ہیں اک دم میں برپا ہو گیا ہر طرف میں مرگ کی آواز تھی اور اضطرار دب گئے نیچے پہاڑوں کے کئی دیہات و شہر مر گئے لاکھوں بشر اور ہو گئے دُنیا سے پار اس نشاں کو دیکھ کر پھر بھی نہیں ہیں نرم دل پس خدا جانے کہ اب کس حشر کا ہے انتظار وہ جوکہلاتے تھے صوفی کہیں میں سے بڑھ گئے کیا یہی عادت تھی شیخ غزنوی کی یادگار کہتے ہیں لوگوں کو ہم بھی زبدۃ الابرار ہیں! پڑتی ہے ہم پر بھی کچھ کچھ وحی رحماں کی پھوار پر وہی نافہم ملہم اول الاعدا ہوئے آگیا چرخ بریں سے ان کو تکفیروں کا تار سب نشاں بریکار اُن کے بغض کے آگے ہوئے ہو گیا تیر تعصب ان کے دل میں وار پار دیکھتے ہرگز نہیں قدرت کو اس ستار کی گوسناویں اُن کو وہ اپنی بجاتے ہیں ستار صوفیا! اب میچ ہے تیری طرح تیری تراہ آسماں سے آگئی میری شہادت بار بار قدرت حق ہے کہ تم بھی میرے دشمن ہو گئے یا محبت کے وہ دن تھے یا ہوا ایسا نقار دھو دیئے دل سے سارے صحبت دیریں کے رنگ پھول بن کر ایک مدت تک ہوئے آخر کو خار جس قدر نقد تعارف تھا وہ کھو بیٹھے تمام آہ! کیا یہ دل میں گذرا، ہوں میں اس کے دلفگار
۱۷۴ آسماں پر شور ہے پر کچھ نہیں تم کو خبر دن تو روشن تھا مگر ہے بڑھ گئی گرد و غبار اک نشاں ہے آنیوالا آج سے کچھ دن کے بعد جس سے گردش کھا ئیں گے دیہات و شہر اور مرغزار آئے گا قہر خدا سے خلق پر اک انقلاب اک بر ہنہ سے نہ یہ ہوگا کہ تا باند ھے ازار یک بیک اک زلزلہ سے سخت جنبش کھا ئینگے کہ کیا بشر اور کیا شجر اور کیا حجر اور کیا بحار اک جھپک میں یہ زمیں ہو جائے گی زیروز بر نالیاں خوں کی چلیں گی جیسے آپ رود بار رات جو رکھتے تھے پوشاکیں برنگِ یا سمن صبح کر دے گی انہیں مثل درختان چنار تاریخ امروزه ۱۵ر پریل ۱۹۰۵ء خدا تعالیٰ کی وحی میں زلزلہ کا بار بار لفظ ہے اور فرمایا کہ ایسا زلزلہ ہوگا جو نمونہ قیامت ہوگا بلکہ قیامت کا زلزلہ اس کو کہنا چاہیے جس کی طرف سورۃ اِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا اشارہ کرتی ہے لیکن میں ابھی تک اس زلزلہ کے لفظ کو قطعی یقین کے ساتھ ظاہر پر جما نہیں سکتا.ممکن ہے کہ یہ معمولی زلزلہ نہ ہو بلکہ کوئی اور شدید آفت ہو جو قیامت کا نظارہ دکھلا دے جس کی نظیر کبھی اس زمانہ نے نہ دیکھی ہو.اور جانوروں اور عمارتوں پر سخت تباہی آوے.ہاں اگر ایسا فوق العادت نشان ظاہر نہ ہو اور لوگ کھلے طور پر اپنی اصلاح بھی نہ کریں تو اس صورت میں میں کا ذب ٹھہروں گا.مگر میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ یه شدید آفت جس کو خدا تعالیٰ نے زلزلہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے صرف اختلاف مذہب پر کوئی اثر نہیں رکھتی اور نہ ہند و یا عیسائی ہونیکی وجہ سے کسی پر عذاب آ سکتا ہے اور نہ اس وجہ سے آ سکتا ہے کہ کوئی میری بیعت میں داخل نہیں.یہ سب لوگ اس تشویش سے محفوظ ہیں.ہاں جو شخص خواہ کسی مذہب کا پابند ہو جرائم پیشہ ہونا اپنی عادت رکھے اور فسق و فجور میں غرق ہو اور زانی، خونی، چور ، ظالم اور ناحق کے طور پر بداندیش، بد زبان اور بد چلن ہو اُس کو اس سے ڈرنا چاہیئے اور اگر تو بہ کرے تو اُس کو بھی کچھ غم نہیں اور مخلوق کے نیک کردار اور نیک چلن ہونے سے یہ عذاب ٹل سکتا ہے.قطعی نہیں ہے.منہ
۱۷۵ (بلبل) ہوش اڑ جائیں گے انسان کے بندوں کے حواس بھولیں گے نظموں کو اپنے سب کبوتر اور ہزار ہر مُسافر پر وہ ساعت سخت ہے اور وہ گھڑی راہ کو کھولیں گے ہو کر مست و بیخود راہوار خون سے مُردوں کے کوہستان کے آپ رواں سُرخ ہو جائیں گے جیسے ہو شراب انجبار مضمحل ہو جا ئینگے اس خوف سے سب جن وانس زار بھی ہوگا تو ہوگا اُس گھڑی باحال زار اک نمونہ قہر کا ہوگا وہ ربانی نشاں آسماں حملے کرے گا کھینچ کر اپنی کٹار ނ ہاں نہ کر جلدی آنکاراے سفیہ ناشناس اس پہ ہے میری سچائی کا سبھی دار و مدار وجي حق کی بات ہے ہو کر رہے گی بے خطا کچھ دنوں کر صبر ہو کر منتفی اور بردبار یہ گماں مت کر کہ یہ سب بد گمانی ہے معاف قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا اُدھار 000 براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۹۷.مطبوعہ ۱۹۰۸ء
درس توحید وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو جو کچھ بتوں میں پاتے ہو اس میں وہ کیا نہیں سورج پر غور کر کے نہ پائی وہ روشنی جب چاند کو بھی دیکھا تو اُس پار سا نہیں واحد ہے لاشریک ہے اور لازوال ہے سب موت کا شکار ہیں اُس کو فنا نہیں سب خیر ہے اسی میں کہ اس سے لگاؤ دِل ڈھونڈو اسی کو یارو! بتوں میں وفا نہیں اس جائے پُر عذاب سے کیوں دل لگاتے ہو دوزخ ہے یہ مقام یہ بستاں سرا نہیں رسالة تشحید الا ذبان ماه دسمبر ۱۹۰۸ء کرکے کرکے آپ کے
122 پیش گوئی جنگ عظیم یہ نشان زلزلہ جو ہو چکا منگل کے دن وہ تو اک لقمہ تھا جو تم کو کھلایا ہے نہار اک ضیافت ہے بڑی اے غافلو کچھ دن کے بعد جس کی دیتا ہے خبر فرقاں میں رحماں بار بار فاسقوں اور فاجروں پر وہ گھڑی دُشوار ہے جس سے قیمہ بن کے پھر دیکھیں گے قیمہ کا بگھار خوب کھل جائیگا لوگوں پہ کہ دیں کس کا ہے دیں پاک کر دینے کا تیر تھ کعبہ ہے یا ہر دوار وحی حق کے ظاہری لفظوں میں ہے وہ زلزلہ ایک ممکن ہے کہ ہو کچھ اور ہی قسموں کی مار کچھ ہی ہو پر وہ نہیں رکھتا زمانہ میں نظیر فوق عادت ہے کہ سمجھا جائے گا روز شمار یہ جو طاعوں ملک میں ہے اسکو کچھ نسبت نہیں اُس بلا سے وہ تو ہے اک حشر کا نقش و نگار وقت ہے تو بہ کرو جلدی مگر کچھ رحم ہو! سُست کیوں بیٹھے ہو جیسے کوئی پی کر کوکنار تم نہیں لوہے کے کیوں ڈرتے نہیں اس وقت سے جس سے پڑ جائیگی اک دم میں پہاڑوں میں بغار پڑ وہ تباہی آئے گی شہروں پہ اور دیہات پر جس کی دنیا میں نہیں ہے مثل کوئی زینہار ایک دم میں غم کردے ہو جائینگے عشرت کدے شادیاں کرتے تھے جو پیٹیں گے ہوکر سوگوار وہ جو تھے اونچے محل اور وہ جو تھے قصر بریں پست ہو جائینگے جیسے پست ہو اک جائے غار ایک ہی گردش سے گھر ہو جائیں گے مٹی کا ڈھیر جس قدر جانیں تلف ہوں گی نہیں ان کا شمار پر خدا کا رحم ہے کوئی بھی اس سے ڈر نہیں اُن کو جو جھکتے ہیں اس درگہ پہ ہو کر خاکسار یہ خوشی کی بات ہے سب کام اُس کے ہاتھ ہے وہ جو ہے دھیما غضب میں اور ہے آمرزگار
۱۷۸ کب یہ ہوگا ؟ یہ خدا کو علم ہے پر اس قدر دی خبر مجھ کو کہ وہ دن ہوں گے ایام بہار پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی یہ خدا کی وحی ہے اب سوچ لواے ہوشیار یاد کر فرقاں سے لفظ زُلْزِلَتْ زِلْزَالَهَا ایک دن ہو گا وہی جو غیب سے پایا قرار سخت ماتم کے وہ دن ہو نگے مصیبت کی گھڑی لیک وہ دن ہونگے نیکوں کیلئے شیریں ثمار آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائینگے جو کہ رکھتے ہیں خُدائے ذوالعجائب سے پیار انبیاء سے بغض بھی اے غافلو! اچھا نہیں دُور تر ہٹ جاؤ اس سے ہے یہ شیروں کی کچھار کیوں نہیں ڈرتے خدا سے کیسے دل اندھے ہوئے بے خدا ہرگز نہیں بدقسمتو ! کوئی سہار یہ نشانِ آخری ہے کام کر جائے مگر ورنہ اب باقی نہیں ہے تم میں امید سُدھار آسماں پر ان دنوں قہر خدا کا جوش ہے کیا نہیں تم میں سے کوئی بھی رشید و ہونہار اس نشاں کے بعد ایماں قابلِ عزت نہیں ایسا جامہ ہے کہ نو پوشوں کا جیسے ہو اُتار اس میں کیا خوبی کہ پڑ کر آگ میں پھر صاف ہوں خوش نصیبی ہو اگر اب سے کرو دل کی سنوار اب تو نرمی کے گئے دن اب خدائے خشمگیں کام وہ دکھلائے گا جیسے ہتھوڑے سے کہا رے اُس گھڑی شیطان بھی ہوگا سجدہ کرنے کو کھڑا دل میں یہ رکھ کر کہ حکم سجدہ ہو پھر ایک بار یادر ہے کہ جس عذاب کے لئے یہ پیشگوئی ہے اُس عذاب کو خدا تعالیٰ نے بار بار زلزلہ کے لفظ سے بیان کیا ہے اگر چہ بظاہر وہ زلزلہ ہے اور ظاہر الفاظ یہی بتاتے ہیں کہ وہ زلزلہ ہی ہوگا ، لیکن چونکہ عادتِ الہی میں استعارات بھی داخل ہیں اس لئے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ غالباًا تو وہ زلزلہ ہے ورنہ کوئی اور جانگداز اور فوق العادت عذاب ہے جو زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہے اور اس کی بار بار شائع کرنے کی اسی وجہ سے ضرورت پیش آئی ہے جو پہلے زلزلہ کی خبر جو اچھی طرح شائع نہیں کی گئی اس سے بہت سی جانوں کا نقصان ہوا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ دوسری پیشگوئی میں جو زلزلہ کے بارے میں ہے جہاں تک میری طاقت ہے لوگوں کو خبر کر دوں تا شاید میری بار بار کی اشاعت سے لوگوں کے دل میں صلاحیت کا خیال پیدا ہو جائے اور اس عذاب کے ٹلنے کے لئے اس بات کی ضرورت نہیں کہ کوئی عیسائی ہو یا ہندو یا مسلمان ہو یا کوئی شخص ہماری بیعت کرے.ہاں یہ ضرورت ہے کہ لوگ نیک چلنی اختیار کریں اور جرائم پیشہ ہونا چھوڑ دیں.منہ
۱۷۹ بے خدا اس وقت دنیا میں کوئی مامن نہیں یا اگر ممکن ہو اب سے سوچ لو راہِ فرار تم سے غائب ہے مگر میں دیکھتا ہوں ہر گھڑی پھرتا ہے آنکھوں کے آگے وہ زماں وہ روزگار گر کرو تو بہ تو اب بھی خیر ہے کچھ غم نہیں تم تو خود بنتے ہو قہر ڈوالیمین کے خواستگار وہ خدا حلم و تفضّل میں نہیں رکھتا نظیر کیوں پھرے جاتے ہواُس کے حکم سے دیوانہ وار میں نے روتے روتے سجدہ گاہ بھی تر کر دیا پر نہیں ان خشک دل لوگوں کو خوف کردگار یا الہی اک نشاں اپنے کرم سے پھر دکھا گردنیں جھک جائیں جس اور مکذب ہوں خوار اک کرشمہ سے دکھا اپنی وہ عظمت کے قدیر جس سے دیکھے تیرے چہرے کو ہر اک غفلت شعار تیری طاقت سے جو منکر ہیں انہیں اب کچھ دیکھا پھر بدل دے گلشن و گلزار سے یہ دشت خار زور سے جھٹکے اگر کھاوے زمیں کچھ غم نہیں پر کسی ڈھب سے تزلزل سے ہو ملت رستگار دین و تقوی گم ہوا جاتا ہے یا رب رحم کر بے بسی سے ہم پڑے ہیں کیا کریں کیا اختیار میرے آنسو اس غم دل سوز سے تھمتے نہیں دیں کا گھر ویراں ہے اور دُنیا کے ہیں عالی منار دیں تو اک نا چیز ہے دُنیا ہے جو کچھ چیز ہے آنکھ میں اُن کی جو ر کھتے ہیں زر وعز و وقار جس طرف دیکھیں وہیں اک دہریت کا جوش ہے دیں سے ٹھٹھا اور نماز وں روزوں سے رکھتے ہیں عار جاہ و دولت سے یہ زہریلی ہوا پیدا ہوئی موجب نخوت ہوئی رفعت کہ تھی اک زہر مار ہے بلندی شان ایزدگر بشر ہو وے بلند فخر کی کچھ جا نہیں وہ ہے متاعِ مُستعار ایسے مغروروں کی کثرت نے کیا دیں کو تباہ ہے یہی غم میرے دل میں جس سےہوں میں دلفگار اے مرے پیارے مجھے اس سیل غم سے کر رہا ور نہ ہو جائے گی جاں اس درد سے تجھ پر شار از نوٹ بک حضرت مسیح موعود علیہ السلام
۱۸۰ بدظنی سے بچو اگر دل میں تمہارے شر نہیں ہے تو پھر کیوں ظن بد سے ڈر نہیں ہے کوئی جو ظنِ بد رکھتا ہے عادت بدی سے خود وہ رکھتا ہے ارادت گمان بد شیاطیں کا ہے پیشہ نہ اہل عفت و دیں کا ہے پیشہ تمہارے دل میں شیطاں دے ہے بچے اسی سے ہیں تمہارے کام کچے وہی کرتا ہے ظن بد بلا ریب کہ جو رکھتا ہے پردہ میں وہی عیب وہ فاسق ہے کہ جس نے رہ گنوایا نظر بازی کو اک پیشہ بنایا مگر عاشق کو ہرگز بد نہ کہیو! وہاں بدظنیوں بچ کے رہیو اگر عشاق کا ہو پاک دامن یقیں مجھو کہ ہے تریاق دامن مگر مشکل یہی ہے درمیاں میں کہ گل بے خار کم ہیں بوستاں میں تمہیں یہ بھی سُناؤں اس بیاں میں کہ عاشق رکس کو کہتے ہیں جہاں میں وہ عاشق ہے کہ جس کو حسب تقدیر محبت کی کماں ނ آ لگا تیر نہ شہوت ہے نہ ہے کچھ نفس کا جوش ہوا اُلفت کے پیمانوں مد ہوش لگی سینہ میں اُس کے آگ غم کی نہیں اس کو خبر کچھ پیچ و خم کی از مسودات حضرت مسیح موعود علیہ السلام ނ
۱۸۱ ہجوم مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا طریق ذیل میں جو نظم درج کی جاتی ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک صاحب شیخ محمد بخش رئیس کڑیا نوالہ ضلع گجرات کو لکھ کر عطا فرمائی تھی جبکہ وہ سخت مالی مشکلات میں مبتلا تھے.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دُعا کے طفیل اُن کی تکالیف دُور کر دیں.اک نہ اک دن پیش ہوگا تو فنا کے سامنے چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے چھوڑنی ہوگی تجھے دُنیائے فانی ایک دن ہر کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے مستقل رہنا ہے لازم اسے بشر تجھ کو سدا رنج و غم یاس و الم فکر و بلا کے سامنے بارگاه ایزدی سے تو نہ یوں مایوس ہو مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل کشا کے سامنے حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے چاہیے تجھ کو مٹانا قلب سے نقشِ دُوئی سر جُھکا بس مالک ارض و سما کے سامنے چاہیے نفرت بدی سے اور نیکی سے پیار ایک دن جانا ہے تجھ کو بھی خدا کے سامنے راستی کے سامنے کب جھوٹ پھلتا ہے بھلا قدر کیا پتھر کی لعل بے بہا کے سامنے آگے آگے اخبار الفضل‘۱۳ جنوری ۱۹۲۸ء
۱۸۲.متفرق اشعار نہیں محصور ہرگز راستہ قدرت نمائی کا خدا کی قدرتوں کا حصر دعوی ہے خدائی کا 000 قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے 000 جس نے پیدا کیا وہی جانے دوسرا کیونکر اُس کو پہچانے غیر کو غیر کی خبر کیا ہو دور کارگر 000 ا.براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۴۰۱ مطبوعه ۱۸۸۴ء ۲.اشتہاراعلان مطبوعہ ریاض ہندا مرتسر ۲۲ / مارچ ۱۸۸۶ء - سرمه چشم آریہ صفحه ۱۸۴ مطبوعه ۱۸۸۶ء کیا ہو
۱۸۳ ہم نے الفت میں تیری بار اُٹھایا کیا کیا تجھ کو دکھلا کے فلک نے ہے دکھایا کیا کیا جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہو گیا آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا شکر الله ! مل گیا ہم کو وہ لعلِ بے بدل کیا ہوا گر قوم کا دل سنگ خارا ہو گیا 000 پیش گوئی کا جب انجام ہویدا ہو گا! قدرت حق کا عجب ایک تماشا ہو گا جھوٹ اور سچ میں جو ہے فرق وہ پیدا ہوگا کوئی یا جائے گا عزت کوئی رُسوا ہو گا! 000 لوگوں کے بخضوں سے اور کینوں سے کیا ہوتا ہے جس کا کوئی بھی نہیں اُس کا خدا ہوتا ہے بے خدا کوئی بھی ساتھی نہیں تکلیف کے وقت اپنا سایہ بھی اندھیرے میں جُدا ہوتا ہے ۴.اشتہار محک اخیار واشرار (سرمه چشم آریہ) مطبوعه ۱۸۸۶ء ازالہ اوہام حصہ دوم صفحه ۶۶۵ مطبوعه ۱۸۹۱ء آئینہ کمالات اسلام صفحه ۲۸۱ مطبوعه ۱۸۹۳ء.حاشیہ اشتہار معیار الا خیار والا شرار مطبوعه ۱۷ / مارچ ۱۸۹۴ء
۱۸۴ _^ و.-11 ا.جس کی ༡: یہ خیانت ایسے دیں پر ہزار لعنت دوستو اک 000 ہے 小小 ہے اک نظر خدا کے لئے الخلق مصطفے کے لئے 000 کوئی جو مُردوں کے عالم میں جاوے وہ خود ہو مُردہ تب وہ راہ پاوے زندوں کا مُردوں سے ہے کیا جوڑ کیونکر ہو کوئی ہم گیا 000 بدبخت اپنے وار بتاوے کٹ گیا سر اپنی ہی تلوار سے کھل گئی ساری حقیقت سیف کی کم کرو اب ناز اُس مُردار سے - آریہ دھرم صفحه ۴۵ مطبوعه ۱۸۹۵ء - آگے کر کے آگے اشتہار مُسْتَيْقِنًا بِوَحْيِ اللَّهِ الْقَهَّارِ ۱۴ جنوری ۱۸۹۷ء ۱۰.ایام اسیح صفحه ۱۴۳.مطبوعہ ۱۸۹۹ء ا.نزول المسیح صفحه ۲۲۴.مطبوعہ ۱۹۰۹ء
۱۸۵ ۱۲.۱۴.سمجھایا کیسے کافر ہیں مانتے ہی نہیں ہم نے سو سو طرح سے اس غرض سے کہ زندہ ہوویں ہم نے مرنا بھی دل میں ٹھہرایا بھر گیا باغ اب تو پھولوں سے آؤ بلبل چلیں کہ وقت آیا کرکے کرکے آپ کے جب سے اے یار! تجھے یار بنایا ہم نے ہر نئے روز نیا نام رکھایا ہم نے کیوں کوئی خلق کے طعنوں کی ہمیں دے دھمکی تو سب نقش دل اپنے سے مٹایا ہم نے آپ کے آپ کے آگے اگر وہ جاں کو طلب کرتے ہیں تو جاں ہی سہی بلا سے کچھ تو نپٹ جائے فیصلہ دل کا اگر ہزار بلا ہو تو دل نہیں ڈرتا ذرا تو دیکھئے کیسا ہے حوصلہ دل کا 000 ۱۲- رسالة تشحذ الاذہان ماہ دسمبر ۱۹۰۹ء ۱۳- از مسودات حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴.اخبار الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۱۳ء
۱۸۶ وقت تھا وقت مسیحا، نہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا چل رہی جو 000 ہے نیم رحمت کی دعا کیجئے قبول ہے آج 000 ۱۵ از مقررات حضرت مسیح موعود علیه السلام نزول المسیح صفحه ۲۲۵ - مطبوعه ۱۹۰۹ء ۱۶.
۱۸۷ ī.الہامی اشعار کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اس مسیح کے جس کی مماثلت کو خدا نے بتا دیا حاذق طبیب پاتے ہیں تم سے یہی خطاب خوبوں کو بھی تو تم نے مسیحا بنا دیا 000 قادر کے کاروبار نمودار ہو گئے کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہو گئے 000 کافر جو کہتے تھے وہ نگوں سار ہو گئے ہی گرفتار ہو گئے سب کے سب 000 دشمن کا بھی خوب وار ۴.تیس پر نکلا وہ وار پار نکلا 000 ٹائیٹل پیج فتح اسلام مطبوعہ ۱۸۹۰ء ۳۲.ضمیمہ تحفہ گولڑویہ حاشیہ صفحہ ۲۷.مطبوعہ ۱۹۰۲ء ۴.الحکم ۳۰ را پریل ۱۹۰۲ء
۱۸۸.قادر ہے وہ بارگاہ ٹوٹا کام بناوے بنا بنایا توڑ دے کوئی اُس کا بھید نہ پاوے 000 برتر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے 000 ۵ اخبار بدر ۲۲ نومبر ۱۹۰۶ء ۶.حقیقۃ الوحی.صفحہ ۲۷۴ حاشیہ.مطبوعہ ۱۹۰۷ء
۱۸۹ الہامی مصرعے ا ہے سر راہ پر تمہارے وہ جو ہے مولیٰ کریم - پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی گشتیاں چلتی ہیں تا ہوں گشتیاں - پھر بہار آئی تو آئے صبح کے آنے کے دن پاک محمد مصطفے نبیوں کا سردار جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو - عشق الہی اسے منہ پر ڈلیاں ایہہ نشانی - جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تو ا.اخبار بدر ۲۰ را پریل ۱۹۰۵ء اخبار بدر.ارمنی ۱۹۰۵ء - اخبار بدر.۱۷ارمی ۱۹۰۶ء ۴.اخبار بدره ارمئی ۱۹۰۶ء براہین احمدیہ چہار حصص صفحه ۵۲۲ - اخبار بدر ۸ مئی ۱۹۰۳ء ۵- ۷.اخبار بدر ۸ مئی ۱۹۰۳ء اخبار بدر ۱۶ راپریل ۱۹۰۴ء
۱۹۰ پر خدا کا رحم ہے کوئی بھی اس سے ڈر نہیں ۱.اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے.بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد ۱۲.چمک دکھلاؤں گا تم کو اس نشان کی پنج بار - زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی با حال زار و اخبار بد را ارمئی ۱۹۰۵ء 000 ۱۰- اخبار الحکم ۳۱ را گست ۱۹۰۱ء ال مطبوعه ۱۹۰۱ ء منقول از بشیر احمد ، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین ۱۲ تجلیات الہیہ صفحہ ا حقیقۃ الوحی صفحه ۹۳ حاشیہ ۱۳.براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۲۰