DurreSameenPersian

DurreSameenPersian

دُرِّثمین فارسی مُترجم

پُرمعارف فارسی منظوم کلام کا انتخاب بمع اُردو ترجمہ
Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
منظوم کلام

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے فارسی اشعار ، جس عشق و محبت، جذب و خلوص، معارف و حقائق اور شیرینی و حلاوت سے بھرے ہوئے ہیں وہ اہل ذوق حضرات سے پوشیدہ نہیں۔ جو زور بیان اور شوکت الفاظ فارسی درثمین کے ہر صفحہ پر موجود ہےبلاریب متقدمین اور متاخرین کی تمام منظوم فارسی کتب اس سے خالی ہیں۔ اسی بے نظیر اور لاثانی طرز کلام نے حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ کو ان اشعار کے اردو ترجمہ پر راغب کیا تا کہ اردو دان طبقہ بھی حضرت سلطان القلم ؑ کے روح پرور کلام سے بقدر استعداد فیض یاب ہوسکے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے والہانہ عشق رکھنے والے حضرت میرمحمد اسماعیل صاحب جیسے صوفی منش اور با ذوق شاعر نے بڑے ہی شوق اور محبت کے جذبات کے ساتھ درثمین فارسی کا اردو ترجمہ اپنی زندگی میں مکمل کیا، تقسیم ملک کے سانحہ میں یہ مسودہ کہیں کھو گیا۔ شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی نے نہایت کوشش سے اس مسودہ کو برسوں بعد کتابی شکل میں طبع کروایا۔


Book Content

Page 1

فارسی منظوم کلام حضرت مسیح موعود علی السلام در میں فارسی متهم حضرت امیر محمد اعلی ضی اللہ تعالی عند پیش کرده شیخ محمد اسماعیل پانی پیتی ممممممم شائع کرده محمد احمد اکیڈمی - رام گلی نمبر ۳ - لاہور

Page 2

طبع دوم تعداد طابع *1972.......ایک هزار....مبارک محمود پانی پتی نقوش پریس، لاهور، مالک محمد طفیل چار روپے پچاس پیسے صرف ناشرین محمد احمد اکیڈمی رام كل تميرة - لامور

Page 3

دیباچه تحدة وتصل على رسوله الكريم حضرت ڈاکٹر میر محمد اسامی رضی اللہ عنہ جیسے صوفی منش بزرگ تھے بہت ہی کمر آدمی ایسے ہوتے ہیں.وہ ہمارے موجودہ زمانہ میں سلف صالحین کا ایک بہت ہی عمدہ وز تھے بیج اورحقیقی معنوں میں وہ ایک ولی اللہ اور ناشناس بزرگ تھے جن کی زبان بد قلم سے نفرت کے جو حقائق ومعارف کے پھول جھڑ کر تے تھے اس کی کیفیت وہی لوگ بتا سکتے ہیں جنہیں اُن کی بابرکت اور بافیض صحبت میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوتا تھا مجھے دل کی سچائی کے اتھ یہ بات کہنے دیجے کی ہے تم او تقدس برگ آسمان صدیوں چکر کھاتا ہے جب جاکے نہیں پیدا ہوتے ہیں.اورجب وہ ایک دنیا کو اپنے علم اپنی قابلیت اور اپنے بے نظیر اختلاق سے فیض یاب کر کے اس جہان سے بڑھاتے ہیں تو انا کوئی قائم مقام چھوڑ کرنہیں جاتے ہو انسانیت کا فخر ہوتے ہیں اور اخلاق کا پیکر دو دنیاکے لیے ایک شمع ہدایت ہوتے ہیں اور اس ۱۹۴۶ دوستوں کے لیے اور رحمت میر اقتی نقشہ سے لے کر شیرہ تک جب مین کی پاک و اپنے مولائے حقیقی سے ملن کے لیے علاوہ علی کو روانہ ہوگئی ان سے رہا خدا کی قسمیں نے ان کو سرکان سے ایک نے نظر انسان پایا ان کے من میں میت ان کو چور دیکھا اور امارات لی اللہ یہ اس کی محبت میں ان کو ہمیشہ سرشار پایاحضرت مسیح موعود علیہ السلام سے والہانہ

Page 4

نے اُن کے سر تا دیکھا قرآنی کے جو معارت رو بیان کیا کرتے تھے اور جو فضل میں شائع ہوا کرتے تھے وہ اویر تغیرہ کیا کرتے تھے وہ بھی روح پرور ہوا کرتی تھی ہی سہ میں انہوں نے بڑے ہیں شرق اور محبت کے جذبات کے ساتھ فارسی در خمین کا نہایت محنت سے اردو میں ترجمہ کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی اشعارمیں عشق ومحبت جذب و خلوص i معارف و حقایق اور شیرینی و حلاوت سے بھرے ہوئے ہیں.وہ اہل ذوق حضرات.ید نہیں جوند ریالی در شرکت الفاظ فارسی در تین کے مصنف ہیں رہے.بلا ریب دین اور اخرین کی امن نام فارسی کتب سے خالی ہیں یہ بے نظیر انانی را کام نے حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ کو ان اشیا کا اردو ترمیم پر راغب کیا تاکہ اردودان طلبہ بھی حضرت سلمان امت کے روح پر در کلام سے بقدر استعداد فیض یاب ہوسکے.بینی هم عرصہ کی کاوش اور محنت کے بعد حضرت میر صاحب یعنی اللہ معہ نے پرچون کو ختم کیا اوربہت چاہتے رہے کہ کسی طرح یہ کتاب چھپ جائے.ان کی ساری کا نہیں میں ہی شائع کیا کرتا تھا جب مجھے حضرت میر صاحب نے یہ ترجمہ دکھایا اور میرادل کے اختیار چاہا کہ رانی چھپ کر منتظرم پر آجائے گی اپنی مستی اور کابل 1 نتی مت اعمال کے باعث یاد بود شدید خواہش کے میرا ارادہ عمل کی شکل اختیار نہ کرسکا.یہاں تک کہ دار وائی عمر کوحضرت میر صاحب ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہو ئے

Page 5

میرے سارے مسودات اسماعیل کو دے دیے جائیں ہو تمرین فارسی کا تیتر جمہ اپنی زندگی ہی میں حضرت میر صاحب نے میرے سپرد کردیا تھا.کو حضرت میر صاحب بھی الہ عنہ کے سارے وقت میں نے اپنی جان کے برابر لکھ چھوڑے تھے اور جب مجھے ستمبر اید و سلا کے ایک ضروری کام کے لئے ادیان سے ه ای ترین انی دیده و با امارات را برای سوال ادین کو ایک کارگردان است ینایان و ارایه تومیری کتاب الرمال واسباب میں سے صرف اس ٹریک کو بچانے کی کوشش کرنا نہیں میرصاحب کے سوات میں ان سب کو غارت ہوجائے اس کی پھانہ کرنا میرے لاہور پہلے آنے کے بعد ادیان پر جو چھ گن سی فلمیں طاقت نہیں کہ اس کا بیان کے جو یا تو نے اپنی جان کو خط میں ڈال کر اتہائی کشتی کی سوات کار تک یہ سکے گر تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے تھے کچھ بھی نیچا اورسب کچھ تباہ ہوگیا.مجھے بے انتنافی اور سی ان جماعت کے ضائع ہونے کا نو اگروالی تقدیر میں یا چارہ تھا.ناچار صبر ک میں اپنی کمزور چھاتی پر لکھ کر خاموش ہو گیا گریار با بیان آتا تھا کہ حضرت میر صاحب فنی اللہ لہ نے ان سودات کو میرے والئے فرمایا تھا مگرمیں آپ کی یعہ مقدس رات کی اپنی تال نقی کی وجہ سے حفاظت نہ کر سکا سب سے زیادہ میرا دل اوکراین کے اس ترجمہ کے نئے لوٹتا تھا گرے ہیں اور لاچار تھا.نظام کوئی شکل اسکی دنیا کی کی نہیں تھی جب حضرت میر صاحب فضی اللہ عنہ کا سا امکان ہی لٹ گیا جہاں میں رہا کرتا تھا تو م تر جم کس طرح محفوظ ر تا اکثر خیال آتا تھا کہ نہ معلوم کس نے چند پیسوں i

Page 6

___ میں شریہ اہو گا ایکس دی انشاں کی پڑیاں اس میں بندھی ہوں گی ماہ اور سال اسی سوچ میں تی کہ منوایا ہے اور مل جائے گا.ستر برسوں کی دلی کوفت اور مکش کے بعد میں نے اپنے محترم دوست ملک صلاح الدین صاحب ایم اے کو جو اس وقت قادیان میں تناظر تعلیم و تربیت تھے خط لکھا کہ آپ کہیں عاشق تو کریں کسی شخص کے پاس کسی کی اڑی کے پاس کسی کتب فروش کے پاس کسی دکاندار کے پاس اس کا مسودہ مل جائے تو میں کا اس کے لئے دو سور اپنے تک دینے کو تیار ہوں.ملک صاحب کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے.انہوں نے کمال ہمدردی کے ساتھ پیسودہ نہ معلوم کہاں سے تلاش کیا اور خود واگر تشریف لائے اور میرے والد کر دیا.تک صاحب کے اس احسان کا میں جس قدر بھی شکر یہ ادا گروں کم ہے.مودہ مل جانے کے بھییں نے اس کی طباعت کی درخواست ضریح میرا اسی افشانی رضی الہ عنہ کی خدمت میں نہیں دی جہاں سے فورا اجازت مل گئی.اور میں نے بھیج مصور کتابت کے لئے دے دیا یہ جنوری اللہ کی بات ہے جلد ہی کتابت ختم ہوئی اور میں نے کتاب شائع کر دی یہ کتاب جھیلتے ہی توہ افروخت ہوگئی.اس پر مجھے دوسری شاعت کی فکر ہوتی مگر اس تمام عرصہ میں حالات ایسے ناسازگار ہے کہ سخت خواہش کے تکوینی گران رو میں ایسے " اوجود اپنے ارادہ کو علی جامہ نہ پہنا سکا.اس میں بہت سے جاب کی بات سے اس کی دوبارہ طباعت کا

Page 7

شید مرا ہوتا رہا سب سے زید تریپ اس کی اشاعت ثانی کی حضرت میاں بشیر احمد ی اللہعنہ کو تھی.انہوں نے مجھے بھی لکھا نا گرانی پریشانی را میں حائل ہے تو چار سرد ہے سے میں تمہاری در کرسکتا ہوں گرمی شیخ بشیر احمد صاحب بیج ہائی کورٹ لاہور نے مجھ ہے وں نے مجھے کھا کہ گرم نہیں چھواتے تو چھو لیتے ہیں کیونکہ اگ بھی ہے اور برا یہ مجید کے خلط آرہے ہیں ایک مقامی جاعت نے تو حضرت خلیفہ مسیح الثالث کو باقاعدہ درخواست بھی بھیج دی کہ نہیں اس کی دوبارہ اشاعت کی اجازت دی جائے مگر ہربار شرافت سے ان کو یہی جواب نا کہ اسلامی جس نے پہلی مرتبہ یہ کتاب شایع کی تھی.دوبارہ بھی وہی شائع کرے گا.اس پر میں نے اپنی انتہائی بے باکی کے با وجود اس کی دوبارہ اشاعت کا ارادہ کر لیا تم پہلی اشاعتکے وقت پاس بھی نہ دوسری اشاعت کے وقت گر میں نے توکل علی الله نام شروع کر دیا.اب سب سے پہلا مرحلہ یہ تھا کہ طبع اول میں کتابت کی جو غلطیاں سرگئی تھیں بان کو درست کیا جائے تا کتاب ہے جسے اس ضمن میں مولوی عطاء الرحمن صاحب مرحوم تاکہ نعت گرانے کا لج ربوہ نے اپنی خدمات پیش کیں.اور حقیقت ہے کہ بہت ہی محنت کے ساتھ انہوں نے ساری کتاب کو دیکھا.پھرمیں نے بزرگ محترم حضرت حافظ سید م احمد صاحب شام جانوری کی خدمت میں اس کے متعلق عرض کیا.آپ نے

Page 8

د فرمایا لیکن پیرانہ سالی معارض اور عظیم الفرصتی کے باعث کام میں بہت دی لگ گئی.پھر میں نے فاضل جلیل محترمی شیخ محمد احمد صاحب مظہر ہی.اسے ایل می امیر جماعت ہائے احمدیہ ضلع لائل پور کی قیمت میں محترمی جناب شین بشیر احم صاحب حج ہائی کورٹ لاہور کی معرفت اس کی تصیح کے لئے عرض کی.شیخ ما احد صاحب نے نہایت ہی خندہ پیشانی کے ساتھ باوجود سخت عدیم الفرصتی کے این کٹھن کام کی حامی بھرلی اور نہایت محنت کے ساتھ اس کی تصیح کی.اور مجھے کتاب کی واپسی کے ساتھ اس کے متعلق مفصل ہدایات لکھ دیں بین کی روشنی میں میں یہ کتاب شائع کر رہا ہوں اللہ تعالی ان کو یاد سے نہ بادہ خدمت دین کی وفیق دے اوران کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے.اُن کے لیے میرے دل سے بود نہیں نکل رہی ہیں خداوند کریم اپنے فضل سے ساری قبول فرمائے..اب کتابت کا بھاری پتھر تھا جس کا بار کرمی ناب حکیم مد شفیع صاحب خوشنویس نے نہایت خوشی کے ساتھ اپنے سارے کاموں کو روک کر اٹھا لیا اور نہایت عمدگی پودری احتیاط اور یہ بڑی محنت سے اسے سر انجام دیا.مکرمی و حتی ملک محم طفیل صاحب بیادبی رسالہ نقوش کی عنایت اور مہربانی کا یں اتنا بھی کریہ ادا کروں کم ہے کہ موصوف نے پہلے تفسیر سیر کی بہترین علی ترین طباعت کا نہایت مشکل کام میری درخواست پر اپنے ذمہ لیا اور اُسے نی ہی محنت اور نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ کم سے کم وقت میں بہتر سے بہند

Page 9

اور دو فرمائی جب ہی میں اس کو جلد تر جلسہ سالانہ کے موقع پر شائع کر سکا اللہ تعالی جو ایڈیٹر صاحب نقوش نے آج اٹھارہ برس سے میرے ساتھ باد کے خواص محبت کی اس ملحوظ رکھی ہے بہتر سے بہتر یہ عطافرمائے اور ان کے کاموں اور اُن کے نیک عزائم میں زیادہ سے زیادہ برکت دے.آمین.میں اب بہت ہی زیادہ ضعیف کمزور اور مضمحل ہو گیا ہوں.اور کو ئی ضروری ی غیر ضروری کام مجھ سے نہیں ہوسکتا.بات کی نگرانی پھر کتابوں کی لدین بندھواتا دان بعد اشاعت کا انتظام کرنا یہ سب کام برخوردار مبارک محمود نے بہت ہی انجاک.بڑے شوق اور نہایت مستعدی سے کیا.اور آخر وقت تک بہت مصروفیت کے ساتھ کام میں لگے رہے.اللہ تعالے انہیں اپنے بوڑھے کمزور علیل اور نہایت مضمحل باپ کی اس خدمت کا اجر عطا فرمائے.اگر میرا نہایت لایقی اور فاضل فرزند محمد احمد آج زندہ ہونا تودہ اس وقت اپنے بھائی کے اس دینی کام میں نہایت ہی دلی ذوق کے ساتھ حصہ لیتا.مرحوم کے دل میں دین کی خدمت کا ایک والہانہ جذبہ تھا گر اشنہ تعالیٰ کی خاص الخاص مصلحتوں نے اس کو عین جوانی کے عالم میں جنوری سلام کو اپنے پاس بلا لیا ع مرانے والا ہے سب سے پیادہ اسی پر ہے دل تو جہاں فدا کر میں آخرین گرمی و محترمی جناب سیال بعد الحق صاحب امه المربيت المال ' 1

Page 10

ریہ ادا کرکے اپنی تمہید کو ختم کرتا ہوں.رامہ صاحب نے کسی کتاب کی کاپیا نہا ہی محنت نہایت شوق اور نہایت توجہ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں حضرت مسیح مواد علیہ السلام کے فارسی اشعارہ کو حضرت اقدرش کی کتابوں کے ے ان سے مقابرکی کے درست کیا.حضرت میر جگہ اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ ے اردو ترجمہ کے ایک ایک لفظ پر غور کر کے اسے اصل فارسی کے مطابق کیا کتابت لکی غلطیوں کی انتہائی احتیاط کے ساتھ صحیح کی.غرض کوئی دقیقہ اس کتاب کی صنعت درستی کا انہوں نے باقی نہیں چھوڑ ا ہیں ان کی عنایت.نوازش اور مہربانی کا ے مند نبوی ہوں.اتنی محبت کوئی اپنی کتاب کے لئے بھی نہیں کرتا مبتنی انہوں نے ی سے ملنے کی اللہ تعالی ان کو اس خلوص اور نیکی کی بتائے خیر عطافوا ئے اورمان زیادہ سے زیادہ خدمت سے دین کی توفیق دے.آمین خاکسار محمد اسماعیل پانی پتی رام گلی تمہر بہ مکان ہوا.لاہور

Page 11

H دار شمین فارسی متر بر حضرت ڈاکٹر میر ہ اسماعیل رضی اللہ عنہ ابردم از کاخ عالم آواز نیست که یکیش بانی و یا ساریست یہ نظامیم حال اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اس جہان کا کوئی پانی اور صالح ضروری ہے وکس اور اشتریک و انباز لیست انے بکارش دخیل و عمر از لیست کو نیا اس کا شریک ہے رسا بھی نہ اُس کے کام میں کوئی دقتیل ہے نہ کوئی اس کا ہمراز ہے ہیں جہاں ، اعمارت انداز نیست و از جان برتر است و ممتاز بیست وہ اس جہان کا بنانے والا ہے.گر خود جہاں سے بالاتر اور ممتاز ہے وحده لا شریک حی و تقریر المرنیل لایزال فرد و بسیرا وہ اکیلا لا شریک زمرہ اور قادر ہے ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا.یگانہ اور باخبر ہے.اهکار سازه جهان و پاک و قدیم خالق و رازق و گریم دریم و اللہ کا کار سان پاک اور قدیم ہے پیدا کرنے والا روز کار پنچائے واللہ عمران اور تریمر ہے ان و معلیم رو دین الہادی و علم علم یقین عظیم دین ہے.وہ آدمی اور یقینی علوم کا انعام کرنے والا ہے اوہ ریشما اور

Page 12

منتصف ! ہمہ صفات کمال بریز از اختیاج ہل و جمال وہ تمام صفات کاطر سے صفات کمالہ سے متصف اور آل و د ان کے جھمیلوں سے بے نیاز ہے اید یکے حال جست و حال به نیابد بدو فتا و زوال دہ ہر زمانہ میں ایک ہی حال پر قائم ہے.تھا اور زوال کا اس کے حضور گزر تھیں نیست اگر ہوں پھر سے میری اور یوں ہے کوئی شے اس کے حکم سے یا نہیں ہے.وہ کسی ہے ملا ہے اور وکسی کی مانند ہے توان گفت لامس اشیاست نے توان گفتن اینکه دور از ماست نھیں کر سکتے کہ دو چیزوں کو چھوتا ہے.دیر کر سکتے ہیں کہ وہ ہم سے دور ہے.قات او گرچه دست بالاتر استمال گفت نه برداراست و گرام اس کی ذات اگر پر سب سے بالاتر ہے گر تھیں کہ سکتے کہ اس کے پچھے کوئی اور چیز بھی ہے.برمی آید بفهم و عقل دو مینا ملاقات اور برتر است نال وسواس جو کچھ تم عقل اور قیاس میں آسکتا ہے اس کی ذات ہر اس خیال سے بالا تر ہے دات پیچون و چند افتاد سنت اور حدود و قیود آزادست اس کی ذات ہے مثل پاور ماتا ہے اور حدود و قیود سے آزاد ہے و جو دے ہرات اور انباز | نہ کسے در صفات او انباز کوئی وجود اُس کا ہر تھیں نہ کوئی اُس کی صفات میں اس کے ماہر ہے امید از دست قدرے او اکثرت شمال گواه و صد تار کچھ اس کی قدرت سے پیدا کیا ہے؟

Page 13

گر شکیش جیسے ز خلق دگر اگتے ہیں جو خلق زیر دونیا میں سے کوئی اُس کا شریک ہوتا تو یہ تمام دنیا زیر و نزیر ہو جاتی ار جواز وصف خاکی و خاکست | ذات بیچون او از ال پاکست خاک اور تا کی مخلوق کی جو صفات ہیں اُس کی بے مثل ذات آپ سے پاک ہے ایند بر بلا سے ہر وجود نهاد خود نه بر قید و بند هست آزاد ہر وجود کے لیے اس نے کچھ پابندیاں لگادی ہیں مگر خود بر قید اور پابندی سے آرام ہے آدمی بنده هست و نقش بند اور دو صد حرص و آز سر بکھرا آدمی غلام ہے اور اس کا نقض مقصد ہے مسلط خواہشوں اور لانچوں میں پھنسا ہوا ہے مچنیں بندہ آفتاب و قمر بند در سیرگاه خویش و مقر اسی طرح سورج اور چاند بھی مجبور ہیں اپنے اپنے راستوں پر چلنے کے لیے لاچار ہیں ناه را نیست طاقت ریں کار که تا بد بروند چون احداد ساتھ کو اس امر کی قدرت حاصل نہیں کہ وہ دن کو آزادانہ چک سکے نیز خورشید را نه یارائے کہ بند یه سری شب پائے اسی طرح سورج کو بھی یہ قوت نہیں کہ دو رات کے تخت پر قدم لکھ سکے آب ہم بنده هست زینکه مدام بند در سردی است نے خود کام پانی بھی مجبور ہے کیونکہ ہمیشہ مرد یا میں تم جاتا ہے.مرضی کا مالک تمھیں ے تیر نیز بنده او در چنیں سوزشے نلره او أف تیر آگ بھی اس کی تابعہ یہ ہے اللہ ایسی جلی میں اُسی کی ڈالی ہوئی ہے.

Page 14

اگر یہ آری به پیش رو فریاد اگر میش کم نہ گرود اسے استاد اگر تو اُس آگ سے التجا کرے تب بھی اے شخص! اس کی گرمی کم نہ ہوگی اپائے اشتہار در میں بند ست اخت در اسلاسل انگندست درختوں کے تنے زمین میں پیوست ہیں.اُن کے پاؤں میں مضبوط زنجیریں ڈال دی ہیں این همه بندگان آن یکذات | ابر وجودش دلایل و آیات کے سب چیزیں اسی ہستی سے وابستہ ہیں اور اس کے وجود پر دلائل اور نشان ہیں اسے خداوند خلق و عالمیاں | | خلق و عالم نه قدرت حیران اہے جھانوں اور مخلوقات کے آقا ! دنیا اور مخلوق تیری قدرت سے حیران - چه مصیب ست شان و شوکت تو چه عجیب ست کار و صنعت تو تیری شان و شوکت کس قدر با عظمت ہے تیری صنعت اور تیرا کام کتنا عجیب ہے.اله را با تو نسبت از آغاز اتے دراں کس شریک نے ابناز شروع ہی سے محمد کا تیرے ساتھ تعلق ہے اور اس معاملہ میں نہ کوئی تیرا شریک ہے یہ ہمسر تر وحیدی و بے نظیر و قدیم استرہ نہ ہر تیم وسیم اور اکیلا ہے مثل اور اولی ہے اور ہر سا ہر ساتھی اور شریک سے پاک بس | کسی نظیر تو نیست در دو جہاں پیر دو عالم توئی خدائے لگاں دونوں جہان میں تیرا کوئی نظیر نہیں.دونوں عالم میں تو اکیلا ہی خدا ہے ہو ند و تو غالب ست پہ ہم چیز ہمہ چیزے یہ جنب ہونے ، تیری طاقت غالب ہے اور ہر چیز

Page 15

ارتست امین کند نه ترس و خطر ابر که عارف نترست ترمال تر ا تیرا خون برڈ اور خطرہ سے محفوظ کر دیتا ہے جو تیری معرفت زیادہ رکھتا ہے دی تجھ سے پیادہ ہوتا ہے.اخلی جوید پناه و سایه کسی اداں پناہ ہمہ تو مستی و لیس خلوق کسی کی تیاء اور سایہ ڈھونڈتی ہے گر سب کی پناہ صرف تیری ذات ہے است یادت کلید سر کارے خاطر سے ہے تو خاطر آزار سے تیری یاد ہر مشکل کی کلید ہے.تیرے بغیر ہر خیال دلی کا دکھ ہے امر که تالد بدرگست به نیاز بخت گیر کرده را بیابد با زا جو تیرے حضور میں ماجوی سے روتا ہے وہ اپنی کم عملہ قسمت کو دوبارہ پاتا ہے.ا لطف تو ترک طالبان نکند | اکس بکار بہت زیاں نکند تیری مہربانیاں راہوں کو تمہیں چھوڑ ہیں.کوئی تیرے معاملے میں نقصائی تھیں اٹھانا اہر کر یا بات تو سرے دارد پشت پر روتے دیگر سے واردا شخص صرف تجھ سے تعلق رکھتا ہے وہ دوسرے کی طرف پیٹھ پھیر لیتا ہے.از یکه پول کار بر تو بگذارد رو به اخیار از چه رو آروا کیو کر جب وہ اپنا مال تجھ پر چھوڑ دیتا ہے تو پھر کیوں یہ ان کی طرف توجہ کرے قات پاکت پوست یار کیسے اول کیے.جان ہے نگار یکے ، یری قاسم پاک کا ہمارے لیے دست ہو چکائی ہے ابھی کی ہے ان میں ایک ہے میر میں ایک با چای دل محبوب ؟ اور کہ جو شیده با تو در ساز و رحمت آشکار بنوانه و

Page 16

ابر که گیر دوست بصدق و حضور از در و بام اور پیار و تور | و صدق اور اخلاص سے تیری چوکھٹ کرواتا ہے تو اس کے در و بام سے نور کی بارش برساتا ہے اسر کیا است گرفت کارش شد | | صد امید سے بروزگارش شد جو تیری راہ پر گامزن ہوا اس کا کام بن گیا اوراس کی کامیابی کی سواری میں بندھ گئیں ار که دراو تو جیت یافته است تافت آن رو که سرتافته است جس نے تیری راہ ڈھونڈی اُس نے پا لیا.وہ چہرہ اور ائی ہو گیا جس نے تجھ سے سرکشی نہ کی اورائی ود اگر از علی قربت تو رمید ابر در هر که رفت وقت دیدا گر ہو تیرے قرب کے مایہ ہے بھا گا وہ جس دروازہ پر بھی گیا دولت دیکھی ایسے خداوند من گفتن هم بخش آئے دنگا و نویش را هم نبش | اے میرے خداوند میرے گناہ بخش دے اور اپنی درگاہ کی طرف مجھے رستہ دکھا روشنی بخش در دل و جانم پاک کن از گناه پتهانم میر کا جان اور میرے دل میں روشنی ہے اور مجھے میرے مخفی گناہوں سے پاک کر اول سانی و دریائی کئی بہ گاہے گرہ کشائی کی دل نشانی کر اور ولی زبانی دیکھا اپنی ایک نظر کرم سے میری مشکل کشائی کر اور دو عالم مرا عزیز توتی و آنچه می خواهم از تو نیز توئی معاون عالم میں تو ہی میرا پیارا ہے اور یہ چیزیں تجھ سے چاہتا ہوں وہ بھی تو ہی ہے بنی بر این احمدیہ حصہ اول جدا گانه می له ۲۱۸۰

Page 17

اور دلم جو شد تا نے سروے اینکه در خوبی ندارد کمرے میرے دل میں اس سردانہ کی تعریف جوش اور رہی ہے جو غربی میں اپنا کوئی نائی تھیں رکھتا.ان که جانش عاشق یا یہ ازل آنکه روحش و اصل آن دیرے وہ جس کی بہائی مخدائے ازلی کی عاشق ہے وہ جس کی روح اُس دلبر میں دراصل ہے.ان کر مندوب نبات حتی است کچھ ملنے پر در برد دور بہرے | دہ و تعدا کی ربانیوں سے اس کی طرف کھینچا گیا ہے اور خدا کی گود میں ایک بچہ کی احد چلا ہے نکه در یزد کرم بحر عظیم آنکه در لطف اتم کیا ڈرے نیکی اور بزرگی میں ایک بحر عظیم ہے اور کمال خوبی میں ایک نایاب ہوتی ہے.آنکه در جود و سنما ابر بہار آنکه در فیض و عطایک خاورے دہ جو بخشش اور متماوت میں ابو بہار ہے اور فیض وسطا میں ایک سورت ہے ان رحیم و رحیم تقی را آیتے آن کریم د جو وقتی را منظر ہے رحیم ہے اور رحمت علی کا نشان ہے وہ کریم ہے اور بخشش خداوندی کا منظر ہے اس نرخ فرخ که یک دیداباد زشت در را می کنه دوش منظر سے اس کا مبارک چہرہ ایسا ہے کہ اُس کا ایک ہی خطرہ یہ صورت کو حسین بنا دیتا ہے آن دل روان که روشن کرده است صد در این نیرو را چول اختر سے وہ ایسا روش غیر ہے جس نے روشن کردیا سینکاں سیاہ والوں کو ستاروں کی طرح ایک مبارک ہے کہ آمد ذات او رکھتے زاں قاب خاطر بیت ہے

Page 18

اور آخر زمان کرد نور او د دل مردم زور تاباں ترے احمد ہے آخر زماں کے قد سے لوگوں کے دل آفتاب سے زیادہ روشن ہو گئے ار یکی آدم نون تر در محال اور لالی پاک تر در گوهری ہ تمام بنی آدم سے بڑھ کر صاحب جمال ہے اور آب و تاب میں موتیوں سے بھی زیاد من یر عیش جاری زحکمت چشمہ اور واش پر از معارف کو تہ ہے اس کے منہ سے حکمت کا چشمہ جاری ہے اور اُس کے دل میں معارف سے پر ایک کوٹہ ہے ریتی داماں نے بغیرش بر فشاندا نانی او نیست در بحره بری خدا کے لیے میں نے ہر و جووت اپنا دامن جھاڑ دیا بحرو ، میں اس کا کوئی ثانی نفیس پر ایل جهانش داد می کشی تا ابد نے خطر نے غم زیاد سر میرے تھی نے اس کو ایسا چراغ دیا ہے گو تا اید ایسے ہوائے تند سے کوئی خوف و خطر تھیں پہلوان حضرت رب جلیل | بر میاں بستہ نہ شوکت خنجر وہ خدائے جلیل کی درگاہ کا پہلوان ہے اور اس نے بڑی شان سے کر میں منیجر باندھ رکھا ہے نیر او تیزی بر میدان نمود تیغ او ہر جا نمودہ جو ھرے اس کے پیر نے ہر میدان میں تیزی دکھاتی ہے اور اُس کی تعمار نے ہر جگہ اپنا جو ہر ظاہر کیا ہے ا کرد ثابت بر جہاں ججز میاں اما نموده نور آن یک تا دے اس نے دنیا پر قبوں کا مجھ ثابت کردیا اور خدائے واحد کی طاقت کھول کر دکھا دی است شاه شد

Page 19

74 آن عاشق صدق ونداد و راحتی دشمن کذب و فساد و ہر شے وہ صدیق.سچائی اور راستی کا عاشق ہے.اگر کذب.فساد اور شہر کا دشمن ہے تواجده و مرعاجزال را بنده پادشاه و یکیان را چاکرے وہ اگر چہ آتا ہے مگر کمزوروں کا غلام ہے.وہ بادشاہ ہے گر سیکیسوں کا.ں ترجمہا کہ خلق از وی بدید کس ندیده در جهال از مادری وہ مہربانیاں جو مخلوق نے اس سے دیکھیں.وہ کسی نے اپنی ماں میں بھی نہیں پائیں ارد شراب شوق جاناں بیخود دور سرش بر خاک نہادہ سرے و محجوب کے عشق کی شراب ہیں بیخود ہے اس کی محبت میں ماس نے اپنا سر خاک پر رکھا ہوا ہے ی ان سے ہر اسے رسید گوبر اور رشید بر سر کشور وس سے ہر قوم کو روشنی پہنچی.اس کا نور ہر ملک پر کہ ایم کا آیت رحمان برائے ہر بصیر حجت حق بہر ہر دیدہ ور سے وہ ہر صاحب بصیرت کے لئے آیت اللہ اور ہر اہل نظر کے لیے حجبت متی ہے ها توانان را برحمت دستگیر خستہ جاناں رانی شفقت منور ہے کمزوروں کا رحمت کے ساتھ ہاتھ پکڑنے والا اور نا امیدوں کا شفقت کے ساتھ غم میں ن رویش به زماه و آفتاب ناک کولیش به ریشک بیبر کے چہرہ کا حس شمس و قمر سے زیادہ ہے اور اس کے کوچہ کی خاک مشک و عنبر سے بہتر ہے آفتاب و هر چه ماند بدو در دلش از توری صد نیرے اس سے کہاں مشابہت رکھ سکتے ہیں اس کے دل میں تو خدائی خور سے وہ سورج روشن ہیں

Page 20

یک نظر بہتر نہ عمر جاودان گرفت کسی را برای خوش پیر سے زندگی سے ایک نظر بہتر ہے اگر اس پیکر حسن پر پڑ جائے تشکر ان منش ہے دارم خبر جاں فشانم گر وہ دل دیگرے میں جو ان کے حسن سے باخیر میں اس پر اپنی جان قربان کرتا ہوں جبکہ دو ساعت دل دیتا ہے اد آن صورت مرانه خود برد هر مان مستم کند از ساغر ہے اس کی یاد مجھے بیخود نبادیتی ہے.وہ ہر وقت مجھے ایک سانر سے مست رکھتا ہے.سے پردہ ہونے کونے اور عام سی آگ نے دار ترال دیر سے من اگر داشتہ و د میں ہمیشہ اس کے کوچے میں اُڑتا پھرتا اگر میں بد و بال رکھتا قاله و ریچاں چه کار آید مرا من سرے دا مهال شود سرے الہ در مکان میرے کس کام کے نہیں پا میں تو میں چہرہ سر سے تعلق رکھتا ہوں.نوبی او دامن دل می کنند و کشانم سے نبرد ندور آدورے سے اس کی خوبی و این دل کو کھینچتی ہے اور ایک طا تو بہتی مجھے کشاں کشاں نے جار ہی ہے دیده ام کو بست گریه میده با دور الثه برش چو صبر اور سے یں نے دیکھا کہ وہ آنکھوں کا نور ہے اس کی محبت کا اثر چکھا.سورج کی مانند ہے وہ چہرہ روشن ہوگیا جین نے اس ے د روانی نہ یہ وہ کامیاب ہوگیا جس نے اس کا دروازہ پکڑ لیا جس نے اس کے بغیر دین کے سمندر میں قدم یہ کھا اس نے پہلے ہی قدم میں

Page 21

تی و در علم و حکمت بے نظیر کوی چه باشا مجھے ان ترسے ا وہ اتنی ہے گریہ و کت میں بے نظیر ہے اس سے زیادہ اس کی صداقت پر اور کیا وہی ہوگی ؟ ان شوراب مرفت دادش خدا کو شمام خیره شد هر اختر خدا نے اُسے وہ شراب معرفت عطا فرمائی کہ اُس کی شعاعوں سے ہر ستارہ مادہ پڑھ شیاں اللہ ے علی الوجہ الانم جو ہر انسان که بود آن مضمر ہے اس کے باعث پورے طور پر بنیاں ہو گیا انسان کا وہ جو ہر جو مخفی تھا خته شد انیس پاکش ہر کمال الاترم شد ختم ہر پیغمبر ہے اس کے پاک نفس پر ہر کمال ختم ہو گیا اس لیے اس پر پیغمبروں کا خاتمہ استاسپ سر زمین و سر زمان بهیر بر اسود و مرام ہر ملک اور ہر زمانہ کے لئے آفتاب ہے اور ہر اسود واحمد کا رنبیر ہے مجمع البحرین علم و معرفت جامع الاسمین ابر و خاورے وہ علم اور معرفت کا مجمع البحرین ہے.بادل اور آفتاب دونوں ناموں کا جامع ہے چشم من بسیار گردید و ندید چشتیوں دین اور منافی ترسے میں نے بہت تلاش کیا مگر کہیں نہیں دیکھا اس کے دین کی مانند مصطفی چشمہ سالکان را نیست غیر از دسے امام سروال را نیت برد سے بہرے سالوں کے لئے اس کے سوا کوئی امام نہیں راہ حق کے متلاشیوں کے لیے اس کے سوا کوئی پر نہیں جائے اور جائیکہ طیر قدس را مورد دار انار آن بال پر ہے.انواریہ سے اس کا مقام وہ ہے جہاں کے انوار سے جبریل کے بال و پر چلتے ہیں

Page 22

لی خداوندش باد آن شروع دویں کان گردد تا ابد میرے باد آب این منانے اسے وہ شریعت اور دین عطا کیا.جو کبھی بھی تبدیل نہ ثافت اول به دیار تازیان تا زیانش را شود دوریاں گی پہلے وہ تعریف کے ملک پہ یہ نگار تاکہ اُس ملک کی خدا ہیوں کا انسداد کرے بید زال ابن نور دین و شریع پاک شد محیط حالے چوں چنبرے نان آن زمردین بعد المال وہ نور اور پاک شریعیت تمام عالم پر آسمان کی طرح مجید ہوگئی خلق را بخشید از حق گامیر جہاں دوا ربانیده از کام اللہ درے خلوق کو خدا کی طرف سے مقصد نہ زندگی سخت اور ایک اثر ہے کے منہ سے اُسے لڑائی دلائی یک مار پیراں اگر وشابان وقت ایک رات مبہوت سرد انشور ایک طرف شنا بان وقت اُس سے حیران تھے.دوسری طرف ہر کمند شندر تھا.شاہان.نے بلش کسی رسید و نے بزور در شکستہ کبر ہر منکر اور نہ اس کے علم تک کوئی پہنچا نہ اس کی طاقت پیک موس نے رشک کر کے تکبر کو توڑ کر رکھ دیا اوچر سے دارد بدرج کس نیاز مرح او خود فخر بر بیت گرے اسے کسی کی تعریف کی کیا حاجت ہے اس کی طرح ہر وخت کر کے لئے باعث فخر ہے است او در ره شهر قدس و جلال اواز خیال باد حال بالا ترے پاکتر گی اور جمال کے گستان میں ممکن ہے اور تعریف کرنے والوں کے وہم سے بالاتر ہے اسے خدا بر دے سلام مارسال ہم پر اخراش نہ ہر پیغمبروے اے خدا ہمارا سلام اُس تک پہنچا دے.نیز ہر پیغمبر پہ جو ان کا بھائی ہے

Page 23

امیر رسو لے آفتاب صندق بودا سر رسولے اور مہر انور ہے رسول سچائی کا سورج تھا.ہر رسول نہایت روشن آفتاب تھا مہر رسولے بود خلقے میں پناہ | ہر رسولے بود باغ منمر ے | پر رسول دین کو پناہ دینے والا سا یہ تھا اور ہر رسول ایک پھلدار باغ تھا.اگر یہ بنا تا مدے این خیل پاک کار دیں ماندے سرا سرا تیر ہے اگر یہ پاک جماعت دنیا میں نہ آتی تو دین کا کام بالکل ابتر رہ جاتا اہر کر شکر بعث نشاں نارده بجا است او آلائے بھی راکا فرے جو اُن کی بعثت کا شکر یجا تھیں لاتا وہ حق تعالیٰ کی نعمتوں کا منکر ہے اک از یک صدف سد گوهراند | متحد در ذات و اصل و گوهری ، سب ایک سیپی کے سو موتی ہیں.جو ذات اور اصل اور چمک میں یکساں ہیں افته هرگز نبوده در جہاں کا نذرآن نامد بوقتے مندر | ایسی کوئی دقت بھی دنیا میں تھیں ہوئی جس میں کسی وقت ڈرانے والا نہ آیا ہو اول آدم آخرشان احمد ست اسے خشک آن کس که بیند آخر ہے ان میں پہلا آدم اور آخری اگر ہے.مبارک وہ ہو آخری کو دیکھ پائے انبیاء روشن گر هستند لیک | بست احمد ڈال ہر روشن ترے نام بنی روشن قنارت رکھنے والے ہیں.گر احمد اُن سب سے زیادہ روشن ہے اس عمر کان معارف بوده اند بر یکے از راو مولا مخبر ہے | ور سب معرفت کی کان تھے اور ہر ایک مولی کے راستے کی خبر دینے والا تھا

Page 24

۲۲ رو تعلیم اہر کہ اعلی توحید حق است بست اصل معلمش از پیغمبری | جس کسی کو توحید حق کا کچھ علم ہے اس کے علم کی اصل کسی پیغمبر سے ہے اس رسیدش از رو عا گو شود اکنوں زنخوت منکر ہے وہ ظلم اُسے اُن کی تعلیم سے ہی پہنچا ہے خواہ اب وہ تکبر سے منکر ہو جائے ہت سے کج رود تا پاک رائے سنکر میں پاکاں ہے پیچے سرے | ایک گمراہ اور ناپاک قوم ایسی بھی ہے جو ان پاک لوگوں کا انکار کرتی ہے دیدہ شاں روئے میں ہر گز ندید اس سیہ کر دندرو کے دفتر ہے ان کی آنکھوں نے حق کا منہ کبھی نہیں دیکھا اس لیے اس بحث میں انھوں نے وقت سیاہ کر ڈالے اشور حتی بائے بخت نشاں یہ ہیں از بر چشم و گریزاں از خور سے اُن کی قسمت کی بد بختی کو دیکھ کہ اپنی آنکھ پر فخر کرتے ہیں اور سوچ سے بھاگتے ہیں چشم گر بودے غنی از آفتاب کسی نبودے تیز میں چول شیرے اگر آنکھ آفتاب سے بے نیاد ہو تی تو کوئی بھی چمگاڈر سے زیادہ تیز نظر نہ ہوتا امر که کور است و براش صد خاک مائے برسے گرندار در میرے ہو کہ اندھا ہے اور اس کے راستے ہیں سو گڑھے ہیں میں پر افسوس اگر اس کا کوئی ر ہر تھیں تقویم دیگر را چنیں رائے رکیک اور نشت از جمالت در سرے | ایک اور قوم کی ایسی ہی مگر در رائے ہے جو جہالت سے اس کے سر میں سما گئی ہے.کاں خدا کے دیگر اندر جہاں از دیاریشان ندیده خوشتر ہ یہ کہ خدا نے دنیا میں کسی اور ملک کو اسی کے ملک سے زیادہ اچھا نہیں ہیں

Page 25

گریٹ نے پھر دو کے خوب شان انا مش مرغوب طبع و خاطر سے دان کے خوبصورت چہرے سے زیادہ کوئی چہرہ اس کی ماہیت اور دل کو پسند نہیں آیا الاجرم از ابتدایش تا ابد ماند و خواهد ماند آنجا لیتر اس لیے ازل سے ابد تک اُس کا مقام اسی ملک میں رہا اور رہے گا الملک دیگر گرچه میبرد در سوال اپنے نگر دو زر گئے متفرے کوئی دوسرا لک خواہ گرامی میں مرجائے لیکن وہ کبھی اس کو تمہیں پوچھتا داد مریک ذرہ قومی در اکتاب ترک کرده صد ہزاراں معشر صرف ایک چھوٹی سی قوم کو کتاب دے دیا اور لاکھوں گرد ہوں کو اس نے چھوڑ دیا ایجون بروز ابتدا تقسیم کرو ا ق اور میان خلق از خیر و شہرے جب اہل میں اُس نے خلقت کے درمیان نیکی اور برگن کو تقسیم کیا ارانتی در حصه اوشان فتاد! دیگران در اکتب شد اشخور تو راستی ان لوگوں کے حصہ میں آئی اور دوسروں کی قسمت میں جھوٹ کی آیا نزل شان در نیست کاندر غیر شان آمده صد کاذب و جلت گرے ان کا قول یہ ہے کہ اُن کے سوا اوروں میں سینکریاوں جھوٹے اور مکار آئے ہیں.ایک نام روشان یک نیز همان که او سے از حد یوں گنتے اور ان کے پاس ایک بھی ایسا نہیں آیا ہو خدا کی طرف سے دین کی اشاعت کرنے والا ہو تا آنکه ایشان، انور سے راہ حق اور کشورے کذب مہر کذب آور ہے اُن کو خدا کا راستہ دکھانا اور ہر چھوٹے کا جھوٹ کھول کر رکھ دیتا A

Page 26

۴۴ ندے دا | ے دادار را تحت تمام ابر سر ہر مسلم و متنفری ا کہ منصف خدا کی حجت پوری ہو جاتی ہر مسلمان اور مسلمان اور ہر چیستانی ہر بھائی پر عترض نزدیک شان داده ای پاک است خاطر کے زہر ظالم ترے ومتر بین ان کے نزدیک خدا تعالی ہرڑ نے ظالم سے کبھی زیادہ ظالم ہے کو گذار د عالمی را در ضلال مبتلا در پنجه هر ماکرے کیونکہ وہ ایک جہان کو گرائی کی حالت میں ہر نگار کے پنجہ میں گرفتار چھوڑ دیتا ہے خود ہے وار دیک ترے دام ہمچو شیدائے کے میل دوسرے | اور وہ خود کسی عاشقوں کی طرح صرف ایک ہی قوم سے ہمیشہ مہینہ اور تعلق رکھتا ہے یوں میں پر متن رائے این مقام را احمق دیگر اینکه بردہ سے دو رہے اس قوم کی اس قسم کی انتان رائے ہے دوسری حالت یہ کہ اس احمقانہ رائے پر فخر کرتی ہے عاقبت این رائے زشت و بد خیال کرد ایشان را یجب کو رد کرے آن کار اس بری رائے اور رسے نال نے ان کو مجیب طرح کا اندھا اور ہرہ بنا دیا چشم پوشیدند از صد چشمه سرنگون گشتند بر یک آنور سے انھوں نے سو چشموں سے تو اپنی آنکھ بند کرلی اور ایک کھرلی پر گر پڑت سخت در زید ند کیں یا انجمید الامان از کین سر متکبری از ھلانے میں سے سخت دشمنی اختیار کی.ایسے ہر تکبر کی دشمنی سے خدا کی پناہ انچہ کی شان با کلان ثابت ست از شیاطیں کس ندارد با ور ہے کیلوں سے میں قدمان کی دینی ثابت ہے اتنی دشمنی کی تو کوئی میدانوں سے بھی امید نہیں ملتا

Page 27

ور بود اندر حماقت بے نظیر لیکن ایشیاں را ہر موصد قرے لکھا ہے و قوفی میں بے مثل ہے.لیکن اُن کے ایک ایک بال میں سو سو گدھے ہیں انے میں تحقیق دارند و ثبوت اپنے زنند از صدق پا به معبری نہ تو امی کو تحقیق اور شہرت سے کوئی غرض ہے نہ وہ سچے دل سے کشتی پر چڑھتے ہیں انے دوائے رانشناسند از اثر انے درختے راشنا سند انہ برسے نہ وہ دورا کو اس کے اثر سے شناخت کرتے ہیں نہ وہ درخت کو اُس کے پھل سے پہچانتے ہیں انے نکس پر سند از روئے نیاز نے بصرف فکر خود متشکر سے نہ نما کساری سے کسی اور یار چھتے ہیں اور نہ خود اپنے فکر سے کام لیتے ہیں انے بدل پر رائے این تنش ها اکر محمد میں با کد میں بہترے ول میں اس تحقیقات کی پروا رکھتے ہیں کہ سب وینیول میں کون سا دین بہتر ہے امی کے مایل مد و صد هزار فارغ از فرق اقل و اکثر صرف ایک رودین، پر مال اور لاکھوں کے مخالف ہیں قلت اور کثرت میں فرق سے بے فکر ہیں انے بدل خوف خدائے کردگار نے بخاطر بیم روز محشر ہے نہ ان کے دل میں خدا کا خوف ہے نہ قیامت کا ڈر تیره جانان دیده مارا دوخته سوخته در کیں دری ہوں اڑوس سے بھی بیاہ دل والوں نے اپنی آنکھوں کو سی لیا ہے گیتہ اور نیت سے الہ ہے کی طرح عمل میں رہے ہیں دیده و دانسته از حق قاصرانده دل نهاده در جهان قادری جان بوجھ کر رہائی سے رو گرداں ہیں اور ہے دنا دنیا سے دل لگایا ہوا ہے

Page 28

از برائے حق تراشیدہ نہ جبل | دائما در خانه خود منبری تقای امارت کیا پانیوں کا دور کرنے کے لیے پنی حالت سے اپنے ہی گھرمیں ایک تقبل مہر بنا لیا ہے ان خدا سے مشال عجیب یا شد محمد اکو تغافل داشت از هر کشوری | ان کا خدا بھی عجب خدا ہے جسے ہر ملک سے لاپروائی مہی مبر العام آمدش دائم پسند ایک نہاں یک خطہ کو نہ ترے اُسے ہمیشہ اپنے الہام کے لیے پسند آئے ایک زبان اور ایک چھوٹا سا ٹک ان نہیں رائے کیا با نشد درست کے خود گردو و لیوایش رهبری ایسی رائے کیونکر صحیح ہو سکتی ہے ؟ اور عقل کس طرح اس کی طرحت یہ بتائی کر سکتی ہے ؟ کے گمان بد کند بر نیکوان | آنکه باشند نیک و نیکو محضرے نھیں نیکوں پر بد گمانی کیونکر کرسکتا ہے جبکہ وہ خود نیک اور نیک تو ہو ماہ بہ الفت کی چیز سے نیست این است سنتا ہے نہیں افزوں تو ہے چاند کی نسبت یہ کہتا کہ یہ کچھ بھی تمھیں اس سے بڑھ کر کوئی گائی تھیں کورد گر گوید کجا بست آفتاب می شود در کوری اش رسواتر سے اگر اندھا کے کہ شوری کہاں ہے تو وہ اپنے اندھے پن میں زیادہ رسوا ہوگا اور خود تابان مکن شک و گمان تا علامت دانه گردی در خوری چکھتے ہوئے سورج کے متعلق شک و شبہ نہ کر.تا کہ تو علامت کے لایق گرند نخواهی برانچ سے روی ایوں نے رسی زیر تا مرے اگر تو ندا کا طالب ہے تو کج روی نہ کہ اصل قاہر خدا کے غضب سے کیوں نہیں میکا

Page 29

P6 انہوں نے ترسی از روز یان پرس | یوں نہ ترسی از حضور داور سے تو روز قیامت سے کیوں تھیں ڈرتا.انصاف کرنے والے خلد سے کیوں خوف تھیں کھانا انائے شاں جہاں گشتنت یقیں یا خدایت را نموده دفتری کو کے اس اترا پر تجھے کس طرح انبار آ گیا یا دانے ہی تیرے سامنے کوئی دفتر کھول دیا ہے اور شان یک عالمی را در گرفت تو ہنوز اسے کور در شور و شرے ان انیوں کے ٹور نے ایک جان کو گھیر لیا لیکن اسے اندھے تو ابھی غل و شور میں مبتلا ہے اعلان تا ال ساگر گوئی کثیف | انہیں چہ کا ہر قدیر روشن جوهرے چکا اس کو اگر تو خراب کر دے تو اس سے آباد یرے کی قیت کیونکر گھٹا سکتی ہے طعنہ بر پا کال نہ یہ پا کال بود خود کنی ثابت کہ مہستی فاجور سے پاک پر طعنہ نہ نی کاری یکسانوں پرنہیں پاتی بلکہ اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ تو خود فاجر ہے بغض با مردان نقی نامردی است اس بشر باشد که باشد بے شہر سے مردان خدا سے عداوت کرنا نا مردی ہے بشر تو وہ ہوتا ہے جو ہے شر ہو اوانکه در کن و کراهت سوخت است انفس دول را است میبد لا نفری ر شمنی اور نفرت سے جلتا ہے وہ اپنے نفس وئی کے لیے ایک وبلا شکار ہے اصد مراتب بر چشمیم اہل کیں چشم تا بینی و کور و امورے بینہ رکھنے والوں کی آنکھ سے ہزار درجہ اچھی ہیں وہ آنکھیں ؟ اندھی نا بینا اور کاتی ہوں ین بر سر کین و تعصب خاک باد هم بفرق کی ومال نکستر عداوت اور تعصب پر لعنت بھیج اور کہنہ دروں کے سر پر ڈھول ڈالی..

Page 30

دور سے احمد پایبندی تق بند دگر اور نگیرد با خدائے اکبر ہے ! پابندی حق کے سوا کوئی دوسرا ہتر خدائے بزرگ سے تمھیں مانتا اما همه پیغمبران را چاکریم : کچھ نا کے اوفتادہ ہے درے ہم تو سب پیغمبروں کے غلام ہیں اور خاک کی طرح اُن کے دروازہ پر پڑے ہیں هر و مولے کو طریق حق نمود | | جان ، افریان براک حق پرور ہے پر وہ رسول میں نے خدا کا راستہ دکھایا ہماری جان اس راستبانہ پر قربان ہے اسے خداوندم به خیل انبیا کش فرستادی به فضل او فرے اے میرے خدا ان انبیاء کے گروہ کے میل جن کو تو نے بڑے بھاری فضلوں کے ساتھ بھیجا ہے.معرفت ہم دو چون بخشیدی و لما ائے بد زلال سال که دادی ساغر ہے مجھے معرفت عطا فرما سے تو نے دل دیا ہے شراب بھی عطا کر جبکہ تو نے جام دیا ہے اسے خدا وندم بنام منطقے کش شدی در ہر مقامے نامرے اے میرے خدا.مصلقے کے نام پر جس کا تو ہر جگہ مو گار رہا ہے.وست من گیرا دره لطف و کرم دور مهم باش یار و یا دور سے اپنے لطف وکرم سے میرا ہاتھ کپڑا میرے کاموں میں میرا دوست اور من گار بن جا تنکیر پر زور تو دارم گرچه من جو نا کہ ملکہ ناں ہم کمترے با | کم میں تیری قوت پر بھروسہ رکھتا ہوں اگرچہ میں خاک کی طرح ہوں بلکہ اس سے بھی کم تر دیا چه بر این احمدیہ حصہ اول صفر ۸ تا ۱۲ مطور عهده دارد در ایران

Page 31

۲۹ پایان دا چول موت می آید فرانس کی منت بر شمع موندن از رو شوخی و مات پروانہ کی جب موت آتی ہے.تو وہ شمع سوزاں پر شوخی دناز سے گرتا ہے.دیا امین احمدیہ حصہ دوم تا میل پیج مطبوعه من ارو تا ہم آن توانا نیست بر آن خولی نا توان هم منترال ما میری اپناہ ہر آن وہ طاقتور کہتی ہے تو مجھے نا توانوں کے بل سے مت ڈرا دیر این اجمد یہ حصہ دوم مطبوعه نشه ای وہ درد جومیں طالبان حق کے لیے اپنے دل میں رکھتا ہوں.اس درد کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا ا جاتا تو ان کا ارشا است ان ها برایم سازمان خود گامی یری ان دول ان لوگوں کی نگرمیں اس قدر تفرقہ کہ مجھے اپنے دل کی برہے اپنی جان کا ہوتا ہے میں شادیم که نماز بر خلوق خدا داریم میں ملا کر کردار سے خیر و دل دائم ی این پرخوش ہوں کون ہو اور اس کا ہے یا اس سے جانتی ہے اس میں میں ہوں ته و روی تمام دست خالی است میں کالم میں اہم ہیں رسم ہیں.ہیم ی تو اور میری واش خدمت خلق ہے یہی میرا کام ہے یہی میری ذمہ داری ہے.یہی میرا فریضہ ہے نین از خود نه درکوچه بد نصیت را که موردی به اینجا به روز در واکرام نی سے نوا حیات کے کمر میں دم نہیں رکھ ایک مخلوق کی ہمدردی مجھے زبردستی نیچے لیے جاری ہے

Page 32

رای اداری را برای شما باید وزش شدی وایم ر ان سے اقتدار کے کھانے کا یہ فائدہ گری کے لیے سو انہیں بھی نا کروں تب بھی معذرت کرتا ہوں نام اخبار نیو حالی مالے بینم نا ہے اور اردو ماہائے سر کا ہم ابر سحر گاہم ان کا ایک کو دیکھتا ہوں تو چاہتاہوں کہ اس پیری پچھلی رات کی دال کی قلیان الک کرکے ریه این احمدیہ حصہ دوم صفحه ۸۵ و ۸۷ ) 9130 اک ایم ونان در غرب روی دندان در یکی نیست باری دارد ہم تو خاکسار میں اور فروتنی سے بات کرتے ہیں.خدا شاہد ہے کہ میں کسی سے عادت نہیں انہ یہود اپنے ایں سرکار سے برویم جلوہ چمن کشد جانب یار سے مارا بر فضول اس مقصد کے پیچھے نہیں پڑے ہوئے بلکہ تجلی حسن میں محبوب کی طرف کھینچے لیے جارہی ہے وصفحه ایره این احمد به حصد و هم مهر ۵ میا اے طلب گار صدق و صحاب بنال ایسی خوش فکر این کتاب اسے سچائی اور حق کو ڈھونڈنے والے ذرا غور اور فکر سے اس کتاب کو پڑھ گرت بر کتابم نقد یک نگاه بدانی کرنا جنت این است راه اگر میری کتاب پر تیری ایک نظر پڑ جائے تو تو جان لے گا کہ جنت کا راستہ یہی ہے مگر شرط انسان وحی پرده ایست که انسان منتاج و توریست عدل و انصان شرط ہے.کیونکہ انصاف عقلمندی کی

Page 33

دو چیز است و بان دنیا و دین پول نداشتن و دیده نور ہیں آنکھ ر چیزیں دنیا اور دین کی پاسبان میں ایک تو روشن دل دوسرے دُور ہیں کے کو خود دارد و نیز دارد نخواهد گر راه صدق و سداد وہ شخص جو عقل اور انصاعت رکھتا ہے وہ سوائے سچائی اور راستی کے اور کچھ نہیں چاہتا خرید سر از آنها است و راست تا بعد از آنچه حق و بجا است اس چیز سے انکارنہیں کرتا جو اک اور بچی ہے اس بات سے منہ موڑتا ہے جو درست اور کا ہے.و بند سخن را ترمی پودری دگر در سخن کم کند داوری ب وہ انصاف کی رو سے بات کو دیکھتا ہے.تو وہ ناحق ہٹ دھرمی نہیں کرتا الا اے کہ خواہی نجات از خدا بقصر نجات از درستی در آ اسے وہ شخص ہو خدا سے نجات چاہتا ہے تو نجات کے محل میں راستبازی کے درواز ے سے آ یحی گرد وحتی سرابخاطر نشان منزول باطل چو کرد خاطران حق کے ساتھ رہ اور حق کو ہی دل میں بٹھا بد باطنوں کی طرح جھوٹ سے دل نہ لگا مشو عاشق رشت در این بار در وب گر گرد از روزنگار رو زینهار دو رگز کسی بد شکل کا عاشق نہ ہو.خواہ زمانہ سے محسن نا بود بھی ہو جائے میں از زراعت نهی داشتن به از تخمه خار و خشک کاشتن به زمین کو کاشت سے خالی رکھنا اس سے بہتر ہے کہ کانٹوں ودیگر کور کا بیچ اس میں اور جاتے اگر گرددت دیده عقل بانه بجوئی روسی نیز معجز و نیاز اگر تیری عقل کی آنکھ کھل جائے تو تو خدا کے اتنے کہ عاجزی اور خاکساری سے ڈھونڈ جن

Page 34

۳۲ ا ا ا بمو طلب گار گردی به صدقی ملی انتخاب اندر اندیشه هم مشکلی سچے دل سے اس کا طلب گار ہو جائے اور خواب میں بھی اس سے غافل نہ رہے نگیری دسے استراحت اناں مگر چوں برقی بازیابی نخل اس کے بغیر تو ایک دم بھی چین نہ پائے یہاں تک کہ خدا کا نشان پا یواے مل بر ست تی است پول جناب ایک سال سراخند ماده مخاب موت تیرے سر پہ ہے اور تیری بہتی جاب کی مانند ہے مگر تو اسی طرح نیند میں ہوش ہے آباؤ اجداد پیشیں نگر که چون در گذشتند میں رہگذر که پول اپنے پچھلے باپ دادوں کو دیکھ کہ وہ کس طرح اس دنیا سے گزر گئے یادت نماند است انجام شان فراموش کردی در اندک زمان ان کا انجام تجھے یاد نہیں رہا اور تو نے تھوڑے ہی دنوں میں اُسے بھی بھلا دیا خودت با اصل میست از فکر و بند چه دیوار داری کشیده بلند مون کے مقابلہ میں تیرے پاس کیا ملے والے ہیں یا تو نے کوئی دیوار اس کے روکنے کے لئے بائی ہے چه ناگه نهنگ اجل در کشند چرا آدمی این چنین سرکشد جب اچانک موت کا گر مجھے رانسان کو کھینچ لے جاتا ہے تو پھر آدمی اتنا تکبر کیوں؟ دنیائے دوں دل مبند سے جواں تماشا نے آل بگذرد تا گہاں اسے جوان ! اس ذلیل دنیا سے دل نہ لگا کیونکہ چٹ پٹ اس کا تماشا ختم ہو جاتا ہے.بدنیا کے جاودانه نماند به یک تنگ وضع زمانه نماند دنیا میں کوئی بھی ہمیشہ نہیں رہا.اور زمانہ کا سال ایک جیسا نہیں رہتا

Page 35

٣٣ وست خود از حالت درد ناک سپردیم بسیارکس را به خاک | خوداز | به ہم نے درد بھر سے دل کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے بکثرت لوگوں کو خاک کے سپرد کیا ہے پر خود دفن کردیم نفتے کثیر چرا یاد تاریم روز اخیرا جب ہم نے خود بہت سی مخلوق کو دفن کیا ہے تو پھر کیوں نہ ہم اپنی موت کا دن یاد رکھیں اد خاطر پیرا یاد شال انگلیم انه ما آنہیں جسم و روئیں تیم اپنے دل سے اُن کی یاد کیوں بھلا دیں ہم تو لاوت اور کانسی کے بنے ہوئے تو تھیں ہیں برس اسے معاند نہ قہر خدا در سخت است قهر خداوند ما ایسے مخالف ! خدا کے غضب سے ڈر کہ ہمارے خدا کا قہر بہت سخت ہے پر ناکردن ترس پروردگار ایها شهر ویران شدند و دیار پروردگار کا خوف نہ کرنے کی وجہ سے بہت سے شہر اور ملک برباد ہو گئے اناں بے ہراساں نشانے نماند انشا نے چہ یک استخو ا نے نماند ن بیباک لوگوں کا نشان تک نہ رہا.نشان تو کیا ایک ہڈی بھی باقی نہ رہی اہمہ زیر کی در سرایدان ست ادگرته بلا بر بلا دیدن است.عقلمندی یہی ہے کہ انسان ڈرتار ہے ورنہ پھر مصیبت پر مصیبت دیکھنی پڑے گی ایہ ناپاکی و خبت با زیستن | بهانه ای چنین تربیست نازیستن تا پا کی اور گندگی میں زندگی بسر کرنا.ایسی زندگی سے تو مرنا بہتر ہے یاد نہ سوئے انصاف گام | کین توبه کردن چورا شد حرام | اور انصاف کی راہ پر قدم بر کند.عداوت کی وجہ سے توبہ کرنا کیوں حرام ہو گیا؟

Page 36

۳۴ الیقین حال که قوله زین پرو ریست املات گروت است و نے سر سیت ن کرلے کہ میری یہ بات انصاف پر مبنی ہے سرسری اور لات دگزان تھیں پہر نہ جیسے غور کردم بسے | شنیدم بدل حجبت ہر کے | میں نے ہر مذہب پر خوب غور کیا اور ہر شخص کی دلیل کو توجہ سے سُنا خواندم ز ہر تے وقت بدیدم ز ہر قوم دانشورے نہ | میں نے ہر ذہب کی بہت سی کتابوں کو پڑھا اور ہر قوم کے عقلمندوں کو دیکھا سر ام الہ کو و کی موئے این تاختم | ادریس شغل خود را بلند اختم | سے ہی میں نے اس (امیاہ) کی طرف توجہ کی اور اپنے تئیں اسی شکل میں ڈال دیا یوانی همه اندرین با ختم | اول از غیر این کار پرداخت اپنی جوانی بھی میں نے اسی میں خرچ کی اور دل کو اور کاموں سے تاریخ کو دنیا کے انماندم درین غم زبان دراز | نخفتم ز فکرش شبان درانه | میں ایک لمبا عرصہ اسی نظم میں مبتلا رہا اور اس بات کی فکر میں راتوں تمھیں سویا انگه کردم از دو سے صدق و سداد ترس خدا او بعدل و به داد میں نے حق اور راستی کو مد نظر رکھ کر اور خدا کا خوف کر کے عدل و انصاف کے ساتھ توب غور کیا اسلام دینے قوی و متین ندیدم که بر منبش آفرین تو میں نے اسلام کی مانند قوی اور مضبوط دین اور کوئی تھیں پایا اس کے منہج پر آفرین ہو چنان دارد این میں منعا پیش بیش اگر حاسد به بند درو روئے خویش یہ دین اس قدر اعلیٰ صفائی رکھتا ہے کہ حاسد کو اس میں اپنا چہرہ نظر آ جاتا.

Page 37

۲۵ | سکتی نماید انسان گوره ماه صفا که گردد بصدقش خود رهنما | یہ رودین ، اس طرح کا کوزندگی کا راستہ دکھاتا ہے کہ عقل اس کے صدق پر گواہی دیتی ہے.همه حکمت آموز دو عقل و داد ار باند نه هر نوع جهل و فساد یہ سراسر حکمت عقل اور انصاف سکھاتا ہے اور ہر قسم کی جمالت اور فساد سے بچاتا ہے.اندارد دگر مثل خود در بلاد ا خلافش طریقے کہ مشلش مبادا اس جیسا مذہب دنیا میں اور کوئی نہیں اس کے مخالف ہو بھی طریقہ ہے خدا کرے وہ تا ہودہ ہو جاتا ہے مولش که نسبت آل عار نجات اور خورشید تا بد بصدق و ثبات اس کے اصول و عار نجات ہیں وہ سچائی اور مضبوطی میں سورج کی طرح چکتے ہیں اصول در کیش با ہم میاں ان چیز کے پوشیدنش سے توا را ہا | دیگر مذاہب کے اصول بھی ظاہر ہیں کوئی کوشش اُن کو چھپا تھیں اگر تا مسلمان خبر داشتے بجال جنس اسلام نگذاشتے اگر غیر ر مسلم عقل رکھتا تو جان دے دیتا کر جنس اسلام کو نہ چھوا چھوڑتا امحمد میں نقش مور محمد است کہ ہرگز جنو نے گیتی نماست حمدصلی الہ علیہ وسلم خداکے اور کاستے پر نقش ہیں.ان جیسا انسان دنیا میں کبھی پیدا تھیں جہاں انی بود انه راستی ہر دیار کردار اس شب که تاریک و تارا اہر تک سچائی سے خالی تھا.اس بات کی طرح جو بالکل اندھیری ہو ندایش فرستاد و حق گسترید میں یا جہاں مقدمے جاں و میدل جانے اُسے بھیا او ر ہیں نے حق کو پھیلایا.زمین میں اُس کے آنے سے جان پڑ گئی انتقاد مسافة المصافي سفر

Page 38

ا تها لیست از بارخ قدس و کمال | | همه سال او بیچو گل جائے آل | کیر گی اور کمال کے باغ کا ایک درخت ہے اور اس کی سب آل گلاب کے پھولوں کی طرح ہے ربه این احمد به حفصه دوم صفحه ۱۳ تا ۱۹۹) اگر ٹوٹے در مقابل رائے کرده و بسیه | اکس چہ دانتے جمال شاہد گنام را ات میں مشکل اور سیا رون و مال کی کرکی کی کل انعام معشوق کا حسن پہچان ما اکستان سے بے کار در جنگ نیرو کے شے جو ہر چیای شمشیر خون آشام را گر دشمن سے لڑائی اور جنگ واقع ہوتی تو خون پینے والی تلوار کا جو ہر کون کر ظاہر ہوتا اشنی را قدر از نایکی است و تیرگی اور حیات باست تورو و فر قتل نام را ندھیرے کی وجہ سے ہی روشنی کی قدر ہے اور جہالت کی وجہ سے ہی عقل کی عورت قائم ہے ات ورق بنت مع حموش میشود عنده معقول ثابت می کند اسلام با یقی دلیل بیب گیری اور بت کی جیسے زیادہ روشن ہوجاتی ہے اور یہ بہانہ تو نام ہی کر بات کرتا ہے د بر این احمدیہ حصہ دوم صفحه ۱۹۸ مرکز تف انگلند به هر میرا ایم برایش خند تلف تحتیرا شخص روشن سورج پر تھوکتا ہے تو وقت کا تھوک اس کے ہی منہ پر پڑتا ہے تاقیامت تخت است بری اقدسیاں دور تو زید بویش ان کے منہ پر قیامت کے دلی تک لعنت ہے یا کہ بستیاں اس کی بدبو سے بہت دور رہتی ہیں دیر این احمدیہ حصہ دوم صفحه ۲

Page 39

یش دنیا ئے دوں دے چوست آخرش کار با خداوند است | اس ذلیل دنیا کا میش چند روزہ ہے بالآخر خد اتعالے سے ہی کام پڑھتا ہے این سرائے زوال دمورت وقت است سر کو نشست اندریس به خاست | یہ دنیا زوال موت اور فنا کی سرائے ہے جو کبھی یہاں رہا وہ آخر رخصت تمھا یکہ مے کو سوئے گورستان و از خموشان آن به پریس نشان | تھوڑی دیر کے لیے قبرستان میں جا اور وہاں کے مردوں سے حال پوچھ کہ آل بیات دنیا چیست امر که پیدا شد است تا کے زیست کہ دنیاوی زندگی کا انجام کیا ہے.اور جو پیدا ہوا وہ کب تک جیجا ہے ترک کن کین و کبرو ناز و دلال تانه کارت کنند یبوئے ملال | کینہ تکبیر فخر اور ناز چھوڑ دے تاکہ تیرا خاتمہ گمراھی پر نہ ہو پهن چون این کارگه به بندی بار باز نائی دریس بلاد و دیار جب تو اس دنیا سے اپنا سامان باندھ لے گا تو پھر ان شہروں اور ملکوں میں واپسی تھیں آئے گا ے زمیں بے خبر بخور عظیم دیں کہ نجابت معلق است بدین دین سے بے خبر دین کا غم کھا.کیونکہ تیری نجات دین سے ہی وابستہ ہے ہاں تغافل مکن اویں غم خویش که با کار شکل است پر پیش | الدین غم که خروار اپنے اس غم سے غفلت نہ کیجو کیونکہ تجھے مشکل کام در پیش ہے.پول این درد و غمر نگار بکن | دل جہاں نیو همر شار یکی اپنے دل کو اس درد و غم سے زخمی کرد دل کیا کہ جان بھی قرآن کرد -

Page 40

۳۸ اہمت کارت ہمہ بال بکنات پول صبوری کنی از دو هیهات میر المواد العطر تو اسی ایک خودات سے ہے اس میں ہے کہ پھر اس کے بینر کو کر کے ہر اتا ہے یفت گردد چون در گروی بازا دولت آید از آمدن به نیاندا جیب تو اس سے برگشتہ ہوتا ہے توتیری قسمت خراب ہوتی ہے اور جو کے ساتھ ان منصور آنے سے دوران میں ہے یوں بہتری نہیں جنہیں یارے چوں بریں اہلی کٹھی کا رے کوں راج کی ہے دوست سے تعل قلع کرسکتا ہے کس طرح یہی ہو قوری کا کام کرسکتا ہے این جهان است مثل مروارے اچھال سکے ہر طرف مایہ کار ہے ی دنیا کو مردار کی طرح ہے اور اس کے طلبگار کتوں کی طرح سے چھٹے ہوئے ہیں خشک آن مرد کو انہیں مردار ہوئے آر ولیو کے آں وادار | وہ شخص خوش قسمت ہے جو اس مردار سے بچ کر اپنا منہ خدا کی طرف پھیرتا ہے.چشم بند و نه غیرد داد دید اور سریار سر بیاد و 14 غیر کی طرت سے انھیں بند کر لیتا ہے اور انصاف کرتا ہے اور دوست کے خیال میں اپنا سر قران کر دیا ہے.این همه توش حرص و آز و هوا بست تا است مرد نابینا جر میں.لالچ اور طمع کا یہ سب طوفانی اسی وقت تک ہے جب تک کہ آدمی اندھا ہے چشم کے پو شیر دل اند که بو گردو بانه | اسرد گردد به آدمی همه آزا لیکن جب دل کی آنکھ تھوڑی سی بھی کھل جائے تو آدمی کی تمام حرص ٹھنڈی پڑ جاتی ہے ایسے اس باتے آن کرده درانه ازیں ہوس را چرا نیاتی باندا نے وہ کرمیں نے ابھی کی بیان نہیں کر رکھی ہیں کیوں تو ان پروس پرستوں سے باز نہیں کی

Page 41

۳۹ ادوات عمر دم دارم.بزوال تو پریشان بفکر دولت د مال | عمرہ کی دولت ہر گھڑی گھاٹے میں ہے لیکن تو مال و دولت کی فکر میں پریشاں ہے خویش و قوم و قبیلہ میر زدنا تو بریدہ برائے شاں نہ خُدا رشتہ دار قوم اور کنی بدھ کے با ہیں لیکن تونے ان کی خاطر خدا سے تعلق توڑ رکھا ہے این همه را بکشتنت آهنگ اگه بصلحت کنند و گاه بجنگ | الی سب کا سادہ تیرے قبل کرنے کا ہے کبھی تو یہ صلح سے مارتے ہیں اور کبھی لڑ کر خاک بر رشته که پیوندت | | بنگلاند زیاره دل بندت | اس رشتہ پر لعنت ہے جو تیرے پیوند کو تیرے دلی دوست سے ترک وائے است آخر آں خدا کارت از تو یار کسے نہ کس یارت | آخر اسی خدا سے مجھے کام پڑے گا ورنہ نہ تو کسی کا یاد رہے اورنہ کوئی تیرا یا ہے قدم خود بند بخوت اتم تا روی از جهال بصدق قدم اپنا قدیم نہایت خوت کے ساتھ رکھ تاکہ تو اس دُنیا سے صدق قدیم کے ساتھ جائے تا خدارات محب خود سازد انظر للت بر تو اندازه ا کہ خدا تجھے اپنا دوست بنانے اور تجھ پر مہربانی کی نظر ڈالے باده نوشی ز عشق و نهال باده است باشی و بیخود افتاده | اور تو عشق کی شراب ہے اور اس شراب سے مست اور مدہوش پڑا رہنے انیست ایں جائے گر مقایم وام ہوش کن تا نہ بد شود انجام | یہ جگہ ہمیشہ رہنے کا مقام نہیں ہے.خبردار ہو جا تا خاتمہ میں نہ ہو

Page 42

t - م امیر کی زیرہ توریت افزاید | مهر این مردگان چه کار آیدا اس زندہ کی قیمت تیرے نور کو بڑھائے گی.ان مردوں کی محبت بھلا کس کام آئے گئی التمر و معده و سر و دستار سر بر بست بخشش دادار کھاتا.معدہ سر اور دستار سب کی سب خدا کی بخششیں ہیں ! ان باری شناس و شرم ملا پیش زان کرد جهان به بندی بارا خالق کا حق پہچان اور شرم کہ اس سے پہلے کہ تو دنیا سے رخصت جو امداز و از چه رو برهانی سگ وفا می کند تو انسانی کیوں تو اس سے منہ پھیرتا ہے.کتا بھی وفا کرتا ہے تو تو آدمی ہے ترس باید نه قادر ہے اکیلا ہر کہ عارف تریست ترساں تنہا قدمت والے خدائے پر تم سے خوف چاہیے.جو زیادہ خدا شناس ہے وہی زیادہ ڈرتا ہے فاسقان در سیاه کاری اند عار قال در دعا و زاری اند کار لوگ بڑنے کا موں میں مشغول ہیں.عارف لوگ دُعا اور زاری میں مصروف ہیں اسے خشک دیدہ کر گریانش اسے ہمایوں دے کہ بعد بالش ٹھنڈی رہے وہ آنکھ ہو اُس کے لیے روتی ہے مبارک ہے وہ دل ہو اس کے لیے جلتا ہے اسے مہارگ کے که طالب دوست فارغ از عمرو ز بد با رخ دوست | ابرکت ہے وہ جو اس کا طالب ہے.اور عمرو زید کے خیال سے الگ ہو کر اس کے حضور میں رہتا ہے هر که گیرد رو خدائے میگاں ! | آن خدایش ہیں ست در دو جہاں | جو بھی خدا کے واحد کا راستہ اختیار کر گیا اس کے لیے خدا تعالی دونوں جہانوں میں کافی ہے

Page 43

الا جرم طالب رضائے محمد و انگار از همه برائے غدا ج کی بات ہے کہ خدا کی رضا کا طالب خدا کے لیے ہر ایک سے قلع تعلق کر شیوه اش مے شود فدا گشتن ا ت ابریقی ہم زباں محمد اشتی | اس کا مذہب تو یار پر قربان ہو جانا اور خدا کے لیے اپنی جان سے جدا ہوتا ہے اور رضائے محمد اشدن پیوں خاک نیستی و فتا و استهلاک | محمدا کچھ رضا میں خاک ہو جانا اور نمیستی اور فنا اور ہلاکت کا طالب ہوتا اول نهادن در آنچه مرضی یار امیر زیر مجاری اقدار جو مادہ کی مرضی ہو اس پر راضی ہوتا اور جہاد کی شدہ قضا و قدر پر صبر کرنا تو بھی نیز دیگری خواهی | این خیال ست اصل گراهی | تو خُدا کے ساتھ اوروں کو بھی چاہتا ہے.میں یہی یال گرامی کی بیٹ ہے اگر وہندت بصیرت و مردی از ہمہ خلش سوئے تھی گردی طرف متوجہ رہے اگر تجھ میں تقل اور دہری ہو تو تو صرف خدا ہی کی طرف متوجہ در حقیقت پس است یار یکے دل کیسے ماں کیسے نگار کے یقت محبوب ایک ہی کافی ہے کیونکہ دل بھی کہتا ہے اور ان کی ایک اس لئے جو بھی ایک ہوا اہر کہ اور عاشق کیسے باندا ترک جال میش اند کے باشد جوں کی ہی ہستی کا عاشق ہوگا جان دنیا اُس کے لیے معمولی بات ہوگی: کوئے او باشندش زیستاں یراق روئے او باشدش نه ریحال برا اس سرا کو چھہ اُسے باغ سے زیادہ اچھا لگتا ہے اور اس کا منہ پھول سے زیادہ اُسے پسند ہوتا ہے ہے

Page 44

ارچه دلبر بدو کند آن به دیدن طبرش ز صد جان به | معشوق وہ بھی ملک میں کے سانے کے لے ہی بہرتا ہے اپنے دلی کا دیکھنا کے سو جان سے بڑھ کر ہوتا ہے.یا به زنجیر پیش دلدارے بہ ز ہجران و سیبر گلزار وادار کے مانے یا یہ دنیا ہو اس کے لیے اس جدائی سے بہتر ہے جس میں گلزار کی سیر ہو ا اہر کہ دارد یکے دلا رہا ہے جو بولش نیابد آرام جو شخص کا ایک ہی دل آرام ہے تو اسے سوائے اس کے وصل کے آرام ہی تھیں آتا شب به بستر تد ز فرقت یار اهمه عالم بخواب و او بیدار را مات پھر وہ دوست کی جدائی میں بہتر پہ تڑپتا ہے سب دنیا سوتی ہے وہ جاگ رہا ہوتا ہے انا نه بلند صبوری اش ناید بر دوش سیل عشق بر باید جب تک اُسے نہ دیکھ لے اسے صبر نہیں آتا محلہ حمیت کا سیلاب اُسے رائے لیے جاتا ہے اور دل عاشقان قرار کیا توبہ کرون نہ روئے بابر کجا عاشقوں کے دل کو بھلا آرام کہاں ! یار کے دینے سے توبہ کرنا پھر معنی دارد؟ جاناں گوش خاطر شال | گفت راز یکه گفتش نتواں - ہوں کے ٹھو نے ان کے دل کے کان میں ایک ایسا رانہ کہ دیا ہے جو بیان نہیں ہو سکتا ہنیں است سیرت عشاق | | صدق در زال بایز و خلاق انتظران کی سیرت ایسی ہوا کرتی ہے کہ وہ خدا کے ساتھ سچائی کا معاملہ رکھتے ہیں جہاں منور به شمع صدق و یقیں | نور حق تافتہ بلوچ نہیں ان کی جہانی بھائی کی شمع سے روشن ہوتی ہے اور نور حق اُن کی چینیانی سے پھوٹ پھوٹ کر نکلتا ہے Apd

Page 45

робрат کی بابل و دین جہاں کا کام زیر کال دور تر پریده نه وام : جیریا میں گر دنیا سے تیرا محبت مسند میں کیونکہ دنیا کے حال سے اڑ کر دور چلے گئے ہیں از خود و نفس خود خلاص شده | حمید فیض نور خاص شده | نے آپ سے اسرا انیس سے رہائی پا گئے اور خاص نورد کے فیضان کا مقام بن گئے اور خداوند خویش دل بسته | | باطن از غیر یار بگسته | اپنے گھردا سے دل لگا لیا اور ماسوا اللہ سے دل چھڑا لیا پاک از دخل غیر منزل دل | یاد کرده هیجان و دل منزل | غیر کی مداخلت سے ان کا دل پاک ہے دوست نے ان کے دل وجان میں اپنا ٹھکانا بنا لیا ہے دین و دنیا بکار او کردند برورش اوفتاده چه گروند نے اپنے دین و دنیا دوست کے لیے وقف کر دینے اور اس کے دروازہ پر ان کی طرح اس سے دم سے ہے اریزه ریزه شد آبگینہ شاں | ہوئے دلبر دم دینہ شاں | ہور چور ہو گیا اور اُن کے سینہ سے دلبر کی خوشبو مشکل رہی ہے ران کا شیشہ چور چور القش هستی بشت جلوه یا را سرزند آخرین چیپ دل مولدا را زیادہ کی تجلی نے اُن کی سستی کا نقش دھوڈالا آئروں کے گریبان سے دلدار نے سر کالا اگر بر آرند شعلہ ہائے دروں دور نیرزد نہ تربت مجنون انگر اپنے اندرونی شعلوں کو ظاہر کر دیں تو مجنوں کی قبر سے دھواں لکھنے لگے.انے زوسر ہوش نے زربا خبرے اور سروستان بھاک سرے انھیں اپنے سر پیر کا ہوش نہیں معشوق کے خیال میں خاک پر سر رکھے ہوتے ہیں

Page 46

: ۴۴ ہر کسے را جور و سروکاری کا یہ دلدادگان بدلباس | ہر شخص کو اپنے کام سے کام ہوتا ہے.مگر عاشقوں کو صرف دلدار سے عرض ہوتی ہے اہر کے را بصورت خودکار | | نگر ایشان همه بصوت یا رہا ہر شخص کو اپنی عورت کا خیال رہتا ہے.گرم ان کا سب منکر یاد کی عزت کے لیے ہے انو سیر خویش تافته از دیں | حاصل روزگاره تو همه کیس | تو نے اپنا سردین کی طرف سے پھیر لیا ہے.تیری نہ زندگی کا ماحصل صرف عداوت ہے اور عناد و فساد افتاده | داود دانش مروست خود داده | تو تو جھگڑ سے اور فساد میں پڑا ہوا ہے اور انصاف اور عقل کو جواب دے رکھا ا سر کشیده بناز و کبر و ریا او از تارین نهاده بیرون پا ہے تھی اور تکبر اور ریا سے اکڑ رہا ہے اور دینداری کی حد سے باہر نکل گیا ہے ایوں خدارات ندا و نور درون | | عقل و ہوش تو جلد گشت نگوں چونکہ برائے تجھے دل کا نور تمھیں کیا اس پیسے تیرے عقل و ہوش سپ اُٹھے ہو گئے اکثر گوئی عادت انگاری | فتق درزی ثواب پنداری اتر کفر کہنے کو عیادت سمجھتا ہے.اور بدکاری کو ثواب جانا ہے اصر حجابت پیش بر خویش را باز گوئی کہ آفتاب کیا تیری آنکھ کے سامنے سر پردے پڑے ہیں پھر پوچھتا ہے کہ سورج کہاں ہے ایده ندارد تا به بینی پیش | جان ما سوختی بکورتی خویش پر وہ اٹھا تا کہ تجھے سامنے کی چیز نظر آئے تونے اپنے اندھے پن سے ہمارا دل جلا دیا

Page 47

قافتی سرد کنم و منال | این بود شکر نعمت اسے ناداں منعم اور مثانی خدا سے تو تھے سر پھیر لیا اسے ہیں توت کیا اسی کا نام شکر نعمت ہے؟ انول تعاون درین سرا چه دادن | عظمت می کند ز دیں بیروں | ان ولیل سرائے سے دل لگا آخر کار آدمی کو دین سے خارج کر دیتا ہے رکب کر کے بتی از فاو در ست دل به غیرسے مده کر فیوره است ندن کے اوپر کو چھوڑ دیناو ناداری سے بعید ہے غیر سے دل نہ لگا کیونکہ خدا بر غیرت مند ہے ادانی و باز سرکشی از وے | این چه بر خود ستم گئی ہے ہے تو جان بوجھ کہ اس سے سرکشی کرتا ہے ہائے افسوس تو اپنے اوپر کیا ظلم کر رہا ہے رچہ غیرسے خدا بخاطر تست | اک بہت قسمت انے یا یہاں نشست تھا کے سوا ہو بھی تیرے دل میں ہے اسے کمزور ایمان والے وہی تو تیرا بیت ہے اید عذر باش زمین بتان جہاں | اداین دل ز دست شاں پر ہاں ان محلی تینوں سے ٹوٹتا رہ اور اُن کے ہاتھ سے اپنے دل کا دامن چھڑانے چیست قدر کیکر شیر کش کار اچول زن زانیه بنزارش یار اس شخص کی کیا قدر ہے جس کا کام شرک ہو اور بد کار عورت کی طرح اس کے ہر نسل یار ہوں صدق سے دور نہ صدق میشه گیر جانب مصدق را ہمیشہ میرا اور زو صدق اختیار کر اور صدق کو اپنا بیشتر بنائے اور ہمیشہ صدق کا پہلو اختیار کر ادیده تو به صدق کشاید یاد رفته به صدق باز آید ی تیاری کے باعث تیری آگے کھل جائے گی اور شدہ دوست صدق کی بدولت واپس آئے گا

Page 48

اصلاق آن ست کو تنقلب مسلم | گیرد آن دین کو بہت پاک و تقویم سچارہ ہے جو نیک دل کے ساتھ اس دین کو اختیار کرتا ہے جو پاک اور مضبوط ہو ین پاک است تست اسلام | از خدا نیکه هست منمش تام | پا کہ دین صرف اسلام کا دین ہے اور یہ اس خدا کی طرف سے ہے میں کا ظلم کامل ہے دیں کہ دیں از برائے آس باشد که نه باطل بحق کشان باشد ہو کہ دیں اس لیے ہوتا ہے کہ باطل سے چھڑا کر حق کی طرف کھینچ کر لے جائے ویں صفت بہت خاصہ فرقان | اسرا مولش موفق از بُریاں | تو یہ بات قرآن کا خاصہ ہے اور اس کا ہر اصول دلیل سے ثابت با براین روشن و تاباں | امے نماید رو خدائے یگاں | روشن اور چمکدار دلائل کے ساتھ خدائے واحد کا راستہ دکھاتا ہے امن گر امروز سیم داشتے آن برا این جور نگاشتے | اگر آج میرے پاس روپیہ ہوتا تو ان دلائل کو سونے کے پانی سے لکھتا الله الله چه پاک دین است این رحمت رب عالمین است این اللہ اللہ یہ کیسا پاک ذہب ہے جو سراسر رب العالمین کی رحمت ہے آفتاب دو صواب است این | بخدا به و آفتاب ست ہیں راہ راست کا سورج ہے.خدا کی قسم یہ دین سورج سے بھی بہتر ہے امے پر آرد نجمل و تاریکی سوئے انوار قرب و نزدیکی تعالت اور کاندھیرے سے نکال کر قرب و وصل کے انوار کی طرف لاتا ہے

Page 49

سے نماید به طالبان رور است! راستی موجب رضائے خداست طالبوں کو راہ راست دکھاتا ہے اور راستی خدا کی رضا کا موجب ہے اگر تر است بیم آن دادار به پذیر و ز خلق بیم مدار | اگر تجھے خدا کا خون ہے تو مذ ہب اسلام کو قبول کر اور لوگوں سے مت ڈر چوں بود به تو قوت اس پاک | دیگر از این دلین خلق بچه باک | جب اس خدائے پاک کی رحمت تھے پر ہو تو پھر مجھے مخلوق کی لعنت اور طعنوں سے کیا ڈر ہے.لعنت خلق سهل و آسان است | لعنت آن است کو زرگان است تعلقت کی لعنت آسان اور سہل ہے در اصل لعنت وہ ہے جو خدا کی طرف سے پڑتی ہے.دیر امین احمدیہ حصہ دوم صفحه ۱۳۰ تا ۱۳۵) مطبوعه ۶۱۸۸ است فرقان آفتاب عمد وی | تابعت انگاں ہوئے پیش | قرآن مجید ظلم اور دین کا سورج ہے اور وہ تجھے تنک سے یقین کی طرف لے جائیگا است فرقان از خداجمل انہیں تا کثرت سوئے رب العالمیں قرآن خدا کی مضبوط رہتی ہے اور وہ تجھے رب العالمین کی طرف کھینچ کرنے جائینگی است فرقان روز روشن از خدا نا دہندت روشنی دیده ها قرآن خدا کی طرف سے ایک روشن دان ہے تاکہ تجھے روحانی آنکھوں کی روشنی بخشے اسی فرستاد این کلام بے مثال | تارسی در حضرت قدس و جلال | نے اس سے نظر کام کو اس لیے یا ہے تا کہ تو اس پاک دارند اجمال کی نگاہ میں پہنی جائے

Page 50

۴۸ و روئے شک سنت اللهم با کال نماید قدرت تامیم خدا خدا تعالی کا الہام تشنگ کی دوا ہے کیونکہ وہ خدا تعالے کی کامل قدرت کو ظاہر کرتا ہے : اہر کر روئے خود ز فرقان در کشید جان اور وئے یقین ہر گز ندید جس نے قرآن سے رو گردانی اختیار کی اُس نے یقین کا منہ ہرگز نہیں دیکھا جان خود را می کنی در خودروی | بانه میمانی ہماں گول و غوی | و سفر درائی کی وجہ سے اپنی جان کو ہلاک کرتا ہے مگر پھر بھی ویسا ہی احمقی اور گمراہ رہتا ہے کاش جانت میل عرفان داشتے کاش سیت تخیر حتی را کاشتے | ال یا اول مرت ابھی حال کنے کی رغبت رکھتا کاش تیری کوش سچائی کا بیچ ہوتی خود نگه کن از سراقصات و دیں ان گمانها کے منشور کا یقیں: تو آپ انصاف و مدل سے غور کر کہ گمان کس طرح یقین کا کام دے سکتا ہے؟ اہر کہ سا سویش در سے میشوده است از یقین نے از گمانها بوده است جس کا دروازہ خدا کی طرف کھل گیا وہ یقین کی وجہ سے کھلا ہے نہ کہ شبہات کی وجہ سے اقدر فرقان نزدت اسے قرار نیست این نامی کت جنازہ سے یار نیست سے اقتدار تو قرآن کی قدر کو نہیں جانتا تجھے کیا پتہ کہ ان جیسا تیرا کوئی اور موٹیس نھیں اجی فرقان مردگان را جاں دہد صد خبراہ کوچہ عرفاں وہدا قرآن کی وحی مُردوں میں جان ڈالتی ہے اور معرفت الہی کی سیکڑوں باتیں بتاتی ہے ! انیقین ها می نماید عالمی کاں نہ بنید کسی بعد حال ہے اور یقینی علوم کا ایسا جمالی دکھاتی ہے جو کوئی سو جھانوں میں بھی نہیں دیکھا سکتا.زیک ارکین احمدیہ حصہ سوم حاشیه صفو مدار معمار

Page 51

۴۹ ایسے در انکار مانده از الهام کرد عقل تو عقل را بدهم | اسے وہ شخص جو الہام کا منکر ہے تیری سمجھو نے تو عقل و دانش کو بھی بدنام کریں از خدا بد گویش آوردی این چه آئین و کیش آوردی | خدا کو چھوڑ کر تو نفس پرستی میں مبتلا ہو گیا.بھلا یہ کونسا مذھب اور طریقہ ہے تا نه کس سرز نوشتن تا بد راز تو حید را چه سال یا بد جب تک کوئی شخص تکبیر کو نہیں چھوڑ تا تب تک وہ توحید کا راز کس طرح پاسکتا ہے تانه بر فرق نفس پا بزنی کے بہ پاک و پلید فرق کنی جب ایک تو اپنے نفس کو کیل تھیں دیتا تب تک پاک اور نا پاک میں کس طرح فرق کر سکتے اہر که شد تاریخ کلام خدا | رست انه اتباع حرص و ہوا جو شخص خدا کے کلام کا فرمانبردار ہو گیا.وہ حرص و ہوا کی پیروی سے آزاد ہو گیا از خود نفس خود خلاص شده میوا فیض نور خاص شده اپنے آپ اور اپنے نفس سے اُس نے رائی پائی اور نور خداوندی کے فیض کا منظر بن گیا ه بوهم ایم تر اهنگ این جمال گشته آن مور ناید بو هم آن گشته برتر این و 1.چه / وہ اس دنیا کے رنگ سے اونچا ہو گیا اور یا یا گیا کہ اس کا دور پر خیال میں بھی تھیں آسکتا اسیران نفس اتارہا ہے نائیم سخت ناکارہ ہم جو نفس امارہ کے قیدی ہمیں خدا کے بغیر ہم بالکل ہی ناکارہ ہیں تالیاں لست وحی بھی یہ ارشاد ہے بسا حقہ ہائے یا کہ کشاد اے اعتقد جب نے خدا کی وحی ہماری ہدایت کے لیے تیار ہوئی ہمارے بہت سے معقد سے حل ہو گئے

Page 52

از شود از تو کابه ستانی آسیائے تھی چھ گردانی : و خدا کا کام ہے وہ تجھ سے تمہیں ہو سکتا.خالی چکی تو کیا کھا رہا ہے اتر و هم تو باز هیر ندا | فرق میں از کجا است تا به کیا علم به | کیا یہ تیرا علمہ ایک فرق ہے ہم اور خدا کا علم ایک طرف آپ دیکھ لے کہ دونوں میں کیا فرق ہے اس کیسے انگار خویش به بر دیگری چشم انتظار به درا ایک وہ ہے جس کا معشوق اس کی شکل میں ہے اور سادہ مانگوں کی آنکی اخطار میں درانی سے پراگی ہوئی ہے.ان کے ہم نشیں بھر روئے دیر سے ہر نہ گرد در کوئے ایک وہ شخص ہے جو اپنے محبوب کے پاس بیٹھا ہے دوسرادہ ہے جو گلی میں آوارہ پھر رہا ہے.ں یکے کام یافته به تمام دیگرے سوختہ الفکرت کام ایک وہ ہے جس نے اپنا مقصد پا لیا.دوسرا وہ ہے جو اپنا مقصد پانے کی فکر میں جل رہا ہے.عادت آید نه عالیم اسرار خود ز خود دم زنی ر ہے پندار | مجھے عالم اسرار سے شرم آنی چاہیئے.تو اپنی عقل پر فخر کرتا ہے تیر سے تکبر پہ افسوس اہمہ کا یہ تو نا تمام افتاد اور چه کارت سینگل خام افتاد تیرا سارا کام نامکمل رہ گیا.ناقص عقل کے ساتھ تجھے کیسا برا واسطہ پڑا ایما امین احمدیہ حصہ سوم صفحه 1124 امطبوعه ۲۸۸۲ را عقل تو بردم پائے بند کر نے دار و بر عقلی طلب کینکت ز خودبینی بردل آرد ت تھے کہیں گرفتار کیتی ہے یا اور ہیں قتل تلاش کر ہو تھے جو پانی سے نجات دے

Page 53

ہاں بہت کہ ان طریق انتی با ندیم این این ٹھیک اداریم صد سود خطا د است یہی ہے کیا واک کر رونا اے سی کمی کو کی اور ہمارے پاس ہے اس میں سیکڑوں غلطیاں ہیں که گوید بهتراز توانش گرا خاموش نمینشیند که گیر دوست سے ناداں گردو دست تو بگذارد اگر دا خاموش رہے تو اس سے بہرورت کی کہ سکتا ہے گروہ تجھے چھوڑ دے تو پھر کون تیری دونگیری کرسکتا ہے بمقدرش میں محبت ہے اصل مو کاش که این است که می آرمی با با بر سرت آرد جا بعد اس کی قدر پہچان اور بت بازی کو چھوڑ دے کیونکہ جوبات تومیش کرتا ہے میرے سر میتیں لائے گی دیر این احمد به حصہ سوم حاشیه صفحه ۱۲۱ مطبوطه ۱۶۱۸۸۲ حاجت نورے بود سر چشم را این چنین افتاد قانون مدا ہر آنکھ کو روشنی کی ضرورت ہے.خدا کا قانون ایسا ہی ہے چشم بنتا ہے خود تا بال که دید کے نہیں چھٹے خداوند آفرید | بغیر سورج دیکھنے والی آنکھ کس نے دیکھیں ؟ خدا نے ایسی آنکھ کی تائی؟ چوں تو خود قانون قدرت بشکنی پس چرا به دیگراں سرمے زنی جب تو خود ہی قانونی قدرت کو توڑتا ہے.تو پھر تو دوسروں پر کیوں اعتراض کرتا ہے آنکه در هر کار شد حاجت روا چون رواداری که نبود رہنما ہ خدا میں نے انسان کی ہر ضرورتکو پورا کیا کیادہ مذہب کے بارے میں میری مہمان نہ کرنا؟ انکا سپ وگاؤ خر را آفرید تا رید گیشت تو از باد شدید ہیں نے گھوڑے کا ہے اور گدھے کو میں کیا.تاکہ تیری پیٹھ کو سخت بوجھ سے نجات دے 1

Page 54

۵۲ ا چون تنا حیران گذارد در معاد اسے عجیب تو حائل و این اعتقادا ور مجھ کو آمورت کے محاطر میں کیوں پریشان پھوڑ سے تعجب ہے کہ عقلمند ہو کر تو یہ اعتقاد رکھتا ہے دست داده اند ا سے بے خبر نہیں چرا پوشی کیسے وقت نظرا سے ہے جب جب تجھے دو آنکھیں دی گئی ہیں پھر دیکھنے کے وقت ایک کو کیوں بند کر لیتا ہے آنکه زو ہر قدر تے گی یہاں قدرت گفتاریوں ہاندے نہاں رات جس سے ہر قسم کی قدرت ظاہر ہو ئی.قدیرنے کی قوت کس طرح حنفی ہو سکتی تھی آنکه شد هر وسعت پاکش جلوہ گر پس چرا این وصف اندے سنتر وہ ہستی میں کی ہرنا کی صفت ظاہر ہوگئی پھر اس کی یہ صفت کیونکر چھٹی رہ سکتی تھی که او غافل بود ازیاد دوست | چاره ساز فلتن پیغام ها دست | جو خدا کی یاد سے فاضل ہو.تو خدا کا پیغام ہی اس کی مغفلت کا چارہ سانہ ہوتا.تو عجب داری نہ پیغام خدا این چه نقل و فکرایت اسے خود نما تو خدا کے پیغام پر تعجب کرتا ہے اسے شکر یہ تیری محفل اور سمجھ کیسی ہے العلب امر یوں خاکیان ما عشق دادی امانتان را چو بینگند سے زیاد اس کی مہربانی نے جب مٹی کے پتلے کو شش بخشا.تو وہ اپنے عاشقوں کو کیوک کھیل سکتا عشق ہوں بخشید از لطف انتم ہوں نہ بخشید ے والے اس المر جب کامل مربیانی سے اس نے محبت دی.تو پھر کیوں اس درد کی دوا نہ بخشتا وردیدا کرد از خشن خود دار کتاب کیوں نہ کردے از سریت خوابیل ی اس سے اپنے حق سے بلہ سے دلوں کو کباب کر دیا تو عورت کے ساتھ ہم سے کام کیوں فکری

Page 55

۵۳ اول تیارا مد به گفتار یار اگرچه پیش دید را باشد نگار حل کو مجوب کے کلام کے منا آرام نہیں تھا.نمراہ محبوب آنکھوں کے سامنے ہی ہو پس جو خود بی خود اندر حجاب کے توان کردن صبوری از خطاب یکھی جب محجوب خود ہی پردے میں ہو.تو کلام کے بغیر صبر کس طرح آسکتا ہے ایک آن داند که او دلداده است در طریق عاشقی افتاده است گر ان باتوں کو صرف وہ عاشق ہی جانتا ہے.جو راہ محبت کا وقت ہے حن رابا عاشقانی باشد سرے بے نظرور کے بود خوش منظرے کا ناشقوں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور کوئی حسین بغیر تعداد ان کے نہیں ہوتا عاشق آن باشد که د گر ز دست در طریق عشق خود بینی بدست | عاشق وہ ہوتا ہے جو اپنے آپ کو بھول جائے.طریق عشق میں آپ کو کچھ بھنا برا ہے لیکن بنتیصال این کبر و خودی نیست ممکن مجمه به وحی ایزدی لیکن اس تکبر اور خود ی کا استیصال - خدا تعالی کی وحی کے بغیر مکھی تھیں امر که ذوق یار جانی یافت است آن زردی آسمانی یافت است میں نے اس ملی دوست کے وصل کا لطف اٹھایا.اس نے صرف آسمانی وحی کی بدولت اُٹھایا عشق از الهام آمد در جهان | ورود از الهام شد آتش نشان | عشق الہام ہی کی وجہ سے دنیا میں آیا اور رونے بھی الہام ہی کی وجہ سے آتش نشانی کو شوق و انس والفت و مرد و تا جمله از الهام می دارد نیا شیق اُنس راعت اور ضرو وقد ان سب کی رونقی الہام کی وجہ سے ہے

Page 56

۵۴ ار کشتی با بافت از امام یافت | کرنے کو تافت الاسلام نافت جس کسی نے خدا کو پا یا الہام سے پایا.ہر ایک چہرہ جو چھکا وہ السلام سے چکا تو نہ اہل بیت دیں سبب از کلام بابر سے ماری محب تے محبت کے کوچہ کا واقف تھیں اس لیے کلام یار پر تعجب کرتا ہے عشق سے خواہد کام بار ها رو به پس از عاشق این اسرارنا عشق تو دوست کے کلام کو چاہتا ہے.ہا اور عاشق سے اس راز کو پوچھ این نگو که در کش دوریم ما ربط او با مشت خاک ما کجا ہ ہ ہ ہ ہ کہ ہم اس کی درگاہ سے وہ میں سے اس کا ای بادی اشیا ناک سے نہیں پوچتا داند آن مرد یک روشن جاں بود کیس طلب در نطرت انسان بود اس بات کو وہی جانتا ہے کو روشن ضمیرا ہے کہ خدا کی طلب انسان کی فطرت میں داخل ہے اول نے گیر و تسلی خود شد | این چنین افتاد فطرت نامتدا عداد کے بغیر انسان کا دل تسلی نہیں پاتا.ابتدا سے آدمی کی بھی فطرت ہے ول ندارد صبر از قولی نگاری کاشتند این تخم از آغاز کار حبوب کے کلام کے سوال کو صبر میں امداد سے خدا نے یہ بچے اس کی فطرت میں بویا ہے.آنکه انسان اپنی فطرت بداد یوں کمال فطرتش دادے بیاد وہ خدا جس نے انسان کو ایسی خطرات وی بود کس طرح اس کی فطرت کے اس کمالی کو برباد کر دنیا کارین کے ان نشر گردہ اور کے شود از کر کے کا بو ندا کا کام انسان سے کیڑ کر ہی ہو سکتا ہے.ایک کپڑے سے فضائی کا مرکب ہو سکتے ہیں 1

Page 57

ا پر چلی مرداد نے را اور دانا تھے راز نا ہمہ کو دیم و او را دیده باز ہم سب جیل محض ہیں.اور وہی من تلقت اسلام سے ہم سب اندھے ہیں اور وہی ایک جیتا ہے واقعہ یا خدا ہم دھوتی فردانگی است مبل است درنگ دریایی خدا کے مقابل پر عقلمندی کا دعوکلی کرنا.سخت جہالت اور دیوانہ ہی ہے افتی رو از خور تاباں که من خود به گرم روشنی از خویشتنی روشن سورج سے منہ پھیر لیا اس خیال سے کہ میں اپنے احمد ر سے آپ ہی روشنی نکال لوں گا الے را کور که دست این خیال اسرنگوں انگنده در چاه هلال | اس خیال نے ایک دنیا کو اندھا اور پھرا کر دیا ہے.اور انہیں گمراہی کے کنوئیں میں ڈھال دیا ہے انه رفضنت مکن گر مفتی است در رو قاین روندی تے ست دره تو کہتے * اگر کچھ عقل ہے تو اس عقل پر نازہ نہ کر.تیرے راستے میں یہ محفل ایک محبت ہے عقل کان پاکبر میدارند خلق است عفت و عقل پنداره ند خلق نگر سے ملی ہوئی وہ معقل بولوگ رکھتے ہیں محض ہو توتی ہے پھر بھی لوگ اسے عقل سمجھتے ہیں کبر شهر عقل را ویران کند | ماقتلان را گره و نادان کند بکر عقل کے شر کو دیہانہ کر دیا ہے اور عقلمندوں کو گمراہ اور بیوقوف بنا دیتا ہے.آنچه افزاید مغرور و مسیجی چول رساند تا دایت اسے نوبی | جو چیز فرور اور کہتر کو بڑھاتی ہے اسے گمراہ ! وہ تجھے خود ایک کینوکی پہنچا سکتی ہے ندیدی در شرک اعداد و ترا تو رکن از فروردی اسے خود شما خود روی تجھے شرک میں ڈال دے گی.اسے اسے ریا کار خود روی سے توبہ کر

Page 58

۵۶ ست مشترک از سعادت دور و واز لیوان سردی مجبور تمر مشرکی سعادت سے بہت دور ہے.اور خدا کی دائمی رحمتوں سے پرے پھینکا گیا.رضا باشد خدا را یافتن نے به کرد حمله و تدبیر و فن خدا کی مد سے ہی خدا کو پا سکتے ہیں.نہ کہ چالا کی حیلہ اور کرد غریب کے ساتھ تانیانی پیش تقی پور طفل خورد است جام تو سیرا سر کے دور جب تک تو چھوٹے بچے کی طرح خدا کے سامنے نہ آئین کو تب تک تیرا جام صرف بچھٹ سے ہی بھرا ہے گا شرو نین تقی بود شجره دنیا دل کس ندیده آب بر جائے فراز خدا کے فیضان کے لیے مجو دنیا شرط ہے.کسی نے پانی کو اونچی جگہ ٹھیرتے نہیں دیکھا من بیان سے جدید آنجا ناز نیست اثر بر خود تا درش پرواز نیست خدا کہ ماجوری پسند ہے وہا فور کا تھیں آنا اپنے پروں سے اس ایک لڑ کر نہیں پہنچ سکتے حاجیتال سا پر ور د ذات اجل سرکشان محروم و مرده و ازل | وہ بزرگ ذات ماجیوں کی پرورش کرتی ہے.اور سرکش ہمیشہ محروم و مردود رہتے ہیں نیائی در یز تا آفتاب کے فدیہ تو شعاعی در مجاب آپ اور ان اکانت جیسے مویز کار با کم کنی اگر داری تمیز اسے عین تیری ہتھیلی میں تو کھاری پانی ہے.اگر کچھ حمید ہے تو اس پر فخر نہ کر * آپ جہاں بخشے جاناں ریمات و طلب مے کن اگر ماں بیت | زندگی بخش پانی تو محبوب سے لے گا.اگر زندگی در کار ہے تو جا اور اس سے مانگ

Page 59

86 ہت آس آپ بتائیس نا پدید کس بجو مصباح حق رایش ندید وہ آپ حیات بالکل مفتی ہے.اور اس کا راستہ خدائی چراغ کے بغیر کسی نے تمھیں کیا ان خیالاتے کہ بیتی از خود پر تو ہیں ہم زومی می رسد وہ خیالات ہو تو اپنی عقل سے معلوم کرلیتا ہے.اُن کی روشنی بھی خدا کی وحی سے ملتی ہے.ایک چشمہ دیت ہوں باز نیست ہیں دل تو حریم این ساز نیست لیکن نکہ تیری روحانی آنکھ کھلی ہوئی تھیں.اس لیے تیرا دل اس راز سے واقف تھیں سرکشی از حق که من دا تا دلم | ماجت و میش نداریم ما ظمی تو خدا کا نا فرمان ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہیں دانا ہو اور اس کی بچی کی مجھے ضرورت تھی و قتل کیتا ہوں منوش تو حاجت پیدا کند | در دمے معقل تزار سوا کند مگر تیری خوش تھے حاجتمند بنادے گی اور دم بھر ہی تیری عقل کی قلعی کھول دے گی معقل تو گورے مبص از بیروں اندرونش بیست یک لاننے زبوں تیری عقل اس سے پختہ مقبرہ کی ماند خوشتا ہے مگر اس کے اندر کیا ہے؟ ایک گندی لاش منتہائے عقل تعلیم خداست بر صداقت را ظهور ان انبیاست خدا کی تعلیم ہی عقل کے کمال کو پہنچتی ہے.اور انبیاء سے ہی ہر ساقت کا ظہور ہوتا ہے ر کر لی یافت از تعلیم یافت آفت آن روئے کو دور نے بتافت با زبان حال گوید روز گار اسے تقصیر عمر گیر آموزگار ! وقت نہ بان حال سے کہا ہے کہ اسے تھوڑی عمر والے انسان ! استناد پکڑ

Page 60

+ المراة اتصال بمناقص است نزا گوش بود جرنے بیس است خصوں کے خیالات بھی ناقص ہی ہوتے ہیں اگر تیرے کان میں تو بھی ایک دن نصیحت کے لیے کافی ہے.انی منتزه از خطا تو مجمه خطا داوری با کم کن و بر حق بیا خدا الغلطی سے پاک اور تو غلطیوں کی پوٹ ہے جھگڑا نہ کر بلکہ حق پر قائم رہ عقل تو مغلوب صد حرص و جو است تکیه بر مطلوب کا باشین است تیری عقل حرص و ہوا کی مغلوب ہے.اور مغلوب پر بھروسہ کرنا درختوں کا کام ہے ان کس و ناکس بیا موزی فنون | مار داری زمان میکچر ہے چلوں | ت ہر کس و ناکس سے لم یکھتا رہا ہے گرما نانا نی میر سے سکھ نہیں تھے شرم آتی ہے ارد مکتبر راه حق بگذاشتی اینچه کردی اینچہ تجھنے کا شتی تر نے تکبیر کی وجہ سے حق کا راستہ چھوڑ دیا.یہ تونے کیا کیا، یہ تو نے کیا بیج بویا.ے مگر ایں ہمہ مولائے ماست کو عطیات ہمارض و سیاست اسے ظالم بھی تو وہ ہمارا آتا ہے میں کی عطا سے یہ سب آسمان اور زمین کی نعمتیں ہیں انیه باران و به و مهر آفرید کرد تابستان و سرما را پدید جس نے بادل.بارش.چاند اور سورج پیدا کیے.اور گرمی سردی کو مظاہر کیا الفضل او فنائے خود خوریم اندہ مانیم و تن خود پر در بیر تا کہ ہم ان کے فضل سے اپنی خوراک کھاتے ہیں.اور نہ ندہ رہیں اور اپنی پرورش کریں اگر بر تن کرد این مطلب انم کے کند محروم مال را از کرم : میں نے ہمارے بدن پر کال در یکی مربانی کی ہے وہ جان کی بانی وہ اپنے کرم سے محروم کر سکتا ہے تے ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا نے سے حرام کرتا ہے

Page 61

09 ہی مہم ادمی فرمان است جذب ایزدی بر مدت از نخودکی در بے خودی قرآن کی وحی خدا کی ایک کشش ہے تا کہ وہ تجھے نفسانیت سے روحانیت کی طرف لے جائے بیست قرآن واقع شرکب شاں | امر اور اہم از دریا بی نشان قرآن اندرونی شرک کو دور کرتا ہے.تا کہ تو خدا کا نشان خدا کی طرف سے ہی چاہتے تا رہی انه کبرو خود بینی و ناز | تاشوی ممنون فضل کا رسانه تاکہ تو تکبر نخود بیٹی اور فخر سے نجات پائے اور اس کار سانہ کے فضل کا ہی ممنون ہو دور شو از کیبرنا رحم آیدش | | بندگی کئی بندگی سے بایوش کہر سے دور ہو کہ اُسے مجھ پر رحم آئے.بندگی کر کیونکہ اسے تو بندگی درکار ہے ندگی در مردان و بهره دهی است هر که افتاد است اور آخر مین است زندگی زمر نے عاجزی اور رونے سے ہے جو اس کے آگے ، اگر گیا وہی نجات پائے گا بہت جام نیستی آپ حیات که نوشیده است درست اور کمات قیمتی کا جام ہی راصل میں، آب حیات ہے میں نے وہ پی لیادہ موت سے خلاصی پا گیا عامل آن باشد که چه بد بیار را مرا نه تقتل معا بر آمد کار سالم عقلمند وہ ہے جو خدا کو تلاش کرتا ہے اور اپنا سارا معالم محمود و نیاز سے بھاتی ہے.ایسی بہتراندال معقل در خود است.بیچاو کبر نخوت انگلند اس عقل و دانش سے پیو تونی اچھی ہو تجھے کبر و نخوت کے کنوئیں میں ڈال دے طالب تی پیش بیرون از خود ۲ خودروی با ترک کن بی شما خدا کا طالب ہو اور خودی سے باہر آ.اور خدا کے لیے خوردی کو ترک کر

Page 62

این تواتر یا همان است و دیس دم زدن در جنب رب العالمیں میں تمھیں جانتا کہ یہ کونسا دین وایمان ہے کہ ناپاک انسان نخدا کے مقابلے میں دور سے کرے تو کجا و آن قادر مطلق کجا تو بہ کن این اللهی با کم نما ہو کہاں اور وہ قادر مطلق کہاں! توبہ کر اور ایسی بیو تو نیاں ظاہر نہ کر یک سے گر شیخ مینش کم شود این همه خلق و جهان بر هم شود اگرد کے فیض کا چھینٹا ایک ٹو کے لیے کم ہوجائے تویہ تمام خلفت اور جہان زیر نہ ہو ہو جاتے است سنتی لایت استعلا مزن | و از گلیم خویش پیروں پامزان تو ایک حقیر سی مہنتی ہے بڑائی کی بات نہ مار اور اپنی چادر سے پاؤں باہر نہ کمال اید آن باشد که پیش خانی است اعارت آن کو گرویدش لانتانی است بندہ وہ ہے جو خدا کے سامنے ٹیچ ہے عارف وہ ہے ہو اُسے لاثانی کرنا نوشتن را نیک اندیشیده اے بلاک اترجم بد نمیده اپنے اللہجہ تو نے اپنے تئیں نیک خیال کر لیا ہے خدا تھے ہدایت دے.کیسا غلط سمجھا ہے این چنین بالا ز بالا چوں پری یا گرزان ذات بیچوں منکرمی تو اتنا اونچا اونچا کیوں اُڑتا ہے ؟ شاید تو اُس بے مثل ذات کا منکر ہے کاریخ دنیا را چه دیدستی بنا است خوش افتاد ستالین فنی سالم دنیائے مہستی کی بنیاد کو تونے کیا سمجھا ہے ؟ کیا تجھے یہ سرائے فانی اچھی لگنے لگی دل چرا حاقل به بند اند رای ناگهان باید نشانه بیول ادین عاقل اس سے کیوں دل لگائے.جب کہ اچانک اس سے نکلنا پڑے گا

Page 63

Y از چنے دنیا مجریان از خدا اس میں باشد نشانی اشتیا | ہے کے لیے خدا سے تعلق توڑنا.یہی بدبختوں کی علامت ہوں خود ستایش حق بر کسے دل نے ماند و نیایش ہے جنب خدا کی کسی پر صربانی ہوتی ہے.تو اُس کا دل دُنیا سے اکھڑ جاتا ہے آرش کی کہی جاگ جائے خداست یا خدام اش برون آخوند است تبردار ہو کہ یہ دیا تو سرائے فانی ہے.باخد ابن جیا کیونکہ آخر کو خدا سے ہی معاملہ بر قاتل گر دوست خود خوری | امن جہاں دانم که تو دانشوری | اگر تو اپنے ہاتھ سے ہی زہر قاتل کھائے تو میں کیونکر سمجھوں کہ تو عقلمند ہے اس رونے میں که از خود انیاندا یان شان در گفتند و بانی اما ان لوگوں کو جدیکھ جو فانی ہیں.اور خدا کے کلام پر جان چھڑکتے ہیں تاریخ افتاده ز نام بود و جاه ا لاول زرکت واز فرق افتاده کلاه.نام اموات اور وجاہت سے فارغ ہو گئے.دل ہاتھ سے جاتا رہا اور ٹوپی سر سے گرگئی دور تر از خود به یاد آمیخته آمد و از بهر روئے ریختہ خودی سے دور ہو کر باہر سے دراصل ہوگئے.اور اسل رحسین چہرہ کی نما روت و آرد کی پڑھانہ کی دیدن نشان می د بریا و از خدا صدق و سرتال در جناب کبریا ان کو دیکھنے سے خدا یاد آتا ہے.کیونکہ وہ خدائے کیریا کی جناب میں پہنتیاز ہیں تونه استکبار سریز آسمان باز ده بیرون زرا و بندگان میرا تو ستر کبر سے آسمان تک پہنچا ہے اور بندوں کے راستہ کو تو نے چھوڑ دیا ہے

Page 64

تانه گرد و مهر در لیست جہاں | نور حقانی جہاں تا بد برال | جب تک تیرے نفس میں عاجزی پیدا نہ ہو گی تب تک خدائی تو اس پر کیونکر روشنی ڈالے گا تانہ تعمیر و دار احمد زمین کے ایک مدت خود تو خود ہیں جب تک خالہ زمین میں داخل ہو کر مرے گا نہیں.تب تک ایک سے تو کیونکر بنے گا نیست خو تا بر تو فیضانے رسد جمال بقشان تا دگر جانے رسد نیست ہو جا تا کہ تجھ پر فیضان نازل ہو..جان قربان کرتا کہ دوسری زندگی نئے تا تو ندار و عاجز و مضطر نہ لایق فیضان آں رہبر جب تک تو گز دور حاجز اور منظر نہیں تب تک اس رہبر کے فیضان کے قابل بھی نہیں پیست ایمان و صد و پنداشتن کارتی را با خدا نگذاشتن اریجان کیا ہے؟ خدا کو ایک یقین کرنا.اور خدا کے کام کو خدا ہی کے سپرد کرنا چون زر آموزش خود را یافتی | پس ز تیمش چها سر تافتی جب لڑنے اُسی کے سکھائے اس سے قبل کو پایا پھر اس کی عظیم سے کھیل رو گردان ہے اندرون خویش را روشن مدال آنچه م تا بر باد در آسمان ابد پنے سینہ کو روشن دسمجھ.جو کچھ بھی روشن ہے وہ آسمان ہی کی بدولت کو بہت آن در کش این ویت گور است آن بیند که تنگ و ویستا وہ آنکھ نابینا ہے جس میں یہ نور تھیں.اور وہ سینہ قبر ہے جو تک سے خالی تمھیں صالحین و صافین و اتقها جمله ره دیدند از وحی خدا صالح.صادق اور مفتی ان سب لوگوں نے تھا کی وحی سے ہی بیدھا راستہ پایا

Page 65

اس کجا ملے کہ از خورده اندش قهدر آن شخصی که او نهادش وہ کونسی عقل ہے جو خود اس کی معرفت رکھتی ہے.یہ دھلی سمجھ سکتا ہے مجھے خدا خود سمجھائے نتقل ہے وحیش دیتے داری براه بت پرستی با کنی شام دیگاه اس کی وجی کے بیہ عمل تیرے راستے میں ایک بت کی طرح ہے اور تو صبح و شام بت پرستی کر رہا ہے پیش پشت گر شده این ثبت عید از تشتک تو شد ے جوئے رواں تیری آنکھوں کے سامنے یہ بت ظاہر ہوجاتا تو تیری آنکھوں سے آنسوؤں کی نہر جاری ہو جاتی ایک زود قسمتی چشمت نماند بہت پہنتی نفرت پھول ثبت نشاند نشانده تی ہے کہ تیری آنکھ ہی رہیں اور بت پرستی نے آخر کار تجھے بھی محبت کی طرح بیٹھا دریا ی یہی حقل مرا سراز حق بین نادر است آینه گرگر می رسدیم از خدا است بائی اسرار تھے میں معقل بہت کمنور ہے جو بات گاہ گاہ سے مل جاتی ہے وہ بھی نہ ہی کی طرف سے ہے.گر خر و پاکیزہ رائے آور و آن نه از خودشم زجائے آورد اگر عقل کبھی کوئی حمدہ رائے دیتی بھی ہے تو وہ اس کی اپنی خوبی تھیں.بلکہ وہیں سے لاتی ہے.اتو به مقتل خویش در کمر شدید اما خدا نے آ کر ہر قتل آفرید فدائے آنکه او تو اپنی لعقل پر نازاں ہوکر سخت منکیر ہو گیا ہے اور ہم اس پر فدا ہیں میں نے خود قل کو پیدا کیا اور قیاسات نہی جانت امیر جان ما قربان عظیم آن بصیر تیری بان خالی خولی قیاسوں میں گرفتار ہے مگر ہماری جان اس بیا خدا کے علم پر قربان ہے.نیک دل با نیکوان دارد سرے برگر نفت مے زند بد گوھرے نیک دل انسان نیکوں سے تعلق رکھتا ہے اور یا گوھر آدمی ہوتی ہے پر تھوکا.

Page 66

تم ہو بہت پر اسرار اسرابه دگر تا کجا تا دو غیر فکر و نظر الن بھیدوں پر اور بھید چھائے ہوئے ہیں عقل و فکر کا گدھا کہاں تک دوڑے گا ہیں چراغ مرده از نور ہوا چون رو باریک بنماید ترا حرص کی شدت سے یہ ٹمٹمانا ہوا چراغ کس طرح تجھے باریک راہ دکھا سکتا ہے؟ اوری یزدانی از ره اگه کند تا بمنزل نور را همره کند خدا کی دی تجھے راستے سے آگاہ کرتی ہے اور منزل پر پہنچنے تک اور کوتیرے ساتھ کر دیتی ہے افتادہ ہے ہر دو جسم و جاں می باشد دم نزنی باآس لگیاں ہمارے جسم اور جان میں کوئی بہتر نہیں ہے اس لاشریک کے مقابطہ پر دم مارنا حالت ہے پیست میں خود افتار نگاشتن وار سر ستی قدم برداشتن | دیکھا کیا ہے ؟ اپنے تئیں فنا سمجھنا.اور اپنی ہستی سے بالکل الگ ہو جاتا چال بلیتی یا دو صد درد و تغییر کس بے غیزد که گرد و دستگیر صحت جب تو گر پڑتا ہے اور چینیا اور چلاتا ہے، تو کوئی کوئی ضرور اٹھتا ہے تا کہ تیرا ہاتھ پکڑے با شیر را دو تہد ہر بے خبر رحیم پر کورے کند اہل بصرنا دانی کے لیے مانا کا دل تڑاتا ہے.اور آنکھوں والا اندھے پر رحم کرتا ہے همچنین قانون قدرت اور فتاد مرضعیفان را توی آبرو بیاد قانون قدرت اسی طرح واقع ہوتا ہے.کہ طاقتور کمزوروں کا دھیان رکھتے ہیں ول این قانول شود همان برون ریم نیز ال از همه باید فزون ور.تو رحمان اس قانون سے بام کیونکہ سکتا ہے.خدا کا حکم تو سب سے زیادہ ہونا چاہیئے

Page 67

۲۵ که در برابر با بهداشت است این رحمت را زود گذاشته است وہ خدا میں نے بہو سے اب اور چھا تھا کے ہیں.اور کسی رحمت کی ہارے لیے کسی نہیں لکھی چون زما غافل شود در امر دین شرت آیه از چنین انکار وکیں وہ دین کے معاملے میں ہم سے کیونکر فائل ہو گا تجھے اس انکا یہ اور بعض سے شرم آنی چاہیئے دل منه در خاکدان بے وفا یاد دکن آخر وفا ہائے خدا ہے ورنا دنیا سے دل مت لگا.کبھی تو خدا تعالے کی وفاداریاں بھی باد ار باشد بر تو ثابت کاین معقول منتقل مستند در سهو و فربول بر تو و تجمع ہر بار ہا ثابت ہو چکا ہے کہ یہ فلمیں بھول پھوک میں قبلا رہتی ہیں بار با دیدی بعقل خود فساد بار با زمیں عقل باندی ہے مراد بارہا تو نے اپنی عقل کی خرابی دکھی ہے اور بارہا تو اس عقل کی وجہ سے نامرادی ہے باز نخوت سے کنی پر تیل توانی از دلیری سے روکی نا دیدہ مویش ر بھی تو اپنی عقل پر فخرکرتا ہے اور بے سوچے سمجھے دلیری کے ساتھ آگے بڑھا جاتا ہے یہ و باریک کن نفس خود را پاک کن از فضول ترک خود کن کند رحمت نزول اپنے نفس کو ہر غیر ضروری چیز سے پاک اور بے بی اختیار کرتاکہ خدا کی رحمت نازل ہو ایک تک پینس کے آسال بود مردان از خود شدن کیسان بود لیکن نفس کو ترک کرنا کہ نسا آسان کام ہے.مرزا اور نفس کو مارنا دونوں برابر ہیں این چنین دل کم بود در سینه کان بود پاک از غرور و کینه ایسا مل شاذ و نادر ہی کسی سینہ میں ہوتا ہے.جو غرور اور کینہ سے پاک ہو ہے.

Page 68

در حقیقت مردمی مستی کر ان کو ہمہ از روئے عورت مرد مرند اہ از انقد اصل بات یہ ہے کہ حقیقت شناس لوگ کم ہیں.اگر جوشکل کے لحاظ سے سب آدمی ہی ہیں ہوش کن اے در چھے افتاده فقل دوین از دست خود در ماده اسے وہ جو کنوئیں میں پڑا ہوا ہے اور عقل اور دین دونوں کھو بیٹھا ہے.خبردار ہو غیر محدود سے محدود سے جو کا یہ نور محض از دو دے مجھو کا یہ از خیر محدود (خدا) کو محدود و رفت کے ذریعتی لاش نہ کر اور علی نور کا کام یہیں سے نہ لے آنچه باید نشست با مجو و نیاز تو مجو با کبرد خود بینی و ناز جربات کہ مجرد نیاز کے ساتھ ڈھونڈ نی چاہیے اسے تکبر نود جینی اور فخر کے ساتھ لا سوٹ نہ ده چه خوب است این محصول سردی یادگاریه مولوی در مولوی در نشنوی داد و اسلوک کا یہ اصول کیسا عمدہ ہے جو شنوی میں مولوی رومی کی یاد گار ہے دیر کی قند شکست است و نیانه نزیر کی بگذار و با گرانی بساند عقلمندی کمزوری اور عاجزی کی ضد ہے تو عقلمندی کو چھوڑ اور ماجوری اختیا نہ کر تدا که طفل خورد را با در نهار دست و پا باشند نهاده در کتانه میں طرح چھوٹے بچے کو ماں دن بھر اپنی گود میں لیے پھرتی ہے دینا امین احمدیہ حصہ سوم ما شبه صفحه ۱۷۳ تا ۱۳۹ مطبوعه ۱۸۸۲ بروم امر اک اک پیچون در دمام عریاں را کے کو بغیر ماں کے پانی ہوتی رہیں را تدا کار پاک کلام یونان کے سو جام دیتا ہے جو اس شراب سے بے خبر ہے وہ کہاں ریان کا مر جاتا ہے

Page 69

کی گری ہمارے سر راست گوشی ست و نیند سنتا ہے ان جملوں کا اسے آنکھ میں کہنا چاہئے جو ساری عمرانی ہی بوند د کان کن ہے میں نے بھی محبوب کی بات سنی ہو میں این امر به مصر سوم حاشیه صفحه ۲۰۳) الا للہ اسے کمر بستہ پر افترا کشش خوشیقی را به تحریک جیال انے نہیں نے الٹرا پر کرباندھ رکھی ہے خوار ہو جا اپنے میں ہے یہ ان کی چاک نہ کر خاصان متی کی رات کا کیا کے شرمت آید نگیہاں مخدا ندا کے سے روشنی ندا کے خاص بندوں سے کیک و شینی کرتا رہے گا بھی تجھے اس جہان کے پروردگار سے شرم کی بات جو چیزے بود روشن اندر بھی برد هرچه بندی بود ایمی ری کی ہی اپنی خون کی رو سے ملی ہو تو بھی ا پر الزام لگائے گا تو میں نوٹ ہی کہلائے گا به نیک گوهرگان بدیری بدانند مردم که بد گوهری جب تو کسی نیک آدمی پر بدگمانی کرے گا تو لوگ سمجھ لیں گے کہ تو خود یہ اصل ہے.چو گوئی در پاک را پر غبار بار دو چشمت شد و آشکار تو روشن موتی کو صدا کہے گا تو اس سے تیری آنکھوں کا دھندلا ہی ظاہر ہوگا.سخنہانے دبے پرست رہے مخزو نام بود بر جبیٹیاں نشانے تمام گندی.بے معنی اور بے ہودہ باتیں نبیوں کی بجاشت کو ہی ظاہر کرتی ہیں.نمایند گفتن مسکن مجرد در در برخی موارد درونی فروغ تم ہو نے جھوٹ کے اور کچھ کہنا نہیں جانتے مگر صلح کے سامنے جھوٹ فروغ نہیں پاسکت

Page 70

YA نیارید یاد از حق ہے جنگوں پسند ہو تادست دنیائے ہیں تم ندائے بیگوں کو یاد نہیں کرتے اور یہ ذلیل دنیا تم کو پسند آگئی ہے.یہ ڈیا کے دل بہ بندد باترا که ناگاه باید شدن زمیں سلام کوئی اس دنیا سے کیوں دل لگائے جبکہ اچانک ایک دن اس سرائے سے کوچ کرتا ہے.سرانجام این خانه رنج هست و درد به پیش نمایند مردان مرد اس گھر کا انجام رنج و درد ہے.مرد لوگ اس کے داؤ میں نہیں آتے رین گل میالا ئے دل چوں نے کہ عہد بقالیش نماند جسے ان کیچڑ سے کمیٹیوں کی طرح دل کو آمادہ نہ کر کہ اس کے ٹھہرنے کا زمانہ دیر تک نہیں رہتا زمان مکافات آید فراز تور پیش دنیا بدیں سال منان جزا کا دن آ رہا ہے.پس تو دُنیا کی زندگی پر نانہ ذاکر فریبے نور از زر و سیم و مال که سهرنال را آهمه آمید زوال خورانہ زرد سونے ، چاندی اور مال سے وہ کائنہ کھا.کیونکہ آنتو ہرسال پر نعال آجاتا ہے.در آورده ایم و نه با خود بریم کی آمدیم و تمی بگذریم ہم کچھ ساتھ لائے اور نہ ساتھ لے جاہیں گے خالی ہاتھ آتے تھے اور خالی ہاتھ پہلے جائیں گے الاتا نہ تابی سران دوئے دوست جانے نیزد بیک ہوئے دوست خدا را دوست کی طرف سے منہ موڑ سارا جہان دوست کے ایک بال کی برابری نہیں کر سکتا ہے خدائی کہ جہاں پر رواد فدا تیابی میں جنہ اپنے مصطفے اوہ تھا میں کی راہ میں ہماری جان قربان ہے اس کا راستہ تجھے ملنے کی پیروی کے بغیر نہیں مل سکا

Page 71

49 الد القاسم آی آفتاب جہاں که روشن شداد سے زمین و زمان ابور الخام وہ آفتاب عالمتاب ہے جس کی وجہ سے زمین و زمان روشن ہو گئے ہ کے بندے ایک نیک تر نجود سے اگر بچوں محمد بشر انسان فرشتہ سے بہتر کیونکر ثابت ہوتا اگر محمد صلعم کی طرح کا انسان پیدا نہ ہوتا نیاید تما شرم از کردگار ق که اول خود باشی و باوقار میں تجھے خدا تعالے سے شرم نہیں آتی کہ عقلمند اور معزیز ہونے کے باوجود پس آنگه شوی منکر ان رسول که با بد از و نور چشم عقول پھر بھی تو اس رسول کا شکر ہے میں سے خود عقل کی آنکھیں اور حاصل کرتی ہیں ر سهو ر ز غفلت رسیده نماز طور بشر پا کشیده سورز رسیده ر تجھے سو د غفلت سے خلاصی.اصل نہیں ہوئی اور انسانی خصائل سے آزاد ہے نماید و تو کا یہ رب العباد مکن داوری با نه جمل دعناه تجھ سے رب العباد کا کام نہیں ہو سکتا اس سے تو جل و عناد کے باعث جھنگ نہ کر مان ناقص و کیش چون جهاد کمال خدا را مینگن فریاد خدا کو جمادات کی طرح ناقص اور گونگا خیال نہ کر اور اس کے کمال کو بھول مہنت تو خود ناقصی رونی صفات من قیمت قفص پر پاک ذات کے کر تو آپ ناقص ہے اور دونی اعضات سے اس اہم ایک خدا کی پاک ذات پر امی نے بیت خیالات بیهوده کردت بناہ خود از پائے خود او نقادی پچاه بیود در حالات نے تجھے برباد کر دیا.اور خود اپنے پیروں سے چل کر تو کنوئیں میں جاڑا

Page 72

به مسیر با نیالت شیر بہت باریک دوتار نه برای شب زرین صد غبار تیرے خیالات رات کی طرح تا یک تاریں میں پہنیرے کہنے کی وجہ سے سٹور پر دے پڑ گئے ہیں ول ما رو دندان شب شاد کن برس و زرو پوستها یا دگنی چوروں کی طرح اپنے دل کورات ہو نے پر خوش در یکہ ڈر اور ستر کے دن کو یا دکر ار اور ہوا ہم چو شرقان پری اگر یہ میر آپ با گذری چمران یہ تو پرندوں کی طرح ہوا میں اُڑے.اور اسی طرح پائیوں پر پچھلے وگر نہ آتش آتی سلامت اسهال او گر خاک با اندکی از فسوں اور آگ میں سے بھی سلامت نکل آئے.اور جاود سے مٹی کو سونا بھی بنادے تیاری کر تی راکتی زیر دوست مسکن فرانز خانی و جوان دوست پھر بھی یہ مکی نہیں کرتی کو بنا کر سکے پیس دیوانوں اور مدہوشوں کی طرح بکھ اس نہ کر خدا ہر کہ را کرد مهر منیر نه گر دوز دست تو خاک حقیر ند جس کو خدا نے چمکدار سورج بنایا ہے وہ تیرے ہاتھوں تحقیر مٹی نہیں بن دول خود برده موز اسے دنی نہ کا ہد نہ کر تو افزود نیلی اسے ذلیل انسان اپنے دل کو بے فائدہ نہ میں بڑھنے ولی چیز تیری چالاکیوں سے گھوٹ نہیں سکتی بهارست و با و میها درشین کنند تا زیبا با گل دیامن وجبها تاز با موسم بہار ہے اور یاد کیا چکن میں گلاب اور چنبیلی کے ساتھ ناز کر رہی ہے ز نسرین و گل ہائے فصل بہار نسیم مہاسے وزد مطران بہوئی اور فصل بہار کے پھولوں سے مہکتی ہوئی ہوا تو شیو اڑاتی ہوئی پھل استا

Page 73

تو اسے ایلہ افتاده اند نخستان تسمه برگ افشانده چون مفلسان لیکن اسے موت تو زبان میں پڑا ہوا ہے اور قصوں کی طرح تیرے سب پتھے بھڑ گئے ہیں به تهران چرا بر سر کیں دوی نہ دیدی نہ قرآن مگر نیکوئی تران روشنی سے کیوں مارکرتا ہے تو شاید قرآن میں وارے نیکی کے اور کچھ بھی نہیں کیا اگر نا دے در جہاں ایں کلام نہ مادے به مو نیا نہ توجد نام اگر جہان میں یہ کلام نہ آتا تو دنیا میں توحید کا نام بھی باقی نہ رہتا جہاں بود افتاده تاریک و تار از وشد منور مریخ هر دیار بود دنیا تاریک و تار ہوتی.اس کی وجہ سے ہر ملک روشن ہوگیا یہ توحید را ہے از و شد عیاں اتنا اہم خبرشند کہ بہت آن گیاں اس کی وجہ سے تو مجید کا راستہ ظاہر ہو گیا.اور مجھے بھی پتہ لگ گیا کہ خدا ہے دگر تہ ہیں حال آیا کے نواش یہ احسان نگردیاں دین کیش نہیں تو پھر اپنے ہی بزرگوں کا حال دیکھ لے اور انصاف کے ساتھ ان کے دین و ترہیب پر نظر ڈال پیرو آن فرومایه بو گوهری که از منم خود تا به سرسے دہ شخص ذلیل اور بد اصل ہوتا ہے جو اپنے محسن سے بغارت از اندازه خویش برتر مسیر پوشکی مکن چوں ندانی مہنر تو اپنی بساط سے زیادہ نہ اُڑ زیادہ نہ اُڈ.اگر تجھے علم نہیں ہے تو طبابت مذکر نہیں مان کر این کاریز درانی است نه از دخل و در میانسانی است یقین کر کہ یہ ذہب تھا کی بات سے ہے اور انسانی تدبیر کا اس میں کوئی دخل نہیں نام....

Page 74

۷۲ ند ایں دیں تفضل عدا ارمین نه کار فریب است و سالوس و هند یہ دین اسلام خدا کے فضل سے مونہ ہے.قریب چرب زبانی اور بھانتا اس کا کام نہیں دور ختند در و نور بچوں آفتاب تو گوری نے بینی اش زریں حجاب اس میں آفتاب کی طرح کا نور چکتا ہے چونکہ تو اندھا ہے اس لیے وہ تجھے دکھائی نہیں ادنیا یہ نا پائی دل مشو بدگمان و گر مجھے است بنما میاں کئی دل و اپنی گندہ دلی کی وجہ سے تو اس سے بدگمان نہ ہو.ہاں اگر کوئی دلیل ہے تو پیش کر بشوق دل آویختن را بساز پس آنگه بین قدرت کارساز ولی شوق سے اس کے ساتھ تعلق پیدا کر.پھر خدا نے کار ساز کی قدرت دیکھو کریں کی رقومت کیسے انجمن که بایک تن از ماکند یک سخن تو اپنی قوم میں سے ایک میل کا انتخاب کردیا کہ وہ سب مل کر ہم سے ایک فیصلہ کر لیں ہے یما است فضل خداد همه پاک از باطل پرستان ندادیم باک ہم پر فدائے پاک کا احسان ہے ہم باطل پرستوں سے نہیں ڈرا کرتے جوش است فیض احد در دلم که تا بند ہر طالبے بگلم در مندائے واحد کا فیضان میرے دل میں جوش پر ہے تاکہ میں ہر طالب کی زنجیروں کو توڑوں خدا را در گلف با بست بانه نیم عنایات در با انتزاز خدا تعالے کے لطف کے دروازے کھلے ہیں اور مہربانیوں کی ہوا چل رہی ہے کے کو بتا بد سراز عدل و داد کجا دم زند بیش صدق و سلاد ن عدل وانصمات سے روگردانی کرتا ہے وہ حق اور راستی کے سامنے گی دوم اریکا

Page 75

бро کلام خدا بروم از خود جاہ کندروئے ناشر مسارش سیاه خدا کا کلام ہر وقت بڑے جاہ و جلال کے ساتھ اس کے لیے شرم منہ کو کال کرتا رہتا ہے یہاں جانے شخصی برد و بند کو بیان کنش گردان میکند اس شخص کی مانے کے ارتقائی موت ہوگی میں کہ اس کے پو لیس کے پوشوں نے بھی اڑ سکتا دل پاک و جولان فکر و نظر در جوهر بود لازم یک دگر دل اور غور و فکر کی تیزی ہے دو باتیں لازم و ملزوم ہیں ہو جو صرف صفا در دل آویختند ماد از سواد بیول ریختند جب لو پاکیزگی دل کا موت دل کی حیات ہی مل لیتے ہیں یہ کیوں کیا اس کی دوست کی اس میں ڈالتے ہیں دا امریت نیکی است خاک خوریت داد تان تانگردی ملاک خدا نے تجھے ناک کی ایک مٹھی سے پیدا کیا اور وہی تجھے روٹی دی تا کہ تو ہلاک نہ ہو جائے ہر حاجت گشت حاجت روا نشود از تریم در دست عطا تیری ضرورت کاره خود شکیل ہوا اور رحم کرکے اپنی سخاوت کے ساتھ تیرے لیے کھول دیئے ور پاداش بودش چنیں سے دہی که در علم خود را نظیرش نمی را پھر اس کی عطا کا بدلہ کیا تو ہی دے رہا ہے کہ عظیم میں خود اس کا ہمسر بنا پھرتا ہے چه خود را برابرنی با خدائے تنور به چنین نقل و ادراک دورانے وداد کیا تو خدا کے ساتھ اپنے میں برابر کھتا ہے ایسی معقل سمجھ اور رائے پر ہزار افسوس خدا ہوں ولے سایہ پستی گند به کوشیش بیاریم کردن بلند جب مندر کسی دل کو تحرز ذلت میں گراتا ہے تو پھر ہم اس کواپنی کوشش سے بند نہیں کر سکتے

Page 76

یک شیر و انجام کار آن بود که آن خواہش دریائے دمال بود که بودم ہم تو صرف سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں گوریجہ وہی ہوتا ہے جو خدا کی مرضی اور سرائے ہیں ہو دیر این احمد به جمعه سوم حاشیه صفحه ۱۲۰۰ ۲۰۸ اد اور پاک قرآن صبح مفاد میده ان جو بائے دالما او مبا و زیدہ قرآن کے اک نور سے روشن بھی نمودار ہو گئی ادار دنوں کے مینوں پسام صبا چنے گئی این دشتی دیلمان شمس فیملی ندارد الاین وایبری بخوابی کس دور تر مرده ای شان در یک تور سر کے سر میں بھی نہیں پی ای اش در رشت تو کسی چاندنی میں بھی تیل یوست افتر چا ہے مجوس ما ند تا این یو نے روتی را از چاه بر کشیده ہر سمت تو یک کنویں کی تہ میں اکیلا را تا اگر اس پوست نے بہت سے لوگوں کو ہیں میں سے کیا ہے از مشرق معانی صد با قایق آورده فقد بلال نازک زیال ناز کی میده نی حقایق سے یہ سینکڑوں خوابی اپنے ہمراہ لایا ہے.بلال نازک کی کمران خان سے جک گی کیفیت علوم دانی چه نشان دارد شهریست آسمانی از وحی حقی چکیده یا ہے کہ اسکے علوم کی حقیقت کی ان کی ہے وہ آسمانی شد ہے جو ندا کی دی سے ایک ہے اس نیت صداقت پول کر عالم آورد سرام شب پرستی در گنج خود شوید یہ سچائی کا سورج جب اس نا ا ا ا ا ا ا ا رات کے ایک تو اپنے اپنے کولوں میں جائے ئے ہیں نہ بند ہر کر کے دنیا یا کسے کہ باشد یار پیش آرمیده نہیں کی اولین کامنہ بنتا ہی نہیں ہوا مگر اس شخص کر اس کے منہ سے بہت رکھتا ہے کو ھ

Page 77

ی که با شش خون سادت امام بخیر ز عامر کیس والے مرید ان امام بر یاده و مسرت کا دن ہی گیا دینے کا کام نہیں کیا اس سے ان کی کہ جب ہی نہیں باران فضل محال مردم بقدوم اور قیمت آنکہ ان سے سوئے گرد دیده ران کے فضل کی بارش سے شخص کی پیشانی کو آتی ہے.قسمت وہ ہے جو اسے چھو کر دوسری عروسی کا میل بدی باشد انار کے شیطان آن را بشر بہائم کو بہرے پیدہ یدی کی طرف رغبت ایک شیطانی رگ ہے میں نور سے بشر سمجھتا ہوں جو ہر شر سے نجات پائے ے کان دارانی دام که از کیانی تو گور آن خدائی میں خلق آفریده اسے کان محسن میں جانتا ہوں کہ توکس سے تعلق رکھتی ہے تو تو اس خدا کا نور ہے میں نے یہ مخلوقات پہلا کی میان ما ندی کی صور من تونی پس دریا کندان فنتان کی وست با ایده ے کسی سے تعلق را ایہ وہی میرا جو ہے کیونکہ اس کے افراد اس کی طرف سے یا تو ہم کو نا ہے دیر امین احمد به حمله سوم ماشیه معفو ۲۷۴ مطبوعه ۱۲ در ۱ توم ازردی من این صداقت بر میده چیکه ندید می صحت پاک چه دید دا کی ہی سے میں عدالت رواں ہوگی میں آنکھ نے بیسن پاک میں دیکھے اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا کا دل باشد ه سمان نازه شهر حال بار بیاید که زما بود سرمیده ہمارا دل اُس نافہ سے معطر ہے اور وہ یار جو ہم سے بھاگا ہوا تھا پھر دی کہ نواسے گرفت است فرمان تھا کہ ہر عمر به کوردی شه هیده وہ آنکھ میں نے قرآن سے فسانہ نہیں کیا خدا کی قسم وہ ساری عمران سے پن سے خلاصی نہ پائے گی

Page 78

44 ال کر نے کی خوارند است گفت توان خود که برایش نمیده وال میں نے اسے چھوڑ کر گل گل ارنا اور ان کی تم کہاں تم نے ان کی یہ ہی نہیں دیکھی اور ندیم نسبت اس دور که بینیم صد خود که به پیران او حلقه کشیده میں وہی سے اس زور خیر میں ہے کیا کیا کہ کیا کہ اس کے گر پی ٹی وی ار ای اقدامات کرتے ہیں ہے حالت پخت کسانیکر انان نورد سرنا خفته از نخوت و چو ته بریده وہ لوگ قیمت اور با نصیب ہیں جنہوں نے اس دور سے تکبر کی وجہ سے روگردانی کی اور تعلق توڑ لیا i در برا این احمد به حصه چهارم صدا و ر ا ور به وه داون ے سر خود کشیده از فرقان با نشاده به چه طیفان سپر به لپه اے دو میں نے قرآن کی طرف منہ پھیر لیا ہے.اور سرکشی کے گڑھے میں پاؤں رکھا ہے ہانگ کم کم به پیش اور منی تو به کن از فسوس و بازیها نور ہدایت کے سامنے اتنی شیخی نہ ہار.اور جستجو اور کھیل سے توہار کر این چه چیشم است کور دشت کبود کافتا بے درد چو ذره نمود یہ آنکھ کیسی اندھی اور منحوس ہے.جس میں آفتاب ذرہ کے برابر نظر آتا ہے.انگیری کناره زین ره د نو بہت دور از کنار کشتی تو جب تک تو اس طریقہ اور حلاوت کو نہیں چھوڑ اب تک تیری کشتی کنارے سے دور رہے گی اضایت شاد و کیس تا چند نشده و ازیت بدین تا چند با کی ایک تو اپنے خدا سے ہوتی اور رک سکے اور دین سے یہی نہیں تھا کت تک جاری رہے گا ب

Page 79

نوشتن راکش به تزکب کیا جائے گتہ مشد باستمرا بے شرم ہی کو اپنے آپ کو بلاک نہ کر اور تمسخر کر کے خود رونے کا مقام نہ بن مهر تابان چه بر فلک رخشید چون توانی بخاک و خس پوشید جب آسمان پر چکتا ہوا سورج نکل آیا پھر تو کس طرح اسے مٹی اور گھا اس سے چھپا سکتا ہے.شب توال کردم قروب شان یک در روز روشن این متقال رات کے وقت تو تو قریب چھپ سکتے ہیں.لیکن روز روشن میں ایا ملکی نہیں نور فرقان نه تافت است چناں کو بجاندے نال گردیده در ان ورباندے نال شوید وردا گر آن کا نور ایسا نہیں پکتا ہے کہ دیکھنے والوں کی نظر سے ٹھٹی رہ سکے اک چراغ ہد علی است دنیا را امبر و اینجاست دنیا را وہ تو تمام دنیا کے لیے ہدایت کا چراغ ہے اور جہان بھر کے لیے رہبر اور رہنما تو دنیا کھتے ان محمد است دنیا را نعمتی از سیاست سماست دنیا را خدا کی طرف سے دنیا کے لیے ایک رحمت ہے اور آسمان سے اہل جہان کے لیے ایک تہمت مون ساز ہائے سیانی از خدا آل شدا دانی مخزن وہ خداوند کے اسرار کا خزانہ ہے.اور خدا کی طرف سے خداشناسی کا آلہ یرتر از پایه بشر کمال دستگیر قیاس و استقلال وہ اپنے کمالات میں انسان کے مرتبہ سے بالا ہے، اور قیاس اور استعمال کی دونگیری کرتا ہے کار سایہ اتم معلم و عمل جنتش اعظم و امر آمل ہمیں ان علم جیل میں ہمارے لیے کال کا ساتہ ہے اس کی دلیل پختہ اور اس کا اثر نہایت کامل ہے

Page 80

بر که پیش نظر کشاد بے توقت خدایش آمد یاد ہو اس کی عظمت کو دیکھ لیتا ہے.اُسے فوراً خدا یاد آجاتا ہے ادان که از کرد کی ندید اس اور کور ناندوز فوریتی محمود اور کمر اور روشنی سے اس موتی کو نہیں رکھتا وہ اندھا اور فنا کے دور سے دور رہتا ہے وه چه دارد و ازاں بنگال اسرار دل و جانم فدائے آن اسرار اہ دامان خدا کی طرف سے اس کے پاس کیسے کیسے سر ہیں میرے جان ودول من اسرار پر قربان ہوں پ و تور حال حضرت پاک فوز ناہاں نامرچ حقی بر خاک وہ اس پاک ذات کے بہلائی اتوار سے بڑ ہے چھکا ر سورچی بھی اس کے سامنے خاک ہے دو بچه دارد خوان اسرار دل و جانم فدائے ہیں، انفار مرادہ کیا کیا جانے اسرایہ الہی کے رکھتا ہے میرے جان و دل ان انوار ہے قربان ہوں بست آئینہ ہر روئے تھا عالمے را کشید سوئے مجھنا قرآنی خدا کے رہ کا مہینہ ہے اور اس نے ایک جان کو خدا کی طرف کھینچا ے قربانان از فصیح شدند زشت رویان از صبح شدند گونگے اس کی وجہ سے فصیح بن گئے اور مشکل آدمی اس کے سبب سے خوبصورت ہو گئے میوه از روضته فتا خوردند و از خود و آرزو کے خود مردن انھوں نے پانی نت کا پھل کھایا اور پتی انسانیت اور خواہشات کی طرف سے مرگئے دست لیے کشید دامن دل بابر آور د جذب یار زنگلا یک بنی ہاتھ نے ان کے دل کا اس کی چادر یا کیک کش نے دلال سے ان کا پیر نکال لیا

Page 81

69 یرد آن جزیہ کلام شهدا که دل شان بهبود از دنیا یک کے عظیم الہی کی کشش ہی تو تھی میں نے ان کے دلوں کو دنیا کی طرف سے ہٹا دیا سینہ شال زیر تق پرداخت و از من عشق آن گاں پر ساخت ان کے سینہ کو غیر اللہ سے خالی کر دیا.اور اس بیگانہ کی محبت کی شراب سے بھر دیا چون شد اس نور پاک شامل شان سافت از پرده بدر کامل شال یا وہ پاک اور ان میں رچ گیا.تو پردہ میں سے بدر کامل چکا دور شد ہر حجاب ظلمانی شد سراسر وجود نورانی ره ظلمت کے حجابوں سے دور ہوگیا اور سراسر نورانی وجود بن گیا خاطر نشان بجذب پنهانی کرد مائل به عشق روانی کے دل کو ایک مفتی کشش سے خدا کے عشق کی طرف مائل کر دیا عشق تیز مرکب را ند که ازان مشت خاک پیچ نمانم عشق نے ان ستیہ گھوڑا دوڑایا کہ اس مشتِ خاک کا کچھ بھی باقی نہ سکا خودی مان نے نے خودی ماند نے مواد نہیں کر اوفتاد و خاک دونوں سرکس نہ خودی رہی نہ حرص و ہوا ہی رہی.گویا کسی کا سرخاک اور خون میں پڑھا ہو عاشقان حلال روئے مجھدا طالبان زلالی ہو تے خدا دہ خدا کے جلال کے عاشق ہیں.اور خدا کی نہر کے مصنفیٰ پانی کے طالب پر ز عشق و تہی زہر آنے کشت و زانیان نجاست کھانے سے شوق سے بھر گئے اور برائی سے خالی ہو گئے جیش نے ان کو قتل کر دیا اور ان کی آواز بھی نہ نکلی

Page 82

آزاد پاک گشتن روش سنتی خویش دسته از بند خود پرستی نویش پنے وجود کی آلودگی سے پاک ہو گئے اور اپنی خود پرستی کی اس چناں یار در کمند انداخت که ندانند با دگر پرداخت یار تھے ان کو اس طرح اپنی کمند میں جکڑ لیا کہ اور کسی سے ان کا تعلق نہیں رہا قدم خود زده براه عدم تم بیادش ز فرق تا بقدم با گم ز نیستی کی راہ پر چل پڑے اور خدا کی یاد میں سر سے پیر تک فرق ہو گئے ذکر دلبر غذائے نغز حیات حاصل روزگار و مغز جات محبوب کا ذکر اُن کی زندگی کی لطیف غذا ہے یہی اُن کی زندگی کا مقصود اور حیات کا خلاصہ ہے.سوخته بر فرض بجز دلدار دوخته چشم خود زغیر نگار سوائے دلدار کے انہوں نے ہر غرض کو جلا ڈالا اور محبوب کے سوا ہرطرف سے اپنی آنکھیں بند کرلیں دل و جاں پرانے ندا کرده و مصل او اصل مدعا کردم اب کی موت پر اپنا دل و جان تصدیق کر دیا اور اسی کے وصل کو اپنا اصلی مقصد بنا لیا شرده و نوشتن فنا کرده عشق جوشید و کارها کرده مر گئے اور اپنے تئیں فنا کر دیا.عشق میں جوش میں آیا اور اس نے بڑے بڑے کام انه درباره قوی شدند جدال سبیل به زور بود برد از جا خوری کے مقام سے پیدا ہو گئے.محبت کی نروزور کی تھی.بہا کر لے گئی ہے.الا یافتند الاجرم یا فتقد تور ما چون خودی رفت شد ظهور خضدا خودی نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے خدا کے ڈور کو پا لیا.جب سودی چلی گئی تو خدا ظاہر ہوگیا

Page 83

Al تن چه فرسود داستان آمد دل چو از دست رفت جان آمد جمن جسم کمزور ہو گیا تو محبوب اگیا جب دل ہاتھ سے نکل گیا تو جان لینی محسوب مل گیا عشق دلبر روئے شمال بارید در رحمت ہوئے شان بارید دلیر کی محبت ان کے چھت پر ظاہر ہو گئی.اور رحمت کا ابر اُن کے گلی کوچوں میں برسا ہست ہیں تو مر یاک را جا ہے کہ ندارد جال بدو رہا ہے اس پاک قوم کی وہ عزت ہے ، کہ ساری دنیا بھی اس تک نہیں پہنچ سکتی ! دست بر دعا چو بردارند مورد فیض ہائے دا داراند پھر جب وہ ڈھا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو خدائی فیوض کے مورد بن جاتے ہیں کشف راز سے گر از خدا خواهند هم از حضرت شهنشاه اند اگر منا سے کسی راز کا کشف چاہتے ہیں.تو حضور مداوندی سے امام کیے جاتے ہیں کس پسر وقت شمال ندارد راه که نهال اند در قباب الله کوئی ان کے حال پر واقفیت نہیں پاتا.کیونکہ وہ اللہ کے گنبدوں میں مخفی ہیں گر نماید خدا کے ناناں پر کاش دوند سلطاناں اگر نہ تھائی ان میں سے کسی کو ظاہر کر دے تو اس کے جلو میں بلو شاہ دوڑتے ہوئے چلیں ایں ہمہ عاشقان آن یکتا نور یابند از کلام خدا سیب ندائے لاشریک کے عاشق خدا کے کلام سے ہی اور حاصل کرتے ہیں گرچه بهشتند از جہاں پنہاں بازگر گر ہے شوند عیاں اگا ہوا، دنیا سے پوشیدہ ہیں.یہ ہم کبھی کبھی ظاہر بھی ہو جاتے ہیں

Page 84

AP چو خورشید و مه بر دل آیند غیر را چهره نیز بنمایند | سورج اور چاند کی طرح باہر نکلتے ہیں.اور غیروں کو کبھی اپنا چہرہ دکھا دیتے ہیں بالخصوص آن زمان که با د خنداں | | بارغ مهرو وفا کند ویران | خاص کر اُس وقت کہ موسم شتاں کی ہتھا.محبت اور وفا کے بارغ کو ویران کر دے دل بر بند د جہاں بداله فتا لب کشاید بمدحتِ دُنیا ولی جہاں دنیائے فانی سے دل لگا لیں اور اس کی تعریفیں کرنے لگیں جیفته را کنند مدح و ثنا | و از خداوند بخود استفنا | یک سطری ہوئی لاش کی تو مرح دشت کریں رمضان کریم کی طرف سے لا پروائی برتیں عاشق زر شونده دولت و جاه سرد گر در محبت آن شاه | مال و دولت اور حرمت وجادو کے عاشق بن جائیں اور اس بادشاہ کی محبت ٹھنڈی پڑھائے شوکت و شان این سرائے سوال | | خوش نماید بدیده بهتال | سرائے فانی کی شان و شوکت بیوقوفوں کی منظر میں اچھی لگنے لگے بر زبانها شود متقاهم خدا | اند رول پر شوبز حرص و ہوا | صرت زبانوں پر خدا کا ذکر رہ جائے.اور اُنی کا اندرونہ حرص و ہوا سے بھر جائے اندریں رو زبائے چوں شب تار | | دست گیر د عنایت دا وار | ایسے دونوں ہیں جو اندھیری رات کی طرح ہوتے ہیں خدائے عادل کی مربانی لوگوں کا ہاتھ پڑ تی ہے اسے فرند بخلق صاحب نور تا شود تیرگی ز نورش دور ہ خلقت کی طرف ایک تورانی موجود بھیجتا ہے تا کہ اس کے نور سے اندھیرا محور ہو

Page 85

تاز شور و فغان عاشق زار خلتی گردد ز خواب خود بیدار تا کہ اس عاشق زار کے شور وفعال سے مخلوق اپنی نیند سے جاگ ناشتا مند مردمان رو راست که بدانده مکران که خداست سا کہ لوگ سیدھے راستے کو بیچا نہیں اور منکر جان لیں کہ خدا موجود ہے این چنین کی پو روند بر جہاں پر جہاں عظمتش کنند یہاں: ایسا شخص جب دنیا میں ظاہر ہوتا ہے.تو خدا اس کی عظمت کو جان پر ظاہر کر دیتا ہے یون بیاید بهار بازه آبید موسم لاله ناله باز آید جب وہ آتا ہے تو موسم بہار پھر آجاتا ہے اور گلزار کا موسم کوٹ آتا ہے وقت دیدار باز بانه آید بے دلاں را قراره بانه آید یار کے دیدار کا وقت لوٹ آتا ہے.اور عاشقوں کو قرار آ جاتا ماہ روئے نگار باز آیدا به نصف النهار باز آید معشوق کا چاند سا چہرہ نظر آنے لگتا ہے اور سورج نصف النہار پر واپس آ جاتا ہے.از خندد نیاز لاله و گل بانه خیزد نه بلیلاں فلفل لالہ اور گلاب پھر ہنسنے لگتے اور ملیں پھر چھانے لگتی ! دست قبلیش به پر درد نه کردم صبح صدقش کند طور اتم | پرورد زکریم طلا کانی مانند مولانی سے پرورش کرتا ہے اور اس کی سچائی کی صحیح کامل طور پر ظاہر ہوتی ہے ہاتھ البام مچھر باد صبا نزدش اگر ریز جیب خوشبور لام کا نور یاد مینا کی طرح مغیب سے اس کے پاس تو شیریں لاتا ہے صبا تو به الهام ہیں.ہے

Page 86

مے شود ظهر از امور نہاں نال سرائر کے خاصہ یزداں دہ منفی باتوں کا علم ہو جاتا ہے یعنی ان رازوں کا جو صرف خدا کا خاصہ ہیں تا نماید عیاں حقیقت کار نازند سنگ بر سر انکار ہوا کہ اصل حقیقت کو نمایاں کر کے دکھا دے اور تا کہ منکروں کو ہلاک کردے سمجھتیں اس کریم و پاک و قدیر می کند روشنش پر مہر منیرا س رات وہ کریم پاک اور قادر د اس شخص کو این آقا کی طرح تیز کر دیتا ہے دید ہائے کند بدو بیا گوش را می کند بروشور خلوق کی انکھوں کو اس دس سے بنا بنتا ہے ان کے کانوں کو اس کے ذری و شفا کردیتا ہے هر که آمد بد و بصدق و صفا بیابد از دے شفا بحکیم خدا جو شخص اس کے پاس صدق وصفا کے ساتھ آتا ہے وہ خدا کے حکم سے شفا پاتا ہے پاس ساتھ گفت پیغمبر ستودہ صفات از مندائے علیم مخفیات حنو وه صفات پیغمبر نے بغیب دان علم خدا سے علم وہ بر سر سر صدی برون آید آنکه این کار را ہے شاید کہ ہر صدی کے سر پر ایک شخص ظاہر ہوتا ہے جو اس کام کے لائق ہوتا ہے تنا شود پاک بلبت از بدعات تا بیابند تعلق نهو برکات تا کہ مذہب بدعات سے پاک ہو جائے.اور مخلوق اس سے برکتیں حاصل کرے بن من ذرات اولیائے کرام است مخصوص محبت اسلام ا کام ہے کہ لینے کام کی بات اسلام کے ساتھ خصوصی خلاصہ کلام یہ کہ اولیائے کرام کی ذات مذہب اسلام کے ساتھ مخصوص ہے

Page 87

این مو گیس گران نخود و خطاست تو طلب کن ثبوت آن بر است ہ کہہ کہ یہ بات بیہودہ لٹر اور غلط ہے تو مطالبہ کر اس کا ثبوت ہمارے ذمہ ہے اسے بچے ذرہ ذلیل و خوار چه شود عاجز از تو آس دادار الے شخص ایک ذلیل و خوانہ ذرے کی طرح ہے تیر سے مقابل پر وہ خدا کس طرح حاجت ہوسکتا ہے.همه این داست است لانے سمیت انتقال کن گر اعترا نے نیت یہ سب سمجھ ہے میانہ نہیں ہے.اگر مجھے یقین نہیں تو امتحان کر.کرانے وعدہ کج بطالبان ندهم کا ذبیم گراند نشان ندهم میں طالبوں سے غلط وعدہ نہیں کرتا اگر اس کا پتہ نہ بتاؤں تو جھوٹا ہوں من خود از بهر این نشان ندادم دیگر اندر نے دل آزادم میں خود اس نشان کو پورا کرتے کو پیدا ہوا ہوں دوسرے تمام غموں اور ملکوں سے اراد ہوں ایں سعادت پو بود قسمت ما رفته رفته رسید نوبت ما بود یہ سعادت ہماری قسمت میں تھی.اس لیے رفتہ رفتہ ہماری باری آگئی نعرہ ہاسے زنم بر آپ کر لال سہمچو ما در دواں پیئے اطفال بر کو را بی منفی پانی کے سینے پر کھڑا پکار رہا ہوں جس طرح ماں اپنے بچوں کے پیچھے دوڑاتی ہو مگر تشنگان باده با مردم آیند زرین فنان وصل سا کہ شاید جنگل کے پیاسے اس شور و پیکار سے میرے پاس آجائیں ایک شور است مجوده صدق من آلمان با نیاز و خوب خدا لیکن ناجر ہی اور صدق و صفا شرط ہے نیز انکسار اور خوف خدا کے ساتھ ہیں

Page 88

AY بستن از غربت و تذلل دل و از خلوص و اطاعت کامل نوبی اور ولی خاکساری کے ساتھ ڈھونڈ تا نیز اخلاص اور کامل اطاعت کے ساتھ تلاش کرتا رکنوں ہم کے بتا د سر می گیرد از راه مدل راه دگر بتابد از گا اب بھی کوئی روگردانی کرتا ہے اور انصمات کا راستہ چھوڑ کر غلط راہ اختیار کرتا ہے نے برما پر سد و نه خود داند ی نے رکیں روئے خود بگرداند اور نہ ہم سے پوچھے اور نہ آپ جانے اور نہ کینہ مری ترک کرے آن نه انسان که در یک دون است مانده با رگا و بے چون است تو وہ انسان نہیں بلکہ تولیل کیڑا ہے.اور خدا کے دربار سے رائیدہ ہوا ہے مرو کارے بھی نمے دارد لاجرم لعنتش برد یارد اُسے خدا سے کچھ سروکار نہیں اس لیے ضرور ہے کہ خُدا کی لعنت اس پر بر حجبت مومنان بر دست تمام کاره ما پختنه مدبر اور ہمہ نام مومنوں کی محبت اس پر تمام ہوگئی ہماری ات مضبوط اور اس کا سارا عقد کردہ ہوگیا إليها الجامعون في الشهواة اكثروا ذكر هادم اللذات سے نفسانی خواہشوں پر پل پڑنے والوموت کو جو لذتوں کو تباہ کر دیتی ہے اکثر یاد کیا کرو رفتنی است این مقام فنا دل چه ندی دریں دو روزه سرا یرانی مقام گذر جانے ولا ہے دو دن رہنے والی سرائے سے اپنا دل کیا لگاتا ہے.عمر اول نہیں کجا رفت است رفت و بنگر از تو چه با رفت است انی پلی مر کو دیکہ کہ کہاں چلی گئی وہ تو ضائع ہوگئی مگر دیکھے تیرے پاس سے کیا کیا چلا گیا.

Page 89

بار ها هم رفت در خوردی پاره را لیسر کشی بردی عمر کا ایک حصہ کو بچپن میں گزر گیا اور ایک حصہ تو نے سرکشی میں ضائع کر دیا تازه رفت و بماند پس خورده و شمتان شاد و یاد آزرده عدہ حصے پہلے گئے اب میں خوردہ باقی رہ گیا.دشمن نوش ہیں اور دوست لگتی ہیں صد تو مجھے بخورد نہیں سر توریت بر آسمان از کیں تیری طرح کے سینکڑوں تکبیروں کو مینکا گئی مگر بھی تیر اس تیمی کی وجہ سے آسمان پر ہے بیشتر از وضع عالم گذران بچون کند از زبان حال بیاں اس گذر جانے والے جہان کی روش سے یہ بات سن کر کس طرح وہ زبان حال سے بیان کرتا.کھیں جہاں یا کسے وفا نہ کنند در کند صبر تا مجدا نہ کند کہ یہ جہان کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتا اور جب تک اپنے سے جدا نہ کرلے اُسے صبر نہیں آتا گر بود گوش بیشتری صد آه از دل مرده درون تباه اگر تیرے کان ہوں تو سینکڑوں نہیں سنے گا اس مُردہ دل سے جین کا اندرونہ بناہ ہو چکا ہے.که چرا رو ببافتم به خدا دل نهادم در آنچه گشت بدال کر میں نے کیوں خدا سے منہ موڑ لہ اور اس چیز سے دل لگایا جو مجھ سے جدا ہوگئی قدیر این رو بپرس از اموات سے لیا گور با پر از حسرات bo اس رشتے کی قدر شروں سے پوچھ بہت میں قریب ہیں جو حسرتوں سے بھری پڑی ہیں سی جائے آن ست کو نہیں جائیے از توقع برول نہیں پاتے حاسب میں ہے کہ تو ایسی جگہ سے تقریشی اور پر ہری گدی کے ساتھ کوچ کر جاتے

Page 90

هر چه اندازوت بریار جدا باش نہ انجمہ کاروبار جدا چاند تجھے جو چیزیں یار سے چیزیں یار سے الگ کرتی ہیں.تو اُن سب سے علیحدہ ہو جا اخراب شیره سرکشی تا چند کسی از دلدار جلد پوند آنا ہے یہ کردار تو کب تک سرکشی کرنے کا کیا کوئی دلدار سے بھی تعلق توڑ کرتا ہے؟ رت دل را بتاب از اختیار باش مردم بجستجوئے نگار غیروں کی طرف سے اپنا دل پھیر ہے.اور ہردم مجوب کی تلاش میں رہ ر و بدون می رو پر کن گردو برش با دست همه رو باخدائے دلدار من ست اسی کی رات ایانه کویر که مجوب کا چر میں تمہیں دیر ہے اور سب چہرے میں دلا پر قربان ہیں تو به دل از خود تا این تو در و محو شو بقا این است کو تو اپنی خودی سے باہر آ کہ یہی تھا ہے اور اس میں محو ہو جا کہ یہی بقا ہے کہ ر که فاقل ته دات پیچون ست الد ینه دانا که سخت مجنون است جو اس بے مثل ذات سے فاضل ہے وہ عقلمند نہیں بلکہ سخت دیوانہ ہے ت کے رو بتابی از شیخ دوست دیگری را نشان رہی کہ چو اوست تو کب تک دوست سے روگرداں رہے گا.کسی اور کا تپہ بنتا جو اس بھیا ہو.در دو عالم نظیر یار کجا : عاشقان را بغیر کار کجا دونوں جہان میں یار کی نظیر نہیں ملتی.اس کے عاشقوں کو غیر سے کیا کام و بدل آن بوشق افروخت دوستان مانده غیرارو به سوخت جہول میں عشق کی آگ بھر کی تو مجبوب رہ گیا اور اس کے سوا سب کچھ جل گیا

Page 91

19 بروندا لیکن نیست بخشش پیدان تا نه بخشند یافتن نتواں لیکن یہ تک ادھر سے نہ ہو اپنی سے یہ سیکھی ادا کی بخشش ہے جیت کہ دھر سے عریانی وجود کی کوشش سے پربات نہیں ملتی ال کسان را عطا شود به خدا کنه کنند خودی شوند رهام یہ مقام خدا کی طرف سے اُن لوگوں کو عطا ہوتا ہے، جو خودی کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں تدبیر علم کلام حتی برونده از فرامین او برول نشوند خدا تعالیٰ کے احکام کے ماتحت چلتے ہیں اور اس کے فرمانوں سے باہر نہیں ہوتے دیگر سے رائے دہند ایں جا اور درندش ثبوت آن بنما لوگوں کو یہ مقام نہیں تمنا اگر ملتا ہے تو ثبوت پیش کر غیر را آں وفا و مہر کے ز مد خشک است غایت مفضلا غیر میں وہ وفا اور محبت کہاں ہو سکتی ہے عقلمندوں کا انتہائی مقام زہد خشک ہے حافلا نے کہ بہ خرد نازند بے خبر از حقیقت و راز اند عقلمند جو اپنی عقل پر نازاں ہیں دراصل وہ حقیقت اور دخدائی ، رازوں سے بے خبر ہیں سمجھے گورے سپید کردہ ہوں اندروں پر زحمت گونا گوں نے قبروں کی طرح اپنے ظاہر کو سفید کر رکھاہے اور باطن طرح طرح کی گندگیوں سے بھرا تو ہے مر خدا را چو سنگ داده قراره عاجزه از نطق و ساکت از گفتاره در تعالی کو ایک پتھر کی طرح سمجھ رکھا ہے.جو بولنے سے عاجز اور گفتار سے محروم ہے آس دلائے حتی یں خدا نے کہ متی و قوم سست نزد شمال یک موجود می بوده است زهوشان بوده وہ خدا جو حتمی و قیوم ہے.اُن کے نزدیک ایک وهمی وجود ہے

Page 92

ال حفیظ و تقدیر درت عباد نزد شال اوفتادہ ہمچو جماد نیتا و قد یہ اور بندوں کا ریت ان کے نزدیک حمامات کی طرح بے جان پڑا خود پسندان یعقل نویش اسیر تاریخ از حضرت علیم و تقدیر خود پسند اور اپنی مقفل کے امیر ہیں اور شہدائے علیم و قدیر سے بیگانہ نہیں کر خودبین موجب افتاد است حضرت اقدرش کجا یا داست وہ شخص جو خود پسند اور متکبر ہے خدائے پاک اُسے کہاں یاد وئے مشتاق سمجھ بہت و نیازی نشنیدیم عشق و کنیز انسانه عاشقوں کی عادت تو جو دنیا ہے ہم نے بھی عشق اور تکبر کو ساتھ ساتھ نہیں پایا کو پروٹی سواری این رو واست اندر آنجا جو کہ گرد هاست اگر تو اس سیدھے راستے کے سوار کی تلاش میں ہے.تو وہاں ڈھونڈے جہاں گرواٹ رہ ہی ہے اندر آنجا بود که زور نماند خود نمائی و کبر و شور نماند اسے ایسی جگہ ڈھونڈے جہاں زور نہیں رہا نی نہیں رہی تکبر اور شور نہیں رہا فائیاں ر ا جہانیاں نرسند جانیاں را زبانیاں نرسند اس دنیا کے لوگ فانی لوگو کو نہیں پہنچ سکتے اور زبانی بھی سچے عاشقوں کو نہیں پہنچ سکتے خلق و عالم همه بشور و تراند عشق بازان بعالیم دگر احمد تنام خلق اور جہاں شور و شر میں مبتلا ہے.لیکن عاشق ایک اور ہی عالم میں ہیں تانه کار دلت بجان برسد چون سایت از داستان برسند جب کہ یہ مال کا ملکی موت کی مشتک پہنچ جاتے تب تک اس ابر کا ایام کو یک کو کر پینے کا را

Page 93

۹۱ تا نه از ورودی مداگردی ای ستا نه قربانی آشنا گردی جب تک تو خود روی سے الگ نہ ہو.اور جب تک تو دوست پر خدا نہ ہو.پر نا نیائی نہ نفس خود بیروں کا کتا نہ گردی برائے او مجنوں ق چپکنے لگے جب تک اپنی نفسانیت نہ چھوڑتے اور جب تک بندا کے لیے دیوانہ نہ ہو جائے تا نه خاکت شو د لسان بعبار تی تا نه گرد و غبار تو خوں بار جب تک تیری خاک بہار کی طرح نہ ہو جائے اور جب تک تیر سے بیدار سے خون نہ تا نه خوشت چک برائے کے 5 تا نہ جانت شود ندائے کے نہ دندانے جیت تک تیرانون کسی کے لیے دیے اور جب تک تیری جان کسی پر قربان نہ ہو وں دوست کوئے جانال راه خود کن از را و مدرن و سوز نگاه We möge نہیں تھے کی طرح کوئے جانا میں رانی قیمت این قفل مرکب آن راه پیش کئی ہوش کی یہ مشو گراه فضل تو اس راستے کی سوار می نہیں ہے.ہوش کر ہوش کر گمراہ نہ ہو صل طاعت بو د فتا ر ہوا تو کجاؤ طریق عشق کجا دفنا فرمانبرداری کی اصلی یہ ہے ک اپنی خواہی جاتی ہے پس تو ہاں اور عشق کا راستہ کہاں تو نشسته بکبر از اصرار کردہ ایجاں خدائے استکبار کو تو خدا سے، متکبر ہو کر بیٹھا ہے اور اپنے ایمان کو تکبر پر قربان کردیا.ی چه معقل تو یں چند اش و سائے کہ کنی میری آں کیا ہے یہ تیری عقل دانش اور سمجھ کیسی ہے کہ تو اس یکتا خدا کی مہری کرتا ہے

Page 94

۹۶ این راستاد نا قصت آموخت این برتر نداد و قیمت فروخت یے معقول اتارنے ہی تھے کیا سکھایا ہے اور خاکے کرتے تیری دونوں ان میں کی کر سی دی میں این همه از فکر خود خطا خوردی اول اتقان در دسے آور دی چه از خود درد انی تل کی وجہ سے تونے کیا اعلی کی بو نے تو شراب کے مکے میں سے پہلا اہم ہی کچھٹ کا نکالا جوان شد و عقل قصت پوندا ناک زادے جہاں پر دیر سما تی تقی عقل خدا کے برا کس طرح ہوتی ہے ایک خاکی وجود اڑ کر آسمان تک کی نکر پہنچ سکتا ہے.آنے صدر ہو و صد خطا وارد علیم اس پاک از کجا آرد عقل جو خود در بار بود خطا میں بنتا ہے وہ اس خدائے پاک کا علم کہاں سے لائے سوکن را اشنا کنی هیهات این چه سود خطا کنی هیهات افسوس کہ تو کھولنے والی عقل کی تعریف کرتا ہے یہ کیا سہو اور خطا کر رہا ہے تجھ پر افسوس آنچه لنز د هر قدم صد باید چون نو در بار ساندت بکنار جو ہر قدم پر تو تو وقع الخرش کھاتی ہے وہ تجھے دریا میں سے کنار تنک کیونکہ پہنچا سکتی دفعہ دفعته این سراب بات ہوئے اس کتاب سے نماید یہ دور چشم آب عتقل ، تو سراب ہے اس کی طرف جانے میں جلدی نہ کر جو دور سے پانی کا چشمہ نظر آتی ہے کشتی شکسته است و خراب با افتاده و زنگ گرداب و از در | تیری کشتی شکستہ اور خراب ہے پھر بھنور کے چکر میں بھی پڑ گئی ہے تاز کن ناز کم کن برین چنین کشتی کم خامہ اسے ڈانی ہیں زشتی ایسے ایسی کشتی پر فخر نہ کر اسے ذلیل انسان اس بدصورتی کے باوجود مٹک کر نہ چل ہے

Page 95

۹۳ زرسی تا یقین نه راه قیاس همه بر تن د و هم بست اساس قیاس کی راہ سے تو یقین تک نہیں پہنچے گا اس کی تو سب بنیا د شک اور وہم پر ہے گر نیز فکر و نظر گدانه شنوی این نه مکن که اهل مازه شوی ار رو رو کر کرتے کرتے تو کھیل بھی جائے تب بھی ناممکن ہے کہ صاحب اسرار ہو جا.گر در صد جان تو زنتن برود این ه مکن که شت و من برود ے بدن میں سے دوسو جانیں بھی نکل جائیں جب بھی ممکن نہیں کہ شک اور خلق دُور ہو است دانشئے دل کا مہ مندر کے شوی مست مجو کام تھا ولتی تسکین کا علاج خود کا کام ہے خدا کے جام کے سو تو مست کب ہو سکتا هست بر غیر را و آن بسته همه ابواب آسمان بسته اس کار است تغیر کے لیے مرد ہے اور آسمان کے سارے دروازے سے رقیہ کے واسطے ، بند نہیں نا نشد مشتعلے زیب پدید از شب تار جبل کس نہ رہید جب تک غیب سے کوئی مشکل پیدا نہ ہو تب تک حالت کی اندھیری رات سے کوئی رہائی نہیں پاتا باید اینجا نہ کبیر با دوری تو بعقل و قیاس مغروری جگہ تو تکبر سے بچنا چاہیئے.مگر تو عقل اور قیاس یہ مغرور ہے.ین پر خفت که خوش بوریس نمیشی و از خدا می گرفتند یشی یہ کیسی غفلت ہے کہ تو اپنے اس طریق پر خوش ہے اور کسی وقت بھی خدا سے نہیں ڈریم طلب کنی وصال یار به یا اینکه به زه به خود کن تنهام بعد پر نہ اور اس سے اس کا مل مل کر اور ہرگز اپنی طاق پر بھروسہ ذکر یار ہی وصل طلب

Page 96

۹۴ تاد گرد نگون سرت به نیاز بیده از نفس تو گروه باز جب کہ بیان کے ساتھ تیرا سرپیچانہ ہو گا تب تک تیرے نفس کے حجاب دور نہ ہوں گے نانه ریز و نترا همه پرو بال اند این جا پریدین است محال جب تک تیرے سالے پر بال نہ جھڑ جائیں گے جب تک اس جگہ پرداز کرنا ناممکن ہے.ناتوانی ست مدت اینجا این چنین توتے بسیار و بیا تا توانی اس جگہ کی طاقت ہے.پیس ایسی قوت پیدا کر اور آجا پرنده نیست بر تاریخ دلدار تو ز خود پرده خودی بردار ولوالہ کے منہ پر کوئی نقاب نہیں تو اپنے اوپر سے انانیت کا پردہ اُٹھا دے سرکه را دو لیت اول شد یار کار او شده تذلل اندر کار ای خودش کشتی میں شخ کی ادگار ہو جاتی ہے اس کا کام اپنے مال میں خاکساری ہو جاتا ہے آن در آمد بہ حضرت بے چوں کہ شد از تنگنائے کمر بروں ی شخص بے شک خدا کی حضوری میں آجاتا ہے جو تکبر کے تنگ کو چھ سے باہر نکل جاتا ہے حق شناسی ز خود روی ناید خود روی خود رو می بیفزاید زه ناید خودروی سے حق شناسی حاصل نہیں ہوتی بلکہ خود رو کی تو خود ردی کو ہی زیادہ کرتی ہے سے تی شناسی حاصل خودروی تو از خودی حالی خود خواب کئی شب پری کا برآفتاب ممئن کار خودی سے اپنا حال تباہ نہ کنہ تو تو چمگادڑ ہے.آفتاب کا کام اختیار نہ کر تا بشر مه بود با سنگبار اندرونش تهی بود ازیاد جب تک بشر تکبر سے بھرا ہوتا ہے اُس کا دل یار سے خالی ہوتا ہے روی

Page 97

۹۵ t بعد رصد مجمر کس بعد تمام شورش عشق را رسد هنگام جو کسی کا نکھار پورے کمال تک پہنچ جاتا ہے اس وقت عشق کی شورش کا وقت آپہنچتا ہے.ایک چشمت نہ کبر پوشیده چه کنم تا کتایت دیده وہ شخص کہ تیری آنکھ پر کر نے پردہ ڈال رکھا ہے میں کیا کروں کہ تیری آنکھ کھل جائے گر نرا در دل است صدق طلب خودرو بها من نه ترک ادب اگر تیرے دل میں سچی طلب ہے را اہیے ادبی سے خود روی اولی نہ کا راز راه خدا بجو نہ خُدا تو نہ یوں محمد ا بجائے خود آ خدا کے راستے کا بھید خدا سے ہی طلب کر جب تو نہ انہیں ہے تو اپنی جگہ پر آجا بندگانیم بنده کمد باید که کند هر چه خواجه فرماید ہم تو بندے ہیں اور بندہ کو مناسب ہے کہ جو کچھ آقا زائے دو کرے منصب بند نمیت خود رائی خود نشستن بکار فرمائی بندہ کا منصب خود رائی کرنا تھیں اور نہ آپ ہی حکومت کرنے بیٹھ جانا ہے.ہر کہ بروقت حکم مشغول است پسر جهت است و قبول است حکم پورا کرنے میں مصروف ہے اسی کو مزدوری لے گی اور یہی منقول ہے اک ہے حکم خود تراشند کار مزد واجب نے خود زنهار شخص بغیر حکم کے خود سے کام کرتا ہے اس کی مزدوری کبھی واجب نہیں ہوتی انبینیم داد نفاده بخاک خود چه دانیم ما به حضرت پاک ماز ہم تو ضعیف ہیں اور خاک پرگرے ہوئے ہم خود خدائے قدوس کا راز کس طرح جان سکتے ہیں

Page 98

امجد بیچی اوست کامل ذات علیه ما چون شود و او هیهات ہم سب بے حقیت ہیں اور دہی کا وجود ہے ا ا ا ا ا ر اس کے علم کی طرح یونکر ہوسکتا ہے قات ہوں کہ نام اوست خدا کے خیال خود رسد آنجا بے مثل ذات میں کا نام خدا ہے اس تک عقل کا خیال کیونکر پہنچ سکتا ہے.نکه او آمد ست از بریار او رساند نیز داستان اسرار وہ جو خدا کے پاس سے آتا ہے وہی اس داستاں کے راز لوگوں کو پہنچانا نچه ما فی امیر تست نہاں کے چو تو داندیش و گرانسان جومات تیرے دل میں پوشیدہ ہے اسے دوسرا انسان نیری طرح کیونکر جان سکتا ہے پس تو مافی الضمیر آن دادار مثل او چون بدانی اسے غدار پھر وہ اس بات کو جو خدا کے خیال میں ہے اسے لیے وفا کیونکر اس کی طرح جان سکتا.آنکه چشم آفرید تور و بر آنکه دل دا داو سرور دی میں نے آنکھ پیلیا کی وہی نور بخشتا ہے جس نے دل دیا وہی سُرور عنایت کرتا.چشم ظاہر نہیں کہ چول از کرم خالقش داد نیر اعظم ظاہری آنکھ کو دیکھ کہ کس طرح اپنی مہربانی سے خالق نے اس کو آفتاب عطا کیا کود برائے مصالح دوران گاه پیدا نمود و گاه نہاں اورزانے کی بھائی کے لیے کبھی اُس آفتاب کو ظاہر کیا اور کبھی پوشیدہ کردیا ی نہیں است حال میموروں آقابش کامہ اس بے چوں مل.باطنی آنکھ کا ہے.اس کا آفتاب اس بے نظیر خدا کا کلام ہے

Page 99

94 یش ماته بشر که عقل بشر دارو اندر نظر مهزار خطر ایسے انسان ہوش کی کہ انسانی عقل کی بینائی میں ہزاروں خطرات نہیں سرکشیدن طریق شیطانی است در غلات مثبت انسانی است سرکشی شیطان کا طریقہ ہے.اور انسانی فطرت کے برخلاف ہے تانه فعلش رو تو بکشاید صد فضولی لیکن چه کار آید جب کہ اس کا فضل تیری راہ نہ کر لے توکتنی ہی بے فائدہ کوششیں کرنے سب بے کار ہیں اور سرائہ چہ جائے استنباط شترے ہوں خود بستیم شیاط ایک رازوں میں قیاس کی گنجائش نہیں اونٹ سوتی کے ناکے میں کیونکر گھس سکتا ہے تو نه با خبراتاں کرتے تو نہ مانی جمالی ہوں دو نئے تو اُس کوچہ سے بے خبر ہے تو اس چہرے کے حُسن کو نہیں جانتا خبر سے دو بر دماں بچہ دہی ماہ تا دیده را نشاں چہ دہی پھر اس کے متعلق لوگوں کو کیا خبر دیتا ہے میں بلال کو تو نے دیکھا نہیں اس کا نشان کیا بتاتا ہے.سخن یار و سینه افسرده جامه زنده است بر مرده دوست کی باتیں کرتا اور سینہ بجھا ہوا یہ تو ایسی بات ہے جیسے مردہ پر زندہ کا ناس گیری بیگ را بزرگ داند جنبش باد خواهدش افتند ادہ ریت کو روکتی ہیں اونچی جگر سے جاتے ہوا کی فسا سی حرکت اُسے وہاں سے گرا دے گی بیست مارا کے کہ ہر فیضان مے شود ناں محافظ این دیاں شونال جھانا ایک خدا ہے کہ ہرمیان ہو اس کی طرف سے ہے ہمارے جان و تن کا محافظ ہوتا ہے نے یعنی ریت کی عمارت

Page 100

9A آن خدا نے کہ آفرید جہاں ہست ہر آفریدہ رانگراں کی دانتے وہ خدا میں نے جہان کو پیدا کیا وہی ہر مخلوق کا نگہبان مریم باید برا کے مخلوقات و از لباس خوراک و راہ نجات برما کے معوقات کے لیے جو کچھ بھی درکار ہے.مثلاً پیاس ، خوراک اور نجات کا راستہ خود مهیا کند بنت وجود که کریم ست نقا درست و وود کریمست نادرست اس کے بریانی اوراحسان سے وہ خود بتا رہی ہےکیونکہ وہ کریم قادر اور محبت کرنے والا ہے چشمه هود کن بشت صحرا باز خوشه با خوشه ایستاده بناز ہے ہے نگال میں کھیتوں کی طرت بانکھیں کھول کردیکھ کر خوشہ کے ساتھ خوشہ ناز کے ساتھ کھڑا نجه از بهر است تا نخور میر درد و سرچ گرسنگی نه بریم یہ تب ہمارے لیے ہے کہ ہم اسے کھائیں اور بھوک کادر و اور تکلیف نہ اٹھائیں ہے ہم اور ان پر چند روزه جات این قدر کرده است تائید است میں نے پچند روزہ زندگی کے لئے اس قدر مدد کی چون تہ کر دے برائے دار ابقا نظر سے کن منتقل و شرم و جیا وہ آخرت کے لیے پر ہمیشہ کا گھر ہے کیوں داماد نہ کرنا عقل اور شرم وحیا سے اس بات پر قوم گر سافت در این چنین فرهنگ که ز صد ق است در صد فرسنگ قتل ہے تمھر پڑیں جو سچائی سے سو کوس دور پڑی ہے.ر گنی ہونے نفس توی خطاب کہ چانت گذر شود بجناب کے تو اپنے آپ سے ہی پوچھے کہ اس درگاہ میں تیرا گذر کیونکر

Page 101

۹۹ خود ندائے بی عیت نزدروں کہ نہ تائید حضرت بے چوں تو خود تیر سے اندر سے ہی یہ آوازہ آئے گی کہ خدائے بے نظیر ہی کی تائید سے یہ ہوسکتا ہے تای اندریاس و قسم کے! کہ شود کار پیل از گے کسی شخص کی نقل و قسم میں یہ بات نہیں آسکتی کہ ہاتھی کا کام ایک مکھی سے ہو پس چه مکن که ذره امکان خود کند کا یہ حق بزور و توان پھر یہ کیونکر مکن ہے کہ مخلوقات ک ایک قریہ آپ ہی اپنے زور و طاقت سے خدا کا کام کرے شان دادا به پاک را بشناس در چنین کسریشان او بر اس داد خدائے قدوس کی شان کو سمجھے اور اس کی ایسی تو ہین سے نوت خویشتن را شریک او سازی پیش اردم زنی با نازی نیٹیں اس کا شریک بناتا ہے اور اس کے بالمقابل برابری کا دلائی کرتا ہے.انی عقل است اسے بتر و اب انچہ یہ غم تو فا حجاب اسے پانیوں سے بھی گئے گندے انسان ہی کی بات ہے تیری مجھ پر یہ کیسے پردے پڑ گئے گر کسے گویدت با استقاده که درین شهرمون تو هست بهزاد اگر کوئی تجھے تحقیر سے یوں کہے کہ اس شہر میں تیرے جیسے ہزاروں ہیں نیتی ان کے بعقل فزوں یا تو ہم پایہ اند مردم دوں اور تو قتل میں کسی سے بڑھ کر نہیں ہے اور ادنی اوئی انسان بھی تیرے برابر ہیں الختل می شوی بیس نیزری صدی آری که خوان او ریز کا در دل ا تو یہ اب اس کی تو ہوش میں آجانا اور ان کے تیار ہو جاتاہے تیرا جی چاہتا ہے کہا سے قتل کرد

Page 102

کے از خود نوالے داری ہوں پسند ی بحضرت اری تھے پسندی میں جو بات تو اپنے لیے جائز نہیں رکھتا وہی خدا کے لیے کین کرسین کرتا ہے پس چوس پسندی که کار سانو مامور انکے بہت واز سخن معذور تو کس طرح پسند کرتا ہے کہ سب کاموں کا کار ساز گونگا اور بات کرنے سے ناجزہ ہو ہوں پسندی کو اپ پر فور نجل در زیده باشداست و تصویر و کسی طرح پسند کرتا ہے کہ ہر نور کے جیتنے والے نے مکمل اختیار کر لیا با اس سے غلطی ہوگئی یوں پسندی که حضرت بقبور است ماجو چو مردگان قبور تو کس طرح پسند کرتا ہے کہ غیرتمند خدا قبروں کے مردوں کی طرح ماجزہ ہے ر تعظیم بہت تذهب و دیں تنگ ہر آن ہیں کہ مے کنہ تو میں ذہب اور دین تو خدا کی عظمت کے لیے میں ایسے نہب پر تف ہے ہو اس کی تو میں کرتا ہے.آنکه او خلق راز با نهاداد خاک را طاقت بیا نما داد وہ خدا میں نے خلق کو زبان دی اور خاک کو گویائی کی قوت بخشی ول بود انگٹ بے زبان حیات شرمت آمیز پاک کامل خلات تو کس طرح گونگا اور بے زبان ہوسکتا ہے مجھے اس پاک اور کال وجود سے شرم کرنی چاہئے جامع ہر کمال دست و حلال یہاں بود ناقص اسے اسیر منال اسے کمالات اور جاہ وجلال کیا اس سے گرفتار گرا دی تھی کس طرح ہوسکتا ہے.مامان در گشت یہاں جمال باند نے ختمش پنہاں ! اور ہوں جب اس کی تمام صفات ظاہر ہوگئیں.تو پھر اس کا بولنا کیونکر تھی رہ سکتا

Page 103

..دیدہ آخر برائے آن باشد که بدو مرد راه دال باشند نکھیں آخر اسی کام کے لیے ہوتی ہیں کہ آدمی اُن سے راستہ ده چه این چشم بست و این دیده که برد آفتاب پوشیده یہ تیری آنکھ اور نظر بھی خوب ہے! کہ آفتاب اُسے نظر نہیں آتا گر بدل با شدت خیالِ خدا این چنین ناید از تو استغفنا اگر تیرے دل میں خدا کا خیال ہوتا تو اپنی لاپروائی تجھ سے ظہور میں نہ آتی از دل و جاں طریق او ہوئی وار سر صدق ہوئے او پوئی تو اپنے جان و دل سے اس کا راستہ ڈھونڈتا اور صدق سے اس کی طرف دوڑتا ہر کیا دل بود جلداری خبرش پر سد از خبر داری میں کا دل کسی معشوق سے لگا ہی ہوتا ہے وہ تو واقف کار سے اس کی خیر معلوم کرتا رہتا ہے.گر نباشد لگائے جو بے جویہ از نزد پیار کتو ہے مجوب کی ملاقات میسر نہ ہو تو یایہ کے خط ہی کا طالب ہوتا ہے لے دل آرام تا یدش آرام که برویش نظر گئے بکلام اسے محبوب کے سا آرام میں آتا بھی اس کے منہ کو دیکھتا ہے کبھی اس کے کلام کو آنکه داری بدل محبت او نایدت صبر مجمز به صحبت اُد به شخص میں کی محبت تیرے دل میں ہے.تجھے بغیر اس کی ملاقات کے صبر نہیں آتا فرقت او گر اتفاق افتد در تن و جان تو فراق افتد در تو اگر اس سے الفاقاً پیدائی ہو جائے تو تیرے بدن سے تیری جان نکلنے لگے

Page 104

از چیت از پر دلت از هجراد کمیاب شود قیمت از نقش بر آب شود تیرا دل اس کے ہجر سے کباب ہو جائے اور اس کے جانے سے تیری رکھیں آنسو بہانے باز چون ال جمال و آل روئے شد نصیب دو چشم در کوئے پھر جب وہ حسن اور وہ چہرہ کسی گلی میں تیری آنکھوں کے سامنے آجائے دست در دامنش زنی بجنوں که نه نادیدنت دلم شد خون: ایا ہوا اس کا این پکڑ کر کہا ہے کہی ہے نہ دکھنے کی وجہ سے میرا دل خون ہو گیا این محبت بذره امکان وان دل انگور ناخدا نے یگان پترزه فضائے مخلوقات میں سے ایک ذرہ کے ساتھ تو ایسی محبت گندا کے لانانی کو تونے دل سے انار رکھا ہے لا ابالی فتاده نال یار فارغی نال جمال ونال گفتار تو میں یار سے بالکل بے پروا ہو گیا ہے اور اس کے جمال اور گفتار سے بے تعلقی اس مردگان را مے کشی کنار کار دل آسام زندہ بیزار را ہے مردوں کو تو گود میں لیتا ہے پر زندہ محبوب سے پیزالہ ہے کس از کی شنیدی که قانع از یارست عشق رهبران دو کار شمار ست یا تونے کوئی ایسا عاشق بنا ہے جو یار سے لیے پروا ہو عشق اور مبر دو نوں کا جمع ہونا مشکل ہے.آنکه در قبر دل فرود آید دیده از دیدنش بنا ساید ور جو دل کی گرائیں میں اتر جاتا ہے تو پھر انکہ اس کے دیکھنے سے س کے دیکھنے سے سیر نہیں ہوتی تو دل خود بریگیران داده یکسر از بار فارغ افتاده تر نے اپنا ولی دوسروں کو دے رکھا ہے اور ملک کی طرف سے بالکل لا پیدا ہو گیا ہے

Page 105

این بود حال و طوری اشتی ندارد این بود قدید دلبر اے مردار کیا عاشق زار کا حال ایسا ہی ہوا کرتا ہے اسے مردار کیا یہی دلیر کی 150 کی قدر ہے انتقال را بود ز صدق آثار اے سیه دل ترا عشق چه کار اشتوں میں تصدیق کے آنا پائے جاتے ہیں اسے یہ دل بھلا مجھے عشق سے کیا کام تانه تو هستی است بدر نرود تیم شرک از دل تو به فرود ی تک تیری خودی تجھ سے دور نہ ہو گی تب تک شرک کا بیج تیرے دل میں سے نہیں نکلے گا پائے سعیت بلند تر نمود تا ترا درد و دل بسر زود 2 تا دو یری کوشش کا نام ہو چاہیں پڑے گا جب تک تیرے دل کا عمال سترتک نہ پہنچ جائے یایه پیدا شود در اس ہنگام که تو گردی نہاں زخود بتنام یا.اس وقت ظاہر ہوگا.جب تو اپنے آپ سے پوری طرح غائب ہو جائے تاره سوزی نو سوز و غم زی تاثیری زموت ہم زبی نوسون ظلم نه نہی کے زمیں میلے سوند فخر سے نجات نہیں ایک کی ایک رہے گا نہیں ویسے بھی رانی نہیں پائے گا یست که بر جان بن کر درخت آتش محمد ولی بیان کر سوخت وہ ہاں دین کیسے پیدہ ہیں جو رشق میں نہیں جلتے ایسے دل کو آگ لگا دے جو نہیں جانتا کلبه جیم خود میکن بریلو جیوں نے گردو از خدا آباد اپنے جسم کی جھونپڑی کو برباد کردے اگر وہ خدا سے آزاد نہیں ہوتی پائے خورد اما این این خویش چون نگیر دره صداقت پیش سے اپنے پیر کو کاٹے حال اگر وہ صداقت کا رشتہ اختیار نہیں کرتا اپنے جسم

Page 106

top نی پینے کے نات بچوں سمیت جگرے خدا شده و کرد نوں نیست بے شک ان کی روانی و یا تباہ ہوجائے اس کی بات میں خون نہیں ہوتا ھی جاتے جہاں خدائے محلہ بہ زمین گنج خاک پائے نگار سامنے جہان کے نور نے اس محبوب پرقربان میں عد عرب کے پیروں کی خاک بیک لوں دونوں سے بہتر ہے برخی از دست مورد آن به فاره او از هزار بتان به جو کچھ اس کے ان سے پہنچے وہی اچھا ہے اس کا ایک کانٹا ہزار گلزار سے بہتر ہے.ولفت ان بر او نه بقوت به قلت از بهر او ن کثرت بها اس کو تالا و تو برداشت کر نعمت سے بہتر ہے اس کی خاطر فریت اختیار کرنا دولتمندی سے بہتر ہے ردن از بهر او جات تمام مدل ایز فدائے آل آلام اس کی خاطر مرنا ہمیشہ کی زندگی ہے.ان تکلیفوں پر سینکڑوں لذتیں قربان ہیں یکو در گوش والستان گذری با وقا باش در ترجمان گذری اہے وہ شخص جو دلبر کے کوچے میں سے گزر رہا ہے تو بلوفارہ خواہ جان چلی جائے صات لانے کے طالب یار احمد جہاں فتاتان نو بر دلها را نمد وہ ہر نماز ہو یار کے طالب ہیں وہ تو دلدار کے لیے جان قربان کر دیتے ہیں گرنیا بند ماه اس دلیر از خمش جان کنند نیرو زیبا گردی میں جو کہ اپنے کامات کا نہیں پاتے ہیں کے غم ہی اپنی جان تہ و بلا کردیتے ہیں الملا نام رنگ سے دارند واز رو نام جنگ سے دارند وہ پار کے رنگ میں رنگیلی ہوتے ہیں اور شہرت سے انہیں عار آتی

Page 107

لذت خود بدرد نے بیند محسن در روئے زرد می بینید دے دہ اچھی لذت درد میں پاتے ہیں اور روئے زرد میں محسن دیکھتے ہیں.تو کہ ہوں تو نگل فرومانی محبت آل یاں جے سے دانی تو جنگ سے کی طرح کی چڑ میں پھنسا ہوا ہے.ان پہلوانوں کی ہمت کو کہاں جان سکتا ہے.سبل باشد کایت از نظر مورد خواند آن کس که دو نیم با کرد غم سر درد کی باتیں کرتی آسان ہیں گرمی کا مزاد ہی جانتا ہے جسے غم پیش نہیں آفرین خدا یہ آں جانے کہ زر خود شند برائے جانا نے خدا کی رحمت ہو اُس جان پر جس نے انجوب کی خاطر خودی چھوڑ دی منزل یار خویش کرد بدل داد ہوا با رسید صد منزل ول میں یار کا ٹھکانا بنا لیا اور ہوا کہ ہوس سے سینکڑوں کی میں دور چلا گیا از خودی در شد خدا یافت گم شد و دست بنجار یافت مودی سے دور ہو گیا اور خدا کو پا لیا اپنے میں کھو کہ رہنا کے ہاتھ کو چہل کر لیا تو چه یابی که غافلی نہیں ماہ و از جلالی خدا نہ آگاہ اہان کہے گا کہ اس راستہ ہی سے فاضل ہے.اور خدا کے جلال سے بھی واقف نہیں یال کیا ہمہ کارت بنقل خام افتاد ہمہ سنی تو نا تمام افتاد امیہ ت سے سارے کام عقل نام سے ہی وابستہ رہے اور تیری ساری کوششیں ناکام رہیں بو و طوطی نہیں سی باید است که بشر عاقل است آزاد ست ا کن رادست عملے کی طرح میں یہی بات یاد ہے کہ انسان عاقل ہے اور آزاد ہے

Page 108

1+4 اسے کہ دیوانہ پنے اعمال ده که در کابر دیں چنیں ایمال ے وہ جوکہ درومال کے بجھے دیوانہ ہوا ہے اسوس دین کے کام میں اس قدر فرد گذاشت ش دل انجان ہیں کنون فکر آخر تیم نخستیں کئی اپنے بول کا رخ دین کی طرف کو لے اور آخرت کے فکر کو سب سے مقدم فکر بنائے حصور قیاس در همه حال است بر حق تو یک استقلال تیرا ہر حال میں کیا اس پر ہی انحصار رکھنا تیری ہو تو فی پر ایک پیل ہے میں ہی تونی پر تانه فرمان رسد اعلانے ہوں خود کسی مطیع فرمانے جب ایک اعلان کے طور پر کوئی حکم نہ پہنچے تو کیوں کوئی ایسے حکم کو بجا لائے کے طور پر حکم نا نہ سکے شود ظہور پذیر ہوں توانی شدن مطیع امیر جیب تک حاکم کا حکم ظاہر نہ ہو تب تک تو حاکم کی اطاعت کس طرح کر سکتا ہے.تانہ گردد کسے نوینی مامور کفر والیاں چال کنندہ ظہور جب پیک کھائی تھی کی طرف سے اور نہ ہ اور رنگوں کے اکثر اور ریان کیونکر ظاہر ہوں تا نیاید اشار تے نہ نگار چه به آید دوست عاشق زار جب تک میں محبوب کی طرف سے اشارہ نہ ہوتو عاشق زار کے ہاتھوں سے کیا کام ہوسکتا ہے فرق در سرکش و مطیع شدا نیز به کنش جهانی شود و پیدا دا کے سرکشی اور اس کے مطیع میں جو فرق ہے بھی اس کے کرکے کس طرح ظاہر ہو سکتا ہے.خر تیل محک میں حکم است پس پوش بر نخست این است اسے تعمیل حکم کی شرط ہو کر حکم کا موجود ہوتا ہے اس لیے اسے دیوانے پہلے خود اس کو ڈومور

Page 109

1.6' اپنی مرضی سے حکم گھڑ لیتا اسے کم گھڑ لیتا دوره که زوم زیر و حنه این دکوئی خلط بگذار که رونم زیر حکیم آن دادار ور نہ اس غلط دارے کو ترک کر کر میں خدا کے حکم کے تحت چل رہا ہوں خود تراشیدن از نخودی فرمان آن نه میگه خداست اسے ناداں اسے نادان یہ خدا کا حکم نہیں ہو سکتا دیریت است و نے معقل روا که شو وطن خویش حکیم شداد وقت اور مقبل دونوں کی رو سے یہ جانہ نہیں کہ اپنا خلق خدا کا حکم بن جائے سے یہ اپنا شعور بھی یم کو آن بود که او فرمود پس چو فرمود خود نگه کن زود اس کا حکم کو وہ ہے جو خود اس نے ودیا اور جب دو حکم دے دے تو اونا توجہ کر کہ انہیں شدہ ثبوت وحی خدا شد ضرورت سنش میں کا یک کی بات سے خدا کی وحی کا ثبوت ملا ہے اسی دلیل سے خود اس کی ضرورت بھی نہایت ہو تی ہے گر دہندت بصیرت دینی در گمانها بلاک خود بینی اگر تجھے دینی معرفت نصیب ہو تم تو گمان میں اپنی ہلاکت دیکھے گرم تو بتن و فکر و قیاس که خود را به حکم است اساس نگرانی کو خو را به حقل فکر اور قیاس سے دیکھ تو سہی کر عقل کی بنیاد مضبوط نہیں ہے نا نباشد رفیق اود گرے نایدش از رو یقیں خبرے جیب تک دوسرا اس کا رفیق نہ بنے تب تک اس کو یقین کی راہ کی خبر نہیں ملتی کانہ مینی دید کا جائے: ق یا نہ یا بی خبر نہ بنائے جب ایک تو کسی جگہ کواپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لینا کسی دیکھنے والے سے اس کی خیر نہیں پالیتا

Page 110

۱۰۸ خود نگرد ترا خود نشار که چنین واسعه آن مکان آستار سب تک خود عقل تجھے ہرگز نہیں بتاتی کہ فلاں مکان کے یہ یہ نشان ہیں میں چکن که دم زند نهاد که چنین اند آن دیار و بلاد ر کی لکھی ہے کہ عالم آخرت کے باتے ہیں ا فصل دوم در سکے کہ وہ ملک اور مقامات ایسے ہیں این چشتی است و این چه سیرابی که جهل است رات آگاری یہ کیسی بیوقوفی اور گمراہی کی بات ہے کہ تو جاہل ہو کر علم کی لات مارتا ہے چهل سردی اور قیاس خود یہ ہے کہ مریدی ہیمر خویش گئے ی یا اس سے کس دکھیا سے ہی ماہ کی طرح چل سکتا ہے جسے تو نے عمر بھر میں کبھی بھی نہیں جمله شد از عالم دگر غیرت با درست دیده بود یا پدرت جھے عالم آخرت کی خیر ہ نہ ہو گئی کیا تیری ماں نے اُسے دیکھا تھا یا تیرے باپ نے اور غمیداست کسی جہاں دانی کم حرام اسے دنی بریانی اگر کسی نے نہیں دیکھا پھر تجھے کیونہ معلوم ہوا اسے کیسے تنگا ہوتے ہوئے مٹک کر دچل ود که داری به انبیا این همه کودی است دانشکبار ان ایم جو انبیار کا منکر ہے یہ بھی سب تیرا اندھا ان اللہ تمبرا ہے یک نظر کن بفطرت انسان کہ ندارند جو ہرے کیساں کہ نما نسانوں کی فطرت پر ایک نظر ڈال کر وہ سب میں اپنی تربیت نہیں مختلف او یا د ہر برے کسی میرے نزد و کس شہرے شخص دوسرے شخص سے مختلف ہے کوئی نیکی میں بڑھ گیا کوئی بڑ کا امیں انکار

Page 111

1.9 اس ہوا کہ میں دیگر است کے ہمیں در قبال فیض ہے پیش ہمچنین میں جی ایک مادہ اور سرکہ ہے اسی روی این مودودی کے قتل کرنے میں ہی ان کے داری ہیں خود در کن کنون تو صدق و صفا که چه ثابت ہے شود زینجا ب صدق و صفا کے ساتھ خود دیکھ لے کہ اس سے کیا ثابت ہوتا ہے شه راست کنون بیش از بیش از مسیر خود روی وه سر خویش کی رات ہے اور خان بہت زیادہ ہے توہ راوی کی وجہ سے کہیں اپنا سر ہو اند میر نیس ولیمار چوں نے دانی یہاں جہانی غیوب ربانی جب تو دیوار کے پیچھے کی چیز نہیں جانتا پر غیب خداوندی کو کے ایک جان سکتا ہے.در شگفتم که با چنین نقصان انچہ یہ قتل سے شوی جانان میں حیران ہوں کہ باوجود اس قدر نقص کے تو عقل پر کسی وجہ سے نازاں ہے این هم این عقل است و این رفت است اینجه ترند اور مشت بست کیسی عقل اور کیسی معرفت ہے خدا کا یہ کیسا تر ہے کہ جس نے تیری آنکھیں بند کر دی ہیں این جانت پر عیبه خوش افتاد و آن وحید خدا تمہاری یاد تجھے یہ جان سعید کی طرح پسند آگیا اور خداوند کی سزا تجھے یاد نہ رہی بشنو انه وحی حق بچه گوید راز از جناب وحید و بے انباز از خدا کی وحی کوشن که گیا راز بیان کرتی ہے خدائے وحدہ لا شریک کی طرف سے لی یہ سب عقلیں جود شمعوں کے دلوں میں میں یہ سب ہماری آگ کی ایک چنگاری ہیں

Page 112

| الک کا می دانه برفانک است نگرانی کرب و دور از دست ستا بہت دا کا نام آسمان پرنہیں ہے.تاکہ تو یہ کہے کہ ہماری پہنچ سے دور ہے یا جوانی که کار بست محال برفک رفتیم کدام جمال ا تو کہے کہ کام بہت مشکل ہے میری کیا طاقت کہ آسمان پر جاسکوں نے بریر زمیں کلام خدا تا بگوئی کہ چول تقویم آنجا نہ.اور نہ خدا کا کلام زمین کے پیچھے ہے تا کہ تو کہے کہ میں دیاں کس طرح گھسوں چول از نظیر زمیں بروں آرم خود نہیں طاقتے نے دارم ے میں رمین کی گہرائیوں میں سے کیونکر باہر نکالوں میں تو ایسی طاقت نہیں رکھتا لی مدیر تو کرده دا و به پاک کوروش آمدست بر سر خاک خدائے قدوس نے تیرا فقد رفع کر دیا عرش کا زور زمین پر آگیا ہے.گر ترا ریم آن بیگاں بکشد دولت سوئے ادیتیاں بکشد اگر اس خدا کے والد کا رح تجھے کسی نے تیری خوش نصیبی ای نو کی اور تجھے لے جائے الله الله ه ی نخست از انواس بست رشیح دگر در آن گفتار لہ الہ کیسے کیسے انوار اس نے کھیرے ہیں اس کلام میں تو اور ہی طرح کا فیضان ہے صل گرد و نو دید کشن کیسو رود هر صد کتا پہنے ڈال روا نروید بہ یس کے دیکھنے سے جہالت دور ہو جاتی ہے اور اس کی زیارت سے سیکڑوں شکلیں مل ہوجاتی ہیں نور بار آور و تلاوت او عالمے نہ ہو بار منت أو ہیں کی تلاوت نور کا پھل لاتی ہے ایک جہان اس کے احسانوں کے پیچھے دیا ہوا ہے

Page 113

شیر به دوران پوست محال است یک خیمہ ز آب زلال چور ڈور یہ حسن کیا عجیب ہے.یہ تو گویا مصفیٰ پانی کا ایک چشمہ ہے اجمان رسمی دلیری جهاد کس چو او دلیری ندارد یاد جب سے جہان میں جوانی کی رسم قائم ہوئی ہے کسی کے خیال میں بھی ایسا دلبر نہیں آیا ان شماعی کرد شد است جہاں کس ندیده نه مردمه به جمال کو زمرد به وہ روشنی جو اس سے ظاہر ہوئی کسی نے اس دنیا میں سورج اور چائے میں بھی نہیں دیکھیں چند بر عقل نام ناز کنی چه کنم تا تو دیده بانه کنی کہاں تک تو ناقص عقل پر اتر آتا رہے گا میں کیا کروں تا کہ تو آنکھیں کھولے نقص خود بنگر و نمال خدا ذلت خویشتن حلال ندا تو اپنا نقص دیکھ اور خدا کا کمال دیکھے اپنی ذلت دیکھ اور خدا کا جلال دیکھ د رو منقل را و ری مجید کسی ندی است کوس خوابه دید ندیات قتل کے ذریعہ سے خدائے زرنگ کا راستہ دکسی نے کبھی دیکھا اور نہ کبھی دیکھئے گا در آنجا که سوختی باید یوں ہے اور قیاس کشاید ایسی جگہ جہاں جانے کی ضرورت ہو ہاں محض انہی اس سے کس طرح راستہ نکل سکتا ہے نا نشد وحی حق دو فرمان تا نیا ورد بو نیم صبا با نیاد ایک خدا کی وحی نے مدد نہ کی.اور جب تک بادِ بہار خوشبو نہ لائی عقل یا نہ آس همین نه بود خبر طائر فکر بود سوخته یا آک اس وقت تک عقل کو اس میں کی خبر نہ تھی اور فکر کے پرندے کے پر پہلے ہوئے تھے

Page 114

۱۱۲ اس مہیا کتنے نو یاد آورد تا خود نیز رو بکار آورد وہ با د بار روی یار کی طرف سے ایک تو بولا ئی یہاں تک کہ عقل بھی کام دینے لگی بار با آپ خود نگار آورد تا تخیل قیاس بار آورد کئی دن وہ مجوب خود پانی لایا.یہاں تک کہ عقل کا درخت بار آور ہو گیا وقت پیش است و موسمی شادی توجه در سوگ و ما تم افتادی یہ تو بیش کا وقت اور نوشی کا موسم ہے.تو کیوں ماتم اور سوگ میں پڑا ہوا ہے محمد ہارے بخواه از دادار تا دو خانه تو پر دریک دار ناخی خدا تعالے سے ایک ایسی آدھی مانگ کہ تیرا کھڑا کرکٹ یکدم اُڑ جائے اور خور و مه شکن نگیرد ماه توز دلدار خویش دیده بخواه توز سورج اور چاند کے متعلق کوئی شبہ نہیں ہوا کرتا تو اپنے محبوب سے آنکھیں مانگ گردی تا دے کہ سرتابی چون بوئی تو صدق دل یا بی تو اس وقت تک گمراہ ہے جبت لگے تو سکتی ہے جب بچے دل بستے تلاش کر گیا توں کو پائے گا.یتی طالب حقیقت راز بیس میں شکل است اسے مان تو حقیقت کا طالب ہی نہیں ہے.اسے کندہ ناتراش یہی تو مشکل بر وجودش ز صنعت استدلال این مجاز است نے جو اصل صال خدا کے وجود پر اس کی مستعفوں سے استدلال کرنا صرف مجاز ہے نہ کہ لش از آله مجازی نیست بادکن دیده جائے بازی نیست جس کا وصل مجازی دریعہ سے نہیں ہوا کرتا.آنکھیں کھول یہ مذاق نہیں ہے ہے

Page 115

۱۱۳ گر بر آتش در صد جگر سوزی نیست از قیاس پیروزی کو تو آگ پر دو سو گر بھی کہ اب کرنے کا بھی عقل سے کا میابی حاصل نہیں کر سکتا خبرے نیت نہ جانا نہ سے زنی ہرزہ گام کو دانہ تجھے ہے.تو محبوب کی شہر بھی نہیں اور اندھا دھند بے ہودہ قوم مار رہا اس لیے کہ جنت وادار چال قیاس خودت شهد بکنار ول نهد ہ یقین ہو خدا تجھے بخشتا ہے یا نقلیں تیری پنی عقل تیرے پاس کب لا سکتی ہے.ال کیے از دوران دلداری و نکتہ ہا سے شنید و اسرارے تو وہ ہے جس نے دلدار کے اپنے منہ سے سمجھنے اور اسرار اتنے و اس دگر از خیال خود بیگان پس کجا با شهدای دودکس یکسان اور دوسرا دہ ہو شک میں گرفتار ہے پس کس طرح یہ دونوں برابر جو سکتے ہیں اینکه مغروبه راه منطقونی تو نہ عاقل که سخت مجنونی ہے وہ شخص جو کسی اور گمان کی راہ پر مغرور ہے تو عقلمند نہیں بلکہ سخت دیوانہ ہے اس غدار اگر دوست منت با بشمری زیر منبت عقلا خدا جو احسان کا سر چشمہ ہے تو اس کو عقلمندوں کا زیہ احسان سمجھتا ہے ای خانے بھی بے دلی نشست کو نیا است داده انده است ہے بوب خدا تیرے دل میں سمایا ہوا ہے ہو ایسا کرور لاچار اور موت ہے تاد از عاقلال مرد با یافت نتوانست کونے متقی شناخت | تانه عدد کو جب تک عقلمندوں کی طرف سے اسے دور نہ ملی تیک تیک دو مخلوق کی طرف نہ آسکا

Page 116

کے پسند و خورد که آن اکبر شهرته نفت از طفیل بشر ال اس امر کی طرح تیم کرسکی ہے کہ خدا نے انسان کے طفیل ساری شہرت حاصل کی ہے اشتباه است داشت و کمر درداں چوں خوابی نبیلت اسے ناداں میری بات ہے حمل ہے اور درندوں کا ڈر اسے نادال پھر تو کیوں غفلت کی نیند سو سنتا ہے.نیز و بر حال خود نگاه بکن خطر ماه ببین و آه یکن بار آٹھ اور اپنے حال پر نظر کر راستہ کے خطرات دیکھ اور آہیں بھر خیر و از نفس خود بپرس نشان که چه خواهد مراتب عرفان الہ اور اپنے نفس سے ہی یہ بات پوچھ کہ وہ معرفت کے کیسے کیسے درجے ہاتا ہے.سے تیدا زیرا کے رقبے حجاب یا قیامش بس است در سر باب زیادہ حجاب دور ہونے کے لیے تڑپ رہا ہے یا ہر بات میں دو قیاس کو ن کو کافی سمجھتا ہے الا تبصرون گفت خدا نیزو در نفس بو تعطش دا نے افلا تبصرون فرمایا ہے اٹھ اور اپنے نفس کی پیاس کی حقیقت مو تو اسیری بعد بنزار خطا سر خطائے بہتر نہ از مدیا اڑھا تو لاکھوں غلطیوں میں گرفتار ہے اور ہر غلطی از دموں سے بھی زیادہ خطرناک میای کوردی است و بے بصری کہ ازیں کا بر تمام بے خبری امامت ہے یہ اندھا پن اور نا بینائی مجیب طرح کی ہے کہ تو ہیں کچھی بات سے بھی بے خبر ہے اسخون است من نظاست تو نه نمی سخن خطا اینجا است کچھ ہے غلط نہیں ہے غلطی یہ ہے کہ تو بات کو نہیں سمجھتا

Page 117

ستر سربستہ و دورائے درا که کشاید بدون دین محمد اور نہاں در نماں بھید خدا کی جی کے سوا کون کھول سکتا سازه ذرات نهای که گوید باز مجزه خدا ئیکه بهت محرم راز خدائیکہ اس مخفی ذات کا بھید کون ظاہر کر سکتا ہے سوائے اس خدا کے جو راز دان ہے مشت خاک فتاده است براه تند یا دے بجوید انه درگاه مانگنا سے ایک آدمی اتنا انسان ایک مشت خاک ہے جو راستے میں گرا ہوا ہے وہ خدا کی جناب.تو نہ نمی ہنوز این سخت در دولت چون فروشوم چه کنم در تو ابھی میری یہ بات نہیں سمجھتا.میں ترے دل میں کیونکر اُتر جاؤں نے ے دینا کہ دل ز درد گداخت در دما را مخاطب نشناخت درود مارا نہیں کہ ہمارا دل غم کے مارے گداز ہو گیا گر ہمارے درد کو مخاطب نے پھر بھی نہیں پہچانا ے تو رونے یار زود بر آ کر دل آزرد از شب یلدا که میلوان نے یار کے گھڑے کے سورج جلدی نکل کہ اندھیری بیات کی وجہ سے دل غمگین ہے.دل یک نگاہ ہیں است در دیں ہا کاش دیدے کے زخوف خدا ند میوں کے معامہ میں ایک نظری کافی ہے کاش کوئی خدا کے نونت کے ساتھ ان کو دیکھتا ت کا راست کفر و ایماں ہم کلیت آشکار و پنہاں ہم کیر ابھی ظاہر ہے اور ایمان بھی.یہ بات میں نے تجھے ظاہر بھی بتائی اور پوشیدہ بھی ترک خوب خدا و بد عملی این دو چیز اند تخم نیزه های کو کانوں ترک کر دنیا اور ہر سے عمل کرنا.یہی دو چیزیں سیاہ دلی کا باعث ہیں

Page 118

ور نہ دور نہ رونے نگار نیت نہاں ہر جا ہے نکست اسے بیچاں زیست در نه محجوب کا چہرہ تو چھپا ہوا نہیں ہے اسے مردہ دل جو بھی پردہ ہے وہ خود تیری طرف سے ہے اور رگ جاں قریب تریاد است سرزده از تو درسازی کار است تو شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے محض تیری بیہودگی نے بات لمبی کر دی ہے هرکه بر خواست از خودی کی بار خود نشیند بکار او دا دار به یکبار بو یک دم اپنی خودی سے الگ ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کا کام خود سنبھال لیتا ہے.حی و تقوم و قادر است نگار تو مپندار مردہ اسے مردان اوہ محبوب تو می د قوم اور قادر ہے.اسے ذلیل انسان تو اسے مردہ سمجھے میل رفتن گرست جانب یار جانب صدق را عزیز بدار اگر مجھے یاد کی طرف جانے کا شوق ہے تو رہتی کے پہلو کو مقدم رکھ اور شکے بہت خیز و تجربه کن تا سکوتت بر آورم از من و اگر کچھ شبہ ہے تو اٹھ اور تجربہ کرے تاکہ میں ترے شکوک جڑ سے نکال پھینکوں گر خود پاک از خطا بود سے سر خود مند با خدا بود سے اگر عقل غلطی سے پاک ہوا کرتی.تو چاہیے تھا کہ ہر عقلمند با خدا ہوتا کی نیست از دو جل و سود خطا جز خداوند عالم الاشيا کی کوئی بھی بھول چوک اور غلطی سے چاہیں نہیں سوائے اس خدا کے جو ہر چیز کا علم کھتا ہے بڑے کن درد نے استقرا ر کے رسته است راز نما استقرا کی رُو سے غور کری اگر کوئی ان باتوں سے بچا ہے تو تو ہی بتا دے له استراد چند افراد پر تجربہ کر کے سب لوگوں پردی تا من نافذ کرنا قاعده

Page 119

- ها ور نه باز آز شورش و انکار جیفه کذب را محور زنهار درنہ فساد اور انکار سے باز آ.اور جھوٹ کی سڑی ہوئی لاش کو ہرگز نہ کھا انتریت با خدا فقد سر کار خود نگه کن ترس نال ها دار آخر کار مجھے خدا سے ہی کام پڑے گا.تو آپ ہی سوچ لے اور اس عادل سے ڈر در خرابات او قتادہ دے خود بخود چون بدل شود نہ نکلے دل شراب خانہ میں پڑھا ہوا ہے وہ دلدل میں سے آپ ہی کیوں کر نکل سکتا ہے د به باطل نهاده باز آ دل به بد روئے دارہ باز آ ول تو نے باطل کی طرف تو یہ کر رکھی ہے از آجر ایک بدصورت پر عاشق ہو گیا ہے تو باز آجا ور مزابل تتاوه بانه آ این کجا ایستاده باز آ رخواست کی کوڑیوں پر پڑا ہوا ہے باز آ کہاں کھڑا ہے بانہا آ آخر اسے لات زمان ز عقل و خرد برش کشی یا منه برون از حد ے قتل و خرد کی رات گزانت مارنے والے ہوش میں آ.اور حد سے پاؤں باہر نہ رکھ در زون در ینال بائے محال است شوری مشری و ضلال کن باتوں کا دعوی کرنا پراطوران کی اور گمراہی اپنے سرکه رخت انگلند به دیمانه به دیمان سے نماید بتر نه ویدا هر خص ویرانوں میں اپنا ٹھکانا بناتا ہے وہ پاگلوں سے بھی بدتر ہے یوں نہیں سرزنی بی ام سحاب چندانی که آخر است حساب سے اس طرح کیوں انکار کرتا ہے کیا نہیں جانتا کہ آخر حساب دینا پڑے گا

Page 120

پائے توانگ منزل تو دراز در سمت چول سمی ازین تگ و تاز تیرا پر لنگڑا اور منزل دور ہے مجھے ڈر ہے کہ اس حالت میں تو منزل پر کیونکر پہنچے خود چین است قطرات انسان کو چو بیند که مشکل است گران آدمی کی اپنی فطرت بھی یہی ہے کہ جب مشکل کو سخت دیکھتا کھتا ہے اول از دور دوتاب طاقت خویش می کند سعی و جهد بیش از پیش پہلے اپنے ہی نور قوت اور طاقت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ محنت اور کوشش کرتا ہے.تا گر کا یہ بستہ بکتاید زیر بار سپاس کس نایدا تا کہ ڈیکا ہوا کام چل نکلے اور وہ کسی کا مرہون احسان نہ ہو جول به بیند کار رفت از دست رین اختیار رفت از دست لیکن جب دیکھتا ہے کہ کام اس کی طاقت سے بہرے اور اختیار کی اسی اس کے اتھ سے نکل گئی ہے ور امار سوتے کو چڑیا ران مرد سے جوید از درد گاران تو اپنے دوستوں کی گلی کا مورخ کرتا ہے اور مرد گاروں سے مدد مانگتا زور دست بر اورال جویدا نزد سر کار دان ہے پویا ہے اپنے بھائیوں کے ہاتھوں کا زور تلاش کرتا ہے اور ہر واقف کار کے پاس دوڑ کر جاتا ہے.ول بماند ز ہر طرف تا چار نالد آخر بلند گر دادار پھر جب ہر طرف سے لاچار ہو جاتا ہے.تو آخر میں نمدا کے حضور روتا نعرہ با مے زند بحضرت پاک ماز نفری جبیں مند بر خاک اس پاک درگاہ کے سامنے نہیں مارتا ہے اور عاجزی سے ماتھے کو خاک پر رکھتا ہے

Page 121

119 رو مشکل مسن در خود بند و بگریه دار کان کشاینده رو دشوار اپنا دروازہ بند کر کے رو کر سوتی کرتا ہے کہ اسے کر من په خش و پرده پوش با نه دشمن زند شادی جوش به میرے گناہ بخش اور میری پردہ پوشی کرتا کہ خوشی خوشی سے باغ باغ نہ ہو.چون چینیں فطرت بشر افتاد زال هرگونه صفت که کردم یا در جب انسان کی فطرت ہی سے ہی اس میں دونوں صفات موجود ہیں جن کا میں نے ذکر کیا.اس کیش تکلیف بے پایاں حسب فطرت بداد ہم سامان تو اس حکیم نے بھی بے حد مہربانی کے ساتھ اسے اس کی فطرت کے موافقی سامان عطا کیے ان نے جمد ترین نقش داور سماجو فکرو تی اس و خروش کنارو قیاس دو جد و جمعہ کے لیے خدا نے اُسے عقل بخشی.فکر - تماس اور غور کا راستہ کھول دیا ماز ہے کار باهمی امادا رحیم در قلب یک دگر جهان ریم ا بھی امداد کے لیے اس نے ایک دوسرے کے دل میں رقم رکھ دیا ارد شوب و قبائل و اقدام کرد کار نظام د ربط تمام بمادتاں.قبیلے اور قومیں بنا کر اس نے ایک نظام قائم کیا اور تعلقات مکمل کر دیئے ار پیئے حاجت نیو خُدا کرد الهام را نہ رحم اور خدائی فیضان کی ضرورت کے لیے اپنے نام سے الہام مرحمت فرمایا نا رسد کا یہ آدمی بکمال تا میسر شود همه آمال | سا کہ آدمی کا کام اپنے کمال کو بھی جائے تا کہ ساری خواہشیں پوری ہو جائیں

Page 122

۱۲۰۰ یا تا بهتر یقین رصد تعلیم تا دو گونه شود رو تفهیمی تاکہ تعلیم یقین کی حد تک جا پہنچے اور عقل و سمجھ کا راستہ طویل زاں دو گونه مناهج تلقین سے کشاید رو حصول یقیں دو تکفین کے ان دو راستوں سے یقین حاصل کرنے کا رستہ کھل جاتا یریت بحب قصر و خیال سے بر آید بلال نر چاہ ملال قم در طبیعت اپنی مجھ اور خیال کے مطابق ان دو سال کے ذریچ گرا ہی کے کنویں سے باہر نکل آتی.قرص آن میل فطرتی کہ خلا ق کرد در فطرت بشر پیدا غرض یہ کہ وہ قدرتی میلان ہو خدا تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں پیدا کیا اس ہے خود است وحی ربانی نظریے کن بغور تا دانی وہ بھی خدائی الہام کا طلب گار تھا غور سے دیکھے تا کہ تو حقیقت کو بیچ فراست چون فتاده است چناں چوں کی سر ز قطرت اسے تاوان جب تیری فطرت ہی اسی طرح واقع ہوئی ہے پھر اسے اوران اس فطرت سے کیوں روگردانی کرتا.اقتضائے طبیعت انسان که نهاد است اینه د منان مستان انسانی طبیعت کا تقاضا ہو اس محسن خدا نے اس میں ودیعت کیا ہے کہ راکند کو بشر را کٹے ہوئے قیاس تاحد کار را به عقل اساس کبھی بشر کو قیاس کی طرف کمپنی ہے تا کہ اپنے کام کی بنیاد عقل پر گا دیگر کا و دیگر کشد به منقوت تا بیارامد از بیان ثقات پھر دوسرے وقت وہی تقاضا سے روایات کی طرف لاتا ہے تاکہ معتبر انسانوں کے بیان سے تسلی پکڑے

Page 123

۱۳۱ اینکه آوای قلب و اطمینان جز با خیار صادقان متواری کیونکہ سکون دل اور امینان قلب راست بازوں کی برائیوں کے سوا پیدا نہیں ہو نیز همان واحدی است در تعلیم که بقدر خرد بود خرد بود تفسیر بدال نیز جو کہ تمیم کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دا شاگرد کی مستقل کے مطابق سمجھایا جائے لا جرم رو کشادہ اند دو تا تا رسد ہر طبیعتے بخدا اس لئے دو راستے کھول دیئے گئے ہیں.تاکہ ہر طبیعت کا انسان خدا تک پہنچ سکے انکی و غیبی واشرت دوں وہ بی بند ہوئے آں ہے جہاں ذہین اور نبی شریف اور ازدیل اس بے مثل خدا کی طرف راہ نہیں دیگر این است نیز هم بیراں پر تورات و حتی آل رحمان اور دلیل بھی اس رحمان وحی کی ضرورت پر یہ ہے کو چنین شربت خدائے لگاں ہرگز از جمد معقل با توان خدائے واحد کی اس قدر شہرت صرف عقلوں کی کوشش سے نہیں ہوسکتی کر نہ گھٹتے خدا انا الموجود چون فتاڑے جہاں برش بسجود اگر خدا خود ہی نہ کنتاکہ میں موجود ہوں تو سارا جہاں اس کے سامنے سر بسجود کیوں ہوتا این همه شور مستی آن یار که انه عالم ست عاشق زار که انه عالم.اس بات کی ہستی کے متعلق اس شور سے معلوم ہوتا ہے کہ سارا عالم خود بینداخت اس خدائے جہاں تہ بشر کرد بر سرش احسال یہ دشور ابھی رب العالمین نے خود ہی ڈالا ہے نہ کہ آدمی نے اس پر احسان کیا ہے.سر عاشق زار ہے

Page 124

لیے آدمی ے دریع این چه او می دادند که خدا در خودی پیشاوندا افسوس یہ کیسے انسان میں جو خدا کو چھوڑ کر خودی میں پڑ گئے ستقل حل شد و فیمین وحی نه بود دیده را نه آفتاب بست و جود جب وجہی کا فیضان ہی نہ تھا تو عقل کہاں سے آگئی آنکھ کا جو تو آفتاب کی دیر سے ہے وجود اور اگر نور خود نہ بخشید سے اگر چشم ما خود بخود جہاں دیدے اگر سورج اپنا اور نہ دنیا تو ہماری آنکھ خود بخود کس طرح دیکھ سکتی بیل اور فیض گل سخن آموخت سنگ از ے جہاں کے چشم دوخت کے فیضان سے مل نے بات کرتا دکھی دی تی اس اس سے منکر ہو تا ہے جو اپنی آنکھیں بند کر کے به عالم گوا و آرایش ابله منکر نیز وحی و الفلدیش ہمہ خدا کی نعمتوں کا گواہ ہے.لیکن بے وقوت خدا کی چی اور الفا کا منکر ہے ماکان بجان خود نشان تا شوی جان من هم اند پاکان اپنے دل میں پاک لوگوں کی محبت بڑھا تا کہ اسے جان من تو بھی پاکوں میں داخل ہو جانے ایس خود جملہ خلق سے دارند ناز کم کن که چوں تو بسیالند عقل تو ساری مخلوقات کے پاس ہے اس پر نماز نہ کر کیے کو تیرے جیسے بہت ہیں چاره ما بغیر یار کجا ما کجائیم و عقل نار کجا اما یاد کے سوا ہمارا اور کیا سوا ہمارا ملاح اور کہاں ہے ہماری مہستی کیا اور ہماری کمزور عقل ہی دبیر فرقت بشی و ناکامی باز منکر ز دمی و الهامی تو جدائی کا زیر سنگھ رہا ہے اور نا مراد ہے اس پر بھی وجیہ السلام سے منکر ہے د

Page 125

۱۲۳ جان توراب را نخوردهای آب یاد از آب زندگی رو تاب پانی نہ پینے کی وجہ سے تو جاں بلب ہے.پھر بھی آپ حیات سے منہ پھیر رکھا ہے.کور مستنی دیکین پدیده در سال ده چه داری شقاوت و شهران خود تو اندھا ہے اور انکھوں والوں سے موتی رکھتا ہے تیری بریتی نو نقصان پر افسوس ہے.ارہ نے درد دل و قلت ماست یک به دار شفائی وحی خدا است ورد دل کی دوا ہماری عقل نہیں ہے وہ دعا تو وحی الہی کے شفا خانہ میں ہے نشود مین در تصویر در در جهان است که قند به نظر کا تصور ہونا نہیں ہوا کرتا بلکہ سونا رہی ہے جو نظر آ جاتے بست بر عقل محبت الهام که از وبخت ہر تصقیه خام نتقال پر الہام کا یہ احسان ہے کہ اس کی وجہ سے ہر ناقص تصور پختہ ہو گیا ان اس گمان برد و این نمود فراز آن نهال گفت این کشور آن را از یس نے گنگا کیا اور اس نے کھل کھلاتا ہ کیا اس نے خفیہ کیا اور اس کے راز کو ظاہر کردیا اس فوریت این کیف بسپرد آن طمع داد و این بجا آورد ان نے گرا دیا اور اس نے ہاتھ میں دیا جس نے صرف لالچ دیا اور اس نے پورا کر دیا که بشکست سرتِ دل ما است وحی مندائے بے ہمتا وہ چیز میں نے ہمارے دل کے بوریت کو توڑ دیا دہ خدائے لاثانی کی وحی ہی تو ہے دہ کی اینکه ما را نرخ نگار نمود بست امام ہیں خدا کے درود در حین نے ہمیں معشوق کا چہرہ دکھا دیا دہ خدائے مہربان کا اسلام ہیں.

Page 126

۱۲۳۴ ہے آنکه داد از یقین دل جائے ہست گفتار آل دلا رامے وہ جس نے دلی یقین کا جام میں زیادہ اس محبوب کی گفتار ہی تو وسیل دلداده دستی از جامش همه حاصل شده و الهامش دیر کا وصل اور اس کے جاریہ شراب کا نشہ سب اُس کے الہام سے حاصل ہوئے صل آن پی میل سر کا میت یہ زمیں مل ناقل آن نامیست ومنین آن مقصد کا اصل اُس یار کا وصل ہے اور جو اس اصل سے فاضل ہے کہ کچا ہے ہے عطیات ناسمجہ ہے زاد ہے عنایات ، ہمہ پر باد اس کی نعمتوں کے سوا ہم سب تھی دوست میں اعلہ اس کی عنایتوں کے بغیر ہم سب پر بار ہیں رہما بین احمدیہ حصته چهارم صفحه ۳۰۸ تا ۳۱۸ مطیر که ۱۳۱۳۵۳ اتواں راکھا تاب و کمال انشا اپنی خودنداں ہے خفتان کرداروں میں یہ طاقتکب ہے کہ وہ خود ہی اس بے نشان وجود کا پتہ لگائیں عقل کو رول رہنا بودید براه رهبری از دانش کوران خواه | میل کی عقل تو ود ہو رستہ پینے کے لیے نہا دھوتی ہے تو ادھوں کی معقل سے میری طلب تذکر عقل را از هر زاری دیک است درفیع آنتار جهالت از خداست ہماری عقل تو صرف رونے دھرنے کے لیے ہے اور جہالت کے دکھ کا رقیہ خدا کی طرف سے اپنے عتقل طفل بست اینکه گرید زار زار شیر نجمه ما در نیاید زینهار بچے کی عقل تو صرف یہ ہے کہ زار زار ہوئے.مگر دورہ تو سوائے ماں کے ہر گز نہیں مل سکتا

Page 127

کس عشق است که بر ناک مذلت غلطانه عشق است که به نانش سوزان نیشاند عشق ہی ہے جو ذلت کی خاک پر آدمی کو تڑپاتا ہے.مشتق ہی ہے جو جلتی ہوئی اگر پر اُسے بیٹھاتا ہے.ہر کیسے سرند برجال نفشاند عشق است که این کار بصد حق کناند کوئی کسی کے لیے نہیں دینہ جان قربان کرتا ہے جنتی ہی ہے کہ یہ کام پوری وفاداری سے کراتا ہے.رہے ہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیه صفحد (۲۵) دلبرم : بیچ محبوبے نماند بچھو یا بر و برم مرومه را نیست قدرے دریا به دلیرم میرے اوپر کو کوئی مجبور نہیں پہنچتا میر سے معشوق کے شہر میں سورج اور چاند کی کوئی مقصد نہیں یا چہرہ کہاں ہے جو اس کے منہ کی مادہ کی تاب رکھتا ہواوں ایسی بات کہاں ہے جو میرے ولی کی بھی بہار رکھتا ہوں میه و مدام شیر گوش میدہ بنانے میں گرین یاد کن قربان قل للمؤمنين | ے حق پرست آنکھ اور کان بند کرنے اور قل للمومنین کا خدائی حکم یاد کر خاطر خونرین و آن کمیسر یہ آر آشو ر پر خاطرات حق آشکار اپنا دل ادھر ادھر کی چیزوں سے بالکل بٹائے تا کہ تیرے دل پر حق ظاہر ہوجائے دیر با کن دلیران این جہاں آنا یہ چہرہ آن محبوب جاں اس جہان کے معشوقوں کو لات مارتا کہ تیری جان کا مجوب تجھے اپنا منہ دکھائے

Page 128

کاملاں مینی اند ہم زیر زمین تو بگوری با حیات میں چینی اند تیبیہ کامل لوگ تو زمین کے نیچے بھی زندہ ہیں اور تو اس زندگی کے باوجود قبریں پڑتا ہے.سالها باید که خون دلخوری آکوئے داستانے ره بری بیست سال درکار ہیں کہ تو خوب دل کھاتا رہے تب جا کر کہیں اس معشوق تک پہنچے گا کے بآسانی رہے بخشایدت صد جول باید کرتا ہوش آیدت آسانی اسے راستہ کہاں کھل سکتا ہے.سینکڑوں دیو نیکیاں چاہیں تا کہ تجھے ہوش آئے اسم ارمین احمدیہ حصہ چہارم حاشیه در حاشیه صفحه ۱۵۰۲ تنظیم برود تیم در دور اور نہیں ریست که الان پوش نے پاور میکردم می کند ولی خان مسیل بالان سات ی موت ہی رہے جو دوستوں سے دوستوں کا منہ جہادیتی ہے او فصل بہار کو یک ام خواں میں تبدیل کردیتی ہے کوی ہے ا بر این احمدیہ حصہ چہارم حاشیه در حاشیه صفحه ۱۵۱ است فرمان مبارک از خدا طیب شیر تو شمال نیک بود در سایه داند و چه تریر قرآن پاک خدا کی طرف ایک پاکیزہ درخت ہے جو زنان در یک اصلی حال اور سایہ دار پھلوں سے ادا ہوا ہے میوه گرخواهی باز به درخت میوه دار گر خردمندی مجنیان بید را بر شمر اگر تو میوہ چاہتا ہے تو یہ دار درخت کے نیچے آاگر عقلمند ہے تو سیدہ کے درخت کو بچوں کے لئے نہ طلا تمہید دور نیاید باورت در وصف فرقان مجید حسن آن شاهد بپرس از شاه وال یا خود نگر اگر تھے قرآن مجید کی وہیں پر یقین نہیں ہے تو اس محبوب کا سن رکھنے دلوں سے پوچھ یا تو تحقیق کو

Page 129

د اگر او تا دئیے تحقیق در کمین قیامت آدمی هرگز نما شد بست او به تو از خر آدمی هرگز نباشد بست شتر لیکن وہ شخص تحقیق کے لیے نہیں آیا وہ یمن میں لگا ہوا ہے وہ ہرگز آدمی نہیں بلکہ گرنے سے بھی بہتر ہے زیرا این احمدیہ حصه چهارم حاشیه در حاشیه صفحه ۱۸۱۳ اے خالق این وسایرین دیر رحمت کشان مانی تو اس دور و مراکز دیگران نیہاں کنم ا ا ا ا ا ا ا م پر دو ایک کھول میرے اس درد کو جاتا ہے جسے میں دو سے چھپاتا ہوں ای طبیعی و برادر سربرگ و تارم درد را بالا بوده ایم تا دل نوشته ارسال کنیم ے برتری دلیل ہے میرے ہوگئے ہیں حال ہوجانا جب مجھےاپنے دو اور توانا ہے جو بیان شرکا در کشتی اسے پاک فوجاں بکنم در ہجر تو انسان ہے گریم کو دیکٹ لے گیاں کنم ارے ایک مان کر انکار کرے تو تیرے فراق میں ان سے رنگا یا نا رہوں گا کہ ایک عالم کو کانوں میں خوابی امریکی جدا خوابی میکنم تا خوبی پیش پاکن راکت کا کی ہاں کم بلطفه مالی کوریا کے خلاف کی بنا پر وہ کھا نے خواہ ماریا چھوڑمیں تیرے دامن کو نہیں چھڑا سکتا ریا دین محمدیه مته چهارم میشه در ماشیه صفحه ۳ (۵۱) مطور ے شمارے چارک آزان و یا اسے علاج گریے جاتے تیار کا سے خدا اسے ہمار سے دکھوں کی دعا.اور اسے ہمار کی گریہ و زاری کا علاج اسے تو مریم بخش جان شین اسے تو دلدار ولی تور کیش کا تو ہماری ترکی جان پر پر جا رہا ہے.ان کو ہمارے نمرہ داخل کی جولیا سی کرنے والا ہے.

Page 130

۱۲۸ از کرم به داشتی بر باد ما در تو ہر یار دیر اشتہار ما تنے بھی مران سے انے والا یا ہو رہا ہے اور یوں ہوا اور پل نیر اپنی حافظ و شاری از جود و کرم پیکان را یاری از لطف تام از ی ایرانی در نهایت سارا محافظ اور پردہ پوش ہے اور کمائی مہربانی سے بے کسوں کا ہمدرد ہے سے بنده در مانده باشد ول طلبان ناگهان درمان بر آری از میانی جب بند میگویم اور درماندہ ہو جاتا ہے تو جو د میں سے اس کا علاج پیدا کر دیتا ہے.ماجو سے را کلمے گیرد براہ ناگہاں آرمی برد صد مہر و ماہ جب کسی مار کر تے ہیں ان میرا گھیر لیا ہے اور کرم اس کے لیے کیوں ہوئی اور ان پیدا کردیتا ہے.محسن و شلق و دلبری بر تو تمام سمجھتے بعد از تھائے تو حرام وفلق تو حسن و اخلاق اور دلبری مجھ پرختم ہیں تیری عاقات کے بعد پھر کسی سے تعلق رکھنا حرام ہے آن خود مندی که او دیوانه ات شمع بر سر است آنکه او پرمانات ہے جو ترا دیوانہ ہے اور وسمح بزم ہے.جو تیرا پروانہ ہے بر کره شقت در دل جهانش فقد ناگہاں جانے دو ایمانش متد ہر وہ شخص جس کے جان ودل میں تیر اشت داخل ہو جائے تو اس کے بیان میں ذرا جان پڑھاتی ہے مشق توگردو یہاں بودھ سے او نے تو آمد زیبام دکوئے اُد ہے براش اس کے چہرہ پن ظاہر ہو جاتا ہے اور اس کے درو دیوار سے تیری خوشبو آتی - د برادران نقش بخشی نو بود مرومه را پیش آرمی در سجود تو اس کو اپنے کرم سے لاکھوں نہیں رکھتا ہے سورج اور چاند کو اس کے سامنے سجدہ کرواتا ہے

Page 131

وشنی از چکنے پائیدار نے نوید الامہ نیریان تو اس کی نفرت کے لیے جووتیار ہو جاتا ہے اور مرہ یاد آتا ہے ہیں خیال کار با کاور جہاں سے تھائی پیر کو پیش وہاں اس بات میں بہت سے سے نمایاں کام تو اس کی علامت کے لیے ظاہر کرتی ہے.ود کشی و تو کیا کی کار مراد تھے دو ہی رونق در آن با خیار را تو آپ ہی کام کرتا ہے اور آپ ہی کر جاتا ہے.اور آپ ہی اس بان اس کو موتی کیا ہے ناک را در یک چیز سے کسی کو الورش تخلت گیری روشنی منی کو تو کردم یک دوستی امیر بناتا ہے.تاکہ اس کے طور سے مارکت ار کئے کنواں نسوانی سے کئی اور تین انتہائی سنے لگی امنے آگئی جب اتر کسی پر قربانی کرتا ہے تو اسے زمین سے آسمانی بنا دیتا ہے ماش بین کراون این تا تا مطالب این در میانمین ین اندیر سے معنی د یکی از آمیہ کامن انشان بیابند ایکویت ہے بردگان کردند کالا

Page 132

آن شده عالمه که نامش مصلی سید مشاق حتی شمس الضح حق العظيم وہ جہاں کا بادشاہ میں کا نام مصطفے سے ہو عشاق حق کا سردار اور شمس اصلی ہے.آن بر تو سے میل محور اوست کی منظوری کی منظوری اوست گور دودہ ہے کہ ہر تو اسی کے عقیل سے ہے اور وہ یہ ہے کہ جن کا نظم کردہ مد کامنظور کردہ ہے خدا آنکہ پر زندگی آپ روان در معارف بھیجو بحر بیکراں در اس کا موجود زندگی کے لیے آپ روان ہے اور حقایق اور مہارت کا ایک نا پیدا کنار سمندہ ہے آنکه بصدق و کماشی در جهانی صد دلیل وقت روشن عیاں دہ کہ جن کی سچائی اور کمال پر دنیا میں سینکڑوں دلیلیں اور روشن راہیں ظاہر نہیں الامین را بر روئے کو منظر کار جھائی کرنے اور وہ جن کے منہ پر خدائی افراد پر ستے ہیں اور جس کا کچھ چہ نشانات الہی کا منظر ہے آنکہ جملہ انبیاء و ساختمان خانه اش کچھ خاک آستان تمام نبی اور راست باز خاک در کی طرح اس کے خادم ہیں آن کے فرش سے رساند تا سما سے کند چون او تا بال در صنا دہ کہ جن کی محبت ہوئی کو یہاں تک پہنچاتی ہے اور صفائی میں جیتے ہوئے چاند کی طرح بنادیتی ہے سے دیر تر ھوتیاں را ہر زماں چوں نے یائے موسی صد نشاں فر نے وہ نہیں فرمونی لوگوں کو ہروقت کھاتا ہے موسی کے جو بینا کی طرح سینکڑوں خسارات اک نیا در چشمانی کوردانی زار است یک شهرت پر تشکیل شد یہ تیجا ان کو کات اوتھوں کی نظر میں ایک شربت پرست اور کینہ پرور شخص ہے

Page 133

مت کیا کیا چیز و پست سے دن بیریان شهوت پرست بنی قیر اور ذلیل کتنے شرم کے.تو پہلوانوں کا نام شوت پوست رکھتا ہے.ای نشان شرتی بہت اسے ایم کردنش رخشان بود تو یہ تقویم سے بریت کیا ہے ایک شہوت پرست کی عدمت ہے کہ ان کے چہرے سے اور اولی چکتا ہوا در نے پیدا شود به و فرش کنند و در خزان آید دل افروزش کند در کی دول اثر کند.بنا رات کے وقت مہم کے علاوہ اسے دن تیار ہے توان کے موسم میں آئے اور اُسے بہار شاہ سے آپ منتظر ان ار ان بے ہوں بود اور نرو از ہر بشر افروں مارد اتوار اور خیر بیشتر اس بے مثل تھا کے اقدار کا منظر ہے.محفل میں ہر انسان سے زیادہ ہو انا حل آن درد دل را استاد بخش نه بید کس بصد سالہ جہاد اس کی پیروی دل کو اس قدر انتشران ھے کہ کوئی سو سال جہاد کر کے بھی نہ پاتے اتباعش دل روز و جاں دی جلوه اثر طاقت پر دال دید اس کی اتباع بل کو روشن کردے اورکی جان ہے.اور قضائی طاقتوں کی تجلی دکھاتے اتباع سینہ انسانی کند با خبر از یار چھاتی کند اس کی پیروی سینہ کو تھانی کیئے.اور اس مخفی دوست سے باخبر بنائے منفی گو از معارف پر بار ہر بیان او سراسر در بود پیشه ہ اس کا کلام سنایی معارف سے بھرا ہوتا ہو اور آپ کا ہر بیان پاسکل ہوتی ہو از کمال حکمت و تشکیل دیں ماند بر اولین و آخرین اپنے حکمت کے کمال اور شریعت کی تکمیل کی وجہ سے انگوں اور پچھلوں کا سرمان ہوا.

Page 134

۱۳۲ کمال صورت و حسن انتم جمله خوبایی رها کند زیر قدیم حسن و توبی میں کامل ہونے کی وجہ سے تمام مشوقوں کی جگہ اس کے قدموں میں تامیش چوں انبیاء گردد نو نور نورش افتد به هم نزدیک و دور اس کا پیر و نورانیت کی وجہ سے پیار کی طرح ہو جائے اس کی روشنی دور و نزدیک سب پر پڑے شیرین پر بیلیت از ریت جلیل دشمنان پیشیش چو روباه ذلیل خداتعالی کی رات سے سچائی کا پر بیت شیر ہو.تھی اس کے سامنے ذلیل لومڑی کی طرح ہوں.این مینی شیرے بود شہوت پرست ہوش کی اسے رو سے ناچیز است کیا ایسا شہر شہوت پرست ہوا کرتا ہے.اسے ذلیل و خیر لومڑی ہوش میں آ بیستی اے کو یک نظرت تباہ معنی یہ خوباں بدیں روئے بیاہ سے ذہیں یہ فطرت مدعے ترکیا ہے؟ اس کا سے منہ کے ساتھ حسینوں پر طعن نہ کی کراتا ہے ھے شورت نشان از سر آزادی است نے اسیر آن ہو تو آن قوم مست ان داشته ان رانی کی شورت آزادی کی بنا پر ہے.تیری طرح شہرت کے قیدی نہیں ہیں خود گر گئی آں کے زندانی است تی وان دگر دار و غه سلطانی است تو آپ غور کرنے کہ ایک شخص ترتیبدی ہے اور مصر شخص شاہی دارد فور جیل اپنے تو چه در کجا است هر دو را قرار ایک فرقے بہت دوری آشکار ان دونوں کی رہائشی ایک ہی جگہ ہے لیکن دونوں کا فرق ظاہر کار پاکان پیدا کردن قیاس کار نا پاکان بودا سے بد حواس ان کی باتوں کا ہروں پر قیاس کرنا.اسے ہوا اس یہ تایا کوں کا کام ہے گر

Page 135

کامران دوبند کیا وہ پیکر کا ماں کو شوقی ویرے روند یا دو مصدر ارے بکتر می روند ال ای دیوار کے شوق میں پلے با رے میں دو دو سو بوجھ اٹھاکر بھی ہلکے پھلکے پہنتے ہیں این کمال آمد که یا فریزند و زمان از بهر فرزند و نان کمیسو شدن کمال تو یہ ہے کہ لوجود اولاد اور بیوی کے پھر بھی اہل دنیال سے الگ ہیں در جهان و باز بیرول از جهان پاز مد نشان کا ملال دنیا میں رہیں گر اصل میں دنیا سے سر ہوں کال لوگوں کی یہی علامت ہے پول ستور سے نہ پر بارات لیست درستی رفتن سریع و تیز تر جب کوئی گھٹا اور جو ادنے سے رکے گرپڑے گر خالی چلنے میں بہت چالاک اور تیز رفتار ہوں ہیں جنہیں ایسے کجا آید بکاری تابکارست این دراپانش مادر تو ایسا گھوڑا کسی کام آسکتا ہے وہ تم سکتا ہے اس کو گھوڑوں میں شمار ست کرا اپ کی سیاست کو بار گراں سے کریم سے رو پس نے بین عقاب گھوڑا تو وہ ہے جو کہ بھاری بوجھ کوبھی لے جاتا ہے اور مرد بھی اپنی جان بچتا.کالے گردن بدار و صد ہزار دکتر مد برادران کار و باز صد اگر کوئی کامل انسان راکھوں غور میں رکھتا ہو تی ہیں کی سیکٹر میں لونڈیاں اور لاکھوں کا روبار کہوں نی پس گر افتند در حضور او فتور ایست آن کامل زقرت دست خود را پھر اگر اس کی حضوری میں فرق پاسے خو د جمال نہیں سجدہ خدا کے اقرب سے دور ہے نیست آن کامل سرعت زنده های در خردمندی و بر دانش همدان بارد تو او کامل ہے وہ پیا ر ہے ہے.اگر تو عقل دی ہے تو اسے کروں میں

Page 136

کامل آن باشند که بافرد مندوزان تی با معیال و کلاه مشغولی متین کامل وہ ہوتا ہے جو بلد بود ہیوی بچوں کے اور باوجود بھائی اور جسمانی مشال کے یا تجارت با همه هیچ وشترا ایک نیاں غافل من گرد وداد شط اور باوجود تجارت اور خرید و فروخت کے کسی وقت بھی خدا سے غافل نہیں ہوتا.این نشان تقویت مردانه است کاملان و امین نہیں پیمانه است یہ ہے مردوں والی طاقت کا نشان کاموں کے لیے بس یہی بیمار ہے سوختہ جانے دمشق کو برے کے فراموشش کند با دیگرے جس کی جان دلبر کے حق میں جلی ہوئی ہودہ اس کو بھول کر دوسرے کی طرح کی توجہ کر سکتا ہے او نظر دارد بغیر و دل به یارا دست در کار و خیال اندر نگار نام ترقی کی طرف نظر کرتا ہے لیکن دل یار کی طرف ہوا ہے ا ا ا ا ری ہو تا ہے لیکن خیال جواب کی تر حول طبیان در فرقت محبوب خویش مینه از ایران باسے پیش پیش اپنے محبوب کی فرقت میں اس کا دل توڑتا ہے.اور یار کے ہجر میں سینہ زرعی رہتا ہے واده دور انڈونے کے دل وال پر لفظ در کرنے کے دول دوال وہ مجیب کے چہرہ سے ڈگر پڑا ہوا ہے کہ ہر وقت دلی محبوب کے کوچہ میں دوڑ رہا ہوتا ہے.تم شده از غم چو اردوئے کے ہر زماں پیچاں وگیسوئے کیسے ی کہانی کے فرائم کے ارے میں ہوگیاہے اور کسی کی زندوں کی طرح ہروقت پیچ و تاب میں ہے.و برش داشته های متره پوست راحت جانش بیا د اوست.اس کا دلبر جان متخواد در پوست میں سوچ گیا.اس کے دل کی ساحت اس کے کھڑے کی یاد میں

Page 137

ira جہاں شام کے جان فراموش شود هر زمان آید ہم آغوشش شود وہ اس کی جان ہی گیا اور جان کب بھلائی جاسکتی ہے وہ ہر وقت آتا ہے اور اس سے قبل گیر ہوں دیده چون بر دلبر دست اورفتند هر چی غیر است از دست او فقد او ویر مست پر جب نظر پڑتی ہے تو ہر چیزا جو ہاتھ میں ہوتی ہے گر پڑتی ہے غیر گو در بر بودو در ست دور یا یه دور افتاده سردم در حضور غیر اگر پہلو میں ہو پھر بھی دور ہے.لیکن یار اگر دور بھی ہو تو ہر وقت پاس ہی ہے کارت باید عاشقان کار محمد است به تر از فکر و قیاسات شماست عاشقوں کا کاروبار ہی میدا ہے.اور تم لوگوں کے فکر و قیاس سے بالا تر ہے قیم قبا راست دل در دلیرے چشم ظاہری پدیدار و در سے یہ قوم بڑی ہشیار ہے ان کا دل تو دلبر ہی ہوتا ہے اور ظاہری آنکھیں دور دور بہار کی طرف یال خروشان از پے در پیکر بر زبان نرفته با از دیگر سے ان کی جان تو ایک جسموں کے لیے تراشتی ہے اور ان کی زبان پر لاروں کا ذکر ہوتا ہے انیاں مامان از یار محبت و دوران پر سرشان بار نیست تانی لوگوں کے لیے کوئی چیز بھی بار سے منع نہیں.بیوی اور بچے ان کے سرپر بوجھ میں ہوتے با دو صد زنجیر بر دم پیش یار غار با او گل گل اندر ہجر خان ای این کارا وہ ہو جوں کے تو یہی یہی ہے یا ان کا کالا یا اس کے راویوں کا اسلام ہوتے ہیں تو بیک خار سے برآری صد فعال داشتمان خنداں بہائے جانفشان توئی کیک کاٹنے کی وجہ سے سیکڑوں نہیں مارتا ہے اور عاشق رہتی یہاں قربان کر کے بھی سہتے رہتے ہیں

Page 138

Spataf عاشقان در عظمت مولی فتا غرقه دریائے تو جید از وقای عاشق مولیٰ کی عظمت میں فنا ہیں.اور وفاداری کی وجہ سے دریائے توحید میں فرق ہیں کین دهمر شان همه بهر خدا است قبرشان گراست ہیں قبر ید است دمهرشان قبر ضد ان کی دشمنی اور دوستی سب خدا کے لیے ہے.اگر ان کو غصہ بھی آتا ہے تو وہ خدا ہی کا نفقہ ہے.انکه در عشق احد مو هاست هر چه نو آید زات کر رب است رچه نوید وعدہ کے عشق میں فانی اور جو ہے جو کچھ بھی اس سے ظاہر ہوتا ہے وہ ذات کہ بیاہی کر رہے ہے نانی است و تیر او تیری است صید او در اصل پنچر تقی است او رہ فانی ہے اور اس کا تیر در کرتی ہے اور ان کا شکار در اصل خدا کا شکار ہے خدا اس کا آنچ سے باشند نداره از صنفات خود دید در مانیاں آل پاک ذات ندہ تعالی کی جو صفات میں وہ پاک ذات ان صفات کوتانی فی اللہ لوگوںمیں خود پھونک دیتا ہے وئے بھی گرد و در ایشان آشکار از جمال مازه جلال کردگار بند کی صفات ان سے ظاہر ہونے لگتی ہیں خواہ وہ جوالی ہوں یا جلالی اطی نشان لطف خدا ہم فرشاں تفریق گردو نہ بچوں دیگراں ان کا لطف خدا کا لطف ہے بعد ان کا قہر خدا کا فقر ہو جاتا ہے دوسروں کی طرح ان کا معاملہ نہیں ہے.انیان بینند از خود دور تر کیوں لایک کارکن از دادگرنا ے خانی جنگ دینی خودی سے اکل کوان میں دوریاں کر تا تانے ہے کہ انکی گر فرشتہ قبض جانے سے گھر مے گی.اگر فرشتہ کسی کی جان نکالتا ہے.یا کسی کے زور پر مہربانی کرتا ہے

Page 139

١٣٤ این همه سختی و نرمی از تندا است وز تو انسانی نفس خود بند است تو یہ سختی اور سی اداسی کی طرف سے ہوتی ہے.فرشتہ تو اپنی نفسانی خو اہشوں سے بالکل الگ ہے ہمچنین سے دال مقامی انبیاء و اصلان و فاصلان از ماسویی انبیاء کے مقام کی بھی یہی مثال سمجھے.وہ واصل اللہ ہیں اور اس کے غیر سے ہے تعلق تانی اند و کلاه زمانی اند کو برقی در جامعه انسانی امد آلر در تنافی اللہ ہیں اور خدا کا ہتھیار ہیں.انسانی جامہ میں خدا کا نور ہیں سخت تبال در قاب حضرت اند کمر خود در رنگ آپ حضرت انسا بارگاہ ٹلی کے گیند میں الکل مفتی ہی خودی سے الگ ہو کر خدائی منگ وروپ میں زندگی ب کر تے ہیں اختران آسمان زریب و فر رفته از چشمه خلائق دور تر حی اور دیدہ کے آسمان کے تارے میں اور لوگوں کی آنکھوں سے دور چلے گئے ہیں کس تقدیر تور شان آگاه نیست تا که اونی را به ایران نیست تناکه کوئی ان کے نور کی قدر سے باخبر نہیں ہے کیونکہ اونے کو اعلیٰ تک رسائی نہیں ملتی کور کورانہ زند رائے ونی چشم کورش بے خبر ناں روشنی ندان سے پین کی وجہ سے ذلیل رائے دیتاہے کیونکہ اس کی ایجا ان میں اس روشنی سے اہتا میں ہمچنیں تو اسے عدقو مصطفے سے نمائی کو ری خود را بما اس طرح تو کبھی اسے مصطفے کے دشمن اپنی نابینائی کو ہم بہ ظاہر کرتا ہے بر قمر طو رکنی از سنگ رگی نور یه کمتر ته گردو نہیں سنگی باز جیسا کرنے کی عادت ہوتیہے تو باہر پھینکتا ہے اس کے تین سے چاند کانر کم نہیں ہوتا

Page 140

منطق آئینہ روئے خداست منکر دیئے یہاں تو نے خدا است مصطفے تو خدا کے چرہ کا آئینہ ہیں.ان میں خدا تعالی کی ہی تمام صفات منعکس ہیں گرید دشتی خدا او را ببین من دفینه های المحی این تیم دارانی گر تونے خدا کو نہیں دیکھاتھ نہیں دیکھ یہ حدیث یقینی ہے تو میں نے مجھے دیکھا اس نے متن کو رکھا.آنکه آویز و به مستان خدا خصیم او گردد جناب کبیریان جو شخص خدا کے عاشقوں سے ایکھنا ہے تو جناب الہی خود اس کے تین ہو جاتے ہیں دوست بنی تائید این مستان گھر چل کے بادست تقی دستان کند خدا کا ہاتھ ان عاشقوں کی مدد کرتا ہے جب کوئی ان کے ساتھ کر دو قریب کرتا منزل شال بز نر از صد آسمال ہیں تہاں اندر نهال اندر نساں ان کا مقام سینکڑوں آسمانوں سے بھی بلند ہے اور وہ تو مخفی در مخفی در مخفی ہیں یا فشرده در وقائے دلبری از سرش بر خاک افتاده سری نے دلبر کی وادی میں پاؤں توڑ کر بھی گئےہیں اوراس کے عشق میں پن کا سر ناک ہے اچھا ہے هان خود را سوخته بهر نگار زنده گشته بعد مرگ صد بزار اس تار کی خاطر ہوں نے اپنی جان کو جلادیا اور لاکھوں منوں کے بعد زندہ ہوتے ہیں صاحب چشم اند آنجا بے تمیز چشمہ کوران خود باشد هیچ چیز پیش ن سے بھی بند اور و اسی جگہ تو اہل نظر کو بھی تیز نہیں ہیں.آنکھ کے اندھوں کی دوہاں بھلا کیا.نے شال آں آتا ہے کا مدال چشم مردوں خیمو ہم چون شمیران ان کا چہرہ ایساسورج ہے کہ اس کی روشنی میں مردوں کی آنکھیں بھی چنگا ڈر کی طرح تیرہ ہو جاتی ہیں

Page 141

1 تو نوی نان پائے تو بیچوں میں بخلص ابن ناقص ہیں قصاص نا تو تو آپ عورت ہے اورمیری رائے بھی اورتوں جیسی ہے تو باقی تیرا باپ تھر تہران در اسب ناقص خوب گریز و نوشت است و نباه پس در خوانم نام تو اسے روسیاه اگر عین تیر سے نزدیک بعد صورت اور تخاب حال ہے تو اسے دویا تامیں تیرا کیا نام رکھوں کوریت سپرده با بر تو گند دین تعصب ہائے زینت کنند تیری ناجیانی نے تجھ پر سیٹوں پر سے ٹال رکھتے ہیں اور تیرے تعصبوں نے تیری جوڑا کھیڑ دی ہے اسے بیس محجوب آن رت جبیل پیش از کوری حقیر است و دلیل ادات و الجلال کے بہت سے محو تیری ایشیائی کی وج سے تیرے نزدیک ذلیل و سفیر ہیں اسے لینکس خوردہ صدر با معنا پیش این حشمت پر از حرص و ہوا یسے بہت لوگ ہیں جنوں نے فن کے سیکریوں جام ہے میں تری آنکھوں کو نہیں اور امی نظر آتے ہیں گر نماند سے از دیود تو نشاں ایک جوڑتے ہیں حیات ہوں گاں اگر تیری ہستی کا نام و نشان مٹ جاتا تو اس کنوں والی زندگی سے اچھا ہوتا داغ گر ناپنے کجایت پورت لینک دارد از نمرات به گوهرت گران تیری ماں اگر تیری بجائے کو جنتی تو تیری یہ گو ہر فطرت کی نسبت اچھا تھا دا کر کذب فسق و گفت در سراست این نجاست محوریت نهی بهتر است کو جو اس دور کا تیرے وار میں ہے وہ تیری سے نجاست فوری اس کی بہت زیادہ میں ہے تو لہا کی اے شقی سردی ناکه از جان جمال سرش شدی بد نتی از لی تو پلاک شدہ ہے.کیونکہ تو اُس جان جہان سے سرکش ہو گیا ہے

Page 142

اسے دور کار وشکه از شاہ دیں خلادان و چاکر تنش را بیش اسے دوہ کرہ تو دین کے بادشاہ سے انکار و تک نہیں ہے جس کے خادموں اور تو کردوں کو ہی دیکھ کسی ندیده از بندگانت نشان نیست در دست تو بیش از دانستان کسی نے بھی کوئی نشان تیرے بزرگوں سے نہیں دیکھا تیرے ہاتھ میں کہانیوں سے زیادہ اور کچھ نہیں ایک گر خواهی بیا بنگر بر ما صد نشان صدق گرخواهی صدتان صدق شان.لیکن اگر تو چاہے تو آ.ہم تھے مصطفے کی شان صداقت کے سیکریوں نشان دکھا دیں گے ہاں بیا اسے دیدہ لبسته از حسد تا شعاعش پرده تو بر دروا اسے رہا میں نے حسد کے بارے بنکھیں بن کر لی میں ہوا کہ اس کی روشنی تیر سے بھالوں کو بھانڈا سے صادقال را فور حتی تا ابد عوام کا زیاں مردند و شد تر کی تمام میچوں کیلئے تویہ حق ہمیشہ چھتا رہتا ہے جھوٹے مرگئے اور ان کی ترکی تمام ہوئی مصطفی مهر درخشان خدا است بر عدوش لعنت ارض بیماست مصطفے خدا تعالیٰ کا چمکتا ہوا آفتاب ہے اس کے نشیمن پر زمین و آسمان کی لعنت ہے.خدا ہوا پر کی لعنت این نشان لعنت آملک میں خساں اندہ اندر ظلمتے چوں بشیراں ! لسنت کا یہی تو نشان ہے کہ یہ ذلیل لوگ چمگادڑوں کی طرح اندھیرے میں پڑتے ہیں.نے دل صافی نہ غفلے راہ میں راندہ درگاہ رب العالمین ! تو ان کھول پاک ہے توان کی عقل راستہ دیکھنے والی ہے وہ رب العالمین کی درگاہ سے مردوں میں دل جمال کنی صدکن بکن مصطفی رو نه مبینی به بدین مع صلے کی یونین میں سکوں اور میں تیری نیت باکی کے نہ جانے پر ہی سلسلے کے دین کے ساری امت ہے

Page 143

کس پر تانه نور احمد آید چارہ گرا کسی نمے گیرد به تاریکی بدر جب تک احمد کا نور چارہ گر نہ ہو گات ایک کوئی اندھیرے سے باہر نہیں نکل سکتا از طفیل اوست تویہ ہوتی تاہم ہر مرسل بنام او بیلی ہرنی کا اور اسی کے طفیل سے ہے اور ہر رسول کا نام اس کے نام کی وجہ سے روشن ہے اس کتا ہے بچو خور دادش خدا کو رخش روشن شد این ظلمت سرا دانے ایسے سورج کی طرح کی ایسی کتاب بھی کی کہ اس کے روئے، ریشن سے یہ اندھیرا جان چمک اٹھا بست فرقان طیب و طاہر رنجر از نشانها می دید ہر دم تمر فرقان ایک پاک اور طیب درخت ہے اور ہر زبان میں نشانات کے پھل دیتا ہے مدنشان راستی در وے پدید نے جو دین تو بنائیش بو شنید بھائی کے سینکڑوں نشان اس میں ظاہر ہیں تیرے دین کی طرح اس کی یاد شی یہ نہیں ہے نہ آن تور چھ نہ اعجاز است آن عالی کلام تور یزدانی درد رختند تمامه ده بزرگ کتاب معجزات سے بھری ہوئی ہے اس میں خدائی تور پورا پورا چکھنا از خدائی با نموده کار را : بر دریدہ پردہ کفار را اس نے خدائی فاقتوں کے ساتھ کام کیا ہے اور کفار کے پردے پھاڑ کر دکھائے ہیں آفتاب است کن یوں آفتاب گونه کوری بیانگر شتاب کند گر وہ خود آفتاب ہے اور دوستوں کوبھی کتاب کی ملی بنادیتا ہے اگر ت ا د ا نہیں ہے تو جلدی اور دیکھو اسے موقر گریانی سوئے اواز د فارخت اگمنی در کرئے ما کتاب اگر ہماری ان کے دوران داری کے ان ہارے کو ہی ایسے ڈال دے المرا

Page 144

ر سر صدق وثبات و غم خواری روزگاری در حضور بابری و د غم بچائی استقلال اور درد دل کے ساتھ ہمارے پاس کچھ مدت تک کے عاملے بینی تو ربانی نشاں سوئے مہمان خلق و عالم پاکستان تومانی نشانوں کا ایک عام دیکھ لے گا.ہو یا جہان کو رحمان کی طرف کھینچتا ہوگا کر خلاف واقعه گفتم سخن راهیم گر تو سرم بری برین اگر میں نے خلاف واقعہ یہ بات کی ہے توہیں رہتی ہوں کہ تو میرا سرتن سے جدا کر دے سانیم گرفتن بر دارم کشند از سرکیس با صد آزادم کند میں اس پر بھی راضی ہوں کہ لوگ مجھے سولی پر ھے ھادیں دو سیکڑوں لکھ دے کر فقہ سے مجھے مار ڈالیں پرس میم گر داشتم این کیفر خوانی مدال بر خاک افتالو سے این میں راضی ہوں اگر مجھے یہ سزائے کہ خاک پر میرا خون بنا ہوا سر پڑا ہوا ها ) نیم گریان و جان و تن رود و آنچه از قسم ما بر من رود میں راضی ہوں اگر میرے جان دل اور جم نما ہوجائیں اور بھی طرح طرح کی میتیں مجھ پر انال بجبل پر گر در قم رفته باشد به زبان راضیم بر سر سزائے کا زیاں بر اگر میری زبان سے جھوٹ نکلا ہے.تو جھوٹوں کی ہر سزا پر میں خوش ہوں یک گر توزین سی وینچی سرے بر تو ہم ترین رب اکبر ، هم ریت لیکن اگر تو بھی اس بات سے انکار کرے.تو تجھ پر بھی خدا کی لعنت کی مار پڑے میں سخنها ہر کہ رو گردان بود آن نہ مرد سے رہبران مودال بود جو بھی ان باتوں سے روگردان ہے.اوہ مرد نہیں بلکہ لوگوں کا رہزن ہے الراه

Page 145

اے نگار بی خبیث نے برار نہ بنا یا حتی نمے دارند کار مار نبینا کمتر اسے ندا خبیث لوگوں کو چڑا بنیاد سے تباہ کردے جو ناختی سچائی کو چھوڑتے ہیں وں نے دارند و چشم و گوش هم باز سریال انسان بد یه انتقم نہ تو دل رکھتے ہیں نہ آنکھیں نہ کان.اس پر بھی اس بدر کامل سے سرکش ہیں دین شال بر قصه ها دارد مدار گفتگو با بر زباں دل بے قرار اُن کے دین کا مون قصوں پر مار ہے زبانوں پر تو باتیں ہیں مگر دل غیر ململتی ہیں فرق بیا است در دید و شینید خاک فرق کے کین را ندید ہیں ، دیکھنے اور سننے میں بڑا فرق ہے اس شخص پر انسویں میں نے یہ بات نہ آنکھیں دید را کن جستجو اسے ناتمام دور نہ در کار خودی میں سرد خام در ! اسے ناقص انسان معرفت کی تلاش کے در نہ تو اپنے مقصد میں خام اور ناکام رہے گا بر ساعت پول همه باشد با آن نیفزاید بو سے صدق و صفا ہوے جبکہ صرت شیند پر ساری بنیاد ہو.تو وہ تو بھر بھی صدق و صفا زیادہ نہیں کرتی مد نزارین قصه ازروئے شنید نیست کیمیاں باجرے کا بہت دیر انکھوں سمائی قصے ایک جو کے برابر نہیں ہوتے ہو چشم وہی ہو دیں یہاں باشند که نور باقی است و از شراب دید بر هم ساقی است دینی وہی ہے جس کا میر باقی رہنے والا ہو اور ہر وقت شراب معرفت کا جام پاتا ہو دل مدہ الا بجھ ہے کہ جمال دا نماید بر تو آیات کمال س مین کے علاوہ کسی کو نیند سے جو اپنے سن کی وجہ سے مجھے کمال درجہ کے نشانات دکھاتا ہے در

Page 146

تم ۱۳۴۳ کور می شود ترک کن ہے بین اسے گرا بر خیزد آن شا ہے ہیں اپنی ناریتالی کو چھوڑ اور چاند کو دیکھ اسے فقیر آٹھ اور اس بادشاہ پر نظر ڈال رو ببین و قدر بین وعدہ ہیں از محاسن یا کے خوباں صدر ہیں چہرہ دیکھو.قد دیکھ ، خود نمال دیکھ اور حسینوں والی سینکڑوں تو میاں حافظ کر یکردم از نود و در شو بهر خدا اگر نوشی تو کاسات نما تھا خدا کے لیے اپنے نفس سے بجلی کنارہ کشی کرے.تا کہ تو وصل کے جام نوش کرے دین حق شہر ندائے امجد است داخل او در امان ایزد است دین بھی تو خدائے بزرگ دیرتر کا شہر ہے جو اس میں داخل ہو گیا وہ خدا کی امان میں آگیا.دور سے در سے نیک خوش اسلوبی کند کچھ خود تو یاد جو بے کند اوہ از یک دور میں ایک او یو شخصان کر دیا ہے اور اپنی طرح کا حبیبی اور محبوب بنا دیتا ہے جانب اہل سعادت لیے بزن آشوری سونے کے بعد اے جان من لوگوں کی طرف قدم اُٹھا تا کہ اسے میری جان ایک دن تو بھی سجید ہو جائے مید سے اداکارہ کی از کود نی رو در حق زن چہ اس سے زنی شخص ہو تو ونی کی وجہ سےسخت انکاری مشقت ہے کیوں جھک مارا ہے جا اور خدا کا دروازہ کھٹی تا لہ با کن کا ے خداوند یگاں بنگلان از پائے میں بند گراں فراد کہ کر اسے خدائے لاشریک میرے پیروں کی بھاری نہ بخبریں کھول دے ا گرتان نادیہ نے درد ناک دست نیلے گرد ناگر زناک شاید اس دردناک آہ و زاری سے ایک منیبی ہاتھ تجھے زمین پر سے اٹھائے

Page 147

۱۴۵ ا ا بے عنایات خدا کار است تمام پخته داند این سخن رادر اسلام خدا کی مہربان کے سر کام باقی رہتا ہے.عقلمند ہی اس بات کو خوب سمجھتا ہے.والسلام د را بین احمدیہ حصہ چہارم حاشیه نیمه ۲ ۰ ۰ ۱۵۴۳ مطور لم همام بیان و لطفا نے جال متد است ناکہ شاہ کو ہر سال محمد است ری جان ودل محمد کے جال پر فدا ہیں.اور میری خاک آل محمد کے کو چھے پر قربان ہے ور امین قلب شده در گوش پوش در هر مکان ندائے جمال محمد است میں تے بول کی آنکھوں سے دیکھا اور فضل کے کانوں سے سنا.ہر جگہ محمد کے جال کا شہرہ ہے.سے ہر جگہ محمد این چشمه روان که بی خداد تم ایک تنظره زیر کمال محمد است مارت کا یہ دریا روان جوانی مخلوق خد کو دے رہاہوں.یہ مجھ سے مالا کے منہ میں سے ایک قطرہ ان استخر در آتش مهر محمدی است یا آپ مین آپ تلال محمد است یبری ام محمد کے عشق کی آگ کو ایک حد ہے اور میرا پانی محمد کے مصنف پانی میں سے لیا ہوتا ہے رایجاد دانش بند امرتسر مور د یکم اردی باشند و محمد الهد که این کمل الجواهر نشد از کوره صواب وسرق ظاہر شکر ہے کہ یہ جواہرات کا سرمہ کا انتی اور صدق کے پہاڑ ک اقل از مانی جان دست دارد تیم منارا کیونکہ تقلید ربات دوں سے کشمیر دنیا کو بند کر تا یان کواپنے کر است

Page 148

انتر کی ایک پوشیده چشم دل اند سہانا کریں تو تیا فاضل الله وہ لوگ جن کی دل کی آنکھ پر پڑھ پڑا ہے.یقیناً وہی ہیں جو اس سرمہ سے بے خبر ہیں.دل به چشم آر به صفحه مطبوعه شام شراره اسے دلیر و دوستان و دلدار و اسے جان جهان و گو به انحدار جان جهان گور دا اسے ودانی اسے دلیر محبوب اور دلدارہ اسے جمال کی بیان اور نوروں کے تمد ارزان ز تبعیت دل و جان میرون ریخت قلوب والمعمار..یمانی و دل تیر سے جلال سے کانپ رہے میں تقریب اور نظریں تیرے رخ کو دیکھ کر حیران میں دور فات تو مجرہ تیرے نیست هنگام نظر نصیب افکار تیری قدرت کے بارے میں حیرت ہی حیرت ہے.تور دفکر سے جب سے جب بھی دیکھا جائے در غیبی و قدرت ہویدا پنهانی و کار تو نمودار ! تو آپ غیب میں ہے مگر تیری قدرت ظاہر ہے تو شفی ہے گر تیرے کام نمایاں ہیں دوری و قریب تر ز جان هم تنوری ونمان تما از شب نامه زدور ہے گر جان سے بھی زیادہ نزدیک ہے تو تو ہے مگر اندھیری رات سے زیادہ پو شیدہ نور ال کبیست کہ منتہائے تو یافت وال کو کہ شو و محیط اسرار وہ کون ہے جس نے تیری انتہا کو پایا اور وہ کون ہے جوتیرے بھیدوں پر حاوی ہو گیا کر دی دوجہاں یہاں قدرت ہے مادہ و بے نیاز انصار تر نے مخش قدرت سے دونوں یہاں پیا ر کیے بغیر ادا کے اور بغیر رد گاروں کی امداد کے

Page 149

۱۴۵ واہیں طرفہ کہ بیچی کم نہ گردو با آنکه عطائے مثبت بسیار پھر لطف یہ ہے کہ ان نعمتوں میں کوئی کمی نہیں پڑتی.باوجود یہ تیری بنشیں ہے جدا ہیں نی تر می کند ز بر می سر تو بخود کشد ز سر یار تبر من سر تن سے بے نیاز کردیتا ہے اور تیری محبت ہر دوست کو چھڑا کہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے ہر سینتی ن نمکینت ار نہ بودے از حسن نہ بودے پہینچی آثار از نہ اگر تیرا نمکین حسن نہ ہوتا.تو دنیا میں حسن کا نام و نشان نہ ہوتا شوخی زنتو بافت روئے خوباں رنگ از تو گرفت گل به گلزار مجولیوں کے چہروں نے تجھ سے روتی پائی پھول نے چمن میں تجھ سے رنگ حاصل کیا سیمیں وقتاں کہ سیب دارند آمد یہ یہاں بلند اشجار آمد حیتوں کے پاس جو سیب جیسے رشار ہیں.یہ اتنی اونچے درختوں سے آئے ہیں اب ہر دو ازاں دیار آیند گیسوئے بنان وشک مامتار یہ دونوں بھی اسی ملک سے آتے ہیں: حسینوں کے گیسو اور تاتار کا مشک از پر نمایش مالتا بینیم همه چیز آئینه دار تیرے جمالی کی نمائش کے لئے میں ہر چیز کو آئینہ سمجھتا ہوں ہر برگ صحیفہ ہدایت سر بمہر و عرض شمع بردار ہر پتا چایت کی ایک کتاب ہے.ہر خات وصنعت تجھے کھانے کے لئے مشعیلی ہے بر نفس تو رہے نماید سر حال بد ہر سلائے این کار ہر نفس تیرا راستہ دکھاتا ہے اور ہر کمان بھی اس بات کی ہی آواز دی ہے

Page 150

۱۳۸.بروزه فشاند از تو نورے ہر قطرہ براند از تو انتصار ہر قره تیر انور پھیلاتا ہے.ہر قطرہ تیری توصیف کی تریں ہاتا ہے ہر شوز عجائب تو شورے ہرجانہ غرائب تو از کار با تیرے عجائبات کا ہر طرف شور ہے اور تیرے غرائب کا ہر جگہ ذکر ہے از یاد تو نور را به ببینم ! در حلقه عاشقان خونبار میں تیرے ذکر کی برکت سے اتوار رکھتا ہوں آہ و زاری کرنے والے عاشقوں کی جماعت میں آنکس که به بند عشقت افتاد دیگر نشنید پند اختیار و شخص ہو تیری قید محبت میں گرفتار ہو گیا.پھر اس نے دوسروں کی نصیحت نہ سنی اسے موتی ہاں چودستانی که خود بر بودیم به یکبار ے میرے موتیں جان ، تو کیسا واستاں ہے کہ دفعتاً تو نے مجھے مدہوش کر دیا انہ یاد تو این دئے یہ فر فرق دارد گرے نہال صدف وار تیری یاد میں میرا دل غم میں فرق ہو کہ صرف کی طرح ایک موتی اپنے اندر پوشیدہ رکھتا ہے.چشم و سرنا خدائے رویت جان و ولی ما بتو گرفتار میری آنکھ اور سر مجھ پر قربان ہیں اور میرے جان و دل تیری محبت میں قید عشق تو به نته جان خرید می تا دم نه زند دگر خریدار ہم نے نقد جان دے کر تیر ائلش خریدا ہے.کہ پھر اور کوئی خریدار دم نہ مار سکے غیر انہ لو کہ سرزد سے زعیم در برج دلم نماند دیار تیرے مواد کون میرے گریبات میں سے تمہار ہوتا جو میرے دل میں اور کوئی بہنے والا ہی نہیں ا

Page 151

۱۴۹ حمد بیست که ترک خویش و پویند کردیم دو سے جزانه تو دشوار نہ ایک خرگوشی کریم نے سردیوں اور استعمال سے میں نقل کیا میرے منیر کی اور گانا بھی مشکل ہے KAAY اتری چشم آکر یہ تھی - ۲۱۸۸۶ جنس نام و زنگ عرت داره دانان مقیم یاد آمیزد گر با ما به خاک آمیختیم نگ مویت کرتے اپنے دین سے پھینک دی اور ہم خاک میں ا گئے مں کہ یار ہم سے مل جائے نام اور ہم نے " سے دل بیداد غیر ارکت رجال دور ہے انتقیم اپنے وصل کرے جیل با انگیر ول اتھ سے دے یا وہ میں اس راستے ہیں یا ایک یو ایس او کے میل کے لے ہم نے طرح طرح کی تدبیری میں ملا آئینہ کمالات ! در تیم آمریه متحده و مطبوعه ۶۱۸۸۷ سے نالاں دا اکتا ہیں سرائے نام دنیا ئے دول نماند و تا ن کی عوام ے فاطمی یہ سرائے فانی کس سے خانہیں کرتی ہی دنیل دنیا کسی کے ساتھ ہمیشہ رہی نہ رہے گی می گشتیم اگر به صفحه ۱۹ مسی و له و در موارد آنجا کہ مہینے ٹیک مے ریزد بر پرده که بود از میان برخیزد جمل محبت نمک پاشی کرتی ہے.وہاں ہو بھی پردہ درمیان میں ہوتا ہے اُٹھ جاتا ہے این نین کی که صد تراش من است خاموش نشود و مشتق منشور انگیزند یہ ذلیس نفس میں کے لاکھوں منہ میں جب عشق ہوش میں آتا ہے تو خاموش ہو جاتا ہے

Page 152

ہوں نے دہی دود کے ساز عشق بارش ذکر مرینگ خویش آمیزد جب عشق کی وجہ سے کسی کی خودی کا رنگ جا تا ہتا ہے تو یار اپنی ربانی سے اس پر پنانگ چڑھا دیتا ہے.بین ولی ہے باید از.سینه می باید تنی از غیر یار دل کے باید پر از یاد نگرا یارے کے سوا ہر چیز سے سینہ خالی ہونا چاہیئے اور دل محبوب کی یاد سے بھرا رہنا چاہیئے جال ہے باید برا و گو ندا سر ہے باید بہائے او نشار أو جان موس کی ماہ میں قربان ہوتی چاہیے اور کمر اس کے قدموں میں نثار ہونا چاہیئے بیچی دانی چیست دین عاشقاں کو مت گریشنوی عشاق وار کیا تھے معلوم ہے کہ عاشقوں کا دین کیا ہوتا ہے میں تجھے بتاتا ہوں اگر تو عاشقوں کی طرح اسنے همه عالم فرو بستی نظر اور دل شستن زیر دوستدار اور وال و رویہ ہے کہ اسے جان کی بات سے پنکھ بند کیا اور دوست کے سوا ہر چیز سے دل کی تختی کو دھو ڈالتا تب خریے سے کنانہ خوب تر عشق را درمان بود شق دگر راد میں اپنے سے کم میں کو چھوڑ دیتا ہے ایک عشق کا علاج در سرامشتق ہوا کرتا ہے شیر شیر سے نماید رو به تن می توان آران به آنان کو قتین رویہ تیر ہی شیر سے زور آنا ہو سکتا ہے تو ہے کو لوہے سے ہی کوٹ سکتے

Page 153

گر فریق انور نجاست راست تی اند یہ دریائے درآر و غوطہ زمان اگر تیرا بدن نجاست سے تھوڑا ہوا ہے، تو کسی دریا پر جا اور مخلوط مار دسره میشم آریہ صفحه ۲۳۳) ہور گانے کی ایجاد در طرح قدس که مرا در وان شان دیار نظر می آید میں یہاں روح القدس کی مکامات کی نہ کر سکا ہو کہ مجھے تو ان کے دل میں ویو پٹھا ہوا نظر آتا ہے.یکی ریاست اسلام کو خورشید میاں کہ ہر عمر سجانے دگر می آید اسلام ہیں یہ امداد سورج کی طرح ظاہر ہے کہ ہر زمانہ کے لئے نیا مسیحا آتا ہے درس همه چشم آردیده تقویم بود با مشاور تیم در نظرشان مربا و ماری کوردست کیم نانی ام به واردا جب میرے دل پر میرے چاند نے محبت کی نظر ڈالی تو میرے بیاہ دل کو خالص پاندی بنا دیا تلفت میجر دلبر بردم مرا بخواند هر چند مے زند این اخبار و مارا ور کیا اگر ربانیں مجھے بارہی ہیں ہرچند کہ یہ خبر لوگ ہمارے راستہ میں رکانہ میں ٹی لھتے ہیں کوئے دولت روان ناک کو شب ورو تا دیر نشان چه باشد اقبال وجاه مارا میں تو دن رات ہے مجیب کے کوچہ ہی ناک کی طرح پڑا رہتا ہوں اس سے بڑھ کر ہمارے عورت اقبال کی اور کیا علامت ہے صفحہ

Page 154

۱۵۲ ہ سرکس شد و لات بیان دارو صادق است که ز صدق نشان دارد آریہ شخص رات دگران مارتینا ہے لیکن سچا رہی ہے جو اپنے صدق کے آثار رکھتا ہوں جو اپنے آثار ہے سرمه چشم آر یه صفحه ۵۹ نے ریم ازمردان میں قوت از دل انگیدیم که ما مردیه زمان ماند که دل از غیر کنیم تے ہیں اسے ہم نے بیت اول سے کال دیا ہے ہم تو ہی جان سے مرحلے میں ان سے ہم نے غیر سے اپنا دل بہٹالیا مروکے دان جان دوره اس دستان خود خدا کردیم اگر جانباز مانو د لصد دل آرزومندیم ہم نے اس مجوب کی را این جان دو بند کردیا.اگر وہ ہماری جان بھی مانگے تو ہم شوق سے دیں گے رشته حق صفحرم مطبوعه به همراه شیاران نادر ایران گرانه اند و به ای را خراب جب قرآنی کا بہادر شیر غرانے لگے.تو پھر ذلیل لو مرامی کا شور کوئی حقیقت نہیں رکھتا.شحته من صفحه مصور ی تو ان کا پان دوست شیر مال سین نمدی اختیار کرد اس بات کا ہے جس کے پیروان تھے لڑی ہے جو کاٹ کی طرح سورج سے دشمنی اختیار کیا ہے ؟ خور شد دستناو کیسے بدل نشانم یکسر خیال شد دیگه با از بهار کرد ان نا خوان ای گریم مشکی ملتان میں ہائی اس کا مانا اور ان کی اور کا اہم پیار کا گر کرنے

Page 155

۱۵۳ کوفتش که بور شرقی اپنی تقریر او نجات چندان بر نقش کر تنش پول شمار کرد جہ ایسی کو کو مال سے سزا دینے کے لیے اٹھانی سے اتنا کوڑا کہ اس کا بدن خیار کی طرح کر دیا انی در اس تراش در سایت ا مید می رود که موسل شکار کرد اس کے کچھ اس کے ر کھنے کی کیا ضرورت ہے وہ تو ایک صید ولیل تھا جسے روسٹی نے شکار کر لیا ر شهر می آشوری با فیلم معلوم ای باز و بست و شایان شان دست کار پنهان شده ایشان ی بوش جوان کے دل میں ہے ان کا پتا نہیں بلکہ کانوں کا ہاتھ اچھے سے ان کو شہ سے رہا ہے.شحنه من صفحه ۲۹ - ۱۶۱۸۸۷ ملنے جارستان میں زندگی سے نا وما میں رنگا ہی نہیں ے بارے میں دل کے چلوگ اسے ماہوں کی تمام اور اسے گنہ گاروں کو بخشنے والا نگین چارہ گر پناہ داستان شیر و خورما بخشا نواز طالب جدا افتادگان با جما ہیں مرانی سے اپنے اس بندے پر خشش فرما، اور ان متحدہ رہنے والوں پر نظر رحمت کر

Page 156

سی یزدگرخون مند گرخون بار در را برای این برایشان عالمی اسلام روح الامین اسب ہے کہ ہر بیدار کی آنکھے نون کے آنسورو ئے.اسلام کی پرخیان عالی اور تحط اسلمین پر این تی ما گردش آدرس جنگ سرنگیں سخت نوسی و نادان جان از کفر کی ندا کے دین پر نہایت خوشنک اور پرخط گردش مرگی کفر و شقاوت کی وجہ سے دنیا میں سخت فساد برپا ہو گیا تر است از به خوبی نصیب نے زاند میب اور ذات خبر المرسلین مبادرات نی میں کافی برای غیر خوبی سےمحروم ہے وہ بھی حضرت غیر الرسل کی ذات میں جیب بھاتا ہے در زمان ناپاکیست مجبور امیر است درشان اہم پاکبانان که بین نوان پاک کے قیدخانہ مار گرایا ہے وہ یا تو ان کے وار کی شام میں کہ بین کرتا ہے تیر ی علم سے بار دینی نے بد گر آمازامی سزد گرنگ بار در زمین ب اصل اور قبلیت انسان اس معصوم پر تیر چلاتا ہے آسمان کو مناسب ہے کہ زمین پر تھور سائے پیش پیشان شما سلام در خاک افتاد بیست من بی بی سے بھی مانتیں تمہاری آنکھوں کے سامنے اسلم خاک میں مل گیا اس سے گردو مارا تھا ان کے حضور میں کیا مند ہے رورت فراست بوشان بو وان باید دین می ماند دی میمو زین العابدین واج یزید کی اند ر رات کو ہوش میں ہے اور دین تھی زین العابدیلی کی طرح بیا د بیکس ہے رومندی مندر تی شرت نوین فرم ها نشسته با نان با زمین اسرار عیش و عشرت میں مشغول ہیں اور حسین مورتوں کے ساتھ نرم و خنداں بیٹھے ہیں از ان اس ام فراوان و یاری از ایران ناقل ما سازند و نان دین الملون وات نفسانی جوشوں کے باعث آپس میں لڑ رہے ہیں اور ترا ہے ضروریات دین سے بالکل غافل ہیں

Page 157

۱۵۵ کے ازہر تیس دن خود طرف گرفت رات میں ملی شدہ ہر رشتے جیتا میں ی نے اتے ہیں ان کی خار کی پہلی تیار کرلیا اس نے دین کا ہیل والی ہے اور ہر تھی کہیں گامی کو پیا اسے شامل چه آثار سلمانی نہیں سمت دیر میں انبر شما در جیفہ مونیا میں ا اور ایک ایسی سلامی کی علامتیں ہی دین کی بہتات ہے اور تم مروار دنیا سے چھٹے ہوتے ہو یا نگر از دل برودل کردید موبت اولیں یا تمہاری نظرمیں دینی کامل بہت مضبوط ہے ، شاید پہلو کی موت کا خیال تمہارے دل سے نکل گیا ہ در آن رییس کانون کار کنید دور نے تاکے ممیاں طیف ومر نہیں نے خاطر ہوت کا وقت قریب آگیا اس کی فکرکر جیسن اور حسین مورتوں کے ساتھ دو خراب کب تک چنتا ی خود است و یا دارای پوشاند و در بینی را بینی است انفاس پلیس اے عقلمند اپنے نفس کو دنیا کا تیدی مت بندوں بھرنے کے وقت بہت سختیاں برداشت کر لے گا اول ما ابدا کے کام کی درست تا سور دانی یا بی خیر الحسنین یابی ہے یں جو ہے سو اس کا عن المال ہے اور کسی کو دے کر ان کی خوشی ندا کے نیکی کرنے کا لاک کرنے ن خود مندی اور دیوان در پیش بود بر شارت اگر ست ہو نے آل پاریس ن وہ ایم نعمت ہے اس کی یہ کھالیا ن ہے اور وہ شخص ہوشیار ہے جو ان میں جنوب کے چہرہ کا گردیدہ ہے بہت امین کو آب نیا کا زوال سیر کو شید ست ادم کو دیو بندازین اس کے عشق کا جام یا دال آب حیات ہے میں نے اسے پی لیا وہ پھر ہر گز نہیں مرے کا سے برا یا منہ دیوار بنائے دوں تیر خوزی است در ہر قطرہ اس المیں اے بھائی اس دلیل دنیا کی دولت سے دل مانگا اس شہد کے ہر قطرہ میں زہر ملائل پھول ہوں.+

Page 158

ناتوانی جنگ از ترین جان ومال اذرب العش بالی نعمت صد آفری جہاں ملک تجھ سے ہو سکتا ہو جان ومال کے کتا ہو جانی دال کے ساتھ دیں کے لیے کوشش کرتاکہ خداوند بارش کی طرف تھے شنود کی نعمت می حامل یان نایت کن کی مے کد رایان نیست اول مدادی یو نے پا را کنت این گوین ا نہ کرو وتر ساینا میں ہے اپنے عمل سے ثابت کرجب تو نے پوست کودل دریا از کسان کارشتہ بھی اختیارک باد یا میک ایں دیں ربع سرکش بود عالمی اوار رانده اند و د یوه مین داینامیکی مسیج ای او بی بی بی دی اس ال ایات نہیں کر بیل تربیت از نور علم پایان خود میزد ز تو جا در چین برین باه چرخ کی وجہ سے اس نے نین میں بی تربیت کا سایہ پھیلا کھا تھا اور وہ جان کی وجہ سے آسمان پر اس کا قدم تھا ان منانے پہنتا آنکه براین المحول از نقابت می کن که به این بی نتین اب ایسا زمانہ آگیا ہے کہ ہر امتی ہے وقوفی سے اس دین متین کی تکذیب کرتا ہے تران جہاں نہیں برا برده است در باران برای کشتند ید الماکرین بالانوین بین لاکھوں بیوقون دین سے باہر نکل گئے.اور لاکھیل جاہل مکاروں کا شکار بن گئے م بانی برادربار میں رہ اوفتاد کرنے میں بہت شکل نمیت بغیر ت ہیں مسلمانوں پر ساری ذات میں چھے سے پڑی کہ دین کے مال میں ان کی بہت نے ان کی غیرت کا ساتھ نہیں دیا گرگ و عالمی از راه دین مصطفے اندر غیرت نے چند ہم مثل نہیں و اگر ایک جھان ملنے کے دین کی راہ سے پھر جائے تو جتنی بھی بھی وہ غیرت سے حرکت نہیں کرتے ایاں فرق ہر مورد دنیائے ہوں ملائیں امت ادریا و سوان نہیں فریح ہوتا رہتا ہے.

Page 159

184 کو ملے فنی ستایشان ستان سیکا است از ساسی ملت ایشان نگین خابات آشنا یگانه از کر تے بی سی نفرت از ربات میں ایسے پرستان اذکر بوٹی کرتا نہیں شراب کے ربیانگر بہایت سے بے گا نہ ارباب دین سے نفرت اور شہر یجروں سے صحبت ہے گوایا اس کا اعلام داشت اون میداند با این قوم صدق الامین و نے ان سے بھی لیاہواہے سو سکتا ہے اس کام کے لایا ہوں اور تیاری کے ازمان دولت و بالا خیال درگذشت خود را اعمل شمال اور ایک سے نہیں ان کے دوست و جمال کا زمانہ تو گزر گیا.اب ان کے عمال کی نحوست ایسے دن سے آئی رین پری آماری امت از وی آید باید عمر دین و پایین پہلے جو ترقی ہوئی تھی ودین پروری کے اس سے ہوئی تھی پھر بھی جب ہوگی یعنی اس راہ سے ہو گئی الی با کی ایران و ایت دان کے ایم این روند دیامر میں بار آیہ تو وقتی اسے خدا پھر کب تیری طرف سے مدد کا وقت آئے گا اور ہم پھر وہ مبارک دان اور سال کی تھیں گے.این دو ورودی اهم متر جان باگذاشت شریت اعدائے ملت تلقت انصار دیں رین حد کے متعلق ان دو فکروں نے میری جان کے ستر گنگا و با دعوائے ملت کی کثرت اور نصاب دین کی قلت از در آور را آن نصر با بسیار یا رابه ر یارب زین بنام آتشین ا اور یہ ہی اپنی امت کی بارش ہیں اور نہ اسے میرے اب اس آستیں میر سے مجھ کو اٹھائے ابند اور بری از مشرق رحمت بردار گران ایم کی رکن من کہتے ہیں رفتن اسے خدا رحمت کے مطلع سے ہدایت کاند طلوع کریو چکتے ہوئے نشان و کھلا کر گمراہوں کی انکھیں نکال کر مزاحمت

Page 160

۱۵۸ ال مرانی مقامین ا نگلتا لیست ایم کا کام میرانی ویدین جب تو نے مجھے ہی سو نگو انہیں صدق بخت ہے مجھے یہ امید ہیں کہ اس مال میں مجھے ان کی رو نگار ارد با یادتان هرگز نماند تا تمام سلا قال درست تر باشد های آستین بچوں کا کاروبار ہرگز مکمل نہیں رہتا.صادقوں کی آستین میں خدا کا ہاتھ خفی ہوتا ہے رتی اسلام میدان تا یه خورده و ما را شان احمد که اند و خداوند کریمی آنتی از خود باشد که میان نماییم د کی شان کو سوائے خداوندکریم کے کان جان سکتا ہے درانی خود سے میں حرج الگ ہوگیا کہ ہم یہ سن کرگیا ام شده و دلبر کا کمال اتحاد پیکر اور شد سراسر صورت دسته مهم ا تو میں اس طرح ہو گیا کہ کمال احاد کی سے ہی کی صورت با کی بی بی کی صورت بن گئی ہوئے جو بیتی میں مالک نے پاک ذات تنانی مندات معلوات تقدیم محجوب حقیقی کی خوشبو اس کے چہرہ سے آرہی ہے اس کی حقانی ذات خدائے قدیم کی ذات کی منظر ہے کرنٹ کا کیس کے اٹھا دور شلال چاٹ اس نے اینہ کروائے عظیم مت این دار برای بال موندگاری بالا می ماندن نمای نیم با رہے ہیں نا ا ا ا ا ا تر رات کی ام عنایات خدا و از مفصل آن دیوار پاک ی خواہش کی وجہ سے منکر ہوں دکھ خریدتا ہواں خدا کی رانی اور اس ذات اقدس کے فضل کرم سے میں بھی کسی کی محبت کی خاطر فروری میوں کا ہونا ہوں

Page 161

نی مل کرش ان موقت خامش کر بین شیں کھتے گرے لیے دین را ہے کلیم کا ر ا ا ا ا ا ا اور ان کی ظاہری میں اس کا رد کر تا گران را میں کرانی کو نفرت ما و انا در رو عشق محمد این سرو با غم رود این نارین دعا این در دلم خودم میمیرم ر کے عشق میں میرا سر اور میری جان قربان ہو یہی میری خواتی.میری دعا اور میرا دلی ارادہ ہے ر تو شیح مرام صفحه ۲۳ مطبوعه ۱۳۹۴ مهر آن نودان بر در شیبان است وخیتی با زود تر برندها کار آورد عقلمند نہیں ہو نائیک بائی نفس کے باعث فردا حق کا انکار کر دیتا ہے ميرها بمطالب من ارتمان در میان چنان اهمیت دارد یا بار آورد طالب کی کو یہ چا ہیے کر دیا میں ہری ہر بھی تھی خاصیت رکھتا ہے اسی کے مطابق پھل لاتا ہے ند کے نور راست باید اینجا مرورا تا صداقت نوشتن را خود اظهار بود انسان کو کچھ نور فراست بھی چاہیئے تا کہ صداقت اپنے تئیں خود ظاہر کر دے صد گاں راصد نہاتی نے انہاں اور یہاں چنین سرد نوار آمد بر ک از دست خور دوست کا سار نیسان بر زنان رویش سوریه و اصل یاد آورد دہ شخص میں نے کسی کے ہاتھ سے شراب میں کے پیالے پیسے ہوں اس کا منہ ہر وقت اس یار کے وصل کا سرور ظاہر کرتا رہتا ہے راستانها و باهم حصد اول متقوم مطبوعہ (۶۱۸۹

Page 162

14- زعشاق فرمان و پیغمبریم بدین آمدیم و بدین بگذریم ہم قرآن اور آنحضرت کے عاشقوں میں سے ہیں ہی پر ہم آتے ہیں اور اسی حالت میں گذر جا نہیں تھے ر از زار او باهم حصہ اول صفحه ۱۳۷ دایی انیک ارمی و روانش می رود ولی من اگرم ندارند بارد یم میسج اور اس کے نزول کا ذکر ہو وہاں میں یہی کہتا ہوں اگر چہ لوگ یقین نہ کریں کا در علم ومی تعداد نی کردگار کان برگردیده را نه به صدق نظرم کہ خداوز کردگار نے مجھے الہام کیا ہے کہ میں اس برگزیدہ کا سچا منظر ہوں مولودهم و کلیه ما شور آمدم حین است گردید به بین ید منتظرم میں موجود ہوں اور میرا یہ حدیثوں کے مطابق سے انہیں ہے اگر آنکھیں کھول کر مجھے نہ چکھیں ہے ار کرده است ملو فرق بین است و انسان که ما است در اخبار مرورم یر رنگ گندمی ہے اور بالوں میں تایا فرق ہے جیسا کہ میرے آقا کی روایت میں اردو نے ین تقدیم درمانی شکوک سمت والبتہ اس میتد جدا کند رزمی ائے احمرم میرے آنے میں شک وشبہ کی گھاہیں نہیں میرا آتا ھے سرخ رنگ والے مسیح سے علیدہ کر رہا ہے از که مشاره شرقی معجب مدار چون خودز مشرق است تجلی نیز مرا مشرقی مشارہ والی بات سے تجب نہ کر.جبکہ میرے سورج کا طلوع مشرق سے ہی ہے اینک کو جب بشارات آمدم، دری، لیلی کجاست تا هند با به هنرم میں ہی ہوں جو بہارات کے مطابق آیا ہوں عیسی کہاں ہے جو میرے منبر پر قدم رکھنے

Page 163

آن که پر حمت نمایش ان راکہ حق پر ہی خداش مدام داد چون بر خلات معده بین دوره از ارم جسے خدا نے جنت الخلا میں جگردی دوم اسے اپنے وعدہ کے برخلاف فرد اس میں سے کیوں نکالے پول کافراد شہر پر تشد مسیح مانیتوری ضد البرش کرد همسرم خدا جو کہ کافر ہے فائدہ میچ کی پرستش کرتا ہے اس لیے قدر کی غیرت نے مجھے اس کا سر تا دیا در یک نتی کانپ ارتان ز خور کی ناز و کشف شود این راز منی جا.اور قرآن کی طرف نظر غور کر تا کہ میرا پوشیدہ راز مجمع پر کھل.لیب از یارب کجاست مورم از مکاشفات اور باطنش خبر آرد به مجرم اے میرے رب بہ کا قات کا ر نہ جانے والا کہاں ہے.تا کہ اس کا تور بالن انحصر ہے شہر لاتے ن بار در مورد گیتی بیجار دیم بعداز بیزارد سه کیت کند در حرم اس تینہ نے پودھویں صدی میں اپنا منہ دکھایا.حرم سے بہت نکالنے کے تیرہ سو سال بید پوشید آنچنان کریم منبع فیوض کا لو ندائے یار زہر کو ئے دسمبرم.اسے محترم بویت های صبور باش تا خود دانیال کند آن تو را انتوم الے مرض خدا کا خون کرد را صبر کرو تاکہ خدا خود میرے مادے کی روشنی کو ظاہر کر دے است نخوانده که مان نمو کنید چون روی برون بعد ودش برادرم کیا تو تے نہیں پڑھا کر نیک نیتی سے کام لو میں اے بھائی تو اس کی حدوں سے باہر کیوں جاتا ہے.بر من چراستی و چنین خیر زیبا از خود نیم از نادیه فو الجد اکرم اے دو نیم از مجھ پر جو اس طرح نہ ان کی چھری کیوں چلاتا ہے میں خود نہیں آیا بلک خداتعالے نےمجھے بھوجا له أنت قلت الناس الخ

Page 164

۲۶۲ مودم و سراچه در این کار اختیار معمایی سخن میگی بهداد نه امر مرد رو میں تو مامور ہوں مجھے اس کام میں کیا اختیار ہے یا یہ بات میرے بھیجنے آمرم کے انکر سوئے من بدیدی بعد تر از بانیان تیرس که من شناخ مرم ے اور میری طرف کیوں کہ اے لے کر دیا ہے بانجان سے ڈر کیونکرمیں ایک پھلدار شاخ ہوں حکم است اسمال دیں میر سانشو بشنوم و یکیش آن را کجا برم امل کا کرمیں نہیں کہ بناتا ہوں.اگر اسے سنوں اور لوگوں کو سنوں تو اسے کہاں لے جاویں ے قومی من بگفته من شندل باش ناقل چنین محجوش بین تا باکترم اے میری قوم میری ناول سے آزاده و شری بی بی بو نہ دکھا کر آخر تک میراحال دیکھ ان خود گریم اینکه طرح خدا ملی است می یافت ست خون بدن نقش دارم نگنا نے برت مکرم رقوم خویش یا رب بنا تے کہ دین کا موام یانی قوم کے بہت پیست ای ی ی ی ی ی و سیاسی و روانی راہ میں پریشانی سے ہے اور ہے اس کے چمدان است نگرش و نور دل کی زبان شمال که نزدیک دم ان کی بات یہیں کان اور دل کی دوستی سوائے ایک نہ ان کے جس کی ایک دوسم بھی قیمت نہیں گفتم مرفوع عبادت شمرده اند و چشمه شال عید نماز بر مزدورم ای ہوں نے مجھے میں کہنا جہادت سمجھ رکھا ہے.ان کی نظروں میں میں ہر کتاب سے زیادہ پلید ہوں لے دل آویز خاطر بیان نگاه دار کا فر کنند دعوی محبت پیمبرم تاہم اسے دل تو ان لوگوں کا لحاظ رکہ کیونکہ اس میرے پیغمبر کی محبت کا دھواسے کرتے ہیں

Page 165

۱۹۴ تکریم پیام سروش والے حتی از من خطا میں کو خط در تو گرم اسے وہ بورفرشتہ کے پیام اور خدا کی آوانہ کا شکر ہے.غلطی مجھ میں نہیں بلک تھے میں ہے جام گداخت از ظهر امانت اے این این طرف تر ک من بی گمان تو کافرم ے یہی میری جان تیرے ایران کے غم میں گھل میر ات یہ ہے کہ تیرے خیال میں نہیں کافر میں خوابی که رشت شود و حال مسبق ما رو تندی خواه از ان ذات و الكرم می با خواه ازان گر تو چاہتاہے کہ باری بھائی کی حقیقت جو پریشان ہو جائے تو اسی ایران ذات سے دل کی روشستی بانک گوش داره جات تکفیر کس کجاست سری بہت جانتہائے عنایات دارم مر جاتا داریم دلم یرانیاں کسی کو کاربنانے کی میت کی ے ہیں تو اپنے جوب کی شانتیوں کے جام سے سرشار ہوں ر من شمتان خبرے ہوں شود مرا کاندر خیال دست پنجاب خوش ایریم دشمنوں کے طعن کا مجھ پر کیا اثر ہوسکتا ہے.میں تو دوست کے تصور میں درست ہوں من مینو موجی فضل نے که با من است انجام دوست بھی تنفسی روح پر دودم میں تو اس خدا کی دی کے سارے پیتا ہوں میرے ساتھ ے اس کا اسلام میرے لیے دنیا میں اس کی طرح وحی این نخست دی ام مدارات با نوایش دیگر خبر پرس این تیره کشوریم میں نے تواپنے دوست کے گرمی ڈیر ڈال دیا ہے میں تو اس اندھیر سے جہان کے متعلق مجھ سے کچھ نہ پوچھ مقشقش بنائی بود دل من دور شد است ترش است در رو دیں میرا نورم.ی شیریں وصل ہوگیا ہے اور اس کی محبت را میدین میں میرے لیے کہتا تھا سو ہو ہی گئی ہے با محبت می و گوناش گرشد سے بیان ان کے ہاں فی الف سے بریلی معدوم اگرمیری اوراس کی جس کا انتظام ہو جاتا.تربیت سی خلقت میرے دروازہ پر اپنی جانیں قربان کر دیتی

Page 166

انائے روز گار مانند از من من دور خود نفت و چشمان شیر دنیام رنگ میرے بھید کو نہیں جانتے ہی نے اپنے نور کو چھ گاڑھوں کی سکھوں سے چھپارکھا باز هم سر آن پسند داسی نیست و سمت آن در نظرش پیچ محترم قیمت آنکه ری یا چور را راه بی پسند کی دیکھی نہیں شخصی و قسمت ہے کراچی کو موت دیتا ہے.میری راہ چھوڑ کر بیوی برق می خوریم یا به حال دوست بروم نہیں یار علی رغم منکریم ہم تو بر گرای دوست سیل کو چاہتے ہیں ہمیں روم اپنے سر کے خلاف پن یار کا کام سمیت مول یو ید بهشت بر دل پرسوز من وزد با صدقت لطیف در دو و محمر م ) جنت کی وہی میرے موزول چینی ی ی ی ی ی ی ی یک دارای یک روی تم کیا یا ان میں پیارا ہے بی سے حاصلان رسانم زیان به من من هر زمان از نافوره یادش معطر من حاسل کی جدید مجھے نقصان نہیں پہنچاسکتی کیونکہ میں برات یاد خدا کے ناف سے محور رہا ہوں کام نہ قرب یا جائے سید است کا نجاز قم و دانش اعتیاد بر تروم و یار کے قرب کی وجہ سے میرا مال میں متک پہنچ گیا ہے کہمیں غیروں کی کل قسم سے بہت بالاتر ہو گیا تھا یم زلف یار برات خرید است از فضل آن عیب بهشت سالوم یرانی یا یکی رانی سے جنت میں نقل ہوگیا ہے اس دوست کی حمایت میرے ہاتھ میں جام ہوا ہے بوش بیانیش که بوقت دعا بود نال گونه ای نشنیده است مادرم.اس کی قبولیت کا ہوش جو میری دعا کے وقت ظاہر ہوتا ہے آپی گریہ وزاری میری ماں نے بھی نہیں ملی سرسوی و ربات شرخ آن یار بگرم دیگرے کا ست که آید باورم.میں رات اور پر اب اس بار کا چہروہ کہتا ہوں.پھر اور کون ہے جومیرے خیال میں آئے

Page 167

حسرت میں گرد به میزان ما امید وقتی به بینیم که این خاک گندم انسیس مریدوں نے مجھے پہچانا یہ مجھے اس وقت جائیں گے جب میں اس دنیا سے گزر جاؤں گا نون شد استان می خور شان این است آن که مربو هم دین سرم ران در یکی دو معمول نہ کیا ہے کیا اب میری یہ یہ ہے کہ کام میں میرا اک ترین ہوجات ری را راه می آید نه ورد قومی ادب نجات خوشی ایک روز از شرم مجھے اس شور شر کے زمار تیار تیم مردان کسی نشان میشود کامرونه تر شد است ازین در این ترمی است کے ان سے ان کی پستی دھو ڈال کے اس قسم کے بارے آج میں بستر دریاب جا کہ آب نه بر تو دهیم احباب جو که جز تو نان است دیگرم ا میری مارکر کی کر کریں نے تیرے لیے تو ہانے میں میری فرمائش کی کثیر ہے سو اسے کوئی نہیں رہا تاریکی عموم باخر نے رسد این شب گر تمام شود روز محترم موں کی تاب کی ختم ہونے میں نہیں آتی.یہ اندھیری رات تو شاید مشتر یک لمبی چلی جائے ابھی مان شد ستاد ایران استان یا همان کسی که گرفتند چنبر من ان بعد ان قوم کے تم سے میلوں بچے پڑھتے ہی ان ہو گیا.نیز گمراہ عالموں کی وجہ سے ہوں میں گرانش که کسی ولی میدان سے ہر ظالم وفقیہ شد ہے تجھے چاکرم ک مالامال کیا ا ا ا ا ا ن ہوتی نہ ہوا اور یہ میرے آنے والوں کی طرح ہوتا بیرینگ سے کش اثر این نظم میر ہے سو یں کہاں بی کلام مواترم میری یہ باتیں تھر یک پرہاتھ کرتی ہیں گر سے لوگ میرے کپتاثیر کلام سے بے نیب میں یہ

Page 168

IYY کے ساتھ ساتھ چلتا ر آن بود که دوره درست فیق است این طر تیرہ شہرے نے قوم ود ہے کہ رات کا ہے کیا اور میں ایک ایک کر بھی نہیں وریا مود قوم من نشد در مقام من وانه ی گربه یاد کند وقت تو شرم.ج کے دن میری تم میرا ور نہیں بھاتی لیکن ایک دن آیا کہ وہ رورو کر میرے مالک وقت کو یاد کرے گا سے قوم من بی تو اوی بیب دار نادرست خود به عمر و سر و گسترم میری وی یک ایران نظر کہ اک میں ہے اور ان کی نگا میں میری امام جودی کے ساتھ پیاروں گر یونان میں توقدوم بود پہ اک چول خاک نے کہ ان و خاشاک کنم سے ایک میری بد خاک کیا بھی ہوں کیا مضائقہ ہے خاک ترکی میں کوڑے کرکٹ سے بھی زیادہ غیر ہوں است فیل و در توان دار مین در منه آوی مدت است به گوهر ما میاں امت والا ہے کہ دوائی کی ہے من می تو ایک کپڑا اور کوئی نہیں ہوں کہ موتی تز گونه دست دو طراز غیر خورشید کوئی کیسے خود دگر در تصورم ی ہونے میں بم سے ان کوغیر کی رات مینی دیگویا اس کے سوال کوئی بھی میرے خواب خیال میں دانتھا بعد العقد الجنق محمد محترم اگر کفر این بود بخدا اسخت کافرم س کے بعد میں محمد کے عشق میں سرشار ہوں.اگر یہی کفر ہے تو بعد میں سخت کافر ہوں ستار و پود من بسراید مشتق او از خود نی و از عمر آن والسنان برویم میرے رنگ ریت میں اس کا تو رہ گیا ہ ہی اپنی خواہشات سے خالی اور اس معوق کے علم سے پر ہوں من در حریم قدس چراغ صداقت و نقش محافظ است نه بر باد در رست میں جی او سس میں صداقت کا چراغ ہوں.اسی کا ہاتھ ہر تیز ہوا سے میری حفاظت کرنے والا ہے

Page 169

144 بردم ملک شادت صدقم ہے دہر نزین گشت متشکرم اسان ہروقت میری پانی کی گوری دیتا ہے پھر مجھے اس بات کا کیا غم کہ اہل زمیں مجھے نہیں مانتے داشته و کشتی تو تم نہ کردگار ہے دولت که دور بماند دلگرم نی میں اپنے پروردگارکی خوف نوح کی کشی کی مادہ ہوں قیمت ہے دو ایسے ان سے دو راستے یں آنے کو این آخرزمان نوشت از بی چاره اش بخدا شهر کو شرم پرنگ میں نے اس آخری زاد کا درس ملادیا ہے.خدا کی قسم میں اس کے علاج کے لیے نہر کوڑے ہوں.من یتیم رسول دیا اورده ام کتاب ابان مهم استمر و مداد می گندم میں ہوئی نہیں ہوں نہ کتاب نہیں لایا ہوں.ہاں علم ہوں اور خدا کی طرف سے ڈھانے والا سول یاب برای نظری کن بلطف وفضل یه دست دوست تو در لیست میاوردم کن ے میرے میری گری داری کو کچھ کریات کو کی ایک نظر کو تیری جیت کے بلھے کے سر اور کون میرامایا ہے جانم فدا شود بره دین مصطفی این است کا مسول اگر آمد میر حسین است میری جان مصطفے کے دین کی ماہ میں خدا ہو یہی میرے دل کا مدعا ہے کاش میسر آجائے ران از او اهم حصہ اول صفحه ۱۷۵ تا ۱۷۸ مطبوعه ۶۸۹۱ اسے خدا جافر یہ اسرارت تھا میاں سامے دہی قصر و نیکا تھا میری جان تیرے بھیدوں پر قربان کہ تو آن پڑھوں کو نم اور میں رس بخشتا ہے.در جهانت همچو من امتی کجاست در جهات امر انشود ماست تیری اس دنیا میں میرے جیسا اُمتی کہاں ہے میرا تو نشود نا ہی جماعتوں کے درمیان ہوا ہے

Page 170

INA کر کے بودم مرا کر دی بشر من معجب تر از مجھے بے پیر میں ایک حقیر کیڑا تھا تو نے مجھے بشر بنا دیا میں تو بے باپ مسیح سے بھی زیادہ عجیب ہوں رات الہ اور اہم حصہ اول صفحہ ہے یا مطبوعہ 91 در آن این مریم خدائی نبود از موت و نه فوتش ربانی نبود اس.ام ابن مریم میں خدائی نہ تھی.کیونکہ موت و قوت سے اُسے روئی حاصل اچھی ریا کرد خود سازی شرک و دوئی اور ہم کن چنین این مریم تونی مریم اس نے اپنے میں شرک اور تئی سے آزادکر لیاتھا توبھی ایسا کر این مریم تو بھی بھی جائے اھلا راندا له نور ماهم حصه و وهم است احتمال دارد و می داد را می تواند شد یا می توان شد بیود ایک ہاتھ اپنے بعد میں روض الف باتیں مخفی رکھتی ہے اس کا فرد بیچ بھی بن سکتا ہے اور یہودی تھی مسیح اور بھی وشیاں لینا کی بجائے تنگ زمو دیگر جائے اغیار دارد نمود : ایک گروہ تو یہ نفرت انسانوں کے لیے بھی جانئے تنگ وجار ہے اور دو سرا گردہ اختیار کا جانشین ہے 1644 حمد شد از کردا و بے جگوں ورکن در الهه لان ممنون خداتعالی کی رو سے یہ عمر ہو چکا ہے لیتی ہوئے انہیں نہیں آیا کرتے توریت انتم لا یہ جموں پر غور کر

Page 171

เฟริ سخت شورے اوفتا اندر ہی رحم کن بر خلق سے جان آفریں دنیا میں سخت شور پڑ گیا ہے.اسے پیدا کرنے والے خدا اپنی مخلوقات پر حیم فر ا الہ اور اہم حصته و روی صفحه ۵ ہے عزیزاں بے خواصل متن کیا ہے مست ا قطر را ید که تا گوهر شود پیدا اور بھائی کے کوئی رہ نہیں نکل سکتی.مصفا قطرہ چاہیے تا کہ موتی پیدا ہو ایا whee ر از انواع ام مشهد و م م صفحه با ے شداد میں پہنائے جہاں مادخال را ن کا زباں پر ہیں اسے جہاں کو ہدایت دینے والے الگ بچوں کو جھوٹوں کی گرفت سے رہائی بخش انتش افتاد در جہاں پر فساد الغیاث اے میت عالمیاں فساد کی وجہ سے دنیا میں زنگ لگ گئی.اسے اہل جہانی کے زیاد رس اعداد کو پہنچ آسمانی فیصلہ صفحه امطہوالہ (همان سے قدرے مالک ارض و سما اسے پنا ہ خوب خود در سریا ے خدا.اسے زمین و آسمان کے مالک اسے ہر مصیبت میں رنبی ساعت کی پشت دیناہ اسے ریجیم و دستگیر و رہنما ایکه در دست تو فضل است و قضا اے رحیم و شنگیر اور اچھا اسے وہ کہ تیرے ہاتھ میں فیصلہ اور حکم ہے

Page 172

سخت شورے اوفا و اندر تین رحم کن بر خلق اسے جال آفرین : زمین میں سخت شود رہا ہے اسے جان آفریں اپنی مخلوقات پر رقم اگر مر فصل از جناب خود نما انا شود قطع مزارع و فتنه باد اپنی درگاہ سے کوئی فیصلہ کرنے والی بات ظاہر کر.تاکہ جھگڑے اور فساد بند ہو جا نہیں ار ر آسمانی فیصلہ صفحہ د) مد البند ها خوشنود نیست بیچی ہوا نے چو او مرده و نیست خدا بندہ سے خوش نہیں ہے تو اس جیسا کوئی جوان بھی تمہیں کر سنگ نفس دتی را پروریم از سگان کوچه را ہم کمتریم را اگر ہم اپنے ذلیل نفس کو پانے میں لگے ہیں تو ہم گلیوں کے کتوں سے بھی بہتر نہیں اسے خدا سے طالباں رسالہ ہنما ایک مر تو حیات روح ما اسے خدا.اسے طالبوں کے رہنما اسے دو کہ تیری محبت ہماری مروج کی زندگی بر رضا کے خویش کن انجامیم ما تا بر آید در دو عالم کامیم ما تو ہمارا خاتمہ اپنی رضا پر کر کہ دونوں جہان میں ہماری مراد پوری ہو تعلق و عالم جمله در شور و شراند طالبانت در مقام دیگر اند امام دنیا اور اس کے لوگ سب شوید شر میں مصروف میں اگر تیر سے طالب اور ہی مقام پر ہیں اگر طالب اس کیسے اندر سے بجتی یہ دل وال دگر رامے گزاری پا بینگن ان میں سے ایک کے دل کو تو نور بخشتا ہے اور دوسرے کو کیچڑ میں پھنسا ہو ا چھوڑ دیتا ہے

Page 173

چشم شهر گوش و دل زار گیرد نیا ذات تو سر چشمہ فیض دریا اکھ کان اندول تجھ سے ہی روشنی حاصل کرتے ہیں.تیری ذات ہدایت اور نین کا سکرانہ ر آسمانی فیصلہ صفحه ۱۳۸ نها به کرمان در رو او نشانم جمال را نقصان اگر مین تمام ایسی بہتر ہے کہ میں اس کی راہ میں جان قربان کردوں.اگر میں نہ رہوں تو دنیا کا کیا نقصان ہے.ر آسمانی فیصد صفحه ما مطبوعه ۲۱۸۹۱) این ست نشان آسمانی منش بنما اگر توانی : اس کتاب کا نام ایشان آسمانی ہے اگر ہو سکتا ہے تو اس کی نظیر یا صوفی خویش را مدل آر لیا تو به کمن و بدگمانی تو اپنے صوفی کو باہر نکال یا اپھر بد گمانی سے توبہ کر ر نشانی آسمانی سرویان مطبور (۶۱۸۹۲) سے ے تحت اسیر بد گمانی سے بستہ کمر بہ بد زبانی مستعد بدگمانی میں مبتلا انسان اللہ اسے بد زبانی یا کہ سورھم کہ جہاں شوہی مسلمان ہیں طرف کہ کافرم بخوانی ین و ای تم سے مل رہا ہوں کہ کس اریا اسلام پر اور معیارات دیے کی بات مجھے ہی کار کہتا ہے رنشان آسمانی صفحه ۴۳۸

Page 174

۱۷۲ اگر تو داوری کال نباشد و تماش بی خدا خود را در نماید به کار حقیقت را اگر آدمی خود ہی تلاش تھی میں سست نہ ہو تو خدا آپ طالب فی کو راستہ دکھا دیتا ہے.انشان آسمانی صفحه ۱۳۴ قیمت خالق که مراد لیا است بست نیمال ریاست برائے خلق پہل خدا کی مجمت جو اولیاء اللہ کا تحریر ہے وہ خلقت کی لعنت کے پیچھے مخفی ہوا کرتی ہے.رنشان آسمانی صفحه ۳۸) نوش بڑے اگر مکانات فردیں ہے ہمیں اودے اگر سول اور انہیں پڑے کیا اچھا ہوتا اگر امت میں سے ہر ایک نور دین ہوتا.نہیں ہوتا اگر مہر دل نوریقین سے بھرا ہوتا رنشان آسمانی صفحه روسی) وشید اس جوانان نادی وقت شود پیدا بهار در وفق المدره من دوست شود پیدا سے جوانو ب کوشش کرو کہ دین میں قوت پیدا ہی احمد طیب اسلام کے بارے میں بہار اور ہر وقت آتے اگر ایراں کنوں پر تربیت اسلام رقم آرید اصحاب بھی نو د خدا نسبت شود پیدا و او را با ما امام کی ریت پر رک کر تو خدا کے بات میں امارت کے بہ سے مناسیت پیدا ہو جائے تفاق انتقالات ناشناسان از میان خیر و حال اتفاق وقت الالات شود پیدا به ال لوگو کا آپس کا اختلاوت اور اتفاق دو ر ہو جائے اور کمال دوربیعہ کا اتفاقی دوستی اور محبت پیدا ہو جائے

Page 175

14 حیدان نے کوشش که از دگا در بیانی از بین تهران وین می نصرت شود پیدا ش کے لیے حرکت میں آور کہ خدا کی درگاہ سے مند کارسان اسلام کے لیے فور نصرت ظاہر ہوگی اگر مرد و فکر موت میں در نما جو شد شمارا نیز ه اند ثبت بیروت شهیدا تکبیروت درد بد شد ای این کی موت کا یا تمہارے ما ہیں جو اسے ادا کی تم خود ہمارے لیے بھی دو مرتبہ پیا ہو جائے اگر دست عطا در نصرت اسلامی کشانید هم از بر شماها گر ین قدرت شوهر پیدا ا ت کا ا ا ا ا ا اپنے لیے بھی خدائی قدرت کا ہاتھ نمودار ہو جائے ز بال بال در ایش کے نفس نے گردو خدا خود می شود ناصر اگر میت شود پیدا س کی انہیں اتار کرنے کوئی علم نہیں ہو جا کر اگر ہمت پیدا ہوجائے نو دا خو دی نگار ہی جاتا ہے ور دور گر و در کار میں کوشید سے بالوں کے آخر ساعت حلت بعد حسرت شود پیدا ے میں اپنی مر کے دوران دین کے کم میں گزار کر اتر کر مرنےکی گھڑی بیٹوں حسرتیں لے کر آجائے گی.اید دیں سما گردان امید تو روا گردد از سد و میدی دی اس المرحمت شود پیدا دین کی امیدی کرنا کہ تیری میری پسی ہوا کیا نا امیدیوں یا دو نام کے بعد رحمت پیا ہو جائیں در انصاری بنگر که چون شد از نادانی که از تائید دین سرشمیه دولت شود پیدا جو از میان دودل تان متن از دست تو آید بلکت جاودال یابی گرایش شهریت شود پیدا نے ی کوشش کر کہ تیر ے میں کوئی خدمت اسلام جہائے گریہ شریت پیدا ہوجائے تو ورقات دوام حاصل کرنے وا بیت این ابر نصرت را جدی اخی اور نہ قضا نے آسمانست میں ہر حالت شود پیدا ای مفت میں چھے نصرت کا یہ جیل سے رہے ہیں ورنہ یہ تو آسمانی فیصلہ ہے وہ ضرور ہو کر ر ہے گا

Page 176

KN ہیے تمیم کہ امار تقریر و پاک سے خواہ کہ باز اس وقت اسلا مومی شرکت شوی اس اسلام ی و یکی یار اول که دارد یا خدا کا شاہ ہے اسلام کو قوت دورود شرکت پر پورا ہوجائے یا د کورکن رک و نا مردی است ہائے دو گواں گر گئے آفت شود پیدا ندان کی سینکڑوں مہمانوں اس شخص پر کر دین کا مدار ہے اگربھی آفت آئے تواس کی معیت و یاری انی ملا اور اسے خدائے قادر مطلق کرد در سرکار وبارد حال او جنت شود پیدا قادر مطلق اسے ایسا خوش رکھ کہ اس کی حالت اور سب کا روبار میں ایک جمعت پیدا ہو جائے دریج و در وقوم من ندائے من نے شنود از سر د سید مر پیش کر عبرت شود پیما روس امریکی اداکار کرنہیں سنت میں وہ رتی سے سے بیعت کر ہیں کاش میں کو جرت جو را باور نے آید که چشم خویش بکشانند مگر و یا نون وقت وخشیت شود سیاه یں نہیں آ رہی لوگ بھی پی لکھیں کیں اور ایس ای برای کسانی مشیت الا ان میں سیاسی مراد بال و کتاب نیز از کافران فمند نمیدانم چه از ورق نفرت شود و پیدا جھے دیا ہو اور کافروںسے بہتر جھتے ہیں میں میں جانا کہ خدا کے ان سے انہیں کیوں نہیں جاتے عجب کاری اسے ناشتاین الان از دین که از من چشمه حیوان دین ظلمت شود پیدا ال او انسانی کی نہیں تھی آہ کا نہ میر کی خدا کی طرف سے ایک ترتیبات پیدا ہو گیا ہے لانسان تعقیب کند در فکر این معنی کو خواب آلودگان را رافع نفت شود چند آدمی بیات سونی گریون ایران ہو کہ نیند کے متوالوں کے لیے ایک خفت کا دور کرنے والا پیدا ہیں فراموشت نداست و هم احادیث نبی الله کر نزد ہر صدی یک صلح است شود بیاد میری قسمت والا اس کی بیوی بھی ہوں گی کہ مری کے رات کے لیک کی ملی یا وہ کرتا ہے ینہ کمالات اسلامی کی تکمیل مطبوعه ۶۱۸۹۳

Page 177

160 محبت تو دوائے ہزار بیماری است پڑے تو کر رہائی دی گرفتاری بہت تری قیمت ہزار بی میلوں کی دوا ہے تیرے منہ کی قسم کہ ان گرفتاری ہی میں اول آن دی ہے نا ہے تو متن نطور استان است که آمان بیرت بہت کمال شادی است تیری پناہ ڈھونڈنا ایوانوں کا طریقہ نہیں ہے مگر تیری پناہ میں آنا ہی تو کمال درجہ کی عقل مندی ہے بلکہ منابع بر روی تو شان تقی هم داشت که خیر داشتن عشق تو ز نداری است میں تیری محبت کی دولت کو ہرگزنہیں چھپاؤں گا کہ میرے عشق کا مخفی رکھا بھی ایک نداری ہے باس مرحم کے رو جاں ندائے تو میکنم که جان یا بیرون حقیقت یاری است میں تیار مل کر ان دول مجھ پر قران کو دل کی کہ جان کو محجوب کے سپرد کر دینا ہی اصل دوستی ہے.ر آنچه کمالات اسلام متعمیرات ای این داسمان بوده ام جے سے اس عالی در سرشار کی تری کی طرح ہوسکتے ہیں کی مدت سے زمین و آسمان اور دونوں جہان عاجز ہیں آن تا جنوری کو دارد بدلدا یه قدیم کس نداند شان آن از واصلان کردگار تر کو وہ تمام ہو وہ جو نسل کے ساتھ رکھتا ہے جس کی شادی کرو اصلان بارگاہ رانی ہی سے بھی کوئی نہیں جانتا ن خیانتها که مصوب از دارو بدو کی خواہے ہم ندید مثل آن اندیدیا رانیاں جو جو اندالی اس پر فرماتا رہتا ہے.وہ کسی نے دنیا میں خواب میں بھی نہیں ر امان من شا گرد و انتقال اینکه دوش کر کے ہر منزل مسیل نگارا انامالی ہی کا کردار اور اشفانی پہلی کی جامعت کا بادشاہ ہے جس کی شرح نے جو کے میل کے مرد یہ کولے کرنا ہے تھیں

Page 178

144 امان پہلے ت مبارک ہے کہ آمدات با آیات او من ندائیات عالم پور و پروردگار ایک قدیم میل کی خات والا صفات رحمت بن کر اس سب اولین پروردگار کی طرف سے نقل ہوئے که در فری خاص اند جناب پیک کی شان و شهر سن خاصان و کبار وہ ہو کہ جناب اپنی میں خاص قرب رکھنا ہے وہ جس کی شان خاص اور بزرگ بھی نہیں سمجھتے ر آخر ماں کو اولین اجائے فخر آخرین را تند و با کسوف و حصار والوں کے لیے کی جگہ ہے اور کیل کے لیے جو اس امر یا ہائے حالات اور قوم ہے است نگاه ورزش کشتی عالم تباه کن گرد روز محشور پایش ماندگار کا ا ا ا ا ا ا ایسا کیا ہوا دینے والی کشتی ہے شرک کی ہی ہیں کی نا ہو نے کے بھی بات نہیں پائے گا پیسے فزوں تدریمر نوع کمال آسمانها پیش اور ہمت اور مدار قرم کے حالات میں ہر ایک سے بڑھ کرہے ہیں کو دی جہت کے آگے آسمان بھی ایک خندہ کی طرح ہیں مظہر نے اپنہاں بیدار میرا دل مطلع شمس که بود از ابتدا در استقبال وہ اس نور کا منظر ہے ورد زازل سے مخفی تھا یو ں میں سورج کے نکلنے کی جگہ ہے جاندا سے شمال تھا ریزیم استان باشد بر زمین لایت خان رانشانے ہیں جنگ وہ اتوار وہ آسانی مجلس کا میر جی اور زمین پر ان کی بھت سے عرفات باری کا تماشای محمود انشان ہے.ر گئے تار وجودش خاره با دال و مبارزه اش که از حال دوستدار اس کے دور کا ہوگے یہ مت لو مانای کا گھر ہے اس کا ہر سانس اور بترورہ دوست کے جمال سے منصوبہ ہے.ر - ربه ت و به از صد آفتاب انتاب ناک کے کے او با تعد اور مشک تار ناگری شر کے سینکڑوں نالت زیادہ روشنی اور ہے

Page 179

دا ست داد تا گرد هم موم دوست کے مال کرتا آن بر میدیاکانا وگوں کی قتل دکھ سکے سے ہاتہ ہے گرا کی کیا مجال کرم اس تا پیدا کتا سمندر کی حدتک پہنچے ت کند گفتن قول بھی نقل کئے اور توحید پیش از آرش پیوند یار قول فی کہتے ہیں کی اور سے لال ہے وہ وحید ا ہوا ہے اور آدم سے بھی پہلے یار سے اس کا تعلق تھا جان خود داوں نے علی خداد در نقش جهان شناخته مامان بیا راغم گسار تفوق علی کے لیے جان دنیا اس کی فطرت میں ہے وہ شکستہ دلوں کا جان شاعر اور نیکیوں کا ہمدرد ہے املان قبیل دنیا پر شرک و کفر بود اینچ کر خون شد دل جو دینی شهرمانیه ایسے وقت میں جبکہ دنیا کفر و شرک سے بھر گئی تھی سوائے میں پادشاہ کے ایسی کروں اسکے لیے لگیں تو بھلا این خیر شد ان محمدا که بود از عشق نداری ی کی شرک کی جاتے ہیں کی گندگی سے ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا و ہ ہ ہ ہ ہوتی جو جیت پائی سے چور قد کس به میداند کرانا تالیا باشد خیر کال شی کرد ز بر جمال و کنج فارس کون جانتا ہے تو کسے اس آمدوزاری کی خبر ہے ؟ ہو آنحضرت نے دنیا کے لیے غار حرا میں من میدانم هر کس بوده اند و منے کان دان اسے در آوردنش جوین دودانگام میں نہیں جانتا کہ کیا در دلم تو تکلیف تھی ہو اسے تم زدہ کر کے اس غار میں لاتی تھی نے ان کی روش نے بینائی ہر اس نے بیرون می خوان کریم نے ہی اس ہ اُسے اندھیرے کا خوف تھا نہ تنہائی کا ڈر نہ مرنے کا غم نہ سانپ بچھو کا خطرہ یت مشرا نے علی و قربان جہاں کے من پیش بیش نے منشور ایش کار والے ملا بال بال ایران تے نہ اس نے بھی ان سے کچھ اعلی تھان اپنی جان سے کچھ کام داست برسی کو فالو ایل

Page 180

16A تره بار در مے زدران نے خلق خدا ن خدا شد تنوع کار اومیش خدائیل و تبار خدا کی مخلوق کے لیے درد ناک میں بھرتا تھا اور خدا کے سامنے رات دن گریہ وزاری اس کا کام تھا ے سے بینک الفلوزان مجزو دعا اور سیال الیت دا کی وجہ سے آسمان پخت شور را می ا و ا سکیم کی سورتوں کی اس میں ہی تم سے انکار نہیں اتر از محمد مناجات تفریع کردنش نند کا لطف حتی بر علیه تاریک وتار کا اس کی اجرای ما اگر میزاری کی وجہ سے خدا نے تاریک و تا دنیا پر عربانی کی نظر فرمائی ومال او سمیت اور طوفان عظیم بو خیلی از شرکت امیال کو دکور بشریان ان میں پولیوں کا خطرناک طوفان انتھانوں سر میں لوگ شرک لنگاہوں کے سے ایسے اور ہرے وقت توی دنیا بود یاد رفتار این دو خالی بود از ملات گرد و غبار دریافت کے ان کی طرح تمیم کے فسادوں سے بھری تھی کوئی وی بھی ملامت اور گرد و یار سے خالی تھا این راستا بود بر برش است پس بجای کرد به روح محمد کرد گانه مر موج اور ہر نفس پر سید امین کا قبضہ تھانب خدا تعالئے نے محمد کی روح پر تجلی فرمائی مت دو پر سرخ دیا ہے تار است که به نوع انسان کرد جان خود نشانه ام گردی اسکائی تو مو پر اس کا احسان ثابت ہے اس نے زریع انسانی کے لیے اپنی جان قربان کردی یانی است ولی خورشیدہ جائے ہدی نے آثار در دہرا ہے عاریت پر ہیز گار نی اللہ نوری برایت راستوں کا سورج ہے تیرے بغیر کوئی حرمت پر پیر گامہ ہدایت نہیں پا سکتا انی انتداب تو نیمه جان پر داستانی استد تونی در راه می آموزگار سے بھی اللہ انیر سے ہونٹ زندگی بخش چشمہ میں اسے بھی اللہ یا توہی خدا کے راستہ کار بنا ہے

Page 181

149 اس کے جدیدیت پاکت از زید نمود وال دراز خود انت شنود بے انتظار ایک تو تیری پاک میں مزید گر کے پاس جاکر تراشی کرتا ہے اور دوسرابا اتیس تیرے منہ سے ان کو سنتا ہے گل شخص کو وشد به هار پشیمات ایک آن مردیکه کردهاست ابتاعت مقیام نی از ہے تیرے میر ے پانی کے گھوٹ بتائے اور وہ انسان عقلمند ہے میں نے تیری پیروی اختیار کی امان رانتی کے موقت نظر رخت صلا قال وانتہائے صدق بوقت قرار ان کی موت کا اونی تو تیرے نا کا م ہے اور ان کے موت کا تا تو میں اپنا مقام بنانے ہے تو برگد دولت عرفان نے ان کے کے پیروه ریاضت اور جب بے شمار تیرے بغیر کوئی عرفان کی دولت کو نہیں پاسکتا.اگر چہ وہ ریاضتیں اور جد و جمد کرنا مر بھی جائے یکی با حال و به خت رویت الی است فایل از بین نبی نے نیکی نہ بنار تیرے اس کے سو اور اپنے اعمال پر بھر وہ کراہے تو ی ہے تجھ سے فاضل ہے وہ ہرگز یکی کانہ نہ رکھے گا ور دے میل شود نور سے پیش کرتے تو مکان باشد سالمان را حاصل تعدا دورنگار تیرے تش کی جس سے کام میں وہ زر کم ہو جاتا ہے جو سالکوں کو ایک لیے زمانے میں حاصل نہیں ہوتا ا ہائے عالم سر جوانی استان آن بر چینی دو دوست اشکار خوشتر از دوران عشق تو نیا تدریج در کی خوبیاں میں تیری ذات میں پانا ہوں دور انو ترانه ست صبح تو نباشد هیچ کار ے کس کے نام سے اور کئی خانہ زیادہ اچھا ئیں اور کر کے ہم تیری مدح دشنا سے زیادہ بہتر نہیں نکور بر هم خوبی باتے بے پایاں تو جمال گاز سر بر نوگر دیگر ندش گذار یوی سے تیری بےانتہا میں کا تجربہ سے اس لیے اگرو نے کیسے رینگنا میں ہمیں تجھ پر جان ادا کرنے کو تیار رہیں

Page 182

In ہر کے اندر کالو خو دوا لے نے کند این کار نے ہر بار تو اسے پانچ پا اللہ مجھے Un اد میں اپنے لیے دعا تو ہے گرمی سے میر سے آنا تیری آل واصلاد کے لیے دعا مانگتا یابی الشہدائے پر سوئے تو ام وقت را وتو کنم گریان و نام می تراری ے میں اس بات سے با بال پر نا ہوں اگر ھے ایک کو باہمی بھی لیں تومیری با ایں سب کو قربان کردن اتمام دین دیتا در بخشتی بیست کیمیائے سروے کبیر پر جان نگار اصل میں تیری اتباع اور تیرا عشق ہر دل کے لیے کیا اور ہر زخمی جان کے لیے اکسیر ہے دل اگر نام میت شہرت چه چیز سالی در نقارہ تو گرد و جاں کیا آید یار ارگیری محبت میں خون نہیں وہ دل ہی ہیں اور ہو جا تجھ پر قربان نہ ہو وہ جان کس کام کی دول می ترسد مهر تو را از مروت هم بایداری با بین خوش میرو نا پائی وام مولانہ تیری محبت میں میرا دل موت سے بھی نہیں ڈر تاثیر استعمال دیکھ ک میں لیب کے نیچے خوش خوش برا ہوں ابان است یا رحمته اعتر آمدیم که چون ابر در توصد هزار امید دارم سے الہ کی رحمت ہم تیرے رحم کے اید را می توں ہے کہ تم جیسے لاکھوں تیرے در کے میدان میں انی الہ تار ہوئے محبوب تو ام وقت باہت کو ام این کرک برش است دل تامین اور رسول پاک را نموده اند نشتق اور دل ہے جوشد و آب از ایشان جہ سے مجھے پھول پاک کانور کھایا گیات سے اس کی میرے دل میں ہوں جوش مارتا ہے جیسے آبشار میں پانی انش عشق از میمن کچور تے سے جہد کیک مروت سے ہمدان نام دگر دوجار میر سول سے اس کے پیش کی اگر ماں کی طرح کی ہے اسے نام طبع رفیقی میر نے اس پاس سے ہٹ جاؤ

Page 183

JAI یں ہے ایسے منصور کتاب میں دیکھا ہے اس چیزے اور سر پر یری جان اور منہ قربان ہوں ران ایسے پھیر دیں چاو روشن دان مسیح باری ندارد مگر بے شمار ہے ہوئے یا اور ان میںمیں لاکھوں دوست رکھتا ہوں اور اس کے دم سے بے شمار مسیح ناصری پیلا ہو.تبار است کار کتاب شرقی و روی او دا اک است ایجاد سر خاکسار ایت کشور کا منشاه در شرق ومغرب کا آفتاب ہے دین دونیا کا بادشاہ اور ہر اک سایہ کی پنا ہے اران دلیل که در راه است تا نیک بخت آن مرک ید در مکان سواری انی اشیای تاریک شد از شرک کفر وقت آن آمد بهائی بین خورشید داره سے بی اور گراور شرک سے نیا ڈھیر ہوگی اب وقت آیا ہے کہ ان امور کی ان پر ظاہر کرے یا اوار اور ہے تو اسے و برم ست چین نے تو بینم دل پر ہوشیار پاتا میرے دالیں اور بالی تیری نا میں کیا ہوں اور توانا دل کو تیرے عشق میں سرشار رہا ہوں ال الا من قمت انان اند حال اور شمیران نهال نوری استان الا تیری تر پیمانے میں ارم در تیر ماں جاتے ہی کہیں اور ان کی ایک سے دوپہر کا ہی کیا ہے حال ہر کے مدار سے باہر سے اندر جہاں میں خدائے ہوئے تو اسے نشان گلنار یں کوئی نہ کوئی محبوب رکھتا ہے گئیں تو تیرا لائی ہوں اسے پھول سے رخساروں والے جنوب از پر میلوں انار کے نورت ابسته ام که بود خوشتین کو مر دہریت اختیار دنیا سامانه ای چھوڑ کرمیں نے تیرے میں چھ سے دل لگایا ہے اور اپنے وجود پرتیرے وجود کو تر جیح دی ہے

Page 184

LAY ندانی بیست ماں کردن برا و تو خدا نگاری پیست شدند و بدین بیدار گیا ہے یا کر تیری راہیں ان کو قران کر دیا.آزادی کیا ہے یہی کہ تیری قید میں شکار ہو کر یہ بتا ا ا ا ا ا وا داشت و د ا ا ا ا ا ا ا ا او را به اداره دارا یا جاتا ہے یا یا ہے با خون در باہ کرتا.با رول اند روی عهد دارم استواری در ایران روزیکی و شیر خام یا رسول الہ میں تجھ سے معبود تسلی رکھتا ہوں اور اس لیے کہ میں شیر خوار تھا.مجھے تجھ سے محبت ہر وہ کام دینا ضرت چون زدم بیست جہاں میں جوانی و نعت شعار و دی میں نے رائے ہے ان کی انہیں راہی نے پوشیدہ طورپر رنگ تھے اپنا میں امی اور مہنگا ہو گیا وردار نیست دارم تا بیس بزرگ پرورش دادی مراقی بیم ملی در کنار لا جاوں میں ہی تم سے ہے اتنا تی کا ہوں تونے خود بچے کی طرح اپنی گود میں میری پر ملک زمانی ان یک این نمادی ای وای یونی به نیت در کاری انشا دارد ل ا اور کیا ہے نے ان کی مجھے ان میں سے لی تھی ایک ای ای بی یا کرو تو اسے اسی شان اور ان کا تھا بادکی آن لو تا که بیان داشتی و ای بشارت با ر میدادی مراد کرده ام ایرانی اور رویوں کواد کو تونے مجھ پر کی اس ان باتوں کو بھی بوند کی ان سے تو مجھے دیتا تھا یان فرقے پر نبودی بر بیداری مرا میں جمائے رشتے ہی مرتے تک بہت ری یاد کتاب بیار میں نے تیسری بار بھی رشک ما از شب شو بزاری رسید اول اشد پس از البته الاقدام ر کر کے ان دو اور میں نے کلیف نہیں ہے یہاں اسلام کا مال اس تا دیار نیم فضا سے پوچھنے

Page 185

IAP حال او شوخی این سرود شیخ بر زبان جو میداند خدا نے حال حان وبرودبار بار سے حال اور ان دھو دیانت میخوں کی شوخی کو خدائے علیم و برد بار پور سے طور پر جانتا.م مو تقال منال کافر جہاده اند یا مریم شینیون مو باید نشت نوال ا انا مایا گیا ایک افریکہ چوڑا ہے ان کے ان میں سے ہے اور کوئی ناپاک بلند ہیں میں ی کہ انہیں معلوم کی دل سوخت ونیز کاندر خواب ها گفت نمودی بای بای یا اور تین کےلیے کسی کادل نے یا سوات سے میں نے خوابوں میں جھے پیار اور شقاوت دکھا ئی ان خان د کریم و داره و من دار بردم مید ریکی مارون الاساس ہاں میں خدائے کریم نے سو میرا شوق بھورے ایک تعاردو کی طرح ہمیشہ مجھے تسلی دی اور دنیا رہتا ہے.مبر دیا زینای امن برای فرش گرفت نے گرد و غبار کی مسلمانان نی از نخل و کیس شیر ست آب از خلان علوان در اختیار الے شخص ہو خیل اور تقوی کی وجہ سے مسمانوں کی کفیر کرتا ہے.تجھے منصف اور قادر خدا سے شرم آنی چاہیئے اسل اش از زبان خویش کمیر کے شکل متد آن ان کی پریس انٹے کو گا اپنی زبان سے کسی کو کا ترکہ دینا آسان ہے مگر میں وقت مشکل پڑے گی جب خدا نے کردگار پوچھے گا انی کو لوگوں کا اسکر کیوں کھتاہے اگر تو خدا رکھتا ہے تو تو اپنے کلرکی رو سے تو جڑ گی رشت منفی پہاں مانتے دانی ہنوز ایت بخشد و پیرا ق مورد مصلیا تی تو بوڑھا ہوگیا گر ابھی تک اوڑھوں والے اخلاق کو نہیں جان اند انجھے بوڑھوں کی طرح سودا در صبر نہایت کرے

Page 186

Imp کو کئی غیر قومی خود کار کردن سوداگر مردی جھوٹ سے راہ اسلام ادا کر ال کم می خرید می دارد زه کار نیست کار کیست موی خود گرد در استان جب قیامت کی سی کی با حقیقت پرسی بی وای دی یا ان کا ہو جائے گا کہ ان کا ہے اور کانی روسی گو هندی بر کن تا این خورد تایان و در چنین شما این ابیاری روانہ ہے دیا اور پلے اپنی جان کی مرکز ایمان کا دعوی کچھ چیز نہیں تو ایمان کا چر کیفیت بازی چند استراکنی در پایان خود مارا بکفر با گذار کے ناز کرے گا ورکرز کس تنم نے روس حکایت کن شان ام تار و دین مجھ سے یکم شوریده وار مجھ سے دو جہت کا ذکر نہ مدارج کا میں توجمہ کے دین کے ہمیں دیوانوں کی سی زندگی بسر کرتا ہوں لان دیگر یاد آید مردی مرا این خاموش شود پیش روی پرده ام اس میت کی ہے ان کی تم یاد آتی ہے تو دونوں جہان کی خوشیاں اور تم مجھے بالکل بھول جاتے ہیں ر انگیز کمالات اسلام صفحه ۴ ۲ تا ۱۳۹۶ مطیور ۶۸۹۳ اینکه قلم پشت نیز ضال کیوں نترسی از خدائے ذوالجلال از ہے اور شخص کہ میں تیری نظر میں دجال اور گاہ ہوں تو خدائے ذو الجلال سے کیوں نہیں ڈرتا ہوتے را نام کا فرمے نبی کا فرم گر مومنی با این بنیال میں کام کا رکھتا ہے اگریہ اس عقیدہ کے بار جودو کرسی ہے تو واقعی میں کافر ہوں ه آئینہ کمالات اسلام ص ۳۲)

Page 187

Ind ا کر خود آب درختان بیت را مگر وے بند ہوجانے پر صلوات را حبت کے دوروں کواپنی اشکموں کے پانی سے سیراب گرم کر ایک دن وہ تجھے تیری پھل دیں الاسلام در این حقیقت با همی دارد کجا باشه تهران هم ایران صورت را اما کا اپنے ای ایس سی میں رکھا ہے ان مہینوں کو چاند کی رویوں کی کیا خبر رکھتی ہے اس ینی بینی روز حسرت را کا ایک رات کو ان کھاؤں مگرآج تو نے نہیں دکھے گا تو ایک اور حسرت اون رکھے گا یا خوردم مرن باریک بد پر ہی پال نے بندے سے صحت را رگیری شان تیری انکھوں سے پوشیدہ ہے تو بھی خوش ده که با پریز بیمار تندرستیکی کامت نہیں تمرین شامل نور رانت میشی در نهادی نام کا فرا برم مشاق مت افرا را تجھے معرفت کی آنکھ اور نور عرقان نہیں دیا گیا.اس لیے تو نے ماشتقال اسلام ک کیا از آستان مصطفے سے بار بگریو نے اپنی جائے گی ای یاد دولت را ے یار یار زن ہم درگاہ مصطفوی سے کمال بھنگ کرنا یہ عورت اور دولت نہیں پا بداند که رو قطع نمی کرد ای تو می اندازد تحت الحمام مشیر کو خلوت را احمد نہ کہ اس قوم نے تو ہی مجھے قلم تعلی کلی اور تانے بانی اور کریم سے خلوت میسر کردی و شاید بر دیداری رو با ناز و ابر در اکرار ماجت را ان چوں کے لکھنے سے میں کس قدر کیف پاتاتھا مجھےاپنے دلبر بنتا ہے اس نے پھرمجھے جنت عطا کی چینی ازان کرب کے بادار میدارم گرند بست در دست گردان قیمت ) تو اس قرب کی ہے جومجھے داری سے حاصل ہے کیوں جاتا ہے اگرتیرے عقد میں زندہ ہے ہرقسم کے موتی کو بندکر د سے

Page 188

JAN کا ہاں نفرت پانی کے دست ما این پایش کے دستان یا بکه سوند داشت بوت را است این کیسے ان میں آتا اس کے بال اسی کو موت ملتی ہے جو نہ اس وقت جلا دیتا ہے رانی و ملنے والا را خالی شد کره زمین در گویش ایر که خودت را رمایا کیا چاہتا ہے تعلیم کی شی ترک کر کے اس کے کوچہ میں سیر کرو توت کو کتے نہیں دیتے مندال و تنہانے دیا اگر داری کے تواین کاری و باستان شرت اگر خدا کا لبگار ہے تو نہیں نعمتوں سے دل نہ لگارہ میرا جنوب ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے پیش کے مالک ہوں مناظره باید که او بر شود پیدا کجایند دی ناپاک سے پاک حضرت را پانی کا مقاتلو ا ہے تاکہ اس سے متلی پیا ہو اور دل خدا کے پاک چہرہ کو کہاں دیکھ سکتا ہے نے ایرا کے دعوائے ہیں دنیا تنہا بیر کرسی کی اور بین دست را جھے نہ بھر دیا کی علت درکار نہیں ہمارے لیے کسی نہ جھا کہ ہم تو قدمت پر مامور ہیں ر خالی جہاں خواہدا ان نمی شود ربات خلات منکر نے اہم برام از دولت را سب لوگ اور سارا جہاں اپنے لیے عورت چاہتا ہے بر خلاف اس سے ہمیں یار کی راہ میں ذلت مانگی ہوں میشود و این امامان و عافیت نخواند چانتا ہیں سارا کر نے وا مصیبت را و این دیگری زیاد میں ہی عافیت کے خواستگار میںمیرے سرکو کیا ہوا کہ مصیبت کا و شدت سے کہ اری را که م بینی بادل نظر آید رشته درخور د راهنمای ات را جھے تیر مردیکھتا ہوں رخ جاناں ہی نظر آتا ہے ان میں بھی وہی چمکتا ہے اور چاند یں بھی دوی دامت دکھاتا ہے.این غربت داریم این از یک دانستم که بادر فلاش باشد دل بین نوبت را یا اس دن سے رات اور جو کام نہیں ہل سے میں نے جانا اس کے حضور می ورنی سکیسی دل کی عورت ہے.میں روز ط یہ مضوع الہامی ہے کا یہ مصریح الہامی ہے

Page 189

IAL ان تان خودی خود ایرانی رکن کیسے آر یا پاکی بر ترین و سنت سال انی کی اس شاخ کویر سے کاٹ لالا یونہی ناپاکی سے نفرین دواجنت کا پھل پیدا کرتی ہے از زن مالی با کی بود بردارد بینی انار یک دایر کنیز است را میرے حال دل کے چین سے پردہ اٹھایا جائے کوئی اس میں اس پاکی و طلعت معشوق کا چہرہ دیکھ لے گا روع اور خشت و نام قص را روشن گریت کے اس ماه میدارد بصیرت را س کے درویش کی عملی سے ہمارے ہم قریشی ہیں لیکن اسے وہی دکھتا ہے جو بصیرت رکھتا ہو تھیلی ومت میں جانتا ہی واست کارتر وں نے کے ابا شد ساعت کو کی ناو موت نے مجھ پربڑی حماقتیں کی ہیں ور ت ہو یا اسان کس طرح اس شد بات کرتا انان را می خوانند از دست نگه مینی خود حقیقت را تیترا اری ایم کے انا نے عریاں ہیں جوں نے تم سے میت درحقیقت اور منور کر کے پھینک دیا عرفی و نور پردہ ان کی پوشیدا نانی با این رے کے کان اور رات ر کے پر اور اپنی عقل ودانش و میاد یا ام اس رب کے لیے خواہشتم میں سے پاک کی تو الی کے ند از دقت شیطان بال در دست داشتند و این خون کو بیس برای بافت را رانے تو شیطان کا نقصان سے بیان کیا ہے تاکہ یہ جانیں کہ بری عادت نگار کو بھی شیطان بنا دیا ہے.الی می کند بر خود لاحاصل را از نی نی بانی باید در سمت را انی عربی مادہ بھائیوں میں بسر کردی گر حقیقت کے لیے اُن کو ایک لحظہ کی قرصہ وات او مال و یا شست بر بال کانال انتقال کے کون در نشست سال ظاہری سب کے لیے میں بھی ان کی بات اگر است حال ہے کہ یہ خیالی سے نالانسان شریعیت کو سمجھ سکتا ہے

Page 190

مسیح بامری را که نام قمند میگردونون شیر یا خداوند این نیات را پیچ امری کو قیامت تک زندہ سمجھتے ہیں.گر حضرت صلی الہ ہم کو فیضیت نہیں دیتے وئے بلو روان و مودم انا بودند پسندیدند درشان شفیق این قالت برا کہ ان دونوں کی خوشبو سے اول محرم تھے اس لیے اہانت و عالم کی شان میں یہ بات پسند کی ہونا نے اس بار جومات کے سنگینی برای ایشان اگر گشت مت | کے ایام میں کوڑے کرکٹ کی طرح پھینک پانی کے نام کی وجہ سے یہ اسلام کا تا نقصان ہوا یانه ای از متقال خود مرد دادند ولیری باید آمد پرستاران میشت را نہوں نے اپنے قید سے تو میں یوں کی ان کی اسی وجہ سے مردہ دوستوں میں بھی دلیری آگئی این کار را با روش های شیمایان زیاد دیدار که شاید نصرت را این ایام میں یا اس کی دید کی کو روکا ہوں کہ ان فریاد کرتا ہے کہ جلدی حدود کو پہنچے ای بیان و هم چنین قاقل تجاری هم دم باری با دو دست شست را میری رات چود کا خون اور قوم قائل میں تم سے کہاں جاؤں بے یارب خود دست بصورت دکھا ان گیری شان کیلئے خود می ترسم این کانال تیرے کرمی بخشید فقرات را ب چھپ سکتا ہے جو ندائے میری فطرت کو بخشتا ہے انوان شان نادر من دشنه آرد و صادق بتوان بود گرید قیامت را کی کے شور سے میرے دل میں گھر بہت انہیں پیا سواتی صادق کبھی پیدا نہیں ہو تا را قیامت کو دیکھے میر و ۱۳۹۳ )

Page 191

IM لے مصلے ارا چون فروتر شد مقام از مسیح ناصری اسے طفل فعل معطل کا درجہ کی فکر کم ہو گیا تی مسیح ناصری ہے.اسے تاوانی آگوست پاک او دست خداست چون توان گفت که از روش بد است جوان وہ کر میں کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے اس کی بہت کو کر کیا جا سکتا ہے کہ روح القدس سے الگ ہے ن گیر کرده و توش دین است یک مان جبریل بوش پول کو است کار را ان ہارا یہی ہے ایک کے لیے بھی جیل سے اس کی بجائی کو کر نا ہو سکتی ہے براہیم الباء این اقتدار چوں نے ترسید انہ قہر ندا بچیوں کے سردار پر یہ افترا، تم کیوں خدا کے غصے سے نہیں ڈرتے در آئینہ کمالات اسلام صفحه ۲۱۱۲ اندر کہ مجھے عیسائی قوم کے لیے ایک نور دیا گیا ہے.اس وجہ سے میرا نام اپنی علم رکھا گیا.ے میں اتر ابرو را انتخاب کو چیه آنان در کار با افتاده اند کار میں چاند کی طرح روشن ہوں اور آفتاب کی طرح چاہتا ہوں وہ اندھے ہیں جو انکار میں پڑے ہوئے میں والے طالبان ترغیب کند این ندا متصل ایک درس ها منابر داده اند یہ آواز آرہی ہے کہ ایک صلح درکار ہے کیونکہ ہر جگہ فساد پیدا ہوگئے ہیں سے ام دارت والی استانها آمدم دیدی علی بی رشتے میں کشادہ اند یں اتی ہیں اورہائی کی طرف ے نشان سے کرایا میں اس روایت کے کیوں دریچہ کھولے گئے ہیں سعید الله فوق بيديهم

Page 192

帅 آسمان اور نشل الوقت میگوید زمین این دو شاہانہ نے تصدیق میں استاد ماند ا اسمانی نشان به مسار ہے کہ ہی وقت ہے میری تصدیق کے لیے یہ درگاہ کھڑے ہی تنا چال به ند دود میشیم کے بنید وگر سر تا دہ ہے پول نا یہ ہی کی دونوں انکھیں بند کرتا ہے تو اسے کچھ نظر نہیں آنا خواہ سوری کہتا ہی پاکتا ا ا ر رنگین کمالات اسلام منحه ۱۹ م ان قران حضرت مالی کنید ایرانی با جانی جان دار قران کنید سے انے میں نے نہیں محب حقیقی پرقربان کردو اور اس جانی دوست کی راہ میں جان و دل نثار کردو آن این راه در آن اور اس کا جہان کی خوشی از نے دین محمد کلیه اعمال کنید از پئے ای آرام این دل کو جو اس جہان میں خوشیاں ڈھونڈتا ہے محمد کے دین کی خاطر بیت الحون بنا دو یش ہوں این اے رحمان حتی کوشین ماز نے اسلام سرگردی کنید بش را بر آیدا ے دوران تمامیش پیشرت کی زندگی چھوٹو و و ور اب اپنے آپ کو اسلام کی خاطر گران گردو آئینہ کمالات اسلام آخری اصلی تا خون ) • لعجب توریست در جان محمد معجب علیست در کانی محمد موسی الہ علیہ سلم کی جان میں ایک عجیب نور ہے محمد کی کان میں ایک عجیب و غریب اعمل ہے.

Page 193

ز ظلمت بادلے اگر شود مان که گردد از مجمان محمد باد ا دل اس وقت عملتوں سے پاک ہوتا ہے جب وہ محمد صلعم کے دوستوں میں داخل ہو جاتا ہے.میں سے پاک عجب دارم دل آن تاکستان را که ممد نایبند از خوان محمد میں ان نالایقوں کے دلوں پر تعجب کرتا ہوں جو محمد صلم کے دستر شان سے منہ پھیرتے مانم بیچے تھے در دو عالم که دارد شوکت و شان محمد دونوں جہان میں میں کسی شخص کو میں جانا ہو تم مسلم کی سی شان و شوکت رکھتا خدا نال سینه بیزا است صد بار که هست از کینه داران محمد خدا اس شخص سے سخت بیزار ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کینہ رکھتا ہو دا خود سوز و آن کریم دنی را که باشد از عدوان محمد خدام تعار خود اس ڈلیل کیڑے کو جلا دیتا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں میں سے ہو اگر خواهی نجات از مستی نفس بیا در ذیل مستان محمد نفس کی مہینوں سے نجات چاہتا ہے تو ہم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستانوں میں سے ہو جا اگر خواهی که می گوید شایت ایشو از دل ثنا خوان محمد اگر تو چاہتا ہے کہ خدا تیری تعریف کرے تو تن دل سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا درج تھمال بن جا اگر نواہی دیلے قیافش باش محمد بست بربان محمد اگ تو اس کی سچائی کی دلیل چاہتا ہے تواس کا عاشق میں کیا کہ ھم صلی ال ای ایم سی خود عمر کی نہیں ہے سرے دارم ندائے خاک احمد دلم مہر وقت قربان محمد یر اسامی ملی علیہ وسلم کی یک بار شار ہے اور میرا اس وقت ملی اور یہ کام پر قران رہتا ہے

Page 194

۱۹۲ گیسوئے رسول اللہ کہ ہستم شاہ روئے تابان محمد رہے رسول اللہ کی زلفوں کی قسم کہ میںمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نورانی پھر سے بکہ خدا دی کناره گر کشندم در بوزند تابم رو به ایران محمد ار میں اگر مجھے مل کردیا جائے یا جلا دیا جاے تو پر بھی میں محمدکی بارگاہ سے انھیں پرینکا انکار دیں تفریم از جهانی که دارم نگر ایمان محمد دین کے معامر میں میں سارے جان سے بھی ہیں اور کچھ میں حوصلے امت علیہ سلام کے بیان کیا گیا ہے ہے سلست از دنیا بریدن بیاد حسن و احسان محمد دنیا سے قطع تعلق کرتا سایت آسان ہے تجھ ملے اور علیہ وسلم کے معین و احسان کو یاد کر کے محمد خدا شد در ریش سروره من که دیدم حسن پنهان محمد حسن اسکی راہ میں میرا ہرزہ قران ہے کیونکہ میںنے مجھ سے لالہ علیہ وسلم کا حتی من دیکھ لیا ہے رصلی مخفی وگر استاد رانا نے عمرانم که خواندم در دبستان محمد در میں امریکی استاد کا نام نہیں جاتا میں تو صر محمد صلے امد علی کلم کے مدرسہ کا پڑھا ہوا ہوں دیگر دلبر ے کارے ندانم کہ ہستم کشتن آن محمد ندانم اور کسی محبوب سے مجھے واسط نہیں کہمیں تو حمد صلے ان یہ وسلم کے ناز و ادر کا مقتول بچوں سرا اس گوشہ چٹے بباید نخواهم محمد گلستان محمد ھے یہ کام کی نظر مسرور ہے میں محمد ہے اور یہ سول کے باغ کے سر اور کچھ نہیں چاہتا حول تارم به پهلویم مجوئید که بستیمش بدامان محمد میرے بھی مل کرے پر میں تلاش کر کہ اسے تم نے کی لیے ام السلام کے دین سے باندھ دیا ہے

Page 195

دارد جا به بستان محمد ا میں انسان قدیس میں سے رہائی پرندہ ہوں محمد صلی الہ علی وسلم کے باغ میں بسیرا کھاتا ہے تو جان ما منور کردی از عشق ندایت جانم اے جان محمد تو نے عشق کی وجہ سے بھاری جان کو پیش کر دیا ہے محمدصلی اللہ علیہ مسلم مجھ پر میری جان فدا ہو در بنا گرد هم صد جان در بین راه نباشد نیز شایان محمد اس راہ میں وجان سے قران پر ہوا تاہم اس سے اگر یا مالی والی ایک کی شان کے شایاں تھیں جه هیبت با ید و ندای جمال را که ناید کس به میدان محمد میدادند این سرا اس جوان کو کس قدر رعب دیا گیا ہے کہ محمدصلی الہ علیہ وسلم کے میدان میں کو بھی الفاظ پر نہیں آتا الا اسے دشمن نمادان و به راه بترس از تبی تهران محمد تیچ ے نادان اور گراہ تین ہوشیار ہوجا.اور محمدصلی الہ علیہ وسلم کی کاٹنے والی تلوار سے ڈر ویمن جود در آن و اعوان محمد رو مولی که گم کردند مردم تا کے اس راستہ کو جیسے لوگوں نے بلایا ہے تو مرہ کی سوالیہ کر کے آل اور انصار میں دو ڈھا الا اسے مشر از شان محمد ہم از نور نمایان محمد ا را روی صلی اا ا ا ا ا ا ا ا ر م یا اسی کے لیے ہو کے ر کا ا ہے کئے تو کرامت گرچہ بے نام ونشان است بیا بنگر نہ غلات A کر است این مفقود ہے.گر تو آ اور اسے محمد صلی الہ علیہ وسلم کے غلاموں میں دیکھے ر آیینه کمالات اسلام آخری متعهد است به مونه ۳ ۹ ماه سے یہ الہائی شعر ہے

Page 196

۱۹۴ ے میزان نوین میں اس کا ایست که بعد را میبرد شود انسان را واتین کی دو ایسا لیا ان کا ہے کرانا ہے اور ان کے لیے یہ بھی امام نہیں کرسکتا آئینہ کمالات اسلام آشوری معلومات ۱۴ نوان تست بیان میں اسے یار محسن اس کام فرق تو کردی که می کند دیدی می ے میرے بھی دوست میری بیان جو پر توالی ہے تونے مجھ سے کون سا فرق کیا ہے کہ میں تجھ سے پر طلب مراد که می خواستمر غیب سر آرزو که بود به خاطر میتینه اور مراد المد وہ ہو میں نے غیب سے طلب کیا.اور ہر خواہش ہو میرے دل میں تھی ہر د وادہ ہم آن بنائے میں اور لطف کرده گذر خود می کنم نے آتی مہربانی سے میری دور مرادیں پوری کر دیں اور مہربانی فرما کر تو میرے گھر تشریف لایا پیچ رنگی نبود و عشق و وفا مرا نخود در خیتی متناع محبت بدانم جھے عشق و دونا کی کچھ بھی خبر نہ تھی.تونے ہی شود محبت کی یہ دولت میرے دامن میں ڈال دی ی خاکی روی تو خود اکبر کرده بود آن جان تو که مورد است استم اس سیاہ مٹی کو تو نے خود اکسیر بنا دیادہ صرف تیرا کی جاتی ہے جو مجھے اپیالی ان مقال ولمن هم در دقیقه است خود کرد و بلطف و عنایات رو تنم تیم یس سال کی مالی را در کثرت عبادت کی جیسے نہیں یا تونے مجھے آپ اپنی رانوں سے بیان کر دیں مد ستین شب خاک میں یقین الطلب ٹیم تو ہم تخرا کی ناک اون که سے سیکڑوں احسان بین تیری مہربانیوں سے میر حجیم و جان تیری باری ہے

Page 197

144 سل محراب ہو جہاں گرینا تے تو آی رستا ہے پر دکست را نمر دونوں جان کو ترک کرنا آسان ہے اورتیری رضائی جائے اسے میری پناہ مانے میرے عمدہ اے میرے مارا نہیں فصل بهار و موسم گل نایدم کار کاندر خیال روئے تومردم بیشتر و موسم گل ا ا ا ا ا ا ا ا اور میرے لیے پکاریں کہ کہیں ہوتا تیرے چہرے کے مال کی وجہ سے ایک چین میں ہوں خیال ہیوں حاجتے بو دبا دیپ دگر مرا می تربیت پذیر ذرت مهیمن سے کسی اور استاد کی ضرورت کیوں ہو.میں تو اپنے خدا سے تربیت حاصل کیسے ہوئے تان کی عنایت اولی شد قریب من کام ندائے بار زہر کرنے و بر زنم اس کی دائی جنایت اس قدر میرے قریب گئی کہ دوست کی آواز میری ہر گلی کوچے سے آنے لگی يارب مرا بر قد مهم استوار دار مال روی خود میاد که عهد و شکستم اسے اب مجھے ہر قدم پر مضبوط رکھ اور اب کوئی دن نہ آئے کہ میں تیرا عود تو فعل و کوئے تو اگر سرشان سازند اول کیک لان تعشق زند منم ر تیرے کوچ میں عاشقوں کے سر تا ہے جائیں تو سب سے پسے ہوش کا دعوی کرے گاہ میں ہوں گا دو سلام مطریه و منو ویستی خود کم با الا ان اس بار آورد سے ان کال کے قیدی بنی ہنی پرنتر تک کی عجیب اسان تیاری کرنا کے بہت سے آدمی کایا کرتاہے غیرام گونی باشد نه در کوئے حق کو امید آسمان و بازی آن یار آورد کی ایک ایک کر گرو مل نہیں جو آسان سے آتا ہے وہی اس لیہ کے اسرار ہمراہ لاتا ہے 1.

Page 198

199 و و میدان قرن کان الایت مرکز خود آورد او نیس و شرودر آورد وان و جولیتا ایک تورانیان مین اپنے پاس اس کا مطلب بیان کرتا ہے گندگی اور مرد پیش کر ہا ہے ہیں در كانت القران صلحو المطبوعه ۹۳ ۸ زامل لیے نیچے شوخ اینچ ایده است از دست تو فتنه بر طان خداست سے شروع پھر پی ایہ کیا کر ہے ہو تو دے رہا ہے ، تیرے ہاتھوں ہر طرف فتنے پر آن کس که رو کیت پسندید دیگر نکنید بجانب راست جس نے تیرے ٹیڑھے راستہ کو پسند کر لیا جس نے پھر سیدھا راستہ اختیار لیکن ہر زغور و فکر بینم از ماست مینے کہ برماست لیکن جب میں غور و فکر کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری یہ عصبیت ہماری بھی وجہ سے ہے.متروک شدست درس فرمان نال روزه هجومی این بلاها است قرآنی کا پڑھنا پڑھانا لوگوں نے چھوڑ دیا.اسی دن سے ان بلاؤں کا ہوا ہے نیجر نہ باصل خویش بد بود دیں گر شد و نور عقلها کاست گرشد کا ھر کی امیت کو بری نہ تھی لیکن دین کے گم ہونے سے عقلوں کا اور گھٹ گیا پر قطره نگوں شدند یکبار و تافته ترال طرف که دریاست یکردم لوگ قطرہ کی طرت ٹھک گئے اور اس جانب سے منہ پھیر کیا جدھر دریا تھا.ت و حشر و نشر خندند کیس قصه بعد از خورده است لات اور حشر نشریر حشر نشریر ملتے ہیں کہ یہ کہانی عقل.

Page 199

144 ہوں ذکر فرشتگان بیاید گونید خلاف عقل ما ناست فرشتوں کا ذکر آتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ بات داناؤں کی سمجھ کے برخلاف ہے اسے سید سرگرد و این قوم اشارہ کر پائے تو نہ پر جاست اسے نیند ! تو جو اس قوم کا لیڈر ہے خبردار ہو جا کہ تیرا قدیم راہ راست پر نہیں ہے پیرانه سرای چه در سر افتاد رو تو به کن این نه راه نفوسیلی است تجھے بڑھاپے میں یہ کیا سوجھی ہے.اور توبہ کر.یہ تقویٰ کا طریقہ نہیں ہے از سهم که بدین قیاس یک روز کوئی کہ خدا خیال بیجار مجھے ڈر ہے کہ ایسے ہی تھا سات سے تو ایک دن کہنہ دے گا کہ خدا کا خیال بھی غلط.اسے خواجہ برو که فکر انسان اور کارمند از نوع سو داره درسے میاں ان باتوں کو چھوڑ کہ خدائی میں دخل دنیا جنون کی ایک قسم ہے اتر و قیاس یا چه نیز د نشیں کر نہ جائے شور و خو خاست اتر قیاس سے کیا بنتا ہے ! (صبر سے بیٹھ جا کہ یہ فضول باتوں کا مقام نہیں ہے سے بندہ بصیرت از خدا نواره اسرا به خدا انه خوان بیمار ائے ہند سے خدا سے بصیرت طلب گریگو کر خدائی اسرار ایٹا کامال نہیں میں ریویو نی سمجھ میں آجائیں) زبركات الدما مشور، امطبوع ۹۳ مداوم روئے پیرا لینگالاں نمی دارد حجاب میشه در دروس ا ا ا ا ا ا بابا الر کا چہرہ طالبوں سے پوشیدہ نہیں ہے.وہ سورج میں بھی چکھتا ہے اور چاند میں نہیں - i

Page 200

مور ان مالا ما نشان اشته ای که بر انداز برش های سے اشارہ ہے سچا عاشق چاہیے تا کہ اس کی خاطر نقاب اٹھائی جائے ان پاک و نانا نے زید بدست ہے اسے غیبت غیراز جو درد و اضطراب ای کنفوس دان کمر سے ہاتھ نہیں آتا اس کے لیے کوئی راہ سیانے درد اور بے قراری کے نہیں ہے.بے مین خوراک است را و کوچه یار قدیم میان است بایدت از خودروی با تراب نصیب انسان کا راستہ بہت خطرناک ہے جو تھے جان کی ملاقات پراپنے تو خودی کو ترک کر دے اکاش مهر مایل نمایان می رسد یکی از خودگر خود او در آی او امارات ان کی مال ان کرام کی ترکی میں پی سکتی و خودی کا تارک ، برای کرده می ریاست متا ہے.توان دانا نے دنیا می شود در یک مروان ان منے کا شر ان تقاریب وں کو کھنے کا سلامی دین سے مل نہیں ہو سکتا اس شراب کا سزادی جانتا ہے جو اس شراب کو پاتا ہے.ایک انگاری عادت را نمای درون این سری گوئی بستی جائے نقاب ایک ایسی کوئی سے مالی اداری کی اب نہیں تو یہ بھی اسے تم میں سے ناراضگی کا موجب نہیں در روند نصیحت این سخنها گفته ایم تا مگزین مریم بود و آن نمی خواب ہم نصیحت اور غیر تیاری کے طور پر یہ باتیں کسی ہیں تا کہ وہ خواب رغم اس مرحوم سے اچھا.ادعا کن چاره آدار انکار تھا کو علاج کے تے وقت نماد و التهاب ہماری دعا کے مرض کا علاج دواہی سے کر جیسے خار کے وقت شراب کا علاج شراب سے بھی کیا جاتاہے ی اور اثر بود ے کا سات سے اسی یا شتاب بنای تا حالا کتاب گونیا ان کجاست

Page 201

199 ان کن امکان میں اور فقہا نے حق است کوکا کون ہیں از مادی مستجاب یوا خدا کی قدرتوں کے بھینٹ کا انکار ذکرات ختم کر اور ہم سے دعائے مستجاب دیکھ لے ر صنعتی یکی از رمات الله متحده ۲ مطبوعه ۲۱۸۹۳) شادی اور بی خویش دا نیست کے د کار بود بادین همکار نیست ہیں اور کیس ہو گیا کہ کیاس کا غم خوار ہیں شخص اپنے اپنے کام میں مصروف ہے احد کے دین سے کھائے وارت میل قلات مسباران تن دارد حیف پینے کا کون غیر بی نشان نیست صد بود تری امیرای ربات لاکھیل انسان کو یہ کرے گا اس انگوروں میں جواب بھی پیش نہیں ہوئی انات این است چرا این دانه ای اند و می میر است سے دولت مند وہ اس قدر فقلت کیوں ہے تم سی قید سے بے ہوش ہو یا دین کی قسمت سوگتی ہے نے سلمان علی ایک نظر بعال میں آنے سے تم بالا راحت انظار نیست ے افراد کے لیےان کی رات ایک تاریر کی نہیں ہو جائیں دیکھ رہا ہوں ان کے اقدار کی حاجت نہیں مارات کی افادات دونت بی وای بیان دیدی اش از دور کار مردم و دیدار است و نوید اعوان کے کپڑوںمیں آگ لگ گئی ہے دینداروں کا کام نہیں کر سے دور سے دیکھتے رہیں ستان از روی و یا ای می می نانی امور این دریا اور عالمی سارا نیست میرا دل دین کی خاطر ہروقت خوان ہیں جوآپ رہا ہے ہارے ہیں درد کا واقف خدا کے سوا اور کھا ئی نہیں ار را می انداز می کردند خود خدا از میرے نوشی این نیرو گناه نیست ت نہیں رکھتے

Page 202

کے خزانی الا تقارب مے کے لئے دین ہی کے باہمی کی منی نیست کند شخص اپنے ای دیال کی خوار ہی کرتا ہے.مگر افسوس کہ دین سیکس کا کوئی غمخوار نہیں تان میں بغیر سوال کا اشانگان کی بلا سے ما این زمان اس اس دیار نیست هراس ان کر ان کی طرح میں ان کو بہتا ہی کیاتاہوں والا ہے کہاں لوگ کہ ان جیب سے کچھ بھی بات نہیں میر مرید نیم بند خشن در کار نیس کاین موجود سخاوت در بهداد است یا این کار این نیکی اور ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا دات ای در این نیری کے داری قدرت به رویدات این نان با نظر را درک بسیار نیست میں اتنی کمی کرتا ہے اور یو ای کا یہ بھی کہا جاتا ہے کے میں تو اس بات کا یا نہیں تھوڑے یہ ہیں کیوں ڈرنا من خلا نبوت یکسان نمایشی و بزیر گنبد دوار نیست کی ساری نالیوں کے ظلم سے خاک میں لوٹا ہے دین میں آسمان کے نیچے کوئی نانی نہیں ہے ندین قوت مصیبت چارہ کا یکساں جو ہائے امداد گر یہ اسمان نیست ین مصیبت کے وقت ہم تو یوں کا عام سائے مینی کی دوا اور سور کے مدینے کے اور کچھ نہیں سے خدا مہر کی اداس دل تاریک را آنکہ اور انکر دین احمد مختار نیست نے خدا اس سیسہ دل کو کبھی خوش نہ کریں جن کو احمد مختار کے دین کا فکر نہیں ہے.انی را می شتاب بود و نمایش با گشت و گزار نیست اسے بھائی ہیں چند دن میلی شرت کے میریگیشن اور گلزار کی بہار اوریہ سوئی تہمیشہ نہیں رہا کرتی اور رنگزار کی رسول ديم كانت الدعاء صفحه ۳۲ مطبوعه ۹۳ اس

Page 203

ینکه نمیدست نظیرش سروش مصطفے ہمارا پیشوا اور کردار ہے جس کا ثانی فرشتوں نے کبھی نہیں که خدا مثل رخش تا فرید که ریش خون بر عقل و ہوش ایا ہے کہ دانے اس کے چہرہ ہیں اور کیا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ایرانی برای ما با ما ورود کھڑا و من دیں حملہ برو می کند حیف بود گر بندہ نوش.شمی دیں اس پر حملہ کرتا ہے شرم کی بات ہوگی اگر میں خاموش بیٹھا رہوں چوں سخن سفلہ بگوشم رسید در دل من ناست پر بهتر خودش در من جب کمینہ دشمن کی بات میرے کان میں پہنچی تو میرے دل میں قیامت کا بوش پیدا ہوتا چند توانم کہ سیکیسے کنم چند کند صبر دلِ زہر نوش کب تک میں میر کرتا رہوں زہر اپنے سالا دل کب تک میر کر سکتا ہے اس یہ مسلمان نیز از کافرست کش نبود از لئے ہیں پاک پوش و شخص مسلمان نہیں بلکہ کافروں سے بھی بدتر ہے جسے اس پاک نبی کے لیے غیرت نہ ہوں جهان شود اندر و پاکش خدا خرده همین است گر آید گوش اس کے پاک نیب پر ہماری جان قربان ہو مبارک بات یہی ہے اگر ننے میں آئے سکون در پالے عزیزش رود بار گران است کشیدن بردوش وہ سر جھہ اُس کے مبارک قدموں میں نہ پڑے صفت کا بوجہ ہے جسے کندھوں پر اٹھانا پڑتا ہے وان گروه انتشارات بعد شم منو موده ے یہ سعدی کا شعر قدر سے تعمیر کے ساتھ ہے.

Page 204

٢٠٢ محدود شکر اس خدائے کردگار کور بودش سر محمد سے انکار اس مندائے کردگار کی تھے اور شکر واجب رہے ہیں کے وجود سے ہر چیز کا وجود تظاہر این جہاں آئینہ والہ رونے او فره فتره رو نماید سوئے اُو یہ چھائی اس کے چہرے کے لیے آئینہ کی طرح ہے ذرہ ذرہ اسی کی طرف راستہ دکھاتا ہے کرد در آینه ارض و سما آل شیخ بے مثل خود جلوہ نما دیکھوں دیا اس نے زمین و آسمان کے آئینہ میں اپنا بے مثل پھرہ ہر گیا ہے عارف جنگاو او دست برشنا نے نماید راہ اور تھ اس کا ہر تہ اس کے کون دکان کی معرفت رکھتا ہے اور در نینوں کی ہر شاخ اسی کا راستہ دکھاتی ہے.گور مرومه ر فیضی نور اوست هر طور سے نتابع منشور اوست ان اور سورج کی روشنی اسی کے امر کا فیضان ہے ہر چیز کا ظہور سی کے شاہی خوان کے تحت ہو تاہے.ہر سرے مہر نے انفلوت گاہ او ہر قدم بویید در با جاؤ او ہر شہر اس کے اسران خان کا ایک بھید ہے اور ہر قدم اسی کا باعظمت دروازہ تلاش کرتا.مطلب مرال بجمال روسے اوست کمر ہے گر بہت بہر کوئے دوست ی کے دن کا جال ہر ایک دل کا مقصود ہے ورک کی گرا رہی ہے وہ بھی اس کے کچھ کیا کاش میں ہے کرد ماه و انجیر و خاک آفرید صد ہزاراں کرد منفتها پدید اس نے چاند سورج ستارے اور زمین کو پیدا کیا اور لاکھوں صنعتیں ظاہر کر دیں این مهم منعش کتاب کا برا دوست ہے نہایت اندرین سرابی است یہ اس کی یہ تمام مناسبیاں اس کی کاریگری کا دفتر ہیں اور ان میں ان کے لیے انتہا اسرار میں نہیں

Page 205

این کتا بے پیش چشم ما نهاد تا از و راو بدی داریم یا در با یر کی کتاب اس نے ہماری کھول کے اتنے کہ دیا کہ اس کی وہ سے جمہوریت کا راستہ یاد نہیں نا شناسی ہوں مداے پاک را کو نماند خاکیان و خاک را ہ کہا تو اس خدائے پاک کو بھاتے ہو دنیا والوں اور دنیا سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا شود بیمار بر روی دست شناسی از مزایای آنچه دوست کہ خود کی جی کے لیے پہلو میاں کے ہوتا کہ تو ہزاروں کلاموں میں سے پالا ہے کہ کون اس کی رو سے ہے تا خیانت بی را نماند هیچ راه تا مبدا گردد سفیدی از سیاه کہ خیانت کا کوئی راستہ کھلا نہ رہے اور نور تاریکی سے الگ ہو جائے پیس ہال شد آنا اس حوار خواست کار نقش شاید گفتار خاست همان شده اداری ہیں وہی ہوا جو اس خدا کا نشا تھا اور اس کا کام اس کے کلام کا گواہ قرار پایا مشرکان در آنچه پورش می کنند این گواہاں تیر ورزش می کنند تیر مشرک لوگ جو بہانے کرتے ہیں یہ گواہ رقول خاور فصل خدا ہیں عذرات کو نیزوں سے چھلنی کردیتے ہیں ہیں یہ گر بگوئی بغیر را رحمان خدا تک زند بر روئے تو ارض و سما اگر تو کسی اور کو خدائے رحال کر دے تو تیرے منہ پر زمین و آسمان تھوکیں اور نمائشی پر اس یکتا پسر یہ تو بارو لعنت زیر و زبر اگر اس کیتا کے لیے تو کوئی بیٹا جو نہ کرے تو نیچے اور اوپر سے تجھ پر تین برسنے نہیں نیاز بان حال گوید این جهان کال شما فرد است و تیم دیگاں با فرد است و جهانی زبان حال سے یہ کہہ رہا ہے کہ وہ خدا کیا یتیم اور ماحد ہے

Page 206

تے پدر وارونه فرزند هندن نے مبدل شد ز اتیایم ہ اس کا کوئی باپ ہے نہ بیٹا اور نہ بیوی اور نہ ازل سے اس میں کوئی تعمیر کیا یمن نے گریشی فیش کم شود این همه خلق و جہاں پر ہم شود اری لانے کے لے ایں ہیں اس کے یقین کی بات کی جائے تو یہ سب مخلوقات اور جہان اور ہم پر تم ہو یک نظر قانون قدرت راہیں ناشناسی نشان رب العالمیں کا دن قدرت پر ایک نظر ڈالتا کہ تو رب العالمین کی نشان کو پہچانے کارخ دنیا را چه دید استی بنا کو پتے ہاں سے گزاری صدق را کانچ دُنیا کی پانداری ہی کیا ہے ؟ جمہ اس کی خاطر تو سچائی کو چھوڑا سا اید آن باشد که پیش خالی است عادت کس کو گویش لاثانی است لاثانی عاہدہ ہے جو خدا کے سامنے خالی ہے ملت وہ ہے جو کہتا ہے کہ وہ لاثانی ہے یک کن تا راستی هم مادر نام میں ہوئے راستی چون شد حرام جھوٹ اور بہانہ بازی چھوڑ دے.سچے کی طرف ریخت کرتا تجھے کیوں حما را و به را نیک اندیشیده اے بلاک افتد چه بد نمیده غلط راستے کو تو نے صحیح سمجھ لیا ہے مجھے خدا ہدایت دے کیسا غلط سمجھا.رونے خود خودم نماید اں میگاں تو کشی تصویر اورچوں کو دکاں وہ خدائے واد نیا چہرہ خود دکھاتا ہے تو چوں کی طرح اس کی تصویر اپنے دل سے کھینچتا.اس نے کان فعل مق نبوده است در حقیقت به حق آن بوده است دہ پہرہ جسے خدا کے فضل نے ظاہر کیا ہے.اصل میں وہی خدا کا چہرہ ہے ن حمام ہو گیا.__

Page 207

ول ادا کردی بے داری برام بت پرستی با کسی شام و بنگاه لیکن جو تو نے خود تراشتا ہے وہ تیرے راستہ میں ایک بہتا ہے اور تو صبح و شام بہت پرستی کرتا.اسے وہ بیٹھے بستہ از افرابر اور ہوں دینی روئے اور در کا باد سے چین نے ان کا امتی اس کے کام سے ہی ہوتی ہیں ان کا یا اس کے ایل کی کار کو نہیں رکھتا ان میں در افترا با چون پری یا مگر از ذات بے چوں منکری اس قدر بڑھ بڑھ کر کیوں انزا باندھتا ہے شاید تو اس بے مثل ذات سے منکر ہے.دل چو ابند ی دریں دنیا سے دوں ناگہاں خوابی شدن زینجا ہوں اس قلیل دنیا سے کیوں دل لگاتا ہے جہاں سے تو ایک دم باہر پہلا جائے گا از نے دنیا پریدن از خدا بس ہمیں باشد نشان اشتیا ہیں دنیا کی خاطر خدا سے تعلق توڑنا ایسی بدجنتوں کی لامت ہے چول شود بخشایش تقی بر کسے دل نمے ماند بد نیایش بسے جیہ کسی پر خدا کی مہربانی ہوتی ہے توام اس کا دل دنیا میں کچھ زیادہ نہیں لگتا یک ترک بن کے آسان بود شروان داز خود شدن کیان بود ین تحریک نفس کبھی آسان نہیں.مرتا اور خودی کا چھوڑنا برابر ہے آن خدا خو در خود از کار خویش کرد قائم شاید گفتار خویش او اس خدا نے اپنے تئیں اپنے افعال سے ظاہر کیا اور مر نہیں اپنے کلام کا گورا قراردیا اس کے علاوہ ہو اور سن اس کی ذات میں تھا اسکا یہ بھی اس نے زیادہ کام ہائے سامنے کھینچ دیا

Page 208

رجہ ہے تر کشی از پیش خود تصویر او خالق او می شوی اسے تیره هو تو اپنی طرف سے اس کی تصویر کھینچتا ہے اور اسے بد باطن آپ اُس کا خالق بنتا ہے ه و از کار خود بود نما است آن خدا نے ان خود از دست است.روہ جو اپنے فضل سے اپنا جلو دیکھا رہا ہے خدادہ ہے کہ وہ مجھے ہمارے انھوں نے بنایا ہے ے سن کر یں جہاں مولائے ماست آنکه قرآن اورج او جابجا است مایع اے قائم ہمارا مولا مری ہے جس کی قریب قرآن نے جا کا کی ہر جو قرای گفت می گوید سما چشم کشا تا به بینی این قیا ہو کچھ قرآن نے کہا وہی آسمان بھی کہتا ہے آنکھ کھول ہو کر تو اس روشنی کو دیکھے کیس میں تیرے بود اسلام را کو نماید آن مانے تمام را اما اسلام کو یہی فخر تو حاصل ہے کہ وہ اس کامل خدا کو پیش کرتا گویش تانسل که امنش عیاں نے تراشند از خودش بول دیگراں وہ اسی طرح کہتا ہے جو ان کی محنت سے ظاہر ہے دوسروں کی طرح اپنے پاس سے کوئی خدا نہیں تہ انتا غیر کلم خود تراشد پیکرش خود راشد قامت و یا دوسرش غیر سفر اس کے موجود و خود تراشتا ہے.وہ آپ ہی اس کا قد اور پیر اور سر جویز کرتا ہے خود تراشیدہ نے گردد خدا ہمچو طفلال بازی است و اخترا خود تراشیده وجود خدا نہیں ہو سکتا وہ تو بچوں کا کھلوتا ہے اور بھٹ ہیں تراشیدان جہا نے شد تباہ کرکے موٹے بھائی دوست ماه سے ھوتے بر ماه اس خدا تراشی کی وجہ سے ایک جوان برباد ہو گیا اور کسی کو بچے قد کا لامت نہیں کا

Page 209

риво ہوں تو کورسے نیتی پنے گنا ہیں چہ ظاہر سے کند ارض و سما جب تو اندھا نہیں ہے تو آنکھیں کھول اور دیکھے کہ آسمان و لر مین کیا ظاہر کرتے ہیں یران بشنو صدائے التقرير ذو الجلال و دور انکی نور سے منیر ہر رات میں آواز آتی ہے ایک اور ندا ہے ایک حب بلال صاحب موت اور روشنی بخش نور موجود ہے ایی مخلوقے ندائے خود نگیر کے شود یک کر کے ہوں اس قدیر تو کسی حقوق کو اپنا خدانہ بنا ایک کیڑا کیونکر اس تقدیر کی طرح ہو سکتا ہے پیش او الرز و زمین و آسمان پس تو مشت خاک رمانش مردان اس کے آگے زمین و آسمان از تے ہیں نہیں تو ایک مشت خاک کو اس کی طرح نہ سمجھے گر خدا گوئی منیفی را بزور جان تو گوید گذابی دکور ریکی کو تیلی کو بر روی خاک بھی دے تو تو میرا دل بول اٹھے گا کہ تو جھوٹا اور ان دا ہے ولی نمی داند خدا مجد آل خدا ایں نہیں افتاد فطرت ذابتدا نے الا اے سی ای او کے کسی اور کو تسلیم نہیں کرنا شرو ع سے انسانی اور ہی طرح واقعہ ہوتی ہے از رو کین و نصب دور شو یک نظر از صدق کن چه نور خو کینہ اور تعصب کی راہ کو چھوڑ دے صدق سے غور کر اور روشن دل ہو جا میں ریاض عقل را ویران کند عاقلان سا گره به نادان کند کینہ اور تعصب عقل کے باغ کو اجاڑ دیتے ہیں اور عقلمندوں کو گمراہ اور بیوقوت بنا دیتے ہیں کے بشر گرد و ندا نے لا ینال داوری را کم کن اے حمید خلال ایک انسان کسی طرح غیر نانی خدا بن سکتا ہے اسے گنا ہی کے شکار جھگڑا

Page 210

this آپ شان کو بہت اسے عودی تاز ما گم کن اگر داری تمیز اے سویرا تیرے ہاتھ میں صرف کھاری پانی ہے.اگر تجھ میں تمیز ہے تو شیخیاں تو بلا کی گر مچھوتی ہوں ندا آنکه بنماید تا ارض و سما تو ہلاک ہو جائے گا اگر م س عقد کو تلاش نہ کرے گا مجھے زمین و آسمان تجھے دکھا رہے ہیں م بقرآن میں جمال آن قدیر نزل و فصل بھی ڈولیال یک مدیر تو قرآن سے بھی اس تاور خدا کا سن دیکھے خدا کا قول اور خدا کا حل ایک ہی ان کے ملنے پانی میں ت کافی مردم اندر حسرت این مدعا چوں نے خواہند خلق این چشمہ را میں تو اس بات کے نجم سے مرگیا کہ خلقت اس چشمہ کو کیوں طلب نہیں کراتی بہت قرآن در رو دیں ریتما در همه حمامات دیں حاجت روا قرآن دین کے راستہ کا رہتا ہے اور مذہب کی سب ضروریات کو پورا کرنے والا ہے تل گرد و حتی که از خود مانی راند آب نوش از چشمه فرقانی اند اند وہ اہل حق ہونانی ہیں.وہ فرقانی چشمے سے پانی پینے والے ہیں فارغ افتاده تر نام و عز و جاه دل برکت و از فرق افتاده گاه ل وہ تمام مرد اور جاء ادارت کی طرف سے بے پیدا ہیں ان کے اتھ سے دل اور سر سے ٹوپی گرگئی ہے.ہاتھ سے ول دورتر از خود به بار آمیخته ابرو از بهر روئے ریختہ خودی سے دور اور بارہ سے واصل ہو گئے ہیں اور جس کی خاطر اپنی عزت و آبرو سے دستغیر والہ نہیں از بول چال چلبی دل پر دربار کی نماند راز شان نیز کردگار میرا انہی دکھائی دیتے میں گر دل یار کی محبت سے بھرا ہے خدا کے سوا ان کا بھید کوئی نہیں جانتا

Page 211

دید ای شان سے وہ یا داخل صدق در زال در جناب کبریا ان کے دیکھنے سے خدا یاد آتا ہے خدا کے لیے انہوں نے صدقی دوفا اختیار کیا ہے آن مجمد له ابو و قرا ر ہیرے کے تلال در شدہ بچوں ڈورے ان سب لوگوں کا رہنما قرآن ہی تھا اور اس دروازہ کی برکت سے ان میں سے ہر ایک موتی کی طرح ہو گیا اس ہمہ زال دیر سے جان یافتند جاں چہ باشد روئے جاناں یافتند سب نے اسی محبوب سے زندگی حاصل کی.زندگی کیا خود اس محبوب کو پا لیا چشم شان شد یاک از شرک و فساد شد دل شال منزل رب العباد شرک اور فساد سے پاک ہو گئی اور ان کا دل رب العالمین کا گرین سید شال آنکه نامش مصطفی است سیر بر زمره صدق و صفا است ان لوگوں کا سردار دہ ہے جس کا نام مصنفنتے ہے تمام اہل صدق و صفا کا وہ ہی پہنچا ہے.سے درخشند روئے بھی دو رو سے اُو ہونے می آید زبام د کوئے اُو اس کے چھرہ میں خدا کا چہرہ چکھتا نظر آتا ہے اس کے درودیوار سے خدا کی خوشبو آتی ہے.سر کال د میری بود سے تمام پاک رونی و پاک رویان علا امام در الامام ر بیری کے تمام کمالات اس پر ختم میں خود بھی مقدس ہے اور سب مقدموں کا الہام سے اسے خدا اسے پارہ آزاد ما کی شفاعت ہائے اُو در کار بار 16 اسے نہ اسے بہار کی تکلیفوں کی دوا ہمارے معاملہ میں اس کی شفاعت نہیں نصیب کر ابر که هرش در دل و جان فقد ناگہاں جانے در ایمانش مقتد جس کے جان ودل میں اس کی بیعت داخل ہوجاتی ہے تو کیا اس کے بیان میں ایک جان پڑ جاتی ہے

Page 212

کے یہ امریکی بر آید اس خراب اور مزین شرق صدق و صواب وہ کا اندھیرے سے کر نکل سکتا ہے جو اس صدق وصواب کے طلوع کے مقام سے بھاگتا ہے.اسکے اور ظلمے گیرد براه نمیتش خون روئے احمد مہر و ماہ روئے مام اہر کہ خصی جیسے قاری کی گھیر لے اس کے لیے احمد کے چہرہ کی طرح اور کوئی چاند سورج نہیں ہے تابعش بحر معانی می شود از زمینی آسمانی مے شود کا پیرو معرفت کا ایک سمندر بن جاتا ہے اور زمینی سے آسمانی ہو جاتا ہے.در راه محمد زد قدم انبیا را شد شیل آل محترم جس نے محمد کے طریقہ پر قدم مارادوہ قابل صوت شخص نبیوں کا مثیل بن جاتا ہے تو عجب داری زنوز این مقام پانے بند نفس گشته صبح و شام تو اس درجہ کی کامیابی پر تعجب کرتا ہے کیونکہ تو ہر وقت اپنے نفس کا غلام ہے یکه مخرو نانه ی سیلی تر است بنده عاجز بخشیم تو خداست س شخص کہ تجھے معینی پر فخر اور تاز ہے اور خدا کا ایک عاجز بندہ تیری نظر میں خدا ہے شد فراموشت منداونز سے درود پیش عیسی اوفتادی در مجود تجھے نہائے شفیق بھول گیا اور آئینی کے آگے سجدہ میں گر گیا مین د افرین و افضل است و اکا بنده را ساختی ربت السماء میں نہیں مجھ سکتا کہ سیکیسی عقل اور ذہانت ہے کہ ایک بندہ کو منھا بنایا نانیاں راست با او کجا از صفات او کمال است و بقا جائے انی انسانوں کو خدا سے کیا نسبت اس کی صفت تو کائل ہونا اور ہمیشہ رہتا ہے

Page 213

چاره ساز بندگان قادر خدا آنکه ناید تا ابد برو سے تا وہ بندوں کا چارہ گر اور خدائے قادر ہے جس پر کبھی بھی خا نہیں آسکتی حافظ د نتار د بواد و کریم بیکساں را یار و رتیلن و تیم ان افت کر نے مانا باد و روش سنی اور کیا ہے بے کسوں کا دوست ہے حد رحم کرنےوالا احد حمران کرنے پردہ تو چہ دانی اس خدائے پاک را الک جلال ہو تو دادی خاک را اس خدا کے پاک کا مال کیا جا سکتا ہے موت کا مقام تو تونے ایک خاکی انسان کو دے رکھا ہے ہاں دینے سر دم نکتاره زنی پس نه مرد استنی که کمتر انه نزنی ر ایک رات سے بھی گیا گناہ ہے ادارہ کی شیخیاں ہی بگھارتا رہتا ہے لیس تو مرد نہیں گذرا انسته سهل است گر یا بد سزا زیده و گرد دیگر زنان فعلش رویا برزیل یہ تو بڑا آسان نسخہ ہے کہ سزائے زید کو.اور کبر اپنے گناہ سے پاک ہو جائے ایک زریں سفیہ نے یا بی نشان در ورق ہائے ترین و آسمان لیکن اس نسخہ کا تجھے نام و نشان بھی نہیں لے گا زمین و آسمان کی کتاب کے دو قول ہیں تا خدا بنیاد این عالم شہاد کالے ہم زنگ دارد زیں فساد جس سے خدا نے اس دنیا کی بنیاد رکھی ہے اس وقت سے نالوں کو بھی ہی شرارت سے مار آتی ہے.چون ندارد و فاسقے آن را پسند ہوں پسند و حضرت پاک و بلند کی تائی بھی اس بات کو پیش کرتا ہے تو دا تعالی جو پاک ہے روہ سے کس طرح پسند کرسکتا ہے ا گنهگاریم نالاں نیز هم او غیور سے بہت رحمان نیز علم

Page 214

۲۱۴ زهرو تریاق است در استتر آن کشا ہی سے دور جان دگر را ہم میں زہر اور تریاق دونوں بھنی ہیں.وہ قتل کرتا ہے اور یہ دوسری زندگی بخشا تیر را دیدی نه دیدی چار ماش انکر بوده انازل کفاره اش تو نے زمبر کو تو دیکھ لیا مگر اس کا علاج نہ دیکھا ہو ہمیشہ سے اس کا کفارہ ہے جل دو تثبیت داده اند سے بے خیبر پس چرا پوشی کے وقت نظر سے ہے شہر جب تجھے دو آنکھیں دی گئی ہیں تو دیکھتے وقت کو ایک کو کیوں ڈھانک لیتا ہے.یک نظریں ہوئے ہیں دنیائے دوں جوں مگر دی از پئے آں سرنگوں این چل گردی اس ور اس اصیل دنیا پر نظر ڈال کہ کس طرح تو فیس کے پیچھے سرگرداں پھر رہا ہے.آنچه داری از متاع و منزلت بے مشقت با نگشته حاصلت جو کچھ بھی سامان اور عورت کچھ سامان اور سرعت در سوت تیرے پاس ہے وہ تجھے بغیر محنت کے حاصل نہیں ہوتی بایدت تا مدتے پہلے دراز ناخوری از کشت خود نا نے فرانہ ایک ہے عرصہ کی کوشش درکار ہے تاکہ تو اپنی کھیتی سے روٹی کھائے چول ہمیں قانون قدرت او قتاد پس نہیں یاد آر در کشت معادل جب قانون قدرت ریسا ہی واقع ہوا ہے پیس آخرت کی کھیتی کے لیے بھی یہی بات یا دیکھ خوب گفت اول قادر رب الورى ليسَ لِلإِنسَانِ إِلا ما سو رب العالمین قادر خلاتے کیا غریب فرمایا ہے کہ انسان کو اپنی کوشش کا بدلہ ضرور تھا ہے ہم دین نیست گرتویشتوی یادگاره مولوی در مثنوی اگر تو سنے تو اسی مطلب کا مضمون وہ بھی ہے.ہوا ثنوی میں سواری منوی کی یاد گار ہے

Page 215

مندم از گندم بروید و نه خود از مکافات عمل غافل شو کر گیوں سے کیوں پیدا ہوتا ہے اور جو سے بولیں تو عمل کے بدلہ سے قاتل نہ ہو نه به کناره به خاطر نماد اعقل دوین از دست خود گیر ام جس نے کنارہ پر دل جا لیا اس نے فضل اور دین دونوں کو برباد کر دیا دین ودنیا جد خوابد بهم تلاش ویرایش جد کی تلوار مباش دوین اور دنیا محنت اور تلاش کر چاہتے ہیں یا تو یہی اس کی ماہ میں کوشش کر اور نادان نہ ابن اشیا ء الحقی صفحه المطبوعہ از ۲۶۱۸۹ عین تی تقی میان اشارات خداست کو نہ جانے کچھ دل مع است عنہ کی وہی شانوں سے بھری ہوتی ہی ہے اور کئی ماہا اور کم میم مجھے تو ہم میں کمی ہے چشمہ فیض بیعی است دچی اینیه دی لیکن ایک قید که باشد مهندی خدا کی وحی فیضان کا ایک چشمہ ہے لیکن اُسے وہی سمجھ سکتا ہے جو خود ہدایت یافتہ ہو وجی قرآن را نه با وارد بسے نسبتی باید کہ تا قید کے قرآنی وحی میں کثرت اسرار ہیں، مناسبت ہونی چاہیئے " کہ کوئی اسے سمجھ سکے واجب کو نسیت اندر دین نخست کار بے نسبت نے ایک درست دین کے لیے پہلے مناسبت ہوتی ضروری ہے.بغیر مناسبت کے کام ٹھیک نہیں بیٹھتا اس میدے کے ابو بکر است نام نسبتے مے داشت با خیر الامام ی انسان میں کام ہو کر ہے وہ آنحضرت کے ساتھ ایک نسبت ربیعنی باطنی تعلق رکھتا تھا

Page 216

ترین نه شد مختارج تفتیش دراز جان اور شبانہ روئے پاکباز اس وجہ سے کسی بھی تحقیقات کا محتاج نہ تھا.اس کی ماں نے ایک پاکیان کے چہرہ کو چاہی لیا بہترنت در قربانی سعید آنچه تو بدید اس تارود ندیدم اے سید انسان انظر نظامی فرق ہوتا ہے جو ہارون نے دیکھ لیادہ قارون نہ دیکھ بود دار وں پاک و ایں کرنے پلید کے باند بایزید بایزید اتروں وایں باند ر آسمان ایک پاک انسان تھا اور قارمان ایک گروہ کیردار باید یدیہ یزید سے کس طرح برابر موسکا گر نباشد نسبتے در جائے گاہ ظلتے در ہر قدم گیرد بناه اگر کسی کو مقام مقتصرا پتہ نہ ہو تو وہ ہر قدم پر ٹھوکریں کھاتا ہے اس کے رامہ عیاں پیش نظر دیگرے برابر کردہ کور و کر ایک کو چاند صاف نظر آتا ہے، دوسرے کو ابر نے اندھا اور ہرا کر رکھا ہے.اس نشسته با نگار دل ربا این دکوری با در انکار و ایان ی تو دل را جو ہے تایا اور رانا نانی کی وجہ سے ضاعت در انکا میں قید ہے او مرنے آید نظر در وقت ابر همچنین صدیق در چشمان چاند ابر کے وقت نظر نہیں آیا کرتا اسی طرح صدیق بھی کافر کی آنکھ کو دکھائی نہیں دیتا اسے پیر اور از قاتل کی تلاش ہاں مو جوں تو ستے آہستہ باش اسے بھائی میر و سوات سے تلاش میں لگا رہ گھوڑے کی طرح نہ دوڑ - آہستہ چل سے اپنے تکیر ما بستہ کمر خائنات دو یہاں تو در نکردگر دیہاں اسے وہ کریں نے پانی نہیں کر اللہ کی ہے تیل یا گھر و ویران ہے گرتے اوروں کی فکرمیں کیا ہوا ہے.

Page 217

Kid صد ہر سال کفر در جانت نهال روچه نالی پر کفر دیگران اکھوں کو تو تیری پنی جان کے اور چھے ہوئے ہیں بھلا تو اوروں کے کفر پہ کیوں روتا ہے یزه اول خواشین ماش درست کر میں را چشم سے باید نخست | اٹا اور پہلے اپنے نہیں ٹھیک کر معترض کے لیے پہلے چشم بصیرت ہونی چاہیئے.سنتی گر جتنے بر ما کند او نه پر ما خویش را رسوا کند اگر کوئی لعنتی ہم پر سخت کرتا ہے تو وہ اسنت پھر پا نہیں پڑتی وہ تو خود اپنے میں ولیل کرتا ہے بحت اہل جنتا آسال بود لعنت آن باشد که از رمان بود کاموں کی سنت کا برداشت کرنا آسان ہے صلی لعنت تو وہ ہے جو رحمان کی طرف سے آئے ر ضیاء الحنی مسلم مطبوعه ۶۱۸۹۵) جہاں خدائے آسکرا، جان آفرید دل مشابه آنکه روشد ولی پدید جان اس پر قربان ہے جس نے اس جان کو پیدا کیا اول اس پر نثار ہے میں نے دل کو بنایا جہاں ان پیداست میں سے ہویدش ربنا الله ربنا اللہ گویدش مان ہو کہ اس کی مخلوق ہے اس لیے اُسے ڈھونڈتی ہے اور کہتی ہے کہ تو ہی میرا رب ہے تو ہی میرا رب ہے گرو رو جاں نمرود سے دو جہاں کے شر سے مر جمالش نقش جاں اگر جان کا وجود اس کی طرف سے ظاہر نہ ہوتا.تو اس کے حسن کی محبت جان پہ کس طرح نقش جھاتی جہاں جا کر پیدا اس یگاں ہیں جو دل ہونے کو ہوں عاشقان اور ان کو ان کی آنے دیا کیا ہے اسی لیے دانتوں کی طرح حول اس کی طرت منا ہی ہے

Page 218

PIT ار نمک تاریخیت اندر جان جان جان است آن جانان ما اس نے بہاری راہوں پر بیت کا نمک چھڑکا ہے.وہ ہمارا محبوب ہماری جانوں کی جان مرد ہو نے نقش بستی زد گرفت جان عاشق نگر مستی زد گرفت ہر بچہ نے اسی سے پی بہتی رفت حاصل کیا ہے اور ان کی جان نے بھی متی کا رنگ اسی سے دینا مرکز دوش خودبخود جائے بود و نه داتنا سخت نادان بود جین شخص کے نزدیک روح خود کنید پیدا ہوگئی ہے اشخص وانا نہیں بلکہ سخت ہیو توت ہے گر و بورد دانه نال رحال میرے جان را با جان او یکساں ٹیر سے با نیند اگر ہمارا وجود اس رحمان کی مخلوق نہ ہوتا تو ہماری جان اور اس کی جہان ایک جیسی ہوتی آنکه جای ما بانش مہر است جائے جنگ دعار نے پریشر است وہ جس کی جان سے ہماری مالی برابر بوده پر میشر نہیں ہے بلکہ قابل شرم وجود ہے.سیر قهرهم خدائی قدرت است منکر آن ایرانی صد لعنت است او خلاقت اسی کا بھید اس کی قدرت میں ہے قدرت کا منکر سینکڑوں لعنتوں کا مستق ہے.زمانی صدق این گفتار را هم ز ینیک شنو این امیرار را اہم زن اگر تو اس بات کی سچائی کو نہیں جانتا تو نانک سے ہی یہ رانہ کی یہ مانہ کی باتیں مشین گفت مہر اور سے نہ اوریق نیافت هر دودن نقش خوزان دست یافت اس نے کہا کہ ہر تو رضا کے نور سے چکا ہے اور ہو جود نے اسی کے ہاتھ سے ناقش حاصل کیا ہے مری نے گو کہ ہر سال اول خداست خود بود نے کردی ریت اور سنی است و یہ کہتا ہے کہ ہر روح خدا کی طرح ہے بعد آپ ہی آپ سے نہ کہ رب العالمین کی پیدا کی ہوئی

Page 219

À ا لیکن این مرد خدا اپیل مقام کے کرد از کتاب تو سے سامنے لیکن یہ مرد خدا اور اہل صفا انسان میں نے ایک قوم کو جھوٹ سے آزاد کیا گفت مر جاتے زبونش شد پدید | قا درست اور جسم و جاں سا آفرید فرمان ہے کہ ہر روح خدا کے ہاتھ سے ظاہر کرتی ہے.وہ قادر ہے ہی نے علیم اور روح کو پیدا کیا.ترکی در گفته این کارخاں روچه تالی بر دید آریان تو بھی اللہ فاروں کی باتوں پر غور کر آریوں کے وجہ کے لیے کیوں روتا پھرتا ہے.بود نانگ عارف و مرد غدا | راز ہائے معرفت راده گشته تانک ایک عارف اور با خدا مرد تھا.اور معرفت کے بھیدوں کو کھولنے والی دید شمال را و معارف ڈور 7 سادہ کی ممانجانے ہے سفر دید اس مقایق و معارف سے بہت دور ہے وہ ہے بہتر تو غارت کی تعریف بھی نہیں جانتا این قیمت گرد یک بشنوی در در عالم از شقاوت بہا رہی اگر تو ناک کی اس تصیحت کونسی ہے.تو دونوں جہان میں پرہستی سے نجات پائے او نه از خود گفت این گفتار را گوش او شنید این اسواره را اس نے اپنے پاس سے یہ بات نہیں کی بلکہ اس کے کانوں نے وفد کی طرف سے اس ساز کرتا ہے.دید سالاد تزریق محور یافت از خدا ترسید و راه نور یافت اس نے دید کو خدا کے نور سے خالی پایا.وہ خدا سے ڈر اور اس نے نور کا راستہ پا لیا اسے برا اور ہم تو سوئے او بیا دل پر بندی در جہان بے نقا ائے بھائی تو بھی اس کی طرف آ.اسی ہے دنا دنیا سے کیا دل لگاتا ہے دست یکی طلاع المعطوف ۱۸۹۵)

Page 220

PIA کا گشت که مرزبانان مقامر شان بشت است بر جری کام و ایشان نیا کی اے این کو یہاں رہ گئی ہے اس جہان کے وقت میں ان کا نام می بست رہتا ہے.رگری غیر اسکولش زنده شد عشق میر کے زرعیت مراش مرامیشان و نہیں مرتاجی کو محنت سے زندہ ہوگیا تو وہ ہے جس کا مقصد ان عاشقوں جیب نہیں ہوتا اسے موہ دل کوش ہے مگر اہل دل جل قصور قیت نفسمی کلامہ شمال سے سولہ دل صاحب اوں کی خدمت کی گوشت نہ کر تو اپنی نادانی کی وجہ سے ان کا کلام نہیں سمجھ سکتا دست میکن متحد ۱۸) تز یک قطره داری و عقل و خرد مگر فقد تنش بحر ہے مدد عد تیرے پاس تو معقل اور دانائی کا صرف ایک قطرہ ہے لیکن خدا کی قدرت بے پایاں سمندہ ہے اگر پیشنوی قصه صادقان بجنبان سر خود پر مشتریان اگر جب تو راستبازوں کے حالات مئے تو چاہئے کہ اپنا سٹھٹھا کرنے والوں کی طرح چلائے تو خود را خرد مند فهمیده مقاماتِ مردان کجا دیده تو خود کو عقلند سمجھتا ہے.گر تو نے مردان خدا کے مقامات دیکھتے ہی نیکی است چین مرسوم توانم که این دو پایان کنیم که جان در رو خلق قربان گامی به این دو مجھ میں یہ طاقت ہے کہ یہ عہد اور بیان کر دوں کہ مخلوق کے لیے اپنی جان قربانی الے حافظ شیرازی کا مصرع ہے

Page 221

F14 توانم که مریم دریں رو دیمیر ولے بنگال را چه درحال گھر دلے ساچه میں یہ بھی کرسکتا ہوں کہ اس رشتہ میں سر بھی دئے ہوں گر یہ گمان کا کیا علاج کروں است چینی صدر بها مطبوعه ۲۶۱۸۹۵ و یہاں سے ہم عیدبار سوگند ہوئے حضرت وادار سوگند سے دور ستومیں تمہیں سیکڑوں قسمیں دیتا ہوں اور جناب الہی کی ذات کی قسمیں دیتا ہوں که در کارم حجاب از می تونید به محجوب دل انمار سوگند امیر ے ماریں تھا سے بھی جناب اگر میں نہیں کیوں کے دلوں کے محبوب کی قسم دیتا ہوں مجموعه اشتهارات حصه سودم من (۲۲) ر کسی می می نی بی تا این داد در تکمیل پل کا شیخ نجف دیکھ لے کہ اس میرے مندگانے شیخ نشینی کو اتنی صلت نہ دی کہ چالیس دن پورے کر لیتا رجمه و انتشارات حصہ سوم مهر ۱۳۹۱ ومی این دارای دشتی است شیت بندی بست و سه جانی است بارزان در گری الان ت ورنات اور یہی شیخی ہے تو ایسے مو خیلی شیخوں سے شیخ بندی (شیطان بہتر ہے ور اشتہار لیا کے نام کی موت، ها مارچ ۶۱۸۹۷

Page 222

۲۲۰ صادق آن باشد که ایام بالا نے مے گزار و با محمت با وقا صادقی وہ ہوتا ہے کہ ابتلاؤں کے دن محبت اور وفاداری سے گزارتا کو قضا راح اشتے گردو اسیر کے بوسد آن زنجیر را کو اشنای ارتضائے الہی سے عاشق قید ہو جاتا ہے تو وہ اس تن خیر کو چونتا ہے.جس کا سبب آشنا ہو.ر کتاب البریه سرونه ی مطبوعه ۲۱۸۹۷) ے پر ہند اور اس کا جان بود می گریدر رونا رو گریا نے باد نیا کی پوری کو کرسکتا ہے انے ان کی اوان و پس چور نے والا ہو ان لوگوں کی حالت پر سستے ان دادند که بخش بست بر برگ ثبت ہر کو بیان خدارا اومسلما نے بورد وہ خدا جس کا نام ہوتے پر نقش ہے جو اس خدا کو ڈھونڈتا ہے رہی سچا مسلمان ہوتا ہے رنگها بها الجديد من الام محمد است اما و چوارغ هر دو جهان احمد است فرود نده زمین و زمان محمد رہی دونوں جہانوں کا اہم اور جماع ہے محمد ہی زمین و زماں کا روشن کرنے والا ہے خدا گویش از ترس حق گر بخدا فانها ست مہوش برائے عالمیاں ین ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ن لیے ہوتا ی فون خدا کی وجہ سے اس خاتونہیں کا گرنا کی قسم کا وبال جان کے لیے نہانا ہے ار کتا البرفی منطقه ۱۲۹ کتاب لوستل

Page 223

۲۲۱ الے ہو نے منانے داد وہ قادری پر کیا کہ ایران است کبیر تو چر ان کے تارے نے ان دیکھا کہ کولیک تیری کے کے سامنے ایک عظیم الشان نشان.انه آمار گیا چندیره در مسافت میں لانے پر بہت تر از خنزیر اس کی رات اناش کر کہ گرد قبول کرتے تو نہ کاٹے گا ورنہ یہ روتے یا مندر سے بھی بد تر ہے ور عالی سر خودزنان مالک ارض و سما کر یگیر و نصب ایسی نہ بست و امیر زمین ایمان کے باشاہ سے کیوں نہ اترا ہے کلاسک تب مجھے کوڑے کروں تجھے پناہ اور معد ے سکتا ہے اتر و شمس درزمین فلاک آتش و آب همه در قبضه آن یار عزیز اند اسیرا چاند سوری نہیں آسمان رنگ اور پانی سب اس رات والے دوست کے قبضہ میں تیری میں رسیان در بروز این بیت پاک انبار اول همان خون دالم دا نگیر سب فرشتے اُس کی ہیبت سے لرزتے ہیں انبیاء کی جان اور ولی خوان ہے اور قوت و انگیر ہے جنت دو نرخ سوزنده از دومی لرزند چه چیزی چن تا مرتبہ اسے کرم حقیر بھی کیا ہے اور تیری مشرقی ه این وینگ بعدا اخ واخواهی کرد توبه کن تو به گ در گذر از تقصیر تو خدا تعالے سے کب تک یہ جنگ وجدل کرتا ہے گا تو کر تو ہو کر میری خطائیں مان کردوست من اگر در نظر بابر مقامی دارم اس مقصد کو بیان تو داد تشخیر را یکی این کانی دیتا ہوں تیری گرتی و تعمیر سے اسے کیا انسان پہلی کتا ہے سنت است که اوس نے خدا می بارد سنت دیگران است بکے ہر نہ فقیر سخت ہو جاتی ہے جو خدا کی طرف سے جمال ہو سیدہ مال لوگوں کی معنت محض بیہودہ شور ہے

Page 224

ے پاور و دین است ہے ہمیں واشار ناک شہر اک گر باز کنه ش کیرا ے بھائی دین کا راستہ بہت مشکل بات ہے، ناک ہو جانا.تاکہ پر مجھے اکسیر بتا دیں.توبا کی اگر نہ کیتابی سر خویش من از آمدم با تو بگی میری تقریر اگر تو کبر سے مداگردانی کرے گا تو بلاک ہوجائے گا میں اس کے پاس گیا ہوں اور بطور غیرت کے سمجھاتا ہوں آن خوانی اند خیلی جهان پی بر اند ایمان و جلوه خود است اگر پای بندی وہ خدا میں سے مخلوق پر لوگ بے خبر یں اس نے مجھ پر بل کی ہے.اگر تو عقلیت ہے تو مجھے قبول کر اسراج منیر صفحو المطبوفه ، ۸۹ این ے فریر وقت در صدق و صفا با تو باد آن رو که تامیم او خنده ے صدق و صفا میں اس زمانہ کے بیگانہ انسان میرے ساتھ وہ ذات ہو تیں کا نام خط بر تو بار د رحمت با بر ازل در تو تا بد نور دلدار اول تجھ پر اس بارہ قدیم کی میت کی بارش ہو اور تمہیں اس محبوب ازلی کا دورہ چکتا از تو جان من خوش است اسے خصال دورات میرے دیں قحط الرجال اسے ایک علت انسان تجھ سے میری جان راضی ہے اس عطار قبل مں میں نے تجھ کو ہی ایک مرد پایا ہے.در حقیقت مردهم معنی مردیم معنی کم اند کو ہمراز روئے صورت مرد مراد کے در اصل حقیقی انسان کم ہوتے ہیں اگرچہ دیکھنے میں سب آدمی ہی نظر آتے ہیں سے مراد نے محبت ہوئے تو ہوئے انس آمد مرالہ کوئے تو ے کہ کہ میری محبت کا تیری بات ہے مجھے تیرے کوچے سے انس کی خوشبو آتی ہے.

Page 225

۲۲۳ کس نہیں موم کا روئے نکرد این نصیبت باردا سے فرخنده مرد گار ہیں کے تنے بھی بہا ر ا ن کیا ا ایک نیا انسان یہ بات میری امت میں کی تھی ہرزمان با سنتے یا دم کنند خسته دل از مجد و بید اوم کند یادم یہ لوگ تو ہر وقت مجھے لعنت سے یاد کرتے ہیں.اور ظلم و جنا سے مجھے رکھ دیتے رہتے کی چشم بار صدیقے نہ شد تا بچشم غیر زندیقے نہ شد نه یہ کی نظر میں کوئی شخص متدین قرارنہیں پاتا جب تک وہ غیروں کی نظر میں زندیق نہ ہو کا فرم گفتند و دنبال دلین هر قلم الله ہر فلم ہر لیجے در کمیں ! نہوں نے مجھے کا فرد حال اور سنتی کیا اور ہر کینہ میرے قتل کے لیے گھات میں بیٹھا گیا بنگر این بازی کنال را چون جهند از حسد بر جان خود بازی کنند ی از گروں کو دیکھ کہ کس طرح چھتے ہیں یہ عصر کے بارے اپنی کمان سے بھی کھیلتے ہیں مومنے را کا فرے داون قرار کار جاں بازی ست نزد ہو شیار کسی مومن کو کافر ٹھیرانا سمجھ دانہ آدمی سے نزدیک بڑے خطرہ کی بات الہ ا کہ تکفیر ہے کہ انہ ناحق بود واپس آیا بر سر المش قد کیونکہ جو تکنیز ناخی کی جاتی ہے.وہ تکفیر کرنے والے کے سر پر ہی واپس پڑتی ہے سفہ کو غرق در کفر نہاں مردہ نالد بهر کفر دیگران دبیر بے وقوت جو مفتی کفر میں فرق ہے وہ اور وں کے کفر پر ناحق پیمودہ نقل کھاتا ہے اور کر غیر وال کفر باطن داشت نوشتن را بدرسے انگاشت اگر دیکھو اپنے باطنی کفر کی خبر ہو تو تو اپنے آپ کو ہی بہت برا سمجھت

Page 226

۲۲۴ ت مردانہ شد سرا انه نومیم جیسے لوگوں نے مجھے اپنی قوم سے کاٹ دیا ہے ہے انہوں نے میرے کاتقان میں ان کی راتیں کی ہی انتر با پیش هرکس پرده باند و از خیانت با سخن پرورده اند د شخص کے روبرو افترا ہے تازیاں کیں اور خیانت کے ساتھ خوب باتیں بنائیں تا مگر نزد کسے نال افترا سادہ لوحے کافر انگارد مرا تاکہ کوئی تو اس افتراء کی وجہ سے پھسل جائے اور بھوں آدمی مجھے کافر سمجھنے لگے با فتنه ها نگفتند با تصاری رائے خود آمیختند ور رو مہارے راستے میں کتنے کھڑے کیے اور عیسائیوں کے ساتھ ساتہ بلنہ کی انھوں نے ہار سے کا فرم خواندند از جمل و عناد این چین کورے بدنیا کی میاد حمل و عادت کی وجہ سے مجھے کافر کہا.کاش دنیا میں اتنا اندھا کوئی نہ ہو.چل کو نقل و نادانی تعصب با خود دور میں بخوشید و دو تیری شان بیاد نخل و نادانی نے تعصب کو پڑھایا اور کینہ بھڑک کر ان کی دونوں ہانکھیں نکال لے گیا مسلمانیم از فضل خدا مصطقه ما را امام و مقتدا خود بریده اند بر تکفیرم چها کوشیده اند ہم ندا کے تلف ! مسلمان ہیں.ہمارے امام اور پیشوا ہیں ندین دی آمده از مادریم ہم بریل از دار دنیا بگذریم از ہم ماں کے پیٹ سے ہی دین میں پیدا ہوئے اور اسی ویں بار دُنیا سے گزر جائیں گے.آن کتاب تھی کہ فراس اهمی است یاده عرفان ما از جام دوست کی وہ کتاب میں کا نام قرآن ہے ہوائی شراب معرفت اسی نام سے ہے

Page 227

اس رسالے کئی صدر ست هم وایی پاکش به دست ما مراسم ، رسول جن کا نام محمد ہے.اُس کا مقدس دامن ہر وقت ہمارے ہاتھ میں ہے میر او با شیر شد انده مان جان شد و با جال بور خواهد شدن کار شد و بدر ان کی محبت مال کے دورہ کے ساتھ ہمارے بدن میں حال ہوئی وہ جان بن گئی اور جان کے ساتھ ہی ہم نکلے گے ست او خیر الرسل خیر الاہم مہر نبوت را برد شد انقلنام کو ہی خیر الوسیل اور خیرالانام ہے اور ہر ہے اور ہر قسم کی نبوت کی تشکیل اُس پار ہو گئی اردو نوشیم ہر ہے کہ است نو شده میراب میر ہے کہ بست جو کبھی پانی ہے وہ ہم کسی سے لے کر چیتے ہیں جو بھی سیراب ہے وہ اُسی سے سیراب ہوا ہے آنچہ مار ادجی مریکا ئے ہودہ اس شد از خود از سماں جائے بود: کو وحی و الہام ہم پر نازل ہوتا ہے وہ ہماری طرف سے نہیں رہیں سے آتا ہے ما او یا نیم ہر نور و کمال و سی دلدار ازل ہے او محال ہم کر روشنی اور ہر کمال اسی سے حاصل کرتے ہیں محبوب اترنی کا وصل بغیر اس کے نامکون ہے.خدا ئے قول او در جان ماست هر چه زود ثابت شود ایران است اس کے براد شاد کی پیروی ہماری فطرت میں ہے جو بھی ان کا فرمان ہے ہی پر بہار اور ا جاتا ہے انہ ٹانک داز خبر ہائے معاد سر چه گفت آن مرسل رب العباد د زشوں کے متعلق اور آخرت کے حالات کے متعلق ہو کچھ اس بیت العباد کے پیغمبر نے فرمایا تک ہمہه از حضرت احدیت است منکر آن مستحی لعنت است طب خدائے واحد کی طرح سے ہے اور ، اُس کا منکر محنت کا

Page 228

ميزات أو معرفی اندر است منکر آن مورد این خداست اس کے ہیرے سب کے سب بچے اور درست ہیں.اُن کا منکر خدا کی لعنت کا موردا ہے سموات انبیائے سابقین | آنچه در قرآن بیانش بالیقیں پہلے سب نبیوں کے معجزے سبھی کا ذکرمات اور واضح طور پر قرآن میں ہے بر هم از جان دل ایمان است بر کا انکار سے کمانانی است ان سب پر دل درمان تمہارا ایمان ہے جو انکار کرتا ہے وہ بد نیتوں میں سے ہے یک قدم دوری انان پوشن کتاب نزده با کفر است و خسران و تاب اس خدائی کتاب سے ایک قدم بھی ڈور بین ہمارے سے نزدیک کفرد نہیاں اور ہلاکت ہے یک تان را بخروش راه نیست پر از متر آن آگاه نیست | یکن ذیل لوگوں کو قرآن کی حقیقت کی ترتین پہر ایک دل اس کے بھیدوں سے واقف نہیں ہے.تانبا ش طالبے پاک اندرون تا بجوشند عشق یار ہے جنگوں : اور نیک ای یار بے مثال کا مقام اس کے دل میں جوش نہیں مارتا امانه قرآن را کجا فهد پرندے نور سے باید بسے کویت قرآنی سرا کو کیو کر کچھ سکتا ہے نور کے لکھنے کے لیے بہت ساتویہ باطھی ہونا چاہیئے ان من قرآن همین فرموده است اندرو شرط تظهر بوده است میری بات نہیں بکہ قرآن نے بھی بھی فری ہے کہ ان کو بجھنے کے لیے پاک ہونے کی شر ہے گر بر آن سر کسے را راه بود پس چرا شرط قطر را فرود اگر را شخص قرآن کو خود ہی سمجھ سکتا.تو فسانے تطہیر کی شرط کیوں زاید لگائی المطورة

Page 229

۲۲۷ د را داند کسے کو گور شد از حجاب سرکشی با گلد شد را حمد کو وہی شخص کھتا ہے جوخود کار ہوگیا ہو.اور سرکشی کے حوالوں سے دور ہو گیا ہو این مجمہ کو راں کہ تحتی می کنند بیگان از گور قران قافل بند همه کورال که میکنیم یہ سب اندھے جو میری تکفیر کر رہے ہیں.یقینا قرآن کے نور سے بے خبر میں لیے خبران راز ہائے این کلام ہرزہ گویاں نقصان و ناتمام اور اس کلام کے اسرار سے ناواقف ہیں.بیہودہ گو.ناقص اور نام ہیں رکت شمال استو نے بیش نیست در سرشان فضل دور اندیش نیست لی کے ہاتھ میں بڑی سے بڑھ کر کچھ نہیں اور اُن کے سری دور اندیش عقل نہیں ہے شده اند و فهمه شان مردار هم بے نصیب داشتن داز دلدار هم اند وہ خود مردہ ہیں اور ان کا تم بھی سردار ہے وہ عشق اور معشوق دونوں سے محروم ہیں التعرض فرقال ما یه دین ماست اور انہیں خاطر همگین است المعرض قرآن ہمارے دین کی بنیاد ہے وہ ہمارے غمگین دل کو تسلی دینے والا ہے توبہ فرمان می کنند ہوئے خدا سے توال دیدن از وروے خدا فرمان کا نور خدا کی طرف کھینچتا ہے.اس سے خدا کر چہرہ دیکھ سکتے ہیں ما چه سال بدیم زنان دلبر نظر چھوڑ دئے اوکھائوئے دگر وای اد ہم ان میں سے ان کی کوک بنا سکتے ہیں اس کے چہرہ میں خوبصورت اور کوئی چرہ کہاں ہے انے ک از توبہ کے او نبافت یافت در نیش دان میں جو یافت یراندا کر کے ان کی وجہ سے کا میرے دل نے جو کچھ بھی پایا اس کے میں سے پایا

Page 230

یں تم کسی بداند آن جمال بیان من قربان آن شمس الکمال ی عمر میں انھیں مس کے منی کو جانتی ہیں کوئی نہیں جانا میری جان کالات کے اس سورج پر قربان ہے مچنین عشقم بروئے مصلے اول پو چو مرغ سوئے مصطفے ال پہ یوں ایس بی حق مجھے مصلے کی ذات سے ہے میرا دل ایک پرندہ کی طرح مصطفے کی طرت اڑ کر جاتا ہے.تا مرا دادند از حفش غیر شد دلم از عشق او زیر و زیر جب سے مجھے اس کے جن کی خبر دی گئی ہے.میرا دل اُس کے عشق میں بے قرار رہتا ہے منہ سے یتیمی نیٹ آس دلبرے جہاں قائم کر دہر دل دیگرے میں میں دیر کا چہرہ دیکھ رہا ہوں اگر کوئی اسے دل ویسے تو میں اس کے مقابلہ پر جان نثار کر دوں ساتی من بہت ہوں جان پڑھے ہر زمان مستم کند از سانری وہی روح پر در شخص تو میرا ساتی ہے جو ہمیشہ جام شراب سے مجھے سرشار رکھتا ہے.ر تے او شد است میں روتے میں ہوئے او آید ز بام گوئے من ائے اور من میرا چہرہ اس کے چہر میں جو اور گم ہو گی اور میرے مکان اور کوچہ سے اسی کی خوشبو آرہی ہے یسکو من در مشتق اور ستم نشان من همانم من باشم من جہاں انہ جبکہ میں اس کے عشق میں غایب ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں.میں وہی ہوں جان من از جان او یا بد غذا از گریبانم عیاں شد آن ذکار یری روح اس کی روح سے یہ عمل کرتی ہےاور میرے گا یہاں سے وہی اور کل ہی ہے.اندر جان احمد شد پدید اسم من گردید آن اسم وحید احمد کی کہانی کے افس احمدظاہر ہو گیا اس لیے میرا ہی نام ہو گیا جو اس توانائی انسانی کا نام ہے

Page 231

۲۲۹ تاریخ پدرو ارغ افتادم بعد از عود جاه دل برکت لا فرق افتاده کلاه ول از س کے عشق میں مں موقعہ جہاد سے متمنی ہو گیا دل اللہ سے جاتا رہا اور سر سے ٹپے گر پڑی بین این بیتال همین نان آستان انتم سر این چکن به نامتقال مجھ پر یہ اخترا کہ میں اس درگاہ سے روگر جان ہوئی.قائق لوگوں کا یہ کتنا بڑا جھیٹ ہے.سرتا یہاں جرمن چوں منے محبت حق یہ گمان دشمنے کیا میرے ایک شخص ہے ہی چاند سے بھی سکتا ہے بیوی کے اس خیال پر خدا کی لعنت : آن هم ال آن مستر کاندر وال سروری در میان مک دونوں چینی رے خاک میں تو وہ ہوں کہ اس سردار کی راہ میں جو میں سر خاک اور خون میں متھرا ہوا دیکھے گا تنی گربار و بکرئے آں بنگار آن منخم کا قول کند جبال سانند اگر اس محبوب کی گلی میں تھی پہلے تومیں وہ پہلا شخص ہوں گا جو اپنی جان قربان کرے گا گر نہیں کفر است زیر و کیں وارے خوش نیسے آں کہ چون من کافر ہے گر دشمن کے نزدیک یہی کفر ہے تو وہ بڑا خوش نصیب ہے تو میری طرح کا کافر ہے کا فرم گفتند دنبال و سمیں سن ند افسران جهانیان است وین ان لوگوں نے مجھے کا فروچال اور لعنتی کہا.میں نہیں جانتا کہ کونسا دین وایمان ہے.این بیتا نے شان کی سنگها است حیدر شال گردے ہودہ سے کجاست کی یہ بیتیں تھر کی طرح سخت ہیں ان کے پہلو میں اگر دل ہے.تو دکھاؤ وہ کہاں ہے کا بانیاں ہر زمانے اختر است یا برا یہاں ہر دمے حرص و ہو است ان الاوں کا کام ہر رات نور پردازی ہے اور موم و ۱۳ بردم ان کی رنیتی ! کا رات کا ہے اور

Page 232

ول پر اس ام اس پریشر مقعیت اداریاں دور تر اُن کے دل خیانتوں سے پر ہیں اور ان کے باطنی شرارتوں سے نیک نیتی ان سے بہت دور ہے سخت نیست چه باشد در دلے کے متن اوقت ہوں پہلے جب دل میں نیک نیتی ہوتی ہے تو دو صدق کے پھول پر جھیل کی طرح کرتا ہے بر شرارت ہانے بند د میاں از سدانہ دانائے اسرایہ نہاں شرارتوں پر کرنیں باندھتارہ پوشیدہ بھیدوں کے جانے والے سے ڈرتا لیکن دی ہے و لیکن ایں بے باکی و ترک حیا افترا افترا افترا بے باکی اور ہے.اقتها بالله این نه کار دوستان و ایفی است و این نه خوئے بندگان با حق است یہ ایان اول اور پر ہر سال کا کام نہیں ہے کہ یہ پاک دل بڑنگ کی خصلت ہے بر که او هر دم پرستار ہو من جہاں دانم که ترسید از خدا دہ جو ہر وقت اپنی خواہشوں کا غلام ہے میں کیونکر جانوں کہ وہ خدا سے ڈرتا ہے خویشتن را انک اندیشیده اند ائے این مردم چه بد نمی داند انھوں نے اپنے تعلی نیک خیال کر رکھا ہے انہیں ان لوگوں نے کیسا فعل بجھا ہے ان فضلا ہے تبارع نفق اعراض از خدا بس ہمیں باشد فستان اشقیان ور نفس کی پیروی اور بندا سے روگردانی بھی یہی بدبختوں کی نشانی مرکز نیسان نبش در بانش بود کا نرم گر ہوئے ایمانش بود جس کے دل میں ہیں طرح کی گندگی ہے اگر اس میں ایمان کی بو بھی ہو تو پھر میں کا قرا ہوں ہے ༨

Page 233

۲۳۱ کن ایک موم ہوا ہم اس کتاب کال منتزه او ناداد ارتیاب میں نے ان لوگوں کے سامنے وہ کتاب پڑھی جو ریپ اور شک سے پاک ہے دینی قرآن ) یم خیبر ایش کردم نیاں سول کو صدیق و فضل منی پاک اختیال انی اس رسول کی مویشی بھی پیش کیں جو فضل خدار استباز ہے اور نو گوئی سے پاک ہے لیکن اپنیاں.رتی روئے نبود پیش کر کے گریے پیشے چھ شود لیکن ان کا ارادہ بھی ھی قبول کرنے کا نہ تھا بھیڑیے گئے آگے بھیٹر کا روتا فقتولی ہے کا نرم گفتند و رو با تافتند آن تقی گویا داری کا افتند نھوں نے مجھے کا کہا اور پھر لیار یقین کریا نگر یا انھوں نے میرا دل چیر کر رکھ دیا ہے در بیان خوب گفت گل شاہ دیں کافروں دل بر دل چل تو میں تھی کے بارے میں اس شاہدین نے کیا اور فری ہے کہ لوگ دل کے کا قرین اور ظاہر کے مومن بیه تریاں قرآن مگر در سینه با خب پینا است و کیر و کینه با ان کی زبان پر قرآن ہے مگر ان کے سینوں میں دنیا کی محبت.تکبر اور عداد میں ہیں دانش در نیران است دگران پشت نمودند وقت مرصات دین کی سمجھد کا والی بھی صرف است وگزرا ہے کیونکہ ہر جنگ کے وقت انھوں نے پیٹھ دکھائی ہے.جاہلا نے فاضل از نازی نہاں ہم نہ قرآن ہم تو اسرار نہاں ا ہے وہ مال میں جو عربی دان سے تلواعت میں تیز تر کی اور اس کے ایک جیدوں سے بھی بیرستان چون تا مال خود رسید غیرت می پردہ ائے شاں دی کو پہنچ گیا تو خدا کی غیرت نے ان کے پردے پھاڑ +4

Page 234

۲۳۷ دشمنان دیں پر شمر تا بکار دیں جو زین العام میں بیمار و نار را انکار کی طرح میلوگ دین کے دشمن ہیں اور بین زین العابدین کی طرح بیمار اور کمزور ہے تی ہے لرزہ دل و جاں نیز هم یوں خیانت کے ایشیاں بنگرم میرا بدن کانپ جاتا ہے اور جان و دل لرز جاتے ہیں جب میں اُن کی خیانتیلی دیکھتا ہوں مکری با بسیار کردند و کنند انتظامی کا به ما بر هم زند نہوں نے بہت کر کے اوراب بھی کر رہے ہیں کہ ہمارے کام کے نظام کو درہم برہم کردیں لیکن آن برے کے بہت از آسمان چند وال آید برد از حاسدان لیکن خدمات جو آسمان کی طرف سے ہے اس پر حاسدوں کے حسد سے کیونکر تعال آسکتا ہے سی چیز یا نشانی آن نداست و در نقش این با من میں بناست و درستش این یں کیا چیز ہوں ان کی لڑائی میں خدا کے ساتھ ہے جس کے دونوں ہاتھوں سے باغ اور میل یا جاہے ؟ هر که آوینه و بکار و بار حق اوستاده از بچے بیکار حق ! ہر شخص شنائی کاروبار میں دخل اندازہ ہوتا ہے وہ در اصل خدا سے جنگ کرنے کھڑا ہوتا ہے.انی ایم و تیر باتری است صید مادر اصل تخمیر ری است ہم تو فانی لوگ ہیں اور ہمارا تیر خدا کا تیر ہے اور ہمارا شکار در اصل خدا کا شکار ہے.صدقے وارد پناه آن یگان دست حقی در آستین اونہاں صادق کو اس کیا کی پناہ میں ہوتا ہے اور خدا کا با نام اس کی آستین میں چھپا ہوا ہوتا ہے.حرک با دست خدا پیر ز کیں اپنی خود کند پوشیطان نہیں و خش شمنی کی وجہ سے عمر کے ساتھ ہوتا ہے ، شیطان بھی کی طرح اپنی ہی بڑا کھیلتا ہے.

Page 235

۲۳۳ ے ساتھے کہ ایم بلیم است کار او از دست رسی بیمه است بہت سے لوگ ٹیم کی طرح ہیں میں کا کام موسٹی کے ہاتھوں تہس نہس ہو جاتا آدم آمد آمدم بروقت چون ابر بهار من آمد مد خشان مطلب یار میں دربار کی طرح وقت پر آیا ہوں اور میرے ساتھ خدا کی رانیوں کے سیکڑوں مشاعات میں آستمال از برمی با رونشان هم زمین انوقت گوید هر زمان آسمان میرے لیے نشان پر سناتا ہے اور زمین بھی ہر وہ یہی کہتی ہے کہ وقت یہی ہے این دو تا بر همین استاده اند نیاز در من ناقصال افتاده اند میری تائید میں یہ دو گواہ کھڑے ہیں پھر بھی یہ ہی وقت میرے چھینے پڑے ہوئے ہیں جائے اس مردم عجیب کو رد کردند صد نشان بیایند و قافل بگذرند ائے افسوس یہ لوگ جب طرح کے اندھے رہے ہیں کیک و نشان دیکھتے ہیں پوری فال گند جاتے ہیں ہیں چنیں ایتاں جدا بالا پر ندی یا گر زنان ذات بیجوں منکراند یانگر چھاڑتے ہیں دینی اپنے منکر کیوں ہیں ، شاید اس بے مثل خات کے منکر ہیں ارو پر یہ کس مہربانی می کنند از زمینی آسمانی مے کند دہ خدا تو جب کسی پر مہربانی کرتا ہے تو اُسے زمینی سے آسمانی بنا دیتا عوتش بخشد و فضل واطلعت وجود مردمه را پیش آمد در مجود پنے تحصل الطف و کرم سے سے ہوتے کہتا ہے سورج اور چاند کو اس کے سامنے مجھ میں گراتا ہے من نه از خود ادعائے کردہ ام حریق شد اقتدائے کرده ام از اقتران کرده ام میں انے اپنے پاس سے یہ دھوئی نہیں کیا.بلکہ خدا کے حکم کی پیروی کی

Page 236

۲۳۴ 4 کاری است این و از کمر بشر و من این دشمن آن دادگر ہے خدا کا کام ہے نہ کہ انسان کا کہ اس کا دشمن اس عامل خدا کا دشمی ان خدا کا ین علیزے ایدی است رحمتش در کوئے ابار یہ است وہ خدا جس نے اس عاجز کو منتخب کیا ہے اس کی رحمت ہماری گلی میں برسی ہے مردم و جانان پس ازمون رسید گیر شدم آخر نے آمد پدید جب میں مرگی تو مرنے کے بعد میرا جوب آ گیا جب میں فنا ہو گیا تو اس کا چہر مجھ پر ظاہر ہوگیا میں عشق دیر سے ٹپہ زور بود قالب آمخت مار اور سلاد ویبر کے عشق کی کرد زوروں پر تھی.وہ غالب آگئی اور ہمارا اسب سامان بہا کر لے گئی من مدارم باید کردار یا عشق بوشید و از و نند کارها میرے پاس گئے س اعمال کا ذخیرہ نہیں بلکہ عشق جوانس میں آیا اور اس سے یہ سب کام ہو بهر من شد نیستی کطور خدا چهل خودی رفت آمده آن نور خدا میرے لیے قیستی ہی معدہ ا کا طور بن گئی جب خودی جاتی رہی تو خدا کا تو آگیا دید کرد که در اثر کے دوست حول فرخندہ پیل سوئے دوست لاق دی چہرہ ہے اور ہر ملک دل اسی کی طرف اہل ہے در دو عالم متل او لئے کہ است جو سر کویش دگر کوئے کجاست ماہ میںہی کی بات کا کوئی چوکیاں ہے پھر اس کے کوچ کے میں اور کوئی کہ چہ کہاں ہے ؟ ان اند و ال کسان کو کوچه او فاضل اند درسگان کوچه با ہم کمتر اندا وہ لوگ ستارہ اس کے کوچہ سے فاضل ہیں.وہ گلیوں کے کتوں سے بھی زیادہ ذلیل ہیں

Page 237

۲۳۵ نفتی و عالم جمله در شور و شراند عاشقانش در همان دیگر اند مخلوقات اور دنیا سب شور و شرمیں مبتلا ہے کہ اس کے عاشق ہور ہی عالم میں ہیں لا عالم اس جہاں چال اندر کس تایید از جال میں کو ردی کے چو دید وہ عالم میں شخص سے پوشیدہ رہا.اس وہ نجت نے دنیا میں آکر دیکھا ہی کیا؟ ناه حق پر صادقال آسان تر است هر که جوید دانش آید بدست انی پر ان کا راستہ پاتا سا ہے مواد کو روتا ہے تو اس کا اس اس کے اتھ میں آجاتا ہے بر که بوید دلش از صدق و صفا به دانش ہونے کی سبت السما جو بھی صدق و صفا کے ساتھ اس کا وصل چاہتا ہے اس کے لیے آسمانوں کا خدا وصل کا دستہ کھول دیتا ہے انتقال را می شناسد چشمیم یار کید و مکر انجانے آید بیکار یار کی نظر یوں کو پہچان لیتی ہے کر نے اور چالا کی یہاں کام نہیں دیتی صدق سے باید پائے وصیل دوست هر ک بے مدتش بودید حتی اوست حمق دست کے وصل کے لیے صدق درکار ہے جو بغیر صدق کے اُسے ڈھونڈتا ہے وہ بیوقون ہے صدق ورز سے در جناب کبریا آخرش سے یا بد از میمن دفاع در خدا کے حضور مصدق کو اختیار کرنے والا آخر کار اپنی وفا کی برکت سے اسے پالیتا ہے سے مدد بکنید به صدق یار رفته باز مے آید به صدق سیکڑوں پر دانے صدق کی جسے گھل جاتے میں کھوائیں دوست سنتی کی وجہ سے واپس آجاتا ہے صدق ونال انہیں باشد نشاں کرنے جاناں بکت دار تم جاں بچوں کی یہی علامت ہے کہ محبوب کی خاطر ان کی جان ہتھیلی پر ہوتی ہے وجہ صدق

Page 238

+ poptot دوخته در صورت دلیر نظر و از شنار و ست مردم بے غیر | ر کی صحت پر ان کی کھلی لگی ہوتی ہے اورلوگوں کی تعریف اور خدمت سے وہ بے خبر ہوتے ہیں کار جیتنے یا ملہا بسته اند راستہ اس دلما که برشی استاندا اندرستہ نوٹ کے لیمان کے سبائل میں رسول نجات یافتہ ہیں جوخدا کے لیے زخمی اور شکستہ ہیں اور حنا کے شود این کارو بار صدق سے باید کرتا آید مگر اتیں بنانے سے یہ کام نہیں چلتا کامیابی کے لیے وفاداری در کار ظلم کا عالم بنے دارد براہ | بت پرستی با کند شام و نگاه نے اپنے علم کو بت بنایا ہوا ہے اور وہ صبح شام بہت پرستی میں مشغول ہیں گر بی شک کا بو دیں جدے سر لیے ساز وار دیں بڑے | اگر خشک علم پر ہی دین کا مادہ ہوتا تو ہر نا لایق انسان دین کا محرم رالہ ہوتا سرنا یار ما دارد باطن با نظر : | | بان نشوتادای تو با تغیر دوگر ہاں نام یار تو باطی پر نظر رکھتا ہے تو اپنی کسی اور غریبی پر نازاں دو ہو است اس مانا ہے بہین بلند بر پیش شور را باید نکند وہ بارگاہ نہایت اونچی اور مالی شان ہے اس کے میل کے لیے بہت آہ و زاری کرنی چاہئے زندگی در مروان و هجره و یک است سرک افتاد بست اور آخر ینی است ندگی کرتے اور کیا اور گریہ و زمانی میں ہے جوگر پڑا وہی آتور دندہ ہوکر اٹھے گا نانه کار هر کس تہجہاں رسد کے فنانش تا در جانتاں رسد | جو کہ درد کا مدار جان لینے تک پہنچتے تک اس کی آہ و فریاد بر جاناں تک نہیں پہنچتی

Page 239

۲۳۷ هر که ترک خود کند یا بد نما چیست مبل در نفس تو گشتن بجد وشنودی کو ترک کرتا ہے وہ ادا کر پاتا ہے وصل کیا چینے سے اپنے نفس سے الگ ہویا ایک ترکی بن کے آسان بود شوان و از خودشان کمیسان بود لیکن نفس کو مارتا آسان کام نہیں.مرتا اور شوری کا چھوڑتا ہموار ہے تانه آن یاد سے در و بر جان ما ق کو رباید ذره امکان ما جب تک ہماری جان پر وہ ہوا و پہلے جو ہماری مستی کے وقت تک کو اڑ سے جائے کے دین گرد و بنجارے ساختہ سے توان دید آن می آراستند پیک اس مصنوعی گرد و غبار میں وہ حقیقی چہرہ کسی طرح دیکھا جا سکتا ہے.تانه فرمان خدائے خود شویم تا نہ مو آشنائے خود شویم جب تک ہم اپنے خدا پر قران نہ ہو جائیں اور جب تک اپنے دوست کے اندر محو نہ ہو جائیں تا نه باشیم از وجود خود بردن تا نه گردو په زهرش اند رول جب تک ہم اپنے وجود سے علیحدہ نہ ہو جائیں اور جب تک مبینہ اس کی محبت سے بھر نہ جائے تانه به ما مرگ آید صد ہزار کے جاتے تاده بینیم از نگاه کہ ہم لاکھوں میں وارد ہوا تب تک ہمیں اس باب کی ایک نئی زندگی کی لا سکتی ہے.انه ریز و سر پر بال ہ راست سریع این رو سایرین شکل است سم جب تک اپنے اگے بال وپر نہ جھاڑ ڈالے تب یک اس راہ کے پرندے کے لیے ڈنا مشکل ہے یسے اگر وقتش شد بیاد بیایہ آزرده دل اختیار شاد شخص میں کا وقت برباد ہو گیا.بابہ ناراض ہو گیا اور قیمتوں کا دل خوش ہوا

Page 240

از میر دندان مردان کار نیست لیکن این ده رامه اصل باز نیست مجھے داناؤں کی عقلمندی سے انکار نہیں ہے کر یہ پیار کے وصل کا راستہ انہیں تانه باشد عشق و سو داؤ جنوں جلوہ ننماید نگاہ ہے جنگوں ب یک عشق اور سودا اور جنون نہ ہو تب تک وہ بے مثال محجوب اپنا جلوہ نہیں دکھاتا چون همان است سے وان همان استنال تو یہ مجرم ہر کے سامی گزینید لا ترم چونکہ وہ ملات دال مجوب پوشیدہ ہے اور مریض کوئ نہ کوئی اتے اس سے ملنے کے لیے اختیار کر تا ہے یں ان رہے کو عاقلوں بگردیده اند بی تکلف روئے تھی پوشیده اند ازی لیکن تعقل والوں.عقل الوں نے بجودات اختیار کیا ہے ترانوں نے پختلف خدا کے چہرہ کو اور بھی چھپا دیا ہے.اور پرده را به پرده با افراخته مسطبه نزدیک دور انداخته پہلے پردوں پر اور پردے ڈال دئے مقصد نزدیک تھا مگر اُسے اور دور کر دیا ا که با و بیدار او روسا نیمی از رو عشق و فتایش یافتیم ہم لوگ جنوں نے اس کے دیدار سے اپنا روایت کی ہے ہم نے تو اسے متن اصرفا کے راست سے پایا ہے ترک خود کر دیلم پسر آن خدا از فنائے ما پدید آمد بقا بق ظاہر لگتی اس خدا کے لیے جب ہم نے اپنی خودی ترک کردی تو جاری تھا کے نتیجہ میں اندین به دردسر بسیار نیست جان بخواهد دادنش دشوار نیست جان س راستے میں زیادہ کلیف نشانی نہیں بستی معرت جان مانتا ہے اور اس کا دنیا مشکل نہیں ہے.کرتہ اور خانہ سے مراد فضل وجود صد فضولی کر دے بے سود بورو وشو اور وہ اپنے شمال کرم سے مجھے دیا اور میں کتنی ہی کوششیں کرتا اس سے فائدہ انہیں

Page 241

۲۳۹ انشگاهی این گدا را شاد کرد قصہ ہائے راہ یا کوتاه کردی را اس نے ایک نظر سے اس فقیر کو بادشاہ بنا دیا اور ہمارے لیے راستہ کو مختصر کردیا مراه خود برمن کشود آلن دستان و دانش از انسان کرگل ملایا جنان یں جوں نے خود اپنا دست میرے لیے کھولا ہیں یہ بات اس طرح جانتا ہوں جیسے ساختمان پھول کو هرکه در هر که در عهدم زمین ماند جدا می کند بر نفس خود جور و جفا ہو میرے زمانہ میں مجھ سے بیدا رہتا ہے تو وہ خود اپنی جان پر ظلم کرتا ہے ر و نور داستان شد سینه ام شد ز دیتے منتقل آئینہ ام محبوب کے ٹور سے میرا سینہ بھر گیا میرے آئینہ کا مستقل رہی کے ہاتھ نے کیا اسی یکرم شد پیگیر یا به اول کار من شد کار ولدا به انال شد به انزال میرا وجود اُس یار ازلی کا وجود بن گیا اور میرا کام اُس دلدارہ تحریم یار دن اور کا کام ہوگیا ینکه جانم شد شمال در بیار مین یوئے یارہ آمد از ین گلوتار من یری جان میرے یار کے اندر مخفی ہو گئی اس لیے یار کی خوشبو میرے گزار سے آنے لگی تور بی داریم دید چادر از گریبانم بر آمد دلبری ہماری چادر کے اندر خلا کا نور ہے.وہ دلیر میرے گریبان میں سے ملا احمر کر زبان نام مو است آخرین مامے میں جاری من است واحد آخر وہاں میرا نام ہے اور میرا نام بھی ٹوٹنا کے لیے، ہتری جام ہے طالب راه خدا به امژده باد بخش خدا نمود این وقت مراد مامہ خدا کے طالب کو خوشخبری جو کہ اسے خدا نے کامیابی کا دانہ لو کھانا

Page 242

هر و مایا سے شمال مشد از نظر از خبر دار سے ہمیں پر سد خبر میں کسی کا دوست اس کی نظر سے نیب ہو جاتا ہے تو وہ کسی وقت سے اس کی خبر پوچھتا ہے.ار کر جریان نگارے سے بود کے بیک جایش ترانے سے بروم اور ہو کسی معشوق کا طلب گارہ ہوتا ہے تو اسے ایک ہی جگہ پر کب چین آتا ہے سے دور و هر سو ٹھے دیوانہ وار تا اگر آید نظر آن روئے یاس اوہ ہر طرف دیوانہ وار دوڑتا ہے تاکہ شاید یار کا چہرہ کہیں نظر آ جائے هر روشن دلیری در جان دوست اول بردوش او تدار بمجرد دوست جس کی جان میں دلبر کا حق سما گیا ہے تو دوست کے فراق میں اس کا دل ہاتھ سے نکل نکل جاتا ہے.عاشقان را صبر آرامے کیا تو بہ از روئے ولار امے کجا ماشتوں کے لیے میراور آرام کہاں ! اور معشوق کے چہرے سے روگردانی کہاں ؟ هر گیا عشق ربح یا رے بود روز وشب با اس خوش کارے بود جھے دوست کے منہ سے محبت ہوتی ہے اُسے توہی بات اس کے چہرہ کا ہی خیال رہتا ہے دن فرقتش گر اتفاقے اوفتہ اورتن و جانش فراقے اوفتند اگر اتفاقا اس سے جدائی ہو جائے تو اس کے جان و تن میں جدائی ہو جاتی ہے ایک زمانے زندگی بے روئے یار سے کند بر سے پریشیاں روزگار یر کے بغیر اُس کی زندگی کا ایک کو بھی اس پر زندگانی کو تلخ کر دیتا ہے ؟ باز پول بینہ جمال ورائے ہوا سے دور دیوان جو اسے ہوئے اور پر جب وہ اس کا حس اور اس کا پروہ کہتا ہے تو ہے ماموں کی طرح اس کی طرف دوڑتا ہے

Page 243

INA سے تند در دانش دست انیوں کو فراقت شد در اے یارخون اور کم کر دیا نہ اس کے میں کور کر لیتا ہے کہ اسے دوست سے میرا دل تیری جدائی میں خون ہو گیا یں صدق در بود اندر دے گلن بجوید جائے بیچوں بیٹے اگر ایسا صدق کسی کے دل میں ہوتو وہ بیل کی طرح پھول کو اپنا ٹھکانا بنا لیتا ہے گر تو انتی با دو صدور و تغیر کسی سے خیز دگر گردد و نگیر اگر تو دو سو چھیوں اور آموں کے ساتھ گر پڑے تو پھر ضرور کوئی مرد کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے تافتن رو از خود تا بال که من خود بر آدم روشنی از خوشتین دیر خیال کر کے ، روشن سورج سے منہ پھیر لیا کہ میں اپنے اندر ہے آپ کی روشنی پیا کروں گا این میں سنا یہ نا کامی بود بینچ شعورت نخوت و خامی بود یہی تو نامرادی کے آثار ہوا کرتے ہیں.بد بختی کی جوڑا تکمبر اور خامی ہے ائے ساکور کردست این خیال سرنگون انگلند در چاه و ضلال اس خیال نے اریک جہان کی اندھا کر رکھا ہے اور اسے گمراہی کے گھوئیں میں سر کے بل ڈال دیا ہے سوئے آپنے مشن را باید شافت بر که جست از صدق دل تجربیات هر پیاسے کو کو پاین پانی کی طرف موڑنا چاہتے ہیں نے صدق دل سے لاش کی اس نے آخر کار مقصود این خرد مندی کہ ہو یہ کوئے یار آبرو ریز و زیر روئے یارا وہ آدمی معقلمند ہے جو یار کی گلی ڈھونڈتا ہے اور دو سے بار کی خاطر اپنی عانت ڈیڑتا ہے کے ناک گرودتا ہوا ر باید ش گر شود تا کس رہے خواہش وہ خاک بن جاتا ہے کہ ہوا سے لے اڑے اور فنا ہو جاتا ہے تا کہ کوئی ایسے ہی استہ دکھائے 4

Page 244

۲۴۲ بے خوابات خدا کا راست نام بیفته داند این سخن را او الشام خدا کی مروانی کے بغیر کام ادھورا رہتا ہے عقلمند ہی اس بات کو جانتا ہے.والسلام د سراج منیر، آخری معلمات خطیر یہ کام نی زور مهران و شہری کو بستم بر دے قید مارت القرابه میرے سامنے کسی بادشاہ کا ذکرنہ کرکیونکہ میں تو ایسے دروازہ پر امیدوار پڑا ہوں داوند کی جان بخش جهان است بدیع و خالق و پر درد گارے جو دنیا کو زندگی بخشنے والا ہے اور بدیع اور خانی اور پر مددگار ہے کریم و قادر و شکل کشائے نیم محسن وحاجت ہمارے کریم و قادر ہے اور مشکل کشا ہے رحیم ہے محسن ہے اور حاجت روا ہے اندام پرورش زیرا که گویند بر آید در جمال کار سے زکارے یں اس کے ارادہ چاہتا ہوں کی کوک کا شور ہ کر دیا میں ایک کام میں سے دوسرا کام مکمل ہوتا ہے جو اس بابه وفاداره آبیدم یا د فراموشم شود سر خوشی دیاری جب وہ یار وفادار مجھے یاد آتا ہے تو ہر رشتہ وار اور دوست مجھے بھول جاتا ہے بغیر او چال بندم ولی خویش کو بے ریش نے آید قرار ے میں سے چھوڑ کر کسی اور سے کس طرح دل لگاؤوں کے بغیر اس کے مجھے چین نہیں آتا کس لم در سینه ریشم مجو نیند کی تیمش بدامان نگاری ول بھی سینے میں نے اسے سے بندھا ہے دل کرے بھی سینے میں وھوالی کریم نے اسے ایک محبوب کے دان سے باندھ دیا ہے.

Page 245

الميلاد دل من دلبر ے پاتخت گا ہے سر من دور رہ پارے نثار میرا دل دلبر کا تخت ہے اور میرا باہر کی راہ میں قربان ہے ر این شغل در این میگران است و فضل دوست نا پیدا کناری تا با میں کیا بتاؤ کہ مجھ پر اس کا فل کس طرح کا ہے کیونکہ اس کا فضل تو ایک نا پیدا کنار سمندر ہے.عنایتہائے گورا پول شمار مکہ تکلف دوست بیری از شمار ہے میں اُس کی مہربانیوں کو کیونکر گنوں کہ اس کی مہربانیاں تو ستر شمار سے ماہر ہیں مرا کا بیست با آن دولتان ندارد کس خبر زیاں کاروبار سے مجھے اس دلبر سے ایسا تعلق ہے کہ کسی کو بھی اس معاملہ کی خبر نہیں بنام بر درش نیا سال که نالد بوقت وضیع حمله بارداری میں اس کے دروازے سے پر اس طرح روتا ہوں میں طرح بچہ پیدا ہوتے وقت حاملہ عورت رہتی ہے مر با عشق او وقتے ست محمود چه خوش وقتے چہ فرم روز گا اسے میرا وقت اُسی کے عشق سے بھرپور ہے واہ کیا اچھا وقت ہے اور کیا عمدہ زمانہ ہے اتمالا گویت اسے گلشن یا ں کہ فارغ کر دی ان باغ دیہا سے یا سا کردی انباغ اے باز کے گلزار تیرے کیا کہنے.تو اتنے تو مجھے دنیا کے باغ وبہار سے بے پروا کر دیا رحمۃ اللہ صفحہ (مطبوعہ ۶۱۸۹۷ ) جاہے بردباری می کند در آورے می شود که بستم پر رہا طاقتورا تو اپنا علم ظاہر کرتا ہے مگر حائل یہ سمجھتا ہے کہ وہ غالب آگیا ہے رحمة الله مفحم 1

Page 246

مام کر کرته بد شما را چه کند با فقر و فر شهرمان را چه کنید تو خنک بھائی ہے وہ بادشاہو کی کیا سمجھا ہے اور تیری شان کے آگے وہ بادشاہوں کی کیا حقیقت ول بند شناخت بدال خود جلال بعد از تو بال دیگران را چه کند.جہ بندہ نے میرے مد بلال کو پہچان لیا تو پر مجھے چھوڑ کروہ دوسروں کی شرکت کو کیا کرے دیوانه کنی هر دو جهانش بخشی دیوانہ تو ہر دو جمال را چه توبر کند؟ نا دیوانہ بناکر تم سے دو نوں جان بخش دیتا ہے گر تیرا دیوانہ دونوں جہانوں کو کیا کرے ر شد آخری شعر بوجه عند نقد العمادی کا..ر اشتاد ۲۵ جون ۱۶۱۸۹۰ اے خدا اسے پیشہ نور بولی از کرما چشمه این است کشا؟ اسے خدا.اسے ہدایت کی روشنی کے جتنے مربانی فرما کر اس انت کی پنکھیں کھول دے یک نظر کنی سوئے این ساز یہاں تار ھی اسے طالب از دوہم و گماں انے طالب تو اس پوشید ما نماز کی طرف ایک نظر کرتا کہ تو وہم اور شبہات سے نجات پائے دراز حقیقت سرورق مطبوعه (۶۱۸۹۸ ریکایی و انسان کو جانا نے میرے کنداں کا نے انے والے جو انائی الہ شخص کی دعا سے ہر کام ہو جاتا ہے وہ کام نہ تلوار کر سکتی ہے د ہوانہ باریش نہ اور رستے کو دست عاشق باشد روان بنانے راز ہی کارگریا نے اس کے امامت کے اتھ میں محبت اثر ہوتی ہے خدا س کرنے والے کاکام بنانے کے لیے یک دنیا کو پلٹ دیتا ہے لے پوشیدہ راز سے مطلب حضرت اقدس کا اپنی کتاب راز حقیقت سے ہے

Page 247

۲۴۵ ر بالی سے بر آنکه سرگردان تا از آسمان پیدا کند سر و سامانے ایک ایک جوان با وجود ا ا اور ن نے سے ہر پیدا کر ہے وی کا ہونٹ بہت ہے جو خدا کا خالق ہے تو ائندہ نوائے آسمان سے ہر طرح کا سامان پیدا کر دیتا ہے کاری اور ایک کار سے رد خدا میں رہ ہمیں باشد دلیل آنکه است از خلق میانی خدا اس طرح ایک ناکارہ انسان سے کام لیتا ہے اور یہی اس مخفی مستی کی موجودگی کا ثبوت ہے.گرانی که باشت الی صابر و صادق بین دو نومیدی نادر از دل جانے گر چاہیئے کہ اس کا طالب صابر اور بیچا ہو اس کا دلی و نادار نامرادی کا دن نہیں دیکھتا راختیار الحکم ہے اگست ، ۶۱۸۹۸ صدق ما در این بالایی استان است و باش نمائی نہیں کہانی کو ہر صوب العالمین سے در پہنچتی ہے مادوں کی مستی میں خدا کا ہاتھ پو شیدہ رہتا ہے هران آسماں یاد تھے آید فرود آرش گر دانش نے انیل نے کہا میں ہر دہ عصبیت جو آسمان سے کسی صادق پر آتی ہے وہ آخر میں المان متی کے لیے ایک نشان ہو جاتی ہے.(ضرورت الاما نتیجه ۳۲ مطبوطه ۶۱۸۹۸۰) ولت صادق مجو اسے بے تمیز نہیں ہے ہرگز نخی می شد عزیز ایسے بے تمیز معاق کی ذلت کے در پے نہ ہو کہ تو اس طریقہ سے ہرگز عادت نہیں پائے گا ذلت در دراز حقیقت صفحه آخر

Page 248

Hey تریان ندائے بے نیاز تخت تمہارے نام کہ جنید خان سے کو کالے لوگ ایے نیا نہ اور فنار خدا سے ڈھو میں نہیں سمجھتا کہ منتی اور نیک آدمی کبھی نقصان اٹھاتا سر ابا نے ایک کا اگر میں مردے تھے ترس ازاں ایسے کر فقامت ہی ہے مجھے یقین نہیں آتا کہ د شخص کبھی رسوا ہی ہو جو اس یا ر سے ڈرتا ہے ہو غفار و منشار ہے گران درک ہے میمونیال نیز دینٹ دیا تو کرن نے یہ نا ہو تو اسے اگر وہ چیز جسے میں دیکھ رہا ہوں دوست بھی دیکھتے.تو حصول دنیا سے رو رو کر توبہ کرتے اگروہ فوز تبان گشت است انید کاری مردم میں ظلمون سے آر دیتے تخویف داند است لوں کی بدکاریوں سے کیا ہو اور بھی سیاہ ہو گیا اور نہ ہین بھی ڈرانے کی خاطر اعوان لارہی ہے ی تشویش قامت از این تشویش گرینی اعلام قیمت برفع اس وجن کرداری یعیت قیامت کی مانند ہے اگر تور کہ سے اوراس کے دورکرنے کا علاج سوائے نیک اعمال کے اور کچھ تھیں.ای این مراں جناب عزت و غیرت گیا کند یکه و کریر یکی است مان بندی متر ون پر ترکی با دوام برای استان دانا بیماری میں نے ہمدردی سے یہ بات کسی ہے اب تو خود دور کر کے اسے سمجھ دار انسان بفضل اسی دن کے لیے ہوا کرتی ہے دریایم اصلاح صفحه ۱۳۲ مطبوعه ۹۹ ۶۱۸) ے تقدیر و نان ریش و سام اے رحم و مروان و دانما وخالق ارض اسے قاد.اور آسمان زمین کے پیدا کرنے والے اسے رحیم.مریان اور رستہ دکھانے والے اور رشتہ

Page 249

Ne اینکہ مے داری تو بر دلها نظر اینکه از تو نیست چیزی سنتر اے وہ جو کہ دلوں پر نظر رکھتا ہے اسے وہ کر تجھ سے کوئی چیز بھی چھٹی ہوئی نہیں گر تو سے بینی مرا پر نسق ونشر اگر تو دید استی که هستم برگر اگر تو مجھے نافرمانی اور شرارت سے بھرا مور کیتا ہے اور اگر تو نے دیکھ لیا ہے کہ میں بذات ہوں پاره پاره کن من بد کار را شاد کن این زمرہ اعتبار را تو مجھے بد کار کو کڑے ٹکڑے کر ڈال اور میر نے ان دشمنوں کے گروہ کو نوش کردے بر دل شال ابر رحمت را بیاد هر مرادشان فضل خود به آرد بر ان کے دلوں پر اپنی رحمت کا ناول پر ساور اپنے فضل سے ان کی ہر مراد پوری کر کی نتش افتان بر در و دیوار من و منم باش و به کن کار من میرے درو دیوار پر اگ پر سا میرا دشمن ہو جا اور میرا کاروبار تباہ کرو در مرا از بندگانت یافتی قبله من آستانت یافتی لیکن اگر تو نے مجھے اپنا فرمانبردار پایا ہے اور اپنی بارگاہ کو میرا قبل مقصود پایا.در دل من آل محبت دیده کره جہاں آل سانه را پوشیده اور میرے دل میں وہ محبت دیکھی ہے جس کا بھید تو نے دنیا سے پوشیدہ رکھا ہے امن اور روئے محبت کا ر کئی ان کے افشائے آں اسرار کو تو محبت کی رو سے مجھ سے پیش آ اور ان امرالہ کو تھوڑا سا ظاہر کر ایکہ آئی سوئے هر جوشنده واقعی از سوز هر سوزنده سے وہ کہ تو ہر تلاشی کے پاس آتا ہے اور ہر چلنے والے کے سوز سے واقف ہے الامر الى 斌

Page 250

۲۴۸ ہے میان تعلقی ها که با تو داشتن کمال محبت حا که در دل کا انتم تو اس شخص کے باعث ہو میں تجھ سے دکھتا ہوں اور اس محبت کی وجہ سے جو میں نے اپنے دل میں بونی خود یہ دل آراز نے ابراء من اسے تو کہت ملجا دماد ائے میں تو آپ میری بریت کے لیے باہر نکل.تو ہی میرا حصار اور جائے پناہ اور ٹھکانا.آٹے کا ندر دلم افروختی وز دم آن غیر خود را سوختی کو آگ جو تو نے میرے دل میں روشن کی ہے اور اس کے شعلوں سے آنے اپنے غیر کو جلا دیا ہے.مانان آتش سرخ من بر فروز ویں شب تار م مبدل کن بروز سی آگ سے میرے چہرہ کو بھی روشن کردے اور میری اس اندھیری رات کو دن سے بدل دے این جهان کور را اسے شدید پیش بنما دور را چشم بکتا اس اندھی دنیا کی آنکھیں کھول اور اسے سخت گیر خدا تو اپنا زور دکھا نه آسمان نوره نشان خود نما ایک گلے از بوستان خود تمام آسمان سے اپنے نشان کا نور ظاہر کہ اور اپنے باغ میں سے ایک پھول دکھا ای جان ایمنی پر از فسق و فساد غافلان را نیست نفت موت یاد میں اس جہان کو فسق وفجور سے پر دیکھتا ہوں فاضلوں کو موت کا وقت یاد نہیں رہا اند حقایق فاضل و بیگانه اند بیچھ طفلان مائل افسانه اند اور حقایق سے فاضل اور ناطاقت میں اور بچوں کی طرح کہانیوں کے شائق ہیں سرو شده اما درے کے دوست نے دیا ناتر از کونئے دوست ان کے دل تھا کی محبت کے سر میں معمول کے رخ ندا کی طرف سے پھر گئے ہیں

Page 251

۲۴۹ سیل و جوش است انسب تا یک ونار از کرما آفتا بے را برار سیلاب بوش پر ہے اور رات سخت اندھیری.مہربانی فرما کر سورج پڑھا رحقیقت الهدی صفحه مطبوعہ ۲۱۸۹۹) یت کی غیر میں امداد کی بادست و اصدق بوٹ نعیم سے ہی کیا کرنا ہے اور اور رکھتے ہی یہ رہی ہے تو ہم مانگ کر صوتی اور اسی طلب کریں د اشتهاره ۲ راکتو به ۶۱۸۹۹) و انا انا انا اس کی اشنا بر روان سے دوست یں ا و بعد ای خدا کے عضو سے روشن کیے گئے ہیں اس کی محبت میں ایک ٹوگتان بھی کیا ہے اور گزارنا چیست من پول استار زبان پر یاد آتا ہے ایک رات در نو منتش دینی اندھیری رات اور زمانہ پر سیاہ کی مانند ہے.دنیا کا ہادی بھی تھوڑے ہی عرصہ کے لیے نیا میں رہتا ہے دالحکم، 1 جولائی 1991ء الہامی شعر (۶۱۹ مقامی فلک شده یا رب اگر امید سے دهم مار مجب میری دعا آسمان تک پہنچ گئی اس لیے اگر میں تجھے ا قبولیت کی ، امید ولاؤں تو انتعجب ای این حصر ا ر م ن و ه ی ۱۰۰ ۱ ۱ ۲۱

Page 252

۲۵۰ الهامی شعر سال دیگر.کہ مے داند حساب تا کجا رفت اگر ما بو دیاز آئندہ سال کا حساب کون جانتا ہے جو دوست گذشتہ سال ہمارے ساتھ تھے وہ اب کر مر گئے؟ وسعدی کا شعر ہے، دالحکم کے مئی 1901م الها فى مصرع سلامت یہ تو اسے مرد سلامت اسے سلامتی والے انسان تجھ پر سلامتی ہو intrident با هر کردن اشتا یاسیت قرابه کارت آخر بر است تجھے میں کسی سے بھی دوستی کا تعلق ہے اس کا انجام آخر جدائی ہے از فرقت برو سے بار ے نباشد که با میر نداش کارے نباشد اُس شخص کی جدائی سے دل کو صدمہ نہیں ہوتا جیسے مرنے والے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا را تجار الحکم جهادی شہر اور علوم مور اور اور اگست ۹۰۱ روم ریق ورطه بحر محبت و بر مری نظر باشدن برکین ه ہر عشق کے بھنور میں غرق ہونے والے گو نہ اُس کی محبت پر نظر ہوتی ہے نہ خطہ پر

Page 253

۲۵۱ برش عاشق از لیسانے والنار چنان نفرین عزیز آید کہ نہیں دلیر کے ہونٹوں سے عاشق کے کانوں میں عامت بھی ویسی ہی پسندیدہ ہے جیسے کہ شنا باش پتال میان نوش افتد از سر عشق کہ قران می کند بر دے دال دیں عشق کی وجہ سے محبوب کا چر اتنا پسند ہوتا ہے کہ وہ اس پر اپنا دل اور دین قربان کر ڈالتا ہے.شب روزش به دلبر کار باشد دل و جانش شود آن یار شیرین دن رات اُسے دلبر سے ہی کام رہتا ہے اور وہ پیاریا دوست اس کا دل اور جان بن جاتا بود و هر چه غیر یاد با شد ہمیں ان عشق دار کم است و آئین ر بھی یاد کے سوا ہو عاشق سب کو جلا دیا اب اس عشق کی یہی رسم ہے اور یہی طریقہ ختن د عالمتربند در شور و شراند عشق بازان در مقام دیگراند محروقات اور دنیا سب شور و غوف میں مبتلا ہیں.گر عاشق ایک اور ہی مقام پر ہیں.گر دلا دیں کو چو بیرون نگذریم هم سگان کوچه انقد ما بهتر اند اے دل اگر ہم عشق کے کوچہ کوسٹ نہ کرلیں.تو گلیوں کے کتنے بھی ہم سے بہتر ہیں ا اشاره الحکمه ی ده می رود و مشخصه بر جور شده در اکتو په ۱۹۰۱ء ران کن است می توان مندی داره امیرا ری کوری میں گر مجھے یہ کرلی جائے تمہیں مدین اس پر سے قربان کردوں.اٹلی مجھے ہی کفرامہ اسی طریقہ پر موت دے و

Page 254

۲۵۲ گر می تونیش برکنان نے دلبرم آن مر یکہ انہاں دل کجا بریم اگرمیں اپنی حجت کواپنے پیر کی جانب گاوں توپھر اس محبت کوس سے لگاؤں اور یں دل کو کہاں سے جانوں ن ان می کنیم بند ان کے دوست و نیز اینکه تیر بیاید با بروم میں وہ ہیں جو کہ دوست کے چر کی رات سے آنکھ بند کروں خواہ مجھے نظر آتا ہو کہ شیر سی امیری این آرنا دالحکم ارزشی ۱۹۰۲ ) دمے بازو چو یاد آورم مناجات شوریده اند حرم.میرا ان کا اپنے لگتا ہے جب میں یاد کرتا ہوں ایک عاشق کی مناجات کو جو اس نے حرم میں کی تھی دالحکیم ارمنی و ۱۶۱۹۰۲ شعر الهامی تنفر د برایش محمد امین را کاری روز گارسے بیم میں اس کی خاطر محمد احسن کو روزگار کا تارک دیکھتا ہوں اختبار القادیان یکم ستمبر ۲ (+19+r

Page 255

۲۵۳ ہو گداز شد اطالوں میں ایشیا کی امش تو خود سونی اسے نائن پر بالوں کی مش ایک ای او اس بات کی نظرسے دیکھ اے نامی آپ لون ہے اس کا نام مون کیوں رکھتا ہے بیان تو بوقت صلح و تک بیت است این کے کو بری چید دبیر نیک انجامش یروی کانادا اصلا موزیک گن کا وقت ہے اب بھی چوری سے کپڑا ہے مجھے اس کا انجام اچھا تعلیم نہیں ہوتا دافع المیلا صفحہ امطبوعہ ۱۹۰۲ء) ان پر ریست دیگرشک تا چنے دگر نورانی برو با شتان خشک ہے بے مہر خوانی قسمت هر چیز ہے خشک روٹی اور چیز ہے اس سے مجھے سوکھی روٹی کھانے کے قابل نہیں ہوتی ہے دوستان ماند هد بند از مهر و کرم پازنان خشک نان یگانگان را نیز نیم دوستوں کو فضل و کرم سے عمدہ تہمتیں ھتی ہیں.لیکن غیروں کو سوکھی روٹی کے بڑے ہی لکھتے ہیں نیز مینی گلی آن شکشان می گفتند مانده از لطفها پیش ویزان می برند میں خشک سوئی کو کتوں کے آگے بھی ڈالتے ہیں ور خوان نعمت کو لطف کے ساتھ مورینیوں کے سامنے لےجاتے ہیں ایک کی ان تک بارش کی بود این گراوندی سے سر شده ایمان باش تو اس سوکھی روٹی کو چھوڑ.ہوش کر عقل کر.اگر عقلمند ہے تو نخوانِ نعمت کا طلب گار بن رواقع البالا صفحه به ۲ مطبوعہ ۱۹۰۲ء) آسمان در نختار الوقت میگوید زمین پرشین کینه الکامانیاں راہیں آسمان استان پر جاتا ہے اورز میں الوقت کہتی ہے.اس پر بھی تو ان لوگوں کی مداد توں کیوں اللہ انکار کو دکھے؟

Page 256

۲۵۴ ے دوست گناہ انہیں ان کی تو میں انہوں نے انہیں قت خطر ختگان این ملاز آمال طلبیده اند می دانی در ماحول نشر گردیده اند ین کے مصیبتوں نے مجھے آسان سے لایا ہے وہیں سے وقت پر ہی ہوں کہ ان کے اسے خون پیچھے تھے داری اور فرش زرد نشان داده اند ضرور ہم ان نے تصدیق ما استاده اند اسے مالی کوسیکڑوں شانوں سے تقویت دی گی چاند اور سورج بھی ہماری تصدیق کے لیے کھڑے ہو گئے تخته گوگلر و یه صفحه ۲۱ مطبوعه ۱۶۱۹۰۲ مبر رحمت سے فضا ہے آمید کجاست اہل بیت کہ شیر کے شاید ای ایلامی کی شادی کی تیار مجھے ہر لحظہ خدا کی طرف مد آرہی ہے اہل بصیرت کہاں ہیں.ہو اُسے آنکھ کھول کر تحقة التدقة صفحة الطبوعه ۲۱۹۰۲) اے نے بن انیقت جو نے تختی مین بسته مکر نیست مجود ہجو من کار دیگر سے وہ ہو میر کی ذلت کے در پے ہے اور سوائے میری بھائی کرنے کے تجھے اسکائی کا نہیں سے کشائی پڑھے میں زباں جوان ترسی از خدائے رازداں تو جو ہر وقت میرے بر خلاف اپنی زبان کھولتا ہے نمدا ئے غیب دان سے کیوں نہیں ڈریا در تقولی ہے باید جدال آ گیا دشت مرا اسے بہ خصالی تقوی کو گا د نظر رکھ کر جنگ کرنی چاہئیے اسے بد خصال انسان کب تک گالیاں دیتا رہے

Page 257

það نیستی گرگ بیابانی در ماد ترک کن این خوئی و زمینی شرم دار تو جنگل کا بھیڑیا نہیں ہے.نہ سانپ ہے.یہ عادت چھوڑ اور خدا سے از حقیقت بے خبر ورانہ اوب اسے حفصہ ور انسان تیری سیرت سے تعجب آتا ہے کہ تو حقیقت سے بے خبر اور ادب سے دور ہے در خیز واقل فهم و در آن درست کہ میں را چشم می چشم می باید نخست اٹر اور سب سے پہلے پنی سمجھ کو درست کر نکتہ چیں انسان کی سے پہلے ہی کم ٹھیک ہونی چاہیے دل شود از بد زبانی با سیاه بینه باتاں راور آنجا نیست راه بعد زبانی سے دل بیاہ ہو جاتا ہے.بد زبان لوگوں کی خدا کے حضور میں رسائی نہیں ہے.کم نشین با زمره مستر بین تا بیابی حقه از منندیں سفر کرنے والے لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھے تاکہ تو جہایت بافتوں میں شامل ہو روزه و شب بد گفته کار تو شند لعنت و تحقیر کردار تو شد دن رات تیرا کام مجھے بیٹا کام مجھے بیٹا کہتا ہے.سنت اور تحقیر تیرا پیشہ ہو گیا ہے لعنت آن باشند که از رحمن بود لعنت اہل و ڈول آسال بود.عنت کو وہ ہوتی ہے جو جان کی طرف سے ہو نا اہل اور ذلیل انسان کی لعنت کوئی حقیقت نہیں رکھتی گر سیفیسے لعنتنے برما کند او نه بر ما خویش را رسوا کنند اگر کوئی امتی ہم پر لعنت کرے.وہ ہم پر انہیں پڑتی بلکہ وہ خود اپنے آپ کو بدنام کرتا ہے.ھر کرنے وار و دل پرهیزگار چون محب ودار نیز کار کردگارم شخص کا دل پر ہیز گار ہے.وہ خدا کے کام پر کیوں تعجب

Page 258

گر از یک قطرہ انسانی کند از دشت تخم بتانے کند وہ خدا جو ایک قطرہ سے انسان کو پیدا کردیتاہے اور دھی یجوں سے ایک باغ بنا دیتا ہے ہوں نے ساگر مسیحائے کند یا گرائے باشہنشا ہے کند اگر وہ مجھ جیسے کو صبح بنا دیتا ہے یا ایک فقیر کو شہنشاہ کر دیتا ہے نیست اور صلہ عطائے او بید کور باشد هر که از انکار دید تو اس کے فضل و کرم سے بات بعید نہیں وہ اندھا ہے میں نے اس بات کو انکار کی نظر سے دیکھا جان مشو تو مید نال عالی جناب بنده باش هرچه می خواهی بیاب نبردار تو اس عالی بارگاہ سے نا امید نہ ہو.شہدہ بھی جا پھر جو تو چاہتا ہے.تاد است خالی دوریت جمعید پرچہ خواہ مےکند بجوش که دید وہ قادر خالی اور بزنگ رب ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے کس نے اس کی لاچاری دیکھی ہے نطفه را روئے درخشاں سے دہد سنگ را لعل بدخشاں سے دعا ایک قطرہ منی سے چمکدار چہرہ بنا دیتا ہے اور تیچر سے لعل بدخشاں پیدا کر دیتا ہے یمہ کیسے چوں مہربانی می کند از زمینی آسمانی می کند مہربانی کرتا ہے.تو اُسے زینی سے، آسمانی بنا دیتا ہے سمجھنیں بین علائے کرده است فضلا ہے اتنا کرده است اسی طرح مجھے پر بھی اس نے مہربانی فرمائی ہے اور بے انتہا فضل کیسے مظہر اتوار اس ہے چون شدم و معارف از عمر افر حول شدم ہیں میں خود اس لانانی ذات کا منظر بن گیا اور خلایق و معارف میں سب سے بڑھ گیا

Page 259

۲۵۷ یار من بر من کرم دار دہے سر نشان دارم اگر آنے کے کرم یا سردتشان دارم مران ہم پر ہے مر رباتی رکھتا ہے میرے پاس کیوں نشان ہیں اگر کوئی دیکھنے کو آئے و یا اسے مردگل من زنده ام اے جبان تیره من تنابنده ام اس مرداور سن لو ر میں زندہ ہوں اسے دھیری راتو رقم بھی سن لو کہ میں روشن ہوں این دو شیرین کن ذیب این سرم بید اس بارے که باز می میرم میری یہ دونوں آنکھیں جو میرے سر کی رونی ہیں.اُس یار کو دیکھتی ہیں جو میرا دلبر ہے قدیم تا عرش می دارد گند و این در گوشه دار سد از حق خبر این س سے درد کی مرد کے عرش تک پہنچتی ہے اور میرے ان دونوں کانوں کونی کی طرف سے خبر ملی ہیں صد بر ارسال تیم ال تمت بخشیده اند واین رخم از غیریق پوشیده اند مجھے لاکھوں نعمتیں بخشی گئی ہیں.اور میرے اس چہرہ کو غیروں سے چھپا دیا گیا ہے سے دہم فرمونیاں راہر زماں چوں یہ بھیائے موسی صد نشاں میں ہر وقت فرمونی صفت لوگوں کو ید بیضا جیسے سینکڑوں نشان دکھاتا ہوں ین نشانه بد گال کو دو گراند صدرتشان بیند و غافل بگذرند قطرات لاگ ان نشانوں کی طرح سے اندھے اور رہے ہیں یا کیوں نشان دیکھ کر بھی رد نہیں کرتے دور افتادم زنجیشمان بیشتر ان مقامم کس نے دارد خبر میں لوگوں کی آنکھوں سے دور ہوں.کسی کو میرے مقام کی خبر نہیں ہے د من اما نماز نقص معقول بخت برگ دیده محروم از قبول عقل کی کمی کی وجہ سے انہوں نے مجھ سے مقابہ کیا اور قیمت ہوکر مجھے قبول کرنے سے محور گئے

Page 260

۲۵۸ کس زی از جهان من آگاه نیست حقل شان تا در ماراده نیست میرے پھلی کے بازہ سے کوئی بھی واقف نہیں.اُن کی عقل کی ہمار ے دروازہ تک رسائی نہیں از مشرق است بوشو جنگ شان اور پے بٹھائے تقی آهنگ شاں ان کا جوش اور لڑائی بیوقوفی کی وجہ سے ہے.اور خدا کے نوسر کا بجھانا ان کا مقصد ہے اسے مرور گر پیائی سوئے ماماز و فارخت انلگنی در کوئے ما سے فریب خوردہ انسان اگر تو ہماری طرف آئے اور ہمارے پاس وفا دار ہو کر رہے دانه سر صدق وصداقت پروری روزگار سے در حضور ما بری نیز سچا بن کر اور طلب حق کی نیت سے کچھ عرصہ ہمارے پاس رہے عالمی مبنی نہ ربانی نشاں سے میاں خلق و عالم پاکستان تو جو خدائی نشانات کا ایک عالم دیکھے گا جو دنیا کوخدا کی طرف کھینچنے کے لیے آتے ہیں مجھ من من نے ظالم کہ آزارے دلم بر سر براہ دنیار سے دھیم ی نہیں چاہتا کہ اس میں تھے کوئی کیا تو ایک مہینے تیرے نانا اس لیے دینے کو تیارہوں مچنین یک سال می باید قیام ادرس این مهم است و از تو التزام ی طرح ایک سال تک میرے پاس بہنا چاہیے میری طرف سے یہ عہد ہے اورتیری طرف سے پابندی ضروری ہے گر گذشت این سال عدم بے نشاں ہر چہ ہے گوئی ہے گو بعد ناں عام جیسے بعد اگر یہ وعدہ کا بہ سال غیر کسی نشا کے گزرگیا تو مجھے جو کچھ کہنا ہے اس کے بعد کیو صالحات این دراین دست دست ساده استعمال ما و لعنت است یسی ٹیکوں کا طریقہ اور اُن کی سنت ہے.جلد بازی کا رستہ لعنت کی راہ ہے

Page 261

۲۵۹ ہر کسان شده سال از حضرتش کیمیا باشد و می در سمتش می شخص کا پہلی شاکی درگاہ سے روشن ہوگیا اس کی سمت میں تو ایک نگاہ بھی کیا ہے ہر کہ اور اظلمے گیرد براه دان پاکان است او را عذرخواه شخص کو ظلمت گھیر لیتی ہے.اس کے لیے تو پاک لوگوں کا دامن ہی شفیع ہے آن خدا با یاری خود یاری کند با وفا دار ال و ناداری کند وہ خدا اپنے دوست کے ساتھ دوستی کرتا ہے اور وفاداروں کے ساتھ وفاداری کرتا ہے.سر کا مشق در دل و جانش نقاد ناگہاں جانے در ایمانش فتاد جس کے جہان اور دل میں ان کا عشق داخل ہو جاتا ہے تو کیا اس کے ایمان میں جان پڑ جاتی ہے عشق می گردد یہاں پروئے اُو ہوئے اور آیہ زبام و کوئے اُو خدا کا عشق اس کے چہرہ سے ظاہر ہو جاتا ہے اور اس کی خوشبو اس کے مکان اور گلی سے آتی ہے دید او باشد.حکیم دید او خود نشیند حتی ہے تائید او حق اس کی زیارت خدا کے دیدار کا کم رکھتی ہے اور خدا تعالیٰ آپ اس کی نصرت میں لگ جاتا ہے.بس نمایاں کاٹ کا اندر جہاں سے نماید پیر اکرانش یہاں بہت سے بڑے بڑے کام خدا تعالئے اس دنیا میں اس کی ملاقات کے لیے دکھاتا ہے م شعائش سے دور یوں آفتاب مگر جانے پر آید از حجاب کتاب کی اس سے روشنی کی سیکڑوں شام میں بخشا ہے کہ کوئی جانی علالت کے بابوں سے نجات پائے ن چنین برمی رها کرده است محکوم به خود ستمها کرده است مقالے نے مجھ پر ایسے کرم فرماتے ہیں.میرے منکروں نے خود اپنے آپ پر ظلم کرتی ہے

Page 262

۲۶۰ یکر قرآن علی ای طبیب یا تقلبی غیب از وی خلاق جمال قرآن کا علم.اس پاک زبان کا علم اور العالم الی سے غیب کا علم این ستعلمه چون نشانها داده اند برس بچوں شاہدال استفاده اند داده اند هم استاده اند یہ سمجھ علم مجھے نشان کے طور پر دیئے گئے ہیں اور تینوں بطور گواہ میری تائید میں کھڑے ہیں.آدمی زاد سے ندارد بیچی فن تا در آویز دیں میدان به من کوئی انسان یہ طاقت نہیں رکھتا کہ اس میدان میں مجھ سے مقابلہ کرے مستند حال برایشان شد تمام یاوہ گوئی ماند در دست اقام رحمان کی طرف سے اُن پر محبت پوری ہوگئی.تالایق لوگوں کے پاس صرفت بیہودہ کو اس رہ گئی از کسوف و ترک آن نوری که بود مروفه هم پیشیم آمد در سجود کسون و تصوف کے موقع پراپنے بے نور ہو جانے کی ریہ سے پاندا در موسی بھی میرے سامنے بھرے میں کیڑے این نشان به آسمان حما نمود بر زمین به دست حیت پاکشود ران نے یہ نشان تو آسان پر دکھایا.اور زمین پر بھی اپنا مصیبت ناک ہاتھ دکھایا هست لطیف یار من بر من انتم او مانند من هم از برش شدم میرے یار کی مجھ پر کامل مہربانی ہے.وہ میرا ہو گیا اور میں اُس کا ہوگیا دلیرم دور شد جان دستور است راست بمانم بیا درد نے بادست یراد بر میری جان من او در پوست میں بن گیا میری جان کی خوشی اسی کے منہ کی یاد ہے ندازه ها دارم بیار دلبرم شد خیال از من بهایه دلبرم میرے محبوب اور میرے درمیان کئی راز ہیں اور اس کی شان میرے وجود سے ظاہر ہوتی ہے

Page 263

ہر کے دستے یہ واما نے زند ما بہ ذیل حتی وقتیتوم واحد شخص کسی نہ کسی کے دین کو پکڑتا ہے گرم نے ھی و قیوم اور کیا خداکے ان کو پڑا ہے اسے دریا قوم من نشناختند نفقه ایمان در حد با باختند افسوس میری قوم نے مجھے نہ پہچانا اور ایمان کی دولت حد سے برباد کردی این جان پرستم کوره دار است چشمه شان دار همه روان کنتراست یہ ظالم دنیا اندھی اور بری ہے اس کی آنکھیں اُتوں کی پنکھوں سے بھی گئی گندی ہیں.اتف بودم مرا نواختند جای نت گشته و می انداختند اس لیے کہ جب میں ایک نہ تھا تو نہوں نے میری موت کی گرجب میں سورج بن گیا تو انہوں نے مجھے اپنی نظر سے گراون ر نحوه راه تو یه صفحه امطبوعه ۱۹۱۹۰۲ مان شمع شر کال از خدا باشد که بانشان نمایان مندانه باشد انسانوں میں وہی خدا کی طرف سے کالی ہوتا ہے جو روشن نشانوں کے ساتھ خدا نما ہوتا ہے ان و توری و صدق و و نا خالق او کرم و غربت و یا با شد اس کے چہرہ سے عشق اور صدق وصفا کا نور کہتا ہے کہیں کھا اور یہ اس کے اخلاق ہوتے ہیں نات ا تر یا مات می باشند به تو قامت او یو انبیا باشد.ہوں کی ساری صفات مدا کی صفات کا ر ت ا ا ا ا ا ا ا ا ا ال ای دنیا کے استعمال کی بند ہوتا ہے دوران کشمیر اور سردی باشد میان در ایمی اش رہنے کبریا باشد اس کے سر یہ ساری فیضان کا مندر جاری ہوتا ہے اور اس کے پھر میں خدائے بندگ کا چہرہ نظر آیا ہے.Har

Page 264

۲۶۲ صود و ٹ ہوئے فلک بود بردم موجوداد هم رحمت پور مصطفی باشد س کی ہریانہ وقت آسمان کی رات ہی ہوتی ہے.اور اس کا وجود مصطفے کی طرح سر اس وقت ہوتا ہے.خبر و مساعد ومش ندم به صرف پاک احمر از تحول سلام بعد ثنا باشد د اس کی خرید کاری کی ترقرآن مجیدمیں دیا ہے رسول کی ان سے بھی پی لوں اور سلام پیچھے جاتے ہیں تا بدانده جانان خود سر اخلاص اگر د پیل مصیبت بزور با با شد با باشد اپنے شو کیا میں بھی خلا میں کی نہیں آنے دیتا.خود مصیبتوں کا طوفان کتنے ہی زور دل پر مجو میرا یار یواین از لانه پرهیزد اگر چه درد و آن یار از دریا باشد اس سورت والے دوست کی ماہ میں وہ کسی بلا سے نہیں ڈرت ناخواہ مس یار کے راستے ہیں اور وہا بیٹھا ہوا کند حرام میں خواب را به انس و جمله ارف و عامی در این بار باشد و نیند و ریش کواپنے اوپر حرام کرلیتا ہے یہ سب نیک دیر اس عیش وعشرت کی بلا میں گرفتار ہوتے ہیں دل ایک کسش باشد و فتاده ز فرق فراغت از بهر خود بینی و دریا باشد اس کا دل ہاتھ سے اونٹ پی سے گری ہوئی ہوتی ہے اور ہرقسم کی خود بنی اور ریا سے پاک ہونا ہے صول المهمه خیلی هم باشد و لطف طریق او همه همدردی و عطا باشد اس کا اصول صرف خلقت پر رحم اور الف ہے اور اس کا طریق تیم ملی پر درد اور مشاورت ہوتا ہے طوره میانی تریش با لب از حسرت که چون گو بیان نتایج مدلی باشد اس کا شریف دل ہمیشہ اس حرت سے نہیں رہتاہے میرے لوگوں کی جماعت کس طرح ہدایت پائے گئے ہمیشہ محترز از صحبت بہاں ماند محور از پیٹے دیں سمجھا مینا باشد شریروں کی محبت سے مجتنب رہتا ہے اور اولیا والد کی طرح دین کے لیے غیر مند ہوتا ہے

Page 265

۲۹۳ اپنا دین بود و خیار مسلمانان به بابت خود واقع قضا باشد کی اور استانی کی جائے قافت ہم کہتے ہیں کی جہت کے زر سے تھا کہ دفن کر دیا ہے.ہزار سرزنی و کے گرد د سل کو پیش روبروی کار یک نمایشدا چو شیر زندگی او بود دری عام نصیب او دگران را هم فضا باشد کے نشان نباید به روین قویم گئے عمر کہ جنگش با شقا باشند ھی دو دین اسلام کی خارستان دکھاتا ہے اور کبھی دونوں کے ساتھ ہی لڑائی کا کام میں آتا ہے بود منفرد منصور زندانی کریم و معضلات شریعت گره گشا باشد مضان کریم کی طرف سے منظور منصور ہوا ہے اور شریعت کی شکلات کوحل کرنے والا ہوتا ہے مهر با سال پدرش بسیار و دور از شان حضرت علی در و یا باشد ای ایرانی کی قیت اور اس کے پر سوار ہے اور اس ایلیا اب کیا ان کی اس میں چپ ہوتی ہے کشور اول کشون از بلائے او باشند هم از نجوم بے مقدش صدا باشد ی کشون کشت اسی کی خاطر ہوتے ہی اور ساحل سے بھی اس کی تشریف آوری کی آواز آتی ہے عرض مقام ولایت نشانها دارد و نه سر که دلق پوشد و اولیا باشند عرض ولایت کا مقام بہت سے نشان کھتا ہے یہ ہیں کہ جو گوڈی سی ہے وہ پیوں میں شمار نے گے کلی این همه دولت محبت است و وفا خوشا کی کہ نہیں دوستش سوطا باشد اس ساری دولت کی کنجی محبت اور وفا ہے خوش قسمت ہے وہ بجھے ایسی دولت مل جائے

Page 266

ن رات مندی ہے توان گفتن کلے سلامت روان و مقا باشد فقر کی باتیں پوری کرکے بھی بیان کی جاسکتی ہیںلیکن اس ماہ کے کمروں کی علامت صدق وصیت ہے ان سیاسی و شرح دہم کو شروطا ہرقد سے گریڈ کا باشد و راست کی مشکلات کی تفصیل میں کیا بیان کروں کہ ہر قدم کے لیے گریہ و زاری لازمی ہے بروز دا کار نوز دل صدق دوره بار بمیرد آنکه گریزنده از فنا با شد خدا کر اسے وہ بھیل جائے جو د دست کی راہ میں نہیں بھلنا خدا کر ہے وہ مرجائے جونا سے بھاگتا ہے کلاه فتح و ظفر بیچ کرنے یا بد مگر سریکہ نے حفظ دیں قد باشد کئی مات و خلف کا آج نہیں میں سکتا سوائے اس کے جودین کی حفاظت کے لیے قران مجو انائے سادی پہ پہنچ کس ندهند مگر کیاکہ نہ خود گئے خدا باشد کسی شخص کو آسمانی نشان نہیں تھے مگر کسی کو جو خدا کی خاطر فنا ہو جائے کے رسہ بمقام خلق را مجاز که در مقام مصافات و مصطفی باشد دہی شخص خوارق اور معجزوں کے درجہ پر پہنچتا ہے جو دوستی اور برگزیدگی کے مقام پر ہوں اہے جو ضرورت است که در دین میں اہم ایک عین حال و مدین ومرده سیا باشد....ضرورت ہے کیوں میں ایسا ام آیا کرے جب خلقت حائل ہے دین اور موصل کی طرح ہو جائے جهانیان هم ممنون نقش باشند چرا که او نه مات المدنی باشد ابل جان سب اس کے زیر بار احسان ہوتے ہیں کیونکہ وہ مذہب اسلام کی بنیاہ ہوتا ہے ۲ اگر چه می شد دار دیگر به تفتح دلیل ہے در د هت تریک می باشد اگر چودہ تلوار نہیں رکھتاگر دلیل کی تمھار سے اس قوم کی منتیں الٹ دیتا ہے جو گمراہ ہو

Page 267

440 جو بیلوال بر آید ز نز درست کریم بهروش رو صدق مدعا باشد کریم کے پاس سے دو ایک پہلوان کی طرح ہی ہے اور ہر خط اس کا مقصد ہی ہوتا ہے حقوق کی مد کرے اتنا کنید با کشتی جنگ این امید کر نے مگر ر ہا باشد ی و ویرانی کے دن وہ بھی کرتے دکھاتا ہے صرف اس امید یہ کہ کوئی جان نجات پا جائے میں ست مطالب برگزیدگان خدا ہمیں علامتی قبل از خدائے باباشد یسی خدا کے برگزیدہ لوگوں کی جماعت ہے ہمارے خدا کی طرف سے ان کی بہی نشانیاں منفرد ہیں جونگ جب گذارند بر میکه بود که احفاظت مردم رفته باباشد وہ اپنا ہر سانسی جنگ اور لڑائی میں گزارتے ہیں تاکہ فقتوں سے لوگوں کی حفاظت ہوا بخیر هایت بگذر و شب انتها که پاسبانی ایشان بعد عنا باشد تیری بات امام سے نیند میں مر جاتی ہے اس لیے کہدہ بڑی دردمندی سے تیری پایانی کرتے ہیں لامی بہت رمان کار دارد باش که آن مرموزان از مردم دغا باشد وانم این کار را یک است اما اینجا که میان جن کے طفیل ہی محمدتوں اور مردوں کو ان حاصل ہوتا ہے نا و بینش اسلام اس جوان روست که توان مال اپنے دینی مسطح باشد وسی جوانمرد دین اسلام کی پشت دنیاہ ہوتا ہے جین کا دل دین مصطقے کے لیے خون ہوتا ہے ین بود که برای نیک طینت را سر نیاز بدن گاه شان قرا باشد یہی وجہ ہے کہ سب مابقی اور نیک فرانت لوکل کا م عا جوسی سے ان لوگوں کی نگاہ پڑھیکا رہتاہے داغ که بر این حرب تاودانی است کیکر کیر کند سخت ہے حیا باشد روان کی برکت جا باشد ا اور لوگوں کے مقابل کی اور بڑائی کرتا ہے آتی ہے جو کہتر کرتا ہے وہ سخت ہے جیا ہے.

Page 268

چہ جائے کہ کرایا پناه بر تیراندن تعطیل نشان مہ عمامہ وقتا باشند موقعہ ہے کہ وہ تو سانسان کی جائے نہا ہیں ہنسی کی طفیل سب کی عورتیں محفوظ ہیں اگنی این شی ایک سے جدا بشوی متاع دایا کیا تو تو جدا باشد اگر توان کی پناہ کی جگہ سے ایک لحظہ بھی پیدا ہو توایمان کی پونچی اور دولت تجھ سے جدا ہوجائے گی ساست زیر میر صادقان مخلص را که تار ها سر تو میکه در بلا باشند ان تخلص راستیا نوں کا سر تیر کے نیچے رہتا ہے تا کہ اس قوم کا سر بچ جائے وصیت میں ہوں یل شان بر باد است و سرو کریم این نشان ده میره سر رضا باشد ان کا اصول محض ہمدردی محبت اور شفقت ہے اور ان کا طریقہ عالم ہی اور رضا کی طلب ہے.نا جان گرامی فدائے ہوں دل باد کو مست محور بابائے کبریا باشد ہزاروں قیمتی جانیں اس ایپ پر قران و و و او را برای کی ان میں سر اور بے خود کہا ہے ه کنج خلوت پاکان اگر گذر کنی بیان شود که چه نور ولا سرایاند پاک لوگوں کی خلوت میں اگر تیرا گذر ہو تو تجھے معلوم ہو کہ واں کیسے کیسے انوار رستے ہیں دولت در جهان سر فرد نے آرمند عشق یابد دل نداریشان دو تا باشد دو نوں ماں کی دولت کی طرف بھی یہ لوگ وہ نہیں کرتے ان کا درد مند دل محجوب کے عشق میں چور رہتا ہے.مناز با گلهاسبرو رفته پشمین که زیر دلق مع غریب با باشد یکا اور روانی و قه یرانانه ن که ناشی گری کے پیچھے بہت سے قریب ہوتے ہیں ز ان مروند ندوست بانش آن موضتے آید که سوخت ان یہاں نہ نے بدنی باشد وہی مرد ایسے دست وباز کے ساتھ خدمت کر سکتا ہے جس کے دل و جلی ہدایت کے لیے پر سوار ہوں

Page 269

کیر دل سے تعلق تو روش شب و تحقیق است که در خادم دوستی باشد جر کاری مخلوق کی خاطرون رات بچین رہے یہ ثابت شدہ بات ہے کہ وہی لوگوں کا خادم ہوا کرتا ہے.نہیں جانش نیاد دیں نجا ببرد اگر ز قمت ما ظل شال مجعد باشند اگر ماخل حادثات کی انگری دین کی بنیاد کو ہارے اگر ہمارے مذہب سے ہی لوگوں کا سایہ لگ جائے انی بود که وسال صدی تمام شود امید آنکه بدین تاپ خدا باشد ہی ہے کرجب صدی کے سا ختم ہوتے ہیں ایسا نا ہوتا ہے جو دن کیسے اس کا نام جانا ہے ی شود زنیم که من یہاں مردم که او مجد و این دین در بنا باشد سے یہ نوشتہر کی لی ہے کہ میں وہی انسان ہوں جو اس دین کا مجدد اور راہ نما ہے لوائے ما چنیہ ہر سعید خواهد بود برائے فتح نمایاں نام ما باشد ہمارا جھنڈا ہر خوش قسمت انسان کی پناہ ہو گا.اور کھلی کھلی فتح کا سہرہ ہمارے نام پہ ہوگا حب مدار گرفتن سوئے ما بدوند کہ ہر کیا کہ منی سے بود گر باشد اگر مخلوقات ہماری رات دو شکر آئے تو تجب نہ کرکہ جہاں دولتمند ہوتا ہے وہاں فقیر جمع ہو جاتے ہیں گلے کی نئے خیا لا کے خواب دید بیبار ناست اگر قیمت رسا باشد ھیں جو کبھی خدا کا منہ نہیں دیکھے گا ہمارے باغ میں ہے اور تیری قسمت یاور ہو منم مسیح بیانگ بلند سے گویم منم خلیفہ شا ہے کہ برسا باشد چھوٹ بند آواز سے کہتا ہوں کہ میں ہی مسیح ہوں اور میں ہی اس پادشاہ کا تخلیفہ ہوں جو آسمان پر ہے.معتقد است کرنے ہیں اوریز میں ہزار ہادان جاں بہ درہم خدا باشد.ار ہو چکی ہے ک کی ان سے دین پر بند دل جان و دل میری راہ میں قربان ہوں اگے

Page 270

۲۶۰ تین مو نمی خواست ایسی ان ان کو متا بے عملاں خود اثر کجا باشد کری ہوئی زمین بھی دویم عیسی کو چاہتی ہے جو آپ سے عمل حول ان کے دعا کا اثر کہاں ہوتا ہے.تاده اند و فصل گر کتول تانی نامساعدی نخبت تار سا باشند فضل کے دروازے کھولے گئے ہیں اگر تواب بھی نہ آئے.تو یہ تیری بدبختی کی خوست یر ای میل دوری دوسیم باش که کارشان به خونریزی و وفا باشد بیہودگی سے تو اس مسیح اور مہدی کا طلبگار نہ ہو جن کا کام سراسر توریزی اور جنگ ہو گا پیں گرا ہے است تا شیک تریخ بر آزدی اگر ا را با شد پھیر سے ویزہ دین کی تائید کا اور ہی رشتہ ہے یہ ہیں کہ اگر کوئی انکار کیسے تو تو فور انوار کالا ہے ہی ہی نہیں تو ه است کرتی از رائے میں بکشی دودی بود که به خوزی بیش بقا باشد جودی مدل مو فول و با قیبا باند کدام دل کانال و بیش با باشند جبکہ دین دل معقول اور روشن ہو تو وہ کونساول ہو گا جیسے ایسے مذہب سے انکار ہو ؟ چویں دوست بود نخرے نے باید که زوبر قول موتجد عجب نما باشد جب دین مبیج ہوتو اس کے لیے جو رکا نہیں کی کہ با دلائل کلام کی طاقت معجو ما ہوتی ہے تو ز سرائے طبیعت بنیادی پیروں میں ہم پوست جبر با جفا باشند جو کہ تو بھی لسانی خواہشات کے چکر سے نہیں نکلا اس وجہ سے تیری ساری خواہش ظالمانہ جبر کے لیے ہے : ر حریت من برجهان نیاید است برو دلیل بده گر خود تنها باشد سچائی کو دنیا میں جبر کھیلانا مناسب نہیں.اگر تھے مقتل ہے تو جا اور اس کے بر خلاف دلائل پیش کر

Page 271

۲۶۹ ز بود که مصدق را شکست آید ازین بود که رو جبر با خطا باشد..جیر سے تو راست بازوں کی جماعت ٹوٹ جاتی ہے.اسی وجہ سے بیر کا طریقہ غلط وش باش که جاست خود دلیل گریز انسانی دل مردم این کجا باشند فرار ہو کہ جب تو شکست کی وہیل ہے اس سے لوگوں کے دلوں کی تسلی کہاں ہوتی ہے مرا بکر کنی مستم این گفتار کر کفرند و تو برا ہ را ستر باشد تواس کی وجہ سے مجھ پکڑ کر لا سکتا ہے کہ ان کے نزدیک تنکوں کو کافر کتنا دوست سے مگر چہ جائے جب ک تو انہیں گوئی کہ ہر ک ہے ہر ا ا و ا ر خا باشد ور اگر یہ تیرا قول ہے تو کچھ تعجب کی بات نہیں کیونکہ جو ہے ہنر ہوتا ہے وہ بکو اسی ہوتا ہے.جو ہر آنچہ گوئی چوخود نمی دانی که ساکنان دانش را چه اجتبا باشد جو چاہے کہ کیونکہ ھے علم ہی نہیں کہ اس کے دروان پر رہنے والوں کا کتا بو نہ ا مرقہ ہے نوشته بود کشیدن اگرچه کشته شوم این که هر عمل و عمل را مهیا باشد میں تو ہر نہ اٹھانے کو تار ہوں خواہ قتل ہوا وہ یہ ہے کہ ہلال اور اس کی جوان و یعنی رویش صفان که تار می بینی و گرتنه بی تو صد دل همه جا باشد تانی و فال انھیں صاف کرتا ہ میرا جیو کے سکے دورہ تیری نظر میں وہ انصاف بھی ظلم دکھایا ہے گا مابین منتم من فضول عیب کند که بی خبر بده و رسم دین ما باشد میری اس بات میں وہ فضول کو عیب نکالتا ہےجو ہمارے دین کی راہ و رسم سے بے ہجر ہے کجاست المصادیق کرتا حقیقت ما رو میاں عمه اثر پرده خفا باشد پیرویال ایسا علم صادق کہاں ہے کہ میں پر ہماری حقیقت پر وہ حجاب میں سے بھی ظاہر ہو

Page 272

۲۷۰ زمان تعطر بیا د هنوز در خوابی شنو که سر سحراز الفت این ندا باشد جاگنے کا وقت آگیا مگر ابھی تو نہیں ہے مٹی کہ بار کھلی رات کو فرشتہ یہی آواز دیتا ہے ملا فضل وکرامت کے کا نرسد کجاست کنار باب دوما با شد ہریوں لقد نی اور اس کے ویسے کوئی تم تک نہیں ان کا کہاں ہے وہ شخص جو د نوی کرامت کا مدنی ہے سکتام علم وفضل ہزار نفقہ نمائی کیسے ہوسکه ما نقش توب وعیار و صفا کجا باشد سکے دکھائے پھر بھی چک ایک اور کھرا ہوتے ہیں ہمارے سکہ کی بھاری نہیں کر سکتا شوید که یادم متعدی وقت جنان او دگرے کے تانیا با شد شخص رو یادم اور مہدی وقت ہے اس کی شان کو الفیا میں سے کوئی نہیں پہنچ سکتا انه بافت نه بود جهان موش و سر بسته امین آمدم بند و یکی از صبا باشد جہاں ایک شہر کی طرح بند تھا میں اس کے لیے ان برکتوں کولے کر آیا ہوں جو جادو یا لایا کرتی ہے هفته که با استاندین ایام کدام راه بدی کو دور افتا باشید اس نہیانہ میں کس قدر فتنے پیدا ہو گئے ہیں اور کونسا راستہ ہدی کا ہے جو بھی ہے.ہو حال بیت کوین فتنه بانوی محفوظ مگر تا پروبین گام اقتدا باشد ناممکن ہے کہ تو ان فتنوں سے بچ سکے سوائے اس کے کہ تو میری پیروی کرے میک سایڈ ہال پاش شود معما و پایش کردو ان سے نقل ما باشد سایه عماد دورے سے ر شخص جسے بال ہماتے بھی فائدہ نہ دیا ہواسے چاہیے کہ دو دن ہمارے زیر سایہ رہے ہو سلم است ما از خدا حکومت عام که من صبیح خدایم که به سما باشد نا کی موت سے میری حکومت ثابت ہو چکی ہے کہ کریم اس دن کا ایسی ہوں جو آسمان پر ہے

Page 273

وین خطاب مرا برگرد اتفات نبود به همین جو چنین حکم ان خدا باشد مجھے اس خطاب کا اگر کوئی شوق نہ تھا کی میرا کیا قصور ہے جب کہ خدا کی طرف سے ایسا ہی حکم تاج و تخت زمین آرزو نم دارم که شوق افسر شاہی بدل مرا باشد یں کسی دینی تاج و تخت کی خوہش نہیں رکھتا نہ میرے دل میں کسی بادشاہ تاج کا وقت ہے مرانین است که ملک سما بدست آید کہ ملک ملک میں رابقا کا باشند یرے لیے یہی کافی ہے کہ سمانی بادشاہت ہاتھ آجائے کیونکہ زمینی ملکوں اور جائدادوں کو بتا نہیں ہے حالت پلاک کرده اندرو از نخست کنوں نظر فتاری ہمیں چھرا باشد کھوں نظرفتاری یک خدا نے مجھے روز اول سے ہما کے اوار کا یہ تو ہوا اور پانی پر میری نیکی کر پڑسکتی ہے مراکه مشت علیاست مسکن د مادی چرا بر پای این نیب جا باشد جب کہ میں اسکی دیم ولی جنت الفردوس ہے تو پھر میرا ٹھکانہ اس گڑھے کی کوڑی میں کیوں ہوں اگر مال بر ترین کند چه نے که امن است قدری کی داخلی باشد ارا ایمان بھی میری تحقیر نے مجھے کا تم کو میرے ساتھ وہ قادر دا ہے جوبڑی بزرگیوں والا ہے منم میسج زمان دستم کلیم خدا منم محمد احمد که مخیتی باشد دوستم میں ہی مسیح وقت ہوں اور میں ہی حکم خدا ہوں میں ہی وہ محمد اور احمد ہوں جو بھتیجی ہے ه به استکبار به میهمان نادان که جنگ اور کلیم فی از هوا باشد ان کے کلام سے بھی بارہ ادا ہے میں کیا ای خدا کے کلی کے ساتھ ہونے نفس کے تحت ہو انان قفس به پیری میری دل کو دنیا نام کتوں کینگروہ عرش جائے ما باشد میں اس بیوہ سے مل کر اور چکا ہوں میں کو نام کا نیا ہے اب توش کے انگلی پر بہاری جگہ ہے کرے تو

Page 274

۲۷۲ مانگیش به همان تقی شدست گذر مقام من همین تدریس در اصطفا باشد للہ تعالے کی رضا کے باغ میں میرا گذر ہوتا ہے.میرا مقام بر گزیدگی اور تقدیس کا چھنی ہے.کال پاکی وصندق مارگ شده بود دوباره انتن و د نه من بیا باشند پاکیزگی اور صدق و صفا کاکمال جو معدوم ہوگیا تھا وہ دوبارہ میرے کام اور وعظ سے قائم ہوا ہے رج از مخمر ایک سخت بے خبری که این گفته ام از وحی کبریا باشد الے شخص جو انکل ہیر ہے میری بات سے امان نہ ہو کہ میں نے کہا ہے یہ خدا کی وحی سے کہا ہے کیا گم شده از خود خوری پوست هر آنچه از دنیش شینوی بجا باشد ہر شخص اپنی خودی کو چھوڑ کر خدا کے نو میں حاملا اس کے منہ سے نکلی ہوئی سہ رات بھی ہوگی نیا روم نے جنگ کارزار جهاد غرض زر آمدنم درس انتقا باشد میں جنگ و جدال اور جہاد کے لیے نہیں آیا میرے آنے کی غرض تو تقوی کا سبق پڑھاتا ہے.بن کر شات این کمال رضا دادیم این فرض که بر نمینی بقا باشد ہم وقت کی خاک اور لوگوں کی لعنتوں پر راضی ہو گئے اس لے کر بیتی کا پھل یا ہوا کتا ہے درمان من مهر پر از محبت نو ایست که در زمان ضلالت از دنیا باشد میرا باطن میں نور کی محبت سے بھر پور ہے جس اسے گمراہی کے زمانہ میں روشنی ہوا کرتی ہے.ور میری خوش بخش روانی نیست بود و او همه امراش را دورا باشد اس کے چہرہ کے عشق کی قید کے سوا کوئی آزادی نہیں اور اس کا دروہی سب بیماریوں کا علاج ہے.عنایت کرش پر درد مرا هر دم بینی اش اگر چشم خویش وا باشد اس کا فضل و کرم بوقت میری بندش کا ہے اگر تیری ہتھیں کھلی ہی تو تھے یہ بات نظر آجائے گی

Page 275

۲۷۳ کار خانہ قدرت هزار با نقش اند مگر تجملی رحمان و نقش ما باشد قدرت کے کارخانے میں ہزاروں نقش ہیں.گر یمن کا جلوہ صرف ہمارے نقش سے نظر آتا ہے.بیایدم که روند را درخشانم بوستان برم آن را که پارسا باشد نہیں اس لیے آیا ہوں کہ صدقی کی راہ کو روشن کروں اور دلبر کے پاس اُسے لے چلوں ہو نیک و پاڑتا ہے بیادم ا دوم که در علم درد بکشانیم بخاک نیز نمایم که در سا باشد ں سے آیا ہوں کہ م م رات کا دروازہ کو اور بال زمیں کو چیری د ماموں جو آسمانی ہیں ترانے رسد اشکال ما که نامردی تو بازنان نیشین گرفتا حیا باشد تجھے مارے انکار کا حق نہیں کیونکہ تو نام ہے توعورتوں کے ساتھ بیٹھ اگر تھے کچھ شرم ہے گزار شد دل جانم بی حالیت دین ممنون میشم تو کورای امند باشد نام گرای دینی و عدم گیرد که به متقال رایا نے وا باشد جھے کیا انکہ اگر ین معدوم ہو جاے کہ تیر دو تو لحفظ حرص و ہوا کے لیے اب ہو رہا ہے.اول تو خود علت بیگانگی شادی مجبور درگرفته از دیر او بر طرف صلا باشد ت تھی کی وجہ سے خودہی دور ہوگی اور خدا کے دروازہ سے تو جانے کی آواز ہر طرف جاتی ہے چرا نشکایت رحال کنی به نادانی اتومات باش که نانا رومینا باشد تو ان کی شکایت تعالی کی وجہ سے کیوں آتا ہے تو ا کہ ا ین تا کہ ادھرسے بھی صفائی کا سلوک ہوا ین این دراین چنین برکات تو نصیت وی و هوای شقا باشد یہ وقت ایسا زمان اور ایسی ایسی برکتیں پھر بھی اگرتو بے نصیب رہے تو اس بد بختی پر کیا تعجب ہے.پر کیا تھا -

Page 276

ہیں کرتی برین خان هم می بارد سنگر چگونه به بینی اگر ما باشد یک تو یہی ، ہی میرے اس گھر پانی پر ہی رہا ہے لیکن اگر تو نا بینا ہو تو کیونکہ دیکھ سکتا ہے ت که پیرزنان کار نیست است دیو میکرود در دل تو میل راهتان باشد انوں کی طرح رتی روانی کی اس سے سال میں ایک یا این کار را پیدا کرتی ہے تانے بانے آتان بخواه دارد باد که جان شان برو دین من قدر باشد لوگوں کے ایک بازو پر ہزار زاہد قربان ہوں جن کی جان دین تھی پر لدا ہے گرایندگان محبت مستهوران بحال روندگان ہے کال رو تا باشد وہ خدا کی محبت کے امیر اور اُس کے حسن کے پجاری ہیں اور اس راہ پر چلنے والے ہیں جو دن کا راستہ ہے امام وقت ماں پہلوان میدانست که تیغ بر سر سریش آشنا باشد تاہم حالت میں ان کا نشانہ کام ہی پہلوان ہے جس کے سر پر تو رہے اور سر ندا کے حضور میں ہے جمال تو قدر شناسی خصال مودال را کو خصلت به پول خصلت نسا باشد تو جو مردوں کے اخلاق کی قدر کیا پھچان سکتا ہے کہ تیری تو سب خصتیں عورتوں کی بھی ہیں جانی یار جان دوستانتان سیاست کو سی شیر کو کیش زبور یا با شد ان کے نزدیک دنیا اور دنیا کی موت ہیلی حقیر ہے جیسے تیری نظر میں بوریے کا ایک تھا ین قم مقابل بانی نے نشاں نیلمه د کرد کاتور او د خور این گور از خدا باشد پھانسان کے منہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس کا نور سورج سے ہے اور ان کا نور خدا سے ضرت محمد سے آکر مجھے ماری جائے گر ایشان خلق پاستا باشند سے لوگ بارگاہ خداوندی میں صاحب دوست ہیں اور ان کی آہ وزاری کی دعا آسمان کو پھیر دیتی ہے.

Page 277

۲۷۵ ممکن بدست مفت ملک شما نشان نے بھی اگرم سر کے چشمہ نیا باشد میں ساتوں آسمانوں میں کسی کو ان کا مثیل نہیں دیکھنا خواہ پر آسمان نور کا چشمہ ہی کیوں نہ ہو.ر محبت شان یہ بات تاریکی دویر گلشن شان آنچه دکتا باشد ان کی مجھ سے باعث گناہ کے مینابت کافور ہو جاتے ہیں اوران کے چین میں وہ بہار ہوش اتی ہے جودل کو مانے وہی ہے را جدا کنی در گرده ای مس نفس مگر بد وستی شان که کیمیا باشد ہر کوشش کر نفس کا تانبا ون نہیں ہے گا ان کی دوستی سے کیمیا اثر رکھتی ہے یہ بات ہوسکتی ہے.گر تو خود بریزی دیگر میکن نیست که سایه کرم شال و تو محمد باشد گر تو آپ ہی ان سے بھاگے تو خیر ورنہ یہ نا کی ہےکہ ان کی مہربانی کا سایہ تھے سے الگ ہوجائے خبار حرص و ہوا را بزیر با کند که ترک دوست زیر مواجفا باشد یہ لگ حرص و ہوا کے باس کو پیروں میں سل ڈالتے ہیں کہ اتھ تو ایش کی خاطر دوست کو چھوڑ ی ظلم ہے مامرتی من بین گروه خود کرد است بجنبه که نه تدیش نه انتها باشد میرے مشرقی نے مجھے اس اپنے گردہ میں داخل کیا ہے ایسے جذبہ کے ساتھ حسن کی حد و انتہا نہیں ہے.ختی به بند جواه پر تو من بشرط آنکه به سر روده را باشد خلقت کی آنکھیں میری دوستی کو چاند کی طرح دیکھ سکتی ہیں بشر طیکہ بابوں سے نجات پامل ہیں بزار گور نشانہانے صدق بنمایم بشرط آنکه بصبر امتحان ما باشد میں انہیں ہزاروں قسم کے نشانات دکھاؤں گا بشرطیکہ مہر سے ہمارا امتحان کیا جائے تک قریب میں شدند برش برکات کی امت طالب کی سوتین ازا باشد کی کی بیٹی کی کور سے ناک میں کے ایک ا ا ا ا ا ا اب کہا ہے کہ اس کا یقینی اڑ سے

Page 278

کھولے کہ دور خشیت خدا باشد کجاست مردم جانیکه با جا باشد ار ساحل کہاں ہے میںمیں خدا کا خوف ہو اور ایسی پہلی انکھ کی کہاں ہے میں میں شرم دیا ہوا ہے بجاہ و منصب نیا ناز سے ہشیار که این تیم و معیشت نه دائما باشد ور یاد کی موت اور اس عمل پر اسے سمجھ دار انسان تازہ ہ کر کہ تیرا یہ عیش و آرام دائمی نہیں ہے به خواب گند و این نفت خوش که بیداری طمع دارد که این حال ر ابقا باشد تیرا ہو اچھا زمانہ نواب کی طرح گزر جائے گا یہ امید مت کہے کہ یہ حال ہمیشہ اس طرح باقی رہے گا نماز مے کنی و قبلہ رائے دانی داشت پر نور میں نماز با باشد کو نماز پڑھتا ہے گر تباہ مقصود سے فاضل ہے میں نہیں جانتا کہ ایسی نمازوں کا کیا فائدہ تبعیده مول بچکاند مارع قصته حشر بشرط آنکه بدل خشیت خدا باشد حشر کا ذکر سننے سے آنکھیں خون آلودہ ہو جاتی ہیں بشرطیکہ دل میں خدا کا خوف ہو بنض تیر تمنائے مل او هیهات سدیمان بخدا کو د خود فتا باشد وجبات سید کود خودتا بیا کے ساتھ خدا کے وصل کی آئندہ افسوس کی بت ہے مال تو ہی بنتاہے جواپنےآپ کواس کی رامین ناری قدم منزل رمانیاں بند کہ جدی جهان و کار جہاں جملہ ابتلا باشد وران لوگوں کی منزل میں قدم رکھ کہ بغیر اس کے دنیا اور دنیا کے سب کام ابلا ہی ابتلا ہیں رائے خوان دوام و بیش مافی است نهنگ مرگ چو هر لحظه در قفا باشد مرگ پور ہے یہ آرام کی غیر اور اس اور عیش و عشرت کی جگہ کب ہے جبکہ موت کا گر کچھ ہر وقت پیچھے لگا ہوا ہے کہ ستاد کار بد ا بهتر است در محبوب چه خوش دے کر گر نتایہ اور با باشند محبوب سے دل لگانے میں ساری کامیابی ہے کیا حسین چہرہ ہے جس کا قیدی آزاد ہے

Page 279

ر اگر من و بار خود دیدم چشیدہ اس کا ارت تقا باشد ہزار شکر کہ میں نے اپنے یار کا منہ دیکھ لیا اوروہ سب مرنے چکھ لیے جی میں تھا کی لوقت دا و کیر همه منکران دین نکنم این ایستاده ام یک دگر بنا باشد میں مسکران دین کے غرور تکبر کو تو ڈر ہا ہوں اس حاضر ہوں میرے مقابل پر کوئی وہ سرا کہاں ہے ؟ مہ انور و تاباں همه فنائم تور دگر کجا و چنین قدر نے کہا باشد میں رش اور چیک کر سورج کی طرح نہ پھیلانے ہوں.دوسرا کہاں ہے ؟ اسلامی قدرت کسی میں ہے؟ د کا بار گرم ونشان که بنمای میان شود که همه کارم از خدا باشد کام میں کرتا ہوں اور ان خانوں سے جوہیں کھاتاہوں میں ظاہر ہوا ہے کہ یا اس کا نہ اب ان کی ر ہے ہے کھوں کو چین من بترار گل شگفت اگر از طلب نشینی معجب خطا باشد اب جبکہ میرے چین میں ہزار وں پھول کھل چکے ہیں اگر تو طلب نہ کرے تو سخت تسلی ہو گی همراه و صبوری که آن نه مان آید که جلوه خور با واقع الحمی باشد وم رمان در میای کویتی کہ وقت ہائے جبکہ اسے سورج کی روشنی مینائی کو روکنے والی ہوا ہے گره نزول کیتا کار ما از پوش نگر کی قتل معان دبیرت چو دل صفا باشد لیگ یوکول سے وہ اس سے کام کا ر سے دیکھ اگر ترال بات ہوگا تو تجھے معطے عقل بھی ہے گی تماچہ شد که باز نشسته مامان کرد و سیاست کا م ر ا صفا باشد که تجھے کیا ہوا کہ سوگ میں خوار و نالاں بیٹھا ہے حالاکہ موسم تو ایسا ہے کہ ہر چند چھاری ہے مگر کفر باز که موسمی آمد که اجتماع همه اہل و انقیا باشد نفرقہ انمازی کا خیال چھوڑ دے کہ اب وقت آگیا ہے کہ تمام اہ اہش اور منفی لوگو کو جمع کیا جائے

Page 280

دے العاده اولی این زمان و وقت آورد و چیستی که ز تو رو این قضا باشد کمردرد و تو خدا کا انسانی ارادہ یہ زمانہ اور ہر وقت لایا ہے تو ہے کیا چیز کہ اس فضا و قدر کو چٹ مروہ بے خودی نزد الیا و نشی کر ل اول من موجب انشقا باشد ہے و قونی سے چلانہ جا بلکہ ہمارے پاس آکر بیٹھے کہ اہل اللہ کا ایشیا کا موجب ہوا کرتی ہے.ستقیم متفقہ ابہا رہا ہونے سے چند مگر عنایت قادر گره گشا باشد کچھ دن ٹیکوں کے حلقہ میں آ کر پیس کر شاید اس نادر کی مہربانی تیری گرہ کو کھول ن ہے بہت زمانے ہوئے ما آئین سے نصیب تو گر شوق والتجا باشد یک اچھا نہ ہو گا جب تمہاری طرف آئے گا ہے تمت اگر مجھے شوق اور آرند پیدا ہو جائے ور که تو این خود کنی بیات ابزار جین این لعنت کا باشد افسوس کی مظالم جان پرکر رہا کس قدر مظالم تو اپنی جان پر کر رہا ہے ایسے ذہنی اور سمجھ پر ہزار افسوس) چه ها جلست که بچه کشی تالیفات که امتحان دعاگو ہم ان دعا باشد.کیا ضرورت ہے کہ تو انہیں تعین کرنے کی کیا اتے کیونکہ مانگا اتنا ہی وہ اس کے قبیلہ سے ہوا ہے ہوئے یار کہ ہر نہ دیتے خواهم مگر افاقت اسلام قعا باشد خدا کی قسم میں ہرگز کوئی عورت اور مرتب نہیں چاہتا میرا مطلب تو صرف تائید اسلام ہے.سیاه با درج بنت من اگر به دلم دیگر فرض بجز از یار آشنا باشد ی قسمت کا منہ کالا ہو اگر میرے دل میں سوائے خدا کے اور کوئی غرض ہو سو خلاص کجا باشند ک یه دل را که با چنین با من در نئے جنا باشد آن ندر اس بیا تو انسان کو نجات کی کیل سکتی ہے جو میرے پیسے دل والے ظلم کرنے کے درپے ہو

Page 281

169 ی دی ای میل لما قال نیست ترس نہیں کہ چینی میل میش با باند کرتیں را کے وار کی طرح کا نہ کوئی مہیا تے ہیں اس بات سے ڈر کہ کہیں یہ سیلاب تیرے سامنے ہی نہ ہو د آور نمره ای ال یاسیت ترسید علی مخصوص اگر آو میر تبدا باشد روزمره اگر آره تجھے اجالوں کی جماعت کی آہوں سے ڈرنا چاہیئے.خصوصاً اگر مرزی او غلام احمد ) کی آہ ہو الاعلام د تریاق القلوب صفحه (تا در مطبوعه ۱۹۰۲ء) تا تو نادانی و مهمانی های شهادت دادند آن تکذیب با دانی یافت نکنی اورنگ اسی اور چاند سورج نے گواہی دے دی تا کہ تو تاوانی اور غفلت کی وجہ سے میری تکذیب نہ کرے ین اکستنی نیست چون ادیب خواند من باش که این در زمانی جب تجھے نیکوں کی طرح خدا کی مدد حاصل نہیں ہے تو انصاف سے بعید ہے کہ توفی پر ہونے کا دعوی کرے تریاق القلوب صفحه ۹۰) جمال الاول این میمون دو نیم ست نه این طاعون کیوان علیم دنیا کا مال اس قانون کی وجہ سے کرے اکھڑے ہو گیا ہے طاعون نہیں جبکہ مونای عظیم ہے با شتاب سوئے کشتی ما که این کشتی نال بہت عظیم ست جلدی اپنے ہماری کشتی کی طرف آجا.کہ یہ کشتی خدائے علیم کی طرف سے اپنے کشتی نوح صفور ٹائیٹل مطبوعہ ۲۱۹۰۲)

Page 282

ین گونه اختیار کسی به دست گرشا در به او نشان بزدا دارم را اگر و نشان کسی کے اختیار میں نہیں ہوتے گر میں خدا کی طرف سے ایک نشان کا پتہ بتائم ہوں بھی که آن حید طالون نجات خواب ریاست کو حست بیست پنا ہے چار بیارم بی تو دہی خوش قسمت شخص طاعون سے نجات پائے گا یو جھپٹ کر میری چار دیواری کے اندر پناہ لیگا مراسم ناوی خوایش و عظمت او کو بست این نماز چی پاک گفتارم مجھے اپنے ملک کی اور اس کی دیگی کی سی ہے کہ میری یہ سب باتیں خدا پاک کی وہی سے ہیں قسمہ ها نیست بحث گرمی کا نیست لئے آکر می شد دش به انکارم سی شه نزد.کسی اور کیٹ کی کیا ضرورت دینے کے لیے میں اول میرے نکار کی وجہ سے تاریک ہو چکا ہو ہی بات کافی ہے اگر دورش به آید هر آنچه والده من سد است گریم نیز به به کارم بودھ میں کی ہوں گروہ جو بات بہت ہوتو بے شک جانا ہے کہ سب مجھ سے لڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں کشتی تورج صفحه 1 آن جا فرد و جیب کردگار جو بر خود کرد آخته آشکار اس جوانمرد اور خدا کے پیارے نے آخر کار اپنا جوہر ظاہر کر دیا نقد جان اور پھر جاناں پاخته دل ازیں کافی سرا پرداخته معشوق کے لیے نقد جان لٹا دیا اور اس خانی گھر سے دل کو ہٹا لیا ر خطر است این بیابان حیات صد بنا را از دایش درجات زندگی کا میدان نہایت کچھ خطر ہے اس میں ہر طرف لاکھوں اڑو سے موجود ہیں

Page 283

VAI صد ہزاراں آنے منار استان صد ہزار ان سبیل خونخوار و دماں نہ لاکھوں شعلے آسمان تک بلند ہیں اور لاکھوں خونخوار اور تیر بیل امین آ رہے ہیں صد شبرا مال فرسے کوئے یار دشت پر خار و پایش سر بزند یار میں لاکھوں کو س تک کانٹوں کے جنگل میں اور اُن میں لاکھوں بلائیں موجود ہیں.اگر این شوخی انسان شیخ مجیم این بیابان کرو نے از یک قدم اس شیخ نجم کی یہ شوخی دیکھ کر اس نے بیابان کو ایک ہی تقدیم میں طے کر لیا این چنین باید گدا را بنده سرلیئے دلدار خود انگور ها خدا کا بندہ ایسا ہی ہوتا چاہیے ہو.دلیر کی خاطر اپنا سر جھکا دے روپئے دلد اسانه خود مرده بود ازن ہے تریاق میرے خورده بود وہ اپنے محبوب کے لیے اپنی خودی کون کر چکا تا تریاق حاصل کرنے کے لیے اس نے زہر کھایا تھا تا نه نو شد جام این زہرے کے کے رہبانی یا بعدازمرگ آں تھے جب میں کوئی اس زہر کا پیلا ہیں میت ک حتی انسان موت کو اک نکات حاصل کرسکتا ہے دیر این استارت پنال صد حیات زندگی خواهی بخور جاره محلات اس موت کے پیچھے سیکڑوں زندگیاں پوشیدہ ہیں اگر تو زندگی چاہتا ہے تو موت کا میلہ بھی تو که گشتی بنده حرص و ہوا میں طلب دو نفنس مدون تو کجا ؟ تو چو کو حرص و ہوا کا غلام بنا ہوا ہے اس لیے تیرے ذلیل ول میں یہ طلب کہاں ؟ دل ہیں ڈینائے قول آویختی آبروانه بهر عصیاں سختی ! تو نے اس دلیل دنیا سے اپنا دل لگایا اور گاہ کی خاطر اپنی دوست برباد کر دی

Page 284

PAY مین الان فوج شیطان درست بود و در هترون محت شیطان کی لاکھوں فوج تیرے مجھے لگی ہوئی ہے تاکہ تجھے گا اس پولیس کی طرح دوزخ میں جلا دے ا ہے امید یا بر خطرا می شود ایمان تو زیر و زبرا مے نیا کسی امید یا خوف کی وجہ سے میرا ایمان دیو و زیر ہو جاتا ہے انہ بھائے ایک سرائے ہے وفا سے نہی دین خدا را زیر پای ما اس سے وفا دنیا کی خاطر تو خدا کے دین کو پیروں کے مسکتا ہے دیں پروین فدائے آن نگار سے میہ باطن تنھا یا دیں چہ کار یادیں چہ دین تو وہ دیہی ہے جو اس محبوب کے خدائی کا دین ہے اسے بد باطن شخص تجھے دین سے کیا واسطرہ پست سنتی لایت استعلا مزن اور گلیم خویش بیروں یا مزن تو دلیل ہے بہت شیخیاں نہ مار اور اپنی گھڑی سے باہر پاؤں : پھیلا خویشتن را نیک اندیشیده اسے ہلاک اللہ بچہ بد نمیده تو اپنے تئیں نیک سمجھتا ہے خدا تجھے بات نصیب کرے تیرا خیال کیا غلط خدا خوش میگرد در استان از قیل و قال تا نمیری زندگی باشد محال دہ 14 به محض باتوں سے خوش نہیں ہوتا جب تک قوموت قبول نہیں کرے گا زندگی منی محال ہے گیر اتنا کر و یکی را ترک کن اے بی فعال کتنا بتا بد بر تو کور ذوالجلال | اسے بد خصلت انسان تکثیر اور دشمنی کو چھوڑیں کہ تجھ پر خدائے ذوالجلال کا نور بڑے نھیں بالا نہ بلا جھول پری یا گرناں ذات بیچوں منکری تو اتھا اونچا اونچا کیوں اڑاتا ہے ؟ شاید کرا تو اُس بے مثل ذات کا شکر ہے؟

Page 285

۲۸۳ بنیاد کہ کاری دنیا را چه دید استی بنا کت توش افتادست این فانی سرا دنیا کے عمل کی کیا مضبوط پنیو ں نے دکھ اور راتھے یہ رائے قال اچھی لگنے لگی دل چرا عاقل به بند اندیں نکال باید شدن پیرول نہیں عقلمند اس میں دل کیوں لگائے جبکہ یکدم کسی روز اس سے باہر نکل جانا پڑایا از چنے دنیا بریدن از خدا بس ہمیں باشند نشان اشقیا | دنیا کی خاطر خدا سے قطع تعلق کر لینا بس یہی بد بختوں کی نشانی ہے پول شود بخش پیش حق بر کسے دل نے ماند بدنیا بینش سے پر خدا کی مہربانی ہوتی ہے تو پھر اس کا دل دنیا میں نہیں لگتا خوشترش آمد بیابان تیاں تا در و تاید نه بردستان اس کو تپتا ہوا صحرا پسند آتا ہے تاکہ وہاں اپنے محبوب کے حضور میں گریہ وزاری کرے پیش از مردن بیر دقت شناس ازینکه محکم نیست دنیا را اساس موفقیت دنیای اساسی عادت انسان تو مرنے سے پہلے ہی مر جاتا ہے.کیونکہ دنیا کی بنیاد مضبوط نہیں ہے موار ہو کہ سید ستقام فانی ہے یا عندا ہو جا.کیونکہ آخر خدا ہی سے واسطہ پڑتا ہے هر قاتل گر بدست خود خوری من جهان دانم که تو دانشوری خود ہی ملک زہر کھا لے تو میں کیونکر خیال کروں کہ تو عقل مند ہے.میں کراین بعد اعلین پاک مرد کیوں ہے حتی نوشتن بر باد کرد دیکھ کہ اس پاک انسان عبد اللطیف نے کس طرح سے خدا کے لیے اپنے تئیں تھا کر دیا..

Page 286

KAY ان استان در این با داده است تاکنون در سنگا افتاده است اس نے وفاداری کے ساتھ اپنی جان اپنے جوب کو دے دی اور اب تک وہ پھروں کے نیچے دبایا ہے دو این بود هم د ره صدق و وفا این بود مردان حق را انتشار داره راه صدق و وفا کائینی طور و طریق ہے اور یہی مردان خدا کا آخری وزیر اپنے ادیئے اس دنده از خود فانی احمد جان نشان بر مسنک ربانی احمد | اس زیدہ خدا کی خاطر انہوں نے اپنی خودی کو فنا کردیا اور انہی طریقہ پر جان شار کرنے والے بن گئے تاریخ افتاده نام و عز و جاه دل برکت و ز فرق افتاده کلاه نگ و ناموس اور جاہ و عزت سے لاپر واہ ہو گئے دل ہاتھ سے جاتا رہتا اور ٹوپی سر سے گرپڑی دور تر از خود به بار آمیختن آبرو از بهر رونے ریخته خودی سے ڈور اور یار سے وابستہ ہو گئے کسی رحسین ، چہرہ کے لیے عزت قربان کر دی ، ذکر کی شان ہم نے دہر یا د از خدا صدق در سال در جناب کبریا ان کا ذکر بھی خدا کی یاد دلاتا ہے.وہ خدا کی بارگاہ میں وفادار ہیں گر بیوٹی این چنین ایمان بود کار پر جوشندگان آسان بود اگر تو تلاش کرتا ہے تو یاد رکھ کہ ایران ایسا ہوا کرتا ہے کاش کرنے والوں کے کام آسان ہو جاتا ہے.ایک تو افتاده در دنیا اسیر تا میری کے دہی نہیں وارد گیر یکی تو دنیا کی میت میں گرفتار ہے جب تک نہ مرے گا اس جھنگڑے سے کسی طرح نجات پائے گا.میری اسے سنگ دنیا پرست و این ای یار کے آید دست اسے دنیا است کتے جب تک تجھے پرہو نہ آئے گی تب تک اس یادہ کا داس کس طرح ہاتھ آئے گا

Page 287

نیست خود تا بر تو فیضا نے رسید جمال بینیتان تا دگر جانے رسد نادیگر اپنی ہستی کو ناکردے تا کہ تجھ پر فیضان الہی نازل ہو جان قربان کر تاکہ مجھے دوسری زندگی ہے ت گذاری خیر خود در کمر و کیں چشم بسته اند رو صدق و یقیں تو تو اپنی عمر کبر اور رکید میں بسر کرتا ہے اور صدق و یقین کے راستہ سے پنکھ بند کر رکھی ہے نیک دل با نیکون دارد سرے کی گرفت مے زند بدگوہرے میرے نیک دل انسان نیکوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.مگر بد اصل آدمی موتی پڑھی تھوکتا ہے بست میں تخمه خانه کاشتن روز سر بستی قدم برداش داشتن دین کیا ہے.فنا کا بیچ ہونا اور زندگی کو ترک کر دینا و مینی با دود در دو نیر کس نے یزد که گرد دو شیر پر چینیوں کے ساتھ گیا نور کوئی کھڑا ہو جاتا ہے کہ تیرا اس گانہ ہوجائے با خبر را دل تپد یہ بے خبر رہم ہر کورے کند اہل بصر امان کے لیے دانا آدمی کا دل تڑاتا ہے اور آنکھوں والے اندھے پر ضرور ہم کرتے ہیں مچنین قانون قدرت اوفتاد مرضعیفان را قوی آرد بیاد اسی طرح کانون اٹھی تھی واقع ہوا ہے کہ تھی کمزوروں کو ضرور یاد کرنا تتذكرة الشاد تین صفحه ۳۵ مطبوعه ۶۱۹۳ الشادتين الها فى مصرع خوش باش که عاقبت نکو ملی ہر نمود خوش ہو جا کہ انجام اچھا ہوگا رائید ۱۷ دسمبر ۱۹۰۳ء) ہے

Page 288

PAY رانیان است باید خود که این این تیم رندال و کار خود کنید میں ہو ہم دل و جان سے اپے خدا کی تعریف کرتا ہوں میں وہ نہیں ہوں کہ اپنے کام سے فضلات بر این یو این بوس ہے جوشند که سر بیست تا از کار خود بر شروقت میرے دل میں یہ شوق ہو جاتا ہے کہ جوکچھ بھی میرے پاس ہے وہ اپنے محبوب پر قربان کر ملیں و جانا پوشاک گردیدم دارند که فدایش غبار خود بکنم ن محویت کی راہ میں خاک کی طرح ہو گیا ہوں مگر میرا دل تڑپتا ہے کہ اپنا تیار بھی اس پر فدا کر دوال ی و دادگا کران با غم جما ہو کہ میرے قرار بود بکنم میں عاشقوں کے گلشن میں جاتا ہوں اس بات کو چھوڑ کریں کسی غیرکے کہ میں یوں ان کو تارا سید مراده که ایام و بهانه آمد و زمانه را جبران برگ وبار خود یکم جھے خوشخبری کی ہے کہ پھر موسم بہار آ گیا تا کہ زمانہ کریں اپنے پھلوں اور پتوں کی خیر کر دوں شتی و آرایم خویش نمایم ہائے روح سعادت شکار خود کند اور اپنے محبوب کے تعلقات کا اظہار کروں اور ہمائے اوج سعادت کو اپنا شکار بتا ہیں.خوش ہوں اور دن اسے مکثر من ادمین گواه بدی کردگاری خود کمر سے میرے کفر ہوش سے یہ میری بات سن.کہ میں اس پر اپنے خدا کو گواہ کرتا ہوں ر دوره بر خود بکنم تره با داشتن پروانه وگرنه گریه بر نگار خود محکم تفرقہ پروازی کے ارادہ سے باڑہ اور مطلع کرکے درد میں اپنے خدا کے سامنے آہ و زاری کروں گا الت بر نان را با هم ساخت انگشتر نیم وا آبشار خود کنم میں ان کی بات کو بیانگر کی کمال کا نہیں تھا انہوں سے کسی کی ایک مشیر جاری کر ھوں

Page 289

یر پروانه نشست هم بروم که ما گزارش مرنے پیار اور کرم میں تو ہر وقت ایک رستہ پر بیٹھا ہوں تا کہ اپنے نندا کے حضور اپنی التجا میں نے یار کہ از ہر قوم می سوزم مگرایش جدول پیش و نارد بیکر ہر ام وا کی تم میں اپنی قوم کی غیر شاہی میں لایا ہوں ان کو کال کی نا انا انا انا انا ان کی ماری کوتا را یکم اور چوری ۱۳۹۴ الها في مصرع اسے بسا خا نہ دشمن کہ تو یہاں کردی بہت سے ٹیموں کے گھر ہی ہو تو نے برباد کر دیئے ہیں تا جب آنان این کر دی خودم میره با تو کسان کردی کردی یار نے بیت تو نے عجیب رنگ دکھائے تو نے بیاہ کی راہ میں زخم اور مریم بانک دیتے ی و درمان و پریشان کردی برایشان تو سرگشته بیان کردی دونوں جہان کے مجموعہ کو تو نے چند گندہ کردیا اور سب کا شقوں کو تو نے دیوانہ اور حیران کر دیا ایک بار کنی چون خورشید اے بہانا کہ تو چوں منقاباں کردی کی تھی سے آوارہ کو سور بنا دیتی ہے اور یہ دو باری طرح کی اک کر نے کیا ہوا چاند بنا دیا کو تو ن را باز بودی که یک جلوه فیض حیدر فاتن بزودی بهمن آسان کردی اداہ وا تو نے کیسا موجودہ دکھایا کہ فیضان کی ایک جھلی سے جانے کا دروازہ بند کر دیا اور تا آسان کر دیا.

Page 290

شوار جہاں سات کنی دیوار اسے بسا ا د نشت کرد و یاں کو بھی دنیا کے خام مال کو ہو یا نہ بنا دیتی ہے اور بہت سے عقلمندی کے گھروں کو تو نے ویران کر دیا ان و کوس یکی از باقی دو تا داست این که این جنس الامت ایک دی کوئی کسی کے لیے اپنی یان شت اور وفاداری کے نت نہیں دیتا یہی وجہ ہے کہ اس میں کتنے بہت سا کیا ہے بر او ماست می شوخی و خیاری و از این دیار نباشد که الان کر دی شوخی جالاکی اور ان سب مجھ پر تم میں کوئی ہو یا دیا ایسا نہ ہو ا ہے تو نے مل نہ کیا ہے رک و محرت اقا د توریاں کردی هر که آمدیم توشاد تو گریان کردوی یر سے آتشدان میں گرا تو نے اسے بھون ڈالا جو تیرے پاس خوش خوش آیا تو نے اسے ملا کر چھوٹا انه دیوانه شدم وش نیامد سرم اسے جو گردون گردم که کسان کردی میں بھی جب کہ میانہ نہ ہوگیا میرے ہوش ٹھکانے نہ ہوئے اسے خوب مشق تجھ پر قربان تو نے کتا احسان کیا ایسے تا حتی بازی کردن خونخواری کا فراتی میگریم مرو سلمان کردی ے چ شتی خدا کی قسم اس موت مار کے باوجود اگر چہ آ کر رہے لیکن مجھے تونے مسمان بنا دیا ر باشوری میری نیت چه مجاز این مشرک ولم هم بیان کردی میں سے سینے جائے سب جگہ تیرا ہی شور د یکھتا ہوں خواہ حقیقت ہو یا جانہ تو نے مشرک اور بیوی سے این میا که بانک نقاش گویند تلف کردی کرا دیں خاک آن کر دی میچ میجس کا مقام آسمان پر بیان کرتے ہیں تولئے سرائی فرمائی کہ اسی زمین میں سے مجھے دہی سے بنایا

Page 291

PM ور شیرین پوست اسے امام شیرینی فدایت باد جانم اسے دستانم چه اسے میرے مجوب تیری یاد کیسی میٹھی ہے.میری جان تجھ پر قربان تو آپ بھی کیا شیریں ہے.توان برد استان هست از دو عالم اگر آئی بدست اسے جان جانم دونوں جہان سے دست بردار ہونے کو تیار ہوں.اگر اے جان سے پیار سے تحول جائے تا شود پیر کرد که نادان پر باشد گذشته از دوران جب تک چھوٹا بچہ بوڑھا ہو.بوڑھا دینا سے گزر جاتا ہے این جنہیں رسم این جهان افتاد تلف برانکس که دل یہاں بنا د اس دنیا کی رسم یہی ہے اس شخص پر افسوس جس نے اس سے دل cursante این به روی است وزعت السمان از گراین نباشد از شد است وجی آسمان کے خدا کی طرف سے ہے اگر یہ خدا کی طرف سے نہ ہو تو میں کافر ہوں ی این استانی واردات یک ماه تیم و بستر کتاب خاک خدائے پاک کے نور کی پہلی وحی ہے اس بات میں ہم سچے ہیں اور جھوٹے کے سر پر خاک رالحکم اموائی ہور (419.

Page 292

۲۹۰ الهامي مضارع سید مرده که ایامیم نوبهار آمد مجھے خوشخبری پہنچی ہے کہ نئی بہار کے دن آگئے ہیں والیو یکی دو کیر ۱۱۹) او الاوان بو گیری شان کارگران بود انسان کی پینش سوائے نادان کے کون کر سکتا ہے پس ان لوگوں کے مذہب پر مجھے روتا ہو وہ روئے آن خداوند که نان بستی پر رنگ ثبت کر کے جدید اس خدار الاد سلمانی بود وہ خدا جس کا نام ہر تے ر نقش ہے.جو اس خدا کو ڈھونڈتا ہے وہی مسلمان ہوتا ہے.دالحکیم ار جنوری ۰۵ 1414.0 کہاں اور این است بگوید میں تو وہ مولائے انیا مرسلین مانانشان در اتا ہے اور زمینی الوقت کہتی ہے نہیں اور پانیوں کے دورے ظہور میں آگئے ہے ایک جنگ نبود کار ماست با خدا اسے پیام تبری از ختمت المعلمين تا کب تک تیری جنگ اور کاروار خدا کے ساتھ رہے گی.اسے بد باطن رب العالمین کے فقر سے ڈر داشتنا الدات سمر ا پریل ۱۹۶۵ء)

Page 293

۲۹۱ الها في مصرع ان است در مکان محبت سرائے ما ہمارے مکان میں جو محبت کا گھر ہے امن ہی امن ہے دیده ۱۲۰ پریل ۶۱۹۰۵ کتے توان کردن شمار خوانی عبد الکریم سے ماں اور شجاعت بعد استمر عبد الکریم کی زیاں کیونکر گنی جاسکتی ہیں.میں نے شجاعت کے ساتھ مربط ای می گریزدان نامی ولی در نهاد امارت سر این گنجینه دین تقویم یا امام کا یا تھا اس کا خدا نے لیا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ت اور دینی این اتورات ست زنید بعمري كل الخلاصی خویش مورد رحمت شد اندر در گه ریت علیم..ایک کا تیار کیا اوراپنے الا یا ان کی اس کی امی کی راہ میں رحمت کا یہ بن گیا تھا کو چین کیوں این چرخ بسیار آورد کمر بایں اسے با این صفارہ تیرا با گرچہ آسان نیکوں کی جاعت کثرت لاتا رہتا ہے.ڈرایا شفاف اور قیمتی موتی ماں بہت کم جاکر تی ہے مدت فرو نت دستش نیز دافتاده بود این کراست کی ریش میں تو مسلم..ایک مدت تک وہ نیچریت کی آگ میں پڑا رہا مگر اُس کی یہ کرامت دیکھ کہ آگ سے سلامت مشکل آیا ات کو اور میم در چند دن انتظار باران شهادت ساز قدیم اس سے بھی عجیب توبات یہ ہے کہ میری چند دن کی محبت میں اسرار اپنی کا مارا مالی سال کا مارا ہو گیا روز

Page 294

کش ہو کر وفا دلت العمر ساری امید اصل شوراں بے قیم م کہتے تھے وہ اس کی زیرک طبیعت میں داخل ہوتا جاتا تھا.ولی دامن جو انہیں بارنگ دوست ایک خوشنودیم بر فعل خداوند کریم اگرچہ اسے ایک تک دوست کی بوائی سے دل کو تکلیف ہے لیکن ہم خداوند کریم کے فعل پر نہیں ہیں آواره و چاشنی او د یر ا سخت تر رانش زنان جوان باشد با بار میم روز د برما تر اور بعد کادن ہم بہت سخت تھا.جلانے والی آگ سے بھی زیادہ بجب جابر اول دوست ہم سے ران مهران او رات بیل از هم رویش و شبان و جوان پیش آمد این ربع لهم نے اپنی کرکے سینتالیسو سال میں کو ہائی کا داغ دیا.شعبان کا مہینہ تھا جب یہ درد ناک مصیبت پیش آئی لى كوب المتباد سات کمال بود و بست مهم وقت این شهر عظیم کو ہے صدی جانچے کمالات کے باعث بعد سے مشابہ ہے اس قیامت کبری کے وقت اس صدی تو تیسواں سال تھا منی بد مشتریش چین اور خلاش وفا و اتفاق شده اش هر دین اریخ و فضل حکیم جو کہ اس کا مذہب اخلاص وفا اور تقوی تھا اس لیے اس کا وصال بھی خدا فضل سے اسی تاریخ کو ہوا اسے خدا بر تربت ابارش رحمت بسیار خالش کن از کمال فضل ربیت انیم ے خدا اس کی قبر پر اس کی بارش نازل فرما اور نایت در فضل کے ساتھ اسے جنت میں داخل کردے نوراما انیلا با شمندان محفوظ دار تکیه گاو ناتوئی اسے قادشت رحیم نیرہ ہمیں زمانہ کی بلاؤں سے محفوظ رکھ.اسے قادر اور رحیم خدا تو ہی ہمارا سہارا ہے اختبار البدرو فروری ۶۱۹۰۷ دنقل از کتب حضرت مولوی عبد الکریم سفر نوشته ۱۶۱۹۰۵

Page 295

۲۹۳ الهامي مصرع رہا گوسفندان عالی جناب ہارگاہ عالی کی بکریاں رہا ہو گئیں الهامي شعر ریلوے سوال کرتے ہیہ ۱۹۰۵ء) مید خود را در اینده آن می شود که الان میان است که یہ اچھی خبر آئی کہ وہ پیار ا دوست آگیا.خوشی کی بات ہے کہ در میاندر سے دیوار اٹھ گئی ریور ۲۰ اکتوبر ۲۱۹۰۵) الا سے کہ ہشیاری و پاک داد نئے حرص دنیا مدہ دیں بیاد شہر دارا اسے وہ بہو مجھے دار اور نیک فطرت ہے کہ دنیا کے لانچ کے پیچھے جہان کو برباد نہ کر ہیں دار فانی دل خود مبند که دارد نهال راحتش صد گزید اس فانی دنیا سے اپنا دل نہ لگا.کہ اس کے آسام میں سینکڑوں ڈکھ پوشیدہ ہیں گرباز اگر بازه باشد تنها گوش ہوش زیگورت ندائے در آید بگوش اگر تیرے ہوشش کے کان کھلے ہوں.تو تجھے اپنی قبر سے یہ آواز سنائی دے کو اسے محور مین پس از چند روز پیے نکر دنیائے دوں کم بسوز کہ چند روز کے بعد اسے میرے تھے.تو اس پیل دنیا کے غم میں نو جوا کر ر :

Page 296

۲۹۴ حر آں کو دنیائے دول قبل است گرفتار رنج و عذاب و عتا است ہر وہ شخص جو ذلیل دنیا کے پیچھے وا ہے.وہ رنج عذاب اور تکلیف میں گرفتار ہے کردہ بریست آنکه به موت دارد نگاه بریده به دنیا دو دیده براه نه جو موت کی طرف نظر رکھتا ہے وہی آزاد ہے.دنیا سے کٹ کر اس کی دونوں آنکھیں انتظار میں لگی ہمیں سفر کرده پیش از سفر سوئے یار کشیده ز دنیا همه درخت و بار و ہے.رنے سے پہلے وہ یار کی طرف سفر کر گیا اور دنیا سے اپنا سب سامانی اور اسباب کال کی الگ کر لیا بیٹے دار عقی ے کر بسته چیست را کرده سامان این خانه شست آخرت کے لیے اپنی کمر کس کر باندھ لی.اور اس نکتے گھر کا سامان چھوڑ دیا جہ کا ر حیات است کارے نہاں جمال به که دل جنگلی میں مکاں چونکہ زندگی کا کچھ اعتبار ہیں اس لیے یہی مناسب ہے کہ تو اس مکان سے دل کو چھڑا سے جهنم کند و داد فرقاں خبر ہمیں حرص دنیا است جای پدر ہ جہنم میں کی شہر قرآن نے دی ہے اے وڑا وہ یہی دنیا کی حرص ہے و آخر یہ دنیا سفر کردن است چور نے ایں ریگزار کردن است جب آخر کار دنیا سے سفر کرنا پڑے گا اور ایک دن اس پر اہ سے گزر جانا ہو گا چرا ما قله دل به بند و در ال که تا گرونه د برگیل او خندان پر عقلمند اس سے دل کیوں لگائے.جب یک دم اس کے پھولوں پر ختاں کی ہوا چلے گی کے رین توریستن دل بدین مجری بتن دل خود خطا است که این همین دین صدق و هما است بتاوں اس آویر کارت (دنیا سے لگام غلطی ہے کیونکہ یہ دین اور صدق و صفا کی شیمی ہے.

Page 297

194 حاصل این داستان هر تنگ ہوگا مصلحت کشد که بجنگ اس دور رنگی مشوق سے کیا حاصل ہوگا.یہ بھی تھے صلح کر کے قتل کرتا ہے کبھی لڑائی کر کے جه اول به ندی جیهان داستان کو مرض رباند بز بند گراں تو اس جھوپ سے اپنا دل کیوں نہیں لگاتا کہ جس کی محبت قید شدید سے آزاد کر دیتی ہے مد نگری انجام کن اے مغربی و مستعدی شنو گر ز من نشنوی گرا شخص جا اور اپنی عاقبت کی فکر کہ اگر میری بات نہیں سنتا تو سعدی کی بات ہی مجھ سے عروسی بود نوبت ما نمت اگر بر نکوئی بود خاتمت ؟ ہی ان کا شادی یا ارارات کی پوری رات کا کیا ہے ان کے نوش کی گھڑی ہوں الوصیت صفر ۲ مطبوعہ ۹۰۵ هوم سے سعدی کا مصرع ہے الها فى مصرع زدلایل در ایوان کسری فتانه کسری کے محل میں زرینہ آگیا ۲۴ جنوری ۶ ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا تا کی بایت بر روان تا سرمایی در سے اپنی مسرت کا ہر دروازہ کھول دے

Page 298

P49 ہے ی اولال مجرد رادیوانہ بہت دور سب نے خود آن رو پنهان تو ے چوتھے مقتل کے زور سے وھو وقت ہے.تیری پوشیدہ راسری عقلوں سے بہت دور ہے.ازانین بینکس اگر نشد سوا کشت شد ز احسان بے پایان تو راگش از وں میں سے تیری بارگاہ کا کوئی بھی واقف نہیں ہو بھی واقعت ہوا وہ تیر سے بے حد احسانات کی وجہ سے ہوا جو انستان کے خود ا ہوں مری ہی بہر حال ہی میں دیدہ علمان تو ہے عاشقوں کو دو نوں جان بخش دیتا ہے.لیکن تیرے غلاموں کی نظر میں دونوں جہان بیچ میں یک نظر فرمان کو میشود جنگ بعد ال خلق محتاج است کئے جانے پر مان تو مرانی کی نظر فرام کہ جنگ بدل ختم ہو.محرکات تو تیر سے دلائل کی کشش کی محتاج ہے ی نشان میان افت دوختند در جهان تا شو در منکریت محامد خوان تو ایک نشان دکھاتا کہ تیرا ور دنیا میں چھے اور سنا کہ ہر ملکہ اسلام تیرا ثنا خواں ہو جائے.تیرانا گر این درود برگرد ندارم هیچی نمی خوری امیر گمرگ درد درخشان تو گر میں دیر دیر ہوجائے تومجھے کوے نہیں تھے یہی ہے کہ ہمیں تیری این ماہ کم نہ ہوجائے یش روی در سر بسیار است قد کوتاه کن بآیات عظیم الشان تو دین کے معاملہ میں گفتگو اور بہت بڑی دند سری ہے.تو عظیم الشان نشانات دکھا کر تہ مختصر کردے انتقال من در فارت ایار را اگر این نو سال سوئے آل ایوان تو شمنوں کی فطرت کو زلزلہ و کھا کر ہلا ڈال ہے کہ وہ ڈر کر تیری درگاہ کی طرف آپ نہیں اے ریت وال کنی در پیاس اور ایک بوند تمرین نگران تو

Page 299

196 چه یای دور خسروی آغاز نکردند مسلمان را امسلمان باز کردند جب رہارا، شاہی زیادہ شروع ہوا تو مسلمانوں کو دوبارہ مسلمان کیا مقام او میں انه ماه تحقیر برای بدور انتش رسولاں ناز کردم اس کے درجہ کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھ.کہ رسولوں نے اس کے زمانے پر ثانہ کیا ہے درا حکم ۱۰ مارچ ۱۹۹۷) راد عادت تورات کاری است این است که انسیون اداری است با ات ہوئی ہے و میری بات اس دلدار کے پاس گرو پڑی ہے ان است برایش کمار خدایش باد سال است برای ایشان بار است چلتی اس کے چہرہ میں یہی لذت ہے کہ جان اس پر قربان ہے اس کی گلی میں محب لطف ہے اگر چھوہاں فون کی بارش ہوتی ہے سی وقت مرا که دا که دید این حال این دلایل و مراکر مجھو یہ حال دیکھا تومجھے مین بازمان بنادیا اب تو میرے دورے کے دلائل دیکھ کو تیرے نزدیک ہی چیکار مانے بل ہیں اور اسے بہت ای عشق و امکان براکت استان با بین من و ورود ار اس است سنج میں عشق کا علاج نہیں چاہتا کیونکہ اس میں باری ہلاکت سے ہماری شفاتو اسی رنج و درد اور بیماری میں ہے رسال نشيد الأورمان یکم ستمبر ۶۱۹۰۷ گومزدی رو مولی قلب کون چنانی روز و شب از بهر بردار اگر تو مرد ہے تو مولی کا راستہ طلب کی اس مردار دونیا) کے پیچھے والی رات کیا روتا رہتا ہے

Page 300

۲۹۸ نے نیم گر کنوں سر به پیچند که ترک سوره کاشت است دشوار کہ ان کا اسے من و ای ی ی ی ی ی ی ی ی ر ر ر ر ا ا ا ا ھو یا این مشکل کام وڑنا بہت فلک ما ہیں کہ مرد مورسیه شد نہیں طاعوں پر آرد بر انغام راہیں شد برآرد ہے انسان کو دیکہ کور اور ان بیاہ ہوگئے تو سوات سے اور زمین ڈرانے کے لیے طاعون پیدا کر رہی ہے.در صاله تشهید الا زبان ستمبر ۲۱۹۰۷) الها می مصرع رسیده بود بلائے دلے بخیر گذشت مصیبت تو آگئی تھی.مگر خیریت گذری ین سے ناک کی پلے ہوئے ہیں ایان این اتصالا تے یار میں ایک نظر آسمان کو دیکھ اور ایک نظرنہ میں پٹال پھر انصاف کے آئینہ میں دوست کا چہرہ دیکھ.آسمان چنین نشان از من تصد یق خود ہم میں وقت میگوید فریاد نہیں مال نے بہت تفتان میری تصدیق کے لیے دکھائے اور میں بھی زیاد اور داری سے الفت کر رہ ان تباہ و سر سے برداشت کے بندہ ہر رات او تک سرنگیں ہر بات لکھیں فتنوں نے سراٹھایا ہے اور پر شور و ناک اور پر خطر آندھی چل رہی ہے لے یعنی یہی وقت ہے

Page 301

+49 ید با کان محمد کو جب خداست تو بے زانی چ گوید در تابش پرسی ہے وہ جانتا ہے کہ ہر مرد اس کی شان میں کیا بکواس کر رہا.تشجيد الاذان دسمبر ۴۱۹۰۷) گرفتاری اور بم اوقات حیات یا ان سے یوں ہمت نہ ہونے اسے وہ ہمیشہ ہوا و ہوس کا قیدی ہے ایسے یہ امر نفس کے ہوتے تجھے خدا کی مددکی تک پہنچ سکتی ہے.ا قال صدق ابردی که بعد زید کی مجھے نیست گر فرق شود فرو نے ہاں اگر تو وہ صدق اختیار کرنے جو بیٹی نے اختیار کیا تھا تو پھر تجب نہیں کہ کوئی فرعون شوق ہو جائے رحقیقة الوحی صفحه ۵۳ مطبوعه ۱۵ مئی ۱۶۱۹۰۷ کر یہ کے منویہ جہاں نشاند وی است کاین کار می کشاند اس کے دور میں کالا ایمان قربان کر سے مشتق ہی ہے میں کامرازی، ناداری سے کرا دیتا ہے

Page 302

عشق است در آتش سوزان نیشاند عشق است که بر ناکافی نت غلطانه عشق ہی ہے جو بھڑکتی آگ میں بٹھا دیتا ہے.عشق ہی ہے جو ذلت کی خاک پر لٹا دیتا ہے.بو ے میں دیے پاک شودمن در پذیرم عشق رات کورین ال میکردم بر راند میں نیں سن سکتاکہ بیری کے دل پاک ہوسکتا ہے شق ہی ہے جو کہ ہم اس قید سے رہائی دلا دیتا ہے رحقیقت الوحی صفحه ۲۰۳ و ۲۰۲) ایگان پیش رو یک گل مپرس سالگرد ناس جلسے مراں سمجھو کار چھے.اڑیا تی ہو خداوند کا راستہ نفس کے غلاموں سے جو چھ.جہاں مٹی اٹلہ کی ہو وہیں سوار کو تلاش کو رکین کو ستان ہے اس میں منقول کر میش کریں نظر سے میاں بیو ہر شخص اس دوست کے لیے لبے قرار ہے جا اس کی صحبت اختیار کہ اور اس سے تسکین حاصل کر بر استان آنکه ز خود رفت هر بار ایوان اک بانو مرضی یا اس دوران مجود شخص کے آستانہ میں نے اس کےلیے اپنے میں ناک کا ہے نیک ہوکر اشارہ اسی طرح پیار کی مرضی ڈھونڈ دیکھا ران تلخ کامی و رقت بدور سند حرفت گزین رفتم حصار کے دوران میجو ھی مرد تھی اور سوزش چکھ کر اس تک پہنچتے ہیں تو بھی سوز اختیار کر اور فتح اس میں ڈھونٹا مسند خرد شستن طریق نیست این نفس عمل مبونه ونگا سے مران مجو غرور کی مسند پر بیٹھنا ٹھیک نہیں تو اس ذلیل نفس کو معلا دے اور پھر خدا کو تلاش رحقیقة الوحی صفحه ۲۰۴)

Page 303

المائي شعر یایی و یا ارمان کنم این کار شاباش لانے اس کنیم و عروسی را به جو کچھ نئی شائی کے لیے ضرورت ہے ہیں وہ سب سامان کردوںگا اور ہو تمہیں مزید فکر ہوگا وہ بھی عطا کروں گا ☑ رحقیقت الوحی صفر ۲۳۶) آنکه گوید این سلام مول شدی است و فاضل به سازه ایندی به یہ کہتا ہے کہ تو ابن مریم کس طرح بھی گیا وہ سنائی راز سے قائل ہے اس خدائے قادر ورب الجاد در برائیں نام من مریم تناد اس قادر خدا اور رب العباد نے میدان میں احمدیہ میں میرا نام مریم رکھا تھا تر تے بودم برنگ مریمی دست تا داده به پیران زمی میں ایک مدت تک بریم کے رنگ پر رہا مینی مشایخ زمانہ کے ہاتھوں میں ہاتھ نہیں دیا هیچو بکری یافتم نشود نما از رفیق راه حق تا اشتاد میں نے ایک کنواری لڑکی کی طرح پرورش پائی.اور کسی عارف کامل سے میری شناسائی نہ تھی بعد از ال آل قادر و ریت مجید روح عیسی اندر ال مریم دمید اس کے بعد اس نقادر اور مجید تھا نے اسی مریم میں ٹیلٹی کی روح پھونک دی یس پخش تنگ گیر شد یاں اور ان مریم مسیح این زمان پھر اس تلخ کے بعد ایک اور رنگ ظاہر ہوا.سبھی اس مریم سے اس زمانے کا صحیح پیدا ہوا ا ا

Page 304

قدم میں سبب شد این مریم تا هم من ذالکه مریم بود اول گاهی من میرا نام ابھی مریم اس لیے ہوا.کہ مریم بنتا میرا پہلا بستان در تلخ حق عینی شدم شد ز جائے مریمی بر تر قدم بر پھر میں خدائی تفتح کے سبب سے عینی ہو گیا اور مقام مرکی سے میرا قدم اونچا ہو گیا این بر گفته است رب العالمین کرنے والی برائیں راہیں یہ سب باتیں رب العالمین کی فرمودہ ہیں اگر مجھے علم نہیں تو براہین احمدیہ کو دیکھ حکمت می داد یا وارد ہے کو منور کم فہد کے خدائی حکمت میں بہت بعید ہونے میں نہ باریک نکتوں کو لوگ کم سمجھتے ہیں نم ها فیضان تقی باید نخست کار نے فیضان نے آمید دست قسم کے لیے پہلے خدا کا قیمتان درکار ہے.بغیر فیض اٹلی کے کوئی کام ٹھیک نہیں بیٹھی تا سا گر نداری فیض رحال را پناه ظلمتی در سر قدم داری براه اگر تو رحمان کے فیض کی پناہ نہیں رکھتا تو تیرے رستہ کے ہر قدم پر اندھیرا ہی اندھیر ہے فیض حقیر یا تفریح کی تلاش ہاں مرد ہوں تو سنے آہستہ باش رابا مرد تو گستہ و زاری کر کے خدا کا فیض تلاش کریم گھوڑے کی طرح بھاگا نہ پھلا جا.آہت پچھل اے پئے تکفیر لئے تکفیر مابسته کمر خائنات و بیان تو در فکر دیگر دور میں نے جاری کی رہ کر امداد رکھی ہے نیو یا گرور ہورہا ہے گر تو اوروں کی کریں سہی صد هزاران کفر در جانت نهال روچه نالی بهر کفر دیگران کھول کر تو تیری اپنی ہی جان میں تجھے ہوئے ہیں ڈور ہو تو اوروں کے گھر پر کیا ہوتا ہے

Page 305

تیر د اول نوشتن ماکسی دوست کہ میں را چشمہ سے باد گفت کن الے اور پلے اپنے تئیں ٹھیک کر خود نکتہ چین کی اپنی آنکھ پہلے درست ہونی چاہئیے سنتی کر لکھتے بر ما کند او نه بر ما خویش را رسوا کند لعنت کوئی مرد رو اگر تم پر لعنت کرے وہ لعنت ہم پر نہیں پڑتی بلکہ وہ اپنے تئیں بدنام کرتا ہے لسنت اہل جفا آسان بود سنت آن باشد که در حال بود ظالموں کی لعنت ملامت کا برداشت کرنا آسان ہے اصل لحنت تو وہ ہے جو رحمان کی طرف سے آتی ہے حقیقة الوحی صفحه ۳۳۹ - ۳۷۰) شیری منظری اسے دول سام شیرین علی اے جان جانم کیسا شیرین خصلت ہے ؟ سے میرے مجوب تو کیسا خوبصورت ہے اور اے میرے خدا تو جو دیارم رھے تو دل در تو بستم نمانده غیر تو اندر جانم ہیں نے تیرا منہ دیکھا تو تجھ سے دل لگا لیا اور دنیا میں تیر کے سوا میرا کوئی کر رہا اتقان به داشتن دست از دو عالم مگر هجرت بسوزد استخوانم دونوں جہان سے دست برداری مکن ہے گر تیرا فراق میری ہڈیاں تک جلا دیتا ہے.در انتش من کسانی نواں داد از هجرت جاں رود با صد فغانم نگ کے ادیان ان آسانی سے ڈالا جاسکتا ہے کو تیری بعدائی سے میری جان آمد فعال کرتی ہوئی نکلتی ہے..ريقة الوحی صفحه ۲۲۲ ۱۳۴۳

Page 306

ل مالکان نے قرار می داده اند و یا این یاریم امامی نهاده اند ستان ارونا الوقت میگوید میں ان دو اب ان تین سو استاده اند ان سے نشانات کی بارش ہو رہی ہے اور میں روایت کر رہی ہے وہ دونوں گواہ میری تصدیقی کے لیے کھڑے ہیں ب ضرورت اور نے آدم در نیروقت ادمین ایر و عصر تیم من افتاده اند تو میں ہے ضرورت کیا ہوں اورنہ ہے وقت میری قوم حالت و تعصب کی وجہ سے مجھ سے لڑائی کرنے سے ہم اسے بال ان بیگانها میں افتر با نیرو در امر مالک داده اند ے گا اور بولی سے میری طرف نہ دیکہ فتنوں کی طرف دیکھے کہ کسی قدر ہر ملک میں پیدا ہو.زمین کو بالی مندر فسق و فساد میں سے ازہر اس ایمان می شده اند اور تو جب میں نے سینڈوں فسادی کے دوران سے کھول دیئے تو ایک دروازہ آسمان پر سے بھی کھولا گیا ہے رحقیقت الوحی صفر ۱۳۹۲ ره یدا باش پیالی ما ہیں نعت ہی ذو الجلال ما ہیں مرد میدان بن اور ہمارا حال دیکھ.نیز ہمارے اس ذوالجلال کی طعنہ ہا ہے امتحا نامردی است امتحان کن پس ہال ما ہیں - بدو بغیر امتحان کے طعنے دنیا نا مردی ہے.امتحان کر پھر ہمارا نتیجہ اور مہ حقیقة الوحی صفر ۱۷۰)

Page 307

٣٠٥ گا یا ندانید بد نصرت دوران سیاست او می کندن و فریو پاکروان اکی روی آتا ہے اس کی دو اور ابھی دوڑاتی ہوئی کی ہے جانا اور سواری نوکروں کی طرح اس کی خدمت کرتے ہیں صادرتان از خوان حمایت میشود موت کی یا ان کے اندر ہے شان ان بازی که را نشان صادقوں کو خدا کی طرف سے ایک اور فنا ہے اور اس پیالہ از لی کا عشق ان کے چہرے سے ظاہر ہو تا ہے نے بہتی دنیا مصیبت می کشد نارین اور ان پر و پوشانی میاں وہ دنیا کی ہمدردی کے لیے مصیبتیں اٹھاتے میں ہے تنخواہ کے نوکر ہیں اور دنیا کے پردہ پوش نگ و بیل نخوت لا ابالی نے زینی با شتابان دوعام بے نیاز از مادران کی رنگوں سے بے پردہ ہوکر زندگی بسر کرتے ہیں وہ دونوں جہان کے بادشاہ ہیں اور اسال سے بنتات دول پیشن داستان امیری ایشان بود جان بنداز بر آن دارا وقت استان ول محبوب کے حوالے کر دیا ان کا شیوہ ہے اور آنائیش کے وقت وہ اُس محبوب کی خاطر جان دے دیتے ہیں.الها فى مصرع (حقیقة الوحی صفحه ۱۶۳) حالیا مصلحت وقت در ان سے بینم اب میں مصلحت وقت اسی میں دیکھتا ہوں رجد ما جولائی ۱۹۰۷ء)

Page 308

الها في مصرع آمید آن روزے کہ مستخلاص شود وه مال ریب ہے جب اُسے خلاصی حاصل ہوگی الهامی مصرع ساقیا آمدن عید مبارک بادت اے ساقی عید کا آنا تجھے مبارک ہو الهامی شعر زلزله در گور نظامی نکند وید یه خسرویم شد بلند میری بادشاہی کا دبدبہ بند ہوا.نظامی کی قبر میں زلزلہ پڑ گیا ہوا.را خانه بدر ۲۳ جنوری ۱۲۱۹۰۸ الهامي مصرع از خدا یابند مردان خدا خدا کے بند سے خدا سے ہی حاصل کرتے ہیں ربدر ۳۰ اپریل ۳۹۰۷

Page 309

нов الهاي شي مباش ایمین از روزگار گردش روزگار سے بے خوف نہ رہ سے سردی کی کریا کا مصرع ہے ربدر ۳۰ اپریل ۲۱۹۰۷) تو مروان آن راه چهل دیگری که از کینه و بعض کورد و کری اس راہ کے پیروں کو کس طرح دیکھ سکتاہے کرو تو کیا اور دعا کے دورے اندھا اور پیرا رہا ہے چہ دانی که ایشاں جہاں می زیند ز دنیا نهال در نهان می زیند تو کیا جانتا ہے کہ یہ لیگ کو کر جیتے ہیں.وہ تو دنیا سے پاشیده در پوشیدہ زندگی بسرکرتے ہیں ندا گشته در راو آن جان پناه زکف دل ز سر اوفتاده کلاه وہ اس جان کی پناہ مداد ند کی راہ میں قربان ہیں ان کا دل ہاتھ سے جاتا رٹ اور ٹوپی سر سے ے پیش رفتہ کوئے دگر تحسین ولسن جہاں بے خبر ان کا زخمی و کسی اور ہی کو چہ میں رہتاہے اور وہ دنیا کی آخری اور فوری دونوں سے بے خبریں جو میر را دیوار شرابیت پر بیت المقدس رول ممن تاب را کرده دیوار بیرون شمائے ے المقدس کی طرح ان کا اندرونہ روشن ہے اگر باہر کی دیوار خراب مجھے پوستان سعدی کا شعر ہے رچشمه معرفت صفحه ۲۴۰ مطبوعه ۶۱۹۰۸

Page 310

الهامي مصرع مکن تکیه بر عمر ناپائدار نا پا ندار گھر بار بھروسہ نہ کر یا نہ کر نے سردی کی کریا کا مصرع ہے د رید (۲ جون ۱۶۱۹۰۸ آنانکه بر د عادتی با ما با کنند و زماہ قبل عربیده با بر طا کنند وہ لوگ جو ہمارے دونوں پر چلے کرتے ہیں اور حالت کے باعث خواہ مخواہ ہم سے جنگ کرتے ہیں حریک نظر کند دراین اسفره کتاب به این نیس کو ترک فتاد و یاکنند اگر وہ روایات کے ساتھ ، اس کتاب کو پڑھیں.تو یقیں ہے کہ دشمنی اور انکار چھوڑ دیں گے اور نے کنم که نیایند هند خواہ میں مرد گریست که ترک حیا کنند مجھے یقین نہیں کہ میرے پاس مندر کرتے ہوئے انہیں ہاں یہ اور بات ہے کہ شرم دیاکو ہی ترک کر دیں دیر این احمدیہ حصد نجم صفور ایل ایچ ) حمد اللہ کہ آخر این کتابم مکمل شد بفضل آں جنابم خدا کا شکر ہے کہ آخر کار میری یہ کتاب انتاپ الٹی کے فضل سے مکمل ہوگئی ریا این احمدیہ حصہ نجم صفحه مطبوعه ۲۲۱۹۰۸ بحر فضل خداوندی چه درمان ضلالت را پنجند شود اعجاز نے تمی استان قسمت را ا کے فضل کے سوا گمراہی کا کیا علاج ہے بدقسمتوں کو تو مسجود بھی فائدہ نہیں دیتا

Page 311

٣٠٩ اگر آسمان مندر تاب میرے تابد بیند روزی روشن آنکه گم کرده امارات یا میانمار باید از روشن کارگر امارات ما ان ستان سیکڑوں پان اور سو چنے لگیں زمیں کی نظر جاتی رہی ہے وہ روز روشن کو نہیں دیکھ سکتا تواس دانا ترس از اکرسونے اور نا ہی رفت دنیا دل چسے بندی چه دانی وقتی علت را اسے وانا تم اس خدا سے دوری کی طرف مجھے جانا ہے دنیا سے کیا دل لگاتا ہے کیا تو موت کا وقت جانتا ہے؟ مشواز پر دنیا سرکش فرمان احمدیت محران بر رونے بنانے کی تو قوت را دنیا کی خاطر فدائے واحد کے حکم سے سرتابی نہ کر اے مسکین تو چند روز کے مزے کے لیے بد بختی نه خرید ایی کیا یا ردو عالم جاه و دولت را دارا باش و ازدل پیشین خودگیر است را گر کرو چاہتا ہےکہ دونوں جہان میں موت اور دولت حاصل کرے تو ندا کا ہو جا اور دل سے اس کی فرمانبرداری اختیا کہ فارم کیش باش و عالم بادشاہی کن با شدیم از غیرسے پرستاران حضرت را اس کی درگاہ کا غلام ہے اور دنیا پر حکومت کر کہ خدا پرستوں کو اس کے غیر سے خون نہیں ہوتا قاتل ہونے یار خود با نا نیز یاد آیا محبت می کند با بند ان محبت کر نداد نصرت برانکس بود که نارین ست ہمیں افتاده ای از ازل در گاه موقت را خدا اس کی مد میں لگا رہتا ہے جو اس کے دین کا ناصر ہو.ہمیشہ سے درگاہ رب العزت کا لی قانون ہے.ر بار نے کرد جوان این واقعاتم را را تا بینی خود مشکی نواع نصرت را یاد آید تی تھیں میں آنا تو میرے ان واقعات کوپڑھے تا کہ تو میری شکل کے وقت خدا کی نصرتوں کودیکھ لے مهران و یا بداند نگاه از خدمت همی باید که خفت باران است ای ساعت را المرائے بہت و شخص بھی اس کی درگاہ سے چھپا ہے موت سے پتا ہے کیونکہ رات کے لیے راہے اور ضرورت کیے ہیں ہے

Page 312

ین اور کار خو و یارانم و ازش نمے دانم در سن پے ملتے دیر میں نماد و سمت را حاظر میں حیران ہوں اور اس کا بغیر کسی خدمت کے ایسی تمہیں لوریو تم مجھے دیکھیں قتان انقدر کمال اور شان کنار همان منم کجا باشد شبراد اگر فتاران نخوت س میں پیشده در پوشیده در پوشیدہ ہوں.پس ہمارے متعلتی متکبر انسانوں کو کیا خبر ہو سکتی ہے.ان است درگاه بار می شنوم مردم اگر کرنے کند دست چدوران میں بہتر سمت را الی تنها داخل شوی پانی نوشتیم از رو شفقت که ماموریم درست را ا کیا میں اول بیان ہم ان کی یو نے کہا ہے کو کو کم و کسی کے لیے اس ہیں ریم این احمدیہ حصہ چم نصرة ال مسفر ۱۹۵۹ سلامت استاد دارای بالا و یا از زمین مادام کا انگار امان کی تو دوستو کہ مسیح ہوگی.مسیح آگیا.اور زمین سے بھی آمد امام کامگار کی خوشخبری ستو آسمان بر دخان وقت میگرید میں این خلبان کی ترویو میں تقریر رای این احمدیہ عو ا م م م و ۱۰) نل ایس است سوئے تو یہ بہترین ہزار خلد کوئے تو و ے کام چل میرے لیے.ہے تیرا چہرہ کافی ہے اور تیری گلی میرے لیے ہزار جنتیوں سے بڑھ کر

Page 313

م دگران بر یک می دانست موئے تو مرا کی موت کی بو سے اطراف کر تا ہوں دورہ ہر رات میری نظر تیری ہی جانب لگی ہوئی ہے ے ہے بر عوری من اگر کسے ملا کند سیاست ایران کو نوٹے تو مرا اگر کوئی میری موت پر حملہ کرتا ہے تو تیری عادت کی طرح میرا طریقہ بھی امین میشیم و چه وقم بت گر جنگ است زیر آں نے تو مرات میں کون ہوں اور میری کیا موت ہے لیکن تیری موت کی خاطر یہ میری جنگ ہے اشیہ براہین احمدیہ حصہ پا کر صفور ین دیرین باش اتنے محسود مردم بابل گویند که چون ایسی شدی تالایق لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو مینی کیونکر ہو گیا مجھ سے ان کا جواب مٹی جو یہ ہے کہ اپنے حامد دوم ون شمالش بود در کتاب پاک نام این نفرینی سر کرد است از بهر بود کہ قرآن میں مارا نام یہودی کیا گیا ہے اس لیے بنانے مجھے میں یہاں رکھا ائے حقیقت برایشان میشید ایرانم من این مریم میر احمد جواد ده در اصل رقم ان یہودیوں کے تھم سے نہیں اور میں بھی جھاتی طور پر این ؟ تیم وان نشان میں نہ ہوتا کہ اسی جیسے میں اور تہوار پر نکل جانے سے کیا ہوا برای دانی که بدین سانیان این به دوست حد فتوش خود نمود یس ایل کے باب میں جو کھیل پر یہ اتنی موجود تھیں وہ سب دین احمد میں بھی پیدا ہو گئیں

Page 314

ہے اچھے ہیں اور ہمیں تندوروں کی طرح سنوار است و مینی شهر آخر انان است و جود ی ھے اس لیے میں بھی خدائے جرمان کی طرف سے میسی بنا دیا گیا ی انجای دیگر میباشد ما آیا ان میں جو آ رہے کہ بود کی امت میں بھی جد ذرات میروی پیدا ہو گئے تاکہ وہ بھی گذشتہ قوم کی طرح اس بیٹی کونتا میں ا الان به سلاح وارشاد اسرائیلی رقوم ماهر در کشود ار من میں حسن خدا نے ہریکی اور ہر بدی میں یہودیوں کی طرح ہماری قوم میری تقسیم کا ان کھول دیا ال غلام علی ای ام سی شاید اتنا شد و وی از ما می کنی فرد ین نے اسے ایک سوال کاکام می مکانی ویلی کی اتنی بڑھ گئی تو اس کا مارون قرار پایا ہیں تو چوں کی آمد کار کردگار ہم نے کھیل میں مادر آخر شد ورود سے ایک نیم آیا تو میل کے لیے تری یاد میں ایک بیٹی کا نزول ہوگیا در ستاین گفتاری پر شک و شست راد بود ی رات سونے کی بھی روگردانی کرتا ہر کسی کا نہ ہ ہماری ان باتوں نے تیرا شک وشبہ دور کر دیا ہے میں جمال ہی انسانی یادتان که از این ارد گرد و د تورو ون پر تر ہونے کا کیا فائدہ کیونکہ چو ہدری سے باز نہ آئے وہ جنم کا این من بنتا ہے یہ زیر بار یا اگر یہ حصہ نظم صفحه ۱۳۷ ۱۳۷۵

Page 315

۳۱۳ کر میں میت خوبی بینی زودتر خار ہائے دشت سنائی وطن کا لیے.یں امریکی محبت میں رہے گا تو جلدی جنگل کے کانوں تنہائی اور دنیا کے طعنوں کو دیکھ لے گا (مکتوبات احمدیہ حققه اول صفحه ۷۵ ) الها في شعر ان در رامید عالم سے راجہ منانے کی خودم رساند ید دارد سے باہر ہیں یا کارانہ زہد وات کے طارق کو نہیں جانتا کیونکہ میرے خدا نے میرا قدم داؤد کے راستے پری کتوبات احمدیہ حصہ اول صفحه ۱) پاس می داند کیتا نے را رو بہ عالم آسرائے را یم بے مثل خداوند کا شکر ہے جس نے دنیا کو چاند اور سورج سے آراستہ کیا بهر لحظ امیدیاری از دوست پیر مانتے دو سنداری (دوست) مہیں ہر وقت اس کی طرف سے مدد کی امید ہے اور ہر حالت میں اسی سے محبت کا تعلق ہے جہاں جملہ یکم نعمت آباد اوست خنک نیک بختی که دریا دادوست سارا جہاں ایک کاریگری کا منظر ہے خوش قسمت ہے وہ نیک بخت جو اس کی یاد میں رہتا ہے.سول خدا پر توانا اور دوست ہم خیبر باز پر منقد و یا دوست رسول اللہ اُس کے نور کا پر تو ہیں اور ہماری سیار کی بھلائیاں انہیں کے ساتھ وابستہ ہیں جمال مورد ویتند و گور جان محمد کز دویست نفق جہاں وہی طرفانہ شہید اور جان کا نور محمد ہے حسین کی وجہ سے جہان کی تخلیق ہوئی

Page 316

۳۱۴ رکے اندک نیک تر و بودے اگر چول محمد بشر محمد دن رشتے سے کیوں کر پائے جاتا اگر مر سا بشر پیدا : ان است نورانی و سردی بتا بد در و فره ایزدی اید اس کا دل نورانی اور ازلی ہے اور اس میں خدا کی عظمت اور شان چکتی کے کش بلور معلق رہنما سر بخت او باشد اندر سما دہ شخص میں کا رہنا مصطفے ہو اس کا نصیبہ بندی میں آسمان تک پہنچتا ہے ه از یاد اور است جانی و دلم جواب اندر اندیشه هم به المدر میرے جان دول اس کی یاد سے معمور ہیں خواب میں بھی مجھے کوئی دوسرا خیال نہیں ہوتا یں سے تھا.پس ان سے سلام تا ئے شفیق کوم گستر و ہم رہ و بہم طریق اس کے بعد اسے مردان اور شفیق اور ہم خیال دوست میں مجھے سلام کہتا ہوں که یا دوین خسته که دی نہ ڈور فرستادہ نامہ ہمچو خور کیونکہ تونے ہیں ماجد کو اتنی دور سے یاد کیا اور ایک خط جو حور کی طرح شیعین ہے مجھے بھیجا چنان منظر عرش که مانند آن ندیدم بهم خود امد جہاں بهمبر اس کی نظیر اور مخر ایسی تھی کہ اس جیسی میں نے کبھی دنیا میں نہیں ایکمینی مطار استان اور آل پیش پیش کے حاسد به عید د راک سوئے نویش ہر اس میں ایسی اعلی درجہ کی صفائی ہے کہ دشمن اس میں اپنا منہ دیکھ سکتا.عمور ہی گرا گوش زاں صفا کشتے ہیں زانوئے اقط کی اخت اگر تلونکی شاعر اس صفائی سے واقف ہو جاتا تو وہ منہ چھپا کر بیٹھ جاتا

Page 317

۳۱۵ رہے ن صفوت بند و بست که عقد گر را در صد شکست آپ کی ال میں ایسی چمک اور ایسی ترتیب ہے کہ وہ موتیوں کے ہار کو بھی بات کرتی ہیں.تو گفتی سریر ہے اس اخوت اساس موضوع زیاقوت در جان و ما اس گویا وہ ایک ایسا چیدہ اور منتخب تخت ہے جو یا توت ، مرجان اور الماس سے جڑا ہوا ہے د ہے تو اس بود خم سداد ہمہ منطقی صرف آن تو باد واہ وہ اس کی نحر کیسی اصلے کو ہے کہ میری ساری گوریا کی اس تھر پر قربان ہے.سخن را انزال گونه آمد استند نمی آید از پیرو نوخاسته لام کو اس طرح آراستہ کیا گیا ہے کہ اور کوئی تھیں کر سکتا خواہ بوڑھا ہو یا جمالی سخن کو نمو دست در هدان به معنی رسانید لفظ سخن کلام سے گیا ایک دتو مدن ظاہر ہو گیا جس نے الفاظ کو معانی تک پہنچا دیا سخن نام دریافت شمال نا مردہ ہے بھنگی جائے اس خامہ سے سخن نے نام پایا واہ دار اور اُس اور اس تحریہ کی پختگی کے کیا کہتے سخن آن چنان باید د استوار چه حاصل سخن گفتن نابکار بات ایسی ہی حمدہ اور پختہ ہونی چاہیے.بے سود باتیں کرنے کا کیا فائدہ ؟ موشی به از گفتن این میں تو لیما در جنباند از آفرین اس خط سے خط ایسی فضول باتوں سے تو چپ رہنا اچھا ہے جو لوگوں کے منہ سے تعریف حاصل نہیں کرسکتیں ی معدنی در وسیم و الا است اگر نیک دانی نہیں کیمی است کیمیاست کلام کو موتی چاندی اور سونے کی کان ہے اگر تو اس بات کو خوب سمجھ سے قریبی کیمیا ہے

Page 318

سخن گرچه باشد چولولو نے تبر گذاریدنش نیز خواهد بنر بیات اگر چہ گوہر آبدار کی طرح ہو.مگر اس کے پیش کرنے کو بھی ہنر چاہیئے سخن قامتے نیست با اعتدال فصاحت و غدد بناگوش و خال پوند سلام کی مثال ایک خوبصورت تند کی سی ہے بعد اس کی فصاحت رخسانہ نوک اور تیل کی طرح ہے.و گفتار باشد بلنچ داتم اثر با کندور دے لاجرم اسلام بلیغ اور اعلیٰ ہوتا ہے.تو ضرور دل اثر کرتا دیگر منطقه عمل است و خراب چه خواب پریشان ردود بے حساب لیکن اگر گفتگو ہے معنی اور خاب ہو تو وہ خواب پریشاں کی طرح رائگاں جاتی ہے نبال گرچہ پھر سے بود مو بدون طلاقت نگیرد مجود علم وفن زبان اگر چھ طوفانی سمندر کی طرح ہو.پھر بھی نصاحت بغیر علم و فضل کے نہیں آتی کے کو ندارد و قو نے تمام چطورش میافت بود در کلام بود در جو شخصی زبان کی پوری واقعیت نہیں رکھتا.اس کے کلام میں روائی کیونکر سکتی ہے بحمداللہ کان مشفق پر سداد دریں جملہ اوصاف یکتا نقاد خدا کا شکر ہے کہ آپ بیس مخلص شقیق ان سب صفات میں کہتا ہے لعجب فوق مے داشت آن روزانند که بودیم در خدمت ارجمند وہ دن نہایت پر لطف تھے.جب ہم آپ کی با برکت خدمت میں حاضر کجا شد ودریغ اس زمان و سال کجا شد چنان فریم آن ماه سال افسوس.وہ ملاقات کا زمانہ کہاں گیا اور وہ مبارک مہینہ اور سال کدھر چلا گیا.2

Page 319

۳۱۷ ستم از گل بی خیالے ناقد نال جام سے ایک سفالے تمام یرے اتہ میں سوائے ان کے خیال کچھ بھی دیا اور اس جام شراب کی ایک ٹھیکری بھی باقی نہ رہی وترین و ہیں گوشہ ہوں یا د باران کنیم در دیده چو ابر بہاراں کنیم درو ان تنہائی میں ہم دوستوںکو یاد کرتے ہیں دونوں کھول کر اور بہار کی طرح بنا دیتے ہیں دول خود بد نیا چہ بند کیے کہ ایام الفت ندارد ہے کوئی اس دنیا سے اپنا دل کیا لگائے کہ محبت کے دن زیادہ باقی نہیں رہا کر.چه فرقی است و روز و شب جنز که بار تند خاک بر فرق این روزگار یار کے بغیر دن اور رات میں فرق ہی کیا ہے ؟ اس زمانہ کے سر پر خاک پڑے دور دست دعا پیش حق گسترم که چرت نماید بفضل و کرم دعا میں اپنے دونوں ہاتھ خدا کے حضور میں پھیلاتا ہوں کہ وہ اپنے فضل وکرم سے تیرا چہرہ دکھائے مکتوب گه گه بکن شاد کام خط و نامه با ما چه اشد حرام کبھی کبھی خط لکھ کر ہمیں خوش وقت کر دیا کہ تو نے ہمیں خود بھیجنا کیوں ترک کردیا دگر آنچہ تحریر کرد اس رفیق کریم گستر و مهربان و شفیق یر آن کرم - کریم فرا - مہربان اور شفیق نے آئی لکھا ہے کہ ان بحث میں نال نکردیم بیاد که نوبت طلال تو در دل نقاد ہم نے اس لیے اس خط میں دین کی جیت کا ذکر ہی کیا کہ ہمارے دل میں ناراضگی پیدا نہ ہو تو واضح (1) من من نیستم کز رده بعض دیس برنجم ن تحر یک در بحث دیں ر میں ایسا انسان نہیں ہوں کہ دشمنی اور کیسوں کی کی وجہ سے دینی مباحث کی تحریک سے ناراضی ہو جاؤں

Page 320

k را نابق این بد گمانی فتاد درون کے بنگاں ہم میاد آپ کو باقی یہ بدگمانی لاحق ہوئی.خدا کرے کسی کا دل بدظن ہ واریت گویم سے نیک مرد نه باید به غم خوار دل رنجه کرد اسے ایک مرد میں تجھے بطور تنخواہ عرض کرتا ہوں اور غم خوار سے ناراض نہیں ہونا چاہیئے کو انکار پر زندگی نئی نشان است به صورت و لها علی بر دلها کہ نبی صلعم کی زندگی سے انکار منکروں کے دلوں کی موت کی کھلی کھلی علامت ہے جهان با مرده ها دست و ندار کے زیاده او بست از کردگار سارا جہان مُردہ اور بیمار ہے.خدا کی طرف سے صرف وہی ایک زندہ ہے چنین است ثابت بقول سروش اگر باز معنے نیابی هموش اساس اٹلی سے یہی ثابت ہے.اگر تیری سمجھ میں یہ راز نہ آئے تو چپ اگر در ہوا ہمچو مرغان پری دگر یہ سر آب با بگذری اگر پرندوں کی طرح تو ہوا میں اُڑنے لگے.یا پانی پر چلنے لگے گر ہم تنش ہوئی سلامت بریں وگر خاک رانر کئی ار فسوں اور اگر تو آگ سے ملامت باہر نکل آئے یا پھونک مار کر مٹی کو سونا بنا دے اگر هنگری از حیات رسول سراسر این است و کار فضول یکن اگر تو رسول کی زندگی کا شکر ہے تویہ سب باتیں سراسر فضول اور بے کار ہیں منکر شداری چه خوانده گوا و جہاں جما لا ندخل عاقل از فائیاں خدا نے جب سے اہل دنیا کے لیے شاہد فرمایا تو مفلند اُسے غائب کیوں مجھے )

Page 321

۳۱۹ اگر ملکو او خبر داشتے یہاں دانش نیز نگذاشتے اگ منکو کو اس کی خیر ہوتی تو خواہ جان دینی پڑتی مگر اس کا والی نہ چھوڑا بهر منیش مخطاب از خداست دورینا و بین این گمانها چه است خدا کی طرف سے سر شبیر اس رسول کا خطاب ہے.تو افسوس اس کے بعد فضول گمان کیوں ہیں گر کیک سے گم شود آفتاب شود خاکم از نتیرگی با خواب اگر آفتاب ایک روم کے لیے بھی غائب ہو جائے تو دنیا اندھیرے میں مہنہ ہو جائے خردمند نیکونش طبع را است نتابد سر از آنچه می دیده است ہر شخص عقل مند صالح اور نیک فوت ہے وہ حقی اور بھائی سے بو گرانی نہیں کرتا چوبند سخن را از تن پروری دگر در سخن کم کند.داوری حق جب وہ حق شناسی سے بات پر غور کرتا ہے تو پھر وہ اس بات میں جھگڑا نہیں کرتا مشو عاشق زشت رو زینهار و گرخوب گم گردد از روزگار برگر کسی بد شکل کا عاشق نہ ہو چاہے دنیا سے حسین گم ہو جا ہیں مکافات دارد و همه کار و بار تو خار و خسک تا توانی مکار ہربات کی جودا مرا مقدر ہے اس لیے جہاں تک ممکن ہے تو کانٹے اور گوکھرو ازمین از تراعت نمی داشتن به از تخمه خار و خسک کاشتن دین کو زراعت سے خالی رکھنا اس سے بہتر ہے کہ اس میں کانٹے اور گوگوری بولے جائیں.نہ ہے دولت من کہ فضل مجید ملاند دیں اعتقاد آفرید ے میری خوش قسمتی ہے کہ خدا کے فضل نے مجھے اس انتقاد پر پیدا کیا ہے.

Page 322

در نیک ازله دین نیک ترم که بعد از خبر نیارد بدل اعتقاد دگر اور مجھ سے کبھی اچھا وہ شخص ہے جو علم مرجانے کے بعد دل میں اس کے خلاف اعتقاد ذیل را کنار منع نمال سر سخن که دور از ادب باشد و سورتین اور زبان کو ہر اس بات سے باز رکھے جو ادب کے خلافت اور بد ظنی ہو بدنیا مهمه نوع سود و زیان با قلب رسد از ممتر زبان نفع اور نقصان اکثر نابان کے راستے سے پیدا ہوتا ہے ہم ارکا دنیا میں ہر قسم کا توان از سخن مایه یافتن مقرب شدن پایه یافتن کلام کے ذریعے دولت مل سکتی ہے.نیز مرتب ہونا اور موت پانا بھی مکھی ہے.از از گفتگو با یکی آن بود که در گفتنش خطره جال بود اسی طرح بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے کہنے میں جان کا خطرہ ہو جاتا ہے.جال گفته من بفهمی تمام سال ریز ماند رولت این کلام میری بات کو تو پوری طرح کیونکر مجھے کس طرح میں اپنے کلام کو تیرے دل میں ڈال حلال اگر جاہلے سربتا بد د پند معجب نیست خودرو جیل است بند اگر کوئی جاہل نصیحت اپنے سے انکا نک نے تو تیوب نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی جمالت میں پھنسا ہوا ہے ولے از تو دارم محب اسے اتنی که فرزانه باشی و نادال شوی لیکن اسے بھائی مجھے تو تیری طرف سے حیرانی ہے کہ تو دانا ہو کہ نادان بنتا.سوالے معظم کہ ادارہ جہاں چراغ جهانش بگوید یہاں دارد وہ رسول معظم مجھے خدا نے صاف طور پر جہان کا چراغ فرمایا

Page 323

تو اس خخ ۳۲۱ چ چیز انتقاد را حجاب است و بند چه دیوار داری کشیده بلند سی چیز ہے ہو تیری راہ میں بطور حجاب حال ہے اور کونسی اونچی دیوار ہے ہو تیرے سامنے کھنچی ہوئی سامنے کہ متوفره برگفته یک کے کہ عقل و تدبیر نہ دارد ہے کے قول پر فریفتہ نہ ہو.جو عقل و دانش نہیں رکھتا دہ فاصلے ہرہ گیر اسے جوان انتقال روب باش پیر سے جوان اسے جوانمرد.ہر عالم سے فائدہ اٹھا و فیل ادب کی رو سے اسے جوانی تو بزرگ بین جا قدم نه به تقلید اہل کمال که خود او فتند ناگهان در خلال اہل کمال کی تقلید کی راہ پر چلا کہ آدمی خود رائی سے ناگہاں گمراہی میں جا پڑتا ہے میانه گزیل باش و با اعتدال که یک موردی باشد از اختلال میانہ روی اور اعتدال کے طریقہ کو اختیار کر کہ یک طرفہ چلنا فراد کا موجب ہوتا ہے دو چشمہ کیسے چول سلامت بود بیک میشم دیدن ندامت بود جس کی دونوں انھیں سلامت ہوں تامرت یک سکھ سے دکھتا ہوں کے لیے باعث ندامت ہوتا ہے اس به حقیق باید نظر بست داشت در دیده معطل نباید گذاشت دو ہمیشہ تحقیق کی نظر چست رکھنی چاہیئے اور آنکھوں کو بے کار نہیں چھوڑنا چاہیئے چو صوت صفا در دل آمیختند مداد از سواد عیبون ریختند جب صفائی کا صوت بدل میں ملاتے ہیں تو آنکھوں کی سیاہی سے روشنی ڈالتے ہیں در چیز است چوپان دنیا و دیں دل روشن و دیدہ دور میں چیزیں دین و دنیا کی محافظ ہیں.ایک تو روشن دل دوسرے دور اندیش از دو

Page 324

۳۲۲ اند من یک اگر کہنے کو ی است آن بندگان کردیم که از بهرشان می کند صبح و شام کہا کہ نیک بندے ایسے بھی ہیں جن کے لیے خدا صبح وشام کو پیدا کرتا ہے.ہرنیاں جسے ہم سے بنگرید جانے بدنبال خود مے کشتند اوہ کسی اکھیوں سے رکھتے ہیں تو ایک جہان کو اپنے پیچھے کھینچ لیتے ہیں اثر است در گفتگو ہائے شان کد نور و حریت زروائے شان ان کے کلام میں اثر ہوتا ہے اور اُن کے چھروں سے توحید کا نور ٹپکتا ہے.در شمال و اماده بر خیر وشر نها دست می خاصیت مستتر اور بدی کے اظہار کے لیے خدا تعالے نے مخفی خاصیت رکھ دی ہے.گفتن اگر بچه خدا نیستند ولی از خدا هم جدا نیستند وہ خدا نہیں ہیں.لیکن خدا سے جُدا بھی نہیں ہیں کیسے بسا که او حال بزوال بود تیام بخود جهل وطبعیان بود جو شخص خدا کا ظل ہو اس کو اپنے پر کیاس کرنا جمالت اور سرکشی ہے بس مش انان شوگر آید کتاب از بین شو بزودی بگویم جواب اس کے رد میں اگر کوئی کتاب شائع ہو تو میں اس طرت سے فوراً جواب دوں گا رو لیکن باید کتنا ہے تمام که باشد محیط همه ما یام | مگر یہ چاہیے کہ وہ کتاب پوری ہو اور تمام مقاصد پر حاوی ہو ای مدت که کردم مگر روم کے گردم باید با ہیں.صبا رہے ا ا ا ا سے نہیں پھر دل گیا جو میں نے کیا ہے ہوا میری گرد کو بھی اس رستے سے نہیں ہٹا سکتی

Page 325

5 ہے مریکی ہوائی دگر گونه کار فراز آید از گردش روزگار سوائے اس کے کہ آسمان سے کوئی اور امر گردش زمانہ کی وجہ سے نازل ہو جه گریم و تدریس المقال سال که دارم دل انعال شمال به طلال اس شاہ کے بچوں کی تعلیم کا کیا حال بیان کروں کہ میرا دل ان کی وجہ سے بہت معتم میشر شود بست کسی لیکن بروز مشکل این است لیس میسیون استاد مل سکتے ہیں.لیکن مشکل یہ ہے کہ مرت روپیہ سے تھتے ہیں کجا اس قناعت گزین اوستاد که براند کے آمد ان اتحاد وہ تابع استاد اب کہاں رہے ہو اپنے اخلاص کے باعث تھوڑے گزارہ پر مل جاتے تھے.بکوشیم و انجام کار آن بود که آن خواهش دوران یزدانی بود ہم کوشش کرتے ہیں مگر فیتیجہ وہی ہوتا ہے جو خدا کی مرضی اور خواہش ہوتی ہے فت دست در فاضلال حرص و آن همه جایگاه شد در جمع بازه عالموں کے دلوں میں حرص اورلالچی پیدا ہوگیا ہے اور ہر جگہ طمع کے دروازے کھل گئے ہیں طمع عہد ہائے گراں بگسلند از دلدار پیوند جال بگسلد الچ تو بڑے بڑے مضبوط افزا روں کو توڑ دیتا ہے بلکہ محبوب کے ساتھ گھرے ربط کہ بھی توڑ دیتا ہے.بمونید از سری کثرت بحال انزال خود فتنه اندران اختلال فته یہ لوگ مومن کی وجہ سے کثرت مال چاہتے ہیں حالانکہ مال کھانے میں بھی حرص کی وجہ سے فور پڑتا ہے.دریغا نداند این مردمان ے کو آہستگی ہم رساند جهان فسوس کہ یہ لوگ نہیں جانتے.کہ آہستگی سے ابھی اُن کی یہ مراد پوری ہو سکتی ہے.

Page 326

ناد بهارینت آرستہ راند کو ہو گاہ پر جانے فرزین فشاند راد نے بہت سے پیار سے تاریخ کے آہستہ آہستہ بڑھائے کہ آخری کام زمین کی جگہ بٹھا دیا نتظم این قدر با برائے بوقت روشنی گران من خطائے برفت کے تھوڑا سا حال میں نے نظم میں لکھا ہے اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو پرده پاشی کر میںلکھا که من بندہ ناکس و کمترم نه گوهر شناسم نه با گوهرم کیونکہ میں ایک کمزور اور عاجر انسان ہوں نہ ہو ہر شناس ہوں نہ جوہری دیشی را از جیب پاک اگر جا بے عیب بید چہ پاک چه بود توں کی آنکھ توری گیری کے نقص سے پاک ہوتی ہے ہاں جاہل جیب میں ہوا کرتے تو اسکا کوئی مضائقہ نہیں را اختباره پدر جلد ۸ نمبر ۲۷ مورخه ۲۹ ۱اپریل ۶۱۹۰۹ کے شری عاشق ترخ بارے تا نه بر دل رختش کند کاری تو کیر کر کسی معشوق کا عاشق ہو سکتا ہے جب تک اُس کا پہرہ تیرے دل میں بس نہ جائے مچنین زیاں ہے دو گفتار سے اس کنند کا رہا کہ دیدارے می اسی طرح ابن ہونٹوں کے دو بول رہی اثر رکھتے ہیں جیسے محبوب کا دیدار الاجرم عشق دلبر خوش خو خیزد از گفتگو چه دیدن رو بے شک دبیر فرشتہ کا عشق اس کی نظر سے بھی پیدا ہوجاتا ہے جیسا کہ اس کے دیکھنے سے گفتگو گفتگو با شش بود بسیار بے سخن کم اثر کند دیدار کلام میں بڑی کشش ہوا کرتی ہے.کلام کے بغیر دیدار کا اثر کم ہی ہوتا ہے

Page 327

صد سر که روی کام یافته است راز این رو تمام بافته است میں کو ذوق گفتار نصیب ہو گیا اس نے عشق کے راستہ کا سارا ساز معلوم کر لیا زیر لب گفتگو نے بھانا نے زندگی بخشدت بیک آنے مجوب کی شیریں کلامی پل بھر میں تجھے زندگی عطا کر دے گی ونے کو عذاب بھر میں علم اصل اس ہست لایک کر دوو بونم کی طرح عذاب سے پر ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے ک خدا تعالی ان سے کام نہیں کرے کہ کہ دل ول به گروه صفانه خیر دیم تا چه موسی نے شوی تو کلیم چہ نہ دل صاف ہوتا ہے نہ خوف دور ہوتا ہے جب تک تو موسی کی طرح کلیم نہ بھی جائے بست دارشتے دل کلام خدا کے شوی مست جز بم ای خدا دل کی دوما خدا کا کلام ہے تو خدا کے ان جام کے بغیر ہی اب کیونکر ہو سکتا ہے؟ تانه او گفت خود انا الموجود عقدہ بستیش کے نشود جب تک اُس نے خودانا الموجود نہ کہا تب ایک اس کی سہستی کا عقدہ کوئی کھول سکا تا نشد مشعلے زطیب پدید رو شب تار جمل کس ندهید روش به جب ایک غیب سے مشعل ظاہر نہ ہوتی تب تک حالت کی اند میری بات سے کسی نے رہائی نہ پائی تان نه خود دادار تا در خود را نمود خود دادار کس ندانست کرتے اس خانوار جب تک شعرا نے خود اپنے تئیں ظاہر نہ کیا تب ملک کسی کو اس دلدار کی گلی کا چند انہ لگا اده خود ادان می بخشد کسی زندانی بی شک زمید جب تک اس نے تو اپنے کلام کے دید یعنی بخش نفت تک کوئی شک وشبہ کے قید خانہ سے آزاد نہ ہوا "

Page 328

ی باشد و دستی و سعاد این است با خوش بنیاد ہوار منافق اور سلاد کی جو ہا تک بھی ہو.بغیر یقین کے اس کی بنیاد کرور ہوتی ہے کرتیں میں بنانے کال از محالات قوت ایمان ہے.تو قوت ایمان نا ممکن بے نہیں بیچ دل نیا سوده ست ہے کل فضول میں کوئی دل بغیر یقین کے آرام نہیں پاسکتا علیمات یقیں کس نہ رستہ نہ دارم دیو میں بھی یقین کے اور بغیریقین کی شیل کے کوئی شخص شیطان لعین کے پھندے سے آزاد نہ ہو سکا ہے تین برگر درست کسے دانم احوال شیخ و شاب ایسے یقین کے بغیر کوئی شخص بھی گناہ سے نہیں چھٹتا میں بہت سے بوڑھوں اور جوانوں کے حال سے آگاہ ہو سد اس خطہ ہے کہ ذات اوست نہاں دورتر از در چشمه عالمیان خط وہ خدا جس کی بات پوشیدہ ہے اور اہل جہان کی آنکھوں سے بہت دور ہے برده بودش یقین جهان آید گر نظر نیست گفتگو باید ان کے وجود پر کسی طرح یقین حاصل ہو اگر دیدار نہیں تو گفتگو تو ضروری ہے.مین بیب بیت حاجت گفتار گر میر نے شود دیدار اسی واسطے امام کی ضرورت ہے کیونکہ خدا تعالے ظاہری پکھوں سے نظر نہیں آتا ہے کلام و شہادت آیات کے تمھیں میشود کہ بہت آن خواست بغیر کلام الہ نشانات کی گواہی کے کسی برج یقین آئے کہ وہ ذات موجود ہے

Page 329

ے تعین کے بھی شود دال پاک شده چون سری آرداد با خاک یز یقین کے دل بھی کب پاک ہو سکتا ہے خاک کے نیچے سے مروہ کیونکہ سر اُٹھا سکتا ہے گریفین نیست نیز زیاں نیست زہد صدق و ثبات دعرفانی نیست اتین میں تاریمان بھی نہیں ہےاس طرح بیری کے ہر شرق استقلال اور عرفان بھی حاصل نہیں ہوتا جو تین شکل است صدق و ثبات سخت دشوار ترک منهیات بغیر یقینی کے وفاداری اور استقامت شکل ہے اور گناہوں کا ترک کرنا بھی سخت دشوار ہے.تیں سیب خلق شد چو مردار مرتی گشت از سر یاری اسی وجہ سے خلقت مردار کی طرح ہو گئی اور یار کی محبت سے دل خالی ہو گیا رد و شب کا روبار فسق و فجور حاصل عمر کفر و کبر و غرور ے لوگ دن رات فسق و نجورہ میں مبتلا ہیں زندگی کا ماحصل کفر تکبر اور نزور ہو گیا ہے.دین و تخریب برائے آں باشند کہ یقیں سوئے تھی کسشان باشد دین اور مذہب تو اس لیے ہوتا ہے کہ یقین پیدا کر کے وہ خدا کی طرف کھینچے میں چہ دینے کہ مے کشد سر آن سوئے شیطان وبیرت شیطان یہ دین اکیسا ہے جو ہر لحظ شیطان اور شیطانی حرکتوں کی طرف کھینچتا ہے.از سر با عیب خویش می پوشند مردم از حرص و آز بے ہوشند یہ لوگ ریا سے اپنے جنہوں کو چھپاتے ہیں اور ہر وقت ان میں لالچ اور حرص ہوش مار رہے ہیں چوں یقین نیست بر خدائے وحید لاجرمن نفس شد نیست و پلید چر کو ندائے واحد پر یقین ہی نہیں ہے اس ایسے بے شک نفس گندہ اور پلید ہو گیا ہے.

Page 330

نفس دهان تا نه بینید اس انوار کے شو د سرد خواہش مروار نفی شمال راجب تک وہ انوار نہ دیکھے تب تک مردار کی خواہش کب سرد ہو سکتی ہے صحت اللہ کلام ربانی از خدا آلو خدا دانی خدا کی قسم میں شعراء کا کلام ہی ہے جو خدا کی طرف سے خدا شناسی کا آلہ ہے ان زنان کر شش نام بے کلام خدا نہ گردو رام ل ہے کلام وہ ہو تو ار اند یا جن کا نام نفس ہے.خدا کے کلام کے بغیر مطبع نہیں ہوتا این قسمان است بهر این بارے کر لپ باد یک دو گفتاری اس سانپ کا یہی منتر ہے کہ محبوب کے منہ سے ایک دو باتیں سُن لی جائیں ده چه دارد اثر کلامیم خدا دیو بگریزد از پیام خدا واہ تو اور خدا کا کلام کیا اثر رکھتا ہے کہ اس کے پیام سے شیطان بھاگتا ہے و در کار مست با شب تار چون سحر شد گریز و آل فتار جو تعلق اندھیری رات کے ساتھ ہے جہاں صبح ہوئی اور وہ نقارہ بھاگا مو تقول خدا کدام سحر که رود تیرگی ازد یکیسر خدا کے کلام جیسی اور کونسی صحیح ہے میں کی وجہ سے اندھیرا بالکل ڈور ہو جائے تین و سر که این در برو خدا کاشاد ہے تو قت ندایش آمد یاد جس شخص پر خدا نے السلام کا دروازہ کھول دیا اُسے ہمیشہ خدا یاد رہتا ہے.آنچنان دور شد ته خت د فساد که نماند اثر از استعداد ادہ فرحت اللہ فساد سے آنا مور ہو جاتا ہے کہ ان باتوں کی صلاحیت ہی اس میں نہیں رہتی

Page 331

با به حال که دیگر خود در این نور کور ماند و به نور حق میحون خودند گر میں نے عمر بھر وہ روشنی نہیں دیکھی وہ اندھا اور خدا کے نور سے دور ہی رہا کی نیا به انسان میاں اسرار پر امید ہے کہ یا بد آن گفتار رتی بھی اس یہود کیا ہے اور مال نہیں کیا سوائے اس سعادت مند کے جسے امام نصیب ہو جائے هر که این مرد سر او تافت فوق مہر خدا ہماں کس یافت کس جس کے سر پر یہ آفتاب چکا وہی خدا کی محبت کا جا چکھتا ہے پیچ وانی کلام جمال چیست وانکہ اس خویافت اس وکیبیت تی رہی ہے اور ان کا کیا چیز ہے اور وہ چاند کو نا ہے جس کے پاس کلام رمان کا سورتی ہے اس کلامش که نور با وارد تشکیب از قلوب بردارد اس کا وہ کلام جو اپنے اندر انوار رکھتا ہے دلوں سے شک و شبہ کو دور کر دیتا ہے.نور در ذات توایش و نور دید رنگ سرشک و ہر لگاں برد وہ خود بھی نور ہے اور دو سول کو بھی نور عطا کرتا ہے اور پر شک اور گمان کی بو کاٹ دیتا ہے مل که باشد گرفت داده ام با بیان دے سیکنت و آرام وہ دل جو وہم میں گرفتار ہو ہی سے تسکین اور آرام پاتا سمجھ مینے کہ سبت فولادی در دل آید فرامیت شادی در وہ ایک فولادی میخ کی طرح دل میں گڑ جاتا ہے اور خوشی کو بڑھاتا ہے.دوره عادت نادر شفاق یارہ زہر نفس چوں تریاق چاره اس کی برکت سے سوا اور جھگڑے کی بات محمد ہوا ہے اور وہ تریاق کی طرح نفس کے زہر کا طاری ہے.

Page 332

٣٣٠ کا ر ہا نے کثر یہ انسانے ہمچو باد صحا بہ بنتا نے ر المنام انسان کے ساتھ وہی کام کرتا ہے جو باد صبا باغ کے ساتھ کرتی ہے یہ مے کشاید در چشم انسان را می نماید جمال رحمان را می النعام آدمی کی دونوں پرنکھوں کو کھول دیتا ہے اور رحمان کا جمال دکھلا دیتا ہے.دن وی شده بر گردد باز بسته گردد به آدمی در آن نیا کی وحی کا دروازہ کھتا ہے تو آدمی پر حرص کا دروازہ بند ہو جاتا ہے یکی شیش کار می کند به درمان در دل آید فرو نرخ بیچوں ی این انسان کے بانی کو دور کرتی ہے اور اس کا خدا کا رول کے اندر از جاتا ہے تان ول نمی ناک شش دل نمی شود بیدار متنفریه غیر و طالب یار و اس شش سے دل بیدار ہو جاتا ہے اور وہ غیر سے متنفر اور خدا کا طالب بن جاتا کون سر حرص و آز تابندہ سوئے یار ازل شتابنده روز دہ ہنر لالچ اور حرص سے منہ پھیر لیتا ہے اور بابر ازلی کی طرت دوڑتا ہے میوه از روضه فتا خورده و از خود و آرزوئے خود مرده د بارغ تھا کا میوہ کھاتا ہے خودی اور خواہش نفسانی کی طرت سے مر جاتا ہے سیل عشقش بن جائے خود برده رخت در جائے دیگر آورده ا کی محبت کا یا اسے اپنی اور بہا کر تا ہے وہ کسی اور جگہ اپنا ڈیرہ حلال چیست پاک وطبیب کیشم ہے چونے میش کو ماں خبیث وطلعو نے دینا نے بچوں کی نظرمیں پاک صاحب ہو جاتا ہے اگر چہ اندھیوں کے نزدیک خبیث اور مون ہوتا ہے.

Page 333

محمد رتیں پھر جو شیخ عطاره الام بالی و لعنت اخبار بھا سے ایسا نہ ہوتا ہے جیسے معمار کا شیشہ اور نا اہوں کی لعنت سے لاپروا ہو جاتا ہے دستی بینی کشیده در این دول برکشیده دو دست یارا انگل یک غیب کا ہاتھ اس کے دان کے دل کو کھینچ لیتا ہے اور اس کے دونوں ہاتھ سے کھڑا سے نکال لیتے ہیں پاک دل پاک جان وپاک خمیر دور تر از مکایید و تزویر وہ پاک دل پاک روح اور پاک بحال ہو جاتا ہے.چالاکیوں اور جھوٹ سے بہت دور انستان عشق نیز مرکب ماند که از ان مشت خاک پیچ نماند عشق نے گھوڑے کو اتنا تیز روی پا کر اس مشت خاک کا کچھ بھی باقی در رہا.کشته دلبر و دلارامے رستہ یکسر رنگ دار تھے نام ابر اور دلارام پر قربان اور تنگ و ناموس بالکل بے پروا ہو جاتا ہے ی تو عشق و تی تو ہر آنہ سے قصہ کوتاہ کرد آواز سے آنے آوازے وہ عشق سے بھر پور اور مومن سے خالی ہوتا ہے ایک ہی آواز نے اس کا کام تمامک اس مائے یقیں کہ گوش نیند کرد کار و ز غیر حق بهراد سے اسی یقینی آواز نے جو اس کے کانوں میں پڑی بڑا کام کیا اور اسے غیر اللہ.سے منقطع رفتہ بیروں نے حلقہ انتہار دل بریده نه غیر آن دلدار فیروں کے دائرہ سے باہر نکل گیا اور غیر اللہ سے ہے تعلق ہو گیا پاک گشته دارت سنتی خویش ایستنه از بند خود پرستی خویش ؟ دہ رہتی سستی کی آلودگی سے پاک ہو گیا اور خود پرستی کی قید سے آزاد

Page 334

主 نتاین بار در کمند انداخت که نداند بدیگر پرداخت بارود یار نے اس طرح سے اپنی کند میں لے لیا کہ وہ دوسروں سے کوئی واسطہ ہی نہیں رکھتے.تقدیم شود زده بر او هم گره پیادش بر فرق تا بقدم تھا کے ساتھے پر پل پڑا اور اس کی یاد میں سر سے پیر تک گم ہوا میں ذکر دلبر خزانے او گشتہ ہمہ دلیر بہائے او گشت ! دیر کا ذکر اس کی غذا ہو گیا بلکہ سارا دبیر اس کے لیے ہو گیا سخہ ہر مرض بجز دلدار دوخته چشم دل تو غیر زنگار اس نے سوائے ادارے کے اپنی ہر خواہش کو جلادیا اور جب کے سوا ہر چیز کی طرف سے آٹھ انسان دل و جاں پرانے فدا کرده وصل اور اصل متدها کرده ان کے چہرہ پر جان و دل فدا کر دیا اور اس کے وصل کو اپنا خاص مدینا بنا لیا مرده و خوشتی فنا کرده عشق پوشید و کارها کرده و ہ کر دیتے مر گیا اور اس نے اچھے نہیں فنا کر دوبارہ عشق ہوش میں آیا اور اس نے سب کام اور خودی ہائے خود فنا و مبدا سیل مچھر دور بود مجد و انہ جا مزدی سے الگ ہو گیا.سیلاب بہت زور کا تھا اُسے بہا کر لے تن بو فرسوده دل منتان آمد دل چو از دست رفتنه جان آمد جب بدن کمزور ہو گیا تو محبوب آگیا جب دل ہاتھ سے چلا گیا تو محجوب تشریف عشق دارین نے أو بارید ابر رحمت کو نئے مرد بارید کوئے مجوب کا عشق اس کے چھرہ سے ظاہر ہونے لگا اور امیر رحمت میں کے کوچے میں ہونے لگا

Page 335

کے اینه که شده و گفتار ہے اور دل اور برست گزار ہے او این بین کی وجہ سے ہو السلام نے پینا کیا تھا.جس کے دل میں ایک گلزار کھل گیا ہر طورے کے سبب دارد داعہ ان کو بدل قلب دارد.ہر نئی بات کا ایک سبب ہوا کرتا ہے ہی کو دہی سمجھتا ہے ہیں کے دل کو طلب لگی ہوئی ہوں پس میں شورش جهت یاده که بشوید هم از خودی آثاره یسی دوست کی محبت کی ایسی نشورش جو مودی کے آثار تک مٹا ڈالے این بیشتر نمی شود زنهار جو سمنتہائے دلبر و دلدا ہرگز بہتر نہیں آسکتی سوائے دلیر اور دلدارہ کی باتوں عشق کور و نماید از دیدار نیرگه که بخیزد از گفتار عشق ہو دیدار سے پیدا ہوا کرتا ہے کبھی کبھی گفتار سے بھی پیلا ہوتا ہے بالخصوص آن سخن که از دلیل خاصیت دارد اندر دین اسلاید خمی کر داماد کی وہ باتیں جو سرار کے طور پیشن پیدا کرنے والی خاصیت اپنے اندر رکھتی ہیں ستے اور نہ یک نہ دو نہ سہزار این قبیلان او بروں پرشمار ه گونه ان باتوں کے خدائی صرف ایک دریا سہرا انسان ہی نہیں ہیں بلکہ اس کے کشتے بے شمار ہیں سرنا نے قلیل تازه بخر استفاده روئے کو دم شده است ہر وقت وہ ایک نیا تقلیل چاہتا ہے اس کے چہرہ کا غازہ شہیدوں کا خون ہوتا ہے این سعادت پولو د قسمت ما رفته رفته ریه نوبت سعادت چونکہ ہماری قسمت میں تھی رفتہ رفتہ ہماری نوبت بھی آ؟

Page 336

کمار نے است نیز میرانی صدر حسین است در گریبانم لائے میں کربلا میری ہر آن کی سیر گاہ ہے.سینکڑاں حسین میرے گریبان کے احمد الاهم نیز احمد افشار اور برسم چاہیے ہمہ ایوار المدار میں آدم بھی ہوں اور احمد مختار بھی میرے جسم پر تمام ابراللہ کے خلعت ہیں کا رہا ہے کہ کرد با من یار برتر اس دفتر است انه اظهار وہ کام جو خدا نے میرے ساتھ کیے وہ اتنے زیادہ ہیں کہ شہر میں نہیں ہوسکتے انه دار است بر نمی را جام داد آن جام را مرا تمام پرداد جو عالم اس نے ہر نبی کو عطا کیا تھا ہی جام اس نے کامل طور سے مجھے بھی دیا ہے ول من مهد و الفت خود داد خود مرا ند بوحي خود استاد وہ میرا دل لے گیا اور اپنی الفت مجھے دے دیا اور وحی کے ذریعہ آپ میرا اُستاد بن گیا.وحی او را مجب اثر دیم روئے آل مہر ناں تم دیدم میں نے اُس کی بھی میں معجب اثر دیکھا یعنی اس سورج کا چہرہ اس چاند کے طفیل نظر آگیا دیدم از خلق رنج و کره بات دانچه چیز است پیش این مقالات میں نے مخلوق سے بو رنج اور تکلیفیں دیکھیں وہ اپنی لذتوں کے آگے کیا چیز ہیں دیدم از بهر خلق جلوه یاد کار دیگر بر آمد از یک کار میں نے خلقت سے بیحد ہو کر یاد کا جلوہ دیکھا.ایک کام سے دوسرا کام نکل آئی لے اس شعر کا صرف یہ مطلب ہے کہ حضرت حسین تو ایک ہی مرتبہ کر بلا گئے تھے مگر میں ہر وقت رہا یعنی معیت میں ہوں اور مجھ پر ایک سوچیتوں کے برابر مصیبت پڑی ہے یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایسے ایسے سو حسین میری جیب میں پڑے ہیں (محمد اسماعیل پانی پتی)

Page 337

۳۳۵ آنچه من بشنوم زوجي معا یندا پاک دانش و خطا کچھ خدا کی وحی سے میں سنتا ہوں خدا کی قسم میں اُسے غلطی سے پاک سمجھتا ہوں سمجھ قرآن منتزه اش دائم از خطابا ہمیں است ایمانم ان میں جسے قرآن کی طرح غلطیوں سے پاک جانتا ہوں اور یہی میرا ایمان ہے ہے من هدا را بد شناخته ام و اول بدین پاشش گداخته ام میں نے خدا کو اسی کے ذریعہ سے پہچانا ہے خدا کی اس آگ سے ہی میں نے اپنے دل کو گھرانہ کیا بخدا هست این کلام مجید از دوبانی خدائے پاک و وحید کیا تم یہ دانائی کا کام ہے اور وہ قلات تدریس دور واحد کے منہ سے نکلا ہوا ہے آنچه به من بیان شد از دادار آتا ہے است با دو صد انوار جو کچھ مجھ پر خدا کی طرف سے ظاہر ہوا ہے وہ ایک آفتاب ہے جو سینکڑوں انوار اپنے ساتھ رکھتا ہے این خدا نیست ریت اربائیم که دو آدم از ازدو تا بم یہ ہے میرا خدا بوریت اللہ باب ہے اگرمیں اس سے رو گردانی کروں تو پھر کس کی طرف مراج کروائی انبیاء گریچه بوده اند بسے من بعرفاں نہ کمترم ز کسے اگرچہ انبیاد بہت ہوئے ہیں.گر میں معرفت الہی میں کسی سے کم نہیں ہوں دارت مصطفی نشدم به تعیین شده زنگی برنگ با بار جبیں تقينا مصطفے کا وارث ہوں اور اس حسینی مجوب کے رنگ میں رنگین چھینے کہ بود جیسے را پر کلام که شد برو القا ہوں وہ یقین جو ٹیکسی کو اُس کلام پر تھا جو اُس نازل ہوا تھا

Page 338

دان میں کمیم بر تو راست واں میں بہانے سید استادات اور وہ یقین جو موسیٰ کو تورات پر اور وہ یقین جو سید المرسلین کو حاصل تھا.کر نیم توان ہمہ ہوئے تھیں ہر کہ گوید دروغ بہت ہیں میں یقینی کے معاملہ میں ان میں سے کسی سے کم نہیں ہوں جو جھوٹ بولتا ہو وہ ایک ایک اہم ذرت فنی او پیئے صورت میں مدنی یکن میں اب مفتی کی طرف سے آئینہ کی مانند ہوں اس رویہ کے چاند کی صورت دنیا کو دکھانے کے بر جمی آن یار بر دل من ریحیت نه شیاطین بدو به نفس آمیخت جو کچھ کہ الہام ، اس بارے میرے دل میں ڈالا اس میں نہ شیطان نے ملاوٹ کی وہ نفس نے خالص آمده کلامم آن دادار ایں سبب کنند و م پیشه از انوار امی خدا کی طرف سے خالص کالام نازل ہوا اس لیے میرا دل انوار سے بھر گیا ہست آن دچی نیزه سوختی که نبود است بر یقین ملیتی دہ تاریک وحی جلا دینے کے قابل ہے جو یقین پر مبنی نہ ہو یکایی می بالینی نقد است همه کارم منال فتیش شده است لیکن میری یہ بھی یقینا خدا کی طریقہ سے ہے میرا سب کا متعین دریچہ سے ہی ٹھیک ہو گیا آمدم آن زمان که با دوختان کرد کیر ریاضی دیں ویران میں ایسے زمانہ میں آیا ہوں جب باد خوان نے دین کے باغ کو کیسر اجاڑ دیا تھا دور ہم سے در مشائخ نماند جز تزویر عالمان هم نشسته و فریبا ی میں سوائے جھوٹ کے اور کچھ ساتھ اور عالم بھی اربوں کی فرج من دور ہو گئے تھے

Page 339

٣٣٤ عاشق در شدند دولت و جاه دل تنی از محبت اس شاه ہ وہ مال دولت اور عزت کے عاشق ہو گئے تھے اور پول اس بادشاہ کی صحبت سے خالی تھا.میں روز بائے چوں شب تار قوم را دید حق بحالت زار تار تقوم متق ان قم میں جوان میری بات کی طرح کے تھے خدا نے ہماری قوم کی حالت زار میں دیکھا پس مرا از جهانیان بگزید در دلم روح پاک خویش رسید در دلم رامین پس مجھے اہل دنیا میں سے چھین لیا اور میرے دل میں اپنی پاک وہی پھونکی در ول من ز عشق شور انگلند خود مرا شد ست هر پیوند میرے دل میں عشق کا جوش ڈال دیا وہ آپ میرا بن گیا اور تعریق غیر کا توڑ ڈالا کرد دیوانه و خرد با داد لیست یک در هزار در بکشان مجھے دیوانہ کر کے تعلیں بخشیں اور ایک دردانہ بند کر کے ہزاروں دروازے کھول دیے خلق و مردم نصیحتم کنند تا بیرم زیاد خود پیوندها مخلوق اور لوگ مجھے نصیحت کرتے ہیں کہ میں دوست سے تعلق منقطع کرنوں من نیم کو رتا جو کورانے بگرینجر ہے تو بتانے چو میں نا بینا نہیں ہوں کہ اندھوں کی طرح باغ چھوڑ کر کنویں کو اختیار کر لوں اں بزنانہ کا عطیہ یار چوں نہ دست انگلیم بے مروار وہ تازہ میوہ ہو محبوب کا عطیہ ہے میں اُسے اس مردار دنیا کے لیے کیونکہ ٹھیک دادن سر کر جانے دشمنی نیزد تنسیخ گیرد که خون من ریزد اگر ایک جہان میری تینی پہ کھڑا ہو جائے اور تلوار پکڑ لے کہ میرا خون گرا دے

Page 340

۳۳۸ می در آنم که ترک اور گیم بیان میں بہت بیا به مه رویم تب بھی میں ایسا نہیں ہوں کہ اُسے چھوڑ دوں میرا وہ ماہ رو یار تو میری جان ہے ا رخت هرگز در کوچه اش بیرم بز مال دیگراند و من دیگرم میں اُس کی گلی سے اپنا ڈیرہ ہرگز نہ اٹھاوں کا نزول لوگ اور ہوتے ہیں اور میں اور ہوں کا رخم کرد عشق صورت یار از غم حملہ ہائے این اختیار محبوب کے عشق نے مجھے ہے پر دا کردیا ہے.ان دشمنوں کے حملوں کے غم سے شورش عشق بہت ہر آنے تا کے خیر این گریبانے میرے اندر ہر وقت عشق کا ایک ہوش ہے دیکھیے یہ گومان کب تک سلامت رہتا ہے.اهمان را خبر بد عالم نیست گتے ہوئے اس زلالم نیست نصیحت کرنے والوں کو میرے مال کی کچھ خبر نہیں.میرے مقا پانی کی طرف ان کا گذر نہیں ہوا آدم ہوں سحر بلوی نور تا شود تیرگی نہ تورم دور یں نور کا ایک امان سے گرمی کی طرح آیا ہوں تاکہ بہ اندھیر میرے نور کی وجہ سے دور ہو جائے شور انگنده ام که تازین کار خلق گرد از خواب خود بیدار میں نے شور بر پا کر رکھا ہے تاکہ اس کی وجہ سے خلقت اپنی نیند سے بیدار ہوجائے غافلان من تو یار آمده ام ہمچو باد بهار آمده ام تو اے غافلہ میں محبوب کے پاس سے آیا ہوئی اور باد بہار کی طرح آیا ہوں ہے این زمان زمانه گلزار موسیم لالہ زاره وقت بهار یہ میں نہ مانہ گزار کا زمانہ ہے.یعنی کار زار کا موسم اور بہار کا وقت ہے.

Page 341

٣٣٩ آمدم انگار باز آید میلان را قرار باز آید میں اس لیے آیا ہوں تا کہ محبوب کوٹ آئے اور بد دل لوگوں کو پھر آرام نہ دست فیلیم بپرورد هردم کرد و میش بهمن ظهوره تما ہا ایک میں ہاتھ پر میری پرورش کرتا ہے اور اس کی وحی نے کال طور سے مجھ پر تھور کیا ہے نور المام کچھ باد صبا نزدم آرد زیغیب خوشبو ا العام الہی کا نور باد صبا کی طرح غیب سے میرے پاس خوشبو میں لا رہا ہے زنده شد ہر نبی با مدغم ہر رسولے نہال به پیرهنم ہر نبی میرے آنے سے زندہ ہو گیا اور سر رسول میرے پیرا ھی میں پوشیدہ ہے پیر شد انه نور من زمان و زمین سر منورت بر آسمان از لیس از میرے گنے کی وجہ سے زمین و زمان روشن ہو گئے گر ابھی تیرا سرمدادت سے آسمان پر سے با خدا جنگ با کنی هیمات این چه جور و جفا کشی هیهات افسوس کہ تو خدا سے جنگ کر رہا ہے.یہ کیا قلم وہی کر رہا ہے.تجھ پر افسوس ان توزیع برول نهادی پا ہوش کن اسے روبینہ ناں کیتا کونے تقویٰ کی راہ کو چھوڑ دیا.اسے تنہا سے ہے تعلق شخص ہوش کر ان نے مفتی زنگ و نامه در سوم نافتی رو تو حضرت قوم تو نے مخلوقات ننگ و ناموس اور نسوں کی خاطر اپنا منہ اس قوم کی درگاہ سے پھیر رکھا ہے رو برد کن که رو سرخ یار است همه رو با فدائے دلدار است جامعتہ اس کی طرف کر کہ اسی کا چہرہ تو اصل چرا سے سالن سے پھر سے اس دلدار پر سے مھربان ہیں

Page 342

۳۴۰ دگی حتی درایو شنوی انه ما ہیں مگو ، نیافتیم چمدا تو ہم سے خدا کی دی نے تو یہ کہو کہ وہ ہم کو کیوں تانه کانه دلت بجان برسد چون پیامت زدستان برسد برسید جب کی تیرے دل کا کام نام نہ ہوجائے کس طرح محبوب کا پیغام تیرے پاس پہنچے تا نه از خود می روی مجمداگردی تا تا نه قربانی آشنا گردی جب تک تو خود بدی سے الگ نہ ہو اور جب تک تو دوست پر خدا نہ ہو تا نیائی تو نفس خود بیروں کتا نہ گردی بروئے اُو مجنوں جب تک تواپنی نفسانیت سے باہر نہ آئے اور جب تک اس کے چہرہ کا دیوانہ نہ بن جائے تا نه شراکت شو د بیان عبار تا نه گرد و غبار تو خونبار ردو جب تک تیری خاک نما کی طرح نہ ہوجائے اور جب تک تیرے غبار میں سے ستون تا نه خونت چکد برائے کے نا نہ جانت شود ندائے کے جب تک تیرانون کسی کی خاطرہ ہے اور جہت تیک تیری مان کسی پر قربان نہ ہوجائے نوں دہندت کوئے جاناں راہ چوں ندا آیدیت انسان درگاه تی کہ مجھے کوئے جاناں کا راستہ کیوں کر لے اور اس درگاہ کی طرف سے تجھے آوازنہ کیونکر آئے تو حریم در هم و دنیار روز روشنیاں منگان برال شروط تو تو روپے پیسے کا لالچی ہے اور دن رات اسی مردار پر کتوں کی طرح گرا ہوا.انہیں حرص و آز و کمر و غرور چون نمانی زکر نے جاناں دور اس قدر لالچ موص تکبر اور بیروں کے ساتھ کیا وجہ ہے کہ تو کوئے جاناں سے دور نہ رہے

Page 343

الم٣ کی کوئی سواری این رویاست اندر آنجا بود که گرد نجاست کے تو اس سیدھے رستے کے سوار کو ڈھونڈتا ہے تو وہاں ڈھونڈ جہاں سے گرد اٹھی ہے اندر آنجا جو کہ زور نماند خود نمائی و کبر و شور نامه وہاں ڈھونڈ جہاں زور باقی نہیں رہا.خود نمائی.تکبر اور جوش نہیں رہا اندر آنجا جو کہ مرگ آمد چون خنان نفت با دیبرگ آمد بود دان و ھونا یہاں موت آگئی ہے جب خوباں چلی جاتی ہے تو پھل اور پتوں کا مرہم ہوتا ہے کانیان را جهانیاں نرسند جانیان را زبانیان نوشد دنیا دار باشد لوگوں کے باہر نہیں ہوسکتے باتیں بنانے والے جان دینے والوں کے برابر نہیں ہوسکتے لات ہائے زباں بود مردار جو سگال کسی بخوریدش نہ نہار جود سے مردار کی طرح ہوتے ہیں کتوں کے سوا کوئی ان کو نہیں ڈھونڈتا دور ولے پول بروید آن گلزار بلبلش اہل دل شوند بزار جب کسی دل میں وہ گزار پیدا ہو جاتا ہے.تو ہزاروں صاحب دل اس کے بلیل بن جاتے ہیں ہیں قبولیت از خدا آید نه به تزویر و افترا آیدا گر یہ مجمولیت بھی صدا اسی کی طرف سے آتی ہے.غریب اور انتزا سے نہیں آتی چادر سے کاندرو خدا باشد صد عزیز سے برو خدا باشد دو اور میں کے اندر خدا ہو.سینکڑوں موت دار انسان اُس پر قربان ہوتے ہیں ور بود زیر جامہ شیطانی زود بینی تباہ و دیرانی اور اگر کپڑے کے نیچے شیطان ہو تو لدی بھی تو اُسے تباہ اور ویران ہوتے دیکھ لے گا ا معنی خاکساروں کے در میال

Page 344

نے کئی با مبادرت احمد اگر تو تھانے واحد کے بندوں سے بخل اور حسد کرتا ہے تو تو زہر کھاتا ی تیر و مرواری دور از فضل حضر ہے باری جد تک قوتنا نہیں ہوتا تب تک گرمی سے بھی بدتر ہے اور خدا کی رحمت سے دور ہے.تان گردوست گران به نیاز پرده از نفس تو نه گردد باز جو ایک تیر اس ایوان کے ساتھ تنہا نہ ہوگا تب تک تیر نقض کے سامنے سے پردہ نہ بیٹھے گا تک تا نه دینه و بنده همه پر و بال اندر اینجا به بدن است محال ہ تک تیرے سب بال و پر نہ چھڑ جائیں گے تب تک اس راہ میں تیرا اڑانا محال ہے پرده نیست بر گرم دلدار تو ز خود پرده خودی بردار پر تو کا الله وبر کے چہرہ پر تو کوئی پردہ نہیں ہے مگر تو اپنے آگے سے نودی کا پردہ ادا هر کرده ادولت ازل شد یار کار او شد دلیل اندر کار جیسے ابدال دولت مل جاتی ہے اُس کا کام ہر بات میں مجرد انکسار ہوتا ہے.ال سیداں تھائے اور دیدند کہ بلایا برائے او دیدند این نوشی قسمتوں نے اس کے چھرہ کو دیکھ لیا جنہوں نے اس کی راہ میں مصیبتیں ان میں آمد ریختہ پیتے ہیں شاہ دل رکف از سراد فتاده کلاه دل ژاکت دار اس بادشاہ کے لیے توں نے انی اور قران کرد کی دو ہاتھ سے گیا اور ٹوپی سر سے اتاری کا ہا گر نمایند سر به بار گذر از شمش جان کنند زیر دریا کہ نیب کی راہ وقت نہیں پاتے تو اس کے غم میں اپنی جان زیر وزیر کر دیتے ہیں Apl

Page 345

۳۴۳ کرده بنیاد خود همه ویران همر لائیک از صدقی شان حیران انہوں نے اپنی ہستی کی بنیاد اکھیڑ دی یہاں تک کہ فرشتے بھی ان کی وفادار می پر حیرانی ہیں چوں دلے ہوئے دل رہے دارد یار ہوں یار خویش بگذارد چونکہ دل کو دل کی طرف راہ ہوتی ہے.پس یار اپنے یار کو کیونکر چھوڑ لا جرم این چنیں وفاداری جام عربات خود دانران پایے پس ضرور ایسا وفادار اس دوست کے ہاتھ سے عزت کا جام پیا ہے ہمچو دیوانہ یک جہاں خیزد تا بیک لحظه خون او ریزد ایک جہان دیوانوں کی طرح اٹھ کھڑا ہوتا ہے تاکہ وہ اسی دیر میں اس کا کام تمام کردے.لیکن آن یار خود فرود آید نا عدو را در دست بنماید لیکن وہ یار خود نازل ہوتا ہے.تا کہ دشمنوں کو دو دو ہاتھ دکھائے همچنین صادقان نشان دارند ندیاں پریشان به پیکاره اند صوفوں کے لیہی نشانات ہوتے ہیں ان کی خاطر فرشتے جنگ کرتے ہیں میں نہاں جنگ گربشر دوید سے ساو مردان راه بگویدے اگر بیشتر اس سختی جنگ کو دیکھتا تو خدا کے راستے پر چلنے والوں کا راستہ اختیار کرلیتا ہر علق سے که خیز و از سرکیں خود کو بد سرش خدائے میں پر دشمن جو عداوت کی راہ سے رہتا ہے رضا کے معنی خود اس کا سر کچل دیتا ہے پول شود بنده یا بر آن جاناں پر کابیش دو ند سلطاناں | جب بندہ اس محبوب کا دوست بن جاتا ہے تو بادشاہ اس کی رکاب کے ساتھ دوڑتے ہیں

Page 346

۳۴ سرکہ جہاں سریاب با خر است بیاره ما نقدر او شناخته است باخته جس نے بھی اپنی جان خدا کے لیے قربان کی.ہمارے خدا نے بھی اس کی قدر قریب پہنچائی ازمگان کمتر است دشمن او بد گهر کوفته زیادن او اس کا دشمن کتوں سے بھی بدتر ہے وہ دراصل خدا کی اوکھلی میں کونکا جاتا ہے بست از عادت خدا نے فلم کے کند فرق در سیعد ونیم خدائے علیم کی یہ عادت ہے کہ وہ نیک بخت اور بد بخت میں فرق کر دیتا ہے پہنچ والی ٹیم را چه نشان آنکه او دشمن امام زمان کیا تجھے خبر ہے کہ بد بخت کی کیا علامت ہے وہ امام زمال کا دشمن ہوا کرتا ہے آنکه او آمداز ندائے لیگاں پیش چشمش تخیل مغترباں جو خدائے واحد کی طرف سے لاتا ہے اس ٹیم کی نظر میں وہ مفتری لوگوں میں سے ہوتا ہے.کر نبودے شقی و کریم ہیں تو یہ کر دے گفتگوئے چنیں شقی تو بہ کردے اگر وہ شقی اور زمین کا کیڑا نہ ہوتا.تو ایسی گفتگو آنچه با من کند عنایت یار کے بغیر سے شنیدی اسے مروار مرواری وہ یار جو عنایت مجھے پار کرتا ہے اسے مردار کیا تو نے ایسی کسی اور پر بھی گر شعار تو اتقا بودے مشعل مغیب رھنما بودے اگر تقدیمی تیرا شعار ہوتا.تو غیب کی مشکل تیری رہنما ہوتی ظار بود تو صدق ہوتا ر اے سیہ دل تر بصدق چکار اتھا کی علامت صدق ہے اسے میرا دل انسان مجھے صدق سے کیا مطلب

Page 347

۳۴۵ نسیتی از خدا تو سازشناس همه برگان و هم بست احساس تو خدا کے رازوں کو نہیں پہچانتا تیری ساری بنیاد مطلق اور وہم ہے بینہ ہے آنچه گوئی و راه کیبرد خود پیش از مین گفته اند قوم میود تکبر اور انکار کی وجہ سے جوکچھ رکھتا ہے اس سے پہلے یہودیوں نے بھی یہی کہا نفس کو قربه در توخته همه ابواب آسمان بسته تیر انفس موٹا ہے اور ڈوگر بیچارہ اور آسمان کے سب دروازے تجھ پر بند ہیں ایس پر غفلت کر خوش بین کشی و از خدا هیچ که نیندیشی یہ کیا غفلت ہے کہ تو اس روش پر خوش ہے اور خدا تعالٰی سے بالکل نہیں ڈرتا بسا ہاں اسے بسار او با کرملین صواب پیش کو رال نظامی استعجاب بہت سے ساز میں ہو اسلئے صداقتیں ہیں.مگر اندھوں کے لیے وہ تعجب کا مقام میں رہ طلب کین بگریه داری تا بجوشد تر تمیم باری روند کر رستہ ڈھونڈا کہ خدا کا رحم ہوش میں آتے ایک یک شب از صدق نمره با بردار پیش آن عالم حقیقت کار رس اوراق حال خدا کے سامنے ایک رات خلوص کے ساتھ آہ و زاری کر از ادب نے براہ اشتہار دو مرد خواہ اندریں اسرار نہیں بلکہ ادب کے ساتھ پھر ان اسرار کے کھلنے کے لیے اس سے مدد مانگ ترکی ناشک خویش بیست ویش با زلب را کشانے بادل ریش را اپنے آنسوؤں کے ساتھ اپنے بستر کو ترکرا.پھر زخمی دل کے ساتھ یوں عرض کر

Page 348

کائے خدائے علیمہ راز نہاں کے مسلمت رسد ولی انسان کہ اے علیم عام پوشیدہ رانوں کے وقت تیرے علم تک انسان کا خیال کہاں پہنچ سکتا ہے وں ایک ندیده اند آن نور کال در آدم تو داشتی مستورد جب فرشتوں کو بھی وہ نور نظر نہ آیا.ہو تو نے آدم میں پوشیدہ رکھا تھا اچه چی کی دلی است چه چیز ہے تو درصد خطر ف اس دنیز تو ہم کیا ہیں اور ہمارا علم کیا چیز ہے بغیر تیرے عقل اور تیز کو بھی بے حد خطرہ ہے نا خطا کار رو کار است خطا شد به کار ما نه عجلت ما ا کار ہیں اور ہمارا کام بھی قل ہے اور مارا سب کام ہماری جلد بازی کی وجہ سے تباہ ہو گیا گر ریاست ایک سوئے تو خواند و ز تو بہتر کدام کس داند ی ہو میں یہ بات جاتا ہے تیری بات سے ہی ے دور کون تجھ سے بہتر حقیقت حال کو جانتا ہے گفته ما به بخش در چشمه گفتا تا نمیریم از خلاف د ابا تو تو ہمارے گن پخش اور ہماری آنکھیں کھوں تا کہ ہم مخالفت اور انکار کی حالت میں نہ کریں وریہ این اتلانو ما بردار که رحیمی و قادر و غفار دور نہ ہم سے اس انتبلا کو ڈور کر کہ تو رحیم قادر اور عقارا ایل اخلاص پول کنند دعا از سر صدق و ابتهال و بیکا جب اخلاص والے لوگ دعا کرتے ہیں صدق - عاجدی اور گریہ و زاری کے ساتھ شور افتد از ان در اہل سما زال اسد حکم نصرت و ایوان قداس اسے آسمان والوں ہی شور برپا ہو جاتا ہے اور وہاں سے نصرت اور پناہ کا حکم بھی جاتا ہے ورند ہے

Page 349

۳۴۷ اپس کھائی چرانے آئی اندریں بارگاو یکتائی نہیں اسے طالبہ تو کہاں ہے اور کیوں نہیں آتا م اس بارگاہ احدیث کے حضور تو دعا کن برقی و سوز وگداز تا شنود بر دلت در حق بازی کام تر صدق اور مونہ و گدانہ سے دعا کر تا کہ خدا کا دروازہ تجھے از از خودی حال خود خراب ممکن شب پری کا یہ آفتاب مکن نودی سے اپنا مال خواب ذکر تو تو چمگادڑ ہے آفتاب کا چهل رصد میجر کس بعد تمام نصرت یار را رسد هنگام کی ماجدی مد کمال کو پہنچ جاتی ہے.تو یار کی مدد وقت آجاتا ہے پس چرا انفرش نمی خواهی دور رفتی بکام گمراهی پھر تو اس کی نصرت کیوں نہیں لگتا.تو اگر راہی کے قدم کے ساتھ دور چلا گیا ہے نه زمان بینی و نه حالت قوم دل چو کوران زبان کشادہ مالهم ایک چشمت ذکبر پوشیده چه کنم تا کتابدت دیده سے دا شخص ک تیری آنکھ نمبر سے ڈھکی ہوئی ہے میں کیا کروں جو تیری آنکھیں کھلیں گر ترا در دست صدق طلب خودروی با مکن زیر کی ادب زن اگر تیرے دل میں سچی طلب ہے تو بے ادبی کی وجہ سے خود روی نوکر را در راه خدا بیجو نہ خدا کو نہ چول خدا بجائے خود آ خدا کی مراہ کا بھید خود خدا ہی سے طلب کرتی تو مدار کی طرح نہیں ہے اپنی جگہ یا

Page 350

۳۴۸ بوش داراے بشر که معقل بیشتر دارو اندر نظر هزار خطر انسان ہوش کر که انسانی عقل اپنی نظر میں ہزاروں نقائص رکھتی سر کشیدی طریق شیطانی است بر خلاف رشته انسانی است بر شیطانی طریق ہے اور انسانی فطرت کے برخلاء تنه محصلش در تو بکشاید صد فضولی یکی چه کار آید جب تک اس کا فضل تیرے لیے دروازہ نہ کھوئے تو ٹھاکر سینکڑوں فضولیاں بھی کرتا ہے سب بیکار ہیں اں خدا نے کہ وعدہ لگے داد از راه رحم ولطف هم خدائے وہ تعدا میں نے ایک تکلم کا وعدہ اپنے لطف اور پنے لطف اور رحم کی راہ سے کیا تھا بدانست از ازل که انام ماه خود گم کنند از او هام وہ ان سے یہ جانتا تھا کہ مخلوقات شک و شبہات میں پڑ کر اپنا راستہ بھول جائے گی دور نہ کا یہ مگر چه خواهد بود رہ نمائی برد راه چه سود ور پر اگر امام کا ہوگا ٹھیک رستے پر چلنے والے انسان کو راہ دکھانے کا کیا فایدہ راه گم کرده را نگر باید تا بدو راه راست نماید تحکم تو گراہ کے لیے درکار ہوتا ہے تا کہ وہ اس کو سیدھا رستہ ہیں مگر ما خودی عالم دین تو به کن از مکالمات چنین را نه ر یہ نہ کہ ہم خود دین گے.عالم ہیں.ایسی باتوں سے توبہ کور را کور کے نماید ساہ ہر کہ آگاہ از خدا آگاه ت کو انا کس طرح استند کھاسکتا ہے بھی وقت راہ ہے انا کی طرف سے آگاہ کیا گیا ہے وه دکھائے

Page 351

۳۴۹ یں نیاید بغیر دیں دارے سنگ نداند بغیر مرواری دینی بغیر کسی دنیدار کے حل نہیں ہوتا.دنیا کا کتنا تو بغیر مُردار کے کچھ نہیں جانتا سخن یار و سینه افسرده جامعه زنده است به مرده منہ پر یار کی باتیں ہیں مگر دل بجھا ہوا ہے گویا مرد سے پر زندہ کے کپڑے ہیں.گه بری رینگ ما ر فیج بلند جنبش باد خواهدش انگلند اگر تو دیت کو بہت اونچی جگہ پر بھی لے جائے تو ہوا کی ذراسی حرکت اُسے گرا دے گی خانه آنست کال نہ معمار ہے اور نہ افتد از میل دیوار ہے گھر رہی ہے جسے معمار نے جایا ہو.نہیں تو سیلاب سے دیواریں گر پڑیں گی.این زمان سہزار طوفان است خانه انر پائے بہت ویران است زمانہ تو ہزاروں طوفانوں کا زمانہ ہے اور گھر کی بنیاد کھو کھلی سے ی این مجب قوم بست ناهنجار با چنین خانه تاریخ از معمار یہ عجیب نالایق قوم ہے کہ ایسے گھر کے باوجود معمار سے لاپرنا ہے آنچه با دیں نمود قوم پلید با امامان نه کرده است بدید با جو کچھ اس ناپاک قوم نے دین کے ساتھ معام کیا وہ یزید نے اماموں کے ساتھ بھی نہیں کیا باز گوئی کہ من نے بغیر حاجت دیگرے پینے دنیم پھر بھی تو کہتا ہے کہ مجھے دین کی خاطر کسی اور انسان کی ضرورت نظر نہیں آتی یک را می شدی نقص و زیان این دوین است بلکه شین آب اسے وا شخص ہو گھاٹے اور نقصان پر خوش ہے.یہ دین دین نہیں بلکہ اس کا دشمن ہے

Page 352

۳۵۰ سیا ہے ویں ما موروت خدائے تقدیر اور نہ سکے است نام و زشت جونیر چینی تویی تو خاوند تقدیر ہی تجھے سکھاتا ہے ورنہ وہ ایک رسم ہے خام ، بو صورت اور جلیل ملات مسلے کروانے مدون و از بخاری بخار سر افزوں کے ہی اس نے تجھے سلان کیا اور صحیح بخاری نے تیرے سر کا شمار اور زیادہ کر دیا این همه استخوان بدا عانت نیست یک دوره مغود در جانت سی ہڈیاں تیری جھولی میں پڑی ہوئی ہیں اور تیری جان میں ایک ذرہ بھی مغز نہیں ہے.کورگی از باز در دولت ہو سے کہ بخواند تا بصیر کے تو تو اندھا ہے پھر بھی تیرے دل میں یہ جوس ہے کہ کوئی تجھے آنکھوں والا نہیں زیں خیال تو مردنت بہتر نہیں غذا زہر خوردنت بہتر اس خیال سے تو تیرا مر جانا اچھا ہے اور ایسی غذا سے تیرا زھر کھا لینا بہتر ہے اپنے نشتہ بصدر سجاده این چه سودات در سر افتاده ہ شخص ہو سجادہ پر بیٹھا ہوا ہے یہ کیا جنون - کیا جنون ہے جو تیرے سر میں نفس کیا ہے اید اندر قیاس رقم کیسے کہ شود کار پیل از مگے یہ بات کسی کے عقل و قسم میں بھی نہیں آ سکتی کہ ہاتھی کا کام تھی سے ہو سکتا ہے.انه خدا پول رسید بیاست چول نترسی درخت انجامت جب تجھے خدا کا پیغام پہنچ گیا تو پھر تو اپنے بڑے انجام سے کیوں نہیں ڈرین ڈرتا یس میں است الاخت اسے عمل که دلت میگر حق نہ کرو قبول سے بھتے کیا بھی غیری فراہواری ہے کہ تیرے دل نے خدا کا حکم قبول نہیں کیا ی میں اس نے مجھے مستان دکھیا.

Page 353

۳۵۱ حجت تو در میاں آرمی خبت نفس است اصل بیزاری تو نفر اولائیل پیش کرتا ہے.حق سے بیزاری کی اصل وجو تیر نے نفس کی جائت ہے.هر چی ثابت شد است از قرآن تو از و سر به هیچی اسے نادان جو بات قرآن سے ثابت ہے اے نادان تو اس سے سر پھیرتا ہے صد قتال شد عیاں ہو مر منیر از دشت این درونی یا نزدی سینکڑوں نشان چھتے ہوئے سورج کی طرح ظاہر ہوگئے لیکن تیرے نزدیک یہ جھوٹ یا فریب ہیں دیدہ آخر برائے اس باشد که بدو مرد راه دال باشند آخر سنکھیں اسی لیے ہوتی ہیں کہ اُن کی مدد سے انسان راستہ کا واقف ہو جائے وده چه این شیر هست و این دیده که برو آفتاب پوشیده ہیں.داہ دا یہ مجیب اسنکھیں ہیں.کہ اُن سے آفتاب بھی نظر نہیں آتا گر بدل با شدت خیال خُدا این چنین ناید از تو استغفال اگر تیرے دل میں خدا کا خیال ہوتا تو اتنی بے پروائی تجھ سے ظہور میں نہ آتی از اور از دل و جان طریق او ہوئی اواز سرصادقی موئے اور پوٹی د تو جان و دل کے ساتھ اس کا راستہ ڈھونڈتا اور وفاداری کے ساتھ اس کی طرف دوڑتا هر که اول بود دلداری خبرش پرسد از خبر داری جس شخص کا دل کسی معشوق سے لگ جاتا ہے وہ اس کی بغیر کسی وائف سے پوچھتا ہے گر نباشد تقائے محبوبے جدید از نزد یار مکتو ہے اور اگر محبوب کی ملاقات میسر نہیں آتی تو واہ دوست کے پاس سے خط کا طالب ہوتا ہے.

Page 354

۳۵۲ یے دل آرام نا پیدش آرام گر برویش نظر کے اکلام سے پر امام کے کام نہیں آنا بھی اس کے چہرہ پر نظر ہوتی ہے توکبھی اس کے کلام پر آنکه داری بدل محبت او نایدت صبرجر بصحت او اسے وہ شخص جودل میں اس کی محبت رکھتا ہے تجھے تو اس کے پاس بیٹھنے کے بغیر مر ہی نہیں سکتا فرقت او گر اتفاق افتد در تن و جان تو فراق افتد اگر اتفاقا کبھی اس سے بعدائی ہو جائے تو تیری جہان تیرے جسم سے جدا ہونے کی ولت از همراه کباب شنود حشمت از رفتن در آب شود تیزر اول اس کے ھجر سے کہاب ہوتا ہے اور اس کے چلے جانے سے تیری نھیں آنسویا.با ترول واک ا تر ہوں آں جمال و ال روئے ش نصیب دو چشم در کوئے م دو جن اور وہ چہرہ کسی گلی میں تیری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے دست در دانش زنی بجنون که به نادیدنت دلم مشد نوں تو دیوانہ وار تو اس کا ہی پڑا کیوں کہا ہے کہ تیرے نہ دیکھنے کی وجہ سے میرا دل نون ہوگیا میں محبت بذره امکان وانہ دل افگندہ خدائے جہاں تجھے ایک خیر مخلوق سے تو اتنی محبت ہوتی ہے لیکن اس خدا کی طرف سے تو بالکل لایا ہے.این دنا ما بذره ناچیز فارغ افتاده نه یار عربی ایک ناچیز زرہ کے ساتھ تو ایسی وفاداری لیکن اس پیارے دوست کی طرف سے تو لا پر او فرستناد بنده از بخود اتار را نه تنها از ریب و حمود تاریخا اس نے مہربانی فرما کر ایک بندہ کو بھیجا.ہا کہ تجھے شکوک اور انکار سے رہائی تجھے

Page 355

۳۵۳ - لاسهال ال قدر بار با شتابی نمود که درصد معرفت درے بک شود اور اس نے بارہا اس قدر ان دیکھائے کہ معرفت کے سینکڑوں دروازہ سے کھول ناز سرمے زنی با ہمارے سہل پنداشتی پہنیں کارے پھر بھی تو انکار سے سر ہلاتا ہے.اور تو نے یہ کام آسان سمجھ لیا ہے لا أبالى فتاده زاں یار تاریخی زنان جمال وزان گفت نه تو اس یار کی طرف سے بے پروا ہوگیا ہے اور اس حسن اور اُس گفتار کی طرف سے الار مردگان را همی کشی بکنار واز دل آرام زمره بیزار مردہ لاشوں کو تو اپنی بغل میں کھینچتا ہے اور زندہ دغیر فانی محبوب سے بیزار ہے کی شنید که قانع از بار است عشق و مهبران دو کار خواست تونے کسی کی بابت سنا ہے کہ وہ دوست سے لا پردہ پوشی اور پھر صبر یہ دو کام بہت مشکل ہیں این بود حال و طوری عاشق وار این بود قدیر دلبرا سے مراد کیا بیوی عاشق زار کا حال اور طریقہ ہوا کرتا ہے اور اسے مردار کیا دلیر کی یہی قدر بھا کرتی ہے انتقال را بود ز صدق آثار سے یہ دل ترا به عشق چه کار بود لای یه دل اشتوںمیں تصدیق کے آثار پائے جاتے ہیں نے تاریک دل انسان مجھے عشق سے کیا و سلطنت ن و تو چون سید نال کوئے پیک آن داستان خوش موئے جب اُس گلی سے تیرے پاس اس حیلی محبوب کا پیغام پر پہنچا مول این که کا فرش خانی از سیر زیر از درش رانی الدانة

Page 356

۳۵۴ صد هزاران نشان مے بینی باز منکر شوی دبے دینی تو لاکھوں خشان دیکھتا ہے.پھر بھی بے دینی کی وجہ سے تو انکار کرتا ہے نوشین را تو کالیم انکاری نہیں فضولی کئی بغداری تر اپنے تئیں عالم سمجھتا ہے شاید اسی لیے قراری سے ایسی فضول باتیں کرتا ہے ناز تو بستی ات بدر نرود این رگ شرک از تو بر نرود جب تک تیری خود می تجھہ میں سے نکلے گی تب تک یہ شرک کی رگ تجھ سے دور نہ ہوگی پائے سیمیت بلند تر نرود تا ترا درد دل بسر شود تهادور تیری کوشش میں برکت دو پڑے گی.جب تک تیرے دل کا دھواں سترتک نہ پیچھے باید پیدا شود مدال هنگام که تو گردی نهال از خود تمام دوست اس وقت ظاہر ہو گا.جب تو اپنی ہستی سے پورے طور پر علیحدہ ہو جائے گا تا ده سوزی ( سوز و غم فرهی تا نه میری ز موت ہم نہ رہی تو تم سے آزاد نہ ہو گا جب تک سوز غم سے نہ ملے گا اور موت سے آزاد نہ ہو گا جب ایک فنا نہ لگا ست آل مزه ملانی بین این نیست ارتش اندر دلیے بنا کر سوخت دور کیسی بیہودہ جان اور جہان ہے جو نہیں جاتا.ایسے دل کو آگ لگاد سے ہو عشق میں کیا ہوں نہ ہوں کلیه تصمیم خود بکن برباد چل نے گردو از خدا آباد ان جم اینجوری که بر باد رہے اگر وہ خدا کے عشق سے آباد نہیں پاتے خود را جدا کن ادرین خویش چون نگیرد و و صداقت پیش اپنے پیر کے جسم سے کالے کر میدا گرد ہے.اگر وہ صداقت کا راستہ اختیار نہیں کرتا

Page 357

آفرین محمدا پر ان جانے کہ زنود شد برائے جانا نے خدا کی طرف سے اُس شخص پر آفرین ہو.جو اپنے محبوب کے لیے نفسانیت سے الگ ہو گیا منزل یار خویش کرد بدل واز ہوا بہا رمید صد منزل میں نے اپنے دوست کا ٹھکان اپنے دل میں بالیاں اور ہوا و ہوس سے سینکڑوں منزل بدور بھاگ گیا از خودی در شد و خدا را یافت گم شد و دست دهنار یافت | گیر شد وہ خودی سے دور ہوا اور خدا کو پا لیا.وہ اتنا ہو گیا اور رہنما کے ہاتھ کہ حاصل کر لیا اینکه دیوانہ پئے اموال ده که در کار دیں جنہیں اعمال در سے وہ شخص کہ تو دولت کی خاطر دیوانہ ہورہا ہے کیا خوب ! دین کے معامہ میں اپنی درگذشت وقت همیش است و موسم شادی نوچه در سوگ دریا تم افتادی یہ تو ملیش کا وقت اور خوشی کا موسم ہے.تو کسی سوگ اور ماتم میں پڑا ہوا ہے کا از رسید از عنایت رسید رهبر دیں پر مرد دین باش و چون زنان نشین تیرے پاس تو خدا کی طرف سے دین کا ہر پہنچ گیا اب بھی مردان دین میں سے ہو جا دو عورتوں کی طرح منتد خیزد از بهر بار کا رے کن ایک نظر سوئے ہیں بہارے کن | اٹھ اور دوست کے لیے کام کر.اور اس باغ و بہار کی طرف ایک نظر ڈال رکی ور نه مرگ است اثر دائے دمال زود مے گیردت مشو نادال ور موت ایک مصیبت ناک اثر دیا ہے جو مجھے جلدی ہی کپڑ لے گا.نادان نہ بن ہیں مانگتے زیار آورد در دسے موسم بہار آورد دمے موسم بہا دی وہ اور باد رات کے جان سے ایسی خوشمناتی ہے گیا وہ دم بھر میں بہار کا موسم نے آئی ہے

Page 358

۳۵۶ از تو خنداں پر خود پسندیدی من ندانم چه در خزاں دیدی گر کرتے اپنے لیے خواب کو پسند کیا ہے میں نہیں جانتا کہ نہ ان میں تو نے کیا فائدہ دیکھا ن زنده کردن آمد یار تو هم از دست خود شدی شود تو هم از یار تو مجھے زندہ کرنے آیا تھا.گر تو اپنے ہاتھوں ہی مردار بن رہا ہے.قته با پیش سے کنی ز خلال کائیں کرامات ہائے اہل کمال گمراہی کی وجہ سے تو تصوں کو پیش کرتا ہے کہ یہ ہیں اہل کمال کی کرابات گر دریں قصہ با اثر بودے دلت اور میں دور تر بودے اگر ان قصوں میں کوئی اثر ہوتا.تو تیرا دل ناپاکی سے بہت دور قصه را گر بیاں کنی تو هزار کے روداد توخیت دل زناد اگر تو ہزاروں قصے بھی بیان کرتا ہے تب بھی تیرے دل کی خباثت کہاں دور ہو سکتی ہے میں تخصص اینکی سرده شاید صد ہزارمان بگو چی کار آید قصوں سے کوئی راستہ نہیں کھلتا.لاکھوں قصے بیان کرتا پھروہ کس کام کے ہیں نشیں مدتے باہل یقیں نا دھندت دو دیده حتی ہیں کچھ مت توابل یقین کی صحبت میں رہتا کہ تجھے تقی شناس آنکھیں میں اندروان او بست ویو خصال به زباں قصہ جاتے ان ابدال تیرا باطن تو شیطان سیرت ہے.اور زبان پر ابدالوں کے تھے ہیں سفته چهل روشن مال منی است از ما دار شیر بکشه و شب پاری بگذار تدا کی خانہ سے جب ولی روشن ہے تو کو بھی آنکھیں کھول اور چھلکا در کنا چھوڑ دے واحد سے

Page 359

۳۵۷ اور شور و مرشکے نہ گیرد راه تو ز دا های نویش دیده بخواه ان اور سورج کے بارے میں کسی کو نہیں ما را از روی ادعا ہے اپ اپنے در سے بصیرت اس خدا نانگ میستی طالب حقیقت راز این بین مشکل است اسے ناسان اے نا اہل.ساری مشکل یہی ہے کہ جو حقیقت راز کا طالب نہیں این مگر من محافظ دنیم خود شفا بخش دین میکنم یہ نہ کہو کہ میں دین کا محافظ ہوں.اور میں خود ہی دین مسکین کا طبیب بھی ہوں در ولت صد ہزار بیماری اچہ ادیں دل تو قصے داری تیرے دل میں تو ہزاروں بیماریاں ہیں.پھر تو ایسے دل سے کیا امید رکھتا ہے ید باد بخواه از دا داده تا خس و خایه تو برد یکبار بادی خدا سے آندھی طلب کر تاکہ وہ تیرا سب کوڑا کرکٹ اُڑا کر لے جائے جز خدا راه چاره سازی نیست بادکن دیدہ جائے بازی نیست خدا کے سوا طرح کا اور کوئی رستہ نہیں.آنکھیں کھول.یہ کھیل کی جگہ نہیں ہے خبرے میقت نہ جانانہ سے زنی ہرزہ گام کو رانہ سے ترقی تجھے محبوب کی کچھ بھی خبر نہیں.یونی اندھا دھند قدم اٹھائے چلا جا رہا ہے.همچو کرمی بجا کلامیه مدا گروہ بستی بغیر جام فدا خدا کے کلام کے بغیر تو ایک کیڑے کی طرح ہے اور خدا کے حامیم وصل کے سو اکثر مودہ ہے وں مینے کہ بخشدت دادار چول خیال خودت نهد بکنار مد ہو خدا تجھے بخشا ہے اُسے تیرا اپنا خیال کس طرح پا سکتا ده ین به خدا

Page 360

۳۵۸ سنة ہے اس کے ان دہانِ دلدارے قی نکتہ ہائے نشنید و اسرارے یک وہ شخص تر وہ ہے جو اپنے معشوق کے منہ سے نکتے اور اسرار مل دگر از خیال خود یگان پیس کجا باشد این کیس کیساں ا ہر شخص وہ ہے جواپنے خیالت کی یاد پر اور ان میں ہوا ہے یا کس را دید در برابر ہوسکے ہیں ذوق ایں کے پر تو نے دائی ہرزہ موعود کنی بنادانی جو کہ تو اس شراب کا مزا نہیں جانتا.اس لیے نادانی سے فضول ہونکتا رہتا ہے ا شد دلال اس خدا دال که خود و به آواز نه که از و همه کس نماید باز تو خدا اُسے سمجھے جو خود آواز دیتا ہے نہ کہ اسے جو کسی کے وہم کا نتیجہ ہے واجب آمد ازیں بھر دوراں کہ محکم کند خدائے بیگاں اس دلیل سے یہ ثابت ہوا کہ ہر زمانہ نہیں خدائے واحد کلام کیا کرتا ہے ور در نه دین است محض افسانہ نہیں دیں ز صدق بیگانه ند نہ دین صرف ایک کہانی بن جاتا ہے ایسا دین بھائی سے بیگانہ ہے آن بز شیطان بودند از حق دیں کہ نہ دارد دوام وحی نہیں وہ دین خدا کی رات سے میں یکا شیطان کی طرف سے ہے جو دانی یقینی ہی اپنے اندر نہ رکھا ہو دیں اماں دی بود که وحی خدا نشود زد به هیچ وقت مبدا دین دین تو دہی دین ہوتا ہے جس سے خدا کی وحی کسی وقت بھی جدا نہ ہو وی دین خداست چون توام در ایک پو رشد دگر شود هم میر ھی اور دین خدام نکن دونوں جڑواں پیروں میں نہیں اگر ایک بہاتی رہے گی یہ دوسری بھی گم ہو جائے گی

Page 361

۲۵۹ ہے تھیں جوں نجات یا بد خلق یگان رو بیتی بتا د ختی خلوقات تعین کے بغیر ہو کر خات پاسکتی ہے.لازمی ہے کہ اس صورت میں خلقت منی سے منہ پھیرے ترین کات تھی.بے خدا ہوں میں بدل آید گفت گو یا تھا می باید تھا بغیر خدا کے دل میں یقین کس طرح پیدا ہو اس کے لیے یا تو کلام درکار ہے یا دیدار اسے کہ مر دوره راه مظنونی تو نہ عاقل که سخت مجنونی معروہ ے وہ شخص کہ تو ظن کے راستہ پر مغور ہے.تو عقل مند نہیں بلکہ سخت دیوانہ ہے.النفس اماره بندۂ صد آن اجرہ یقیں کے گرد داز ے باز بازل وہ نفس اتارہ یو سینکڑوں حرص، ہوا کا نام ہے بغیرا یقین کے اس سے کیونکر باز رہ سکتا ہے.چون به بینی به بیشه شیرین کنی در گریختن ویری جب تو کسی جنگل میں شیر کو دیکھ لیتا ہے تو وہاں سے بھاگنے میں دیر نہیں کرتا همچنین پیش تو پو گرگ آید دل تپد هیت سترگ آید اسی طرح جب تیرے ساتے بھیڑیا آجاتاہے تو ترا دل تڑپنے لگتا ہے اور مجھے بہت ڈر لگتا ہے.پس ہیں دلائے نہیں کہ تما تا بست بر کرد گا رو روز جوا پس یقین کے اس دعوٹی کے ساتھ ہو تجھے خدا تعالئے اور روزہ جوڑا کے متعلق ہے از چال سے کئی گناہ بورگ چه خدا نیست نزد تو چول گرگ پھر کس طرح گناہ کہہ کرتا ہے.کیا خدا تیرے نزدیک ایک بھیڑنے جیسا بھی نہیں.برند انیس یقین زنار زمین پر گرگان خوش آیت مردم تجھے ہر گو خدا پر یقین نہیں اسی لیے بھیڑوں کی طرح تجھے مُردار ہی پسند آتا ہے

Page 362

ان بیتنے کہ ماتھے زخطاست اگر بخواهی رهش بگیمر هاست وہ یقین ہو گناہ سے بچاتا ہے اگر تو چاہیے تو میں تجھ سے اس کی حقیقت بیان کردوں ھم کلام تیدا بقطع و یقیں پاک دیر تزن دخل ویو میں اس همان چار عید ماری ہے وہ منہ کا قطعی اور یقینی کلام ہے.جو شیطان یعنی کے پھل سے پاک اور بالاتر ہو پس همان چاره خطا کاریست راه دیگر طریق مکاریست پس وہی کلام گناہ کا علاج ہے.کوئی اور طریقہ کس شنیدی که با یقین بلاک باز در بیشه رود بیباک یا تو نے کبھی تا کہ اگ بلا ہوجانے کا یقین ہونے پر بھی کوئی ڈر ہو کر گل میں جاتا ہے پس چه مکن که با یقین خدا باز گردد دیے بگرد خطا پس کیوں کر مکن ہے کہ خدا پر یقینی ہوکر پھر بھی کوئی مل گناہ میں منہمک رہتا ہو مل نگ معین را نین نیادی نام دین شدی با جداشت به نام تو نے شکوک وشبہات کا نام یقین رکھ چھوڑا ہے اس لیے تو گناہوں کی وجہ سے ہر نام ہے ان کے شوئے خود نظر انداز از سر اور دیدہ ملائی باز دیا اپنی طرف دیکھ اور نور سے آنکھیں کھول تا بدانی که کور و مجولی سخت محروم مانده زیبی خوبی : اور الجھے معلوم ہو کہ تو اٹھا اور تجوب ہے اور یقین کی خوبی سے بالکل محروم میجر فره نیست در تو از انوار شب در گور را باد چه کارا در تو تجھ میں ذرا بھی ٹور نہیں ہے.انغیری اگلی رات کو چاند سے کیا حاصلہ

Page 363

این جا نے عجیب فول ست کاندوم دنیا کان و صد نیات مکالمت است ایک کاتدا تیرے دل میں ہے کہ اس سے قسم قسم کی تاریک روئیدگی پیدا ہو گئی ہے.شکست دشت و کیر دھواں ہوں بجھا بی بی غفلت اسے نادران کیوں جایی زیرنظامی تیری رات ہے اور جنگل اور دورہ حروں کا خوف اسے تا دان تو کیونکر تو اس شغل میں پڑا ہے تیز و بر حال خود نگاه بکن خطرده به مین و آه یکن اُٹھا اور اپنے حال پر نظر ڈال.راستے کے خطرہ کو دیکھ اور افسوس کر نیز و از نفس خود سر سی نشان ) که چه خواهد مراتب عرفان اٹھ اور اپنے نفس سے ہی دریافت کرلے کہ وہ معرفت کے کیسے کیسے مارچ ناگتا ہے.اتیں ندامت و آب حیات یا پسندید ورطۂ شمار آیا اس کے نزدیک یقین ہی آپ حیات ہے یا وہ شکوک وشبہات کے بھنور کو پسند کرتا ہے گردات سے پہد برائے یقیں نجل چول کرو آن کریم میں تند چل ایران یقین کے لیے دوائی تیار ہے تو پھر اس کریم بود دگار خانے مجھ سے ملک کیوں کر رکھا ہے هرچه در شرارت او در خفته است بازان مردم جهان گریخته است جو چیز خود اس نے تیری فطرت میں ڈال دی ہے پھر اس ارادہ سے اس نے گرین کہوں کیا این میان شد که آن کریم و تیم دارد مرتضائے این تقویم تی.اس بات سے ظاہر ہے کہ اس کریم مریم منا نے انسانی فطرت کا ہر تقاضا پیدا کر دیا ہے اونان و قصر همت و گشت ناقل برای نفرات او ز أدر پھر انسان ہی اپنی بہت کی کمی سے نفاس کے عطا کر وہ نور نظرت سے فاضل ہو گیا ہے

Page 364

۳۲ کو یقین نیست خدایش انسان میں چه ابعث کرم پیش هر آن ان کی ایم بی بی کے لیے نہیں ہے کیا بات ہے کہ وہ ہر گھڑی اسی کی روش میں رہتا ہے چه در فطرت بشر مکتوم چون بماند بشر ازو محروم جو کچھ انسان کی فطرت میں مخفی ہے انسان اس سے کسی طرح محروم رہ سکتا ہے رفین است چون روال هردم ق تا رسانید تا یقین اتم جب ہر وقت فیضان السی کا سمند ر جاری ہے تا کہ تھا تجھے کامل یقین تک پہنچائے پس اگر مالتی مظنونی تو نہ عاقل که سخت مجنونی پر بھی اگر تو علی پر قانع ہے تو تو عقلمند نہیں بلکہ سخت دیوانہ ہے دل بید از برائے رفع حجاب جز ملے کہاں شہد است مچھر کلاب نبہداز ول تو چاہوں کے دور کرنے کے لیے بیقرار رہتا ہے سوائے ایسے دل کے جو کتوں کی مانند ہوگیا ہے.الا به من گفت خدا خیر و در نفس چو تعطش با کیا خدا نے انکا تبصرون نہیں فرمایا.اٹھے اور اپنے اندر پیاس کو تلاش کر همت دول بدار چون دوتان رو بجو یار را چنچو مجنونان ولیل لوگوں کی طرح ہمت پست نہ رکھا جا اور خدا کو دیوانوں کی طرح ڈھونڈ ر کر ہو یا ئے اوست یافته است نافت آن شود که سرنتافته است جو اس کا طالب ہے اُس نے اُسے پا لیا وہ منہ نورانی ہو گیا میں نے اس سے سر نہ پھیلا آخرین خدا براں مردے کو برین در شد است چون گردے خدا کی طرف سے اُس جوانمرد پیر آفرینی ہو.جو اس دروازہ پر خاک کی طرح آپڑا ے میں کیا تم فری میں کرو گے ؟

Page 365

۳۹۳ از پینے وصل ہل مین پاک اوفتاده سر نیاز بخاک آن اس پاک نہین کے میل کی خاطر وہ گرا اور عاجوسی سے اپنا سر خاک پر رکھ دیا هر زمان با خدا ئے کیمیا کے بر زمین و بر آسماں جائے وقت ضائے واحد کے ساتھ زمین اور آسمان پر قرار پانا ذره ذره شهدا شده نہ زمیں دل پریدہ بوئے عرش بریں اس کا ختہ خرہ زمین سے بے تعلق ہو گیا اور اس کا دل عرش بریں کی جانب فوٹو گیا بر روح او تجلیات خدا در دلش جلوه گاه ذات خدا در اُس کے چہرہ پر خدا کی تھیلی ہے اور اس کا دل ذات باری کا جلوہ گاہ ہے.این همه حالت از خدا آید چون یقین از کلامش افزاید از ی سی الت خدا کی مہربانی سے ہی آتی ہے جب کلام الہی کی وجہ سے بندہ کالینین زیادہ ہو جاتا ہے ہی جب تو نہ فہمی ہنوز این سخنم در دولت چون فروشوم چه کنم در گہ ابھی میری بات کو میں سمجھتا ہیں تیرے دل میں کیونکر گھس جاؤں ؟ بتا کیا کروں اسے دریا کہ دل نورد گداخت دور و ما را مخاطبی نه شناخت افسوس کہ ہمارا دل درد کے ارے گوانہ ہوگیا.مگر ہمارے درد کو مخاطب نے نہ پہچانا اسے خود کوئے یار زود بر آن که دل آدرو از شب یلدا سے ایک کے چہرہ کے سورج جلدی باہر کی کہ میری بات کی وجہ سے کہا ر دل آزردہ ہوگیا ہے عمر ما هم رسید تا بکتار بکارم در آئی.اسے دلدار ہماری عمر بھی ختم ہونے کو آگئی.اسے دلدار میری گود میں آجار

Page 366

نوزد ۳۹۴ یکر تو طالب خدا ہستی اس تھیں جو کہ بخشدت مستی که سے وہ شخص کہ جو خدا کا طالب ہے تو ایسا تھیں تلاش کر کہ تجھے سرشار کر دے کی میتیں جو کہ سیل تو گردد همه در یاد میل تو گرید اور بار یقین ڈھونٹ میرے لیے سیلاب بن جائے اور تیری ساری محبت خدا کے لیے ہی ہو جائے لیے اں تھیں جو کہ هرچه غیر خدا همه سوزد وہ یقین ڈھونڈا جو ایسی آگ جلاتے ہو کہ مر ا ا الا اللہ کو بھسم کو بجھانے ، اد یقین ست زهد و عرفان هم گفتیت آشکار و پنهان همر ین ہی کی بدولت اور یرقان بھی حاصل ہوتا ہے یہ بت میں نے تجھ سے ظاہر ابھی کہ دی اور مخفی بھی جود نھیں دین تو یوں بردارے سر میم از کبرو دل ریا کارے بغیر یقین کے تیرا دینی مردار کی طرح ہے سر تیمبر سے بھرا ہوا اور دل دیا میں بند 2 بے یقینی نفس گرورت ہونگے جنیدش نزد پر فسا در گے بغیر یقینی کے تیر نفس کتے کی طرح ہوجاتا ہے.پر فساد کے وقت اُس کی رگ حرکت میں آجاتی ہے.دورانه نگار خواهد ماند ہر شخص محبوب سے دور رہے گا.وہ ہمیشہ نفس دنی کا شکار رہے گا تل کرنے سے دیدار است ایک ال خود شکل این کار است اگر تجھے دیدار کی خواہش ہے تو پاک دل ہو جا.یہ بات مشکل نہیں ہے این مراد از خرد چھ سے ہوئی وحی می شوید از سیر ہوئی سیررونی تو اس مراد کو عقل کے زور سے کیا ڈھونڈتا ہے.خدا کی وجھی بھی منہ کی کالک کو دھو سکتی ہے.

Page 367

ہیں خورد جلد خلق مے دارند باز کم کن کر چوں تو بسیار اند معقل توسارے جہان کے پاس ہے اس پر خون گرگوری تیرے سے تیرے پڑے پھرتے ہیں کیونکہ یہ ور دل کام دلدار است هرچه خیرش کنند به کار است چارو دول کا علاج تو دلدار کا کام ہے اس کے سوا جو علاج بھی لوگ تجویز کریں وہ فضول ہے زهر فرقت چشی و نا کامی باز منکر به وحی و الهامی.تو جدائی کا دور چکھ رہا ہے اور نامراد ہے گر پھر بھی وحی و الہام سے منکر ہے جان تو بر لب از خوردن آب باز از آب زندگی روتاب | پانی نہ پینے سے تو جہاں بلب ہو رہا ہے.پھر بھی آپ حیات سے مرد گرمان ہے دار نے ہر تنکے که در دام است آن بدار الشفاه وحی خداست ر اس شک کا علاج ہو دلوں میں پیدا ہو وہ خدا کی وحی کے شفا خانہ میں ہے هست بر عقل منقت الهام که از و بخت هر تصویر نام | عقل پر السلام کا احسان ہے کہ اس کی برکت سے ہر کمزور خیال پختہ ہو جاتا ہے.آن گمان برد و این نمود فرانه الان نهال گفت این شود آن بازار ان خود نیست این کیف بشهر آن طمع داد و این بجا آورد 127 اس نے گایا اور اس نے ہاتھ میں دیا.اس نے امید دلائی اور اس نے پوری کردی آنکه شکست بر شت دل ما است و جی کو اتنے نے همتا وہ چیز نہیں تھے ہمارے دل کے ہر یت کو ہی توڑ دیلدہ خدائے لاثانی کی رہی ہی تو ہے دل ہریت

Page 368

آنکه ما را شرخ نگار نمود بست امام اس خدائے دود وہ چھرا جس نے ہمیں معشوق کا چہرہ دکھایا.وہ خدائے دربان کا الہام ہی تو ہے اگه داد از این دل جائے بہت گفتار آن دل آرا ہے وہ پھر میں نے دلی یقین کا جام پلایا وہ اس معشوق کی گفتار ہی تو ہے حصیل دلدار و مستی از جامش همه حاصل شده و الهامش صوب کا وصل اور اس کے جام شراب کی مستی.سب اُس کے المام مجھ سے حاصل ہوئی ایسے بریده امید باز خدا توبه کن از فساد خود بازه آ سے وہ شخص میں نے اپنی امید میں خدا سے توڑتی ہیں تو یہ کر اور اپنے اس فساد سے باز آجا دے چند است آخرش کار با خداوند است با اس ذلیل دنیا کا کا میں تو تھوڑی سی دیر کی چیز ہے آخر کار خدا سے ہی واسطہ پڑتا ہے ترک کن کین و کبرو تاز و دلال تا نه کارت کنند بیوٹی ضلال تانه دشمنی یکبر اور ناز نخرہ کو ترک کردے.تاکہ تیرا خاتمہ گرا ہی پر نہ ہو چول ازین دام گر بند ی بار باز نائی دورین بلاد و دیار جب توان شکار گاہ سےاپنا بوریا بستر باندہ لے گا تو پھر تو ان سکوں اور شہروں میں واپس نہیں آئے گا.اسے شہر عظیم اسے نہیں بے خبر بخورہ غیر دیں کہ نجانت معلق است بدیں ارے دین سے بے خبر انسان.دین کا غم کھا.کیونکہ میری نجات دہی سے ہی وابستہ ہے.این تقاتل مکن از ی غیر خویش که تا کار مشکل است به بیش دیکھا وہ اس غم نے غفلت کرے اگر تجھے مشکل کام در پیش ہے کہ 1

Page 369

دل دیں خدو نثر نگار یکن اول چه جان نیز علم نثار یکن اس درد دغم سے اپنے دل کو زخمی کر دل تو کیا اپنی جان بھی قربان کر دے است کارت همه بیل بکذات چهل صبوری کنی از و هیهات تجھے تو ایسی خدائے بیگانہ سے ہی کام پہلے گا.افسوس پھر تو اس خدا سے کیونکر مبر رکھا ہے بخت گردد چو زوبگردی باز دولت آید ز آمدن به نیاز جب تو خدا سے رنگائی کرنا تیری قیمت بڑھائے گی اور عاجزی کے ساتھ اس کی طرف آنے میں دولت لے گی ایسے ہیں جانے ہو کر وہ دراز ہیں ہوس با چہ انبیائی باد بن اسے وہ شخص جس نے خواہشوں کی رسی لمبی کر دی ہے تو ان لانچوں سے کیوں باز نہیں آتا دولت مرد میدم بزوال تو پریشان بیکر دولت و مال کم عمر کی دولت و سردم کمی پر ہے اور تو دور و بال کی فکر میں پریشان ہو رہا ہے خویش و قوم و قبیله بروز درعا تو بریدہ برائے شمال به خدا شتہ دار قوم اور تنبیہ سب دھوکے باز ہیں میں تونے ان کی خاطر خدا سے قطع تعین کر لیا ہے این همه به این نت آهنگ که بصلوت گشتند گاه به جنگ | ابخشیت ای به الہ کر کے ب کا ارادہ تیر سے قتل کرنے کا ہے کبھی یہ صلح کر کے مجھے قتل کرتے ہیں کبھی سینگ نیست آخرین خدا کارت نہ تو یار کسے نہ کس پارت اسی خدا سے تیرا واسطہ پڑے گا.نہ تو تو کسی کا دوست ہے نہ کوئی تیرا دوست هر که دارد یکے دلآرامے جن پر ملش نیا بد آرامے جو شخص ایک معشوق رکھتا ہے اُسے بغیر اُس کے وصل کے آرام نہیں اوسم

Page 370

تاد جید صبوریش تاید فروش نیل عشق برباید اور جب تک اُسے نہیں دیکھ لیتا اسے مہر نہیں آتا.عشق کا سیلاب اُسے بہائے لیے جاتا در دل عاشقان قرار کیا تو یہ کردان پور نے یاد کیا تو یہ فروش نے یاد کیا عاشقوں کے دل کو کہاں قرار ہے دوست کے منہ سے رو گردانی کسی طرح مکن ری جاناں گوش خاطر شاں مست رازے کو گفتنش نتواں تجوب کے حسن نے اُن کے دل کے کانوں میں وہ راز ناوه راز پھونک دیا ہے یا ہے جس کا اظہار نا ممکن.کا میا ہاں وہیں جہاں ناکام نیز کال دور تر پریده نوام یہ لوگ کامیاب ہیں گر اس جہان سے مراد یہ لوگ عقلمند ہیں جو جاہل سے اڑ کر دور پہلے کئے ہیں.از خورد و نقش خود خلاص شده سبط فیض نور خاص شده وہ اپنی خود کی اور نفسانیت سے آزاد ہو گئے اور نزار الی کے بیان کے نزول کی جگہ بن گئے نے ور خداد در خویش دل بسته باطن از غیر یار تنگ انھوں نے اپنے خدا سے دل لگا لیا.اور اللہ سے اپنا دل توڑ لیا پاک اند وخل غیر منزل دل یاد کرده هیجان و دل منزل تعمیر کے دل سے ان کے مال کا نشاد پاک ہے اور دوست نے ان کے جان دول میں گھرتا لیا ہے.ریده بریده شد آنگلی یہ شان ہوئے دلبر دور اور سینہ شال کا شیشہ کا چودہ ہوگیا.دلبر کی تو خبر ان کے بیتے میں سے جھک رہی ہے.ستی بشست جلو و بار سرزد آخر ز جیپ دل دلدار کے نقش ہستی کرد ھونا نا اور ان کے دل کے گریبان سے یار نمودار ہو گیا

Page 371

تانیان دریچه از خدائے وحید اک در نگین بر حجم ربت مجید دہ فانی میں گرندائے واحد سے بھرے ہوئے وہ پاک ہیں اور خدائے مجید کے رنگ میں رنگیں آن خدا دیگرو دگر انسان لیکن اینیان درو شدند ناں خدا کی ذات علیحدہ ہے اور انسان کی علیحدہ گھر یہ لوگ تو گویا خدا کے اندر چھپ گئے ہیں.نے نہ سر پوش نے نو با خبرے اور سبر داستان بخاک سرے نہ سر کا ہوش در پنیر کی خبر محبوب کے خیال میں ان کا سر خاک پر ہے ر کسے رانجو دسرو کار کار دلدادگاں بدلدارے ہر شخص اپنے کام سے کام رکھتا ہے، مگر عاشقوں کا کام صرف محجوب کے ساتھ ہے.عالم دیگر است عالم نشان دور از غیر ق معالم شان ان کا جہان ایک اور ہی جہان ہے اور اُن کا قائم غیر اللہ سے دُور ہے خفته اند و بچشیم تو بیدار تحجزه خدا کس نه محرم اسرار ودہ سوتے ہوئے ہیں اگرہم تیری نظرمیں بیدار ہی خدا کے سوا کوئی ان کا محرم اسرار نہیں ہے فارغال از نوشت و تخمیس نے زید مے خبر نه از نغرب قدمت اور تخمینی کے خیال سے بے پروا ہیں.اور انہیں تعریف کی خیر ہے نہ لعنت هر که با ذات او میرے دار و پشت بر روئے دیگر سے وارد جو شخص خدا کی ذات سے تعلق رکھتا ہے وہ دوروں کی طرف سے پیٹھ پھیر لیتا.هر که گیرده رش بصدق و حضور از در و یاسم او پیار و نور ہر شخص اس کے درماندہ کو صدق اور اخلاص سے اختیار کرتا ہے اس کے دورانہ اور چہیتے اور رنے لگتا ہے.

Page 372

نور تاباں پوهه نه پیشانی پر همه رو ز عشق ربانی جوس کی پیشانی سے چاند کی طرح نور چمکتا ہے اور عشق الہی سے سارا چہرہ روشن ہو جاتا ہے.عشق ای یار متدها گشته دل به غیر خدا مجدا گشته تا اس دوست کا عشق اس کا مدعا ہی گیا ہے اور غیر اللہ سے اس کا دلی جدا ہو گیا ہے.طب او تریک با بال مکند کس بکار رهش زبان مکند خدا کا لطف بیش اپنے طبوں کے شامل حال رہتا ہے اس کا انہیں کی انتہا نہیں اٹھاتا هر که اس در گرفت کارش شد صد امید سے بروزگارش شد جس نے دو دروازه اختیار کیا اس کام بن گی اور اسکے بار بار کی کامیابی پی یو لوی ام ایک بندہ نہیں تھے مثلی اس داستان کجا دیدی پس چه اهجر او پسندیدی چرا لے اس محبوب کی طرح کا کوئی اور محبوب کہانی دیکھا ہے پھر کیوں اُس کی ہوائی کو پسند کر لیا ه که تو زنده تر رخش گیری این نباشند که پیش ازاں میری تر ے انت بہتر ہے کہ فورا تو اس کا راستہ اختیار کرے.ایسا نہ ہو کہ اس سے پہلے ہی مرجائے عمر اول ہیں کجا رفته است رفت و بیگرز تو چهار رفته است اپنی پہلی عمر کو دیکھے کہ کدھر چلی گئی.وہ توضا اور کوئی گاری کیا ہے یا اس سے کہاکہ ہو گیا باره عمر رفت در خودی پاره را بسر کشی بردی عمر کا ایک حقہ تو بچھ میں پہلا گیا.اور ایک حصہ عمر کا گر نے سرکشی میں گزارا تازه رفت دو باند پس خورده دشمنان شاد و یار آزرده چھا حقہ تو گیا.اب بچا کھچا رہ گیا ہے.ارشمی نوش ہیں اور سی خوش ہیں اور دوست ناراض

Page 373

اس سے بشنو از وضع مالمیر گذران جوان کنند اور نسوان حال بیاں اس جہانی نانی کی حالت پر کان رکھ کس طرح وہ زبان حال سے بیان کر رہا ہے.کہ میں جاں پا کے وفا کند نه کند صبرنا مجدا نہ کند دقا کہ یہ دنیا کسی سے دعائیں کرتی اور میر نبیل کرتی جب جنگ اسے اپنے سے بعد نہیں کرتی گر بود گوش بشنوی صد آه از دل مرده درون تباه اگر تیرے کان ہوں تو تو انہیں سنے.خود اپنے مردہ اور تباہ حال دل سے که چرا رو باختم به خدا دل نهادم در آنچه گشت جدا میں نے خدا سے کیوں منہ پھیرا.اور ایسی چیز سے کیوں دل لگایا جو چھلا ہوگئی پچھنیں اتے ترا در پیش گور آواز با دید چول خویش اسی طرح مجھے بھی ایک ایسی گھڑی پیش آنے والی ہے.قبر مجھے اپنے نویز دل کی طرح جارہی ہے یادگن وقت کوچ و ترک جهان جان باب خانه میپرز شور و نقال کے دو تو دنیا کے چھوڑنے کی گھڑی کی ای را که توان و نگار گرمی اور ان کا شو بر پایگا آه زن بنالد بدیدۂ خوں بار میرے گریڈ انٹریس دیوار تیری بیوی خون کے آنسوؤں سے روتی ہوئی دو بیٹا دیوار کے پیچھے گریہ و تداری کر رہا ہوگا دخترے سریر مینا اشک روال همه خویشان شده آن بیجان چند لڑکی مجھے سر آنسو بہائی ہوگی.اور سب رشتہ دار مردود کی مانند ہوں گے ناسان با نگ آمد از سر درد که فلان میں سرائے ملت کرد که یکدم یه و یہ یہ درد ناک آواز آئے گی کہ فلاں شخص ہیں دنیا سے گذر گیا

Page 374

.چند فرزند را گذاشت تیم بیوه بیچاره مانده با صد بیم چند پول کو نیم چھوڑ گیا.اور مہاری بیوہ سینکڑوں دکھ اٹھانے کے لیے اگٹھی این سال است میش دنیا را گرسنه مانی بپرس دانا مارا انیا کی زندگی کا یہ انجام ہے.اگر تجھے خبر نہیں ترکسی عقلیہ سے ہی پوچھ لے بر سر گور پائے گشت اسے نام ہوش کن تا نه بد شود انجام سے نادان تیرا قدم قبر کے اوپر رکھا ہوا ہے.ہوش کر کہ تیرا انجام میاں نہ ہو ای جهان است مثل مروارے مروان چون سگے طلب گارے یہ جان مردار کی طرح ہے.اور ہر جانب اس کے طالب کتوں کی طرح کھڑے ہیں ریت بانکی که دست نہیں مردار خاک شد تا مگر شود خوش یار داشتی آزاد ہوگیا میں نے اس مار ے بائی پائی اوروہ ناک ہوگیا تاکہ درست راضی ہوجائے تلف او ترک طالبان نکند کسی بکار مش زبان نه کند خدا کا لطف اپنے طالبوں کے شاہی حال رہتا ہے اس کی راہ میں کوئی بھی نقصان نہیں اٹھاتا هر کاز نو شد از دوش خواند نکته است گر کسی داند ان ہی سے مار ہوگیا یا اسے اپنے با لایا ہے یہ کیا اور گنے کے قابل ہے اگرسی کی کچھ میں جائے ونزول المسیح صفحه ۱۰ تا ۱۰۰ مجبور ۱۱۹۰۹ رانی مقیم هرچیز که آن می کار بود خود فرو کردیم و نانی کے انصاری وری و کار تھی ہم نے آپ کی جیت کو پڑ جالب دورنہ دراصل وہ کم تھی انی ها دارد در ده ارسال سید الاوران دسمبر ۱۹۰۹ء)

Page 375

تر خواهی نسب یا خود مردہ سے ان که بر ما نیست جز بیشیار کردن شپ خواہ تو سواری یاری یا ہم پر سوائے بہشیار کر دینے کے اور کوئی زمہ داری نہیں ه فضولی باشد اندر وقت مستی حدیث مردم بشار کردن نٹے کے وقت بے فائدہ رہ ہے کہ بشار لوگوں کی سی باتیں کی جائیں فضول بست باگیسوئے مشکلیں حدیث ارتبت و تا تار کردن سیاہ زلفوں کے ہوتے ہوئے بے فائدہ ہے کہ جنت اور تاتار کا ذکر کیا جائے پس ازمون خود علامت اسے یا تلاوت رائے سلطان کار کردن سے دوست مجھے مرنے کے بعد علم ہوا کہ ان کی مرضی کے بیان کام کرنے کا کیا نتیجہ ہے کمر بستن برائے خدمت ثبت نشانش به بدن زنار کردن مامه ت کی خدمت کے لیے تیار ہو جانے کا اور جسم ہا.اس کے نشان کے زنا بنانے کا نکردی خوب اسے نامربیان یا پس از اقرار با انکار کردن اسے بے سر دوست ! تو نے اچھا نہ کیا.اقرار کرنے کے بعد انکار کرنے سے فضولی بہت پیش ہوئے اس بار حدیث از گلین پر خار کردن اس دوست کے چھرے کے روبرو فضول ہے کہ کانٹے والے مچھی کا ذکر کیا جائے مونیکال گرفتن پیونیکاں: دیگر باطل استغفار کردن نیک بختوں کی طرح نیکوں کا طریقہ اختیار کرا اور فضول خیالات سے استعفا کرنا ضروری ہے.الفاظ سن چیدیان از جمیل به فکر اندر ته اصرار کردن جہالت کے باعث محض الفاظ سے چھٹے رہنا اور اسرار کی باریکیوں میں طور نہ کرتا.نامناسب ہے

Page 376

اس سے نہ م ۳ انه سکتا.جواب جان لے کہ خید نے پرخیر و از بیدار کردلی شخصی چیپید جو شخص ایک دفعہ موت کی نیند سو گیا.وہ جگانے سے نہیں اُٹھے سرانه قربان آن حاکم میردار که دار و قدرت بردار کردن ہیں حاکم کے حکم سے سرمبانی مرکز کو پھانسی پر چڑھانے کی قدرت رکھتا ہو بایست از مروان حق دیں میل و طمع در دنیار کردین مردان خدا سے دین حاصل کرنا چاہیے.اثر نہوں سے مطمع اور محبت نہیں لکھنی چاہیئے.نکوری هرچه مانده غیر معلوم سوالش از اولی الانبار کردوان ہرات اپنی نابینائی کی وجہ سے معلوم نہ ہو.وہ اپنی بصیرت سے دریافت کرنی چاہئے رشيد الاه بان دسمبر ۱۶۱۹۰۹ ے حافظ اگر پائے ان است یک عشق تو بند پانی من است کر میں رائے بھی یہی ہے جو ان کی ائے ہے لکی تر میشن کی بیری میرے پیروں میں پڑی ہوتی ہے ہوتی ہے آه صد آه رفت سر بیاد بدکیش با نشد.منقاد سے ہو گئی.افسوس صد افسوس کہ عمر برباد ہو گئی.اگر ہمارا بدشت نفس مطلیح نہ ہوا مین دشمن دشمنے نه کند آنچه کردیم ما بخود بیداد دشمن بھی دشمن کے ساتھ وہ نہیں کرتا جو ظلم ہم نے آپ اپنے اوپر کا قران مردگان دل باشند به نباید به مردگان نہ فریاد کافر دل کے مرد سے ہوتے ہیں اور مرد سے فریاد نہیں کیا کافروں

Page 377

دل شهادن بفکریت دنیا باز دارو نو کا رہائے معاد ز ن دنیا کی ٹکر میں دل کو مصروت رکھتا.آخرت کے کاموں سے رانسان کو بانہ رکھتا ہے شخص دنیا پرست دور مانیا چند روز سے باہر کند دل شاد دنیا پرست شخص دنیا میں چند روز ہی خوشی کے ہر کتا ہے فضل حق باید در ریاضت محنت تا به آید به کذب و شر و فساد خدا کے فضل اور بیعت مجاہ سے ہی سے انسان جھولے شرارت اور فساد سے نجات پاسکتا ہے هر که از شهر تفت و میش براست که طاعت است و پورش داد ہوا اپنے نفس کی شرارتوں سے بچ گیا.اس کا گناہ بھی طاعت ہے اور اس کی سنتی بھی انفصامت ہے.ت تشهید الانه بان ماه مانده ی ۱۹۱۰) من ده است باید دارم من دهو احفظ که عاشق ندارم آید از طور و اعتقال عارم میں واعظ نہیں ہوں بلکہ عاشق زار ہوں.مجھے تو واعظوں کے طریقوں سے عار آتی ہے نزد بیگانگاں جنوں زده ام از و مشوق نیک هشیارم تیروں کے نزدیک میں جنون میں مبتلا ہوں.مگر نجوب کے نزدیک بڑا ہشیار ہوں تشجيد التوبان ماه مارچ ۲۱۹۱۰) در فر فتنه ه در فر قرار آدم دقت و حال بحر قم رومن اردشت کوچه می جویم نہ مجھے فراق میں نہیں آتا ہے نہ اصل میں.حیرانی ہوں کہ میں فرس کے عشق میں کیا تلاش کرتا ہوں تشحيها الزمان ما و مارچ ۲۱۹۱۰)

Page 378

کاش تا دوست راه یافتی فرصت یک نگاه پانتے کاش میں دوست تک پہنچ سکتا.اور اُسے ایک نظر دیکھنے کی حملت مجھے مل جاتی ! در ای نتی و در عشق بها هم گذاشتی نیمه خبر نشد مال تو سید اشتی که نشد بدل اندر ت پر گیا اور اپنے شق کا در میری جان کیلئے چھوڑ گیا مجھ کو بھی پتہ ہوگا کہ تیرے دل میں یا ایالات تھے تو رحمة الله بان ماه مارچ ۲۱۹۱۰) ے شروع ے شروع ہو ناتواں چہ جوئی زشت و نیم جاں چہ ہوئی از و اسے شوق تو کمزور سے کیا ڈھونڈتا ہے اور زخمی نیم جانی سے کیا چاہتا ہے فتیم و تا شدیم و شمردیم از گم شد گان نشان چه جوئی ز ہم گدا گنے کا ہو گئےاور مرتے اب تو گم شدہ لٹوں کا کیا نشان ڈھونڈتا ہے یار نو بهم یا سر است قریب ترینز جاں ہم اسے اللہ تو از تیتال چه جوانی دوست تو جان سے بھی زیادہ قریب ہے.اسے بے و قرن تو بتوں سے کیا چاہتا ہے وقوف پیران نکنند تو به از عشق اسے مخلب از جوان چه بونی بچھے جب بوڑ سے بھی عشق سے توبہ نہیں کرتے تواسے محتسب نے ہوائوں سے کیا چاہتا ہے.÷ دنیائے دنی است چند روزہ اور احست جادو وال چہ ہوئی راحت چه ذلیل دنیا چند روزہ ہے.تو اس میں دائمی نوشی کیا ڈھونڈا اینجا بشتاب آنهی دست از مریکہ ارمغاں چہ جوئی اسے فورم یہاں سے جلدی روانہ ہو تو ایک کوڑی میں سے تکالیف کیا ڈھو جاتا ہے.

Page 379

تیریش کے خطا نہ کر دست از نا کب او اماں چہ ہوئی اس کا تیر کبھی خطا نہیں گیا جس کے تیر سے کیا رمان ڈھونڈھتا ابر کانچ فلک ترا بخوانند از خار و خس آشیاں چہ جوئی جھے رشتے کسان کی اور کا ر ہے ہیں پھر تو سانس پھر اس کا گھونسلہ کیوں سکواش کرتا ہے.فرخ در یار را فراگیر پیراین این و آن چه جوئی ے فراخ یاد کی چوکھٹ کو اختیار کر.زید و کمر کے ارد گرد کیا پھرتا ہے.تنجيد الاذہان فروری (۱۹) ور بوده ای برای ام و نو سو بائی تراشناخته ام همتین بند تو جانی ترا شناخته ام تو دونوں جوان کا نور ہے میں نے مجھے پہچان لیاہے سب ان میں اور رومان ہے میں نے مجھے پہچان لیا ہے مر در عشق منم را بر نشد صاله کردم و بدل او اثر نشد میں عشق کے درد سے مرگی اگر ان کو خبر نہ ہوئی سیٹیاں ہیں میں اس کے دل پر ارمنہ لڑوں یا کہیں گا ہوا ی کوشان روی زمین اسے یار مر تم کو تم نے درست کر دلت را بخود کشمیر ہے بہت بڑی بھائی کے میرے پاس کیا ہے اور میں طاقت میں کیسے ایک نی نی سایت آمد تمام شهریه بیمار پرسی ام امان خر یدہ ہیں کہ میں رات دورگردی نام شر میری بیمار پرسی کے لیے آپ اگر اس شور میشم کو دیکھ کر اس نے ادھر کا رخ بھی نوکیا اے مونس جان بے قرارم فرسود زنم من نزارم ے میری بے قرار جہان کے رفیقی میرا کمزور تیم نظم کے بارے ڈوبا ہو گیا ہے ے فرح حضرت اقدس کا

Page 380

реба رین نهم فرقت نوشته است دریاب که سخت گشت کارم تیری جدائی کا رنج میرے لیے بہت سخت ہے فریاد کو پہنچی کہ میری حالت تباہ ہے فت کشور را نام بغیر باشد چه باک این این ظلم کی این هم فیدار خمیر اگر ساتوں والالتیں میرے حال سے پیر ہوں تو مضایقہ نہیں تھے تو غم ہے کیوب کو بھی میرے حال کی خبر نہیں معلم و عقل گفته هر جا تراشیده نه باشد منیر تیرا ا علم و عقل کی یہ بات ذوبی یکی کرلینی چاہیے کہ ہر کند تا بارش کی بات منبر نہیں ہواکرتی ایت میکند سوال ارابان را در رشته اید انگا ای یک در " لوں کی ہے تو ایک اشارہ ہی دل پر رک جاتا ہے گیا ہوں سیکڑوں اور یتیموں کے بھی کارگر نہیں ہوتے ر الفضل ورجون ۲۶۱۹۱۳ ما آن مقدے راجائے باشد حرفت و حضرت نے سلمان اس مقصد کا کہاں ٹھکانا ہے جو سلطان کی عالی بارگاہ کو چھوڑ کر چلا گیا لاگ عافیت خواهی بنا چار بیاید بر وقوال رائے سلطان خبردار اگر تو خیریت چاہتا ہے تو ضرور تجھے سلطانہ کے احکام کو مانا پڑے گا کو کے کو خوشیان را بنده داند کجا گیرد دگردر جائے سلطان ر شخص جو اپنے تئیں بندہ سمجھتا ہے وہ سلطان کی جگہ دوسرے کو کب اختمانہ کرتا ہے - دار ادا نے باشد حب تلاش نہ چوں لائے جہاں پہائے سلطان فقیر کی رائے تو اس کی حیثیت کے مطابق ہوتی ہے نہ کہ سلطان کی جہاں دیدہ رائے کی طرح --

Page 381

٣٤٩ از جان و ما یه دعوت شد دست اگر سرما بی از ایا نے سلطان جالی بال اور عورت سے ہاتھ دھور کے.اگر تو سلطان کے انارے سے سرتابی کرتا ہے هنوزت از سیاست با خبر نیست کر نے مبینی تحمل پائے سلطان داخی کے ابھی تیک تجھے سیاست کا علم نہیں ہوا کیونکہ تو اتے تو صرف سلطان کو حمل ہی دیکھا ہے.ایندگان سرفرد آرند فی الفور بحکم در گه والائے سلطاں گر نہ رگ لوگ قدر اسر پنچا کردیتے ہیں سلطان کی با عوت بانگاہ کے احکام کے سامنے نشان گوشی مثبت است و دو بار زدن پا ئے خلاف رائے سلطان ی قیمتی اور ادبار کی علامت ہے کہ سلطان کی رائے کے برخلاف رائے دی جائے مرو بیرون ز قانون شریعیت مزن را کے خلاف رائے سلطان شریت کے قانون سے باہر نہ نکل اور سلطان کی رائے کے خلاف رائے نہ دے این ندا نے فتد کی شروع کره جمل ندارد از خطا پہ وائے سلطاں وہ بیباک قیدخانہ میں ڈالا جاتا ہے جو جہالت کی وجہ سے عملی کر کے سلطان کی پر روانہیں کرتے حمان باید گرین از سروچشتیم که باشد اندران ایمان سلطان وہی بات کامل انقیاد کے ساتھ اختیار کرتی چاہیے جس کے بارے میں سلطان کا بیٹا ہو کند با جان خود بازی جھولے کہ بیدار دگر ہمہتا نے سلطاں وہ بیوقوت اپنی جان کے ساتھ کھیلتا ہے جو سلطان کے ساتھ کسی اور کو بھی شریک سمجھتا ہے ر فعل و جویدنی از ۱۶۱۹ عیان سلطان سے مروفالی ذات باری تعالئے ہے دیکھے شعریہ صفر ہے ہیں

Page 382

☑ حرک بے تحقیق بکشید دین خود بمیرد می کشد بسیار تن ہ شخص بغیر تحقیق کے من کھوتا ہے وہ خود بھی مرا ہے اور بہت سے دوسروں کو بھی اڑتا ہے.از هر باشد ال سخن که مرده است دیکہ ہے او راست والا فر مات نور افسرده تی و درمانی برای این کار سے ہو یہ کہ وہ تو تو ہے نور اور پر مردہ دل ہے زندگی مادر میشن که زنده است اسم باران زندگی بخشیده است جو زندہ ہے اس کی بات بھی جان رکھتی ہے اور بارش کی طرح سے زندگی بخش ہوتی ہے.سے بند سے کرنا کور است مدل تا د پیش مارزنان گردوی مجبل سے ان سے جنگ کی اول تا بنا ہے تو اپنے ہونٹوں کو بندر کے تا کہ عارفوں کے رو برو شرمندہ نہ ہو ما بگردد سینه تو پاک و صافت زنده جب تک تیرا سینہ پاک وصاف ہو جائے اس وقت تک خاموشی اختیار کر در تفضل اسود ممبر ۱۹۱۳) مید کردن کا به ما آمد نگر میں فینز ایک سہیل است اسے پیر ام کا شکار کرتا ہے مگر بے صاحبزاہ سے سوٹروں کا شکار آسان کام نہیں ہے.یاں کیں توریت لوکاں سے روم در ربہ موٹی ندا جان و دلم ی تھی پر سر کے تینز ہیں کے جنگل میں جاتا ہوں.خدا کی راہ میں میرے دل و جان قربان ہوں انت اس کی ہیں بخشد وجود آنکه خود معدوم شد گویا نبود اگر عدم سے ہی خاص وجود حاصل کرتا ہے جو پلے خود ایسا نا ہو چکا ہو گا یا وہ تھا ہی نہیں جان ما قربان را و بابه ما آتا مگر کاری شود این کار ما مبارکی میان بلا سے دوست کی ا میں شمار ہو نہ کہ ہار سے اس کام سے کوئی نامہ اپنے ان

Page 383

امرس فتح و نصرت خادم با چوں غلام الله يعلمنا ولا نعلى مدام تح و نصرت فلموں کی گرج ہماری ادم میں للہ ہم کو اب کرے گا اور ہم کبھی بھی مصلوب ہو گئے ر افضل ۳۱ دسمبر ۱۹۱۳) رد که بایت برای این نماندن و بیان گر ا ر ا ان تمام افسوس کہ قرآن کے پیرہ کی خوبصورتی ظاہر نہ رہی گریان ہے لیکن اس کے قدر شاہی نہ رہے سومالی کشتکه ایجاد اس کی است درد و درد و این که ای از دان ماند ہاتھ میں اس کا اور کہاں گیا اب ان سے کیا تم نے اس کا ہے کہ کوئی الا ان روا نہیں رہا ریم ما کمال تناقل بیشتم مارے خورے ہوئے بیرتان نماید و ترانه می گیرد و با کی اس بار نظری در تو عورت پر مار شود ار ایس ایل میں یر کر کے اور اسی قبیل است واقعی اشاعت فرنان جمال محمد ی دیتا ہوں کہ شخص پانی آن نگاری میں ہی ہے کسی کو بھی قرآن کی اشاعت کا ذکر نہیں ین تی ام کاشت کاروں میں این ایسے کہ میچ کش کا مال نماند کارهای را میں نے پوست کی بابت سنا تھا کہ والا ہے اس کی دو کی تھی.اب است.یہاں ام کا شدید این کتاب انان این کشور ایران ماما ان کتاب کے تری میں میری جان کی اب ہو گئی اور میں اس تندر جیل گیا ہوں کہ بچنے کی کوئی امید میں وش دے کے درمیانے شکیب بود خب همین حال که می توان نمانده کسی بیان کی وجہ سے کی کسی قدر کے میر تا اگر آن را میرا حال رہا ہے کہ کچھ بھی ان نقول باقی نہیں ہے

Page 384

ای اداری نے قیت نصرت است در استان سرائے اکیس با بال تمام ے مخلوقات کے سردار دو فرایہ نصرت کا وقت ہے کیونکہ تیرے باغ میں کوئی بھی با تہاں نہیں رہا ند یار تلقی را کنترانه خواهی اگر بیر چین کیش فرمان نهان نمانه میں خوشی کے اس کے کٹاں نہیں ہوں اور قومی کروں.اگر یہ دیکھ لوں کہ قرآن کا دل کش جمال پوشیدہ نہیں رہا در رنج و درد سے گذر انجم روز گار یارب تر میکو دگر مربیان نماند ہماری اردو میں زندگی گذار رہے ہیں اسے اب ہم فراک تیرے سوا ہمارا اور کوئی حیران نہیں رہے یارب چه برون غم زنان نقد است یا خود دریں زمانہ کے راندال تماما کیا میری تقریریں ہی فرمان کے لے کر ان کا ہے یا ان میں سے ہے اور کیا مانی حقیقت ہی نہیں دیدم که الان رو فرقان گذاشتند تا امد ولم اثر هر شان نماند ا ا ا ا ا ا ا ا ر ا ن کا یہ چھوڑدیا ہے اس لیے ہر سال میں بھی ان کی محبت کا نشان باقی نہیں رہا سے خواجہ پنج روز بود ولی زندگی کی اپنے دام دیں تاکمان نماند سے خواجہ از زندگی کا لطف چند دن کے لیے ہے کوئی بھی اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہا امرزد گردل از پنے قرآن نمودت سے دور تر انجناب بیگاں نماند اگر آج کے دن تیتر اول قرآن کے لیے نہیں جلتا تو پھر علم کی درگاہ میں تیرا کوئی ملایر باقی نہیں رہا نگدار در دو نوری شغل غزل و شعر این خود چه می بست دارید به آن تمام ی کے دور اور قول کے ملا کر چھوڑ پر چین کی حقیقت رکھتی ہیں اگر قرآن ہی کی قدر نہ رہی طوبال شاینی و صدتا ز سے کلی آن را کیتی است کس از خادمان ناتمام کو روکوں میں یہ کمیٹیاں تیرے سکتا ہے گروہ جو اعلی سردار ہے اس کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں

Page 385

۳۳ فتن دریائے شرکت دنیا چه کنند در داکه ترکیبه چو سریال نماند رگ دنیا کی شان شوکت کے لیے کہ کیا کرتے ہیں گرافسوس کہ کسی کی محبت قبول کی محبت کے برابر بھی نہیں رہی والے شیر خواست فرمان کم به بند یا خیر که زنگ می آید فعال نماند سے بے خبر فرمان کی خدمت کے لیے کر باندھ لے اس سے پہلے کہ یہ آوازہ آئے کہ فلاں شخص مر گیا الانتشار الیہ اسلام کی تعداد دوم اے شوری کا مصرع ہے اسے تو و تعلیم دید آماده متشکر از فیض بخش همواره ے کا رویہ کی تعلیم کی وجہ سے گاہ ہوگیا ہے اور دائمی فیض رساں خدا کا منکر ہے ایک قدیرے کہ میت زو چاره اند و تو عاجز است و تا کاره زود دہ تا در حین کے سوا کسی کا گزارہ نہیں ہے تیرے نزدیک ماہر اور ناکارہ ہے بشنوی گر بود بھی روئے خور قالُوا نیکی تو ھر سونے اگر تیرا معہ خدا کی طرف ہو تو تو ضرور سنے گا ہر طرت سے قانو بانی کا شور آنکه با ذات او بقا و حیات ہوں نباشد بدیع بار اس ذات دہ جس اور ہ کہ میں کی ذات سے ہر بقا اور زندگی مہابت ہے وہ ذات ہماری مائی کیوں نہیں ہو سکتی ناتوانی است طور مخلوقات کے خدا این مین بود هیهات کمزوری تو مخلوقات کا خاصہ ہے مگر خدا ایسا کیونکر ہو سکتا ہے.انہوں ! کے پسند و خرد کہ رب قدیر ناتوان باشد و ضعف و حقیر عقل کب پسند کرتی ہے کہ قادر تھا کمزور ضعیف اور حقیر ہو

Page 386

rad نظرے کئی بہ شان ربانی داوری با مکن شاخانی خدا تعالٰی کی شان پر غور کر اور نادانی کی وجہ سے جھگڑا نہ کر ایه ایران است این ماشین است که خدا ناتوان میکنین است است یہ کونسا دین ہے اور یہ کیسا قانون ہے یہ کیسا قانون ہے کہ خدا ندا بھی گزور اور نیکیس ہے گر دین دین کیش بستی شاد مایه عمر یا دہی برباد اگر تو اس دین و مذہب پر خوش ہے تو تو اپنی عمر بھر کی کمائی کو برباد کر رہا ہے تمت CHÁNY Syện l

Page 386