Language: UR
ورِعَدَك کلام حضرتے سیدہ نواسے مبارک بیگم
عرض ناشر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کا مجموعہ کلام حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ۱۹۵۹ء میں ” در عدن کے نام سے شائع فرمایا تھا.اس کے بعد نظارت اشاعت کی طرف سے ایک ایڈیشن ۱۹۹۶ء میں شائع ہوا تھا.۲ جولائی ۲۰۰۸
عرض ناشر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبه کا مجموعہ کلام حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ۱۹۵۹ء میں ” در عدن وو کے نام سے شائع فرمایا تھا.اس کے بعد نظارت اشاعت کی طرف سے ایک ایڈیشن ۱۹۹۶ء میں شائع ہوا تھا.۲ جولائی ۲۰۰۸
نمبر شمار عنوان صفحہ نمبر i تعارف تبركات التجائے قادیاں 1.۱۴ ۲۲ ۲۳ ۲۴ صبح مسرت ناز محبت صَلِّ عَلَى نَبِيِّنَا پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار نعت خیر البشر برتر گمان دو ہم سے احمد کی شان ہے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے متعلق الوداعی نظم گلزار محبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک فارسی نظم کا منظوم اردو ترجمہ ۲۸ ۱۲
عنوان حضرت مسیح موعود اللہ کے چند فارسی اشعار کا ترجمہ خدا تعالیٰ کے حضور دردمندانہ التجا فضل خدا کا سایہ ہم پر رہے ہمیشہ اپنی مریم کا جنازہ دیکھ کر محمد کا خدا مبارک باد ( دعا برختم قرآن مجید ) اہل قادیاں کے نام پیغام دعا الله السميع الدعاء صفحہ نمبر } ۳۲ ۳۳ ۳۴ ۳۵ ۳۷ ۳۹ ام ۴۲ ۴۴ ३ ۴۵ ۴۷ है ۵۰ ۵۲ ۵۵ ۵۶ بسم قطعه فغان در ولیش في امان الله رخصتانه ہو گیا آخر نمایاں فرق نورو نار کا ایک دعا فحش گوئی اور نعرہ تکبیر نمبر شمار ۱۴ ۱۵ 14 ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸
نمبر شمار عنوان صفحہ نمبر ۲۹ در ایام کرب ۵۸ ۵۹ ۶۰ ۶۱ ۶۳ ۶۴ ۶۶ 2.۷۳ ۷۴ ۷۵ ۷۵ ۷۶ 24 22 22 ZA و ง میدان حشر کے تصور سے دعا نشان حقیقت کی آرزو حضرت مصلح موعود کی یورپ سے آمد کے موقعہ پر بہتان پر صبر تحریک دعائے خاص دعائیں اور نصائح غیر مطبوعه اشعار (1) ایک دعا (۲) ایک پکار (۳) در ددل (۴) دعائیہ (۵) الحمد لله (1) خواب میں شعر (۷) خواب میں مصرع (۸) متفرق (۹) مصرع طرح غالب پر اشعار یاد مشهود اور درخواست دعائے نعم البدل ۳۱ ۳۲ ۳۴ ۳۵ ۳۷ ۳۸
عنوان صفحہ نمبر ΔΙ ۸۲ AL ۸۹ ۹۲ ۹۳ ۹۵ ۹۶ لا ۹۸ ۹۹ 1..۱۰۲ ۱۰۴ ۱۰۷ نمبر شمار ۳۹ ایک مجاہد کی جدائی پر ۴۰ احمدی بچیوں کی جانب سے ام پھلے اور پھولے پگلشن تمہارا اپنے پیارے بھائی ( حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ) کی یاد میں ۴۳ مجاہدین کے نام ۴۴ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی یاد میں خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تشنہ روحوں کو پلا دو شربت وصل و بقا ۴۷ تضمین بر اشعار حضرت مسیح موعود الله ۴۸ ۴۹ ۵۰ ۵۱ ۵۲ مغفرت بے حساب ہو جائے سید داؤ داحمد صاحب کی وفات پر نذر محمود سونپا تمہیں خدائے جہاں کی امان میں ایک تحریک پر بھائیوں کی یاد میں ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کی نومولود بچی کی وفات پر ۵۴ عزیزہ قیصرہ کی طرف سے اپنی امی کے نام ۵۵ اسلام پر سخت مصیبت کا وقت
i در عدن تعارف حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ جن کا منظوم کلام الشركة الاسلامیہ لمیٹڈ شائع کرنے کا فخر حاصل کر رہی ہے اللہ تعالیٰ کے زندہ نشانوں میں سے ایک نشان ہیں.حضرت مسیح موعود العلي اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں: سینتیسواں (۳۷) نشان یہ ہے کہ بعد اس کے خدا تعالیٰ نے حمل کے ایام میں لڑکی کی بشارت دی اور اس کی نسبت فرمایا كه تُنشَافِي الْحِلْيَةِ یعنی زیور میں نشو ونما پائے گی یعنی نہ خورد سالی میں فوت ہوگی اور نہ تگی دیکھے گی.چنانچہ بعد اس کے لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام مبارکہ بیگم رکھا گیا.“ اسی طرح آپ سے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ وحی کی : نواب مبارکہ بیگم اس طرح حضرت اقدس ان کے حق میں فرماتے ہیں: (الحکم جلد ۵ نمبر ۴۴ صفحه ۳) ہوا اک خواب میں مجھ پر یہ اظہر کہ اس کو بھی ملے گا بخت برتر
در عدن لقب عزت کا پاوے وہ مقرر یہی روز ازل سے ہے مقدر خدا نے چار لڑکے اور یہ دختر عطا کی پس یہ احساں ہے سراسر 11 الہام ” نواب مبارکہ بیگم“ میں یہ اس پہلو کی طرف بھی اشارہ تھا کہ آپ نوابی خاندان میں بیاہی جائیں گی.چنانچہ ۷ ارفروری ۱۹۰۸ء کو آپ غیر متوقع طور پر حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ رئیس مالیر کوٹلہ سے بیاہی گئیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود العلا کے الہام میں ”حجۃ اللہ کے لقب سے نوازا تھا اور جن کی جب میں نے یہ مختصر تعارف حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے ملاحظہ کے لئے بھیجا تو آپ نے تحریر فرمایا: نواب مبارکہ بیگم کا لقب نوابی خاندان میں شادی کے سلسلے میں میرے لئے ہرگز قابل فخر نہیں.صرف نواب کوٹلہ والے ! مجھے تو میرے خدا نے ایک نام دیا.اس کے بہت مبارک اور وسیع معنے ہوں، خدا کرے.ویسے میرے میاں مرحوم کی جوقد روعزت ان کے اعلی ایمان کو دیکھ کر میں نے پہچانی وہ کسی نے نہ پہچانی ہوگی.ان کی وہ شان مومنانہ میری نظر میں نوابی سے کروڑوں درجے بڑھ کر تھی اور ہے.“ اس تحریر کے پیش نظر میں مناسب سمجھتا ہوں کہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب مرحوم و مغفور کے ان پاکیزہ احساسات اور مقدس جذبات کا بھی کچھ ذکر کر دوں جن کا اظہار انہوں نے حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ سے عقد نکاح ہو جانے کے بعد کیا تھا.آپ نے ۷ارفروری ۱۹۰۸ء کو بروز دوشنبہ اپنی ڈائری میں لکھا: یہ وہ فضل اور احسان اللہ تعالیٰ کا ہے اگر میں اپنی پیشانی کو شکر کے سجدے کرتے کرتے گھساؤں بھی تو خدا تعالیٰ کے شکر سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا.میرے جیسا نابکار اور اس کے ساتھ یہ نور.یہ خدا تعالیٰ کا خاص رحم اور فضل ہے اے خدا اے میرے پیارے مولیٰ اب تو نے اپنے مرسل کا مجھ کو داماد بنادیا ہے اور اس کے لخت جگر سے میرا تعلق کیا ہے تو مجھ کو بھی نور بنا دے کہ اس قابل ہوسکوں.رضی اللہ عنہ (شمس)
111 در عدن پاکبازی اور تقویٰ شعاری کی تعریف خدا کے مقدس مسیح نے ان الفاظ میں کی تھی.” مجھے ایسے شخص کی خوش قسمتی پر رشک ہے جس کا ایسا صالح بیٹا ہو کہ باوجود بہم پہنچنے تمام اسباب اور وسائل غفلت اور عیاشی کے اپنے عنفوان جوانی میں ایسا پر ہیز گار ہو اور حضرت مسیح موعود العلا کا یہ رشک اللہ تعالیٰ کی جناب میں قبول ہوا اور اللہ تعالیٰ نے نواب صاحب موصوف کو آپ کا نسبتی بیٹا اور آپ کو ان کا نسبتی باپ بنادیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود العلی کو ایک خواب میں دکھایا گیا کہ: مبارکہ پنجابی زبان میں بول رہی ہے.مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا کہ میں ایسی آئی جس نے ایہ مصیبت پائی یعنی آپ کا وجود نہایت خیر و برکت کا موجب ہوگا.آپ کے کلام کو پڑھنے سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مقصود شعر گوئی نہیں بلکہ ضرورت پر اپنے جذبات کو نظم میں ظاہر کر دینا ہے.کیونکہ نظم اثر انداز ہونے میں نثر پر فوقیت رکھتی ہے.آپ کے کلام میں تصنع بالکل نہیں جو خیالات دماغ میں آئے ہیں ان کو بے تکلف عام فہم سلیس زبان میں نظم کا جامہ پہنا دیا گیا ہے.یہ ظاہر کر دینا بھی ضروری ہے کہ اشعار لکھنے والے اپنے اشعار پر استادوں سے اصلاح لیا کرتے ہیں اور عام طور پر یہی دستور چلا آتا ہے لیکن یہ مجموعہ کلام کسی حک و اصلاح کا رہین منت نہیں ہے.مسلم خواتین اور شعر آنحضرت ﷺ کی صحابیات میں سے حضرت خنساء جو نہایت بلند پایہ شاعرہ تھیں اپنے دیوان کی وجہ سے مشہور و معروف ہیں.ان کے علاوہ بعض اور صحابیات کا بھی منظوم کلام پایا جاتا ہے.مثلاً فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ اور حضرت اسماء بنت ابی بکر الصدیق اور حضرت عاتکہ وغیرہ رضی اللہ عنہن.
در عدن iv لیکن ہماری جماعت میں شاذ نادر ہی کوئی خاتون ایسی ہوگی جو اپنے دلی خیالات اور جذبات کو منظوم کلام کی صورت میں بیان کرتی ہوں.اس کی اصل وجہ جو میں خیال کرتا ہوں کہ احمدی خواتین کی عدم توجہی ہے ورنہ تعلیم کے میدان میں تو وہ بفضلہ تعالیٰ دوسری خواتین سے سبقت لے گئی ہیں.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے منظوم کلام کا مجموعہ شائع کرنے سے الشركة الاسلامیہ کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ احمدی خواتین اس طرف توجہ کریں تا وہ نثر کے علاوہ منظوم کلام میں بھی اسلام کی خوبیاں بیان کر سکیں اور قومی اور ملی ترقی میں اس جہت سے بھی حصہ لے سکیں.بعض اوقات منظوم کلام لوگوں کے دلوں پر وہ اثر ڈالتا ہے جو نثر نہیں ڈال سکتی.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود العلی کو یہ توفیق بخشی کہ آپ اسلام کی سچائی کے دلائل اور قرآنی حقائق و معارف اور اپنا دعویٰ اور اس کی صحت کا ثبوت نظم ونثر دونوں ہی میں اکمل صورت میں بیان کرسکیں.مگر شعر کہنے سے وہی مقصود ہونا چاہئے جو ہمارے آقا و مولا حضرت مسیح موعود العﷺ نے فرمایا ہے یعنی.دسمبر ۱۹۵۹ء کچھ شعرو شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے خاکسار: جلال الدین شمس
V در عدن تبركات حضر سے سیدہ نواسے مبارکہ بیگم کے دستے مبارک سے لکھے ہونے تحریر ایده الن یہ اشعار وہ ہیں جو حضرت خلیفه اسمع ثالث اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریعت الحمد فضو کی قیدیر سے سی قادیانی تھنے کو کے تھے معلمتا شائع نہ کئے گئے اسوقت ( 13) چلاؤ کوئی جا کے مزار صبح پر نصرت جہاں کی گود کے یا کوں کو لے گئے رو به صفات دشمن بد نیس به مکرو ژور قیدی بنا کے شیر شاہوں کو لے گئے 2 آقا تھارے باغ میں داخل ہوئے عدد گلزار احمدی کے نہالوں کو لے گئے (4) جائے گرفت ہاتھ نہ آئی تو بد سرشت دلیہ لگا کے ایک فعالوں کونے گئے مارکہ
در عدن بستان پر میں کرنا سب سے بڑا میری ہے مبر پر رنگ میں اچھا ہا پر تامر و حتیل : غلط الزام " پہ ہو جیر تو ہے میر جمیل " ہے تو سمجھئی یہ خدا کا ہے ثبوت لو کہ ہے سو جات کی اک بات سکوت و جو دل میں بھڑکتا ہے دیا دو اسکو پر آگ جو لگتی ہے.بھادو اسکو نیٹ کی نشان کچھ اسطرح نمایاں ہوچک آپ سے آپ کی دشمن بھی ہراساں ہو جا کے آج جو تلخ ہے مالک وہی کلی شیر کمال ہے 7 جان سچ کسی نے ہے کیا خبر کا پھل شیریں ہے.کیا یہ بہترنہیں مولا تیرا نامر ہو جائے ؟ نامرادتی عدد خلق یہ ظاہر ہو جائے میر کر میں کہ الہ کی نصرت آئے تیری کچلی ہوئی غیرت یہ وہ غیرت کہتا ہے وہ لڑے تیرے لئے اور تو آزاد رہے خوب نکتہ ہے ہے اللہ کرے یا د چوری خاموش کی خاطر ہیں وہ کیک کیر وتام تین بولتا بندہ کو خدا بولنائم فقط مبارکه سور جون شترم vi
یارب یہی دعا ہے کہ ہر کام ہو بخیر اکرام لازوال ہو انعام ہو بخیر ہر وقت عافیت رہے ہر گام ہو بخیر آغاز بھی بخیر ہو انجام بھی بخیر
در عدن التجائے قادیاں یہ نظم الفضل“ 29 جولائی 1924 ء میں شائع ہوئی تھی اور الحکم 7 /اگست 1924ء میں میرے مندرجہ ذیل نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی اور یہ نظم حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی نظم "یاد قادیان کے جواب میں تھی جو آپ نے سفر یورپ میں کہی تھی جس کا پہلا شعر ہے.ہے رضائے ذات باری اب رضائے قادیاں اور آخری شعر ہے مدعائے حق تعالی مدعائے قادیاں جب کبھی تم کو ملے موقعہ دعائے خاص کا یاد کر لینا ہمیں اہل وفائے قادیاں جناب بیگم صاحبہ نے مندرجہ ذیل نظم ایسی حالت میں کہی جب کہ آپ کی طبیعت علیل تھی.اس نظم میں آپ نے قلبی کیفیات کا اظہار کیا ہے اور جس سوز وگداز سے یہ ظم کہی گئی ہے اور جس قسم کی اضطرابی اور بے قراری دل کا اور انتہائی درجہ کی محبت کا اس میں اظہار کیا گیا ہے وہ قارئین کرام پڑھ کر معلوم کر سکتے ہیں اور حقیقت میں یہ نظم تمام جماعت کے قلبی جذبات کا آئینہ ہے.خدا تعالیٰ ان الفاظ کو جلد سے جلد قبولیت کا جامہ پہنائے اور ہماری روح رواں کو مظفر اور منصور با صد کامیابی و کامرانی واپس دار الامان لائے.شمس
در عدن سیدا ہے آپ کو شوق لقائے قادیاں ہجر میں خوں بار ہیں یاں چشمہائے قادیاں سب تڑپتے ہیں کہاں ہے زینت دارالاماں رونق بستان احمد دل رائے قادیاں جان پڑ جاتی تھی جن سے وہ قدم ملتے نہیں سے ہیں کوچہ ہائے قادیاں قالب بے روح سے فرقت مہ میں ستارے ماند کیسے پڑ گئے ہے نرالا رنگ میں اپنے سماء قادیاں وصل کے عادی سے گھڑیاں ہجر کی کٹتی نہیں بار فرقت آپ کا کیونکر اٹھائے قادیاں روح بھی پاتی نہیں کچھ چین قالب کے بغیر ان کے منہ سے بھی نکل جاتا ہے ہائے قادیاں ہو وفا کو ناز جس پر جب ملے ایسا مطاع کیوں نہ ہو مشہور عالم پھر وفائے قادیاں کیوں نہ تڑپا دے وہ سب دنیا کو اپنے سوز سے درد میں ڈوبی نکلتی ہے صدائے قادیاں 2
3 اس گل رعنا کو جب گلزار میں پانی نہیں ڈھونڈ نے جاتی ہے تب بادِ صبائے قادیاں یاد جو ہر دم رہے اس کو دعائے خاص میں کس طرح دیں گے بُھلا اہل وفائے قادیاں دین محمدم جس نے کی تیرے سپرد ہو تری کشتی کا حافظ وہ خدائے قادیاں کشتی منتظر ہیں آئیں گے کب حضرت فضل عمر سوئے رہ نگراں ہیں ہر دم دیدہ ہائے قادیاں مانگتے ہیں سب دعا ہو کر سراپا آرزو جلد شاہ قادیاں تشریف لائے قادیاں شمس ملت جلد فارغ دوره مغرب سے ہو مطلع مشرق سے پھیلائے ضیائے قادیاں خیریت سے آپ کو اور ساتھ سب احباب کو جامع المتفرقین جلدی سے لائے قادیاں در عدن آئیں منصور و مظفر کامیاب و کامراں شینی گاڑ آئیں لوائے قادیاں
در عدن پیشوائی کے لئے نکلیں گھروں سے مرد و زن یہ خبر سن کر کہ آئے پیشوائے قادیاں ابر رحمت ہر طرف چھائے ، چلے بادِ کرم بارش انوار سے پُر ہو فضائے قادیاں گلشن احمد میں آ جائے بہار اندر بہار دل لبھائے عندلیب خوشنوائے قادیاں معرفت کے گل کھلیں تازہ بتازہ نو به نو جن کی خوشبو سے مہک اٹھے ہوائے قادیاں مانگتے ہیں ہم دعائیں آپ بھی مانگیں دعا حق سنے اپنے کرم سے التجائے قادیاں علم و توفیق بلاغ دین ہو ان کو عطا قادیاں والوں کا ناصر ہو خدائے قادیاں راہ حق میں جب قدم آگے بڑھا دے ایک بار سر بھی کٹ جائے نہ پھر پیچھے ہٹائے قادیاں خالق ہر دو جہاں کی رحمتیں ہوں آپ پر والسلام اے شاہِ دیں اے رہنمائے قادیاں ( الحکم ۷ اگست ۱۹۲۴ء)
5 در عدن صبح مسرت ( حضرت مصلح موعودؓ کے سفر یورپ سے واپسی کے موقعہ پر ) آج ہر ذرہ سرِ طور نظر آتا ہے جس طرف دیکھو وہی نور نظر آتا ہے ہم نے ہر فضل کے پردے میں اسی کو پایا وہی جلوہ ہمیں مستور نظر آتا ہے کس کے محبوب کی آمد ہے کہ ہر خورد و کلاں عشق میں مخمور نظر آتا ہے نشه عشق شکر کرنے کی بھی طاقت نہیں پاتا جس دم کیا ہی نادم دل مجبور نظر آتا ہے الله الحمد شنیدیم که آن می آید سوئے گلشن چه عجب سرو روان می آید آج ہر ایک ہر ایک ہے مشتاق لقائے شہ دیں گھر میں بیٹھا کوئی رہ جائے یہ ممکن ہی نہیں ایک پر ایک گرا پڑتا ہے اللہ رے شوق خوف ہے اوروں سے پیچھے نہ میں رہ جاؤں کہیں
در عدن سر اٹھانے کی نہ بستر سے جو ہمت پائے کیا کرے آہ! وہ مجبور وہ زار و ملیں و غمگیں رکھ تسلی دل بیمار! ابھی آتے ہیں درد مزمن کی دوا باعث راح و تسکیں مرہم زخم دل مادر مهجور و حزین زینت پہلوئے ما جانِ جہاں می آید گلشن حضرت احمد میں چلی باد بہار ابر رحمت سے برسنے لگے پیہم انوار بچے ہنستے ہیں خوشی سے تو بڑے ہیں دلشاد جذبہ شوق کے ظاہر ہیں جنہیں پر آثار تازگی آ گئی چہروں یہ کھلے جاتے ہیں دل کی حالت کا زباں کر نہیں سکتی اظہار مژده وصل لئے صبح مسرت آئی فضل مولا سے ہوئی دور اداسی یک بار نور می بارد و شاداں در و سقف و دیوار اے خوشا وقت ! مکیں سوئے مکاں می آید 6 ( الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۲۴ء) مراد امتہ الھی بیگم مرحومہ جوعلیل تھیں.”مبارکہ
7 در عدن ناز محبت دنیا میں حاکموں کو حکومت پہ ناز ہے جو ہیں شریف ان کو شرافت پہ ناز ہے عابد کو اپنے زہد و عبادت اور عالموں کو علم کی دولت حسن رقم ناز مضمون نگار کو ہے پھر کاتبوں کو حُسن کتابت ناز ہے ناز ہے ل ناز ہے ماہر کو ہے ناز کہ حاصل ہے تجربہ ہے یہ عاقل کو اپنے فہم و فراست پہ ناز ہے جن کی بہادری کی بندھی دھاک ہر طرف تن تن کے چل رہے ہیں شجاعت پہ ناز ہے اپنی ناز ہے صناع کو اگر موجد کو اپنی طبع کی جودت ناز ہے
در عدن ماہر ہے سرجری میں تو ہے ڈاکٹر کو ناز حاذق ہے گر طبیب، طبابت پہ ناز ہے بیمار کو ہے ناز کہ ”نازک مزاج ہوں“ جو تندرست ہیں انہیں صحت ناز ہے منعم کو ہے یہ ناز کہ قبضہ میں مال ہے عزت خدا نے دی ہے تو عزت پہ ناز ہے دو ہیں مال مست امیر تو ہم کھال مسنه اس رنگ میں غریب کو غربت مانا کہ انکسار بھی داخل ہے مخُلق میں پر کچھ نہ کچھ خلیق کو سیرت پہ ناز ہے وو ہیں“ پہ ناز ہے گوشہ نشیں کو ناز ہے یہ بے ریا ہوں میں جو نامور ہوئے انہیں شہرت نازاں ہے اس یہ جس کو فصاحت عطا ہوئی جادو بیاں کو اپنی طلاقت ناز ہے ناز ہے پایا جنہوں نے حسن وہ اس مے سے مست ہیں ہر اک سے بے نیاز ہیں صورت پہ ناز ہے 8
در عدن اُڑ کر کہاں کہاں نہ گیا طائر خیال شاعر کو اپنے زورِ طبیعت ناز ܀ ہے دیکھو جسے غرض کہ وہی مست ناز ہے وحشی بھی ہے اگر اسے وحشت ناز ہے فانی تمام ناز ہیں باقی ہے اس کا ناز جس کو بقا پہ ناز ہے وحدت پہ ناز ہے جانِ جہاں! تجھی پہ تو زیبا ہے ناز بھی یہ کیا کہ چند روز کی حالت پہ ناز ہے کیونکر کہوں کہ ناز سے خالی ہے میرا دل پیارے مجھے بھی تیری محبت پہ ناز ہے حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی ینظم اخبار الفضل ۲۱۴ اکتو بر۱۹۲۴ء میں مستورہ“ کے نام سے شائع ہوئی
در عدن 10 صَلِّ عَلى نَيِّنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ (1) میرے آقا مرے نبی کریم بانی پاک باز دین قویم شان تیری گمان سے بڑھ کر حسن و احسان میں نظیر عدیم تیری تعریف اور میں ناچیز گنگ ہوتی ہے یاں زبانِ کلیم تیرا رتبہ ہے فہم سے بالا سرنگوں ہو رہی ہے عقل سلیم مدح تیری ہے زندگی تیری تیری تعریف تری تعلیم ہے ساری دنیا کے حق میں رحمت ہے سب پہ جاری ہے تیرا فیض عمیم بند کر کے نہ آنکھ منہ کھولے کاش سوچے ذرا عدد و لتیم حق نے بندوں پر رحم فرمایا اک نمونہ بنا کے دکھلایا اسوه پاک خلق ربانی منتہائے کمال انسانی صَلَّ عَلَى نَبِيِّنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ
در عدن (٢) 11 کیا کہیں ہم کہ کیا دیا تو نے ہر بلا سے چھڑا دیا تو نے آدمی میں نہ آدمیت تھی اس کو انساں بنا دیا تو نے لے کے آب حیات تو آیا مر رہے تھے جلا دیا تو نے سخت گرداب گمرہی میں تھے پار ہم کو لگا دیا تو نے بینا بنا دیا تو نے ہو کے اندھے پڑے بھٹکتے تھے ہم مقصود جو کہ پہنچائے وہی رستہ بتا دیا تو نے روح جس کے لئے تڑپتی تھی اس کا جلوہ دکھا دیا تو نے تیرا پایہ تو بس یہی تیرے پانے سے ہی خدا پایا مصحف دید عکس یزدانی منتہائے کمال انسانی صَلِّ عَلى نَيْنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ
در عدن (۳) 12 بخدا بے عدیل ہے احمد شان رب جلیل ہے احمد ہے احمد کیوں نہ پھر ہو جمال میں کامل جب کہ نورِ جمیل ہے احمد باعث ناز حضرت آدم عز و فخر حلیل اس سے بڑھ کر ہزارشان میں ہے جس نبی کا مثیل ہے تحلق میں آپ ہے مثال اپنی آپ اپنی دلیل راح روح علیل سلسبيل تسکین قلب مضطر ہے وجہ زندگی بخش جامِ احمد ہے“ چشمه ہے احمد م احمد احمد ہے ہے احمد بر رحمت نے جوش فرمایا بن کے ابر کرم جو تو آیا منبع جود و فضل رحمانی منتہائے کمال کمال انسانی صَلِّ عَلى يِّنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ
13 (۴) در عدن السّلام اے نبی والا شان والصلوة اے موسس ایمان حضرت ذوالجلال کے محبوب جس کی خاطر ہوئی بنائے جہان مدینہ ہے علم اکمل کا تیرا سینہ ہے مہبطِ قرآن سارے جھگڑے چُکا دیئے تو نے اے شہ عدل صاحب فرقان تو پاک اسمائے انبیاء کردی ہمہ بودند زیر صد بہتان منهزم ہو چکی تھی جب توحید غالب آیا تھا لشکر شیطان جب زمانہ میں دورِ ظلمت تھا حق وباطل میں کچھ نہ تھی پہچان اے سراج منیر تو آیا ساری دنیا میں نور پھیلایا عالم طبیب روحانی منتہائے کمال انسانی صَلَّ عَلَى بَيْنَا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ الفضل ۳۰ را گست ۱۹۲۷ء )
در عدن پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار (1) ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم کا ایک بیش بہا ثمرہ اور آپ کا ایک بڑا احسان (منجملہ بے شمار احسانات کے ) یہ بھی ہے کہ آپ پر سچا ایمان لانے والا کبھی رنج و غم یاس و ناامیدی کا شکار ہوکر نہیں مرتا.کیا بلحاظ اس کے کہ ایک مسلمان کا مقصد اصلی دنیوی اغراض یا تعلقات سے بہت اعلی اور برتر ہے اور کیا اس لئے کہ مسلمان کا خداحی و قیوم و قادر و توانا ہے اور اس کے ایمان کا درجہ بلند.مبارکہ جب وقت مصائب کی صورت اک بندے کو دکھلاتا ہے جب تاریکی چھا جاتی ہے غم کا بادل گھر آتا ہے ہر گام پہ پاؤں پھسلتے ہیں آفات کے جھکڑ چلتے ہیں جب صبر کا دامن ہاتھوں سے رہ رہ کر چھوٹا جاتا ہے جب آنکھیں بھر بھر آتی ہیں امیدیں ڈوبی جاتی ہیں جب یاس کا دریا چڑھتا ہے دل اس میں غوطے کھاتا ہے 14
15 جب ناؤ بھنور میں گھرتی ہے جب موت نظر میں پھرتی ہے جب حیلے سب ہو چکتے ہیں انساں بے بس ہو جاتا ہے جب دم سینے میں ٹھٹتا ہے جب دل میں ہو کیں اٹھتی ہیں جب ”جینا“ کڑوا لگتا ہے، جب ”مرنا‘ دل کو بھاتا ہے جب بڑے بڑے جی چھوڑتے ہیں جاں دینے کو سر پھوڑتے ہیں اس وقت بس ایک مسلماں“ ہے جو صبر کی شان دکھاتا ہے تا یہ برکت سب " اسلام" کی ہے تعلیم اس رحمت عام کی ہے جو نسخہ تسکین" وہ لایا دل مسلم کا ٹھیراتا ہے بے آس کی آس بن جاتا ھـ بھیج پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار سردار در عدن
16 (٢) ہمارے پیارے مقدس نبی کی تعلیم ہم کو قطعی ترک دنیا پر مجبور نہیں کرتی اسلام ہم کو خالق و مخلوق ہر دو کے حقوق کی الگ الگ بجا آوری کا حکم دیتا ہے اور دنیا میں رہ کر پھر دنیا سے الگ رہنا سکھاتا ہے.یہی مذہب ہے جو فطرت کے مطابق ہے اور ہم کو کبھی بھی فطرت کے خلاف مجبور نہیں کرتا.بشر بن کر ہی خدا کو ڈھونڈ نا یہی نمونہ بانی اسلام نے دکھایا ہے جس نے سب نا قابل عمل سختیوں سے ہم کو بچا لیا.نیز مسلمان دنیوی امور سے متعلقہ انعامات سے ہر جائز نفع اٹھانے کے ویسے ہی حقدار ہوتے ہیں جیسا کہ دوسری قومیں مگر مقصود اصلی کو نہیں ضائع ہونے دیتے.مبارکہ جب دنیا میں بیداری والے دین سے غافل سوتے ہیں جب اس کے پیچھے پڑتے ہیں تو اُس کو بالکل کھوتے ہیں پر شاہِ دو عالم کے پیرو کونین کے وارث بنتے ہیں موجود ہے جو مقصود ہے جو دونوں ہی حاصل ہوتے ہیں جاری سب کاروبار جہاں، پر دل میں خیالِ یار نہاں دن کاموں میں کٹ جاتا ہے راتوں کو اُٹھ کر روتے ہیں در عدن
17 دنیا سے الگ دنیا کے کمیں ملتے ہیں مگر گھلتے یہ نہیں دنیا تو ان کی ہوتی ہے یہ آپ خدا کے ہوتے ہیں سامانِ معیشت بھی کرنا پھر جیتے جی اس پر مرنا حق نفس کا بھی کرتے ہیں ادا، بیج الفت کے بھی ہوتے ہیں خالق مٹی سے گھڑتا ہے، مٹی میں رہنا پڑتا ہے یہ خاک ہی کرتی پاک بھی ہے مل مل کے یہیں دل دھوتے ہیں لاثانی اُسوہ احمد کا یہ سیدھی راہ دکھاتا ہے بے دنیا چھوڑے مسلم کو دنیا میں خدا مل جاتا ہے بھیج هر طرح کرم فرماتا ھے درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار در عدن
در عدن (۳) مندرجہ بالا ہر دو بند تو عام احسانوں کے ذکر پر مشتمل تھے جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے ہر ایک حقیقی فیض یاب ہونے والا اور آپ کا سچا پیر و حاصل اور محسوس کرتا ہے مگر ذیل کا بند محض رحمتہ للعالمین کے ” عورت کی ہستی پر گراں بار احسان کی یاد دہانی کے لئے ہے اور صرف ہماری صنف سے متعلق ہے.مبارکہ کے رکھ پیش نظر وہ وقت بہن، جب زندہ گاڑی جاتی تھی گھر کی دیواریں روتی تھیں ، جب دنیا میں تو آتی تھی جب باپ کی جھوٹی غیرت کا، خوں جوش میں آنے لگتا تھا جس طرح جنا ہے سانپ کوئی، یوں ماں تیری گھبرائی تھی یہ خونِ جگر سے پالنے والے تیرا خون بہاتے تھے جو نفرت تیری ذات سے تھی فطرت پر غالب آتی تھی کیا تیری قدر و قیمت تھی! کچھ سوچ تری کیا عزت تھی! تھا موت سے بد تر وہ جینا قسمت سے اگر بچ جاتی تھی 18
19 عورت ہونا تھی سخت خطا، تھے تجھ پر سارے جبر روا یہ جرم نہ بخشا جاتا تھا، تا مرگ سزائیں پاتی تھی گویا تو کنکر پتھر تھی، احساس نہ تھا جذبات نہ تھے تو ہین وہ اپنی یاد تو کر! ، ترکہ میں بانٹی جاتی تھی در عدن وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جاتا ہے تو بھی انساں کہلاتی ہے، سب حق تیرے دلواتا ہے ان ظلموں سے چھڑواتا ھے بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار مصطفی نبیوں پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار صل على محمد (الفضل “ خاتم النبيين نمبر مورخہ ۱۲ جون ۱۹۲۸ء صفحه ۷۲،۷۱)
در عدن نعت خير البشر السلام ! اے ہادی راہِ ہدیٰ جانِ جہاں والصلوة! اے خیر مطلق اے شہ کون و مکاں تیرے ملنے سے ملا ہم کو وہ مقصودِ حیات“ تجھ کو پا کر ہم نے پایا ”کامِ دل آرامِ جاں آپ چل کر تو نے دکھلا دی رہ وصل حبیب تو نے بتلایا کہ یوں ملتا ہے یارِ بے نشاں ہے کشادہ آپ کا باب سخا سب کے لئے زیر احساں کیوں نہ ہوں پھر مرد و زن پیر و جواں تشنہ روحیں ہو گئیں سیراب تیرے فیض.و عرفانِ خداوندی کے بحر بیکراں! علم ایک ہی زینہ ہے اب بام مرادِ وصل کا بے ملے تیرے ملے ممکن نہیں وہ دل ستاں 20
21 در عدن تو وہ آئینہ ہے جس نے منہ دکھایا یار کا جسم خاکی کو عطا کی روح اے جانِ جہاں! تا قیامت جو رہے تازہ تری ہے تو ہے روحانی مریضوں کا طبیب جاوداں ہے یہی ماہ میں جس پر زوال آتا نہیں ہے یہی گلشن جسے چھوٹی نہیں بادِ خزاں کوئی راہ نزدیک تر راہ محبت سے سے نہیں، خوب فرمایا یہ نکتہ مہدی آخر زماں یہ دعا ہے میرا دل ہو اور تیرا پیار ہو میرا سر ہو اور تیرا پاک سنگِ آستاں لم جموں کاسل، شملہ میں کہی گئی تھی.( روز نامہ الفضل قادیان ۲۵ را کتوبر ۱۹۳۰ء)
در عدن 22 برتر گمان دو ہم سے احمد کی شان ہے بزبان حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام ) خوشا زمان! که سر دلم زماں گوید ثنائے دلبرم امروز ہر زباں ہمیں مراد مرا بود کل جہاں گوید چه تاب است زبان را که مدح آن گوید بیا نگر که سراپا ثنائے یار منم جدا ز یار عزیزم مدان عزتِ من رسیده نور ز آں آفتاب طلعت من بیافتم به طفیل حبیب جنت من زگوش ہوش بکن گوش ہر شہادت من عشق ز خدام جاں ثار منم د شهید الا دلا! که نه شنوی صدائے احمد را کہ تو ہنوز نہ دیدی ضیائے احمد را غذائے روح بدانم لقاء احمد را مپرس ایں کہ چہ حاصل دلائے احمد را؟ بمن کہ فدائے رخ نگار منم د الفضل ۲۵ اکتوبر ۱۹۳۰ء
23 در عدن صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے متعلق الوداعی نظم بر موقع سفر انگلستان بغرض تعلیم] جاتے ہو مری جان خدا حافظ و ناصر اللہ نگہبان خدا حافظ و ناصر ہر گام پہ ہمراہ رہے نصرت باری ہر لمحہ و ہر آن خدا حافظ و ناصر والی بنو امصار علوم دو جہاں کے اے یوسف کنعان ! خدا حافظ و ناصر ہر علم سے حاصل کرو عرفانِ الہی بڑھتا رہے ایمان خداحافظ و ناصر پہرہ ہوفرشتوں کا قریب آنے نہ پائے ڈرتا رہے شیطان خدا حافظ و ناصر ہر بحر کے غواص بنو لیک بایں شرط بھیگے نہیں دامان خدا حافظ و ناصر سر پاک ہو اغیار سے ، دل پاک نظر پاک اے بندہ سبحان خدا حافظ و ناصر محبوب حقیقی کی امانت“ سے خبر دار اے حافظ قرآن خدا حافظ و ناصر ( الفضل ۱۱ رستمبر ۱۹۳۴ء)
24 در عدن آثار محبت گلزار (1) دل جس کا ہوا حامل اسرار محبت برسنے لگے انوار محبت چهره لائے نہ اگر لب پر بھی گفتار محبت آنکھوں سے عیاں ہوتے ہیں آثار محبت یہ جوش دبانے سے ابھرتا ہے زیادہ ہے مجبور درد ہے سرشار محبت کبھی راز نہاں رہ نہیں سکتا گو ضبط بھی کرتا رہے بیمار محبت پوچھے دل عُشاق سے کوئی کہ یہ کیا ہے کس لطف کی دیتا ہے کھٹک خار محبت اس صاحب آزار کی راحت ہے اسی میں بن جائے ہر اک زخم نمک خوار محبت ہر دم دل بیمار کو رہتی ہے کچھ اور بڑھے شدّت آزار محبت تمتا
در عدن (۲) 25 اسرار محبت جو کود پڑا اس میں کھلا بھید یہ اس پر پوشیدہ ہے فردوس غار محبت صد ہر بند غلامی سے وہ ہو جاتا ہے آزاد کہتے ہیں جسے بندہ سرکارِ محبت“ ر کوہ مصائب کی بھی نہیں کرتا پروا وہ سر کہ اٹھا جس نے لیا بارِ محبت مطعون خلائق ہو تو ڈرتا نہیں اس سے ”دیوانه عاقل بره کارِ محبت ارباب محبت پہ یہ کیوں طعنہ زنی اے ہے بے خبر لذتِ آزار محبت گھرتے ہیں اسی دائرہ میں پانچوں حواس آہ جب قلب پہ پھر جاتی ہے پر کارِ محبت رہتا نہیں پھر کوئی دل وعقل میں جھگڑا ہو جاتے ہیں دونوں ہی گرفتار محبت پانچ حواس باطنی اور پانچ ظاہری
26 (۳) در عدن معیار محبت جو عشق میں کامل تھے ہوئے یار پہ قرباں تکمیل ہوئی بن گئے معیارِ محبت“ مالک ہوئے مر مر کے حیات ابدی کے کھینچے گئے سو بار دار محبت کیا دیکھ لیا پھر جو پلٹ کر نہیں دیکھا کھوئے گئے دنیا سے پرستار محبت 66 محبوب کو دل دے کے بنے ”دلبر عالم “ سر دے دئے کہلا گئے ”سردار محبت“ اسباق محبت کے زمانے کو پڑھائے خود ہو گئے وہ نخل ثمر بار محبت
27 (۴) در عدن دعا بحضور سر کار محبت اے شاہ زماں! خالق انوار محبت اے جان جہاں! رونق گلزار محبت کوچہ میں ترے گرم ہے بازار محبت سر بیچتے پھرتے ہیں خریدار محبت“ ہم کو بھی عطا ہو کہ تری عام ہے رحمت اک سوز دروں خلعت دربار محبت شعلہ سا ترے حکم سے سینوں میں بھڑک جائے پھر بجھ نہ سکے تا به ابد نارِ محبت ہاتھوں میں لئے کاسہ دل آئے ہیں مولا خالی نہ پھریں تیرے طلبگار محبت (آمین) الفضل ۱۴ر نومبر ۱۹۳۶ء)
در عدن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک فارسی نظم کا منظوم اُردو ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کی ایک فارسی نظم جس کا مطلع ہے.زخم اے محبت! عجب آثار نمایاں کردی و مرہم برہ یار تو یکساں کردی کا ترجمہ اردو نظم میں پیش کیا جاتا ہے (مبارکہ) اے محبت کیا اثر تو نے نمایاں کر دیا زخم و مرہم کو رہ جاناں میں یکساں کر دیا تو نے مجموع دو عالم کو پریشاں کر دیا ” عاشقوں کو تو نے سرگرداں و حیراں کر دیا تیرے جلووں نے بہت ذرے کئے خورشید وار خاک کی چٹکی کو مثل ماہ تاباں کر دیا تیرے زائر ہیں ترے اعجاز کے منت پذیر واپسی کے چن دئے در ، دخل آساں کر دیا 28
29 در عدن ہوش مندانِ جہاں کو تو نے دیوانہ کیا خانه فطنت" بسا اوقات ویراں کر دیا کون دیتا جان دنیا میں کسی کے واسطے تو نے اس جنس گراں مایہ کو ارزاں کر دیا ختم ہیں تجھ پر جہاں کی شوخیاں عیاریاں تو نے عیاروں کو نالاں کر دیا آگرا جو آگ میں تیری وہ بھن کر رہ گیا جانتے تھے جو نہ رونا ان کو گریاں کر دیا اے جنوں! دیوانہ ہو کر ہوش آیا ہے مجھے میں ترے قربان! تو نے یہ تو احساں کر دیا تیری خوں خواری مسلّم ہے تب عشق شدید خود تو ہے کافر مگر ہم کو مسلماں کر دیا ہر جگہ ہے شور تیرا کیا حقیقت کیا مجاز مشرک و مسلم سبھی کو ”سینہ بریاں“ کر دیا وہ مسیحا جس کو سنتے تھے فلک پر ہے مقیم “ 66 لطف ہے اس خاک سے تو نے نمایاں کر دیا ( الفضل ۲ مارچ ۱۹۴۰ء )
در عدن 30 حضرت مسیح موعود القلم کے چند فارسی اشعار کا ترجمہ کلام مسیح موعود القلي اے خداوند من گنا ہم بخش سوئے درگاہ خویش را هم بخش روشنی بخش در دل و جانم پاک کن از گناه پنهانم دلستانی و دلربائی کن نگا ہے گرہ کشائی کن بہ در دو عالم مرا عزیز توئی وانچه می خواهم از تو نیز توئی مولا مرے قدیر مرے کبریا مرے پیارے مرے حبیب مرے دلربا مرے بار گنہ بلا ہے مرے سر سے ٹال دو جس رہ سے تم ملو مجھے اس رہ پہ ڈال دو
31 در عدن اک نور خاص مرے دل و جاں کو بخش میرے گناہ ظاہر و پنہاں کو بخش رو رو بس اک نظر سے عقدہ دل کھول جائیے دل لیجئے مرا مجھے اپنا بنائیے ہے قابل طلب کوئی دنیا میں اور چیز؟ تم جانتے تم سے سوا کون ہے عزیز دونوں جہاں میں مایہ راحت تمہیں تو ہو جو تم سے مانگتا ہوں وہ دولت تمہیں تو ہو (الفضل ۹ / مارچ ۱۹۴۰ء )
در عدن 32 خدا تعالیٰ کے حضور دردمندانه التجا [ حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی فرمائش پر چند فارسی اور اردو اشعار کہے جن میں خدا تعالیٰ کے حضور نہایت اعلی پیرایہ میں دردمندانہ التجا کی گئی ہے.] مدد کن بادیا! گم کردہ راہم گنی گارم فطورا عطر خواهم عفو ستم کش ام ز دست خویش یارب قلم کش از کرم پر ہر گنا ہم الہی فضل سے دل شاد کر دے بنائے رنج و غم برباد کردے گرفتار بلا ہوں اپنے ہاتھوں بڑھا دست کرم آزاد کر دے الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۴۰ء)
33 مندرجہ ذیل شعر میرے میاں نواب صاحب مرحوم کی فرمائش پر ان کے کیلنڈر پر لکھنے کے لئے جن کو وہ ہمیشہ نئے سال کے کیلنڈر کے سرورق پر لکھتے تھے.(مبارکہ)] فضل خدا کا سایہ ہم پر رہے ہمیشہ ہر دن چڑھے مبارک ہر شب بخیر گزرے در عدن
در عدن اپنی مریم کا جنازہ دیکھ کر الہی کس دلہن کی پالکی ہے ملائک جس کو آئے ہیں اٹھانے بصد تکریم جاتے ہیں ہیں جلو میں فرشتے چادر انوار تانے ہزاروں رحمتوں کے زیر سایه دعاؤں کے لئے بھاری خزانے بلا ہمارے گھر کی زینت جا رہی ہے بساط لل جنت سجانے ولہن دولہا سے رخصت ہو رہی ہے ہے رپ دو سرا نے مجسم میری مریم ہے پیار خالق سے بڑھانے دل مہجور راضی ہو رضا پر ترا نہیں چاہا خدا نے 34 الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۴۴ء)
35 محمد کا خدا برائے حامد احمد خان سلمہ ] در عدن محمد پر ہماری جاں فدا ہے وہ کوئے صنم کا رہنما ہے کوئی ہمسر نہیں جس کا نہ ثانی پتہ ”اس یار کا اس نے دیا ہے ودیعت کر کے انعام محبت محبت سے جو اپنی کھینچتا ہے کوئی اس کو نہ جب تک آپ چھوڑے کسی کو خود نہیں وہ چھوڑتا ہے نہ کیوں سو جاں سے دل اس پر فدا ہو کہ وہ محبوب ہی جان وفا ہے وہ سچا اور سچے عہد والا جو منہ سے کہہ چکا وہ کر رہا ہے نبھا دی اس نے جس دوستی کی پھرا ہے جب بھی بندہ ہی پھرا ہے گنہگاروں پر وہ ” پیاروں کی خاطر کرم کیا کیا نہیں فرما رہا ہے دھلے جاتے ہیں دھبے دامنوں کے برابر رحمتیں برسا رہا ہے نہیں کچھ اس کے احسانوں کا بدلہ کسی نے جان بھی دے دی تو کیا ہے
در عدن 36 بڑا بدبخت ہے ظالم ہے بندہ جو اس سے عہد کر کے توڑتا ہے ذرا آگے بڑھے اور ہم نے دیکھا وہ خود ملنے کو بڑھتا آ رہا ہے محمد کا خدا ہے پیار والا محمد کا جہاں میں بول بالا ( الفضل‘۸/اگست ۱۹۴۵ء)
37 در عدن مبارک باد دعا برختم قرآن مجید میری بھانجی آمنہ طیبہ سلمها ( بیگم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد ) نے جب قرآن شریف ختم کیا تو یہ چندا شعار اس وقت ان کے لئے کہے گئے تھے.مبارکہ ] مبارک خدا کا ہوا فضل ختم قرآن طیب شب فضل خدا کے کرم و احسان مبارک تمہیں علم کا گلے کا پھٹکنے طيب جھومر بنے ہار ایمان طیب نہ پائے رہے دور ہی تم سے شیطان طیب اسی ނ منور ہو سینہ تمہارا کرے دل میں گھر نور قرآن طیب الہی یہی نور چھا جائے اتنا کہ بن جائے شمع شبستان طيب سبق سارے بھولیں نہ بھولے یہ ہرگز سکھاتا ہے جو تم کو قرآن طیب
در عدن بٹھا دے گا دل میں محبت خدا کی تمہیں اسی راسته بنا دے گا انسان طیب ملا در گا تم کو آخر خدا سے نکل جائیں گے دل کے ارمان طیب پر چلو میری پیاری یہی راہ ہے سب میں آسان طیب رہو دل ހނ مقابل میں اسلام کے سارے مذہب یہ مردے ہیں، لاشیں ہیں بے جان طیب تم دین کی اپنے شیدا کرو جان تک اس قربان طیب مسلمان جہاں کام دے گی نہ اے بی نہ سی ڈی وہاں کام آئے گا قرآن طیب بن کر دکھانا جہاں کو مسلمان طیب بنانا بہت ނ خدا سے دعا ہے کہ بن جائے اس کی مری پیاری طیب مری جان طیب (آمین) اس زمانہ میں عزیزہ کوانگریزی کا بہت شوق تھا اور انگریزی سکول میں جانے کا ارمان.مبارکہ نوٹ :.یہ بہت پرانی نظم ہے لیکن چھپی ” مصباح ۱۹۴۷ء میں ہے.38
39 در عدن اہل قادیاں کے نام پیغام یہ نظم امیر صاحب جماعت احمدیہ قادیان کی درخواست اور صاحبزادہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ کی تحریک پر کہی گئی تھی.] خوشا نصیب کہ تم قادیاں میں رہتے ہو دیار مهدی آخر زماں میں رہتے ہو قدم مسیح کے جس کو بنا چکے ہیں ”حرم تم اس زمین کرامت نشاں میں رہتے ہو خدا نے بخشی ہے ”الدار“ کی نگہبانی اسی کے حفظ اسی کی اماں میں رہتے ہو فرشتے ناز کریں جس کی پہرہ داری پر ہم اس سے دور ہیں تم اس مکاں میں رہتے ہو جس کی معطر نفوس عیسی ہے فضا ނ اسی مقام فلک آستاں میں رہتے ہو نہ کیوں دلوں کو سکون و سرور ہو حاصل کہ قرب خطہ رشک جناں میں رہتے ہو
در عدن تمہیں سلام جوار مرقدِ شاہ زماں میں رہتے ہو و دعا ہے نصیب صبح و مسا شیں جہاں کی ” شب قدر“ اور دن عیدیں جو ہم سے چھوٹ گیا اس جہاں میں رہتے ہو کچھ ایسے گل ہیں جو پژمردہ ہیں جدا ہو کر انہیں بھی یاد رکھو ” گلستاں میں رہتے ہو تمہارے دم سے ہمارے گھروں کی آبادی تمہاری قید صدقے ہزار آزادی دد بلبل ہوں صحن باغ سے دور او سے دور اور شکستہ پر پروانہ ہوں چراغ سے دور اور شکستہ پر 6 40 (الفضل_۵/جنوری ۱۹۴۰ء)
41 در عدن دع منصورہ بیگم سلمہا کی مسلسل بیماری بڑی ہی پریشان کن تھی کہ اس میں عزیز عبداللہ خان کی ناگہانی شدید علالت سے دل سخت اضطراب میں مبتلا ہو گیا تھا اسی سلسلہ میں رات کو دعا کرتے کرتے کچھ دعائیہ اشعار سے موزوں ہو گئے ہیں جو شائع کرنے کے لئے محض اس لئے ارسال ہیں کہ شاید کسی اور کو بھی عالم درد کی نسبتا پر سکون گھڑیوں میں ان کا پڑھنا اچھا معلوم ہو.”مبارکہ ] قدیر مرے مولا مرے ولی و نصیر مرے آقا مرے عزیز و اے مجیب الدعاء سمیع و بصیر قادر و مقتدر علیم و خبیر دل کی حالت کو جاننے والے اپنے بندوں کی ماننے والے ورود و رؤف رب رحیم اے غفور! اے میرے عفو و حلیم لطف کر بخش دے خطاؤں کو ٹال دے دے دور کر بلاؤں کو شانی و کافی و حفیظ و سلام مالک خالق الخلق ربی الاعلیٰ حی و و ذوالجلال و الاکرام قیوم ، محیی الموتی واسطہ تجھ کو تیری قدرت کا واسطہ تجھ کو تیری رحمت کا اپنے فضل عظیم کا صدقہ پنے نام کریم کا صدقہ کو تیرا ہی واسطه پیارے میرے پیاروں کو شفا پیارے (آمین) ( الفضل ۲۴۰ فروری ۱۹۴۹ء)
در عدن بسم الله السميع الدعاء حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب پر بیماری کے دوبارہ حملہ پر نیز منصورہ بیگم کی علالت مسلسل پر یہ دعائیہ نظم لکھی گئی.مندرجہ بالا دعا کا ایک شعر یہ بھی تھا جو ایک سے دو ہو جانے کی وجہ سے اس وقت میں نے نکال دیا تھا؎ تو چاہے اگر خاک کی چٹکی میں شفا دے ذرة ہر ناچیز کو اکسیر بنا دے اے محسن و محبوب خدا اے مرے پیارے اے قوت جاں اے دل محزوں کے سہارے (مبارکه) اے شاہ جہاں! نور زماں، خالق و باری ہر نعمت کونین ترے نام پہ واری یارا نہیں پاتی ہے زباں شکر و ثنا کا احساں سے بندوں کو دیا اذن دعا کا کیا کرتے جو حاصل یہ وسیلہ بھی نہ ہوتا یہ آپ سے دو باتوں کا حیلہ بھی نہ ہوتا 42
43 تسکین دل و راحتِ جاں مل ہی نہ سکتی آلام زمانہ سے اماں مل ہی نہ سکتی مایوس کبھی پروا نہیں باقی نہ ہو بے شک کوئی چارا کافی ہے ترے دامنِ رحمت کا سہارا تیرے سوالی نہیں پھرتے بندے تری درگاہ سے خالی نہیں پھرتے در عدن مالک ہے جو تو چاہے تو مردوں کو جلا دے اے قادر مطلق! مرے پیاروں کو شفا دے ہر آن ترا حکم تو چل سکتا ہے مولیٰ وقت آ بھی گیا ہو تو وہ ٹل سکتا ہے مولیٰ تقدیر یہی ہے تو یہ تقدیر بدل دے تو مالک تحریر ہے ”تحریر بدل دے (آمین) ( الفضل،۳ / مارچ ۱۹۴۹ء)
در عدن قطع چند ہی دن کی جدائی ہے یہ مانا لیکن بدمزہ ہو گئے دن بخدا تیرے بعد یہ دعا ہے کہ جدا ہو کے بھی خدمت میں رہوں زندگی میری رہے وقف دعا تیرے بعد 44 ( الفضل ۸/نومبر ۱۹۵۰ء)
5 45 در عدن فغان در ولیش در فراق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ و دیگر بزرگان قادیان] جو دور ہیں وہ پاس ہمارے کب آئیں گے دل جن کو ڈھونڈتا ہے وہ پیارے کب آئیں گے ہر دم لگی ہوئی ہے سرراہ پر نظر آخر ہماری آنکھوں کے تارے کب آئیں گے یارب ہمارے شاہ کی بستی اداس ہے اس تخت گاہ کے راج دلارے کب آئیں گے لب پر دعا ہے تیرے کرم پر نگاہ ہے عاشق ترے حبیب“ ہمارے کب آئیں گے جو سر کو خم کئے تری تقدیر کے حضور تیری رضا کو پا کے سدھارے کب آئیں گے کب راہ ان کی تیرے فرشتے کریں گے صاف کب ہوں گے واپسی کے اشارے؟ کب آئیں گے
در عدن جو ٹوٹ کر گئے ہیں اسی آسمان سے پھر لوٹ کر ادھر وہ ستارے کب آئیں گے صحن چمن سے ”گل“ جو گئے مثل ” بوئے گل“ رحمت کی بارشوں سے نکھارے کب آئیں گے زخم جگر کو مرہم وصلت ملے گا کب ٹوٹے ہوئے دلوں کے سہارے کب آئیں گے دیکھیں گے کب و محفل كَالْبَدْرِ فِي النُّجُومِ وہ چاند کب ملے گا وہ تارے کب آئیں گے دو کب پھر ”منار شرق“ پہ چمکے گا آفتاب ”شب کب کٹے گی دن“ کے نظارے کب آئیں گے کہتا ہے رو کے دل شب تاریک ہجر میں وہ ”مہر و ماہتاب تمہارے کب آئیں گے؟ 46 (ماہنامه درویش قادیان ستمبر ۱۹۵۱ء)
47 در عدن فی امان الله (اپنی محمودہ کے نام) ای نظم صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ کی تقریب رخصتانہ پر کہی گئی تھی.لو جاؤ تم کو سایہ رحمت نصیب ہو بڑھتی ہوئی خدا کی عنایت نصیب ہو ہر ایک زندگی کی حلاوت نصیب ہو ہر ایک دو جہاں کی نعمت نصیب ہو علم و عمل نصیب ہو، عرفان ہو نصیب ذوق دعا و حسن عبادت نصیب ہو محمود عاقبت ہو ، رہے زیست با مراد خوشیاں نصیب، عزت و دولت نصیب ہو ہو رشک آفتاب، ستارہ نصیب ہو آپ اپنی ہو مثال، وہ قسمت نصیب بب ہو نور و جمیل ! ”نور“ دل و جاں میں بخش دے اس کے کرم سے چاند سی طلعت نصیب ہو
48 در عدن ہر ایک دکھ سے تم کو بچائے مرا خدا ہر ہر قدم پہ اس کی اعانت نصیب ہو ہر بس ایک درد ہو کہ رہو جس سے آشنا محبوب جاوداں کی محبت نصیب ہو وقت دل میں پیار سے یادِ خدا رہے لذت و سرور یہ جنت نصیب ہو تسخیر خلق خلق و محبت سے تم کرو ہر ایک سے خلوص و محبت نصیب ہو اقبال تاج سر“ ہو ترے سر کے تاج“ کا اس کو خدا و خلق کی خدمت نصیب ہو نکلیں تمہاری گود سے پل کر وہ حق پرست ہاتھوں سے جن کے دین کو نصرت نصیب ہو ایسی تمہاری گھر کے چراغوں کی ہو ضیاء عالم کو جن سے نور ہدایت نصیب ہو راضی ہوں تم سے میں.میرا اللہ بھی رہے اس کی رضا کی تم کو مسرت نصیب ہو
49 افضل ہمارے حکم کو تم جانتی رہیں دنیا و دیں میں تم کو فضیلت نصیب ہو راحت ہی میں نے تم سے بہر طور پائی ہے کو بھی دو جہان کی راحت نصیب ہو گھر تھا صدف تو تم دُر خوش آب و بے بہا اس سے بھی بڑھ کے دولت عصمت نصیب ہو کھٹکا نہ کوئی فعل تمہارا مجھے ، تمہیں آرام قلب و جان و و جان و سکینت نصیب ہو حافظ خدا رہا میں رہی آج تک امیں جس کی تھی اب اسے یہ امانت نصیب ہو در عدن ”مصباح مارچ ۱۹۵۲ء بحوالہ ”الفضل‘۱۹۴۱ء)
در عدن رخصتانه مندرجہ ذیل چند اشعار میری بھتیجی عزیزہ امتہ النصیر سلمہا اللہ (جوسارہ بیگم مرحومہ کے بطن سے ہیں ) کی رخصتی کے دن قدرتی دردمندانہ جذبات کے ماتحت کہے گئے جور بوہ میں شادی کی محفل میں پڑھے گئے.(مبارکہ بیگم ۲۹ جنوری ۱۹۵۲ء) (1) بزبان حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ راحتِ جاں نور نظر تیرے حوالے یارب میرے گلشن کا شجر تیرے حوالے اک روٹھنے والی کی امانت تھی میرے پاس اب لختِ دل خستہ جگر تیرے حوالے ظاہر میں اسے غیر کو میں سونپ رہا ہوں کرتا ہوں حقیقت میں مگر تیرے حوالے پہنے ہے یہ ایمان کا ، اخلاق کا زیور لعل الماس و گہر تیرے حوالے شاخ قلم کرتا ہوں پیوند کی خاطر اتنا تھا مرا کام "شمر" تیرے حوالے 50
سنت تیرے مرسل کی ادا کرتا ہوں پیارے دلبند کو سینہ سے جدا کرتا ہوں پیارے (۲) بزبان عزیزه امته النصیر بیگم یہ نازش صد شمس و قمر تیرے حوالے مولا میرا نایاب پدر تیرے حوالے اس گھر میں پلی، بڑھ کے جواں ہو کے چلی میں پیارے تیرے محبوب کا گھر تیرے حوالے سب چھٹتے ہیں ماں باپ بہن بھائی بھتیجے یہ باغ یہ ہوئے یہ ثمر تیرے حوالے گھر والے تو یاد آئیں گے یاد آئے گا گھر بھی یہ صحن یہ دیوار یہ در تیرے حوالے جب مجھ کو نہ پائیں گے تو گھبرا ئیں گے دونوں یارب میری امی کے پسر تیرے حوالے مجبور ہوں مجبور ہوں منہ موڑ رہی ہوں چھوڑا نہیں جاتا ہے مگر چھوڑ رہی ہوں در عدن الفضل ۳۱۴ر جنوری ۱۹۵۲ء صفحه ۲ 51
در عدن وو ہو گیا آخر نمایاں فرق نورو نار کا جب دل صافی میں دیکھا عکس روئے یار کا بن گیا وہ بہر عالم آئینہ ابصار کا جس نے دیکھا اس کو اپنی ہی جھلک آئی نظر مدتوں جھگڑا چلا دنیا میں ”نور و نار “ کا خوب بھڑ کی آگ عالم بن گیا ” دارالفساؤ“ ابتداء سے کام ہے ” ہیزم کشی“ کفار کا وو پر خدا سے ڈرنے والے کب ڈرے اغیار سے بڑھ کے کب آگے قدم پیچھے ہٹا اخیار کا سب سے افضل تھے مگر اصحاب ختم المرسلین خلق میں کامل نمونہ عشق کے کردار کا ترند اعداء میں گھر کر بھی نہ ”ڈر" جانا کبھی خواہش اعلائے حق تھی، شوق تھا دیدار کا 52
53 در عدن کر دیئے سینے سپر مرتے گئے بڑھتے گئے منہ پھرایا کفر کے ہر لشکر جرار کا آسماں شاہد ہے ہاں اب تک زمیں کو یاد ہے کانپ جانا نعرہ تکبیر سے کفار کا عشق میں تحلیل روحیں چور زخموں سے بدن شمشیر میں پیغام دینا یار کا سات ابر رحمت ہو کے جب سارے جہاں پر چھا چکے دیا شیطاں نے ہنس کر زور تھا تلوار کا“ پھر نئی صورت میں ظاہر جلوۂ جاناں ہوا نور پھر اترا جہاں میں ”مبدء الانوار کا چن لیا اک عاشق خیر الرسل شیدائے دیں جس کی رگ رگ میں بھرا تھا عشق اپنے یار کا حکم فرمایا ”قلم تھامے ہوئے میداں میں آ“ صفحہ قرطاس سے رڈ کر عدو کے وار کا پھینک کر شمشیر و خنجر آج دنیا کو دکھا جذب صادق رعب ایماں عاشقان زار کا
در عدن گالیاں کھا کر دعا دو ، پا کے دکھ آرام دو“ روز دل پر تیر کھاؤ، حکم ہے دلدار کا نوک خامہ سے سلجھتی گتھیاں دیکھا کئے خوب تار و پود بگڑا دجل کی سرکار کا جھوٹ کے منہ سے اتر نے جب لگی پھٹ کر نقاب ہو گیا دشوار سینا اس کے اک اک تار کا ساپ کی مانند بل کھاتا ہے ابلیس لعین دیکھ کر رنگ جمالی احمد مختار کا حق و باطل میں کرے گی چشم بینا امتیاز ہو گیا آخر نمایاں فرق ” نور و نار“ کا 54 الفضل‘۲۷ جولائی ۱۹۵۲ء)
55 ایک دعا کافی عرصہ ہوا کسی موقعہ پر یہ دوشعر زبان وقلم سے نکلے تھے پڑھے، اب یہ یاد نہیں کہ کس وقت کس کیلئے کہے تھے مگر اب عزیزہ امتہ الرشید سلمہا کی فرمائش پر ان کی بچی کی شادی پر عزیزہ کے لیے تحفہ دے دیا ( مبارکہ) یارب یہی دعا ہے کہ ہر کام ہو بخیر اکرام لازوال ہو انعام ہو بخیر ہر وقت عافیت رہے ہر گام ہو بخیر آغاز بھی بخیر ہو ہو انجام انجام بھی بخیر در عدن
در عدن فحش گوئی اور نعرہ تکبیر ایک چشم دید و گوش شنید ہ منظر سے متا ثر ہو کر ) ہماری جان فدا سید الوراء کے لئے کبھی شمار ہیں اس شاہ دو سرا کے لئے بروئے کار ہے شیطاں نقاب برانداز ’بدی کو خوب ہے ہم کیوں کہیں ریا کے لئے ” طریق شرع نہیں اسوہ رسول نہیں مقام شرم ہے یہ غول اتقیا کیلئے نبی کے نام مقدس کی آڑ لے لے کر وفا کی شان دکھانے چلے جفا کے لئے جو رہن ہو چکی ابلیس کے خزانے میں وہ روح نذر شہنشاہ انبیاء کے لئے؟ دہان کھلتے ہی اڑتی ہے بوئے طاغوتی نہیں! یہ لب نہ ہمیں ذکر مصطفی کے لئے 56
57 دو یزیدی فعل زبانوں " یا علی “ توبه یہ اور تیر چلے آل مرتضی کے لئے کر اسی زباں سے اسی وقت گند بک بک خدا کا نام نہ لو ظالمو! خدا کے لئے در عدن (سفینہ لاہور ۱۹۵۳ء)
در عدن در ایام کرب مولا سموم غم کے تھپیڑے مانا کہ انتظام دفع بلیات بے پسند پند چاہئے جھلسے گئے ہیں سینہ و دل جاں بلب ہیں ہم جھڑیاں کرم کی ، فضل کی برسات چاہیے عمل ہیں نہیں قابل نظر ہیں خانہ زاد پھر بھی مراعات چاہیے پل مارنے کی دیر ہے حاجت روائی میں بس التفات قاضی حاجات چاہیے اتنا نہ کھینچ کہ رشتہ امید ٹوٹ جائے بگڑے نہ جس سے بات وہی بات چاہئے 58 (الفضل‘ ٫۵جون ۱۹۵۴ء)
59 در عدن میدان حشر کے تصور سے نہ روک راہ میں مولا شتاب جانے دے کھلا تو ہے تری ”جنت کا باب“ جانے دے مجھے تو دامن رحمت میں ڈھانپ لے یونہی حساب مجھ سے نہ لے، بے حساب جانے دے سوال مجھ سے نہ کر اے مرے سمیع و بصیر ، جواب مانگ نہ اے لاجواب“ جانے دے مرے گناہ تیری بخشش سے بڑھ نہیں سکتے ترے ثار! حساب و کتاب جانے دے تجھے قسم ترے ”ستار نام کی پیارے بروئے حشر سوال و جواب جانے جانے دے بلا قریب کہ یہ ”خاک پاک ہو جائے نہ کر یہاں مری مٹی خراب جانے دے رفیق جاں مرے ، یار وفا شعار مرے یہ آج دری کیسی؟ پرده پرده دار مرے (الفضل‘ ٫۵جون ۱۹۵۴ء)
در عدن دُعا مجمع اختیار میں یہ راز کی باتیں نہ کھول میرے اپنے تک ہی رہنے دے مرے احوال کو اپنی ستاری کا صدقہ میرے ستار العیوب حوض کوثر میں ڈبو دے نامہ اعمال کو 60
61 در عدن نشان حقیقت کی آرزو ڈاکٹر سر محمد اقبال کی نظم.کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں کے جواب میں مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں جو خلوص دل کی رمق بھی ہے ترے ادعائے نیاز میں ترے دل میں میرا ظہور ہے ، ترا سر ہی خود سر طور ہے تری آنکھ میں مرا نور ہے ، مجھے کون کہتا ہے دور ہے مجھے دیکھتا جو نہیں ہے تو ، یہ تری نظر کا قصور ہے مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکلِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں تری جبینِ نیاز میں
در عدن 62 مجھے دیکھ رفعت کوہ میں مجھے دیکھ پستی کاہ میں مجھے دیکھ بجز فقیر میں ، مجھے دیکھ شوکت شاہ میں نہ دکھائی دوں تو یہ فکر کر کہیں فرق ہو نہ نگاہ میں مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں تری جبینِ نیاز میں مجھے ڈھونڈ دل کی تڑپ میں تو، مجھے دیکھ روئے نگار میں کبھی بلبلوں کی صدا میں سن، کبھی دیکھ گل کے نکھار میں میری ایک شان خزاں میں ہے ، میری ایک شان بہار میں مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں تری جبینِ نیاز میں میرا نور شکل ہلال میں ، مرا حسن بدر کمال میں کبھی دیکھ طرز جمال میں کبھی دیکھ شان جلال میں رگِ جان سے ہوں میں قریب تر ، تر ادل ہے کس کے خیال میں مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکلِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں تری جبینِ نیاز میں (ماہنامہ مصباح اکتوبر ۱۹۵۴ء)
63 63 حضرت مصلح موعود کی یورپ سے آمد کے موقعہ پر صد (شمس صاحب کے خط کے جواب میں ) مبارک آ رہے ہیں آج وہ روز و شب بے چین تھے جن کے لئے آگیا آخر خدا کے فضل سے دن گنا کرتے تھے جس دن کے لئے الفضل ۲۶۴ ستمبر ۱۹۵۵ء خیر مقدم نمبر ) در عدن
در عدن بهتان پر صبر ایک یاد گار نظم محترم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب 1939 ء میں خاکسار مالیر کوٹلہ ایک ہفتہ کے لئے گیا.اس وقت خاکسار کے رشتہ کی بات محمودہ بیگم سے چل رہی تھی.میں نے اپنی آٹو گراف سیدہ بڑی پھوپھی جان حضرت نواب مبار کہ بیگم کو دی کہ کوئی نصیحت لکھ دیں.دوسرے روز خاکسار نے ان سے پوچھا کہ لکھ دیا ہے تو فرمایا ابھی ٹھہر و دعا کر رہی ہوں.چنانچہ دو دفعہ اسی طرح فرمایا تو پھر خاکسار کی واپسی کے دن سے ایک روز قبل مجھے بلا کر آٹوگراف دی اور کہا کے تمہارے لئے دعا بہت کی ہے اور یہ اشعار میرے دل میں آئے ہیں جو لکھ دئے ہیں جن کا عنوان تھا ” بہتان پر صبر خاکسار ذیل میں ان کا عکس شائع کر رہا ہے تا کہ احباب جماعت اس اصول پر عمل کر کے اپنی زندگیوں کو پرسکون اور کامیاب بناسکیں اور اللہ تعالی کی حفاظت میں رہیں.آمین ثم آمین.مبر ہر رنگ میں اچھا ہے پر اے مرد عقیل غلط الزام ہو صبر تو ہے صبر جمیل لوگ سمجھیں گے تو سمجھیں یہ خطا کا ہے ثبوت تم سمجھ لو کہ ہے سو بات کی اک بات "سکوت" 64
65 شعلہ جو دل میں بھڑکتا ہے دبا دو اس کو جھوٹ پر آگ جو لگتی ہے بجھا دو اس کو ضبط کی شان کچھ اس طرح نمایاں ہو جائے آپ سے آپ ہی دشمن بھی ہراساں ہو جائے آج جو شیخ ہے بے شک وہی کل شیریں ہے تلخ سچ کسی نے ہے کہا ”صبر کا پھل شیریں ہے“ کیا یہ بہتر نہیں مولا ترا ناصر ہو جائے نامرادی عدد خلق کر صبر کہ اللہ کی نصرت آئے ظاہر ہو جائے در عدن تیری کچلی ہوئی غیرت پہ وہ غیرت کھائے وہ لڑے تیرے لئے اور تو آزاد رہے خوب نکتہ ہے یہ اللہ کرے یاد رہے لب خاموش کی خاطر ہی وہ لب کھولتا ہے جب نہیں بولتا بندہ تو خدا بولتا ہے (مبارکه ۳ /جون ۱۹۳۹ء) نوٹ : ماہنامہ خالد ربوہ ماہ نومبر۱۹۵۷ء میں بینظم کچھ اختلاف سے شائع ہوئی ہے.
در عدن تحریک دعائے خاص دعائے مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں“ (1) یاد ہے چھبیس مے سن آٹھ * حزب المومنیں ! وہ غروب شمس وقت صبح محشر آفریں دیکھنے نہ پائے جی بھر کر کہ رخصت ہو گیا مشعل ایماں جلا کر نور دور آخریں ہاتھ ملتے رہ گئے سب عاشقانِ جاں شار لے گیا ” جانِ جہاں کو گود میں جاں آفریں وو جسم اطہر کے قریں مرغان بسمل کی تڑپ ہو رہی تھی روح اقدس داخل خلدِ بریں جس طرف دیکھا یہی حالت تھی ہر شیدائی کی سر به سینه ، چشم باراں، پشت خم، اندوہ گئیں حسرتیں نظروں میں لے کر صورتیں سب کی سوال اب کہاں تسکین ڈھونڈیں ” بے سہارے دل حزیں ۲۲ مئی ۱۹۰۸ء یوم وفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام 66
67 در عدن وہ لب جاں بخش کہہ کر قم باذنی چپ ہوئے ہجر کے ماروں کو اب کوئی جلائے گا نہیں؟ کون دکھلائے گا ہم کو آسمانی روشنی؟ چودھویں کا چاند چھپ جائے گا اب زیر زمیں وو دونوں ہاتھوں سے لٹائے گا خزانے کون اب؟ تشنہ روحیں کس سے لیں گی آب فیضان معیں؟ منحنی اٹھا اک جوان (۲) بعرم استوار اشکبار آنکھیں لبوں پر عہد راسخ دل نشیں شوکت الفاظ بھرائی ہوئی آواز میں کرب وفخم میں بھی نمایاں عزم و ایمان و یقیں میں کروں گا عمر بھر تکمیل تیرے کام کی میں تری تبلیغ پھیلا دوں گا بر روئے زمیں زندگی میری کٹے گی خدمت اسلام میں وقف کردوں گا خدا کے نام پر جانِ حزیں
در عدن 68 یہ ارادے اور اتنی شان ہمت دیکھ کر اس گھڑی بھی ہو رہے تھے محو حیرت سامعین درد میں ڈوبی ہوئی تقریر، سن سن کر جسے لوگ روتے تھے ملائک کہہ رہے تھے ” آفریں“ چشم ظاہر میں سے پنہاں ہے ابھی اس کی چمک تیری قسمت کا ستارا بن چکا ماہ میں (۳) اک بار گراں لینے کو آگے ہو گیا ناز کا پالا ہوا ماں باپ کا طفل حسیں کر نہیں سکتا کوئی انکار عالم ہے گواہ جو کہا تھا اس نے آخر کر دکھایا بالی ذات باری کی رضا ہر دم رہی پیش نظر خلق کی پروا نہ کی خدمت سے منہ موڑا نہیں النفير چیر کر سینے پہاڑوں کے بڑھے اس کے قدم سینہ کوبی پر ہوئے مجبور اعدائے لعیں دشمنوں کے وار چھاتی پر لئے مردانہ وار پشت پر ڈستے رہے ہر وقت مارِ آستیں
ایسی باتیں جن سے پھٹ جاتا ہے پتھر کا جگر بر سے سنتا رہا ماتھے پہ بل آیا نہیں کوئی پوچھے کس گنہ کی اس کو ملتی تھی سزا؟ کس خطا پر تیر برسائے؟ گروہ ظالمیں! گریه یعقوب نصف شب خدا کے سامنے صبر ایوبی برائے خلق با خندہ جبیں صرف کر ڈالیں خدا کی راہ میں سب طاقتیں جان کی بازی لگا دی قول پر ہارا نہیں پر ارض ربوہ جس کی شاہد ہے وہ معمولی نہ تھا خونِ فخر المرسلیں تھا شیر اُم المومنیں آج فرزند مسیحائے زماں بیمار ہے دعوی داران محبت سو رہے جا کر کہیں؟ قوم احمد جاگ تو بھی، جاگ اس کے واسہ ان گفت راتیں جو تیرے درد میں سویا نہیں ہو دعائے دردِ دل سالم رہے قائم رہے وو یہ دعائے احمد ثانی نوید اولیس (آمین) در عدن ( الفضل جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۵۷ء ) 69
در عدن دعائیں اور نصائح خالد کے نام [ خالد ( عبدالرحیم خاں) ایک زمانہ میں انگلینڈ میں فیل ہوکر سخت گھبرا گئے تھے.اور ان دنوں صحت بھی کچھ خراب ہو گئی تھی.اس وقت ان کو ایک دعائیہ اور نصیحت کا خط لکھا تھا.یونہی قلم برداشتہ.وہ تہذیب النسواں لاہور 1925ء میں شائع ہو چکا ہے اور وہ یہ ہے.مبارکہ ] جنوری 1925 السلام علیکم آگاہ ہو تم پہلے اسلام کی سنت سے دیتی ہوں دعا خالد پھر صدق و محبت سے مقبول دعائیں ہوں، سب دور بلائیں ہوں لے آئے خدا تم کو اب خیر سے، عزت سے رحمت کا رہے سایہ بڑھتا ہی رہے پایہ ہر وقت خدا رکھے آسائش و صحت سے صحت بھی ہو عزت بھی ہو دین بھی دولت بھی سیرت ہے بہت اچھی ظاہر ہو یہ صورت سے 70
71 در عدن راضی ہو خدا تم سے، شیطاں ہو جدا تم سے لبریز رہے سینہ ایمان کی دولت سے فضلوں کی لگیں جھریاں ، خوشیوں سے کئے گھڑیاں انعام کی بارش ہو، خالق کی عنایت سے شفقت ہو، ہر اک سے مروّت ہو معمور ہو دل ہر دم خالق کی محبت سے مخلوق : مخدوم وہی ہو گا جو دین کا خادم ہو سب شان ہے مسلم کی اسلام کی شوکت سے بن جاؤ خدا کے تم آجائے گی خود دنیا جوڑے ہوئے ہاتھوں کو تر عرق ندامت سے ہاں یاد رہے خالد یہ شان ہے مومن کی مایوس نہیں ہوتا اللہ کی رحمت محنت ہو اگر سچی ضائع وہ نہیں ہوتی تم کام کئے جاؤ اخلاص سے ہمت سے ہمت نہ ހނ کبھی ہارو مایوس نہ ہو ہرگز بڑھ کر نہ ہٹو پیچھے، اکتاؤ نہ محنت سے
72 فضل خدا ہو گا امید رکھو قائم گھبرا نہ کہیں جانا افکار کی شدت سے اللہ پہ بھروسہ ہو ، اور پاک ارادے ہوں اعمال کی پرسش ہے انسان کی نیت سے سینچا بھی کرو اس کو پانی سے دعاؤں کے پھل کھانے ہیں گر تم نے کچھ نخل ریاضت سے ✰✰✰ در عدن
73 در عدن وو غیر مطبوعه اشعار حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ اپنے ایک خط میں تحریر فرماتی ہیں: چند جستہ مزید دعائیہ اشعار جو یاد تھے یا کوئی پرزہ وغیرہ مل گیا ارسال ہیں.] (1) [ ایک دعا جو 1941 ء میں طیبہ صدیقہ بیگم مسعود احمد خان اپنے لڑکے کی بیوی کو کہہ کر دی تھی.میرے مولا کٹھن راستہ اس زندگانی کا ہے مرے ہر ہر قدم پر خود ره آسان پیدا کر تری نصرت سے ساری مشکلیں آسان ہو جائیں ہزاروں رحمتیں ہوں فضل کے سامان پیدا جو تیرے عاشقِ صادق ہوں، فخر آلِ احمد ہوں الہی نسل سے میری تو وہ انسان پیدا کر اس وقت ان کا پہلا بچہ ہونے کو تھا.مودود احمد خان سلمہ تعالیٰ
74 (4) ایک پکار کیا التجا کروں کہ مجسم دعا ہوں میں سر تا به پا سوال ہوں سائل نہیں ہوں میں میری خطائیں سب ترے غفراں نے ڈھانپ لیں اب بھی نگاہِ لطف کے قابل نہیں ہوں میں؟ وحشت مری نہیں ابھی ہم پایہ جنوں اہل خرد پہ بار ہوں عاقل نہیں ہوں میں میرا کوئی نہیں ہے ٹھکانا ترے سوا تیرے سوا کسی کے بھی قابل نہیں ہوں میں مٹتی ہوئی خودی نے پکارا کہ اے خدا! آجا کہ تیری راہ میں حائل نہیں ہوں میں راگ دل کا راز ہے سن درد آشنا کچھ ہمنوائے شور عنادل نہیں ہوں میں در عدن
در عدن (۳) درد دل درد کہتا ہے بہا دو خونِ دل آنکھوں سے تم عقل کہتی ہے نہیں! آہ و فغاں بے سود ہے خوف ہے مجھے کو کہ لگ جائے نہ اشکوں کی جھڑی آج میرا مطلع دل پھر غبار آلود ہے (۴) دعائيه مسعود احمد خان کو بچپن میں لکھ کر دیا تھا ] دو جہاں میں تجھ کو حاصل گوہر مقصود ہو اے مرے مسعود تیری عاقبت محمود ہو (آمین) 75
76 (۵) الحمد لله فرش سے عرش پہ پہنچی ہیں صدائیں میری میرے اللہ نے سن لی ہیں دعائیں میری (1) [۱۹۲۴ء کو خواب میں شعر آیا ] مایوس و غم زدہ کوئی اس کے سوا نہیں قبضے میں جس کے قبضہ سیف خدا نہیں سیف خدا والا مصرع تو پورا یا درہا اوپر کے مصرع کا مفہوم بھی یہی تھا.اسی وقت اس کو لکھ بھی لیا تھا.ٹھیک کر کے بڑے ماموں جان مرحوم نے سیف خدا نہ ہو لکھا ہے مگر اصل اسی طرح تھا جس طرح میں نے لکھا ہے.(مبارکہ)] در عدن
در عدن (2) ایک شب کو دعا کے بعد خواب میں یہ مصرعہ بآواز بلند سنائی دیا آنکھ کھلی تو حضرت اماں جان میرے قریب نماز میں مصروف تھیں بے خیر ہی خیر رہے خیر کی راہیں کھل جائیں اس پر مصرع لگایا گیا.شعر ہوا.وہ کرم کر کہ عدو کی بھی نگاہیں کھل جائیں خیر ہی خیر رہے خیر کی راہیں کھل جائیں“ (V) متفرق اور کرشمہ قادر باری! قدرت کا دکھلا دے بنے بنائے ٹوٹ چکے اب ٹوٹے کام بناوے الہی مشکلیں آسان کر دے الہی فضل کے سامان کر دے 77
78 (4) کسی عزیز لڑکی نے مصرع طرح غالب کا دے کر چند اشعار کہلوائے تھے، وہ بھی پانچ چھ لکھے ہوئے مل گئے ہیں] پھر دکھا دے مجھے مولا میرا شاداں ہونا خانہ کا میرے رشک گلستاں ہونا ان کے آتے ہی مرے غنچۂ دل کا کھلنا اس خزاں کا مری صد فصل بہاراں ہونا خلقت انس میں ہے انس و محبت کا خمیر گر محبت نہیں بیکار ہے انساں ہونا قابلِ رشک ہے اس خاک کے پتلے کا نصیب جس کی قسمت میں ہو خاک در جاناں ہونا رو کے کہتی ہے زمیں گر نہ سنے نامِ خدا ایسی بستی سے تو بہتر ہے بیاباں ہونا“ فعل دونوں ہی نہیں شیوہ مردِ مومن رونا تقدیر کو، تدبیر نازاں ہونا لله الحمد چلی رحمتِ باری کی نسیم دیکھنا غنچہ دل کا گل خنداں ہونا در عدن
79 در عدن یاد مشهود اور درخواست دعائے نعم البدل عزیزی سید مسعود احمد اور عزیزہ امتہ الرؤوف بیگم کا پلوٹھی کا بیٹا سید مشہود احمد جو بہت پیاری اداؤں والا بچہ نیز اپنی عمر سے بڑھ کر ذہین اور خوش خلق بچہ تھا چھوٹی عمر لے کر آیا تھا.اسے ہمارے پیارے مولیٰ نے بلالیا.اس جدائی سے سب عزیزوں کے دل غمگین طبعی طور پر ہو گئے.اسکی والدہ اور پر دیسی مجاہد باپ نیز منصور احمد اور ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ پر یہ صدمہ بہت اثر انداز ہوا.درخواست ہے کہ سب احمدی بھائی بہن ان کے لئے خیر سے نعم البدل نیک خادم دین عطا ہونے کی دعا فرما کر ممنون فرمائیں اور ساتھ ہی عزیزہ امتہ الشکور میری نواسی عزیزی ناصر احمد کی بیٹی اور عزیزہ امتہ القدوس ( بیگم مرز وسیم احمد ) کے لئے بھی بہت دعا فرمائیں.ان دونوں کے ولادت پھر ہونے والی ہے.دونوں کے لڑکے مردہ پیدا ہو چکے ہیں.اب خدا تعالیٰ زندگی والے صحیح و سالم ، ماؤں کی بھی صحت اور زندگی کے ساتھ ، ان کو بیٹے نیک خادم دین، بلند اقبال عطا فرما کر خوشی دکھائے.مندرجہ ذیل چند شعر مشہود کی یاد میں کہے تھے.والسلام.مبارکہ ] مسکرا کر جس نے سب کے دل لبھائے چل بسا پیار کرتے تھے جسے اپنے پرائے چل بسا خلق اس معصوم کا، اس کی ادائیں دل نشین بھولنا چاہیں بھی گر تو بھولنا ممکن نہیں
در عدن بھولے بھالے منہ سے وہ باتیں نرالی آن سے ننھے منے پاؤں سے چلنا وہ اس کا شان سے کشتی عمر رواں یکدم کدھر کو مڑ گئی اک ہوا ایسی چلی کہ گھر کی رونق اڑ گئی چار دن ہنس کھیل کر مشہود رخصت ہو گئے کھل کے گلہائے مسرت داغ حسرت دے گئے نقش دل پر ایک تصویر خیالی رہ گئی گود ماں کی بھر کے پھر خالی کی خالی رہ گئی اپنی رحمت سے الہی جلد دے نعم البدل یہ دل فرقت زدہ بے چین پھر پا جائیں کل 80 الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۶۴ء) گل بمعنی سکون و آرام
81 در عدن ایک مجاہد کی جدائی پر [ اسی گزشتہ جلسہ سالانہ کے قریب ایک صبح آنکھ کھلتے کھلتے یہ مصرع میری زبان پر تھا.غلامی از غلامان محمد ں سے پہلے کوئی خواب دیکھا ہو تو وہ فراموش ہو چکا تھا، بظاہر اس میں کوئی قابل تشویش پہلو محسوس ہونا ضروری نہ تھا تا ہم میرے دل پر اچھا اثر نہ تھا.وہم آتے رہے.دعا کی مگر خیال سالگا رہا.چوہدری فتح محمد سیال صاحب مرحوم کی اچانک وفات کی خبر پر اس خواب والے مصرعہ پر چند اشعار اس صدمہ کی حالت میں آخر صورت پذیر ہو گئے جو درج ذیل ہیں.اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے کسی کا بچہ وفات پا جائے تو دعادی جاتی ہے کہ خدا نعم البدل دے مگر میرے خیال میں ان بیش قیمت خدام دین کی وفات پر اس سے بھی بڑھ کر تڑپ کے ساتھ ہر احمدی کے دل سے یہ دعا نکلنی چاہئے کہ الہبی ہم کو تم البدل دے.ایک نہیں بلکہ ایک کے عوض ہزاروں.آمین.مبارکہ ] جواں مردے ز مردان محمد غلام از غلامان محمد یکے از عاشقان روئے احمد یکے از جاں شارانِ محمد سنا ہے آج رخصت ہو گیا ہے نبھا کر عہد و پیمان محمد.بسرعت سوئے جنت اڑ گیا ہے مجاہد طیر پران محمد
در عدن 82 رہا کوشاں پئے فتح محمد خدا کی جان قربان محمد محمدم وہ چل دیتا جدھر کرتے اشارہ علمبردار ذی شان اسی کوشش میں ساری عمر گزری پھلے پھولے گلستان محمد بشر تھا پھرتے پھرتے تھک گیا تھا لی زیر دامان محمد مبارک ہے یہ انجام مبارک قسمت محبان محمد رہے الفضل ۱۵ ر اپریل ۱۹۶۰ء)
83 احمدی بچیوں کی جانب سے دعا برائے خلیفة المسیح ایده الله در عدن قرار وسکوں دل کو آتا نہیں ہے کسی طور یہ چین پاتا نہیں ہے کڑا وقت ہے اور بڑا اضطراب کھلے ہیں مگر اس کی رحمت کے باب دل غمزدہ تو ہراساں نہ ہو دعا کر خدا سے، پریشاں نہ ہو بڑا اس نے احسان ہم پر کیا ہے طریقہ تسلی کا بتلا دیا ہے وہ ہے تیری شہ رگ سے زیادہ قریب کہا اس نے بندوں کو اِنِّی مُجِیب کہا میرے بندو! نہ ہونا ملول دعائیں کرو، میں کروں گا قبول وہی یاد وعده ترا کر رہی ہوں بڑی آس لے کر دعا کر رہی ہوں الہی ہمیں رنج و غم سے چھڑا دے خوشی کی خبر ہم کو جلدی سنا دے یہ ممکن نہیں ہے کہ خالی پھرے وہ ترے در پہ بندہ جو کوئی صدا دے خدایا میں ناچیز بندی ہوں تیری میں جو مانگتی ہوں مجھے وہ دلا دے
در عدن 84 ترے سامنے ہاتھ پھیلا رہی ہوں مری شرم رکھ میری جھولی بھرا دے وہ محبوب تیرا ہمارا خلیفہ بہت دن سے بیمار ہے اب شفا دے گھرے ہیں جو بادل یہ پھٹ جائیں سارے ہوائیں تو رحمت کی اپنی چلا دے کرم سے انہیں تندرستی عطا کر بلائیں ٹلیں اور خوشیاں دکھا دے اندھیرا مٹے روشنی پھیل جائے اب اک اور عالم کو پھیرا دکھا دے کہو سننے والو میرے ساتھ آمین خدا تم کو بہتر بہتر جزا دے (مصباح دسمبر ۶۱ء وجنوری ۶۲ء )
85 در عدن پھلے اور پھولے یہ گلشن تمہارا محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے فرزند اکبر صاحبزادہ مرزا مجیب احمد صاحب کی شادی کی تقریب پر حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ مدظلها العالی نے مندرجہ ذیل اشعار رقم فرمائے ہیں اور تحریر فرمایا: وو پیارے مبارک! با وجو د طبیعت آج کل اکھڑی اکھڑی رہنے کے اور صحت کی خرابی کے تمہاری فرمائش پر سات شعر سادہ سے دلی دعاؤں کے ساتھ ارسال ہیں.(مبارکه ۶۳ -۱۱-۲۸)] مرے پیارے بھائی کے پیارے مبارک رہیں کام سارے تمہارے مبارک مبارک مبارک ہو بیٹے کی شادی رچانا مبارک بھیجی تمہیں جوڑا ہو فضل خدا بیاه لانا ނ قدم ان کے بھٹکیں نہ راہِ وفا سے مبارک ملیں ان کی کھیتی چلیں ان سے یارب بہت پاک فصلیں نسلیں
در عدن ملے ان کو ہر دین و دنیا کی نعمت دلوں پر ہو غالب خدا کی محبت پھلے اور پھولے گلشن تمہارا بھرے موتیوں سے دامن تمہارا دعا میری سن لے خدائے مجیب کہا جس نے رحمت سے اِنِّي قَرِيب (آمین) 86 الفضل ۶ / دسمبر ۱۹۶۳)
87 در عدن اپنے پیارے بھائی کی یاد میں ”کچھ زمین کی کچھ آسمان کی“ حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ ( کی وفات پر ) کون جی میرا آج پہلائے کس کو دل داغ دل داغ اپنے دکھلائے راہبر! بتا کہاں ہیں وہ دل مضطر انہیں کہاں پائے ہم تو اسی کو جانیں گے ہمیں دلربا ملوائے گل کھلے ہیں بہار آئی ہے کاش ایسے میں وہ بھی آجائے
در عدن ڈھونڈتی ہے جنہیں نظر میری تو آئے وہی نہیں آئے مری آہ کا اثر تو نہیں عرش کے ہل رہے ہیں کیوں پائے ہم تو دل دے کے جان ނ اپنی کوئے جاناں میں ہاتھ دھو آئے زندگی وہ ہو جسے عزیز بہت نہ مرنے کی دل میں ٹھہرائے اب تو بیٹھے ہیں گوش بر آواز چاہے جس وقت یار بلوائے 88 (الفضل سالانہ نمبر ۱۹۶۳ء)
89 در عدن مجاہدین کے نام [ حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے ذیل کی نظم ناسازی مطبع اور علالت کے باوجود کہی ہے.آپ کی طبیعت بالعموم ناساز رہتی ہے.نیز سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی علالت کی وجہ سے بھی آپ کا متفکر رہنا ایک طبعی امر ہے.احباب ان ایام میں خصوصیت سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ حضور ایدہ اللہ کو اور حضرت سیدہ موصوفہ کو اپنے فضل سے صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے اور ان مقدس بزرگوں کے بابرکت سایہ کو تا دیر ہمارے سروں پر قائم رکھے.آمین] کرنا ہے جس کو پار وہ سرحد قریب ہے ہمت کرو زمین آب و جد قریب ہے ہو نذرِ جاں قبول تو مشہد قریب ہے بڑھتے چلو کہ منزلِ مقصد قریب ہے بڑھتے چلو کہ منزل مقصد قریب ہے ہاں ہاں یہ کیا کہ بیٹھ رہا جی کو چھوڑ کر بھائی خدا کے واسطے ایسا غضب نہ کر آنکھیں تو کھول، سر تو اٹھا ، دیکھ تو ادھر قصر مراد کے کلس آتے ہیں وہ نظر بڑھتے چلو کہ منزل مقصد قریب ہے
در عدن مومن قدم بڑھا کے ہٹاتے نہیں کبھی کو قضا کے تیر ڈراتے نہیں کبھی مردانہ وار بڑھتے ہیں سینہ سپر کئے غازی عدد کو پیٹھ دکھاتے نہیں کبھی بڑھتے چلو کہ منزل مقصد قریب ہے بڑھتے چلو کہ نصرت حق ہے تمہارے ساتھ پنے خدا کا ہاتھ دکھا دو خدا ئی کو جنت کے در کھلے ہیں شہیدوں کے واسطے رحمت خدا کی آئے گی خود پیشوائی کو بڑھتے چلو کہ منزل مقصد قریب ہے 90 ( الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۶۵ء)
91 در عدن حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی یاد میں مبارک آمدن ، رفتن مبارک 1 میں حضرت سید نا بڑے بھائی صاحب حضرت خلیفہ اصسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی.گزری ہوئی یادوں نے تازہ ہو کر تصور میں آکر مجھے زمانہ ماضی میں پہنچا دیا تھا، دل درد فراق سے بے چین و بے قرار ہو رہا تھا کہ خود بخود بغیر کسی شعر کہنے کے ارادے کے حسب ذیل مصرع قلب میں گزرا.اس پر چند اشعار ہو گئے جوارسال ہیں.مبارکہ.] بشارت دی مسیحا کو خدا نے تمہیں پہنچے گی رحمت کی نشانی ملے گا ایک فرزند گرامی عطا ہو گی دلوں کو شادمانی وہ آیا ساتھ لے کر فضل“ آیا بصد اکرام شاه دو مٹا کر اپنی ہستی راہِ حق میں جہاں کو اس نے بخشی زندگانی یہی مدنظر تھا ایک مقصد جہانی برائے دینِ احمد جانفشانی رہی نصرت خدا کی شامل حال گزاری زندگی با کامرانی ہمیں داغ جدائی آج دے کر ہوا حاضر حضور یارِ جانی جو اُس نے ”نور“ بھیجا تھا جہاں میں ہوا واصل وہ جس کے قلب و روح و تن مبارک مبارک آمدن ، رفتن مبارک به رپ جاودانی (الفضل ۱۸؍ دسمبر ۱۹۶۵ء)
در عدن خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی کل عزیزی مبشر احمد محمودہ منور کے بڑے لڑکے نے ایک تصویر عزیزی ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث کی اس گزشتہ جلسہ سالانہ کی بھیجی.اس کو دیکھا.لیٹے لیٹے ، اسی وقت یہ تین شعر زبان پر آگئے اور سوچا کہ یہ اس کے نیچے لکھے جاتے تو اچھا تھا.الفضل کے لئے ارسال ہیں.مبارکہ.خدا کا فضل ہے اس کی عطا ہے محمد کے وسیلے سے ملا ہے وو مبارک تھا یہ اُم المومنیں کا ہوا مقبول رب العالمیں کا احمد و تنویر محمود موعود ابن موعود ابن موعود 92 (مصباح مئی (۱۹۶۶ء)
93 در عدن تشنہ روحوں کو پلا دو شربت وصل و بقا حضرت مرزا نا صراحمد خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ کے مصرع کی تضمین.یہ مصرع حضور کو خواب میں بتلایا گیا تھا.] جب سے تجویز سفر تھی سب تھے مصروفِ دعا خود امیر المومنیں اور ہر غلام باوفا یا الہی خیر ہو آئیں بصد فتح و ظفر درد دل سے تھی حضور ذات باری التجا طالب "نَصْرٌ مِّنَ اللَّهِ سائِلِ فَتْحٌ قَرِيبٌ» روز و شب رہتا تھا سالار سیاہ مصطفی آباد رحمت حق جوش میں آئی یہ حالت دیکھ بهر تسکین و سکوں مولا نے یہ مژدہ دیا میری نصرت ہم قدم ہے فضل میرا ہم نفس اے ”مبارک جا سفر تیرا مبارک کر دیا یہ زباں تیری، قلم تیرا ترے قلب و دماغ ہیں سبھی میرے تصرف میں، تجھے پھر خوف کیا سپاہ مصطفی سے مراد جماعت احمد یہ ہے جس کا مقصد اولین اور فرض اولین خدمت اسلام اور سینہ سپر ہو کر تمام عالم کے چپہ چپہ پر اسلام کا علم تو حید کا پرچم بلند کرنا ہے.مبارکہ ]
در عدن کہہ چکا ہے رحمت عالم کا فرزند جلیل ” ہم ہوئے دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا کام کو جس کے چلا ہے خود وہ تیرے ساتھ ہے اے مرے ”ناصر“ ہے تیرا حافظ و ناصر خدا تجھ کو روحانی خزائن ہیں مسیحا سے ملے دونوں ہاتھوں سے لٹا اے صاحب جود وسخا علم و عرفاں تم کو بخشا اور کنز بے بہا یہ کلام رب اکبر یہ کتاب حق نما دل میں ایمان و یقیں ہے ہاتھ میں قرآن ہے تشنہ روحوں کو پلا دو شربتِ وصل و بقا 94 (مصباح دسمبر ۱۹۶۷ء)
95 95 در عدن تضمین براشعار حضرت مسیح موعود القلب (1) کفر کے ہاتھوں سے پا سکتے نہیں جائے مفر نرغہ بد باطناں سے بڑھ رہا ہے شور و شر کیوں نہ ہو ہر اہلِ دل کا دیکھ کر زخمی جگر تیر بر معصوم می بارد خبیث بد گہر آسمان را حق بود گر سنگ بارد بر زمیں (r) قدر داں اسلام کے باقی نہ حامی ہے یہ عید جانتے ہیں سہل دشمن جنس ایماں کی خرید ہیں کہاں! آگے بڑھیں نصرت کو مردان سعید ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید دین حق بیمار و بے کس ہمچو زین العابدین (الفضل جنوری ۱۹۶۸ء)
در عدن مغفرت بے حساب ھو جائے مرحمت لا جواب ھو جائے 1 شروع سال کی بات ہے ایک شب حالت خواب میں یہ شعر میری زبان پر جاری ہوا.] مغفرت بے حساب ہو جائے مرحمت لا جواب جواب ہو جائے قرب رحمت مآب حاصل ہو وصل عالی جناب ہو جائے دل کے مالک پکار سن دل کی ہر دعا مستجاب ہو جائے 96 بادِ رحمت سے اڑ کے ہر غم و فکر ایک بھولا سا خواب ہو جائے ( الفضل جولائی ۱۹۷۰ء)
97 سید داؤ داحمد صاحب کی وفات پر خوبیاں بھر دی تھیں مولیٰ نے دل داؤد میں خادم محمود پہنچا خدمت محمود میں سونیا ہے تمہیں خالق و مالک کی اماں میں سوئے ہو یہاں، آنکھ کھلے باغ جناں میں در عدن
در عدن نذر محمود دشمن بنے جو تیرے محبوں کی جان کے وہ خود ہی اپنی جان سے بیزار ہو گئے جھنڈا رہا بلند محمد کے دین کا ذلّت جو چاہتے تھے سبھی خوار ہو گئے 98 (الفضل، جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۷۰)
99 در عدن سونپا تمہیں خدائے جہاں کی امان میں [ حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے یہ اشعار محترمہ صاحبزادی امتہ النور صاحبہ سلمہا اللہ تعالیٰ بنت محترم میاں عبدالرحیم احمد صاحب کی تقریب شادی پر کہے تھے.الفضل] سونپا تمہیں خدائے جہاں کی امان میں ہر خیر بخش دے تمہیں دونوں جہان میں رب ودود اپنی محبت عطا کرے آپس میں اتفاق و مودت عطا کرے سایہ رہے سروں پہ حفیظ و رقیب کا ہوتا رہے بلند ستاره نصیب کا ( الفضل ۳ دسمبر ۱۹۷۱ء)
در عدن 100 ایک تحریک پر بھائیوں کی یاد میں [ حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے اپنی ناسازی طبع کے باوجود اپنا تازہ منظوم کلام اور اس سے متعلق ایک بیش قیمت نوٹ الفضل میں اشاعت کی غرض سے عنایت فرمایا ہے جوذیل میں ہدیہ قارئین کیا جارہا ہے.] نوٹ: ایک بہت پرانی دوست جو قریبی عزیز ، میرے میاں مرحوم کی بھتیجی ہیں ان کے خط کے ایک مصرعہ آخری لکھا تھا پھر چار شعر ہو گئے انہوں نے لکھا تھا عرصہ سے آپ کے خطوط میں وہ بات نہیں رہی نہ وہ مزاح کا رنگ، نہ چمک ، نہ شوخی ، نہ وہ مزے کی باتیں.کیا ہوا! کیا بات ہے؟ ان کی تحریر نے وجہ کی یاد دلا دی اور اس وقت بھائیوں کی یاد خصوصاً سب سے زیادہ محبت کرنے والے بہت خیال رکھنے والے حضرت بڑے بھائی صاحب ( حضرت مصلح موعود ) کی یاد آئی.ان کا ہر بات دل کی کرنا، پرانی باتیں سننا اور سنانا یاد آ گیا، گوتینوں بھائیوں کی یہی کیفیت تھی بہت محبت کی ، بہت قدر کی، بہت ہمدردی پیار سب سے ہی سب کی یاد نے افسردہ کر دیا.خصوصا اس خاص وجود کا خاص پیار بچپن سے اب تک جن کا گود میں اٹھانا بھی یاد آتا ہے آج تک.باہر لا ہور وغیرہ گاہے میرے بچپن میں بھی جاتے تو کبھی کھلونے اور کبھی اچھے اچھے کریکرز جن میں سے پیاری پیاری چیزیں نکلتی تھیں لاتے.ہر شکایت ، ہر بات میں ان کے پاس یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس کرتی تھی.گویا یہ بھی باپ اور بھائی کی محبت کا مجموعہ تھے اور بڑی ہوئی تو خاص دوست کی صورت بھی شامل ہوئی.اللہ تعالی میرے بھائیوں کے درجات بلند سے بلند فرمائے.ان کی اولادیں سلامت رہیں، نیک رہیں، سچے دل سے خادم دین رہیں،
101 در عدن اور ایسی ہی نسلیں چلیں اور ہمیشہ میری دعا رہتی ہے کہ ہم سب کی اولادیں در اولادیں اور نسلیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند جلیل کی روحانی اور جسمانی اولادیں ہیں اسی نام سے منسوب حقیقی رنگ میں ہونے اور روحانی اور جسمانی اولاد کہلانے کے ہمیشہ قابل رہیں.میرے مولا ! تیرا دامن رحمت کبھی بھی ہاتھوں سے نہ چھوٹے ، اور ہم کو بھی اور ہماری سب اولا دوں کو ہماری نسلوں کو تا قیامت اپنے سچے عاشق رسول کریم کے عاشق حضرت مسیح موعود کے فدائی بنائے رکھنا.ہم جسمانی اور روحانی اولا دکہلانے کے حقیقی معنوں میں قابل رہیں.تیرے در سے کبھی دھتکارے نہ جائیں.یہی دعا آپ کی سب روحانی نسلوں کے لئے بھی ہے.میرے قریب و مجیب ہنعم المجیب ! ہم تیرے ہی ہو جائیں اور تو ہمارا ہو جائے.تیری رضا ، تیری لا زوال محبت کی دولت کا خزانہ نصیب ہو.آمین.والسلام مبارکہ ] جو مجھے چاہتے تھے ، چاہ کو پہچانتے تھے ان کی فرقت کی وہ تنویر کہاں سے لاؤں؟ کاغذی عکس بھی ہیں دل یہ مرے نقش مگر بولتی ہنستی وہ تصویر کہاں سے لاؤں؟ وہ کہاں پیار، وہ آپس میں دلوں کی باتیں آہ اس خواب کی تعبیر کہاں سے لاؤں؟ دل پژمردہ میں باقی نہ رہی زندہ دلی اب میں وہ شوخی تحریر کہاں سے لاؤں؟
در عدن 102 ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کی نومولود بچی کی وفات پر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے جناب ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کی لڑکی کی ولادت پر جذبات پر مسرت کا اظہار بذریعہ پاکیزہ اشعار فرمایا تھا.اب اس بچی کی وفات پر اظہار رنج و افسوس بھی کیا ہے اور ایک خط ڈاکٹر صاحب کو لکھا.چونکہ اس کا مطالعہ ہر ایک کے لئے موثر و مفید ہو سکتا ہے اس لئے درج ذیل کیا جاتا ہے.(الفضل ۹؍ دسمبر ۱۹۲۷ء ) پرسوں آپ کا کارڈ اور نھی عزیزہ مرحومہ کی وفات کی خبر معلوم ہوئی دل کو بہت صدمہ ہوا.مجھے اس بچی کو دیکھنے کا کس قدر شوق تھا جس کی آمد پر ہم سب نے خوشی منائی مگر افسوس اس کو دیکھنا بھی نہ ملا اور وہ چند روزہ مہمان سب سے بے ملے ہی رخصت ہو گئی.انا للہ و انا اليه راجعون.شائد ہم لوگوں کی زیادہ خوشی میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہی بھید پوشیدہ تھا کہ یہ بہت جلد رخصت ہو جائے گی.جیسا کہ جلد رخصت ہونے والے مہمان کی زیادہ آؤ بھگت کی جاتی ہے اور زیادہ اظہار مسرت کیا جاتا ہے کیونکہ خاطر مدارات کے لئے نہایت کم عرصہ ہوتا ہے.خدا تعالیٰ آپ کو نعم البدل عطا کرے.بچی کی والدہ کو بہت صدمہ ہوگا، کیونکہ قاعدہ ہے کہ گود کا بچہ ماں کو زیادہ محبوب ہوتا ہے اور اس کی وفات کا صدمہ خواہ دیر پا نہ ہومگر شد ید ضرور ہوتا ہے.اغلبا یہ وجہ ہے کہ علاوہ روحانی رشتہ کے ابھی جسمانی تعلق قطع ہوئے بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہوتا اور ابھی وہ گویا تازہ حصہ جسم ہوتا ہے.میری طرف سے بہت بہت اظہار افسوس کریں.اللہ تعالیٰ ان کو صبر واطمینان بخشے.جو خدا کو منظور ہو وہی ہوتا ہے.چار شعر اس کی یاد میں ارسال ہیں، کبھی کچھ کہنا پڑتا ہے کبھی کچھ.خدا کی رضا جو چاہتی ہے کراتی ہے.ٹال سکتا ہے کون فرمانِ خدا کس طرح پوری نہ ہوتی سرنوشت آگئی تھی چند روزہ سیر کو پر اسے بھائی نہیں دنیائے زشت ہاتھ ملتے تھے ادھر تیماردار سر پکتی تھی ادھر وہ خوش سرشت کل گئیں آخر قفس کی کھڑکیاں اڑ گئی وہ بلبل پانچ بہشت (مبارکه بیگم )
103 تحریک دعائے خاص زمانه زمانه هے محمود کا در عدن خلیفہ خدا نے جو تم کو دیا ہے عطاء الہی ہے فضل خدا ہے یہ مولا کا اک خاص احسان ہے وجود اس کا خود اس کی برہان ہے خلیفہ بھی ہے اور موعود بھی مبارک بھی ہے اور محمود بھی لبوں ترانه پر ہے محمود کا زمانه زمانه ہے محمود کا الفضل ۴ را پریل ۱۹۷۰ء)
در عدن 104 محترمہ بشریٰ صدیقہ صاحبہ اہلیہ مکرم صدیق یوسف صاحب دارالصدر غربی ربوہ اپنے ایک مضمون میں تحریر کرتی ہیں.وو آپ سیدہ کے نام لاہور سے محترمہ قیصرہ بیگم صاحبہ کا خط آیا.انہوں نے آپ کو پیاری دادی جان“ لکھا ہوا تھا.میں نے تعجب سے پوچھا کہ آپ کو دادی جان کس نے لکھا ہے کیونکہ میں کبھی کسی پوتے یا پوتی کو آپ کو دادی جان کہتے نہیں سنا تھا.سب آپ کو بڑی اُمی“ کہتے تھے.آپ سیدہ نے بتایا کہ یہ میاں (یعنی حضرت نواب محمد علی خان صاحب) کی بھتیجی قیصرہ بیگم ہیں یہ مجھے دادی جان کہتی ہیں.پھر آپ نے قیصرہ بیگم کی طرف سے لکھی ہوئی نظم دکھائی اور بتایا کہ قیام پاکستان سے پہلے کی بات ہے کہ عزیزی قیصرہ کے امی ابا سفر پر گئے ہوئے تھے اور اس بچی کو میرے پاس چھوڑ گئے تھے.یہ اپنی امی کو بہت یاد کرتی تھی اور اس کی فرمائش پر یہ نظم لکھی تھی اور اس کی طرف سے اس کی والدہ کو بھجوائی تھی.اب جب عزیزہ قیصرہ بیگم کا خط جولاہور سے آیا تھا اس کے جواب میں دوبارہ یہ نظم لکھوا کر انہیں بھجوائی.آپ سیدہ فرماتی ہیں کہ یہ اس خط کی نقل ہے جو میں نے اشعار میں تمہاری طرف سے تمہاری والدہ مرحومہ کو لکھا تھا“ سلام اس جس شاخ کا ہوں ثمر بڑا حق ہے جس کا میری ذات پر بڑے پیار سے جس نے پالا مجھے سمجھتی ہے گھر کا اجالا مجھے ہے کہ چاہو جو جنت ملے تو پاؤ گے ماؤں کے قدموں تلے خدا نے کہا قرآن میں رہو اپنی ماؤں کے فرمان میں
نہ بات ان کی الٹو نہ تم اف کہو کچھ کہہ بھی لیں گر تو چپکے وہ دیا رہو در عدن ذریعہ بنے گی اس کی رضا کی اطاعت ہے ماں کی اطاعت خدا کی اور تاکید کی سخت حکم نہ احسان میں ماں باپ کے ہو و کمی ملایا درد فرمان ربی کیوں؟ اس لئے ہے کہ اُس نے سہے دکھ تمہارے لئے سهم کر مصیبت اُٹھا کر دنیا میں لا کر تمہیں اس دنیا تیں.رکھا آنکھ میں نور پلایا تمہیں اپنا خون خدا کی گواہی یہ جب سے سنی ہے بہت قدر دل میں مرے بڑھ گئی ہے میری پیاری اُمی میری سب سے پیاری رہوں گی دل و جاں سے تابع تمہاری دعا کر رہی ہوں کہ مولا مرے مجھے ماں کی خدمت کی توفیق دے اطاعت کروں دور ہوں یا قریب کہیں مجھے بادب با نصیب 105
در عدن حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ ان اشعار سے خلافت ترکی مراد ہے.اسلام پر یہ سخت مصیبت کا وقت ہے کچھ اس میں شک نہیں کہ قیامت کا وقت ہے آفت میں گھرا ہے یہ آفت کا وقت ہے مسلم قدم بڑھا کہ ہمت کا وقت ہے ہیں ہاں کچھ بھی شک نہیں ہے کہ ہمارے ے قصور مانگو دعا ئیں گر کے خدا کے حضور میں تڑپا کرنے نہ اب کوئی گلفام کے لئے رونا ہو جس کو روئے وہ اسلام کے لئے ہرگز کرے نہ کام کوئی نام کے لئے ہو مال خرچ دین کے اکرام کے لئے 106
107 رود خدا کے سامنے آنسو بہاؤ تم آگ جس طرح سے مجھے اب بجھاؤ تم نے خدا کے دین کو بالکل بھلا دیا جو جو تھے حکم کو نظر گرا دیا دل خدا کا نقش محبت مٹا دیا اتنے بڑھے کہ خوف بھی دل سے اٹھا دیا فریاد سب کیا کریں آقا کے سامنے تڑپا کریں نماز میں مولا کے سامنے سے سن لے دعائیں سب رب کریم فضل رحمت گر حکم اپنی بخش ہماری خطائیں سب ہو تو کھول کے سینہ دکھائیں سب آقا سنیں تو قصہ دل کہہ سنائیں سب دل کانپتا ہے ڈر سے زبان رحمت تیری مگر ذرا ہمت بندھاتی لڑکھڑاتی ہے ہے در عدن
در عدن مانا کہ ہم تیرے بھی ہیں اور بدنما بھی ہیں ظالم بھی ہیں شریر بھی ہیں پر ریا بھی ہیں پر یہ خیال رکھ تیرے گھر کا دیا بھی ہیں بھاری تو قصور ہے پر کچھ ہے خطا بھی ہیں منجدھار میں کشتی دیں پار اتارے کون؟ بگڑیں تو تیرے بن ہمیں بتلا سنوارے کون؟ اوروں سے ہوا تھا وہ ہم سے ہوا نہیں گئے تو ہم کو جگایا گیا نہیں ہم پہلوں سے جو سلوک تھا ہم سے کیا نہیں بھٹکے ہوؤں کو راہ بتائی تھی یا نہیں اوروں کے واسطے تیری سنت ہی اور تھی ان پر نظر رہی اور تھی شفقت ہی اور تھی بھٹکے وہ جب کبھی انہیں رستہ بتا دیا بھولے سبق جو کوئی اسے پھر پڑھا دیا 108
109 سچ ہے کہ ہم کو تو نے بھی دل سے بھلا دیا تو کونسا بتلا آیا ہے ہے ہمیں راہ نما دیا؟ کون کفر کی تردید کے لئے بھیجا ہے کس کو دین کی تجدید کے لئے گھر گھر پڑا ہے دیں کا ماتم غضب ہوا ہرا رہا کفر کا پرچم غضب ہوا تجھ کو ہمارا کچھ بھی نہیں غم غضب ہوا بدتر یہودیوں سے ہوئے ہم غضب ہوا یتے تھے دکھ سدا تیرے پیاروں سے لڑتے تھے ان کے لئے نبی نبی ٹوٹے پڑتے تھے اور اس سے بڑھ کے حال تو امت کا ہو گا گیا در عدن وع جو تھا حبیب وہ کیجئے وفا ہم مر رہے ہیں بھیج مسیحا کو اے خدا آنکھوں میں دم ہے تن نکل کر اٹک رہا
در عدن احسن سمجھ سمجھ رہے ہیں ہر امر قبیح کو وقت آ چکا ہے دیر سے بھیجو میسج کو جاتا ہے وقت ہاتھ سے دن گزرے جاتے ہیں عیسیٰ نہ آج آتے ہیں نہ کل ہی آتے ہیں آقا جو بے رخی تیری جانب سے پاتے ہیں ہنستے ہیں غیر اب ہمیں دشمن بناتے * ہیں اب تاب صبر کی ہمیں بالکل رہی نہیں آفت وہ وہ کونسی ہے جو ہم نے سہی نہیں قبضے میں اپنے کوئی حکومت نہیں رہی ہم لٹ گئے ہماری وہ عزت نہیں رہی تازہ ستم ہے کہ خلافت نہیں رہی ملک ہم چھن گئے شوکت نہیں رہی روتے ہیں خلد میں عمر و عاص زار زار خالد کی روح جوش میں آتی ہے بار بار بناتے ہیں یعنی بیوقوف بناتے ہیں ، تضحیک و تمسخر کرتے ہیں.110
111 در عدن عیسی مسیح آؤ پیمبر کا واسطه واسطه صورت دکھاؤ اس رخ انور کا لو دل ہمارے ہاتھ میں دلبر کا واسطہ ہم کو بچاؤ ساقی کوثر کا واسطه ظلموں کی تیری قوم کا کچھ انتہاء نہیں ضرب ”غلام اهـــانـــــت مـولا “ سنتا نہیں کب تک ہوائیں چرخ چہارم کی کھاؤ گے اے ابن مریم اب بھی تشریف لاؤ گے ہم مر چکیں گے جب ہمیں صورت دکھاؤ گے؟ کس کام آؤ گے؟ جو نہ اس وقت آؤ گے گر نہ آئے تو کیا فائدہ ہوا وعده گو سچ تو که جو ہونا تھا ہو چکا از مضمون محترمہ بشریٰ صدیقہ صاحبہ.ربوہ )