Durre Sameem Farsi Kay Muhasin

Durre Sameem Farsi Kay Muhasin

درثمین فارسی کے محاسن

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم فارسی کلام بلحاظ فصاحت و بلاغت
Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمُ نَحْمَدُهُ وَعَلى عَلَى رَسُولِهِ الكَريم حضرت یح موعود علیہ اسلام کے منظوم فارسی کلام در ثمین فارسی کے محاسن بلحاظ فصاحت و بلاغت میاں عبدالحق ام منشی فصل بی سی سابق ناظر بیت المال وناظر زراعی صدر انجمن حمیر تو ضلع جھنگ

Page 2

در یمین فارسی کے محاسن مکرم عبد الحق صاحب رامه مرحوم تصنیف سن اشاعت : تعداد مطبع دسمبر ٢٠٠٢ء پر نٹویل،امرتسر (بھارت ) 81-7912-035-X ISBN Published by : RASHID AHMAD CHAUDHRY 82 GIRD WOOD ROAD LONDON SW-18 5QT UK Available in India : NAZARAT NASHRO ISHAAT *QADIAN-143516 GURDASPUR (Pb.)

Page 3

حضرت میاں عبدالحق صاحب رامہ

Page 4

انی ڈاکٹ نظارت اشاعت دیوه 14/11/99 ل الله الرحمن الرحيم محترم جناب عزیز الحق مطالب راحه السلام عليكم ورحمة الله و بركاته بزرگوار به قوم میاں عبد الحق صاب را مه سابق ناظر بیت المال کے بر تب کردہ مقالہ " حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم فارسی کلام در میونے فارسی کے تواس نے بڑ کی اشاعت کی آپ کو اجازت ہے.لیکن اشعار کی صحت کا بطور خوام خیال رکھا جائے.کسی نا ہر فارسی دان سے اس کی پروف ریڈنگ کروائیں نوٹ در مسود و دربی و یکاوی میں محفوظ کر لیا گیا ہے شریه ی الهی نان با تاریخی والسه سید عبد الحلی ناظر اشاعت دیوه

Page 5

تحملة ونصلى على رَسُواة الكريمة تعارف میاں عبد الحق رامہ 1899ء میں اپنے آبائی گاؤں موضع بھا گورائیں تحصیل سلطان پور ریاست کپورتھلہ میں پیدا ہوئے.کچھ خاندانی بزرگوں کی روایت کے مطابق آپ کے آبا و اجداد عرب حملہ آوروں کے ساتھ آٹھویں صدی عیسوی میں شام سے سندھ آئے اور پھر وہیں آباد ہو گئے.اٹھارہویں صدی میں رامہ صاحب کے آبا واجداد نے سندھ سے پنجاب آکر موضع بھا گورا ئیں آباد کیا.انکا پیشہ کا شتکاری تھا.چنانچہ رامہ صاحب کے دادا محترم منور خاں صاحب گاؤں کے نمبر دار تھے اور انکی وفات کے بعد رامہ صاحب کے چا نمبردار بنے.میاں عبدالحق رامہ کے والد منشی خدا بخش صاحب اپنے چار بھائیوں میں سے دوسرے نمبر پر تھے ابتدائے عمر سے ہی عبادت گزار تھے اور دینی معاملات کا شغف تھا.عمر بھر درویش کے طور پر مشہور رہے.ایک پختہ خاندانی روایت کے مطابق منشی خدا بخش صاحب کو خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی اور بتایا گیا کہ یہی وہ مسیح موعود ہے جن کے آنے کا وعدہ تھا.اور خواب میں قادیان کی بستی کا کچھ حصہ ڈھاب وغیرہ آپ کو دکھایا گیا.خواب کے بعد کافی عرصہ تک جستجو کی کہ معلوم ہو سکے وہ مسیح موعود کہاں ہے.کسی نے ہریانہ کے علاقہ میں آپ کو اطلاع دی کہ قادیان جاؤ وہاں ایک حص مرزا غلام احمد ہیں جنہوں نے براہین احمدیہ کھی ہے ان کا پتہ کرو.چنانچہ آپ 1884ء میں قادیان پہنچے.آپ کا بیان ہے کہ (1)

Page 6

دور سے ہی قادیان کے قصبہ کو دیکھ کر آپ نے جان لیا تھا کہ یہ وہی جگہ ہے جو آپ کو خواب میں دکھائی گئی تھی.اتہ پتہ پوچھ کر آپ مسجد مبارک میں جا کر بیٹھ گئے اور جو نہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز پڑھانے کے لئے تشریف لائے منشی خدا بخش صاحب نے ایک ہی نظر میں انہیں پہچان لیا.ملاقات کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو قادیان آتے رہنے کی تاکید کی چنانچہ اس کے بعد آپ باقاعدگی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے.جس وقت حضرت اقدس نے بیعت لینے کا اعلان کیا آپ لائکپور (فیصل آباد ) میں نئی آباد ہونے والی زمینوں پر بطور پٹواری تعینات تھے.1889 ء کے آخر میں آپ نے قادیان جا کر حضرت مسیح موعود کے دست مبارک پر بیعت کی محترم عبد الحق رامہ صاحب کی والدہ محترمہ بھی صحابی تھیں اور انتہائی فدائی احمدی تھیں.مکرم عبدالحق رامہ صاحب ابتدائی عمر سے ہی ہر کام محنت اور لگن سے کرتے تھے.سکول میں ذہین طلباء میں آپ کا شمار ہوتا تھا.میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبر لے کر پاس کیا اور سکالرشپ کے حقدار ٹھہرے.پھر آپ نے کپورتھلہ کالج سے ایف اے اور بعد میں عربی اور فارسی میں منشی فاضل اور بی اے کرنے کے بعد ملٹری اکاؤنٹس کے محکمہ میں ملازمت اختیار کر لی.دوران ملازمت مختلف شہروں میں تعینات ہوئے اور جہاں بھی رہے جماعت کی خدمات سرانجام دیتے رہے.1924ء میں جماعت احمدیہ پشاور کے سکرٹری مال تھے اور 1940 ء میں جالندھر کی جماعت کے صدر تھے.پاکستان بننے سے پہلے آپ کی تقرری کراچی میں ہو گئی تھی جہاں آپ نے سکرٹری مال کے عہدہ پر کام کیا.آپ کی خدمات کا ذکر مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب نے اپنے ایک مضمون میں اسطرح فرمایا ہے: پاکستان کے قیام سے پہلے کراچی میں چندہ دینے والے احمدیوں کی تعداد (II)

Page 7

17 تھی.تقسیم ہند کے فورا بعد کراچی میں جماعت کا غیر معمولی اضافہ ہوا اور جماعت احمدیہ کے افراد کراچی کے طول و ارض میں آکر آباد ہوئے.انہی آنے والوں میں محترم عبد الحق رامہ بھی تھے جو دہلی سے تشریف لائے اور جماعت کے سیکرٹری مال مقرر ہوئے.یہ ملٹری اکاؤنٹس کے آدمی تھے ساری عمر ہندوستانی فوج کے مالی معاملات کو کنٹرول کیا تھا اسلئے مالی معاملات کا بہت وسیع تجربہ تھا اس کے ساتھ مخلص ، انتھک کام کرنے والے اور مالی سوچ میں گہری نظر کے حامل تھے.انتظامی قابلیت بھی بہت تھی.کراچی کو کئی حلقوں میں تقسیم کر کے ایسے رنگ میں محصل مقرر کئے تا چندہ دینے والوں کو سہولت رہے اور جماعت کے اموال بھی محفوظ رہیں.اس سارے کام کی بنیادیں اس طرح استوار کیں کہ جلد جلد وسعت کی وجہ سے مالی معاملات میں خلل واقع نہ ہو.بفضل تعالیٰ انکی یہ سعی کامیاب رہی اور آج بھی کراچی جماعت کا مالی نظام معمولی تبدیلیوں کے ساتھ ان کے وضع کردہ خطوط پر چل رہا ہے.رامہ صاحب کی حسن کارکردگی کا علم حضرت خلیفہ مسیح اشفاق کبھی تھا اور اسکے کام پر بار ہا اظہار خوشنودی فرما چکے تھے چنانچہ ایک موقعہ پر قیام کراچی کے دوران فرمایا کہ رامہ صاحب جیسے کارکن کی مرکز میں زیادہ ضرورت ہے اس لئے ان کو ناظر بیت المال مقرر کرتا الفضل 8 جنوری 1995ء) ہوں." دوران ملازمت محکمہ میں آپکی ایک قابل محنتی اور دیانتدار افسر کی حیثیت سے بہت اچھی شہرت تھی اور اعلیٰ حکام کی نظروں میں بڑی عزت اور احترام سے دیکھے جاتے تھے.دیانتداری کا یہ حال تھا کہ اس معاملے میں اپنے کیریر کی بھی پرواہ نہ تھی.ایک بار آپ نے یہ واقعہ سنایا کہ دوسری جنگِ عظیم کے شروع میں آپکی تعیناتی شملہ میں ہوگئی تھی.آپنے وہاں دفتر کا چارج سنبھالا تو معلوم ہوا کہ ٹھیکیداروں سے رشوت لینے کا سلسلہ اس خوبی اور مضبوطی سے قائم ہے کہ دفتر میں ہر (II)

Page 8

کسی کو اسکی حیثیت کے مطابق حصہ تقسیم ہو جاتا ہے.ان حالات میں رشوت لینے سے انکار کا مطلب باقی افسروں سے دشمنی لینے کے مترادف تھا اور ٹھیک طرح سے کام کرنا بھی ناممکن ہو جاتا.آپ دہلی جا کر چوہدری محمد علی صاحب سے ملے جو بعد میں پاکستان وزیر اعظم بھی بنے.اور فوری تبادلے کی درخواست دی.رامہ صاحب کے چوہدری محمد علی صاحب کے ساتھ دیر بینہ تعلقات تھے اور وہ اس وقت محکمہ اکاؤنٹ میں اعلیٰ افسر تھے.انہوں نے کہا کہ ابھی آپ کی تعیناتی کو چند دن ہوئے ہیں قانون کے مطابق تبادلہ ممکن نہیں.یہ صرف اسی صورت میں ہوتا ہے جب کسی افسر کا نا اہلی کی وجہ سے تبادلہ کر دیا جائے.محترم عبدالحق رامہ نے اصرار کر کے جبری تبادلہ کروالیا اسطرح آپ کی ترقی کافی پیچھے جاپڑی مگر آپ نے کبھی اس پر ملال نہیں کیا.اسطرح ساری زندگی انہوں نے یہ خیال رکھا کہ کمائی میں ایک پیسہ بھی ناجائز شامل نہ ہو.آپ 1954ء میں ڈپٹی کنٹرولر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے.ریٹائر منٹ سے پہلے ہی آپ نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں زندگی وقف کرنے کی درخواست دے دی تھی اس کے بعد حکومت نے آپ کی ملازمت میں دو سال کی توسیع کر دی لیکن چونکہ آپ کو نظارت بیت المال کا کام سنبھالنے کا حکم مل چکا تھا اس لئے آپ ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے کر ربوہ حاضر ہو گئے.اور زندگی کے آخری سانس تک بشاشت قلب سے جماعت کی خدمت میں مصروف رہے.1973 ء تک محترم رامہ صاحب نے بطور ناظر بیت المال، ناظر زراعت، اور اسکے علاوہ ممبر مسجد اقصیٰ کمیٹی، فضل عمر فانڈیشن ، نصرت جہاں اسکیم اور کئی دوسری ذمہ دار حیثیتوں میں جماعتی خدمات سرانجام دیں.اسکے بعد علمی کاموں کا سلسلہ آخری دم تک جاری رہا.نظارت بیت المال کا کام آپنے بڑی محنت اور لگن سے جدید بنیادوں پر استوار کیا.خدا تعالیٰ نے غیر معمولی محنت کرنے کی توفیق عطا کی تھی.رات دیر تک جماعتی کاموں میں مصروف رہتے تھے.اور صبح فجر کی اذان کیساتھ اٹھ کر ادایگی نماز اور بآواز بلند تلاوت قرآن کے بعد میز پر کام کے لئے بیٹھ جاتے (IV)

Page 9

تھے.دفتر سے واپسی کے بعد کپڑے تبدیل کر کے پھر میز پر جابیٹھتے.ارتکاز توجہ کا یہ عالم تھا کہ ارد گرد کچھ بھی ہو رہا ہو آ پکی توجہ ذرہ بھر اسطرف مبذول نہیں ہوتی تھی.جب بھی نماز یا کھانے کے لئے یا کسی ملاقاتی کے لئے یا کسی اور کام کیلئے میز سے اٹھنا پڑتا تو بلا ترددفوراً اُٹھ بیٹھتے اور جو نہی فارغ ہوتے ، ایک منٹ ضائع کئے بغیر جہاں سے کام چھوڑا ہوتا وہیں سے دوبارہ شروع کر دیتے.چھٹی والے دن بھی سارا دن کام میں مصروف رہتے.آپ کے بیٹے سفیر لحق بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ انہوں نے دریافت کیا کہ اتنا کام کرنے سے کیا آپکو کبھی تھکاوٹ نہیں ہوتی.جواب میں آپ نے لذت کار کے فلسفہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جب انسان کو کسی کام کی لگن ہو تو اس کام میں ایسی لذت پیدا ہو جاتی ہے کہ بجائے تھکاوٹ کے فرحت محسوس ہونی شروع ہوتی ہے.آپکا حلقہ احباب بہت وسیع تھا اور جماعت میں علمی ذوق رکھنے والے احباب،خصوصاً محمد احمد صاحب مظہر، شیخ محمد اسمعیل پانی پتی صاحب اور بہت سے دوسرے احباب سے قریبی تعلق تھا.فارسی کے حوالے سے جماعت سے باہر بھی پہنچانے جاتے تھے.خصوصا کلاسیکی فارسی ادب پر آپکی بہت گہری نظر تھی اور تمام فارسی صوفیانہ ادب کا آپنے بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا تھا.بہت سے شاگردوں نے آپ سے اکتساب فیض کیا.درشین فاری کی طبع ثانی پر شیخ محمد اسمعیل پانی پتی صاحب کے ساتھ مل کر 1966ء تا 1968 ء کے دوران بڑی لگن سے درمین فارسی کی کتابت وغیرہ کی غلطیوں سے پاک کر کے دوبارہ شائع کیا.مکرم عبدالحق رامہ صاحب کو قرآن سے بہت محبت تھی کوئی دس سال کی محنت شاقہ کے بعد آپ نے قرآن کریم کے تمام الفاظ کی معنوی اور گرائمر کے اعتبار سے ایک ضخیم فہرست تیار کی تھی.آپکی عمومی صحت بہت اچھی تھی اور کم ہی کبھی بیمار پڑتے تھے.جوانی میں خوب ورزش کرنے کا شوق تھا.جسم اکہرا لیکن بہت کرتی اور مضبوط تھا.اعلیٰ درجے کے پیراک بھی تھے.(V) ย

Page 10

آخری عمر تک کئی میل روزانہ دریا تک تیز چل کر سیر کرنے جاتے تھے.طبیعت میں بلا کی خودداری مکمل بے خوفی اور بے انتہا حوصلہ تھا.انتہائی مضبوط اعصاب، غیر معمولی قوت ارادی اور خود اعتمادی کے مالک تھے.کسی قسم کے حالات میں بھی طبیعت میں گھبراہٹ پیدا نہیں ہوتی تھی.آپ کے چہرے پر ہر وقت ایک دلنواز مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی.بڑی ہی دلکش انداز میں گفتگو کرتے تھے.بہت سادگی پسند تھے اور کسی معاملے میں بھی دکھاوے اور بناوٹ کو پسند نہیں کرتے تھے.کسی بھی کام کے کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے تھے.خدا تعالیٰ کی ذات پر مکمل یقین اور بھروسہ تھا.اور زندگی وقف کرنے کے بعد اپنا معاملہ اسطرح ذات باری حق پر چھوڑ دیا تھا کہ نہ کسی تکلیف یا نقصان کی فکر تھی اور نہ ہی کسی صلے یا تعریف کی پرواہ تھی.کسی اصول یا حق کی بات سے پیچھے نہ ہٹتے تھے.جھوٹ اور غلط بیانی سے سخت نفرت تھی اور اسے بزدلی اور ایمان کی کمزوری خیال کرتے تھے.زندگی کے آخری سانسوں تک خدائی کاموں میں مصروف رہے.انجمن سے ریٹائر ہونے کے بعد مولا نا ابو میر نور الحق کے زیر نگرانی الشرکت الاسلامیہ سے چھپنے والی جماعت کی کتب کی نظر ثانی آپکے ذمہ تھی.چنانچہ اس زمانے میں چھپنے والے براہین احمدیہ کے نئے ایڈیشن پر آپنے بڑی محنت اور عرق ریزی سے کئی سال تک کام کیا.مئی 1981ء میں جب آخری بیماری کا حملہ ہوا ، اس دن صبح کو ایک جماعتی مسودہ کی نظر ثانی مکمل کر کے اور مولانا ابوالمنیر نور الحق کے گھر دے کرواپس آئے تھے.لباس تبدیل کر کے میز پر کوئی اور کام شروع کرنے کے لئے بیٹھے ہی تھے کہ طبیعت خراب ہونے لگی.پہلے تو اس ارادے سے اسی وقت اٹھ کر تیار ہونے لگے کہ ابھی سیر کر کے آتا ہوں اس سے طبیعت ٹھیک ہو جائے گی.پھر شائد اندازہ ہوا کہ معاملہ انکی قوت ارادی سے آگے نکل چکا ہے اور آخری گھڑی آن پہنچی ہے.چنانچہ دوبارہ کرسی پر بیٹھ کر بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دی.تلاوت کے دوران ہی فالج کا شدید حملہ ہوا اور خاموش ہو (VI)

Page 11

و گئے.اسی حالت میں مختصر بیماری کے بعد اپنی جان جان آفریں کے حوالے کی.اناللہ و انا الیه راجعون.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اپنے فضلوں سے آپکی قربانیوں کو قبول فرمائے اور آپکے درجات بلند فرمائے.آمین.مرحوم کے انتقال کی خبر دیتے ہوئے روزنامہ الفضل ربوہ اپنی یکم جون 1981ء کے اشاعت میں لکھتا ہے: انتہائی افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ سابق ناظر صاحب بیت المال محترم میاں عبدالحق رامہ صاحب 14 مئی 1981ء کو شام 8 بجے بعمر 82 سال ربوہ میں انتقال کر گئے.اناللہ و انا اليه راجعون.اگلے روز 15 مئی کی صبح کو 10 بجے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر مولانا نذیر احمد مبشر نے نماز پڑھائی بعد ازاں بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی.مرحوم 1955 تا 1973 بطور ناظر بیت المال، ناظر زراعت خدمات بجالاتے رہے.آپ نے علمی میدان میں بھی جماعت کی خدمت کی.سلسلہ کی بہت سی کتب کی پروف ریڈنگ کی آپ فارسی زبان کے مسلم الثبوت استاد تھے اور اس سلسلہ میں جماعت کی گراں قدر خدمات بجا لاتے رہے.جامعہ احمدیہ کے کئی طلباء آپ کے پاس اکتساب فیض کرنے آتے رہے.“ جناب عبد المنان مغنی صاحب ابنِ حضرت عبدالمغنی خان صاحب ناظر دعوت تبلیغ و وکیل تبشیر جنہیں ایک لمبی مدت تک میاں عبدالحق رامہ صاحب کے ساتھ نظارت بیت المال میں کام کرنے کا موقعہ ملا، لکھتے ہیں: جب رامہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت میں ڈوب کر درشین فارسی کے فنی محاسن کے بارے میں لکھنے کے لئے اپنا قلم اٹھایا تو یوں لگتا ہے جیسے روح القدس نے اس کی حرکت میں زور بھر دیا.آپ کو کلام حضرت مسیح موعود سے بہت محبت تھی.دفتر میں صبح آتے ہی نائب ناظران اور خاکسار کو درثمین فارسی کا درس دیتے.اس کے بارے میں (VII)

Page 12

فرمایا کرتے تھے کہ آپ در مشین کے ہر شعر کو قرآن کی تفسیر کے طور پر ثابت کر سکتے ہیں اور اس بیان کی تائید میں اکثر اشعار کی تفسیر بیان کیا کرتے تھے.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نیاز کا شرف تو ضرور حاصل ہوا تھا مگر عمر کے لحاظ سے صحابی کہلانے کے زمرے میں نہیں آسکے.دنیاوی گوناگوں مصروفیات کو ختم کر کے آپ 1954 ء میں ربوہ تشریف لے آئے اور اپنی خدا داد صلاحیتوں کو جماعت احمدیہ کی خدمت کیلئے وقف کر دیا اور تازندگی بھر پورانداز میں نبھایا.آپ نے اپنی عمر عزیز کا ہر لمحہ خدمت دین کے لئے وقف کر رکھا تھا.ابتدا میں آپکو نظارت بیت المال کی خدمت سونپی گئی جس کو آپ نے اپنی محنت شاقہ سے دن دونی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائی، بعد ازاں انجمن میں ہی آپ کو اور شعبوں میں بھی خدمت کا موقعہ ملا.انجمن اور دفتر کے معمولی سے معمولی کام اور اسکی نوعیت کبھی بھی آپکی نظروں سے اوجھل نہ ہوتی تھی.چھوٹی سے چھوٹی جماعت کے چندوں کی تفصیلات سے باخبر رہتے تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعلیٰ درجہ کی انتظامی قابلیت عطا فرمائی تھی.ہر معاملہ کی تہ تک پہنچ کر صحیح اور مناسب حال فیصلہ فرماتے تھے.اپنے کارکنان سے بہت ہی شفقت اور نرمی کا سلوک روا ر کھتے تھے.آپ اردو، فارسی ، عربی اور انگلش کے عالم تھے اور ہندی اور گورکھی میں بھی خاصا درک تھا ان تمام زبانوں کی شاعری خصوصاً صوفیانہ شاعری پر ان کی گہری نظر تھی.آپ عموما پنجابی میں گفتگو کرتے تھے.آپکی ہر بات قول سدید پر بنی ہوتی تھی.ہر بات بہت ہی دل نشین پیرایہ میں ہوتی تھی.گفتگو میں بہت دھیما پن ہوتا تھا.اگر کبھی کسی کی سرزنش کا موقع بھی آیا تو خلوص دل اور نرمی سے سمجھایا.دنیوی مسائل کا ذکر تو کیا باریک باریک دینی مسائل پر بھی خوب عبور حاصل تھا.جماعت کے بجٹ اور چندوں کے احتساب کے وقت بھی عہدیداروں سے دلکش گفتگو فرماتے اور کسی کے سخت جملوں کا بھی بہت نرمی سے جواب دیتے.خوش طبع اور روشن ضمیر تھے.(VIII)

Page 13

و آپکی فطرت میں الفت و محبت ودیعت تھی، مومنانہ فراست کے ساتھ آپ صاحب رؤیا اور کشوف بھی تھے لیکن اس کا اظہار قطعا نا پسند فرماتے تھے.آپ طبعا اعتدال پسند تھے، افراط و تفریط سے نفرت تھی اور نمود و نمائش کو کبھی پسند نہ فرماتے تھے.گوشہ نشینی کی طرف طبیعت راغب تھی.مزاج میں انتہا درجہ کی سادگی تھی.غرور و تکبر سے کوسوں دور تھے.علیمی اور بردباری آپکی طبیعت میں رچی ہوئی تھی.ان کی زندگی کا آرام کام میں ہی تھا.گھر میں بھی حاجات ضروریہ کے سوا سب وقت کام میں ہی مصروف رہتے تھے.پیدل چلتے تو تیز چلا کرتے تھے.آپکی شخصیت ایسی تھی کہ دیکھنے والے کے دل میں آپ کے لئے احترام کے جذبات ابھر پڑتے.آپ کا دروازہ ہر خاص و عام کے لئے کھلا رہتا اور بلا امتیاز سب کو اسی خندہ پیشانی اور اخلاق سے ملتے اور حاجت مندوں کی حتی الواسع حاجت براری کرتے.علم دوست حضرات کا تانتا بھی بندھا رہتا.اپنی گوناں گوں مصروفیات کے باوجود درس و تدریس کا سلسلہ بھی تادمِ مرگ جاری رہا.زندگی کے آخری ایام تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی پروف ریڈنگ کرتے رہے.جب تک حکم الہی نے آپ کی قوت حیات سلب نہ کر لی آپ خدمت دین اور خدمت خلق کے فریضہ کی ادائیگی سے باز نہ رہے.اس وقت رامہ صاحب مرحوم کی اولاد میں سے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی زندہ ہیں.مکرم منیر الحق رامہ جوانی میں ہی انتقال کر گئے تھے.مکرم سفیر الحق رامہ امریکہ میں، مکرم عبدالحمید رامہ جرمنی میں اور مکرم بشیر الحق نصیر الحق اور عزیز الحق پاکستان میں اور رفیعہ بیگم صاحبہ امریکہ میں ہیں ان سب نے اپنے والد کی خواہش کی تکمیل میں اس کتاب کے شائع ہونے میں دلچسپی لی.خصوصاً مکرم سفیر الحق رامہ جنہوں نے اسکی اشاعت کے اخراجات ادا کئے.ان سب کے لئے دعا کی درخواست ہے.(IX)

Page 14

نیز اس موقعہ پر مکرم محمد یعقوب امجد صاحب ایم.اے ایم اوایل (فارسی) سابق استاد جامعہ احمد یہ ربوہ بھی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے میری درخواست پر کتاب کی نظر ثانی کا کام سرانجام دیا اور اسکی اشاعت میں مفید مشورے دئے.والسلام خاکسار رشید احمد چوہدری پر لیس سکرٹری جماعت احمد یہ عالمگیر (X)

Page 15

بسم الله الرحمن الرحيم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے خود نوشت واقعات خاکسار کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچپن میں متعدد دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا موقع نصیب ہوا تھا.خاکسار کی پیدائش ۱۸۹۹ ء کی ہے.اور والد محترم منشی خدا بخش مرحوم خاکسار کی پیدائش سے بہت عرصہ پہلے بیعت کر چکے تھے.بلکہ ان کا بیان ہے کہ حضور کے دعوئی سے پہلے بھی قادیان آیا جایا کرتے تھے.وہ موضع بیگووال ریاست کپورتھلہ میں پٹواری تھے.اور اکثر جمعہ کے دن پیدل صبح چل کر نماز جمعہ قادیان میں ادا کرتے اور شام کو واپس اپنے حلقہ میں پہنچ جاتے.اور کبھی کبھی اس عاجز کو بھی کندھوں پر اٹھا کر یا پیدل چلاتے ساتھ لے جایا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلویٰ والسلام کی زیارت کے دو نظارے خاکسار کو اب بھی اچھی طرح یاد ہیں.صبح کا وقت تھا.کافی روشنی پھیلی ہوئی تھی.لیکن سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا.خاکسار اور خاکسار کی والدہ اور ہمشیرہ سیڑھیاں چڑھ کر ایک برآمدے میں داخل ہوئے.وہاں حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا دودھ بلو رہی تھیں.برآمدے میں ہمارے داخل ہوتے وقت آپنے چاٹی سے ڈھکنا اٹھایا تو خاکسار نے دیکھا.کہ چائی گلے تک دودھ سے بھری ہوئی تھی.یہ امر خاکسار کے لئے تعجب کا موجب ہوا.کیونکہ خاکسار نے اپنے ہاں اور گاؤں کے دوسرے گھروں میں اتنی بھری ہوئی جائی کبھی نہیں دیکھی تھی.ہمیں دیکھ کر حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کھڑی ہو گئیں.اور ہمیں سامنے الان کے اندر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش کر کے واپس برآمدہ تشریف لے گئیں.(XI)

Page 16

حضور علیہ السلام کمرے کے دائیں طرف ایک پلنگ پر بیٹھے ہوئے تھے.پاؤں مبارک نیچے لٹک رہے تھے.اور اخبار کا مطالعہ فرما رہے تھے.ہم تینوں نے چاندی کا ایک ایک روپیہ حضور کی خدمت میں پیش کیا.حضور خاکسار کی والدہ سے کچھ باتیں فرماتے رہے.لیکن خاکسار کو ان باتوں میں سے کچھ بھی یاد نہیں.اور نہ یہ یاد ہے.کہ وہاں سے کب اور کیسے واپس ہوئے.دوسری مرتبہ بھی صبح کا وقت تھا.سورج ابھی نکلا ہی تھا خا کسار کو یہ یاد نہیں کہ کس طرح اور کدھر سے مذکورہ برآمدہ میں داخل ہوئے.صرف اتنا یاد ہے.کہ برآمدہ کے دالان والے باہر کے کونے سے ایک دو سیٹرھیاں چڑھ کر ایک اور برآمدہ میں داخل ہوئے.جس کے بائیں طرف ایک کوٹھڑی میں حضور علیہ السلام تشریف فرما تھے.اس کوٹھڑی کا دروازہ برآمدہ میں تھا.اور دائیں طرف کی دیوار میں ایک کھڑ کی تھی.شائد دروازے کے بالمقابل بھی ایک کھر کی تھی.لیکن اب ٹھیک طرح یاد نہیں.کوٹھڑی میں صرف کوئکلوں کی ایک دہکتی انگیٹھی تھی.اور ایک چار پائی جس پر کوئی کپڑا بچھا ہوا نہیں تھا.حضور چار پائی پر سرہانے کی طرف بیٹھے ہوئے تھے.اور رخ مبارک پاپیلتی کی طرف تھا.جو دروازہ کی طرف تھی.حضور نے ایک کشمیری لوئی جس کا رنگ اونٹ کے بالوں کی طرح تھا.اور کنارہ سبز تھا.اپنے اوپر لیٹی ہوئی تھی.پاؤں مبارک اسی میں چھپے ہوئے تھے.حضور خاموش بیٹھے ہوئے تھے.اس دفعہ بھی ہم تینوں ہی تھے اور چاندی کا ایک ایک روپیہ نذرانہ پیش کیا.خاکسار کی والدہ سے حضور نے کچھ باتیں کیں.لیکن خاکسار کو ان باتوں میں سے کچھ یاد نہیں.اور نہ یہ یاد ہے.کہ وہاں سے کب اور کس طرح واپس آئے.البتہ حضور کی شبیہ مبارک دماغ میں نقش ہے.دو واقعات جو خاکسار کو تو یاد نہیں.والد صاحب مرحوم بیان فرمایا کرتے تھے.ایک دفعہ مسجد اقصیٰ میں کچھ احباب جمع تھے.اور حضرت اقدس کا انتظار تھا.یہ عاجز لوٹوں اور ٹونٹیوں سے کھیل رہا تھا کہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب مرحوم نے جھڑ کا.اس عاجز نے رونا شروع کر دیا (XII)

Page 17

اور والد صاحب کے ہر چند کوشش کرنے پر چپ نہ ہوتا تھا.آخر اس شرط پر چپ ہوا.کہ جب حضور تشریف لا ئینگے تو پھر رونا شروع کر دونگا.انہوں نے سمجھا کہ بچہ ہے اسے کہاں یا در ہیگا.لیکن جب حضور تشریف لائے.تو پھر رونا شروع کر دیا.اس پر حضور علیہ السلام نے بچوں سے نرم سلوک کرنے کے متعلق کچھ عرصہ تقریر فرمائی.دوسر ا وقعہ جو والد مرحوم بیان فرمایا کرتے تھے.یہ ہے کہ والد مرحوم حضرت محمد خانصاحب مرحوم کی عیادت کیلئے جایا کرتے تھے.ان دنوں قادیان میں زیر علاج تھے.ایک دن انکی قیام گاہ پر گئے تو یہ عاجز بھی ساتھ تھا.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی خانصاحب کی عیادت کیلئے تشریف لائے.آپ کے ساتھ بہت سے احباب تھے.جن کی وجہ سے خاکسار کو بہت پیچھے ہنا پڑا اور رونا شروع کر دیا.حضور نے دریافت فرمایا کہ بچہ کون ہے.اور کیوں روتا ہے.اس عاجز نے روتے روتے کہا کہ مجھے امام مہدی کے پاس نہیں آنے دیتے.جس پر خاکسار کو حضور کے پاس جانے کیلئے راستہ دیدیا گیا.حضور نے اس خاک پاکو گود میں اٹھا لیا اور بہت شفقت فرمائی.اللهم صل على محمد و على آل محمد وعلى المسيح الموعود و على آله واصحابه.خاکسار عبد الحق رامه ۳۱-۱-۱۹۷۷ (XIII)

Page 18

بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم میلی کار پیرونوز مکرم و محترم جناب سکرٹری مصاحبه بسته به ربوه السلام علیکم و رحمت الند و برکاته یه تعمیل آپ کے احتقان شد وجه اختبار تفضل مورخ کی جنوری شد و گذارش ہے ، کہ خاکسار کو الہ تعالی کے فضل سے پچپن میں متعدد دفعہ حضرت مسیح الموعود علیہ الصلوة والسلام کی زیارت کا موقعہ نصیب ہوا تھا.در مورے خاکی کی ہے بھی یاد ہیدہ خاکسار کی پیدائش ادا کی ہے.اور والد محترم منشی خدا بخش موجب در موم 20 خاکسار کی پیدائش سے بہت عرصہ پہلے Hai کی بیعت کر چکے تھے.بلکہ ان کا بیان ہے.کہ حضورہ کے دعوی سے پہلے قادیان میں آیا ہو گیا کرتے تھے.وہ موضع بیگووال ریاست کپور تھلہ میں پٹواری تھے.اور اکثر جمعہ کے دن پیدل بیچ چل کر نماز جمعہ قادریا میں اور کرتے اور شام کو واپس اپنے حلقہ میں پہنچے تھے.اور بھی کبھی اس طافیہ کو بھی پیدل ہو کر کندھوں پر اٹھا کر ساتھ لے جایا کرتے تھے.تاکہ جے کا وقت تھا کم کی والدہ مرحومہ کی اکثر قاری یا آیا جایا کرتی تھیں.اور وہیں دفن ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی زیارت کے دو نظارے خاکسار کو اب کافی روشنی پھیلی ہوئی بھی اچھی طرح یاد ہیں کہ خدا کار دوسر شاکر کی والدہ اور ہمیشرہ سیڑھیاں چڑھ کر ایک برآمدے تھی.لیکن ابھی میرم طلوع نہیں چور تھا.میں داخل ہوئے.وہاں حضرت ام المومنین رضی احمد تعالی بعدا دورہ بلو رہی تھیں.ہے آپ نے چائی سے لے لیا مکھن کے بننے کا اندازہ.کی برآمدہ میں در اصل ہوتے ہونے کی تیاری لگانے کیلئے جائی سے ڈھکنا اللہ یا تو خاک رنے دیکھا.کہ چاٹی کھلے تک دور ہو سے کھیری ہوئی تھی مہریہ اور پھر اس عاجز کیلئے تعجب کا موجب ہوا.کیونکہ خاک کرنے اپنے اور کارواں کے دوسرے ماموں کے ہی اتنی ٹھیری ہوئی ہائی کبھی نہیں دیکھی تھی.نہیں دیکھ کر حضرت ام المومنین کی کھڑی ہو گئیں.اور سپیس ایل کا کام تو کے سجا کر سامنے دانوں کے اندر حضور علیہ الصلاة والسلام کی خدمت میں پیش کر کے واپس

Page 19

کمرے نے در یک خلافت میں بر آوردہ میں تشریف لے گئیں.حضور علیہ السلام ایک پلنگ پر بیٹھے ہوئے تھے.پاؤں مبارک فریق کر سکے ہوئے تھے.اور اخبار مطالعہ فرما رہے تھے.ہم تینوں نے ٹھیکید پیر دایکه چاندی کا دور ایک ایک روپیہ حضور کی خدمت میں پیش کیا.حضور خاک امر کی والدہ سے کچھ باتیں فرماتے رہے.لیکن خاکار کو ان باتوں میں سے کچھ بھی هوای صبح بھی بھیجے کا وقت تھا.سورہ ابھی نکھر ہے یاد نہیں.اور نہ یہ یاد ہے کہ وہاں سے کب اور کیسے واپس ہوئے.دوسری مرتبہ پر خان او کو یہ یاد نہیں.کہ کسی طرح اور کدھر سے مذکورہ میں دوائل ہوئے.صرف اتنا یاد ہے کہ یہ آمدہ کے دالان والے کونے سے ایک دو سیڑھیاں خیره کر ایک اور برآمدہ میں داخل ہوئے.جس بائیں طرف ایک کوٹھڑی میں حضور علیہ السلام تشریف فرما تھی.میں کومنٹری کا دروازہ بر آمرہ میں رہتا.اور دائیں طرفہ کی دیوار میں ایک کھڑکی تھی نہ کرنے میں صرف اکلیل کو ٹلوں کی انگیٹھی تھی.اور ایک چارپائی جیس پینا سے مر در و وترسم کھڑکی پر کوئی کپڑا بچھا ہوا نہیں تھا.حضور جود در نور کا پانی پانی پر سمانے کی طرف بیٹھے ہوئے تھے.اور کے انتقال کی اس کاروائی جو دروازو کی کرتا ہے.رخ مبارک پا سیتی کی طرف تھا.اللہ حضور نے اچھے اور جو کہ تیری ہوئی جس کا رنگ تھی.لیکن اب انگار یا د ہیں.اسے اونٹ کے بالوں کی طرح تھا.اور کنارہ سبڑا تھا.اپنے اور بیٹی ہوئی تھی.پاؤں مبارک کرنے میں دین کا اہم مینوں ہی تھے اور اسی میں چھلے ہوئے تھے.حضور خاموش بیٹھے ہوئے تھے.ہم جوں نے چاندی کا ایک ایک روپیہ نذرانہ پیش کیا.خاک کی والدہ سے حضور نے کچھ باتیں کیں.لیکتی خاک رکو ان باتوں میں سے کچھ یاد نہیں کہ یہ یاد ہے.کہ ہم جہاں سے کب اور کسی طرح واپس آئے.جو خاکسار کو گویا وہیں البتہ حضور کی شبیہ مبارک دماغ میں نقش ہے.دور و اضات والد مرحوم بیان فرمایا کرتے تھے.ایک دفعہ مسجد اقصی میں کچھ احباب جمع تھے.اور یہ ما جود یہ عاجز لوگوں اور ٹونٹیوں سے کھیل رہا تھا کہ جوہی حضرت مفتی حمد صادق موجب رام درام ان کا انتظار علامہ ابھی دور میں چھڑکا ہے رونا شروع کر دیا اور واطر صاحب کے ہر چند کو شش کرنے پر چپ نہ ہوتا تھا کہ آخر اس شرط پر چپ و را که جب حضوره تشریف در آینه ی تو پر رونا مشروم کر دونگا.انہوں نے مسجھا کہ اسے کہاں رنگا ، لیکن جب حضور تشریفہ کرے تو کیا ہے پھر رونا شروع کر دیا.اس پر حضور علیہ السلام نے نے بچوں کے شرم سلوک کرنے کے متعدی کچھ عرصہ تقریر فرمائی.نا دوسری اور قصہ جو والد مرحوم میان فرمایا کرتے تھے.یہی ہے.کہ والد مرحوم حضرت کالا بیوہ اور حضرت اگر می

Page 20

جایا کرتے تھے.مد انتصاب در هوم عیادت کیلئے ابھی تیار جو ان دونوں قادیانی من زیر عود نا تھے.انکی قیام گاہ ہوگئے تو یہ راجہ بھی ساتھ تھا.اس وقت حضرت ی موعود علیه یا کبھی خالصاحب کی عیادت کیلئے تشریف لے آئے.آپ کے سا ساتھ بہت سے احباب گئے السلام نے روتے روتے جن کی وجہ سے خاکسار کو بہت کچھ ہلکا نہ ہی بنا میرا اور رونا شروع کر دیا.حضور نے دریافت فرمایا کہ بچہ کون ہے.اور کیوں روتا ہے.تو ہم نے کہا کہ مجھے امام مہادی کے کنا نیک نہیں سردی کے شہر کی ایک نہیں آنے دیتے جی این کار کو حضور کے کہ ہم حضور نے اس خاک پا کو گورجی اللہ ہے اور بہت شفقت فرمائی.والعلم حصل على محمد و على ألى پاس پیسے کیلے می چیست دیدیا گیا محمد و على المسيح الموعود و على آله واصحابه والسلام خانه کار عید طی را همر

Page 21

فهرست مضامین مضمون صفحه مضمون صفحه ۱۴ وحی و الهام دنیا کی بے ثباتی ง السلام ^ 1.پیش لفظ شعر کیا ہے ؟ کیا اسلام میں شاعری جائز نہیں ؟ فصاحت و بلاغت حضرت مسیح مور کے کلام کی خصوصیتیا حمانی (مقابله دیگر استانه) نعت نبی ( 4 ذات باری تعالیٰ کا عشق محبت رسول مقبول دیگر انبیاء " قرآن مجید علانكه ، يوم آخرة ، قضا و قدر ۱۳ دین اسلام 11 I } 64 44 14 ١٨ = ۲۲ حضرت مسیح مود کے وقت مسلمانوں کی بوائی دعونی سیحیت دعونی مسیحیت کی صداقت کے چند دلائل.انکسار ہمدردی خلائق رجائیت عرفان الہی (1) سچی تڑپ (۲) اطاعت رسول (۳) کلام الہی (لم) صحبت صالحین ۹۱ 44 ۱۰۰ 11.۱۱۴ 114 i ۱۲۰ ۱۳۳ ۱۲۴ ۱۲۵

Page 22

مضمون صفحه ۱۷۵ ۱۷۵ 144 149 149 (A JAI A LAY lat JAY ۱۸۳ ۱۸۴ ۱۸۵ ۱۸۵ JAA IAL توریه ایہام تناسب طباق تدریج مقابلہ مراعاة النظير مشاکلت عکس و تبدیل رجوع جمع تفریق تقسیم تجرید صنائع معنوی مبالغہ حسن التقليل مذہب کلامی تجاہل عارف تشابه الاطراف ۱۳۸ I☑I ۱۳ ۱۳۳ ۱۳۵ ۵۱ ۱۵۳ 100 ۱۵۵ ۱۵۸ ۱۶۴ 196 ۱۶۹ 14Y ۱۷۴ 140 مضمون (۵) یقین کامل (۲) ترک نفس جهد ام) دعا (۹) کبر وعقل سے احتراز (۱۰) قصوں سے پر ہیز ۲۳ اعتراضات کے جواب ۲۴ مناجات ۲۵ تزیین کلام (بلا بخت) (3) علم بیان اضافت تشبیهی و استعاری استعاره حقیقت اور محاز مجاز مرسل کنایه (ب) علم بدیع صنائع معنوی

Page 23

۲۰۵ ۲۰۵ ۲۰۸ ۲۰۸ ۲۱۰ ۲۱۲ ۲۱۵ 714 ۲۱۹ مضمون سياقة الى عداد بیان به تکریر حسن تخلص ہتاف موازنه اكتفا مزید فنون بلاغت (ج) سلاست کلام (1) روانی (۲) مظاہر قدرت (۳) نفسیات (۴) جدت I (ه) سہل ممتنع حسن کلام کے متفرق نمونے ۲۷ نقل اشعار شعرائے دیگر YA تضمین ۲۳۹ ۲۹ اخذ (قواعد اور مثالیں) ۲۴۹ IAA JAA 149 141 141 ۱۹۲ ۱۹۴ ۱۹۵ ۱۹۵ 14 Y 144 194 لعلم والسلام ۳۰۳ مضمون تنسيق الصفات براعته الاستهلال مزا وجہ اختلاف لفظ با معنیٰ تعجب تبدیل ہجو استفهام توقف امر در مورد نهی اعتراض جامع الحروف صنائع لفظی رد العجز على الصدر اشتقاق ذوالقانتین تلمیح

Page 24

مضمون در ثمین کے اشعار میں کمی بیشی نیے صفحه ۲۷۹ ۲۸۱ مضمون دوسرے اساتذہ کے اشعار نقل کرده حضرت اقدس ا صفحه YAA ۳۳۲ } جو اشعار در ثمین میں شامل ہونے چاہئیں.۲۸۱ ۳۴ اوزان کتابت : چوہدری محمدارشد خوشنویسی ربوه

Page 25

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الكَرِيمُ پیش لفظ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ریح موعود و مہدی معہود علیہ السلام) کا منظوم فارسی کلام حمد الہی نعت رسول مقبو صلى اله علیه وسلم، فضائل قرآن مجید، صداقت دین اسلام، ترغیب حسنات اور وعظ و نصیحت کا ایک ایسا بے بہا خزانہ ہے جس کی نظیر اور کہیں نہیں مل سکتی.یہ کلام آپ کی کتب اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اخبارات میں جگہ جگہ ملتا ہے اور یکجائی طور پر بھی الگ کتابی صورت میں در ثمین فارسی کے نام سے شائع ہو چکا ہے.اس در شین کا اردو ترجمہ تو ہمارے سلسلہ کے ایک بلند پایہ عالم اور صوفی منش بزرگ حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب مرحوم نے کر دیا تھا، جسے محترم شیخ محمد المعیل صاحب پانی پتی نے قیام پاکستان کے بعد شائع کیا.اس سے احباب جماعت کو حضرت اقدس کے فارسی کلام کو سمجھنے میں ایک بڑی حد تک آسانی ہوگئی لیکن اس بے نظیر کلام کے ظاہری اور باطنی محاسن پر تا حال کسی صاحب ذوق نے قلم نہیں اٹھایا.حالانکہ کی فصیح و بلیغ کلام کو پوری طرح مجھے اور اور اس سے حظ اٹھانے کے لئے فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے بھی اس کے محاسن سے واقفیت پیدا کرنا ضروری ہے.علم بلاغت کے قواعد اور تفاصیل کے مرتب کرنے کی ایک بڑی غرض یہی ہے کہ اُن کے ذریعہ سے اساتذہ فن کے کلام کو کما حقہ سمجھ کر اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھایا جا سکے.اور یہ امر حضرت اقدس کے کلام کے متعلق تو اور بھی ضروری ہے کیونکہ

Page 26

آپ کا کلام فصاحت و بلاغت میں لاثانی ہے.اور اناحسین اور پر اثر اور دلگداز ہے میں کی.کوئی انتہا نہیں.وجہ یہ ہے کہ یہ کلام ایک موید من اللہ ہستی کا ہے جسے خود ذات باری تعالی نے عالی اعلم کا خطاب عطا کیا تذکرہ منت طبع شاه نیز الہاما بتایا گیا.در کلام تو چیز نیست که شعر او را درای دخله نیست ( تذکره ص۶۵ طبع (۶) یعنی تمہارے کلام میں ایک ایسی چیز بھی ہے جس میں شعرا کو کوئی دخل نہیں.اس درثمین میں ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں حضرت اقدس کی بعثت کی غرض دیعنی احیائے اسلام اور اس کی تکمیل کے ذرائع کو مکمل اور موثر طریق پر بیان کیا گیا ہے.مثلاً بثت رسل امکان وحی و الہام ، ضرورت امام محمد دین کی آمد تبلیغ ہدایت، مخالفین اسلام کے اعتراضات کے جواب اور سب سے بڑھ کر عرفان الہی کے حصول کے طریق.غرض احیائے اسلام کے متعلق کوئی ضروری موضوع ایسا نہیں جس پر اس درمین میں روشنی نہ ڈالی گئی ہو.گویا یہ درین حضرت اقدس کی تعلیم کا مکمل خلاصہ ہے.رہے.خاکسار کو بچپن سے ہی فارسی نظم سے دلچسپی رہی ہے.خصوصا در مین فارسی تو اکثر خاکسار کے زیر مطالعہ رہی اور جوں جوں عمر بڑھتی گئی اس کتاب سے تعلق خاطر بھی بڑھتا گیا اور اس کی عظمت اور محاسن کے دروانے کھلتے گئے.اور خیال پیدا ہوا کہ اس بارے میں کچھ لکھنا چاہیے لیکن خاکسار کی کم علمی اور بے بضاعتی سید راہ رہی.چونکہ ابھی تک اور کسی دوست نے توجہ نہیں فرمائی لہندا خاکسار نے بقول مولانا جائیے بیا جامی رہا کن شرمساری زصاف و درد پیش آر آنچه داری له ے اسے جالی شرم کو چھوڑ، شراب یا تلچھٹ جو کچھ تیرے پاس ہے سامنے لے آ.

Page 27

ارادہ کیا کہ حضرت مسیح موعود کے فارسی کلام کے محاسن میں سے تھوڑا بہت جو کچھ یہ عاجز سمجھ سکا ہے، اسے احباب کے سامنے پیش کر دیا جائے، ممکن ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یر کروایا نیر کوشش میں برکت ڈال دے اور احباب اس ترنمین سے استفادہ کرنے کی طرف زیادہ متوجہ ہو جائیں.اس عظیم کلام کے محاسن کو کما حقہ بیان کرناکسی کے بس کی بات نہیں اور خاکسار تو اپنی کم علمی اور کوتاہ فہمی کا خو معترف ہے.اس اہم کام میں ہاتھ ڈالنے کے لئے خاکسار کا در سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ خاکسار کو اس درثمین فارسی سے والہانہ الفت ہے.وما توفیقی الا بالله الحالي العظيم وهو الله المستعان.ہر اچھے کلام کے محاسن کے دو پہلو ہیں.ایک باطنی خوبیاں یعنی کلام کی راستی، عظمت اور وسعت جن کے بغیر ظاہری حسن کی کوئی وقعت نہیں.اور دوسری ظاہری خوبیاں یعنی عبارت کی خوبصورتی اور دلکشی جس میں وہ حقائق اور اسرار پیش کئے جائیں ، جو کام کی روح ہیں.چنانچہ شرع میں شعر اور شاعری سے متعلق چند ضروری کو الف بیان کرنے کے بعد زیادہ اہم مضامین کے متعلق اس در یمن سے اقتباسات پیش کئے گئے ہیں.تا معلوم ہو کہ اس در ثمین کے اتنا مختصر ہونے کے باوجود اسلام کے متعلق کوئی ضروری موضوع ایسا نہیں جس کی مکمل وضاحت اس در ثمین میں نہ کی گئی ہو.اور وہ موضوع بھی ایسے ہیں کہ انسان کو مکمل انسان اور حقیقی مسلمان بننے کے لئے ان کا مطالعہ کرنا اشد ضروری اور ناگزیر ہے.حضرت اقدس نے اپنی دوسری کتب میں بھی اور اس درثمین میں بھی اصلاح خلق اور تجدید و احیائے دین اسلام کے لئے بھی قرآن و حدیث کے مطالب ایسے عمدہ، دلکش اور موثر طریق پر بیان کئے ہیں کہ خود بخود قاری کے دل میں اترتے چلے جاتے ہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ اس مختصر تعارف میں نہ تو ان تمام مضامین کا ذکر کیا جاسکتا ہے جو اس درمین کے بحرز خار میں پائے جاتے ہیں.اور نہ ہی ہر ضمون کے متعلق جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے تمام متعلقہ اقتباسات

Page 28

پیش کرنا ممکن ہے.لہذا زیادہ اہم مضامین اور ان مضامین میں سے ہی ضمون کے متعلق صرف چند اقتباسات پر اکتفا کیا گیا ہے.اور کسی کسی جگہ حسن کلام کی طرف بھی اشارہ سے کئے گئے ہیں.اس کے بعد حسن کلام کی تفاصیل بیان کی گئی ہیں.وہاں بھی فصاحت و بلاغت کی اقسام اور جزئیات کی تشریح کرتے وقت وصف یا صنعت کے متعلق وہ تمام اشعار پیش کر ناممکن نہیں جن میں وہ وصف یا صنعت پائی جاتی ہو.کیونکہ حضرت کے تو ہر شعر میں مستعد دا و صاف موجود ہیں بلکہ ایک ایک شعر میں کئی کئی صنعتیں پائی جاتی ہیں.لہذا ہر وصف یا صنعت کے لئے چند شعر ہی بطور نمونہ پیش کئے جاسکے ہیں.ویسے اگر کسی شعر میں ان صنعتوں میں سے جو فصاحت و بلاغت کی کتب میں منضبط کی گئی ہیں ، کوئی صنعت بھی نہ لائی گئی ہو، تو حضرت اقدس کی خداداد علمی استعداد کی بنا پر محض مناسب الفاظ کے انتخاب اور ان کی موزوں ترتیب سے ہی ایسا حسن پیدا ہوگیا ہے ، جو دوسروں کی صنعتوں والے اشعار میں بھی نظر نہیں آتا.اور دراصل یہی قادر الکلامی کی معراج ہے.چنانچہ حضرت اقدس کے کلام کا بیشتر حصہ ایسے ہی اشعار پرمشتمل ہے.جیسا کہ آگے آپ کے کلام سے مثالیں پیش کر کے وضاحت کی جائے گی.انشاء اللہ تعالی - وما توفیقی الا بالشد العلی العظیم - جس درنین کے صفحات کے حوالے دیئے گئے ہیں وہ درثمین فارسی مترجم طبع ثانی مطبوعہ ء ہے.

Page 29

شعر کیا ہے ؟ کسی منظوم کلام کا جائزہ لینے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ شعر ہے کیا چیز ؟ شاعری ایک خداداد ملکہ ہے، جو خاص خاص انسانوں کی طبیعت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وداعیت کیا جاتا ہے.یہ بات ہر کس و ناکسی کے بس کی نہیں.نہ ہر رنگ بندی کرنے والا شاعر کہلا سکتا ہے اور نہ ہر خود ساختہ شاعر کو قبولیت عامہ حاصل ہو سکتی ہے.اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے :.الرَّحْمَنُ : عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الإنْسَانَ عَلّمَهُ البَيَانَ ٥ ة (الرحمن : ۲-۵) یعنی وہ رحمن خُدا ہی ہے ، جس نے قرآن سکھایا ہے.اسی نے انسان کو بنایا اور اسے فصاحت و بیان بخشا " بے شک اس لحاظ سے بھی انسان اشرف المخلوقات ہے.لیکن اس کے مختلف کمالات اور فضائل کے مظاہر خال خال ہی نظر آتے ہیں.اسی طرح قوت بیان بھی چیدہ چیدہ افراد کو ہی حاصل ہوتی ہے.عام طور پر شعر کی یہ تعریف کی جاتی ہے.وہ کلام موزوں سے متکلم نے بالارادہ موزوں کیا ہوگا یہ تعریف مکمل نہیں کیونکہ شاعری صرف دین اور قافیہ کا نام ہی نہیں مشکل ایسے منظوم با قافیہ کلامہ کو جیسے.دندان تو جمله در دهان اند چشمان تو زیر ابروان اند شعر نہیں کہہ سکتے.اسی لئے شبلی نعمانی نے نظامی عروضی سمرقندی کے حوالہ سے لکھا ہے :- " شاعری اس کا نام ہے کہ مقدمات موہومہ کی ترتیب سے اچھی چیز بد نما اور بری چیز ہے تیرے سب انت منہ میں ہیں، اور تیری آنکھیں ابروؤں کے نیچے ؛

Page 30

i خوشنما ثابت کی جائے جس سے محبت اور غضب کی قوتیں مشتعل ہو جائیں یہ یہ تعریف بھی کچھ اچھی نہیں.چنانچہ یہی بندگ آگے چل کر لکھتے ہیں.شعر العجم حقه اقول انت با شعر د جیسا کہ ارسطو کا مذہب ہے ، ایک قسم کی مصوری یا نقالی ہے.فرق یہ ہے کہ مصور صرف مادی اشیاء کی تصویر کھینچ سکتا ہے.بخلاف اس کے شاعر ہر قسم کے خیالات ، جذبات اور احساسات کی تصویر کھینچ سکتا ہے.ایک شخص کا عزیز دوست جُدا ہو رہا ہے.اس حالت میں جو اس پر صدمے گذرتے ہیں اور دلدوز خیالات کا جو طوفان اس کے دل میں اُٹھتا ہے شاعر اس کی تصویر اس طرح کھینچ سکتا ہے اور ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی جاتی تو ہی ہوتی جو شاعر نے الفاظ کے ذریعہ کھینچی تھی.شعر العجم جعته اول ما ) یہی بزرگ درمولن ناشبلی نعمانی ، مزید لکھتے ہیں : - وو شاعر کے لفظی معنی صاحب شعور کے ہیں.شعور اصل میں احساس (فیلنگ) کو کہتے ہیں یعنی شاعر وہ شخص ہے جس کا احساس قوتی ہو.انسان پر خاص خاص حالتیں طاری ہوتی ہیں.تلا رونا، ہنستا، انگڑائی لینا.یہ حالتیں جب انسان پر غالب ہوتی ہیں تو اس سے خاص خاص حرکات صادر ہوتی ہیں.رونے کے وقت آنسو جاری ہو جاتے ہیں ہنسی کے وقت ایک خاص آواز پیدا ہو جاتی ہے.انگڑائی میں اعضاء تن جاتے ہیں.اسی طرح شعر بھی ایک خاص حالت کا نام ہے.شاعر کی طبیعت پر رنج یا خوشی یا غصہ یا استعجاب کے طاری ہونے کے وقت ایک خاص اثر پڑتا ہے اور یہ اثر موزوں الفاظ کے ذریعہ سے ظاہر ہوتا ہے.اسی کا نام شاعری ہے “ (شعر النجم حصہ اول ج۳)

Page 31

ایک اور بزرگ لکھتے ہیں اگر شعر کے معنی ہیں جیسے فراست اور درست فکر اور استدلال سے مفہوم کلام کو پانا ، اور اصطلاح میں اس کلام کو کہتے ہیں جو سوچ بچار کر کہا جائے ، یا معنی ہو ، وزن اور قافیہ رکھتا ہو.ایک فاضل نے کہا ہے : إِنَّهُ نَفَتَةٌ رُوحَانِيَّةٌ تَتَمَزَّجُ بِأَجْزَاءِ النُّفُوسِ وَلَا تَحُصُّ بِهِ مِنْهَا غَيْرُ النُّفُوسِ الذَّكِيَّةِ - یعنی القائ وحانی جو دل کے گوشوں میں گھس جاتا ہے، لیکن تیز فہم شخص کے سوا اسے کوئی محسوس نہیں کر سکتا.اسی طرح ایک اور بزرگ نے کہا ہے : الشَّعْرُ قَوْلُ يَصِلُ إِلَى الْقَلْبِ بِلا إِذْنِ یعنی شعر ایسا کلام ہے جو بلا اجازت دل میں اتر جاتا ہے.(ماخوذ انہ دبیر العجم منش) ان مختلف اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ شعر وہ کام ہے جس سے شاعر کے جذبات اور احساسات کا پورا پورا اظہار ہوتا ہے ، اور جو سینے والے کے دل پر گہرا اثر ڈالتا ہے.اسے بالا رادہ ایسے اوزان پر موزوں کیا جاتا ہے جو ترنم کے لئے منسب ہوں کیونکہ ترنم بھی کام کے تاثر کو بڑھانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے.چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً (المزمل: ۵) یعنی قرآن کو تر غم کے ساتھ پڑھو.قافیہ شعر کا جزولاینفک نہیں.البتہ پہلے اکثر اس کا التزام کیا جاتا تھا.جس نظم میں قافیہ کا التزام نہ ہو ا سے آزاد نظم کہتے ہیں.اور آج کل اسکا بہت رواج چل نکلا ہے.اسی طرح قافیہ کے ساتھ روی کا ہونا بھی ضروری نہیں.یہ اہل فارس کی ایجاد ہے.عرب شاعری میں اس کا رواج نہیں تھا.شعر کی مذکورہ بالا تعریف سے ظاہر ہے کہ یہ ایک دو دھاری تلوار ہے ، جو دوست ودشمن دونوں کو کاٹ سکتی ہے.شعر اخلاق حسنہ پر بھی ابھارتا ہے اور اخلاق رذیلہ پر بھی اکساتا ہے چنانچہ مولانا شبلی نعمانی سکھتے ہیں :.شریفیانہ اخلاق پیدا کرنے کا شاعری سے بہتر کوئی الہ نہیں ہو سکتا.علم اخلاق ایک مستقل فن ہے.اور لہ منہ کا جزو اعظم ہے.ہر زبان میں اس فن پر بہت سی کتابیں لکھی گئی

Page 32

ہیں لیکن اخلاقی تعلیم کے لئے ایک ایک شعر ضخیم کتاب سے زیادہ کام دے سکتا ہے.شاعری ایک موثر چیز ہے.اس لئے جو خیال اس کے ذریعہ سے ادا کیا جاتا ہے.دل میں اتر جاتا ہے اور جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے.اس بنا پر اگر شاعری کے ذریعہ سے اخلاقی مضامین بیان کئے جائیں.اور شریفانہ جذبات مثلاً شجاعت، غیرت، حمیت ، آزادی کو اشعار کے ذریعہ سے ابھارا جائے، تو کوئی اور طریقہ برابری نہیں کر سکتا " شعر العجم محله چهارم منت پھر لکھتے ہیں: فارسی شاعری اس وقت تک قالب بے جان تھی.جب تک اس میں تصوف کا عنصر شامل نہیں ہوا.شاعری اصل میں اظہار جذبات کا نام ہے.تصوف سے پہلے جذبات کا سرے سے وجود ہی نہ تھا.قصیدہ مذاحی اور خوشامد کا نام تھا میشنوی واقعہ نگاری تھی.غزل زبانی باتیں تھیں.تصوف کا اصل مائرہ خمیر عشق حقیقی ہے جو سرتا پا جذبہ اور جوش ہے عشق حقیقی کی بدولت مجازی کی بھی قدر ہوئی.اور اس آگ نے تمام سینہ و دل گرمادیئے.اب زبان سے جو کچھ نکلتا تھا.گرمی سے خالی نہیں ہوتا تھا.ارباب دل ایک طرف ، اہل ہوس کی باتوں میں بھی تاثیر آگئی " شهر الحجم حصہ پنجم ) لیکن شاعری میں جب عاشقانہ خیالات آتے ہیں.تو بہت جلد ہوا و ہوس کی طرف منجر ہو جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ تمام شاعری رندانہ اور عیاشانہ خیالات سے بھر جاتی ہے.یہاں تک کہ بے حیائی اور فخش تک نوبت پہنچے جاتی ہے.عاشقانہ شاعری چھٹی صدی میں شروع ہوئی.چونکہ ایران کو رندی اور عیش پرستی سے خاص مناسبت ہے.اس لئے احتمال تھا کہ بہت جلد اس کے خمیر میں عفونت آجائے.لیکن تصوف

Page 33

نے کئی سو برس تک اس کی لطافت میں فرق نہ آنے دیا.تصوف کا اعجاز یہ تھا، کہ وہ الفاظ جو رندی اور عیاشی کے لئے خاص تھے وہ حقائق اور اسرار کے ترجمان بن شعر الحجم مقصد پنجم ) گئے یہ غرض " شاعری کے جس قدر اقسام ہیں یعنی فلسفیانہ، اخلاقی عشقیہ تخیلی سب سے مفید کام لئے جاسکتے ہیں.فلسفیانہ شاعری دقیق خیالات کو آسانی کے ساتھ ذہن نشین کر سکتی ہے.اخلاقی شاعری اخلاق کو سنبھالتی ہے عشقیہ شاعری سے زندہ دلی اور تازگی رُوح پیدا ہوتی ہے تخیل سے طبیعت کو اہتزاز اور انبساط ہوتا ہے.لیکن افسوس کہ اکثر شعرائے ایران نے شاعری کا صحیح استعمال نہیں کیا.بہ لحاظ غالب شاعری صرف دو کام کے لئے مخصوص ہوگئی.سلاطین اور امراء کی مداحی جس میں کذب و افترا کا طومار باندھا جاتا تھا، اور تعشق و عاشقی جو دو را ز کار مبالغوں اور فضول گوئیوں سے معمور تھی متاخرین نے تخیل کو البتہ بہت وسعت دی لیکن اس میں اس قدر اعتدال سے تجاوز کر گئے کہ تخیلی نہیں رہی بلکہ معا بن گئی ہے شعر العجم حصہ چہارم ) قرآن کریم نے شاعری کے دونوں پہلو راچھے برے) بڑی وضاحت سے بیان کئے ہیں : - هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيطِيْنُ 6 تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ آفَاكِ امه تُلْقُونَ السَّمْعَ وَاكْثَرُهُمْ كَذِبُونَه وَالشُّعَرَاء يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوَنَ المْ تَرَ انَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ وَ اَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَالَا يَفْعَلُونَ ، إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَذَكَرُوا اللهَ كَثِيرًا وَانْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُواد وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَيَّ مُنْقَلبٍ يَنْقَلِبُونَ : (الشعراء : ۲۲۲-۲۲۸)

Page 34

کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں؟ وہ ہر چھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں وہ شاعر اپنے کان رآسمان کی طرف) لگائے رکھتے ہیں.اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں.رہی وجہ ہے کہ گمراہ لوگ ہی شاعروں کی پیروی کرتے ہیں.(اے مخاطب کیا تو نہیں سمجھ سکتا کہ شعراء تو ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں.ہاں اُن کے سوا ایسے شاعر بھی ہیں جو مومن ہیں اور نیک عمل بجالاتے ہیں.اور (اپنے شعروں میں اللہ کا بہت ذکر کرتے ہیں.اور اگر ہجو کرتے ہیں تو ابتدا نہیں کرتے بلکہ مظلوم ہونے کے بعد جائز بدلہ لیتے ہیں اور ظالم لوگ ضرور ہی جان لیں گے کہ ان کا انجام کیا ہوگا.خاکسار عرض کرتا ہے.کہ حضرت اقدس کا کلام اس شاعری کا بہترین نمونہ ہے جسے قرآن کریم نے جائز قرار دیا ہے.آپ نے اس شاعری کو صرف روحانیات اور اخلاقیات جیسے بلند مقاصد کے لئے استعمال فرمایا اور اپنے شعروں میں خدا ، خُدا کے نبی اور خدا کے کلام کا اس کثرت سے اور اس والہانہ انداز سے ذکر کیا کہ اس کی مثال کسی پہلے یا پچھلے شاعر کے کلام میں قطعاً نہیں مل سکتی اور خدا اور رسول کے ذکر میں عشق و محبت کے رموز و نکات بھی خوب خوب بیان فرمائے.آپ کے لامی کی مولی سے مولی خلاف اخلاق حسنہ امرکا شانہ نہیں پایا جاتا.ورنہ فارسی کے شعرا میں سے سوائے چندایک کے باقی سب بڑے بڑے صوفی بزرگ بھی اس مامی نے کراتے ہیں یوٹی کا نام کوہی بیٹے ہیں بعض حکایت اتنی فحش میں کرخدا کی بیاہ ا حتی کہ شیخ سعدی جیسے واعظ بزرگ بھی اس کیچڑ ے اپنا اس بنچا سکے.یہ شرف صرف حضرت مسیح موعود کو حاصل ہے کہ آپ نے شعر کی بلند ترین چوٹیوں کو چھوڑا لیکن کبھی متانت اور سنجیدگی کے دامن کو نہ چھوڑا.ہمیشہ صاف ستھر سے الفاظ استعمال فرمائے.یہانتک کہ دوستی الفاظ سے بھی پر بہتر کیا.ہاں پنی خداداد فصاحت و بلاغت سے کام لیکر خشک سے خشک مضمونوں کو بھی لذیذ اور رسیلہ بنا دیا.جیسا کہ آگے آپ کے کلام کے نمونوں سے واضح ہو جائے گا.

Page 35

کیا اسلام میں شاعری جائز نہیں ؟ بعض لوگوں کا خیال ہے، کہ شریعت اسلامیہ کی رو سے شاعری نا جائز ہے.یہ خیال درست نہیں ہے ، کیونکہ اگر متذکرہ بالا آیات کا یہی مفہوم ہوتا تو آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم یہ نہ فرماتے:.اِنَّ مِنَ الشَّعْرِ حِلْمَةً (مشکوۃ باب البیان والشعر العنی شعر میں بھی دانائی کی باتیں ہیں.اور نہ حسان بن ثابت شے کو کفار کے مقابلہ میں ہجو کی اجازت مرحمت فرماتے ! رُهُمُ الْمُشْرِكِينَ فَإِنَّ جِبْرِيلِ مَعَكَ ---- أَجِبْ عَنِي اللهُمْ آيَدُهُ بروح القدس - (مشكوة باب البيان والشعر) - اسی طرح کعب بن زبیر نے اپنا قصیدہ پیش کیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پسند فرمایا اور اپنی چادر اُسے عنایت فرمائی.ایک اور روایت میں ہے:." عن عمر و بن الشريد عن ابيه قال رد فتُ رسول الله صلى الله عليه وسلّم يوما فقال هل معك من شعر امية بن الصلت من شئ قلت نعم قال حبه فانشدته بيتا فقال هيه ثم انشدته بيتا فقال هيه حتى انشدته مائة بيت (مشكوة باب البيان والشعر) یعنی عمرو بن شرید نے اپنے باپ سے روایت کی ہے.کہ ایک دن میں کسی سواری پر رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا تھا.آپ نے دریافت کیا کہ کیا تجھے امیہ بن ابی الصلت کے کچھ ه اینی مشرکوں کی ہجو بیان کہ اس کام میں یقینا جبرئیل تیرے ساتھ ہے...میری طرف سے مشرکوں کو جواب ہے اسے خدا ! روح القدس سے اس کی مدد فرما.

Page 36

شعر یاد ہیں، میں نے کہا ہاں یاد ہیں.فرمایا پڑھو میں نے ایک شعر سنایا.آپ نے فرمایا.اور پڑھو.توئیں نے اور شعر پڑھا.آپ نے فرمایا اور پڑھو.حتی کہ میں نے آپ کو شو شعر سنائے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شعروں کا سنانا بھی جائز ہے جن کا کہنے والا فاسق و فاجر ہو، ایک اور موقعہ پر کسی نے سوال کیا.قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا ذَا تَرِي فِي الشَّعْرِ فَقَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ يُجَاهِدُ بِسَيْقِهِ وَلِسَانِه - کہ یا رسول اللہ ا شعر کے بارہ میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ فرما یا : مومن تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور زبان سے بھی.پس شعر کہنا اور سننا بالکل جائز اور روا ہے.پھر ابتدائے اسلام سے لیکر آج تک بڑے بڑے صوفی اور نہ اہد بھی شعر کہتے رہے ہیں ، ہاں جو شعر ، ذائی پر اکسائیں وہ بے شک منع ہیں.لیکن جو شعر خدا، رسول اور حسنات کی طرف کھینچیں انہیں کس طرح حرام قرار دیا جا سکتا ہے ؟ البتہ جائز شاعری میں بھی افراط تفریط سے بچنا لازم ہے.چنانچہ ایک جگہ بعض شاعرانہ مذاق کے دوست ایک باقاعدہ انجمن مشاعرہ قائم کرنا چاہتے تھے.اس کے متعلق حضرت سیح موعوفی سے دریافت کیا گیا، فرمایا :- یہ تضیع اوقات ہے کہ ایسی انجمنیں قائم کی جائیں اور لوگ شعر بنانے میں مستغرق رہیں.ہاں یہ جائز ہے کہ کوئی شخص ذوق کے وقت کوئی نظم لکھے اور اتفاقی طور پر کسی مجلس میں سنائے دیا کسی اخبار میں چھپوائے.ہم نے اپنی کتابوں میں کئی نظمیں بھی ہیں مگر اتنی عمر ہوئی کسی مشاعرہ میں شامل نہیں ہوئے.یں ہر گز پسند نہیں کرتا.کہ کوئی شخص شاعری میں نام پیدا کرنا چا ہے.ہاں اگر حال کے طور پر نہ صرف قال کے طور پر اور جوش روحانی سے اور نہ خواہش نفسانی سے کبھی کوئی نظم جو خلوق کے لئے مفید ہو بھی جائے، تو کچھ مضائقہ نہیں،

Page 37

۱۳ مگر یہی پیشہ اختیار کر لینا ایک منحوس کام ہے.رالحکم ۳۰ رجون والبدر ۲۷ جون بانشاه) راسی طرح ایک دفعہ اشعار اور نظم پر سوال ہوا اور حضرت اقدس نے) فرمایا :- نظم تو ہماری اس مجلس میں بھی سنائی جاتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک دفعہ ایک شخص خوش الحان کی تعریف سن کر اس سے چند ایک شعر سنے پھر فرمایا: رحمك الله.یہ لفظ آپ جسے کہتے تھے وہ جلد شہید ہو جاتا تھا.چنانچہ وہ بھی میدان میں جاتے ہی شہید ہوگیا.ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسجد میں شعر پڑھے.حضرت عمر نے روکا کہ مسجد میں مت پڑھو.وہ غصہ میں آگیا اور کہا تو کون ہے کہ مجھے روکتا ہے.میں نے اسی جگہ اور اسی مسجد میں آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کے سامنے شعر پڑھے تھے اور آپ نے منع نہ کیا حضرت عمر خاموش ہو گئے.ایک شخص کا اعتراض پیش ہوا کہ مرزا صاحب شعر کہتے ہیں.فرمایا.آنحضت صلی اللہ علیہ سلم نے خو بھی شعر پڑھتے ہیں.پڑھنا اور کہنا ایک ہی بات ہے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی شاعر تھے.حضرت عائشہ نے امام حسن اور امام حسین نے کے قصائد مشہور ہیں.حسان بن ثابت نے آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کی وفات پر مرثیہ لکھا.سید عبد القادر صاحب نے بھی قصائد سکھتے ہیں.کسی صحابی کا ثبوت نہ دے سکو گے کہ اس نے تھوڑا بہت شعر نہ کہا ہو.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ک منع نہ فرمایا.قرآن شریف کی بہت سی آیات شعری سے ملتی ہیں.ایک شخص نے عرض کیا.کہ سورۃ شعراء میں اخیر پر شاعروں کی مذمت کی ہے.فرمایا.وہ مقام پڑھو.وہاں خُدا نے فسق و فجور کرنے والے شاعروں کی مذمت کی ہے.اور مومن شاعر کا وہاں خود استثناء کر دیا ہے.پھر ساری نہ تور

Page 38

۱۴ نظم ہے.یرمیاہ سلیمان اور موسی کی نظمیں تورات میں ہیں.اس سے ثابت ہوا کر نظر گناہ نہیں.ہاں فسق و فجور کی نظم نہ ہو.میں خود الہام ہوتے ہیں بعض ان میں البدر ۲۷ مارچ ۱۹) سے مقفی اور بعض شعروں میں ہیں.بعض پاکیزہ مزاج لوگوں کے نزدیک شاعری کے معتوب ہونے میں خود شعراء کو بھی بڑا دخل ہے.کیونکہ عام طور شاعری کے صرف دو مقصد قرار پا گئے تھے.ایک حصول شہرت اور دوسرا جلب منفعت.ان اوٹی اور حقیر مقاصد کے لئے بہت سے شاعروں نے اخلاقی پستی کی انتہائی گراوٹ تک پہنچنے سے بھی دریغ نہ کیا.عوام کو اپنا گرویدہ بنانے کے لئے مزاج کو پھکڑ بازی تک پہنچایا.اور امراء کو خوش کرنے کے لئے ان کی بیجا تعریفوں اور ستائش کے طومار باندھتے رہے.بظاہر پاکیزہ محبت کے جذبات اور احساسات بیان کرنے کے بہانہ سے سفلی جذبات کو خوب خوب بر انگیختہ کیا.اگر کسی جگہ انہیں مطلوبہ قبولیت حاصل نہ ہوسکی تو انہوں نے ترک وطن سے بھی دریغ نہ کیا.چنانچہ مغل عہد حکومت میں ایران کے متعد جید شعرا مثلا عرفی ، نظیری، طالب آملی ، قدسی، ابوکلیم وغیرہ ہند وستان چلے آئے ،تا مغل حکمرانوں کی داد و دہش سے متمتع ہوسکیں.طالب آملی خود کہتا ہے " در آبه هند و به بین گرتبه سخا و سخن به که منبع سخن و معدنِ سخا اینجاست به سهند جوہر یا نند قدر فضل شناس به رواج گوهر دانش بمدعا اینجاست اسی طرح ابو طالب کلیم کہتا ہے.اسیر کشور بندم که انه وفور سرور : گدا بدست گرفت است کا سر طنبوره ہندوستانی آؤ اور سخاوت اور شاعری کا مربہ دیکھو کیونکہ سن کلام کا منبع اور فیاضی کی کان یہیں ہے.یہاں ایسے جو ہری ہیں جوعلم وفضل کی قدر جانتے ہیں.دانائی کے موتیوں کی سوداگری یہیں اپنے مقصد کو پہنچتی ہے.نے میں تو ملکت ہند کا گروید ہوں جہاں خوشی اور شادمانیکی وجہ سے ایک انکے وہاں بھی بیوی کو اپنا کاسٹ رائی بالیا

Page 39

۱۵ عبید زاکانی تو یہاں تک کہ گیا :- اسے خواجہ تا بتوانی مکن طلب علم کا ندر طلب را تب ہر روزہ بہمانی رو مسخرگی پیشه کن و مطربی آموز تا داد خود از مهتر و بهتر بستانی مذکورہ بال بیان سے یہ نہ کھا جائے کہ اس قسم کے شاعروں کے کلام میں کوئی خوبی نہیں تھی.خوبیاں ہیں.بہت ہیں.انہوں نے عمدہ عمدہ حکیمانہ اور ناصحانہ شعر بھی کہے ہیں.لیکن زیادہ تر ان کا کلام سندی اور عشق بازی کے بیان پر تل ہوتا تھا اور عوام بھی انہیں اشعار کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں ، جواد نی جذبات کی تسکین کریں.لہذا ایسے شاعروں کا کلام اصلاح نفس اور تہذیب اخلاق میں بہت کم محمد ہوتا ہے.لیکن ان کے برخلاف اہل اللہ اور صوفیان با صفا کی ایک بڑی جماعت ایسی ہے جنہوں نے کسی قسم کی حرص سے بھی اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے دیا اوراپنے خداداد جو ہرشعر گوئی کو مخلوق خدا کی اصلاح اور بہبودی کے لئے وقف رکھا.انہوں نے نہ شرف اور قبولیت کو اپنا قبلہ مقصود بنایا اور نہ ذاتی منفعت کو ، دل کے کسی گوشہ میں جگہ دی.ان کی شاعری محبت الہی ، ہمدردی مخلوق اور صدق و راستی کا بے اختیار اظہار تھا ، جو ان کے پاکیزہ دلوں میں موجزن تھی اور بیس.انہوں نے اگر کسی دنیاوی وجاہت والی ہستی کی مدح بیان بھی کی تو اسے دائرہ حقیقت سے نہ بڑھنے دیا.ان کے ممدوح وہی ہستیاں نہیں ، جو خلق اللہ کیلئے نفع رساں تھیں.ایسے بزرگوں کی درخشاں مثالیں شیخ فریدالدین عطار، حکیم سنائی ، مولانا روم ، شیخ سعدی اور دوسرے کئی بزرگ ہیں جن کے ذکر خیر سے شعراء کے تذکرے بھرے پڑے ہیں.اسے شیخ جہاں تک تجھ سے ہو سکے علم حاصل کرنے کی کوشش مت کرے.ور نہ تو ہمیشہ روزانہ خوراک کی تلاش میں ہی سرگرداں رہے گا یعنی تجھے کبھی فارغ البالی تعیب نہیں ہوگی.جامسخروں کا پیشہ اختیار کر اور گانا سیکھتا تو مہر بڑے چھوٹے سے اپنی داد وصول کر سکے :

Page 40

چنانچہ حضرت مسیح موعود اس مؤخر الذکر جماعت کے امام ہیں.آپ نے اپنے خداداد ملکہ کو صرف تبلیغ اور تجدید دین تک محدود رکھا.آپ نے اگر کسی کی مدح بھی کی تو محض اس کی خدمات دین کے لئے.آپ کے کلام کا مطالعہ کرنے سے یوں معلوم ہوتا ہے.کہ آپ کے قلب مطہر میں پاکیزہ جذبات کا ایک بحر مواج موجود ہے.جو بے اختیار آپ کی نوک قلم سے یہ کہ تمام دنیا کو سیراب کر رہا ہے اور تا قیامت سیراب کرتا رہے گا.آپ کے کلام میں تصنع اور بناوٹ کا کوئی شائبہ تک نہیں لفظ لفظ اخلاص اور راستی پر مبنی ہے.

Page 41

16 فصاحت و بلاغت فصاحت و بلاغت کیا ہے؟ بات کو ایسے طریق پر بیان کرنا کہ کلام خوبصورت بھی ہو، پر اثر بھی اور آسانی سے سمجھ میں بھی آسکے.یہ شخص بولنے کی صلاحیت سے کسی نہ کسی حد تک اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے ، اور جوں جوں فراست اور تجربہ میں بڑھتا جاتا ہے اپنے کلام کو مختلف طریق سے زیادہ موثر اور خوبصورت بناتا جاتا ہے.مناسب الفاظ سن کر انہیں صحیح ترتیب دے کر.مالی لاکر تشبیہ و استعارہ وغیرہ) تزئین کلام کے دوسرے فنون (صنائع بدائع ) استعمال کر کے ، اور ترقی کرتے کرتے بعض اشخاص ایسا کمال حاصل کر لیتے ہیں کہ پھر بغیر کوشش اور تردد کے ان کی زبان اور فلم سے فصیح و بلیغ کلام ہی نکلتا ہے.یہانتک کہ ان کا کلام حدیث قدسی اِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سخدا کے مطابق سحر حلال بن جاتا ہے.اس سحر حلال کو نظم کی شکل میں ڈھال لیا جائے، تواسی کا نام شاعری ہے.جو بعض ادباء کے نزدیک فصاحت و بلاغت کا انتہائی مقام ہے.اسی لئے کہا گیا ہے :." حيث قيل فلوانهم سألوا الحقيقة ان تختار لها مكانا تشرف منه على الكون لما اختارت غير بيت من الشعری که اگر حقیقت امر سے کہیں کہ وہ اپنے لئے ایک ایسی جگہ تجویز کر سے جہاں سے وہ حقائق عالم موجودات عالم پر اطلاع پا سکے ، تو وہ بیت شعر کے علاوہ اور کوئی مقام پسند (ماخوذ از دبیر نجم اصل) ایک بڑی حد تک تو یہ بات یقینا درست ہے کہ شاعری فصاحت و بلاغت کا انتہائی نہیں کرے گی " مقام ہے، لیکن کلیتہ درست نہیں کیونکہ منشور کلام بھی انتہائی طور پر صیح و بلیغ ہوسکتا ہے.

Page 42

IɅ اور قرآن کریم اس کی بہترین مثال ہے.انسانوں میں بھی دوسرے کمالات کی طرح فصاحت و بلاغت کے مختلف مدارج ہیں.بعض لوگ کوشش کر کے بھی فصیح وبلیغ کلام پر قادر نہیں ہوسکتے اور بعض جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے مشق اور تجربہ سے یہ شرف حاصل کرلیتے ہیں.اور بعض اشخاص کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فضیلت ودیعت کی جاتی ہے.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہونے کے باوجود کوئی اور انسانی کلام آپ کے کلام کا مقابلہ نہیں کرسکتا.اسی طرح حضرت مسیح موعود کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں نہیں شرف حاصل ہوا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- در ہمارا تو یہ دعوی ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے انشاپردازی کی میں طاقت کی ہے تا معارف حقائق قرآنی کو اس پیرایہ میںبھی دنیا پر ظاہر کریں اور وہ بلاغت جو ایک بیہودہ اور لغو طور پر اسلام میں رائج ہو گئی تھی.اس کو کلام اپنی کا خادم بنا دیا جائے " نزول مسیح م) پس معلوم ہوا کہ فنون بلا تخت کا استعمال فی ذاتہ منوع بلکہ ان کا بے موقع استعمال قابل اعتراض ہے.ورنہ کلام کو حسین ، پراثر اور مختصر بنانے کے لئے جو طریق اور فینون علم بلاغت میں رائج ہیں، وہ سب قران کریم میں موجود ہیں.بلکہ یہ کہا زیادہ درست ہوگا کہ فصاحت و بلاغت کے قواعد زیادہ تر قرآن کریم اور احادیث رسول کریم سے ہی مرتب کئے گئے ہیں چنانچہ علم بلاغت کی کتب میں مختلف فنون کے لئے مثالیں اولاً فرمان مجید اور احادیث نبوی سے ہی پیش کی جاتی ہیں اور بعد میں ادباء اور شعراء کے کلام سے.ہاں ایسی بیہودہ اور لغو صنعتیں جو بعض شعراء نے محض اپنی قابلیت اور بڑائی جتانے کے لئے وضع کی ہیں اور جن سے کلام کے تأثر میں کچھ بھی زیادتی نہیں ہوئی.مثلاً با نقطہ یا بے نقطہ عبارت یا ایسی عبارت جو سیدھا الٹا پڑھتے میں یکساں ہو.السی دور از کار صنعتوں سے کلام مجید پاک ہے لیکن جو صنعتیں کلام کو پراثر اور

Page 43

14 دلنشین بناتی ہیں.وہ سب کلام الہی مں موجود ہیں.چنانچہ حضرت اقدس درسیح موعود علیہ السلام) فرماتے ہیں -: یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے.کہ قرآن کریم کے ہر ایک لفظ کو حقیقت پر مل کرنا بھی بڑی غلطی ہے.اور اللہ بشانہ کا یہ ایک کام اور اعلی درجہ کی بلاغت کے استعارات لطیفہ سے بھرا ہوا ہے.آئینہ کمالات اسلام خدا حاشیه در حاشیه) علم بیان کے لحاظ سے لفظ استعارہ اور لفظ حقیقت کی تعریف اور تشریح آگے زیر عنوان علم بیان (ص ہذا ( لاحظہ فرمائیے.یہاں یہ امر خاص طور پر نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ ۱۵۵ حضرت اقدس نے یہ نہیں فرمایا کہ چونکہ قرآن مجید استعارات سے بھرا ہوا ہے اس لئے بلیغ ہے.که هر فرمایا کہ چونکہ یہ پاک کلام اعلی درجہ کا لی ہے اس لئے استعارات سے بھرا ہوا ہے.گو یا حضرت اقدس کے نزدیک بھی فنونی بلاغت خود بخود فصیح و بلیغ کلام میں آجاتے ہیں.یا دوسر لفظوں میں ان فنون کا استعمال دین کی تفصیل آگے آئے گی) نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے.چنانچہ آپ نے ایک اور جگہ فرمایا تے زباں گھر چھ بحرے بود موجزن طلاقت نگیرد بجز علم و فن کسے کو ندارد و قوفی تمام چه طورش سیاقت بود در کلاشم د در تمین طلا) مظاہر قدرت میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف چیزوں میں گوناگوں فوائد کے ساتھ ساتھ خوبصورتی بھی پیدا کی ہے.سبزے کو لیجئے، پھولوں کو دیکھئے ، درختوں پر نظر ڈالئے زبان اگر چہ بھائیں مارتے ہوئے دریا کی طرح تیز رفتار ہو پھر بھی علم وقف کے بغیراس میں فصاحت نہیں ہوسکتی.جوشخص دفتون باغت سے پوری واقعیت رکھتا ہو اس کام میں رانی کس طرح ممکن ہے.: الله....الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ (السجده :)

Page 44

جانوروں کے پروں اور رنگوں کو دیکھئے.خود انسان کے حسن صورت پر غور کیجئے.اسی طرح للہ تعالیٰ نے جہاں انسان کی فطرت میں حسن نے حظ اٹھانے کا ملکہ رکھا وہاں یہ رجحان بھی ودلعیت فرمایا ہے کہ وہ جو چیز بھی بنائے اس میں خوبصورتی پیدا کرنے کی بھی کوشش کیے.سامان خانہ، برتن لباس، مکان وغیرہ اگر سیدھے سادے بنائے جائیں تو ان کی افادیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی لیکن شہرشخص اپنی استطاعت کے مطابق ان تمام چیزوں کو بہتر سے بہتر رنگ میں سجاتا ہے.لہذا کلام بھی اس عالمگیر جذبہ کے دائرہ عمل سے باہر نہیں رہ سکتا.خصوصاً جب ایسی تزمین سے اس کا تاثر بھی بہت بڑھ جاتا ہے.لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جو چیزیں کسی اعلیٰ ضرورت کے پورا کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں وہ انسانوں کے طبعی لالچ اور بخل کی وجہ سے خود ہی قبلہ مقصود بن جاتی ہیں.بتلا غذا انسان کی صحت اور زندگی کے لئے ناگزیر ہے.لیکن آپ دیکھتے ہیں.کہ کئی اشخاص کے لئے یہی لذت کام و دین ہی زندگی کا مقصد بن جاتی ہے.شیخ سعدی نے کیا خوب کہا ہے : خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است ؛ تو معتقد که زیستین از بهر خوردن است اسی طرح صنائع بدائع اور بلاغت کے دوسرے فنون مرتب کرنے کا مقصد تو یہ تھا کہ انکے ذریعہ سے کلام کو فصیح و بلیغ بنایا جائے یا فطرتی طور پر کوئی قادر الکلام شخص اپنے خیالات کو بہتر اور موثر رنگ میں ادا کرنے کے لئے جو جو طریق اختیار کرتا ہے ، اس کی نشاندہی کی جائے تا اس کے کلام کو سمجھنے میں آسانی ہو.اور دوسرے لوگ بھی ان طریقوں کو اپنا کر اپنے کلام کو موثر بنا سکیں.لیکن ہوا یہ کہ بہت سے انشا پردازوں اور شاعروں نے صنائع بدائع کو ہی اپنا مطمح نظر بنا لیا.تا لوگوں کو بتائیں کہ وہ کیسا اچھوتا کلام پیدا کرنے پر قادر ہیں.خواہ اس کلام میں مفید مطلب امر ہو یا نہ ہو ہے: کھانا زندہ رہنے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے لئے ہے.لیکن تو سمجھتا ہے کہ زندگی محض کھانے پینے کی خاطر ملی ہے :

Page 45

۳۱ مؤلف حدائق المبلا عفت نے اس حقیقت کو بڑے موثر اور دلکش طریق پر بیان کیا ہے.سکھتے ہیں :.باید دانست که شاعر را واجب است که چون متوجه بضایع لفظی شود رعایت معنی را مقدم بدارد و الا شعر ہے کہ مشتمل بر صنعت لفظی باشد و در جر معنی در منحط شود.مثل سنگی یا خوکی است که عقد جواهر در گردن او بسته باشند (حدائق البلاغت ملا) جاننا چاہتے ہیں کہ شاعر کے لئے واجب ہے کہ جب صنائع لفظی کی طرف متوجہ ہو، تو معنی کی نگہداشت کو مقدم رکھے.ورنہ جو شعر صرف صنعت لفظی پرمشتمل ہوا اور اس میں معانی کا درجہ گرا ہوا ہوگا تو وہ اس کتے یا سٹور کی مانند ہے جس کے گلے میں موتیوں کا ہار ڈال گیا ہو.غرض بزرگ مذکور کے نزدیک فنون بلاغت کو معانی یعنی اصل مطلب پر فوقیت دنیا قابل مذمت ہے.ورنہ ان فنون کے استعمال کے متعلق تو انہوں نے خود ایک ایسی اچھوتی دلیل دی ہے جو اور کہیں نظر نہیں آتی (خاکسار اختصار کی خاطر اصل اقتباس پیش کرنے کی بجائے صرف اس کا ترجمہ درج کرتا ہے) فرمایا :- ارباب بلاغت کو اس امر پر اتفاق ہے کہ مجاز اور کنا یہ حقیقت اور تصریح سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے اور استعارہ تشبیہ سے زیادہ قومی مجاز اور کنایہ کے زیادہ بلیغ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مجاز میں عزوم کی طرف سے لازم کی طرف انتقال کیا جاتا ہے.چنانچہ اگر تو کہے کہ میں نے آفتاب کو دیکھا اور مراد معشوق ہو تو وہ اس سے زیادہ بلیغ ہوگا، کہ تو کہے کہ میں نے معشوق کو دیکھا.کیونکہ وہ ایسے دعوای کی مانند ہے جس کے ساتھ گواہ موجود ہے کیونکہ ہر لزوم اپنے لازم کے وجود کا گواہ ہے.بوجہ اس کے لازم ملزوم سے جدا نہیں ہوسکتا.اور یہ ایسے دعوی کی مانند ہے جس کے ساتھ گواہ نہیں اور دعوی با گواہ اور دعوی بے گواہ میں فرق ہے.پس خوب سمجھ لیجئے اور تشبیہ کی نسبت استعارہ کے زیادہ قوی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ

Page 46

۲۲ وجہ شبہ مشبہ کی نسبت مشبہ بہ میں زیادہ کامل ہونی چاہیے.اور استعارہ میں مشبہ کو عین مشبہ بہ قرار دیتے ہیں.اس میں تشبیہ کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا.اور استعارہ میں مشتبہ یہ کا ارادہ نہ کرنے کا قرینہ ہونا ضروری ہے.پس یہ لمبا دعوی باگواہ کے حکم میں ہے.جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے.(حدائق البلاغت ۵۹) یہاں استعمال شدہ اصطلاحات کے لئے آگے دیکھئے عنوان علم بیان صب ہذا.پس فنون بلاغت کا استعمال یقینا مستحسن ہے.بشرطیکہ حدود سے تجاوز نہ کیا جائے.فنون چنانچہ مولانامحمد حسین صاحب آندا د لکھتے ہیں کہ : نشدہ کے بعد کشور نظم میں عجیب انقلاب پیدا ہوا.قاعدہ ہے کہ جب تک شاعری عالم طفولیت میں رہتی ہے اس سے عام و خاص شخص مزا اٹھاتا ہے سبب بھی بیان کر چکا ہوں.کہ مطالب ان تشبیہیوں اور استعاروں میں ادا ہوتے ہیں جو ہر جگہ اور ہر وقت پیش نظر ہیں.ایک عرصہ بعد جب وہ اہل سخن کے خرچ میں آجاتے ہیں.تو نئے شاعر اپنے کلام میں نئی بات پیدا کرنا چاہتے ہیں.ناچار وہ با ریک یا عمیق یا بلند یا دور کے مجاز اور استعاروں میں ادا کرتے ہیں.اس لئے کلام باریکی سے تاریخی میں گر کر کبھی غور طلب اور کبھی لیے لطف ہو جاتا ہے.زبان فارسی میں عہد سعدی و حافظ تک شاعر جب بہت سے عمدہ اور دلکش انداز اور استعارے اور مجاز خرچ کر گئے تو بعد کے آنے والوں کو اس کے سوا چارہ نہ ہوا کہ استعارہ کو استعارہ در استعارہ اور مجاز کو مجاز در مجاز کر کے مضمون میں نزاکت اور باریکی پیدا کریں اور سننے والوں سے کہلوائیں سبحان اللہ انیا مضمون ہے.اس طرزہ کے بانی جلال اسیر، قاسم مشہدی اور ملا ظہوری وغیرہ تھے.انہوں نے تعریفوں کے شوق میں اصلیت کو چھوڑا اور مجاز کو حقیقت سے بڑھا دیا یعنی بے اصل کو اصلیت قرار دیکر اس کے

Page 47

لوازمات پر خیال پھیلا نے شروع کر دئے نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اصلیت بالکل نہ رہی بلکہ خیال ہی خیال رہ گئے جن کا وجود یا وقوع ناممکن اور محال ہے.“ شبلی نعمانی رقمطرانہ ہیں :.دسخندان فارس ص۵۲) صنائع بدائع شاعری کے زوال کا پیش خیمہ ہیں.اس لئے فردوسی کے کلام میں اس کو ڈھونڈنا نہیں چاہیے.لیکن جو محاسن شعری ضمنا کسی صنعت میں آجاتے ہیں اس کے کلام میں بھی پائے جاتے ہیں.اور اعلیٰ درجہ پر پائے جاتے ہیں.دشعر العجم حصته اول ط ) گویا فردوسی نے اپنے کلام میں خود صنائع بدائع لانے کی کوشش نہیں کی تھی.بلکہ اس کے بلیغ کلام میں وہ خود بخود آتے گئے تھے.مولانا رومی لکھتے ہیں :.باید دانست که نظر بدخواه همواره مقصود به تحسین معانی بوده است و صنائع را اند قبیل تصنع مد عمل پنداشته اند و قطع نظر از منع آن که در آثار وارد شده تصنع کلام بلیغ را از پایه باخت فرود افگند و از قدمائے فصحاء ہیچ کس بگرد این نوع اسلوب کلام نه گرویده - چنانکه بر ناظر کلام اساتذه قدیم مخفی نیست - واگر احیانا در کلام ایشان چیز سے ازین نوع یافته شود آن را به استرخا عنان طبیعت حمل باید کرد تصنع را دران راه نیست ابا اہل عجم در اواسط قرون بدین منجار مائی شده در اختراع انواع صنائع سعی بلیغ جائز داشتند تا نمایے که ابراء صنائع را در کلام منثور و منظوم از قبیل کمالات فن شعر و انشاء گمان برده اند یه (دبیر عجم ) یعنی جاننا چاہیے کہ ارباب بلاغت ک توجہ ہمیشہ حسن معانی پر مرکوز رہی ہے.اور کلام میں

Page 48

کام اسلام صنائع بدائع لانے کے عمل کو تصنع سمجھتے رہے ہیں قطع نظر اس سے کہ پہلے ادباء نے اسکی مذمت کی ہے تصنع اور بناوٹ کلام کو پائیہ بلاغت سے گرادیتی ہے.لہذا متقدمین میں سے کوئی بھی کلام کی اس قسم کی طرز کے پیچھے نہیں پڑا.چنانچہ اساتذہ قدیم کے کلام کا مطالعہ کرنے والوں پر یہ امر مخفی نہیں اور اگر کبھی ان کے کلام میں اس سم کی کوئی چیز بائی بھی جائے تو اسے عنان طبیعت کے ڈھیلا پڑ جانے پر حمل کرنا چاہیے.تصنع کو اس میں کوئی دخل نہیں لیکن قرون وسطی میں اہل فارس اس روش پر مالی ہو گئے تھے.اور انہوں نے قسم قسم کے صنائع بدائع ایجاد کرنے میں بہت کوششیں کیں.یہاں تک کہ منشور یا منظوم کلام مں فنون بلاغت کا استعمال شاعری اور انشا پردازی کے فن کا کمال سمجھا جانے لگا.جیسا کہ اس عنوان کے شروع میں عرض کیا گیا ہے.کمال فن کے درجہ پر پہنچ کر انشا پر داند کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ضائع وغیرہ اپنے کام میں شامل کرنیکی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کی تیزی فکر توضیح وبلیغ کلام پیدا کرتی ہے.اس میں حسب موقع ایسے فنون ضمنا یعنی خود بخود آ جاتے ہیں.یہی حال حضرت سیح موعود کے کلام کا ہے.بلکہ یہاں تو خاص تائید الہی بھی آپ کے شامل حال تھی.لہذا آپ کی موید من الله طبیعت راستہ سے جو فصیح و بلیغ کلام پیدا ہوا اس میں حسب موقع و ضرورت یہ فنون خود بخود آگئے ہم یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ آپ نے اپنے کلام کو مخصر، زود فہم اور پراثر بنانے کیلئے تمام مفید فنون بلاغت سے کام لیا مگر انہیں خادم کی حیثیت ہی دی انہیں اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیا جہاں کام کو واضح کرنے یا اس میں جوش پیدا کرنے کیلئے کسی تشبیہ یا استعارہ یا صنائع بدائع کی ضرورت محسوس ہوئی اسے استعمال میں لے آئے.یہ نہیں کہ بعض دوسرے شعراء کی طرح موقع بے موقع انہیں اپنے کلام میں شامل کریں.اس لئے خاکسار نے ہر جگہ کی نشاندہی کی ضرورت نہیں تھی.جہاں مناسب بے قع ہوا توان کی طرف اشارہ کر دیا ہے اور اپنی توجس معانی یعنی مطلب پر مرکوز کی تاکہیں تزئین کام کے کریں ابھر کر سامانی کا اظہار نظرانداز نہ سوچا البتہ الگ عنونات علم بیان او علم بدیع وغیرہ کے تحت حضرت اقدس کے کلام سے ان فنون کی کچھ مثالیں پیش کردی گئی ہیں؟

Page 49

ضرت یح موعود علیہ السلام کے کلام کی خصوصیات مختلف مضامین پر حضرت اقدس کے حسین اور روح پرور کلام کے نمونے پیش کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے کلام کی اہم خصوصیات کا ذکر کیا جائے ، سو گذارش ہے :.۱ - آپ کے کلام میں ایک عجیب کشش پائی جاتی ہے.جو قاری کو خُدا ، رسول اور پاکیزگی کی طرف مائل کرتی ہے.اس کا تجزیہ مکن نہیں.نہ اس کے ثبوت کے لئے کوئی دلائل پیش کئے جا سکتے ہیں.ویسے خاکسار کو یقین واثق ہے کہ جو شخص بھی اخلاص سے اس در تمین کا مطالعہ کرے گا وہ ضرور اس کشش کو محسوس کرے گا.۲- آپ نے اپنے کلام کو اپنے مشن یعنی احیائے اسلام کی تبلیغ تیک محدود رکھا کسی بادشاہ یا امیر کی مدح نہیں کی.اگر کسی کو سراہا تو محض اس کی دینی خدمات کے لئے اور کہیں.آپ خود فرماتے ہیں سے شتن نزدم مهران از شهر یا ہے کہ بستم بروری امید وارثے دورتمین ص۲۳) ۳.دوسرے اساتذہ نے بے شک حمد اور نعت تو بیان کی ہیں.لیکن قرآن کریم کی طرف بہت کم بزرگوں نے توجہ کی ہے.اس کے بالمقابل حضرت اقدس نے بار بارہ بالتفصیل اس مقدس کتاب کی خوبیاں بیان فرمائیں اور ہمیشہ پر اثر الفاظ میں اس صحیفہ ہدایت پر عمل کرنے کی ترغیب دلاتے رہے.له: میرے سامنے کسی بادشاہ کا ذکر مت کرو میں تو کسی اور ہی دروازہ پر امیدوار ہوں :

Page 50

۲۶ ہے.نعت میں بھی دوسرے اساتذہ آنحضرت صلی اللہعلیہ سلم کی بنیادی خوبی اور برتری امینی آپ کا ذات باری تعالیٰ سے والہانہ عشق اور آپ سے اللہ تعالیٰ کی محبت کے ذکر کو عموما نظر اندار کر گئے اس بارہ میں ان کے کلام میں کہیں کہیں اشارے تو ملتے ہیں لیکن بالاستیعاب اس اہم ترین خوبی کا ذکر کہیں نہیں ملتا.البتہ حضرت مسیح موعود نے اپنے منظوم کلام میں بھی اور منشور کلام میں بھی اس دو طرفہ محبت کا بار بار ذکر فرمایا ہے اور بڑے ہی لطیف پیرایوں میں فرمایا.- دوسرے اساتذہ مطالب کی توضیح کے لئے اپنے کلام میں قصے کہانیاں سے آتے ہیں.لیکن حضرت اقدس نے حکایات کی بجائے مخالفین کے اعتراضات کے جوابات کا التزام کیا.اور اسی ضمن میں اہم عقائد کی تشریح اور وضاحت فرمائی.4 - حضرت اقدس نے اپنی لمبی نظموں کو کسی خاص مضمون تک محدود نہیں رکھا.بلکہ احیائے اسلام کے لئے جن جن موضوعات پر روشنی ڈالنے کی ضرورت تھی.انہیں قریبا ہر ملی نظم میں جگہ دی.مثلاً خدا ، رسول ، فرشتوں ، انہی کتابوں اور آخرت پر ایمان.خدا اور رسول کی محبت قرآن مجید کی پیروی مامورین الہی کی شناخت، انہیں قبول کرنے کی ضرورت، اعمال صالحہ ، اصلاح اخلاق تبلیغ ہدایت، ہمدردی خلائی ، عرفان الہی کے حصول کے ذرائع.غرض آپ کی لمبی نظمیں قریبا ہر ضروری مضمون پر حاوی ہیں.کہا جاتا ہے کہ شراب و شاہد کا ذکر کئے بغیر محبوب حقیقی کا بیان ممکن نہیں.جیسا کہ غالب بہلوی نے بھی کہا ہے سے ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر لیکن یہ ایک دھوکا ہے.اپنے نفسانی جذبات کے اظہار کو محبوب حقیقی کا ذکر قرار دینا ایک بہت بڑا فریب ہے.یہی وجہ ہے کہ شعراء اور ان کے متبعین (الا ماشاء اللہ، عموماًا شراب و کباب اور دوسرے رزائل پر فریفتہ نظر آتے ہیں لیکن حضرت اقدس نے اول تو ایسے الفاظ

Page 51

۲۷ بہت کم استعمال کئے ہیں.اور اگر کہیں بھی گئے ہیں تو وہاں صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ یہ الفاظ براہ راست محبوب حقیقی کے لئے ہیں کیسی مجازی معشوق کے پردہ کے اندر سے ہو کر ذات باریتعالی تک نہیں پہنچتے.- ایک اور خصوصیت جو حضرت اقدسکی قادرالکلامی پر شاہد ناطق ہے.یہ ہے کہ جب کسی اہم امر کا بیان شروع کرتے ہیں.تو اس کی تائید یا تردید یا وضاحت کے لئے دلیل پر دلیل لاتے چلے جاتے ہیں اور صوابدید میں کبھی بلفظ تشبیہ، کبھی بلفظ استعارہ کبھی لفظ مترادف اور کبھی بلفظ حقیقت اس کی تشریح فرماتے ہیں.اسے علم بیان میں تصریف یا تعطیل کہتے ہیں.٩ حضرت اقدس اپنے بعض شعر مختلف تعظموںمیں کئی بار لائے.کیونکہ آپ کا مقصد اپنی قابلیت کا اظہار نہیں تھا کہ ہر موقعہ پر نیا شعرا تے بلکہ غرض یہ تھی کہ دین تقسیم کی تائید اور توضیح کے لئے جو امور ضروری ہیں وہ سامع کے ذہن نشین ہو جائیں.لہذا اگر کوئی شعرکسی موضوع پر یہ غرض پوری کرتا تھا تو اُسے بار بار لانے میں آپ نے تامل نہیں کیا.۱۰.بہت سے مصنفین نے مغربی فلسفہ کے زیر اثر اسلامی عقائد کو مشتبہ سمجھ کر ان کے متعلق معذرت کا وتیرہ اختیار کر لیا تھا.اور ان عقائد کی دور از کار عجیب و غریب تاویلیں کرنے لگے تھے.نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ دعا کی قبولیت ، فرشتوں ، جنت دوزخ اور آخرت کے بھی منکر ہوگئے تھے حضرت اقدس نے پورے وثوق اور جرات کے ساتھ تمام اسلامی عقائد پر اپنے لازوال ایمان کا گلا گھلا اظہار فرمایا اور موثر براہین اور دلائل سے تمام صحیح عقائد کی تبلیغ کی..اسی طرح حضرت اقدس نے اس درثمین میں وحی والہام کے امکان اور اس کی ضرورت کے بیان پر بہت زور دیا ہے.کیونکہ اس زمانہ کی گراوٹ اور بے راہ روی کی ایک بڑی وجہ مکالمہ - ہے :.ان اصطلاحات کی تعریف آگے زیرعنوان علم بیان ملاحظہ فرمائیے.(ص ہذا ) :

Page 52

۲۸ انہی کے امکان کا انکار ہے.اور یہ انکار نبوت کا دروازہ بند کرنے کی کوشش کا لازمی نتیجہ ہے.کیونکہ وحی و الہام کا دروازہ بند ہوئے بغیر انبیاء اور مامورین انہی کی آمد کا دروازہ پوری طرح بند نہیں ہوتا.لہذا اس زمانہ کے بعض متکلمین نے بزعم خود وحی و الہام کے امکان کو ختم کر کے ازراہ تکبر اپنی عقلوں کو ہی قرآن و حدیث کے سمجھنے اور عرفان الہی حاصل کرنے کا کافی اور واقی ذریعہ قرار دے لیا ہے.اور ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھاتے چلے جارہے ہیں.۱۲.اسی طرح حضرت اقدس نے تصوف کے مشکل ترین مسائل نہایت زود فہم الفاظ میں بیان فرمائے جنہیں عام لوگ بھی بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں.مثلاً :.تو بروی آن خود ، بقار این است به تو درد مخوشو ، بقا این است نه روز تین من آنکه در عشق احد محو و فناست هر چه زو آید زیرذات کبیر پاست هرچه زود ہے دور ثمین (۱۳) بلکہ ان نظموں میں جن سے یہ دونوں شتر لئے گئے ہیں.زیادہ تر سائل تصوف کا ہی ذکر ہے.(مزید مثالیں آگے صب ہذا پر دیکھیئے ).۱۳.خاکسار کے نزدیک سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ دین اسلام کے ثمرات کے ثبوت کے طور پر حضرت اقدس نے اپنی ذات بابرکات کو پیش فرمایا.کہنے کو تو سبھی اسلام کی برکات براہین احمدیہ (ہر جبار حمص ) طبع اول کے اغلاط نامہ کے مطابق پہلے مصرع میں بقا کا لفظ ہے در مصرع دوم میں تھا که تو اپنے آپ سے باہر نکل یہی بقا ہے.اور اس الحبوب حقیقی ہیں محو ہو جا یہی تھا ہے ؟ سے جو خدائے واحد کے عشق میں محود فنا ہے.اس سے جو کچھ سرزد ہوتا ہے.وہ ذاتِ کبریا کی طرف سے ہی ہے ؟

Page 53

۲۹ بیان کرتے ہیں لیکن عملی ثبوت نمائب - آپ خود فرماتے ہیں : - سخن از فقر بدندی ہے تواں گفتن ہے ولے علامت مردان رو ، ، صفایات دور ثمین (۳) پس اس زمانہ میں وہ راہ صفا پر گامزن ہونے والی ہستی آپ کے سوا اور کون ہوسکتی ہے ، جو اسلام کی برکات کے حاصل ہونے کا زندہ ثبوت پیش کر سکے.چنانچہ حضرت اقدس فرماتے ہیں؟ ایکہ کوئی گر دعا ہا را اثر بود کجاست با سوئے من بشتاب بنمایم ترا چون آفتاب ہے دورتمین ها کرامت گرچہ بے نام و نشان است : بیا بنگر از غلمان مشهد که پھر فرمایا : نیز فرمایا : ور ثمین ) اسے مزوّر گر بیائی سو سے ما ! : و ز وفا رخت انگنی در کوئے ما و زسر صدق و ثبات و غم خوری روزگاری در حضور ما بری عالمے بیٹی نہ ربانی نشاں ہے سوئے رحمان خلق و عالم راکشان له در مشین ۱۳۳۲) باتیں بنانے کیلئے توفر سے میٹر چور تک کی بیان کی جاسکتی ہیں لیکن س راستہ کے جوانمردوں کی نشان رو صف کو اختیار کرتا ہے ہے ے.اسے دو شخص جو کہتا ہے.کہ اگر دعاؤں میں اثر ہے تو بتاؤ کہاں ہے؟ تومیری طرف دور تا کریں تجھے سوچ کی طرح و اثردکھاؤوں نے تے :.اگر چہ اب کر امت مفقود ہو چکی ہے پھر بھی تو اور اسےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں دیکھ لے ؟ ے.ر سکے :.اسے کذاب اگر تو ہماری طرف آئے.اور وفاداری کے ساتھ سما سے کوچہ ہی ڈیرے ڈال دے.اور اخلاص ثابت قدمی اور دستوری کیساتھ کچھ ہمارے پاس گذار تو تھے خالی نشانوں کا ایک الم نظرآئیگا جودنیا ان کا سامان خدا کی طرف کھینچے لئے جار ہے ؟

Page 54

عرض گلے کو روئے خزاں رہا ہے نخواهد دید باریغ ماست اگر قسمت رسا باشد دورتمین م۲) ۱۴.ایک اور خصوصیت جو حضرت اقدس کو شعر اسے ممتاز کرتی ہے.یہ ہے کہ اگر آپ کو کسی شاعر کا کوئی مضمون پسندا گیا.تو پہلے تو آپ اسے قریب قریب اسی کے الفاظ میں اپنی کسی تقریر یا تحریر میں نقل کرتے ہیں.پھر کبھی اس پر تضمین فرماتے ہیں.یعنی اس کے ساتھ اپنے چند شعر ملا لیتے ہیں.اور پھر بعض دفعہ اسی مفہوم کو اپنے الفاظ میں ایسے عمدہ طریق پر بیان فرماتے ہیں کہ وہ فصاحت و بلاغت میں اس پہلے شعر سے بدرجہا بڑھ جاتا ہے.اس کی چند مثالیں آگے " اخذ" کے عنوان کے نیچے دیکھیئے ممکن ہے کوئی نادان اعتراض کرے کہ نعوذ باللہ حضرت اقدس نے کسی شاعر کا مضمون چرا لیا ہے.ایسے شخص کو اس کو چہ کی کوئی خبر نہیں کیونکہ اہل فن کے نزدیک ایسا اخذ نہ صرف جائز ہے.بلکہ بزرگ شعراء کے لئے ضروری ہے.چنانچہ شعر و شاعری کے ایک بلند پایہ نقاد ابن رشیق کہتے ہیں :.اگر کسی شخص کی شعر گوئی کا تمام دارو مدارا خذ پر ہو.تو اُسے شاعرمت سمجھو.بلکہ وہ شخص عاجز اور کور مغز ہے.اور اگر ایک شخص اس پہلو کو بالکل ہی چھوٹے ہوئے ہے.اور پہلے نامی شعراء کے کلام سے کہیں کچھ بھی اخذ نہیں کرتا.تو وہ فن شعر سے بالکل بے خبر اور جاہل ہے.(دیکھیئے صب ہذا) سے ہر وہ پھول جو کبھی خون کا نہ نہیں دیکھے گا اگرتیری قسمت یاوری کرتے تو دیکھ ہارے باغ میں موجود ہے و

Page 55

۳۱ حمد الہی اب حضرت مسیح موعود کے کلام سے حسن مفہوم اور بلند پایہ مطالب کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں، جن سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے.کہ صرف اسلام ہی زندہ مذہب ہے، جو انسان کو رب العالمین کی بارگاہ تک پہنچا سکتا ہے.اس کے عقائد فطرت کے عین مطابق ہیں.اس کی تعلیم تمام خوبیوں کی جامع اور ہر قسم کے نقائص سے پاک ہے.اس کا نبئی بنی نوع انسان کا سب سے بڑا محسن ہے جس کی وساطت کے بغیر انسان نہ نیکی بدی کو کما حقہ شناخت کر سکتا ہے.نہ گناہ اور تاریکی سے نجات حاصل کر سکتا ہے.اور نہ کوچہ عرفان الہی میں قدم رکھ سکتا ہے.اس کی کتاب دل و دماغ کو روشنی بخشتی ہے.نیکیوں کی طرف رغبت اور برائیوں سے نفرت دلاتی ہے.غرض حضرت اقدس کے نزدیک صرف اسلام ہی صحیح معنوں میں دین کہلانے کا ستی ہے.یہ سب امور اور دوسرے تمام ضروری مضامین اس در ثمین میں بڑی خوبصورتی اور وضاحت سے بیان کئے گئے ہیں.سب سے پہلی نظم حم الہی پرمشتمل ہے.اگرچہ انشا پردازی اور شعر و شاعری میں حضرت اقدس کسی کے مقلد نہیں تھے.بلکہ آپ نے خود ایک عظیم الشان انشا پردازی کی داغ بیل ڈالی.پھر بھی قبل ازیں اس کام کے لئے جو طریق اور دستور موزوں اور مناسب قرار پا چکے تھے.ان سے آپ نے عموما انحراف نہیں کیا.مثلاً اکثر بزرگ مصنفین اپنی کتاب حمد الہی سے شروع کرتے ہیں.پھر نعت رسول کریم لاتے ہیں اور اس کے بعد دوسرے مضامین ، چنانچہ حضرت اقدس نے بھی اپنی سب سے پہلی کتاب براہین احمدیہ حمد الہی سے شروع کی اور اس کے بعد نعت نبی لکھی.یہی حمد در ثمین فارس کی پہلی نظم ہے.یہ حمد مثنوی کی شکل میں ہے.اور حمد کے لئے مثنوی کی مخصوص بحروں

Page 56

۳۲ میں سے ایک بحر یعنی خفیف مسدس مجنون مقصور یا محذوف (فاعلاتن مفاعلن فعلن یا فعلان ) میں ہے.آپ ذات باری تعالیٰ کی حمد میں یوں نغمہ سرا ہوتے ہیں سے ید که یکش بانی و بناساز نیست هر دم از کارخ عالم آواز لیست : زرکس اور اشریک و انبازیست : نے بکارش دخیل و ہمراز لیست این جهان را ، عمارت انداز لیست و از جهان، برتر است و ممتاز لیست وحده لا شريك ، حي وتدير : لم يزل ، لا يزال فرد و بصیر کار ساز جهان و پاک و قدیم به خالق و رازق و کریم و رحیم رهنما و معلم رہ دیں : ہادی و مهم معلوم یتیں منتصف ، باہمہ صفات کمال : برتر، از احتیاج آل و عیال ہر یکے حال هست، در همه حال : کره نیابد، بدوه فنا و زوال نیست از حکیم او ، بڑوں چیز ہے نہ زچیز لیست او ، نہ چوں چیزے نتوان گفت ، لامس اشیاست : نے تواں گفتن ایں کہ ، دورانہ ماست رور تمین هتاب ترجمہ : - نظام عالم ہر وقت یہ گواہی دے رہا ہے کہ اس جہان کا بانی اور نانیوا کوئی ضرور ہے.نہ کوئی اس کا شریک ہے زرسانجھی نہ اس کام میں کوئی دخل دے سکتا ہے اورنہ اس کا کوئی ہمراز ہے.وہی اس جہان کا معمار ہے.اور خود اس جہان سے بالا تر اور متانہ ہے.وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں.زندہ ہے اور قدرت والا ہے، ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا.تنہا ہے اور بلینا ہے.وہ دنیا جہان کے کام نیانے والا ہے.پاک، قدیم، خالق ، رزاق ، کریم اور رحیم ہے وہ دین کے راستہ کا رہنما اور استاد ہے اور یقینی علوم کی طرف رہنمائی کرنے والا اور ان کا الہام کرنیوالا ہے.وہ تمام صفات کا ملہ سے متصف ہے.اہل عیال کا حاجتمند نہیں وہ ہر زمانہیں ایک ہی حالت پرقائم رہتا ہے فنا اور زوال کا سکے حضور گذرنہیں سکے حکم سے کوئی شے باہر نہیں نہ وہ کسی چیز سےپیداہواہے ورنہ کسی پرے مشابہت رکھتاہے نہ کہا جاسکتا یا نہیں ہوا ہے اور یہ کہ سکتےہیں کر وہ ہم سے دور ہے نہ

Page 57

۳۱۳ دیکھئے ذات باری تعالیٰ کی صفات کا ایک چشمہ ہے جو آپ کے پاکیزہ دل سے بے اختیار ابل رہا ہے.تنظیم کی سلاست اور روانی دیکھیئے.الفاظ کی مناسبت اور بندش دیکھئے یحسن مطلع ملاحظہ فرمائیے آپ اس محمد کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتے بلکہ فرماتے ہیں کہ یہ عالم کون ومکاں زبان حال سے پکار رہا ہے وَإِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِ (بنی اسرائیل : ۴۵ ) یعنی دنیا کی ہر چیز اس کی توصیف تسبیح میں لگی ہوئی ہے.پھر یہ پہلا شعر صنعت براعتہ الاستہراں کی بھی ایک عمدہ مثال ہے.اس صنعت سے یہ مراد ہے کہ کلام کے شروع میں ایسے الفاظ آئیں جو بیان آئندہ کی طرف اشارہ کریں یعنی ان سے اس کلام کے مضمون کا اظہار ہو جائے.اب دوسرے ماہرین فن کی بیان کردہ حمد الہی کے چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں.تا ان سے مقابلہ کر کے حضرت اقدس کے کلام کی برتری کا اندازہ لگایا جاسکے.حکم سنائی پہل بزرگ شاعر ہے جنسی افکار تصوف ، اصطلاحات عرفان اور گفتار مشائخ کو ذوقیات شعری کے قالب میں ڈھالا.آپ کو صرف شعراء میں ہی ایک بلند مرتبہ حاصل نہیں.بلکہ صوفیائے کرام اور صاحبان ذوق وحال میں بھی ایک بلند مقام پر فائز ہیں.آپ کی تعریف میں آپ کے بعد آنے والے تمام اساتذہ رطب اللسان ہیں.چنانچہ مولانا روم فرماتے ہیں.ما عاشقاں بخانه خمار آمدیم : دندان لا ابالی و عیار آمدیم عطار رح بو دو سنائی دو چشم او : ما از پٹے سنائی و عطار آمدیم که حکیم سنائی کی سب سے زیادہ مشہور کتاب تحدیقہ الحقیقہ ہے جو اسی بحر میں ہے جسمیں حضر اقدس کی بیان فرمودہ مذکورہ بالاحمد الہی ہے حکیم سنائی مالک حقیقی کی حمد میں یوں نغمہ سرا ہیں : :- ہم پیر مغاں کے ہاں (ہمان بن کر آئے ہیں.ہم لاپروا اور چالاک رند ہیں.عطار کی مثال ایک روح کی ہے اور سنائی اس کی دو انکھیں ہیں.ہم سنائی اور عطار کے پیچھے آنے والے یعنی چلنے والے ہیں :

Page 58

م م اے درون پرور برون آرای : ولے خود بخش بے خرد بخشای خالق و رازق زمین و زمان : حافظ و ناصر مکین و مکان ہمراز صنع تو مکان و مکین : همه در امر تو زمان و زمین آتش و آب و باد و خاک سکوں ہے ہمہ در امر قدرتت بے چوں عرش تا فرش جز و مبدع تست : عقل با روح پیک سریع تست دردیاں ہر زبان که گر دانست : از ثنائے تو اندرو جانست نامهای بزرگ محترمت : رهبر جود و نعمت و کرمت هر یک افزون زعرش و فرش و ملک کاں ہزار و یکست و صد کم یک ہر یکے زاں بحاجتے منسوب :: لیک نامحرمان ازاں مجوده یا رب از فضل و رحمت این دل و جاں : محرم دید نام خود گردان به ( حديقة الحقیقہ منت) ہ :.اسے جان کی پرورش کرنیوالے اور سیم کو زیب و زینت بخشنے والے بالے بے عقلوں کو عقل بخشنے والے رہیں بھی بنیں.اسے کائنات عالم کو پیداکرنیوالے اورانہیں رزق پہچانے والے اے مکینو اور کانوں محافظ وناصر اسی مکان ویکی تیری ہی کاریگری کا کرشمہ ہیں.زمانی زمیں سب تیرے فرمانبردار ہیں.یہ آگ پانی ہوا اور یہ بے حرکت مٹی سب بے چون و چرا تیری ہی اطاعت کر رہے ہیں.عرش (آسمان) سے لیکر فرش (زمین تک سب تیری ہی پیدائش کے افراد ہیں.او عقل بھی اور روح بھی تیرے ہی تیز رو قاصد ہیں.ہر منہ میں جو زبان حرکت میں ہے اس میں تیری ہی شنا کرنے کے باعث جان ہے.تیرے عظمت والے قابل احترام نام تیری بخششوں نعمتوں اور مہربانیوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں.ہر ایک عرش اور فرش اور فرشتوں سے بڑھ کر ہے.جو ا نام ایک ہزار ایک اور ایک کم سو ہیں.ہر ایک نام دانسان کی کسی نہ کسی حاجت سے منسوب ہے لیکن وہ اسرار الہی کے ناموں پوشیدہ ہیں.اسے اب اپنے فضل ورحمت ہے (میرے) اس دل و جان کو اپنے ہرام کے دار کا حرم بنا دی.

Page 59

بے شک ایک حد تک یہ حمد مؤثر اور دلنشین ہے.لیکن اس کے الفاظ میں وہ سلامت اور روانی نہیں.اور معانی میں وہ جوش نہیں جو حضرت اقدس کی بیان فرمودہ حمد میں پائے جاتے ہیں شعر نمبر یہ میں سکوں کا لفظ حشو ہے کیونکہ اس کے بغیر مفہوم پورا ہو جاتا ہے.خصوصا اس لئے بھی کہ کسی دوسرے عنصر کے ساتھ کوئی صفت نہیں لائی گئی.اسی طرح شعر نمبر میں لفظ ملک حشو ہے.کیونکہ فرشتوں کا مفہوم لفظ عرش میں شامل ہے جس طرح اہل زمین کا مفہوم فرش میں شامل ہے.لہذا بہتر ہوتا کہ عرش و فرش میں سے کسی کے ساکنین کا ذکر نہ کیا جاتا.یا توازن کیلئے دونوں کے ساکنین کا ذکرہ ہوتا.اسی طرح آخری شعر میں یا حرف محرم دید چاہیے یا صرف محرم نام محرم دید نام کہنے سے شعر کے مفہوم میں کوئی خوبی پیدا نہیں ہوئی بلکہ ابہام پیدا ہو گیا...اس کے مقابلہ میں حضرت اقدس کے کلام میں لفظی اور معنوی دونوں قسم کی خوبیاں موجود ہیں.اور کہیں کوئی سقم نہیں معنی ستاروں کی طرح چپکتے ہیں جن سے ایک معمولی سمجھ بوجھ والا شخص بھی حظ اٹھا سکتا ہے اور ایک فاضل اجل بھی.اب ایک اور بتی استاذ مولانا نظامی گنجوی کی اسی سحرمیں حمد الہی کانمونہ ملاحظہ فرمائیے : سب سے پہلے انہی نے پانچ مختلف بحروں میں پانچ مثنویاں لکھیں جس کی تقلید آج تک تمام بڑے بڑے شعراء کرتے آئے ہیں.شعر الحج حصہ اول منت) بہت سے بلند پایہ شعراء نے نظامی کے کمال فن کے آگے سرتسلیم خم کیا ہے چنانچہ دیباچہ گنجینه گنجوی میں لکھا ہے.کہ " خاتم الشعراء خواجه حافظ شیرازی نیز در اشعار نظامی تبع بسیار و بمقام بلند و فکر ارجمند وی اعتقاد کامل داشته - چنانکه در ستایش نظامی و خطاب بممدوح فرماید ے ز نظم نظامی که چرخ کہن : ندارد چو او پیچ زیبا سخن

Page 60

۳۶ بسیارم بتضمین سه بیست متین که نزد خرد به از در تمین ه : (صفحه صح صط) مولانا موصوف حمد باری تعالٰی کا حق یوں ادا فرماتے ہیں : سے اسے جہان دیده بود خویش از تو به پیچ بودی بنوده پیش از تو در بدایت بدایت همه چیز : در نهایت نهایت همه چیز اسے بر آرنده سپر بلند : پنجم افروز و انجمن پیوند آفریننده خزائن بود به مبدع و آفریدگار وجود سازمند انه تو گشته کار همہ : اسے ہمہ و آفریدگار ہمہ هستی و نیست مثل و مانندت : عاملان جز چنیں ندانندت روشنی پیش اہلِ بینائی : نه بصورت بصورت آرائی بحیات ست زنده موجودات زنده بلک اند وجود تست حیات ہے خاتم الشعراء خواجہ حافظ شیرازی نے بھی نظامی کے اشعار کے اسلوب کو ایک بڑی حد تک اپنایا اور وہ اس کے بلند مقام اور قابل قدر فکر و تدبر کا بہت گرویدہ تھا.چنانچہ نظمی کی تعریف میں کہتا ہے کہ نظام کی ایک نظم ہے کہ اس جیسا و مامایی یا ای تی وی پی ان میں اس کرتاہوں کو حق کے نزدیک اس جیسے ہی ہوتا کہیں نہیں.ے :.اے وہ ذات جبس اس جہان نے اپنا وجود پایا کوئی وجود تجھ سے پہلے موجود نہیں تھا ارے ہی ابتدا میں ہر چیز کی ابتدا اور انہیں ہرچیز کی انتہا رہی ہے اسے اس بلند امان کو قائم کرنیوالے بستروں کو روشن کر نیوالے اور ان کی محفل سجانیوالے بخششوں کے خزانے پیدا کرنیوالے اور وجود کے موجد در خالق ، سیٹ کام تھی سے بنا ہے.اسے جو سب کچھ خود ہی ہے اور سب خالق ہے.میر توہی جو ہے تیری اوران کوئی نیں عقیل کی اسی مادر کی عوام میں نکھوں لو کے کے تیر ہیں انکا بے یاری امور کے تھی سے نہیں بلکہ موت بنانے کے ذریعہ سے بیٹے جو ان کی زندگی حیات ہے اور خود حیات تیری ہستی سے زندہ ہے یہ

Page 61

۳۷ اسے جہاں رانہ پیچ سازنده : ہم نوابخش و ہم نوازنده نام تو کا بتدائے ہر نام است به اوّل آغاز و آخر انجام است (هفت پیکر) مولانا نظامی کی تینی عظمت اور برائی شعرا کے تذکروں میں بھی ہے.الفاظ کے لحاظ سے وہ سب تسلیم لیکن ان کے بیان میں نہ وہ بے ساختگی ہے اور نہ وہ گہرائی ہے.جو حضرت اقدس کے کلام میں پائی جاتی ہے کیونکہ جو کام تائید ایزدی سے منصہ شہود پر جلوہ افروز ہے ، اس کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے.حضرت اقدس کے کلام میں تصنع کہیں نام کو بھی نہیں لیکن مولانا کے کلام میں صاف دکھائی دیتا سے مثلاً: دیکھئے ہدایت ہدایت ، نہایت نہایت ، اول آغازه ، آخر انجام وغیرہ.کلام کو خوبصورت بنانے کی کوشش میں معانی غائب ہو گئے.چنانچہ ان دنش شعروں میں ذات باری تعالیٰ کی دو چار صفات سے زیادہ دکھائی نہیں دیتیں.مگر حضرت اقدس کے اتنے ہی اشعار میں بیسیوں صفات کا ذکر ہے.الفاظ کے گورکھ دھندوں نے بعض شعروں میں بہت ہی ناپسندیدہ ابہام پیدا کر دیا ہے.مثلا، آٹھویں شعر کا پہلا مصرع دیکھئے.بحیات ست زندہ موجودات.بھلا حیات سے زندہ ہونا کیا بات بنی ؟ کیا زندہ چیزوں کی صفت کے علاوہ بھی زندگی کا ہمیں کوئی وجود ہے ؟ جس سے چیزیں زندہ ہوتی ہیں.اس طرح عرض کو جو ہر قرار دینے سے کلام قابل فہم نہیں رہتا.اور بقول موان محمد مین آز آو باریکی سے تاریکی میں گر کر کبھی غور طلب اور کبھی بے تکلف ہو جاتا ہے.(دیکھئے صہ ہذا ).اسی طرح اس شعر کا دوسرا مصرع یجئے " زنده بلک از وجود تست حیات“ کسی خاص حالت یں کسی چیز کو زندہ قرار دینے کا کچھ مفہوم بھی پیدا ہوسکتا ہے.جب اس چیز کے مردہ ہونے کا ے.اسے وہ جو جہاں کو عدم سے پیدا کرتا ہے.تو توا (ساز و سامان بھی دیتا ہے اور دوسر سے طریقوں سے بھی) نوازتا ہے.تیرا نام جو کام کی ابتداء ہے.آغاز کا اول بھی وہی ہے.انجام کا آخر بھی وہی ہے :

Page 62

امکان ہو لیکن زندگی تو کبھی موت نہیں بن سکتی کیونکہ یہ دو متضاد صفات ہیں.صرف زندہ چیزیں مُردہ ہو سکتی ہیں.ایسا ذ ہنی انتشار الفاظ کو معنی پر ترجیح دینے کا نتیجہ ہے.اس مصرع میں لفظ بلک (جو بلکہ کا مخفف ہے اس) کا استعمال بھی بے موقعہ ہے.کیونکہ یہ حرف اضراب ہے جو کسی بات کو ترقی دینے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے.اور یہاں ایسی کوئی صورت نہیں.اگر اس شعر کے کچھ معنی بن سکتے تو یہاں حرف عطف آنا چاہیے تھا.جیسے موجودات زندگی سے زندہ ہیں.اور زندگی تیرے وجود سے زندہ ہے.مگر مشکل یہ ہے کہ زندگی سے زندہ ہونے یا زندگی کے زندہ ہونے کا کچھ بھی مفہوم متصور نہیں ہوسکتا.یہ بہت ہی دور از کار تخیل ہے.شیخ سعدی کسی تعارف کے محتاج نہیں.آپ فرماتے ہیں : بنام جہاندار جہاں آفرین به حکیم سخن در زبان آفرین خُداوند بخشنده دستگیر : کریم خطا بخش پوزش پذیر عزیزے کہ ہر گز درش سر بافت به بهر در که شد هیچ عورت نیافت سیر پادشان گردن فرار به به درگاه او بر زمین نسیانه نه گردن کشان را بگیرد بطور به نه عذر آوران را براند بجور و گر خشم گیرد بگر داید زشت به چو باز آمدی ماجرا در نوشته 10.ترجمہ :.اے جان بخشنے والے بادشاہ کے نام سے شروع کرتا ہوں ، وہ ایسا دانا ہے جس سے زبان کو قوت گویائی بخشی.وہ بخشنے وال اور ستگیری کرنیوالا مالک ہے خطاؤں کا بخشنے والا اور نذر کو قبول کرنیوالا مہربان ہے.وہ ایسا حنان تری ہے کہ میں کسی نے اسکی دروازہ سے منہ موٹا ہو جس کسی کے دروازہ پر گیا سے کچھ بھی عورت ن لی.گردن اڑانے والے بادشاہوں کا سراسکی بارگاہ میں حاجتمندی کی زمین پر جھکا ہوا ہوتا ہے.وہ سرکشی کرنے والوں کو فور نہیں پڑتا اور نہ رد کرنیوالوں کوسختی سے اپنی بارگا سے نکالتا ہے اگر وہ کسی کے بڑے کردار پر گرفت کرتا ہے.تو جب وہ اس کام سے باز آجائے تو معالہ سمیٹ دیتا ہے :

Page 63

؛ اگر با پدر جنگ جوید کیسے ؟ پدر بے گماں خشم گیرد بسے و گر خویش راضی باشد ز خویش چوبیگانگانش برانداز پیش وگر بنده چابک نہ آید بکار : عزیزش ندارد خداوندگار اگر با رفیقان نبات شفیق : بفرسنگ بگریز و از مسی رفیق و گر ترک خدمت کند لشکری شود شاه لشکر کشتن از دے بیری ولیکن خداوند بالا و پست به بعصیان در رزق هر کس نه لیست نه د بوستان صدا یہ حمد دوسرے بزرگوں کی بیان کردہ حمداہی سے نسبتہ بہتر ہے.لیکن پھر بھی حضرت اقدس کی بیان فرمودہ حمد کے مرتبہ تک نہیں پہنچتی شعر کی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی اختصار ہے.لیکن شیخ سعدی نے ایک ہی تخیل کو بلاضرورت پانچ چھ اشعار میں دہرایا.یہی وجہ ہے کہ دوسرے بزرگوں کی نسبت آپ کی حمد کے زیادہ شعر نقل کرنے پڑے.کیونکہ شرط وجزا کا جو سلسلہ شعر نمبر 4 سے شروع ہوا تھا اس کی استثنا ء شعر نمبر ۱۲ پر جاکہ آئی.اس کے مقابلہ میں حضرت اقدس کے کلام میں بے جاطول کہیں نہیں.چنانچہ شیخ کے بارہ شعروں میں جو صفات : ترجمہ : بے شک اگر کوئی شخص اپنے باپ سے آمادہ جنگ ہو، تو باپ یقینا بہت غصہ کرتا ہے.اگر کوئی اپنا یعنی رشتہ دار کسی دوسر سے رشتہ دار سے خوش نہوں تو وہ رشتہ دار اسے غیروں کی طرح اپنے پاس سے بھگا دے گا.اگر کوئی غلام چستی اور مستعدی سے اپنے مالک کی خدمت نہ کرے تو اس کا مالک اسے کبھی پسند نہیں کرے گا.اگر کوئی شخص اپنے دوستوں سے شفقت کا سلوک نہ کرے، تو اسکی دوست اس کوسوں دور بھاگ جائیں گے.اسی طرح اگر کوئی سپاہی اپنا ی خدمت ادا نہ کرے تو شکر کو ٹرائی کیلئے تیار کرنے کے وقت بادشاہ اس سے تعلق توڑے گا لیکن بلندی و پستی کا مالک خداوند تعالی گناہوں کی بنا پر رزق کا دروازہ کسی پر بند نہیں کرتا.

Page 64

لائی گئی ہیں.ان سے بہت زیادہ صفات حضرت اقدس کے دس شعروں میں سموئی ہوئی ہیں.اب ایک اور ماہر فن " عارف معارف حقیقت، سالک سالک طریقیت ، مولانا نور الحق والد عبد الرحمن جامی کی بیان کردہ حمد کا نمونہ بھی دیکھئے جن کے متعلق دولت شاہ سمرقندی اپنے تذکرة الشعراء میں لکھتے ہیں :.در مصطبه جامی تا کشاده شده مجلس رندان نامی در هم شکست و عروس ببر و فکر تا نامزد این مرد سعی شده مخذرات حجرات دعوای عقیم و سقیم شدند.توتیان شکر شکن هند و اسواد دیوان و منشآتش خاموش ساخت و شیرین نه بانان و فارسان میدان فارس مشهد اشعارش نوشیدند دیگر انگشت بزنمکدان کلام مسیح گوریاں نزدند دو یا چه دیوان کامل جافی ملت) یہ صاحب فضل و کرم بزرگ فرماتے ہیں : سے زان پیش کز مداد دهم خاصه را مدد خواہم مدد فضل تو اسے مفضل احمد ره) باشد که طی شود ورق علم و فضل من بن حمد ترا بفضل تو نه به فضل خودت ار ترجمہ میں وقت جای کے میخانہ کا دروازہ کھول گیا ہے.بڑے بڑے نامی رندوں کی مجلس تتر بتر ہو گئی ہے اور جس وقت سے فکر سخن کی دوشیزہ دلہن کی نسبت اس صاحب علم فضل جوانمرد سے قرار پائی ہے.دعاوی کے مجروں کی پردہ نشین بانجھ اور عیب دار بن گئی.اسکے دیوان اور دوسری تصانیف کی سیاہی نے ہندستان کی شیریں زبان طوطیوں کوخاموش کر دیا ہے اور فارسی نظم کے شہسواروں نے جس دن سے اس کے اشعار کا شہد چکھا ہے انہونی کس ملی گود شاہ) کے نمکدان ردیوان) کو انگلی نہیں لگائی لاس تعریفی بیان سے یہ اندازہ بھی لگائیے کہ اس زمانہ میں بات کو کیسے پیچیدہ اور مشکل طریق پر ادا کرنے کا رواج ہو گیا تھا.چنانچہ شعرمیں بھی یہی طرز پسند کی جانے لگی.خواہ مطلب کچھ بھی حاصل نہ ہو).1.اس پہلے کہ میں سیاہی سے قلم کی مد کروں العینی دوات میںقلم ڈالوں تجھ سے بھی اسے یکساما فضل تیرے فضل کی کا ولی ہوں کہ میرے علم میں کامیابی مال ہوگی کہ تیری مدیر و کرم سے کی جاتی ہے کہ اپنے کام میں سے ؟

Page 65

نشکفت جز شکوفہ حمد وثنائے تو : در باغ کن نہال قلم چون کشید قد هستی برای ثبت ثنایت صحیفه ایست :: کاغانه آن ازل بود انجام آن ابد در جنب آلی صحیفه چه باشد اگر بفرض به شد نامه در شنای تو انشا کند خود بالذات واحدی نود اعداد کون را به نبود جز اختلاف ظهور تو مستند ریخسار وحدت تو جمال دگر گرفت و در دیده شهود زخال و خط عدد از کثرت زید نشود بحر مختفی : بحر حقیقی تو و عالم ہمہ زید بر آفتاب سایه نیفتاد اگر چه شد به محدود برسر الفش سائیان مد عنوان نامه کرم و فضل نام تست به خوش آنکه شد بنام و نام تو نامزدی د دیوان کامل جاتی ص۳۲ ) سے :.آج کل ایران میں صد (معنی سکو) کو ص کی بجائے سین سے لکھتے ہیں : ه جیب دارشاد الہی اسے کئی کے باغ میں قلم کے درخت نے قد پکڑ لیا.تو اسی تیری حمدوثنا کے سوا اور کوئی شگوفہ نہ پھوٹا.یہ عالم کائنات تیری شنا لکھنے کے لئے ایک ایسی کتاب ہے ، جس کی ابتدا ازل سے ہوئی ہے اور خاتمہ ای کو ہی ہوگا یعنی کبھی نہیں ہوگا.اگر بفرض محال کوئی صاحب عقل تیری شامیں سینکڑوں مسودے بھی لکھ ڈالئے تو اس کتاب فطر یکے مقابلہ میں اس کی کیا وقوت ہو سکتی ہے.تو اپنی ذات میں اکیلا ہے اور کائنات کے تمام افراد تیرے مختلف جیلوں کے ہی مظاہر ہیں.ان مختلف شکلوں اور صورتوں کے ذریعہ شاہد کے درجہ پر پہنچے ہوئے لوگوں کی نگاہ میں تیری دورت کے جلوہ نے نیا سن اختیار کر لیا ہے.جھاگ کی زیادتی کی وجہ سے سمندر نہیں چھپ سکتا.توحقیقت کا سمندر ہے ، اور یہ سب عالم کائنات جھاگ کی حیثیت رکھتا ہے لہذا تجھے نہیں چھپا سکتا، اگرچہ آفتاب کے الف پر متد کا سائیان پھیلا ہوا ہے.پھر بھی وہ آفتاب پر سایہ نہیں ڈال سکا یعنی اُسے چھپا نہیں سکا.تیرا نام فضل و کرم کا عنوان ہے.خوش قسمت ہے وہ شخص جو تیرے فرمان اور تیرے نام سے منسوب ہو جائے :

Page 66

۴۲ کے ضائع بائع اور دوست فون بلاغت کی بھرمار نے کس طرح معانی ریعنی اس مقصد (رح) کو نظروں سے او بیل کر دیا ہے.جہاں تک الفاظ کا تعلق ہے نہایت خوبصورت اور شاندار ہیں لیکن محامد باری تعالیٰ تلاش کرنیکی کوشش کی جائے تو کچھ ہاتھ نہیں آئے گا.لفظ لفظ سے اپنے تجر علی کا تفاخر کیا ہے.تمام اشعار حمد باری تعالی کے بیان کی بجائے اپنی فضیلت اور قابلیت کا مرقع نظر آتے ہیں.بیشک شنا کا لفظ بار بار آیا ہے لیکن کسی قابل شنا صفت کا ذکر کہیں نہیں.دیدہ شہود نے جمال کا نیا رنگ پکڑا لیکن جمال کا ہلکا سا خاکہ بھی اس نظم میں کہیں نہیں ملتا.بیشک ذات باری تعالی دنیا کی جھاگ سے نہیں چھپ سکتی لیکن وہ کونسی صفات ہیں جن کے ذریعہ ذات باری تعالی کاجلوہ دکھائی دیتا ہے ان کا بیان کہیں نہیں.حالانکہ ذات باری تعالی کا ادراک کی صفات کے ذریعہ سے ہی ہوتا ہے لیکن اس اقتباس میں ان کی جھلک بھی کہیں نظر نہیں پڑتی.سب شعر علم بلاغت میں مولانا کی مہارت کو ضرور نمایاں کرتے ہیں لیکن اکثر شعروں کا حمد سے کوئی تعلق نہیں.مثلا گواں شعر دیکھئے.فرماتے ہیں.آفتاب کے الف پر جو مد ہے اس کی آفتاب نہیں چھپ سکتا.اسے ذاتِ باری تعالی کے منفی ندرہ سکنے کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے.اس مد کے مقابلہ میں وہ کونسی چیز ہے ، جو ذات باریتعالی کو چھپا نہیں سکتی.خیال کے گھوڑے کتنا ہی دوڑائیے یہ شک کسی طرح بھی اللہ تعالیٰ پر چسپاں نہیں ہوسکتی.اگر کہا جائے کر منہ سے مراد صفات ہیں تو وہ تو الٹا اس ذات بے مثال کو ظاہر کرنیکا ذریعہ ہیں.نہ چھپانے کا.بفرض محال انہیں چھپانے کا ذریعہ ہی سمجھ لیا جائے.توکیا وہ صرف اتنی ہی کم اور عمولی سی ہیں حقیقی آفتاب کی مد ہے.یہ توحد نہ ہوئی.نعوذ باللہ مذمت ہو گئی.یہی مجاز کوحقیقت سے بڑھانے کا رجحان ہے جس کا رونا مولانامحمد حسین صاحب آزاد نے رویا تھا.(دیکھئے ملا ہذا، اور یہی مریحان جب غالب آجائے تو کلام کو ممل بنا دیتا ہے.الفاظ کی پیچیدگیاں صرف درمانی تعیش کا سامان مہیا کر تی ہے لیکن ان سے مفید مطلب کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی.ہاں صورت کے پجاریوں کی واہ واہ ضرور ملتی ہے.اس کے مقابلہ میں حضرت اقدس کا کلام بظاہر سادہ لیکن معانی سے لبریز ہے الفاظ بھی موتیوں کی لڑیوں کی طرح مربوط اور نگینوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں.چنانچہ آپ کا کلام سلامت بیان کا بہترین نمونہ ہے : اور

Page 67

نعت نبی ور ثمین کی دوسری نظم نعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے حضرت مسیح موعود کو حمد باری تعالی کی طرح نعت نبئی میں بھی بہت انہماک تھا.آپ نے خالص نعتیں بھی لکھی ہیں لیکن ان کے علاوہ آپ کا یہ بھی دستور تھا کہ کوئی بات ہو کسی امرکا بیان ہو آپ اس کا رخ سرور کائنات کی ذات مبارک کی طرف پھیر لیتے.اور آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کا ذکر شروع کر دیتے تھے.جیسا کہ آگے متعدد اقتباسات سے واضح کیا جائے گا.عاشق زار در همه گفتار به سخن خود را کشد بجانب یاری تشحید الازمان بجنوری نشار) نعت عمو نا قصیدہ کی شکل میں لکھی جاتی ہے جس کے لئے کوئی بحر مخصوص نہیں.یہ نعت بحر ایل مسدس مقصور یا محذوف (فاعلاتن فاعلاتن فاعلن یا فاعلان) میں ہے.اس ه :- عاشق زار اپنی بات کا رخ ہمیشہ اپنے محبوب کی طرف پھیر لیتا ہے ؟ شہ کسی نظم کے وزن کے معلوم ہونے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اسکی اشعار پڑھتے وقت قاری غلطی سے محفوظ رہتا ہے.کیونکہ اگر کسی مصرع کی قرارت متعلقہ نظم کے وزن کے مطابق نہ ہو.تومعلوم ہو جاتا ہے کہ وہ مصرع درست طور پر نہیں پڑھا گیا.چنانچہ خاکسار نے اس درثمین کی تمام نظموں اور متفرق اشعار کے وزن ضمیمہ نمبر میں درج کر دئے ہیں.یہ امر بھی قابل ذکر ہے.کہ حضرت اقدس کے کسی شعر کے وزن میں کہیں کسی قسم کا کوئی سقم یا نقص نہیں، خاکسار نے ہر مشرع کے وزن کی پڑتال کی اور اسے متعلقہ نظم کے وزن کے مطابق پایا.سوائے ان اختلافات کے جو ایک ہی نظم کے مختلف مصرعوں میں جائز اور روا ہیں :

Page 68

نعت میں حضرت اقدس رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنی عقیدت کا یوں اظہار فرماتے ہیں : در دلم جوشد، ثنائے سروے : آنکه در خوبی ، ندارد ہمسرے آنکه جانش، عاشق یارِ ازل : آنکه روحش، واصیل آن دلبر ے آنکه مجذوب عنایات حق است : ہمچو طفلے پر وریده، در برے آنکه در بروکرم ، بحر عظیم با آنکه در مطلب اتم ، یکتا در سے آنکه در جود و سخا ، ابر بهار بی آنکه در فیض و عطا، یک خاورے ان رحیم و رحم حق را ، آیتے ؟ آن کریم وجود حق را ، مظہرے آن ریخ فرخ ، که یک دیدار او به زشت رو را میکند خوش منظر آن دل روشن، که روشن کرده است : صد درون تیره را ، چون اختر سے اں مبارک ہے کہ آمد ذات او : رحمتے ، زاں ذات عالم پرور ہے احمد آخر زماں ، کنه نور او با شد دل مردم، زخور تاباں ترے ور ثمین: مث ) ے میرے دل میں اس شہنشاہ کی مارچ جوش زن ہے گرسن و خوبصورت میں اسکا کوئی ثانی نہیں.وہ جس کی جان محبوب زنی کی عاشق ہے.وہ جس کی شرح کو اس دہر کا اصل حاصل ہے.وہ جسے حق تعالی کی عنایات نے اپنے اندر سمیٹ رکھا ہے.اور ایک بچہ کی طرح خدا کی گود میں پلا ہے.وہ جونکی اور بندگی میں ایک بحر عظیم ہے.وہ جو انتہائی خوبی میں ایک بے مثال ہوتی ہے وہ جو سخاوت اور بخشش میں ابر بہار ہے.وہ جو فیض و عطا میں ایک سورج ہے.وہ خود بی رحم ہے اوراللہ تعالی کی رحم کا نشان بھی الیعنی یہ مند عالمین ہے، وہ خود بھی سنی ہے اوراللہ تعلی کی سماد کا منہ بھی ہے.اس کا مبارک چہرہ ایسا ہے کہ اس کا ایک ہی جودہ شکل کو خوابی و ور بنا دیتا ہے.وہ ایسا روشن نیمیر ہے جس تی سینکڑوں سیاہ دنوں کو ستاروں کی طرح چمکا دیا.وہ ایسا مبارک قدم ہے جس کی ذات ، ذات باری تعالٰی کی طرف سے رحمت بن کر آئی ہے یعنی وہ احمد آخر زماں جیکی نور سے اس نے نور پایا.اس نور سے لوگوں کے دل آفتا سے بھی زیادہ روشن ہو گئے ہیں.

Page 69

은 اس نعت میں کسی خیالی امر کی طرف کوئی اشارہ نہیں.ہر بات ٹھوس حقیقت پر مبنی ہے اور یہی فخر موجودات کی شان ہے، کہ آپ کے حقیقی محاسن اتنے روشن اور کثیر ہیں، کہ آپ کی مدح کو کتنی ہی وسعت کیوں نہ دی جائے، آپ کی خوبیاں ختم نہیں ہوسکتیں.اور کوئی خالی یا فرضی محاسن آپ کی طرف منسوب کرنے کی ضرورت پیدا نہیں ہوتی.آپ کی چند اصلی خوبیوں کا ذکر کرناہی آپ کو کامل انسان ثابت کرنے کے لئے کافی اور لوگوں کو آپ کا گرویدہ بنانے کے لئے وافی ہوتا ہے.لیکن حضرت اقدس نے صرف چند خوبیوں کے بیان کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا.بلکہ آگے اس نظم میں بھی اور دوسری نظموں میں بھی دل کھول کر آپ کی صفات حسنہ بیان فرمائیں، اور اپنی عقیدت کے پھول جھولیاں بھر بھر کہ آپ کے قدموں پر نشار کئے.جن لوگوں کا مذاق بعض شعراء کے پیچیدہ کلام نے بگاڑ رکھا ہے ، وہ کہ سکتے ہیں، کہ اس نعت میں نہ کوئی رنگینی ہے اور نہ ہی زیادہ صنائع بدائع لائے گئے ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ان فنون کی ضرورت زیادہ تر وہاں ہوتی ہے جہاں بقول نظامی عروضی سمرقندی کسی بد نما چیز کو خوشنما ثابت کرنا ہو.لیکن سرور دو عالم کی ذات والا صفات جیسی کوئی اور حسین ہستی تو دنیامیں کبھی پیدا نہیں ہوئی تو پھر آپ کے حسن کو دکھانے کے لئے مصنوعی سہاروں کی ضرورت کیسے ہو سکتی ہے ، حضرت اقدس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی اعلیٰ درجہ کی صفات بیان کی ہیں کہ انہوں نے ہی اس نعت کو اعلیٰ درجہ کی خوبصورتی خطا کر دی.جیسے شیخ سعدی نے اپنے محبوب کے متعلق لکھا ہے سے مه خوبان عالم را بزلور یا بسیار اند : توی تن چنان خوبی که زیور با یارائی پس آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی خوبیوں کے سیدھے سادے بیان نے ہی اس نعت کو چار چاند لے : تمام عالم کے حسینوں کو زیوروں سے زینت دیتے ہیں.تو ایسا خوبصورت ہے کہ زیوروں کو زینت بخشتا ہے ؟

Page 70

3 دیئے ہیں.اور الفاظ کی سادگی کے باوجود یہ تحت فصاحت و بلاغت میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی.اور سلامت کلام کا نہایت ہی شاندار نمونہ ہے.جصنائع بدائع کی کثرت کے متعلق صلاتا ہذا پر ناقدین فن کی آراء ملا حظہ فرمائیے.پھر بھی یہ نعت فنون بلاغت سے بالکل خالی نہیں.(جیسا کہ آگے ذکرہ آتا ہے، البتہ سلاست کلام کی خاطر ان کا کم از کم استعمال کیا گیا ہے.نعت میں دوسرے بزرگوں کے مقابلہ میں حضرت اقدس کو جو سب سے بڑی فضیلت حاصل ہے یہ ہے کہ آپ نے آنحضرت کی بنیادی خوبیوں کو زیادہ اجاگر کیا.خوب غور کیجئے ، انسان کو جوس ہے بڑی نعمت حاصل ہو سکتی ہے وہ ذات باری تعالیٰ کا عشق ہے.یسو حضرت اقدس نے اسی سے اس محبوب الہی کی نعت شروع کی ( آنکه جانش عاشق یار انل) اور فرمایا کہ یہ عاشق اپنی مراد کو بھی پہنچا ہوا ہے.اسے ذات باری تعالیٰ کا وصل حاصل ہے.(آنکہ روحش و اصل آی دلبرے) عنایات حق کی شان دیکھئے ( ہیچو طفلے پر دریدہ در برسے) آگے ان خوبیوں کا ذکر کیا.جو اس و طرفہ محبت کو لازم ہیں اور جن کی بنا پر اخر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس بنی نوع انسان کے لئے بور عظیم، کیاور، ابر بہار ، خاور ، خدای رحم اور جود کا مظہر، عالم پرور اور خور تاباں بن گئی.دیر تشبیہات کتنی موزوں ہیں ؟ یہ محبت انسان کا حقیقی کمال ہے.جیسے اوپر اور کوئی کمال انسان کے لئے متصور نہیں ہو سکتا.غرض حضرت اقدس نے اس نعت میں بھی اور دوسری جگہوں میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بے شمار خوبیوں کے علاوہ اس دوطرفہ محبت اور اس کے فیضان کی ایسی خوبصورت تصویریں کھینچی ہیں کہ ان کی مثال آپ کے کلام کے سوا اور کہیں نہیں مل سکتی.اس نعت کا مطلع بھی حسن مطلع اور صنعت براعتہ الاستملال کا بھی بہت ہی عمدہ نمونہ ہے.گویا ی نعمت اپنی طبیعت کو بزور اس طرف مائل کر کے نہیں لکھی گئی، بلکہ بے اختیار دل کی گہرائیوں سے ابل رہی ہے.جیساکہ فرمایا اور دل وشد شنائے سرور سے یعنی میرے دل میں اس

Page 71

شہنشاہ کی مدح جوش مار رہی ہے اور با ہر نکلنے کے لئے بے چین ہے.اس میں شاعرانہ تعلی کا کوئی شائبہ نہیں.آپ کی زندگی کا محہ لمحہ، آپ کی تحریروں کی سطر سطر اور آپ کی تقریروں کا لفظ لفظ اس بات پر شاہد ہے کہ در دلم ہو شد ثنائے سرور ہے.دوسرے مصرع د آنکه در خوبی ندارد بمیری نے کھول کر بتا دیا ہے.کہ آگے آپ کسی جذبہ اور جوش سے فخر رسل صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح بیان کریں گے.اور آپ نے سچ مچ اس بے مثال شخصیت کی بے مثال مدح کا حق ادا کر دیا.یہ نعت صنعت تنسيق الصفات کا بھی ایک حسین نمونہ ہے.اور شعر نمبرہ ، 4 میں قرآنی خطاب رحمۃ للعلمین" کی طرف تلیمی اشارہ ہے آگے بعض دوسرے بلند پایہ بزرگوں کی بیان فرمودہ نعت کے چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں.تا احباب خود اندازہ لگا لیں کہ اس راہ کا شہسوار در حقیقت کون ہے ؟ حکیم سنائی فرماتے ہیں اسے احمد مرسل آی چراغ جهان به رحمت عالم آشکار و نہاں آمد اندر جهان جان پر کس : جان جانها محمد آمد ولیس تا بخت دید بر سپهر جلی : آفتاب سعادت ازلی بخندید نامد اندر سراسر آفاق : پای مردی چنوی بر میثاق آن سپهرش چه بارگاه انزل به آفتابش که احمد مرسل الله ترجمہ :- احمد رسول جو سب جہان کے لئے چراغ (ہدایت) ہے.وہ تمام عالم کے لئے ظاہر بھی اور پوشیدہ بھی رحمت ہے.اس میدان حیات (جان) میں ہر کوئی آیا مگر محمد سب کی جان کی جان بن کر آئے میں وقت سے اس روشن آسمان پر یہ سعادت ازل کا آفتاب چکا ہے.اس وقت سے، تمام دنیا میں (عبد یلی پسا اس جیسا ثابت قدم اور کوئی جوانمرد پیدا نہیں ہو ا.اس کا وہ آسمان جو ازلی بار گاہ ہے.احمد مرسل اس کا آفتاب ہے.

Page 72

آدمی زنده اند از جانش : انبیا گشته اند مهمانش شرع او را فلک مسلم کرد به خانه بر بام چرخ اعظم کرد اندر آمد بسیارگاه خدای : دامن جو اهنگی کشان در پای پیش او سجده کرد عالم دون به زنده گشته چو مسجد ذوالنون زیدہ جان پاک آدم از و به معنی بحر لفظ محکم d او ( حديقة الحقيقة ١٩٠٤١٨) یہ نعت اچھی ہے.لیکن اس میں وہ بے ساختگی اور سلاست نہیں جو حضرت اقدس کی بیان کردہ نعت میں ہے.اس کے مطالب کو کما حقہ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہیں صطلاحات تصوف پر پورا عبور ہو.بعض مطالب بھی محل نظر ہیں.جیسے دامن خواجگی کشان در پای " یہ متکبر لوگوں کا کام ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسی متواضع ہستی کے لئے مجازاً بھی ایسے الفاظ استعمال کرنا مناسب نہیں.مولانا نظامی گنجوی فرماتے ہیں سے فرستاده خاص پروردگار : رساننده حجبت استوار گرانمایه ته تاج آزادگان : گرامی تر از آدمی زادگان ے: ترجمہ : اس کی زندگی سے انسانوں کو زندگی ملتی ہے، اور انبیا بھی اس کے مہمان بنتے ہیں.آپ کی شریعیت کو اہل فلک نے بھی تسلیم کر لیا اور آپ نے سب سے بڑے آسمان کی چھت کو اپنا اسیر بنایا.وہ سرداری کا دامن اپنے پاؤں میں گھسیٹتا ہوا، بارگاہ خداوندی میں آیا.اس کے سامنے تمام عالم سفلی نے سجدہ کیا اور سیدہ ذوالنون کی طرح زندہ ہو گیا.وہ آدم کی پاک جان کا خلاصہ ہے اور لفظ محکم کے اچھوتے معنی ہیں : ے :.خاص پروردگار عالم کا بھیجا ہوا، پریان حکم یعنی قرآن مجید کو (دنیا میں پہنچانے والا.آزاد منش لوگوں کا سب سے زیادہ قیمتی تارج - آدم زادوں میں سے سب سے زیادہ معززہ.

Page 73

محمد کازل تا ابد هر چه است با گرایش نام او نقش بست چراغیکه پروانه بینش بد دست به فروغ همه آفرینش بدوست ضمان دار عالم سیه تا سپید به شفاعت گر روز بیم و امید درخت سبی سایه در باغ شرع : زمینی باصل آسمانی بفرع نه یار نگر اصل داران پاک به ولی نعمت فرع خواران خاک چراغیکه تا او بزوخت نور : زچشم جهان روشنی بود دور سیابی ده خال عباسیاں : سپیدی بر چشم عثمانیان لب از باد عیسی پر از نوش تر به تن از آب حیوان سیه پوشش تر شیخ سعدی فرماتے ہیں : د شرف نامه، ص۱۵۷۲) کریم التجايا جميل الشيم نبي البرايا شفيع الأمه : محمد جب کسی نام کی برکت سے ہر اس چیز نے صورت اختیار کی جو ازل سے ابد تک پیدا ہوئی ہے اور جو ابد تک پیدا ہوتی رہیں گی.وہ ایسا چراغ ہے کہ بنیائی اس کا پروانہ ہے.تمام کائنات کی روشنی اسی سے ہے ، وہ تمام جہان کے سیاہ وسفید کا کفیل ہے.اور خوف اور امید کے دن یعنی روز قیامت شفاعت کرنے والا ہے.شرع کے باغ میں سایہ دینے والا سید مصادر خست جسکی جڑیں زمین میں اور شاخیں آسمان میں ہیں.وہ پاک وجودوں کی زیارت گاہ ہے.اور تاکی انسانوں کی پرورش کر نے والا آتا ہے.وہ ایسا چراغ ہے کہ جب تک اس کا نور نہ پھیلا، جہان کی آنکھ سے روشنی غائب رہی.وہ عباسیوں کے خالی (نشان پرچم کو سیاہی دینے والا اور آفتاب پرستوں کی آنکھ کی سفیدی (اندھے پن کو دور کرنے والا.اس کے لب دم عیسی سے زیادہ نہ زندگی بخش ہیں.اور اس کا جسم آب حیواں سے زیادہ سیاہ پوش یعنی پوشید گے :.عمدہ عادتوں اور پسندیدہ فصلتوں والا.کل مخلوق کا نبی اور تمام امتوں کا شفیع.

Page 74

امام رسل پیشوائے سبیل : امین خندا مهبط جبرئیل شفیع الوری خواجه بعث ونشر به امام الهادی صدر دیوان حشر کلیمی که چرخ فلک طور اوست : ہمہ نور یا پرتو نور اوست تیجے کہ ناکردہ قرآن درست : کتب خانه چند ملت بشست چوعرمش بر آمیخت شمشیر بیم : بمعجزه میان قمر زد دو نیم چوصیتش در افواه دنیا فتاد : تزلزل در ایوان کسری فتاد بلا قامت لات بشکست نخورده با عزرانه دین آپ عزای بیرد شبه بر نشست از فلک در گذشت به تمکین و جاه از ملک برگذشت چنان گرم در تیر قربت براند که بر سدره جبریل از و بازمانده دپوستان طن) ہے : رسولوں کا امام اور راہ (ندا) کا ہادی ، خدا کا اعتباری بندہ اور جبرئیل کے اترنے کی جگہ.تمام دنیا کی شفاعت کرنے والا، قیامت کے دن کا سردار، ہدایت کا امام اور روز حشر کی محفل کا صدر.ایسا کلیم جس کا طور عرش الہی ہے.تمام روشنیاں اسی کی روشنی کا انعکاس ہیں.ایسا یتیم جسے پڑھنا بھی نہیں سیکھا تھا.اس نے کئی قوموں کے کتب خانے بے کار کر دئے.جب آپ کے ارادہ کی پختگی نے خوفناک تلوار بلند کی تو آپ نے انگشت مبارک سے چاند کو دو ٹکڑے کر دیا.جب آپ کی ولادت کا چرچا دنیا کی زبانوں پر ہوا تو کسی کا محل لرزنے لگا.آپ نے لا (یعنی لا إِلهَ إِلَّا الله) کہا کہ لات کے ثبت کو پاش پاش کر دیا.اور اپنے دین کی سرفرازی کے ذریعہ عربی بہت کی عزت علیا میٹ کر دی.ایک رات سوار ہو کہ آسمانوں سے بھی اوپر چلے گئے.اور قدر و منزلت میں فرشتوں سے بھی بڑھ گئے.آپ نے قربت کے میدان میں اتنی تیزی سے گھوڑا دوڑایا کہ سدرۃ المنتی پر جبرئیل بھی آپ سے پیچھے رہ گیا ہے

Page 75

اه امیر خسرو فرماتے ہیں : سخن آن به که بعد حمد خدا بود از نعت خواجہ دوسرے احمد آن مرسل خلاصہ کون : پردہ پوش امم بدامن عون میم احمد که در آحد فرق است به کمر ہمت از پے فرق است احمد اندر احمد که بند هست : یعنی این بنده و ان خدا وندست عاصیای را در آفتاب نشور : ظل ممدود داد از منشور نور اود آفتاب را ماید به سایر خلق و ابر بے سایہ بہر تعظیم او ارادت پاک به سایه او رہا نکرده بخاک پایه قدرش آسمان پیوند : سایه نورش آفتاب بلند روشنائی وہ چراغ یقین : نور پیشین و شجیع باز پسین نور او کز سیر صد چند است : مه شکاف و سپهر پیوند است به دہشت بہشت بحث) ے :.کلام وہی اچھا ہے، ہمیں میں حمد الہی کے بعد دونوں جہانوں کے آقا کی نعمت ہو.احمد وہ رسول ہے جو کائنات کا خلاصہ ہے، اور روستیگیری کے دامن سے امتوں کے پڑے ڈھکنے والا ہے.لفظ احمد کا میم جو لفظ احد سے غائب ہے.یہ ہمت کار در میانی لفظ یعنی) کمربند دونوں میں امتیاز کی خاطر ہے، گویا احمد احمد (خدا) کی خدمت میں کمر باندھے کھڑا ہے.یعنی یہ بندہ اور وہ آتا ہے، آپ قیامت کی ملتی دھوپ میں گنہگاروں کے لئے خدا کے اذن سے ایک وسیع سایہ ہیں.آپکا نور افتار کا سرمایہ ہے، آپ مخلوق کیلئے ایسا سایہ کر نیوالے بادل ہیں جس کا اپنا کوئی سایہ نہیں اللہ تعالی نے آپ کی تعظیم کی خاطر آپ کے سایہ کو زمین پرنہ پڑنے دیا.آپ کی قدر ومنزلت آسمان تک پہنچی ہوئی ہے، یہ بند افتاب آپکے نور کا ہی پر توہے.آپ یقین کے چرا کو روشنی بنتے ہیں، آپ ہوں لئے گوادر کھوکے لئے م ہیں کی تونی جا مانو یہ چاند زیر آسمان کا ہی ہے

Page 76

مولانا جامی فرماتے ہیں : آئی را که بر سر افسر اقبال سرمدست به سرور که محمد و آل محمد ست فرنه ند کاف و نون اند افراد کائنات : احمد میان ایشان فرزند مجد ست مدی که مست بر مسیر آدم علامتی : نر آن میم دال والی که قدم گاه احتمارات آن تدرز چت دولت سرد نشانه بیست : آدم سرآمد همه عالم ازان مدرست پر کس نه مرتدی بزاری دری است به در راه دین مرید خوانش که مرتادست سرور گلیم فاقه و تن بر حصیر فقر : شاه بنزالہ صاحب دیہیم و مسندات خاک رمش جلاده چشم خرد بود : آنرا بنقد جان بخرد هر که بر دست سرویست قد او چمن آرائے فاشستیم به طوبا بباغ سدرہ ہوا دارای قدرت ی تلخ کلام کفر که بر خوان خوش به شیرین درمان چاشنی شهدا شهداست بس بس سالخور و ہر گز آغاز بهشتش : رفته چو کودکان بسرلوح ابجد ست دیوانِ کامل جاتی : حث : : جس شخص کے پروائی خوش قسمت کا تاج ہے اس کا محمد او یک محد کی راہیں قربان ہے، کاٹنا ہے ، فرد لفظ کن سے پیدا ہوئے ہیں.ان کے درمیان احمد سب سے زیادہ معزز ہے.یہ مت جو آدم کے سر پر بطور نشان لگی ہے اس میم دال کو محمد کے قدم رکھنے کی جگہ جو دو تہائی خوشالی کی چھتری کا نشان ہے، اس مد کی وجہ سے آدم تمام جہان کاسردار ہے ، ہر شخص جس نے آپ کی دوستی کی چار نہیں پہنی ہوئی.اسے دین کی راہ میں ری مت کہو، وہ تو مرتد ہے.آپ کا سر مبارک فاقہ کی گدڑی میں ہے اور جسم مبارک فقر کی چٹائی پر.آپ ہزاروی صاحبان تخت ومسند کے شہنشاہ ہیں.آپ کے راستہ کی مٹی جو عقل کی آنکھ کو روشنی بخشنے والی ہے اسے نقد جان دیکر ہر وہ شخص خریدتا ہے جو عقلمند ہے.آپ ایسے سر کا درخت میں جسکا قد استقامت رکے باغ کو زینت بخشنے وال ہے درسدرۃ المنتی کے باغ میں طوبا کا درخت آپکے قدیر عاشق ہے کتنے ہی نامراد کفار ہیں انکی وقت کے خدا سے شکلات کیاہواتھا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ایک یا ایک بار پہنے گیا؟

Page 77

۵۳ ان بزرگوں کے کلام کا حضرت اقدس کے کلام سے مقابلہ کرنے میں ہرگز ہرگز کسی کی تنقیص مقصور نہیں بلکہ صرف حضرت اقدس کے کلام کی برتری دکھانا مد نظر ہے.یہ تمام بزرگ جن کے کلام سے یہ نمونے پیش کئے گئے ہیں.آسمان شہری کے درخشاں ستار سے اور اپنے کردار کی پاکیزگی کی بنا پر بھی مخلوق خدا کے لئے روش شمعیں ہیں.ان کا کلام اپنی چمک دمک کے لئے بھی کسی کی تعریف کا محتاج نہیں انہیں سول کریم کی ذات سے بھی گہرا انس ہے ، انہوں نے صرف یہی نعتیں نہیں کہیں جن کے اقتباس یہاں پیش کئے گئے ہیں ، بلکہ ان سب کے کلام میں آنحضرت سے عقیدت کے پھول جابجا بکھرے پڑے ہیں اور یہ پھول اتنے خوبصورت اور تر و تازہ ہیں کہ آنکھوں کو طراوت اور کانوں کو فرحت بخشتے ہیں اور سکیں قلب اور تنویر دماغ کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہیں.اور ان میں فنون بلاغت بھی کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں.پھر بھی فَوْقَ كُلّ ذِي عِلمٍ عَليْمُ ریوسف : ) کے مطابق ایک عالم کو کسی دوسرے عالم پر فوقیت ہو سکتی ہے.اور یہاں تو معاملہ خُدا کے مامور کے کلام کا ہے جو رح القدس کی تائید سے لکھا گیا.لہذا حضرت اقدس کے کلام میں جو روحانی سرور موجزن ہے، وہ اپنی نظیر آپ ہی ہے.چنانچہ حضرت اقدس کا کلام دوسرے بزرگوں کے کلام سے کئی پہلوؤں میں بڑھا ہوا ہے.یہاں صرف دو تین پہلوؤں کا ذکر کیا جاتا ہے.اول: آنحضرت صلی الہ عیہ وسلم کو تمام عالم کائنات پر جو بنیادی فضیلت حاصل ہے، وہ عشق اپنی ہے.آپ ان بزرگوں کے مندرجہ بالا اقتباسات بار بار بغور ملاحظہ فرمائیے.آپ کو ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عشق کی آگ کا ذکر کہیں نہیں ملے گا.ان کے کلام میں بعض دوسری جگہوں پر اس سوز عشق کی طرف اشار سے تو ضرور ملتے ہیں لیکن حقیر اقدس کے کلام کے سوا اس آگ کا ذکرہ جو آنحضرت کے قلب میں شعلہ زن تھی بالاستیعاب اور کہیں نہیں ملے گا پیچ ہے : 8 جس تن لاگے سو تن جانے یہ سعادت صرف اور صرف حضرت مسیح موعود کو حاصل ہوئی کہ آپ نے رسول کریم کی

Page 78

محبت الہی کی آگ کا ذکر مختلف پیراؤں میں بار بار کیا ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اندرونی آگ کا پورا احساس اسی شخص کو ہو سکتا تھا جسکی اپنے دل میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل یہی آگ روشن تھی.جیسا کہ آپ فرماتے ہیں : سے این اشتم راتیش مهر محمدی است و این آب من بر آب زلال محمد است به در ثمین صل ) اللہ تعالیٰ ان دونوں پاک روحوں پر ہمیشہ اپنی خوشنودی کی بارش برساتا رہے.دوم : یہ کہ حضرت اقدس نے آنحضرت صلی الہ علیہ سلم کے تعلق جو کچھ بیان فرمایا ہے.اور بہت کچھ بیان فرمایا ہے.اس کے لفظ لفظ کی تصدیق قرآن کریم سے ہوتی ہے.لیکن ان دوسرے بزرگوں نے بعض ایسی باتیں بھی بیان کی ہیں جن کی تصدیق قرآن کریم نہیں کرتا.خاکسار صرف ایک مثال پیش کرتا ہے.کہا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد مبارک کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا.تا خدا نخواستہ اس طرح کہیں آپ کی بے ادبی نہ ہو.قرآن کریم تو انخصر صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند سے بلندشان بیان کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی بشریت کا اعلان بھی بار بار کرتا ہے.کہیں براہ راست اور کہیں دوسرے انبیاء کے ذکر میں.لیکن بعض لوگ قرآن کریم کے علی الرغم کسی نہ کسی بات میں انضرت صلی الہ علیہ سلم کو اور بشریت سے باہر نکالنا چاہتے میں تعجب کی بات تو یہ ہے کہ دوسرے تمام صوائج بشریت تو آپ کے لئے تسلیم کئے جاتے ہیں تو پھر ایک سایہ کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑ سکتا ہے.جس کا بار بار ذکر کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے.سورہ یہ کہ دوسرے بزرگوں کے کلیم میں کئی جو فنون لطافت کو منوں پر ترجیح دی گئی ہے خصوصاً لے : میری یہ آگ محمد کے عشق داہنی کی آگ کا ہی ایک صہ ہے اورمیرا یہ پانی حمد کے شیرین کا پانی ہی لیا گیا ہے ؟

Page 79

۵۵ مولانا جامی کا کلام تو سرا سران فتون کی نمائش پر مبنی ہے.کئی جگہ ان فنون کی کثرت کی وجہ سے معنے بالکل ہی گم ہو گئے ہیں.بعض جگہ لفظوں کے ہیر پھیر سے کلام میں چاشنی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے.دیکھئے امیر خسرو کا تیسرا اور چوتھا شعر اور مولانا جامی کا دوسرا، تیسرا اور چوتھا شعر.مگر حضرت اقدس کے کلام میں معانی کو کہیں بھی فنون باغت پر قربان نہیں کیا گیا.بلکہ سیدھے سادے لیکن مفہوم کے عین مطابق الفاظ چن کر اور انہیں ماہرانہ ترتیب دیگر کلام میں ایسا حسن پیدا کر دیا جو دوسروں کے پُر فنون اشعار میں بھی پیدا نہیں ہوسکا.اصل بات یہ ہے کہ جو مفہوم بیان کرنا ہو، اگر وہ خود خوبصورت اور دلنشین ہو تو اس کے لئے سادگی ہی بہترین زیور ہے.ورنہ زیورات کی بہتات حسن کی چمک کو ماند کر دے گی یا بالکل روپوش کر دے گی.مثلاً مولانا جامی کا یہ شعر دیکھئے اسے بیس سالخور در هر گز آغاز بعثتش ؛ رفته چو کودکان بسرلوح المجد ست کیا آپ کو اس شعر میں کسی ایسی خوبی کا بیان دکھائی دیتا ہے جو آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم سے متفق ہو.یہ تو ہر نبی کے زمانہ میں ہوتا رہا ہے بلکہ دنیاوی امورمیں بھی ترقی چھوڑ تنزل کے وقت میں بھی یہی ہوتا ہے، آجکل یورپ اور امریکہیں ٹینس بوڑھے طوطوں کو بے حیائی کے کیسے چھوتے سے اچھوتے سبق پڑھا رہی ہے.اس کے بالمقابل حضرت اقدس کی بیان فرمودہ نعت کا کوئی شعر لیجئے.اس میں آپ آنحضرت اللہ علیہ وسلم کی صفات حسنہ ستاروں کی طرح چمکتی پائیں گے ، مثلا سے آنکه مجذوب عنایات حق است : ہمچو طفلے پر وریده در بری دیکھئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو بیحد و شمار عنایات ہیں ان کے لحاظ سے آنحضرت ی بلندشان یا اظہار ی طرح اس شعر سے ہوتا ہے اس طرح دوسرے شعر کی نعتوں کے کسی شعر سے نہیں ہوتا ؟

Page 80

۵۶ ذاتِ باری تعالیٰ کا عشق بعض شاعر اور مصنف تو اپنی کتب کی ابتدا ر کمی طور پر حمد اور نعت سے کرتے ہیں.کیونکہ قدیم سے یہی رواج چلا آرہا ہے.لیکن جن بزرگوں نے پورے شوق اور اخلاص سے اس کو چہ میں قدم رکھا ہے ان میں بھی حضرت مسیح موعود کو امتیازی حیثیت حاصل ہے.آپ نے اس رواج کے مطابق بھی حمد باری تعالی بیان کی ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کے نام سے ہر کام کی ابتدا کرنا بڑی برکات کا موجب ہے لیکن آپ نے اس پر اکتفا نہیں کی، بلکہ اپنے کلام میںجگہ جگہ بار بار خدائے برتر کی صفات بیان کرنے کو اپنا معمول بنا لیا تھا.چنانچہ آپ کے کلام میں سب سے زیادہ جن امور کا ذکر آتا ہے.وہ عشق باری تعالیٰ اور محبت رسول کریم ہی ہیں.اور آپ ایسے والہانہ طریق پران کا ذکر کرتے ہیں کہ قاری کا دل بھی اپنی کیفیات سے لبریز ہو جاتا ہے.اس سلسلہ میں چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے.آپ اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام کی ابتدا میں فرماتے ہیں : سے محبت تو دوائے ہزار بیماری است : بروئے تو کہ رہائی دریں گرفتاری است پناہ رُوئے تو جتن نہ طور مستانست : که آمدن به بن بست کمال ہشیاری است متاع میر شیخ تو نہاں نخواهم داشت به کر خفیه داشتن عشق تو نه غداری است برای سرم کہ سر و جان فدائے تو بکنم که جان بیار سپردن حقیقت یاری است درشین صا له : تیری محبت ہار بیماریوں کی دوا ہے، تیرے ہی منہ کی قسم کہ اسی گرفتاری میں اصل آزادی ہے تیرے چہرے کی پناہ ڈھونڈنادیوانوں کاکام نہیں کیو کرتیری پنا میں آناتوبڑے ہی ہشار لوگوں کاکام ہے میں تیری محبت کی پونی کو بھی نہیں چھپاؤں گا.کیونکہ تیتر عشق و چھپانابھی اک قسم کی غداری ہے میں اس دین میں ہو کہ سرادران تجھ پر ان کروں کو کرنے کے جوسے پر کردیتای یاری کی حقیقت ہے :

Page 81

دیکھیئے صرف چار شعر ہیں جو ذات باری تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہے گئے ہیں لیکن راز ونیاز کی کوئی رمز نہیں جو ان سے باہر رہ گئی ہو، ذیل میں ان اشعار کے مطالب ذرا تفصیل سے بیان کئے جاتے ہیں : لذیذ بود حکایت دور از تو گفتم که ہزار فارسی زبان میں گنتی کا آخری لفظ ہے.اس لئے یہاں اس سے بے شمار مراد ہے.بیماری سے مراد ہر وہ خیال اور عمل ہے جو انسان کی روحانی ، اخلاقی اور جسمانی نشو و نما کے لئے مضر ہو.اور ان سب کا علاج اپنے پروردگار کی محبت میں ہے.دوسرے مصرع میں آپ قسم کھاتے ہیں.قسم بھی علم بلاغت کی رو سے من کلام کو بڑھانے کا ایک عجیب ذریعہ ہے.بشرطیکہ جس چیز کی قسم کھائی جائے وہ زیر نظر معامہ کے لئے شاہد صادق کا درجہ رکھتی ہو.یہاں آپ نے محبوب کے چہرہ کو بطور گواہ پیش کیا ہے.محبت کی وارداتوں کے لئے محبوب کے چہرہ سے زیادہ سچا گواہ اور کون ہو سکتا ہے کیونکہ چہرہ ہی حسن کی اصل جلوہ گاہ ہے ، اور حسن ہی محبت کا باعث بنتا ہے.پس جب انسان کسی کی محبت میں گرفتار ہو جائے تو اسے اور کچھ بھی یاد نہیں رہتا.گویا وہ ہر دکھ تکلیف سے چھوٹ جاتا ہے.بلکہ محبوب کی راہ میں اسے جو تکلیف بھی پہنچتی ہے وہ اس کے لئے لذت اور سکون کا باعث اور محبوب کی توجہ کو اپنی طرف پھرانے کا وسیلہ بن جاتی ہے.لہذا عاشق صادق ایسی تکالیف بخوشی برداشت کرتا ہے، اور ترقی کرتا کرتا ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ مجبوب کی راہ میں قربانی پیش کرنے کے سوا اور کوئی چیز اس کیلئے خوشی اور راحت کا باعث نہیں رہ جاتی.اس رہائی کے اور بھی پہلو ہیں.ایک یہ کہ راضی برضائے یار ہونا جیسے فرمایا : دل پنهادن در آنچه مرضی یار به صبر زیر مجاری اقتدار له ے :.داستان بہت لذیذ تھی.اس لئے میں نے اس کے بیان کو بہت طول دیا ؟ تے :.جو یار کی مرضی ہو اس پر راضی ہونا.اور جاری شدہ قضا و قدر پر صبر کرنا : ور ثمین

Page 82

۵۸ کیونکہ جو سختی اپنی خوشی اور مرضی سے برداشت کی جائے اس کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی ، دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے محب سے پیار کرنے اور اس کی تائید میں لگ جاتا ہے.جیسے فرمایا ہے غلام در گمیش باش و بعالم بادشاہی کن نباشد یم از غیرے پرستاران حضرت را تو از دل سوئے یار خود بیا تا نیز یادر اید محبت می کنند با جذب روحانی منیت را ور ثمین ۲۰) پس دکھ اور تکلیف تو دور کی بات ہے.انہیں اس کا خدشہ بھی نہیں رہتا.گرفتاری اور رہائی میں صنعت تضاد ہے.گرفتاری اس لئے کہا کہ محبت اپنی کوشش سے پیدا نہیں کی جاسکتی.جبب حالات سازگار ہوں.تو یہ خود بخود چمک اٹھتی ہے.انسان کے اپنے اختیار کی بات نہیں.- اس شعر کے مضمون کو ایک اور جگہ یوں بیان فرمایا : بجز اسیری عشیق بخش رہائی نیست ؛ بدرد او همه امراض را دوا بات کے پھر اسی مفہوم کو یوں ادا کیا اسے دور ثمین ص۲) کشاد کار بدل بستن است در محبوب به چه خوش رنے کر گرفتار او را بات کده در تمین ) اس کی درگاہ کا غلام بن اور دنیا پر حکومت کی.خدا پرستوں کو اور کسی سے کوئی خوف نہیں ہوتا.تو دل سے اپنے یار کی طرف آجا تادہ بھی تیری طرف آئے کیونکہ جذب روحانی کی وجہ سے ایک محبت دوسری محبت کو کھینچتی ہے.ے :.اسے طلاق بھی کہتے ہیں یعنی کلام میں ایسے دو الفاظ کا آنا جن کے معنوں میں تقابل تضاد ہو.کے اس چیز کی قید کے سوا کہیں کوئی آزادی نہیں اسکاور رہی سب بیماریوں کا علاج ہے کہ مجھ سے دل لگاتے ہی ہیں اس کامیابی ہے.وہ چہرہ کی ہی مبارک ہے جس کا گر زیدہ در اصل آزاد ہے :

Page 83

دوسرے شعر کے الفاظ مستان اور ہشیاری میں بھی صنعت تضاد ہے.اس شعر کا پورا مفہوم سمجھنے کے لئے پناہ اور ستان کے الفاظ پر غور کرنا چاہیے کسی چیز کی پناہ لینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کر وہ چیز کسی دکھ یا خطرہ سے محفوظ کر دے.اور مست سے یہ مراد ہے کہ کسی نشہ سے ہوش کھو بیٹھے.آپ نے سنا ہوگا کہ جب لوگ کسی ایسے مست کو دیکھتے ہیں جنسی شراب وغیرہ کوئی نشہ نہ کیا ہو، تو کہتے ہیں کہ یہ جلوہ محبوب کو برداشت نہیں کر سکا.اس لئے عقل کھو بیٹھا اور پاگلی ہو گیا.حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ تم اسے پاگل مت خیال کرو کیونکہ جسے تم بے عقل اور بیوقوف سمجھتے ہو وہ تو عاقلوں کا عاقل ہے.ہر گنہ مست بمعنی پاگل نہیں وہ بہت ہوشیار ہے جو حسن حقیقی سے آشنائی پیدا کر کے دنیا جہان کی جھوٹی لذتوں سے بے نیاز ہو گیا اور سب مصائب سے چھٹکارا پا گیا.اسی مفہوم کو حافظ شیرازی نے یوں بیان کیا ہے ، اسے خیال زلف تو پختن نه کار خامان است که زیر سلسله رفتن طریق عیار ریست که لیکن یہ شعر اتنا فصیح و بلیغ نہیں جتنا حضرت اقدس کا شعر ہے.اس کی وضاحت آگے زیر عنوان " اخذ " (ص ہذا کی گئی ہے.ستان کے لفظ کی تشریح ایک جگہ حضرت اقدس نے خود بیان فرمائی ہے یعنی "جن کے دلوں کو اُن کے دوست حقیقی نے اپنی طرف کھینچ لیا اور اُن کے دلوں میں بیقراریاں پیدا کیں.یہاں تک کہ ان کے دلوں پر محویت اور شکر اور عاشقوں کا ساجنون آگیا سوفتا نظری کی حالت اور جذب سماوی کے وقت اُن کے منہ سے کچھ ایسی باتیں نکل گئیں.اور بعض واردات اُن پر ایسے وارد ہوئے کہ وہ عشق کی مستی سے بیہوشوں کی طرح ہو گئے یا د نور الحق حصہ اول (ص) یری زارکی کا دیا جلائے رکھا، اڈیو تیاری کاطریق ہے

Page 84

تیسرے شعر می نتائج کا لفظ بہت پر تکلف ہے.مراد یہ ہے کہ عاشق کے لئے جو کچھ ہے تیرے رخ روشن کی محبت ہے.یہی اس کی کمائی ہے، مال و دولت ہے، پونجی ہے ، اس کے علاوہ اس کے پاس اور کچھ نہیں لیکن یہ کوئی مولی چیز نہیں حاصل زندگی ہے.یہ ایسی نعمت ہے جو کسی خوش قسمت کو ہی ملتی ہے اور اسے دنیا جہان سے بے نیاز کر دیتی ہے، اسے ایک ہی چیز یاد رہ جاتی ہے، اللہ ہو، اللہ ہو.اس دولت کے چھپانے کو حضرت اقدس نے غداری قرار دیا ہے.کیونکہ عیشق دکی دوت) کوئی قابل شرم یا ادنی حیثیت کی چیز نہیں بلکہ یہ علم الہی ایسا خزانہ ہے جس کی کہیں کوئی نظیر نہیں ملتی.پس اس کو چھپانا معطلی حقیقی کی ناشکری اور گستاخی ہوگی.نیز اس دولت کے ملنے پر کچھ ذمہ داریاں بھی عاید ہوتی جاتی ہیں یعنی اس دولت سے بنی نوع انسان کی خدمت کرنا اور اس کے منبع سے خلق خدا کو روشناس کرانا.اگر کوئی شخص یہ ذمہ داریاں ادا نہیں کرتا.تو گویاوہ محبوب حقیقی سے غداری کا مرتکب ہوتا ہے.حضرت اقدس نے جس طرح اس دولت کو لٹایا ، وہ ظاہر وباہر ہے.آپ نے اس شمع حسن کے پروانوں کی ہزاروں کی نہیں لاکھوں کی ایک مجبات پیدا کی جس کی مثال رسول مقبول صلی اللہ علیہ سلم کے بتدائی فدائیوں صحابہ کرام کے سوا اور کہیں نہیں ملتی، اور جس میں روز افزوں ترقی ہو رہی ہے.چوتھے شعر کو کما حقہ سمجھنے کے لئے رندی سے بھی کچھ واقفیت ہونی چاہیے.اس سے ہر جگہ کوئی غیر اخلاقی امر مراد نہیں ہوتا بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنی جان اور عزت کی پروا نہ کرتے ہوئے آگے بڑھ کر محبوب کا دامن تھام لیا جائے، اسے جرات رندانہ کہتے ہیں.جس طرح دیوانگی سے ہر جگہ فقدان عقل مراد نہیں ہوتی.اسی طرح رندی سے بھی ہمیشہ کوئی گناہ کی بات متصور نہیں ہوا کرتی.حضرت اقدس ظلوما جھولا کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :.یہ دونوں لفظ ظلم اور ضالت اگرچہ ان منوں پر بھی آتے ہیں کہ کوئی شخص جادہ

Page 85

اعتدال اور انصاف کو چھوڑ کر اپنی شہوات غیبیہ یا بہیمیہ کا تابع ہو جائے لیکن قرآن کریم میں عشاق کے حق میں بھی آئے ہیں.جو خدا تعالیٰ کی راہ میں عشق کی مستی میں اپنے نفس اور اس کے جذبات کو پیروں کے نیچے کچل دیتے ہیں.اسی کے مطابق حافظ شیرازی کا یہ شعر ہے : آسمان باید امانت نتوانست کشید : قرعه فال بنام من دیوانه زدنده اس دیوانگی سے حافظ صاحب حالت تعشق اور شدت حرص اطاعت مراد لیتے ہیں.( آئینہ کمالات اسلام (۱۷۴) اسی طرح ہندی سے مراد شدت عشق کی دیوانگی ہے جو ہر قسم کی جرأت پر آمادہ کرتی ہے.چنانچہ حضرت اقدس نے اپنی ایک تقریر میں جائی کا یہ شعر نقل کیا ہے : نومید هم مباش که مندان باده نوش به ناگاه بیک خودش بمنزل رسیده اند که یہی وجہ ہے کہ بعض بزرگوں نے اپنے آپ کو رند قرار دیا ہے.مولانا روم کا ایک شعر قبل ازیں ص پر گذر چکا ہے.حافظ شیرازی فرماتے ہیں :اے عاشق درند و نظر بازم میگوئم فاش : تابدانی که بچندین هنر آراسته ام که حضرت اقدس اسی جرات رندانہ کے اظہار کے لئے فرماتے ہیں.کہ مجھے نہ اپنی جان جانے کا خون ہے نہ عزت برباد ہونے کا فکر ہے.اسے مالک میں تیرا سچا عاشق ہوں.اس لیئے کسی چیز کی پروا نہ کر تے ہوئے اسی دھن میں ہوں کہ اپنے آپ کو تجھ پر فدا کردوں کیونکہ سچی اور لے : آسمان اس امانت کا بوجھ نہ اٹھا سکا، اس کام کا قرعہ فال مجھے دیوانہ کے نام پر ہی نکلا.نا امید بھی مت ہو کیونکہ محبت الہی کی، شراب پینے والے وہ بعض اور اچانک ایک ہی نور اس سے اپنی ماد و پنچ گئے ہیں: سے میں صاف کہتا ہوں کہ عاشق ہوں ، رند ہوں.نظر باز ہوں تا تجھے معلوم ہوکر میں کتنے ہنروں سے آراستہ ہوگیں :

Page 86

۶۲ حقیقی دوستی کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے آپ کو کلیتہ محبوب کے حوالہ کر دیا جائے.جس طرح ایک عورت جس کے رگ و ریشہ میں کسی کی محبت رچ جائے تو وہ سب عواقب کو نظرانداز کر کے یہی چاہتی ہے کہ اپنے آپ کو محبوب کے حوالہ کر دے عشق کی انتہا یہی ہے.کیا محبوب حقیقی کے عاشق اس سے پیچھے رہ سکتے ہیں؟ ایک جگہ حضرت اقدس عشق کو ایک الگ ہستی قرار دے کر اسے مخاطب کرتے ہیں.علم بیان میں اسے استحضار کہتے ہیں.یہ بھی عشاق کی ایک ادا ہے کبھی اپنے آپ سے باتیں کرتے ہیں کبھی کسی جانور کے آگے اپنا دکھ کھولتے ہیں کبھی ستاروں سے شکایت کرتے ہیں ، کبھی باد صبا کو اپنا راز دار بناتے ہیں اور گوناگوں واردات عشق کا ذکر کرتے ہیں.مندرجہ ذیل اشعار میں ایک رنگ کا گلہ بھی ہے ، احسانمندی کا اقرار بھی ہے.ساتھ ہی اس راہ کی مصائب اور ان کی لذات کا اظہار بھی ہے.کیا راز و نیاز ہے.فرمایا: سے اسے محبت عجیب آثار نمایاں کردی : زخم و مرہم بره یار تو کیسان کردی همه مجموع و عالم تو پریشان کردی و همه عشاق تو سرگشته وحیران کردی ذره را تو بیک جلوه کنی چونی خورشید : اسے بسا خاک کو تو چون مرتاباں کردی وه چه مجاز نمود که یک جلوه فیض : در رفتن بیزدی آمدن آسان کردی اسے بس خانہ فطنت کر تو ویران کردی وشمندان جهان را تو کنی دیوانه ے : اے محبت تو نے مجیب رنگ دکھائے یار کی راہ میں زخم اور مرہم دونوں برابر رہے.دونوں جہانوں کے بے فکروں کو تو نے پریشاں کر دیا ، تمام عاشقوں کو تو نے سرگرداں اور جہان کر دیا.تو ایک تجلی سے ذرہ کو سوج بنادیتی ہے کتنی ہی خاک جیسی ہستیاں ہیں جنہیں تو نے روشن چاند بنادیا واہ واہ تونے کیا معجزہ دکھایا کہ فیضان کی ایک ہی تجلی سے جانے کا راستہ اور انسانوں کو دیوانہ بنادیتی ہے اور بہت عقل و دانش کے ٹھکانوں کوتو نے ویران کر دیا :

Page 87

جان خود کس ند پدر بهر کس از صدق و وفا به راست این است که این جنس توم زان کوردی بر تو ختم است به شوخی و عیاری و از پیچ عیار نباشد که نه نالاں کردی ہر کہ در مجمرت اُفتاد تو بریاں کردی به هر که آمد بر تو شاد تو گریاں کردی تا نه دیوانه شدم ہوش نیامد بسرم : اے جنوں گرد تو گردم که چرا حسان کردی اسے تپ عشق با یزد که بدین خونخواری : کافراستی مگرم مرد مسلماں کر دی ور شین شت) حضرت اقدس نے ان مطالب کو دوسری جگہوں میں بھی مختلف رنگوں میں بیان فرمایا ہے.مثلاً این جنس تو ارزاں کر دی " کے متعلق دیکھیئے کس بہر کے مریدید، جان نفشاند به عشق است که بر آتش سوزان بنشانید عشق است که این کار بصد صدق کناند به عشق است که بر خاک مذلت غلطاند اسے تیپ عشق “ کے متعلق فرمایا : سے دور ثمین ص۲۳۵) ے : کوئی شخص کسی کے لئے ثابت قدمی اور وفاداری سے جان نہیں دیتا.سچ ہے کہ تو نے اس جنس کو ستا کر دیا ہے.تجھ پر شوخی، چالا کی، نان سب ختم ہیں.کوئی چالاک ایسا نہیں جسے تو نے نہ رلایا ہو.جو کوئی تیری بھٹی میں گرا تو نے اُسے بھون ڈال ، اور جو کوئی تیرے پاس خوش خوش آیا تو نے اُسے رُلا کے چھوڑا.میں جب تک دیوانہ نہ بنامیر سے ہوش ٹھکانے نہ ہوئے.اسے جنون عشق میں تجھ پر قربان تو نے کتنا احسان کیا.اسے تپ عشق قسم بخدا تو نے ایساخونخوار کافر ہوتے ہوئے مجھے مسلمان بنا دیا.: یہ عشق ہی ہے جو ذلت کی خاک پر لوٹاتا ہے، یہ عشق ہی ہے جو جلتی آگ پر بٹھاتا ہے.کوئی کسی کے لئے نہ سر دتیا ہے ، ز جان چھڑکتا ہے.یہ عشق ہی ہے جو یہ کام پورے خلوص سے کرواتا ہے.

Page 88

مرانہ زید و عبادانہ خدمت کا اسے است به ہمیں مر است که جانم رین دادا سے است چه لذت است برویش که جان فدایش باد به چه راحت است ولی اگر چه خو ب اسے است دائے عشق نخواہم کردی برای ما است ایفائے بارہ میں رنج و در دان اسے است ور ثمین ص۲۲۳) ایک اور جگہ مظاہر قدرت کو اللہ تعالیٰ کی ہستی کی دلیل ٹھہراتے ہوئے فرماتے ہیں : حمد و شکر آن ندائے کمر دگار : کز وجودش ہر وجو دے آشکار ایں جہاں ، آئینہ دایہ رُوے اُو : ذره ذره ره نماید سوئے او کرد در آئینه ارض و سما : آن رخ بے مثل خود، جلوه نما ہر گیا ہے عارف بن گاه او به دست ہر شانے ، نماید راه او نور مهرومه، رقیض نور اوست : ہر ظہور ، تابع منشور اوست ہر سرے سترے زخلوت گاو او : ہر قدم بوید ، در باجباره أو مطلب ہر دل جمال روئے اوست :: گھر ہے گر بہت بہر کوئے اوست مہر و ماہ و انجم و خاک آفرید : صد ہزاراں کرد ، صنعت با پدید ایں ہمہ صنعش کتاب کار اوست :: بے نہایت اندریں امرابه اوست این کتابے ، پیش چشم ما نهاد ؛ تا از و راه بدی، داریم یادت در ثمین صن۱۵ من لے میرے پاس نہ زہد ہے نہ عبادت نہ خدمت کا کوئی اور کارنامہ میرے لئے یہی کافی ہے کہ میر جان کسی محبوب کی گرویدہ ہے اسی چہرے میں کتنی لذت ہے ، میری جان اس پر خدا ہو.اگی گی میں کتنی راحت ہے اگر چہ وہاں خون برستا ہے : میں عشق کا علاج نہیں چاہتا کیونکہ اس میں ہم عاشقوں کی برکت ہے ہماری شفا ہی رنج ، در داور دکھ میں ہے ہو تے ان اشعار کا ترجمہ آگے متن کے اندر ہی درج ہے ؛

Page 89

۶۵ ان اشعار کے حسن اور خوبیوں کے متعلق کیا کہا جائے، کیا نہ کہا جائے.حضرت اقدس نے تو اپنا کلیجہ نکال کر کاغذ پر رکھ دیا ہے، کلیجہ بھی ایساجو عشق الہی سے سرشار اور رموز معرفت کا راز داں ہے.ان اشعار کی فصاحت و بلاغت دیکھئے.مگر خدا را فصاحت و بلاغت کے اصطلاحی فنون کی تلاش میں نہ لگ جائیے، کہ یہاں کیسا استعارہ ہے.اور وہاں کون کون سے صنائع بدائع ہیں.سب کچھ ہے، مگر اس طرف توجہ کرنے سے اصل مطالب نظر انداز ہو سکتے ہیں.لہذا فصاحت و بلاغت کے حقیقی معنوں کے ما تحت ان اشعار پر غور فرمائیے کیسی صفائی ہے.(سلاست کیسی وضاحت ہے (فصاحت، کس طرح دل میں اتر سے جاتے ہیں.(بلاغت ) ہر شعر ایک بے داغ ہیرا ہے.ایک چمکتا ہوا موتی ہے.غرض نظم کیا ہے، معافی کا ایک دریا ہے، جو تیزی سے بہتا چلا جارہا ہے.فرمایا :- (1) اس پر وردگار عالم ، گرنی بار خدا کی تعریف اور شکر ہے جس کے وجود سے باقی سب وجود ظاہر ہوئے (۲) یہ جہاں اس کے رخ مبارک کے آگے گویا خادم کی طرح آئینہ لئے کھڑا ہے.بلکہ ذره ذرہ اپنی ذات کے عجائبات کے ذریعہ) اس کی رہنمائی کر رہا ہے (۳) وہ زمین و آسمان کے آئینہ میں اپنے بے مثل چہرے کے جلوے دکھا رہا ہے (ہم گھاس کا ہر تنکا اس کی بارگاہ سے متعارف کراتا ہے.اور درختوں کی ہر شاخ رہاتھ کی مانند اسی کی راہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے.(۵) سورج اور چاند کی روشنی اُسی کے نور کی مرہون منت ہے اور ہر چیز کا ظہور اسی کے فرمان کے ماتحت ہے (ہ) بر سر اس کی بارگاہ یکتائی کا ایک ناقابل فہمہ عجوبہ ہے.ہر قدم اسی کے با عظمت دروازہ کی تلاش میں لگا ہوا ہے رہ شخص کی دلی مراد اسی کے چہرہ کے جمال کا دیدار ہے اور اگر کوئی شخص راستہ بھول گیا ہے تو اس کی گلی ڈھونڈتا ہوا بھولا ہے (۸) اسی نے سورج ، چاند ستاری اور زمین کو پیدا کیا اور دوسری لاکھوں کاریگریاں ظاہر کی (4) بی سب دستکاری اُسی کے کاموں کی کھلی کتاب ہے جسمیں لیے انت بھی میں نے یہ کتاب اسلئے ہماری آنکھوںکے سامنے رکھی ہے تاہم اسے وی اس تک پہنچنے کا آباد کرلیں :

Page 90

ذات باری تعالیٰ کے لئے حضرت اقدس کی والہیت اور شیفتگی ملاحظہ فرمائیے سے سخن نزدم مرال، از شہر یار نہ کہ راستم بر درے اُمید وارے خداوند سے کہ جاں بخش جهان است و بدیع و خالق و پروردگار سے کریم وقت در و مشکل کشائے بے رحیم و محسن و حاجت ہرارے فتادم برورش، نزیرا که گویند و برآید در جهان نارے نکار سے چوان یار وفادار آیدم یاد فراموشم شود، هر خویش دیارے بغیر اور چپساں بندم دل خویش ہے کہ بے روئیش تھے ایک قرار سے ولم در سینه ریشم مجوئید به که بستیمش بدامان نگارسے دل من دلبرے را، تخت گا ہے ہے سیر من در ره یارے نثارسے رہ چه گویم فضل او بر من چگون است که فصل اوست نا پیدا کنار ہے عنایت ہائے او را ، چون شمارم که لطف اوست بیرون از شمار ہے کے ترجمہ :.میرے سامنے کسی بادشاہ کا ذکر مت کرو، کیونکہ میں توکسی اور ہی دروازہ پر امیدوار ہوں یعنی اس، آقاد کے دروازہ پر جو دنیا کو زندگی بخشنے والا (ہر چیز کا موجد اور خالق اور (ان سب کی اپرورش کرنے والا ہے.وہ کریم ہے ، قادر ہے ، مشکل کشا ہے.رحیم محسن اور (سب کی ضرورتیں پوری کرنے والا ہے.کہیں اس کے در پر اس لئے آپڑا ہوں کہ کہتے ہیں کہ دنیا میں ایک کام سے دوسرا کام نکل آتا ہے.جب وہ با وفا محبوب مجھے یاد آتا ہے.تو دوسرے سب رشتہ دارا در دوست مجھے بھول جاتے ہیں.ہمیں اس کے بغیر کس سے دل لگاؤں کہ اس کا چہرہ دیکھے بغیر مجھے چین نہیں آتا میرے دل کو میرے زخمی سینہ میں مت تلاش کردو، کیونکر ہم نے اسے ایک محبوب کے دامن سے باندھ دیا ہے.میرا دل اپنے محبوب کا تخت ہے.اور سر اس یاد کی راہ میں قربان ہے.میں کیا بتاؤں کہ اس کا فضل مجھ پر کس کس طرح ہے کیونکہ اس کا فضل تو ایک نا پیدا کنانہ دریا ہے.اس کی شفقتوں کو کس طرح گنوں ، کیونکہ اس کی نوازشات تو حد شمار سے باہر ہیں :

Page 91

46 مرا کار نیست ، با آن دستا نے : ندارد کس خبر زاں کا روبارے بنالم به درسش، زان سان که ناکہ بوقت وضع حملے ، باردار سے مرا با عشق او ، وقتے ست معمور : چه خوش وقت، چه فرم روز گار ہے ثنا ہا گوئیمت، اسے گلشن یار ! به که فارغ کردی از باغ و بہارے در ثمین ۲۴۳۰۲۲۲۰) عرض کہاں تک اس در ثمین سے عشق الہی کے بیان کے پھولوں کے ہار پیش کئے جائیں جو حضرت اقدس نے موتیوں اور جواہرات جیسے اشعار سے پروئے ہیں اور وہ سب اپنی خوبصورتی اور دلکشی میں بھی اتنے لاثانی ہیں کہ انتخاب کرنے والا حیران رہ جاتا ہے کہ کس کو لے اور کس کو چھوڑے : ا ترجمہ : اس دلربا سے میرا معاملہ ایسا ہے کہ کسی کو اس کاروبار سے واقفیت پیدا کرنا ممکن نہیں.میں اس کے در پر اس طرح روتا ہوں، جس طرح بچہ جننے کے وقت کوئی حاملہ عورت روتی ہے، میرا وقت اسی کے عشق سے پر ہے ، کیا اچھا وقت ہے، کیسی شادمانی کا زمانہ ہے.اسے باغ و بہار محبوب میں تیری ہی شاکر تا رہتاہوں کیونکہ تو نے مجھے ہر دوسرے باغ و بہار سے بے نیانہ کر دیا ہے :

Page 92

MA محبت بول مقبول صلی از بیرونم حمد باری تعالیٰ کی طرح حضرت اقدس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثنا میں بھی انتہائی انہماک تھا.اور جیسا کہ قبل ازیں عرض کیا جا چکا ہے، کسی امرکا بیان ہو، کسی چیز کا ذکر ہو، آپ اس کا رخ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیر لیتے تھے.گویا خدا اور رسول کے علاوہ اور کوئی چیز قابل ذکر نہیں.سچ ہے جس شخص کے دل میں کسی کی محبت نے گھر کر لیا ہو ، وہ کسی وقت بھی اس کی یاد سے غافل نہیں ہوسکتا.چنانچہ حضرت اقدس نے آنحضرت صلی الہ علیہ وم کی الگ خالص نعتیں بھی لکھی ہیں اور دوسرے مضامین کے درمیان بھی بار بارہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر لائے اور ایسے خوبصورت اور لذت بھرے الفاظ میں اپنے محبوب کا ذکر کرتے ہیں کر قاری کا دل بے اختیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس کی طرف مائل ہو جاتا ہے.نعت کا ایک اقتباس اور پر گذر چکا ہے.اب مزید جواہر پار سے ملاحظہ فرمائیے : ذات باری تعالی کے عاشقوں پر اللہ تعالی کی انتہا عنایات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.آئی شیعہ عالم که نامش مصطفے : سید عشاق حق شمس الضحی آنکہ ہر نور سے طفیل نور است : آنکه منظور خدا منظور اوست آنکه بیر زندگی آب رواں : در معارف ہمچو بحر بیکران ترجمہ :.وہ جو دونوں جہانوں کا بادشاہ ہے جس کا نام مصطفے ہے، جو عاشقان اپنی کا سردار ہے.اور دوپہر کا سورج ہے.وہ جس کے نور کے طفیل باقی سب نور ہیں.وہ جس کو جو کچھ منظور ہو وہی خدا کو بھی منظور ہوتا ہے.وہ زندگی کے لئے ایک جاری چشمہ ہے اور معرفت کے بھیدوں کا نا پیدا کنار سمند ر ہے ہے

Page 93

44 آن که برصدق و کمالش در جہاں صد دلیل و حجت روشن عیاں آنکہ انوار خدا بر روئے اُو : مظہر کارِ خدائی کوئے اُو آنکه جمله انبیاء و راستان ؛ خادمانش ہمچو خاک آستان آنکہ مہرش می رساند تا شما : مے گند چون ماہ تاباں در صفا سے دیگر فرعونیاں راہ رساں : چون ید ببضائے مولی صد نشان در تمین فست) اس کے بعد اس نظم میں حضرت اقدس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مخالفین تیرہ دل کے ایک اعتراض کے رو کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں.(دیکھئے صنف ہذا ).- جان دلم فدائے جمال محمد است با خاکم نشاید کوچه آل محمد است دیدم بعین قلب شنیدم بگوش ہوش : در هر مکان ندائے جلال محمد است : ر این چشمه روای که بخلق خداد هم به یک قطره زبیر کمال محمد است این آتشم ز آتش مهر محمدی است : میں آب من از آب زلال محمد است و در زمین شد نے ترجمہ :.جس کی سچائی اور کال پر دنیا میں سینٹروں روشن دلائل اور شواہد موجود ہیں وہ جسکے منہ پر دائی نوار برستے ہیں جس کا کوچہ نشانات اپنی کا مظہر ہے.وہ کہ تمام نبی اور راست باز خاک در کی طرح اس کے خادم ہیں.وہ جیس کی محبت آسمان پر پہنچا دیتی ہے اور صفائی میں چمکتے چاند کی مانند بنا دیتی ہے.وہ نبی فرعونی سیرت لوگوں کو ہر وقت موسیٰ کے یہ بھیا جیسے سینکڑوں نشان دکھاتا ہے ؟ ے میری جان اور دل محمد کے جمال پر فدا ہیں.میرا یہ خاکی جسم آل محمد کے کوچہ پر قربان ہے، ہمیں نے دل کی آنکھوں سے دیکھا اور عقل کے کانوں سے سناء ہر جگہ محمد کے جلال کا شہرہ ہے (معارف کام یہ چشمہ رواں جو میں خلق خدا کو پیش کرتا ہوں ، یہ محمد کے کمالات کے سمندرمیں سے محض ایک قطرہ ہے.میری یہ آگ محمد کے ہی عشق داہنی کی آگ کا پر تو ہے، میرا یہ پانی زندگی بخش تعلیم محمد کا ہی مصفا پانی ہے ؟

Page 94

ایک اور مطیبی نعت ہے جس کے پہلے دس شعر یہ ہیں :.چوں زمین اید اثنائے سرور عالی تبار : عاجز از مادش ، زمین آسمان پر دو دار آن مقام قرب کو اردو بدلدار قدیم به کسی نداند شان آن، از واصلان کردگار آن عنایت یا کہ محبوب ازل دارد بدو : کسی بخوابے ہم ندیده مثل کی اندر دیار سرور خاصان حق شاه گرده عاشقاں : آنکه دوش کر دئے ہر منزل ویل نیگار الی مبارک ہے کہ آمدذات با آیات او به رحمتے زاں ذات عالم پرور و پروردگار آنکه دار و قرب خاص اند جناب پاک حق آنکه شان و نهند.کس زر خاصان دربار احمد آخر زماں، گو او لیس را جائے فخر : آخرین را مقتداء ملجاء كيف حصار هست درگاه بزرگی کشتی عالم پناه به کسی نگر در روز محشر بر پایش استنگار ز همه چیز گرون تر در هر نوع کمال + آسمانها پیش اوج همت او ذره وار مظہر نوگے کہ نہاں بود، از عبد الل به مطلع مس که بود از ابتدا، در استار در شین (۱۳۳۳) ے ترجمہ : مجھ سے اس عالمی خاندان سردار کی ثنا کیسے بیان ہو سکے جس کی مدح سے زمین آسمان بلکہ دونوں جہاں عاجز ہیں.قرب کا وہ مقام جو اسے محبوب ازلی کے ہاں حاصل ہے اسی شان کو خدا رسیدہ لوگوں میں سے بھی کوئی نہیں جانتا، وہ مہربانیاں جو مجھو اپنی اس پر کرتا رہتا ہے، دیکھی نے کسی ملک میں بھی خواب میں بھی نہیں رکھیں.وہ خدا تعالی کے برگزیدں کا سرد است اور عاشقان اہنی کی جماعت کا بادشاہ ہے جس کی رح نے محبوب کے وصل کے ہر درجہ کو طے کر لیا ہے وہ مبارک قوم جس کی ذات والا صفا اس رب العالمیں پروردگار کی طرف سے حمت بن کر نازل ہوئی.وہ جسے بارگاہ اپنی ہی خاص قر با اصل ہے.وہ جس کی شادی کو کوئی خواص اور بزرگ بھی نہیں سمجھ سکتے.وہ احمد آخر ماں ہے جو پہنوں کے لئے نر کی جگہ اور پھلوں کے لئے پیشوا مقام پناہ بجائے حفاظت اور قلعہ ہے.اسی عالی بارگاہ سارے جہان کو پناہ دینے والی کشتی ہے حشر کے دن کوئی بھی اس کی پناہ میں آئے بغیر نجات نہیں پائیگا.وہ ہرقسم کے کماتا میں سے بڑھا ہوا ہے، اسکی بہت کی بلندی کے آگے آسمان بھی ایک ذرہ کی طرح ہیں.وہ اس نور کا مظہر ہے جو ڑ ز ازل سے مخفی تھا اور اس سورج کے نکلنے کی جگہ ہے جو ابتدا سے ہی پوشیدہ تھا :

Page 95

41.ایک اور نعمت دیکھیے : شان احمد را که داند بجز خدا وند کریم به آنچنان از خود جدا شده از میان افتادیم زرای نمط شد محو دلبر، کنز کمال اتحاد به پیکر اوشد سراسر، صورت رب رحیم ہوئے محبوب حقیقی سے درد زاں روئے پاک ذات حقانی صفاتش مظہر ذات قدیم گرچه نشویم گند کس ہوئے الحاد وضلال بے پویں دل احمد نے بینم ، دگر عرش عظیم منت ایزد را، کرمن بر رغم اہل روزگار به صد بلا را میخرم، از زرق آن عین النعیم از عنایات خدا و ز فصل آن دادا یه پاک :: دشمن فرعونیانم ، بهر عشق آن کلیم آن مقام و رتبت خائش که برمن شد عیاں : گفتے اگر دید مے طبعے دریں راہے سلیم در ره عشق محمدؐ این سر و جانم رود : این تمنا، این دعا، این درد کم عزم صمیم در همین طنا ۱۰۲) ١٠٢٥١٠١ بار بار محبوب کا نام لینے سے جو لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے اسکی کیفیت وہی جان سکتا ہے جو کسی کی نگاہ ناز کاکشتہ ہو ، دیکھیئے حضرت اقدس اپنے اس ذوق کی تسکین کے لئے اس طریق پر بھی رسول مقبول ے : احمد کی شان کو خداوند کریم کے بغیرکون جان سکتا ہے.آپ خودی سے اس طرح الگ ہو گئے جس طرح آپ کے نام احمد کے ) درمیان سے میم کر گیا ہے.آپ اپنے محبوب میں اس طرح محوہوگئے ہیں کہ کمل اتحاد کی وجہ سے آپکا سر پیار حجیم کی صورت بن گئی ہے.آپ کے چہرہ سے محبوب حقیقی کی خوشبو پھوٹ رہی ہے.آپ کی ذات حقانی صفات کی حامل اور ذات قدیم اللہ تعالی کی مظہر ہے.خواہ کوئی مجھے الحاد اور گمراہی سے ہی منسوب کرے مگر مجھے احمد کے دل جیس اور کوئی عظیم الشان عرش کہیں دکھائی نہیں بتا.خدا کا شکر ہے کریں دنیا والوں کے خلاف اس سر چشمہ نعمت کی محبت کی وجہ سے سینکڑوں بلائی خرید لیتا ہوں.خدا کی عنایات اور اسی پاک صفات والی داری کے فضل سے میں اس دنگہ سے ہمکلام ہستی کے عشق میں فرعونی لوگوں کا دشمن ہوں.اس کا وہ خاص مقام اور مرتبہ جومجھ پر ہی ہواہے میں اسے بیان کرتا اگرمجھے اس راہ کا کوئی سلیم فوت شخص نظر آتا محمد کے عشق کی راہ مں میران اور میری جان قربان ہوں.میری یہی تمنا، یہی دعا اور میر سے دل میں یہی پختہ عزم ہے :

Page 96

کی تناکس والہیت سے بیان فرماتے ہیں : - عجب نور کیست در جان محمد به عجب لعلیست در کان محمد ز ظلمت یا دے آنگر شور صاف به که گردد از محبان محمد عجب دارم دل آن ناکسان را به که رو تا بندر انه خوان محمد ندانم بیچ نفسے در دو عالم به که دار و شوکت و شان محمد : خدا زمان زمینه بیزا درست صد بار به که هست از کینه داران محمد خدا خود سوزد آن کرم دتی را به که باشد از عدوان محمد اگر خواهی نجات از مستی النفس به بیا در ذیل مستان محمد اگر خواهی که حق گوید شنایت : بشو از دل ، ثنا خوان محمد اگر خواہی ویلے عاشقش باش : محمد هست بریان محمد ست دارم خدائے خاک احمد : بوکم ہر وقت قربان محمد دورتمین ۱۳۲۰۱۳ ے ترجمہ: محمد کی روح میں ایک عجیب نور ہے، محمد کی کان میں ایک عجیب و غریب لعل ہے.دل اُسی وقت تاریکیوں سے نکل سکتا ہے، جب محمد کے محبتوں میں داخل ہو جائے.مجھے ان نلائقوں کے دلوں پر حیرانگی ہے جنہوں نے محمدصلی اللہ علیہ سلم کی دعوت سے منہ موڑ لیا.دونوں جہانوں میں مجھے کسی شخص کا علم نہیں جو حضرت محمد جیسی شان و شوکت کا مالک ہو.خدا اس سینہ سے سمنت بیزار ہے، جو محمد سے کینہ رکھنے والوں میں سے شامل ہو.خدا خود اس ذلیل کیڑے کو دل ڈالتا ہے جو محمد کے دشمنوں میں سے ہو.اگر تو نفس کی بستیوں.نجات چاہتا ہے تومحمدؐ کے مستانوں کے دامن تھے آجا.اگر تو چاہتا ہے کہ خدا تیری تعریف کیسے تو تہ دل سے محمد کا ثنا خواں بن جا.اگر تو اس کی سچائی کی دلیل چاہتا ہے، تو اس کا عاشق بن جا محمد خود اپنی دلیل آپ ہی ہیں.میرا سر احمد کی خاک پاپر فلا ہے ، میرا دل ہر وقت محمد پر قربان ہے ؟

Page 97

نعت گوئی میں مولانا جامی کو بڑی شہرت حاصل ہے، انہوں نے بھی ایک ترجیع بند لکھا ہے جس کی روی حضرت اقدس کی مذکورہ بالا نظم کی طرح لفظ محمد ہے.اس ترجیع بند کے بھی دس ہی شعر نیچے نقل کئے جاتے ہیں تا ان کے تقابل سے حضرت اقدس کے کلام کی عظمت کا صیح اندازہ لگایا جاسکے : ماء معین چیست خاک پای محمد حبل متین ربقه ولای محمد خلقت عالم برای نوع بشر شد : خلقت نوع بشر برای محمد سواه همه قدیسیاں جبین ارادت : برته نعلین روش سای محمد عروه و تقی بس است دین و دول را به ریشه ای زگوشه ردای محمد جان گرامی دریغ نیست ز عشقش : جان من و صد چو من فدای محمد جای محمد درون خلوت جان ست به نیست مراد دیگر بجای محمد حمد شنایش به جز خدا که شناسد به من که و اندیشه شنای محمد لیس کلامی معینی بنحت کمالہ صل الہی علی النبی و آلہ نے ے ترجمہ: (فیض کے جاری پانی کا چشمہ کیا ہے، محمد کے پاؤں کی خاک محکم وسیلہ کیا ہے، محمد کی دوستی کی رہنی کا حلقہ دنیا کی پیدائش بنی نوع انسان کے لئے ہوئی اور بنی نوع انسان کی پیدائش محمد کی خاطر تمام فرشتوں نے پورے خلوص سے اپنی عقیدت کی پیشانی محمد کی جوتیوں کے تلے سے رگڑی، جن جوتیوں کی قدر و منزلت آسمان جیسی ہے.دین و دنیا کے لئے پختہ سہارا محد کی چادر کے گوشہ کا تار ہے.اس کے عشق میں عزیز جان کی قربانی ) بھی دریغ نہیں.میری جان اور میری جان میسی سینکڑوں جانیں محمد پر خدا ہوں.محمد کا مقام جان کی گہرائیوں میں ہے.میرے لئے محمد کے بیر اور کوئی نہیں.خداتعالی کے سوا آپ کی شناکی انتہا کا علم کسے ہوسکتا ہے.میں کون اور محمد کی شناک خیال کیا ! یرا کلام آپکے کمال کی تعریف بیان کرنے سے قاصر ہے.اس نبی پر اور اس کی آل پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں.

Page 98

نور بقا آمد آفتاب محمد : پرده آن نور خاک آب محمد بست نقابی آب و خاک و گرنه : رتبه امکان نداشت تاب محمد (دیوان کامل) ان اقتباسات سے عیاں ہے کہ حضرت اقدس نے رسول کریم کی بے شمار خوبیوں میں سے جنہیں بیان کرتے آپ کبھی نہیں تھکتے.جن خوبیوں کو سب سے زیادہ اجاگر کیا ہے.وہ ہیں :.(۱) ذات باری تعالیٰ سے آنحضرت کا عشق (۲) آنحضرت سے اللہ تعالیٰ کی محبت - (۳) آپ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش (۴) اس فضلوں کی بارش سے آپ کا بنی نوع انسان کو متمتع کرنا.ان سے بڑھ کر کوئی اور کمال انسان کے لئے متصور نہیں ہو سکتا.چنانچہ دوسرے محاسن کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود ان بلند ترین محاسن کو ہمیشہ دہراتے رہے.اچھی طرح غور فرمائیے.ذات باری تعالیٰ کو سرور کائنات سے جو اعلیٰ درجہ کی الفت ہے.ہمارا تخیل کبھی وہاں نہیں پہنچ سکتا.اس نبی امی فداہ روحی کو خدا وند عالم سے جو عشق ہے ، اسے بیان کرنے سے الفاظ قاصر ہیں.اس دو طرفہ تعلق محبت کی بنا پر اس ارحم الراحمین کی طرف سے آپ پر فضلوں کی جو بارش ہوئی وہ حد بیان سے باہر ہے.پھر اس رحمتہ للعالمین مستی فصلوں کی اس بارش کو جس طرح بنی نوع انسان کے لئے وقف رکھا، وہ اپنی نظیر آپ ہے.گویا خدا اور انسان کے درمیان برکات کی آمد کے لئے ایک میل بنا ہوا ہے.یا یوں کہئے کہ اپنی رحمتوں کی ایک کشادہ نہر ہے، جو آسمان سے آپ کی وساطت سے زمین تک پہنچتی ہے.یہ حقائق ہیں جو بار بار ے ترجمہ محمد کی سورج جیسی ہستی مستقل نورین کر آئی اور محمد کا پانی اورمٹی دوجود شہری اس نور کا پردہ ہے.آپ نے پانی اور مٹی کا نقاب اوڑھا ہوا ہے ، ورنہ آپ کی چیک وجود اختیار کرنے کے امکان بہت بڑھ کر تی :

Page 99

بیان کئے جانے کے لائق ہیں اور جنہیں حضرت اقدس نے کھول کھول کر بیان کیا ہے.بے شک بعض دوسرے بزرگوئی نے بھی اس دریائے فیض کا ذکر کیا ہے لیکن خدا اور رسول کی باہمی محبت کا ذکر جس جوش اور تواتر سے حضرت اقدس نے کیا ہے ویسا بیان اور کہیں نہیں پایا جاتا کسی کسی جگہ اس طرف اشا سے ملتے ہیں تفصیلی بیان کہیں نہیں اور حنا قدس نے اس دو طرفہ محبت کا بیان بھی ایسے پیار سے الفاظ میں کیا ہے کہ روح وجد کر اٹھتی ہے اور یہ ذکر صرف فارسی کلام میں ہی نہیں اردو اور عربی کلام میں بھی اسی طرح موجود ہے اور نشر میں تو اس کثرت سے اور اتنے وسیع پیمانہ پر کیا ہے جس کی کوئی انتہا نہیں.پس ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود اس اکمل ترین انسان خاتم النبيين محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے امل ترین حامد ہیں.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكَ وَسَلَّمْ : شه : محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے متعلق ان بزرگوں کے کلام اور حضرت مسیح موعود کے کلام کے جو امتیازی پہلو ہیں ان کی تفصیل جنگ تا صے پر ملاحظہ فرمائیے :

Page 100

44 عكس دیر انبیا علیہم السلام چونکہ رسول اکرم صلی اللّہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے ساتھ دوسرے انبیاء پر ایمان لانا بھی لازم ہے.اس لئے حضرت اقدس نے اپنے کلام میں کئی جگہ ان کی مدرج بھی بیان فرمائی ہے.ایک جگہ نعت نبی بیان فرماتے ہوئے آپ نے دوسرے انبیاء کے ذکر کی طرف یوں گریز فرمایا اے اسے نگلا ابرو سے سلام مارساں : ہم برا خوانش زہر پیغمبر سے سر رسو لے آفتاب صدق بود : ہر کہ سولے، بودر مہر انور سے ہر رسولے بود خیلے دیں پناہ : ہر رسولے بود باغے متمرے گر بدنیا نامد سے ایں خیل پاک کار دیں ماندے سراسر ابتر ہے ہر کہ شکر بحث شان ، نارد بجا ب ہست او الائے حق را کافر سے که شاں، ای همه از یک صدف صد گو براند : متحد در ذات و اصل و گوہرے اتے ہرگز نبوده در جہاں + کاندرای نامد، بوقتے مندرے نے ے ترجمہ : اے خدا ہمارا اسلام اس رسول مقبول تک پہنچا ہے اور اسکی بھائیوں ہرایک خیمہ کوبھی ہر سو پائی کا سورج تھا.ہر سوں ایک نہایت روشن آفتاب تھا.ہر سوں دین کی پناہ دینے والا سایہ تھا.ہر رسول ایک پھلدار باغ تھا.اگر یہ پاک جماعت دینا میں نہ آتی تو دین کا کام بالکل پراگندہ رہتا.جو شخص نیکی بعثت کا شکر بجا نہیں لاتا وہ حق تعالی کی نعمتوں کا منکر ہے.وہ سب ایک سیپی سے پیدا ہوئے ہوئے، سینکڑوں ہوتی ہیں.ذات، اصلیت اور حقیقت میں برابر ہیں.دنیا میں ایسی کوئی قوم نہیں گزری جس میں کسی نہ کسی وقت کوئی نذیر ڈرانے والا ) نہ آیا ہوں؟

Page 101

46 اول آدم ، آخری شان احمد است و اسے خنک آنکس که بیند خرے انبیا روشن گهر هستند، لیک بے ہست احمد زاں ہمہ روشن ترسے آن همه ، کان معارف بوده اند ؛ ہر یکے از راه مولی منجر ہے سے ترجمہ ! ان میں سے پہلا آدم اور آخری احمد ہے.کتنا مبارک ہے وہ جو آخری کو دیکھ پائے.تمام نبی چکھتے ہوتی ہیں، مگر احمد ان سب سے زیادہ روشن ہے.وہ سب معرفت کی کان تھے.ہر ایک مولیٰ کی راہ بتانے والا تھا نہ

Page 102

قرآن مجید خُدا اور رسولوں کے بعد اسلامی عقاید کا تیسرا رکن قرآن مجید ہے.اس کی تعریف میں بھی حضرت مسیح موعود کو ایک ایسا منفرد مقام حاصل ہے.جو اولین و آخرین میں سے کسی اور کو نصیب نہیں ہوا.مثنوی مولانا روم کے متعلق کہا جاتا ہے اسے مثنوی مولوی معنوی : هست قرآن در زبان پهلوی بے شک اس مثنوی میں قرآن کریم کے بعض مطالب کی تشریح ضرور کی گئی ہے.لیکن آپ اس ضخیم ترین مثنوی کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک پڑھ جائیے.اس میں آپ کو قرآن کریم کی ظاہری یا باطنی خویوں کا ذکر کہیں نہیں ملے گا.سوائے حکیم سنائی کی حدیقہ الحقیقہ کے جس میں اس موضوع پر ایک الگ باب میں کچھ روشنی ڈالی گئی ہے.دوسرے بزرگوں کے فارسی کلام مں قرآن کریم کی عظمت کے متعلق صرف اشارے ملتے ہیں لیکن بالاستیعاب پوری شرح وبسط کے ساتھ اس صحیفہ آسمانی کے محاسن کسی بزرگ شاعر نے بیان نہیں کئے.یہ سعادت صرف اور صرف حضرت مسیح موعود کو نصیب ہوئی کہ آپ نے اس عروس معانی کے چہرہ زیبا کو مختلف طریق پر مخلوق خدا کو دکھانے کی متواتر اور کامیاب کوشش کی.یوں سمجھ لیجئے که قرآن کریم جو نور الہی ہے اس کی روشنی پھیلانے کے لئے حضرت اقدس خود بھی مینارہ نورین گئے.اس بارہ میں حضرت اقدس کے فارسی کلام کے نمونے پیش کرنے سے پہلے حکیم سنائی کے سے : مولوی معنوی ایمیتی را ز دا حقیقت کی معنوی فارسی زبان میں قرآن مجید ہے :

Page 103

49 کلام کا نمونہ پیش کیا جاتا ہے.تاجس کا دل چاہے دیکھ لے کہ تاثر کے لحاظ سے بھی اور فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے بھی حضرت اقدس کا کلام کہیں زیادہ فائق ہے حکیم سنائی " فرماتے ہیں : سے سخنش را بس لطافت و ظرف : صدمت صوت نی و زحمت حرف صفتش را حدوث کی سنجد : سخنش در حروف کی گنجد و ہم حیران رشکل صورت پاش : عقل واله زیستر سورت ماش مغز و نغز است حرف و سورت او به دلبر و دلپذیر صورت او زان گرفته مقیم قوت و قوت : زاده ملک و داوه سکوت ستراد ستر او بہر حل مشکلبا : روح جانبا و راحت دلها دل مجروح را شفاقتران به دل پر درد را دواستران تو کلام خدای را بے شک : گرنئی طوطی و حمار و آشک اصل ایمان و رکن تقوای دانه کان یا قوت و گنج معنی دان ہست قانون حکمت حکماء : بست معیار عادت علماء حديقة الحقيقة ) شد ترجمہ اس کام میں بڑی پاکیزگی اور رائی ہے، نہ ہی آواز میں کوئی ٹکراؤ ہے اور حروف میں کوئی خرابی.اس کیلئے مخلوق ہونے کی صفت کیسے مناسب ہو سکتی ہے، اس کی بات حروف میں کیسے سما سکتی ہے.اس کے حروف کی بناوٹ سے وہم حیران ہے اور اس کی سورتوں کے اسرارہ پر عقل پر یشان ہے.اس کے حروف او سورتیں محکم بھی ہیں خوبصورت بھی اور اس کی صورت دلکش اور پسندیدہ ہے اس لوگوں کو قوت اور روزی حاصل ہوتی ہے.وہ فرشتوں کا پیدا کردہ اور پروردگار کا عطیہ ہے مشکلات کے حل کے لئے اس کے اسرار روح کی غذا اور دلوں کی راحت ہیں.زخمی دل کی شفا قرآن ہے.دکھی دلوں کی ہوا قرآن ہے.اگر تو طوط یا گدھایا چرنہیں ہے تو تو کلام خدا کو بلاشک وشیر ایمان کی جڑ تقوی کا ستون، جواہرات کی کان اور معانی کا خزانہ سمجھے.وہ حکماء کی حکمت کا ضابطہ ہے.علماء کے دستور کا پیمانہ ہے :

Page 104

اب حضرت اقدس کے روح پرور کلام کے کچھ نمونے ملاحظہ فرمائیے :.-۱ از نویر پاک قرآن صبح صفا د میده : برغنچہ ہائے دلہا باد صبا و یزیده این روشنی و لمعان شمس اصحئی ندارد و این دلبری و خوبی، گش در قمر ندیده یوسف البقعر چاہے محبوس ماند تنها و این یوسفی که تن با از چاه برکشیده از مشرق مکانی، صد ها و تالق آورد : قدر بلال نازک زمان ناز کی خمیده کیفیت معلومش دانی، چه شان دارد به مشهد لیست آسمانی از وحی حق چکیده آن نیز صداقت چون رو به عالم آورد به هر گوم شب پرست در گنج خود خزیده روئے یقیں نہ بلیند، ہر گز کسے بدنیا با الا کیسے که باشد، با رویش آرمیده آنکس که عالمیش شده شد محزن معارف : و آں بے خبر نہ عالم کی عالمے ندیده باران فضل رحمان آمد بمعترم او بد قسمت آنکه از وسے سوئے دیگر دویده دگر : له ترجمه 1- قرآن پاک کے نور سے روشن صبح طلوع ہو گئی.اور دنوں کے غنچوں پر باد صبا چلنے لگی.یہ روشنی اور چمک تو دو پہر کے سورج میں بھی نہیں ، ایسی دلکشی اور خوبصورتی تو کسی نے چاند میں بھی نہیں دیکھی.یوسف تو ایک کنویں کی تہیں تنہا پڑ رہا تھا، یہ ایسا یوسف ہے جینے تن بار بہت شخصوں کو کنویں سے نکال بمطار کے منبع سے سینکڑوں باریک نکلتے نکال لیا.اسی نزاکت کی وجہ سے اس کا بال ابتدائی راتوں کے چاند جیسا نازک قدیھی کا ہوا ہے کیا تجھے معلوم ہے کہ اس کے علوم کی شان کیسی ہے ، وہ آسمانی شہد ہے جو وحی الہی سے ٹیکا ہے.جب اس سچائی کے موئی نے اس دنیا کا رخ کیا تو رات کے پجاری تمام اتو اپنے کو نوں میں جا گھیے.دنیامیں یقین کا منہ ہرگفتہ نہیں دیکھ سکتا سوائے اسکی چیرہ کا دیدار کر لینے کی وجہ سے تستی پائے.جو کوئی اس کا عالم بن گیا وہ معرفت کا خزانہ بن گیا.لیکن جس نے اس کیفیت کو نہ پایا.وہ دنیا جہان سے بے خبر رہا.خدا کے فصلوں کی بارش اس کے آنے کے ساتھ ہی آگئی.بد قسمت ہے وہ جو اسے چھوڑ کر دوسری طرف بھاگ گیا ہنہ

Page 105

Al میل بدی نباشد الا رگے شیطاں : آی را بستر بدانم کز پر شرے رہیدہ اسے کان دھر بائی ، دانم که از کجائی تو نور آن خدائی ، کیس خلق آفریده مسلم نماند باکس، محبوب من توٹی بس ؟ زیرا که زمان فضای رس نورت بهم رسیده دورتمین ۴۷۴۵) هست فرقان مبارک از خدا طیب شجر : نو نہال و نیک بود تا سایه دارو، پر زیر میوه گر خواهی، بیانیه درخت میوه دارد به گر خردمندی بجنبان بید را بر شمر در نیاید باورت در وصف فرقان مجید به حسین آن شاید بپرس زشا بدان یا خود نگر و آنکه او نامد پنے تحقیق در کیس متر است : آدمی ہر گنه نباشد، بست او بد تر زخیرات ور ثمین ۱۲ ۱۲۷) سے پہنچے دانی کلام رحمان چیست ؟ والی که ، آن خور یافت آن مر کیست؟ شک دریب، از قلوب بردارد آن کلامش ، که نور با وارو : نور در ذات خویش و نور دید به رگ پر شک و هر گماں بیرونی ن ترجمه را بدری کا رجحان شیطانی رگ ہی ہوتی ہے، ہیں اسے بہتر سمجھتا ہوں جو ہر شر سے نجات حاصل کرلے.اسے حسن کی کان میں جانتا ہوں کہ تو کہاں سے آیا ہے.تو اس خدا کا نور ہے جس نہی یہ مخلوق پیدا کی ہے.مجھے کسی اور کی خواہش نہیں رہی.میرا محبوب تو ہی ہے، کیونکہ تیری روشنی ہمیں اسی فرماید کو پہنچنے والے سے ملی ہے.بوء (بجائے بود) بموجب اغلاط نام مشمولہ براہین احمدیہ دہر جباره حصص طبع اول : کے ترجمہ : یہ مبارک فرقان خدا کا بھیجا ہوا ایک پاکیزہ درخت ہے نیا ترو تازہ پودا ہے، خوشبودار ہے اسا یہ دیتا ہے اور پھلوں سے لدا ہوا ہے اگر تجھے میووں کی خواہش ہے تو کسی پھلدار درخت کے نیچے آ.اگر عقلمند ہے تو یوں کی خاطر بید کے درخت کومت ہے اگر تجھے قرآن کی خوبوں پر یقین نہیں آتا تو جو بے حس کو دیکھنے والوں کوچھو باخودتحقیق کر سکن جو شخص تحقیق کے لئے تونہ آئے اور دشمنی میں لگا ہے تو وہ انسان نہیں کہلا سکتا وہ تو گدھے سے بھی بد تر ہے.تھے کچھ خبر ہے کہ کلام الہی کیا چیز ہے؟ اور جسے وہ سورج علاوہ چاند کون ہے اس کا وہ کام جو نوا ر سے بھرا ہوا ہے دلوں سے ہرقسم ے شک اور ہم کو دور کردیا ہے، وہ تو بھی نور ہے اور دوسرں کو بھی نور بخشتا ہے اور شبہ اور فطن کی جڑ کاٹ دیتا ہے ؟

Page 106

AY به دل که باشد گرفته اوہام : یا بد از وے سکینت و آرام ہمچو مینے ، کہ ہست فولادی که : در در دل آید، فزایدت شادی نرو که بد، عادت فساد و شقاق : چاره زهر نفس ، چوں تریاق کا رہا میگند ، بانسانی : ہمچو بادِ صبا، به بستانی می گشاید دو چشم انسان را می نماید جمال رحمان را دید وحی خدا ، چو گردد باز به بسته گردد ، بر آدمی دیر آنه یک کشش، کار می کنند بارون به در دل ایک فرد ، رُخ بیچوں در ثمین (۳۳۵، ۳۲۰) م ہست مشرقان آفتاب علم ودیں : تا برندت از گماں سوئے یقیں هست مشرقان از خدا حبل المتین : تاکشندت سُوئے رب العالمين بست مشرقای روزنه روشن اند خدا تا د بندت روشنی دیده ها ے ترجمہ : وہ دل جو وہموں میں گرفتار ہو، وہ اس سے تسکین اور آرام پاتا ہے.ایک فولادی میخ کی طرح دل میں گڑھاتا ہے.اور دل میں اتر کر خوش دلی اور سرور کی اینزادی کا باعث بنتا ہے.اس کی برکت سے فساد اور جھگڑے کی عادت دور ہو جاتی ہے اور تریاق کی طرح نفس کے زہر کا علاج ہے، وہ انسان پر وہی کام دائر پیدا کرتا ہے جو باد صبا باغ پر کرتی ہے.انسان کی دونوں آنکھوں کو کھول دیتا ہے.اور خدائے رحمان کا جلوہ دکھاتا ہے.جب خدا کی وحی کا دروازہ کھلتا ہے تو انسان پر ترس کا دروازہ بند ہوجاتا ہے.ایک ہی کششی انسان کے اندرونہ میں ایسا اثر ڈالتی ہے کہ اس بے مثال محبوب (خدا) کا چہرہ دل میں اتر جاتا ہے.نه ترجمه : هسته آن مجید علم اور دین کا سورج ہے، تا تجھے شک سے چھڑا کر یقین کی طرف سے جائے.قرآن مجید خدا کی طرف سے ایک مضبوط رہتی ہے تا تجھے رب العالمین خدا کی طرف کھینچ کر لے جائے.قرآن مجید خدا کی طرف سے ایک روشن دن کی مانند ہے تا تجھے (روحانی) آنکھوں کی روشنی عطا کر سے ؟

Page 107

AF حق فرستاد ایں کلام بے مثال به تاریسی در حضرت قدس و جلال داروئ شک است، البام خدا به كان نماید ، قدرت تاہم حندا ہر کہ روئے خود زفرقان در کشید بے جان او روئے یقین ہر گز ندید جان خود را می کنی در خودروی باز مے مانی ، ہماں گول وغومی کاش جانت میں عرفان داشت : کاش سعیت ، تخم حق را کاشته د در ثمین ما، ۳۸) غرض کہاں تک اقتباسات پیش کئے جائیں.حضرت اقدس کو اس مقدس کتاب اور خُدا اور رسول سے ایسی الفت ہے کہ بار بار انہیں کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ان کا نام لینے سے جو نصرت ملتی ہے اس کے آگے باقی سب لذتیں پہنچے ہیں.آپ کو سکھ ملتا ہے تو ان کی یاد سے تسلی ہوتی ہے تو ان کا نام لینے سے سکون آتا ہے تو ان کی طرف دھیان جانے سے.راحت پہنچتی ہے تو ان کا ذکر کرنے سے.پھر ذکر ایسے بچھے تلے الفاظ میں کرتے ہیں کہ کوئی فالتو لفظ زبان سے نہیں نکلتا.کلام میں کہیں جھول نہیں ، بلا ضرورت طول نہیں.عبارت ایسی جیسے موتیوں کی لڑیاں.اور اپنے محمد وحین کی جو صفات اور خوبیاں بیان کرتے ہیں وہ ٹھوس حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں.سچ ہے آپ کو فرضی اور بناوٹی خوبیاں زبان اے ترجمہ : خدا نے اس بے نظیر کلام کو اس لئے بھیجا ہے تا تو پاکیزگی اور عظمت والی بارگاہ میں پہنچ جائے.خدا کا کلام شبہات کا ایسا علاج ہے جو خدا کی کامل قدرت کو دیکھا تا ہے جس کسی نے قرآن سے روگردانی کی اس کا دل یقین کا منہ ہرگز نہیں دیکھ سکے گا.تواپنی روش پر اصرار کر کے اپنی جان کو بلاک کر رہا ہے.مگر پھر بھی ویسے کا ویسا احمق اور نادان رہ جاتا ہے.کاش تیرے دل کو عرفان اپنی کا شوق ہوتا.کاش تیری تمام جد و جہد سچائی کا بیج بونے میں لگی ہوتی :

Page 108

A پر لانے کی ضرورت ہی کیا ہے جب کہ آپ کے محمد وحین میں اصلی اور حقیقی خوبیاں اتنی ہیں کہ ابدالاباد تک بیان کرتے رہیں تو بھی ختم نہیں ہوسکتیں.طرز بیان ایسا موثر کہ ہر بات دل میں اترتی چلی جاتی ہے.غرض آپ کے کلام پر جہاں بھی نظر پڑتی ہے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہی جگہ سے زیادہ حسین اور دلکش ہے.جیسا کہ نظیری نے کہا تھا کہ ز فرق تا قدمش ہر کجا کہ مے نگریم : کرشمہ دامن دل مے کشد که جا اینجاست ے اس (محبوب) کے سر کی چھوٹی سے ہے کہ پاؤں تک جہاں کہیں نہ ڈا تھا وں راہی جگہ کا حسن دامن دل کو یہ پتا ہے کہ (اصل دیکھنے کے لائق) جگہ یہی ہے :

Page 109

هم ملائکہ ، یوم آخرت اور قضا و قدر الہ تبارک و تعالی ، انبیاء علیہم السّلام اور کتب سماوی کے علاوہ ایمان کے تین رکن اور رہیں یعنی لانگہ، یوم آخرت اور قضا و قدر.ان کے متعلق حضرت اقدس فرماتے ہیں : -۱- اقتدائے قول او در جان ماست هر چه زو ثابت شود ایمان ماست از ملائک و از خبر ہائے معاد : هر چه گفت آن مرسل کرتب العباد آن همه از حضرت احدیت است به منکر آن مستحق لعنت است (در ثمین (۲۲۵) و کی ضمیر رسول کریم کی طرف راجع ہے جن کا ذکر ان اشعار سے پہلے ہے.نیچریوں کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں اسے اسے نیچر شوخ ، این چه این است : از دست تو فتنه هر طرف خاست آن کس که رو گجت ، پسندیده : دیگر نگزید جانب راست لیکن پوز غور و فینگر بینم به از ماست، مصیبتی که بر ماست.اس رسول مقبول کے ارشاد کی پیڑی میں ان کی رح عزیز ہے جوکچھ ہی سے بات ہوا ملارایا اور تو اور آخر کے حال کے متعلق جو کچھ بھی سیرت اعلی کے فرستادہ نے فرمایا ہے وہ سب خدائے واحد کی طرف سے ہے اور اسکا شکر لعنت کاستی ہے.نه مے شوخ نیرا کتنے دکھ کی بات کر تیرے ہاتھوں ہر طرف فتنے اٹھ کھڑے بٹے ہیں جس کسی نے تیرے بڑھے اس کو پسند کر لیا رانی کبھی سید راسته کارخ نہ کیا لیکن جب نور سے کیا ہوا معلوم ہوتا ہے سمیت وہ میری کہانی

Page 110

AY متروک شدست درس فرقان به زان روز، هجوم این بلا هاست نیچرونه با میل خویش بد بود دیں گم شد و نور عقل با کاست بر قطره نگوں شدند یکبار : گروه تافته، زمان طرف که در یاست بر جنت و حشر و نشر خندند : کیس قصه بعید از خرد هاست بچوں ذکر فرشتگان بیاید : گویند خلاف عقل داناست اسے سید سرگروه این قوم ! به هشدار کہ پائے تو نہ برجاست پیرانه سر، این چه در سر افتاد + کرو، تو به کن ، این نه راه تقوای سها ترسم که ، بدین قیاس ، یکروز : گوئی کہ، جندا خیالِ بیجاست اسے خواجہ ، بروکر منکیر انسان : در کار خندا نه نوع سود است آخر ، زقیاس ها چه خیزد نه بنشیں، کہ نہ جائے شور و غوناست کچھ اے بندہ ، بصیرت از خدا خواه به اسرار خندا نه خوان بینما است که رور ثمین ۱۹۷۶۱۹۶۵ ے ترجمہ : جس دن سے قرآن کا پڑھنا پڑھانا موقوف ہوا ہے اس دین سے بلاؤ کی یہ ہجوم ہے.نیچ اپنی اس کے لحاظ سے تو بری تہ تھی لیکن جب دین گم ہو گیا تو قل کی روشنی بھی کم ہوگئی، وہ یک لخت ایک قطرہ پر ٹوٹ پڑے اور میں طرف دریا تھا او ر سے منہ موڑ لیا.وہ جنت اور حشر نشر پر ہنستے ہی یہ قصہ عقل سے بعید ہے.جب فرشتوں کا ذکر آتا ہے تو کہتے ہیں.یہ بات عقل دانا کے خلاف ہے.اسے ستید اسے اس قوم کے سردار باخبردار کہ تیر قدم صحیح مقام پر نہیں تھے بڑھاپے میں کیا سو بھی جا تو توبہ کر یہ تقوی کا طریق نہیں.میں ڈرتا ہوں کہ ایسے ہی قیاسات کی بنا پر کسی دن یہ بھی کہہ دیا که خدا ایک وہم ہے.صاحب ! ان باتوں کو چھوڑو، کیونکہ خدائی کاموں میں خیالی گھوڑے دوڑانا اک قسم کا پاگل پن ہے.آخر قیاسات سے کیا حاصل ہو سکتا ہے.آرام سے بیٹھو.یہ جگہ غل غپاڑہ مچانے کی نہیں.خدا کے بندے خدا سے بصیرت مانگ.اللہ تعالی کے اسرار خوان یعنی عام شنگر نہیں.(کہ جو شخص چاہیے لوٹ لے جائے) :

Page 111

AL نور مهره ماه رافی نور اوست : هر قبور تابع منشور اوست (ترشین منت لاجرم طالب رضائے خدا ؛ بگلر از ہمہ برائے جندا شیوہ اس سے شود فدا گشتن به بهر من هم زمان جدا گشتن حق زجاں در رضائے خُدا شدن چون خاک با نیستی و فنا و استهلاک دل نهادن در آنچه مرضی یار : صبر زیر مجاری اعتدال ) درثمین صال) ے ترجمہ : چاند اور سورج کی روشنی اس کے نور کا فیضان ہے.ہر چیز کا ظہور اسی کے فرقان کے تحت ہوتا ہے.کے ترجمہ : لاریب خدا کی رضا کا طالب خدا کی خاطر سب سے قطع تعلق کر لیتا ہے.اس کا شیوہ خدا کی راہ میں فدا ہونا اور خدا کے لئے اپنی جان کی قربانی پیش کرتا ہوتا ہے.خدا کی خاطر خاکساری، نیستی ، فنا اور ہلاکت اختیار کرنا.محجوب کی رضامیں محو رہنا اور قضا و قدر کی تلخیوں پر صبر کرنا ہے

Page 112

^^ دین اسلام اب دین اسلام کی فضیلت کے متعلق حضرت اقدس کے کلام سے چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں اے بہتر مذ ہے ، غور کردم بسے : شنیدم بدل ، محبت ہر گئے بخواندم نہ ہر ملتے دفترے ؛ پدیدم، نہ ہر قوم دانشور ز ہم از کودکی سوئے ان تا ختم : دریں شغل خود را بینداختم جوائی ہمہ ، اندرین باختم : پول از غیر این کار پرداختم بماندم درین غم ، زمان در از به نخفتم از فکرش شبان در انه نیگه در کردم، ان روئے صدق وسدد : به ترس خداؤ به عدل و به داد کو اسلام دینے، قوی و متین : ندیدم ، که بر منبعش آفرین چنان دارد این دیں صفا بیش بیش : که حامد به بیند درو روئے خویش ے ترجمہ : میں نے ہر مذہب پر غور کیا ہے ، اور یہ شخص کے دلائل توجہ سے سنتے ہیں.میں نے ہر مذہب کی بہت سی کتابیں پڑھی ہیں.اور ہر قوم کے کسی دانشور سے ملاقات کی ہے.بچپن سے ہی میں نے اس بار ہمیں پوری کوشش کی ہے.اور اپنے تئیں اس کام میں ڈالے رکھا.میں نے جوانی بھی سب اس میں لگا دی اور اس کے علاوہ باقی سب کاموں سے دل کو فارغ رکھا.میں ایک لمبا عرصہ اسی غم میں مبتلا رہا.اور اسی فکر میں طویل راتیں سو نہیں سکا.میں نے حق اور سر استی اور خوف خدا اور عدل و انصاف کے ساتھ خوب غور کیا لیکن میں نے اسلام میسا ٹھوس مذہب اور کوئی نہیں دیکھا.اس کی منبع پر آفرین ہو.اس دین میں اتنی زیادہ صفائی ہے کہ حاسد اس میں اپنا چہرہ دیکھ لیتا ہے ؟

Page 113

نماید از ان گونه راه صعف به که گردد به صدقش خرد رهنما همه حکمت آموزد و عقل و داد به ر کاندیز هر نوع جهل و فساد نداره دیگه مثل خود ، در بلاده خلافش طریقے ، کہ مشلش مباد حصولش که بست آبی مداره سنجات : چو خورشید تا بد بعیدق و ثبات اصول دگر کیش ہا ، ہم عیاں ہے نہ چیز ہے کہ پوشیدنش مے تو ای اگر نامسلمان خبر داشت : بیجان جنس اسلام نگذاشتے د در ثمین ص ۳۵۷۳۲) آپ اس اقتباس پر بھی اور دوسرے اقتباسات پر بھی اچھی طرح غور فرمائیے.آپ کو معلوم ہو گا کہ حضرت اقدس کا کلام پڑھتے وقت الفاظ بڑی آسانی کے ساتھ زبان سے ادا ہوتے چلے جاتے ہیں.کہیں ذرا بھر بھی رکاوٹ محسوس نہیں ہوتی.پھر الفاظ ایک دوسرے سے پوری طرح مربوط اور متوافق ہیں.گویا وہ ایسا دریا ہے جس کی برق رفتاری کے باوجود سطح بالکل ہموار رہتی ہے الفاظ میں کہیں معمولی سا بھی تناضر نہیں پایا جاتا.اس کو علم بلا بخت میں روانی کہتے ہیں.عیسائیوں نے روح القدس کو اپنی اقوم ثلاثہ کا ایک فرد قرار دے رکھا ہے اور ان کا ادعا یہ ہے کہ وہ ان کی مدد کے لئے ہمیشہ کمر بستہ رہتا ہے.تشکیت کا ایک اور رکن حضرت مسیح ہیں جنہیں خُدا کا بیٹا قرار دیا جاتا ہے.حضرت اقدس اس بارہ میں فرماتے ہیں : سے رامه ترجمه ماه یہ دین اس طرح پاکیزگی کا راستہ دکھاتا ہے کہ عقل بھی اس کی سچائی پر گواہی دیتی ہے.یہ سراسر حکمت عقل اور انصاف کی تعلیم دیتا ہے اور ہر قسم کی جہات اور خرابی سے بچاتا ہے.اس جیسا مذہب دنیامیں اورکوئی نہیں.اسکے مخالفت جو بھی طریقہ ہے خدا کرے وہ نابود ہو جائے.اس کی اصولوں پر مدا نجات میں وہ اپنی سچائی اور پختگی میں سورج کی طرح چمکتے ہیں.دوسرے مذاہب کے اصول بھی ظاہر ہیں.کوئی کوشش انہیں چھیپا نہیں سکتی.اگر کسی غیر مسلم کو اسلام کی خوبیوں کا علم ہو جائے تو بخدا جان قربان کر کے بھی وہ اس دوست کو حاصل کر نے کی کوشش کرے گا.

Page 114

بچوں گمان کنم اینجا مد د روح قدس که مرا در دل شان دیو نظر می آید این مدد است اسلام چو خورشید میاں : کہ بہر عصر سیحائے دگر می آید ور شمین ماه) یعنی عیسائیو! تمہارا تو صرف دعوئی ہی دعوئی ہے.اگر سچ مچ روح القدس کی تائیدیں دیکھنا چا ہو تو اسلام میں دیکھو کیونکہ اسلام میں مسیح کے مثیل ہر زمانہ میں پیدا ہوتے رہتے ہیں.صادق آنست که بقلب سلیم : گرداں دیں کہ بست پاک قویم دین پاک ست ملت اسلام ؛ از خدائیکه هست علمش تام نہیں کہ دیں از برائے آی باشد که ز باطل بحق کشاں بات دله ور ثمین صت) ۴.پھر حضرت اقدس نے ایک ہی شعر میں دین اسلام کی مکمل تعریف بیان فرما دی کہ : لبس ہمیں فخر سے بود اسلام را ب کو نماید آن جنرائے نام گرا غور فرمائیے! اس سے بڑھ کر کسی دین کی اور کیا تعریف ہو سکتی ہے : ے ترجمہ : میں یہاں (یعنی عیسائی مذہب میں روح القدس کی مد کا گمان بھی نہیں کرسکتا.کیونکہ مجھے توان کے دل میں شیطان نظر آتا ہے.روح القدس کی یہ تائیدیں اسلام میں سورج کی طرح عیاں ہیں جہاں ہر دور میں نیا سی نیم لیتا ہے ؟ که ترجمه : راستباز وہ ہے جو خلوص نیت کے ساتھ اس دین کو اختیار کرتا ہے جو پاک اور قدیم ہے.پاک دین صرف اسلام کا مذہب ہے کیونکہ وہ اس خدا کی طرف سے ہے جس کا علم ہر لحاظ سے مکمل ہے.کیونکہ دین کی غرض یہ ہوتی ہے کہ انسان کو باطل سے کھینچ کر حق کی طرف لے جائے.(اور یہ صفت صرف اسلام میں ہے) ہ کے ترجمہ : السلام کو یہی فخر کافی ہے ، کہ وہ کامل خدا کو پیش کرتا ہے :

Page 115

وحی و الہام حضرت اقدس نے اپنے پاکیزہ کلام میں وحی و الہام کے امکان پر بہت زور دیا ہے، کیونکہ اس زمانہ کی گمراہی اور بے دینی کا ایک بڑا سبب امکان الہام کا انکار ہے جس کی بنیاد کبر اور اپنی عقل پر نانہ ہے اور یہ کبر اور عقل ہی انبیاء اور دوسرے مامورین الہی کو قبول کرنے میں روک بنتے ہیں.عجیب بات یہ ہے کہ حضرت اقدس نے عقل کو ہی وحی و الہام کے لئے شاہد ناطق کے طور پر پیش کیا ہے اور منطقی دلائل کے ذریعہ بھی الہام کی ضرورت واضح فرمائی ہے کیونکہ اسلام اور وحی الہی کا چولی دامن کا ساتھ ہے.فرمایا :- وحی و دین خداست چون توام یک پو گم شد دگر شود گم ہم نے دور ثمین صن۳۵) لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے بعد وحی و الہام کا ذکر کیا جائے.فرمایا اے M حاجت تو اسے بور ہر چشم را به این چنین افتاد قانون خدا چشم بینا ہے خور تاباں کردید؟ ن کے چینیں چشمے خداوند آفرید؟ چوں تو خود قانون قدرت بشکنی : پس چرا بر دیگراں سرمے زنی ؟ ترجمہ : وحی الہی اور دین خدا دونوں جڑواں چیزیں ہیں پس اگر ایک جاتی ہے ، تو دوسری بھی گم ہو جائیگی.ترجمہ ہر آنکھ کوروشنی کی ضرورت ہوتی ہے.خدائی قانون سی طرح واقع ہوا ہے.چکنے سورج کے بغیر کھنے والی آنکھ کس نے دیکھی ت با خدا نے ایسی آنکھ کب بنائی ہے.جب تو نور ہی قانون قدرت کو توڑتا ہے ، تو یہ دوسروں پر کیوں اعتراض کرتا ہے ؟

Page 116

آنکه در سر کارت و حاجت روا ہے چوں روادری که نبود رہنما آنکه اسپ و گاو خر را آفرید به تا رید گشت تو از بار شدید چون ترا حیران گذار د در معاد : اے عجب تو عاقل این اعتقاد چون دو چشمت داده اند سے بیخبر : پس چرا پوشی کے وقت نظر؟ آنکه زو ہر قدر تے گشتہ عیاں : قدرت گفتار چوں ماندے نہاں آنکه شد هر وصف پاکش جلوه گر : پس چرا این وصف ماند نے مستر هر که او غافل بود از یاد دوست : چاره سازی فلش پیغام اوست تو عجب داری نه پیغام خدائے : این چه عقل و فکر تست آن خود نما؟ لطف اوچون خاکیاں را عشق دار : عاشقان را چون سیفگندے زیاد عشق چون بخشید از لطف اتم : چوں نہ بخشیدے وائے آں الم ؟ خود بو کرد از عشق خود دلها کباب بے چوں نہ کر دے از سر رحمت خطاب له ے ترجمہ: وہ خدا جوانسان کی ہر ضرورت پوری کرتا ہے تو تو کسطرح جائز بجھتا ہے گروہ دین کے مار میں رہنمائی نہیں کرے گا.وہ تے گھوڑے گئے گر سے کو پیدا کیا، تاتیری پیٹھ کوسخت و جہ سے نجات دے.وہ تجھے آخر کے علم میں کیوں پریشان چوری گا تعجب ہے کہ عقلمند ہوتے ہوئے تیرا ی اعتقاد ہے.اے ہجر جب تجھے دو آنکھیں دی گئی ہیں تودیکھنے کے وقت ایک کیوں بند کر لیتا ہے.وہ ذات جس ہرقسم کی قدرت ظاہر ہوئی تو بولنے کی قوت کی طرح مخفی رہ سکتی تھی.وہ ہستی جس کی ہر پاک صفت ظاہر ہوگئی، اس کی یہ صفت کس طرح چھپی ریاستی تھی ، شخص و دوست کی یاد سے غافل ہوا تو دوست کا پیغام ہی اس کی غفلت کا علاج ہوتا ہے تو خدا کے پیغام وتعجب کرتا ہے.اے تک تیری عقل اورمجھے کسی ہے اسی مہربانی نے جب مٹی کے پتوں کو بھی عشق عطا کیا ہے وہ اپنے عاشقوں کو کس طرح فراموش کرتا.جب اس نے کمال مہربانی سے عشق کا در عطا کیا ہے تو پھر اس دردو کی دوا کیوں نہ عطاکرتا جب اپنے خود ہی اپنے عشق سے ہمارے دلوں کوکباب کیا ہے تو مال مہربانی سے میں مخاطب کیوں نہ کرتا.

Page 117

۹۳ ولی نیار امد بجز گفتار یا را به گرچه پیش دیده ها باشد نگار پس چو خود و لبر بود اندر حجاب بن کے توان کردن صبوری از مخطاب؟ لیک آن داند که او دلداده است به دو طریق عاشقی افتاده است ور ثمین ماه تا ۵۳) دار کوئے درد دل، نہ فطنت ماست : اگر بدار الشفائے وحی خداست نشود من زر ، تصویر ذکر : در همان ست، کوفته به نظر بست بر عقل منت الام : که از و تخت ، ہر تصور نام آن گمان برد و این نمود فراز آن نهان گفت و این کشود آن راز آل فرو ریخت، این بلف بسپرو به آن طمع داد و این بجا آورد ان کو شکست، هربت دلِ ما : ہست وحی خدائے بے ہمتا آن که مارا اگرخ نگار نمود : ہست الہام آن خدائے ودور ا ترجمہ : مجبور ہے گفتگو کرنے کے بغیر دل قرار نہیں پکڑتا.اگرچہ محبوب آنکھوں کے سامنے ہی ہو.بیس جب محبوب خود پردے میں ہو تو پھر کام کے بغیر یہ کس طرح اسکتا ہے لیکن ان باتوں کو وہی جانتا ہے، جو دل ہار چکا ہو اور اشتی کی رو پرلگ گیا ہو.کے ترجمہ : درد دل کی دو اسماری عقل نہیں ہے وہ تو وحی الہی کے شفا خانہ میں ہے.سونے کا تصور سونا نہیں بن جاتا.سونا وہی ہے، جو نظر میں بچ جائے عقل پر الہام کا یہ احسان ہے کہ اس کی وجہ سے ہر نا قصی تصور پختہ ہو گیا.اس نے تو محض خیال ظاہر کیا تھا.اور اس نے سامنے دیکھا دیا.اس نے پوشیدہ بات کی تھی.اس نے وہ بھید ہی کھول دیا.اس نے نیچے گرا دیا اور اس نے ہتھیلی پر رکھ دیا.اس نے صرف امید دلائی تھی اس نے پوری کر دی.وہ چیز جس نے ہمارے دل کے ہر ثبت کو توڑ دیا ہے، وہ خدائے لاثانی کی وحی ہے.وہ جس نے نہیں معشوق کا چہرہ دیکھایا وہ اس بہت ہی پیار کرنے والے خدا کا الہام ہے.

Page 118

انکر داد از یقین دل جائے : بیست گفت یہ ان دلارام وصل دلدار و استی از جامش به همه حاصل شده نیز الهامش وصل آن یار، اصل ہر کامیست و انکر میں صل عاقل آن خامیست دور شین ۱۲۶-۱۳۳۰) الغرض حضرت اقدس کے کلام میں ایسے ایسے موتی ہیں جن کو دیکھ کر آنکھوں میں چکا چوند آجاتی ہے اور دل یہی چاہتا ہے.کہ یہ بھی لے لو ، وہ بھی اٹھا لو.لیکن آخر کہاں تک بات دامان نگه تنگ و گل حسن تو بسیار : گلچیں بہار تو ز دامان گله دار ونه تے ٣- سووحی والہام کے متعلق صرف ایک اور اقتباس پیش کیا جاتا ہے ، سے کے شوی عاشیق ریخ یار سے : تا نه بر دل پخش کند کار سے ہنچنیں زاں لیے دو گفتا ہے : آن کند کا رہا کہ دیدارے م عشق دلبر خوش خو به خیز و انه گفتگو چو دیدن رو ؛ گفتگو را کشش بود بسیار : بے سخن کم اثر کند دیداری لاجرم ے ترجمہ اوہ جیسے دلی یقین کا جام پلایا.وہ اس دلا رام کی گفتار ہی تو ہے دلدار کا وصل اور اس کے جام کا نشہ سب اس کے الہام ہی سے حاصل ہوئے ہیں.ہر مقصد کی بنیاد اس دوست کا وصل ہے جو شخص اس حقیقت سے ناواقف ہے.وہ ابھی کچا ہے.نے ترتیمیہ اپنی نگاہ کادامن تنگ ہے اور تیرے جن کے پھول بہت زیادہ ہی اسے ترے ہار کے ہمیں اپنے ایسے کر رہا ہے.کے ترجمہ : توکسی معشوق کے رخ زیبا کا عاشق کیسے ہو سکتا ہے ، جب تک وہ ان دوں پر کچھ اثر نہ کر ے.اسی طرح ان لیوں کے دو بول وہی اثر رکھتے ہیں.جیسے محبوب کا، دیدار فینا خوش خو دلبر کا عشق گفتگو سے بھی بھڑکتا ہے جس طرح اس کا منہ دیکھنے سے کیلا میں بڑی کشش ہوتی ہے گفتگو کے بغیر دیدار کم ہی اثر کرتا ہے :

Page 119

۹۵ زیر هر که ذوق کلام یافته است را از این راه تمام یافته است ب گفتگوئے جانا نے : زندگی بخشدت بیک آنے روزخی کو عذاب پر چوں خم : اصل آن است لا یکلمہم دن نه گردد صفا نه خیز دیم به تا چو موسی نے شوہی تو کیم ہست داروئے دل کلام خدا کے شوی مست جز بیجام خدا تا نه او گفت خود : انا الموجود : عقدۂ ہستیش کے نکشور تا نه شد مشعله رغیب پدید : از شب تار جہل کسی نرسید تا نه خود را نمود خود دادار با کس ندانست کوئے ان الدار تانه خود از سخن یقین بخشید : کسی از زیندان ریب شک نرسید هر چه باشد ز زید و صدق و سداد بے یقیں سست باشدش بنیاد گر یقین نیست بر خدائے لگاں : از محالات قوتِ ایمان لے لے ترجمہ جس کسی کو کام کی لذت حاصل ہو گئی، اس نے اس راہ کا تمام بھید پالیا کسی عجوب کا چپکے چکے باقی کر ناپل بھرمیں تجھے زندگی بخش دیتا ہے، وہ دوزخ جو شراب کے مٹکے کی طرح عذاب سے بھرا ہوا ہے.اس کی حقیقت یہی ہے کہ وہ محبوب حقیقی ان سے کلام نہیں کرے گا.نہ تیرا دل صاف ہوگا.نہ ہی تیرا خوف دور ہو گا جب تک تو موسی کی طرح کلیم نہ بن جائے.دل کی دوا خدا کا کلام ہے ، تو خدا کے کلام کے جام کے بغیر کیسے مست ہو سکتا ہے ، جب تک اسی خود نہ کہا ک میں موجود ہوں کوئی بھی سکی مستی کا عقدہ نہ کھول سکا.جب تک غیب سے کوئی مشعل ظاہرنہ ہوئی کسی نے بھی جہالت کی اندھیری اسے چھٹکاران پایا جب تک دانے خود اپنے تئیں ظاہر نہیں کی کسی کو اس الدار کی لیک پتہ نہیں جتک اپنے خو د بات کر کے یقین دلایا.کوئی بھی شک شبہا سے قید خانہ سے آزاد نہ ہوسکا.ہر خلوص اور راستی ہیں سے جو کچھ بھی ہے یقین کے بغیر کی بنیاد گزر رہی ہے گی.اگر خدائے واحد پر یقین نہیں، توایمان کی پختگی امکانات میں ہے یا

Page 120

बष ܀ بے یقین دین و کیش بیهوده است : بے یقین بیچ دل نیا سوده است بے یقین و تجلیات یقین : کس نرسته زرام دیو لعین بے یقین از گنه نه درست کسے دانم احوال شیخ و شباب کیسے ای خدائے کہ ذات اوست نہاں دورتر از دو چشیم عالمیان بر وجودش یقین جهان آید؟ : گر نظر نیست گفتگو باید زیں سبب ہست حاجت گفتار : گر میتر نمے شود دیدار بے کلام د شهادت آیات بہ کے یقیں مے شود که بست کی ذات؟ دور ثمین (۳۲-۳۲۶) لہ ترجمہ : یقین کے بغیر دین اور مذہب بالکل فضول ہیں یقین کے بیر کئی دل بھی ملٹی نہیں ہوسکا.یقینا یقینی جلوں کے بغیر کوئی شخص شیطان لعین کے پھندے سے آزاد نہ ہو سکا.یقین کے بغیر کوئی شخص گناہ سے نہیں چھوٹ سکا میں بہت سے بوڑھوں اور جوانوں کے حالات سے واقف ہوں.وہ خدا جس کی ہستی پوشیدہ ہے.اور دنیا والوں کی آنکھوں سے بہت دور ہے.اس کے موجود ہونے پر کیسے یقین آئے.اگر دیدار نہیں تو گفتگو تو ہو.اسی لئے گفتار دالہام) کی ضرورت ہے.جبکہ دیدار میٹر نہ ہو کلام اور دوسری نشانیوں کی موجودگی کے بغیر کس طرح یقین آئے کہ وہ ہستی یعنی خدا ہے ؟

Page 121

94 دُنیا کی بے ثباتی دنیا کی بے ثباتی کا احساس انسان کی طرز فکر اور طرز عمل پر نہایت گہرا اثر ڈالتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے کلام میں اس کا بار بار ذکر کیا ہے اور بڑے موثر انداز میں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ نہ یہ گھر پائیدار ہے، اور نہ اس کی خوشیاں پائیدار ہیں اگر تم لازوال خوشیوں سے بہرہ ور ہونا چاہتے ہو ، تو اس لازوال ہستی سے تعلق استوار کرو جس کو فنا نہیں.چنانچہ آپ ایک نظم میں فرماتے ہیں اسے دل مده ال بد ادار ے کر حسنش دائم است به تا سریر دائمی یابی زخیر المحسنين دور می ده اسی طرح ایک طویل نظم میں ارشاد ہوتا ہے : لے بدنیائے دوں دل مبند، اسے جواں : تماشائے آل بگذرد ناگہاں بدنیا کیسے ، جاودانه نماند : به یک رنگ، وضع زمانه نماند بدست خود انه حالت دردناک سپردیم، بسیارکس را به خاک چو خود دفن کردیم ، خلقے کثیر : چرا یاد ناریم، روز اخیر زخاطر چرا یادشان افگنیم نه ما آنہیں جسم و روئیں کتنی ہے ے ترجمہ : اس مجوب کے سوا جس کا حسن ازوال ہے کسی کو دل م ہے اس خدا خیر امنین کی رات کو دائمی خوشی حاصل کرے.لہ ترجمہ اسے جوانی اس ذیل دنیا سے دل نہیگا.اس کا اچانک ختم ہوجاتا ہے.دنیا کوئی یہ نہیں یا نرما کی حالت ایک جیسی رہتی ہے ہم نے درد بھروں کے تم اپنے ہاتھوں ہی سے لوگوں کو ان کے سپرد کیا ہے پس جب ہم نے بہت کی و یا کاتای تیمی کی یاد میں بنانے سے کیاکیوں والی اولاد کے نے یواین کانسی کے ن

Page 122

ایک اور جگہ فرمایا : ايها الجامحون في الشهواة : اكثر واذكر هادم اللذاة ܀ رفتنی است این مقام فنا دل چه بندی درین دو روزه سرا؟ عمر اول به بیں کجا رفت است؟ رفت و بنگر ز تو چه ها رفت است؟ پارۀ عمر رفت در خوردی : پاره را بر کشی بردی! تازه رفت و بماند پس خورده به دشمنان شاد و یار آزرده صد چو تو مجھے بخورد زمین : سر ہنوزت بر آسمان از کیس بشنو از وضع عالم گذران : چون کند از زبان حال بیان کیں جہاں با کسے وفا نہ کند و نه کند صبر تا جدا نه کند گر بود گوش بشنوی صداه : از دل مرده درون تباه که چرا رو بهت فتم ز حندا؟ به دل نهادم در آنچه گشت جدا ترجمہ: اے نفسانی خواہشات کی طرف کہنے والو ! ان لذتوں کو برباد کر نیوالی موت کو بہت یاد کیا کرو.یہ نانی دنیا فنا کا مقام ہے، توتو اس دو دن قیام کر نیوالی سرائے سے کیا دل لگاتا ہے، اپنی پہلی عرکو دیکھ وہ کہاں گئی ؟ وہ تو گئی مگر دیکھ داس کے جانے کے ساتھ تجھ سے کیا کچھ جاتا رہا.عمرکا ایک حصہ و بچپن کے کھیل کود میں گزر گیا.ایک حصہ تو نے سرکشی می گنوا دیا تازہ جوانی کا بہترین دوں توختم ہوچکا ہے اب صرف بڑھاپے کا باسی چاکھچا حصہ ہوگیاہے.ہمیں خوش ہیں اوروقت آزردہ ہے تیرے جیسے سینکڑوں سکروگوں کو یہ زمین کاگئی اور کینہ کی وجہ سے ابھی تک تیرا سر آسمان پرہے.اس فانی دنیا کی چال پیڑن دھر وہ کس طرح زبان حال سے پکا ر ہی ہے کہیہ جہاں کسی سے وفا نہیں کرتا اور اس چکیں ہیں پڑتا جب تک کسی کی اپنے سے الگ نہ کرنے.اگر تیرے کان میں تو تجھے اس مردہ دل تباہ حال کی سینکڑوں میں سنائی دیں گی جس کا دل رخدا سے برگشتہ ہو کی و جہ تباہ ہو چکا ہے اور وہ کہتا ہے کہ ہائے افسوس میں نے کیوں خدا سے منہ موڑا.اور اس چیز سے دل لگایا جو مجھ سے جدا ہوگئی ہے

Page 123

۹۹ قدر این ره بپرس اند اموات ہے اے بسا گو رہا پر از حسرات جائے آن است کز چنیں جائے : از توزیع بروں نہیں پائے هر چه اندازوت زیار جدا : باش زمان جمله کارو بار جب را دور نمین ) عیش دنیا ئے دوں دے چندست : آخرش کار با خدا وندست اس قسم کا پہلا بیشتر حصہ اسی مضمون پر مشتمل ہے.MA-AY در ثمین منته) سلہ ترجمہ : اس (اللہ تعالیٰ کے راستہ کی قدر مردوں سے پوچھو.کتنی ہی قبریں ہیں جو سرتوں سے بھری ہوئی ہیں.یہ مقام ایسا خطرناک ہے کہ (مناسب یہی ہے کہ اس مقام سے پر ہیزگاری کے ساتھ گذر جائے جو کا ردوبارہ تجھے محبوب سے جدا کرتا ہے ، تو اس کاروبار سے خود ہی جدا ہو جا نہ کے ترجمہ : اس ذلیل دنیا کا عیش چند روزہ ہے ، بالا خرحت اتعالیٰ سے ہی کام پڑتا ہے ؟

Page 124

حضرت مسیح موعود کی بعثت کے وقت مسلمانوں کی زبوں حالی مخیر صادق حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے واشگاف الفاظ میں یہ خبر دی تھی کہ مسلمانوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ ہدایت کا سورج دھندلا جائے گا، انت مختلف فرقوں میں منقسم ہو جائے گی اور اسلام کے نام لیوا طرح طرح کے فسق و فجور میں مبتلا ہو جائیں گے.اس وقت للہ تعالی کی طرفسے ایک سیخ ظاہر ہو گا، جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا کام اپنے ہاتھ میں لے گا.اور اسے پایہ کمیل تک پہنچائے گا.چنانچہ حضرت صلی الہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور اس وقت ہوا، جب مسلمانوں کی زبوں حالی انتہا کو پہنچ چکی تھی.آپ ان کی حالت زار دیکھ کر بیتیاب ہو گئے اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے جو کچھ بھی بن آیا آپ نے کیا.اس وقت مسلمانوں کی بے سروسامانی کا کیا عالم تھا.اس کا کسی قدر اندازہ حضرت اقدس کے ان اشعار سے ہو سکتا ہے جو وقتاً فوقتاً آپ کے دردمند دل سے نکلے اور نوک قلم نے صفحہ قرطاس پر ثبت کر دیئے.دو ایک اقتباسات ذیل میں ملاحظہ فرمائیے : مے سرد اگر خوی بارد ، دیدہ ہر اہل دیں ؟ ہر پریشاں حائلی اسلام و قحط المسلمین دین حق را گردش آمده صعبناک روہنگیں : سخت شوئے اوفتاد اندر جان از گرویس آنکه نفس اوست از سر خیرو خوبی بے نصیب : مے ترا شد عیب ها، در ذات خیرالمرسلین ترجمہ اسلام کی پریشان حال مسلمانوں کے مال پراگر بر دنیا کی انکو خون کے نو بہائے تو اسی لئے وا ہے.دین حق کو ایک مشکل اور خوفناک مصیبت نے گھیر رکھا ہے اور دنیا می کفر اور دشمنی کی وجہ سے سخت شور برپا ہے ستم یہ ہے کہ وہ شخص جن کا نفس ہرقسم کی خیرو خوبی سے محروم ہے، وہ بھی خیر الرسل کی ذات ستودہ صفات پر بہتان باندھ رہا ہے ؟

Page 125

|+| آنکه در زندان نایا کی ست محبوش امیر : بست در شان امیر پاکبازان نکته چین تیر بر معصوم سے بارد جیتے بد گهر به آسمان را می سزد گرسنگ بارد بر زمین پیش چشمان شما، اسلام در خاک اوفتاد : چیست مزے ، پیش حق سے مجمع المتقین ہرطرف کفرست جوشاں اچھا افواج یزید به دین حق بیمار و بکس ہمچو زین العابدین مردم ذی مقدرت مشغول عشرت ہائے خویش خترم و خندان نشسته، بابتان نازنین عالمان را ز و شب با هم فساد از جوش نفس : زاهدان نمافل سراسر، از ضرورت رائے دین ر کس از به نفس دون خود طرفی گرفت به طرف دی خالی شد و بر شمن جت از کیکی اے مسلماں چہ آثار سلمانی میں است؟ وی چنین ابتر شما در جیفیه دنیا رمیان ؟ (در تمین ۱۵۳-۱۵۵) ترجمہ جو خو ناپاکی کے دائرہیں قیداور مجوس ہے، وہ بھی پاکیازوں کے عام کی شان میں نکتہ چینی کرتا ہے.ہائے افسوس خبیث اور بدفطرت لوگ بھی اس معصوم پر تیر برسا رہے ہیں، آسمان کیلئے رو ہوگا کہ زین پر پتھر برائے.تمہاری آنکھوں کے سامنے اسلام خاک میں مل چکا ہے ، اسے دولت مندوں کی جماعت خدا کے حضور کیا عذر پیش کرو گے.یزید کی فوجوں کی طرح کفر ہر طرف اینٹھ رہا ہے اور دین حق امام زین العابدین کی طرح بیمار و بے یارو مدار پر ہے انا استلا لوگ اپنی میشی میتر میں مشغول ہیں اور نازنینوں کے ساتھ بیٹھے زنگ کیہاں منا رہے ہیں میں نفسانی جوش کی وجہ سے آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں.اور زاہد دین کی ضرورتوں سے بالکل غافل ہیں.ہر شخص نے اپنے ذلیل نفس کی خاطر کسی نہ کسی طرفت رخ کیا ہوا ہے.اور دین کی طرف کوئی متوجہ نہیں.جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر دشمن اپنی کمین گاہ سے نکل کر اس پر حملہ آور ہو رہا ہے.اسے مسلمانو ! کیا مسلمانی کی یہی علامت ہے کہ دین یوں تباہ حال ہو اور تم مردار دنیا کے ساتھ چھٹے رہو ؟

Page 126

-F یکی شد دین احمد پیچ خویش و یار نیست به ہر کسے در کار خود، با دین احمد کار نیست ہر طرف سیل ضلالت صد هزاران تن ربود : حیف بر چشمے کر کنوں نیز ہم بہشیار نیست اے خداوندان نعمت! این چنین خصلت پراست به بیخود از خوابیده یا خود بخت دیں بیدار نیست اسے مسلمانانی خدارا یک نظر بر حال دیں! : آنچہ نے بینم بلایا ، حاجیت اظہار نیست آتش افتاد است در نقش بخیزید کے کیلای : دیدنش از دور، کار مردم دیندار نیست هر زمان از بهر دین، در خون دل من سے تیکر : محرم این درد ما، جز عالم اسرار نیست دور مین ) بشنوید اے طالبان از غیب کند این ندا به مصلح باید که در هر جامقامی نداده انده دور ثمین ص۱۸۹) کامل لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اسے ضرور اس که در دین چنین امام آید : پوخلق جابل و بے دین و مردہ سا بات ہے در ثمین ص۲۶۲) رورم ترجمہ: اے این ایس سیکس ہوچکا ہے کہ اسکا کوئی ساتیار ادا نہیں یہ شہر کو اپنے کام سے کام ہے اورا نام کی نذر پڑا نہیں.ہرطرف سے گمراہی کا سیلاب کو افراد کواپنے ساتھ بہا لے گیا.اس آنکھ پر افوس سے جواب بھی نہیں بھی اسے دولتمند و اس قدر غفلت کیوں ہے تم ہی نیند کے مانتے ہو یا دین کا نصیبہ ہی سویا ہوا ہے.اسے مسلمانو ! خدا کیلئے دین کی حالت پر ایک نظر ڈالو جو بلائیں میں دکھ رہا ہوں اس سے اظہار کی ضروت نہیں دی کے خرمن میں آگ لگ چکی ہے.اجوائن ہو اٹھو اور کھڑے ہو کر تماشا دیکھنا دیندار لوگو کا کام نہیں دینکی خاطر میرادل سرقت خون میں تڑپتا رہتا ہے.میرے اس دور کا محرم اس دا کے سواکوئی نہیں جواں کے سر سے واقف ہے.سے تر جمہ : اسے حق کے طالبو اسنواب تو غیب سے یہ آواز آرہی ہے کہ ہر جگہ فتنہ و فساد برپا ہے لہذا ضرور کوئی اصلاح کر نیوالا بھی ہونا چاہیئے.ترجمه ضرور کر دی میں ایسا نام آیا کرے جب خلقت جاہل ہے دین اور مردوں کی طرح ہو جائے.یہاں ضرور کے معنی حاجت نہیں بلکہ اس کی دوستی معنی لازمی اور کایدی یہاں چسپاں ہوتے ہیں.امیر خسرو کہتے ہیں اسے غلام اویم و هرکس که بیند آن صورت ضرورت است که همچو منش غلام شود ایسے شخص اگر وہ ہوں جوکوئی بھی کی موت دیکھے وہ ان امیری لی اس کا گریڈ ہوجائیگا دیکھے یہاں وقت کے معنی اتنا نہیں ہوسکتے بلکہ ضروری اور لازمی ہیں.

Page 127

دعوائے مسیحیت حضرت اقدس ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے، جو دنیا وی لحاظ سے رئیسانہ شان رکھتا تھا لیکن عام روسا کی اولاد کی طرح آپ دنیا کی لذات میں نہ پڑے.بلکہ تارک الدنیا ہو کر محبوب حقیقی کے آستانہ پر بیٹھے.آپ کے والد محترم نے ہزار جتن کئے کہ آپ نیا داری کے کاموں کی طرف متوجہ ہوں.لیکن آپ نے دنیا کو پر کشتہ کے برابر بھی وقعت نہ دی اور ہر وقت یاد الہی اور ذکر الہی میں محمود ہے.آپ کی یہ کیفیت تھی کہ گویا آپ اپنے ریت پر عاشق ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہر لحظہ اسی کی یاد میں گنہ رہے.اسلام کی سربلندی کے لئے آپ کی تڑپ اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ ، جو آپ کے دل میں شعلہ زن تھی، اسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے آپ کی دستگیری فرمائی.اور دنیا کی ہدایت کے لئے آپ کو منتخب فرما کہ مسیحیت کے مقام پر کھڑا کر دیا.اور اپنے ساتھ کثرت مکالمہ و مخاطبہ کا شرف بخشا.حضرت اقدس نے اپنی ان قلبی کیفیات کا ذکر جن شیریں اور والہا نہ اشعار میں فرمایا ہے است ان کے کچھ اقتباسات نیچے درج ہیں :.عشق گور دو نماید از دیدار به نیز گرگه بیخیزد از گفتار بالخصوص آن سخن که انه دلدار : خاصیت دارد، اندرین اسرار گشته داد ، نه یک ، نه د و نه هزار به این قبیلان اور بروی بی شمار ترجمہ اوہ عشق جو دیدار سے پیدا ہوتا ہے اور کبھی کبھی گفتار سے بھی پیدا ہو جاتا ہے خاص طورپر مجبور کی ان باتوں سے جن میں داس عشق کے اسرار کی خاصیت ہوتی ہے اس گریدر ایک دو یا نہ انہیں بلکہ کس فریفتہ بیمار ہیں :

Page 128

۱۰۴ سہرزمانے قبیل تازه بخواست به نمازہ روئے او دم شهداست این سعادت ، چوبود قسمت ما رفته رفته درسید نوبت ما کو بلائے است سینیر هر آنم : صد حین است، در گریبانم آدمم ، نیز احمد مختار : در تبرم جامہ ہمہ ابرار کا رہا ہے کہ کرد ، با من یار برتر آن دفتر است از اظهار آنچه داد است، هر نبی را جام داد آن جام را ، مرا بتمام دِلِ مَن بُرد و الفت خود داد و خود مراشد، بوی خود استاد وخی اورا، عجب اثر دیدم :: رُوئے آل مہر، زمان تم دیدم دیدم از خلق ، رنج و مشروبات : وای چه چیز است، پیش این لذات دیدم از ہجر خلق ، جلوه یار به کار دیگر، برآمد از یک کارت ے ترجمہ : وہ ہر زمانہ میں ایک نیا شہید چاہتا ہے.اس کے چہرہ کا غازہ شہیدوں کا خون ہی ہے.یہ عادت بھی چونکہ ہماری قسمت میں تھی اس لئے ہوتے ہوتے ہماری باری بھی آگئی ہیں تو ہر کہ ایک کربلا میں ہوں، اور سیکٹروں میں درجیسے بزرگوں کے مصائب، میرے دل میں ہیں.میں آدم بھی ہوں اوراحمد مختار بھی.میں تمام نیکو کاروں کا لباس پہنے ہوئے ہوں وہ حسن سلوک جو محبوب نے میرے ساتھ روا رکھتے ہیں.وہ دفتر بیان سے بہت بالا ہے (معرفت) کا جو جام اُس نے ہر نبی کو دیا.وہی لبالب جام اس نے مجھے بھی دیا.وہ میرا دل لے گیا اور اپنی الفت مجھے دے دی.وہ اپنی وحی کے ذریعہ خود ہی میرا استاد بن گیا.میں نے اس کی وحی کی عجیب تاثیر دیکھی یعنی اس چاند کے طفیل میں نے اس سورج کا منہ دیکھ لیا.میں نے مخلوق سے بہت دیکھ اور ناپسندیدہ چیزیں دیکھیں.لیکن وہ ان لذتوں کے آگے کیا چیز ہں.میں نے خلقت سے الگ ہو کر محب کا جلوہ دیکھا.ایک کام سے ایک اور کام نکل آیا :

Page 129

۱۰۵ آنچه من بشنوم ، زوجي هندا : بخدا ، پاک دانمش زخطا همچو تر آن منزه اش دائم : از خطاها ، ہمیں است ایمانم من خدا را ، بدو شناخته ام و دل بدین آتشش گداخته ام بخدا ، هست این کلام مجید : از دیان خدائے پاک و وحید آنچه بر من عیاں شد از دادار به آفتا بے ست باد و صد انوالہ این خدا نیست ربّ اربائیم بکه رو آرم، الهه از و تابم انبیاء گرچه بوده اند کیسے : من بعرفاں نہ کمترم نے کیسے وارث مصطفه شدم به یقین شده رنگیں بزرنگ یارحسین آن یقینے کہ بُود عیسی را بر کلامی، که شد برو القا به واں یقین کلیم بر تو رات والی یقین ہائے سید السادات کم نیم ، زاں ہمہ بروئے یقیں : ہر کہ گوید دروغ است معین لے ترجمہ، خدا کی وحی سے جوکچھ میں سنتاہوں.خدا کی قسم میں سے غلطی سے پاک سمجھتا ہوں.میں اسے قرآن کی طرح غلطیوں سے پاک جانتا ہوں.یہی میرا ایمان ہے.میں نے اسی کے ذریعہ خدا کو پہچانا ہے اور اسی آاگ سے میں نے اپنے دل کو گداز کیا ہے.خدا کی قسم یہ بزرگ کلام پاک اور کیا خدا کے اپنے منہ کا کلام ہے.مجھے خدا کی طرف سے جو کچھ ظاہر ہوا ہے وہ ایک ایسا سورج ہے جس کی ساتھ سینکڑوں انوار ہیں.یہ ہے میرا خدا جو پرورش کرنے والوں کی پرورش کرنے والا ہے.اگر میں اسی روگردانی کروں تو پھر کس طرف رخ کروں.انبیاء و اگرچہ بہت ہوئے میں مر معرفت الہی میں میں بھی کسی سے کم نہیں ہوں میں یقیناً مصطفے کا وارث بن گیا ہوں اور اس میں محبوب کے رنگ میں رنگا گیا ہوں.وہ یقین جو میٹی کو اس کلام پر تھا ، جواس پر القا ہوا تھا.اور وہ یقین جو موسٹی کو تو رات پہ تھا وہ بے انتہا یقین جو سرداروں کے سردار رنبی اکرم) کو تھا، میں یقین کے معاملہ میں ان میں سے کسی سے بھی کم نہیں ہوں جو کوئی جھوٹ کہئے لعنتی ہے

Page 130

1.4 لیک آیگینه ام زریت غنی ؛ از پئے صورت میر مدنی ہر چہ آن یار ، بر دل من بیخت : نه شیاطین بدو نہ نفس آمیخت نہ خالص آمد کلام آن دادار : زمین سبب شد دلم پیرانہ انوار است آن وحی تیره سوختنی : که نبود است، بر یقین مبنی لیکن این وحی بالیقیں زند است : همه کارم ازاں یقین شده راست رور ثمین ص۳۳۳-۳۳۶).اس زمانہ میں بادی کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ، سے گفت پیغمبر ستوده صفات : از خُدائے علیم مخفیات برسیر هر صدی، بیرون آید : آنکه این کار را ہے شاید تا شو د پاک، ملت از بدعات : تا بیابند خلق ، زو برکات الغرض، ذاتِ اولیاء کرام : هست مخصوص مِلتِ اسلام این مگو کی گزاف لغو و خطاست : تو طلب کن ثبوت آن بر ماست ے ترجمہ ا لیکن نہیں اس بے نیاز خدا کی طرف سے مدنی چاند کا سراپاد دنیا کو دکھانے کے لئے آئینہ کی مانند ہوں.جو کچھ اس مجبور نے میرے دل پر القا کیا ہے، اس میں نہ شیطان ہی ملاوٹ کر سکے اور نہ ہی نفس.اس محبوب کے کلام خالص نازل ہوا.اسی لئے میرا دل انوار سے بھر گیا.وہ تاریک می جلا دینے کے لائق ہے جس کی بنیا د یقین پر نہ ہو.لیکن یہ وحی یقینا خدا کی طرف سے ہے.میرا سب کام اسی یقین کی وجہ سے سنور گیا ہے.ے ترجمہ: اس پسندیدہ صفتوں والے پیغمبر نے چھپی ہوئی باتوں کا علم رکھنے والے خدا سے علم کو بتایا تھاکہ ہر صدی کے سر یہ ایک شخص ظاہر ہوا کہ سے گا، جو اس کام کے لائق ہو.تا یہ مذہب بدعتوں سے پاک ہو جائے.اور تا لوگ اس سے برکتیں حاصل کریں.غرض اولیائے کرام کا وجود مذہب اسلام سے مخصوص ہے.یہ مت کہو کہ یہ بات بے ہودہ فضول اور غلط ہے ، تو مطالبہ کرے تو اس کا ثبوت ہمارے ذمہ ہے :

Page 131

1.6 کے یکے ذرہ ذلیل و خوار و چه شود عاجز از تو آن دادار همه این راست است لافه نیست به امتحان کن ، گر اعترافی نیست وعدہ کیا ، یہ طالبیاں تک ہم ہے کا ذبم اگر ، اردو نشاں تک ہم من خود از بهرای نشان زادم دیگر از هر نغمے دل آزادم این سعادت پوبود، قسمت ما به رفته رفته رسید، نوبت نان است し دور نمین ۸۵) ۳ - انسان کامل کی علامات اور صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا اے نہیں حادثہ بنیاد دیں زجا ببرد اگر زقمت ما ظل شان جدا باشد ازمین بود ، که چه سال صدی تمام شود ؛ برآید آنکه بدین ، نائب خدا باشد رسید مرده زعیم ، که من یہاں مردم به که او مجدد این دین و رہنما باشد بوائے مائینہ ہر سعید خوابک بود به ندائے فتح نمایاں، بنام ما باشد ترجمہ : اسے و شخص جو ایک ذلیل و خوار زرہ کی مانند ہے.تو اس عادل خدا کو کیسے بے بس بنا سکتا ہے ؟ یہ سب سچے ہے، کوئی مبالغہ نہیں.اگر تونہ مانے تو ہمیں آزما لے میں تحقیق کرنے والوں سے غلط وعدہ نہیں کیا کرتا.اگر اس کا پتہ نہ بتاؤں تو جھوٹا ہوں.میں خود اسی نشان کو پورا کرنے کے لئے دنیا میں آیا ہوں اور دوسرے تمام فکروں سے آزاد ہوں.چونکہ یہ سعادت ہماری قسمت میں تھی اسلئے ہوتے ہوتے ہماری باری بھی آگئی.ہ تر جمہ : حادثات کی نمارت گری دین کی بنیاد اکھاڑ ڈالے اگر ان کا سایہ ہماری ملت سے دور ہو جائے.اسی وجہ سے جب صدی کے سال ختم ہو جائیں تو ایسا شخص ظاہر ہوتا ہے تو دین میں خدا کا نائب ہوتا ہے مجھے غیب سے یہ خوشخبری ملی ہے کہ میں وہی شخص ہوں جو اس دین کا مجدد اور رہنما ہے.ہمارا جھنڈا ہر نیک بخت انسان کی بنیاہ ہوگا.اور کھلی فتح کا نعرہ ہمارے نام پر ہوگا.

Page 132

عجب مدار، اگر خلق سوئے ما بد وند ہے کہ ہر کجا کہ غنی سے بود ، گدا باشد گئے کہ روئے خزاں را کے نخوابد دید ببارغ ماست، اگر قسمت رسا باشد منم مسیح ، ببانگ بلند می گوئیم : منم خلیفہ شاہے کہ برسما باشد ۴.کچھ آگے چل کر فرمایا : ہے در ثمین ص۲۶) کیسے کہ سایہ بال ہماش ، سود نداد : با یک کش که دو روز سے بظل ما باشد مسلم است مرا از خدا حکومت عام یه که من مسیح خدایم که بر سما باشد بدین خطاب، مرا ہرگز التفات نبود : چه جرم من چو چنین محکم از خدا باشد تاج و تخت زمین آرزو نے دارم به نه شوق افسر شاہی بدل مرا باشد سرالیس است که ملک سما بدست آید که فلک ملک زمین را بقا کجا باشد؟ خواتم لینک کرده اند، روز نخست با گنوں نظر بمتابع زمین چرا باشد مرا که جنت علیاست مسکن و ماوا : چرا بمز بکر این نشیب جا باشد؟ ے ترجمہ و عجیب مت کر اگر لوگ دوڑ کر ہماری طرف آئیں کیونکہ جہاں ہیں کوئی دولتمند ہو گا گرو ہی جمع ہوتے ہیں جو پھول کبھی خزاں کا منہ نہیں رکھے گا وہ ہمارے باغ میں ہے.اگرتیری قسمت اور ہوئیں بلندآواز سے کہتا ہوں کہیں بنی ہی ہوں اور میں ہی اس بادشاہ کا خلیفہ ہوں جو آسمان پر ہے.سنہ ترجمہ : وہ شخص جسے ہما کے پر کے سایہ نے بھی کوئی فائدہ نہ پہنچایا ہو اسے چاہیئے کہ چند ہارے زیر سایہ ہے.مجھے خدائی فر سے عمومی حکومت پر ہوئی کیو کریں اس خدا ایسی ہوں جو آسان پر ہے مجھے اس خط کا ہرگز کوئی شوق نہیں تیرا کیا قصو ہے جبکہ خدا کی طرفسے ایسا ہی حکم ہے مجھے زمینی تاج وتخت کی کوئی خواہش نہیں.نہ میر ول می کسی شاہی تاج کا شوق ہے.میں لئے یہی کافی ہے کہ آسمانی بادشاہت ہاتھ آجائے کونکہ زمینی بادشاہ اور جائیدا کو بتا کہاں ہے مجھے راول سے ا لایاگیا ہے ایران کیوں ہو یا مسکن اوجانا جاتا ہے اور انسانی جنگ کی کور میں کیوں ہو؟

Page 133

۱۰۹ اگر جہاں ہمہ تحقیر من کند ، چہ مجھے : که با من است قدیرے کہ ذوالعلی باشد تنم مسیح زمان و ختم کلیم هندا به مسلم محسند و احمد اکر می باشد ر در ثمین ۲-۲۷) ۵.ہمچنیں عشقم بروئے مصطفے : دل پر وچوں مُرغ ، سُوئے مصطفے تا مرا دادند از حسنش خبر : شد دلم از عشق او زیر و زبر من کہ مے بینم رخ آی دلبر ے 4 جاں فشانم، گردید دل دیگرے ساقی من ہست آں جہاں پروری ؛ ہر زمان هستم کند از ساغر محور دے او شدست ، ایں کروٹے من : بُوئے اوآید ، ز بام و کوٹے من بسکر من در عشق او هستم نہاں من بمانم ، من ہمانم ، من ہماں جان من، از جان او يا بد غذا : اگر گھر بیانم عیاں شُد آن وکا احمد اندر جان احمد شد پدید : اسم من گردید، آن اسم وحید ن دور مین ۲۳ مه ترجمہ: اگر سارا جہان بھی مجھے حقارت دیکھے توکیا کر کیونکہ میرےساتھ وہ قادر خدا ہے جوسب بندیوں کا مالک ہے.میں ہی زمانے کا بیج ہوں، میں ہی خدا کا کلیم موسی ہوں میں ہی محمد ہوں، احمد ہوں جو خدا کا ہر گزیدہ ہے.کے ترجمہ : ایسا ہی عشق مجھے محمد مصطفے کی ذات ہے میرادل چندہ کی طرح مصطفے کی طرف اڑا جاتا ہے جیسے مجھے اس کے حسن آگاہ کیاگیا ہے مرد اسکی عشق میں بیقرار ہے ہیں جسے اس دور کا چہرہ نظرآرہاہے جان قربان کر دونگا داش شخص کے مقابلہ میں جو اسے صرف دل سے میراساتی وہی شرح کی پرورش کو نیوالا ثبوت ہے و ہر وقت اپنی محبت کی شراکہ) ایک ساغر سے مجھے سرشار رکھتا ہے.میرا یہ چہرہ اس کے چہرہ میں محو ہو گیا ہے میرے مکان اور گلی کوچہ سے اسی کی خوشبو آرہی ہے.میں اس کے عشق میں اس طرح لپیٹا ہوا ہوں، کہ میں وہی ہوں ہیں وہی ہوں ، میں وہی.میری روح اسی کی روح سے غذا حاصل کرتی ہے.اور میرے گریبان سے وہی سورج (جیسا محبوب ) جھانک رہا ہے.احمد، احمد کی جان کے اندر ظاہر ہوگیا.میرا نام اسی لاثانی انسان کا نام بن گیا :

Page 134

11.دعوائے مسیحیت کی صداقت کے متعلق چند دلائل اس بارہ میں وہ اقتباسات بھی دیکھئے جو زیر عنوان " دعوائے مسیحیت "پیش کئے گئے ہیں.مزید دیکھیے :- 1 گرچہ ہر کسی زرہ لاف بیانے دارد و صادق آنست که از صدق نشانے داری ہے -1 تے ۱۵۳ دور زمین ) -۲- آسمان و مهر و خورشید شهادت دادند : تا تو تکذیب زنادانی و غفلت نکنی د در ثمین (۲۵) -F -۲ جائیکه از مسیح و نزولش سخن رود : گویم سخن ، اگر چه ندارند با ورم کا نذرونم دمید خداوند کردگار به کال برگزیده را ، زیره صدق منظرم مو خودم و تخلیه ماثور آمدم : حیف است اگر بدیده نه بینند منظرم زنگم چو گندم است، و هو فرق بین است + زر انسان که آمدست، در اخبار سرورم : اگر چلاف و گزاف کے طور پر شخص کچھ دعوی کر سکتا ہے لیکن سچا وہی ہے جس کی اپنی سچائی کی کوئی نشانی بھی ہو.سے : آسمان اور چاند سورج نے بھی گواہی دیدی ہے آتا تو نادانی اور غفلت سے مجھے نہ جھٹلائے.ہے : جس جگہ میں اور اسکے اترنے کا ذکر ہوا میں بھی یہ کہے دیتاہوں.اگرچہ لوگ میرا یقین کریں خانے کارساز نے میرے دل میں ڈالا ہے کہ میں اس برگزید ریح) کا مظہر ہوں، میں وعدہ کے مطابق آیا ہوں اورمیرا یہ حدیثوں کے مطابق ہے.افسوس ہوگا اگر آنکھیں کھل کر میں اور نہ دیکھیں میرا رنگ گندی ہے اور بلوں میں مایاں فرق ہے یا کہ میرے آقا کی حدیث میں آیا ہے.

Page 135

این منتقد تم نہ جائے شکوک است و التباس به سید جدا کند ، زِ مسیحائے احمرم از کلیه مناره شرقی، عجب مدار : چون خود ز مشرق است تجلی نیترم راینک منم که حسب بشارات آمدم به عینه کجاست، تا بند پا به منبرم آن را که حق به جنت خدش مقام داد به چولی بر خلاف و عده برون آرد، از ایردم چون کافر، از رستم ، پرستند مسیح را به غیوری هندا ، بهترش کرد، همسرم کرو ایک نظر بجانب فرقان ، زغور کن تا بر تو منکشف شود، این را از مهم تم يا رب، کجاست محرم را نه مکاشفات : تا نور باطنش، خبر آرد ز میخرم آن قبله رو نمود بیگیتی، بیچاره دهم : بعد از هزار و شه کریت انگلند در تقوم جوشید آنچنان گریم منبع فیوض : کامد، ندائے یار، زہر کوئے و محرم کے معترض ، بخوف الہی صبور باش : تا خود خدا، عیاں گند، آن نور اخترم آخر نخوانده ، که گمان بیجو کنید : چوک سے روی بروی از حدودش برادر رهم ۱۴۰۰ دیکھو انجیل متی: شه : انت قُلْتَ لِلنَّاسِ..(المائدة : سه : به صد سے ترمیمہ میسر آنے میں شک شبہ کی کوئی گنجائش نہیں.آقا خود مجھے سرخ رنگ والے مسیح سے بیدا بتا رہا ہے مشرقی مینا والی بات سے بھی تعجب کرو کیونکہ میرے سورج کا طلوع بھی مشرق سے ہی ہوا ہے.یہ میں ہی ہوں جو بشارتوں کے مطابق آیا ہوں عیسی کہاں جو میرے منبر پر قدم دھر سکے ؟ وہ جسے خدا نے جنت الخلد مں جگہ دیدی وہ اپنے وعدہ کے خلاف اسے اس جنت سے کیسے باہر کالے گا.چونکہ کا فلم کی راہ سے یے کی پرستش کر رہے ہیں خدا کی غیوری نےان کے علی لاری مجھے اسکا ہم بنادیا.باقرآن پر ویسے ایک نظر ڈال تا میر پوشیدہ راز تجھ پرکھل جائے ہے میرے رب مکاشفات کا راز جانے والا کہاں ہے ا سکا بانی نور سے متعلق پیش گوئی کرنیوان انحضرت دریافت کر کے بتائے کو چودھویں صدی میں دنیا کو اپنا چہرہ دکھایا ابی عود ہسی نے حرم سے بہت نکالے جانے کے یہ دو سو سال بعد اس فیونی کے ریشم کی مہربانی اس قدر جوش میں آئی کہ میرے گلی کوچہ سے اس محبوب کی آواز آنے لگی ہے معترض خدا کے خوف سے ذرا صبر کرتا لله معانی و میر ستاسے کی روشنی ظاہر کرے، کیا آخر تو نے یہ نہی پڑھا نیک نیتی سے کام ایک روپ یا بھائی یا کیک و کوکیوں توڑتا ہے

Page 136

١١٣ برس پراکنشی تو چنین خنجر زبان؟ و از خود نیم نیز اور دوا مجید اکبراله نه ذوالمجد دور ثمین ص ۱۷۱) جہاں تک قرآن و حدیث کا تعلق ہے.مذکورہ بالا اقتباس میں صداقت مسیح موعود کے متعلق قریبا تمام دلائی آگئے.لیکن ان کے علاوہ بھی اور کئی پہلو ہیں.اگر چہ وہ بھی قرآن وحدیث سے ہی اخذ کئے گئے ہیں.ان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس فرماتے ہیں اسے ترکن، از آشک خویش، بستر خویش و بازکب را گشائی ، بادل ریش کا سے خُدائے علیم راز نہاں : کے بعلمت رسد دلِ اِنساں بچوں کلائنک ندیده اند آن نور + کال در آدم ، تو داشتی مستور ما چه چیزم و علیهم ماست چه چیز ؛ ماست چه چیز : بے تو درصد خطر، قیاس در تمیز ما خطا کار و ، کاره ماست خطا ب شد تبه کار ما ، زعجلت ها گیر نی تست، این کر سوئے تو خواند ؛ و ز تو بہتر، گدام کسی دانک گنه ما به بخش و چشم کشا : تا نمیریم، از خلاف و را با ے ترجمہ اور مجھ پر اس طرح زبان کی چھری کیوں چلاتا ہے میں خود نہیں آیا کہ فلموں والے خدائے اگر نے مجھے تو بھیجا ہے.سے ترجمہ اپنے آنسوؤں سے اپنا تکیہ بھگوئے اور پر درد بھرے دل سے یوں عرض کر کہ اسے پوشیدہ بھیڈی کے جانے والے خُدا تیرے علم تک انسان کا دل (خیال کہاں پہنچ سکتا ہے، جب فرشتوں کوبھی وہ نور نظرنہ آیا جو ونے اوم میں چھپا رکھا تھا.تو ہم کیا چیز ہیں اور ہمارا علم کیا چیز ، تیرے بغیر قیاس اور تمیز کے لئے سینکڑوں خطر سے درپیش ہیں.ہم غلط کار ہیں اور ہمارے کام بھی درست نہیں، ہماری جلد بازی کی وجہ سے ہی ہمائے سے سب کام خراب ہو گئے.اگر شخص جو میں تیری طرف بلاتا ہے، تیری ہی طرف سے بھیجا گیا ہے.اور تجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے.تو ہمارے گناہ بخش اور ہماری آنکھیں کھول ، تاہم مخالفت اور انکار کی وجہ سے تباہ نہ ہوجائیں.

Page 137

ورنہ این ابتلا، نیما بردار به رکه رحیمی و متادر و غفار اہلِ اخلاص، چون كُنند دُعا به از سر صدق و ابتهال و بکا شور افتد ازان، در ایل سیما به برای رسد حکیم نصرت و ایوا نهای پس کجائی ، چرا نے آئی ؟ : اندریں، بارگاہ یکتائی تو دُعا کن ، بصدق و سوز و گداز * تا شود بر دلت، در حق بازی در ثمین ۳۳۵ تا ۳۴۷) اس نسخہ پر عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ نے ہزاروں لاکھوں طالبان حق کو حضرت اقدس کو قبول کرنیکی سعادت عطا فرمائی.نسخہ آج بھی اتنا ہی کارگر ہے جتنا حضرت اقدس کی زندگی میں تھا.نیز فرمایا :- من برین مردم بخواندم آن کتاب کان منزه اوفتاد از ارتیاب ہم خبر یا پیش کردم زمان رسول کو صدوق از فضل حق پاک از فضول لیکن ایشان را سحق رو نبود ؛ پیش گیر گئے گریڈ میشے چه سود ؟ در تمین طال۲۳ ے ترجمہ ورنہ یہ ابتلا ہم سے دور کر دے، تو رحیم ہے ، قادر ہے، اور غفار ہے.اخلاص والے لوگ جب خلوص اور عاجزی اور گریہ و زاری سے دعا کرتے ہیں، تو آسمان والوں میں ایک شور پڑ جاتا ہے اور وہاں سے امداد اور پناہ کا حکم جاری ہوتا ہے.پس رالے طالب حق تو کہاں ہے ؟ تو اس بارگاہ احدیت میں کیوں نہیں آجاتا.تو خلوص اور سوزوگداز سے دعا کر تا تیرے دل پر سچائی کا دروازہ کھل جائے.کے ترجمہ: میں نے ان لوگوں کو وہ کتاب پڑھ کر سنائی جو ہرقسم کے شک شبہ سے پاک ہے یعنی قرآن مجید) نیز رسول خدا کی حدیثیں بھی پیش کیں جو خدا کے فضل سے بہت ہی سچا ہے اور کبھی بے فائدہ بات نہیں کرتا لیکن ان لوگوں کو سچائی کی طرف کوئی رغبت نہیں تھی.بھیڑیے کے آگے کسی بھیڑ کے رونے سے کیا حاصل ؟ :

Page 138

انکسار انبیاء اور اولیا کا طریق ہمیشہ انکسار ہی رہا ہے.لہذا ایک طرف ان دعاوی کی شان و منظمت دیکھئے جو حضرت اقدس نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کئے.جیسا کہ آپ خود فرماتے ہیں، اسے من نه از خود ادعائے کردہ ام : امر حق شد اقتدائے کردہ ام دور ثمین (۳۳) حکم است از آسمان بزمین می رسانش ، گریشنوم نگوش آن را کی بریم اور ثمین م جیسے :- اور دوسری طرف انکسار کا کمال دیکھئے جس کا اظہار آپ ہمیشہ متواتر فرماتے رہے گر پیچو خاک پیش تو قدرم بود چه باک ہے بچوں خاک نے کہ از خس و خاشاک کمترم لطف است و فضیل او که نو از دوگز زمین : کرم نه آدمی صدف استم نه گوهرم در تمین صبا) -۲- نگاه رحمت جانا عنایتها بین کرد است وگرنہ چوں منے کے یا با شد و عات تاران ور تمین ما اے ترجمہ : میں نے اپنے آپ یہ دعوی نہیں کیا ، بلکہ اللہ تعالی کا حکم ہوا تو اس کی پیروی کی ہے.کے ترجمہ : یہ آسمانی حکم ہے جو یں راہل زمین کو پہنچا رہا ہوں.اگر یں سنوں اور آگے نہ پہنچاؤں تو اسے کہاں سے جاؤں؟ کے ترجمہ: اگر تیرے نزدیک میری قدر خاک جیسی ہی ہو توکیا مضائقہ ہے کیونکہ خاک تو کیا یں تو کوڑے کرکٹ سے بھی حقیر ہوں.یہ تو محض اس کا فضل و کرم ہے کہ نوازتا ہے ور نہیں تو ایک کیڑا ہوں نہ کہ آدمی اور محض سیکسی ہوں نہ کہ موتی.کے ترجمہ یہ تو جنوب کی نظر کرم نے مجھ پر عنایات کی ہیں، ورنہ مجھ جیسا انسان یہ یکی اور نیک بختی کیسے حاصل کر سکتا ہے ؟

Page 139

۱۱۵ ۴- عجب دارم از لطفت کے کردگار به پذیرفته چون من خاکسار پسندید گانے بجائے رسند : زما کهترانت چه آمد پسند چو از قطره خلق پیدا کنی ہے ہمیں عادت اینجا ہویدا د تجلیات الہیہ ص۲) تکیه بر زویر تو دارم گرچه من : ہمچو خاکم بلکہ زماں ہم کمتر ہے د در تمین من) -۵- بخاک ذلّت و لعن کسان رضا دادیم به بدین غرض که بر نیستی بقا باشد که د در ثمین ص۲۷ - خوئے عشاق مجز هست و نیاز به نشنیدیم عشق و کبر انباره - 4 دور تمین ) در کوئے دستانم چون مالک کو شب روز با دیگر نشان چه باشد اقبال و جاه ما را دور ثمین (۱۵) لے ترجمہ : میں تیری مہربانی پر اسے خداوند یران ہوں کہ مجھ جیسے عاجز انسان و تونے قبول کر لیا ہے.پسندیدہ لوگ توکسی مرتبہ کو پہنچ سکتے ہیں، ہم جیسے فقیروں کی کونسی بات تجھے پسند آگئی.چونکہ تو ایک قطرہ سے ایک دنیا پیدا کر لیتا ہے، تو یہاں بھی اسی عادت کا مظاہرہ کرتا ہے.نے ترجمہ: میں تو تیری طاقت پر ہی بھروسہ رکھتا ہوں میں خود تو خاک کی طرح ہوں بلکہ اس سے بھی حقیر.سے ترجمہ : ہم تو ذلت کی خاک اور لوگوں کی لعنتوں پر راضی ہو گئے ہیں.اس لئے کہ نیستی کا پھل بقا ہوا کرتا ہے.کا ترجمہ : عاشقوں کی عادت تو مجز ونیاز ہے ہم نے کبھی نہیں سنا کہ عشق اور تکبر ساتھ ساتھ ہوں.کے ترجمہ میں تو دن رات مجبور کے کوچہ میں خاک کی طرح پڑا رہتا ہوں.سے بڑھ کر ہم سے قبل اور تیر کی نشان اور کیا ہوسکتی ہے ؟

Page 140

114 جنسی نام و نگ عوت راز دامان ریختیم بے یار آمیزد مگر باما به خاک آمیختیم دول بدادیم از کف جاں در سے انداختیم : از پئے وصیل نگارے حیلہ ہا نگفتیم در ثمین ) ے ترجمہ: ہم نے نگ نام اور قوت کا سرمایہ اپنے دامن سے پھینک دیا ہے ،ہم اک میں مل گئے تا شاید عیوب ہم سے گھل مل جائے ہم نے دل ہاتھ سے دیدیا اور جان کسی کی رہ میں ڈال دی.اس مجو کے جس کی خاطر ہم نے کیسے کیسے حیلے کئے ہیں ؟ - ^

Page 141

116 ہمدردی خلائق مامورین الہی کے دلوں میں مخلوق کی ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے اور رات دن ان کو یہی فکر دامنگیر رہتی ہے کہ کس طرح سے بندگان خدا اپنے رب کی طرف توجہ کریں اللہ تعالٰی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے :.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ الَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (سورة الشعراء : ٣) کہ اسے محمد رسول اللہ لوگوں کی ہدایت کی فکر میں آپ کی یہ حالت ہے کہ نہ رات کو آپ آرام کرتے ہیں اور نہ دن کو.نہ آپ کو کھانے کا فکر ہے نہ پینے کا اور آپ اسی غم میں گھلے جاتے ہیں کہ لوگ اپنے محبوب حقیقی کی طرف رجوع کریں.اپنے محبوب محمد رسول اللہ کی متابعت میں حضرت اقدس کو بھی ہر وقت یہی احساس بیقرار رکھتا کہ لوگ زندہ خدا کا چہرہ دیکھیں.حضرت اقدس اپنے اسی درد دل کا اظہار اشعارہ میں 1 یوں کرتے ہیں : بدل در دیگر دارم از برائے طالبان حق : نمے گردو یہاں آن درد از تقریر کو تاہم دل و جانم چنان مستغرق از فکر اوشان است که نے از دل خبر دارم نه از جان خود اگا ہم بدین شادم کر غم از بهر مخلوق خدا دارم : ازین در اذ تم کز درد می خیزد زدل آنیم ه ترجمه : طالبان حق کے لئے جو درد میرے دل میں ہے میری اس مختصر تقریر سے اس درد کا پورا اظہار نہیں ہوسکتا میرا دل اور میری جان ان کی فکر میں ایسی ڈوبی ہوئی ہے کہ نہ مجھے دل کی کوئی خبر ہے اور نہ ہی جان کا کچھ پت ہے لیکن میں دل میں خوش ہوں کہ مجھے دائی خلق کا غم ہےاور میں اس باتیں لذت مسوس کرتا ہوں کہ میں کل سے لوگوں کو رد کی وجہ نہ ملتی ہے.

Page 142

HA مرا مقصود و مطلوب تمنا خدمت خلق است : ہمیں کارم نہیں بارم ہمیں رسم ہمیں راہم نه من از خود نهم، در کوچه پندو نصیحت پا کر ہمدردی برد آنجا، به جبر و زور و اکراهم قیم خلق خدا ، صرف از زبان خوردن چه کار این گرش صد جای بپاریزم هنوزش عذر میخواهم چو شام پر غبار و تیره حال عالمی بینم : خُدا ہر وے فرود آرد دعا ہائے سحر گا ہم بر در همین م۳ ) -۲- تو نہ فہمی ہنوز این سخنم : در دلت چول فنر و شوم چه کنم اسے دریغا که دل زور د گداخت : درد ما را مخاطبے نشناختی دور شمین مثلا ) اے کہ چشمت نہ کبر پوشیده + چه کنم تا کشیدت دیده 110 ر در ثمین مشه -۴- چسان گفته من بفهمی تمام ؛ چسان ریزم اندر ولت این کلام در ثمین صنت نے ترجمہ: میرا مقصد مطلوب اور تمنا خدمت خلق ہے ہی میرا کارو بار ہے ہی مجھے فکر ہے یہی میری رسم دراہ ہے.یکی اپنے آپ عظ و نصیح کے کوچ میں پاؤں نہیں رکھا.مجھے تو مخلوق کی ہماری زیر دستی وہاں لئے جارہی ہے.صرف زبان سے خلق خدا کا غم کھانا کونسا بڑا کام ہے.میں تو اس کام کے لئے سینکڑوں جانیں بھی قربان کر دوں تب بھی معذرت خواہ ہوں جب میں دنیا کی گرد و غبار سے بھری ہوئی شام اور تاریک حالت کو دیکھتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ خدا اس پر میری صبح کی دعاؤں کا اثر پیدا کر رہے.ے ترجمہ تو ابھی تک میری بات نہیں میں کیا کروں اور تجھے کیسے سمجھاؤں.ہائے افسوس ہمارا دل درد کے مار سے پگھل گیا.لیکن کوئی مقابل ہمارے درد کا احساس نہ کر سکا.کے ترجمہ اسے وہ شخص جس نے اپنی آنکھ پر بحر کا پردہ ڈال رکھا ہے.میں کیا کروں کہ تو آنکھ کھول دے.کے ترجمہ : تو کیس طرح میری باتیں پوری طرح سمجھے گا.میں کس طرح تیرے دل میں اپنی باتیں اتا ہوں ؟

Page 143

119 دریغ ودرد قوم من ندائے من نمی شنود با زہر در میدیم پندش مگر عبرت شود پیدا دورتمین جنگ) 4.اسے سخت اسیر بدگمانی + وسے بستہ کمر به بد زبانی سوزم که چسان شوی مسلمان : دیں طرفه که کارم بخوانی ور ثمین طلا من از مادی اش گفتم توخود ہم فکر کن بارے : خورد اند برای روز است اسے انا ویشیا سے ور ثمین ۲۳) - بد گفتم زنوع عبادت شمرده اند در چشم شان پلید تر از هر مزورم اسے دل تو نیز خاطر اینیاں نگاہ دار کا فر کنند دعوائے محبت پیمی رم دور ثمین ) ا ترجمہ : کتنا افسوس اور دکھ ہے کہ میری قوم میری چیخ و پکار نہیں سنی ہیں ہر طریقہ سے نصیحت کرتا ہوں کہ کاش ہے بہر حاصل ہو.کے ترجمہ : اے دو شخص جو سخت بد گمانی میں مبتلا ہے، اور اسے وہ جو بد زبانی پر کر باندھے ہوئے ہیں.میں تو اس غم میں گھل رہا ہوں کہ تو کسی طرح مسلمان بن سکتا ہے.اور یہ مجیب بات ہے کہ تو مجھے ہی کا فر گردانتا ہے.کے ترجمہ میں نے باقی تیر بعدی کی باہر کی ہیں کبھی خود بھی تو عقل آخرایسی ہی وقت کیلئے ہے ہرانا اور روان انسانان کے ترجمہ : انہوں نے مجھے برا کہنے کوعبادت سمجھ رکھا ہے میں ان کی نظروں میں ہر سکار سے زیادہ پلید ہوں.اسے دل تو پھر بھی ان کا لحاظ رکھ کیونکہ وہ آخر میرے ہی پیغمبر محمدصلی للہ علیہ وسلم کی محبت کا دعوی کرتے ہیں ؟

Page 144

رجائیت رجائیت کے بغیر روحانی ترقی نامکن ہے مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا.قرآن حکیم نے قوطیت کو کفر کی علامت قرار دیا ہے.قدیم شعرا میں سے ایک حافظ ہی ایسے شاعر ہیں جنہوں نے انسانی زندگی کے رجائی پہلو کو خاص اہمیت دی ہے.مثلاً ایک جگہ وہ کہتے ہیں : فیض روح القدس ارباز مدد فرماید : دیگران هم بکنند آنچه مسیحام کرده لیکن حضرت مسیح موعود نے اپنے کلام میں رجائی پہلوکو میں بصیرت اور اعتماد کے ساتھ پیش کیا ہے وہ آپ ہی کا حصہ ہے.مثلاً ایک جگہ فرماتے ہیں : سے -۱- درای این مریم جندائی نبود به زموت و ز فوتش رہائی نبود ! رپا کرده خود راز شرک و دوئی ہے تو ہم گئی جنہیں ابن مریم توئی ہے در زمین ) اس سلسلہ میں بعض اور اشعار ملاحظہ فرمائیے اگر خود آدمی کابل نباشد در تایش حق به خدا خود راه بنماید طلبگار حقیقت راسه - در در ثمین ملک ے ترجمہ : اگر روح القدس کا فیض پھر یاوری کرے تو دوسرے بھی وہی کام کرسکتے ہیں، جو سیما کیا کرتا تھا.ترجمہ : اس ابن مریم مسیح، میں خدائی نہ تھی.وہ موت اور فوت سے آزاد نہیں تھا.اس نے اپنے آپ کو شرک اور دوٹی سے چھڑا لیا.تو بھی ایسا ہی کر تو تو بھی ابن مریم بن جائے گا.کے ترجمہ : اگر سچائی کی تلاش میں انسان خود شکست نہ ہو.تواللہ تعلی خود حقیقت کا راستہ دکھا دیتا ہے.

Page 145

بهارست و با صفا در همین کند نازه با با گل و یاسمن و : ز نسرین و گلہائے فصل پیار ہے نسیم صباحے وزد عطر یار تو اسے ابلہ افتادہ اندر خزاں : ہمہ برگ افشانده چو مفلسا له در تمین خشت) ناصحان را خبر نه حالم نیست : گذرے سوئے اکی زلالم نیست آمدم چون سحر بلجہ نور : تا شود تیرگی زگورم دور شور افگنده ام که تازین کار به خلق گردد ز خواب خود بیدار نما فلان من زیار آمده ام ہمچو باد بسیار آمده ام این زمانم زمانه گلزار به موسیم لالہ زار و وقت بہار آمدم تا نگار باز آید به بیدلان را قرار باز آیده : ور ثمین ) ے ترجمہ: بہار کا موسم ہے اور باغ میں بادصفا گلاب اور چنبیلی کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہی ہے.سیلوتی اور فصل بہار کے پھولوں کیسے کی ٹھنڈی ہو اعطر پیساتی ہوئی چل رہی ہے تو اسے ہیو قوف خزان کی (حالت میں) میں پڑا ہے.اور مفلسوں کی طرح سب پتے جھڑ گئے ہیں : ه ترجمه ، نصیحت کرنیوالوں کو میری حالت کی کچھ خبر ہیں.میرے مصفا پانی کی طرف ان کا گذر ہی نہیں ہوا میں صبح کی طرح ورود کی ایک طوفان لیکر آیا ہوں تامر اروشنی سے اندھیرا اور ہو جائے میں نے اسلئے شور بر پا کر رکھاہے کہ لوگ اپنی فلت کی نیند سے جاگ اٹھیں.اسے فاضلو ہمیں مجبو کے پاس سے آیا ہوں اور باد بہار کی طرح آیا ہوں.میرا یہ زمانہ باغ کے سرسبز ہونے ) کا زمانہ ہے.شرخ پھولوں کے تختوں کا موسم اور بہار کا زمانہ ہے.میں اسلئے آیا ہوں تا محبوب کوٹ آئے.اور عاشقوں کو قرار آجائے.

Page 146

١٣٢ ہر کر جویائے اوست یافته است به تافت آن رو که سرنتافته است که دور ثمين ) ذات پاکت لبس است یار یکے بے دل یکے جان سکے نگار یکیئے ہر کو پوشیده با تو در سازد به رحمتت آشکار بنوازد هر گر گیرد درت بصدق و حضور به از درد بام او ببارد نور هر که راست گرفت کارش شد به صدا میدے بروزگارش شود هر که راه توجهت یافته است به تافت آن رو که سرنتافته است که دور همین مت۱۳۱) نے ترجمہ : جو شخص بھی اسے ڈھونڈ نے نکل اس نے پا لیا.وہ منہ چمک اٹھا جنسی اس سے سر نہ پھیرا.کے ترجمہ: دریا سے لئے اتیری پاک ذات کا اکیلا محبوب ہونا کافی ہے.دل ایک جان ایک ہے.محبوب بھی ایک ہی ہونا چاہیے ) کے ترجمہ جو کوئی چھپ کہ تجھ سے تعلق پیدا کرتا ہے، تیری رحمت اسے کھلم کھلا نوازتی ہے.جو شخص خلوص اور منتقل مرامی سے تیری چوکھٹ پکڑے ، اس کے در و بام سے نور کی بارش برستی ہے جس کسی نے تیرا راستہ پکڑ لیا اسی کامیابی کی سینکڑوں میں بن گئیں جنسی تیرا راستہ ڈھونڈا اس نے پالیا.وہ منہ چمک اٹھا سرخرو ہوگیا، جسنی تجھ سے سر پھیرا ہے

Page 147

١٢٣ عرفان الہی ایمان کی ترقی یافتہ حالت کو عرفان کہتے ہیں.یہ حضرت مسیح موعود کا خاص موضوع ہے.اس کے حصول کے متعلق آپ نے بہت کچھ لکھا ہے.چند اقتباسات ذیل ملاحظہ فرمائیے :- سچی تڑپ گه بدل با شدت خیالِ خدا این چنین ناید انه تو استغنا از دل و جاں طریق او جوئی : وزیر صدق سوئے او پوٹی هر که را دل بود بدلدار : خبرش پر سدا ز خبر دارے گر نباشد تقائے محبو بے ؛ جوید انہ نزد یار مکتوبے بے دلارام نایدش آرام گر برویش نظر گئے بکلام آنکه داری بدل محبت او به نایدت صبر جز محبت او ܀ ترجمہ: اگر تیرے دل میں خدا کی لگن ہوتی، تو تجھ سے اتنی لا پروائی سرزد نہ ہوتی تو دل و جان سے اس کا راسته تلاش کرتا.اور پور سے اخلاص سے اس کی طرف دوڑتا.جس کا دل کسی محبوب سے لگا ہو، تو وہ ضرور کسی واقف کار سے اس کا پتا پوچھتا ہے.اگر محبوب سے طلاقات ممکن نہ ہو وہ اس کے خط کا متمنی رہتا ہے.مجوب کے بغیر اسے آرام نہیں آتا کبھی اس کے دیدار کے لئے بیقرار ہوتا ہے اور کبھی اس کے کلام کے لئے جس کی محبت تیرے دل میں ہو.اس کی صحبت کے بغیر تجھے صبر نہیں آتا.

Page 148

۱۳۴ فرقت او گر اتفاق افتد به در تن و جان تو فراق افتد دلت از هجر او کباب شود و چشمت از رفتنش پر آب شود د در ثمین صله (۱۰۲) تا نباشد عشق و سوداؤ جنون : جلوہ نہ نماید نگاہ بے چگوں کی دور ثمین ۲۳۵) اطاعت رسول خدائے کہ جان بر ره او دا به نیابی رہش جز ہے ممے :: دور ثمین مث ) سیدشان آنکه نامش مصطفی است رهبر سر زمره صدق و صفا است سے درخشند روئے حق در روئے او بے ہوئے حق آید ز بام و کوئے اُو ہر کمال رہبری بروئے تمام پاک روئے و پاک رویاں را امام : اسے خدا اسے چارہ آزارِ ما : کن شفاعت ہائے او در کار ما ہائے او ما E لے ترجمہ : اگر وہ اتفاق سے کبھی جدا ہو جائے تو تیرے بدن سے جان نکلنے لگتی ہے.اس کی جدائی میں تیرا دل کباب ہو جاتا ہے ، اس کے جانے سے تیری آنکھیں پھر آب ہو جاتی ہیں.سے ترجمہ : جب تک عشق ، سودا اور جنون نہ ہو، وہ بے مثال محبوب اپنا جلوہ نہیں دکھاتا.کے ترجمہ : وہ خدا جس کی راہ میں ہماری جان قربان ہے ، تجھے اسکی راہ مصطفے کی پیروی کے بغیر نہیں مل سکتی.سے ترجمہ : وہ ان دفانی فی الله ) لوگوں کا سردار جس کا نام مصطفے ہے تمام اہل سدق و صفا کا رہنما ہی ہے ، اسکی چہر میں خدا کاچہرہ چمکتا ہے.اس کے در دربار سے ندا کی خوشبو آتی ہے.رہبری کے تمام کماتا اس پر ختم ہیں وہ خود بھی مقدس ہے اور تمام مقدموں کا امام ہے.اسے خدا اسے ہمارے دکھوں کی دکا ، ہما ر مال میں اس کی شفاعت ہمیں نصیب کہ.

Page 149

۱۲۵ هر که مهرش در دل و جانش فتد : ناگہاں جانے در ایمانش فتد کے زتاریکی برآید آن غراب : کور مدزین مشرق صدق و صواب آنکه او را ظلمتی گیر و براه : نیتش پٹوں رُوئے احمد مہر و ماہ تابعش بحر معانی می شود و از زمینی آسمانی می شود هر که در راه محند زد قدم : انبیاء راشد مثل آن محترم در ثمین ۲۰ ۲۱) ہے تو ہر گز دولت عرفاں نے باید کسے : گرچه میرد در ریاضت با وجهد بیشماری (در ثمین ص۱۲) کلام اپنی هست دا روئے دل کلام خدا کے شوی مست بز بجام چندانی شوی چند ور ثمین ص) ے ترجمہ : جس کے دل و جان میں اس کی محبت داخل ہو جاتی ہے ، اس کے ایمان میں اچانک جان پڑ جاتی ہے.وہ کو اندھیرے سے کیسے نکل سکتا ہے، جو اس صدق و صفا کے چشمہ سے دور بھا گئے.جس کسی کو راستہ میں تاریخی گھیرے ، اس کے لئے احمد کے چہرہ کے سوا اور کوئی چاند سورج نہیں.اس کا پیرو معرفت کا مندر بن جاتا ہے اور زمینی سے آسمانی بن جاتا ہے.جس کسی نے محمد کے طریقہ پر مت دم مارا وہ قابل عزت شخص نبیوں کا مثیل بن جاتا ہے.ے ترجمہ تیرے بغیر رہے ہوں، کوئی بھی عرفان کی دولت نہیں پا سکتا، اگرچہ مینی مشقتوں اور کوششوں میں جان بھی گنواڑا ہے.کے ترجمہ : دل کی دوا خدا کا کلام ہے، تو اس خدا کے جام کے بغیر کبھی مست نہیں ہو سکتا ہے

Page 150

قدیر فرقان نزدت اسے غدار نیست : این ندانی کت جزائے یار نیست وحي فرقان مردگان را جاں وہد صد خبر از کوچه عرفان وید یقیں ہائے نماید عالمے : کان نه بیند کس بصدد عالم ہے ہے دور ثمین ) این کتا بے پیش چشم ما نهاد : تا از وراه بدی داریم یاد تاشناسی ای خدائے پاک را کو نماند خاکسیان و خاک راہی در تمین ص۲۳ ) ہست والله کلام که بانی : از جندا ، اکثر خندا دانی ارد ہائے زماں کو نفس نام : لیے کلام خدا نہ گردو رام ر این فسون است ، بهراین مارے گرلب یار ، یک دو گفتار ہے وه چه دارد اثر ، کلامِ حندا : دیو بگریزد ، از پیام خدا لے ترجمہ : اسے فدار تیرے نزدیک قرآن کی کوئی قدر نہیں تھے یہ علم نہیں کراس کے بغیر تیر کوئی مدد گار نہیں.قرآن کی وحی مردوں کو زندگی بخشتی ہے، اور معرفت الہی کے کوچہ کی سینکڑوں خبریں دیتی ہے.اور یقین کی ایک ایسی دنیا دکھاتی ہے ، جس کو کوئی سینکڑوں جہانوں میں بھی نہیں دیکھ سکتا.کے ترجمہ : اسی خدا نے یہ کتاب ہماری آنکھوں کے سامنے رکھی ہے، تاہم اس کے ذریعہ ہدایت کا راستہ یاد کرلیں تا تو اس خدائے پاک کو پہچان سے ، جو دنیا والوں اور دنیا سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا.سے ترجمہ : خدا کی قسم یہ خدا کا کلام ہی ہے ، جو خدا کی طرف سے خدا شناسی کا ذریعہ ہے.وہ پھنکارتا ہوا الہ دیا جس کا نام نفس ہے ، وہ خدا کے کلام کے بغیر رام نہیں ہوتا.اس سانپ کا یہی منتر ہے کہ مجبو کے منہ سے ایک دو باتیں سنی جائیں، واہ واخدا کے کلام میں کیسی تاثیر ہے ، کہ اس کے پیغام سے شیطان بھاگ جاتا ہے.

Page 151

۱۲۷ دزد را کار هست، با شب تار به چوی سحر شد ، گریزدان غدار ہمچو قولِ خُدا ، گدام سحر به که رود تیرگی ، از و یکسر هر که این در برو خدا بخشاد : بے توقف ، خدایش آمد یاد دور ثمین م۲۲) - صحبت صالحین ا میر که روشن شد وان و میانی درش از نفراتش به کیمیا باشد بسر بردن و سه در صحبتشان د در ثمین ص۲۳۵ از بندگان نفس ره آن یگان میرس: ہر جا کہ گرد خاست ہو اس سے دران بجو آن کس که مست از پئے آں یار بیقرار + محبتش گریں و قرار سے دراں بیجو بر استان آنکه خود رفت بہر یار : چون خاک باش مرضی یا س سے دراں بچھو مروان به تلخ کلامی وحرقت بدورسند : حرقت گزین و فتح حصار سے دراں مجھے لہ ترجمہ: چور کا تعلق صرف اندھیری رات سے ہے ، جب صبح ہوتی ہے تو غدار بھاگ جاتا ہے.خداکے کلام جیسی اورکونسی صبح ہے، جیسی اندھیرا بالکل دور ہو جائے جس پر خدا یہ دروازہ کھول دیتا ہے، اسے بلا توقف خدا یاد آجاتا ہے.سے ترجمہ جس کا دل، جان اور سینہ خدا کی طرف سے روشن ہو گیا ہے ، اس کی صحبت میں ایک لمحہ گزارنا بھی کیمیا ہے.سے ترجمہ ، نفس کے غلاموں سے اس یکتا خدا کا راستہ مت پوچھو، جہاں کہیں سے گرد اٹھی ہے وہاں سوانہ کو توانش کہ جو شخص اس محبوب کے لئے بیقرار ہے ، جا اس کی صحبت اختیار کرہ اور وہاں سکون قلب تلاش کر.اس شخص کی چوکھٹ پر جو یار کے لئے بیخود ہو چکا ہے، خاک کی طرح ہو جا اور وہاں محبوب کی خوشنودی تلاش کر جوانمرد تلخی اور سوزش سے اس تک پہنچتے ہیں، تو بھی سوزا اختیار کر اور اسی میں کامیابی تلاش کر.

Page 152

۱۲۸ برسند غرور نشستن طریق نیست و این نفس دوں بسوز ونگا سے رو چجو در ثمین منن ) خدار است آن بسندگان گرامی که انه مهرشان می کند صبح و شام بدنبال چشمے چومے بنگرند : جہانے بدنبال خود می کشند اثر باست در گفتگو ہائے شاں : چکد نور وحدت زرو ہائے شاں در اورشان به اظهایه هر خیر وشر : نها دست حق خاصیت مستتر بگفتن اگر چه هندا نیستند ؛ ولی از خدا هم جدا نیستند - یقین کامل دور ثمین ص۳۲۲ اسے کہ تو طالب خدا ہستی ہے آئی یقیں جو کہ بخشدت مستی اں یقیں جو ، کہ سیل تو گردد ہے ہمہ دریار ، میل تو گردی سے ترجمہ : غرور کی مسند پر بیٹھنا صحیح راستہ نہیں.اس ذلیل نفس کو جل کر راکھ کر ے اور اس میں محبوب کو تلاش کر.سے ترجمہ : خدا کے بزرگ ہندسے ایسے بھی ہیں جن کی خاطرہ صبح اور شام کو پیدا کرتا ہے.جب وہ کن اکھیوں سے دیکھتے ہیں تو ایک جہان کو اپنے پیچھے کھینچ لیتے ہیں.ان کی باتوں میں الہ ہوتا ہے، ان کے چہروں سے وحدت کا نور ٹپکتا ہے.ان میں نیکی بدی کے اظہارہ کے لئے خدا نے ایک محقتی خاصیت رکھ دی ہے.اگرچہ ہم انہیں خدا نہیں کر سکتے لیکن وہ خدا سے جُدا بھی نہیں ہیں.سے ترجمہ : اسے کہ تو جو خدا کا طالب ہے ، وہ یقین تلاش کر جو تجھے ہے نود بنا دے.وہ یقین ڈھونڈ تہ تیرے لئے سیلاب بن جائے اور تجھے خدا کی طرف بہا کہ سے جانے.

Page 153

اں یقیں جو کہ آتش افروزد : پرچه غیر هندا همه سوزد ہمہ از یقیں ست زید و عرفاں ہم : گفتمت آشکار و پنہاں ہم بنز یقیں، دین تو چور مُرداری 4 سر پر انہ کبرو ، دل ریا کار ہے بے یقیں انفس گرودت چو سگے بے جنبدش، نزد ہر فساد ، رگئے د در ثمین ص۳۶۲) ہمچو کرمی ، بجز کلام خدا و مُرده هستی ، بغیر جامِ خدا اں یقینے ، کہ بخشدت دادار : چون خیال خودت نهد بکنار آن یکے ، انردبان دلداری : نکتہ ہائے شنید و اسرائے وای دگر، از خیال خود بگمان : پس کجا باشد، این دو کس یکساں ذوق ایں تھے ، چو تو نمے دانی ہے ہرزہ ، عوعو کنی، بنا دانی آن خدادان، که خود و یک آواز : نه که از و هم کس نماید باز واجب أمد الذي ، بہر دوراں : کہ تکلم کند خدائے یگانه در ثمین ۳۵۸۳۵۶) لے ترجمہ : وہ یقین ڈھونڈ جو آگ لگا ہے اور جو کچھ خدا کے سوا ہے اس کو جا ڈالنے پر ہیزگاری اور معرفت یقین سے ہی رہتی ہیں میں نے ہر بات تجھے آشکار ابھی بتائی ہے اور پوشیدہ بھی یقین کے بغیر تیرا دین ایک لاشہر بے جان کی طرح ہے.ستر نخجیر سے بھرا ہوا ہے اورول ریا کاری میں مبتلا ہے یقین کے بغیر ترانس کتے کی ماند بن جاتا ہے اور سردی برای رگ اشرارت بھڑک اٹھتی ہے.کے ترجمہ : خدا کے کلام کے بغیر تو ایک کپڑے کی خرج ہے.اور خدا کے جام (وصل کے بغیر تو ایک مردہ ہے.وہ یقین جو خدا عطا کرتا ہے.تجھے خیالی گھوڑے دوڑانے سے حاصل نہیں ہو سکتا.ایک شخص مجبور کے منہ سے لطف اور رانہ کی باتیں سنتا ہے.اور دوسرا خود ہی خیالی پلاؤ پکا رہا ہے.یہ دونوں شخص کسی طرح برابر ہو سکتے ہیں.تو چونکہ اس شراب کی لذت سے واقف نہیں.اس لئے رکھتے کی طرح) فضول بھونکتا رہتا ہے.خدا صرف اسے سمجھو جو خود آواز دے.نہ کرکسی کے قیاس سے وہ دکھائی ہے.اسلئے ہر زمانہ میں لازم ہے، کہ خدائے واحد خود ہی کلام دکر کے اپنی ہستی ظاہر کرے ؟

Page 154

- ترك نفس هر که ترک خود کند یا بد ندا : چیست وصل از نفس خودکشتی جدا لیک ترک نفس کے آسان بود مردان از خود شدن یکسان بود تانه ای باد و ز دور جان ما کور باید ذره امکان ما کے دریں گردو غبارے ساختہ : می توان دید آن رخ آراستہ تا نہ قربان خدائے خود شویم! : تا نه محو آشنائے خود شویم! انه باشیم از وجود خود برون به تانه گرد روز پیش اندرون تانه بر ما مرگ آید صد ہزار کے حیاتے تازہ بینم از نگاه؟ : در ثمین ص ۲۳) لا جرم طالب رضائے خدا : بگسلد از ہمہ برائے حندا شیوه اش می شود خدا گشتن : بهر حق ہم زجاں جُدا گشتن مد لے ترجمہ جو شخص نفس کو چھوڑے وہ خدا کو پالیتا ہے، خدا کا وصل کیا ہے، اپنے نفس سے الگ ہو جانا لیکن نفس کو چھوڑنا آسان کام نہیں.مرنا اور نفس کو چھوڑنا برابر ہیں جب تک ہمارے وجود پر وہ ہوا نہ چلے جو ہماری ہستی کے ذرے ذرے کو اڑا لے جائے.اس گھمبیر گیر دوغبار میں وہ مزین چہرہ کیسے نظر آسکتا ہے.جب تک ہم اپنے خدا پر قربان نہ ہو جائیں.جب تک اپنے محبوب میں محو نہ ہو جائیں.جب تک ہم اپنے وجود سے علیحدہ نہ ہو جائیں.جب تک سینہ اس کی محبت سے بھر نہ جائے.جب تک ہم پر لاکھوں موتیں وارد نہ ہوں.ہمیں اس محبوب کی طرف سے نئی نہ ندگی کس طرح مل سکتی ہے ؟ ترجمہ : سچی بات یہ ہے کہ خدا کی رضا کا طالب خدا کے لئے سر سے قطع تعلق کر لیتا ہے.اس کا شیوہ فداکاری اور خدا کی خاطر جان قربان کر دینا بن جاتا ہے.

Page 155

جہد در رضائے خدا شدن چوں خاک و نیستی و فن و استهلاک دل نهادن در آنچه مرضی یار به صبر زیر مجاریئے اقتدار تو بحق نیز دیگر خواہی : این خیال است اصیل گمراہی ور ثمین صدا) سالها باید که خون دلخوری : تا بکوئے داستانے ره بری کے باآسانی رہے بخشایدت به صد بنوں باید کر تا ہوش آید ہے در ثمین صدا تازه تو هستی است ، بدر نرود : این رگِ شرک از تو بر نرود پائے سعیت بلند تر نرود : تا ترا دودِ دل بسر نرود یار پیدا شود در آن هنگام : که تو گردی نہاں ز خود بتمائم ور ثمین ص۳۵۲) ے ترجمہ ، نیز اس کا شیوہ خدا کی رضا کے لئے خاک کی مانند ہو جانا اور اسی کی رضا کے لئے فیستی، فضا اور ہلاکت قبول کر لینا جاتا ہے.ایک مرض میں موہو جانا اور تضاد قدرکی گوشی پر ا ا ا ا ا ا ا و و و و و و یا این ای سی ایل گراس کی جوانی سے ترجمہ ، تجھے برسوں تک دل کا خون پیناپڑے گا، پھر کہیں جا کر تجھے محبوب کی گلی کا راستہ ملے گا.یہ راستہ تجھ پر آسانی سے نہیں کھل سکتا، ہوش میں آنے کے لئے تجھے سینکڑوں دیوانگیاں درکار ہیں.سے ترجمہ : جب تک تیری خودی تجھ سے دور نہ ہو جائے ، یہ شرک کی رگ تجھ سے جدا نہ ہو گی.جب تک تیری کوشش کا پاؤں انتہائی بلندی تک پہنچ جائے ، جب تک تیرے دل کا دھواں سر سے اوپر نہ چل جائے کچھ نہیں ہوسکتا.یا درکھ یا بہ اس وقت ظاہر ہو گا ، جب تو اپنے آپ سے بالکل چھپ جائے گا.

Page 156

۱۳۳ ین دونیا بد خواہد ہم تلاش رو براش جہد کن ناداں مباش نے ور ثمین (۲۱۲) ہمت دُوں تدار ، چوں دوناں 4 رو، بجو یار را ، چو مجنوناں ہر کہ جو ہائے اوست یافته است : تافت آن رو، که سرنتافته است آخرین خدا ، برای مردی که برین در شهداست، چون گرد تھے د در ثمین ص۳۶۲ ) دُعا چون بماند نہ ہر طرف ناچار : نالد آخر بدرگه دادار نعرہ ہامی نهند بحضرت پاک وز تفرع جیسی نهد بر خاک در خود بندد و بگرید زار : کائے کشاننده ره وشوار گنه من به بخش و پرده پوش به تانه دشمن زند شادی بوشته د در ثمین 119-11A سے ترجمہ : دین اور دنیا پوری کوشش چاہتے ہیں ، جا اس کی راہ میں کوشش کرنا دان نہ بن.ے ترجمہ کیلئے لوگوں کی طرح اپنی بہت کو پست نہ رکھ ، جانمبو کے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ.جوکوئی اسکا طالب ہوا اس نے اسے پالیا ، وہی سرخرو ہوا جس نے اس سے سر نہ پھیرا.خدا کی طرف سے اس جوانمرد پر آفرین ہے جو اس دروازہ پر خاک کی طرح ہو گیا ہے : سے ترجمہ : انسان جب ہر طرف سے مایوس ہو جاتا ہے، تو آخر خدا کی بارگاہ میں جاکہ دتا ہے.اسکی پاک درگاہ میں چین و پکار کرتا ہے اور اس کے حضور عاجزی سے اپنا ہاتھ خاک پر رکھ دیتا ہے، اپنا دروازہ بند کر لیتا ہے اور رو رو ک عرض کرتا ہے کرائے مشکل کشا میرے گناہ بخش اور میری پردہ پوشی فرما، تامیری حالت شمانت اعدا کا باعث نہ بنے :

Page 157

ره طلب کن بگریه و زاری : تا بجوشد ترقیم باری در ثمین ۳۲۵) ان کا یہ گرد از دیئے جو جانتے ہو میرے کندالی کارنے بارے زبانے مجید دارم نر ستے کہ دستے عاشقش باشد : بگرداند جهانی راز بہر کار گریانے اگر جنید لب مردے زہر آنکه سرگردای خدا از آسمان پیدا کند بر نوع سیامانے زکارافتاده را برای ار خدا می ره با همین باشد دلیل آن است از خلق پنهانی ۹ - کبر اور عقل سے احتراز دور ثمین ۲۳۳ و ۲۴۵) عرفان الہی کے حصول میں بڑی روکیں دو ہیں.ایک تکبر اور دوسری عقل کی بھی انسان عقل کی وجہ سے مفرور ہو جاتا ہے.اور کبھی مفرور ہونے کی وجہ سے عقل پر ناز کرنے لگ جاتا ہے.بہر کیف ہر دو بھاری پتھر ہیں.جن کو راستہ سے ہٹائے بغیر انسان عرفان الہی کی منازل طے نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : اے ترجمہ : تو گریہ و زاری سے راستہ تلاش که تا خدا کا ریم جوش مارے.لے ترجمہ جو کام اس شخص کی دعا سے ہو سکتا ہے جو محبوب حقیقی میں محو ہے.وہ کام نہ تلوار کر سکتی ہے، زہوا اور نہ ہی بارش.خدا کے عاشق کے دست دعا میں عجیب اللہ ہوتا ہے.وہ کسی چیشم پر آب سائل کے لئے ایک جہان کو گردش میں لے آتا ہے.اگر مردخدا کے ہونٹ کسی سرگردان کی خاطر دعا کے لئے ہیں ، تواس کے لئے اللہ تعالی آسمان سے ہر قسم کا سامان ہیا کر دیتا ہے.ایک بے کار شخص کو وہ دکھا کے وزیع پر سیر روزگار کر دیتا ہے.اس خدا کے جولوگوں کی نظر سے پوشیدہ ہے، موجود ہونے کی یہی دلیل ہے :

Page 158

از خردمندان مرا انکار نیست : لیکن این ره راه وصل یار نیست تانه باشد عشق و سودا و جنوں : جلوہ ننماید نگار بے چگوں چوں نہاں است آن عزیز سے محترم : ہر کسے را ہے گزیند لاجرم اں رہے کو عاقلاں بگزیده اند : از تکلف رائے حق پوشیده اند پرده ها بر پرده ها انداخته : مطلبے نزدیک دور انداخته ما که با دیدایه او رو تافتیم ؛ از ره عشق و فنایش یافتیم ترک خود کردیم بہر ای خدا : از فنائے ما پدید آمد بقا اندرین راه در دسر بسیار نیست : جان بخوابد دادنش و شوار نیست گرنه او خواند سے مرا از فضل وجود : صد فضولی کردمے بے سود بوری ور ثمین ۲۳) لے : مجھے داناؤں کی دانائی سے انکار نہیں.لیکن یہ راہ محبوب کے وصل کی راہ نہیں.جب تک عشق اور سودا اور جنون نہ ہو.وہ بے مثال محبوب اپنا جلوہ نہیں دکھاتا.چونکہ وہ قابل احترام محبوب پوشیده ہے اس لئے اس سے ملنے کی خاطر شخص کوئی ن کوئی راستہ اختیار کر تا ہے.لیکن عقل والوں نے جو راستہ اختیار کیا ہے، اس سے خدا کا چہرہ چھپ گیا ہے.انہوں نے پردوں پر پردے ڈال دیئے ہیں اور وہ مقصد جو نزدیک تھا اسے دور کر دیا ہے.ہم لوگ جنہوں نے اس کے دیدار سے اپنا چہرہ روشن کیا ہے.ہم نے اسے عشق اور فضا کے راستہ سے ہی پایا ہے.اس خدا کے لئے ہم نے اپنی خودی چھوڑ دی، تو ہماری فضا کے نتیج میں بقاپیدا ہوگئی.اس راہ میں کچھ زیادہ دردسر برداشت کرنا نہیں پڑتا.وہ صرف جان مانگتا ہے.جس کا دنیا کے مشکل نہیں.اگروہ اپنے فضل وکرم سے مجھ خون بارات خواہ کتنی ہی بڑھ چڑھ کر این با اسب بے فائدہ تھیں.

Page 159

۱۳۵ با خُدا ہم دعوائے فرزانگی به سخت جهل است و رگِ دیوانگی تافتن رو از خور تابان که من خود برارم روشنی از خویشتن عالمه را کور کردوست این خیال به سرنگوں افگند در چاه ضلال ناز بر فطنت مکن گر فطنتی ست به در ره تو این خردمندی بہتے ست عقل کان با کبر میداره ند حلق : هست حق و عقل پندارند متسلق کبر شهر عقل را ویران کند : عاملان را گره و نادان کند آنچه افزاید غرور و معجیبی : چون رساند تا خدایت اے غومی؟ در ثمین ) ۱۰.قصوں سے پر ہیز ایک اور چیز جو انسان کے لئے بہت سی محرومیوں کا باعث بنتی ہے وہ قصے کہانیاں ہیں.لوگ اپنے انبیا اور بزرگوں کے متعلق بہت سے عجیب و غریب اور مبالغہ آمیز قصے گھٹڑ لیتے ہیں.جن کا حقیقت سے دُور کا تعلق بھی نہیں ہوتا اور جب کبھی نیا مامور آتا ہے تو اس سے ترجمہ:.خُدا کے مقابل عقلمندی کا دعویٰ کرنا سخت جہالت اور دیوانگی ہے.اس خیال کی بنا پر روشن سورج سے منہ پھیر لینا.کہ میں اپنے اندر سے ہی روشنی نکال لوں گا.اس نے ایک دنیا کو اندھا اور پہرا کر دیا ہے.اور گمراہی کے کوئیں میں سر کے بل گرا دیا ہے.اگر تجھ میں کچھ عقل ہے تو اس پر نازمت کمه ی عقلمندی تیری راہ میں ایک بہت ہے، لوگوں کے پاس جو تکبر سے آلودہ عمل ہے وہ دراصل ہیو قوقی ہے جسے وہ عقل سمجھ رہے ہیں.تکبر عقل کے شہر کو اجاڑ دیتا ہے ، اور عقلمندوں کو گمراہ اور بیوقوف بنا دیتا ہے جو چیز غرور اور تکبر کو بڑھاتی ہے ، اسے گمراہ وہ تجھے خدا تک کیسے پہنچا سکتی ہے ؟

Page 160

I ویسی ہی ناممکن باتوں کا مطالبہ کر دیتے ہیں.اور جب وہ مطالبہ پورا نہیں ہوتا تو وہ خدا کے فرستادوں کا انکار کر کے ہر قسم کی برکتوں سے محروم رہ جاتے ہیں.ان قصوں سے اصلاح نفس میں بھی کوئی مدد نہیں ملتی.جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے ، گناہ سے چھڑانے کا ذریعہ یقین کامل ہے.اسی سے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے.یہ نہ ہو تونیکی کی طرف راغب ہونا مشکل ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں : گفتگو ها به زبان دل بے قرار دین شان بر قصته با دارو مدار فرق بسیار است در دید و شنید : خاک بر فرق کیسے کیسی را ندید دید را کن جستجو اسے نا تمام ور نه در کار خودی بس سرد و خام بر سماعت پولی همه باشد بنا : آکی نیفزاید جوئے صدق و صفا صد ہزاراں قصہ از روئے شنید بد نیست یکسان باجو سے کال سست نید دیں ہماں باشد که نورش باقی است و از شراب دید مردم ساقی است ست دور ثمین ۳ ) سے ترجمہ :.ان کے دین کا دارو مدار قصوں پر ہے ، زبانوں پر تو باتیں ہیں لیکن دل کومت دار نہیں.دید اور شنید میں بڑا فرق ہے.اس شخص کے سریہ خاک جسے یہ بات سمجھ نہ آئی.اسے ناقص انسان ! دید کی جستجو کر.ورنہ تو اپنے کام میں بالکل خام رہے گا.جب ساری بنیا د صرف شنید پر ہوں تو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا.وہ صدق و صفا میں جو پھر بھی زیادتی نہیں کرتی.لاکھوں سنے سنائے قصے ذرا بھی اس چیز کی برابری نہیں کر سکتے ، جو آنکھوں دیکھی ہو.دین وہی ہے جس کا نور باقی ہو اور ہر لمحہ دیدارہ کی شراب پلاتا ہو ہے

Page 161

قصہ پا پیش می کنی ، ز ضلال : کائیں کرامات ہائے اہل کمال گر دریں قصہ یا اثر بودے پر دلت از رئیس، دور تر بودے رقصه با گربیاں گئی تو ہزار کے رند از تو، جبت دل زینهار ؛ زین قصص، پیچ راه نکشاید : صد ہزارای بگو، چه کار آید بخشی مد نے بارل لیستین به تای هندت ، دو دیده حق بین اندرون تو هست دیو خصال یا بر زباں ، قصہ ہائے ان ابدال ( در عین من۳۵) سے ترجمہ : تو کئی گراہ کن قصے پیش کرتا ہے کہ یہ اہل کمال کی کرامات ہیں.اگر ان قصوں میں کوئی اثر ہوتا ، تو تیرا دل ناپاکی سے بہت دُور رہتا.اگر تو ہزاروں قصے بھی بیان کرتا رہے ، تب بھی تیرے دل کی خباثت ہر گز دور نہیں ہو سکتی.ان قصوں سے کوئی راستہ نہیں کھلتا ، لاکھوں بیان کرو، کس کام آسکتے ہیں.کچھ مدت تو اہل یعتیں کی صحبت میں بیٹھ تا تجھے دو حق شناس آنکھیں ملیں.تیرے اندر تو شیطان والی خصلتیں ہیں ، اور زبان پر ابدالوں کے قصے ہیں نہ

Page 162

اعتراضات کے جوابات حضرت اقدس نے اپنے فارسی کلام میں زیادہ تر ان اعتراضات کے جواب دیئے ہیں، جو اس زمانہ کے بد باطن مخالف اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر کرتے تھے.چونکہ آپ کو ان سے بے پناہ محبت تھی.اس لئے جب ان پر بیہودہ اعتراض کئے جاتے تو آپ کو بہت دکھ ہوتا تھا ،جو نہایت ہی پر درد اور بلیغ کلام کی صورت اختیار کر لیتا تھا.آپ خود فرماتے ہیں : رهبر ماستید ما مصطفه است به آنکه ندیدست نظیرش سروش آنکه خدا مثل مرخش نافرید : آنکه رمش مخزن بر عقل و ہوش دشمن دیں حملہ برو می کند : حیف بود اگر بنشینم خوش چوں سمن سفه بگوشم رسید : در دل من، خاست چو محشر خروش چند تو انم کہ مشکیسے گنم : چند گند صبر، دل زیر نوش ے ترجمہ : - ہمارے رہبر اور آقا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جن کا ثانی فرشتوں نے بھی نہیں دیکھا.ان جیسا چہرہ خدا نے اور کوئی پیدا نہیں کیا ، ان کا دین عقل و دانش کا حسنزانہ ہے دین کا دشمن ان پر حملہ کر رہا ہے ، مجھ پر افسوس اگر میں اب بھی خاموش بیٹھا رہوں.جب اس کمینے کی بات میرے کان میں پڑی ، تو میرے دل میں شور قیامت برپا ہو گی.میں کب تک صبر کر تا رہوں ، زہر پینے والا دل آخر کب تک صبر کر سکتا ہے.

Page 163

۱۳۹ ال نو مسلماں ، بہتر انز کا فرست : کش نبود ، از پئے آں پاک جوش جالی شود، اندوره پاکش فدا : مُردہ ہمیں است گر آید بگوش سرکہ نہ ور پائے عزیزش رود : باید گرای است، گشنیدن بادش ور ثمین صن) بعض بد باطن عیسائی مصنفین نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کثیرالازواجی پر زبان طعن دراز کی اور اسے سوامی دیانند کے چیلے چانٹوں نے خوب اچھالا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انتہائی جوش مگر پوری متانت سے ان کا جواب دیا.چونکہ یہ جواب بہت لمبا ہے اس لئے نمونہ کے طور پر اس کا ایک اقتباس ہی پیش کیا جاتا ہے.جس پر وضاحت کے لئے جگہ جگہ عنوانات لگا دیئے گئے ہیں.و جو ہستی تمام دنیا کے لئے منارہ نور اور دانائی کا کام دے رہی ہو.اس پر کوئی منصیف اور سنجید و مزاج شخص شہوت پرستی کا الزام نہیں دے سکتا.فرمایا : سے مے دہد فرعونیاں را ہر زماں : چو ید بیضائے موسیٰ صد نشاں! آن نبی در چیشم این کوران زار ہست یک شہوت پرست و کیس شعار شرمت آید اسے سنانا چیز و پست سے نہی نام میاں شہوت پرست ے ترجمہ : و شخص مسلمان نہیں بلکہ کافروں سے بھی بدتر ہے ، جسے اس پاک نبی کے لئے غیرت نہیں.اس کے پاک مذہب پر ہماری جان فدا ہو.اصل خوشخبری یہی ہے اگر کبھی سن سکیں.وہ سر جو اس کے مبارک قدموں میں کٹ کر نہ گرے ، اسے کندھوں پر لئے پھر نا نا قابل برداشت ہو مجھ ہے.سے ترجمہ : وہ جو ہر وقت فرعون صفت لوگوں کو یہ بھیا جیسے سینکڑوں نشان دکھاتا ہے.وہ نبجان ذلیل اندھوں کی نظر میں ایک شہوت پرست اور کینہ ور شخص ہے.اسے حقیر و ذلیل کہتے تجھے شرم آنی چاہیئے کہ تو پہلوانوں کا نام شہوت پرست رکھتا ہے.

Page 164

۱۴۰ این نشان شہوتی بہت اسے ٹیم : کنز رختش رخشان بود نورت دیم در شبه پیدا شود روزش کند به در خزان آید دل افروزش کند مظہر انوای آن بے چون بود ؛ در حسر دانه سر بشر افزوی بود اتباعش آی دید دل راکشا و به کش نه بیند کسی بصد سالہ جہاد اتباعش دل فروزد جان دهد : جلوه از طاقت یزداں دہر اتباعش سینه نورانی کند : با خبر انه یار پنهانی کنند منطق او از معارف پر بود به هر بیان او سرا سرور بود از کمال حکمت و تکمیل دیں : پاند بر اولین و آخریں و از کمال صورت و حسین اتم : جمله خوبان را کند زیر مت دم تابعش چون انبیاء گردد ز نور به نورش افتد بر همه نزدیک دواره ور تین مست لے ترجمہ والے کمینے کہا یہ شہوت پرست کی علامت ہے کہ اس کے چہرہ سے ازلی نور چمکتا ہے.اگر وہ رات کے وقت باہر آئے تو اسے دن بنا دے بخزاں کے موسم میں نکلے تو اسے دل کو روشن کرنے والی بہار بنادے.اس بے مثل ہستی (خدا) کے انوار کا مظہر ہو ، اور دانائی میں ہر انسان سے بڑھا ہوا ہو.اس کی پیروی دل کو اس قدر انشراح بخشے جسے کوئی شخص سینکڑوں سالوں کی کوشش سے بھی حاصل نہ کر سکے.اسکی پیری دل کو روشن کرے از زندگی بخشے خدائی طاقتوں کی تجلی دکھائے.اگی پیروی سینہ کو نورانی کرنے اور پوشید مجو سے آگاہ کر ہے.اس کا کلام معارف سے پر ہو.اور اسکی تمام باتیں سراسر موتی ہوں.دانائی کے کمال اور شریعت کو نکل کرنیکی وجہ سے اگلوں پچھلوں سب پر فائق ہو او شکل و مور کے کمال اور انتہائی حسن کی بنا پر سب سینوں کو رات کرنے ، اس وا پیر و نورانیت کی وجہ سے نبیوں کی مانند ہو جائے اور اس کی روشنی نزدیک اور ڈور سب پر پڑے :

Page 165

۱۴۱ ب - دیر اور بہادر آدمی کی اوٹی جذبہ کے تابع او مطیع نہیں ہو سکتے.وہ تو ہر چیز پر حاکم ہوتے ہیں : شیر حق پر ہیبت از رب جلیل به دشمنان پیشش پو روباه ذلیل این چنینی شیرے بود شہوت پرست؟ ؟ ہوش گئی اسے ویسے ناچیز و پست چیستی اے کو رک فطرت تباہ ؟ : طعنہ بر خوباں بدیں روئے سیاہ شهوت شان از سیر آزادی است : نے اسیر آن چو تو اس قوم مست خودنگر کی آن یک زندانی است و آن دگر داروغه سلطانی است گرچه در یکجاست هر دو را قرار : ایک فرقے ہست دوری آشکار کاری پاکاں پر بلا کر دن قیاس کار ناپاکان بود اسے بد حواس در ثمین ص۱۳) ج - خدا تعالے کے کامل محبت یاد الہی کے ساتھ دوسری ہر قسم کی ذمہ داریوں کے نبھانے پر بھی قادر ہوتے ہیں.پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اعلیٰ مقاصد کی خاطر زیادہ شادیاں کیں تو انہیں بطریق احسن نبھایا بھی ہے ے ترجمہ وہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے سچائی کا پر ہیبت شیر ہو اور شن اس کے سامنے ذلیل لومڑی کی طرح ہوں.کیا ایسا شیر شہوت پرست ہوا کرتا ہے ؟ اسے ذلیل و حقیر لومڑی ہوش میں آ.اسے ذلیل ید خطرات اندھے تو کیا چیز ہے ؟ کہ اس کا لے منہ سے حسینوں پر طعنہ زنی کرتا ہے ).ان (عاشقان اپنی ) کی شہوت آزادی کی بنا پر ہے، تیری طرح وہ مست جماعت شہوت کی قیدی نہیں.تو آپ غور کر کہ ایک شخص تو قیدی ہے اور دوسرا شخص شاہی داروغہ ہے، اگرچہ دونوں کی رہائش ایک ہی جگر ہے لیکن فرق ہے اور ان میں دوری ظاہر ہے.پاکوں کے معاملات کا بدوں پر قیاس کرنا ، اسے بیوقوف انسان ناپاک لوگوں کا کام ہے ؛

Page 166

۱۴۳ کا لاں گز شوق دلبر می روند : با دو صد بار سبکتر می روند این کمال آمد که با فرزند و زن : از همه فرزند و زن کیسو شدن در جهان و باز بیرون از جہاں ہے بس ہمیں باشد نشان کا ملاں چون ستورے زیر بار افتد بسر در تهی رفتن سریع و تیز تر ایس چنیں ایسے کجا آید بیکار به تابکار است این در اسپانش مدار اسپ آن اسپ است کو بار گراں : مے کشید ہم سے رو دین خوش عنان کا ملے گرزن بدار و صد ہزار به صد کنیزک صد ہزاراں کاروبار پس گرافتد در حضور او فتور نیست آن کامل زقربت هست دور نیست آن کامل زمردے زندہ جہاں ا گر خردمندی زمردانش بخوان کامل آن باشد که با فرزند وزن : با عیال و جمله مشغولی تن ؟ لے ترجمہ : کامل لوگ جو ہر کے شوق میں رواں ہیں.وہ روسو بوتھوں کے باوجود ہلکے پھلکے چلتے ہیں.کمال تو یہ ہے کہ اس کام، اولاد اور بیویوں کے باوجود سب اولاد اور بیویوں سے الگ رہتے ہیں.وہ دنیا میں بھی ہیں.پھر بھی دنیا سے الگ ہیں.بس کامل لوگوں کی یہی نشانی ہوتی ہے.جب کوئی گھوڑا بوجھ تلے آکر سر کے بل گر پڑے، مگر خالی چلنے میں چالاک اور تیز ہو، ایسا گھوڑا کہاں کام آسکتا ہے.وہ تو نکما ہے، اسے گھوڑوں میں مت شمار کردو، گھوڑا وہ گھوڑا ہے جو بھاری بوجھ اٹھا کر باگ کے محض الشارے پر چلتا ہے.اگرکسی کامل انسان کی لاکھوں عورتیں ہوں سینکڑوں لونڈیاں اور لاکھوں کا روبار ہوں پھر بھی اگر خدا کی طرف کی توجہ میں شکستی پیدا ہو جائے تو وہ کامل نہیں.وہ خدا کے قرب سے دور ہے.نہ تو وہ کامل ہے اور نہ وہ کوئی بیدار مغز مرد ہے، اگر تو عقلمند ہے تو اُسے مردوں میں شامل مت سمجھ.کامل وہ ہے جو بیوی بچوں کے با وجود اور باوجود اہل وعیال اور جسمانی مشاغل کے ،

Page 167

۱۳ با تجارت با همه بیع و شرا یک زمان غافل نه گردد از خدا این نشان قوت مردانه است به کاملان رائیس ہمیں پیمانہ اس سے دور شین به ۱۳۲۸) - عاشقان روئے خدا کو بھلا کر کسی دوسرے خیال میں محو ہو نے کی گنجائش کہاں ؟ ذرا آنحضرت کی زندگی پر نظر دوڑائیے ، اور محبوب حقیقی کے لئے آپ کی محویت دیکھئے : سوختہ جانے ز عشق دلبرے کے فراموشش کند با دیگرے او نظر دارد بغیر و دل به یار به دست در کار و خیال اندر نگاره دل طپاں در فرقت محبوب خویش سینه از ہجراں یار سے ریش ریش اوفتادہ دور از روئے کے : دل دواں ہر لحظہ در کوئے کیسے خم شده از غم چو ابروئے کسے : ہر زماں پیچاں ہو گیسوئے کیسے دلبرش در شد بجای مغز و پوست : راحت جانش بسیا در اوست جان شداو کے جان فراموش شود ؟ ؟ ہر زمان آید ہم آغوشش شود لے ترجمہ: باوجود تجارت اور حدید و فروخت کے کسی وقت بھی خدا سے غافل نہ رہے.یہ مردوں والی طاقت کا نشاں ہے اور کامل لوگوں کا یہی معیار ہے.نے ترجمہ : جو شخص کسی دیر کے عشق میں دل جلا ہو، وہ کسی دوسرے کی موجودگی میں بھی اسے کیسے بھول سکتا ہے ؟ اس کی نظر غیروں کی طرف ہوتی ہے لیکن دل یار میں موہوتا ہے گویا ہاتھ کا میں ور دھیان محبوب میں اپنے مجبو کے خیل میں اسکاول کر تا رہتاہے اور سیند دوست بھر میں تھی.وہ جو کے پرانے کو پڑا ہے لیکن میں وقت کسی دینی م یو کے کوچ میں پورا ہوا ہے وہ اسی

Page 168

۱۴۴ دیده چون بر دلبر مست اوفتد به هر چه غیر اوست از دست او فتد غیر گودر بر بود دور است دور : یار دور افتاده مردم در حضوره د در ثمین ۱۳ ۱۳۵۰ ھ - عاشقوں کے ظاہری حالات سے دھوک کا نہیں کھانا چاہیئے سے کاروبار عاشقان کار جدا است ؛ بر ترانه منکر و قیاسات شماست قوم عیارست دل در دلبری : چشم ظاہر ہیں یہ دیوار و درے جان خروشان از پٹے مہ پیکر : بر زبان صد قصه یا از دیگرے فانیان را مانعی از یار نیست به بچه وزن بر سرشان بار نیست باد و صد زنجیر هردم پیش یار : خار با او گل گل اندر به خار تو بیک فارسے برآری صد فغان به عاشقان خندان بپائے جانفشان د در ثمین (۱۳۵۰) ے ترجمہ : مست دلبر پہ جب نظر پڑتی ہے، تو جو دوست کے سوا ہو وہ ہاتھ سے گر پڑتا ہے.غیر اگر پہلومیں بھی ہوتو پھر بھی بہت دُور ہے اور دور گیا ہوا دوست ہر وقت اپنے پاس ہی معلوم ہوتا ہے.کے ترجمہ : عاشقوں کا کاروبار ایک اور ہی قسم کاکارڈ بار ہے ، جو تمہاری سوچ اور خیالات سے بالا ہے.یہ بڑی چالاک قوم ہے، دل توکسی دیرمیں لگا ہوتا ہے.اور ظاہری آنکھیں کسی اور ہی در و دیوار میں کی ہوتی ہیں.انکی جان تو ایک حسین کیلئے تڑپتی ہے اور زبان پر دوسروں کے سینکڑوں قصے ہوتے ہیں.فانی فی الدلوگوں کے لئے اس محبوب سے کوئی روک نہیں ہوتی.ان کے سرپر یوں بے وجہ نہیں ہوتے، وہ سینکڑوں بندھنوں کے باوجود مردم دوست حضورمیں رہتے ہیں.کسی نا ہوتے ہوئے ان کےلئے کانٹے پھول ہوتے ہیں.اور اس کی جدائی میں پھول کانٹے.تو ایک کانٹے سے سینکڑوں فریادیں کرنے لگتا ہے.لیکن عاشق لوگ جان قربان کرتے وقت بھی ہنستے رہتے ہیں.

Page 169

۱۴۵ فانی فی اللہ لوگوں کے تمام اعمال ذات باری تعالٰی کے قبضہ میں ہوتے ہیں.اس لئے ان سے کسی ناجائز کام کے سرزد ہونے کا امکان نہیں ہوتا ہے عاشقان در عظمت مولی فنا به غرق دریائے توحید انہ وفا کین و مهرشان همه بهر خداست : قهر نشان گر هست آن قبر ضد است آنکه در عشق احد محو و فناست : هرچه زواید زذات کبریاست فانی است و تیرا و تیر حق است به صید او در اصل نخچیر متقی است آنچه می باشد خدا را از صفات خود و مد در فانیاں آن پاک ذات خوئے حق گردد در ایشاں آشکار : از جمال و از حلال کردگار نطق شای لطف خدا هم قهرشان به قبر حق گردو نہ بچوں دیگراں فانیان هستند از خود دورتر : چون ملائک کارکن از دادگر گر فرشتہ قبض جانے می کند : یا کرم برنا تو انے مے کند این همه سختی و تمری از خداست : اور خواہش ہائے نفس خود جدا است ترجمہ : عاشق لوگ مولی کی عظمت میں فنا ہوتے ہیں، اور وفا کی وجہ سے دریائے توحید میں فرق ہوتے ہیں.انکی دوستی اور دشمنی سب خدا کے لئے ہے، اگر انہیں کبھی غصہ آتا ہے تو وہ خدا کا غصہ ہی ہوتا ہے جو شخص اس ذات واحد کے عشق میں محو اور فنا ہو، اسے جو کچھ بھی سرزد ہو وہ خدا کی طرف سے ہی ہوتا ہے ایسا عاشق ، فانی فی اللہ ہے.اس کا تیر خدا کا تیر ہے، اسکا شکار در اصل خدا کا شکار ہے.خدا تعالیٰ کی جوصفات ہیں وہ پاک ذرات ان صفا کو فانی فی اللہ لوگوں میں خود پھونک دیتا ہے.خدا کی صفات ان میں ظاہر ہو جاتی ہیں.خواہ وہ خدا کی جمالی صفات ہوں یا جلالی ہوں.انکی نمر می خدا کی نرمی ہوتی ہے ، اور انکی سختی خدا کی سختی بن جاتی ہے.ان کا معامہ) دوسروں کی طرح نہیں ہوتا.وہ فانی ہیں اور اپنی خودی سے بالکل دور، فرشتوں کی طرح خدائے منصف کے کارند سے ہیں.اگر فرشتہ کسی کی جان نکالتا ہے یا کسی کمزور پر رہبانی کرتا ہے.یہ بختی اور نمی خدا کی طرف سے ہی ہوتی ہے وہ فرشتہ تواپنی خواہش سے بال لگا ہے.

Page 170

۱۳۶ ہمچنیں مے والی مقام انبیا واصلان و فاصلان انه ماسوا مانی اند و اگه ربانی اند نوری در جامه انسانی اند در ثمین ۱۳-۱۳۷) ها نسی.ان لوگوں کی حقیقت دنیا داروں کی نگاہ سے پوشیدہ ہوتی ہے سے سخت پنہاں در قباب حضرت اند ، گم ز خود در رنگ و آب حضرت اند اختران آسمان زیب و فر به رفته اند چشم خلائق دور تر کسی از قدیر نورشان آگاه نیست : ز آنکه ادنی را با علی راه نیست کور کورانہ زندہ رائے دنی : چشم کورش بے خبر زاں روشنی ہمچنیں تو اسے عدد مصطفے : سے نمائی کو ریئے خود را بما بر قمر عو عوکنی از سنگ رگی بے نور مه کمتر نہ گردو زمیں سنگی ! مصطفی آئینہ روئے خداست : منعکس درد سے ہماں خوئے خداست ہے لے ترجمہ : اس طرح انبیاء کا مقام سمجھ لو وہ خدا سے تعلق رکھتے ہیں.اور غیروں سے لاتعلق رہتے ہیں.وہ فانی فی اللہ ہیں اور خدا کا ہتھیار ہیں، انسانی لباس میں خدا کا نور ہیں.ے ترجمہ : وہ بارگاہ الہی کے گنبد میں چھپے ہوئے ہیں.وہ اپنے اپنے گم اور خدا کے رنگ و روپ میں ہیں.وہ زیبائش اور شان و شوکر کے آسمان کے ستارے ہیں.اور لوگوں کی نظروں سے بہت دور چلے گئے ہیں.کوئی ان کے نور کے اندر سے واقف نہیں، کیڈ کہ ادنی کو اعلیٰ تک رسائی نہیں ہوتی.اندھا رائے بھی اندھوں والی ہی دیتا ہے.اس کی اندھی آنکھیں روشنی سے ناآشنا ہوتی ہیں.اسی طرح تو بھی اسے مصطفے کے دشمن ہمیں اپنا اندھاپن دکھاتا ہے.کہتے کی خصلت کی وجہ سے تو چاند پربھونکتا ہے، لیکن اس کتے پین سے چاند کی روشنی کم نہیں ہوتی.مصطفے " تو خدا کے چہرہ کا ایگیتہ ہے.اس میں وہی خدا کی صفات منعکس ہیں.

Page 171

۱۴۵ گر ندیدستی خدا او را بیس : من رانی قدری الحق اپی لیتی ہے دور تمکین ۱۳۶۵/ ۱۳۸ - مستان خدا پر جو انگلی اٹھاتا ہے.اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا ہے آنکه آویزد به مستان هندا به خصم او گردد جناب کبریا دست حق تائید این مستان کند بے چون کسے با دست حق دستان کند منزل شای برتر از صد آسمانی بس نہاں اندر نہاں اندر نہاں پا فشرده در وفائے دہرے : و از سرش بر خاک افتاده سری جان خود را سوخته بهر نگار : زنده گشته بعد مرگ صد ہزار صاحب چشم اند آنجا بے تمیز و پیٹی کوردان خود نباشد هیچ چیز روئے شان آن آتا ہے کا ندران : چشم مردان خیرہ ہم چون شتر الی ور ثمین (۱۳۸) لے ترجمہ : اگر تونے خدا کو نہیں دیکھا، تواس کو دیکھ لے.یہ حدیث یقینی ہے کہ سنے مجھے دیکھا اتنی مد کو دیکھ لیا.کے ترجمہ : جو شخص خدا کے عاشقوں سے الجھتا ہے، تو جناب ابلی خود اس کے دشمن بن جاتے ہیں.خدا کا ہاتھ ان عاشقوں کی مدد کرتا ہے، خدا کے ہاتھ کے خلاف کوئی شخص کیسے کوئی حیلے کر سکتا ہے.ان کا مقام سینکڑوں آسمانوں سے بھی بہت اونچا ہے.وہ تو مخفی د مخفی در مخفی ہوتے ہیں.وہ دلیر کی وفاداری میں ثابت قدم رہتے ہیں.اور اس کے دھیان میں ان کا سر مٹی پر پڑا ہوتا ہے.انہوں نے محبوب کی خاطر اپنی جان کو جلا ڈالا ہے.اور لاکھوں موتوں کے بعد پھر زندہ ہو گئے ہیں.اس جگہ تو آنکھوں والوں کو بھی کچھ کچھ نہیں پڑتا.تو اندھوں کی آنکھوں کی بھلا کیا حقیقت ہے جو ان کا چہرہ الیسا سورج ہے کہ اس کی روشنی میں مردوں کی آنکھیں بھی چمگادڑوں کی طرح شیرہ ہو جاتی ہیں.

Page 172

۱۳۸ ط - نیک لوگوں پر اعتراض کرنا نا اہلی اور بے عقلی کا نتیجہ ہوتا ہے سے تو خودی زن رائے تو بچوں زنای ناقص ابن ناقص این ناقصاں خوب گریزد تو زشت است و تباه : پس چه خواهم نام تو اسے روسیاه کوریت صد پرده ها بر تو فگند نہ میں تعصب ہائے تو بیت بکند اسے بسا محبوب ای رب جلیل به پیشت از کوری تغییر است و ذلیل اسے بس کس خوردہ صد جام فت : پیش این چشمت پر از حرص و ہوا گر نماندے ازر وجود تو نشاں : نیک بودے میں حیات چون گلی زاغ گرزادے بجایت مادرت نیک بود از فطرت بد گوهرت ز آنکه کذب فسق و گفت در سر است و این نجاست خواریت زنان بدتر است تو ہلا کی اسے شقی سرمدی : زانکه از جان جہاں سرکش شدنی در ثمین ۱۳) کے ترجمہ : تو خود عورت ہے تیری رائے بھی عورتوں جیسی ہے، تو ناقص ہے ناقص کا بیٹا اور نا قصوں کی اولاد ہے ، اگر ایک حسین تیرے نزدیک بارکل اور خراب حال ہے، تو اسے روسیاہ میں تیرا کیا نام رکھوں تیری نا بینائی نے تجھ پر سینکڑوں پرڑے ڈال رکھے ہیں ، اور ان تعصب والی باتوں نے تیری جیڑ اکھاڑ دی ہے.اس خدائے ذوالجلال کے بہت سے محجوب تیرے نزدیک تیرے اندھے پن کی وجہ سے ذلیل او حقیر ہیں ، کتنے لوگ ہیں جنہوں نے فنا کے سینکڑوں جام ہے، لیکن تیری ان آنکھوں میں وہ بھی حرص ولالچ سے بھرے ہوئے ہیں اگر تیری ہستی کا نام و نشان مٹ جاتا.تو اس کتوں جیسی زندگی سے بہتر ہوتا، اگر تیری الدہ نیری بجائے کوئی کو جنتی - توتیری اس بد اصل فطرت کی نسبت اچھا ہوتا.کیونکہ تیرے سر میں جھوٹ افسق اور کفر بھرا پڑا ہے ، اور گندگی کھانے کی یہ تیری عادت اسے بھی بدتر ہے.آزلی بدبخت تو ہلاک شد ہے.کیونکہ اس جہانوں کی جان سے بھی باغی ہو گیا ہے :

Page 173

۱۳۹.آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے غلاموں کو دیکھیئے جن کے غلام ایسے ہوں ان کی اپنی شان کیسی ہوگی: اے در انکار و شکے از شاہ دیں : خادمان و چاکرانش را ببین کس ندیده از بزرگانت نشان نیست در دست تو بیش از داستان لیک گر خواهی بیا بنگر زما : صد نشان صدق شان مصطفی ہاں بیا اسے دیدہ بستر از حد به تا شعاعش پرده تو بر درد! صادقان را نور حق تابد مدام : کا زبان مردند و شد ترکی تمام مصطفی مهر درخشان خداست به بر عدوش لعنت ارض و سماست این نشان لعنت آمد کایی خسان به مانده اند ظلمتے چون شتران! نے دل صافی نہ عقلے راہ میں بے راندہ درگاہ رب العالمین ! جان کنی صد کن یکین مصطفے : ره نه بینی جز بدین معا گئی مصطفے تانه نور احمد آید چاره گر :: کس نمی گیرد نه تاریخی بدری اے ترجمہ : اے وہ شخص کہ تو دین کے بادشاہ سے انکاری اور شاکی ہے ، اس کے خادموں اور نوکروں کو ہی دیکھ ہے.تیرے بزرگوں کی توکوئی نشانی کس نے نہیں دیکھی تیرے ہاتھوںمیں توقصے کہانیوںکے سوا اور کچن ہیں لیکن اگر تو چاہے تو ہمارے پاس آ.اور ہم سے مصطفے کی شان ی سچائی کے سینکڑوں نشان دیکھ لے.ہاں اس شخص جیسی حمد سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اسکی روشن تیرا پردہ پھاڑ ڈالے بچوں کی چائی کا اور یہ کہتا رہتا ہے جھوٹے مرگئے اور ان کی تورکی تمام ہوگئی مسلئے ہند کا چمکتا ہوا سورج ہے اسکے دشمن پر زمین و آسمان کی لعنت ہے، لعنت کا یہی تو نشان ہے کہ یہ دلیل لوگ چمگادڑوں کی طرح اندھیرے میں پڑے ہوئے ہیں.نہ ان کا دل صاف ہے ، نہ انکی عقل کو راستہ نظر آتا ہے.وہ رب العالمین کی درگاہ سے دھتکارے ہوئے ہیں.تو مصطفے کی شنی میں سو دفعہ بھی اپنی جان ہلاک کرے.پھر بھی دین ملے کے سوا تجھے کوئی رسیدھا راستہ نہیں ملے گا جب تک احمد کی روشتی چارہ گر نہ ہو، تب تک کوئی اندھیرے سے باہر نہیں نکل سکتا.

Page 174

10.d از طفیل اوست نور ہر نبی ! : نام ہر مرسل بنام او جلی دور ثمین ض۱۳ - ۱۳۱) حسن کلام کے لئے دو چیزیں نہایت ضروری ہیں.ایک مناسب الفاظ دوسرے عمدہ معانی، یہاں دونوں چیزیں اپنی معراج پر ہیں.رد اعتراض کے لئے نہ صرف اچھوتے دلائل پیش کئے گئے ہیں بلکہ زبان بھی نہایت شستہ استعمال کی گئی ہے.الفاظ کا یہ حال ہے کہ نگینوں کی طرح چمکتے ہیں.اور معانی کی یہ شان کہ ہر بات دل میں اترتی چلی جاتی ہے.بینچ فرمایا ہے خدائے بزرگ ہر کرتے :.در کلام تو چیز است که شعاره را دران دخله نیست" دتذکرہ ۶ وراء ایڈیشن ۶۵۸ ه سطہ ترجمہ ، ہر نبی کا نور اسی کے طفیل ہے اور ہر رسول کا نام اسی کے نام سے روشن ہے ؛

Page 175

اها مناجات اسلامی شعراء کا یہ دستور رہا ہے کہ اپنے کلام کے شروع میں یا آخر میں مناجات ضرور سکھتے ہیں حضرت اقدس نے بھی اس بات کا التزام فرمایا ہے.مثال کے طور پر چند شعر ذیل میں درج کئے جاتے ہیں : اسے خدا وند من گناهم بخش با سوئے درگاه خویش را هم بخش روشنی بخش در دل و جانم : پاک کن از گناه پنتانم دستانی و دلربائی کئی : یہ نگا ہے گرہ کشائی کی در دو عالم را عزیز توئی : و آنچه می خواهم از تو نیز توئی لے در ثمین ص) اسے خدا وندم به خیل انبیاء و کش فرستادی به فضل وافر ہے معرفت ہم ده چو بخشیدی دلم : کے بدہ زاں سالی که دادی ساغر نے " ے ترجمہ :.اے میرے خدا میرے گناہ بخش دے اور اپنی بارگاہ کی طرف مجھے راستہ ہے.میرے دل و جان میں روشنی عطا کر اور مجھے پوشیدہ گنا ہوں سے پاک کردے ، تو خوںہی داستانی اور دریائی کرو اور ایک ہی نظر ان کو میری مامان دور کرے ، دونوں جہانوں میں تو ہی مجھے پیارا ہے.اور جو چیز کی تجھ سے مانگتا ہوں وہ تو ہی ہے اور کچھ نہیں.کے ترجمہ :.اے میرے خدان انبیاء کی جماعت کے طفیل جنہیں تونے بڑے بھاری فضلوں کے ساتھ بھیجا ہے مجھے اپنی معرفت بھی عطا کہ جیسے کہ تو نے دل دیا ہے، اور جیسے جام دیا ہے ، اسی طرح شراب بھی رہے.

Page 176

اسے خدا وندم بنام مصطفے : کش شدی در هر مقامی نظرے دست من گیر ازره لطف و کرم : در مہتم باش یارو یا دور ہے تکیه بر زور تو دارم گرچه من با ہمچو خاکم بلکہ زاں ہم کمتر ہے ور مشین من) اسے خالق ارض و ما بر سن در رحمت کشا : دانی تو آن در مراکز دیگران پنہاں کنم ز این طیفی دل را در هر رگ و تارم در تاجو خود با هم ترا دل خوشتر از بتن کنم در سرکشی سے پاک خو جان بر کنم در بھر تو : زانسان ہے گریم کز ویک معاملے گریاں کنم خوابی بیرم کی جدا خواری بمعظم رون : خواہی بخش یا کسی را سے ترک آن داماں کنی ہے ور ثمین ) لے ترجمہ :.اے میرے خدا مصطفے کے نام پر جس کا تو ہر جگہ مرد گا رہا ہے.اپنے لطف و کرم سے میرا ہاتھ تھام اور میرے اس اہم کام میں میرا ساتھی اور مددگار بن جا مجھے تیری ہی طاقت پر بھروسہ ہے.اگرچہ میں خود خاک کی طرح ہوں ، بلکہ اس سے بھی گھٹیا.کے ترجمہ :.اے زمین وآسمان کے خالق ، مجھ پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دے تو میرے اس درد کو جانتا ہے جو میں دوسروں سے چھپاتا ہوں.اسے دہر تو بید لطیف ہے.میر برگ ریشہ یں کا جا تائیں تجھے اپنے آپ میں پاؤں اور اپنا دل باغ سے بھی زیادہ خوش کروں.اسے اچھی صفتوں والے اگر تو دمیری یہ درخواست قبول زرکر ہے.تو میں تیرے فراق میں جان دیدوں گا.اور اتنا دوں گا کہ اسکی ایک دنیا کو رلا دوں گا.خواہ تو سختی سے مجھے اپنے آپ سے جدا کر دے خواہ مہربانی کر کے کھڑا دکھائے، چاہے مار ڈال اور چاہے چھوڑے میں کس طرح میرا دامن چھوڑ سکتا ہوں ؟

Page 177

تزئین کلام اعلیٰ درجہ کے شاعر تکلف سے اپنے کلام کو نائع بدائع سے آراستہ نہیں کرتے بلکہ ان کی طبع رسا کے طفیل یہ خوبیاں خود بخود ان کے کلام میں در آتی ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں بھی وہ تمام محاسن شعری موجود ہیں تو ایک قادر الکلام شاعر کے کلام میں طبعا موجود ہونے چاہئیں.بلکہ ان سے بھی بڑھ کر خوبیاں آپ کے کلام میں پائی جاتی ہیں.جیساکہ اللہ تعالیٰ نے خود آپ کو اہانا فرمایا تھا:.در کلام تو چیز عیست که شعراء را درای دخله نیست تذکرہ طبع اء منها) یعنی آپ کے کلام میں ایک ایسی چیز ہے جس تک شاعروں کی رسائی نہیں.حضرت اقدس کے کلام کے محاسن اجاگر کرنے کے لئے آئندہ صفحات میں بلاغت کے ہر فن کے متعلق آپ کے کلام سے بعض اشعار بطور نمونہ پیش کئے جائیں گے.اور اس کے بعد یہ دکھایا جائے گا.کہ آپ کے سادہ اشعار میں بھی وہ کشش اور تاثیر ہے جو دوسروں کے مرصع اشعار میں بھی نہیں پائی جاتی لیکن پہلے بلاغت کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا ہے.بلاغت | مقدمہ بہشت بہشت میں مرقوم ہے :- بلاغت تو یہ ہے کہ کلام وقت اور حال کے مطابق ہو.انسان میں گوناگوں خیالات اور جذبات پائے جاتے ہیں کی بھی غم و غصہ ہے اور کبھی مسرت و مہربانی ایک وقت بیتابی و بیقراری ہے، تو دوسرے وقت راحت و سکون کی بھی مستی و

Page 178

سم ۱۵ ہوتی ہے.اور کبھی باخوری و پیشیاری پس جس حالت و کیفیت کا بیان ہو کلام اگر اس میں اس طرح ڈوبا ہوا ہو کہ کہنے والا کہہ رہا ہے اور سننے والے کی آنکھوں کے سامنے اس کا نقشہ کھینچا جاتا ہے تفصیل کی جگہ وضاحت ہے اور اجمال کی جگہ اختصار، تو وہ کلام بلیغ کہا جائے گا " فن بلاغت تین اہم پہلوؤں پر مشتمل ہے :- مقدمه بهشت بهشت مث) 1 - علم بیان یعنی امثلہ کے ذریعہ وضاحت.اس میں تشبیہ ، استعارہ ، مجاز مرسل اور کنایہ شامل ہیں.ب.علم بدیع.اس سے چند ایسے امور مرد ہیں جو کام کی خوبصورتی کا باعث بنتے ہیں.انہیں صنائع معنوی و لفظی کہتے ہیں.ج - سلاست یعنی مناسب الفاظ کا استعمال اور ان کی صحیح ترتیب نیز ضعف تالیف ، تنافر کلمات ، اور تعقید معنوی و لفظی سے پر ہیز.ان تینوں کی مثالیں آگے پیش کی جار ہی ہیں.

Page 179

۱۵۵ ا - علم بیان و.بلاغت کی ایک شق علیم بیان ہے یعنی کلام میں تشبیہ، استعارہ وغیرہ کا استعمال.یہ ہر زبان میں بہت عام ہے.حتی کہ اگر کوئی شخص یہ کوشش کرے کہ ان کے بغیر چند صفحے ہی سکھے تو قریب قریب ناممکن ہوگا.پس ہر شاعر خواہ ادنی ہو یا اعلیٰ اپنے کلام میں تشبیہات اور استعارات ضرور استعمال کرتا ہے.اور جتنے اونچے مرتبہ کا شاعر ہو.اتنی ہی موزوں تشبیہات ، لطیف استعارے اور بلیغ کنائے اس کے کلام میں پائے جائیں گے.ان اصطلاحات کی مختصر تعریف نیچے درج کی جاتی ہے.تا جن احباب کو اس علم سے واقفیت نہیں وہ ان تعریفوں کی روشنی میں حضرت اقدس کے کلام کے ایسے محاسن کو جانچ سکیں.تشبیہ یہ ہے کہ کسی چیز کی کوئی صفت نمایاں کرنے کی خاطر حرف تشبیہ درمیان میں لاکر اسے اس سے ملتی جلتی کسی ایسی چیز سے مشابہ قرار دیا جائے جس میں وہ صفت زیادہ نمایاں طور پر پائی جاتی ہو.مثلاً تکیه بر زور تو دارم گرچه من ! ہمچو خاکم بلکہ زماں ہم کمتر ہے ور تمین ) اس میں من دیعنی میں مشتبہ ہے.اور خاک مشتبہ بہر دانہیں طرفین تشبیہ کہتے ہیں، ہمجھ حرف تشبیہ ہے.وجہ شبہ کم مائی ہے، جو دونوں میں مشترک ہے.لیکن خاک میں زیادہ نمایاں ہے.ے ترجمہ : میں تیری قوت پر ہی بھروسہ رکھتا ہوں.اگر چہ میں خود مٹی کی طرح ہوں، بلکہ اس سے بھی کم تو ؟

Page 180

(04 غرض تشبیہ اپنے آپ میں کم مائگی کے اظہار کا مبالغہ ہے.جو مشبہ کی نسبت مشبہ بہ میں بہت زیادہ ہے.مشہر اور مشبہ بہ میں ایک لحاظ سے اشتراک اور ایک لحاظ سے افتراق ہونا چاہیے.اگر دونوں ہر لحاظ سے مساوی ہوں، تو تشبیہ باطل ہو جائے گی.مزید شائیں یکھیے نعرہ ہائے زنم بر آب نکال : بچھو ما در دواں ہے اطفال کے ہمدردی اور خیر خواہی کی کیسی دلنشیں تشبیہ ہے.در تمین هشت) از حقایق غافل و بیگانه اند : ہمچو طفلاں مائل افسانه الله د در ثمین ) یہاں ان کی تعمیر ایشان مشبہ اور طوں مشبہ بہ اور ہمچو حرف تشبیہ ہے.وجہ شہر سادگی اور سادہ لوحی ہے.جو بچوں میں کامل طور پر پائی جاتی ہے.سے دہم فرعونیاں را ہر زماں : چون ید بیضیائے موسی صد نشان له دور ثمین ۲۵ دیکھئے ید بیضا کی تشبیہ سے نشان کی عظمت کیسی واضح ہو جاتی ہے.ذره را تو بیک جلوه کنی چون خورشید : اے بس خاک کر چو مه تاباں کر دی تھی در زمین شنا) ترجمہ : میں مصفاپانی کے چشمہ پر کھڑا پکار رہا ہوں جس طرح ان اپنے بچوں کے پیچھے دوڑ رہی ہو.کے ترجمہ : وہ حقائق سے نائل اور بیگا نہ ہیں اور بچوں کی طرح افسانوں کی طرف مائل ہیں.سے ترجمہ ہیں ہر وقت فرعونی صفت لوگوں کو حضرت موسیٰ کے ید بیضا جیسے سینکڑوں نشان دکھاتا ہوں.ے ترجمہ : اے محبت تو ایک تجلی ہے ذرہ کو سورج کی مانند بنادیتی ہے اور بت فوت کے خاک چمکتے ہوئے چاند کی طر بناد

Page 181

۱۵۷ ذرہ اور خاک مشبہ اور خورشید اور مہ تاباں مشبہ بہ ہیں.دونوں جگہ چوں حرف تشبیہ ہے اور وجہ شبہ چمک اور روشنی ہے جو سورج اور چاند میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے.بعض دفعہ حرف تشبیہ کو حذف بھی کر دیتے ہیں.اور یہ دو طرح ہوتا ہے.اول یہ کہ مشتبہ کو مشتبہ یہ قرار دیا جائے.اور دونوں مذکور ہوں.جیسے.هست فرقان مبارک از خدا طیب شجر به نونهال و نیک پودرشت یه دار و پر زیدیه ور ثمین ص) یہاں فرقان مشتبہ ہے اور شجر مشتبہ یہ اور دونوں مذکور ہیں لیکن حرف تشبیہ مذکور نہیں.البتہ دوسرے مصرع میں وجوہات تشبیہ مذکور ہیں.اس شعر سے قرآن کریم کی عظمت کا بہت ہی خوبصورت اور علی طریق پر اظہار ہوتا ہے یعنی قرآن کریم شجر طیب کی طرح ہے جس میں یہ یہ خوبیاں ہیں.اگر مشتبہ اور مشبہ بہ میں سے ایک مذکور ہو اور دوسرا مذکور نہ ہو.تو اسے استعارہ کہتے ہیں جس کا حال آگے آئے گا.دوسرا طریق حرف تشبیہ کو حذف کرنے کا یہ ہے کہ مشبہ بہ کومشتبہ کی طرف مضاف کریں.جیسے زبوئے نافیہ عرفان چو محروم از بودند : پسندیدند در این شیر خلق این ملت راسه دور ثمین خدا یعنی عرفان مانند نافہ.ان مثالوں سے تشبیہ، استعارہ وغیرہ کی تفاصیل پیش کرنا مقصود - بمطابق اغلاط نام شموله برا امین احمدیه د بر چهار حصته ، طبع اول ے ترجمہ : قان مبارک خدا کی رو سے ایک پاکیزہ ، بخت ہے ، جو تر و ازہ خوشبو دار سایہ دارا و سپیدار ہے.کے ترجمہ: چونکہ معروں کی نوشبو سے ازل سے ہی کرم تھے اسلئے انہونی شہنشاہ عالم کی شان میں ذلت سند کی.

Page 182

10A نہیں بلکہ یہ دکھانا مقصود ہے.کہ حضرت اقدس اخلاقی اور روحانی مطالب بیان کرنے کے لئے مختلف فنون بلاغت کو کس خوبصورتی اور مہارت سے اپنے کام میں لائے.یہی شعر دیکھئے آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی شان کا صحیح اور مکمل اور اک نہ کر سکنے کی وجہ یہ قرار دیتے ہیں کہ وہ لوگ عرفان کے نافہ ریعنی وہ عرفان جو نافہ کی طرح بہت ہی خوشبو ، فرحت اور خوشخبریاں دینے والا ہے اس) سے ہمیشہ محروم رہے ہیں.الفاظ کی خوبصورتی سامع کی توجہ کو کس شدت سے اپنی طرف مبذول کرا رہی ہے.اسی اضافت کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک تشبیہی اور دوسری استعماری.۵ - اضافت تشبیہی :- وہ اضافت ہے جس میں مضاف اور مضاف الیہ میں مشابہت کا تعلق ہو.جیسے تیز نگاہ یعنی ایسی نگاہ جو دل میں جاکر لگنے اور اسے زخمی کرنے میں تیر کی مانند ہو.4- اضافت استعاری : وہ اضافت ہے جو مضاف کو مضاف الیہ کا حتہ یا جزو ظاہر کرے.لیکن حقیقت میں وہ مضاف الیہ کا حصہ یا جزو نہ ہو جیسے پائے خیال متقاضی فرد دست حسرت اضافت تشبیہی اور اضافت استعاری میں فرق یہ ہے کہ) : اضافت تشبیبی میں مضاف اور مضاف الیہ کی جگہ تبدیل کر کے ان کے درمیان مانند لگایا جائے تو مطلب میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا.جیسے تیز نگاہ.نگاہ 411 مانند تیرین جائے گا.جس کا مطلب واضح ہے.(۲) اضافت استعماری میں مضاف اور مضاف الیہ کی جگہ بدلنے سے کچھ مطلب سمجھ میں نہیں آئے گا.پائے خیال اور ناخن خرد کی جگہ بدلنے سے خیال مانند پا یا خرد مانند ناخن بن جائیں گے.جو بالکل مہمل اور بے معنی میں یا رخود آموز فارسی حصہ اول ۳۹۰۰۵ یہ اضافت استعاری معطل کا استعارہ نہیں بن جاتی کیونکہ استعارہ ہیں مشتبہ اور مشبہ بہ میں سے

Page 183

۱۵۹ ایک کا حذف کرنا ضروری ہے.لیکن اضافت استعاری ہیں یہ صورت نہیں.اس لئے اس کی شائیں صورت نہیں.یہیں پیش کی جائیں گی.اب حضرت مسیح موعود کے کلام میں ان اضافتوں کا استعمال دیکھئے.الفاظ کے بیحد مختصر ہونے کے باوجود معانی میں کیسی وضاحت، وسعت اور شدت پیدا ہو جاتی ہے اور کلام نہایت فصیح و بلیغ بن جاتا ہے.اضافت تشبیہی کی مثالیں : (1) بارای فضل رحمان آمد بمقدم او نه با قسمت آنکه از سوئے اگر دو ویژه یعنی فضل مانند باران (بارش بلحاظ تو اتر و کثرت سے (۲) در نه باز از شورش و انکار : جیفه کذب را محور زنبانه در ثمین ماده ) یعنی کذب مانند حیفه دمر دار بلحاظ حرمت اور تعفن است (۳) بر من چراکشی تو چنین خنجر زبان : از خود نیم ز قادر ذوالمجد والبرشم در ثمین (شل) است ور ثمین صلا) ترجمہ: رحمان کے منفصل کی بانش اس کے آنے کے ساتھ آئی.بدقسمت ہے وہ جو اسے چھوڑ کر دوسری طرف بھاگا.داسی شعر کے صحیح معنوں کی طرف حضرت اقدس کے ایک عربی شعر سے رہنمائی ہوتی ہے.فرمایا اے عباديكون كمبشرات وجود هم : اذا ما اتوا فالغيث يأتي ويمطر یعنی یہ وہ بند ہیں کرمون سون ہوا کی طرحان کا وجود ہوتا ہے جب آتےہیں میں اتھے ہی بار رحمت کی یہی ہے امید ہیں اور حد یہ ہے ے ترجمہ :.ورنہ فساد اور انکار سے باز آ اور جھوٹ کی سٹڑی ہوئی لاش ہر گز نہ کھا.کے ترجمہ :- تو مجھ پر اس طرح زبان کی چھری کیوں چلاتا ہے، ہمیں خود نہیں آیا بلکہ خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے.

Page 184

14- یعنی زبان مانند خنجر (چھری بلحاظ زخمی کرنے کے) ہے (۳) این چشمه روان که بخلق خداد هم یک قطره زیر کمال حمد است به - د در ثمین مرده یعنی کمال مانند بحر (دریا بلحاظ وسعت، گہرائی اور فیض رسانی) سے (۵) تا نشد مشعلی زعیب پدید : پدید و از شب تایر جبل کسی نورسیده یعنی جبل مانند شب تار داند میری رات بلحاظ فقدان روشنی ) ) د در ثمین ۳۲۵) اضافت استعاری سے معانی میں اور بھی زیادہ وضاحت ، وسعت اور شدت پیدا ہو جاتی ہے اس کی کئی اغراضی ہیں.اول یہ کہ مضاف بظا ہر مضاف الیہ کا بجز و معلوم ہوتا ہے.لیکن دراصل وہ مضاف الیہ کے کسی خاص پہلو کو نمایاں کرتا ہے.اس کی مثالیں دیکھئے : ہے (۱) اگر باز باشد ترا گوش ہوش زگورت ندائے در آید بگوش ر در ثمین صدا ) یعنی گوش سفنے کا آلہ ہے ، اور کسی بات کو سن کر انسان ھو گا اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے.پس فرمایا کہ اگر تیرے ہوش کے کان کھلے ہوں یعنی اگر ابھی تک تم میں کسی نصیحت کو سن کر اس کی طرف توجہ کرنے کی صلاحیت باقی ہو تو تجھے قبر سے آواز سنائی دے گی سے ے ترجمہ : معارف کا یہ چشمہ رواں جو میں مخلوق خدا کو دے رہا ہوں.یہ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کے سمندر میں سے ایک قطرہ ہے.کے ترجمہ : جب تک غیر سے کوئی مشکل ظاہر نہ ہوئی ، تب تک جہالت کی اندھیری رات سے کسی نے رہائی نہ پائی.کے ترجمہ اگر تیرے ہوش کے کان کھلے ہوں تو تجھے قبر سے یہ آواز سنائی دے گی.

Page 185

190 (۳) بہر حاجت گشت حاجت روا به کشور از ترحم دو دست و عالی ور ثمین ص ) ہاتھ کسی چیز کے دینے کا ذریعہ ہیں.لہذا فرمایا کہ اس نے تو اپنے انعامات دینے کے لئے دونو ہا تھ کھول رکھے ہیں سے یکدم از خود دور شو بهر خدا : تا مگر نوشی تو کاسات لقاه در ثمین ) کا سہ بھی مشروب دینے کا آلہ ہے پس اگر تو خُدا کی خاطر اپنی خودی کو چھوڑ دے، تو تو خدا کا دیدار حاصل کر سکے گا.کاسات کا لفظ بصیغہ جمع لانے سے مراد یہ ہے کہ تجھے بار بار دیدار الہی حاصل ہوگا سے (۳) عشق است که بر خاک مذلت غلطاند به عشق است که براتیش سوزان بنشانده (۵) دور ثمین (۱۲۵) خاک خستہ حالی اور ذلت کی مظہر ہے.پس فرمایا کہ عشق ذلت کی انتہا تک پہنچاتا ہے سے گیر جسم خود ، یکی برباد : چوں نے گردو از حسدا آبادی + ور تین ۳۵۳) کلبه تنگی، بے سروسامانی اور بے مائیگی کا مظہر ہے.اس میں تھی شان و شوکت پیدا ہوسکتی ے ترجمہ : - تیری ہر ضرورت کا وہ خود متکفل بنا.اور رحم کر کے اپنی سخاوت کے دونو ہا تھ کھول دئے.کے ترجمہ :.خدا کی خاطر اپنے نفس سے بجلی کنارہ کشی اختیار کر لے.تا تجھے اس کے دیدار کے پیالے پینا نصیب ہوں.سے ترجمہ :.دمشق ہی ہے، جو انسان کو ذلت کی خاک پر تڑپاتا ہے عشق ہی ہے جو جلتی ہوئی آگ پر بٹھاتا ہے.کے ترجمہ:.اپنے جسم کی جھونپڑی کو برباد کر لے ،اگر وہ خدا کے عشق سے آباد نہیں ہوتی.

Page 186

جب اس میں خدا اسمائے اگر یہ نہیں تو اس حقیر چیز کو برباد کر دے.دوم یہ کہ معاف ، مضاف الیہ کا متبادل ہو.یعنی کسی خاص صفت کو نمایاں کرنے کے لئے مضاف کو بعینہ مضاف الیہ قرار دیا جائے جس میں وہ صفت زیادہ نمایاں ہو جیسے اے (۱) عقل را نمای چمن نه بود خیر : طائر منکر بود سوخته پوره ور ثمین صلا) فکر سوچ کے ناکارہ ہو جانے کی خاصیت کو نمایاں کرنے کیلئے اسے سوختہ پر پرندہ قرار دیاسے (۲) بارہا آپ خود نگار آورد : تا نخیل قیاس بار آورده (۳) دور ثمین سلام نشو و نما پانے اور پھل دینے کی اہلیت کو نمایاں کرنے کے لئے قیاس کو نخیل قرار دیا ہے بده از چشم خود این درختان محبت را با مگر رواز سے ہندت میو ہائے پریاں تورات دور ثمین مشتا اسی طرح محبت میں جو پرورش پانے کی خاصیت ہے اسے اجاگر کرنے کی خاطر محبت کو درخت قرار دیا (۳) اگر زمان شل یکدر سے جدا بشوی به متاع و ائیر ایمان زتو جدا بات ته دور تمین ) سے ترجمہ : عقل کو اس چین کی کچھ خبر نہ تھی ، اور سوچ کے پرندے کے بھی پر جلے ہوئے تھے.کے ترجمہ : کئی دفعہ وہ محبوب خود پانی لایا، یہاں تک کہ عقل کا درخت یاد آور ہوگیا.کے ترجمہ : محبت کے درختوں کو اپنی آنکھوں کے پانی سے سیراب کر، ہو سکتا ہے کہ وہ کسی دن تجھے شیریں پھل ہیں.کے ترجمہ : اگر تو نکی پناہ سے ایک لفظ بھی جدا ہو جائے، توایمان کی پونجی اور دولت تجھ سے کھوئی جائے گی.

Page 187

ایمان کے قابل قدر ہونے کی بنا پر اسے متاع اور مایہ قرار دیا ہے (۵) هست بر اسرار اسرایه دگر : تا کی تازد خیر مفکر و نظر د در ثمین ) فکر و نظر کی کم فہمی اور سست روی کی بنا پر انہیں گدھا قرار دیا.سوم : جزو دیکھانے یا کل قرار دینے کے علاوہ بھی اضافت استعاری سے کئی اور طریقوں میں کام لیا جاتا ہے.مثلاً : (1) پائے سعیت بلند تر نرود : تا ترا درد دل بسر نرود در ثمین نا) مقصود کوشش کی تیزی بیان کرنا ہے.رفتار کے لحاظ سے سعی دکوشش کو گھوڑا قرار دے کر اس کے پاؤں تجویز کئے.اور پاؤں کے اُونچا اٹھنے سے تیز رفتاری کا مفہوم پیدا کیا ہے (۲) از همه عالم فرو بستن نظر : لوح دل شستن زیر دوست داره در این منشا) نقش تختی پر ہوتا ہے پس دل کو تختی قرار دیا، جس پر غیر کے نقش ثبت ہو چکے تھے.(۳) اے رسن ہائے آنر کردہ دراز : زمیں ہوس پا چرا نیائی باز؟ در ثمین (ص۳ لے ترجمہ : ان بھیدوں کے اوپر بھید چھائے ہوئے ہیں عقل و فکر کا گدھا کہاں تک دوڑے گا ؟ کے ترجمہ :.تیری کوششوں میں تیزی پیدا نہیں ہوسکتی جب تک تیرے دل کی آگ کا دھواں سرتک نہ پہنچ جائے.کے ترجمہ :.سارے جہان سے انکھیں بند کر لینا اور دوست کے نقوش کے سوا ہر چیز کو دل کی تختی سے دھو ڈالنا.کے ترجمہ : اے وہ کہ جتنی اپنی کی باگیں ڈھیلی چھوڑ رکھی ہیں، تو کیوں ان ہوس پرستیوں سے باز نہیں آتا ہے

Page 188

ہوس مختلف چیزوں کے لئے تیندوے کی تاروں کی طرح ہاتھ پھیلاتی ہے جنہیں رسیاں قرار دیا گیا ہے.له (۴) تازه تو هستی است بدل نرود به این رگ شرک از تو بر نمرود د ورشین (۳۵) کبر بھی ایک جمال ہے جس کی تاریں انسان کے اندر پھیلی ہوئی ہیں.ان میں سے ایک.شرک ہے.که در زندان ناپاکیست موی امیر است را نام پاکبازان نکته این در زمین دام (۵) اپاکی یعنی گناہ کو قید خانہ قرار دینا کتنا چھوتا تخیل ہے مگر کس قدر یختہ اور درست بات ہے جسمانی ، اخلاقی اور روحانی گندگی کی عادت انسان کو ایسا جکڑ لیتی ہے کہ اس سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں رہتا.الغرض ان اضافتوں سے کلام میں عجیب و غریب طریقوں سے حسن اور تاثر پیدا کیا جاتا ہے.استعاره یہ بھی ایک قسم کی تشبیہ ہی ہے لیکن اس میں حرف تشبیہ نہیں رہتے بلکہ شبہ کو جسے مستعار لہ کہتے ہیں.دونوں میں سے ایک ضرور متروک ہوتا ہے.اگر مستعارلہ متروک ہو.اور مستعار منہ مذکور تو اسے استعارہ بالتصریح کہتے ہیں.اور اگر مستعارلہ مذکور ہو.اور مستعار منہ متروک تو اسے استعارہ بالکنایہ کہتے ہیں.اور وجہ شبہ کو وجہ جامع کہتے ہیں.استعارہ کی اور بھی بہت قسمیں ہیں مثلاً بلحاظ لہ ترجمہ : - جب تک تیری خودی تجھ سے دور نہیں ہوگی.یشرک کی رگ تجھ سے دُور نہیں ہوگی.نے ترجمہ : وہ شخص ہوناپاکی کے قیدخان میں بناور گرفتار ہے بھی یا باروی کمار کی ان میں نکتہ چینی کرتاہے.

Page 189

IMA وجہ جامع وغیرہ لیکن یہاں ان سب کے بیان کی ضرورت نہیں.استعارہ بالتصریح کی مثالیں دیکھئے :- شیری پر ہیبت اند رب جلیل : دشمنان پیشش چو روباه ذلیل ہے (در ثمین ) یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مستعار ا متروک دیں اور شیر حق مستعار منہ مذکور ہے.وجہ جامع شجاعت ہے جو دونوں میں مشترک ہے.اور شیر میں زیادہ نمایاں ہے.قرینہ اس سے پہلے اشعار ہیں سے عمارت مد و نان خارجی هم ساخت : اگر چشم روان آبشار خود بنت YAY دور همین ۲۸) یہاں آنسوؤں کی لڑیاں مستعار لہ ہیں جومذکور نہیں اور ابشار جومستعار منہ ہے مذکور ہے سے بدین محمد بستن دل خود خطا است به که این تیمن دین و صدق و صفا است سه د در تمین ) یہاں دنیا مستعار لنز کو جو د کور نہیں بعینہ تجبر مستعار منہ) قرار دیا گیا ہے.وجہ جامع ذلت ہے جو دونوں میں مشترک ہے.لیکن قحبہ میں بہت نمایاں ہے.ر اسی طرح مندرجہ ذیل اشعار میں تمام خط کشیدہ الفاظ البطو مستعار منه، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم (مستعارہ کے لئے آئے ہیں.جن کا ان اشعار سے پہلے اشعار میں ذکر چلا آرہا ہے اسے آفتاب است و گند چون آفتاب : گرنه کوری بیا بنگر شتاب در زمین ۱۳ لیے ترجمہ :.وہ جو خدا کی طرف سچائی کا پر ہیبت شیر ہو ، دشمن اس کے سامنے ذلیل لوسٹری کی طرح ہوں.کے ترجمہ:.میں ان سب کی عمارت کو برباد کر دوں اگر میں اپنی آنکھوں سے آبشار جاری کروں.کے ترجمہ :.اپنا دل اس آوارہ عورت سے لگانا غلطی ہے، کیونکہ وہ دین اور صدق وصفا کی دشمن ہے.کے ترجمہ:.وہ خود افتاب ہے اور دوسروں کو آفتاب کی طرح بنا دیتا ہے، اگر تو اندھا نہیں تو جلدی اور دیکھا ہے.

Page 190

199 آفتاب هر زمین و هر زمان : رہبر ہر اسود و ہر احمر ے مجمع البحرین علم و معرفت : جامع الاسمین ابر و خاوے سے در ثمین صف) حسب ذیل شعرمی در تیم مستعار منہ ہے اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مستعارہ ہے گر پر چینی نیکون این چریتا بسیار آورد و کم برام است و این صفاری تقسیم ہے (در تمین ۲۹ ) اسی طرح حسب ذیل اشعار میں خط کشیدہ الفاظ مستعار منہ ہیں :.اختران آسمان زیب و هنر : رفته از چشم خلائق دُور ترکی دور ثمین ) ے افران فالکن ای سرائے نام : دنیائے دور نماند و نماند کسی دانم بداریم دور ثمین ص ۲) فرعون شد و عناد کلیے بدل نشاند به یکسر خزان شد و گله با از بهار کردی دور ثمین مشا) نے ترجمہ : ہر ملک اور سہر زمانے کا سورج اور کالے گورے سب کا ہادی.سے ترجمہ : علم اور معرفت کا مجمع البحرین اور بادل اور آفتاب دونوں ناموں کا جامع.سے ترجمہ : اگرچہ آسمان نیکوں کی جماعت بکثرت پیدا کرتا ہے اگر ایسا شفاف او قیمتی موتی مائی بہت کم جنا کرتی ہیں.سے ترجمہ : حسن اور دید یہ کے آسمان کے ستاسے ہیں ، اور لوگوں کی آنکھوں سے دور چلے گئے ہیں.ش ترجمہ : اے خالویہ سرائے فانی کسی سے وفا نہیں کرتی یہ ذلیل دنیا نہ کسی کے ساتھ ہمیشہ رہی ہے اور نہ رہے گی.کے ترجمہ : اس فرعون بن کرکلیم الہ کی عداوت دل میں بھائی وہ کیسر خزاں بن گیا اور لگا موسم بہار کا گلہ کر نے.

Page 191

144 استعارہ بالکنایہ کی مثالیں چوصوف صفا در دل آویختند : مداد از سواد عیون ریختند در ثمین ) یہاں دل استعار لن کو دوات (مستعار منہ) قرار دیا گیا ہے.اور وہ (دوات) متروک ہے.اور مستعار لہ مذکور ہے.اور وجہ جامع ظرفیت ہے.اسے بالکھنا یہ اس لئے کہتے ہیں، کہ یہاں دل اور دوات کی تصریح نہیں.اسی طرح سے ر کاخ فلک را بخوانند از خار وخس آشیان چه تونی در تمین ) یہاں آشیانہ اور کاخ کے الفاظ سے اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ مخاطب کو پندہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ پرندے گھونسلوں میں بسیرا کرتے ہیں اورمحلوں کے کنگروں پر بیٹھتے ہیں.نیزے از بیٹے دنیا بریدن از خندا : بس میں باشد نشان اشقیان YAP ور ثمین (۲۸۳) حقیقت اور مجاز چونکہ استعارہ مجاز کی ایک قسم ہے جس کے مقابلہ میں حقیقت ہے.اس لئے ان کی تعریف بھی نیچے ے ترجمہ : جب لوگ پاکیزگی کا صوف دل میں ڈالتے ہیں، تو آنکھوں کی سیاہی کی روشنائی اس میں ڈالتے ہیں.کے ترجمہ : تجھے تو فرشتے آسمان کے محل کی طرف بلارہے ہیں پھر توگھونسلے کے گھاس پھونس میں کیا تلاش کر رہا ہے سے ترجمہ : دنیا کی خاطر خدا سے قطع تعلق کر لینا، بیس یہی بد بختوں کی نشانی ہے.

Page 192

vhi درج کی جاتی ہے تا استعارہ کا مفہوم اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے.حقیقت : وہ کلمہ ہے جو ان معنوں میں استعمال ہو، جن کے لئے وہ وضع کیا گیا ہو، اور وہ وضع کرنا اسی اصطلاح میں ہو جس میں کلام کر رہے ہوں.مثلاً اصطلاح لغت میں اس کے وہی معنی ہوں جن معنوں میں وہ کم کسی عبارت میں استعمال کیا گیا ہے.یا اصطلاح شرح میں اس کے و ہی معنی ہوں یا اصطلاح عرف ہیں.مجانہ : وہ کلمہ ہے جو ان معنوں میں استعمال کیا جائے جن کے لئے وہ وضع نہیں کیا گیا اور اس کی دلالت ان معنوں پر کسی قرینہ کے قیام سے ہو.نہ کہ قریہ کے بغیر وضع کرنے سے یہ مراد ہے کہ وہ لفظ بنفس خود اپنے معنوں پر دلالت کرنے کے لئے نایا گیا ہو.نہ کہ قریہ قائم کرنے کے ذریعہ ہے.اور مجاز کے لئے علاقہ ضروری ہے.پس اگر حقیقی اور مجازی معنوں میں کوئی علاقہ نہ ہو.تو اس لفظ کو مجازی معنوں میں استعمال کرنا غلط ہوگا.چنانچہ اگر تو کہے کہ یہ گھوڑا لو اور اشارہ کتاب کی طرف ہو ، تو یہ استعمال درست نہیں کیونکہ ان میں کوئی علاقہ نہیں پایا جاتا.اور ہر حقیقت یا مجاز یا لغوی ہوگا یا شرعی یا عرفی عام یا عرفی خاص کیونکہ اگر لخت کی اصطلاح میں اس کے وہی معنی ہوں جن میں وہ استعمال کیا گیا ہے تو اس کو حقیقت لوی کہیں گئے.اور اگر شرع کی اصطلاح میں ہو.تو اس کا نام حقیقت شرعی رکھتے ہیں.اگر مرف ہے تو حقیقت عرفی.اسی طرح اگر مجاز کو کسی اصطلاح میں ایسے معنوں میں استعمال کریں جس کیلئے وہ وضع نہیں کیا گیا.اگر وہ اصطلاح لعنت ہو تو اسے مجاز لغوی کہیں گئے.اگر وہ اصطلاح شرع ہے تو مجاز شرعی اور اگر وہ اصطلاح عرف ہے ، تو مجاز عرفی.اس کی مثال لفظ شیر کا استعمال ایک مخصوص درندہ کے لئے حقیقت لغوی ہے اور بہادر آدمی کے لئے مجاز لغوی اور نماز کا لفظ مخصوص عبادت کے لئے حقیقت شرعی ہے اور دُعا کے لئے مجاز شرعی.اور لفظ فعل

Page 193

149 تحولوں کے عرف میں ایک مخصوص لفظ کے معنوں میں ہو جس کی ماضی مضارع وغیرہ مراد ہو تو حقیقت عرفی خاص ہے اور کرنے کے معنوں میں مجاز عرفی خاص ہوگا.لفظ را بہ چار پایہ کے لئے حقیقت عرفی عام ہے.اور انسان کیلئے ہوتو جاز عرفی عام اور الفاظ شیر اور نمانہ اور فعل اور دا به جوان مثالوں میں مذکور ہیں.وہ حقیقت اور مجاز دونوں کی مثالیں ہیں اور الفاظ ، درندہ دلیر، عبادت ، دعا مخصوص لفظ کرنے ، دا بہ اور انسان جو او پر مذکور ہیں وہ سب ان چاریں لفظوں کے حقیقی اور مجازی معنوں میں تمیز کرنے کے لئے ہیں.اوپر کہا گیا ہے.کہ مجاز کے لئے علاقہ لازم ہے.پس اگر وہ علاقہ تشبیہ کے علاوہ ہو ، مثلاً سبیت یا لزوم وغیرہ تو اسے مجاز مرسل کہتے ہیں.اور اگر علاقہ تشبیہ کا ہو تو اسے استعارہ جس کا بیان قبل ازیں آچکا ہے.مجاز مرسل : وہ لفظ ہے ، جو ایسے معنوں میں استعمال ہوا ہو جو ان معنوں کے علاوہ ہوں ، جن کے لئے وہ وضع کیا گیا ہو.اور دونوں معنوں میں تشبیہ کے علاوہ کوئی اور علاقہ ہو جیسے..گلی کی بجائے ججز کا ذکر کریں..کسی چیز کو ایسے نام سے یاد کر نا جو عقیل.جنہ کی بجائے کل.مستب کی جگہ سبب ۴- سبب کی جگہ مستب میں اس کا نام ہوگا.-4 - مظروف کی جگہ ظرف کا استعمال ظرف کی بجائے مظروف ۵ - کسی چیز کو اس نام سے ذکر کرنا جو ماضی میں 9.چیز کی بجائے اس کے آلہ کا نام لینا..اس کا نام تھا.نوٹ :.بشرطیکہ ان اقسام کا استعمال فصحاء کے کلام میں ہو.اب حضرت اقدس کے کلام سے ان کی مثالیں دیکھئے : است.

Page 194

14.لے دید را کن جستجو اسے ناتمام به دور نه در کار خود بس سرد و خام در ثمین ) - تے سرد و نام سے ناتجربہ کار مراد ہے.(سبب بجائے مستب) - آنچنای عشق تیز مرکب راند.+ که از ان مشت خاک پیچ نماند دور مین ۳۳ ) مشت خاک سے انسان مراد ہے (ماضی کا نام) - خودت با اجل چیست از مکروبند : چه دیوانه داری کشیده بلنده دیواره یعنی روگ (آله) ه د در شین ) کے عشق دلبر بروئے او بارید : ابر رحمت بکوئے او باری دور ثمین (۳۳) ابر سے یہاں بارش مراد ہے (مستبب باسم سبب) سے آن کلام خدا نه بر فلک است : تا بگوئی که هست دور انه دست دست سے مراد ہے طاقت اور پہنچ (آلہ).لے ترجمہ اسے ناقص انسان معرفت کی تلاش کر دور نہ تو کچا اور نا تجربہ کار ہے.کے ترجمہ : عشق نے گھوڑے کو اتنا تیز دوڑایا، کہ انسان کا کچھ بھی باقی نہ رہا.دور ثمین ما کے ترجمہ : موت کے مقابلہ میں تیرے پاس کیا حیلے بہاتے ہیں، کیا تیر سے پاس کوئی بڑی روک ہے.کے ترجمہ: محمود کا عشق اس کے چہرے سے ظاہر ہونے لگا ، رحمت کی بارش اس کے کوچہ میں برسنے لگی.شے ترجمہ : خدا کا کلام آسمان پر نہیں کر تو یہ کہے کہ میری پہنچ سے دور ہے.

Page 195

141 سرکشیده بناز و کبر و ریا و از ترین نهاده بیرون پا د در ثمین ص سر سے کل انسان مراد ہے.(جز و برائے کل) سے تو بے زبانان از فصیح شدند : زشت رویان از و صبیح شدند بے زبانوں سے گونگے مراد ہیں.(اکہ ) سے ور تمین حن) پنا ہم آں تو انا نیست بر آن زنبیل نا توانا نم مترسان صدا دور ثمین ) پناہ سے مراد جائے پناہ ہے.(مظروف بجائے ظرف) سے قدیر این ره بپرسی از اموات : اے بسا گو رہا پر از حسرات کے در ثمین عث) گو رہا سے مراد اہل قبور ہیں.(ظرف بجائے مظروف) سے از خودی در شد و خدا را یافت به گم شد و دست رہنما را یافتی دورترین ها) سے ترجمہ : فخر اور تکبر اور ریا سے اکڑ رہا ہے ، اور دینداری کی حد سے باہر نکل گیا ہے کے ترجمہ : اس کی وجہ سے گونگے فصیح بن گئے اور بد شکل آدمی خوبصورت ہو گئے.کے ترجمہ : میری پناہ برآن وہ طاقتور رہتی ہے ، اس لئے مجھے بے طاقتوں کے بخل سے مت ڈراؤ.کے ترجمہ اس رستے کی قدر مردوں سے پوچھو، بہت سی قبری حسرتونی سے بھری ہوئی ہیں.شے ترجمہ : تو نے خودی سے نکل کر خدا کو پالیا، اور گم ہو کر رہنما کی امداد حاصل کرلی.

Page 196

دست سے امداد مراد ہے جو ہاتھ سے کی جاتی ہے.(الہ) سے حسن را با عاشقان باشد سرے بے نظر ور کے بود خوش منظر ہے حسن سے حسین مراد ہیں.(منظروف برائے ظرف).د در ثمین صاد) کنایہ : یعنی ترک تصریح.اصطلاحاً ایسا لفظ مراد ہے جس کے لازم معنی کا ارادہ کریں.اور ساتھ ہی عزوم کا ارادہ بھی جائز ہو بخلاف مجاز جس میں ملزم کا ارادہ نہ کر نامعتبر ہے.کنایہ کی بھی کئی قسمیں ہیں.یہاں ان کی تشریح کی ضرورت نہیں.مثالیں دیکھئے : پا به زنجیر پیش دلدار به ز هجران و سیر گراست در تمین ) سیر پا بہ زنجیر ہونے کو قید لازم ہے ، اور قید ہی مراد ہے.اور ساتھ ہی سچ مچ پا بہ زنجیر ہونے کا مفہوم بھی جائز ہے سے عجب دارد اثر دست که دست عاشقش باشد : بگرداند جہانے را نہ بہر کارگر یا نے " ور ثمین ) یہاں دست سے دست دعا مراد ہے.جو دُعا کے لئے اٹھایا جاتا ہے.اور اگر یہاں دنیا کا لفظ محذوف سمجھا جائے.تو مین دست (یعنی ہاتھ ) کا مفہوم بھی روا ہوگا.ایک نظم میں متعدد اقسام کے غافلوں کا ذکر آرہا ہے.اسی دوران میں فرمایا : سے ے ترجمہ :.حسینوں کو بھی عاشقوں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے.کوئی خوش شکل کسی قدر دان کے بغیر نہیں ہوتا.سے ترجمہ :.پاؤں میں زنجیر ٹری ہونے کی حالت میں بھی مجبو کے سامنے ہونا.اسکی جدائی میں باغ کی سیر سے بہتر ہے.کے ترجمہ : اس ہاتھ میں معجب تاثیر ہوتی ہے جو کسی عاشق کا ہاتھ ہو.خدا کسی رونے والے کا کام بنانے کے لئے ایک دنیا کو الٹ پلٹ کر دیتا ہے.

Page 197

آن خرد مند دیکه او دیوانه را بهش بود : ہوشیا سے آنکر مست روئے ای یار سیلی در زمین ها) اس شعر میں غافلوں کا بظا ہر ذکرہ نہیں.لیکن اس تصریح کے بغیر بھی صاف ظاہر ہے.کہ اس شعر سے مراد یہی ہے.کہ جن غافلوں کا ذکر آرہا ہے.وہ نہ تو خرد مند ہیں اور نہ ہی ہوشیاں کیونکہ نہ وہ راہ مجبور ہے دیوانے ہیں اور نہ روئے محبوب کے گرویدہ.اس قسم کے کنایہ کو تعریض کہتے ہیں.کیونکہ عرصہ کے معنی طرف اور جانب کے ہیں.گویا اشارہ ایک جانب کرتے ہیں.اور مراد دوسری جانب ہوتی ہے.بنتاج و تخت زمین آرزو نے دارم نه شوق افسر شاہی بدل مرا باشد ده ا ا ور ثمین ط۲ ) تاج و تخت سے حکومت مراد ہے اور خود تاج و تخت بھی.اسی طرح سے هر که رخت افگند به ویرانه می نماید بترنز دیوانلله در تمین مثلا) رخت انگلندن کے معنی قیام کرنا ہے.اور رخت افگندن بھی.کے ترجمہ : وہ آدمی عقلمند ہے جو اسی راہ کا دیوانہ ہے، اور وہی ہشیار ہے جو اس حسین محبوب کے چہرہ کا گرویدہ ہے.کے ترجمہ : مجھے کسی زمینی تاج و تخت کی خواہش نہیں.اور نہ میرے دل میں کسی بادشا ہی تاج کا شوق ہے.کے ترجمہ : جو شخص ویرانوںمیں اپنا ٹھکانا بنا تا ہے.وہ پاگلوں سے بھی بدتر دکھائی دیتا ہے.

Page 198

سلام 16 ب - علم بدیع صنائع بدائع معنوی و لفظی کے حسن و قبح کے متعلق بحث ص۵۲ ہذا پر ملاحظہ فرمائیے.یہاں صرف حضرت اقدس کے کلام سے ان کی مثالیں پیش کی جائیں گی.یہ خیال رہے کہ حضرت اقدس کے کلام میں یہ صنعتیں اور دنہیں بلکہ آمد میں جو و تلتفت آپ کے ذہن رسا سے صفحۂ قرطاس پر جلوہ افروز ہوئیں.مثلاً از یقین ست زہد و عرفان هم : گفتم آشکار و پنهان بشم در شین ۳۶۲) ظاہر ہے کہ آشکار و پنہاں کے الفاظ کلام میں کسی صنعت کے پیدا کرنے کے لئے نہیں لائے گئے بلکہ ایک حقیقت بیان کی گئی ہے.ان الفاظ کے بغیر مطلوبہ مفہوم ادا نہیں ہو سکتا تھا.اب ان الفاظ سے صنعت طباق پیدا ہوگئی تو یہ آمد ہے ، اور د نہیں.یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام میں یہ صنعتیں اس طرح گھلی علی ہوئی ہیں کہ کئی جگہ یہ گمان بھی نہیں گزرتا کہ یہاں کوئی صنعت یا صنعتیں چھی بیٹی ہیں.اور یہی انشا پردازی کا کمال ہے.کہ صنعتیں خود بخود پیدا ہوں.ورنہ اگر عمداً صنعتیں لانے کی کوشش کی جائے تو تصنع اور بناوٹ پیدا ہو جاتی ہے اور کلام پایۂ اعتبار سے گر جاتا ہے.یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بعض صنائع کی تعریف میں اس فن کی کتب میں اختلاف ہے.خاکسار نے وہی تعریف اختیار کرنے کی کوشش کی ہے جس پر زیادہ تر مصنفین کا اتفاق ہے.علاوہ ازیں حضرت اقدس کے کلام میں بعض ایسی صنعتیں بھی ہیں جن کا ذکرہ اس فن کی مروجہ کتب میں نہیں ملتا.انکا ذکر مرد جو صنعتوں کی مثالیں پیش کرنے کے بعد کیا جائے گا.انشاء اللہ تعالٰی.ترجمہ زبیدار عرفان بھی یقین کی بات ہی حال تو ہے ہی نے یہ بات میں پوشید و پڑھی جاتی ہے والی طور پرھی.

Page 199

160 صنائع معنوی توریہ سے مراد کلام میں ایسے لفظ کا آنا ہے جس کے معنی ہوں اور وہاں دونوں چسپاں ہوتے ہوں.جیسے :- زہ ہے انجو آن بود نحو مداد نا ہمہ منطقم صرف آن نوبات دور ثمین ۳۱۵ ) منطق کے دو معنی ہیں.ایک مطلق کلام، بات چیت یا گفتگو.اور دوسرے علم منطق اور دونوں یہاں چسپاں ہوتے ہیں.اسی طرح نحو کے بھی دو معنی ہیں.پہلی جگہ علم خو اور دوسری جگہ پہلو.اور دوسرے مصرع میں آں نحو کا اشارہ مصرع اول کے دونوں نحو کے الفاظ میں سے کسی ایک کی طرف ہو سکتا ہے.لہذا اس تیسرے نحو کے دونوں معنی وہاں چسپاں ہوتے ہیں.یعنی وہ علم نخویا وہ پہلوئے سداد - دیر "صرف" کا لفظ بھی ابہام تناسب کی مثال ہے جس کے لئے آگے دیکھیئے ).ابہام تناسب یہ ہے کہ کلام میں ایسا لفظ آئے جس کے دو معنی ہوں.ایک قریب اور ایک بعید.پہلے ذہین معنی قریب کی طرف مائل ہو، لیکن غور کرنے سے معلوم ہو کہ یہاں معنی بعید مراد ہیں.اس کی دو قسمیں ہیں.ایک ابہام مجرد اور ایک ابہام مرشح.ابہام مجرد : میں قریب کے معنوں کے مناسبات مذکور نہیں ہوتے جیسے ۲۲۸ جان من از جان او یا بد غذا از گریبانم عیاں شد آن ذکات در شین منت ) در سے ترجمہ واہ وا ا سکی خوی چینی اور راستی کا پہلوئے ہوئے ہے.میری ساری منطق اس نحو پر صرف ہو.نے ترجمہ : میری روح اس کی روح سے غذا حاصل کرتی ہے اور میرے گریبان سے وہی سورج نکل آیا.

Page 200

144 ذکا کے دو معنی ہیں.زال کی زیر سے فراست اور اس کی پیش سے سورج.پہلے اس کے عام معنوں یعنی فراست کی طرف دھیان جاتا ہے.لیکن وہ یہاں چسپاں نہیں ہوتے.اس لئے دوسرے معنی (جو کبھی کبھار استعمال ہوتے ہیں.ان کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے.یعنی سورج - گویا سورج جیسا روشن اور نفع رساں وجود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم.ابہام مرشح : میں معنی قریب کے مناسبات مذکور ہوتے ہیں.جیسے حسب ذیل شعر میں دامن کشاں کوئی" کے الفاظ ہیں : دامن کشان کوئی زمین دیگر موشم : دوستم نمی رسد که دلت را بخود کشماله دور همین مشک دست کے دو معنی ہیں.ایک ہاتھ اور دوسرے طاقت.مناسبات کے ذکر کی وجہ سے پہلے ہاتھ کی طرف خیال جاتا ہے.لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مادی ہاتھ تو دل تک نہیں پہنچ سکتا.لہذا یہاں لان کا معنی بعید یعنی طاقت، کوشش یا محبت مراد ہیں.نیز دامن کشاں ، کنایہ کی ایک خوبصورت مثال ہے ).چوصوف صفا در دل آویختند + مداد از سواد عیون ریختن کده در ثمین ) سواد کے دو معنی ہیں.ایک سیاہی اور دوسرے گردو نواح.مناسبات کے موجود ہونے کی وجہ سے پہلے ذہن سیاہی کی طرف مائل ہوتا ہے.پھر خیال آتا ہے کہ سیاہی کے لئے تو الگ لفظ مداد موجود ہے.لہذا اس کے معنی ارد گرد کے ہیں.یعنی دل کی دوات میں سیاہی آنکھوں کے سے ترجمہ :.اے میرے ما رو دوست تو دامن بیچ کر میرے پاس گزرہا ہے جویں طاقت کہاں کرتی اول اپنی ر کھینچے ہوں.سے ترجمہ :.جب دل کی دوات میں صفائی کا صوف ڈالتے ہیں.تو انہیں آنکھوں کے انسوؤں کی سیاہی ڈالتے ہیں.

Page 201

164 ارد گرد سے جمع کرکے گویا آنسوؤں کی سیاہی ڈالی جاتی ہے.سواد سے مراد وہ نیلاہٹ بھی ہو سکتی ہے جو غم کے باعث آنکھوں کے گرد چھا جاتی ہے سے ز ہے نحو آی بود نحو سداد : همه منطقم صرف آن نحو باد در زمین ها ) صرف کے دوستی ہیں.علم صرف اور خرچ کرنا.مناسبات کی بنا پر پہلے علم صرف کا خیال ہوتا ہے.اور غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خرچ کرنا مراد ہے.طباق :- جسے متضاد بھی کہتے ہیں.یہ ہے کہ ایسے دو لفظ شعر میں جمع ہوں ، جن کے معنوں میں تعتاد ہو.یعنی ایک معنی دوسرے کے خلاف ہوں.اس کی بہت سی قسمیں ہیں.مثلاً دونوں لفظ اسم ہوں یا فعل یا حرف یا ملے جلے.یا نفی یا کنایہ سے تضاد پیدا کیا گیا ہو وغیرہ.لیکن ان کی تشریح کرنے سے بات بہت لمبی ہو جائے گی اس لئے چند مثالوں پر اکتفا کیا گیا ہے.متضاد الفاظ پر خط کھینچ دیا گیا ہے.یہ صنعت بہت کثرت سے استعمال ہوتی ہے : هست جام نیستی آب حیات : هر که نوشیدست اورست از همات خویشتن را نیک اندیشیده : اسے ہلاک الله چه یک فہمیدہ در زمین ) د در ثمین صنت) چون بیفتی با دوصد در دو نغیر : کس ہے خیزد که گردد دستگیر در ثمین ترجمہ: واہ وا ! اس کا علم نحو راستی کا پہلو لئے ہوئے ہے.میری تمام منطق اس نحو پر صرف ہو.سے ترجمہ ، نیستی کا جام ہی اصل میں آب حیات ہے جسنی وہ پی لیا وہ موت سے خلاصی پاگیا.تونے اپنے تئیں نیک واتا خیال کرلیا ہے.خدا تجھے ہدایت کرے تو نے کیا غلط سمجھاہے جاتا ہے کرواتا ہے اتراتا ہے

Page 202

(CA چه دور نها که میدیدم بدیدار چنین رویا به بنازم دلبر خود را که بازم داربست در اه دور ثمین ) بد بوئے حاسدان نرساند زیان بر من : من هر زمان زنانه یادش معطر مم ور ثمین ) آن دیده که نور سے نگرفت ست ز فرقان : حقا که همه عمر ز کوری نه رسیده دور ثمین شش از کس و ناکسی بیاموزی فنون : عار داری زمان حکیم ہے چھوں کلمه جسم خود بکن برباد : چون نمی گردد از خدا آبادی دور ثمین منت ور ثمین (۳۵) عناصر اربعہ کا ذکر بھی اسی صنعت طباق میں شامل ہے.جیسے " قمر و شمس و زمین و فلک آتش و آب به همه در قبضه آن یار عزیز اند اسیر اور ثمین طلا لہ ترجمہ : ان کے چہرے دیکھنے سے میں کیسے کیسے اور دیکھتا ہوں مجھے اپنے بیر بیان ہے کہ اسے مجھے پھرجب علی سے ترجمہ : حاسدوں کی بدبو مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی کیونکہ میں ہر وقت خدا کی یاد کے نافہ سے معطر رہتا ہوں.کے ترجمہ : وہ آنکھ جنسی قرآن سے نور حاصل نہیں کیا.خدا کی قسم وہ ساری عمران سے پن سے خلاصی نہیں پائیگی.سے ترجمہ، تو ہر کس و ناکس سے ہنر سیکھتا ہے، لیکن اس لاثانی دانشور سے تجھے شرم آتی ہے.ے ترجمہ: تو اپنے جسم کی جھونپڑی کو برباد کر دے، اگر وہ خدا کے عشق) سے آباد نہیں ہوتی.ن ترجمہ : چاند، سورج، زمین، آسمان، آگ اور پانی سب اس عزت والے دوست کے قبضہ میں قید ہیں.

Page 203

149 یہاں کو اکب اور عناصر اربعہ دونوں شامل ہیں.زمین سے خاک بھی مراد ہے اور فلک سے ہوا.نیز دیکھئے عزیز کا لفظ معانی کو کیسے وسعت دے رہا ہے.یعنی وہ محبوب زیر دست بھی ہے اور پیارا بھی.یہ شعر صنعت جمع کی بھی خوبصورت مثال ہے.تدریج : یہ صنعت بھی صنعت طباق میں ہی شامل ہے.طریق یہ ہے کہ تعریف یا ہجو کے در میان زنگوں کا ذکر کریں اور ان سے بطریق کنایہ یا ابہام مقصود العینی تضاذ) حاصل کریں.تکثر الوان شرط نہیں.ما فوق الواحد کافی ہے جیسے سے آفتاب هر زمین و هر زمان : رہبر ہر اسود و ہر احمرے d در ثمین صدا ) منت او بر همه شرخ و سیا ہے ثابت است : آنکه بهر نوع انسان کرد جان خود نشاره در ثمین ) دونوں شعروں میں کنایہ کے ذریعہ تقاد حاصل کیا گیا ہے کیونکہ کنایہ کی ایک شق یہ بھی ہوتی ہے کہ صفت کا ذکر کر کے موصوف کی ذات مراد لیں.اس طرح صفتی معنی بھی اور ذات بھی دونوں متعلقہ لفظ سے لئے جا سکتے ہیں..مقابلہ : دو یا زیادہ معنوں کو جو متوافق ہوں ذکر کریں.پھر چند دوسرے معنوں کو جو ان کی ضد ہوں بہ ترتیب ذکر کریں جیسے : سے عاشق صدق و سداد و راستی : دشمن کذب و فساد و هر شرکت ردور مین ما اے ترجمہ : وہ ہر ملک اور ہر زمانہ کے لئے آفتاب ہے ، اور ہر کالے گورے کا رہبر ہے.سے ترجمہ : تمام گوری اور کالی قوموں پر اس کا احسان ثابت ہے جس نے نوع انسان کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی.کے ترجمہ : وہ صدق، سچائی اور راستی کا عاشق ہے ،مگر کذب، فساد اور شرکا دشمن.

Page 204

فاسقان در سیاه کاری اند : عارفان در دعا و زاری الله ور تمین فت) مراعاۃ النظیر ! جسے تناسب بھی کہتے ہیں.یہ ہے کہ کلام میں متناسب اشیاء جو متضاد و متقابل نہ ہوں ذکر کریں جیسے : ے بازخند و بناز لاله و گل ! : باز خیزد ز گیلان غلفل دو تین منت رسید مترده که ایام نوبهار آمد و زمانه را خبر از برگ بار خود بکنم.نهایست از بارغ قدس و کمال : ہمہ آل او ہمچو گل ہائے آل ز ہے نحو آن بود نحو سداد : همه منطقم صرف آن نحو باد فصل بهار و موسم گل نایدم بکار با کاندر خیال روئے تو بردم بگشتم KAY.دو تین ط در ثمین ص۳) دور زمین (۳۵) ور در همین مشا ے ترجمہ : بدکار لوگ بڑے کاموں میں مشغول ہیں، عارف لوگ دُعا اور زاری میں مصروف ہیں.سے ترجمہ : پھر لالہ اور گلاب ناز سے بننے لگے، اور پھر بلبلیں چہچانے گی ہیں.مجھے خوشخبری ملی ہے کہ موسم بہار پھر آ گیا ہے.تاکہ میں زمانہ کو اپنے برگ وبار سے آگاہ کروں.وہ پاکیزگی اور کمال کے باغ کا درخت ہے.اس کی سب آل گلاب کے پھولوں کی طرح ہے.واہ وا اس کا علم نحو کیا اچھا پہلو لئے ہوئے ہے.خدا کرے میری ساری منطق اس پر خرچ ہو جائے فصل بہار اور پھولوں کا موسم میرے لئے دونوں بیگانہ ہیں کیونکہ میں تو ہر وقت تیرے چہرے کے تصور سے باغ میں ہوں.

Page 205

مشاکلت یعنی کسی سنی کا بیان کرنا ایسے لفظ کے ساتھ، جسکسی ادا کرنے کے لئے وہ موضوع نہ ہو محض اس لئے کہ وہ معنی کسی دوسرے ایسے معنی کے ساتھ آگئے ہیں جن معنوں کے لئے وہ لفظ موضوع ہے.جیسے :- عشق دلبر روئے شان بارید :: ابر رحمت بکوٹے شان بارید - ور تین ملت) بارید کے پہلے لفظ سے مراد یہاں چمکنا ہے (عشق ان کے چہرہ پر چمک یعنی ظاہر ہوا، جس کے لئے یہ لفظ موضوع نہیں.ان معنوں میں اس لئے لایا گیا ہے کہ آگے اپنے اصل معنوں میں استعمال ہوا ہے جن کے لئے وہ موضوع ہے یعنی برسا ( ابر رحمت برسا ).عکس تبدیل شعر کے ایک حصہ کوجو پہلے ہو دوسرے حصہ کے پیچھے لے جانا.اور اس پیچھے والے حصہ کو آگے لے آنا.جیسے ست رجوع با دو صد زنجیر هر دم پیش یار به خار با او گل گلی اندر ہجر خانه در همین ۱۳۵) جسے رد بھی کہتے ہیں.وہ یہ ہے کہ کہی ہوئی بات کو رد کریں.کسی فائدہ اور نکتہ کے واسطے یا کسی صفت کے بیان کرنے کے بعد اس کی تردید اس طرح کرنا کہ پہلے بیان پر اور ترقی ہو جائے.جیسے :- رائے واعظ ، گرچه رائے مین است : لیک عشق تو ، بند پائے من است تے ور ثمین ۳ کے ترجمہ : دہر کی محبت ان کے چہرہ سے ظاہر ہوگئی ، رحمت کا بادل ان کی گلی میں برہا.ے ترجمہ: سینکڑوں بندھنوں کا وجود ہرم جو کے حضورمیں رہتے ہیں اسے ہوتے ہو ا وا نے پھول و بالا میں ہو اسے علم ہی ہیں سے ترجمہ : اگر چہ میری رائے وہی ہے جو واعظ کی ہے، لیکن تیرے عشق کی بیٹری میرے پاؤں میں پڑی ہوئی ہے.

Page 206

Ar از خرد مندان مرا انکار نیست : لیکن این راه راهو میل یا نیست خردمندان در تمین ۳ ) دیکھئے دونوں شعروں میں تسلیم شدہ امر پرپیل نہ کرنے کے لئے کیسے خوبصورت عذر پیش کئے ہیں.جمع : یعنی چند چیزوں کو ایک حکم کے نیچے جمع کریں.جیسے سے شوق و انس و الفت و مہر ووفا : جملہ از الهام می دارد ضیا اور تین من از خدا باشد خدا را یافتن : نے یہ مکر وحیده و تدبیر دفن در زمین منت حافظ دستار و جواد و کریم بیکسال را بار و رحمان و رحیم.در تمین طلا) گر به منو صحبت خوای به بینی زود تر : خارا کے دشت و تنہائی و عین عالیے ہے ور ثمین صلات) تفریق دو چیزوں میں سے جو کسی وصف میں متحد ہوں اختلاف اوصاف ظاہر کریں.جیسے زیبر و تریاق است در مامستتر : آلی کشد این مے دہر جان دگر ور ثمین ص لے ترجمہ : مجھے داناؤں کی دانائی سے انکار نہیں لیکن یہ راستہ محبوب کے وصل کا راستہ نہیں.سے ترجمہ : شوق انس، الفت اور مہرہ وفا، ان سب کی رونق الہام سے ہے ، خدا کی مد سے ہی خدا کو پاسکتے ہیں ن کہ ان کی جملہ اور کر فری کے ساتھ.وہ حفاظت کرنیوالی پردہ پوش ہنی اور کریم ہے ، بیکسوں کا دوست ، رحمان اور رحیم ہے.اگر تو جنوں کی صحب کے خواہشمند ہے ، تو جلد ہی جنگل کے کانٹوں، تنہائی اور لوگوں کے طعنے دیکھ لے گا.کے ترجمہ : ہمارے اندر زہر اور تریاق دونوں پوشیدہ ہیں، وقتل کرتا ہے اور یہ نئی زندگی بخشتا ہے.

Page 207

JAN تقسیم یہ ہے کہ پہلے چند چیزیں ذکر کریں پھر جوئے ان سے نسبت رکھتی ہو اسے بطریق تعی ذکر کریں جیسے :.همچنین بنده آفتاب و متمر : بند در سیرگاه خویش و مقر! ماه را نیست طاقت این کار که بتابد بروز چون احرار نیز خورشید را نه یا رائے : کہ نبد بر سریر شب پائے ہے در ثمین صلا) تجدید ایک شے ذی صفت سے ایک اور شے مانند اس کے اسی صفت سے متصف حاصل کریں واسطے مبالغہ کے تا کہ معلوم ہو کروہ پہلی سے زیادہ اس صفت میں ایسی کامل ہے کہ اس سے ایک اور شے اسی صفت سے متصف حاصل ہو سکتی ہے.اپنے آپ کو غیر سمجھ کر باتیں کرنا بھی اسی میں شامل ہے.جیسے سے مشترخ درباره را فراگیر : پیدائین این و آن چه جوئی؟ در ثمین ) مشتری دعوائے مسیحیت سے پہلے حضرت اقدس کا تخلص تھا.گر دلازیں کوچہ بیروں نگذریم : ہم سگان کوچه از ما بهتراند در تمین (۲۵) ے ترجمہ : اس طرح سورج اور چاند بھی پابند ہیں، اپنے اپنے گھومنے کی جگہ یں اور اپنے مقام ہیں.چاند کو اس امر کی قدرت حاصل نہیں کر دن کے وقت آزادانہ چک سکے.اسی طرح سورج کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ رات کے تخت پر قدم رکھ سکے.سے ترجمہ اسے فرغ محبوب کے در کی چوکھٹ مضبوطی سے پکڑ، اس یا اُس (یعنی دوسروں کے اردگرد سے کیا ڈھونڈ رہا ہے.سے ترجمہ اسے دل اگر ہم عشق کے کوچہ کو طے نہ کریں تو گلیوں کے کتے بھی ہم سے بہتر ہیں.

Page 208

۱۸۴ گویا دل کو ایک الگ ہستی قرار دیا.مبالغہ کسی وصف کو شدت یا ضعف میں اس حد تک پہنچا دیں ، کہ اس حد تک پہنچنا بھید یا محال ہو ، تا سننے والے کو یہ گمان نہ رہے کہ اس وصف کی شدت یا ضعف کا کوئی مرتبہ باقی ہے.اس کی تین قسمیں ہیں : -1 تبلیغ یعنی ادعائے مذکور عقلا و عادہ ممکن ہو.جیسے ے دریغا بگرد هم صد جان درین راه نباشد نیز شایان محمدالی د در ثمین بنالم بر درش ندای سان که نالد بوقت وضع حملے باردار تے ما در ثمین (۲۳) آن عنایت با کر جو ازل دارد بد و کسی خوابے ہم ندید وی آی اند دیار - اغراق - ادعا عقلا ممکن عادة ممتنع جیسے سے در تمین ) الا بتانه تابی سر از روئے دوست : جہانے نیرز دبیک موئے دوست در ثمین منت ) آفتاب و مه چه می ماند بد و در دلش از نور حق صد نیر سے در ثمین صن لے ترجمہ : اگر اس راہ میں سو دفعہ بھی جانی دوں، افسوس تب بھی یہ بات محمد کی شان کے شایاں نہیں ہوگی.سے ترجمہ : میں اس کے دروازہ پر اس طرح روتا ہوں، جس طرح حاملہ عورت بچہ جنتے وقت روتی ہے.سے ترجمہ وہ مہربانیاں جو محبوب از لی اس پر فرماتا رہتا ہے، وہ کسی نے دنیا میں خواب میں بھی نہیں دیکھیں.که ترجمه خبردار دوست کی طرف سے منہ نہ موڑنا ، سارا جہان دوست کے ایک بال کی برابری نہیں کر سکتا.چاند اور سورج اس کی مانند کیسے ہو سکتے ہیں، اس کے دل میں تو خدائی نور کے سینکڑوں سورج ہیں.

Page 209

IAA غلو جو عتلا وعادة ممتنع ہو جیسے : خر بود اندر حماقت بے نظیر : لیکن ایشان را بهر موصد نورسے را (در ثمین (۲۵) حسن التعلیل یعنی کسی وصف کے واسطے کسی شے کو علت ٹھہرا دیں اور وہ در حقیقت اس کی علت نہ ہو جیسے : مومن را نام کا فرمے نہی با کاندوم گر مومنی با این خیال در ثمین (ص) کے کہنے سے کوئی کا فریا مومن نہیں ہو سکتا.حضرت اقدس اس شرط پر اپنے آپ کو کا فر قرار دیتے ہیں کہ مخاطب حضرت اقدس کو کا فرقرار دے کر بھی مومن رہ سکتا ہو ؟ یہ غائبا اس حدیث قدسی کی طرف اشارہ ہے کہ مومن کو کافر کہنے والا خود کا فریبن جاتا ہے.مذہب کلامی معینی کلام دلیل اور برہان پرمشتمل ہو.جیسے - لیکن انساں را بحق روئے نبود :: پیش کر کے گریڈ میشے چہ سود ہے دور مین ۲۳) هست آن عالی جناب بس بلند و بہر وصلش شور با باید فکت ہے ور تین مت) ل ترجمہ : بیوقوفی میں گدھے کی کوئی مثال نہیں، لیکن ان کے ایک ایک بال میں سوسو گدھے ہیں.نے ترجمہ : تو مومن کا نام کا فر رکھتا ہے ، اگر تو اس عقیدہ کے باوجود مومن ہے ، تو میں واقعی کافر ہوں.کے ترجمہ : لیکن سچائی کی طرف اُن کا رخ ہی نہیں تھا بھیڑیے کے آگے بھیڑ کے روتے کا کیا فائدہ ؟ کے ترجمہ : وہ بارگاہ بہت بلند ہے، لہذا اس کے وصل کے لئے بہت آہ و بکا کرنا پڑتا ہے.

Page 210

TAY پھودیں درست بود شبیرے نے باید : که زور قول موجه عجب نما باشد د در ثمین صدا خوشم بخورد کشیدن اگر کشته شوم : ازین که هر عمل وفعل را جزا باشد YYA د در ثمین ص۲۶) صبر کردیم از عنایاتش برین صد ضرب کوفت و سرمه در چشم نیاید تا نے گردو غبار دور شین مشا) چون به بینی به بیشے شیرے : نہ کنی در گریستن دیرے ہمچھنیں پیش تو پوگرگ آید : دل تپد ہیبت سترگ آید پس بدیں دعوئے یقیں کہ ترا : هست بر کردگار و روز جزا باز چوں مے گنی گناه بزرگ چه خدا نیست نزد تو چون گرگ کئی در ثمین (۳۵) بعض نقاد نے یہ قرار دے رکھا ہے کہ ہر شعر اپنی ذات میں مکمل ہونا چاہیئے حتی کہ دو قطعہ بند شعروں کو بھی معیوب گردانتے ہیں لیکن بعض جید شعرا بھی اس خود ساختہ قاعدہ کی پابندی نہیں کرتے مثلاً ے ترجمہ : جب دین صحیح ہو تو خنجر کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ با لال کلام کی طاقت سمجھ نما ہوتی ہے.میں ہر ظلم برداشت کرنے پر رضامند ہوں، خواہ قتل کیا جاؤں، کیونکہ ہر عمل اور فعل کی جیز ا ضرور ملتی ہے.اس کی مہر بانیوں کے پیش نظر ہم نے سینکڑوں قسم کی مار پیٹ پر صبر کیا، کیونکہ جب تک شرم پیس کر غبارہ نہ ہو جائے آنکھ کے قابل نہیں ہوتا.جب تو کسی جنگل میں شیر کو دیکھ لیتا ہے تو وہاں سے بھاگنے میں دیر نہیں کرتا ، اسی طرح تیرے سامنے جب بھیڑیا آجاتا ہے، تو تیرا دل تڑپنے لگتا ہے اور تو سخت خوفزدہ ہو جاتا ہے.پس یقین کے اس دعوے کے ساتھ جو تجھے خدا اور قیام کے دن پر ہے پھر کس طرح کبیرہ گناہ کا مرکب ہوتا ہے.کیا تیرے نزدیک خدا بھیڑیئے کے برابربھی نہیں ؟

Page 211

JAL شیخ سعدی کا ایک اقتباس منا ہذا پر دیکھئے جس میں آٹھویں شعر پر جاکر مفہوم مکمل ہوا ہے.تجاہل عارف یعنی کسی معلوم بات سے اپنے آپ کو ناواقف اور لاعلم گردانتے ہیں کسی خاص نکتہ کے پیدا کرنے کے لئے جس کلام زیادہ بلیغ ہو جائے.جیسے سے من ندانم این چه ایمان است و دین دم زدن در جنب رب العالمین تو خزاں بہر خود پسندیدی به من ندانم چه در هنرهای دیدی (در تمین منت ) ور ثمین ۳۵) مرا قبال وکذاب و ترانز کافرا فهمند نمے دانم چرا از نورحق نفرت شود پیدا؟ دور ثمین ) ان تینوں شعروں میں مخالفین کی غلط کاری پر تعجب میں مبالغہ ہے تشابہ الاطراف یعنی کلام ایسی شے پر ختم کریں جو ابتدا سے مشابہت رکھتی ہو جیسے سے سخن نام دریافت زاں نامہ : زہے پختگی ہائے آں خاصہ ہے خامہ (قلم) کون کلام جو کھا ہوا ہو اس سے گہرا تعلق ہے.دور ثمین ۳۱۵ لے، میں نہیں جانتا کہ یہ کیسا ایمان اور دین ہے کہ انسان خدا کے مقابلہ میں کوئی دعوے کرے.تو نے اپنے لئے خزاں کو پسند کر لیا میں نہیں سمجھ سکتا.کہ تو نے خزاں میں کیا دیکھا.مجھے دقبال ، کذاب اور کافروں سے بدتر سمجھتے ہیں.مجھے نہیں معلوم کہ انہیں خدا کے نور سے کیوں اتنی نفرت ہوگئی ؟ سے اس خط سے کلام نے نام پایا ، اس قلم کی پختگیوں کے کیا کہتے !

Page 212

IAA آتئے کا ندر دلم افروختی و زوم کی غیر خود را سوختی جلنے کو آگ سے گہرا تعلق ہے.: تنسيق الصفات کئی صفات پے در پے لانا بغیر حرف عطف کے جیسے سے آفتاب هر زمین و هر زمان نے رہبر ہر اسود و بر احمر سے مجمع البحرین علم و معرفت : جامع الامین ابرو خاور سے ور تمین ۲۳۵) دور همین من) تاجداره هفت کشور آفتاب شرق و غرب بادشاہ ملک و ملت ملجاء هر خاکسانده در ثمین طلا) یہ خیال رہے کہ ان اشعار میں جو واؤ آئی ہیں ، وہ ضمنی حروف عطف ہیں.مثلاً آفتاب شرق و غرب با وجود واؤ کے ایک ہی صفت ہے.اور اس کے اور اس سے پہلی صفت تاجداره هفت کشور کے درمیان کوئی حرف عطف نہیں.بعض مصنف اس صنعت کو صنائع لفظی میں شمار کرتے ہیں.بر اعتہ الاستهلال یعنی شروع کلام میں ایسے لفظ آویں جن سے پتہ چل جائے کہ آگے کیا مضمون ہوگا جیسے ایک نظم کا مطلع ہے : سے در دلم جوشد ثنائے سروے : آنکه در خوبی ندارد ہمسر ور ثمین ! ے ترجمہ : جو اگ تو نے میرے دل میں روشن کی ہے ، اس کے شعلوں سے اپنے غیر کو جلا دیا ہے.سے ترجمہ : وہ ہر ملک اور ہرزمانہ کے لئے آفتاب ہے، ہر کالے گورے کا رہی ہے علم اور معرف کا سنگم ہے.بادل اور سوج دونوں کا جامع ہے.وہ ساتوں ولایتیوں کا بادشاہ ہے.مشرق و مغر کا سورج.ملک ملت کا حکمران ہر خاکسار کی پناہ ہے.کے ترجمہ : میرے دل میں اس شہنشاہ کی تعریف جوش زن ہے خو خو بیوں میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا.

Page 213

= اس سے صاف ظاہر ہے کہ آگے جو نظم ہے اس می رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح بیان کی جائے گی.اسی طرح حسب ذیل مطلع جات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نظموں میں علی الترتیب نزول مسیح ، نعت رسول اور انسان کامل کی صفات کا بیان ہوگا.جائی که از مسیح و نزولش سخن رود : گویم سخن اگرچه ندارند با ورم د در شین خدا) چون زمن آید ثنائے سرور عالی تبار ؟ : عاجز از مردش زمین و آسمان و هر دو دار در تخمین ) ہماں ز نوع بشر کامل از خدا باشد که با نشان نمایاں خدا نما بات د در ثمین ) مزاوجہ دو ایسے معنی شرط و جزا میں واقع ہوں کہ پہلے پر جو امر مرتب ہو دوسرے پر بھی وہی ہو جیسے.تا وجودم هست خواهد بود عشقت در دلم تا دلم دوران خون دارد بتو دار و مدابر ور تین طلا) گر بگوئی غیر را رحماں خُدا تف زند بر روئے تو ارض و سما در تراشی بر آن یکتا پسر : بر تو بارو لعنت زیر و زبری در ثمین ) ے ترجمہ جہاں کہیں کسی اور کے نزول کا ذکر ہو.وہاں کی بھی کچھ کچھ کہتا ہوں.اگرچہ لوگ میرا یقین کریں مجھ سے اس عالی قدر سردار کی تعریف کس طرح ہو سکے جس کی مدح سے زمین و آسمان اور دونوں جہان عاجز ہیں.انسانوں میں سے وہی خدا کی طرف سے کامل ہوتا ہے، جو روشن نشانوں کے ساتھ خدا دکھانے والا ہو.ے ترجمہ : جب تک میرا وجود باقی ہے، تیرا عشق میرے دل میں ہے گا جب تک میرے دل میں خون گردش کرتا ہے گا میرا تھی پر بھروسہ ہے.اگر تو کسی اور کو خدائے رحمان کہے تو تیرے منہ پر زمین و آسمان تھو کیں.اگر اس یکتا خدا کے لئے تو کوئی بیٹا تجویز کرے گا تو نیچے اور اوپر سے تجھ پر لعنتیں برسیں گی.

Page 214

19- هر که در مجمرت افتاد تو بریایی کردی و هر که آمد بر تو و تو گریاں کر دی ہی در ثمین (۲) التفات کلام میں صیغہ جات نائب ، مخاطب اور متکلم کو بدل بدل کردن نا جیسے سے ہزارہ نعت نمائی کے چوسکڑنا : به نقش خوب عیار و صفا کجا باشد موید یه مسیحادم است مهدی وقت : بشان اور گرے کے زاتقیا باشد چونچہ بود جہانے خموش و سربسته : من آمدم بقد و میکه از صبا با شد در ثمین سن ۲) تا نہ نو شد جام این زہرے کے کے رہائی یا بد از مرگ آں تھے ہم زیرا این موت است پنہاں صدحیات : زندگی خواهی بخور جارم نمات (در ثمین ص) کے خستنگان دین مرا از آسمان طلبیده اند + آمدم وقتیکه دلمانوں زنم گردیده اند ور ثمین ص۲۵۲) کے ترجمہ جو کوئی تیری پیٹ میں گرو نے جو ڈال ، جوتیرے پاس خوش خوش کیا تو نے اسے لگا دیا.ترجمہ : تو ہزاروں نقدی دکھائے، پھر بھی خوبصورتی، کھر ان اور صفائی میں ہمارے سکھ جیسی کب ہوسکتی ہے.وہ تائی یافتہ شخص جو سیمادم اور وقت کا مہدی ہے، اسکی شان کو متقیوں میں سے کوئی کیسے پہنچ سکتا ہے.یہ جہاں اک کلی کی طرح تابیں اسطرح یا گویا بویا گئی جب تک ٹی اس زہر کا پیار نہیں پیتا تب تک وہ حقیرانسان کثبت بائی پاسکتا ہے.کے ترجمہ : اس موت کے نیچے سینکڑوں زندگیاں پوشیدہ ہیں.اگر تو زندگی چاہتا ہے تو موت کا پیار پی سے دین کے زخمیوں یعنی دین کا فکر کرنے والوں نے مجھے آسمان سے بڑایا ہے.میں ایسے وقت پر آیا ہوں کہ دل غم کے مارے خون ہو گئے تھے.

Page 215

۱۹۱ ائتلاف لفظ با معنی اینی مفہوم کے مطابق لفظ کی آواز جیسے.ذوق ہیں ئے ، چو تو نمے دانی به هرزه ، عوعو کنی ، بنا دانی دور مین ۳۵ بازخند و بناز ، لاله و گل : باز خیزد، از بلیلان نلفه عوعو یعنی کتے کا بھونکنا اور غلغل بلبلوں کا چھپانا.تعجب و حیرانگی کا اظہار کرنا.جیسے سے د در ثمین م عجب دارم دل آل ناکسان را به که رو تابند از خوان محمد ان خدائے شان عجب باشد نگه : کو تفاضل داشت از بر کشور دور مین ) ور تمین ) دیش گفتم که با چنین نقصان بنا از چه بر عقل سے شوی نازاں د در ثمین میت) همه در دوران عالم من عافیت خواهند : چه افتاد این سرما را که می خوابد مصیبت را در ثمین م ے ترجمہ : - چونکہ تو اس شراب کا مزہ نہیں جانتا، اس لئے نادانی سے فضول بھونکتا رہتا ہے، لالہ اور گلاب پھر ناز سے ہنس رہے ہیں اور بلبلیں پھر چہچہا رہی ہیں.سے ترجمہ : مجھے ان نالائقوں کے دلوں پر تعجب ہے، جو محمد صل اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے منہ پھیر تے ہیں.ان کا وہ خدا بھی عجیب خُدا ہے، جس نے ہر ملک سے لا پروائی برتی.میں حیران ہوں کہ عقل کی ایسی کمی کے باوجود تو اپنی عقل پر ناز کرتا ہے ، اس زمانہ میں سب لوگ امن اور عافیت چاہتے ہیں ، ہمارے سر کو کیا ہوا ہے کہ وہ مصیبت کا خواہشمند ہے.

Page 216

۱۹۲ الله الله چه ریخت از انوار با است و شیع دگر در آن گفتا لله در ثمین نا) تبدیل کرہ قائمقام علم اور علم قائمقام نکرہ جیسے.مصطفے آئینہ روئے خُداست : منعکس درد سے ہماں خوئے خداست در ثمین منت از عنایات خدا و فصل آی اوار پاک : من فرعونیانم بر عشق آن کلیم در همین شه) نه بلغم است که بدتر از بلهم آگی ناداں کہ جنگ او بیلیم حق از ہوا بات ہے دور مین ط۲) ہجو کسی چیز کی مضرت یا عیب کو عمدہ تشبیہ وغیرہ سے بیان کرنا جیسے سے گرخدا از بنده خوشنود نیست به پیچ حیوانی چو او مردود نیست در ثمین خش) این طبیعت ہائے شان چون سنگهاست : در بریشاں گردے بودے کجاست؟ ور ثمین ) ے ترجمہ : اللہ للہ کیسے کیسے انوار اس نے بکھیرے ہیں، اس کلام میں تو اور ہی طرح کا فیضان ہے.سے ترجمہ : محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسم تو خدا کے چہرہ کا آئینہ ہیں، اس میں وہی خدا کی صفات منعکس ہیں.خدا کی مہربانیوں اور اس منصف ذات پاک کے فضل سے اس کلیم آنحضرت کے عشق کی وجہ سے فرعونی صفت لوگوں کا دشمن ہوں ، وہ نادان شخص نہ صرف بلعم ہے، بلکہ بلعم باعور سے بھی بدتر ہے.جس کی لڑائی خدا کے کلیم سے ہوائے نفس کی وجہ سے ہو.سے ترجمہ : اگر خدا کسی بندہ سے خوش نہیں، تو کوئی بھی حیوان اس جیسا مردود نہیں ہے.انکی یہ بیعتیں پھر کی طرح سخت ہیں ، ان کے پہلو میں اگر کوئی رترم ، دل ہے.تو کہاں ہے.

Page 217

١٩٣ دانگه او نام نے تحقیق و درکی مبتلاست : آدمی ہرگز نباشد بست او بدتر زخره دور ثمین ) استفہام : بینی سوال کے رنگ میں بات کرتا.اسے مختلف اغراض کے لئے استعمال کیا جاتا ہے یعنی (1) تعجب (۲) تاکید (۳) توقف (۴) تقریه (۵) انکار - ا تعجب جیسے.کجاشد در بین آن زبان وصال کجا شد چنان فرم اس ماہ و سال ؟ (در تمین ) ۲ - تاکیب یعنی کلام میں زور پیدا کرنا.جیسے سے کے پسندد خود که آی اکبر : شہر تے یافت از طفیل بشر ور مین ملا کجاست علیم صادق که تا حقیقت ما : بر وعیاں ہم ان پرده خفا باش که روز ثمین ) - توقف.آگے الگ عنوان رکھیئے..تقریر.اسے استخدام جوابی بھی کہتے ہیں.جیسے چہ دانی کہ ایشاں چپساں سے زمیند؟ : ز دنیا نہاں در یہاں سے زینده دور ثمین منت لے ترجمہ : جوشخص تحیق کے لئے تونہیں آتامین شمنی میں لگارہتا ہے، وہ ہرگز انسان نہیں بلکہ گدھے سے بھی بد تر ہے.ترجمہ : افسوس وہ ملاقات کا زمانہ کہاں گیا ، وہ خوشی والے مہینے اور سال کہاں چلے گئے.سے ترجمہ ، عقل کسی طرح پسند کر سکتی ہے کہ وہ خدائے برتر کسی انسان کے طفیل شہرت پائے، وہ سچے الہام پانے والا کہاں دہل سکتا ہے ، کہ ہماری حقیقت اس پر پردہ غیب سے ظاہر ہو جائے.سے ترجمہ تجھے کا معلوم کروہ لوگ کس طرح زندگی بسر کرتے ہیں، وہ تودنیا سے پوشیدہ در پوشیدہ زندگی گذارتے ہیں.

Page 218

نم 19 انگاری یعنی ایساسوال جس کا جواب لاز ما نفی میں ہو.جیسے ہ نے بزیر زمین کلام حندا : تا بگوئی کہ چوی خرم آنجا چوں نہ قعر زمین برون آرم : خود چنیں طاقتے نمے دارم.در همین منا) کے توان کردن شمارہ نوبی عبدالکریم : آنکه جای داد از شجاعت برطرد مستقیم و تامین ) کجا غوغائے شان بر خاطر من وحشتے آرد کر صادق بزدلی نبود و گر بلند قیامت را ; دو تین منشا ) ( توقف : حکم سامعین کی عقل کو اپیل کرتا ہے کہ ذرا ٹھہر کہ غور کریں.اس کی مرض پوری توجہ حاصل کرنا ہے.جیسے.پینچ دانی کلام رحمان چیست؟ و آنکه آن خود بیافت آن مه کیست آن کلامش که نور یا دارد : شک ریب از قلوب بردارد رورین است ا ترجمہ : نہ خُدا کا کلام زمین کے نیچے ہے ، کہ تو کہے کہ میں وہاں کیسے گھسوں.اسے میں زمین کی گہرائیوں سے کیسے باہر نکالوں ،مجھ میں تو ایسی طاقت نہیں ہے.عبد الکریم کی خوبیاں کس طرح گنی جاسکتی ہیں، جنسی دلیری کے ساتھ صراط مستقیم پر جان دی.ان کے شور سے میرے دل میں کہاں گھبراہٹ پیدا ہو سکتی ہے، کیونکہ راستباز آدمی بزدل نہیں ہوتا، خواہ وہ قیامت بھی دیکھ لے.ہ ترجمہ: تجھے کچھ خبر ہے کہ رحمان کا کلام کیا چیز ہے ، اور وہ چاند کو نسا ہے جس نے سورج کو پایا ہے.رحمان کا کلام وہ ہے جس میں نور ہی نور ہے ، وہ دلوں سے شک شبہ کو دور کر دیتا ہے.

Page 219

۱۹۵ لے زندگانی چیست جان کردن براه تو فیدا + رستگاری چیست در بند تو بودن میدوار اضمار امر در مورد نهی نہی کے مقام پر امر کا اشارہ جیسے سے A ور تین ) " بگو ہر آنچہ بگوئی پو خود نمی دانی : که ساکنان درش راچه اجتبا باشد دور ثمین ) تو خواہی خسپ یا خود مردہ سے باش 4 که بر ما نیست جز ہشیار کردن نی د در ثمین (۳۷) اعتراض جسے حشو یا اشباع بھی کہتے ہیں.اس کا ضابطہ یہ ہے کہ کلام ختم ہونے سے پہلے ایسا لفظ یا الفاظ لائیں جیسے غیر مفہوم مکمل ہوجاتا ہو.یہ ایادی آخر کی بجائے درمیان میں بھی ہوسکتی ہے، اگر کوئی حشو کلام کو رتبہ بلاغت سے گراد سے ایعنی اس کا کچھ فائدہ نہ ہو تو اسے شوقیح کہتے ہیں اور اگر حسن کلام کی ایزادی کا موجب ہو تو اسے حشو ملیح کہتے ہیں.ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کے کلام میں حشو قبیح کی مثال تلاش کرنا ہے کا ر ہے حشو ملیح کے لئے دیکھئے اسے زندگانی چیست جان کردن براه تو فدا : رستگاری چیست در بند تو بودن صید والله JAY در ثمین ) لط ترجمہ: زندگی کیا چیز ہے ؟ تیری راہ میں جان کو قربان کردیا، آزادی کیا ہے ؟ تیری قید میں شکار کی طرح رہنا.کے ترجمہ: تو جو چاہے کہتارہ کیونکر تجھے یہعلم ہی نہیں کہ اس کے دروازہ پر پڑے رہنے والوں کا کیا کرتیہ ہوتا ہے، تو خواہ سویا رہ یا مر ہی جا، ہمارے اوپر تجھے ہشیار کرنے کے سوا اور کوئی ذمہ داری نہیں.کے ترجمہ : زندگی کیا ہے تیری راہ میں جان قربان کرنا ، آزادی کیا ہے؟ تیرا شکار ہوکر تیرے قبضہ میں رہنا.

Page 220

194 اس شعر میں میدوار کا لفظ حشو ہے کیونکہ فقرہ در بند تو بودن پر ختم ہو جاتا ہے لیکن کیا ہی حسین اور لذیذ حشو ہے کیسی کے قبضہ میں انسان اتفاقیہ بھی آجاتا ہے.کوئی ظالم بھی گفتار کر سکتا ہے لیکن جو شخص کسی کی نگاہ ناز کا شکار ہو جائے ، یہ قید صرف اور صرف اسی کو پیاری ہے اور وہی اُسے رستگاری سمجھ سکتا ہے.نفرض شکار ہونے کی تخصیص ہے تو حشو ، لیکن اس نے شعر کی بلاغت میں کتنی اینزادی کر دی ہے.جامع الحروف یعنی ایک ہی لفظ کو شر میں دو دفعہ لانا.اس طرح کہ شعر کے مفہوم میں کوئی خاص اعلیٰ درجہ کی خوبی پیدا ہو جائے.جیسے سے تو به عقل خویش در کبر شدید و ما خدائے آنکر او عقل آفرید دور ثمین ) ایک ہی چیز ہے لعینی منتقل.اس کے متعلق مختلف افراد کی سوچ کا فرق کیسی خوبصورتی سے نمایاں کیا ہے.ایک شخص کو عقل ملی تو اس نے اُسے تکبر کا ذریعہ بنالیا.اور خدا سے سے دُور ہو گیا.دوسرے کو ملی تو وہ شکر گزار ہو کر اللہ تعالے کا فدائی بن گیا.کے ترجمہ تو اپنی عقل پر نازاں ہوکر سخت تشکر ہوگیا ہے ، اور ہم اس پر دل میں جس نے خود قتل کو پیدا کیا ہے.

Page 221

196 صنائع لفظی تجنیس سے جناس بھی کہتے ہیں یعنی کلام میں ایسے دو لفظوں کا آنا جو تلفظ میں مشابہ لیکن معانی میں متاثر ہوں.اس کی بھی بہت سی قسمیں ہیں مگر حضرت اقدس کے کلام میں اس کے ستعمال کے متعلق مثالیں پیش کرنے میں چند ایک کا ذکر کرنا کافی ہوگا.۱- تجنیس نام دونوں لفظوں کے حروف ، عدد، نوع ، ہیئت اور ترتیب میں متفق ہوں.جیسے ہے عشقش ، تار و پود دل من در دی شد است : مهرش شد است در دره دیں میرا نوارم تبالیست از بانغ تدکس و کمال : ہمدال اور بھوگل ہائے آل 14 در زمین ) ( در تمین جنت) چه فرق است در روز و شب جز که یار : فتد خاک بر فرق این روزگاره در ثمین (۳۷۵) لے ترجمہ : اس کا عشق میرے دل کے رگ وریشہ میں داخل ہوگیا ہے، اور کی محبت دین کی راہیں میرے لئے چمکتا ہوا سورج بن گئی ہے.وہ پاکیزگی اور کمال کے باغ کا درخت ہے ، اور اس کی سب آل و اولاد شرخ پھولوں کی مانند ہے.دوست کے سوا دن اور رات میں فرق ہی کیا ہے ، اس زمانہ کے سر پر خاک پڑے.

Page 222

تجنیس ناقص دونوں لفظ متفق الحروف لیکن مختلف الحرکات ہوں جیسے سے مرایس است که ملک کا بدست آید بن کر ملک ملک زمین را بقا کجا باشد؟ ور تین طلا) آن کسی که عاملش شد شد محزن معارف والی بے خبر ز عالم کیں عالمے ندیده در تمین شد کہ آل سعید زطاعون نجات خواهد یافت : که جست و جت پنا ہے بیچارہ دیوار ہے ور ثمین من) تجنیس قلب دونوں لفظ حروف کی تعداد اور نوع میں متفق ہوں لیکن ترتیب میں مختلف بر دل شاں ابر رحمت با سیاره : هر مرادشان لفضل خود بر آلله ابرادور بار میں حروف برابر ہیں لیکن ترتیب مختلف.در ثمین ص ۲۳) م تجنیس زائد کا متجان میں دوسرے کلم سے ایک یا دوحرف زیادہ ہوں جیسے.ے ترجمہ : میرے لئے کافی ہے کہ آسمانی بادشاہت آجائے کیونکہ زمینی حکومت اور جائیداد کو بقا نہیں ہے.جو شخص اس کا عالم ہوگی و معرفت کا خزانہ بن گیا، وہ جنسی یکیفیت نہیں پائی وہ دنیا جہان سے غافل رہا.وہ خوش قسمت طاعون سے نجات پائیگا ، جس نے چھلانگ لگا کر میرے گھرمیں پناہ ڈھونڈھال یعنی جلد حل ہو گیا.۲ ترجمہ : ان کے دلوں پر رحمت کا بادل برسا ، اپنے فضل سے ان کی ہر مراد پوری کر.

Page 223

١٩٩ بے دلارام نایدش آرام : گه برویش نظر گیے بکلام.من خود از بهر این نشان زادم : دیگر از ہر غمے دل آزادم ! ور ثمین طن) دور مین ملت صد به ارامی نقش بخشی وجود + مهرومه را پیشش آری در بجواره تجنیس مرکب در مین شتا دو متجانس لفظوں میں سے ایک مفرد ہو اور دوسرا مرکب جیسے اسے تافت اول بر دیار تازیاں : تازیانش را شود در مان گئے سر از فرمان آن حاکم مبردار : که دارد، قدرت بردار کردن در تمین منت ) ص۳۵) (در تمین ) دل می ترسد بهر تو را از مدت هم پایداری با بی خوش میرم تا اداره در عین منشا) الے ترجمہ : اسے جو کے غیر آرام نہیں آتا کبھی اس کودیکھنے کی خواہش رکھتا ہے اور کبھی کوم شکنے کی.میں خود اس نشان کو دکھانے کے لئے پیدا ہوا ہوں، دوسرے تمام غموں سے آزاد ہوں.تو اس کو اپنے کرم سے لاکھوں نھیں بخشتا ہے ، اور سورج اور چاند کو اس کے سامنے سجدہ کرواتا ہے.سے ترجمہ : پہلے وہ عربوں کے ملک پر چپکا ، تا اس کی کوتاہیوں کا علاج کرے.اس حاکم کے حکم سے سرتابی ذکر ، جو پھانسی پر چڑھانے کی قدرت رکھتا ہو.تیری محبت میں میرا دل موت سے بھی نہیں ڈرتا ، میرا استقلال دیکھ میں صلیب کی طرف کیسا خوش و خرم جا رہا ہوں.

Page 224

تجنیس مزدوج دو متجانس لفظ پاس پاس ہوں.جیسے.بود ہاروں پاک و ایں کرمے پلید : کے بماند با یزید سے بایزید یہ تجنیس مرکب بھی ہے.بایزید مفرد ہے اور بایزید مرکب (با + یزید ).ور ثمین (1) تجنیس ضارع مواد بہشت اور حروف عدد اور ہئیت میں یکساں لیکن ایک ایک حرف مختلف اور وہ دونوں مختلف حروف ہم مخرج ہوں.جیسے اسے کور بہت آن دیده کش این نور نیست و کور است آن سینه که شک اور نیست ور تین ست تجنیس لاحق حسب تجنیس مضارع لیکن دونوں مختلف حروف ہم مخرج نہ ہوں.جیسے س رمر ز صحبت شان جذیہ ہائے تاریخی : دمرز گلشن شان آنچه دیکٹ بات ہے در همین شد و تخنیں مروی سے یہ ہے کہ ایک لفظ متجانس کسی دوسرے لفظ کا حصہ شامل ہو جیسے.ش۲) لے ترجمہ : باران ایک پاک انسان تھا، اور قانون ایک سند کیڑا ، نیند کس طرح بایزید کے برابر ہو سکتا ہے.سے ترجمہ : وہ آنکھ اندھی ہے جس میں یہ روشنی نہیں ، اور وہ سینہ قبر ہے جو شک سے خالی نہیں.سکے ترجمہ : ان کی حد سے گناہ کے جذبات کا فور ہو جاتے ہیں اوراس کے من میں یہ اڑ جاتی ہے جود کو فرخنی شتی ہے.

Page 225

۲۰۱ سیل عشق دلبرے پر زور بود + غالب آمد رخت مارا در ریود دور ثمین فت) رد العجز علی الصد جو لفظ شو کے آخرمیں آئے وہی شروع میں ہو، یا مصرع اول کے درمیان کہیں.یا اس کے آخر میں یا دوسرے مصرع کے شروع میں.یہ سب اسی صنعت میں شمار ہوتے ہیں.جیسے سے بشر کے برے از ملک نیک تر نہ بودے اگر چوں محمد بشیر ) در تمین (۳۱۲) سخن کونمو دست در عدن + به معنی رسانید لفظ سخن (در تمین ۳۱۵) قدم خود زده براه عدم گم بیادش زفرق تابلت دیم دور تمین حت) دل از کف و گلهش باشد و فتاده ز فرق : فراغت از همه خود بینی و ریا باشد ۲۶ در ثمین ) سے ترجمہ : دلبر کے عشق کا سیلاب زوروں پر تھا، وہ غالب آگیا اور ہمارا تمام مال واسباب بہا کر لے گیا.کے ترجمہ : انسان فرشتے سے کیونکر بڑھتا.اگر محمد مبیسا انسان ( پیدا) نہ ہوتا.وہ کلام جو در عدن دکھائی دیتا ہے، انتھی کلام کو معانی تک پہنچا دیا.انہوں نے اپنا قدم عدم کی راہ پر رکھا.اور حندا کی یاد میں سر سے پیر تک غرق ہو گئے.اس کا دل ہاتھ سے اور ٹوپی سرسے گر گئی، خود پسندی اور ظاہر داری سے پاک ہو گیا.

Page 226

اشتقاق زور تو غالب است بر همه چیز : ہمہ چیزے بہ جنب تو نا چیز ور ثمین صد) باد دوصد زنجیر بردم پیش یار : خار با او گل گلی اندر ہجر خانه دور ثمین ۱۳۵) دو لفظ ایک مادہ سے مشتق ہوں اور باعتبار معنی بھی متفق.جیسے ہے علم را عالم بہتے دارد براه : بت پرستی پاکند شام و پگاه دور مین ) هر دم از کارخ عالم آواز ست که یکیش بانی و بنا ساز نیست ذو القافین در ثمین مث ) وہ شعر جس میں دو یا زیادہ قافیے ہوں.جیسے سے آپ جہاں بخشی جاناں آیدت رو طلب مے کن اگر جان باید سے در ثمین منت ے ترجمہ : تیری طاقت ہر چیز پر غالب ہے ، اور تمام چیزیں تیرے مقابل پر پہنچے ہیں.سینکڑوں بندھنوں کے باوجود ہر دم محبوب کے حضور رہتے ہیں.اس کے پاس ہوں تو کانٹے پھول اور اس سے پرے ہوں تو پھول کانٹے معلوم ہوتے ہیں.سے ترجمہ : عالموں نے علم کو اپنے راستہ کا بت بنایا ہوا ہے، وہ صبح شام بت پرستی میں مشغول ہیں.ہر وقت نظام عالم گواہی دے رہا ہے ، کہ اس جہان کی بنیا د رکھنے وال اور اسے بنانیوال کوئی ضروری ہے.کے ترجمہ ، زندگی بخش پانی محبوب سے ملتا ہے ، اگر زندگی درکار ہو تو جاد اس سے ) مانگ.

Page 227

۳۰۳ عاشقان جلال روئے خدا : طالبان زلال جوائے خدات ور تمین ) لمیح یعنی کسی قصہ یا خاص مشہور واقعہ کی طرف اشارہ ، یا کسی ایسی چیز کی طرف اشارہ جو مروجہ کتب میں مذکور ہو.صد ہزاراں یوسف بینم دیں چاہ دقن : و آن مسیح ناصری شد ازدم و بے شمارت در ثمین طلا) پہلے مصرع میں حضرت یوسف کو کنویں میں پھینکے جانے کی طرف اور دوسرے مصرع میں حضرت عیسی کے مرد سے زندہ کرنے کی طرف اشارہ ہے.- روح او در گفتن قول بلی اول کسے : آدم توحید و پیش از آرش پیوند یار د در ثمین ) قرآنی آیت الست بربكم قالوا بلی (الاعراف :۱۷۳) کی طرف اشارہ ہے.خوب گفت آن قادر رت الورى : لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى دوسرا مصرع قرآن مجید کی آیت ہے.(النجم : ۴۰) ۲۱۲ در ثمین ص۲) دوزخی کنز عذاب پر چول خشم : اصلِ اَل بست لاَ يُكَلِّمُهُمْ ؟ سورۃ بقرہ آیت ۵ امیں ہے : لا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيمَة آیا ہے ( در تمین ) لے ترجمہ : خدا کے چہرے کے جلال کے عاشق ، خدا کی نہر کے مصفا پانی کے طالب.کے ترجمہ: مجھے اس چاہ ذقن میں لاکھوں یوسف نظر آتے ہیں اور اس کے دم سے بے شمار یخ ناصری پیدا ہو گئے.سے ترجمہ : قول بلی کہنے میں اسکی روح سب سے آگے ہے ، وہ تو حید آدم ہے، اور آدم سے پہلے مجبور ہے واصل تھا.کے ترجمہ : اس رب العالمین اور قادر محمد نے خوب کہا ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جسکے لئے وہ کوشش کرے.ہے ترجمہ : وہ دوزخ بوخم کی طرح غذا سے پر ہے ، سکی حقیقت یہ ہے کہ خدا ان سے کلام نہیں کرے گا.

Page 228

- عجب امید سے نا آشنایان خاندان از دین و که از من میشود حیوان درین فعلت شود پیدا اا ا ا ا ا ا و و یا در ایالات شود - - A در تمین ) کہتے ہیں کہ سکندر اعظم جس جگہ چشمہ زندگی کی تلاش میں گیا تھا.وہاں سخت اندھیرا تھا.جائے او جائی کہ طیر قدس را سوزد از انوار آن بال و پر له مد ( در تمین ) کہتے ہیں.معراج میں جبرائیل نے ایک جگہ سے آگے جانے سے انکار کر دیا تھا کہ وہاں کے انوار سے میرے پر مل جائیں گے.عر نقش بخشد ز فضل و لطف وجود + مهرومه را پیش آرد در سجود ور ثمین ۲۳) قرآن کریم میں آیا ہے کہ خواب میں چاند، سورج اور گیارہ ستاروں نے حضرت یوسف کو سجدہ کیا تھا.نیز حدیث قدسی کے مطابق نشان کے طور پر حضرت اقدس کے زمانہ میں چاند اور سورج کو مقررہ تاریخوں میں گھر بہن لگا تھا.بیا بشتاب سوئے کشتی ما که این کشتی ازاں رب تعلیم است که دورتمین ) طه یہاں حضرت نوح کی کشتی کی طرف تلمیح ہے جس کا قرینہ دوسرے مصرع کے الفاظ ازاں رب عظیم ترجمہ اے این سال در اوا ان ان کا نہیں جایا ہے اس ندی میں کی راے زندگی کا ایک چشم پیدا ہوا.کے ترجمہ اس کا مقام وہ ہے جس کے انوار سے جبرائیل کے بھی بال و پر جل جاتے ہیں.کے ترجمہ : وہ اپنے فضل وکرم سے اسے عزت بخشتا ہے، سورج اور چاند کو اس کے آگے سجدہ کرواتا ہے.سے ترجمہ : جلدی سے ہماری کشتی کی طرف آجا کہ یہ کشتی بھی اسی خدائے علیم کی طرف سے ہے.

Page 229

۲۰۵ ہیں یعنی میری جماعت بھی اسی رب علیم کی طرف سے پناہ گاہ بنائی گئی ہے، جیونی حضرت نوح کو کشتی بنانے کا حکم دیا تھا.سياقته الاعداد معین اعداد کا ذکر کریں.مرتب یا غیر مرتب.جیسے گشته و او نه یک نر دو نہ ہزار این قتلان او بروی زشمار بیان بہ تحریر معنی الفاظ کے کار سے کلام میںزور پیدا کرنا.جیسے منزلی شان برتر از صد آسماں بس نہاں اندر نہاں اندر نہاں لیکن ایں بے باکی و ترک حیا : افترا بر افسترا بر استرا ور ثمین ۳۳۳) ITA در ثمین ۱۳۵) ور ثمین فست) بس که من در شق او ستم نہاں من بمانم من بمانم من ہما کله د در ثمین خدا غیر گودر بر بود دورست دور : یار دور افتاده مردم در حضور در همین ما ) اے ترجمہ : اس کے کشتے ایک، دو یا ہزار نہیں ، بلکہ اس کے قتیل بے شمار ہیں.ے ترجمہ : ان کا مقام سینکڑوں آسمانوں سے بھی بلند ہے ، وہ تو مخفی در مخفی در مفتی ہیں لیکن یہ بے باکی اور یے شری و افترا پر اترا را فرا ہے میں کسی عشق میں اتنافرق ہوگیا ہوں کہ میں وہی ہوں میں وہی ہوں وہی ہوں.کے ترجمہ غیر گرچہ پل میں ہی ہے پھر دور ہے بہت دور ہے، اور دوست دور ہوتو بھی ہر وقت سامنے ہوتا ہے.

Page 230

۲۰۶ قسم بھی بعض دفعہ کلام میں مجیب نطف پیدا کرتی ہے.جیسے : بگیسوئے رسول اللہ کہ ہستم : نشاید روئے تابان محمد ور ثمین ) محبت تو دوائے ہزار بیماری است به بروئے تو کر رہائی دریں گرفتاری است که در همین شک) حسن بخلص جسے گریز بھی کہتے ہیں پہلے صرف تشبیب کے بعد عمدہ طریق سے مدح کی طرف پلٹنے کو کہتے تھے.اب قدر سے عام ہو گیا ہے.یعنی ایک مضمون کی طرف متوجہ ہونا.۱ حضرت اقدس نعت نبی سے دوسرے انبیاء کے ذکر کی طرف پلٹتے ہیں.فرمایا سے است او در روضه تدرس محلال و از خیال مادحاں بالا تر ہے اسے خدا بر وئے سلام ما رساں : ہم برا خوانش زہر پیغمبرے ہر رسولے آفتاب صدق بود + ہر رسولے بود مہر انورے د در ثمین خدا ۲۱۰۰) -۲- اسی طرح آپ نعت رسول سے ایک اعتراض کے رد کی طرف رجوع فرماتے ہیں:.لے ترجمہ: رسول اللہ کی زلفوں کی قسم میں مصل اللہ علیہ تک کے روشن چہرے پر فدا ہوں.تیری محبت بے شمار بیماریوں کی دوا ہے، تیرے ہی منہ کی قسم کہ اسی گرفتاری میں اصل آزادی ہے.کے ترجمہ : وہ پاکیزگی اور جلال کے گلستان میں دستک) ہے اور مدح کرنے والوں کے خیال سے بہت بالا ہے.اے خُدا اُسے ہمارا اسلام پہنچانے، نیز اس کے بھائیوں یعنی دوسرے تمام پیغمبروں کو بھی.ہر رسول سچائی کا سورج تھا ، ہر رسول نہایت روشن آفتاب تھا.

Page 231

۲۰۷ مے دید فرعونیاں را ہر زمان : چون ید بیضائے موسی قصد نشاں آل نبی در تیم این کوران نزار با هست یک شہوت پرست کیس شعار شر مست آیدے سنگ ناچیز و پست : مے نہی نام یلاں شہوت پرست ہے دور ثمین ن حمد باری تعالی سے نعت رسول کی طرف گریز فرماتے ہیں : جہاں جملہ یک صنعت آباد اوست : خنک نیک بختی که در یاد اوست رسول خدا پر تو از نور اوست : همه خیر ما زیر مقدور است ہماں سرور و ستید و نور جہاں : محمد کز و بست نقش جهائی در ثمین سا) خوب غور فرمائیے کہ گریز کی ان مثالوں میں پہلے مضمون کا تسلسل بھی نہیں ٹوٹتا اور نیا مضمون بھی شروع ہو جاتا ہے.یہی تخلص کا کمال ہے.ستاف : مخاطب کو متوجہ کرنے کے لئے حرف ندا کے ساتھ آواز کو لمبا کرنا جیسے : اے ) ترجمہ :.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، فرعونی صفت لوگوں کو ہر وقت موسیٰ کے یہ بھیا جیسے سینکڑوں نشان دکھاتا ہے.ایسا نبی ان ذلیل اندھوں کے نزدیک ایک شہوت پرست اور کینہ ور شخص ہے.اسے حقیر اور ذلیل کہتے تمہیں پہلوانوں کا نام شہوت پرست رکھنے سے شرم آنی چاہیئے.کے ترجمہ : تمام جہان اس کی کاریگری کا کارخانہ ہے، خوش قسمت ہے وہ جو اس کی یاد میں ہے.خدا کا رسول اسی کے نور کا عکس ہے.ہماری سب بھلائیاں اسی کی پیروی سے وابستہ ہیں.وہی سردار ہے ، آتا ہے ، روح کی روشنی ہے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اس دنیا کی صورت بنی.

Page 232

اسے خُدا اسے چارہ آزاید ما نے اسے علاج گریہ ہائے زراید ما اسے تو مریم بخش جان ریش ما اسے تو دلدار دل غم کیش ماه ور ثمین ) موازنہ یہ ہے کہ دونوں مصرعوں کے آخری الفاظ بلحاظ وزن کے برابر ہوں لیکن باعتبار حرف آخر کے مختلف ہوں.جیسے سے عنایت ہائے اور ا چون شمارم و کر تکلف اوست برای از شما اتے دور ثمین (۲۳) اکتفا یہ ہے کہ عبارت ایسی ہو جس کا کچھ حصہ محذوف ہو، اور دلالت کلام کے باعث اس محذوف کا ذکر کرنے کی ضرورت نہ ہو.اس کی غرض اختصار ہوتی ہے ہو فن شاعری کا ایک بڑا ما بہ الامتیاز ہے.جیسے ہے آتش عشق از دم می مچھ بیتے ہے جید : یک طرف میدان نماز گرد و جوانی من قے مے طرف دو تین منش) دوسرے مصرع میں از من (یعنی مجھ سے ) اور گردید (یعنی ہٹ جاؤ) کے الفاظ محذوف ہیں:.دید را کن جستجو اے نا تمام ورنه در کار خودی بس سر دو خانه در تمین اے ترجمہ : اسے خُدا اسے ہمارے دکھوں کی دوا ، اسے ہماری گریہ و زاری کے علاج.اسے ہماری زخمی جان پر مریم رکھنے والے ، اسے ہمارے غم زدہ دل کی خواری کرنے والے.سے ترجمہ میں اسکی مہربانیوں کو کیون گرگن سکوں ، کیونکہ اس کی نوازشات حد شمار سے باہر ہیں ے ترجمہ میرے سانس سے اسکی عشق کی آگ بجلی کی طرح نکلتی ہے، اسے خام طبع ساتھیو ہی اردگرد سےایک فرد ہی جائیں.کے ترجمہ : اے ناقص انسان تو مشاہد حق کی جستجو کر ، اس کے بغیر تو معرفت میں خام ہی رہے گا.

Page 233

دوسرے مصرع میں گردی یا باشی محذوف ہے یعینی ہے یا ر ہے گا.- چوشام پر غبار و تیره حال عالمی بینم با خدا بر سے فرود آورد و کاپائے ہر گام در ثمین منس) دوسرے مصرع میں خواہم محذوف ہے.یعنی میں چاہتا ہوں.یا د رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود دنیا میں شاعری کرنے کے لئے نہیں آئے تھے ، کہ اپنے فن کی تشہیر کرنے کے لئے ہر قسم کے صنائع بدائع اپنے کلام میں لانے کی کوشش کرتے.آپ کی بعثت کا مقصد تو اصلاح خلق اور تجدید دینِ اسلام تھا.سو ان اغراض کی خاطر اپنے کلام کو دلچسپ اور موثر بنانے کے لئے جو فنون بلاغت مفید تھے ، ان سے حضرت اقدس نے ضرور فائدہ اٹھایا.لیکن جو طریق محض تفن طبع کے لئے شعرا نے اختیار کئے تھے ، ان سے آپ نے کلی طور پر پرہیز کیا.لہذا آپ کے کلام میں ایسے صنائع بدائع کو تلاش کرنال حاصل ہے جن سے ذاتی تفاخر کے علاوہ اور کچھ بھی حاصل نہ ہو سکے : لے ترجمہ : میں جب دنیا کی گردو غبار سے بھری ہوئی شام اور زمانہ کی تاریخی پر نظر ڈالتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ اللہ تعالے اس کے متعلق میری پچھلی رات کی دعاؤں کو قبول کر لے ؟

Page 234

۲۱۰ مزید فنون بلاغت یہاں تک تو وہی فنون بلاغت بیان ہوئے ہیں.جن کا ذکر عموما فصاحت و بلاغت کی کتب میں پایا جاتا ہے.لیکن ہر اچھے کلام میں بعض ایسے محاسن بھی ہوتے ہیں ، جن کا ذکر ان کتب میں نہیں آیا.حقیقت یہ ہے کہ جس طرح حسین انسانوں کے حسن کے تمام پہلوؤں کو ضبط تحریر میں لانا اور ان کے نام رکھنا مشکل بلکہ ناممکن ہے.اسی طرح حسین کلام کی تمام خوبیوں کا احاطہ کرنا بھی ممکن نہیں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ : سے خوبی ہمیں کرشمہ و ناز و خرام نیست به بسیار شیوه هاست بتا را که نام نیست اس لئے اب چند ایسے محاسن بیان کئے جاتے ہیں جن کا ذکر قبل ازیں نہیں آیا.ایک صنعت ابہام تضاد ہے یعنی دو غیر متقابل معنوں کو ایسے دو لفظوں سے تعبیر کرنا جن کے حقیقی معنوں میں تضاد ہو.جیسے.ا- تا نگرید ابر کے خند و چمن : تا نگرید طفل کے جو شد لیں اسے اس کے بالعکس کسی صنعت کا کوئی ذکر کہیں نہیں یعنی کلام میں ایسے دو لفظوں کا آنا جن کے متعلق تضاد کا وہم پیدا ہوتا ہو.لیکن در حقیقت ان میں تضاد نہ ہو.جیسے - ے ترجمہ : حسینوں کی خوبیاں صرف غمزہ ، ناز اور حرام میں محدود نہیں.ان کی بہت سی ادائیں ایسی بھی ہیں جن کا کوئی نام نہیں.کے ترجمہ : جب تک بادل نہ ہبر سے باغ نہیں کھلتا، اور جب تک بچہ نہ روئے ماں کی چھاتیوں میں دودھہ نہیں اترتا.

Page 235

۲۱۱ سخن نام دریافت زماں نامہ ہے زہے پختگی ہائے آئی خامی ہے ور تین ۳۱۵) بظا ہر پختگی اور امرمیں تضاد معلوم ہوتا ہے، لیکن در حقیقت ان کے معنوں میں کوئی تصاد نہیں.کیونکہ خامہ کے معنی قلم ہیں مگر پھر بھی پختگی اور خامہ کے الفاظ سے صنعت طباق کا خیال پیدا ہونے اور پھر اس کے دور ہونے سے قاری کی پوری توجہ اس شعر کے معنوں کی طرف کھینچی جاتی ہے..اسی طرح ایک صنعت مقابلہ ہے یعنی دو یا زیادہ معنوں کو جو متوافق ہوں ذکر کریں.پھر چند ۱۳۵ دوسرے معنوں کو جو پہلوں کی ضد ہوں بہ ترتیب ذکر کریں دیکھئے ما ہا لیکن اس کے الٹ کو صنعت قرار نہیں دیا گیا یعنی کچھ معنوں کو جو موافق ہوں.ذکر کریں.پھر چند دوسرے معنوں کو جو پہلوں کی ضد نہ ہوں ، بلکہ اس کے موافق ہو بہ ترتیب ذکر کریں.اس سے کلام میں بہت تاکید اور توش پیدا ہوتا ہے.اس صنعت کا نام بھی نہیں رکھا گیا.اور نہ اسے صنائع میں شامل کیا گیا ہے.حضرت اقدس کے کلام میں اس کی مثال دیکھئے سے عاشقان جلال روئے خُدا : طالبان زلال جوئے خدا مزید مثالیں ملک ہذا پر دیکھیئے : اور مین ) سے ترجمہ : کلام نے اس خط سے نام پایا ، اس فلم کی پختگی کے کیا کہنے ! کے ترجمہ : وہ خُدا کے چہرہ کے جلال کے عاشق ، اور خُدا کی نہر کے مصفا پانی کے طالب ہیں.

Page 236

۲۱۲ سلاست کلام سلاست کے یہ معنی ہیں کہ الفاظ وہ ہوں جو روزمرہ کے استعمال میں ہوں.محاورہ وہ ہو جو عام طور پر زبانوں پر جاری ہو.استعارہ اور تشبیہ ایسے ہوں کہ سامع کا ذہن فورا اس طرف منتقل ہو جائے.اضافات کی کثرت و پیچیدگی ن ہو.ادنی ، اوسط، اعلیٰ ہر شخص اپنے فہم رتبہ کے مطابق لطف اُٹھائے.اسی مضمون کو خاتم الشعراء غالب دہلوی نے کہا ہے سے دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا : میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میردل میں ہے صاحب عقد الفرید شعر کے محاسن بیان کرتے ہوئے آخر میں قول فیصل یہ لکھتے ہیں ، کہ اس باب میں سب سے بہتر زبیر ابن سلمیٰ کا قول ہے.وہ کہتا ہے : سے وَان اَحْسَنَ بَنتِ انتَ تَائِلُهُ : بَنتُ يُقَالُ إِذَا انْشَدْتَهُ صَدَقَا یعنی سے بہتر وہی شعر ہے کہ جب تو اُسے پڑھے تو کسنے والا بے اختیار کہ اُٹھے کہ بچے کہا.یہی شعر ایک جگہ حضرت حسان انصاری کے کلام میں بھی پایا جاتا ہے جیسی اس کی رائے کی موفقت ظاہر ہوتی ہے، لیکن فقیر کے خیال میں بہترین فیصلہ ابن رشیق کا ہے.سلامت شعری کی جو تصویر اُس نے کھینچی ہے اس سے بہتر ناممکن ہے.وہ کہتا ہے : فَإِذَا قِيلَ اطْمَعَ النَّاسُ طُرّاً : وَإِذَارِيمَ أَعْجَزَ الْمُعْجِزِيْنَا یعنی جب شعر پڑھا جائے تو اس کی سلامت و سادگی سے ہر شخص کو یہ ظلم ہو کہ ایس میں بھی کہہ سکتا ہوں لیکن جب کہنے کا قصد کریں.تو ادنی اور اوسط کا تو کیا ذکر معجزہ بیان بھی عاجز آجائیں.اس میں شک نہیں کہ ابن رشیق کایہ فیصلہ فیصلہ ناطق ہے.ایک قصہ مشہور ہے کہ مفتی صدرالدین آزردہ مرحوم

Page 237

۲۱۳ کے مکان پر مومن خاں، نواب مصلے خاں شیفتہ وغیرہ کا مجمع تھا کسی نے انہیں میں سے تیر کا یہ شعر پڑھا ے اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ ہے : دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں ہر ایک نے قلم اٹھایا کہ اس کا جواب لکھیں لیکن گھنٹوں گزر گئے اور قلم نے ہاتھ سے صفر کا غذ تک آنے کی جرأت نہ کی.اس عرصہ میں کوئی دوسرے بے تکلف دوست آگئے ، انہوں نے مجمع کو سراپا محو استغراق دیکھ کر پوچھا خیر ہے.مومن نے کہا ہاں.قل ھو اللہ کا جواب لکھنا چاہتے ہیں.(مقدمہ بہشت بہشت مت ).- مولانا محمد حسین صاحب آزاد فردوسی کے متعلق لکھتے ہیں :- اور شاعر خیالی مطالب کو اچھا پھیلاتے ہیں.بیاں واقعہ میں کمزور ہو جاتے ہیں مگر اس کی زبان کا زور ہر مطلب پر پوری قوت رکھتا ہے.اور مقصد معین کو عمدہ طور پر ادا کرتا ہے.اور شاعر بیت کا دوسرا پلہ بھرتی سے بھرتے ہیں.وہ اس میں بھی اصلی مطلب کھپاتا ہے یا ایسا مضمون پیدا کرتا ہے کہ اصل ماجرے کا جر معلوم ہوتا ہے.اس کی انشا پردازی استعاروں سے رنگینی اور صنعتوں سے مینا کاری نہیں مانگتی صاف صاف شعر ، ساده ساده لفظ ، محاورہ کی باتیں، سلیس زبان ، قدرتی نہریں ، چشمہ خداداد کا پانی بہتا چلا جاتا ہے.(سخندان فارس ۲۱) یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس کے کلام میں صنائع بدائع کا استعمال بہت کم ہے ، گویا آئے میں نمک کے برابر ہے.اگر چہ آپ کو ہر قسم کے مفید فنون بلاغت پر شکل دسترس حاصل تھی جیسا کہ آپ کے کلام میں ان کے نمونے قبل ازیں پیش کئے جا چکے ہیں.پھر بھی آپ کے کلام میں جو بے انتہا کشش پائی جاتی ہے ، اس کی بنا زیادہ تر مطالب کی عمدگی اور مناسب الفاظ کے انتخاب پر ہے.حقیقت یہ ہے کہ انشا پردازی اور شاعری کا مقصد یہ نہیں کہ کلام میں فنون بلاغت کا مظاہرہ

Page 238

کیا جائے.بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ مفید اور کار آمد مطالب اور حقائق کو سامع کے ذہن نشین کیا جائے.چونکہ خوبصورت کلام سامعین کی توجہ اپنی طرف پھیر لیتا ہے اور فنون بلاغت ایک حد تک کلام کو پرکشش اور مختصر بنانے میں محمد ہوتے ہیں.لہذا اسی حد تک کلام میں ان کا استعمال جائز اور روا ہے.ورنہ یہ نہ سمجھا جائے کہ ان کے بغیر کلام حسین اور پر اثر بن ہی نہیں سکتا.ضرور بن سکتا ہے بلکہ جو کلام فتی الجھنوں سے مبرا ہو وہ زیادہ زود فہم ہوتا ہے اور یہی خوبی سلاست کلام کا سب • سے بڑا عنصر ہے.خاکسار نے سلامت کلام کے ذکر کو دوسرے فنون بلاغت یعنی علم بیان اور علم بدیع کے بعد اس لئے رکھا ہے کہ تا قاری کو ان فنون کے متعلق کچھ واقفیت ہو جائے ، کیونکہ سیلیس کلام میں بھی یہ فنون ایک حد تک مستعمل ہوتے ہیں.اگر چہ وہ الفاظ کی سادگی اور حسین معانی کے تلے دبے ہوئے ہوتے ہیں.حسن کلام کی اصل بنیا د معانی کے مطابق مؤثر الفاظ کا انتخاب ہے.اور ان کی ایسی موزوں ترتیب ہے جسے کلام میں اعلی درجہ کی روانی پیدا ہو جائے کیونکہ روانی بھی شعر کی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی ہے.اسی طرح ہر بلند پایہ شاعر کے لئے مظاہر قدرت کا گہرا مطالعہ بھی ضروری ہے.اور ایک صلح کے لئے نفسیات سے واقفیت بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے ، کیونکہ یہ دونو امور خوبصورت اور مؤثر الفاظ کے انتخاب میں بڑے محمد ہوتے ہیں.ان کے علاوہ قادر الکلامی کا اظہار جدت سے بھی ہوتا ہے.یعنی کلام میں ایسے تخیلات کا آنا ہو دوسرے شعرا کے کلام میں نہ پائے جاتے ہوں.پھر بعض دفعہ قادرالکلام اساتذہ کے دل و دماغ میں شدید جذبات اور احساسات کی ایک ایسی عظیم ہر اچانک پیدا ہو جاتی ہے کہ ان کے نوک قلم سے بڑے اچھوتے ، دلگداز اور موثر شہ پارے نکلتے ہیں، جن کا مقابلہ کوئی اور کام نہیں کر سکتا.اسے سہل ممتنع

Page 239

۲۱۵ کہتے ہیں.پس سلاست کلام کے اس عنوان کے تحت حضرت اقدس کے کلام میں سے حسب ذیل امور کے متعلق بعض نمونے پیش کئے جائیں گے :- -۱- روانی -۲- مظاہر قدرت - نفسیات ۴- جدت ه - سہل ممتنع.(۶) حسن کلام کے دیگر متفرق نمونے.اس تقسیم سے یہ نہ سمجھا جائے کہ جو اشعار کسی ایک امر کے متعلق پیش کئے جائیں ان میں دوسری خوبیوں کا فقدان ہوگا.مثلاً مظاہر قدرت کے بیان کے متعلق آگے جو اشعار درج کئے گئے ہیں ، ان میں روانی بھی ضرور ہوگی.کیونکہ یہ ایسی خوبی ہے جس کا ہر شعرمیں کم وبیش پایا جاناضروری ہے.ورنہ کوئی شعر شعر کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہو سکتا.نیز ان میں جدت بھی ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی نفسیات کا بیان بھی.اسی لئے کہ جدت کے تحت جو شعر درج ہیں ، ان میں مظاہر قدرت یا نفسیات کا بیان بھی ہو سکتا ہے اور سہل ممتنع والے اشعار میں تو لازما متعدد خوبیوں کا اجماع ہوگا.روانی : سے یہ مراد ہے کہ الفاظ آسانی سے زبان سے نکلیں.کلمات متوافق ہوں ، ان میں کسی قسم کا تنافر نہ پایا جائے.معانی اور الفاظ ایسے مربوط چلے جائیں کہ کہیں کوئی اوپنچ پہنچ نہ ہو.گویا ایک گہرا دریا ہے ، جو بڑے سکون مگر تیزی سے بہتا چلا جاتا ہے.اور اس کی سطح بالکل ہموار رہتی ہے.روانی بھی کلام میں حسن اور دلاویزی پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے.اس کے بغیر کوئی منظوم کلام ترنم سے نہیں پڑھا جا سکتا.نہ سازوں سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے ، کلام میں وزن پیدا کرنے کی غرض بھی یہی ہے کہ وہ ترنم پر پورا اترے.نظم کے لئے بے شمار اوزان ہو سکتے ہیں، مگر صرف وہی اوزان اپنائے گئے ہیں جو ترنم کے لئے زیادہ مناسب ہیں.یوں تو حضرت اقدس کے تمام کلام میں یہ خوبی موجود ہے لیکن بعض نظموں میں یہ خوبی کمال کو پہنچی ہوئی ہے.مثلا وہ نظمیں دیکھئے جن کے مطالعے یہ ہیں :-

Page 240

۲۱۹ سپاس آن خداوند یکتائے را: بمہر و مہ عالم آرائے را در زمین ) بسیار سے طلبگار صدق وصواب : بخوان از سیر خوض و فکر این کتاب حاجت نو سے بود هر چشم را : این چنین افتاد قانو کی خدا کے شوی عاشق رخ یارے پہ تا نه بر دل رخش کند کالے سے ور ثمین صن) ور ثمین صدا) در ثمین (۳۲۴) وغیرہ لمبی نظمیں ہیں.لیکن پانی کی طرح بہتی چلی جاتی ہیں.مظاہر قدرت کا گہرا مطالعہ اور ان کا بیان شعرا کا طرہ امتیاز ہے اور مغربی ممالک میں تو اسے اور بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے.اس بارہ میں حضرت اقدس کے کلام سے ایک اقتباس مثہ ہذا پر ملاحظہ فرمائیے.مزید دو ایک اقتباس نیچے درج ہیں : هر چه از وصف خاکی و خاکست : ذاتِ بیچوں اوازاں پاکست بند بر پائے ہر وجود نہاد : خود ز هر قید و بند است آزادی لے ترجمہ : اس بےمش خدا کا شکر ہے جنسی دنیاکو چاند اور سورج سے آراستہ کیا ہے.اسے سچائی اور راستی کو ڈھونڈنے والے، ذرا غور اور فکر سے اس کتاب کو پڑھ.ہر آنکھ کو بیرتی سروشتی کی ضرورت ہے.خدا کا قانون ایسا ہی واقع ہوا ہے، توکیو نکر کسی معشوق کے رخ کا عاشق ہوسکتا ہے ، جب تک اس کا رخ تیرے دل پر کچھ اثر نہ کرے.ے ترجمہ : زمین اور زمینی مخلوق کی جو بھی صفات ہیں.اس کی بے مثل ذات ان سے پاک ہے ، ہر وجود پر اس نے کچھ پابندیاں لگا رکھی ہیں، اور خود ہر قید اور پابندی سے آزاد ہے.

Page 241

۲۱۷ آدمی بنده هست و نفسش بند به در دو صد حرص و از سر کند همچنین بنده آفتاب و قمر + بند در سیرگاه خویش و مقر ماه را نیست طاقت این کار : که بتابد بروز چون احرار نیز خورشید را نه یا رائے : کہ نہد بر سر یہ شب پائے آب ہم بندہ ہست نہیں کہ مدام به بند در سردی است نے خود کام آتش تیز نیز بنده او : در چنیں سوزشے فگنده او گر براری به پیش او فریاد : گرمیش کم نہ گردو اسے اُستاد پائے اشجار در زمیں بندست به سخت در پاسلاسل انگلند است ایں ہمہ بستگان آن یک ذات بر وجودش دلائل و آیات اسے خُدا وند خلق و عالمیان به خلق و عالم نه قدرت حیراں چه مهیب است شان و شوکت تو چه عجیب است کار و صنعت تو د در همین طه ۱۲ کے ترجمہ : انسان بھی بندھا ہوا ہے ، اور اسکا نفس بھی سینکڑوں خواہشوں اورٹا بچوں میں مقید ہے.اور اس کا سر خیالی بھی ایک پھند میں جکڑے ہوئے ہیں.اسی طرح سورج اور چاند بھی اپنے اپنے راستوں اور دوسر ستاروں کے مقابل میں اپنے مقام کے پابند ہیں.چاند کو اس امرکی قدرت نہیں کروہ دن کو آزادانہ چپک سکے ان سوچ میں یہ ہمت ہے کہ وہ را کے تخت پر پاؤں رکھ سکے.پانی بھی مجبور ہے کیونکہ وہ ہمیشہ سری میں مقید ہے اور اپنی منی کا مالک ہیں نیز اگ بھی اسی پابند ہے والی جلن میں ہی کی ڈالی ہوئی ہے اگر تو اسے سامنے فریاد بھی کرے تو اس کی گرمی کم نہیں ہوگی.درختوںکے پاؤں بھی زین میں جکڑے ہوئے ہیں.اوران میں بول نیری بھی پڑی ہوئی ہیں.یہ سب چیزیں اسی ایک ہستی سے وابستہ ہیں اور اسی کے وجود پر دیں اور نشانیاں ہیں.آجہان اور جہان والوں کے مالک دنیا جہان تیری قدرت پر حیران ہے تیری شان شوکت کیسی پر ہیبت، اور تیرے کام اور کاریگری کتنے جیب ہیں :

Page 242

۲۱۸ حسن تو غنی کند زیر شن + مہر تو بخود کشد زہر یار ن نمکینت از نہ بودے : از حسن نہ بودے پیچے آثار شوخی ز تو یافت روئے خوباں : رنگ از تو گرفت گل به گلزار سیمیں ذقنای که سیب دارند + آمد زیمان بلند اشجار این ہر دو انداں دیار آیند : گیسوئے بتان و مُشک تا تار از بهر نمایش جمالت + بینم همه چیز آئینه دار ہر برگ صحیفہ ہدایت + ہر جوہر و عرض شمع بردار ہر نفس بتو رہے نماید : ہر جان بد ہد صلائے این کار ہر ذرہ فشاند از تو نورے * ہر قطرہ براندازہ تو انہار ہر شو ز عجائب تو شورے : ہرجانہ غرائب تو اذکار از یاد تو نورها به بینم به در حلقه عاشقان خونبار ور ثمین (۱۳۸۳) لے ترجمہ احسینوں کے چڑی نے تجھی سے رونق پائی پھول نے چین میں تجھی سے رنگ حاصل کیا.چاندی جیسی تھوڑیوں والوںکے پاس جو سیب (جیسے خسار) ہیں وہ انہی بند درختوں یعنی تیری اعلی صفات سے سے حاصل ہوئے ہیں.ر اس شعر میں آمد زہاں بلند اشجار کے الفاظ قابل تشریح میں معشوق کے سیتے اونچے قد کو سرو کہتے ہیں.اسی طرح او پر جو صفات الہی بیان ہوئی ہیں انہیں اُونچے درخت قراردیا.پھران درختوں کو پھلدار قرار دیکر بتایا که سینوں کی یہ خوبیاں انہیں اپر تو ہیں یہ دونوں اسی ملک سے آتے ہیں یعنی سینوں کے گیس اور تا تارک مشک تیرے جمال کی نمائش کے لئےمیں ہر چیز کوآئینہ تھامے ہوئے دکھتا ہوں، ہری ہدایت کی کتاب ہے اور ہر ہر و عرض شمع تھامے ہوا ہے.رف تیرا رستہ دکھاتا ہےاور باران سی ام کیلئے پکار رہی ہے.ہر میری یہ روی پھیلاتا اور ہرقطر تیری نہیں بہاتا ہے

Page 243

۲۱۹ دیکھئے حضرت اقدس اپنے مطالب کی وضاحت کے لئے کس طرح مظا ہر قدرت کام لیتے ہیں.این چنیں کس پورو نہد یہ جہاں : بر جہاں عظمتش کنند عیاں چوی بیابد بهار باز آید : موسم لاله زار باز آید وقت دیدار یار باز آید : بے دلاں را قرار بازه آید ماہ روئے نگار باز آید : خور نصف النهار باز آید با زه خت رو بناز لاله و گل : باز خیزد ز بلبلان غلغل دست غیبش به پرورد زکرم : صبح صدقش کند ظهور اتم نویہ الہام ہمچو باد صبا : نزدش آرد زغیب خوشبودا ور ثمین مت) نفسیات.یہ عجیب بات کہ کتب فصاحت و بلاغت میں مظاہر قدرت کی اہمیت کا تو ذکر ہے لیکن نفسیات کا کہیں نام تک نہیں.کم از کم خاکسار کو کہیں نظر نہیں آیاحالانکہ نفسیات سے واقفیت کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے.خصوصا مصلحین کے لئے حضرت اقدس کو اس میں کامل دستگاہ حال تھی.اب آپ کے کلام سے نفسیات کے بیان کے نمونے ملاحظہ فرمائیے اسے لات ترجمہ : ایسا شخص جب دنیامیں ظاہر ہوتا ہے تو جہان پر اس کی عظمت ظاہر کی جاتی ہے.جب آتا ہے تو موسم بہا پھر آجاتاہے اور پھولوں کا موم لوٹ آتا ہے.یار کے یار کا وقت پھر آجاتاہے اور پر عاشقوں کے دلوںکو قرار آ جاتا ہے.محبوب کا چاند سا چہرہ نظر آنے لگتا ہے، سورج پھر نصف النہار پر واپس آجاتا ہے.پھر لالہ اور گلاب کے پھول ناز سے کھلنے لگتے ہیں.اور بلبلیں پھر چہچہانے لگتی ہیں.خدا کا غیبی ہاتھ اپنی مہربانی سے اس کی پرورش کرتا ہے.اور اس کی سچائی کی روشنی پور سے طور پر ظاہر ہو جاتی ہے.الہام کا نور باد صبا کی طرح غیب سے اس کے پاس خوشخبریاں لاتا ہے.

Page 244

۳۳۰ با خبر را دل تپد بر بے خبر : رحم بر کو رسے کنند اہل بصر ہمچنین قانون قدرت اوفتاد : مرضعیفان را قوی آرد ببار دور ثمین ۲۵) ترک خوبی میکنند خوب تر عشق مرا درمان بود عشق اگر شیر باشیر سے نماید زورتن : مے تو اں آہن بہ آہن کو مستن حسن را با عاشقان باشد سرے : بے نظر ور کے بود خوش منظرے ور ثمین مها) ور ثمین ملت) هر که او غافل بود از یاد دوست چاره ساز غلتش پیغام اوست در ثمین ) برد باری سے گند زور آورے : جاہلے فہمد کہ ہستم بر تر ہے د در ثمین ۲۳) ے ترجمہ : نادان کے لئے دانا آدمی کا دل تڑپتا ہے.اور آنکھوں والے اندھے پر ضرور رحم کرتے ہیں.قانون الہی اسی طرح واقع ہوا ہے کہ طاقت ور کمزوروں کا خیال رکھتے ہیں کسی حسین سے اس زیادہ حسین ہی قطع تعلق کراسکتا ہے.گویا عشق کا علاج کسی دوسری (اچھی چیز کا عشق ہے.شیر کے ساتھ کوئی (دوسرا) شیر ہی زور آزمائی کر سکتا ہے ، لوہے کو لوہے سے ہی کوٹا جاسکتا ہے حسینوں کو اپنے عاشقوں کا ضرور خیال ہوتا ہے ، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی خوش شکل تو ہو لیکن کوئی اس کا قدردان نہ ہو ، ہر شخص جو اپنے محبوب کی یاد سے غافل ہو، تو دوست کی طرف سے پیغام ہی اس کی غفلت کا علاج ہے.ے ترجمہ : ایک طاقتور شخص تو بردباری کا مظاہرہ کرتا ہے ، لیکن نادان سمجھتا ہے کہ میں اس سے بہتر ہوں.

Page 245

۲۲۱ گر تو افتی با دوصد درد و نفیر : کس بے خیزد که گرد دستگیر زهر و تریاق است در ما مستتر : آن کشد این می دهد جان دگر دور ثمین ص۲۱) ور ثمین ص ۲۳) گونه بود در مقابل روئے مکروه پرسید : کسی چھر دانستے جمال شاہد گلفام را در ثمین ص۳۶) زیر لب گفتگوئے جانا نے بے زندگی بخشدت بیک آنے دور ثمین (۳۳۵) حاجت نورے بود هر چشم را را این چنین افت د قانون خدا در تمین ماه ) عقل طفل است اینکه گرید زار زارد شیر جز ما در نیاید زینهار در ثمین ) و آنکه در کمین کراهت سوخت است : نفس دون را هست صید لاغره دور ثمین م ے ترجمہ : ہجائے اندر زہر اور تریاق دونوں مخفی ہیں، وہ بلاک کرتی ہے اور یہ نئی زندگی بخشتا ہے.اگر تو چیختا چلا تا گر پڑے تو کوئی تیری مدد کے لئے اٹھ کھڑا ہوگا.اگر مقابل میں کوئی بھونڈا اور کال چہرہ نہ ہوتا، توپھولوں جیسی زنگت الے جو بے حس کی کون در کرتا کسی محبوب آہستہ آہست کلام کرنا تھے پل بھرمیں نئی زندگی بخشتا ہے.ہر آنکھ کو روشنی کی ضرورت ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کا قانون اسی طرح واقع ہوا ہے.بچے کی عقل تو اتنی ہی ہے کہ زار زار روئے ، مگر ماں کے بغیر دودھ ہرگز نہیں ملتا.جو شخص بھنی اور کراہت کے باعث کڑھتا رہتا ہے، وہ ذلیل نفس کے لئے ایک کمزور شکار ہے.

Page 246

دل نیار آمد بجگر گفت دیار ؛ گرچه پیش دید یا باشد نگاره در این منش) جدت یعنی نیا پن جس کا اظہار متعد د طریقوں سے ہوتا ہے.مثلاً ایک تو نئے مضامین سے جس پر پہلوں نے قلم نہ اٹھایا ہو، یا کم توجہ کی ہو جیسے قرآن مجید کی مدح اور وحی و الہام کی ضرورت اور امکان.دوم بعض مضامین کے بیان کے طریق میں اصلاح کر کے اسے زیادہ مفید بنانا اور حقیقت کے زیادہ قریب لانا.جیسے نعت رسول میں محبت الہی اور روحانی اور اخلاقی امور کے بیان کو ترجیح دینا.سوم کلام میں نئے اور اچھوتے استعارے اور تشبیہ وغیرہ کالانا.جو پہلوں کے کلام میں نہ پائے جاتے ہوں.پہلے دونوں امور کا ذکر گذشتہ صفحات میں آچکا ہے ، تیسرے امر کے متعلق ذیل میں مثالیں ملاحظہ فرمائیے : (1) نعرہ ہائے زنم بر آب زلال : ہمچو ما در دواں ہے اطفال ور ثمین ۵۵) ہمدردی اور خیر خواہی کی کیسی دلنشین تشبیہ ہے.ذرا بچوں کے پیچھے ماں کے دوڑ نے کا نظارہ ذہین میں مستحضہ کیجیئے.(۲) کیفیت علومش دانی چه شان دارد : شهد لیست آسمانی از وحی حق چکیده در ثمین ص) یہاں شہد کے استعارہ سے جہاں قرآنی وحی کی حلاوت ، لذت اور حسن کو پیش کیا گیا ہے ، اے ترجمہ : محبوب کے کلام کے بغیر دل مطمئن نہیں ہوتا، اگرچہ وہ آنکھوں کے سامنے ہی کیوں نہ ہو.سے ترجمہ : میں مصفا پانی کے چشمہ پر کھڑا پکار رہا ہوں جس طرح ماں اپنے بچوں کے پیچھے بیقراری سے موڑتی ہے.سے ترجمہ : تجھے کیا پتہ کہ اسکے علوم کی حقیقت کی کیا شان ہے ، وہ تو آسمانی شہد ہے جو خدا کی وحی سے ٹپکا ہے.

Page 247

MAA وہاں اس کی نفع رسانی کو بھی اجاگر کیا گیا ہے.ہر سرے سرے زخلوت گاہ اُو : ہر قدم جوید دیر با جاه او مطلب ہر دل جمال روئے اوست : گھر ہے گر بہت ہر کوئے اوست ان دونوں شعروں کی بلاغت دیکھئے.کیا انسانی دماغ کا بھید کوئی شخص جان سکتا ہے کہ وہ کیسے کام کرتا ہے.ساتھ قدم کا ذکر کیا.اس لئے کہ جو خیال دماغ میں پیدا ہواس کی تکمیل کے لئے قدم ہی آگے بڑھے گا.اور بہترین مقصد کیا ہو سکتا ہے ؟ بارگاہ الہی کی تلاش جیب کی تشریح اگلے شعر میں کی گئی ہے کہ ہر دل و دماغ کا مقصد دیدار الہی ہی ہے.تب سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اور طرف کیوں متوجہ ہو جاتے ہیں.فرمایا : خدا ہی کی تلاش میں راستہ بھول جاتے ہیں.اس تخیل کی ندرت ملاحظہ فرمائیے : سے (۳) دلم در سینه ریشم مجوئید : که بستیمش برا مان نگار سے در زمین ) دل دینا، پیش کرنا، لگا دینا تو سنتے آئے ہیں.لیکن محبوب کے دامن سے باندھ دینا نیا خیال ہے جو فارسی کلام میں لایا گیا ہے.بچپن میں ہم زمیندارہ ماحول میں دیکھا کرتے تھے کہ جب مہمان رخصت ہونے لگے تو تحفہ کے طور پر کچھ نہ کچھ اس کے دامن سے باندھ دیتے تھے حضرت اقدس فرماتے ہیں.کہ ہمارا دل جدائی برداشت نہیں کر سکتا.اس لئے محبوب کے وداع ہوتے وقت اسے بھی محبوب کے دامن سے باندھ دیتے ہیں کہ اسے بھی اپنے ساتھ لیتے جاؤ.کے ترجمہ : ہر دماغ اس کے اسرار خانہ کا ایک بھید ہے ، اور ہر قدم اسی کے با عظمت دروازہ کو تلاش کرتا ہے.ہرل کا مقصد اسی کے چہرے کے حسن کا دیدار کرنا ہے اور اگر کوئی شخص بھٹکا ہے، تو اسی کو تلاش کرتا بھٹکا ہے.ترجمه امیر کول کومیر نخی سینه ی سمت تلاش کرو کیونکرمیں نے تو اسے ایک محبوب کے دامن سے باندھ دیا ہے.

Page 248

گرچه سوم کن کس لئے الحاد وصول ہوں اے احمد نے بینم در عرش عظیم در زمین ها ) مصراع اول سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس کو خود بھی یہ حساس تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو خدا کا سب سے بڑا عرش قرار دینا ایک اچھوتا تخیل ہے لیکن کتنا لذیذ تخیل ہے اور حقیقت پر مبنی ہے.بھلا کوئی اور انسان ہے جو ذات پاک کی شان کو (آنحضرت جتنا سمجھنا تو بہر حال ناممکن ہے) اس کے قریب قریب بھی سمجھ سکتا ہو.کے شوی عاشق رخ یاری تا نه بر دل رخش کنند کار سے (۶) ور ثمین (۳۳) کار کے لفظ کا نیا استعمال ہے منقش کپڑے یا کاغذ پر نقش و نگار بنانے کو بھی کار دکام) کہتے ہیں پس جب تک اس کا چہرہ زیب کسی کے دل کی تختی پر اپنی تحریر اپنے نقش ونگار، اپنے اثرات پیدا نہ کرے کوئی کیس طرح اس کا عاشق ہو سکتا ہے.(۷) پوصوف صفا در دل آویختند : مداد از سواد عیون ریختن در ثمین ص) دل کو دوات قرار دے کر اس میں صفائی کا صوف ڈالنا نیا تخیل ہے.اور پھر اس میں آنکھوں کے اردگرد سے آنسو جمع کرکے ان کی روشنائی ڈالنا بھی اچھوتا خیال ہے یہ (۸) کاش جانت میں عرفان داشت : کاش سعیت تخم حق را کاشت کی در ثمین - ے ترجمہ : اگر کوئی شخص مجھے کفراور گراہی سے ہی منسوب کے اگر مجھے معلم کے دل جیسا اورکوئی عرش الہی نظر نہیں آتا.ے ترجمہ : تو کس طرح کسی چہرہ پر فریفتہ ہو سکتا ہے.جب تک وہ چہرہ تیرے دل پر کچھ کام نہ کرے.سے ترجمہ : جب دل کی دوات میں پاکیزگی کا صفوت ڈالتے ہیں، تو سیاہی آنکھوں کے اردگرد سے ڈالتے ہیں.کے ترجمہ : کاش تیر روح کو دل کو نفرت اپنی کی رغبت ہوتی ، کاش تیری کوشش صرف سچائی کا بیج ہوتی.

Page 249

۲۲۵ کسی من کو بیم قرارد سے کر اس کوئی کام کروانا یا تخیل نہیں.لیکن یہاں جو مفہوم پیدا ہوگیا ہے کہ تمہاری تمام کوشش رای کام تخم حق کا شستن میں لگی رہے.یہ نئی بات ہے.(۹) ہر کہ ہے اور د قدم در بحر دیں کرد در اول قدم گم معبر ہے و تمین حش) غور فرمائیے کہ اس خیال کو کہ انسان انحضرت صل اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بغیر ساحل مراد پر نہیں پہنچ سکتا.کیسے انوکھے انداز میں پیش کیا گیا ہے ، یوں تو ہر شخص اپنی جگہ یہی کوشش کرتا ہے کہ دریائے دین میں داخل ہوتے وقت صحیح جگہ پر قدم رکھے لیکن اگر وہ آنحضرت کے نقش قدم کو اپنا رہبر نہیں بناتا.تو اول قدم میں ہی گمراہی کے گڑھے میں جاگرے گا سے (۱۰) زندگی در مردن و بجز و بکاست : هر که افتاد است او آخر نجاست سے در ثمین ص۲۳) نفساتی لحاظ سے بھی یہ نکتہ بڑا اہم ہے.اور اس میں جدت بھی ہے یعنی جو بھی گرے گا آخر اُٹھے گا.(۱۱) لیکن آ وے حسین از غافلان ماند نہاں : عاشق باید که با انداز پیش نقاب کے در تمین ها ) بالکل نیا خیال ہے.غافلوں کے لئے نہیں.بلکہ اپنے عاشقوں کے لئے محبوب اپنے چہرے سے نقاب اٹھاتا ہے.سے ترجمہ :.جس کسی نے اس کے بغیر دین کے دریا میں قدم رکھا اپنی پہلے قدم میں ہی گھاٹ کھو دیا.کے ترجمہ :- زندگی مرتے ، انکسار اور گریہ و زاری میں ہے ، جو گر پڑا وہی آخر اُٹھے گا.کے ترجمہ :.لیکن وہ رخ زیبا غافلوں سے چھپا رہتا ہے، سچا عاشق چاہیے تا کی خاطر نقاب اٹھایا جائے.

Page 250

(۱۲) راه خود بر من کشود آن داستان : دانمش زانسان که گل را با عنباله در ثمین ۲۳۵) واقفیت اور پہچان کے لئے پھول اور باغبان کی مثال پیش کرنا نئی بات ہے.(۱۳) بتنالم بر درش توان سای که نالید بوقت وضع حملے بار دار سے ور ثمین ۲۳) درد کی شدت کے لئے وضع حمل کی مثال دینا بھی ندرت ہے.(۱۳) منکر از حسنش ہے دارم خبر ؛ جاں فشانم گرد ہر دل دیگر تے ور ثمین منه) جذبہ رشک کے ماتحت محبوب کی راہ میں جان کی قربانی دینا نیا خیال ہے.وقس علی ہذا.کہاں تک مثالیں پیش کی جائیں.حضرت اقدس کے تو اکثر اشعار میں کسی نہ کسی قسم کا اچھوتا پن موجود ہے.۵ سہل ممتنع.یعنی ایسا شعر جو بظاہر بالکل سہل معلوم ہو لیکن کسی دوسرے شاعر کے لئے دیسا شعر کہنا ممکن نہ ہو.پیچھے سلاست کے بیان میں کلام کی دو اہم خوبیوں کا ذکر کیا گیا تھا دیکھئے منها بدا).ایک یہ کہ ایسا کلام سن کر سمع فوراً کہ اٹھے کہ سچ کہا.دوسرے یہ کہ کلام کی سادگی کی بنا پر ہ شخص یہ سمجھے کہ میں بھی ویسا کلام کہ سکتا ہوں، لیکن جب کہنے کا قصد کریں تو مجز بیان بھی عاجزہ آ جائیں.ترجمہ : اس محبوب نے خود اپنا راستہ میرے لئے کھول ، میں اسے اس طرح پہچانتا ہوں جیسے پھول کو باغیان.سے ترجمہ : میں اس کے دروازہ پر اس طرح روتا ہوں جس طرح بچہ جنتے وقت حاملہ عورت روتی ہے.سے ترجمہ : میں اس کے حسن سے چھی طرح باخبر ہوں، اگر کوئی دوسرا اسے دل دیگا تومیں اس پر اپنی جان شمار کردوں گا.

Page 251

۲۲۷ پچھلے صفحات میں مختلف عنوانات یعنی مظاہر قدرت ، نفسیات اور جدت کے تحت جو اشعار پیش کئے گئے ہیں.وہ بھی سہل ممتنع کی ہی مثالیں ہیں.صرف حسن کلام کے مختلف پہلو دکھانے کے لئے انہیں ان عنوانات کے نیچے تقسیم کیا گیا ہے.نیچے سہل ممتنع کی مزید مثالیں پیش کی جاتی ہیں.ان اشعار سے پورا حظ اٹھانے کے لئے فنونِ بلاغت کو کہیں ہوں بھی تو یکسر نظر انداز کر دیجئے.اور اپنی توجہ صرف الفاظ کی موزونیت اور مطالب کی عمدگی پر مرکوز رکھیے.خاکسار نے ان استعارہ کی خوبیوں کی تشریح کرنے کی بھی کوشش نہیں کی.تا قارئین خود ہی ان اشعار کی لذت سے بہرہ اندوز ہوں اسے بشر کے بد سے از ملک نیک تر : نہ بودے اگر یوں محمد بشر دور ثمین ) فانیان را جهانیان نرسند : جانیان را زبانیاں نرسند ہر گیا ہے عارف بنگاه او : دست هر شاخه نماید راه أو در تمین من) در ثمین ص۲) کے دریں گردو غبار سے ساختہ : می توان دید آن رخ آراسته؟ در ثمین ص۲۳) سے ترجمہ: انسان کب فرشتوں سے بہتر ہو سکتا تھا ، اگر محمد جیسا کامل انسان پیدا نہ ہوتا.دنیا دار لوگ فانی فی اللہ لوگوں کو نہیں پہنچ سکتے، اور زبانی دعوے کرنے والے بچے فدائیوں کو نہیں پہنچ سکے.گھاس کا ہر تینکا اس کی بارگاہ کا پتہ دیتا ہے ، اور درختوں کی ہر شاخ کی نوک اسی کا راستہ دکھاتی ہے.اسی مصنوعی گردو غبار میں وہ سجا سجایا چہرہ کیسے نظر آ سکتا ہے ؟

Page 252

پرده ها بر پرده با افروخته با مطلبے نزدیک دور انداخته در همین ۲۳) در زمین شد د در ثمین منه سخین یار و سینه افسرده : جامه زنده است به مرده از کس و ناکسی بیاموزی فنون : عارداری زماں حکیم ہے جگوں اسے در انکار مانده از الهام : که د عقل تو عقل را بدنام ریزه ریزه شد آبگینہ شاں : بُوٹے دلبر دمد نہ سینۂ شاں آنکه چشم آفرید نور دید ؛ آنکه دل داد و سرور دید مردگان را همی کشی به کنار : وز دلارام زنده بیزار : در تمین صن) ور ثمین ص۳۳) دور ثمین صدا در ثمین صنا ترجمہ : پردوں پر پردے ڈال کر نزدیک والے مقصد کو بھی دور کر دیا ہے.ذکر دوست کا اور دل افسرہ ، گویا زہندہ کا لباس مردہ نے پہن رکھا ہے.تو ہر اعلیٰ و ادنی سے تو ہنر سیکھتا ہے، لیکن اس بے مثال دانشور رخدائے تعالیٰ سے تجھے شرم آتی ہے.اسے وہ شخص جو الہام سے انکاری ہے، تیری عقل نے تو عقل کو بدنام کر رکھا ہے.ان کے دل کا شیشہ (صراحی، چور چور ہوگیا ہے ، لہذا ان کے سینہ سے محبوب کی خوشبو آرہی ہے.وہ جنسی آنکھ پیدا کی ہے ، روشنی بھی وہی دیتا ہے جسنی دل دیا ہے، سرور بھی وہی دیگا.تو مردوں سے تو بغل گیر ہوتا ہے ، لیکن اس زندہ محبوب سے بیزار ہے.

Page 253

۲۲۹ عاشقان را صبر و آرامے کی : توبہ از روئے دلا را مے کی آنکه در قعر دل منرود آید به دیده از دیدنش نیاساید ای خرد مندیکہ اور دیوانه ات شمع بزم است آنکه او پرژاندات از عمل ثابت کن آی نوریکه در ایمان تست : دل چودادی یوسفی را راه کنان راگرین برگ تار وجودش خانه یا در اندل هردم و هرزاده اش پر از جمال دوستدار در ثمین ص ۲۳) ور ثمین صنا) در ثمین منت) در ثمین ) در ثمین من) عرفان منتہائے معرفت علم رخت : صادقان راہنمائے صدق ب عشقت قرار در تمین منت مندرجہ بالا اشعار صرف نمونہ کے طور پر پیش کئے گئے ہیں.ورنہ حضرت اقدس کے کلام میں ایسے سادہ مگر بلیغ اشعار بحثرت موجود ہیں جن کے بے مثال حسن کو دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے.اس سلسلہ میں ل ترجمہ: عاشقوں کے لئے برادر آرام کہاں؟ اور جو کے چرسے روگردانی کہاں وہ جودل کی گہرایوں میں ان جاتا ہے.آنکھ اس کو دیکھتے رہنے سے میں نہیں ہوتی عقلمندی ہے جو ترادیوانہ ہو شمع بزم وہی ہے جو تیرا پڑا نہ ہو.اس نور کو جو تیرے ایمان میں ہے ، اپنے عمل سے ثابت کر جب تو نے کسی یوسف کو دل دیا ہے ، تو کنعان کی راہ بھی اختیار کرلے.اس دنیا کے وجود کا ہر رگ ریشہ محبوب از لی کاگھر ہے اور اسکی ہر سانس اور ہر ذرہ دوست کے جمال سے منور ہے.عارفوں کی معرفت کا آخری فقط تیرے رخ کا علم ہے ، اور راستبازوں کے صدق کی انتہا تیر سے عشق پر ثابت قدم رہنا ہے :

Page 254

۳۳۰ ایک اقتباس اور ملاحظہ فرمائیے.اس میں حضرت اقدس نے یہ بیان فرمایا ہے.کہ دوسری تمام تعماء کی طرح معرفت کی نعمت بھی اللہ تعالیٰ خود ہی عنایت فرماتا ہے.ضعیف انسان محض اپنی ہی عقل اور کوشش سے اسے حاصل نہیں کر سکتا.فرمایا : بست مارا سکے کہ ہر فیضان : می شود رای محافظ تن و جاں آن خدائے کہ آفرید جہاں : پست هر آفرید را نگران ہر چہ باید برائے مخلوقات : انر لباس و خوراک و راه نجات خود مهیا کند بمنت وجود که کریم ست و قادر است و دود چشم خود کن بکشت صحرا باز : خوشه با خوشه ایستاده بساز همه از بهر ماست تا بخوریم : درد و رنج گرسنگی نه بریم آنکه از بهر چند روزه حیات این قدر کرده است تائیدات : چوں نہ کرے برائے دارِ بقا : نظر سے کن بعقل و شرم و حیا سنگ افتد بری چینیں فرهنگ که نصدق است دور صد فرسنگ ترجمہ :.ہمارا ایک ہی (خدا) ہے، کہ ہر فیضان اس کی طرف سے ہمارے تن و جان کا محافظ ہے وہ خُدا جنسی یہ دنیا پیدا کی ہے، وہی مخلوق کا نگہبان ہے.مخلوقات کے لئے جو کچھ بھی درکار ہے مثلا لباس، خوراک اور نجات کا راستہ وہ یہ سب اپنے احسان اور مہربانی سے خود مہیا کرتا ہے کیونکروہ کریم ہے، قادر ہے اور بہت محبت کرنے والا ہے جنگل میں کھیتوں کی طرف آنکھ کھول کر دیکھ خوشے کے ساتھ خوشہ ناز کے ساتھ کھڑا ہے.یہ سب ہمارے لئے ہے، تاہم کھائیں.اور بھوک کا دیکھ اور تکلیف نہ اٹھائیں.وہ جس نے چند روزہ زندگی کے لئے اتنی چیزیں مہیا کی ہیں.تو وہ ہمیشہ کے گھر کے لئے کیوں نہ کرتا عقل شرم اور حیا سے غور کرو.ایسی عقل پر پھر ٹریں ، جو راستی سے سینکڑوں کوسس دُور ہو.

Page 255

۲۳۱ گر گنی سوئے نفس خویش خطاب : که چه سافت گذر شود بجناب خود ندائے بیایدت زدروں : کہ نہ تائید حضرت بے چوں ناید اندر قیاس و فہیم کے ، کہ شود کا بہ پسیل از مجھے پس پھر ممکن که ذره امکان : خود کند کار حق بزور و توالی در ثمین شده تاهم ے ترجمہ : اگر تو اپنے آپ سے ہی پوچھے کہ تو اس بارگاہ میں کیسے پہنچ سکتا ہے.تو خود تیرے اندر ہی سے یہ آواز آئے گی، کہ اس خدائے بے نظیر کی تائید سے ہی (الیسا ہو سکتا ہے) کسی شخص کے قیاس اور سمجھ میں یہ بات نہیں آسکتی کہ ہاتھی کا کام کسی مکھی سے ہو سکے.پس یہ کس طرح ممکن ہے کہ مخلوقات کا ایک ذرہ آپ ہی آپ اپنے زور اور طاقت سے ہی خدا کا کام کیسے.

Page 256

حسن کلام کے مزید تفرق نمونے ذیل میں حسن کلام کی بعض اور مثالیں دیکھئے جن کے ساتھ کچھ تشریح بھی کر دی گئی ہے.بد بوئے حاسدان نرساند زیان به من من هر زمان زرنا فه یادش معطر به در ثمین ) فرماتے ہیں کہ حاسدوں کی بدبود مخالفانہ باتیں) مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں، کیوں ؟ اس لئے کہ میں ہر وقت محبوب کی یاد کی خوشبو سے معطر رہتا ہوں، جو اس بدبو کو مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع کر دیتی ہے.یہاں محبوب کی یاد کو خوشبو قرار دیا گیا ہے.بلکہ نافہ کا لفظ لاکر اس یاد کو خوشبو کا منبع قرار دے دیا گیا ہے.لہذا کسی منبع سے نکلنے والی خوشبو اتنی تیز ہوگی کہ وہ تیز سے تیز بدبو کو بھی دبا لے گی.تاکید پر تاکید لانے کے باوجود الفاظ کتنے مختصر ہیں.طبیعت پر بار نہیں بنتے.بلکہ شگفتگی پیدا کرتے ہیں شعر کہنے کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مطالب سموئے جائیں.که آی سعید زطاعون نجات خوابد یافت که جست و جست پتا ہے بچار دیوار مست YA+ دور ثمین ) کہنا یہ ہے کہ وہی نیک بخت طاعون سے نجات پاسکتا ہے، جو جلدی سے میری چار دیواری لے ترجمہ : حاسدوں کی بدبو مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی.کیونکہ میںتو ہر وقت یاد خدا کے نافہ سے معطر رہتا ہوں.کے ترجمہ : یعنی وہی خوش قسمت اس طاعوں سے نجات پائے گا، جو پیک کر میری چار دیواری کے اندر پناہ لے گا.

Page 257

کے اندر دیعنی میری جماعت میں شامل ہو کر میری پناہ میں آ جائے مگر جلدی کا لفظ استعمال نہیں کیا.بلکہ فرماتے ہیں جیست لینی کود پڑے بغور کیجئے صرف ایک لفظ لا کر جلدی کی شدت کو کہاں تک پہنچا دیا.سخن کو نمو دست درمان به معنی رسانید لفظ سخن به دور مین ملام) پہلے عدن کا لفظ لاکر موتی کا مرتبہ بہت بلند کیا.یعنی جس موتی سے سخن کو تشبیہ دی ہے، وہ ایسی جگہ کا موتی ہے، جہاں سے بہت اعلیٰ موتی نکلتے ہیں.موتی کی شان بڑھنے سے سخن کی شان بھی بڑھ گئی اور اس کی شان میں مزید رفعت یہ کہ کر پیدا کردی کر جس معنی اور غرض کے لئے سخن کا لفظ وضع کیا گیا تھا، اس سخن نے اس غرض کو پورا کر دیا ہے.کیا اس سے بڑھ کر کسی چیز کی تعریف کی جاسکتی ہے ؟ رسول می بگیسوئے رسول الله که هستم و نشار روئے تابان محسن است در زمین ) گیسو خود بھی مظاہر حسن میں سے ہیں.لیکن انہیں حسن کی نمائش میں پردہ اور روک بھی قرار دیا جاتا ہے.کہتے ہیں چاند بادلوں میں چھپ گیا.یعنی بالوں نے مجبو کے رخ روشن پر بکھر کر اُسے نظروں سے اوجھل کر دیا ہے.حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ میں نے ان رکاوٹوں کو عبور کر کے آپ کا چہرہ دیکھ لیا ہے اور اس پر نثار ہو چکا ہوں، اور اس قول کی صداقت کے لئے میں انہی گیسوؤں کو گواہ ٹھہراتا ہوں.سے ترجمہ :.یہ سخن جو در عدن کی طرح دکھائی دیتا ہے ، اس نے سخن کے لفظ کو اس کے حقیقی معنی تک پہنچا دیا ہے.ے ترجمہ :رسول اله صل للہ علیہ سلم کی زلفو کی قم میں محمدی الہ علی کل کے نورانی چہرہ پر خدا ہوں.

Page 258

- 4 گر بر آرند شعلہ ہائے دروں و دود خیزد ز تربت مجنون له در ثمین ) مجنوں کو عاشقوں کا سردار سمجھا جاتا ہے.حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کے عاشق اس محبت کی گرمی کو جو اپنی شدت کی وجہ سے آگ کی شکل اختیار کر چکی ہے ، ظاہر ہونے دیں تو حسد اور رشک کے مارے مجنوں کے سینہ میں بھی آگ بھڑک اٹھے اور اس کا دھواں قبر سے باہر نکلنے لگے.یہ بات بظاہر مبالغہ معلوم ہوتی ہے لیکن اصل میں حقیقت ہے.تحصلا عشق حقیقی سے عشق مجازی کو کیا نسبت ؟ حضرت اقدس کے کلام کی خصوصیات میں یہ ذکر بھی کیا گیا تھا کہ آپ مشکل سے مشکل مسائل تصوف کو آسان فہم الفاظ میں بیان کر دیتے تھے ، وہاں صرف ایک دو مثالیں پیش کی گئی ہیں.چند مزید مثالیں دیکھئے.فرماتے ہیں : سے ناتواں نیست قوت اینجا : این چنین قوتے بسیار و بیا پرده نیست بر رخ دلدار : تو ز خود پرده خودی بردار دور همین سنه بر وجودش ز صنعت استدلال این مجاز است نے چواصل وصال یک دم از خود دور شو بهر خدا و تا مگر نوشی تو کاسات لقا دور ثمین سلام ور یمین ۱۳۳) اے ترجمہ :.اگر اپنے اندرونی شعلوں کو ظاہر کر دیں ، تو مجنوں کی قبر سے بھی دھواں نکلنے لگے.کے ترجمہ :.اس جگہ کی طاقت عاجزی ہے، یہاں آنا ہو تو ایسی طاقت میکر آنا.دلدار کے منہ پر کوئی نقاب نہیں، تو اپنے اگو پر سے انانیت کا پردہ اٹھا ہے.خدا کے وجود پر صرف اسکی صنعتوں سے استدلال کرنا مجاز ہے نہ کہ سچا وصل.کے ترجمہ :.خدا کے لئے اپنے نفس سے بجلی کنارہ کشی کر لے تاکہ تو وصل کے جام نوش کرے.

Page 259

۲۳۵ پافشرده در وفائے دلبر ے : و از سرش بر خاک افتاده سری ور ثمین ۱۳ ) دور ثمین ) کورٹی خود ترک کن را ہے یہ ہیں : اے گدا برخیزد آن شا ہے یہ ہیں میوه از روضه فت خوردند و از خود و آرزوئے خود مردند به متر آن چرا بر سر کیں دوی ؟ ندیدی زرمتراں مگر نیسکوئی (در ثمین منت ) در همین حث) ترجمہ : وہ دلبر کی وفاداری میں ثابت قدم رہے ، اور اس کے عشق میں ان کا سر خاک میں پڑا ہے.ر پا فشردن کے معنوں کے لئے نظامی گنجوی کا یہ شعر دیکھئے : سکندر در آن داوریگاه سخت : په افشرد مانند بیخ درخت یعنی اس سخت میدان جنگ میں سکندر نے درخت کی جڑوں کی طرح اپنے پیر جمائے رکھے.اسی طرح محمود غزنوی کہتا ہے : سے ہزار قلعه کشادم بیک اشارات دست سے مصاف شکستم بیک فشردن پا یعنی میں نے ہزاروں قلعے ہاتھ کے ایک اشارے سے فتح کر لئے اور کئی جنگوں میں صرف پیر جانے سے دشمنوں کو شکست دی.اپنی نابینائی کو چھوڑا اور اس چاند کو دیکھ ، اسے فقیر اٹھ اور اس بادشاہ پر نظر ڈال.انہوں نے باغ فنا کا پھل کھایا اور اپنی نفسانیت اور خواہشات سے مرگئے.تو قرآن پر دشمنی سے کیوں حمد کرتا ہے، تو نے شاید قرآن کی کوئی خوبی نہیں دیکھتی.(فارسی زبان میں نیکوٹی کے معنی خوبصورتی ہیں).

Page 260

^ - جز بپا بندی حق بند دگر : در ند گیرد با خدائے اکبرے انی یکے از دریان دلدار سے بہ نکتہ ہائے شنید و اسرار ہے و آلی دگر از خیال خود بگماں : پس کجا باشد یی دوکس یکساله در تمین منت ) در ثمین صسلام تا بر دلم نظرت از مهر ماه مارا کر دست سیم خالص قلب سیاه بار ہے ۱۵۱ دور ثمین مادام یہ ہے تو صنعت طباق بطور کنایہ کی مثال کیونکہ سیاہ کا تقابل سفید رنگ سے ہے.جو سیم خالص کو لازم ہے.لیکن اس شعر میں مزید خوبی یہ ہے کہ اس میں سختی کا تقابل رجو قلب سیاہ کو لازم ہے) نرمی سے بھی ہے.جو سیم خالص کا ایک خاصہ ہے) اور قلب سید یعنی ایک ردی چیز کا تقابل ایک قابل قدر چیز یعنی خالص چاندی سے بھی کیا گیا ہے..اسی طرح حسب ذیل شعر میں " دور“ کے لفظ کے دونوں جگہ دو دو معنی ہیں : دور موت آمد قریب اسے غافلان فکرش کنید : دور سے تا کے بخوبان لطیف و مہ جبین نت ۱۵۵ در این شه) لہ ترجمہ اسچائی کی پابندی کے سوا کوئی دوسرا بند من الہ تعالی کے ہاں قابل قبول نہیں (در گرفتن کے معنی ہیں) ایک تو وہ ہے، جو محبوب کے اپنے منہ سے نکتے اور اسرار سنتا ہے اور دوسراوہ جو خود ہی خیالی پلاؤ پیکا رہا ہے ، یہ دونوں شخص کس طرح برا بر ہو سکتے ہیں.سے ترجمہ : جب میرے چاند نے میرے دل پر محبت کی نظر ڈالی تو میرے سیاہ دل کو خالص چاندی بنا دیا.سلے ترجمہ : اسے خاضوا موت کا وقت قریب آگیا ہے اس کی کچھ فکر کرد حسین اور چاند جیسی پیشانی والی مشوقوں کے ساتھ شراب کا دور کب تک چلے گا؟

Page 261

دور کے ایک مسنی مطلق وقت کے ہیں یعنی موت کا وقت قریب آرہا ہے.اس کی فکر کرد میشوں کے ساتھ مل کر شراب پینے کا زمانہ ہمیشہ نہیں رہے گا.دور کے دوسرے معنی چکر مینی بار بار آنے کے ہیں یعنی تم دیکھتے نہیں کہ موت کا دور قریب آگیا ہے.کبھی ایک کو لے جاتی ہے ، کبھی دوسرے کو.پس اسے مخاطب آپ کی باری بھی دور نہیں.توکب تک معشوقوں کے ساتھ بار بار یعنی لگا تار شراب پیتا رہے گا.اس دور کے لفظ نے معافی کو وسعت دیگر شعر کے مفہوم کو بہت ہی قابل توجہ بنا دیا اور غفلت کی شدت کو خوب نمایاں کیا.۹- آل خرد مند یکیه او دیوانه را پیش بود بے ہو شیا سے آنکہ مست روئے آل یار حسینی ور کمین ۱۵۵۰ یہاں دوہری صنعت طباق ہے.ایک خرد مند اور دیوانہ میں ، اور ایک ہوشیار اور مست ہیں.اس طرح یہ شعر زیادہ جاذب توجہ بن گیا.غرض اس نظم میں ان دو شعروں کے علاوہ بھی بار بار مختلف رنگوں میں اچھی اور بُری حالتوں کا تقابل پیش کر کے وعظ و نصیحت کو کمال تک پہنچایا گیا ہے.۱۰- حضرت اقدس نے پنجابی اور ہندی کے بعض الفاظ بھی بڑی خوبصورتی سے استعمال فرمائے ہیں.جیسے سے دین نه از خود بست بوش جان شای دست کھٹر پنچای کشد و امان شالی دور ثمین ) سے عقلمند وہ ہے جو اس کی راہ کا دیوانہ ہو.ہوشیار وہ ہے، جو اس حسین محبوب کے چہرہ پرست ہو.لئے : ان کے دلوں میں مخالفت کا یہ جوش اپنے آپ نہیں، کھڑ پنچوں کا ہاتھ ان کے دامن کو کھینچ رہا ہے.

Page 262

۲۳۸ ویدنران راه معارف دورتر : سادھ کی مہما نجانے بے شہر دور ثمین ۲ ) آنکه جان ما بجانش همسر است : جائے ننگ عار نے پر میشر است ہے در تمین ۲ ) لے : ویدان معرفت کے طریقوں سے بے خبر ہے، اس سے ہر کو باری تعالی کی حد کا کچھ بھی وسلیقہ نہیں.وہ جس کی جان ہماری جان سے برا بر ہو، وہ پر میشر نہیں بلکہ ایک قابل شرم وجود ہے.

Page 263

۲۳۹ نقل اشعار شعرائے دیگر عام دستور ہے کہ مصنف اور مقرر استدلال یا استشہاد کی خاطر دوسرے شعرا کے شعر اپنی تحریر یا تقریر میں سے آتے ہیں.چونکہ ایسے اشعار مونا زبان زد خلائق ہوتے ہیں یاکم از کم علماء میں رائج ہوتے ہیں.اس لئے تحریر یا تقریر میں یہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ کس کے شعر ہیں ؟ البتہ اگر کوئی شعر یا مصرع کسی تنظیم میں شامل کیا جائے ،خواہ درمیان یاکسی نظم کے آخرمیں تو اسے تضمین کہتے ہیں.اس صورت میں اس نظم میں متعلقہ شاعر کی طرف اشارہ کر دیا جاتا ہے اور بعض دفعہ ایسا اشارہ نہیں بھی کرتے خصوصاً جب وہ شعر کافی مشہور و معروف ہو.شکل مولانا جامی کی ایک غزل کے یہ دو شعر ہیں : سے دور ازاں سب جاں یکے نالاں نی است ؛ بشنو از نی چون حکایت میکند با زان سب ہنچوں شکر مانده جدا : اند جدائی با شکایت میکنه آخری دونوں مصرعے مثنوی مولانا روم کا پہلا شعر ہے.لیکن مذکورہ غزل میں اس طرف کوئی اشارہ نہیں کیاگیا.کیونکہ وہ نہایت ہی مشہور شعر ہے.چنانچہ احمد ہاشمی نے جواہر البلاغت میں لکھا ہے: "التضمن ويسمى الايداع وهو ان يضمن الشعر شيئا من شعر أخر مع التنبيه عليه ان لم يشتهر.يعني تضمين ه : ان لیوں سے دور جان ایک روتی ہوئی بانسری ہے، ہستو یہ بانسری کیا حکایت بیان کر رہی ہے.ان شکر جیسے (میٹھے لبوں سے جدا ہو کر ، جدائیوں کی شکایت کر رہی ہے.کر،

Page 264

جس کا دوسرا نام ابداع ہے ، اسے کہتے ہیں کہ ایک شعر میں کسی دوسرے شعر کا کوئی حصہ رکھ دیا جائے اور اگر وہ دوسرا شعر غیرمعروف ہو تو ساتھ ہی کسی نہ کسی رنگ میں اس بات کو ظاہر کر دیا جائے کہ اس میں کسی اور شاعر کے شہر کا کوئی بڑا یا چھوٹا حصہ داخل کیا گیا ہے.(تنویر الابصار ص ) پس دوسرے شاعر کا حوالہ دینا اسی صورت میں ضروری ہے، جب وہ شعر اپنی نظم میں شامل کیا جائے اور وہ ہو بھی غیر مشہور.لیکن اگر نظم میں شمل نہ کیا جائے.بلکہ ویسے ہی کسی تحریر یا تقریریں نقل کیا جائے، تو پھر ماخذ کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں خواہ وہ شہر مشہور ہویا نہ ہو.حضرت اقدس نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں دوسرے اساتذہ کے قریبا دو اڑھائی سو شعر نقل کئے ہیں ( دیکھئے ضمیمہ بذا نمبر۲ ) اور حسب دستور عموما ان کے ماخذ کا حوالہ نہیں دیا.ہاں بعض جگہ متعلقہ شاعر کا ذکر بھی کر دیا ہے.حضرت اقدس نے سب سے زیادہ دیعنی نوے سے اوپر ) جس بزرگ کے شعر نقل کئے ہیں وہ شیخ سعدی ہیں.ان کے بعد مولانا روم اور حافظ شیرازی کے چھپی پچیس شعر.اسی طرح مولانا جامی کے چھ شعر نقل کئے ہیں.مولانا نظامی گنجوی کے پانچ.امیر خسرو کے چار - عمرخیام اور سرمد کے تین تین - عبداللہ انصاری کے دو اور بعض شعراء کا ایک ایک.ان کے علاوہ کچھ شعر ضرب المثل ہیں اور باقی چند شعروں کے متعلق معلوم نہیں ہو سکا، کہ وہ کسی کے شعر ہیں.بعض بزرگوں کے شعر اور مصرعے حضرت اقدس کو الہام بھی ہوئے پچنا نچہ شیخ سعودی کے آٹھ.حافظ شیرازی کے تین ، نظامی گنجوی کے دو اور ناصر علی سرہندی ، عمر خیام اور امیر خسرو کا ایک ایک شعر - یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت اقدس نے دوسرے بزرگوں کے جو شعر نقل کئے

Page 265

ہیں.ان میں سے بعض کے الفاظ میں اور ان بزرگوں کی کتب کے مروجہ نسخوں میں مندرج ان اشعار کے الفاظ میں کہیں کہیں کچھ فرق ہے.اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں.ایک یہ کہ نقل در نقل ہوتے ہوئے ان کتر کے مختلف نسخوں میں بہت سے اختلافات پیدا ہو گئے ہیں.لہذا ممکن ہے کہ جس نسخہ میں حضرت اقدس نے کوئی شعر ملاحظہ فرمایا ہو.اس میں اسی طرح لکھا ہو ، جیسے حضرت اقدس نے نقل کیا ہے.یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے اس میں خود تبدیلی کرلی ہو.مثلاً مثنوی مولانا روم کا جو نسخہ خاکسار کے پاس ہے اس میں ایک شعر یوں لکھا ہے: تا دل مرد حش را ناید بدرد : پیچ قومی را خدا رسوا انکی الی ظاہر ہے کہ مصرع اول میں " ناید" کا لفظ سہو کا تب ہے.کیونکہ دوسرے مصرع میں فعل ماضی ہے.لہذا پہلے مصرع میں بھی ماضی ہونا چاہیے نہ کہ مضارع.چنانچہ حضرت اقدس نے نقل کرتے وقت نماید کو نامد سے بدل لیا.ایسی تصحیح اہل فن کے نزدیک تحسین ہے.ے ترجمہ : جب تک کسی مرد خدا کے دل میں دور پیدا نہیں ہوتا، خدا کی قوم کو ذلیل نہیں کرتا.

Page 266

تضمين اب حضرت اقدس کے کلام میں تضمین کے نمونے ملاحظہ فرمائیے.بعض جگہ آپ نے مستعار شعر کے ماخذ کا ذکر کر دیا ہے ، اور بعض جگہ ایسا ذکر نہیں کیا.دنیائے سخن میں یہ دونوں صورتیں رائج ہیں.خصوصا جب مستعار شعر نظم کے آخر میں ہوں تو عموما اس کے ماخذ کاحوالہ نہیں دیا جاتا.نے نماید بطالبان رو راست : راستی موجب کنائے خداست -1 -t در ثمین ) دوسرا مصرع شیخ سعدی کا ہے.لیکن یہ ضرب المثل بن چکا ہے.اس لئے ماخذ کا حوالہ دینے یہ.لئے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.وه چه خوب است این اصول کبری : یادگار مولوی در مثنوی! زیر کی ضد شکست است و نیاز : زیر کی بگذار و با گولی بساز زانکه طفل خورد را مادر نهار : دست و پا باشد نهاده در کنایه د ثمین صنت ) سے ترجمہ : طالبوں کو راہ راست دکھاتا ہے ، اور راستی خدا کی رضا کی موجب ہے.سے ترجمہ : واہ وا ا سلوک کا یہ اصول کیسا عمدہ ہے، جو مثنوی میں مولوی رومی کی یادگار ہے.عقلمندی کمزوری اور عاجزی کی ضد ہے ، پس تو چالا کی چھوڑ اور سادگی اختیار کر، کیونکہ چھوٹے بچے کے ہاتھ پاؤں کو ماں دن بھر گود میں لئے پھرتی ہے.(اسی طرح تجھے خدا گود میں لے لے گا)

Page 267

۲۴۳ آخری دونوں شعر مولانا روم کے ہیں اور ان سے پہلے شعرمیں اس امر کا ذکر موجود ہے.جان شود اندر ره پاکش فدا :: مژدہ ہمیں است گر آید بگوش سرکہ نہ دریائے عزیزیش رود : بارگرانی است کشیدن بدوش له ور ثمین طن) دوسرا شعر شیخ سعدی کا ہے لیکن وہاں عزیزش کی بجائے عزیزاں ہے.حضرت اقدس نے عزیزیش کا لفظ لا کر اس کا رخ رسول مقبول صلی اللہ علیہ سلم کی طرف پھیر دیا، جس سے شعر کا مرتبہ بہت بلند ہو گیا.ایسا تصرف معیوب نہیں بلکہ بہت ستحسن ہے.جیسا کہ آگے زیر عنوان " اخذ" واضح کیا جائے گا.حضرت اقدس کو جہاں کہیں کوئی عمدہ بات نظر آتی ہے، تو شدید محبت کی وجہ سے یا تو اسے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیر لیتے ہیں ، یا ذات باری تعالیٰ کی طرف لے جاتے ہیں جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ہے کہ سے عاشق زار در همه گفتار و سخن خود کشد بجانب یار تشحید الا زمان جنوری ناشر) اسی طرح یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ حضرت اقدس کو اگر کسی بزرگ کا کوئی تخیل پسند آ گیا تو اسے پہلے تو قریب قریب اسی کے الفاظ میں نقل کر کے اس بزرگ کے کلام کی داد دیتے ہیں.اور پھر بعض دفعہ اسی مضمون کو اپنے الفاظ میں اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ شعر کا حسن دوبالا لے ترجمہ اس کی پاک راہ میں ہماری جان فدا ہو ، مبارک بات یہی ہے اگر سنتے میں آجائے کہ وہ سرتو اس کے مبارک قدموں میں کٹ کر نہ گھر سے ، اسے کندھوں پر اٹھائے پھر نا نا قابل برداشت بوجھ ہے.کے ترجمہ : عاشق زار ہر بات میں کلام کا رخ اپنے محبوب کی طرف پھیر لیتا ہے.

Page 268

م ہو جاتا ہے.مثلاً آپ نے شیخ سعدی کے مذکورہ بالا شعر کے مفہوم کو یوں اپنایا : یا نبی اللہ نشارِ روئے محبوب توام : وقف راست کرده این سرکه بروش است بار در ثمین خدا هم درین معنی است گر تو بشنوی : یادگار مولوی در مثنوی گندم از گندم بروید جو ز جو : از مکافات عمل غافل مشوه دورتمین ۱۳۹۲ آخری شعر مولانا روم کا ہے.اور اس سے پہلے شعر میں اس طرف اشارہ موجود ہے.۵ - خواجہ عبداللہ انصاری کی ایک رباعی ہے ! آن کسی که ترا شناخت جان را چه کند؟ + فرزند و عیال و خانمان را چه کند؟ دیوانه کنی هر دو جهانش بخشی و دیوانه تو هر دو جهان را چه کت و اسے حضرت اقدس نے اپنی ایک تقریر میں نقل کیا ہے (الحکم ار مارچ سنہ) ایک جگہ اس کے دوسرے شعر پر تضمین کی ہے.فرمایا : ، آن کس که بتو رسد شان را چه کند؟ : باشتر تو فیتر خسروادی را چه کت دهد؟ اور سے ترجمہ اے نبی اللہ یں تیرے پیاسے کھڑے پر نثار ہوں، اوراس سر و جو کندھوں پر ہے میں نے تیار میں فن کردیاہے.کے ترجمہ: اگر تو سنے تو اس کا بھی یہی مطلب ہے، جو مثنوی میں مولانا رومی کی یاد گا ر ہے ، یعنی گیہوں سے گیہوں پیدا ہوتا ہے اور جو سے جو ، پس تو اپنے عمل کے بدلہ سے غافل نہ ہو.سے ترجمہ جس شخص نے تجھے پہچان لیا وہ جان کو کیا کرے گا، اولاد ، عیال او رگھر بار کو کیا کر ے گا.تو اپنا دیوانہ بنا کر دونوں جہان بخش دیتا ہے، لیکن تیرا دیوانہ دونوں جہانوں کو کیا کرے.سے ترجمہ : ب شخص تجھ تک پہنچ جائے وہ بادشاہوں کو کیا بجھتا ہے، تیری شان کے مقابر می بادشاہوں کی شان کی کیا وقعت ہے.

Page 269

۳۴۵ چون بنده شناخت برای عز و جلال : بعد از تو جلال دیگران را چه کنند؟ دیوانه کنی هر دو جهانش بخشی : دیوانہ تو ہر دو جہاں را پر کند؟ دور زمین (۲۳۳) پھر اسی شعر کے مضمون کو اپنے الفاظ میں یوں بیان فرمایا سے عاشقان روشن خود را بردو عالم میدہی ہر دو عالم پیچ پیش دیده غلمان تو ور مین ) ظاہر ہے کہ یہ شعر خواجہ موصوف کے شعر سے بہت فائق ہے.عاشقان روئے خود اور ہردو عالم ہیے نے اسے چار چاند لگا دئے ہیں.اور دیدہ علمان تو“ کے الفاظ اسے اور بھی اُونچا لے گئے.سبحان اللہ ! یوسف زلیخا جامی کا ایک مشہور شعر ہے.ترا با هر که رو در آشنائیست : قرار کارت آخر بر جدائیسته اس پر حضرت اقدس نے قدر سے تصرف کے بعد یوں تضمین فرمائی : سے ترا با ہر کہ روئے آشنائی است و قرار کارت آخر بر جدائی است ز فرقت بر دلے بارے نباشد که با میرنده اش کارسے نباشد ے ترجمہ : جس نے تیری شان و شوکت کو پیچان یا پھر تھے چھوڑ کر وہ دوسروں کی شان و شوکت کی کیا پروا کر تا ہے ؟ اپنا دیوانہ بنا کر تو اسے دونوں جہان بخش دیتا ہے، مگر تیرا دیوا نہ دونوں جہانوں کو کیا کرے.کے ترجمہ : اپنے مکھڑے کے عاشقوں کو تو دونوں جہان دیتا ہے لیکن تیرے غلاموں کی کھوئی آگئےدونوں جہاں بچے ہیں.کے ترجمہ : خواہ کسی سے بھی تیری آشنائی ہو ، اس کا انجام آخر جدائی ہی ہوگا.سے ترجمہ : اس شخص کے دل کو مرنے والے کی جدائی سے کوئی مند نہیں پہنچتا ، جسے اس مرنے والے سے کوئی تعلق نہ ہو.

Page 270

۳۴۶ اگر چہ رو کے لئے درکا صلہ آتا ہے ، لیکن با کے آجانے سے اس کی ضرورت نہیں رہی تھی.لہذا حضرت اقدس نے اس کی جگہ اضافت لاکم وزن پورا کر دیا جس سے الفاظ محاورہ کے مطابق ہو گئے اور شعر زیادہ فصیح ہو گیا.بر و ا منکر انجام کن اسے خوی : از سعدی شنوگر زمن نشنوی عروسی بود نوبت ما تمت : اگر بر کوئی بود خاتمته ور ثمین ۳۹۵) دوسرا شعر شیخ سعدی کا ہے.اور اس سے پہلے شعر میں اس طرف اشارہ موجود ہے.خاکسار کے پاس بوستان کا جو نسخہ ہے، اس میں یہ شعر یوں لکھا ہے : ہے عروسی بود نوبت ما تمت : گرت نیک روزسے بود خاتمیت سے یا تو بوستان کے اس نسخہ یں سہو کتابت سے اگر بکوٹی کی جگہ گرت نیک روزسے لکھا گیا ہو.اور حضرت اقدس نے جس نسخہ میںیہ شعر ملاحظہ فرمایا ہو.اس میں اسی طرح لکھا ہو گا جیسے آپ نے نقل کیا ہے.لیکن زیادہ قرین قیاس یہ ہے.کہ آپ نے خود اس شعر میں تصرف کیا ہو.کیونکہ کسی خوش قسمت یعنی مبارک دن میں مرنے سے نیکی پر خاتمہ ہونا بہت بہتر ہے.خاتمہ بالخیر کے معنی خاتمہ بز کوئی ہی ہوتے ہیں.اور عروسی بود خا تم سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں.اگر یہ کہا جائے کہ نیک روز سے بود خاتمت کا کنایہ خاتمہ بالخیر کی طرف رہی ہے ، تو الفاظ اس کے متحمل نہیں.کیونکہ مبارک دن نمونا جمعہ کو کہتے ہیں اور ترجمہ : اے گمراہ شخص جا اور اپنی عاقبت کی فکر کر، اگر تومیری بات نہیں سنتا تو سعدی کی بات ہی شن ہے ، کہ تیرے ماتم کا وقت شادی بن جائے، اگر تیرا خاتمہ نیکی پر ہو : سے ترجمہ : تیرے ماتم کا وقت شادی بن جائے ، اگر تیرا خاتمہ کسی مبارک دن میں ہو ی

Page 271

اس دن کی موت کو بھی مبارک سمجھتے ہیں.لیکن مبارک دن کو واقع ہونے والی موت اگر نی کی پر نہ ہو تو کیا فائدہ واپس حضرت اقدس کے تصرف نے شعر کا پایہ بہت بلند کر دیا.حقیقۃ الوحی ص۳۳۲ پر حضرت اقدس نے فرمایا ہے کہ :.یکی شیخ سعدی علیہ الرحمہ کے اس شعر کو حضرت عزت میں پڑھنا اپنے مناسب حال پاتا ہوں : پسندید گانے بجائے رسند : زما کہتر انت چه آمد پسند ؟ بوستان میں یہ شعر یوں ہے : پسندیدگان در بزرگی رسند : زمابندگانت چه آمد پسند ؟ ظاہر ہے کہ بزرگی تک محدود رکھنے کی نسبت ” بجائے" کے لفظ کی عمومیت سے (جس میں بزرگی بھی شامل ہے یہ شعر زیادہ بلیغ ہو گیا.اسی طرح بندگان خدا تو بڑے سے بڑے ہو سکتے ہیں.پسندیدگان کا تقابل کہتران سے پیدا ہوتا ہے.دوسری جگہ حضرت اقدس اس شعر کو اپنے دوشعروں کے درمیان لائے ہیں : عجب دارم از لطفت اسے گوردگار : پذیرفته چون من خاکسار پسندید گانے بجائے رسند : زما کہتر انت چه آمد پسند؟ چو از قطره خلق پیدا کنی : ہمیں عادت اینجا ہویدا گئی تجبت الہیہ ملت لے ترجمہ ، پسندیدہ لوگ توکسی مرتبہ تک پہنچ سکتے ہیں، ہم جیسے ھیروں کی کونسی بات تجھے پسند آگئی.کے ترجمہ ، پسندیدہ لوگ توکسی عظمت کو پہنچ سکتے ہیں، ہم جیسے غلاموں کی تجھے کونسی چیز پسند آ گئی.سے ترجمہ : ا سے خداوند مجھے تیری مہربانیوں پر تعجب ہے، کہ مجھ جیسے عاجز کو تو نے پسند کر لیا ہے.پسندیده لوگ تو کسی مقام کو حاصل کر سکتے ہیں.لیکن ہمارے جیسے حقیروں کی کونسی چیز تجھے پسند آ گئی ، جب تو ایک قطرہ سے ایک جہان پیدا کر لیتا ہے، تو یہی عادت یہاں دیعنی میری نسبت بھی دکھاتا ہے :

Page 272

- ١٠ ۲۴۸ تو مردان آن راه چون بنگری که از کینه و بغض کور و کری رچہ دانی که ایشاں جہاں سے زیند : زرو نیا نہاں در یہاں سے زیند ند گشته در راه آن جان پناه زلف دل ز سر اوفتاده کلاه کف : دل ریش رفتہ بکوئے دیگر : زیتحسین ولعن جہان بے خبر وبیت المقدس، دروں پر یہ تاب : رہا کرده ، دیوار بیروں ، خراب ہے" دور ثمین ) آخری شعر شیخ سعدی کا ہے.اور وادین سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شعر حضرت اقدس کا نہیں.اے بے خبر بخدمت فرقان کر به ند به زمانی پیش تر که بانگ بر آید فلان نمیده در تمن ) دوسرا مصرع شیخ سعدی کے ایک مشہور شعر کا ہے.سے ترجمہ : تواس راہ کے جوانمردوں کو کس طرح پہچان سکتا ہے، کیونکہ تو کینہ و نبض کے بارے اندھا اور بہرا ہوگیا ہے.تجھے کیاخبر کروہ لوگ کیسے جیتے ہیں، وہ تو دنیا سے پوشیدہ در پوشیدہ زندگی بسر کرتے ہیں.وہ اس جان کی پناہ کی راہ میں قربان ہو چکے ہیں ، ان کا دل ہاتھ سے جاتا رہا اور کلاہ سر سے گر گیا ہے ).ان کا زخمی دل کسی اور ہی کو چھہ میں گیا ہوا ہے ، وہ دنیا کی آخریں اور نظریں دونوں سے بے خبر ہیں.بیت المقدس کی طرح ان کا اندرونہ روشن ہے، مگر باہر کی دیوار خراب اور خستہ ہی رہنے دی ہے : کے ترجمہ : اسے بیخبر قرآن کی خدمت کرنے کے لئے کمر باندھ سے، اسی پہلے کہ آواز آئے کہ فلا شخص مر گیا ہے :

Page 273

احذ اب رہا آخذ " جسے اقتباس بھی کہتے ہیں یعنی " کسی کے کلام کو بغیر اس کے ذکر کے اپنے کلام میں داخل کرنا یا یہ بہت نازک معاملہ ہے.کیونکہ الفاظ یا خیالات پر کسی کی اجارہ داری نہیں.عین ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں کوئی عمدہ مضمون آئے اور وہ اسے بے خبری میں اپنی الفاظ میں باندھ لے جن میں وہی مضمون کوئی پہلا شاعر ادا کر چکا ہو.اور پچھلے شاعر کو اس امر کا کوئی علم نہ ہو.کیونکہ کسی شخص کے لئے بھی یہ مکن نہیں کہ شعر کہنے سے پہلے اپنے پیش روی کا تمام کلام مطالعہ کرکے اسے اپنے ذہن میں محفوظ کرے.چنانچہ منصف مزاج اہل فن ایسے کلام کو توار د کہتے ہیں اور اسے سرقہ پر محمول نہیں کرتے.خصوصا اس صورت میں جبکہ دوسرا شاعر بھی فن شاعری میں ماہر ہو.ہاں کوئی نا اہل شخص جو چاہے کہتا پھرے.یا حسد اور تعصب کی بنا پر کوئی شاعر کسی دوسرے شاعر پر زبان طعن درانہ کرے.جیسے عبید زاکانی نے امیر خسرو کے متعلق کہا غلط افتاد خسرو را نخامی : که سکبا پخت در دیگ نظامی حالا نکہ امیر خسرو وہ قادر الکلام شاعر ہے جس کسی کمال فن کا اعتراف ایران اور ہندوستان کے اکثر نقاد اور تذکرہ نویسی کرتے آئے ہیں.مولانا نظامی کے بعد سو سال تک کسی کو مولانا کے خمسہ (پانچ مثنویوں کا جواب لکھنے کی جرأت نہ ہوئی.اس بات کا بیڑا امیر خسرو نے اٹھایا.اور ترجمہ و نادانی کی بنا پر خسرو سے یہ غلطی سرزد ہوئی کہ اس نے نظامی کی دیگ میں ملغوبہ پکایا.

Page 274

۲۵۰ اسے خوب نبھایا.متعدد نقادوں نے امیر خسرو کے خمسہ کو نظامی کے خمسہ سے فائق قرار دیا ہے.یا کم از کمہ کسی نے اس کو گرایا نہیں.لیکن عبید کو اس میں بھی کیڑے نظر آگئے محض اس لئے کہ امیر خسرو ایرانی نہیں تھے.چونکہ بعض نا سمجھوں نے حضرت اقدس پر بھی سرقہ کا اعتراض کیا ہے، اس لئے مناسب ہے کہ اخذ اور سرقہ کے تمام پہلوؤں کی وضاحت ہو جائے.علم بیان کی کتب اور شعراء کے تذکروں میں اس بارہ میں سیر کن بخشیں موجود ہیں.خاکسار صرف چند اقتباسات پیش کرتا ہے.چنانچہ مولوی امام بخش صاحب صہبائی اس فن کی مشہور کتاب حدائق البلاغت کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :." شعر کی چوری یہ ہے کہ دوسرے شاعر کے شعر کا مضمون فقط لے کر شعر میں باندھ لیں.یا اس کا شعر اپنی طرف منسوب کر لیں.اور یہ کئی طرح پر ہے.اس کا حال تفصیل آوے گا، معلوم کیا چاہیے کہ بیان کرنا اغراض مختلفہ کا درمیان شعرا کے شائع ہے.مثلاً کسی کی مدح ، سخاوت یا شجاعت کی یا ہنجو سجل یا نا مردی کی.یہ چوری میں داخل نہیں.یعنی اگر کسی نے کسی کی سخاوت یا شجاعت کی مدح کی.پھر دوسرے نے بھی انہیں میں سے کسی چیز کی مدح کی تو یہ نہیں کہیں کے کہ ائس نے اس پہلے شاعر کا مضمون چرا لیا.کس واسطے کہ یہ امرعادت میں داخل ہوگی ہے.انہیں چیزوں کی مدح بیان کریں گے فصیح اور غیر فصیح اس میں شریک ہے.لیکن وہ امور جوان اغراض پر دلالت کریں ، مثل استعارہ اور تشبیہ اور کنایہ.البتہ ان کا سرقہ ہو سکتا ہے.یعنی اگر ایک شخص نے ایک تشبیہ یا استعارہ اختراع کیا اور دوسرے نے بھی اسی کو استعمال کیا تو کہ سکتے ہیں کہ اپنی پہلے شاعر کی تشبیہ یا استعارہ کو پڑا لیا.مگر بعض تشبیہیں یا استعارے ایسے ہیں کہ سب شعرا میں شائع ہو گئے.مثلاً

Page 275

۲۵۱ آنکھہ کی تشبیہ نرگس یا زبان کی سوسن یا رخسار کی گل یا ماہ سے اور بہادر کی تشبیہ شیر سے یا سخی کی حاتم سے اور علی ہذا القیاس.اس قسم کی تشبہات کا استعمال سرقہ میں داخل نہیں.جب معلوم ہو چکا، اب جاننا چاہیئے کہ شعر میں سرقہ دو قسم پر ہے.ایک ظاہر اور دوسرا غیر حاضر.اور سرقہ ظاہر کئی قسم پر ہے.قسم اول کر دوسرے کے شعر کو بغیر تغیر کے اپنا ٹھہرائیں.اسے نسخ اور انتحال کہتے ہیں.یہ سرقہ کمال معیوب ہے.اور اگر کوئی ایسا موزوں کرے کہ وہی بعینہ دوسرے کے دیوان میں نکل آئے.اور اس کہنے والے کو اصلاً اس پر اطلاع نہ ہو.تو اس کو توار رکہتے ہیں.نہ سرقہ اور یہ کمال تیزی فکر پر دلالت کرتا ہے.قسم دوسری یہ ہے کہ کسی مضمون کو تمام الفاظ یا بعضے الفاظ کو لے کر اس کی ترتیب بدل دیں.اگر اول سے اس کی ترتیب بہتر ہوگی ، البتہ طبائع کے مقبول ہو جاوے گی جیسے (مثالیں حذف کردی گئی ہیں کیونکہ وہ اردو زبان میں ہیں.ناقل) قسم تیسری یہ ہے کہ دوسرے کا مضمون لے کر اور الفاظ میں باندھ لیں.جیسے.اور سرقہ غیر ظاہر بھی کئی قسم پر ہے.اول یہ ہے کہ معنے دو شعر کے آپس میں مشابہت رکھتے ہوں.جیسے...قسم دوسری یہ ہے کہ شعر اول میں ادعا خاص ہوا اور دوستر میں عام ، جیسے....قسیم تیسری یہ ہے کہ مضمون ایک جائے سے دوسری جائے میں منتقل کریں ، جیسے...قسم چوتھی یہ ہے کہ دوسرے شعر کے معنے پہلے شعر کے معنے کے ضد ہوں، جیسے....قسم پانچویں یہ ہے کرکسی او مضمون سے کچھ لے کر اور چیزیں ایسی بڑھا دیں کہ بہ نسبت اول کے زیادہ لطیف ہو جائے جیسے.جانا چاہیے کہ جب یہ معلوم ہو جاو ہے کہ دوسرے شخص نے پہلے شعر میں اس مضمون کو چرا لیا ہے ، اس وقت اس پر سرقہ کا حکم کریں گے.والا ہوسکتا ہے کہ وہ بطریق توارد کے ہو.اور ان مثالوں کے استعار کا بھی یہی حال ہے.اور اسی بحث کی

Page 276

rar ملحقات میں سے تضمین اور اقتباس ہے.اور وہ یہ ہے کہ دوسرے کے کلام کو ایسی طرح سے اپنے کلام میں لے آوے کہ سیاق کلام سے یہ علوم ہو کہ یہ بھی اسی کا کلام ہے، چنانچہ اکثر کلام اللہ کی آیت یا حدیثوں کو اپنے کلام میں مذکور کرتے ہیں اور فارسی اور اردو کہنے والے اکثر اس پر اشارات بھی کر دیتے ہیں.تاکہ سرقہ کے احتمال سے کلام سبرا ہو جائے یا ۱۶۰ ( ترجمه حدائق البلاغت ما تاخت ) یہ خیال رہے کہ علم بلاغت کی بعض کتب میں نقل تضمین اور اخذ کے الفاظ قریب قریب ہم معنی استعمال ہوئے ہیں اور بعض مصنف اخذ قبیح کو سرقہ اور اخذ ملیح کو تضمین کہتے ہیں.ایک اور صاحب لکھتے ہیں :." اساتذہ فن کے کلاموں پر جن کی نظر ہے ، ان سے یہ امر مخفی نہیں کہ ایک ہی مضمون ہوتا ہے جسے ہر ایک شاعر کہتا ہے.لیکن ہر ایک کا انداز جدا ، ہر ایک کی بندش الگ، کہیں اگلوں کے کلام میں لطائف ہوتی ہے اور کہیں پچھلے اس مضمون کو زیادہ پرتاثیر بنا دیتے ہیں.مثلا سعدی کا ایک شعر ہے (مثال اول):- بجز این گنه ندارم ک محب مهربانم : بچه جرم دیگر از من سرا مقام داری؟ اسی مضمون کو خسرو کہتے ہیں : گفتم کہ ہیں ترا سلام و گرمت گناہ میں میں سے خسرو کے شعر کا لطف ظاہر ہے.صرف ایک لفظ غلام نے وہ خوبی پیدا کردی ے ترجمہ :.سوائے اس کے میرا کوئی گناہ نہیں کر یں محب اور مہربان ہوں تو اور جرم کی وجہ مجھ سے منا لینے کے ر ہے ہے ؟ کے ترجمہ : میں نے کہا ہی کہیں تیرا غلام ہوں ، اگر میرا کوئی گناہ ہے تو یہی ہے.

Page 277

۳۵۳ جو محب و مہربان کے دو لفظوں سے بھی پیدا نہیں ہوتی.اس پر گناہ کا اقرار حرف شرط کے ساتھ ایک عجیب لطف دے رہا ہے.کیا خسرو پر یہ اعتراض کیا جائے گا کہ جب سعدی کا شعر موجود تھا، تو پھر اسی مضمون کے ادا کرنے میں کیوں وقت ضائع کیا گیا.دوسری مثال خسرو کا ایک اور شعر ہے : گفت بود خسرو در خواب رخ بنمایت به این سخن بیگانه راگوانتا را خوب سیر له اسی مضمون کو جامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : گفتی شبے بخواب تو آیم ولی چه سود : چون من عمر خویش زندانم ک خوب چیست؟ خسرو جن کا زمانہ جامی سے بہت پیشتر ہے، جب کہ اُن کا ایسا پر تکلف شعر موجود تھا، تو پھر جائی کو ایسا شعر لکھا جو لطف میں بھی خسرو کے شعر سے پیچھے ہے، کیا ضرور تھا.کیا یہ اعتراض مولانا حاقی پر ایک فضول اور لایعنی اعتراض نہیں " 19619+ مقدمه بهشت بهشت خان ۱۶) آقائے وحید دستگیری گنجینه گنجوی کے دیباچہ صفحہ صفر اصح) میں کس فخر سے بیان کرتے ہیں کہ مولانا روم نے مولانا گنجوی کے کلام سے بکثرت اقتباس کئے ہیں لیکن کسی کو موردالزام نہیں ٹھہرایا.لکھتے ہیں :.جلالی الدین مولوی بزرگ تمرین خدیو ملک عرفان و سخن اقتباسات زیاد انه اشعار حکیم نظامی دارد - - - - دیوان نظامی را مولوی همیشه نصب العین داشته و ازان اقتباسات لے ترجمہ: تو نے کہا تھا کہ اسے خسرو ! میں تجھے خواب میں چہرہ دکھاؤں گا ، یہ بات کسی اجنبی سے کہیئے ، آشنا کو بھلا نیند کیسے آسکتی ہے کہ خواب دیکھے).ہ ہونے کا کیا کیا تیری خوا میں تھا اریایی این امام نہیں کی اک خواب نیند کیاہوتاہے.

Page 278

لفظی و معنوی فراوان کرده، در صورتیکه از دیوان حکیم سنائی غزنوی با همه ارادتی که با اوارد چینی اقتباسی نکرده است.و این اقتباسات دلیل بر عظمت فکر نظامی وشیوائی سخن اوست تا حدیکه که عارف و سخنور بزرگی مانند مولوی را مجذوب داشته " یعنی جلال الدین مولوی (مولاناروم جومعرفت اور شاعری کے ملک کے عظیم فرمانروا تھے انہوں نے حکیم نظامی کے اشعار سے بہت اقتباس (اخذ) کئے.مولانا روم نے دیوان نظامی کو ہمیشہ اپی آنکھوں کے سامنے رکھا.اور اس بڑی کثرت سے لفظی اور معنوی اقتباسات کئے جبکہ آپ نے باوجودیکہ آپ کو حکیم سنائی غزنوی سے بڑی عقیدت تھی.ان دحکیم سنائی سے اتنے اقتباس نہیں کئے.یہ اقتباس نظامی کی عظمت فکر اور اس کے کلام کی عمدہ روش پر دلالت کرتے ہیں.یہاں تک کہ ایک عارف باللہ اور عظیم منور مانند مولانا روم کو اپنا گرویدہ بنالیا مول تا محمد اسمعیل صاحب فاضل حلالپوری نے تنویر الابصار میں سرقہ اور اخذ کی خوب و منات کی ہے ، خاکسار اس قابل قدر کتاب سے ایک لمبا اقتباس لانے پر معذرت خواہ ہے، کیونکہ موضوع بہت اہم ہے اس لئے اس کی پوری وضاحت بہت ضروری ہے.مولانا موصوف فرماتے ہیں:.یکی اس موقعہ پر مکر اس بات کو واضح کر دینا ضروری سمجھتاہوں کہ کسی کلام کو سرقہ پر محمول کرنے سے قبل کم از کم مندرجہ ذیل امور پر پوری طرح نظر ہونی چاہیے :.(1) جس معنے یا کام کو مسروق قرار دیا گیا ہے ، وہ شعراء میں ایسا مشہور ومعروف تو نہیں کہ اسے اپنے کلام میں داخل کرنا ، سرقہ ( چوری ) کہ ہی نہ سکیں.کیونکہ سرقہ چوری بغیر پردہ اور اخفاء کے ممکن ہی نہیں اور چوری کے مفہوم میں یہ بات داخل ہے کہ لوگوں کو کسی چیز نشست میں پا کر اس غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ناجائز طور پر اس چیز کو اپنے قبضہ و تصرف میں لایا جائے مدیہ بھی یاد رہے کہ

Page 279

۲۵۵ کلام یا معنی کے سرقہ کے سوال پر جن لوگوں کی غفلت دیکھی جاتی ہے وہ عام پبلک نہیں بلکہ ادباء اور بلغاء کا طبقہ ہے).(۲) وہ کلام یامعنی شاملات کی طرح ایسا تو نہیں کہ اس کو استعمال کرنے کا حق پبلک کو حاصل ہو اور وہ کسی شخص کی مملوکہ چیز کی طرح نہ ہو بلکہ وہ عام عنی یا مشہور لفظ یا محاورہ ہو جس کے متعلق کسی شخص کا یہ دعوی نہ چل سکے کہ وہ میری ہی ایجاد ہے یا یہ کہ میں نے اس میں فلاں فلاں جدت پیدا کر دی ہے جس کے باعث وہ میرا ملک ہو گیا.بلکہ عام متداول لفظ یا ترکیب بامعنی ہو، کیونکہ ملک عام چیز کو اپنے استعمال میں لانے والا شخص صادق نہیں کہلا سکتا.چنانچہ ابن رشیق اس بارہ میں لکھتا ہے والسرق ايضًا إنما هو فى البديع المخترع الذي يختص به الشاعر لا في المعانى المشتركة التى هى جارية في عاداتهم ومستعملة في امثالهم ومحاورتهم فما ترتفع به الظُّنَّة فيه من الذي يُورده ان يقال إنه اخذه من غيرية ( العمدة جلد ثاني ) (۳) اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہ کلام یا معنی اس کا اپنا طبغراد نہیں ہے بلکہ اس نے اسے کسی دوسر سے کے کلام سے اخذ کیا ہے اور جب کسی معنی یا کلام کا مشرق ہونا ثابت ہو جائے تو پھر اسے محل اعتراض قرار دینے سے قبل اس بات پر غور کر لینا ضروری ہوتا ہے کہ ا میں شخص کو دوسرے کے کلام کا آخذ قرار دیاگیا ہے سے ترجمہ : اور سرقہ بھی صرف ایسی نئی ایجادات میں ہو سکتا ہے ، جو کسی شاعر سے مخصوص ہوں نہ کر ایسے مشترکہ معنوں میں جو ان دینی اہل زبان کے معمولات میں شامل ہوں اور ان کی کہاوتوں اور محاوروں میں مستعمل ہوں اور جو شخص انہیں اپنے کام میں لٹے سے متعلق یقینی طورپر نہیںکہا جاسکا کراہنے ہیں کسی دوسرشار سے اخذ اسرقہ کیا ہے.

Page 280

PAY اس کے اپنے کلام پر نظرکرنے سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ وہ خود ویسا ہی کلام یا است بھی بڑھ کر کہ سکتا ہے کیونکہ ایسا ثابت ہو جانے کی صورت میں اس کے اخذ کو قابل گرفت یا عیب نہیں قرار دیا جا سکتا.چنانچہ ابن رشیق عمده (جلد ثانی من ۲۳) میں لکھتا ہے : والشاعر يستوجب البيت والبيتين والثلثة وأكثر من ذانك إذا كانت شبيهة بطريقة ولا بعد ذالك عيبا لأنه بقدر على عمل مثلها ولا يجوز ذائك الا للحاذق المبزرة (۲) اخذہ کا قول (جس میں اس نے کچھ تصرف بھی کر لیا ہے) رتبہ میں ماخوذ عنہ کے قول سے بڑھ کر یا اس کے برا بر تو تو نہیں ہے کیونکہ اگر اس سے بڑھ کر ہو یا اس کے مساوی ہو تو اس پر نہ صرف اعتراض د نہیں ہو سکتا بلکہ وہ مستحق تعریف ہے.افضلیت کی صورت میں تو اس لئے کہ وہ اسے پہلے سے بھی بہتر بنا دینے کی وجہ سے خود بدرجہ اولیٰ اس کا مستحق ہو گیا ہے.اور مساوات کی صورت میں اس لئے کہ اسی پہلے کلام کو عمدگی سے اپنے کلام میں ملالیا اور ٹھیک طور پر حسب موقعہ و محل اسے اپنے استعمال میں لاسکا اورلایا.چنانچہ العمدة میں ہے : ان المتبع اذا تناول معنى فأجاده بان يختصره إن كان طويلاً او يبسطه ان كان كذا او بينه إن كان خامصًا او يختار لَهُ حَسَن الكلام إن كان سفسافاً أو رشيق الوزن إن كان جافيًا هوا ولى به من مبتدعة : اور کبھی کبھی کوئی شاعر ایک یا دو یاتین شعر یا اس سے زیادہ شعر کسی دوسرے شاعر کے کلام سے) لے لیتا ہے جب کہ وہ اس کے اپنے طرز کلام کے مشاہرہ ہوں.اور یہ عیب نہیں سمجھا جاتا کیونکہ وہ ایسے شعر کہنے پر قادر ہوتا ہے لیکن یہ امرکسی نیز فہم اور ماہر فن شخص کے سوا کسی اور کے لئے ، جائز نہیں ہے.سے کوئی شاعر اپنے سے پہلے کسی شاعر کے کلام سے کوئی معنی اخذ کر سے، تو اگر وہ کلام زیادہ طویل ہو اور

Page 281

۲۵۷ وكذالك ان قلبه او صرفه عن وجه إلى وجه آخر فأما إن لا ساوى المبتدى فله فضيلة حسن الاقتداء ولا غيرها- جلد ثاني تمام مومن کسی کلام پر اخذیا کی اخذ پر عیب لگانے سے قبل بہت سے پہلو رکھنے ضروری ہوتے ہیں.د تنویر الابصار ص ۳-۳۴) علامه ابن رشيق العمده (جلد دوم ۲۵ ) میں لکھتے ہیں لست تحد من جهابذة الكلام ولا من نفاد الشعر حتى تميز بين أصنافه وأقسامه و تحيط علما برتبه ومنازل یعنی کوئی شخص منقد شعر نہیں کہلا سکتا جب تک کہ اسے اخذ کے تمام اقسام و اصناف اور اس کے مراتب و ملاخ کے متعلق وسیع علم اور گہری واقفیت نہ ہو.پھر رکھتے ہیں کہ اتکال الشاعر علی السرقة بلادة وعجز وتركه كل معنى سُبقَ إِليه جَهْلُ ولكن المختار له عندي وسط الحالات (جلد ثانی طلا، یعنی اگر کسی شخص کی شعر گوئی کا سارا داره و مدار اخذ و سرقہ پر ہو تو اسے شاعر مت سمجھو، بلکہ وہ شعر کہنے سے عاجز اور کوڑ مغز ہے.اور ایک شخص اس پہلو کو بالکل ہی چھوڑ ہوئے ہے اور پہلے نامی شعراء کے کلام سے کہیں بھی اخذ نہیں کرتا تو وہ فن شعر سے بالکل بے خبر اور جاہل ہے.نیز علامہ موصوف لکھتے ہیں : هذا باب البقیہ تری صفحہ : وہ اسے ختم کرکے مجمل ہو تواس کھول سے، ناقابل فہم ہوتواسے واضح کرے پھسپھسا ہو تو اسے عمدہ کلام کی شکل میں لے آئے.وزن خراب ہو تو اسے درست کرنے تو وہ پہلے شاعر کی نسبت اس کلام کا زیادہ حق بن جاتا ہے.اسی طرح اگراسمیں کچھ تبدیلی کرے یا اسکا رخ ایک طرف سے دوسری طرف پیسے تب بھی زیادہ تھی ہوگا اور اگر اسکا کلام پہلے شاعر کے کلام سے برابر ہوتواسکے لئے عمدگی سے پیڑی کو نکی فضیلت ہے نہکہ کچھ اور (یعنی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.

Page 282

Fox تسع جدا لا يقدر أحد من الشعراء ان يدعى السلامة منه (۳ ).یعنی سرقات شعریہ کا باب (دروازہ ).ایک ایسا باب ہے جیسی ہر ایک شاعر کو گذرنا پڑتا ہے.اور کوئی شاعر ایسا نہیں جو اس سے کبھی نہ گذرنے کا دعوی کر سکے اور اپنے کلام کو لیکلی اس سے خالی کر سکے کہ (تنویر الابصار ص ۳) یہی وجہ ہے کہ شعرا کے تذکروں کی کتابیں ان کے کلام کا آپس میں مقابلہ کرنے سے بھری پڑی ہیں لیکن کوئی کسی پر سرقہ کا الزام نہیں لگا تا حالا نکہ بعض شعرا کے کلام میں دوسرے شعراء کے پورے مصرعے بلکہ بعض دفعہ تو پور سے شعر تک پائے جاتے ہیں اور تبصرہ ان کے کلام کے حسن و قبح کے پرکھنے تک محدود رکھا جاتا ہے.الا کہ کبھی حسد یا تعصب کسی کے دل میں راہ پائے.(۲) خاکسار بغرض اختصار ایسے توار دیا اخذ کی چند مثالوں پر اکتفا کرے گا :- مولانا روم فرماتے ہیں : ندان شیرم که با دشمن برایم با مردان به که من با خود بر آنیم آکی با به که پہلا پورا مصرع نظامی گنجوی کا ہے.مولا نا نظامی کی ایک غزل یوں شروع ہوتی ہے : مرا پرسی که چونی چونم ای دوست + جگر پر درد و دل پر خونم ای دوست مولانا روم کہتے ہیں : سے هرا پرسی که چونی ہیں کہ چونم : خراہم بے خودم مست جنون کے جنونم ل ترجمہ: میں ایسا شیر نہیں ہوں کہ دشن پر غالب ہوئی، میرے لئے ہی بہتر ہے کہ اپنے آپ پر غالب آجاؤں.ترجمہ : تو مجھ سے پوچھتا ہے کہ اسے دوست تو کیسا ہے ، میرا یہ حال ہے کہ جگر در دستے اور دل خون بھرا ہوا ہے.سے ترجمہ تو مجھ سے پوچھتا ہے کہ تو کیسا ہے، دیکھ کیسا ہوں ، مدہوش ہوں ، یہوش ہوں ، دیوانہ مست ہوں.

Page 283

۲۵۹ (لم) دیکھئے مولانا روم نے اپنی غزل کے ہم قافیہ بنانے کے لئے پہلے مصرع میں تھوڑی سی تبدیلی کرتی ہے.فغانی کا مشہور شعر ہے : بوت مسجدم گریان نگاشت چین رفتیم بے بنیادم رائے پر لائے گل و از خواشتی رفتی میرزا صائب نے اسے یوں بدل لیا : بوریت محمدم گریان پوشیم در چین رفتم با نهادم روئے بوئے گل دار خوشی رفتیم یہاں صرف پہلے مصرع میں تھوڑی سے تبدیلی کر کے یعنی شینم کی تشبیہ لا کر شعر میں جان ڈالدی اور دعوای دریعنی پہلے مصرع کے مفہوم کو پورا کر دیا.(۳۴) خواجہ حافظ کی ایک غزل کا مطلع ہے : زباغ وصل تو یا بد ریاض رضوان آب زرتاب ہجر تو دارد شرار دوزخ تابلے یہ شعر بغیر کسی تفاوت کے لفظ بلفظ سلمان ساوجی کے دیوان میں موجود ہے.اور یہ دونوں بزرگ ہمعصر تھے.پس اخذ و اقتباس بڑے سے بڑے شاعروں کے کلام میں بھی پایا جاتا ہے.اور یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں.بلکہ جیسا کہ قبل ازیں ذکر کیا گیا ہے مستحسن اور لازمی ہے حضرت اقدس کے کلام سے اس کی مثالیں اس لئے پیش کی جارہی ہیں ، تا آپ کے کلام کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا جاے اور یہ دکھایا جائے کہ آپ نے گذشتہ اساتذہ کے کلام میں کس کس طرح اصلاح فرمائی اور ان کے کلام کے پسندیدہ ٹکڑوں کو اپنے کلام میں جگہ دیگر کس طرح ان کی عزت افزائی کی ہے.ے ترجمہ صبح کے وقت تیری خوشبو کی تواس کے لئے روتا ہو ایک باغ کی سیر ی میں چھو کے من پرانا مندرکا اور بیخود ہوگیا.ترجمہ صبح کے وقت تیری خوشبو کی تلاش کیلئے راہو میں نیم کی طرح ان میں یا پھل کے منہ پرانا نہ رکھا اور خود ہوگا.کے ترجمہ تیرے ہیں کے باغ سے بہشت کاچین پانی میں کرتا ہے، اور تری جای کی جی کی وجہ دوزخ کی چنگاریوں میں کی گری ہے.

Page 284

یہ بھی خیال رہے کہ آگے جو مثالیں پیش کی جارہی ہیں.ضروری نہیں کہ وہ سب اخذ ہی ہوں بلکہ مین مکن ہے کہ ان میں سے بعض محض توارد ہوں اور حضرت اقدس کو کسی پہلے شاعر کے ایسے کلام کا علم ہی نہ ہو.بہر حال ان مثالوں سے یہ تو واضح ہو جائے گا کہ کسی پہلے شاعر کے کسی خیال کو جب حضرت اقدس نے بیان کیا تو وہ پہلے شعر سے کس قدر بلند یا یہ ہوگیا.ان اشعار کو یہاں درج کرنے کی غرض کسی قسم کی صفائی پیش کرنا نہیں بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ حضرت اقدس کے کلام کی خوبیاں بیان کی جائیں.(1) بوستان سعدی میں ہے : نپندار سعدی که راه صف :: توان رفت جز برپئے مصطفیٰ بر ہے حضرت اقدس فرماتے ہیں ے خدائی که جان براه او دا : نیابی رہی جزائے مصطفے ہے در ثمین مثلا) دیکھئے حضرت اقدس نے ایک تو راہ صفا کی جگہ راہ خدا کے الفاظ لا کر شعر کے مضمون کو کس قدر بلند کر دیا ہے.دوم تلاش کو براہ راست ذات باری تعالیٰ سے مخصوص کر کے شعر کا رتبہ اور بڑھا دیا ہے.اور سوم رفتن کی جگہ یا فتن لاکو شعر کو حقیقت کے زیادہ قریب کر دیا ہے شعر کی غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسروں کی پیروی میں فرق ظاہر کرتا ہے.یہ فرق جتنا زیادہ ہوگا ، شعر اتنا ہی زیادہ بیغ ہوتا جائے گا.رفتن کی بجائے یافتن میں مقصد سے زیادہ دوری پائی جاتی ہے.رفتن سے معلوم ہوتا ہے کہ راستہ مل چکا ہے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیری لے ترجمہ : اے سعدی تو یہ مت سمجھ کر راہ راست پر صطفی کی پیروی کے بغیر چلا جا سکتا ہے.ترجمہ : وہ خُدا جس پر ہماری جان قربان ہے ، اس کا راستہ مصطفے کی پیروی کے بغیر نہیں پا سکتا.

Page 285

(۲) کے بغیر کوئی اس پر چل نہیں سکتا لیکن نہ یافتن سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بغیر صحیح راستہ مل ہی نہیں سکتا.دوسری جگہ حضرت اقدس نے اپنے الفاظ میں اسی مضمون کو اور زیادہ پُر اثر طریق پر یوں بیان فرمایا ہے : ہر کہ ہے او زد قدم در بیردین + کرد در اول قدم گم معبر ہے در ثمین مثا) یعنی صرف یہی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بغیر راستہ نہیں ملے گا.بلکہ کسی دوسرے مذہب پر کل شروع کرنے والا پہلے قدم پر ہی گرا ہی کے گڑھے میں جاگرے گا.شیخ سعدی کا ایک اور شعر ہے : پائے در زنجیر پیش دوستان به که با بیگانگان در بوستان نه حضرت اقدس فرماتے ہیں : سے پا به زنجیر پیش دلداری به ز هجران و سیر گزارتے ور ثمین (۲۲) شیخ سعدی نے ایک عام بات کہی تھی.حضرت اقدس اس پسندیدہ مضمون کو بھی اپنے محبوب کی طرف لے گئے.جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ہے : سے سے ترجمہ : جس کسی نے اس محمد صل اللہ علیہ وسلم) کے بغیردین کے دریا میں قدم رکھا تو معلوم ہوگیا کی، اسنے پہلے قدم پر ہی گھاٹ کھو دیا ہے.کے ترجمہ : دوستوں کے پاس پابند زنجیر رہنا غیروں کے ساتھ باغ میں ہونے سے بہتر ہے.سے ترجمہ : محبوب کے سامنے پایہ زنجیر رہنا اس کی جدائی میں باغ کی سیر سے بہتر ہے.

Page 286

عاشق زار در همه گفتار : سخن خود کشد بجانب یاره اور جیسا کہ مشرف جہان نے کہا ہے : نشیند اعلان جنوری منشات ہر اہرام اول دین کیوی پرسم که روی کنیم تا برای درمیانی کنیم یچے ہے جسے کسی سے محبت ہودہ گھما پھرا کر بات کا رخ اسی کی طرف موڑ لیتا ہے.- شیخ سعدی کہتے ہیں : سے یوسف شنیدام کہ بچا ہے اسیر بود + ویں یوسف که برزین آورده چاه را اس شعر سے شیخ کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نظرنہیں آتا کہ معشوق کے چاہ نہ نخ کا ذکر کیا جائے.پہلے مصرع والی تلمیح سے بھی کوئی مفید مطلب حاصل نہیں کیا گیا.تھوڑی پر چاہ زرنیخ پیدا کرنا یا لئے پھر نا بھی ایک متبذل تخیل ہے.اس کے بالمقابل حضرت اقدس نے ان نقائص کو بھی دور کیا اور اسی چاہ اور یوسف کی تلمیح سے قرآن کریم کی عظمت بیان کرنے کا کام لیا.فرماتے ہیں : یوسف بقیر چاہے مجبوس ماند تنها وان یو سفے کرتن یا ز چاه برکشیدی ور ثمین ) پہلے مصرع کا کوئی لفظ زائد نہیں.اس کی عبارت بھی دوسرے مصرع سے خوب مربوط ہے یوسف ترجمہ: عاشق زار ہر بات کا رخ اپنے محبوب کی طرف پھیر لیتا ہے.کے ترجمہ یں جہاں جاتا ہوں پہلے سینوں کے متعلق پوچھتا ہوں تاکہ باتوں ہوں یا اپنے شو ، اما برای این کا ذکر ھیروں کے ترجمہ میں نے سنا ہے کہ یوسف کسی کنوئیں کی ترمیں قید تھا.یہ ایسا یوسف ہے جس کی ٹھوڑی پر کنواں ہے.ات ایک کنویں کی میں قیدی اور اینویں سے باہرین کایا ؟

Page 287

کے لفظ سے قرآن کریم کے حسن کو نمایاں کیا اور حس بھی ایسا جو حقیقت پر مبنی ہے.کیا قرآن کریم نے بے شمار انسانوں تنہا) کو گمراہی کے گڑھے سے نہیں نکالا ؟ تنہا اور تنہا کے الفاظ میں تجنیس مرکب مشاہربھی پیدا ہوگئی ہے.اسی طرح حضرت اقدس ایک اور مقام پر بھی اس تیلیج کو اپنے کام میں لائے.فرمایا اسے صد ہزاراں ویسے بینم درین چاه تن والی سیخ ناصری شد از دوم او بیشمار تے در تمین طلا) اختصار دیکھئے حضرت اقدس نے اس تلمیح کو وشیخ کے پورے شعر پر پھیلی ہوئی تھی ، صرف ایک ہی مصراع میں سمو دیا.اور دوسرے مصرع میں ایک اور تلمیح لا کر ایک اور معجزانہ حقیقت کو بڑے خوبصورت الفاظ میں بیان فرمایا..مثنوی مولانا روم میں ہے : - اے دریغ آن دیدہ کور و کبود : کافتا ہے اندر وزره نموده حضرت اقدس نے سادہ حسرت کو استفہام تعجب میں بدل کر شعر کی بلاغت میں نمایاں ایزادی کردی اور فرمایا : سے این چه چشمے ست کو رو سخت کبود : کافتا بے در وجوذره نمود؟ حسب ذیل اشعار شیخ سعدی کے ایک مشہور قصیدہ کے ہیں : د در ثمین ) لے ترجمہ اس معنی آنحضرت کے چاہ ذوق میں لکھوں یوسف مجھے نظر ہے ہیں اور کام کی برکت بیشماری نام پیدا ہوچکے ہیں.کے ترجمہ: افسوس ہے اس اندھی اور تاریک آنکھ پر جس میں سورج بھی ایک ذرہ کی طرح دکھائی دیا.کے ترجمہ : وہ آنکھ کیسی اندھی اور تاریک ہے ، جس میں سورج بھی ایک ذرہ کی طرح دکھائی دیا.

Page 288

ابر آب داد بیخ درختان تشنه مرا به شارخ بر مسند پیران از تو بهار کرد چند اخوان که اون دوران روزگار ی خروش چنان کوفت که خاکش غبار کرد قارن زدین برآمد و دنیا بر و نماند بازی رکیک بود که موشی شکار کرد بعد از خدائی هر چه سندند اینچ نیست با ہے دولت آنکه بر هم پیچ اختیار کرادی یہ اشعار قصیدہ میں ایک ہی جگہ نہیں، بلکہ مختلف مقامات پر ہیں.قصیدہ کا موضوع حمد و شکر باری تعالٰی ہے جس کے بعد دنیا کی بے وقعتی کی طرف گریز کیا ہے.حضرت اقدس نے اس قصیدہ کی بحر اور اس کے قوافی کو ایک دریدہ دہن مخالف حق کے رد میں استعمال فرمایا ہے اور کس خوبصورتی سے استعمال فرمایا ہے؛ سے آل عید تیره بخت کہ بند پائے اوست : شتر مثال بعض خوسے اختیار کرد فرعون شد و عناد کیسے بدل نشاند به یکسر خزان شد و گله ها از بهار کرد چون شحنه حق از بیٹے تعزیر او نجاست : چندای کوفتش که نقش چون غبار کرد تاریخ رو آن بزیانش چه حاجت است : صید کیک بود که موسی شکار کرده ۱۵۲ در ثمین منت ے ترجمہ : بادل نے پیاسے درختوں کی جڑوں کو پانی دیا ، اور نگی شاخ کوئی بہار کا لباس پہنایا.چند ہڈیاں تھیں جنہیں زمانہ کے باون (چٹو نے اتنا باریک کوٹا کر ان کی مٹی کو غبار بنا دیا.قارون دین سے نکل گیا، لیکن دنیا بھی اس کے پاس نہ رہی ، وہ ایک ذلیل باز تھا جسنی ایک چودہ شکار کیا.خداکے بعد انہوں نے جو کچھ بھی پسند کیا وہ بے حقیقت تھا ، بد قسمت ہے وہ جو دوسری سب چیزوں پر کسی بے حقیقت چیز کو تر جیح دے.کے ترجمہ : اس بدبخت شکار نے جس کے پاؤں میں زنجیر ٹڑی ہے، جگاڑ کی طرح استیج سے، دشمنی اختیار کی.اس نے فرعون بن کر ایک کلیم اللہ کی عداوت دل میں بٹھالی.وہ بالکل خزاں بن گیا، اور نگا موسم بہار کا گلہ کرتے.جب راستی کا کو تواں اسے سزا دینے کے لئے اٹھا ، تو اس نے اسے اتنا کوٹا کہ اس کا بدن غبار کی طرح کر دیا.اس کے بجواس کے درد کی تاریخ لکھنے کی کیا ضرورت ہے ، وہ ایک حقیر شکار تھا جسے موسی نے مار گرایا.

Page 289

۲۶۵ -Y یہ خیال رہے کہ شیخ کے ایک شعر میں شکار کرد کا فاعل باز رکیک اور مفعول موشی ہے لیکن حضرت اقدس کے ایک شعر میں صید کیک مفعول اور موسیٰ فاعل ہے.اور موسیٰ سے مراد حضرت اقدس کی اپنی ذات ہے.ایک اور جگہ شیخ سعدی فرماتے ہیں : سے رتی بر کشد که میان سے زنم + اول کسے کہ لاف محبت زند منم اس شعر کو بھی حضرت اقدس محبوب حقیقی کی طرف لے گئے اور فرمایا : ہے در کوئے تو اگر سیر عشاق را زنند ؟ اول کسے کہ لاف تعشق زند منم من در ثمین ۱۹۵) شیخ سعدی کے شعر کے پہلے مصرع کے الفاظ مجازی معشوق کے لئے تو بے شک مناسب ہیں لیکن مجبوب حقیقی کے لئے ہرگز موزوں نہیں.کیونکہ ذات باری تعالٰی کے متعلق یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ تلوار لے کر اپنے محبو کے سر کاٹتا پھرے.البتہ دوسر سے لوگ ضرور عاشقان صادق ، حتی کہ انبیاء علیہم السلام کوبھی قتل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں.لہذا اسی کے مطابق حضرت اقدس نے پہلے مصرع کے الفاظ تبدیل کر لئے.اسی مضمون کو دوسری جگہ حضرت اقدس نے یوں بیان فرمایا ہے : ے تے تیغ گر بارد بجوئے آں نگار آن منم کاول کند جان را نشار ܀ در ثمین ۲۲۹) ترجمہ اگر تو این لے کریں اپنے جو کے قتل کروں گا، تو اسے پہلے تو ثبت کا دعوی کرے وہ میں ہوں گا.سے ترجمہ : اگر تیری گلی میں عاشقوں کے سر کاٹے جاتے ہوں، تو سب سے پہلے جو عشق کا دعوی کرے گا وہ میں ہوں گا.کے ترجمہ : اگر اس محبوب کی گل میں تلوار پر سے تومیں پہلا شخص ہوں گا جو اپنی جان قربان کرے.

Page 290

- < - کیا فصاحت و بلاغت ہے ، ایک ایک لفظ جوش سے بھرا ہوا ہے سیمان اللہ و بحمدہ - لیکن چوز غور و فکر بینم از ماست مصیلت که بر ماست یہ بات ناصر خسرو نے بھی کہی ہے : پ گفتا که ما نالیم که از ماست که برماست اول تو از ماست که بر ماست کے الفاظ ضرب المثل بن چکے ہیں، دوم یہ کہ غور و فکر کے الفاظ لا کر مفہوم کو زیادہ موثر بنا دیا گیا ہے.۸ - حافظ شیرازی کا ایک مشہور شعر مضرت اقدس کو الہام ہوا تھا الحکم می فروری ) هرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد عیشق به ثبت است بر جریده عالم دوام ماه حضرت اقدس اس شعر کے دونوں مصرعوں کو الگ الگ اپنے دو شعروں میں لے آئے اسے آنانکه گشت، کوچه جانان مقام شان : ثبت است بر جریده عالم دوامشان هرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق : میرد کسے کر نیست مرامش مرام شانه دور ثمین ) - شیخ سعدی نے ایک بہادر شہزادے کے منہ سے کہلوایا تھا سے ن نمی باسم کر از جنگ مینی پشت من آن جسم کا درمیان خاک خود مینی رشتے ترجمہ این جی میں دور کرکے دیکھتا ہوں تو سلوم ہوتاہے کہ وصیت ہم پر پڑی ہے وہ ساراپنے ہی باتوں پڑھی ہے.کے ترجمہ: اس نے کہا کہ کس کا رونا روئیں کیونکہ جو کچھ ہم پر وارد ہوا ہے وہ ہماری اپنی وجہ سے ہی ہے.ترجمه و شخص ہرگز نہیں مرتا جس کادل عشق سے زندہ ہوگیا کیونکہ ہمارا نام ہمیشہ کے لئے اس دنیا کے فرمیں لکھا جا چکا ہے.کے ترجمہ : وہ لو جی اٹھکانا جنوب کی گلی بن گئی ہے، ان کا نام اس دنیا کے دفترمیں ہمیشہ کے لئے ثبت ہے.وہ شخص ہرگز نہیں مرتا جس کا دل عشق سے زندہ ہو گیا ، مرتا ر ہی ہے جس کا مقصد ان عاشقوں) کا مقصد نہ ہو.شہ ترجمہ نہیں ایسا نہیں کہ لڑائی کے دن تو میری پیٹھ دیکھ سکے ہیں وہ ہوں کرمٹی اور خون کے اندر تجھے ایک سر نظر آئے گا.

Page 291

- 11 حضرت اقدس اسے بھی عشق رسول کی طرف لے گئے.فرمایا :- آں منم کا ندر رو آن سرور در میان خاک و خوں بینی سریے حافظ شیرازی کی ایک غزل کا مطلع ہے : ے در ثمین ) ی تا از درمیان شادی طلبیم بر در دوست بشینیم و مراد علیم حضرت اقدس نے اس شعر میں ذراسی تبدیلی کر دی ہے.فرمایا ہے خیر تا از درگی یار مراد ے طلبیم بر در دوستی کا ایلی استاد راه دیرگاه بیست که بینیم زمین پر فساد به که با دست دعا صدق شهداد طلبیم و تین ص۲۲۵ ) دیکھیئے الفاظ کی ذراسی تبدیلی سے شعر کہاں تک جاپہنچا ہے.خیز کے لفظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوچنے والا کسی اور جگہ ہے اور وہ در میخانہ پر جانے کا ارادہ کر رہا ہے ، اس وقت وہ دروازہ کھلنے کی خواہش نہیں کرے گا.بلکہ یہ کہے گا چو در میخانہ پر جاکراپنی مراد مانگیں.ہاں جب وہاں پہنچ جائے تو دروازہ کھلنے کی خواہش کرے گا یعنی دعا کی قبولیت کی.اس کے بعد دعا کیا مانگے گا اس کی وضاحت دوسرے شعر میں ہے.حافظ شیرازی نے اپنے ایک قصیدہ میں اپنے ممدوح منصورین محمد غازی کو مخاطب کر کے لے ترجمہ: میں تو وہ ہوں کہ اس سردار کی راہ میں تو ایک سرخاک اور خون میں لتھڑا ہوا دیکھے گا.ترجمہ اھوتا میخانہ کے دروازہ پر جاکر کشایش مانگیں اور دوست کے دروازہ پر بیٹھ کراپنی مرادمانگیں.سے ترجمہ : اٹھو دوست کے دروازے پر جاکراپنی مراد انھیں جوکے دروازہ پر بیٹھیں اوراس کے کھلنے کی درخواست کریں.مدتوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ زمین خرابوس بھری ہوئی ہے ، بہت ہے کہ دعا کیلئے ہاتھ اٹھا کر صدق اور راستی مانگیں.

Page 292

PYA کہا تھا.گری کم دل از تو بردارم از تو هم آی مر بر که انتم آن دل کجا بریم حضرت اقدس نے اسے یوں بدل دیا گر میر خویش بر کنم از روئے البروم با آن ہیں کہ انگلند آ مل گیا برشته معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس کو یہ شعر پسند آیا لیکن افسوس ہوا کہ ایسے سچے موتی جھوٹے معبودوں پر نشار کئے جا رہے ہیں.لہذا آپ نے پہلے مصرع کو تبدیل کر کے یہ موتی محبوب حقیقی کے قدموں میں لاڈالے.قبل ازیں وضاحت کی جاچکی ہے کہ اہل فن کے نزدیک کسی اچھے کلام کے رخ کو پھیرنا (صرفه من وجه الى وجه آخر) معیوب نہیں بلکہ مستحسن ہے، بشرطیکہ کلام زیادہ فصیح وبلیغ ہو جائے اور اس سے پہلے شاعر کی تنقیص نہیں ہوتی ، بلکہ عزت افزائی ہوتی ہے کہ ایک غیر معمولی قادر الکلام شخص نے بھی اس کے کلام کو درخور اعتنا سمجھا.اسی مفہوم کو حضرت اقدس ایک جگہ یوں بیان فرماتے ہیں اسے این خدا است ریت اربابم و بگه رو گرم دراز و تا به ذرا ان الفاظ کا اختصار اور معانی کا حسن دیکھئے..ایسا ہی ایک شعر شیخ سعدی کا ہے : سه در ثمین (۳۳۵) ترجمہ :اگرمیں اپنادل تجھ سے کھاڑ لوںاوراپنی محبت تجھ سے شالوں، تو پھرمیں اس میت کو کہاں جھینگوں اوراس کو کہائی باہوں.کے ترجمہ : اگر میں اپنی محبت رئے محبو سے پھیر لوں تو اس محبت کو کہاں پھینکوں اور اس دل کو کہاں لے جاؤں.ا ترجمہ : یہ ہے میر خدا جو پر درش کرنیوالوں کی پرورش کو نواں ہے ، اگر میں ایسی رخ پھیر لوں تو کس طرف رخ کروں.

Page 293

۲۶۹ از دیدنت نتوانم که دیده بر بندم با دگر مت بود بینم که تیر سے آینده اس مفہوم کو حضرت اقدس یوں ادا فرماتے ہیں : سے ن آن نمی کنیم به ندم رو دوست در بینم این که تیر بیاید برا بر تم در تمین ۲۵۲) دعوئی تو پہلے دونوں مصرعوں کا خوبصورت ہے.پھر بھی نتوانم کے لفظ سے ایک قسم کی کوتاہی کا شبہ پیدا ہوتا ہے.اس کے برخلاف حضرت اقدس کے مصرع میں بلند ہمتی کی جھلک نظر آتی ہے.پھر دیدنت کی بجائے روئے دوست کے الفاظ لانے سے حضرت اقدس کا مصرع اور نکھر گیا.اور اس سے بڑھ کر یہ کہ مقابلہ کی بجائے برابر کا لفظ لانے سے حضرت اقدس کا شعر فصاحت میں اور بھی بڑھ گیا ہے اور محاورہ کے مطابق ہو گیا ہے.مقابلہ کے لفظ کو کبھی سامنے کے معنوں میں استعمال کر لیتے ہیں.لیکن اس کے اصل معنی روبرو (یعنی آمنے سامنے کے ہیں اور یہ معنے نشانہ اور تیر پر صادق نہیں آتے ، کیونکہ وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف نہیں آتے.بلکہ صرف تیر نشانہ کی طرف آتا ہے.اس مفہوم کے لئے صحیح لفظ برا بر ہے ج کے معنی ٹھیک سامنے کے ہیں ( ABREAST ) فارسی زبان میں ظروف کے ساتھ حرف جر نہیں لگایا جاتا.ہم کہتے ہیں میں رات کو سویا لیکن وہ کہتے ہیں، شب خفتم.اسلئے مذکورہ بالا شعر میں در کا لفظ نہیں آیا.ہاں کبھی حرف جر لے بھی آئے ہیں.جیسے شیخ سعدی کہتے ہیں: سے تو در برابر پو گوسفند سلیم : در قضا ہمچو گرگ مردم داده مردم اے ترجمہ : میں تیری طرف دیکھنے سے آنکھ بند نہیں کر سکتا، خواہ سامنے دیکھوں کہ تیرا آرہا ہے.ے ترجمہ ہیں ایسانہیں ہو کر جیو کے مکھڑے کی طر سے آنکھیں بندکرنوں خواہ جھے نظر آ رہا ہوکر ترسید امیری طرف آرہا ہے.کے ترجمہ : سامنے تو فرمانبردار بھیٹر کی طرح ہیں ، اور پیچھے لوگوں کو چیرنے والے بھیڑیئے.

Page 294

اس شعر سے برابر کے لفظ کے معنوں کی بھی پوری وضاحت ہو جاتی ہے کہ یہ لفظ قضایعنی پیچھے کا الٹ ہے.اس کی جگہ مقابلہ کا لفظ رکھ کر دیکھئے کتنا بعدا معلوم ہوتا ہے.۱۳ - حافظ شیرازی کی ایک غزل میں آیا ہے : خیال زلف تو چنین کار خالی است که زیر سار رفتن طریق با ریاست حضرت اقدس نے اسی مفہوم کو یوں ادا فرمایا : ست پناہ ہوئے توجستن نه طور مستان است نه که آمدن به پناہت کمال میاری است 140.در ثمین (۱۱۵) خیال روئے تو بستن “ سے مراد پناہ ڈھونڈنا ہی ہے ، جسے حضرت اقدس نے کھول دیا.حافظ تقابل کے لئے خاماں اور عیاری کے الفاظ لائے ہیں.عیاری کا لفظ عشق مجازی کے لئے تو موزوں ہے جو دوسرے شاعروں کی طرح حافظ کا بھی موضوع ہے.لیکن حضرت اقدس کا موضوع ہمیشہ عشق حقیقی ہے جس کے لئے عیاری کا لفظ قطعا ناموزوں ہے.پھر خاماں اور عیاری کے الفاظ میں پورا اتضا د بھی نہیں اور مستاں اور ہوشیاری کے الفاظ میں مکمل تضاد ہے (صنعت طباق) ۱.مولانا روم کی ایک غزل کا شعر ہے : سے جملہ بے قراریت ازطلب قرار تست : طالب بے قرارشو تا که قرار آید یتے بظاہر مضمون نہایت شاندار ہے، اور الفاظ بھی بہت عمدہ دکھائی دیتے ہیں مگر غور سے دیکھا جائے لے ترجمہ : تیری زلفوں پر دستیان جانا کچے لوگوں کا کام نہیں، کیونکہ ان زنجیروں کے نیچے آجانا حد درجہ کی چالا کی ہے.کے ترجمہ: تیرے چہرہ کی پناہ ڈھونڈنا مستوں بیہوشوں کاکام نہیں کیونکر تیری پنا میں آتا تو مال درجہ کی پیشیاری ہے.کے ترجمہ: تیری تمام بیقراری تیرے قرار ڈھونڈنے کی وجہ سے ہے ، تو طالب بیقرار بن تا تجھے قرار آئے.

Page 295

تو اس شعر میں ایک ناپسندیدہ ابہام ہے ، وہ یہ کہ طالب بیقرار میں قرار کا لفظ مصرع اول کے لفظ قرار کے مقابل پر آیا ہے.اس لئے اس کے معنے بیقراری ہونے چاہئیں.اسی طرح اس نظم کے دوسرے اشعار سے بھی یہی ترشح ہوتا ہے کہ یہاں بے قراری کا لفظ ہونا چاہیئے.لیکن طالب بیقرار کے الفاظ ان معنوں کے متحمل نہیں ہوسکتے.کیونکہ بے قراری اسم حاصل مصدر ہے اور بے قرار اسم صفت.اور اسم صفت مضاف الیہ نہیں بن سکتا.زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا تھا کہ طالب بیقرار سے مراد بقر الشخص لے لیا تا (صفت سجائے موصوف) لیکن اس قیاس میں بھی بعض قرائن روک ہیں جو نیچے درج ہیں.بفرض محال تسلیم بھی کر لی جائے کسی نرگسی طرح طالب بیقرارہ کے معنی طالب بیقراری لئے جاسکتے ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو پہلے ہی بے قرار ہے (جملہ بیقراریت ) پھر ا سے اور کونسی بے قراری تلاش کرنے کی تلقین کی جارہ ہی ہے.اس کے مقابلہ میں دیکھئے ، حضرت اقدس کسی خوبصورت انداز میں فرماتے ہیں : سے آنکس کو مہت اور بیٹے آن یار بیقرار بر محبتش گزین و قرارے دراں مجھے ور ثمین منت) دیکھئے کہیں کوئی ابہام نہیں.مفہوم روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جو شخص قرار کا متلاشی ہو اسے کسی ایسے شخص کی صحبت اختیار کرنی چاہیے ، جو محبوب حقیقی کے لئے بیقرار ہو.یہاں قرار کے لفظ سے مراد بیقراری کے متقابل قرارہ نہیں.بلکہ بیقراری کی حالت پر سکون اور اطمینان مراد ہے جو اپنے سے بڑھ کر محبوب حقیقی کے لئے بیقرار تشخص کی صحبت سے حاصل ہو سکتا ہے.اس شعر سے مولانا روم کی مراد بھی غالباً یہی تھی.اگرچہ مناسب الفاظ نہ لائے جاسکے، ورنہ عاشق کو ترجمہ: جو شخص اس دوست کے لئے بیقرار ہے ، جا اس کی صحبت اختیار کرتا تجھے تسکین حاصل ہو.

Page 296

دا -14 قرار کہاں ؟ حضرت اقدس خود فرماتے ہیں : نه در فراق قرار آیدم نه وقت وصال به بحر تم ک من از عشق او چه سے جو تم؟ شیخ سعدی کہتے ہیں : سے قرار در کف آزادگان نگیرد سال مصیر در دل عاشق نه آب در قربانی : شیخ سعدی کا ایک اور شعر ہے : شعر العجم حصہ پنجم ) اگر خدائے نباشد زینده خوشنود به شفاعت همه پیغمبران ندارد سود ده اول تو اس شعر کا مفہوم ہی محل نظر ہے.اللہ تعالیٰ کی ناراضگی دور کرنے کے لئے تو شفاعت کی ضرورت ہے.اگر وہ اس حالت میں کارگر نہیں ہوسکتی تو شفاعت کا اعتقاد ہی بے معنی ہو جائے گا.اس کے برخلاف حضرت اقدس اس تخیل کو بالکل مناسب موقعہ پر کام لائے اور فرمایا : گر خدا از بنده خوشنود نیست به هیچ حیوانے چو او مردود نیست سے (در ثمین فشا) شیخ سعدی نے مغول کے ہاتھوں بغداد کی تباہی پر ایک مرتبہ لکھا ہے جس کا مطلع یہ ہے ہے آسمان راحت بود گرخون بارد برزمینی و بر زوال ملک مستعصم امیر مومنین به ترجمہ : مجھے نہ فراق میں چکن آتا ہے نہ وصل میں ، حیران ہوں کہ میں اس کے عشق سے کیا چاہتا ہوں ؟ ترجمہ : نہ آزاد منش لوگوں کی ہتھیلی میں مال قرار پکڑتا ہے، نہ عاشق کے دل میں صبر اور ن مھلتی میں پانی.سے ترجمہ : اگر خدا کسی بندہ سے خوش نہ ہو ، تو سب پیغمبروں کی سفارش سے بھی اسے کوئی فائدہ نہیں.کے ترجمہ : اگر خدا کسی بندہ سے خوش نہ ہو ، تو کوئی حیوان بھی اس جیسا مردود نہیں.ش ترجمہ: آسمان کوحق ہے کہ زمین پر خون کے آنسو بہائے، امیرالمومنین ستعصم بالہ کی حکومت کے زوال پر.

Page 297

حضرت اقدس نے اسی زمین میں مسلمانوں کی زبوں حالی پر نوح کھا جس کا پہلا مصرع یہ ہے : (دیکھیئے ص ہدا) : سے سزد گر خوں بہار دیده برایل دیں پر پریشان حالی اسلام و قحط السلمین ور ثمین (۱۵) ۱۷- حضرت اقدس نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں زیادہ ترشیخ سعدی کے اشعار ہی نقل کئے ہیں.اور اخذ بھی زیادہ تر شیخ کے کلام سے ہی کیا ہے.اور اس سے بہتر فائدہ اٹھایا ہے -IA مثلا شیخ کا ایک شعر ہے : سے ابرو با دو مه و خورشید و فلک در کار اند تا تو نا نے بکف آری و غفلت نخوری کی دیکھیئے حضرت اقدس کس خوبصورتی سے اسے اپنے کام میں لائے ہیں : آسمان مه و خورشید شهادت دادند تا تو تکذیب زنادانی و حفلت نکنی بله - اسی طرح حافظ کی ایک غزل کا شعر ہے : سے ور ثمین ۳۵) عشق تو درو بودم و هر تو در دلم ؛ با شیر در درون شد و باجان به شوره جب عشق تو در وجودم" کے الفاظ موجود ہیں، تو ساتھ ہی مہر تو در دلم " کے الفاظ زائد ہیں.ایک ہی مفہوم کا بے جا تکرا ر ہے حضرت اقدس نے الفاظ کو مختصر کر کے فصاحت کو بڑھا ے ترجمہ دیندار لوگوں کےلئے مناسب ہے کہ بھی انکھیں اسلام کی پریشان حالی اومسلمانوں کے تم پر خون کے نو نہائیں.کے ترجمہ : بادل ہوا ، چاند سورج اور آسمان سب کام میں لگے ہوئے ہیں، تا تو روٹی حاصل کر کے غفلت میں نہ کھائے.کے ترجمہ : آسمان، چاند اور سوج شہادت دے رہے ہیں، تا تو نادانی اور غفلت سے تکذیب نہ کر سے.کے ترجمہ : تیرا عشق میرے وجودمیں اور تیری محبت میرے دل میں دورہ کے ساتھ داخل ہوئی تیار جانی تر نکلے گی.1

Page 298

۲۵۴ دیا اور فرمایا : سه مهر او با شیر شد اندر بدن : جان شد با جان بد خواهد شدن حافظ نے صرف اتنا کہا تھا کہ تیری محبت دودھ کے ساتھ داخل ہوگئی تھی اور جان کے ساتھ نکلے گی.مگر کیوں ؟ حافظ نے کوئی وجہ بیان نہیں کی لیکن حضرت اقدس اس کی دلیل لائے کہ وہ جان کے ساتھ کیوں نکلے گی، اس لئے کہ وہ جان بن گئی ہے.اس لئے وہ جان کے ساتھ ہی نکلے گی.جان کے نکلنے سے پہلے اس کا جدا ہونا ممکن نہیں.ایک اور شعر دیکھئے اور غور فرمائیے کہ حافظ کی وجود اور دل والی بات کو کہاں تک پہنچا دیا ہے.فرمایا : تاد بود است خواهد بود شات دردم به دلم دوران خون درد به تو درد داشت دور ثمین من) حافظ کے اس شعر کا ذکر قبل انہیں تو ارد کے ذکر میں ہو چکا ہے.(صائل ہذا ).ز باغ وصل تو یا بد ریاض نوران آب زتاب هجر تو دارد شرار و نرخ تاب حضرت اقدس نے دوسرے مصرع کے مفہوم کو یوں ادا فرمایا : سے دوزخ کے عذاب پر چون خم : اصل آن بست لا يمه دور ثمین ۳۲۵) حافظ نے اپنے قول کی دلیل پیش نہیں کی حضرت اقدس قرآن شریف سے اس کی سند لائے ترجمہ اسکی محبت جو دودھ کے ساتھ میر جس میں ال ہوئی تھی، وہ جان بن گئ ہے اس لئے جان کےساتھ ہی نکلے گی.سے ترجمہ اب تک میرا وجود قائم ہے تیر عشق میسر ل میں قائم ہے گا اور بینک میسر دل میں دوران خون جاری تیری ہی ادا پر بھروستا سے ترجمہ: وہ دوزخ جوخم کی طرح غذاب سے پر ہے ، اس کی وجہ یہی ہے کرخدان سے کلام نہیں کرے گا.

Page 299

ورا و و و یعنی لا هُمُ الله وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ اليمه آل عمران : (۷۸) یعنی اس بڑھ کر تکلیف دہ اور کوئی امر نہیں ہو سکتا.کہ اللہ تعالیٰ ان سے کلام نہیں کرے گا، بلکہ ان کی طرف قیامت کے دن آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا.استغفر الله رَبّى مِنْ كُلّ ذَنْبٍ وَاتُوبُ اِلَيْه.۲۰ - اختصار بھی شعر کی خوبیوں میں سے ہے.ما ہذا پر ابن رشیق کا فیصلہ دیکھئے کہ خاذا جاء بان يختصره ان كان طويلا.....هوا ولی به من مبتدعه یعنی اگر کوئی کسی لے شعر کو مختصر کر لے تو وہ اس شعر کو اپنانے کا زیادہ حقدار بن جاتا ہے.یہ نسبت اس کے جنسی پہلے وہ شعر کہا تھا.چنانچہ مثنوی مولانا روم دفتر اول میں ہے : سے است اسے خنگ چشمے کہ اوگریانی است : اسے ہمایوں نے لے کر او بریانی اوست دیکھیے حضرت اقدس نے اسے کتنا مختصر کر دیا ہے اور معنوں میں بھی کوئی فرق نہیں آیا.سے اے خنگ دیده که گریانش : اسے ہمایوں ولے کہ بریانش ۲۱ - اسی طرح گلستان سعدی میں ہے اسے در ثمین صنف) فرق است میان آنکه یارش در بره با آنکه دو چشم انتظارش بر درد اسے حضرت اقدس نے یوں مختصر کیا : سے آن یکے را نگار خویش به بر دیگر چشم انتظار به دار در تمین منث) سے ترجمہ : وہ آنکھ ٹھنڈی ہے جو اس کے لئے روتی ہے ، اور وہ دل مبارک ہے جو اس کے لئے جلتا ہے.سے ترجمہ : ان دونوںمیں فرق ہے ایک جس کا مجوب کے پہلوی ہے اور دوسرا یکی آنکھ جو کے انتظامیں روزہ رنگا ہوا ہے.سے ترجمہ : ایک شخص کا محبوب اس کے پہلو میں ہے، اور دوسرے کی آنکھ اس کے انتظار میں دروازہ پر کی ہوئی ہے.

Page 300

- مولانا روم کسی چیز کے خود اپنی دلیل آپ ہونے کے تخیل کو آفتاب کے متعلق لائے تھے یعنی عشق کی صحیح کیفیت عاشق ہونے پر ہی محسوس کی جا سکتی ہے.اور فرمایا تھا: آفتاب آمد دلیل آفتاب گرد لیلت باید از سه رخ تابی حضرت اقدس نے اس تخیل کا رخ اپنے محبوب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیر لیا.ر صرفه عن وجه إلى وجه آخر - ابن رشیق ملتا ہذا ) اور فرمایا : سے اگر خواہی دیلے عاشقش باش به محمد است بریان محمدت ور ثمین طلا) ۲۳.اسی طرح شیخ سعدی نے بوستان میں عاشقان حقیقی کے حالات کے پوشیدہ ہونے کے متعلق چشمہ حیواں کی مثال دی تھی اور فرمایا تھا کہ : ہے بسر وقت نشان خلق کے ره برند به که چون آب حیواں تعلیمت در اند که حضرت اقدس نے انہیں ذات باری تعالیٰ میں گم قرار دے کر اس مفہوم کو حقیقت سے زیادہ قریب کر دیا.فرمایا : کس بسر وقت شان ندارد راه کہ نہاں اند در قباب الله له ۲۴ - فردوسی نے شاہنامہ میں کہا تھا : سے ور ثمین صد) ترجمہ : سورج اپنی دلیل آپ ہے، اگر مجھے اس کا ثبوت چاہیئے تو اس کی طرف سے اپنا رخ نہ پھیر.کے ترجمہ : اگر تجھے کسی ثبوت کی خواہش ہو تو اس پر عاشق ہو جا، محمد خود اپنی دلیل آپ ہی ہے.ترجمہ : ان کے احوال کا کھوج مخلوق نہیں لگا سکتی ، وہ آب حیات کے چشمہ کی طرح پردہ ظلمات میں ہیں.کے ترجمہ : کوئی ان کے حالات سے واقف نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ الہ تعالیٰ کے گنبدوں (پردوں) میں ہیں.

Page 301

بگوشیم و فرجام کار آن بود که فرمان و رائے جہانیان بوو حضرت اقدس نے اسے موجود الوقت فارسی زبان میں ڈھال لیا اور فرمایا : سے بکوشیم و انجام کار آن بود که آن خواهش و رائے نیزدا بوده ۲۵ - اسی طرح مولانا روم نے آنحضرت کے بچپن کے متعلق فرمایا تھا کہ : سے آنکه فضل تو دریں طفلیش داد : کش نشان ندهد بصد ساله جهاد در ثمین ص) حضرت اقدس نے اس تخیل کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروں تک وسعت دیدی اور فرمایا ہے اتباعش می دهد دل را کشاد : کش نه بیند کس بصد ساله جهانی کش اور کس میں صنعت تجنیس بھی پیدا ہو گئی.در تمین ۱۳) ۲۶ - احمد سے نیم گر کر احد بننے کو سبھی شاعر بیان کرتے آئے ہیں.امیر خسرو کہتے ہیں : میم احمد که در احد غرق است به کمر خدمت از پٹے فرق است احمد اندر احد کمربند است : یعنی این بنده وان خدا وند است شه ے ترجمہ : ہم اپنی طرف سے جو کوشیش بھی کرتے ہیں اس کام کا نتیجہ یہ ہوتاہے جواللہ تعالی کاحکم اور اس کی منشا ہو.سے ترجمہ : ہم اپنی طرف سے جو کوشش بھی کرتے ہیں ، اس کام کا نتیجہ یہی ہوتا ہے جو اللہ تعالی کی خواہش اور مرضی ہو.ه ترجمه : تیرے فضل نے اسے بچپن میں جو کچھ عطا فرمایا ہے ، وہ سو سال کے مجاہدہ میں بھی کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا.که ترجمه: آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی پیروی دل کو اسقدر انشراح بخشتی ہے، جو کوئی سو سال کے جہاد سے بھی نہیں دیکھ پاتا.ترجمہ : احمد کا میم جو احد میں غائب ہے ، وہ دونوں میں فرق کے لئے کمر ہمت کا پیٹکا ہے.گویا احمد احد کی خدمت میں تیار کھڑا ہے یعنی یہ غلام اور وہ آتا ہے.

Page 302

حضرت اقدس نے اسے یوں بیان فرمایا : شان احمدا که داند بجز خدا وند کریم : آنچنان از خود جدا شد که میان افتادیم زرای نمط شد مجود لبرکز کمال اتحاد : پیکر او شد سراسر صورت ریت رحیمی در تمین نما) حضرت اقدس کے بیان کی فضیلت ظاہر وباہر ہے + لے ترجمہ : احمد کی شان کو سوائے خداوند کریم کے کون جان سکتا ہے ، وہ اپنی خودی سے اسطرح الگہ الگ ہو گیا کہ میم درمیان سے گیورگیا.وہ اپنے تجوب میں اس طرح محو ہوگیا کہ کمال اتحاد کی وجہ سے اس کی صورت بالکل درست رحیم کی صورت بن گئی ہے.

Page 303

در ثمین کے شعر میں کمی بیشی اگر کوئی مصنف خود شاعر نہ ہو ، تو جو اشعار اس کی تحریروں یا تقریروں میں آئیں گے وہ لا زنا دوسرے لوگوں کے اشعار ہوں گے.لیکن جو مصنف خود بھی شاعر ہو اس کی تقریروں اور تحریروں میں جو شعر آئیں ان کے متعلق یہ فیصلہ کرنا ضروری ہوتا ہے کہ وہ سب اس کے اپنے شعر ہیں یا بعض دوسروں کے بھی نقل کئے گئے ہیں.کیونکہ عین ممکن ہے کہ کوئی شخص اس کا کلام مرتب کرے تو کسی دوسرے شاعر کا کوئی شعرا کے مجموعہ کلام میں شامل کرے یا اس کے بعض اشعار کو دوسروں کا کلام سمجھ کر نظرانداز کر دے.۱- چنانچه در ثمین فارسی میں بھی حسب ذیل شعر سہو ا شامل ہو گیا ہے، جو در حقیقت شیخ سعدی کا شعر ہے:.کسانی که پوشیده چشم دل اند : ہما نا کریں تو تب نماضل اند به شعر حضرت اقدس کی کتاب " مر مر چشم آریہ کے سرورق پر لکھا ہوا ہے، اور درثمین فارسی مترجم طبع دوم کے صفحہ ۶ ہم پر درج ہے.۲ - حضرت اقدس کے بعض اشعار در ثمین میں شامل نہیں ، حالانکہ یہ آپ کی کتب اور بعض اخبارات میں موجود ہیں.ان کی فہرست بطور ضمیمہ نمبر شال ہا کر دی گئی ہے ، ان میں سے بعض کے متعلق تو کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں.مثلا دیکھئے اس ضمیمہ کے اشعار نمبر ۱۹ تا ۲۴ ، نمبر ۲۸ تا ۳۰ اور نمبر ۳۴ تا ۴۶ - یہ لازماً حضرت اقدس کے شعر ہیں.باقی اشعار کے متعلق بھی خاکسار کی حتمی رائے ہے کہ وہ بھی حضرت اقدس کے شعر ہی ہیں ان میں

Page 304

سے بعض شعر الہامی بھی ہیں.اس در ثمین میں کتابت کی بھی بعض غلطیاں ہیں ، ایسی غلطیاں شعر کی فصاحت کو مجروح کر دیتی ہیں.دراصل ہمارے ہاں چھپائی کا جو طریق عام طور پر رائج ہے یعنی تھوگراف ، اس میں ایسی خلیوں کا پایا جانا ناگزیر ہے.

Page 305

۳۵۱ - 1 - - Q -4 ضمیمہ نمبر ا اشعار حضرت میں ہوا تو ٹرین میں شام ہونے چاہئیں چون نیستت بیک مگسے تاب ہمسری : پس چوں کنی بقادر مطلق برابری؟ جب تجھ میں ایک مکھی کی ہمسری کی بھی طاقت نہیں، تو پھر اس قادر مطلق کی برابری کس طرح کر سکتا ہے ؟ شرم آیات زدم زنی خود بردگار کو قدر خود بیں که زیک کرم کمتری تجھے خدائے قدیر کے مقابلہ میں کچھ دعوی کرنے سے شرم آنی چاہیے، جا اپنی حیثیت دیکھ کہ تو ایک کیڑے (براہین احمدیہ حصہ سوم مش۱۳) سے بھی کم تر ہے.- کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ (الہامی ترجمہ، تیری مہربانیوں نے ہمیں گستاخ بنا دیا ہے.یہ نظامی گنجوی کا مصرع ہے) (براہین احمدیہ حصه چهارم مش ۵۵) والبانی برگز نمیرد آنکه دلش زنده شد لعشق الباب ثبت است بر جریده عالم دوام ما و شخص ہرگز نہیں مرتاجس کا دل عشق سے زندہ ہوگیا.ہمارامیشود با کانات کی تختی پرکند کیا ہوا ہے.دالحکم ۲۸ فروری ۳۳ له) (یہ حافظ کا شعر ہے) اسے خدا نورسے دو این تیره در فرمانی را یا مده درد جگر پیچ خدادا نے را اے خُدا ان دل کے اندھوں کو روشنی عطا کر یاکسی خدا شناس کو انکی بہادری میں درد جگر نہ دے.(اشتہار محلت اختیار و شرار مشمول تر میشیم آرید) اسے فخر رسل قرب تو معلوم شد (البانی) دیر آمده زراه دور آمده اسے فجر رسل مجھے تیرے قرب الہی کا بلند مرتبہ ) معلوم ہو گیا ہے ، تو اس لئے دیر

Page 306

۲۸۲ سے پہنچا ہے کہ بہت دُور سے آیا ہے.دیہ شعر ناصر علی سرہندی کا ہے) تبلیغ رسالت جلد اول مد ۲ - ۱۳۹) هر چه باید نو عروسی را مان سمان کنم دالہامی و آنچه مطلوب شما باشد عطائے آن کنم نئی شادی کے لئے جو کچھ چاہیئے وہ سامان میں مہیا کروں گا اور تجھے جس چیز کی ضرورت ہوگی وہ بھی عطا کروں گا.شحنه حق ص۲) برسر سه صد شمار این کار را (البانی) ترجمہ : اس کام کو تیسری صدی کے شروع میں سمجھو.( تذکره ص۲) سلطنت برطانیه تا هشت سال (الہائی) به (البانی : بعد ازاں ایام ضعف اختلال سلطنت برطانیہ آٹھ سال تک (مضبوط) ہے، اس کے بعد کمزوری اور افراتفری کا زمانہ.سلطنت برطانیه تا هفت سال (الهامی : بعد ازان باشد خلاف و اختلال تا سلطنت برطانیہ کی مضبوطی ) سات سال تک ہے ، اس کے بعد مخالفت اور افراتفری ہوگی.( تذکره ) ننگ نام و عورت دنیا ز وامان رفتیم : یار آمیز مگر با ما بخاک آمیختیم شرم، شہرت اور عزت ہم نے سب اپنی جھولی سے پھینک دئے ، ہم مٹی میں مل گئے.تا (اس طرح ) شاید محبوب مل جائے.د آئینہ کمالات اسلام ص ) پشت بر قبلہ مے کنند نماز (البانی کے ترجمہ : قبلہ کی طرف پیٹھ پھیر کر نماز پڑھتے ہیں.یہ مصرع شیخ سعدی کا ہے ) ( تذکره ش) رسید شود که تمام غم نخواهد ماند (الهای) ترجمہ : خوشبیر علی رغم کا زمانہ نہیں رہے گا.(یہ مصرع حافظ شیرازی کا ہے) ( تذکره (۲۳۲) - -1.-11

Page 307

۳۸۳ - 12 -17 -16 - IA شد ترا این برگ و بار وشیخ و شاب (الهامی) ترجمہ : یہ پل پھول اور بوڑھے اور جو ان سب آپ کے ہو گئے.444 تذکرہ ملت) چون مرا حکم از پئے قوم سیحی داده اند : مصلحت را ابن مریم نام من به نهاده اند چونکہ مجھے سیمی قوم کے لئے مامور کیا گیا ہے ، اس لئے مصلحتہ میرا نام ابن مریم رکھا گیا ہے.(کتاب البریه ) پو کا فرشنا ساتر از مولویست : برین مولویت باید گریست جب کا فر مولوی سے زیادہ واقف کا ر ہو ، تو ایسی مولویت پر رونا چاہیئے.(ضمیمہ انجام آتھم من) خیز تا از درآن یار مرادی طلبیم بر در دوستی بینیم دکشا سے طلبیم اٹھو اس محبو کے در سے اپنی مراد مانگیں ، دوست کے دروازہ پر دھونی رمائی اور کشایش طلب کریں.(مجموعه اشتہارات حصہ پنجم من۳۵) قدیمان خود را با فزائے قدر (الہامی) ترجمہ : اپنے پرانوں کی قدر بڑھا.یہ مصرع شیخ سعدی کا ہے) ( تذکره ) ۱۹ - از افترا و کذب شما خون شدست دل داند خدا کہ زمیں غم ویں چوں شدست دل تمہارے بہتانوں اور جھوٹوں سے دل خون ہوگیا ہے ، خدا ہی جانتا ہے کہ اس ولی غم سے مل کی کیا حالت ہوگئی ہے.هیچم عیان نشد که شما را به کلیه ام زینیسان چرا دلیر و دگرگون شد است دل مجھے کچھ بھی تو معلوم نہ ہو سکا کہ میری دینی پر، تمہارا دل اتنا دلیر اور میرے خلاف کیوں ہو گیا ہے ؟ تحفہ غز نو یہ ص۲۳) -۲۰ ۳۱ حریفی که در شعبه میداشت جاں بیک شنبه از دسے نماند و نشان وہ مخالف جو ہفتہ کے دن زندہ تھا ، اتوار کو اس کا کوئی نشان نہ رہا

Page 308

۲۲ - کجا هست امروزه آن لیکھرام؟ با یک شنبه گویند سر خاص و عام آج وہ لیکھرام کہاں ہے ، اتوار کے دن سب خاص عام پوچھ رہے ہیں.- ۲۳ بدین عمر میداشت طبع درشت به نه انسان که دست خدایش بکشت اس عمر میں اس کی طبیعت بہت سخت تھی ، اسے کسی انسان نے نہیں بلکہ خود خدا نے قتل کیا ہے.تریاق القلوب صا) -۲۴ نصرت وفتح و ظفر تا بیست سال دانای، ترجمہ: مد فتح اور کامیابی بی سال تک حاصل ہو جائیگی (تذکره ۵۱۲۰) -۲۵ معنی دیگر نه پسندیم ما (ابهامی) ترجمہ : ہم کوئی دوسرے معنے پسند نہیں کرتے.٠٢٨ - ۲۹ دالحکم ۲۴ مئی - شار) شعر جہاں عشق بر جسے آشکار (الہامی ) ترجمہ : عامر محبت اس پر منکشف ہو گیا.آنذکره شود) سرانجام جاہل جہنم بود (الهامی که جابل نکو عاقبت کم بود جاہل کا انجام جہنم ہوتا ہے، کیونکہ جاہل کا خاتمہ بالخیر کم ہی ہوتا ہے.یہ شعر شیخ سعدی کا ہے) (البدر به رجون تنشه) عجب دارم از لطف ہے گردگار پذیرفته چون من خاکسار اے پروردگار میں تیری مہربانیوں پر حیران ہوں کہ تو نے میرے جیسے ناچیز کو قبول کر لیا ہے.پسندید گانے بجائے رسند : زما کہتر انت چه آمد پسند پسندیدہ لوگ تو کسی مرتبہ تک پہنچ سکتے ہیں ، ہم جیسے حقیروں کی کونسی چیز تجھے پسند آ گئی.چو از قطره حلق پیدا کنی : ہمیں عادت اینجا ہویدا کنی

Page 309

۲۸۵ چونکہ تو ایک قطرہ سے ایک جہاں پیدا کر دیتا ہے یہی عادت یہاں بھی ظاہر کرتا ہے.(تجلیات الہیہ ص) اسے بسا آرزو که خاک شده دالہامی) ترجمہ : بہت سی آرزوئیں ہیں جو خاک میں مل گئیں.( نزول مسیح ص۳۳۲) بمردی که نازیستن مرد را به به از زندگانی بترک حیا شرم سے مرجانا مرد کے لئے حیا ترک کر دینے کے بعد زندہ رہنے سے بہتر ہے.م کز و داد مرقان خبر به بسوزد درو کاذب بدگیر جہنم جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے ، جھوٹ بولنے والا بعد ذات اسی میں جلے گا.ضمیمه بر این حمید حصد نجم مشا) جهنم بگرفتند راه مولی را پشت پائے زدند دنیا را انہوں نے مالک حقیقی کا راستہ اپنالیا، اور دنیا کو ٹھوکر مار دی.دل نه آرائیش جهان بردار : عمر خود چون سگان کو بگذار دنیا کی زیب و زینت سے دل ہٹائے ، اور اپنی عمر کسی کی گلی کے کتوں کی طرح گزارے.هست دنیا رفیق غدارت نہ تو یار کسے نہ کسی یارت دنیا تیری بے وفات تھی ہے ، نہ تو کسی کا دوست ہے نہ کوئی تیرا دوست.بیجوانی کنید خدمت یار : که به پیری نمی شود این کار جوانی میں محبوب کی خدمت کرو ، کیونکہ بڑھا پے میں یہ کام نہیں ہوسکتا.کوری آمدنشان استدراج : غفلت از عیب نفس و سوء مزاج اندھا پن یعنی اپنے عیبوں اور بد خلقی سے لا پروائی کرنا آہستہ آہستہ ہلاک ہونے کی علامت ہے.-۳۲ ۰۳۴ - ۳۵ - ۳۶

Page 310

۲۸۶ ۳۹.ترک دنیائے دوں بیگلی کی بیخ نفس شقی بر آر زین ۴۰ - دنیا کو مکمل طور پر چھوڑ دے ، اور بد بخت نفس کی جڑ نیچے سے اکھاڑ پھینک.عاشق زار در همه گفتار به سخن خود کشد بجانب یار عاشق بیچارہ ہر بات چیت میں گفتگو کا رخ محبوب کی طرف پھیر لیتا ہے.ام ہے تو شوق گریستنی دارم به این چنینی شغل زیستن دارم تیرے بغیر صرف رونے سے دلچسپی ہے، گویا میری زندگی کا مصرف یہی ہے.بر زبان گفتگوئے زہد و عفاف : کا رہا جملہ بدتر از اجلاف زبان پر توپر ہیز گاری اور پاک بانی کی باتیں ہیں، اور کام سب کمینے لوگوں سے بھی بدتر.سالک اول بود بخامی کار + گاہ غرق و گیے فت ربکنار طالب حق تشروع میں اپنے کام میں کچا ہوتا ہے، کبھی غوطے کھاتا ہے اور کبھی کنا سے اگتا ہے..۴۲ ۴۴ بازه نادم شود نشستی دیں ؛ عہد بند د برائے ہر آئیں پھر مذہب کے متعلق اپنی کوتاہی پر نادم ہوتا ہے ، اور نئے سرے سے ہر حکم کی تعیل کو نیا عہد کرتا ہے.تشمعید الاذہان جنوری منشار) الهامی ۴۵ سپردم بتو مایه خویش را با تو دانی حساب کم و بیش را - وم - میں نے اپنی پونچی امینی سب کچھ ہیں، تیرے سپرد کردی یکم ہے یازیادہ اسکا حساب تو ہی جانتا ہے.یہ شعر نظامی گنجوی کا ہے) ( تذکره ) زدرگاه خدام دے بصد اعزاز سے آید البانی مبارک باد سے مریم کہ عیسے بازمے آید بارگاہ الہی سے ای انسان کامل بڑی عزت و اکرام سے آرہا ہے ، اسے مریم تجھے مبارک ہو کر عینی پھر آرہا ہے.(تذکره مشته)

Page 311

۲۸۷ یہ ہمیں مردمان بیاید ساخت (الہامی) ترجمہ : ایسے ہی لوگوں سے بناکر رکھنی چاہیے.ظهور الحق م) ان کا را از تواید و مردان چنین کنند (الهای) ترجمہ : یہ کام تمہارے لائق ہے ، مروہی ایسے کام کرتے ہیں.(تذکره ۲۰۳-۲۰۵) رونق دیں عقایدت برده به دشمنان شاد و یاد آزرده تیرے عقیدی نے دین اسلام کی تروتازگی مٹا دی ، دشمن خوش ہیں اور دوست ناراض.(ضمیمه بر این مدیر حقته نیم من) ۴۷.• - ۴۸

Page 312

1 YAA ضمیمہ نمبر ۲ دوسراسان کار را بین این ترین اوتری می نقل فرما نمبر شمار نام شاعر سعدی نامعلوم حافظ سعدی استعار امید وار بود آدمی بخیر کسان : مرا بخیر تو امید نیست بد مرساں انسان کو لوگوں سمبھلائی کی امید ہوتی ہے مجھے تجھ سے بھائی کی امین ہی میرے ساتھ برائی بھی تو کرے.(براہین احمدیہ حصہ دوم شرق اندونی مفخرج ) مختصر پیش تو گفتم نم دل ترسیدم که دل آزرده شوی زنده من بسیار است یں تیرے لئے اپنا کام منصور پربیان کی ہے، اکوتوکہیں آزردہ رہو اور باتری بہت ہیں (براہین احمدیہ حصہ سوم ۲۷ ) خوش بود گر محلت تجربه آید.میاں : تاسیه روئے شود هر که در ونخش باشد بہتر ہو کہ تجربہ کی کسوٹی استعمال کی جائے، تاسیس کا جھوٹ ثابت ہو جائے اس کامنہ کالا ہو.براین حمدیہ حصہ سوم ۲۷) نها از چینی حکایت کن نه از روم که دارم داستا نے اندرین بوم تو مجھے چین اور روم کے قصے نہ سنا ، کیونکہ میرا جنوب اسی سرزمین میں کہتا ہے.چو روئے خوب او آید بیادم : فراموشم شود موجود و معدوم جب مجھے اس کا حسین چہرہ یاد آتا ہے ، تو مجھے حاضر و نائب سب بھول جاتے ہیں.تقریر و خط مطبوعه تنشه)

Page 313

YAQ نمبر شمار نام شاعر A " حافظ سعدی و جامی استعار گویند سنگ لعل شود در مقام صبر : اسے شود ولیک بخون جگر شور کہتے ہیں صبر کر نے (یعنی باہر گرنے سے پتھر لعل بن جاتا ہے ، ہاں بن جاتا ہے لیکن خون جگر پی کر.گرچه وصالش نه بگوش دهند : ہر قدرے دل که بتوانی بکوش اگر چہ اس کا وصال کوشش سے حاصل نہیں ہو سکتا، پھر بھی اسے دل جہاں تک تجھ سے ہو سکے کوشش کرے.دالحکم اکتوبر شاه) من آنچه شرط ابلاغ ات با تو میگویم : تو خواه از سخنم بند گرو خواه ملال یکی تو صرف پیغام پہنچانے کی غرض سے تجھ سے بات کرتا ہوں ، تو خواہ میری بات سے نصیحت پکڑے خواہ ناراض ہو جائے.(مکتوبات احمدیہ جلد دوم مل) اگر ہر موٹے من گردو زبان : از ورانم بهر یک داستانی اگر میرا ہر بال زبان بن جائے، تو یں ہر زبان سے تیری محبت کی داستان بیان کرتا ہونگا.(مکتوبات احمد حصہ اول ) سعدی من ایستاده ام ایجا بند دست مشغول : مرا ازین چه که خدمت قبول یا نه قبول میں تویہاں آپکی خدمت میں مشغول کھڑا ہوں ، مجھے اسے کیا غرض کہ خدمت قبول ہویا ن قبول ہو.گر نباشد بدوست ره برون : شرط عشق است در طلب مردن اگر چہ محبوب تک سائی پانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو پھر بھی عشق کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی تلاش میں جان لڑا دی جائے.(مکتوبات احمدیہ مصر اول مت) ترسم کہ کعبہ چوں رہی اے اعرابی : کیس رہ کر تو میروی بترکستان است اے عرب کے بندو! مجھے خدشہ ہے کہ توکس طرح کعبہ تک پہنچے گا، کیونکہ جس راستہ پر

Page 314

i } i ۲۹۰ نمبر شمار نام شاعر نا معلوم اشعار تو چل رہا ہے وہ تو ترکستان کو جاتا ہے.اسے جفا کیش نذر است طریق عشاق : هرزه بدنام کنی چند نکونامی را اے ظالم عذر کرنا عاشقوں کا شیو نہیں، تو فضول چند یک نام لوگوں (عاشقوں کو بدنام کر رہا ہے.دبرا این حمدیہ حصته چهارم مٹ) ۱۴ مولانا روم پائے استدلالیاں چوبیس بود پائے چوہیں سخت بے تمکیں بود دلائل پر برہ کرنیوالوں کاپاؤں کھڑی کا ہوتا ہے ، اور لکڑی کا پاؤں سخت کمزور ہوتا ہے.3 ۱۵ ۱۷ 14 حافظ ترسیم کی قوم که بر درد کشا می خندند و در سیر کار خرابات کنند ایمان را میں ڈرتا ہوں کہ جو لوگ تلچھٹ پینے والوں پر سہنستے ہیں، وہ کسی دن اپنا ایمان شراب سعدی " IA 14 وغیرہ کے کاموں پر لٹا دیں گے.دوستان عیب کنندم که چرادل تو دادم : باید اول تو گفتن که چنین خوب چرائی دوست مجھ پر قرض کرتے ہیں کہ میں نے دل تجھے کیوں دیا ؟ پہلے تجھ سے پوچھنا چاہیئے کہ تو اتنا خوبصورت کیوں ہے ؟ (براہین احمدیہ حصہ چہارم ص ) با تو مشغول با تو هم راهم وازہ تو بخشایش تو می خواهم میں تجھی میں محو ہوں اور تیرا ہی ساتھی ہوں ، اور تیری مہربانیوں کا متمنی ہوں.تا مرا از تو آگهی دادند بوجودت گرانه خود آگا ہم جس وقت سے مجھے تیرا علم ہوا ہے ، تیری ہی جان کی قسم اگر مجھے اپنے آپ (مکتوبات احمدیہ حصہ اول مت) کا کچھ بھی ہوش ہو.حافظ زاہد ظا هریست ز حال ما آگاه نیست : در حق ما ہر چہ گوئی پہنچ اکراه نیست کوئی ظاہر پرست زاہد ہمارے حال سے واقف نہیں ہو سکتا ، اس لئے ہمارے

Page 315

نمبر شمار نام شاعر سعدی " ۲۱ ۲۲ ۲۳ اشعار متعلق تو جو کچھ بھی کہے برا منانے کی کوئی وجہ نہیں.تبلیغ رسالت جلد اول مکث) کسانیکه پوشیده چشم دل اند : همانا کریں تو تیا غافل اند جن لوگوں نے دل کی آنکھیں بند کر رکھی ہیں ، وہی ہیں جو اس سرمہ کی قدر نہیں کرتے.سرورق سرمه چشم آرید) هم خوبانی علم را بزیر یا بسیار ایند به تو سیمین تن چنان می کند و با یارائی دنیا کے تمام حسینوں کو زیوروں سے زینت دی جاتی ہے ، تو ایسا رو پہلی بدن حسین ہے کہ زیوروں کو زینت بخشتا ہے.سرمه چشم آریہ صلا) نه چندان بخور کرد انت برآید به نه چندان که از ضعف جانت برآید تونہ اتنا کھا کر تیرے منہ سے نکلنے لگے اور نہ اتنا کہ کمزوری سے تیری جان ہی نکل جائے.سرمه چشم آمریه ) تو کار زمین را نکو ساختی : که با آسمان نیز پرداختی کیا تو نے زمینی کاموں کو درست کر لیا ہے، کہ آسمانی کاموں کی طرف بھی متوجہ ہوگیا ہے.سرمه چشم گریه م) ۲۴ نامعلوم فلسفی را چشم حق میں سخت نابینا بود : گرچه مسکن باشد و ابوعلی سینا بود بین با فلسفی کی خدا کو پہچانے والی انکی سخت اندھی ہوتی ہے، اگرچہ بیکن ہو یا بوعلی سینا ہو.۲۵ سرمه چشم گریه م) حافظ نصیحت گوش کن جان کر جان دوست دارند به جوانان سعادت مند پند پیردا نا را اسے عزیز تصیحت پر کان دھرا کرو کیونکہ نیک کردار نوجوان بوڑھے دانا کی نصیحت کو جان سے زیادہ عزیز تر رکھتے ہیں.سرمه چشم آمرید )

Page 316

1 1 ۲۹۳ نمبر شمار نام شاعر ۲۶ ۲۸ سعدی نظیری سعدی استعار اگر صد سال گیر آتش فروزد + چو یکدم اندران افتد بسوزد اگر آگ کا بیجاری سو سال تک آگ جلاتا رہے، تو بھی اگر کسی وقت اچانک اس میں گر پڑے تو جلا ڈالتی ہے.سرمه چشم آرید منت ) با دوستان چه کردی که کنی بدیگران هم : سحقا که واجب آمد ز تو احتراز کردن تو نے دوستوں سے کونسا اچھا سلوک کیا ہے کہ دوسروں سے بھی کرے گا، بخدا تجھ سے بیچ رہنا لازم ہے.سرمه چشم آمرید حت) ندارد کیسے با تو نا گفته کار ولیکن چو گفتی دلیلش بسیار اگر تو نے کوئی بات نہیں کہی تو کسی کو تجھ سے کوئی واسطہ نہیں ، لیکن اگر کہی ہے، تو اس کی دلیل لانی پڑے گی.سرمه چشم آمریه ص۱) ۲۹ ضرب المثل هر چه دانا کند کند نادان بلیک بعد از کمال رسوائی عقلمند جو کچھ کرتا ہے، بیوقوف بھی آخر وہی کرتا ہے، لیکن بہت خواری اٹھانے سف کے بعد.سرمه چشم آرید ۱۳) و شورای شهر میشم که بروز و برگ بر است با این شربت جو سال ازین خارست سرمه چشم آریہ موتی جواہرات سے بھری ہوئی ہے جستجو کے پہلے حرف کے ساتھ اسم سعدی دیکھو سال تالیف نکل آئے گا.(آخری ورق سرمه چشم آریه ) گر نیابد بگوش رغبت کس : بر رسولای بلاغ باشد و بس اگر چہ کسی کو بھی متوجہ نہ کر سکے ، پیغام لے جانے والوں کی ذمہ داری پیغام پہنچانے تک ہے.(شحنه حق مك)

Page 317

۲۹۳ نمبر شمار نام شاعر اشعار ۳۲ مولاناروم عشق اول سرکش و خونی بود و تا گریزد هر که بیرونی بود t } شروع میں عشق بہت منہ زور اور خونخوار ہوتا ہے ، تا و شخص جو صرف تماشائی ہے بھاگ جائے.سعدی " (سبز اشتہار صلا) در لیست دردم که گاز پیش آب چشم و بردارم آستین برود تا بدانم میرے دل میں ایسا درد ہے کہ اگر میں آنسوؤں کے آگے سے آستین ہٹانوں تو وہ میرے دامن تک چلے جائیں گے.د فتح اسلام صا) چشم بد اندیش که برکنده باش و عیب نماید هنرش در نظر بدخواہ کی آنکھ کہ خُدا کرے پھوٹ جائے ، اسے ہنر بھی عیب دکھائی دیتا ہے.توضیح مرام من ۳) ۳۵ نامعلوم چشم شهباز کار دانان شکار از بر کشادن است گرد وخته اند تجربہ کار شکاریوں کے باز کی آنکھ ہے تو کھلنے کے لئے ہی ،اگرچہ اس وقت انہوں نے سی رکھی ہے.توضیح مرام صه) ۵ ۳۶ مولانا روم چون بدندان تو کرمے اوفتاد : آن نه دندانی لیکن اسے اوستاد جب تیرے دانتوں میں کیڑا لگ جائے تو وہ تیرے دانت نہیں رہے.حضرت انہیں ۳۷ سعدی اکھاڑ پھینکئے.ر نسیم دعوت مثث ) چون نبود خویش را دیانت متقوای : قطع رحم به انه مودت قربی جب اپنوں میں دیانت اور پرہیز گاری نہ رہے، تو محبت اور یگانگت کی بجائے تعلقات توڑ لینا بہتر ہے.ر تبلیغ رسالت جلد دوم صلا)

Page 318

۲۹۴ نمبر شمار نام شاعر ۳۸ ☑ الم سعدی " حافظ " اشعار باران در لطافت طبیعیش خوان نیست : در باغ لاله روید و در شوره بوشن بارش سجس کی پاکیزہ فطرت میں کوئی ناموافقت نہیں، وہ باغ میں تو پھول اگاتی ہے اور شورہ زمین میں گھاس پھونس (ازالہ اوہام حصہ اول صنت) تامل کنان در خط و صواب : به از ثرا اثر خایان حاضر جواب خطا و صواب میں سوچ سے کام لینے والے ، بیہودہ گو حاضر جواب سے اچھے ہیں.ازاله او هام حصر اول ) عیب بندان مین سے زاہد پاکیزه شست : توچہ دانی کو پس پرده چه خواست پر نشست اسے پاک طبیعت نے ہندوں پر اعتراض مت کر، تجھے کیا پتہ کہ پردہ کے پیچھے کوئی چیز انزاله او نام حصته اول ط۳) خوبصورت ہے یا بد صورت چو بشنوی سخن اهل دل مگو که خطا است : سخن شناس نه مو بر اخطا اینجاست جب تو دل والوں کی کوئی بات سنے تو مت کہ اٹھے کہ غلط ہے ، اسے عزیز تو بات نہیں سمجھ سکتا غلطی تو یہی ہے.(ازالہ اوہام حصہ اول ط۳) ضرب المثل بر کاریکه همت بسته گردد به اگر خاصی بود گلدسته گردد جس کام کے لئے کمر بہت کسی لی جائے ، اگر اس میں کانٹے بھی ہوں تو وہ گلدستہ م معلوم بن جائیں گے.(ازالہ اوہام حصہ دوم حت) چه عقلی است صد سال اندوختن : پس آن گاه در یک دمے سوختن کیسی عقل ہےکہ سوسال تک جمع کرتے رہنا اسکے بعد ایک پل میں جو ڈالنا حقی در یا مالا) ۴۴ مولاناروم گندم از گندم بروید جوزجو از مکافات عمل غافل مشو گندم سے گندم میں لگتی ہےاور جو سے جو تو نے مل کی پاداش سے فائنل نہ ہو.

Page 319

۲۹۵ نمبر شمار نام شاعر استخار ۴۵ نامعلوم بادردکشان هر که در افتاد در افتاد 3 م سعدی " ۴۹ نامعلوم ☑ ترجمہ : دردکشوں سے جو بھی الجھا ہار گیا.(آسمانی فیصلہ صا) انبیاء در اولیا جلوه دهند : ہر زمان آیند در رنگی دگر نبی اولیاء کی شکل میں جھلک دکھاتے ہیں ، ہر زمانہ میں ایک نئے روپ میں دنشان آسمانی مت) آتے ہیں.بیدار شو گر عاقلی دریاب گراہل دل : شاید که نتوان یافتن دیگر چنین ایام را اگر تو عقل والا ہے تو جاگ اُٹھ، اگر ہمت والا ہے تو اپنا مقصد حاصل کرلے.شاید پھر ایسے دن نہ مل سکیں.(مجموعه اشتهارات حصہ سوم م۲۵) دوست آن باشد گر گیرد دست دوست در پریشان حالی و درماندگی دوست وہی ہوتا ہے جو دوست کا ہا تھ تھامے ، پریشانی اور لاچاری کی حالت ہیں.ر تبلیغ رسالت جلد دوم ) موسی و عیسے ہمہ خیل تواند : جمله درین راه طفیل تواند موسیٰ اور عیسی آپ کی جماعت کے ہی افراد ہیں ، سب اس راہ میں آپ کے طفیل ہیں.(آئینہ کمالات اسلام ۱۳۳) حافظ آسمان بار امانت نتو است کشید ؛ قرعه فال بنام من دیوانه زدند فرشتے اس امانت کا بوجھ نہ اُٹھا سکے ، آخر قرعہ فال مجھے دیوانہ کے نام ہی نکلا.آئینہ کمالات اسلام جل) ۵۱ مولانا روم گر باستند لال کار دیں بد : فخر راندی را نه دایر دین بدے اگر دین کا مدار دلیلیں پیش کرنے پر ہوتا ، تو فخرالدین رازی دین کے رازدان

Page 320

نمبر شمار نام شاعر ۵۲ مولانا روم ہوتے.استعار آئینہ کمالات اسلام م۳۳) تا دل مرد خدا تا بد بدرد : پانچ قومی را خدا رسوا نکرد جب تک کسی اللہ والے کا دل نہیں کڑھتا ، خُدا کسی قوم کو ذلیل نہیں کرتا.(آئینہ کمالات اسلام - آخری صفحات) ۵۳ نامعلوم برکاروبار سیتی اثر ست عارفان را ز جهان چه دید نکس که ندیدای جهان را اس دنیا کے کاروبار پر خدا رسیدہ لوگوں کا اثر ہے، جب نجی یہ کیفیت نہیں دیکھی اس نے اس دنیا سے کیا دیکھا ؟ (بركات الدعاص ) ۵۴ بلائی محمد عربی کا بروئے ہر دوسر است : کسی که خاک درش نیست خاک بر سر و محمد عربی جودونوں جہانوں کی عزت ہے بہت خو ماسک در کی خاک نہیں بنا اسکی سر پر خاک.(انوار الاسلام صدام (ص) ۰۵ سعدی من استم که از جنگ مینی پشت من : آن منم کا در میان خاک خوب بینی سے میں ایسا شخص نہیں ہوں کہ لڑائی کے وقت تومیری پیٹھ دیکھے ہیں وہ ہوں کہ تجھے خاک اور ۵۶ نون میں پڑا ایک سر دکھائی دے گا.اکتوں ہزار عذر بیاری گستاه را به مرشوع کرده را نبود زیب دختری اب تو اپنی غلطی پر ہزاروں عذر پیش کرے ، لیکن شادی شدہ عورت کے لئے کنوارپن کا دعوی زیب نہیں دیتا.(انوار الاسلام ص ۲۳) نامعلوم بروم براہ جاناں سوزنیست عاشقان را : زجهان چه دید آنکس که ندیدای جهان را عاشق ہر وقت اپنے محبوب کے لئے تڑپتے رہتے ہیں ، جیسے یہ کیفیت حاصل نہ ہوئی اس نے اس دنیا سے کیا دیکھا.وانوار الاسلام )

Page 321

نمبر شمار نام شاعر ۵۹ € ۶۳ سعدی نامعلوم اشعار گر نه بیند بروز شیره چشم به چشمه آفتاب را چه گناه ؟ اگر چمگارڈ جیسی آنکھوں والے دن کے وقت نہ دیکھ سکیں ، تو روشنی کے سرچشمہ سورج کا کیا قصور ؟ (ضیاء الحق صا ) مبادا دل آن فرو ما به شاد که از بهر دنیا دهد دین بیاد خدا کرے اس کمینے کا دل کبھی خوش نہ ہو، جستی دنیا کی خاطردین کو برباد کر لیا.ستاره ستمبر او شمول آرین هرمت ) هفتصد و هفتا و قالب ایده ام بارہا چون سبزه با روئید ام یکن سات سوستر یعنی بیشمار سانچوں سے گذرا ہوں اور بار بار نباتات اور ہر یادوں کی شکل میں اگا ہوں.سعدي حافظ ۶۴ نامعلوم دست بچن مت) حقا که با عقوبت دو زرخ برابر است به رفتن بیائے مردی همسایه دربهشت بخدا دوزخ کے عذاب کے برابر ہے ، ہمسایہ کے بل بوتے پر بہشت میں جاتا.(مجموعه اشتهارات ص۵۸) محال است سعدی که راه صفا : توان یافت جز در پئے مصطفے اسے سعدی صفائی کے راستہ کو پانا ، محمد مصطفے کی پیروی کے بغیر تمکن نہیں.در کوئے نیکنامی مارا گذر ندادند به گر تو نمی پسندی تغیر کن قضا را نیک نامی کے راستہ تک بھی رسائی نہیں ملی، اگر تجھے پسند نہیں توحکم قضا کو بدل لے (اگر تھے مجموعه اشتهارات حصه سوم ص ۲۳۱۰۲) سے ہوسکے).نداریم اسے یار با نسیه کار به اگر قدرنت بہت نقد سے بسیار اسے دوست ہیں ادھار سے کچھ غرض نہیں.اگر تجھ میں ہمت ہے تو نقد حاضر کر (استفتاعت )

Page 322

1 ۲۹۸ مبر شمار نام شاعر 40 F X YA مولانا روم بر کریماں کا رہا دشوار نیست سعدی جامی استعار ترجمه جوانمردوں کے لئے کوئی کام مشکل نہیں ہوتے.رپورٹ جاست یا نه شهداء پہلی تقریه) که حلوه چو یکبار خوردند ولیس.ترجمہ : حلوہ جو ایک بار کھا لیا کافی ہے.گر حفظ مراتب نه کنی زندیقی.ترجمہ: اگر تولوگوںکے مرتب کا دھیان نہیں رکھتا تو تو بے دین ہے.ضرب المثل سخن کز دل برون آید نشیند لاجرم در دل ۶۹ سعدی ง 수 ترجمہ : بات جو (کسی) دل سے نکلتی ہے وہ دوسرو کسی دل میں بیٹھ جاتی ہے.لطف کن لطف اکه بیگانه شود حلقه بگوش ترجمہ : مہربانی کر مہربانی آتا ہے گا نہ بھی غلام بن جائے.د رپورٹ جلا لانه شاه دوسری تقریر) ضرب المثل خشت اول چوں نہ معمار کچی تا ثریا می رود دیوانہ کچھ جب تمار پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھے ، تو وہ دیوار آسمان تک ٹیڑھی ہی اُٹھے گی.نامعلوم " کسی بشنود یا نشنود من گفتگوئے میکنم ترجمہ: کوئی سنے یا نہ مٹنے میں گفتگو کرتا رہوں گا.رپورٹ جا رایانه شده در تیسری تقریر) مردان خدا خدا نه باشند :: لیکن ز خدا جدا نباشند خدا کے بندے خدا تو نہیں ہوتے ، لیکن خدا سے جدا بھی نہیں ہوتے.د رپورٹ جلا لانه ششهای تیسری تقریر )

Page 323

نمبر شمار نام شاعر سعدی استعاد خوردن برائے راستین ذکر کردن است : تو معتقد که زیستن از بر خوردن است کھانا زندہ رہنے اور عبادت کرنے کی خاطر ہے ، تو سمجھتا ہے کہ زندگی محض کھانے پینے کے لئے ہے.(تقریر و خط مطبوعه مشاه) ۷۴ مولانا رژه من بر جمعیتے نالاں شدم : جفت خوشحالات بد مالان شدم 4A 44 ،، " سعدی یسری کہتی ہے.میں نے ہی میں اپنا ماریا اور رب کے شہر کے لوگوں کی معیت میں رہی.ہر کسے از ظن خود شد یار من از درون من نجست اسرار من شخص اپنے من کی بنا پرہی میرا دوست بنا لیکن کسی نے میروں کے بیوی کے جانے کی کوشش نہ کی د کتاب البریه ۱۵۳۰- ۱۵۵ ( سخن چنین بد بخت میزم کش است : ترجمہ : بد بخت چغلخور صرف ایندھن ھوتا ہے.دالحکم در مادر ششم) مولانا روم مرد آخر بین مبارک بنده ایست با ترجمه: انجام پر نظر رکھنے والا شخص خوش قسمت ہوتا ہے.نا معلوم الحکیم ۱۳ مارچ ششم) کی شمع بدایت یافت پروانه باش : گرخردمندی ہے له بدی ایوان باش جہاں کہیں ہدایت کی روشنی ملے تو پروان بن جا، اگر تو عقلمند ہے ہدایت کی راہ کے لئے دیوانہ ہو جا.(الحکم در ستمبر مشار) ۹، سعدی بخرید و در یخ گوش و صدق وصفا : ولیکن میفزائے ہر مصطفے " ترک دنیا ، پرہیزگاری اور صدق و صفا کے لئے ضرور کوشش کر ، مگر مصطفے ر کے بتائے ہوئے طریقوں سے تجاوز نہ کر.الحکم ۲۴ ستمبر انشه)

Page 324

نمبر شمار نام شاعر A.اشعار مولانا روم پر بلاکیں قوم را حق داده است به زیر آن گنج کرم بنهاده است ہر را حتی ہر آزمائش جو خدا نے اس قوم کے لئے مقصد کی ہے ، اس کے نیچے رحمتوں کا خزانہ اشتهار ۲۰ستمبر شد از مشموله راز حقیقت) " " Ar AD AY نا معلوم کر کے سعدی چھپا رکھا ہے.اوپو کل و تو چو جزئی نے کلی : تو ہلاک استی گراز مے سے بگسلی وہ (امام الزمان) کل کی طرح ہے اور توجز و کی مانند ہے کلی نہیں ، اگر تو اس سے تعلق توڑے تو سمجھ کہ ہلاک ہو گیا.ضرورت الامام صا) آل دعائے شیخ نے چوں ہر ماست : خانی است و دست او دست خداست اس بزرگ کی دعا کسی اور دنیا کی طرح نہیں ہوتی ، وہ فانی فی اللہ ہے اور اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے.ضرورت الامام صلا) پندست گوش کن که روی از عذاب درد به فرستنده کس که بیند خردمند گوش کرد یہ ایک نصیحت ہے غور سے سُن تاتو دکھ اور درد سے نجات پائے ، مبارک ہے وہ شخص جو کسی عقلمند کی نصیحت پر کان دھر ہے.(ایام الصلح ص) عزیزان بے خلوص صدق نگشایند را ہے را نو مصفا قطره باید که تاگو ہر شود پیدا اسے عزیز و اصدق اور راستی کے بغیر راستہ نہیں کھلتا ، مصفا قطرہ چاہیے تا موتی بن جائے.- از اراد نام محصہ دوم شد) و (در ثمین ) گر جان طلبد مضایقه نیست : زر می طلبد سخن درین ست اگر محبوب جان مانگے تو کچھ پرواہ نہیں ، مشکل یہ ہے کہ وہ مال مانگتا ہے.(مجموعه اشتهارات حصہ پنجم ۴۲۵) مرد باید که گیر داندر گوش و گرنوشت ست پند بر دیوار

Page 325

۳۰۱ نمبر شمار نام شاعر ^^ 4- ۹۱ ۹۲ سعدی " نظامی استعار آدمی کو چا ہیئے کہ کان مں ڈال لے، اگرچہ وہ نصیحت دیوار پر ہی کیوں نہ کھی ہو.دالحکم و اگست نشده) گاه باشد که کودک نادان بغلط پر ہدف زند تیرے کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کو کوئی نادان لڑکا بھی اتفاق سے کوئی تیر نشانے پر لگالیتا ہے.الحکم ۱۷ اپریل ) جمال منشی در من اثر کرد وگرنه من یہاں خاکم کہ ہستم میرے ساتھی کا حسن مجھے میں سرایت کر گیا ہے ، ورنہ میں وہی مٹی کی مٹی ہوں.الحکم ۲۴ مئی بشه سرا بمرگ عدو جائے شادمانی نیست : که زندگانی مانیز جاودانی نیست میرے لئے دشمن کی موت خوشی کی بات نہیں کیونکہ ہماری زندگی بھی تو ہمیشہ کےلئے نہیں.(الحکم - ر ا پریل به شداری) که زر زر کشد در جهان گنج گنج بہ ترجمہ: دنیا میں سونا سونے کو اور خزانہ خزانہ کوکھینچتا ہے.دالحکم ، ۱ را پریل ۶) سعدی کس ندیدم که گم شد از ره راست با ترجمه دین نے کسی شخص کو سیدھے راستر پر چلتے ہوئے گم ہوتا نہیں دیکھا.دالحکم ۲۳ را پریل بهشته حافظ " ۹۳ به بین تفاوت رو از کجاست تا بکجا : ترجمہا دکھی راستہ کافر کہاں سے کہاں تک ہے؟ دالحکم بر جنوری نت شاه) پیداست ندا را که بلند ست جنابت : ترجمہ: اوانہ سے ظاہر ہے کہ تیری بارگاہ بہت (الحکم اور میر نشده) بلند ہے.

Page 326

نمبر شمار نام شاعر ۹۴ 94 96 ச وو 1..حافظ " سعدی استعار فیض روح القدس ارباز مدد فرماید 4 ہمدان کار کنیم آنچه مسیحا می کرد اگر روح القدس کا فیض مدد کرے ، تو سبھی وہ کام ہم کریں جو مسیح کیا کرتا تھا.) اربعین نمبر ۲، صلا) اگر دست سلیمانی نباشد + چه خاصیت دهد نقش سلیمان اگر ساتھ حضرت سلیمان کا ہاتھ نہ ہو توخالی نقش سیمانی والی انگوٹھی کی تاثیر دکھاسکتی ہے ؟ الحکم ۲۳ دیبرت دایر) بروز ہمایوں و سال سعید : بتاریخ فرخ میان دو عید ایک مبارک زمانہ اور ایک مبارک سال میں دو عید یکی در میان ایک مبارک تاریخ کو.دالحکم ۲۳ جنوری انتشاله ) ضرب المثل خدا داری چه غم داری ترجمہ: جب خدا تیرا ہے تو تجھے کیا غم ہوسکتا ہے ؟ نا معلوم " سعدی دالحکم ۱۳۱ جنوری ) خاک شور پیش انداں کہ خاک شوی ترجمہ: مٹی بننے سے پہلے مٹی ہو جا! دالحکم ۱۵ مارچ شاشه) هر چه داری خرچ کن در راه او ترجمہ جو کچھ تیرے پاس ہے اسی راہ میں خرچ کرے.رالحکم ۱۰ را پریل بنشسته ) طلبگار باید صبور وحمول : که نشنیده ام کیمیا گر ملوں کسی چیز کے طلبگار کو صابر اور تحمل مزاج ہونا چاہیے، میں نے کبھی نہیں سنا کہ کوئی کمیا گر اکتا گیا ہو.دالحکم ۲۴ مارچ ها

Page 327

۳۰۳ نمبر شمار نام شاعر (+1 ۱۰۲ i م ۱۰ ۱۰۵ اشعار عمر خیام گویند بهشر جستجو خواهد بود و آن یار عزیز تند خو خواهد بود کہتے ہیں قیامت کے دن تفتیش ہوگی اور اس دن وہ پیارا محبوب تند خو ہو گا." سعدی از خیر محض شر سے نیاید ہر گز + خوش باش که عاقبت نکو خواهد بود خالص بھلائی والی ہستی سے برا سلوک ہرگز ممکن نہیں مطمئن ہو کہ انجام بخیر ہوگا.الحکم ۲۳ مئی انشاه) مکن تکیه بر عمر نا پائیدار : مباش ایمن از بازی روزگار بے ثبات زندگی پر بھروسہ نہ رکھو زمانہ کی چالوں سے بے فکرمت رہو.که خبث نفس نگر دلبسالها معلوم ہے ترجمہ کیون کرد و یا نسلوں تک علم نہیں ہوا کرتا.ضرب باش ہم خدا خواہی و ہم دنیائے ہوں این خیالی است محال است جنوں تو خدا کا طالب بھی بنتا ہے اور حقیر دنیا کا بھی ، یہ محض وہم ہے ، ناممکن ہے ، دیوانگی ہے.دالحکم ۳۱ جولائی بن شاه) ۱۰ سعدی یکے پرسید زان گم گشته فرزند کر اسے روشن گہر پیر خردمند : کسی نے اس (یعقوب سے بی بی گم ہوگیا تھا پوچھا کہ اسے روشن ضمیر دانا بزرگ 1-4 I-A 1.4 ز مصرش بوئے پیرا مین شمیدی : چرا در چاه کنعانش ندیدی تو نے ملک مصر سے تو کرتے کی بوسونگھ لی، لیکن میں کہا کہ کنویں میں سے کیوں نہ دیکھا.بگفت احوال ما برق جهان است : دمے پیداد و دیگر دم نهان است - 1 غائب است کہا کہ ہمارا حال بجلی کی طرح ہے ، ایک ملحم کھائی دیتی ہےاور دوسر یہ اب ہو جاتی ہے.گہے بر طارم اعلیٰ نشینم : گئے بر پشت پائے خود نه بینم کبھی تو میں ایک بلند مقام پر بیٹھا ہوتا ہوں اور کبھی اپنے پاؤں کی پشت پر بھی

Page 328

ام عليكم به شمار نام شاعر ۱۱۲ ۱۱۴ سعدی نہیں دیکھ سکتا.اشعار دالحکم اور جولائی بشه ) اگر در ویش بر یک حال ماند سے : سردست از دو عالم برفشاند سے اگر کسی درویش کی حالت ہمیشہ ایک جیسی رہے ، تو وہ دونوں جہانوں سے ہا تھ جھاڑ اُٹھے.الحکم ۱۰ نومبر ) امیر خسرو من به شدم تو من شدی من من کم توجاشدی به تاکس نگوید بعدازی من دیگرم تو دیگری توان ان روایات نوید من دیگرم یکی تو بن گیا تومیں بن گیا ہیں تن بنا و جان بن گیا.تابعدمیں کوئی یہ نہ کہ سکے کہیں کوئی اور ہوں اور تو کوئی اور ہے.(الحکم، در تمبر انشاه) نامعلوم صیقل دوم آنقدر کا گینه نماند ترجمہ میں نشہ کو چلانے کےلئے اتارگرا کر شیشہ ہی نہ رہا.سعدی " که پیش از پدر مرده به ناخلف - ترجمه : ناخلف بیٹے کا باپ سے پہلے مر جانا ہی بہتر ہے.دالحکم ۲۴ ستمبر انشاه و خوشستن گر است کرا رهبری کند - ترجمہ: وہ تو و ہی گاہ ہے کسی کی کیا رہبری کریگا.۱۱۵ مولانا روم نام احمد نام جمله انبیاست چون باید صد نو دهم پیش است : احمد کا نام سب نبیوں کے نام کا مجوعہ ہے، جس کو اندر گیا تو وے بھی ہمارسامنے ہے.حافظ چه خوش ترانه زد آن مطر مقام شناسی که در میان غزل قول آشنا آورد اس موقع شناس گویے نے کتنا چھا اگایا، کرغزل کے اندر محبوب کی بات بھی لے آیا.114 (الحکم ۱۲۴ اپریل بشه) نامعلوم بان مشو مغرور بر حلم حندا : دیرگیر د سخت گیرد مرتبرا خبر دار خدا کی بردباری پرت اترانا ، وہ پکڑتا تو دیر سے ہے مگر سخت پکڑتا ہے.(الحکم ۲۴ جون شاه)

Page 329

نمبر شمار نام شاعر ۱۱۸ البوسعيد اشعار این در گه ما در گه نومیدی نیست - ترجمہ : ہماری یہ بارگاہ مایوسی کی جگہ نہیں.را ۱۱۹ مولانا روم ہے کہ خواندی حکمت یونانیاں : حکمت ایمانیاں راہم بخواں ۱۲۱ ۱۲۲ سوري اے شخص نجی یونانیوں کی حکمت پڑھی ہے ، ایمان والوں کی حکمت بھی پڑھے.(الحكم ارجولائی، له) یدای را به نیکان به بخشد کریم موجود وہ مہربان چوکی تاجروں کوبھی بخش دیا ہے.(الحکم کاراگست شه) حافظ خیال روئے تو بستن نه کار خامان است که زیر سلسله رفتن طریق عیار ریست سعدی تیرے جیہ کا تصور جانا کچے آدمیوں کاکام نہیں ، کیونکہ تیری تلوں کی سی ہیں آنا چالاکی کا طریقہ ہے.(الحکم ۲۴ اگست بشه) ندار و بصد نکته و نفر گوش چوز حفص به بلند بر گرد خروش سینکڑوں لاش نکات پر تو انہیں بھرتا ، لیکن کوئی خطا دیکھے تو شو مچانے لگ جاتا ہے.(تحفہ گولڑویہ منت ) تراکشتی آورد و ما را خدا.ترجمہ: تجھے کشتی سے آئی اور نہیں خدا سے آیا.(الحکم، درستمبر ) ۱۲۳ حافظ مرید پیر مغانم زمین مرنج اسے شیخ : چرا کر دونده تو کردی و او بجا آورد ۱۲۵ اے شیخ میں تو پیرمضان کا مرید ہوں مجھ سے مت ناراض ہو ، کیونکہ تو نے صرف وعدہ کیا تھا اس نے پورا کر دیا.(کشتی نوح صال) سخن اینیست کہ ما ہے تو نخوای میت بشنو اسے پیک سخن گیر سخن بازرسان پیغام یہ کہ ہم تیرے غیر زندگی کے خواہشمند نہیں ، قاصد کن پیغام سمجھ لےاور پھر اسے اس طرح پہنچاتا.

Page 330

j نمبر شماره نام شاعر ۱۲۶ نامعلوم ۱۲۷ " ۱۲۸ ۱۳۰ ۱۳۱ نظامی استعار عشقا بر تو مغز گردان خوردی : با شیر دلاں رستمی پا کردی ائے عشق سامنے آتو جو پہلوانوں کے مغز کھا گیا ہے اور شیروں جیسے دل والوں سے رقم جیسی بہادریاں دکھائی ہیں.اکنوں کہ بما روئے نبرد آوردی : ہر حیلہ که داری نکنی نامردی اب جوتو نے ہمار مقابل کی ٹھانی ہے، تو اگراپنے تمام داؤ پیچ عمل میں لائے تو امر کہلائیگا.حدیث اتش و نرخ در گفت واعظ شیخ : حکایتی ست که از روزگار هجران است بزرگ اعظ نے دوزخ کی آگ کے متعلق جوکچھ بیان کیا ہے ، وہ جدائی کے زمانہ کی ہی داستان ہے.دالحکم در اکتوبر به شداری) مرا خواندی و خود برام آمدی نظر پخته ترکن که خام آمدی نے مجھے ماریہ کے لئے مکار اور آپکی جال میں چین گیا، اپنی سوچ کو زیادہ پختہ کرکیونکہ تو ابھی کچا ہے.سعدی (تحفه غزه نویه ۳۵) پدر چون دور نگرش متقضی گشت : مرا این یک نصیحت داد و بگذشت میرے باپ کی زندگی کا عرصہ جب ختم ہوگیا، تو اس نے مجھے یہ ایک نصیحت کی اور چل بسا.تحفه مغز نویه ۳۳۵) ضرب المثل بہشت آنجا کہ آزار سے نباشد : کسے را با کیسے کار سے نباشد بہشت ایسی جگہ ہے جہاں کوئی دکھ نہ ہو ، کسی کو کسی سے کچھ کام نہ ہو.۱۳۲ سعدی کس نیاید سبخانه در ویش به که حراج بوم و باغ بده فقیر کے گھر کوئی نہیں آتا کہ، زمین اور باغ کا خراج ادا کرو.من آنکه سر تا جور داشتم که بر فرق خلق پدر داشتم

Page 331

نمبر شمار نام شاعر ۱۳۳ سعدی اشعار اس وقت میرے سر پر گویا تاج تھا ، جب میرے سر پہ باپ کا سایہ تھا.اگر به وجودم نشستے مگس : پریشان شد سے خاطر چند کس اگر میرے جسم پر کوئی بھی بھی بیٹھ جاتی ، تو بہتوں کے دل پریشان ہو جاتے.(الحکم، در اکتوبر باشد) ۱۳۵ حافظ چو کار عمر نہ پیداست باسے این اولی ہے کہ روز واقعہ پیش نگار خود باشیم جب شہر کا معامہ پوشید ہے ، توبہتر ہے کہ ہم موت کے آنے کے ان جو کے سامنے ہوں.الحکم ۳۱ اکتوبن شاه) ۱۳۶ امیر خسرو آنچه خوبان همه ارند تو تنہاداری.ترجمہ: وہ تمام خوبیاں نجومیوں میں پائی جاتی ہیں وہ سب تیری ذات میں جمع ہیں.(الحکم ، تومیر نشده) ۱۳ ۱۳۸ ۱۳۹ نا معلوم نا معلوم نظامی بین دانش شان که این خوش بیا پس از دے چینی ناز و کبر و ادا ان کی سمجھد دیکھو کہ اتنی اچھی عمارت شکل) کے باوجود ایسا تکبر اور ناز و ادا.الحکم بر مسیر را شاهد) عدو شود سبب خیر گر خدا خواہد - ترجمہ خدا ہے تو ٹی بھی بھائی کا ذریع بن جاتا ہے.الحکم ار دسمبر رانا نشاط نوجوانی تا به سی سال چو چپل آمد فرو ریز پرو بال نو جوانی کی فرصت تیس سال تک ہوتی ہے ، جب چالیس سال ہوئے سبائل پر جھڑ جاتے ہیں.۱۳۰ امیر خسرو موٹے سپید از اجل آرد پیام - ترجمہ : سفید بال مرگ کا پیغام لاتے ہیں.البدر ۱۲ دسمبر ستار)

Page 332

نمبر شمار نام شاعر اشعار ۱۳۱ مولاناروم یار غالب شوکه تا غالب شوی.ترجمہ : وزیروں کا ساتھ ہوتا تو بھی غالب بن جائے.۱۴۲ جامی ۱۴۳ ۱۴۴ ۱۴۵ ۱۴۶ سعدی نا معلوم سعدی (البدر ۱۹ دسمبر ) اگر دنیا بیک دستور ماندی بسا اسرار ہا مستور ماندے اگر دن ایک ہی ڈھب پر رہتی ، تو کئی اسرار چیپسے ہی رہتے دالحکم 19 دسمبر ) این سعادت بزور باز و نیست : تا نه بخشد خدائے بخشنده یہ سعادت اپنے زور بازو سے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک وہ بخشنے والا خدا خود عطا نہ کرے.۱۹۰ء البدر ۲۶ دسمبر ) دوستان را کجا کئی محروم تو که با دشمنان نظر داری تو دوستوں کو کہاں محروم رکھے گا ، تو جو دشمنوں کا بھی دھیان رکھتا ہے.دالحکم اور فروری بادی) حضرت انسان که حد شترک است : میتواند شد سیما میتواند شد خی انسان جو حد مشترک ہے ، وہ مسیحا بھی بن سکتا ہے اور گدھا بھی.الب در ۱۳ فروری ) چه خوش گفت در ولیش کو تا دست که شب تو به کرد و سحر گه شکست کسی بے حوصلہ فقیر نے جو رات کو توبہ کرتا تھا اور دن کو توڑ دیتا تھا، کیا اچھی بات کہی ہے.لے : وہ اچھی بات یہ ہے اسے "گر او تو به بخشد بماند درست کہ پیمان ما بے ثباتست و شست اگر خدا تو یہ بخشے تو وہ قائم رہتی ہے کیونکہ ہمارا ہد توناپائیدار اورکزو ہوتا ہے.(بوستان سعدی باب ۱۰)

Page 333

٣٠٩ نمبر شمار نام شاعر ۱۴۷ نامعلوم ۱۴۸ ۱۴۹ 10.سعدی استعار خارقه کز ولی مسموع است معجزه آل نبی متبوع است وہ معجزہ جو کسی ولی کے متعلق سنا جائے ، وہ معجزہ اس نبی کا ہے جس کا وہ ولی پیروکار ہے.دالحکم ۲۸ فروری بشه) بنگ را یکے بوسه دادم بدست که لعنت بر و بارد و بت پرست میں نے اس ذیل بی کے ہاتھ چومے ، خدا کرے کہ اس بت پر بھی اور بت پرست پر بھی خدا کی لعنت بر سے.نا معلوم رنسیم و عوت طا) حمد را باتو نسبتی است درست بر در هر که رفت بر در تست ہرقسم کی تعریف کو تیرے ساتھ پختہ تعلق ہے، کوئی کسی کے دروازہ پر بھی جائے تیرے ہی دروازہ پر ہے.سعدی دنسیم دعوت بهشت دماغ بیده پخت مخیال باطل بست ترجمہ : اس نے فضول خیال جمایا اور جھوٹی توقع رکھی.۱۵۱ نامعلوم کار دنیا کیسے تمام نہ کرد کارونی (الحکم ۱۰ مارچ بار) هرچه گیرد مختصر گیرد دنیا کے کام کسی نے پورے نہیں کئے ، جو کچھ لیتا ہے تھوڑا لیتا ہے.۱۵۲ مولانا روم من ذره آفتابم همه افتاب گویم : نشیم نه بپرسیم که حدیث خود گویم ی ناکارہ ہوں آفتا یہی باتیں کرتا ہوں میں راتوں رات پیاری اک والی باتیں کیں.۱۵۳ الب در ۱۳ مارچ ) عبدالله انصاری آنکس که ترا شناخت جان چه کند : فرزند و عیال و خانمان را چه کنند جو شخص تجھے پہچان لے وہ اپنی جان کو کیا کرے ، اولاد ، اہل وعیال اور خاندان کو کیا کرے ؟

Page 334

۳۱۰ نمبر شمار نام شاعر اشعار ۱۵ الله انصاری دیوانه کنی هر دو جهانش بخشی : دیوانه تو ہر دو جہاں را چه کنند تو اپنا دیوانہ بنانے کے بعدونوں جہان بخش دیتا ہے.تیرا دیوانہ دونوں جہانوں کو کیا کرے ؟ ۱۵۵ سعدی ۱۵۶ 106 الحکم اور مارچ شاه) ز بهر نهادن چرسنگ وچر زر.ترجمہ: رکھ چھوڑنے کےلئے پتھر کیا اورسونا کیا.البدر ۲۷ مارچ بار عمر خیام بدنام کنند نکونامے چند.ترجمہ: چند یک نام اشخاص کو بدنام کرنے والا.ضرب المثل شب تنور گذشت و شب سمور گذشت - ترجمہ : تنور ( پر سونے) والی رات بھی گزرگئی اور سمور (پہن کر سونے والی رات بھی گزر گئی.۱۵۸ سعدی ۱۵۹ حافظ 14.141 سعدی دالحکم اور مارچ است امه ) کلید در دوزخ است آن نمازه که در تیم مردم گذاری در انه وہ نماز دوزخ کے دروازہ کی چابی ہے ، جو تو لوگوں کو دکھانے کے لئے دراز کرتا ہے.(الحکم » ا ا پریل ) واعظان میں جلوہ بر محراب منبر می کنند : چون بخلوت سے روند آن کار دیگر می کنند وہ واعظ جو محراب و منبر پر دکھائی دیتے ہیں ،جب خلوت میں جاتے ہیں تو اس کے الٹ کام کرتے ہیں.آنرا که خبر شد خبرش باز نیامد ترجمہ: جسے (ذات اپنی کا پتا چل گیا، پھر اس کا اپنا پتا نہیں ملتا.منعم بکوه و دشت بیابان غریب نیست به هر جا که رفت خیمه زد و بارگاه ساخت کوئی امیر پیار جنگ اور بیابان میں جنبی نہیں ہوتا جا جاتاہے میں گا کر پیا دربارا جاتا ہے.

Page 335

٣١١ نام شاعر سعدی نظامی حافظ " اشعار وہ کہ گر مرده با نه گر دیدی + در میان قبیله و پیوند بڑا غضب ہو اگر کوئی فوت شدہ شخص ، اپنے قبیلہ اور رشتہ داروں میں مریسی جائے.رد میراث سخت تر بود وارثان را از مرگ خویشاوند وارثوں کے لئے ترکہ کا واپس کرنا اپنے عزیزوں کی موریسے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوگا.همه را رویش در خدا دیدم والی خدا بر همه ترا دیدم میں نے سب کو خدا کی طرف متوجہ دیکھا اور ان سے اوپر سے خدامیں نے تمہیں دیکھا.دالحکم ۲۴ اپریل بینه) با سلمان الله لله با منو دان رام رام ترجمہ مسلمانوں کے ساتھ الہ اللہ اور بہنوں کے ساتھ رام رام.(البدر ۲۴ اپریل بسته) وبه فرمان پر خود توبہ کرے کہ توجہ تو یہ یقین کرنیوالے تو کیوں کہ توبہ کرتے ہیں.مولانا روم اسے کیسا ابلیس آدم روئے سست : بس بہر دستے نباید دار دست بہت سے شیطانوں کی شکل انسانوں جیسی ہوتی ہے پس کسی کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں سے دینا الب در ها می نشا) خرابسته به گرچه دزد آشناست - ترجمہ اگرچہ پور سے جان پہچان ہو گدھے کو باندھ کر چاہیئے.نظامی رکھنا بہتر ہے.معلوم سے ہاتھ آسکتا ہے.جامی (الحکم مادر جون ستنامه) نه بزور و نه بزاری نه بیزار می آید - ترجمہ: وہ طاقت سے، نہ رونے سے نہ مال دالحکم ۲۳ اگست انتشاش نه تنها عشق از دیدار خیزد بساکین دولت از گفتار خیزد عشق صرف دیکھنے سے ہی پیدا نہیں ہوتا ، بہت دفعہ یہ سعادت کلام سننے سے ۱۶۴ ۱۲۵ 144 19A 149 16-

Page 336

۳۱۲ نمبر شماره نام شاعر ۱۷۱ نامعلوم 141 حاصل ہو جاتی ہے.اشعار البدر ار ستمبر ) بمنزل جاناں رسد ہماں مردے : که همه دم در تلاش او دوران باشد محبوب کی بارگاہ میں وہی شخص پہنچ سکتا ہے، جو ہرلمحہ اس کی تلاش میں لگا رہے.·10+ دالحکم ۲۰ نومبر بشه نامعلوم چراغی را که ایزد بر فروزد : هر آنکس تف زند ریشش بود جس چراغ کو الہ تعالی روشن کرے، جو شخص اس پر پھونک مارے گا سکی ڈاڑھی مبل جایگی (الحکم ۳۰ نومبر ) ۱۷۳ مولانا روم ہر کسے را ہر کارسے ساختن - ترجمہ ہر شخص کوکسی کسی کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے.۱۷۴ واقف شنیدہ کے بود مانند دیدہ ترجمہ سنی سنائی بات نکھوں دکھی میں کیسے ہوسکتی ہے ؟ دالحکم ۱۷ فروری ) دخر المش) ۱۷۵ سرمد 144 166 حرفے بس است اگر در خانه کسی است.ترجمہ ایک ہی لفظ کافی ہے کہ کوئی گرمی ہو.البدر رمان شاه) سرمد گله اختصار می باید کرد : یک کار انہیں دو کار می باید کرد سرمد گلہ مختصر کر دینا چاہیے ، ان دونوں کاموں میں سے ایک کام کرنا چاہیئے.یا تن برضائے یار سے باید کرد : با قطع نظر زیاد می باید کرد یا تو اپنا آپ محبوب کی خوشی میں لگا دینا چاہیے، یا پھر محبوب سے دھیان بٹالینا چاہیئے.(الحکم ۱۰ مارچ شاه) ۱۷۸ مولاناروم دشت دنیا جز درد و جز دام نیست : به نه بخلوت گاه حق آرام نیست یہ دنیا کا جنگلی درندوں اور پھندوں سے خالی نہیں ، بارگاہ الہی کی تنہائی کے

Page 337

بشمار نام شاعر سوا کہیں امن نہیں.۱۷۹ حافظ | اشعار دالحکم ۲۳ مئی ) مابرای منزل عالی نتوانیم رسید : ہاں مگر لطف تو چوں پیش نہنگا مے چند ہم اس علی بارگاہ تک نہیں پہنچ سکتے سوائے اس کے کہ تو خود مہربانی سے چند قدم آگے بڑھ آئے.البدر هرجون شاه) ۱۸۰ سعدی آنکس که بقرائی و خبر زون ہی 4 اینیست جوابش که جوابش ندہی تو جس شخص سے قرآن و حدیث بیان کرنے) سے رہائی نہ پا سکے ، اس کا (صحیح) جواب یہ ہے کہ اسے جواب نہ دے.(الحکم ار جولائی نہ ) گروزیر از خدا بترسیدے با ہمچناں کر ملک ملک بودے اگر وزیر خدا سے اس طرح ڈرتا ، جیسے بادشاہ سے ڈرتا ہے، تو فرشتہ بن جاتا.د کی عشق و مشک که انتوان نهفتن - ترجمہ ؛ کیونکہ عشق او مشک کو چھپایا نہیں جاسکتا.البدر ۲۴ اگست ) " JAI ۱۸۲ جامی ۱۸۳ مولانا روم چشم باز و گوش باز و این کا خیر ام انه چشم بندی مهندا نکھیں کھلیں، کان کھلے اور یہ عقل موجود، خدا کرے انکی آنکھیں سینے پر حیران ہوں.۱۸۴ ۱۸۵ " این کمان از تیر یا پر ساخته : صید نزدیک است دور انداخته یہ کمان تیروں سے بھر رکھتی ہے ، شکار جو نزدیک ہے اسے دور پھینک دیا ہے.امیر خسرو پس از آنکه من نمانم بچه کار خواهی آمد دی کچھ لاہور رصت) ترجمہ : جب میں ہی نہ رہوں تو اس کے بعد تیرا آنا بے کار ہے.(الحکم درستمبر )

Page 338

i ۳۱۴ نمبر شمار نام شاعر TAY | استعار ضرب ابش هر چه از دوست میرسد نیکوست با ترجمہ : دوست جو بھی سلوک کرے بجا ہے.دالحکم اور نومبر من نشد) ۱۸۷ سعدی خیرے کن سے فلاں بن غنیمت شمار عمر : زان پیش ترکیه بانگ برآید فلان نماند اسے مخاطب کچھ نیکی کرنے اور عمر و نعمت سمجھ اسی ہے کہ آواز گئے فلاں نہیں رہا.JAA البدر یکم جنوری شاه) بنی آدم اعضائے یک دیگراند - ترجمہ : انسان ایک دوسرے کے اعضا ہیں.البدر در جنوری بشار) ۱۸۹ منسوب به لب به بند و گوش بند و چشم بند : گر نه بینی نور حق بر ما بخند مولانا روم ہونٹ ، کان اور آنکھیں بند کرنے ، اگر تجھے خدا کا نور نظر نہ آئے تو ہمارا مذاق اٹھا.(البد که ۱۳ مارچ، شواء ) ۱۹۰ مولاناروم فلسفی کو منکر حنانه است از حواس انبیا بے گانہ است وہ فلسفی جو رونے والے ستون کا منکر ہے ، وہ انبیاء کی باطنی حسوں سے بیخبر ہے.141 ١٩٢ ١٩٣ سعدی (البدر در جولائی شار) نکوئی با بدان کردن چنانست که بد کردن برائے نیک مردان شریروں کے ساتھ نیکی کرنا گویا شریفوں سے دشمنی کرنا ہے.دالحکم ۲۳ اکتوبر مه) عرفی آثار پدید است صنادید عجم را - ترجمہ اعجم کے بزرگوں کے نشان بھی موجود ہیں.سعدی ( البدر ۳۱ اکتوبر ۶) تمتع زہر گوشہ یا فتم : زہر خرمنے خوشہ یا فتم

Page 339

۳۱۵ نمبر شمار نام شاعر استعار میں نے دور دراز ملکوںسے بھی فلدہ اٹھایا، اور ہر کھلیان سے کوئی خوشہ لیا.(البدر هر نومبر شاه) ۱۹۴ سعدی خواهد در بند نقش ایوان است : خانه از پائے بست ویران است مالک مکان کے نقش ونگار کی فکر میں ہے ، حالانکہ مکان کی بنیا دیں ویران ہوچکی ہیں.140 (الحکم ۱۰ نومبر ۶۱) ۱۹۵ نا معلوم بی کے انداختم رو انداختم ولی توجہ میں نے کب دل میں ڈالا ہے شاید کیوڑ میں ڈال دیا ہے.( البدرار نومبر ) ۱۹۶ ضرب الم کسب کال کن که عزیز جہاں شوی : کس بے کمال پیچے نہ ارز و عزیز من 194 کوئی کمال حال کو تالوگ تجھے پسند کریں ، اے میر عزیز کمال کے بغیرکسی کی کوئی قدر نہیں ہوتی.14+4 البدر هر فروری بالنشر) یکے بر سر شاخ و بن سے برید.ترجمہ : ایک شخص شہنی کے سرے پر بیٹھا اس کی ۱۹۷ سعدی جڑ کاٹ رہا تھا.14A (الحکم ، مٹی بشار) چو از راه حکمت به بند د دوری کشاید بفضل و کرم دیگرے : اگرکسی مصلحت کی بناپر ایک دروازہ بند کردیتا ہے ، تواپنے فضل وکرم سے دوسرا کھول دیتا ہے.(البدر و اگست باد) ۱۹۹ نامعلوم عروس حضر قرآن نقاب آنگاه بر دارد که دارالملک معنی را کند خالی زیر غوغا بارگاہ فرقان کی دلہن تب نقاب اٹھاتی ہے ، جب باطن کی بستی کو ہر قسم کے شور و شر سے خالی کر لیا جائے.ا حکم ۲۳ جنوری بانه

Page 340

نمبر شمار نام شاعر ۲۰۰ اشعار مولانا روم قطب شیر و صید کردن کار او باقیاں هستند باقی خوار او قطب شیر کی مانند ہے شکار کرنا اس کا کام ہے، باقی سب اس کا بچا کھا کھانے والے ہیں.۲۰۱ سعدی مکن شادمانی بمرگ کیسے کہ دسرت پس از دے نماند بسے کسی کی موت پر خوشی ست مناؤ، کیونکہ اسکی بد تیری زندگی کا عرصہ بھی زیادہ باقی نہیں ہے گا.۲۰۲ ۲۰۳ " (البید که ۴ در ما هر چه بیشه) محال است سعدی که راه صفا : توان رفت جز در پیئے مصطفے اسے سعدی یہ مکن نہیں کر صدق و صفا کا راستہ محمدمصطفے کی پیڑی کے بغیر اختیار کیا جاسکے.برو ہر آن شاہ سوئے بہشت : حرام است بر غیر ہوئے بہشت اس بادشاہ دو جہاں کی محبت بہشت کی طرف سے جاتی ہے کسی دوسرے پر بہشت کی بو بھی حرام ہے.۲۰۴ حافظ ۲۰۵ (حقیقة الوحی است) عاشق که شد که یار بحالش نظر نکرد با ای خواجه در و نیست دگر نه بی است ون عاشق بن کر جوتے ایسے حال پر توجہ کی ہو ا ر ر ر ہی نہیں در طی یے موجود ہے.(حقیقة الوحی (1) نامعلوم درس ناشی مجری دو قران خواهد بود از پنے مهدی و دقبال نشان خواهد بود ۲۰۶ سعدی چودہویں ہجری میں چاند اور سورج کو گرہن لگے گا ، وہ مہدی اور دجال کے ظہور کا نشان ہو گا.(حقیقة الوحی به) پسندید گانے بجائے رسند : زما کہتر انت چه آمد پسند پسندیدہ لوگ سی مرتبہ کو پہنچ جاتے ہیں ، آپ کو ہم جیسے حقیر بنوں کی کونسی چیز سینا گئی.(حقیقة الوحی (۳۲ )

Page 341

۳۱۷ نمبر شمار نام شاعر اشعار ۲۰۰ مولاناروم مد تے این مثنوی تا خیر شد : سالها با لیست تا خون شیر شد ایک لمبے عرصہ تک اس مثنوی میں تاخیر ہوگئی ، سالہا در کار میں تاخون دودھ بن جائے.(حقیقة الوحی ص ۳۳ ) ضرب المثل بنگر که خون ناحق پروانه شمع را چندی امان نداد در شب سحر کند دیکھئے پروانہ کے خون ناحق نے شمع کو ، اتنی مہلت نہ دی کہ رات کو صبح میں بدل ہے.۲۰۹ حافظ (حقیقة الوحی ص۳۵) هزار نکته ، باریک تر نزمو اینجاست ؛ نه هر که سر بتراشد قلندی داند یہاں بال سے بھی باریک ہزاروں بھید ہیں ، یوں نہیں کہ جو بھی سرمنڈ والے قلندری سمجھ لے.دستمه حقیقة الوحی ص ) ۲۱۰ نامعلوم زنجت خویش بر خوردار باشی : بشرط آنکه با من یار باشی با تو اپنے نصیبہ کا پھیل خوب کھائے گا ، بشرطیکہ میرا دوست بن جائے.۲۱۱ (الحکم ۲۲ ستمبر ) سعدی سعد یا حب وطن گرچه حدیث است دورتر به نتوان مرد سختی که درین جا زادم اے سعدی اگرچہ وطن کی محبت کا خز و ایمان ہونا صحیح حدیث ہے ، لیکن محض اس لئے کہ میں یہاں پیدا ہوا تھا تنگ دستی سے مرا نہیں جاتا.(البدر رستمی شیر) محمد شاہ رنگیلا شوعی اعمال ما صور نا در گرفت - ترجمہ: ہمارے عملوں کی نحوست نے نادر شاہ کی شکل نامعلوم ن ۲۱ (ضرب المثل اختیار کریی - (الحکم ۲۷ مارچ ۶) آنان که عارف تراند ترسال تمر - ترجمه : جو زیادہ واقف ہیں وہی زیادہ ڈرتے ہیں.(الحکم ۱۸رسٹی پشت شاه)

Page 342

PIA نام شاعر اشعار ۱۳ جامی نومید هم مباش که رندان باده نوشه ناگاه بیک خروش بمنزل رسیده اند نا امید بھی نہ ہو کیونکہ محبت الہی کی شراب پینے والے رندا چانک ایک ہی نعرہ سے منزل پر پہنچ گئے ہیں.( البدر ۲۴ مئی ) ب المثل تا نباشد چیز کے مردم نگویند چیرتا.ترجمہ: جب تک کچھ کچھ ہولوگ باتیں نہیں ہے.المحکم در جولائی بشن) ۲۱۶ سعدی کہ لیے حکم شرع آب خوردن خطاست : اگر خون بفتوای بریزی رواست کیونکہ شریعت کی اجازت کے بغیرپانی پینا بھی گناہ ہے.اگر شرع کے حکم سے تو قتل بھی " ۲۱۷ PIA ۲۱۹ ۲۲۱ " " " کمر سے تو جائز ہے.(البدر هر ستمبر اشه) یکے نیک خلق و خلق پوش بود که در مصر یک چند خاموش بود ایک اچھے اخلاق کا مالک گودڑی پوش ، مصر میں کچھ عرصہ بالکل خاموش رہا.جہانے برو بود از صدق جمع چو پروانه ها وقت شب گرد شمع اخلاص سے ایک دنیا اسکے گرد جمع تھی، جیسے رات کے وقت شمع کے گرد پروانے.شبے در دل خویش اندیشه کرد : که پوشیده زیر زبان است مرد ایک رات اس نے اپنے دل میں سوچا کہ انسان کاکماں کی زبانی نیچے پوشیدہ ہے.اگر ماند فطنت نہاں در سرم چه دانند مردم که دانشورم اگر میری عقل میتر سرین ہی چھپی رہی، تولوگوں کو کیسے معلوم ہوگا کہ کسی بھی عقلمند ہوں.سخن گفت و دشمن بدانست و دوست که در مصر نادان ترا نزد هموست تب اس نے باتیں شروع کر دیں اور دوست دشمن سرنے سمجھ لیا ، کم مصرمیں اس سے بڑا احمق اور کوئی نہیں.

Page 343

۳۱۹ نمبر شمار نام شاعر ۲۲۲ اشعار سعدی حضورش پریشیان شد و کار زشت به سفر کرد و برطاق مسجد نوشت اس کا سکون ختم ہوگیا اور معاملہ بگڑ گیا ، تب وہ وہاں سے کوچ کر گیا اور سجد کی ہوا ہے کچھ گیا.در آئینہ گر روئے خود دید می به بیدانشی پرده ندارید مے " ۲۴۳ کہ اگر میں آئینہ میںاپنا منہ دیکھ لیتا ، تو بیوقوفی سے اپنا پر وہ نہ پھاڑتا.(ضمیمه بر این احمدیہ حصد نجم ) ۲۲۴ نامعلوم آن ترک عجم چوں بہ مئے عشق طرب کرد : غارت گریئے کوفہ و بغداد و طلب کرد وہ بھی معشوق جب عشق کی شرار سے سرشار ہو گیا تو اسی کو نہ، بغداد اور حلب سب کو لوٹ لیا.۲۴۶ ۲۲۷ ۲۳۸ " سعدی صد لالہ رخے بود بعد حسن شگفته نازان همه را زیر قدم کرد عجیب کرد سینکڑوں سرخ پھولوں جیسے چہروں والے حسین پھولوں کی طرح کھلے ہوئے تھے ، اُس نے ناز سے سب کو مات کر دیا عجیب کام کیا.صورت گر دیجائے چین کو توتر زیباش ہیں : یا صورتی روکش چنیں یا تو بہ کن موتور گری اسے چینی منقش کپڑے کے معصور جا اس کی خوبصورت شکل دیکھ، یا ویسی ہی تصویر بنا یا مصوری سے تو بہ کر ہے.ضمیمه با این حمدیہ حصه نیمه ها) نامعلوم بوقت صبح شود همچو روز معلومت به که با که یاخته عشق در شب دیجور صبح کے وقت تیرے متعلق دن کی طرح روشن ہو جائے گا ، کہ اندھیری رات میں کس " کے ساتھ تو نے عشق کا کھیل کھیلا ہے.من ایستاده ام نیک تقسیم بیا بشتاب + که تا سیاه شود روئے کا ذب مغرور میں تو یہ کھڑا ہوں تو کبھی جلد آجا ، تا جھوٹے مغرور کا منہ کالا ہو.(مکتوبات احمدیہ جلد سوم جن)

Page 344

نمبر شماره نام شاعر ۲۲۹ انا معلوم " اشعار به نزدیک دانائے بیدار دل جوئے سیم بہتر ز صد تودہ گل روشن دل دانشمند کے نزدیک جو بھر چاندی ہٹی کے سینکڑوں ڈھیروں سے بہتر ہے.(مکتوبات احمدیہ حصہ سوم ) عمر بگذشت نماندست بجز گامے چند ؛ به که دریاد کسے صبح کنم شامے چند عمر گزرگئی اور چند قدم مزید اٹھانے کے سوا اور کچھ باقی نہیں رہا.بہترہے کہ کسی کی یاد میں چند شاموں کو صبح کریں.( البدر سر جون شاه) ۲۳ ضرب المثل چون بدلت برسی مست نگردی مردمی.ترجمہ : جب تو دولت ملنے پر بھی مست نہ ہو سعدي ۲۳۳ نامعلوم ۲۳۵ تو مرد ہے.( البدر ۱۲ اکتوبر ۶۱۹ ) ابر و باد و مه و خورشید فلک در کار اند به تا تو نانی بکف آری بغفلت نخوری بادل ہوا چاند سورج اور آسمان سب کام کر رہے ہیں، ناتو خوراک حاصل کرے اور غفلت میں نہ کھائے.این هم از بهر تو سرگشته و فرمانبردار + شرط انصاف نباشد که تو فرمان نبری یہ سب تیری خاطر پریشان اور فرمانبردار ہیں ، یہ انصاف نہ ہوگا اگر تو حکم نہ مانے.توضیح مرام بیت جذبۂ شوق بجد گیست میان من و تو که رقیب آمد نشناخت نشان من تو ہمارے درمیان محبت کی کشش اس حد تک ہے ، کہ رقیب آیا لیکن وہ الگ الگ) میری اور تمہاری کوئی نشانی ھی نہ دیکھ پایا (از الراو ام جمعتہ اقول بنت) شمس تبریز بجز یا ہو یا من و دگر چیری نمیدانم.ترجمہ میں اسے وہ یارے میں کے سوا اور کوئی چیز نہیں جانتا.دست بچن اصلا )

Page 345

نمبر شمار نام شاعر استعار ۲۳۶ ضرب المثل بد گیر از خطا خطا نکند.ترجمہ : بدذات آدمی غلط کام کرنے سے نہیں چوکتا.۲۳۸ T ۳۴۰ نامعلوم (نور القرآن نمبر ۲، حث ) سر نور می فشاند و سگ بانگ می زند به سنگ بپرس خصم تو از ماهتاب چیست چاند نور پھیلاتا ہے اور کتا بھونکتا ہے ، کتے سے پوچھو تجھے چاند سے کیا خفگی ہے.144 ( ایام الصلح اصل ) ضرب المثل چشم ما روشن و دل ماشاء.ترجمہ : ہماری آنکھوں کی روشنی اور دل کی خوشی.ضمیمه بر این احمدیہ حصہ پنجم ۲۷۵) سعدی فرس کشته چندان که شب رانده اند به سحرگه خروشان که را مانده اند انہوں نے رات اتنا چلایاکہ گھوڑاہی مرگیا، اور صبح کے وقت چلاتے ہیں کہ پیچھے رہ گئے (ضمیمه برای احمدی ، حقده تجم بنت ہیں.سعدی ۲۴۱ با علوم | خفته را خفته کی کند بیدار - ترجمہ : سوئے ہوئے کو سویا ہوا کیسے جگا سکتا ہے.بر امین احمد حصہ پنجم بنت ) چنان زندگی کن که با صد عیال نداری بدل غیر آن ذو الجلال تو سینکڑوں اہل و عیال کے با وجود اس طرح زندگی بسر کہ کہ اس ذوالجلال کے سوا تیرے دل میں اور کچھ نہ ہو.(چشمه معرفت ۲ )

Page 346

ضمیمہ نمبر ۳۳۳ اوزان ہر وزن کے نیچے ان نظموں یا متفرق اشعار کے پہلے مصرعے لکھے ہیں جو اس وزن پر ہیں.اور ہر مصرع سے پہلے درثمین فارسی طبع دوم کا صفہ لکھا ہے ، جو اشعار ابھی درثمین میں شامل نہیں ہوئے ان کے مصرعوں سے پہلے ضمیمہ نما نمبرا میں سے اس شعر کا نمبر درج ہے اور ساتھ ہی ضمیمہ کا لفظ لکھ دیا گیا ہے : مصرع اول صفحه مصرع اول بحر ہزج مثمن سالم (مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلین) ۲۹ بدل در دیکه دارم از برائے طالبان حق ۱۲۹ عزیزان بے خلوص و صدق نکشانید را ہے را ۶۶ ۱۲۷ ۱۴۵ ۱۵۲ ترا عقل تو ہردم پائے بند کبر می دارد ۱۷۲ اگر خود آدمی کابل نباشد در تلاش حق کلام پاک آن بیچوں دہد صد جام عرفان را ۱۷۲ چه خوش بونے اگر بر یک امت نوردی بودے ہمیں مرگست کز یاران بپوشد روئے یاران را بکوشید اسے جوانان تا بدین قوت شود پیدا IAD متاب از سرمه رو گر روشنی چشم می باید بده انه دست خود به درختان محبت را نے ترسیم از مردن چنین خوف از دل افگندیم ۲۴۴ ہر آن کاریکه گردد از دعائے محمد جانا نے چو شیر شرزه قرآن نماید رو بخریدن ۲۳۲ بترسید از خدائے بے نیاز و سخت قہار سے

Page 347

مصرع اول مصرع اول صفحه ۲۵۱ YAM گر این کرم یاد آید برو قربانی من صمدی بحجر فضل خداوندی چه درما نے ضلالت را چو آمد ازخدا طاعون ب میں از سیم ارامش ضمیر ام زدرگاه خدا رے بعد اعزاز مے آید به ۲ - بحر ہزج مسدس محذوف (مفاعیلن مفاعیلن فعولن یا فعولان) ۲۹ بیت ہم آن توانا عبست ہر آن ۲۷۹ جهان را دل ازین طاعون دو نیم است ضمیمہ کر جہائے تو مارا کرد گستاخ ۲۸۹ چه شیری یاد تست اسے دستانم بحمد الله که این کمل الجواہر ۲۹۷ چو دور خسروی آغاز آغاز کردند ۱۹۰ تعجب نوریست در جان محمد ۲۹۰ اگر مردی ره مولی طلب کی ۳۰۳ چه شیرین منظری اسے دلستانم ۱۴۵ ۲۱۹ عزیزاں سے دہم سوگند صد بار ۲۴۲ سخن نزدم مران از شهر باید سے ۲۵۰ بحمد الله که آخر این کتابیم ترا با ہر کہ روئے آشنائیست ۳۷۳ تو خواہی خسپ یا خود مردہ سے پاش غریق ورطه بحر محبت ۲۵۰ سلامت بر تو اے مرد سلامت کجا آلی مفسد سے را جائے باشد - بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف محذف المفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ه از وحی خدا صبح صداقت برمیده کس بہر کسے سرند پر جان نفشاند ۱۲۵ عشق است که بر خاک مذلت غلطاند ۲۹۹

Page 348

۳۳۴ مصرع اول مصرع اول بحر ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف مفعول مفاعلن فعولن یا فعلوان) اے دلبرو دستان و دلدار ۱۹۶ اے نیچر شوخ این چه اید است ۱۷۱ این ست نشان آسمانی اسے شوخ ز نا تواں چہ جوئی " اسے سخت اسیر بدگمانی اسے مونس جان بیقرارم ۱۲۵.بحجر رمل مثمن محذوف یا مقصور ( فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن یا فاعلان آں نہ دانائے بود کر ناشکیبائی نفس ۲۹ کر یک پروانه را چول موت مے آید فرانہ ۱۵۹ ۳۶ گر نبود سے در مقابل روئے مکروہ وسیہ است احمد نهان دارد د و ضد را در وجود ا هیچ محبوب نماند، بچھو یار دلبرم صمیم را نگ نام و عزت نیاز دامان ریختیم هست فرقان مبارک از خدا طیب شجر ۱۷۵ چون زمن آید شنائے سرور عالی تبار ۱۳۹ جنس نام و نگ عورت را ز دامان ریختیم ۱۸۹ چون مرانوے پئے قومے مسیحی داده اند ضمیر اسے خدا نو سے وہ این تیره در فرمانی را ۱۹۰ دوستان خود را نشار حضرت جانان کنید در ۱۵۳ را ضمیمه هر چه باید نوعروسی را ہماں سامان کنم 190 ایسے اسیر عقل خود بر پستی خود کم بناز اے خدا اے چارہ ساز ہر دل اند و نگیں ۱۹ روئے دلبر از طلبگاراں تھے دارد حجاب سے سزد گر خون بہار و دیدۂ ہر اہل دیں ۱۹۹ بیکے شد دین احمد پیچ خویش و یار نیست شان حمد را که داند جز خداوند کریم نمیر ۱۵ چون مراحکم از پئے قوم سیحی داده اند IAA

Page 349

۳۲۵ صفحه ۲۲۰ مصرع اول صفحہ کے پرستند بنده را بجز آنکه نا دانے بود ۳۰۱ مصرع اول ہر چه باید نوعروسی را ہماں سامان کنم ۲۴۵ صدق را مردم مدد آید زرب العالمین چوں مراحکم از پیئے قوم سیمی داده اند ۲۹ مهر و روشن شد دل وجانی و درون ازحضرتش ۲۰۵ آنکه آید از خدا آید بدو نصرت دوال مائدہ چیز نیست دیگر خشک نان چیز سے دگر اسمعوا صوت السماء جاء این جاء اسیح آسمان بار و نشان لوقت میگوید زمین مردم نا اہل گوندم که چون عیسی شدی ۳۱ گر به مجنون صحبتی خواهی به بینی زودتر کیا کرو ۲۹۱ آسمان بارد نشان الوقت میگوید زمین ۳۱۳ کے تو ان کردن شمار خوبی عبد الکریم از طمع جستیم هر چیز یکه آن بیکار بود YAY ۲۹۵ اسے سرو جان دلم بروزره ام قربان تو هفت کشور گر ز حالم بے خبر باشد چه باک ۲۹۸ یک نظر سوئے فلک کن یک نظر سوئے زمین ۳۰ ۱۵۱ ۱۵۲ ۶ - بحر رمل مثمن مخبون دفاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن یا فعلان یا فاعلن یا فاعلان خاکساریم و سخن از دره غربت گوئم ۲۷۹ آسمان و مه و خورشید شهادت دادند اسے بسا خانہ فطنت که تو ویران کردی چوں گمان کنم اینجا مد روح قدس ۲۸۷ گرچہ ہر کس زره لاف بیانے دارد اسے محبت عجب آثار نمایاں کردی " ۱۹۴ اے عزیزان مدر دین متین آن کاریست ۲۹۹ اے گرفتار ہوا ور ہمہ اوقات حیات حالیا صلحت وقت دراں سے بینم ۳۰۵ حالیا ۲۲۱ بنگر اسے قوم نشانہائے خداوند قدیر ضمیمه خیز تا انه در ای یار مراد سے طلبیم ساقیا آمدن عید مبارک بادن ۲۴۹ دیدگاه هیست که بینیم زمین پر فساد

Page 350

۱۵ مصرع اول مصرع اول بحر رمل مسدس مخبون محذوف ( فاعلاتن فاعلاتن فاعلن یا فاعلان) در دلم جو شد شنائے سروے ۱۸۴ دایکه و عالم بحشمت نیز ضال ۴۰ هست فرقان آفتاب علم و دین 1A4 مصطفی را چون فروتر شد مقام حاجت نور سے بود هر چشم را ضمیمه شد ترا این برگ و بار و شیخ و شاب ۱۳۴ ناتوانان را کجا تاب و توان رهبر ماستید ما مصطفیٰ ۱۲۵ چشم گوش و دیدہ بندر اسے حق گزریں ۲۰۲ حمد و شکر آی خدائے کردگار ۱۲۷ 10.اسے خدا اے چارہ آزاید ما وحی حق پرانه اشارات خداست ۱۵۰ ۱۵۳ 146 ۱۲۸ موسم سینه می باید تهی از غیر بار ۲۱۵ جان فدائے آنکه او جان آفرید ترک خوبی میکنا ند خوب تر ۲۱۹ گر ہمیں لاف و گزاف و شیخی است این نه از خود هست بوش جان شان ۲۲۰ صادق آن باشد که ایام بلا اسے خدا جانم بر اسمرارت، فدا ۲۲۳ اسے فرید وقت در صدق و صفا عہد شہدانہ کردگاریہ بے چگوں ۲۴۳ برد باری میکنند زور آور سے ۱۶۹ اسے خُدا اسے مالک ارض و سما ۲۴۴ اسے خدا اسے چشمہ نور بدی گر خدا از بنده خوشنود نیست ۲۴۵ ذلت صادق محجو اسے بے تمیز ۱۷۲ رحمت خالق که حریر اولیاست ۲۴۶ اسے قدیر و خالق ارض و سما ضمیمه بر سر سه صد شمار این کار را ۲۵۰ سال دیگر را که می داند حساب ضمیمه سلطنت برطانیه تا هفت سال خلق و عالم محله در شور و شراند 14+ ۲۵۱

Page 351

۳۲۷ PA.مصرع اول مصرع اول اسے پیٹے تحقیر من بستہ کر ۳۰۴ مرد میدان باش و حال ما بین آن جوانمرد و حبیب کمردگار ۳۰۰ آید آن روز یکه تخلص شود ضمیر ۲۳ نصرت و فتح و ظفر تا بیست سال ۲۸۹ این همه وحی است از رسب السما " د بد به خسرویم شد بلند انه خدا یا بند مردان خدا ضمیمه شد جهان عشق بروئے آشکار ۳۸۰ ہر کہ بے تحقیق بک شاید دین ۳۰۱ آنکه گوید ابن مریم چون شدی - بهمن صید کردن کار ما آمد مگر بورترز من سالم مستفعلن مستخط مستفعلی مستقطن) اے خالق ارض و سما بر من در رحمت کشا - بحر مضاع مثمن اخرب مکفوف محذوف مفعول فاعل مفاعیل فاعلن یا اعلان) ضمرا چون نیست بیک گسے تاب ہمسری 14.جائی که از مسیح و نزولش سخن رود ضمیمه هرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق ۱۹۴ قربان نست جان من اسے یار مستم ۱۴۵ جان و دلم فدائے جمال محمد است ۲۱۸ آنانکه گشت کوچہ جاناں مقام شان ۱۳۹ اسے غافلان فانکند ایں سرائے خام ۲۱۹ سینگر که آن موید من شیخ نجف را ۱۵۲ ان صید تیرہ بخت کہ بند سے بچائے اوست (۲۵۲) گر میر خویش بر کنم از روئے دلیرم

Page 352

۳۲۸ مصرع اول مصرع اول ضمیمه از افترا و کذب شماخون شد است دل ۳۰۰ مردم بدر عشق و صنم را خبر نه شد ۲۹۱ امن است در مقام محبت سرائے ما و امن کشان تروی زِمَن اسے یارِ مہوشم ۳۰۰ به سم ۳ از بندگان نفس ره آن مکان میپرس آنانکه بر دعاوی ما حمله پا کنند " TAI رفتی و در دعشق بجانم گذاشتی ضمیمه آمد تمام شهر به بیمار پرسی ام دردا که حین صورت فرقاں عیاں نماند این کارا نه تو آید و مردان چینی کنند بحر مضارع مثمن اخرب مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن از نور پاک قرآن صبح صفا و میده ۱۵۱ تا بر دلم نظر شد انه مهر ماه مارا بحر خفیف مسدس مخبون محذوف یا مکسور فعلاتن یا فاعلاتن مفاعل فعلن یا فعلان مردم از کارخ عالم آواز میست ضمیمه پشت بر قبله می کنند نماز هر که تف افگند به مهر منیر ۲۴۹ بر معتام فلک شده یا رب عیش دنیائے دوں دے چند است ۲۵۲ ۲۵۲) انه برایش محمد حسن را ۴ اسے در انکار مانده از الهام ۲۸۹ تا شود پیر کودک نادان اے سرخود کشیده اند فرقان ۳۲۴ کے شوی عاشق رخ یار سے ۱۶۹ اے خداوند رہنمائے جہان ضمی میں اسے بسا آرزو که خاک شده بسا 64

Page 353

مصرع اول مصرع اول ۳۷۴ رائے واعظ اگر چہ رائے من است بگرفتند راه مولی را ۳۷۵ من نه واعظ که عاشق زارم صمیم ۳ بهمین مردمان بیاید ساخت ۳۷۶ کاش تا دوست راه یا فتم راه یافته YAF سے تعلیم وید آوارہ رونق دیں عقایدت برده ۱۲ - سحر محنت مخبون محذوف یا مقطوع (مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن یا فعلان) محبت تو دوائے ہزار بیماریست ٢٩٠ رسید مرده که ایام نو بہار آمد ضمی رسید مژده که ایام غم نخواهد ماند ۲۹۳ رسید مرده که آن یار دلپسند آمد محمد است امام و چراغ ہر دو جهان ۲۹۷ مرانه زید و عبادت نه خدمت و کاریست ۲۵۴ بہر دم مددے انہ خُدا ہمے آید ۲۹۸ رسیده بود بلائے و سے بخیر گذشت ہماں زر نوع بشر کامل از خدا باشد طریق زہد و تعبد ندانم اسے زاہد ۲۸۰ YAY نشان اگرچه نه در اختیار کس بودست ۳۷۵ نه در فراق قرار آیدم نه وقت وصال بهر دم از دل و جان وصف یار خود بینم ۱۳۷۰ تو نور هر دو جهانی تراشناخته ام ۱۳- بحر متقارب من سالم یا محذوف فعولن فعولن فعولن فعولن یا فعول یا فعل) بیا اسے طلبگار صدق وصواب الا اسے کمر بسته بر افترا

Page 354

14.141 مصرع اول مصرع اول زعشاق ترآن و پیغمبریم ۲۹۳ الا اسے کہ ہشیاری و پاک زاد در ان ابن مریم خدائی نبود ۲۹۵ تزلزل در ایوان کسری فتاد ہماں یہ کہ جان در ره او فشانم ضمیمہ سر انجام جاہل جہنم بود خدا چون به بند و دو چشم کسے ضمیمه ۳ عجب دارم از لطفت اسے کردگار درا تو یک قطره داری زعقل و خرد مباش ایمین از بازی روزگار توانم که این عہ رو پیماں کنم تو مردان آن راه چون سنگری ضمیمه چوکا فرشنا سانتر از مولولیت صمیم همه دی که نازیستن مرد را ضمیمه قدیمان خود را با فرائے قدر مسکن تکیه بر عمر نا پائیدار ۲۵۲ دلم سے بلرزد چو یاد آورم سپاس آن خداوند یکتائے را ضیلم حریفے کہ در شنبہ سے داشت جان همیشه سپردم بتو مایه خویش را ۲۹۳ ریا گوسفندان عالی جناب بحر صریح مسدس مطوی مكسوف مفتعلن مفتعلن فاعلن ) ۲۵ معنی دیگر نه پسندیم ما

Page 355

۳۳۱ ۱۵- اوزان رباعی مصرع اول مصرع اول رام مفعولن مفاعلن مفاعیلن فع رسم مفعول مفاعلن مفاعیل فعول پر پرده که بود از میان برخیزد این نفس دنی که صد ہز ارش دین است (۲) مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع بچوں بندہ شناخت برای عز و جلال چون رنگ خودی رود کسی را از عشق (۵) مفعول مفاعلن مفاعیل فعل خوش باش که عاقبت نکو خواهد بود ضمیمه دیر آمده زراه دور آمده از مصلحته دگر طرف بینیم لیک آنکس که بتو رسد شهان را چه گند (۳) مفعول مفاعلن مفاعیلن فع بافتر تو فتر خسروان را چه کند آنجا که محبتے نمک میریزد بعد از تو جلال دیگران را چه کند اسے یار نوں لبس است روئے تو مرا خاموش شود بوعشق شور انگیز د بہترہ ہزار خلد کوئے تو مرا بارش زکرم برنگ خوش آمیزد ہر لحظہ نگاہ ست سوئے تو مرا ضمیمہ اسے فخر رسل قرب تو معلوم شد بر عزت من کسے اگر حمله کند

Page 356

مصرع اول مصرع اول صبر است طریق، ہمچو خوئے تو مرا (۷) مفعول مفاعیل مفاصیل فعل جنگ است نه بر آبروئے تو مرا من چیستم و چه عز تم مست مگر دیوانه تو بر دو جہاں را چه کند (4) مفعول مفاعیل مفاعیلن فع دیوانه کنی هر دو جهانش بخشی

Page 356