Language: UR
مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن،مشنری انچارج جماعت انگلستان نے جماعت احمدیہ انگلستان کے 2003ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر مذکورہ بالا عنوان پر تقریر فرمائی جسے موضوع کی اہمیت اور مضمون کی مستقل افادیت کی بناء پر نظر ثانی اورضروری اضافوں کے بعد کتابی شکل دی گئی ہے جس میں اختصار کے ساتھ جماعت احمدیہ کا تعارف کروا کر بتایا گیا ہے کہ جماعت نے دنیا کو بتایا ہے کہ ایک زندہ خدا موجودہے، حقیقی اسلام کونساہے، پاکیزہ اسلامی معاشرہ کس نے تشکیل دیا ہے،خلافت کا انعام کس کے پاس ہے، اختلافی مسائل میں حق پر کون ہے، قرآن کریم کا ارفع مقام دنیا پر ظاہر کیا، نیز جماعت احمدیہ کی مختلف النوع غیر معمولی قربانیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اعداو شمار اور واقعات سے مزین اس کتاب میں حوالہ جات اور پیشکش کا اعلیٰ معیار قائم رکھا گیا ہے۔
احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟ از قلم مولانا عطاءالمجیب صاحب راشد امام مسجد فضل لندن
Ahmadiyyat ne duniya ko kia diya? (Urdu) (What has Ahmadiyyat given to the World?) Full text of a speech delivered by Maulana Ataul Mujeeb Rashed, Imam of the Fazl Mosque, London at the 37th Jalsa Salana (Annual Gathering) of UK held on 25-27 July 2003.Printed at Raqeem Press, Islamabad, Surrey UK First edition: August 2003
7 10 13 18 21 ه یه له له 19 25 28 30 30 30 32 33 36 پیش لفظ احمدیت کیا ہے؟ زندہ خدا عطا کیا حقیقی اسلام پاکیزہ اسلامی معاشرہ پاکیزہ تبدیلیاں خلافت احمدیہ کا انعام نظام جماعت اختلافی مسائل میں صحیح فیصلہ وفات حضرت عیسی علیہ السلام ختم نبوت کا حقیقی مفہوم قرآن مجید کا ارفع مقام روحانی خزائن مندرجات
39 39 41 44 46 50 52 55 59 63 خدمت کے میدان میں سرگرم عمل بے لوث خدمت خلق ایم ٹی اے MTA مالی قربانیاں اولاد کی قربانی قربانیوں کے وسیع میدان تبلیغ اسلام کا جذ بہ اور قربانیاں قبولیت دعا کا عرفان اور تجربہ اختتامیه
7 پیش لفظ جماعت ہائے احمد یہ برطانیہ کا ۳۷ واں جلسہ سالانہ ۲۵.۲۶ اور ۲۷ جولائی ۲۰۰۳ کو اسلام آباد (ٹلفورڈ.سرے) میں منعقد ہوا.اس جلسہ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ یہ خلافت خامسہ کا برطانیہ میں منعقد ہونے والا پہلا جلسہ سالانہ تھا اور اس لحاظ سے بھی پہلا جلسہ سالا نہ تھا جس میں سیدنا حضرت امیر المومنین مرز امسرور احمد خلیفتہ انبیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بطور خلیفتہ امسیح شرکت فرمائی.آپ کے پر مغز اور دلوں میں حرارت ایمانی پیدا کرنے والے زوردار خطابات شر کا ء جلسہ کے لیے ازدیاد علم و یقین کا موجب ہوئے فــالـحـمـد لـلـه علـى ذالک.اس تاریخی جلسہ میں اس عاجز کو “ کے موضوع پر تقریر کرنے کی سعادت ملی.تقریر کی تیاری سے قبل میں نے حسب سابق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں دعا کے لئے مودبانہ درخواست کی تو حضور انور نے از راہ شفقت جواباً تحریر فرمایا: آپ کا خط ملا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی تقریر کے لیئے احسن رنگ میں تیاری کی توفیق عطا فرمائے.آپکے دماغ کو روشن فرمائے اور زبان کی گر ہیں کھول
8 دے.رب اشرح لي صدري و يسر لي أمرى والی دعا کا ورد کرتے ہیں اور مضمون کی تیاری شروع کر دیں.اللہ فضل فرمائے اور آپ کی نصرت فرمائے.“ الحمد لله ثم الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کی برکت سے ہر قدم پر میری راہنمائی اور دستگیری فرمائی.فالحمد للہ علی ذالک.متعد د احباب نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ موضوع کی اہمیت اور مضمون کی مستقل افادیت کے پیش نظر اس تقریر کو کتابی شکل میں شائع کر دیا جائے تو بہت مناسب ہوگا.چنانچہ اس تقریر پر خاکسار نے نظر ثانی بھی کی اور بعض ضروری اضافہ جات کے ساتھ اب یہ احباب جماعت کی خدمت میں پیش ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کوشش کو قبول فرمائے اور اس کتاب کی اشاعت ہر لحاظ سے بہت مفید اور با برکت ثابت ہو.خدا کرے کہ یہ کتاب غیر از جماعت دوستوں کے لئے بھی تسلی اور تشفی کا موجب ہو اور انہیں قبول حق کی توفیق عطا ہو آمین.کتاب کی اشاعت کے سلسلہ میں مکرم وسیم احمد طاہر اور عزیزم بلال احمد وسیم نے میری معاونت کی ہے.اللہ تعالیٰ انہیں اسکی بہترین جزا عطا فرمائے آمین.خاکسار عطاءالمجیب راشد امام مسجد فضل - لندن لندن ۱۴ اگست ۲۰۰۳
بسم الله الرحمن الرحيم هو الذي ارسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون (سورۃ الصف آیت ۱۰) ترجمہ: وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسے دین کے ہر شعبہ ) پر کلینتہ غالب کر دے خواہ مشرک برامنا ئیں.یہ موضوع در اصل ایک سوال ہے جو غیر احمدی حضرات کی طرف سے اٹھایا جاتا ہے.اس سوال میں تعجب بھی ہے اور تجسس بھی ، استفسار بھی ہے اور چھپا ہوا اعتراض بھی.مسلمان تو عام طور پر اس پہلو سے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ہمارا دین، اسلام، ہر لحاظ سے مکمل ہے.اس مکمل دین کے بعد احمدیت ہمیں کس طرح کچھ مزید عطا کر سکتی ہے.اگر یہ کہا جائے کہ احمدیت نے دنیا کو کوئی نئی بات عطا نہیں کی ، صرف اسلام ہی کا پیغام دیا ہے تو پھر ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہمیں
10 اسلام بہت کافی ہے، ہمیں احمدیت کی ضرورت نہیں.اور غیر مسلم حضرات یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر اسلام و احمدیت میں کیا فرق ہے اور اسلام سے ہٹ کر احمدیت نے وہ کونسی نئی بات پیش کی ہے جس پر ہمیں غور کرنا چاہئیے.یہ دو طرفہ سوال تفصیلی جواب کا متقاضی ہے اور یہی تفصیل میں کسی حد تک بیان کرنے کی کوشش کروں گا.وباللہ التوفیق احمدیت کیا ہے؟ احمدیت، احیائے اسلام اور عالمگیر غلبہ اسلام کی وہ عالمگیر تحریک ہے جو اللہ تعالیٰ کے اذن اور اس کی تائید سے جاری ہوئی.احمدیت وہ پودا ہے جو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا.وہ خود اس کی آبیاری کرتا اور حفاظت کرتا ہے.اسی قادر و قیوم خدا کا وعدہ ہے کہ اس کے ہاتھ سے قائم کردہ یہ آسمانی تحریک دنیا میں پھیلے گی ، ترقی کرے گی اور بالآخر کل دنیا پر محیط ہو جائے گی.احمدیت اس خوشخبری کی علمبر دار تحریک ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے پورا ہونے کا وقت اب قریب آ گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق اس دور آخرین میں ہمارے آقا حضرت محمد عربی ﷺ کے احقر ترین غلام اور رسول پاک ﷺ کے سب سے بڑے عاشق اور فدائی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح موعود اور امام مہدی کے منصب پر فائز فرمایا.آپ کی آمد کا مقصد محض اور محض احیائے اسلام، اشاعت اسلام اور غلبہ اسلام ہے.اسلام کی تعلیمات ، جن کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے لفظی اور قطعی کلام قرآن مجید پر ہے، ہر لحاظ سے مکمل اور تا قیامت محفوظ رہنے والی ہیں.ان میں تبدیلی ، ترمیم یا اضافہ کا سوال ہی پیدا نہیں
11 ہوتا.نہ کوئی نیادین آسکتا ہے اور نہ کوئی شریعت جاری ہو سکتی ہے.رسول خدا ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ دور آخرین میں اُس زمانے کے مسلمان اسلام کو بھلا دیں گے اور اپنے من گھڑت عقائد اور اعمال کو اسلام کا نام دینے لگ جائیں گے.پیشگوئی میں یہ بھی ذکر تھا کہ جب حالت یہ ہو جائے گی تو رحیم و رحمن خدا اپنے محبوب کے نام لیواؤں کی اس خیر امت کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑے گا.بلکہ ان کی دستگیری اور راہنمائی کے لئے امام مہدی علیہ السلام کو مبعوث فرمائے گا جو يحي الدين ويقيم الشريعة کے مطابق دین اسلام کو زندہ کرے گا اور شریعت اسلامیہ کو قائم کرے گا.وہ اپنی عظیم قوت قدسیہ سے انہی نام کے مسلمانوں کو کام کے مسلمان بنادے گا اور اس روحانی انقلاب اور حقیقی اسلام کی عالمگیر اشاعت کے ذریعہ بالآخر اسلام ساری دنیا پر غالب آ جائے گا.احمدیت اس صداقت کا اعلان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہ سب وعدے پورے ہو چکے اور جس کے آنے کا وعدہ تھا وہ آچکا.وہ آیا اور بڑی عظمت اور شوکت کے ساتھ اس نے وہ سب کچھ کر دکھایا جو وعدوں میں مذکور تھا.احمدیت نے دنیا کو اسلام سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں دیا اور نہ ہی کچھ دیا جا سکتا ہے کیونکہ اسلام ہر لحاظ سے مکمل ترین مذہب ہے.ہاں احمدیت نے دنیا کو حقیقی اسلام دیا.زندہ خدا دیا، زندہ رسول سے روشناس کیا اور زندہ کتاب پر زندہ یقین عطا کیا.احمدیت نے دنیا کو وہ سب کچھ دیا جو وقت کی ضرورت تھی.احمدیت نے عقائد کی اصلاح بھی کی اور اعمال کی بھی.احمدیت نے دنیا کو حقیقی اسلام سے روشناس کرایا.احمدیت نے دنیا کو صحیح اسلامی تعلیمات کا عرفان عطا کیا.دیگر مذاہب پر اسلام کے مکمل غلبہ کی بنیاد استوار کی.اسلام کی زندگی کا زندہ و تابندہ عملی نمونہ دکھایا.احمدیت نے قرون اولیٰ کی تاریخ دوہراتے ہوئے اپنے
12 ماننے والوں میں ایک پاکیزہ روحانی انقلاب پیدا کر دیا.الغرض یہ سب کا رہائے نمایاں سرانجام دینے کے بعد زمانے کا امام، بانیل مرام اس دنیا سے رخصت ہوا اور آج اسکی جماعت اصلاح عالم، خدمت انسانیت اور اشاعت اسلام کی سچی تڑپ کے ساتھ ساری دنیا میں یہ عزم صمیم لئے سرگرم عمل ہے کہ محمود کر کے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار روئے زمیں کو خواہ ہلانا پڑے ہمیں احمدیت ایک شجر سدا بہار ہے.یہ وہ درخت ہے جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا.اس کے ثمرات شیر میں اور عالمگیر ہیں.عام طور پر ایک درخت کو ایک ہی قسم کے پھل لگا کرتے ہیں.لیکن یہ عجیب درخت ہے جس کو ہر قسم کے تازہ بتازہ پھل لگتے ہیں اور پھل دینے کا کوئی ایک موسم نہیں.ہر آن اسکی شاخیں شیریں میووں سے لدی رہتی ہیں.یہ اسلام کی احیاء نو کا درخت ہے.یہ احمدیت کا زندگی بخش درخت ہے.یہ حضرت محمد مصطفے ﷺ کے غلام صلى الله صادق اور ہمارے امام عالی مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخت وجود کا مظہر ، وہ شجرہ طیبہ ہے جس کی فیض رسانی کا دامن، زمان و مکان کی حدود سے بہت بالا ہے.یہ ایک زندہ درخت ہے جس پر کبھی خزاں نہیں آتی.یہ درخت حوادث کی آندھیوں میں اور بھی تیزی سے پھیلتا پھولتا اور پھل دیتا ہے.جو اس کو کاٹنے کی کوشش کرتا ہے وہ خود کاٹا جاتا ہے.جو اس کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کرتا ہے وہ خود خائب و خاسر اور ناکام و نامراد ہو جاتا ہے.یہ وہ مبارک درخت ہے جس کا رکھوالا خود خدا ہے اس کی حفاظت اور ترقی کا ذمہ دار وہی قادر وتوانا ہے جو سب جہانوں کا مالک ہے.
13 جس طرح نہ زمین کے ذرے گنے جا سکتے ہیں نہ آسمان کے تارے.اسی طرح ناممکن ہے کہ شجر احمدیت کے شیریں ثمرات کا احاطہ کیا جاسکے.احمدیت کے حق میں ظاہر ہونے والے آفاقی اور زمینی نشانوں کا شمار ممکن نہیں.اسی طرح احمدیت نے ساری دنیا کو جو فیوض عطا کئے ، جو برکتیں اور انعامات اہل دنیا کو دیئے اور اس شجرہ طیبہ کو جو شیریں پھل لگے اور لگتے چلے جارہے ہیں ان کو گنے کی کوشش تو کی جاسکتی ہے لیکن ان کو احاطہ بیان میں لانا کسی طرح پر بھی ممکن نہیں ! عالمگیر غلبہ اسلام کے عظیم الشان مقصد کی خاطر احمدیت نے کیا کیا اور احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے متعدد جوابات ہو سکتے ہیں اور ہر جواب اپنے اندر ایک دلکشی اور رعنائی رکھتا ہے کیونکہ ہر جواب دراصل احمدیت کے حسین چہرے کے کسی ایک پہلو سے نقاب کشائی کرنے والا اور اس آسمانی پیغام صداقت کے حسن کو اجاگر کرنے والا ہے زندہ خدا عطا کیا اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان اور یقین در حقیقت مذہب کی بنیاد اور روحانیت کا مرکزی نقطہ ہے.اس کے بغیر مذہب کا تصور ہی کالعدم ہو جاتا ہے.اسلام نے خدا تعالیٰ کی ہستی کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر پیش کیا ہے جو اس ساری کائنات کا خالق و مالک اور رب العالمین ہے.اس خدا کا دیدار اس دنیا میں ممکن ہے.اسلام کا پیش کردہ خدا ایک زندہ اور حی و قیوم خدا ہے اس کی ہستی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا اور ان کا جواب دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ادعوني استجب لكم (سورۃ مومن آیت ۶۱)
14 کہ اے میرے بندو! مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں سنوں گا اور اسی خدا کا یہ وعدہ بھی ہے کہ اگر تمہارا ایمان سچا ہوگا اور تم استقامت کی چٹان پر پختگی سے قائم ہو گے تو تمہیں وحی والہام کی دولت عطا ہوگی اور تم فرشتوں سے ہمکلام ہو سکو گے.اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.لیکن افسوس کہ جب اس دور آخرین میں مسلمانوں پر عقائد و اعمال میں کمزوری کا دور آیا تو انہوں نے ان پیاری تعلیمات کو یکسر فراموش کر دیا.مجیب الدعوات زندہ خدا پر ان کا ایمان اٹھ گیا.اللہ تعالیٰ کی لقاء اور وحی والہام کے منکر ہو گئے.یہ ساری باتیں جو قرآن مجید میں بڑی شوکت اور تحدی کے ساتھ بیان ہوئی ہیں اور جو در اصل اسلام کو سب مذاہب سے ممتاز کرتی ہیں افسوس کہ اس دور کے مسلمان ان سب باتوں سے کلیہ نا آشنا ہو گئے.خدا تعالیٰ کی پیاری ہستی کا دلر با تذکرہ ان کی مجالس سے مفقود ہونے لگا.کوئی نہ تھا جو خدا کے زندہ کلام کی بات کرتا ہو.قبولیت دعا کا ذکر بھی ایک قصہ پارینہ بن گیا.اس انتہائی تاریکی اور مایوسی کے عالم میں قادیان کی گمنام ہستی سے یہ نعرہ توحید بڑے جلال سے بلند ہوا وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار یہ پُر شوکت اعلان حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا.آپ نے دل شکستہ مسلمانوں کو یہ نوید سنائی کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے جس کی پیاری صفات حسنہ میں سے کوئی صفت بھی مرور زمانہ سے معطل نہیں ہوتی.وہ آج بھی سنتا ہے جیسے پہلے سنتا تھا، وہ آج بھی بولتا ہے جیسے پہلے بولتا تھا.فرمایا: وو زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ سے زندہ خدا ملے.زندہ خداوہ ہے جو ہمیں
15 بلا واسطہ ملہم کر سکے اور کم سے کم یہ کہ ہم بلا واسطہ ملہم کو دیکھ سکیں.سوئیں تمام دنیا 66 کو خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے." ( مجموعہ اشتہارات مطبوعه لندن ۱۹۸۴ جلد ۲ صفحه ۳۱۱) آپ نے اپنی ذات اور ذاتی تجربہ کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے دنیا کو یہ خوشخبری عطا کی کہ دیکھو خدا نے مجھے اس نعمت سے سرفراز فرمایا ہے.آپ نے فرمایا: ” خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہو جانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں.ہرگز ممکن نہیں.آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے اور کس قوم کے ساتھ ہے.وہ اسلام کے ساتھ ہے.اسلام اس وقت موسی کا طور ہے جہاں خدا بول رہا ہے.وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہو گیا آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کر رہا ہے.“ (روحانی خزائن مطبوعه لندن ۱۹۸۴ جلد ۱۱ ضمیمه انجام آنقم صفحه ۶۲) آپ کا یہ اعلان ایک انقلاب آفریں اعلان تھا جس نے مذہب کی دنیا میں ایک تہلکہ مچادیا.اللہ تعالیٰ کی ہستی کا یہ نقیب اور شاہد ایک مقناطیسی وجود ثابت ہوا جس کی طرف سعید فطرت لوگ قافلہ در قافلہ آنے لگے اور اس وجود کے فیضان سے سیراب ہو کر با خدا انسان بن گئے یہ وہ گروہ قدسیاں تھا جو ایک عالم کے لئے خدا نمائی کا وسیلہ بن گیا.احمدیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے دنیا پر احسان عظیم فرمایا کہ دنیا کو وہ برگزیده مسیح موعود اور امام مہدی عطا کیا جس نے دنیا کو زندہ خدا کی خبر دی ، زندہ خدا کی زندہ تجلیات پر ایک زندہ ایمان اور محکم یقین بخشا.اپنی ذات کو ہستی باری تعالیٰ کے ایک زندہ گواہ کے طور پر پیش کیا.اور
16 اپنے ماننے والوں میں اپنی عظیم قوت قدسیہ کے ذریعہ ایسا پاکیزہ انقلاب پیدا کیا کہ وہ خدا نما وجود بن گئے.احمدیت نے ایسے خدا نماقد وسیوں کا ایک گروہ کثیر دنیا کو عطا فرمایا جن کے زندگی بخش تجربات ہمیشہ نسل انسانی کے لئے خدا نمائی کے راستوں کو منور کرتے رہیں گے.ہزاروں مثالوں میں سے ایک مثال عرض کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت مولوی محمد الیاس خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ریاست قلات کے قاضی القضاة عبدالعلی اخوند زادہ نے مستونگ کے ایک بڑے مجمع میں علی الاعلان آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا سارے صوبہ سرحد میں آپ کو کوئی روحانی پیر نہیں ملا جو آپ نے پنجاب جا کر ایک پنجابی مرزا غلام احمد قادیانی کی بیعت کر لی ہے؟ حضرت مولوی صاحب نے جو برجستہ اور ایمان افروز جواب دیا وہ سننے سے تعلق رکھتا ہے.آپ نے فرمایا: " در اصل بات یہ ہے اخوند زادہ صاحب! مجھ سے میرا خدا گم ہو گیا تھا.میں ہر مذہب میں اس کو ڈھونڈتا رہا.ہر مذہب مجھے پرانے قصوں کی طرف لے جاتا.میں ہر ایک سے پوچھتا کیا وہ خدا اب بھی بولتا ہے؟ تو وہ کہتے اب نہیں بولتا.میں مسلمانوں کے بہتر فرقوں میں سے ہر ایک کے پاس گیا، تو انہوں نے بھی مجھے یہی جواب دیا کہ حضرت محمد مصطفے ﷺ کے بعد اب خدا نہیں بولتا.وحی کا دروازہ مطلق بند ہے.تب میں اس نتیجے پر پہنچا کہ خدا حقیقت نہیں ہے.بلکہ ایک فلسفہ ہے، جو پرانے قصوں پر منحصر ہے.ورنہ اللہ تو وہ ہونا چاہئے ، جس کی تمام صفات حسنہ کی کان ہو، کوئی صفت بھی معطل نہ ہو.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ
17 پہلے بولتا تھا اور اب اس کی صفت تکلم پر مہر لگ جائے.میں عنقریب دہریہ ہونے والا تھا.پیچھے سے ایک نرم ہاتھ نے میرے کندھے کو پکڑا اور کہا: کیوں محمد الیاس کیا بات ہے، کیوں پریشان ہے، میں نے کہا کہ خدا کی حقیقت معلوم ہوگئی ، وہ ایک فلسفہ ہے.حقیقت میں نہیں ہے.کیونکہ جس سے پوچھتا ہوں وہ یہی کہتا ہے کہ خدا پہلے بولا کرتا تھا، اب نہیں بولتا.اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور یہ شخص حضرت مرزا غلام احمد قادیانی تھے.اور کہا آؤ میں تمہیں بتلاتا ہوں، وہ خدا اب بھی بولتا ہے.شرط یہ ہے کہ تم میرے ہاتھ پر بیعت کرو کیونکہ میں خدا کی طرف سے مسیح اور مہدی ہوں وہ خدا تم پر بھی نازل ہو جائے گا.اگر چاہے تو تم سے بھی کلام کرے گا.اب عبد العلی اخوند زادہ صاحب، میں خدا کی ذات کی قسم کھاتا ہوں ، جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا خدا مجھ سے بھی کلام کرتا ہے.میں آپ سے پوچھتا ہوں کوئی ہے جو دعویٰ سے کہے کہ خدا اس سے بولتا ہے؟ تمام مجمع پر سناٹا چھا گیا اور کچھ دیر خاموشی رہی اور کسی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو مولوی صاحب نے فرمایا: میں ایسے مسلک اور ایسے فرسودہ اسلام کو جوصرف رسوم و بدعات کا اسلام رہ گیا ہے کیا کروں؟ جس میں خدا کلام نہیں کرتا اور کیوں نہ مرزا غلام احمد قا دیانی کے اسلام کو قبول کروں جو حقیقی اسلام ہے جس سے خدا ملتا ہے اور پیار اور محبت کے کلام سے نوازتا ہے.66 (حیات الیاس.مصنفہ عبد السلام خان ص۱۱۸)
18 یہ ہے وہ زندہ خدا اور اسکی زندگی کا ایمان افروز تجر بہ جواحمدیت نے دنیا کو عطا کیا ہے! حقیقی اسلام اس کا ایک جواب یہ ہے کہ احمدیت نے دنیا کو حقیقی اسلام عطا کیا.وہ اسلام جو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمدمصطفی ﷺ کا مقدس اسلام ہے.وہ سچا اور حقیقی پیغام ہدایت جو قرآن مجید پر مبنی ہے جس کی بہترین تفسیر سنت رسول اور جس کی بہترین تفصیل احادیث رسول میں نظر آتی ہے.حق یہ ہے کہ انسانیت کے دکھوں کا مداوا اور کل عالم کی خرابیوں کا اگر کوئی تریاق دنیا میں ہے تو وہ یہی اسلام ہے جس کی تعلیمات نے عرب کے وحشی ، مشرک اور بے دین معاشرہ میں یکدفعہ ایسا انقلاب پیدا کر دیا کہ نہ پہلے کسی آنکھ نے دیکھانہ کسی کان نے سنا.ہاں وہی انقلاب جو ہمارے ہادی و مولیٰ حضرت محمد مصطفے ﷺ کی اندھیری راتوں کی دعاؤں کا نتیجہ تھا جس نے ضلالت و گمراہی کے سب زنگ دھو ڈالے اور گناہوں کی تاریکیوں کو کاٹ کر نیکی، ہدایت اور روحانیت کا آفتاب عالمتاب دنیا پر چڑھا دیا.یہی سچا اسلام ہے اور یہی اسلام ہے جو آج بھی دنیا کی سب خرابیوں کا علاج ہے.یہی حقیقی اسلام ہے جو اس زمانہ میں احمدیت نے دنیا کو دیا.احمدیت نے دنیا کو کوئی نیا اسلام نہیں دیا بلکہ احمدیت تو نام ہے ہر نئے اور خود ساختہ اسلام کوختم کرنے کا.اور محمد مصطفی ﷺ کے لائے ہوئے حقیقی اسلام کو دوبارہ قائم کرنے کا.احمدیت نے اس حقیقی اسلام کی زندہ مثالیں دنیا کو عطا کیں اور اسلام کے اس زندہ اور زندگی بخش پیغام کے عملی نمونے دنیا کو دکھائے.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف غیروں نے بھی برملا کیا.
19 عالم اسلام کے مشہور مفکر اور شاعر علامہ اقبال کہتے ہیں : In the Punjab the essentially Muslim type of character has found a powerful expression Qadiani-sect; the in so-called (The Muslim community- A sociological study by Iqbal) وو پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں“ (اردو ترجمہ از مولانا ظفر علی خان بحوالہ ملت بیضاء پر ایک عمرانی نظر طبع اول ۱۹۷۰ باہتمام م.ع.سلام آئینہ ادب چوک مینار.انار کلی لاہور نیز هفت روزه رفتار زمانہ لاہور بابت ۲۰ ستمبر ۱۹۴۹ صفحه ۱۸) مشہور صائب الرائے اسلامی مصنف اور صحافی علامہ نیاز فتح پوری نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق لکھا: اس میں کلام نہیں کہ انہوں نے یقیناً اخلاق اسلامی کو دوبارہ زندہ کیا اور ایک ایسی جماعت پیدا کر کے دکھا دی جس کی زندگی کو ہم یقیناً اسوہ نبی کا پر تو کہہ سکتے ہیں.(ملاحظات نیاز فتح پوری مرتبہ محمد اجمل شاہد ناشر جماعت احمدیہ کراچی صفحه ۲۹ بحوالہ رسالہ نگارلکھنونومبر ۱۹۵۹) پاکیزه اسلامی معاشرہ آج عالم اسلام انتشار کا شکار ہو چکا ہے.محبت و اخوت نام کی چیز من حیث المجموع مسلمانوں کے دلوں سے عنقا ہو چکی ہے.مسلم ممالک کے شہر فحاشی اور بدکرداری کے مرکز بن
20 چکے ہیں.ان کی بستیاں اور گلی کوچے اسلامی اخلاق سے عاری نظر آتے ہیں.اسلامی ملکوں کے اخبارات دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ساری دنیا کے جرائم نے ان ممالک میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے.اسلامی تعلیمات اور اخلاقی اقدار کا اس حد تک دیوالیہ نکل چکا ہے کہ اس بد کردار معاشرہ کو اسلام سے منسوب کرنا دین اسلام کی سخت تو ہین ہے.اس حالت کو دیکھ کر یہ شعر زبان پر آتا ہے کہ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا جب اس معاشرہ کے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ تو ان کے لئے ہمارا ایک جواب یہ ہے کہ احمدیت نے ہلاکت کے گڑھے پر کھڑی دنیا کو حق اور سلامتی کا راستہ دکھایا ہے.احمدیت نے دنیا کو ایک سچا اور پاکیزہ اسلامی معاشرہ عطا کیا ہے جو صحیح اسلامی تعلیمات اور اقدار پر مبنی ہے.اگر کسی کو چشم بصیرت عطا ہو تو اسے یہ معاشرہ ہر ملک میں اور ہر بستی میں احمد یہ جماعت کے اندر نظر آسکتا ہے جہاں اللہ اور رسول کی محبت کے تذکرے جاری ہیں، جہاں کی راتیں اور دن عبادت میں گزرتے ہیں، جہاں اسلام کی تعلیم و تدریس کے با قاعدہ نظام جاری ہیں، جہاں تربیت اور اصلاح اخلاق کی خاطر دن رات کوششوں کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے.جہاں نیکیوں سے محبت اور بدیوں سے نفرت کی جاتی ہے جہاں مسابقت بالخیرات کے روح پرور نظارے دکھائی دیتے ہیں، جہاں قرون اولیٰ کے صحابہ کے رنگ میں رنگین ہو کر جان و مال کے نذرانے پیش کئے جاتے ہیں.کس کس بات کا ذکر کروں یہ وہ زندہ اور زندگی بخش معاشرہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی برکت سے دنیا میں قائم ہو چکا ہے اور جس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے.
21 احمدیت نے اس دور آخرین میں دنیا کو جو اسلامی معاشرہ عطا کیا ہے یہ دراصل ابتداء ہے اس عالمگیر روحانی انقلاب کی جس کی برکت سے دنیا اس صدی میں انشاء اللہ ایک روح پرور نظارہ دیکھے گی.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان اور ساری دنیا اسلام کے آفتاب عالمتاب کے نور سے منور ہو جائے گی.آج احمدیت کا عالم اسلام بلکہ کل دنیا کے لئے پیغام یہ ہے: آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے پاکیزہ تبدیلیاں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود پارس پتھر کی طرح ایک فیض رساں با برکت وجود تھا.جو بھی اس سے سچا تعلق پیدا کرتا اس کی دنیا بدل جاتی.خاک کے ذرے ثریا سے ہمکنار ہو جاتے.ان کی پرانی زندگیوں پر ایک موت وارد ہو جاتی.ایک نئی روحانی زندگی ان کو نصیب ہوتی.گناہوں کی آلائش سے پاک صاف ہوکر نیکیوں کے مجسمے بن جاتے اور جو نیکیوں کے ابتدائی مراحل میں ہوتے وہ کچھ اس طرح راہ سلوک پر دوڑ نے لگتے کہ دیکھتے ہی دیکھتے اعلیٰ روحانی مدارج پر جا پہنچتے.روحانی اور پاکیزہ انقلاب کی یہ عظیم دولت ہے جو احمدیت نے دنیا کو عطا کی اور اس کا سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ میرے ہاتھ پر ہزار ہا لوگ بیعت کرنے والے ایسے ہیں کہ پہلے ان کی عملی حالتیں خراب تھیں اور پھر بیعت کرنے کے بعد ان کے عملی
22 حالات درست ہو گئے اور طرح طرح کے معاصی سے انہوں نے توبہ کی اور نماز کی پابندی اختیار کی اور میں صدہا ایسے لوگ اپنی جماعت میں پاتا ہوں کہ جن کے دلوں میں یہ سوزش اور تپش پیدا ہوگئی ہے کہ کس طرح وہ جذبات نفسانیہ سے پاک ہوں.“ (روحانی خزائن مطبوعه لندن ۱۹۸۴ جلد ۲۲، حقیقته الوحی صفحه ۸۶ حاشیه ) ہندوستان کے ایک مشہور عالم دین مولوی حسن علی صاحب ۱۸۹۴ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دامن سے وابستہ ہوئے.دینی خدمات کی وجہ سے ہندوستان میں ان کا بڑا شہرہ تھا.کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ کو بیعت کر کے کیا ملا.جواب دیا: وو مردہ تھا ، زندہ ہو چلا ہوں.گناہوں کا علانیہ ذکر کرنا اچھا نہیں قرآن کریم کی جو عظمت اب میرے دل میں ہے حضرت پیغمبر خدا ﷺ کی عظمت جو میرے دل میں اب ہے، پہلے نہ تھی.یہ سب حضرت مرزا صاحب کی بدولت..ہے“ تائید حق مؤلفہ مولوی حسن علی صاحب - با رسوم ۲۳ دسمبر ۱۹۳۲.اللہ بخش سٹیم پر لیس قادیان صفحہ ۷۹) حضرت مولانا غلام رسول را جیکی بیان کرتے ہیں کہ نواب خان صاحب تحصیل دار نے ایک بار حضرت مولانا نورالدین سے پوچھا کہ مولانا! آپ تو پہلے ہی با کمال بزرگ تھے.آپ کو حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے زیادہ کیا فائدہ حاصل ہوا.اس پر حضرت مولانا صاحب نے فرمایا: نواب خاں! مجھے حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے فوائد تو بہت حاصل ہوئے ہیں لیکن ایک فائدہ ان میں سے یہ ہوا ہے کہ پہلے مجھے حضرت نبی کریم
23 66 ﷺ کی زیارت بذریعہ خواب ہوا کرتی تھی، اب بیداری میں بھی ہوتی ہے (حیات نور مصنفہ شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل صفحه ۱۹۴) تاریخ احمدیت ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ احمدیت نے نئے شامل ہونے والوں کی زندگیوں میں ایک عظیم روحانی انقلاب پیدا کر دیا.ان کو گناہوں کی آلائش سے پاک کر کے اسلامی تعلیمات پر سچا عامل بنا دیا.ان میں ایسے بھی تھے جو احمدی ہونے سے قبل علاقہ کے خطرناک ڈاکو تھے احمدیت نے ان کو ایسا بدلا کہ وہ خدا نما وجود بن گئے.ایسے بھی تھے کہ رشوت لینا ان کا روزانہ کا معمول تھا احمدی ہوئے تو نوٹوں کی بوری کمر پر اٹھا کر گاؤں گاؤں پھر کر یہ اعلان کرتے کہ جس کسی نے مجھے رشوت دی تھی وہ اپنی رقم مجھ سے واپس وصول کر لے.ایسے عیسائی بھی تھے جو ہر شام سونے سے قبل رسول خدا ﷺ کو گالیاں دیکر سویا کرتے تھے.احمدی ہوئے تو عرق گلاب سے منہ صاف کر کے در و دوسلام پڑھنے کے بعد بستر پر دراز ہوتے ! انگلستان کے بشیر آرچرڈ صاحب عیسائیت سے تو بہ کر کے ۱۹۴۴ میں احمدی مسلمان ہوئے.جوئے اور شراب نوشی سے توبہ کی.اسلامی تعلیم کے ایسے پابند ہوئے کہ دعا گو بزرگ انسان بن گئے.نظام وصیت میں شامل ہوئے ، 1/3 حصہ کی وصیت کی.زندگی وقف کی اور پہلے انگریز مبلغ کے طور پر لمبا عرصہ بھر پور خدمت کی توفیق پائی.سیرالیون کے علی Rogers نے عالم جوانی میں احمدیت قبول کی جبکہ ان کی بارہ بیویاں تھیں.اسلامی تعلیم کی اجازت کے مطابق صرف چار بیویاں اپنے پاس رکھیں اور باقیوں کو رخصت کر دیا.( بحوالہ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ.مارچ ۱۹۸۴ صفحہ ۳۱،۳۰)
24 امریکہ کے ایک مشہور موسیقار نے احمدیت قبول کی تو موسیقی کی رغبت بالکل ٹھنڈی پڑ گئی.اپنی ساری مصروفیات اور ان سے ملنے والی کثیر آمد کو نظر انداز کر کے درویشانہ زندگی اختیار کر لی.تہجد کے پابند ہو گئے.ایسے عاشق رسول بن گئے کہ آنحضرت ﷺ کا نام لیتے ہی آنکھوں سے آنسورواں ہو جاتے ! (بحوالہ ماہنامہ خالد ر بوه جنوری ۱۹۸۸ صفحه ۴۰ خطبہ جمعہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحم الله تعالی فرموده ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۷) نیک اور پاکیزہ تبدیلیوں کے یہ واقعات کوئی افسانے نہیں.یہ حقیقتیں ہیں اور ایسی معجزانہ اور ایمان افروز حقیقتیں ہیں جن سے احمدیت کا دامن بھرا ہوا ہے.یہ کرشمے جگہ جگہ نظر آتے ہیں اور دنیا کا ہر خطہ ان پر شاہد ناطق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں: ” میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے (سیرت المہدی مطبوعہ قادیان ۱۹۳۵ جلد اول صفحه ۱۶۵) ہندوستان کے ایک اخبار نے اس حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا: قادیان کے مقدس شہر میں ایک ہندوستانی پیغمبر پیدا ہوا جس نے اپنے گر دو پیش کو نیکی اور بلند اخلاق سے بھر دیا.یہ اچھی صفات اس کے لاکھوں ماننے والوں کی زندگی میں بھی منعکس ہیں 66 سٹیٹسمین دیلی ۱۲ فروری ۱۹۴۹ بحوالہ تحریک احمدیت از برکات احمد صاحب را جیکی مطبوعہ قادیان ۱۹۵۸ صفحه ۱۳) خاکسار عرض کرتا ہے کہ لاکھوں کا زمانہ تو کب کا گزر چکا اب تو کروڑوں کا زمانہ آ گیا
25 ہے اور اربوں کا زمانہ بھی کچھ دور نہیں.یہ عالمگیر روحانی انقلاب زندگی اور امید کا وہ پیغام ہے جو احمدیت نے دنیا کو دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہی برحق فرمایا تھا: اس درخت کو اس کے پھلوں سے اور اس نیر کو اسکی روشنی سے شناخت کرو گے“ (روحانی خزائن مطبوعہ لندن ۱۹۸۴ جلد ۳، فتح اسلام صفحه ۴۴) خلافت احمدیہ کا انعام جماعت احمدیہ نے دنیا کو نہ صرف حقیقی اسلام سے آگاہ کیا بلکہ وہ روحانی نظام قیادت بھی عطا کیا جس کو اسلامی اصطلاح میں نظام خلافت کہا جاتا ہے.یہ وہ بابرکت نظام ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں سے کیا کہ اعمال صالحہ کی شرط کے ساتھ یہ انعام انہیں ملتا رہے گا.قرون اولیٰ میں اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت خلافت راشدہ کی صورت میں عطا فرمائی جو بعد ازاں ملوکیت میں بدلی اور بالآخر بالکل ختم ہو کر رہ گئی.اس نعمت سے محرومی کے ساتھ مسلمان عملاً ہر اعتبار سے قعر مذلت میں گر گئے.ہر بات میں نحوست اور ہر میدان میں ہزیمت ان کا مقدر بن گئی.اللہ تعالیٰ نے احیاء اسلام کے لئے حضرت امام مہدی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا.آپ کو امتی نبوت کا منصب عطا کیا اور اپنے وعدہ کے مطابق کہ ما كانت نبوة قط الا تبعتها خلافة کنز العمال از علامہ علاؤالدین علی جلد ۱ ۱ صفحه ۱۱۵ حدیث ۳۱۴۴۴ الطبعة الاولى دار الكتب العلميه بیروت لبنان - ۱۹۹۸ )
26 جماعت احمد یہ میں نظام خلافت کو جاری فرمایا.وہ جنہوں نے اس نعمت خداوندی سے منہ موڑا وہ گمراہی اور تاریکی میں بھٹکتے رہے اور آج بھی محرومی اور ناکامی ان کا نصیب بنی ہوئی ہے.لیکن وہ جنہوں نے نور خلافت سے اپنے سینوں کو منور کیا.اس شمع خلافت پر پروانہ وار فدا ہوئے اور خلیفہ وقت کی ہر آواز پر لبیک لبیک کہتے ہوئے جان و مال اور عزت و آبرو کے نذرانے پیش کرنے کو اپنی سعادت سمجھا، دیکھو اور سنو کہ ان پر کس طرح خدا تعالیٰ کے غیر معمولی فضلوں کی موسلا دھار برسات ہوئی.نظام خلافت کی برکت سے جماعت احمد یہ کو نیکی کے ہر میدان میں ترقی اور مضبوطی عطا ہوئی.خوف کی ہر حالت امن میں بدلتی رہی.آج ساری دنیا میں یہ واحد جماعت ہے جو خلافت کے بابرکت نظام سے فیضیاب ہے.جماعت کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ مخالفت کی ہر تحریک خلافت کی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوتی رہی.پیغامیوں کا فتنہ ہو یا احراریوں کا، ۵۳ کے ملک گیر ہنگامے ہوں یا ۷۴ کے بھیانک فسادات اور یا ۸۴ کے بعد کے دلخراش واقعات جن کے نتیجہ میں پاکستان کی سرزمین جگہ جگہ معصوم احمدیوں کے خون سے رنگین ہوگئی ، خلیفہ وقت کی اولوالعزم قیادت اور راہنمائی میں جماعت ہر آزمائش کے وقت مومنانہ شان کے ساتھ آگے سے آگے بڑھتی رہی.خلافت کی برکت سے جماعت نے فتوحات کی بلندیوں کو چھوا اور اسکی فدائیت، قربانی، اور والہانہ عشق و وفا کے معیار بلند سے بلند ہوتے گئے.مصائب کے بھڑکتے شعلوں میں بھی کوئی ان کے چہروں کی مسکراہٹیں نہ چھین سکا.وہ جس نے کہا تھا کہ میں احمدیوں کے ہاتھوں میں کشکول پکڑا دوں گا ، وہ تختہ دار پر لٹکتا نظر آیا اور جس نے یہ تعلی کی تھی کہ میں قادیانیت کے کینسر کو ختم کر کے دم لوں گا وہ اسی دنیا میں جہنم کی آگ میں ایسا بھسم ہوا کہ جسم کا کوئی
27 27 ایک حصہ بھی سلامت نہ رہ سکا.خلافت کا یہ انعام ایک خدا دا د ا نعام ہے یہ نظام انسانی تدبیروں سے نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ سے قائم ہوتا ہے.یہ نظام وحدت امت کی جان ہے.یہ شیرازہ بندی کی اساس ہے.یہ فتح وظفر کی کلید ہے.یہ مومنوں کے ایمان ویقین کی نشانی ہے.اسی نظام خلافت سے اسلام کی حیات نو وابستہ ہے.یہی ہے وہ بابرکت آسمانی نظام جس کے قیام کی بشارت ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے ﷺ نے ان الفاظ میں دی تھی ثم تكون خلافة على منهاج النبوة (مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۲۷۳ مطبوعہ المكتب الاسلامي للطباعة والنشر بيروت) خدائے ذوالمنن کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں خلافت کی یہ نعمت عطا کی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ۷۲ فرقوں کے مقابل پر یہی وہ واحد جماعت ہے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس انعام کی مستحق اور صراط مستقیم پر گامزن ہے.پس یہ ہے وہ عظیم الشان پیغام جو اللہ تعالیٰ نے اس نظام خلافت کے ذریعہ ساری دنیا کو دیا ہے کہ اے وہ لوگو جو حصارِ عافیت کی تلاش میں ہو، اگر تم واقعی امن وسلامتی کی راہوں کے متلاشی ہو تو آؤ اس نظام خلافتِ احمدیہ کے عافیت بخش سائے تلے آجاؤ کہ آج اس سایہ کے سوا کوئی اور سایہ نہیں جو تمہیں حقیقی امن و سکون اور حقیقی زندگی عطا کر سکے.آؤ اور اس روحانی نظام وحدت کے سایہ میں آجاؤ وگرنہ یا درکھو کہ خلافت کے بغیر تمہارے نصیب میں گمراہی بدنصیبی اور ناکامی کے سوا کچھ نہیں.امام الزمان کی یہ آواز سنو : کے لوگو ادھر آؤ کہ نکلا آفتاب وادی ظلمت میں کیا بیٹھے ہو تم لیل و نہار
28 صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف، میں عافیت کا ہوں حصار نظام جماعت ہمارے آقا ومولیٰ حبیب خدا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ جب آخری زمانے میں مسلمان 73 فرقوں میں بٹ جائیں گے تو ان میں صحیح راستہ پر گامزن ایک خوش نصیب فرقہ کو ہم کس طرح پہچان سکیں گے؟ صاحب جَوَامِعُ الْكَلِمِ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشکل سوال کا جواب صرف دو لفظوں میں دیدیا.فرمایا: وهي الجماعة (مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۱۰۲ مطبوعه بيروت وسنن ابن ماجه کتاب الفتن باب افتراق الامم.دارالکتب العلميه بيروت) خوب کھول کر سن لو کہ جنتی فرقہ کی نشانی یہ ہے کہ وہ ایک جماعت ہوگی.نام بھی جماعت اور کام بھی جماعت.جماعت کے لفظ کی خوبی اس میں ہوگی.اس ایک لفظ میں پہچان کی کنجی ہے.جماعت کا لفظ ایسی متحد اور منظم جمعیت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بنیان مرصوص ہو، جس کا ایک واجب الاطاعت امام ہو اور جماعت کا ہر فر د نظام کے ساتھ پوری طرح منسلک ہو.آج دنیا کے پردہ پر اگر یہ کیفیت کسی اسلامی گروہ پر صادق آتی ہے تو وہ صرف اور صرف جماعت احمد یہ ہے اور یہی وہ تصویر جماعت اور نظامِ وحدت اور منظم نظامِ جماعت ہے جو جماعت احمدیہ نے مسلمانوں کی پراگندگی کے اس دور میں ان کو عطا کیا ہے.جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم نے نظام خلافت عطا کیا ہے جو عـلـى منهاج النبوۃ قائم ہے.خلیفہ خدا
29 بناتا ہے وہ جماعت کا روحانی اور انتظامی سربراہ اور اس کا دل ہوتا ہے.خلیفہ وقت خدا کو جوابدہ اور ہر فر دخلیفہ کو جوابدہ ہوتا ہے.نظام خلافت کے تابع جماعت احمدیہ کے اندر ایک ایسا مضبوط، مستحکم اور تفصیلی نظام جماعت قائم ہے جو ہر پہلو سے بے مثال ہے.صدر انجمن احمد یہ جماعت کا مرکزی انتظامی ادارہ ہے.مختلف شعبہ جات کے لئے نظارتیں قائم ہیں.پاکستان سے باہر کے ممالک میں تبلیغ و اشاعت اسلام کے لئے تحریک جدید کا وسیع نظام جاری ہے.دیہاتی علاقہ جات میں خصوصیت سے تبلیغ و تربیت کے لئے وقف جدید کا نظام موجود ہے اب اس کا دائرہ کار بیرونی ممالک تک وسیع ہو چکا ہے.دینی اور فقہی امور میں راہنمائی کے لئے دارالافتاء اور تنازعات کے نپٹانے کے لئے دارالقضاء کا نظام ہے.نظام خلافت کے بعد سب سے اہم مشاورتی ادارہ مجلس شورای کے نام سے ساری دنیا میں قائم ہے.ترقی پذیر ممالک میں تعلیمی اور طبی میدانوں میں خدمت کے لئے نصرت جہاں سکیم جاری ہے.مالی امور کی نگرانی کے لئے بیت المال کا نظام ہر سطح پر مضبوط اور مستحکم ہے.جماعت کے اندر مردوں اور عورتوں کی دینی تعلیم و تربیت کی نگرانی اور ترقی کے لئے انصار اللہ.خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ اور ناصرات احمدیہ کی الگ الگ ذیلی تنظیمیں موجود ہیں جو براہ راست خلیفہ وقت کی نگرانی میں کام کرتی ہیں.اسکے علاوہ اس منظم نظام جماعت کے اندر متعد دادارے قائم ہیں جو اپنے اپنے دائرہ کار میں مختلف تعلیمی، تربیتی ، اشاعتی اور رفاہی خدمات سرانجام دے رہے ہیں.یہ ایک بہت ہی اجمالی اور نا تمام خاکہ ہے اس عظیم الشان نظام جماعت کا جو جماعت احمدیہ میں قائم ہے.یہ ایک مکمل انتظامی، تربیتی اور روحانی نظام ہے جو اس دور میں خلافتِ راشدہ
30 احمدیہ کے ذریعہ دنیا کو عطا ہوا ہے جس کی کوئی مثال سارے عالم اسلام میں بلکہ ساری دنیا میں کہیں دکھائی نہیں دیتی.یہ نظام اپنی ذات میں صداقت احمدیت کا ایک زندہ نشان ہے.یہ اسکی پہچان بھی ہے اور اسکی غیر معمولی عالمگیر ترقیات کی جان بھی ! اختلافی مسائل میں صحیح فیصلہ حدیث نبوی میں مذکور الفاظ حـكـمـاً عد لا کے مطابق سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسلمانوں کے مابین اختلافی مسائل میں اللہ تعالیٰ سے علم فرما کر صحیح فیصلہ فرمایا.آپ نے مسلمانوں کو صحیح اسلامی عقائد کا عرفان عطا کیا.غلطیوں سے آگاہ کیا اور مختلف امور کے بارہ میں ان کی غلطیوں کی اصلاح کی نیز عقلی ونقلی دلائل سے ثابت کیا کہ دراصل یہی بچے اسلامی عقائد ہیں.عقائد کی اصلاح کے میدان میں جماعت نے دنیا کو جو فیضان عطا کیا اسکی تفصیل بہت لمبی ہے.چند امور کی طرف اشارہ کرتا ہوں.وفات حضرت عیسی علیہ السلام مسلمانوں میں ایک بہت ہی خوفناک اور بے بنیاد یہ عقیدہ راہ پا گیا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت نہیں ہوئے بلکہ آج بھی آسمان پر زندہ موجود ہیں اور وہی آخری زمانہ میں آسمان سے نازل ہو کر امت محمدیہ کو ہولناک خطرات سے بچائیں گے اور ان کے نجات دہندہ ہوں گے.ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ آنحضرت ﷺ کی ارفع شان سے متصادم اور سخت گستاخی کا موجب ہے.کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ رسول پاک ﷺ تو مشکلات کی چکی میں پستے رہے.شعب ابی طالب کا واقعہ ہو یا ہجرت مدینہ کا.طائف کا سفر ہو یا غزوہ احد اور حنین کا موقع.ان
31 سب مواقع پر اللہ تعالیٰ نے نعوذ باللہ آپ کی تو مدد اور دستگیری نہ کی اور جب حضرت عیسی علیہ السلام پر مشکل کی گھڑی آئی تو خدا تعالیٰ کی محبت اور قدرت جوش میں آگئی اور حضرت مسیح علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا.وہ اب تک زندہ ہے اور جب آخری زمانہ میں امت مسلمہ ہر طرف سے حملوں کی زد میں ہوگی ، جب دجالی طاقتیں ہر طرف سے اس پر چڑھ دوڑیں گی تو اس وقت یہی اسرائیلی نبی ان کے لئے نجات دہندہ کے طور پر آئے گا.یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس کو لیکر عیسائی آنحضرت ﷺ کے مقابل پر حضرت مسیح ناصرتی کی فضلیت ثابت کرتے اور مسلمان اس خود ساختہ غلط عقیدہ کی بناء پر کچھ بھی جواب دینے کے قابل نہ تھے.احمدیت آئی اور اس نے اس غلط عقیدہ سے عالم اسلام کو نجات بخشی.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے دنیا پر واضح کیا کہ حیات مسیح کے عقیدہ کا قرآن مجید اور مستندا حادیث میں کہیں کوئی ذکر نہیں بلکہ قرآن مجید کی ۳۰ آیات اور بے شمار احادیث سے ان کی طبعی موت ثابت ہوتی ہے.عقلی طور پر بھی حیات مسیح کا عقیدہ صفات باری سے متصادم، شرک پیدا کرنے والا اور رسول اکرم ﷺ کی شان اقدس کو گرانے والا عقیدہ ہے.تاریخی شواہد اور زمانہ حال کے انکشافات سے بھی وفات عیسی کی تائید ہوتی ہے.احمدیت نے دنیا کو یہ نوید سنائی کہ آج امت مسلمہ اپنی اصلاح اور راہنمائی کے لئے کسی غیر قوم کے نبی کی محتاج نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آج ہر امت اور ساری انسانیت اپنی اصلاح کے لئے امت محمدیہ کی محتاج ہے.پس خوشی سے اچھلو اور سجدات شکر بجالاؤ کہ آج غلامان محمد میں سے ایک جلیل القدر روحانی فرزند کو اللہ تعالیٰ نے غلام احمد کے طور پر بھیجا ہے جو اپنے آقا ومولیٰ محمد مصطفے ﷺ کے نقوش پا کی برکت سے امام الزماں بنایا گیا.دیکھو اور سنو اور دنیا کو بتا دو کہ
32 برتر گمان و ہم سے احمد کی شان ہے ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ختم نبوت کا حقیقی مفہوم فیضان ختم نبوت کے بارہ میں بھی مسلمانوں میں غلط نہی پائی جاتی تھی اور آج بھی بکثرت یہی عقیدہ مسلمانوں میں پایا جاتا ہے کہ جس وجود کو خدا تعالیٰ نے ساری کائنات کے لئے باعث رحمت بنا کر بھیجا اس نے آکر رحمت کو عام کرنے کی بجائے خدائی رحمت کے اعلیٰ ترین چشمئہ نبوت کو ہمیشہ ہمیش کے لئے بند کر دیا.گویا جس نعمت کا وعدہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں مومنوں کو ایک بشارت کے رنگ میں دیا تھا اس کا دروازہ کلی بنداور مسدود کر دیا گیا.کیا اس سے زیادہ بھیانک اور خطر ناک اور رسول پاک ﷺ کی ارفع داعلی شان سے متصادم کوئی اور عقیدہ بھی تصور میں آسکتا ہے؟ خاتم النبین کے حقیقی مفہوم کو سمجھے بغیر لفظوں کے فقیر مسلمانوں نے اپنے غلط تصورات کے نتیجہ میں عیسائیوں کو رحمت دو عالم حضرت محمد مصطفے ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی اور بد زبانی کے مواقع خود فراہم کئے لیکن افسوس کہ ان کی غیرت وحمیت بیدار نہ ہوئی اور نہ انہیں غور و فکر اور تدبر کرنے کی توفیق ملی.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بانگ دہل یہ اعلان فرمایا کہ ختم نبوت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت خاتم النبین محمد مصطفے ﷺ دنیا کے ہر نبی سے افضل و اعلیٰ اور بزرگ و برتر ہیں.کل عالم کی نجات آپ کے دامن سے وابستہ ہے اور آپ کا فیضان قیامت تک جاری وساری ہے.اب ہر روحانی انعام اور برکت آپ کی غلامی سے مشروط کر دی
33 33 گئی ہے.جو پائے گا آپ کے وسیلہ سے پائے گا اور جو اس در سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے.حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے فرمایا : ” ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار، رسولوں کا فخر ، مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفے واحمد مجتبی عمل ہے جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی، نیز فرمایا - (روحانی خزائن مطبوعه لندن ۱۹۸۴ جلد ۱۲، سراج منیر صفحه ۸۰) اللہ جل شانہ نے آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا.یعنی آپ کو اضافہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی.اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبین ٹھہرا.یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی (روحانی خزائن مطبوعه لندن ۱۹۸۴ جلد ۲۲، حقیقۃ الوحی صفحه ۱۰۰ حاشیه ) قرآن مجید کا ارفع مقام قرآن کریم کی عظیم الشان نعمت امت مسلمہ کو عطا کی گئی.لیکن افسوس کہ احمدیت کے ظہور کے وقت علم و معرفت اور ہدایت کی سرچشمہ یہ کتاب محض ایک سربستہ کتاب بن کر رہ گئی.
34 اسے پرانے قصوں کی کتاب کہا جانے لگا.بعضوں نے حدیث رسول کو قول خدا پر ترجیح دینی شروع کر دی.کتنی بدنصیبی کہ جو کتاب معارف کا خزانہ اور ھدی للناس بنائی گئی تھی قدرناشناس مسلمان اسکی عظمت اور برکتوں سے کلیتہ بے بہرہ ہو گئے.ایسے وقت میں احمدیت آئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہوا اور آپ نے قرآن مجید کے حقیقی حسن و جمال سے دنیا کو آگاہ کیا.آپ نے قرآن مجید کو ایک زندہ کتاب کے طور پر پیش کیا.آپ نے نسخ قرآن کے عقیدہ کا بطلان قوی دلائل سے کیا اور ثابت کیا کہ اس عظیم کتاب کا ایک ایک لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کا ایک شعشہ قیامت تک منسوخ یا تبدیل نہیں ہوسکتا.یہ کتاب علوم ومعارف کا خزانہ اور کل دنیا کی نجات کا سر چشمہ ہے.آپ نے فرمایا: یقینا یہ سمجھو کہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر آنکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر کا نوں کے سن سکیں یا بغیر زبان کے بول سکیں اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ بغیر قرآن کے اس پیارے محبوب کا منہ دیکھ سکیں“.(روحانی خزائن مطبوعه لندن ۱۹۸۴ جلد ۱۰ ، اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۱۲۸-۱۲۹) آپ نے اپنی جماعت کو نصیت کرتے ہوئے فرمایا: " تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جولوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع
35 نہیں مگر محمد مصطفی علی (روحانی خزائن مطبوعه لندن ۱۹۸۴ جلد ۱۹، کشتی نوح صفحه ۱۵) قرآن مجید سے سچی محبت کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے.سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو روحانی خزائن مطبوعه لندن ۱۹۸۴ جلد ۱۹، کشتی نوح صفحه ۲۸) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کرام نے قرآن مجید کی ایسی عظیم الشان خدمت کی، گراں قدر رموز معرفت بیان فرمائے اور اپنی جماعت میں خدمت قرآن اور عشق قرآن کا ایسا جذبہ پیدا کیا کہ غیروں نے بھی بر ملا اس کا اعتراف کیا.ایک معزز غیر احمدی صحافی میاں محمد اسلم نے مرکز احمدیت قادیان جا کر جو کچھ دیکھا اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: قرآن مجید کے متعلق جس قدر صادقانہ محبت اس جماعت میں میں نے قادیان میں دیکھی، کہیں نہیں دیکھی...احمدی قادیان میں مجھے قرآن ہی قرآن نظر آیا.....جس طرف نظر اٹھتی تھی قرآن ہی قرآن نظر آتا تھا.غرض قادیان کی احمدی جماعت...ایسی جماعت ہے جو دنیا میں عملاً قرآن مجید کی خالصہ اللہ پیرو اور اسلام کی فدائی ہے“ (بحواله البدر قادیان، ۱۳ مارچ ۱۹۱۳ جلد ۱۳ نمبر ۲ صفحه ۶ تا ۹ ) احمدی سینوں میں قرآن مجید کی اس سچی محبت کا ایک ایمان افروز نمونہ اس عاجز نے
36 لندن میں یہ دیکھا کہ ہمارے ایک انگریز مخلص احمدی داؤ د سمرز مرحوم نے ستر سال کی عمر میں کچی محبت اور عقیدت سے قرآن مجید پڑہنا شروع کیا اور دس سپاروں سے اپنے دل کو منور کر چکے تھے کہ ان کو آخری بلا وا آ گیا! الغرض احمدیت نے غلط عقائد کی بیخ کنی کرتے ہوئے دنیا کو ان سچے عقائد و نظریات سے روشناس کرایا جو خدا تعالیٰ کی عظمت، اسلام کی شوکت اور رسول خدا ﷺ کی بلند شان کو ثابت کرنے والے تھے.اس طرح زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کے چہرہ کو سب داغوں سے پاک وصاف کر دیا اور آپ کا مقصد بعثت بتمام و کمال پورا ہوا.آپ نے فرمایا تھا: ” خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ تا میں اس بات کا ثبوت دوں کہ زندہ کتاب قرآن ہے اور زندہ دین اسلام ہے اور زندہ رسول محمد مصطفے ﷺ ہے مجموعہ اشتہارات مطبوعہ لندن ۱۹۸۴ جلد سوم صفحه ۲۶۷، اشتہار ۲۵ مئی ۱۹۰۰) ان تین بنیادی امور کے علاوہ احمدیت نے مسلمانوں میں مروجہ جن غلط عقائد کی اصلاح کی اور مسلمانوں کو صراط مستقیم کی راہ دکھائی ان میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد، دجال کی حقیقت ، جہاد کا صحیح اسلامی تصور، توحید حقیقی ، قرآن وحدیث کا مقام و مرتبہ وغیرہ بے شمار امور ہیں جن کا تفصیلی ذکر جماعتی لٹریچر میں موجود ہے.روحانی خزائن آیت کریمہ
37 32 هو الذي ارسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون (سورۃ الصف آیت ۱۰) کے مطابق یہ مقدر تھا کہ آنے والا موعود اسلام کو دیگر ادیان پر غلبہ عطا کرنے کا ذریعہ بنے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ یہ پیشگوئی بڑی عظمت اور شان کے ساتھ پوری ہوئی.اس کا ایک شاندار نمونہ جلسہ اعظم مذاہب تھا جو لاہور میں ۱۸۹۶ میں منعقد ہوا.اس میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے مقررہ پانچ سوالوں کے جواب میں اسلامی اصول کی فلاسفی اس خوبصورتی سے بیان فرمائی کہ سب نے اس بات کا برملا اقرار کیا کہ یہ مضمون سب پر بالا رہا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی جناب سے علوم و معارف عطا فرمائے اور ان کے بیان کرنے کا انتہائی دلکش اور مؤثر انداز بھی سکھایا.آپ کے الفاظ میں ایسی غیر معمولی تا ثیر ہے کہ دلوں کو تسخیر کرتی چلی جاتی ہے.اس بات کا اعتراف مخالفین نے بھی کیا اور آپ کی وفات پر امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے تو آپ کو ایک فتح نصیب جرنیل قرار دیا.آپ کو عطا ہونے والا یہ علم کلام دراصل وہ آسمانی حربہ ہے جو باطل کے سب قلعوں کو مسمار کرتا چلا جاتا ہے اسکی لاثانی تاثیرات کا یہ عالم ہے کہ آپ کے وصال کے بعد بھی یہ لازوال علم کلام غلبہ اسلام کا ایک کامیاب ذریعہ ثابت ہو رہا ہے.معارف کے اس سمندر سے احمدی مبلغین تو فائدہ اٹھاتے ہی ہیں غیر احمدی علماء بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کو اپنے بیانات اور تحریرات میں بکثرت استعمال کرتے ہیں مگر حوالہ دینے کی جرات نہیں رکھتے.یہ ہے وہ زبر دست علم کلام جو احمدیت نے دنیا کو دیا.جو ہر میدان مقابلہ میں فتح کی ضمانت ہے.بالخصوص
38 عیسائیت کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل تو گویا ایسے پتھر ہیں جن کا جواب وہ ہرگز نہیں دے سکتے.رسول پاک ﷺ نے آنے والے موعود کا ایک کام کسر صلیب بیان فرمایا تھا.اس کا شاندار ظہور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اور بعد کے ہر زمانہ میں بڑی شان سے نظر آتا ہے.حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اپنے باطل شکن دلائل سے پادری لیفر آئے کو ایسا لا جواب کیا کہ مولوی نور محمد صاحب نے تسلیم کیا کہ آپ نے تو ہندوستان سے لیکر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دیدی.“ دیباچه معجز نما کلاں قرآن شریف مترجم مطبوعه ۱۹۳۴ صفحه ۳۰) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو جو روحانی خزائن عطا فرمائے وہ ۹۰ سے زائد کتب کی صورت میں شائع شدہ ہیں.آپ کے بعد آپ کے خلفائے کرام نے اس سلسلہ کو جاری رکھا اور پر معارف کتب کی صورت میں نئے سے نئے علوم دنیا کو عطا کرتے رہے.علمائے سلسلہ نے بھی اس شیریں چشمہ سے اکتساب فیض کرتے ہوئے عظیم الشان تصانیف کا تحفہ دنیا کو دیا.۵۷ تراجم قرآن کی اشاعت، تفاسیر القرآن، احادیث کی تشریحات مختلف اسلامی موضوعات پر تصانیف اور مسائل حاضرہ کے موضوعات پر کتب کی اشاعت، دنیا بھر کی زبانوں میں ان کتب کے تراجم ، مرکز سلسلہ کے علاوہ مختلف ممالک سے شائع ہونے والے اخبارات ورسائل.یہ سب احمدیت کے علمی و روحانی فیضان کے دھارے ہیں جو ہر سمت تیزی سے بہتے چلے جارہے ہیں.علوم و معارف کی یہ عظیم دولت ہے جو احمدیت نے دنیا کو عطا کی.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے: ” جو مجھے دیا گیا ہے وہ محبت کے ملک کی بادشاہت اور معارف الہی کے خزانے
39 ہیں جن کو بفضلہ تعالیٰ اس قدر دوں گا کہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں گئے (روحانی خزائن مطبوعه لندن ۱۹۸۴ جلد ۳ صفحه ۵۶۶، ازالہ اوہام) یہ ارشاد پڑھتے ہوئے ذہن فوراً اس حدیث نبوی کی طرف چلا جاتا ہے جس میں یہ پیشگوئی مذکور ہے کہ يفيضُ المال حتى لَا يَقْبَلهُ أحد 69 (بخاری کتاب بدء الخلق ، باب نزول عيسى بن مريم عليهما السلام) کہ آنے والا مسیح اس قدر مال تقسیم کرے گا کہ کوئی لینے والا نہیں ملے گا.آج یہ پیشگوئی کس شان سے پوری ہو چکی ہے.مسیح محمدی نے علوم و عرفان کے خزانے پانی کی طرح بہادیئے اور دنیا کو سیراب وشاداب کر دیا.آپ نے کیا خوب فرمایا: وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار خدمت کے میدان میں سرگرم عمل سوال یہ ہے کہ نیکی اور خوبی کے میدان میں وہ کون سی چیز ہے جو جماعت احمدیہ نے دنیا کو نہیں دی؟ کسی قوم یا جماعت کی دولت تو اس کے افراد ہوتے ہیں جن کے مجموعہ سے جماعت بنتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کردہ اس جماعت کو ایسے نابغہ روزگار افراد عطا فرمائے جن کی تعداد اپنی کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے دن بدن بڑہتی چلی جارہی ہے.جماعت احمدیہ کا ہر فرد ہر جگہ خدمت انسانیت کے جذبہ سے سرشار، اپنے اپنے
40 ملک میں قوم اور انسانیت کی خدمت میں مصروف ہے.ہر ملک میں جماعت احمد یہ معاشرہ کی خدمت میں بھر پور طور پر شامل ہے.اس عمومی خدمت کے علاوہ جس کا اعتراف ہر جگہ پر کیا جاتا ہے،اس جماعت کی تاریخ گواہ ہے کہ جماعت کے خلفاء اور عمائدین نے اور ایسے افراد جماعت نے جن کو اللہ تعالیٰ نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں امتیازی مقام عطا کیا، اپنی خدمات کو قوم و ملک اور انسانیت کے لئے ہمیشہ وقف رکھا.پوچھنے والے پوچھتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ احمدیت کی تاریخ پر نظر کرو اور دیکھو کہ کس طرح اس جماعت نے اپنے جگر گوشے دنیا کی خدمت کے لئے پیش کئے.خدمت کا کوئی میدان ہو ، جماعت کے یہ سپوت مشرق و مغرب میں ہر میدان میں ایک نمایاں شان رکھتے ہیں.لسانیات کی دنیا میں حضرت شیخ محمد احمد مظہر کی خدمات، افریقہ کی ترقی اور تعمیر میں شیخ عمری عبیدی کی خدمات، پاکستان کی معاشی اور اقتصادی ترقی اور استحکام میں حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد کی خدمات اور ملک کے دفاع اور حفاظت کے باب میں لیفٹینینٹ جنرل اختر حسین ملک لیفٹینینٹ جنرل عبد العلی ملک اور مجاہدین فرقان فورس کی خدمات کو کس طرح کوئی شریف انسان فراموش کر سکتا ہے؟ سائنس کے میدان میں ڈاکٹر پروفیسر عبدالسلام نے جو کام کیا اور جونام کمایا وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں.ارض پاکستان کے اس نامور سپوت نے نوبیل انعام حاصل کر کے پاکستان کا ہی نہیں سارے عالم اسلام کا سر فخر سے بلند کر دیا اور پھر انعام کی ساری رقم وطن عزیز اور سائنس کی ترویج میں وقف کر کے قربانی کی ایک روشن مثال قائم کی.اس احمدی سائنس دان نے مسلمانوں کو ایک حوصلہ اور عزم بخشا، اعتماد عطا کیا اور ترقی کا جذبہ دیا.وطن عزیز کے قیام اور استحکام کی خدمت، عالمگیر افق پر عدل وانصاف اور قانون
41 کی خدمت اور سب سے بڑھ کر یہ کہ متعدد اسلامی ملکوں کو آزادی کی نعمت سے ہمکنار کرنے میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی خدمات دنیا کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جا چکی ہیں.کون صاحب علم ہے جو اس فرزندِ احمدیت کی ان ہمہ گیر، بے لوث اور امتیازی خدمات سے لاعلمی کی جرات کر سکے.سوائے ان بے بصیرت ملاؤں کے جن کے بارہ میں پاکستان کی عدالت عالیہ کے چیف جسٹس منیر کو یہ الفاظ کہنے پڑے تھے کہ " چوہدری ظفر اللہ خان نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں ان کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالت تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ شرمناک ناشکرے پن کا ثبوت ہے.“ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت ، فسادات پنجاب ۱۹۵۳ صفحه ۲۰۹ شائع کردہ حکومت پنجاب ) کس کس میدان میں جانثار احمدی سپوتوں کی کس کس خدمت کا ذکر کیا جائے.یہ خدمات تو دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلی پڑی ہیں.یہ تاریخ کا ایسا حصہ بن چکی ہیں جس کو ہرگز مٹایا نہیں جاسکتا.بے لوث خدمت خلق ثبت است بر جریده عالم دوام ما مختلف پہلؤں سے اس کے مختلف جوابات دیئے جا سکتے ہیں.ایک پہلو یہ ہے کہ احمدیت نے اپنا سب کچھ دنیا کو دیا.ہر وہ نعمت جو خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو عطا کی ، جماعت نے اس نعمت کو دنیا کی فلاح و بہود میں خرچ کرنے اور دینے سے کبھی
42 بھی بخل سے کام نہیں لیا کیونکہ بخل اور تنگ نظری اس جماعت کے خمیر میں شامل ہی نہیں.جماعت احمد یہ تو ساری دنیا کی ایک خادم جماعت ہے.ایک بے لوث خادم، ایک انتھک خدمت گزار جماعت، جو اس اصول پر سر گرم عمل ہے کہ " محبت سب کے لئے.نفرت کسی سے نہیں“ پس اس جماعت نے اپنی ہر چیز دنیا کو دی.ہر وہ نعمت جو خدا نے اسے عطا کی اسکو بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے وقف رکھا.تاریخ احمدیت اس بات پر گواہ ہے کہ جب بھی خدمت کا کوئی میدان نظر آیا جماعت احمدیہ کے سرفروش ہمیشہ بے لوث خدمت کے جذبہ سے، بلا امتیاز مذہب وملت ، اس میدان میں کود پڑے.جماعت کی تعداد کم اور وسائل محدود.مالی لحاظ سے جماعت کسی حکومت سے نہ کبھی کوئی مدد لیتی ہے نہ اسکی طالب.اسکی ساری پونچی تو وہ چندے ہیں جو اس جماعت کے جانثار بڑی محنت سے کمائی ہوئی آمد میں سے، اپنا پیٹ کاٹ کر، اپنی ضروریات کو پس پشت ڈالتے ہوئے جماعت کی جھولی میں ڈالتے ہیں.اس کم مائیگی کے باوجود خدمت خلق کے میدان میں ہر جگہ یہی جماعت دن رات سرگرم عمل نظر آتی ہے.افریقہ کے کسی ملک میں فاقے اور قحط سالی کا امتحان ہو.گجرات میں زلزلہ کے متاثرین کی ضرورت ہو.پاکستان میں سیلاب زدگان کی امداد کا سوال ہو یا جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں زلزلہ سے بے گھر ہونے والوں کو کھانا مہیا کرنے کا موقع ہو، جماعت احمدیہ کے رضا کار خدمت کا علم اٹھائے ،سر جھکائے ، خدمت میں مصروف نظر آتے ہیں.جماعت کی عالمگیر رفاہی تنظیم Humanity First کسی جگہ پیاسے لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کرتی ہے تو کسی جگہ آنکھوں سے معذور لوگوں کو نورِ بصارت کا تحفہ دیتی ہے، جن کے اعضاء کاٹ دیئے گئے ان کو مصنوعی اعضاء مہیا کرتی ہے بے خانماں لوگوں کے گھر بناتی ہے
43 اور گھر گھر جا کر بھوکے افراد کو کھانا اور بچوں کو دودھ مہیا کرتی ہے.یہ ساری خدمت کسی شہرت کے لئے نہیں کرتی، نہ کسی دنیوی جزا کے لئے محض رضاء باری کی خاطر کہ یہی اسلام کی تعلیم ہے اور یہی احمدیت کا شعار ہے.جماعت احمد یہ ایک دینی اور روحانی جماعت ہے.اس کا مقصد ساری دنیا والوں کو خدا تعالی کی طرف بلانا، اسلام کی دعوت کو اکناف عالم تک پہنچانا اور نبی نوع انسان میں ایک پاکیزہ انقلاب بر پا کرنا ہے.ان مقاصد عالیہ کے ساتھ ساتھ جماعت اپنے محدود وسائل کے ذریعہ حتی الامکان بنی نوع انسان کی علمی، سماجی اور جسمانی فلاح و بہبود کے لئے دن رات سرگرم عمل رہتی ہے کہ یہ بھی دین اسلام کا حصہ ہے اور خدا کی نظر میں پسندیدہ.دنیا کے وہ ممالک جن میں تعلیمی اور طبی سہولتوں کا فقدان یا کمی ہے ان ممالک میں جماعت احمدیہ نے اس خدمت کا علم سالہا سال سے بلند کر رکھا ہے اور بلا امتیاز مذہب وملت، نبی نوع انسان کی کچی اور بے لوث خدمت کے جذبہ سے سرشار، ہر میدان میں مصروف عمل ہے.جہاں تک اعداد وشمار کا تعلق ہے.اس وقت دنیا کے ۱۷۶ ممالک میں جماعت مستحکم طور پر قائم ہو چکی ہے.۱۳۲۹۱ مساجد تعمیر ہو چکی ہیں.اس روحانی فیض رسانی کے ساتھ ساتھ اس وقت جماعت کی طرف سے ترقی پذیر ممالک میں ۳۷۳ سکول اور ۵ کالج جاری ہیں جو لاعلمی کی تاریکیوں میں علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں.اسی طرح ۳۶ ہسپتال جاری ہیں جہاں غرباء کو بلا معاوضہ طبی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں.خدمت خلق کے میدان میں ایک اور عظیم خدمت جو جماعت احمدیہ نے بالخصوص خلافت رابعہ کے دور میں سرانجام دی وہ ہو میو پیتھی کے ذریعہ ساری دنیا میں اس مفید اور مؤثر ذریعہ علاج کے علم کا عام کرنا ہے.اس کا سہرا حضرت خلیفہ المسیح الرابع
44 رحمہ اللہ تعالیٰ کے سر ہے جنہوں نے دن رات ایک کر کے اس بارہ میں لیکچر بھی دیئے اور کتب بھی لکھیں اور عملی طور پر ساری دنیا میں اور بالخصوص غریب ممالک میں ہومیو پیتھی ڈسپنسریوں کا جال بچھا دیا.اس وقت ۵۵ ممالک میں ۶۳۲ ہومیو پیتھک شفا خانے قائم ہو چکے ہیں.غریب اور مفلوک الحال لوگوں کے لئے یہ غیر معمولی طور پر موثر ذریعہ علاج اتنی وسعت اور سہولت سے مہیا ہو گیا ہے کہ عملاً ہر احمدی گھرانہ ایک مرکز شفاء بن گیا ہے جس کا فیض صرف احمد یوں تک محدود نہیں بلکہ کل دنیا تک پہنچ رہا ہے.یہ عظیم کارنامہ ، بے لوث خدمت انسانیت کی یہ نہری مثال لا نريد منكم جزاء ولا شكوراً (سورة الدھر آیت ۱۰) کی زندہ تفسیر ہے.اور ان لوگوں کے لئے ایک جواب ہے جو یہ پوچھتے ہیں کہ احمدیت نے دنیا کو کیا دیا ہے؟.ایم ٹی اے MTA اس سوال کا ایک اور جواب یہ بھی ہے کہ احمدیت نے دنیا کو عالمگیر نشریاتی ذریعہ MTA دیا جو ساری دنیا میں حقیقی اسلام کی واحد آواز ہے.ایک وقت وہ تھا کہ ساری دنیا میں جماعت کے پاس اپنا کوئی نشریاتی نظام نہ تھا.نہ TV تھانہ ریڈیو کسی ریڈیو پر چند منٹوں کا وقت لینا بھی مشکل ہوتا تھا.جماعت کی شدید خواہش تھی کہ کسی طرح دنیا کے کسی ملک میں خواہ کسی چھوٹے سے ملک میں ہی ہو.دنیا کے کسی کونے میں کوئی چھوٹا سا ریڈیو قائم کرنے کی توفیق مل جائے جس سے ہم احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آواز دنیا تک پہنچا سکیں اور دنیا کو بتا سکیں کہ جس مہدی نے آنا تھا ، جس مسیح موعود کے آنے کی خبر دی گئی تھی وہ آ گیا ہے.لیکن اس مقصد کے حصول
45 کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی اور پھر وہ وقت آیا کہ اللہ تعالی نے گویا چھپر پھاڑ کر MTA کا یہ عظیم عالمگیر تحفہ کچھ اس انداز میں اچانک مہیا کر دیا کہ کسی کو بھی اسکی توقع نہ تھی.اس انعام پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا: اسمعوا صوت السماء جاء المسيح جاء المسيح کہ آسمان کی آواز سنو جو یہ اعلان کر رہی ہے کہ مسیح آگیا.مسیح کا ظہور ہو گیا.آپ کا یہ اعلان ان آسمانی نشانوں سے متعلق تھا جو پے در پے ظاہر ہو کر آپ کی سچائی کا اعلان کر رہے تھے لیکن دیکھو کہ خدائے ذوالمنن نے کس طرح اس بات کو لفظا اور معناً بھی حقیقت بنادیا کہ آج سارے عالم اسلام میں صرف ایک جماعت احمدیہ ہے جس کا اپنا ایک مستقل ٹیلی ویژن سٹیشن ہے جو ۲۴ گھنٹے دنیا کی مختلف زبانوں میں اسلام واحمدیت کا پیغام نشر کر رہا ہے.آج روئے زمین پر کوئی ایک گوشہ بھی ایسا نہیں جہاں توحید کی یہ منادی سنائی نہ دیتی ہو.خدائے رحمن کا کتنا کرم ہے کہ آج دنیا میں کسی اور مذہب کا کوئی ایسا نشریاتی ادارہ نہیں جس کی آواز ساری دنیا میں جاتی ہولیکن خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے قائم کردہ اس جماعت احمدیہ کا یہ ٹیلی ویژن ایسا ہے جس کی آواز دنیا کے چپہ چپہ میں سنائی دیتی ہے اور قریہ قریہ بستی بستی توحید کی منادی ہورہی ہے.لوگ پوچھتے ہیں کہ میں کہتا ہوں اے دنیا کے بسنے والو! اے جزائر کے رہنے والو! اے جنگلات کے باسیو! اٹھو اور اپنے ٹیلی ویژن ON کر کے اس آسمانی آواز کوسنو جو آج تمہارے گھروں میں پہنچ چکی ہے اور تمہیں اس خدا کی طرف بلا رہی ہے جس کو تم بھول بیٹھے ہو.سنو ، اس مسیح الزمان کی آواز کو سنو جو تمہیں اسلام کی طرف بلا رہا ہے.تمہیں سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دے رہا ہے.ہاں یہ وہی آواز ہے جو ایک زمانہ میں قادیان سے اٹھی اور
46 اب دیکھو کہ کس شان کے ساتھ اس کی صدائے دلنواز اور اسکی گونج سارے عالم میں سنائی دے رہی ہے گر نہیں عرش معلی یہ ٹکراتی تو پھر سب جہاں میں گونجتی ہے کیوں صدائے قادیاں احمدیت نے MTA کے ذریعہ اسلام کو ایک زبان عطا کی ہے.احمدیت نے دنیا کو ایک آواز عطا کی ہے جو ا کناف عالم میں سعید فطرت لوگوں کے دل اسلام کے لئے جیت رہی ہے.دنیا کے اکناف میں یہ آواز دلوں کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے.سخت معاند مولوی حضرات بھی دروازے بند کر کے یہ آواز سنتے ہیں لیکن افسوس کہ یا تو ضمیر مردہ ہو جانے کی وجہ سے ان کے پتھر دلوں پر صداقت کا اثر نہیں ہوتا یا پھر ملازمت اور روزی کا مسئلہ آڑے آجاتا ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ آج MTA اسلام کے حق میں ایک زبردست آواز بن کے ابھرا ہے اور اندر ہی اندر ایک عظیم روحانی انقلاب بر پا ہورہا ہے جس کے نتائج روشن سے روشن تر ہوتے جا رہے ہیں.مالی قربانیاں دینی ضروریات کی خاطر اپنے اموال کو راہ خدا میں خرچ کرنا ایمان کی ایک نشانی ہے جو مومنوں کی ایک امتیازی علامت ہے.یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محنت سے کمائی ہوئی دولت کو خرچ کرنا کوئی آسان بات نہیں.جب تک اللہ تعالیٰ قلبی بشاشت اور شرح صدر عطانہ کرے اس میدان میں قدم رکھنا کچھ آسان بات نہیں.یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کی کسی مسلمان جماعت میں
47 منظم مستقل اور مسلسل مالی قربانی کا نظام اس شان سے نظر نہیں آتا جیسا کہ جماعت احمدیہ میں.جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا یہ عظیم احسان ہے کہ اس نے احمدیوں کو مالی قربانیوں کا ایسا حوصلہ عطا کیا ہے کہ وہ پوری بشاشت کے ساتھ دل کھول کر نیکی کے میدانوں میں اترتے ہیں اور مومنانہ مسابقت کے ایسے حیران کن نمونے پیش کرتے ہیں کہ مادہ پرست لوگ ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے.مادیت کے اس دور میں اس انداز میں قربانیاں کرنا صرف عالم احمدیت میں نظر آتا ہے اور یہ ہے وہ عظیم جذ بہ اور قابل تقلید نمونہ جو جماعت احمدیہ نے دنیا کو عطا کیا ہے! حق یہ ہے کہ احمدیوں نے قرون اولیٰ میں صحابہ کرام کے نمونوں کو زندہ کر دیا ہے حضرت مولانا نور الدین نے اپنا سارا مال دیگر صدیقیت کے نمونہ کو زندہ کیا.ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب رضی اللہ عنہ اپنی مالی قربانیوں میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو تحریری سند دی کہ آپ نے سلسلہ کے لئے اس قدر مالی قربانی کی ہے کہ آئندہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں.( بحوالہ الفضل قادیان ۱۱ جنوری ۱۹۲۷) میاں شادی خان صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کا سارا سامان بیچ کر ساری کی ساری رقم چندہ میں پیش کر دی.حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ نے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ والا نمونہ دکھایا ہے.جب آپ نے یہ سنا تو گھر آئے اور گھر میں جو چار پائیاں تھیں ان کو بھی فروخت کر ڈالا اور ساری رقم حضور کی خدمت میں پیش کر دی.(بحوالہ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحه ۱۴۲، ۱۴۳ نیز الفضل قادیان ۲۶ جنوری ۱۹۲۰) با بو فقیر علی صاحب کے پاس چندہ لینے والے آئے تو اس وقت نقد رقم تو موجود نہ تھی،
48 تھوڑا سا آنا موجود تھا وہی چندہ میں دے دیا اور خود رات بھو کے سور ہے.نام ونمود سے استغناء کا یہ عالم کہ ایک کروڑ روپیہ خاموشی سے ایک احمدی نے خلیفہ وقت کو دیا اور عرض کیا کہ کسی سے اس کا ذکر تک نہ ہو، جس نیک جماعتی کام میں چاہیں استعمال میں لائیں.مالدار اس جذبہ سے لاکھوں اور کروڑوں دیتے ہیں کہ یہ سب خدا کا دیا ہوا تھا اس کی راہ میں دینے کی توفیق ملی تو یہ بھی خدا کا احسان ہے.غریب بھی اس میدان میں کسی طرح پیچھے رہنے والے نہیں.بچوں کی ضروریات کو پس پشت ڈال کر فاقہ کر کے، پیسہ پیسہ جوڑ کر چندہ دینے کی مثالوں سے تاریخ احمدیت بھری پڑی ہے.مرد عورتوں سے سبقت کی کوشش میں رہتے ہیں اور عورتیں مردوں کو مات دینے کے انتظار میں.مسجدوں کی تعمیر کا موقع آنے پر جس طرح مرد اپنی جبیں خالی کرتے ہیں اسی طرح عورتیں اپنے طلائی زیورات اس طرح پھینکتی نظر آتی ہیں جیسے ان قیمتی زیورات کی کوڑی برابر قیمت نہ ہو.مسجد فضل لندن ہو یا مسجد بیت الفتوح، مسجد بیت الاسلام ہو یا مسجد بیت الرحمن.دنیا میں کسی مسجد کی تعمیر کا موقع ہو، عورتوں کی طرف سے زیورات کی موسلا دھار بارش ہونے لگتی ہے.قادیان کے ایک درویش کا عاشقانہ انداز قربانی ایسا ہے کہ روح پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے.شمس الدین صاحب درویش جسمانی طور پر معذور تھے سارا وقت ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں پڑے رہتے.نظام وصیت ۱۹۰۵ میں شروع ہوا.یہ 1919 میں اس میں شامل ہوئے لیکن اس اپاہج اور معذور لیکن دل کے غنی اور فدا کار کا نمونہ دیکھئے کہ آپ نے ۱۹۰۱ سے چندہ وصیت دینا شروع کیا.اور نہ صرف ساری زندگی ادا کیا بلکہ آئندہ سالوں کا چندہ بھی دیتے رہے اور ۱۹۹۰ تک کا چندہ وصیت ادا کر دیا جبکہ ان کی وفات ۱۹۵۰ میں ہوگئی.گویا وہ تصویری زبان
49 49 میں کہہ رہے تھے کہ کاش میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے وقت اولین احمدیوں میں شامل ہوتا اور کاش میں ۱۹۹۰ تک زندگی پا کر اسلام کی خدمت کرتا چلا جاتا.قربانی کا یہ بے مثال جذ بہ ایک ایسے شخص کا ہے جو معذور تھا.چل پھر بھی نہ سکتا تھا، پہلو تک نہیں بدل سکتا تھا.زبان میں بھی لکنت تھی لیکن اس فدائی کا دل کتنا متحرک اور جذبہ قربانی سے پر تھا.(بحوالہ وہ پھول جو مرجھا گئے از چوہدری فیض احمد گجراتی حصہ اول صفحه ۶۰ تا ۶۲) قادیان کے ابتدائی زمانہ کی بات ہے.خلافت ثانیہ میں ایک غریب خاتون کی قربانی کا واقعہ میری والدہ محترمہ نے کئی بار سنایا.حضرت مصلح موعود مالی قربانی کی تحریک فرمارہے تھے اور یہ غریب اور نا دار خاتون اس بات پر بے چین ہو رہی تھی کہ مالدار لوگ تو قربانیاں کر رہے ہیں اور میں محروم رہی جاتی ہوں.سخت بے چینی میں اٹھ کر گھر آئی.گھر کی چیزیں بیچ کر تو پہلے ہی چندہ دے چکی تھی صحن میں مرغی نظر آئی وہی لا کر حضور کے سامنے پیش کر دی.پھر بے تاب ہو کر گھر گئی اور دو تین انڈے اٹھا کر لے آئی.قربانی کا جذبہ اتنا شدید تھا کہ آرام سے بیٹھنا مشکل ہو رہا تھا.ادھر حضرت مصلح موعود کا خطاب جاری تھا.وہ اٹھی اور گھر آ کر ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ کچھ ملے تو جا کر وہ بھی پیش کر دوں.خاوند ایک ٹوٹی ہوئی چار پائی پر بیٹھا تھا اس نے کہا کہ اب کیا ڈھونڈتی ہو، گھر میں تو کچھ بھی نہیں رہا.اس خدا کی بندی نے جو اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کرنے کی قسم کھا چکی تھی بڑے غصہ سے کہا " چپ کر کے بیٹھے رہو.میرا بس چلے تو میں تمہیں بھی بیچ کر چندہ میں دیدوں.یہ ہے وہ سچی تڑپ جو جماعت احمدیہ کے ہر مرد و زن کا امتیاز ہے اور یہ ہے وہ جذبہ
50 قربانی جس کا نمونہ جماعت نے دنیا کو عطا کیا ہے! اولاد کی قربانی اولادکو راہ خدا میں قربان کرنا کوئی آسان بات نہیں.اسکی عظمت اور حقیقت وہی جان سکتا ہے جو اس راہ سے گذرا ہو.ایک ماں کے لئے اس سے بڑی قربانی تصور نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے جگر گوشے کو موت کے منہ میں جانے کے لئے بے خطر پیش کر دے.احمدیت کی تاریخ گواہ ہے کہ احمدی ماؤں نے اس میدان میں وہ نمونے دنیا کو عطا کیئے کہ دنیا کی تاریخ ان سے محض نا آشنا ہے.ایسی مائیں بھی ہیں جہنوں نے اپنے ایک، دو یا تین نہیں بلکہ چاروں کے چاروں بیٹیوں کو راہ خدا میں پیش کر دیا اور وہ مائیں بھی ہیں جنہوں نے اپنی کل کائنات، اپنا اکلوتا بیٹا اس راہ میں پیش کر دیا.روتے ہوئے نہیں.ہنستے ہوئے مسکراتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجالاتے ہوئے.گوجرانوالہ کی اس بہادر ماں کو تاریخ کیسے بھلا سکتی ہے جس نے ایک عجیب شان سے اپنے بچوں کو شہادت کے لئے پیش کیا.جس دن یہ اندازہ تھا کہ آج شہادت کی گھڑی آنے والی ہے یہ شیر دل ماں بجائے ڈرنے ، چھپنے اور رونے کے، اپنے جگر گوشوں کو نہلانے دھلانے اور صاف ستھرے کپڑے پہنانے میں مصروف تھی کہ اگر شہادت کا وقت آجائے تو یہ خوبصورت معصوم بچے ایک مومنانہ شان سے سجے سجائے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو جائیں! خلافت ثانیہ میں ایک موقع پر وطن عزیز پاکستان کے دفاع کے لئے نوجوانوں کی ضرورت تھی حضرت مصلح موعودؓ نے احمدی نوجوانوں کو پاکستانی فوج میں شامل ہونے کی تحریک کی.حالات ایسے تھے کہ ان دنوں فوج میں بھرتی ہونا گویا اپنے آپ کو موت کے مونہہ میں دھکیلنے
51 والی بات تھی.ایک جگہ جب یہ پیغام پہنچایا گیا تو فوری طور پر سناٹا چھا گیا.کوئی ایک نو جوان بھی نام لکھوانے کے لئے آگے نہ بڑھا.وہاں ایک بیوہ عورت بیٹھی تھی.اس بیچاری کا ایک ہی بیٹا تھا.آئندہ اولاد کی بھی کوئی صورت نہ تھی.خلیفہ وقت کی تحریک سن کر خدا کی بندی تڑپ اٹھی.خدا اور رسول کے نام پر قربانی کی تحریک ہو، خلیفہ وقت کی طرف سے ہو اور یہ خاموشی؟.اس شیرنی نے اپنے بیٹے کو آواز دیکر کہا: وو او فلانیا! تو بولتا کیوں نہیں.کیا تو نے سنا نہیں کہ خلیفہ وقت نے احمدی نوجوانوں کو بلایا ہے؟“ سعادت مند بیٹے نے فوراً اپنا نام پیش کر دیا.کوئی ہمیں دکھائے کہ باقی دنیا میں کہاں ہیں ایسی مائیں جو دین کی خاطر اس طرح اپنے جگر گوشوں کو پیش کرتی ہیں.یہ اعزاز صرف احمدی ماؤں کو حاصل ہے جو دین کی خاطر اپنا سب کچھ مولیٰ کے حضور حاضر کرنے کا سچا عہد کرتی ہیں اور وقت آنے پر اس عہد کو سچ کر دکھاتی ہیں.اس بیوہ خاتون نے جس والہانہ جذبہ سے اپنے اکلوتے بیٹے کو قربانی کے لئے پیش کیا ، حضرت مصلح موعودؓ نے یہ واقعہ سنا تو یوں دعا کی: ”اے میرے رب ! یہ بیوہ عورت اپنے اکلوتے بیٹے کو تیرے دین کی خدمت کے لئے یا مسلمانوں کے ملک کی حفاظت کے لئے پیش کر رہی ہے اے میرے رب ! اس بیوہ عورت سے زیادہ قربانی کرنا میرا فرض ہے.میں بھی تجھ کو تیرے جلال کا واسطہ دے کر تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں که اگر انسانی قربانی کی ضرورت ہو تو اے میرے رب! اس کا بیٹا نہیں میرا بیٹا مارا جائے“ تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد دوم صفحه ۱۱۴ بار اول مطبوعه ۱۹۷۲)
52 62 قربانیوں کے وسیع میدان جماعت احمد یہ ساری دنیا میں ایک عظیم الشان روحانی انقلاب کی علمبر دار تحریک ہے.تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی اصلاح خلق کی خاطر کوئی تحریک اٹھی تو اسے ہمیشہ قربانیوں کے طویل صبر آزما راستوں سے گزرنا پڑا.ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے فدائی صحابہ نے اس میدان میں جو اسوۂ حسنہ چھوڑا ہے اسی نمونہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ نے اس دور میں پھر سے زندہ کر دیا ہے.قربانی کے میدان میں جان کی قربانی سب سے عظیم قربانی ہے.زندگی کی دولت ہر انسان کو صرف ایک بار ملتی ہے اور یہ اس کی عزیز ترین متاع ہوتی ہے.اس کی قربانی گویا قربانیوں کی معراج ہے جماعت احمدیہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس میدان میں بھی اس نے صحابہ کرام کے اسوہ کو زندہ کر دکھایا اور عملی طور پر ثابت کر دکھایا ہے کہ یہ دور آخرین میں صحابہ کی مثیل جماعت ہے.جان کی قربانی کا ذکر آتے ہی ذہن میں سب سے پہلے حضرت میاں عبدالرحمن صاحب رضی اللہ عنہ کا نام آتا ہے جن کو احمدیت قبول کرنے کی پاداش میں افغانستان میں شہید کر دیا گیا.مرحوم کے گلے میں کپڑا ڈال کر نہایت بے دردی سے گلا گھونٹا گیا اور آپ نے احمدیت کے شہید اول ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا.اس کے بعد حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب رضی اللہ عنہ نے غیر معمولی استقامت اور شان سے جام شہادت نوش کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان دونوں بزرگ انسانوں کی شہادت کی تفاصیل اپنے دست مبارک سے تحریر فرما ئیں اور فرمایا:
53 ”اے عبد اللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا.“ (روحانی خزائن مطبوعه لندن ۱۹۸۴ جلد ۲۰، تذکرۃ الشہادتین صفحه ۶۰) حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید رضی اللہ عنہ علمی فضلیت اور تقوی کی وجہ سے سر زمین کابل کے پیشوا تھے ہزار ہا لوگ آپ کے معتقد تھے، آپ ریاست کے بازو تھے اور علمائے کا بل میں آفتاب کی طرح تھے.جب آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کو حق سمجھ کر قبول کیا اور افغانستان واپس گئے تو آپ کو اس جرم میں گرفتار کر لیا گیا.چار ماہ قید با مشقت کی صعوبتیں برداشت کیں.جیل میں ایک من 24 سیروزنی زنجیر میں آپ کو باندھا گیا.پاؤں میں آٹھ سیروزنی بیڑی ڈالی گئی.آپ لاکھوں کی جاگیر کے مالک اور ناز و نعم میں پہلے ہوئے تھے.ان سب مصائب کو بڑی استقامت سے برداشت کیا.امیر نے آپ کو بار بار احمدیت چھوڑنے کی ترغیب دلائی، باعزت رہائی اور انعام واکرام کا وعدہ کیا لیکن کوئی لالچ اور کوئی وعدہ اس کو ہ استقامت کو ذرا بھی جنبش نہ دے سکا.ہر بار آپ کا جواب یہی ہوتا کہ: ” مجھ سے یہ امید مت رکھو کہ میں ایمان پر دنیا کو مقدم رکھ لوں.اور کیونکر ہوسکتا ہے کہ جس کو میں نے خوب شناخت کر لیا اور ہر ایک طرح سے تسلی کر لی، اپنی موت کے خوف سے اس کا انکار کر دوں.یہ انکار تو مجھ سے نہیں ہوگا.میں دیکھ رہا ہوں کہ میں نے حق پالیا.اس لئے چند روزہ زندگی کے لئے مجھ سے یہ بے ایمانی نہیں ہوگی کہ میں اُس ثابت شدہ حق کو چھوڑ دوں.میں جان چھوڑنے کے
54 5.4 لئے طیار ہوں اور فیصلہ کر چکا ہوں مگر حق میرے ساتھ جائے گا“ (روحانی خزائن مطبوعه لندن ۱۹۸۴ جلد ۲۰ ، تذکرۃ الشہا دتین صفحه ۵۲) اور بالآخر وہ دن آگیا.....آج سے ٹھیک ایک سو سال قبل 14 جولائی 1903...جب اس بزرگ اور فاضل مردِ خدا پر کفر کا فتویٰ لگا دیا گیا.ناک میں چھید کر کے رسی ڈالی گئی اور اس حالت میں ایک جانور کی طرح کھینچ کر سر عام مقتل لایا گیا.کیا دردناک نظارہ تھا کہ ظالم اس معصوم انسان پر ہر طرف سے گالیاں اور لعنتیں برسا رہے تھے جبکہ آسمان سے فرشتے اس بزرگ انسان کی استقامت اور عظمت پر آفرین آفرین کہہ رہے تھے.وہ ایسا کوہ وقار تھا کہ کسی لالچ یا خوف کے آگے ذرا بھی خم نہ ہوا.ظالموں نے اس معصوم کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا اور پھر ہر طرف سے پتھروں کی بارش ہونے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ مقدس انسان پتھروں کے ڈھیر میں دب کر نظروں سے غائب ہو گیا.شہید مرحوم نے شہادت کا جام پی کر ابدی زندگی حاصل کر لی.اپنی جان دے کر جرات و استقامت کی ایسی مثال قائم کی جس نے آنے والوں کو یہ نمونہ دیا کہ کس طرح ایمان اور حق و صداقت کی خاطر جانوں کے نذرانے دیئے جاتے ہیں.شہادت کی جو شمع اس شہید مرحوم نے روشن کی وہ تاریخ احمدیت کے ہر دور کو منور کرتی رہی ہے.آج تک ۲۱۰ سے زائد ایسے پاکباز وجود ہیں جنہوں نے اس راہ پر چل کر شہادت کا جام نوش کیا.آسمان احمدیت کے ستارے، یہ وہ خوش قسمت زندہ لوگ ہیں جنہوں نے احمدیت کی صداقت پر اپنے مقدس خون سے مہریں ثبت کیں اور حیات سرمدی کے وارث قرار پائے.شہادت کا مرتبہ پانے والوں کے ساتھ ساتھ اسیران راہ مولیٰ بھی اسی مقدس راہ پر گامزن ہیں.ان قیدیوں کی استقامت بھی ایک کرامت ہے.ایک عظیم نشان ہے اور تابندہ
55 55 ثبوت ہے احمدیت کی صداقت کا.ان معصوموں کو نہایت بے دردی سے تختہ مشق بنایا جاتا ہے لیکن یہ خدا کے بندے ان بیٹیوں کو چومتے ہیں جو راہ مولیٰ میں ان کو نصیب ہوئیں.راہ مولیٰ میں صبر واستقامت دکھانے والے اور ظلم و ستم پر مسکرانے والے یہ فرزانے دنیا میں کہیں اور دکھائی نہیں دیتے سوائے احمدیت کے.تبلیغ اسلام کا جذ بہ اور قربانیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی مولوی فتح دین صاحب دھرم کوئی روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور اکثر حاضر ہوا کرتا تھا.اور کئی مرتبہ حضور کے پاس ہی رات کو بھی قیام کیا کرتا تھا.ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ آدھی رات کے قریب حضرت صاحب بہت بیقراری سے تڑپ رہے ہیں اور ایک کونہ سے دوسرے کو نہ کی طرف تڑپتے ہوئے چلے جاتے ہیں.جیسے کہ ماہی بے آب تڑپتی ہے یا کوئی مریض شدت درد کی وجہ سے تڑپ رہا ہوتا ہے.میں اس حالت کو دیکھ کر سخت ڈر گیا اور بہت فکر مند ہوا.اور دل میں کچھ ایسا خوف طاری ہوا کہ اس وقت میں پریشانی میں ہی مبہوت لیٹا رہا یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ حالت جاتی رہی.صبح میں نے اس واقعہ کا حضور علیہ السلام سے ذکر کیا کہ رات کو میری آنکھوں نے اس قسم کا نظارہ دیکھا ہے.کیا حضور کوکوئی تکلیف تھی یا درد گردہ وغیرہ کا دورہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا : "میاں فتح دین! کیا تم اس وقت جاگتے تھے؟ اصل بات یہ ہے کہ جس وقت ہمیں اسلام کی مہم یاد آتی ہے.اور جو جو مصیبتیں اس وقت اسلام پر آرہی ہیں ان
56 90 کا خیال آتا ہے تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہو جاتی ہے.اور یہ اسلام ہی کا درد ہے جو ہمیں اس طرح بے قرار کر دیتا ہے (سیرت المہدی مطبوعه قادیان ۱۹۳۹ حصہ سوم صفحه ۲۹) یہ کیفیت تھی اس مبارک وجود کی جس نے زندگی کا لحہ لمحہ اس راہ میں قربان کر دیا.دن رات خدمت اسلام میں گزارنے کے باوجو د رات بھی بے قراری میں گزرتی ! آپ فرماتے ہیں : ” ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر خدا تعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اس ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچالیں.اگر خدا تعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سکھا دے تو ہم خود پھر کر اور دورہ کر کے تبلیغ کریں اور اسی تبلیغ میں زندگی ختم کر دیں خواہ مارے ہی جاویں ( ملفوظات مطبوعہ لندن ۱۹۸۴ جلد سوم صفحه ۲۹۱ - ۲۹۲) آپ کی ساری زندگی اس جذ بہ کے عین مطابق گزری اور آپ نے خدمتِ اسلام کی ہر راہ پر قدم مارا تبلیغ اسلام کا ہر وسیلہ اختیار کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہی جذبہ اور تڑپ اپنی جماعت کے اندر بھی کچھ اس انداز سے پیدا کر دی کہ خدمت دین کی یہ تڑپ جماعت کی پہچان بن گئی ہے.مفکر احرار چوہدری افضل حق صاحب جماعت احمدیہ کی اشاعت اسلام کے لئے تڑپ اور تبلیغی مساعی کے متعلق لکھتے ہیں.” مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اٹھا.ایک مختصرسی
57 جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے بڑھا.....اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے.“ فتنہ ارتداد اور پیٹیکل قلابازیاں از چوہدری افضل حق مطبوعہ کو پر یوٹیم پر لیں.وطن بلڈنگز لا ہور صفحہ ۴۶) یہ اشاعتی تڑپ جس کا غیروں کو بھی اعتراف ہے دراصل جماعت احمدیہ کا طرہ امتیاز ہے.جماعت احمدیہ جس وسعت ، شوکت، مستقل مزاجی اور کامیابی کے ساتھ دعوت الی اللہ کی مہم کوساری دنیا میں جاری کئے ہوئے ہے اس کی مثال کسی اور جگہ نظر نہیں آتی.تبلیغ اسلام کا جذبہ اس جماعت کی سرشت میں داخل ہے اور ہر دل میں اسکی تڑپ اور لگن پائی جاتی ہے.یہ وہ عظیم دولت ایمان ہے جو احمدیت نے دنیا کو دی.خدمت دین اور تبلیغ اسلام کا یہ بے مثال جذ بہ ہے جس کا نمونہ احمدیت نے دنیا کو عطا کیا ہے! ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کرنا کوئی بازیچہ اطفال نہیں.اس راہ میں جان مال وقت عزت اور آرام ہر چیز کی قربانی دینی پڑتی ہے اور جماعت احمدیہ کی یہ خوش نصیبی ہے کہ اس کو خدا تعالیٰ نے ایسےمخلصین ہر دور میں عطا فرمائے جو اس مبارک راہ پر چلنے کا عزم لیکر بصد خلوص آگے آئے اور اپنی زندگیاں خلیفہ وقت کے حضور پیش کر دیں.واقفین زندگی کا یہ وہ خوش قسمت گروہ ہے جس نے اپنی بے لوث قربانیوں اور دن رات کی محنت سے کفر کے ظلمت کدوں میں اسلام کی شمعیں فروزاں کیں.اسلام کے جانبازوں نے چلچلاتی دھوپ میں، بھوکے پیاسے پیدل چل کر گاؤں گاؤں خدائے واحد کا پیغام پہنچایا.افریقہ کے جنگلات میں ، درختوں کے پتے کھا کر گزارا کیا، دشمنوں کے ہاتھوں ماریں کھائیں.پتھروں اور خنجروں سے زخمی ہوئے اور طرح طرح کے
58 مظالم کا نشانہ بنائے گئے لیکن تبلیغ کا علم ہر حالت میں سر بلند رکھا.یخ بستہ جیلوں میں ڈال کر ان کے سامنے سور کا گوشت رکھا گیا.موت کو ٹالنے کے لئے روٹی کے چند ٹکڑے پانی میں بھگو کر انہی پر گزارہ کرتے رہے.ایسی ایسی زہرہ گداز داستانیں ہیں کہ بدن پر کپکی طاری ہو جاتی ہے.یہ سب کچھ ہوا، لیکن احمدیت کے یہ مجاہد سپوت ہر حالت میں اسلام کی منادی کرتے رہے.یه داستان عشق و وفا یہیں ختم نہیں ہو جاتی.ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو شادی کے بعد جوان بیوی کو اکیلا چھوڑ کر دیار غیر چلے گئے.عرصہ کے بعد واپسی ہوئی تو جوان بیوی پر بڑھاپا چھا چکا تھا.کچھ وہ بھی تھے جو چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر گئے سالہا سال کے بعد واپس آئے تو خود اپنے بچوں کو بھی پہچان نہ سکے.ہاں ان مجاہدین میں ایسے وفاشعار بھی تھے کہ اپنے بوڑھے ماں باپ کو چھوڑ کر تبلیغ کے لئے روانہ ہوئے اور پھر دیار غیر میں ہی خبرسنی کہ والدین اس دنیا سے رخصت ہو گئے.کچھ ایسے جانباز مجاہد بھی تھے جو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اعلائے کلمہ اسلام کے لئے رخصت ہوئے اور پھر کبھی وطن لوٹ کر نہ آسکے.اسی جہاد کبیر میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور آج بھی وہی سرزمین ان کی آخری آرام گاہ بنی ہوئی ہے.جانثاری کی یہ داستانیں، قربانی کے یہ بچے واقعات اور عشق و وفا کے یہ زندہ نمونے اس دور میں صرف احمدیت میں نظر آتے ہیں.جانثاری اور سرفروشی کی یہ داستانیں صرف اسی حد تک نہیں بلکہ ایسے مجاہدین بھی اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو عطا کئے ہیں جو ریٹائر منٹ کے بعد آخری دم تک جماعتی خدمت میں مصروف رہتے ہیں.ایسے ڈاکٹر ہیں جو سالہا سال تک طبی میدان میں انسانیت کی خدمت کرتے ہیں ایسے اساتذہ ہیں جو علم کی روشنی سے دنیا کو منور کرتے ہیں اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے واقفین نو کی ایک عظیم فوج میدان عمل میں جانے لئے تیار ہو رہی ہے.یہ وہ ننھے منے اسلام کے شیدائی
59 ہیں جن کو ان کے والدین نے ان کی ولادت سے قبل وقف کیا اور خدمت دین کی غرض سے جماعت کے سپرد کر دیا.خلیفہ وقت نے ۱۹۸۷ میں پانچ ہزار واقفین نو کی خواہش ظاہر فرمائی.احمدی والدین نے والہانہ طور پر اس تحریک پر لبیک کہا اور آج ان مجاہدین کی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۲۶۳۲۱ تک پہنچ چکی ہے! خدا کی راہ میں زندگیاں وقف کرنے کا یہ سلسلہ در سلسلہ نظام بھی ایک اور عطائے عظیم ہے جو احمدیت نے دنیا کو دی.کوئی بتائے کہ اس طرح اپنا سب کچھ دیکر جنت کے خریدار دنیا میں اور کہاں ہیں؟ قبولیت دعا کا عرفان اور تجربہ قبولیت دعا اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ایک ثبوت بھی ہے اور مومنین کے ازدیاد ایمان کا ذریعہ بھی.احمدیت نے اہل دنیا کو یہ نوید سنائی کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے جو بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے ان کا جواب دیتا ہے اور پھر قبولیت دعا کے شیریں ثمرات عطا کرتا ہے.جس تحدی جلال اور یقین کے ساتھ احمدیت نے اس بات کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور جس کثرت اور تواتر سے عالم احمدیت میں قبولیت دعا کے زندہ نشانات ظاہر ہوئے اور ہوتے چلے جا رہے ہیں اس کی مثال ساری دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی.احمدیت ہی نے دنیا کو قبولیت دعا کا حقیقی عرفان عطا کیا اور اسکی تازہ بتازہ تجلیات کے نمونے اس کثرت سے دکھائے کہ ان کا شمار ممکن نہیں.حق یہ ہے کہ آج دنیا میں کوئی احمدی خاندان ایسا نہیں ہوگا جس نے بالواسطہ یا بلا واسطہ قبولیت دعا کا مشاہدہ یا تجربہ نہ کیا ہو.دعا پر سچا یقین اور قبولیت دعا کا ذاتی تجربہ تو گویا ایک احمدی کی زندگی کا حصہ بن گیا ہے.
60 اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر احمدی اس کوچے سے آشنا ہے.عالم احمدیت میں جس محبت اور شوق اور تواتر سے ہر گھر میں دعا اور اسکی قبولیت اور افادیت کا تذکرہ چلتا ہے باقی ساری دنیا میں مجموعی طور پر بھی اتنا ذ کر نہیں ہوتا.مرد اور عورتیں ہی نہیں چھوٹے بچے بھی اس مزے سے آشنا ہیں.لاریب دعا کی یہ کیفیت، اس کا عرفان اور اس قدر تجربہ دنیا میں کسی اور جماعت کو اس رنگ میں نصیب نہیں ! دعا کیا ہے اور اور اسکی تاثیرات اور برکات کیا ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پر معارف الفاظ میں سنیئے آپ فرماتے ہیں: وو وہ فنا کرنے والی چیز ہے.وہ گداز کرنے والی آگ ہے.وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے.وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے.وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کوکشتی بن جاتی ہے.ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے......غرض دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشتِ خاک کو کیمیا کر دیتی ہے.وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھودیتا ہے.اس دعا کے ساتھ روح پچھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرت احدیت پر گرتی ہے“ پھر آپ نے فرمایا: (روحانی خزائن مطبوعه لندن ۱۹۸۴ جلد ۲۰، لیکچر سیالکوٹ صفحه ۲۰-۲۱) ” دعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبیعہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دعا ہے“ (روحانی خزائن مطبوعه لندن ۱۹۸۴ جلد ۶ ، برکات الدعا صفحہ ۱۱)
61 قبولیت دعا کی پاک تجلیات کا ظہور کس کس رنگ میں ہوا؟ یہ ایک ایسا بحر ذخار ہے جس کا احاطہ کبھی بھی نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کا تذکرہ کبھی مکمل ہوسکتا ہے.یہ ایک جاری وساری سلسلہ ہے جو ہر آن وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے.جماعت احمدیہ کی تاریخ قبولیت دعا کے واقعات سے اس طرح بھری پڑی ہے جس طرح آسمان ستاروں سے بھرا ہوتا ہے.کس کس بات کا ذکر کیا جائے.چند ایک مثالیں مختصر أعرض کرتا ہوں جن سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کوکس طرح قبولیت دعا کے زندہ اور زندگی بخش اعجازی معجزات سے نوازا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں منشی عطاء محمد صاحب پٹواری کا واقعہ بہت مشہور ہے.ان کی تین بیویاں تھیں لیکن اولاد سے محروم تھے.انہوں نے کہا کہ اگر مرزا صاحب کی دعا سے مجھے جس بیوی سے میں چاہوں اولا دل جائے تو میں احمدی ہو جاؤں گا.مسیح پاک علیہ السلام نے دعا کی.اس کی برکت سے ان کو حسب خواہش اولا دلی اور ساتھ ہی احمدیت کی دولت بھی مل گئی ! (بحوالہ سیرت المہدی مطبوعه قادیان ۱۹۳۵ حصہ اوّل صفحه ۲۳۹ تا ۲۴۱) کپورتھلہ میں احمدیہ مسجد پر غیروں نے قبضہ کر لیا اور حج اس بات پر تلا ہوا تھا کہ فیصلہ احمدیوں کے خلاف ہوگا.جماعت کے دوستوں کی گھبراہٹ دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ گھبراؤ نہیں.اگر میں چا ہوں تو یہ مسجد تمہیں مل کر رہے گی.آپ نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حالات میں مسجد احمدیوں کو دلا دی.پہلا حج اچانک فوت ہو گیا اور نئے جج نے فیصلہ احمدیوں کے حق میں کر دیا.( بحواله سیرت المہدی مطبوعه قادیان ۱۹۳۵ حصہ اوّل صفحه ۶۴)
62 مولا نا رحمت علی صاحب کا واقعہ بہت مشہور ہے.انڈونیشیا میں ان کے لکڑی کے مکان کے قریب آگ لگ گئی اور خطرہ تھا کہ آگ ان کے مکان کو جلا کر خاکستر کر دے گی.آپ مومنانہ استقامت سے وہاں ٹھہرے رہے اور دعا کرتے ہوئے لوگوں سے فرمایا کہ یہ آگ مجھے اور میرے مکان کو ہرگز نقصان نہیں پہنچائے گی کیونکہ میں اس مسیح کا ادنی غلام ہوں جس کو خدا نے وعدہ دیا تھا کہ آگ سے نہیں مت ڈراؤ.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے ، اچانک بادل امڈ آئے اور موسلا دھار بارش نے آگ کو ٹھنڈا کر دیا.دنیا نے دیکھا کہ واقعی وہ آگ مسیح زماں کے غلام کی غلام بن گئی ! روح پرور یادیں از مولوی محمد صدیق امرتسری صفحه ۶۴ بحواله الفضل ۹ دسمبر ۱۹۳۸ ) حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ ۱۹۱۷ میں انگلستان جانے کے لئے روانہ ہوئے.جنگ عظیم کی وجہ سے سمندری سفر بہت خطرناک تھا.راستہ میں جہاز کے کپتان نے اعلان کیا کہ جہاز جرمن جہازوں کی زد میں ہے اور معلوم نہیں کب ان کے نشانے سے ڈوب جائے.مسافر یہ بات سن کر سخت خوفزدہ ہوئے.مفتی صاحب نے بہت درد سے دعا کی.رات آپ نے خواب میں ایک فرشتہ کو یہ کہتے سنا: صادق ! یقین کرو یہ جہاز سلامت پہنچے گا.آپ نے یہ خوشخبری اسی وقت مسافروں کو سنا دی.حالات بہت خطر ناک تھے.اردگرد کے جہاز تباہ ہوتے رہے اور ان کی لکڑیاں سمندر میں تیرتی دیکھی گئیں لیکن مفتی صاحب والا جہاز بحفاظت منزل مقصود پر پہنچ گیا.(بحوالہ صادق بیتی حصہ اوّل مرتبہ مشتاق انگر لکھنوی صفحه ۲۱، ۲۲) حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی بھاگل پور میں ایک تبلیغی جلسہ کے لئے گئے.
63 اچانک کالی گھٹا نمودار ہوئی اور بارش کے موٹے موٹے قطرے گرنے لگے.جلسہ میں خرابی کے پیش نظر آپ نے بڑی رقت سے دعا کی اور دیکھتے ہی دیکھتے مطلع صاف ہو گیا اور جلسہ کامیابی سے منعقد ہوا.(بحوالہ حیات قدسی مطبوعہ ۱۹۵۴ - حیدرآباد دکن حصہ سوم صفحه ۲۶،۲۵ ) مولانا نذیر احمد صاحب مبشر غانا میں تھے کہ مخالفین نے یہ بات بنالی کہ اگر واقعی امام مہدی آچکے ہیں تو پھر زلزلہ آنا چاہیئے.اگر چہ یہ کوئی معیارِ صداقت نہ تھا نہ ایسی کوئی پیشگوئی تھی لیکن آپ نے عاجزانہ دعا میں یہ عرض کیا کہ اے قادر و توانا! تو اپنی قدرت کا نشان دکھا.قدرت حق کا کرشمہ دیکھیئے ، چند دن کے اندر اندر سارے نانا کی سرزمین شدید زلزلہ سے لرز گئی اور یہ بات بہتوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنی.(بحوالہ روح پرور یا دیں صفحہ ۷۷ تا ۷۹ ) جان بلب مریضوں کی شفایابی، مشکلات سے رہائی ، نقصان سے حفاظت اور دعا کی برکت سے غیر معمولی تائید و نصرت کے واقعات اتنے ہیں کہ شمار سے باہر ہیں.ایسے ایسے واقعات کہ دیکھنے اور سننے والوں کے لئے یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے یہ زندہ خدا کی قدرتوں کے زندہ نشان ہیں جو احمدیت کی دنیا میں بارش کے قطروں کی طرح ہر جگہ نازل ہورہے ہیں.قبولیت دعا کا یہ عرفان ہے جو احمدیت نے دنیا کو عطا کیا ہے.ان واقعات کے نتیجہ میں جو لذت اور ایمان افروز کیفیت احمدیوں کو نصیب ہوتی ہے وہ دوسروں کے نصیب میں کہاں؟ اختتامیه یہ وہ دولتیں ہیں جو احمدیت نے دنیا کو دیں.یہ وہ روحانی نعمتیں اور برکتیں ہیں جو
64 احمدیت نے دنیا کو عطا کیں.شربت وصل و بقا اور آب بقا کے یہ شیر میں جام ہیں جو احمدیت نے چارسو بانٹے.اے احمدیت کے جانثارو! آج تم ان نعمتوں کے امین ہو.اس امانت کا خوب حق ادا کرو.بلکتی اور سکتی ہوئی انسانیت کے لئے جام شفا آج تمہارے ہاتھوں میں تھمایا گیا ہے.دنیا اخلاقی موت کے دھانے پر کھڑی ہے.ابنائے دنیا کو آج اگر کوئی تباہی سے بچا سکتا ہے تو وہ غلامان محمد اللہ کے سوا اور کون ہو سکتا ہے.پس اے رحمت دو عالم کے وفاشعار غلامو! اٹھو اور ظلمت و تاریکی کی راہوں میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کے لئے اپناتن ، من ، دھن سب کچھ قربان کر ڈالو.اپنی درد بھری دعاؤں سے اسکی تقدیر جگا دو اور ساری انسانیت کے لئے رحمت کی موسلا دھار برسات بن جاؤ! لیکن یا درکھو کہ دنیا کو دینے سے پہلے لازم ہے کہ تم خودان برکتوں نعمتوں اور فیوض سے اپنے سینوں کو منور کر لو.ان دولتوں سے اپنے دامن پوری طرح بھر لو، تا ان روحانی خزائن کو آگے پہنچانے کا حق ادا کر سکو.اب یہ بار امانت تمہارے کندھوں پر ہے.تم صاحب کوثر، محمد عربی ﷺ کے غلام ہو.اس نسبت کی لاج رکھتے ہوئے ان خزانوں کو دنیا کے کناروں تک پہنچاتے چلے جاؤ کہ یہ دولتیں، یہ نعمتیں اور برکتیں کبھی ختم ہونے والی نہیں.یا درکھو کہ انہی کی برکت سے دنیا کی تقدیر بدلے گی اور دنیا ایک دن ضرور محسن انسانیت، حضرت محمد مصطفے ﷺ کی غلامی میں آکر ہر دکھ سے نجات پالے گی.آج اس خدمت کی سعادت تمہارے حصہ میں آئی ہے.اس جانفشانی سے اس کا حق ادا کرو کہ ہمارا مولیٰ خوش ہو کر ہمیں اپنے دامنِ رحمت میں چھپالے.اللہ کرے کہ یہ سعادت اور خوش بختی ہم میں سے ہر ایک کا نصیب ٹھہرے.آمین یا ارحم الراحمین وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين