Dukht-eKaram

Dukht-eKaram

دُختِ کرام ؓ

حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

Book Content

Page 1

بسلسلہ صد سالہ خلافت احمدیہ جو بلی وخت کرام لجنہ اماء الله

Page 2

دُختِ کرام

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 4

وخت کرام 1 بِسمِ الله الرحمن الرحيم وخت کرام پیارے بچو! آج میں آپ کو ایک شہزادی کی کہانی سناتی ہوں.جو اللہ کی بہت پیاری بندی تھی اور جس کا نام اللہ میاں نے ذمت کرام رکھا تھا جس کا مطلب ہے صاحب کرام لوگوں کی بیٹی.اس بچی کے والدین اللہ میاں کے خاص بندے تھے.آج سے چودہ سو سال قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ اسلام پر ایک ایسا وقت آئے گا جب اس پر مسلمان عمل کرنا بھول جائیں گے.اس وقت اللہ میاں ایک مسیح اور مہدی کو بھیجے گا جو اسلام پر لوگوں کو دوبارہ عمل کرنا سکھائے گا.اللہ میاں نے حضرت محمد اللہ کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ مسیح شادی کرے گا اور اس کے اولاد پیدا ہوگی چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے 1890ء میں مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا.آپ کی پہلی شادی آپ کے خاندان میں حرمت بیا بی صاحبہ سے ہوئی اور ان سے دو بیٹے پیدا ہوئے جن کے نام حضرت مرزا سلطان احمد اور مرز افضل احمد تھے.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کا تعلق اپنی پہلی بیوی سے بعد میں کٹ گیا کیونکہ آپ کی طبیعتوں میں بہت فرق تھا اللہ میاں نے چونکہ

Page 5

وخت کرام 2 آپ سے کام لینا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً بتایا کہ ” میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری دوسری شادی کروں.یہ سب سامان میں خود کروں گا اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہ ہوگی.“ 66 چنانچہ اللہ میاں نے اپنے وعدے کے مطابق آپ کی دوسری شادی کا انتظام ایک انتہائی معز ز سادات گھرانے میں کر دیا.آپ کی دوسری بیوی کا نام سیّدہ نصرت جہاں بیگم تھا.اور ان کے والد کا نام حضرت میر ناصر نواب تھا جو بہت نیک اور پارسا انسان تھے.جب حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم پیدا ہوئیں تو حضرت میر ناصر نواب صاحب یعنی آپ کے والد نے یہ دعا مانگنی شروع کر دی کہ اللہ میاں اس بچی کو دنیا کا بہترین ساتھی عطا فرما.ایک عجیب اور ایمان افروز بات یہ ہے کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب کے آباؤ اجداد کے ایک بزرگ کو یہ کشفاً بتایا گیا تھا کہ اس خاندان کا تعلق امام مہدی علیہ السلام سے ہونا مقدر ہے.چنانچہ مئی 1884ء میں حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم کی شادی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح و مہدی علیہ السلام سے ہوگئی.اور یوں یہ پیشگوئی انتہائی شان سے پوری ہوئی.جماعت احمد یہ میں حضرت سید و نصرت جہاں بیگم انماں جان کے نام سے مشہور ہیں.اب تو آپ کو پتہ لگ گیا ہوگا کہ دُخت کرام اس پاکیزہ جوڑے کی بیٹی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت لتاں جان کو اللہ میاں نے دس

Page 6

وخت کرام 3 بچے عطا فرمائے.ان بچوں میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں زندہ رہے.اور ہر بچہ اللہ میاں کی طرف سے بشارت کے تحت ہوا.اسی لئے ان کو مبشر اولا دکہا جاتا ہے.حضرت اماں جان کے بطن سے لمبی عمر پانے والے مبشر بچوں کے نام یہ ہیں (1) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد (2) حضرت مرزا بشیر احمد (3) حضرت مرزا شریف احمد (4) حضرت نواب مبارکہ بیگم (5) حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم اب میں آپ کو حضرت سیّدہ امتہ الحفیظ بیگم یعنی دُختِ کرام کی پیدائش کا واقعہ سناتی ہوں.آپ کی پیدائش سے ایک سال قبل 28 جنوری 1903ء میں اماں جان کے ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام امتہ انصیر رکھا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً بتایا گیا کہ یہ بچی جلد فوت ہو جائے گی چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق صاحبزادی امتہ انصیر رای سال دسمبر میں وفات پا گئیں.لیکن اللہ میاں نے صاحبزادی امتہ النصیر کی وفات پر حضرت اماں جان اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صبر پر قبولیت اور پیار کی نظر ڈالی اور مئی 1904ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً دُختِ کرام کی بشارت دی.دُختِ کرام کا مطلب ہے ایسے نیک لوگوں کی اولا د جن کے خون میں شرافت ہے.اگر غور کرو تو یہ پیشگوئی کئی پہلوؤں سے بڑی شان سے پوری ہوئی.دُختِ کرام کی پیشگوئی بتاتی ہے کہ آپ کو اللہ میاں لمبی زندگی دے گا.تا کہ آپ اپنے اخلاق سے ثابت کر سکیں کہ آپ واقعی

Page 7

وخت کرام کریمانہ اخلاق رکھتی تھیں.آپ کو اللہ میاں نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی اولاد میں سب سے لمبی زندگی عطا کی اور آپ نے ساری زندگی اپنے اعلیٰ اخلاق سے دُخت کرام ہونا ثابت کر دیا.یہ پیشگوئی ایک اور طریق سے بھی بڑی شان سے پوری ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے اپنے منظوم کلام میں اپنی مبشر اولاد کے متعلق فرمایا.یہ پانچوں جو کہ نسلِ سیّدہ ہے جس وقت آپ نے یہ اشعار کہے.اس وقت حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد زندہ تھے.اگر حضرت صاحبزدی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ پیدانہ ہوتیں تو حضرت مرزا مبارک احمد کے بعد پانچ کا عدد پورا نہ ہوتا.اور دشمن کہہ سکتے تھے کہ دیکھو یہ پیشگوئی پوری نہ ہوئی.لیکن اللہ میاں نے دُختِ کرام کے ذریعے اس عدد کو پورا رکھا اور حضرت مرزا مبارک احمد کی جگہ آپ نے پانچ کی لڑی پوری کی.اب آپ کا دل چاہتا ہوگا کہ آپ سیدہ امتہ الحفیظ بیگم کے بچپن کے بارے میں کچھ باتیں سنیں سب سے پہلے تو ہم آپ کے نام امتہ الحفیظ کی ، حکمت پر غور کرتے ہیں.جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی پیدائش سے

Page 8

وخت کرام 5 پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان کے بہت سے بچے فوت ہو گئے تھے اور آپ کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے صاحبزادی امتہ النصیر کا انتقال ہو گیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کا نام امتہ الحفیظ رکھا جس میں یہ پیشگوئی مخفی تھی کہ آپ کو اللہ تعالی اپنی حفاظت میں رکھے گا.اس نام میں یہ وعدہ بھی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہیں گی.چنانچہ آپ کی ساری زندگی اس بات کی شاہد ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی خاص حفاظت اور نصرت فرمائی.آپ بہت پاک صورت تھیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کی بہت مشابہت تھی.آپ غیر معمولی ذہین تھیں اور بچپن میں بہت باتیں کرتی تھیں چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی آپ کے متعلق بڑے پیارے انداز میں فرمایا.آپ فرماتے ہیں:." حضرت عیسی کی نسبت لکھا ہے کہ وہ مھد میں بولنے لگے.اس سے یہ مطلب نہیں کہ پیدا ہوتے ہی یا دو چار مہینہ کے بولنے لگے.اس سے یہ مطلب ہے کہ جب وہ چار برس کے ہوئے کیونکہ یہ وقت تو بچوں کے پنگھوڑے

Page 9

وخت کرام 6 میں کھیلنے کا ہوتا ہے اور ایسے بچے کے لئے باتیں کرنا کوئی تعجب انگیز امر نہیں.ہماری لڑکی امتہ الحفیظ بھی بڑی باتیں کرتی ہے.(الحکم جلد 11 مورخہ 31 مارچ 1907ء صفحہ 11 تفسیر آل عمران صفحہ 35) باوجود اس کے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑھاپے کی اولاد تھیں لیکن آپ ان کے ناز اٹھاتے تھے.ایک دفعہ آپ سیر کو جارہے تھے حضرت اماں جان نے کہلا کر بھیجا کہ امتہ الحفیظ رورہی ہیں اور ساتھ جانے کی ضد کر رہی ہیں آپ نے ملازمہ کے ہاتھ ان کو بلوایا اور گود میں اٹھا کر لے گئے.حضرت اماں جان کو احساس تھا کہ صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم چھوٹی ہیں اور شاید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں جوانی کو نہ پہنچ سکیں.اس خیال کے مد نظر آپ نے ایک دونی ( دونی ایک سکہ تھا جو ایک روپے کا آٹھواں حصہ تھا.ایک روپیہ میں سولہ آنے ہوتے تھے.ایک آنے کا سکہ بھی ہوتا تھا اور دو آنے کا سکہ دونی کہلاتا تھا.) پر حضور سے دعا کرا کر آپ کے لئے رکھ لی.وہ دونی آج اسی طرح دُختِ کرام کی چھوٹی بیٹی فوزیہ کے پاس محفوظ ہے.جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا ہے صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ

Page 10

وخت کرام بہت ذہین تھیں.گو آپ صرف چار سال کی تھیں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انتقال ہو گیا.اماں جان کو اس قدر دکھ تھا کہ اتنی ہی عمر میں آپ اتنے عظیم بزرگ باپ سے محروم ہو گئیں کہ حضرت اماں جان نے آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرنا بند کر دیا تا کہ آپ کو تکلیف نہ ہو.اس لئے رفتہ رفتہ آپ کے ذہن سے اپنے عظیم باپ کی ساری باتیں نکل گئیں اب کہاں جان نے آپ کو ڈ ہرا پیار دینا شروع کیا.آپ باپ بھی تھیں اور ماں بھی.حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ حضرت اماں جان مجھے کبھی سوتے میں نہ اٹھا تیں.ایک دفعہ بچپن میں آپ نے سکول جانے سے انکار کر دیا تو سارا سکول اپنے گھر یعنی دار اسح کے صحن میں منگوا لیا.باوجود اتنے لاڈ پیار کے آپ نے سات سال کی عمر میں قرآن پاک مکمل کرلیا.آپ کے بڑے بھائی حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے آپ کی آمین پر ایک نظم لکھی.جو کلام محمود میں درج ہے آپ کی آمین کی تقریب آپ کے بڑے بھائی جو آب آپ کے باپ کی جگہ تھے نے کی.قادیان کے احباب کی ایک شاندار دعوت کی گئی جس میں حضرت نانا جان کے علاوہ بہت سے بزرگوں نے شرکت کی.آپ کی آمین پر آپ کے بڑے بھائی نے جو نظم لکھی

Page 11

وحت گرام 8 اس کے چند اشعار درج ذیل ہیں.آپ لکھتے ہیں.حفیظہ جو مری چھوٹی بہن ہے نہ اب تک وہ ہوئی تھی اس میں رنگیں ہوئی جب ہفت سالہ تو خُدا نے یہ پہنایا اسے بھی تاج زریں کلام بنایا اللہ سب اس کو پڑھایا قرآں کا گل چیں گلشن قرآں کا زباں نے اس کو پڑھ کر پائی برکت ہوئیں آنکھیں بھی اس سے نور آگیں اکٹھے ہو رہے ہیں آج احباب منائیں تا مل کر روز آمیں ہوئے چھوٹے بڑے ہیں آج شاداں نظر آتا نہیں کوئی بھی غمگیں خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَوْ فَي الْأَمَانِي ( کلام محمود ص 69) آپ صرف چار سال کی تھیں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی

Page 12

وخت کرام 9 وفات ہو گئی.اس عمر میں عام طور پر لوگ بچوں کی معصوم غلطیوں پر توجہ نہیں دیتے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس عمر میں بھی آپ کی تربیت کا خیال تھا.ایک دفعہ کسی ملازم سے سُن کر آپ نے ایک گالی دے دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت تکلیف ہوئی اور آپ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا.اور کہا کہ اگر بچوں کے منہ پر چھوٹی عمر میں غلط الفاظ چڑھ جائیں تو بعض اوقات مرتے وقت بھی وہ الفاظ منہ پر آ جاتے ہیں.دیکھو خدا کے پیارے کس طرح اپنے بچوں کی تربیت کا خیال رکھتے ہیں.ایک اور بات تو بتا نا بھول ہی گئی.آپ قادیان میں دارا اسی میں پیدا ہوئیں.اور یہیں پر آپ کا بچپن گزرا.ایک استانی آپ کو قرآنِ کریم پڑھانے آتی تھیں اور آپ بتاتی ہیں کہ اماں جان مجھے سوتے میں اٹھاتی نہ تھیں.نیند پوری کر کے پڑھنے کو بٹھاتیں.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد اماں جان کے ساتھ ان کے کمرے میں ہی رہتی تھیں.حضرت اماں جان کا پلنگ دالان میں ہوتا تھا.جہاں سے بیت الدّ عا جانے کی الدّعا سیڑھیاں چڑھتی ہیں.آپ حضرت اماں جان کے دالان میں کھیلتی تھیں.دالان کے سامنے حضرت اماں جان کا باورچی خانہ تھا.جہاں سب پیڑھیوں پر بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے.لیکن بعض اوقات کمرے میں بھی

Page 13

وخت کرام 10 دستر خوان بچھا کر کھانا لگتا تھا، لیکن یہ اُس وقت جب سارے بچے آئے ہوتے اور اماں جان کے بھائی بھی کھانے میں شامل ہوتے.یہ تھا آپ کا سادہ سا، پاکیز و بچین بعض اوقات آپ کھیلتے کودتے حضرت خلیفہ اول کے درس میں بھی شامل ہو جاتیں اور حضرت خلیفہ اول آپ کو اپنی گود میں بٹھا کر درس دیتے.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے آپ کو سمجھایا تھا کہ اپنی نیک قسمت کے لئے ابھی سے دعا کرنا چاہئے.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا آپ نے سات سال کی عمر میں قرآن ختم کر لیا.پھر آپ کو سکول میں داخل کرا دیا گیا.آپ کو علم حاصل کرنے کا شوق گھٹی میں ملا تھا.سارے گھر کا ماحول ہی علمی تھا.آنکھ کھولتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پڑھتے لکھتے دیکھا حضرت اماں جان کو بھی پڑھنے کا بہت شوق تھا اور اکثر کتابیں یا خود پڑھیں یا کسی سے سنتیں.آپ کے بھائی بھی مطالعہ میں رہنمائی کرتے اور پڑھنے میں آپ کی حوصلہ افزائی فرماتے چونکہ آپ کی شادی چھوٹی عمر میں ہو گئی تھی.اس لئے شادی کے وقت آپ کی تعلیم مکمل نہ تھی.صرف اردو اور کچھ عربی آپ نے پڑھی تھی لیکن چونکہ علم کا

Page 14

وخت کرام 11 شوق تھا اس لئے شادی کے بعد آپ نے تعلیم جاری رکھی اور اوپر تلے بچے ہونے کے باوجود آپ نے میٹرک.ایف اے انگریزی اور ادیب فاضل شادی کے بعد کیا اس کے ساتھ کتابیں پڑھنے کا اتنا شوق تھا کہ ہر دوسرے تیسرے دن لائبریری سے کہا میں منگوا کر پڑھتیں.اردو اور انگریزی ادب کی بہت سی کتابیں آپ نے پڑھ رکھی تھیں.اپنے بچوں کو بھی مطالعہ کا شوق دلاتیں اور ان کی راہنمائی فرماتیں.ایک دفعہ آپ اپنی زمینوں پر سندھ تشریف لے گئیں.وہاں آپ کے شوہر حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب اپنے ساتھ حضرت مولوی ظہور حسین صاحب مبلغ بخارا کو بھی لے گئے جہاں آپ کے چھوٹے بچے فوزیہ اور مصطفے مولوی صاحب سے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھتے وہاں حضرت بیگم صاحبہ بھی با قاعدہ مولوی صاحب سے تفسیر اور ترجمہ پڑھتیں.اس وقت آپ کی عمر پچاس سال سے اور پر تھی یہ بات بالکل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہے کہ علم حاصل کرو، ماں کی گود سے لے کر گور تک یعنی قبر تک.خدا کرے ہم سب احمدی اس فرمان کے مطابق علم حاصل کرنے والے بنیں.آپ بہت اچھی شاعرہ بھی تھیں لیکن اس کا اظہار پسند نہ فرمائیں.

Page 15

وحت گرام 12 بعض موقعوں پر بے ساختہ شعر کہتیں لیکن کہیں لکھ کر بھول جاتیں.اپنے شوہر حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب کی وفات پر آپ کو بہت صدمہ تھا.اور ان کی جدائی بہت محسوس کرتی تھیں.ان کی وفات کے بعد لکھے کچھ شعر ان کی ڈائری میں مجھے ملے جو میں آپ کو بتاتی ہوں تا کہ آپ کو پتہ چلے کہ وہ کتنی محبت کرنے والی بیوی تھیں.آپ لکھتی ہیں.شادی میری جدائی گوارا ہوئی تمہیں کیونکر تمہیں یہ ذکر بھی تھا ناگوار یاد کرو تم اب کہاں ہو؟ کہاں ہے قرار دل کا مرے بنے تھے تم میرے دل کا قرار یاد کرو خدا کرے کبھی بے اختیار یاد آؤں خدا کرے کبھی بے اختیار یاد کرو آپ کی بڑی بہن حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی شادی ریاست مالیر کوٹلہ کے نواب خاندان کے رئیس حضرت نواب محمد علی خاں سے ہوئی تھی.یہ رشتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں طے ہو گیا تھا حضرت

Page 16

وخت کرام 13 " نواب صاحب کے پہلی بیوی سے چار بچے تھے.حضرت نواب صاحب کی خواہش تھی کہ ان کی اولاد کے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں رشتے ہوں.چنانچہ انہوں نے 1908ء میں آپ علیہ السلام کی وفات سے قبل مرزا ہ خدا بخش کے ذریعے اپنے چھوٹے بیٹے میاں عبد الرحیم خان کے لئے دُخت کرام کے رشتے کی تحریک کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سن کر فرمایا.آپ چھوٹے بیٹے کا کہتے ہیں اور والدہ محمود ( یعنی حضرت اماں ) نے تو عبد اللہ خان کو خواب میں دیکھا ہے.چنانچہ بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کی تحریک پر حضرت نواب محمد عبد اللہ خان کے رشتے کی تحریک کی گئی.لیکن رشتہ طے حضرت مصلح موعود کے زمانے میں ہوا.جب آپ 13 سال کی ہوئیں تو آپ کی رخصتی عمل میں آئی.حضرت نواب محمد عبد اللہ خانصاحب کو اپنی بیوی سے بے انتہا محبت تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی ہونے کی وجہ سے ان کی بے حد عزت کرتے تھے.آپ کی محبت اور قدر کے کئی واقعات ہیں.چند دلچسپ روایات آپ کو بھی سناتی ہوں.ایک دفعہ آپ ڈلہوزی پہاڑ پر اپنی بیٹیوں اور بیوی کے ساتھ پیدل سیر کو جارہے تھے.راستے میں حضرت بیگم صاحبہ

Page 17

وخت کرام 14 وو کے جوتے کا تسمہ کھل گیا.حضرت نواب صاحب نے نیچے جھک کر آپ کا تسمہ باندھا اور اپنی بیٹیوں کو مخاطب کر کے فرمایا." دیکھو یہ امید اپنے شوہروں سے نہ رکھنا.میں تو اپنی بیوی کی عزت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی سمجھ کر کرتا ہوں.“ ایک اور بڑا دلچسپ واقعہ جس سے حضرت نواب صاحب کی دلی کیفیات کا پتہ چلتا ہے یوں ہے.ایک دفعہ آپ کو ایک نجومی ملا اور بڑے اصرار سے آپ کا ہاتھ دیکھنے کی خواہش کی.آپ نے بار بار اس کو ٹالا لیکن اس کا اصرار جاری رہا.آخر تنگ آ کر حضرت نواب صاحب نے فرمایا.آخر تم مجھے کیا نئی بات بتاؤ گے؟ میرے جیسی قسمت تو مجھے پتہ ہے کہ یا میرے باپ کی تھی یا میری ہے.آپ کو یاد ہے نا کہ باپ کی شادی حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی بڑی بیٹی حضرت نواب مبارکہ بیگم سے ہوئی تھی اور بیٹے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چھوٹی بیٹی سے ہوئی.کتنے خوش قسمت باپ بیٹا تھے.! عائلی زندگی حضرت سید ہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بہت محبت اور پیار کرنے والی خدمت گزار بیوی ثابت ہوئیں.آپ کے خاوند اگر آپ کا خیال رکھتے اور عزت کرتے تھے تو وہ بھی اپنے میاں کی محبت کی قدر کرتی تھیں.اور اس

Page 18

وخت کرام 15 محبت کا ناجائز فائدہ نہ اٹھاتی تھیں.شروع زندگی میں آپ کے میاں کے اپنے کوئی ذرائع آمدن نہیں تھے.کچھ ماہوار جیب خرچ اپنے والد حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی طرف سے ملتا تھا.سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ انہی پیسوں میں انتہائی سلیقے سے گھر کا خرچ چلاتی تھیں اور کبھی اپنے میاں پر ناجائز بوجھ نہیں ڈالا.بلکہ بہت حکمت سے ان کو کام کرنے کی ترغیب دیتی رہتی تھیں.آپ کی فطرت میں غیرت اور خود داری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.سوائے خدا سے کسی کا احسان مند رہنا آپ کو سخت نا پسند تھا.چنانچہ مسلسل دعا اور ترغیب کے نتیجے میں حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب سندھ میں اپنے لئے زرعی اراضی لینے میں کامیاب ہو گئے.آپ کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.اور اس زمین کے حصول کے لئے تکالیف اٹھانا پڑیں.جن کی آپ کو عادت نہ تھی.کیونکہ آپ بہت ناز و نعم میں پلے ہوئے تھے بیوی نے حوصلہ دلایا اور ساتھ اپنا زیور پیش کر دیا.تا کہ فروخت کر کے زمین کی قیمت ادا کی جائے.اللہ تعالیٰ کی ذات رحیم ہے اور وہ محنت کو پسند فرماتا ہے اور اس کا صلہ دیتا ہے تبھی تو اس کی ذات رحیم کہلاتی ہے.چنانچہ یہ زمین جو حضرت اماں جان اور آپ کی بیوی کی دعاؤں کا نتیجہ تھی.بہت با برکت ثابت ہوئی.اور اللہ تعالی نے آپ کے حالات بدل دیئے.

Page 19

وقت گرام 16 حضرت نواب محمد عبد اللہ خان نے حضرت اماں جان کی اجازت سے اس فارم کا نام نصرت آباد رکھا.کیونکہ ان کو یقین کامل تھا کہ یہ زمین اماں جان کی دعاؤں کا ثمر ہے.دعا گو وو حضرت سید و امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بہت دعا گو تھیں.آپ کا اللہ میاں سے خاص تعلق تھا.اللہ میاں آپ کو آنے والے بہت سے واقعات کی پہلے سے خبر دیتا تھا.ایک دفعہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خواب میں نظر آئے اور فرمایا ” حفیظ مجھے تمہاری یہ عادت بہت پسند ہے.“ سوچ سوچ کر سوچ سوچ کر اور پھر فرمایا.تکلفات میں نہ پڑنا یہ اخلاص اور محبت کی جڑیں کھوکھلی کر دیتا ہے.“ یہ خواب آپ کو اُس وقت آئی جب آپ کے حالات بہت تنگ تھے.آپ کے منجھلے بھائی حضرت مرزا بشیر احمد نے خواب سن کر آپ کو اس کی یہ تعبیر بتائی کہ آپ کے حالات اچھے ہونے کی اس خواب میں بشارت ہے.تکلمات میں تو انسان تبھی پڑتا ہے جب آسائش ہو.ہمیں بھی چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت پر عمل کریں اور تکلفات میں نہ پڑیں.بلکہ اپنے پیسے بچا کر اللہ میاں کے

Page 20

وخت کرام راستے میں چندہ ادا کریں.17 آپ گھنٹوں نوافل ادا کرتیں اور اپنے بچوں کو بھی دعاؤں کی تلقین کرتی تھیں.بعض اوقات آپ کو خواب آتی جو دوسرے دن ہی پوری ہو جاتی.جماعت کی خواتین آپ کے پاس دعا کے لئے آتیں آپ ان کے لئے دردِ دل سے دعا کرتیں اور جب تک دعا قبول نہ ہوتی ان کے لئے فکر مند رہتیں.اکثر ایسا ہوا کہ آپ کو کسی چیز کی ضرورت پڑی اور اللہ میاں نے کہیں نہ کہیں سے بھجوادی.جب بھی ایسا ہوتا آپ کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگتا.اور آپ بار بار اللہ میاں کا شکر ادا کرتیں اور لوگوں سے بھی خوش ہو کر اس کا ذکر کرتیں.ایک دفعہ آپ کو شہد کی ضرورت پڑی.آپ کی بڑی بیٹی نے کہا میں نے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کے پاس دیکھا ہے میں ان سے لا دیتی ہوں آپ نے فورا منع کیا اور فرمایا مجھے نہیں پسند کہ میں اپنی ضرورت کسی انسان سے بیان کروں.میرا خدا میری ہر ضرورت پوری کرتا ہے.اللہ میاں نے اس فقرہ کی ایسی لاج رکھی کہ اسی دن کہیں سے شہد آپ کے پاس آ گیا.آپ کو اللہ میاں پہلے سے آنے والے حادثات کی خبر دے دیتا تھا.آپ کے شوہر کی بیماری کی اللہ میاں نے بہت سال پہلے آپ کو اطلاع دے

Page 21

وحت گرام 18 دی تھی آپ کی چھوٹی بیٹی فوزیہ کے گھر جب سعد یہ پیدا ہوئی تو آپ نے ان سے کہا کہ مجھے فکر ہے کہ یہ بچی ٹھیک رہے.کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تمہارے ہاں ایک پتی پیدا ہوئی ہے جو مجھے بہت پیاری ہے.چنانچہ سعد یہ اپنی نانی کو غیر معمولی پیاری تھی لیکن اس کی ساری زندگی بیماریوں میں گزری.اللہ میاں نے آپ کو اپنی اولاد کے متعلق بہت سی بشارتیں بھی دی ہیں.جو آئندہ زمانے میں ان کے قابل ہوگا انشاء اللہ ، اللہ میاں ان کے متعلق پوری کرے گا.تربیت کے انداز ایک دفعہ آپ کی نواسی سمیرا نے بچپن میں آپ سے محط لکھ کر کوئی مطالبہ کیا.آپ نے اس کا مطالبہ تو پورا کر دیا لیکن ساتھ ہی اس کی تربیت کے لئے اس کو سمجھایا کہ انسانوں سے نہیں مانگتے.اپنی ہر ضرورت اپنے خدا سے بیان کرو وہی ہر حاجت پوری کرنے والا ہے.آپ کی تربیت کے انداز بڑے ہی دلکش تھے.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی طرح آپ نے اپنے بچوں پر کبھی تھی نہیں کی.لیکن آپ کے بچے آپ کے اشارے پہچانتے تھے.آپ بچوں کو بے تکے پیسے دینے کی قائل نہ تھیں.

Page 22

وخت کرام 19 آپ محسوس کرتی تھیں کہ اس سے بچوں میں فضول خرچی پیدا ہوتی ہے.جب بھی کسی ضرورت کے لئے ہے دیتیں تو ایک ایک پیسہ کا حساب لیتیں.یہ اس لئے تا کہ بچوں میں لین دین میں دیانت داری پیدا ہو.عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو سالگرہ پر کیک منگوا کر دعوت کرتی ہیں اور تحائف دیئے جاتے ہیں.آپ نے ایسا کبھی نہیں کیا بلکہ اس دن کوئی نیک نصیحت کان میں ڈالتیں.ایک دفعہ آپ اپنی زمینوں پر سندھ میں تھیں آپ کی بیٹی فوزیہ کی چودھویں سالگرہ آئی آپ نے اپنے ہاتھ سے ان کو ایک پیارا سا خط لکھا.جو آج تک انہوں نے سنبھالا ہوا ہے اس میں آپ نے بڑی قیمتی نصائح کیں.سب سے پہلے تو یہ لکھا کہ چودھواں سال ایک لڑکی کے لئے خاص سال ہوتا ہے اس لئے بعض ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.آپ نے نصیحت کی کہ دعاؤں کو اپنا وطیرہ بنا لینا چاہیے.اور اپنے نیک نصیب ہونے کی دعا کرنا چاہیے.سوائے خدا کے کسی انسان سے کوئی امید نہ رکھنی چاہیے.اور مخلوق خدا سے ہمدردی کو اپنا شعار بنا لینا چاہیے اور کسی انسان کو زبان یا ہاتھ سے دکھ نہ پہنچانا چاہیے اس سے اچھا تحفہ کیا کوئی ماں اپنے بچے کو دے سکتی ہے؟ اتنی پیاری صیحتیں اگر ہم مان لیں تو خدا بھی خوش اور بندے بھی خوش اللہ تعالی ہم سب کو ان پر عمل کرنے کی توفیق

Page 23

وخت کرام 20 20 عطا فرمائے آپ سب بھی اپنی سالگرہ کے موقعہ پر ان تین اچھی باتوں پر عمل کرنے کا عہد کریں تو یہ اصل سالگرہ ہوگی.کڑی آزمائش یہ دنیا صرف کھیل کو د نہیں.یہاں بعض اوقات آزمائشیں بھی آتی ہیں.یہ اس لئے تا کہ اللہ میاں اپنے بندوں کو آزمائے اور ان کو پاک کرے.حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ پر بھی زندگی میں بہت بڑی بڑی آزمائشیں اور ابتلا آئے.1948 ء میں ہجرت کے بعد حضرت نواب محمد عبد اللہ صاحب کو دل کا شدید حملہ ہوا.یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ ڈاکٹروں کو آپ کی زندگی کی کوئی امید نہ رہی.حضرت بیگم صاحبہ نے دن رات آپ کی خدمت کی.ڈاکٹروں نے بھی اس بات کا اقرار کیا کہ ایسی نرسنگ تو ٹرینڈ نرسیں بھی نہیں کرسکتیں.اس بیماری کے بعد حضرت نواب صاحب تیرہ سال زندہ رہے.لیکن دوبارہ نارمل زندگی نہ گزار سکے.آپ کی پیاری بیوی نے آپ کی خدمت کا پورا حق ادا کیا.اور ہر قسم کی تفریح کئی سال تک اپنے لئے حرام کر لی.آپ اپنے میاں کی بیماری میں پیسوں کا بھی انتظام کرتیں اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھی دھیان دیتیں.کئی مہینہ

Page 24

وخت کرام 21 تک تو آپ اپنے بیمار خاوند کے کمرے سے بھی باہر نہ نکلیں.ایک دفعہ بہت عرصہ کے بعد جب باہر آ ئیں تو سورج کی روشنی کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی آنکھیں چندھیا گئیں.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان آپ کی اس خدمت سے اتنا متاثر ہوئے کہ بیماری سے کچھ آرام آنے پر الفضل میں آپ کے پاک نمونے پر ایک مضمون اظہار تشکر کے لئے لکھا.آپ کے شوہر کی بیماری میں ہی حضرت اماں جان کی وفات ہو گئی.آپ کو چند دن پہلے ربوہ جا کر اماں جان کی خدمت کا موقع ملا.اس دوران آپ نے اپنی ایک بیٹی کو نواب صاحب کی نگہداشت کے لئے لاہور چھوڑ دیا حضرت اماں جان کی وفات کے دوسرے ہی دن آپ واپس اپنے بیمارشوہر کے پاس آ گئیں.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب پر آپ کی اس خدمت کا گہرا اثر تھا.آپ اکثر اظہار تشکر کے لئے ان کی خدمات کا ذکر کرتے تھے.حضرت سید ہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی صحت اس مسلسل مشقت سے بہت خراب ہو گئی تھی.آپ کو سر درد کے دورے اور بلڈ پریشر رہنے لگا.آپ کے خاوند کے دل میں آپ کی اور بھی قدر اور عزت بڑھ گئی.اپنی بیماری کے باوجود

Page 25

وخت کرام 22 22 جب آپ کی بیگم کو سر درد کا دورہ ہوتا تو سارے گھر میں آپ خاموشی کراتے اور ان کے خیال میں کوئی کسر نہ چھوڑتے.مختصراً یہ ایک مثالی جوڑا تھا.جو تکلیف میں ایک دوسرے کا سہار ابنتا تھا.دیکھنے والے کہتے تھے کہ ایسا پیار اور وفا دنیا میں کم دیکھا ہے.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کی طبیعت میں بے انتہا سادگی تھی اور حضرت سید ہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ انتہائی ذہین اور نکتہ رس تھیں طبیعتوں کے اس اختلاف کے باوجود آپ حضرت نواب صاحب کی نیکی اور پیار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں.اور طبیعتوں کے اختلاف کو محبت کے پردوں میں چھپا دیتی تھیں.یہی باتیں تو آپ کے کریمانہ اخلاق ظاہر کرتی ہیں.تبھی تو اللہ میاں نے دُخت کرام جیسا لقب آپ کو عطا فر مایا.اللہ تعالی تمام بچیوں کو حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے نقش قدم پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے.تیرہ سال کی کٹھن اور تکلیف دہ بیماری کے بعد 18 ستمبر 1961ء میں حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کا انتقال ہو گیا.اس وقت آپ کے تین بچے غیر شادی شدہ تھے.اس کڑے وقت میں بھی آپ نے ہمت نہیں ہاری اپنے بچوں کی خاطر اپنے آپ کو مضبوط کیا اور مردوں کی طرح سارے کام سنبھال لئے آپ کے ذرائع آمدن زمینوں سے وابستہ تھے ہم

Page 26

وخت کرام 23 حیران ہو کر دیکھتے تھے کہ آپ منشی کو بلا کر تمام زمینوں کا کام بجھتیں اور ان کا انتظام کرتیں اور ایسا اچھا کام سنبھالا کہ حالات پہلے سے بہتر ہو گئے.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کی وفات کا اثر ان کے بچوں نے بہت لیا.ان کی سب سے چھوٹی بیٹی فوزیہ کے دل پر بھی بہت اثر تھا.اس عمر میں موت کو اتنے قریب سے دیکھنا آسان نہیں.والد صاحب کی لمبی بیماری نے اعصاب بھی کمزور کر دیئے تھے.جوان لڑکی کی یہ حالت دیکھ کر ماں کا دل بے قرار ہو جاتا تھا.اس زمانے میں بیرونِ ملک جانا کوئی معمولی بات نہ تھی لیکن حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحب کو اللہ تعالی نے غیر معمولی فراست عطا کی ہوئی تھی آپ جانتی تھیں کہ اس ماحول میں رہ کر طبیعت کا رخ نہ بدلے گا.چنانچہ فوزیہ کے لئے وہ ماں باپ دونوں بن گئیں اور فیصلہ کیا کہ اس کو تبدیلی آب و ہوا کے لئے اُن کی بہن قدسیہ بیگم کے پاس لندن بھجوا دیں.ساری تیاریاں مکمل تھیں.لیکن فوزیہ کا دل اپنی ماں کو اکیلا چھوڑنے پر راضی نہ ہوتا تھا آخر یہ حال دیکھ کر بڑی بہنوں نے اپنی ماں کو تیار کیا کہ وہ بھی ساتھ جائیں.ان کو بھی تو ضرورت تھی.دل نہ چاہنے کے باوجود بیٹی کے لئے تیار ہوگئیں اور یوں یہ سفر ایک غیر معمولی برکت وسعادت کا باعث بنا.وہ سعادت کیا تھی؟ اب اس کا حال سنو! جب آپ انگلینڈ پہنچیں تو زیورک کے امام مسجد چوہدری

Page 27

وخت کرام 24 مشتاق احمد باجوہ صاحب مرحوم کا بلاوا چند دن بعد ملا.جس میں زیورک کی مسجد کا سنگ بنیاد آپ کے مبارک ہاتھوں سے رکھوائے جانے کی درخواست تھی.پہلے تو آپ اپنی فطری جھجک کی وجہ سے ہچکچا ئیں لیکن پھر خدا کی طرف سے سعادت سمجھ کر راضی ہو گئیں.آپ ہمیشہ فرماتی تھیں کہ یہ سفر اللہ میاں نے میری قربانیوں کی جزا کے طور پر کرایا ہے.غیر ممالک کی سیاحت اس سفر میں آپ کی سیاحت کی دسر بیند خواہش پوری ہوئی.آپ نے جو مطالعہ زندگی میں کیا تھا اب اس کے ذاتی مشاہدہ کا وقت آ گیا تھا آپ کا شوق دیکھ کر لندن کے لوگوں نے آپ کو خوب سیر کرائی اور کوئی تاریخی مقام ایسا نہ تھا جو آپ نے نہ دیکھا اتنی تفصیل سے میر کی کہ چارلز ڈاکٹر کی inn بھی دیکھی شیکسپیر کی جائے پیدائش اور Wordsworth کا علاقہ بھی ایک دفعہ آپ نے چرچ جا کر انگریزوں کی روایتی شادی بھی دیکھی.آپ کو انگلش کورٹ کی کاروائی دیکھنے کا شوق تھا.چنانچہ اس کا بھی انتظام کر کے آپ کو کاروائی دکھائی گئی.بے شمار بادشاہوں کے محل امراء کی سٹیٹس ( states) بھی آپ نے دیکھیں.سوئٹزر لینڈ کی مسجد کی تقریب سنگ بنیاد پر جاتے ہوئے آپ نے

Page 28

وخت کرام 25 کئی ممالک کی سیر کی.سب سے پہلے آپ ہالینڈ گئیں ہیگ اور ایمسٹر ڈم وہاں کے مشہور شہر ہیں.ان شہروں کے اہم مقامات کی سیر کی.پھر آپ جر منی تشریف لے گئیں.اور وہاں ائیر پورٹ پر جماعت نے آپ کا شاندار ستقبال کیا.دوسرے دن اخباری نمائندوں نے آپ کا انٹرو یولیا اور آپ کی اور فوزیہ کی برقعہ میں تصاویر وہاں کے اخبارات میں شائع ہوئیں.جرمنی سے ڈنمارک اور پھر سوئٹزر لینڈ نہیں.وہاں پر اخباری نمائندوں نے آپ کا انٹرویولیا ان کو بہت حیرت تھی کہ پاکستان سے ایک عورت کو مسجد کے سنگِ بنیاد کے لئے بلایا گیا ہے ان کا خیال تھا کہ اسلام میں عورت کا کوئی مقام نہیں لیکن یہاں معاملہ برعکس نکلا.آپ نے اپنی انٹرویو میں سوس (Swiss) لوگوں کو بتایا کہ اسلام میں عورت اپنے گھر کی ملکہ ہوتی ہے اور اس کو تمام حقوق ملے ہوئے ہیں اس سفر میں آپ کی دونوں بیٹیاں قدسیہ اور فوزیہ ساتھ تھیں اور دوسرے دن 25 / اگست 1962 ء کو زیورک مسجد کا سنگ بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے چھوٹی بیٹی سے رکھوایا گیا.اس موقعہ پر آپ نے "سوس (Swiss ) لوگوں کو پیغام دیا کہ اسلام کا مطالعہ کریں اور حق کو تلاش کریں.آپ کی اس موقع پر بہت سی تصاویر کھینچیں گئیں.جو دوسرے دن اخباروں میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئیں.اور چونکہ

Page 29

وخت کرام 26 تصاویر میں سب نے برقعہ پہنا ہوا تھا.اس لئے تبلیغ کا ذریعہ بن گئیں.یہ ایک اہم تاریخی واقعہ تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی کے ہاتھوں سے تثلیث کے مرکز میں خانہ خدا کی بنیا د رکھی گئی.لندن سے واپس آنے کے بعد آپ نے فرانس کا سفر بھی کیا.اس سفر کا انتظام صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے اپنے کسی دوست کے ذریعے کروایا پیرس میں بھی آپ نے خوب سیر کی.جہاں آپ اور فوزیہ ٹھہرے تھے وہ انتہائی شریف اور خاندانی لوگ تھے اُن کے گھر میں ان کی ایک عزیز بھی ٹھہری ہوئی تھیں جو بہت بڑے گورنمنٹ افسر کی بیگم تھیں.حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم اور فوزیہ برقعہ میں ہوتی تھیں اور وہ شاید ان دونوں کو دقیانوسی بجھتی تھیں.ان خاتون کو گھر والے بھائی جان کہتے تھے وہ بیگم صاحبہ اور ان کی بیٹی کو خاطر میں نہ لاتی تھیں.اللہ کو شاید یہ کبر پسند نہ آیا.ایک دن شاپنگ کے دوران بیگم صاحبہ کی طبیعت ناساز ہوگئی اور وہ اور فوزیہ سٹور سے جلد باہر آ گئیں اور کار میں بیٹھ کر باقی لوگوں کا انتظار کرنے لگیں.کافی دیر ہوگئی لیکن میزبان باہر نہ نکلے.بہت انتظار کے بعد آئے تو پتہ چلا کہ بھائی جان کے بیگ سے کچھ ایسی چیزیں نکل آئیں جن کی قیمت ادا نہ ہوئی تھی.اس زمانے میں فرانس اور الجیریا کی جنگ ہو رہی تھی اور سٹور والے نے

Page 30

وخت کرام 27 غالباد شمنی سے بھابی جان کے بیگ میں چیزیں ڈال دی تھیں.واللہ اعلم لیکن حضرت دیگم صاحبہ اور فوزیہ شکر ادا کر رہے تھے کہ انہیں اللہ میاں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صدقے اس ذلت سے بچالیا.ورنہ ہمارے برقعے تو ان لوگوں کی نظروں میں زیادہ قابل گرفت تھے.اس واقعہ کے بعد بھابی جان کی طر ز بھی بدل گئی اور وہ محبت اور عزت سے پیش آنے لگیں.اللہ میاں کس طرح اپنے پیاروں کی عزت رکھتا ہے.اور اللہ میاں کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ بھی تو ہے " انـى مهـیـن مـن اراد اهانتك» یعنی میں اهانت کروں گا اس کی جو تیری اھانت کا ارادہ بھی کرے گا.اس سفر سے حضرت سید وامتہ الحفیظ بیگم اور ان کی بیٹی کو دینی دینوی فائدے پہنچے.دنیا میں پھر کر اللہ کے فضلوں کا مشاہدہ کیا.اللہ میاں کا شکر پیدا ہوا تو طبیعت بھی بحال ہوگئی.ستمبر میں آپ لاہور واپس آ گئیں.خلافت سے محبت حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ میں خلافت کا بے حد احترام اور محبت تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب آپ

Page 31

وخت کرام 28 کے بھتیجے تھے اور آپ سے چھوٹے تھے.آپ خلافت کے بعد ان کو میاں ناصر کہنے لگیں اور ان کے سامنے سر پر دوپٹے لے کر بیٹھی تھیں حضرت خلیفہ مسیح الرابع سے بھی آپ کو بہت محبت تھی.اور وہ بھی آپ سے بہت محبت کرتے تھے.ان کی وفات کے بعد انہوں نے ایک خطبہ میں آپ کی خوبیوں کا تذکرہ کیا اور فرمایا کہ میں ان کی طبیعت کی چھپی ہوئی خوبیوں کو بھی پہچانتا تھا.اور اپنی زندگی میں انہوں نے (یعنی حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ) اپنے نمونے سے ثابت کر دیا کہ وہ واقعی دخت کرام کہلانے کی صحیح مصداق ہیں.جب حضرت خلیفۃ امسیح الرابع خلیفہ بنے تو وہ انگوٹھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بنوائی تھی وہ انگوٹھی جب حضرت خلیفہ امسیح الرابع کو دی گئی تو آپ نے فرمایا کہ یہ میں آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چھوٹی بیٹی سے پہنوں گا.چنانچہ قصر خلافت میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع کو یہ انگوٹھی حضرت سیّدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے پہنائی.عجیب نظارہ تھا وہی پھوپھی جو اپنے سے بہت چھوٹے بھتیجے سے بے تکلفی سے ملتی تھیں.اس وقت سر پر دوپٹہ لے کر بیٹھی تھیں.اور حضور کو بڑے پیار اور احترام سے انگوٹھی پہنا رہی تھیں.اس دن کے بعد ان کے طاری ہمیشہ کے لئے میاں طاہر بن گئے.حضور نے آپ کی وفات کے بعد ایک خطبہ میں فرمایا کہ سیدہ امتہ الحفیظ

Page 32

وخت کرام 29 29 بیگم صاحبہ سے مجھے بہت محبت تھی.میں ان کو اپنی والدہ کی جگہ سمجھتا تھا.اس طرح ایک طرح وہ میری والدہ تھیں.حضور کی جدائی کا آپ کو بے حد رنج تھا.آپ کو بہت یاد کرتی تھیں اور اکثر جانے والوں کے ہاتھ کہلا کر بھیجتی تھیں کہ میرا جنازہ غائب نہیں بلکہ حاضر پڑھاتا ہے لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا آپ کی بیماری لمبی ہوگئی.کمزوری بڑھتی گئی اور آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ آخری نشانی ہم سب سے جدا ہوکر اپنے حقیقی مولا سے جاملیں.بہن بھائیوں کی محبت حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ چونکہ سب بہن بھائیوں میں چھوٹی تھیں.اس لئے سب کو بہت زیادہ پیاری تھیں.بڑے بھائی حضرت مصلح موعود آپ سے باپ کی طرح شفقت اور محبت فرماتے.آپ کی شادی کے معاملات بھی سب آپ نے طے فرمائے.آپ کی پریشانیوں میں آپ کی بہت دلداری فرماتے اور حوصلہ دیتے ایک دفعہ آپ کو پریشان دیکھ کر فرمایا ” حفیظ کیا بات ہے؟ کیوں پریشان ہو؟ آپ بھائی کی ہمدردی پا کر رو پڑیں حضور نے بڑی شفقت سے فرمایا حفیظ گھبراؤ نہ بعض اوقات ریس میں پیچھے رہ جانے والا گھوڑ اسب سے

Page 33

وخت کرام 30 آگے نکل جاتا ہے.ایسے ہوتے ہیں بڑے بھائی.کتنے پیار سے اپنی چھوٹی بہن کو دلا سا بھی دیدیا اور حوصلہ بھی بڑھادیا.آپ کے منجھلے بھائی حضرت مرزا بشیر احمد سے آپ کا بہت دوستانہ تعلق تھا.ان سے آپ اکثر انگریزی پڑھا کرتیں.وہ آپ کو مشکل الفاظ کے معنی بڑی مزیدار مثالیں دے کر سمجھاتے.ایک دفعہ ایک انگریزی کا لفظ fain آیا.آپ نے اس کا استعمال اس طرح سمجھایا.کہ ملکہ الزبتھ اول نے ایک بار اپنے ایک کارڈینل (Cardinal) کو بلوایا.ملکہ کے منظور نظر بدلتے رہتے تھے اس لئے سب ملکہ کے قریب آتے ڈرتے تھے اس کارڈینل نے کہلا بھیجا.Fain would I come but that I fear to fall.ملکہ نے جواب دیا.If thy heart fails thee do not come at all.حضرت بیگم صاحبہ کی چار بیٹیوں کی شادیاں بھی ان کی نسل میں ہی ہوئیں دو بیٹیاں آپ کے بیٹوں سے بیاہی گئیں.اور دو بیٹیاں آپ کے نواسوں سے بیاہی گئیں.چھوٹے بھائی حضرت مرزا شریف احمد بھی آپ سے بہت پیار

Page 34

وخت کرام 31 کرتے تھے ان کی شادی آپ کی بڑی نند حضرت بو زینب صاحبہ سے ہوئی تھی.آپ اکثر بتاتی ہیں کہ چھوٹے بھائی پیار سے میرے گال اتنا کھینچتے تھے کہ لٹکا دیتے تھے ان کی بیٹی امتہ الباری بیگم آپ کے بڑے بیٹے صاحبزادہ عباس احمد خان سے بیاہی گئیں اور حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی بیٹی ذکیہ بیگم حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے بیٹے مرز اداؤ داحمد سے بیاہی گئیں.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور سید و امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بہنیں بھی تھیں اور ساس بہو بھی.کیونکہ آپ کو پتہ ہے نا کہ حضرت سیّدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی شادی حضرت نواب مبارکہ بیگم کے شوہر نواب محمد علی خان کی پہلی بیوی کے بیٹے سے ہوئی تھی.دونوں بہنیں بہت پیار سے رہتی تھیں اور جب حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم کے میاں نواب محمد عبد اللہ خان بیمار ہوئے تو حضرت نواب مبارکہ بیگم ایک سال ان کے ساتھ کمرے میں رہیں تا کہ ان کی تیمارداری کریں.اور ساتھ چھوٹے بچوں کا خیال بھی رکھیں.صبر ورضا حضرت سید و امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ میں صبر کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.ہر حالت میں بشاشت کے ساتھ گزارہ کرتی تھیں.اپنے میاں کی بیماری

Page 35

وخت کرام 32 میں بھی حوصلہ نہیں ہارا.بیماری کے لمبے سال انتہائی صبر کے ساتھ اپنی بشاشت کو قائم رکھتے ہوئے گزارے.اپنے بچوں کو بھی یہی نصیحت کرتی تھیں کہ اللہ کی رضا پر راضی رہو اور حالات کا مقابلہ دلیری اور بشاشت سے کرو.خدا سے دعاؤں کے ذریعے مدد حاصل کرو.اگر استقلال سے دعا مانگتے رہو گے تو خدا کا فضل جلد تمام مشکلات آسان کر دے گا.آپ کے جوان داماد صاحبزادہ مرزا اشمیم احمد صاحب ٹوکیو میں اچانک حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے آپ کی بیٹی فوزیہ اپنی تین چھوٹی چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ پاکستان پہنچی تو آپ نے صبر اور ہمت کے ساتھ اس کو سنبھالا اور جب تک زندہ ر ہیں انتہائی پیار محبت اور صبر سے ان کے لئے دعا مانگتی اور سہارا دینے کی کوشش فرماتی رہیں.بہترین منتظم میں نے شاید آپ کو ابھی تک نہیں بتایا کہ آپ بہترین منتظمہ تھیں.اپنا گھر بے حد سلیقہ سے چلاتی تھیں اور کم پیسوں میں بہترین گھر رکھتی تھیں.آپ کو چیز اور پیسے ضائع کرنا قطعاً پسند نہ تھا.سارا حساب کتاب ایک کاپی میں لکھ کر رکھتیں.اگر کسی سے کوئی چیز منگا نہیں تو فورا پیسے ادا کر تیں آپ کے

Page 36

وخت کرام 33 گھر جیسا کھانا شاید اور کہیں نہیں کھایا.اپنے باورچی کو زبانی کھانے کی ترکیب بتا کر اتنا عمدہ کھانا بنواتیں کہ انسان انگلیاں چاٹتا رہ جاتا.یہ سارا سلیقہ آپ نے حضرت اماں جان سے سیکھا.ورزش آپ کو ورزش کرنا بہت پسند تھا.میں نے اکثر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کو اپنے صحن میں چہل قدمی کرتے دیکھا.بعض اوقات آپ اپنی بچیوں کے ساتھ صحن میں تیز تیز چہل قدمی کرتی تھیں اور ساتھ گفتگو بھی کرتی رہتی تھیں.ربوہ میں اکثر عزیزوں کے گھر آپ جب تک صحت کی حالت میں رہیں پیدل ہی جاتی تھیں.رات پڑنے پر آپ کے ڈرائیور خان صاحب آپ کو کار میں واپس گھر لے آتے تھے.دوستی آپ ہمیشہ اپنی بچیوں کو سمجھاتی تھیں کہ لڑکیوں کو دوستی میں راز داری نہیں کرنا چاہیئے.بچپن میں بعض اوقات بچے غلط باتیں دوستوں سے کر دیتے ہیں جن کے نتائج اچھے نہیں ہوتے آپ ہمیشہ اپنے بچوں کی دوستیوں پر نظر رکھتیں.ان کے ماں باپ کا پتہ کرتیں اور ان سے خود بھی ملتیں

Page 37

وخت کرام 34 ایک دفعہ انہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے زندگی میں صرف ایک دوست بنائی ہے اور وہ سردار ہے یعنی استانی سردار صاحبہ جو جامعہ نصرت میں وارڈان تھیں.پ اپنے بچوں کو دوستوں کے ساتھ کمرے بند کر کے کھیلنے سے منع کرتیں.آپ فرماتی تھیں کہ جو کھیل بھی کھیلو ماں باپ کی نظروں کے سامنے ہو.بچوں سے محبت آپ کا اپنے بچوں سے دوستوں والا تعلق تھا اور ساتھ آج کل کے ماں باپ کی طرح بے تکی بے تکلفی اور بے لحاظی نہ تھی بلکہ اپنا رعب قائم رکھا ہوا تھا آپ اپنے بچوں کی عزت نفس قائم رکھنے والی ماں تھیں بچوں میں یہ احساس ڈالا ہوا تھا کہ اپنی تکلیف کا اظہار خدا کے سوا کسی کے سامنے نہیں کرنا.آج کل لڑکیاں اپنی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی اپنے والدین کو بتا دیتی ہیں.آپ کو یہ سخت نا پسند تھا اسی لئے آپ کے بچے اپنی کسی تکلیف کا اظہار ماں باپ کے سامنے نہیں کرتے تھے.ایک دفعہ ان کی بیٹی صاحبزادی طاہرہ صدیقہ کے پاس پارٹیشن کے بعد کوئی رضائی نہیں تھی.آپ نے اپنی والدہ سے کہا کہ مجھے کمبل بھجوا دیں.جب رضائیاں بھر کر آجائیں گی تو میں واپس بھجوا دوں گی.کچھ دن بعد سیدہ امتہ الحفیظ بیگم نے کمیل منگوا لئے یہ سمجھتے ہوئے کہ شاید رضائیاں آگئی ہوں.اس رات

Page 38

وخت کرام 35 صاحبزادی طاہرہ اپنے گھر کی چادریں اور کپڑے جوڑ کر سوئیں لیکن ماں باپ کو پتہ نہیں لگنے دیا کہ حالات نے ان کو رضائی بنوانے نہیں دی.دوسرے دن اللہ میاں نے ان کے والد کو اطلاع دیدی کہ بیٹی تکلیف میں ہے اور انہوں نے زبر دستی کمیل واپس بھجوا دیئے.اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ خدانخواستہ بچوں پر سختی کرتی تھیں.بچوں کے لئے بے حد شفیق اور قربانی کرنے والی ماں تھیں، لیکن ساتھ تربیت کے لئے جائز بختی بھی کرتی تھیں.جب فوزیہ کی صحت اپنے ابا کی وفات کے بعد خراب ہوگئی تو اس کے لئے یورپ کا سفر اختیار کیا.ایک دفعہ کہنے لگیں.I have brought her here to bring her roses back.یعنی میں اس کو یہاں اس لئے لائی ہوں تا کہ اس کے چہرے کے گلاب واپس آ جائیں اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نیکیوں کا بہترین اجر عطا فرمائے رمائش بچو! آپ نے ربوہ میں شاہراہ درخت کرام دیکھی ہوگی.اس سڑک کا نام آپ کے الہامی نام پر رکھا ہوا ہے اور یہیں آپ کا گھر بیت الکرام واقع ہے آپ آخری عمر میں اس گھر میں رہتی تھیں.اسی سڑک پر آپ کی تعین اور

Page 39

وخت کرام 36 بیٹیوں کے گھر بھی ہیں.آخری عمر میں آپ کے پاس ایک فیروزی رنگ کی Volks Wagen کارتھی.جس کو آپ کے ڈرائیور خان صاحب چلایا کرتے تھے.یہ کا رابھی تک آپ کی بیٹی شاہدہ کے بچوں کے پاس ہے.اولاد اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کو نو بچوں سے نوازا.آپ کے تین بیٹے اور چھ بیٹیاں پیدا ہوئیں بیٹوں کے نام یہ ہیں.(1) نواب عباس احمد خان مرحوم (2) نواب شاہد احمد خان پاشا (3) نواب مصطفیٰ احمد خان بیٹیوں کے نام یہ ہیں.(1) صاحبزادی آمنہ طیبہ (2) صاحبزادی طاہرہ صدیقہ (3) صاحبزادی زکیہ بیگم (4) صاحبزادی قدسیہ بیگم (5) صاحبزادی شاہدہ بیگم (6) صاحبزادی فوزیہ بیگم آپ کے 35 نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں ہوئے جن میں سے مرزا غلام قادر راہ مولیٰ میں شہید ہو چکے ہیں اور سعدیہ عصمت وفات

Page 40

وخت کرام 37 پاچکی ہیں.انا الله و انا اليه راجعون دیکھا بچو! ایک شہزادی کی کتنی عمدہ اور دلچسپ کہانی آپ نے سنی؟ آپ کو پتہ لگ گیا ہو گا کہ یہ کوئی معمولی شہزادی نہ تھی بلکہ ان کا باپ اپنے وقت کا روحانی بادشاہ تھا اور اُس کے سر پر روحانیت کا تاج تھا.چلو آج ہم مل کر عہد کریں کہ آج سے ہم اپنی زندگیاں ان کے نمونے کے مطابق گزاریں گے تاکہ ہمارا پیارا خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے راضی ہو آمین.

Page 41

وخت کرام (Dukht-e-kiram") Published in UK in 2007 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.ISBN: 1 85372 934 5

Page 41