Language: UR
وخت کرام حضر سيرة وسَوانِح صاجزادی امرة الحفيظ بیگم مرتبا الله سید سجاد احمد
بسم اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ عنوان فهرست پیش لفظ.حضرت سیدہ ام متین مریم صدیقہ صاحبہ ابتدائیہ سیرت و سوانح سے متعلق حضرت مسیح موعود کی ایک تحریر صفحه Y سیرت و سوانح سے متعلق حضرت مسیح موعود کی ایک اور تحریر 9 حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی اہلی زندگی کا مختصر جائزہ میتر اولاد ذہانت و فطانت اولاد کے لیے دُعائیں مستجاب دعاؤں کا فیضان اعلی درجہ کا نیک نمونه ولادت با سعادت تاریخ احمدیت کا ایک ورق حضرت سیدہ کی اولاد تقریب نکاح اور متعلقہ امور 14 19 ;}}}} ۳۴ ۳۴
عنوان رشتہ کے سلسلہ میں خط و کتابت سلسلہ جنبانی حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کی ڈائری کے چند اوراق ایک عجیب رویا وخت کرام کی عجیب شان اعلان نکاح مهر نامه مبارک شادی رخصتی شادی کے متعلق بعض تا ثرات جذبات تشکر و امتنان قرار واقعی احترام کی تلقین اللہ تعالیٰ کے بے انتہا احسانوں کا شکریہ حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کی وصیت حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کی وفات پر بعض تأثرات خاندان حضرت مسیح موعود کی (مالی) قربانیاں امتہ الحفیظ کی آمین دینی مساعی صفحه ۴۰ ۴۲ ۵۰ ۵۱ ۵۳ ۵۴ ۵۸ ۵۹ ۶۲ ۶۵ ۶۷ 49 Fi = 14 1.4 ۱۰۸ 1.4
با برکت نام ایک روایت عنوان میاں عباس احمد خان صاحب کا ذکر خیر بعض یادداشتیں ١١٣ ۱۱۴ ۱۱۴ ۱۱۵ 114 بیت محمود زیور رج (سوئٹزر لینڈ کے سنگ بنیا درکھنے کی مبارک تقریب 119 ایک یادگار واقعہ چ محرکات غیر متوقع خوشکن خبر سنگ بنیاد کی تقریب 119 IM ۱۲۲ ۱۲۴ ۱۲۹ ١٣٠ ۱۳۱ ۱۳۳ ۱۳۵ ۱۳۲ ۱۴۵ INA لجنہ امام اللہ کراچی سے خطاب سفر یورپ کی مزید تفصیلات لندن میں ورود ہالینڈ سنگ ہیمبرگ پریس انٹرویو کوپن ہیگن سو میٹرز لینڈ ایک یادگار دن حضرت سیدہ درخت کرام کی المناک وفات
صفحه عنوان نما نه جنازه و تدفین آخری دیدار جنازہ کی بیت اقصی روانگی بهشتی مقبرہ روانگی آخری آرام گاه ت امام حضرت ادارات الحفیظ بیگم صاحبہ کی ! وخت کرام حضرت سید ہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی وفات اور ذرائع ابلاغ اظہار تعزیت چند تعزیتی خطوط سپاس تعزیت حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ایک بہت ہی بابرکت وجود نفیس اور متعدد نشانوں کی مورد علمی ذوق ۱۵۳ ۱۵ ۱۵۵ 104 ۱۵۷ 109 ۱۶۷ 140 ۱۷۴ 164 190 حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی شفقت کا دائرہ بہت وسیع تھا ۱۹۷ دو احادیث حضرت سیدہ مرحومہ کے دو شعر حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا ایک خطاب گلشن احمد کا ایک حسین پھول حضرت باجی جان کی یاد میں پیگر اوصاف حمیده ۲۱۱ ۲۱۳ ۲۱۴ ۲۱۶ ۲۲۲ ۲۴۳
عنوان وخت کرام - جذبہ تسلیم و رضا کا پیکر تاریخی متبرک انگوٹھی صفحه ۲۵۲ ۲۷۴ میری امّی تحریر صاحبزادی طاہرہ صدیقہ صاحبہ میری پیاری امتی - تحریر صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ ۲۷۳ ۲۸۹ پیاری پھوپھی جان دخت کرام.تحریر صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاب حضرت سیده نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا ایک خط بنام صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ حضرت سیدہ مرحومہ کے چند خطوط حضرت سیدہ دخت کرام کے تین نادر خطوط ۳۲۰ ۳۲۲ ۳۳۲ آہ پیاری چی جان.تحریر بیگم سلمیٰ اظہر محمود صاحب لاہور ۳۳۷ دیده ور - تحریر ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ الوداع دخت کرام - تحریر مولانا غلام باری صاحب سیف وخت کرام - رفتید ولی نه از دل ما " وخت کرام کی شفقتوں کی مورد - زینب ایک مثالی بیوی.تحریر چوہدری محمد صدیق صاحب فاضل حسین یادیں تحریر رضیہ درد صاحبه ایک ہمدرد و غمگسار بستی - تحریر طاهره رشید الدین صاحبه چند متبرک یا دیں تحریر تمیم اختر صاحبہ ۳۴۰ سهام بام بام ۳۴۸ ۳۵۵ ۳۶۰ ۳۶۶ ٣٦٨ ۳۷۰ ۳۷۵
عنوان نا قابل فراموش لمحات ، تحریر ثمینہ سمیں صاحبہ شفقت مادرانه - تحریر زہرہ نسیم صاحبہ با برکت وجود تحریر بشری نسرین صاحبه ایک خط بنام شرکت صاحبہ عظیم الشان خدانی نشانوں کی منظر ایک عظیم ہستی.تحریر امہ القیوم صاحبہ میں نے آپ کو کیسا پا یا تحریر امتہ الودود صاحبہ دخت کرام کے اخلاق کریمانہ.تحریر محمود مجیب اصغر صاحب خدا رحمت کرے.تحریر سیدہ نصرت زین العابدین صاحبہ شفقتوں کا گہوارہ - تحریر عذرا بیگم صاحبہ میرا خواب - تحریر رو بینه نعیم صاحبہ ناقابل فراموش یا دیں.تحریر ستاره مظفر صاحبہ صفحہ ۳۷۸ ۳۸۰ ۳۸۵ ۳۸۶ ۴۰۵ ۴۱۰ ۴۱۴ ۱ ۴۷۲۷ حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا ذکر خیر تحریر امینہ سعود صاحبہ ۴۳۰ نورانی چهره تحریر ناصر بیگم صاحبہ مستجاب الدعوات - تحریر عبدالسمیع صاحب نون ندامت کے دو اوراق - تحریر مبشر احمد محمود جة جة ۴۳۵ ۴۱ ۴۴۸ حضرت سیده امتها الحفیظ بیگم صاحبہ تحریر خواجہ عبد الغفا ر صاحب ڈار ۴۵۷ منظوما وخت کرام از مولانا نسیم سیفی صاحب رحلت حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبه از عبد المنان صاحب ناہید ۶۳ ۶۵
عنوان آسماں اس کی لحد پر نور افشانی کرے از صاجزادی امتہ القدوس صاحب بیاد دخت کرام از سید سجاد احمد عقیدت کے آنسو از ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ جگمگاتی پانچ ہیروں کی لڑی از سیدہ منصورہ حنا صاحبہ ہر گھڑی جس کو خدا کی تھی رضا پیش نظر از سیده منیرہ ظہور صاحبہ محدد سب کی از حمید احمد صاحب اختر سیرت نگاری المتحد فكريد صفحہ ۷۳م ۴۷۴ ۴۷۷
بسم الله الرحمن الرحیم الله يش لفظ از حضرت بیده ام مین میری عتیق احمد ظله العالی) حضرت سید و امتها الحفیظ بیگم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چھوٹی صاحبزادی تھیں.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تو آپ کی عمر صرف چار سال تھی.اس چھوٹی عمر میں آپ کی جدائی کا ان کے دل پر بہت اثر ہوا اسی لیے حضرت اماں جان آپ سے بہت پیار کا سلوک کرتی تھیں.اللہ تعالیٰ کی نظروں میں آپ کا درجہ اس سے ظاہر ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو نام دیا گیا یعنی - * آپ کی زندگی نمونہ ہے آجکل کی خواتین اور بچیوں کے لیے.پارٹیشن کے بعد آپ کے شوہر نواب عبداللہ خان کو دل کا شدید حملہ ہوا.اللہ تعالیٰ نے اس حملہ سے ان کو بچالیا.سیدہ امتہ الحفیظ بیگم نے ان کی خدمت میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی.ڈاکٹر بھی جو ان کو دیکھنے آتے تعریف کرتے کہ ایک ٹرینڈ نرس کی طرح آپ نرسنگ کر رہی ہیں.پہلے حملہ کے بعد
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بارہ سال ان کو زندگی دی.اور ان بارہ سال کا ایک ایک لمحہ ان کی قربانی کی یاد دلاتا ہے.خود نواب عبداللہ خان کو ان کی بہت قدر تھی.کہا کرتے تھے کہ میں اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دونوں بیٹیوں کا خادم سمجھتا ہوں جن میں سے ایک کو حضرت مسیح موعود نے میرے والد کے اور ایک کو میرے سپرد کیا ہے.غرض ایک کامیاب شادی کا نمونہ ان کے گھر میں نظر آتا تھا.خدا کرے اسی قسم کا نمونہ ہماری آنے والی نسلوں میں بھی نظر آتے.آمین خاکسار مریم صدیقہ
بسم الله الرحمن الرحیم و نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم خدا کے فضل اور رحم کیساتھ امیر ابتدائيه أذكُرُوا مَحَاسِنَ مَوتَاكُمُ اپنے پیارے اور " محبوب بزرگوں کا ذکر خیر کیا کرو اذكرو موناكُم بِالخَيرِ اور اذكرُ و مَحَارِس موتاکم کے تحت اپنے بزرگوں کا ذکر خیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل بھی ہے.اور ہر انسان کی یہ طبعی خواہش بھی ہوتی ہے کہ وہ غیر معمولی اوصاف کے حامل اپنے عزیزوں.بڑی شخصیتوں.اہل علم و فضل بزرگوں اور اللہ تعالیٰ کے نیک اور برگزیدہ بندوں کے اعلیٰ اخلاق - اوصاف حمیدہ اور شمائل و فضائل کو حرز جان بنا کر رکھے ان کے فرمودات پر عمل کرے اور ان کے نقوش قدم پر چلنے کی بھر پور سعی کرے.با شبه برگزیدہ ہستیاں ساری عمر منارہ نور بن کر اہل دنیا کو روشنی پہنچاتی رہتی ہیں.اور اپنے پاک اور نیک نمونہ سے دوسروں کے لیے ایک سیدھی اور صاف راہ متعین کر جاتی ہیں.جن پر چلتے ہوئے انسان دین و دنیا میں
۴ کامیاب و کامران ہوتا ہے.اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اصحابِی النُّجُومِ باتِهُمُ اقْتَدَيتُمُ اهْتَدَيْتُمُ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کسی کی بھی پیروی کرو گے.ہدایت پاؤ گے.پھر بزرگ ہستیوں کے ذکر خیر اور ان کی سوانح عمری بیان کرنے سے یہ بھی غرض ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ان کی زندگی کے اوراق لوگوں کے سامنے آئیں اور ہر پہلو سے ان کے کار ہائے نمایاں کا تذکرہ کیا جائے تاکہ ان قابل قدر مستیوں کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم ہوں جن سے جماعت کے ان کم سن افراد اور آیندہ آنے والی نسلوں کی تشنگی معلومات - فرو ہو.جنھیں ان اکابر کو دیکھنے کا موقع نہیں ملا.انسان کا ایک فطری خاصہ ہے کہ وہ سلف صالحین کا ذکر خیر سُن کر بے اختیار کر اُٹھتا ہے کہ کاش میں بھی اس زمانہ میں ہوتا.اور ان کی برکات و فیوض سے حصہ پاتا اور ان کی زیارت سے بہرہ ور ہوتا.اور یہی وہ معیت و رفاقت کا جذبہ ہے جو سوانح عمری اور سیرت نگاری کو منطقیہ مشہور پرایا.اور اس قسم کی تحریروں اور تذکروں سے اُسی وقت اعلیٰ نتائج مترتب ہو سکتے ہیں جب صاحب سوانح کی سیرت و کردار اور اُس کی شخصیت کے متعلق زیادہ سے زیادہ تفصیل میستر آتے اور زندگی کے ہر پہلو کو اجاگر کیا جائے کیونکہ انسانی زندگی کے بہت سے پہلو ہیں.کسی گوشے ہیں.ان گنت مراحل سے انسان گذرتا ہے.قسم قسم کی کیفیات اس پر وارد ہوتی ہیں.زندگی کا ہر پہلو
جب تک سامنے نہ آتے.ہر گوشہ جب تک ظاہر نہ ہو.سیرت و کردار کی تشکیل مکمل نہیں ہو پاتی زندگی کی تمام جزئیات اور ساری کیفیات کو جب یک مد نظر نہ رکھا جائے سوانح عمری کا حق ادا نہیں ہوتا.ایک ایسا سیر حاصل تبصرہ اور معلومات افزا تذکرہ نظروں کے سامنے ہو جسے پڑھ کر اس شخصیت کا پورا عکس اور ہوتا چاہتا تصور قاری کے ذہن میں مستحضر ہو جاتے.لاریب بعض وجود ایسے ہوتے ہیں کہ جین سے بے شمار انسانوں کو روحانی وابستگی ہوتی ہے اور ان کی زندگی کے حالات اور سیرت و کردار پرمشتمل واقعات پڑھنے والوں پر یقیناً اثر انداز ہوتے اور معین مخصوص دتر کرد اقعات ذہنوں پر گہرا اثر اور انمٹ نقش چھوڑ جاتے ہیں جس کا اثر ان کے اخلاق د عادات پر پڑتا ہے اور بسا اوقات پاکیزہ اور اعلیٰ اخلاق کے حامل بزرگان کی زندگی سے متعلق حسین و جمیل واقعات انسان کی کایا پلٹ کر رکھ دیتے ہیں اور ارشاد خداوندی اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ وَلَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أسْوَةٌ حَسَنَةٌ.اے لوگو ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لیے بہترین نمونہ ہیں ہیں تم ہر معاملہ میں حضور پاک کا اسوہ حسنہ اپنا ؤ.اور حضور کی زندگی کے ہر پہلو کو مد نظر رکھ کر اسی طرح اپنی زندگی گزارنے کی سعی کرد جو رسول پاک کی زندگی کی عکاس ہو تو تم دین و دنیا کی برکات حاصل کرو گے.اور زندگی کے ہر مرحلہ میں خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہوگا اور غیر معمولی کامیابی و کامرانی تمہارے قدم چومے گی.اور وہ بزرگان کرام جو ساری عمر قال الله.
اور قال الرسول پر عمل پیرا ر ہے اور انہوں نے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا یہ پر راضی رہتے ہوتے اپنی زندگی گزاری اور ہر آن اس کا شکر ادا کرتے رہے اور اپنے اخلاق و کردار کے بے حد حسین نقوش دلوں پر تقسیم کر گئے وہ بھی اسی ذیل میں آتے ہیں کہ ہم ان کے نمونوں کو اپنا میں ان کی زندگی کے حالات کا بغور مطالعہ کریں اور اپنی آئندہ نسلوں کو ان کے ادمان حمیدہ اور اخلاق عالیہ سے آگاہ کریں تاکہ ہم بھی ان بے شمار انعامات وافضال سے حصہ پاسکیں جو ان بزرگوں پر اللہ تعالیٰ نے گئے.بلاشبہ ان صاحب کر دار بزرگوں کی برکتوں کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے کہ ہم خلوص دل کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے کی بھر پور سعی کریں.حضرت سیدہ نواب امتها الحفیظ بیگم صاحبہ کی سیرت و سوانح بھی اسی غرض کے ساتھ جمع کرنے کی سعی کی گئی ہے کہ تاسیح پاک علیہ السلام کے اس جگر گوشہ کی زندگی کی جھلکیاں پیش کی جاسکیں.سیرت و سوانح سے متعلق سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کا ایک حوالہ اس جگہ ضروری ہے کہ اس تحریر میں سیرت و سوانح سے متعلق حضور نے شرح وبسط سے روشنی ڈالی ہے.سیرت و سوانح سے متعلق سید نا حضرت مسیح موعود کی ایک تحریر یہ بات ظاہر ہے کہ جب تک کسی شخص کے سوانح کا پورا نقشہ کھینچ کر نہ دکھایا جائے تب تک چند سطریں جو اجمالی طور پر
ہوں کچھ بھی فائدہ پبلک کو نہیں پہنچا سکتیں اور ان کے لکھنے سے کوئی نتیجہ معتد بہ پیدا نہیں ہوتا.سوانح نویسی سے اصل مطلب تو یہ ہے کہ تا اس زمانے کے لوگ یا آنے والی نسلیں ان لوگوں کے واقعات زندگی پر غور کر کے کچھ نمونہ ان کے اخلاق یا ہمت یا زہد و تقوی یا علم و معرفت یا تائید دین یا همدردی نوع انسان یا کسی اور قسم کی قابل تعریف ترقی کا اپنے لیے حاصل کریں.اور کم سے کم یہ کہ قوم کے اولوالعزم لوگوں کے حالات معلوم کر کے اس شوکت اور شان کے قاتل ہو جا تیں جو اسلام کے عمائد میں ہمیشہ سے پائی جاتی رہی ہے.تاکہ اس کو حمایت قوم میں ان مخالفین کے سامنے پیش کر سکیں اور یا یہ کہ ان لوگوں کے مرتبت یا صدق اور کذب کی نسبت کچھ رائے قائم کر سکیں اور ظاہر ہے کہ ایسے امور کے لیے کسی قدر مفصل واقعات کے جاننے کی ہر ایک کو ضرورت ہوتی ہے اور لیا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص نامور انسان کے واقعات پڑھنے کے وقت نہایت شوق سے اس شخص کے سوانح کو پڑھنا شروع کرتا ہے اور دل میں جوش رکھتا ہے کہ اس کے کامل حالات پر اطلاع پاکر اس سے کچھ فائدہ اُٹھاتے تب اگر ایسا اتفاق ہو کہ سوانح نولیس نے نہایت اجمال پر کفایت کی ہو.اور لائف کے نقشہ کو صفائی سے نہ دکھلایا ہو تو شخص نہایت
مولی خاطر اور منفیض ہو جاتا ہے اور بسا اوقات اپنے دل میں ایسے سوانح نویس پر اعتراض بھی کرتا ہے.اور در حقیقت وہ اس اعتراض کا حق بھی رکھتا ہے کیونکہ اس وقت نہایت اشتیاق کی وجہ سے اس کی مثال ایسی ہوتی ہے کہ جیسے ایک ٹھو کے کے آگے خوان نعمت برکھا جائے اور دو ایک نقمر کھانے کے ساتھ ہی اس خوان کو اُٹھا لیا جائے.اس لیے ان بزرگوں کا یہ فرض ہے جو سوانح نویسی کے لیے قلم اٹھاویں کہ اپنی کتاب کو مفید عام اور ہر دلعزیز اور مقبول انام بنانے کے لیے نامور انسانوں کی سوانح کو میر اور فراغ حوصلگی کے ساتھ اس قدر بسط سے لکھیں اور ان کی لائف کو ایسے طور سے مکمل کر کے دکھلا دیں کہ اس کا بڑھنا ان کی ملاقات کا قائمقام ہو جائے تا اگر ایسی خوش بیانی سے کسی کا وقت خوش ہو تو اس سوانح نویس کی دنیا اور آخرت کی بہبودی کے لیے دعا بھی کرے.اور صفحات تاریخ پر نظر ڈالنے والے خوب جانتے ہیں.کہ جن بزرگوں محققوں نے نیک نیتی اور افادة عام کے لیے قوم کی ممتاز شخصیتوں کے تذکرے لکھے ہیں انہوں نے ایسا ہی کیا ہے ؟ 109 د کتاب البرية ص۱۹۹)
۹ سیرت و سوانح سے متعلق ایک اور تحریر سید نا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفتہ امسیح الرابع "سوانح فضل عمر جلد صحت پر فرماتے ہیں :- جو قارئین مختلف قسم کی تصانیف کا تجربہ رکھتے ہیں وہ مجھ سے غالباً اس امر میں اتفاق فرمائیں گے کہ تصانیف کی مختلف انواع میں سب سے مشکل اور وقت طلب نوع کسی سوانح حیات کی تصنیف ہے.بعض ایسی شخصیات کی سوانح حیات کی تیاری میں بھی جو اپنی ہم عصر اور ہم قوم شخصیات میں کوئی غیر معمولی عظمت کا مقام نہ رکھتی تھیں ان کے سوانح نگار کو سالہا سال تک محنت اور کاوش کا سامنا کرنا پڑا چنانچہ لارڈ فشر کے سوانح نگار ایڈ مرل بیکن نے ہمہ وقت کام کرنے کے باوجود اس کام پر دس سال کا عرصہ صرف کیا یہ مشال محض اس لیے پیش کی جار ہی ہے کہ ایک سوانح نگار کی شکلات کا کچھ اندازہ ہو سکے ؟ چنانچه حضرت سیده مرحومہ کی سیرت کے اس تذکرہ میں پوری سعی کی گئی ہے کہ آپ کی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی جائے.اور آپ کی پاکیزہ زندگی کا کوئی گوشہ نظروں سے اوجھل نہ رہ سکے.آپ کی سیرت وکردار- عادات و خصائل عبادت و ریاضت تعلق باشد فر نیکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا
ہر پہلو قاری کے سامنے آجائے اور جس قدر بھی مکن ہو سکا آپ کی زندگی سے متعلق زیادہ سے زیادہ واقعات کو یکجا کرنے کی سعی کی گئی ہے اس سلسلہ میں سید نا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات - حضرت سیدہ مرحومہ کے ذی وقار شوہر حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب مرحوم - آپ کی اولاد - عزیز و اقارب - ملنے جلنے والوں کے تاثرات شامل کئے گئے ہیں.مزید برآں بعض ایسی تحریریں ان افراد کی بھی ہیں جن پر حضرت سیدہ مرحومہ کے احسانات ہیں اور ان میں حضرت سیدہ مرحومہ کی شفقت علی خلق اللہ اور حسن سلوک کی جھلک پائی جاتی ہے.پھر خدمات بجالانے والے بعض افراد کے تاثرات بھی پیش کئے گئے ہیں جو آپ کی شفقت و عنایت کا مورد رہے.آپ نے جو خطوط لکھے اور ہمیں دستیاب ہو سکے وہ بھی شامل کئے گئے ہیں.غرضیکہ بھر پور سعی کی گئی ہے کہ حضرت سیدہ مرحومہ کی زندگی کا ہر پہلو نظروں کے سامنے آجاتے.وَمَا تُوفيقنا الا بالله العلي العظيم والسلام سید سجاد احمد ابن سید علی احمد صاحب مرحوم ) ۲۰ دار الرحمت وسطی - ریوه ۲۴ نومبر ۱۹۹۳ مه FRIM
بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسی موعو علیہ اسلام کی اہلی زندگی کا مختصر جائزہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی شادی ۱۳۹ منہ میں ہوتی.۱۸۵۳ میں پہلے صاحبزادے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب پیدا ہوتے پھر مرزا فضل احمد صاحب کی ولادت ہوئی.بعد ازاں کچھ ایسے حالات پیدا ہوتے کہ حضور کا تعلق پہلی بیوی سے رسمی سارہ گیا اور کم و بیش ہیں سال تک کوئی اولاد نہ ہوتی.ان حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دوسری شادی کے متعلق بہت سی بشارات دیں جن میں سے چند یہ ہیں :.الحمدُ للهِ الَّذِي جَعَلَ لحم الصهر والنسب ا تذکره من ۳۵۷ م) میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری دوسری شادی کروں یہ سب کہ سامان میں خود ہی کروں گا.اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہ ہوگی." د شحنه حق صدام )
هذه " هرچه باید نوعروسی را همان سامان کنم ہمار د آنچه مطلوب شما باشد عطائے آں کنم ، ៥ إلى مَعَكَ وَمَعَ أَهْلِكَ اور إِنِّي مَعَكَ وَمَعَ أَهْلِكَ یہ اور اس قسم کی اور بہت سی بشارتوں اور نصرتوں کا اثر تعالٰی نے وعدہ فرمایا.چنانچہ مشیت الہی کے ماتحت شملہ میں دہلی کے ایک معزز صحیح النسب خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ حضرت میر ناصر نواب صاحب کی صاحبزادی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ سے آپ کا عقد ثانی ہوا.اس شادی کے بعد ۲۰ ر ضروری تششمة کے ایک اشتہار میں حضور نے تحریر فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ :." JAAY تیرا گھر برکتوں سے بھرے گا.اور میں اپنی نعمتیں تجھے پر پوری کروں گا.......تیری نسل بہت ہو گی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا.مگر بعض ان میں سے کم عمری میں قوت بھی ہونگے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جاتے گی.......تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سر سبز رہے گی خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت دنیا کے کناروں
تک پہنچا دے گا.میں تجھے اُٹھاؤں گا اور اپنی طرف جلاؤں گا.پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اُٹھے گا..----- خدا تجھے نکلی کا میاب کرے گا.اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.میں تیرے خاص اور دلی محبتوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا.اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا.اور ان میں کثرت بخشوں گا........وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.....حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کی ولادت شششاہ میں ہوئی اور شادی کے وقت آپ کی عمر کم و بیش انیس سال تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ولادت ۱۱۳۵ہ کی ہے حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی پیدائش کے وقت آپ کی عمر تیس سال تھی اور آپ کے ظہور کا زمانہ قریب تھا.ہیں طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص مشیت کے تحت ایک مبارک اور غیر منقطع ذریت طیبہ کو منصہ شہود پر لانے کے سامان پیدا کئے.اور بہت سی برکتوں اور رحمتوں کے نزول کی ابتداء فرمائی.اسی سلسلہ میں حضور نے اپنی تصنیف نزول المسیح " ص پر تحریر فرمایا :- " یہ ایک بشارت کئی سال پہلے اس رشتہ کی طرف تھی جو سادات کے گھر دہی میں ہوا.اور خلد بحجہ اس لیے میری
۱۴ بیوی کا نام رکھا کہ وہ ایک مبارک نسل کی ماں ہے.جیسا کہ اس جگہ بھی مبارک نسل کا وعدہ تھا.....“ نیز یہ بھی تحریر فرمایا :-....میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لیے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے.خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے...." ( تریاق القلوب ص ) مزید فرمایا : ے میری اولا د سب تیری عطا ہے ہر اک تیری بشارت سے ہوا ہے چونکہ آیندہ ہونے والی ذریت طیبہ اس جوڑے سے مقدر ہو چکی تھی اور قدیم سے فیصلہ بھی ہو چکا تھا کہ يَتَزَوِّجُ وَيُولَدُ که که آنیوان میسح شادی کرے گا اور اس شادی کے نتیجہ میں اولاد پیدا ہوگی.یہاں اولاد کا ذکر بطور خاص اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ اولاد زندہ رہنے والی ہو گی اور اس سے آئیندہ نسل چلے گی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے که خَيرُ النِّسَاءِ وَلود (عورتوں میں سے بہترین عورتیں وہی ہیں
۱۵ جو بچے پیدا کرنے والیاں ہوں ، چنانچہ ان تمام حقائق اور الٹی بشارت کے تحت متی ششماہ سے لے کر جون سنشاہ تک اللہ تعالیٰ نے اس پاکیزہ جوڑے کو دس بچے عطا فرمائے.پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں جن میں سے دو بیٹے اور تین بیٹیاں کم سنی میں وفات پاگئیں اسی کے مطابق جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے خبر دے رکھی تھی کہ :- リ تیری نسل بہت ہو گی میں تیری ذریت کو بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت ہونگے" داشتهار ۲۲ مارچ شه ) زندہ رہنے والے پانچ بچے (جو تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کی پنجاڑی تھی ، ایک مبارک اور غیر منقطع ذریت طبقہ کو آگے چلانے اور ترای نسلاً بعيداً کی صداقت کو واشگاف کرنے والے ثابت ہوتے کیونکہ خدا تعالیٰ کے وعدے اسی طرح تھے اور خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے پانچوں صاحب اولاد ہوئے اور دراز عمریں پائیں اور اپنے اپنے وقت پر مِنْهُم مَنْ قَضَى نَحْبَةُ کے تحت اللہ تعالٰی کو پیارے ہو گئے.اس ذریت طیبہ کا آخری مبشر وجود اس پنجلڑی کا آخری میرا دخت کرام حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ تھیں جو 4 رمتی شتہ کو بروز بدھ ربوہ میں اپنے محبوب حقیقی سے جائیں.انا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اسی مبارک و مقدس وجود کے ذکر خیر
14 اور فضائل و شمائل پرمشتمل یہ کتاب لکھی جارہ بھی ہے.مبشر اولاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ۲۶ مئی شاہ کو ہوئی اور حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی ولادت ۲۵ جون منشا کی ہے.اس لحاظ سے حضور کی وفات کے وقت آپ کی عمر چار سال سے ایک ماہ کم تھی.اور کم سنی کی وجہ سے حضرت سیدہ کو حضرت مسیح موعود کے زمانہ کے حالات و واقعات کا زیادہ علم نہ ہو سکا اور آپ کو ہمیشہ یہ احساس رہا کہ آپ نے حضرت مسیح موعود کی پاک زندگی سے بہت کم فیض پایا.اور مشیت انٹی کے تحت صغرسنی ہی میں اس پاک اور بابرکت وجود کا سایہ سر سے اُٹھ گیا، لیکن اس احساس کو کم کرنے کے لیے حضرت اماں جان نے آپ کی دلداری و دل دہی اور مادرانہ شفقت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.اسی طرح بہن بھائیوں نے بھی جو عمر میں آپ سے بڑے تھے ہمیشہ آپ کے ساتھ حسن سلوک فرمایا.مناسب ہوگا کہ آپ کے بڑے بہن بھائیوں کی تاریخ باتے ولادت بھی بیاں درج کر دی جائیں تاکہ عمروں کے تفاوت کا علم ہو سکے.-۱- صاجزادی عصمت تاریخ ولادت متی نشہ کم سنی میں وفات پائی " اگست شد.)) ہے ۲ - صاحبزاده بشیر اول ۳ - حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدرضا ۱۲ جنوری شده حضر سیده و ۱۵ سال بشه)
صاجزادی شرکت تاریخ ولادت اشته (کرستی میں وفات پائی " ۵- حضرت صاحبزاده مرزا بشیر احمدرضا ۱۲۰۰ اپریل تشنہ (حضرت سیدہ سے ۱ سال بڑی ارا 4 - حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدرضا امتی ششم (حضرت سیدہ سے 9 سال بڑے) 4 - حضرت نواب مبارکه بیگم صاحبہ ۲ مارچ ۱۸۹۶ء (حضرت سیدہ سے بے سال بڑی) ۸- صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب " ۱۴ جون نہ کم سنی میں وفات پاتی ) ۹ - صاحبزادی امتہ النصیر 蟹 " ۲۸ چون در در ۱۱ ۲۸ ۱۰ - حضرت سیدہ امتہ الحفیظ صاحبه " " ۲۵ جون نشانه ") عمروں کے اس تفاوت اور سب سے چھوٹی بہن ہونے کی وجہ سے آپ اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کی شفقت وحسن سلوک کا ہمیشہ مور د ر ہیں خصوصاً بڑے بھائی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی کی نظر شفقت اور حسن سلوک وافر طور پر آپ کے شامل حال رہا حضور کے سار بچے سوائے حضرت سیدہ کے حضور کی زندگی ہی میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے تھے.حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی شادی بیاہ کے سارے مراحل حضرت اماں جان اور دیگر بزرگوں کے مشورے سے سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہی کے ذریعہ طے پاتے.اور آپ نے اپنی اس چھوٹی بہن کی فلاح وبہبود اور تعلیم و تربیت پر کم سنی ہی سے توجہ مبذول فرمائی اور ہر طرح خیال رکھا.عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ بزرگوں پیروں اور رقیبوں کے بچے ان کے ارادتمندوں کے بے جالاڈ پیار کی وجہ سے بگڑ جاتے ہیں اور
بسا اوقات ان میں کبر و غرور پیدا ہو جاتا ہے اور وہ کسی کو خاطر می نہیں وہ میں لاتے.سید نا حضرت مسیح موعود کی ساری اولا د جماعت احمدیہ کے افراد کے لیے باعث صد تعظیم و احترام رہی ہے اور تعظیم و تکریم کسی دینوری غرض کی مرہونِ منت نہیں ہے.بلکہ حضرت مسیح موعود کی اولاد ہونے اور مبشر ذریت طیبہ کا اعزاز پانے کی وجہ سے جماعت کا ہر فرد کی تعظیم واحترام دل کی اتھاہ گہرائیوں سے کرتا ہے لیکن اس عزت و احترام میں بہت بڑا دخل اس اولاد میں پائے جانے والے ان غیر معمولی اوصاف حمیدہ اور اخلاق عالیہ کا بھی یقینا ہے جن کی وجہ سے جماعت کا ہر فرد ان کی طرف کھنچا چلا آتا ہے اور خَالَفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ کا نظارہ نظر آتا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری اولاد میں دنیا داروں والے کبر و غرور یا تعلی کا شائبہ تک نظر نہیں آتا بلکہ اس کے برعکس خاکساری - فروتنی - تبتل الی اللہ اور عاجزی و انکساری ان میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں اور میں کسی کو بھی ان میں سے یا کسی سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا وہ اس امر کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ حضرت مسیح موعود کی اولاد کا ہر فرد عباد الرحمان کے اوصاف کا حامل تھا اور ملنے والے ان کے اخلاق عالیہ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے تھے اور حضرت سیدہ موصوفہ بھی اپنی اوصاف حمیدہ اور اخلاق عالیہ کا جیتا جاگتا نمونہ تھیں.خندہ پیشانی سے ہر ایک سے ملنا عمر بھر ان کا شیوہ رہا.اور اپنی شیریں گفتگو کی وجہ سے دلیوں کو جیت لینا ان کا وصف تھا.
19 ذہانت و فطانت اپنے دوسروں بہن بھائیوں کی طرح ذہانت و فطانت میں بھی الہلالی نے آپ کو حصہ وافر عطا فرمایا تھا.اور یہ جو ہر کم سنی ہی سے آپکو ودیعت کیا گیا تھا.حضرت مسیح موعود نے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ آپ کے اس جو ہر کا بڑے پیارے انداز میں ذکر فرمایا ہے.فرماتے ہیں:.حضرت علی کی نسبت لکھا ہے کہ وہ مہد میں بولنے لگے اس کا یہ مطلب نہیں کہ پیدا ہوتے ہی یا دو چار مہینہ کے بولنے لگے.اس سے یہ مطلب ہے کہ جب وہ چار برس کے ہوتے.کیونکہ یہ وقت تو بچوں کے پنگھوڑوں میں کھیلتے کا ہوتا ہے اور ایسے بچے کے لیے باتیں کرنا کوئی تعجب انگیز امر نہیں ہے.ہماری لڑکی امتہ الحفیظ بھی بڑی باتیں کرتی ہے دالحکم جلد ۱ مورخه ۳۱ مارچ نشانه صلا) تفسیر آل عمران ۳۵۰ اس حوالہ سے قرآن کریم کی ایک آیت کی بڑی لطیف تفسیر کے علاوہ اس امر کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ حضور باوجود معمور الاوقات ہونے کے بچوں سے نہ صرف انس رکھتے تھے بلکہ ان کی ہر حرکت و سکون پر بھی آپ کی گہری نظر رہتی تھی.اسی طرح کا ایک اور حوالہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے متعلق بھی ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود نے بچوں کے ختم قرآن کے موقع پر اپنے منظوم کلام میں فرمایا ہے -
اور ان کے ساتھ دی ہے ایک دختر ہے کچھ کر پانچ کی وہ نیک اختر کلام اللہ کو پڑھتی ہے فرفر خدا کا فضل اور رحمت سراسر اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے بھی پانچ سال سے کم عمری میں قرآن کریم روانی کے ساتھ پڑھنا شروع کر دیا تھا.اور اس میں کیا شک ہے کہ حضور کی ساری اولاد ہی الولد سر لا بیشہ کے تحت حضور کی خداداد ذہانت و فطانت کا آئینہ دار اور معلوم و فنون کا سرچشمہ ہے.اولاد کے لیئے جائیں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے اپنی اولاد کے لیے جس قدر دعائیں کی ہیں اور جس رنگ میں اللہ تعالے سے ان کے لیے دین ودنیا کی نعمتیں طلب کی ہیں وہ اپنے اندر ایک انفرادی رنگ رکھتی ہیں.ایک ایسا والہانہ جذبہ پایا جاتا ہے کہ پڑھنے والا وجد میں آجاتا ہے.الفاظ و معانی کا ایک انڈا ہوا دریا ہے جو بہتا چلا جا رہا ہے اور مسیح پاک کی یہ ساری دعائیں یہ ساری التجائیں اور یہ ساری صدائیں درگاہ رب العزت میں مقبول و منظور ہوتیں.اور ہر کسی نے علی وجہ البصیرت ان دعاؤں کو آپ کی اولاد کے حق میں کما حقہ پورا ہوتے دیکھا.اور یہ ہو بھی
۲۱ کیسے سکتا تھا کہ وہ خدا جس نے اوائل ہی سے آپ کو اپنے لیے مین لیا اور ہر قسم کی عون د نصرت کا وعدہ فرمایا.اور بشارتوں پر بشارتیں دیں.اور دعاؤں کی قبولیت کا اعجاز عطا فرمایا.وہ آپ کی متضرعا نہ دعاؤں کو شرف قبولیت نہ بخشتا جبکہ بار بار تاکیداً آپ کو مخاطب کرتے ہوتے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اُجِيْبُ كُلَّ دُعَائِكَ میں تیری ساری دُعائیں قبول کروں گا.( نزول المسیح ص ۲۱ و تذکره ص۳) اسی طرح فرمایا :- }} وَعَادُكَ مُسْتَجَاب - تیری دعا مستجاب ہے.الحکم جلد، نمیره مورخہ نے فروری تنشا مت ) ۱۹۰۳- ( خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا ؟ تذکره ص۲۵۹ ( ) أدعو في اسْتَجِبْ رَكُمْ - مجھ سے مانگو میں تجھے دوں گا.(تذکرہ ص ) ۶۵۴ قَدْ سَمِعَ اللهُ - أُجِيبَتْ دَعْوَتُكَ إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ هُم مُحْسِنُونَ - اللہ تعالیٰ نے تیری دعا سن لی.تیری دعا قبول کی گئی.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو نیکی کرتے ہیں؟ ) تذکره صفحه ۶۷۳) پس اللہ تعالیٰ نے اولاد کے حق میں کی گئیں حضرت مسیح موعود کی ساری
۲۲ دعاؤں کو بھی اسی طرح شرف قبولیت بخشا جس طرح حضور کی دوسری ساری دعائیں مستجاب ہوتیں جن کا شمار مکن نہیں اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ " خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامات پائی جاتی ہیں ؟ (حقیقة الوحی و تذکره ص ) مستجاب دعاؤں کا فیضان اور یہ حضور کی مستجاب دعاؤں کا ہی فیضان ہے کہ آپ کی ساری اولاد نے اپنے آپ کو مبشر و مظہر ذریت طیبہ کا اہل ثابت کیا.اور وہ سب کچھ پایا جو حضور نے ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے طلب کیا تھا.اور ان میں حضرت سیدہ مرحومہ بھی شامل تھیں وگرنہ بظا ہر حالات تو حضور کی وفات کے وقت گھر روپے پیسے سے بالکل خالی تھا، لیکن آسمان پر دعاؤں کا ایک بہت بڑا خزانہ اس ذریت طیبہ کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام چھوڑ گئے تھے جس کا تذکرہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے یوں فرمایا ہے :- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کی قبولیت کے نشان تو بے شمار ہیں جن کے ذکر سے آپ کی کتابیں بھری پڑی ہیں.اور ہزاروں لاکھوں لوگ ان کے گواہ ہیں مگر میں اس جگہ صرف ایک واقعہ کا ذکر کرتا ہوں.جب
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مهدی معمود علیه السلام
حضرت حکیم نور الدین خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی
حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد رضی اللہ عنہ
حضرت نواب محمد علی خان رئیس مالیر کوٹلہ رضی اللہ عنہ
حضرت نواب محمد عبد اللہ خان رضی اللہ عنہ
حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم مسجد محمود سوئٹزرلینڈ کا سنگ بنیاد نصب فرما رہی ہیں.
سنگ بنیاد رکھے جانے کے بعد دعا کا منظر
تقریب سنگ بنیاد کے بعد پریس کے نمائندگان حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم
۲۳ حضرت مسیح موجود کی وفات ہوئی تو اس وقت حضور کا گھر روپے پیسے سے بالکل خالی تھا.اور حضور اپنا آخری روپیہ بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے ذریعہ اس گاڑی بان کو دے چکے تھے جس کی گاڑی میں حضور وفات سے قبل شام کے وقت سیر کے لیے تشریف لے گئے تھے.اس کے بعد اچانک حضرت مسیح موعود کی وفات ہو گئی اور حضور کا یہ الهام پورا ہوا کہ الرّحِيلُ ثُمَّ الرَّحِيلُ - اب کوچ کا وقت آگیا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا."ڈرو مت موضور یعنی اسے احمد یو! ہمارے مسیح کی وفات سے جماعت کو سخت دھچکا پہنچے گا.مگر تم ڈرنا نہیں اور خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط رکھنا.پھر انشاء اللہ سب خیر ہے.اس کے بعد جب ۲۶ رمتی شانہ کو صبح دس بجے کے قریب حضرت مسیح موعود کی وفات ہوئی تو جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اس وقت ہمارا گھر دنیوی مال و زر کے لحاظ سے بالکل خالی تھا.ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم سلما اللہ تعالیٰ کی روایت ہے داور یہ بات مجھے خود بھی مجمل طور پر یاد ہے) کہ ہماری اماں جان نے اس وقت یا اس کے تھوڑی دیر بعد اپنے بچوں کو جمع کیا اور صبر کی تلقین کرتے ہوتے انہیں نہ بھولنے والے
۲۴ الفاظ میں نصیحت فرمائی کہ بچھو گھر خالی دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لیے کچھ نہیں چھوڑ گئے.انہوں نے آسمان پر تمہارے لیے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے جو تمہیں وقت پر تمہا ر ہے گا." ( روایت نواب میار که بیگم صاحبه ) یہ کوئی معمولی رسمی تسلی نہ تھی جو انتہائی پریشانی کے وقت میں غم رسیده بچوں کو ان کی والدہ کی طرف سے دی گئی.بلکہ یہ ایک خدائی آواز اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شاندار الہام کی گونج تھی کہ الیس الله بکان عبدی یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لیے کافی نہیں ؟ اور پھر اس وقت سے لے کر آج تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں نے اس طرح ہمارا ساتھ دیا ہے اور اللہ کا فضل اس طرح ہمارے شامل حال رہا ہے کہ اس کے متعلق میں حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں صرف یہی کہ سکتا ہوں کہ ے.اگر ہر بال ہو جاتے سخنور و تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر حق یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے جس رنگ میں ہماری دستگیری فرمائی ہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر حضرت مسیح موعود کی نسل نیکی اور تقویٰ اور اخلاص اور خدمت دین کے مقام پر قائم رہیگی.تو حضور کی دردمندانہ دعائیں جن کا ایک بہت بھاری خزانہ آسمان پر جمع ہے تا قیامت ہمارا ساتھ دیتی چلی جائیں گی.اپنے بچوں کی آمینوں میں حضرت
۲۵ مسیح موعود علیہ السلام نے خصوصیت کے ساتھ اپنی اولاد کے لیے اس در دو سوز اور اس آہ وزاری کے ساتھ دعائیں کی ہیں کہ شاید ہماری کمزوریاں تو ان دعاؤں اور ان بشارتوں کی حقدار نہ ہوں مگر پھر کہتا ہوں کہ خدا کی دین کو کون روک سکتا ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس عجیب و غریب شعر کو یاد کرتا ہوں کہ سے تیرے اسے میرے مرنی کیا عجائب کام ہیں گرچہ بھا گئیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے شمار خدا کرے کہ ہم ہمیشہ نیکی اور دینداری کے رستہ پر قائم رہیں اور جب دنیا سے ہماری واپسی کا وقت آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اتاں جان کی روحیں ہمیں دیکھ کر خوش ہوں کہ ہمارے بچوں نے ہمارے بعد اپنے آسمانی آقا کا دامن نہیں چھوڑا.دوستوں سے بھی میری یہی درخواست ہے کہ جہاں وہ اپنی اولاد کیلئے دین اور دنیا کی بہتری کی دُھنا کریں اور کوئی احمدی کسی حالت میں بھی اس دُعا کی طرف سے فاضل نہیں رہنا چاہیئے ، وہاں وہ ہمارے لیے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ صدق و سداد پر قائم رکھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان دُعاؤں کو جو حضور نے اپنی اولاد کے لیے فرماتی ہیں.اور نیز ان دعاؤں کو جو حضور نے اپنی جماعت کے متعلق فرماتی ہیں.اور پھر ان بشارتوں کو جو خدا کی طرف سے حضور کو اپنی اولاد اور اپنی جماعت کے متعلق ٹی میں بصورت احسن پورا فرماتے اور ہماری کوئی کمزوری ان خدائی
بشارتوں کے پورا ہونے میں روگ نہ بنے اور ہم سب خدا کے حضور سرخرو ہو کر حاضر ہوں آمین یا ارحم الراحمین " روز مکنون از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) اور حضرت سیدہ مرحومہ کے ساتھ بھی اللہ تعالٰی نے ساری عمر وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ کا سلوک فرمایا.اور حضرت مسیح موعود کے اس آسمانی خزانہ سے جو آسمان پر اللہ تعالٰی نے ان کے لیے رکھا ہوا تھا.انہیں بھی حصہ ملتا رہا اور معجزانہ رنگ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے سارے کام کئے اور ساری ضرورتیں پوری ہوتی رہیں اور زندگی کے ہر مرحلہ میں آپ فائز المرام رہیں آپ کی زندگی میں بہت سے ایسے مواقع آتے کہ کوئی چیز موجود نہ تھی اور آپ نے اس کی خواہش کی تو اللہ تعالیٰ نے غیب سے اس کے سامان کر دیتے.چھوٹی سے چھوٹی خواہش اور بڑی سے بڑی آرزو کی تکمیل اللہ تعالٰی نے کی.خدا خود میبر سامان است ارباب توکل را اعلیٰ درجہ کا نیک نمونه حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لیے درد و سوز اور آہ و زاری سے بھر پور متفرعانہ دعاؤں کے علاوہ اپنا پاک اور نیک نمونہ بھی ان کے لیے چھوڑا.اور یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ذریت طیبہ کے متعلق بے شمار وعدے کئے بشارتیں دیں جو اپنے وقت پر ایک اور
۲۷ ایک دو کی طرح بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئیں لیکن اس امر سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ اولاد کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود اور حضرت اماں جان کا پاک اور نیک نمونہ بھی اسی سلسلہ میں محمد ثابت ہوا.اور آپ کی ساری اولا د اپنے والدین کے نقوش قدم پر رواں دواں رہی.حضرت مسیح موعود ساری دنیا کے لیے ہدایت اور روشنی کے مینار تھے پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ اپنی اولاد کی بہتریت تربیت نہ فرماتے.اولاد کی تربیت کے بارہ میں حضور نے اپنی جماعت کو بھی بڑی توجہ دلاتی ہے تفصیل سے احتراز کرتے ہوئے بعض حوالوں کے مختصر سے اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں :- دینی علوم کی تحصیل کے لیے طفولیت کا زمانہ بہت ہی مناسب و موزوں ہے........طفولیت کا حافظہ تیز ہوتا ہے ؟ تقریر جلسہ سالانہ ) ۱۸۹۴۰ صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے.کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیانہ بناتے تب اس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہوگی اور ایسی اولاد حقیقت میں اس قابل ہوگئی کہ اس کو الباقیات الصالحات کا مصداق کہیں.....( ملفوظات جلد ۲ صفحه ۳۷۰) مجھے اپنی اولاد کے متعلق کبھی خواہش نہیں ہوئی کہ وہ
۲۸ بڑے بڑے دنیا دار نہیں اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچ کر مامور ہوں." حضرت داؤد علیہ السلام کا قول ہے.میں بچہ تھا.جوان ہوا بوڑھا ہو گیا.میں نے متقی کو کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا کہ اسے رزق کی مار ہو.اور نہ اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے دیکھا.اللہ تعالیٰ تو کئی پشت تک رعایت کرتا ہے پس خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لیے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقوی کا ہو جاؤ اور اس کو منتقی اور دیدار تانے کے لیے سعی اور دعا کرو" " میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لیے دعا نہیں کرتا " ( ملفوظات جلد ۲ ص ۳ ) い اس قسم کے اور بہت سے حوالہ جات ہیں جن میں اولاد کے متعلق حضرت مسیح موعود نے جماعت کو توجہ دلاتی ہے.مندرجہ بالا چند حوالے اس غرض سے دیتے گتے ہیں کہ تا قارئین کرام ان سے یہ موازنہ کرسکیں کہ حضرت مسیح موعود کو اولاد کی تعلیم و تربیت کا کس قدر فکر تھا.نہ صرف یہ بلکہ آپ نے ان کے لیے ایک اعلیٰ درجہ کا نمونہ بھی پیش کیا اور عید طفولیت میں بچوں کے لیے نمونہ سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں ہے کسی شخص نے ایک بڑے آدمی سے پوچھا کہ بچوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس
۲۹ دلانے کے لیے کیا طریق اختیار کرنا چاہیتے اس نے جواب دیا کہ اس کے لیے تین باتوں کی ضرورت ہے.اول ذاتی نمونہ.دوم ذاتی نمونہ.موم ذاتی نمونہ یعنی والدین کا ذاتی نمونہ اور اخلاقی نمونہ بچوں کے لیے ایسی اہمیت رکھتا ہے کہ بسا اوقات یہ اکیلی چیز ہی ان کی تربیت کے لیے کافی ہو جاتی ہے.سو حضرت مسیح موعود اور حضرت اماں جان کا بہترین ذاتی نمونہ ذریت طیبہ کے لیے ہمیشہ قابل تقلید رہا.اللہ تعالیٰ کی بشارتوں.حضرت مسیح موعود کی ان گنت دُعاؤں.والدین کی تعلیم و تربیت اور ان کے ذاتی نمونہ نے ساری اولاد کو چار چاند لگا دیتے اور حضرت مسیح موعود کے ان شعروں کے مصداق سے اسے میرے دل کے جانی اسے شاہ دو جہانی کر ایسی مہربانی.ان کا نہ ہووے ثانی دے بخت جاودانی اور فیض آسمانی یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَن يراني دو یہ سب عدیم النظیر خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ ہوئے.اور شمال شیر و و کردار کا ایک ایسا مرقع کہ کسی بھی جہت سے ان میں کوئی جھول نہ تھا اور صحیح معنوں میں واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا کی تفسیر اور پھر ان سب نے اپنی اپنی اولاد کی تربیت بھی اپنی زاویوں پر کی.اور حضرت سیدہ دخت کرام نے بھی تربیت اولاد کے سلسلہ میں دیگر عوامل کے علاوہ سب سے پہلے اپنا ذاتی نمونہ پیش کیا.اور
۳۰ خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود کی اولاد در اولاد بھی قابل رشک اوصاف کی حامل ثابت ہوتی.اور تَرَى نَسْلاً بَعِيداً سے یہ امر بھی تو مترشح ہوتا ہے کہ دُور کی نسل بھی خدا کے فضل سے ایسی ہوگئی جو دنیا کے سامنے بطور نمونہ پیش کی جاسکے گی اور جن کے متعلق بڑے فخر کے ساتھ یہ کہا جا سکے گا کہ یہ ہیں حضرت مسیح موعود کے خاندان کے افراد کہ جو اپنی مثال آپ ہیں.ولادت با سعادت حضرت سیده نواب امته الحفیظ بیگم صاحبه حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد میں سے آخری وجود تھیں.آپ کی ولادت با سعادت ۲۵ جون شاه بمطابق ۱۰ ربیع الثانی ۳۲۲ له هجری درہم ہاڑ سمت ) کو ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی ولادت کا تذکرہ اپنی خود نوشت ڈائری میں ان الفاظ میں کیا.(عکس تحریر )
۳۱ " ۲۵ جون ۹۲ته روز شنبه آج ۲۵ جون شتہ روزشنبہ کو یعنی اس رات کو جو جمعہ کا دن گذرنے کے بعد آتی ہے مطابق 10 ربیع الثانی سے بھری اور دہم ہاڑ سمت میرے گھر میں ۱۳۲۲ لڑکی پیدا ہوتی اور اس کا نام امتہ الحفیظ رکھا گیا یہی وہ لڑکی ہے جس کی نسبت الہام ہوا تھا وَاللهُ مُخْرِج مَا كُنتُمْ تَكْتُمُون.(کاپی الهامات حضرت مسیح موعود ) نیز اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی میں اس صاحبزادی کے متعلق اپنی صداقت کے چالیسویں نشان کے طور پر تحریر فرمایا : چالیسواں نشان یہ ہے کہ اس لڑکی کے بعد ایک اور لڑکی کی بشارت دی گئی جس کے الفاظ یہ تھے کہ "دخت کرام" چنانچہ وہ الہام الحکم اور البدر اخباروں میں اور شاید ان دونوں میں سے ایک میں شائع کیا گیا اور پھر اس کے بعد لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام امتہ الحفیظ " رکھا گیا.اور وہ اب تک زندہ ہے یہ (حقیقة الوحی م۲۱ مطبوعه ۱۵ را پریل شده ) مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاید مورخ احمدیت نے اس سلسلہ میں تحریر فرمایا کہ :
گیا ہے.حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی ولادت سے قبل دارمتی شاہ کو " دخت کرام کا الہام نازل ہوا.جو الحكم ، امتی شه مث والبدر ٨ - ١٦ متى سته منا پر شائع ہوا تھا...حیرت ہے کہ حضرت سیدہ کی ولادت پر اخبار الحکم و البدر و رساله ریویو آف ریلیجنز میں سے کسی میں یہ خبر شائع نہیں ہوتی.اس سلسلہ میں خاکسار نے ان اخبارات و رسائل کا مطالعہ کر لیا ہے مگر کامیابی نہیں ہوتی " ( دوست محمد شاہد ۱۴/۱۰/۸۷) تاریخ احمدیت جلد سوم میں حضرت سیدہ مرحومہ کا تذکرہ اس طرح کیا صاحبزادی سیدہ امنه الحفیظ بیگم صاحبہ کی ولادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو متی شاہ میں الہام ہوا " دختِ گرام چنانچہ اس الٹی بشارت کے مطابق ۲۵ جون شاہ کو صاحبزادی سیده امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ پیدا ہوئیں.کتاب حقیقۃ الوحی" مثال میں حضور نے ان کو اپنی صداقت کا چالیسواں نشان قرار دیا ہے.حضرت سیدہ موصوفہ کا نکاح حضرت نواب محمد عبداللہ خاں البدر متى ٩٠٣ة هذا
۳۳ صاحب سے جو حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی پہلی بیگم سے دوسرے صاحبزادے تھے.جون شاہ کو مسجد اقصٰی میں پندرہ ہزار روپے سر پر ہوا حضرت خلیفة المسیح الثانی کی ہدایت کے مطابق خطبہ نکاح حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی نے پڑھا جو اس تقریب سعید پر لاہور سے موعود کئے گئے تھے اور ۲۲ فروری سالانہ کو آپ کی شادی کی مبارک تقریب عمل میں آئی ہے له ولادت یکم جنوری شششاه وفات دار ستمبر اللہ - سلسلہ کے ان بزرگوں میں سے تھے جو نوابی میں بھی درویشی کا نمونہ تھے.انقلاب ہجرت کے بعد ا استمبر شد کو صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی تشکیل ہوئی تو حضرت (امام جماعت کی نظر انتخاب آپ پر پڑی اور حضور نے آپ کو ناظرا علیٰ نامزد فرمایا.چنانچہ آپ نے اس نہایت درجہ نازک اور اہم ذمہ داری کو کمال محنت و خلوص سے نبھایا.اسی دوران میں ۸ فروری ۹۳ -1959 کو آپ پر دل کی بیماری کا شدید حملہ ہوا اور ساتھ ہی تشنج کے دورے بھی پڑنے لگے علاج معالجہ سے کچھ افاقہ تو ہوا مگر آپ مستقل طور پر صاحب فراش ہو گئے اور بالآخر اسی بیماری میں آپ کا انتقال ہوا.آپ کے رُوحانی مقام کا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو وفات سے چار برس پیشتر بذریعہ رویا خبر دی جا چکی تھی کہ آپ کا 44 سال کی عمر میں وصال ہوگا.سو یہ رویا نہایت صراحت سے پوری ہوتی.آپ کی قبر مبارک دیوہ کے خاص قبرستان میں حضرت اماں جان کے مزار اقدس کی چار دیواری میں جنوب مشرقی حصہ میں واقع ہے - : له الفضل.ارجون شملته صدا
۳۴ حضرت سیدہ کی اولاد حضرت سیدہ موصوفہ کے بطن سے تین فرزند اور چھ صاحبزادیاں پیدا ہوئیں جن کے نام یہ ہیں :- ٠١٩٢٣ ۱۲۳ صاحبزادی طبیبه بیگم صاحبه (ولادت ۸ در مارچ شاه خان ۱۸ عباس احمد خاں صاحب (ولادت ۲ جون نه ، صاحبزادی طاهره تنگیم صاحبه (ولادت ۳ جون ته ) صاحبزادی زکیہ بیگم صاحبه (ولادت ۱۲۳ را نومبر ۳ ، صاحبزادی قدسیه بگیم صاحبه (ولادت ۲۰ رجون شلته ) صاحبزادی شاہدہ بیگم صاحبہ ر ولادت ۳۱ اکتوبر ۹۳۵انه ، صاحبزادہ شاہد احمد خان صاحب رولا دست و در اکتوبر سالته ، صاحبزادی نفوزیہ بیگم صاحبه روایات ۱۲ تو براہ میاں مصطفی احمد خان صاحب (ولادت ، جولائی ہے تقریب نکاح اور متعلقہ امور حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹا کے منجھلے صاحبزادے حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب رجو حضرت نواب صاحب کی زوجہ اول کے بطن سے تھے کے ساتھ ر جون شاشاتہ کو ہوا.ان کی عمر اس وقت قریباً 1 19 سال تھی (پیدائش یکم جنور میہ ، اور حضرت سیدہ کی عمر اس وقت 11 سال تھی.اور له اصحاب احمد جلد دوم صدا
۳۵ رخصتی ۲۲ فروری شستہ کو ہوئی اس سے قبل حضرت مسیح ، و عود کی بڑی صاحبزادی حضرت سیده نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا عقد حضرت نواب محمد علی خان صاحب سے ہو چکا تھا.موصوف کیا ہی خوش قسمت انسان تھے کہ با وجود تمول اور امارت کے عین جوانی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شناخت کی توفیق پاتی.پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو حجتہ اللہ کے خطاب سے نوازا.حضرت مسیح موعود نے حضرت نواب صاحب کی تقوی شعاری اور امانت و خدمت دین کی بڑی تعریف فرماتی ہے ان کی نیکی اور تقری کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیش خبری کے مطابق حضور کی بڑی صاحبزادی آپ کی زوجیت میں آئیں اور دوسری صاحبزادی حضرت سیدہ امته الحفیظ بیگم صاحبہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے رختِ کرام " کے لقب سے نوازا حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے منجھلے صاحبزادے کے حبالہ عقد میں آئیں.اس طرح دونوں باپ بیٹا حضور کی میشر اور فخر دیار اولاد سے وابستہ ہو کر خود بھی فخر دیار ثابت ہوتے ہر دو کو اللہ تعالیٰ نے اولاد واحفاد سے نوازا جن میں سے اکثر کے تعلقات ازدواج حضور ہی کے خاندان میں قائم ہوئے.حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور حضرت نواب محمد عبدالله خان صاحب نے اس خاندان سے اس قدر پختہ تعلق پیدا کیا کہ وہ حضور ہی کے خاندان کے افراد بن گئے اور اس تعلق کے اظہار میں فخر محسوس کرتے کہ وہ خاندان حضرت مسیح موعود میں سے ہیں.حضرت سید و امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے رشتہ کے سلسلہ میں ابتدائی مراحل
۳۶ کس طرح پا یہ تکمیل کو پہنچے اس کی کسی قدر تفصیل یوں ہے...حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی تقلیبی تمنا تھی کہ ان کے بچوں کے رشتے احمدیوں میں ہوں اور حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اسیح الاول ان سے متفق تھے.چنانچہ حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب بیان فرماتے ہیں :.والد صاحب کی خواہش تھی کہ ہم بھائیوں کے رشتے احمدیوں کے ہاں ہوں تاہم احمدیت میں راسخ ہو جائیں اور دنیوی تعلقات میں پھنس کر احمدیت سے بیگانہ نہ ہو جائیں ، لیکن اس وقت احمدیوں کے بعض رشتے جو ہمارے سامنے پیش کئے گئے.ہمیں بعض وجوہ سے پسند نہ تھے.نواب موسی خان صاحب جو کہ نواب مزمل اللہ خان صاحب سابق وائس چانسلر علی گڑھ یونیورسٹی کے رشتہ داروں میں سے تھے اور شیروانی خاندان سے ہی ہیں اور عرصہ سے علی گڑھ جا کر آباد ہو چکے ہیں.ان کی ایک لڑکی ہمارے خاندان میں مالیر کوٹلہ میں نواب صاحب الیر کوٹلہ کے چھوٹے بھائی صاحبزادہ جعفر علی خان صاحب سے بیاہی ہوئی تھی.ان کی خواہش تھی کہ ہمارے رشتے اُن کے ہاں ہوں چنانچہ میاں محمد عبد الرحمن خان صاحب اور میرے رشتہ کی گفتگو ہوتی.والد صاحب کو خیال تھا کہ ریاست کے
۳۷ بعض اقارب جو اپنے ہاں رشتہ کرانے کے خواہشمند ہیں رشته زیر تجویز میں مزاحم ہوں گے اس لیے ابتدا ہی میں علیگڑھ لکھ دیا تھا کہ اگر آپ کسی مرحلہ پر ہمارے ان اقارب کے زیر اثر آئے تو سلسلہ جنبائی فوراً منقطع کر دیا جائے گا.ہمارے رشتے طے ہو گئے.سب سامان بنا لیا گیا اور سالانہ یا سا ١٩١ میں قادیان سے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور حضرت اماں جان مالی کومله بارات میں شامل ہونے کے لیے پہنچے.ہم نے علی گڑھ جانا تھا حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے خطبہ نکاح پڑھنا تھا، لیکن علیگڑھ سے اطلاع آتی کہ کچھ مہلت دی جائے لیکن والد صاحب نے بذریعہ تارا نہیں اطلاع دے دی کہ رشتے منسوخ سمجھے جائیں کیونکہ والد صاحب کو یقینی وجوہ سے معلوم ہوا کہ وہ ان ہی اقارب کے زیر اثر آگتے ہیں.ہم سب طالب علم تھے تعطیلات ختم ہونے پر قادیان چلے آئے اور حضرت والد صاحب نے مالیر کوٹلہ سے حضرت خلیفہ المسیح اول کی خدمت میں لکھا کہ میں پہلے بھی اس بات کا خواہشمند تھا کہ میرے لڑکوں کے رشتے احمدیوں کے ہاں ہوں.تاکہ ان میں دینی جذبہ قائم رہے اور وہ غیر احمدیوں کی طرف مائل ہوتے ہیں جو مجھے ناپسند ہے اب جو
یہ رشتے ٹوٹے ہیں مجھے اس کی وجہ سے بہت تکلیف ہوتی ہے.ہم درس میں گئے تو میاں محمد عبدالرحمن خان صاحب اور میاں محمد عبد الرحیم خان صاحب اور مجھے تینوں بھائیوں کو آپ نے مغرب کے بعد اپنے ہاں اگر ھنے کے لیے فرمایا.ہم گئے.تو آپ نے تین دفعہ فرمایا کہ مجھے تمہارے والد سے بڑی محبت ہے.اور والد صاحب کا خطہ دکھایا اور کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ تمہارے رشتے احمدیوں کے ہاں ہوں اور ان کو ان رشتوں کے ٹوٹنے کی وجہ سے بہت تکلیف ہوتی ہے نوابوں اور رئیسوں کی طرف تم لوگ رغبت نہ کرو.ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے عبرت کے طور پر قائم رکھا ہوا ہے.یہ تباہ ہونے والے لوگ میں ان کی بھی خیر نہیں جو ان سے واسطہ قائم کر گیا وہ بھی اپنے آپ کو تباہی کی طرف لے جاتے گا تم مغرب اور عشاء کے درمیان دو رکعت نفل پڑھ لیا کرو اور دکھا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ نواب صاحب کی مالی تکلیف دور کرے اور اپنے رشتوں کے لیے بھی دعا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ بہتر جگہ کر دے.میاں محمد عبد الرحمن خان صاحب اور میاں محمد بداریم خان صاحب کا تو مجھے علم نہیں میں کچھ عرصہ با قاعدہ نفل پڑھتا رہا اور بہت دعائیں کیا کرتا تھا ر میاں عبدالرحمن خان صاحب نے استفسار پر کیا کہ مجھے یہ بات یاد نہیں.میاں محمدعبداللہ
۳۹ خان صاحب نے عمل کیا اور فائدہ بھی اٹھا لیا ، چونکہ حضرت خلیفہ مسیح اول مجمعہ کے روز عصر سے مغرب تک مسجد میں یا اپنے گھر میں علیحدگی میں دعا کیا کرتے تھے.اس لیے جماعت میں بھی ایسی رو چلی ہوئی تھی.میں بھی کبھی جنگل کی طرف چلا جاتا.یا مکان پر ہی دُعا کرتا.ایک روز میں دوپہر کے وقت آرام کر رہا تھا کہ مجھے خواب میں کسی نے کہا : حضرت مسیح موعود کے گھر مین حضرت خلیفة المسیح الاول نے جو یہ فرمایا تھا.کہ ان نوابوں اور رتیوں کی طرف رغبت نہ کرو، جو ان سے تعلقات بڑھاتے گا.اس کا بھی وہی حال ہوگا.بعینہ پورا ہوا.میرے دونوں بھائیوں کے نوابوں کے ہاں رشتے ہوتے اور ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی اور بفضلہ تعالیٰ ان تمام بیٹوں کے جن کے احمدیوں کے ہاں رشتے ہوتے اولا د ہے.پہلے والد صاحب کو میاں محمد عبد الرحیم خان صاحب کا رشتہ حضرت مسیح موعود کے ہاں کرنے کا خیال تھا، لیکن ایک دفعہ مجھے ایک خط لکھا جس میں تحریر تھا کہ میری دیرینہ خواہش تھی کہ میرے لڑکوں میں سے کسی کی شادی حضرت مسیح موعود کے گھر میں ہو.پہلے میرا خیال تھا کہ عبدالرحیم خان کے لیے پیغام دیا جاتے لیکن اپنے لڑکوں میں سے تم کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ تمہارا پیغام دوں لیکن اس کے متعلق تمہاری رائے پوچھنا
۴۰ چاہتا ہوں، لیکن رشتہ کرنے سے پہلے تمہیں سوچ لینا چاہیئے کہ یہ بہت ہی مشکل مرحلہ ہے کہ جس میں سے تم گذرو گے اگر تم پورا حسین سلوک کر سکو گے اور اپنے آپ کو اپنی بیوی کے برابر نہیں سمجھو گے بلکہ الہ تعالیٰ کا محض فضل سمجھو گے تب اس امر کا نیہ کر لو ورنہ میں ڈرتا ہوں کہ کسی ابتلاء میں نہ پھنس جاؤ.اور مجھے نصیحت کی کہ اپنے آپ کو ان کے برابر نہ سمجھنا مجھے چونکہ پہلے خواب آچکا تھا اور اس سے بڑھ کر میری خوش قسمتی کیا ہوسکتی تھی کہ میرا رشتہ حضور کے ہاں ہو میں نے والد صاحب کی تمام شرائط کو مانتے ہوتے ہاں کہدی اور بہت سوچ بچار اور استخارہ کے بعد یہ رشتہ ہو گیا........رشتہ کے سلسلہ میں خط و کتابت حضرت سیدہ کے رشتہ کے سلسلہ میں حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے اپنے بیٹے حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب سے جو خط و کتابت کی اس کے اہم حصے درج کئے جاتے ہیں.یا اپنی سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحت اشد و برکاته میں چاہتا ہوں کہ تمہا را رشته امتہ الحفیظ - حضرت مسیح موعود علیه السلام کی صاحبزادی سے ہو اور مجھ کو اس لیے یہ تحریک ہوتی ہے کہ اس وقت میں تم کو نیا دیکھتا ہوں کہ دوسرے بھائیوں کی نسبت تمہیں دین کا شوق ہے اور
۴۱ اس سے میں خوش ہوں.مگر ساتھ ہی میں یہ کہتا ہوں کہ میری خوشی اور ناراضگی حالات پر مبنی ہے جس طرح اب میں تم سے خوش ہوں اگر تم خدا نخواستہ اب حالت بدل دو تو پھر ناراض ہونگا.....اب پھر یں رشتہ کے متعلق لکھتا ہوں اس سلسلہ میں ایک مشکل بھی ہے اگر تم اس مشکل کو برداشت کر سکتے ہو تو رشتہ کی طرف توجہ کرو ورنہ پھر بہتر ہے کہ تم ہاں نہ کرنا.دوسرے یہ کہ رشتے کے بعد حضرت مسیح موعود اور اہل خانہ مسیح موعود علیہ السلام سے ہمسری یا ہم کفو کا خیال اکثر لوگ کر بیٹھتے ہیں اور اس سے ابتلا - آتا ہے.قابل غور امر یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کے ساتھ رشتہ کیوں چاہا جاتا ہے صاف بات ہے کہ جب ان کے کپڑے تک بابرکت میں تو ان کے جگر کے ٹکڑے کیوں نہ با برکت ہونگے.....تعلق رشتہ کو موجب برکت و فخر سمجھنا چاہیئے اور اپنے آپ کو وہی کہ من آنم کہ من دانم سمجھنا چاہیئے میں نے رشتہ کیا اور زینب کو حضرت صاحب کے ہاں دیا ان دونوں رشتوں میں برابری کا خیال بالکل دل سے نکال دیا میں طرح میں حضرت اقدس کی عزت کرتا تھا.وہی عزت و ادب بعد رشتہ رہا اور ہے اور جس طرح میں حضرت اماں جان.....کا ادب اور عزت کرتا تھا اسی طرح اب مجھ کو عزت اور ادب ہے اور اس سے بڑھ کر.اسی طرح اس پاک وجود کئے گڑوں کی میں عزت کرتا تھا ویسی اب ہے میں تمہاری والدہ کی ناز برداری اس لیے نہیں کرتا کہ وہ میری بیوی ہیں گو مجھ کو شریعت نے سکھلایا ہے مگر میں جب میاں محمود احمد صاحب اور میاں بشیر احمد صاحب
۴۲ اور میاں شریف احمد صاحب کو قابل عزت سمجھتا ہوں اور مجھ کو ان کا ادب ہے.اسی طرح مجھ کو تمہاری والدہ اور امتہ الحفیظ کا ادب ہے بلکہ مجھے کو سلام منظفر احمد - ناصر احمد اور ناصرہ اور منصور احمد و ظفراحمد کا ادب ہے اور پھر چونکہ بیوی خاوند کا رشتہ نازک ہے اور الرجال قوامون على النساء کی تعمیل بھی مجھ پر ضروری ہے اس لیے میں ادب اور عزت کے ساتھ اس کی بھی حتی الوسع تعمیل کرتا ہوں پس اگر یہی طرز تم بھی برت سکو تو پھر اگر تمہاری منشاء ہو تو میں اس کی تحریک بعد استخارہ کروں ورنہ ان پاک وجودوں کی طرف خیال لے جانا بھی گناہ ہے اور تم بھی استخارہ کرو راقم محمد علی خان سلسلہ جنبانی حضرت نواب صاحب نے ذیل کے عریضہ کے ذریعہ سلسلہ جنبانی کا آغاز کیا.دار السلام ، امتی اند ستیدی حضرت خلیفہ اسیح الثانی فضل عمر محرم معظم علیکم اللہ تعالیٰ رسیدی حضرت اماں جان مکرمہ معظمہ سلمها اللہ تعالیٰ السلام علیکم ! عرصہ سے خاکسار کو خیال تھا کہ اپنے کسی لڑکے کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فرزندی میں دوں مگر حالات زمانہ اور لڑکوں کی
۴۳ حالت پر غور کرتا تھا اور جب تک کسی لڑکے پر اطمینان نہ ہو جرات نہ کر سکتا تھا اب جہاں تک میرا خیال ہے عبداللہ خان کو اس قابل پاتا ہوں میں بلا کسی لمبی چوڑی تحمید کے میں بادب متقی ہوں کہ حضور اپنی فرزندی میں لے کر حضور بعد مشورہ حضرت اماں جان عبداللہ خان میرے لڑکے کا رشتہ عزیزہ امتہ الحفیظ کے ساتھ منظور فرمائیں اور بعد استخارہ مستونہ جواب سے مشکور فرمائیں.را تم محمد علی خان اپنی اہم ذمہ داری کے احساس کی وجہ سے حضرت نواب صاحب نے دوبارہ اپنے بیٹے کو تحریر فرمایا :- یا اپنی مسلمکم اللہ تعالے السلام علیکم ! تم کو میں نے تمام امور کھو کر کھو دیتے تھے اور تم نے اس امر کو پسند کیا تھا کہ تمہارا رشتہ اللہ الحفیظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لڑکی سے کیا جاتے.اور تم کو میں نے استخارہ کے لیے بھی کہا تھا آج قریباً ہفتہ ہو گیا ہے میں نے تمہاری پسند کے اظہار پر درخواست کردی ہے اور آج چالیس دفعہ استخارہ ختم ہو گیا ہے.اس مزید احتیاط کے لیے تم کو لکھتا ہوں کہ پس لیے مجھ کو تم پر حسن بھتی ہے اس کی بنا.پر میں نے یہ تعلق چاہا ہے پس تم سمجھ لو کہ یہ میری اور تمہاری بڑی ذمہ داری کا کام ہے اگر تم اپنے میں پورا حوصلہ رکھتے ہو کہ جس طرح میں نے لکھا ہے کہ تم نبھا سکو گے تو اس جگہ قدم رکھنا چاہیئے ورنہ دین ودنیا کا خسارہ ہے...میرے نقش قدم پر چلتا ہو گا، بہت سی
۴۴ ناگوار باتوں پر برداشت کرنی ہوگی.یہ تعلق میں صرف اس لیے چاہتا ہوں کہ تم لوگ بھی اہل خانہ میں داخل ہو جاؤ.اور یہ بڑی سعادت ہے مگر اگر ذرا مالت قدم ہوا.پھر دین بھی گیا پس خوب سمجھ لو دوسری بات میرے خوش کرنے کے لیے یہ تعلق نہ کرنا بلکہ اگر تم واقعی سچے دل سے پسند کرتے ہو اور محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ایسا کرتے ہو مجھ کو جو تمہارے دل میں ہے صحیح لکھو تاہم مجھ کو اطمینان ہو اور اگر بدن تم کو پسند نہیں اور محض میرے خوش کرنے کو مانا تو باز آجاؤ اور میں انکار کر بھیجتا ہوں ابھی وہاں سے جواب نہیں آیا بات گو گو میں رہ جاتے گی مگر پھر وقت ہوگی اور واقعی تمہاری اپنی ہی اصیل غرض ہے کہ رشتہ امتہ الحفیظ سے ہو تو مجھ کو پوری طرح مطمئن کرو میں سوائے اس کے اور کسی خیال سے نہیں لکھتا.صرف اپنے اطمینان قلب کے لیے لکھا ہے اور مزید احتیاط کے طور سے کیونکہ بھاری ذمہ داری ہے ایک دفعہ اور تم سے پوچھنا مناسب سمجھا.را قم محمد علی خان دو ہفتہ بعد آپ نے سلسلہ جنبانی کا دوسرا خط لکھا:.دار السلام ۲۵ رمتی ۱ انه سیدی حضرت خلیفہ صبیح الثانی محرم علم منكم ال تعالى السلام علیکم ! ایک فریضہ حضور کی خدمت میں دوبارہ رشتہ للہ الحفیظ پیش حضور کیا تھا مگر تاحال جواب باصواب سے سرفراز نہیں ہوا....اس رشتہ کی تحریک دراصل میں نشاستہ میں بحضور حضرت مسیح موعود علیہ السلام
۴۵ بدرید مرزا خدا بخش صاحب کر چکا ہوں.جس کے جواب میں حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ والدہ محمود نے تو خواب میں دوسرے بچے یعنی عبداللہ خان کو دیکھا ہے اور آپ عبدالرحیم کی بابت کہتے ہیں اور فرمایا کہ جب تک مبارکہ کی رخصتی نہ ہوئے اس بارہ میں سردست گفت گو نہیں ہو سکتی جب مبارکہ رخصت ہو جائیں گی اس وقت اس کی بابت گفتگو کی جائے گی اس وقت مجھ کو معلوم ہوا تھا کہ حضرت اماں جان کو رد یا ہوتی ہے کہ عبداللہ کا رشتہ حفیظ سے ہو جاتے.ورنہ مجھے کو اس کا کوئی علم نہ تھا.......مکرم ملک صلاح الدین صاحب مولف اصحاب احمد کا بیان ہے کہ خاکسار کو میاں محمد عبداللہ خان صاحب نے ایک روایت نشہ میں دی تھی جس میں مذکور تھا کہ حضرت مسیح موعود نے اس رشتہ کو پسند کیا تھا ؟ ------ حضرت خلیفة المسیح الاوّل مولانا مولوی نورالدین صاحب نے بھی اشارہ اس رشتہ کے متعلق فرمایا تھا...." 11 را تم محمد علی خان حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جواباً رقم فرمایا.مکرمی و عظمی نواب صاحب السلام علیکم ! عزیزی عبداللہ خان کے اللہ الحفیظ کے رشتہ کے متعلق آپ کی چند ایک تحریر میں ملیں.لیکن مشورہ اور استخارہ کا انتظار تھا اب اس قابل ہوا ہوں کہ آپ کو کوئی جواب لکھ سکوں.امتہ الحفیظ کی عمر اس وقت بہت چھوٹی ہے اور سردست ظاہری طور وہ شادی کے قابل نہیں یعنی اس حالت
۴۶ میں صرف نکاح بھی نا مناسب معلوم ہوتا ہے.عزیز عبداللہ خان نہایت نیک اور صالح نوجوان ہے اور اس کے متعلق ہمیں کسی قسم کا اعتراض نہیں بلکہ ہم سب اس رشتہ کو پسند کرتے ہیں اور خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو یہ رشتہ طے ہو جائے، لیکن پھر بھی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ ابھی سے یہ رشتہ کر دیا جائے ہاں اس قدر وعدہ کر سکتے ہیں کہ اگر آپ کو اور آپ سے زیادہ لڑکے کو یہ رشتہ منظور ہو اور وہ عزیزہ کے بلوغ تک انتظار کرنا منظور کرے تو اس وقت تک کہ عزیزہ امتہ الحفیظ بالغ ہو ہم اس رشتہ کا انتظار کریں گئے الا ماشاء اللہ اور اس کو دوسری جگہوں پر ترجیح دیں گے آگے آئیندہ کے حالات کیا اللہ تعالٰی کو علم ہے ہاں اگر کچھ مدت کے بعد عزیزہ کے ڈیل ڈول میں خاص تغیر معلوم ہو جس سے جلد بڑھنے کی امید ہو تو اس وقت پھر اس تجویز پر غور ہو سکتا ہے موجودہ حالات میں عزیز عبداللہ خان کو ایک ایسے عہد سے جکڑنے کی جس کے پورا ہونے کے لیے ابھی سالہا سال کے انتظار کی صورت در پیش ہے کوئی ضرورت نہیں معلوم ہوتی اُمید ہے کہ آپ ان جوابات کو مناسب سمجھ کر ابھی اس معاملہ پر زور نہ دیں گے.والسلام مرزا محمود احمد ایک سال کے بعد حضرت نواب صاحب نے پھر تحریک کی جسے شرف قبولیت بخشا گیا.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تحریر فرمایا:
۴۷ مکرمی نواب صاحب السلام علیکم ! امتہ الحفیظ کے رشتہ کے متعلق آپ نے جو خط لکھا تھا اس کے متعلق بعد مشورہ اب آپ کو کچھ لکھنے کے قابل ہوا ہوں اعتدالحفیظ اس وقت بہت کمزور اور کم عمر ہے اس لیے ابھی تین سال تک وہ رخصت ہونے کے نا قابل ہے اس لیے اگر آپ اور میاں عبداللہ خان اس بات پر راضی ہوں کہ رخصت کرنا تین سال تک ہمارے اختیار میں ہوگا اور یہ کہ مہر اسی طرح جس طرح عزیزہ مبارکہ بیگم کا لکھا گیا تھا لکھا جائے گا.گو مقدار کم مثلا پندرہ ہزار ہو تو یہ رشتہ ہمیں منظور ہے موخر الذکر شرط صرف حضرت صاحب کی احتیاط کے مطابق ہے دوم جب لڑکی رخصت ہو تو الگ مکان میں الگ انتظام کے ماتحت رہے کیونکہ بصورت دیگر بہنوں میں اختلاف کا خطرہ ہوتا ہے.خاکسار مرزا محمود احمد حضرت نواب صاحب نے اس کے جواب میں لکھا: دار السلام دارالامان قادیان رجون ۱۹۱۵ سیدی حضرت خلیفہ مسیح علیکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ! حضور کا وال نامہ پہنچا.محمد عبداللہ خان کو بھی دکھا دیا.ہم دونوں کو حضور کی شرائط ہر سرگانہ میں کوئی عذر نہیں مر مٹے اور دینداره ہزار منظور الگ مکان سے عذر نہیں.کیونکہ قرآن شریف میں اشارہ معلوم
۴۸ ہوتا ہے.تین سال تک تودیع نہ ہو یہ بھی نا قابل پذیرائی نہیں.حضور کو تو یہ لکھنا ہی مناسب نہ تھا.کیونکہ میرے سابقہ عمل کے حضور واقف.پھر بہ سبب رشتہ داری اور دینی تعلق یعنی حضور مخدوم ہیں اور عبداللہ خادم حضور پیر ہم مرید - اس لیے حضور کوئی ایسا معاملہ کر ہی نہیں سکتے کہ ایک فریق کا نفع اور دوسرے کا نقصان ہو.پس جیسے حضور اس طرف ذمہ دارا اور وکیل و مرتی.اسی طرح اس طرف سے بھی.پھر میں اپنے اوپر کیوں رکھوں.میں حضور ہی کے سپر د کرتا ہوں.کہ جو حضور مناسب تصویر فرمائیں مجھ کو اس میں کوئی عذر نہیں......خلاصہ یہ کہ جو آپ مناسب تصویر فرمائیں.وہی مناسب پس آپ ہی اس طرف سے وکیل ذمہ دار مرتی ولی سب کچھ میں حضور ہی پر چھوڑتا ہوں.میں نے نہ مبارکہ بیگم صاحبہ کے موقع پر مدر کیا اور نہ اب..نہیں اب حضور جو کچھ مجھ کو کہنا چا ہیں.خود ہی میری جانب سے اپنے ارشاد کا جواب دیں کیونکہ میں حضور کی رائے کے خلاف عذر ہی نہیں کرتا.محمد علی خان نکاح کے سلسلہ میں خط و مراسلت اس طرح ہوتی.دار السلام 4 جون شاد سیدی حضرت خلیفة السح...بكرم معلم منكم لله تعالى السلام علیکم یا حضور کو غالباً معلوم ہے کہ میری طبیعت ایسے مواقع شادی وغیرہ میں نہایت سادگی پسند ہے چنانچہ پہلے جو شادیوں کا سامان ہوا تھا.
۴۹ وہاں بھی سادگی رکھی گئی تھی.میرے نکاح کے موقع پر جو کچھ ہوا وہ حضرت کے حکم اور منشاء کے مطابق ہوا تھا اب حضور کے حکم کا طالب ہوں کیونکہ حضرت مسیح موعود کی جگہ اب حضور ہیں.پس بالکل سادگی اس موقع نکاح عبد اللہ پر ہونی چاہیتے یا مثل سابق جیسا کہ میرے نکاح پر عمل ہوا تھا.تاکہ دلیا سامان کیا جائے....محمد علی خان السلام علیکم ! مجھے تو معلوم نہیں کہ اس وقت کیا ہوا تھا کہ اب وہ ہو یا نہ ہو آپ کو جس طرح سہولت ہو کریں.ہماری طرف سے یہ معاملہ آپ پر ہی چھوڑا جاتا ہے.خاکسار مرزا محمود احمد ایک اور خط میں تحریر فرمایا :- مگر می نواب صاحب السلام علیکم ! آپ کا خط مل گیا چونکہ ڈاکٹر صاحب (مراد حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ) بھی آتے ہوتے ہیں اس لیے بہتر ہے کہ پیر کے دن نکاح ہو جائے.حضرت نواب صاحب نے لکھا : والسلام خاکسار مرزا محمود احمد
دار السلام پر جون شاه سیدی حضرت خلیفہ المسیح کرم معظم علیکم اللہ تعالی السلام عليكم ! غالباً نكاح بعد عصر ہو گا.مگر احتیاطی حضور سے ملتجی ہوں کہ کیا بعد عصر ہو گا یا کسی اور وقت تاکہ اس وقت حاضر ہو جائیں.حضور نے تحریر فرمایا.محمد علی خان انشاء اللہ نماز عصر کے بعد بہت اقصیٰ میں ہوگا.مرزا محمود احمد چنانچه هرجون ۹ مطابق ۲۳ رجب المرجب ۱۳۳۳ ہجری بروز دو شنبہ اس بابرکت نکاح کا اعلان حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے کیا.حضرت مولانا ان دنوں لاہور تھے.جہاں سے حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ارشاد پر انہیں بلا کر لاتے اس سلسلہ میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے اپنی خود نوشت ڈائری میں تحریر فرمایا :- وخت کرام حضرت سیدہ امتہ الحفیظ صاحبہ کے نکاح کے سلسلہ میں حضرت مولانا غلام رسول خدا، را جیکی مرحوم کی ڈائری کے چند اوراق : حضرت مولانا تحریر فرماتے ہیں :-
۵۱ میں بطور تحدیث نعمت اس سعادت عظمی کے اظہار سے باز نہیں رہ سکتا کہ حضرت دخت کرام اللہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے نکاح کے خطبہ اور اعلان کا شرف مجھے ہی نصیب ہوا تھا.جو شانہ میں پڑھا گیا.اور اخبار الفضل میں شائع بھی کیا گیا اور اس کے متعلق قبل از وقت اس خطبہ نکاح کی سعادت کے متعلق مجھے ایک رؤیا کے ذریعہ بشارت دی گئی.میری عجیب رویا بشارت مذکورہ کے متعلق میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ارشاد کی تعمیل میں لاہور کی جماعت احمدیہ کی تعلیم و تربیت اور درس و تدریس کی خدمت سلسلہ کی بجا آوری کی سعادت عظمی کے سلسلہ میں ایک عرصہ سے لاہور ہی میں مقیم تھا اور جبکہ حضرت دخت کرام کے نکاح کی تقریب بالکل قریب تھی ایک رات میں نے رویا دیکھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سید نا نور الدین خلیفہ المسیح الاول دونوں بار بار بجذبه اظهار دمسترت و احساس فرحت مجھے حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے نکاح کے متعلق بلب تبسم مبارک باد کا اظہار کرتے ہیں اور اس قدر خوش ہو کر اس خوشی کا اظہار فرمارہے میں کہ میں تعجب کر رہا ہوں کہ دونوں مبارک ہستیوں نے شاید ہی ایسی مسرت اور خوشی کا کبھی احساس اور اظہار فرمایا ہو ** جب میں اُٹھا تو اس رویا کے متعلق میں نے بے حد آنجب محسوس کیا کہ یہ کیا رو یا مجھے دکھائی گئی ہے میں باحساس تعجب بار بار اس رویا پر غور کرتا کہ اس کی کیا تعبیر ہو سکتی ہے.تب ابھی کوئی دو تین بھی گھنٹے گزرے
۵۲ ہونگے کہ مکرم و محترم جناب بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی مجھے آٹے اور آتے ہی مجھے مبارک باد کسی اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ آپ اُٹھیں اور میرے ساتھ چلنے کی تیاری کریں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مجھے قادیان سے آپ کو ساتھ لے جانے کے لیے بھیجا ہے کہ لاہور سے مولوی غلام رسول را جیکی کولے آؤ.عزیزہ امتہ الحفیظ کے نکاح کی تقریب پر خطبہ اور اعلان وہی کریں گے یہ سن کر مجھے اپنی رڈیا کی تعبیر کا فورا علم ہو گیا کہ رڈیا کی ہی تعبیر معلوم ہوتی ہے جو خطبہ نکاح سے پوری ہونے والی ہے.چنانچہ خاکسار را قم بھائی عبدالرحمن صاحب مکرم و محترم کی معیت میں قادیان پہنچا اور بیت اقصٰی میں جہاں نواب محمد علی خان صاحب بمعہ اپنے فرزند عزیز نواب محمد عبداللہ خانصاب اور افراد جماعت تشریف فرما تھے.حضرت کی طرف سے پندرہ ہزار روپیہ کے مہر مقرر فرمانے کے ساتھ خطبہ نکاح پڑھنے کا حکم دیا گیا.اور حضرت مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح تو حضرت مولانا نورالدین صاحب نے پڑھا تھا.لیکن حضرت دخت کرام کا خطبہ نکاح اور اس کے اعلان کرنے کی سعادت اور برکت مجھے نصیب ہوئی ہے این سعادت بزور بازو نیست و تا نه بخشد خدائے بخشنده اس وقت میرے بیٹے عبد حقیر اور خادم نا چیز کو خطبہ نکاح کے لیے لاہور بلوانا اور خطبہ پڑھوانا قادیان کے رہنے والوں کے لیے بھی سخت باعث تعجب ہوا.اس لیے کہ قادیان میں بڑے بڑے نامی گرامی علمامہ اور فضلا.جیسے قاضی امیر حسین صاحب حضرت سید سرور شاہ صاحب ، حضرت
۵۳ حافظ روشن علی صاحب اور خود حضرت صاحب کی ذات گرامی جو اپنے بیکار اور مختلف اپنی شادیوں کی تقریب میں یا حضرت مولوی سید سردار شاہ صاحب سے پڑھواتے رہے اور بعض دفعہ اپنا نکاح اور خطبہ خود ہی پڑھا با وجود ان حالات واسباب کے پھر میرے جیسی حقیر راستی کا انتخاب میری اس مبشر رویا کی تعبیر میں مقدر قرار پایا ہوا تھا.جو نوشتہ سعادت سے وقوع میں آیا.وَإِنَّ اللهَ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ : فَيُعْطِي مَنْ يَشَاءُ وَمَا يَشَاءُ فَلا تَعْجَب مغلي حَظَ فَضْلٍ : إِذَا مَا فَوْقَهُ يُرجى الْعَطَاء وخت کرام کی ایک عجیب شان جب حضرت دخت گرام پیدا نہ ہوئیں تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب و شریف احمد صاحب و مار که بیگم صاحبه کی آمین پر ایک تنظم بطور اظہار تشکر انعامات الليہ تحریر فرمائی تھی اس وقت حضرت صاحبزادہ میاں مبارک احمد صاحب زندہ موجود تھے اس نظم میں یہ شعر بھی لکھا تھا کہ :- یہ پانچوں جو کہ نسل ستیدہ ہیں یعنی حضرت مرزا محمود احمد صاحب - حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مرزا شریف احمد صاحب ، حضرت مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت مرزا مبارک احمد صا لیکن اس کے بعد حضرت صاجزادہ مرزا مبارک احمد صاحب فوت ہو گئے اور بجائے
۵۴ پانی کے چار رہ گئے اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کلام کی عددی صداقت کو قائم رکھنے کے لیے حضرت صاجزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے فوت ہو جانے کے بعد د محبت کرام کا مبارک تولد باعث تصدیق بنایا گیا.توگو یا مبارک احمد کی خالی جگہ کو دختِ کرام کا تولد بھرنے والا ہوا.....اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت دخت کرام کے ہاں علاوہ کئی نور چشمیوں کے کئی نور چشم بھی ہیں جن میں سے حضرت صاحبزادہ میاں عباس احمد خان سلمہ اللہ نور یتیم بڑے بیٹے ہیں.جو بی اسے اور عالم فاضل ہیں اور کچھ مجھ سے نسبت تلمذ بھی رکھتے ہیں.اور میرے ساتھ بوجہ محبت اکثر خط و کتابت بھی رکھتے ہیں اور آپ کو اپنے اس خادم پر بہت کچھ حسن ملتی بھی ہے اللہ تعالیٰ مجھے اس حسن ظن کے مطابق صاحب حسنات بناتے آمین حضرت صاحبزادہ میاں عباس احمد خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے نواسے میں اور صالح نوجوان اور صاحب اخلاق حسنہ و اوصاف حمیدہ ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جملہ مقاصد حسنہ دینیید و دنیویہ میں بڑھ چڑھ کر ترقیات و برکات عطا فرمائے آمین ثم آمین : ر خود نوشت قلمی ڈائری حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی مرحوم ) اعلان نکاح حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے نکاح کے موقع پر ایک بصیرت افروز تقریر فرمائی جس کے بعض حصے درج ذیل ہیں :.آج کا دن خدا تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان حضرت مسیح موعود
۵۵ علیہ السلام کی صداقتوں میں سے ایک عظیم الشان صداقت اور آیات اللہ میں سے ایک آیت اللہ ہے.آپ کی پیدائش کے متعلق حضرت صاحب کا الہام ہے رختِ کرام اور اللہ تعالیٰ کے فضل نے اس رختِ کرام کو ایک اور رنگ میں مبارک احمد کا رنگ بھی دیا ہے.کرام کریم کی جمع ہے اور اس کو قبع میں خدا تعالیٰ نے اس لیے رکھا کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام....جرى الله في حلل الانبياء تھے...الهام حب الله لا غُلِبَنَّ انَا وَرُسُلِي....کی تشریح میں حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں کہ ----- خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیا....کا منظر ٹھہرایا ہے رحا شیہ حقیقۃ الوحی ص ) اس لیے رخت گرام کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہوتے کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تمام انبیاء کا مفہوم صادق آتا ہے اس لیے گویا عزیزہ امتہ الحفیظ سارے انبیاء کی بیٹی ہیں.دوسرے پہلو کے لحاظ سے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاب کے رنگ میں اس طرح سے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ہے یہ پانچوں جو کہ نسل سیدہ ہیں حضور نے جب یہ فرمایا صاحبزادہ مرزا مبارک احمد اس وقت زندہ تھے اور مبارک کے سمیت پنج.....تھے لیکن جب مبارک احمد فوت ہو گئے تو اب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے يوم الاثنين ما يوم الاثنين...چونکہ یہ نکاح دوشنبہ کے دن قرار پایا ہے جس سے ایک پیشگوئی پوری ہوتی اس لیے یہ دن کی موعود کی صداقت کے نشانوں میں سے ایک نشان قرار دیا گیا.
ង។ یہ جو پنج....کا لفظ تھا.مبارک احمد کے فوت ہو جانے پر عزیزہ امتہ الحفیظ ہوتی نہ ہوتی تو ایک مخالف کہ سکتا تھا کہ بتاؤ اب پنج کون ہیں سوخدا کے فضل سے پنچ کے عدد کی صداقت کو بحال رکھنے کے لیے خدا کی طرف سے عزیزہ مکرمہ کا وجود مبارک کے قائمقام ظہور میں لایا گیا.پس عزیزہ امتہ الحفیظ کا وجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.خونی لعين رأتيتني قبل وفي تحفہ بغداد ) اور طوبى ايمن عَرَفَنِى اَدْ عَرَفَ مَنْ عَرَفَتِي (خطبہ العامیہ ) مبارک ہے وہ جس نے مجھ کو دیکھا اور مبارک ہے وہ جس نے مجھے پہچانا یا میرے پہچاننے والے کو پہچانا یہ بہت ہی بڑی سعادت ہے ایک وقت آتے گا جبکہ لوگ حضرت مسیح موعود کے راصحاب کو تلاش کریں گے.اور یہ التجا کریں گے کہ کاش ہمیں حضرت مسیح موعود کو دیکھنے والا ہی کوئی دکھائی دے ایک وقت آئے گا جس وقت بادشاہ کہیں گے کہ کاش ہم مفلس ہوتے تنگ دست اور محتاج ہوتے مگر حضرت مسیح موجود کے چہرہ پر نظر ڈالنے کا موقع پالیتے ، اور ہم حضر مسیح موعود کے (اصحاب) میں شامل ہوتے اور وہ بادشاہ جو اس سلسلہ میں آنے والے ہیں اس بات پر رشک کریں گے کہ کاش ہمیں یہ تخت حکومت اور سلطنت نہ ملتی مگر مسیح موعود کے در کی گدائی حاصل ہو جاتی.وہ نہایت حسرت سے اس طرح کہیں گے ، لیکن ان باتوں کو نہ پاسکیں گے لیکن کیا آپ لوگ کچھ کم درجہ رکھتے ہیں ؟ نہیں بلکہ آپ کا درجہ تو یہ ہے سے
۵۷ بندگان جناب حضرت او : سر بسر تاجدار می بینم آپ ان کی حضرت کے غلام میں کیا یہ آپ لوگوں کے لیے کچھ کم سعادت ہے کہ روحانی رنگ میں آپ کو تاجدار کہا گیا ہے اب فرمائیے کہ حضرت مسیح موعود کو دیکھنے والا انسان کسی سعادت کا ستحتی ہے.پھر جس نے آپ کو دیکھا اور آپ کے ہاتھ سے ہاتھ ملایا اس کا کیا درجہ ہے ؟ پھر ایک اور گروہ ہے جو سعادت میں بہت ہی بڑھ گیا ہے اس میں ایک وہ مبارک انسان ہے جس کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علاوہ روحانی تعلق کے خونی رشتہ کا بھی تعلق ہے یعنی اسے دامادی کا فخر حاصل ہے....اب بتلاؤ کہ ایسے عظیم الشان انسان کا ایسا لخت جگر اور خونی رشتہ جو صرف مبارک احمد کے رنگ ہی میں نہیں بلکہ بجائے خود بھی ایک عظیم الشان نشان ہے جس انسان کے ساتھ ہوگا.وہ کتنا خوش نصیب ہوگا وہ تو اگر اس نعمت کے بدلے تمام عمر سجدہ شکر میں پڑا رہے تو بھی میرے خیال میں شکر ادا نہیں کر سکتا اور نعمتوں اور انعاموں کو جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ کسی کو میں ان کو جانے دو صرف یہی ایک عظیم الشان نعمت اور فضل کیا کم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو ایک دفعہ صرف دیکھنے اور آپ کے چہرہ مبارک پر نظر ڈالنے کا موقع مل گیا اور اگر کوئی ساری عمر اسی نعمت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تو نہیں کر سکتا پھر ہم سے کب شکریہ ادا ہو سکتا ہے جنہوں نے آپ کو بارہا دیکھا اور مدتوں آپ کی صحبتوں اور مجلسوں سے خطہ اُٹھایا ایک تو یہ ہم ہیں اور ایک اور ہیں جن کو اس سے بہت بڑی سعادت نصیب ہوئی.محض خدا تعالیٰ کے فضل کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے ذلك فضل
۵۸ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ تَشَاءُ یہ خُدا کی عظیم الشان نعمت اور رحمت ہے اور ان کو نصیب ہوتی ہے جن کو خدا تعالیٰ نے مجتہ اللہ فرمایا ہے اس سے میری مراد حضرت نواب صاحب ہیں.حضرت مسیح موعود کی ایک بیٹی جس کے گھر جائے اس کو کس قدر سعادت ہے، لیکن بتاؤ کہ اس کی سعادت کا کس طرح اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس کی طرف حضرت مسیح موعود کی دوسری بیٹی بھی خدا تعالی کا فضل نے جائے.اگر ہزار ہا سلطنتیں اور بادشاہتیں بھی حضرت نواب صاحب کے پاس ہوتیں اور انہیں آپ قربان کر کے حضرت مسیح موعود کا دیدار کرنا چاہتے تو از زاں اور بہت ارزاں تھا، لیکن اب تو انہیں خدا تعالیٰ کا بہت ہی شکر ادا کرنا چاہیئے کہ انہیں خدا تعالیٰ کے ایک عظیم الشان فرستادہ کی بیٹی مل گئی ہے اور دوسری بیٹی بھی ان ہی کے صاحبزادے کے نکاح میں آئی.اله وزنامه الفضل ۲۱ جون.مهر نامه 121910 اس موقع پر مندرجہ ذیل مہر نامہ بھی اٹام پیپر پر ضبط تحریر میں لیا گیا.محمده و تقتلى على رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحيم مهر نامه از جانب محمد عبداللہ خان باعث تحریر آنکه ، جو کہ ، جون شاشاته پروتز دو شنبہ کو میرا نکاح امتہ الحفیظ بیگم دختر سید تا مولا نا و امامنا حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود علیه السلام ۱۵۰۰۰۰ رمیں قادیان ضلع گورداسپور سے بعوض مهر مبلغ وغت اور پندرہ ہزار روپیه
۵۹ کلدار جس کے نصف مع صما اور ساڑھے سات ہزار ہوتے ہیں ہوا ہے.یہ پندرہ ہزار روپیه مهرامتہ الحفیظ بیگم صاحبہ مذکورہ کا بطور مهر موجل مقرر ہوا ہے.جو میرے اور میرے ورثامہ پرختی واجب ہے.پس زوجہ ام مذکورہ جب چاہیں اس رقم کو مجھ سے یا میرے ورثا سے وصول کر سکتی ہیں.پس یه چند کلمات بطور مهرنامه و اقرار نامہ وسند کے آج لکھ دیتے کہ عند الحات کام آئیں.مبارک شادی ارجون شاہ کے الفضل میں قران السعدین کے عنوان سے نکاح کا اعلان ہوا.دونوں خاندانوں کو مبارک باد دیتے ہوئے الفضل نے لکھا کہ الٹی یہ قران السعدین مبارک ہو اور ان سے مسیح موعود علیہ السلام کی نسل بڑھے.پہلے اور پھولے اور وہ تمام کمالات اور انعامات کی دارت ہو جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کی اولاد واحفاد سے وعدہ ہوا اللهم آمین یا رب العالمین.الحکم نے مورخہ ۱۴ جون شاشاتہ کو ایک غیر معمول پر چہ شائع کیا اور ایک مبارک شادی " کے عنوان سے لکھا :- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری اور آخری صاحبزادی حضرت امتہ الحفیظ صاحبہ کا نکاح جون سالانہ کو بعد نماز عصر بیت اقصی میں پندرہ ہزار روپید ہر پر حضرت نواب محمد علی خان صاحب قبلہ کے
صاجزادہ خان عبداللہ خان صاحب سے ہوا.خطبہ نکاح کی عزت مولوی غلام رسول صاحب فاضل را جیکی کو ملی.ے رجون شامہ کو جس دن نکاح کا اعلان ہوا.اس دن بھی بعد نماز عصر الحکم نے ایک غیر معمولی پرچہ شائع کیا جس میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹر الحکم قادیان کی طرف سے اس نکاح کی تفصیل درج تھی اور مبارک باد دی گئی تھی.اس موقع پر بھی حضرت نواب محمد علی خان صاد نے حضرت میاں عبداللہ خان صاحب کو زریں نصائح پرمشتمل ایک خط قم فرمایا اور نئی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.رخصتی ۲۲ فروری شاشته مطابق ۲۹ ربیع الثانی ۱۳۳۹ هجری بروز پنجشنبہ رخصتی کی تقریب عمل میں آئی.اس سلسلہ میں حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب نے تحریر فرمایا :- میری شادی کے روز شام کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جا بھیجا.چونکہ حضرت والد صاحب ابھی برات کے طریق کو اپنی تحقیقات میں اسلامی طریق نہیں سمجھتے تھے اس لیے میں شہر پہنچا ہی تھا.کہ آپ نے واپس بلا بھیجا اور میں حضور...کی اجازت سے واپس چلا گیا.اور بعد میں استد و نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور ہمشیرہ بو زینب بیگم صاحبہ دامن کو دارا مسیح سے -
۶۱ دار السلام لے گئیں.حضرت نواب صاحب نے ۲۳ ۲۴ فروری ۹۷ مہ کو کوٹھی دار السلام میں دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا یہ الفضل ۲۷ فروری ۹۱۷اته رخصتی کے بارہ میں الفضل ۲۴ فروری کا تہ نے لکھا : له ۲۲ فروری کاشته مطابق ۲۹ ؍ ربیع الثانی ۱۳۳۹ هجری المقدس بروز پنجشنبه حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ صاحبہ کی جن کا نکاح کے رجون شاشاته بروز دوشنبه مکرم معظم خان صاحب نواب محمد علی خان صاحب کے صاحبزادے میاں محمد عبد اللہ خان صاحب سے ہوا تھا تقریب تودیع عمل میں آتی.ہم خادمان الفضل نہایت خلوص قلب اور دلی مسرت کے ساتھ اپنی اور تمام جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بارگاہ عالی میں اور حضرت اماں جان نیز حضرت قبلہ نواب صاحب کی خدمت اقدس میں مبارک باد پیش کرتے ہوئے دُعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس مبارک اور مسعود جوڑے کو صحت وعافیت کے ساتھ خوش و خرم رکھے اور اپنے خاص انعامات کا وارث بنائے ان سے حضرت مسیح موعود کی نسل پڑھے پھوٹے اور پہلے اور پروان چڑھے اللہم رہنا آمین یا رب العالمین.خاندان کے دیگر معزز و محترم بزرگوں کی خدمت میں نہایت جوش اور خلوص کے ساتھ اس تقریب سعید پر مبارک باد عرض کرتے ہیں.
۶۲ شادی کے متعلق بعض تا ثرات حضرت ملک غلام فرید صاحب مرحوم د حضرت نواب محمد عبدالله خان صاحب کے بچپن کے دوست ) اس شادی اور رخصتی کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں :.املہ میں جب آپ دسویں جماعت میں پڑھتے تھے تو ان کا حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سلمها اللہ تعالیٰ کے ساتھ نکاح کا معاملہ زیر غور ہوا معلوم نہیں اللہ تعالیٰ کو حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کونسی نیکی پسند آتی کہ نہ صرف انہیں بلکہ ان کے لخت جگر کو بھی دامادی مسیح پاک کی سعادت حاصل ہوئی.میاں صاحب نے ان دنوں بار بار مجھ سے ذکر کیا کہ میرے لیے اس رشتہ میں صرف کشش ہے کہ میرا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہو جائے ایک موقع پر اس رشتہ میں کچھ عارضی رکاوٹ پیدا ہوئی تو مرحوم و مغفور بہت بے قرار ہوتے اور بہت دُعائیں کی اور کروائیں اور آخر صاحبزادی صاحبہ کے ساتھ ان کا نکاح ہو گیا.اس نکاح کا خطبہ پڑھنے کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کو خاص طور پر لاہور سے بلوایا.....آپ کی شادی کس سادگی سے ہوئی.میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کی شادی حضرت قبلہ نواب صاحب کے بیٹوں کی شادی میں پہلی شادی تھی اور قدرتاً پہلی شادی میں زیادہ شوق کا اظہار کیا جاتا ہے اور خرچ بھی زیادہ کیا جاتا ہے، لیکن
یہاں یہ ہوا کہ اس شادی میں شمولیت کے لیے باہر سے حضرت نواب صاحب نے جن اصحاب کو بلایا وہ صرف میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کے تعلق کی وجہ سے یہ خاکسار تھا.......حضرت نواب صاحب کا یہ خیال عقیدہ کی جد تک پہنچا ہوا تھا کہ رخصتانہ کے وقت دلہا کو اپنی دین کو لینے کے لیے اس کے گھر نہیں جانا چاہیئے.بلکہ دلہن کی رشتہ دار عورتوں کو خود دین کو دلما کے گھر پہنچانا چاہیئے.مجھے معلوم نہیں کہ حضرت نواب صاحب کے اس خیال کی بنیاد کیا تھی.ممکن ہے انہوں نے کسی حدیث یا اسلامی تاریخ کی کسی کتاب میں پڑھا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صاحبزادی کا رخصتانہ اسی طرح ہوا تھا.ہر حال وہ اس خیال پر شدت سے قائم تھے.اس لیے جب حضرت صاحبزادی الله الحفیظ بیگم صاحبہ کے رخصانہ کا وقت ہوا تو حضرت اماں جان نے غالباً حضرت نواب صاحب کے اس خیال کو جانتے ہوتے کہ کسی برات وغیرہ کا آنا تو خارج از بحث ہے.میاں عبداللہ خان صاحب کو کہلا بھیجا کہ آپ اکیلے ہی ہمارے ہاں آجائیں.یہ بات مجھے خود میاں عبداللہ خان صاحب نے بتائی کہ جب وہ حضرت اماں جان کے ارشاد کی تعمیل میں اکیلے کو بھٹی دار السلام سے دار المسیح کی طرف گئے تو پہلے اس کے کہ وہ حضرت مسیح موعود کے گھر میں داخل ہوں حضرت نواب صاحب کو میاں عبداللہ خان صاحب کے اس طرح اکیلے جانے کا علم ہو گیا اور انہوں نے اپنے ایک خادم میاں جیوا کو میاں صاحب کے پیچھے بھیج کر انہیں حضرت مسیح موعود کے گھر داخل ہونے سے روک دیا اور جیسے میاں صاحب مغفور
۶۴ اکیلے آتے تھے ویسے اکیلے ہی واپس چلے گئے بعد میں حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو احادیث کی کتابوں کے حوالہ جات نکال کر بلا یا گیا کہ اس بارہ میں ان کی شدت نا واجب تھی تو انہوں نے اپنے خیال کو بدل لیا.بہر حال اس سارے واقعہ سے اتنا تو پتہ لگ جاتا ہے کہ ان دونوں عالی خاندانوں کی شادیاں کس سادگی سے ہوتی تھیں.-۲- مکرم میاں عبدالرحیم خان صاحب خالد خلف حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے اپنے تاثرات کا یوں اظہار فرمایا :- " میابی عبداللہ خان صاحب بہت جلد دوسروں کی رائے سے متاثر ہوتے تھے ان کی شادی ان کی دُنیا کا نقشہ بدلنے میں ایک بہترین موڑ ثابت ہوئی.عام طور پر ماؤں کو اپنی چھوٹی اولاد سے زیادہ محبت ہوتی ہے سو اماں جان کی ہمدردیاں بھی عبداللہ خان کو حاصل ہو گئیں چونکہ بڑی بیٹی ایسی جگہ بیازی گئی تھیں کہ ان کا میاں اس وقت کے لحاظ سے اچھی حیثیت کا مالک تھا اور ان کو کافی آرام اور بے فکری تھی عبداللہ کا مستقبل ابھی بنا نہیں تھا اس لیے حضرت اماں جان نے پوری توجہ اس طرف دے دی.اللہ تعالے نے غیب سے یہ سامان کر دیا کہ عبداللہ خان جماعت کے لیے اراضی علاقہ سندھ میں دیکھنے گئے اراضی سب لے رہے تھے انہوں نے بھی حاصل کرلی اس میں خدا تعالیٰ نے برکت بخشی اور بہت جلد ان کے لیے دنیوی رستے کھل گئے
۶۵ جذبات تشکر و امتنان حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب کی سندھ والی اراضی نصرت آباد اسٹیٹ کے نام سے موسوم ہے ایک دفعہ اسٹیٹ کی ایک تقریب کے موقع پر حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب نے کارکنان سے خطاب کرتے ہوتے فرمایا :-.......خدا تعالیٰ نے عجیب در عجیب زنگ میں میری مشکلات کو دور کیا مجھے ہر رنگ میں نوازا میری اس قدر پردہ پوشی فرمائی جس کا اندازہ سوائے میری ذات کے کوئی نہیں لگا سکتا میرے پیارے رب کے رحم و کرم کا اندازہ آپ لوگوں کو اس وقت ہو سکتا ہے کہ میرے اندرونی حالات کا آپ کو علم ہو ----- میری ہر ایک وقت اور مصیبت میرے لیے ایک سیڑھی تھی.جو کہ مجھے رفعت اور بلندی کی طرف لے جاتی رہی اس زمانہ میں میرے مولا نے اپنی رحمت اور شفقت کا سلوک نہیں چھوڑا.بار بار مجھے اور میری بیوی کو بشارات..دے دے کر میری ڈھارس بندھاتا رہا......اب دیکھو اللہ تعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ اس نے صرف مجھے دنیا ہی نہیں دی بلکہ اپنے بے شمار رحم و کرم فرما کر حقیقی معنوں میں مجھے عبداللہ بنا دیا.آج میرا دل شکر اور اس کی محبت سے
۶۶ بریز ہے.میرا دل چاہتا ہے کہ جو کچھ میرا ہے وہ سب اس کی خاطر قربان ہو جاتے اور میں اسی کا ہو کر رہ جاؤں میں آپ لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کی توفیق دے دراصل عملی طور سے ہے بھی یہی ہیں اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دو بیٹیوں کا خادم سمجھتا ہوں میری ساری کوشش اور محنت صرف اس لیے ہے کہ اس پاک وجود کے جگر پارے جن میں سے اللہ تعالٰی نے ایک کو میرے والد اور ایک کو میرے سپرد کیا ہے...اللہ تعالیٰ شاہد ہے کہ اس رحمت اور برکت کو میں نے کبھی اپنی ذات کی طرف منسوب نہیں کیا.میرے پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ حضرت اماں جان کی دُعاؤں کے فصیل ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب میں میرے لیے پیارو محبت پیدا کر دیا ہے ایک وقت تھا کہ وہ خود بھی دعائیں فرماتی تھیں بلکہ ہر ایک کو کہتی تھیں کہ عبداللہ خان کے لیے دعائیں کرو اس لیے اللہ تعالی کے بعد میری گردن جذبات شکر اور محبت سے ان کے حضور جھکی ہوتی ہے.میری والدہ جبکہ میں چار پانچ سال کا دبلکہ قریباً تین سال کا موقف) تھا فوت ہو گئی تھیں.میں ماں کی محبت سے بے خبر تھا لیکن میرے درود و روف مولا نے حضرت اماں جان کے وجود
44 میں مجھے بہترین ماں اور بہترین سائش دی.میں نے آج تک اس رقبہ کو حضرت اماں جان کا عطیہ تصویر کیا.بلکہ اس جینز کا جز خیال کیا جو انہوں نے اپنی لڑکی کو دیا میں نے اسی جذبہ شکر اور محبت کی وجہ سے اس رقبہ کا نام نصرت آباد آپ کی اجازت سے آپ کے نام مبارک پر رکھا ہے.اس لیے یہ حضرت پرر امان جان کا عطیہ ہے ان کی دُعاؤں کا ثمرہ ہے آپ لوگ خود ہی سمجھ لیں کہ حضرت مسیح موعود...کے گھر سے آئی ہوئی چیز کسقدر با برکت ہو سکتی ہے...." قرار واقعی احترام کی تلقین یہ برکتوں سے معمور شادی کن مراحل سے گزرتی ہوئی پا یہ تکمیل کوپہنچی.ا مکرم ملک صلاح الدین صاحب مولف اصحاب احمد تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت نواب عبداللہ خان صاحب نے انہیں ۲۱۷۴/۵۲ کے ایک مکتوب میں تحریر فرما یا در سال امان جان انہی کی اماں نہیں میں بلکہ مری بھی اماں میں میرے ساتھ جو محبت اور پیار کا سلوک انہوں نے کیا ہے اپنے ساتھ ایک داستان رکھتا ہے جب میری شادی ہوتی تو مجھے ایک عورت کے ہاتھ کہلا کر بھیجا کہ میاں کی عمر زیادہ تھی یعنی میرے والد کی.تم چھوٹی عمر والے داماد ہو.تم مجھ سے شرمایا نہ کرو.تا کہ جو کمی رہ گئی ہے اس کو پورا کر سکوں.پھر آپ نے حقیقی ماں بن کر دکھایا.) اصحاب احمد جلد دوم ص ،
۶۸ اس کا مختصر تذکرہ گذشتہ صفحات میں کیا جا چکا ہے.حضرت نواب محمد علی خان صاحب مسلسل و متواتر اس شادی کی اہمیت اور اس سے عائد ہونے والی عظیم ذمہ داریوں کی طرف حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کی توجہ مبذول کرواتے رہے.اور سب سے زیادہ تاکید اس بات کی کرتے رہے کہ حضرت امتہ الحفیظ صاحبہ اللہ تعالیٰ کے ایک مقدس اور چنیدہ مامور کی دختر نیک اختر اور مبشر اولاد کا ایک فرد اور اللہ تعالٰی کے نشانوں میں سے ایک نشان ہیں اس لیے ان کی قرار واقعی عزت و احترام ہمیشہ محفوظ رہے اور حق یہ ہے کہ حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب نے ساری زندگی اس عید کو بوجودو احسن نہ صرف نبھایا.بلکہ اپنی ساری اولاد کو بھی ہمیشہ تلقین فرماتے رہے کہ اس بابرکت وجود کا احترام کریں.ذیل میں حضرت نواب محمد عبدالله خان صاحب کی بعض تحریرات اس ضمن میں پیش کی جارہی ہیں.اپنی بڑی بیٹی محترمہ آمنہ طیبہ صاحبہ کی شادی کے موقع پر نصائح سے پر ایک طویل خط تحریر فرمایا اس کے بعض اقتباسات :- " تمہاری امتی اس معاملہ میں بہترین نمونہ نہیں تم نے خود دیکھا ہے کہ کس قدر تگی انہوں نے میرے ساتھ اٹھائی ، لیکن اس وقت کو نہایت وفا اور محبت کے ساتھ گزار دیا ایک طرف تو یہ تسلیم و رضا تھی اور دوسری طرف مجھے کام کرنے اور باہر نکل جانے کی ترغیب دیتی تھیں آخر اس صابر و شاکر مہستی کی دُعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور فضل کے دروازے
49 میرے پر کھول دیتے.اللہ تعالی تم کو اپنی امی کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرماتے گھر میں مختلف قسم کی تکالیف بھی آئیں تنگیاں بھی آئیں لیکن اس خدا کی بندی نے اپنے سیکے میں ان تکالیف کا کبھی بھی ذکر نہ کیا.خود اپنے نفس پر سب کچھ برداشت کیا، لیکن دوسروں کو اپنی تکلیف میں شامل کرنا گوارہ نہ کیا.وقت تھا گزر گیا.میری بچی.مجھے بڑی خوشی ہو گی.تم بھی اپنی اپنی کی طرز ہی اختیار کرد تمہارے لیے ایک بہترین نمونہ ہیں..وه اللہ تعالیٰ کے لیے انتہا احسانوں کا شکریہ حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب اپنی لمبی بیماری سے شفایابی پر ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں :." میری اس بیماری سے رہائی محض اللہ تعالیٰ کے کرم کا نتیجہ ہے میں آج سے ۵ سال قبل خستم ہو گیا ہوتا.لیکن میرے بزرگوں میرے عزیزوں میرے مخلص دوستوں اور اس برادری کے افراد نے جن کو حضرت مسیح موعود نے ایک دوسرے سے منسلک کر دیا ہے میری چلتی پھرتی تصویر انہیں کی دُعاؤں کا کرشمہ ہے جو انہوں نے مضطربانہ اور بے قراری کے جذبہ کے تحت میرے لیے کیں.انہوں نے مجھے اپنے مولا کریم سے
4.جوکہ في وقوم اور سمیع ہے مانگ کر ہی صبر کیا.ایک مخلص بین نے میری بیوی کو لکھا کہ جب انہوں نے میری تشویش ناک حالت کا اخبار میں پڑھا تو وہ سجدہ میں گرگئیں اور اس قدر اضطراب اور بے قراری سے ان الفاظ میں دُعا کی کہ جب تک اسے میرے مولا تو مجھے ان کی صحت کے متعلق مطمئن نہیں کر دیتا.میں تیرے حضور نے سر نہیں اُٹھاؤں گی چنانچہ جب ان کو تسلی مل گئی تو پھر انہوں نے بارگاہ ایزدی سے سر اٹھایا.پھر سی ایک شمال نہیں اب بھی مجھے اکثر بھائی ملتے ہیں اور ذکر کرتے ہیں کہ کسی کسی رنگ میں انہوں نے میرے لیے دُعائیں کیں خدا کی اس عنایت اور مہربانی کا میں جس قدر بھی شکریہ ادا کروں وہ کم ہے.میں کیا اور میری ہستی کیا.میں نے اپنی قریباً ساٹھ سالہ زندگی میں ان کے لیے کیا کیا ؟ یہ محض حضرت مسیح موعود کی صاحبزادی کے طفیل ہے یہ تڑپ یہ دلسوزی یہ بیقراری اس واسطے تھی یہ اس محبت اور خلوص کا کرشمہ ہے جو اس والہانہ محبت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہے.انہوں نے صاحبزادی کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھا اور بے قرار ہو ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے اور مجھے اس بیماری سے نجات دلا دی.پھر میں کس کس بات کا شکریہ ادا کروں یہ میری خوش نصیبی سمجھتے یا حسین اتفاق کہ اس
: کڑے وقت میں سارا خاندان ایک جگہ اکٹھا تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی...اس بیماری کے دوران میں مہربانی فرماتے رہے.ان کی خاص دعاؤں کا مورد بنا رہا کہ انہوں نے میرے اچھا ہونے سے بہت پہلے خواب میں مجھے پورا صحت یاب دیکھا پھر اماں جان جو کہ میرے لیے ماں سے بڑھ کر تھیں میں اپنی ماں کی محبت سے محروم تھا.کیونکہ میں بچہ ہی تھا کہ وہ فوت ہو گئیں لیکن اس کمی کو حضرت اماں جان کی محبت نے پورا کر دیا.جب میری طبیعت زیادہ خراب ہوتی تو فوراً میری چارپائی کے پاس آکر بیٹھ جاتیں نہ صرف دُعا کرتیں بلکہ ان کا پُرسکون چہرہ اور پر امید چہرہ میرے لیے ایک بیش بہا آسرا اور سہارا ہوا کرتا تھا.ان کی موجودگی ایسی قوت ارادی پیدا کرتی کہ ساری گھبراہٹ اور بے چینی اپنی پیاری دور ہوتی پاتا.اللہ تعالیٰ ان کے مرقد پر اپنے انوار کی بارش نازل فرمائے اور وہ کچھ ان کو دے جو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام ان کے لیے چاہتے تھے.ان کو سب کچھ حاصل تھا.میں اپنی زبان سے کیا دعا ان کے لیے کر سکتا ہوں پھر اپنی والدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں پاتا انہوں نے میری محبت میں ایک سال نہایت تکلیف اور بے آرامی میں میرے کمرے میں گذارا.ہرقسم کے آرام و آسائش کو چھوڑ کر
۷۲ میرے آرام میں لگی رہیں نہ صرف یہ کیا بلکہ جماعت میں جو مضطر بانہ اور بے قراری کا جذبہ دعا کے لیے پیدا ہوا زیادہ تر انہی کی تحریک کا نتیجہ تھا.ان کی رباعیات نے جماعت میں ایک ہلچل مچادی ایسا ولولہ پیدا کر دیا کہ اہل خانہ مسیح موعود سے محبت رکھنے والے اپنی کے رنگ مادرانہ میں رنگین ہو گئے اضطراب اور بے تابی سے دُعا کرتے تھے.اب میں یہاں اگر اپنی بیوی حضرت رحیت کرام انا الحفیظ بیگم صاحبہ کا ذکر نہ کروں تو نہایت ناشکری اور ظلم ہوگا.یہ نور کا یکڑا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جگر گوشہ ہو میرے پہلو کی زینت بنا ہوا ہے کسی خدمت اور کسی نیکی کے عوض مجھے حاصل ہوا ہے اسی بات کو سوچ کر میں ورطہ حیرت و استعجاب میں پڑ جاتا ہوں موجودہ زمانہ کا روحانی بادشاہ جری ال نی مل او بیاید نے اپنے لیے یہ خاکسارانہ الفاظ استعمال فرماتے ہیں آج تک اس کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہوں لیکن میرے جیسے ناچیز انسان کے لیے یہ حقیقت ہے میں اصل میں ان اشعار کا مورد ہوں ے کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بیشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار اللہ تعالیٰ نے اس انعام کو دے کر مجھے زمین سے اُٹھا کر ثریا بنر
پہنچا دیا.اس منہ مہر و وفا نے جب میری بیماری کی اطلاع راولپنڈی میں پائی تو نہایت درجہ پریشانی کی حالت میں فورا نہ ہور پہنچیں یہ میری بیماری کی پہلی رات تھی اور ساری رات موٹر پر ان کو رہنا پڑا.صبح چار بجے کے قریب لاہور پہنچیں لیکن کیا مجال میرے پر اپنی گھراہٹ کا اظہار ہونے دیا ہو.پھر اس قدرتی رہی اور جانفشانی سے میری خدمت میں لگ گئیں کہ میں کہہ نہیں سکتا کوئی دوسری عورت اس قدر محبت اور پیار کے جذبہ سے اپنے خاوند کی خدمت کر سکتی ہو اس اللہ تعالیٰ کی بندی نے اپنے اوپر آرام کو حرام کر لیا.رات دن جاگتے ہوئے کاٹتی تھیں کمرہ تنگ تھا اس لیے دوسری چارپائی کمرہ میں کچھ نہیں سکتی تھی اس لیے یہ ناز و نعمت کی پلی جو کہ ریشم و اطلس کے لحافوں میں آرام کی عادی تھی زمین پر چند منٹ کے لیے مریک کر آرام سے لیتی تھی بلکہ زمین پر نہیں ایک تخت پوشش نماز کے لیے بچھا ہوا تھا.اس پر چند منٹ کا آرام اگر میسر آجائے تو آجائے وگرنہ ہر وقت چوکس ہوشیار میرے کام کے لیے مستعد ہوتی تھیں.یہ نہیں کہ کوئی اور میرا خبر گیرانہ تھا ان مت ایام میں ملازموں کے علاوہ تمام عزیز اور رشتہ دار میری بادت میں لگے ہوتے تھے میں اس بیماری میں اپنے کو اس قدر خوش نصیب اور خوش بخت لوگوں میں متصور کرتا تھا جس کا آپ
۷۴ لوگ اندازہ ہی نہیں کر سکتے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی پوتیاں اور نواسیاں اس محبت اور جذبہ سے خدمت میں لگی ہوئی تھیں کہ اگر میں اس حالت میں مر بھی جاتا.تو یہ بھی میرے لیے ایک روحانی انبساط کا موجب ہوتا اپنے پاک لوگوں کو ایک گنہ کار کی خدمت میں لگا دیا یہ اس کے اپنے عطا یا ہیں جس کو نہ میں سمجھ سکا ہوں.نہ کوئی اور مجھ سا نا چیز اور یہ سلوک سے لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نا لائق بھی ہو کر پا گیا درگاہ میں بار لیکن میری با وفا پیاری بیوی نے کسی کی امداد پر بھروسہ نہیں کیا بلکہ ان کی یہی خواہش اور آرزو رہتی تھی کہ خود ہی میرا کام کریں اگر کسی دوسرے کو کام کرتا تاکہ ان کو آرام ملے تو اس سے خوش ہونے کی بجائے ناراض ہو تیں لوگ کہتے ہیں کہ اسلامی شادیاں کامیاب نہیں ہو تیں مرد اور عورت ایک دوسرے کی طبیعت سے واقف نہیں ہوتے ان فلسفیوں کو کیا علم کہ جن لوگوں کو خدا تعالیٰ کی ربوبیت اور پاک بندوں کی تربیت حاصل ہوتی ہے اور ان لوگوں کے فیض صحبت سے اپنے اعمال صیقل کئے ہوتے ہیں ان کی دنیا ہی نرالی ہوتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے سچ فرمایا ہے کہ دنیا مومن کے لیے سجن ہے کیونکہ اس کو شریعت کی پابندی اپنے پر عائد کرنے کی پہلے تکلیف برداشت
۷۵ کرنی پڑتی ہے لیکن جب وہ حقیقی عبودیت حاصل کر لیتا ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَان کا مصداق ہو جاتا ہے اور کامل اور مکمل عبد ہونے کی حالت وارد ہونے کے بعد فَادْخُلُوا فِي عِبَادِي وَادْخُلُوا جَنَّتِی کی پر سرور آواز سناتا ہے یہی کیفیت اس پاک بیوی کی تھی میں اس اعتراف پر مجبور ہوں کہ جب میں اپنی بیوی کی محبت اور وفا کو دیکھتا ہوں تو اکثر ورطہ حیرت میں گم ہو جاتا ہوں.وہ شہزادیوں کی طبیعت رکھتی ہیں.ان میں نخوت و تکبر رائی برابر نہیں، لیکن کبریاتی ان میں دیکھتا ہوں.....جو حسد اور رئیس سے بہت بالا تر ہے میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی کی شخصیت نے ان کو مرعوب کیا ہو.وہ طباع اور ذہین ہیں وہ جس سے گفتگو کرتی ہیں اس کو اپنا گرویدہ کرلیتی ہیں خاوند پر کبھی ناجائز بوجھ نہیں ڈالتیں بلکہ اپنے خاوند کے فکرو تم وغم میں پوری ہمدرد اور مونس ساتھی کا کام دیتی ہیں.بچوں کی تعلیم وتربیت میں اپنی شال آپ ہی ہیں.عزیزوں رشتہ داروں سے نیک سلوک کرکے حفظ حاصل کرتی ہیں ان کو کسی چیز کے خود استعمال کرنے کی نسبت اس بات سے زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ دوسرا ان کی چیز کو استعمال کرے اگر کسی نے کسی وقت کوئی تکلیف پہنچائی ہو تو ذراسی تلاقی سے تمام شکایات طارق نسیاں کر دیتی ہیں.صبرو
شکر ان کا شیوہ ہے بغض و حسد و کینہ سے دور کا بھی واسطہ نہیں.اللہ تعالیٰ سے ان کو محبت ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں وہ سرشار ہیں.میں نے اکثر اوقات دیکھا ہے کہ ان کو کسی چیز کی خواہش پیدا ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آنا فانا..مہیا کرنے کے سامان کر دیتے.میرے پر جو بھی اللہ تعالیٰ کی مہربانیاں اور عنایات ہیں وہ اسی کے طفیل میں حضر میں موجود چار سال کی عمر میں اس کو اپنے مولا کے سپرد کر گئے تھے.جب سے ہی وہ اپنے مولا کی گود میں نہایت پیار سے رہتی ہیں اور میری راحت کا موجب بنی ہوئی ہیں میرے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرز کا کام دیتی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی صفت حفیظ کی پوری پوری سجتی ہیں بسا اوقات میں کسی گناه یا آزمائش کے قریب پہنچا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس میری حالت سے مطلع کر دیا یہ ایک دفعہ نہیں دود فعہ نہیں بارہا ایسا ہوا.جب صبح کو میں اُٹھا تو وہ خواب یا اشارہ میرے متعلق ہوا ہوتا.مجھے بتا تیں تو میں حیرانی میں پڑ جاتا اور مجھے اپنی اصلاح کا موقع مل جاتا.کہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں کی کسی طرح حفاظت کرتا ہے اور غیب کی باتوں سے آگاہ کر دیتا ہے میں اس کی زیادہ وضاحت نہیں کر سکتا یہ ایک مستقل مضمون ہے..."..
میں آج ایک مشت خاک ہوتا اگر ان کی تیمار داری اور دعائیں جو مضطربانہ اور بے قرارانہ انداز میں انہوں نے کی ہیں نہ ہوتیں.پس اس قدر قابل قدر ہستی دوسری طرف میرے جیسا بیجدان جو احباب مجھے جانتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ کیا بے جوڑ رشتہ ہے لیکن اپنے مولا کریم کا شکر یہ ادا کرتے نہیں تھکتا اس نے میری بیوی کے دل میں اس قدر محبت اور پیار پیدا کر دیا کہ جس کی مثال بہت کم ملتی ہے عام طور پر لوگ چند روز کی تیمار داری سے تنگ آ جاتے ہیں لیکن یہاں پانچ سال کی لگاتار محنت و مشقت کی خدمت نے ان کی مہرو وفا اور محبت پر مہر لگا دی ہے اس بے پناہ محنت اور مشقت نے ان کی اپنی صحت کو برباد کر کے رکھ دیا ہے اب وہ مجھ سے زیادہ بیمار نظر آتی ہیں.احباب سے میری عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ کی صحت کے لیے مجھ سے زیادہ دعا کریں میں اس لیے زندہ رہنا چاہتا ہوں کہ وہ چاہتی ہیں کہ میں زندہ رہوں.ورنہ وہ اپنے گھرانہ کے لیے مجھ سے بہت زیادہ نافع اور مفید وجود ہیں میرے مولا تیری رضا کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نے میری خدمت کی ہے.اب تو اپنی ذرہ نوازی سے میری زاری کوسن اس کو پوری صحت عطا فرما.مجھے تونے
LA دوباره زندگی دی ہے میں اس نتے دور زندگی میں تیرا زیادہ سے زیادہ قریب اور محبت حاصل کر سکوں تیرے دین اور سلسلہ کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید و نافع وجود ثابت ہو سکوں.ہمیں عبد شکور بننے کی توفیق دے.....حضرت نواب محمد عبداللہ خانصاحب کی جیت آپ کے ذی وقار شوہر حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب نے اپنی وفات سے قبل ایک وصیت رقم فرمائی.اس میں حضرت سیدہ مرحومہ سے تعلق رکھنے والے بعض امور کا تذکرہ درج ذیل ہے :- میری دُعا اور آرزو ہے کہ میری اولاد امامت سے منسلک رہے اور ہمیشہ اس گروہ کا ساتھ دے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد زیادہ سے زیادہ ہوں کیونکہ حضور علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے انى معك ومع أهلك - نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کریں اور ہر مصیبت کے وقت مولا کریم کو قادر مطلق خدا تصویر کرتے ہوئے اس کے حضور جھک کر عجز و انکسار سے استقامت طلب کریں میں نے اسی طریق سے زندہ خدا کو پایا اور اپنی شکلاتی کو کافور ہوتے دیکھا.حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خاص خیال رکھیں.ان کے سامنے یہ بات ہونی چاہیئے کہ وہ کسی
49 ماں کی اولاد ہیں اور کس نانا کے وہ نواسے اور نواسیاں ہیں.کس مقام کا ان کا ماموں ہے اور وہ اس دادا کی اولا د میں جس نے اپنی اولاد سنوارنے کے لیے اپنے وطن کو چھوڑا.اور محلات کو چھوڑ کر ایک کوربستی میں ایک تنگ مکان میں بسیرا کیا.....میری دعاؤں اور نیک خواہشوں کا وہی بچہ حقدار ہو گا جو اپنی ماں کی خدمت کو جزو ایمان اور فرض قرار دے گا.ان کی ماں معمولی عورت نہیں ہیں.میں نے ان کے وجود میں اللہ تعالیٰ کی تجلیات کو کار فرما دیکھا ہے ہر قوت تت اور ہر مشکل کے وقت ان کی ذات کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور پیار کا محور پایا.چار سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے حبیب کی گود سے لیا.پھر عجیب در مجیب رنگ میں ان کی ربوبیت فرمانی میں نے اللہ تعالیٰ کے جو نشانات اپنی زندگی میں ان کے وجود میں دیکھے ہیں وہ ایک بڑی حد تک احمدیت پر ایمان کامل پیدا کرنے کا موجب ہوتے ہیں.پس جو بچھے میرے بعد ان کو خوش رکھیں گے اور ان کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں گئے ان کے ساتھ میری دعائیں اور نیک آرزوئیں ہونگی جو بچے ان کو ناراض کریں گے وہ میری روح کو بھی دُکھ دیں گے میں ان سے دور.وہ مجھ سے دور ہونگے.اللہ تعالیٰ میری اولاد کو اپنی رضا کے ماتحت ماں کی خدمت کی توفیق دے
اور انہیں اپنی رضا اور محبت کا مور د بناتے؟" اصحاب احمد جلد دو از دیم مولفه کرم ملک صلاح الدرین نا) حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کی وفات پر بعض تاثرات آپ کے بڑے صاحبزادے مکرم میاں عباس احمد خان صاحب نے حضرت نواب صاحب کی آخری بیماری کے حالات الفضل ۲۷٫۲۶ اکتوبر ہ میں رقم فرمائے اس مضمون میں اپنی والدہ محترمہ کا تذکرہ کرتے ہوتے لکھتے ہیں :- والد محترم کی حالت استمبر کی رات ، بجے سے بگڑ چکی تھی اور آپ نے غالباً محسوس کر لیا تھا کہ اب آخری وقت ہے اس لیے برکت اور تسکین کے لیے والدہ محترمہ کو اپنے پاس بٹھا لیا.چنانچہ والدہ محترمہ تمام رات صبح وفات تک ایک دم کے لیے بھی آپ کے پاس سے نہ اُٹھیں......حضرت والد صاحب محترم کو حضرت والدہ محترمہ کا اپنی زوجہ ہونے کے علاوه بحیثیت دختر مسیح موعود علیہ اسلام بہت زیادہ پاس تھا اور ان کی زندگی کی مساعی میں سے یہ ایک بڑی کوشش تھی کہ حضرت والدہ محترمہ کو ہر ممکن آرام پہنچے.اور اپنے بچوں کے لیے یہی خواہش رہی کہ وہ اپنی والدہ صاحبہ کو خوش
رکھیں اور ہر ممکن خدمت کریں......حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے حضرت نواب صاح بالونات -1941 ر شکریہ احباب و تحریک دعا کے تحت الفضل ۱۳ اکتوبر ۹ہ میں تحریر فرمایا : اس زمانہ میں یہ کس قدر خلاف قیاس بات معلوم ہوتی ہو گی مگر آج ہم تین بہن بھائیوں کے رشتے جو ہوتے ریعنی ہم دونوں بہنیں دونوں باپ بیٹوں کے نکاح میں آئیں اور حضرت چھوٹے بھائی صاحب کی شادی ان کی بڑی لڑکی کو زمینی بگیم سے ہوتی ، اس کے ثمر ہماری اولادیں در اولادیں ملا کر اس وقت تیتر نفوس ہیں جو نواب صاحب اور ان کے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مشترکہ نسل ہیں اللهُمَّ هُمَّ زِدُ فَزِدُ....فقط مبارکه خاکسار مرتب کتاب ہذا عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دُعائیں اور اللہ تعالٰی کے وعدے اور بشارات آپ کی اولاد کے سلسلہ میں نہ صرف پوری ہوتیں بلکہ یہ سلسلہ کئی نسلوں تک ممتد ہوتا چلا جا رہا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک مبارک نسل کا غیر مختم سلسلہ جاری و ساری ہے.حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب کی وفات کے بعد مکرم
۸۲ ملک صلاح الدین صاحب نے آپ کی سیرت پرمشتمل کتاب اصحاب احمد جلد دوازدہم شائع کی جس میں متعدد احباب کے بعض تاثرات بھی درج کئے گئے ہیں ان تاثرات میں سے حضرت سیدہ امتہ الحفیظ صاحبہ کی سیرت و شمائل سے متعلق بعض اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں :- حضرت خان عبد المجید خان صاحب کپور تھلوی مرحوم سابق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ دیکھے از ۳۱۳ رفقا نے نظم فرمایا.اپنی بیگم صاحبہ کو بڑی محبت کی نگاہ سے دیکھتے تھے چنانچہ اس کے نتیجہ میں انہوں نے آپ کی بیماری کے ایام میں بے حد خدمت کی الفضل ۲۸ نومبر ته ) حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب نے تحریر فرمایا :......حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تو عشق تھا ہی لیکن حضرت اماں جان کے مرتبہ کو بھی بہت بڑا جانتے تھے اور آن سیدہ کی دعاؤں کی قبولیت کے بہت قاتل تھے اور آن سیدہ کی دعاؤں کو باعث صد فخر جانتے تھے آپ شفیق باپ وفا دار اور شفیق دوست اور غریبوں کے ملجا و مادی تھے کسی کو ناراض دیکھنا نہیں چاہتے تھے آپ کے حسین سلوک ہی کا نتیجہ ہے کہ آپ کے اہل خانہ نے آپ کی تیمار داری میں اپنی جان گھلادی" ) الفضل اور ستمبر 1 ۲۱
صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ابن سید نا حضرت خلیفتہ اسیح اثنانی رقم فرماتے ہیں :- بچپن سے آپ کے متعلق میرا تاثر یہ ہے کہ ہم خاندان حضرت مسیح موعود کے بچوں کو باوجود عمر اور رشتہ میں چھوٹا ہونے کے ہمیشہ بہت ادب سے پکارتے تھے اور بہت ہی محبت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اسی طرح سلوک کرتے تھے.نیز ان کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ ہم لوگ اپنے اخلاق اور اعمال میں ایک نمونہ ہوں اور خلاف شرع اور اخلاق کوئی بات ہم سے سرزد نہ ہو چنانچہ کوئی نا پسندیدہ بات آپ دیکھے پاتے تو بلا جھجک فوراً ٹوک دیتے اور اظہار فرماتے کہ یہ بات ہیں زیب نہیں دیتی آپ کا یہ عمل حضرت مسیح موعود سے شدید محبت کے باعث تھا.اور اسی وجہ سے آپ اپنے اہل خانہ ہماری چھوٹی پھوپھی جان کا اتنا احترام کرتے تھے کہ دیکھ کر حیرت آتی تھی.....( اصحاب احمد جلد دوازدهم ) مکرم منشی عزیز احمد صاحب نے لکھا :.یتنامی بیکسوں غرباء اور غریب طالب علموں کی مالی مدد کرتے اقارب اور پرانے خدمت گزاروں سے حسن سلوک کرتے.آپ بلند پایہ مہمان نواز تھے.ایک دفعہ حضرت مولاوی
۸۴ شیر علی صاحب حضرت میر محمد اسحق صاحب.حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال و غیر ہم گیارہ احباب کو بھی دار السلام میں آئے آپ نے انہیں بٹھایا اور گرمی کے باعث پانی منگوایا اندر پیغام بھیجوایا کہ بارہ افراد کے لیے کھانا بھجوا دیں.ان احباب کے انکار پر اصرار کرکے کھانا کھلایا.دراصل تواضع میں آپ کے اہل خانہ کا پورا تعاون آپ کو حاصل تھا.اس موقع پر میں حیران تھا کہ سارا کھانا تو تناول کرنے کے لیے جاچکا ہے اب اتنی جلدی کھانا کیسے لے گا لیکن کھانا جو چند منٹ پہلے اندر بھیجا گیا تھا جوں کا توں مع اچار چٹنی، مرتبہ، وہی مکھن.شکر آگیا.معلوم نہیں آپ کے اہل خانہ اور چاروں بچوں اور خادمات وغیرہ نے کیا کھایا ہوگا......میں سندھ سے آپ کی عیادت کے لیے آیا.آپ نے ناشتہ منگوایا مٹھائی وغیرہ کے ساتھ ایک پیالہ میں چائے آئی آپ احساسات کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ فرمایا آپ محسوس کرتے ہوں گے کہ پیالہ میں چائے کیوں دی ہے بات یہ ہے کہ ہم قادیان سے کچھ نہیں لا سکے.یہاں صرف ایک سیٹ خریدا ہے جو خالی نہیں.اس زیبا بیگم حداد کا ناشتہ رکھا ہے.وہ ساری رات میری تیمار داری کے کے اب سو رہی ہیں......آپ شدید تکلیف میں بھی اُف ہائے وغیرہ نہ کتنے فرماتے حضرت بیگم صاحبہ کو
۸۵ 1941 میری تکلیف سے بھی بڑھ کر تکلیف ہوتی ہے جون یا جولائی میں ایک شام آپ کو شدید پیٹ درد ہو گئی.آپ نے اپنے پاس مجھے ٹھہرنے کو کہا.ایک ایک منٹ بعد بے چینی سے آپ کروٹ لیتے کبھی ایک کبھی دوسری دوائی استعمال کرتے اور فرماتے کہ آہٹ نہ ہو مبادا بیگم صاحبہ بیدار ہو جائیں مجھے بار بار کہتے کہ سو جاؤ مجھے بھلا نیند کیسے آتی بالاخر تین بجے آپ کو نیند آئی تو میں بھی فرش پر پاس ہی سو گیا تا کہ خدا الضرورت جلد بیدار ہو جاؤں.پھر نمانه فجر کے وقت باہر چلہ گیا آپ بجے کے قریب بیدار ہوئے تو خادمہ سے میرے متعلق دریافت کیا اور فرمایا وہ ساری رات جاگتے رہے ہیں اس نے کہا وہ ناشتہ کر رہے ہیں چند گھنٹے بعد مجھے کجا یا اور کہا کہ میری راتیں اکثر ایسی گزرتی ہیں آپ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ میری زندگی کا کیا اعتبار ہے میں سچ کہتا ہوں کہ ایسی حالت میں مجھے اگر زندگی کی خواہش ہے تو صرف اور صرف اس لیے ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ مہلت دے تو بقیہ زندگی بیگم صاحبہ کی خدمت کرکے ان کی خدمت کا کچھ صلہ ادا کر سکوں.میرے بعد انکی خدمت میں کوتاہی نہ کی جائے....حضرت بیگم صاحبہ نے جو آپ کی خدمت کی تھی آپ اس کے لیے بے حد شکر گزار تھے اس
کا ذکر کر کے آپ پر رقت طاری ہو جاتی تھی.بیگم صاحبہ کے شب و روز کی خدمت اور علاج معالجہ میں جدو جہد میں کسی قسم کی کمی باوجود ڈاکٹروں کی مایوسی کے نہیں کی.بارہ تیرہ سال متواتر چوکسی کے ساتھ خدمت کرنا معمولی امر نہیں.میں نے اس پاک جوڑے میں ایک دوسرے سے تعاون.محبت ہمدردی - احترام و تکریم اور ایثار دیکھا اور با وجود اتنے قریب کے اور اس بارہ میں غور کرنے کے میں فیصلہ نہیں کر سکا دونوں میں سے کس کا پلڑا بھاری تھا.۱۳۱ ( اصحاب احمد جلد دوازدهم م ) مکرم رشید علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ نے لکھا :- عزیز میجر بشیر احمد خان صاحب نے بتایا کہ ایک دن مجھے کہہ رہے تھے کہ میں نے اپنا وجود درمیان سے بالکل ہی مٹا دیا ہے اور بیگم صاحبہ جو کہ حضرت مسیح موعود کی صاحبزادی ہیں ان کی وجہ سے جو کچھ میرا تھا وہ اب مٹ چکا سب کچھ حضرت مسیح موجود کی برکت کا ظہور ہے سبحان اللہ یہ حقیقت ہے کہ محرقہ بھا وجہ صاحبہ نے ۱۲-۱۳ سال حبس شب و روز کی جانفشانی اور وفاداری سے حضرت بھائی جان کی خدمت کی ہے اور ان کی طویل بیماری میں پروانہ دار ان پر شار ہوتی ہیں اس کی مثال فی زمانہ ملنی دشوار ہے.جزاها الله
احسن الجزاء (الفضل (۲۲/۱/۶) محترم شیخ نور احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور تحریر فرماتے ہیں :- وکالت شروع کرنے کے بعد پہلی دفعہ نشانہ میں ایک مقدمہ کے تعلق میں حضرت میاں عبداللہ خان صاحب کی خدمت کرنے کا موقع پیدا ہوا.آپ ان دنوں شدید بیمار تھے....آپ نے اس مقدمہ کے سلسلہ میں بھی اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کا نمونہ دکھایا.ان دنوں خاکسار کو بہت دفعہ حاضر خدمت ہونے کا موقع ملا.دن کا کوئی حصہ ہو جب بھی وہاں گیا.یہی معلوم ہوا کہ حضرت صاجزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ آپ کی خدمت میں ہر آن موجود ہیں اور صرف وہ چند منٹ دوسرے کمرہ میں تشریف لے جائیں جبکہ خاکسار آپ سے گفتگو کر رہا ہوتا ایک کیس کے سلسلہ میں آپ کے اہل خانہ کا بیان عدالت کے مقرر کردہ اہل کمیشن کے سامنے قلمبند کرانے کی ضرورت پیش آئی اور معلوم ہوا کہ وہ سختی سے سچ بولنے پر عمل کرتی ہیں.جب ان کو اشارہ یہ کہنے کی کوشش کی گئی کہ اس طرح آپ کے کسی عزیز کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور ایسابیان دینے میں کوئی حرج نہیں انہوں نے فرمایا کہ خواہ میرے کسی عزیز ترین عزیز کا لاکھوں روپیہ کا نقصان ہو جائے.مگر میں کسی امر کے متعلق کوئی ایسا بیان دینے کو تیار نہیں کہ جس میں
ذرہ بھی شک داشتباہ کا امکان پایا جائے صرف وہ بات کہہ سکتی ہوں کہ جس کا مجھے ذاتی طور پر یقینی علم ہے ؟ کچھ دنوں کے بعد حضرت میاں صاحب کو ملنے کا اتفاق ہوا......میں نے اس واقعہ کا ذکر کیا کہ اس روز بیگم صاحبہ نے تو بہت سختی سے کام لیا اس پر آپ نے فرمایا " اور ہو آپ حضرت سیدہ اللہ الحفیظ بیگم کو اور ان کے روحانی مقام کو نہیں جانتے....جب سے میری وابستگی اس مقدس وجود کے ساتھ ہوئی ہے میں نے کبھی اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا کہ وہ میری FE میں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی اور مبشر اولاد میں سے ہیں.میں تو محسوس کرتا ہوں کہ میں کما حقہ ان کی قدر نہیں کر سکا اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں ان کا تا زندگی کامل طور پر احترام کرتا رہ ہوں" (الفضل ۱۳-۱۴ اکتوبر ته ) مکرم میاں رحم دین صاحب مرحوم ( قدیمی ملازم حضرت محمد علی خان صاحب مرحوم انہیں نہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے سفر یورپ میں ہر کابی کا بھی شرف حاصل ہوا بیان کرتے ہیں کہ : آپ اپنے اہل خانہ سے بہت عزت و اکرام سے پیش آتے تھے اور بیان کرتے تھے کہ میری دینی و دنیوی ترقی اسی پاک خاتون کے طفیل ہے جسے اپنے والد بزرگوار کے باعث برکت حاصل ہوتی ہے ان کی مرضی کو ہمیشہ مقدم جانتے.ہم نے
19 کبھی باہم اختلاف نہیں دیکھا.کوئی بات ہوتی بھی تو آپ خاموشی اختیار کرلیتے آپ ان کے پسند کئے ہوتے کھانے.پر خوشی کا اظہار کرتے....." (اصحاب احمد جلد ۱۲ صفحه ۱۴۴) حضرت مرزا طاہر احمد صاحب نے تحریر فرمایا :-......حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دامادی کی سعاد کو اپنے لیے ایسا عزت و اکرام کا موجب سمجھتے تھے جیسے ذره خاک کو آسمان پر کرسی نشینی مل گئی ہو اسی بناء پرحضرت پھوپھی جان کے ساتھ نہایت ہی ادب و احترام کا سلوک کرتے تھے کو تجارتی اور زمینداری سے متعلق امور میں خود مختار تھے اور اپنی مرضی پر عمل پیرا ہوتے.مگر خانگی اور معاشرتی امور میں حضرت پھوپھی جان کی خواہشات کا بہت زیادہ پاس ہوتا......(ایضا م ) ۱۵ ( مکرم مولانا ارجمند خان صاحب مرحوم تحریر فرماتے ہیں :- تقسیم برصغیر کے وقت میں ابھی قادیان میں " تھا اور آپ ہجرت کر کے رتن باغ لاہور میں مقیم ہو چکے تھے ایک فوجی دوست کے خاندان کے ہمراہ ان کی جیپ میں مجھے دوسری بیوی کے دو بچوں کو بھیجوانے کا موقع میں نے آپ کے نام ایک رقعہ میں عرض کیا کہ ان
9.بچوں کو اپنی نگرانی میں رکھیں وہ زمانہ نہایت نازک تھا.اس افراتفری میں عزیز سے عزیز رشتہ دار بھی بوجھ برداشت کرنے پر آمادہ نہ ہوتے تھے.خاکسار اہل و عیال سمیت لاہور پہنچا تو بچوں نے سنایا کہ میرا رقعہ پڑھکر آپ نے ہمیں محبت کی نگاہ سے دیکھا شربت پلایا.اور ہر طرح سے تسلی دی اور پھر ایک خادم کے ساتھ اپنے اہل خانہ کے پاس یہ لکھ کر بھجوایا کہ بچے قادیان سے ہمارے ہاں مہمان آتے ہیں حضرت بیگم صاحبہ رقعہ پڑھ کر ہم سے نہایت شفقت سے پیش آئیں اور ہمارے ساتھ اپنے بچوں کا سا سلوک کرتیں اور اپنے ہمراہ اسی دستر خوان پر کھانا کھلاتیں اور عصر کے وقت روزانہ جب اپنے بچوں کو جیب خرچ کے لیے کچھ رقم دیتیں تو اتنی اتنی رقم ہم دونوں کو بھی عنایت فرماتی تھیں...اصحاب احمد جلد ۱۲ ص۱۶ ( محرم چوہدری رشید احمد صاحب کراچی نے لکھا ہے....آپ اپنے اہل خانہ کے مداح تھے فرماتے تھے کہ انہوں نے میری بڑی خدمت کی خواہ کتنا روپیہ خرچ کر کے خادم نرسیس رکھ لی جائیں ویسی خدمت نہیں ہو سکتی اور یہ بھی بیان کرتے تھے کہ ماموں جان حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھے کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی
91 آپ کی زوجیت میں ہے آپ کا ہر کام نیکی ہے.؟ ۱۷۳ ) اصحاب احمد جلد ۱۲ ص ) آپ کے مجھے بیٹے شاہد احمد خان صاحب نے لکھا:.جب بھی میری والدہ کا ذکر کرتے تو نہایت ادب سے ان کا ذکر کرتے اور ہمیں نصیحت کرتے کہ دیکھو اپنی اتنی کا بہت خیال رکھا کرو اور کتنے کہ ویسے تو ماں کے قدموں میں جنت ہوتی ہی ہے لیکن ان کے قدموں میں دو جنتیں ہیں ایک تو ماں ہونے کے لحاظ سے دوسرے موعود اولاد ہونے کی وجہ سے کیونکہ ان وجودوں پر اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کی بنامہ رکھی ہے.رايضا مت) آپ کی بڑی صاحبزادی محترمه طیبه بیگم صاحبه دبیگیم حضرت صاحبزاده مرزا مبارک احمد صاحب نے تحریر فرمایا :- ایک خاوند کی حیثیت سے ابا جان کو پرکھنے پر سارے خاندان میں آپ کی محبت کو مثالی پاتی ہوں.محبت کے ساتھ امی جان کی بے حد عزت و احترام آپ کے دل میں تھا آپ ہیں ہمیشہ کہتے تھے کہ خدا کا بے حد شکر کرو کہ اس نے تمہیں اتنی اچھی ماں دی ہے یہ بھی کہتے کہ میرے پر خدا نے کتنا بڑا فضل کیا ہے اور ہر وقت ہمیں تاکید تھی کہ امی جان کے لیے یہ کرو اور وہ کرو اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر میرے
۹۲ باپ اور دادا کے گھر میں حضرت مسیح موعود کی بیٹیاں بیاہ کر آئیں تو انہوں نے بھی اپنے نمونہ سے حضرت مسیح موعود کی بیٹیاں بن کر دکھایا.اگر خاوندوں کی طرف سے محبت اور عزت اور احترام انتہا کو پہنچا ہوا تھا.تو حضور کی بیٹیوں کی طرف سے بھی ادائیگی حقوق میں بھی کمی نہیں آئی.اقی جان نے ابا جان کی بیماری میں جو خدمت کی وہ سب کے لیے ایک مثال ہے......امی جان نے اپنے ہاتھ سے ابا جان کے پاٹ تک اُٹھائے.ایک وقت ایسا آیا کہ ڈاکٹروں نے ہدایت دی کہ ابا جان کو جتنا پانی دودھ وغیرہ ستیال چیزیں دی جائیں اس کا وزن لکھا جائے اور جتنا پیشاب آتے اسے ماپ کر لکھا جائے اب گرمیوں کے دن لمحہ لمحہ بعد پانی وغیرہ ناپنا اور پھر لکھنا اور ادھر پیشاب ناپ کر لکھنا یہ ساری محنت امی جان خود کرتی تھیں.لڑکیاں جو شادی شدہ تھیں وہ اپنے اپنے گھروں کو جا چکی تھیں کب تک ٹھر سکتی تھیں سارا کام امی جان پر تھا مگرامی جان نے کبھی گھبراہٹ کا اظہار تک نہیں کیا.خود بھی حوصلہ رکھا اور آیا جان کا حوصلہ بھی بڑھاتی رہیں اور کبھی بھی بیماری کے کمرہ کو DULL نہیں ہونے دیا.ڈاکٹر یوسف صاحب را با جان کے مستقل معالج ، کتنے
۹۳ ✔..تھے ہم ڈاکٹر آپس میں باتیں کرتے ہیں کہ آج تک کسی مریض کا ایسا علاج نہیں ہوا اور نہ کسی مریض کی کبھی ایسی نرسنگ ہوئی ہے.اگر آپ دو نرسیں رکھ لیتے تو بھی آپ کو ایسی نرسنگ نہیں مل سکتی تھی.اتنا صاف اور باقاعدگی کا کام تھا کہ یوں لگتا تھا.جیسے کوئی ٹرینڈ نرس کر رہی ہے بلکہ اس سے بھی بہت بڑھ کر بیماریوں کے دوران کئی دفعہ ابا جان کو ہسپتال داخل ہونا پڑا وہاں بھی امی جان کو نرس کا کام پسند نہ آتا تھا اور ڈاکٹر سے اجازت لے کر دوائیاں وغیرہ سب کچھ اپنے ذمہ لے لیتی تھیں ہزار ہا روپیہ ہر مہینے علاج پر پانی کی طرح خرچ ہوتا تھا.ایک لمحہ کے لیے بھی امی جان کے دل میں یہ انقباض نہیں ہوا.کہ یہ خرچ نہ کریں.اور ساتھ ہی اتنا ہی صدقہ و خیرات - گھر کے باقی سب خرج کاٹ دیئے گئے تھے.میری چھوٹی بہن فوزیہ سات سال کی تھی اب بڑی ہو کر اس نے بتایا کہ گڑیا لینے کو میرا دل بہت چاہتا تھا.مگر میں امی کو نہیں کہتی تھی.امی جان کوئن کہ بہت صدمہ ہوا.انہوں نے ولایت سے پورے بچے کے قد کی گڑیا اب منگوا کردی.مگر اس وقت سب سے مقدم ابا جان کی ذات تھی.پانچ سال کے بعد پہلی دفعہ ڈاکٹر نے ابا جان کو دو قدم
۹۴ چلایا پتہ دار کرسی WHEELED CHAIR) پدر باہر اندر جانے کی غسل خانے تک جانے کی اجازت مل گئی اس پانچ سال کے عرصہ میں امی جان نے نہیں دیکھا کہ گھر میں کیا سامان ہے کیا نہیں کیسی تقریب میں شرکت نہیں کی کیسی محفل میں نہیں بیٹھیں.غالباً ابا جان کی بیماری کو چار ساڑھے چار سال ہوتے ہوں گے کہ لاہور میں کوئی شادی کی تقریب تھی.ابا جان نے امی جان کو مجبور کیا کہ آپ اتنے عرصہ سے نہیں نکلیں ضرور ہو آئیں اس وقت خیال آیا کہ اپنی جان نے اس عرصہ میں اپنے کپڑوں تک کی طرف بھی توجہ نہیں دی جو پہلے تھے وہ اس عرصہ میں بین لیے.اس وقت میری بہن شاہدہ کو ابا جان نے حکم دیا کہ ابھی جاؤ اور اپنی امی کے لیے اتنے جوڑے خرید کر لاؤ.غرضیکہ قربانی کی انتہا تھی جو امتی جان نے کی.ابا جان کو ہر وقت اس بات کا احساس ہوتا تھا اور دعا کرتے تھے کہ جلدی صحت یاب ہوں تاکہ امی جان کا جو خود بہت کمزور صحت میں تھیں.بوجھ ہلکا ہو آخری بیماری میں معائنہ (چیک اپ کرانے کے لیے تین دن کے لیے گنگا رام ہسپتال میں داخل ہوتے یہ غالباً وفات سے ایک مہینہ قبل کی بات ہے وہاں حسیں ڈاکٹر نے ابا جان کو
۹۵ دیکھا اس کا توجہ سے معائنہ کرنا ابا جان کو پسند آیا اور مجھے اپنے پاس بلا کر کہا دیکھو طیبہ ! تمہاری امی کی صحت مجھ سے زیادہ خراب ہے اور وہ اپنا علاج نہیں کروائیں.میرا معائنہ ہو جاتے تو تین دن اپنی امی کو اس کمرے میں رکھ کر ان کا بھی چیک اپ کرواؤ.امی جان کو اکثر سردرد کا دورہ ہوتا تھا اور وہ اکثر صبح کے آخری حصہ سے شروع ہو کہ بعض دفعہ جو ہیں گھنٹے تک رہتا تھا.دورہ سے سارے اہل خانہ گھبرا جاتے.گھر میں بالکل خاموشی طاری ہوتی.ابا جان کی تاکید ہوتی تھی کہ کوئی شور نہ ڈالے دروازے نہ بجیں کمرے میں جانے کی کسی کو اجازت نہ ہوتی.سوائے اس کے جو سر دباری ہوتی ابا جان چائے بنوا کر تیار رکھواتے تھے کہ شاہداتی مانگ میں کیونکہ امی جان کو ساتھ انٹیاں آتی تھیں اور وہ کچھ نہیں کھاتی تھیں اس لیے احتیاطاً کہ جب طبیعت ذرا ٹھیک ہو اور وہ کوئی ایسی چیز مانگیں جو گھر میں نہ ہو.کا شہر بھجوا کہ ہر قسم کی چیزی نگوا کر رکھتے تھے کہ شاید کسی چیز کی امی کو خواہش ہو تو کھا سکیں.خالہ جان نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے ایک بار ابا جان سے کہا کہ دیکھو اب تمہاری بیٹیاں بھی اپنے خاوندوں سے میسی توقع رکھیں گی.تو ابا جان نے کہا خدا ان کو بھی اچھے ہی دیگا.خدا تعالیٰ نے ابا جان کی حسن طلقی
94 کو ضائع نہیں کیا......تقسیم ملک کے بعد حالات سب کے خراب تھے.بہتر بھی ناکافی تھے ایک رضائی میں دو دو تین تین مل کر سوتے تھے.میری ایک بہن نے امی جان سے لحاف منگوایا کہ اگر کوئی فالتو ہو تو بھیج دیں ہمارے لحاف روتی بھر کر آ جائیں گے تو بھجوا دیں گے (حالانکہ ابھی بھرنے نہیں گئے تھے) امی جان کے پاس بھی بستر نا کافی تھے انہوں نے دو کیل بھجوا دیتے.دو مہینے کے بعد اچانک رات کو کسی مہمان کی آمد سے ضرورت ہونے پر امی جان نے اس خیال سے کہ لحاف تیار ہو چکے ہونگے کیبل منگوا لیے صبح کو ابا جان نے امی جان کو کہا میں تورات سو نہیں سکا.لڑکی کو کہیں ضرورت نہ ہو جب شام کو میری بہن آتی تو ابا جان نے فرمایا مجھے رات سخت تکلیف رہی تمہیں کمبلوں کی ضرورت ہو گی اور تم نے ہمار منگوانے پر بھجوا دیتے.اس نے غیرت کی وجہ سے بتایا نہیں اور یہی کہا کہ نہیں ہمیں تو اب ضرورت نہیں تھی مگر ابا جان نے مانے انہوں نے فرمایا کہ نہیں ضرورت تب بھی تم ساتھ لے جاؤ.آخر مجھے اتنی تکلیف کیوں ہوئی اور واقعہ یہ ہے کہ اس رات وہ لوگ جو بھی کوئی چادر پلنگ پوش اور کھیں تھے وہ لپیٹ کر لیٹے اور ساری رات سردی کی وجہ سے سو نہیں سکے.کئی سال کے بعد جب حالات ٹھیک ہو گئے.تو اس نے
94 یہ واقعہ بتایا امی اور ابا جان کو بہت رنج ہوا.....طبیعت روز بروز گر رہی تھی آخر وہ دن بھی آپہنچا جس کا دھڑکا لگا ہوا تھا.وفات سے ایک روز پہلے امی جان کو شدید سردرد کا دورہ تھا وہیں کرے میں ایک چارپائی پر منہ سر پیٹے پڑی یہ ہیں دوپہر کے وقت ابا جان نے جسم میں درد اور سخت سردی لگنے کی شکایت کی اوپر کپڑے وغیرہ اوڑھاتے اور دباتے رہنے شام کو تھرما میٹر لگایا تو ٹمپریچر ۱۰ تک تھا سر پر برف رکھی گئی.نمک اور گھی سے پنڈلیاں ہوتی گئیں.دوائیاں تومل ہی رہی تھیں بخار کچھ کمی پر آگیا.مغرب کے قریب اتنی جان کا سر درد کچھ کم ہوا.اُٹھ کر ابا جان کے پلنگ کے پاس آئیں اباجان نے نہایت محبت سے ہاتھ پکڑ کر پوچھا.بیگم اب طبیعت کیسی ہے ".سب مغرب کی نماز پڑھتے چلے گئے.امی جان نے بھی نماز شروع کر دی تھوڑی دیر کے بعد ہی میری بہن شاہدہ بھاگتی ہوئی آئی کہ جلدی چلو.ابا جان کی طبیعت ایک دم خراب ہو گئی ہے سب کمرے میں جمع ہوگئے بھائی منور احمد بلڈ پریشر دیکھ رہے تھے." والے دورے جیسی حالت ہوگئی.فوراً ڈاکٹر یوسف صاحب کو بلایا گیا وہ اتنے سالوں کے معالج تھے حالت دیکھتے ہی سمجھے گئے.ان کی طبیعت پر بے حد اثر تھا.بلڈ پریشر دیکھا
۹۸ اور PATH : DIN کا انجیکشن لگا کر چلے گئے کہ اس سے ان کو غنودگی رہے گی اور تکلیف کا احساس کم ہو جائے گا.ابا جان کو اپنی تکلیف کا احساس ہو گیا تھا امی جان کو کہا بیگم ! آج رات آپ میرے پاس سے نہ اُٹھنا " دن بھر کے سر درد کے دورے سے خستہ حال ہونے کے با وجود پھر بھی امی جان جو جنگ کے ساتھ کرسی لگا کر بیٹھی ہیں تو سوائے نماز یا غسل خانے جانے کے نہیں اُٹھیں سب نے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیے کمر سید بھی کریں.مگر ابا جان کے فرمان ہے مطابق وہ نہ اُٹھیں.تمام رات کبھی پینے پونچھتی جاتیں اور کبھی کوئی دوائی وغیرہ چلا دیتیں ڈاکٹر صاحب کہ گئے تھے ساری رات آکسیجن دینی ہے بالکل بند نہ کی جائے تمام رات عزیزم عباس احمد اور دوسرے بہن بھائی آکسیجن دیتے رہے پیسے آتے جا رہے تھے تھوڑی تھوڑی دیر بعد جسم پسینوں سے تر ہو جاتا تھا.غنودگی کی کیفیت تھی مگر ہوش و حواس قائم تھے.ایک دفعہ مجھے اسْتَغْفِرُ الله رَبِّي مِن كُلِّ ذیب اور ایک دفع اشهد ان لا اله الا الله کی بھی آدانہ آتی.....یہ رات بھی عجیب رات تھی ہر طرف اس قدر خاموشی اور اداسی چھا رہی تھی یوں لگتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی کا سماگ چھینتے ہوتے آج فرشتوں
۹۹۰ کو بھی دکھ ہو رہا ہے.پام دیو کی نچلی منزل کے وسیع کرے کی تمام تیز روشنیاں بجھا دی گئی تھیں اور پہلوؤں کے دیوار سے لگی ہوئیں نائٹ لائٹیں جل رہی تھیں جن سے کمرے میں مدہم روشنی پھیلی ہوئی تھی اور ایک نہایت ہی عزیز ترین مریض لوہے کے اونچے بیماروں والے پلنگ پر لیٹا ہوا نہایت تکلیف سے کھینچ کھینچ کر سانس لے رہا تھا میری امی جان ان کے سرہانے کی طرف چہرے کے بالکل قریب پلنگ کے ساتھ گرمی جوڑ کر نہایت ہی صبر اور استقلال کے ساتھ سیدھی بیٹھی ہوئی بار بار پینے پونچھ رہی تھیں کوئی آکسیجن دے رہا تھا کوئی جسم کا پسینہ کپڑوں نے آہستہ آہستہ خشک کر رہا تھا.سب بچے اردگرد جمع تھے اور ہم بہن بھائیوں کو یہ خیال نہیں تھا کہ آپ کا آخری وقت اتنا قریب ہے صرف امی جان اس بات کی سمجھ رہی تھیں.صبح کی اذان ہوتی سب نے نمازیں پڑھیں یوں معلوم ہوتا تھا کہ وقت کو پر لگے ہوتے ہیں.کہتے ہیں کہ تکلیف کا وقت جلدی نہیں گذرتا لیکن یہاں کچھ اور ہی معاملہ تھا.وہی غنودگی کی کیفیت بدستور جاری رہی مگر باہوش.آنکھیں بند تھیں کھینچ کھینچ کر سانس آ رہی تھی....بھائی داور احمد صاحب نے سورۃ لیس اور
"" سورة رحمان سنانی شروع کی تو کچھ دیر بعد وہ آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگی إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.....میں اپنی امی جان کی حاضر دماغی پر آج تیک حیران ہوں آباجان کی وفات سے قریباً ایک گھنٹہ قبل مجھے امی جان نے سوسو روپے کے کئی نوٹ دیتے اور کہا کہ داؤ د احمد یا عباس احمد کو ضرورت ہوگی تو دے دینا.میں اس وقت حیران ہوئی کہ امی جان یہ کیوں دے رہی ہیں ابھی ایسی کیا چیز آتی ہے مگر بعد میں سمجھ گئی کہ یہ رقم انہوں نے کیوں دی تھی.ان کی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ اپنے سرتاج کے آخری فرض کی ادائیگی میں کوئی اور شریک ہو.....) اصحاب احمد جلد ۲ افت) آپ کی صاحبزادی طاهره صدیقه صاحب بیگم صاجزادہ مرزا منیراحمد هان) نے لکھا :-...جس جانفشانی اور محنت سے امی جان نے ابا جان کی خدمت کی وہ ایک مثال ہے ہر وقت ابا جان کے ہر کام کے لیے آمادہ.دن رات ابا جان کی نگہداشت ہر کام ابا جان کا اپنے ہاتھ سے کرنا دوپہر کا کھانا پڑا ٹھنڈا ہو رہا ہے.تین تین چار چار بیچ رہے ہیں اور امی اسی طرح بھو کی کام میں مصروف ہیں بڑی مشکل سے اور زور دینے سے کھڑے کھڑے
H دو چار نوالے منہ میں ڈالتیں اور پھر ابا جان کی پٹی کے ساتھ لگ جاتیں چار پانچ مہینے تو امی جان نے نیند بھی پوری نہیں لی کبھی.10 منٹ کے لیے آنکھ جھپک جاتی اور پھر اگر ابا جان کی پشت کو دبانے لگ جاتیں.رات کے گیارہ بارہ تو روزانہ ہی جاگتے میں بج جاتے تھے پھر جب امی جان کو تسلی ہو جاتی کہ ابا جان سوچکے ہیں تو ایک چھوٹا سا سٹول ابا جان کی چارپائی کے ساتھ مولیتیں جو کہ اتنا پتلا اور لمبائی میں اتنا چھوٹا ہوتا تھا کہ اس پر امتی تو کیا ایک دس سال کا بچہ بھی نہیں سو سکتا تھا اور امی اس پر ٹیڑھی ہو کر اس حالت میں لیٹ جاتی تھیں کہ سر اور شانے ابا جان کے پلنگ کی پٹی پر اور ہا تھ اتبا جان پر ہوتا.مبادا ابا جان نیکان کی وجہ سے جاگیں تو امتی کی آنکھ نہ کھلے...) اصحاب احمد جلد ۱۲ ) انفاق فی سبیل اللہ حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی جماعتی سرگرمیوں سے متعلق زیادہ معلومات حاصل نہیں ہو سکیں اور وہ ویسے بھی نام و نمود کی خواہاں کبھی بھی نہ رہیں اور نیکی کے کاموں میں بالعموم اخفا ان کی عادت تھی.اسی طرح مالی قربانیوں.صدقہ و خیرات کا بھی یہی معاملہ تھا ، لیکن مالی
1 I تحریکات میں سیدہ موصوفہ نے بفضلہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.اور جب بھی کوئی عالی تحریک ہوئی انہوں نے انفرادی طور پر بھی اور اپنے ذی وقار شوہر کی معیت میں بھی شاندار نمونہ پیش کیا.اور انفاق فی سبیل اللہ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا.تحریک جدید کا چندہ وعدہ کے ساتھ ہی ادا کر دیتی تھیں.نہ صرف اپنا بلکہ اپنے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں تک کا بھی حتٰی کہ اپنی ایک خادمہ محمد بی بی صاحبہ کا چندہ بھی آپ اپنی طرف سے ادا کرتی رہیں.پانچ ہزاری مجاہدین میں بلحاظ ادائیگی السابقون الاولون میں شامل ہیں گو حضرت سیدہ موصوفہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد (مندرجہ رسالہ الوقیت ما ) کے مطابق نظام وصیت سے مستشنی تھیں رجس میں حضور نے فرمایا " میری نسبت اور میرے اہل وعیال کی نسبت خدا نے استثناء رکھا ہے ، لیکن اس کے باوجود آپ چندہ عام اور حصہ جائیداد ادا فرماتی رہیں.جیسا کہ حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب نے رقم فرمایا :- میری بیوی کی قادیان میں اراضیات کافی ہیں وہ فروخت ہوتی ہیں اور ان کا روپیہ آتا ہے اور اسی روپیہ سے ہمارا گزارہ کئی سال سے ہوتا رہا ہے.اس کے علاوہ دراصل سندھ کی اراضیات کا لین دین میری بیوی کے روپیہ سے ہی ہوا ہے میں نے صرف اس غرض سے اپنے نام پر اراضیات کو کیا ہے کہ وصیت کا روپیہ میرے نام سے لکھتا
۱۰۳ رہے.....حقیقت میں مجھے اس امر پر بھی چندہ نہیں دینا چاہیے تھا.کیونکہ یہ آمد بھی میری بیوی کی ہی تھی.میں نے ایک مضمون پچھلے دنوں الحکم میں لکھا تھا اس میں بھی اس بات کا ذکر ہے کہ یہ کام دراصل میرا نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دونوں بیٹیوں کا ہے ، لیکن اس انعام کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے میرے پر کیا ہوا ہے میں چاہتا ہوں کہ جس قدر بھی زیادہ سے زیادہ رقم اللہ تعالیٰ کے نام پر ہمارے گھر سے نکل جائے اسی قدر بہتر ہے.چنانچہ میری والدہ نواب مبارک بیگم صاحبہ بھی ا ہی چندہ ادا کرتی ہیں رحالانکہ وہ نظام وصیت سے مستشنی ہیں.مرتب او قیت کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے.....اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسرے چندوں کو ملا کر آمد کا کم از کم یا حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جا رہا ہے.....“ (اصحاب احمد جلد ۱۲ مت) دیگر چندہ جات کی ادائیگی کا مجملاً ذکر کیا جاتا ہے دراصل انفاق فی سبیل اللہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس میں اخفا کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے نیک بندے یہ پسند نہیں کرتے کہ ان کے اس کارخیر سے دوسرے واقف ہوں ان کا یہ معاملہ محض اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے اسی لیے حضرت سیدہ موصوفہ کے انفاق فی سبیل اللہ کا صرف وہ ریکارڈ
۱۰۴ ہی سامنے آسکا ہے جس کا اظہار جمعی تنظیم کی وجہ سے ناگزیر تھا.اور اسے صرف ایک جھلک کہ سکتے ہیں یا مشتے نمونہ از خروارے.مندرجہ ذیل تفصیل میں ایسے چندے شامل نہیں جو حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب نے ادا فرماتے لیکن ان میں بھی حضرت سیدہ موصوفہ شامل تھیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ الدال على الخير كفاعله کے تحت حضرت سیدہ موصوفہ ہی کی وجہ سے حضرت نواب صاحب مرحوم ومغفور مسابقت في الخیرات کا مورد رہے اور ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر نہ صرف خود حصہ لیا بلکہ اپنی زوجہ محترمہ اور اپنے بچوں کو بھی شامل رکھا اور اس سلسلہ میں آپ دوسروں کو بھی تحریص و ترغیب دلاتے رہے اور با وجود گوناگوں مصروفیات کے بعض تحریکات میں گرانقدر چندہ جمع کر کے دیا.انسانی زندگی میں عسر و سیر کا سلسلہ چلتا رہتا ہے بسا اوقات انسان پر فراخی اور کشائش کا دور آتا ہے اور کبھی تنگی ترشی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن تنگی ترشی کے دور میں انفاق فی سبیل اللہ ہی کمی نہ آنے دینا اور خود تکلیف اُٹھا کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بڑے دل گردہ کا کام ہے اور اسی مردان خدا کا شیوہ ہے جن کا یہ نعرہ ہو کہ اِن صَلاتِي وَنُسُکی ومحياي ومماتي لله رب العلمین اور سب کچھ الہ تعالی کی راہ میں خرچ کر دینے کے باوجود وہ یہی کہہ رہے ہوں کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
۱۰۵ چنانچہ حضرت سیدہ موصوفہ عمر بھر انفاق فی سبیل اللہ کے اعتبار سے بھی باوجود اس کے کہ نظام وصیت کا چندہ ان پر واجب نہ تھا وہ حصہ آمد وجا تیداد ادا کرتی رہیں بلکہ دیگر مدات میں بھی بھر پور حصہ لیتی رہیں.تاریخوں کی ترتیب سے صرف نظر کرتے ہوتے چندوں کی ادائیگی اور مختلف مالی قربانیوں میں آپ کی شمولیت کا سرسری جائزہ درج ذیل ہے.چندہ برائے زنانہ وارڈ نور ہسپتال قادیان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.) الفضل ۳/۱۱/۱۹۲۱) چندہ برائے انسداد ارتداد علاقه ملکانه درپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۳ چندہ برائے بیت الذکر لندن..سو روپے (الحکم ۲۱/۲/۱۹۲۳) چنده توسیع بہشتی مقبره قادیان (الفضل ۱۰/۶/۲۷) ریز روند تحریک میں شمولیت (رپورٹ مجلس مشاورت (194) چندہ برائے تعمیر بیت الذکر دارالفضل قادیان (الفضل ۲۷/۱/۱۹۳۱) چندہ برائے توسیع اشاعت رساله ریویو آف ریلیجنز د....رپورٹ سالانہ صدر انجمین احمدیہ ۱۹۳۲۰۳۵ ) - ۱۹۴۲ تعمیر عمارت دفاتر مجلس خدام الاحمدیہ قادریان (الحلم ۴۰۰ اسی ) برائے تعلیم الاسلام کا لج قادیان (الفضل ۴۴ ۵۷ / ۱۲) وقت جائیداد کی تحریک میں ۱۲ گھماؤں اراضی وقت کی ۱۹۴۳ تاریخ لجنه جلد اول ماه ) امانت دار الشیوخ قادیان دغرباء ومساکین کا ادارہ (الفضل ۲۷/۲/۱۹۴۷)
1-4 چنده تعمیر بیت الذكر جرمنی (الفضل ۵/۸/۱۹۵۷) عالمگیر احمدی خواتین کے ماہنامہ مصباح کے دس سالہ امانت فنڈ میں شمولیت (تاریخ الجنه جلد ۲ صت ) صدقہ برائے لنگر خانہ (الفضل ۱۳/۲/۶۲) چندہ تعمیر بیت الذکر زیورک (سوئٹزرلینڈ ) چنده تعمیر بیت الذکر فرینکفورٹ (جرمنی) لجنہ اماء اللہ کے قیام پر ۵۰ سال پورے ہونے پر سایہ میں اشاعت قرآن کریم کے لیے ایک لاکھ روپے کی رقم حضرت خلیفہ ایسیح الثالث کی خدمت میں لجنہ امام الہ کی طرف سے پیش کی گئی.اس سلسلہ میں تحریک پر لجنہ اما م اللہ نے اس مد میں تین لاکھ روپیہ سے زائد رقم جمع کی.اس چندہ تحریک خاص میں حضرت سیدہ موصوفہ نے دو ہزار روپے چندہ دیا.تاریخ لجند امام الله جلد ۳ ) خاندان حضرت مسیح موعود کی قربانیاں جس طرح دوسری احمدی جماعتوں نے تحریک جدید کے چندہ اور دوسرے مطالبات کی تکمیل میں سب سے عمدہ نمونہ دیکھا یا اسی طرح قادیان کی جماعت میں سے حضرت مسیح موعود کا خاندان تحریک جدید کی قربانیوں میں بالکل متمتاز اور منفرد تھا.چنانچہ حضرت اماں جان - حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب حضرت سیده نواب مبار که بیگم صاحبه
1.6 اور صاحبزادی حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور خاندان حضرت مسیح موعود کے دوسرے افراد نے قربانیوں کی قابل رشک یاد گار قائم کی.( تاریخ احمدیت جلد هشتم ) د تحریک جدید کے چندہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب " تحریک جدید کے پانچہزاری مجاہدین ) حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی تعلیم کے متعلق زیادہ معلومات حاصل نہیں ہو سکیں.تاہم تاریخ لجنسام - الله جلد سوم مشت پر محترمہ استانی سکینه الفنا صاحبہ (المیه حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکل) کی وفات پر مرقوم ہے کہ آپ کو حضرت سیدہ موصوفہ اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو بچپن میں ابتدائی جماعتوں کی پڑھائی اور لکھائی سکھانے کی سعادت حاصل ہوئی.ای طرح حضرت سیدہ موصوفہ کے ختم قرآن پر ۳ جولائی 19 کو آمین سرح ہوئی جس پر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی نے احباب قادیان کی ایک شاندار دعوت کی اور حضرت میر ناصر نواب صاحب کے علاوہ حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے بھی سید نا حضرت مسیح موعود کی ایک پرانی خواہش کے مطابق نظم کسی جس میں یہ مصرعہ بار بار آتا تھا پھر فسبحان الذي اولى الاماني اخبار بدر نے اس تقریب پر لکھا " ہم دُعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی اس پر
خاندان ----- میں قرآن مجید سمجھنے والے اور پھر اس کے مبلغ پیدا کرتا رہے اور وہ دنیا کے لیے بادی رہنما و پیشوا نہیں.بدر 4 جولائی الله - تاریخ احمدیت جلد چهارم صدا ) امتہ الحفیظ کی آمین حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے حضرت صاحبزادی سیدہ اللہ الحفیظ صاحبہ کے ختم قرآن مجید ہر تقریب آئین کے موقع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کے مطابق نظم لکھی.قرآن مجید کی شان اور فضیلت کا تذکرہ کرنے کے بعد آپ نے آمین میں لکھا ہے حفیظہ جو میری چھوٹی بہن ہے نہ اب تک وہ ہوئی تھی اس میں رنگی ہوئی جب ہفت سالہ تو خُدا نے پہنایا اس کو بھی یہ تاج زریں کلام اللہ سب اس کو پڑھایا بنایا گلشن قرآن کا گلچیں زباں نے اس کی پائی پڑھ کے برکت ہوئیں آنکھیں بھی اس سے اور آگئیں ہوئے چھوٹے بڑے میں آج شاداں نظر آتا نہیں کوئی بھی غمگین خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فسبحان الذى او في الاماني ( تاریخ احمدیت جلد نجم ) و کمل آمین کے لیے ملاحظہ ہو اخبار المحکم ۷ - ۱۴ جولائی یہ نیز کلام محمود)
1-9 اسی طرح روزنامه افضل مورخہ ۱۲ متی راستہ میں مرقوم ہے کہ احمدیہ گرلز ہائی سکول قادیان کی طرف سے سات طالبات نے میٹرک کا امتحان پاس کیا.یہ پہلی مرتبہ تھا کہ اتنی تعداد میں یہ امتحان پاس کیا گیا فہرست میں تیرے نبر کے تحت حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بگیم کا نام نامی درج ہے اور یہ بھی تصریح کی گئی ہے کہ انہوں نے یہ امتحان صرف انگریزی میں پاس کیا اس سے قبل آپ ادیب کا امتحان پاس کر چکی تھیں میٹرک کے بعد آپ نے ایف اے کا امتحان بھی پاس کیا.دینی مساعی حضرت سیدہ امتہ الحفیظ صاحبہ جماعتی مساعی میں حتی المقدور حصہ لیتی رہیں ان میں سے بعض کا تذکرہ کیا جاتا ہے.مجلس مشاورت ۱۲ء میں تجویز پیش ہوتی کہ خلافت جوبلی کے موقع پر لوائے احمدیت تیار کیا جائے اس کی منظوری عطا فرماتے ہوئے حضرت خلیفة المسیح الثانی نے ارشاد فرمایا :- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقاء سے پیسہ پیسہ دھیلہ دھیلہ کر کے مخصوص در فقاص سے ایک مختصر سی رقم لے کہ اس سے روتی خریدی جائے اور رفیقات کو دی جاتے کہ وہ اس کو کا تیں اور اس سوت سے رفقاء درزی کپڑا تیار کویی درپورٹ مجلس مشاورت (۳۹)
۱۱۰ چنانچہ لوائے احمدیت کی تیاری کے سلسلہ میں سوت کاتنے والی رفیقات کی فہرست میں تیسرے نمبر پر حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا نام نامی درج ہے.(تاریخ احمدیت جلد ہشتم شده ) تاریخ لجنه جلد اول ص۴۳۳ - رپورٹ بجلس مشاورت ۱۹۳۹ ) جلسه سالانه خواتین ماہ کے دوسرے دن کی صدارت فرمائی.الفضل ۱۳ جنوری داشته ) جلسه سالانه خوانین ۲۷ دسمبر کے اجلاس کی صدارت فرمائی.) تاریخ لجنه جلد اول منه ) ( لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے شعبہ تعلیم کے زیر اہتمام ایک انعامی مقابلہ زیر عنوان بهترین اسلامی خلق " کروایا گیا یہ مقابلہ حضرت سیدہ موصوفہ کی صدارت میں ۱۵ جون ۹۲۵ کو ہوا.( تاریخ لجنہ جلد اول ص ) جلسہ سالانہ خواتین شاہ کے پہلے دن ۲۶ ؍ دسمبر کے اجلاس کی صدارت فرمائی.( تاریخ بجنه جلد دوم ۲۱ ) عہدیداران مجلس عامله لجنہ اماءاللہ مرکزی شاہ کے اسمائے گرامی کے اعلان میں مرقوم ہے.اعزازی ممبر حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ مدظلہ العالی اور سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ مدظلها العالی ربوہ میں مستقل قیام فرمانے کے لیے تشریف لے آئیں چنانچہ ان کو اور محترمہ بیگم صاحبہ حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کو مجلس عاملہ مرکزیہ کا اعزازی مہبر بنایا گیا.ا رجسٹر کا رروائی مش ۲۲
آپ سب اجلاسات میں شمولیت فرمائیں اور عہدیداران لجنہ اماء الله مرکزیہ کو اپنے مفید اور قیمتی مشوروں سے نوازتیں.(مصباح جون شاه تاریخ لجنه جلد سوم ۳۵ ) لجنہ اماء اللہ کے سالانہ اجتماع منعقدہ ان کے موقع پر حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے تمام مقابلہ جات میں اول دوم اور سوم آنے والی ناصرات اور ممبرات لجنہ امام اللہ میں اپنے دست مبارک سے انعامات تقسیم فرمائے آخر میں حضرت سیدہ موصوفہ نے دعا کروائی.( 01944-40 تاریخ به جلد سوم مسام - رپورٹ کارگذاری ۱۹۳۲۵-) تاریخ نیز جلد سوم موم میں سوائے احمدیت کی تیاری میں ایک بار پھر لجند 1444 رفیقات کا حصہ کے تحت بحوالہ روز نامہ الفضل ۱۳؍ دسمبر ہ مرقوم ہے.مجلس خدام الاحمدیہ نے لوائے احمدیت سینے کے لیے وہ کپڑا بھجوایا جس کے لیے کپاس رفقا حضرت مسیح موعود نے ہوتی تھی اور جس کو سینے کی سعادت حضور کی رفیقات کو حاصل ہوئی تھی ، تاکہ رفیقات سے سلوایا جائے چنانچہ ربوہ میں موجود رفیقات کو یہ شرف حاصل ہوا.کام کے اختتام پر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے ظہرانہ کا انتظام کیا.رفیقات کی فہرست کل میں ناموں پرمشتمل ہے جس میں دوسرا نام حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا ہے.صدر لجنہ اماءاللہ لائل پور (حال فیصل آباد ) کے انتخاب کے سلسلہ میں حضرت صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ سیدہ ام متین صاحبہ کی ہمراہی میں حضرت سیدہ امتہ الحفیظ صاحبہ - صاجزادی فوزیہ بیگم صاحبہ اور امتہ العزیز اداری اورات العزیز
۱۱۲ صاحبہ ۱۲ اپریل مشکلات کو لائل پور تشریف لے گئیں.ر الفضل ۱۸ را پریل شاته ۱۹ فروری اشکله کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے مبلغین کرام کی بیگمات کو عصرانہ دیا گیا.اس تقریب میں ممبرات مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ کے علاوہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ صاحبہ نے بھی شمولیت فرمائی (الفضل و ر ماری کشته ) فضل عمر تعلیم القرآن کلاس ۱۹ کے سلسلہ میں ۱۳ اگست کی شام کو الوداعی تقریب کا اہتمام صدر لجنہ امام الله مرکزیہ کی زیر نگرانی دفتر الجندا د راشد کے لان میں ہوا جس میں حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے شمولیت فرمائی آپ کی زیر صدارت اس تقریب کا آغاز ہوا.تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ نے ان سترہ لڑکیوں کا تعارف حضرت سیدہ موصوفہ سے کرایا جن کو خدا تعالیٰ نے چھ سال لگا تار سہلا دور ختم کرنے کی عادت عطا کی تھی ان کو صدر تقریب حضرت سیدہ نے شرف مصافحہ بخشا.الفضل ۲۰ را گست شکشته ) لجنہ امام اللہ راولپنڈی کے انتخاب میں حضرت سیدہ نے شمولیت فرمائی جبکہ آپ وہاں قیام فرما تھیں آپ کی زیر صدارت یہ انتخاب عمل میں آیا.( تاریخ بجنه جلد چهارم ۱۲ ) k جلسه سالانه مستورات منعقده علہ کے پہلے دن ۲۶ دسمبر کے اجلاس کی صدارت فرمائی (تاریخ بجنه جلد چهارم )
١١٣ با برکت نام حضرت خلیفہ السیح الثانی نے ۲۹؍ دسمبر نشاہ کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ہماری جماعت میں لڑکیوں کے نام کی نسبت ایک غلط ضمی ہو رہی ہے جو مشرکانہ ہے اور جس کی اصلاح نہایت ضروری ہے......ہماری ایک بہن کا نام مبارکہ ہے اور ایک کا نام امتہ الحفیظ ایک بہن جو چھوٹی عمر ہی میں فوت ہوگئی تھی اس کا نام عصمت تھا اسی طرح ایک دوسری بہن کہ وہ بھی چھوٹی عمر ہی میں فوت ہوگئی تھی اس کا نام شوکت تھا گویا ما سوائے ایک بہن کے کسی کے نام میں خدا تعالیٰ کا نام نہیں آتا.ادھر حضر مسیح موعود علیہ السلام کے نام سے وابستگی کی وجہ سے ہمارے خاندان کے لڑکوں کے نام میں احمد کا نام آتا ہے خدا تعالے کا نہیں آتا.پس مجھے بُرا لگا کہ خدا تعالیٰ کا نام ہمارے خاندان کے ناموں میں سے جاتا رہا ہے چنانچہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ لڑکیوں کے نام میں اللہ کے نام پر رکھا کروں گا.تا کہ خدا تعالیٰ کا نام ہمارے گھروں میں قائم رہے..." ) الفضل ۱۶ مارچ اشفته (
۱۱۴ ایک روایت میری ہمشیرہ امتہ الحفیظ بالکل چھوٹی سی تھیں کسی جاہل خادم سے ایک گالی سیکھ لی اور توتلی زبان میں حضرت مسیح موعود کے سامنے کسی کو دی.آپ نے بہت خفگی کا اظہار فرمایا.اور فرمایا کہ اس چھوٹی عمر میں جو الفاظ زبان پر چڑھ جاتے ہیں وہ دماغ میں محفوظ بھی رہ جاتے ہیں اور بعض دفعہ انسان کی زبان پر مرتے وقت جاری ہو جاتے ہیں.بچے کو فضول بات ہر گز نہیں سکھانی چاہیتے " ا تقریر ذکر حبیب جلسه سالانه مستورات از حضرت سیده نواب مبار که بیگم صاحبه - الفضل ۱۳ جنوری ۱۹ است ) میاں عباس احمد خان صاحب کا ذکر خیر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے اپنی کتاب سیرة اتان جان حصہ دوم میں تحریر فرمایا کہ :- صاحبزاده عباس احمد خان صاحب سلمہ اللہ تعالی سریگو بندور میں تبلیغ کے لیے گئے ہوتے تھے ان کا ہیڈ کوارٹر ماڑی بچیاں نامی گاؤں تھا.دیکھنے والوں نے دیکھا کہ یہ امیرابن امیر کا نونہال جو ناز و نعمت کے گہوارے میں پرورش پاتے ہوئے تھا.دھوپ
۱۱۵ کی بھی پروا نہ کرتا ہوا.گاؤں گاؤں شوق تبلیغ میں پھرتا تھا.اور کبھی اگر کھانا نہ ملا تو صرف چنے چبا کر گزارہ کر لیا کرتا تھا.یہ بات ایک ایسے گھرانے کے نونہال میں جو ہمیشہ متنعمانہ زندگی بسر کرنے کا عادی ہو نہیں پیدا ہوسکتی جب تک وہ خاندان خصوصاً والدین ایک پاکیزہ زندگی گزارنے کے عادی نہ ہوں.میاں عباسی احمد کا یہ جذبہ اور یہ شوق خان محمد عبداللہ خان صاحب اور ما جبرانی امتہ الحفیظ بیگم کی اپنی ذاتی پاکیزگی اور دینداری کا نتیجہ ہے؟ ( سيرة اماں جان حصہ دوم.بحواله تاریخ احمدیت جلد ختم قل ) ۱۹۳۸ بعض یادداشتیں ور دسمبر سوله بکارح صاجزادی طیبه بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب محمد عبدالله خان صاحب به همراه محرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب این حضرت خلیفة المسیح الثانی.رخصتانه ۲۲ جنوری ۱۹۳۹ - بعد نماز عصر کو بھی دارالسلام قادیان ) ۵۴۷ الفضل ۲۸ دسمبر شاه تاریخ احمدیت جلد شتم ) - ۲۷ دسمبر ته نکاح صاجزادی عامر و بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب به همراه مکرم صاجزادہ مرزا میرا جبر صاحب ابن حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (۱۰۰ روپے مہر بہ بیت الذکر نوکر میں ) ۲۷ دسمبر له نکاح صاحبزادی ذکیہ بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب
114 محمد عبداللہ خان صاحب به همراه محرم صاجزادہ مرزا داد و احمد صاحب ابن حضرت صاجزادہ مرزا شریف احمد صاحب ( مهر ۵۰۰۰ روپے ) تاریخ احمدیت جلد شتم مث ) صاجزادی طاہرہ بیگم صاحبہ کی تقریب رخصتانه ۸ ۱۲ مارچ ۱۹۳۷ بعد نماز عصر کوٹھی دار السلام قادیان حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے جو پہلے رونق افروز تھے دولہا کو ہار پہنایا اور مجمع سمیت دُعا کی (الفضل یکم اپریل ۱۹۳۲) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ۳۰ مارچ کو دعوت ولیمہ دی.تاریخ احمدیت جلد نهم ۳ ) من བ14༩་ رخصتنانه صاحبزادی زکه بیگم صاحبه به متی شاته بعدنماز عصر کوشکی در اسلام قادیان - حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اجتماعی دعا کرائی.الفضل و رمئی ۹۴۷ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے 9 رمتی کو دعوت ولیمہ اپنی کونٹی میں دی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی شرکت فرمائی.( تاریخ احمدیت جلد نم ۳۸ ) ایک یادگار واقعہ تاریخ احمدیت میں یہ واقعہ ہمیشہ یاد گار رہیگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے چھوٹی صاحبزادی دخت کرام شیده امتها الحفیظ بیگم صابه نے ۲۴ اگست ۱۹۶۲ م کو زیورک میں وارد ہو کر اگلے روز ۲۵ اگست بروز
114 ہفتہ صبح ساڑھے دس بجے قلب یورپ یعنی سوئیزرلینڈ کے مرکزی شہر زیورک میں خانہ خدا تعالیٰ کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا اور اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اپنے دست مبارک سے بنیادی اینٹ نصب فرمائی.ایک خصوصی تقریب میں آپ نے زیر عمیر خانہ خدا کی محراب والی جگہ کے نیچے بنیاد میں وہ اینٹ رکھی جس پرسید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے دعا کی ہوئی تھی.اس مبارک تقریب میں سوئٹزر لینڈ اور آسٹریا کے احمدی احباب کے علاوہ دیگر ممالک کے احباب نے بھی شرکت کی.اور پریس نے گہری دلچسپی کا اظہار کیا.اخبارات اور ریڈیو کے نمائندے بھی اس با برکت تقریب کے موقع پر موجود تھے.ریڈیو نے ساری کارروائی ریکارڈ کرنے کے علاوہ حضرت سیدہ موصوفہ کا ایک خصوصی پیغام بھی ریکارڈ کیا.جس کا ترجمہ جرمن زبان..میں امام بہت ہیمبرگ مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب نے کیا.الفضل ۲۸ اگست له ماخوذ اندرپورٹ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ مجاہد سوئیٹزرلینڈ ) مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب امام بہت ہالینڈ نے ار ستمبر سال کے الفضل میں لکھا کہ : ۱۷ را گست بروز جمعہ حضرت ممدوحہ اپنی دو صاحبزادیوں اور برادر زادہ مرزا مجید احمد صاحب را بن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) وارد ہوئیں الیسٹروم کے ہوائی اثرہ پر استقبال کیا گیا.آپ نے اپنے قدوم میمنت لزوم سے عمارت خانہ خدا کو برکت بخشی.اس سے قبل حضور ایدہ اللہ تعالٰی بھی بہت
۱۱۸ میں تشریف لاتے تھے اور دعا فرمائی تھی.یہ خانہ خدا جو براعظم یورپ کے ساحل پر اولین خانہ خدا ہے جو خواتین کی قربانیوں سے معرض وجود میں آیا ہے.مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب مجاہد جرمنی نے اس سلسلہ میں لکھا کہ :.آپ وار اگست ۹ہ کو ہیمبرگ وارد ہوئیں اور تین دن قیام 1941 فرمایا.ہوائی اڈہ پر جماعت احمدیہ نے خیر مقدم کیا.استقبال کرنے والے پاکستانی احمدیوں کے علاوہ جرمن نو مسلم بھی تھے جرمن پریس نے آپ کے ورود کی خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا.اور اسلام میں عورتوں کے بلند مقام پر روشنی ڈالی.الفضل ۲۵/۸/۶۲) ۲۸/۷/۶۲ اس با برکت سفر کے بارہ میں روزنامہ الفضل ۱۹/۱۰/۱۲ - ۱۲۴/۱۰/۲۲ اور ۱/۶۲ لا کی اشاعتوں میں ذکر کیا گیا ہے.لجنہ اماء اللہ لندن نے آپ کے اعزاز میں عصرانہ دیا جس میں امام اللہ کے علاوہ بعض غیر مسلم معزز خواتین بھی مدعو تھیں اور صدر صاحبہ لجنہ لندن محترمہ بیگم صاحبہ مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے آپ کو خوش آمدید کہا حضرت سیده موصوفہ نے اپنی جوابی تقریر میں بچوں کی تربیت اتحاد اور خلافت سے وابستگی پر زور دیا.اور امام اللہ کومشن کے ساتھ تعلق زیادہ مضبوط کرنے کی تلقین کی.) الفضل ١٩/٨/٩٢ )
119 بیت محمود زیورچ (سویٹزرلینڈ) کے سنگ بنیاد رکھنے کی مبارک تقریب بیت محمود زیورج کا سنگ بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دختر نیک اختر حضرت سیدہ امتہ الحفیظ صاحبه ۲۵ را گست ان کو اپنے دستِ مبارک سے رکھا اور دعا کی.آپ ۲۵ جولائی ۱۹۲۳ء کی صبح کراچی سے روانہ ہوئیں اور اسی روز شام کے چھ بجھے لندن پہنچ گئیں.(الفضل ۱۲۸ جولائی وہ کچھ عرصہ آپ کا قیام لندن میں رہا.۵ را گست بروز اتوار لجنہ اماء الله لندن نے آپ ه کے اعزاز میں عصرانہ دیا جس میں احمدی خواتین کے علاوہ دیگر معزز غیرمسلم خواتین نے بھی شمولیت فرمائی اس موقعہ پر محترمہ بیگم صاحبہ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صدر لجنہ اماء الله انگلستان نے آپ کو خوش آمدید کہا اور آپ کی قومی اور دینی خدمات کو سراہا.الفضل ۱۹ اگست ۱۹۶۲ ) محرکات حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سے بیت کا سنگ بنیاد رکھوانے بنیاد کے کیا محرکات تھے.اس سلسلہ میں محترم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ
۱۲۰ مبلغ سوئٹزر لینڈ فرماتے ہیں :- دنیا میں بیشک تقدیر اور تدبیر دونوں الہی قانون جاری ہیں لیکن مجھے اپنی زندگی میں تقدیر اس طرح تدبیر پر حاوی نظر آتی ہے گویا تدبیر کا کوئی وجود ہی نہیں.سوئٹرز لینڈ میں مبلغ مقرر کئے جانے کا خیال میرے دماغ کے کسی گوشہ میں بھی نہیں آسکتا تھا.لیکن تقدیر یہاں سے آئی اور وہم میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد میں سے کسی کے ہاتھوں بہت زیورچ کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا.غیر متوقع طور پر حضرت سیدہ امنا الحفیظ بیگم صاحبہ کے دست مبارک سے اس بیت کا سنگ بنیاد رکھا جانا محض تقدیر الہی کا کرشمہ تھا.عاجز نے یہاں سخت نا مساعد حالات میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے یہ کام شروع کیا اور جملہ مراحل کے بعد دیگرے محض اس کے کرم سے سرانجام پاگئے.حتی کہ خانہ خدا کے پلاٹ پر کام شروع کرنے کا دن آگیا.میں نے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل انتبشیر سے درخواست کی کہ وہ خود سنگ بنیاد رکھنے کے لیے تشریف لائیں.لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میرے لیے امسال یورپ آنا ممکن نہیں آپ خود ہی بنیاد رکھ میں.میں نے پھر اپنی شدید خواہش کا اظہار کیا کہ بہیت کی بنیاد
۱۲۱ ایسے ہاتھوں سے رکھی جاتے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دوہرا تعلق ہو نہ صرف یہ کہ وہ سلسلہ کا خادم ہو بلکہ جسمانی طور پر بھی حضور کے برگ و بار میں سے ہو.غیر متوقع خوشکن خبر بنیاد رکھنے کا وقت قریب آرہا تھا کوئی انتظام نہ ہونے کے باوجود قلب کو اطمینان تھا کہ اللہ تعالیٰ خود اپنی جناب سے سامان پیدا کر دے گا.اچانک ایک دن امام صاحب بیت الفضل دندان چوہدری رحمت خان صاحب کا مکتوب گرامی آیا جس میں حضرت سید و نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی تشریف آوری کا ذکر تھا.یہ خبر اتنی غیر متوقع او خوشکن تھی کہ سکے پتا ہونے پر یقین نہ آتا تھا میں نے بخط اہلیہ آم کو دیا انہوں نے بھی پڑھ کر تعجب کا اظہار کیا.خاکسار نے حضرت بیگم صاحبہ کی خدمت میں بذریعه تار یورپ تشریف آوری پر خوش آمدید عرض کیا اور خانہ خدا زیورچ کا سنگ بنیاد رکھنے کی درخواست کی.آپ نے کمال شفقت سے اسے منظور فرمایا اور تحریر فرمایا کہ وہ اسے بڑی سعادت گھتی ہیں.حضرت بیگم صاحبہ محمد ح حسب پروگرام مورخہ ۲۲ اگست بروز جمعہ پونے بارہ بجے ڈنمارک سے محرقہ صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ کے کے ہمراہ تشریف ہوتیں..ایر پورٹ پر پرتپاک خیر مقدم کیا گیا.نے شدہ پروگرام کے مطابق اسی روز دو بجے ایک نیوز ایجنسی نے ایک خاتون کو ٹیپ ریکارڈر کے ساتھ حضرت بیگم صاحبہ کا انٹرویور یکارڈ کرنے کے لیے بھجوایا.حضرت بیگم صاحبہ سے اس خاتون نے مختلف سوالات کئے اور حضرت بیگم صاحبہ
کی زبان مبارک سے جواب ریکارڈ کرنے کے بعد عزیزہ امتہ المجید بنت چوہدری عبد اللطیف صاحب امام بہت ہیمبرگ نے اس کا جرمنی ترجمہ کیا.یہ ترجمہ بھی ریکارڈ کیا گیا.حضرت بیگم صاحبہ نے اپنے بیان کے آخر میں فرمایا کہ سوئیس لولوں کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ وہ اسلام کا مطالعہ کریں اور ہمارے مبلغ مشتاق احمد صاحب باجوہ سے رابطہ پیدا کر کے لٹریچر حاصل کریں....حضرت بیگم صاحبہ کا یہ انٹرویو زیورچ کے ایک اخبار میں من وعن شائع ہوا.سنگ بنیاد کی تقریب ۲۵ اگست ۶ نہ ساڑھے دس بجے صبح بیت کی بنیاد رکھنے کا وقت مقرر تھا.صبح اُٹھے تو مطلع ابر آلود تھا.ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی.خاکسار صبح ہی وہاں پہنچ گیا کیونکہ بعض دوست جو با ہر سے آرہے تھے ان سے بیت کے قریب ہی ایک ریسٹوراں میں ملاقات کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا.خاکسار بعض احباب و خواتین کے ہمراہ پلاٹ پر مہمانوں کا منتظر تھا کہ بارش میں کچھ اضافہ ہو گیا.اس اثناء میں حضرت بیگم صاحبہ کی ریسٹوراں میں تشریف لانے کی اطلاع موصول ہوئی اب کافی دوست جمع ہو چکے تھے.حضرت بیگم صاحبہ کی خدمت میں درخواست بھجوائی گئی کہ اب تشریف لے آئیں چند منٹ میں آپ کی کار آگئی.خاکسار نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا حضرت بیگم صاحبہ محترمہ صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ محرم بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب - عزیزه اقد الجيد
۱۲۳ اور اہلیہ آئم کی معیت میں اُترے یہ نظارہ سوئیس آنکھوں کے لیے عجیب تھا.پولیس فوٹو گرافروں کے کیمرے حرکت میں آگئے سب سے پہلے جماعت سوئٹزر لینڈ کی طرف سے السلام علیکم اور خوش آمدید عرض کرنے کے لیے ہماری نومسلم بہن میں فاطمہ ہولڈر شو آگے بڑھیں اور ان سے مصافحہ کے بعد پھول پیش گئے.ان کے ساتھ دوسری نوسلم بین مس جمیلہ سوسترنگ تھیں حضرت بیگم صاحبہ دونوں کے ہمراہ شیخ کی طرف تشریف لے گئیں.چند منٹ وہاں خواتین کے ساتھ ٹھرنے کے بعد خاص تیار شدہ سیڑھیوں کے ذریعہ نیچے بنید کی جگہ پر تشریف لے گئیں خاکسار آپ کے ہمراہ تھا ایک بالٹی میں سیمنٹ تیار رکھا تھا.میں نے آپ کی خدمت میں بیت مبارک کی وہ اینٹ جو سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے دعا کے بعد ریوہ سے بھجوائی گئی تھی.پیش کی.آپ نے اس پر سینٹ لگایا اور دعا کے بعد بنیاد میں رکھ دی.پھر اس کے اوپر تھوڑا سا سیمینٹ لگایا.خاکسار نے اس کے بعد مزید پلستر لگا کر حضرت مسیح پاک کی لخت جگر اور مبشرہ صاحبزادی کے دست مبارک کی رکھی ہوئی بنیاد کو مضبوط کر دیا.اس کے بعد حضرت بیگم صاحبہ سیڑھیوں سے ہوتی ہوئیں اوپر سیج پر تشریف لاتیں.خاکسار نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد کعبہ کے موقع کی دعائیں تلاوت کیں.سولیس ریڈیو کا نمائندہ اس کارروائی کو ریکارڈ کرنے کے لیے آیا ہوا تھا اس نے اپنا ما تیک میرے سامنے کر دیا.ہمارے نومسلم بھائی مٹر رفیق چائن نے جو اس تقریب کے لیے لیا سفر کر کے آتے تھے اس کا ترجمہ پڑھ کر سنایا حضرت میگم صاحبہ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور دعا کی اور پھر برادرم چوہدری
۱۲۴ عبد اللطیف صاحب نے اس کا جرمن ترجمہ پڑھ کر سنایا اور آخر میں خاکسار نے حضرت بیگم صاحبہ اور حاضرین سمیت ہاتھ اُٹھا کر لمبی دعا کی.اس طرح یہ تاریخی تقریب انجام پذیر ہوئی.اللہ تعالٰی کی یہ عجیب قدرت تھی کہ حضرت بیگم صاحبہ کی آمد سے قبل بارش ہو رہی تھی، لیکن اس تقریب کے آغاز کے ساتھ ہی پارٹی بالکل رک گئی.حضرت بیگم صاحبہ تو اپنے قافلہ سمیت مشن ہا ؤس تشریف لے گئیں اور باقی احباب دخواتین جس میں سوئیٹزرلینڈ اور آسٹریا کے بھائی بہنوں کے علاوہ مختلف ممالک کے مسلمان بھی موجود تھے.ریسٹوراں میں تشریف لے گئے.14 1945 الفضل ٢٨ ستمبر امة ) سفر یورپ کے دوران حضرت بیگم صاحبہ نے ہالینڈ میں قیام فرمایا اور اگست بروز جمعہ ہالینڈ کی بیت کی عمارت میں قدم رنجہ فرمایا.-1945 " الفضل ۲ ستمبر ة ) حضرت نگیر راجہ اپنے اس سفر کے دوران جرمنی بھی تشریف لے میں جرمنی پریس نے آپ کی تشریف آوری کی خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا اور اسلام میں عورت کے بلند مقام پر روشنی ڈالی.) الفضل ۲۵ اگست ۹۶ ) لجنہ امامر اللہ کراچی سے خطاب ( ۲۸ اکتوبر کو اس سفر سے واپسی ہوئی جماعت احمدیہ کراچی نے ایر پورٹ پر پرتپاک خیر مقدم کیا.چونکہ حضرت بیگم صاحبہ کی طبیعت ناساز تھی اس لیے یہ قیام بہت مختصر رہا.صدر لجنہ اماءاللہ کراچی کی
۱۲۵ درخواست پر ۳۰ اکتوبر کو احمدیہ ہال میں بہنوں سے علاقات فرمائی اور خطاب سے نوازا.لجنہ اماء اللہ کراچی کی طرف سے محرقہ مبارکہ قمر صاحبہ نے سپاس نامہ پیش کیا.حضرت بیگم صاحبہ نے فرمایا.میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لیے جمیلہ عرفانی صاحبہ میری تقریر پڑھ کر سنائیں گی.خطاب...و عزیزہ مجیدہ بیگم و آپا سلیمہ بیگم نے خواہش ظاہر کی تھی کہ میں اپنے سفر یورپ کے کچھ حالات لجنہ اماء اللہ کے اجتماع میں سناؤں.شاید میں خود تو نہ سُنا سکوں کیونکہ مجھے عادت نہیں ہے البتہ کچھ لکھ کر بتا سکوں گی.میرا یورپ جانا محض ایک اتفاق تھا.میں آپ کو بتا دینا چاہتی ہوں کہ زندگی میں اگر مجھے کوئی مجنونانہ شوق رہا ہے تو وہ غیر ممالک کی سیاحت کا تھا.حالات ہی ایسے پیدا ہوتے رہے کہ اس وقت تک یہ تمنا پوری نہ ہو سکی ، میرے میاں مرحوم نے دو برس پیشتر اپنا پاسپورٹ بھی بنوا لیا تھا.اور میری یہ خواہش پوری کرنے کی ان کو بے حد تڑپ تھی ہمیشہ کہتے تھے بیگم میں نے تمہارا یہ قرض دینا ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ ضرور ادا کروں گا.انہوں نے اپنا وعدہ اپنے بعد بھی پورا کر دکھایا.خیر یہ توضمناً بات یاد آگئی.میرا یہ سفر اتفاق اس لیے بن گیا کہ اب یہ برسوں کی پالی ہوئی آرزو ہیکل مردہ ہو چکی تھی.خواہش تو ایک طرف مجھے اس سفر سے ایک تنفر سا پیدا ہو چکا تھا
مگر اکثر اوقات انسان کی آزر و تب پوری ہوتی ہے جب اس کی رغبت اور اہمیت فنا ہو چکی ہوتی ہے میرے ساتھ تو اکثر ایسا ہوا ہے.ہر حال خدا جانے کسی طرح میری لڑکی عزیزہ طاہرہ صدیقہ نے تین دن کے اندر زور دے کر مجھے تیار کر دیا.پھر خدا تعالیٰ نے جلد جلد ایسے سامان پیدا کر دیتے کہ خلاف اُمید ویزا و غیرہ بھی مل گیا.اور میں ۲۵؍ جولائی کو بیاں سے لندن کے کے لیے روانہ ہو گئی.میرے سفر یورپ کا سب سے زیادہ خوشگوار اور مبارک پہلو بیت زیورچ کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شمولیت تھی.میں تو اب سمجھتی ہوں کہ میرا ادھر جانا بھی اسی تقدیر کے ماتحت تھا.میرے تو وہم وگمان میں بھی نہ تھا.کہ بیٹھے بٹھائے یہ سعادت میرے حصہ میں آجائے گی.ایک روز مکرمی مشتاق احمد صاحب باجوہ کا تار میرے نام آیا جس پر میری آمد پر خوش آمدید کہا تھا اور زیورچ جاکر بیت کا سنگ بنیاد اپنے ہاتھ سے رکھنے کی فرمائش کی تھی پہلے تو میں اپنی فطرتی جھجک کے باعث انکار کرنے لگی تھی.مگر میرے دل نے ملامت کی.آخر میں نے مان لیا.میں نے یہی سوچا کہ یہ سب کچھ تصرف غیبی کے ماتحت ہو رہا ہے.میرا بیاں بلا ارادہ اچانک آجاتا اور مکرم باجوہ صاحب کے دل میں اللی تحریک سے میرا خیال پیدا ہونا یہ سب تقدیری امور ہیں میں ۲۲ اگست کو زیور پہنچ گئی.۲۵ تاریخ کو صبح دس بجے یہ تقریب عمل میں آتی تھی.جو بفضل تعالیٰ بہت شاندار طریقہ سے انجام پذیر ہوئی متعدد پریس والے اور بہت سے مقامی غیرمسلم باشندے علاو و رتی
۱۲۷ جماعت کے موجود تھے الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے میری سیر و سیاحت کو بھی مذہبی رنگ دے دیا ہے خُدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھتے احوال کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جاتے یہ تو میرے سفر کا اہم ترین حصہ تھا.اس کے علاوہ میں ہالینڈ گئی جرمنی گئی.کوپن ہیگن گئی ماشاء اللہ سب جگہ اپنے مشن تھے.ہر جگہ میرا قیام اپنے مشن ہاؤس ہی میں رہا.جہاں تک ایک عورت کی جگاہ دیکھ سکتی ہے میں نے تو لوگوں کو اچھا پا یا خصوصیت سے میں آپ بہنوں کو اپنے جرمنی کے مشن سے روشناس کروانا اپنا فرض سمجھتی ہوں تاکہ آپ لوگ سمجھ سکیں کہ اس دور دراز ملک میں بھی احمدیت کی برکت سے وطن کا سا ماحول پیدا ہو گیا تھا.میں ہالینڈ سے جرمنی تک صرف اپنی ایک بچی فوزیہ کے ساتھ تنہا تھی.جب پلین نے لینڈ کیا تو مجھے قدرتی طور پر گھبراہٹ ہوئی کہ یہاں تو کوئی زبان بھی نہیں سمجھتا ہم ائیر پورٹ تک تنہا ہونگے وہاں سے کسٹم سے بھی تنہا گزرنا ہوگا خیر میں نے فوزیہ سے کہا کہ مسافروں کے پیچھے ہو لیتے ہیں اسی طرح پہنچ جائیں گے.سیڑھی بیک پہنچے اور ابھی دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تھا کہ لوگوں نے لپک لپک کر ہمارے ہاتھوں کے سبب بوجھ اُٹھا لیے حتی کہ ہمارے پاس ہینڈ بیگ بھی نہ رہے اور وہیں ہم پر پھول لاد دیئے گئے.کم و بیش پانچ چھ آدمی تو وہاں تھے اور باقی ایر پورٹ پر موجود تھے.میری ایسی کیفیت
۱۲۸ ہوئی جو صرف محسوس کی جا سکتی ہے بیان نہیں ہوسکتی.ہمارے ہمبرگ کے مبلغ مکر می چوہدری عبد اللطیف صاحب بمع دیگر افراد جماعت جن میں پاکستانی و نومسلم جرمن ایک دو غیر مسلم جرمن موجود تھے ان میں مستورات بھی تھیں.بچے بھی تھے جو اھلاً وَسَهْلاً وَمَرْحَبًا که کم کر پھول پیش کر رہے تھے دیگر مسافران جہاز حیرت سے دیکھنے لگے کہ یہ دو برقعہ پوش گمنام سی معمولی عورتیں کیا چیز نکلیں کہ ایسا شاندار استقبال ان کا ہو رہا ہے میرا دل تشکر وامتنان کے جذبات سے لبریز تھا زبان بند تھی مگر میری آنکھوں میں بے اختیار آنسو بھر رہے تھے میں اپنی گھبراہٹ پر اللہ تعالیٰ کے حضور اتنی نادم تھی جس کی انتہا نہیں.دوسرے دن کے حالات تو آپ لوگوں کو اخبارات سے معلوم ہو گئے ہونگے.صبح سے کیمرہ مین اور پریس کی طرف سے عورتیں انٹرویو کے لیے چلے آرہے تھے.سو یہ تھی وہ برکت احمدیہ جس کا تجربہ مجھے اس سفر میں ہوتا.میں سوچا کرتی ہوں کہ اپنے وطن میں ہیں سال ریاضت کر کے بھی میرا ایسان خدا تعالیٰ پر اس پایہ کا نہ ہوتا.جتنا اس تین ماہ کے ممالک غیر کے قیام میں ہوا.پھر تو یہ سلسلہ ہی شروع ہو گیا.یہاں سے کوپن ہیگن وہاں سے زیورچ میں تنہا ہی گئی مگر دل کو تقویت حاصل ہو چکی تھی تجربہ نے ثابت کر دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جوتیوں کے صدقے میں ہر جگہ بہن اور بھائی اور نیچے موجود ہیں.لندن تو خیر اپنا گھر ہی تھا.ماشاء اللہ پاکستان
۱۲۹ کی طرح جماعت معلوم ہوتی ہے ہفتہ پیشتر میری بیماری میں لندن کی جماعت نے اتنا خیال رکھا ہے کہ قریبی عزیز اور لڑکے بھی نہ رکھ سکتے ، میرے منع کرنے پر بھی وہ لوگ ڈاکٹر پر ڈاکٹر لیے چلے آرہے تھے میں نے بہت بھاگنا چاہا.مگر انہوں نے نہیں چھوڑا جب تک اپنی تسلی نہیں کرتی.آپ بہنوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ یہ روحانی رشته سب رشتوں سے بڑھ کر ہے جہاں بھی آپ ہمیں احمدی آپ کے بھائی ہیں وہاں کی مستورات آپ کی بہنیں ہیں میں آپ کی برادری ہے ہی خاندان ہے.---- میری دُعا ہے کہ ہمارا رشتہ اخوت و محبت مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے نفاق حسد بخل اور نفرت کے جذبات کو بیخ و بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دے آمین.خلوص محبت ، ہمدردی اور رواداری کے جذبات زیادہ سے زیادہ ہوتے چلے جائیں.میری طبیعت کل سے پھر خراب ہے میں نے جلدی میں خدا جانے کسی طرح یہ لکھا کہ آپ کی خواہش رد نہ کروں.آخر میں میں آپ سب بہنوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے اتنی محبت سے مجھے بلایا اور ملنا چاہا کل میں جا رہی ہوں اپنی دعاؤں میں مجھے یاد رکھیں اللہ تعالٰی آپ سب کا حافظ و ناصر ہو.رماہنامہ مصباح مارچ ۱۹۶۳ سفر یورپ کی مزید تفصیلات -1945 حضرت سیده دخت کرام کی سب سے چھوٹی صاجزادی محرم فوزی بیگم
صاحبہ نے موصوفہ کے سفر یورپ کے حالات بڑی تفصیل سے تحریر کھتے ہیں جو ایام سفر کے لحومہ کی روداد پر محیط ہیں.فرماتی ہیں : لندن میں ورود پاکستان سے انگلینڈ روانگی کے وقت دل میں کوئی اسٹنگ تھی یوں محسوس ہوتا تھا گویا ایک فرض پورا کر رہے ہیں.اتنی بھی بجھی بھی تھیں.میری وجہ سے تیار ہو گئیں ، لیکن طبیعت پر مردہ تھی.جلدی جلدی تیاری کی اور اسی محبت میں بڑے ماموں حضرت فضل عمر سے بھی نہ ملنے جاسکیں جس کا ان کی طبیعت پر بہت اثر تھا.لندن جا کر طبیعت کچھ سنبھلی آیا قدسیہ اور بھائی موجی رضا حبزادہ مرزا امجید احمد صاحب بمع بچگان وہاں پہلے.سے موجود تھے.بشیر رفیق صاحب ان دنوں لندن کے امام تھے چھوٹی سی ہماری جماعت تھی لیکن مخلصین سے بھری ہوئی ان سب نے امی کو ہاتھوں ہاتھ لیا.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی دختر کا دیار غیر میں اس قدر خیال رکھا کہ ساری عمرانی ان لوگوں کو نہ بھولیں.ہمارے گھر میں ہمیشہ ان سب کی محبت کا تذکرہ ہوتا رہا امی کی طبیعت میں معنویت کا جذبہ بے انتہا تھا اور پردیس میں جس محبت اور خلوص سے سب احمدی بہن بھائیوں نے ہمارا خیال رکھا وہ ساری زندگی کے لیے ان کے دل پر گہرا اثر چھوڑ گیا اور دعاؤں کا بہت بڑا ذخیرہ ان کے لیے اکٹھا کرنے کا موجب بنا.نون کے قیام کے دوران ایک دن اتھی کو سویٹزر لینڈ سے شبان احمد
۱۳۱ باجوہ صاحب کا دعوت نامہ ملا.انہوں نے امی کو بہت اصرار سے زیورک کی مسجد کے سنگ بنیاد کے لیے بلایا تھا.پاکستان سے چلتے وقت ہمارا ارادہ کوئی اتنی لمبی چوڑی سیر و سیاحت کا نہ تھا.لیکن باجوہ صاحب کے نوانے پر یہ طے ہوا کہ کچھ اور یورپی ممالک بھی زیورک کے سفر میں شامل کر لیے جائیں.امی کو اس سفر کے لیے تباہ کرنے میں بشیر رفتی صاحب کا بہت بڑا ہاتھ ہے.ایک دفعہ بعض وجوہ کی وجہ سے ہمارا ارادہ بدل گیا لیکن بشیر رفیق صاحب نے بہت اصرار کر کے امی کو تیارہ کیا اور سارا سفر خود بڑے شوق سے PLAN کیا.ہالینڈ ۱۷ اگست سنہ کو ہم ہالینڈ کے لیے روانہ ہوتے، رحمان صاحب مرحوم ہمیں اپنی کار میں ایر رپورٹ چھوڑنے کے لیے گئے.اتی کے قیام کے دوران رحمان صاحب کی کا ر ہمیشہ ہر ضرورت کے وقت حاضر ہوتی تھی.تقریباً سارا لندن ہم نے اپنی کے ساتھ دیکھا.جہاز کا سفر بہت خوشگوار رہا.ہمارے ساتھ ایک کینیڈین خاتون بیٹھی تھیں.اتی نے ہم دونوں کے HAM سینڈ وچ اس کو دے دیتے.اس نے بلا تختلف شکریہ کے ساتھ قبول کیسے پندرہ منٹ میں ہم نے ENGLISH CHANNEL کو پار کر لیا راستے میں میں اپنی ڈائری بھی لکھتی رہی.سفر کے آغاز میں ہی امی نے ایک ڈائری مجھے دی اس تاکید کے ساتھ
کہ ہر روز اس میں اپنا سفر نامہ قلمبند کروں.ان دنوں بیرون ممالک کا سفر بہت اہمیت رکھتا تھا.شاذ ہی کوئی سمندر یار سیر کی نیت سے سفر کے لیے تیار ہوتا.امی کو ہمیشہ سے سیاحت کا بہت شوق تھا.ہر چیز برگری نظر رکھتیں اور مجھے بھی بتاتی رہتیں.اس وقت بھی بلندی سے سمندر کا نظارہ بہت بھلا لگ رہا تھا کبھی تو ہم اپنے نیچے ٹھاٹھیں مارتے ہوتے نیلے سمندر کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتے اور کبھی ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کو بے تحاشا کھاتے ہوئے دیکھ کر حیران ہوتے اب جہاز نیچے اترنا شروع ہوا اور ایمسٹرڈم کا شہر نظر آنے لگا پورے شہر میں تین چیزیں نظر آر ہی تھیں.سبزہ.پانی.اور پانی کے اندر بنے ہوتے گھر - ایمیٹروم سمندری سطح سے کافی نیچے ہے اس لیے یہاں پانی شہر میں آیا ہوا ہے سارے شہر میں جھیلوں اور نہروں کا جال پھیلا ہوا ہے.اگر پورٹ پر ہالینڈ کے مربی حافظ قدرت اللہ صاحب اور ربانی صاحب ر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مرحوم کے برادر نسبتی ) ایک ڈچ احمدی اور جیبی (مرزا مجیب احمد صاحب ) ہمیں لینے آتے ہوئے تھے ربانی صاحب کی کار میں ہم بیگ کی طرف روانہ ہوئے راستہ میں ہم نے ہالینڈ کی مشہور WiND MILLS جگہ جگہ دیکھیں.انگلینڈ کے مقابلہ میں یہاں کی COUNTRYSIDE SULS.COUNTRY SIDE کے نظاروں میں بہت فراخی کا احساس ہوتا تھا.
۱۳۳ سگ ہیگ کا مشن ہاؤس جدید طرز کی بہت صاف ستھری جگہ ہے اندر داخل ہوتے ہی ایک طرف بیت کا باغ تھا اور دوسری طرف ملاقاتی کرے تھے.دوسری منزل پر رہائشی کمرے تھے.ہمارے لیے ایک کافی بڑا روشن بڑے بڑے شیشوں والا کمرہ تیار کیا گیا تھا.جو اہل خانہ کی خوش ذوقی کا ثبوت دے رہا تھا.دا را گست کی صبح کو جب بیگ میں ہماری آنکھ کھلی تو امی کو اور مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ ہم HAGUE میں بیٹھے ہیں.اس قدر اچانک یہ پروگرام بنا کہ خواب کا گمان ہوتا تھا.اسی دن حافظ صاحب ہمیں میاں کی مشہور پینٹنگ PANORAMA دکھانے لے گئے جس بلڈنگ میں یہ پینٹنگ ہے وہ بالکل معمولی نوعیت کی عمارت تھی اس میں تین کمروں میں اسی مصور کی بنائی ہوئی تصویروں کی نمائش ہوئی تھی.ان کردوں سے ایک اندھیرا اور پراسرار راستہ نکلتا تھا.جو صرف موم بتیوں سے روشن کیا گیا تھا.اس کے آخر میں ایک سیٹرھی تھی جس کے ذریعہ ہم اوپر پہنچے.اوپر پہنچ کر ہم ششدر رہ گئے ایک نئی دنیا ہمارے سامنے پھیلی ہوئی تھی.چند لمحوں کے لیے ہم بھی سمجھے کہ یہ باہر کا نظارہ ہے لیکن حافظ صاحب نے جلد ہی وضاحت کی کہ یہی وہ مشہور PANORAMA - پینٹنگ ہے یہ اتنی خوبصورت اور قدرتی ہے کہ اس پر حقیقت کا گان -
۱۳۴ ہوتا ہے اس چیٹنگ کو مصور اور اس کی بیوی نے تین ماہ میں مکمل کیا تھا.یہاں سے واپسی پر ہم نے پی پیلیس (PEACE PALACE) دیکھا اور پھر کچھ وقت وہاں کے شاپنگ سنٹر نہ دیکھنے میں گزارا.آپا قدسیہ بھائی موجی جیبی اور ہم اکٹھے تھے اس لیے بہت پر لطف وقت گذرا شام کو ہم لوگ ساحل کی سیر کے لیے اور ایک مشہور مقام ماڈو روڈام" دیکھنے نکلے.حافظ صاحب نے کار کا انتظام کیا ہوا تھا.اس لیے سہولت رہی ایک نوجوان نو مسلم اس کو چلا رہا تھا.اور راستہ میں میں ہالینڈ کے متعلق بھی بتاتا تھا.امی کا دل چاہتا تھا کہ جس مقام سے گذریں اس کے متعلق معلومات بھی ہوں اس لیے تمام راستہ مختلف مقامات پوچھتے سنتے رہے ساحل کی سیر بھی بہت پر لطف رہی اور پھر ہم MODURODAM پہنچے.ماڈورور ماں باپ کا اکلوتا لڑکا تھا جوانی میں فوت ہو گیا.تو اس کے ماں باپ نے اس کی یاد میں ایک ہسپتال بنوایا جس کی آمد سے " ماڈو روڈام بنوایا گیا.ماڈورو ڈام میں ہالینڈ کی مشہور عمارات اور جنگیں چھوٹے سائز میں بنوائی گئی ہیں رات کے اندھیرے میں یہ ایک چھوٹا سا شہر لگتا تھا.عمارتوں میں بجلی سے روشنی کا انتظام تھا.جس پر کاریں ہیں اور ٹرینیں چل رہی ہیں جو خود نخود شرقی اور چل پڑتی ہیں مشن ہاؤس واپس آکر حافظ صاحب نے ہمیں دوبارہ بیت کے ہاں میں بلوا لیا تاکہ بیت اور مشن ہاؤس کی سرگرمیوں کی سلائیڈ نہ دکھاتیں نہیں 19 اگست کو ہم بیگ سے رخصت ہوتے ان دو دنوں میں ہم
۱۳۵ حافظ صاحب کی فیملی سے بہت مانوس ہو گئے تھے ان کی بیگم تو اقی سے بہت محبت کرنے لگی تھیں اور رخصت ہوتے ہوتے امّی سے مل کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں امی نے ان کو بہت دلاسہ دیا.اور یہاں کی خوشگوار یادیں لے کر ہم ایمسٹرڈم کے لیے روانہ ہوتے.ایمسٹرڈم پہنچ کر ہم نے موٹر بوٹ کے ذریعہ پورے شہر کی سیر کی.ایک لڑکی سارا راستہ شہر کے متعلق کمنٹری دیتی رہی اتی نے اس سیر کا بہت لطف اُٹھایا.آپا قدسیہ اور بھائی موجی تو ٹرین کے ذریعے ہیمبرگ روانہ ہو گئے اور حافظ صاحب اور ربانی صاحب نے امی کو اور مجھے میرگ جانے کے لیے ائر پورٹ پہنچا دیا.حافظ صاحب کی فیمیلی یہاں بھی دوبارہ ہیں خدا حافظ کہنے آتی ہوئی تھی.ہیمبرگ ایسٹرڈم سے ہیمبرگ کی فلائٹ بہت چھوٹی تھی.جرمنی کے مرتی چوہدری لطیف صاحب کو ہمارے آنے کی اطلاع دے دی گئی تھی.ہمیں لینے کے لیے ان کا ایر پورٹ آنا تو متوقع تھا.جیسے ہی امی جہاز کی سیڑھیوں سے اُتریں ایک برقعہ پوش خاتون نے ان کو گلے لگا کر پھولوں کا گلدستہ پیش کیا.یہ لطیف صاحب کی اہلیہ تھیں.ان کے بعد دو جرمن خواتین آگے بڑھیں اور انہوں نے بھی امی کو گلدستے پیش کئے اور مجھے بھی پھولوں سے ا ر دیا.دو جرمن مرد بھی جہاز کی سیڑھیوں پر آئے ہوتے تھے ہم سب ائر پورٹ بس پر ائر پورٹ پہنچے ہمارے ہم سفر ہمارے بڑھے اور ہمارا
RECEPTION دیکھ دیکھ کر بہت حیران ہو رہے تھے وہ بہت دلچسپی سے ہم لوگوں کو دیکھ رہے تھے باہر نکل کر پتہ چلا کہ اور بھی لوگ ہمیں لینے آتے ہوتے تھے لطیف صاحب نے ان سب سے امی کا تعارف کروایا یہاں آکر بالکل گھر کا سا احساس ہوا معلوم ہوتا تھا کہ چوہدری لطیف صاحب کا یہاں کافی اثر و رسوخ ہے.ان کی بیگم صاحبہ نے بتایا کہ ہمارے آنے کی خبر بھی اخباروں میں شائع ہو چکی ہے دراصل لطیف صاحب سے یہاں کے مقامی باشندے عورت کے مقام پر بہت بحث کرتے تھے لطیف صاحب ان کو بہت قاتل کرنے کی کوشش کرتے لیکن وہ کسی صورت نہ مانتے تھے لطیف صاحب نے امی کے آنے کائنا تو تمام اخباری نمائندوں کو پہلے سے اطلاع کرادی کہ بیگم صاحبہ کو پاکستان سے خاص طور پر بلوایا گیا ہے تاکہ زیورچ کی بہیت کا سنگِ بنیاد ان سے رکھوایا جائے.اس خبر نے لوگوں میں فوری دلچسپی پیدا کردی اور لطیف صاحب سے ہمارے آنے کے متعلق سوالات کئے جانے لگے اکثر اخبار نویس امی کی تصاویر لینا چاہتے تھے لیکن لطیف صاحب منذ بذب تھے کہ شاید اقی پسند نہ کریں.امی نے جب یہ سنا تو لطیف صاحب سے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ بر قصر میں تصویر کھنچوائی جائے بلکہ یہ تو اچھا طریق ہے ان لوگوں کو قائل کرنے کا کہ برقع کسی کام میں حائل نہیں ہوتا.پریس انٹرویو ۲۰ اگست کو ہم علی الصبح اُٹھے کیونکہ ایک کیمرہ میں اور اخبار نویس
۱۳۷ انی سے ملنے آرہے تھے.امی سر سے پاؤں تک برقعہ میں ملبوس آنکھوں پردھوپ کی عینک لگاتے باہر آئیں کچھ ہی دیر بعد جیسی اندر آیا کہ وہ کہ رہے ہیں بیٹی بھی باہر آتے میں بھی برقعہ پہن کر باہر آئی اور پھر ہم سب کی چاروں طرف سے بے شمار تصاویر کھینچی گئیں.آپا قدسیہ اور بھائی موجی اپنے ہوٹل میں تھے اس لیے ان کی کی بہت محسوس ہوئی تصاویر کھنچوا کر ہم اندر آئے تو ایک عورت امتی کا انٹرویو لینے کے لیے بیٹھی ہوتی تھی وہ صرف جرمن زبان جانتی تھی اس لیے سارا انٹرویو لطیف صاحب کی وساطت سے ہوا.انٹرویو یاں کی عورت کا اسلام میں مقام پر ہوا.امی نے اس کو بتایا کہ عورت تو اپنے گھر کی ملکہ ہوتی ہے.اسلام نے ہی عورت کو اس کا صحیح مقام دلایا ہے.ہمارے ہاں جنت ماؤں کے قدموں تلے کبھی جاتی ہے وہ رپورٹر بہت شوق سے سب سنتی رہی اور سب کچھ لکھتی رہی.دوسرے دن تمام اخبارات میں ہماری بڑی بڑی تصاویر اوراقی کا انٹرویو شائع ہوا.کئی سٹورز میں ہمیں دیکھ کر SALES GIRLS اخبار کھول کھول کر ہماری طرف اشارہ کرکے ہماری تصاویر دکھاتی تھیں.اور یوں جرمنی میں بھی امی کا آنا تربیت کا ذریعہ بنا.ہیمبرگ میں ہم نے کافی مقامات کی سیر کی وہاں کا چڑیا گر مبت مشہور ہے وہاں پر جانوروں کو بغیر بند کئے پہاڑیوں اور تالابوں کے ذریعے ہی مقید کیا ہوا ہے رات کو ہم نے فواروں کا ناچ دکھا اس جگہ کا نام PDANTONS ON BLOMEUS ہے مختلف رنگوں
۱۳۸ کے فواروں کا یہ ناچ رات کے وقت بہت بھلا لگا.دوسرے دن ہیمبرگ کے تمام مشہور مقامات کی سیر کی ٹاؤن ہال مجھے خاص طور پر بہت پسند آیا.دو پر کو واپس آئے تو جیبی اور بھائی موجی گھبراتے ہوئے مشن ہاؤس کے باہر کھڑے تھے انہوں نے نہیں نہایت تکلیف دہ خبر سنانی که لطیف صاحب کی اہلیہ کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے.بیگم لطیف کی بہت بڑی حالت تھی وہ دو ماہ میں پاکستان جانے والی تھیں.اس دن محسوس ہوا کہ مبلغین کرام کتنی قربانیاں کر رہے ہیں.امی نے لطیف صاحب کی اہلیہ کو بہت پیار سے دلاسہ دیا اور سارا وقت انہی کے پاس بیٹھی رہیں اس دن ہم کہیں باہر نہیں نکلے.ایک جرمن خاتون بھی آگئیں.امی ان سے خوب باتیں کرتیں رہیں زیادہ انگریزی تو دونوں کو نہ آتی تھی لیکن گذارہ خوب چلا باورچی خانہ میں نے اور آپا قدسیہ نے مل کر سنبھالا کیونکہ بیگم لطیف صاحب کی اپنی حالت خراب تھی.کوپن ہیگن ۲۲ اگست کو دوسرے دن ڈیڑھ بجے ہم کوپن ہیگن کے لیے روانہ ہوئے ائیر پورٹ پر لطیف صاحب اور ان کی اہلیہ ہمیں چھوڑنے آئیں آج بھی ایر پورٹ پر ہمیں خصوصی توجہ دی گئی.ایک بات میں نے خاص طور پر ہیمبرگ میں محسوس کی کہ لطیف صاحب کا وہاں کافی اثر تھا.اور بڑے چوکس مبلغ گئے تھے جو تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے
۱۳۹ ایر پوسٹ ہمیں ایک علیحدہ بس میں ہوائی جہاز تک لے کر گئیں اور بڑے ادب سے امّی کو بہترین سیٹ پر بٹھا یا تھوڑی دیر بعد دوسرے مسافر بھی آگئے.ایک مسافر خاتون ہمارے پاس آگئیں اور خیبر پاس کے متعلق معلومات لینے لگیں میں نے اس کو تمام جگہوں کے نام جہاں اس کو جانا چاہیئے تھا لکھ کر دے دیتے.کوپن ہیگن میں بھائی مسعود (میر سعود احمد صاحب) جو ان دنوں وہاں کے مبلغ تھے ہمیں ائر پورٹ لینے آئے ہوتے تھے ان کے ساتھ ان کے نائب کمال یوسف صاحب بھی تھے.بھائی مسعود صاحب بالکل مختلف لگے پاکستان کی نسبت بہت سمارٹ اور خود اعتماد ٹیکسی میں ہم وہاں کی ایک احمدی خاتون مز احمد کے ہاں روانہ ہوئے مسٹر احمد کا چھوٹا سا صاف ستھرا فلیٹ تھا.مجھے تو جہاز کے چکر چڑھے ہوتے تھے اس لیے آتے ہی سو گئی.سو کر اٹھی تو امی نے بہت خوشی خوشی کوپن ہیگن کا پہلا تجربہ سنایا.بھائی مسعود کے ساتھ امتی نزدیک کے شاپنگ سنٹر میں پیدل چلی گئیں اور راستے میں کافی کچھ دیکھ لیا.اتھی کو سیاحت کا اتنا شوق تھا کہ ہر جگہ پہنچ کر سب سے پہلے وہاں کے مشہور مقامات اپنی نوٹ نگ میں لکھ لیتی تھیں تاکہ کچھ رہ نہ جائے.میرے خیال میں جتنی تفصیل سے امی نے سیر کی ہے.شاید ہی کسی نے کی ہو.شام کو کچھ دیر مقامی سٹورز کا چکر لگا کر ہم ساحل سمندر پر چلے گئے.جو وہاں کا بہت مشہور مقام ہے بہت خوبصورت نظارہ تھا.اندر داخل ہوتے ہی ایک عورت کا بت تھا
۱۴۰ 4 جو دو بیلوں کو کھینچ رہی تھی فوارے اس کے اندر سے نکل کر ایک تالاب میں ہہ رہے تھے اور تالاب کا پانی ایک اس سے بھی بڑے تالاب میں بہ رہا تھا یہ ثبت ڈنمارک کی زرخیزی کی علامت کے طور پر نصب کیا گیا تھا.ساحل کے او پر ایک خوبصورت پارک بھی تھا.جس میں بے شمار نگا رنگ کے پھول کھلے ہوتے تھے.اس کے بعد ہم مشہور مصنف اینڈرسن کی کہانیوں کا مقبول کردار جل پری دیکھنے ساحل کی طرف بڑھے جل پری میں سمندر کے کنارے ایک بڑے گول پتھر پر بیٹھی تھی.اس کے بیٹھنے کا انداز دل شکستہ تھا.کہانی کے مطابق جل پری کا شہزادہ اس کو سمندر کے کنارے تنہا چھوڑ کر چلا گیا تھا.اور وہ اس کے آنے کے انتظار میں تنہا اور اداس بیٹھی تھی بارش ہونے لگی اس لیے ہم جلدی جلدی واپس لوٹے.راستے میں کمال صاحب نے چھوٹی سی جل پری امتی کو تحفہ میں پیش کی.امی کو SOU - VENIR کا بہت شوق تھا اور جو مقام دیکھ لیتیں وہاں سے ضرور ایک چھوٹی سی یادگار خرید لیتیں.رات کا کھانا کمال صاحب نے خود بنایا.میر احمد بہت خوش اخلاق خاتون تھیں.صورت سے کچھ اُداس لگتیں بعد میں پتہ چلا انکا ماضی بہت دردناک گزرا ہے.دوسرا دن ۲۳ اگست کافی مصروف تھا.آج ہم ٹرین کے ذریعہ ایک مشہور محل دیکھنے HELSINGO جا رہے تھے.تمام راستہ بہت خوبصورت تھا.گھنے جنگلات سے گھرا ہوا جو کہ بادشاہ کی شکار گاہیں
۱۴۱ تھیں.کہیں کہیں سمندر بھی مل جاتا تھا.کمال صاحب نے بتایا کہ یہ راستہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو بہت پسند ہے.HELSINGO کا محل سمندر کے اوپر واقع ہے یہ ایک بہت پرانا محل ہے لیکن بادشاہ کی رہائش گاہ نہیں رہی.اندر سے تو محمل کوئی خاص نہ تھا.کیونکہ اس سے پہلے ہم نے بے شمار خوبصورت محل دیکھ لیے تھے، لیکن محل کا گر جا دیکھنے کے لائق تھا.وہاں کے فانوس ، شمعدان اور سونے کے کام کا منبر قابل دید تھے واپسی پرنس کے ذریعے ہم نے کچھ راستہ طے کیا.پھر ڈین کے ذریعے کوپن ہیگن واپس لوٹے بھائی مسعود سارا راستہ امی کو مختلف جگہوں کے متعلق معلومات دیتے رہے کوین بیگن پہنچ کر بہت تھکے ہوتے تھے لیکن بھائی مسعوداقی کا شوق دیکھ کر ان کو ایک اور محل " روزن برگ دکھانا چاہتے تھے جو سٹیشن کے قریب ہی تھا.عمارت تو اس محل کی بھی کوئی خاص نہ تھی.لیکن اندر سے بہت سجا ہوا تھا.یہ مکمل طور پر آراستہ تھا اور بادشاہ اور ملکہ کی ذاتی اشیاء کی بھی نمائش کی گئی تھی پرانی پچی کاری کی سجاد میں بڑی بڑی گھڑیاں اور تصاویر قابل ستائش تھیں اور اس کے بعد ہم پارلیمنٹ ہاؤس ٹاؤن ہال وغیرہ دیکھنے چلے گئے پارلیمنٹ ہاؤس کے استقبالیہ کروں تک پہنچ کر ہم اتنا تھکن سے چور تھے کہ بھائی مسعود اقی کے لیے جاتے اور میرے لیے گرم دودھ بستر میں ہی دے گئے تھوڑی دیر کے بعد ہم پھر ترو تازہ ہو گئے.بھائی مسعود کا دل چاہتا تھا کہ ہم زیادہ ہے
۱۴۲ زیادہ جگہیں دیکھ لیں اس لیے پھر ساحل پر لے گئے وہاں کہاں صاحب نے بہت زور لگایا کہ سویڈن بھی ہو آئیں امی تو راضی بھی ہو گئیں ، لیکن میں نے اتھی کو جانے سے روک دیا.میں بھی تھکی ہوئی تھی اور مجھے ڈر تھا کہ امّی اپنی طاقت سے بڑھ کر نہ ہمت کر لیں اور ہما را بعد کا سفر خراب ہو.یہ ہمارا آخری دن کو مین ہیگن میں تھا.واپسی پر بھائی مسعود نے بادشاہ کا محل دکھایا جس میں وہ آج کل رہائش پذیر ہے اس کو دیکھے کہ ہم کافی مایوس ہوئے.سوئیٹزر لینڈ ۲۴ اگست کو ہم صبح 9 بجے کوپن ہیگن سے سوئٹزر لینڈ کے لیے روانہ ہوتے جاتے ہوئے بھائی مسعود نے مجھے اینڈرسن کی.FAIRY TALES تحفہ دی جو مجھے بہت پسند آئی.زیورک کے ائیر لورٹ پر بھائی موجی آپا قدسیہ اور باجوہ صاحب ہمیں لینے آئے ہوتے تھے.سامان نکلوانے کے بعد ہم ایر پورٹ سے باجوہ صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہوئے زیورک بہت صاف ستھرا لگا.گھروں کے سامنے چھوٹے چھوٹے باغیچے پھلوں کے درختوں سے لدے ہوئے تھے.باجوہ صاحب کے فلیٹ کے ساتھ ہی ایک بہت خوبصورت کاشی تھی جو پھلوں اور پھولوں سے بھری ہوئی تھی.زیورک کو جیسا سُنا تھا ویسا ہی خوبصورت پایا.باجوہ صاحب کا اپنا فلیٹ بہت صاف ستھرا تھا.دونوں میاں بیوی
۱۴۳ صفائی کا بہت خیال رکھتے تھے اپنے چھوٹے سے فلیٹ کو انڈے کی طرح حان رکھا ہوا تھا.سب سے بڑا کرہ امی کے لیے تیار کیا گیا تھا.جس میں ایک ڈبل بیڈ تھا.ساتھ ہی ایک دیوان پر میں سو جاتی تھی.ایک اور چھوٹا سا بیڈ روم تھا جس میں باجوہ صاحب آپا کلثوم دیگیم باجوہ صاحب ان کا بیٹا بیٹی اور موجن لطیف صاحب مبلغ جرمنی کی بیٹی رہتے تھے اس کے علاوہ صرف ایک چھوٹی سی بیٹھک تھی جس میں بعد میں لطیف صاحب رہتے تھے.باجوہ صاحب تو گویا امی کے انتظار ہی میں تھے.کھانے کے فوراً بعد باجوہ صاحب نے بتایا کہ ایک اخبار نویس امی کا انٹرویو لینے آرہے ہیں اور وہ ٹیپ کیا جائے گا.انہوں نے کچھ سوالات دیتے جو پوچھے جانے تھے.اتی لکھواتی جاتی تھیں اور بھائی موجی ان جوابات کو اردو اور انگریزی میں لکھتے جاتے تھے.اخبار نویس ایک نوجوان لڑکی تھی.وہ جرمن زبان میں سوال کرتی تھی.اور موجن رلطیف صاحب کی بیٹی ، اس کا اردو میں ترجمہ کر کے امی کو بتائی جاتی تھی.امی اردوی میں جواب دیتی تھیں اور موجن پھر دوبارہ جرمن میں ترجمہ کرتی جاتی تھی انٹرویو کوئی ایک گھنٹے جاری رہا وہ اخبار نویسہ ہم سے بے تکلفی سے بولتی رہی.ہم نے تنگ پاجامے پہنے ہوتے تھے وہ اس کو بہت پسند آئے.بہت خوشگوار ماحول میں انٹرویو ختم ہوا اور دوسرے دن اخبارا میں بہت کے سنگ بنیاد کی تقریب کے ساتھ شائع ہوا.سفر کی کوفت پھر آتے ہی انٹرویو نے امی کو تھکا دیا.اس لیے کچھ دیر آرام کیا.مجھے --
۱۴۴ بھی گلے اور جسم میں شدید درد محسوس ہو رہا تھا.شام تک بخار بھی ہو گیا اتی بہت پریشان تھیں.پل پل پر ڈاکٹر کو دکھانے کی عادت یہاں یہ سہولت کہاں تھی.گھر میں جو دوائیں تھیں وہ کھائیں اور شام کو زیورک کی جھیل دیکھنے چلے گئے.ٹیکسی ڈرائیور ایک خوش مزاج آدمی تھا سارا راستہ وہ مختلف مقامات کے متعلق بتاتا رہا.زیورک کی جھیل پر پہنچنے کے بعد بھائی موجی نے شاید اس کی خوش مزاجی کی یادگار کے طور پر اس کی مووی بنائی جس سے وہ بہت خوش ہوا.اور دو گھنٹ بعد دوبارہ ہمیں واپس لے جانے کے لیے آنے کا وعدہ کر کے چلا گیا.زیورک کی جھیل سرسبز پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے انتہا خوبصورت لگی.لوگ اپنی ذاتی چھوٹی چھوٹی کشتیاں چلا رہے تھے.زندگی میں پہلی بار ہم نے بجلی کی تار پر چلنے والے کیبن دیکھے جو جھیل کے بارے جاکر را اسی آتے تھے امی کو بجلی کے تاروں پر چلنے والے ان کیبنوں سے بہت خوف آتا تھا اس لیے انہوں نے مجھے اور بھائی موجی کو آیا قدسیہ کے ساتھ بھیج دیا بلندی سے زیورک کا نظارہ بہت بھلا لگتا تھا.جھیل کے دوسری طرف ایک خوبصورت پارک تھا.جو پھولوں اور فواروں سے بھرا ہوا تھا.بھائی موجی نے سارے نظارے کی مووی بنائی اور امتی کو چونکہ اکیلا چھوڑ آئے تھے اس لیے بہت جلد واپس آگئے کچھ ہی دیر بعد ہمارا ٹیکسی ڈرائیور آگیا اور ہم واپس لوٹ آئے.
۱۴۵ ایک یادگار دن ۲۵ اگست کا دن تاریخ احمدیت کے لیے ایک یادگار دن تھا.آج کے دن عیسائیت کے گڑھ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے چھوٹی بیٹی کے ہاتھوں خانہ خدا کی بنیاد رکھی جانی تھی.ساری رات میں بخار میں پھنکتی رہی.صبح اٹھی تو اتنی کمزوری محسوس ہو رہی تھی اور ساتھ ہی بخار بھی اب تک تیز تھا کہ اُٹھنے کی ہمت نہ پاتی تھی ، لیکن امی نے زیر دستی اُٹھایا کہ کپڑے بھی بے ایک نہ بدلو.ہر تھے میں چھپ جائیں گے آج کا دن واپس نہیں آئے گا.ٹیکسی پر ہم سب یعنی امتی.بیگم کلثوم باجوہ آیا قدسیہ موجن بیت کی جائے وقوع پر پہنچ گئے.کافی تعداد میں کیمرہ مین اخبار نویس اور دیگر مہمان وہاں پہلے سے موجود تھے.جونی امی کار سے اُتریں ان کی پیشوائی کے لیے باجوہ صاحب آگے بڑھے کیمرہ مین تصاویر کھینچنے میں مشغول ہو گئے اور اخبار نویں لکھنے لگے.بھائی موجی بھی کچھ فاصلے پر کھڑے سارے ماحول کی مووی بنا رہے تھے.ہم سب عورتوں نے برتھے پہن رکھے تھے اور صرف ہماری آنکھیں نظر آتی تھیں سیڑھیوں سے نیچے بہت کی زمین پر اُترے تو دو سویس" (Swiss) لڑکیوں نے آگے بڑھ کراتی کو گلدستے پیش کئے.سارے ماحول پر ایک سناٹا سا تھا گویا اس تقریب کی اہمیت کا احساس ہر شخص کو ہو رہا تھا.ہم احمدیوں کے دل تو اس امید سے پُر تھے کہ (SWISS)
۱۴۶ عیسائیت کے اس گڑھ میں بیت کی تعمیر انشاء اللہ....اور احمدیت کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرے گی.امی پر بھی غیر معمولی اثر تھا.باجوہ صاحب امی کو سنگِ بنیاد کی جگہ کی طرف لے گئے.اقی کو اینٹ پکڑائی.امی نے اس پر سیمنٹ اچھی طرح لگا کر اس کو اپنی جگہ پر نصب کر دیا.باجوہ صاحب نے اوپر سے اور سیمنٹ اچھی طرح لگا کر اس کو ہموار کر دیا.سنگ بنیاد رکھنے کے بعد رپورٹروں نے امی سے درخواست کی کہ ریڈیو پر آپ Swiss لوگوں کے لیے کوئی پیغام دیں اتی اس کے لیے تیار نہیں تھیں نہ ہی آپ کو بولنے کی عادت تھی طبیعت میں جھجک بھی بہت تھی ، لیکن اس موقع پر بہت ہمت کر کے مان گیں یہ پہلا اور آخری موقع تھا کہ میں نے امی کو خود بولتے سنا ورنہ تقریبات میں اپنا پیغام لکھ کر کسی سے پڑھوا دیا کرتی تھیں.امی نے SW155 لوگوں کا اس موقع پر تعاون اور دلچسپی کا مظاہرہ کرنے پر شکریہ ادا کیا.اور ان کو نصیحت کی کہ اسلام کو بغیر کسی تعصب کے پڑھیں اور اس کی دعوت پر غور کریں لطیف صاحب امام جرمنی نے اس پیغام کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا.اس کے بعد امی نے دعا کرائی اور یوں یہ یادگار تقریب کامیابی سے اختتام پذیر ہوئی.اس ساری تقریب کے دوران آبا کی یاد بُری طرح ستاتی رہی اس سارے سفر میں شاید ہی کوئی لمحہ گزرا ہو جو ابا نہ یاد آتے ہوں لیکن آج کے دن جب امی کے ہاتھوں یہ عظیم الشان کام ہوتے دیکھا تو ان کی یاد ایک
۱۴۷ مستقل میں بن گئی یوں محسوس ہو رہا تھا کہ گویا ابا محبت اور پیارا اور نفر سین ہو رہا سے امی کو دیکھ رہے ہوں امی اور آپا قدسیہ کی بھی یہی کیفیت ہو گی ؟ لیکن ہمارے یہاں جذبوں کی زبان نہیں وہ محسوس تو کئے جاتے ہیں.پر زبان پر نہیں آتے.۲۶ اگست کو صحیح باجوہ صاحب ، بیگیم با جوه موجین اور لطیف صاحب کے ساتھ لوسرن" کی سیر کے لیے روانہ ہوئے.یہ بگہ زیورچ سے چالیس میل کے فاصلہ پر ہے سارا رستہ خوبصورت تھا.سرسبز پہاڑ جھیلیں.پھلدار درخت نظارے کو اور بھی دیدہ زیب بنا رہے تھے "لوسرن" کا باغ بہت خوبصورت ہے.یہاں پر ایسے کھنڈرات بھی تھے جو STONE AGE سے تعلق رکھتے تھے اور ایسے ایسے جانور جن کی نسل ختم ہو چکی ہے.وہاں سے ہم نوسرن کی جھیل پر گئے جو اپنی خوبصورتی میں خاص سمجھی جاتی ہے چھوٹی چھوٹی کشتیوں نے جھیل میں جال سا بنا رکھا تھا.چاروں طرف سرسبز پہاڑ تھہ در تہ دکھائی دے رہے تھے بھائی موجی نے خوب تصاویر لیں.اس کے بعد ہم پہاڑوں کے اُوپر گئے باجوہ صاحب کا بیٹا بہت خوش ہوا اور چاروں طرف دوڑنے لگا.۲۷ اگست کو ہم لندن کے لیے روانہ ہوئے ارادہ تو پہلے میری جانے کا تھا.لیکن آیا قدسیہ اپنے بچے لندن چھوڑ آتی تھیں اور ہمیں کی طبیعت ٹھیک نہ تھی.رفیق صاحب نے لندن سے فون پر مشورہ دیا کہ ہمیں واپس آجانا چاہیتے اس لیے اسی دن سیٹیں بک کروا کہ ہم
۱۴۸ ندن کے لیے روانہ ہوئے اور یوں یہ سفر دین ودنیا کے لحاظ سے محض اللہ تعا کے فضل سے کامیابی سے اختتام پذیر ہوا.رماہنامہ مصباح بابت جنوری فروری شاه حضرت سیدہ دوخت کرام کی المناک وفات چومتی علت بروز بدھ بوقت پونے تین بجے سہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت شیده الله الحفیظ بیگم صاحبہ قریباً تراسی سال کی عمر میں عالم فانی سے رحلت فرما کر اپنے مولائے حقیقی سے جائیں ، إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.موت ایک اٹل حقیقت ہے اس سے کسی کو رستگاری نہیں ایسے مواقع پر رنج والم ایک طبعی تقاضا ہے اپنے پیاروں کی وفات پر دل انڈ آتا ہے آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں اور انسان صبر و ضبط کے باوجود جذبات کی شدت سے مغلوب ہو کر رہ جاتا ہے بسا اوقات یہ حالت بھی ہو جاتی ہے کہ ے جذبہ صبر و تحمل تھا کہ خوف معصیت سینکڑوں شکوے زبان پر آئے آکر رہ گئے
۱۴۹ لیکن ایک مومن کا یہی شعار ہے کہ وہ کسی بھی حالت میں نہ تو مایوس ہوتا ہے نہ شکوہ بہ لب ہمیشہ رضائے الٹی پر راضی اور صابر و شاکر رہتا ہے اور اس المناک سانحہ پر خاندان مسیح موعود کے ہر ایک فرد اور جماعت احمدیہ کے ہر ایک رکن نے صبر و شکیبائی کا مال مظاہرہ کیا اور رضينا بالله رباً کا عملی کردار ادا کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہر لمحہ ان کے سامنے رہا کہ حضور کا لخت جگر وفات پا گیا.آنکھیں اشکبار ہوگئیں صحابہ نے عرض کیا حضورہ روتے ہیں ؟ فرمایا الْعَيْنُ تَدْمَعُ وَالْقَلْبُ يحزن وَلا نَقُول إِلا مَا يَرضى ربنا یعنی بے شک آنکھ اشکبار ہے اور دل طول و حزیں ہے مگر اس حال میں بھی ہم وہی کہتے ہیں کہ جس سے ہمارا رب راضی ہو.سوغم تو ایک طبیعی تقاضا ہے جو اس قسم کے مواقع پر ہر انسان محسوس کرتا ہے اس سے کسی طور مضر نہیں ، لیکن خدا تعالیٰ کی مشیت کے خلاف کوئی ایک لفظ بھی منہ سے نکالنا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہے نظر کہ یہ شیوہ نہیں اہلِ رضا کا..پس اس طبعی تقاضا کے تحت دل مغموم ہوتے اور آنکھیں اشکبار کہ نا اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی دختر نیک اختر - نور چشم حضرت سیده نصرت جہاں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب - حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی سب سے چھوٹی پیاری اور دلاری ہمیشرہ
۱۵۰ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ کی پیاری پھوپھلی دبلکہ حضور نے فرمایا.آپ میری والدہ کی طرح تھیں جو مجھ سے جُدا ہو گئیں ، آج ہم میں موجود نہیں.آپ کا وجود ایک نادر وجود تھا.مقدس بابرکت نابغته روزگار - آپ حسب بشارات الہیہ مبشر اولاد کا ایک فرد تھیں.افسوس مبشر اولاد کا آخری فرد بھی راہی ملک بقا ہو گیا اور آپ کی وفات سے مبشر اولاد کا عہد زریں ختم ہوا.ایک ایسے با برکت یادگاری دور کا اختتام ہوا جو کم وبیش ایک صدی پر محیط ہے اور جسے انشاء اللہ رہتی دنیا تک یا د رکھا جائے گا.آپ ۲۵ جون نشاستہ کو حضرت سیدہ نصرت جہاں کے بطن سے تولد ہوئیں ولادت سے قبل سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی ولادت کی خبر دی اور آپ کو وخت کرام کے لقب سے نوازا ریعنی ایک لڑکی ہو گی جو ہر جہت سے کریموں کی دختر ہوگی را لبدر م والحلم - تذکر و ص ۴۷۵ اور یہ کریمانہ اخلاق سے متصف کریمیوں کی دختر 4 مئی شاہ کو بروز بدھ بوقت پونے تین بجے سہ پر بیت انگرام ریوہ میں وفات پاگئیں اور اس طرح عمر عزیز کے کم و بیش ۸۳ سال آپ نے اس دنیائے فانی میں گزارے اور اس شان سے کہ حد نظاره دامن دل می کشد که جا اینجاست به والی کیفیت تھی.ساری عمر قال اللہ اور قال الرسول پر عمل پیرا رہیں.اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں ہمیشہ کوشاں رہیں.
۱۵۱ دریب ایسی بزرگ و برتر ہستیاں افضال وبرکات الہی کا مورد ہوتی میں آلام و مصائب میں ان کا وجود قلعہ نما ہوتا ہے حصن حصین عافیت کا حصار خُدا تعالیٰ کو ان کا اکرام منظور ہوتا ہے وہ مستجاب الدعوات ہوتی ہیں مخلوق خدا ان کی وجہ سے ابتلا و آفات میں امن و عافیت میں رہتی ہے.ان کی دعاؤں سے ایک عالم فیض یاب ہوتا ہے اور بہت سی بلائیں ٹل جاتی ہیں دنیا کی تقدیریں بدل جاتی ہیں اور آج - ان جیسی مبارک اور فیض رساں ہستیوں میں سے ایک ہمیں ملول و محروں بنا کر بلکتا چھوڑ کر عالم بالا کو سدھار گئیں سے دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے اگر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے شکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھر ہی بے بقا ہے حضرت سیده امنه الحفیظ بیگم صاحبہ کی کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے وہ تو مجسمہ حسن و خوبی تھیں.مرا یا شفقت اور آپ کی شفقت و رافت ہر ایک کے لیے تھی خصوصاً بچوں کے ساتھ آپ کا سلوک انتہائی مشفقانہ تھا آپ سب کی ہمدرد و نگار اور مونس و ہمدم تھیں.خاندان کے کسی بھی فرد کی ذراسی تکلیف پر بے چین ہو جاتیں.جماعت کے ہر فرد کا آپ کو خیال تھا اپنے ذی وقار شوہر کی دل و جان سے خدمت کرنے والی مطیع و فرمانبردار اور اپنے بچوں اور عزیزوں پر جان چھڑکنے والی.شیریں کلام ایسی کہ ان کے دو بول ہی دلوں کے لیے ڈھارس بن جاتے.وہ میں نقب سے مقب تھیں انہوں نے اپنے آپ کو دلیا ثابت کر دکھایا.کیونکہ وہ بلاشبہ اخلاق
۱۵۲ کریمانہ سے متصف - صفات حسنہ سے مزین اوصاف حمیدہ کی امین.انتہائی جاذب نظر پرکشش اور باوقار صورت وسیرت کی مالک تھیں اور ان کے مبارک وجود سے بہت سی برکات وابستہ تھیں ہمارے دل نگار ہیں لبوں پر آہ ہے اور آنکھیں اشکبار ہیں کیونکہ ایک ایسا قیمتی اور یا برکت وجود ہم میں نہیں ہے جو ہمارے ٹوٹے ہوتے دلوں کو ڈھارس بندھانے اور غم و اندوہ میں ہماری اشک شوئی کرنے اور حوصلہ و ہمت دا نے والا تھا جو اپنی نیم شبانہ دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے حضور متنفر مانہ التجاؤں سے ہمارے لیے دین و دنیا کی راحتیں طلب کیا کرتا تھا.وہ جو ہمارے لیے ایک ٹھنڈی میٹھی پرسکون چھاؤں تھا جس کو دیکھ کر دل اطمینان پاتا تھا اور جس کا دل ہر ایک کے لیے دھڑکتا تھا اے ہمارے پیارے خدا اپنے پیارے کی اس لاڈلی کو جو عمر بھر ناز و نعم میں پلنے کے باوجود تیرے آستانہ پر سجدہ ریز رہی اور میں نے ہم سب کے لیے ان گنت دُعائیں کیں جو جماعت کی محسنہ تھیں.اپنی رضا کی جنت عطا فرما اور ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھیو ان کی یاد ہمارے لیے حرز جان ہے اور ہم سب ان کے بغیر افسردہ دل طول و محزون تو ہیں لیکن راضی برضا ہیں.وہ جو اپنی ساری زندگی دوسروں کے لیے بے چین رہیں آج اپنے پیاروں کو چھوڑ کر راہی ملک بقا ہو گئیں.غالب کے الفاظ میں یہ پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ ہے
۱۵۳ اسے رہ نور د عالم بالا چگونه ای ما لے تو در نیم تو ہے ما چگونه ای راے عالم بالا کو جانے والے آپ کسی حال میں ہیں.ہم تو آپ کے بغیر ہم و غم میں ہیں، لیکن آپ ہمارے بغیر کسی حال میں میں ) لیکن وه راه نور دان عالم بالا تو خوش و خرم کامیاب و کامران اللہ تعالی کی رضا کی جنت کی طرف محو خرام ہیں اور اللہ تعالٰی کی مسحورکن ندا ان کے لیے سامعہ نواز ہے کہ فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي انه اداریہ ماہنامہ مصباح ریبوه بابت ماه جنوری ضروری شهداد جو مرتب کتاب ہذاستید سجاد احمد نے تحریر کیا ) نماز جنازه و تدفین سید نا حضرت مسیح موعود علی السلام کی صاحبزادی حضرت اذر الحفیظ گیم صاحبہ کا جسد خاکی ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں جمعرات ہمتی مشیہ بوقت ساڑھے چھے بجے شام بہشتی مقبرہ ربوہ کی اندرونی چار دیواری میں سپرد خاک کر دیا گیا.نماز جنازہ سیدنا حضرت خلیفہ ایسیح الرابع ایده الله تعالی امام جماعت کی ہدایت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفیق حضرت مولوی محمد حسین صاحب نے بیت اقصٰی میں دو بجے شام پڑھائی.تدفین مکمل ہونے پر حضرت مولوی صاحب موصوف ہی نے دعا کرائی.ایک محتاط اندازہ کے
۱۵۴ مطابق نماز جنازہ اور تدفین میں شامل ہونے والے مرد و زن کی تعداد نہیں ہزار سے متجاوز تھی.ان میں اہلِ ربوہ کے علاوہ ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے احمدی احباب و خواتین شامل تھے جو حضرت مسیح موعود علی السلام کی سب سے چھوٹی صاحبزادی اور حضور کی مصلبی اولاد کی آخری نشانی اور ایک بابرکت و مقدس وجود کے جنازہ میں شرکت اور محبت و عقیدت کے اظہار کی غرض سے حاضر ہوئے تھے.آخری دیدار حضرت سیدہ موصوفہ کے انتقال کے دو گھنٹہ بعد امتی عشوہ شام ۵ بجے سیدہ موصوفہ کا جسد خاکی عورتوں کی آخری زیارت کے لیے حضرت سیدہ مرحومہ کی رہائش گاہ بیت الکرام واقع دارالصدر جنوبی کے بڑے کمرہ میں رکھ دیا گیا تھا.حضرت سیدہ مرحومہ کے انتقال کی خبر سارے ربوہ میں پھیل گئی اور تھوڑی ہی دیر بعد مرد و خواتین جوق در جوق سیده مرحومہ کے گھر آنے لگیں.چنانچہ ۵ بجے شام خواتین کی بہت بڑی تعداد نے حضرت سیدہ مرحومہ کا آخری دیدار کیا یہ سلسلہ 4 بجے شام تک جاری رہا اگلے روز صبح 4 بجے پھر آخری دیدار کا سلسلہ شروع ہوا خواتین ایسی قطاروں میں اپنی باری کے انتظار میں کھڑی تھیں وقت کی تنگی اور خواتین کی بھاری تعداد کے پیش نظر خواتین کو ہدایت کی جاتی رہی کہ وہ تیزی سے دیدار کر کے گذرتی چلی جائیں تاکہ سب موجود خواتین دیدار کر سکیں.اس طرح ہزاروں
100 خواتین نے حضرت سیدہ مرحومہ کا آخری دیدار کیا.جنازہ کی بیت اقصی روانگی اگر چہ پہلے یہ پروگرام تھا کہ نماز جنازہ زنانہ جلسہ گاہ کے احاطہ میں ادا کی جائے گی، لیکن رات کو بارش ہو جانے کی وجہ سے نماز جنازہ بیت اقصیٰ میں ادا کئے جانے کا اعلان کر دیا گیا.چنانچہ حضرت مرحومہ کا جسد خاکی متی شام پونے پانچ بجے سفید رنگ کے لکڑی کے تابوت میں جس کے اندر اور باہر جیت کی چادر لگی ہوئی تھی بیست اقصی لے جایا گیا.تابوت فضل عمر ہسپتال کی ایمبولینس میں رکھا ہوا تھا.جسے مکرم عبدالشکور صاحب ڈرائیو کر رہے تھے اور اس میں حضرت سیدہ مرحومہ کے تینوں صاحبزادگان مکرم نواب زادہ عباس احمد خان صاحب - محرم نواب زادہ شاہد احمد خان صاحب اور مکرم نواب زاده مصطفی احمد خان صاحب کے علاوہ محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ایڈیشنل ناظر علی صدر انجمن احمدیه محترم صاحبزاده مرزا غلام احمد صاحب ایڈیشنل ناظر اصلاح دارشاد (مقامی اور صاحبزادہ مرزا مجیب احمد صاحب بھی موجود تھے.جنازہ کے آگے دو مستعد خدام موٹرسائیکلوں پر بطور پائلٹ چل رہے تھے اس کے بعد ایک مجلس غلام الاحمدیہ کی گاڑی اور دو گاڑیاں فلم بنانے والے مودی کیمرہ والوں کی تھیں.ایک فلم مکرم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب بنا رہے تھے اور دوسری فلم مکرم ملک نسیم احمد صاحب - ایک گاڑی حفاظت کی غرض سے ایمبولینس
104 کے پیچھے تھی اور اس کے بعد کم و بیش پچاس گاڑیاں جنازہ کے ساتھ بہت اقصیٰ کی جانب رواں دواں تھیں جن میں افراد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ اہالیان ربوہ اور باہر سے آئے ہوئے متعدد احمدی احباب اور عہدیداران جماعت کی گاڑیاں شامل تھیں.بیت الکرام سے جنازہ روانہ ہوا اور دار الصدر کی درمیانی سڑک سے ہوتا ہوا.فیکٹری ایریا کے ریلوے کراسنگ والی سڑک کو عبور کر کے چین عباس کے سامنے والی سڑک سے گذرتا ہوا بیت اقصیٰ پہنچا اور ٹھیک ۵ بجے نماز جنازہ ادا کی گئی.بیت اقصیٰ کے اندرونی حصہ اور صحن کے علاوہ سالانہ جلسہ گاہ کا ایک حصہ بھی نماز جنازہ ادا کرنے والوں سے پُر تھا.بهشتی مقبرہ روانگی نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد تابوت کو چار پائی پر منتقل کر دیا گیا جس کے ساتھ دونوں طرف لیے بانس موجود تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ احباب کو کندھا دینے کا موقع مل سکے اور ساتھ مضبوط خدام کا ایک حلقہ اس کے ارد گرد موجود تھا.تا کہ ہزار ہا نفوس پر شتمل اثر دہام کو کنٹروں کیا جاسکے.اس حلقہ کے اندر خاندان حضرت مسیح موعود کے افراد - ناظر و و کلام صاحبان حضرت سیدہ مرحومہ کے بعض غیر از جماعت سسرالی رشته دارد و غیره موجود تھے.راستہ بھر میت کو کندھا دینے والے احباب بدلتے رہتے تھے.جنارہ بیت اتعلی سے اقضی روڈ پر ریلوے پھاٹک سے گذرتا ہوا ایوان
۱۵۷ فت محمود کے سامنے والی سڑک پر آیا.اور چوک یاد گار والی سٹرک سے ہوتا ہوا دار نیا کے سامنے سے گذر کر بہت مبارک والی سڑک پر لایا گیا.اور سرگودھا روڈ سے گذر کر بہشتی مقبرہ کے مغربی گیٹ سے داخل ہو کر چار دیواری میں پنچایا گیا.اس سارے راستہ پر بھی دو موٹر سائیکل سوار خدام الاحمدیہ کی گاڑیاں اور ڈیوٹی دینے والے خدام ہمراہ رہے مجموعی طور پر ۳۰۰ کے قریب فلام جنازہ کے انتظامات میں شریک تھے.چار دیواری کے ارد گرد بھی خدام کا ایک حلقہ موجود تھا.اور چار دیواری کے اندر محدود گنجائش کے پیش نظر محدود افراد ہی کو اندر جانے کی اجازت تھی.آخری آرام گاه صدر انجمن احمدیہ نے حضرت سیدہ مرحومہ کے مزارہ کی جگہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نوراللہ مرقدہ کے پہلو میں متعین کی تھی لیکن اس مزار کے پہلو میں مطلوبہ گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے سید نا حضرت خلیفہ ایسیح الرابع ایده اللہ تعالیٰ سے لندن رابطہ قائم کیا گیا اور حضور کے ارشاد کے مطابق چار دیواری میں شرقی سمت توسیع کی گئی اور وہاں تدفین ہوئی.حضرت سیدہ مرحومہ کی نماز جنازہ اور تدفین میں شامل ہونے کے لیے پاکستان کے دور دراز علاقوں سے بھی احمدی مرد و خواتین طویل سفر کرنے آئے.کراچی کوئٹہ پشاور کے علاوہ اندرون سندھ کے دبیات بها و شگر کے دور دراز کے دبیات اور پنجاب کے دیہاتی اور شہری علاقوں
۱۵۸ سے احباب تشریف لاتے تھے.دارالضیافت رنگر خانہ حضرت مسیح موعود کے علاوہ ربوہ کے سارے گیسٹ ہاوسٹر باہر سے آنے والے مہمانوں سے پر تھے بے شمار لوگ کاروں نیوں اور رنگینوں وغیرہ پر بھی آتے.لندن سے امیر جماعت احمدیہ برطانیہ محترم آفتاب احمد صاحب جماعتِ برطانیہ کے نمائندہ کے طور پر آتے ہوتے تھے مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کی طرف سے مکرم مرزا عبد الرشید صاحب مجلس انصارالله یوکے کے نماینده مکرم مجیب اللہ صادق صاحب اور لجنہ اماء الله انگلستان کی نمائندہ محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ بھی تعزیت کے لیے تشریف لائے.ربوہ اور باہر سے آنے والے ہزاروں مرد و خواتین نے بیت الکرام ربوہ جا کر حضرت سیدہ مرحومہ کے صاحبزدگان اور دیگر عزیز و اقارب سے اظہایہ تعزیت کیا.......كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالإِكْرَامِ.د ملخص از ضمیمه ماهنامه انصار الله بابت ماه متی کالا انصار ماه
۱۵۹ وخت کرام حضرت سید امته الحفیظ گیم ماه کی وفات اور ذرائع ابلاغ رمتی شاه بوقت پونے تین بجے سہ پہر حضرت سیدہ کی وفات کے معاً بعد ملک کے امراء اضلاع کو بذریعہ فون اس المناک سانحہ کی اطلاع دے دی گئی جہاں سے مختلف ذرائع سے ملک کے کونے کونے میں یہ خبر پہنچا دی گئی.بیرونی ممالک میں لندن کے مرکز کے ذریعہ ساری دنیا کے ممالک میں آنا فاناً یہ خبر پھیل گئی.علاوه بر ایں قومی اخبارات نے اس خبر کو شائع کیا.ربوہ کے رسائل و جرائد نے تعزیتی نوٹ لکھے بیرون ملک سے شائع ہونے والے مختلف براعظموں کے احمدی اخبارات نے آپ کے سانحہ ارتحال پر اپنے اپنے انداز میں حضرت سیده مرحومہ کو خراج عقیدت و تحسین پیش کیا.دنیا بھر کی احمدی جماعتوں کے افراد جماعت نے ہزاروں خطوط - ٹیلیفونز فیکس اور تاروں کے ذریعہ حضرت سیدہ مرحومہ کی وفات پر سید نا حضرت خلیفة أسبح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ.حضرت سیدہ مرحومہ کے صاحبزادگان - صاحبزادیوں اور دیگر عزیز و اقارب سے اظہار تعزیت وافسوس کیا.ہفت روزہ لاہورہ لاہور میں جناب ثاقب زیر وی نے 4 ارمستی
14° 194ء کے شمارہ میں لکھا: نواب المتہ الحفیظ نگم کی وفات گزشتہ بدھ کو عالمگیر جماعت احمدیہ کے مرکز ربوہ میں دو بجگر پنتالیس ام منٹ پر (بعد دو پر) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی مبشر اولاد جماعت کے موجودہ امام کی پھوپھی اور نواب محمد عبد اللہ خان آف مالیر کوٹلہ کی اہلیہ محترمہ صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے داعی اجل کو لبیک کہا.وفات کے وقت موصوفہ کی عمر ۸۳ برس تھی - إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - نماز جنازہ اگلے دن جمعرات کو) نماز عصر کے بعد بیت الاقصیٰ میں ادا ہوئی جس میں ہزار ہا افراد نے شرکت کی.ایک عبادت گزار اور شب زنده دار خاتون شفقت و مروت کا مجسمہ محبت و رافت کی چلتی پھرتی تصویر جس کا دلدار و فلکسا را اور خوش اطوار وجود دکھی اور مفلوک الحال انسانیت کے لیے اُمید و تسکین کا پیغام تھا جس کا دربے سہاروں اور ضرورت مندوں کے لیے ہر وقت کھلا رہتا تھا اور جس کی اپنے خالق حقیقی کے دین سے وانها نه شیفتگی و واز تنگی ایک ایمان افروز ولائق صد تقلید نمونے کا حکم رکھتی تھی.اللہ ان کی بال بال مغفرت فرماتے اور اپنی قربت خاص سے نوازے آمین موت سے کسے مفر ہے.جو آیا ہے وہ جائے گا.جو بنا ہے وہ ایک روزہ ٹوٹے گا.قلق ہے تو اس امر کا کہ جوں جوں محبت ورافت اور دلداری و مروت کے یہ مجھے نگاہوں سے اوجھل ہوتے جاتے
141 ہیں.فضا تے روحانی سے ایک خاص قسم کی طمانیت بخش خوشبو ماند پڑتی جاتی ہے.ماہنامہ انصار اللہ ربوہ نے اپنی اشاعت مستی سشوار میں تحریر کیا.رہے برکت ہمارے آشیاں میں خوشا قیمت ! کہ عصر حاضر میں الٹی نوشتوں کے مطابق مامور زمانہ کی بعثت ہوئی.وہ پیاری ہستی جس کو پیارے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے " سلام " کا تحفہ بھیجا اور جس کے درو دمسعود پر اہل بصیرت کے دل کی کلی کھل اٹھی اور محکوم کہ یہ سرالاپنے لگی ہے اک زماں کے بعد اب آتی ہے یہ ٹھنڈی ہوا پھر خدا جانے کہ کب آدیں یہ دن اور یہ بہار واقعی باغ احمد میں بہار آتی.گلشن کی رعنائیاں بکھریں اور بھرتی چلی گئیں.فضا میک اٹھی اور مسکتی چلی گئی.ر.بوستان احمد کے بنیادی گل ہائے رعنا کی ایک خاص خوشبو تھی.ایک خاص رنگ تھا.ایک خاص تأثیر و برکت تھی.ان گھوں نے اپنے اپنے رنگ بکھیرے.مہک پھیلائی اور اپنے اپنے نقطہ نفسی آسمان کی طرف اُٹھائے گئے.ایک آخری پھول تھا جس کا نام نامی " دخت کرام تھا اور جو 4 رمتی عنہ کو ایک لمبے عرصہ تک فضاؤں کو معطر کر کے ہزاروں محبت کے مارے سوگواروں کے ہاتھوں رخصت ہوا.
147 حضرت نواب سیده امتها الحفیظ بیگم صاحبہ نوراله مرقد پاکی ذات گرامی آخری نشانی تھی یا برکت اولاد کی کہ جس کے ساتھ براہ راست و عدوں کا خزانہ تھا.آخری ترک تھا اس پیارے امام کا، کہ جس کے شیدائی برکت کے حصول کے لیے ٹوٹے پڑتے تھے.آخری کرن تھی اُس جلیل القدر ہستی کی ، جس کی ایک جھلک پاکر لاکھوں پروانے قربان ہو ہو جاتے تھے.اسے قلب حزیں ! اب اس قسم کی بہار کا دور ختم ہوا.اب یہ واپس نہیں لوٹ سکتی.یہ پیاری بہار انگ انگ میں سما جانے والی بہار، سانسوں میں بس جانے والی بہار، قلوب کو مدہوش کرنے والی بہار.یہ بہار آفریں اب رخصت ہوتی.لیکن اس کی ٹھنڈی ہوا کی پیٹیں اور معطر برکات کی لہریں ابھی زندہ ہیں.اور وہ اسی طرح تاثیر بخش ہیں جیسے پہلے تھیں.ان برکات کو ذخیرہ کرنے کے لیے ظرف کی ضرورت ہے.ان کو سمیٹنے کے لیے وسیع دامن کی ضرورت ہے.اس دُعا کی ضرورت ہے جو زندہ خدا کے آستانے پر ایسے دستک دیگر فرشتے بیقرار ہو کر برکات کے تمام دروازے کھول دیں اور حضرت مصلح موعود کی اس دُعا کو تعبیر ملے پر رہے برکت ہمارے آشیاں میں ماہنامہ تحریک جدید ربوہ نے جون ۹۸۷ہ کے شمارہ میں حضرت سیدہ وخت کرام کی وفات پر یہ تعزیتی نوٹ شائع کیا.
147 HAZRAT SAYYEDA NAWAB AMATUL HAFEEZ BEGUM PASSES AWAY It is announced with great regret that Hazrat Sayyeda Nawab Amatul Hafeez Begum, daughter of the Holy Founder of the Ahmadiyya Jamaat.passed away on the 6th of May.1987 at the age of 83.Her Janaza was led by Hazrat Maulvi Mohammad Hussain, who had the good opportunity of being with the Holy Founder for some time.The Janaza was offered at the Baitul Aqsa: it was attended by a large number of Ahmadis from Rabwah and from all the parts of the country.Hazrat Mirza Tahir Ahmad.Imam of the Jamaat was represented by a member of the Jamaat in London.She was buried within the four walls of the Enclosure at the Bahisnti Maqbara which is mostly reserved for the members of the family of the Holy Founder.Nawab Amatul Hafeez Begum was born on the 25th of June 1904 in accordance with the Good news received by the Holy Founder from God the Almighty This fact has been mentioned by him in his Book Haqiqatul Wahy as the fortieth Sign of God.She was married to Nawab Mohammad Abdullah Khan.The Nikah was performed on the 7th of June 1915 while the Rukhsati (departure to the house of the bridegroom) took place on the 22nd of February 1917.She was a very pious and blessed lady.She leaves behind three sons and six daughters; her husband had passed away in 1961.Our heartfelt.condolences go to the entire family of the Holy Founder and to every member of the Ahmadiyya Jamaat all over the world.We pray to God that He may grant His nearness to her and continue exalting her ranks in the Paradise.Ameen.Tahrik-i-Jadid
۱۶۴ اظہار تعزیت حضرت دخت کرام کی وفات پر دنیا بھر کے احمدیوں نے اس صدمہ عظیمہ کو محسوس کیا اور پاکستان اور بیرونی ممالک کے احمدیوں نے انفرادی کیا بے طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی تعزیت کی احمدی اخبارات و جرائد نے بھی اظہار تعزیت کیا.ان سب کا احاطہ کرتا تو ممکن نہیں.ان میں سے بعض قابل ذکر خطوط اور قرار دادوں وغیرہ کا تذکرہ حسب گنجائش کر دیا جائے گا.اس سلسلہ میں ماہنامہ انصار اللہ ربوہ نے اپنی مئی شوالہ کی اشاعت میں لکھا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صلبی اولاد مبارکہ کی آخری نشانی پیارے آقا کی دخت کرام حضرت اماں جان کی لخت جگر حضرت سید نواب امتہ الحفیظ تیم صاحبه نور الله مرقد با مورخہ 4 منی عششانہ بوقت تین بجے بعد دوپہر اپنے مولائے حقیقی سے جاملیں.انا للہ وانا الیہ راجعون
140 ادارہ ماہنامہ انصار الله اس غیر معمولی غمناک اور اشد ترین المناک سانحہ پر حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت سیدہ نواب انه الحفيظ بیگم صاحبہ کے پسران اور دختران کرام اور دیگر افراد خاندان حضر مسیح موعود الاسلام اور احباب جماعت سے دلی ہمدردی اور گھرسے قلبی رنج وغم کا اظہار کرتا ہے ؟ چند تعزیتی خطوط بنام مکرم میاں عباس احمد خان صاب) - مکرم مولانا بشیر احمد خان صاحب رفیق (سابق امام بیست لندن) بسم اللہ الرحمن الرحیم مکرم محترم حضرت میاں صاحب السلام علیکم ورحمه الله و برکاته حضرت بیگم صاحبہ کی وفات کا اس قدر صدمہ ہوا کہ بیان سے باہر ہے.انا اللہ وانا الیہ راجعون.ان کا وجود جماعت کے لیے تعویذ کی حیثیت رکھتا تھا.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان کے با برکت وجود کی وجہ سے بہت ساری ابتلاؤں اور مصائب سے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو محفوظ رکھا ہوا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اور بابرکت اولاد کی آخری کڑی جاتی رہیں.مجھے حضرت بیگم صاحبہ کی شفقتوں کے مورد ہونے کا موقع اُس وقت ملا.جب آپ انگلستان
144 تشریف لائی تھیں.میں آپ کو سیر کرانے کے لیے روزانہ لے جانے کا شرف حاصل کرتا تھا.ایک دفعہ جب میں انہیں LUD GATE لے گیا.اور نے عرض کیا کہ احادیث میں آیا ہے کہ مسیح اور دقبال کی آخری جنگ باب الله میں ہوگی.اور حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے LUD GATE کو باب اللہ قرار دیا ہے تو آپ نے بے ساختہ فرمایا کہ ہاں میں وہ جنگ لڑی جائے گی پھر فرمایا ، تم نے خود کیا کہ اس جگہ جنگ سے کیا مراد ہے، میں نے عرض کیا مجھے تو معلوم نہیں.تو آپ نے فرمایا کہ وہ دیکھو.عین LUD GATE کے ساتھ والی بلڈنگ پر لکھا ہے.INTERNATIONAL BIBLE THE SOCIETY OF GREAT BRITAIN پھر فرمایا کہ ہماری آخری جنگ عیسائیت سے ہوئی تھی اور بائیل سو سائٹی کا کام عیسائیت کی اشاعت ہے اس لیے اس میں اس طرف اشارہ تھا.حضرت بیگم صاحبہ کو سلیمہ اور میرے تمام بچوں سے بے حد محبت تھی.سلیمہ سے بہت شفقت اور پیار سے ملتیں تھیں.آپ ایک مادر مهربان سے محروم ہو گئے ہیں لیکن ان کی دعائیں آپ کے لیے انشاء اللہ ایک ذخیرہ کا کام دیں گی سلیمہ بھی السلام علیکم عرض کر رہی ہے میرے ساتھ اظہار افسوس میں شریک ہیں.محترمہ بیگم صاحب عزیزان فاروق اور فرخ کو مارا سلام دیں.والسلام خاکسار خادم بشیر احمد رفیق 52,SMEATON RD-LONDON S.W.18
144 مکرم محترم سردار مصباح الدین صاحب سابق مبلغ انگلستان کراچی سے تحریر فرماتے ہیں :.کراچی و رسمی نشسته بسم اللہ الرحمن الرحیم محبتی عزیزی میاں عباس احمد خان سلم اللہ تعالیٰ اسلام علیکم و رحمة الله و بركاته با پیارے جس قضا کے کسی وقت آورد ہونے کا دلوں کو دھٹر کا نگا چلا آرہا تھا وہ قضائے الہی تھی.نڈھنے والی تھی نہ ٹلی اور وارد ہو گئی انا للہ وانا الیہ راجعون عزیزم ! جس دل توڑ صدمہ اور الم جان پر آوارد ہونے پر آپ سے مخاطب ہوں پیارے.اس صدمہ اس غم والم کا اثر آپ کی جان حزیں تک ہی نہیں.اک جہان آپ کا شریک حال ہے.فرشتے شریک حال ہیں.عزیزم میں بتلاؤں کہ شراکت کے لیے مدارج ہوتے ہیں.اسی نسبت سے رنج در است میں شراکت ہوتی ہے.ایک شریک حال الیسا بھی ہوتا ہے.ہو کہ خون کے رشتہ کے دائرہ سے باہر کا ہوتا ہے، لیکن رنج و غم رسیدہ جانتے ہیں کہ وہ بھی صدمہ اور غم والم میں یکساں شریک حال ہے.پیارے خود ہی جانتے ہو کہ آپ کے گھرانے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نسبت غلامی اور روحانی کی بنا.پر شراکت رنج و راحت ہے، لیکن ان لاکھوں میں بعض نفوس کی خوش نصیبی میں یہ سعادت بھی آئی کہ آپ کے گھرانے سے ذاتی تعلق بھی حاصل رہا.اور
14A آپ خود جانتے ہیں.کہ آپ کے ابا جان سے نہ صرف مجھے ہی اپنی ذات میں کسی آن بھی مدھم نہ ہونے والی اُلفت اور محبت تھی بلکہ بحمد للہ انہیں بھی مجھے سے یکساں درجہ کی انس و محبت - رغبت تھی.اس درجہ کہ آپ کے بھی علم اور احساس میں بھی جگہ پا چکی ہوتی تھی.عزیزم ! اس بارے میں ذکر کروں کہ آپ کے ابا جان کی رحلت ہو جانے پر جب میں ان کی قبر پر مٹی دے رہا تھا تو آپ نے مجھ سے کہا.ابا جان کو آپ سے بہت محبت تھی.اور آپ کی امی جان جن کی اس وقت رحلت پر صدمہ رسیدہ ہونے پر آپ سے مخاطب ہوں.میرے علم میں یہ بات آتی رہی کہ کسی کی زبان سے میرا ذکرہ بھی کسی وقت ان کے سامنے ہو جاتا.تو آپ فرماتیں "میرے میاں کے وہ بڑے پیارے اور محبت اور رفیق رہے ہیں.اپنی سب سے چھوٹی صاحبزادی شادی کی عمر کو جب پہنچ گئی تھی.تو مجھے گرامی نام لکھا کہ " آپ کے بھائی کی یہ بی بی میرے پاس امانت ہے دعا کریں کہ میں اس امانت سے سبکدوش ہو جاؤں.اللہ اللہ ! خدا نے انہیں رختِ کرام قرار دیا.ان کے وجود سے ہم پر اللہ تعالٰی کی طرف سے نزول رحمت و برکات کا سلسلہ جاری تھا.آہ.حضرت اقدس علیہ اسلام کے وجود کا ایک لخت ہمارے اندر موجود تھا.آج اسے بھی اللہ تعالی نے بلالیا ہے.اچھا، بلانے والا.خالق ومالک.طوعاً کر یا اس سے موافقت ہی ہمارا شیوہ بنتا ہے.وما توفیقی الا بالله جب کبھی ربوہ آنے پر پسر عزیز عبدالقادر سے بھی ملنا ہوا.تو اس
149 نے آپ کے دل میں مجھ فقیر کی یاد کا اظہار کرنے کی مجھے اطلاع دی اور گو جسماً آپ سے فاصلہ پر رہنا ہی مقدر ہوتا تھا لیکن دل میں ہمیشہ آپ کو اپنے دل اور نظر میں سامنے ہی پائے رکھا ہے.آپ کے لیے دُعا کی توفیق بھی پانی.جلد آرہا ہوں.اچھا خدا حافظ و السلام خاکسار شفیق دعا گو مصباح الدین نوٹ :- آپ کے بنگلہ کی روڈ کا نام ذہن سے اُتر چکا ہے.عزیز میاں مبارک کے خط میں یہ خطہ بھیج رہا ہوں.کہ وہ آپ کو پہنچا دیں.کرد - آپ کو عزیز عبد القادر سے میرا حال معلوم ہو چکا ہے.بس صاحب فراش ہوں دُعا کریں.- محترم مکرم مولوی عبد المنان صاحب شاہد مربی سلسلہ احمدیہ کراچی نے لکھا.ام وای وانا ایام احمدی کراچی ۱۴/۵/۸۷ بخدمت مکرم جناب نواب صاحب - طال عمرکم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکانه عرض ہے کہ سیدہ حضرت نواب الته الحفیظ بیگم صاحبہ نوراله مرقد با کی دانا سے از حد صدمہ ہوا.انا للہ و انا الیہ راجعون ہمارے پیارے آقا بائی جماعت احمدیہ کی پاک و مطهر دخت کرام ساری جماعت احمدیہ کے لیے اللہ تعالٰی کی رحمت برکت کے نازل ہونے کا باعث
140 تھیں سب جماعت احمدیہ کے افراد ان کی دعاؤں سے الہی برکات پاتے تھے.ہماری عاجزانہ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت سیدہ کو جنت الفردوس میں سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک قدموں میں جگہ عطا فرماتے اور اپنی کامل رضا کی جنتوں سے نوازتا رہے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرماے اور سب کا حافظ و ناصر ہو اور سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے اور ان کی دُعائیں جماعت کے حق میں مقبول فرمائے.آمین ثم آمین.براہ کرم دعا کریں کہ اللہ تعالی خاکسار کو مع اہل و عیال مقبول دینی خدمات کی توفیق بخشے اور بچوں کو نیک قسمت کرے اور خادم دیں بنائے آمین فجزاکم اللہ تعالیٰ والسلام عاجز خاکسار عبدالمنان شاہد وزیر نگیم الہیہ مربی سلسلہ کراچی ۴.مکرم شیخ اعجاز احمد صاحب نے کراچی سے لکھا.۲۵ رمتی شد۱۹ محترم نوابزادہ عباس احمد خان صاحب السلام علیکم ورحمه الله و برکاته! محترمہ سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی رحلت کی خبر اخبارات سے معلوم ہو کہ مبشر دخت کرام کے بابرکت وجود سے جماعت کے محروم ہو جانے
141 کا دل رنج ہوا.مزید رنج اپنی محرومی پر ہوا کہ بوجہ پیرانہ سالی اور علالت میں سیدہ مرحومہ کی نماز جنازہ اور تدفین میں شمولیت کی سعادت حاصل نہ کر سکا --- سیدہ مرحومہ کی رحلت جماعت کے لیے تو نا قابل تلافی نقصان ہے ہی لیکن آپ کا تو ذاتی نقصان بھی ہے.میں اس صدقہ عظیم پر آپ سے دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو اور جملہ متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائیں.والسلام اعجاز احمد مکرم چوہدری محمد عبد اللہ صاحب باجوہ ظفر وال سیالکوٹ سے لکھتے ہیں.بخدمت مکرم و محترم جناب حضرت صاحبزاده نواب عباس احمد خانصاب م علیکم السلام علیکم ورحمه الله وبرکاته آپ کی طرف سے اخبار نوائے وقت میں (جس کا ہر احمدی مشکور ہے ) شائع شدہ خیر جو تمام تر غموں الموں دُکھوں کو مزید گھاؤ گہرا لگانے کا موجب ہوئی.وفات حسرت آیات حضرت صاحبزادی نواب امتنا الحفیظ بیگم صاحبہ نوراللہ مرقدہا پڑھی.اسی وقت تیاری کر کے شام ربوہ میں اس وجود اقدس کے جنازہ میں شمولیت کی توفیق پائی.صاجزادہ صاحب مکرم - موت تو ہر فرد کے لیے چاہے جس شان کا ہو مقرر اور مقدر ہے.لیکن اس وجود دا قدس کی وفات حسرت آیات سے بہت
۱۷۲ سے مصائب و آلام کے بادلوں اور جھگڑوں کو اور نیز کرگئی.ہمارے پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ کا غریب الوطنی کی حالت میں ہونا جماعت کو پراگندہ کرنے کے ہر چیلے ہر سطح پر استعمال کرنا اور پوری بے بسی اور بے کسی کا وارد ہونا غرض ایسی حالت ہونا کہ بجز فضل خداوندی کے ان انتہائی دکھ و درد سے پر حالات کو گزارنے کے لیے اور کچھ باقی نہ رہ جانا مشیت ایزدی کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا.سوجس حال میں رکھنے ہم اپنے مولا کی رضا پر راضی ہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولادمیں آخری پاکیزہ نشانی بھی اپنے مولا کے حضور جا حاضر ہوئیں انا للہ وانا الیہ راجعون - بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جان فدا کر حضور پر نور خاندان حضرت مسیح موعود علی السلام اور آپ اور جماعت کے اس عظیم صدمہ میں ہراحمدی برابر کا شریک ہے.دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے قرب میں جگہ دے اور ہر آن آپ کے درجات کو اپنی شان کے مطابق بلند فرماتا رہے اور آپ کی روح اور مرقد پر سدا اپنے انوار و برکات کی بارشیں برساتا رہے آمین یا رب العالمین والسلام خادم سلسلہ عالیہ احمدیہ محمد عبداللہ باجوہ عفی عنہ سیکرٹری مال جماعت احمد یہ ظفر وال ضلع سیالکوٹ ۱۳/۵/۷
۱۷۳ ور مکرم محمد عبد اللہ صاحب نے قادیان سے لکھا:.بخدمت کرم نوابزادہ میاں عباس احمد خان صاحب المکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمه الله و بركاته با بڑے دکھ اور دلی رنج کے ساتھ حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی وفات پر اظہار تعزیت کرتا ہوں.انا بند وانا الیہ راجعون.آنکریم کے توسط سے اپنے بھائیوں اور بہنوں سے بھی اس خاکسار کی طرف سے تعزیت فرمائیں اللہ تعالیٰ آپ سب بھائی بہنوں کو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت مرحومہ کے درجات بلند فرماتے اپنے قرب خاص میں مقام اعلیٰ عطا فرماتے حضرت مسیح موعود علی السلام کی آخری نشانی سے ہم سب ہی محروم ہو گئے ہیں.پنجاڑی کا آخری وجود ہو.اللہ تعالیٰ کو پیارا ہوا.اللہ تعالیٰ اپنی رضا پر راضی رہنے کی توفیق بخشے.اپنے سب بہن بھائیوں کو خاکسار کا سلام و درخواست دعا.و اسلام خاکسار محمد عبدالله از قادیان ۹/۵/۸۷ حکم رانا ناصر احمد صاحب باب الابواب ربوہ سے لکھتے ہیں :.مکرم محترم نواب عباس احمد خان صاحب لاہور السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! حضرت بیگم نواب امتہ الحفیظ ساحیہ کی اچانک وفات سے احباب جانت اور افراد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو صدمہ پہنچا ہے اس کے بیان
۱۷۴ کے لیے میں کوئی الفاظ نہیں پاتا.ہمارے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نشانی تھیں جن کے ذریعہ ہرقسم کی برکات جماعت پر اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے خاندان پر نازل ہو رہی تھیں.ہر احمدی کے دل سے یہ دُعا اُٹھ رہی ہے کہ اللہ تعالٰی حضرت حکیم صاحبہ کے درجات بلند فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ دے.اور تمام احباب جماعت اور حضرت بیگم صاحبہ کی اولاد کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین.آپ کے اس عظیم صدمہ میں خاکسار اور میرا خاندان آپ کے برابر کا شریک ہے اور آپ سب کے لیے دعا گو ہے.حضرت بیگم صاحبہ سے خاکسار کا ایک خاص پیار کا تعلق تھا جب بھی ملاقات کے لیے حاضر ہوا کبھی مشروب کے بغیر جانے نہیں دیتی تھیں اور کوئی نہ کوئی تحفہ دیتی تھیں اور خط و کتابت بھی تھی.خاکسار اب بھی آپ کی دُعاؤں کا محتاج ہے.خاکسا در رانا ناصر احمد باب الابواب - ربوه سپاس تعزیت حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی وفات پر مکرم میاں عباس احمد خان صاحب کے نام آنے والے تعزیتی خطوط کے جواب میں مکرم میاں صاحب نے مندرجہ ذیل خط لکھا :-
۱۷۵ ڈیوس روڈ لاہور بسم الله الرحمن الرحیم مکرمی / مکرمه...السلام علیکم و رحمه الله و برکانه با آپ کا تعزیت نامہ ملا - جزاکم اللہ احسن الجزاء ہماری والدہ ماجدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو باری تعالیٰ کی طرف سے دیتے گئے نشانوں میں سے ایک نشان تھیں.جو اس بات کا حتمی ثبوت ہیں کہ مسیح موعود علیہ اسلام اور آپ کے تمام دعاوی برخی ہیں.اور یہ کہ فیوض خاتم النبیین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم صرف مذہب اسلام ہی میں جاری ہیں.کیا ہی غمناک اور دل گداز یہ منظر ہے کہ ہمارے مسلمان بھائیوں نے لامتناہی سلسلہ نشانات دیکھنے کے باوجود حضرت مسیح موعود کو بھی گالیوں کی بوچھاڑ میں رخصت کیا اور اب تقریباً انٹی سال بعد آپ کی جسمانی اولاد میں سے جو آخری بیٹی تھیں.ان ہی گالیوں کی بوچھاڑ میں اس جہانِ فانی سے چلی گئیں.اور زبان حال سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ نوحہ پڑھتی ہوئی گئیں کہ کر بلا نیست سیر بر آنم : وہ دن بھی اب قریب ہیں.جب میں قوم " بگر یہ یاد گند وقت خوشترم" کی کیفیت کی حامل ہوگی.اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ آپ کے نفوس و اموال میں برکت ڈالے اور آپ کی تمام دعاؤں ، نیک تمناؤں اور مقاصد حسنہ میں آپ کو کامیاب
144 کرے آمین ثم آمین والسلام آپ کی دعاؤں کا محتاج خاکسار عباس احمد خان حضرت سید امته لحفیظ نعیم صاحب ایک بہت ہی با برکت وجود تھیں اور متعد د نشانوں کی مورد سید نا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ مسیح الرابع امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ درمتی عالیہ بمقام بیت الفضل لندن کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :- گذشتہ جمعہ میں نے تقویٰ کے ایک بہت ہی اہم پہلو یعنی صبر کی طرف توجہ دلائی تھی.اسی مضمون کے متعلق آج بھی کچھ مزید باتیں کہوں گا.لیکن اس سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں اور جماعت کو اس سے پہلے یہ علم ہو بھی چکا ہے کہ اس ہفتہ میں اللہ تعالیٰ نے ہم سب کے صبر کا اس رنگ میں بھی امتحان لیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی سب سے چھوٹی بیٹی جو جماعت کے لیے ایک بہت ہی بابرکت وجود تھیں ہم سے جدا ہوگئیں.آپ سے بڑے بھائی صاحبزادہ مرزا مبارک احمد
144 صاحب کے وسال پر حضرت مسیح موعود علی اسلام نے جو کچھ فرمایا وہ آپ کی وفات پر بھی اس رنگ میں پورا ہوتا ہے.آپ نے فرمایا ہے جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک تو تھا وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر حضرت سید ہ انتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بھی بہت پاک خو اور پاکی شکل تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں سے آپ کو اپنا ایک رنگ عطا ہوا تھا جس میں بہت ہی جاذبیت تھی بہت ہی پیار کرنے والی طبیعت تھی عمر کے ہر طبقہ کے لوگوں سے آپ کے حسن سلوک کا دائرہ آپ کی محبت اور رحمت اور شفقت کے نتیجہ میں بہت ہی وسیع تھا.بچپن سے ہم آپ کو چھوٹی پھوپھی جان ہی کہتے رہے چھوٹی پھو بھی جان سے بچوں کو خصوصیت سے بڑا لگاؤ تھا.حضرت بڑی پھوپھی جان اور بچوں کے درمیان ایک رعب کا پردہ حائل رہتا تھا.حضرت بڑی پھوپھی جان کو اللہ تعالیٰ نے ایک غیر معمولی رعب بھی عطا فرمایا تھا.بعض طبیعتوں میں بچوں کے ساتھ ملنے جلنے کا جو b غیر معمولی مادہ پایا جاتا ہے وہ حضرت چھوٹی پھوپھی جان میں خصوصیت کے ساتھ زیادہ تھا.اس لیے بچے طبعاً آپ کے ساتھ بہت جلد مانوس ہو جایا کرتے تھے پھر آپ کو عادت تھی کہ بچوں کو بلا کے ان سے کھیلنا چھوٹی چھوٹی باتیں کرنا اور
14N ان کو چھیڑنا.اس میں ان کی بچیاں بھی شامل ہو جایا کرتی تھیں اس لیے سید نا حضرت فضل عمر کے بچوں کا حضرت پھوپھی جان کے ساتھ بچپن ہی سے غیر معمولی تعلق رہا ہے اور ہمارے باقی چچاؤں کی اولاد کو بھی اسی پہلو سے بہت تعلی تھا.حضرت سیدہ مرحومہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی بار ذکر فرمایا ہے.چنانچہ حضرت مسیح کے بارہ میں جو یہ بحث چل رہی ہے کہ آپ کو بچپن میں مہد اور کسل میں خدا تعالے نے بولنے کی طاقت بخشی اس مضمون میں آپ فرماتے ہیں کہ مہد کا زمانہ جو ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ پہلے چھ مہینے کا ہو " یہ تو دودھ کا زمانہ کہلاتا ہے عہد کا زمانہ تو تین چار سال پر ممتد ہوتا ہے اور اس عمر میں بعض بچے بہت باتیں کرتے ہیں چنانچہ میری بیٹی امتہ الحفیظ بیگم بھی جو کم و بیش اسی عمر کی ہے بہت باتیں کرنے والی ہے اور بڑی ذہین بچتی ہے.المحفوظات جلد نم م ۲۳ ، الحكم ۲۱ مارج معصوماً) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور بھی کئی مرتبہ آپ کا ذکر فرمایا ایک موقع پر فرماتے ہیں :.چالیسواں نشان یہ ہے کہ اس لڑکی کے بعد ایک اور لڑکی کی بشارت دی گئی جس کے الفاظ یہ تھے کہ " چنانچہ وہ الہام الحکم اور البدر اخباروں میں اور شاید ان
149 دونوں میں سے ایک میں شائع کیا گیا اور پھر اس کے بعد لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام امتہ الحفیظ رکھا گیا اور وہ اب تک زندہ ہے ) حقیقة الوحی ص ۲۱۸ ) وخت کرام کے نام کا مطلب ہے کہ کریم بنفس لوگوں کی اولاد ایسے بزرگوں کی اولاد جو اخلاق کریمانہ پر فائز ہوں.مراد یہ ہے کہ جس طرح ہم دوسر محاورے میں کہتے ہیں کہ اس کے خون میں شرافت اور نجابت ہے تو ان معنوں میں کریم لوگوں کی اخلاق والے لوگوں کی بزرگوں کی اولاد سے مراد یہ ہے کہ ایک ایسی بچی جس کے خون میں ہی کریمانہ اخلاق شامل ہونگے.اور جو بھی حضرت سیدہ امرا الحفیظ بیگم صاحبہ کو جانتے تھے یا جو جانتے ہیں وہ خوب گواہی دیں گے کہ آپ کے خون اور مزاج میں کریمیانہ اخلاق شامل تھے اس سے پہلے حسن بچی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر فرمایا ہے اس کا نام امتہ النصیر تھا اور حضور کو امتہ الحفیظ کا یعنی دخت کرام کا جو تحفہ عطا ہوا.وہ دراصل اس پہلی بیکی کی وفات پر صبر کرنے کے نتیجہ میں ایک خاص پھل تھا اور ایک خاص انعام چنانچہ حضور نے اس بچی کا بھی انتالیسویں نشان کے طور پر ذکر فرمایا ہے چونکہ ان دونوں کی ولادت کا ایک روحانی تعلق ہے اس لیے میں اس بچی کے متعلق بھی اور خاص نشان کے متعلق بھی احباب مناعت کو مطلع کرنا چاہتا ہوں.اس بچی کی پیدائش ۲۸ جنوری ساتہ کو چار بجے صبح ہوئی میں کا نام امتد النصیر رکھا اس کی پیدائش سے بہت تھورا عرصہ یعنی قریباً چار گھنٹے
۱۸۰ پیشتر حضرت صاحب کو الہام ہوا فاسق الله اور اس الہام کے نتیجہ میں اور ایک کشف کے نتیجہ میں آپ کے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی آپ اسی وقت اُٹھ کر دیعنی رات کے تقریباً بارہ بجے تھے) مولوی محمد احسن صاحب امرد ہوی کی کوٹھری میں تشریف لے گئے.آپ نے دروازے پر دستک دی.مولوی صاحب نے پوچھا کون ہے.حضرت صاحب نے جواباً فرمایا.غلام احمد - مولوی محمد احسن صاحب نے دروازہ کھولا تو حضور نے فرمایا :- اس وقت مجھے ایک کشفی صورت میں خواب کے ذریعہ سے دکھلایا گیا ہے کہ میرے گھر سے (یعنی حضرت اماں جان کستی ہیں کہ اگر میں فوت ہو جاؤں تو میری تجہیز و تکفین آپ خود اپنے ہاتھ سے کرنا.اس کے بعد مجھے ایک بڑا مندر الہام ہوا فاسق الله " مجھے اس کے یہ معنے معلوم ہوتے ہیں کہ جو بچہ میرے ہاں پیدا ہونے والا ہے وہ زندہ نہ رہے گا اس لیے آپ بھی دعا میں مشغول ہوں اور باقی احباب کو بھی اطلاع دے دیں کہ دعاؤں میں مشغول ہوں.ایدر را تند ۳۷ مورخه ۲۳-۳۰ جنوری شاه ) ہیں ان دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کی زندگی بچا لی اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے لمبا عرصہ زندگی عطا فرمائی اور انکی برکتوں کو ساری جماعت نے شاہدہ کیا.جہاں تک اس بچی کے متعلق یہ خبر تھی کہ وہ
(A) فوت ہو جائے گی یہ بچی ۲۸ جنوری سہ میں پیدا ہوئی اور اسی سال ۳ دسمبر ہ کو یہ بچی انتقال کرگئی اور حیرت انگیز طور پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس کشنی خبر اور الہام کو پورا فرمایا.دعا کے نتیجہ میں ایک خطرے کو ٹال دیا اور دوسر حصے کو پورا فرما دیا اسی صبر کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جو جزا حضرت صاحب اور حضرت اماں جان کو عطا فرمائی وہ حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ تھیں.چنانچہ آپ کے متعلق دخت کرام کا انعام تسکی اور محبت کے اظہار کے علاوہ یہ بتاتا ہے کہ آپ کے کرمیانہ اخلاق کا لوگ مشاہدہ کریں گے اور اس کے گواہ ٹھہریں گے کیونکہ ذخت کرام کا یہ مطلب تو نہیں کہ کرہ ہمانہ اخلاق والوں کی بچی تھی یا نہیں پس اس میں ایک لمبی عمر کی پیشگوئی شامل تھی مطلب یہ تھا.کہ ایک ایسی بیچی جو اپنے اخلاق سے ثابت کرے گی.کہ وہ کریمانہ اخلاق والوں کی بیٹی ہے اور یہ ایک عام محاورہ ہے جو کسی اچھے بزرگ کی اولاد کے ساتھ وابستہ ہے یعنی ایسے بزرگ کی اولاد سے اچھے اخلاق کی توقع کی جاتی ہے اور جب اس سے اچھے اخلاق ظاہر ہوتے ہیں تو سب کہنے والے داد تحسین دیتے ہوئے اس شخص کے بزرگوں اور آبا و اجداد کو بھی یاد رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہاں تم نے حق ادا کر دیا.آخر کن لوگوں کی اولاد تھے.اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ دخت کرام میں حضرت پھوپھی جان کی لمبی عمر کی پیش گوئی تھی.کیونکہ پہلی بیٹی چھوٹی عمر میں فوت ہو گئی تھی.اس کے جواب میں دخت کرام کے اندر رہی یہ بتا دیا گیا کہ یہ اخلاق کریمانہ رکھنے والی
بیٹی ہو گی.لوگ اس کو دیکھیں گے اور یہ کہیں گے کہ ہاں صاحب اخلاق کی بچی ہے.اس پہلو سے امر واقعہ یہ ہے کہ یہ الہام بڑی شان کے ساتھ حضرت پھوپھی جان کے حق میں پورا ہوا اور عورتیں کیا اور بچے کیا اور بزرگان کیا جن کو کسی رنگ میں بھی حضرت پھوپھی جان کے ساتھ کسی نوع کا معاملہ پیش آیا.سب گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے فضل سے بہت ہی کریمانہ اخلاق کی مالک تھیں.متی شاہ میں آپ کے متعلق الہام ہوا.آپ کی پیدائش ۲۵ جون شاہ کو ہوئی.اور آپ کا وصال و رمتی شاہ کو تقریباً ۳ بجے ہوا.پونے تین بجے آپ کی حالت اچانک بگڑی اور جب ڈاکٹر پہنچے ہیں تو اس وقت تک معاملہ ہاتھ سے نکل چکا تھا.چنانچہ فون پر مجھے بہت جلد اس بارہ میں اطلاع ملی.آپ نے نزرع کی کوئی لیبی تکلیف نہیں اُٹھائی یعنی ساڑھے تین بجے تک آپ کا وصال ہو چکا تھا.میرے لیے بطور خاص یہ ایک بہت ہی صبر آزما خبر تھی.اس لیے کہ حضرت پھو بھی جان کی یہ خواہش تھی اور میں جانتا ہوں کہ میری خواہش کے جواب میں تھی.یعنی جو مجھے ان سے محبت تھی تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا فرمائی کہ وہ مجھے دوبارہ دیکھیں اور گلے لگائیں.چنانچہ اپنے خطوں میں جو انہوں نے لکھوائے ان میں اس خواہش کا ذکر بھی کیا کہ میں دوبارہ تمہیں دیکھوں اور خود گلے لگا سکوں یہ عجیب بات ہے کہ بعض اوقات خدا تعالیٰ ان خواہشوں کو خاص رنگ میں پورا فرما دیتا ہے دنیا والوں کو اس
بات کا پوری طرح احساس نہیں ہو سکتا لیکن اللہ تعالیٰ کے رنگ نرالے ہوتے میں بعض دفعہ روحانی طور پر ہر خواہشات کو اس طرح حیرت انگیز طریقے سے پورا فرماتا ہے کہ جس کو تجربہ ہو وہی جانتے ہیں کہ یہ کس دنیا کی باتیں ہیں.چند روز پہلے میں نے ایک عجیب خواب دیکھا.خواب میں دیکھا کہ حفتر کو زینب چچی جان حضرت چھوٹے چچا جان کی بیگم صاحبہ مرحومہ ہو صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی والدہ صاحبہ تھیں وہ تشریف لاتی ہیں.ان کو میں نے پہلے تو کبھی خواب میں نہ دیکھا تھا.شاید ایک آدھ مرتبہ دیکھا ہو.ہر حال دیکھیا کہ وہ آتی ہیں اور قد بھی بڑا ہے جس حالت میں جسم تھا.اس کے مقابل پر زیادہ پُر شوکت نظر آتی ہیں آپ آکے مجھے گلے لگتی ہیں، لیکن گلے لگ کر مجھے ہٹ جاتی ہیں اور بغیر الفاظ کے مجھ تک ان کا مضمون پہنچتا ہے کہ میں خود نہیں ملنے آئی.بلکہ ملانے آئی ہوں.اس کے معا بعد ایک خیمہ سے حضرت پھوپھی جان نکلتی ہیں گویا کہ وہ ان کو ملانے کی خاطر تشریف لائی تھیں خواب میں ایسا منظر ہے کہ نہ کوئی بات ہوتی ہے نہ کوئی اور نظارہ ہے دائیں باتیں صرف خیرہ سے آپ کا نکلنا ہے اور بہت ہی خوش لباس ہیں.اچھی صحت ہے آپ جب گلے لگتی ہیں تو اس قدر محبت اور پیار سے گلے لگتی ہیں اور اتنی دیر یک گلے لگائے رکھتی ہیں کہ اس خواب میں حقیقت کا اظہار ہونے لگتا ہے بیہاں تک کہ جب میری آنکھ کھلی تو لذت سے میرا سینہ بھرا ہوا تھا.اور بالکل یوں محسوس ہو رہا تھا.جیسے ابھی مل سے گئی ہیں، لیکن اس میں ایک غم کے پہلو کی طرف توجہ گئی کہ زینب نام میں ایک غم کا پہلو پایا جاتا ہے ، لیکن اس وقت یہ خیال
۱۸۴ نہیں آیا کہ یہ الوداعی معانقہ ہے.میرا دل اس طرف گیا کہ شاید جماعت پر کوئی اور ابتلا آنے والا ہے ایک غم کی خبر ہوگی اس سے فکر پیدا ہوگئی لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کو حفاظت میں رکھے گا.چنانچہ ایک ملک کے امیر صاحب کو میں نے اسی تعبیر کے ساتھ خط میں یہ خواب لکھی کہ اس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ آپ کے ملک میں یہ واقعہ ہونیوالا ہے، لیکن اطمینان رکھیں کہ اللہ تعالٰی اپنے فضل کے ساتھ حفاظت فرمائے گا، لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ واقعہ یہ اسی خواہش کا جواب تھا جو میرے دل میں بھی بہت شدید تھی اور حضرت پھوپھی جان کے دل میں بھی تھی کہ اللہ تعالٰی ہمیں ان کے وصال سے پہلے ملا دے اور معانقہ ہو جائے اور یہ معانقہ اتنا حقیقی تھا کہ جیسے کسی جاگے ہوتے انسان کومل رہا ہو اور اس کا اتنا گہرا اثر اور لذت تھی کہ خواب کے اندر یہ احساس نہ ہوا کہ خواب تھی اور گزرگئی بلکہ یوں معلوم ہوا جیسے حقیقی چیز کوئی واقعہ کے بعد پیچھے رہ جاتی ؟ ہے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں ہماری ملاقات کا انتظام فرما دیا اور یہ الوداعی معانقہ تھا جو مجھے دکھایا گیا.حضرت پھوپھی جان کی شادی بہت بچپن میں یعنی گیارہ سال کی عمر میں حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب جو نواب مالیر کوٹلہ یعنی مالیر کوٹلہ کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت مسیح موعود کے صحابی تھے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے بڑے بیٹے تھے کے ساتھ حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کی خلافت کے ابتدائی دور میں ہوئی آپ کا نکاح گیارہ
۱۸۵ : سال کی عمر میں پڑھا دیا گیا تھا، لیکن رخصتانہ تیرہ سال کی عمر میں ہوا.آپ کے تین بیٹے بقید حیات ہیں چھ بیٹیاں ہیں اور چھے ہی خُدا کے فضل سے زندہ ہیں.ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے آپ پر دنیا اور آخرت کے لحاظ سے فضل فرمایا.نیکیوں اور خوشیوں سے معمور بہت ہی اچھی کامیاب لمبی زندگی عطا فرمائی آپ کی عمر وصال کے وقت تراسی سال اور کچھ مہینے بنتی ہے یا کم و بیش تر اسی سال بنتی ہے.بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ بعض وجودوں کے ساتھ برکتیں وابستہ ہوتی ہیں جو ان وجودوں کے چلے جانے کے ساتھ ہی چلی جاتی ہیں اور اس خیال سے طبیعتوں میں فکر پیدا ہوتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض وجودوں کے ساتھ بعض برکتیں ایسی ہوتی ہیں جو ان کے جانے کے بعد اُس طرح دکھائی نہیں دیتیں اور ان کا خلا محسوس ہوتا ہے لیکن یہ کہہ دینا کہ ہر وجود گویا کہ اپنی ساری برکتیں ساتھ لے کے چلا جاتا ہے یہ بالکل غلط خیال ہے.سب سے زیادہ برکتوں والا وجود حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود تھا آپ جو برکتیں لے کر آتے.آپؐ کے وصال کے بعد یوں محسوس ہوا جیسے ساتھ ہی ان برکتوں کا ایک بہت ساحقہ جدا ہو گیا ہے ایک شدید بحران کی سی کیفیت پیدا ہوتی.اللہ تعالیٰ نے ایک صدیق کو کھڑا کر کے بہت حد تک اس بحران سے جماعت کو نکال لیا.لیکن تمام مور خین جانتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں جومسلمانوں کی حالت تھی جو اسلام کی حالت تھی وصال کے بعد ایک نمایاں فرق نظر
JAY آتا ہے زندگی اور زندگی کے بعد کے حالات کو یکساں قرار نہیں دیا جاسکتا اس سے اور اس قسم کی دوسری شالوں سے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ صاحب برکت وجود جب جاتے ہیں تو گویا اپنی برکتیں پچھے چھوڑ جاتے ہیں البتہ ان برکتوں سے استفادہ کرنے والوں کی کیفیت میں کمی آجاتی ہے ورنہ وہ برکتیں تو اپنی ذات میں زندہ رہتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکتوں کو کون کہ سکتا ہے کہ ختم ہو گئیں وہ تو اس دور تک جاری ہیں اور قیامت تک جاری رہیں گی.بیچ کے دور میں اگر اس سے استفادہ کم ہو گیا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالی نے آپ کی روحانی اولاد کے طور پر کھڑا فرما دیا.وہ ساری برکتیں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات میں دوبارہ جاری دکھائی گئیں.ایک برکت بھی ایسی نہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کے علاوہ ہو.چنانچہ آپ کو الساماً بتايا گيا حُلُّ بَرَكَة مِنْ مُحَمد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کہ ساری برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکتیں ہیں حضرت مسیح موعود السلام نے اس کا مختلف رنگ میں اقرارہ فرمایا آپ ایک جگہ فرماتے ہیں سے این چشمه روان که بخلق خدا دیم یک قطرہ زبحر کمال محمد است * پس اگر کوئی وجود اپنے ساتھ برکتیں ہی لے جاتے تو ایسا وجود تو برکتوں کے معامہ میں بہت ہی کنجوس ہو گا.وقتی طور پر برکتیں دے کر
IAZ ساتھ لے جانے والا وجود حقیقی طور پر نافع الناس نہیں کہلا سکتا امر واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکتی تا قیامت جاری ہیں....حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جو صحابہ آپ کی صحبت اور برکت سے غیر معمولی استفادہ کیا کرتے تھے وہ آپ کے وصال کے بعد بعض پہلوؤں لحاظ سے وقتی طور پر کمزور دکھائی دینے لگے استفادہ کی وہ طاقت اگر کسی میں موجود ہو خواہ وہ سینکڑوں سال کے بعد بھی پیدا ہوا توہ لوگ جو زندہ برکتیں رکھتے ہیں وہ پھر بھی ان برکتوں کا فیض دوسروں تک پہنچا سکتے اور حاصل کرنے والے فیض حاصل کر سکتے ہیں......امر واقعہ یہ ہے کہ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکتیں نصرف یہ کہ جاری تھیں جاری رہیں بلکہ قیامت تک جاری رہیں گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا یہی مفہوم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر بہت روشنی ڈالی اور مختلف رنگ میں توجہ دلائی کہ ہمارا ایک زندہ خدا ہے اور ایک زندہ رسول ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم برکتوں کے معاملہ میں جیسے پہلے زندہ رسول تھے آج بھی ویسے ہی زندہ رسول میں اگر زندگی کے خواہاں لوگ اس زندگی بخش وجود سے تعلق جوڑیں تو اب بھی ویسی ہی زندگی پا سکتے ہیں اور قیامت تک یہ زندگی اسی طرح جاری رہے گی.اس لیے کسی با برکت وجود کے چلے جانے سے طبیعت میں جو مایوسی پیدا ہوتی ہے کہ گویا برکتیں اُٹھ گئیں اس کا ایک بہت حد تک برکتیں لینے والوں سے تعلق ہے.....برکت کے مفہوم پر اگر آپ غور کریں تو در اصل برکت نیکی اخلاق کریمانہ اور قرب الی
|^^ کا نام ہے...پس سب سے پہلا اور سب سے اہم فریضہ اولاد کا یہ ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کی برکتوں کو جاری رکھیں وہ لوگ جو اپنے بزرگوں کی برکتوں کا نوحہ کرنے لگ جاتے ہیں کہ وہ بزرگوں کے ساتھ ہی اٹھ گئیں وہ اپنے ہاتھ سے ان برکتوں کو ہلاک کرنے والے ہوتے ہیں امر واقعہ یہ ہے کہ کسی بزرگ کے وصال کے بعد خدا تعالیٰ کبھی اس کی برکتوں کو ختم نہیں فرماتا.یہ لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ اس کی برکتوں سے قطع تعلقی کرلیں.یا اس تعلق کو جاری رکھیں اور برکتوں کو اپنے اندر ہمیشہ کے لیے زندہ رکھیں.....اس لیے اس مضمون کو خوب سمجھ لینا چاہتے کہ صاحب برکت وجودوں کی برکتوں کو زندہ رکھنا ان لوگوں کا کام ہے جو ان برکتوں کو ایک دفعہ اس کی زندگی میں حاصل کر چکے ہیں یہ ان کے اختیار میں ہے کہ چاہیں تو ان برکتوں کو ختم کردیں اور انہیں پیچھے ماضی میں چھوڑ جائیں.اسی لیے جب بھی کوئی با برکت وجود گذرتا ہے تو جماعت احمدیہ کو یہ عہد کرنا چاہتے کہ ہم اس کی برکتوں سے بفضلہ تعالیٰ مضبوطی کیسا تھے مجھے ر ہیں گئے اور کسی برکت کو بھی اس وجود کے جانے کے نتیجہ میں اپنے ہاتھ سے ضائع نہیں کریں گے.اگر جماعت یہ عزم کرتی ہے تو کوئی بھی آئے اور چلا جائے اس کے نتیجہ میں جماعت کو کوئی دائمی نقصان نہیں پہنچ سکتا ہر آنے والا اپنی خاص برکتیں چھوڑ کر جایا کرے گا اور ہمیشہ کے لیے وہ برکتیں جماعت کی امانت بنتی چلی جائیں گی اور جماعت ہمیشہ ہی اپنے پہلے حال کی نسبت بہتر حال میں منتقل ہوتی چلی جائے گی حضرت سیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے
۱۸۹ دور میں حضرت مسیح موعود کی چھوڑی ہوئی برکتیں ختم تو نہیں ہوگئی تھیں.دہ جاری رہیں بلکہ نشو نما پاتی رہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی اپنی شخصیت کی جو خصوصی برکتیں تھیں وہ ان میں شامل ہوتی چلی گئیں حضرت خلیفہ المسیح الاول کے وصال کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے دور میں بھی یہی ہوا.چنانچہ ایک موقع پر حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت احمدیہ پر ایک عرب شاعر کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ہے اذا سيد منَا خَلَا قَام سيد سَيِّدٌ قولُ بِمَا قَالَ الكِرَامَ فَعُولُ کہ جب ہم میں سے کوئی بزرگ سردار گذرتا ہے تو اپنی بزرگیاں ساتھ نہیں لے جایا کرتا اور قوم کو اپنی سیادتوں سے محروم نہیں کر دیا جایا کرتا قائد سید ایک اور سید ایک اور سردار اس کی جگہ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے.قوول لما قال الكرام صاحب کرام (جیسا کہ الہام میں ذکر ہے ) اور صاحب کرامت لوگوں کی باتوں کو وہ اسی طرح کہتا ہے جس طرح پہلے کرام لوگ کہا کرتے تھے اور فَعُول اور ان باتوں پر اسی طرح عمل کر کے دکھاتا ہے جس طرح اس سے پہلے کرام لوگ ان باتوں پر نیک عمل کر کے دکھایا کرتے تھے تو یہ ہے برکت کی حقیقت.اور جماعت کو مضمون خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیئے کہ اگر وہ برکتوں سے چھٹنے کی عادت ڈالے اور ایک صاحب برکت وجود کے بعد اس وجود کی جدائی کا
19.غم تو کرے لیکن برکتوں پر نوحہ نہ کرے تو یہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے زندگی کی ہر علامت میں ترقی کرتی چلی جائے گی اور ہر لحاظ سے اس کی برکتیں نشوو نما پاتی رہیں گی.اور بڑھتی رہیں گی ہر آنے والا وجود ضرور نئی برکتیں ہے کر آئے گا.اور ہر جانے والا وجود نئی برکتیں پیچھے چھوڑ کر جایا کرے گا.اور جماعت کو برکتوں کے لحاظ سے کبھی نوحہ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی.پس حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی جدائی اگر چہ بہت ہی شاق ہے اور جذباتی لحاظ سے ایک بڑی آزمائش ہے لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ ایک صاحب برکت وجود تھا جو چلا گیا اب ہم یہ برکتیں کہاں سے ڈھونڈیں گے ، تو یہ کہنے والا جھوٹا ہے خدا تعالیٰ وہ برکتیں جماعت کو ورثہ کے طور پر عطا فرماتا چلا جاتا ہے ہاں اگر در نہ پانے والے اس ورثے کو ضائع کر دیں ان برکتوں سے منہ موڑ لیں ان نیکیوں کو الوداع کہہ دیں تو پھر لازماً مرنے والا اپنی نیکیوں کے ساتھ پیچھے رہنے والوں کو الوداع کہ دیا کرتا ہے اور خود ہی جدا نہیں ہوتا بلکہ اس کی برکتیں بھی جدا ہو جایا کرتی ہیں.خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کا ہمیشہ صاحب برکت وجودوں سے وفا کا ایسا گہرا تعلق پیدا فرماتے کہ افراد جماعت ان سے ہی نہیں ان کی برکتوں سے بھی چھٹ جائیں.......میں احباب جماعت کو خصوصیت کے ساتھ تلقین کرتا ہوں کہ وہ صبر کے اس مضمون کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیں اس کو اپنے پلے باندھ لیں کہ اچھی باتوں کو پکڑ لینا ان پر قائم رہنا.
191 ان کوکسی حالت میں نہ چھوڑنا خواہ کیسی ہی بڑی آزمائش ہوئیکیوں سے وفا کرنا سیسی دراصل نیکیوں سے وفا کرنے کی دوسری صورت ہے وہ لوگ جو نیکیوں سے وفا نہیں کرتے وہ نیکیوں کے بھی بے وفا ہوتے ہیں.اور آپ وفادار ہیں تو ان کے جانے کے بعد اپنی وفا کو اس طرح ثابت کریں کہ انکی نیکیوں سے چھٹ جائیں اور کسی قیمت پر ان سے جدا نہ ہوں حضرت اماں جان نے یہی بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد آپ کی اولاد کو ایک بہت ہی سادہ لیکن بہت ہی پیارے فقرے میں سمجھاتی آپ نے اپنی اولاد کو کٹھا کیا اور فرمایا دیکھو تم بظاہر یہ دیکھو گے کہ اس گھر میں کچھ بھی نہیں کوئی مال دولت نہیں کچھ دنیا کی جائیدادیں نہیں ہیں.کچھ آرام کے سامان نہیں ہیں تمہیں یوں محسوس ہو گا کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے اور اپنی پیاری اولاد کو خالی ہاتھ چھوڑ گئے اور اپنے گھر میں پیچھے کچھ بھی باقی نہ رکھا لیکن ایسا سمجھنا غلط ہوگا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے پیچھے اللہ کو ہمارے لیے چھوڑ گئے ہیں اور اس سے بہتر اور کوئی چیز نہیں پیس صاحب برکت وجود سب سے بڑی برکت یعنی الله کو پیچھے چھوڑ جایا کرتے ہیں اور کبھی بھی ان کی برکتیں بے وفائی نہیں کہ تھیں ہاں لوگ ہیں جو برکتوں سے بے وفائی کیا کرتے ہیں.میں اللہ تعالیٰ جماعت کو بھی توفیق عطا فرماتے اور حضرت سیدہ مرحومہ کی اولاد کو خصوصیت کے ساتھ یہ توفیق عطا فرماتے کہ گو آپ تو جدا ہوگئیں لیکن آپ کی اولاد اور جماعت آپ کی برکتوں سے بے وفائی نہ کرے تاکہ ہمیشہ ہمیش کے
۱۹۲ لیے بے برکتیں ہمارے اندر زندہ اور پائندہ رہیں.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا.ابھی نماز جمعہ کے بعد حضرت پھوپھی جان کی نماز جنازہ غائب ہوگی آپ کے ذکر کے سلسلہ میں میں یہ بات بھی بتانا چاہتا تھا کہ حضرت پھوپھا جان یعنی حضرت نواب محمد عبد الله خان صاحب کو خدا تعالیٰ نے ایک بہت ہی پیار کرنے والی شخصیت عطا فرمائی تھی.آپ بہت ہی مہمان نواز اور بہت ہی خلیق انسان تھے.اور اس لحاظ سے یہ جوڑا بہت ہی مناسب تھا ان کی طبیعت میں سادگی تھی البتہ سادگی کے ساتھ حضرت پھوپھی جان کی بعض خاص ایسی خوبیاں تھیں جن تک ان کی رسائی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود ایک انتہائی اعلیٰ ایک مثالی نمونے کا جوڑا تھا.جن خوبیوں کا ئیں نے ذکر کیا اس میں مثلاً ادب اور شعری ذوق بھی ہے.حضرت پھوپھا جان کو یہ شعری ذوق ماہی نہیں تھا.اور اگر بعض دفعہ شعر پڑھتے بھی تھے تو صحیح وزن کے ساتھ نہیں پڑھ سکتے تھے اس کے مقابل پر حضرت پھو بھی جان کو نہایت ہی لطیف شعری ذوق عطا ہوا تھا.خود بہت ہی صاحب کمال شاعرہ تھیں لیکن اپنے کلام کو لوگوں سے چھپاتی تھیں.اکثر چند سطور لکھیں اور ایک طرف پھینک دیں اور پھر وہ کلام نظر سے غائب ہو گیا.چونکہ مجھے بچپن سے ہی شعر کا ذوق رہا ہے اس لیے حضرت پھو بھی جان کے ساتھ میرا ایک خاص تعلق اس وجہ سے بھی تھا.میری ان تک رسائی تھی اور وہ بعض رفعہ بڑے پیار کے ساتھ مجھے اپنا کلام سنا بھی دیا
۱۹۳ کرتی تھیں ابھی کچھ عرصہ پہلے جب میں ملاقات کے لیے گیا تو ایک بہت ہی پرانی نظم جو حضرت پھوپھی جان نے مجھے قادیان کے زمانے میں سنائی تھی اس کے ایک دو شعر سُنانے کو کسے تو ان کے چہرے پر عجیب مسکراہٹ پیدا ہوئی کہ تم اب تک وہ باتیں یاد رکھتے ہو.حضرت پھوپھا جان کے ساتھ اگر چہ اس لحاظ سے طبیعتوں کا جوڑ طبعی نہیں تھا، لیکن اس کے باجود آپس میں ایسی محبت اور ایسا غیر معمولی تعلق تھا اور ایسی وفا تھی جو نہ لحاظ سے مثالی تھی.اس کا میں خصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر کریم ہوں کہ بعض لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ جی طبیعتوں کا جوڑ نہیں ہے جو صاحب کرام لوگ ہوں.وہ طبیعتوں کا جوڑ نہ بھی ہو تو وہ اچھی باتیں نکال کر ان کی قدر کر کے ان سے جوڑ پیدا کر لیا کرتے ہیں اور جو صاحب کرام نہ ہوں ان کو بے جوڑ باتیں زیادہ دکھائی دیتی ہیں اور جہاں جوڑ ہو سکتا ہے انہیں وہ نظر انداز کر دیا کرتے ہیں اس لیے خصوصیت سے میں خطبہ میں اس کا ذکر کرنا چاہتا تھا.کہ آپ کی زندگی اس لحاظ سے بھی نمونہ تھی.آپ کا کرام کی اولاد ہونا یعنی ان لوگوں کی اولاد ہونا میں کو خدا تعالیٰ نے غیر معمولی کریمانہ اخلاق بخشے ہوں اس بات سے بھی ثابت تھا کہ آپ کے اندر یہ کر لیا نہ صفت موجود تھی کہ اگر کوئی طبیعت کا اختلاف بھی ہے تو اسے نظر اندازہ کر کے جو خو بیاں اور نیکیاں ہیں ان سے تعلق جوڑ لیں.چنانچہ آپ کی ساری زندگی کے تعلقات میں یہ بات ہمیشہ غالب رہی کہ خوبیوں پر نظر رکھ کر ان سے آپ تعلق جوڑا کرتی
۱۹۴ تھیں.جہاں تک حضرت پھوپھا جان کا تعلق ہے ان کے اندر خدا تعالیٰ نے بڑی خوبیاں رکھی تھیں خصوصیت کے ساتھ ان کی مہمان نوازی ضرب اش تھی.پھر عبادت سے ان کا تعلق پنج وقتہ نماز اور باجماعت نماز کا شوق و ذوق ایسا تھا کہ بہت کم لوگوں میں ایسا دیکھنے میں آتا ہے اس لیے آپ بھی کرام لوگوں کی اولاد تھے اگرچہ الہاما یہ ذکر موجود نہیں لیکن ان کے اندر بھی بڑی خوبیاں تھیں ان دونوں کی اولاد کے لیے خاص طور پر دکھا کرنی چاہیئے کہ خصوصی خوبیاں جو حضرت پھوپھا جان کی تھیں یا حضرت پھو بھی جان کی تھیں وہ باہم مل کر ان کی اولاد میں اور بھی بڑھ جائیں نہ یہ کہ ان کے اندر کمی محسوس ہو اسی رنگ میں قومیں ترقی کیا کرتی ہیں والدین کی اچھی چیزیں اگر وہ اپنا نے لگ جائیں اور کمزوریوں سے صرف نظر کریں تو اس طرح قو میں ہر لحاظ سے آگے بڑھتی چلی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ جماعت کو اس رنگ میں ہمیشہ اپنے آباؤ اجداد کی خوبیوں کو زندہ رکھنے بلکہ انہیں باہم جمع کرنے اور بڑھانے کی توفیق عطا فرماتا رہے.حضرت پھوپھی جان کے ساتھ میرا ایک اور تعلق یہ بھی تھا کہ میری والدہ کو ان سے بہت پیار تھا.بچپن سے آنکھ کھلتے ہی جب سے ہوش آتی ہے ہم نے اپنی والدہ کو پھوپھی جان کے لیے غیر معمولی محبت کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے پایا اور پھوپھی جان کو بھی جواباً آپ سے سے بہت تعلق تھا.اس لیے حضرت پھو بھی جان میرے لیے تو ایک طرح والدہ ہی تھیں جو فوت ہو گئیں.مگر ایسے واقعات دنیا میں ہوتے رہتے میں صاحب حوصلہ لوگوں کو انہیں حوصلے کے ساتھ برداشت کرنا چاہیتے اور
۱۹۵ خدا تعالی سے صبر مانگنا چاہیئے نمبر مانگنے کے نتیجہ میں اللہ تعالی صبر عطا فرما دیا کرتا ہے پس جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ صبر پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے.رماہنامہ مصبات جنوری فروری شده ) 11 علمی ذوق حضرت خلیفہ مسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: عورتوں کو اپنے اندر علمی ذوق بھی پیدا کرنے چاہئیں جو اس کا لطف ہے ڈرامے دیکھنے فضول کہانیاں سننے اور اس قسم کی چیزوں میں وقت ضائع کرنے میں نہیں آسکتا.ہم نے اپنے گھرمیں دیکھا ہے کہ حضرت چھوٹی پھوپھی جان (حضرت سیدہ نواب المتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ) اور حضرت بڑی پھوپھی جان کی دنیا کے لحاظ سے بہت معمولی تعلیم تھی، لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں پرورش کا ایک فیض بھی تھا.کہ علم سے بڑی دلچسپی تھی اور ظاہری تعلیم نہ ہونے کے باوجود ایسی، پیشین دماغ تھیں ایسا وسیع مطالعہ تھا کہ اکثر مجھے یاد ہے جب بھی گئے ہیں ان کے ہاتھوں میں کتا بیں ہی دیکھیں بات کرنے گئے ہیں تو کتاب دہری کر کے رکھ دی نا کہ جب باتیں ختم ہوں تو پھر کتاب اٹھائیں اور اس کے نتیجہ میں ان کی زبان
194 میں چلا تھی ان کو ادب کا ایسا پیارا ذوق تھا کہ حضرت بڑی پھوپھی جان حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی تنظمیں آپ پڑھ کر دیکھیں آپ حیران ہونگی کہ اس دور کے بڑے بڑے شاعر بھی فصاحت و بلاغت میں آپ کا مقابلہ نہیں کرتے.ذہین بھی روشن دل بھی روشن اور سکینت بھی.ہرا نبلاء میں بھی ایک سکینت تھی کہ جو کبھی زندگی کا ساتھ نہیں چھوڑتی تھی جو اس زندگی میں مزا ہے وہ مزا ہر وقت متحرک رہنے بے چین رہنے میں کہاں نصیب ہو سکتا ہے؟ خطاب حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفہ مسیح الرابع بر موقعه جلسہ سالانہ کینیڈا و جرمنی حوالہ حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشره صفحه ۱۵۰
194 حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی شفقت کا دائرہ بہت وسیع تھا سید نا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفة المسیح الرابع ایده الله تعالی بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ فرموده ۱۵ رمتی شاه بمقام بیت الفضل لندن سے چند اقتباسات :- قوموں کی زندگی میں وہ دور بہت ہی اہم ہوتا ہے جب ایک نسل دوسری نسل سے جدا ہو رہی ہوتی ہے اسے ہم دو نسلوں کا جوڑ یا سنگھم کا زمانہ کہ سکتے ہیں یہ بھدائی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے نتیجہ میں یک لخت واقع نہیں ہوتی بلکہ تدریجی لمبا سلسلہ ہے جو کافی مدت تک درانہ رہتا ہے لیکن بالآخر اسے آخری دموں تک پہنچنا ہوتا ہے صحابہ کی نسل سے تابعین کی نسل کی جدائی کا یہ دور بھی ایک لمبا تدریجی عمل ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے لمحہ سے شروع ہوا.اور تقریبا نوے برس ہو گئے ابھی تک جاری ہے آج بھی ہم میں صحابہ تو موجود " ہیں لیکن بہت شانه ------ حضرت سیدہ امتہ الحفیظ صاحبہ.بطور رفیقہ بھی ایک برکت رکھتی تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد کی حیثیت سے زمین کے متعلق
۱۹۸ الما نا پہلے خبر دی گئی تھی بھی ایک خاص اہمیت رکھتی تھیں.مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں تو ہمات پیدا کرنے والے یا تو ہمات میں بنے والے لوگ اس قسم کی افواہیں نہ پھیلانی شروع کر دیں کہ گویا یہ جماعت کے لیے ایک بد شگون ہے وہ بزرگ جو دنیا سے اُٹھ رہے ہیں ان کی برکتیں ان کے ساتھ چلی جائیں گی.اور ہم بے سمارا رہ جائیں گے.اس خطرے کی پیش بندی کے لیے میں نے مضمون کا ایک پہلو غیر معمولی زور کے ساتھ بیان کیا اور آپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ برکتوں کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کریں ان کی حقیقت سے آشنا ہوں پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ حقیقی برکتیں اخلاق حسنہ میں میں حقیقی پرکشش نیکیوں میں میں حقیقی برکتیں تعلق باللہ میں میں اس میں کوئی شک نہیں کہ نیکی اخلاق حسنہ اور تعلق باللہ کے مضمون میں بہت نمایاں شان اختیار کرنے والا کوئی بزرگ ہم سے جدا ہو رہا ہو تو اس کی جدائی کا احساس تو ضرور رہے گا اس کا خلا تو ضرور محسوس ہو گا مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ گویا یہ برکتیں جو ایک ابدی نوعیت کی برکتیں ہیں یہ ہم سے جدا ہو جائیں گی.یہ نتیجہ درست نہیں اور اگر خلامہ زیادہ محسوس ہو تو پھر یہ فکر کی ضرورت ہے کہ ہمارا قصور ہے یہ خلاصہ کیوں محسوس ہوتا ہے یا خلاص کیوں پیدا ہوا جو ہم نے محسوس
199 کیا......پس فی الحقیقت جو خلاء کا احساس ہے وہ اپنی جگہ ایک الگ ایک آزاد حقیقت ہے ، لیکن خلاصہ کے مضمون کو سمجھنے کے بعد ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ جتنا بڑا خلا پیدا ہوتا ہے اس خلاصہ میں ہماری کمزوریوں کا بھی بہت بڑا دخل ہے اگر ہم برکتوں سے محبت کرنے والے ہوں اور حقیقتاً ان کی اہمیت کو سمجھنے والے ہوں تو ان برکتوں کو ہمیں اپنی ذات میں جاری کرنا چاہتے تھا.یہی وجہ ہے کہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو ایک ایسے نور کے طور پر قرآن کریم نے پیش فرمایا جو خدا کے نور کی مثال ہے یہ نور اپنی پاکیزگی میں ایک حیرت انگیز استثنائی شان رکھتا ہے اپنی جلا میں اس کی کوئی دوسری مثال دکھائی نہیں دیتی......وہ کسی قسم کے تعصبات یا نسلی رجحانات رکھنے والا نور نہیں ہے مشرق کے لیے بھی ہے مغرب کے لیے بھی ہے.....یہ نوکر پھیلنے والا نور تھا.یہ ایسی شمع تھی جو دوسری شمع کو روشن کر سکتی تھی چنانچہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اور بہت سے سینوں نے اپنے اندر اس نوکر کو مستعار لیا اور پھر اپنی شمعیں روشن کر لیں اور پھر جگہ جگہ مومنین کے سینہ میں اس نور کو چھکتا ہوا اور اردگرد کے ماحول کو روشن کرتا ہوا پایا گیا.یہ دو مضمون تھا جس کو میں جماعت کے
٢٠٠ سامنے نمایاں طور پر لانا چاہتا تھا کہ نور سے نور لینا اور نور بننا خلا کو محسوس کرنا لیکن دوسروں کے لیے ایسا نمونہ بن جاتا کہ وہ خلا محسوس نہ کریں اور ایک نور کو لے کر دوسروں تک پہنچانا اس کی طرف توجہ کریں اور بجائے اس کے کہ کھوتے ہوئے کی طرف اپنی ساری توجہ مبذول کریں جو حاصل ہو سکتا ہے اس کی طرف توجہ مبذول کریں.....بعض وجودوں کو آنجھیں تو سا کرتی ہیں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی ہی شان تھی باوجود اس کے کہ آپ کو اسوہ قرار دیا گیا.باوجود اس کے کہ یہ یقین دہانی کروائی گئی کہ یہ نور باقی رہنے والا نور ہے اس کے ساتھ ساری روشنی نہیں چلی جائے گی تم جانتے ہو یہ نور تمہارے گھروں میں چپک رہا ہے تمہارے سینوں میں چمک رہا ہے اس یقین دہانی کے باوجود اسوہ قرار دینے کے باوجود جب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جدا ہوئے تو آنکھیں ویران ہو گئیں ایسے ایسے دردناک مناظر دیکھنے میں آتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے که ساری دنیا صحابہ پر اندھیر ہوگئی.حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے انتہائی درد کی آواز بلند کی بے ساختہ ان کے سینے سے ایک ایسی چیخ نکلی جو اپنی ذات میں ایک دائمی چینخ بن گئی ہے
٢٠١ كنت السواد لناظري نعمى عليك الناظر من شاء بعدك فليمت فعليك كنت احاذر یہ صحابہ کے دل کی وہ کیفیت تھی جسے حضرت حسان بن ثابت کی زبان نے بیان کر دیا کہ اسے جدا ہونے والے میرے محمد میرے پیارے تو وہ نور تھا جس سے میں دیکھا کرتا تھا تو میری آنکھوں کی پہیلی تھا ہاں آج تو جدا ہوا ہے تو میں آنکھوں کے نور سے محروم ہو گیا ہوں مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا.من شاء بعدك فليست اب جو چاہے تیرے بعد مرتا پھرے فعليك كُنت احاذر مجھے تو صرف تیرا غم تھا کہ تو نہ ہاتھ سے جاتا رہے وہ صحابہ بھی برکتوں کے مفہوم کو سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم برکتوں کو اپنے تک محدود رکھنے کے لیے نہیں آئے تھے بلکہ کل عالم میں پھیلانے کے لیے آتے تھے ایسا نور لاتے تھے جو مشرق اور مغرب میں چکنے والا ہے جو بادشاہوں کے محلوں اور فقیروں کی کٹیاؤں میں چکنے والا تھا.جو کوئی تفریق نہیں کرنے والا تھا.اس کے باجود جہاں تک ذاتی شان کا تعلق ہے اس کے جُدا ہونے سے لازماً اندھیرا دکھائی دینا چاہیئے تھا کیونکہ مقابل پر جو ٹور تھے ان کی حیثیت آزادرانہ طور پر اتنی نہیں تھی کہ ایک جانے والے
٢٠٢ نور کی کمی کو کوئی ایک دم پورا کر سکے.ستارے سورج کے غروب ہونے کے وقت فوراً تو روشنی نہیں دکھایا کرتے یعنی شام کے دھندلکے اور جھٹپٹے کا وقت کچھ دیر باقی رہتا ہے اور طبیعتوں میں اُداسی پیدا کر دیتا ہے.شام کی اُداسی کا فلسفہ دراصل یہی ہے روشنی غائب ہو چکی ہوتی ہے سورج جا چکا ہوتا ہے اور ستارے ابھی اپنی روشنی دینا شروع نہیں کرتے اس لیے کہ گتے ہوئے سورج کی روشنی میں بھی وہ ماند دکھائی دیتے ہیں.وہ روشنی ابھی باقی رہتی ہے یاد باقی ر مہتی ہے اسی طرح حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا احساس تو نمایاں کر دیا لیکن ستاروں کو ابھی یہ توفیق نہیں بخشی تھی کہ وہ فوراً مطلع پر ابھر کے اپنے آپ کو دکھانا شروع کریں اور اپنی روشنی کو پھیلانا شروع کریں اس لیے یہ جوڑ یا سنگھم کا زمانہ بڑے گہرے غم اور فکر کا زمانہ تھا اور حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا محسوس ہوتا ایک طبعی امر تھا.اسی طرح ہر بزرگ کی جدائی درجہ بدرجہ محسوس تو ہوتی ہے اور خلا.بھی پیدا ہوتے ہیں.....اور ایک شدت کے ساتھ خلا کا احساس ہوتا ہے، لیکن جب آپ تجزیہ کریں تو اس کے علاوہ اور بھی بہت سے پہلو ہیں جو اس عمل میں کار فرما دکھائی
دیتے ہیں اور محرکات بھی ہیں جو اپنا اپنا پارٹ پہلے کرتے ہیں اپنا حصہ ادا کر کے وہ جدا ہو جاتے ہیں شخصیتوں پر غور کریں تو ہر شخصیت میں ہر خوبی کو اپنے اندر سمانے کی خاصیت بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے بعض لوگ ایک پہلو کے لحاظ سے حسن اختیار کر جاتے ہیں بعض دوسرے پہلو کے لحاظ سے حسن اختیار کر جاتے ہیں بعضوں میں ایک برائی شامل رہتی ہے جن کے ساتھ بعضوں میں دوسری برائی باقی رہتی ہے اسی لیے ایک کہنے والے نے کہا ہے کہ ہے گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیزہ کانٹوں سے بھی نباہ کتنے جا رہا ہوں میں جو خوبیوں سے محبت کرنے والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بعض خوبیوں کے ساتھ بعض برائیاں بھی اٹھی آئیں گی.گلدستے سے پیار ہے تو کانٹوں سے بھی نباہ کرنا ہی پڑے گا تو ایسے وجود جو سراسر فیض ہوں اور ساری خوبیوں کے شبع بن جائیں سارے انوار کا مبسطہ ہو جائیں.سارے حسن کا گلدستہ بن جائیں ایسے وجود استثنائی شان رکھنے والے وجود ہوتے ہیں.عام طور پر ہمیں دنیا میں ملی جلی کیفیات کے لوگ نظر آتے ہیں ان میں کمزور بھی ہیں اور
۲۰۴ طاقتور بھی ہیں زیادہ حسین بھی اور کر حسین بھی پھر ہر ایک کی صفت ایک الگ حیثیت رکھتی ہے کوئی کسی پہلو سے چکتا ہے کوئی کسی دوسرے پہلو سے چمکتا ہے.اس لحاظ سے جب ایک شخص مرجاتا ہے ہم سے جدا ہو جاتا ہے تو ہم بلاشبہ محسوس کرتے ہیں کہ بعض پہلوؤں سے وہ ہمیں ضرور یاد آئے گا اور لوگ چاہے کیسے بھی ہوں اس کے باوجود ہمیں بعض پہلوؤں سے اس کا خلا محسوس ہو گا..........حضرت صاحبزادی سیده امتہ الحفیظ بیگم صاحبه کے متعلق جو خطوط موصول ہو رہے ہیں.عورتوں کی طرف سے بھی اور مردوں کی طرف سے بھی ان سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی شفقت کا دائرہ بہت ہی وسیع تھا.مدت تک نسل ان شفقتوں کو یاد کریگی.اگر خلا نہ بھی پیدا ہو تب بھی ایسی شفقتیں ضرور یاد رہتی ہیں صرف خلا کی وجہ سے نہیں ویسے ایک اور مضمون بھی ہے جو اس میں اثر دکھاتا ہے وہ یہ کہ کسی کے احسان کے نتیجہ میں اس سے پیار پیدا ہو جاتا ہے اس کی محبت دل میں پیدا ہو جاتی ہے ویسا اگر کوئی اور ہو بھی تو ایک وفادار شخص ایک محسن کو بھلا تو نہیں دیا کرتا کہ اس کی بجائے اور محسن آگیا ہے محبت کا
۲۰۵ مضمون ایک جدا مضمون ہے اس شخص کی برکت اس شخص کی برکت کے طور پر پیاری ہو جاتی ہے.ایسی برکت باہر سے ملتی بھی ہو تب بھی اس جُدا ہونے والے کی جدائی کا احساس ہمیشہ دل میں کھٹکتا رہے گا کسی شاعر نے کہا ہے.ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور عالم میں تجھ سے لاکھ سمی تو مگر کہاں تم جیسے ہونگے مگر ہمیں تم سے جو تعلق پیدا ہو چکا ہے نہیں تمہاری جوادا الگ دکھائی دیتی ہے اس سے انکار نہیں کہ عقلاً واقعہ تم جیسے سینکڑوں ہزاروں اور ہونگے غیر جانبدار آنکھ دیکھے اور گی تو ہو سکتا ہے تم سے بہتر بھی قرار دے دے کسی کو مگر ہمیں تمہاری عادت پڑ گئی ہے ہمیں تم سے پیار ہو گیا ہے.پس ایک محسن اس لیے بھی خلا چھوڑ جاتا ہے کہ جو برکتیں انسان اس سے حاصل کرتا ہے اور اس کے احسان کا مورد بنتا ہے اس کے احسان کے نتیجہ میں اس کی چدائی تکلیف دیتی ہے اس کے علاوہ بعض اور قسم کی خصوصی برکتیں بھی ہوتی ہیں جن میں سے ایک بہت ہی اہم برکت دعا کی برکت ہے یہ بھی ایسی چیز نہیں جسے کوئی جدا ہونے والا اپنے ساتھ لے جائے کیونکہ مذہب میں HONOPLY کا کوئی مضمون آپ کو دکھائی نہیں دیتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں
مقبول ہوتی تھیں آپ نے ان کے بارہ میں کوئی راز نہیں رکھا اور نہ خدا نے کوئی راز رکھا یہ دعائیں کیوں مقبول ہوتی تھیں.قرآن کریم نے وہ سارے نسخے سب کے لیے روشن کر دیتے.جن کو بعض دنیا دار لوگ پیٹنٹ کروا لیا کرتے ہیں اور بعض چھوٹے درجہ کے بزرگ ان کو خاص نسخوں کے طور پر سینہ بسینہ محفوظ کر کے آگے اپنے خاص مریدوں تک راز دارانہ رنگ میں پہنچاتے ہیں کہ فلاں وظیفہ یوں کیا جائے فلاں وظیفہ یوں کیا جائے ، لیکن وہ عظیم الشان وجود جو رحمہ العالمین بن کے آیا تھا اس نے دنیا سے کوئی بات راز میں نہیں لکھی.سارے عالم پر سب نسخے ظاہر کر دیتے.قرآن کریم نے بھی ظاہر کئے اور آپ کے اسوۃ حسنہ نے بھی ظاہر کر دیتے.اس لیے وہ برکتیں نصرت عام ہو ئیں بلکہ لافانی ہوگئیں انہیں لافانی بن جانا چاہیئے تھا، لیکن اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دھاتیں تھیں دوسرے اس تک نہیں پہنچ سکے اور نہ آیندہ پہنچ سکتے ہیں.کیسے ممکن ہے کہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ کم کی جدائی کے بعد اچانک آپ کی دُعاؤں کا فقدان ان معنوں میں محسوس نہ ہوا ہو کہ ہر ضرورت مند جس وقت ضرورت پیش آتی ہے پہنچ جاتا ہے کہ جی اس بات کی دُعا کریں اس
۲۰۷ بات کی دعا کریں.اس بات کی دعا کریں کبھی نماز کے وقت پہنچ رہے ہیں کبھی نماز کے بعد اُٹھ کر یہ عرض کر دیا.یا رسول اللہ اس چیز کی ضرورت پیش آگئی ہے دعا کریں دیں ہاتھ اٹھائے دعا کر دی اور بعض دفعہ ایسے حیرت انگیز طور پر وہ دعا قبول ہوتی تھی کہ دیکھنے والے حیران رہ جایا کرتے تھے....غرض ایسے ایسے عجیب نظارے جن آنکھوں نے دیکھے ہوں کیسے ممکن ہے کہ ایسی بابرکت ہستی کی جدائی کے بعد وہ صرف اس بات پر ہی اطمینان پکڑ جائیں کہ وہ برکتیں جاری رہنے والی برکتیں ہیں.ڈھائی برکتیں آپ نے سکھائیں جس طرح بچے کو پیار سے ماں سکھاتی ہے اس سے بھی زیادہ پیارا اور توجہ سے آپ نے تربیت کی اور بڑے دُعا گو پیچھے چھوڑے لیکن وہ جو خود تھے وہ تو پیدا نہ ہو سکا.اس لیے وہ خلا ضرور محسوس ہوا اور دیر تک محسوس ہوتا رہا.لیکن اس کے باوجود یہ کہنا بھی نا جائز ہے کہ آپ کی دعاؤں کی ساری برکتیں اُٹھ گئیں.آج بھی اُمت محمدیہ پر آپ کی دعاؤں کی برکتیں ہوس رہی ہیں.دیکھنے والے جانتے ہیں اور پہچانتے ہیں کہ ہزار خطروں کے ایسے لمحے آئے جن سے امت محمدیہ بیچ کر گذر گئی اور ہلاک ہونے سے بچائی گئی.جو خالصتاً حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی جاری برکات کے
۲۰۸ نتیجہ میں تھا.پس مایوسی کی پھر بھی کوئی وجہ نہیں اور وہ دُعا کو پیدا ہوئے جن کا زمانہ کے لحاظ سے تیرہ سو سال کا فرق تھا، لیکن حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں ہی کی برکتوں نے ایسے دعا گو پیدا کر دیتے جنہوں نے پرانی دُعاوں کی یادیں زندہ کر دیں.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے زمانہ میں کپور تھلہ کے دو رفقاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جب جُدا ہونے لگے تو ان میں سے ایک نے منشی اروڈے خان صاحب نے ) اپنے خاص پیار کے اندازہ میں بے تکلفی کے انداز میں یہ درخواست کی کہ بہت گرمی ہوگئی ہے ہم نے واپس جاتا ہے اور موسم بڑا سخت ہے حضور دعا کریں کہ ایسی بارش برسے کہ اوپر سے بھی بارش ہو اور نیچے سے بھی بارش.بارش ہی بارش ہو جاتے.(اب یہ محاورہ ہے اوپر سے بھی بارش نیچے سے بھی بارش منشی ظفر احمد صاحب بڑے ذہین اور فطین انسان تھے انہوں نے مسکرا کر عرض کی حضور میرے لیے اُوپر کی بارش کی دعا کریں نیچے کی بارش کی نہ کریں وہ بتاتے ہیں کہ جب ہم روانہ ہوتے اور قادیان سے بالہ تک کا سفر ابھی آدھا نے نہیں کیا تھا.کہ اس قدر کالی گھٹا اُٹھی ہے اور اس زور سے بری ہے کہ ہم حیران
٢٠٩ رہ گئے.بارش کے کوئی آثار نہیں تھے، لیکن اتنا مینہ برسا کہ جل تھل ہو گیا دڈالہ کے پاس یا اس سے کچھ آگے ایک پل آیا کرتا تھا جس کی وجہ سے شرک میں کو بان کی طرح اونچا ایک بند سا بن گیا تھا جس سے ٹھو کر لگتی تھی.جب اس کو ہان پر تانگہ پہنچا تو اتنی زور سے جھٹکا لگا کہ منشی ارود سے خان صاحب اُچھل کر کیچڑ میں جا گرے.ان کے اوپر بھی بارش تھی اور نیچے بھی بارش تھی اور منشی ظفر احمد صاب کو اللہ تعالیٰ نے بچالیا ان کو صرف اوپر کی بارش ملی نیچے کی بارش نہیں ملی وہ خدا جو غیر معمولی شان کے ساتھ دُعاؤں کی قبولیت کے نشان دکھایا کرتا تھا.محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعاؤں کی برکت سے ایسی دعائیں کرنے والے پیدا ہو گئے کہ خدا نے دوبارہ دیے ہی نشان دکھانے شروع کر دیتے اس لیے دعاؤں کی برکتوں سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیتے.میں اس مایوسی کے خلاف ہوں میں نے پہلے بھی آپ کو نصیحت کی تھی اور اب بھی نصیحت کرتا ہوں کہ ی ایسی مایوسی کا شکار نہ ہوں آپ دعاگو نہیں آپکو دعاؤں کی برکتیں ملیں گی اور آپ خود دعا گو بن جائیں گے، لیکن ایک دعا گو بزرگ کو اس کی رحمتوں اور شفقتوں اس کے احسان کے نتیجہ میں یاد رکھنا اور اس کی کمی محسوس کرنا یہ ایک
۲۱۰ الگ مضمون ہے اس سے دنا کرنا اور خود حس سے دُعائیں لیتے رہے اس کے لیے دعائیں کرنا یہ بھی ایک الگ مضمون ہے جو پہلے مضمون کے منافی نہیں اس مضمون کو سمجھ کر اس کو اپنے طور پر یاد رکھیں اور اس پر بھی عمل کریں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے جلدی بعد جو دردناک نظمیں کہیں ان میں سے ایک نظم کے چند شعر میں آپ کو سناتا ہوں اس وقت آپ کے دل کی جو کیفیت تھی وہ ان اشعار سے مترشح ہوتی ہے.وہ نکات معرفت بتلائے کون جام وصل دلبر یا پلوائے کون ڈھونڈتی ہے جلوۂ جاناں کو آنکھ چاند سا چہرہ ہمیں دکھلاتے کون کون دے دل کو تسلی ہر گھڑی اب آڑے وقتوں میں آڑے آئے کون کون میرے واسطے زاری کرے درگز رتی میں میرا جائے کون کسی کی تقریروں سے اب دل شاد ہو اپنی تحریروں سے اب پھڑ کانے کون
جو درد کی یہ آواز بند کر رہا تھا بعد میں وہ خود سب باتوں میں وہی کچھ ہو گیا رہی کچھ بن گیا معرفت کے نکات بتلانے لگا.وہ خود وہ ہو گیا یعنی جام وصل دسر با پہلوانے لگاوہ خود وہ ہوگیا کہ بعد میں جس کے جلوۂ جاناں کو ترستی آنکھوں نے ڈھونڈا اور وہ اس کو نہ پاسکیں.وہ آڑے وقتوں میں آڑے آنے والا ہو گیا.پس برکتوں کے جانے سے اس کے خلا کا احساس بھی ایک زندہ حقیقت ہے.پس اگر آپ مضمون کو اس طرح سمجھیں تو آپ کے تصورات میں توازن کا کوئی بگاڑ پیدا نہیں ہو گا." دو احادیث حضرت عمر بن خطاب راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللّہ علیہ وسلم نے فرمایا: ال اخبركم بِخَيَارِ امرائكم و شرارهم خيارهم الذين تحتوهم ويحبونكم وتدعون لهم ويدعون لكم.وشرار امرائكم الذين تبغضونهم ويبغضونكم وتلعنونهم ويلعنونكم.ر ترمذی ابواب الفتن) اسے عمر بن خطاب کیا میں تمہیں تمہارے بہترین اور
٢١٢ بدترین امراء کے بارہ میں نہ بتلاؤں تمہارے بہترین امیر وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں.تم ان کے لیے دُعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے دعا کرتے ہیں اور بد ترین وہ ہیں جنہیں تم نا پسند کرتے ہو اور وہ تمہیں ناپسند کریں اور جن پر تم لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں.ور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ :.اذا احب الله عبداً نا دی جبریل ان الله يحبّ فُلاناً فاحبه فيحته جبريل فنادى جبريل في اهل السماء ان الله يحب فلانا فأحيره فيحيه اهل السماء تقر يوضع له القبول فى اهل الارض - ر بخاری کتاب الادب باب المقة من الله ) جب اللہ کسی بڑے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل سے کہتا ہے کہ اللہ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے تو بھی اس سے محبت کر اس پر جبریل امیں اس سے محبت کرنے لگتا ہے.پھر جبرائیل ساکنان فلک میں اعلان کرتا ہے کہ للہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے میں اسے اہل سمار تم بھی اس سے محبت کر دیں آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں.اسکے نتیجہ میں اللہ تعالی اہل زمین میں بھی اسے قبولیت عامہ کا شرف بخشتا ہے اور مہر ایک اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے.
ایک مکتوب حضرت سیدہ مرحومہ کے دو شعر آپ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی عزیز فوز تمیم صاحبہ نے مجھے ایک خط میں لکھا :- بسم الله الرحمن الرحیم مکرمی محترمی سجاد صاحب السلام علیکم ! آپ کا خط ملا.بھائی جان عباس نے ذکر کیا تھا کہ آپ امی کی سوانح لکھ رہے ہیں.خدا تعالیٰ آپ کو احسن طور پر یہ کام کرنے کی توفیق دے اور اس راہ میں جو بھی پریشانیاں ہیں ان سے بچائے.سعدیہ کے بعد تو میرا یہ حال ہے کہ دماغ نے گویا کام کرنا چھوڑ دیا ہے.مجھے اپنی اس حالت پر دیا ندامت بھی ہے اور پریشانی بھی.صبر کے جس مقام پر آپ مجھے کھڑا سمجھتے ہیں وہ مجھ میں نہیں.بہر حال میں ہر طرح سے کوشش کروں گی جب بھی میرے ذہن نے کام کیا.میں امی کے متعلق تاثرات جو لکھنے سے رہ گئے تھے آپ تک پہنچاتی رہوں گی.امی کا کلام میرے پاس تو نہیں ہے کیونکہ اتھی میں بہت چھوٹی تھی جب امی کو آباد کی بیماری کی وجہ سے اتنا مصروف رہنا پڑا کہ شعر و شاعری کی ہوش ہی نہ رہی.ابا کی وفات کے بعد انہوں نے اپنی.
۲۱۴ ایک ڈائری مجھے دی تاکہ سفر یورپ کے واقعات اس میں لکھتی رہوں، اس ڈائری میں دو اشعار تھے جن کے بارے میں کبھی تصدیق نہ کر سکی کہ وہ اتی ہی کے تھے.شرم مانع رہی.لیکن میرا اغلب خیال یہی ہے کہ وہ امی کے اپنے شعر تھے.نیچے لکھے دیتی ہوں.حروف کے اِدھر اُدھر ہونے کی غلطی ہو سکتی ہے.میری جُدائی گوارا ہوئی تمہیں کیونکر تمہیں یہ ذکر بھی تھا ناگوار یاد کرو کہاں ہے ؟ کدھر ہے ؟ قرار دل کا میرے بنے تھے تم مرے دل کا قرار یاد کرد مجھ سے جہاں تک ہو سکا آپ سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہوں مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.والسلام فقط فوزیه میم حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا ایک خطاب مرسله ، محترمہ امتالهادی صاحبہ قیادت ۳ کراچی جولائی شاہ کو نور اسپتال کراچی میں حضرت سیدہ امتہ الحفیظ دیگیم صاحبہ کی آمد پر ایک استقبالیہ دیا گیا.جس جگہ تقریب منعقد ہورہی تھی.یہ ہاں محترمہ ڈاکٹر نہ بیدہ طاہر صاحبہ نے تعمیر کروا کے جماعت احمدیہ کے لیے
۲۱۵ وقف کیا ہے اور آج اس کی افتتاحی تقریب بھی تھی.حضرت سیدہ بیگم صاحبہ سے درخواست کی گئی کہ وہ ممبرات سے خطاب فرمائیں اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے کچھ واقعات سنائیں جس پر آپ نے فرمایا کہ میں اس وقت صرف چار سال کی تھی مجھے کچھ یاد نہیں ہے.لیکن آپ نے اپنے ہاتھ سے یہ پیغام لکھ کر دیا جوخاکسارہ نے پڑھ کر سنایا :- السلام علیکم ! میں اپنی سب بہنوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنھوں نے میری خاطر بار بار تکلیف اُٹھا کر مجھے بلایا.جماعت کراچی نے جس محبت اور اخلاص کا اظہار کیا ہے میں اس کے لیے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے اور کچھ نہیں کہتی البتہ حسب توفیق سب بہنوں اور بھائیوں کے لیے دُعا کرتی ہوں اور بفضل تعالٰی دُعا کا موقعہ بھی ملتا رہتا ہے.میں بھی اپنی بہنوں سے یہ درخواست کروں گی کہ وہ بھی میرے لیے یہ خاص دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جس مرتبہ سے نوازا ہے میں اس کی اہل بھی ثابت ہوں میں اپنے کو اس قابل نہیں پاتی کہ میں حضرت مسیح موعود سے وابستہ ہوں.مگر یہ شرف ہے جو اللہ تعالیٰ نے بے مانگے مجھے بخشا ہے خدا کرے میں خود کو اس قابل بھی بنا سکوں.میں کمر پر اپنی بہنوں کا
۲۱۶ شکریہ اس ہمدردی پر ادا کرتی ہوں جو انہوں نے میرے داماد عزیزم شمیم احمد کی بیماری میں کی سب نے میرے فکر اور غم کے ایام میں میرا ساتھ دیا.دُعائیں کیں عیادت کو آئیں اب بھی میری بہنیں اپنی دعاؤں میں میری بچی کو یاد رکھیں.اللہ تعالٰی اس کے شوہر کو صحت کامل عطا فرمائے اور آئندہ ہر قسم کی آفات سے محفوظ و مامون رکھے.اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہوں اته الحفيظ بگیم تقریب کے اختتام پر دُعا کے بعد آپ نے سب ممبرات سے مصافحہ کیا گفت گو فرمائی اور بعض سے معانقہ بھی کیا ؟ = گلشن احمد کا حسین پھول میری پیاری بین حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ر حضرت سیدہ اتم متین مریم صدیقہ صاحبہ حرم حضرت خلیفہ اسیح الثانی صدر لجنہ امامه الله مرکز یہ کے تاثرات ) اس سال جماعت احمدیہ کو اور بالخصوص مستورات کو جو الناک صدمہ پہنچا وہ حضرت سیدہ اللہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا وصال ہے جو اچانک 4 رمتی ملا
۲۱۷ کو ہوا.....حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی ساری اولاد آپ کی صداقت کا عظیم الشان نشان تھی اور ہر ایک کے متعلق جو آپ کو خبر دی گئی وہ بڑی شان و شوکت کے ساتھ پوری ہوئی جب حضرت مسیح موعود کا وصال ہوا.اس وقت آپ کے سبھی بچے چھوٹے تھے.حضرت فضل عمر 19 سال کے اور حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ صرف چار سال کی.کون دھوئی سے اپنی اولاد کے متعلق کر سکتا ہے کہ میری اول دانسی ہو گی سوائے ان کے جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بشارت دی گئی ہو.چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ آپ کی ساری اولاد کے متعلق وہ تمام پیشگوئیاں جو آپ نے کی تھیں نہایت شان و شوکت سے پوری ہوئیں.با وجود اس کے کہ حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی تربیت حاصل نہیں کی بلکہ آپ اتنی چھوٹی تھیں کہ کوئی بات بھی یاد نہیں رہی پھر بھی آپ کی شخصیت میں وہ تمام خوبیاں نمایاں طور پر ابھریں جس کی حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو آپ کی ولادت سے قبل خبر دی گئی تھی.حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے اپنے بیٹوں میں سے حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کے لیے آپ کا انتخاب کیا اس سلسلہ میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کے حالات زندگی جو محترم ملک صلاح الدین صاحب نے اصحاب احمد کی بارہویں جلد میں مرتب کئے ہیں کا پیش لفظ تحریر کرتے ہوئے فرمایا :.
۲۱۸ " ۱۴ - ۱۵ سال کی عمر سے ہی ان میں احمدیت کی پختگی اور سعادت دیکھ کر ان کے والد (نواب محمد علی خان مرحوم) نے ان کو چن لیا تھا کہ عزیزہ امتہ الحفیظ بگیم کے لیے رشتہ کا پیغام دینے کو کہ میرا یہی لڑکا مناسب اور موزوں ہے فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی دختر کا پیام اس کے لیے دینے کی جرات کر سکتا ہوں جس کو ایمان و اخلاص اور احمدیت میں دوسروں سے بڑھ کر پاتا ہوں پھر یہ رشتہ ہو گیا اور مبارک ہوا خود حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب کا بیان ہے کہ جب میری شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر ہونے لگی تو حضرت والد صاحب نے مجھے تحریر فرمایا کہ اپنا رشتہ ہونے پر بھی میں کس طرح حضرت اماں جان اور حضرت صاحب کی اولاد در اولاد در اولاد کا احترام کرتا ہوں اور لکھا تھا کہ اگر ایسی طرز تم بھی برت سکو تو پھر اگر تمہاری منشاء ہو تو میں اس کی تحریک اور استخارہ کروں ورنہ ایسے پاک وجودوں کی طرف خیال سے جانا بھی گناہ ہے.) اصحاب احمد جلد ۱۲ ) ---- حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب نے بار ہا فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی بیٹیوں کی زمین سنبھالنے کی وجہ سے میری آمد میں برکت ڈالی ہے.......حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب دل کے شدید حملہ سے ایک لیا عرصہ بیمار رہے آپ کی بیماری میں حضرت سیدہ
۲۱۹ امله الحفیظ بیگم صاحبہ نے بے مثال خدمت کا نمونہ دکھایا.........آپ حضرت اماں جان کی بہت پیاری بیٹی اور سب بہن بھائیوں کی بہت لاڈلی بہن نہیں حضرت فضل عمر نے آپ سے بیٹیوں کی طرح محبت کی آپ نے قرآن مجید ختم کیا تو آپ کی آمین لکھی جس میں خدا تعالے احسانوں کا ذکر کرتے ہوتے آپ نے اپنے بہن بھائیوں کے لیے عظیم دکھائیں کیں.....تاریخ گواہ ہے کہ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری بشارتیں آپ کی اولاد کے متعلق بڑی شان سے پوری ہوئیں وہاں حضرت فضل عمر کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دُعائیں بھی مستجاب ہوتیں.حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کو ایک لمبے عرصہ سے بیمار تھیں لیکن پھر بھی جماعت کی خواتین اور بچیاں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں اور آپ کی دعاؤں اور نصائح سے مستفیض ہو تیں جس سے اب ہم محروم ہو گئے ہیں.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث کی وفات کے بعد جب حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ مسیح الرابع منتخب ہوتے تو آپ نے اپنے متبرک ہاتھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الیس الله گان عبدہ والی انگوٹھی آپ کو پہنائی.آپ بہت خوش خلق بہت منکسر المزاج بہت ہمدرد بہت دعائیں کرنے والی بہت برکتیں رکھنے والی ہستی تھیں جو ہم سے جدا ہو گئیں ، لیکن ہمارا خدا زندہ خدا ہے جو ہمہ وقت ہمارے ساتھ ہے حضرت مرزا طا ہر حمد
۲۲۰ صاحب خلیفہ امسیح الرابع ایدہ کے فرمان کے مطابق ہمیں اپنی قربانیوں اور اخلاص سے ان برکتوں کا مورد بینا چاہئے جو بھی ختم نہ ہوں بلکہ ہمیشہ ہمیش جاری رہیں اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے آمین حضرت سیدہ امتہ الحفیظ حکیم صاحبہ میری پھوپھی زاد بہن تھیں ہم دونوں میں عمر کا بہت فرق تھا.۱۹۳۲.میں حضرت والد صاحب ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل صاحب مرحوم نے جو ان دنوں رہتک میں سول سرجن گئے ہوتے تھے مجھے تعلیم کے لیے قاریان بھجوا دیا کچھ عرصہ تو میں اپنی نانی اماں کے گھر رہی پھر باتی ہیں بھائی بھی پڑھنے کے لیے قادیان آگئے اور والدہ صاحب بھی آگئیں.ان دنوں حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ حضرت اماں جان کے پاس مقیم تھیں اور الیف اسے انگریزی کے امتحان کی پرائیویٹ طور پر تیاری کر رہی تھیں میری اچھی طرح جان پہچان ان سے اس عرصہ میں ہوئی میں اکثر حضرت اماں جان کے ہاں جایا کرتی تھی آپ کی محبت میں گزارے ہوئے وہ دن اب بھی بڑی شدت سے یاد آتے ہیں عمر کے فرق کے باوجود ہم دونوں بہت بے تکلف تھیں میری سلائی اچھی تھی آپ نے اپنی چھوٹی بچیوں کے کتنی فراک مجھ سے سلواتے.پھر میری شادی ہوئی تو آپ سے نند کا رشتہ بھی ہو گیا.عمر کے ساتھ ساتھ میرے دل میں آپ کی عزت اور احترام بڑھتا ہی چلا گیا.جب حضرت اماں جان بہت بیمار ہو تیں تو اپنی دنوں لاہور میں حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب بھی بہت علیل تھے آپ کے لیے شوہر کو
۲۲۱ چھوڑنا بھی مشکل تھا اور ادھر حضرت اماں جان کی طبیعت بھی دن بدن گر رہی تھی آخر اپنی بیٹی کو ان کے پاس چھوڑ کر آپ ربوہ آگئیں اور حضرت اماں جان کی خدمت کرتی رہیں.حضرت اماں جان کی وفات اور تدفین کے اگلے روز آپ لاہور واپس چلی گئیں.حقیقت یہ ہے کہ میری تو تربیت ہی میرے سُسرال میں ہوتی اور حضرت اماں جان کی ذاتی توجہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت نواب مہار کہ بیگم صاحبہ اور حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سے بہت کچھ سیکھا.آپ بہت وسیع القلب - بہت خوش اخلاقی.اور بہت وسیع النظر تھیں.ایک دفعہ بعض غلط فہمیوں کی بنا پر میرے اور میرے ایک عزیز کے درمیان کچھ کشیدگی ہو گئی آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے اپنی خدا داد فراست سے کام لیتے ہوئے وہ کشیدگی فوراً ڈور کروا دی.آپ میں برداشت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.آپ نے اپنے شوہر اور داماد کی المناک وفات کے دو بڑے صدمے زندگی میں برداشت کتنے جس سے آپکی صحت دن بدن گرتی چلی گئی.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بنیاد جن ستونوں پر رکھی گئی آپ کا وجود ان میں سے آخری ستون تھا.گلشن احمد کے یہ پھول اپنی اپنی مہک دکھلا کر رخصت ہو گئے.اب ہم سب نے اس مہک کو سدا قائم رکھتا ہے.اللہ تعالٰی آپ کی روج پر اپنے بے شمار فضل نازل کرے اور میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ر ماہنامہ مصباح جنوری فروری مشكلة )
۲۲۲ حضرت باجی جان کی یاد میں حضرت سیدہ بشری بیگم صاحبه مهر آیا حرم حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے حضرت سیدہ وخت کرام کی حسین یادوں کو اس طرح شیر و قلم فرمایا :- ہم لوگ حضرت ابا جان کے ساتھ آپ کی سروس کے دوران عموماً قادیان سے باہر رہا کرتے تھے صرف جلسہ کے ایام میں دو چار روز گزار کر جلد واپس چلے جاتے.جہاں تک میری یاد داشت کام کرتی ہے رجبکہ ہم صرف دونوں بہنیں ہی تھیں ، جب پہلی دفعہ باجی جان کے دعوت نامے پر ہم آپ کے ہاں دار السلام گئے تھے تو باجی جان نے حضرت پھو بھی جان مرحومہ (حضرت سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ) کو مخاطب کر کے فرمایا.مریم یہ ہیں آپ کی دونوں بھتیجیاں جن کا ذکر آپ اکثر کیا کرتی تھیں ؟ آپ نے مجھے سے کیوں نہ ملایا ؟ اور یہ چھپا کر رکھی ہوئی تھیں.پھوپھی جان نے مسکرا کر فرمایا.میں نے نہیں چھپائی ہوتی تھیں.بھائی (میرے ابا جان) سروس کی وجہ سے ہمیشہ باہر ہی ہوتے ہیں اور سروس بھی فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کی ہے ان کو جب دسمبر کی چھٹیاں ہوتی ہیں تو جلسہ اینڈ کرنے آتے ہیں جلسہ کے معاً بعد واپسی ہو جاتی ہے اور جلسہ کے ایام میں مصروفیت ہوتی ہے اس لیے میرے لیے ان بچیوں کو ملانا یا متعارف کروانا ناممکن ہو کر رہ جاتا ہے.اس دوران نماز کا وقت ہوگیا.تو ہم دونوں بہنیں نماز کے لیے
۲۲۳ تیار ہوئیں اور جائے نماز اور کرنے کا پوچھا مجھے یاد ہے کہ آپ نے ہماری اس بات کو بہت پسند کیا اور فرمایا کہ اس قدر چھوٹی عمر میں اس قدر نماز کی با قاعدگی ؟ پھوپھی جان خوش ہوئیں اور انہوں نے وضاحت کی کہ اس بچی (خاکسارہ) نے صرف چار یا سوا چار سال کی عمر میں قرآن کریم ختم کیا ہے جبکہ فارسٹ والوں کو کوئی ٹیچر بھی میسر نہیں ہوتا یہ بھابی جان (میری والدہ) اور بڑے بھائی جان کی خاص توجہ کا ثبوت ہے اور پھر یہ بھی بتایا کہ دونوں بہنوں کا یہ حال ہے کہ جو سنی بھائی اور بھائی جان (میرے اماں ابا ) تتجد کے لیے اُٹھتے یہ دونوں خواہ باہر برفباری ہورہی ہو خواہ کس قدر موسم خراب ہو اسی وقت وضو کر کے ان کے کمرہ میں پہنچ کر ان کے ساتھ شامل ہو جاتی ہیں با جی جان کو یہ باتیں اس قدر پسند آئیں کہ جب کبھی ملنے کا اتفاق ہوتا آپ خاص طور پر ہم دونوں کو پیار کرتیں اور ارد گرد بیٹھے ہوئے افراد سے اس کا بڑے حسین پیرائے میں ذکر کرتیں.نہ صرف یہی باجی جان کو ہماری سادگی بھی اس قدر پسند آئی کہ ہمیشہ تعریفی کلمات میں ہماری مثال دیا کرتیں.جب دارالانوار میں ہماری کوٹھی بنی تو اتفاق سے ان دنوں باجی جان دار المحمد میں رہائش پذیر تھیں.ہم اتفاقاً چند دن کے لیے آتے ہوتے تھے میں نے بڑی منت سماجت اور ضد کر کے اپنی اماں مرحومہ کو کہا کہ جتنے دن بھی ہم بیاں ہیں مجھے سکول جانے کی اجازت دیں اماں کا موقف یہ تھا کہ چند دنوں کے لیے سکول کا داخلہ بے معنی ہے اس لیے اس خیال کو چھوڑ
۲۲۴ دو.لیکن آخر میری ضد غالب آتی اور سکول آمد درخت کا انتظام بذریعہ تانگہ ہوا.جب حضرت باجی جان کو پتہ چلا تو فوراً میری اماں کو کھلا بھیجا کہ بچیوں کو دھوپ لگ جائے گی ان کو ٹھنڈی جگہ کی عادت ہے.میری بیٹیاں کار میں سکول جاتی ہیں میرا اور آپ کا گھر ساتھ ساتھ ہے.آپ یتختلف نہ کریں اور ہرگز کسی بات کا احساس یا فکر نہ کریں تو یہ کار آپ کی ان دونوں بچیوں کو بھی لے لے گی.اکٹھے سب کی آمدو رفت ہوگی.ریہ ان دنوں کی بات ہے جبکہ میں چوتھی اور ناصرہ میری بہن غالباً تعمیری کلاس میں تھیں ، سو اس طرح چند روز ہوتا رہا.پھر ہم واپس چلے گئے.یہ آپ کی انتہائی نیکی و تقوی اور بے لوث ہمدردی کی زندہ مثال ہے بڑے خلوص سے ہمیں ٹانگے میں دھوپ کی کوفت سے بچانے کے لیے اپنی گاڑی کو OFFER کرنا.ہمارا جب کبھی بھی قادیان آنے کا اتفاق ہوتا اور آپ کو ہمارا پتہ چلتا تو اسی وقت آپ کا پیغام آجاتا میری اماں مرحومہ کی طرف کہ میں گاڑی بھیجو اؤں گی اور ساتھ خادمہ بھی ہوگی اور اس سے بڑھ کر یہ کہ بزرگ صاحبہ" میری بڑی پھوپھی جان بھی ساتھ ہی آجائیں تاکہ آپ کو بچوں سے متعلق تستی رہے کیونکہ آپ نے یہ سُنا ہوا تھا کہ میرے ابا جان بیٹیوں کو ادھر اُدھر بغیر اماں کے بھجوانے کے خلاف تھے.حضرت با جی جان خود بڑی خاموش دُعا گو تھیں باوجود اپنے ایک خاص مقام کے سلسلہ کے بزرگوں کی بہت قدر دان اور ان کو اکثر دعاؤں
۲۲۵..کی تاکید کے ساتھ پیغام بھجوایا کرتیں.جیسے میرے دادا جان حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب یا میری تمام پھوپھیاں - اور جب کبھی خاص دعاؤں کی ضرورت سمجھتیں آپ بڑی پھوپھی بزرگ صاحبہ کو گھر بلا کر ان سے دُعائیں کروائیں.اسی طرح میرے چھاؤں کو بھی دُعاؤں کے خطوط یا پیغام آتے.جو اپنے تئیں انتہائی انکساری کا اظہار کرتے اور یہ کہتے کہاں آپ کا اپنا مقام ! اور کہاں ہم ! اور یہ کہ.یہ آپ کی محض حسن نطقی ہے رتن بارغ رہ ہو ر ) میں ہم سب رہار میش کے بعد ) اکٹھے رہا کرتے تھے ان دنوں نونو کی آمد آمد تھی.اصل میں اس بچی کا نام عائشہ امتہ الہاتی ہے اور یہ کچی آپ کی نواسی میں جو کہ عزیزہ محترمہ طیبہ بیگم صاحبہ اور محترم مرزا مبارک احمد صاحب کی بیٹی ہیں.اس بچی سے پہلے سوائے ایک بیٹے جیسی" کے غالباً تین یا چار بچے ضائع ہو چکے تھے.باجی جان.چلتے پھرتے جب مجھے سے ملتیں دُعا کی یاد دہانی کروائیں.میں اپنے دل میں عجیب طرح خفیف ہو کر رہ جاتی.اس خیال سے کہ کیا میں اور کیا میری دُعا ! یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے حضرت فضل عمر حضرت اماں جان اور حضرت بڑی بیگم صاحبہ سب کی دعاؤں اور تضرعات کو قبول فرمایا.ایک دن شام کے قریب میں نے ایسے ہی کچھ پھل اور تھوڑی مٹھائی باجی جان کو بھیجوائی.اور مجیب اتفاق کہ آپ نے ابھی اس میں سے کوئی چیز کھائی ہی نہ تھی کہ نو نو کی پیدائش اور
۲۲۶ دونوں ماں بیٹی کی خیریت کی خوش خبری بذریعہ تارا گئی کیونکہ بیگم و مرزا مبارک احمد صاحب دونوں لاہور سے باہر تھے ، باجی جان یہ خوشخبری سنتے ہی مجھے خوشی خوشی میں اور دل کی گہرائیوں سے یہ بات کی بشری تمہارا بھیجوایا ہوا پھل اور میٹھی چیز کس قدر نیک شگون اور بھاگوان ثابت ہوا مجھے خدا نے خوشخبری سے نوازا ہے ** اب غور کرنے کا مقام ہے ایسے اتفاقات ہو جاتے ہیں گھر باجی جان نے میری کس قدر دلداری کی اور در پردہ میری راہنمائی اس بات کی طرف کی کہ اگر خدا سے ڈھیٹ گداگر بن کر کچھ مانگا جاتے تو وہ ذات باری ایسے گداگر کا کشکول خالی نہیں لوٹا تا اور میرے ایمان ویقین کو اس طور پر پختہ کیا.پارٹیشن پر جب قادیان سے ہم نکلے ہیں تو ہمارا اس طرح غیر متوقع طور پر نکلنا بالکل بے سروسامانی کی حالت میں تھا.ایک وہی جوڑا جو میں نے پہنا ہوا تھا.یا پھر برقعہ اور اس کے سوا قطعاً کچھ نہ تھا کسی نہ کسی طرح تھا کسی لاہور جو دھامل بلڈنگ پہنچے.گرمی کے دن غسل کرنا اور پھر کپڑے بدلنے کا سوال عجیب تکلیف دہ تھا.باجی جان نے جب مجھے سخت گھبراہٹ میں دیکھا تو مجھے مشورہ دیا.تھالو.اور پہنے ہوئے کپڑے دھو کر باہر لڑکیوں کو دو وہ باہر نکھے کی ہوا میں سکھا کر تمہارے غسل تک تمہیں پکڑا دیں گی.سو اسی طرح ہوتا رہا، لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس سخت تکلیف دہ حالات و تفکرات میں آپ نے کس قدر گہری اور ہمدردانہ نظر مجھ پر رکھی اور پھر اس مسئلے کو اس طور حل کیا.گو میں بظا ہر کچھ
۲۲۷ - کہتی تھی نہ ہی بولتی اور نہ ہی کبھی نہانے دھونے کپڑوں کے موضوع پر اظہار کرتی.کیونکہ وہ خوفناک پریشانی کے دن تھے.حضرت فضل عمر قادیان ان کی بخیریت واپسی کا سوال پھر پورے قادیان کے احباب کی خیریت کا سوال اور اسی سے متعلق دوسرے بہت سے مسائل تھے جن کی وجہ سے ایک ایک لمحر بے کیف اور پریشان کن تھا.مگر باجی جان کی ہمدردانہ نگاہوں نے باوجود ان تمام باتوں کے پور یہ حوصلے اور ایمان ویقین پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوتے ہم لوگوں کی ان چھوٹی چھوٹی بے حقیقت کو باتوں کو خوب مد نظر رکھا اور حالات کے مطابق جو کر سکتی تھیں ہنستے مد مسکراتے کیا.لاہور خود عامل بلڈنگ پہنچنے پر جب مغرب و عشاء کا وقت ہوا تو کسی نے باجی جان کو کہہ دیا کہ مہر آپا زمین پر بیٹھی ہوتی ہیں پتہ چلتے ہی آپ نے اسی وقت مجھے ایک چارپائی بھجوائی.....اسی دوران یعنی قیام جو دھامل بلڈنگ جبل جو اس وقت بہت چھوٹی تھیں.بیمار ہوگئیں ان کے علاج معالجہ غذا کی طرف جہاں تک مجھ سے ممکن تھا ئیں خاصی توجہ دیتی رہی، لیکن جمیل کی یہ حالت تھی کہ جونہی ذرا طبیعت خراب ہوئی نہ غذائیتیں نہ دوائی.ایک ٹانگ پر کھڑے کھڑے بُڑا وقت گذر رہا تھا.آخر با جی جان کو میرا شدید احساس ہوا اور مجھے کہا تم اس کی تیمار داری دفتر سے ہٹ جاؤ میں جمیل کو خود ہینڈل کرتی ہوں.باجی جان نے یہ پریشانی اور ذمہ داری کیوں مول لی ایک تو خیر بھتیجی ہونے کے ناطے سے ان کو
۴۲۸ جمیل کا خود بہت احساس تھا.دوسرے میری ذات سے ان کو بہت تعلی اور ہمدردی تھی.سید نا حضرت فضل عمر کے بخیریت قادیان سے آجانے کے بعد جب ہم لوگوں نے جو دھامل بلڈنگ سے رتن باغ شفٹ کیا ہے تو اس وقت حالات اسی طرح مخدوش اور پریشان کن تھے کنوائے آرہے تھے.ریفیوجیز کے لانے اور تقسیم کرنے اور پھر خورد و نوش کا مسئلہ ہنوز روز اول تھا.باجی جان کے پاس خدا معلوم کس طرح چند ان کے اپنے پہننے کے عام مستعمل کپڑے جو کہ غالباً دو چار جوڑوں پر مشتمل ہونگے آگئے ان میں سے ایک جوڑا مجھے بھجوایا.ان کی گری نظریں مجھ پر تھیں اور ایک مخلصانہ ہمدردی اندر اندر کام کر رہی تھی.کہ یہ تو بالکل خاموش ہے اور اس کے پاس ہے بھی کچھ نہیں اس لیے آپ نے اپنی کمال شفقت و پیارے وہ کپڑے مجھے بھجوائے اور یہ پیغام ساتھ بھجوایا کہ اگر بڑا د مانو میرے یہ کپڑے اگر چہ پڑاتے ہیں تم وقتی طور پر استعمال کر لو.میں نے کہلوایا.یا جی جان.برا ماننے کا سوال ؟ یہ تو میرے لیے تبرک بھی ہے.اور میری ضرورت بھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ نے جس ہمدردی اور خلوص سے حالات کے تحت یہ تحفہ بھیجا ہے یہ تو میرا سرمایہ ہے.دوران قیام رتن باغ.ایک دفعہ کسی نے غلط فہمی کی بنا پر امی جات کو یہ کہ دیا کہ فلاں بات جو آپ نے کسی تھی.وہ مہر آپا نے ہی سید نا حضرت فضل عمر کو تبائی ہے (مجھے اب نہ وہ بات یاد ہے نہ واقعہ اور یوں بھی کوئی
۲۲۹ سرسری سی بات تھی ، باجی جان نے جبکہ میں اتفاقاً ایک دو دن کے لیے معمول کے مطابق اپنے ابا جان کو منے جا رہی تھی کسی کے ہاتھ ایک بند لفافہ بھیجوایا جو میں نے چلتے چلتے پرس میں رکھ لیا.اور دوران سفر میں نے اسے پڑھا جس میں صرف یہ چند سطور تھیں.پیاری بشری - السلام علیکم ! تم ابا اماں کو ملنے جارہی ہو ان کو میرا سلام اور دُعا کا کہنا.اچھا جاؤ عمر به سلامت روی و باز آئی ہاں با یاد آیا کیا فلاں بات بڑے بھائی سے میرے متعلق تم نے کسی تھی ؟ مجھے اس کا قطعاً یقین نہیں میں ویسے ہی پوچھ رہی ہوں ؟ یہ مختصر سا خط پڑھ کر سخت متعجب تھی کہ مجھے تو کسی بات کی نوعیت کا ہی سرے سے علم نہیں پھر مجھے خواہ مخواہ کیوں گھسیٹا گیا.خیر میں نے پہنچتے ہی پہلا کام ہی کیا کہ باجی جان کو نفی میں جواب دیدیا.اگر میں ایسی کوئی بات سنتی بھی تو بھی ان سے یعنی سید نا حضرت فضل عمر سے اس کا ذکر نہ کرتی کیونکہ آپ دونوں بہن بھاتی ہیں اور یہ رشتہ بہت اہم ہوتا ہے.اس پر باجی جان کا بہت پیارا جواب آیا کہ جزاک اللہ مجھے تو بفضلہ سوفیصدی میسی یقین تھا کہ تم ایسی ہو ہی نہیں سکتی.جس کے مرتی تمہارے اماں ابا جیسے ہوں.تم نے اتنی اچھی بات کی ہے کہ بہن بھائی کا رشتہ بہت اہم ہے اور ہمارا یہ کہنا با مشکل درست ہے.سید نا حضرت فضل عمر کے وصال پر جب میری عزت کے دن پور ہوئے آپ اس سے ایک دن پہلے صبح ہی صبح میرے گھر آئیں میں ڈرینگ
۲۳۰ روم میں تھی آپ نے مجھے اپنے بیڈ روم میں نہ پاکر ایک سینٹ کی شیشی میرے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھدی اور میری کارکنہ لڑکی کو یہ پیغام دیگر فوری طور پر چلی گئیں کہ در آپا کو کہنا کہ آج تمہاری عدت ختم ہے.نہاؤ کپڑے بدلو اور یہ سینٹ جو میں تمہارے لیے لائی ہوں یہ استعمال کرو اور آج کے دن سے میں تمہیں اچھے لباس میں دیکھوں.تم اسی طرح پینو - اوڑھو.جہاں تک خدا تعالٰی کا امتناعی حکم تھا وہ آج کے دن تک پورا ہوگیا اور س.اور پھر اس کے بعد ایک دوسرے موقع پر مجھے کہا.تم نے میری بات نہیں سنی اور نہ اس پر پوری طرح عمل کر رہی ہو دیکھو ! سب کچھ سینو اوڈھو.بیٹوں کی ماتیں ہمیشہ سہاگنیں ہی ہوتی ہیں.اب دیکھتے اسقدر کمال ہمدردی کے کلمات تھے اور جذبہ شفقت و خلوص سے بھر پور پہلے آکر نہانے دھونے کپڑے بدلنے کی تاکید کر جاتی ہیں اور پھر سینٹ دے کر اُسے استعمال کرنے کی تاکید کرتی ہیں.اس کے بعد جب بھی مجھے آپ نے اُداس و پژمردہ دیکھا.تو ایسے فقرے کے جس کے انکار سے مجھے مفر ہی نہیں تھا.یہی ڈر اور خیال غالب آ گیا.کہ آپ کے دل میں یہ بات کہیں جڑ نہ پکڑے کہ میں اپنے تمام بچوں کو اپنے بچے نہیں سمجھتی.اس لیے آپ کی اتنی بڑی بات کی طرف توجہ نہیں دی اور میرا اغلب خیال اب ہی ہے کہ آپ نے مجھے راہ راست پر لانے کے لیے اور پھر سے مجھ میں زندگی پیدا کرنے کے لیے یہ بات کہی.اور ایسی بات جب ہی ہو سکتی ہے جب کسی کے معصوم دل میں انتہائی خلوص و شفقت کے علاوہ اس کے لیے
٢٣١ شدید درد ہو اور یہ باجی جان ہی کی شان تھی جنہوں نے اپنے مقام کی است کو خوب سمجھتے ہوئے میری اس طور دلداری کی.میں نے جب پہلے گھر سے اپنے اس موجودہ گھر میں شفٹ کیا.تو مجھے سیدنا حضرت مرزا ناصر احمد صاحب عزیزه محر فرستنده منصورہ بیگم صاحبہ بیاں آنسو بھری دُعاؤں کے ساتھ چھوڑ کر گئے.ان میں حضرت باجی جان بھی تھیں.اسی طرح محترمہ صاحبزادی سیده ناصرہ بیگم صاحبہ صاحبزادی امته النصیر صاحبه اور دیگر چند اور بچیاں بھی تھیں.میں دیکھ رہی تھیں کہ مجھے یہاں چھوڑتے ہوئے سب کی آنکھیں پر نم تھیں.باجی جان بڑے صبر و ضبط والی تھیں بار بار مجھے پیار بھی کرتیں اور میں طرح کوئی کسی کو بہلا رہا ہوتا ہے اس قسم کے موضوعات پر تبصرہ کرتی رہیں.مثلاً کہیں کہ بشری.تمہارا گھر مجھے بہت اچھا لگا.اس کا نقشہ بہت اچھا ہے.اس کے فائنل ٹچیز بہت اچھے ہیں وغیرہ وغیرہ.یہ کیوں ؟ اور کس لیے ؟ اس لیے کہ زخمی دل پرسکون کے پھا ہے اور توجہ اور احساس کی شدت کو ختم کرنے کے لیے ہو رہا تھا.باجی جان پر خود بڑی سے بڑی ٹریجڈی گذری مگر وہ اس قدر صبر و تشکر عزم و استقلال کی ایسی کوہ وقار تھیں کہ کیا مجال کہ زبان پر کوئی لفظ بھی ایسا آیا ہو.حضرت میاں عبداللہ خان صاحب کی وفات پر کامل خاموشی اپنی سب سے چھوٹی بیٹی جوان تھی انتہائی لاڈلی تھی ان کی اس چھوٹی سی عمر میں ہوگی پر بالکل چپ اور خاموش.ہاں سجدوں میں خدا کے
۲۳۲ حضور گھنٹوں سربسجود بند دروازہ میں معلوم نہیں کیا مانگا جاتا رہا ہم نے انہیں ہر قدم پر صابر و شاکر خاموش ہی پایا.اس چھ سالہ بیاری کے دوران رجب ذرا بہتر تھیں کبھی کبھی مجھے نون خود کر دیتیں یا پھر کسی خادمہ کو بھجوا دیتیں اور کہتیں بشری امیرا فون خراب ہے ذرا اکیچینج کو کہ کر ٹھیک کروا دو.یا کبھی کہتیں بشرطی کمیٹی والوں کو فون کرو اور کہو کہ مجھے پانی کی تکلیف ہے.یا بارشوں کی وجہ سے میرے اور تمہارے گھر کی درمیانی سڑک نشیبی ہے.نہایت گندا پانی آ رہا ہے جو تمہارے لیے بھی اور میرے لیے بھی مضر ہے اس کا فوری انتظام کرواؤ وغیرہ یا کبھی میرا حال پوچھ لیتیں.ابتداء میں جب تک چلنے پھرنے کے قابل تھیں میرے ہاں بھی چکر لگائیں اور کہتیں تم کیا گھر میں بند ہو کہ بیٹھ گئی ہو، نکلا کرو.میری اماں مرحومہ کی وفات ہوئی تو بڑے پر وقار انداز سے میری دلجوئی کرتی رہیں.برابر تین چار دن آتی رہیں.اور اس ٹریجڈی کے موضوع کو نہ چھیڑ ہیں.اس موضوع سے ہٹ کر ایسی باتیں کرتیں جن سے میرا خیال بٹ جائے.ایک دفعہ اماں مرحومہ کی وفات کے غالباً ایک ماہ بعد میں آپ کے پاس گئی.مجھے دیکھتے ہی غیر ارادی طور پر بے ساختہ یہ الفاظ آپ کی زبان سے نکل گئے.بشریٰ ! تمہارا یہ کیا حال ہو رہا ہے.اماں کی جُدائی تم پر اس حد تک اثر انداز ہوتی ہے کہ تمہاری صحت بُری طرح گر گئی ہے اس طرح نہ کرو.باہر نکلو.طو جلو ، اس راستہ پر تو ہر ایک نے جانا ہی
۲۳۳ جاتا ہے.آن سے غالباً دو سال قبل جبکہ مجھے لاہور ڈاکٹر ز کمنٹ کرنے کے لیے جانا پڑا تو میں جاتے ہوئے آپ سے ملنے گئی.یوں تو آپ بہت دیر سے صاحب فراش تھیں، لیکن کوئی مزید غیر معمولی بات نہ تھی.جونی میں لاہور پہنچی تین چار ڈاکٹرز سے APPOINTMENT لی.اور ابھی صرف ایک سے ہی ڈاکٹر کو دکھایا تھا کہ اچانک باجی جان کی غیر معمولی بیماری کے فون آنے لگ گئے.میں نے لاہور کے امیر صاحب سے آپ کی خیریت اور فصیل پوچھی اور تاکید کردی جب بھی جتنی دفعہ ربوہ سے اطلاع آئے مجھے فوری اطلاع کریں، لیکن آخرمیں دوسرے دن ہی تمام ڈاکٹرز کی اپائنٹس کینسل کروا کر چل پڑی.شدید گرمی مشکل تین بجے دوپہر ڈرتے ڈرتے سیدھی آپ کی کوٹھی کی طرف گاڑی لے گئی پوچھنے پر پتہ چلا کہ اب رات سے طبیعت بہتر ہے اور آپ اور دیگر گھر والے آرام کر رہے ہیں.ہمیں پھر شام کے وقت باجی جان کو دیکھنے گئی تو خدا کے فضل سے بہتر پایا.مجھے دیکھتے ہی آپ کے بچوں نے جو اس وقت آپ کے پاس سارے جمع تھے بتایا حد ہوگئی جب پھوپھی جان کی طبیعت بحال ہوئی اور اپنے ارد گرد اپنے ہو بیٹوں اور دیگر بچوں کو جمع دیکھا تو پہلے کچھ حیران سی ہوئیں کہ آپ لوگ سب کیسے آئے؟ پھر اپنی بیماری کی کیفیت کا پتہ چلنے پر اپنے بچوں کو مخاطب ہو کہ بار بار یہ کہا کہ تم لوگ تو میری بیماری میں سب آگئے ہو.میری دیکھ بھال کر رہے ہو.مجھے بتاؤ بشری کی دیکھ بھال کون کرے گا ؟
۲۳۴ عزیزہ امتہ الباری عباس نے بتایا کہ ہر آیا.پھوپھی جان نے یہ بات اتنی دفعہ دہرائی کہ میں نفسی ضبط نہ کرسکی.اور میں نے کہا مہر آیا کی بھی خدمت اور دیکھ بھال رہی کریں گے ہو اس وقت آپ کی کر رہے ہیں آپ تو اچھی ہو جائیں آپ فکر کیوں کر رہی ہیں.عزیزہ باری کہتی ہیں کہ یہ بات میں نے جب اچھی طرح ذہن نشین کر دی تو آپ خاموش ہو گئیں.میں نے باری سے کہا دیکھو بڑے بزرگوں کی باتیں نہیں تو ہوتی ہیں جو امتیازی شان رکھتی ہیں ان کو ایسی تکلیف میں میرا خیال کس طرح آیا.اور پھر تمہارے جواب پر پرسکون ہو گئیں، ظالم ! یہ موقع تھا کہ تم بجائے اس کے کہ یہ بات کہتیں کہ پھوپھی جان اگر آپ کو ان کا اس قدر خیال اور فکر ہے تو آپ ان کے لیے یہ دعا کرتی رہیں کہ خدا تعالیٰ ان کو اس قسم کی کسی آزمائش سے دوچار نہ کرے وہ چلتے پھرتے ہی خدا کے حضور پہنچے.باری کسقدر یہ اہم موقع تھا اگر تم جواب میں میرے لیے دعا کی یہ تحریک کر دیتیں.میری شومئی قسمت که جب آپ کی کو بھی مکمل ہو گئی تو میں نے با جی جان سے کہا.میں بہت خوش اور مطمئن ہو گئی ہوں.آپ میرے پاس آگئی ہیں.مجھے آپ کے پاس آنے میں کوئی وقت نہ ہوگی.اس طرح ہم باہم آسانی سے ملتے رہیں گے ، لیکن میری طبیعت ہائی بلڈ پریشر سے کچھ اس طرح مضمل رہی کہ ایسا ممکن نہ ہو سکا اور با حجا جان خود ایسی منار فراش ہوتیں کہ بالکل بستر ہی کی ہوگئیں اور آپ کی طبیعت ایسی کمزور ہوئی کہ بعض اوقات ہم لوگ.اگر میرا بھی جانا مکن ہو جاتا تو ان کی تکلیف
۲۳۵ کے خیال سے صرف بات سلام تک محدود رہتی.آپ کی وفات کے صرف دو دن قبل میں نے آپ کی خادمہ سے آپ کی طبیعت پوچھی اس پر آپ نے کیا کہ میں خود مصر آپا سے بات کروں گی.یہ سن کر میری خوشی دو سکون کی انتہا تھی اور دل بھی چاہا کہ میں خود اس وقت چلی جاؤں اور بات کر لوں مگر وہ وقت بھی غالباً گیارہ بارہ بجے کے درمیان کا تھا اور میں آپ کے آرام کے خیال سے باوجود خواہش کے نگئی.اور اس طرح اگلے ہی دن اچانک دن کے تین بجے آپ کی وفات کی اطلاع ملی جس کا کسی کو یقین نہیں آر رہا تھا.کیونکہ اس سے قبل کسی قسم کی غیر معمولی طبیعت کی خرابی کا ہم سب میں سے کسی کو علم نہیں.ایک دفعہ آپ مری میرے پاس جبکہ میں باقاعدہ ہر سال مری گرمیوں میں سیزن گزار نے جایا کرتی تھی صبح تقریباً 9 ۱۰ بجے پہنچیں اور بمشکل شام تک ہی قیام کیا میرا اصرار تھا کہ آپ کم از کم ہفتہ عشرہ توٹھہریں لیکن آپ نے ہر دفعہ مجھے ہی کہا کہ میں پھر کبھی اپنا پروگرام بنا کر آؤں گی تو ضرور ٹھروں گی مگر خیبر لاج میں اب تو اس قدر گنجائش بھی نہیں صبح سے شام تک جس قدر لمحات میرے پاس قیام کیا وہ لمحات کتنے قیمتی تھے میرے لیے سارا وقت ہنستی ہنساتی رہیں اور بار بار کہتیں.بشری تمہارے پاس میرا بہت دل لگا ہے تم نے اس ٹوٹی پھوٹی بلڈنگ کو اپنی رہائشی جگہ کو کسی سلیقے کے ساتھ سیٹ کر رکھا ہے اور کتنی رونق لگا رکھی ہے کیونکہ میں جب مری جایا کرتی تو میرے ساتھ جانے والوں کے علاوہ
راولپنڈی کی جماعت کی اکثر خواتین اور مقامی لوگوں اور ملنے والوں کی آمد و رفت رہتی مری میں رہنے والے اپنی جماعت کی خواتین کی بھی آمد و رفت برابر رہتی اور باہر گاڑیاں بھی ان لوگوں کی پارک رہتیں.آپ سوچ سکتے ہیں کہ ان چند گھڑیوں کے قیام کے دوران حضرت با جی جان کی کتنی اور کس قدر تواضع کر سکتی تھی ، مگر با جی جان تھیں کہ ہر بات پر میری تعریف کئے جاتی تھیں.جب واپس جانے لگیں تو بہت پیار سے مجھے گلے لگایا اور فرمایا.بشری میں سچ کہتی ہوں تمہارے پاس آکر مجھے بڑا ہی لطف آیا ہے.تم نے جنگل میں منگل بنا رکھا ہے لو اب خدا حافظ یہ کہ کر آپ واپس چلی گئیں میں بہت دیر تک آپ کے جانے کے بعد سوچتی رہی کہ باجی جان کس قدر شفیق ہیں.کس طرح میری دلداری کی اور کسی طور سے میرے مستقبل کی راہنمائی کرتی چلی گئیں.آپ کا یہ انداز کتنا خوبصورت تھا.پیار ہی پیار میں ہلکے پھلکے طریق پر آپ نے بھلائی کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے تعریفی کلمات سے اس طرح نوازا کہ وہ سب میرے لیے مشعل راہ اصل میں تھا.میرے سیزن گزار کر واپسی پر اکثر عزیزوں نے مجھے بتایا کہ ہر آیا با جی جان نے واپس آکر آپ کی اتنی تعریفیں کیں اور اس قدر آپ کا پیار سے ذکر کیا.اور دوران قیام مری میں مجھے بعض عزیزوں کے خطوط ملے جن میں یہی ذکر تھا.میرے نزدیک بڑے بزرگ اور اہم شخصیتیں اپنے سے چھوٹے عزیز و اقارب اور اور پھر پبلک کی اسی طریقی پر تربیت کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے
۲۳۷ ہیں اور یہ باجی جان کا خاص اندازہ تھا.لاہور پارٹیشن کے بعد کی بات ہے جب ہم لوگ بھی عام ریفیوجیز کی طرح رتن باغ میں مقیم تھے.سیدنا حضرت فضل عمر نے ان عام رینیو جیز کی دیکھ بھال کے لیے اپنے افراد خاندان میں سے سب کی ڈیوٹیز مقرر کردی تھیں ایسی طرح میرے گروپ میں اس کام کے لیے میرے ساتھ حضرت باجی جان کو بھی لگایا اور فرمایا کہ تم اور حفیظ رہا جی جان ) سامنے والی بلڈ نگر یعنی سیمنٹ بلڈنگ اور جیونت بلڈنگ کا کام تم دونوں کے سپرد ہے ان لوگوں کی دیکھ بھال خوراک اور خاص طور پر صفائی کا خیال رکھنا ہوگا اور اس کے بعد مجھے رپورٹ دینی لازمی ہو گی.ہم دونوں ایک لڑکی کو ساتھ لے کر چل پڑے اور حضور کی ہدایت کے مطابق کام شروع کر دیا.ہم لوگ ان کی صفاتی جھاڑو وغیرہ بھی کرتے سامان ترتیب دیتے معقول طریق سے بیٹھنے اور سونے کے لیے ان کے سامان وغیرہ کے ساتھ جگہ بناتے اگر کوئی بیمار ہو جاتا تو دوائی اور علاج کے لیے رپورٹ کرتے مگر اس کام میں جس قدر گالیوں اور مغلظات سے ہمیں نوازا گیا.آپ اندازہ نہیں لگا سکتے.یوں لگتا کہ ہم تو چکھنے گھڑے ہیں اور باوجود ان تمام کے میں ان پر رحم آتا اور ان کی تکلیف کا احساس ہوتا.بہت پیار - نرمی اور منتوں سے ان کو بمشکل یقین دلاتے کہ ہم آپ کے خادم ہیں اور آپ کی خدمت کے لیے آتے ہیں جب تک ہم وہاں کام کرتے ریفیوجیز خواتین ہمیں خوفناک گندی گالیوں سے نوازتی رہتیں، لیکن جب انہوں نے باجی جان کی شان میں یہ صورت اختیار کی
تو مجھ سے رہا نہ گیا.میں نے کہا آپ مجھے بے شک جو چاہیں کہ میں نگران کے رہا جی جان کے خلاف میں ایک بات بھی نہ سنوں گی بلکہ شروع میں میں نے با جی جان سے کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ چلا کریں.آپ انکیش کرس ، ہدایات دیں مگر میں پریکٹیکلی آپ کو یہ جھاڑو بہارو وغیرہ نہیں کرنے دونگی آپ نے فرمایا نہیں بشری بڑے بھائی کا حکم ہے.میں بھی یہ کام کروں گی جب ان تقسیم خواتین کی بدکلامی پر میں نے ان سے یہ کہا آپ مجھے جو چاہیں کہیں گھر ان کو رہا جی جان کو کوئی بات نہیں کہ سکتیں.تو باجی جان نے مجھے کہا کہ یہ لوگ اپنے گھروں سے برباد ہو کر رکھ درد سے چوکر ہو کر نکلے ہیں ہر ایک کو خواہ کوئی ہمدردی کیوں نہ ہو اسے شک کی نگاہوں سے دیکھتی ہیں اور اس طرح یہ مجبور ہو کر اپنے غصے یادکھ درد کا اظہار اس طور پر کر رہی ہیں تم کچھ نہ میرے متعلق کہو.چپکے سے ہم کام کئے جاتے ہیں.جب خدا تعالٰی ان کو سکون دیگا تو خود ہی سب سمجھ آ جائے گا.اور دوسری سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بشری ہم لوگ تو اس قسم کی گالی گلوچ کے عادی ہیں.ہمارے دل میں تو رحیم ہی رحم ہے.میں نے کہا باجی جان مجھے اپنے لیے تو ایک فیصد بھی احساس نہیں ہوا بلکہ ہنستے مسکراتے ہوتے اور ان سب کو پیار کرتے ہوتے میں کام کر رہی ہوں.مجھے آپ کی شان.میں اس قدر بے باکانہ کلام برداشت نہیں ہو رہا تھا.یہاں بھی آپ کی ہمدردی اور اخلاص کی آئینہ داری کس شان سے نظر آتی ہے اور پھر امام وقت کے حکم کا احترام اس حد تک کہ میں بھی
۲۳۹ اپنے ہاتھ سے وہی کام کروں گی جو تم کر رہی ہو.یہ ہے ایمان کامل کی خوبصورتی.ربوہ قیام کے دوران باجی جان کو کوئی ذاتی مسئلہ درپیش تھا.مجھے فرمایا بشری میں تمہاری باری میں آؤں گی تم ادھر اُدھر کے دروازے بند کر دینا میں کیسوتی سے بڑے بھائی رستید نا حضرت فضل عمر سے کوئی بات کرنا چاہتی ہوں.چنانچہ آپ کی ہدایت کے مطابق میں نے ایسا ہی کیا جب او پر ہم دونوں صبح کے ناشتہ کی میز پر تھے یا غالباً کھانے کی نیر مالیا مر میں ان کو رسید نا حضرت فضل عمر کیا کہ کر اور باجی جان کو آپ کے پاس بٹھا کر خود اپنے آپ ہی ادھر اُدھر کام میں بہانے سے مصروف ہوگئی تا کہ جو بھی کوئی خاص بات آپ نے سید نا حضرت فضل عمر سے کرنی ہو سکون سے کرلیں انہوں نے مجھے خود ہی بلایا کہ آکر کھانا کھاؤ اور میٹھو...با جی جان نے جو بھی اپنا مسئلہ تھا وہ من و عن آپ کو بتا یا اور کہا کہ سب اس کا پس منظر ہے.اب آپ بھائی کی حیثیت سے نہیں امام قوت کی حیثیت سے خود انصاف کریں چنانچہ وہ سب مسئلہ اسی وقت صاف ہو کر ختم ہو گیا.باجی جان نے مجھے بے حد پیار کیا.گلے لگایا.اور کہا تم نے کس قدر سمجھ بوجھ سے کام لیا اور بڑی ہمت و جرات کے ساتھ دوران گفتگو بڑے بھائی کو بھی کچھ نہ کچھ کہتی رہیں.میں اس کی تمہیں داد دیتی ہوں کہ جو کچھ تمہیں حق بات بہتر تھی تم نے بھی یہی کہا کہ اس کی تحقیق لازمی ہے تا کہ پھر امام وقت کے پاس بیٹھ کر کوئی کسی کی ایسی بات نہ کرے میں سے
۲۴۰ کسی کو اپنی پوزیشن بھی کلیر کرنی مشکل ہو جاتے.اور بہت بعد میں بھی اکثر باجی جان اس بات کا مجھ سے تذکرہ کر کے پھرنئے سرے سے مجھے سرا نہیں.حالانکہ یہ کوئی غیر معمولی چیز نہ تھی.میرا ایک فرض تھا جو میں نے جیسے بھی بن پڑا ادا کیا ، لیکن قدر دان اور قدر شناس وہی ہوتے ہیں جو خود خدا تعالیٰ کے نزدیک اہم شخصیتیں ہوتی ہیں.اور پھر جیسا کہ میں نے کریں بعد میں سنا کہ باجی جان نے کئی دفعہ تعریفی کلمات میں اس کا تذکرہ کیا.اور یہ سب میں سمجھتی ہوں کہ چونکہ میں نا تجربہ کار تھی.اپنے ان تمام واقعات میں میری حوصلہ افزائی اعلیٰ طریق پر کرتے ہوتے میری دلجوئی بھی کی اور میری راہنمائی بھی کی.مگر کس قدر حسین طریقی ہے.اسی طرح ایک دفعہ رتن بارغ لا ہور قیام کے دوران کسی بچے کو کوئی معمولی سازیور بنوانا تھا یا بنا بنا یا خریدنا تھا اور وہ زیورہ ایک مہین تک ہی محدود تھا.سیدنا حضرت فضل عمر نے دفتر سے کہہ کروہ لاکٹ منگوایا تاکہ خریدنے والے کو دکھا کر اس کی پسندیدگی پر اسے لے دیا جائے.اب جب وہ ڈبے میں لگا ہوا لاکٹ آیا تو انہوں نے توڑیے ہی میں دیکھ کر مجھے اور باقی جان کو جو اتفاق سے وہیں کھڑی تھیں.فرمایا.تم لوگ دیکھو اگر خریدنے والے کے مناسب حال ہے تو لے لیا جائے میں نے جو اس چین کو پوری احتیاط اور آرام سے ہاتھ میں پکڑا تو اس کے دو ٹکڑے ہوگئے.اس پر یہ ناراض ہوئے کہ بیگانی چیز توڑ دی.اور میں حیران تھی کہ کس قسم کا زیور یا زنجیر ہے جو ہاتھ میں پکڑے
۲۴۱ کپڑے دو ٹکڑے ہو گیا.یہ کافی برہم تھے.باجی جان نے کہا لاؤ میں رکھتی ہوں اس میں ایسا کیا نقص ہے یا دکاندار ہی کا دھوکا ہے.الیسا تو کبھی ہوا نہیں باجی جان نے یہ کہتے ہی وہ چین ہاتھ میں پکڑی ہی تھی کہ پھر اس کے دو کڑے ہو گئے.اب وہ چین چار ٹکڑوں میں ہوگئی ، انہوں نے جب یہ دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ زیور انہوں نے (یعنی میں نے ہاتھ لگاتے ہی اس بُری طرح توڑا ہے کہ اب ٹوٹتا ہی جا رہا ہے.میں خود بڑی متعجب اور منذ بذب تھی کہ ایسا کیوں ہوا اور ایسا کیوں ہو رہا ہے.آخر باجی جان نے کہا کہ بڑے بھائی.یہ قصور نہ تو ان کا ہے اور نہ ہی میرا.بلکہ اس جیولر کا ہے جس نے دھو کے کے لیے یہ ڈھونگ رچایا تاکہ جس قدر ہوسکے ناجائز طور پر شور مچا کر اپنا الو سیدھا کرے.آپ اس زیور کو اسی وقت واپس کریں اور کسی دوسرے جیوار سے منگوائیں.آپ کو ایک حق بات صاف نظر آرہی تھی آپ نے کسی خوش اسلوبی سے اس بات کو ختم کروایا.اور ثابت کروایا کہ یہ اسی جیولر کی اپنی کوئی شعبدہ بازی تھی.ہم لوگ تھے نئے قادیان سے آئے ہوئے تھے اور رتن باغ میں پورا خاندان قیام پذیر تھا.اور باقی باہر کے تمام کوارٹرز اور رتن باغ کے کھلے و عریض میدان اور باغ میں ہمارے ساتھ ساتھ ہم لوگوں کی نگرانی میں قیام پذیر تھے.ہزاروں سلام اور رحمتیں آپ پر.ان شخصیتوں کے بابرکت وجودوں سے محرومی.ہمارے لیے یقینا لمحہ فکریہ ہے.خدا کرے کہ ہم ان کی صفات سے رنگین ہوں.تاکہ برکات کا تسلسل مزید بڑھتا چلا جائے
۲۴۲ ہم پر ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے اوصاف سے متصف ہوں اس حد تک کہ آنے والی اور موجودہ نسلوں کے لیے نمونہ نہیں.اچھا یا جی جان ! میری محبوب آپ خدا تعالیٰ کی رحمت کے سایہ میں قیام پذیر ہوں.آپ کی ساری دعائیں قبولیت کا شرف پائیں اور ہم لوگوں کو خدا تعالیٰ محض اپنے ہی فضل سے آپ کی صفات کا حامل بناتے آمین اے خدا بر تربت أو ابر رحمت را بیار داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم 0 ماہنامہ مصباح ماه جنوری فروری شه) خُدایا تیرے فضلوں کو کروں یاد بشارت تو نے دی اور پھر یہ اولاد کہا ہر گنہ نہیں ہونگے یہ برباد ہرگزنہ بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد خبر تو نے یہ مجھ کو بارہا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرى الأَمادِي سیح موعود )
پیکرا وصاف حمیده حضرت سیده مرحومہ کی بڑی بیٹی محترم سیدہ آمنہ طیبہ صاحبہ بیگم حضرت صاجزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے اپنی والدہ ماجدہ کی با برکت زندگی کے بعض پہلوؤں کو اس طرح اُجاگر کیا :- سب سے پہلے تو میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی یعنی حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کو ماری ماں بنایا.اللہ تعالے ہم سب بہن بھائیوں کو توفیق عطا فرماتے کہ ہم بھی اس احسان کے بدلے میں جو فرائض اور ذمہ داریاں ہم پر عائلہ ہوتی ہیں ان کو پورا کرنے والے ہوں اور ہمارا کردار اور ہمارے افعال ان کے نیک نمونے کے مطابق ہوں.امی جان کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ مجھے اپنے خیالات اکٹھے کرنا مشکل لگ رہا ہے.شاید میں ان پر پوری طرح روشنی نہ ڈال سکوں.بحیثیت بیوی سب سے پہلے تو میں اتنی جان کے متعلق بحیثیت بیوی کچھ لکھنے کی کوشش کروں گی جہاں تک میں اتنی جان کو بحیثیت بیوی دیکھتی ہوں تو آپ نہایت ہی محبت کرنے والی.نہایت گرا خیال رکھنے والی بیوی تھیں جو
۲۴۴ بھی حالات پیش آئے آپ نے ان کو بشاشت کے ساتھ برداشت کیا اور ہر رنگ میں ابا جان کا ساتھ دیا اور باوجود اس کے کہ ابا جان جیسا محبت کرنے والا اور خیال رکھنے والا قدردان خاوند حسن کی مثال منی مشکل ہے.مگر پھر بھی اس سے کوئی ناجائز فائدہ نہیں اُٹھایا.بلکہ اپنے فرائض پوری طرح ادا کئے اور جو خدمت ابا جان کی تیرہ سال کی طویل علالت میں کی اس کی مثال مشکل سے ملے گی.شروع کے پانچ سال بیماری کے وہ تھے جو مسلسل بستر پر گذرے.اس عرصہ میں ابا جان کو شدید بیماریاں آئیں.امی جان نے ٹرینڈ نوسوں کی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ابا جان کا خیال رکھا.ڈاکٹر یوسف صاحب جو کہ ابا جان کے مستقل معالج تھے ابا جان کو کہا کرتے تھے نواب صاحب ہم ڈاکٹر آپس میں باتیں کرتے ہیں کہ آج تک کسی مریض کا ایسا علاج نہیں ہوا.اور نہ ایسی نرسنگ ہوتی ہے.اگر آپ دو زمیں بھی رکھتے تو آپ کو ایسی نرسنگ نہیں بن سکتی تھی اتنا صاف اور اتنا باقاعدگی کا کام تھا کہ یوں لگتا تھا کہ کوئی ٹرینڈ نرس کر رہی ہے.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.بیماریوں کے دوران کئی دفعہ ابا جان کو ہسپتال بھی داخل ہونا پڑا.وہاں بھی امی جان کو نرسوں کا کام پسند نہیں آتا تھا.ڈاکٹر سے اجازت لیکر دوائیاں وغیرہ سب اپنے زمرے نیتی تھیں.پارٹیشن کے فوراً بعد شاہ میں ابا جان کو شد قسم کا ہارٹ اٹیک ہوا تھا.اس وقت ایک تو ویسے سب کے مالی حالات خراب تھے.اکثر جا ئیدادیں وغیرہ اُدھر رہ گئیں تھیں گھر بار چھوڑ کر آتے تھے.ایک ایک کمرہ میں سب رہ رہے تھے اُوپر سے
۲۴۵ بیماری اتنی سخت کہ بے حساب خرچ ہو رہا تھا.مردوں کی طرح امی جان نے اس وقت بڑا حوصلہ دکھایا.روپے کا انتظام کرنا اور پھر ابا جان کا بھی مطرح سے خیال رکھنا.تاکہ علاج میں کوئی کمی نہ رہ جائے بعض وقت لاہور کے چوٹی کے پانچ چھے ڈاکٹروں کا بورڈ بیٹھتا تھا.اخراجات بہت زیادہ تھے گرامی نے ابا جان کو بالکل محسوس نہیں ہونے دیا.ہمیشہ اپنی بشاشت کو قائم رکھا.آپ کی صحت بہت کمزور تھی.مگر باوجود اس کے اتنی محنت کی کہ بعض وقت ابا جان کے پاٹ تک خود اُٹھاتے کیونکہ پرانے نوکر تو پارٹیشن کے وقت ادھر اُدھر بکھر گئے تھے اور نئے نوکر اول تو ملتے نہیں تھے اور اگر ملتے بھی تھے تو اتنے بددماغ کہ ایسے کام کرنے سے انکاری - شروع بیماری میں تو ہم سب بہنیں پاس ہی رہیں دو دو تین تین گھنٹے سب باری باری دن اور رات ڈیوٹی دیتے تھے مگر کہاں تک ٹھر سکتے تھے پھر سارا بوجھ اتنا عرصہ امی جان نے ہی اُٹھایا.مگر بہت بشاشت اور ہمت کے ساتھ اور ابا جان کو اپنی کسی تکلیف کا احساس تک نہیں ہونے دیا.بحیثیت ماں بحیثیت ماں جب میں امی جان کے متعلق سوچتی ہوں تو بہت ہی شفیق محبت کرنے والی اور بچوں کے لیے بہت ہی قربانی کرنے والی پانی ہوں.امی جان کی شادی بہت ہی چھوٹی یعنی چودہ سال کی عمر میں ہوئی تھی.پندرہویں سال میں تھیں جب میری پیدائش ہوئی اور اوپر تلے عزیزم
عباس احمد عزیزه طاهره دیگیم مرزا منیر احمد صاحب) کی پیدائش ہوئی بتایا کرتی تھیں کہ میں تین دُودھ کی بوتلیں.تم تینوں کے لیے اکٹھی بناتی تھیں.چھوٹی عمر کی شادی کے بہت خلاف تھیں کہ لڑکی پر بہت ذمہ داری اور بوجھ اتنی چھوٹی عمر میں پڑ جاتے ہیں.مجھے یاد ہے ہمارا بچپن کا زمانہ اپنے دادا جان کے ساتھ گذرا زیادہ تر مالیر کوٹلہ میں.بعد میں جب مالیر کوٹلہ سے ہم یعنی ابا جان اور امی جان قادیان مستقل آگئے تو پھر امی جان کا سمجھانا ، نصیحت کرنا یاد ہے.اس وقت سمجھ کی عمر آگئی تھی.اور ان کا کردار ہی نصیحت کا موجب بن گیا.نمازوں اور دُعاؤں کی بہت تاکید کرتی تھیں اور خاص طور پر جب بچہ ہونے والا ہوا تھا تو خصوصیت سے سیرت حضرت خاتم النبیین اور سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی کتب پڑھنے پر بہت زور دیتی تھیں کہ بچے پر اس کا بہت اچھا اثر پڑتا ہے.ملازمین سے حسن سلوک سب ملازم امی جان کی بہت ہی محبت کے ساتھ خدمت کرتے تھے اگر کبھی کسی بات پر ناراض بھی ہو ئیں تو بعد میں اس کی اتنی تلافی کرتی تھیں کہ دوسرا شرمندہ ہو جاتا تھا.باورچی جو کھانا پکاتا تھا.جب وہ آیا تھا.تو چھوٹا لڑکا تھا اس کو کھانا پکانا سکھایا اور آخر وقت تک اس نے بہت ہی خدمت کی اور خیال رکھا.اس کے بچے سے بہت پیار کرتیں امی جان کی
۲۴۷ وفات کے بعد جب ایک دراز کھولا تو اس میں کچھ ٹکٹ علیحدہ رکھے ہوئے تھے جب پوچھا تو پتہ چلا کہ برائی جان باورچی کے بیٹے کے لیے منگوا کر رکھتی تھیں حالانکہ وہ احمدی نہ تھا.مگر جب امی جان کی وفات کے بعد یہاں سے لاہور میری بہن کے پاس رہنے کو جا رہا تھا تو اس طرح زارو قطار رو رہا تھا کہ میں سوچ رہی تھی کہ میں زیادہ صدمہ ہے یا اس کو.اب تک یاد کر کے بہت روتا ہے.حصول علم کا شوق امی جان کے متعلق میں اکثر سوچتی تھی کہ چودہ سال کی عمر میں شادی ہوتی اس وقت ایک کیا تعلیم ہو سکتی تھی.زیادہ سے زیادہ تر ان شریف اُردو لکھنا پڑھنا یا کچھ دینی کتابیں حدیث وغیرہ پڑھنا جیسا کہ اس وقت کا زمانہ تھا مگر شادی کے بعد باوجود اس کے کہ چھوٹے چھوٹے اوپر تلے کئی بچے پیدا ہوئے آپ نے اپنے علم کو بڑھایا.پہلے ادیب کا امتحان دیا پھر میٹرک اور ایف اے کا.مطالعہ کا بے حد شوق تھا اب تک لا تبریری کا.لائبریری ہے کتابیں منگوا کر پڑھتی رہتی تھیں.روزانہ کا معمول تھا کہ صبح ناشتہ کیسا تھے ساتھ اخبار ضرور سنتی تھیں اردو کے اخبار کچھ زیادہ ہی خبریں دیتے ہیں اور مسالے لگاتے ہیں مجھے اکثر خبروں شام کو جب امی جان کے پاس جاتی تو ان سے معلوم ہوتی تھیں.رات کو نیند ٹھیک نہیں آتی تھی.روزانہ کا معمول تھا کہ لڑکیاں دبا رہی میں کہانیاں سنا رہی ہیں تاکہ نیند آجائے.ضرور
۲۴۸ کہانی سن کر سوتی تھیں.حسن انتظام.انی جان میں غیر معمولی انتظامی قابلیت تھی.اب تو کئی سال سے ایک طرح سے بستر پر ہی تھیں.چلنا پھرنا بالکل ختم تھا.گھر بستر پر بیٹھے ہی سب انتظام اس طرح کرواتی تھیں کہ بیمار کا گھر نہیں لگتا تھا.جلسہ سالانہ جب ہوتا تھا.ربوہ والوں کو مہمانوں کے لیے بہت تیاری کرنا پڑتی تھی اچانک آنے والے مہمانوں کے لیے اکثر کھانے بھی کچے پکے پکا کر رکھنے ہوتے تھے.بستروں کا انتظام وغیرہ اور بھی بہت سے کام ہوتے تھے.گرامی جان نے یہ سب کام ہمیشہ وقت سے پہلے تیار کروا کے رکھے ہوتے تھے.بہت دور اندیش طبیعت تھی.امی جان کے پاس کھانا پکانے والی اگر عورت آئی ہے یا باورچی جس کو بھی تھوڑی بہت کھانا پکانے کی سُدھ بدھ ہوتی وہ تھوڑے دنوں میں ایسا عمدہ کھانا پکانے لگ جاتا تھا کہ حیرت ہوتی تھی.کیونکہ امی جان کا یہ طریق تھا کہ اکثر کھانے کی ترکیب خود بتاتی تھیں.ویسے ہم نے کبھی امی جان کو ہاتھ میں چمچہ پکڑتے نہیں دیکھا.میں سوچا کرتی تھی کبھی خود پکایا نہیں مگر کس طرح سارے کھانوں کی ترکیب سمجھا کرتی دیتی تھیں.امی جان کو اس بات کا بے حد دکھ تھا کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام یاد نہیں.فرمایا کرتی تھیں کہ ان کی وفات کے بعد حضرت اماں جان نے اس لیے
۲۴۹ کہ مجھے یاد کر کے تکلیف ہوگی سب کو روک دیا تھا.کہ میرے سامنے کوئی حضر مسیح موعود علیہ اسلام کا ذکر کرے.بتایا کرتی تھیں کہ میں بھی اتنا سم گئی تھی کہ ایک وفعہ بچوں سے کھیلتے کھیلتے کسی بات پر میرے منہ سے اتنا نکل گیا تو میں نے ڈر کے مارے ادھر اُدھر دیکھا کہ کہیں اماں جان نے سُن تو نہیں لیا.فرمایا کرتی تھیں اگر حضرت اماں جان اس طرح بھلانے کی کوشش نہ کرتیں تو چار سال کا بچہ اچھا بھلا یاد رکھ سکتا ہے امی جان میں غیر معمولی صلاحیتیں تھیں.میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ حالات نے ان کو فرصت نہ دی ایک روز میری چھوٹی بہن فوزیہ نے مجھے بتایا کہ ایک دن میں نے امی کو کہا امی میں اکثر سوچتی ہوں کہ آپ میں اتنی صلاحیتیں ہیں مگر وہ سب دبی ہوتی ہیں" رامی جان اور فوزیہ آپس میں دل کی بات کر لیتی تھیں ) اس نے بتایا کہ میرا یہ کہنا تھا کہ اتھی کے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے.امی جان کو دیکھ کر میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ جو بچے بہت چھوٹی عمر میں قیم ہو جاتے ہیں وہ کبھی اُبھرتے نہیں.اس وقت جو سم ہوتا ہے اس کا اثر ساری عمر ساری زندگی اور شخصیت پر ہمیشہ کے لیے پڑ جاتا ہے.حضرت اماں جان کی بے انتہا محبت ابا جان کی غیر معمولی محبت اور پیار اور ہر طرح کا خیال مگر امی جان کو دلیر نہ کر سکا.کہیں جانا ہوتا تھا تو ضرور چاہتی تھیں کہ میری بیٹیوں میں سے کوئی ساتھ ہو.ہمیشہ سمارا چاہتی تھیں.بیماری کے آخری ایک دو مینے من گذشتہ دنوں کی بہت باتیں کرتی تھیں اور طبیعت کمزور ہونے کی وجہ سے جب
۲۵۰ کوئی تکلیف والی بات بتاتی تھیں تو سخت جذباتی ہو جاتی تھیں.ایک دفعہ بتایا کہ میری شادی کے شروع سالوں کا زمانہ تھا ایک دن بڑے بھائی رحضرت خلیفہ المسیح الثانی قادیان میں ہمارے دادا کی کوٹھی دار السلام آئے ہوتے تھے مجھے دیکھ کر فرمانے لگے تم کچھ پریشان لگ رہی ہو کیا بات ہے.اتنی جان کہنے لگیں یہ سنتے ہی میری آنکھوں سے آنسو گرنے شروع ہو گئے.مجھے دیکھ کر فرمانے لگے کہ یاد رکھو بعض وقت RACE کا آخری گھوڑا سب سے آگے نکل جاتا ہے.صبر و ضبط مبر جیسا کہ میں نے امی جان کو کرتے دیکھا ہے وہ بھی غیر معمولی ہے زندگی کے آخری سالوں میں ایک دو ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے توڑ کر رکھدیا.سب سے پیاری اور سب سے چھوٹی بیٹی عزیزہ فوزیہ کے میاں عزیزم مرزا شمیم احمد صاحب کی وفات بظاہر تو لگتا تھا کہ برو است کر گئی ہیں مگر اندر ہی اندر کھوکھلی ہو گئیں اور مختلف بیماریوں کا شکار ہوگئیں.یہ تو ان کی طبیعت تھی اور خدا کا فضل تھا کہ اپنی بشاشت اور ہر بات میں دلچسپی آخر وقت تک قائم رکھی.اتنی لمبی بیماری کے باوجود امی جان کے پاس بیٹھ کر کوئی بو نہیں ہو سکتا تھا.ہمارے بچے تک " بڑی امی کی کمپنی میں پوری دلچسپی لیتے تھے.
۲۵۱ اس بات سے بہت گھبراتی تھیں کہ میری وجہ سے کسی پر بوجھ نہ پڑے کوئی تکلیف نہ اُٹھاتے اپنے نفس پر تکلیف گوارا کر لیتی تھیں گرفتی الوسع دوسرے پر کسی قسم کا بوجھ ڈالنے سے گھبراتی تھیں.ان کی اس طبیعت کی وجہ سے ہیں ان کی بیماری میں بہت احساس رہتا تھا کہ امی جان ہماری تکلیف کے خیال سے اپنی تکلیف چھپائیں گی اور ہوا بھی اسی طرح کہ ایک گھنٹہ سے ہم باتیں کر رہی تھیں آنے والوں کو پانی وغیرہ پلوانے کو کہ رہی تھیں باورچی کے بیٹے کو بلوا کر کچھ پھیل وغیرہ دیا ہمیں کہا کہ اب جاؤ دوپہر ہوگئی ہے میں نے آرام کرنا ہے.ہم چار بہنیں وہاں موجود تھیں ہم لوگ باہر آگئے فوزیہ کو ہم نے کہا تم سو جاؤ.تم ساری رات جاگتی رہی ہو مجھے کچھ گھر میں کام تھا.قریب ہی گھر تھا پھر بھی میں کار میں گئی کہ جلدی سے ہو کر آتی ہوں ابھی گھر میں آکر پندرہ بیس منٹ ہوتے تھے کہ فون آگیا کہ طبیعت یکدم خراب ہو گئی ہے جلدی آجاؤ میرا لڑکا عزیز تسلیم احمد جو ڈاکٹر ہے ہمیں کار میں لے کر جلدی پہنچا ابھی دوسرے ڈاکٹر صاحب نہیں آتے تھے عزیزم تسلیم احمد نے جلدی جلدی نن دیکھی مگر قبض نہ ملی به نھیں رکھیں مصنوعی سانس دلانے کی کوشش کی مگر وہ تو اللہ کو پیاری ہو چکی تھیں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی آخری نشانی ہم سب اور ساری جماعت کو سوگوار چھوڑ کر اس دنیا سے چلی گئیں.اللہ تعالیٰ کی بے حساب رحمتیں اور برکتیں ان پر ہمیشہ نازل ہوتی رہیں اور خدا تعالیٰ ہمیں ان کے ایک نمونہ پر چلنے کی توفیق عطا فرماتے اور ان کی دعاؤں کا فیض ہمیشہ ہمیں مہار ہے.آمین ر ماهنامه مصباح جنوری فروری شانه ) >
۲۵۲ وخت کرام جذبہ تسلیم و رضا کا پیگیر دخت کرام حضرت سیده امته الحفیظ بیگم صاحبه دختر نیک اختر سید نا حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ اسلام کے بڑے صاحبزاد سے مکرم نوابزادہ میاں عباس احمد خان صاحب نے اپنی والدہ ماجدہ کے متعلق اپنے تاثرات کا یوں اظہار کیا : - حضرت دخت کرام شیده امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی زندگی کا سرورق یا دوسرے الفاظ میں آپ کی سیرت کا نمایاں رنگ عشق الہی اور اس کے آگے تسلیم و رضا کا جذبہ تھا.یہ خاصہ صرف آپ ہی کا نہ تھا بلکہ آپ سمیت آپ کے پانچوں بہن بھائیوں جو کہ نسل سیدہ میں سے تھے کی سیرت کا نمایاں پہلو یہی عشق الہی اور جذبہ تسلیم و رضا تھا.ان پانچوں کے اندر اسمعیلی عبودیت نمایاں کردار ادا کرتی نظر آتی ہے یہ تمام افعل ما تؤمر کا نمونہ تھے.اور ان سب نے اپنی گرد میں آستانہ الہی کے سامنے ڈال دی ہوئی تھیں.مر تسلیم خم تھا کہ وہ جو چاہے کرے.یہ تمام راضی برضا تھے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی فضل عمر زندگی بھر مصائب و شکلات میں
۲۵۳ گھرے رہے اور زندگی کے آخری دس سال شدید بیمار رہے.پانچ سال تو بالکل صاحب فراش رہے.مگر تمام مصائب اور مشکلات میں سر تسلیم و رضا کے ساتھ آستانہ الہی کے آگے جھکا رہا.اس عاجز کی خالہ سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحب نے مجھے سُنایا کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے کہا کہ آپ اپنے لیے دعا کریں.جواب میں فرمایا کہ میں کیوں کروں.کیا میرا مولا مجھے خود دیکھ نہیں رہا کہ میں کس حالت میں ہوں.یہ وہ والہانہ عشقیہ انداز تھا جو کم و بیش آپ کے تمام بہن بھائیوں میں نمایاں جھلک دیتا رہا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی رفیقہ حیات حضرت ام مظفر احمد صاحبہ کی لبی تکلیف دہ بیماری کا مرحلہ صبرو رضا کے ساتھ گزارا.اسی حالت صبر و شکر میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے.اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب شدید دوران سرکی بیماری میں مبتلا تھے خود کہا کرتے تھے کہ یہ تکلیف اکثر نا قابل برداشت ہو جاتی ہے.یہ تکلیف قریباً پچیس سال رہی اور اسی حالت میں وفات ہوئی مگر کبھی ناشکری کا کلمہ زبان پر نہ لاتے.۹۵۳تہ میں جب آپ کو مارشل لا کے دور میں قید کرلیا گیا.جیل میں یہ ایام نہایت سکون اور صبر و رضا کے ساتھ گزارے.ان دنوں صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے مجھے خود بتایا کہ وہ حضرت چچا جان کو ملنے گئے توانہوں نے آپ کو پورے سکون کے ساتھ مطمئن پایا.انہوں نے کہا کہ چچا جان نے یہ
۲۵۴ پوچھا تک نہیں کہ قید کا زمانہ کتنا عرصہ رہے گا اور نہ ہی کسی قسم کی تکلیف کی شکایت کی.بھائی مظفر احمد صاحب حضرت ماموں جان مرزا شریف احمد صاحب کے نمونہ سے بہت متاثر نظر آتے تھے.حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو بعض لوگوں سے بڑے دُکھ پہنچے.مگر آپ نے ضبط و تحمل کا دامن نہ چھوڑا.ایک دفعہ بیت مبارک میں درس حدیث دے رہے تھے.جب واقعہ افک کی حدیث جس میں حضرت عائشہ پر اتہامات کا ذکر ہے سنانے لگے تو حدیث سنانے کے ساتھ ساتھ روتے بھی جاتے تھے...ہماری خالہ حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے اپنے شوہر اور ہمارے دادا حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کئی سال کی لمبی بیماری میں تیمار داری اور خدمت کا وہ نمونہ دکھایا کہ دیکھنے والے اور ہماری ریاست مالیر کوٹلہ کی برادری والے اس پاک نمونہ سے بہت متاثر نظر آتے تھے.حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی وفات کے وقت ہماری خالہ حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی عمر ۲۸ سال تھی.اپنے شوہر کی وفات کے بعد ہماری خالہ کے ایام بیوگی کا زمانہ نہیں سال سے زائد بنتا ہے اس عرصہ میں پار کمیشن کا زمانہ آیا اور آپ گھر سے بے گھر ہوئیں مگر یہ تمام عرصہ صبر و رضا کے ساتھ گذارا.انہی ایام میں آپ نے یہ اشعار کہے.مولا سموم غم کے تھپیڑے پسند ، پسند اب انتظارم دفع بلیات چاہیئے
۲۵۵ مانا کہ بے عمل ہیں نہیں قابل نظر ہیں خانہ زاد " پھر بھی مراعات چاہتے ٹھلے گتے ہیں سینہ و دل جاں بلب ہیں ہم جھڑیاں کرم کی فضل کی برسات چاہیئے پل مارنے کی دیر ہے حاجت روائی میں بس التفات قاضی حاجات چاہتے اتنا نہ کھینچ کہ رشتہ اُمید ٹوٹ جاتے کڑے نہ جس سے بات وہی بات چاہیئے ) در عدن صفحه ۵۸ ) یہ تو عبودیت کی آواز تھی اور اس کیفیت کی حامل جس نے حضرت عیسی علی السلام سے یہ کھلوایا کہ اے خدا اے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا لیکن ساتھ ہی اپنی بندگی کے پیش نظر کہتے جاتے تھے " تیری مرضی پوری ہو.ہماری والدہ درخت کرام حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی بھی ہیں کیفیت تھی حضرت والد صاحب مکرم کی لمبی بیماری میں ان کی خدمت اور پھر خود ہماری والدہ کی اپنی بیماری ان کی حالت صبر و رضا اور عشق الہی کی عکاس ہے.....حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی راقم الحروف کے استاد بھی تھے اور اس عاجز کا آپ کے ساتھ گہرا تعلق تھا کوئی دنیاوی معامہ ایسا نہ ہوتا کہ میں انہیں دعا کے لیے نہ لکھتا.ان محترم کے متعد د خطوط میرے
roy پاس محفوظ ہیں.حضرت والد صاحب کی بیماری کے بارہ میں جس کا حملہ فروری تہ کو رتن باغ لاہور میں ہوا.یہ عاجز حضرت مولانا کو دعا کے لیے خط لکھتا رہتا تھا.حضرت مولوی صاحب کے اس زمانہ کے خطوط بھی میرے پاس محفوظ ہیں جن میں حضرت والد صاحب کے بارہ میں مندر اور مبشر خوا میں درج ہیں جن میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ شفایابی غالباً پانچ سال میں ہوگی.ان خوابوں میں آپ کی یہ خواب بھی تھی کہ اس بیماری کی علت فائی یہ ہے کہ حضرت والد صاحب اور ہماری والدہ صاحبہ کو نوروں کے پانی سے غسل دیا جائے.انہی دنوں حضرت مولوی صاحب نے ایک کشفی نظارہ دیکھا کہ اللہ تعالی ذات غفور و و دو در رستوح و قدوس بذات خود ر تن باغ لاہور میں (جہاں ان دنوں حضرت خلیفہ المسیح الثانی - حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت والد صاحب اور حضرت والدہ صاحبہ رہائش پذیر تھے تشریف لاتے ہیں.رتن باغ میں خدائے و دود و غفور نے حضرت والدہ صاحبہ کو دیکھا اور بہت محبت کے ساتھ سر پر ہاتھ پھیرا.اس کے بعد حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نظر آتے اور ان کے سر پر بھی محبت دیار کے ساتھ ہاتھ پھیرا.بعد ازاں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نظر آتے تو اللہ تعالیٰ ستوح و قدوس غفور و ودود نے فرمایا آپ تو ہمارے ہیں اور ہم آپ کے.حضرت مولوی صاحب نے یہ کشف مجھے خود سُنایا.رتن باغ میں اس تجلی کے بعد خدائے غفور و ورود نے اپنی اس تھیلی کو کراچی میں ظاہر کیا اور
۲۵۷ وہاں اپنی محبت اور پیار کا معاملہ مکرمی مخدومی چوہدری شاہ نواز صاحب سے کیا راقم الحروف کا چوہدری صاحب سے کوئی گہرا تعلق نہیں رہا لہذا یہ عاجزان کی نو بیاں نہیں جانتا ، لیکن ایک خوبی بہت ظاہر وباہر ہے اور وہ آپ کا کردار اتیا کے ذی القربی اور صلہ رحمی ہے یہ آپ کی سیرت کا نمایاں وصف ذی تھا.یہی وصف ان پانچ اوصاف میں سے ایک ہے جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ہمارے آقا و مولا حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں گنواتے تھے جبکہ نزول قرآن پاک کی ابتدائی وحی آپ پر نازل ہوئی.اس عاجز کے نزدیک یہ پیار جس کا حضرت مولوی صاحب کے کشف میں ذکر ہے غالباً مندرجہ بال خونی کا نتیجہ ہے.قارئین سے درخواست ہے کہ دُعا کریں کہ اس عاجز کو بھی اور تمام مخلصین جماعت کو اللہ تعالیٰ اپنی خاص محبت کا مورد فرماتے عشق الیٰ ہماری رگ رگ میں سرایت ہو جاتے اور ہم اللہ تعالیٰ کے عاشق بن جائیں اور وہ غفور و ورود ذات ہمیں اپنے دامن محبت میں لے لے اور ہمارے تمام گناہوں سے درگزر کرے اور ستاری اور غفاری کا معاملہ ہمارے ساتھ ردا رکھے آمین......حضرت والدہ ماجدہ کے نکاح کے موقع پر حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی مرحوم نے جو خطبہ نکاح پڑھا اس کا متن اس کتاب میں کسی اور جگہ آگیا ہے.اور وہ سارے کا سارا نکات معرفت سے پر ہے.حضرت والدہ صاحیبہ کا ر خضنا به ۲۳ فروری شاہ کو ہوا.اس وقت
۲۵۸ آپ کی عمر بارہ سال دس ماہ تھی.اس عاجز سے پہلے میری بڑی بہن طیبہ کی وجہ صا حبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب 1919 نہ میں پیدا ہوئیں اور یہ عاجز ۲۰ جون 19 کو پیدا ہوا.عمر میں میری والدہ مجھ سے صرف سولہ سال بڑی تھیں خاکسار کا بچپن کا زمانہ زیادہ تر اپنے دادا حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور خالہ سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے ساتھ گذرا ہے.اس لیے عاجز اپنی والدہ کے ساتھ زیادہ بے تکلف نہ تھا........اپنی خالہ جو میری سوتیلی دادی -- بھی تھیں.ان سے زیادہ بے تکلف تھا.پارٹیشن کے بعد ہمیں رتن باغ سے جہاں ہم ابتدا میں پناہ گزین ہوئے تھے.حکومت کی طرف سے متبادل کو پھیوں میں جانے کو کہا گیا.اس وقت حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کو میرے والد محترم کے ساتھ ہ.اسی ماڈل ٹاؤن میں جگہ الاٹ کی گئی تھی اور اس عاجز کو اور میرے ماموں اور خسر حضرت صاجزادہ مرزا شریف احمد صاحب کو ہ ڈیوس روڈ پر کونٹی پام وایو الاٹ کی گئی ، لیکن میری خالہ حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ کی خواش تھی کہ وہ میرے ساتھ رہیں.لہذا ما جز کی یہ خوش قسمتی تھی کہ دو شاته یک ایک ہی جگہ ہمارے ساتھ رہیں.اس عاجز سے اور اپنی بھتیجی یعنی میری الا یہ امتہ الباری بگیم سے بہت پیار کرتی تھیں.اس لیے عرصہ کی خوشگوار یادیں کبھی بھولتی نہیں.میری والده نهایت شفیق ماں تھیں اگر چہ میں ان سے زیادہ بے تکلف نہ تھا ،لیکن انہوں نے میری عمر کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ جو محبت دے سکتی تھیں وہ دی.اپنے ایک خط میں وہ مجھے لکھتی ہیں
۲۵۹ میرے پیارے عباس علمکم اللہ تعالی اسلام علیکم ! ابھی ڈاک میں تمہارا خط ملا.میں تو ہمیشہ تمہارے لیے خصوصیت سے دعا کرتی ہوں اور پانچ چھ ماہ سے تو از خود کوئی غیبی تحریک ہے کہ خود نخود دعا تمہارے اور بچوں کے لیے نکلتی ہے.....مجھے تو ہر وقت تمہاری صحت کا فکر رہتا ہے اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہو.جان و مال اولاد ہر تحاظ سے.تمہارا رویہ اپنے ابا کی وفات کے بعد جو میرے ساتھ رہا اور ہے اس سے میرے دل میں خود بخود تمہاری قدر بڑھتی چلی جاتی ہے.بفضلہ تعالیٰ جیسے روپیہ سے میں کسی کی محتاج رسے نہیں.اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت دیا ہے.الحمد للہ.مگر یہ ہی تو سر پرستی کے احساس کی کمی کو پورا نہیں کر سکتا.عورت خواہ کتنی بھی بوڑھی ہو جائے.قدرتاً ایک سرپرست نگران اپنے اُوپر چاہتی ہے.اگر شوہر مشیت ایزدی سے نہ ساتھ دے کے.تو عورت کی نظر لازماً اپنے بیٹوں کی طرف اٹھتی ہے اپنے.اب اگر میں اپنی تنہائی کی حالت میں.بیماری یا کسی تکلیف کا سوچوں تو معاً مجھے تمہارا خیال آتا ہے.دل محسوس کرتا ہے کہ اس بیٹے کا سہارا اس سے لے سکتی ہوں.اسی لیے تمہارے سفرہو کر جانے سے مجھے گھیرا ہٹ سی ہو جاتی ہے.یہ سب میں نے اس لیے لکھا ہے کہ جب یہ کیفیت ایک ماں کے دل کی ہو ا
۲۶۰ تو دکھا کیوں نہ نکلے گی.بچوں کو پیار.-- امة الحفيظ " میرے والد محترم بہت زود رنج اور بہت زیادہ حسین ظنی کی طبیعت کے مالک تھے زور رنجی کے باوجود بہت جلد دل صاف ہو جاتا تھا.کینہ تو سخت سے سخت دشمن کے خلاف بھی نہ تھا.آپ کی زور ریجی اور انتہا کی حسن ظنی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بعض مفاد پرستوں نے انہیں اس عاجز سے ناراض بھی کیا، لیکن والد مرحوم وقتی جوش پر ناراض تو ہو گئے ، لیکن بعد میں اپنے خطوں اور گفت گو میں میری محبت دلجوئی فرماتے تھے.بلکہ ایسے تعریفی کلمات کہہ جاتے تھے جن کا میں ہرگز اہل نہ تھا.اور یہ بات ان کی انتہائی حسن فلنی کا خاصہ تھا.حضرت والد صاحب کی یہ ناراضگی مجھے بہت پریشان کر دیتی تھی.اس پریشانی میں ایک دفعہ میں اپنے محسن حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی تکلیف کا حال سنایا.حضرت مولوی صاحب نے خدا تعالیٰ سے دُعا کی اور دعا کے بعد فرمایا کہ مجھے ابھی الہام ہوا ہے کہ لَمْ يُكُن جباراً عَصِيباً.یعنی یہ عاجز ظالم نافرمانبردار نہیں ہے.اس عاجز نے یہ واقعہ محض اس لیے لکھ دیا ہے کہ میری والدہ مرحومه کا خط حضرت مولوی صاحب کے الہام کی واضح تصدیق کرتا ہے.حضرت والدہ صاحبہ مرحومہ ، حضرت والد صاحب کے دل میں اگر کبھی غلط فہمی پیدا ہوتی اسے دُور کرتی رہتی تھیں.اس کا اعتراف انہوں نے اپنے خطوں میں
۲۶۱ بھی کیا ہے.والدہ محترمہ کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میں اپنی عاقبت کے بارہ میں بہت مشوش ہو گیا.یہ تشویش اس بنام پر پیدا ہوتی کہ ۱۹۳۶۳۵ کی بات ہے کہ مجھے مسجد دارالفضل قادیان میں سلسلہ کے ایک بزرگ خان الطاف خان صاحب جو بہت دُعا گو اور صاحب رویا وکشون تھے.مجھے ایک طرف لے گئے اور فرمایا کہ انہوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دائیں بائیں حضرت والد صاحب کے دولڑ کے کھڑے ہیں.مجھے یہ بات یاد نہیں رہی کہ ان میں سے ایک میں تھا یا نہیں.اس وقت حضرت والد صاحب کا میں ہی ایک لڑکا تھا.اس خواب کے بعد ۹۳۵انہ میں عزیز شاہد احمد خان پاشا پیدا ہوئے.عزیز پاشا کے بعد عزیز مصطفی احمد خان ۱۹۴۳ مہ میں پیدا ہوئے.مجھے ایک دن یہ وہم سوار ہو گیا کہ حضرت خان الطاف خان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دائیں باتیں میرے والد صاحب کے دولڑ کے دیکھے تھے.ایسا تو نہیں کہ یہ عاجزان میں سے نہ ہو.میں اس وہم میں مبتلا تھا اور اسی حالت میں اپنی والدہ محترمہ کی خدمت میں حاضر ہوا.اور عرض کی کہ میرے لیے دعا کریں اور حضرت خان صاحب مرحوم کا خواب بیان کیا.حضرت والدہ صاحبہ نے بے ساختہ فرمایا.یہ یقین رکھو کہ ان دو میں سے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دائیں باتیں کھڑے تھے.تم ان میں سے ایک ضرور تھے کیونکہ بہت عرصہ ہوا میری والدہ یہ خواب دیکھ چکی تھیں کہ حضرت اماں جان کے مکان واقع قادیان کے دالان
میں سے جو راستہ بیت مبارک کو جاتا ہے.حضور اس طرف سے بیت کو جا رہے ہیں اور یہ عاجز احقر العباد حضور کے پیچھے جا رہا ہے.اس لیے والدہ محترمہ نے فرمایا کہ وہ یقین رکھتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دائیں بائیں ان دو لڑکوں میں ایک ضرور یہ عاجز تھا.الحمد للہ قارئین سے درخواست دعا کرتا ہوں کہ مولا کریم اپنی ستاری اور غفاری کی چادر اس عاجز کو پہنا دے اور میری والدہ کی بشارت میرے حق میں پوری کمر دے.اسی طرح میرے دوسرے دونوں بھائیوں کو اپنی ستاری اور مغفرت کی چادر پہنا دے.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام سے قرابت رکھنے والوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ ان کے نیک اعمال کا دوہرا اجر ہے اور بُرے اعمال کی سزا بھی دگنی ہے.لہذا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قرابت رکھنے والوں کے لیے بہت خوف کا مقام ہے احباب دعا کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرابت داروں سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کی حقوت کا باعث ہو.اور اپنے خاص فضل سے ہر قسم کے گناہ اور عیوب سے بچاتا رہے اور ان کی سیات حسنات میں تبدیل ہوتی رہیں.آمین حضرت والدہ صاحبہ کے اوصاف میں سے مہمان نوازی کا وصف بہت نمایاں تھا حتی کہ ان کے اپنے بچے کبھی ان کے ہاں مہمان ہوتے اس قدر احتیاط اور دلجمعی کے ساتھ ان کا خیال رکھا جاتا کہ خود ملازمین کو فکر رہتا که بیگم صاحبہ یعنی حضرت والدہ صاحبہ کی اس مہمان نوازی کے ضمن میں کسی
۲۶۳ فروگذاشت کی وجہ سے کوئی گرفت نہ ہو جاتے یہ عاجز جب کبھی آپ کے پاس ٹھرتا.یہی فکر میری والدہ کو لگی رہتی کہ میرے آرام اور مہمان داری میں کوئی کمی نہ رہ جائے.شدید سر درد کے دوروں میں اور دوسری تکلیف میں بھی جب کچھ ہوش آتا ملازمین سے دریافت کرتیں کہ عباس کو کھانا ناشتہ ٹھیک مایا نہیں.فلاں فلاں چیز اسے دی گئی یا نہیں.حضرت والدہ صاحبہ ریا خود نمائی خود بینی غرور تکبر بتی سے بالکل پاک تھیں.بہت فیاض تھیں صدقہ و خیرات بہت کرتی تھیں.بہت دُعا گو اور صاحب رو با و کشوف تھیں.بین دین کی بہت کھری.حضرت والد صاحب مرحوم کی وفات کے بعد اول فرصت میں اعلان اخبار الفضل میں کروا یا کرکسی کا کوئی حتی حضرت والد صاحب مرحوم کے ذمہ ہو تو ان سے ریعنی حضرت والدہ صاحبہ سے ثبوت مہیا کر کے لے لیا جائے.اس کے بعد جس کا بھی کوئی حق ثابت ہوا دے دیا.بغیر جواز کے اپنا حق بھی چھوڑنا پسند نہیں کرتی تھیں حتی کہ بچوں پر زور دیتی تھیں کہ نہ ہی حق چھوڑو اور نہ ہی کسی کا حق غصب کرد.بچوں کو بار بار ٹوکنے کی عادت نہ تھی.بہت سمجھے طریق سے حق بات ان کے کان میں ڈال دیتی تھیں.ہماری والدہ کے نو بچے خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہیں.تین لڑکے اور چھ لڑکیاں.جن کی تاریخ ولادت کا ذکر کسی دوسری جگہ کیا گیا ہے.حضرت والدہ صاحبہ کی وفات کے بعد ان کے بکس میں سے ایک وصیت ان کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ملی ہے جو آپ نے ا راگست 19
۲۶۴ کو تحریر فرمائی تھی اس کے بعد اسی وصیت پر ۳ اپریل ۱۹۷۷- کا لکھا ہوا 194 ا ایک نوٹ ہے جو عزیز شمیم احمد صاحب شوہر عزیزہ فوزیہ بیگم کی وفات کے بعد لکھا گیا تھا.شاہ کے بعد آپ کی کوئی وصیت نہیں حالانکہ اس کے بعد آپ دس سال زندہ رہیں.آپ کی مسلسل بیماری اور ضعف کچھ اور لکھنے میں شاید مانع رہا یہ وصیت ۷۸ ۱۰ عام لکھنے والے پیڈ کے ۲۲ صفحات پرمشتمل ہے میں کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں : دار الصدر ریوه بسم اللہ الرحمن الرحیم ۷۲ 14.A.N میرے پیارے بچوں کے نام ! السلام علیکم ! اللہ تعالیٰ تم سب کا ہمیشہ حافظ و ناصر رہے.اپنی امان اپنی پناہ میں رکھے.اسلام کے نام پر جان قربان کرنے والے احمدیت کے فداتی امامت کے محافظ ہو آمین.میری دُعا ہے جس جذبہ کے ماتحت تمہارے مرحوم باپ نے مجھ سے شادی کی تھی ان کے ان نیک جذبات اور توقعات پر پورے اترو اور ہمیشہ نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرتے رہو جن میں یہ جذبہ ہے اللہ تعالی انہیں ان کے نیک اعمال میں ترقی عطا فر ماتے استقامت بخشے جو اپنی جہالت یا کم عمری کی وجہ سے کمزور ہیں آئی روح میں خود بخود جوش پیدا ہو جاتے اور انشاء اللہ امید ہے کہ سب کمزوریاں رفع ہو جائیں گی.جڑ مضبوط ہونی چاہیئے.اعتقاد
۲۶۵ اللہ تعالیٰ کا خوف محبت اور اس پر یقین کامل کمزور سے کمزور کی اصلاح کر دے گا......میرے مرنے کے بعد میری تمام چابیاں عزیزہ طیبہ بیگم اور عزیز عباس احمد خان فوراً سنبھال لیں.یہ میری وصیت ہے.میرے اور ان کے ابا کے کاغذات وہ کرہ بند کر کے اطمینان سے ایک ایک کاغذ چیک کریں.بے شک سب بہن بھائی اکٹھے بیٹھیں مگر یہ کام ان کے سپرد کرتی ہوں.........باقی سامان میرے پاس کوئی خاص نہیں.ٹوٹا پھوٹا سامان شاید نکلے جس کو ضرورت ہونے لے ورنہ سب بانٹ میں جیسا کہ اللہ کا حکم ہے.......تبرکات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اوپر کے سٹور میں ایک سیاہ بکس میں ہیں پاس.ہی سفید ٹرنک حضرت اماں جان کے چند پھٹے پرانے کپڑوں کا ہے تبرکات بذریعہ قرعہ اندازی یا انصاف سے سب میں تقسیم ہوں.عزیزم عباس احمد خان اپنے حصہ سے ایک قمیص ٹھنڈے خاصے لٹھے کا لے چکے ہیں وہ وضع کر لیا جائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کر کے دی ہوئی دونی میرے کیش کمیس میں ایک گوٹھ کی تھیلی میں ٹمین کی ڈبیہ اور اس ڈبیہ میں چڑے میں سلی پڑی ہے.یہ قرعہ اندازی پر دی جائے.میرا دل تو چاہتا تھا کہ حضرت ہے.....
۲۶۶ اماں جان کی طرح اپنی چھوٹی بیٹی کو دے دوں گھر نا انصافی سے ڈرتی ہوں.......خدا کرے اسے طے جو میری طرح اس کی حفاظت کرے.میں نہیں چاہتی میرے بچوں کو نا دہندگی کی عادت پڑے اور لوگوں کا پیسہ لیکر مضم کر جایا کریں مجھے سخت نفرت ہے اس بات سے.اللہ تعالیٰ سب کو دیانت و امانت کی توفیق عطا فرماتے.میں نے حضرت بھائی صاحب سے خود سنا ہے کہ اپنا حق چھوڑنے والا بھی گناہ گار ہے........فوزیہ چھوٹی اور بزدل بھی ہے میں نے اس سے چھوٹے بچے کا سلوک کیا ہے اس کے لیے میرا دل گود کے بچہ والا ہے.اسی طرح مصطفیٰ کے لیے بھی ، مگر خیر.....میں اُمید کرتی ہوں کہ میرے بیٹے اپنی دو مینوں (شاہدہ اور فوزیہ ) کا خاص خیال رکھیں گئے.اگر ایسا میری خاطر کریں تو اللہ تعالیٰ انہیں بہت بڑی چیزا دیگا خصوصاً عزیزم عباس اور امتہ الباری کو بطور فرض بھی کرنا چاہیئے وہ خاندان کے ہیڈ ہیں.ان کی بھی بیٹی ہے اگر وہ اچھا نمونہ دکھا ئیں گے.تو ان کے بیٹے بھی بہین کو اسی طرح جائیں گے عباس احمد نے میری بہت خدمت کی ہے اور میری بہت دعائیں لی ہیں.اس کے گھر مجھے کسی پر اتے کا احساس
744 نہیں ہوا.میں مہمان رہی میرے دوسرے بچے مہمان رہے همیشه نهایت خندہ پیشانی سے سب کی مہمان نوازی کی.اگر گذشتہ میں اس سے کوئی زیادتی بھی ہو گئی ہو تو اللہ تعالے نے اُسے بھلائی کا نہایت اعلیٰ موقع دیا.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے گناہ دھوڑا تھا ہے الحمد للہ.میری خدمت خاص خیال سے اس نے پچھلے سارے دیتے دھر دیئے اللہ تعالیٰ نے اُسے باپ کی آخری وقت کی خدمت کی توفیق بھی عطا کی ثم الحمد للہ میری دعا ہے اللہ تعالیٰ ان میاں بیوی کو اولاد کا سکھ دکھائے.ان کی اکلوتی بچی بہترین قسمت کی مالک ہو.- اب نہ میرے دل میں طاقت ہے نہ دماغ میں 11 نومبر کو جو قیامت گزر گئی اس نے مجھے دماغی طور پر مفلوج کر دیا ہے اب میری صرف یہی درخواست ہے کہ میری پیاری دُکھیا بچی کو اپنی دعاؤں میں نہ بھولیں جو سلوک اور پھر روی اس مصیبت میں میرے بچوں نے کی ہے اس کا صلہ میں تو نہیں دے سکتی اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے ایک کا کیا نام لوں سب نے کیا اور حد سے زیادہ کیا مصطفیٰ اور محمود داودی ابن نواب محمد احمد خان صاحب مرحوم جو کہ کرنل اور احمد
• صاحب کے داماد ہیں ) نے تو حد ہی کر دی میں دونوں کو ہر وقت دعائیں دیتی ہوں.میں کیا بتاؤں کیا کیا کیا شاید ہی کسی بھائی نے کبھی اتنا پیار دیا ہو جتنا انہوں نے دیا.......خدا کرے یہ سب بہن بھائی ہمیشہ اس کا خیال رکھیں سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے لیے دُعا کریں.اللہ تعالیٰ غیب سے کوئی سامان کرے یکسی کی محتاج نہ ہو اپنے گھر شاد باد رہے.وہ چالاک نہیں ، اسے دنیا میں رہنا نہیں آتا.مجھے خوف آتا ہے.یہ جوان لڑکی کیونکر تین بیٹیوں کے ساتھ پہاڑ سی زندگی بسر کرے گی.اسے بھی کسی بحران کی ضرورت ہے ہر وقت فکر رہتا ہے.بچیاں پیار میں بگڑ نہ جاتیں سیکھ مجھے کھا رہا ہے.میرا دس پونڈ وزن ان دنوں کم ہوا ہے دماغی ضعف از حد ہے میں نے مشکل سے یہ سطور لکھی ہیں.اللہ تعالیٰ سب کا حافظ و ناصر ہو.امة الحفيظ " میری والدہ نہایت ذہین تھیں اور بہت لطیف اور حساس طبیعت کی مالک تھیں ایسی افتاد طبع اور طبیعت کی خدمت کوئی آسان کام نہیں اس لیے اس عاجز کی یہ حسرت رہی ہے کہ خاطر خواہ خدمت نہ کر سکا.امہ کے جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالی نے مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمہ اور اشاعت کی تحریک کی تھی.اس
۲۶۹ جلسہ میں صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب اور عزیز مصطفے اور یہ عاجز بھی شامل تھے.ہم نے حضور کی تقریر کے معا بعد یہ فیصلہ کیا.کہ ہر دو کے والدین کے نام پر ایک قرآن شریف کے ترجمہ اور اشاعت کا وعدہ لکھوائیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس مد میں ساڑھے آٹھ لاکھ روپے جمع ہو چکے ہیں.اور ڈیڑھ لاکھ کے وعدے ابھی قابل ادا ہیں.غالباً دولاکھ کی مزید ضرورت ہوگی.اس سلسلہ میں اس عاجز کی اہلیہ اور بچوں نے بھر پور حصہ لیا ہے.خدا کرے باقی رقم کی اگر کوئی کمی رہ جاتے تو وہ بھی پوری ہو جاتے تاکہ ہمارے والدین کے لیے مستقل صدقہ جاریہ قیامت تک ان کے درجات کی بلندی کا موجب بفتا ر ہے اور اس سے افراد اور قومیں ہدایت پائیں.جو اسلام کی سربندی کا موجب نہیں.اور ان کی کرو میں آسمان پر ہم سے خوش ہوں اور جو خوشیاں اس دنیا میں ہم دے سکتے ہیں آسمان پر انہیں مل جائیں.ہماری والدہ مرحومہ کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی اکیس الله بکاف عید کے والی انگوٹھی انہوں نے آپ کے انتخاب.....کے بعد حضور کو پہنائی.جب حضور انتخاب اور بیعت لینے کے بعد گھر تشریف لائے تو خاندان کے مردوں میں سے کسی نے کہا کہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ یعنی حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثالث وہ انگوٹھی حضور کو پہنائیں.مگر حضور نے بے ساختہ فرمایا.نہیں یہ انگوٹھی پھوپھی جان روخت کرام سیده امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی پہنائیں گی.چنانچہ یہ انگوٹھی آپ نے پہنائی اور اس کے بعد بیعت بھی گی.
حضرت والدہ صاحبہ کو اپنے تینوں بھائیوں سے بے حد پیار تھا اور بھائیوں کو ان سے.حضرت والدہ صاحبہ اپنی وصیت میں ایک جگہ کھتی ہیں باش ہمارے بھائیوں جیسے سب بھائی ہوا کریں.اپنی تمام بھاوجوں سے بھی آپ کو بہت پیار تھا، لیکن حضرت سیدہ ام طاہر کے ساتھ تو دوستی والا معاملہ تھا ہر دو ایک دوسرے کو بہت چاہتی تھیں.حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے انتخاب ---- کے بعد جب ابھی حضور بیت مبارک ہی میں تھے.یہ عاجز قصر امامت جہاں ہماری والدہ اس وقت موجود تھیں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھ سے بس یہی سوال کیا کہ بیعت کر آتے ہو.اس عاجز نے کہا کہ بیعت کر آیا ہوں.۹۶ جنوری کی بات ہے کہ حضرت والدہ صاحبہ میرے گھر پام دیوہ ڈیوس روڈ لاہور میں قیام پذیر تھیں آپ نے مجھے علیحدگی میں فرمایا.کہ اس رات آپ نے عجیب خواب دیکھی ہے اور وہ یہ کہ رشتہ میں ہمارے ایک بھائی ہماری والدہ کو کہتے ہیں کہ دیں اپنا ہاتھ " خواب کا باقی حصہ یاد نہیں رہا.اس خواب کی تعبیر میری سمجھ میں آتی نہ میری والدہ کی امامت - رابع کے انتخاب پر جب ہمارے ایک رشتہ کے بھائی نے ہماری والدہ دخت کرام سیدہ امتہ الحفیظ صاحبہ کی وساطت سے حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ کی بیعت کی تب اس خواب کی تعبیر سمجھے میں آتی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب استحکام امامت کا موجب بنے رہیں اور اس دعا میں لگے رہیں کہ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ قیامت تک مریمی
بطن عطا فرماتا چلا جائے جس کے اندر سے ابن مریم پیدا ہوتے رہیں اور حاجات احمدیہ کے کامل صحت مند جسم میں قدرت ثانیہ کا ظہور انہی ابنائے مریم کے ذریعہ ہوتا رہے جو مُردوں کو زندہ کرنے والے اور بیماروں کو شفا دینے والے اور ان تمام کمالات کے مالک ہوں جو حضرت عیسی علیہ اسلام کو دیتے گئے تھے اور یہ لوگ باتباع حضرت خاتم النبیین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے روحانی پرندے پیدا کرنے والے ہوں جو نہ افلاک تک جا پہنچیں اور خدا کرے کہ ان ابنائے مریم کی اتباع سے ہم ان تمام روحانی بیماریوں سے شفا پادیں جو ہماری نفوس کی ہلاکت کا موجب بن رہی ہیں اور ہمیں ایسے بال و پر مل جائیں جو کہ نہ افلاک تک پہنچیں.آمین یہ ایک حسن اتفاق ہے کہ جماعت احمدیہ کے مریمی لطن نے جس بزرگ خلیفہ اسیح الرابع کو جنم دیا ہے اس کی اپنی ماں کا نام بھی مریم تھا حضرت سیدہ ام طاہر مریم بیگم صاحبہ حب ان میں فوت ہوتی ہیں.تہ تو آپ کی وفات سے چند دن پہلے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو انکشاف ہوا کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں.حضرت اُم ظاہر کی وفات کے بعد حضرت مصلح موعود نے چالیس دن بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر حاضر ہو کر چالیس دن لگاتار دعائیں کیں.بہت ہی کرب اور الحاج کی یہ دعائیں تھیں.بہت ہی سوز و گداز کا زمانہ تھا.کسی کو اس وقت کیا معلوم تھا کہ اپنی ماں حضرت مریم کا بیٹا کسی روز جماعت احمدیہ کے مریکی بطن سے بھی ابن مریم بننے والا ہے.شاید یہی وجہ ہو کہ اس وقت ایسی سوزو گران
۲۷۲ کی فضا پیدا کر دی گئی ، اور ایسی مبارک تقریبیں رونما ہوتیں جو قبولیت دعا کے لیے بہت موزوں ہیں.آج شاید اپنی دعاؤں کا ثمرہ ہے کہ ابن مریم حضر • صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ہم میں موجود ہیں.اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہمارے پیارے امام کی عمر غیر معمولی درانہ کرے.اور ہم اس کی بے انتہا دعاؤں کے مورد بن جائیں اور اس کی قوت قدسیہ سے ہماری تمام بیماریاں دُور ہوں.اور ہمیں وہ پرواز ملے جو نہ افلاک کی بلندیوں تک ہم سب کو پہنچا دے.آمین..عباس احمد خان تاریخی مشترک انگوٹی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک انگوٹھی جو حضور اپنے دست مبارک میں پہنا کرتے تھے اور حضور کی وفات کے بعد حضرت اماں جان کے ذریعہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی کو منتقل ہوئی اور آپ کے بعد سیدنا حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث کو اور پھر حضرت سید نامرزا طاہر احمد صاحب کے خلیفہ امسیح الرابع منتخب ہونے پر سہلی عام بیعت لینے کے بعد جب حضور قصر امامت تشریف لے گئے تو حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے یہ متبرک انگوٹھی اپنے دست مبارک سے حضور کی انگلی میں پہنائی.( ) ) بحوالہ ماہنامہ خالد اپریل مئی ۱۹۸۳
۲۷۳ میری اقی حضرت سیده مرحومہ کی جعلی دختر محترمہ صاجزادی طاہر صدیقی صاحب گیم طاہر صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب اپنی پیاری امی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوتے لکھتی ہیں :.آج اپنی پیاری امی کے لیے کچھ لکھتے ہوتے سمجھ مں نہیں آتا کیا لکھوں جذبات اور احساسات سے دل اور دماغ میں آندھیاں سی چل رہی ہیں یقین نہیں آتا.پیاری امی جو کل تک ہمارے درمیان تھیں وہ ہمیشہ کے لیے اپنے پیارے مولا کے پاس چلی گئی ہیں.میری پیاری اتنی ! اسے قابل صد عزت و احترام ہستی تجھ پر خدا تعا کی ان گنت رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہو کہ تو نے اپنی قابل صدر شک زندگی میں ایسے اخلاق اور اعمال کے تاثر سے ثابت کر دیا کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے " میری امی کی صحت تو بہت عرصہ سے مسلسل گررہی تھی.کتنی دفعہ بے ہوش ہوتیں اور کمزوری حد سے بڑھ گئی مگر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اقی پھر سنبھل جائیں.اس دفعہ بھی یہی خیال تھا کہ انشاء اللہ فرق پڑھائے گا.کیونکہ دل اور دماغ امی کی جدائی کا تصور بھی نہیں کرتے تھے.دراصل امی کی صحت تو ابا جان کی لمبی بیماری کے دوران ان کی تیمار داری میں ہی بہت گر گئی تھی مگر اس وقت اتی و صرت ابا جان کا ہی خیال تھا.اور امی نے اپنی ذات کو
۲۷۴ بالکل فراموش کیا ہوا تھا.میری امی جن کو حضرت اماں جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد اپنی ساری شفقتیں اور محبتیں دیں اور بے حد ناز و نعمت میں پرورش کیا اور پھر میرے ابا جان نے ان کو اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام سمجھتے ہوتے ہمیشہ پھولوں کی طرح رکھا.اس شہزادی نے کبھی کسی قسم کی بڑائی یا غرور نہیں کیا.بلکہ ابا جان کی بیماری میں ایسی خدمت کی جو ایک مثال ہے نہ دن دیکھا نہ رات اباجان پانچ سال تک تو بالکل صاحب فراش رہے اس عرصہ میں بیڈ ہین لگانا اور اکثر خود صاف کرنے میں بھی کبھی عار نہیں کیا.اور نہ کبھی ابا جان کو یہ احساس ہونے دیا کہ وہ تھکن سے چور ہیں.اپنی ہر تکلیف کو چھپاتی رہیں صرف اس خیال سے که ابا جان تکلیف محسوس نہ کریں.پھر خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور درمیان میں ایسا عرصہ بھی آیا کہ ابا جان چلنے پھرنے لگے اور اپنے روزمرہ کے معمولات کو سرانجام دینے لگے.مگر چونکہ دل کا دورہ انتہائی شدید تھا.اس لیے بار بار کئی دفعہ ان تیرہ چودہ سالوں میں ابا جان پر مختلف بیماریوں کا حملہ ہوتا رہا.اور میری امی نے ان چودہ سالوں میں اپنے لیے ہر قسم کا آرام حرام کیا ہوا تھا امی پر صرف ابا جان کی بیماری اور تیمارداری کا ہی بوجھ نہیں تھا.بلکہ ہرقسم کی ذمہ داریاں آن پڑی تھیں میرے سب سے چھوٹے بہن بھائی.فوزیہ اور مصطفے جو کہ ابھی بہت کم عمر تھے ان کی دیکھ بھال نیز ابا جان کی بیماری کے تمام اخراجات کا انتظام اور گھر یلو ذمہ داریاں اس کے علاوہ تھیں جن کو امی نے احسن طور پر نبھایا.پھر
۲۷۵ ابا جان کی وفات کے بعد میں صبر اور استقامت سے چھبیس سال کا عرصہ گذارا وہ بھی ایک مثال ہے.میری امی جن کے سارے بوجھ ابا جان اللا تھے اب وہ اپنے بچوں کے لیے باپ بھی تھیں اور ماں بھی تھیں زیر بارشین کے حالات اور پھر میرے ابا جان کی بیماری کی وجہ سے کافی قرضہ ہو چکا تھا میری امی نے سب سے پہلے اس کی طرف توجہ کی اور تب تک چین نہ لیا جب تک ایک ایک پائی ادانہ کر دی ہے امی کو ابا جان کی بیماری کے دوران ہی بلڈ پریشر کی تکلیف ہوگئی اور ابا جان کی وفات کے بعد تو بہت ہی باقی رہنے لگا.سردرد کے دور سے پہلے ہی بہت شدید ہوتے تھے اس کے علاوہ گردوں کی تکلیف کمر کی تکلیف اور کئی ایک عوارض مزید پیدا ہو گئے.بلڈ پریشر بعض اوقات بہت زیادہ ہوتا تھا اور پھر یکدم گر جاتا تھا جس کے نتیجہ میں کئی دفعہ چلتے چلتے گریں اور چوٹیں بھی آئیں اور بعض اوقات ساتھ ہی بے ہوشی بھی ہو جاتی تھی.اس کے بعد ڈاکٹروں نے چند ماہ لٹایا تو ٹانگوں میں بہت کمزوری پیدا ہو گئی.اور رفتہ رفتہ ان تین چار سالوں میں تو بالکل ہی بہتر کی ہو کر رہ گئیں.اپنی تمام بیماری کا عرصہ میری امی نے بہت صبر اور حوصلہ سے گزارا، صبر کرنا تو میری امی نے چھوٹی عمر سے ہی سیکھ لیا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو چار سال کی عمر میں اپنے مولا کے سپرد کر گئے تھے اور حضرت اماں جان نے اس معصوم دالے سے غم اور صدمہ مثانے کے لیے اتنی احتیاط کی کہ خود بھی اور لوگوں کو بھی میری امی کے سامنے حضرت
اقدس کا نام تک لینے سے منع کر دیا.مگر اس ننھے اور معصوم دل نے اپنے عظیم اور بیحد پیار کرنے والے باپ کی محبت کو دل میں یوں چھپایا کہ سب مجھے بچتی ہے شاید بھول گئی.مگر میری امی جو کہ غیر معمولی ذہین اور حساس تھیں.ان کے دل سے وہ یاد ساری عمر نہ نکل سکی اور اس کے نتیجہ میں اقی نے ساری عمر اپنے آپ کو دبایا.باوجود اس کے کہ حضرت اماں جان نے میری امی کو بے حد پیار دیا.ہمیشہ ان کا بے حد خیال رکھا اور پھر امی کو سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے اپنے عظیم بھائیوں کا بھی بے حد پیار ملا.اور شادی کے بعد میرے ابا جان نے امی سے انتہائی محبت اور عزت کا سلوک کیا.ہمیشہ ان کو خدا تعالیٰ کا ایک بڑا انعام اور اپنے لیے باعث برکت سمجھا اس سب کے باوجود بھی میری امی اس معصوم عمر کے حادثہ کو کبھی فراموش نہ کر سکیں اور شاید اسی لیے میری امی میں بہت ہی جھجک تھی وہ کبھی کھل کر اپنی صلاحیتیوں کا اظہار نہ کر سکیں.وہ تو ایک ایسا خاموش سمندر تھیں جو ساری عمر خاموشی سے بہتا رہا اور جتنا اس کی گہرائی میں جاؤ تو پتہ چلتا تھا.اس میں کتنے قیمتی خزانے ہیں.میری امی بہت تقویٰ شعار اور خدا سے بے حد پیار کرنے والی بے حد صابر و شاکر کبھی کسی کا بُرا نہ چاہتی تھیں ہر ایک سے بے حد محبت کرنے والی.اور جس سے ایک دفعہ تعلق ہو جائے اس کو ہمیشہ نبھاتی تھیں میری امی کو بعض حسد اور دیس سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا.معاملہ کی بہت صاف تھیں اور اس بات سے بہت متنفر تھیں کہ کوئی قرض لے کر..
واپس نہ کرے.کہتی تھیں اس طرح لوگوں کو دوسرے کا حق مارنے کی عادت پڑ جاتی ہے حقیقی مجبوری کی اور بات ہے جھوٹ بولنے سے بھی بے حد متنفر تھیں ہمیشہ صاف اور کھری بات کرنے کو پسند کرتی تھیں.باوجود اپنی اتنی کمزوری اور بیماری کے قرآن مجید کی تلاوت روزانہ ضرور کرتی تھیں.سر پر پٹی بندھی ہوتی ہے مگر قرآن شریف کی تلاوت بے حد التزام کے ساتھ کرتی تھیں.کمزوری کی وجہ سے نماز اب لمبی نہیں پڑھ سکتی تھیں.لیٹے لیٹے ہی دعا کرتی رہتی تھیں جب بھی کوئی بہن دُعا کے لیے آتی تھیں اور اپنی تکلیف کا اظھا کرتی تھیں بے چین ہو جاتی تھیں اور بعد میں کہتی تھیں مجھے سارا وقت اس کا خیال آتا رہا اور میں اس کے لیے دُعا کرتی رہی.اب اپنی گزوری کی وجہ سے خطوط کا جواب نہیں دے سکتی تھیں مگر پڑھوا کر سنتی تھیں اور پھر ان کے لیے دُعا کرتی رہتی تھیں.میری امی کا ایک خاص وصف خدا تعالیٰ پر توکل تھا.ایک دفعہ امی کو شہد کی ضرورت پڑی اتفاق سے اس وقت شہد موجود نہیں تھا میں نے کہا امی ابھی جاکر سیدی حضرت بھائی جان رحضرت مرزا ناصر احمد صاحب ) سے لے آتی ہوں.ان کے پاس بہت سا شہر آیا ہے مجھے کہہ رہے تھے کہ تم جاتے ہوئے منبر کے لیے لے جانا.امی نے فوراً کیا نہیں ، میں نے کسی سے نہیں مانگتا.جب اللہ تعالیٰ خود میری تمام ضرورت ہیں پوری کرتا ہے تو میں کسی کو کیوں کہوں.اور پھر میں نے دیکھا اسی دن یا دوسرے دن ہی کسی نے امی کو بہت ہی اچھا خالص شہد تحفتہ بھجوادیا
غرضیکہ میری امی میں بہت ہی خود داری تھی.وہ ایمان اور ایقان میں غیر متزلزل ہستی تھیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام دوخت کرام کی حقیقی تصویر تھیں.وہ بے حد پاک سیرت اور پاک صورت تھیں.امی کو امامت کا بے حد احترام تھا.سیدی بڑے ماموں جان ر حضرت خلیفہ مسیح الثانی تو ویسے ہی علاوہ امام جماعت کے امی کے لیے بڑے بھائی ہونے کی وجہ سے باپ کی جگہ تھے.اس کے بعد سیدی حضرت بھائی جان احضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ المسیح الثالث ) تو امی سے چند سال چھوٹے تھے.مگر ہمارے موجودہ امام سیدی حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ مسیح الرابع ایدہ اللہ تو ائی کے بچوں سے بھی چھوٹے تھے.مگر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ منصب عطا کیا تو امی جان کے لہجے میں ان کے لیے بے حد ادب و احترام پیدا ہو گیا.اور ہیں بھی ہمیشہ یہی نصیحت کی کہ ساری برکتیں امام وقت کی اطاعت میں میں اور ان کا ہر حکم تمہارے لیے عبادت ہے.اتی کو آپ سے بہت پیار تھا اوراقی کی شدید خواہش تھی کہ کاش وہ زندگی میں آپ سے مل سکیں مگر حالات نے جو دوریاں پیدا کردی تھیں وہ ہما رے بس سے باہر تھیں.شادی کے وقت امی کی عمر بہت چھوٹی تھی اور پھر اوپر تھے ہم تین بہن بھائی پیدا ہو گئے اس وقت میرے ابا جان کا ذاتی کام کوئی نہ تھا اور ان کا مستقبل ابھی بنا نہ تھا.اور ہم سب مالیر کوٹلہ میں اپنے
+49 دادا ابا حضور کے پاس ہی رہتے تھے.ابا حضور ہی تمام اخراجات کا بوجھ اُٹھاتے تھے گو ہر قسم کے اخراجات ابا حضور کے ہی ذمہ تھے.مگر پھر بھی شادی کے بعد اور پھر چھوٹے چھوٹے بچوں کا جب ساتھ ہو تو کئی قسم کی ضرورتیں پڑ جاتی ہیں مگر امی کی طبیعت میں بہت ہی غیرت تھی وہ خود تکلیف اُٹھا لیتی تھیں مگر کبھی اپنی کسی ضرورت کا اظہار نہیں کرتی تھیں.امی نے اکثر بتایا کہ حضرت اماں جان مجھے اکثر بے حد اصرار سے پوچھتی تھیں بیٹی تمہیں کوئی ضرورت ہو تو مجھے بتاؤ مگر میں غیرت کے مارے حضرت اماں جان کو بھی احساس نہیں ہونے دیتی تھی اور حضرت اماں جان خود ہی امی کی ضروریا کا خیال رکھتی تھیں.اور پھراتی نے ہی ابا جان کو حوصلہ دیا اور ہمت دلائی اور اپنا مستقبل بنانے کی ترغیب دی جس کے نتیجہ میں ابا جان نے سندھ میں اراضی سے کر بہت محنت سے کام شروع کیا اور حضرت اماں جان اور امی کی دُعاؤں سے خدا تعالیٰ نے اس کام میں بہت برکت ڈالی.ابا جان جو بہت ناز و نعمت سے پہلے تھے ان کو سندھ میں بہت دشوار حالات سے گذرنا پڑا.امی کو جب ابا جان کے خطوط سے پتہ چلتا تھا تو امی بہت دُعائیں کرتی تھیں اسی دوران میری امی نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو خواب میں دیکھا کہ آپ تشریف لاتے ہیں اور امی کو فرماتے ہیں دکھیو تکلفات میں نہ پڑنا.تکلفات اخلاص اور محبت کی جڑیں کاٹ دیتے ہیں.امی یہ خواب دیکھ کر بہت گھبرائیں اور میرے منجھلے ماموں جان (حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو جا کر اپنا خواب سنایا کہ میں تو دکھا ئیں
۲۸۰ ان کے کاروبار کے لیے کر رہی تھی.اور مجھے خواب یہ آیا ہے حضرت ماموں جان نے ان یہ نے ان کو کہا کہ یہ خواب تو تمہاری دعاؤں کا جواب ہے.اگر تمہارے پاس ہوگا تو تم تکلیفات میں پڑو گی.اس کا مطلب ہے کہ انشاء اللہ میاں عبداللہ خان کا کام بہت اچھا ہو جائے گا اور حضرت اماں جان اور امی کی دعاؤں سے اس سال اللہ تعالیٰ نے میرے ابا جان کو بہت منافع عطا فرمایا.اور میرے ابا جان اور امی نے ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تنبیہ کا بہت ہی خیال رکھا.اور میں نے اپنے ابا جان اور امی کو ہمیشہ ہی سادگی پسند دیکھا کبھی غریب اور امیر کا فرق نہیں کیا.اور انہوں نے ہمیشہ ہر قسم کے بے جا اسراف سے نفرت کی.میری اتمی کی شادی چونکہ چھوٹی عمر میں ہی ہو گئی تھی اور اس وقت تعلیم کا بھی اتنا رواج نہیں تھا.مگرافی کو علم کا بہت شوق تھا اور بے حد ذہین تھیں انہوں نے اپنے شوق سے ہی میٹرک اور ایف اے کا امتحان پاس کیا اور امی کے اس شوق میں میرے منجھلے ماموں جان نے بھی ان کا پورا ساتھ دیا اور ان کی مدد کرتے رہے.امی جان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا بھی بہت مطالعہ کرتی تھیں.جو بھی کتاب نئی چھپتی تھی وہ ضرور خرید تی تھیں اور ان تمام کتابوں کو زیر مطالعہ رکھتی تھیں.امی بچوں کے لیے ایک بہت ہی محبت کرنے والی اور ان کی ہر قسم کی تربیت کرنے والی ماں تھیں.امی نے اپنی زندگی میں اپنے سب پیاروں کو رخصت ہوتے دیکھا اور بڑے حوصلہ سے یہ سب برداشت کیا.آخرمی
۲۸۱ صدمہ جب امی کی صحت بھی جواب دے چکی تھی.انہوں نے میری سب سے چھوٹی میں فوزیہ جس کو ہم پیارے گھر کھتے ہیں کے میاں عزیزم شمیم احمد صاحب جاپان میں ہارٹ اٹیک سے اچانک وفات پاگئے.اس وقت میری سہن پردیس میں سب عزیزوں سے دُور تھی.اور جب وہ اپنی تینوں چھوٹی بچیوں کو اور عزیزم شمیم احمد کا جنازہ سے کر ربوہ پہنچی تو وہ بالکل سنتر کی حالت میں تھی ہر دل اس کی حالت دیکھ کر پھٹ رہا تھا.اور ہر آنکھ انسو رہا اور ہر نہ بھارہی تھی.اور مجھے اپنی امی کا نظارہ آج بھی نگاہوں میں پھر رہا ہے وہ اپنی پیاری بچی کا سر گود میں رکھے پیار سے اس کے چہرے اور سر پر ہاتھ پھیر رہی تھیں آنکھیں شدت جذبات سے سُرخ ہو جاتی تھیں مگر صبر اور ضبط کی تصویر بنی ہوئی تھیں.اس صدمہ نے امی کی صحت پر بہت ہی اثر ڈالا مگر امی نے پھر بھی ہمت کی اور گلو کی خاطر اپنے آپ کو سنبھالا اور امی اس کے بعد گنگو کی اور اس کے بچوں کی ماں بھی تھیں اپنی طرف سے اتی نے ہر کوشش کی کہ گلو کو اس کے بچوں کو کبھی باپ کی کمی محسوس نہ ہو ان چار پانچ ماہ میں امی کی صحت بہت گر گئی تو لگتا تھا کہ اب امی میں زندہ رہنے کی خواہش نہیں.مگر وہ صرف گلو کی خاطر جینا چاہتی تھیں اتنی کو ہر وقت اس کا خیال رہتا تھا.اس کی بچیوں سے بہت ہی پیار تھا.خاص طور پر سعدیہ جو سب سے بڑی بھی تھی اس سے تو امی کو بہت ہی پیار تھا اور کئی دفعہ اس کا اظہار کیا کہ میری خواہش ہے کہ میں زندگی میں اس کی شادی دیکھوں اور اللہ تعالیٰ نے امی کی یہ خواہش پوری کر دی اور میری بہن عزیزه
۲۸۲ شاہدہ دیگیم مرزا نسیم احمد صاحب کے بڑے بیٹے عزیزم نعمان احمد صاحب سے امی کی زندگی میں ہی اس کی شادی ہو گئی.اللہ تعالیٰ اس جوڑے کو ہمیشہ خوش وخرم شاد آباد رکھے.آمین گو ہماری بہن فوزیہ اپنی بچیوں کی تعلیم کی وجہ سے لاہور سٹیل ہوگئی.مگر نہ اس کو اقی کے بغیر چین آتا تھا اور نہ امی کو اس کے بغیر جب بھی بچیوں کو چھٹیاں ہوتیں یا اس کے علاوہ اگر سن لیتی کہ امی کی طبیعت خراب ہے فورا ربوہ پہنچ جاتی.اتی قریباً روزانہ فون بھی کر لیتی تھیں.میری تین بہنیں بیگم مرزا مبارک احمد صاحب بیگم مرزا داود احمد صاحب اور بیگم مرزا مجید احمد صاحب اور میرے بھائی شاہد احمد پاشا تو مستقل ربوہ میں ہی رہتے تھے ان کا گھر بالکل اسی کے گھر کے قریب تھا اس لیے دن میں کئی دفعہ آکر چکر لگا جاتے تھے.رات کا کھانا تو کئی سال سے مستقل امی کے ساتھ کھاتے تھے.اس لیے امی کو ان کی بہت تستی رہتی تھی.اس کے علاوہ ہماری بڑی بہن بیگم مرزا مبارک احمد صاحب اور بڑے بھائی عباس احمد صاحب غالباً اس لیے کہ وہ بڑے تھے امی کو ان دونوں کے آنے سے بھی بہت اطمینان اور سکون ملتا تھا.اس کے علاوہ پیلی بیگم جن کو امی نے بچپن سے ہی پرورش کیا تھا اور پھر قادیان میں ان کی شادی اشرف صاحب سے کر دی تھی جو فوج میں ملازم تھے.مگر پارٹیشن کے وقت قادیان کی حفاظت کے دوران وہ شہید ہوگئے میلی بیگیم نے امی کی بیماری کے دوران سات سال با قاعدگی کے ساتھ اس تعلق اور
محبت کو نبھایا.روزانہ خواہ گرمی ہو یا سردی آندھی ہو یا بارش وہ صبح آٹھ نو بجے آکر شام تک امی کے پاس رہتی تھیں تمام گھر پر اور نوکروں پر بھی نظر رکھتی تھیں اس کے علاوہ امی کا خیال ان کی کوئی پسندیدہ چیز اپنے ہاتھ سے بنائی اور اگر کوئی گڑبڑ والی بات ہوتی تھی تو فوراً ان کے بچوں کو تبا دیتی تھیں تاکہ اس کا تدارک ہو سکے اور نوکر اس ڈر سے محتاط رہتے تھے ان کی وجہ سے ہم سب کو بہت تسلی رہتی تھی.اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے.اس کے علاوہ میری بین ذکیہ - قدسیہ بیگم اور میری بچی امتہ الحسیب بیگم مرزا انس احمد صاحب) کو چار بجے سے ہی فون کر دیتی تھیں کہ تم لوگ آتے نہیں غرضیکہ ربوہ میں جو بھی بہن بھائی تھے وہ روزانہ اتی کے پاس آجاتے تھے.ابا جان کی وفات کے وقت چونکہ مصطفے اور فوزیہ سب سے چھوٹے تھے اور ابا جان کی کمی کی وجہ سے امی نے ان کو بہت پیار دیا.میرے بھائی مصطفے کے سپرد تو سندھ کی تمام جائیداد کا انتظام بھی تھا اس کے علاوہ بھی وہ امی کی تمام ضروریات کا خیال رکھتے تھے.یہاں تک کہ نوکروں تک کا انتظام مصطفی کرتے تھے اور اس لیے کہ امی کو تکلیف نہ ہو علاوہ اس تنخواہ کے جو امی ملازموں کو دیتی تھیں انہوں نے نوکروں کا ماہانہ خود بھی مقرر کیا ہوا تھا.جس کا امی کو علم نہیں تھا.یہ صرف اس لیے کہ ملازم زیادہ خوشی اور دل سے امی کی خدمت کریں.چونکہ رہائش لاہور میں تھی ہر ماہ ایک دو چکر ضرور لگاتے تھے.اور گھر کی ایک ایک چیز پر نظر ہوتی تھی.ایر کنڈیشن ٹھیک ہے
نهم من فلش خراب تو نہیں میٹھا پانی ٹھیک آرہا ہے یا نہیں.گھر میں برتنوں کی چادراری کی.تولیوں کی.غرضیکہ کسی چیز کی کمی تو نہیں یہ سب ذمہ داریاں ان کی تھیں.جب تک میری بہن بیگم مرزا داؤد احمد صاحب کراچی رہیں امی ان کے گھر میں تھیں.ان کے ربوہ آنے پر جب امی کے لیے گھر کی ضرورت پڑی تو مصطفے نے فوراً انتہائی محنت اور لگن کے ساتھ اتھی کی کوٹھی کا نقشہ بنوا کر کوٹی شروع کروادی.حالانکہ رہائش لاہور میں تھی مگر ہفتہ وار بعض اوقات ہفتہ میں دو بار آکر کو بھٹی کو چیک کرتے اور اس کا تمام سامان مہیا کرتے اور پھر تمام ضروریات کے ساتھ اس کو مکمل کر کے جب وہ امتی کو اپنے گھر میں لاتے تو اس وقت ان کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی حق تو یہ ہے کہ میرے اس چھوٹے بھائی نے ماں کی طرح امی کی خدمت نہیں کی بلکہ جس طرح ماں باپ بچے کی دیکھ بھال کرتے ہیں اسی طرح امی کا خیال رکھا.امی کہا کرتی تھیں کہ مصطفیٰ کے سامنے تو میں کسی چیز کا نام لیتے بھی ڈرتی ہوں فوراً سے آتا ہے.غرضیکہ مصطفے نے امی کی بہت دعائیں لی ہیں اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس پر اپنا فضل فرماتے.ہم بہن بھائی جو باہر رہتے تھے.باری باری اتنی کے پاس جاتے رہتے تھے اور امی بہت خوش ہوتی تھیں ناشتہ کھانا سب اپنے کرہ میں منگوا لیتی تھیں اور ہر چیز پر نظر رکھتی تھیں اور سب کو کھلا کر بہت خوش ہوتی تھیں.جب کوئی بچہ جانے لگتا تو بہت اداسی محسوس کرتیں.میں امی کی وفات سے قریباً دو ماہ قبل اندازاً ایک ماہ اتنی کے پاس رہ کر گئی جب پندرہ
۲۸۵ میں روز بعد دوبارہ آئی تو میری لڑکی اعتدالحبیب نے مجھے بتایا کہ اتنی اس دفعہ بڑی امی نے اتنا آپ کو یاد کیا ہے کہ ان کے اس طرح سے اور اتنا زیادہ یاد کرنے سے مجھے آپ کے متعلق دہم آنے لگ گئے.ایک دُکھ میرے دل میں ایک تکلیف دہ یاد کی طرح بیٹھ گیا ہے.امی کی وفات سے پندرہ میں روز قبل میں کئی روز سے اتنی کے پاس ہی تھی.اس دوران میرے میاں کی طبیعت خراب ہوگئی کیونکہ ان کے دل کا اپریشن ہو چکا ہوا ہے اس لیے قدرتاً فکر پیدا ہو جاتا تھا.مجھے کئی روز سے کہہ رہے تھے واپس چلو میں محسوس کر رہا ہوں میری طبیعت بہت خراب ہو رہی ہے اور میں نے اتی کو دو تین دن سے سنانا شروع کر دیا کہ میں پرسوں جا رہی ہوں.انہیں ڈاکٹر کو دکھا کر انشاء اللہ جلدی آجاؤں گی.رات کو میں امتی کو مل کر گئی میری عادت تھی روانہ ہوتے وقت میں ضرور ٹھہر کر امی کو دوبارہ مل کر جاتی تھی جب اتی سے رخصت ہونے لگی تو اتی شاید بھول چکی تھیں کہ آج ہم جا رہے ہیں حیران ہو کر پوچھنے لگیں تم جا رہی ہو ؟ میں نے ابھی خانساماں کو بلا کر منیر کے لیے کھانے کا کہا ہے.میں مجبور تھی اس لیے آتو گئی مگر تمام راستہ امی کی وجہ سے میرا دل خراب ہوتا رہا اور اب امی کی وفات کے بعد تو یہ الفاظ میر لیے بے حد تکلیف دہ ہو گئے ہیں پتہ نہیں امی نے کیا اہتمام کیا تھا.جہلم پہنچتے ہی میرے میاں کی طبیعت بے حد خراب ہو گئی.یہاں تک کہ پنڈی تک بھی نہ جا سکے عزیزم ڈاکٹر نوری نے جہلم میں ہی آکر دیکھا اور علاج تجویز کیا.ان کے ٹھیک ہوتے ہی میں پھر ربوہ میلی گئی مگر میری امی
صرف دو دن زندہ رہیں.میری بہن فوزیہ بھی لاہور سے آتی ہوتی تھی.میرے بھائی عباس احمد صاحب اور مصطفیٰ اور میری بہن شاہدہ یہ سب ہی دو دن پہلے ہی ہو کر گئے تھے.شام سے بہت دل گھتا تھا وہ ادھر ادھر کی باتیں شاکر امی کو بہلاتی رہتی تھی.مجھے آکر امی بہت ہی کمر در لگیں حالانکہ چند دن ہی گزرے تھے مجھے گئے ہوتے ہیں نے گلو کو کہا کہ امی تو مجھے غیر معمولی کمزور لگی ہیں اس نے بتایا کہ کھانا پینا بالکل چھوڑ دیا ہے یہاں تک کہ اب لیکوڈ بھی لینے سے انکار کر دیتی ہیں ادھر ڈاکٹر صاحب کی ہدایت تھی کہ دوائی خالی پیٹ نہیں دینی دوپہر کا کھانا مرضی کے سوپ میں ذرا سا توس نرم کر کے ایک چمچہ گو نے بہت مشکل سے امی کو دیا اس کے بعد امی نے بالکل انکار کر دیا.گو نے پلیٹ میرے ہاتھ میں دے دی منتھلی آیا مجھ سے تو اقی نہیں کھائیں.آپ کوشش کریں.میں نے گلو کو کہا کہ جب تم سے نہیں کھار میں تو مجھ سے کب کھائیں گی کہنے لگی آپ کوشش تو کریں.میں پلیٹ لے کراتی کے پاس آئی اور کہا کہ امی آپ نے گلو سے ایک نوالہ لیا ہے ایک مجھ سے بھی لے میں میری امی میری پیاری امی نے نہ چاہتے ہوتے بھی صرف میری دلداری کے لیے منہ کھول دیا وہ آخری خدمت آخری نوالہ تھا جو میں نے اپنی پیاری امّی کے منہ میں ڈالا.سب امی کے کمرے میں موجود تھے امی کو پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی تو کیا تم لوگ ذرا باہر بیٹھو ہم آکر ہال میں میٹھے گئے.گھر پیشاب کے
۲۸۷ معاً بعد اتی کی طبیعت بگڑ گئی.ملازمہ نے ہمیں اطلاع دی ہم لوگ فوراً کرو میں پہنچے تو دیکھا کہ امی کو سانس کی تکلیف تھی.میرا بھائی پاشا موٹے کر ڈاکٹر صاحب کو لینے چلا گیا.مگر میری امی نے تو کسی کا انتظار نہ کیا صرف شاید دو تین منٹ گے اور امی آخری سانس لے کر اپنے پیارے مولا کے حضور حاضر ہو گئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لخت جگر آپ کی مقدس پنجاڑی کا آخری ہوتی وہ انتہائی با برکت وجود ہمیشہ ہمیش کے لیے ہم سے جُدا ہو گیا انا للہ وانا إليه راجعون.ملانے والا ہے سب سے پیارا اسی پر اسے دل تو جاں فدا کر اللہ تعالٰی نے ماں کا رشتہ ہی ایسا بنایا ہے کہ خواہ بچے عمر کے کسی دور میں ہوں ماں سے ان کی انسیت اور پیار کبھی ختم نہیں ہوتا اور یہ رشتہ ایسا ہے کہ جس کے سامنے دنیا کے تمام تر جذبے چاہتیں اور رشتے جھوٹے گئے ہیں.ویسے بھی اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور تکلیف کے وقت صرف ماں باپ کی ہی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور یہ کمی اب ہمیشہ محسوس ہوگی.اسے جانے والی پیاری ہستی تجھے اپنے مولا کا بے حد اور بے حساب پیار اور پھر اپنے پیاروں کا پیار نصیب ہو.اللہ تعالیٰ تا ابد تجھے اپنی رحمتوں اور فضلوں کے ساتے میں رکھے.آمین اسے خدا.میرے پیارے خدا.ہمیں اپنی پیاری اتھی اور ابا جان کی
۲۸۸ وصیت کے مطابق ہمیشہ امامت احمدیہ سے وابستہ رکھنا.نیکی تقوی کا اعلیٰ مقام عطافرمانا اور دخت کرام کی تمام خوبیوں اور حضرت مسیح موعد السلوم کی دُعاؤں کا وارث بنانا.اور جب ہم تیرے حضور حاضر ہوں تو ہماری جھولیوں میں ندامت کے آنسو نہ ہوں بلکہ ہماری جھولیاں میرے رب کے پیار کے انمول موتیوں سے بھری ہوتی ہوں آمین.اب میں اپنے مضمون کو ختم کرتی ہوں مگر پیسخت تشکری ہوگی اگر ض ان تمام احباب کا شکریہ ادا نہ کروں جنہوں نے میری امی کے لیے دن رات دُعائیں کیں اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے حضور سے جزا عطا فرماتے.اور پھر امی جو کئی سال سے مسلسل بیمار تھیں ڈاکٹر لطیف احمد صاحب نے بے حد محنت اور توجہ سے امی کا علاج کیا روزانہ امی کو دیکھنے آتے اور اگر طبیعت خراب ہوتی تو بعض اوقات دو دو تین تین دفعہ بھی تشریف لاتے تھے.اور امی کو ان کی اتنی عادت پڑ گئی تھی کہ جب ڈاکٹر صاحب کہیں باہر جاتے تو اقی بہت گھبراتی تھیں اور عزیزم ڈاکٹر مبشر احمد صاحب جو ہمارے بھائی ڈاکٹر مرزا منو را احمد صاحب کے بڑے صاجزادے ہیں وہ بھی ڈاکٹر صاحب کیساتھ اسی کے علاج میں برابر شریک رہے.اسی طرح جبا ر صاحب سالہا سال تک باقاعد روزانہ شام کو امی کا بلڈ پریشر چیک کرنے آتے رہے نیز لیڈی ڈاکٹر فہمیدہ میر صاحبہ اور ان کی بھاوج نے بھی ان کی بہت خدمت کی اور ان کی بہت دُعائیں ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب پر فضل فرمائے اور ان کو اپنی خاص رحمتوں کا وارث بنائے.آمین ر ماہنامہ مصباح ماه جنوری فروری شاه )
: ۲۸۹ میری پیاری اقی حضرت سیدہ مرحومہ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی محترمہ فوزیہ بیگم صاحبہ بیگم مرزا شمیم احمد صاحب مرحوم نے اپنی پیاری اتنی کی سیرت سے متعلق اپنے احسانا و جذبات کا یوں اظہار کیا : گلشن احمد کا آخری پھول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذریت طیبہ کی آخری نشانی حضرت اماں جان کی بے انتہا لاڈلی - خدا تعالیٰ سے دُخت کرام " کا لقب پانے والی 4 جون 19ء کو ہم سب سے جدا ہو کر اپنے مولا کے حقیقی سے جائیں.یہ عظیم ہستی میری ماں تھی.جو وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی کہتی رشتے سنبھالتی چلی گئیں.باپ کی کمی نہ صرف میرے لیے پوری کی.بلکہ میرے بچوں پر بھی دست شفقت رکھا اور ان کو بھی کبھی باپ کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا.ان کا سایہ خدا کی رحمت تھا.شاید ہی کسی ماں نے اپنی بیٹی سے اتنی محبت کی ہو جتنی انہوں نے مجھ سے کی.ان کے احسانوں کی یاد سے تو ورق کے ورق بھی سیاہ ہو جائیں تو ان کا سلسلہ ختم نہ ہوگا لیکن بہنوں کے اصرار پر ان کی شخصیت کے وہ نقوش اُبھارنے کی کوشش کروں گی جو میں نے دیکھے لیکن دنیا سے مستور رہے.انی بہت عبادت گزار دعا گو.خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والی.متوکل - اولوالعزم - بلند حوصلہ عالی ہمت.خاوند کی اطاب کرنے والی خدمت گزار بیوی اور بہت صابر و شاکر تھیں.طبیعت میں
۲۹۰ انکساری تھی.نام ونمود کا شوق نام کو نہ تھا.جب میں نے جماعت کا کام شروع کیا تو مجھے نصیحت کی کہ دیکھو کام ضرور کرد.لیکن عہدوں کے پیچھے نہ پڑنا کے کانشا یہ تھا کہ بعض اوقات انسان عہدوں کے لالچ میں پڑ کر اصل مقصد سے ہٹ جاتا ہے خدمت دین تو بے لوث اور خدا کی خاطر ہونی چاہیئے.اس کے بدلے میں انعام کا طالب نہیں بننا چاہیتے.امتی کے متعلق میری سب سے اولین یاد قادیان کے دار السلام میں چبوترے پر کھڑے ایک نہایت حسین سفید لباس میں ملبوس پیکر کی ہے آپ بہت پاک شکل تھیں میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سب سے زیادہ شباہت بچوں میں آپ ہی کی تھی.ہمارے ابا جان امی سے بے حد محبت کرتے تھے اور محبت کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی سمجھ کر ان کی عزت و اکرام بھی ملحوظ رکھتے تھے اس لیے ہم سب بچوں کے دلوں میں اتھی کی شخصیت کا ہمیشہ رعب رہا.آبا سے امی کی نسبت زیادہ بے تکلف تھے.میرے بڑے بہن بھائیوں میں تو آج تک اتنی جرات نہ تھی کہ علاج معالجہ کے بارہ میں بھی امی کی طبیعت کے خلاف کچھ کر سکیں ہم چھوٹے بچوں کا بچپن آیا کی بیماری کی وجہ سے کئی سال تک ابا کے ساتھ ایک ہی کرنے میں گذرا جس کی وجہ سے ہم نسبتا زیادہ بے تکلف تھے ، لیکن اس بے تکلفی نے کبھی مدادب سے تجاوز نہیں کیا.اتی بہت خوش قسمت تھیں کہ بے انتہا محبت اور عزت کرنے والا شوہر ملا.اور پھر بھی تمام خدمت گذار- ایک اشارے پر حاضر ہونے والی.
۲۹۱ امی کی طویل علالت کے دوران ذراسی تکلیف پر بھی سارے بہن بھائی اکٹھے ہوتے رہے اور میرے چھوٹے بھائی مصطفے نے تو مینے میں کم از کم دو بارہ ربوہ آنا برسوں سے معمول بنایا ہوا تھا.اس نے تو اپنی خدمت سے یقینا وہ جنت کما لی جو ماں کے قدموں میں ملتی ہے.ہر خدمت گزار اور پیارے بیٹے کی ماں کی یہ خواہش اور دُعا ہوتی ہے کہ اس بیٹے کو بھی آگے ویسا ہی بیٹا سے مصطفیٰ کے لیے بھی بہت حسرت سے یہ خواہش تھی جو افسوس کہ ان کی زندگی میں پوری نہ ہوسکی سیب بہن بھائی دُعا کریں کہ جو خزانہ دُعاؤں کا انہوں نے اس کے لیے چھوڑا ہے اس کا وافر حصہ اس کی بچیوں رملہ.صائمہ کو عطا ہو.اللہ تعالیٰ ان کو بلند اقبال کرے اور زندگی کے بہترین ساتھی عطا فرماتے.میں نے امی کی زندگی میں عہد کیا تھا کہ ہمیشہ امی کی ضرورت کو اپنی ضرورتوں پر مقدم رکھوں گی جس کو نبھانے کی میں نے حتی الوسع کوشش کی.اکثر ضرورت بلا ضرورت آتی رہتی لیکن امی کی تشنگی دور نہ ہوتی.اکثرکھتی تھیں تم نے بچیوں کو لاہور میں پڑھوا کر میرے کام کی نہیں رہنے دیں.چھٹیوں کا بے تابی سے انتظار ہوتا کہ کب ہم ان سے ملنے آئیں گے.اس بار بھی دن گن گن کر کاٹ رہی تھیں ، لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا.اور صرف میرے آنے سے نہیں روز پہلے اللہ میاں کے پاس حاضر ہو کہ ہم سے بے نیاز ہو گئیں.میرے ابا ایک شالی خاوند تھے انہوں نے حقیقت میں میرے دادا ابا حضور کی ہر نصیحت پر عمل کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی کے شایان شان خاوند بن کر دکھا یا.محبت کے ساتھ ساتھ ان کا ہمیشہ عزت و احترام
۲۹۲ ملحوظ رکھا.میں نے اکثر آبا کو کہتے سناکہ میں تو کچھ بھی نہیں میرے جیسے نوابی خاندان کے لوگ دھکے کھاتے پھرتے ہیں مجھے تو جو کچھ ملا حضرت مسیح موع علیہ السلام کی بیٹی کے طفیل ملا.آپا سیدہ بشری نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ ابا امی کے ساتھ وہ اور آپا قدسیہ ڈلہوزی میں سیر کے لیے جا رہے تھے راستے میں اتی کا تسمہ کھل گیا.ابا نے فوراً مجھک کر تسمہ باندھ دیا پھر ان لڑکیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : یہ اُمید اپنے خاوندوں سے نہ لگا بیٹھنا میں توان کی عزت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی سمجھ کر کرتا ہوں.غرضیکہ ایسے بے شمار واقعات میں، لیکن اتنی نے بھی صحیح معنوں میں حضرت مسیح موعو علیہ السلام کی بیٹی بن کر دکھایا.ابا کی طویل اور خطرناک بیماری میں جس پیار محبت اور جانفشانی سے انہوں نے اپنے شوہر کی خدمت کی وہ اہلی زندگی کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے.میں تقریباً سات سال کی تھی جب ابا کو دل کا شدید حملہ ہوا.مہینوں تک تو زندگی کی بھی امید نہ ہ ہی تھی.ہم بچوں کو ابھی اتنا شعور نہ تھا، لیکن امی کی روتی ہوئی متورم آنمیں اور گھر پر چھاتے ہوئے سکوت سے دل بسم سہم جاتا تھا.ان حالات کا امی نے بڑی دلیری سے مقابلہ کیا.چھوٹے چھوٹے بچے نئی نئی ہجرت مالی وسائل کی کمی غرضیکہ سینکڑوں مسائل تھے تاہم امی نے بڑے صبر اور حوصلے سے یہ وقت کاٹا.ساری ساری رات اور دن مہینوں ابا کی پٹی سے لگی بیٹھی رہتیں.نہ کھانے پینے کا خیال تھا نہ کپڑوں کا ہوش سارا خاندان خدمت کے لیے حاضر تھا.لیکن اتی کا دل آبا
۲۹۳ کی پتی سے الگ ہونے کو نہیں ماننا تھا.نہ جانے کتنے مہینے اس کمرے میں بند رہیں.ایک دفعہ بتایا کہ بہت عرصہ کے بعد جب کمرے سے نکلی تو میری آنکھیں سورج کی روشنی سے چندھیا گئیں.........آپ بہت بیدار مغز تھیں چاروں طرف دماغ چلتا یہ نہیں کہ ایک طرف لگ کر دوسرے پہلو بھلا دیتے ہیں.میں اور مصطفے چونکہ بہت چھوٹے تھے اس لیے ہماری تربیت کی بھی فکر رہتی آیا کی طبیعت نسبتاً سنبھلی تو ان کو بڑے کمرے میں منتقل کر دیا.ہمارے پلنگ بھی وہیں بچھوا دیتے.ہمارا سارا بچپن ابا امی کے ساتھ اسی کمرے میں گذرا نزدیک ترین سکول ایک عیسائی مشنری سکول SACRED HEART تھا اس میں داخل کرا دیا.عیسائیت کے عقائد کے متعلق ہمارے چھوٹے چھوٹے ذہنوں میں جو سوال ابھرتے ان کا ابا اتی تسلی بخش جواب دیتے میں سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ عیسائی عقیدہ سے جو دعا ہواس میں OUR FATHER کی بجائے OUR GOD کہنا ہے.چھوٹی چھوٹی دینی کتب ہمارے سرہانے رکھوائیں تاکہ پاکیزہ لٹریچر پڑھنے کی عادت پڑے شروع کے ایک سال ہماری بڑی اتنی رحضرت خواب مبارک کہ بیگم صاحبہ بھی اسی کمرے میں ہمارے ساتھ سوتی رہیں.رات کو ہم بچوں کے دل بہلانے کو سبق آموز کہانیاں سناتیں.اُردو کی کتب منتیں تاکہ زبان صاف ہو اور ہر اچھی بری بات کی تمیز کان میں ڈالتی رہیں ان کی موجودگی امی کے لیے بڑا ذہنی سہارا تھی.ہم تو خیر چھوٹے تھے قابو آجاتے تھے اونچی آواز سے بولنا یاد ہی نہیں.بچوں والا چلبلا پن اور شرارتیں پیدا ہی نہیں
۲۹۴ ہوئیں مصطفے حالانکہ لڑکا تھا اور فطرتا شوخ لیکن اس نے کبھی شکایت کا موقع نہ دیا.بھائی پاشا عمر کے لا ابالی حصہ میں تھے اس کمرے میں تو نہ رہ سکتے تھے لیکن ان کے پڑھنے کی میز اکثر اس کمرے میں منگوائی جاتی تاکہ وہ ان کی زیر نگرانی پڑھ سکیں بچپن کی نا بھی کی وجہ سے اکثر ان سے شکوہ کر دیتی تھی کہ ہم نے کتنا گھٹا ہوا بچپن گزارا لیکن آج ان حالات کو سمجھنے کی عقل آگئی ہے تو سوچتی ہوں کہ کتنی عقل سمجھ اور ہوش مندی سے ہماری ماں نے وہ وقت کاٹا.اس وقت اگر میں اس چار دیواری میں بند نہ کیا ہوتا تو نہ جانے کس بڑی محبت میں پڑ جاتے.ہجرت کے بعد سب کی مالی حالت خراب تھی اوپر سے یہ سنگین بیماری.ابا مقروض بھی تھے سارا روپے پیسوں کا انتظام امنی کرتیں اور بڑی خوش ہوئی سے گھر بھی چلاتیں.میری بین آیا قدسیہ کی شادی بھی انہی سالوں میں ہوئی.قادیان سے جو سامان آسکا اسی کو کانٹ چھانٹ کر آیا قدسیہ کا جہیز بنا.ابا پر کوئی بوجھ نہ ڈالا.اکثر بتایا کرتی تھیں کہ میں نے ان دنوں میں کسی قرض دار کو خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹایا.اگر میرے پاس آٹھ آنے ہوتے تو وہی دے دیا کرتی تھی.ان سب باتوں کے باوجود اپنی بشاشت بھی قائم رکھتیں.میں نے زندگی میں امی کو کبھی مظلوم شکل بنائے ڈھیری ڈھاتے نہیں دیکھا حد درجہ غیرت والی اور خود دار تھیں.مردانہ وار دلیری سے حالات کا مقابلہ کرتیں.اپنی کمزوری کا اظہار کبھی نہ ہونے دیتیں.بچوں میں بھی اس بات کی غیرت ڈالتیں.ایک دفعہ مجھے سخت جذباتی تکلیف پہنچی.میں نے اپنے کسی رویہ سے اظہار نہ کیا.میں نے
۲۹۵ سمجھا امی سے بھی چھپالوں گی.لیکن ہاں کی آنکھ تھی نہاں درنہاں دکھوں پر بھی پہنچ جاتی تھی.کچھ روز بعد ناشتہ پر ہم اکیلے تھے نظریں نیچی کئے ہوئے کہنے لگیں بے بی امجھے تمہاری تکلیف کا اندازہ ہے.نہ انہوں نے بات آگے بڑھائی نہ میں نے.میری غیرت بھی رکھ لی اور میرا دکھ بھی بانٹ لیا.میری تو زندگی ہی ابتلاوں میں گزری.لاڈ پیار بے حد کیا لیکن کبھی مظلوم نہیں بنایا پہلی دفعہ جب میرے میاں (مرزا شمیم احمد صاحب مرحوم دل کے عارضے سے بیمار ہوتے تو قدرتی طور پر چھوٹی عمر تھی.میں بے حد گھبرا گئی.امی نے مجھے خط لکھا کہ زندگی میں ابتلا تو آتے رہتے ہیں.ان کا مقابلہ بشاشت اور ہمت سے کرنا چاہیئے.میری طرف دیکھو ہزاروں کڑے وقت آئے لیکن وہ وقت بھی سینس کھیل کر گزار دیا.تمہارے ابا جان کی بیماری کی وجہ سے نکل نہ سکتی تھی تو کتابوں میں دل لگا لیا.ہسپتالوں میں بھی مختلف لوگوں کے حالات سنتے دیکھتے وقت گزارا.مجھے نئے نئے جوڑے بنوا کر دیتے اور فرمایا میاں کے سامنے اچھے کھلیتے میں آؤ.اس کے سامنے غمزدہ صورت بناؤ گی تو دل کے مریض پر کیا اثر پڑے گا.خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے اقبلا.تو آتے لیکن ان سے مقابلہ کرنے کا سلیقہ اتنی ہی سے سیکھا.میرے تجربات کے دائرے میں جو بھی لوگ آئے ان میں اتھی سے زیادہ با ہمت، دلیر ، صابر شاکر خاوند سے محبت کرنے والی، وفا شعار تعاون کرنے والا کوئی نہیں ملا.ابا تیرہ چودہ سال دل کے عارضے سے بیمار رہے جب وہیل چیز پر پھرنے کے قابل ہوتے تو سندھ میں اپنی اراضی کی
۲۹۶ دیکھ بھال کے لیے جانے کا پروگرام بنایا.ہم بچے تو چھٹیاں گزار کر واپس آگئے لیکن امی ابا بعد میں بھی اس جنگل میں رہتے رہے.اس وقت میں ۱۴ سال کی تھی ان دنوں کے خطہ ابھی تک میرے پاس محفوظ ہیں.اتنی کی گھیرا ہٹ کا اندازہ ان سے ہوتا ہے ہزاروں دسادس ان کو پریشان کرتے لیکن با کی خاطر برداشت کرتیں اور کبھی ان پر اپنی تکلیف کا اظہار نہ ہونے دیتیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے وقت اتنی کی عمر چار سال تھی.حضرت اماں جان کو چھوٹی ہونے کی وجہ سے آپ سے بہت محبت تھی......اماں جان کو آپ کی محرومی کا اس شدت سے احساس تھا کہ آپ نے بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر آپ کے سامنے نہ ہونے دیا......اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امی کا ذرمین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں ذہن میں محفوظ نہ رکھ سکا جس کا آپ کو از حد قلق تھا.جب میرے میاں کی وفات ہوئی تو میری سب سے چھوٹی بیٹی سحر بھی چار سال کی تھی اور سعدیہ - سمیرا نو اور سات سال کی.چند دنوں کے بعد امی نے مجھے بڑے دکھ سے کہا.کہے بی ان بچوں پر وہ ظلم نہ کرنا جو نا دانستگی میں اماں جان نے مجھ پر کیا ؟ ان الفاظ میں اتنا دکھ اور محرومی تھی کہ میں کانپ گئی میں نے بارہا امی کی نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار میری آواز روندھ جاتی اور الفاظ ساتھ چھوڑ جاتے اس وقت مجھے حضرت اماں جان کی مجبوری اور بے سہی سمجھ میں آگئی لیکن امی کو کبھی نہ بنا سکی کہ حضرت اماں جان بے قصور تھیں.
۲۹۷ الی کی شخصیت میں بے انتہا جاذبیت تھی.جو ایک دفعہ مل جاتا گرویدہ ہو جاتا.انکساری کے ساتھ ساتھ ایک قدرتی رُعب تھا.شخص کے ساتھ اس کے حالات کے مطابق گفتگو کا فن آتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسروں بچوں کی طرح کمال کا حافظہ تھا.اس آخری عمر میں بھی جو احمدی مستورات آتیں ان کو فوراً پہچان کر ان کے عزیز و اقارب کے متعلق دریافت فرمائیں اگر کسی نے اپنی مشکلات کا پچھلی ملاقات میں ذکر کیا ہوتا تو اس کے متعلق پوچھتیں میرے پاس اکثر جو بہنیں تعزیت کے لیے آئیں انہوں نے ان کی اس خصوصیت کا ذکر کیا.بے حد زمین و نسیم تھیں انسان کو دیکھ کر اس کی شناخت کرلیتیں علم دوست تھیں حصول علم کا اتنا شوق تھا کہ شادی کے بعد میٹرک.ادیب عالم اور انگریزی میں ایف اے کیا.اُردو ادب کے علاوہ انگریزی ادب بھی کافی پڑھا ہوا تھا.میں حالانکہ کانونٹ میں پڑھی تھی لیکن ذاتی مطالعہ کی راہنمائی ساری امی نے کی.منجھلے ماموں جان (حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) سے انگریزی پڑھی.اکثر باتیں کہ منجھلے بھائی کے پڑھانے کا طریق بہت اچھا تھا.جو پڑھاتے ذہن نشین کرا دیتے اکثر مشکل الفاظ شامیں دے کر سمجھاتے ایک دفعہ ایک انگریزی لفظ ۴۸۱۷ آیا تو منجھلے ماموں جان نے ملکہ الزبتھ اول کا ایک مشہور واقعہ سنا کر اس لفظ کا استعمال سکھا یا ملکہ کے منظور نظر بدلتے رہتے تھے ایک بار اس نے اپنے کسی CARDINAL کو بلا بھیجا تو اس نے ان الفاظ میں آنے سے معذوری
ظاہر کی FAIN WOULD I COME BUT THati FEAR TO FALL اس پر ملکہ نے جواب دیا.FALLS THEe Donot Come atall.گو انگریزی ادب کا مطالعہ کافی تھا، لیکن بولنے میں روانی نہیں تھی.اور کام چلا لیتی تھیں.سفر یورپ میں بھی میں نے دیکھا کہ سمجھ لیتی تھیں لیکن بولتے ہوئے جھجک تھی.ابا کا دستور تھا کہ لمبی چھٹیوں میں کہیں جانا ہوتا تو ضرور کسی بزرگ عالم دین کو بھی اپنے ساتھ لے کر جاتے تاکہ بچوں کی دینی تعلیم کا خرچ نہ ہو ایک بار سندھ جاتے ہوئے مکرم مولوی ظہور حسین صاحب ہمارے ساتھ گئے.ابھی بھی باقاعدہ ان سے پڑھا کرتی تھیں.یہ تو مجھے یاد نہیں کہ تفسیر پڑھتی تھیں یا لفظی ترجمہ لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ ہم سے بہت زیادہ وقت وہ لیتی تھیں.میری شادی کے بعد جب گھر یلو فکروں سے آزاد ہوئیں تو اکثر وقت مطالعہ میں گذرنے لگا.میں جب آتی تو دیکھتی کہ صبح کے وقت کئی گھنٹے تفسیر کبیر کا بڑے غور سے مطالعہ کرتیں.میں حیران ہوتی تھی کہ امی اتنی دماغی مشقت اس عمر میں کیسے برداشت کر لیتی ہیں.جب کوئی مشکل آتی تو کسی عزیز کو فوراً فون کر کے بھتیں.شعر بھی کہہ نہیں لیکن اس کا اظہار پسند نہ کرتیں.طبیعت میں بے انتہا حجاب تھا.جس کی ایک وجہ شاید بچپن میں باپ سے محرومی بھی تھی.میں امی سے اکثر بے تکلفی سے بات کر لیا کرتی تھی ایک دن میں نے باتوں
۲۹۹ کی رو میں کہہ دیا.کہ اتنی آپ میں بہت سی صلاحیتیں تھیں لیکن ان کو اُبھرنے کا موقع نہیں طا.شاید یہ آپ کی بچپن کی محرومیاں میں جنھوں نے آپ کو دبائے رکھا.میں یہ بات کہہ کہ آج تک شرمندہ ہوں.امی کے چہرے کا رنگ بدل گیا.اتنا ضبط ہونے کے باوجود ہونٹ کپکپاتے اور آنکھوں میں آنسو آگئے.صرف سر ا کر خاموش ہو گئیں.قرآن کریم میں قیموں کو ابھارنے کا حکم یونسی نہیں.اماں جان نے ساری زندگی لاڈ پیار کیا.اٹھارا باپ کی کمی پوری کرنے کی کوشش کی لیکن امی کو آخری سانس ایک اس کا احساس رہا.آپ کی خداداد ذہانت کا اعتراف اپنے نہیں غیر بھی کرتے تھے آپا شاما کی ایک انگریز دوست ایک دفعہ ربوہ آئیں.امی سے مل کر بہت متاثر ہوئیں.ہمیشہ خطوں میں ان کا ذکر کر نہیں.امی کی وفات کے بعد لکھا کہ میں ان سے مل کر اس قدر متاثر ہوئی تھی کہ ایک چھوٹے سے قصبہ میں رہنے والی بزرگ خاتون دنیا کے حالات سے کسقدر ہیں.ENLIGHTENED آپ کی عمر تیرہ سال کی تھی جب آپ کی شادی ہوئی اور وہ بھی بالکل علیحدہ ماحول میں.امی بتاتیں تھیں کہ ہمارے گھر کا ماحول بالکل سادہ تھا.ایک دم جب میں نوابی طرز زندگی میں داخل ہوئی تو سٹپٹا گئی لیکن میں نے کبھی اپنی کمزوری ظاہر نہیں ہونے دی.فطرتی ذہانت نے اس مرحلہ سے بھی ان کو وقار سے گزار دیا.اپنی شروع زندگی کا واقعہ اکثر سناتی تھیں
۳۰۰..کہ ایک دفعہ ابا نے کہیں جاتے ہوئے ٹائی مانگی.میرے بھائیوں نے کبھی یہ چیزیں استعمال نہ کی تھیں اس لیے مجھے کچھ سمجھ نہ آیا ، لیکن میں نے اظہار نہ ہونے دیا.الماری کھولی.کپڑوں کا جائزہ لیا صرف ٹاتی ایسی چیز نکلی جس کا مجھے پتہ نہ تھا.وہی اُٹھا کرے آئی.اگر اس وقت (یا سے اپنی لاعلمی کا اظہار کر بھی دیتیں تو بھی آتا جیسے انسان کو کوئی فرق نہ پڑتا، لیکن امی کی خود داری اور غیرت نے گوارا نہ کیا کہ وہ کسی بات میں کم بھی جائیں.اسی کم عمری میں سال سال کے فرق سے اوپر تلے تین بچے پیدا ہوئے.ان سب کو بہترین طریقہ سے سنبھالا.ابھی ابا کا کوئی ذاتی کاروبار نہ تھا.اتبا حضور کی طرف سے کچھ جیب خرچ ملتا تھا.اسی میں انتہائی خوش اسلوبی سے گذارا کر نہیں کبھی ناجائز بوجھ نہیں ڈالا.لیکن ساتھ ساتھ ابا کو ذاتی کام کے لیے بھی ابھارتیں اکٹھے رہنے میں کسی تکلیفیں پہنچ جاتی ہیں، لیکن یہ وقت بھی صبر اور حوصلہ سے گزارا.سناتی تھیں ایک دفعہ بعض حالات کی وجہ سے بڑی پریشانی تھی.بڑے بھائی رحضرت خلیفہ اسیح الثانی ، مجھ سے بالکل باپ والی شفقت فرماتے تھے.مجھے الگ لے گئے اور کہا " حفیظ امجھے تاؤ تمہیں کیا تکلیف ہے.امی کہتی ہیں کہ میں یہ سُن کر رو پڑی، لیکن بولی کچھ نہیں بڑے بھائی نے بڑے پیار سے کہا : حفیظ گھیراؤ نہ بعض وقت ریں میں پیچھے رہنے والا گھوڑا سب سے آگے نکل جاتا ہے.خدا کرے ماموں جان کے یہ الفاظ امی کی نسل در نسل پورے ہوں اور ہم سب بچوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا بہترین وارث بننے کی
۳۰۱ توفیق ہے.عزیز و اقارب سے بھی اتی کا سلوک شمالی تھا.وقتی طور پر کسی سے کوئی تکلیف پہنچ بھی جاتی تو ذراسی تلافی سے فوراً دل صاف ہو جا تا.ہر عزیز کی تکلیف پر تڑپ جائیں اس کے لیے دعائیں کرتیں الفاظ سے سہارا دیتیں غمی میں تو غیر بھی شریک ہو جاتے ہیں کسی کو خوشی میں فراغ دلی سے شامل کرنا بھی بڑی نیکی ہے امی میں یہ خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی تھی جب تک چلنے پھرنے کے قابل رہیں سب سے پہلے مبارک باد کے لیے پہنچنے والوں میں اتی ہوتی تھیں.خدا اور رسول سے بے انتہا محبت تھی ایک دفعہ میں نے کہہ دیا کہ آج کل کے لوگوں نے رسول اللہ کی محبت کو بھی حد سے متجاوز کر دیا.یہ سن کر آبدیدہ ہو گئیں کہنے لگیں یہ نہ کہو بعض وقت رسول کی محبت بھی خدا کے برابر لگنے لگتی ہے.اس دن مجھے پتہ چلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے بھی آپ کتنی سرشار تھیں خدا کی ذات پر بے انتہا توکل تھا.دعاؤں پر ہے حدیقین صحت کی حالت میں گھنٹوں عبارت میں گزار ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام چار سال کی عمر میں آپ کو اپنے مولا کے سپرد کر گئے اور حقیقتاً ساری زندگی اپنے مولا کی گود میں رہیں بسا اوقات کسی چیز کی خواہش کمرہ نہیں اور وہ غیب سے آجاتی.پھر تحدیث نعمت کے طور پر بار بار اس کا ذکر کرتیں اور خوش ہوتیں.غیر اللہ پر بھروسہ کرنے سے سخت نفرت تھی.ایک دفعہ میری بیٹی سمیرا نے کسی چیز کے لیے خط لکھ کر پیسے مانگے اس کو بڑا پیارا جواب دیا.اس کی خواہش
بھی پوری کردی لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ جس چیز کی ضرورت ہو اللہ میاں سے مانگا کرو.دُعاؤں کی عادت ڈالو.ہاں انسانوں میں صرف میرے کان میں چکے ہے کہ دیا کرو میرے پاس امّی کے لاتعداد خطوط ما سال کی عمر سے لے کر اب تک کے محفوظ ہیں.شاید ہی کوئی خطہ ہو جس میں دُعاؤں پر زور نہ دیا ہو.وہ عزم و ہمت کا پیکر تھیں بڑے سے بڑے انکار کا مردانہ وار مقابلہ کیا.اتبا کی وفات کے بعد تمام جائیداد کا حساب کتاب جب تک صحت نے اجازت دی خود سنبھالا.بیٹوں پر بھی ناجائز بوجھ نہیں ڈالا.حالانکہ سب امی کے اشارے پر حاضر تھے.انتظامی قابلیت کمال کی تھی.ابا کے بعد گھنٹوں مینجر کے ساتھ پر دے کے پیچھے سے حسابات کی جانچ پڑتال کا طریقہ کار سمجھا اور سال کے اندر اندر تمام قرضہ جات ادا کر دیئے اور گھر میں پہلے سے زیادہ فراخی آگئی ، لیکن ضیاع اور اسراف سے نفرت تھی.مصطفے نے جب امی کی صحت کرنے پر کام سنبھالا تو اس کی خواہش ہوتی تھی کہ امی کی ادنیٰ سے ادنی خواہش پوری ہو زبان سے نکلنے کی دیر ہوتی کہ چیز حاضر کر دیتا، لیکن اس کو بھی ٹوکتی رہ نہیں کہ فضول خرچی نہ کرو مجھے ڈر لگتا ہے اکثر سناتی تھیں کہ میں نے اپنی تنگی کے زمانے میں خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ مجھے تمہاری سوچ کر خرچ کرنے کی عادت پسند ہے اور مجھے روکتے رہے کہ تکلفات میں نہ پڑنا یہ اخلاص و محبت کی جڑیں کھوکھلی کر دیتے ہیں.اسی
۳۰۳ لیے امتی فراخی میں بھی اسراف سے ڈرتیں اور میں بھی منع کرتی رہتی تھیں.لین دین کے معاملے میں بہت صاف تھیں کسی کا کچھ دینا ہوتا تو طبیعت پر بوجھ پڑ جاتا اسلم ایاز نے اتی کا دودھ پیا ہوا تھا اس لیے اس سے ہمارا پردہ بھی نہیں اس کو عادت تھی کہ حساب لمبا لٹکاتا تھا.اقی بیوں اور دوسرے حسابات وغیرہ کی ادائیگی کر کے کئی کئی دفعہ پوچھتی تھیں.کہ پیسے ادا کر دیتے یا نہیں اگر کبھی نہ کہتے ہوتے تو بے حد خفا ہوتیں بیچوں سے بھی یہی معاملہ کرتیں ، تحفہ چاہے ہزاروں دے دیتیں لیکن جہاں بین دین کا معاملہ ہوتا وہاں پائی پائی کا حساب لیتیں اپنی وصیت میں بھی نصیحت کی ہے کہ میں نہیں چاہتی کہ لین دین کے معاملے میں میرے بچوں میں بد دیانتی پائی جائے.یا کسی کا حق ماریں کتنی تھیں کہ اماں جان کا بھی یہی دستور تھا.اولاد کے لیے بڑی مشفق ماں تھیں وفات کے وقت جو آپ کی وصیت نکلی اس میں ایک ایک بچے کا انتہائی پیار سے ذکر کیا ہے ہر ایک بچے کی فرداً فرداً دلجوئی کی ہے اور ان کی خدمتوں کا اعتراف کیا ہے اور دعائیں دی میں آپیا میلی راہلیہ محمد اشرف شہید ) کی اتنی ہی نے پرورش کی.اور شادی کی ان کا اتنا خیال تھا کہ اگر ایک دن نہ آئیں تو آدمی بھیج بھیج کر پچھو انہیں اگر بیمار ہوتیں تو ضرورت کے مطابق ڈاکٹر بھیجتیں.آپا سیلی نے بھی پھر بیٹیوں سے بھی بڑھ کر حق ادا کیا.مسلسل کئی سال سے وہ صبح سے شام تک امی کے پاس آکر ان کا دل بہلاتی رہیں میرے سے تو کچھ اور
۳۰۴ ہی تعلق تھا.بقول ان کے گودی کے بچے والا.ان کے کن کن احسانوں کا ذکر کروں قلم چلتی نہیں اور الفاظ شرما جاتے ہیں ہر وقت دل میں نشتر چھینتے ہیں کہ میری طرف سے امتی کو کتنی تکلیفیں پہنچیں اور کسی صبر اور ہمت سے نہ صرف خود برداشت کیں بلکہ مجھے بھی سہارا دیا.اب تو یہی آرزو ہے کہ میری ہر ہر سانس اس مشفق اور پیاری ہستی کے لیے دعا بن جائے اور مجھ سے ایسے اعمال سرزد ہوں جو ان کی بلندی درجات کا موجب بنتے رہیں.ابا کی وفات کے بعد امی کی صحت بہت گر گئی.مجھ پر ابا کی وفات کا بہت اثر تھا.اوپر سے امتی کی حالت دیکھ کر بالکل ہی اعصاب جواب دے گئے.امی بہت گھبرا گئیں.تبدیلی آب و ہوا کے لیے مجھے آیا قدسیہ کے پاس لندن بھیجنا چاہا لیکن میری طبیعت کی پر مردگی دیکھ کر سب کے کہنے پر خود جانے کے لیے تیار ہو گئیں اس وقت کے حالات کے تحت یہ بہت بڑی قربانی تھی.ابھی خود ابا کے صدمہ سے نڈھال تھیں.مسلسل محنت مشقت اور بیماری کے ماحول سے خود ان کے بھی اعصاب پر بہت اثر تھا، لیکن میری خاطر ہمت کر ہی لی اور یوں یہ سفر زبورگ کی بیت کی بنیاد کا باعث بنا اور عیسائیت کے گڑھ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے چھوٹی بیٹی کے ہاتھوں خانہ خدا کی بنیاد رکھی گئی اور یوں خدا تعالیٰ نے سال ہا سال کی قربانی خاوند کی خدمت و وفا کا اجر اس عظیم الشان کام کے ذریعے آپ کو عطا کیا جو تاریخ احمدیت میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ممالک یورپ کے لیے انشاء اللہ موجب
۳۰۵ صدیر کات ہوگا.مسلسل کئی سالوں سے صاحب فراش تھیں اتنی لمبی بیماری انتہائی صبر اور حوصلے سے کائی.شوکت گوہر صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر لطیف احمد صاحب قریشی نے مجھے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب گھر میں کہتے تھے کہ بیگم صاحبہ کو بہت تکلیف ہے کوئی اور مریض ہو تو وہ اس طرح برداشت نہ کر سکے.آخری مہینوں میں شاید آپ کو پتہ چل گیا تھا کہ ان کا وقت آگیا ہے حضور کو بہت یاد کرتیں آپا جمیل لندن جانے کے لیے ملنے آئیں تو ان کے ہاتھ حضور کو پیغام کہلا کر بھیجا.کہ میری نماز جنازہ غائب نہیں آپ نے پڑھانا.ایک دن مجھے کہنے لگیں میاں طاہر کو لکھو بڑے بھائی کی طرح حصہ میں آیا کریں اتنا صبر نہ کریں وہ غصہ کرتے تھے تو اللہ میاں جلد فضل کر دیتا تھا.ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ کسی طرح ان کو بلوا لیں.حضرت فضا سے ویسے بھی ان کو خاص تعلق تھا.ایک دوسرے سے ایک قسم کا طبعی لگاؤ تھا جس کی تصدیق حضور نے بھی وفات کے بعد ایک خطہ میں مجھ سے کی آپ لکھتے ہیں، میرے دل کو ان کے دل سے ایک فطری راہ تھی.ان کی روح سے میری روح کو ایک طبعی لگاؤ تھا.میری نظر ان کی نہاں درینہاں لطافتوں سے آشنا تھی اور وہ اتنی ذہین تھیں کہ خوب جانتی تھیں کہ میں ان کو کتنا جانتا ہوں.خدا نے عجیب حسن ان کو بخشا تھا اور مجھے اس حسن کو سراہنے کی نظر عطا کی تھی.امی کے دل میں (امامت کا از حد احترام تھا.باوجود اس کے کہ حضور
بچپن سے آپ کے لیے طاری رہے ، لیکن بعد میں میں نے ان کو ہمیشہ میاں طاہر کتنے سنا.آپ جب ملنے آتے آپ ان کے لیے اُٹھ کر بیٹھتیں.ادب سے پاس بٹھا نہیں.حضور نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آخری نشانی کی عزت و اکرام اور خیال میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی.دُور رہ کر بھی انکے قریب رہے.اور ہر وقت علاج معالجہ کے بارہ میں ان کی ہدایات پہنچتی رہیں افسوس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باقی بچے تو صرف قادیان کو ترستے گئے.لیکن میری اتمی امام وقت کے لیے بھی تڑپتی چلی گئیں.فروری میں ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر آگیا جس سے ناقابل برداشت تکلیف رہی ان دنوں اس قدر طبیعت خراب تھی.کہ ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب کی اہلیہ نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب اتنے پریشان تھے کہ دن میں کئی کئی دفعہ گھر میں اجتماعی دعا کراتے تھے علاج معالجہ میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.سب بچوں نے اپنی استعداد کے مطابق خدمت کی.میری بڑی بہنیں حالانکہ عمر کے اس حصہ میں ہیں کہ ان کو بھی کئی کئی بیماریاں ہیں، لیکن رات کو امی کے پاس باری باری سوتی رہیں اور دن میں بھی وہیں رہتیں.بھائی جان عباس بھی جس دوا کی ضرورت ہوتی اپنے بیٹیوں کو انگلینڈ فون کر کے منگواتے رہے.لاہور سے بھی باری باری ہم سب آتے رہے ، لیکن طبیعت گرتی ہی گئی.مارچ میں تقریباً دس دن آکر رہی.ان دنوں طبیعت کافی سنبھل گئی.میں امی کو روزانہ کچھ نہ کچھ اپنے ہاتھ سے بنا کر کھلاتی رات دن پاس
ہوتی جانے سے ایک دن پہلے کہنے لگیں اب تو لڑکیوں کا شکر ادا کرتی ہوں.میں نے تسلی دی کہ اب تو چھٹیوں میں تھوڑے دن رہ گئے ہیں جلدی آپ کے پاس آجاؤں گی.کہنے لگیں تم سے مجھے آرام ملتا ہے تم میرے پاس ٹک کر بیٹھتی ہو..مشاورت کے بعد مسلسل تیرہ دن میں بچوں کے امتحانات کی وجہ سے نہ جاسکی.بڑی آپا نے کئی بار فون کیا لیکن دور بیٹھے طبیعت کی خرابی کا صحیح اندازہ نہ ہو سکا اس عرصہ میں تیرہ دن کے بعد جب دوبارہ گئی.تو یوں لگا جیسے امی کو برسوں کے بعد دیکھا ہو PARKINSON کا حملہ شدت اختیار کر گیا تھا د زبان بُری طرح لڑکھڑانے لگی تھی بھوک بالکل بند اور حد سے زیادہ ضعف رہنے لگا تھا.آپا شام سے بہت دل لگتا تھا وہ مسلسل باتیں کر کے ان کا دل بہلاتی تھیں اس لیے وہ کچھ دن ان کے پاس رک گئیں.میں نے گھر جا کر فون کیا اور امی کو پیغام دیا کہ اس دفعہ مجھے آپ کی بڑی فکر ہوئی ہے اب میں جلدی جلدی آیا کروں گی یہ سن کر بہت خوش ہوئیں.فون خود لے لیا.میں نے امی کو تسلی دی کہ میں دو تین دن تک پھر آرہی ہوں.رمضان کے دوسرے روز میں دوبارہ گئی طبیعت پہلے سے بھی زیادہ گر گئی تھی غذا بالکل بند تھی.سیال چیزوں کے سوا کچھ حلق سے نہ اُترتا تھا بہت تکلیف تھی ، لیکن بہت برداشت کرتی تھیں مجھے آتے ہی بتایا کہ اماں جان بہت نظر آنے لگی ہیں رات کو تقریباً روز کہتیں مجھے نظارے بہت نظر آنے لگے ہیں تمہیں نہیں نظر آتے.میری بھانجی امتہ الحسیب کو ایک دن کہا کہ
۳۰۸ ایمنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام میرے چہرے پر ہاتھ پھیر کر گئے ہیں فرض دنیا سے ان کا ناطہ ٹوٹ رہا تھا ، لیکن ہمیں امید تھی کہ بڑی بڑی بیماریوں سے اللہ میاں نے بچالیا اس دفعہ بھی اللہ میاں فضل کرے گا.ساری ساری رات ان دنوں جاگتیں.صبح تلاوت قرآن کریم کا کبھی ناغہ نہ کیا.وفا کے دن بھی تلاوت کی.وفات سے ایک دن پہلے ھر جون کو میری منجھلی آپا جلم سے آگئیں.میں نے امی سے اجازت مانگی کہ اب یہ آگئی ہیں تو میں لاہور جا کہ بچوں کو دیکھ آؤں ان کو نوکر تنگ کر رہے ہیں دو چار دن بعد پھر آجاؤں گی.یہ سُن کر چپ ہو گئیں رات کو گیارہ بجے جب ہم دونوں اکیلے کمرے میں لیٹے تھے تو انگلی اُٹھا کر مجھے کہا کہ دیکھو تم نے صبح نہیں جانا.میرا دل خود اس حالت میں ان کو چھوڑنے پر نہیں مان رہا تھا میں نے فوراً کہا " اچھا امی نہیں جاتی " یہ شنگراتی مطمئن ہو گئیں لیکن میرا دل بیٹھ گیا عجیب سے دہم آنے لگے.یہ پہلا موقع تھا کہ میرے بچوں کی تکلیف کا سنگر بھی انہوں نے مجھے روکا.دوسرے دن صبح تکلیف زیاد ہ تھی.میں دوائیاں کھلانے لگیں تو پہلی دفعہ رو پڑیں.بڑی بے بسی سے کہنے لگیں اب تو مجھ پر رحم کرو میں نے کروئیں اسی وقت بھائی پاشا سے ڈاکٹر لطیف احمد قریشی کو بلانے کو کہا انہوں نے چیک اپ کر کے کہا کہ حضور کی نئی ہدایات آتی ہیں اب ہم سب ڈاکٹر مل کر مشورہ کر کے ملاح کا نیا طریقہ کار سوچیں گے.میں نے امی کو بتایا تو مسکرا پڑھیں صبح سے سب بہنیں اور بھائی پاشا آتے ہوئے تھے.گھنٹ
۳۰۹ پہلے زہرہ بھی ملنے آئی.اس لڑکی نے 4 سال امتی کی خدمت کی اور آئی دعائیں میں کہ بعض وقت اس پر رشک آتا ہے اس کے بیٹے کا حال پوچھپتی رہیں اس کو اور اس کے میاں کو پانی پلانے کو کہا.کھانے پر بڑی مشکل سے دو دہی کے پیچھے لیے سب بہنوں نے کہا کہ رات تم جاگتی رہی ہو اب اس وقت آرام کرو ہم بیٹھے ہیں.ابھی مشکل سے دس منٹ گزرے ہونگے کہ مجھے بلاوا آگیا.میں دوڑ کر گئی تو امی کا رنگ زرد ہو رہا تھا.سانس غیر ہموار تھی میں نے جلدی سے دل کی دوائی کے قطرے دیتے دوبار میرے کہنے سے منہ کھولا اور پھر آنکھیں پھر گئیں اور بڑے سکون سے اپنے مولائے حقیقی کو جان دے دی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپا زکیہ نے بعد میں بتایا کہ طبیعت بگڑی تو ہے ہی کہا.ہم گھرا کہ اتی کو سنبھالنے میں لگے رہے تو بڑے غصے سے دوبارہ " بے بی " کہا تو پھر مجھے بلانے گئیں گویا آخری وقت تک اس محبت کو نبھایا.آج مجھے بے بی کہنے والا کوئی نہیں پہلی دفعہ احساس ہوا کہ وقت کتنا گذر گیا.میری مانگ میں سفیدی آگئی لیکن مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ بے بی کہلوانے کا زمانہ توعرصہ ہوا بیت چکا تھا.انہوں نے تو میری ساری ذمہ داریاں اپنے کزور کاندھوں پر اٹھائی ہوتی تھیں اب جو اپنے کاندھوں پر بوجھ محسوس کرتی ہوں تو زندگی کا سفر بہت طویل لگنے لگتا ہے اور وقت سست رفتار.بس اب تو ایک ہی دعا ہے کہ مولا یہ تو ہمیں چھوڑ گئیں تو نہ میں چھوڑ یو - روز قیامت مجھے میری ماں کے سامنے سرخرو کرنا اور ان کے لاتعداد احسانات
محبت اور شفقت کی یادیں ہمیشہ میرے دل میں تازہ رکھنا تا کہ ان کی یاد ہمیشہ دلسوز دعاؤں میں ڈھلتی رہے اور ان کی بلندی درجات کا باعث بنے اور جنت الفردوس کا اعلیٰ ترین مقام اور اپنے پیاروں کا قرب نصیب ہو.انامہ مصباح بابت ماہ جنوری فروری شد -1900 صاحبزادی از بریم صاحبہ کے ایک اور غیر مطبوعہ مضمون کے بعض اقدامات :- اما ای جان کے لاڈ پیار کا یہ حال تھا کہ امی بتایا کرتی تھیں کہ اماں جان مجھے کبھی سوتے میں نہ اُٹھاتی تھیں.سکول جانے کا زمانہ آیا تو بچین کی وجہ سے ضد کرنے لگی.اماں جان نے سارا سکول گھر میں منگا لیا........ایک دنھا یا کو ایک نجومی نے مجبور کیا کہ اپنا ہاتھ دکھائیں.ابا نہ دکھانے پر مصر تھے آخر جب اس نے بہت ہی اصرار کیا تو ابا نے اس کو کہا کہ آخر تم مجھے کیا بتاؤ گے ؟ کہنے لگا آپ کی قسمت - آتا ہنس پڑے اور کہنے لگے یہ تو مجھے پہلے ہی معلوم ہے کہ ایسی قسمت یا میرے باپ کی تھی یا میری.یہ واقعہ بتاتا ہے کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دونوں بیٹیوں کا کس قدر احترام و اکرام تھا امی نے بھی BF77
اس جذبے کی بے حد قدر کی.میرے ابا ایک سادہ درویش صفت انسان تھے اور امی ان کے مقابلے میں بہت ذہین ادبی ذوق رکھنے والی - شاعرانہ مزاج.دونوں کے طبائع میں بہت تفاوت تھا ، لیکن آتی نے اس تعلق کو اس خوبصورتی سے نبھایا کہ ابا اتی ہمارے خاندان میں شامی جوڑا گنے جاتے تھے.امی نے ہمیشہ ابا کے فطرتی حسن پر نظر کی اور طبیعیتوں کے تفاوت کو محبت کے پردوں میں ڈھانکے رکھا.آج کل کی نوجوان نسل چھوٹی چھوٹی باتوں کو وجہ اختلاف بنا کر گھر برباد کر لیتی ہے ان کے لیے لیے تک امی کا نمونہ مشعل راہ ہونا چاہیئے.......شاعری سے بھی بہت میں تھا.شعر کہ بھی نہیں لیکن اس کا اظہار پسند نہ فرماتیں اس بارہ میں طبیعت میں حجاب تھا.ادھر ادھر ڈائریوں میں تو آپ کے شعر پڑھے لیکن امی کی زبان سے کبھی نہیں کسنے.امی کے حجاب کی وجہ سے مجھے بھی کبھی پوچھنے کی جرات نہیں ہوتی.......آیا کا اپنا کوئی ذاتی کام نہ تھا.ابا حضور کی طرف سے کچھ جیب خروج لمتا تھا.اسی میں انتہائی خوش اسلونی
۳۱۲ سے پورا ڈالتی تھیں کبھی نا جائز ہوجو نہیں ڈالا لیکن ساتھ ساتھ ابا کو بڑے طریقے سے ذاتی کام کے لیے بھی اُبھار میں خود بھی بہت دعائیں کرتیں اور اماں جان سے بھی کرداتیں.خدا تعالیٰ سے ملنے والی بشارتوں سے حوصلہ بڑھا تیں غرض اس صبرا دعا ، توکل کا اجر خدا تعالیٰ نے بہت سی بشارت کے بعد ایسا دیا کہ ابا اپنی ذاتی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ ایک وقت ایسا آیا.کہ میری آمد کے ذرائع والد صاحب کی آمد سے بھی بڑھ گئے.بغیر کسی سرمایہ اور بغیر کسی امداد کے لاکھوں کی جائیداد بن گئی اور بہت سے ترقی کے سامان بھی بنتے چلے.....امتی عزم و ہمت کا پیکر تھیں بڑے سے بڑے ابتلاء کا مردانہ وار مقابلہ کرتیں اتنے ناز و نعم اور لاڈ پیار میں اماں جان نے پالا بظاہر چھوٹا سا دل تھا لیکن کڑے وقت میں چٹان کی طرح مضبوط بن جاتیں.خدا جانے اس وقت اتنی ہمت اتنی میں کہاں سے آجاتی.اکثر کہا کرتیں کہ دعا اور تدبیر کو انتہا تک پہنچا دینا بندے کا کام ہے پھر اگر خدا کی طرف سے کوئی تقدیر نافذ ہوتی ہے تو اس پر راضی رہنا چاہیئے.طبیعت میں حد درجہ کی خود داری تھی
۳۱۳ کسی پر بوجھ بننا انتہائی شاق تھا.mgmt we of اولاد کے لیے بڑی شفیق ماں تھیں وفات کے بعد جو وصیت نکلی اس میں ایک ایک بچے کا انتہائی پیار سے ذکر کیا ہر بچے کی فرداً فرداً دلجوئی کی ہے اور ان کی خدمتوں کا اعتراف کیا ہے....پاکستان سے ہم صرف انگلستان کے ارادے سے چلے تھے، لیکن اس سفر میں خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے بے شمار واقعات سامنے آتے.اللہ تعالیٰ خود ہی ایسے سامان پیدا فرماتا چلا گیا کہ زیورک، ڈنمارک، ہالینڈ جرمنی فرانس ہر جگہ جانے کا موقع ملا.فرانس کا سفر تو بھائی مظفر رصاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ) کا مرہون منت ہے.امی کی سیر کی خواہش دیکھ کر بھائی مظفر نے فرانس کی ایمبیسی میں اپنے ایک دوست جوان دنوں انگلستان آئے ہوئے تھے.ان کے ساتھ ہمارا پروگرام بنوایا.سید دونوں میاں بیوی انتہائی شریف اور خاندانی لوگ تھے.امی کو انتہائی عزت و احترام سے اپنے گھر رکھا.پردے کا بھی پورا احترام کیا.ان کے گھر ان دنوں ان کی ایک اور عزیز بھی جو
۳۱۴ رشتہ میں ان کی بھائی لگتی تھیں.ان کے میاں گورنمنٹ کے کسی اعلیٰ عہدے پر فائز تھے.شروع میں وہ شاید ہمیں جاہل اور ان پڑھ سمجھ کر ہمارے برقعوں کو تضحیک کی نظر سے دیکھتیں.زیادہ مل جل کر بھی نہ رہتیں.خدا تعالیٰ کو شاید به کبر پسند نہ آیا.ایک دن ہم اکٹھے شاپنگ کے لیے گئے.پیرس کا بہت بڑا سٹور تھا.جانے سے پہلے ہماری میزبان نے بتایا کہ آج کل الجیریا اور فرانس کا جھگڑا چل رہا ہے.اور برقع پوشوں کو خصوصاً الجیریا کا سمجھ کر تنگ کرتے ہیں.ہم سب سٹور میں پھرتے رہے اور کوئی غیر مولی واقعہ پیش نہ آیا.کچھ دیر بعد امی کو ضعف محسوس ہوا.ہم دونوں اپنے میزبانوں کو بتا کر باہر آگئے.کافی وقت گذر گیا رات ہونے لگی اور وہ واپس نہ آئے ہیں اور امی بہت پریشان تھے.امی کی طبیعت بھی بہت خراب تھی.خدا خدا کر کے وہ لوگ آتے نظر آتے بہت گھبرائے ہوتے تھے.معذرت کی اور بتایا کہ بھائی جان سے بہت بڑی ہوئی.سٹور سے لکھتے ہوئے ان کو روک لیا.اور ان کا بیگ چیک کیا.تو اس میں سے چند ایسی چیزیں نکلیں جن کی قیمت نہ ادا کی تھی بڑی مشکل سے ایمبیسی کے ذریعہ معاملہ رفع دفع کروایا.بھائی جان مصر تھیں کہ انہوں نے یہ چیزیں نڈالی
۳۱۵ تھیں اور ہمارے میزبانوں کا خیال تھا کہ الجیریا کا سمجھ کر سٹور والوں نے ان کو ذلیل کرنے کے لیے یہ کام کیا ہے.اس واقعہ کے بعد بھائی جان کے رویہ میں بھی زمین آسمان کا فرق پڑ گیا.یا تو بات کرنی گوارا نہ تھی.یا ہر وقت السفات برتیں.جب بولنے لگیں تو بہت حیران ہوئیں کہ یہ تو پڑھے لکھے لوگ ہیں.اپنے کمرے میں آکر امی نے خدا کا شکر ادا کیا کہ کسی طرح اس نے محض اپنے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی کی عزت رکھی.ورنہ ہمارے برتھے تو زیادہ قابل گرفت تھے.خدا تعالٰی کی اس تائید و نصرت کا اکثر ذکر فرمائیں.ہمارے میز بانوں پر بھی اس واقعہ کا خاص اثر تھا اور خدا تعالیٰ کی ہمارے ساتھ تائید کا احساس.سالوں تک ان میاں بیوی کے کارڈامی کے پاس آتے رہے.وفات سے تین چار سال قبل امی لاہور آئی تھیں ان کا خاص طور پر نہ جانے کس طرح پتہ کرا کر منے آئیں.میں پچیس سال گزرنے کے بعد بھی ملنے کے لیے آنا بتاتا ہے کہ ان لوگوں پر امی کی شخصیت کا گہرا اثر تھا.....
٣١٩ پیاری پیوئی جان نوخت کرام از محترم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب ابن حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانی : ہماری پھوپھی جان حضرت نواب المتہ الحفیظ بگم بروز بدھ ۶ میتی کشوالیه اپنے محبوب حقیقی سے جائیں.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کی ولادت سے قبل آپ کی پیدائش کی اطلاع فرمائی تھی اور نہایت درجہ شفقت اور عزت افزائی فرماتے ہوئے اپنے غلام کو مخاطب فرمایا تھا کہ دُخت کرام.تاریخ احمدیت میں حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا ایک اہم مقام ہے حضرت اقدس نے اپنے دعوی کے ثبوت میں خدا تعالے کی طرف سے عطا شدہ اس آسمانی نشان کو اپنی تصنیف " حقیقۃ الوحی" میں بیان فرمایا ہے.چنانچہ اسی نشان باری تعالیٰ کی صداقت کا ثبوت بن کر آپ کی ولادت با سعادت ۲۵ جون شتہ میں ہوئی آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذریت طیبہ میں سے سب سے چھوٹی تھیں اور پاک جوڑے کی آخری نشانی تھیں.گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت آپ کی صر صرف چار سال کی تھی مگر آپ اس کم سنی میں بھی فطری طور پر روایت شده قابلیتوں کی بناء پر بہت زمین اور ہوش مند بھی تھیں.آپ کی اس فطری ذہانت اور ہوشمندی
۳۱۷ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے ایک مقام کی تفسیر کے بیان میں ہمیشہ ہمیش کے لیے زندہ جاوید کر دیا ہے :- حضرت عیسی کی نسبت لکھا ہے کہ وہ مہد میں بولنے لگے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ پیدا ہوتے ہی یا دو چار مہینہ کے بولنے لگے اس سے یہ مطلب ہے کہ جب وہ دو چار برس کے ہوتے کیونکہ یہ وقت تو بچوں کا پنگھوڑوں میں کھیلنے کا ہوتا ہے اور ایسے بچنے کے لیے باتیں کرنا کوئی تعجب انگیز امر نہیں.ہماری لڑکی امتہ الحفیظ بھی بڑی باتیں کرتی ہے." ( تفسير آل عمران م۳ ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرمان ایک قرآنی صداقت کے اظہار کے علاوہ اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ آپ ایک محبت کرنے والے باپ تھے اور جیسے ہر محبت کرنے والا باپ اپنی اولاد کی بچپن کی حرکات اور خصوصیات کو قلبی محبت سے یاد رکھتا ہے اور ان کو بیان بھی کرتا ہے.حضرت مسیح موعود نے بھی ہماری پھوپھی کی خداداد ذہانت اور ہوش مندی کو یاد رکھا اور اس کو ایک قرآنی آیت کی تفسیر میں بیان کر کے ہماری پھوپھی کو حیاتِ جاوداں بخشی.ایک روایت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ساتھیوں کے ساتھ سیر کے لیے تشریف لے جانے لگے تو خادمہ نے آکر اطلاع دی کہ حضرت اماں جان فرماتی ہیں کہ امتہ الحفیظ دور ہی ہیں اور بضد ہیں کہ اپنے
٣١٨ " ابا جان کے ساتھ باہر جانا ہے اس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ اس کو لے آؤ.چنانچہ خار مد امتہ الحفیظ بگیم کو لے کر آئی تو آپ نے ان کو گود میں اٹھا لیا اور اپنی گود میں اُٹھاتے ہوئے سیر کرنے کے لیے تشریف لے گئے.اس میں کیا شک ہے کہ بعض وجود اور مقامات برکات خداوندی کے حامل ہوتے ہیں اور شعار اللہ کا مقام رکھتے ہیں.ان کا قرب حیات بخش ہوتا ہے اور ان کی زندگی برکات سماوی کا موجب - حضرت جنید بغدادی کی وفات پر ایک عاشق خدا نے مرتبہ کہا تھا وہ مرثیہ یقیناً آپ پر صادق آتا تھا.مگر جماعت کے غم و اندوہ اور حالیہ و مصائب کے وقت میں اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت اس مرتبہ کی کامل مصداق ہماری پھوپھی جان ہیں تو یہ بات برحق اور درست ہوگی.اس نے کہا واسفا عَلى فِراقِ قَومِ ، هُمُ الْمَصَابِيحُ وَالحُصُونَ ہائے افسوس ایسے لوگوں کی جدائی پر جو کہ چراغ کی طرح روشن اور حفاظت تلتے تھے وَالمُدُنُ وَالْمُزْن والرَّوَاسِي : وَالْخَيْرُ وَالأَمنُ وَالتَكُونَ ان سے شہر آباد تھے اور وہ بادل کی طرح باہر کی تھے وہ تمام خیر تھے اور امن اور سکون کا باعث تھے لم تتغيرتنا الليالى حَتَّى تَوَنَّهُمُ الصُّنُونَ جبتک وہ زندہ تھے ہمارے لیے زمانہ نشان نہیں لایا یہاں تک کہ اُن کی وفات ہو گئی فكل جمر تنا قُلُوبُ وَصلُ مَاءٍ لَنَا عُيُونَ اب ہم آگ کی طرح اپنے دلوں کو محسوس کرتے ہیں اور ہماری آنکھیں بارش برسا رہتا میں
۳۱۹ آپ کی جدائی اور مفارقت ساری جماعت کے لیے ایک سانحہ عظیم ہے اور بے انتہا غم اور افسوس کا باعث گر ہم اپنے پیارے رسول حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع میں دہی کتنے ہیں جو آپ نے اپنے پیارے بیٹے حضرت ابراہیم کی وفات کے وقت خدا تعالیٰ کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ان العينَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبُ يَحْزُنُ وَلا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا وَ نَا بِفَراتِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ تَمَعُرُونُون.یقیناً آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہے مگر ہم دہی کہتے ہیں جس پر ہمارا رب راضی ہے گو اسے ابراہیم یقیناً " ہم تیرے فراق میں بہت غمزدہ ہیں.ہم بھی حضرت سیدہ وخت کرام امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی المناک وفات پر یہی عرض کرتے ہیں کہ اسے باری تعالیٰ ان کی ذات سے وابستہ جو حفاظت برکات اور محسنات تھیں ان کو ہم سے جدا نہ کرنا اور ان کے جانے کے بعد ہمیں مصائب و آلام اور مشکلات سے دوچار نہ ہونے دینا.اللهم لا تحرمنا أجْرَهَا وَلَا تَفْتِنَا بَعْدَهَا آمین شهر امین رماہنامہ انصار الله رجوه متی ملت) 1944 (
خط تحریر فرموده حضرت سیده امته الحفیظ بیگم صاحبه بنام محترمه صاجزادی فوزیہ بیگم صاحبه نصرت آباد اسٹیٹ فضل بهمبر د ر سندھ ۲۲/۱۱/۵۵ میری پیاری بے جانی سلمک اللہ تعالیٰ السلام عليكم ! چودہ سال پہلے آج ہی کے دن رات کو قریباً دس بجے ایک منفی سی چھ پاؤنڈ کی خوبصورت بچی اپنی کنول سی آنکھیں کھولے کھٹ سے پلنگ پر آپڑی تھی.اگر خالہ جان جھپٹ کر اُٹھا نہ لیتیں تو میرا خاصہ وزنی چابیوں کا گچھا بچی کا منہ چھیل ڈالنا.نو مینے باتیں دن کی طویل علالت اور شدید خطرات کے بعد آتی بھی تو آندھی کی طرح آگئی.ڈاکٹر اور نرس پہنچ بھی نہ پائے بے جانی خالہ جان کے ہاتھوں میں دنیا میں آپہنچی.آج تمہاری سالگرہ کا دن ہے.تار دیدیا ہے اور مجھے تم یاد آئیں تو میں خط لکھنے لگی.آج تم پورے چودہ برس کی ہوگئی ہو یعنی ہندوستانی لحاظ سے بچپن کی حدود پار کر چکی ہو.یہ اصل زندگی ہے جس میں تم نے قدم رکھا ہے.اللہ تعالیٰ تمہارے پندرھویں سال کو تمہارے اور ہمارے لیے بیش از پیش برکات کا حامل بناتے مگر پیاری بے بی جہاں یہ زمانہ خوبصورت اور دلکش ہے وہاں ذمہ داریوں سے بھر اور بھی ہے.پھولوں کے ساتھ ساتھ کانٹے بھی آئیں گے جن کے لیے ذہن کو تیار رکھتا چاہیتے.اب جو بھی حاصل کر سکتی ہو نگ و دو سے جلدی جلدی کر لو.عمل کا زمانہ
۳۲۱ سر پر آپہنچا ہے.اب تم بے جانی نہیں رہی ہو دنیا کی نگا میں اور سال بھر تک تمہیں عورت کا درجہ سے ہیں گی.میری چند نصیحتیں یاد رکھنا پھر کبھی ناکامی کامنہ نہ دیکھو گی.دُعا کو اپنا وطیرہ بنالو کھانا سونا پہننا تمہاری زندگی کے لوازمات ہیں مگر ان سب میں پہلا درجہ دعا کو دیا جس نے دعا کی عادت کو اپنا لیا ہیں نے سب ہی کچھ پایا.تمہیں دین اور دنیا سب کچھ مل رہے گا بس یہ عادت نہ چھوڑنا.دنیا کے کسی انسان سے کوئی امید نہ رکھنا خواہ وہ ماں باپ ہوں یا شوہر.خدا تعالیٰ کی ذات پر پورا تو کل اور وہی تمہارا واحد سہارا ہو.تیسری چیز یہ کہ مخلوق خدا سے محبت کرنا.کسی اللہ کے بندے کو تمہاری زبان یا تمہارے ہاتھ سے آزار نہ پہنچے.بس یہ تین باتیں اس سال کے لیے کافی ہیں.اپنے نیک نصیب ہونے کی دعا تو ابھی سے شروع کرد و للہ تعالی تمہیں زندگی کا اعلیٰ ترین ساتھی عطا فرماتے اور تمہیں اس کی بہترین رفیق بننے کی توفیق عطا ہو سلآمین تمہارا خط بھی آج ملا تھا.دراصل اس سے تحریک ہوئی تمہیں خط لکھنے کی.تم خط بہت اچھا لکھتی ہو یعنی جیسا میں پسند کرتی ہوں.اب ہم انشاء اللہ پچیس کو بیاں سے چل رہے ہیں ستائیں کو کسی گاڑی سے پہنچیں گے ابھی ریز وریشن نہیں ہوتی.بذریعہ تار وقت کی اطلاع دے دینگے تمامیاں امید ہے لاہور آچکے ہونگے.ان سے میرا اسلام کی دنیا.موٹر بھی نہیں ملی بہتر ہی ہوگیا.میرا دل موڑ کے سفر سے ڈرتا تھا.میری طبیعت کل سے پھر اچھی ہو رہی ہے.میں کافی بیمار تھی.اب ٹھیک ہوں.فکر نہ کرو.شاما کا بے حد
۳۲۲ خیال ہے اسے کہو پر ہیز کرے.اچھا خدا حافظ امة الحفيظ حضرت سیدہ مرحومہ کے چند خطوط حضرت سیدہ مرحومہ کی بڑی بیٹی محترمہ صاحبزادی آمنہ طبیبہ بیگم صاحبہ نے اپنی چھوٹی ہمشیرہ فوزیہ بیگم صاحبہ کے نام حضرت سیدہ مرحومہ کے بعض خطوط ارسال کرتے ہوئے لکھا کہ ان خطوط میں بعض باتیں ذاتی حالات سے وابستہ اور پرسنل ہیں.لیکن چونکہ ان میں ان کی سیرت کے بعض پہلو نمایاں ہیں اس لیے ان خطوط کے اقتباسات بھیج رہی ہوں:.ر فوزیہ کو اتنی جان اور ابا جان اکثر بے بی کتنے تھے ) ۲۴ را پریل ۹۶ تم نے جا کر خط نہ لکھا مگر اس دفعہ میرا یہ حال رہا جسے کہتے ہیں بروقت دل میں تارہ بجتی ہے ایک لمحہ کو تمہارا خیال نہ جاتا تھا.آخر میں نے تمہارے لیے دُعا شروع کی اور استغفار کیا کہ کہیں اتنی محبت نعوذ باللہ شرک نہ ہو جاتے اور تمہیں خدا نہ کرے کوئی نقصان پہنچے.مجھے تو تمہارا نام لیتے بھی
۳۲۳ ڈر لگتا ہے کہ سب بچے اب کہیں برا نہ مانیں اور میرا مذاق نہ بن جائے تم دعاؤں میں لگ جاؤ اور اپنی صحت کا بھی بہت خیال رکھو، میں تین جلدیں ملفوظات کی نہیں کسی کے ہاتھ بھیجوں گی انہیں روز پڑھا کرنا " ۱۹ جولائی ۱۹۶۸ کل بے حد انتظار کے بعد تمہارا خط ملا.اپنے وہم کا علاج کرو.انشاء اللہ تم بالکل ٹھیک رہو گی اول تو اکثر خواب ایسے ہی ہوتے ہیں اگر واقعی مندر بھی ہوں تو مندر خواب آجانا تو بہتر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ بلائے ناگہانی سے بچائے.خواب ٹھنے کے لیے ہوتے میں بعض وقت یا بعض سال انسان کے لیے بھاری ہوتا ہے.تقدیری چکر ہوتے ہیں اور وقتی ہوتے میں اس میں دُعا اور صدقے سے کام لینا چاہیئے.انشاء اللہ ساری بلائیں دور ہو جائیں گی.مجھے بارہا زندگی میں ایسے خواب آتے مگر دعاؤں کی وجہ سے بیچ کر نکل جاتی رہی.گھرانا نہیں چاہتے صدق دل اور کمال بھروسے سے دعا کرو.انشاء اللہ سب خیر ہی خیر ہے بھلا تمہیں خیال کیسے آیا کہ مجھے دعا کے لیے کہو.میری تو کوئی دکھا تمہاری دعا سے خالی نہیں بھائی جان رحضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو بھی خاص طور پر
۳۲۴ دھا کے لیے کھتی.بہا کرو.بار بار کھو ایک دفعہ سے کچھ نہیں ہوتا.تمہارا ایک خط رات باری نے دیا.جسے پڑھ کر بڑی تکلیف ہوئی میں نے نہیں کئی دفعہ منع کیا ہے کہ ایسی باتیں نہ کیا کرو.اگر فرض کرو میں قربانی بھی کروں تو میرے پر دمینی بار قربانی والا نہیں بلکہ میری خوشی اس میں ہے مطلب تو یہ ہے کہ انسان کے جذبات مطمئن ہوں اور اپنی خوشی اور آزادی سے جو چاہے کرے جب میری خوشی اس صورت میں ہے تو کسی تو کیا اعتراض کوئی ذات پر فضول خرچی کر کے مطمئن یا خوش ہوتا ہے میں دوسروں کو دے کر اس سے بڑھ کر خوشی حاصل کرتی ہوں بات تو ایک ہی ہوگئی....۱۸ جولائی ۱۹۹۹ به "1 " تمہیں جس چیز کی کمی ہو اس کا کبھی نہ سوچنا بلکہ جو میر ہے اسے ENJOY کرد.دل خوش رکھو جو دقت تفریح کا ملے اس سے فائدہ اُٹھاؤ...۱۳ جون شاه ; میری پیاری بے بی.السلام علیکم.کل ڈاک سے ایک خط لکھ چکی ہوں صبح چھتو اور انتی جا رہے ہیں وہ
۳۲۵ دستی دے دیں گے.شامی کو انشاء اللہ خیر رہے گی یہ بخار کسی اور وجہ سے ہے اُسے سمجھاؤ گھبراؤ نہیں یہ اتبلا.انسان کی اصلاح اور بہتری کے لیے آتے ہیں.نوکری بھی چلی جاتے تو پھر بھی فکر نہ کرے انشاء اللہ اس سے بہتر سامان ہو جائیگا لیٹے لیٹے دُعائیں پڑھتا رہے اور صدقوں سے اللہ پر توکل کرے اُسے قادر مطلق جان کر ، تو وہ انسان کو کبھی ضائع نہیں کرتا.اپنا دل نہیں چھوڑنا چاہیتے.یہ ایمانی کمزوری ہے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے سن رہا ہے گھبرانے کی کیا بات ہے تمہارے آبا تو مجھے تسلیاں دیا کرتے تھے.مرد ہے اپنا دل مضبوط کرے اس طرح تو دل پر خدا نہ کرے بُرا اثر نہ پڑ جائے اللہ تعالیٰ حافظ و ناصر ہو اس (شامی ) کے سامنے کوئی پریشان چہرہ نہ بنائے نہ پریشان بات کرنے معمولی باتیں بھی نہ ہونا چاہتیں.ہلکی مہنسی مذاق کی باتیں ہوں دعاؤں کی کتاب دے دو خود بھی پڑھو اسے بھی پڑھاؤ.صدقہ ضرور کرتی رہو.میں بھی کر رہی ہوں...یہ 194 ۲۲ نومبر ۱۹ میری پیاری ہے بی.السلام علیکم سالگرہ مبارک ہو اللہ تعالی زندگی کا نیا سال ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.
نتے گھر میں چلی گئی ہو گی.بہت دعائیں کرو.اب آزمائش اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کے ساتھ ختم ہو یہ سال گذشتہ تو تم پر اور ظاہرہ پر بہت بھاری گذرا پر الحمد لله که انجام بخیر ہوئے تکلیف کے وقت آکر گزر جائیں تو یاد بھی نہیں رہتا.خالہ جان (حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ) کو پھر ایک درد ناک ساخط اپنے ہاتھ سے لکھ دو تمہارے خط سے بہت اثر لیتی ہیں رات بھی تمہیں یاد کر رہی تھیں کہتی تھیں وہ دعا کو کہتی ہے تو میرے دل سے دعا نکلتی ہے.کبھی چھوٹا سا تحفہ خواہ کھانے پینے کی چیز ہو ضرور بھیجوا دیا کرو شهد پنیر بیکری کی چیزوں کا ڈبہ بنوا کر.پانچی سات روپے کی چیز ہو.مگر تحفہ دینے والے کے لیے دعا ئیں بہت تحریک ہوتی ہے.1960 ۳۰ رمئی ۱۹۷۵ نه "میری پیاری بے بی ! تمہاری صحت کا اتنا فکر ہے کہ تم اندازہ نہیں کرسکتیں میں تمہیں روکتی تھی کہ فکر نہ کرو کسی کا کچھ نہیں بگڑتا.اپنی صحت برباد ہوتی ہے لا پروا اور خوش رہنے کی پریکٹس کرو.صرف عادت پر منحصر ہے مجھ پر کیسے کیسے وقت نہیں آئے گر بفضل تعالیٰ ہنس کر گزار لیے اب
۳۲۷ بھی دیکھو کہ ذکیہ رانجھے میاں فوج سے ریٹائر ہو کر واپس آرہے تھے.امی جان ان کی کوٹھی میں رہ رہی تھیں ابھی ان کی کوٹھی نہیں بنی تھی اور ان کا گھر ضرورت کے لحاظ سے ناکافی تھا) کے آنے کی وجہ سے کتنی پریشانی ہو گی مگر اللہ جانتا ہے میں نے ٹھان لی ہے کہ انشاء اللہ جیسے بھی حالات ہوتے مقابلہ کروں گی صرف اللہ پر توکل کرتے ہوئے تمہیں بالکل نہ تو کل ہے نہ ایمان ہے جو ہونا ہے ہو کہ رہے گا.انسان صرف دُعا کرے اور پھر کشتی اللہ کے سہارے پانی میں چھوڑ دے...۳۰ ر اکتوبر ۹۴ " میری پیاری ہے بی ! چھوٹی چھوٹی باتوں کا احساس چھوڑ دو.زندگی میں جو گھڑی خوشی کی ملے اس سے فائدہ اُٹھاؤ اس طرح صحت گر جاتی ہے.بیماریاں آتی ہی رہتی ہیں.تمہارے ا با تیرہ سال پڑے رہے.میں نے تو ان دنوں کو بھی ENJOY کیا تھا.وہ بھی ایک زندگی بنالی تھی کتابیں پڑھتی.دعاؤں کے خطوط لکھتی یا ہم دونوں باتیں کرتے رہتے یا پھر تم سے اور مصطفی سے دل بہلاتے.باوجود مالی تنگی کے وہ وقت بھی ہنس کر گزار لیا.ہسپتال میں مریضوں سے دلچسپی لینے لگتی چلتے پھرتے لوگوں کو دیکھ کر سوچتی کہ یہ کیا سوچ رہے ہونگے
کیا حالات ہیں ان کے غرض اپنے آپ کو جیسا وقت ملا ڈھال لیا تم پر اور شامی پر افسردگی اور غم طاری رہتا ہے.یہ بڑی یا ہے.ناشکری ہے تو کھل کے خلاف ہے.اپنے سے کمزور کو دیکھو.اللہ نے تمہیں اتنی پیاری بچیاں دی میں انہیں پڑھاؤ.تربیت کرو......اپنا حوصلہ بلند کرد اپنے میں اعتماد پیدا کرو.یہی گر ہے دنیا میں رہنے کا بس دُعا نہ چھوڑو اللہ سے رشتہ جوڑ لو رسب کچھ ٹھیک ہو جائے گا " مارچ ۱۹۷۶ ۹ میری پیاری بے بی ! السلام علیکم ! کل تمہارا اور سعدیہ کا خط ملا.میں نے سعدیہ کے لیے بہت دُعا کی.بے چاری اتنی سی بچی نے خود صحت کے لیے دُعا کا لکھا ہے.تمہیں وہم ہے اور یہ وہم قدرتی ہے.تمہارا بھی قصور نہیں.تم نے آنکھ کھولتے ہی دھڑ کے والی بیماری رابا جان کا ہارٹ اٹیک ) دیکھی.شادی کے بعد پھر دہی سلسلہ.مگر حتی الوسع و ہم دور کرو اور توجہ ہٹاؤ.تمہارے اپنے آبا والی خواب کی تعبیر اتنی واضح ہے.حیران ہوں اچھی بھلی عقل والی ہو کہ تمہیں سمجھے نہیں آتی.اس کا مطلب دُعا ہے بس کچھ نہ کرو - دعا کرو صد قہ بے شک رو بلا کرتا ہے مگر دُعا جیسی کوئی چیز نہیں.عقد
۳۲۹ دے کر بے فکر ہوجانا اور یہ خیال کرنا کہ اب دوسرے دعا کریں گے غلط ہے.جو دعا خود اپنی ہوتی ہے وہ کسی کی نہیں ہوتی.اپنی حالت پر اضطراب پیدا ہوتا ہے اور یہی بات قبولیت دعا کا موجب ہوتی ہے قرآن شریف میں ہے کہ میں مضطر کی دُعا سنتا ہوں یہی دن دُعا کرنے کے ہیں.پہلے پہل دل نہ لگے گا.انسان سمجھتا ہے کہ میں گھیرا ہٹ میں دعا نہیں کر سکتا.مگر زہر دستی کمرہ بند کر کے نفلوں کی نیت باندھ کر دعا شروع کردو.پھر دیکھو خود بخود دعا نکلنی شروع ہو جائے گی دو نفل تو دس بجے دن اور دو یا چار نفل تجد کے پڑھ کے تو دیکھو اللہ تعالی کیسا افضل کرتا ہے.جب بندہ مانگے ہی نہ تو وہ کیوں دے بینک اس کی صفت رحمان ہے اور جو کچھ تمہیں مل رہا ہے اسی صفت کے ماتحت ہے.مگر رحیم بھی تو ہے.یہ صفت کوشش چاہتی ہے.تم فاضل بہت ہو گئی ہو اپنی اصلاح کرو.پھر دیکھو کہ قدرت کا کیسا ظہور نظر آتا ہے.تمہاری خالہ جان تمہارے لیے بہت دُعا کرتی ہیں ان کو پھر ضرور خط لکھو کہتی تھیں.ہر وقت دعا اس کے لیے کرتی ہوں رات دو نفل بھی لیٹے لیٹے پڑھ لیتی ہوں.نفلوں میں بھی لگو سامنے آجاتی ہے.آج ہی خط لکھو تاکہ اور تحریک ہو..." "
۳۳۰ ۹ مارچ ۱۹۴۶ "میری پیاری عصمت (میری بیٹی سعدیہ کا دوسرا نام ہے) تمہارے خط سے بہت خوشی ہوئی اللہ تعالیٰ تمہیں صحت والی لمبی عمر دے نیک نصیب ہو.بخت برتر ہے.اچھا میاں اچھا گھر لے اور دین ودنیا کا علم حاصل کرکے دین کی خدمت کرو.ماں باپ کی کمزوریوں کی تلافی کرنے والی بنو، نماز یا قاعدہ پڑھا کرو اور بہت دُعائیں کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ابا اتی کو صحت والی عمر عطا کرے ان کی مستیاں دُور ہوں وہ بھی دُعا کریں.قرآن کریم بھی روز پڑھا کرو.اپنی بہنوں کے لیے بھی بہت دُعا کیا کرو.آیا لیلی اور زہرہ تمہارے پیار سلام سے بہت خوش ہوئیں.تم سب کو پیار کہتی ہیں تمہارا امتحان نہ ہوتا تو تم سب کو بیاں جلا لیتی.بہت دُعائیں کرو اللہ اپنا فضل کرے.آیا کی ترقی ہو اور صحت رہے.تمہاری بڑی امی" -1946 یکم اکتوبر ماه پیاری بے بی.اگر تم مجھے خوش رکھنا چاہتی ہو تو برقعہ کا پردہ کرو بازار سے پسند کا کپڑا فلیٹ وغیرہ آج ہی لے لو اور برقعہ برکت سے سلوالو.سارا بل کپڑا سلاتی ہیں.
۳۳۱ دوں گی یہ فکر نہ کرنانہ بھی توتومیں نے ضرور دینا ہے اتنی سی بات ہے لوگ ماں باپ کے لیے کیا نہیں کرتے.تم اتنی سی قربانی نہیں کر سکتیں جس سے ماں باپ خوش - خدا خوش حضرت مسیح موعود علی السلام خوش ہوں جماعت اعتراض سے بچے گی.لوگ کچھ کرتے پھریں.تمہارا اور ان کا مرتبہ ایک نہیں.تمہیں اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا رتبہ دیا ہے کہ سارا دن شکر ادا کرو اور نفل پڑھو تب بھی شکر ادا نہ کر سکو گی.یہ دنیا چند دنوں کا کھیل تماشا ہے تمہارے ساتھ اتنا بڑا حادثہ گذرا ہے اب تمہیں دنیا سے زیادہ دین پر توجہ چاہتے.اپنا نمونہ ایسا بناؤ کہ تمہاری معصوم بچیاں اوران کے شوہر مرتے دم تک نہیں دعائیں دیں.اب تو تم ہی ماں ہو باپ ہو.یہ بچیاں تمہارے پاس امانت ہیں.اللہ تعالی تمہیں نیک توفیق دے.آمین!" (نوٹ : یہ پہلے چادر سے پردہ کرتی تھیں.اس لیے توجہ دلائی گئی) ر ماهنامه مصباح ربوه جنوری فروری شاه ) (
حضرت سیدہ درخت کرام کے تین نا در خطوط مکرم سید میر سعود احمد صاحب ابن حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم نے حضرت سیدہ دخت کرام کے تین اور خطوط ارسال فرماتے ہیں جو علی الترتیب حضرت میر محمد اسحاقی صاحب مرحوم حضرت سید اتم داود صاحب بیگم حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم اور مکرم سید میر سعود احمد صاحب کے نام لکھے گئے ان برسه خطوط کا عکس اور متن ذیل میں دیا جا رہا ہے :- پہلا خط حضرت سیدہ مرحومہ نے اپنے چھوٹے ہوں حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کو سرینگر کشمیر سے لکھا تھا.یہ غالباً ۱۹۲۰ء میں لکھا گیا.جب حضرت خلیفة المسیح الثانی بھی کشمیر تشریف لے گئے ہوتے تھے.بسم الله الرحمن الرحیم مکرم معظم جناب ماموں صاحب السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتدا یا عزیزہ نصیرہ بیگم کے اچھے نہروں پر پاس ہونے کی بے حد خوشی ہوئی میری طرف سے مبارکباد قبول کیجئے عزیزہ کو مبارکباد کہہ دیجئے.اب تو شاید ممانی صاحبہ اور نصیرہ بیگم انٹرنس کی تیاری میں مصروف ہونگی.میرا ارادہ بھی
۳۳۳ انٹرنس کا تھا.پر سات ماہ میں تیاری کرنا مجھے تو بہت دو بھر حلوم ہوتا ہے.اقلیا دوسرے سال دونگی.امید ہے آپ اور ممانی صاحبہ و بچگان بالکل بخیریت ہونگے.قادیان میں تو گرمی بہت ہوگی کیونکہ سری نگر بھی کافی سے زیادہ گرم ہے.میری طرف سے مکرمہ نانی اماں صاحبہ و عمانی صاحبہ کو سلام کہ دیجئے.بچوں کو پیار خصوصاً مسعود کو وہ مجھے بہت پیارا لگتا ہے.نصیرہ بیگم کو بھی سلام کہہ دیں.منصورہ بھی ان کو اور آپ کو سلام کے بعد مبارکباد کہتی ہیں.و السلام خاکساره امته الحفيظ یہ دوسرا خط حضرت دخت کرام نے اپنی چھوٹی ممانی حضرت سیدہ اتم داور صاحبہ بیگم حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کو ۲۵ جون ۱۹۳۲ کو قادیان سے لکھا:
۳۳۴ دار السلام قادیان ۲۵ جون ۱۹۳۹ مکرمہ ممانی صاحبہ سلمک اللہ تعالیٰ السلام علیکم ! پرسوں آپ کا خط ملا.طبیعت گرمی کی وجہ سے کچھ خراب تھی.اس سے بیٹے جواب نہ دے سکی.یوں تو میں کیا اور میری دُعا ئیں کیا.اپنی کمزوریوں سے خود ہی واقف ہوں مگر چونکہ آپ نے بھی محبت ہی کی بنا پر دعاتے خاص کے لیے لکھا ہے اس لیے یہ بتا دینا ضروری سمجھتی ہوں کہ مجھے آج سے نہیں بلکہ بہت بچپن کی عمر سے ہی چھوٹے ماموں جان ان کی اولاد اور ان کی بیوی سے خاص طور پر زیادہ محبت ہے.سب عزیزوں کے لیے ہی میرے دل میں محبت کا جذبہ بہت زیادہ ہے مگر بعض سے خاص تعلق ہے گو میری کم زبانی" یا کم نصیبی سے کسی کو میری محبت کا ایسا یقین نہیں یا ہوتا بھی ہے تو وہ تاثیر سے خالی ہے بہر حال میرا دل محبت سے لبریز ہے اس محبت کی وجہ سے طاقت کے مطابق دُعا بھی کرتی ہوں اور آپ کے لیے تو میں ہمیشہ ہی زیادہ دُعا کرتی ہوں اب انشاء اللہ جیسا کہ آپ نے کیا ہے خاص طور حسب توفیق دعا شروع کر دوں گی مگر میں تہجد گزار نہیں ہوں اس کا مجھے خود بھی افسوس ہے کبھی کبھی پڑھا کرتی ہوں
۳۵ نیند بہت آتی ہے.پانچ نمازیں بھی وقت سے ادا ہو جائیں تو خدا کا شکر ادا کرتی ہوں.آپ یہ دعا کریں کہ مجھے دعا اور نماز کی خاص توفیق ملے اور اللہ تعالیٰ میری سمستیوں کو دور فرمائے (آمین) آپ بھی میرے لیے بہت سی دعا کریں.نصیرہ بیگم اور سب لڑکیاں بچے - اُمید ہے خیریت سے ہونگے.فقط امة الحفيظ میرا خط حضرت دخت کرام نے مکرم سید میر سعود احمد صاحب کو ۲۲ مارچ ۱۹۵۶ء کو لاہور سے رقم فرمایا : - ۱۰۸ سی ماڈل ٹاؤن لاہور ٢٢٠٣٠٥٩ عزیزم مسعود احمد سلمک اللہ تعالٰی السلام علیکم ! تمارے کئی خط طے مگر افسوس ہے پہلے باوجود دل چاہنے کے بھی جواب نہ دے سکی پہلے تو شادی کے بعد کی مصروفیت.مهمان داری - کام کاج - گھر سنبھالنا میں بٹنا مشکل رہا.بعد
٣٣٩ میں مجھے ایسی دل گھبرانے کی مرض ہوئی جس نے باقاعدہ بیماری کی صورت اختیار کرلی.ادھر قدسیہ کی پریشانی رہی.خدا خدا کر کے اس کی خیریت کی خبر ملی ہے تو میری جان میں جان آئی.تمہارے سے لیے دعا تو ہمیشہ ہی کرتی ہوں اب اور بھی زیادہ خصوصیت.انشاء اللہ کروں گی.اللہ تعالی زندگی کے ہر شعبہ میں تمہارا حافظہ ہو.خود ہی کفیل ہو خود نگران کبھی کسی کے تھاج نہ ہو اور کبھی کسی پر بار نہ رہو.دینی دنیاوی ترقیاں اللہ تعالیٰ شب و روز دیتا چلا جائے.آمین تم میرے بہت ہی پیارے ماموں اور ممانی کی اولاد ہو.میں تمہیں کس طرح مجھلا سکتی ہوں.اچھا خدا حافظ.تم بھی رمضان میں خصوصیت سے ہم سب کے لیے دعا کرنا جوان صالح کی عبادت کی طرح دُعا بھی بہت قبول ہوتی ہے.انه الحفيظ
۳۳۷ آو میری پیاری چچی جان از محرہ بیگم سلمیٰ اظہر محمود صاحب لاہور حضرت صاجزادی از لحفظ بگیم را یک شخصیت میں معبر شراء سنجیدگی صاحبہ معبر اقتدائی پوری بات کو غور سے سننا انتہائی شفقت اور متانت سے پیش ) جهان ورزد.تمام ملنے والوں کے حالات سے واقعیت رکھنا اور ان کی چھوٹی چھوٹی چیزوں اور تید ایوان کا گا کر انتہائی مفرد اندازہ میں تعریف کرنا.غرباء کی بہتری کے بارہ میں فکر مند رہنا اور مدد کے مواقع نکالنا اور اس طرح کے کئی اور اوصاف حمیدہ پائے جاتے تھے.حضرت سیدہ مرحومہ میرے والد میجر بشیر احمد خان صاحب ولد کرنل اوصاف علی خان صاحب کے سگے پھوپھی زاد بھائی نواب محمد عبد الله خان صاحب پسر نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ کی زوجہ مبارکہ تھیں اسی نسبت اور پیالہ کی وجہ سے میں آپ کو بچی جان کہا کرتی تھی.۹۶۵ہ میں نہیں ربوہ قیام کا موقع ملا.قربی تعلمی کی وجہ سے اکثر چچی جان کے حضور حاضر ہونے کا موقع ملتا.ہر ملاقات ایک یاد گار یادیں چھوڑ جاتی تھی.میرے نانا جان مرحوم خان عبدالمجید خان صاحب آف کیپور قتله کی تربیت کی وجہ سے میں نے بزرگوں کی خدمت کر کے ان سے دُعا کی درخواست کرنے کا طریق سیکھا تھا.اسی طرح جب بھی جان کی خدمت
میں حاضر ہوتی تو ایک کیفیت سی طاری ہو جاتی کہ شخصیت جو آج ہمارے سامنے موجود ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی صاحبزادی ہیں اور خدا نے مجھے نسبت دی ہے اور خدمت کا موقع فراہم کیا ہے تو کیوں نہ میں اس موقع کا بھر پور فائدہ اُٹھاؤں اسی لالچ میں بچی جان کی خدمت میں پیش پیش رہنے کی کوشش کیا کرتی تھی.چچی جان تمام ملنے والوں سے اس قدر شفقت اور پیار فرمائیں اور ذاتی توجہ فرمائی تھیں کہ ہر شخص کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ صرف اس کا خاصہ ہے.عزیز داری اور قرابت کی وجہ سے آپ خاص توجہ محبت اور انتہا درجہ کی شفقت فرماتی تھیں.آپ کی ذات حد درجہ مہمان نواز تھی جب میں اپنے والدین اور بھائیوں وغیرہ کے ساتھ جاتی.تو چاتے آنے پر نہایت بے کلف اور پرتپاک انداز سے پیش آئیں اور اکثر اوقات مجھ سے اور بھائیوں سے بہت ہی شفقت اور پیار سے فرمائیں کہ یہ باقی خشک میوہ یا پھل اپنی جیبوں میں ڈال لو اور راستہ میں کھاتے جانا.جو کہ ہم سب کو بہت ہی بھلا لگتا تھا میں چھوٹی چھوٹی باتوں تک کے لیے چچی جان سے دُعا کے لیے کہا کرتی تھی کہ چھی جان منہ پر دانے نکل آئے میں دعا کریں یا معدہ خراب ہے آپ دعا کریں.تو پیاری چچی جان اکثر مفید نسخوں اور مشوروں سے نواز میں اور ساتھ ہی دُعا کے لیے اثبات میں جواب دیتیں.صاحبزادی بی بی فوزیہ کی شادی طے ہونے پر حضرت چچی جان نے از خود حکم فرمایا کہ تم فوزیہ کے کپڑوں کی تیاری میں مدد کرو اور اس طرح مجھے معنویت پنی جان سے دُعائیں حاصل کرنے کا بڑا موقع ملا.کیونکہ میں نے مالیر کو یہ طرز کی
کڑھائی سلائی اور خاص طرز کی چیزیں بنا کر بھی جان سے دعائیں حاصل کرنے کی پوری کوشش کی تھی.کچھ عرصہ میرے معدہ میں سوزش رہی ایک روز کا واقعہ ہے کہ دوپہر کا کھانا لیے ایک خادمہ حاضر ہوئی تمام بچیاں جو بیٹھی تھیں ان کو فرمایا کہ جاؤ اور جا کر اپنا کھانا کھاؤ مگر مجھے آواز دیگر روک لیا اس پر ایک بچی نے جرات کر کے کہا کہ بڑی اتی آپ ہم سب کو بھیج رہی ہیں اور سلمی کو روک لیا ہے اس کی کیا وجہ ہے ہم بھی آپ کے ساتھ کھانا کھائیں گے اس پر آپ نے فرمایا کہ تم کو معلوم نہیں کہ اس کے معدہ میں سوزش ہے اور یہ بھی پر میری کھانا کھاتی ہے اس لیے یہ میرے ساتھ کھانا کھائے گی.ایک مرتبہ حضرت چچی جان چند ما، لندن میں قیام کے بعد واپس زیادہ تشریف لائیں تو میں نے اپنی بیماری کے لیے دعا کی درخواست کی تو آپ نے بڑے پیار اور شفقت سے جواب دیا.کہ اب تم کو کہنے کی ضرورت نہیں ہے مجھے تو تمہارے بارے میں دُعا کرنے کا حکم مل چکا ہے اور میں خود ہی تمہارے لیے دعا کر رہی ہوں میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ حکم اور آپ کو آپ انگلینڈ میں تھیں اور حالات میں نے آپ کو اپنے اب بناتے ہیں.کوئی خط نہیں لکھا پر کہ بار اس پر آپ نے فرمایا کہ تم ایک بار انگلینڈ میں مجھے خواب میں دکھائی دیں واپسی پر لاہور میں ۰۸ اسی ماڈل ٹاؤن ٹھہری تو پھر خواب میں دکھائی دیں اور ایک ورعب دار آواز نے کہا کہ جس شخص کو خواب میں دکھایا جائے اس کے لیے دُعا کرتے ہیں.سو اب تم کہو نہ کہو.میں تمہارے لیے دُعا کرتی رہتی ہوں.اس کے
۳۴۰ بعد میں نے محسوس کیا کہ قرابت اور عزیز داری کے علاوہ کچی جان سے ایک ایسا روحانی تعلق پیدا ہو گیا کہ جب حالات سے پریشانی لاحق ہوتی.اور میں حضرت بھی جان سے دور ہوتی تو رات دعا کر کے سونے پر اکثر و شتر حضرت بچی جان کو خواب میں دیکھیتی اسی طرح ایک گوناں گوں سکون ملتا اور پریشانی کا خاتمہ ہو جاتا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل ودرحم کے ساتھ حضرت بیچی جان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں آپ کے فیوض وبرکات سے کیا حقہ متمتع ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین ماہنامہ مصباح جنوری فروری شواه) دیدہ ور از محترمہ ڈاکٹر فهمیده منیر صاحبه ) بہت کم لوگ ایسے ہونگے جنہوں نے نرگسی کا پھول دیکھا ہوگا.اور اگر دیکھا بھی ہوگا تو گلدانوں میں سجا ہوا یا پھولوں کی دکان پر شمنی پر لگا.کسی چمن میں کسی جنگل میں کسی خود رو سبزہ کے آس پاس نہ دیکھا ہوگا.اس طرح کہ آنکھیں بند ہوتے ہوئے بھی آپ اس کی خوشبو کو محسوس کر لیں پہچان جائیں کہ آپ کے آس پاس ضرور کہیں نرگس کا پھول ہے.حضرت سیدہ چھوٹی بیگم صاحبہ کو جب میں نے پہلی بار دیکھا تو محسوس کیا تھا کہ یہ نرگس کا پھول ہے
۳۱ دیدہ ور ".اپنے اندر ایک خاص خوشبور جاتے ہوئے جو اپنی موجودگی منوا لیتا ہے.جب وہ مجھے دکھتی تھیں تو مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا وہ مجھے میرے اندر سے دیکھ رہی ہیں.زبان سے ان کے سامنے جھوٹ بولنے کی طاقت سلب ہو جاتی تھی.ان کے پاس جا کر یوں محسوس جا ہوتا تھا کہ جیسے چاندنی رات میں ساحل سمندر پر ننگے پیر چل رہی ہوں سمندر کے کنارے شور ہوتا ہے اور چاندنی رات میں جوار بھاٹا ہوتا ہے وہاں مجھے خاموشی اور سکون محسوس ہوتا تھا.لہریں تو اٹھتی تھیں، لیکن ساحلوں کو سیراب کرنے کے لیے میرے لیے اس عظیم ہستی کے قرب کا احساس ہی بہت کافی تھا.ئیں کیسے دکھتی کہ وہ کیا ہیں.ان کے تصور کے ساتھ جگنو ، سبزہ روشنی پھوار اور پھول ہی وابستہ تھے.وہ ہم سب کے لیے تھیں ہی اتنی عظیم مکرم و محترم.ان کا مقام میری نظر میں ہی نہیں سب اہل جماعت کے لیے بہت ہی اُونچا ہے.وہ اس شخص کی اولاد میں سے سب سے چھوٹی تھیں جس کے نقش قدم پر چل کر ہم نے احمدیت ایسی نعمت حاصل کی ہے یہ اولاد سب کی سب موتیوں میں تو لے جانے کے لائق تھی ئیں اب عمر کے ایسے حصے میں ہوں جب دل و نگاہ نوادرات و جواہرات کی قدر کرنا سیکھتے ہیں.میری نگاہوں نے جن مناظر کی عکس بندی کی ہے وہ معدودے چند ہیں آیتے انہیں آپ بھی میرے ساتھ دیکھتے.میرے بچوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ سب سیدہ موصوفہ سے شرف
۳۴۲ علاقات حاصل کرنا چاہتے ہیں آپ کی طبیعت ان دنوں کافی ناساز تھی مجھے پوچھنے میں جھجک تھی ڈرتے ڈرتے اس خواہش کا ذکر ان سے کیا یہ کمال مہربانی مجھے اجازت دے دی.بچے بھی ساتھ لے گئی تھی فوراً اندر بلایا.ایک ایک بچے - سے ہاتھ ملایا.ان سے ان کے نام پوچھے کو الف دریافت کئے.میری بیٹی کو کہنے لگیں، تم پر گئی لگتی ہے یہ ڈاکٹر بنے گی انشاء اللہ بڑے بیٹے سے پوچھا تم بڑے ہو کر کیا بنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا میں فوج میں جانا چاہتا ہوں.فرمایا.فوج والے ہماری قدر نہیں کرتے ؟ میرے بیٹے نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ جب تک میں بڑا ہوں حالات تبدیل ہو جاتیں " فرمایا " خدا کرے.پھر سب بچوں کو JELLY کی ٹافیاں دے کر رخصت کیا.بچے آج تک ان کے نرم و نازک ہاتھوں کا لمس محسوس کرکے خوشی ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج تک ہم نے ایسے ہاتھ کبھی نہیں چھوئے.حیا اور پاکیزگی کا اتنا خیال تھا کہ میں نے آج تک کسی میں نہیں دیکھا.جب بھی ان کے پاس بیماری میں انہیں دیکھنے گئی.اشد مجبوری کی حالت کے علاوہ کبھی معائنہ کے لیے راضی نہ ہوتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں.نرس کے طور پر صرف تعلیم کولایا کرو.ترس بدل کر ساتھ نہ لانا.مجھے حجاب محسوس ہوتا ہے اس لیے آخردم تا کبھی لیڈی ڈاکٹر بدلنے کے لیے تیارنہ ہوتیں فرمایا کرتی تھیں مجھے حجاب محسوس ہوتا ہے میں ڈاکٹر نہیں بدل سکتی.دوسروں کی تکلیف کا اتنا احساس ہوتا تھا کہ مجھے فرماتی تھیں کہ ایسے وقت مجھے دیکھنے او جب دوسرے مریضوں کا حرج نہ ہو.اکثر فرمائی " دیکھو
۳۳۳ مجھے دیکھنے آؤ تو کی زندگی کے مریض کو چھوڑ کر نہ آنا جب میں جاتی تو دریافت فرمائیں زیادہ مریض تو نہیں تھے " فرمائیں.مجھے خیال ہوتا ہے کہ مریضوں کو میری وجہ سے تکلیف نہ ہو مجھے فرصت کے وقت دیکھنے آنا.اگر مجھے کبھی جلدی ہوتی تو بھانپ جاتیں اور کہتیں، لگتا ہے کافی مریض چھوڑ کر آئی ہو.میں بتائی کہ کون کیسی ہے تو دوسری بار اس کا حال ضرور دریافت فرماتیں کبھی نہ بھولتیں قومیت دعا کے کئی نشان آپ کی ذات سے وابستہ ہیں :- میرے بھائی حشمت کو کینسر تھا.میں نے ذکر کیا.دعا کی درخواست کی فرمایا فکر نہ کرو بالکل ٹھیک ہو جائے گا مجھے معالج ہونے کی حیثیت سے ڈر زیادہ تھا.مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ ان کی بات سچ نکلی.میرے بھائی نعمت کی نوکری نہ تھی وہ پریشان تھا دُکا کے لیے میں نے اور علیم بھائی نے عرض کی دُعا کے بعد فرمایا اسے بہت اچھی نوکری بہت جلد مل جائے گی انشاء اللہ الیکن اسے کہنا دل لگا کر کام کرے نوکری کر کے چھوڑے نہ اسے بہت جلد اچھی نوکری مل گئی، لیکن کچھ عرصہ کرنے کے بعد اس نے چھوڑ دی کیونکہ بقول اس کے بچوں کے بغیر وہاں اسلام آباد میں اس کا دل نہ لگتا تھا.ایسے لوگ جب ہم سے جدا ہوتے ہیں تو لگتا ہے وقت کی رفتار تم گتی ہے.ہم گھرا جاتے ہیں کہ عظیم ہستی ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئی لیکن ایسانہیں ہوتا اگر ہم نے زندگیوں میں ان ہستیوں سے خلوص و عقیدت کا رابطہ اور واسطہ رکھا ہو تو ان کے پر تو کی شعاعیں X - RAY کی طرح ہر دم منعکس ہو کر ہمارے شعور زندگی کو ہم پر واضح کرتی رہتی ہیں اور ہم اپنے اندر چھپی ہوئی آلودگی اور
۳۴۴۴ تعفن سے پاک رہنے کی سعی کر سکتے ہیں، لیکن یہ سعادت بھی کسی کسی کو نصیب تی (ماہنامہ مصباح جنوری فروری شورا ہے.الوداع ! دخت کرام از محترم مولانا غلام باری صاحب سیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لخت جگر حضرت اماں جان کی نور نظر جسے خداوند کریم نے دخت کرام کے لقب سے نوازا جن کی جبینِ مبارک سے پیارے آقا کے لب مبارک میں ہوتے.جو حضرت اماں جان کی گود میں پلیس - دارای ان میں پروان چڑھیں.4 مئی شاہ کو اس دنیا تے فانی سے عالم جاورانی کی طرف رحلت فرماگئیں.لاکھوں کو سوگوار کر کے اپنے آسمانی آقا کے حضور حاضر ہو گئیں.دنیا کی ہر شے فانی ہے کسی کو دوام نہیں ایک خدا کی ذات ہے جو می و قیوم ہے اسے فنا نہیں 8 سب موت کا شکار ہیں اس کو فنا نہیں اے اللہ !حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذریت طیبہ کی آخری نشانی تیرے حوالے ، ان کا وجود مبارک بہت مبارک تھا.اور جماعت کے لیے امن وسکون کا باعث تھا.لیکن - آسمانی آقا بابرکتوں کے خزانوں کی مالک تیری ذاتِ اقدس ہے.کمزوروں کا سہارا ! اسے واجب الوجود!
۳۴۵ قوی و عزیز اتو ہے ہی.حفیظ و رفیق با اگر تیری حفاظت اور رفاقت نصیب ہو جائے تو رغم واندوہ کے پہاڑ سکڑ جاتے ہیں.تیری رحمت کے دامن کو چھوڑ کر ملتی ہیں کہ ہم پر رحم فرما ہمیں اپنی رحمت سے محروم نہ کیجیو.ہم حضرت اماں جان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تجھ سے فریادی ہیں کہ یہ مہیں چھوڑ گئے پر تو ہمیں نہ چھوڑ یو" تیر افضل اور توفیق نصیب ہو تو یہ صدمہ ہم برداشت کر سکتے ہیں.اس دن ہمارے یہ کرے زخم پھر ہرے ہوتے جانے دل پر کیا کیا گنری کیا کیا یاد آیا.ہمارے زخواں پر پھاہا رکھتے کہ ہم تیرے در پر یہ زخم لے کر حاضر ہیں تو سب سے پیارا ہے.تیرا پیار سب پیاروں پر غالب ہے.اسے نادر مهربان سے زیادہ پیار کرنے والے نہیں اپنے پیار کے اجر سے محروم نہ کیجیو.اللهُمَّ اغفِرُهَا وَ ارْحِمُهَا وَلَا تَحْرِمْنَا اجرهَا وَلَا تَفْتِنَا بَعْدَهَا.سیده نواب امته الحفیظ بیگم صاحبہ نے حضرت مسیح موعود علی السلام کی اولاد میں سے سب سے لمبی عمر پاتی - ۲۵ جون نشاستہ کو قادیان میں آپ کی ولادت ہوتی ---- کرجون شاشاتہ کو آپ کا نکاح ہوا ۲۲۰ جوان 1914 کو رخصت نہ ہوا.آپ کے ذی وقار شوہر حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کے والد حضرت نواب محمد علی خان صاحب شادی بیاہ میں رسوم کے سخت خلاف تھے جس طرح حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ کو حضرت اماں جان.
۳۴۶ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے گھر یہ کہ کر چھوڑ نہیں کہ میں اس بے باپ کی بچی کو آپ کو سپرد کرتی ہوں.اسی طرح آپ کی بڑی بہن حضرت نواب مبار که زنیم صاحبہ اور حضرت کو زینب بیگم صاحبہ آپ کو دارا مسیح سے دار اسلام لے آئیں.------ رخصتنا نہ کے بعد حضرت اماں جان نے حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب کو پیغام بھجوایا : - میاں کی عمر زیادہ تھی ریعنی حضرت نواب محمد علی خان صاب کی ، تم چھوٹی عمر والے داماد ہو تم مجھ سے شرما یا نہ کرو.تاکہ جو کمی رہ گئی ہے اس کو پورا کر سکوں.) اصحاب احمد جلد ۲ ص --- جب حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب سے چالیس سالہ رفاقت کا دامن چھوٹا تو جس صبر عزم اور حوصلہ سے آپ نے یہ وقت گذار اوہ خواتین کے لیے قابل تقلید ہے.سارا خاندان حضرت مسیح موعود علیہ اسلام آپ کے مشورہ اور حکم کو واجب استعمیل سمجھتا.جماعت کی خواتین آپ سے دینی دنیوی مشورہ جات مانگتیں آپ ان سب کے خطوط کے جوابات لکھوائیں.اپنی بھی بیماری کو جو در حقیقت صبر آزما تھی.جس سکون وصبر سے گذارا یہ بھی آپ کا حصہ تھا.سلسلہ کی ہر تحریک میں آپ وعدہ کے ساتھ ہی ادائیگی فرمائیں.تحریک جدید میں پہلے نو سال کا آپ کا ذاتی چندہ تین ہزار ایک سو اٹھاون روپے تھا آپ اخلاق کریمانہ کی مالک تھیں غریبوں سے حسین سلوک اپنے گھر کے خادموں سے احسان اور شفقت کا سلوک رشتہ داروں سے صلہ رحمی آپ کے امتیازی
۳۴۷ اوصاف تھے.سلسلہ کی تاریخ میں یہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ سوئٹزر لینڈ میں بیت الذکر کی بنیاد آپ کے دست مبارک سے رکھی گئی.آپ کے پاس حضرت مسیح موعود کے کپڑوں کے تبرکات کے علاوہ ایک روٹی کا سکہ تھا جس پر حضرت مسیح موعود نے دُعا کی تھی.اسد آپ کی صحت کا ہر فرد جماعت کو فکر رہتا تھا.کافی عرصہ سے زیست کی ید منقطع ہو چکی تھی، لیکن ہر تنفس کے لیے ایک وقت مقرر ہے امتی کو اچانک تین بجے بعد دو پر آپ نے آخری سانس لیا.اور اپنے آقا کی خدمت میں حاضر ہوگئیں نگاہ میں اسی ماہ آپ کے والد حضرت مسیح موعود علی السلام کا وصال ہوا تھا.رمتی کو بعد نماز عصر اپنی بڑی بہن حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے پہلو میں دفن ہوئیں.اے وجود پاک کی دخت کرام اتجھے پر خدا کی ہزاروں رحمتیں بشیم آج بھی نمناک ہے.یہ صدمہ بھلاتے نہیں بھولے گا.لیکن ہم آپ کے پیارے مقدس والہ اللہ تعالیٰ کی ان پر ان گنت رحمتیں ہوں) کی زبان سے نکلے ہوئے شعر کو ہی دہراتے ہیں سے ہونے والا ہے سب سے پیارا کر اسکی یہ اے دل تو جان فدا کر اللہ تعالیٰ وخت کرام کے درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر قبیل اور آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین یا ارحم الراحمين بِرَحْمَتِكَ نَسْتَعِيت.د ماہنامہ انصار الله د یوه متی شاه )
۳۴۸ کریم مولانا غلام باری صاحب سیف ربوہ نے حضرت دختِ کرام کے بارہ میں مزید تحریر فرمایا :- وخت کرام کے الفاظ ہی آپ کے مقام کی حیثیت کی تعیین کے لیے کافی ہیں مامور زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی ولادت سے قبل بشارت دی کہ کریمانہ اخلاق کی بھی آپ کو عطا کی جائے گی منی شام کو یہ بشارت علی اور ۲۵ جون نشتہ کو کریم آباد کے گھر دخت کرام کی ولادت ہوئی.(تذکرہ ) حقیقۃ الوحی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف میں سے ایک اہم اور آخری تصانیف میں سے ایک ہے جو آپ نے اپنے وصال کے ایک سال قبل متی نشہ میں تصنیف فرمائی اس میں آپ نے ۱۸۷ نشانات کی تفصیل بیان فرماتی ہے ان نشانات میں چالیسواں نشان دخت کرام کی ولادت کا بیان فرمایا ہے کرام مجمع کا صیغہ ہے اس کا واحد کریم اور کریڈ ہے جس کے معنے شریف معزز سخی اور اچھے حسب و نسب کے مالک اور کریمیانہ تصال و اخلاق کے مالک کے ہیں.بچے اور بچیاں دنیا میں پیدا ہوتے ہیں اور لاکھوں بلکہ کروڑوں کا ذکر بھی کبھی نہیں ہوتا.ان میں صالح بھی ہوتے ہیں.اور غیر صالح بھی.خوشحال
۳۴۹ زندگی بھی بعض کو نصیب ہوتی ہے اور نان جویں کو رہنے والے بھی ان میں ہوتے ہیں ان میں رشیم و اطلس پہننے والے بھی ہوتے ہیں.اور ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو تن ڈھانکنے کے لیے چیتھڑے بھی میسر نہیں ہوتے اس لیے صرف کسی بچے کی ولادت کوئی قابل ذکر امر نہیں ہے لیکن اللہ تعالٰی خالق کائنات جب اپنے نیک بندے کو اولاد کی ولادت کی قبل از وقت بشارت دیتا ہے تو ایسی اولاد کا صالح ہونا مقدر ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علی السلام اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں فرماتے ہیں :- إن الله لا يسير الأنبياء والأولياء الا إِذَا قَدَر توليد الصَّالِحِينَ.آئینہ کمالات اسلام ص ۷۹ ۵ ماشید ) کہ اللہ اپنے انبیاء اور اولیا.کو اس وقت اولاد کی بشارت دیتا ہے جب ان کا صالح ہونا مقدر ہو اور دخت کرام کے بارہ میں خصوصی طور ہے.آپ کو بشارت دی گئی ویسے تو آپ کی ساری اولی د بشا رات کے تحت ہوئی جیسا کہ فرمایات میری اولا سب تیری عطا ہے ہراک تیری بشارت سے ہوا ہے پس آپ کا مقام تو اس امر سے واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ولادت کی بشارت دی اور حضور پر نور نے اسے ایک نشان قرار دیا.یہ وضاحت اس لیے بھی ضروری تھی کہ شاید جماعت کے کسی فرد
۳۵۰ کے ذہن میں یہ خیال آتے کہ بعض نبیوں کی اولاد کے بارہ میں قرآن کریم میں وضاعت ہے کہ وہ خدا کے قہری نشان کا شکار ہوتے اور وہی خدا کی گرفت سے بچا جس کے اعمال صالحہ تھے اور اللہ کے بندے اپنی اولاد کو یہ نصیحت کرتے ہمیں دکھائی دیتے ہیں کہ خدا کے حضور میری اولاد ہو نا تمہارے کسی کام نہیں آئے گا.تمہارے اعمال تمہارے کام آئیں گے اس میں کوئی کلام نہیں کہ صرف حسب و نسب کی کوئی اہمیت نہیں اگر اس کے ساتھ اعمال صالحہ کی تائید نہ ہو.اور مامور کا اہل وہ نہیں ہوتا جس کے اعمال غیر صالح ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ جملہ اپنی کتب میں خود نقل کیا ہے کہ سر که عارف تر است ترسان تر کہ خدا کی جتنی معرفت نصیب ہوگی اتنا ہی اس سے خوف ہو گا.اس کے عارف بندے ہمیشہ ترسان و لرزاں رہتے ہیں نہ کبھی وہ کسی نیکی کے موقع کو ضائع ہونے دیتے ہیں اور نہ کسی عمل پر انہیں ناز ہوتا ہے.لیکن یہ بھی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیدائش کے وقت ہی اللہ تعا اس امر کا فیصلہ کر دیتا ہے کہ مولود شقی ہوگا یا سعید" اور اللہ کے نیک بند اس دنیا میں بعض بندوں کے متعلق اس عالم آب و گل میں اس کا اظہار بھی فرما دیتے ہیں کہ خدا کے اس بندے کو اس کی رضا اور مغفرت کی خلعت پہنا دی گئی ہے اور ایسی بشارت کا اعلان بھی کر دیا جاتا ہے.یہاں اعمالِ صالحہ کی نفی مقصود نہیں کہ ایمان کا درخت نشود نما پاتا ہے اعمال صالحہ کے پانی سے.لیکن اس امر کی وضاحت بھی ضروری تھی
۳۵۱ کہ یہ امر منفی نہ رہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے صالح بندے کو قبل از وقت اولاد کی بشارت دے تو اس کا صالح اور سعید ہونا بارگاہ الہی میں مقدر ہو چکا ہوتا ہے اور اللہ عالم الغیب و کاتب تقدیر اپنے بندے کو اس کی خبر دے رہا ہوتا ہے فافهم و تدبر.وخت کرام کے مقام کی وضاحت اس امر سے بھی ہو جانی چاہیتے کہ جماعت کے امام نے آپ کے وصال کو اپنی والدہ کے وصال کے ترادف قرار دیا ہے اور جماعت کے امام بحیثیت امام کے ہمارے لیے بمنزلہ باپ کے ہیں آپ کا محبوب ہمارا محبوب ہے آپ کا دُکھ ہمارا دکھ اور آپ کا سکھ ہمارا سکھ ہے.رخت کرام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کے مقام کا اس سے بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں.میں ہر نماز میں بالالتزام اپنے اہل و عیال اور اولاد کے لیے دعا کرتا ہوں.خدا کے بندوں کی کاری سے اس کی تقدیر آسمان سے زمین پر آتی ہے رحمان و رحیم خدا کی رحمت کو بندوں کی عاجزانہ دعائیں جذب کرتی ہیں.وہ با حیا سخی اپنے در کے فقیروں کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرتا.دعا اگر اپنے آداب کے ساتھ کی جائے.خدا کی تقدیر کے خلاف نہ کی جائے تو ارحم الراحمین خود فرماتا ہے.دُعا کرومیں قبول کروں گا وہ مضطر کی دُعائیں قبول کرتا ہے.ا " پس ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اپنے جانے والے بزرگوں کے
۳۵۲ * رفع درجات کے لیے ڈھا کریں اور یہ دکھا بھی کریں کہ اللہ ان سب کی دعائیں جو جماعت کے لیے انہوں نے کیس وہ قبول فرمائے.برکتوں کے خزانوں کا مالک وہ خالق ارض و سما ہے.اس کے خزانوں میں کمی نہیں.وہ سب مانگنے والوں کو ان کی مرادیں عطا فرما دے تو پھر بھی اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہوسکتی.بے شک دل افسردہ ہے کہ میسیج پاک کی بالواسطہ اولاد میں سے وخت کرام آخری تھیں لیکن یہ بھی یاد رکھتے کہحضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :." خدا تعالیٰ کے مجھ سے جو وعدے ہیں.....میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ان کا ایک نقطہ یا شوشہ نہ ملے گا " ملفوظات جلد ۷ ص ۱۶۴ تا ۱۶۶) اور یہ وعدے جاننے کے لیے حضور کی کتب پڑھیں کہ آپ سے کیا وعدے میں کیا ابتلاء و آزمائشیں مقدر میں حضور فرماتے ہیں:.یاد رکھو کہ بہت سخت دن آنے والے ہیں.چین میں دنیا کو خطرناک شدائد اور مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا.اگر تمہیں ان باتوں کا پتہ ہو جاتے جو میں دیکھ رہا ہوں تو سارا سارا دن اور ساری ساری رات خدا تعالیٰ کے آگے روتے رہو" ( ملفوظات جلد ۱۰ ص ۶۷ )
۳۵۳ خدا اصدق الصادقین ہے.اس کی سنت اور وعدے اس کے نیک بندوں کو ہی ملتے ہیں اس سلسلہ کے قیام کی ایک عرض ہے جو اس غرض کو پورا کرتا ہے وہ اس کے فضلوں کا مورد ہوگا.اور سلسلہ کے قیام کی غرض حضور نے یہ بیان فرمائی ہے :- سلسلہ کے قیام کی اصل غرض یہی ہے کہ لوگ دنیا کے گند سے نکلیں اور اصل طہارت حاصل کریں اور فرشتوں کی سی زندگی بسر کریں: الملفوظات جلد ۸ ص ۱۴۹ ) پس خدا اپنے بندوں کو اپنی نعمتوں برکتوں اور وعدوں سے کبھی محروم نہیں کرتا.نیک اعمال فروتنی اور عاجزی کی دُعائیں.اس کے احکام پر عمل.اس کی منشا کے مطابق زندگی بسر کرنے والے خدائی وعدوں کے مستحق ہوتے ہیں.مبارک ہے وہ انسان جو صدق وصفا سے صبر و ثابت قدمی کی راہ پر گامزن رہتا ہے.خدا کی نعمتوں سے اس کے نیک بندے کبھی محروم نہیں رہے.اس کے وعدوں پر سنچا ایمان پر لغزش سے بچاتا اور پہاڑوں جیسا ثبات عطا کرتا ہے اس کے کلام سے راہنمائی حاصل کرنے والے کبھی راہ سے بھٹکتے نہیں.جو شخص اس دنیا میں آیا.اس نے ایک روز اس دنیا سے رخصت ہونا ہے کیا.پیارا فقرہ فرمایا تھا.حضرت صدیق اکبر نے :-
۳۵۴ کہ جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عبادت کرتا تھا وہ اس حقیقت کو جان لے کہ محمد فوت ہو چکے ہیں اور جو خُدا کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے کہ خدا زندہ ہے صرف وہی فنا و زوال سے مبرا ہے یہ اور شاعر نے اس حقیقت کو کیا اچھے شعر میں بیان کیا وہ کہتا ہے.دانش میں خون مرگ سے مطلق ہوں بے نیازہ یں جانتا ہوں موت ہے سنت رسول کی ” ہما رے آسمانی آقا ! جس طرح آپ نے دخت کرام کو اس دنیا میں کریمیانہ زندگی عطا فرمائی.تیری شان کریمانہ اور صفت کرم کا واسطہ اگلی دنیا میں بھی انہیں اپنی رحمت وکرم کے سایہ میں رکھیو.اور آپ کے پسماندگان اور ہم سب کو آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما.آمین یا رب العالمین.ماہنامہ مصباح جنوری فروری شاه
۳۵۵ رفتید ولی نه از دل ما مرتب کتاب ہذا خاکسار سید سجاد احمد کے مضمون Lonely } مطبوعہ ماہنامہ مصباح کے چند اقتباسات اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو مبشر اولاد عطا فرمائی اور ساری اولاد کے متعلق ان کی ولادت سے قبل جو بھی وعدے فرماتے وہ مند من پورے ہوئے بعض بچے صغر سنی میں وفات پاگئے.ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہی ارشاد فرمایا تھا.زندہ رہنے والے اور بھر پور کامیاب و کامران زندگی گزارنے والے پانچ مبشر وجود تھے.تین بھائی اور دو نہیں اور ان پانچ مشر اور برگزیدہ ہستیوں میں سے آخری اور سب سے چھوٹی ہستی حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ تھیں جو ۲۵ جون شاہ کو حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے بطن سے تولد ہو تیں آپ کی ولادت سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے خبر پا کر اس بابرکت دختر کے متعلق تحریر فرمایا : دخت کرام.ایک لڑکی ہوگی جو ہر جہت سے کریموں کی دختر ہوگی.( تذکره ) آپ کا عقد حضرت حجتہ اللہ تواب محمد علی خان صاحب آف ریاست..
۳۵۶ 191 مایہ کوٹلہ کے منجھلے صاحبزادے حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب سے بے جون ۱۹۱۵ نه مطابق ۲۲ رجب المرجب ۱۳۳۳ ہجری بروز دوشنبیہ ہوا...اور رخصتی ۲۶ فروری شاشته مطابق ۲۹ ؍ ربیع الثانی ۱۳۳۹ ہجری کو ہوئی.----- حضرت حجة اللہ نواب محمد علی خان صاحب کو بھی حضرت مسیح موعواد السلام کی دامادی کا شرف حاصل تھا.اور حضور کی بڑی صاحبزادی حضرت سیدہ خواب مبارکہ بیگم صاحبہ آپ کے حبالہ عقد میں تھیں.- حضرت سیده امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور حضرت نواب محمد عبد الشاخان صاحب کو راقم الحروف نے مثالی جوڑا پا یا.باہمی محبت حسن سلوک اور فدائیت کے ایسے نظارے دیکھے کہ روح وجد میں آگئی ایک دوسرے کا اس قدر خیال اور اتنا احترام که باید و شاید ۱۸ ستمبر 11 کو حضرت نواب محمد عبدالله خان صاحب مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ کے تحت ایک لمبی بیماری کے بعد ۶۶ سال کی عمر میں وفات پاگئے اور اس طرح کم وبیش ۴۵ ساله یه دور رفاقت عارضی طور پر منقطع ہو کر رہ گیا.حضرت نواب صاحب مرحوم نے اس جگر گوشتہ نصرت جہاں کی شالی قدر کی اور ان کے راحت و آرام کا ہر طرح خیال رکھا اور ان کی نظر میں حضرت سیدہ کا ایک نماص عزت و تکریم کا مقام تھا جسے آپ نے زندگی بھر قائم رکھا اور اسے باعث فخر سمجھا......حضرت نواب صاحب ۱۳ - ۱۴ سال صاحب فراش رہے اس دوران حضرت بیگم صاحبہ نے جس طرح شبانہ روز خدمت کی اس کی مثال ملنا محال ہے...
راقم الحروف کی والدہ محترمہ غفور النساء صاحبہ کو حضرت اماں جان نے حضرت سیدہ مرحومہ کے بڑے صاحبزادے مکرم میاں عباس احمد خان صاحب کی رضاعت کے لیے ۹۲ کہ میں سنور ریاست پٹیالہ سے بلوایا.اس وقت سے حضرت سیدہ مرحومہ کے ساتھ قرب کا تعلق ہمارے خاندان کو رہا.میری عمر اس وقت (جنوری ته ) ۶۷ سال سے زائد ہے اور نصف صدی سے زائد عرصہ تک میں نے حضرت سیدہ کے مناقب عالیہ اور اوصاف حمیدہ کو بچشم خود دیکھا ہے اور میں علی وجہ البصیرت کہ سکتا ہوں کہ حضرت سیدہ مرحومہ مکارم اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھیں اور ان کی ہر حرکت و سکون اور ہر لمحہ دختِ کرام ہونے کا جیتا جاگتا ثبوت تھا.ایک دفعہ قادیان میں مجھے فرمایا کہ خواب میں تمہیں پریشان دیکھا ہے کیا بھی کی اور عباس احمد کو امداد کے لیے بھی کہا.میں سمجھتا ہوں کہ اس بابرکت و مقدس ہستی کا مجھ عاجز کو خواب میں دیکھنا اس امر پر دال ہے کہ ان کی شفقت و رافت بیکراں تھی اور ان کے دل میں ہر ایک کے لیے درد تھا وہ ایک حساس دل کی مالک تھیں.بے تکلفانہ گفتگو کے دوران ایک دفعہ میں نے عرض کیا آپ نے عرصہ ہوا مجھے خواب میں پریشان دیکھا تھا جس کا مجھ پر یہ اثر ہے کہ کوئی پریشانی نہ بھی ہو تو یونی پریشان ہو جاتا ہوں تاکہ آپ کا خواب پورا ہوتا رہے.مزید جرات کر کے یہاں تک کہہ دیا کہ آپ نے خواب دیکھا تھا اب آپ ہی دُعا بھی کریں کہ یہ سلسلہ ختم ہو.لطف اندوز ہوتے ہوئے فرمایا : دعا تو میرا معمول ہے گھبرانا نہیں چاہیئے
۳۵۸ ایک دفعہ کچھ عرصہ تک قدم بوسی کے لیے حاضر نہ ہوسکا.اس دوران میری الیہ یا شاید کوئی اور عزیزہ نے گئیں تو انہیں فرمایا : - سجاد کے پیروں میں مہندی لگی ہوتی ہے".آپ کے بظاہر اس مزاحیہ فقرہ میں بین السطور اس امر کا اظہار بھی تھا کہ طلاقات میں دیر کیوں ہوئی.ایک دفعہ ایک معاملہ کے متعلق گفتگو کے دوران میں نے کسی صاحب کے متعلق قیاساً کہہ دیا کہ شاید انہوں نے یہ کہا ہو.تو جھٹ فرمانے لگیں ، نہ نہ نہ سجاد الیسا ز کویہ بدلتی ہے اور میں نے کبھی کسی پہ بھی نہیں کی.جب کبھی حاضری کا موقع ملتا.فرماتیں پرانے واقعات سناتور بزرگوں کی باتیں کرو گویا ہے گاہے گاہے بازخواں ایں قصہ پارینہ را تازه خواهی داشتن گرداغ ہاتے سینه را اور پھر خاصی دیر تک یہ پر لطف گفتگو ہوتی رہتی.مجھے فرماتیں.تم نے بزرگوں سے فیض اٹھایا ہے مطالعہ بھی ہے تم سے پرانی باتیں کر کے کلف آتا ہے.جب کبھی ملاقات کے لیے حاضر ہوتا تو کتابوں کے لیے ضرور فرمائیں کہ جو بھی کتب ان دنوں تم نے پڑھی ہیں یا موجود ہیں مجھے ضرور بھجوانا - شولہ میں حضرت نواب صاحب کی معیت میں اپنی اراضی نصرت آباد اسٹیٹ فضل مجمبر و ضلع تھر پار کر تشریف لاتیں.ان دنوں میں بھی وہیں تھا آتے ہی مجھے فرمایا کہ یہاں جو بھی کتب تمہارے پاس موجود ہیں مجھے بھیجوا دو.اور یہ بھی فرمایا کہ ٹاہلی سٹیشن آدمی بھجوا کر بی بی امها الرشید.
۳۵۹ صاحبہ سے بھی کتب منگوا لو وہاں قیام کے دوران اکثر نماز مغرب کے بعد سٹیٹ کے ملازمین میں سے ترنم سے پڑھنے والوں کو بلوائیں اور پردے کے پیچھے سے ان سے در تمین کلام محمود اور دیگر بزرگان کا کلام سنتیں.میں اسٹیٹ کے کام سے میر پور خاص گیا تو میری اہلیہ کو بلا کر اسے نیا جوڑا لباس عنایت فرمایا اور اسے تاکید کی کہ نہا دھو کر یہ لباس ابھی پہن کر مجھے دکھاؤ اور فرمایا کہ شوہر جب باہر سے آتے تو مسکراتے ہوئے صاف ستھرے لباس میں اس کا استقبال کرنا چاہیئے.ان کی نوازشوں کو کہاں تک بیان کردن افسوس کہ اب پر ال قدح بشکست و آن ساتی نماند افسوس کہ اک چراغ تھا نہ رہا ہے داغ فراق صحبت شب کی ملی ہوئی ، اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے ان کی شفقتوں، نوازشوں اور ان کی یادوں کا سلسلہ توختم نہیں ہو سکتا وہ تو دل و دماغ میں اس طرح مستولی ہیں کہ کوئی کہتا رہے اور کوئی سنتا رہے لیکن سے ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے ؛ سفینہ چاہیتے اس بحر بیکراں کیلئے
٣٩٠ وخت کرام کی شفقتوں کی مورد زینت زینب چھ سال کی بچی تھی جب حضرت دخت کرام کے گھر آئیں تاون اٹھا دن سال تک ان کا اس مقتدر گھرانہ سے تعلق رہا.نہیں جوان ہوئیں.یہیں سے وہ سسرال کے ہاں رخصت ہوئیں حضرت بیگم صاحبہ نے انہیں بیٹیوں کی طرح رخصت کیا.پھر جوانی ہی میں زینب بیوہ ہوگئیں ان کے شوہر محمد اشرف صاحب تقسیم ملک کے وقت موضع سٹھیالی انزو قادیان کا دفاع کرتے ہوئے دشمن کی گولی کا شکار ہوئے ایک گونگے بچے اور دو بچیوں کی ذمہ داری اب اس کے کندھوں پر آن پڑی.حضرت بیگم صاحبہ پیار سے زینب کو لیلی کہا کرتیں.وقت کرام کی شان کریانہ کا ذکر ان کی زبان سے سنیئے پون گھنٹڈ کے قریب وہ حضرت بیگم صاحبہ کی شفقتوں اور لاڈ کا ذکر کرتی رہیں.اور اکثر وقت وہ رونے لگ جاتیں اور ان کی آواز بھرا جاتی.غلام باری سیف ) زینب عرف سیلی نے بتایا کہ حضرت بیگم صاحبہ نے کہتی ہے سارا بچیوں کو پالا اپنے خرچ پر ان کی شادیاں کیں اور ان سے پھر اس طرح
۳۶۱ سلوک فرمایا کہ ان کے بچوں کو بھی اپنے نواسوں نواسیوں کی طرح سمجھا میری ایک تم سن لڑکی عذرا بیگیم (جو محرم غفور النساء بیگم صاحبہ جنہوں نے میاں عباس احمد صاحب کو دودھ پلایا تھا کی بیٹی ہیں ) کی بھی انہوں نے خود شادی کی.یہ بھی زینب کی طرح بہت چھوٹی عمر میں حضرت بیگم صاحبہ کے گھر آگئیں.بہن زینب نے مجھے بتایا کہ اس کی شادی پر حضرت بیگم صاحبہ نے بہت روپیہ خرچ کیا.اللہ نے اسے اولاد سے نوازا تو بچے کے لیے پیچی کیس بھر کر اس طرح سامان بھیجوایا جس طرح ماں اپنی بچی کی اولاد کے لیے ایسے مواقع پر بھجواتی ہیں.زہرہ سے آپ کی محبت کا یہ حال تھا کہ جس دن دختِ کرام کا وصال ہوا بار بار آپ دریافت فرماتیں زہرہ نہیں آتی زہرہ نہیں آتی اور جب وہ بچی آئی تو اس سے دریافت فرمایا بچے کو ساتھ نہیں لاتی پھر زنیب کو فرمایا اسے کھانا کھلاؤ.زینب نے بتایا کہ گھر میں آپ اس طرح ہماری تربیت کرتیں جس طرح ماں بیٹیوں کی کرتی ہے ہمارا لباس سادہ اور صاف ہوتا اور آپ فرمائیں.میں تمہاری حفاظت کرتی ہوں لڑکوں سے ملنے نہ دیتیں.زینب نے بتایا کہ جب میری شادی کی تو ہا تھوں میں سونے کے کنگن انگوٹھی کانوں کا زیور اور گلے کا زیور دیا.میری ایک بچھی مسرت کی شادی پر قریباً سارا خرچ آپ نے کیا.دوسری بچی کی شادی پر بھی بہت اعانت فرمائی.جب گونگے بچے کی شادی ہوئی
۳۶۲ تو آپ کی طبیعت اچھی نہ تھی.دولہا دلس کو بلا کر بہت بڑی رقم سلامی کے طور پر دی.زینب نے بیان کیا کہ میں بیمار ہوتی تو ڈاکٹر کو بھیجو انہیں پھر فون کمر کے ڈاکٹر اور لیڈی ڈاکٹر سے پوچھتیں کہ کیا حال ہے اس کا.میں ملنے جاتی تو آپ کا کھانا ٹرالی میں لگ کر آتا.تو اصرار فرماتیں کہ یہ مرغی کا بے مرچ شوربہ لے لو.وہ چیزے اور تم کھاتی نہیں اسی لیے تمہاری یہ حالت ہے.جب ان کے شوہر شہید ہوئے تو حضرت بیگم صاحبہ پاکستان آ چکی تھیں زینب پاکستان آئیں تو حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب مرحوم زینب کے بچوں کو اپنے بچوں کے ساتھ سیر کے لیے لے جاتے کہیں باہر جاتے تو اس کے بچوں کے لیے ٹافیاں وغیرہ لاتے.حضرت بیگم صاحبہ فرماتیں چھٹیوں میں بچوں کو لے کر یہاں آجایا کرو.زینب کی صحت کا اتنا خیال رکھتیں کہ بیماری کے ایام میں جب تک آپ کی صحت اچھی تھی روزانہ موٹر میں آجاتیں.زینب یعنی پہلی دخت کرام سے ملنے جاتیں تو فرماتیں فریح سے فلاں چیزے کو فلاں چیز کھاؤ.تم کھاتی نہیں اس لیے تمہاری صحت اچھی نہیں.زینب نے بتایا کہ شادی کے بعد میں نے ریشمی لباس پہنا.دوسروں کو اپنے دیکھا تو ایک روز میں نے عرض کیا.بیگم صاحبہ آپ نے ہیں بہت سادہ رکھا فرمایا.تمہاری عزت کا مجھے خیال تھا.زیادہ بناؤ سنگھار
وغیرہ پسند نہ فرماتیں.زینب نے کہا میں آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوتی تو مجھے کام نہ کرنے دیتیں.میں بستر جھاڑتی تو بہت خوش ہو تیں میں باورچی خام میں نگرانی کے لیے جاتی تو فرماتیں گرمی میں نہ جاؤ تمہاری صحت پہلے ہی ٹھیک نہیں.بچی زمرہ کے متعلق زینب نے بتایا کہ جب یہ سرال چلی گئی.تو دُخت کرام دن میں کئی دفعہ اس کا ذکر کرتیں اور آواز بھرا جاتی.جس روز آپ کا وصال ہوا آپ پر غنودگی سی طاری ہوئی آواز میں نقاہت تھی بہت آہستہ سے فرمایا حضرت اماں جان آتی ہیں.میں نے کہا نہیں.فرمایا - آتی ہیں.آپ کی بیماری کی وجہ سے کمرہ میں اپنے بھی کم آتے تھے باورچی کا بیٹا آیا آپ کے پاس پھل دیکھ کر کہا میں نے کیلا لینا ہے اسے اپنے پاس بلا کر اپنے ہاتھ سے کیلا دیا.زینب روتی ہوئی بولیں آپ کی شفقتوں اور لاڈ نے مجھے والدین کی یاد نہیں آنے دی کبھی آم بھیجوا رہی ہیں کبھی کوئی چیز بیماری میں سورہ ہیں نکال کر میری طرف بڑھایا کہ لو کپڑے بنوا لینا میں نے عرض کیا مجھے تو آپ کے مستعمل کپڑے درکار ہیں فرمایا الماری میں سے لے لو.حضرت بیگم صاحبہ کا وصال قریباً پونے تین بجے بعد دوپہر ہوا.ظہر کے وقت فرمایا نماز کا وقت ہو گیا ہے میرے اثبات میں جواب دینے
۳۶۴ پر فرمایا مجھے تمیم کراؤ اور پھر لیٹے لیٹے نماز ادا کی.اس روز آپ کی بچی فوزیہ جو لاہور رہتی میں نے جانا چاہا تو روک لیا اس دن بظا ہر آپ کی طبیعت پچھلے دنوں سے بہت بہتر تھی.دو سوا دو بجے مجھے فرمایا تم گھر نہیں گئی بچے یاد کرتے ہونگے.زینب نے کہا میں گھر آئی کھانا سامنے رکھا تو خادم آیا اور تانگہ ساتھ لایا کہ فلاں صاحبزادی نے بلایا ہے میں نے کھانا وہیں چھوڑا کو ٹی پہنچی تو تمام رشتہ دار کمرہ میں خاموش کھڑے تھے اور دخت حرام عالم جاودانی کی طرف رحلت فرما چکی تھیں.ایک ایک صاحبزادی نے مجھے گلے لگایا.آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے تھے اور پھر زینب رونے لگ گئیں کہ آہ اب یہ کون کہے گا کہ فریج میں سے کچھ کھا لو اب کون مجھے پکارا کرے گا.کون میرے لاڈ لیا کرے گا کون میرے لیے ڈاکٹر کو بلایا کرے گا.زینب فیکٹری ایر یا ربوہ میں مقیم میں اللہ تعالیٰ نے گونگے بچے کو بڑی سمجھ دی ہے بہت اچھا کا ریگر ہے نہایت صاف ستھرا اور عمدہ گھر اللہ نے عطا فرمایا ہے.بچیوں کو بہت اچھے گھر اللہ نے عطا کئے ہیں.اپنے سلیقہ اور سگھڑ پن کی وجہ سے سارے محلہ میں ممتاز ہیں آپ نے مجھے بتلایا کہ یہ سب بیگم صاحبہ کی تربیت کا نتیجہ ہے یہ سینا پرونا سب آپ نے سکھلایا...اہلی اور گھریلو زندگی انسان کی سیرت کا بڑا اہم پہلو ہوتا ہے حضرت دخت کرام کی بیگانوں پر شفقت اور لاڈ کا یہ کچھ ادنی سا ذکر
۳۶۵ ہے جس سے حضرت بیگم صاحبہ کی کرامت نفس.خدا خوفی بنی نوع انسان سے محبت کا کچھ اندازہ ہوتا ہے.زینب نے بتلایا کہ آپ کے سمجھانے اور نصیحت کرنے کا عجیب رنگ تھا.پیچھے پڑ کر نصیحت نہ کرتیں.بات بہت اچھے انداز میں کرتیں بچیوں کو بیاہنے کے بعد ان کے گھر بلو معاملات میں دخل نہ دیتیں ہر بچے کی ضروریات کا علم رکھتیں اور گھر میں پلنے والے بے سہارا بچیوں کو اولاد کی طرح سمجھتیں ان کی ضروریات کا خیال رکھتیں دامے درمے سخنے ان کی مدد فرماتیں ایک عرب شاعر نے کیا اچھا کیا ہے سے انها المرء حَدِيثًا بَعْدَهُ تكن حَدِيثًا حَسَنا ظَن نوعى آدمی کی وفات کے بعد باتیں یاد رہ جاتی ہیں پس اچھی بات بن کہ لوگ یاد رکھیں یہ وہ نافع الناس وجود ہوتے ہیں جن سے بے سہارا بے آسرا بے بس اور غریب لوگوں کو ماں باپ جیسی شفقت ملتی ہے.اللہ ! آسمانی آقا ! دخت کرام کی نیک یاد گاروں کو ہم اور آپ کی اولاد باقی رکھنے والی ہو.کریم آقا ! آپ کے درجات بلند فرما.اپنی رضا کی چادر انہیں نصیب فرما جس طرح وہ بے آسرا لوگوں سے لاڈ پایا کرتی تھیں تو بھی ان سے اپنے لاڈ اور پیار کا سلوک فرما.آمین یا رب العالمین.ماہنامہ مصباح ربوہ جنوری فروری مشاه)
۳۶۶ ایک مثالی بیوی مکرم چو دری محمد صدیق خان خان ایم براده حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی مظہر اولاد میں سے تھیں بلکہ آپ کی صداقت کا نشان بھی تھیں.آپ کی ولادت سے قبل اللہ تعالیٰ نے آپ کو وخت گرام کے لقب سے نوازا.آپ کی ولادت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات کے بعد ہوتی.ان کی زندگی میں آپ پانچ بہن بھائی تھے اور آپ نے ان کے متعلق فرمایا تھا کہ آئندہ نسل کی بنا.ان ہی پر ہے، لیکن صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب بچپن میں ہی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے آپ کی وفات کے بعد ان کی پیدائش ہوئی اور اس طرح مخالفین کی طرف سے اس اعتراض کا رد فرما دیا کہ بشارت تو پانچ افراد سے نسل کی ہے اب تو چار رہ گتے ہیں گویا آپ کا وجود حضرت مسیح موعود علیہ سلام کی صداقت کے لیے دُہرا نشان ہے آپ اپنے بہن بھائیوں میں سے سب سے آخر میں پیدا ہوئیں اور اللہ تعالٰی نے آپ کو لمبی عمر سے نوازا اور سب بہن بھائیوں کی وفات کے بعد ان کی وفات ہوئی.آپ حضرت حجۃ اللہ نواب محمد علی خان صاحب میں مالیر کوٹلہ کے بیٹے حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ رشتہ ہر جہت سے مبارک
رہا.آپ اوصاف حمیدہ اور اخلاق عالیہ کی مالک تھیں.اللہ تعالیٰ پر بے حد تو کل تھا اور مستجاب الدعوات تھیں آپ نے اپنی اپنی زندگی میں خوشال کردار ادا فرمایا اور جو اعلیٰ نمونہ پیش کیا.اس کا اعتراف آپ کے گرامی شوہر حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب مرحوم نے بار ہا گیا.....آپ کا وجود بے حد برکات کا حامل تھا.اللہ تعالیٰ کی سنت مستمرہ کے تحت وہ اپنا وقت پورا کر کے اپنے مولا نے حقیقی سے جاملیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے خاص قرب میں اعلی علیین میں مقام عطا فرماتے نصرت آپ کی اولاد کو آپ کے اوصاف حمیدہ کا حامل بناتے بلکہ جماعت احمدیہ کے تمام افراد کو ان تمام اخلاق کا حامل بننے کی سعادت نصیب فرماتے اور آپ کے نقوش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرماتا رہے اور ہم سب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل محبوں کے گروہ میں شامل فرما کر انجام بخیر فرمائے.آمین اللهم آمین (مصباح جنوری فروری شلة )
حسین یادیں ر از محترمہ رضیہ درد صاحبہ ایم اے ربوہ ) زندگی کی گھا گھی میں بھی سو جاتے ہیں لوگ چلتے چلتے وسعت ماضی میں کھو جاتے ہیں لوگ ܀܀܀ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ اذکروا موتاکم بالخیر کتنی حکمتیں اس فرمان نبوی میں پوشیدہ میں سلف صالحین کے ذکر خیر سے ان کے رفع درجات کے لیے دعاؤں کی تحریک کے علاوہ اپنی اصلاح اور ان بزرگ ہستیوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بھی ملتی ہے.جو ان کے درجات کی مزید بلندی کا موجب ہوتی ہے.مرحومین کی نیکی کی ایک شہادت اور اپنے لیے باعث ثواب ہوتی ہے.حضرت سیدہ امدالحفیظ بیگم صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے چھوٹی صاحبزادی نہایت پرکشش شخصیت کی مالک تھیں.زبان کی شیرینی جسے الفاظ میں ادا ہی نہیں کیا جا سکتا آپ کی خصوصیت تھی.ہر ملنے والے کو آپ کی یہ ادا بے حد متاثر کرتی بار بار ملنے کے لیے دل میں تڑپ پیدا ہو جاتی آج آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے وہ دلکش پر وقار مسکراتا ہوا چھر مسلسل نظر کے سامنے ہے.موت نے چھینا ہے ہم سے جسم خاکی بالیقیں چھین لے وہ یاد بھی تیری یہ مکن ہی نہیں
۳۶۹......ماضی کے دھندلکوں میں بیتے ہوئے لمحے ایک ایک کرکے یاد آرہے ہیں فضاؤں میں ملک بکھیرنے والے عطر بنیر اخلاق بڑے بڑے کڑوں میں نہیں تو لے جاتے بلکہ چھوٹے چھوٹے نرم و نازک واقعات کی ایسی ہی زود جس میزانوں پر سکتے ہیں.ایک دفعہ یہ عاجزہ ملاقات کے لیے حاضر ہوئی تو ساتھ ایک اور شادی شدہ لڑکی بھی تھی جس کی اپنے خاوند سے ان بن تھی آپ نے اسے دیکھتے ہی فرمایا بیٹی تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے شادی شدہ تو لگتی ہی نہیں ازدواجی زندگی کی کامیابی کا راز اس میں بھی ہے کہ عورت اپنی ظاہری طرز کو ہر لحاظ سے درست رکھے.آپ کے کتنے میں ایسا اثر تھا ایسی اپنائیت تھی کہ کچھ عرصہ ہی بعد اس کے حالات یکدم بہتر ہو گئے.فریقین یا تو طلاق پر تلے ہوتے تھے یا ان کے گھر اللہ تعالیٰ نے ایک پیارا سا بچہ بھی عطا فرما دیا.ممکن ہے یہی بات ان کی ناچاقی کا باعث ہو.دل سمندر سے بھی زیادہ وسیع تر ہوتا ہے وہ اپنے پہلو میں لاکھوں تھرکتی ہوئی داستانیں پنہاں رکھتا ہے.جب بھی اس عاجزہ کو کسی محفل میں تلاوت قرآن مجید کرنے کی سعادت H حاصل ہوتی تو بے حد پیار اور شفقت سے خوشی کا اظہار فرمائیں.ایک - دفعہ اپنی محبت کا یوں اظہار فرمایا " میں تو یہ برداشت ہی نہیں کر سکتی کہ میں کسی مجلس میں ہوں اور تم تلاوت نہ کرو یا تم تلاوت کرو تو میں موجود نہ ہوں - کتنی دلکشی اور حسن ہے.ان چند الفاظ میں.انسان کے لیے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں اور حسین یادوں میں مثل چراغ ٹمٹماتے ہیں جس سے زندگی بھر
انسان روشنی حاصل کر کے عجیب قسم کا روحانی سکون پاتا ہے وہ شفقتوں اور محبتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ تھیں ہمارے بیانوں کی کو تاہ دامنی قیمت کو کہاں سمیٹ سکتی ہے پیر رحمتیں نازل ہوں تجھ پر اس خدائے پاک کی وہ بے پناہ محبتوں اور شفقتوں کا خزانہ ہم سے جدا ہو گیا.دل گرے غموں تلے دب گیا لیکن حد راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو اے پیارے خدا تو ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخش کیونکہ آپ سے وابستہ برکتوں کا حقیقی حقدار وہی ہے جو آپ کے اعلیٰ اخلاق کو اپنانے کی کوشش کرے.آمین.( مصباح جنوری فروری شانه ) ایک ہمدردو غمگسار ہستی از محترمہ طاہرہ رشید الدین صاحبه دارا الصدر شمالی ریوده حضرت سیدہ چھوٹے بیگم صاحبہ سے خاکسارہ کی پہلی ملاقات آپ کی صاجزادی بود کی بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم کرنل داود احمد صاحب کی کو ٹلی میں ہوئی پھر میں آپ سے اکثر نے جایا کرتی رفتہ رفتہ اس تعلق میں خدا تعالیٰ نے ایسی
۳۷۱ برکت بخشی کہ آپ کی محبت و شفقت ماں کی محبت کا روپ دھار گئی.آپ کے قرب میں رہائش رکھنے کی وجہ سے اکثر آپ کے پاس آنے جانے کے قیمتی مواقع ملے آپ کی ایمان افروز باتیں سننے اور آپ کی پاک محبت سے مستفیض ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.اپنی والدہ صاحبہ کی وفات کے بعد میں جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے فرمایا طاہرہ ! آج سے تم مجھے اپنی ماں سمجھنا.آپ کے یہ محبت بھرے اور زندگی بخش کلمات میرے دل کی گہرائیوں میں اُتر گئے اور پھر آپ کی محبت و شفقت قدم قدم پر میری ہمت اور ڈھارس بندھاتی رہی.جب بھی کسی قسم کی پریشانی یا دھانی تشنگی محسوس ہوتی تو آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر دعا کی درخواست کرنے پر سب تکلیف و پریشانی دور ہو جاتی کتی بار آپ کو دبانے کی بھی توفیق ملی.یہ سب آپ کی ذرہ نوازی تھی.وگرنہ ہم جیسے عاجز اور کمزور انسان کہاں اتنے مقدس وجودوں کی خدمت کا حق ادا کرنے کی اہمیت رکھتے ہیں.ملاقاتوں کے دوران کئی دفعہ بے تکلفی سے اپنے سسرال اور مالیر کوٹلہ کے دلچسپ اور نصیحت آموز واقعات بیان فرمائیں ، حضرت نواب صاحب کے بارہ میں ایک دفعہ یہ خاص بات بیان فرمائی کہ آپ اپنے آپ کو نواب کہلانا پسند نہیں فرماتے تھے بلکہ اپنے آپ کو نا کہ ماری کی حالت میں رکھنا پسند فرماتے.آپ دینی امور کی خاص نگرانی فرماتی تھیں.آپ کے ہاں پر دو کی بہت پابندی کرائی جاتی تھی.خاکسارہ نے ایک دفعہ آپ سے پوچھا کہ حضرت مسیح موعود
۳۷۲ علیہ السلام کے متعلق کچھ بتلا میں تو فرمایا کہ میں تو اس وقت بہت چھوٹی تھی.اور حضرت اماں جان کی طرف سے خصوصی ہدایت تھی کہ میرے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے وصال کا ذکر نہ کیا جائے تاکہ آپ کی یاد سے بچی کو تکلیف نہ پہنچے اس لیے جو کچھ دیکھا تھا وہ بھی یاد نہ رہا تاہم اتنا یاد ہے کہ ان دنوں جب حضرت خلیفہ المسیح الاول قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے تو بعض اوقات مجھے اپنی گود میں بٹھا لیتے.حضرت سیدہ بیگم صاحبہ کو میرے بچوں سے بھی بہت پیار تھا.عزیزی زہرہ کے نکاح کے بعد رخصتانہ میں جب کچھ تاخیر ہوئی تو آپ کی خدمت میں دُعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ جلد اس کے میاں کے باہر سے آنے کے سامان پیدا فرماتے.چنانچہ ایک دفعہ فرمانے لگیں کہ طاہرہ ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تم ایک روپیہ کوگوڑ لگارہی ہو اب تم تسلی رکھو کہ یہ کام جلد سرانجام پا جائے گا بعد میں آپ کی یہ مبارک خواب جلد پوری ہوگئی.اور زمرہ کی شادی کا فرض بخیر و خوبی سرانجام پایا.رخصتی کے وقت عزیزہ کو آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر پیار اور دعائیں لینے کی توفیق علی اس موقع پر آپ نے میرے داماد کو تحفہ بھی دیا.میرے سب سے چھوٹے بیٹے عزیز کلیم الدین سے بھی بہت شفقت فرما ہیں کئی دفعہ اسے اپنے پاس بلا کر شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پیار کیا نیز تبرکات سے بھی نوازا.میری بیٹی کے ہاں شادی کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے لڑکی پیدا ہوئی.تو اپنی شدید کمزوری اور بیماری کے باوجود عزیزہ کو بلوا کر اپنے کانپتے ہوئے دست مبارک سے نوزائیدہ بچی کو پیار دیا.
۳۷۳ اور اس کے ننھے منے ہاتھوں میں لفافہ تھما دیا اور بہت دھاتیں دیں.ایک دفعہ الائچی کے بارہ میں اپنی پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور مجھے بھی کچھ الا تمہیں عطا کیں.جب میرے داماد کو آپ کی اس پسندیدگی کا علم ہوا تو انہوں نے آپ کی خدمت میں عمدہ الا بچیوں کا تحفہ بھجوایا جنھیں آپ نے بہت پسند فرمایا ہر خوشی کے موقع پر خاکسارہ کو یاد فرمائیں اور تبرکات سے نوازتیں.اس طرح ہر موسم کی چیز خصوصیت سے گھر بھجوائیں اور جب بھی خاکسارہ کو آپ کی خدمت میں کسی تحفہ یا نذرانہ پیش کرنے کا موقع تھا.تو فرماتیں تم نے کیوں یہ یف کی ہے کبھی کبھار جب کسی کام کے سلسلہ میں بلوا نہیں تو اس کام کی انجام رہی پر بے حد روحانی خوشی ہوتی.آپ کی خادمہ ہاجرہ کی آنکھوں کا جب اپریشن ہوا.تو مجھے ان کی تیمار داری کی ڈیوٹی سو پینی.آپ کو اپنی اولاد سے بہت محبت تھی اور اپنی چھوٹی بیٹی محترمہ فوزیہ صاحبہ کے متعلق اکثر فرما ہیں کہ جس قدر یہ میری لاڈلی ہے اسی قدر اس پر امتحانات آتے ہیں.اس گفتگو پر اکثر آپ کی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں اور او از گلوگیر ہو جاتی.حضرت سیدہ بیگم صاحبہ نے اپنی شدید بیماری میں مجھے کئی بار یاد فرمایا.اللہ اللہ کیسی شفیق ہستی تھیں ایک مادر مهربان کی طرح جو اپنے سینے میں ساری جماعت کا درد سمیٹے ہوئے تھیں.شب و روز تڑپ تڑپ کر خدا کے حضور دعائیں کرنے والی یہ عظیم محسن و غمگسار روحانی ماں آج ہم
۳۷۴ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئیں.آپ کی وفات سے ایک دن قبل خاکسار نے خواب دیکھا کہ آپ اپنے کرہ میں ایک کرسی پر تشریف فرما ہیں.جو چاندی کی طرح چمک رہی ہے.میں اور آپ کی چھوٹی بیٹی فوزیہ بیگم صاحبہ آپ کے پاس کھڑی ہمیں آپ بنانے کی خواہش کا اظہار کرتی ہیں.تو میں کہتی ہوں کوئی حرج نہیں نمالیں لیکن محترمہ فوزیہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ نہیں آج ہم خود امی جان کو مل مل کر تسلا ئیں گے.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.خواب کے اگلے ہی دن سہ پہر تین بجے آپ کا وصال ہو گیا اور خاکسارہ کو بفضل خدا آپ کے آخری غسل میں شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی.اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی اس لخت جگر کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام سے نوازے اور ہزاروں ہزار رحمتیں اور انوار و برکات آپ کی مقدس روح پر نازل فرماتے اور ہم سب کو آپ کے نقش قدم پر چلنے کی (مصباح جنوری فروری شسته ) توفیق بخشے.آمین
۳۷۵ چند مترک با دیس یا از مخزر شمیم اختر صاحبه بنت مکرم محمد صدیق صاحب ریاوه ) حضرت بیگم صاحبہ سے ا را گسیت شانہ کو میری پہلی ملاقات ہوتی.بیگم صاحبہ نے مجھ سے میرا نام اور میری تعلیم کے بارہ میں پوچھا تومیں نے اپنا ام بتایا اور عرض کیا کہ میں نے میٹرک کیا ہے فرمانے لگیں" میں پڑھنے والی لڑکیوں کو نہیں رکھتی.اس پر میں نے کہا کہ میں اب پڑھنی نہیں ہوں.بلکہ آپ کی خدمت کرنے کے لیے حاضر ہوتی ہوں.چنانچہ میں حضرت بیگم صاحبہ کے پاس رہنے لگی.میں نے دیکھا کہ وہ مقدس اور سراپا رحمت اور جلیل القدر بزرگ ہستی جو اس زمانہ میں عظیم الشان خدائی نشانوں کی منظور تھیں نہایت با وقار خوش اخلاق شیریں زبان دشیریں کلام اور سنجیدہ موتین تھیں اور بے حد صابر و شاکر بھی.میں نے ان کی قریباً دو سال خدمت کی ہے.میرا کام چوبیس گھنٹے ان کے پاس رہنا تھا.اور ان کا ہر کام میرے ذمہ تھا.میں اپنے ہاتھوں سے بیگم صاحبہ کو ناشتہ کروایا کرتی تھی اور دونوں وقت کا کھانا کھلانا بھی میرے ذمہ تھا.اسی طرح غسل کروانا - کپڑے بدلوانا.مجھے بیگم صاحبہ کی خدمت کرنے میں اتنا مزہ آتا تھا کہ الفاظ میں بتایا نہیں جاسکتا.جی چاہتا ہے دوبارہ وہ وقت لوٹ آئے.گر گیا وقت اب کہاں سے واپس آئے.جب بیگم صاحبہ کی یاد آتی ہے تو
دل خون کے آنسو رونے لگ جاتا ہے.خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے اتنی عظیم اور بابرکت مہستی کی خدمت کا موقع عطا فرمایا کتنا خوش قسمت وہ دور تھا جب ہر وقت مجھے ان کی خدمت کا موقع ملا تھا.اور ان کی نصیحتیں سنا کرتی تھی.بیگم صاحبہ ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین کیا کرتی تھیں فرماتی تھیں کچھ بھی ہو ہمیشہ سچ بولور مجھے بہت افسوس ہوتا ہے جب بعض لوگ مجھے یہ کہتے ہیں کہ شمیم تم نے میٹرک کر کے ضائع کر دیا، لیکن ایسے لوگ کیا جا نہیں کہ کہنے کو تو بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں مگر یہ بھی نہیں سوچتے کہ میرے دل پر کیا گزرتی ہے میں نے تو حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کو اپنی ماں سمجھ کر خدمت کی ہے اور وہ تو ساری جماعت کی ماں تھیں وہ تو جماعت احمدیہ کو اپنی مقبول دعاؤں میں یاد رکھنے والی عظیم اور بابرکت مہستی تھیں.دوسروں کی بات توجہ کے ساتھ سنا کرتی تھیں.دوسروں کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھتی تھیں لوگوں کا بڑا خیال کرتی تھیں.مجھے انہوں نے کبھی نوکر نہیں سمجھا تھا.ہمیشہ فرمایا کرتی تھیں.تمیم تمہیں تو میں نے اپنی بیٹی بنا کر رکھا ہے " کھانا کھانے سے پہلے ہم سب لڑکیوں کو کہا کرتی تھیں کہ " پہلے تم سب کھانا کھا لیا کرو.مجھے فکر ہوتی ہے " لیکن میں جب تک بیگم صاحبہ کو کھانا نہیں کھلا یا کرتی تھی خود نہیں کھاتی تھی.آپ سب کے لیے بہت دُعا کرتی تھیں.جب آپ کے پاس دُعا کے لیے لوگوں کے خطوط آتے تو آپ فورا خط پڑھ کر دعا کرتی تھیں.
آپ حساب کتاب اور لین دین کے معاملہ میں بہت صاف تھیں اگر کسی کے پیسے دینے ہوتے تھے.تو فوراً ادا کر دیا کرتی تھیں بیگم صاحبہ نے اپنا کیش کمیس میرے سپرد کیا ہوا تھا.مجھ سے کھلوایا کرتی تھیں.مجھ پر بیگم صاحبہ کو بڑا اعتماد تھا ، جب کبھی آپ کے بیٹے بیٹیاں آتیں تو انہیں کہتیں کر شمیم میرا حساب کتاب لین دین بڑا اچھا سنبھالتی ہے اگر کبھی میں ایک دن کے لیے گھر چلی جاتی تو بعد میں کسی اور سے کیش کمکس نہ کھلوائیں.حضرت بیگم صاحبہ عبادت و ریاضت میں خاص دلچسپی رکھتی تھیں آپ نہایت اعلیٰ کردار اور بلند مرتبہ شخصیت کی حامل تھیں.آپ نے شدید بیماری کے باوجود کبھی نماز نہیں چھوڑی ہر صبح سویرے اٹھنا نماز پڑھنا اور قرآن پاک کی تلاوت کرنا آپ کا معمول تھا.اور جو لڑکیاں صبح کو جلدی نہیں اُٹھتی تھیں ان کو آپ آوازیں دے کر جگایا کرتی تھیں اور نماز اور قرآن کریم پڑھنے کی تلقین کیا کرتی تھیں.ایک دفعہ میں ابھی فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگی تھی کر بیگم صاحبہ نے بلا لیا مجھے کہنے لگیں.نماز پڑھ لی ہے.میں نے عرض کیا جی ہاں پڑھ ہی ہے.فرمایا قرآن پاک نہیں پڑھا میں نے عرض کیا کہ ابھی پڑھنے لگی تھی کہ آپ نے بلا لیا.فرمایا جاؤ اور قرآن کریم پڑھ کر میرے پاس آنا ، حضرت بیگم صاحبہ نے کبھی بھی نماز و تلاوت قرآن کریم کا نا ر نہیں کیا.اگر کبھی طبیعت زیادہ خراب ہوتی تو قرآن پاک کی ایک آیت ہی تلاوت کر لیا کرتیں.آخری نصیحت بیگم صاحبہ نے مجھے یہ کی کہ نماز کبھی نہیں چھوڑنی چاہتے.خدا کی پکڑ ایک نہ ایک دن ضرور آتی ہے.لیکن انسان سمجھتا نہیں " رمصارح جنوری فروری)
۳۷۸ نا قابل فراموش لمحات از محرمه ثمینه سیمین صاحبه داراسین غربی دیوه ) حضرت بیگم صاحبہ سے میری طلاقات کا عرصہ تین سالوں سے زائد نہیں لیکن ان کی معیت میں گذرے ہوتے یہ لمحات اپنے اندر طمانیت اور خوشی کا ایسا بھر پور تاثر لئے ہوتے ہیں کہ یہ میری زندگی کے ناقابل فراموش لمحے بن گئے ہیں.طبیعت اس قدر سادہ اور رحم دل تھی کہ آپ کے ہاں کام کرنے والے سب خادم اور خادمائیں ان سے اولاد کی طرح پیار کرتے تھے.مجھے یاد ہے جب پہلی بار میں اپنی اتنی کے ساتھ ملاقات کے لیے گئی تو آپ بیمار تھیں میرے سر پر پیار کیا اور پھر گھر والوں کے متعلق پوچھا کتنے بہن بھائی ہیں کیا کرتے ہیں.میری تعلیم کے متعلق پوچھا.پھر مجھ سے پوچھنے لگیں کہ کون کون سے کھانے پکا لیتی ہو ، لڑکیوں کو اس کام میں بہت دلچسپی لینی چاہیئے.نئے نئے کھانے پکانے سیکھنے چاہتیں اس کے بعد کبھی کبھی فون پر بھی آپ سے بات کر لیتی تھی.میرے اور آپ کے درمیان محبت کا ہر رشتہ اتنا بڑھا کہ ایک دفعہ مجھے لاہور جانا پڑا بعد میں آپ نے فون کر کے پوچھا کہ اتنے دن ہو گئے ثمینہ نے لاہور سے کب واپس آتا ہے جب بھی فون کرتیں گھر میں سب کی خیریت دریافت کرتیں.ایک دفعہ میں نے اپنی باجی
کے ہاتھ بیکری سے کیک لے کر بھیجا تو با جی کو کہنے لگیں کہ مجھے خوشی ہوتی ہے لیکن آئیندہ مجھے اپنے ہاتھ سے بنا کر بھیجے.ایک بار میں بھرے بینگن پکا کر لے گئی.ہمیشہ ان کی تعریف کرتیں اور حوصلہ افزائی فرمائیں.میں نے ہمیشہ یہ دیکھا کہ طبیعت خراب ہوتی تھی اور آپ بیڈ ریسٹ پر ہوتی تھیں تب بھی گھر کے ہر فرد پرگری نگاہ رکھتیں صفاتی کا ہمیشہ بہت خیال رکھتیں.ایک دفعہ آپ کے پاس کام کرنے والی لڑکی واپس جارہی تھی اور آپ کو اس بارہ میں بڑی پریشانی تھی کہ کوئی اچھی لڑکی مل جاتے ہیں آپ کے پاس بیٹھ کر واپس جارہی تھی کہ خالہ لیلی نے آواز دی کہ بیگم صاحبہ جاتی ہیں میں واپس آئی تو بیگم صاحبہ نے مجھے فرمایا کہ مجھے اپنے جیسی کوئی لڑکی ڈھونڈ دو میں نے کہا اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے پاس رہ جاتی ہوں مجھے آپ کی خدمت کا شوق بھی ہے کہنے لگیں.نہیں مجھے بارہ تیرہ سال کی لڑکی چاہیتے اس کو میں ٹرینڈ کروں گی اور ساتھ ساتھ پڑھاتی بھی کرواؤں گی.آپ مطالعہ کی بہت شائق تھیں کئی دفعہ بستر پر ہوتیں، لیکن لائبریری سے کتابیں منگوا کر ضرور پڑھتی رہتیں.اپنے نواسے نواسیوں کا ذکر بڑے ہی محبت بھرے انداز میں کرتیں ان کی تعلیم کے لیے اکثر فکر مند رہتیں اور جب کسی نواسے یا پوتی کی کامیابی کی خبر سنتیں تو چہرہ خوشی سے دمک رہا ہوتا.اور ہر ایک کو خوشی خوشی بتائیں.) مصباح جنوری فروری شانه
شفقت مادرانه از محترمہ زبیر نسیم صاحبہ دارالعلوم غربی ریاوه ) میں نے اپنی زندگی کا ایک حصہ آپ کے سایہ عاطفت میں گذارا.دنیا کی نظروں میں تو میں محض ایک خادمہ تھیں، لیکن آپ نے مجھے ہمیشہ اپنی بیٹی ہی سمجھا.اکثر لوگ بیٹی کہہ تو دیتے ہیں لیکن کہنے میں اور سمجھنے میں بڑا فرق ہے آپ نے جو کہا کر کے دکھایا.آہ ! وقت کتنی جلدی گذر جاتا ہے اور صرف یادیں باقی رہ جاتی ہیں.گذشتہ چند سالوں سے آپ شدید بیمار تھیں اور چل پھر نہ سکتی تھیں، لیکن اتنی سخت بیماری کے باوجود آپ بہت با ہمت بلند حوصلے والی اور بہت زندہ دل تھیں.انتہائی بیماری کے دنوں میں بھی آپ نے نماز کو کبھی فراموش نہیں کیا بے ہوشی کی حالت میں بھی نماز کے متعلق دریافت فرمائیں.ہمیں بھی ہمیشہ نماز پڑھنے کی تلقین کرتیں اور فرمایا کرتی کہ قرآن پاک کی روزانہ تلاوت کرنے سے دماغ روشن ہوتا ہے آپ کا یہ معمول تھا کہ تلاوت کے بعد ہم کو حدیث شریف کا درس دیا کرتیں.بڑے ہی بلند اخلاق کی مالک تھیں.آپ کے پاس ایک بے سہارا عورت بطور خادمہ تھی بعض اوقات ہم لڑکیاں اُسے چھیڑ تیں تو وہ بہت پڑتیں اور تلملاتی ہوئی آپ کے پاس چلی جاتیں آپ اسے اپنے پاس بٹھاتیں اور اپنے ہاتھ سے کھانا دیتیں اور ہمیں نصیحت فرمائیں کہ اس کو تنگ نہ کیا کرو.
۳۸۱ ایک دفعہ ایک شادی کی تقریب کے موقع پر میں آپ کے ساتھ ایک ہوٹل میں گئی.آپ نے مجھے اپنے ساتھ بٹھایا.اور اپنے دست مبارک سے مجھے کھانا ڈال کر دیا.اس پر پاس بیٹھی ہوئی ایک خاتون نے بڑی حیرت سے کہا کہ آپ اپنی خادمہ کو اپنے ساتھ کھلاتی ہیں.میں تو ایسے کبھی نہ کروں آپ نے فرمایا کہ اسے میں نے بیٹیوں کی طرح رکھا ہوا ہے جب یہ میرا خیال رکھتی ہے تو میں کیوں اس کا خیال نہ رکھوں.ایک دفعہ آپ کی طبیعت بڑی نا ساز تھی.آپ نے مجھے بلا یا میں گئی تو بڑی محبت سے ملیں حالانکہ آپ کو بات کرتے ہوئے دقت محسوس ہو رہی تھی اس کے باوجود آپ نے اپنی بیٹی سے فرمایا کہ زہرہ کو پانی پلاؤ اور اس کے میاں کو بٹھاؤ.ئیں وہ خوش نصیب ہوں کہ جس کی شادی بھی آپ کے مبارک ہاتھوں ہوتی.بعد میں جب بھی آپ سے ملنے کے لیے جاتی تو پوچھتیں کہ تم اپنے گھر میں خوش ہونا ! تمہیں خوش دیکھ کر مجھے تسلی ہو گئی ہے.پھر مجھے دیکش انداز میں نصایح فرماتیں.میں بجھتی ہوں کہ آپ کا مجھ ناچیز پر یہ آنا برا احسان ہے کہ میں اس کا بدلہ کسی طورا دا نہیں کر سکتی.بعض اوقات لوگ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کی بڑی خدمت کی ہے لیکن میں سوچتی ہوں کہ آپ نے مجھ پر جس قدر احسانات کئے اور میرے لیے جتنی دُعائیں کیں اس کے مقابلہ میں میری خدمت کیا معنی رکھتی ہے مجھے اس بات پر فخر تھا اور ہے کہ میں آپ کی خادمہ ہوں اور آپ نے بھی مجھے بڑی محبت اور عزت سے بیٹوں کی
٣٨٢ طرح رکھا.اتنے اچھے لوگوں کو پھیلانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے بلکہ ناممکن جب بھی ان کا خیال آتا ہے تو آنکھوں میں آنسو امڈ آتے ہیں اور دل سے دعا نکلتی ہے کہ مولا کریم آپ کی روح پر ہزاروں ہزارہ برکتیں نازل فرمائے اور ہمیں آپ کے اخلاق حسنہ کو اپنانے کی توفیق دے.آمین ر مصباح جنوری فروری سشوار با برکت وجود انہ محترمہ بشری نسرین صاحبہ چونڈہ ضلع سیالکوٹ) خاکسارہ کو جب آپ سے تعلق پیدا کرنے کی سعادت ملی تو آپ کی محبت اور شفقت نے اس تعلق میں مزید برکت پیدا کر دی.ربوہ میں قیام کے دوران اکثر آپ سے شرف باریابی حاصل ہوتا آپ میرے بارہ میں اکثر فکرمند رہتیں کہ اس کی شادی ہو جاتے چنانچہ مجھ سے تعلق رکھنے والوں کو خصوصی تاکید فرمائیں کہ اس کی شادی کی کوشش کرو.میں اس سلسلہ میں اگر صحت کی کمزوری کا اظہار کرتیں تو اسے ناپسند فرماتیں.آپ کا وجود مبسط برکات الہیہ تھا.جو کوئی آپ سے ملنے جاتا آپ کا گرویدہ ہو جاتا، گو آپ سے میرا تعلق چند سالوں سے ہی تھا، لیکن پہلی دفعہ جب
۳۸۳ آپ سے تعارف حاصل ہوا تو آپ کی محبت ایک مادر مهربان کی طرح محسوس ہوئی.محترمہ پھو بھی چھی طاہرہ رشید الدین کے ذریعہ آپ کو میرے کچھ گھر یلو حالات کا علم ہوا تو آپ کے قلب صافی میں مجھے عاجزہ کے لیے بے حد ہمدردی اور محبت کے جذبات پیدا ہو گئے.میں بھی آپ سے بے تکلفانہ بائیں کرنے لگی آپ کی محبت بھری نگاہیں اور دل آویز مسکراہٹ آج بھی میری چشم تصور میں ہے اور ایک عجیب قسم کی روحانی لذت و سرور بخشتی ہے میں جب کبھی دبانے کی خواہش کا اظہار کرتی تو فرمائیں تم میرے سامنے بیٹھ کر مجھ سے باتیں کرو.آپ پاکیزہ مزاح بھی فرمائیں.بعض دفعہ بہت قریب بٹھا کر میرے خاص مسئلہ کے بارہ میں پُر لطف گفتگو فرماتیں اور مفید مشوروں سے نوازتیں......میری بعض خواہشات کو از راه شفقت آپ نے پورا فرمایا میری آلو گران یک پر آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے دستخط بھی کہتے جب مجھ سے مانوس ہو گئیں تو میری دبانے کی خواہش کو خوشی سے قبول فرمائیں آپ کی خادمہ خاص عزیزہ زہرہ بیگم کی تقریب شادی آپ کے بابرکت گھر میں دیکھنے کی توفیق علی آپ کے ہاں میرا تعارف بشری چونڈہ" کے نام سے ہوا.ایک دفعہ مذاقاً فرمانے لگیں کہ نوکروں نے تمھارا نام شرعی چونڈہ رکھ دیا ہے جب کبھی ملاقات میں دیر ہو جاتی تو بار بار فرمایا کرتی کہ بشری بہت b.دنوں سے آتی نہیں.آپ کے با برکت وجود سے خاکسارہ کو اس قدر انس اور محبت پیدا ہو گتی کہ ربوہ سے واپس آنے کو دل نہیں چاہتا تھا.آپ کی چاہت سے ایک
۳۴ عجیب روحانی سکون ملتا.ہر دوسرے چوتھے روز آپ سے ملنا ایک معمول بن جاتا.آپ کے بارعب نورانی چہرے میں ایک مقناطیسی کشش تھی جذب و اثر میں ڈوبی ہوئی نصائح سے پر یہ نیک باتیں ہمیشہ یاد رہیں گی دل آپ کی یاد سے غمگین سا ہو جاتا ہے ، لیکن یہ تو قانون قدرت ہے کہ ہر کسی نے اس جہانِ فانی سے رخصت ہونا ہے.گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے شکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھر ہی بے بقا ہے · 19an ) مصباح جنوری فروری ۱۹۸
۳۸۵ حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات پر مدیرہ مصباح کے نام حضرت سیدہ وخت کرام کا ایک خط عزیزہ مکرمہ شوکت صاحبه سلمها الله تعالی اسلام علیکم ! ་ آپ کا خط در مطالبہ مضمون ملا.مجھے حضرت منجھلے بھائی سے غیر معمولی محبت تھی.نہ میں بیان کر سکتی ہوں نہ آپ سمجھ سکتی ہیں کہ با وجود اتنی چھوٹی بہن ہونے کے میرے ان کے تعلقات کس قدر دوستانہ قسم کے تھے بہت اور عادت ہو تو مضمون کیا کتاب لکھ دوں.مگر کبھی یہ کام کیا نہیں.آج تک لکھنے لکھانے پر کبھی توجہ نہ دی.نہ فرصت ملی.پھر بھی کوشش کرتی دل کے تقاضہ سے مجبور ہو گی.پر میں تو ان کی وفات کے بعد ہی سے ہائی بلڈ پریشر اور منہ سے بلیڈنگ اور خدا جانے کن کن امراض میں گرفتار ہوں.یہ تین ماہ قریباً روزانہ ہی ڈاکٹروں کی حاضری دیتے گذرے ہیں.اسی وجہ سے تو باوجود سخت تڑپ کے سید نا بھائی صاحب (حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی ملاقات سے بھی معذور ہوں اب اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا تو انشاء اللہ اسی ہفتہ ربوہ آنے کا ارادہ رکھتی ہوں.اب کوشش کروں گی کہ کبھی مصباح کو کچھ لکھ کر مزدور بھجواؤں بشرط صحت و زندگی خدا حافظ امته الحفيظ
عظیم الشان خدائی شانوں کی نظر ایک عظیم ستی المحترم امتہ القیوم صاحبہ والدہ طاہر احمد صاحب ربوہ ) خُدا تعالیٰ کے عظیم الشان نشانوں کی لی مظہر سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مقدس ہستی حضرت سیدہ امته الحفیظ بیگم صاحبہ سید نا حضرت مسیح موعود علی السلام کے ان پانچ انمول ہیروں میں سے ایک تھیں جو وحی الہی کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر پیدا ہوئیں.حضرت اماں جان جو کہ سادات خاندان کی چشم و چراغ تھیں.یہ پانچوں آپ کے ہی بطن سے پیدا ہوئے اور ان کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ سب ہی خدا تعالیٰ کی خاص بشارتوں کے تحت پیدا ہوئے.آپ اس مبشر اولاد میں سب سے چھوٹی تھیں اور جماعت میں چھوٹے بیگم صاحبہ کے نام سے معروف تھیں......حضرت حکیم صاحبہ کا وجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکتوں کا مظہر تھا اور آپ سے حضرت اقدس کی خوشبو آتی تھی.اور حضور کے قرب کا احساس ہوتا تھا.آپ حضور کے آنگن میں سدا بہار پھول بن کر نیکیں اور تناور درخت بن کر پھلیں اور پھولیں.آپ وہ خوش بخت اور خوش نصیب وجود تھیں کہ آپ نے حضور کے لگاتے ہوئے چمن کی بے شمار بہاریں پاتیں اور حضور کی روزِ روشن کی طرح پوری ہونے رائی ان گنت پیشگو تیوں کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھا.
۳۸۷ آپ نے حضور کے ہاتھ سے احمدیت کے لگاتے ہوئے پودے کو تناور درخت بنتے اور پھولتے پھلتے دیکھا.اس کے شیریں پھل کھاتے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے چین کی بہاروں سے بھی آپ بطف اندوز ہوئیں اور ایک دور کی نسل کو پایا.اور بہترین کامیاب زندگی گزاری.اسی طرح خلافت احمدیہ کے فتح و نصرت اور تائید ربانی کے چارہ شاندار زمانے اور خدائی قدرتوں کی ایمان افروز جلوہ نمائی دیکھی.حضرت بیگم صاحبہ کے مبارک وجود میں اپنے مقدس والدین کا رنگ نمایاں تھا.آپ صاحب رویا و کشوف والہام تھیں.آپ جماعت کے لیے خصوصاً اور تمام دنیا کے لیے عموماً خیر و برکت حفظ وامان اور رحمتوں کا باعث تھیں.چاند کی مانند چمکتا روشن اور حسین چہرہ نور ایمان کی شعاعوں سے منور تھا.جانے والے تو چلے جاتے ہیں لیکن مبارک ہوتے ہیں وہ وجود جن کی یاد دلوں میں تازہ رہتی ہے اور جن کے نام پر جذبات کا ایک سمندر امڈ آتا ہے.سوچتی ہوں کہ آپ کی علو شان اور ان بے مثال صفات کو کن الفاظ میں بیان کروں اور کون سے رنگوں سے ان نقش و نگار کو نکھاروں کہ آپ کے مبارک وجود کے اعلیٰ اخلاق اور اس کے نمایاں پہلو اجاگر ہوسکیں.آپ دُعاؤں کا ایک خزانہ تھیں اور مخلوق خدا کے لیے ایک دردمند دل رکھتی تھیں.دل میں شفقت اور محبت کا ایک سمندر موجزن تھا.اپنوں اور بیگانوں کے دُکھ درد کو محسوس کرتیں.ایک مشفق ماں کی طرح خدا تعالیٰ کے حضور تڑپ تڑپ کر گریہ وزاری کرتیں دن رات بے شمار اپنے پرائے خطوط کے
PAA ذریعے اور طلاقاتوں پر ڈھا کی درخواست کرتے تو آپ ان کے لیے رائیں جاگ جاگ کر خدا تعالی سے خیر طلب کرتیں اور ان کے لیے فکر کرتیں آپ کے بیل دنار دکھاؤں سے مزین تھے اللہ تعالٰی نے آپ کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا تھا.یہاں تک کہ زبان میں بھی برکت تھی، جو بات آپ کے منہ سے نکل جاتی خدا تعالیٰ اپنے فضل سے پوری فرما دیتا.آپ کو عرفان الٹی حاصل تھا.اور خدا تعالیٰ پر کامل تو تحل تھا.جماعت بھی آپ سے والہانہ پیار کرتی تھی اور آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھی.ضعیف العمری کے باوجود آپ کا چہرہ پرکشش اور نورانی تھا.با وقار خوش خلق تھیں بات کرنے کا اندازہ اس قدر حسیں کہ دوسروں کو موہ لیتیں خدا تعالی پر کامل توکل اس کی ذات سے پوری وابستگی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق تھا.احمدیت کے ساتھ گہری محبت تھی بہت ذہین و فہیم تھیں.جلد بات کی تہ تک پہنچ جائیں اور کبھی بے مقصد بات نہ کر تیں آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چشم و چراغ تھیں اور شہزادیوں کی طرح پرورش پائی تھی.رقمیں مالیر کوٹلہ کی بگیم تھیں ان تمام بلند شانوں کے باوجود آپ کے چہرہ پر اپنی شان و شوکت کے کوئی آثار نہ تھے نہایت منکسر المزاج تھیں.بے پناہ عاجزی تھی آپ کی طبیعت میں جب بھی کوئی ملنے والی آپ نے محبت کے جوش میں ہاتھوں کو بوسہ دیتی تو آپ کے چہرے سے عاجزی کے آثار نمایاں ہو جاتے جو کسی جاہ وحشمت والے امرامہ میں دیکھنے میں نہیں آتے تکبر اور بڑائی کا کوئی ثانیہ آپ کے کسی عمل میں
۳۸۹ ز تھا جس کو ایک بار آپ سے ملنے کا موقع ملا.اس پر آپ کے تقدس کے گہرے نقوش مرتب ہو جاتے.بار بار منے کو جی چاہتا ہر بار ملنے سے ایمان تازہ ہوتا.اور اس میں مزید اضافہ ہوتا دل سکون پاتا.بڑھا پا تھا.بیمار جسم لیکن آپ کی بشاشت قلبی اور خوش خلقی میں کوئی کمی نہ تھی.لباس عمدہ اور عمر کی مناسبت سے ہوتا آپ کے پاس سے ہر وقت ہلکی ہلکی مہک آتی درہتی تھی.غرض آپ کی ذات اخلاق کریمانہ کی حامل تھی آپ کے اندر پہاڑ جتنا حوصلہ تھا ایک جوان اور بہا در دل تھا.کمال درجہ کی صابر اور شاکر تھیں لفظوں میں اتنی وسعت نہیں کہ وہ سب خوبیاں بیان ہوسکیں جو آپ میں تھیں جہاں آپ پر خدا تعالیٰ کے ان گنت فضل و کرم تھے وہاں آپ نے بھاری غم بھی اُٹھاتے ، لیکن آپ کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ کسی قدر بلند حوصلگی اور صبر سے ان کو برداشت کیا.اپنے پیارے اور مقدس عزیز ایک ایک کر کے آپ سے جدا ہوتے گئے.جلیل القدر ماں باپ بہن بھائی آپ کے میاں نیز سب سے چھوٹے داما در حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفه امسیح الثالث حضرت سیده منصوره بیگم صاحبہ سب آپ کے سامنے اس فانی دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن آپ نے کبھی بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا بلکہ اپنے رب کریم کی رضا پر صابو شاکر رہیں بڑے صبر و تحمل کا منظر تھیں یہ سب رب العالمین کے ساتھ گہرے تعلق اور سیتی وابستگی اور تقویٰ کا پر تو ہی تو تھا.آپ کا وجود آپ کے بلند پایہ اخلاق کی وجہ سے آپ کے اعلیٰ حسب
۳۹۰ نسب کی غمازی کرتا تھا اپنوں اور غیروں سے حسن سلوک مخلوق خدا پر رسم و شفقت آپ کا نمایاں وصف تھا.آپ میں اپنی شان و شوکت کا کوئی اظہار نہ تھا.نہ طبیعت میں نمود و نمائش تھی نہ آن بان تھی.نہ ہی کسی سے حسد نہ کسی کی عظمت و شان سے مرعوب کچھ بھی تو نہ تھا.جو کچھ تھا وہ سب خدا تعالیٰ کی خاطر تھا ایک مصفیٰ اور پاک وجود تھا.جو منظر صفات باری تعالیٰ تھا.ایک دفعہ میں نے حضور کے متعلق دیکھا ہوا ایک خواب بیان کیا آپ سن کر بے قرار ہو گئیں اور آپ کی آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے شدت جذبات سے آپ کی آواز ملتی میں اٹک گئی کا پتے ہوتے ہاتھوں سے آپ اپنے آنسو پونچھو رہی تھیں پھر آپ نے بھرائی ہوئی آواز میں فرمایا.قوم تمہارا خواب بہت بابرکت ہے.حضور کو ضرور لکھو اور دُعا کے لیے بار بار لکھواب خدا تعالیٰ تمہارے سارے کام خود کر دے گا.تم گھبراؤ نہیں اور فکر نہ کرو مجھے تسلی دے رہی تھیں اور اپنی حالت یہ تھی کہ آنسو تھم نہیں رہے تھے حضور کو دعا کے لیے اور اپنے حالات لکھنے کے لیے اکثر مجھے نصیحت فرمایا کرتیں.پھر میرا بیرون ملک جانے کا پروگرام بنا کسی نے آپ سے بھی ذکر کر دیا آپ نے مجھے بلوایا اور پوچھا میں نے دُعا کے لیے عرض کیا آپ نے بڑی اُداسی سے فرمایا.اچھا تم بھی جا رہی ہو ئیں نے اپنی مجبوری کا اظہار کیا ہو.اپنی کہ بیٹا اتنے سالوں سے باہر ہے اس لیے جانا چاہتی ہوں یہ سن کر فرمایا اچھا ٹھیک ہے چلی جاؤ لیکن سارے بچوں کو ساتھ لے جاؤ اور جانے سے
۳۹۱ پہلے مجھے مل کر جانا.مجھے مے بغیر نہ چلی جانا.ساتھ ہی بہت سی نصیحتیں بھی فرمائیں کہ وہاں کا ماحول اچھا نہیں بچوں کی گھر میں دینی تربیت کرنا وہاں کے بُرے اثرات سے بچا کر رکھنا.قرآن کریم کا ترجمہ پڑھانا.نمازوں کے پابند کرنا وغیرہ.جب بھی مجھے چند دن آپ کے پاس گئے دیر ہو جاتی.تو آپ مجھے یاد فرمائیں اور کہتیں کہ بس قیوم تو چلی گئی ہے.اور پھر جب میں ملنے جاتی تو مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوتیں اور فرمائیں : میں تو کبھی تھی کہ تم چلی گئی ہو." میں عرض کرتی کہ آپ کو ملے بغیر کیسے جا سکتی ہوں میں آپ کو مل کر جاؤں گی.پھر میں نے بتایا کہ ابھی میرے جانے میں رکاوٹ پڑ گئی ہے آپ دعا کریں اور میں نے وہاں زیادہ دیر نہیں رہنا.اور میرا دل آپ کے بغیر نہیں لگے گا.میں جلد واپس آجاؤں گی.آپ نے ٹھنڈی آہ بھر کر فرمایا جو جاتا ہے وہ کب واپس آتا ہے.تم کیسے واپس آؤ گی ؟ پھر آپ آبدیدہ ہو گئیں.مجھے معاً احساس ہوا کہ جو کوئی جاتا ہے سب ہی واپس آجاتے ہیں اگر کوئی پلٹ کر ابھی تک نہیں آیا تو وہ حضور ہیں جس کا آپ نے اظہار کیا.مجھے بڑا صدمہ ہوا اور اس سے آگے بات کرنے کی مجھے ہمت نہ پڑی.قدرت کے کام دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے میرے جانے میں رکاوٹ ڈال دی لیکن جب آپ کی وفات ہوئی تو اس کے بعد وہ رکاوٹ خود نخود دور ہو گئی.آپ کے دل میں دوسروں کے لیے بہت درد تھا.آپ ہر ایک کے لیے
۳۹۲ ذرا ذراسی بات کا فکر کرتی رہتیں آپ کی پوتی امتہ الاعلی ماہم کی شادی تھی.میں نے مبارک باد دی فرما یا دعا کرو مجھے بڑی فکر ہے بارات نے دور سے آنا ہے خدا تعالیٰ شادی بخیر و عافیت کر دے اور یہ خوشی دائمی ہو.ایک دفعہ کا ذکر ہے گرمیاں تھیں میں آپ سے ملنے کے لیے حاضر ہوئی آپ نے خادمہ کو فرمایا قیوم کے لیے شربت بنا کر لاؤ اسے پیاس لگی ہوگی.پھر فرمایا ، قیوم دیکھو ابھی با مچھلی ( محترمہ بی بی احتمالی اسط صاحبہ جن کو پیار سے سب باچھی کہتے ہیں ) آتی اور تھوڑی دیر باتیں کر کے جلدی سے چلی گئی تو اچانک مجھے خیال آیا.کہ باچھی اتنی جلدی کیوں چلی گئی.تو میں نے اس کو فون کر کے پوچھا کہ باچھی تم ابھی آئی اور فوراً چلی گئی کی بات تھی.اس نے کہا پھوپھی جان مجھے پیاس لگی تھی.تو میں نے باتھی سے کہا کہ کیا یہ تمہارا گھر نہ تھا.تم نے کیوں نہیں بتایا کہ تمہیں پیاس لگی ہے پھر فرمایا دیکھو باچھی نے کیا کیا ، پانی پینے گھر چلی گئی مشکل تو یہ ہے کہ مجھے پیاس نہیں لگتی.جس کی وجہ سے مجھے یاد نہیں رہتا کہ کسی کو پانی کا پوچھوں.اتنے میں خادمہ شربت سے آتی تو آپ نے اپنے ہاتھ سے دیا.بی بی کے جانے کا آپ کو اس قدر افسوس تھا کہ آپ بار بار ذکر کرتی تھیں.پھر آپ نے خادمہ کو تاکید کی کہ تم خود ہر آنے والے کو پانی پوچھ لیا کرو.مجھے تو یاد نہیں رہتا.اسی طرح محترمہ بی بی اللہ الرشید صاحبہ کی بیٹی کی شادی تھی آپ کو بہت فکر لگا ہوا تھا مجھے فرمایا دیکھو رشید کی بیٹی کی شادی ہے پتہ نہیں وہ کیسے سارے کام کرے گی.تم بھی جا کر پوچھ لینا اور اس کی مدد کر دیا.
۳۹۳ محرقہ آپا ئیلی پچپن سے آپ کے پاس رہتی تھیں وہ بیمار تھیں ان کی بیماری سے آپ بہت پریشان تھیں.دعائیں بھی کرتیں.روزانہ خادم کو کبھی دوائیاں اور کبھی کھانا وغیرہ دے کر ان کا پتہ لینے بھجوائیں مجھے بھی فرمایا کہ یسلی بے چاری اکیلی اور بیمار ہے تم کبھی کبھی چلی جایا کرو.جب حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث کی وفات ہوئی تو جماعت پر پراکٹھن وقت تھا آپ نے اس عظیم صدمہ کو بڑے صبر وتحمل سے برداشت کیا.میں افسوس کے لیے گئی تو آپ صوفہ پر خاموش بیٹھی تھیں آپ کی طبیعت خراب تھی.میں مصافحہ کرنے کے لیے آگے بڑھی تو آپ کی ایک بیٹی نے کہا امی جان کی طبیعت خراب ہے آپ مصافحہ نہ کریں.میرا دل شدت غم سے بھرا ہوا تھا.میں بے ساختہ رونے لگی.آپ بیٹی کو ناراض ہوتیں فرمایا تم نے اسے کیوں منع کیا ہے اور بڑے پیار سے اپنا ہاتھ آگے کر کے مصافحہ کیا اور فرمایا تم ادھر میرے پاس آکر بیٹھو میں نیچے قالین پر بیٹھ گئی لیکن آپ نے اصرار فرمایا کہ میرے پاس بیٹھو.چنانچہ میں اوپر بیٹھ گئی اور پھر بڑی محبت سے فرمایا دیکھو صبر کا وقت ہے صبر کرو.رونا نہیں خدا تعالیٰ کو رونا پسند نہیں دُعائیں کرو پھر میرے بچوں کا حال پوچھتی رہیں اور میری دلجوئی فرمائی.آپ میرے ساتھ ایک مشفق ماں کی طرح شفقت فرماتی تھیں اکثر میں آپ کے پاس جاتی تو خادمہ باہر سے ہی مجھے کہتی کہ بیگم صاحبہ یاد فرما رہی تھیں یا پھر عموماً کسی نہ کسی کے ہاتھ مجھے پیغام بھجوا دیتیں.
۳۹۴ رمضان المبارک تھا میں روزے سے تھی.دو پر سخت گرم تھی.میں محترمہ بی بی اللہ العزیز صاحبہ کو مل کر واپس لوٹی تو نصرت گرلز سکول کے سامنے جب آتی روہاں سے آپ کی کوٹھی کو سٹرک جاتی ہے تو مجھے حضرت بیگم صاحبہ سے ملنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی.سوچا قریب آتی ہوں آپ سے بھی مل آتی ہوں اور دُعا کے لیے عرض کر دوں گی چنانچہ میں چند قدم آپ کے گھر کی طرف چلی تو خیال آیا کہ دوپہر ہے آپ آرام فرما رہی ہونگی مجھے روزہ بھی لگ رہا تھا اس خیال سے میں پھر اپنے گھر کی طرف مڑی لیکن معادل نے القادم دیا کہ نہیں حضرت بیگم صاحبہ کو مل کر جانا ہے چنانچہ اسی کشمکش میں سکول کے سامنے میں نے تین چکر لگاتے کبھی میں آپ کے گھر کی طرف جاتی کبھی واپس مڑتی آخر دل نے یہ فیصلہ دیا کہ چلو توسی اگر آپ سو رہی ہونگی تو واپس آجانا اور مجھے اپنی اس حالت پر خود بھی بہت شرم آئی کہ سامنے دکان پر بیٹھنے والے لوگ کیا کہتے ہونگے کہ اس عورت کو کیا ہوا ہے کبھی آتی ہے.کبھی جاتی ہے آخر کار میں آپ کے گھر چلی گئی.گھر میں مکمل خاموشی تھی.میں آپ کے آرام کے خیال سے دبے پاؤں کمرہ میں داخل ہوئی آپ نیم وا آنکھیں کہتے پلنگ پر لیٹی ہوتی تھیں.خادمہ قریب اخبار بینی کر رہی تھی.مجھے دیکھتے ہی خوشی سے آپ کی آنکھیں چمک اُٹھیں.اور چہرہ مسرت سے کھل گیا.جیسے آپ میرا انتظار فرما رہی تھیں میں نے سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دے کر فرمایا.قیوم را دھراؤ میں قریب گئی تو آپ نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے
۳۹۵ ساتھ فرمایا.تم یہ بتاؤ کہ تمہیں الہام ہوتا ہے.مجھے جہاں حیرت تھی وہاں بے انتہا خوشی بھی ہوتی.میں نے پوچھا بیگم صاحبہ کیا بات ہوتی ہے آپ نے بڑے مزے سے مسکراتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں فرمایا.میرا بڑا دل چاہ رہا تھا تمہیں ملنے کو ابھی ابھی میں تمہیں یاد کر رہی تھی ، لیکن پریشان تھی کہ تمہارے گھر کس کو بھجواؤں.اسلم کو بھی تمہارے گھر کا پتہ نہیں تم کسی طرح اتنی جلدی آگئی ہو.تمہیں کس نے بتایا ہے کہ میں یاد کر رہی ہوں مجھے تم سے ضروری کام تھا.اسی طرح ایک دن میں آپ کی ملاقات کے لیے گئی تو آپ سورہی تھیں میں کچھ دیر انتظار کے بعد اُٹھ کر چلی آتی کیونکہ نماز کا وقت بھی ہونے والا تھا.جب میں آپ کی کوٹھی کی سڑک کے آخری موڑ پر پہنچی تو مجھے پیچھے سے آواز آئی جیسے کوئی کہ رہا ہے کہ آپ کو بیگم صاحبہ بلا رہی ہیں میں کبھی کہ پہریدار میرے پیچھے مجھے بلانے آیا ہے.میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سٹرک پر اور آپ کے گیٹ پر کوئی نظر نہیں آیا.میں اس کو اپنا خیال سمجھے کہ گھر آگئی، لیکن جب میں دوبارہ آپ کے ہاں گئی تو آپا سیلی نے مجھے بتایا کہ اس دن تم نکل کر گئی ہو کہ بیگم صاحبہ کی آنکھ کھل گئی.جب میں نے آپ کو بتایا کہ قیوم بھی آئی تھی اور اب واپس چلی گئی ہے تو آپ نے فرمایا جاؤ اس کو بلا لاؤ.وہ کہتی ہیں کہ میں تمہارے پیچھے گیٹ تک بھائی گھتی ہوں.لیکن پہرے دار نے بتایا کہ وہ تو جا چکی ہیں وہ کہتی ہیں کہ بیگم صاحبہ کو بہت افسوس ہوا.آپ نے فرمایا کہ تم نے اس کو ٹھرا لینا تھا.میری تو تھوڑی دیر کے
۳۹۶ لیے آنکھ لگ گئی تھی.اب دیکھیں کہاں کو بھی اور کہاں سڑک کا آخری موڑ کافی فاصلہ ہے.مجھے یہ سن کر احساس ہوا کہ وہ آواز ٹھیک ہی تھی جس کوئیں و ہم سمجھ کر واپس چلی گئی.میری ایک بیٹی ڈاکٹر ہے اس نے آرمی میں سروس کے لیے اپیلاتی (APPLY ) کیا ہوا تھا.میں نے آپ کی خدمت میں دُعا کے لیے عرض کیا.بظاہر کامیابی کی کوئی امید نہ تھی.کیونکہ فارم پر احمدی لکھا ہوا تھا.میٹی اکثر کہتی کہ مجھے تو آرمی والے کبھی نہیں بلائیں گے.میں اس کو بھی دعا کے لیے کہتی.خدا تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں سے ایسا فضل فرمایا کہ عزیزہ نے انٹرویو اور پرچے میں بہت اچھے نمبر لے کر نمایاں کامیابی حاصل کی اس کو منتخب کر لیا گیا میں نے حضرت بیگم صاحبہ سے ذکر کیا تو آپ کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگئے اور رفت بھری آواز میں فرمایا.بیٹی کو کہنا کہ وہ ہمیشہ احمدیت کو ہر جگہ مقدم رکھے اور کہیں بھی کسی موقع پر احمدیت کو نہ چھپاتے اور نہ گھبراتے اللہ تعالٰی اسی طرح اس کی ہر جگہ مدد فرمائے گا.میں جب بھی حضرت بیگم صاحبہ کو ملنے جاتی تو آپ کی صحت کے لیے دھا کر کے جاتی اکثر ایسا ہوتا کہ آپ کی طبیعت بہت اچھی ہوتی اور آپ ہشاش بشاش میں، لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوا کہ طبیعت خراب ہوتی.اسی طرح ایک دن آپ کی طبیعت کافی خراب تھی لیکن پھر بھی آپ نے اندر بلا لیا اور مجھے بتایا کہ میں تین دن بے ہوش رہی ہوں مجھے کچھ ہوش نہ تھا کہ گھر میں کون آیا ہے کون گیا.اس وقت بھی آپ کو نظامت
تھی مجھے سن کر بہت دکھ ہوا.میں نے آپ کی توجہ ہٹانے کے لیے کچھ ادھر ادھر کی باتیں اور بچوں کی باتیں سنائیں پھر مذاقا کہا کہ کبھی آپ نے اپنا چہرہ شیشے میں دیکھا ہے کس قدر حسین اور پیارا ہے اس پر کوئی جھری نہیں اس عمر میں کسی کا ایسا صاف شفاف چہرہ نہیں ہوتا.مجھے دیکھیں آپ لیلی کو کھیں ہم آپ کے سامنے عمر میں بڑی لگتی ہیں آپ ذرا بھی بیمار نہیں لگتیں ہیں آپ کو صرف خیال ہے آپ کھاتی کچھ نہیں.کھائیں تو آپ کی کمزوری دور ہو.میں بولتی رہی اور آپ مجھے دیکھ کر مسکراتی رہیں پھر میں نے کہا کہ آپ فلاں چیز کھائیں.پھل کھائیں آپ نے فرمایا میرے حلق سے یہ چیزیں اترتی ہی نہیں.ایسے لگتا ہے جیسے پیٹ پر وقت بھرا ہوا ہو میں نے عرض کیا اچھا اور کچھ نہیں تو مکھن کو دوائی سمجھ کر ایک چمچہ چائے کے گھونٹ گزار لیا کریں آخر آپ اتنی دوائیاں کھاتی ہیں.چنانچہ دوسرے دن میں گھر سے مکھن نکال کرنے گئی.اور کھانے کے لیے اصرار کر کے آئی.دوبارہ گئی تو خادمہ نے بتایا کہ بیگم صاحبہ وہ مکھن ناشتہ میں کہہ کر منگواتی ہیں.کر قیوم جو گن لاتی تھی دو لا ؤ پھر جیسے آپ نے کہا تھا اسی طرح ایک چھ بڑی مشکل سے کھا لیتی ہیں.مجھے یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی اور ملنے پر فرمایا.قیوم تم جو کمی لائی تھی وہ میں نے کھا لیا ہے تمہارے کھن کا بنگ بہت سفید اور خوبصورت تھا.مجھے بہت اچھا لگتا تھا.با در چی جو مکھن نکالنا ہے اس کا رنگ مجھے پسند نہیں اور میرا دل نہیں کرتا کھانے کو.آپ کو پہلو میں چوٹ لگ گئی.آپ کو بہت تکلیف تھی.میں گئی تو
۳۹۸ سارا واقعہ بتا یا کہ اس طرح چوٹ لگی.میں نے کور بتائی تو فرمایا.قیوم ٹھیک کہتی ہے اور پھر حمور کرواتی رہیں.بالکل ایک معصوم بچے کی طرح آرام سے بات مان لیتی تھیں.آپ کے دل میں شفقتوں کا ایک سمندر موجزن تھا.میرے بچوں کے ساتھ بے حد پیار تھا.ایک ایک بچے کا حال پوچھتیں - بیٹیوں کے لیے بہت دعائیں کرتیں.میری بڑی بیٹی نے آپ سے خواہش کی کہ مجھے کچھ لکھ کر دیں آپ نے اس کی ڈائری لے کر رکھ لی اور فرمایا کہ جب میری طبیعت اچھی ہوگی میں لکھ رکھوں گی پھر لے جانا آپ نے اس پر اپنے دست مبارک سے یہ تحریر لکھی.عزیزه امتد الرفیق - السلام علیکم و رحمتہ اللہ اللہ تعالی تمہیں نیک نصیب کرے.ہر شر سے محفوظ رکھے.نیک جوڑا ھے جو گھر کو جنت بنا کر رکھے.آمین امته الحفیظ بیگرم آپ ہمیشہ فرماتیں مجھے تمہاری بیٹیوں کی بہت فکر ہے.سارے بچوں کے پیار سے خود الگ الگ نام رکھے ہوئے تھے.میری بیٹی عزیزہ امتہ الوحید کی شادی پر آپ اپنی صحت کی وجہ سے گھر تشریف دلا سکیں، لیکن اس کے لیے بہت دُعائیں کرتی رہیں اس کے بارہ میں اتنا فکر تھا کہ ایک ایک بات اس کے متعلق دریافت فرمائیں.پھر مں اس کو طلاقات کے لیے لے گئی تو آپ نے اس کو اپنے پاس بٹھایا.اس کے ماتھے پر بوسہ دیا.پیار کیا اور تحفہ بھی دیا.اور ڈھیروں دعائیں دیتی رہیں.
۳۹۹ میری بیٹی ڈاکٹر امتہ الرقیب تعلیم کے سلسلہ میں اکثر باہر رہی اس کو بہت یاد فرمائیں اور اس کی کامیابی کے لیے دعائیں کرتیں وفات سے چند دن پہلے گھر پر گاڑی بھجوائی اور اس کو بلوا بھیجا اس کے ساتھ شہر بھی گئی.آپ دونوں کے ساتھ بے حد محبت اور شفقت سے پیش آئیں بڑی دیر یک ان سے گفتگو فرماتی رہیں.بیٹی کو اپنے ڈاکٹری نسخہ جات دکھاتے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بتایا کہ یہاں اکثر درد رہتا ہے اور بھوک نہیں لگتی عزیزہ نے پیٹ کا معائنہ کیا.پھر آپ نے فرمایا کہ تم کبھی کبھی آجایا کرو.اور پھر خود ہی فرمایا نہیں میں تمہیں گاڑی بھجوا دیا کروں گی.بیٹی نے عرض کیا آپ جب چاہیں میں آجایا کروں گی پھر آپ نے اس کے متعلق ذاتی سوالات کر کے گھر کے حالات دریافت فرماتے.اس کو تسلی دی.تم فکر نہ کرو.خدا تعالیٰ تمہارے سارے کام خود کر دے گا.خادمہ سے ان کے لیے چائے اور مٹھائی منگوائی اور اصرار کے ساتھ بلوائی بچیاں جب گھر آئیں تو خوشی سے ان کے چہرے چمک رہے تھے.محترم سیده بی بی امتہ المتین صاحبہ کے دو بیٹوں کی آمین تھی.سارا خاندان آیا ہوا تھا.میری بیٹی عزیزہ امتہ الوحید بھی میرے ساتھ تھی اس نے ان سب کو دیکھ کر بڑی ہی معصومیت سے مجھ سے پوچھا.امی یہ لوگ ہمارے جیسے غریبوں کے گھر میں آجاتے ہیں".مجھے یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی اور اس پر ترس بھی آیا کہ اس نے کسی حسرت سے یہ بات کسی ہے ، میں نے اس کو تسلی دی کہ ہاں آجاتے ہیں تو اس
۴۰۰ نے پھر کہا کہ پھر آپ ان کو اپنے گھر کو تئیں." میں اچھا کہ کے بعد میں یہ بات بھول گئی، لیکن خدا تعالٰی کا پیار دیکھیں کہ وہ اپنے بندوں سے کتنا پیار کرتا ہے اس کو اس معصوم بچی کی یہ بات کتنی پیاری لگی کہ وہ نہیں بھولا.اس نے اپنی رحمت سے اس بیٹی اور اس سے بڑی بیٹی کی آمین کرنے کی ہمیں توفیق بخشی اور اس معصوم خواہش کو کہ یہ لوگ ہم جیسے غریبوں کے گھروں میں بھی آجاتے ہیں اپنے کرم سے کیسے پورا فرمایا.کہ ہمارے غریب گھر میں حضرت سیدہ نواب مبار کهہ بیگم صاحبہ سے لے کر خاندان کے تمام پیارے پیارے وجود آئے اور ہمارا گھر منور ہو گیا.حضرت سیدہ بڑے بیگم صاحبہ تقریباً ایک گھنٹہ ہمارے گھر میں رہیں.اسی طرح حضرت چھوٹے بیگم صاحبہ کو بھی کیا ہوا تھا.اتفاق سے اس دن آپ کی کسی پرانی خادمہ کے بیٹے کی شادی تھی وہاں بھی آپ نے لازما جانا تھا.ہم ابھی انتظامات میں مصروف تھے.گھر الٹ پلٹ تھا یا ہیر سے طاہر احمد بھاگا ہوا آیا.اتی اقی حضرت بیگم صاحبہ آگئی ہیں میں جلدی میں جو دوپٹہ ملا سر پر رکھ کر کمرہ سے باہر نکلی تو آپ برآمدہ میں تشریف لاچکی تھیں اور آپ کے ساتھ آپ کی بڑی صاحبزادی محترمہ آیا طیبہ بیگم صاحبہ بھی تھیں.آپ نے مجھے گلے لگایا اور پھر بچیوں کے لیے تحفہ دے کر مبارک باد دی.اور فرمایا کہ میں پہلے اس لیے آگئی ہوں کہ شام کو میں نے ایک شادی میں ضرور جانا تھا میں نے تمہاری خوشی میں بھی شامل ہونا تھا.اب تم شکوہ نہ کرنا کہ میں نہیں آئی.یہ آپ کے اعلی اخلاق اور کریانہ اطوار کا ایک بہترین نمونہ تھا کہ آپ نے ہماری خوشی کو پورا فرمایا.درینہ
۴۰۱ ایک معقول عذر آپ کے پاس تھا.ہمارا خدا بڑی عجیب شان کا مالک ہے وہ اپنے بندوں سے اپنی شان کر بیانہ کے تحت جو خاص سلوک فرماتا ہے.وہ حضرت بیگم صاحبہ کی زندگی میں نمایاں نظر آتا ہے وہ اپنے بندوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو اپنے کرم سے خود اس طرح پورا فرما دیتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا.قادیان کا ذکر ہے کہ ہمارے گھر میں انگوروں کی ایک بیل تھی.انگور کے تو ہماری اماں جی اپنے طریقہ کے مطابق اپنے گھر کی چیزوں میں سے بزرگوں کا پہلے حصہ نکالا کرتی تھیں آپ نے اچھے اچھے گچھے اتار کر حضرت بیگم صاحبہ کو بھجواتے آپ نے اس تحفہ پر بہت خوشی کا اظہار فرمایا اور ہماری والدہ کو شکریہ کا پیغام بھجوایا اور فرمایا کہ آج بیٹی بیمار ہے وہ کوئی چیز نہیں کھا رہی تھی.صرف انگور انگ رہی تھی میں نے بازار آدمی بھجوایا لیکن انگور کہیں سے نہیں ملے ہیں پریشان تھی کہ اس کے لیے انگور کہاں سے منگوا ؤں کہ آپ نے مین ضرورت کے وقت انگور بھجوا دیئے.آپ نہایت پاک تو تھیں صالحین کی محبت اکسیر کا درجہ رکھتی ہے قریب رہنے والوں میں خود بخود روحانی تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں ان کے اخلاق اور اطوار سنور جاتے ہیں.آپ غریبوں ، یتیموں.بیواؤں مسکینوں کی ہمیشہ مدد فرمائیں.گھر کا ایک فرد آپ کے ہاں کام کرنے والا ہوتا.کفالت آپ سب کی فرما رہی ہو تیں خادموں کے عزیزوں کو بھی ضرورت کے وقت اپنی قیمتی ادویات اُٹھا کر بھجوا دیتیں، آپ کے خادموں میں احمدی خیر احمدی امیر
۴۰۲ غریب سب ہی تھے اور کبھی عقیدت اور چاہت سے آپ کی خدمت میں گئے رہتے تھے کئی خاندان آپ کے گھر میں پہلے ان پر آپ کے بلند پایہ اخلاق کا اثر تھا.ماں کی طرح ہر ایک کا احساس تھا.بعض بچیاں آپ کے پاس رہ کر تعلیم بھی پاتی رہیں.ایک خادمہ کی شادی تھی.بیٹیوں کی طرح آپ نے اس کی پرورش کی تھی.آپ اس کا جہیز تیار کروا رہی تھیں ایک دن وہ آپ کے بکس میں سے رقم لے رہی تھی آپ نے پوچھا اب کیا لینا ہے تو اس نے بتایا کہ بہتر لاتے ہیں آپ نے فرمایا.دیکھو اس کا حال میں نے اپنی بیٹیوں کے لیے دو دو بہتر بناتے تھے اور یہ چار بہتر بنا رہی ہے بھلا یہ اتنے بستروں کا کیا کرے گی.اتنے میں وہ رقم لے کر چلی گئی اور آپ نے اس کو منع نہیں کیا بلکہ آپ خوش تھیں.آپ کی اولاد بھی آپ کی اعلیٰ تربیت کے طفیل اور خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے نیک اور متقی ہے میرے بڑے بھائی جان مربی سلسلہ نے بیان کیا کہ آپ کے بڑے صاجزادہ صاحب نے ایک دفعہ وقفت عارضی کیا وہ بھائی جان کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے.بھائی جان نے پوچھا وقعت عارضی کا کیا فائدہ ہوا.تو آپ نے بڑا پیارا جواب دیا.اور کہا کہ میں تو کوئی اتنا عالم فاضل نہیں ہوں.جو دوسروں کی تربیت کر سکتا.بس اتنا فائدہ ہوا ہے کہ اپنے نفس کی اصلاح ہو رہی ہے.تربیت اولاد کے ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ کی پوتی ماریہ
۴۰۳ میری بیٹی نمرہ کی رضاعی بہن ہے حضرت بیگم صاحبہ نے اس کی نگہداشت کے لیے تاکید فرمائی.اور فرمایا کہ وہ پڑھائی میں لا پروا ہے جتنا اس کا دماغ ہے اس طرح وہ پڑھتی نہیں.تم اس سے اس طرح لاڈ پیار نہ کرو کہ اس کی تربیت خراب ہو، بلکہ ذراسختی کرنا.آپ کی توجہ دلانے پر میں چھٹی کے بعد اس کو پڑھا دیا کرتی تھی.کبھی کبھی آپ مجھے بھی دُعا کے لیے فرمایا کرتیں حالانکہ میں کیا اور میری دعا کیا یہ تو آپ کا حسن ظن تھا ایک دن گئی تو آپ نے سر باندھا ہوا تھا.میں نے طبیعت پوچھی تو آپ نے مسکرا کر فرمایا.خود ہی دیکھ لو.پھر فرمایا.تم میرے لیے دُعا نہیں کر رہی اس لیے خراب ہے.وفات سے چند روز قبل میں ملنے گئی تو آپ نے مجھے پاس بٹھا لیا اور مسکراتے ہوئے مسلسل باتیں کیں جو کمزوری کی وجہ سے کسی وقت سمجھ میں نہ آتی تھیں میں بالکل آپ کے چہرہ کے قریب ہو کر سنتی پھر جب میں اُٹھ کر واپس لوٹی تو دروازہ پر جا کر اچانک میں نے مڑ کر دیکھا تو آپ مسلسل دیکھے سے مجھے دیکھ رہی تھیں.ایسے لگتا تھا کہ جیسے آپ کو اپنی حالت کا پتہ لگ گیا ہوا تھا.پھر جس دن وفات ہوئی.تو بھی قدرت مجھے وہاں لے گئی.وہاں گئی تو پتہ چلا کہ آپ کی طبیعت خراب ہے میں نے دروازے پر کھڑے ہو کر جھانکا تو آپ کے پاس آپ کی بڑی بیٹی محترمہ طیبہ صاحب بیٹھی باتیں کر رہی تھیں آپ نے سر اُٹھا کر میری طرف دیکھ کر پوچھا کون ہے آپا بیٹی نے کہا قیوم ہے.میں جلدی سے پیچھے
۴۰۴ ہٹ گئی کہ آپ مجھے اندر نہ بلائیں اور آپا لیلی نے مجھے اشارہ بھی کیا.میں سمجھی کہ انہوں نے اندر آنے سے منع کیا ہے حالانکہ انہوں نے بتایا کہ میں نے ٹھہر جانے کا اشارہ کیا تھا کہ ابھی بیگم صاحبہ بات کر لیں تو اندر جاتی ہوں لیکن میں یہ سوچ کر کہ کل صبح وقت پر آجاؤں گی گھر لوٹ آتی.لیکن وہ صبح دوبارہ کبھی نہیں آتی.میں آپ کے گھر پہنچی تو آپ ابدی نیند سو چکی تھیں.سب کی آنکھیں اشکبار تھیں.چاروں طرف عموں کے بادل چھاتے ہوتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاڈلی سب کو تڑپتا بلکتا چھوڑ کر اپنے رب کے حضور بے حساب نیکیوں کو اپنے دامن میں سجائے ہوئے حاضر ہوگئیں.آپ سنکھ کی ٹھنڈی اور میٹھی نیند سو رہی تھیں ایسے گھتا تھا کہ کوئی شہزادی گہری نیند سو رہی ہے.اور ابھی بیدار ہو جاتے گی.چہرہ کے گرد نور کا ایک ہالہ تھا.اور ہوں پر مسکراہٹ.ادھر آپ رخصت ہوئیں ادھر آسمان پر بادل بھی اشک برسانے لگے اور سات دن تک ابر رحمت کے قطرے خراج عقیدت پیش کرتے رہے.آپ نے اپنے پیچھے پھولوں اور پھلوں سے لدا مہکتا ہوا ایک گلشن چھوڑا.جس کی آپ نے بہترین آبیاری فرمائی وہ آپ کے رنگ ہیں رنگین ہیں اور ان کی شامیں دُور تک پھیلی ہوتی ہیں.خدا تعالٰی ہر آن آپ کی دعاؤں کا سایہ ان پر قائم رکھے آپ خود ان کی حفاظت فرماتے.آمین
۴۰۵ آپ کی دعائیں تا قیامت جماعت کے ساتھ ہیں.اللہ تعالٰی آپ کو اپنی رضا کی جنت میں بلند مقام عطا فرمائے اور آپ کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اپنے پیاروں کا قرب مل جائے اور اس مبارک خاندان کو اپنی عظیم المرتبت ماں کی دعاؤں کا ثمر ہمیشہ تمہار ہے اور ہم سب آپ کی دعاؤں کی برکتوں کو حاصل کرتے رہیں.آمین ر مصباح ماه جنوری فروری شولته ) میں نے آپ کو کیسا پایا راز محترمہ امتہ الودود صاحبه ربوہ ) ۱۹۸۵ مجھے جون ۹ہ سے مارچ ششماہ تک حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی خدمت کرنے کی توفیق ملی.اور سوائے چند ماہ کے یہ سارا عرصہ ایسا ہے کہ جس میں آپ بوجہ علالت چل پھر نہ سکتی تھیں.اس عرصہ میں آپ کے معمولات کچھ اس طرح تھے کہ آپ فجر کی نماز کے بعد قرآن کریم کی تعددت کرتی تھیں جب آپ کی صحت کچھ اچھی تھی.خود اُٹھ کر وضو وغیرہ کر لیتی تھیں اور نمازہ کرسی پر بیٹھ کر پڑھتی تھیں.بعد میں کمزوری کی وجہ سے چار پائی پر لیٹ کر تیم سے نماز ادا کرتیں اور لکھنے سے ٹیک لگا کر قرآن کریم کی تلاوت کرتی تھیں.ناشتہ عام طور پر دلیہ.توس اور غیر سے
۴۰۶ کرتیں.آپ کو اخبارات کے مطالعہ کا شوق تھا.عموماً ناشتہ کے بعد اخبارات سنتی تھیں.اس کے بعد اکثر و بیشتر مستورات آپ کی ملاقات کے لیے حاضر ہوتیں آپ ان سے باوجود بیماری کے منتیں اور ان کے مسائل سن کر ان کے لیے دعا کرتیں دوپہر کو کچھ دیر آرام کرتیں اور دوپہر کے کھانے میں عام طور پر کھچڑی شور به استعمال کرتی تھیں.عصر کے بعد آپ کے اعزا آپ سے ملنے آتے تھے اور رات تقریباً دس بجے تک انہیں کے ساتھ وقت گزارتی تھیں شام کے کھانے میں عموماً کباب اور ساتھ کوئی میٹھی چیز تناول فرماتیں رات سونے سے قبل آپ بعض دفعہ دلچسپ کہانیاں سنتی تھیں جس سے آپ کو نیند آجاتی تھی.آپ کی سیرت کے چند پہلو یہ ہیں.آپ با وجود بیمار ہونے کے نماز ہمیشہ اپنے..پابندی نماز وقت پر ادا کرتیں نماز جمع کرکے پڑھنے کی پر عادت نہ تھی.نماز بر وقت ادا کرنے کی آپ کو اس قدر فکر رہتی کہ ایک وقعہ آپ نے مجھے بتایا کہ آج میں نے تقریباً تین چار دفعہ فجر کی نماز ادا کی ہے چونکہ آپ کو نیند کر آتی تھی اس لیے خیال کرتیں کہ شاید فجر کا وقت ہو گیا ہے اس سے نماز پڑھ نہیں پھر دیکھیں کہ صبح نہیں ہو رہی شاید نماز جلدی ادا کر لی ہے تو دوبارہ نماز پڑھ لیتیں.اس طرح تین چار دفعہ نماز ادا کرتیں.ایک دفعہ آپ شدید بیمار تھیں اور تقریباً دو دن تک بے ہوش رہیں
.ہوش میں آئیں تو کمزوری اتنی تھی کہ بات نہ کر سکتی تھیں ہوش آنے پر جو پہلی چیز آپ نے اشارہ طلب کی وہ پاک مٹی کی تھیلی تھی جس سے تمیم کر کے آپ نماز ادا کرتیں تھیں.جب اس سے آپ نے تم کیا تو نماز ادا کرنے کی کوشش میں دوبارہ بے ہوش ہوگئیں اور ایسا کئی دفعہ ہوا.کہ آپ تمیم کر کے نماز ادا کرنے لگتیں تو آپ پر غشی طاری ہو جاتی.وہ لڑکیاں جو آپ کے پاس رہتی تھیں انہیں نماز بر وقت ادا کرنے کی تلقین فرماتی تھیں اور ہر نماز کے وقت ہر لڑکی کو پوچھتیں کر تم نے نماز ادا کی ہے یا نہیں.آپ روزانہ فجر کی نماز کے بعد قرآن کریم تلاوت قرآن کریم کی تلاوت فرمائی تھیں آخری ایام میں اگر چہ آپ بوجہ ضعف بیٹھ بھی نہیں سکتی تھیں، لیکن پھر بھی نکیہ کے سہارے بیٹھ کر تلاوت فرماتی تھیں.پردہ کی بڑی سختی کے ساتھ پابند تھیں چونکہ پردہ کی پابندی کیا آپ بیمار تھیں اور روزانہ ڈاکٹر آپ کو دیکھنے آتا تھا ، لیکن حتی الامکان ڈاکٹروں سے پردہ کرتی تھیں ایک دفعہ کسی نے عرض کی کہ ڈاکٹر تو آپ کو روزانہ دیکھنے آتا ہے اور معائنہ کرتے ہوتے اور بے ہوشی کی حالت میں اس نے آپ کو دیکھا ہوا بھی ہے اس لیے اگر آپ ڈاکٹر سے پردہ نہ کریں تو کیا حرج ہے فرمانے لگیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے عورت غیر مرد سے پردہ کرے اس لیے میں کیوں اللہ تعالٰی کے حکم کی
۴۰۸ نافرمانی کروں.معائنہ اور بے ہوشی کی حالت میں پردہ نہ کر سکنا تو ایک مجبوری ہے چنانچہ آپ کا معمول تھا کہ جب بھی ڈاکٹر آتا تو آپ اپنا چہرہ ڈھانک چنانچہ کا تا بھی نا آپ ان چور لیس اسی طرح آپ کے پاس جو لڑکیاں آپ کی خدمت کے لیے رہتی تھیں انہیں پردہ کرنے کی ہمیشہ تلقین فرمائیں اور چھوٹے دوپٹے اوڑھنے سے منع فرماتی تھیں بلکہ فرمائیں کہ تم گھر میں بھی بڑی چادر اوڑھا کرو.اس میں وقار ہے.امام وقت سے وابستگی امام وقت سے آپ کو بے حد پیار تھا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ کے بارہ نہیں فرماتیں میاں طاری مجھے بچپن سے ہی بہت پیارے تھے اور جب حضورہ آپ سے ملنے تشریف لاتے.تو ہمیشہ انہیں گلے منتیں اور آب دیدہ ہو جاتیں اور میرا ہم کام حضور کے مشورہ اور اجازت سے انجام دیتی تھیں یہاں تک کہ آپ کو علاج کی خاطر لاہور لے جانا تھا تو پہلے حضور کو اطلاع دی اور اجازت چاہی اور جب حضور نے اجازت دی تو پھر علاج کے لیے لاہور تشریف لے گئیں.مهمان نوازی ہمیشہ میں نے آپ کا معمول دیکھا کہ اگر کھانے کے وقت کوئی مہمان آجا تا تو اسے بغیر کھانا کھائے نہیں جانے دیتی تھیں یہاں تک کہ آپ نے باورچی کو مستقل ہدایت دے رکھی تھی کہ کھانے کے وقت میرے گھر سے کوئی مہمان بغیر کھانا کھاتے نہیں
۴۰۹ جانا چاہیئے.بچوں سے شفقت آپ کے پاس ملاقات کے لیے کر رستوران کے تشریف لاتی تھیں آپ سب سے بڑی خندہ پیشانی سے ملتیں لیکن بچوں کے ساتھ خاص شفقت کا سلوک فرمائیں.چنانچہ اگر کسی خاتون کے ساتھ بھی ہوتا.تو اسے اپنے پاس جا کر اُسے پیار کرتیں اور کھانے کے لیے اسے ضرور کوئی چیز دیتی تھیں.خادموں سے شفقت آپ اپنے خادموں سے بہت شفقت کا سلوک فرماتی تھیں اگر کبھی خادموں میں سے کسی کی صحت خراب ہو جاتی تو اس کا بہت خیال رکھتیں اور اس کے لیے ادویات کا انتظام کرنے کے علاوہ بار بار اس کا حال بھی دریافت فرمانی تھیں.آخری ایام میں بود ضعف آپ کو نیند بہت کم آتی تھی اس لیے بیماری کے سبب اگر کسی خادمہ کو رات کے وقت جگائیں تو پھر اس کے لیے بہت دعائیں کرتیں اور پھر دن کو بتائیں کہ آج رات میں نے تمہا رے لیے بہت دعائیں کیں.اور خدمت کرنے والی لڑکیوں کے بارہ میں اکثر میں نے آپ کو یہ کہتے گنا کہ میری بیٹیاں ہیں جو میری خدمت کرتی ہیں.آخر میں دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور میری حقیر خدمت کو بھی قبول فرمائے.آمین ر ماہنامہ مصباح جنوری فروری شلة
۴۱۰ ม وخت کرام کے اخلاق کریمانہ ر از مکرم محمود مجیب اصغر صاحب دیوه ) عرب ممالک میں کریم کا لفظ نسبتاً زیادہ استعمال ہوتا ہے.عام آدمی جب کسی شکل کا اظہار کرتا ہے تو ساتھ ہی کہتا ہے کہ کوئی بات نہیں اللہ کریم" یعنی اللہ کریم ہے وہ کرم کرے گا فضل کرے گا اس طرح جو شخص زیادہ فیاض اور مہمان نوازہ ہو اسے بھی کریم کہا جاتا ہے اسی لیے حضرت ستیده نواب الله الحفیظ بیگم صاحبہ کے آسمانی نام دخت کرام کے حوالے سے حضرت سیدہ مرحومہ کے اخلاق کریمانہ.آپ کی خوبیوں.اوصاف حمیدہ اور طبیعت کی نرمی کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ آپ کے ساتھ جس کا بھی واسطہ پڑا اسے یہی محسوس ہوا کہ آپ کا مزاج آپ کے الہامی لقب کے عین مطابق ہے حضرت سیدہ موصوفہ کے اخلاق کریمیانہ کی چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں.جب تک حضرت سیدہ مرحومہ کی صحت ٹھیک رہ ہی آپ ہر خط کا جواب دیتیں اور دستخط فرماتیں عملی زندگی میں آنے کے بعد خاکسار نے حضرت سیدہ بیگم صاحبہ کو بھی دعا کے لیے خطوط لکھنے شروع کئے آپ اکثر خطوط کے جواب دیا کرتیں اور اطلاع بھی دیتیں کہ دعا کی ہے.1969 میں اس عاجز کی ایک بہن کی شادی تھی خاکسار نے دعا کے لیے
۴۱۱ خط لکھا.دل میں یہ خواہش تھی کہ رخصتانہ سے پہلے آپ کا خط آجاتے.جس روز برات آئی تھی اسی دن آپ کا خط ملا جس میں شادی کی مبارکباد اور بابرکت ہونے کے لیے دُعا کا ذکر تھا.۱۹۷۲ میں ربوہ منتقل ہونے پر خاکسار نے اپنی والدہ صاحبہ کو حضر سیدہ موصوفہ کے پاس رکھا کے لیے بھیجوانا شروع کیا.کتنی مرتبہ والدہ صاحبہ میری بہنوں کو اور بعض اوقات میری بچیوں کو ساتھ لے جاتیں.جب بھی والد صاحبہ ملنے جاتیں حضرت سیدہ موصوفہ نہایت محبت سے ملتیں اور جو بین ساتھ نہ ہوتی اس کا دریافت فرمائیں کچھ عرصہ والدہ نہ جا سکیں تو خاکسار کو لکھا کہ آپ کی والدہ نہیں آتیں ان کو بھجوائیں اور اس طرح اپنے کریمانہ اخلاق کا مظاہرہ فرمایا.ہماری خواہش تھی کہ آپ کے استعمال شدہ کپڑوں میں سے برکت کے لیے ہمیں کوئی کپڑا مل جاتے چنانچہ آپ نے بڑی شفقت سے میری والدہ اور بہن کو ایک چادر ایک پاجامہ اور ایک قمیص عنایت فرمائی اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام" بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے " کے خلل کے طور پر حضور کی ایک بچی کے کپڑوں سے برکت حاصل کرنے کی توفیق ملی.الحمد لله على ذلك.خاکسار کی اہلیہ ایک مرتبہ ملنے گئیں تو آپ نے انہیں ان کے والدین کے حوالہ سے پہچانا.اور جب اہلیہ نے میرے لیے بھی دعا کی درخواست کی تو فرمایا.اچھا تمہاری شادی ان کے ساتھ ہوتی ہے ان کے تو مجھے اکثر
۴۱۲ خط آتے رہتے ہیں اور بہت خوشی کا اظہار فرمایا.ایک مرتبہ نشانہ میں جب سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث اسلام آباد تشریف فرما تھے اور خاکسار بھی وہیں متعین تھا.خاکسار نے اپنی والدہ اپنے اہل و عیال اور بعض بہنوں بھائیوں سمیت حضور سے ملاقات کی.اس دوران خاکسارہ کی والدہ نے بتایا کہ وہ حضرت سیدہ موصوفہ سے ملنے جاتی ہیں تو حضور بہت خوش ہوئے اور فرمایا ہاں ضرور جایا کریں.خاکسار کے گھر سے اور والدہ صاحبہ بھی جب حضرت سیدہ کو منے کے لیے گئیں آپ ہمیشہ موسم کے مطابق مشروب وغیرہ چلائیں.ایک دفعہ خاکسار کی ایک بچی کے ہاتھ سے گلاس گر گیا.آپ کے چہرہ پر ذرا بھی طلال نہ آیا.اور نہ ہی آپ نے بُرا منایا.ایک مرتبہ ایک خط میں اس عاجز نے اپنی بعض پریشانیوں کے ذکر کے ساتھ دعا کی درخواست کی.اور مشکلات دور ہونے کا علاج دریافت کیا تو آپ نے جوا با یہ خط لکھا :- بسم الله الرحمن الرحيم RABWAH عزیزم محمد مجیب اصغر صاحب السلام علیکم ورحمه الله و برکاته! آپ کا خطط اللہ تعالی آپ کی مخلصانہ دعاؤں کو قبول فرمائے اور تمام نیک خواہشات کو پورا فرمائے.درود شریف پڑھا کریں اور اپنی زبان میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگا
۴۱۳ کریں.اللہ تعالیٰ فضل فرماتے گا.اور تمام مشکلات کو دور فرمائے گا اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.والسلام امنه الحفیظ بیگم در اصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے عظیم باپ کو جوشق تھا.یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ یہ یقین کامل رکھتی تھیں کہ تمام برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہی حاصل ہوتی ہیں اور تمام برکتیں اس مبارک تمرین وجود پر درود بھیجنے سے دُور ہوتی ہیں.اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کے بارہ میں درخت کرام کا الہامی نام پسند فرمایا یعنی جس کی فطرت اپنے آباء کے کریمانہ اخلاق سے متصف ہو آپ کا وجود نہایت مبارک تھا اور ایسے وجود روز روز پیدا نہیں ہوتے.اللہ تعالیٰ کی ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں اس با برکت و مطر وجود پر جو ہر لحاظ سے کریمانہ اخلاق کا منظر تھا.ماہنامہ مصباح ربوہ جنوری فروری شده)
۴۱۴ خُدا رحمت کرے رانه محترمه سیده نصرت زین العابدین ضنا کلفٹن کراچی ماضی حسین ماضی گوناں گوں یادیں اپنے اندر سمیٹے ہوتا ہے کہ ایک دفعہ ان در بچوں کو وا کر کے جھانکنے لگیں تو واپس لیٹنے کو جی نہیں چاہتا کچھ بزرگ ہستیاں اپنی نصائح اور دیر پا نقوشِ قدم کے ساتھ آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں.حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے سانحہ ارتحال کی خبر سے دل پر گہری چوٹ لگی اور بہت سی یادیں نظروں کے سامنے فلم کی طرح چلنے لگیں.گھر میں اور ملنے والوں سے میں تذکرہ کئی دن رہا.آیتے ہیں اپنی ان قیمتی یادوں کی جھلک آپ کو بھی دکھاؤں.پشاور کی ایک وسیع و عریض کو ٹھی میں میری اتنی والدہ سید ابوالحسن مرحومہ تقریباً ہر موسم میں مہمانوں کی خاطرداری خندہ پیشانی سے کرتیں اور مہمانوں کو خدا تعالیٰ کی رحمت کیا کرتیں.ہمارے گھرانے کی خوش بختی کہ ایک مرتبہ حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب مرحوم اور حضرت سیدہ امتہ الحفیظ صامه اپنے تین بچوں کے ہمراہ ہمارے مہمان ہوتے.والدہ صاحبہ کی مسرت اور اہتمام نے ہم بچوں کے دل میں اشتیاق پیدا کر دیا اور ہماری دلچسپاں سمٹ کر یہ رہ گئیں کہ ان بابرکت ہستیوں کو دیکھتے جائیں.اور ان کی باتیں سنیں ان کا ہر انداز ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ کر لیں.ان کی نشست و برخواست
۴۱۵ ان کا پہننا اوڑھنا.ان کی نماز سب کچھ آج تک یاد ہے دھیمے دھیمے لہجہ میں گفتگو کا اندازہ ایک ایک لفظ پیارا لگتا تھا.ایک واقعہ جسے بعد میں ہونے والے ایک واقعہ نے انمٹ یادگار بنا دیا یہ ہے کہ حضرت بیگم صاحبہ کی چھوٹی بیٹی فوزیہ ہیں تو بھی چنگی لگتی تھیں مگر ایک دفعہ ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر بلوایا گیا اور بیگم صاحبہ نے پر دے کی رعایت کے ساتھ اُسے اپنی بچی کے علاج کے لیے کہا.جو کیفیت بیگم صاحبہ نے بیان کی کچھ اس طرح تھی کہ بچی کا رنگ زرد ہوتا جا رہا ہے بہت کم کھاتی ہے کچھ سست بھی ہے لڑکیوں کی طرح کھل کر پہننا کھیلنا اُسے پسند نہیں ہے.خاموش سی رہتی ہے اس کے بڑھنے کی عمر ہے کوئی دوا دیں.ہم جو ایک ایک لفظ غور سے سُنا کرتے تھے ماں کی شفقت کو دکھی کر حیران رہ گئے ہمیں تو یہ بھی خبر نہ تھی کہ مائیں ایسی باتیں بھی نوٹ کرتی ہیں.ماں کا اپنی بچی کے بارہ میں اتنی گہرائی سے سوچنے کا اندازہ ذہن میں کئی کئی روپ سے آتا.وہ ماں جسے بچی کی چھوٹی سے چھوٹی بات کی فکر تھی کچھ عرصہ کے بعد یہ صدمہ بھی دیکھتی ہے کہ بچی کم عمری میں بیوہ ہو گئی مگر اس سانچے سے بچی پر جو گذر گئی اس پر مولا کا اختیار تھا.جہاں راضی برضا ر ہنے کا اجر ہے اب یہی پیکر صبر و رضا کا مجسمہ بن جاتا ہے میرے ذہن میں ماں کی مامتا کی وہ تشویش بھری آواز سنائی دیتی ہے.بچی کھاتی کہ ہے بچی زرد ہو رہی ہے اور اب بچی بیوہ ہو گئی ہے اور ماں بچی کا دکھ صبر سے برداشت
۴۱۶ کرتی ہے.اس کے بعد جب آپ ہماری سمان ہو ئیں میری شادی کی تیاریاں ہو رہ ہی تھیں اپنی مرضی سے دلائی تیار کر کے تحفہ میں دی کسی بھی وقت کوئی بھی بازار سے ویسا سامان تحرید کہ دلاتی تیارہ کروا سکتا ہے مگر آپ کے مبارک ہاتھوں کا یہ تحفہ میرے جینز کا سب سے قیمتی تحفہ تھا میں اس پر جتنا بھی ناز کروں کم ہے.جماعت پر سالہ میں بہت کچھ سختیاں آئیں.اس کو میں میرے میاں کو بھی ایک ہفتہ کے نوٹس پر ملازمت سے برطرف کر دیا گیا.یہ خُدا کی طرف سے ایک امتحان تھا ہم دو کروں کے ایک ٹرانزٹ کیمپ میں منتقل ہو گئے.اس اثنا میں حضرت بیگم صاحبہ اپنی بیٹی ذکیہ بیگم صاحبہ کے پاس کراچی تشریف لائیں.میں بیگم صاحبہ کو اپنے گھر دعوت دینا چاہتی تھی کبھی اپنے گھر کو دیکھتی کبھی ان کے مرتبے کو.خواہشیں تو گھر دیکھ کر پیدا نہیں ہوتیں.جرات کی اور اپنی رہائش گاہ کی عارضی کیفیت بتا کر عرض کی کہ آپ غریب خانہ پر تشریف لائیں بڑی شفقت محبت اور دلداری سے یہ عظیم و مهربان خاتون میرے ہاں تشریف لاتیں.ہر کھانے کی تعریف فرمائی.اور ہماری گھبراہٹ کو دیکھ کر بہت دعائیں دیں اور فرمایا.اگر مذہب کے نام پر کسی پر زیادتی ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ خود حفاظت فرماتا اور خود کفیل بن جاتا ہے.یہ ایسی ڈھارس تھی جس سے ہمت بڑھی اور اس مبارک بستی کے قول کے مطابق پہلے سے بہتر نعمتیں خدا تعالیٰ نے عنایت فرمائیں.
۴۱۷ میں نے اپنی بچی کا رشتہ ایک جگہ لے کر دیا.ابھی میری بچی سوار سال کی نہیں ہوئی تھی.بیگم صاحبہ سے ذکر کیا تو فرمایا.اتنی جلدی نہیں کیا کرتے بعد میں وقتی طور پر اس بچی کی طرف سے پریشا نیاں اُٹھانا پڑیں.بار بار یہ خیال آتا رہا کہ بزرگوں کی باتیں کتنی بچی نکلتی ہیں.۱۹۸۳ ہ کے جلسہ سالانہ پر جب میں اپنے بچوں یاسمین اور امین کو ملانے لے گئی تو بیگم صاحبہ کو ملے کافی عرصہ گذر چکا تھا.بیگم صاحبہ کمزور اور علیل تھیں.میں نے اپنا تعارف کروانا چاہا تو فرمایا " میں نے پہچان لیا ہے مجھے معلوم ہے تم نصرت ہو تمہاری تھوڑے وقفے سے دو بچیاں اور ایک لڑکا تھا.میں حیرت زدہ رہ گئی.خدا تعالیٰ کے خاص فیضان سے آپ کی یادداشت حافظہ اور پہچان بے نظیر تھی.پھر جب آپ کی وفات کا سُنا ان کی شفقتیں اور محبتیں اور ان کے نیک سلوک اور ملنسار طبیعت غرضیکہ ہر وصف یاد کر کر کے روتی رہی.خدا تعالیٰ نے بڑا قیمتی وجود ہم سے لے لیا ہے.ہماری دعا ہے کہ ہم اور ان کے نقوشِ قدم پر چل کر ان کی روح کی طمانیت کا باعث نہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمتوں اور مغفرت کی چادر میں ڈھانپ کر اعلیٰ حسین میں مقام عطا فرمائے.آمین ماہنامہ مصباح جنوری فروری شاه )
۴۱۸ شفقتوں کا گہوارہ از محرمه عذرا بیگم صاحب اہلیہ مکرم شیخ نایت اللہ صاحب ٹنڈو جام حیدر آباد سندھ حضرت سیدہ بیگم صاحبہ کی شفقتوں اور نوازشوں کا سلسلہ اس قدر وسیع اور اتنا ہمہ گیر ہے کہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کہاں سے شروع کروں.میری عمر اس وقت کم و بیش ۷۳ سال ہے قریباً ۶ ۷ سال کی عمر میں میں حضرت بیگم صاحبہ کی آغوش شفقت میں آئی اور بچپن سے لے کر جوانی تک سولہ سترہ سال کا عرصہ آپ کی مادرانہ شفقتوں کا مورد رہی.حضرت سیدہ مرحومہ نے خود میرا رشته تجویز فرمایا.رخصتی اپنے گھر سے کی اور شادی کا سارا سامان اپنے پاس سے دیا بلکہ رخصتی کے لیے اپنی کو بھی دارالسلام کا ایک حصہ مخصوص فرمایا.میری والدہ محترمہ غفور النسا صاحبہ نے میاں عباس احمد خان صاح کو حضرت اماں جان کے ارشاد پر دودھ پلایا تھا.یہ ہ ، ہ کی بات ہے اس وقت سے اس عالی خاندان سے مراسم قائم میں اور میاں عباس احمد خان صاحب کی رضاعی بین ہونے کے ناطے میں نے حضرت سیدہ بیگم صاحبہ کی عنایتوں اور نوازشوں کا ایک لیے عرصہ تک لطف اُٹھایا.اور صرف میں ہی نہیں بلکہ میرے سارے بہن بھائیوں اور والدین سے 1 خاندان کا گہرا تعلق رہا اور آخر تک اس تعلق کو بنا ہے.
۴۱۹ میری بچپن کی یادوں میں یہ بات بڑی نمایاں ہو کر ذہن میں مستحضر ہے کہ حضرت سیدہ مرحومہ کا بچوں کے ساتھ حسن سلوک مثالی تھا.میرے علاوہ اور بھی کئی بچیاں آپ کے ہاں رہتی تھیں ان کی ہر طرح دیکھ بھال خوراک اور لباس کی نگرانی.صفائی ستھرائی کا خیال ہمیشہ رکھتیں.ان کی اخلاقی نگرانی بھی آپ کے پیش نظر رہتی.گفتگو کرنے کا سلیقہ رکھ رکھاؤ.سلائی کڑھائی اور خواتین سے متعلق دیگر امور وقتاً فوقتاً سکھاتی رہتی تھیں.تعلیم و تربیت کا بڑی باریک بینی سے خیال رکھتیں.اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جو لڑکی بھی حضرت سیدہ موصوفہ کے گھر رہی یا کچھ عرصہ اُسے حضرت سیدہ مرحومہ سے اکتساب فیض کا موقع ملا.وہ دینی و دنیاوی فرائض بجا لانے میں کامیاب رہی اور حسن معاشرت میں مثالی کردار ادا کیا.میرے سامنے بہت سی ایسی شالیں موجود ہیں کہ پسماندہ علاقہ کی ان پڑھ تہذیب و تمدن سے نا آشنا گھرانے کی بہت سی لڑکیاں آپ کے ہاں پلی بڑھیں.شادی کے بعد وہ لڑکیاں مشالی ثابت ہوئیں اور ساری عمر حضرت سیدہ بیگم صاحبہ کو ڈھا ئیں دیتیں اور زیر بار احسان رہتیں.حضرت سیدہ بیگم صاحبہ کا انداز گفتگو دل کو موہ لینے والا تھا.بڑی نرمی علائمت اور آہستگی سے بات کرتیں کہ دل میں اترتی چلی جاتی.بڑی سے بڑی بات ہو جاتی لیکن آپ کی جیبیں پر شکن تک نہ آنا.دھیمے لہجے اور پر پیار بھرے انداز میں یوں گویا ہوتیں گویا ایک پر سکون ندی میں گلاب کا
۴۲۰ پھول ہچکونے سے رہا ہو..میں نے اپنی زندگی میں بہت جوڑے دیکھتے ہیں ایک سے ایک بڑھ کر ، لیکن جو مثالی جوڑا میں نے حضرت سیدہ مرحومہ اور حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب کا دیکھا اس کی نظیر مجھے نہ ملی آپس میں اس قدر پیار - محبت والہا نہ شیفتگی اور UNDERSTANDING تھی کہ رشک آتا.آپ کا وجود حضرت نواب صاحب مرحوم کے لیے ایک کھلی کتاب تھا.کوئی شک وشبہ کوئی پردہ کوئی راز کوئی پوشیدگی نہ تھی.حضرت نواب صاحبہ ہر معاملہ میں آپ پر بجلی اعتماد کرتے کوئی مسئلہ الیسا نہ تھا جس پر حضرت نواب صاحب نے حضرت بیگم صاحبہ سے مشورہ نہ لیا ہو.بعض اوقات حضرت نواب صاحب نبیعت کی تیزی کی وجہ سے وقتی طور پر ناراض بھی ہو جاتے لیکن یہ لمحات اس قدر عارضی ثابت ہوتے کہ انسان حیران رہ جاتا.قہقہ لگا کر حضرت نواب صاحب بڑے والہانہ انداز میں اس طرح گفتگو شروع کر دیتے کہ معلوم ہوتا جیسے کوئی بات ہی نہیں ہوتی.ایک دوسرے کا اس قدر خیال اتنا احساس اتنا فکر کہ چھوٹی چھوٹی باتوں تک میں ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا فکر دامن گیر رہتا ذرا ذرا سی خواہشات کا اس قدر احترام ایک دوسرے کو ہوتا کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے لیکن سب سے نمایاں اور سب سے بڑھ کر وہ احترام و عقیدت : تھی جو حضرت نواب صاحب کے دل میں حضرت بیگم صاحبہ کے لیے تھی.نہ صرف خود ہمیشہ اس امر کا خیال رکھا کہ حضرت بیگم صاحبہ کا وجود ایک
۴۲۱ با برکت وجود ہے.بلکہ اپنے عزیزوں رشتہ داروں بالخصوص بچوں کے دل میں یہ جذبہ راسخ کر دیا کہ اس نادر وجود کا قرار واقعی احترام کیا جاتے اور یہ اسی جذبہ کا اثر تھا کہ سارے عزیز و اقارب حضرت سیدہ مرحومہ کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کئے رہتے اور اس میں حضرت سیدہ موصوفہ کے او صاحب حسنہ اور اخلاق کریمانہ کا بھی بہت زیادہ عمل دخل تھا.حضرت سیدہ مرحومہ کی زندگی کا ہر گوشہ اپنے اندر اس قدر حسن و جمال اور جذب دکشش رکھتا ہے کہ ہر دیکھنے والا متاثر ہوئے بغر نہیں رہتا آپ کی زندگی کا ہر لمحہ قال اللہ و قال الرسول کے تحت تھا.آپ کی کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے کس کس وصف کو بیان کیا جائے.آپ تو سرا پا حسن و احسان اور سرتا پا اخلاق کریمانہ کی چلتی پھرتی تصویر تھیں آپ سے مل کر روحانی تسکین ہوتی.دل میں خوشی کی لہریں پیدا ہوئیں اور ایک ایسا لطف و سرور اور ذہنی تازگی حاصل ہوتی کہ الفاظ جس کا احاطہ نہیں کر سکتے اور میرے جیسی کم مایہ اس با برکت وجود کی سیرت و سوانح کے متعلق بیان کرنے سے عاجز ہے.میں تو صرف یہ جانتی ہوں اور علی وجہ البصیرت اس بات کا اقرار کرتی ہوں کہ میں نے اس عاجزہ نے جو کسی بھی قابل نہیں علمی و عملی اعتبار سے کوتاہ دست اور لاشے محض لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی مبشر و مظہر ذریت کے فضیل بہت کچھ پایا.مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں سے نوازا اور اس قدر نعمتوں سے متمتع کیا کہ میں شکر ادا نہیں کر سکتی.
۴۲۲..جب میری شادی ہوئی میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اس طرح میری دستگیری فرماتے گا.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب نے محترم والد صاحب سے فرمایا کہ بچی کے لیے کوئی رشتہ آپ کی نظر میں ہے محترم والد صاحب نے عرض کی.میری نظر میں اس وقت کوئی مناسب رشتہ نہیں آپ ہی رشتہ تجویز فرمائیں.چنانچہ کچھ عرصہ بعد حضرت نواب صاحب نے سندھ کی اراضی سے مکرم شیخ عنایت اللہ صاحب کو بلوایا جو وہاں ملازم اور اپنے خاندان میں سے اکیلے احمدی تھے اور والد صاحب کو فرمایا کہ نوجوانی میں اس قدر نیک اور عبادت گذار انسان میری نظر میں اس نوجوان سے زیادہ نہیں گذرا چنانچہ میری شادی ان سے ہو گئی.اور میں حضرت نواب صاحب حضرت بیگم صاحبہ اور دیگر بزرگان کی مخلصانہ دُعاؤں کے جلو میں رخصت ہو کہ سندھ آگئی اجنبی زمین جنگل بیابان اپنوں سے دور بڑی گھبرائی، لیکن وہ دعائیں سمارا نہیں اور خدا تعالیٰ نے اس قدر فضل فرماتے کہ شمار نہیں.مجھے اللہ تعالے نے پانچ بیٹے اور چھ بیٹیاں عطا فرمائیں.سارے بیٹے خدا تعالیٰ کے فضل سے برسر روزگار شادی شدہ.اسی طرح ساری بیٹیاں شادی شدہ صاحب اولاد اور خدا کے فضل سے سارے نیک سیرت احمدیت کے فدائی اور والدین کے فرمانبردار اور خدمت گزار ہیں.اللہ کا دیا بہت کچھ ہے اور یہ صرف اور صرف حضرت سیدہ مرحومہ کی دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے.
۴۲۳ شادی کے بعد بھی آپ کی نظر کرم مجھ عاجزہ پر رہی جب بھی ملاقات کے لیے حاضر ہوتی.انتہائی شفقت و پیار کے ساتھ مسکراتے ہوئے بیٹیوں کی طرح خیر مقدم کرتیں اور بڑی دلچسپی سے حالات دریافت فرمائیں.مشورے دیتیں اور دیر سے ملنے کا گلہ کرتیں.بچوں کا سُن کر بڑی خوشی کا اظہار فرمائیں اور دعائیں دیتیں.ان سے مل کر یوں محسوس ہوتا کہ لگی والدہ ہیں اور اس میں کیا شک ہے کہ انہوں نے میرے لیے جو کچھ کیا.جس قدر دعائیں شفقتیں اور خوبیاں مجھے ان سے ملیں وہ سنگی والدہ سے بڑھ کر ہیں.اللہ تعالیٰ کی ہزاروں ہزارہ رحمتیں ہوں اس بابرکت اور فیض رسان وجود به هر که جو واقعی دخت کرام تھا.اسم باسمتی تَخَلَقُوا باَخْلَاقِ الله کا چلتا پھرتا مجسمہ.الٹی ان کی برکات اور ان کے فیوض ان کے بچھڑ جانے کے بعد بھی ہمارے شامل حال رکھیو اور ہمیں یہ توفیق بھی محض اپنے فضل سے عطا فرماتیو کہ ہم ان کے فیوض و برکات کو سمیٹے والے بنے رہیں.آمین ** (ماہنامہ مصباح ماه جنوری فروری شاته
۴۲۴ میرا خواب از محرمه رو بینه نعیم صاحبہ بنت محرم مرزا عبد اسمع فارادایی میں جب بھی ریوہ آتی حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سے ضرور ملتی.میرے والدین کے ساتھ بڑی محبت کرتی تھیں.اس لیے ہم انہیں بڑی امی جان کہا کرتے تھے.میں بچپن سے خالہ لیلیٰ کے ساتھ ان کے پاس بہت جاتی تھی.اس وجہ سے بڑی اتنی مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں.ہ میں میں بڑی امی سے ملنے گئی.میری بیٹی عزیزی سعدیہ میرے ساتھ تھی.اس کی عمر اس وقت تین سال تھی بڑی امی نے اس کو پیار کیا.اور مجھے پیار کرتے ہوئے فرمایا.خدا اب تمہیں بیٹا دے گا.حضرت امی جان سے مل کر اگلے دن میں کراچی روانہ ہو گئی.ٹرین میں رات کو میں نے خواب دیکھا کہ ایک بہت خوبصورت اور سر سبز لان ہے درمیان میں ایک چارپاتی ہے جس پر صاف ستھرا بستر بچھا ہوا ہے اور سرہانے کی طرف میز پر پنکھا چل رہا ہے غائبا گرمی کے دن میں اس پر چارپائی پر حضرت بڑی امی جان تشریف فرما ہیں اور ایک لڑکی ان کے سر میں کنگھی کر رہی ہے کنگھی کرنے کے بعد وہ کنگھی سے بال نکالتی ہے اور ایک طرف پھینک دیتی ہے جو نبی وہ پھینکتی ہے میں فوراً وہ بال اُٹھا لیتی ہوں مجھے دیکھ کر حضرت میگم صاحبہ مسکراتی ہیں اور اس لڑکی کو مخاطب
۴۲۵ کرتی ہیں کہ جاؤ اندر سے میرا ایک جوڑا لاؤ اور روبی کو دے دو.وہ اندر سے جوڑا لاتی ہے اور حضرت بیگم صاحبہ مجھے اپنے ہاتھوں سے عنایت کرتی ہیں اور سر پر دست شفقت رکھتی ہیں اس جوڑے کا رنگ فاختی (گرے) ہوتا ہے انس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے.عجیب خواب تھا.تمام راستے وہ میرے ذہن میں فلم کی طرح آتا رہا کراچی پہنچ کر سب سے پہلے میں نے حضرت بڑی امی جان کو خط لکھا اور خواب بھی لکھ دیا.ایک سال کے بعد میں ریوہ گئی اور بڑی اتنی جان کی خدمت میں حاضر ہوئی میرے ساتھ میری امّی اور بیٹی سعدیہ بھی تھی.اس وقت بڑی امی جان صوفے پر اپنے کمرے میں بیٹھی تھیں اور ایک پیڑھی پر پاؤں رکھے ہوتے تھے.میری بیٹی آپ کے مبارک قدموں میں میٹھے گئی اور آپ کے پاؤں چھیڑنے لگی میں نے منع کرنا چاہا تو حضرت بری امی جان فرمانے لگیں کہ کھیلنے دو بیچی ہے اور میری امی سے فرمانے لگیں کہ منظر بی.میں تمھیں بہت یاد کرتی ہوں مگر تم مجھے ملنے نہیں آتی ہو.یہ شنکر میری کیفیت مجیب طرح کی ہو گئی کہ ہم حقیر اور نا چیز سے بندے ہیں اور یہ ایک بہت بڑی ہستی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دختر مبارک ہیں.پھر بھی ہمیں یاد کرتی ہیں یہ سوچ کر میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے مجھے روتے دیکھ کر فرمانے لگیں.تمہارا خط مل گیا تھا.میں نے تمہارے لیے جوڑا رکھا ہوا ہے.پھر خالہ بیٹی سے فرمایا.لا و میلی اپنی بیٹی کا سوٹ
۴۲۶ لاق روہ اکثر مجھے لیلیٰ کی بیٹی کہا کرتی تھیں.کیونکہ میں ان کے پاس رہا کرتی تھی ) خاریلی وہ سوٹ لے کر آئیں اور بیگم صاحبہ کو دیا.انہوں نے بالکل خواب کی طرح مجھے پیار کیا اور سوٹ دیا.جب وہ پیار کر رہی تھیں تو میں زیادہ رونے گئیں انہوں نے مجھے گلے کے ساتھ لگایا اور اپنے بابرکت ہونٹوں سے میری پیشانی کو چوما اور فرمانے لگیں کہ منظر ہی.تمہاری بیٹی کیوں رو رہی ہے.اس کو کہو کہ خدا اس کو بیٹا دے گا.پھر جب میں نے سوٹ دیکھا تو وہ فاختی رنگ کا تھا.فرمانے لگیں الیسا ہی رنگ تم نے خواب میں دیکھا تھا.اللہ اللہ کیا یادداشت تھی.پھر نہ فروری میں میرا بیٹا شعیب پیدا ہوا.میں ربوہ تھی تو ایک دن فون کی گھنٹی بجی خالہ لیلی فون پر تھیں اور فون بڑی امی کی طرف سے ان کے کمرے سے کر رہی تھیں اور مجھے بیٹے کی مبارک باد دے رہی تھیں میں نے فون پر بڑی امی کی بڑی واضح آواز سنی آپ فرما رہی تھیں کہ لیلی با روبی کو میری طرف سے مبارک باد دو.اور یہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز تھا.افسوس کہ آج وہ ہم میں نہیں مگر ان کی دھائیں.برکتیں.ان کی نصیحتیں اخلاق ، پیار، ہمدردی ہمیشہ زندہ رہیں گی.) مصباح جنوری فروری شاه ) ر
۴۲۷ ناقابل فراموش یا دیں المحترقه ستاره مظفر صاحبہ مغلپورہ لاہور ) حضرت سیده امته الحفیظ بیگم صاحبہ کی مشفق ہستی ہر ایک کے لیے باعث رحمت تھی.آپ سے ملنے والے آپ کی مبارک ہستی سے برکتیں حاصل کرتے.نئی نسل کی تربیت کا کوئی لمحہ بھی ہاتھ سے جانے نہ دیتیں.آپ کی زیارت کا موقع فضل عمر درس القرآن کلاس کے موقع پر اپنی ایک سہیلی کے ساتھ آپ سے ملاقات کے لیے جانے پر ملا.حضرت سیدہ صاحبہ اُسے اچھی طرح جانتی تھیں مگر میری پہلی ملاقات تھی.اس لیے اس سے پوچھا کہ یہ کون ہے تو اس نے سہیلی ہونے اور ہمارا آپس میں بہت پیار ہونے کی وجہ سے کہہ دیا یہ میری بہن ہے آپ نے غور کرنے کے بعد فرمایا.کہ یہ تمہاری بہین نہیں لگتی.صحیح رشتہ بتاؤ.اس نے کہا میری سہیلی ہے اس پر فرمایا.ہاں اب ٹھیک ہے ساتھ ہی فرمایا کہ جب تعلق پوچھا جائے تو صحیح رشتہ بتایا جائے.اس مختصر سی ملاقات کے بعد خاکسارہ کا نام ہمیشہ یاد رکھا.اس کے بعد دعا کے لیے خطوط لکھنے اور آپ کے شفقت بھرے جوابات ملنے کا سلسلہ جاری رہا.ایک مرتبہ آپ کی طبیعت خراب تھی.بچپس کی ناسمجھی میں دعا کے لیے خط لکھتے وقت اس خیال سے کہ خط ملنے پر گر دعا تو ہو جاتی ہے خط پر اپنا ایڈریس نہ لکھا کہ آپ کو جواب دینے میں دقت
۴۲۸ ہوگی.کچھ عرصہ بعد میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئی تو شکوہ کیا کہ خط میں ایڈریس کیوں نہ لکھا یہ ٹھیک ہے کہ میری طبیعت خراب رہتی ہے اور اکثر جواب نہیں دے سکتی.دُعا تو سب لکھنے والوں کے لیے کرتی رہتی ہوں.مگر جواب دینے کو دل چاہتا ہے مجھے خط تو صرف میرا نام اور ربوہ لکھنے پر مل جاتا ہے مگر باقی سب کو تو لکھنا چاہیئے.پھر نصیحت کی کہ خطہ پیر ہمیشہ اپنا مکمل ایڈریس لکھو.دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جماعت کی ایک ادنی سی لڑکی کے لیے دُعائیں کرنا لاکھوں میں سے ایک عام انسان کو یاد رکھنا.معجزاتی حافظے کی مالک خاص روحانی ہستیوں ہی کا خاصہ ہے.میرے ایف اے اور چھوٹی بہن کے میٹرک کرنے کے بعد مزید تعلیم کا سلسلہ کچھ عرصہ کے لیے ابا جان کا تبادلہ ایسی جگہ ہو جانے کی وجہ سے جہاں کالج نہیں تھا.منقطع ہو گیا اس دوران آپ سے ملاقات ہوئی تو نهایت شفقت آمیز ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے امی جان سے فرمایا آج کل تو لوگ اپنی بیٹیوں کو نہایت اعلیٰ تعلیم دلا رہے ہیں کم از کم انہیں بی اے تو کراؤ.لڑکیوں کو فارغ نہیں رکھنا چاہیئے انہیں پڑھانا چاہیئے نہیں تو شادی کر دینی چاہیئے..خدا تعالیٰ اپنے پیاروں کے منہ سے نکلی ہوئی بات کی بھی لاج رکھتا ہے گھر پہنچتے ہی اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا کہ چھ ماہ کے اندر اندر ہم نے اپنی پچھلی کمی پوری کر لی اور اعلیٰ نمبروں میں چھوٹی بہن نے ایف اے
۴۲۹ اور خاکسارہ نے بی اے کر لیا.بعد میں میری بہن کو بھی بی اے کرنے کی توفیق علی.رزلٹ کے فوراً بعد میری شادی ہو گئی.شادی کے کچھ عرصہ بعد ملاقات ہونے کہ یہ معلوم ہونے پر کہ کسی خاندان میں شادی ہوئی بہت خوشی کا اظہار فرمایا.میری تینوں نندوں کے بارہ میں بتایا کہ انہیں تو میں نے قرآن مجید پڑھایا ہوا ہے.ایک مرتبہ ملاقات کے دوران اچانک پوچھا تمہاری تندیں تمہارے گھر آتی ہیں.اثبات میں جواب ملنے پر خوشی کا اظہار فرمایا.اس طرح احسن طریقے سے معلوم کر لیا کہ اگر اس کا سلوک نندوں سے اچھا ہوگا.تو وہ اس کے گھر آتی ہونگی.خاکسارہ کی چھوٹی سین کی شادی ایسی فیملی میں ہوئی جو صاحب جا تیداد لوگ ہیں.میٹرک کی بنیادی تعلیم کے بعد بچے اپنی جائیداد وغیر ہے متعلقہ کاموں میں مشغول ہو گئے.جب حضرت سیدہ صاحبہ کو معلوم ہوا تو انہوی نے ارشاد فرمایا کہ جائیدادیں تو آنی جانی چیزیں ہیں پڑھائی ہی آخر کام آتی ہے.اس سے دینی میری بہن کے میاں کو کھو کہ کم از کم ایم اسے تو کرے خدا کا ایسا فضل ہوا کہ ان کی ذمہ داریاں کچھ عرصہ کے لیے دوسرے بھائی نے سنبھال میں اور انہوں نے تعلیم کا سلسلہ شروع کر دیا.اللہ تعالیٰ اس مقدس ہستی پر ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتے اور نہیں آپ کی دعاؤں سے حصہ لینے کے قابل بنائے.آمین ) مصباح جنوری فروری نشاسته )
۴۳۰ حضرت سیدہ رت سید امام الفاظ به ماجیکا ذکر خیر اصاحبيبا ذكرتير ر از محترمه امینه مسعود صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر غلام مصطفی ها، مرقوم حال کراچی ) میرے والد کرم ڈاکٹر غلام مصطفی صاحب مرحوم لیڈی ولنگٹن ہسپتال لاہور میں ملازم تھے یہ غالباً ۴۵-۱۲۲ تر کی بات ہے.ان دنوں حضرت سیدہ اتم طاہر مرحومہ بیمار تھیں ، حضرت اماں جان سیده نصرت جہاں بیگم صاحبہ حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب مرحوم بہار گھر میں فروکش تھے.میری دادی مرحومہ نیک بی بی صاحبہ صحابیہ تھیں اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی امامت میں نمازیں بھی ادا کی ہوئی تھیں ایک دن جمعہ کے روز حضرت اماں جان نے فرمایا.نیک بی بی چلو جمعہ پڑھنے چلیں تو میری دادی صاحبہ کہنے لگیں.جی میں تھی پہن لوں استھن پنجابی میں شلوار کو کہتے ہیں، دادی صاحبہ مرحومہ اکثر دھوتی پہنتی تھیں.جمعہ کے دن مسجد میں جاتے وقت شلوار بین لیتی تھیں.اس پر حضرت اماں جان کھلکھلا کہ مہنس پڑیں.برآمدہ کی سیڑھیاں چڑھتی جا رہی تھیں اور منتی جا رہی تھیں کہ نیک بی بی کہتی ہے کہ میں متھن پہن لوں.لفظ سنتھن پر انہیں ہنسی آرہی تھی.حضرت سیدہ امرا الحفیظ بیگم صاحبہ بیمار تھیں اور انہیں لیڈی رنگٹن
۴۳۱ ہسپتال میں چیک اپ کروانا تھا ر لیڈی ولنگٹن ہسپتال زمانہ امراض کا ہسپتال ہے، لیکن علاج مرد ڈاکٹر بھی کرتے ہیں ) میرے والد صاحب مرحوم نے اپنے انگریز سرجن سے کہا کہ پردہ دار خاتون ہیں اور ہمارے.مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی اور ایک نواب کی بیوی ہیں.میں نے ان کو مرد ڈاکٹر سے چیک اپ نہیں کروانا.بلکہ لیڈی ڈاکٹر چیک کرے.چنانچہ حضرت سیدہ کو لیڈی ڈاکٹر نے چیک اپ کیا.چیک اپ کے بعد والد صاحب مرحوم نے حضرت بیگم صاحبہ کو سارا ہسپتال دکھایا.تو حضرت اماں جان فرمانے لگیں.غلام مصطفیٰ نے اپنی بہن کو سارا ہسپتال دکھایا ہے.میں اس وقت بہت چھوٹی تھی.اور قادیان میں پانچویں کلاس میں پڑھتی تھی.مجھے یہ باتیں میری والدہ صاحبہ نے بتائیں.اس کے بعد ربوہ میں حضرت بیگم صاحبہ کی کو ھٹی ہمارے گھر کے نزدیک دارالصدر میں بنی اس طرح وہ ہماری پڑوسی بھی تھیں.اکثر ان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی.پھر میرے بھانجے عزیزم راجہ عبدالمالک کا رشتہ حضرت بیگم صاحبہ کی نواسی بگمت بنت مکرم کرنل صاجزادہ مرزا او د احمد صاحب مرحوم سے نے ہو گیا.جب یہ با برکت رشتہ داری اس مبارک خاندان سے ہوئی تو بے تکلفی کچھ بڑھ گئی.چنانچہ ایک دن فرمانے لگیں کہ ڈاکٹر صاحب نے مجھے لیڈی ولنگٹن ہسپتال میں مرد ڈاکٹر سے نہیں دکھوایا تھا بلکہ لیڈی ڈاکٹر سے چیک اپ کروایا تھا.مجھے ڈاکٹرھا ہے کی یہ بات بہت اچھی لگی.پھر ہسپتال دیکھنے کا بھی ذکر کیا میرے ساتھ
۴۳۲ میری چھوٹی بہین نعیمہ ناصر آف لاہور بھی تھی.تو کہنے لگیں شاید آپ کو یاد ہوگا کہ ہم آپ کے گھر ٹھرے ہوتے تھے اس وقت آپ بہت چھوٹی تھیں.میرے والد صاحب مرحوم آخری دنوں میں ذہنی طور پر کچھ مختل رہتے تھے ہر وقت در ثمین وغیرہ کی نظمیں پڑھتے اور مذہبی باتیں کرتے رہتے تھے.صبح کو اونچی آوازہ میں نظمیں پڑھنے لگ جاتے تھے.اور دعائیں بھی اونچی آواز میں پڑھتے تھے.تو فرمانے لگیں ڈاکٹر صاحب پاگل نہیں تھے بلکہ مجذوب تھے.ہر وقت مذہب کا جنون رہتا تھا.در مشین کے اشعار اور دعائیں پڑھتے رہتے تھے تو پتہ لگتا رہتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب جاگ رہے ہیں.پڑوسی ہونے کے ناطے تحالف وغیرہ بھجواتی رہتی تھیں ایک دفعہ لیموں بھیجے کہ یہ میرے گھر کے ہیں اسی طرح پھول وغیرہ بھجواتی رہتی تھیں.میری بچی فریده مسعود اس وقت چھوٹی تھی میں اس کو ساتھ لے کر جاتی میں نے اس کو بتایا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی ہیں اور آخری نشانی ہیں.حضرت بیگم صاحبہ فریدہ کو پاس بیٹھا کہ اس کو پیار کرتیں اور مصافحہ بھی کرتیں بعض اوقات بیماری کی وجہ سے عام ملاقات کی اجازت نہ ہوتی لیکن ہمیں خاص طور پر ملنے کی اجازت دے دیتی تھیں کہ ڈاکٹر عتاب کی بیٹیاں آتی ہیں بعض دفعہ دروازے سے ہی دیکھ کر آجاتی تھیں کہ طبیعت ٹھیک نہیں ہے لیکن اکثر ملاقات ہو جاتی تھی مصافحہ کر کے دُعاؤں
۴۳۳ کے ساتھ رخصت کرتی تھیں.اور سب کا حال احوال بھی پوچھتی تھیں.ایک دفعہ ہم نے آپ سے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے متعلق پوچھا کہ آپ کو کچھ یاد ہیں تو فرمانے لگیں.کہ حضرت اماں جان نے مجھے ملازم کے ساتھ باہر بھجوا دیا تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی تو میری عمر چار سال تھی.اس لیے کچھ یاد نہیں.اگر جنازے کے وقت میں موجود ہوتی تو شاید کوئی تھوڑی سی جھلک بچپن کی میرے ذہن میں موجود ہوتی ، لیکن مجھے کچھ یاد نہیں ہے.پھر اپنی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی فوزیہ بیگم مرزا شمیم احمد صاحب مرحوم کی باتیں بتائیں کہ کس طرح اس کے میاں جاپان میں اچانک فوت ہو گئے اس کی حضرت بیگم صاحبہ کو بہت تکلیف تھی کیونکہ وہ سب سے چھوٹی اور لاڈلی تھیں جوانی میں ہی بیوہ ہو گئیں.پھر اس کی فوٹو بھی جاپانی ڈریس میں ہمیں دکھائی.غالباً ۱۹۳۴۳۵ کا ایک پُر لطف واقعہ یاد آگیا.ان دنوں والد صاحب مرحوم سنٹرل جیل لاہور میں متعین تھے اور ان کے ایک دوست ڈاکٹر سراج الدین صاحب مرحوم آف سیالکوٹ پاگل خانہ میں ڈاکٹر تھے ولاہور میں سنٹرل جیل اور پاگل خانہ کی عمارات ان دنوں تقریباً ساتھ ساتھ تھیں، ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی لا ہور تشریف لاتے اور کرم کر نل تقی الدین احمد صاحب کی کو بھٹی میں جیل روڈ پر ٹھرے ہوتے تھے حضرت سیدہ اُتم طاہر مرحومہ بھی ساتھ تھیں.میری والدہ اور ڈاکٹر سراج نہیں
۴۳۴ صاحب کی اہلیہ خالہ سردار بیگم ایک دن حضور کی کوٹھی پرھنے گئیں اور ساتھ کھانا بھی لے گئیں.حضرت ام طاہر مرحومہ نے پوچھا کہ آپ کہاں سے آتی ہیں تو میری والدہ صاحبہ نے کہا " جی میں تو جیل خانہ سے آتی ہوں کہ جب خالہ سردار سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں پاگل خانے سے آتی ہوں.اس پر حضرت سیدہ ام طاہر سننے لگیں اور فوراً حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے پاس گئیں اور کہنے لگیں کہ دو عور تیں آتی ہیں ایک کہتی ہے میں جیل خانہ سے آئی ہوں اور دوسری کہتی ہے کہ میں پاگل خانہ سے آئی ہوں یہ کیا بات ہے حضور فرمانے لگے ٹھیک ہی تو کہتی ہیں ایک کا میاں جیل خانے کا ڈاکٹر ہے اور دوسری کا میاں پاگل خانے کا ڈاکٹر ہے.چنانچہ حضور نے باہر مردوں میں یہ بات سنائی کہ آج ہمارے گھر میں یہ لطیفہ ہوا ہے.تو تمام حاضرین بہت محظوظ ہوئے.چنانچہ سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے جب بھی طلاقات ہوتی وہ اس واقعہ کا تذکرہ کر کے خوب محفوظ ہوتیں.
۴۳۵ نورانی چیره از محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ (ہیڈ معلمہ صدر لجنہ اماء اله سیمی جمال وال استان ) اس عاجزہ کا یہ خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صرف ایک بیٹی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ہیں.پاکستان بننے کے چند سال بعد جب ہم لوگ جلسہ سالانہ پر ربوہ گئے تو معلوم ہوا کہ آپ کی دوسری بیٹی حضرت نواب اما الحفیظ بیگم صاحبہ بھی ہیں، جو آج کل ربوہ میں مکرم صاجزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے گھر مقیم ہیں.یہ ما جزو آپ کی زیار کے لیے حاضر ہوئی.معلوم ہوا کہ آپ ایک چھوٹے کمرہ میں بوجہ سردرد کے لیٹی ہوتی ہیں آپ سے ملاقات نہیں ہو سکتی.بہت پریشان ہوئی کہ جلسہ سالانہ تو گزر گیا اور اب واپس جانا ہے یا اللہ زیارت ہو جائے.کچھ سوچ کر دبے پاؤں آہستگی سے کمرے میں جھانک کر دیکھنے کی کوشش کی.چند مستورات اندر بیٹھی تھیں کسی نے مجھے ہلکی آواز سے واپس جانے کا کہا.جبکہ میں آپ کا مقدس چہرہ دیکھنا چاہتی تھی.آپ ایک چارپائی پر لیٹی ہوئی تھیں دروازے کی جانب پشت تھی یہ عاجز نہ دیکھ پائی روکنے والی کی دھیمی آواز سن کر آپ نے اپنا چہرہ مبارک بڑی بشاشت سے میری جانب کر کے میری طرف دیکھا.اور مجھے ان کا اس قدر تکلیف میں خیال رکھنا اور خواہش پوری کر دیا.مجھے بہت متاثر کر گیا.اس کے
۴۳۶ بعد جب بھی جلسہ سالانہ پر ربوہ جانے کا موقع ملتا.یہ عاجزہ آپ کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتی.میرا بڑا لڑکا عزیزم حمید احمد طبیہ کالج ربوہ میں اور دو بچیاں نویں اور چھٹی جماعت میں داخل ہوئیں اور ہم کرایہ کے مکان میں ربوہ رہنے گئے.کبھی کبھی یہ ماجزہ بچوں کے ساتھ جاتی.ایک بار آپ نے نام اور وطن کا پوچھا.پھر فرمایا کہ تمہارے ہاں اگر سر میں درد ہو تو کیا کرتی ہو.میں نے ایک دو دوائیوں کے نام لے کر کہا کہ ہم سر میں تیل کی مالش بھی کرتے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو یہ عاجزہ آپ کے سر میں مالش کرکے دکھاتے.آپ نے تیل دیا اور میں کافی دیر تک آپ کے سر کی مالش کرتی رہی اور مجھے بہت خوشی ہوتی.اس کے بعد آپ نے میرے لیے مشروب منگوایا.آپ کے حسین سلوک سے مجھے بہت سکون ملا.آپ نے میر میں تیل کا لگانا پسند فرمایا.ایک بار میں اپنی تین سالہ بچی فرحت تسنیم کے ساتھ حاضر ہوئی اور میں نے خیر و عافیتہ رکھا اور اپنے آنے کا مقصد بتانے کے بعد آپ سے بطور تبرک کوئی کپڑا اپنی بڑی بیٹی کی خاطر طلب کیا آپ نے اپنا سبز رنگ کا چون والہ رو پر عنایت فرمایا اور ساتھ ہی مٹھائی بھی میرے بچوں کے لیے دی.واپسی پر میں نے خواب دیکھا کہ آپ کا بہت ہی خوبصورت نورانی چرہ ہے اور آپ ایک خوبصورت سنتھر سے مکان میں کرسی پر بیٹھی ہیں مجھے دیکھکر آپ نے دوسری کرسی مجھے دی.گھر میں نے کہا کہ میں پہلے حضرت
۴۳۷ مصلح موعود کے فلاں صاحبزادے کے گھر سے ہو کر آؤں.پھر کرسی لے لوں گی اور بیٹھوں گی.واپس آکر کرسی پر بیٹھی.ایک سال کے بعد ربوہ گئی اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو سچ مچ آپ نے مجھے صوفہ پر اپنے پاس بیٹھنے کو فرمایا.اور یہ عاجزہ آپ کے پاس بیٹھ گئی اور خواب کا منظر نظروں میں گھوم گیا.ایک دفعہ میری بڑی لڑکی اپنے سسرال والوں کے ساتھ حاضر ہوئی تو آپ نے اُسے دیکھتے ہی فرمایا تم ناصرہ کی بیٹی ہو اور خیرو عافیت دریافت کی.مجھے اپنی بیٹی کی شادی کے بعد بیٹی کی طرف سے پریشانی ہوئی.عاجزہ نے دُعا کے لیے لکھا آپ نے بہت پیار دلجوئی اور بہترین نصائح پر تمل خطوط لکھے.جو اس عاجزہ کے لیے قابل فخر اور متبرک ہیں.اپ اکثر اظہار فرمائیں کہ مجھے تمہاری بیٹی کا بہت فکر ہے.ایک دفعہ آپ نے میری بچیوں نسیم اختر اور بشری پروین سے دریافت فرمایا کہ کتنی تعلیم مکمل کر لی ہے عرض کیا کہ میٹرک دونوں نے پاس کر لیا ہے چونکہ ہم دنیات کے رہنے والے ہیں مزید تعلیم حاصل کرنے کے وسائل نہیں ہیں فرمایا.پرائیویٹ طور پر مزید تعلیم دلواؤ.اگر نہیں تو انگلش نہ بھلا بیٹھنا.لڑکیوں کو فارغ نہیں رہنا چاہیئے.ایک بار اس عاجزہ نے اپنی پچیوں کے رشتہ کے بارہ میں کچھ حالات عرض کئے اور یہ بھی کہ ہم دبیات میں رہتے ہیں.ہمارے رشتہ دار غیر از جات
میں اس لیے کافی فکر رہتا ہے فرمایا.اللہ تعالیٰ خود انتظام فرمائے گا.اگر احمدی رشته تسلی بخش ز ملے تو گھرانا نہیں چاہتے.اور بیٹیوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت سمجھنا چاہیئے.اس طرح بہت پیارے انداز میں قدردانی اور حوصلہ افزائی فرما دی.افسوس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لخت جگر.نور کا مجسمہ، مهربان غم خوار ہم سب کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئیں.اللہ تعالیٰ ایسے وجودوں کو اپنے خاص فضل و کرم سے اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے پیاروں سے پیار فرما تا ر ہے آمین.حضرت سیدہ مرحومہ کے میرے نام لکھے ہوتے چند خطوط : RABWAH بسم الله الرحمن الرحیم عزیزه ناصر بیگم سلمها السلام علیکم ورحمه الله و بركاته ! آپ کا بلا تاریخ خط ملا.اللہ تعالیٰ فضل فرماتے اور تمام مشکلات دور فرماتے مجھے بھی تمہارا خیال رہتا ہے.خاص طور پر اس وقت تم یاد آتی ہو.جب میرے سر درد شروع ہوتا ہے.کیونکہ تم نے بہت اچھا سر دبایا تھا.جزاکم اللہ اللہ تعالیٰ سب مشکلات کو آسان کر دے.دُعائیں بہت کیا کرو.والسلام الله الحفیظ بیگم
RABWAH ٣/٩/٧٨ ۴۳۹ بسم الله الرحمن الرحیم ناصره بیگم سلمها السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته! تمہارا تفصیلی خط ملا.جو بلا تاریخ تھا.سارے حالات پر غور کرکے میں اس نتیجہ پر پہنچی ہوں کہ لڑکی کے لیے علیحدگی ضروری ہے.قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ لڑکا بیمار ہے.وہ بے چارہ مجبور اور قابل رحم ہے اس کا کیا قصور ہے.تاہم لڑکی کی ساری زندگی برباد کرنا گناہ عظیم ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے طلاق کی اجازت رکھی ہے تو پھر یہ دنیا کی شرم داخل معصیت ہے.خدا نہ کرے لڑکی شوق سے تو طلاق نہیں لے رہی بلکہ مجبوری ہے میرا مشورہ ہے کہ فوراً خلع لے لو اور لڑکی کی شادی دوسری جگہ کردو.اللہ تعالیٰ آپ کی پریشانیاں دور فرمائے.بچی کو پیار والسلام امته الحفیظ بیگم -۳ RAB WAH 1/4/49 بسم الله الرحمن الرحیم عزیزہ ناصر بیگم سلمها السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته! آپ کا بلا تاریخ خط ملا.اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے آپ کا کفیل ہوا اور - داماد کو صحت و عافیت کے ساتھ کاروبار بھی عطا کرے.مجھے آپ کی بیچی
۴۴۰ کا بہت فکر ہے.اللہ تعالیٰ اُسے سکون کی زندگی عطا فرمائے.خواب بہت اچھا ہے میری طبیعت ابھی تک پوری طرح ٹھیک نہیں اسی وجہ سے خط کسی عزیز سے لکھوا رہی ہوں.والسلام.اذر الحفیظ بیگم ۴ RABWAH 10/0/^" بسم الله الرحمن الرحیم عزیزہ ناصرہ بیگم سلمها السلام علیکم ورحمه الله و بركاته آپ کا خط ملا.جو ہوا بہتر ہوا.خدا کو یہی منظور تھا.تم نے پنے ہی کافی دیر کر دی تھی.اللہ تعالی آئیندہ بچی کے لیے بہتر سامان فرمانے میرا یہی مشورہ ہے کہ بچی کی شادی جلدی کرد - زیادہ دیر نہ بٹھانا اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو اور ہر قسم کی پریشانیاں دور فرمائے.والسلام امته الحفیظ بگیم
۴۴۱ مستجاب الدعوات محترم عبد اسمع صاحب نون ایڈووکیٹ سرگودھا کے اپنے بھانجے محمد زبیر صاحب نون کی وفات پر رقم کردہ مضمون کا ایک اقتباس بحوالہ روز نامه الفضل ریوه مورخه 4 جنوری ته محمد زبیر میری بڑی بہن زینب بیگم کا چھوٹا بیٹا تھا.اس کے والدین چند سال قبل فوت ہو چکے ہیں اوائل نشتہ میں وہ کینسر سے شدید بیمار ہوا.حتی کے جان کے لالے پڑ گئے.میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو تار دیا اور یہ الفاظ لکھے : - NOTHING CAN BE DONE FOR ZUBAIR.اور دعائے خاص کی درخواست کی.پھر ربوہ جاکر بیت الکرام کو ٹی پر دستک دی کہ وہاں ماں سے زیادہ شفقت کرنے والی ہستی رہتی تھیں.وہ مجھ پر یر کیوں مہربان تھیں اس میں میری ہرگز کوئی خوبی نہیں تھی.اور نہ اپنا استقان سمجھتا تھا.اس کے مقدس ماں باپ سے اس کو غریب پروری اور بندہ نوازی اور فیض رسانی کے اوصاف حسنہ ورثہ میں ملے ہوتے تھے.وہ تھیں حضرت اماں جان سیده نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ - الغرض حضرت محمدوحہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میری پریشان حالی پر مادر مهربان کو ترس آیا.میں نے تفصیل
۴۴۲ زبیر کی بیماری کی عرض کی تو چند ثانیے کے توقف کے بعد اپنے رب کریم پر توکل کرتے ہوئے بڑے وثوق کے ساتھ اور بڑی پر شوکت آواز میں فرمایا کہ تم بے فکر ہو جاؤ اللہ تعالیٰ محمد زبیر کو ضرور شفا دے گا.میجی ہوئی پلانا شروع کر دیں ے یہاں آؤ وہ نور جاودانی دیکھتے جاؤ نمود حسن یار لامکانی دیکھتے جاؤ در رحمت سے اٹھتی ہے گھٹا جب ابر رحمت کی ٹپک پڑتا ہے شعلوں سے بھی پانی دیکھتے جاؤ محمد زبیر نو عمری ہی سے عبادت میں بہت شغف رکھنے والا اور دھا گو تھا.اللہ تعالیٰ نے اپنے پیاروں کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے زہیر کی حالت میں بہتری کے آثار پیدا فرما دیتے اب اسے ہوش آچکا تھا بخار بھی کم ہوتے ہوتے ٹوٹ گیا تھا.میں اس کے پاس میو ہسپتال کے کمرے میں گیا.تو حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ کے یہ اشعار پڑھ رہا تھا اور آنسو بہا رہا تھا ہے مایوس کبھی تیرے سوالی نہیں پھرتے بندے تری درگاہ سے خالی نہیں پھرتے ہر آن ترا حکم تو چل سکتا ہے مولی وقت آبھی گیا ہو تو وہ مل سکتا ہے مولی تقدیر یہی ہے تو یہ تقدیر بدل دے تو مالک تحریر ہے تحریر بدل دے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا ایسا کرشمہ فلک نے دیکھا جیسا کہ گذشتہ
۴۴۳ صدی کے آخر میںعبدالکریم جسے باؤلے کتے نے کاٹا تھا اور پھر اس پر بادلے پن کے آثار ظاہر ہو چکے تھے تو اسے لا علاج قرار دیا گیا اور عمر حیات کو طاعون کی بیماری کا شدید حملہ ہوا اور اطباء اس کی زندگی سے مایوس ہو گئے تھے مگر اللہ ثانی نے اپنے مقبول بندے کی دعا قبول فرماتے ہوئے انہیں شفا عطا فرما دی.المختصر اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں محمد زبیر کو صحت بخش دی اور پھر اسے تیرہ سال تک صلت عطا فرمائی.میری ڈائری سے ندامت کے دو اوراق مبشر احمد محمود - ایم اے آج حضرت سید نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ رحلت فرماگیتی انا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ مجھے بے انتہا دکھ ہوا ہے.ایک ایسے کرب سے دل پھٹا جا رہا ہے جس کا اس سے پہلے مجھے احساس تک نہ تھا حضرت بیگم صاحبہ ہمیشہ سے ہی ہمارے گھر کا ایک اہم جزو اور سب اہل خانہ کے افراد کا ایک لازمی حصہ رہی ہیں.ہم سب بہن بھائیوں نے جس فضا میں آنکھ کھولی اور جس ماحول میں پلے بڑھے.وہ حضرت بیگم صاحبہ کے ذکر سے اور آپ کی شخصیت کے سحر سے معمور تھا.شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہوگا کہ
۴۴۴ جب کسی نہ کسی حوالہ سے اُن کا ذکر خیر دن میں دو تین بار ہمارے گھر میں نہ ہوا ہو.خوبی قسمت سے محترم والد صاحب کو یہ سعادت عظمی حاصل تھی کہ انہوں نے شیر خوارگی میں حضرت بیگم صاحبہ کا دودھ پیا ہوا تھا.اور یوں بیگم صاحبہ کی جسمانی اولاد کے علاوہ سارے عالم میں شاید وہ واحد خوش بخت ہیں جنہیں مسیح موعود علیہ اسلام کی دُخت کرام کے رضاعی بیٹے کا اعزاز حامل ہوا.اور لا ریب کی عمر والی بات ہے.سر اُٹھاتا ہوں تو افلاک کوس کرتا ہے ی نور بقدر ظرف ہم سب بہن بھائیوں تک بھی منتقل ہوا.اور ہم سبکو حضرت بیگم صاحبہ سے ذاتی اور خصوصی قرب حاصل رہا.میٹرک تک میں بھی بکثرت اُن کے پاس جاتا رہا.وہ پیار کرتی تھیں.لمحہ ماؤں جیسا شفیق ہوتا تھا.اور اکثر اوقات اپنے ہاتھ سے کچھ نہ کچھ خوردونوش کے لیے بھی سلطا فرماتی تھیں.مگر میٹرک کے بعد میں شاید ایک دفعہ بھی ان کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکا.میرے سن شعور نے شاید مجھے بے شعوری کے دور میں دھکیل دیا تھا.ایک عجیب طرح کا حجاب پیدا ہوگیا تھا مگر اُس عظیم ہستی نے ہمیشہ مجھے یا درکھا.اکثر والد مالی سے اور میری امی جان سے میرے متعلق کو چھپتی رہتی تھیں.بے شمار دفعہ یاد فرمایا بلکہ دو ایک دفعہ تو مشفقانہ سختی کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ: آخر کیوں نہیں آتا وہ کم بخت کیا میرے گھر سے اسکا پردہ ہے ؟
۴۴۵ - میں نے بہت دفعہ شدت کے ساتھ چاہا.حاضر ہونے کا ارادہ بھی کیا.مگر کیا کہوں ؟.....سوائے اس کے کہ شاید میں واقعی کم بخت ہی تھا کہ مجھے اپنی اس کم بختی کی شدت کا آج اندازہ ہوا ہے.دُکھ ، افسوس اور ندامت نے میرے زمین کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے.مجھے اس غیر محسوس قلبی لگاؤ کا تو اس سے پہلے اور اک ہی نہیں تھا.ایسے لگتا ہے کہ ہمارے گھر کا ایک بہت روشن گوشہ ہمیشہ کے لیے تاریک ہو گیا ہے.اور میرے وجود کا ایک لازمی مگر غیر مرتی حصہ مجھ سے آج جدا ہو گیا ہے.کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کیا کروں ! وقت تو مجھے دھول مٹی میں اٹا ہوا چھوڑ کر آگے نکل گیا شدت احساس سے یہ دو اشعار خود بخود ہی زبان پر آگئے ہیں سے نه خاک و خون کا رشتہ نہ جسم و جاں کا تھا کہ ان سے میرا تعلق فقط گاں کا تھا گروہ دستِ دُعا سر سے اُٹھ گیا تو گھلا یہ ربط جاں تو کسی طفل اور ماں کا تھا ۵٫۱۹۸۷ و ۷ آج حضرت بگیم صاحبہ نے ہمیشہ کے لیے اپنا چہرہ چھپا لیا ہے.اس خوشبو کی طرح فضاؤں میں بکھر گئی ہیں جسے اب کبھی سمیٹا نہیں جاسکتا چھوا نہیں جاسکتا.بس محسوس کیا جا سکتا ہے.زمین کو امین بنا کر یہ مقدس امانت اُسے سونپ دی گئی ہے.انہیں دفن کر دیا گیا ہے.وہ ہزاروں ہزار لوگ جنہیں ان کی عقیدت دور دراز مقامات سے لمحوں میں کھینچے
لائی تھی وہ بوجھل دلوں اور تھکے قدموں کے ساتھ واپس لوٹ رہے ہیں.مگر میں ہمیشہ کی طرح وہیں کا وہیں ہوں کہیں بھی نہیں گیا.زمین نے میرے پاؤں جکڑ لیے ہیں اور میری سوچ.میری فکر اُس ایک لمحہ نے محبوس کرلی ہے جو میرے ہاتھ سے چھوٹ کر حد افق سے پار نکل چکا ہے اتنے لوگوں کو دیکھ کر اور اتنے لوگوں کی اتنی عقیدت اور محبت کو دیکھ کر مجھے مزید دکھ ہوا اور ندامت ہوئی کہ میں اتنے قریب ہو کر بھی اُن سے اتنی دُور رہا.مجھے سمجھ نہیں آلہ ہی کہ اب میں کی کروں.نماز جنازہ کے دوران اور تدفین کے وقت میں نے بہت دُعا کی ہے اور بہت رویا ہوں.بہت پچھتایا ہوں.یہ سارا وقت میں بچپن کے دریچوں سے اُن کے شفیق اور حسین چہرے کی زیارت کرتا رہا اُن کے چہرے کے نور کو اپنے دل پر محسوس کرتا رہا اور اُن کی باتیں یاد کرتا رہا.اُن کا شفیق و شیریں لہجہ اور نرم و نازک خدو خال یاد آئے تو مجھے اس نور کو یوں مٹی میں دفنا دیا اچھا نہیں لگا.مگر پھر سمجھ آئی کر نہیں یہ بھی ضروری ہے.نور کو کسی ایک دنیا تک محدود کئے رکھنا بھی تو - اچھا نہیں ہے اندر بھی زمیں کے روشنی ہو مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے اپنی سوچوں کے دوران ندامت کا ایک ذکر اور کھلا اور ایک اور یاد کچھ اس طرح مسکراتی ہوئی میرے سامنے آکھڑی ہوئی کہ مجھے
۴۴۷ گلا دیا.بچپن میں ایک دفعہ اُن کی فوکس ویگن میں اُن کے ساتھ لاہور گیا تھا.انہوں نے پچھلی سیٹ پر اپنے ساتھ مجھے بٹھا لیا اور اپنا پرس میری جھولی میں رکھ دیا تھا.راستہ میں ایک جگہ کا رکھوائی اور خادم سے فرمایا : "جاؤ مبشر کے لیے کوئی پھل لے کر آؤ " مجھے لاہور کے بارہ میں کچھ علم نہیں تھا.آپ مجھے بتائی جاتی تھیں....وہ بڈھا راوی ہے.یہ نیا پل بنا ہے.یہ مینار پاکستان ہے.یہ دکھاتا.قلعہ ہے اور یہ شاہی مسجد.مجھے آج بھی اپنے بارہ میں.دنیا کے بارہ میں زندگی کے بارہ میں کچھ علم نہیں ہے.میں اُن کے قریب رہ کہ یہ باتیں جان سکتا تھا اور اس قربت سے وہ نور کشید کر سکتا تھا جو مجھے فلاح کا راستہ مگر اب یہ سب کچھ سوچنا اور اس سوچنے پر نادم ہونا لا حاصل ہے.وہ تو جا چکیں.اب کبھی واپس نہ آئیں گی.اب کبھی اُن کی کوئی نصیحت، کوئی جھڑ کی سننے کو نہ ملے گی.اب ہمسایوں کے گھر سے کبھی یہ آواز نہیں آئے گی کہ بیگم صاحبہ کا فون آیا ہے ، کبھی کوئی خادم یہ پیغام لیکر نہیں آئے گا کہ اسلم صاحب کو بیگم صاحبہ بلا رہی ہیں.ناراض ہو رہی ہیں.کبھی حضرت بیگم صاحبہ والد صاحب کو یہ نہیں کہیں گی کہ " و" اسلم کہاں چلے جاتے ہو.تمہیں پتہ ہے میری طبیعت خراب ہے اخبار پڑھ کر سناؤ میری دوائی لا دو.نرس کو بلا دو.عائشہ کہاں ہے ؟ اسے کہنا کل ضرور آتے عائشہ ! تمہاری بہو کا کیا نام ہے کہ اچانک ایک آواز نے چونکا دیا اور مجھ سنبھال لیا..دعا ہورہی ، دعاکریں.
۴۴۸ تاثرات جسته جسته محترمہ امت اسمیع طاہرہ صاحبہ المین کرم محمد انیس الرحمن صاحب سابق مرتی انگلستان حال بنگلہ دیش لکھتی ہیں :- عاجزہ کو اپنے خاوند مکرم محمد امین الرحمن صاحب شاہد مربی سلسلہ کے ہمراہ پانچ سال رہنے کا موقع ملا ہے.شاہ میں مرکز سلسلہ میں واپس آکر عاجزہ ہے بچوں کے ہمراہ حضرت سیدہ مرحومہ سے ملنے گئی.آپ نے بہت محبت اور شفقت کے ساتھ ہم سے گفتگو فرمائی.اور ڈھیر ساری دعائیں دیں اور دریافت فرمایا کہ تم کتنے عرصہ سے والدین کے ساتھ شادی کے بعد ملی ہو اس پر عرض کی بنگلہ دیش سے آنے کے بعد گیارہ سال بعد والدہ اور دیگر رشتہ داروں سے ملاقات ہوتی ہے.اس پر آپ نے فرمایا کہ تم لوگ واقف زندگی ہو اور اتنے عرصہ تک جدائی برداشت کی ہے یقینا اللہ تعالیٰ تمہیں ضائع نہیں کرے گا.بلکہ تمہاری قربانیوں کو قبول فرماتے گا.اور تمہیں دین و دنیا کی ترقیات سے نوازے گا اس پر میں نے عرض کی کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ مجھے وقف کی روح کو سمجھنے اور اسے قائم رکھنے اور اس کے مطابق کام کرنے کی توفیق عطا فرماتے.فرمایا میں انشا اللہ دعا کروں گی اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو.تمہارا حافظ و ناصر ہو اس پر میں بہت خوش ہوئی اور آپ کی شفقت محبت اور ڈھیر ساری دعاؤں کو اپنی جھوٹی میں لے کر واپس لوٹی اللہ تعال
۴۴۹ حضرت سیدہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرماتے اور ہم سب کو نیک خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے دل میں وقت زندگی کی بہت قدر تھی.-۲- محترمہ عابدہ سلطانہ صاحبہ اہلیہ مکرم چوہدری محمد صادق صاحب کاہلوں دارالعلوم جنوبی ربوہ نے اپنے تاثرات میں لکھا :- حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سے میری ملاقات 19ء میں پہلی مرتبہ ہوتی آپ بہت محبت اور اخلاص سے ملیں.نام اور حالات پوچھے یہ شنکر کہ میں قادیان سے آتی ہوں بہت خوش ہوئیں پہلی ہی عورات میں آپ کے اعلیٰ اخلاق سے بہت متاثر ہوئی کافی باتیں ہوئیں جب میں واپس آنے لگی تو فرمایا.عابدہ آیا کرو ہم تم باتیں کیا کریں گی.مجھے آپ کے اس جملہ میں اتنا پیار اور اپنائیت کا احساس ہوا کہ میں تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد آپ کے پاس آتی رہی اور آپ اسی محبت سے ملاقات کا وقت دیتی رہیں.آپ ہر ایک کے جذبات کا بہت خیال رکھتیں.میں آپ کے لیے ہاتھوں کے کڑے جس میں تنگ جڑے ہوئے تھے لے کر گئی خوف تھا کہ کہیں ناراض نہ ہو جائیں کہ میری عمر چوڑیاں پہننے کی ہے لیکن میری سوچ کے بالکل برعکس آپ نے مسکرا کر ہاتھ میری طرف بڑھا دیا کہ میں پہنا دوں.مجھے آپ
۴۵۰ کی یہ ادا بہت ہی پیاری لگی.میں نے خوش ہو کر کڑے آپ کے ہاتھ میں پہنا دیتے.میں جب بھی ملاقات کے لیے حاضر ہوتی تھی بچوں کی خیریت ضرور پوچھتیں میں نے اپنے بیٹے سفیر احمد کے بارہ میں کہا کہ شادی کو دو سال ہو گئے ہیں دُعا کریں اللہ تعالیٰ بچہ دے فرمایا : صرف دو سال اتنی جلدی گھبرا گئی ہو؟ میں آپ کے اتنا فرمانے پر مطمئن ہو گئی کہ خواہ دیر سے سہی ، لیکن انشاء اللہ بچہ ضرور ہو گا.چنانچہ شادی کے پورے پانچ سال کے بعد اللہ تعالی نے آپ کی دعاؤں کے طفیل پہلا بیٹا عطا فر مایا.خوشی کی بات یہ ہے کہ عزیزم سفیر نے اپنے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اس کی زندگی وقف کی کردی.الحمد لله مجھے خواہش ہوئی کہ آپ کی قمیص اور حضور اقدس کے کپڑوں میں سے کچھ تبرک کے طور پر آپ سے مانگوں لیکن حجاب مانع رہا.آخر کار میں نے بازار سے اچھی قسم کا قمیص کا کپڑا اور ایک دوپٹہ خریدا اور کچھ پھل لیکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور پھر اپنی خواہش کا اظہار کیا جسے آپ نے بڑی فراخ دلی کے ساتھ پورا کیا.ویسے بھی میں کبھی آپ کے پاس خالی ہاتھ نہیں گئی جس کا آپ نے ایک بار اظہار بھی کیا کہ عابدہ جب آتی ہیں کچھ نہ کچھ تھے ضرور لواتی ہیں ؟ میں نے کہا آپ سے بھی تو مجھ کو دعاؤں کا تحفہ ملتا ہے جس پر آپ مسکرائیں.آپ نے مجھے آٹو گراف بھی دیا اس سے پہلے خاکسارہ کو حضرت نواب
۴۵۱ مبارکہ بیگم صاحبہ نے بھی آٹوگراف دیا تھا عجیب اتفاق ہے کہ دونوں آٹوگراف کا مفہوم ایک ہی ہے یعنی بچوں کے لیے دعا ئیں کہ بچوں کو نیک جوڑے میں.صالح اولا د عطا ہو.خاکسارہ کو بچوں کی بہترین تربیت کی توفیق ہے.جب بھی مجھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے دیر ہو جاتی تو فرمائیں عاہدہ تم بہت دیر کے بعد آتی ہو.میں تم کو یاد کرتی تھی " مجھے بھی آپ سے مل کر سکون ملتا تھا.- مکرم سردار عبد القادر صاحب صدر جماعت احمدیہ چنیوٹ رکھتے ہیں ضروری ہ میں حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب نے شدید بیماری کے حملہ سے صحت یابی پر حضرت سیدہ امتہ الحفیظ صاحبہ کے لیے محبت پیار اور شکر گذاری کے جذبات کا اظہار کیا.اتفاق کی بات ہے کہ انہی دنوں خاکسار چند یوم کے لیے ڈاڈر سینی ٹوریم میں ایک دوست کی عیادت کے لیے ٹھرا ہوا تھا.اکثر فارغ وقت میں محترم ڈاکٹر ابرار احمد صاحب اسٹنٹ میڈیکل آفیسر کچھ وقت کے لیے ہمارے پاس آکر بیٹھتے.ایک روز ان کے ہمراہ ایک نوجوان ڈاکٹر رحین کا نام یاد نہیں آرہی تشریف لائے ڈاکٹر ابرار احمد صاحب نے میرے احمدی ہونے کا ذکر کیا تو بیٹھتے ہی اس نوجوان ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کی صحت کے متعلق دریافت کیا.چونکہ ایک دو روز قبل مانسہرہ میں الفضل سے حضرت نواب صاحب کی صحت کی رپورٹ رمکرم سید مبارک سرور شاہ صاحب کے
۴۵۲ گے مکان پر جو ان دنوں اپنی والدہ کے ہمراہ مانسہرہ میں ٹھرے ہوئے تھے پڑھ کر آیا تھا.وہی رپورٹ میں نے ڈاکٹر صاحب موصوف کو بتائی.یہ رپورٹ سن کر وہ نوجوان ڈاکٹر صاحب جن کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا.کسی گہری سوچ میں پڑ گئے.آخر میں نے اس سکوت کو توڑا.اور پوچھا کہ کیا بات ہے انہوں نے کہا کہ میں حضرت نواب صاحب کی بیماری کے دوران لاہور میں تھا اور مجھے ان کی خدمت کا موقع ملا.اکثر رات کو جب میں ان کے کمرہ میں جاتا تو آپ کی بیگم صاحبہ کو چارپائی پکڑے ان کی صحت یابی کے لیے دعا ئیں کرتا پاتا.میں نے اپنی ڈیوٹی کے دوران رات کو ان کی بیگم صاحبہ کو کبھی نیند یا آرام کی حالت میں نہیں دیکھا.بس دُعا کی حالت میں دیکھا.اب آپ سے ان کی صحت یابی کاشن کر خدا تعالیٰ کی شان کریمی پر گہری سوچ میں پڑ گیا تھا.کہ وہ مریض جس کے بظاہر زندگی کے کوئی آثار نہیں تھے.اور میں ان کی بیماری کے دوران صوبہ سرحد میں آگیا تھا.اور خیال تھا کہ حضرت نواب صاحب ہمیشہ کے لیے دُنیا سے رخصت ہو چکے ہونگے مگر آپ کی بیگم صاحبہ کی دعاؤں اور راتوں کی گریہ وزاری کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا.اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ خدا تعالے نے ان کی دُعاؤں کوئے سنا اور قبول فرمایا.اور انہوں نے اپنے خاوند کے لیے نئی زندگی حاصل کر لی.دعا ہے کہ اسیر تعالی حضرت سیدہ بیگم صاحبہ پر اپنی بے شمار منتیں نازل فرمائے.اور ہم سب ان کی برکات و فیوض سے ہمیشہ متمتع ہوتے
۴۵۳ رہیں ایک غیر از جماعت ڈاکٹر کے مندرجہ بالا تاثرات اور ذاتی مشاہدہ یقیناً حضرت سیدہ موصوفہ کی دُعاؤں سے بھر پور زندگی کا عکاس ہے.حکومیز ذوالفقار صاحب چوبدی معتمد مجلس خدام الاحمد ناصرآباد اسٹیٹ ضلع تھرپارکر سندھ لکھتے ہیں :.خاکسار اپریل سماہ میں ربوہ حضرت امام جماعت کی ملاقات کے لیے حاضر ہوا.اسی دوران حضرت صاحبزادی سیده امته الحفیظ بیگم صاحبه کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع بھی ملا.میں نے رقعہ لکھ کر اندر بھجوایا.جس میں دُعا کی درخواست کے ساتھ آٹوگراف دینے کے لیے بھی عرض کی.جواباً فرمایا طبیعت خراب ہے گر تم بہت دُور سے آتے ہو اس لیے مختصراً ایک جامع نصیحت تحریر کرتی ہوں اس پر عمل کرنا اور اپنے دستخطوں سے یہ نصیحت تحریر فرماتی که " نماز کی پابندی کرو" نماز که بیاید می کرد اقته الحضيرة بينكم 30
۴۵۴ الحمد للہ کہ خاکسار نے اس نصیحت کے بعد بفضل خدا کوئی نماز نہیں چھوڑی میں اپنے تمام بھائی بہنوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی اس جامع نصیحت پر کما حقہ عمل پیرا ہوں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو نمانہ کی پابندی کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت سیدہ مرحومہ کو جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرماتے.آمین ہیں کہ : - حضرت میاں روشن الدین صاحب زرگر گولباندار ربوہ بیان کرتے میاں صاحب مکرم قریشی امیراحمد صاحب مرحوم نے بتایا کہ ایک دفعہ کچھ سونے کے زیورات سیدہ امتہ الحفیظ صاحب نے نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کو دیتے کہ یہ فروخت کروا دیں نواب صاحب نے وہ زیور مجھے فروخت کے لیے دیتے میں نے پیارے لال صراف کو دکھاتے اس نے پانچ صد روپیہ قیمت لگاتی میں چونکہ اس معاملہ میں نا واقف تھا اس لیے میں نے میاں احمد الدین صاحب زرگر کو دکھاتے انہوں نے ایک ہزار روپے قیمت لگائی مگر رقم ایک ماہ بعد دینے کا کہا اور اپنے گاؤں پنڈی چری چلے گئے میں نے نواب صاحب کو بتا دیا.انہوں نے حضرت سیدہ موصوفہ سے بات کی کہ قریشی صاحب نے میاں احمد الدین کے پاس وہ زیورات ایک ماہ کے وعدہ پر فروخت کر دیتے ہیں اور قیمت ایک ہزار روپے لگی ہے اس پر حضرت سیدہ موصوفہ نے اُدھار دینے پر مجھے صرف آنا فرمایا کہ نواب صاحب کو قریشی صاحب فروخت کرنے والے
۴۵۵ مل گئے اور قریشی صاحب کو میاں احمد الدین صاحب زرگر خریدنے والے مل گئے.آپ نے یہ فقرہ بطور مزاج فرمایا.مگر میں دل میں شرمسار تھا.کہ اگر رقم وعدہ پر نہ ملی توکیا ہو گا.ہوسکتا ہے کہ کسی فوری ضرورت کے ماتحت رقم درکار ہو.مگر الحمد للہ کہ میاں احمد الدین صاحب نے جاتے ہی بذریعہ تامر منی آرڈر رو پید ارسال کر دیا.اسی طرح بسا اوقات بعض سکتے میلے ہو جاتے تو حضرت اماں جان مجھے دیتیں کہ انہیں زیور دھونے والی ریت سے چپکا کر لاؤ چھکتے ہوتے تھے دیکھ کر حضرت سیدہ موصوفہ بہت خوش ہو تیں.ہوتیں -4 محرم خواجہ محمد عبد اللہ صاحب سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی سے محمدعبداللہ لکھتے ہیں :- حضرت دخت کرام مادر مهربان صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبه زخدا تعالیٰ کی بے انتہا ر حمتیں آپ پر نازل ہوں) کی خدمت میں دعا کے لیے خطوط لکھتا تھا.آپ از راہ شفقت مادرانہ اس ناچیز کے خطوط کا جواب عنایت فرمائیں.اللہ تعالی آپ کو جنت الفردوس میں اپنے پیاروں سے کے قرب میں جگہ عطا فرمائے.آمین بہت سے خطوط میں سے اس وقت دو شفقت نامے مل سکے ہیں جو بھجوا رہا ہوں آپ کا وجود ہم سب کے لیے سراپا شفقت تھا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس کمی کو پورا فرماتے.آمین
ا.RABWAH 14/1/29 ۴۵۶ بسم الله الرحمن الرحیم مکرم خواجہ صاحب مسلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمت اللہ و برکا تها ! آپ کا تارا اور خط ملا.اللہ تعالیٰ آپ کے حق میں فیصلہ فرماتے.آج سترہ تاریخ ہے فیصلہ سے اطلاع دیں اللہ تعالیٰ آپ کو ہر قسم کی پریشانیوں سے نجات دے اور شکلات دور فرمائے آپ کی مخلصانہ دکھاؤں کا بہت بہت شکریہ.والسلام امته الحفیظ بگیر RABWAH بسم الله الرحمن الرحیم مکرم خواجہ محمد عبداللہ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! آپ کا تار بھی ملا تھا اور متواتر خط بھی ملتے رہے میں نے حسب توفیق دعا کی مگر خدا تعالیٰ کو بیسی منظور تھا.اگر ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو ہزار دروازے کھل جاتے ہیں آپ زیادہ غم فکر نہ کریں.آپ بھی دُعا کرتے رہیں.میں بھی دیا کروں گی.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر رہے اسی میں کوئی بہتری ہو گی.اللہ تعالیٰ متبادل انتظام فرماتے گا.والسلام امتہ الحفیظ بیگم رہا اہنامہ مصباح جنوری فروری شاه )
۴۵۷ حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ از خواجہ عبدالغفار صاحب ڈار سابق ایڈیٹر اصلاح سرینگر حال راولپنڈی اس عاج کے زمانہ طفولیت میں کئ سال مجھے حضرت بی صاحب کے زیر سایہ کوٹھی دارالسلام قادیان میں رہنے کی سعادت حاصل رہی.ان کے اور ان کے نامدار شوہر حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب کے ہاں قیام میری زندگی کا ایک حسین اور معصوم واقعہ ہے.ان بزرگوں کی شفقتوں اور احسانات کی تفصیل بھی دراز ہے.اس لیے میں انہیں اپنے حقیقی والدین کے طور پر ان کے درجات کی بلندی کے لیے ہمیشہ دعا گو رہتا ہوں.میرا حضرت بیگم صاحبہ کی سر پرستی میں جانا اولاً دوماہ کے لیے ہوا تھا مگر جب حضرت مرزا شریف احمد صاحب مجھے اپنی کوٹھی لے جانے کے لیے دار السلام تشریف لاتے تو میں اس عرصہ میں حضرت بیگم صاحبہ کی شفقتوں اور اس ماحول سے اتنا مانوس ہو چکا تھا کہ مجھے وہاں سے کسی اور جگہ جانا قبول نہ ہوا.حضرت بیگم صاحبہ نے اپنے بھائی حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی طرف اور ایک نظر میری طرف دیکھتے ہوئے فرمایا کہ " اسے رہنے دیں یہاں ہی ہم بھی ہر طرح سے اس کا خیال رکھیں گے.چنا نچہ جامعہ احمدیہ کی کلاسوں میں پہنچنے تک کم وبیش پانچ سال تک میں کوٹھی
۴۵۸ دار السلام میں رہا اس دور کی حسین اور ناقابل فراموش یادیں میرے دل دماغ پر اس طرح حاوی ہیں کہ جب بھی قادیان جانا ہوا تو کو بھی دارالسلام کے باغ اور کونے کونے میں گھوم پھر کر دیوانہ وار روتا بھی ہوں اور حیران بھی ہوتا ہوں کہ اس سرزمین میں کیا جادو ہے کہ میرے وطن مالوف اور میری جنم بھومی کی طرح اس جگہ کی یادمیں رلاتے بغیر نہیں چھوڑتیں.یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت برحق ہے کہ ایسے روحانی رشتے قائم فرماگئے جو خون کے رشتوں کے برابر ہیں بلکہ اس سے سوا اسی کو بھی دارالسلام میں خاکسار ذاتی طور پر حضرت مصلح موعود سے متعارف ہوا جو طلب علمی کے بعد بھی اب تک میری زندگی کا ملجاء ومادی بنا.حضرت اماں جان حضرت مرزا بشیر احمد صاحب - حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مجھے ایسے جانتے پہچانتے تھے جیسے گھر کے کسی فرد کو جانا اور پہچانا جاتا ہے.میرے اس تعارف اعزاز اور خوش قسمتی کا واحد سبب حضرت بیگم صاحبہ کا وہ حسن سلوک ہے جو اس عاجز کے ساتھ روا رکھا گیا اور میں ایک معمان طالب علم کے طور پر اتنی مدت ان کے زیر پرورش رہا.کوٹھی دار السلام کا ماحول صاف ستھرا امیرانہ ہی نہیں بلکہ نوریانہ تھا لیکن اس ظاہری شان و شوکت کیساتھ ساتھ سارا ماحول نیکی پاکیزگی اور محبت و اخوت کا گہوارہ تھا.اور اس پاکیزہ ماحول میں میں نے شعور کی آنکھ کھولی.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب نماز باجماعت کی پابندی فرماتے اور میں ساتھ ہو لیتا اور بہیت نور میں باجماعت نمازیں ادا کرتے تھے بچپن کی وجہ سے
۴۵۹ مجھے علم نہ تھا کہ کسی نمازی کے آگے سے گذرنا منع ہے.حضرت میر محمدی حسین صاحب نماز پڑھ رہے تھے.میں بے دھیان ان کے سامنے سے گزرنے لگا انہوں نے نعتاً اپنا دایاں بازو آگے اس انداز میں بڑھایا کہ وہ مجھے قدرے زور سے لگا اور اس کے بعد میں زندگی بھر کسی نمازی کے آگے سے نہیں گذرا.ایک اور واقعہ یہ ہے کہ حضرت ڈاکٹر محمد طفیل خان صاحب میرے استاد اور محلہ دارالعلوم حلقہ نور کے صدر تھے انہوں نے مجھے ایک ریڈیک دی اور چار پانچ احباب سے ہر ماہ چندہ وصول کرتا اور انہیں پہنچانا مجھے سو پنا.بعد میں میں اس حلقہ کا سیکرٹری مال بن گیا اور اس طرح بچپن سے ہی جماعتی کاموں کی لگن پیدا ہوگئی.حضرت بیگم صاحبہ حد درجہ مہمان نوازہ تھیں اوروں کے واقعات تو بے شمار ہونگے لیکن حضرت مصلح موعود کے زمانہ میں بعض معزز اور مشاہیر مہمانوں کی فرودگاہ بھی کوٹھی دارالسلام ہوا کرتی تھی.مجھے خوب یاد ہے ایک دفعہ اس وقت کے شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب کو اپنے ایک سیکورٹی کے ساتھ بطور مہمان ٹھہرایا گیا حرم خواجہ غلام نبی گلکار جو شیر کشمیر کے زمانے میں معمار ملت " کہلاتے تھے اور آزاد کشمیر حکومت کے بانی صدر بنے تو انور کہلاتے وہ ابھی احمدی نہیں ہوتے تھے.وہ بھی یہاں ہی ٹھراتے گئے.مجھے یاد ہے کہ جمعہ پڑھنے کے لیے میں اُن کے ساتھ بیت اقصی گیا تھا گویا را ہنمایان کشمیر کے ساتھ میرا ابتدائی تعارف کو بھی دار السلام میں ہی ہوا.
٤٤ تعلیم سے فارغ ہو کر میں حضرت مصلح موعود کے جاری کردہ ہفت روزه اصلاح سرینگر سے وابستہ ہوا، لیکن اس عظیم خاندان سے میرا رابطہ قائم رہا.تہ میں پاکستان بننے کے بعد رتن باغ کے قیام کے زمانے میں حضرت نواب صاحب اور حضرت بگم صاحبہ کبھی کبھی کسی خدمت کے لیے یاد فرمایا کرتے تھے اس زمانے میں میری زیادہ تر مصروفیات تحریک کشمیر سے متعلق حضرت مصلح موعود کی زیر نگرانی ہوتی تھیں.حضرت نواب محمد عبد الله خان صاحب علیل ہوتے مجھے اکثران کا سرا دور جسم دبانے کی سعادت حاصل ہوتی رہی.متعدد بار بڑی اور چھوٹی بیگم صاحبہ دونوں حضرت میاں صاب کی تیمار داری اور دعا میں مصروف ہوتی یہ خاکسار ان کے لیے بمنزلہ اولاد تھا مگر وہ اسلامی طریق پر پردے کا اہتمام کرتی تھیں ان بزرگوں کے اخلاق کریمانہ ان کی بے مثال مروتوں اور نیکی کے اعلیٰ نمونوں کو یاد کر کے ان کے حق میں ان کے درجات کی بلندی کے لیے اور ان کے جملہ لواحقین کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ یہ لوگ تخلقوا باخلاق اللہ کا عملی نمونہ ہیں.پارٹمیشن کے بعد ہر خاندان متاثر ہوا.اس خاندان پر بھی تنگی ترشی کا وقت آیا.ایک دفعہ ربوہ میں حضرت بیگم صاحبہ کے ایک پرانے ملازم سے علاقات ہوئی وہ بوڑھے ہو چکے تھے میں نے پوچھا آجکل گزارہ کی کیا صورت ہے کہنے لگے اللہ کا فضل ہے چھوٹی بیگم صاحبہ خرچہ دے رہی ہیں اور اچھا گزارہ ہو جاتا ہے میرے لیے بڑے تعجب کی بات تھی کہ غیر سرکاری
۴۶۱ لازم بھی ایسے ہوتے ہیں جنہیں ریٹا ئرمنٹ کے بعد پنشن ملتی رہتی ہے بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اور بھی کئی خادموں کی اب بھی مالی مدد ہوتی رہتی ہے.میری بڑی بیٹی عزیزہ سلیم منور حال لندن کی شادی کے موقع پر حضرت بگیم صاحبہ کی چھوٹی صاجزادی عزیزہ محترمہ فوزیہ بیگم صاحبہ کی اس تقریب میں شرکت اور ان سے دعا کرانے کی یہی وجہ تھی کہ عالیہ کا اس خاندان سے خاص تعلق تھا عزیز المکرم نواب زاده عباس احمد خان صاحب سے تو میری دلی عقیدت ہے حرف آخر کے طور پر میں اپنی ایک خواب عرض کرتا ہوں.میں نے خواب میں دکھیا کر میں حضرت بیگم صاحبہ سے باتیں کر رہا ہوں آنحترمہ مجھ سے کچھ شکوہ فرما دی ہیں.میں نے انہیں امی جان کہہ کر مخاطب کیا اور کہا کہ میں تو آپ کو کبھی بھول ہی نہیں سکتا بلکہ ہمیشہ یاد کرتا رہتا ہوں آپ دونوں اور آپ کی ساری اولاد دعا کرتا رہتا ہوں.میں نے دیکھا آپ میری طرف آرہی ہیں اور میں بھی آگے بڑھا آپ نے اپنا دست شفقت میرے سر پر رکھا اور میں بیدار ہو گیا.الحمد للہ علی ذالک.کے لیے ہمیشہ
۴۶۳ منظومات وخت کرام از مکرم مولانا نسیم سیفی صاحب ریبوه ) بفضل ایزدی ہم سب نے دل میں ہے یہی ٹھانی رواں رکھیں گے ہم سرچشمہ افضال ربانی مراک برکت جو بھی وابستہ دخت کرام اب بھی رہے گی اس جنگ ساتے کی جسم و دل پر ارزانی وہ جاکر بھی ہمارے قلب و جاں سے جانہیں سکتیں که یاد ان کی عطا کرتی رہے گی شرف مہمانی دعاؤں کے لیے وصف سما ، جود و کرم ان کا ہر اک کشتِ عمل کو خوب دیتا ہے فراوانی ہر اک معصوم بچے سے محبت کا حسین پیکر باند از ملائک خوبروتی - خنده پیشانی وہ مامورِ خُدا کی دختر فرخندہ اختر تھیں میسر تھی انہیں خلاق عالم کی نگہبانی
۴۶۴ خلوص دل کو ان کی پاک فطرت نے جلا دی تھی خُدا نے خود عطا کی تھی انہیں چہرے کی تابانی وہ تھیں جس گور کی پروردہ اس کی بات ہی کیا ہے ملا تھا گھر کا بھی ماحول نورانی و روحانی ہمہ شفقت، ہمہ برکت ، ہمہ ہمدردی انسان خرد افزا، خیال انگیز ان کا جذب ایمانی خداوندا نسیم افسردہ دل تو ہے مگر اس کو یقیں ہے تیری رحمت کا کرم ہے تیرا لافانی
۴.۷۵ رحلت حض رسیده امتدا دیگر ماه د از محرم محرم عبد المنان صاحب ناہید ) زمین پر مسیحا کے گھر کی میں روانہ ہوئی سوتے عرش بریں جہاں سے میرے لے گئی ہے قضا وہ مہ پارہ آسمان وفا مه وہ زنجیر تبشیر کی اک کڑی تھی خود بھی تو اک موتیوں کی لڑی وہ عالی جناب اور عالی مقام کیا جس کو اللہ نے رختِ کرام گئی اپنے پیاروں سے پیاروں کے پاس ہوا خانوادہ صدی اُداس محبت تو آنکھوں سے بہتی رہی زباں انا لله کہتی رہی وہ ناسازگاری تھی حالات کی بڑھی تیر کی اور بھی رات کی سفر آخرت کا ، بدن چور تھا مگر اس کا ماہر بہت دور تھا تھے وہ سلسلہ ہائے جور و جفا اُسے آکے رُخصت نہ وہ کرسکا نظر سے کہاں ہو گئے ہیں نہاں گھر ہائے آخوش نصرت جہاں صبا! قادیاں کو بھی جاکر سُنا کہ آج اس کا الدار خالی ہوا وہ اس کی محبت کے پالے ہوتے گئے سب کے سب داغ مجرت " لیے میری آنکھ نے تو یہ دیکھا.گئی گھڑی اور اک لیلتہ القدر کی
" آساں کی لحد پر نور افشانی کرے از محرقه صاحبزادی امتہ القدوس صاحبه مربوه دختر احمد مسیح پاک کی لخت جگر ہوں ہزاروں رحمتیں اس کی مبارک ذات پر پاک طینت، با صفا، عالی گهر دخت گرام سیدہ کی جان ، مهدی کی حسیں نور نظر ذات جس کی عظمت اسلاف کا پر تو لیے دہ کہ جو تھی گلشن احمد کا اک شیرین شمر ہستیاں ہوتی ہیں کچھ ایسی کہ جب نصت ہوں جو ساتھ ان کے اک مکمل دور جاتا ہے گذر یہ نشانی بھی میرے محبوب کی رخصت ہوتی دیکھنا چاہے گی پر نہ دیکھ پائے گی نظر اس سے مکر بھی بہت تسکین پا جاتے تھے لوگ فرقت آقا کے زخموں کو وہ کچھ دیتی تھی بھر وار کچھ ایسا اہل کا تھا کہ یکدم گر گیا باردار و خوبصورت ایک چھننا ور شجر
446 كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتُ ہے قرآن میں ہر کیں، کوئی نہیں ہے موت سے جس کو مغفر "خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں" یاد کر کے جن کو میرے پیشم و دل آتے ہیں بھر قاعدہ ہے زندگی میں قدر ہم کرتے نہیں بعد میں پھر یاد کرتے ہیں انہیں با چشم تر جانتے تو سب ہیں کہ یہ زندگی ہے بے ثبات پر نہیں یہ سوچتے کہ اس قدر ہے مختصر روح منزل پہ پہنچ آرام پا جاتی ہے والی ختم ہو جاتا ہے جب اس زندگانی کا سفر جانے والے چھوڑ جاتے ہیں وہ زخم بے نشاں کہ نپک جاتی نہیں سینے سے جن کی عمر بھر ہے ہمارے پاس تو لیس اک دُعاؤں کی سبیل کاش پیدا ہو ہماری بھی دکھاؤں میں اثر آسماں اس کی لحد پر نور افشانی کرئے رحمت حق یاں ہماری بھی نگہبانی کرے
۴۶۸ بیاد دوخت گرام از سید سجاد احمد (مولف کتاب ہذا ) مهدی موعود کی نور چشم سیده عالی مقام پاک سیرت، نیک طینت ، با صفا منبع خیر العمل ہر ایک گام آپ کی تعریف میں رطب اللسان میں سمجھی خورد و کلاں اور خاص و عام منتصف اوصاف حسنه، پاک خو اور ہر کردار میں اعلیٰ مقام خدمت خلق خدا و بے کساں چشمه جود و سخا فیضان عام قابل تقلید ساری خوبیاں نیکیوں پر گامزن رہتیں مدام موت نے گل کر دیا روشن چراغ ہوگئیں خلد آشیاں" دخت کرام موت سے بجھتی نہیں شمع جمال زندہ جاوید ہیں وہ لا لا کلام اک حباب بھر ہے دنیا تے دُوں ہے یہ شام زندگی صبح دوام تھی ولادت عیسوی سن جار کی بون پیش پیر کا دن بے کلام سن لی اس چھ مئی کو ہو گیا اس حیات عارضی کا اختتام سیده امتہ الحفیظ پاک باز ہوں خدا کی رحمتیں ان پر تمام اک فقیر بے نوا نگین کا پیکر صدق و اطاعت کو سلام
۴۶۹ عقیدت کے آنسو ( از محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ میر صاحبہ ربوہ ) زلزلے نے ایک دن پہلے ہی دے دی تھی خبر کل کسی سُورج کا پھر ہو جائے گا پورا سفر چلتے چلتے عمر کا راہوار آخر تھک گیا چودھویں کا چاند گہرے بادلوں سے ڈھک گیا آج پھر برسات بھی روتی رہی ہے رات بھر ہم سبھی جاگے میں تو سوتی رہی ہے رات بھر تو ازل سے ہی رہی گویا ہمارے درمیاں اور اب کوئی نہیں تجھ سا ہمارے درمیاں دیکھ کر تجھ کو ہمیں وہ گود یاد آتی رہی اپنے بچپن میں جہاں آرام تو پاتی رہی ہم سے کیا تعریف ہو اعلیٰ تیرے اوصاف کی تجھ سے آتی تھی ہمیں خوشبو تیرے اسلاف کی
پھول تھی، خوشبو تھی ، دھیمی چاندنی کا نور تھی آج جتنی دُور ہے اتنی بھلا کب دُور تھی میں نے دیکھی ہے فراست میں فراوانی تیری تھول سکتی ہوں بھلا پیشانی وہ نورانی تیری اپنی باتوں سے سدا کرتی تھی مجھ کو مستفیض عمر بھر دیکھا نہیں میں نے کوئی تجھ سا مریض جس طرح جگنو چمک کر راہ دکھاتے دُور تیری پیشانی چمکتی تھی ضیا کے نور سے جو مقرب تھے تیرے وہ فیض تیرا پاگئے رفتہ رفتہ اپنے رب کی عافیت میں آگئے ایسے لگتا ہے بہت خالی ہیں ہم تیرے بغیر آگئے ہیں یاد ہم کو سارے غم تیرے بغیر آج تپتی دھوپ سر پر ساتیاں کوئی نہیں باغ میں لگتا ہے جیسے باغباں کوئی نہیں پھول سا چہرہ پڑا ہے مانداک زیر زمیں دفن کرنے آتے ہیں ہم چاند اک زیر زمین آسمان خود آج تیری فاتحہ کو ٹھک گیا وقت صدیوں بعد جیسے لمحہ بھر کو رک گیا
امام تیرے پیارے کس قدر مجبور تجھ سے دُور ہیں پر لگا کر اڑ نہیں سکتے بہت رنجور ہیں آج پھر پہنے ہیں مولا ہم نے تیرے غم کے ہار آج پھر ٹوٹے دلوں کی تجھ سے مولا ہے پکار یہ کڑا وقت ! اور ہم اپنوں سے کتنی دور میں آج اس تیری زمیں پر ہم بہت مجبور ہیں ہم سوالی بن کے مولا نتجھ سے ہی ہیں گے جواب جب کوئی پردیس سے آتے ! کیا دیں گے جواب
۴۷۲ جگمگاتی پانچ مہروں کی لڑی راز عزیزه ستیده منصوره حنا بنت سید سجاد احمد ربوہ ) جگمگاتی پانچ ہیروں کی لڑی خود خدا نے اپنے ہاتھوں سے جڑی گوہر یکتا تھے سارے بالیقیں روشنی تھی ان سے ہر دم ہر گھڑی زیست نصرت جہاں پانچوں گھر يبداء مِنكَ کی پاکیزہ ٹری اپنے اپنے وقت پراو مجمل ہوئے آئی جب بھی ان کے جانے کی گھڑی اُس لڑی کا آخری ہیرا گیا مل سکے گی اب کہاں وہ پنجڑی جانے والا لوٹ کر آجائے کاش دل میں اس کے آرزو تھی یہ بڑی پردیس میں کوئی تڑپتا رہ گیا آزمائش یہ بھی تھی لیکن کڑی کھول دے باب اجابت اسے خدا در پہ تیرے دیر سے میں ہوں کھڑی یا گیا منصورہ وہ دونوں جہاں انس کی رحمت کی نظر جس پر پڑی
۴۷۳ ہر گھڑی جسکو خدا کی تھی رضا پیش نظر راز محترقه سیده میره ظهور صاحبه ربوہ ) ایسی بیٹی پر کرے فخر زمانے کا امام جس کو اللہ نے خود نام دیا " دخت کرام " جس کے دامن پہ فرشتوں نے لٹائے سجدے باصفا ایسی کہ حوروں نے قدم بڑھ کے لیے خلتی ایسا کہ جھڑیں پھول وہ جب بات کرے حسن ایسا کہ بہاروں کو بھی جو مات کرے ہر گھڑی جس کو خُدا کی تھی رضا پیش نظر جس کو اللہ کے سوا تھا نہ کسی اور کاڈر علم ایسا کہ اثر ین کے دلوں میں اُترے رعب ایسا کہ ادب بن کے نظر سے گزرے ایسی ماؤں کے ہی قدموں کے تلے جنت ہے بزم ہستی میں وجود ان کا بڑی نعمت ہے ایسی ہستی پہ میرہ کا قلم کیا لکھے جس کے ماتھے پہ ہو تاریخ رقم کیا لکھے "
مینہ سب کی از مکرم حمید احمد صاحب اختر المنار دواخانه ریوه ) محسنہ سب کی جناب سیدہ امتہ الحفیظ ان کی رحلت سے ہوتے ہیں آج ہم سب قرار واسطہ دیگر تیرے پیاروں کا تجھ سے عرض ہے میرے قلب مضطرب کو کہ عطا صبر و قرار جو عقیدت ان سے تھی وہ میں بتا سکتا نہیں ان کے جانے سے ہوتے ہم سب حزین ودلفگار آپ کے احسان اتنے ہیں کہ گن سکتا نہیں نیک سیرت ، پاک فطرت اور سب کی غمگسار جس کو دیکھو وہ یہی کہتا ہے میری ماں تھیں وہ اپنے بچوں کی طرح کرتی تھیں ہر اک سے پیار ان کے جانے سے چمن کی رونقیں کم ہوگئیں وہ نہ آئیں گی دوبارہ بے شک آئے صد بہار نیکیاں قائم رہیں گی ان کی دُنیا میں سدا کام جو بھی گر گئیں وہ سب کے سب میں پائیدار
۴۷۵ یاد کر کے ان کو اب آنسو بہا لیتا ہوں میں فخر مجھ کو ہے کہ میں ان کا تھا اک خدمتگذار ان کی برکت سے عطا کر ہم کو مولا برکتیں ہم بھی ان سے حصہ پائیں اسے میرے پروردگار آپ نے جو کہیں دُعائیں کل جماعت کے لیے مقبول ہوں ساری دُعا میں آج ہم ہیں اشکبار یادیں ان کی یاد کر کے آگے بڑھنا ہے ہمیں ہر جگہ پر آتے مولا بارغ احمد پہ بہار سب کے زخموں پر لگا مرہم تو اسے مولا کریم اور تسکین دے دل مضطر کو اے پروردگار روز وشب اختر دعا کرتا ہے ان کے واسطے قرب تیرا ان کو حاصل ہو میرے پروردگار
۴۷۶ سیرت نگاری سیرت نگاری نے اب ایک فن کی صورت اختیار کرلی ہے، لیکن یہ سب اسلوب دلوں میں اس حقیقت کو راسخ کرنے کے لیے ہیں کہ جانے والے ہمارے لیے کیا نمونہ چھوڑ گئے ہیں.اور ہم نے ان برکتوں سے کس قدر حصہ پایا ہے اگر ہم یہ سبق سیکھ لیں اور عملی زندگی میں زندہ جاوید کرداروں سے را ہنمائی حاصل کریں تو مقصود حاصل ہے اور کسی قسم کا خلا کا احساس بلا وجہ ہے ورنہ جانے والے تو اپنے خدا کے لیے اپنی زندگی گزار گئے.اور بہترین ثمرات کے مالک بنے.لیکن ہمارے لیے حسرات اور نہ پر ہو سکتے والے خلا کے سوا اور کچھ نہیں.کیونکہ صرف حالات کا پڑھ لینا.ہمارے کسی کام نہیں آئے گا.
۴۷۷ لحمة فكري تم کیوں ایسی حالت میں بیٹھے ہوتے ہو کہ جب کوئی شخص چلا جاتا ہے تو تم کہتے ہو اب کیا ہو گا.تم کیوں اپنے آپ کو اس حالت میں تبدیل نہیں کرلیتے کہ جب کوئی شخص مشیت ایزدی کے تحت فوت ہو جائے تو تمہیں ذرا بھی یہ فکر محسوس نہ ہو.کہ اب سلسلہ کا کام کس طرح چلے گا.بلکہ تم میں سینکڑوں لوگ اس جیسا کام کرنے والے موجود ہوں“ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۳ م )