Language: UR
دُعا خداتعالیٰ کی ہستی کا ثبوت اور انسان کی رُوحانی زندگی اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ دُعا عبادت کا مغز و روح ہے۔ اس انتہائی اہم مسئلہ کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں اور واضح کرنے کیلئے حضرت مصلح موعود ؓ کے ارشادات پیش کئے جارہے ہیں۔ ابتداء میں دُعا سے متعلق چند قرآنی آیات و احادیث اور حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے بعض ارشادات مضمون کی افادیت میں اضافہ کی خاطر شامل کردئیے گئے ہیں۔
غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے اے مرے فلسفیو! زوردعا دیکھو تو دعائے مستجاب
غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے اے مرے فلسفیو! زور دُعا دیکھو تو ( کلام محمود) دعائے مستجاب
دعائے مستجاب.اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَ لْيُؤْمِنُوْانِ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقره: ۱۸۷) ترجمہ: (اور اے رسول ) جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو ( تو جواب دے کہ ) میں (ان کے) پاس (ہی) ہوں دُعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اُس کی دُعا قبول کرتا ہو سو چاہئے کہ وہ (دُعا کرنے والے بھی) میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت یا ئیں.00 3
دعائے مستجاب.عرض مؤلفـ دُعا خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت اور انسان کی رُوحانی زندگی اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے.دُعا عبادت کا مغز وروح ہے.اس انتہائی اہم مسئلہ کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں اور واضح کرنے کیلئے حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالی عنہ کے ارشادات پیش کئے جارہے ہیں.ابتداء میں دُعا سے متعلق چند قرآنی آیات واحادیث اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعض ارشادات مضمون کی افادیت میں اضافہ کی خاطر شامل کر دیئے گئے ہیں.00 4
دعائے مستجاب.بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے لجنہ اماء الله لو صد سالہ جشن تشکر پر کتب شائع کرنے کی توفیق عطا کی ہوئی ہے.یہ کتاب ” دُعائے مستجاب“ کے نام سے مربی صاحب کی مرتب کردہ ہے.اس میں دُعا کے متعلق قرآنی آیات، احادیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے علاوہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریرات کے اقتباسات جمع کئے ہیں.زیادہ تر اخبار الفضل سے استفادہ کیا گیا ہے.دعا کے مضمون پر یہ ایک حسین مجموعہ ہے اللہ تعالی مربی صاحب کو جزائے خیر سے نوازے اور قارئین کو صحیح طور پر فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.g 5
دعائے مستجاب.نمبر شمار 1 دُعا.قرآنی آیات 2 دعا - احادیث مندرجات مضمون دُعا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات 4 دُعا کی حقیقت 5 دعا کے فوائد 6 80 دُعا کس طرح کی جائے قبولیت دعا کی ایمان افروز مثالیں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی بعض دُعا ئیں صفحہ نمبر 00 6
دعائے مستجاب.دُعا سے متعلق چند قرآنی آیات وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِ أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِ سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَخِرِينَ (المومن : ۶۱) ترجمہ:.اور تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دُعا سنوں گا.جو لوگ ہماری عبادت کے معاملہ میں تکبر سے کام لیتے ہیں وہ ضرور جہنم میں رسوا ہو کر داخل ہوں گے.هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - (المومن : ۶۶) ترجمہ :.وہ زندہ (اور دوسروں کو زندگی دینے والا ہے ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ تعالیٰ کے لئے عبادت کو خالص کرتے ہوئے اسے پکارو.ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (الاعراف: ۵۶) ترجمہ: ہم اپنے رب کو کیا گیا کر بھی اور چپکے چپکے بھی پکارو.یقیناً و وحد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.7
دعائے مستجاب.وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِين (اعراف: ۵۷) ترجمہ: اور خُدا کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارو.اللہ کی رحمت یقینا محسنوں کے قریب ہے.وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْبَابِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الاعراف:۱۸۱) ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ کی بہت سی اچھی صفات ہیں.پس تم اُن کے ذریعہ سے اس سے دُعائیں کیا کرو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کی صفات کے بارہ میں ( غلط اور خیالی ) باتیں کرتے ہیں ان کو اپنے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا إِن لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ لا (البقرة: ۱۸۷) ترجمہ: (اور اے رسول) جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو ( تو جواب دے کہ ) میں (ان کے) پاس ہی ہوں.جب دُعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اُس کی دُعا قبول کرتا ہوں.سو چاہئے کہ وہ ( دُعا کرنے والے بھی ) میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں.00 8
دعائے مستجاب.دُعا سے متعلق چند احادیث تمام احادیث مختار الاحادیث نبویہ مطبوعہ مصر سے لی گئی ہیں ) الدعاء مخ العبادة ترجمہ: دُعا عبادت کا اصل ومغز ہے.دعوة المظلوم مستجابة ترجمہ: مظلوم کی دُعا مقبول ہوتی ہے.( الطیاسی) الدعاء ينفع مما نزل ومما لم ينزل فعلیکم عباد الله بالدعاء (الحاکم) ترجمہ: دُعا گزشتہ و آئندہ امور کے متعلق فائدہ مند ہوتی ہے.پس اللہ کے بندودُعا کا التزام کرو.دعوة المرء المسلم لاخيه بظهر الغيب مستجابة (احمد) ترجمہ: مسلمان کی اپنے غیر حاضر بھائی کے لئے دُعا مقبول ہوتی ہے.ادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ ، وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَجِيبُ دُعَاء مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاةٍ - (ترمذی) 9
دعائے مستجاب.ترجمہ: اللہ تعالیٰ سے پریقین دل کے ساتھ دُعا مانگو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل ولا پر واہ دل سے کی گئی دُعا قبول نہیں فرماتا.فَعَلَيْكَ الدُّعَا وَالْمَسْأَلَةُ وَعَلَى الْاِسْتَجَابَةُ وَالعَطَاءُ (الطبرانی) ترجمہ: ( اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ) تم پر دُعا کرنا اور مانگنا لازم ہے.قبولیت دعا اور بخشش میں نے اپنے ذمہ لگائی ہے.قَالَ اللهُ تعالى مَنْ لَا يَدْعُوْنِى اعْضَبُ عَلَيْهِ ترجمہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مجھ سے نہیں مانگتا میں اس سے ناراض ہوں.10
دعائے مستجاب.دُعا کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بند و اور اس کے رب میں ایک تعلق مجاز بہ ہے یعنی پہلے خدا تعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے.پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خدا تعالیٰ اس سے نزدیک ہو جاتا ہے اور دُعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواص عجیبہ پیدا کرتا ہے.سوجس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل اُمید اور کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہوکر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے.پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں.تب اس کی رُوح اُس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوت جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خدا تعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے.تب اللہ جل شانہ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس دُعا کا اثر ان تمام مبادی اسباب پر ڈالتا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل 11
دعائے مستجاب.ہونے کے لئے ضروری ہیں.مثلاً اگر بارش کے لئے دُعا ہے تو بعد استجابت دُعا کے وہ اسباب طبعیہ جو بارش کے لئے ضروری ہوتے ہیں اس دُعا کے اثر سے پیدا کئے جاتے ہیں اور اگر قحط کیلئے بددعا ہے تو قادر مطلق مخالفانہ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے.اسی وجہ سے یہ بات ارباب کشف اور کمال کے نزدیک بڑے بڑے تجارب سے ثابت ہو چکی ہے کہ کامل کی دُعا میں ایک قوت تکوین پیدا ہو جاتی ہے.یعنی باذنہ تعالیٰ وہ دُعا عالم سفلی اور علوی میں تصرف کرتی ہے اور عناصر اور اجرام فلکی اور انسانوں کے دلوں کو اس طرف ے آتی ہے جو طرف مؤید مطلوب ہے.خدا تعالیٰ کی پاک کتابوں میں اس کی نظیریں کچھ کم نہیں ہیں بلکہ اعجاز کی بعض اقسام کی حقیقت بھی دراصل استجابت دعا ہے اور جس قدر ہزاروں معجزات انبیاء سے ظہور میں آئے ہیں یا جو کچھ کہ اولیائے کرام ان دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے رہے اس کا اصل اور منبع یہی دُعا ہے اور اکثر دُعاؤں کے اثر سے ہی طرح طرح کے خوارق قدرت قادر کا تماشا دکھلا رہے ہیں.وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں ایک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا 12
دعائے مستجاب.تھا ؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اقی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اللهم صل وسلم وبارك عليه واله بعد دهمه وغمه وحزنه لهذه الامة وانزل عليه انوار رحمتك الى الابد اور میں اپنے ذاتی تجربہ سے دیکھ رہا ہوں کہ دعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبعیہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دُعا ہے.“ (روحانی خزائن جلد نمبر 6 بركات الدعا صفحہ 9 تا 11 ) ” جو شخص مشکل اور مصیبت کے وقت خدا سے دُعا کرتا ہے اور اس سے حل مشکلات چاہتا ہے وہ بشرطیکہ دُعا کو کمال تک پہنچا وے خدا تعالیٰ سے اطمینان اور حقیقی خوشحالی پاتا ہے اور اگر بالفرض اس کو وہ مطلب نہ ملے تب بھی کسی اور قسم کی تسلی اور سکینت خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو عنایت ہوتی ہے.اور وہ ہرگز ہرگز نا مراد نہیں رہتا اور علاوہ کامیابی کے ایمانی قوت اس کی ترقی پکڑتی ہے اور یقین بڑھتا ہے لیکن جو شخص دُعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف منہ نہیں کرتا وہ ہمیشہ اندھا رہتا اور اندھا مرتا ہے...جو شخص رُوح کی سچائی سے دُعا کرتا ہے وہ ممکن نہیں کہ حقیقی طور پر نا مرادرہ سکے بلکہ وہ خوشحالی جو نہ صرف دولت سے مل سکتی ہے اور نہ حکومت اور نہ صحت سے بلکہ خدا کے 13
دعائے مستجاب.ہاتھ میں ہے جس پیرایہ میں چاہے وہ عنایت کرسکتا ہے.ہاں وہ کامل دعاؤں سے عنایت کی جاتی ہے اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے تو ایک مخلص صادق کو عین مصیبت کے وقت میں دُعا کے بعد وہ لذت حاصل ہو جاتی ہے جو ایک شہنشاہ کو تخت شاہی پر حاصل نہیں ہو سکتی سو اس کا نام حقیقی مراد یا بی ہے جو آخر دعا کرنے والوں کو ملتی ہے.“ ایام الصلح - روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۳۶) ”اے میرے قادر خدا! میری عاجزانہ دعائیں سن لے اور اس قوم کے کان اور دل کھول دے اور ہمیں وہ وقت دکھا کہ باطل معبودوں کی پرستش دنیا سے اُٹھ جائے اور زمین پر تیری پرستش اخلاص سے کی جائے.اور زمین تیرے راستباز اور موحد بندوں سے ایسی بھر جائے جیسا کہ سمندر پانی سے بھرا ہوا ہے اور تیرے رسول کریم ما پیام کی عظمت اور سچائی دلوں میں بیٹھ جائے.آمین.اے میرے قادر خدا! مجھے یہ تبدیلی دنیا میں دکھا اور میری دُعائیں قبول کر جو ہر یک طاقت اور قوت تجھ کو ہے.اے قادر خدا! ایسا ہی کر.آمین.ثم آمین.تتمہ حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۰۳) ” جب تو دُعا کیلئے کھڑا ہو تو تجھے لازم ہے کہ یہ یقین رکھے کہ تیرا خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے.تب تیری دُعا منظور ہوگی اور تو خدا کی قدرت کے 14
دعائے مستجاب.عجائبات دیکھے گا جو ہم نے دیکھے ہیں.“ کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۰) ابتلاؤں میں ہی دُعاؤں کے عجیب و غریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں سے ہی پہچانا جاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحه ۲۰۱) دیکھو ابراہیم علیہ السلام نے ایک دُعا کی تھی کہ اس کی اولاد میں سے عرب میں ایک نبی ہو.پھر کیا وہ اسی وقت قبول ہوگئی؟ ابراہیم علیہ السلام کے بعد ایک عرصہ دراز تک کسی کو خیال بھی نہیں آیا کہ اس دُعا کا کیا اثر ہوا.لیکن رسول اللہ اللہ الہ سلم کی بعثت کی صورت میں وہ دُعا پوری ہوئی اور پھر کس شان کے ساتھ پوری ہوئی.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه ۴۲۰) دُعا کے ذریعہ سے دنیا کی کل حکمتیں ظاہر ہوئی ہیں اور ہر ایک بیت اعلم کی گئی دعا ہی ہے اور کوئی علم و معرفت کا دقیقہ نہیں جو بغیر اس کے ظہور میں آیا ہو.“ 99 ایام اصلح - روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۳۰ مطبوع لندن ) تدبیر دُعا کے لئے بطور نتیجہ ضرور یہ کے اور دُعا تدبیر کیلئے بطور محرک اور جاذب کے ہے اور انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ تدبیر کرنے سے پہلے دُعا کے ساتھ مبدء فیض سے مددطلب کرے تا اس چشمہ لا زوال سے 15
دعائے مستجاب.روشنی پا کر عمدہ تدبیریں میسر آسکیں.“ وو ایام اصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۳۱ مطبوعہ لندن )...بڑا سعید وہ ہے جو اول اپنے عیوب کو دیکھے ان کا پتہ اس وقت لگتا ہے جب ہمیشہ امتحان لیتا ر ہے.یاد رکھو کہ کوئی پاک نہیں ہو سکتا جب تک خدا اُسے پاک نہ کرے.جب تک اتنی دُعا نہ کرے کہ مرجاوے.تب تک سچا تقولی حاصل نہیں ہوتا اس کے لئے دُعا سے فضل طلب کرنا چاہئے.اب سوال ہو سکتا ہے کہ اسے کیسے طلب کرنا چاہئے تو اس کیلئے تدبیر سے کام لینا ضروری ہے جیسے ایک کھڑکی سے اگر بد بو آتی ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ یا اُس کھڑکی کو بند کر دے یا بد بو دار شے کو اُٹھا کر باہر پھینک دے.پس کوئی اگر تقویٰ چاہتا ہے اور اس کیلئے تدبیر سے کام نہیں لیتا تو وہ بھی گستاخ ہے کہ خدا کے عطا کردہ قومی کو بے کار چھوڑتا ہے.ہر ایک عطاء الہی کو اپنے محل پر صرف کرنا اس کا نام تدبیر ہے...ہاں جو نری تدبیر پر بھروسہ کرتا ہے وہ بھی مشرک اور اسی بلا میں مبتلا ہو جاتا ہے جس میں یورپ ہے.تدبیر اور دُعا دونوں کا پورا حق ادا کرنا چاہیئے.تد بیر کر کے سوچنے اور غور کرے کہ میں کیا شے ہوں.فضل ہمیشہ خدا کی طرف سے آتا ہے.ہزار تد بیر کرو ہرگز کام نہ آوے گی جب تک آنسونہ ہیں.سانپ کے زہر کی طرح انسان میں زہر ہے.اس کا تریاق دُعا ہے جس کے ذریعہ سے آسمان سے چشمہ جاری ہوتا ہے.جو دُعا سے غافل ہے وہ مارا گیا.ایک دن اور رات جس کی دُعا سے 16
دعائے مستجاب.خالی ہے وہ شیطان سے قریب ہوا.ہر روز دیکھنا چاہئے کہ جوحق دُعا کا تھا وہ ادا کیا ہے یا نہیں.نماز کی ظاہری صورت پر اکتفا کرنا نادانی ہے.اکثر لوگ رسمی نماز ادا کرتے ہیں اور بہت جلدی کرتے ہیں جیسے ایک ناواجب ٹیکس لگا ہوا ہے جلدی گلے سے اتر جاوے.بعض لوگ نماز تو جلدی پڑھ لیتے ہیں لیکن اس کے بعد دُعا اس قدر لمبی مانگتے ہیں کہ نماز کے وقت سے دُگنا تگنا وقت لے لیتے ہیں حالانکہ نما ز تو خود دُعا ہے جس کو یہ نصیب نہیں ہے کہ نماز میں دُعا کرے اس کی نماز ہی نہیں.چاہئے کہ اپنی نماز کوڈ عا سے مثل کھانے اور سرد پانی کے لذیذ اور مزیدار کرلو.ایسانہ ہو کہ اس پر ویل ہو.“ (ملفوظات جلد ششم صفحه ۳۷۰) اگر دُعا نہ ہوتی تو کوئی انسان خداشناسی کے بارہ میں حق الیقین تک نہ پہنچ سکتا.دُعا سے الہام ملتا ہے.دُعا سے ہم خدا تعالیٰ سے کلام کرتے ہیں.جب انسان اخلاص اور توجہ اور محبت اور صدق اور صفا کے قدم سے دُعا کرتا کرتا فنا کی حالت تک پہنچ جاتا ہے تب وہ زندہ خدا اس پر ظاہر ہوتا ہے جولوگوں سے پوشیدہ ہے.“ ایام اصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۳۹) دُعا کے ساتھ عذاب جمع نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنے نفسوں کا مطالعہ کرو.ہر ایک بدی کو چھوڑ دو لیکن بدیوں کا چھوڑ نا کسی کے اپنے اختیار میں نہیں.اس واسطے 17
دعائے مستجاب.راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر تہجد میں خدا کے حضور دُعائیں کرو.وہی تمہیں پیدا کرنے والا ہے.خلقكم وما تعملون.پس اور کون ہے جوان بدیوں کو دُور کرے.نیکیوں کی توفیق تم کو دے.بعض لوگ کم ہمت ہوتے ہیں.تم ایسے مت بنو کسی کی پرواہ نہ کرو.خواہ جذبات نفسانی پہلے سے بھی زیادہ جوش ماریں.پھر بھی مایوس نہ ہو.یقیناً خدا رحیم کریم اور حلیم ہے وہ دُعا کرنے والے کو ضائع نہیں کرتا.تم دُعا میں مصروف رہو اور اس بات سے مت گھبراؤ کہ جذبات نفسانی کے جوش سے گناہ صادر ہوتے ہیں وہ خدا سب کا حاکم ہے وہ چاہے تو فرشتوں کو بھی حکم کر سکتا ہے کہ تمہارے گناہ نہ لکھے جائیں.دیکھو دُعا کے ساتھ عذاب جمع نہیں ہوتا مگر دُعا صرف زبان سے نہیں ہوتی بلکہ دُعاوہ ہے کہ جومنگےسومر رہے، مرےسومنگن جا ہر ایک جو دُعا کرتا ہے اُسے ضرور دیا جاتا ہے.آپ کو تکلفانہیں چاہئے اور بدظن نہیں ہونا چاہیئے.“ اخبار بدر ۱۰ جنوری ۱۹۰۷ء.ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۱۰۷ حاشیہ ) خدا تعالی کی ذات سے مایوس ہو کر دعا کا طریق ترک نہیں کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: وو...جیسا اثر دعا میں ہے ویسا اور کسی شے میں نہیں مگر دعا کے واسطے پورا جوش معمولی باتوں میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ معمولی باتوں میں تو بعض دفعہ دُعا 18
دعائے مستجاب.کرنا گستاخی معلوم ہوتی ہے اور طبیعت صبر کی طرف راغب رہتی ہے ہاں مشکلات کے وقت دُعا کے واسطے پورا جوش دل میں پیدا ہوتا ہے تب کوئی خارق عادت ظاہر ہوتا ہے.خدا کی رحمت سے نا اُمید نہیں ہونا چاہئے اس کے اذن کے بغیر تو کوئی جان بھی نہیں نکل سکتی خواہ کیسے ہی شدید عوارض ہوں.ناامید ہونے والا بت پرست سے بھی زیادہ کا فر ہے.“ (الحکم ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۵ء) 00 19
دعائے مستجاب.دُعا کی حقیقت دُعا کی حقیقت و فلسفہ سمجھاتے ہوئے حضور بعض بہت پیاری مثالوں کے ذریعہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مومن کی نیت اور اس کے ارادہ کو دیکھتا ہے.یہ نہیں دیکھتا کہ اس کی ظاہری حالت کیا ہے اور اس کے منہ سے الفاظ کیا نکل رہے ہیں فرمایا : وو..مثنوی میں مولانا روم نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ جنگل میں سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک گڈریا بیٹھا ہے اور وہ اپنی گدڑی میں سے جوئیں نکالتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ یا اللہ اگر تو مجھے مل جائے تو میں اپنی بکریوں کا تازہ تازہ دودھ تجھے پلاؤں.اے اللہ اگر تو مجھے مل جائے تو میں تیرے پیر دباؤں.تجھے کانٹے چبھ جائیں تو میں تیرے کانٹے نکالوں.تجھے جوئیں پڑ جائیں تو تیرے کپڑوں میں سے جوئیں نکالوں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ سنا تو اُسے سوٹا مارا اور کہا احمق خدا کی ہتک کرتا ہے.کیا اللہ بھی بھوکا اور پیاسا ہوسکتا ہے.وہ تو رازق ہے سارے جہان کو روزی دیتا ہے لیکن اگر اسے بھوک بھی لگے تو کیا وہ تیری بکریوں کا دودھ ہی بیٹے گا اور وہ تو طاقتور خدا ہے مگر تیرے نزدیک وہ ننگے پاؤں پھر رہا ہے اور اُسے جوتی تک نصیب نہیں اور کانٹے اس کے پاؤں میں چبھ جاتے ہیں.پھر تو یہ سمجھتا ہے کہ تیری طرح اس نے سڑی ہوئی 20
دعائے مستجاب.گدڑی پہنی ہوئی ہے اور اس میں جوئیں پڑی ہوئی ہیں وہ بے چارہ تو جوش محبت میں اس طرح پیار کی باتیں کر رہا تھا کہ گویا خدا ایک معصوم بچہ ہے جو اس نے اپنی گود میں اٹھایا ہوا ہے.مگر جب اُسے سوٹا پڑا تو دل پکڑ کر اور مایوس ہو کر بیٹھ گیا.اسی وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر الہام نازل کیا کہ اے موسیٰ“ تو نے آج ہمارے بندے کا دل بہت دکھا یا.اے موسی" تو اپنے علم کے مطابق ہم سے محبت کرتا ہے اور وہ اپنے علم کے مطابق ہم سے محبت کا اظہار کر رہا تھا.تیرا کیا حق تھا کہ تو اُس کی باتوں میں دخل دیتا.ہمیں تو اُس کی یہی باتیں پیاری لگ رہی تھیں.“ دوسری مثال بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے.ایک بندہ اللہ تعالیٰ سے دُعا کر رہا تھا کہ تو میرا اللہ ہے اور میں تیرا بندہ ہوں مگر دُعا کرتے کرتے اُسے کچھ ایسا جوش آیا کہ وہ حالت بے اختیاری میں کہنے لگا.اے اللہ میں تیرا رب ہوں اور تو میرا بندہ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب اس نے یہ کہا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی یہ بات بڑی ہی پیاری معلوم ہوئی کیونکہ جوش محبت میں اُسے یہ ہوش ہی نہ رہا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے اور کیا کہہ رہا ہے.“ (الفضل ۵ نومبر ۱۹۴۱ء) وہی دُعا مقبول ہے جو جذبہ اور تڑپ کے ساتھ کی جائے.اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: 21
دعائے مستجاب.احمدیت چاہتی ہے کہ ہم ہر قسم کی قربانی کریں.آج کل جنگ کی وجہ سے ( جنگ عظیم دوم.ناقل ) چونکہ خطرہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے.اس لئے قربانیوں میں بھی پہلے سے بہت زیادہ حصہ لینے کی ضرورت ہے مگر ہمارے پاس نہ فوجیں ہیں.نہ تو ہیں ہیں.نہ ہوائی جہاز ہیں.نہ گولہ بارود ہے.ہمارے پاس صرف دُعا کا ہتھیار ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سے بڑا ہتھیار اور کوئی نہیں بشرطیکہ دُعا اخلاص کے ساتھ کی جائے.بشرطیکہ انسان کے دل میں تڑپ ہو.بشرطیکہ اسے یہ فہم ہو کہ احمدیت خطرے میں ہے.اگر یہ حالت ہو تو دعاؤں کی قبولیت بہت زیادہ یقینی ہو جاتی ہے.لیکن یونہی ہاتھ اُٹھا لینا یا زبان سے چند الفاظ کہہ دینا دُعا نہیں ہوتی.ایسی دُعا انسان کے منہ پر ماری جاتی ہے.“ (الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۴۱ء) دُعا کے سلسلہ میں بعض لوگوں کو یہ الجھن پیش آتی ہے کہ کیا سب دُعائیں قبول ہوتی ہیں یا نہیں؟ اور یہ بھی کہ بہت ممکن ہے کہ کوئی دُعا کرنے والا اپنی لاعلمی یا کسی اور وجہ سے کسی ایسے امر کیلئے دُعا کر رہا ہو جو اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ یا مفاد عامہ کے خلاف ہو تو کیا ایسی دُعا قبول ہوتی ہے یا نہیں ؟ اگر ایسی دُعا قبول نہیں ہوتی تو خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کا کیا مطلب ہے کہ تم مجھ سے دُعا مانگو.میں اُسے قبول کروں گا.ایسے سوالوں کے جواب میں حضور فرماتے ہیں: وو " جب ایک شخص دُعا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کے سامنے جاتا ہے اور وہ پوری طرح اپنا نفع اور نقصان سمجھ کر جاتا ہے تو ایسی حالت میں اگر وہ کوئی 22
دعائے مستجاب.غلطی بھی کر بیٹھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس طرح قبول نہیں کرتا جس طرح وہ دُعا مانگ رہا ہوتا ہے بلکہ اس رنگ میں قبول کرتا ہے جس رنگ میں اس دُعا کا قبول ہونا اس کے لئے بہتر ہوتا ہے.اس طرح گو بعض دفعہ اسے یہ خیال گزرتا ہے کہ میری دُعا قبول نہیں ہوئی مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی دُعا قبول ہو چکی ہوتی ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ اس کے لئے وہ امر ظاہر کرتا ہے جو اس کے لئے مفید ہوتا ہے گو بظاہر وہ اس کی مراد کے خلاف ہی کیوں نظر نہ آئے.مثلاً ایک شخص کا بیٹا سخت بیمار ہے اور وہ دُعا کرتا ہے کہ یا اللہ میرے بیٹے کو صحت دے دے.اب بظاہر دعا اسی رنگ میں پوری ہونی چاہئے کہ اس کا بیٹا تندرست ہو جائے مگر اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات ہوتی ہے کہ اگر اس کا بیٹا زندہ رہا تو وہ بڑا ہوکر چور یا ڈاکو یا فسادی بنے گا اور اس طرح اپنے باپ اور خاندان کی بدنامی کا موجب ہوگا.اس وقت جب وہ یہ دُعا کر رہا ہوگا کہ یا اللہ میرے بیٹے کو صحت دے.اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو حکم دے گا کہ یہ میرا بندہ مجھے بڑا پیارا ہے ہم نے اس کی دعا قبول کرلی ہے جلدی جاؤ اور اس کے بیٹے کی روح قبض کرلوتا ایسا نہ ہو کہ بڑا ہو کر وہ خود بھی گنہ گار بنے اور اپنے خاندان کی بدنامی کا بھی موجب ہے.پس وہ دُعا تو یہ کر رہا ہوتا ہے کہ میرا بیٹا بچ جائے مگر چونکہ خدا یہ جانتا ہے کہ اگر یہ زندہ رہا تو بدنامی کا موجب ہوگا، اس لئے وہ دُعا کو اس رنگ میں قبول کر لیتا ہے کہ اسے وفات دے دیتا ہے اور اس طرح اسے بدنامی سے بچا لیتا ہے.دنیا 23
دعائے مستجاب.سمجھتی ہے کہ اس کی دُعا قبول نہیں ہوئی مگر واقعہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی دُعا قبول ہو چکی ہوتی ہے.پس تم اس بات سے مت ڈرو کہ تمہارا مستقبل کیا ہے مستقبل کا کام خدا سے تعلق رکھتا ہے.تمہارا کام ظاہر پر فیصلہ کرنا ہے...پس دعائیں کرو اور اس شان سے کرو جس شان کا یہ فتنہ ہے (جنگ عظیم ثانی.ناقل ) یہ نہیں کہ کسی وقت خیال آیا تو دُعا کر لی بلکہ اتنی توجہ اور اتنے درد سے دُعائیں کرو کہ تمہاری نیندیں تم پر حرام ہو جائیں.تم بیٹھو تو اس وقت بھی.تم لیٹو تو اس وقت بھی.اٹھو تو اس وقت بھی.غرض ہر حرکت اور ہر سکون کے وقت دُعائیں تمہاری زبان پر جاری رہیں.میرا تجربہ ہے کہ جب کسی دُعا کی طرف میری اتنی توجہ ہو کہ جب میں سوکر اُٹھوں تو اُس وقت بھی وہ دُعا میری زبان پر جاری ہو تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ اب وہ دُعا قبول ہوکر رہے گی کیونکہ خدائی تصرف کے ماتحت وہ میری زبان پر جاری ہوتی ہے.جب میں سوجا تا ہوں تو وہ دُعا برابر میرے قلب سے نکلتی رہتی ہے اور جب میں اُٹھتا ہوں تو وہ میری زبان پر جاری ہوتی ہے.اس وقت میں سمجھ لیتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کی اٹل تقدیر ہے.پس ایسی ہی دعائیں کرو.سوتے ، جاگتے ، چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے، غرض ہر حالت میں گڑ گڑا گڑ گڑا کر دعائیں کرو.تا اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان فتنوں کو جلد سے جلد دُور کر دے.“ (الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۴۱ء) 24
دعائے مستجاب.دعا.ہمارے بچاؤ کا سامان حضور کے مندرجہ ذیل خطبہ میں دُعا سے متعلق متعد دضروری امور کسی قدر تفصیل سے نہایت مؤثر و دلکش رنگ میں بیان ہوئے ہیں.اس کے اقتباسات الگ الگ عنوانوں میں درج کرنے کی بجائے یہ کسی قدر لمبا اقتباس یکجائی صورت میں اس یقین کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے کہ اس طرح اس کی افادیت اور دلچسپی میں اضافہ ہوگا: اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے اور اس کی تمام مخلوق میں یہ قاعدہ ہمیں نظر آتا ہے کہ اس نے ہر ایک مخلوق کو اس کے حالات کے مطابق ایک بچاؤ کا سامان دیا ہوا ہے.جانوروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض کو اللہ تعالیٰ نے یسے پنجے دیئے ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنے حملہ کرنے والوں سے اپنی حفاظت کر سکتے ہیں.بعض کو اس نے ایسی چونچیں دی ہیں جن سے وہ اپنا بچاؤ کر لیتے ہیں.بعضوں کو اُس نے ڈنگ ایسے دیئے ہیں جن سے وہ اپنی حفاظت کر لیتے ہیں.گھونگھا کتنا نازک ہوتا ہے اس کے ننگے جسم پر پاؤں پڑ جائے تو وہ فوراً مر جائے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے سخت خول بنا دیا ہے جس کے اندر وو چھپ جاتا ہے.مچھلی کتنا نازک جانور ہے مگر دیکھو اللہ تعالیٰ نے اسے کیسا سخت کانٹا دیا ہے.جب وہ کانٹا مارتی ہے تو بڑے سے بڑا آدمی بلبلا اُٹھتا ہے.بلی گھر یلو جانور ہے مگر عورتیں اور بچے بالعموم اس سے 25
دعائے مستجاب.ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں آنکھیں نہ نوچ لے.اسے اللہ تعالیٰ نے چھلانگ لگانے کی طاقت اور تیز پنج دیئے ہیں.اور جب وہ چھلانگ لگا کر کسی پر حملہ کرے تو وہ اپنا بچاؤ نہیں کرسکتا.بٹیر تیتر وغیرہ کیسے چھوٹے چھوٹے پرندے ہیں لیکن جب کوئی شخص انہیں پنجرے سے نکالنے لگے اور وہ چونچ ماریں تو آدمی گھبرا کر ہاتھ باہر کھینچ لیتا ہے.تو کوئی چیز ایسی نہیں جس کی حفاظت کا سامان اللہ تعالیٰ نے نہ کیا ہو.انسان ہی ہے جس کی حفاظت کا کوئی ظاہری سامان نہیں.یعنی اسے نہ تو اللہ تعالیٰ نے ویسے ہاتھ دیئے ہیں جیسے بعض جانوروں کو پنجے نہ ویسے ہونٹ دیئے ہیں جیسے بعض کو چونچ.نہ ویسی لاتیں دی ہیں جیسی دوڑ کر جان بچانے والے جانوروں کو دی ہیں.نہ اس کا قد اتنا چھوٹا بنایا ہے کہ وہ چھپ کر اپنا بچاؤ کر سکے...بے شک انسان کو دماغی قابلیت دی ہے مگر اس کے نتیجہ میں ایسی قومیں بھی ہیں جنہوں نے دماغی طاقتوں سے کام لیتے ہوئے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا اور بعض دوسری قوموں کو محروم کر دیا.دنیا میں باقی جو جاندار ہیں ان میں سے کسی ایک کو کبھی بحیثیت قوم کوئی حفاظت کے سامان سے محروم نہیں کر سکتا.کسی بڑے سے بڑے بادشاہ میں یہ طاقت نہیں کہ وہ حکم دے سکے کہ آئندہ کیلئے کبوتروں یا چڑیوں کے پر نہیں ہوں گے...مگر دنیا میں ایسے انسان ضرور ہیں جو دوسرے انسانوں کو ان کی حفاظت کے سامانوں سے محروم کر دیتے ہیں.اس لئے سوال یہ ہے کہ جب حالات ایسے پیدا ہو سکتے ہیں کہ قوموں کی 26
دعائے مستجاب.قو میں حفاظت کے ظاہری سامان کے استعمال سے محروم کی جاسکتی ہیں تو ایسے لوگ کیا کریں اس کے تو یہ معنی ہوئے کہ کووں، تیتروں، بٹیروں اور کبوتروں کی حفاظت کے سامان تو ہیں سانپ اور بچھو کے بچاؤ کےسامان قدرت نے رکھے ہیں مگر انسان کو ایسا بنایا ہے کہ اس کے ایک طبقہ کو حفاظت کے سامانوں سے محروم کیا جاسکتا ہے.مگر کیا اللہ تعالیٰ ایسا کر سکتا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور پھر اُسے حفاظت کے سامانوں سے محروم کر دیا ہو.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ بے انصاف نہیں اس لئے ہر قوم کی حفاظت اور ترقی کے سامان مہیا کر دیئے ہیں.پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ ممکن ہے کہ بعض قو میں دوسری قوموں کو ان سامانوں سے محروم کر دیں تو پھر ان کی حفاظت کا کیا سامان ہے.قرآن کریم نے ایسے لوگوں کی حفاظت کا سامان بھی بتا یا چنانچہ فرمایا: أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.(البقره: ۱۸۷) غالب اقوام کمزوروں کو حفاظت کے سامانوں سے محروم کر دیتی ہیں اور ان کو دبا لیتی ہیں ، بہتا کر دیتی ہیں.گویا ان کے پر کاٹ دیتی ہیں اور یہ افراد کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور قوموں اور ملکوں کے ساتھ بھی جانوروں کے ساتھ 27
دعائے مستجاب.کوئی یہ سلوک نہیں کر سکتا.یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی دس میں پچاس کبوتروں کے پر کاٹ دے.یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو مچھلی پکڑی جائے اس کے کانٹے اڑا دیئے جائیں.یہ بھی ممکن ہے کہ جو سانپ پکڑا جائے اس کی کچلیاں توڑ دی جائیں مگر یہ ممکن نہیں کہ کسی ملک کے سارے کبوتروں کے پر کاٹے جاسکیں.کسی ملک کے پانیوں میں رہنے والی سب مچھلیوں کے کانٹے اڑا دیئے جائیں اور کسی ملک کے سارے سانپوں کو ان کی زہر کی کچلیوں سے محروم کر دیا جائے مگر انسانوں کے متعلق یہ ممکن ہے اس لئے اس کے واسطے اللہ تعالیٰ نے علیحدہ طاقت بھی عطا فرمائی ہے.چنانچہ فرمایا.جب ایسی حالت ہو اس وقت ایسے لوگوں کی توپ ، بندوق ، مشین گن اور ہوائی جہاز دُعا ہے.دُعا ہی ایسے وقت میں اس کا ہتھیار بن جاتا ہے.وہی اس کی حفاظت کا سامان بن جاتا ہے.قرآن مجید نے فرمایا ہے:آمن يُجيبُ المُضطَرٌ إذا دعاه یعنی کون ہے جو مضطر اور بے بس کی دُعا کو سنتا ہے جس کی حفاظت کے سارے سامان اس سے چھین لئے جاتے ہیں اس کی آواز کو کون سنتا ہے؟ فرمایا: ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انبیاء اور ان کی جماعتیں دنیا کے ظلموں سے تنگ آجاتی ہیں اور گھبرا کر پکارتی ہیں کہ متی نصر اللہ یعنی ہمارے سامان جاتے رہے.ہمارے ہتھیار چھین لئے گئے.خدا تعالیٰ کی مدد ہماری نصرت کب کرے گی.اب خدا تعالیٰ کہاں ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا 28
دعائے مستجاب.ہے جب یہ آواز انسان کے دل سے نکلتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الا ان نصر اللہ قریب یعنی سن لو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد قریب آگئی ہے.یہ صحیح ہے کہ انسانی نسل بعض اوقات ان سامانوں سے محروم ہو جاتی ہے جو بظاہر حفاظت کیلئے ضروری ہے مگر اس وقت ان کیلئے دُعا کا ہتھیار ہے.انبیاء کی جماعتوں کے قیام میں اللہ تعالیٰ کو چونکہ قدرت نمائی مقصود ہوتی ہے اور وہ چونکہ بتانا چاہتا ہے کہ میں نے ہی انہیں قائم کیا ہے اور میں ہی ان کی حفاظت کروں گا اس لئے وہ ان کو ظاہری سامانوں سے محروم کر دیتا ہے تا وہ ایک ہی ہتھیار کو سامنے رکھیں یعنی خدا تعالیٰ کی امداد کا ہتھیار.ہماری جماعت بھی اللہ تعالیٰ کے نبی اور مامور کے ذریعہ قائم ہوئی ہے اس لئے سنت اللہ کے مطابق خاص طور پر کمزور ہے.بے شک ہندوستان میں باقی قو میں بھی ظاہری ہتھیاروں سے محروم ہیں.ہندو ،سکھ دوسرے مسلمان کسی کو بھی اجازت نہیں لیکن پھر بھی ان کو ایک ہتھیار حاصل ہے یعنی جتھہ کا ہتھیار مگر ہم اس سے بھی محروم ہیں.ان کے بڑے بڑے جتے ہیں اور حکومت کو ان کو خوش رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے.دوسری حکومتیں بھی ان کو خوش رکھنا چاہتی ہیں مگر ہمارا کوئی جتھہ بھی نہیں اور اس لئے ہمیں خوش رکھنے کی کسی کو بھی ضرورت نہیں.کہتے ہیں کسی بیل کے سینگ پر کوئی مچھر بیٹھ گیا تھا.تھوڑی دیر کے بعد مودی کہنے لگا میاں بیل میں تمہارے سینگ پر بیٹھا ہوں، اگر تمہیں تکلیف 29
دعائے مستجاب.محسوس ہوتی ہو تو میں اُڑ جاؤں.بیل نے کہا مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں لگا کہ تم بیٹھے کب ہو.یہی حالت ہماری ہے.ہمارا کھڑا ہونا اور بیٹھنا کسی کو محسوس بھی نہیں ہوتا.اس لئے کہ ہمارا جتھہ کوئی نہیں.دنیا جس چیز کا ادب و احترام کرتی ہے وہ ہمارے پاس نہیں.دنیا میں یا تو طاقت وقوت کا احترام کیا جاتا ہے اور یا پھر جتھوں کا.جتھے والی قو میں بھی جب کھڑی ہو جائیں تو حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر دیتی ہیں مگر ہمارے پاس تو یہ بھی نہیں.اس لئے ہمارا ہتھیار صرف دعاؤں کا ہی ہتھیار ہے اور ہمیں دعاؤں پر خاص زور دینا چاہئے.ہمارا واحد ہتھیار ڈھا ہے اور جس شخص کے پاس ایک ہی ہتھیار ہو وہ اگر اسے بھی پھینک دے تو اس سے زیادہ بدنصیب اور کون ہوسکتا ہے؟ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ خذوا حذرکم یعنی اپنے ہتھیار ہمیشہ اپنے پاس رکھا کرو.جن کے پاس تلوار میں اور بندوقیں ہیں ان کو تلوار میں اور بندوقیں اپنے پاس رکھنے کا حکم ہے.لیکن جن کے پاس یہ نہیں ان کیلئے یہی حکم ہے کہ وہ ہمیشہ دعاؤں میں لگے رہیں.یہ بات ظاہر ہے کہ ہتھیار اسی صورت میں مفید ہوتا ہے جب اسے استعمال کیا جائے.کسی شخص کے پاس اگر اچھی سے اچھی تلوار ہو لیکن وہ اسے دور پھینک دے اور دشمن حملہ کرے تو وہ تلوار اُسے کیا فائدہ دے سکتی ہے کسی کے پاس بہت اعلی بندوق ہو لیکن وہ غلافوں میں بند گھر میں پڑی ہو اور ڈاکو اسے جنگل میں گھیر لیں تو وہ بندوق اس کے کس کام کی.اسی طرح کسی کے پاس تو ہیں اور ہوائی 30
دعائے مستجاب.جہاز بھی ہوں لیکن وہ صندوقوں میں بند ہوں اور ان کو استعمال میں نہ لایا جائے تو ان کا کیا فائدہ.اسی طرح دُعا گو ایک بہت ہی زبر دست ہتھیار ہے مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ مانگی جائے.جس طرح تلوار ، بندوق ، توپ وغیرہ ہتھیاروں کیلئے ضروری ہے کہ ان کو استعمال کیا جائے جس طرح ہم اس وقت مفید ہو سکتے ہیں جب وہ دشمن پر پھینکے جائیں.اسی طرح دُعا بھی اسی وقت کام دے سکتی ہے جب وہ مانگی جائے.صرف منہ سے کہتے رہنا کہ ہمارے پاس دُعا کا ہتھیار ہے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.اس سے فائدہ اُٹھانے کیلئے ضروری ہے کہ رات دن دُعاؤں میں لگے رہیں.یہ دن بہت نازک ہیں.ایسے نازک کہ اس سے زیادہ نازک دن دنیا پر پہلے کبھی نہیں آئے اور پھر ہمارے جیسی نہتی اور کمزور قوم کیلئے تو یہ بہت ہی نازک ہیں.ایک جہاز بھی آکر اگر بم پھینکے تو ہم تو اس کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے....پس یہ ایسے خطر ناک حالات ہیں کہ اب بھی جو شخص اس واحد ہتھیار کو جو ہمارے پاس ہے استعمال نہ کرے اس سے زیادہ غافل کون ہوسکتا ہے.پس دن رات یہی فکر رہنا چاہئے.دل پر ایسا بوجھ ہو کہ اضطرار کی حالت طاری ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ ہماری دُعاؤں کو سن لے مگر میں نے دیکھا ہے کہ غفلت اور سنگدلی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بعض لوگ ایسے مزے لے لے کر جنگ کی خبریں بیان کرتے ہیں کہ فلاں شہر پر یوں حملہ ہوا اور 31
دعائے مستجاب.فلاں جگہ لوگ اس طرح مارے گئے.ان کو سوچنا چاہئے کہ جو مارے جاتے ہیں وہ بھی کسی کے باپ ہیں، کسی کے بیٹے ہیں اور کسی کے بھائی ہیں.کوئی اپنے پیچھے روتی ہوئی بہو کوئی ماں اور کوئی یتیم بچے چھوڑ رہا ہے.ان حالات میں ان خبروں کو پڑھتے ہوئے تو یوں محسوس ہونا چاہئے کہ گویا کسی قریبی رشتہ دار کی لاش پر انسان کھڑا ہو.یہ گریہ وزاری کرنے کے دن ہیں.ایسے زندہ خدا کی موجودگی میں ہم ان بلاؤں سے بچنے کی کوشش نہ کریں تو ہم سے زیادہ غافل کون ہوسکتا ہے.دنیا کو اپنے اسباب اور جنگ کے سامانوں یعنی تو پوں ، مشین گنوں اور ہوائی جہازوں پر بھروسہ ہے مگر ہمارا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہے وہ لوگ ان سامانوں کی طرف دوڑ رہے ہیں.انگلستان کیا اور جرمنی کیا جاپان کیا اور امریکہ کیا.سب مرد اور عورتیں دن اور رات بم، تو ہیں، ہوائی جہاز اور دوسرے سامان جنگ بنانے میں لگے ہوئے ہیں.مگر ہمارا کام یہ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے فضلوں کے بنانے میں لگ جائیں جس طرح وہ لوگ دن رات چھوٹے بھی اور بڑے بھی یہ سامان بنانے میں لگے ہوئے ہیں.مگر ہمارا کام یہ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے فضلوں کے بنانے میں لگ جائیں جس طرح وہ لوگ دن رات چھوٹے بھی اور بڑے بھی یہ سامان بنانے میں لگے ہوئے ہیں.اسی طرح ہم بھی سب کے سب رات اور دن خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگنے میں لگ جائیں کیونکہ جب تک مقابلہ کے سامان ویسے ہی زبر دست نہ ہوں کا میابی نہیں ہوسکتی.ہر دُعا 32
دعائے مستجاب.توپ و بندوق کا مقابلہ نہیں کر سکتی.ضروری ہے کہ دُعا بھی اتنی ہی شاندار ہو جتنے سامان جنگ ہیں.جس طرح ان سامانوں کے بنانے میں ان لوگوں کا زور لگ رہا ہے اسی طرح دعائیں کرنے میں ہمیں زور لگانا چاہئے تا اللہ تعالی اسلام اور احمدیت کی ان چیزوں سے حفاظت کرے.یا درکھو! ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اللہ تعالیٰ کی مقدس امانت اور اس کے تازہ شعائر ہماری حفاظت میں ہیں.ہم کس طرح ان کی حفاظت کر سکتے ہیں اگر ہمارے مقابلہ پر ایک بھی بم گرے تو ہم کیا کر سکتے ہیں اور ان کو کیسے بچا سکتے ہیں.ہم اسی وقت حفاظت کر سکتے ہیں جب ہم آسمان پر ان سے بھی بہت زیادہ سخت بم بنانے لگ جائیں.وہ طیارے وہ بحری اور ہوائی جہاز اور وہ گولہ بارود تیار کریں جو ان بموں، تو پوں، جہازوں اور گولوں کو اڑا کر پھینک دیں اور یہ چیزیں ہم آسمان پر دُعاؤں کے ذریعہ ہی تیار کر سکتے ہیں اور دعائیں بھی وہ جو رات اور دن گھبراہٹ ، کرب اور اضطراب سے کی جائیں جو اسی کوشش اور التزام سے کی جائیں جس طرح دوسرے لوگ سامان تیار کرتے ہیں.جب تک ہماری یہ حالت نہ ہو مقابلہ میں کامیابی کی امید فضول ہے.ان دنوں کو غفلت میں نہ گزار وخبریں پڑھو تو چاہیئے کہ تمہارے دل کانپ جائیں اور ان سے عبرت حاصل کرو.اس طرح نہ ہو جس طرح قرآن کریم میں ہے کہ کافر لوگ جب عبرت کے سامان دیکھتے ہیں تو اندھوں کی طرح ان پر سے گزر جاتے ہیں.چاہیئے کہ 33
دعائے مستجاب.رات دن گریہ وزاری میں گزاریں آج دو زمانہ نہیں کہ منسوز یادہ اور روڈ کم.انسان کو چاہئے کہ آج رُوئے زیادہ اور جنسے کم بلکہ چاہیئے کہ انسان روئے ہی روئے اور ہنسی اس کے لبوں پر بہت کم ہی آئے تا آسمان سے وہ سامان پیدا ہوں جو ہماری بھی اور دوسرے لوگوں کی بھی کہ وہ بھی ہمارے بھائی ہیں، ان تباہ گن سامانوں سے حفاظت کر سکیں.ذرا غور کرو کہ ایک منٹ میں آکر گولہ لگتا ہے یا مائن پھٹتی ہے اور چشم زدن میں ہزار دو ہزار انسان سمندر کی تہہ میں پہنچ کر مچھلیوں کی خوراک بن رہے ہوتے ہیں.اگر انسان کو ایک لاش بھی کہیں باہر پڑی ہوئی مل جائے تو دل دہل جاتا ہے مگر یہاں تو ہزاروں لاشیں سمندر میں غرق ہو رہی ہیں.انگریزی بحری جہازوں کے ڈوبنے کی اوسط ہفتہ وار ساٹھ ہزارٹن ہے اور بعض دفعہ تو دولاکھ بیس ہزارٹن تک جہاز بھی ڈوبے ہیں...ساٹھ ہزارٹن جہازوں کے غرق ہونے کے معنی یہ ہوئے کہ چھ ہزار جانیں ہر ہفتہ سمندر کی تہہ میں پہنچ جاتی ہیں اتنے برطانوی لوگ گویا ہر ہفتہ ڈوبتے ہیں....مگر وہ اُمید نہیں چھوڑتے.پھر کتنے افسوس کا مقام ہو گا اگر ہم جو زندہ قوم ہیں اُمید چھوڑ دیں.پس بہت گریہ وزاری کرو.یہ مت سمجھو کہ ہم آرام سے ہیں.ایک زمیندار جو اپنی زمین میں ہل چلاتا ہے یہ مت سمجھے کہ مجھ تک کون پہنچ سکتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ ہل ہی میری دنیا ہے.باقی دنیا سے مجھے کیا سروکار.بموں نے اب دُورو نزدیک کا سوال ہی نہیں رہنے دیا.کیا پتہ کہ کل اس کا ہل سلامت رہ سکے یا 34
دعائے مستجاب.نہیں اور کون کہہ سکتا ہے کہ کل اس کے ماں باپ اور بیوی بچے اس کی آنکھوں کے سامنے زخمی نہ پڑے ہوں گے.پس دُعائیں کرو.دعائیں کرد...اور دعائیں کردو...اتنی دعائیں کرو کہ عرش الہی ہل جائے اور خدا تعالیٰ کا فضل دنیا کو بھی اور ہمیں بھی مل جائے.بے شک یہ عبرت کے سامان ہیں جن سے لوگوں کو ہدایت ہوسکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ دنیا کو بغیر تباہ کئے بھی ہدایت دے سکتا ہے.پس میں آج یہ باتیں واضح طور پر بیان کر کے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوتا ہوں.گواس کا یہ مطلب نہیں کہ پھر کبھی نہیں کہوں گا.مگر آج میں نے وضاحت سے بتا دیا ہے کہ یہ دن بہت گھبراہٹ اور خطرہ کے دن ہیں.ان کو رو رو کر گزارو اور ایسا اضطرار تمہارے اندر ہونا چاہئے کہ کھانا مشکل ہو جائے اور پانی حلق میں پھنسے اور نیندیں حرام ہو جائیں اور تم سے ایسا اضطرار ظاہر ہو کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کر دے کہ اس مومن کے اضطرار نے میرے عرش کو ہلا دیا ہے اور وہ...دنیا پر رحم ( الفضل ۴ جون ۱۹۴۱ء) فرمائے.“ حقیقی دعائیں کس طرح کی ہوتی ہیں.اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: ”ہماری دعائیں حقیقی دعائیں ہونی چاہئیں جس طرح دنیا میں اور رسمیں ہیں جنہیں ادا کیا جاتا ہے.اسی طرح دُعائیں بھی لوگ رسمی طور پر کرتے ہیں.جس طرح دنیا دار لوگ اپنے جلسوں کے افتتاح کے موقعہ پر بعض قومی 35
دعائے مستجاب.رسوم ادا کرتے ہیں اسی طرح بعض مذہبی لوگ اپنے جلسوں کا افتتاح دُعا کے ساتھ کرتے ہیں مگر ان کی دُعائیں ان کے ہونٹوں سے نیچے قلوب سے نہیں نکل رہی ہوتیں اور پھر ان کے ہاتھوں کے فاصلے سے آگے پرواز نہیں کرتیں.ان کی دُعائیں زبانوں سے نکل کر ہونٹوں تک آکر رہ جاتی ہیں نہ ان کے دل سے نکلتی ہیں نہ خدا تعالیٰ کے عرش کو ہلاتی ہیں.وہ ایک جسم ہوتی ہیں.بلا روح کے یا ایک تلوار ہوتی ہے جس کی دھار بالکل کند ہوتی ہے بلکہ اگر میں قرآن کے الفاظ کی ترجمانی کروں تو میں کہوں گا کہ وہ ایسی تلوار ہوتی ہیں جس کی دھار تو گند ہوتی ہے جو دشمن پر پڑتی ہے لیکن اس کی دوسری طرف بہت تیز ہوتی ہے جو ایسی تلوار چلانے والے کو کاٹ دیتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کہتا ہے: فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ اللَّ وہ دُعا بجائے اس کے کہ کوئی مفید اثر پیدا کرے اسی کو کاٹ دیتی ہے جو ایسی دُعا کرتا ہے کیونکہ وہ خداوند خدا زمین و آسمان کے خالق خدا سے ہنسی اور تمسخر ہوتا ہے.پس اے میرے دوستو ، عزیز و اور بھائیو ہماری دُعا ہمارے دلوں سے نکلے.خدا تعالیٰ پر یقین اور ایمان رکھتے ہوئے نکلے تا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہو.ہمارے لئے بابرکت ہو اور ہماری کوششیں اور محنتیں ضائع نہ ( الفضل یکم جنوری ۱۹۲۹ء) ہوں.66 36
دعائے مستجاب.دعا کے حقیقی معنی حقیقی معنوں میں دُعا کسے کہتے ہیں؟ اس اہم سوال کا عارفانہ جواب حضور کے الفاظ میں درج ذیل ہے: ” جب زمین کے حالات بھی موافق ہوں اور آسمان کے حالات بھی موافق ہوں تو اس وقت دُعا صرف نام کی چیز ہوتی ہے وہ دُعا بھلا لوگوں کے دلوں پر کیا اثر ڈال سکتی ہے اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور طاقت کو وہ کیا ظاہر کرسکتی ہے.ریل کا انجن جارہا ہے ایک شخص کا پاؤں پھسلتا ہے اور وہ انجن کے آگے جا پڑتا ہے اس وقت اگر کوئی دشمن پاس سے گزر رہا ہو اور وہ دُعا کرنے لگ جائے کہ یا اللہ یہ شخص مر جائے تو بیشک وہ مر جائے گا مگر اس دُعا کا لوگوں پر کیا اثر ہو سکتا ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ کوئی معجزہ ظاہر ہوا ہے.ہر کوئی کہے گا کہ پاگل تجھے دُعا کرنے کی کیا ضرورت ہے وہ تو پہلے ہی مر رہا تھا.ایک شخص کو ہیضہ ہو جاتا ہے.طاعون ہو جاتی ہے لوگ ان مرضوں سے بچ بھی جاتے ہیں مگر اکثر ایسے ہی ہوتے ہیں جو مر جاتے ہیں.اب اگر کسی شخص کو طاعون یا ہیضہ ہو جائے اور اس کا کوئی دشمن ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگ جائے کہ یا اللہ میرے دشمن کو ہلاک کر دے، تو سب لوگ اسے کہیں گے کہ تیری اس دُعا کا کیا فائدہ ہے وہ تو پہلے ہی مر رہا ہے.تو 37
دعائے مستجاب.جب آسمان کا فیصلہ بھی مخالف ہو اور زمین کے حالات بھی مخالف ہوں.تب بھی دُعا کا فائدہ نہیں ہوتا اور جب آسمان کے حالات موافق ہوں اور زمین کے حالات بھی موافق ہوں تب بھی دُعا کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا.وہ عبادت تو ہوتی ہے مگر اسے دنیا میں تغیر پیدا کرنے والی دُعا نہیں کہا جاسکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ پہلے ہی اس کے حق میں ہوتا ہے مگر جب زمین کے حالات موافق ہوں اور آسمان کے مخالف ہوں یا آسمان کے موافق ہوں اور زمین کے مخالف ہوں تب دُعا حقیقی معنوں میں دعا کہلاتی ہے اور وہی دُعا ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں نشانات ظاہر ہوتے ہیں.خصوصاً جب زمین کے حالات مخالف ہوں اور آسمان کے حالات موافق ہوں کیونکہ اس وقت دُعا سُننے والا دُعا سننے پر تیار ہوتا ہے...اس وقت ہماری بھی یہی حالت ہے کہ زمین کے حالات ہمارے مخالف ہیں مگر آسمان کا فیصلہ ہمارے حق میں ہے...اور میں نے بتایا ہے کہ یہی دُعا کا بہترین وقت ہوتا ہے...مجمل دعائیں تو انسان کرتا ہی ہے مگر وہ اتنا فائدہ نہیں دیتیں جتنا فائدہ وہ تفصیلی دُعائیں دیتی ہیں جو حقیقت کو پوری طرح سمجھ کر کی جاتی ہیں.پس صرف دنیوی سامانوں کو دیکھ کر دُعائیں نہ کرو بلکہ روحانی بصیرت سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر گرو“ 38 الفضل ۱/۶اپریل ۱۹۴۳ء)
دعائے مستجاب.دُعا کے فوائد دُعا کے فوائد میں سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے خدا تعالیٰ کے غیر معمولی فضل نازل ہوتے ہیں.اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: وو میں اپنے گذشتہ خطبات میں اس امر کا ذکر کر چکا ہوں کہ نہ تو وہ مخالفت پوری طرح ہمارے رستہ سے ہٹی ہے جو سلسلہ احمدیہ کو نقصان پہنچانے کے لئے بعض دشمنان سلسلہ کی سازش سے شروع کی گئی تھی اور نہ ایسے حالات ہی پیدا ہوئے ہیں جن کے ماتحت ہم یہ کہہ سکیں کہ قریب عرصہ میں وہ مخالفتیں خود بخو د ڈوب جائیں گی یا بیٹھ جائیں گی.اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشان بے شک ظاہر ہوئے ہیں.اور اس کی تائید ہمیں حاصل ہوئی ہے مگر وہ ایسی صورت میں ہے کہ ابھی دشمن اس سے مرعوب نہیں ہوا.گویا وہ پہلی رات کا چاند ہے جسے تیز نظر والوں نے تو دیکھ لیا مگر کمزور نظر والے ابھی محروم ہیں.روحانی آنکھ کو تو وہ تائید و نصرت نظر آرہی ہے مگر جن کی روحانیت مُردہ ہے انہیں وہ تائید و نصرت نظر نہیں آرہی.اس لئے اس سے عبرت پکڑنے کو ابھی وہ تیار نہیں ہیں اور فائدہ اُٹھانے کیلئے آمادہ نظر نہیں آتے.“ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان تمام سامانوں کو اور ان تمام ذرائع کو اور ان 39
دعائے مستجاب.تمام تدابیر کو جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سلسلہ احمدیہ کی ترقی کے لئے اور اس کے مخالفوں کی شرارتوں کو دُور کرنے کیلئے عطا فرمائی ہیں اور اپنی طرف سے ہد ، سعی اور کوشش میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ آنے دیں کیونکہ روحانی سلسلوں کے تمام امور کی بنیاد دو ہی چیزوں پر ہوتی ہے.ایک طرف بندے کی انتہائی کوشش اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا انتہائی فضل.رُوحانی سلسلے چونکہ کمزور جماعتوں سے چلائے جاتے ہیں.ان کے افراد بہت تھوڑے ہوتے ہیں.ان کے پاس سامان نہایت ہی کم ہوتا ہے.دنیوی طور پر ان سامانوں اور ان افراد سے کامیابی کا منہ دیکھنا مشکل ہوتا ہے اس لئے جو کمی اس کوشش اور سامانوں کی قلت اور افراد کی کمی کی وجہ سے رہ جاتی ہے.اسے اللہ تعالیٰ کا فضل پورا کر دیتا ہے.پس یہ دو چیزیں مل کر ہمیشہ روحانی جماعتوں کی کامیابی کا موجب ہوتی ہیں اور یہی ہماری کامیابی کا موجب ہوسکتی ہیں.ایک طرف خدا تعالیٰ کا ہم سے تقاضا ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ اس کے قدموں میں لا ڈالیں اور اس کے دین کے لئے قربان کر دیں.اور دوسری طرف اس کا وعدہ ہے کہ باقی کمی وہ اپنے فضل سے پوری کر دے گا.خدا تعالیٰ تو وعدوں کا سچا ہے اس کی کوئی بات غلط نہیں ہوسکتی.پس اگر کوئی نقص ہو اور نتائج صحیح نہ نکلیں.اگر کامیابی کے آنے میں دیر لگے تو قطعی طور پر ایک ہی نتیجہ اس سے نکل سکتا ہے کہ جس حد تک ہم سعی کر سکتے تھے اس حد تک ہم نے سعی نہیں کی.اگر خدا 40
دعائے مستجاب.نخواستہ ہمیں نا کامی حاصل ہو تو سوائے ان تین باتوں کے کوئی چوتھی بات نہیں ہو سکتی یا تو یہ کہ ہم نے اپنا فرض ادا کرنے میں کوتاہی کی یا یہ کہ خدا تعالیٰ نے اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں کوتاہی کی اور یا یہ کہ جس سلسلہ کو ہم روحانی سمجھتے تھے وہ روحانی نہیں تھا بلکہ دنیوی تھا.خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی نصرت کا کوئی وعدہ نہ تھا.پس یہ تین ہی پہلو اس کی ناکامی کے ہو سکتے ہیں.چوتھا کوئی نہیں.اوّل یہ کہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اس میں تو ہمارے لئے کسی شک کی گنجائش ہی نہیں.دوم یہ کہ خدا تعالیٰ اپنی ذمہ داری کو پوری طرح ادا کرنے والا ہے.اس میں بھی ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا.پس اگر کوئی بات باقی رہ جاتی ہے تو یہی کہ کوتاہی ہم سے ہوئی اور ہماری غلطیوں سے کامیابی میں دیر ہوگئی اور مخالفتوں میں ترقی ہو گئی.پس ہمارا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اور اپنے فرائض کو یاد رکھتے ہوئے ان تمام تدابیر کو اختیار کریں جو اللہ تعالیٰ نے اسلام اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی کیلئے مہیا فرمائی ہیں اور جیسا کہ میں نے بتایا تھا ان میں سے بہت بڑی تدبیر دُعا اور انابت الی اللہ کی ہے.دنیوی سامان اور تدابیر جہاں جا کر رہ جاتی ہیں.جہاں پہنچ کر وہ بے کار ثابت ہوتی ہیں.جہاں وہ بعض وقت مضحکہ خیز بن جاتی ہیں وہاں صرف دُعا ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جو آسمان سے فرشتوں کی فوج لے آتا ہے اور زمینی روکوں کو دور کر کے شرارت کو ملیا میٹ کر دیتا ہے.41
دعائے مستجاب.میں نے بتایا کہ بعض دفعہ ظاہری تدابیر مضحکہ خیز نظر آتی ہیں اس سے میری مراد یہ ہے کہ الہی سلسلوں کے افراد کے پاس جو سامان ہوتا ہے وہ نہایت قلیل اور کام نہایت عظیم الشان ہوتا ہے.ظاہر بین نگاہ میں تدابیر اور سامان بیچ ہوتے ہیں اور کام کے مقابلہ میں ان کی کوئی حقیقت معلوم نہیں ہوتی.دیکھنے والا ظاہر بین خیال کرتا ہے کہ یہ لوگ حماقت کی بات کر رہے ہیں.بالکل اسی طرح جس طرح کہتے ہیں کہ ایک پرندہ رات کو لاتیں آسمان کی طرف کر کے سوتا ہے.کہا جاتا ہے کہ جب دوسرے پرندوں نے اس سے دریافت کیا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو تو اس نے کہا کہ شاید رات کو جب ساری دنیا سوئی ہوئی ہوتی ہے آسمان گر پڑے.میں لاتیں اس لئے او پر کرتا ہوں کہ اسے سہارا دے کر روک لوں.تا دنیا نیچے آ کر تباہ نہ ہو جائے.یہ ایک مثال بنائی گئی ہے.اس قسم کی مضحکہ خیز صورت کہ جیسی میں نے بیان کی ہے جب کام بہت بڑا ہو طاقت بہت کم ہو اور بوجھ بہت زیادہ اس وقت جو تھوڑی سی طاقت والا بڑا بوجھ اُٹھانے کو تیار ہو جاتا ہے.دنیا کی نظر میں اس کی یہ حرکت مضحکہ خیز ہوتی ہے لیکن جس وقت کوئی ایسا انسان جس کے پیچھے ایمان، قربانی اور ایثار کی رُوح کام کر رہی ہوا اپنی طاقت سے بہت زیادہ بوجھ اُٹھانے کیلئے آگے بڑھتا ہے تو وہ نظارہ ایک سمجھدار انسان کیلئے رقت انگیز ہوتا ہے.مضحکہ خیز نہیں ہوتا.ایک مجنون اور پاگل ، احمق.اور بے وقوف جب وہی کام کرتا ہے تو وہ مضحکہ خیز ہوتا ہے لیکن جب مومن، 42
دعائے مستجاب.بہادر اور جری مومن خدا تعالیٰ کے نام پر ہر چیز قربان کر دینے کا ارادہ رکھنے والا مومن آگے بڑھتا ہے تو دیکھنے والوں کو ہنسی نہیں آتی بلکہ ان کے دل درد سے پر ہو جاتے ہیں اور آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں.بدر کے موقعہ پر ایک ہزار تجربہ کارسپاہی جن پر عرب کی قوم کو فخر تھا جن پر مکہ کے لوگ ناز کرتے تھے.جن کو قریش کا قیمتی سرمایہ کہا جاتا تھا.جو صنادید عرب کہلاتے تھے جو اہل عرب کی بڑی سے بڑی مجلسوں میں مسند پر بیٹھنے والے تھے.تجربہ کار اور پورے ساز وسامان کے ساتھ اس ارادہ سے آئے کہ محمد صل للہ اسلام اور صحابہ کو آج اُن کے بلند و بالا دعاوی کی وجہ سے پوری طرح سزا دے کر جائیں گے.جس وقت ان کے مقابلہ میں تین سو تیرہ لوگ جن میں سے بعض تلوار چلانا بھی نہ جانتے تھے کئی ایسے تھے جن کے پاس تلوار میں تھیں ہی نہیں.جن میں سے اکثروں کے پاس سواریاں بھی نہ تھیں.کھڑے ہوئے تو ظاہری نگاہ میں ان کا یہ فعل مضحکہ خیز تھا اور کہنے والوں نے کہہ بھی دیا کہ جاؤ اپنے گھروں کو چلے جاؤ.تم ہمارے بھائی ہوا اور ہم اپنے بھائیوں کے خون سے زمین کو رنگنا نہیں چاہتے.لیکن دوسری طرف ان تیز نظر لوگوں نے جو گو اسلام سے محروم تھے مگر ظاہری عقل سے حصہ وافر رکھتے تھے.اندازہ کر لیا تھا کہ یہ معمولی لوگ نہیں ہیں.اہل عرب نے اپنے ایک تجربہ کار جرنیل کو اسلامی سپاہ کا جائزہ لینے کیلئے بھیجا.اس نے واپس آکران کو جو جواب دیا وہ بتاتا ہے کہ وہ شخص بہت گہری نظر والا تھا.43
دعائے مستجاب.اس نے آکر کہا کہ آدمی تو ان کے تین سو کے لگ بھگ ہیں لیکن اے قوم کے سردارو میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ ان سے لڑائی نہ کرو کیونکہ میں نے گھوڑوں پر آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار دیکھی ہیں.مجھے ان کے چہروں سے نظر آتا ہے کہ یا تو وہ ہمارے خون سے آج اس میدان کو رنگ دیں گے اور یا ایک ایک کر کے محمد صلی یہ تم پر جان دے دیں گے.اگر تم ہر گھر میں ماتم بپا دیکھنا نہیں چاہتے تو آج واپس چلے جاؤ ورنہ یہ خیال مت کرو کہ مسلمان پیٹھ دکھا کر بھاگ جائیں گے.یہ مقابلہ بھی ایک ظاہر بین نگاہ کیلئے اسی طرح مضحکہ خیز تھا جیسے اُحد کا.اس دن منافقوں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ اگر ہم جانتے کہ لڑائی ہوگی تو ضرور جاتے مگر یہ تو صریحاً بیوقوفی کی بات تھی کجا مکہ کے تجربہ کار اور بہادر اور کجا یہ تھوڑے سے سپاہی.بدر کی جنگ دُنیا داروں کی نگاہ میں اس سے بھی زیادہ غیر مساوی مقابلہ تھا اور اس لئے ان کی نگاہ میں مضحکہ خیز لیکن اس دن بھی واقعات نے بتا دیا کہ انسانی تدابیر جہاں جاکر رہ جاتی ہیں وہاں الہی نصرت غیر معمولی کامیابیوں کے سامان پیدا کر دیتی ہے.مکہ والوں نے جلدی کر کے اس جگہ پر قابو پالیا جو اُن کے نزدیک لڑائی کیلئے زیادہ مفید ہوسکتی تھی.دو زمین مضبور تھی جس پر پاؤں زیادہ مضبوطی سے رکھا جاسکتا تھا.مگر مسلمانوں کے لئے جو جگہ خالی تھی وہ ریتلی تھی جس پر عام حالات میں قدم جمانا مشکل تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے 44
دعائے مستجاب.جنہوں نے حالات کو بالکل بدل دیا.بادل برسے جس سے سخت زمین پھسلنی ہوگئی اور ریتلی جگہ ٹھوس بن گئی.وہی جگہ جو دھوپ میں سخت اور آرام دہ تھی بارش کے بعد پھسلنی ہو گئی اور ریتلی بارش کے بعد مضبوط ہو گئی.پھر ادھر سے اللہ تعالیٰ نے آندھی چلادی جس طرف مسلمانوں کی پیٹھیں تھیں اس وجہ سے گردوغبار اور کنکر کفار کی آنکھوں میں پڑتے تھے اور اُن کے زور سے چلائے ہوئے تیر بھی مسلمانوں تک نہ پہنچتے تھے مگر مسلمانوں کا کمزور سے کمزور تیر بھی ان تک جا پہنچتا تھا.مسلمان دشمن کو دیکھتے تھے مگر وہ انہیں یوجہ آنکھوں میں گرد و غبار پڑنے کے اچھی طرح دیکھ نہ سکتے تھے.یہ سب سامان اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ورنہ نہ بادل انسان کے اختیار میں ہیں اور نہ ہوائیں.بندہ کے قبضہ میں.اسی طرح جنگ احزاب کے موقعہ پر جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے منافق مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے تھے کہ یہ مسلمان تو کہا کرتے تھے کہ دنیا کی بادشاہت ہمیں مل جائے گی.آج ان کی عورتوں کے لئے پاخانہ پھرنے کی جگہ بھی نہیں رہی.کہاں گئے ان کے وہ دعاوی.اس جنگ میں دس ہزار کفار کا لشکر مسلمانوں کے مقابل پر تھا اور سارے عرب قبائل جمع ہو کر آئے تھے اور پھر یہودیوں نے مدینہ میں بغاوت کر دی تھی.اس وقت سوائے اس کے کہ مسلمان خندق بنا لیتے ان کے بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی.چنانچہ حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے رسول کریم صلیا اپریتم نے صحابہ کو حکم دیا کہ خندق کھودیں اور جب 45
دعائے مستجاب.وہ خندق کھودرہے تھے تو ایک پتھر ایسا آیا جوٹوٹنے میں نہ آتا تھا.رسول کریم ملا یہ تم کو اطلاع دی گئی آپ وہاں تشریف لائے اور جب زور سے کدال مارا تو پتھر میں آگے نکلی اور آپ نے زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا.صحابہ نے بھی نعرہ لگایا.پھر کدال مارا تو پھر آگ نکلی اور آپ نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا.اور صحابہ نے بھی آپ کی تقلید کی.تیسری دفعہ مارا تو پھر آگ نکلی اور آپ نے پھر زور سے اللہ اکبر کہا اور صحابہ نے بھی ایسا ہی کیا.جب وہ پتھر ٹوٹ گیا تو آپ نے صحابہ سے دریافت کیا کہ تم نے نعرے کیوں لگائے ہیں.صحابہ نے عرض کیا کہ آپ نے لگائے تھے اسلئے ہم نے بھی لگائے.آپ نے فرمایا.ہاں میں نے تین بار نعرہ تکبیر بلند کیا جس کی وجہ یہ تھی کہ جب پہلی دفعہ پتھر میں سے آگ نکلی تو میں نے اس شعلہ میں یہ نظارہ دیکھا کہ مسلمانوں کے ہاتھوں قیصر کے قلعے تباہ ہو گئے ہیں.دوسرے شعلہ میں مجھے کسریٰ کے قلعوں کی تباہی کا نظارہ دکھائی دیا اور تیسرے میں حمیر کے قلعے بھی سرنگوں نظر آئے.اس وقت بھی منافقوں نے ہنسی اڑائی اور کہا کہ جان بچانے کیلئے خندق کھود رہے ہیں اور مدینہ سے باہر نہیں نکل سکتے مگر خواب دیکھ رہے ہیں.قیصر و کسریٰ کے محلات کے گویا وہ زمانہ مسلمانوں کے لئے اس قدر مشکلات کا زمانہ تھا کہ منافق جو بزدل ہوتے ہیں وہ بھی دلیری سے ان پر ہنسی کرنے لگ گئے تھے.قرآن نے بھی غزوہ احزاب یا خندق کا نظارہ بیان کرکے بتایا ہے کہ اس وقت 46
دعائے مستجاب.مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ گویا وہ زلزلہ میں مبتلا ہیں اور زمین اپنی فراخی ย کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی تھی.بظاہر اس زبردست لشکر کے مقابل پر صحابہ کا زور نہیں چلتا تھا مگر پندرہ روز کے بعد آدھی رات کے وقت رسول اللہ صلی سلیم نے آواز دی اور فرمایا کوئی ہے؟ مگر کسی نے جواب نہ دیا.ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی ای ایام میں حاضر ہوں.مگر آپ نے پھر فرمایا.کوئی جاگتا ہے؟ مگر کوئی نہ بولا اسی صحابی نے پھر کہا.یا رسول اللہ میں حاضر ہوں.مگر آپ نے پھر فرمایا تم نہیں کوئی اور.اور پھر تیسری دفعہ آواز دی مگر پھر بھی کوئی نہ بولا اور پھر اسی نے آواز دی اور آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی ہے کہ کفار کا لشکر تتر بتر ہو گیا ہے.وہ صحابی باہر نکلے تو دیکھا کہ سب میدان خالی پڑا ہے.نہ غنیم کا کوئی خیمہ تھانہ سامان.ایک اور صحابی ” بیان کرتے ہیں کہ میں اس وقت جاگتا تھا مگر سردی شدید تھی اور کپڑے نا کافی تھے اور سردی کی وجہ سے باوجود جاگنے کے منہ سے بات نہ نکلتی تھی.کفار کے بھاگنے کا واقعہ یہ ہے کہ ایک عرب سردار کی آگ بجھ گئی.اہل عرب اس بات کو منحوس خیال کرتے تھے.اس نحوست کے دور کرنے کیلئے اس قبیلہ نے اپنے رواج کے مطابق یہ طریق تجویز کیا کہ رات کے وقت اپنے خیمے وہاں سے اُٹھا کر چند میل کے فاصلہ پر پرے جا کر لگائیں اور اگلے روز پھر وہیں آلگا ئیں.اور جب رات کو چپکے سے انہوں نے خیمے اکھاڑنے شروع کئے تو ساتھ والوں نے خیال کیا کہ 47
دعائے مستجاب.شکست ہوگئی ہے اور یہ لوگ بھاگ رہے ہیں انہوں نے بھی فوراً اپنے خیمے اُٹھانے شروع کر دیئے.ان کو دیکھ کر اُن کے پاس والوں نے بھی ایسا ہی کیا.حتی کہ جب ابوسفیان کو جو اس لشکر کا سپہ سالار تھا خبر ہوئی تو اس نے خیال کیا کہ مسلمانوں نے شب خون مارا ہے.اس لئے یہاں سے جلدی بھاگنا چاہئے.چنانچہ وہ اس قدر گھبرا یا کہ اونٹ کو کھولے بغیر ی اس پر سوار ہو کر اسے مارنے لگ گیا.مگر وہ چلتا کس طرح.آخر اس کے کسی ساتھی نے اس پر اس کی غلطی کو واضح کیا.یہ الہی نصرت تھی جس نے اس وقت جب انسانی تدابیر بے کار ہو چکی تھیں آسمان سے نازل ہوکر رسول کریم صل السلام اور آپ کے صحابہ کو نجات دی.“ (الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۳۶ء) حضرت مصلح موعودؓ ہر اس شخص کو جو د نیوی لحاظ سے بے بسی اور کسمپرسی کے تاریک غار میں پھنسا ہو اور جس کے لئے ظاہری لحاظ سے مایوسی کی تاریکیوں سے نجات کی کوئی سبیل نہ ہو خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں: قرآن مجید میں آتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ مومن نہیں ہوتے لیکن چونکہ وہ ظاہری طور پر ایمان کا دعوی کرتے ہیں قرآن مجید پر ایمان رکھنے کا ادعا کرتے ہیں اس لئے ظاہری شکل کیوجہ سے ہم اسے ایمان کہہ دیتے ہیں.حقیقت کی رُو سے نہیں.جیسے مٹی کے بنے ہوئے آم یا مٹی کے بنے ہوئے سنگترے کو بھی ہم آم اور سنگترہ ہی کہتے 48
دعائے مستجاب.ہیں.پس چونکہ انسان کے نیک ارادے اور نیک خیال میں امتیاز مشکل ہو ہے اس لئے وہ امتیاز عمل سے ظاہر ہو جاتا ہے.نیک ارادہ کے ماتحت انسان سے آپ ہی آپ اس کے مطابق عمل بھی ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے لیکن نیک خیال کے ماتحت عمل کا پیدا ہونا ضروری نہیں ہوتا.پس نیک ارادہ اور نیک خیال میں یہی فرق ہے کہ نیک بات کے متعلق خیال پیدا ہو کر بھی عمل کی حالت ابھی بہت دُور ہوتی ہے لیکن نیکی کے ارادہ کے بعد ساتھ ہی عمل بھی شروع ہو جاتا ہے جس سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک نے صرف خیالات تک اپنے آپ کو محد و در کھا اور دوسرے نے عمل بھی شروع کر دیا مگر بہر حال یہ سوال پھر بھی رہ جاتا ہے کہ وہ کمزور اور بے کس جنہیں خدا تعالیٰ نے اپنی آواز پر لبیک کہنے کی توفیق دی مگر سامانوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ کوئی خدمت دین کا کام نہیں کر سکتے.ان کیلئے کون سا ایسا ذریعہ ہے جس سے ان کی عملی قوت برقرار رہے اور وہ بھی کہہ سکیں کہ ہم نے بھی خدا تعالیٰ کے دین کیلئے جو طاقتیں ہمیں میسر تھیں لگا دیں.وہ عمل...دُعا ہے ان اعمال میں سے ہے جن کیلئے کسی مال کی ضرورت نہیں.کسی علم کی ضرورت نہیں.کسی فن کی ضرورت نہیں.کسی طاقت وقوت کی ضرورت نہیں.اگر کسی کے ہاتھ نہیں کہ وہ ہاتھ اٹھا کر دُعا کر سکے.اگر کسی کی کمر میں ہلنے جلنے کی طاقت نہیں کہ وہ چار پائی سے اُٹھ کر نماز کی حرکات ادا کر سکے.تب بھی وہ دعا کر سکتا ہے کیونکہ دعا ان 49
دعائے مستجاب.چیزوں کی محتاج نہیں بلکہ اگر اس کی پیٹھ اکثر گئی ہے تو وہ لیٹا ر ہے اور دُعا کرے.اگر اس کی زبان پر فالج گرا ہوا ہے اور وہ دُعا کیلئے اپنی زبان ہلا نہیں سکتا تو دماغ میں دعائیہ فقرات کو دہرائے...جب تک ایک انسان دنیا میں رہتا ہے اور انسانیت کی حدود سے ادھر اُدھر نہیں ہوتا اس وقت تک معذور سے معذور انسان بھی عمل کر سکتا ہے اور وہ دعا کاعمل ہے.اسے خدا تعالیٰ نے باقی اعمال سے کم حیثیت نہیں دی بلکہ یقیناً زیادہ حیثیت دی ہے.سارے قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر تم جہاد کرو گے تو میں تمہارے پاس ضرور آ جاؤں گا.سارے قرآن کریم میں خدا تعالی نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر تم نماز پڑھو گے تو میں تمہارے پاس ضرور آجاؤں گا.سارے قرآن کریم میں یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر تم روزہ رکھو گے تو میں ضرور تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا.غرض کسی عمل کے متعلق قرآن کریم میں یہ نہیں لکھا کہ اس کے نتیجہ میں ضرور خدا تعالیٰ کا قرب انسان کو حاصل ہو جاتا ہے.مگر ایک عمل ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ اگر کوئی وہ عمل کرے تو میں ضرور اس کے پاس پہنچ جاتا ہوں اور وہ دُعا ہے: أَفَمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وہ کونسی ہستی ہے جو بندہ کی دعائے مضطر سن کر بے تاب ہو کر اس کے پاس آجاتی ہے.فرمایا.وہ میں ہوں.تو یہ عمل سب اعمال سے زیادہ طاقتور ہے کیونکہ طاقتور دراصل وہی عمل ہے جس میں سب بنی نوع انسان شامل 50
دعائے مستجاب.ہوں اور جو عمل تمام روئے زمین کے انسانوں کو مساوات کے میدان میں لے آئے.نماز میں امتیاز ہوسکتا ہے کیونکہ ممکن ہے ایک شخص کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور دوسرا بیٹھ کر.روزہ میں امتیاز ہوسکتا ہے کیونکہ ممکن ہے ایک شخص میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو مگر دوسرے میں نہ ہو تبلیغ میں امتیاز ہوسکتا ہے کیونکہ ممکن ہے ایک کو تبلیغ کرنی آتی ہو اور دوسرے کو نہ آتی ہو یا وہ علم نہ رکھتا ہو.یا تبلیغ کی طاقت نہ رکھتا ہو.اس طرح جہاد.تربیت اور لین دین کے معاملات میں امتیاز نظر آجائے گا.اور مجبوری کا امتیاز ہوگا مگر دُعا میں مجبوری کا کوئی امتیاز نہیں.ہاں مرضی کا امتیاز ہوسکتا ہے لیکن بہر حال دُعا ایک ایسی چیز ہے کہ وہ گونگا جس کی زبان نہیں وہ بہرہ جس کے کان نہیں وہ مفلوج جس کے جسم کی جس ماری گئی ہو اور گوشت کا ایک لوتھڑا بن کر چار پائی پر پڑا ہوا ہو وہ بھی اسی جوش و خروش سے اپنے رب کے حضور دُعا کا ہدیہ پیش کرسکتا ہے.جس طرح ایک تندرست اور طاقتور انسان اور اس عمل میں بنی نوع انسان میں قطعاً کوئی امتیاز نہیں ایک چارپائی پر پڑا ہوا بے حس انسان بھی جس میں حرکت کرنے کی تاب نہیں اپنے خدا کے حضور دعا کے ذریعہ عقیدت کا ہدیہ پیش کر سکتا ہے اور وہ بھی خدا تعالیٰ کے فضلوں کو اسی طرح جذب کر سکتا ہے.جس طرح اور انسان جو نماز پڑھتے روزہ رکھتے اور احکام اسلامی پر عمل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں.پس دعا وہ چیز ہے جس نے دنیا کے تمام چھوٹوں اور بڑوں اور امیروں اور غریبوں کو ایک سطح پر لا کر کھڑا کر دیا 51
دعائے مستجاب.ہے.یہی وجہ ہے کہ بعض صوفیاء نے کہا ہے کہ: اسلام دعا کا نام ہے اور دعا اسلام ہے اسکی وجہ یہی ہے کہ اسلام دنیا میں مساوات قائم کرنے کیلئے آیا ہے.مگر وہ کون ساعمل ہے جو سب کو مساوات بخشتا ہے.نماز سب میں مساوات کو قائم نہیں کرتی کیونکہ عورتوں پر کچھ دن ایسے آتے ہیں جب وہ نماز کی ادائیگی سے معذور ہو جاتی ہیں.پھر جب انسان بوڑھا ہو جائے تو کھڑا ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتا اور زیادہ کمزور ہو جائے تو مسجد میں نماز کیلئے نہیں آسکتا.اس طرح حج ہے، زکوۃ ہے، صدقہ ہے اور بہت سے اعمال ہیں جو خدا تعالیٰ نے انسان کی بہتری کیلئے دیئے اور ہمیں ان سے مالا مال کیا.مگر کوئی عمل ایسا نہیں جو سب کو ایک مقام پر لے آئے اور حقیقی مساوات قائم کر کے دکھاوے.سوائے نیک ارادہ یا دُعا کے یا مذہبی نقطہ نگاہ سے یہ کہو کہ سوائے ایمان اور دعا کے کیونکہ اسی چیز کا نام مذہبی اصطلاح میں ایمان بن جاتا ہے جسے دنیوی اصطلاح میں نیک ارادہ کہتے ہیں.قوت ارادی جب خدا تعالیٰ کے تابع ہو جائے تو وہ ایمان بن جاتی ہے لیکن جب آزاد ہو تو صرف ارادی قوت کہلاتی ہے.جیسے خواہش جب انسان کے تابع ہو تو محض خواہش کہلاتی ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کے تابع ہو تو دُعا کہلاتی ہے.یہ دو چیز میں مل کر دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کرسکتی ہیں.یہ زمین و آسمان کو ہلا سکتی ہیں.دنیا دار لوگوں نے اس قوت سے کام لیا اور اس کا نام انہوں نے مسمریزم اور 52
دعائے مستجاب.ہپناٹزم...رکھا اور اس کیلئے انہوں نے بڑی مشقیں کیں مگر وہ سب دنیوی چیزیں ہیں اور حقارت کے قابل ہیں لیکن جس وقت یہ چیزیں خدا تعالیٰ کے دین کے رنگ میں رنگین ہو جاتی ہیں تو انہیں ایمان اور دُعا کہتے ہیں اور ان سے کار ہائے نمایاں انجام دیئے جاسکتے ہیں.“ علم توجہ اور دُعا کا مقابلہ کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: در علم تو جہ کیا ہے؟ وہ محض چند کھیلوں کا نام ہے لیکن دعا وہ ہتھیار ہے جو زمین و آسمان کو بدل دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی دعوی نہیں کیا تھا.صرف براہین احمد یہ لکھی تھی.اس کی صوفیاء اور علماء میں بہت شہرت ہوئی.پیر منظور محمد صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب کے والد صوفی احمد جان صاحب اس زمانہ کے نہایت ہی خدا رسیدہ بزرگوں میں سے تھے.جب انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہار پڑھا تو آپ سے خط و کتابت شروع کردی اور خواہش ظاہر کی کہ اگر کبھی لدھیانہ تشریف لائیں تو مجھے پہلے سے اطلاع دیں.اتفاقاً انہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لدھیانہ جانے کا موقع ملا.صوفی احمد جان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت کی.دعوت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپس تشریف لا رہے تھے کہ صوفی احمد جان صاحب بھی ساتھ چل پڑے.وہ رتر چھتر والوں کے مُرید تھے اور ماضی قریب میں رتر چھتر والے ہندوستان کے صوفیاء میں بہت بڑی 53
دعائے مستجاب.حیثیت رکھتے تھے اور تمام علاقہ میں مشہور تھے.علاوہ زہد وانقاء کے انہیں علم تو جہ میں اس قدر ملکہ حاصل تھا کہ جب وہ نماز پڑھتے تو ان کے دائیں بائیں بہت سے مریض صف باندھ کر بیٹھ جاتے نماز کے بعد وہ سلام پھیرنے کے ساتھ ہی دائیں بائیں پھونک بھی مار دیتے جس سے بہت سے مریض اچھے ہو جاتے.صوفی احمد جان صاحب نے ان کی بارہ سال شاگردی کی اور وہ ان سے چکی پسواتے رہے.راستہ میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ میں نے اتنے سال رتر چھتر والوں کی خدمت کی ہے اور اس کے بعد مجھے وہاں سے اس قدر طاقت حاصل ہوئی ہے کہ دیکھئے میرے پیچھے جو شخص آ رہا ہے اگر میں اس پر توجہ کروں تو وہ ابھی گر جائے اور تڑپنے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ سنتے ہی کھڑے ہو گئے...اور فرمایا...صوفی صاحب اگر وہ گر جائے تو اس سے آپ کو کیا فائد ہوگا.وہ چونکہ واقع میں اہل اللہ میں سے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں دُور بین نگاہ دی ہوئی تھی اس لئے یہ بات سنتے ہی ان پر محویت کا عالم طاری ہو گیا اور کہنے لگے.میں آج سے اس عمل سے تو بہ کرتا ہوں.مجھے علم ہو گیا ہے کہ یہ دنیوی بات ہے دینی بات نہیں ہے...میں نے کہا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں دُور بین نگاہ دی تھی اس کا ہمارے پاس ایک حیرت انگیز ثبوت ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی براہین احمدیہ ہی لکھی تھی کہ وہ سمجھ گئے کہ یہ شخص مسیح 54
دعائے مستجاب.موعود بننے والا ہے حالانکہ اس وقت تک ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی یہ انکشاف نہیں ہوا تھا کہ آپ کوئی دعوی کرنے والے ہیں.چنانچہ انہی دنوں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خط میں یہ شعر لکھا.ہم مریضوں کی ہے تمہیں یہ نظر تم مسیحا بنو خدا کیلئے یہ امر بتاتا ہے کہ وہ صاحب کشف تھے....غرض اس قسم کے افعال علم تو جہ سے ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں مگر دُعا کے مقابل پر اس کی کیا حقیقت ہے.علم توجہ کے اثرات انفرادی ہوتے ہیں مگر دُعا کے اثرات انفرادی ہی نہیں بلکہ مجموعی بھی ہوتے ہیں.پھر تم نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ علم توجہ سے کوئی شخص حکومتوں کا تختہ اُلٹ دے.مذاہب باطلہ کو نیست و نابود کر دے.مگر دُعا کے مقابلہ میں دنیا کی ساری بادشاہتیں مل کر بھی بیچ اور ذلیل ہو جاتی ہیں اور جب خدا تعالیٰ کا ایک عاجز اور مسکین بندہ اپنی مسکنت کی چادر اوڑھ کر خدا تعالیٰ سے یہ کہتا ہے کہ اے میرے رب تو میرا خالق اور میں تیرا بندہ ہوں.تیرا حق ہے کہ تو مجھے سے جو چاہے کرے لیکن تیرے بندے مجھ پر کیوں ظلم کرتے ہیں.تب خدا تعالیٰ کی غیرت بھڑکتی اور بڑے بڑے جابر اور ظالم بادشاہوں کا اس طرح تختہ الٹ دیتی ہے کہ ان کا نام ونشان تک مٹ جاتا ہے.55
رات کے تیروں کی تاثیر ہیں: دعائے مستجاب.ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ ان کے محلہ میں بادشاہی دربار کے بعض آدمی رات کو گانے بجانے کا شغل رکھتے.انہوں نے کئی دفعہ سمجھایا کہ لوگوں کی نیندیں اور نمازیں خراب ہوتی ہیں تم اس شغل کو ترک کر دو مگر وہ نہ مانے.جب انہوں نے بار بار کہا تو اس خیال کے ماتحت کہ کہیں یہ محلہ والوں سے مل کر ہمیں روکنے کا تہیہ نہ کرلیں.انہوں نے شاہی پہرہ داروں کا انتظام کر لیا.جب اس بزرگ کو اطلاع ملی تو انہوں نے کہا.اچھا.انہوں نے اپنی حفاظت کے لئے فوج بلالی ہے.تو ہم بھی رات کے تیروں سے ان کا مقابلہ کریں گے معلوم ہوتا ہے ان لوگوں کے دلوں میں ابھی کچھ نیکی باقی تھی.جونہی ان کے کان میں یہ آواز پڑی کہ ہم رات کے تیروں سے مقابلہ کریں گے وہ دوڑتے ہوئے اس بزرگ کے پاس آئے اور کہنے لگے ان تیروں کے مقابلہ کی ہم میں طاقت نہیں.ہم اپنے شغل سے باز آئے.خلوص دل سے کی گئی دُعا کی عظمت اور اثر انگیزی بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے وو پس دُعا ایسا ہتھیار ہے کہ اگر کوئی کامل یقین اور پختہ ارادہ کے ساتھ اس سے کام لیتا ہے تو اس کے مقابلہ میں کوئی ٹھہر نہیں سکتا.میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ آپ لوگوں میں سے بعض امراء ہیں وہ مالی لحاظ 56
دعائے مستجاب.سے تحریک جدید میں زیادہ حصہ لیں گے بعض اہلِ علم ہیں وہ تبلیغی لحاظ سے تحریک جدید میں زیادہ حصہ لیں گے.بعض اہل حرفہ ہیں وہ مثلاً غیر ممالک میں نکل جانے کے لحاظ سے تحریک جدید میں زیادہ حصہ لیں گے..مگر کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو نہ اپنے پاس مال رکھتے ہوں نہ دولت ، نہ علم ، نہ حرفہ، نہ فن وہ دل میں کڑھتے ہوں گے اور کہتے ہوں گے ہمارا اس ثواب میں کیا حصہ ہے اور خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے والوں میں ہم کیوں کر شامل ہوں.میں نے بتایا تھا کہ انہیں یا ور کھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے ان کا بھی تحریک میں حصہ رکھا ہے جو دوسروں سے کسی طرح کم نہیں وہ ہے کہ وہ دعا کریں کہ اس جنگ میں جو آج ہمیں دوسروں سے درپیش ہے خدا تعالیٰ ہمیں فتح دے اور مقابلہ کرنے والے دشمنوں کو ذلیل ورسوا کرے.اس عمل کے نتیجہ میں وہ ان لوگوں سے پیچھے نہیں رہتے جو مال رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں جو طاقت رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں طاقت خرچ کرتے ہیں.جوفن رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی فنی خدمات پیش کر رہے ہیں اور گو دنیا کی نگاہوں میں یہ دعائیں بیج نظر آتی ہوں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ محض زبانی دعائیں بیچ ہی ہوتی ہیں لیکن پچھلے ہوئے دل کی دعا بیچ نہیں ہوتی بلکہ وہ بہت بڑی قیمت رکھتی ہے.“ دعا کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے.وہ اس قسم کا سوال ہے جس کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے.57
دعائے مستجاب.جو منگے سومر ر ہے مرے سومنگن جائے یعنی سوال کرنا موت ہے اور مانگنے والے کو چاہئے کہ وہ اپنے آقا کے دروازے پر مر جائے.تب اُسے کامیابی حاصل ہوتی ہے.پس وہ دعا جو خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوتی ہے وہ دعا جو اس کی رحمت کو کھینچ لاتی ہے وہ مضطر والی دُعا ہے.وہ دُعا ہے جو دل کا خون کر دیتی ہے.اگر وہ دل کا خون کسی شیشی میں گرایا جا سکے یا کسی کٹوری میں جمع کیا جا سکے تو بتاؤ وہ لوگ زیادہ قابل قدر سمجھے جائیں گے جو سونا چاندی یا پیتل خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں یا وہ زیادہ قابل قدر سمجھا جائے گا جس نے اپنے دل کا خون خدا تعالیٰ کے آگے پیش کر دیا.بیشک دنیا کے لوگ اس دل کے خون کی قدر نہیں کرتے کیونکہ انہیں وہ خون نظر نہیں آتا، انہیں صرف سونا چاندی اور اس کے سکے دکھائی دیتے ہیں لیکن ہمارا خداوہ ہے جو عالم الغیب ہے وہ جانتا.ہے کہ گوا سکے ایک بندے کے پاس سونا چاندی نہیں مگر دین کے غم میں اس کا دل خون ہورہا ہے اور یہ ہمارے پاس خون دل کا ہدیہ لے کر آیا ہے جس کے مقابلہ پر سونے اور چاندی کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ ایک مالدار کے سونے اور چاندی کے سکوں کی اور ایک طاقتور کی طاقت اور قوت کی بھی وہ اسی وقت قربانی قبول کرتا ہے جب ان پر دل کے خون کی پالش ہو ورنہ وہ اُسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.پس ایک مالدار کی قربانی اور ایک طاقتور جسم رکھنے والے کی قربانی بھی اسی وقت الہی دربار میں قبول ہوسکتی 58
دعائے مستجاب.ہے.جب اس پر دل کے خون کے قطرے پڑے ہوئے ہوں ورنہ وہ قربانی اس کے منہ پر ماری جاتی ہے اور کہا جاتا ہے: وَيْلٌ لِلْمُصَدِّيْنَ در دو خلوص والی دُعا اور قربانی کی عظمت پس مت خیال کرو کہ دعائیں معمولی چیز ہیں.مت خیال کرو کہ تم میں کوئی ایسا بھی ہے جسے قربانی کا موقع نہیں ملا.تمہارے نیک ارادے اور تمہارے دل کی قربانی جبکہ تم دوسری قربانیوں میں حصہ نہیں لے سکتے اور جبکہ تم عاجزانہ اور مسکینا نہ طور پر خدا تعالیٰ کے حضور گر کر سلسلہ کی ترقیات کیلئے دعائیں کرتے ہو.دوسروں کی قربانی سے کم نہیں بلکہ بسا اوقات ان سے بڑھ سکتی ہے کیونکہ یہ صرف قربانی ہی نہیں بلکہ ایک درد اپنے اندر رکھتی ہے.جو انسان اپنے پاس مال نہیں رکھتا.طاقت نہیں رکھتا.فن نہیں رکھتا.علم نہیں رکھتا اور دل کی قربانی پیش کرتا ہے اس کی قربانی کے ساتھ درد بھی شامل ہوتا ہے کیونکہ جب وہ دیکھتا ہے کہ دوسروں کے پاس بہت کچھ ہے مگر میرے پاس کچھ بھی نہیں جو میں پیش کروں تو اس کا دل جو عشق کی چوٹ کھایا ہوا ہوتا ہے در داور غم سے پگھل جاتا ہے.پس وہ درد والی قربانی ہے اور درد والی قربانی کا وہ قربانی مقابلہ نہیں کر سکتی جس کے ساتھ درد نہیں.اگر ایک مجلس میں ایک امیر آدمی خدمت دین کیلئے ایک کروڑ روپیہ پیش کر دیتا ہے تو تم اس مجلس میں نم دار آنکھیں نہیں دیکھو گے.بے شک نعرے لگانے 59
دعائے مستجاب.والے دیکھو گے.شاباش اور مرحبا کی آوازیں بلند کرنے والے دیکھو گے مگر کوئی نمدار آنکھ اس مجلس میں اس وجہ سے نہیں دیکھو گے کہ اس نے ایک کروڑ روپیہ پیش کر دیا.لیکن ایک غریب بڑھیا جس کی آمد کا کوئی ذریعہ نہیں.جسے فاقے پیش آتے ہیں اور جس کے متعلق تمہیں معلوم ہے کہ شاید اب بھی اسے فاقہ ہے اس نے اگر رات کو باوجود بیماری اور کمزوری کے سوت کا تا اور پھر بازار میں اُسے بیچ کر ایک پیسہ لائی اور وہ پیسہ اس نے خدمت دین کیلئے مجلسوں میں پیش کر دیا تو گو وہاں نعرے پیدا نہ ہوں.لیکن بیسیوں آنکھوں ہیں.ان آنکھوں میں جو روحانی چیزوں کو دیکھنے کی طاقت رکھتی ہیں تم آنسو دیکھ لو گے کیونکہ یہ وہ قربانی ہے جس کے ساتھ درد شامل ہے.اگر اس قسم کی قربانی ایک انسان کے دل میں جو سچی قدر دانی کی طاقت نہیں رکھتا.درد پیدا کرسکتی ہے تو سمجھ لو کہ اس عالم الغیب خدا کے ہاتھ وہ کس قدر مقبول ہوگی.جس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.یقیناً ہمارا خدا اسے اپنی گود میں بٹھا لے گا اور اسکے غمزدہ دل کو تسلی دے گا اور کہے گا مت سمجھ کہ تیری قربانی حقیر ہے میں ہوں جس نے قربانی قبول کرنی ہے اور میں تیری قربانی کو دوسروں کی قربانی پر ترجیح دیتا ہوں.پس تمہیں خوش ہونا چاہئے کہ تمہارے رب نے تمہیں اپنے دین کی خدمت سے محروم نہیں رکھا.ہر شخص جو تم میں سے کتنا ہی معذور کیوں نہ ہو ایک اتنی قیمتی چیز اپنے پاس رکھتا ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کے ہیرے اور جواہرات بھی ماند ہیں.پس میں تم 60
دعائے مستجاب.سے کہتا ہوں کہ اس قیمتی قربانی کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرو ہمارا خدا اپنی کتاب میں فرماتا ہے: لَنْ تَنَالُو الْبِرَّ حَتى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ - تم مقام بر حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز خدا تعالیٰ کے حضور پیش نہ کرو.تم روپیہ سے زیادہ اپنے دل کو قیمتی سمجھتے ہو یا نہیں؟ پس اس کو اپنے رب کے آگے پیش کرو اور یا درکھو اس سے دین کی مددجس رنگ میں ہوگی وہ سونے اور چاندی کے سکوں سے نہیں ہوسکتی.“ مخلصانہ دعاؤں کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے حضور ارشاد فرماتے ہیں: پچھلے سال میں نے اسی دُعا کی تحریک کو زیادہ مضبوط بنانے کیلئے بعض ہفتے مقرر کر دیے تھے اور روزے رکھنے کی تاکید کی تھی.تم میں سے کسی کو نظر آیا ہو یا نہ آیا ہولیکن جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے آنکھیں دی ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں کی دعاؤں کے نتیجہ میں دُنیا میں عظیم الشان تغیرات پیدا کئے ہیں.تمہیں شائد نظر نہ آتا ہومگر میں تو دیکھ رہا ہوں کہ اٹلی اور ایسے سینیا کی جنگ بھی انہی دعاؤں کے نتیجہ میں ہوئی ہے.جاپان کے فسادات بھی انہیں دعاؤں کے نتیجہ میں ہیں اور کوئٹہ کا زلزلہ بھی انہی دُعاؤں کے نتیجہ میں آیا ہے.اب پھر تم خدا تعالیٰ کے حضور سچی دعائیں کر کے دیکھ لو.سلسلہ کے دُشمن بالکل پاش پاش ہو جائیں گے، خواہ وہ حکومت کے کل پرزے ہوں اور خواہ میجارٹی اور اکثریت کے نمائندہ ہوں کیونکہ ہمارے 61
دعائے مستجاب.خدا کے سامنے نہ حکومتیں کوئی حیثیت رکھتی ہیں ، نہ اکثریت کی نمائندگی کوئی حیثیت رکھتی ہے.پس میں...آج پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ابھی وہ دن نہیں آئے کہ تم دشمن کے حملوں سے غافل ہو جاؤ اور دعاؤں کی طرف سے نظر ہٹا لو.بے شک خدا تعالیٰ نے اس عرصہ میں بڑے بڑے نشان دکھائے ہیں مگر مخالفوں نے ان کی قدر نہیں کی.کیونکہ نشان دو قسم کے ہوا کرتے ہیں بعض نشان معمولی ہوتے ہیں اور بعض پر ہیبت اور پر جلال جس طرح چاند پہلے ہلال کی شکل میں ہوتا ہے پھر قمر اور پھر بدر کی صورت اختیار کر لیتا ہے اسی طرح بعض نشان ہلال سے مشابہ ہوتے ہیں.بعض قمر سے اور بعض بدر سے.ہمیں خدا تعالیٰ نے چونکہ روحانی آنکھیں دی ہوئی ہیں اس لئے ہم نے ان نشانوں کو بھی دیکھا جو ابھی ہلال کی صورت میں ہیں لیکن دشمنوں نے ان نشانوں کو نہیں دیکھا کیونکہ ان نشانوں نے ابھی قمر کی صورت اختیار نہیں کی.پس دشمن ابھی تک اپنی شرارتوں سے باز نہیں آیا.خدا تعالیٰ نے شہید گنج کا مسئلہ بھی پیدا کیا اور احرار کی دشمنی کے پردہ کو بالکل کھول کر رکھ دیا.خدا تعالیٰ نے حکومت کے ان بعض کل پرزوں کو بھی سبق دیئے جنہوں نے بلا وجہ احمد یہ جماعت کی تحقیر اور تذلیل اور اسے تکالیف میں مبتلا کرنے کا شیوہ اختیار کیا ہوا تھا اور بعض کے متعلق ہمیں یقین ہے کہ انہیں آئندہ سبق مل جائے گا....پس ہمارا فرض ہے کہ ہم سلسلہ کی عظمت اور اس کی مشکلات کے ازالہ 62
دعائے مستجاب.کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے چلے جائیں اور اس سے کہیں کہ اے خدا اس کمزوری میں تو نے ہی ہمیں پیدا کیا ہے.ہم بے شک کمزور ہیں.ناتواں ہیں.ناطاقت اور خطا کار ہیں لیکن ہم تیرے بندے ہیں.تیرا حق ہے کہ جو چاہے ہم سے سلوک کرے مگر تیرے بندے جو قانون کو توڑتے ہوئے ہم پر ظلم کر رہے ہیں ان کا حق نہیں کہ وہ ہمیں اپنے ستم کا نشانہ بنائیں.ہم پر جس رنگ میں مظالم ہو رہے ہیں تو انہیں جانتا ہے.بعض جگہ تو نے جواب دینے سے ہمیں روک رکھا ہے اور بعض جگہ بے طاقت بنا دیا ہے.ایسی حالت میں سوائے اس کے ہم کیا کر سکتے ہیں کہ تیرے حضور التجا کریں کہ ہم پر مظالم کرنے والے اور سلسلہ احمدیہ کو دُنیا کی نگاہوں میں ذلیل اور حقیر کرنے والے خواہ حکام کے زمرہ میں شامل ہیں خواہ رعایا میں تو خود ان کا ہاتھ پکڑ اور ہمیں ان کے شر سے بچا.ہم اپنی عزت نہیں چاہتے...ہمیں اپنی شوکت سے غرض نہیں کہ ہم تیرے دین کی خدمت اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں.ہمیں اپنی وجاہت سے غرض نہیں اپنے وقار سے غرض نہیں مگر ایک چیز ہے جو ہم چاہتے ہیں اور وہ یہ کہ جو کام ہمارے سپر دکیا گیا ہے وہ انجام تک پہنچ جائے.ہماری خواہش ہے تو یہ ہمارا ادارہ ہے تو یہ.ہماری امنگ ہے تو یہ.ہمارا مقصود ہے تو یہ.ہمارا مطلوب ہے.تو یہ کہ ہم چاہتے ہیں کہ پھر دنیا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت ہو.پھر دنیا میں قرآن مجید کی حکومت ہو.پھر دنیا میں ہمارے رب کی حکومت 63
دعائے مستجاب.ہو.اس خدمت کے بدلہ میں اگر ہمیں کچھ شہرت ملتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کا انعام ہے.ہم اس کے متلاشی نہیں.نہ ہم اس کے سائل ہیں.ہماری صرف ایک ہی غرض ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کا جلال دنیا میں قائم ہو.پس اگر اس راستہ میں کوئی روک بنتا ہے تو ہماری دُعا ہے کہ اسے خدا! تو اُسے ہدایت دے یا اسے ہمارے راستہ سے ہٹا دے.یا درکھو اگر تم سچے دل سے دعائیں کرو تو دنیا میں اتنے عظیم الشان تغییرات ہوں گے کہ تم حیران ہو جاؤ...00 64 ( الفضل ۱۷ مارچ ۱۹۳۶ء)
دعائے مستجاب.دعا.ایک نسخہ کیمیا روحانی ترقی میں ایمان کی کمزوری اور طبیعت کا انقباض بہت بڑی روک بن سکتا ہے.حضور اس صورت حال کا علاج بتاتے ہوئے مندرجہ ذیل نسخہ کیمیا تجویز فرماتے ہیں: " آج میں اجمالی طور پر تحریک جدید کے مطالبات کی طرف لوگوں کو بلاتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ اس پہلے درجہ کی آخری جماعت میں ہمارے دوست اعلیٰ نمبروں پر پاس ہوں گے کہ خدا کے فضل ان پر بارش کی طرح نازل ہونے لگیں گے اور دشمن کے دل مایوسی سے پر ہو جائیں گے اور منافقوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ جائے گی.ابھی بہت سا کام ہم نے کرنا ہے اور یہ تو ابھی پہلا ہی قدم ہے.اگر اس قدم کے اٹھانے میں جماعت نے کمزوری دکھائی تو خدا کے کام تو پھر بھی نہیں رکیں گے لیکن دُشمن کو مسیح موعود پر طعن کرنے کا موقعہ مل جائے گا اور ہر وہ گالی اور ہر وہ دشنام اور ہر وہ طعنہ جو مسیح موعود کو یا ان کے سلسلہ کو دیا جائے گا اس کی ذمہ داری انہی لوگوں پر ہوگی جو اپنے عمل کی کمزوری سے دشمن کو یہ موقعہ مہیا کرکے دیں گے....مومن کا قدم پیچھے نہیں پڑتا بلکہ اسے جتنی قربانی پیش کرنی پڑتی ہے اتنا 65
دعائے مستجاب.ہی وہ اخلاص میں آگے بڑھ جاتا ہے.ہر وہ شخص جس نے ایک سال یا دو سال قربانی کی توفیق پائی لیکن آج اس کے دل میں انقباض پیدا ہورہا ہے یا وہ اس بشاشت کو محسوس نہیں کرتا جو گزشتہ سال یا گزشتہ سے پیوستہ سال اس نے محسوس کی تھی.اسے میرے سامنے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کے سامنے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.اسے چاہئے کہ خلوت کے کسی گوشہ میں اپنے خدا کے سامنے اپنے ماتھے کو زمین پر رکھ دے اور جس قدر خلوص بھی اس کے دل میں باقی رہ گیا ہے اس کی مدد سے گریہ وزاری کرے یا کم سے کم گریہ وزاری کی شکل بنائے اور خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر کہے کہ اے میرے خدا لوگوں نے بیج بوئے اور ان کے پھل تیار ہونے لگے وہ خوش ہیں کہ ان کے اور ان کی نسلوں کے فائدے کیلئے روحانی باغ تیار ہورہے ہیں.پراے میرے رب ! میں دیکھتا ہوں کہ جو بیج میں نے لگایا تھا اس میں سے تو کوئی روئیدگی بھی پیدا نہیں ہوئی.نہ معلوم میرے کبر کا کوئی پرندہ اسے کھا گیا یا میری وحشت کا کوئی درندہ اسے پاؤں کے نیچے مسل گیا.یا میری کوئی مخفی شامت اعمال ایک پتھر بن کر اس پر بیٹھ گئی اور اس میں سے کوئی روئیدگی نکلنے نہ دی.اے خدا میں اب کیا کروں کہ جب میرے پاس کچھ تھا تو میں نے بے احتیاطی سے اسے اس طرح خرچ نہ کیا کہ نفع اٹھاتا مگر آج تو میرا دل خالی ہے.میرے گھر میں ایمان کا کوئی دانہ نہیں کہ میں بوؤں.اسے خدا میرے اسی ضائع شدہ پیج کو پھر مہیا 66
دعائے مستجاب.کر دے اور میری کھوئی ہوئی متاع ایمان مجھے واپس عطا کر اور اگر میرا ایمان ضائع ہو چکا ہے تو اپنے خزانے سے اور اپنے ہاتھ سے اس دھتکارے ہوئے بندہ کو ایک رحمت کا بیج عطا فرما کہ میں اور میری نسلیں تیری رحمتوں سے محروم نہ رہ جائیں اور ہمارا قدم ہمارے سچی اور اعلی قربانی کرنے والے بھائیوں کے مقام سے پیچھے ہٹ کر نہ پڑے بلکہ تیرے مقبول بندوں کے کندھوں کے ساتھ ہمارے کندھے ہوں.اے خدا بہت ہیں جو اعمال کے زور سے تیرے فضل کو کھینچ لائے.پر ہم کیا کریں کہ ہمارے اعمال بھی اڑ گئے.کیا تیرا رحم کیا تیرا بے انتہا رحم غیرت میں نہ آئے گا اور ہم جیسے کچھ بندوں کو بے عمل ہی اپنے فضل کی چادر میں نہ چھپالے گا.پس تم اس طرح خدا کے سامنے زاری کرو تا کہ تمہارے دلوں کے زنگ دور ہو جائیں اور تمہاری مُردہ رُوح پھر زندہ ہو جائے اور تم کو پہلے سے بڑھ کر قربانیوں کی توفیق ملے اور تمہارے عمل کا نتیجہ پہلے سالوں سے بھی زیادہ دشمن کیلئے حسرت اور یاس کا موجب بنے.اگر تم سچے دل سے خدا کی طرف جھکو گے تو وہ یقینا تمہارے دلوں کو کھول دے گا اور تم پر یہ ظاہر ہو جائے گا کہ خدا اور اس کے دین کیلئے جن قربانیوں کیلئے میں تم کو بلاتا ہوں انہیں میں اسلام کی بہتری ہے اور ان ہی میں اسلام کی شوکت ہے.خدا چاہتا ہے کہ وہ اپنی قربان گاہ پر مسیح محمدی کے بڑوں کی قربانی کرے اور ان کے خون کو اسلام کی خشک شدہ انگور کی بیل کی جڑ میں ڈالے ، تا کہ وہ پھر ہری ہو جائے 67
دعائے مستجاب.اور پھر اس میں خدا کے فضل کے انگور لگنے لگ جائیں.اگر تم میں سے کسی نے انجیل پڑھی ہو تو اس کو معلوم ہوگا کہ روحانی بادشاہت کو انگور کے باغوں سے تشبیہ دی گئی ہے اور انگور کی ہی بیل ایک ایسی بیل ہوتی ہے جس کو سبز و شاداب کرنے کیلئے خون کی کھا دڈالی جاتی ہے پس اس مثال میں اسی طرف اشارہ تھا کہ خدا کے دین کو تازہ کرنے کیلئے ہمیشہ انسانی قربانیوں کی ضرورت ہوگی اور انسانوں کے خون اس باغ کی جڑوں میں گرا کر اسے پھر زندہ اور شاداب کیا جائے گا.پس اے دوستو آؤ کہ ہماری جانیں اسلام کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.ہم میں سے ہر ایک شخص خواہ اس کو مال ملا ہے یا نہیں.اپنی اپنی توفیق کے مطابق خدا کے سامنے اپنی قربانی پیش کر دے.اور اس قربانی کو پیش کرنے کے بعد ایک مُردے کی طرح الہی آستانہ پر گر جائے.یہ کہتے ہوئے کہ اے میرے خدا اے میرے خدا میری اس حقیر نذر کو قبول کر اور مجھے اپنے دروازے سے مت دھتکار.آمین ثم آمین.“ 66 ( الفضل ۳ دسمبر ۱۹۳۶ء) اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ روحانی جنگ کا اسلحہ دُعا اور صبر ہے نہ کہ لوہے کی تلوار، حضور فرماتے ہیں: ” میری پالیسی یہی ہے کہ صبر سے کام لو اور اینٹ کا جواب اینٹ سے اور پتھر کا جواب پتھر سے نہ دو بلکہ گالیاں سنو اور خاموش رہو.اشتعال پیدا 68
دعائے مستجاب.ہو تو اس جگہ کو چھوڑ دو کیونکہ یہ سب ہمارے خدا کے امتحان ہیں کیونکہ وہ ہم کو اس روحانی جنگ کے لئے جو اسلام کی فتح کیلئے روحانی ہتھیاروں سے لڑی جانے والی ہے تیار کر رہا ہے.اگر اسنے ہم سے ظاہری تلوار میں چلوانی ہوتیں تو وہ ہم کو ظاہری حکومت اور ظاہری فوج بھی عطا کرتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ ہم سے دُعا اور صبر کی تلوار چلوانا چاہتا 66 ہے نہ کہ لوہے کی تلوار “ 00 (الفضل ۲۰ اگست ۱۹۳۷ء) استجابت کے مزے عرش بریں سے پوچھئے سجدہ کی کیفیتیں میری جبیں سے پوچھئے لمصلہ (حضرت اصلح الموعود) 69 69
دعائے مستجاب.دُعا کس طرح کی جاوے قبولیت دعا کیلئے بنیادی شرط یہ ہے کہ دُعا پر ایمان و یقین ہو.اس ضروری امر کی وضاحت کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: سب سے پہلے دعا پر ایمان اور یقین پیدا ہو.جو شخص بغیریقین کے دُعا مانگتا ہے اس کی دُعا خدا تعالیٰ کے حضور میں قبول نہیں ہوا کرتی.ہوسکتا ہے کہ کبھی ایسے شخص کی دعا قبول ہو جائے.صرف نمونہ کے طور پر اور اس کے دل میں یقین پیدا کرنے کیلئے لیکن قانون کے طور پر اسی شخص کی دُعا قبول ہوتی ہے جس کے دل میں یقین ہوتا ہے کہ خدا میری سنے گا چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: أَفَمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ کہ مضطر کی دُعا کون سنتا ہے؟ اور پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ہی سنتا ہے اور مضطر کے معنی عربی زبان میں یہ ہوتے ہیں کہ کسی کو چاروں طرف سے دھکے دے کر کسی طرف لے جائیں جو چاروں طرف سے رستہ بند پا کرکسی ایک طرف کو جاتا ہے.اسی کو مضطر کہتے ہیں.یعنی وہ ہر طرف آگ دیکھتا ہے.اپنے دائیں دیکھتا ہے تو اسے آگ نظر آتی ہے.اپنے بائیں دیکھتا ہے تو اُسے آگ نظر آتی ہے اپنے پیچھے دیکھتا ہے تو اُسے آگ نظر آتی ہے.اپنے نیچے دیکھتا ہے تو اسے آگ نظر آتی ہے.اپنے اوپر دیکھتا ہے تو اسے آگ نظر آتی ہے.70
دعائے مستجاب.صرف ایک جہت اس کے سامنے خدا تعالی والی باقی رہ جاتی ہے اور اسی پر اس کی نظر پڑتی ہے اور سب جگہ اُسے آگ ہی آگ دکھائی دیتی ہے مگر صرف ایک طرف اسے امن نظر آتا ہے.اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ مضطر کے معنوں میں یقین پایا جانا ضروری ہے.مضطر کے صرف یہی معنی نہیں ہیں کہ اس کے دل میں گھبراہٹ ہو کیونکہ گھبراہٹ میں بعض دفعہ ایک شخص بے تحاشہ کسی طرف چل پڑتا ہے بغیر اس یقین کے کہ جس طرف وہ جارہا ہے وہاں امن بھی حاصل ہوگا یا نہیں بلکہ بعض لوگ گھبراہٹ میں ایسی جگہ چلے جاتے ہیں جہاں خود خطرہ موجود ہوتا ہے اور وہ اس سے بچ نہیں سکتا.پس محض اضطراب کا دل میں پیدا ہونا اضطرار پر دلالت نہیں کرتا.اضطرار پر وہ حالت دلالت کیا کرتی ہے جب چاروں طرف پناہ کی کوئی جگہ انسان کو نہ نظر آتی ہو اور ایک طرف نظر آتی ہو.گویا اضطرار کی نہ صرف یہ علامت ہے کہ چاروں طرف آگ نظر آتی ہو بلکہ یہ بھی علامت ہے کہ ایک طرف امن نظر آتا ہو اور انسان کہ سکتا ہو کہ وہاں آگ نہیں ہے.تو وہی دُعا خدا تعالیٰ کے حضور قبول کی جاتی ہے جس کے کرتے وقت بندہ اس رنگ میں اس کے سامنے حاضر ہوتا ہے کہ اسے یقین ہوتا ہے کہ سوائے خدا کے میرے لئے اور کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے.یہی وہ مضطر کی حالت ہے جسے رسول کریم اللہ ہی ہم نے ان الفاظ میں ادا فرمایا ہے: لَا مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ اے خدا لا مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْكَ تیرے عذاب اور تیری طرف 71
دعائے مستجاب.سے آنے والے ابتلاؤں سے کوئی پناہ کی جگہ نہیں.کوئی نجات کی جگہ نہیں.سوائے اس کے کہ میں سب طرف سے مایوس ہوکر اور آنکھیں بند کر کے تیری طرف آجاؤں تو لا مَلْجَأَ وَلا مَنْجَا والی جو حالت ہے یہی اضطرار کی کیفیت ہے اور جب خدا نے قرآن میں کہا: أَفَمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَ اذَا دَعَاهُ بتاؤ مضطر کی کون سنتا ہے.تو مضطر کے معنی یہی ہوئے کہ ایسے شخص کی دُعا جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا ملا و مجا نہیں سمجھتا اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا ملجاو منجا قرار نہیں دیتا اور اس آیت میں کہ أَفَمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَ اذَا دَعَاهُ در حقیقت اسی کیفیت اضطرار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.اضطرار دنیا میں کئی قسم کے ہوتے ہیں اسی لئے یہاں مضطر کا لفظ رکھا گیا ہے.جس کے معنی تمام قسم کے مضطر کے ہیں.بعض بندے دُنیا میں اس قسم کے ہوتے ہیں اور گو حقیقتا اللہ تعالیٰ ہی ہر مضطر کا علاج ہے مگر اس کے دیئے ہوئے انعام کے ماتحت کوئی بندہ بھی ان کے اضطرار کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے چنانچہ بعض دفعہ ایک آدمی سخت غریب ہوتا ہے.اس کے کپڑے پھٹ جاتے ہیں اور اُسے نظر نہیں آتا کہ وہ نئے کپڑے کہاں سے بنوائے.ایک امیر آدمی جو بعض دفعہ ہندو ہوتا ہے.بعض دفعہ سکھ ہوتا ہے.بعض دفعہ پارسی ہوتا ہے.اسے دیکھتا ہے اور کہتا ہے تمہارے کپڑے پھٹ گئے ہیں آؤ 72
دعائے مستجاب.تمہیں نیا جوڑا بنوادوں.مگر جب یہ ایسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کے لئے کھانا اور پینا حرام ہو جاتا ہے پانی تک اسے ہضم نہیں ہوتا...تو ایسی حالت میں وہ امیر آدمی اس کی مدد نہیں کر سکتا بلکہ اگر کوئی طبیب اچھا ، لائق اور رحم دل ہوتا ہے اور وہ اسے اس حالت میں دیکھتا ہے تو کہتا ہے تمہیں علاج پر پیسہ خرچ کرنے کی توفیق نہیں ہے.میں تمہیں مفت دوائی دینے کیلئے تیار ہوں.تم میرے پاس رہو اور اپنے مرض کا علاج کراؤ.اب اس اضطرار کی حالت میں امیر اس کے کام نہیں آتا بلکہ طبیب اُس کے کام آیا.جب وہ کپڑوں کے لئے مضطر تھا تو امیر آدمی اُس کے کام آگیا مگر جب وہ علاج کیلئے مضطر ہوا تو ایک طبیب اس کے کام آ گیا...تو ایک ہی انسان کے مختلف اضطراروں میں مختلف لوگ اس کے کام آسکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: أَفَمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ مطلق مضطر جس کے لئے کوئی شرط نہیں کہ وہ کس قسم کا مضطر ہو.خواہ وہ بھوکا ہو، نگا ہو، پیاسا ہو، بیمار ہو بوجھ اٹھائے جارہا ہو.کسی قسم کی اضطرار ہو اس کی ساری ضرورتوں کو پورا کرنے والی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.“ (الفضل ۱۸ را پریل ۱۹۴۲ء) دُعا کی قبولیت کیلئے پر یقین مضطر ضروری ہے حضور فرماتے ہیں: اس لئے یاد رکھو دعا ئیں جب تک مضطر ہو کر نہ کی جائیں یعنی اس یقین کے ساتھ کہ دنیا کی ہر ضرورت کو پورا کرنے والی ہستی صرف اور صرف 73
دعائے مستجاب.خدا کی ذات ہے.اس وقت تک قبول نہیں ہوتیں.بیشک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو گو خدا کے دیئے ہوئے میں سے دیتے ہیں مگر بہر حال وہ انسان کو کپڑا ہی دے سکتے ہیں.بیشک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو گو خدا کے دیئے ہوئے علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں مگر بہر حال وہ بیماروں کا علاج ہی کر سکتے ہیں.بیشک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو گوخدا کے دیئے ہوئے علم سے دوسروں کی حفاظت کیلئے مقدمہ مفت لڑ سکتے ہیں مگر بہر حال وہ مقدمہ ہی بغیر فیس کے لینے کے لڑ سکتے ہیں.مگر کوئی انسان دنیا کا ایسا نظر نہیں آسکتا جس کے ہاتھ میں یہ ساری چیزیں ہوں.کوئی انسان ایسا نہیں جس کے ہاتھ میں جذبات کی تبدیلی ہو.یہ صرف خدا ہی کی ذات ہے جس کے قبضہ و تصرف میں تمام چیزیں ہیں اور جو دلوں اور اس کے نہاں در نہاں جذبات کو بھی بدلنے کی طاقت رکھتا ہے.پس جب تک مضطر ہو کر دُعا نہ کی جائے اس وقت تک دُعا قبول نہیں ہوتی لیکن جب اس رنگ میں دُعا کی جائے تو وہ خدا کے عرش پرضرور پہنچتی ہے اور قبول ہو کر رہتی ہے.پس دعائیں کرو اور اس شرط کو جو دعاؤں کی قبولیت کیلئے خدا تعالیٰ نے قرار دی ہے مد نظر رکھو.وقت نازک ہے اور ایک ایک دن قیمتی ہے..( الفضل ۱/۱۸ پریل ۱۹۴۲ء) جان لیوا مصائب و مشکلات اور مخالفت کے ہجوم میں جب انسان انتہائی بے بسی کے عالم میں کہہ اُٹھے کہ اے خدا ہماری مصیبتیں انتہا کو پہنچ گئیں تیری نصرت کہاں ہے؟ 74
دعائے مستجاب.تو وہی وقت خدا کی تائید و نصرت کا ہوتا ہے.حضور فرماتے ہیں: ”اے مومنو! اے مامور کی جماعت! کبھی یہ مت خیال کرو کہ بغیر مصیبتیں اُٹھائے تم کامیاب ہو جاؤ گے اور اس میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہاری وہ حالت نہیں ہوئی جو پہلے انبیاء کی جماعتوں کی ہوئی.کیا تمہاری مصیبتیں اس حد تک پہنچ چکی ہیں جو پہلے انبیاء کی جماعتوں کو پہنچیں.ان کو مالی بھی اور جسمانی بھی مصیبتیں پہنچیں اور چاروں طرف سے انہیں خوب جھنجھوڑا گیا.جس طرح جامن کو برتن میں ڈال کر ہلایا جاتا ہے.یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ والے پکار اٹھے کہ مَتى نَصْرُ الله اے خدا ہماری مصیبتیں انتہا کو پہنچ گئیں.تیری نصرت کہاں ہے؟ جب یہ وقت آجائے ساری مصیبتیں آجائیں.پاؤں لڑکھڑانے لگیں.دشمن اپنے سارے حربے استعمال کر چکیں.جسم آگے چلنے سے انکار کر دیں.دشمن کے گتے یعنی تمام اخلاق کو بالائے طاق رکھ کر ظلم کرنے والے لوگ اپنے قریب پہنچتے نظر آئیں جسم بالکل جواب دے بیٹھے تو بے اختیار دل سے نکلتا ہے.اے خدا تو کہاں ہے ؟ اس وقت خدا تعالیٰ کہتا ہے.أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ گھبراؤ نہیں میں تمہارے قریب ہی ہوں.تب سنت اللہ یہ ہے کہ قَرِيب جنگل بیابان میں جہاں پانی کا نشان نظر نہیں آتا جنت بنا کر مومنوں کے پاس رکھ دی جاتی ہے.جگہ کے لحاظ سے نہیں بلکہ حقیقت کے لحاظ سے.“ (الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۳۵ء) 75
دعائے مستجاب.مانا کہ ترے پاس نہیں دولت اعمال مانا ترا دنیا میں نہیں کوئی سہارا پر صورت احوال انہیں جا کے بتا تو شاہاں چہ عجب گر بنو از ند گدا را 76
دعائے مستجاب.دعا کی درخواست بطور رسم دُعا کے متعلق ایک غلط طریق اور رسم کی نشاندہی کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: ”ہماری جماعت میں یہ ایک عادت ہوگئی ہے کہ جب وہ ایک دوسرے کو ملیں گے تو کہیں گے کہ دُعا کرنا یہ کہہ کر آگے چل پڑیں گے.نہ کہنے والے کے دل میں یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ میرے لئے ضرور دُعا کرے گا اور نہ سننے والے کے نزدیک یہ بات کوئی توجہ کے قابل ہوتی ہے بلکہ وہ ایک دوسرے کو بطور رسم اور بطور رواج کے کہہ کر آگے چل پڑتے ہیں.جیسے انسان کسی دوسرے انسان سے ملتا ہے تو اس سے رواج کے طور پر خیریت وغیرہ پوچھتا ہے.اسی طرح یہ لوگ رسم کے طور پر ایک دوسرے کو دُعا کیلئے کہہ دیتے ہیں.اس بات کو اگر بطور رسم کے جاری رکھا جائے تو اس طرح آہستہ آہستہ دُعا کی عظمت جاتی رہتی ہے.ہمیشہ ایسے آدمی کو دُعا کیلئے کہنا چاہئے جس کے متعلق یقین ہو کہ وہ ضرور دُعا کرے گا اور جس کے متعلق یقین نہ ہوا سے مت کہو.تا کہ دُعا کی عظمت لوگوں کے دلوں میں کم نہ ہو جائے اور جن لوگوں کودُعا کیلئے کہا جائے ان کا فرض ہے کہ جس شخص نے ان کو دُعا کیلئے کہا ہو اس کیلئے ضرور دُعا کریں خواہ کسی رنگ میں اس کا نام لے کر یا مجموعی طور پر جس طرح ممکن ہو کیونکہ ہر چیز انسان کو یاد نہیں رہ سکتی اور خصوصاً ایسے 77
دعائے مستجاب.لوگوں کو تو ہر ایک شخص کا نام یاد نہیں رہ سکتا جنہیں سینکڑوں آدمی دُعا کیلئے کہنے والے ہوں.اس کیلئے ایک طریق تو یہ ہے کہ جس وقت کوئی شخص دُعا کیلئے کہے اسی وقت اس کیلئے دُعا کر دی جائے.دوسرا طریق یہ ہے کہ مجموعی دُعا نام لیکر یا بغیر نام کے کسی دوسرے وقت میں کر دی جائے.میں موقع کے مناسب دونوں طریق اختیار کرتا ہوں.چونکہ سب درخواست دُعا کرنے والوں کے نام یاد نہیں رہ سکتے اس لئے جن کے نام مجھے یاد ہوتے ہیں ان کے نام لیکر اور جن کے نام یاد نہیں ہوتے ان کیلئے مجموعی طور پر دُعا کر دیتا ہوں کہ اے خدا جنہوں نے مجھے دُعا کیلئے کہا ہے اور ان کے نام مجھے یاد نہیں تو انہیں ان کی نیک اغراض اور نیک ارادوں میں کامیاب فرما.حقیقت یہ ہے کہ جب تک پوری توجہ اور در دنہ ہودُعا کرنے اور دعا کرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور اگر پوری توجہ نہ ہو تو یہ بھی ایک عادت ہی کہلائے گی جیسے بعض لوگوں کو قسمیں کھانے کی عادت ہوتی ہے ہر بات پر خدا کی قسم کھاتے چلے جاتے ہیں.نہ انہیں کوئی قسم کھانے کیلئے کہتا ہے اور نہ ہی کوئی قاضی یا حاکم بیٹھا ہوتا ہے جو انہیں قسم کھانے کیلئے کہے بلکہ وہ بلا وجہ قسمیں کھاتے چلے جاتے ہیں.اس طرح قسم کی عظمت اور رعب باقی نہیں رہتا.اسی لئے بلا وجہ قسم کھانے سے شریعت نے روکا ہے.جس طرح بلا وجہ قسم کھانے سے قسم کی عظمت مٹ جاتی ہے اسی طرح بطور عادت ہر انسان کو دُعا کیلئے کہنے سے دُعا کی عظمت قائم نہیں رہتی.ہمیشہ دعا کیلئے کہنے سے 78
دعائے مستجاب.پہلے یہ دیکھو کہ کیا وہ شخص جس کو میں دُعا کیلئے کہنے لگا ہوں میرے ساتھ ایسا تعلق رکھتا ہے کہ اگر میں اے دُعا کیلئے کہوں تو اس کے دل میں ضرور تحریک ہوگی اور وہ درد کے ساتھ میرے لئے کرے گا اور میری تکلیف اور میرے غم میں شریک ہوگا اگر ایسا ہے تو ایسے شخص کو دُعا کے لئے بے شک کہو ورنہ بغیر اس کے تو ایک عادت ہی ہے جیسا کہ قسمیں کھانے والے ایک ہی سانس میں والله بالله ثم تا اللہ تین چار قسمیں کھا جاتے ہیں.پس مومن کو ایسی باتوں سے اعراض کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں مومنوں کی یہ شان بیان کی ہے کہ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ یعنی مومن اقو باتوں سے پر ہیز کرتے ہیں.پس دُعا کیلئے یہ اصول جو میں نے بیان کیا ہے ہمیشہ مدنظر رکھو کہ ایسے شخص کو دُعا کے لئے کہو جس کے متعلق تم سمجھتے ہو کہ اس کے دل میں تمہارے لئے واقعی درد ہے.جیسے بیٹا ماں کو دُعا کیلئے کہے یا بیوی خاوند کو دعا کیلئے کہے.یا ماں بیٹے کو دعا کیلئے کہے یا باپ بیٹے کو یا بیٹا باپ کو دُعا کیلئے کہے.یا بھائی بھائی کو کہے یا بہن کو کہے یا بہن بھائی کو کہے.یہ ایسے رشتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کو دوسرے کیلئے درد ہوتا ہے یا ایسا گہرا دوست ہو کہ جس کے متعلق تم سمجھتے ہو کہ تمہارے دُکھ اور تکلیف میں وہ تمہارے رشتہ داروں کی طرح شامل ہے ورنہ رسمی طور پر دوسرے کو دُعا کیلئے کہنا انسان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا.“ ( فرموده ۱۳ نومبر ۱۹۴۵ء بحواله الفضل) 79
دعائے مستجاب.حصول مقصد کیلئے عاجزانہ منکسرانہ دعاؤں کی عادت ڈالنا ضروری ہے حضور فرماتے ہیں: وو...ہمارا کام خواہ وہ انفرادی ہو یا قومی اسی وقت ہوسکتا ہے جب اس کے پیچھے رُوح کام کر رہی ہو.خالی لاش اس کام کو نہیں کر سکتی.زبانی باتیں کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا.پس چاہئے کہ ہماری جماعت دُعا کی طرف توجہ کرے اور اس کی اہمیت کو سمجھے.جب تک جماعت اس کی اہمیت کو نہ سمجھے گی اس کا کام مکمل نہیں ہوسکتا.جتنی کمزوری یا کمی ہمارے کام میں ہے اس کی آخر دوہی صورتیں ہیں یا تو یہ عدم توجہ کی وجہ سے ہے یا پھر یہ دل پر زنگ لگ جانے کی وجہ سے ہے.جسے وہ خود بھی نہیں جانتا کہ یہ کیوں ہے اور اس کا علاج کیا ہے.خدا تعالیٰ ہی اسے دور کرے تو کرے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ عاجزانہ اور منکسرانہ طور پر اس کے سامنے سجدے میں گرے اور اس سے دُعا کرے.پس جماعت کے دوستوں کو نماز پڑھنے اور دعائیں کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے...یہ ضروری ہے کہ انسان کے اندر انکسار اور یقین پایا جائے.جب وہ ان کو پورا کرے گا اور اسے دُعا کا چسکا پڑ جائے گا تو پھر قدرتی طور پر اسے نوافل پڑھنے کا شوق بھی پیدا ہو جائے گا.پھر رات کو اُٹھ کر تہجد پڑھنے کی توفیق بھی خدا اسے دے دے گا.پھر بعض وقت ایسے ہوتے ہیں جو خالی 80
دعائے مستجاب.ہوتے ہیں ان میں بھی دعائیں کی جاسکتی ہیں.جب انسان سونے لگتا ہے تو کچھ وقت ایسا ہوتا ہے جو خالی ہوتا ہے.آخر لیٹتے ہی تو نیند نہیں آجاتی.بے شک ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں لیٹتے ہی نیند آجاتی ہے مگر عام طور پر پندرہ میں منٹ ایسے ہوتے ہیں جو خالی ہوتے ہیں بعض تو آدھا آدھا گھنٹہ، گھنٹہ گھنٹہ لیٹے رہتے ہیں اور کروٹیں بدلتے رہتے ہیں لیکن انہیں نیند نہیں آتی.بہر حال اس وقت دس پندرہ منٹ کا وقت مل جاتا ہے.اسی کو اگر کوئی دُعا کیلئے وقف کر دے تو اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ ساری رات اس کے دل سے دُعائیں نکلتی رہیں گی.اگر کسی کو جلدی نیند آ جاتی ہے تو ضروری نہیں کہ ہمیشہ ہی اسے جلدی نیند آجاتی ہو.بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں لیٹتے ہی نیند آجاتی ہے اور وہ بھی کبھی کبھی.اگر فارغ وقت کو دُعاؤں میں لگا دیا جائے تو قومی ترقی اور اپنے کاموں کی اصلاح کیلئے دُعا کی عادت پیدا ہو جائے گی.رسول کریم صالنا ہی تم ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ عشاء کی نماز کے بعد کوئی بات نہیں کرنی چاہئے.اس میں یہی حکمت تھی کہ آخر یہ وقت کہیں تو صرف کیا جائے گا.اگر اس وقت میں ذکر الہی کیا جائے تو یہی وقت انسان کی روحانی ترقیات کا بن جائے گا.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جو کام ہمارے سپرد کئے گئے ہیں وہ اتنے وسیع ہیں کہ بظاہر وہ ناممکن نظر آتے ہیں اور ہم بھی سمجھتے ہیں کہ یہ ناممکن ہیں.اگر ہم اپنی انتہائی کوشش اور جدو جہد بھی کرلیں.اگر ہم ہر قسم کی قربانیاں بھی کر لیں تب بھی ہمارے کام 81
دعائے مستجاب.ادھورے اور نامکمل رہ جاتے ہیں اور جب تک ہمارے کام مکمل نہیں ہو جاتے ہم فتح نہیں پاسکتے.اس لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے عدد آئے اور خدا تعالیٰ کی مدد کو لانے کیلئے ایاک نستعین پر عمل کرنا ضروری ہے.اگر ہم اپنی پوری جدو جہد خرچ کریں اور ساری کی ساری قوت لگادیں پھر بھی وہ کام نہیں چلے گا اگر کام چل جاتا تو خدا تعالیٰ اِيَاكَ نَعْبُدُ کے ساتھ ايَاكَ نَسْتَعِین نہ فرماتا.اس میں یہی نصیحت ہے کہ تم پوری پوری جد و جہد کرو لیکن اس پر توکل نہ کر بیٹھو.بیشک تم توکل اور جد و جہد کرتے ہو تو پوری کرتے ہو تم جو قربانی کر سکتے ہو پورے زور کے ساتھ کرتے ہو تم چندوں میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہو تم روزوں کے پابند ہو تم زکوۃ پوری دیتے ہو.تم حاجتمندوں کی مدد کرتے ہو.تم خدمت خلق کرتے ہو لیکن پھر بھی اگر کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرو.اگر اياكَ نَسْتَعِین پر تم پوری طرح عمل نہیں کرتے تو یہ کامل عبودیت اس وقت ہی حاصل ہوتی ہے جب انیاک نستعین پر بھی عمل کیا جائے.اپنے لئے خود دُعا کرنا بھی ضروری ہے.پس جماعت کے دوستوں کو رسمی دعاؤں کیلئے کہنا چھوڑ دینا چاہئے.جب کوئی شخص کسی سے کہتا ہے کہ وہ اس کے لئے دعا کرے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ خود بھی دُعا کرے.اگر وہ مجھ کو دُعا کیلئے کہتا ہے اور آپ دُعا کیلئے کافی وقت نہیں نکالتا تو اللہ تعالیٰ دوسرے کے دل میں بھی دُعا کیلئے 82
دعائے مستجاب.تحریک نہیں کرتا.یہ روحانی چیز ہے.بعض لوگ مجھے دس دس رقعے لکھ دیتے ہیں.رقعے سنبھال کر تو نہیں رکھے جاتے.میری عادت ہے کہ رقعہ پڑھتے وقت دعا کرتا جاتا ہوں لیکن میرا تجربہ ہے کہ بعض دفعہ کسی کی طرف سے ایک ہی خط آتا ہے تو اس کیلئے دعا اس زور سے نکلتی ہے کہ وہ قبولیت کا موجب ہو جاتی ہے.حالانکہ مجھے اس کا علم بھی نہیں ہوتا اور نہ وہ میرا جانا بوجھا ہوتا ہے وہ رقعہ مختصر اور سادہ ہوتا ہے مگر اسے پڑھ کر ایک بجلی سی پیدا ہوتی ہے اور اتنے زور کے ساتھ دُعا نکلتی ہے کہ میں سمجھ لیتا ہوں کہ اس کا کام ہو گیا ہے.لیکن بعض کے بیس بیس رقعے آتے ہیں.بے شک اُن کیلئے بھی دعا نکلتی ہے اور ان کیلئے بھی میں دُعا کرتا ہوں لیکن اس کے پیچھے وہ جلی نہیں ہوتی کیونکہ اس کے لکھنے والا دُعا کا قائل نہیں ہوتا.یونہی رسمی طور پر دُعا کیلئے لکھ دیتا ہے.اس کے ماں باپ احمدی ہوتے ہیں یا دوست احمدی ہوتے ہیں وہ دُعا کے قائل ہوتے ہیں.وہ اسے کہتے ہیں تم ان سے بھی دعا کیلئے کہنا تو وہ لکھ دیتا ہے لیکن بوجہ اخلاص اور جوش کے نہ ہونے کے دُعا کرنے والے کے اندر بھی ویسی تحریک پیدا نہیں ہوتی.اگر دُعا کرنے والے کے اندر بھی اخلاص اور جوش پایا جاتا ہو.وہ دعا کی اہمیت کو سمجھتا ہو اور پھر وہ کسی کے پاس جاتا ہے اور اسے دُعا کیلئے کہتا ہے تو قدرتی طور پر اس کے اندر دُعا کی تحریک پیدا ہوتی ہے لیکن اس کے اندر اگر خود جوش اور اخلاص نہیں اُسے دُعا کی قبولیت پر یقین نہیں.وہ اپنی جد و جہد اور کوشش پر 83
دعائے مستجاب.توکل کر لیتا ہے تو اس کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا.کیونکہ دُعا جوش اخلاص اور یقین کے بغیر قبول نہیں ہوا کرتی.غرض اپنے کاموں کے علاوہ ہمیں یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ اے خدا جس حد تک ہماری طاقت تھی ہم نے کوشش کی.اب تو ہی اس کام کو پورا کر دے کیونکہ یہ کام اب ہماری طاقت سے بڑھ کر ہے.تم پہلے فرائض کو ادا کرنے کی طرف توجہ کرو.اگر تم دُعا کرتے رہو تو مجھے کسی خطبہ کی ضرورت ہی نہیں.اگر تمہارے اندر کمزوریاں اور خامیاں ہیں اور تم دُعا کرتے ہو کہ خدا یا تو ان کمزوریوں اور خامیوں کو دور کر دے تو تمہاری دُعا ہی ان کو دُور کر دے گی.اگر تم نمازوں میں کمزور ہو اور تم دُعا کرتے ہو کہ خدا تعالیٰ اس کمزوری کو دور کر دے اور تمہارے اندر اس کمزوری کا احساس پایا جاتا ہے تو خدا تعالیٰ تمہاری اس کمزوری کو دُور کر دے گا اور تم خود بھی نمازوں میں پابندی اختیار کرو گے.بہر حال اللہ تعالی کی مدد اس وقت ہی آئے گی جب تم خود بھی اپنے اندر تغیر پیدا کرو گے.اگر تمہارے اندر جوش اور اخلاص ہے اور پھر تم دُعا کرتے ہو تو تم کامیاب ہو جاؤ گے ورنہ کا میابی تمہیں حاصل نہیں ہوسکتی.پس ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنے اندر جوش اخلاص اور یقین پیدا کرو.میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں خا خصوصاً نو جوانوں کو کہ وہ اپنے اندر دُعا کی عادت پیدا کریں.پرانے لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ دیکھا ہے اور ان کے اندر دُعا کرنے کی عادت پائی جاتی ہے.اب 84
دعائے مستجاب.نوجوانوں کو بھی اپنے اندر یہ عادت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.خدا تعالیٰ کے سامنے رونے گریہ وزاری کرنے اور فریاد کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے.اگر وہ پورے اخلاص ، یقین اور جوش کے ساتھ ایسا کریں گے تو خدا تعالیٰ کی مدد آئے گی جو ان کی حالت کو بھی درست کر دے گی اور کامیابی کے رستے بھی ان کیلئے کھول دے گی.“ 66 (الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۴۸ء) غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے اے مرے فلسفیو زورِ دُعا دیکھو تو ( کلام محمود ) 85
دعائے مستجاب.دعا.بھروسے اور اعتماد کے ساتھ دُعا کی قبولیت کیلئے ضروری ہے کہ جس طرح ایک بچے کا اپنی ماں پر بھروسہ اور اعتماد ہوتا ہے.اسی طرح دُعا کرنے والے کی حالت ہو.یہ سنہری اصول بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: وو...اس وقت ہماری مثال ایک بچے اور اس کی ماں کی مثال ہوگی کہ وہ اپنی ماں کی گود میں بیٹھ کر دل میں کسی کا بھی خوف اور خطرہ نہیں رکھتا.اس کو اپنی ماں پر ایسا ناز اور ایسا گھمنڈ ہوتا ہے کہ اگر اس کو کوئی چھیڑے تو وہ جھٹ کہہ دیتا ہے کہ میں اپنی ماں سے کہہ دوں گا.اس وقت ایک بادشاہ بھی اس کو ڈرا نہیں سکتا.یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کا اپنی ماں پر ایسا گمان سچا ہے یا جھوٹا.مگر اس کے نزدیک جو کچھ ہے اس کی ماں ہی ہے.جس کی شہ پر وہ کسی کی بھی پرواہ نہیں کرتا حالانکہ بعض وقت اس کی ماں اس گھر کی نوکر اور خادمہ ہوتی ہے.پس جب ہم اپنے مولیٰ کی گود میں آجائیں گے جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے تو پھر ہمارا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے.ہم فوراً کہہ دیں گے کہ اگر ہمیں چھیڑا تو ہم اپنے مولیٰ سے کہہ دیں گے.“ (الفضل ۳ جنوری ۱۹۲۵ء) 86
دعائے مستجاب.دینی و دنیوی ترقیات کے حصول کا ایک یقینی اور مجرب طریق بتاتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: پہلی چیز جو ہمیں مدنظر رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم ایسی مشترک چیز حاصل کریں جو سب کے ساتھ شامل ہوتی ہے اور جس کا ہر موقعہ اور ہر حال میں ہونا ضروری ہے.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان : ۷۷) یعنی اے ہمارے رسول تو ان لوگوں سے کہدے کہ میرا رب تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے.اگر تمہاری طرف سے دُعا اور استغفار ہی نہ ہو.اس میں بتایا گیا ہے کہ جو قو میں میرے ذریعہ دینی اور دنیوی کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہیں ان کیلئے ضروری ہے کہ مجھے پکار میں اور مجھ سے دعا کریں ورنہ اگر تم دعا سے کام نہ لو گے تو تمہاری خدا تعالیٰ کو پرواہ ہی کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ایک دفعہ یہی الہام ہوا تھا جس میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ مسلمان دعا کو بھول گئے ہیں...جولوگ دعاؤں پر بھروسہ نہیں رکھتے ان کی یہی حالت ہوتی ہے.پس وہ قومیں جو کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہیں ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ دعاؤں پر زور دیں وہ لوگ جو کہا کرتے ہیں کہ مغربی اقوام جن میں سے اکثر خدا کو بھی نہیں مانتیں وہ کیوں ترقی کر رہی ہیں.انہیں یا درکھنا چاہئے کہ اپنوں اور غیروں کی ایک حالت نہیں ہوا کرتی ย 87
دعائے مستجاب..اپنے بچے کو اگر کوئی لکھنے پڑھنے سے جی چرا کر کھیلتا ہوئے دیکھے تو اُسے سزا دیتا ہے لیکن غیر کے بچہ کو کچھ نہیں کہتا.پس یہ تو ایسی بات ہے کہ اس میں کوئی الجھن ہی نہیں.حقیقت یہ ہے کہ جولوگ خدا کو چھوڑ دیتے ہیں ان سے قیامت کو مواخذہ ہوگا لیکن جو لوگ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہوئے سستی اور کوتا ہی سے کام لیتے ہیں ان سے گرفت کی جاتی ہے.مثلاً جسے پہرہ پر مقرر کیا جائے وہ اگر پہرہ سے غیر حاضر ہو جائے تو اسے پکڑیں گے لیکن دوسرے کو نہیں پکڑیں گے.پس وہ جو اپنے آپ کو خدا کے دین کا پہرہ دار کہتے ہیں وہ اگر غفلت کریں تو انہیں پکڑا جائے گا اور انہیں ضرور سزا ملے گی.ہماری جماعت کے افراد کو چاہئے کہ اپنے تمام کاموں میں خواہ کوئی بڑا کام ہو یا چھوٹا، دینی ہو یاد نیوی، دعا کی عادت اختیار کریں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی کشتی نوح میں لکھا ہے کہ: تم راستباز اس وقت بنو گے جبکہ تم ایسے ہو جاؤ کہ ہر ایک کام کے وقت ہر ایک مشکل کے وقت قبل اس کے جو تم کوئی تدبیر کرو اپنا دروازہ بند کرو اور خدا کے آستانہ پر گرو کہ ہمیں یہ مشکل پیش ہے.اپنے فضل سے مشکل کشائی فرما.تب رُوح القدس تمہاری مدد کرے گی اور غیب سے کوئی راہ تمہارے لئے کھولی جائے گی.“ کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۳) 88
دعائے مستجاب.غرض ہمارا کامیابی کا یہ بہت بڑا گر ہے کہ ہر کام کے شروع کرنے سے پہلے ہم اللہ تعالیٰ سے دُعا کر لیا کریں.خدا تعالیٰ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تعلیم دے کر ہمیں سکھایا ہے کہ جب کوئی کام کرنے لگو تو خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرلیا کرو.غرض دُعا خدا تعالیٰ کے ساتھ بندہ کے تعلق کی ایک علامت ہے.جب کوئی شخص دیکھے کہ دعا کی طرف اُسے رغبت نہیں تو وہ سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق کمزور ہو گیا ہے.دُعا خدا تعالیٰ کے حضور انسان کی پکار ہے اور وہ کون سا وقت ہو سکتا ہے جب انسان کسی نہ کسی تکلیف میں یا کسی نہ کسی مشکل میں مبتلا نہیں ہوتا ؟ وہ کونسا وقت ہے جب انسان قولاً یا عملاً کسی نہ کسی بات کی خواہش نہیں کر رہا ہوتا ؟ لیکن اگر اسے یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے ہر ایک تکلیف سے بچا سکتا اور اس کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے اور ہر آن اس کے نہایت ہی قریب ہے تو جس طرح ایک بچہ اپنی خواہش اور ضرورت اپنی ماں سے بیان کرتا ہے اسی طرح کیوں نہ انسان خدا سے کہے که تو میری تکلیف کو دُور فرما.پس دُعا کی طرف رغبت ہونا ثبوت ہے خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق کا.اور جتنی کسی کو دُعا کے ساتھ رغبت ہوگی اتنا ہی اسے خدا تعالیٰ سے زیادہ تعلق ہوگا اور جتنی بے رغبتی ہوگی اتنا ہی تعلق کم ہوگا.مگر اس کا علاج بھی دعا ہی ہے جیسا کہ رسول کریم مالی اسلام نے فرمایا ہے : لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَأَ مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ 89
ہیں: دعائے مستجاب.کہ ہر حالت میں خدا تعالیٰ کو ہی اپنی پناہ سمجھنا چاہئے اور اسی سے مدد طلب کرنی چاہئے.اسی طرح جن قوموں میں دُعا کا ادب و احترام اور اس کی عظمت اور قدر پائی جاتی ہے وہ سیدھے راستے پر چل رہی ہوتی ہیں اور یہ خدا تعالیٰ پر ان کے درست ایمان کی علامت ہوتی ہے لیکن جن میں یہ بات نہ ہو وہ روحانی لحاظ سے مُردہ ہوتی ہے.مجھے غیر مبائعین پر افسوس آتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دُعاؤں پر بھی یقین نہیں رکھتے.حالانکہ ان میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو مجھے دُعا کیلئے لکھا کرتے ہیں.ایک دفعہ ان کی ایک مبائع سے مسئلہ نبوت پر گفتگو ہوئی تو انہیں کہا گیا کہ آپ دُعا کیلئے تو خلیفت المسیح کو لکھتے ہیں لیکن مسئلہ نبوت میں اختلاف رکھتے ہیں.کہنے لگے اس عقیدہ میں تو مولوی محمد علی صاحب سچے ہیں.لیکن دُعائیں میاں صاحب کی قبول ہوتی ہیں.غرض جن قوموں میں سے دُعا کا ادب و احترام مٹ جاتا ہے وہ مردہ ہو جاتی ہیں.پس جب دُعا سے رغبت کم ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ روحانیت کمزور ہورہی ہے اور اس کا علاج کرنا چاہئے.“ 66 اسی مضمون کے تسلسل میں قبولیت دُعا کی شرائط بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے دُعا کے متعلق یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے.دُعا قبول ہونے رو 90
دعائے مستجاب.شرطیں تو ضرور ہیں ایک تو یہ کہ دعا میں تضرع ہو.عاجزی پائی جائے انسان اپنے قلب میں اس طرح محسوس کرے کہ میں پگھل رہا ہوں اور بالکل گداز ہو گیا ہوں اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئی بار میں نے یہ مثال سُنی ہے کہ جس طرح کباب بنانے والا دیکھتا ہے کہ کباب اندر تک پک گیا ہے یا نہیں.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دُعا کرتے ہوئے روتے ہیں اور گڑ گڑاتے ہیں مگر ان میں حقیقی گداز پیدا نہیں ہوتا.پس دُعا کرتے وقت حقیقی تضرع ہو.زبان اور شکل سے تضرع ظاہر ہونے کے علاوہ قلب بھی پگھل رہا ہو.عجز ہو.انکسار ہو اور انسان یہ سمجھے کہ سوائے خدا تعالیٰ کے اور کوئی کچھ نہیں بنا سکتا.یہ احساس انسان کے ذرہ ذرہ میں ہو.چاہے کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات ہو تو بھی انسان یہی سمجھے اور یہی یقین رکھے کہ سوائے خدا کے کوئی اسے پورا نہیں کر سکتا.دوسری شرط یہ ہے کہ یقین ہو کہ میری دُعا ضرور قبول ہو جائے گی.گویا ایک تو یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی کچھ نہیں کر سکتا.لیے دوسرے یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ ضرور یہ کام کر دے گا.اس یقین سے الگ ہوکر اگر کوئی دعا کرتا ہے تو وہ درحقیقت دعا نہیں کرتا خدا تعالیٰ فرماتا ہے: فَادْعُوا اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّيْنَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ 91 (المومن : ۱۵)
دعائے مستجاب.کہ اے میرے بندو خدا کو پکارو مُخْلِصِينَ لَهُ الذِيْنَ یہ یقین رکھتے ہوئے کہ فائدہ صرف خدا ہی سے حاصل ہوسکتا ہے...اور پھر یہ بھی بندہ یقین رکھے کہ وَلَوْ كَرِةَ الكفرون خدا جس فیصلہ کا ارادہ کرے وہ ہوکر رہتا ہے.پس ایسی طرز میں دعا کرو کہ تمہیں یہ یقین ہو کہ نتیجہ صرف خدا ہی کی طرف سے مرتب ہو گا.تم یہ سمجھو کہ پانی پینے سے پیاس نہیں بجھتی بلکہ خدا ہی پیاس بجھاتا ہے.اسی طرح روٹی کھانے سے بھوک دُور نہیں ہوتی بلکہ خدا ہی بھوک دور کرتا ہے.کپڑا پہننے سے ننگ نہیں ڈھکتا بلکہ خدا ہی ڈھانکتا ہے.جب یہ یقین اور وثوق پیدا ہو جائے تو پھر خواہ ساری دنیا سے مقابلہ ہو ضرور تمہیں کامیابی حاصل ہوگی اور کوئی اسے روک نہیں سکے گا.اسی طرح دوسری جگہ آتا ہے: وَمَا دُعَوُا الْكَفِرِينَ إِلَّا فِي ضَللٍ (المومن : ۵۱) کافر کے معنی ناشکرے اور مایوس کے ہوتے ہیں.پس فرمایا وَمَا دُھوا الكفرين إلا في تسلل جو لوگ خدا سے مایوس ہو جاتے ہیں اور ناشکرے ہوتے ہیں ان کی دُعا کبھی نہیں سنی جاتی بلکہ ردکر دی جاتی ہے.خدا تک وہی دُعا پہنچتی ہے جو اس یقین کے ساتھ کی جاتی ہے کہ خدا کے سوا کوئی نتیجہ نہیں نکالتا اور اس یقین کے ساتھ کی جاتی ہے کہ خدا ضرور دُعا قبول کرے گا.دیکھو خدا تعالیٰ کسی وضاحت کے ساتھ فرماتا ہے: 92
دعائے مستجاب.وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِ أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَنِ سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَخِرِينَ (المومن : ۶۱) اے مومنو! اسنو تمہارا رب فرماتا ہے وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْمُونَ أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَخِرِينَ مُجھ سے دعائیں مانگو میں ضرور تمہاری دعائیں سنوں گا.اب (نعوذ باللہ ) خدا تعالیٰ تو جھوٹا نہیں ہوسکتا جب وہ کہتا ہے ادْعُونِ أَسْتَجِبْ لَكُمْ اگر مجھ سے دُعا مانگو گے توضرور منظور ہوگی.تو صاف لفظوں میں فرمایا کہ کوئی استثناء نہیں.سو کی سو دعائیں ہی سنی جائیں گی.یہ نہیں کہ سو میں سے دس یا بارہ یا اسی یا نوے یا پچانوے سنوں گا.بلکہ یہ بھی نہیں فرمایا کہ سو میں سے 99 سنوں گا بلکہ یہ کہا ہے کہ سو میں سے سو ہی سنوں گا، کیونکہ فرماتا ہے: وَقَالَ رَبُّكُمُ تمہارا رب یہ کہتا ہے.کوئی معمولی ہستی نہیں کہہ رہی کہ تم کہد و کہ وہ اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے گی وہ خدا جس نے تمہیں نہایت ہی ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر اشرف المخلوقات بنایا وہ کہتا ہے ادْعُونِ اسْتَجِبْ لَكُم تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری ساری دعائیں سن لوں گا.ہاں إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادت وہ لوگ جو میری عبادت کے کام کو بُرا سمجھتے ہیں جو میرے سامنے عجز کرنے سے گریز کرتے ہیں اور عبادت کے معاملہ میں کبر سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ کام ہم خود کر سکتے ہیں.خدا نے کیا کرنا ہے وہ اگر اس دنیا 93
دعائے مستجاب.میں کچھ کر لیں تو ہم انہیں محروم نہیں کریں گے کیونکہ ہمارا یہ بھی قانون ہے کہ : كُلا نُسِدُّ هَؤُلَاءِ وَ هَؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْفُورًا ( بنی اسرائیل : ۲۱) مگر ان کی روحانیت برباد ہو جائے گی.پس اگر کوئی شخص یہ بھی سمجھتا ہے کہ وہ اپنے پاؤں میں جوتی بھی اپنی ہمت اور طاقت سے پہن سکتا ہے اور اس میں خدا تعالیٰ کی مدد کی اسے ضرورت نہیں ہے تو اس کا ایمان ضائع ہو جاتا ہے.قبولیت دعا کے متعلق ایک نہایت ضروری سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: ” میں نے جو یہ کہا ہے کہ خدا تعالیٰ سو کی سو دعائیں ہی سنتا ہے اس سے بعض لوگوں کو خیال پیدا ہوگا کہ خدا تعالیٰ کہاں ساری دُعائیں سنتا ہے.اس سوال پر میں ابھی روشنی ڈالوں گا لیکن اس سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دُعا میں جہاں ابتداء میں یہ ضروری ہے کہ انسان کو یہ یقین ہو کہ خدا کے سوا کوئی کچھ نہیں کر سکتا اور یہ بھی یقین ہو کہ وہ میری ہر ایک دُعا ضرور سن لے گا.وہاں انتہا کیلئے بھی یہ دوضروری شرطیں ہیں کہ اوّل تضرع ہو دوم اعتماد ہو.تضرع ہو اس احساس پر کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا بے بہا خزانہ ملا ہوا ہے کہ اس سے جو چاہوں مانگ لوں اور اعتماد ہو اس امر پر کہ جو دُعا کی گئی وہ قبول ہو چکی.اگر کسی دُعا کا نتیجہ ہمارے منشاء کے مطابق 94
دعائے مستجاب.لا نہ نکلے تو بھی یہی یقین ہو کہ وہ دُعاسنی گئی ہے.دعاسنی ہی جب جاتی جب انسان اس درجہ پر پہنچ جائے اور پھر اس کی ہر ایک دعاسنی جاتی ہے.ایک شخص جس کا بیٹا بیمار ہو وہ دُعا کرتا ہے کہ الہی میرا بیٹا بچ جائے.وہ دعائیں کرتا کرتا نڈھال ہو جاتا ہے کہ فرشتہ اترتا ہے اور اس کے بیٹے کی روح قبض کر کے لے جاتا ہے اس کے بعد وہ اپنے بیٹے کی لاش اُٹھاتا ہے اور اُسے قبر میں دفن کر آتا ہے مگر باوجود اس کے اسے یقین ہونا چاہئے کہ اس کی دعاسنی گئی.اگر اسے یہ یقین نہیں تو پھر اس کی کوئی دعا نہیں سنی جائے گی اس لئے کہ خدا تعالی نے بندہ کو یہ سکھایا ہے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور جب خدا تعالیٰ اپنے ہر فعل میں تعریف کا مستحق ہے تو یہ کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ اس نے کسی انسان پر ظلم کیا ہے.اس موقعہ پر میں ایک مثال سناتا ہوں.رام پور کے ایک سابق نواب صاحب تھے جو چاچڑاں والے بزرگ خواجہ غلام فرید صاحب کی مجلس میں بیٹھے تھے.باتوں باتوں میں لوگوں نے یہ ذکر شروع کر دیا کہ آتھم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.نواب صاحب نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی.اس پر خواجہ غلام فرید صاحب جوش میں آگئے اور انہوں نے کہا کہ اندھا ہے جو یہ کہتا ہے کہ آتھم کے متعلق حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی میں تو اس کی لاش دیکھ رہا ہوں.95
دعائے مستجاب.پس جب تک انسان کو یہ اعتماد نہ ہو کہ خدا تعالیٰ نے اس کی دعا سن لینی ہے اس وقت تک اس کی دُعا نہیں سنی جاتی اور جسے یہ اعتماد ہو کہ اس کی دعا ضرورسُنی جاتی ہے خواہ جس شخص کیلئے اس نے دُعا کی ہو اس کی لاش خود دفن کر کے آیا ہو.دیکھو رسول کریم صل للہ ایسی تم نے ہر ایک مومن کو نماز میں یہ سکھایا ہے کہ یام الله لمن حمدہ یعنی جس نے اللہ تعالی کی حمد کی اس کی دعا خدا تعالیٰ نے سن لی.اب جس شخص کو اس پر ایمان ہوا سے خواہ ظاہری آنکھوں سے اپنی دُعا قبول ہوتی نظر نہ آئے تو بھی وہ یہی کہے گا کہ میری آنکھیں غلطی کر سکتی ہیں یہ نہیں ہوسکتا ہے خدا تعالیٰ نے دُعانہ سنی ہو.اس نے دعا ضرور سن لی ہے.حضرت مسیح ناصری کے متعلق ایک واقعہ لکھا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا.جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ خدا کی قسم میں نے چوری نہیں کی.اس پر انہوں نے کہا میری آنکھیں جھوٹی ہیں مگر تو سچا ہے.پس خدا تعالیٰ کے بندے تو بندوں کے متعلق بھی نہیں کہتے کہ تم جھوٹے ہو پھر وہ خدا کیلئے کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ نعوذ باللہ اس نے جھوٹ کہا.پس ہر حالت میں یہ سمجھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے دُعا سن لی ہے....ایک اور آیت میں : وَاخِرُ دَعْوهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (یونس:۱۱) یعنی خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والا ابتدا میں خدا تعالیٰ کی حمد کرتا ہے کیونکہ 96
دعائے مستجاب.وہ جانتا ہے کہ خدا اس کی دُعا سنے گا اور آخر میں بھی حمد کرتا ہے کیونکہ سمجھتا ہے کہ خدا نے اس کی دُعا سن لی.یہی اصل مقام ہے جس پر جب انسان پہنچ جاتا ہے تو اس کی ہر ایک دعاسنی جاتی ہے.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ وہ کیا بات ہے کہ جو سنی ہوئی دُعا نظر نہیں آتی وہ بھی سن لی جاتی ہے.اصل بات یہ ہے کہ حقیقی خیر خواہ وہ ہوتا ہے جو ایسا کام کرے جس میں دوسرے کا فائدہ ہو.ایک نادان بچہ اگر ماں سے کہے کہ مجھے سنکھیا کھلا دو تو کیا وہ کھلا دے گی؟ ہر گز نہیں اور جب ماں اپنے بچے کی یہ بات نہیں سنے گی تو ہم یہی کہیں گے کہ اُس نے بچے کی بات سُن لی کیونکہ بچے کی خواہش تو یہ بھی تھی کہ اُسے فائدہ حاصل ہو اور اسے فائدہ اسی صورت میں پہنچا کہ اس کی بات نہ مانی گئی.اسی طرح خدا تعالیٰ سے دُعا کرنے کی اصل غرض یہی ہوتی ہے کہ انسان فائدہ اُٹھائے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اگر تمہیں یہ یقین ہو کہ خدا تمہاری دعا ضرور سنے گا تو ہم ضرور نہیں ہر موقعہ پر تباہ ہونے سے بچالیں گے.اگر کسی کو ملیریا بخار چڑھا ہوا ہو اور وہ کونین مانگے تو اُسے کونین دینا اس کیلئے مفید ہوگا لیکن اگر تپ محرقہ ہو اور پھر کونین مانگے تو اس صورت میں کو نین دینا اس کی بات نہ سننا ہوگی اور اگر نہ دی جائے تو یہ سننا ہوگی.اس کی کونین مانگنے سے غرض مرنا تھی یا صحت حاصل کرنا.یقیناً اس کی غرض صحت حاصل کرنا ہوگی.اور اس کیلئے ضروری ہوگا کہ اُسے کو نین نہ دی جائے اور اس طرح اس کی بات سنی جائے.اسی طرح جو شخص اپنے 97
دعائے مستجاب.بیٹے کی زندگی کیلئے دُعا کرتا ہے.میں اس کی مثال لیتا ہوں.بیٹے کی زندگی کی اس لئے خواہش کی جاتی ہے کہ انسان کا دنیا میں نام قائم رہے لیکن اگر وہ بیٹار ہتا تو ممکن تھا کہ کافر ہوکر مرتا.اب جو اس کی زندگی کیلئے دعا کی جاتی تھی وہ خدا تعالیٰ نے اُسے ایمان پر وفات دیکر قبول کر لی.ہاں ان مول استجب لکم میں خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ نہیں کیا کہ جو کچھ مانگا جائے گا وہ نام کے طور پر دے دے گا بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اصل چیز دے گا.اس طرح ہر ایک دعا اصلیت کے لحاظ سے ضرور سنی جاتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تمام دُعائیں نہیں سنی جاتیں یہ بھی نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دعائیں سب سنی جاتی ہیں.جو شخص اس کا انکار کرتا ہے اس کی آنکھیں جھوٹی ہیں.اس کے کان جھوٹے ہیں اور وہ خود جھوٹا ہے اور اگر کسی کو ایک سیکنڈ کے لئے بھی یہ شبہ ہوتا ہے کہ اس کی کوئی دعا سنی نہیں جائے گی تو اس کے سب کئے کرائے پر پانی پھر گیا.ہمیشہ یہی یقین ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اس کی ہر ایک دعا سن لی اور ضرورسن لی.جب انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو پھر نام کے لحاظ سے بھی اس کی بہت سی دُعائیں سن لی جاتی ہیں.“ (الفضل ۲۰ ستمبر ۱۹۶۱ء) 00 98
دعائے مستجاب.اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ پر یقین اور توکل اس کے فضلوں کو جذب کرنے کا ذریعہ ہے.حضور ارشادفرماتے ہیں: حضرت ابن عباس سے کسی نے پوچھا سب سے زیادہ توجہ سے آپ کس کا کام کیا کرتے ہیں انہوں نے کہا میں اس شخص کا کام سب سے زیادہ توجہ سے کرتا ہوں جو مجھے کہدے کہ اسے ابن عباس تیرے سوا میرا یہ کام کوئی اور شخص نہیں کر سکتا.اگر ابن عباس کے دل میں اتنی غیرت ہو سکتی ہے کہ جب کوئی شخص ان پر بھروسہ کرے تو وہ ان کا کام کر دیں.تو کیا ہمارے مولیٰ میں اتنی غیرت بھی نہیں کہ ہم کہیں خدایا تیرے سوا ہمارا کوئی مددگار نہیں تو وہ ہماری التجا نہ سُنے.ایسا کبھی نہیں ہوسکتا.بلکہ جب ہم یقین سے کہیں کہ خدایا تو نے ہی یہ کام کرنا ہے تو وہ کام پورا بھی کر دیتا ہے مگر نقص یہی ہے کہ یقین کی کمی ہے.منہ سے تو کہتے ہیں خدا یا یوں کر مگر دل خدا کی نصرت پر یقین نہیں رکھتا.ایسی دُعا خدا کی درگاہ سے رد کر دی جاتی ہے اور دُعا کرنے والے کے منہ پر ماری جاتی ہے.پس دعائیں کرو، عبادت کی عادت ڈالو اور ذکر الہی کرو اور ضروری بات یہ ہے کہ تہجد کی عادت ڈالو.مجھے افسوس ہے ہماری جماعت میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو تہجد کیلئے اُٹھتے ہیں اگر زیادہ نہیں کر سکتے تو کم از کم اتنا تو کرو...کہ یہ عہد کریں کہ جمعہ کی رات تہجد ضرور پڑھنی ہے.ایک رات تہجد پڑھ لو اور چھ راتیں سولو.اس طرح آہستہ آہستہ باقی دنوں میں بھی اُٹھنے کی 99
دعائے مستجاب.عادت ہو جائے گی.اگر دوست اتنا ہی عہد کر لیں اور اسے پورا کرنے کی کوشش کریں اور جمعہ کی رات تمام جماعت اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور دُعائیں کرے تو ہماری متحدہ دعائیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے میں عظیم الشان اثر دکھا ئیں گی...پس جو لوگ تہجد پڑھا کرتے ہیں وہ تو پڑھا ہی کریں مگر وہ جو اُٹھ نہیں سکتے انہیں میری یہ نصیحت ہے کہ وہ کم از کم جمعہ کی رات ضرور اُٹھیں اور تہجد پڑھیں.میں جمعہ کی تخصیص اس لئے کرتا ہوں کہ تا سارے دوست ایک ہی رات اُٹھیں اور مشرق و مغرب کے احمدی اللہ تعالیٰ کے حضور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی کامیابی اور اپنے اندر اخلاص ، تقویٰ اور طہارت پیدا ہونے کے لئے چلائیں...اور سب اللہ تعالیٰ کے حضور متفقہ طور پر دعائیں مانگیں.میں اللہ تعالیٰ کے حضور دُعا کرتا ہوں کہ جب اس نے حمل کے ایام میں ہماری حفاظت فرمائی اور طفولیت کے ایام میں ہمارا پاسبان رہا اور جوانی کے وقت بھی اس نے ہمیں دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھا وہ ہمارے کہل کا زمانہ اس سے بھی زیادہ با برکت بنائے اور بلغ اشده کا زمانہ جو اُس نے ہمیں عنایت فرمایا ہے اس میں وہ ہمارے سلسلہ کو اکناف عالم میں پھیلائے اور ایسے ایسے اسباب پیدا فرمادے جو ہماری جماعت کی بیش از پیش ترقیات کا موجب ہوں.“ (الفضل ۱۱ جون ۱۹۲۱ء) دُعا اور ذکر الہی کے متعلق بعض دفعہ یہ بتایا جاتا ہے کہ گن کر اتنی دفعہ درود شریف 100
دعائے مستجاب.پڑھا جائے یا تسبیح وتحمید کی جائے اور بعض اوقات بغیر تعین کے عام ذکر اور تسبیح وتحمید کا حکم ہوتا ہے.اس امر کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: ” بے حساب ذکر میں بھی خوبی ہوتی ہے اور با حساب ذکر میں بھی خوبی ہوتی ہے.با حساب میں تو یہ خوبی ہوتی ہے کہ انسان اس کے متعلق تعہد سے کام لیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ میں اتنی بار ضرور ذکر کروں اور بے حساب میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ انسان اپنے محبوب کو یاد کرتے وقت گفتی کو مد نظر نہیں رکھتا بلکہ اپنے عشق کے تقاضا کو پورا کرنے کیلئے ہر وقت اپنے محبوب کا نام زبان پر جاری رکھتا ہے.پس دونوں میں خوبیاں ہیں.باحساب میں بھی خوبیاں ہیں اور بے حساب میں بھی خوبیاں ہیں.در حقیقت تسبیح وتحمید تو ایک ایسی چیز ہے جو مومن کے دل سے ہر وقت نکلتی رہتی ہے.کھانا کھاتے ہوئے ، پانی پیتے ہوئے، کپڑے پہنتے ہوئے ، اُٹھتے ہوئے ، بیٹھتے ہوئے ، چلتے ہوئے ، ٹھہرتے ہوئے ، سوتے ہوئے، جاگتے ہوئے ، ہر وقت اور ہر حالت میں خدا کی طرف متوجہ رہتا ہے اور بات بات پر اس کے منہ سے سبحان اللہ اور الحمد للہ نکل جاتا ہے.اس طرح خواہ وہ با حساب ذکر کرتا ہو پھر بھی وہ بے حساب ہی بن جاتا ہے اور وہی اصل ذکر ہوتا ہے.جس ذکر کیلئے انسان کو ۲۴ گھنٹے انتظار کرنا پڑے اور کہے کہ جب فلاں وقت آئے گا تو اس وقت ذکر کروں گا وہ ذکر نہیں کہلا سکتا.ذکر وہی ہے جو ہر وقت اور ہر حالت میں انسان کی زبان پر جاری 101
دعائے مستجاب.رہے.تعداد کے لحاظ سے بے شک ایک خاص وقت بھی مقرر کیا جا سکتا ہے مگر محبت کے لحاظ سے وقت کی تعیین کا خیال غلط ہوتا ہے کیونکہ عشق میں انسان کی دونوں حالتیں ہوتی ہیں.عشق کی ایک حالت تو وہ ہوتی ہے جب انسان اور تمام کاموں سے فارغ ہو کر اپنے دوست سے باتیں کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے اور عشق کی دوسری حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ خواہ اور کاموں میں لگا ر ہے اس کا دل اپنے محبوب کی طرف ہی ہوتا ہے.پس عشق دونوں باتوں کا تقاضا کرنا ہے.عشق یہ بھی چاہتا ہے کہ عاشق اپنے معشوق کے لئے اور کاموں سے فارغ ہو جائے اور عشق یہ بھی چاہتا ہے کہ عاشق اپنے معشوق کا ہر وقت ذکر کرتا رہے.پس چونکہ یہ دونوں باتیں ضروری ہیں اس لئے خواہ کوئی شخص ایک معین وقت میں ایک ہزار دفعہ درود پڑھ لے اور ہزار دفعہ تسبیح کرلے پھر بھی جب وہ دوسرے اوقات میں بغیر گنتی کے اپنے محبوب کا ذکر کرے گا تو ہزار جمع ان گنت ہو کر تو سب کا سب ذکر بے حساب بن جائے گا.یا فرض کرو ایک شخص ۳۳، ۳۳ دفعہ سبحان اللہ اور الحمد للہ کہتا ہے اور ۳۴ دفعہ اللہ اکبر کہتا ہے اور پھر سارا دن بغیر گنے کے مختلف مواقع پر کبھی سبحان اللہ کہہ دیتا ہے کبھی احمد للہ کہ دیتاہے اور کبھی اللہ اکبر کہ دیتا ہے تو گفتی شدہ تسبیح وتحمید و کمبیر میں ان گنت تسبیح وتحمید و کبیر جب مل جائے گی تو سب تسبیح و تحمید ان گنت ہو جائے گی.اس طرح یہ دونوں چیزیں مل کر ایک مومن کے عشق کو مکمل کرتی ہیں ورنہ اکیلی نہ یہ چیز اس کے عشق کو مکمل کرتی 102
دعائے مستجاب.ہے نہ وہ چیز اس کے عشق کو مکمل کرتی ہے.اگر یہی خیال آتا رہے کہ میں فلاں وقت ہی ذکر کروں گا، آگے پیچھے نہیں کروں گا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اپنے اوقات کو کلی طور پر خدا تعالیٰ کی یاد میں صرف کرنے کیلئے تیار نہیں.وہ اس بات کا منتظر رہتا ہے کہ وہ مقررہ وقت آئے تو وہ ذکر کرے حالانکہ مومن وہی ہے جو ہر حالت میں خدا تعالیٰ کو یا در کھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی بزرگ کا یہ مقولہ سنایا کرتے تھے کہ دست در کار و دل بایار یعنی انسان کے ہاتھ کام میں مشغول ہونے چاہئیں اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.اسی طرح ایک پنجابی صوفی کے متعلق مشہور ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ میں کتنی دفعہ اللہ کا ذکر کیا کروں.انہوں نے فرمایا: یار داناں لینا تے گن گن کے یعنی محبوب کا نام لینا اور پھر گن گن کر.تو اصل ذکر وہی ہے جو ان گنت ہومگر ایک وقت معین کرنے میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ انسان اس وقت اپنے محبوب کے لئے اور کاموں سے بالکل الگ ہو جاتا ہے.اور چونکہ یہ دونوں حالتیں ضروری ہیں اس لئے صحیح طریق یہی ہے کہ معین تعداد میں ان گنت ملا دیا جائے پھر وہ سارے کا سارا ذکر ان گنت ہو جائے گا.“ الفضل ۲۲ مئی ۱۹۶۰ء) قرب الہی کے حصول کا ایک آزمودہ اور مؤثر طریق بیان کرتے ہوئے حضور 103
دعائے مستجاب.فرماتے ہیں: میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دُعائیں کریں اور ان ایام ( رمضان ) میں دعاؤں پر بہت زور دیں.مگر یا درکھیں کہ ان کا اصلی مقصود یہی ہو کہ خدامل جائے.دنیا کیلئے بھی اگر دعا کریں تو منع نہیں مگر مد نظر یہ ہو کہ دنیا کی جتنی بھی حاجات ہیں ان کا مانگنا تو ایک ذریعہ اور بہانہ ہے.خدا تعالیٰ سے ملنے کا.اصل چیز خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کا قرب ہے...پس یقین اور وثوق کے ساتھ خدا تعالیٰ کو مانگو.“ 00 (الفضل ۱۹ پریل ۱۹۲۶ء) مدعا ہے میری ہستی کا کہ مانگوں بار بار مقتضا انکی طبیعت کا سخا و جود ہے 104
دعائے مستجاب.سورۃ فاتحہ کی عظمت وشان پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور سب مسلمانوں کی بہتری کیلئے دُعا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پس سوچ سمجھ کر دُعائیں کرو اور اپنی قوم کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر اور ان کا احساس کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرو.اللہ تعالیٰ تمہاری دُعاؤں کو سنے گا اور رمضان کا مہینہ تمہارا استاد بن جائے گا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ سوچ بچار کرنے سے تم اپنے استاد آپ بن جاؤں گے.بعض لوگ مجھے کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی دُعا سکھا دیں.میں انہیں جواب دیا کرتا ہوں کہ سورۃ فاتحہ ہی سب سے بڑی دُعا ہے.جب وہ تمہیں آتی ہے تو پھر تمہیں کسی اور دُعا کے سیکھنے کی کیا ضرورت ہے.دوسروں کے دعائیں سکھانے سے کچھ نہیں بنتا.اصل دُعا وہ ہے جو انسان کے اندر سے آپ پیدا ہوتی ہے.یہ صاف بات ہے کہ جو درد اندر سے پیدا نہ ہو، دوسرے لوگوں کے کہنے سے پیدا نہیں ہوسکتا اور دعا کی قبولیت کیلئے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ اس کے ساتھ رقت اور گداز ہو جتنا سوز و گداز زیادہ ہوگا اتنی ہی دُعا قبولیت کا رنگ اختیار کرے گی.کسی نے کہا ہے: جو منگے سومر ر ہے جو مرے سوئمنگن جا جو مرتے نہیں ہیں انکی دُعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں.صرف منہ سے کہہ دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.جب تک اس دُعا کے ساتھ پر درد جذبات نہ ہوں.105
دعائے مستجاب.رسول کریم صلی سلیم نے یتیم اور مظلوم کی دُعا کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ عرش الہی کو ہلا دیتی ہے.انہیں کوئی لمبی لمبی دعائیں کرنے کی ضرورت نہیں ان کی ایک آہ ہی عرش کو ہلانے کیلئے کافی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ درد کے جذبات سے پر ہوتی ہے اور وہ اس بادل کی طرح ہوتی ہے جو پانی سے پر ہوتے ہیں اور اپنے پانی سے زمین کا چپہ چپہ گیلا کر دیتے ہیں.اور جو دُعا جذبات درد سے خالی ہے وہ سوکھے بادل کی طرح ہے کہ جس میں پانی کا ایک قطرہ نہیں ہوتا.صرف اس کے ساتھ آندھی ہوتی ہے اور بسا اوقات وہ گھروں کی چھتوں کو اڑا کر لے جاتا ہے.پس تمام احمدی دوستوں کو اپنے لئے اپنے ہمسایوں کیلئے اپنی جماعت کیلئے باقی مسلمانوں کیلئے موجودہ زمانہ کی مشکلات اور اس کے خطرات کو سوچ سمجھ کر دُعائیں کرنی چاہئیں.تا انکی دعائیں جذبات کے ماتحت نہ ہوں اور باقی مسلمانوں کو بھی تحریک کرنی چاہئے کہ وہ دُعا کی طرف توجہ کریں...انکے دلوں میں قرآن کریم اور آنحضرت سلیم کی محبت کو قائم کرنا چاہیئے اور انہیں اس تکلیف اور مصیبت کا احساس کرانا چاہئے جوان پر پڑنے والی ہے.اگر انکو اس مصیبت کا احساس ہو جائے اور درد دل سے دُعاؤں میں لگ جائیں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ ووہ خدا جس نے یونس علیہ السلام کی قوم کی دعاؤں کوشن کر ان سے عذاب کو ٹلا دیا تھا وہ محمد رسول اللہ صلی لی لی ہوتم کی اُمت کی دعاؤں کو نہ سُنے.106
دعائے مستجاب.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا: اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار آخر کنند دعوی حُبّ پیمبرم اس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سمجھایا ہے کہ دیکھو یہ مسلمان تمہیں تکلیفیں بھی دیں گے، تمہارے آدمیوں کو قتل بھی کریں گے، تمہیں ہر قسم کے دُکھ اُن کے ہاتھوں سے پہنچیں گے.لیکن دیکھنا غصے نہ ہونا کہ آخر کنند دعوی حب پیمبرم کہ آخر تمہارے محبوب محمد رسول اللہ صلی یا یہ تم سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.اس لئے ان کا لحاظ ضرور کرنا اور ان کی سخت باتوں پر خفگی کا اظہار نہ کرنا.پس ہماری جماعت کے دوستوں کو دوسرے مسلمانوں کو بھی سمجھانا چاہئے کہ وہ بھی دعاؤں میں لگ جائیں اور دردِ دل سے اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کریں کہ وہ ان مصائب کو مسلمانوں سے دُور کرے اور جیسا کہ میں نے کہا ہے جماعت کا فرض ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر دعائیں کرے اور ایسی دُعائیں کرے جو اپنے ساتھ پر درد جذبات رکھتی ہوں.اگر تم در ددل سے دعائیں کرو گے تو تمہاری دعا پانی سے پر بادل کی طرح ہوگی.جو زمین پر سیلاب لے آئے گی اور اللہ تعالیٰ کے عرش کو گیلا کر دے گی اور اس کی رحمت کو عرش سے کھینچ کر لے آئے گی.“ 66 ( الفضل ۳ ستمبر ۱۹۴۶ء) اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھ کر اخلاص سے دُعا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے حضور 107
فرماتے ہیں: دعائے مستجاب.یہ ایسا وقت ہے کہ اپنے جذبات کو دبانا چاہئے اور تمام طاقت ملک کی حفاظت کی تدابیر پر صرف کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے ایسی دعائیں کرنی چاہئیں کہ زمین و آسمان بل جائیں اگر دوسرے لوگ اپنے فرض سے غافل ہیں تو کم سے کم ہماری جماعت کو چاہئے کہ ایسی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں لگی رہے.رسول کریم سلیم نے فرمایا ہے کہ یتیم کے دل سے نکلی ہوئی دُعا عرش الہی کو ہلا دیتی ہے اور ہم سے زیادہ یتیم آج کون ہے جن کے پیچھے ساری دنیا پڑی ہوئی ہے.ہم بھی اگر دعا کریں تو عرشِ الہی ضرور ہلے گا مگر شرط یہی ہے کہ دُعا دل سے نکلی ہوئی ہو اور ہم دُعا کرنا جانتے ہوں.اناڑی کی طرح نہ ہوں کیونکہ اناڑی جب ہتھیار لے کر کھڑا ہو تو دوسروں کو مارنے کی بجائے اپنے آپ کو زخمی کر لیتا ہے.پس دُعا بھی ایک فن ہے اور اس کے مطابق دُعا کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات ہیں اور انسان کی ضرورت جس صفت کے متعلق ہو اسی کا نام لیکر دُعا کرنی چاہئے.جو شخص اس طرح دُعا مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سنتا ہے...پس دوستوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو صحیح طور پر سمجھیں اور پھر دعائیں کریں اور اخلاص سے دعائیں کریں.“ (الفضل یکم جون ۱۹۴۱ء) 108
دعائے مستجاب.اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہ دُعا پگھل جانے اور تذلل اور انکسارکا مجسم نمونہ بن جانے کا نام ہے.حضور فرماتے ہیں: دعا اس امر کا نام نہیں کہ انسان صرف منہ سے ایک بات کہ دے اور سمجھ لے کہ دُعا ہوگئی.دُعا اللہ تعالیٰ کے حضور پگھل جانے کا نام ہے.دُعا ایک موت اختیار کرنے کا نام ہے دعا تذلل اور انکسار کا مجسم نمونہ بن جانے کا نام ہے جو شخص محض رسمی طور پر منہ سے چند الفاظ دہراتا چلا جاتا ہے اور تذلیل اور انکسار کی حالت اس کے اندر پیدا نہیں ہوتی جس کا دل اور دماغ اور جسم کا ہر ذرہ دعا کے وقت محبت کی بجلیوں سے تھر تھر انہیں رہا ہوتا ، وہ دُعا سے تمسخر کرتا ہے وہ اپنا وقت ضائع کر کے خدا تعالیٰ کا غضب مول لیتا ہے.پس ایسی دعامت کرو جو تمہارے گلے سے نکل رہی ہو اور تمہارے اندراس کے مقابل پر کوئی کیفیت پیدا نہ ہو.وہ دُعا نہیں بلکہ الہی قہر بھڑ کانے کا ایک شیطانی آلہ ہے.جب تم دُعا کرو تو تمہارا ہر ذرہ خدا تعالیٰ کے جلال کا شاہد ہو.تمہارے دماغ کا ہر گوشہ اس کی قدرتوں کو منعکس کر رہا ہو اور تمہارے دل کی ہر کیفیت اس کی عنایتوں کا لطف اُٹھا رہی ہو.تب اور صرف تب تم دُعا کرنے والے سمجھے جاسکتے ہو.“ تفسیر کبیر سورۃ الفرقان صفحه ۱۸۹) دعا کی قبولیت کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان مجسم سوال بن جائے حضور فرماتے ہیں: 109
وو دعائے مستجاب.روحانی جماعتوں کی ترقی محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے.اور خدا تعالیٰ کے فضل دعاؤں سے نازل ہوتے ہیں.پس با جماعت نمازیں ادا کرنے کی عادت ڈالو.دعائیں مانگو اور اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور خشیت پیدا کرو تو تمہارے قلب پر اللہ تعالیٰ کا عشق ایسا غالب آجائے کہ تم مجسم دُعا بن جاؤ.تم نماز پڑھ رہے ہو تو دُعا مانگ رہے ہو.کام کر رہے ہو تو دُعا مانگ رہے ہو.سفر کر رہے ہو تو دُعا مانگ رہے ہو.سفر سے واپس آرہے ہو تو دعا مانگ رہے ہو.غرض اس قدر دعائیں کرو کہ خدا اپنے فرشتوں سے کہے کہ میرا یہ بندہ تو مجسم سوال بن گیا ہے.اب ہمیں شرم آتی ہے کہ اس کے سوال کو ر ڈ کریں اور وہ سوال جو خدا تعالیٰ کی درگاہ سے کبھی رڈ نہیں ہوتا.مجسم سوال بن جانے والے کا ہی سوال ہوتا ہے.اس کا اپنا وجود مٹ جاتا ہے اور وہ سوال ہی سوال بن جاتا ہے.پس دعائیں کرو اور اپنے اندر نیک تبدیلی کرو تا خدا ان بلاؤں اور ابتلاؤں سے جو درمیانی عرصہ میں آنے ضروری ہیں ہماری جماعت کو محفوظ رکھے اور اپنے فضل و رحم سے ایمان اور یقین کے وہ دروازے ہم پر کھول 66 دے جو انبیاء کے بھیجنے کا اصل مقصود ہوتے ہیں.“ الفضل ۸ فروری ۱۹۴۱ء) اُمید کے واحد رستہ کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: ”ہماری مثال اس غلام کی سی ہے جو منڈی میں بکنے کیلئے لایا گیا ہو.110
دعائے مستجاب.فروخت کرنے والا اسکی خوبیاں بیان کرتا اور اسکے عیوب کو چھپاتا ہے اور لینے والا اسکی قیمت کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے دونوں طرف سے قیمتوں کے اندازے ہوتے ہیں مگر اس غلام سے کوئی پوچھتا تک بھی نہیں.اس کا منشاء وہاں جانے کا ہے بھی یا نہیں جہاں اُسے بھیجنے کی گفتگو ہورہی ہے.اسی طرح نہ حملہ آور کو ہمارے ارادوں کی کچھ پرواہ ہے اور نہ دفاع میں ہمارا کچھ دخل ہے...ایسے حالات میں ہر وہ شخص جس کے دماغ میں عقل اور دل میں حس موجود ہے محسوس کرے گا کہ ہمارے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم اسی درگاہ میں جاگریں جہاں غلام و آزاد اور چھوٹے بڑے کو مساوات حاصل ہے.جو مظلوم کی دادرسی کرتا اور سب کی آواز کوسنتا ہے.جس کا کوئی سہارا نہ ہو وہ اس کا سہارا ہوتا ہے اور جب کوئی بھی پکار کو سننے والا نہ ہو وہ سنتا ہے.سوائے اس کے دروازہ کے....احمدیت کیلئے کوئی چارہ کارنہیں کوئی آلہ ہمارے پاس حفاظت کا نہیں سوائے اس کے کہ اسی دروازے کو کھٹکھٹائیں اور اسی سے مدد مانگیں.مگر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ لوگ آج اس در کو چھوڑ رہے ہیں.جھوٹے آقاؤں نے ہمیں بیچ ڈالا اور جھوٹے مدعی ہماری ملکیت کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں لیکن وہ سچا آقا جو ہمیشہ ہماری عزت اور آبرو کا خیال رکھتا ہے اسے لوگوں نے بھلا دیا.کاش لوگ اب بھی اس طرف متوجہ ہوں اور اس کی محبت کی چنگاریاں ان کے دلوں میں سلگنے لگیں.وہ ہمیں خود ہی اپنی طرف کھینچ لے اور ہم بھولے ہوئے سبق 111
دعائے مستجاب.کو یاد کر لیں.ہماری کھوئی ہوئی متاع دوبارہ حاصل ہو جائے ورنہ ہمارا ٹھکانہ نہ اس دنیا میں کوئی ہے اور نہ اگلے جہان میں...وہی ایک راستہ اُمید کا باقی ہے اور وہ ایک ایسی ذات ہے جو مایوسیوں کو امید سے، تکلیفوں کو راحتوں سے اور ناکامیوں کو کامیابیوں سے بدل ڈالتی ہے.کاش ہمارے لئے برکتوں کا یہ دروازہ کھل جائے اور اس کی رحمتیں ہمارے لئے نازل ہوں اور ان کیلئے جن کے دماغوں کو ابھی اس ایمان سے حصہ نہیں ملا جو خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتا ہے.کاش وہ بھی اس ایمان کو حاصل کر سکیں اور اس درگاہ پر آجائیں جو بخشش اور غفران کی درگاہ ہے اور جو درحقیقت ایک ہی مقام ہے مخلوق کے آرام پانے کا.(الفضل ۱۱ را پریل ۱۹۴۲ء) " آج میں پھر ایک دفعہ جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ جو دعائیں میں نے دوستوں کو بتائی ہیں، یہ سب دعائیں خدا تعالیٰ کے کلام اور الہام سے ماخوذ ہیں اور ایک خزانہ ہے جو اس کے بندوں کو ملا ہے.لوگ اپنے طور پر تلاش کرتے پھرتے ہیں کہ ان کو کوئی خزانہ مل جائے.کوئی کیمیا کی جستجو کرتا ہے.کوئی جنوں کو اپنے قابو میں لانے کی کوشش کرتا ہے اور کوئی دیوی دیوتاؤں کی نیازیں چڑھاتا ہے.غرض مختلف قسم کے ذرائع جن کا کچھ بھی نتیجہ نہیں نکلتا لوگ اختیار کرتے ہیں.مگر جو سچا اور حقیقی ذریعہ ہے اللہ تعالیٰ کی امداد اور نصرت حاصل کرنے کا اس کو لوگ بھول جاتے ہیں حالانکہ یہ خدا کا 112
دعائے مستجاب.بتایا ہوا راستہ ہے....اور یہ وہ رستہ ہے جس پر چلنے والے کی مدد کرنے کا اس نے خود وعدہ کیا ہوا ہے...پس ان پر خطر ایام میں ان دعاؤں پر خاص طور پر زور دینا چاہئے اور جماعتی طور پر زور دینا چاہئے.جماعتی طور پر زور دینے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ کمزور ہوتے ہیں وہ بھی اس طرح دُعاؤں میں شریک ہو جاتے ہیں.جب جماعتی رنگ میں دُعا نہیں ہوتی تو صرف چند لوگ دُعا کرتے ہیں اور باقی غفلت اور سستی کی وجہ سے یا اپنی بے عملی کی وجہ سے ان دعاؤں میں حصہ نہیں لے سکتے.کئی لوگ دُعا کا ارادہ تو رکھتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں اور کئی ایسے ہوتے ہیں جو بھولتے تو نہیں مگر ان کو دعائیں آتی ہی نہیں...پھر کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو غفلت کی وجہ سے ان دعاؤں میں اتنے جوش کا اظہار نہیں کرتے جتنے جوش کا اظہار نہیں کرنا چاہیئے.مگر جب اس قسم کے لوگ دوسروں کے ساتھ دعا میں شامل ہوتے ہیں تو انہیں بھی دعاؤں میں جوش پیدا ہو جاتا ہے اور اجتماعی دعاؤں میں ہمیں ہمیشہ یہ نظارہ نظر آتا ہے.چنانچہ جلسہ سالانہ کے اختتام پر مجلس شوری کے آخر میں یا رمضان...میں درس قرآن کریم کے خاتمہ پر جب اجتماعی رنگ میں دعا کی جاتی ہے تو کس طرح لوگ چیخ چیخ کر رونے لگ جاتے ہیں اور ان کی دعاؤں میں ایسی رقت اور ایسا سوز و گداز پیدا ہو جاتا ہے جو ان کی دعاؤں کو قبولیت کے قابل بنا دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ دوسروں کی پر خلوص دعاؤں کی وجہ سے ان کی 113
دعائے مستجاب.دعاؤں کو بھی قبول کر لیتا ہے..متحدہ دعائیں ایک طرف تو کمزور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ثواب بہم پہنچاتی چلی جاتی ہیں اور دوسری طرف ان کی دعاؤں سے قوم ترقی کرتی ہے کیونکہ جہاں تک دعا کا انسان کی ذات سے تعلق ہے وہ ایک عبادت ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ویسا ہی ثواب ملتا ہے جیسے کسی اور عبادت پر...اسی طرح جب قوم اور ملک کے لئے دعا کی جاتی ہے تو لازماً قوم اور ملک کو فائدہ پہنچتا ہے.“ (الفضل ۱۰ مئی ۱۹۴۲ء) 114
دعائے مستجاب.قبولیت دعا کے طریق قبولیت دعا کے طریق“ کے نام سے ایک کتابچہ شائع ہو چکا ہے جو حضور کے مختلف خطبات سے مرتب کر کے قادیان کے ایک بزرگ ناشر حضرت محمد یا مین نے طبع کروایا تھا.اس کا خلاصہ ذیل میں حضور کے الفاظ میں ہی شامل کیا جاتا ہے.حضور فرماتے ہیں: انسان پر ایک ایسا وقت آجاتا ہے جب وہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں بطور ہتھیار ہو جاتا ہے....ایسا انسان جو دُعا کرتا ہے وہ دعا قبول ہو جاتی ہے.ا.(میرے بندے) کہیں کہ خدا کس طرح دُعا قبول کرسکتا ہے تو کہہ فَإِنِّي قَرِیب میں سب سے بہتر مدعا کو پورا کرسکتا ہوں کیونکہ میں ہر ایک چیز کے قریب ہوں.دُعا کرنے والے کے بھی اور جس مدعا کیلئے کی جائے اس کے بھی.۲.انسان شریعت کے تمام احکام پر عمل کرے اور دعائیں مانگے اور ساتھ ہی اس بات پر ایمان رکھے کہ خدا تعالیٰ دعائیں قبول کرتا ہے.۳.جب کوئی اہم معاملہ در پیش ہو اور اس کیلئے دعا کرنی ہو تو اس وقت کسی ایسے انسان کے جو کسی قسم کے دکھ اور تکلیف میں ہو، آزار کو دُور کیا 115
دعائے مستجاب.جائے یا دُور کرنے کی کوشش کی جائے.۴.دعا کرنے سے پہلے کثرت سے آنحضرت مالائی کہ ہم پر درود بھیجیں..پانچواں گر یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی حمد کرے..جد خدا تعالیٰ کی تمام صفات کو جوش میں لے آتی ہے اور سب صفات جمع ہو کر ایک طرف جھک جاتی ہیں تا کہ اس بندہ کا کام کر دیں.۶.دُعا کی قبولیت کے لئے یہ بھی یاد رکھو کہ دُعا کرنے سے پہلے اپنے کپڑوں اور بدن کوصاف کرو.۷.دعا کیلئے ایسا وقت انتخاب کیا جائے جبکہ خاموشی ہو...خاموش وقت میں خاص توجہ سے دُعا کی جاسکتی ہے.۸.جب کوئی انسان کسی معاملہ کے متعلق دعا کرنے لگے تو پہلے اپنے نفس کی کمزوریوں کا مطالعہ کرے اور اتنا مطالعہ کرے کہ گویا اس کا نفس مر ہی جائے.۹.جب انسان دعا کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ کے انعامات کو اپنی آنکھوں کے سامنے لے آئے کیونکہ انسان کو خواہش اور اُمید کام کروایا کرتی ہے.۱۰....اس کے غضب کو سامنے لایا جائے...یہ دعا خوف اور طمع کی دعا ہوگی...جو اسے دنیا سے کاٹ کر اللہ تعالیٰ کی طرف مائل کر دے گی اور اس طرح اس کی دُعا قبول ہو جائے گی.ا....دعا کرنے کے وقت انسان کو چستی کی حالت میں ہونا چاہئے...116
دعائے مستجاب.وہ چستی جو امید کی پستی ہوتی ہے نہ کوئی اور.اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زبان سے دُعا زیادہ عمدگی سے نکلتی ہے اور مختلف پیرایوں میں دُعا کرنے کی توفیق ملتی ہے.۱۲.جب کسی اہم امر کے متعلق دُعا کرنے لگیں تو اس سے پہلے چند اور دعائیں کرلو اور پھر اصل دُعا کرو.۱۳.ایسی جگہ دعا مانگی جائے جو بابرکت ہو کیونکہ جگہ کا بھی قبولیت دعا سے خاص تعلق ہوتا ہے.۱۴.جب کوئی انسان دُعا مانگنے لگے تو اُسے چاہئے کہ اوّل اپنی حاجت اور ضرورت کو دیکھے اور پھر اس کے مطابق خدا تعالیٰ کے نام کو تلاش کرے اور اس نام کو لے کر خدا تعالیٰ کو پکارے.۱۵.اللہ ایک ایسا نام ہے...جواس کی تمام صفات پر حاوی ہے.دشمن سے بچنے ہنگی سے مخلصی پانے ، گناہ بخشوانے ، تکلیف دور کرنے غرضیکہ ہر قسم کی دُعا کرنے کیلئے یہ استعمال کیا جا سکتا ہے.(اپنے مدعا اور مقصد کے مطابق کوئی صفت یاد نہ آتی ہو تو ) 00 117
دعائے مستجاب.قبولیت دُعا کی ایمان افروز مثالیں قبولیت دعا کا نشان حضرت فضل عمر جلسہ سالانہ کے ایک خطاب میں فرماتے ہیں: خدا کا سایہ سر پر ہونے کے دوسرے معنے یہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی کثرت سے دعائیں سنے گا.یہ علامت بھی اتنی بین اور واضح طور پر میرے اندر پائی جاتی ہے کہ اس امر کی ہزاروں نہیں لاکھوں مثالیں مل سکتی ہیں کہ غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ نے میری دعائیں سنیں : وَذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ پھر یہ نہیں کہ میری دعاؤں کی قبولیت کے صرف احمدی گواہ ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں عیسائی ، ہزاروں ہندو اور ہزاروں غیر احمدی بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق میری دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور ان کی مشکلات کوڈ ور کیا...اس معاملہ میں بھی میں نے بار بار چیلنج دیا ہے کہ اگر کسی میں ہمت ہے تو وہ دعاؤں کی قبولیت کے سلسلہ میں ہی میرا مقابلہ کر کے دیکھ لے.مگر کوئی مقابل پر نہیں آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس رنگ میں دنیا کو مقابلہ کا چیلنج دے چکے ہیں.آپ 118
فرماتے ہیں: دعائے مستجاب.”میرے مخالف منکروں میں سے جو شخص اشد مخالف ہو اور مجھ کو کافر اور کذاب سمجھتا ہو وہ کم سے کم دس مولوی صاحبوں یا دس نامی رئیسوں کی طرف سے منتخب ہو کر اس طور سے مجھ سے مقابلہ کرے جو دو سخت بیماروں پر ہم دونوں اپنے صدق و کذب کی آزمائش کریں.یعنی اس طرح پر کہ دو خطرناک بیمار لے کر جو جدا جدا بیماری کی قسم میں مبتلا ہوں.قرعہ اندازی کے ذریعہ دونوں بیماروں کو اپنی اپنی دُعا کیلئے تقسیم کر لیں پھر جس فریق کا بیمار بگلی اچھا ہو جاوے یا دوسرے فریق کے مقابل پر اس کی عمر زیادہ کی جاوے وہی فریق سچا سمجھا جاوے.“ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴) یہ چیلنج میری طرف سے بھی ہے اگر لوگ اس معاملہ میں میری دعاؤں کی قبولیت کو دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ بعض سخت مریض قرعہ اندازی کے ذریعہ تقسیم کر لیں اور پھر دیکھیں کہ کون ہے جس کی دعاؤں کو خدا تعالیٰ قبول کرتا ہے.کس کے مریض اچھے ہوتے ہیں اور کس کے مریض اچھے نہیں ہوتے “ 00 119 (الموعود صفحه ۱۸۳ - ۱۸۴)
دعائے مستجاب.دُعا کے مضمون کا ایک حصہ تو خالص علمی ہے جس میں مختلف مذاہب میں دعا کے متعلق تعلیمات قرآن مجید و احادیث میں بیان فرمودہ دعا کی حقیقت و فلاسفی ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسرے اولیاء کرام اور بزرگانِ اُمت نے دُعا کے متعلق جو معارف و حقائق بیان فرمائے ان کی تفصیل وغیرہ.اس مضمون کا دوسرا حصہ جو عملی حصہ ہے اور جس میں قبولیت دُعا کے نتیجہ میں خدائی فضلوں کا نزول، غیر معمولی حالات میں دُعا کا معجزانہ اثر دعا کے نتیجہ میں زندہ خدا کی زندہ تجلیات کا ظہور وغیرہ.یہ حصہ پہلے حصہ کی نسبت زیادہ اہم زیادہ مؤثر اور زیادہ ضروری ہے.کوئی شخص دعا کے متعلق زوردار مضامین تحریر کرے یا اپنی پر جوش تقریروں سے سامعین کو ہلا کر رکھ دے مگر دُعا کی قبولیت اور خدا تعالیٰ کے پیار کی مثالیں اور نشانات اپنے پاس نہ رکھتا ہو تو اس کی لفاظی محض نمائش ، ریا اور ایسی خود رو جھاڑی کی طرح ہوگی جو پھلوں اور پھولوں سے خالی اور اتنی بے کار ہو کہ اچھے ایندھن کے طور پر بھی استعمال نہ ہوسکتی ہو.حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیت دعا کے بے شمار واقعات سلسلہ کے لٹریچر میں موجود ہیں مگر ان سے تعداد اور کیفیت میں کہیں بڑھ کر وہ واقعات ہیں جو آپ کے ساتھ کام کرنے والوں اور آپ کے خدام کے مشاہدہ میں آئے اور انہوں نے ان سے جسمانی و روحانی فوائد و برکات حاصل کئے مگر کسی کتاب یا رسالے میں محفوظ نہ ہو سکے.ذیل میں چند واقعات بطور مشتے از خروارے پیش کئے جاتے ہیں.یادر ہے کہ یہ ایسے واقعات کا انتخاب نہیں ہے بلکہ دوران مطالعہ سامنے آنے والے چند واقعات ہیں.اس سلسلہ میں تحقیق بہت ایمان افروز حقائق سامنے لائے گی.120
دعائے مستجاب.مندرجہ ذیل واقعات میں قبولیت دعا کے ساتھ ساتھ اس خاص مقام کا بھی اظہار ہوتا ہے جو مقربان بارگاہ الہی کو دربار الوہیت میں حاصل ہوتا ہے ؎ استجابت کے مزے عرش بریں سے پوچھئے سجدہ کی کیفیتیں میری جبیں سے پوچھئے المصلح الموعود ایک دوست نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ حصولِ رزق کے متعلق مومن دُعا سے کام لیتا ہے اور غیر مومن تدبیر سے لیکن نظریہ آتا ہے کہ تدبیر سے کام لینے والا دعا کرنے والے کی نسبت زیادہ کامیاب رہتا ہے حالانکہ دعا اور اللہ تعالیٰ پر توکل تدبیر سے بہر حال افضل ہیں.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا...جب تک کوئی پیمانہ ایسا نہ ہو جس سے ایک شخص کی دُعا اور دوسرے کی تدبیر کا باہم موازنہ کیا جاسکے، اس وقت تک یہ کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ اس میدان میں تدبیر دعا سے بڑھ کر ہے.اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا کہ رزق کے متعلق مومنوں کو صرف دعا اور توکل سے کام لینے کا حکم نہیں اور دُعا اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی.جب تک ظاہری جد و جہد اور ظاہری کوشش کا سلسلہ بھی جاری نہ رکھا جائے.ہاں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے رزق کا اللہ تعالیٰ خود ذمہ دار ہوتا ہے ایسے لوگوں کو بغیر تدبیر کے ہی اللہ تعالیٰ رزق پہنچا دیتا ہے.121
دعائے مستجاب.کہتے ہیں کوئی بزرگ تھے.انہیں ایک دفعہ الہام ہوا کہ تمہیں اب کمائی کی ضرورت نہیں ہم خود تمہیں رزق دیں گے چنانچہ انہوں نے روزی کمانی چھوڑ دی.ان کے بیوی بچوں کو فکر پیدا ہوا کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ہم تو بھوکے مرنے لگیں گے.چنانچہ انہوں نے اور انکے دوسرے رشتہ ں نے انہیں سمجھانا شروع کر دیا کہ آپ یہ کیا کرتے ہیں.آپ کوئی کام کریں اور فارغ نہ بیٹھیں ایسا نہ ہو کہ فاقوں تک نوبت پہنچ جائے.وہ کہنے لگے میں اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتا ہوں وہ خود میری روزی کا سامان پیدا کرے گا.جب وہ کسی طرح نہ مانے تو انہوں نے تنگ آکر ان کے ایک دوست سے جو خود بھی بزرگ تھے کہا کہ آپ انہیں سمجھا ئیں شاید وہ آپ کی بات مان جائیں.چنانچہ وہ آئے اور انہوں نے کہا کہ آپ کام کیا کریں.فارغ نہ بیٹھیں.انہوں نے جواب دیا کہ میں تو اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوں اور مہمان اگر اپنا کھانا آپ پکائے تو میزبان بُرا منا یا کرتا ہے.اس لئے میں تو اپنے کھانے کا فکر نہیں کر سکتا.وہ کہنے لگا آپ اگر اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں تو سنئے.رسول کریم صلی السلام فرماتے ہیں کہ مہمانی صرف تین دن ہوتی ہے.اس سے زیادہ نہیں.پس آپ بھی تین دن ایسا کر سکتے ہیں.ہمیشہ کیلئے ایسا نہیں کر سکتے.وہ کہنے لگے میں جس کا مہمان ہوں وہ فرماتا ہے: إِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ کہ میرا ایک دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے.اگر میں ان تین دنوں 122
دعائے مستجاب.کے بعد زندہ رہا تو آپ بے شک اعتراض کریں لیکن جب تک یہ تین دن ختم نہیں ہوتے.میری مہمانی بھی ختم نہیں ہوسکتی.اسی طرح میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آخری عمر میں ایک دفعہ سخت کھانسی ہوئی.یہ کھانسی اتنی شدید تھی کہ ڈاکٹر عبد الحکیم خاں پٹیالوی نے اخبارات میں اس کا ذکر پڑھ کر شائع کر دیا کہ مجھے الہام ہوا ہے.مرزا صاحب کو سل ہو گئی ہے.میں ہی آپ کو دوائی پلایا کرتا تھا اور میں سمجھا کرتا تھا کہ آپ کی بیماری کے معاملات میں مجھے دخل دینے کا حق ہے.ایک دفعہ آپ لیٹے ہوئے تھے کہ آپ کو کھانسی کا سخت دورہ اٹھا.میں نے آپ کو دوائی پلائی.ابھی میں دوائی پلا کر ہٹا ہی تھا کہ کوئی دوست پھلوں کی ایک ٹوکری دے گئے جس میں کیلے بھی تھے.کیلا نزلہ اور کھانسی پیدا کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہماری والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ کھانسی میں کیلا کھانا کیسا ہوتا ہے.والدہ صاحبہ کہنے لگیں کہ کیلا کھانے سے نزلہ بڑھ جاتا ہے پھر مجھ سے پوچھا اور فرمایا کہ کھانسی میں کیلا کھانا کیسا ہوتا ہے.میں نے کہا شدید مضر ہوتا ہے.یہ پوچھ کر آپ نے فرمایا : ٹوکری ادھر کرو.میں نے ٹوکری آپ کی طرف کی تو آپ نے ایک کیلا اُٹھایا اور چھلکا اُتارا کر اُسے کھانا شروع کر دیا.میں نے یہ دیکھتے ہی شور مچانا شروع کر دیا کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں.ابھی آپ کو کھانسی کا شدید دورہ ہوا ہے اور کیلا کھانسی میں سخت مضر ہوتا ہے.آپ میری باتیں سن کر.123
دعائے مستجاب.مسکراتے رہے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد فرمانے لگے.مجھے ابھی الہام ہوا ہے کہ تمہاری کھانسی جاتی رہی اس لئے میں نے کیلا کھا لیا ہے.کیونکہ جب خدا نے کہا ہے کہ کھانسی جاتی رہی تو کیا کس طرح کھانسی پیدا کر سکتا ہے.اب اس کے یہ معنی نہیں کہ جس شخص کو کھانسی کی شکایت ہو وہ بے شک کیلا کھا لیا کرے.وہی شخص ایسا کرسکتا ہے جسے خدا تعالیٰ کی طرف سے صحت کی خبر دی گئی ہو.اسی طرح جس شخص کو خدا کہہ دے کہ تمہیں رزق کیلئے کسی تدبیر کی ضرورت نہیں اس کے رزق کا ذمہ دار خود خدا ہو جاتا ہے لیکن باقی لوگوں کے متعلق حصول رزق کیلئے اللہ تعالیٰ نے یہی قانون مقرر کیا ہوا ہے کہ وہ کوشش کریں.ہاں ہم ضرور مانتے ہیں کہ مومن کیلئے جہاں دنیوی رستے بند ہو جاتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ اس کی دُعا کی برکت سے ان بند راستوں کو بھی کھول دیتا ہے.میں نے ایک دفعہ جس طرح خدا سے ناز کرتے ہیں اس سے ناز کرتے ہوئے ایک دعا کی.وہ جوانی کے ایام تھے اور ہم ایک ایسی جگہ سے گزر رہے تھے جہاں اس دعا کے قبول ہونے کی بظاہر کوئی صورت نہ تھی مگر محبت الہی کے جوش میں اس سے ناز کرتے ہوئے میں نے کہا خدا یا تو مجھے ایک روپیہ دلا.میں اس وقت جالندھر اور ہوشیار پور کی طرف گیا ہوا تھا اور کا ٹھگڑھ سے واپس آرہا تھا کہ اس سفر میں ایک ایسے علاقے سے گزرتے ہوئے جہاں کوئی احمدی نہ تھا میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا.شاید اللہ 124
دعائے مستجاب.تعالیٰ اپنی قدرت ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ جنگل میں سے گزرتے ہوئے یہ دُعا میرے دل سے نکلی.حاجی غلام احمد اور چوہدری عبد السلام صاحب میرے ساتھ تھے.اتنے میں چلتے چلتے ایک گاؤں آ گیا اور ہم نے دیکھا کہ اس گاؤں کے دو چار آدمی ایک مکان کے باہر کھڑے ہیں.حاجی صاحب اور چودھری صاحب ان کو دیکھتے ہی میرے دائیں بائیں ہو گئے اور کہنے لگے.اس گاؤں کے لوگ احمدیت کے سخت مخالف ہیں اگر کوئی احمدی ان کے گاؤں میں سے گزرے تو یہ لوگ اُسے مارا پیٹا کرتے ہیں.آپ درمیان میں ہو جائیں تا کہ یہ لوگ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں.اتنے میں ان میں سے ایک شخص نے جب مجھے دیکھا تو میری طرف دوڑ پڑا انہوں نے سمجھا کہ شاید حملہ کرنے کیلئے آیا ہے.مگر جب وہ میرے قریب پہنچا تو اس نے سلام کیا اور ہاتھ بڑھا کر ایک روپیہ پیش کیا کہ یہ آپ کا نذرانہ ہے.گاؤں سے باہر نکل کر وہ دوست حیران ہو کر کہنے لگے.ہمیں ڈر تھا کہ یہ شخص ہم پر حملہ نہ کر دے، مگر اس نے تو نذرانہ پیش کر دیا.میں اس وقت ان کی بات سے یہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ خیال غالباً اسی لئے پیدا کیا تھا کہ وہ اپنی قدرت کو ظاہر کرنا چاہتا اور بتانا چاہتا تھا کہ لوگوں کے دل میرے اختیار میں ہیں.غرض جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق آتا ہے تو ایسی ایسی جگہوں سے آتا ہے کہ انسان کو اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا.ایک دفعہ میں کشتی میں بیٹھا دریا کی سیر کر رہا تھا اور بھائی عبد الرحیم 125
دعائے مستجاب.صاحب میرے ساتھ تھے.میرے لڑکے نے بچپن کے لحاظ سے کہا کہ ابا جان اگر اس وقت ہمارے پاس کوئی چھلی بھی ہوتی تو بڑا مزہ آتا.اس وقت یکدم میرے دل میں ایک خیال پیدا ہوا.لوگ تو خواجہ خضر سے کچھ اور مراد لیتے ہیں مگر میں یہ سمجھا کرتا ہوں کہ خضر ایک فرشتہ ہے جس کے قبضہ میں اللہ تعالیٰ نے دریا ر کھے ہوئے ہیں.جب ناصر احمد نے یہ بات کہی تو میں نے کہا خواجہ خضر ہم آپ کے علاقہ میں سے گزر رہے ہیں ہماری دعوت کیجئے اور ہمیں کھانے کیلئے کوئی مچھلی دیجئے.جو نہی میں نے یہ فقرہ کہا ، بھائی جی کہنے لگے آپ نے یہ کیا کہہ دیا کہ خواجہ خضر ہماری دعوت کریں.اس سے تو بچے کی عقل ماری جائے گی.مگر ابھی بھائی جی کا یہ فقرہ ختم ہی ہوا تھا کہ یکدم ایک بڑی سی مچھلی کو دکر ہماری کشتی میں آگری.میں نے کہا لیجئے مچھلی آگئی.چنانچہ اس کے بعد ہم نے وہ مچھلی پکا کر تبرک کے طور پر ہمراہیوں کو تھوڑی تھوڑی چکھائی کہ یہ ہماری خدا کی طرف سے مہمان نوازی ہوئی ہے.“ الفضل ۲۲ مئی ۱۹۶۰ء) روز نامہ الفضل ۱۰ ستمبر ۱۹۳۱ء میں حضرت خلیفہ المسح الثانی کی قبولیت دعا کا تازہ نشان کے عنوان سے مندرجہ ذیل ایمان افروز واقعہ درج ہے: وو چند دن ہوئے بنگال کے ایک نوجوان عبد الحفیظ صاحب دینی تعلیم حاصل کرنے کیلئے قادیان میں آئے.وہ اپنے خاندان میں اکیلے ہی احمدی تھے اور ان کے دوسرے بھائی ان کے سخت مخالف تھے.126
دعائے مستجاب.یہاں آنے کے بعد ان کے بڑے بھائی خوند کر عبد الرب صاحب...نے خط لکھا کہ میں ایک سخت مصیبت میں مبتلا ہوں.تم اپنے حضرت صاحب سے دعا کراؤ کہ میں اس مصیبت سے نجات پاجاؤں.اگر مجھے نجات حاصل ہوگئی تو میں جماعت احمد یہ میں داخل ہو جاؤں گا.عبدالحفیظ صاحب نے ان کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے دعا کی درخواست کی اور حضور نے تسلی دلائی.اس کی اطلاع انہوں نے اپنے بھائی کو بھیج دی.اب ان کی طرف سے خط آیا کہ جس میں وہ لکھتے ہیں : I have been save from the trouble by the grace of Allah and the dua of Hazoor (His holiness).I accepted the Ahmadiyya on the very moment when I was safe from the trouble.یعنی میں خدا کے فضل اور حضرت صاحب کی دعا سے بچ گیا ہوں اور میں نے اس وقت احمدیت قبول کر لی جس وقت مجھے اس مصیبت سے نجات ملی.خدا تعالیٰ ہمارے اس بھائی کو استقامت عطا فرمائے اور احمدیت کی برکات سے بہرہ اندوز ہونے کی توفیق بخشے.آمین.127
دعائے مستجاب.مکرم علی احمد صاحب ریلوے ملازم حضور کی قبولیت دُعا کا ایک نشان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” میری تعلیم صرف انگریزی مڈل تک ہے.ملٹری میں قریباً دو سال ڈریسر رہا.جب ۱۹۱۹ء میں افغانستان کی لڑائی ختم ہوئی تو مجھے ڈسچارج کر دیا گیا.پھر میں نوکری کیلئے مارا مارا پھرتا رہا اور حضور کو دعا کیلئے لکھنا شروع کر دیا اور ریلوے پولیس میں کنسٹییل بھرتی ہو گیا اور قریباً اڑھائی سال ملازمت کرنے کے بعد سارجنٹ ہو گیا.۱۹۲۹ء میں میں کراچی سی آئی ڈی میں کام کر رہا تھا کہ میں نے اخبار میں پڑھا کہ داچ اور وارڈ برانچ ریلوے میں کھلنے والی ہے اور سب انسپکٹر، انسپکٹر وغیرہ اس میں رکھے جائیں گے.میں نے درخواست دے دی اور حضور کو دُعا کیلئے لکھا.مجھےسلیکشن کیلئے بلایا گیا.میرے مقابل پر سلیکشن بورڈ کے رو برو بی اے اور کئی ایک وکیل تھے اور کئی ایک ریلوے کا تجربہ رکھنے والے اور ملٹری ریلوے کے ہیڈ کلرک اور انسپکٹر کمرشل برانچ تھے.میں نے حضور کو متواتر خط دُعا کیلئے لکھنے شروع کئے.جب سب پیش ہو گئے تو میری باری آئی مجھے انہوں نے صرف انگریزی میں یہ پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے اور موجودہ تنخواہ کیا ہے اور کیا کام کرتے ہو اور مجھے منتخب کرلیا.میں نے اللہ تعالیٰ کا ہزار شکر ادا کیا اور نیم پاگل سا ہو گیا کیونکہ میں گھبراتا تھا کہ اس پوسٹ پر سب کام انگریزی میں کرنا ہے 128
دعائے مستجاب.اور مجھے انگریزی آتی نہیں.میں کیا کام کروں گا.لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے انگریزی بھی خود سکھا دی.ابھی میری ملازمت کے قریباً ۶ ماہ ہی گزرے تھے کہ میرے افسر نے میری ڈائری بطور نمونہ سب انسپکٹروں کے پاس بھیجی اور ان کو ہدایت کی کہ ایسا کام کیا کرو.۱۹۳۲ء میں پھر ریلوے میں ایک نمی شروع ہوگئی اور لاہور سے حکم آگیا کہ سب انسپکٹروں کی پوسٹ اڑا دی جائے.بعد میں ہمیں حکم آگیا کہ سب انسپکٹروں کی آسامی کیلئے چانس دیا جائے گا.حضور کو دعا کیلئے تار دیا...حضور کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے مجھے کامیاب کیا.“ (الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۴۰ء) مکرم ڈاکٹر کریم الدین صاحب میڈیکل آفیسر گجرات لکھتے ہیں : اوائل نومبر ۱۹۳۳ء میں خاکسار کا اکلوتا لڑکا فوت ہو گیا.خاکسار جب سالانہ جلسہ پر قادیان گیا تو حضرت اقدس کی خدمت میں ایک دستی عریضہ پیش کیا جس میں عزیز کی وفات کا ذکر کر کے دعا کی التجا کی.حضور کی طبیعت اس دن علیل تھی اور ویسے بھی جلسہ کے دنوں میں حضور نہایت مصروف ہوتے ہیں اس لئے کسی جواب کی توقع نہ تھی لیکن حضور نے نہایت شفقت اور ذرہ نوازی فرماتے ہوئے مندرجہ ذیل کلمات اپنے دست مبارک سے رقم فرما کر عطا فرمائے : عزیز مکرم ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته 129
دعائے مستجاب.عزیز کی وفات کا بہت افسوس ہوا اللہ تعالیٰ اس کا نعم البدل عطا فرمائیں اور سب عزیزوں کو صبر جمیل کی توفیق دیں.اپنے گھر میں تسلی دلائیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ اس سے اچھا اور زندہ رہنے والا بچہ اللہ تعالیٰ عطا فر مائے گا.ما ننسخ من آية أو ننسها نأت بخير منها أو مثلها ك ایک یہ بھی معنی ہیں.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد شکر کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف وکرم سے ۷ مئی عاجز کو ایک لڑکا عطا فر مایا ہے جس کا نام حضور نے رشید الدین تجویز فرمایا.“ (الفضل ۲۶ جون ۱۹۳۴ء) مکرم فیض عالم صاحب ڈھا کہ قبولیت دعا کا ایک نہایت ایمان افروز نشان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خدا تعالیٰ کے مقدس بندوں کی ہر بات ایمانداروں کیلئے ایک نشان اور حق کے متلاشیوں کیلئے ایمان افروز غذا کا کام دیتی ہے.محبوب حقیقی کے ناز پر وردہ قبولیت دعا میں بالخصوص بے نظیر ثابت ہوتے ہیں.ذیل میں اس امر کی صداقت میں میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں...اور میں حلفا بیان کرتا ہوں کہ یہ واقعہ بالکل صحیح ہے.میری اہلیہ قریباً پانچ چھ سال امراض نسواں میں سخت مبتلا رہی.بہت 130
دعائے مستجاب.سے قابل ڈاکٹر ، لیڈی ڈاکٹر ، نرس اور دیسی دائیوں سے علاج کروانے کے علاوہ ڈیڑھ مہینہ لدھیانہ ہسپتال میں بھی زیر علاج رہی.اس کے علاوہ حکیموں خاص کر ہمارے خاندان کے ایک حکیم سے جو مہاراجہ کشمیر کے شاہی حکیم رہ چکے تھے علاج کروایا اور ایک دفعہ آپریشن بھی ہوا.مگر سب کے سب بے سود بلکہ بیماری ترقی پذیر رہی اور ہر ایک دورہ پہلے دورہ سے شدید.گویا مریضہ موت کے منہ سے واپس ہوتی تھی.میں چونکہ بنگال میں ملازم ہوں اس لئے کلکتہ اور بنگال کے بعض اور شہروں سے ڈاکٹروں اور نرسوں کے مشورے لئے گئے.۱۹۲۶ء کے آغاز میں ایک مرے ہمسایہ افسر کی بیوی نے ایک شیشی دوائی جس سے وہ خود اس بیماری سے شفا پا چکی تھی ، دی.مگر مریضہ کی حالت اور خطرے میں ہوگئی.گویا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ایک شام جب میں اپنی ڈیوٹی سے گھر آیا تو اپنی اہلیہ کو نہایت بیدردی سے روتے پایا.پوچھنے پر بتایا ” یوں تو خدا جس حال میں رکھے شکر ادا کرنا چاہئے ،مگر مایوس زندگی بھی کوئی زندگی ہے.میں نے کہا خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے.اس کے بعد ہم دونوں نے وہاں بیٹھے بیٹھے یہ عہد کیا کہ اب کوئی دوائی استعمال نہیں کی جائے گی بلکہ دعا اور صرف دعا.اس دن یا دوسرے دن ہم نے ایک خط حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دُعا کیلئے لکھا اور میری اہلیہ صاحبہ نے اپنے والد بزرگوار مولوی 131
دعائے مستجاب.رحمت اللہ صاحب باغانوالے ، بنگہ ضلع جالندھر کولکھا...مولوی صاحب وہ خط لیکر حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں پیش ہوئے اور خط سنا کر روتے ہوئے دُعا کیلئے عرض کیا.حضور...نے فرمایا.رود نہیں ! اچھی ہو جائے گی.میں یہاں یہ ذکر بھی کر دینا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مخلص صحابی کی لڑکی ہونے کی وجہ سے میری اہلیہ نماز پنجگانہ کے علاوہ تہجد کی بھی عادی تھیں.ایک دن میں صبح کے وقت اپنی ڈیوٹی سے واپس آیا تو مجھے خوشی خوشی کچھ سنانے کیلئے بٹھایا.کہنے لگی نماز تہجد سے پہلے میں نے رویا میں دیکھا کہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ مکان میں دروازہ سے السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ کہتے ہوئے وارد ہوئے.میں اُٹھ بیٹھی اور اپنا کپڑا ٹھیک کیا اور جواب دیا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.حضور نے میرا منہ اُسی طرح پکڑا جس طرح کسی بچے کو دوائی وغیرہ دینے کیلئے جبڑے دبا کر منہ کھولا جاتا ہے.حضور نے کچھ پڑھا.میرے منہ میں پھونکا اور میرا منہ چھوڑ دیا...( اور دریافت فرمایا ) آج کل کیا دوائی استعمال کرتی ہو.میں نے عرض کیا حضور دعا کرتی ہوں.حضور نے جو اب فرمایا : بس یہی دوائی استعمال کرتی چلی جاؤ....میں نے سُن کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا.اور مجھے پورا یقین ہو گیا کہ اب بیماری دور ہو جائے گی...اس واقعہ کے دو چار دن بعد بیماری کا دورہ قریب 132
دعائے مستجاب.تھا.وہ بیماری جس میں مریضہ کبھی درد سے بیتاب ہو کر اُٹھ اُٹھ کر چھت کو پکڑتی تھی اور روتی کراہتی تھی اور کبھی بے حس و حرکت ہو کر بیہوش ہو جاتی تھی اور وہ بیماری جس سے پہلے ہمیشہ ہم میاں بیوی ایک دوسرے سے گناہ بخشوا لیتے تھے اور آخری وصیتیں یا تحریریں میری اہلیہ مجھے دے دیتی تھیں اور وہ بیماری جس کا دورہ پہلے سے زیادہ ڈراؤنی شکل میں نمودار ہوتا تھا.وقت گزر گیا.دن گزر گئے اور خبر بھی نہیں گو یا بالکل تندرست تھی.یہ واقعہ اپریل ۱۹۳۶ء کا ہے اس کے بعد وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بالکل تندرست ہو گئی اور دسمبر ۱۹۳۶ء میں بچہ بھی پیدا ہوا.بالآخر معروض ہوں کہ یہ وہی عورت ہے جو دنیا کے ڈاکٹروں کے نزدیک لا علاج اور ناقابل اولا د ثابت ہو چکی تھی مگر حضور کی دُعا سے زندہ ہوگئی اور 66 اب تک خوش و خرم زندگی بسر کر رہی ہے.“ وو (الفضل ۱۰؍ دسمبر ۱۹۳۷ء) حضور کی قبولیت دعا کا تازہ نشان“ کے عنوان سے مکرم گیانی واحد حسین مربی سلسلہ مرحوم کا مندرجہ ذیل ایمان افروز بیان الفضل ۱۱ر دسمبر ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا: چوہدری عنایت اللہ صاحب سکنہ چک نمبر ۵۶۵ کے ہاں آٹھ لڑکیاں پیدا ہوئیں.۱۹۳۹ء کے سالانہ جلسہ پر بوقت ملاقات جماعت نے سیدنا حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے..حضور عرض کیا کہ حضور دُعا فرمائیں.خدا تعالیٰ چوہدری صاحب کے ہاں اولاد نرینہ عطا 133
دعائے مستجاب.فرما دے.ماسٹر اللہ بخش صاحب نے یہ عرض کی تھی اس پر حضور نے فرمایا: میں دعا کروں گا.اللہ تعالیٰ لڑکا عطا فرمائے گا.“..مستری اللہ دتہ صاحب غیر احمدی بھی تھے جنہوں نے کہا کہ اب خلیفہ صاحب کی صداقت کا پتہ لگ جائے گا اور اگر چوہدری عنایت اللہ صاحب کے گھر لڑکا پیدا ہوا تو میں بیعت کر لوں گا.ماسٹر اللہ بخش صاحب نے چوہدری عنایت اللہ صاحب کو مبارکبادی دی.خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے ۲۶ نومبر ۱۹۴۰ء کو خدا تعالیٰ نے آٹھ لڑکیوں کے بعد لڑ کا عطا فرمایا...اس بچے کی پیدائش سے جماعت کے ایمان میں تازگی پیدا ہوگئی ہے اور مستری اللہ دتہ صاحب بیعت کیلئے تیار ہیں.گاؤں میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعا کی قبولیت کا چرچا 00 134 66 ہے.
,, دعائے مستجاب." حضرت امام جماعت احمدیہ کی دُعا کا اثر“ کے عنوان سے الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۲۷ء میں مکرم غلام علی فاروقی صاحب ساکن موضع گجرنز د چنگا بنگیال کی طرف سے ایک نہایت رُوح پرور واقعہ شائع ہوا.وہ لکھتے ہیں : ” میرے برادر زادہ آغا محمد عبد العزیز بشیر احمدی کے متعلق عرصہ چار ماہ سے مقدمہ جعل سازی کی کارروائی جاری تھی.مقدمہ کی تفصیل نہایت نازک ہے.پیروی جناب خواجہ احمد حسن صاحب بی اے ایل ایل بی وکیل نے کی.مجسٹریٹ کا رویہ نہایت شدید محسوس ہوتا رہا اور آثار قہر آلود تھے.آغا کے خلاف ۲۲ شہادتیں تھیں جن میں سے ۴ انگریز آفیسر تھے.بچنے کی کوئی امید نہ تھی.جس دن ہماری طرف سے صفائی کے گواہ پیش کئے گئے اسی دن بحث بھی ہوگئی اور (دفعہ) ۵۶۲ کی ضمانت پر زور دیا گیا.مگر مجسٹریٹ نے منظور نہ کی.اس سے زیادہ نا امیدی بڑھ گئی.فیصلہ کی تاریخ ۳۰ مئی ۱۹۲۷ء مقرر ہوئی.آغا نے ۲۸ مئی کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں دعا کی درخواست تحریر کی.ادھر یہ درخواست حضرت کے پاس پہنچی اور ادھر فیصلہ کا دن آ گیا.مجسٹریٹ صاحب نے فیصلہ لکھا اور آغاز سے کہا تم سات سال جیل بھگننے کے لئے تیار ہو جاؤ.یہ سن کر ہمارے حواس باختہ ہو گئے لیکن ہم نے جس عظیم الشان شخصیت کی آواز پر لبیک کہی ہوئی ہے اسکی وساطت سے خدا کے حضور میں درد دل سے روئے.مجسٹریٹ نے کئی دفعہ تعزیرات اُٹھا کر پڑھی اور آغا سے مخاطب 135
دعائے مستجاب.ہو کر کہا.میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں.آغا نے کہا جو خدا کو منظور ہو.خدا تعالیٰ کا کچھ ایسا تصرف ہوا کہ مجسٹریٹ نے سات سال کی بجائے صاف بری کر دیا.الحمد للہ علی ذالک.فیروز والہ ضلع گوجرانوالہ کے ایک دوست رحمت علی صاحب زمیندار دعا کی برکت سے پھانسی کے پھندہ سے نجات پانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: احقر نے حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے ہاتھ پر بیعت کی تھی مگر بوجہ جری سوسائٹی اور جاہلانہ مصروفیتوں کے عاجز نہ تو کوئی دینی خدمت ہی کر سکا اور نہ کبھی ایسا خیال پیدا ہوا...گذشتہ سال یعنی جولائی ۲۶ ء میں ایک قتل اور ایک مضروب کرنے کے جرم میں احقر مع دیگر چار اشخاص کے ۳۰۲.۳۰۷ تعزیرات ہند کی رُو سے عدالت میں چالان کیا گیا.جہاں سے بعد تحقیقات ۱۵ جنوری ۱۹۲۷ء کو سیشن جج گوجرانوالہ نے میرے تین ساتھی ملزمان کو رہا کر دیا اور عاجز اور میرے چچا زاد بھائی حیدر کو دفعہ ۳۰۲ کے ماتحت پھانسی اور دفعہ ۳۰۷ کے ماتحت حبس و وام بعبور دریائے شور کی سزائیں دیں.بندہ نے اسی وقت درد دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ خداوند اب ایسے اسباب پیدا کر کہ میری اپیل ہائی کورٹ میں دائر ہو جائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا کو فوراً قبول کیا اور چوہدری محمد 136
دعائے مستجاب.شریف صاحب سیکرٹری احمد یہ جماعت فیروز والہ اور دو اور دوست مسمیان نذرمحمد ومراد علی میری امداد کیلئے کھڑے ہو گئے.چنانچہ ان مہربانوں نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور مسٹرایم سلیم بیرسٹر ان کو وکلا پیروکار مقرر کیا.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹر نے مقدمہ لیتے ہی حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے حضور دعا کیلئے لکھا.عاجز نے بھی متعدد بار حضرت صاحب کے حضور دعاؤں کیلئے عرضداشتیں روانہ کیں اور اللہ تعالیٰ سے خود بھی دعائیں کیں اور دوبارہ بیعت بذریعہ خط پھانسی کی کوٹھڑی جیل گوجرانوالہ سے کی.اللہ تعالی کے فضل و کرم اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی دعاؤں اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹر کی دُعاؤں اور تیاری اپیل کی وجہ سے احقر مع اپنے چچا زاد بھائی حیدر ۹ مئی ۱۹۲۷ء کو مسٹر جسٹس براڈ وے اور مسٹر جسٹس سکمپ حجان ہائی کورٹ پنجاب سے بری کر دیا گیا اور ہم دونوں ۱۲ مئی بروز جمعرات بوقت ۳ بجے دوپہر وارنٹ رہائی عدالت عالیہ سے آنے پر رہا ہو گئے.ہم ہر دو بھائیوں کی رہائی جو حضرت خلیفہ اسح الثانی کی دعاؤں کا نتیجہ ہے، ہمارے لئے سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا معجزہ ہے.میں اپنے احمدی بھائیوں سے بذریعہ الفضل دعاؤں کا خواہاں ہوں کہ اللہ تعالیٰ دین کا سچا خادم بنائے...(الفضل ۲۰ مئی ۱۹۲۷ء) 66 00 137
دعائے مستجاب.ایک قریب المرگ مایوس العلاج مریض دُعا کی برکت سے کس طرح شفایاب ہو گیا، اللہ تعالیٰ کے اس غیر معمولی فضل و احسان کا ذکر کرتے ہوئے اختر اور نیوی لکھتے ہیں:.وو پارسال انہی دنوں میں میں نے ارادہ کیا کہ آئندہ بی اے کے امتحان میں شریک نہ ہوں کیونکہ نومبر میں میرے منہ سے خون آیا اور بلغم کے معائنہ سے یہ ظاہر ہوا کہ سل کے جراثیم موجود ہیں.میں نے حضرت خلیفہ اسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دُعا کیلئے لکھا اور امتحان میں بیٹھنے کے متعلق حضور سے دریافت کیا.میری عام صحت اچھی تھی.بعض ڈاکٹر امتحان میں شریک ہونے کی اجازت دے رہے تھے لیکن میرا دل بیٹھا ہوا تھا.حضور نے مجھے امتحان میں بیٹھنے کا مشورہ دیا اور تھکا دینے والی محنت سے بچنے کا ارشاد فرمایا.حضور کے ارشاد سے میرے دل میں پھر زندگی پیدا ہوگئی اور میں نے امتحان کے لئے معمولی تیاری شروع کر دی.میں ماہ مئی و جون میں شریک امتحان ہوا.امتحان کا آخری پرچہ آنرز کا تھا اس سے دو روز قبل.میرے منہ سے بہت سا خون آیا.میں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو فوراً تار دیا اور آخری پر چہ انگریزی مضمون نویسی کا اس حال میں دیا کہ برف کھا تا رہا اور نارنگی کا عرق پیتا رہا تا خون بند رہے.لیکن بعد ازاں اس شدت سے بیمار پڑا کہ زندگی کے لالے پڑ گئے.سارے انجکشن نا کامیاب رہے.خون لگا تار آ رہا تھا.صرف دُعا کا آسرا باقی تھا.ہر روز حضرت اقدس 138
دعائے مستجاب.کی خدمت میں خط یا تار بھجواتا.ڈاکٹر مایوس ہو چکے تھے اور میں قریب المرگ تھا آخر خدا تعالیٰ نے حضور کی دعاؤں کو سنا اور مجھے اچھا کر دیا.میں ان دنوں انکی سینڈیٹوریم میں ہوں.صبح و شام چار فرلانگ شہلاتا ہوں.وزن پہلے سے کچھ زیادہ ہے.جراثیم کم ہوتے جارہے ہیں.امتحان کا نتیجہ نکلا اور میں جس نے مہینوں علالت کے سبب کتاب نہ دیکھی تھی انگلش آنرز میں اپنے کالج میں فرسٹ آیا اور ساری یونیورسٹی میں آنرز میں سوم.تحدیث نعمت کے طور پر میں احباب کو یہ خبر سناتا ہوں کہ مجھے پٹنہ کالج کی طرف سے اول ہونے کے انعام میں سو ۱۰۰ روپے کی کتابیں ملیں.نیز پٹنہ یونیورسٹی کے کانووکیشن میں یہ اعلان ہوا کہ میں یونیورسٹی بھر میں اُردو میں فرسٹ ہوں اور اس کے انعام میں ایک طلائی تمغہ یونیورسٹی نے دیا.الحمد لله سہ سے حضرت خلیفہ المسیح کی دعاؤں کی معجز نمائی.مادی دنیا کی بے بسی مجھ پر بین طور پر ظاہر ہوگئی اور میں نے دیکھ لیا کہ خدا تعالیٰ کس طرح مردے زندہ کرتا ہے.پیارے امام اور احباب سے عرض ہے کہ میری کامل صحت کیلئے دعافرما ئیں.نیز اس بات کی کہ میراعلم اور میری بقیہ عمر احمدیت کی خدمت میں صرف ہو.اللھم آمین.(سیداختر احمد -احمدی- بی اے آنرز) الفضل ۸ جنوری ۱۹۳۵ء) اللہ تعالیٰ کے فضل سے سعید اختر احمد صاحب اور بیوی نے لمبی عمر پائی تعلیمی وادبی 139
دعائے مستجاب.میدان میں نمایاں خدمات سرانجام دیں.جماعتی خدمات میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہے.درخواست دعا بلکہ بیماری سے بھی پہلے بیمار کے شفا یاب ہونے کی بشارت کا عجیب واقعہ وو ایک تاز ونشان یہ ہے کہ ۶ جولائی کو کتری ( سندھ) سے مکرم میاں عبد الرحیم احمد صاحب نے حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو بذریعہ تارا اپنی صاحبزادی کی شدید بیماری کی اطلاع دیکر دعا کی درخواست کی.یہ تار ۸ جولائی کو حضور کو ڈلہوزی میں ملا اور حضور نے تار پڑھتے ہی دُعا فرمائی اور اس کی پشت پر یہ جواب رقم فرمایا کہ: وو میں نے آج خواب میں نوشی (صاحبزادی موصوفہ کا پیار کا نام) کو دیکھا کہ وہ آئی ہے اور مجھے آکر گلے ملی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے 66 کہ اُسے صحت دے.بظاہر تو خواب مبارک معلوم ہوتی ہے.واللہ اعلم.“ یہ جواب اسی وقت لکھ کر میاں عبدالرحیم احمد صاحب کو بھیج دیا گیا.اس کے بعد خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے صاحبزادی صاحبہ موصوفہ کو صحت بخشی اور بیماری کے سخت حملہ سے بچا کر شفا عطا فرمائی اور اس طرح اس کی بیماری سے بھی قبل حضور کو اس کی صحت کی جو بشارت دی گئی تھی وہ پوری ہو گئی.“ (الفضل ۸ ستمبر ۱۹۴۵ء) 66 140
دعائے مستجاب.مندرجہ ذیل ایمان افروز واقعہ مکرم محمد شفیع صاحب نے نئی دہلی سے تحریر کیا جو الفضل مورخہ ۲۹ جنوری ۱۹۴۲ء میں حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی قبولیت دعا کا ایک نشان کے عنوان سے شائع ہوا: وو کچھ عرصہ ہوا میرے ایک رشتہ دار مولوی عبدالرحمن صاحب سکول ماسٹر کو ڈسٹرکٹ بورڈ کی طرف سے حکم ملا کہ آپ کو فلاں تاریخ سے ریٹائرڈ کیا جاتا ہے اور اسکے ساتھ ہی ایک مدرس چارج لینے کے واسطے بھیج دیا گیا.اس پر مولوی صاحب کو بڑا فکر ہوا کہ اب گھر کا گزارا کیسے چلے گا کیونکہ میرا لڑکا بھی بے روزگار ہے.اسی فکر میں وہ قادیان حضرت امیر المؤمنین خلیفہ امسیح الثانی کی خدمت میں دعا کیلئے گئے اور وہاں تین روز تک ٹھہرے مگر حضور سے ملاقات نہ ہوسکی.اس سے وہ اور بھی گھبرائے مگر دفعتا انہیں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ تو جانتا ہی ہے کہ میں کس مقصد کے لئے اس کے مقرر کردہ خلیفہ کے دربار میں حاضر ہوا ہوں.اس پر مولوی صاحب نے چھٹی لکھ کر بکس میں ڈال دی اور واپس گھر آگئے.رات کو خواب میں دیکھا کہ حضور پرنور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایک کرسی پر رونق افروز ہیں.سامنے ایک میز پر کتاب ہے حضور اس کتاب کے ورق کبھی ایک طرف کو الٹتے ہیں کبھی دوسری طرف کو اور مولوی صاحب سے فرمایا.آپ کیا چاہتے ہیں.انہوں نے عرض کیا حضور میں نوکری سے علیحدہ کیا جارہا ہوں.ان دنوں میرا لڑکا بھی بے روز گار ہے.گھر کا گزارا کیسے چلے گا.اس پر حضور 141
دعائے مستجاب.نے فرمایا.جبکہ حکام فیصلہ کر چکے ہیں تو اب کیا ہوسکتا ہے.عرض کیا کہ حضور میں آپ کے پاس اسی لئے آیا ہوں.آپ کوئی تجویز بتا ئیں اور دعا بھی کریں.حضور نے فرمایا.اچھا جاؤ.لاہور ایک درخواست بھیج دو.آپ بحال رہیں گے.صبح اُٹھ کر مولوی صاحب نے اس مدرس سے جو چارج لینے کے واسطے آیا تھا کہا کہ میں بحال رہوں گا اور دفتر میں بھی جا کر اسی طرح کہا.اس پر وہ سب کہنے لگے کہ مولوی صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں جبکہ فیصلہ ہو چکا ہے تو اب بحال کیسے رہ سکتے ہیں.بعض نے تو یہاں تک کہا کہ مولوی صاحب کے دماغ میں خلل ہو گیا ہے.خیر مولوی صاحب نے ایک درخواست حسب الحکم حضور لا ہور بھیجی.وہاں سے حکم آگیا کہ ۵۵ سال سے کم عمر کے مدرس ریٹائر نہ کئے جائیں اس طرح مولوی صاحب کے ۶ یا ۷ سال اور بڑھ گئے...اس واقعہ کے گواہ وو ہندو سکھ اور کئی دوسرے موجود ہیں.“ " بے نور آنکھوں میں ٹور آ گیا“ کے عنوان سے قبولیت دعا کے ایک غیر معمولی نشان کا ذکر الفضل اخبار مورخہ ۵ ستمبر ۱۹۴۴ء میں اس طرح مذکور ہے: میرے آقا سیدنا وامامنا حضرت اصلح الموعود ایده الودود السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ اللہ تعالیٰ آپ پر ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے اور اللہ 142
ہیں: دعائے مستجاب.تعالیٰ آپ کا سایہ تا دیر ہمارے سروں پر رکھے اور آپ کی ذات والا صفات ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے رکھے.پہلے اس عاجز کو بالکل نظر نہیں آتا تھا یہاں تک کہ دن رات کا پتہ نہ چلتا تھا اور جب یہ عاجز کھانا کھانے لگتا تو لقمہ تھالی کی بجائے زمین پر لگ جاتا.میرے والد بزرگوار بہت جگہ علاج کیلئے گھومے مگر سب کے سب ڈاکٹروں نے جواب دے دیا کہ اب اس بچے کی آنکھیں بالکل بند ہوگئی ہیں.ان میں بنگہ اور پھگواڑہ کے مشہور ڈاکٹر بھی تھے اس پر میرے والد صاحب مایوس ہو کر بیٹھ گئے.ان کو کشفی طور پر دکھایا گیا کہ جسکی دعا سے یہ لڑکا پیدا ہوا ہے اس کی دُعا سے شفاء پائے گا.اس کے بعد والد صاحب نے بہت سے خط (پوسٹ کارڈ.ناقل ) لیکر رکھ لئے اور ہر روز حضور کی خدمت اقدس میں ارسال کر دیا کرتے.آخر خداوند کریم نے رحم فرمایا اور اب یہ عاجز اپنے ہاتھ سے یہ خط لکھ رہا ہے اور رات کولمپ کی روشنی میں پڑھ لیتا ہے.آپ کے ادنیٰ خادموں میں سے خادم 66 صالح محمد احمدی ولد چوہدری فتح محمد ساکن مبلیانہ ضلع ہوشیار پور " ایک خاتون قبولیت دعا کا ایک نہایت ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتی وو میں ایک سخت خطرناک بیماری میں عرصہ چار ماہ سے مبتلا تھی.پہلے تو معمولی سمجھ کر معمولی علاج کیا مگر مرض بڑھ گیا.پھر پوری کوشش سے 143
دعائے مستجاب.علاج کیا مگر بالکل افاقہ نہ ہوا بلکہ مرض اور بھی بڑھتا گیا آخر مایوس ہوکر علاج چھوڑ دیا.زیادہ گھبرا جانے کی حالت میں رو پڑتی تھی.آخر دل میں خیال آیا کہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو دُعا کے لئے لکھوں.جب دل میں یہ خیال آیا تو دس بجے رات کا وقت تھا.اسی وقت میں نے ایک نہایت ہی گھبراہٹ اور کرب کا خط حضور کی خدمت میں لکھا کہ دُعا فرمائیں.خدا تعالیٰ مجھ کو اس مرض سے نجات بخشے.جب میرے خط کا جواب حضور کی طرف سے آیا کہ دعا کی گئی ہے مجھ کو اس وقت بالکل آرام تھا اور میری صحت ایسی تھی کہ گویا کوئی مرض تھا ہی نہیں.سُبحان الله وبحمده سبحان الله العظیم.شکر ہے مہربان خدا کا لاکھ لاکھ بار جس نے مجھ پر اتنا فضل وکرم کیا.اس واقعہ کوکئی ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے کہ میں نے کبھی اس مرض کی حرارت اپنے بدن میں محسوس نہیں کی اور آئندہ کیلئے بھی مجھ کو خدا کے فضل و کرم سے ایسا یقین ہے جیسے پتھر پر لکیر بلکہ اس سے بھی زیادہ کہ مجھ کو یہ مرض پھر کبھی بھی نہ ہوگا.“ الفضل ۲ جنوری ۱۹۴۳ء) 00 144
دعائے مستجاب.حضرت المصلح الموعودؓ کی بعض دُعا ئمیں حضرت فضل عمر کی دعاؤں سے یہ حقیقت واشگاف ہوتی ہے کہ ایک دُعا گوجب اپنی کسی ضرورت اور مشکل کے وقت خدا تعالیٰ کے حضور عجز و نیاز سے جھک کر اس کی تائید و نصرت اور پیار و محبت کے سلوک سے نوازا جاتا ہے تو اُس کی دعاؤں میں سوز و رقت اور یقین و توکل کا ایک نہایت پیارا امتزاج پیدا ہو جاتا ہے.اس کی بعض مثالیں پیش خدمت ہیں : حضور اپنی معرکۃ الآراء تقاریر ”سیر روحانی“ کے سلسلہ کی ایک تقریر کے آخر میں فرماتے ہیں: سب سے زیادہ تو یہ دُعا مانگو کہ ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ سچا عبد اور اپنے دین کی خدمت کرنے والا بنائے اور ہم سے کوئی ایسی کمزوری ظاہر نہ ہو جس کی وجہ سے اسلام کو ، قرآن کو ، رسول اللہ صلی یتیم کے دین کو نقصان پہنچے بلکہ اللہ تعالیٰ ہم کو دین کی خدمت کی ایسی توفیق دے کہ ہمارے ذریعہ سے اسلام پھر طاقت پکڑے اور قوت پکڑے اور ہم اپنی آنکھوں سے خدا اور اس کے رسول صلیہ اسلام کی بادشاہت اس دنیا میں دیکھ لیں.“ ( سیر روحانی جلد سوم صفحه ۲۸۷) ۱۹۳۶ء میں انگریز حکومت کے بعض افسروں کی طرف سے جماعت کے تعلق میں 145
دعائے مستجاب.بعض نازیبا حرکتیں سر ز ہوئیں.حضور نے حقیقت حال کو کھول کر بیان فرمایا اور دشمنان جماعت کی مخالفانہ کارروائیوں کا اپنے خطبات میں تفصیل سے ذکر فر ما یا.اس بیان کے آخر میں حضور نے اپنی ایک خواہش اور دعا کا ذکر کرتے ہوئے ایک ایسا کارآمد ، مفید اور مؤثر اصول بیان فرمایا جس کی افادیت واثر انگیزی نہ پہلے کبھی کم ہوئی تھی اور نہ آئندہ کبھی کم ہوگی.حضور نے فرمایا: ” میری تمہارے لئے اور اپنی اولاد کیلئے یہی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بے غیرتی سے بچائے اور قربانیوں کی توفیق دے.میں تو یہ پسند کروں گا کہ میرا ایک ایک بچہ مرجائے اور میں بےنسل رہ جاؤں بجائے اس کے کہ سلسلہ کی عزت کے موقعہ پر وہ بے غیرتی دکھائے...خوب یا درکھو کہ خدا کے سلسلہ کی ہتک کی گئی ہے اور تمہارا فرض ہے کہ جان مال اور عزت و آبروسب کچھ قربان کر کے اسے قائم کرو اور میں مخلصین جماعت سے امید رکھتا ہوں کہ وہ ایسا ہی کریں گے مگر ان کا طریق وہ نہ ہوگا جو مذہب یا امانت و دیانت کے خلاف ہو.وہ فساد اور قانون شکنی ہرگز نہ کریں گے اور دونوں حدوں کو قائم رکھتے ہوئے اس وقت تک کام کریں گے جب تک اس کا ازالہ نہیں ہو جاتا اور سلسلہ کی عزت قائم نہیں ہو جاتی.“ 66 146 الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۳۶ء)
وو دعائے مستجاب.میں دیکھتا ہوں کہ یہی حال اس وقت ہماری جماعت کے افراد کا ہے.جب دشمن کا حملہ تھوڑی دیر کیلئے ہٹ جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اب ہم بچ گئے.میں پوچھتا ہوں تم کیونکر سمجھتے ہو کہ اب ہم بچ گئے...یا درکھو مومن کے دل پر جو زخم لگتے ہیں وہ کبھی مندمل نہیں ہوتے اور اس وقت تک ہرے رہتے ہیں جب تک دوسرے زخموں کے لگنے کا احتمال رہتا ہے...پس جبکہ خدا نے اپنی مصلحتوں کے ماتحت ہمارے ہاتھوں اور ہمارے پاؤں اور ہماری زبانوں کو بند کیا ہوا ہے.جب ایک طرف وہ یہ کہتا ہے کہ جاؤ اور حکومت وقت کی اطاعت کرو اور دوسری طرف یہ حکم دیتا ہے کہ گالیاں سنو اور چپ رہو (سوائے خاص حالات کے مگر اس صورت میں بھی اعتداء سے بچنے کی نصیحت کرتا ہے ) تو ان حالات میں ہمارے لئے سوائے اس کے اور کیا صورت رہ جاتی ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور دُعا کریں اور اس سے کہیں کہ اے ہمارے ہاتھوں کو روکنے والے اور ہمارے زبانوں کو بند کرنے والے خدا تو آپ ہماری طرف سے اپنے ہاتھ اور اپنی زبان چلا.پھر کون کہہ سکتا ہے کہ اس کے ہاتھوں سے زیادہ طاقتور ہاتھ بھی دنیا میں کوئی ہے اور اس کی زبان سے بھی زیادہ مؤثر کوئی زبان ہو سکتی ہے.“ ( الفضل ۱۲۴ پریل ۱۹۳۷ء ) 147
دعائے مستجاب.حضرت الصلح الموعودؓ زبانوں میں اثر اور دماغوں میں روشنی پیدا ہونے کیلئے خدا تعالیٰ کے حضور اس طرح التجا کرتے ہیں: ضروری ہے کہ جس طرح ہم اللہ تعالیٰ کے ان عظیم الشان فضلوں کا شکر ادا کریں جو اس نے ہماری سابقہ دعاؤں کو قبول کر کے فرمائے وہاں ہم عاجزانہ اور منکسرانہ طور پر اس سے دُعا کریں کہ اے خدا تیرے فضلوں نے ہمارے بہت سے مصائب کو ٹال دیا ہے لیکن بہت سے مصائب ابھی باقی ہیں حکومت کی طرف سے بھی اور افراد کی طرف سے بھی منظم پارٹیوں کی طرف سے بھی اور افراد کی طرف سے بھی.پس تو آپ ہی ہم پر فضل فرما.ہماری عاجزانہ التجاؤں کوسن.ہمیں اپنے پاس سے وہ طاقت بخش جس سے ہم اسلام اور احمدیت کو ساری دنیا پر غالب کر سکیں اور ہمیں اس کی اشاعت کی توفیق دے.ہماری زبانوں میں اثر اور ہمارے دماغوں میں روشنی پیدا کرتا کہ ہم وہی باتیں کہیں اور سوچیں اور سمجھیں جن سے دنیا میں تیرا جلال ظاہر ہو.ہمارے دلوں میں جذب پیدا کر.ہم تیری محبت اور پیار کو بھی جذب کریں اور تیرے ان بندوں کو بھی تیرے دین کی طرف کھینچیں جو تجھ سے برگشتہ ہو کر دُنیا میں بھٹک رہے ہیں.اے خدا جس طرح مقناطیس لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے اسی طرح ہم تیری محبت اور تیرے بندوں کو اپنی طرف کھینچنے والے ہوں اور ہم وہ نقطہ مرکزی ہو جائیں جس پر خدا اور بندہ آپس میں مل جاتا ہے اور ہمارا دل وہ گھر بن جائے جس میں خدا اور 148
دعائے مستجاب.انسان کی محبت جاگزیں ہوتی ہے.“ (الفضل ۹ را پریل ۱۹۳۷ء) ایک اور نہایت ضروری اور جامع دُعا کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کا سلسلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آخری جنگ ہے جو احمدیت کو دنیا میں دوبارہ قائم کرنے کیلئے لڑی جارہی ہے.افترا کی جتنی صورتیں انسانی ذہن میں آسکتی ہیں، فریب اور دغا کے جتنے طریق انسانی دماغ ایجاد کرسکتا ہے اور گمراہ کرنے اور ورغلانے کیلئے شیطان جتنی تدابیر اختیار کر سکتا ہے وہ سب احمدیت کے خلاف اختیار کی گئیں اور اختیار کی جارہی ہیں مگر باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلہ کی حفاظت کا وعدہ ہے جو پورا ہوکر رہے گا.نہ دشمنوں کی طاقت اس وعدہ کے پورے ہونے میں روک ہوسکتی ہے اور نہ ہمارے ضعف یا کمزوری سے اس کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے.جب اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کی ترقی کے وعدے کئے تو یہ جانتے ہوئے کئے تھے کہ یہ جماعت کتنی کمزور ہے اور اس علم کے ساتھ کئے تھے کہ ہمارے دشمن کتنے طاقتور ہیں وہ عالم الغیب خدا جانتا تھا کہ اس جماعت پر کتنے حملے ہونے والے ہیں اور کہ وہ ان کے دفاع کی کس قدر طاقت رکھتی ہے مگر اس نے باوجود یہ جاننے کے کہ جماعت میں کتنی طاقت ہے اور کہ دشمن اسے نقصان پہنچانے کیلئے ہر وہ طریق اختیار کرے گا جو پہلے انبیاء کے سلسلوں کے مقابل پر اختیار کئے گئے.اس نے 149
دعائے مستجاب.حفاظت کا وعدہ کیا ہے جو پورا ہوکر رہے گا اور خدا کی نصرت تمام تاریکیوں کو پھاڑ کر اور اس کا نور ہزار بابا دلوں کو چیرتا ہوا ظاہر ہوگا.دشمن کی تخویف ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکے گی اور اس کے مکرو فریب ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے.یہ خدا کا کام ہے جو پورا ہوکر رہے گا.یہ کلام اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل کیا پھر ہزاروں احمدیوں اور غیر احمد یوں پر اس کی تائید کیلئے اس کا کلام نازل ہوا.ہم اگر دعا کرتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ ہمیں خدا کی نصرت پر شبہ ہے بلکہ اس لئے کہ خدا کی نصرت جلد آئے تا اس میں ہمارا بھی ہاتھ ہو اور اللہ تعالیٰ اس میں شامل ہونے کا موقع ہمیں بھی عطا کرے.ہماری یہ دعائیں اس خوف سے نہیں کہ دشمن ہمیں نقصان پہنچائے گا اور اس شبہ سے نہیں کہ سلسلہ کی ترقی کس طرح ہوگی بلکہ اس یقین کے ساتھ ہیں کہ ترقی ضرور ہوگی.پس آؤ ہم سب مل کر وہ سب سے بڑا حربہ اور سب سے زبر دست ہتھیار جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے استعمال کریں اور اپنی کمزوریوں کو اس کے حضور پیش کرے اس کے فضلوں کو ڈھونڈیں تا وہ ہمارے دشمنوں کو زیر کر دے اور سلسلہ کا موید و ناصر ہو اور ہر اس کمزوری کو جو جماعت میں پائی جاتی ہے دُور کرے اور منافقین کو یا تو ہدایت دے اور یا انہیں ظاہر کر دے تا سلسلہ کی ترقی کے رستہ سے ہر قسم کی روکیں دور ہوں.اسی طرح بیرونی دشمنوں کے لئے بھی ہمیں دُعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو 150
دعائے مستجاب.بھی ہدایت نصیب کرے اور ان کی گالیوں کو دعاؤں میں بدل دے اور اگر انکے اعمال کو دیکھتے ہوئے وہ انکی تباہی کا ہی فیصلہ کر چکا ہے تو پھر ہماری دُعا یہ ہے کہ وہ...ہماری زندگیوں میں ہوں تا ہم اس کے ثواب میں حصہ دار ہوسکیں.“ (الفضل ۹ جون ۱۹۳۷ء) بعض خصوصی دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: ضرورت اس بات کی ہے کہ تم استقلال سے دعاؤں میں لگے رہو وہ لوگ جو جذباتی باتوں سے متاثر ہوکر چند دن جوش دکھاتے ہیں اور پھر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نہیں بلکہ اس کے غضب کے مستحق ہیں.پس اپنے اندر بیداری اور ہوشیاری پیدا کرو.دوستوں کو ہوشیار اور بیدار کرو.اپنے ہمسایوں کو ہوشیار اور بیدار کرو اور کسی کوسست ہو کر بیٹھنے نہ دو.پھر تم دیکھو گے کہ دنیا میں کس قدر تغیرات ہوتے ہیں...خصوصیت سے دعاؤں میں لگ جاؤ اور بالخصوص یہ دعا کرو کہ الهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِم وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ اور رَبِّ كُلِّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِي وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِي اس کے علاوہ اور تبھی دعائیں اپنی زبان میں کرو جنہیں دلی جوش 151
دعائے مستجاب.کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر سکو.اس تعلیم پر عمل کر کے دیکھ لو تم محسوس کرو گے کہ تم اکیلے نہیں اور نہ دنیا کی نگاہوں میں یتیم ہو کیونکہ ہمارا خدا ہمارا روحانی باپ ہے اور جو بندے اس زندہ اور حی و قیوم خدا کو بیٹوں کی مانند پیارے ہوں وہ یتیم نہیں ہوتے اور نہ کبھی ہو سکتے ہیں.کیونکہ وہ زندہ رہنے والا خدا ہے...پس تمہارےلئے یتیم ہونا ناممکن ہے.تم مایوس مت ہو بلکہ تم اپنے زندہ خدا کے آستانہ پر گر جاؤ اور اس سے تضرع اور عاجزی سے دعائیں مانگو تب تم دیکھو گے کہ وہ دیو جو غضبناک شکلیں بنا کر تمہیں ڈرا رہے ہیں اور تمہیں اس وقت خوفناک صورتوں میں نظر آرہے ہیں وہ دھواں بن کر اڑ جائیں گے اور ان کا نام ونشان تک دنیا میں نہیں رہے گا.“ 00 ( الفضل ۱۷ مارچ ۱۹۳۶ء) قبولیت دعا اور تائید الہی کا ایک نہایت لطیف واقعہ بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: اصل بات یہ ہے کہ دلیری بڑی چیز ہے.تم موت کے لئے تیار ہو جاؤ موت تم سے بھاگنے لگے گی.جیل خانوں کے لئے تیار ہو جاؤ جیل خانے تم سے دور بھاگیں گے اور مارکھانے کیلئے تیار ہو جاؤ تو مارنے والے تم سے دُور بھاگنے لگیں گے.پس دلیر بن جاؤ اور یقین رکھو کہ ہر چیز تمہاری خادم ہے اور تمہیں کوئی چیز گزند نہیں پہنچاسکتی.ย 152
دعائے مستجاب.اسی کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام میں اشارہ ہے "آگ سے ہمیں مت ڈراؤ.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.“ یعنی چونکہ ہم آگ سے ڈرتے نہیں اس لئے آگ نہ صرف ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی بھی غلام ہے.سچی بات یہ ہے کہ جب کوئی قوم یہ فیصلہ کر لیتی ہے کہ ہم نے کسی سے نہیں ڈرنا تو تمام قو میں اس سے ڈرنے لگتی ہیں.پس اپنے دلوں سے بزدلی نکال دو اور یا درکھو کہ جس دن تم نے بزدلی دور کر دی اسی دن تمام قو میں تم سے ڈرنے لگیں گی پھر اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں بھی کرو.جب اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہو رہے ہوں.اس وقت ایسے ایسے رنگ میں دعائیں قبول ہوتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.ابھی چند دن پہلے کا واقعہ ہے کہ مجھے ایک مشکل در پیش تھی اور میرے ذہن میں اس کا کوئی حل نہ آتا تھا.طبیعت میں ایک قسم کی گھبراہٹ تھی اور میں حیران تھا کہ کیا کروں.دل میں خیال آیا میں نے کاغذ اور قلم رکھ دیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الہی میرے پاس اس مشکل کا کوئی حل نہیں اور میرے وہم میں بھی نہیں آتا کہ میں اس کا کیا حل نکالوں تو خود ہی اپنے فضل سے میری رہبری فرما.صرف ایک منٹ میں نے دعا کی ہوگی.پھر میں اپنے کام میں مشغول ہو گیا.ابھی پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ وہ مشکل جس کا حل میرے وہم میں بھی نہیں آتا تھا حل ہوگئی.یعنی پانچ منٹ کے اندر ہی 153
دعائے مستجاب.میرے دروازے پر دستک ہوئی اور جس مشکل کی وجہ سے میں گھبرا رہا تھا اس کا حل حاصل ہو گیا.پس جو اللہ تعالیٰ کے حضور گرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی اعانت کرتا ہے.صرف اللہ تعالی کی مد کا پورا یقین ہونا چاہئے اور جس وقت یقین سے دعا کی جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور سے رد نہیں کی جاتی بلکہ قبول ہو جاتی ہے.“ 00 (الفضل ۱۱ جون ۱۹۳۱ء) ۱۹۲ء کی مجلس مشاورت کے افتتاح پر جو جنگ عظیم ثانی کے زمانہ کا واقعہ ہے حضور دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وو..سب مل کر دعا کر لیں اللہ تعالیٰ ہماری صحیح رہنمائی فرمائے ہمارے دماغوں کو روشن کرے ہماری عقلوں کو تیز کرے اور ہماری نصرت و تائید فرمائے تا کہ ہم قربانی کے صحیح جذبات کے ماتحت اس کے نام کی بلندی اور اس کے جلال کے اظہار کے لئے ایسی کوشش کریں جو اس کے علم میں ہمارے لئے اور اسلام کی ترقی اور اس کی اشاعت کے لئے مفید ہو...پھر اس موقعہ پر ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم اپنے ان بھائیوں کے لئے بھی دعا کریں جو تبلیغ کیلئے غیر ممالک گئے ہوئے ہیں اور جن میں سے شاید آج بہت سے قید و بند کی تکالیف میں مبتلا ہیں بالخصوص تحریک جدید کے اکثر مبلغین ایسے ہی ممالک اور ایسے ہی حالات میں ہیں کہ جہاں تک ہمارا علم 154
دعائے مستجاب.کام کرتا ہے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ وہ قید ہوں گے...پھر خطرات جنگ کے لحاظ سے ہم یقینی طور پر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان کی جانیں بھی محفوظ ہیں یا نہیں.پس ان تمام مبلغین کو اپنی دُعاؤں میں یا درکھو.اسی طرح ہمیں اپنی دعاؤں میں ان لوگوں کو بھی یا درکھنا چاہئے جنہوں نے ہمارے مبلغین کی آواز پر احمدیت کو قبول کیا اور اپنے آپ کو اس جماعت میں شامل کر دیا.“ ( رپورٹ مجلس مشاورت ) حضرت مصلح موعود اپنے پہلے نہایت کامیاب و مفید سفر یورپ سے بخیریت واپسی پر اپنے ایک خطاب کے آخر میں دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وو پس میں دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنی عظمت اور اپنے جلال اور اپنی بے انتہا قدرتوں کا مظہر بنادے اور اس کی شان اور عظمت تمام دنیا اور اُس کے ہر گوشہ میں ظاہر ہو اور خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کیلئے اور اس کے دین کی خاطر اپنا سب کچھ اس کی راہ میں قربان کر دیں اور ہماری نسلوں کو بھی توفیق عطا فرمائے اور کوئی وسوسہ ہمیں اس سے جدا نہ کر سکے.وہ ہمارا ہواور ہم اس کے ہوجائیں.اللھم آمین.(الفضل ۳ جنوری ۱۹۲۵ء) ہر ایک کے لئے دُعا کرو تا خدا تعالیٰ کا فضل دنیا کی ہر قوم پر نازل ہو کیونکہ ایمان کسی ایک قوم کا حصہ نہیں.“ 155 ( الفضل ۸ جون ۱۹۴۰ء)
دعائے مستجاب.حضرت مصلح موعود کی ایک نہایت رُوح پرور دُعا جس میں خدا تعالیٰ سے قریبی تعلق اور توکل پر بھی روشنی پڑتی ہے: پس آسمانی نصرت اُسی وقت آتی ہے جب ساری تدابیر انتہا کو پہنچ کر ختم ہو جاتی ہیں اور کامیابی کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتیں.جب وہ دنیا دار نگاہوں میں مضحکہ خیز اور روحانی آنکھ والوں کیلئے رقت انگیز ہو جاتی ہیں.اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلتے ہیں مگر اس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ بندہ چلائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما یا کرتے تھے کہ دنیا میں محبت کا بہترین مظاہرہ وہی ہوتا ہے جو ماں کو اپنے بیٹے سے ہوتا ہے.بسا اوقات ماں کی چھاتیوں میں دودھ خشک ہو جاتا ہے مگر جب بچہ روتا ہے تو دودھ اتر آتا ہے.پس جس طرح بچے کے روئے بغیر ماں کی چھاتیوں میں دودھ نہیں اتر سکتا اُسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی رحمت کو بندہ کے رونے اور چلانے سے وابستہ کر دیا ہے.جب بندہ چلاتا ہے تو رحمت کا دودھ اُترنا شروع ہوتا ہے.اس لئے جیسا کہ میں نے بتایا تھا ہمیں چاہئے کہ اپنی طرف سے انتہائی کوشش کریں...اور اس کے بعد جس حد تک زیادہ سے زیادہ دعاؤں کو لے جاسکتے ہیں لے جائیں...فتنہ ابھی جاری ہے، شرارت کا سلسلہ بند نہیں ہوا.مخالفوں نے اللہ تعالیٰ کی تنبیہ سے عبرت حاصل نہیں کی اور گذشتہ عذاب سے عبرت حاصل نہیں کی.156
دعائے مستجاب.اس لئے آؤ ہم پھر خدا تعالیٰ کے حضور چلائیں تا جس طرح بچے کے رونے سے ماں کی چھاتیوں میں دودھ اُتر آتا ہے آسمان سے ہمارے ربّ کی نصرت نازل ہو اور وہ روکیں اور مشکلیں جو ہمارے رستہ میں ہیں دُور ہو جائیں.بعض مشکلات ایسی ہیں جن کا دُور کرنا ہمارے اختیار میں نہیں.ہم دشمن کی زبان کو بند نہیں کر سکتے اور اس کے قلم کو نہیں روک سکتے.انکی زبان اور قلم سے وہ کچھ نکلتا رہتا ہے جس کے پڑھنے اور سننے کی ہمت و تاب نہیں...اور انصاف کا خون کیا جارہا ہے.ہم ایک طرف دنیا کو ان مظالم سے مطلع کریں گے تو دوسری طرح اپنے رب سے اپیل کریں گے یہاں تک کہ اس ظلم کے ذمہ دار...چکی کے دو پاٹوں کے درمیان آجائیں گے.ایک طرف خدا کی لعنت ان پر برسے گی اور دوسری طرف شریف الطبع انسان خواہ کسی قوم اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ان کے افعال پر اظہار نفرت و ملامت کریں گے.پہنچا.ہم حکومت سے کسی فائدہ کی توقع نہیں رکھتے بلکہ صرف یہی کہتے ہیں: مر از خیر تو امید نیست بد مرساں یعنی مجھے تجھ سے کسی بھلائی کی اُمید نہیں مگر کم سے کم یہ کر کہ نقصان تو نہ بعض ظاہری تدابیر و اسباب جنہیں ایسے مواقع پر اختیار کیا جاسکتا ہے ان کا ذکر کرنے کے بعد حضور نے فرمایا: 157
دعائے مستجاب.مگر اس سے ان باتوں کا ازالہ نہیں ہو جاتا.بلاشبہ ہم میں سے کمزوروں کی اس سے تسلی بھی ہو جائے گی مگر حقیقی روحانیت سے مس رکھنے والے ان باتوں سے تسلی نہیں پاسکتے.جب تک وہ زبانیں کھلی ہیں جن پر یہ الفاظ جاری ہوتے ہیں.جب تک وہ ہاتھ حرکت کرتے ہیں جو ایسی باتیں لکھتے ہیں.جب تک وہ دماغ موجود ہیں جن میں یہ خیالات دوڑتے ہیں.جب تک وہ دل باقی ہیں جن میں ایسے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور جب تک دوبارہ ان باتوں کے کہے یا لکھے جانے کا امکان ہے.اس وقت تک کوئی احمدی چین کا سانس نہیں لے سکتا.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان کا ہٹانا ہمارے اختیار میں نہیں.یہ خدا کے اختیار میں ہے.اور وہ دونوں طرح ان باتوں کو دُور کر سکتا ہے.وہی دل جو آج نفرت سے ہے بھرے ہوئے ہیں.ان میں محبت کے جذبات پیدا کر کے بھی ہٹا سکتا.اور ایسے لوگوں کو تباہ اور ان کے گھروں کو ویران کر کے بھی ہٹا سکتا ہے.حکومت ہمارے ہاتھوں کو پکڑ سکتی ہے مگر وہ خدا کے ہاتھوں کو کیسے پکڑ سکتی ہے.جن ہاتھوں میں وہ خود بھی ایک قیدی کی طرح ہے.ہماری فوجیں زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر ہیں.حکومت وہ تو ہیں بنواتی ہے جن کے گولے پندرہ بیس میل تک مار کر سکتے ہیں مگر ہم تو ہیں تیار کریں گے جو عرش سے گولہ پھینکتی ہیں اور فرش پر رہنے والوں کو ملیا میٹ کر دیتی ہیں.گورنمنٹ کی گرفت صرف ان لوگوں تک ہے جو اس کی حکومت کے ماتحت ہیں مگر ہم وہ 158
دعائے مستجاب.وارنٹ جاری کرائیں گے جن سے دنیا کے بادشاہ بھی گرفتار کئے جاسکتے ہیں.ہم نے ایک لمبے عرصہ تک ان باتوں کوٹنا اور صبر کیا.دیکھا اور خاموش رہے.ہم نے التجائیں کیں مگر انہیں ٹھکرا دیا گیا.ہم نے عرضیں کیں مگر ان پر کان نہیں دھرے گئے..ہم کبھی چپ نہیں ہوں گے اور جو ہم نہ کر سکیں گے وہ خدا تعالیٰ کرے گا.جہاں ہمارے ہاتھ روکے جائیں گے وہاں فرشتے کام کریں گے.زمین پر امن قائم نہیں ہو گا جب تک ہمارے دلوں میں امن قائم نہیں ہوتا.آسمان تیراندازی بند نہیں کرے گا جب تک ہمارے قلوب پر ان تیروں کا چلا یا جا نا ختم نہیں ہوگا.پس آؤ کہ..مل کر بھی اور انفرادی طور پر بھی ایسی دعائیں کی جائیں جو عرش الہی کو ہلا دیں تا خدا تعالیٰ اپنی فوجوں کو حکم دے...کہ جاؤ دنیا کے پردہ پر میرے کچھ مظلوم بندے ہیں انہیں کمزور سمجھ کر کچھ طاقتور حکام اور اکثریت کے نمائندے ان پر ظلم کر رہے ہیں ان کے دل غم سے بھرے ہوئے ہیں اور آنکھیں اشکوں سے پر ہیں.وہ تھوڑے ہیں اور بیکس دنیا کے پردہ پر کوئی ان کا والی نہیں.ہر قوم ان سے اس لئے دشمنی کر رہی ہے کہ انہوں نے میری آواز کیوں سُنی اور میری پکار پر لبیک کیوں کہا.میں ان کی آواز سنوں گا اور ان کی پکار کو بے کار نہیں جانے دوں گا.بے شک دنیا داروں کی نگاہ میں وہ بے کس ہیں مگر انہیں کیا معلوم کہ میں ان کا والی ہوں اور میں ان کا حامی ہوں.تم جاؤ اور دنیا سے ان کے مخالفوں کو مٹا دو.خواہ دلوں میں تبدیلی پیدا کر کے اور 159
دعائے مستجاب.ہدایت بخش کر یا ضد کی صورت میں ان کے گھروں پر میری لعنت برسا کر 66 اور میرا عذاب نازل کر کے.“ الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۳۶ ء - خطبات محمود ۱۹۳۶ صفحه ۱۵۲ تا ۱۵۶) دعاؤں کی قبولیت کے متعلق اپنے ایمان وایقان پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: وو وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک طاقت ہیں اور ہم یہ کر سکتے ہیں...اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ ہم تو بالکل نا تو ان ہیں.ہاں ہمارا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر ہے وہ بڑی طاقتوں اور قدرتوں والا ہے وہ اپنے سلسلہ کو ہر ایک شر اور ضرر سے بچا سکتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ بچائے گا...خوب یاد رکھو کہ روزے اور عبادت زیادہ کرنے ، صدقات وخیرات سے مصائب مل جایا کرتے ہیں.پس تم تہجد اور نوافل میں سستی نہ کرو اور مل کر دعائیں کرو...مجھے تسلی اور یقین ہے اور ذرہ بھی وہم نہیں خدا تعالیٰ مظفر اور منصور کرے گا اور ضرور کرے گا.“ الفضل ۱۶ اپریل ۱۹۱۴ء) پس میں دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنی عظمت اور اپنے جلال اور اپنی بے انتہا قدرتوں کا مظہر بنادے اور اس کی شان اور عظمت تمام دنیا اور اس کے ہر گوشہ میں ظاہر ہو اور خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کیلئے اور اس کے دین کی خاطر اپنا سب کچھ اس کی راہ میں قربان کر دیں.اور ہماری 160
دعائے مستجاب.نسلوں کو بھی توفیق عطا فرما دے اور کوئی وسوسہ ہمیں اس سے جدا نہ کر سکے.وہ ہمارا اور ہم اس کے ہو جائیں.اللھم آمین.(الفضل ۳ جنوری ۱۹۲۵ء) تقسیم ملک سے قبل قادیان کے آخری جلسہ سالانہ کی افتتاحی تقریر میں حضور نے خدا تعالیٰ سے اس طرح التجا کی: ” ہمارا ذہن اور ہماری ذمہ داری ہمیں اس طرف بلاتی ہے کہ باوجود اس کے وعدہ کے ہم اپنی کمزوریوں اور بے بسیوں کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور جھک جائیں اور اس سے التجا کریں کہ اے ہمارے رب تو نے ہمیں ایک ایسے کام کے لئے کھڑا کیا ہے جس کے کرنے کی کروڑواں اور ار بواں حصہ بھی ہم میں طاقت نہیں.اے ہمارے رب تو نے اپنے رسول کے ذریعہ ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ اگر تم اپنے غلام سے کوئی ایسا کام لوجو اس کی طاقت سے بالا ہو تو خود اس کے ساتھ مل کر کام کرو.ورنہ اس سے ایسا کام نہ لوجو اس کی طاقت سے باہر ہو.اے ہمارے رب تو نے جب اپنے بندوں کو جن کی طاقتیں محدود ہیں، یہ حکم دیا ہے کہ کسی کے سپر دکوئی ایسا کام نہ کرو جو اس کی طاقت سے بالا ہو تو اے ہمارے رب تیری شان اور تیرے فضل اور تیری رحمت سے ہم کب یہ اُمید کر سکتے ہیں کہ تو ایک ایسا کام ہمارے سپرد کر دے گا جو ہماری طاقت سے بالا ہوگا.لیکن خود ہماری مدد کیلئے آسمان سے نہیں اُترے گا.یقیناً اترے گا اور ہماری مدد کرے گا اور ہم تجھ سے التجا 161
دعائے مستجاب.کرتے ہیں کہ تو ہماری کمزور حالت کو دیکھتے ہوئے اپنے فضلوں کو بڑھاتا جا.اپنی رحمتوں کو بڑھا تا جا.اپنی برکتوں کو بڑھا تا جا.یہاں تک کہ ہماری ساری کمزوریوں کو تیرے فضل ڈھانپ لیں اور ہمارے سارے کام تیرے فضل سے اپنی تکمیل کو پہنچ جائیں تا کہ تیرے احسانوں میں سے ایک یہ بھی احسان ہو کہ جو کام تو نے ہمارے سپرد کیا تھا اُسے تو نے خود ہی سرانجام دے دیا.کام تیرا ہو اور نام ہمارا ہو.آؤ ہم اپنے رب سے یہ دعا کر کے اس جلسہ کو شروع کریں کہ خدا اپنی رحمتوں اور اپنے فضلوں اور اپنی برکتوں کے دروازے ہم پر کھول دے.آمین.“ (الفضل ۲۷ / دسمبر ۱۹۴۶ء) دین کی اشاعت اور غلبہ کو اپنا بنیادی مقصد قرار دینے اور اس کے حصول کی خاطر دعا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:...جب تک انسان مرنہیں جاتا ہر مقام سے پیچھے ہٹ سکتا ہے حتی کہ اگر وہ شیطان کے دوش بدوش کھڑا ہو گیا ہو اور وہاں سے لوٹنا چاہے تو بھی لوٹ سکتا ہے.پس میں تمام دوستوں کو جو یہاں جمع ہوئے ہیں خواہ وہ واعظ ہوں یا سامع نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی نیتوں کو درست کر کے خدا تعالیٰ کے آگے جھک جائیں اور نہایت ہی درد مند دل کے ساتھ عرض کریں کہ اے ہمارے رب ہم اس لئے یہاں جمع ہوئے ہیں...کہ تا تیرا نام دنیا میں بلند ہو.تیری عظمت اور جلال دنیا میں ظاہر ہو.تیرا دین دنیا میں پھیلے.تیری 162
دعائے مستجاب.حقانیت باطل پر غالب آئے.تیرے بھیجے ہوئے سردار انبیاء محمد رسول اللہ صلی یا اسلام کی صداقت دنیا میں ظاہر ہو.آپ سال کی ستم کی لائی ہوئی شریعت دنیا میں پھیلے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن و احادیث کی جو تشریح بیان فرمائی ہے لوگ اسے سمجھیں.اس پر ایمان لائیں اور اس پر عمل کریں تا اے ہمارے رب تیرے بھولے بھٹکے بندوں کو ہم تیرے آستانہ پر لاسکیں.سب سے پہلے اپنے نفس کو پھر اپنے اہل وعیال کو پھر دوستوں کو پھر ساری دنیا کے لوگوں کو جو صرف نام کے بندے ہیں تیرے حقیقی بندے بنا سکیں.جن کے دل سیاہ ہیں ان کے دل سفید کر دیں تا کہ قیامت کے روز ان کے چہرے کالے نہ ہوں بلکہ بے عیب و روشن ہوں.تو ہم سے خوش ہو جائے کہ ہم تیرے گمراہ بندوں کو تیرے آستانہ پر لائے اور ہم تجھ سے خوش ہوں کہ تو ہم سے راضی ہو گیا...میں دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے ساتھ مل کر اس طرح جس طرح میں نے ابھی کہا ہے دعا کریں.بیشک اپنے لئے بھی دعا کریں مگر دین کی اشاعت اور غلبہ کیلئے ضرور دعا کریں تا اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور تا یہ نیا اجتماع ہمارے لئے نئے علوم ، نئی امنگیں ، نئی کامیابیاں اور نئی خدا تعالیٰ کی رضا ئیں لانے کا موجب ہو.“ ( الفضل یکم جنوری ۱۹۴۴ء) 163
دعائے مستجاب.اپنی اولا د اور جماعت کیلئے ایک جامع دُعا ”اے میرے رب تو کتنا پیارا ہے.نہ معلوم میری موت کب آنے والی ہے اس لئے میں آج ہی اپنی ساری اولا د اور اپنے سارے عزیز واقارب اور احمد یہ جماعت تیرے سپرد کرتا ہوں.اے میرے رب تو ان کا ہو جا اور یہ تیرے ہو جائیں.میری آنکھیں اور میری روح ان کی تکلیف نہ دیکھیں.یہ بڑھیں اور پھلیں اور پھولیں اور تیری بادشاہت کو دنیا میں قائم کر دیں اور نیک نسلیں چھوڑ کر جو ان سے کم دین کی خادم نہ ہوں تیرے پاس واپس آئیں.“ 00 (سیرت حضرت اُمّم طاہر ) حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے تشخید الاذہان میں ایک مضمون رقم فرمایا جو ماہ رمضان کے متعلق تھا.آپ نے اس مضمون میں رمضان کی برکات کا ذکر کرنے کے بعد لکھا: میں رسالہ تشحیذ الاذہان کے لئے اپنی میز میں سے ایک مضمون تلاش کر رہا تھا تو مجھے ایک کاغذ ملا جو میری ایک دعا تھی جو میں نے پچھلے رمضان میں کی تھی.مجھے اس دُعا کے پڑھنے سے زور سے تحریک ہوئی کہ اپنے 164
دعائے مستجاب.احباب کو بھی اس طرف متوجہ کروں.نامعلوم کس کی دُعاسنی جائے اور خدا کا فضل کس وقت ہماری جماعت پر ایک خاص رنگ میں نازل ہو.میں اپنا درد دل ظاہر کرنے کیلئے اس دعا کو یہاں نقل کر دیتا ہوں کہ شاید کسی سعید الفطرت کے دل میں جوش پیدا ہو اور وہ اپنے رب کے حضور میں اپنے لئے اور جماعت احمدیہ کے لئے دعاؤں میں لگ جائے جو کہ میری اصل غرض ہے.وہ دعا یہ ہے: اے میرے مالک ! میرے قادر خدا میرے پیارے مولیٰ.میرے رہنما.اے خالقِ ارض و سماء.اے متصرف آب و ہوا.اے وہ خدا جس نے آدم سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک لاکھوں ہادیوں اور کروڑوں رہنماؤں کو دنیا کی ہدایت کیلئے بھیجا.اے وہ علیم و کبیر جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان رسول مبعوث کیا اور وہ رحمان جس نے مسیح سا رہنما آنحضرت صالہ کی یتیم کے غلاموں میں پیدا کیا.اے نور کے پیدا کرنے والے اور ظلمات کے مٹانے والے تیرے حضور میں ہاں صرف تیرے ہی حضور میں مجھ سا ذلیل بندہ جھکتا اور عاجزی کرتا ہے کہ میری صدا سن اور قبول کر.کیونکہ تیرے ہی وعدوں نے مجھے جرات دلائی ہے کہ میں تیرے آگے کچھ عرض کرنے کی جرات کروں.میں کچھ نہ تھا تو نے مجھے بنایا.میں عدم میں تھا تو مجھے وجود میں لایا.میری پرورش کے لئے اربعہ عناصر بنائے اور میری خبر گیری کیلئے انسان کو پیدا کیا.جب میں اپنی 165
دعائے مستجاب.ضروریات کو بیان نہ کر سکتا تھا تو نے مجھ پر وہ انسان مقرر کئے جو میری فکر خود کرتے تھے.پھر مجھے ترقی دی اور میرے ذوق کو وسیع کیا.اے میری جان.ہاں اے میری جان تو نے آدم کو میرا باپ بننے کا حکم دیا اور حوا کو میری ماں مقرر کیا اور اپنے غلاموں میں سے ایک غلام کو جو تیرے حضور عزت سے دیکھا جاتا تھا اس لئے مقرر کیا کہ وہ مجھ سے ناسمجھ اور نادان اور کم فہم انسان کیلئے تیرے دربار میں سفارش کرے اور تیرے رحم کو میرے لئے حاصل کرے.میں گنہگار تھا تو نے ستاری سے کام لیا.میں خطا کار تھا تو نے غفاری سے کام لیا.ہر ایک تکلیف اور دُکھ میں میرا ساتھ دیا.جب کبھی مجھے پر مصیبت پڑی تو نے میری مدد کی اور جب کبھی میں گمراہ ہونے لگا تو نے میرا ہاتھ پکڑ لیا.باوجود میری شرارتوں کے تو نے چشم پوشی کی اور باوجود میرے دُور جانے کے تو میرے قریب ہوا.میں تیرے نام سے غافل تھا مگر تو نے مجھے یادرکھا.ان موقعوں پر جہاں والدین اور عزیز و اقرباء اور دوست و غم گسار مدد سے قاصر ہوتے ہیں تو نے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھایا اور میری مدد کی.میں غمگین ہوا تو تو نے مجھے خوش کیا.میں افسردہ دل ہوا تو تو نے مجھے شگفتہ کیا.میں رویا تو تو نے مجھے خوش کیا.میں افسردہ دل ہوا تو تو نے مجھے شگفتہ کیا.میں رویا تو تو نے مجھے ہنسایا.کوئی ہوگا جو فراق میں تڑپتا ہو ، مجھے تو تو نے خود ہی چہرہ دکھایا.تو نے مجھ سے وعدے کئے اور پورے کئے اور کبھی نہیں ہوا کہ تجھ سے اپنے اقراروں کو پورا کرنے میں 166
دعائے مستجاب.کوتاہی ہوئی ہو.میں نے تجھ سے وعدے کئے اور توڑے مگر تُو نے اس کا کچھ خیال نہیں کیا.میں نہیں دیکھتا کہ مجھ سے زیادہ گنہ گار کوئی اور بھی ہو اور میں نہیں جانتا کہ مجھ سے زیادہ مہربان تو کسی اور گناہ گار پر بھی ہو.تیرے جیب شفیق وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا.جب میں تیرے حضور آ کر گڑ گڑایا اور زاری کی تو نے میری آوازسُنی اور قبول کی.میں نہیں جانتا کہ تو نے کبھی میری اضطراب کی دُعارد کی ہو.پس اے میرے خدا میں نہایت درد دل سے اور سچی تڑپ کے ساتھ تیرے حضور میں گرتا اور سجدہ کرتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ میری دُعا کوشن اور میری پکار کو پہنچ.اے میرے قدوس خدا میری قوم ہلاک ہو رہی ہے اسے ہلاکت سے بچا.اگر وہ احمدی کہلاتے ہیں تو مجھے ان سے کیا تعلق جب تک ان کے دل اور سینے صاف نہ ہوں اور وہ تیری محبت میں سرشار نہ ہوں مجھے ان سے کیا غرض.سواے میرے رب ! اپنی صفات رحمانیت ورحیمیت کو جوش میں لا اور ان کو پاک کر دے.صحابہ کا سا جوش و خروش ان میں پیدا ہو.وہ تیرے دین کیلئے بے قرار ہو جائیں اور ان کے اعمال ان کے اقوال سے زیادہ عمدہ اور صاف ہوں.وہ تیرے پیارے چہرے پر قربان ہوں اور نبی کریم صلی اسلام پر فدا.تیرے بانی سلسلہ کی دعائیں ان کے حق میں قبول ہوں.اور اس کی پاک اور سچی تعلیم ان کے دلوں میں گھر کر جائے.اے میرے خدا میری قوم کو تمام ابتلاؤں اور دکھوں سے بچا اور قسم قسم کی مصیبتوں سے انہیں محفوظ رکھ ان میں بڑے 167
دعائے مستجاب.بڑے بزرگ پیدا کر.یہ ایک قوم ہو جائے جو تو نے پسند کر لی ہو اور یہ ایک گروہ ہو جو تو اپنے لئے مخصوص کرے.شیطان کے تسلط سے محفوظ رہیں اور ہمیشہ ملائکہ کا نزول ان پر ہوتا رہے.اس قوم کو دین و دنیا میں مبارک کر.مبارک کر.اے خدا تو ایسا ہی کر.اے جہانوں کے مالک تو ایسا ہی کر.اس کے بعد میں اپنے لئے.اپنے بھائیوں کیلئے اپنی والدہ کے لئے.اپنی ہمشیروں کیلئے اپنے دوستوں کیلئے...دعا کرتا ہوں اور نہایت عاجزی سے دعا کرتا ہوں کہ ہم کو دین و دنیا میں مبارک کر.نیک کر.پاک کر.اپنے لئے چن لے.ہدایت کا پھیلانے والا بنا.دنیا کا خادم بنا اور صحت و پاک عمر عطا فرما.ہم دین حق پر مریں اور تو ہماری وفات کے وقت ہم پر خوش ہو اور ہماری عمر تیری ناراضگی سے پاک ہو.پھر میں خاص طور سے امام جماعت کیلئے دُعا کرتا ہوں کہ اے میرے رب ان کے علم وفضل میں ترقی دے.ان کو اپنے کام میں کامیاب کر اور ہر قسم کے دُکھوں سے بچا.ان کی تدابیر میں برکت ڈال اور ان راہوں پر چلا جو دین حق کی ہوں.میری اس دعا کو اس جگہ نقل کرنے سے یہ غرض ہے کہ شاید کوئی نیک رُوح فائدہ اُٹھائے اور اس مبارک مہینہ میں خاص طور سے جماعت احمد یہ دین حق کی ترقی کیلئے دعاؤں میں لگ جائے.میں آخر میں پھر اپنے احباب پر زور دیتا ہوں کہ اس وقت کو ضائع مت کرو.رات کو خدا کے حضور چلا ؤ اور دن کو سجدہ کرو.یہ ایک ایسی تدبیر ہے کہ اگر تم میں سے ایک جماعت سچے 168
دعائے مستجاب.دل سے ایسا کرنے والی نکل آئے تو خدا اپنے کلام میں کامیابی کا وعدہ دیتا ہے.پس کون بد بخت ہے جس کو خدا کے وعدوں پر اعتبار نہ ہو.خدا کرے کہ ہم لوگوں میں وحدت پیدا ہو.اور ہم کو نیک اعمال اور دُعاؤں کی توفیق ملے اور ظلمت کے دن دُور ہو کر اسلام کا نورانی چہرہ دنیا پر ظاہر ہو.آمین یارب العالمین.( تشحیذ الاذہان ستمبر ۱۹۰۹ء) 00 169
دعائے مستجاب.لیں جائزہ عشق میرے عشق سے عاشق دل کو مرے عشاق کا پیمانہ بنادے جو ختم نہ ہو ایسا دکھا جلوہ تاباں جو مر نہ سکے مجھ کو وہ پروانہ بنادے ابلیس کا سر پاؤں سے تو اپنے مسل دے ایسا نہ ہو پھر کعبہ کو بت خانہ بنادے (حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ ) 170
دعائے مستجاب.دعائے محمود بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے حاصل ہو تم کو دید کی لذت خدا کرے توحید کی ہو لب یہ شہادت خدا کرے ایمان کی ہو دل میں حلاوت خدا کرے حاکم شریعت خدا کرے دلوں رہے حاصل ہو مصطفی کی رفاقت خدا کرے جائے جو بھی آئے مصیبت خدا کرے پہنچے نہ تم کو کوئی اذیت خدا کرے بطحا کی وادیوں سے جو نکلا تھا آفتاب بڑھتا رہے وہ نور نبوت خدا کرے قائم ہو پھر سے حکم محمد جہان میں ضائع نہ ہو تمہاری یہ محنت خدا کرے تم ہو خدا کے ساتھ ، خدا ہو تمہارے ساتھ ہوں تم سے ایسے وقت میں رخصت خدا کرے 00 171
دعائے مستجاب.172