Language: UR
اس کتاب میں حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کی سیرت، اخلاق فاضلہ اور آپ کے افراد خانہ کے حالات اجمالی طور پر پیش کئے گئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس بزرگ،مقرب و خاص صحابی نے اپنے اہل خانہ سمیت خاص قربانیوں کی توفیق پائی اور ’’بہشتی کنبہ‘‘ کاقابل قدر خطاب پایا۔ آپ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خسر اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے نانا تھے۔
حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب
ناہ صاحب نام کتاب: طبع: حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب پہلا ایڈیشن تعداد....ایک ہزار
ناہ صاحب " هم کو بھی ان پر رشک آتا ھے، یه بهشتی گنبه هی “ ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) 20 سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے
ناہ صاحب پیش لفظ ہمارے پیارے امام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے لاکھوں جانثار عطا فرمائے.یہ احباب حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام - اعجازی نشانات الہیہ کے عینی شاہد ہیں.اور اپنے عملی نمونوں سے وَآخَرِينَ مِنْهُمْ کے مصداق ثابت ہوئے.موجودہ دور میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے احباب کی اولادیں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں اور شاذ ہی کوئی ایسا احمدی گھرانہ ہو جن کی زندگیوں میں آپ علیہ السلام کے زندہ اور تابندہ نشانات الہیہ کا تذکرہ موجود نہ ہو.حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) حضرت سیدہ مریم النساء بیگم صاحبہ ام طاہر کے والد ماجد اور ہمارے پیارے امام حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے نانا ہیں.حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب اور آپ کے خاندان کو خدا تعالیٰ نے قادیان دارلامان میں ایک لمبا عرصہ غیر معمولی خدمات دینیہ بجالانے کی توفیق عطا فرمائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خاندان کو بہشتی کنبہ کے خطاب سے نوازا.؎ ایں سعادت بزور بازو نیست تا نه بخشد خدائے بخشنده آپ کے خاندان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کی صداقت کے بارہ میں سینکڑوں نشانات الہیہ موجود ہیں.زیر نظر کتاب میں ان میں سے بعض نشانات کا تذکرہ پیش کیا گیا ہے.اب جبکہ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستارشاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) کا وصال ہوئے ۶۵ سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے.تاہم آپ اپنے کارناموں اور اخلاق فاضلہ کے حسین نقوش کی وجہ سے آج بھی زندہ جاوید ہیں.آج آپ کا مخلص خاندان اکناف عالم میں خدمات بجالا رہا ہے اور آپ کی دعاؤں کے فیوض اور ثمرات سمیٹ رہا ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان بزرگ ہستیوں کی سیرت کے نمونے اپنی
مارشاہ صاحب زندگیوں میں جاری کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں ان بزرگان کی حیات طیبہ سے اعلیٰ اخلاق کے نمونے اپنانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
شاہ صاحب دیباچه محض اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے شعبہ اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ بزرگانِ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی سیرۃ وسوانح پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.الحمد للہ کہ اس سلسلہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک قدیمی رفیق حضرت ڈاکٹر سید عبدالهتار شاہ صاحب ( اللہ آپ سے راضی ہو ) جو کہ ہمارے پیارے امام سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے نانا ہیں، کی پر ایک کتاب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.یہ کتاب نے بہت محنت سے تالیف کی ہے.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.اس کتاب میں حضرت ڈاکٹر سید عبدالستارشاہ صاحب (اللہ تعالی آپ سے راضی ہو) کی سیرۃ واخلاق فاضلہ اور افراد خانہ کے حالات اجمالی طور پر پیش کئے گئے ہیں.مجموعی طور پر اس کتاب کو سات ابواب میں ترتیب دیا گیا ہے.جن میں حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو) کے ابتدائی حالات سیرة وسوانح ، تاثرات احباب، آپ کی اولاد حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ کی سیرت و سوانح ، اس خاندان کے بعض غیر معمولی نشانات کا ذکر جن کا ظہور آج ہو رہا ہے، نیز سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ کی بابت اس خاندان کے مشاہدات اور روایات پیش کی گئی ہیں اور اس کے ساتھ حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب کی ایک وصیت پیش کی گئی ہے.یہ وصیت آپ نے ۱۹۲۷ء میں تحریر فرمائی تھی.کتاب کے آخر میں خاندان حضرت ڈاکٹر سید عبدالستارشاہ صاحب کا شجرہ نسب ترتیب دیا گیا ہے.اس شجرہ میں آپ کے خاندان کے افراد کے دسمبر ۲۰۰۲ ء تک کے اسماء شامل کر دیئے گئے ہیں.
ناہ صاحب
ناہ صاحب انتساب سيدنا وامامنا حضرت مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع ایده الله تعالى بنصره العزيز کے نام
ناہ صاحب اے خدا! جو جو برکات و انعامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے حضور سے طلب کئے ہیں اور تیری بارگاہ سے اُن کو الہاما بطور تسلی عطاء ہوئے ہیں مجھ کو اور میری اولاد سب پر وہی انعامات و تفضلات و برکات دینی و دنیاوی بڑھ چڑھ کر عطا کیجیو.کیونکہ تیری عنایات بے غایات اور لامحدود ہیں اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کو اپنے باپ سے جنسی و نسلی دو ہری نسبتیں ہیں.لیکن آخر مجھے اور میری اولاد کو بھی تیرے مسیح و مهدی سے روحانی طور پر ایک نسبت ھے " ( وصیت حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صفحہ ۴۲)
شاہ صاحب وہ کثرت سے میری دعائیں قبول کرتا.حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب فرماتے ہیں:.”نماز اور دعاؤں سے مجھ کو ایک دلچپسی ، جس کو ٹھرک کہتے ہیں، بفضل خدا میری طبیعت میں ایسے رچ گئی ہے کہ میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا.اور آرام و قرار نہیں پکڑ سکتا اور اس کو ایک غذا جسمانی کی طرح سمجھتا تھا.شاید چونکہ میں پانچ یا چھ سال سے یتیم و پیکس رو گیا تھا.اور یہ زمانہ قیمی بھی اس کا محرک ہوا ہے.اس لئے یہ بھی اُس ذات الہی کا رحم اور فضل تھا کہ میں ہر ایک حاجت ! کیا چھوٹی کیا بڑی ، سب میں دعاؤں میں کامیاب ہوتا رہا.میرے ساتھ ہمیشہ عادت اللہ یہی کام کرتی رہی.کہ تا وقتیکہ میں اپنی ضروریات سائلا نہ طور پر اول سے عرض نہ کر لوں میری مشکل آسان اور کامیاب نہیں ہوتی.جیسا کہ ایک شیر خوار جب تک دودھ کے لئے اپنی تڑپ اپنے چہرے و حرکات سے اپنی والدہ پر ظاہر نہ کرے تب تک اس کی توجہ کامل طور پر مبذول نہیں ہوتی.یہی حال رب اور فیاض مطلق کا ہے.اور کثرت سے میری دعائیں قبول ہوتی رہیں ہیں.( وصیت حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب صفحہ ۲۰-۲۱)
ناہ صاحب باب اول.....ابتدائی حالات باب اول ابتدائی حالات زندگی
ارشاہ صاحب باب اول.....ابتدائی حالات ابتدائی حالات حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) کلر سیداں تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی میں ۱۸۶۲ ء میں پیدا ہوئے.آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی حضرت سید باغ حسن شاہ صاحب تھا جو کہ ایک صوفی منش اور بزرگ انسان تھے.پانچ چھ سال کی عمر میں آپ پدرانہ شفقت سے محروم ہو گئے.سیہالہ شریف میں آپ کا خاندان صدیوں سے نیکی اور بزرگی میں مشہور چلا آرہا تھا.ا.وصیت حضرت عبدالستار شاہ صاحب ۲ تابعین احمد جلد سوم صفحه ۹ ۱۰ ،۳۰۳) حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب کی ابتدائی تعلیم ، لاہور سے طب کی تعلیم اور یہ کہ تحصیل علم کے بعد آپ عملی زندگی میں کب وارد ہوئے.نیز یہ کہ رعیہ خاص حال تحصیل نارووال میں بطور اسسٹنٹ سرجن کب آپ کی تقرری ہوئی.اس کے بارہ میں حتمی طور پر کوئی ثبوت نہیں ملا.البتہ حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کی وصایا، اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی خود نوشت سوانح حیات سے جو اشارات ملتے ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ تحصیل علم طب کے بعد، ۱۸۹ ء کے ابتدائی سالوں میں اس وقت کی تحصیل رعیہ میں بطور اسسٹنٹ سرجن رعیہ وارد ہوئے.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں تحریر کیا ہے کہ میری پیدائش سیہالہ میں ہوئی اور پرورش رعیہ میں ، جبکہ آپ کی پیدائش ۱۳ مارچ ۱۸۸۹ء میں ہوئی.حضرت سید عبدالستارشاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) ۲۱ - ۱۹۲۰ء میں قریباً ۲۷ سال رعیہ میں دینی اور طبی خدمات سرانجام دے کر قادیان دار الامان ہجرت کر گئے اور عمر کے آخری سترہ سال قادیان دارالامان میں بسر کئے.خودنوشت سوانح حیات ولی اللہ شاہ صاحب ) مکرم محترم سید مسعود مبارک شاہ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ:- آپ (حضرت ڈاکٹر سید عبدالستارشاہ صاحب) کے والد محترم سید باغ حسن شاہ صاحب کے دوست انہیں لاہور لے آئے.جہاں آپ نے ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کی.(عالمگیر برکات مامورزمانه از عبدالرحمن مبشر حصہ سوم صفحه ۱۷)
شاہ صاحب حضرت شاہ صاحب کا خاندان باب اول.....ابتدائی حالات حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب نے اپنی وصیت میں متعدد مرتبہ اپنے مقدس خاندان سادات کا تذکرہ فرمایا ہے اور افراد خانہ کو وصایا فرما ئیں ہیں کہ اہل سادات میں ضرور دعوت الی اللہ جاری رکھیں.اور فرمایا کہ ہمارے وطن سیہالہ کو نہ بھولنا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:- ”میرے مرحوم والدین و دیگر اقرباء کا جو قبرستان ہے.اور اس کے گرد جو چار دیواری خام ہے ، اُس کو پختہ بنایا جائے.اور اس کے قریب جو ایک بن چھوٹی سی ہے.اُس کو پختہ چھوٹے سے تالاب کی شکل پر بنوایا جائے.تاکہ اُس سے مال مویشی اور دیگر انسانی ضروریات پوری ہوتی رہیں.اور یہ ایک یادگار بطور صدقہ جاریہ وثواب دارین ہوگی.جو تمہارے والدین اور اجداد گزشتہ مدفون قبرستان سیہالہ کے لئے اُن کی ترقی درجات کا موجب رہے گی.اگر تم سے ایک بھائی ایسے اخراجات کا متحمل نہ ہو سکے.تو تم سب مل کر اس مکان اور ( بیت ) اور چار دیواری اور تالاب کا انتظام کرو.اور اس مکان کو بطور مشترکہ بیت الدعا مقرر کرلیا جائے.اور جب کسی پر خدانخواستہ کوئی مصیبت یا ابتلاء اور کوئی مشکل خدانخواستہ بن جائے.تو یہاں آکر چند روز قیام پذیر ہوکر ان مشکلات کی مشکل کشائی کے لئے دردِ دل اور تضرع اور اضطرار کیساتھ بارگاہ الہی میں جھکے اور عجز و نیاز اور خشوع سے اپنی روح کو اس کے آستانہ پر گرا کر دعائیں مانگی جاویں.تو انشاء اللہ تعالیٰ سب مشکلات اور تکالیف حل ورفع ہو جائیں گی.الا ماشاء اللہ.( وصیت حضرت شاہ صاحب صفحه ۱۴ - ۱۵) آپ کے اس فرمودہ سے یہ ظاہر ہے کہ آپ کا خاندان سادات مدت سے سیہالہ میں آباد تھا.سیہالہ میں آپ کی زمین بھی تھی.جس کا ذکر آپ نے اپنی وصیت میں فرمایا ہے.اپنے خاندان کی نسبت آپ نے وصیت فرمائی کہ :-
شاہ صاحب باب اول....ابتدائی حالات اپنی قوم سادات کی اصلاح و بہبودی کے لئے بھی خاص کر درد دل سے تم دعائیں مانگو اور اُن کو خوب ( دعوۃ الی اللہ ) کرو.( وصیت حضرت شاہ صاحب صفحه ۳۴) مکرمه دمحترمه فرخنده اختر صاحبه زوجہ حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب روایت کرتی ہیں: میں نے حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب سے دریافت کیا ، کیا آپ حسنی سید ہیں یا حسینی؟ اس پر آپ نے جواب دیا کہ میں نے والد ماجد ( حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب اللہ آپ سے راضی ہو ) سے سنا ہے کہ ہم حسینی سید ہیں.پھر خود ہی انہوں (حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب) نے ذکر کیا کہ ان کے والد نے ایک دفعہ خواب دیکھا عین جوانی کی حالت میں کہ ایک لشکر نے پڑاؤ ڈالا ہوا ہے.سپاہی ادھر اُدھر پھر رہے ہیں اور میں کھڑا ہوں ایک طرف دیکھ رہا ہوں.درمیان میں ایک بہت بڑا خیمہ نظر آتا ہے.جس میں خوب روشنی ہے.اور وہ روشنی چھن چھن کر خیمہ سے باہر آ رہی ہے.اتنے میں میرے والد صاحب ( حضرت سید باغ حسن شاہ صاحب والد صاحب حضرت سید عبدالستارشاہ صاحب) نظر آتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تمہیں تلاش کر رہا تھا.آؤ چلو میں تم کو خیمہ میں تلاش کر رہا تھا.آؤ چلو میں تم کو خیمہ میں لے جاؤں.جہاں حضرت رسول کریم عہ تشریف فرما ہیں.انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا.اور خیمہ کی طرف چل دیئے.خیمہ کا ہ بنا تو اس قدر روشنی تھی کہ آنکھیں چکا چوند ہوگئیں.اور میری آنکھ کھل گئی.یہ خواب حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نے میرے والد حضرت شیخ نیاز محمد صاحب مرحوم و مغفور ( رفیق) حضرت مسیح موعود کو بھی بتائی تھی.حضرت شاہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہم بخاری سید ہیں کیونکہ ہم بخارا کی طرف سے آئے تھے“." حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالی از مولانا دوست محمد شاہد صاحب صفحه ۳۴-۳۵)
شاہ صاحب کلرسیداں باب اول.....ابتدائی حالات حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ کے بزرگ بارہویں جدامجد بھکری سید تھے.بھکری سیدوں کے مورث اعلیٰ حضرت سید بدرالدین بھکری تھے.جن کا مزار اوچ شریف (علاقہ بہاولپور ) میں ہے.سید بدرالدین بھکری کے داماد سید سرخ جلال محمد اسماعیل بخاری کا مزار بھی وہیں ہے.کلرسیداں (ضلع راولپنڈی) گاؤں تقریباً ساڑھے پانچ صد برس سے آباد ہے.گھڑ قوم کی لڑائی وغیرہ کے باعث اس دیہہ کے تین مواضعات بن گئے.کلرسیداں ، کلر بدھاں اور کلر سگواں“.تابعین احمد جلد سوم ، با رسوم ۱۹۹۰ ، صفحه ۳۰) اُوچ شریف میں بخاری خاندان سادات کے کئی مزار تھے جن میں سے بعض نا پید ہو گئے ہیں.اور بعض مزار اب بھی وہاں موجود ہیں.اس جگہ دو خاندانوں کی سجادہ نشینی جاری تھی.بخاری خاندان سادات جن کے مورث اعلیٰ سید شیر شاہ جلال تھے.جب کہ گیلانی سجادہ نشین کے مورث اعلی شیخ عبدالقادر ثانی تھے.بھکری سیدوں کے مزار اُوچ شریف میں موجود ہیں.* کلرسیداں تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی کا قدیمی گاؤں ہے جو پانچ صدیوں سے زائر عرصہ سے آباد ہے.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ابن حضرت سید ڈاکٹر عبدالستارشاہ صاحب اپنی خود نوشت سوانح حیات میں اپنے خاندان کی بابت رقم فرماتے ہیں:- ”میرے والد حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کلر سیداں تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی کے ایک مشہور خاندان سادات کے فرد تھے.ان کے والد سید باغ حسن شاہ صاحب صوفی منش ( اور ) تارک الدنیا بزرگ تھے.پیری مریدی سے نفرت، اپنے اقربا کو دنیا داری میں اُوچ اور بھکری سادات کی تفصیل کے لئے دیکھئے Gazetteers of Bahawalpur District 1904, by Punjab Govt., Lahore: Punjab Govt., 1908.pp 521-526
رشاہ صاح باب اول....ابتدائی حالات منہمک دیکھ کر کلر سیداں سے موضع سیہالہ چوہدراں میں جو آج کل سٹیشن ہے، چلے آئے تھے.اس کے قریب ہی ایک گاؤں ناڑ ا سیداں میں ان کے مالکانہ حقوق تھے.طبابت بھی کرتے تھے.اس لئے صورت معاش خاطر خواہ تھی.سلطنت مغلیہ کے ایام میں کلرسیداں ایک مشہور قلعہ تھا.جس کے تحت سترہ چھوٹے بڑے قلعے مضافات میں تھے.ایک وسیع علاقہ تھا.جس کا انتظام سادات کے سپر د تھا.پانی پت کی تیسری لڑائی میں سادات کر کی فوج اور کہوٹہ کے لگھڑوں تھی فوج نے مرہٹوں کی فوج کے دانت کھٹے کر دیئے تھے.سکھوں کی عمل داری میں رنجیت سنگھ نے سادات کلر کے ساتھ عہد موالات قائم کیا ہوا تھا.اور انہوں نے چیلیانوالی کی مشہور لڑائی میں انگریزوں کے خلاف سکھوں کی مدد کی تھی.جس میں سکھوں اور ان کے مددگاروں کو شکست ہوئی.انگریزوں نے کلر کا قلعہ تو دہ خاک بنادیا.اور تمام مملوکہ دیہات سے سادات محروم کر دئیے گئے.بجز قلعہ کلر اور چند مواضع اراضی کے جس میں موضع ناڑہ سیداں بھی تھا.جہاں حضرت سید گل حسن شاہ کے مالکانہ حقوق قائم رہے.خود نوشت سوانح سید ولی اللہ شاہ صاحب غیر مطبوعہ ) خاندان کی یادگاریں ۱۸۹۰ ء کے عشرے میں ضلع راولپنڈی میں سادات خاندان کے ۳۹ گاؤں آباد تھے جن میں دس گاؤں تحصیل راولپنڈی اور کہوٹہ میں ، ( جس میں سیہالہ بھی شامل تھا) اور دو گاؤں تحصیل گوجرخان میں شامل تھے.( یعنی کلر سیداں اور ناڑاں سیداں ).سادات خاندان مسلمانوں میں بڑی عزت اور تکریم سے دیکھے جاتے تھے.لگکھڑ اور جنجوعہ خاندان کے لوگ سادات سے رشتہ استوار کرنے میں فخر سمجھتے تھے تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی ۳۳ درجے عرض بلد اور ۷۳ در جے طول بلد پر واقع ہے.اور سطح سمندر سے اس کی بلندی * گکھڑوں کی تاریخ کے لئے دیکھئے, 1907 Gazetteers of Rawalpindi District by Punjab Govt., Lahore: Punjab Govt., 1909.pp 38-46
دو ہزار فٹ ہے.شاہ صاحب * باب اول.....ابتدائی حالات حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب فرماتے ہیں:- سیہالہ والا مکان و زمین جو بھائی تم سے لینا چاہے وہ گیارہ سور و پیہ یعنی ایک ہزار قرض کا اور ایک سو عزیز حاجی احمد صاحب کا رو پید ادا کر کے زمین فک کرالے.اور یہ مکان پختہ بنوائے اور چاہ کے پاس ایک چھوٹی سی ( بیت ) بنوا کر ایک حافظ احمدی مخلص جس کو تنخواہ یا خرچ مل کر دیا جائے ، اذان کے لئے اور محافظت مکان کے لئے مقرر کرو.شاید وہاں سیہالہ میں احمدیت کا بیج بویا جائے اور یہ مکان اور چاہ و زمین بطور یادگار والدین اور بيت الدعا اور استجابت دعا کے لئے ہمیشہ آباد رہے تا کہ آئندہ اولا داس سے مستفیض رہے اور اس سیہالہ میں (دعوۃ ) احمدیت کے لئے کوشش کرتے رہیں کہ ان لوگوں نے میری اور میرے والدین کی اور دیگر اقرباء اور میرے خاندان کی بہت خدمات کی ہیں اور ہم ان کے ممنون احسان ہیں.هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (سورة الرحمن: ۶۱) کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی اور ماسوا اس کے کل مخلوق کو ( دعوۃ ) احمد بیت کا پہنچانا ایک فرض قطعی ہے.اس لئے ان لوگوں میں خصوصاً ( دعوۃ ) احمدیت کے لئے سعی بلیغ اور دعاؤں سے کام لینا ہمارے ذمہ فرض ہے“.( وصیت حضرت شاہ صاحب صفحه (۲۶) خاندان سادات حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب فرماتے ہیں:.اپنی قوم سادات کی اصلاح و بہبودی کے لئے بھی خاص کر درد دل سے تم دعائیں مانگو، اور ان کو خوب ( دعوۃ الی اللہ ) کرو.کیونکہ یہ خاندان اب مغضوب علیہ اور ذلیل اور تباہ ہو گیا ہے.اگر یہ تقی ، صالح اور باخدا ہوتے تو *Gazetteers of Rawalpindi District 1907, by Punjab Govt Lahore:- Punjab Govt., 1909.pp 254-260
مارشاہ صاحب باب اول....ابتدائی حالات پھر ان کے مورث اعلیٰ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی نعمت وراثت یعنی مہدویت و عیسویت کے وارث حضرت سلیمان فارسی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد کیوں ہوتی.اور یہ ہمیشہ کے لئے محروم الارث قیامت تک ہو گئے.اب بھی اگر اس قوم کو خدا تعالیٰ ہدایت دیوے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اتباع اور غلامی سے اپنے مورث اعلیٰ کی نعمت گلے کا ہار ہو جائے گی.العياذ بالله- إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اس کے لئے تم کو چاہیے کہ خوب دردِ دل سے دعائیں مانگتے رہو.اور ان کی بہبودی کے لئے کوشاں ( وصیت حضرت شاہ صاحب صفحه ۳۴) رہو.تاکید ہے.بزرگان حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب محترم چوہدری احمد جان صاحب ( مرحوم ) امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی اور محترم ڈاکٹر سید ضیاء الحسن صاحب مقیم 52- ریسٹ ر- ج ( راولپنڈی) سیہالہ گاؤں گئے.تا حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کے ننھیال کا وہ گھر دیکھیں کہ کس خاندان کی کوکھ سے یہ گو ہر گراں قدر پیدا ہوئے.پولیس سنٹر سیہالہ کے قریب اس گاؤں میں داخل ہونے سے قبل ایک چار دیواری میں حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار صاحب کے بزرگوں کی قبروں پر دعا کے بعد وہ گھر اور وہ جگہ دیکھی.آج بھی مکان کے مکینوں نے اس جگہ کو محفوظ رکھا ہے جہاں یہ بزرگ گھر میں عبادت کرتے ہیں یہ اُس جگہ پاؤں نہیں رکھتے کہ یہ شاہ صاحب کی جائے نماز ہے.(ماہنامہ انصار اللہ ربوہ جشن تشکر نمبر مارچ ۱۹۹۰ء صفحه ۸۲) خاندان میں احمدیت کی ابتداء اس خاندان میں احمدیت کس طرح داخل ہوئی! اس کی بابت حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں:.
مارشاہ صاحب باب اول....ابتدائی حالات مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میری عمر قریباً سات، آٹھ سال کی تھی (۱۸۹۵-۹۶ ء کا ذکر ہو رہا ہے ) تو اس وقت ہمارے گھر میں اس بات کا تذکرہ ہوا کہ کسی شخص نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ کہ اس نے یہ خواب بھی دیکھا ہے.کہ کچھ فرشتے ہیں جو کالے کالے پودے لگارہے ہیں.جن کی تعبیر یہ بتائی ہے کہ دنیا میں طاعون پھیلے گی.اور یہ کہ میری آمد کی یہ بھی نشانی ہے ( یعنی طاعون پھیلنے کی علامت ).اس وقت ہم ( تحصیل) رعیہ ضلع سیالکوٹ میں تھے.والد صاحب شفاخانہ کے انچارج ڈاکٹر تھے.اسی دوران میں نے ایک خواب دیکھا.کہ کسی نے گھر میں آ کر اطلاع دی ہے کہ حضرت نبی کریم یہ تشریف لا رہے ہیں.چنانچہ ہم باہر ان کے استقبال کے لئے دوڑے.شفاخانہ کی فصیل کے مشرقی جانب کیا دیکھتا ہوں کہ پہلی میں آنحضرت علہ سوار ہیں.جہاں تک مجھے یاد ہے سبز عمامہ ہے اور بھاری چہرہ ہے.رنگ بھی سفید گندم گوں ہے.اور ریش مبارک بھی سفید ہے.اور سورج نکلا ہوا ہے.مجھے فرماتے ہیں.کہ آپ کو قرآن پڑھانے کے لئے آیا ہوں.انہی ایام میں میں نے خواب بھی دیکھا کہ رعیہ کی مسجد ہے اس کے دروازه پر لا اله الا الله محمدرسول اللہ لکھا ہوا ہے لیکن اس کے الفاظ مدہم ہیں.امام الزمان آتے ہیں مسجد میں داخل ہوتے ہیں.میں بھی ساتھ ہو لیتا ہوں وہاں صفیں ٹیڑھی ہیں.آپ ان صفوں کو درست کر رہے ہیں.ہم اس زمانہ میں ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے.اس زمانہ میں اس بات کا عام چرچا تھا کہ مسلمان برباد ہو چکے ہیں اور تیرھویں صدی کا آخر ہے.اور یہ وہ زمانہ ہے جس میں حضرت امام مہدی (علیہ السلام) تشریف لائیں گے.اور ان کے بعد حضرت عیسی (علیہ السلام ) بھی تشریف لائیں گے چنانچہ حضرت والدہ صاحبہ مرحومہ بھی امام مہدی (علیہ السلام) کی آمد کا ذکر بڑی خوشی سے کیا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ وہ زمانہ قریب آرہا ہے.اور یہ بھی ذکر کیا کرتی تھیں کہ رمضان میں چاند گرہن اور سورج گرہن کا ہونا بھی حضرت مہدی کے زمانہ کے لئے مخصوص تھا.سو وہ بھی نشان پورا ہو چکا ہے.ممکن ہے یہ خواہیں بچپن میں
مارشاہ صاحب باب اول....ابتدائی حالات شنیدہ باتوں کے اثر کے ماتحت خواب کی صورت میں نظر آتی ہوں لیکن واقعات بتلاتے ہیں کہ وہ مہدی اور مسیح کے آنے کا عام چر چا اور یہ خواہیں جو بڑوں چھوٹوں کو اس زمانہ میں آیا کرتی تھیں آنے والے واقعات کے لئے بطور آسمانی اطلاع کے تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ہم نے ( دین حق ) کا سورج بھی دیکھا اور قرآن مجید بھی پڑھا.حضرت اقدس فرمایا کرتے تھے کہ ( دین حق) کی زندگی میرے ساتھ وابستہ ہے اور مجھے چھوڑ کر قرآن مجید کا سمجھنانا ممکن ہے.یہ دونوں باتیں سچ ہیں“.الفضل قادیان ۳۰ مارچ ۱۹۴۳ صفحه ۳) بیعت حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب آپ نے با قاعدہ طور پر دستی بیعت اپریل ۱۹۰۱ء میں قادیان دارلامان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر کی.آپ اس وقت رعیہ ضلع سیالکوٹ ( موجودہ نارووال میں طبی خدمات سرانجام دے رہے تھے.چنانچہ حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب اپنی بیعت کے بارے میں بیان فرماتے ہیں.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کا احمدی ہوں.میں نے اغلباً ۱۹۰۱ء میں بیعت کی تھی.میں حضرت اقدس علیہ السلام کے زمانے میں حضرت اقدس علیہ السلام کو صحیح طور پر اور اصل معنوں میں اللہ کا (مہدی) (ماهنامه فرقان قادیان جون ۱۹۴۳ء صفحه ۱۴) یقین کرتا تھا.بیعت کی بابت حضرت ولی اللہ شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں:.رعیہ سے قادیان دارلامان قربیاً ۳۰ میل کے فاصلہ پر واقعہ ہے.جب آپ نے بیعت کی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو نصائح فرمائیں کہ آپ کو ہمارے پاس بار بار آنا چاہیے تا کہ ہمارا فیضان قلبی اور صحبت کے اثر کا پر تو آپ پر پڑ کر آپ کی روحانی ترقیات ہوں“.میں نے عرض کی کہ حضور ( علیہ السلام ) ملازمت میں رخصت بار بار نہیں ملتی.فرمایا ایسے حالات میں آپ بذریعہ خطوط بار بار یاد دہانی کراتے رہا کریں تا کہ
ارشاہ صاحب باب اول......ابتدائی حالات دعاؤں کے ذریعہ توجہ جاری رہے.کیونکہ فیضان الہی کا اجراء قلب پر صحبت صالحین کے تکرار یا بذریعہ خطوط دعا کی یاد دہانی پر منحصر ہے.(سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۸۹۵) بیعت کے بعد کی کیفیات حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں:.”جب میں بیعت کر کے واپس ملازمت پر گیا تو کچھ روز میں نے اپنی بیعت کو مخفی رکھا.یہاں تک کہ گھر کے لوگوں سے بھی میں نے ذکر نہ کیا.کیونکہ مخالفت کا زور تھا.اور لوگ میرے معتقد بہت تھے.رفتہ رفتہ یہ بات ظاہر ہوگئی اور بعض آدمی مخالفت کرنے لگے.لیکن وہ کچھ نقصان نہ کر سکے.کے لوگوں نے ذکر کیا کہ بیعت تو آپ نے کرلی ہے.لیکن آپ کا پہلے پیر ہے اور وہ زندہ موجود ہے.وہ ناراض ہوکر بددعا کرے گا.ان کی آمد و رفت اکثر ہمارے پاس رہتی تھی.میں نے کہا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بیعت کی ہے.اور جن کے ہاتھ بیعت کی ہے وہ صحیح اور مہدی کا درجہ رکھتے ہیں کوئی اور خواہ کیسا ہی نیک اور ولی کیوں نہ ہو وہ اس درجہ کو نہیں پہنچ سکتا اور اس کی بد دعا کوئی بداثر نہیں کرے گی.کیونکہ انما الأعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ.(بخاری کتاب بدء الوحی حدیث نمبرا ) اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے.میں نے اپنے اللہ کو خوش کرنے کے لئے یہ کام کیا ہے اپنی نفسانی غرض کے لئے نہیں کیا.سو میرے پہلے مرشد کچھ عرصہ بعد بدستور سابق میرے پاس آئے اور میری بیعت کا معلوم کر کے انہوں نے مجھے کہا کہ آپ نے اچھا نہیں کیا.جب آپ کا مرشد موجود ہے تو اس کو چھوڑ کر آپ نے یہ کام کیوں کیا ؟ آپ نے ان میں کیا کرامت دیکھی؟ میں نے کہا میں نے ان کی یہ کرامت دیکھی ہے کہ ان کی بیعت کے بعد میری روحانی بیماریاں بفضل خدا دور ہوگئی ہیں.اور میرے دل کی تسلی ہو گئی ہے.انہوں نے کہا میں بھی ان کی کرامت دیکھنا
مارشاہ صاحب باب اول.....ابتدائی حالات چاہتا ہوں اگر تمہارا ولی اللہ (حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ) ان کی دعا سے اچھا ہو جائے تو میں سمجھ لوں گا کہ آپ نے مرشد کامل کی بیعت کی ہے اور اس کا دعوی سچا ہے.اس وقت میرے لڑکے ولی اللہ کی ٹانگ ضرب کے سبب خشک ہو کر چلنے کے قابل نہیں رہی تھی.وہ ایک لاٹھی بغل میں رکھتا تھا اور اس کے سہارے چلتا تھا.اور اکثر دفعہ گر پڑتا تھا.پہلے کئی ڈاکٹروں اور سول سرجنوں کے علاج کئے گئے تھے لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا تھا.مرشد صاحب والی بات کے تھوڑے عرصہ بعد ایک نیاسر جن میجر ہو کر سیالکوٹ میں آ گیا.جب وہ رعیہ کے شفاخانہ کے معائنہ کے لئے آیا تو ولی اللہ کو میں نے دکھایا تو اس نے کہا یہ علاج سے اچھا ہو سکتا ہے لیکن تین دفعہ آپریشن کرنا پڑے گا.چنانچہ اس نے ایک آپریشن سیالکوٹ میں اور دو آپریشن میرے رعیہ کے ہسپتال میں کئے.ادھر میں نے حضرت صاحب (علیہ السلام) کی خدمت میں دعا کے لئے بھی تحریر کیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بالکل صحت یاب ہوگیا.تب میں نے اپنے پہلے مرشد کو کہا کہ دیکھئے خدا کے فضل سے حضرت صاحب (علیہ السلام) کی دعا کیسی قبول ہوئی.اس نے کہا کہ یہ تو علاج سے ہوا ہے.میں نے کہا کہ علاج تو پہلے بھی تھا.لیکن اس علاج میں شفا صرف دعا کے ذریعہ حاصل ہوئی ہے“.(سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۹۲۶) غلام آقا کے دربار میں ۲ اگست ۱۹۰۳ء کو قادیان دارلامان میں حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب.اپنی رخصت ختم ہونے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کی کہ میں صبح جاؤں گا.فرمایا خط وکتابت کا سلسلہ قائم رکھنا چاہیے“.
رشاہ صاحب باب اول......ابتدائی حالات ڈاکٹر صاحب نے عرض کی کہ حضور میرا ارادہ بھی ہے کہ اگر زندگی باقی رہی تو انشاء اللہ بقیہ حصہ ملازمت پورا کرنے کے بعد مستقل طور پر یہاں ہی رہوں گا.فرمایا: یہ سچی بات ہے کہ اگر انسان توبتہ النصوح کر کے اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی زندگی وقف کر دے اور لوگوں کو نفع پہنچا وے تو عمر بڑھتی ہے.اعلاء کلمتہ ( دین حق ) کرتا رہے اور اس بات کی آرزور کھے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید پھیلے.اس کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان مولوی ہو یا بہت بڑے علم کی ضرورت ہے بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا رہے.یہ ایک اصل ہے جو انسان کو نافع الناس بناتی ہے اور نافع الناس ہونا درازی عمر کا اصل گر ہے.فرمایا.تمہیں سال کے قریب گذرے کہ میں ایک بارسخت بیمار ہوا.اور اس وقت مجھے الہام ہوا أَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِي الْأَرْضِ.اس وقت مجھے کیا معلوم تھا کہ مجھ سے خلق خدا کو کیا کیا فوائد پہنچنے والے ہیں لیکن اب ظاہر ہوا کہ ان فوائد اور منافع سے کیا مراد ہے.غرض جو کوئی اپنی زندگی بڑھانا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ نیک کاموں کی ( دعوۃ) کرے اور مخلوق کو فائدہ پہنچا دے.جب اللہ تعالیٰ کسی دل کو ایسا پاتا ہے کہ اس نے مخلوق کی نفع رسانی کا ارادہ کر لیا ہے تو وہ اسے توفیق دیتا اور اس کی عمر دراز کرتا ہے.جس قدر انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اس کی مخلوق کے ساتھ شفقت سے پیش آتا ہے اسی قدر اس کی عمر دراز ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُس کے ساتھ ہوتا اور اس کی زندگی کی قدر کرتا ہے لیکن جس قدر وہ خدا تعالیٰ سے لاپر واہ اور لا ابالی ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ بھی اس کی پرواہ نہیں کرتا.انسان اگر اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی زندگی وقف نہ کرے اور اس کی مخلوق کے لئے نفع رساں نہ ہو تو یہ ایک بریارا ور نکلتی ہستی ہو جاتی ہے بھیڑ بکری بھی پھر اس سے اچھی ہے جو انسان کے کام تو آتی ہے لیکن یہ جب اشرف المخلوقات ہوکر اپنی نوع انسان کے کام نہیں آتا تو پھر بدترین مخلوق ہو جاتا ہے.اسی کی ۱۲
مارشاہ صاحب باب اول......ابتدائی حالات طرف اشارہ کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمِ O ثُمَّ رَدَدْنَهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (سورة التين : ۶،۵).پس یہ سچی بات ہے کہ اگر انسان میں یہ نہیں ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے اوامر کی اطاعت کرے اور مخلوق کو نفع پہنچا وے تو وہ جانوروں سے بھی گیا گذرا ہے اور بدترین مخلوق ہے.کامیابی کی موت بھی عمر درازی ہے اس جگہ ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض لوگ جو نیک اور برگزیدہ ہوتے ہیں چھوٹی عمر میں ہی اس جہاں سے رخصت ہوتے ہیں اور اس صورت میں گویا یہ قاعدہ اور اصل ٹوٹ جاتا ہے مگر یہ ایک غلطی اور دھوکا ہے.دراصل ایسا نہیں ہوتا.یہ قاعدہ کبھی نہیں ٹوٹتا مگر ایک اور صورت پر درازی عمر کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ زندگی کا اصل منشاء اور درازی عمر کی غائت تو کامیابی اور بامراد ہونا ہے پس جب کوئی شخص اپنے مقاصد میں کامیاب اور بامراد ہو جاوے اور اس کی کوئی حسرت اور آرزو باقی نہ رہے اور درازی عمر کے مقصد کو اس نے پالیا ہے.اُس کو چھوٹی عمر میں مرنے والا کہنا سخت غلطی اور نادانی ہے.صحابہ میں بعض ایسے تھے جنہوں نے ہیں بائیس برس کی عمر پائی مگر چونکہ ان کو مرتے وقت کوئی حسرت اور نامرادی باقی نہ رہی بلکہ کامیاب ہو کر اُٹھے تھے اس لئے انہوں نے زندگی کا اصل منشاء حاصل کر لیا تھا.(البدر قادیان ۱۴ اگست ۱۹۰۳ء) رخصت لے کر دیار حبیب میں حاضر ہو جاتے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اپنے والد ماجد کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں حاضر ہونے کی بابت بیان کرتے ہیں:.حضرت والد صاحب مرحوم ڈاکٹر تھے.ہر تین سال کے بعد تین ماہ کی رخصت لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت سے استفادہ کی غرض سے قادیان آجایا کرتے تھے.اور حضور علیہ السلام انہیں اپنے
ارشاہ صاحب باب اول......ابتدائی حالات مکان میں ٹھہراتے تھے اور اس طرح ہمیں بھی حضور علیہ السلام کے مکان میں رہنے کا موقع ملتا.مجھے یاد ہے کہ انہیں ایام میں جب کہ ہمیں حضور علیہ السلام کے گھر میں رہنے کا موقع ملا.ایک دفعہ جب کہ گرمی کے دن تھے ہمیں اطلاع پہنچی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بحالت غشی میں ہیں اور نبضیں کمزور ہوگئی ہیں.اور حضرت خلیفہ اول (اللہ آپ سے راضی ہو ) اور دیگر ڈاکٹر حضور علیہ السلام کے پاس ہیں.میں یہ سن کر اپنے اس حصہ مکان سے جہاں ہم رہتے تھے گھر کے اُس حصہ میں آیا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نشی کی حالت میں تھے.اندر جا کر دیکھتا ہوں کہ حضور علیہ السلام نے لحاف اوڑھا ہوا ہے اور حضرت خلیفہ ای اول ( اللہ آپ سے راضی ہو ) حضور علیہ السلام کے سرہانے کھڑے ہیں.دو تین اور شخص بھی وہاں تھے مگر مجھے یاد نہیں رہا کہ وہ کون تھے.حضور کے پاؤں دبائے جارہے تھے.تھوڑی دیر کے بعد حضور علیہ السلام ہوش میں آئے اور فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے ( اس الہام کے اصل الفاظ مجھے یاد نہیں) لیکن اس کا مفہوم یہ تھا کہ ہیضہ پھوٹے گا.الفضل قادیان ۳۱ مارچ ۱۹۴۳ صفحه ۴، نیز خودنوشت سوانح حیات ولی اللہ شاہ صفحہ ۵۸) مینارہ مسیح قادیان اور دیگر مالی تحریکات میں شمولیت حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب اور آپ کی اہلیہ حضرت سیدہ سعیدۃ النساء بیگم صاحبہ (اللہ ان سے راضی ہو ) کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ مینارہ اسیح قایان کی تعمیر میں چندہ دہندگان کے اسماء میں آپ کا اسم گرامی ۱۲۷ ویں نمبر پر کندہ ہے.احمدیہ جنتری قادیان ۱۹۳۷ ء - صفحہ ۳۸_۳۹) بیعت کے بعد شاذ ہی کوئی ایسی مالی تحریک ہو جس میں آپ نے حصہ نہ لیا ہو.۱۹۰۵ء میں جب کہ مدرسہ تعلیم الاسلام کی تعمیر کا سلسلہ جاری تھا.آپ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے.چنانچہ تحریک عید فنڈ ، شفا خانہ فنڈ اور قربانی فنڈ میں آپ کا نام اخبار بدر قادیان ۲۴ فروری ۱۹۰۵ء) شامل ہے.۱۴
ناہ صاحب نظام وصیت میں شمولیت باب اول....ابتدائی حالات سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الہام الہی اور منشائے الہی کے مطابق ۱۹۰۵ء کو وصیت کا عظیم الشان نظام جاری فرمایا.جس کی تفصیل آپ کے رسالہ الوصیۃ“ میں موجود ہے.حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب نے معہ اہل بیت جون ۱۹۱۰ء میں نظام وصیت میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیا.اور خدا تعالیٰ نے آپ کو ایثار اور اخلاق کے اظہار کا موقع فرمایا.آپ نے معہ اہل بیت حضرت سیدہ سعیدۃ النساء بیگم (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) ۱/۳ کی وصیت کرنے کا شرف حاصل کیا.ہر دو بزرگ ہستیوں کا وصیت نمبر ۱۸۶ اور ۱۸۷ ہے.اس وصیت کرنے میں آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وصیت فارم میں میر مجلس صدر انجمن حد یہ قادیان“ کے مقام پر سیدنا حضرت مولانا حکیم نورالدین خلیفہ مسیح الاوّل (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) کے مبارک دستخط ہیں.اس وصیت کا فارم نمبر (مسل نمبر ) ۱۶۷ ہے اور ۲۴ ستمبر ۱۹۰۹ء کی تاریخ تحریر ہے.نیز وصیت فارم پر جو صدرانجمن احمد یہ قادیان کی مہر ہے.اس میں ۱۳۲۴ھ کی تاریخ ہے.جو کہ ۱۹۰۷ ء سن عیسوی بنتا ہے.گویا کہ یہ وصیت فارم سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد سعادت کا مطبوعہ ہے.یہ وصیت ۱۹ جون ۱۹۱۰ ء کومنظور ہوئی.اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وصیت کا عکس قارئین کی سہولیت کے لئے پیش کیا جائے.۱۵
ناہ صاحب عکس وصیت پہلا صفحہ باب اول.....ابتدائی حالات not available in online version ۱۶
ناہ صاحب عکس وصیت دوسرا صفحہ ۱۷ باب اول.....ابتدائی حالات
ناہ صاحب ہجرت بطرف قادیان باب اول.....ابتدائی حالات حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب ۱۹۲۱ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے پر مستقل طور پر ہجرت کر کے قادیان تشریف لائے.اور ۱۹۳۷ ء تک خدا تعالیٰ نے آپ کو خدمات عالیہ کی توفیق عطا فرمائی.قادیان دارالامان میں آپ مرکزی نمائندے کی حیثیت سے متعدد بار مجالس شوری میں شامل ہوئے جیسا کہ رپورٹ ہائے مجلس مشاورت قادیان سے ظاہر ہوتا ہے.نیز اس عرصہ میں نور ہسپتال قادیان میں طبی خدمات بھی سرانجام دیتے رہے.اس عرصہ میں ہزاروں مریضوں کا آپ نے علاج کیا.رپورٹ ہائے مجلس مشاورت قادیان ۱۹۲۳ء تا ۱۹۳۷ء) بیماری اور وصال ۱۹۳۷ء میں آپ بوجہ پیری پہلے ہی بہت کمزور اور علیل تھے اور آپ کو چوٹ بھی لگی.جس کی وجہ سے کمزوری میں مزید اضافہ ہو گیا.۱۹۳۴ء میں آپ کی بینائی بھی متاثر ہوگئی تھی.اور آپ باہر نکل کر چل پھر نہیں سکتے تھے.وصال سے چند روز قبل آپ کو پھسل جانے کی وجہ سے چوٹ بھی لگی.جس کی وجہ سے کمزوری میں مزید اضافہ ہو گیا اور آپ شدید علیل ہو گئے.اور مورخ ۲۳ جون ۱۹۳۷ء کو۵ ۷ سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے.سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثانی ( اللہ آپ سے راضی ہو ) نے ایک بہت بڑے مجمع کے ساتھ باغ میں بعد از نماز عشاء نماز جنازہ پڑھائی.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( اللہ آپ سے راضی ہو) نے آپ کے جنازہ کو کندھا بھی ( دیا).آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں عمل میں آئی.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے.الفضل قادیان ۲۵ جون ۱۹۳۷ء صفحه ۲ ) آپ کے وصال پر مدیر اخبار الحکم حضرت شیخ محمود احمد عرفانی صاحب نے تحریر کیا:
شاہ صاحب باب اول.....ابتدائی حالات بزم احمد کی ایک اور شمع بجھ گئی.حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب یہ خبر نہایت رنج و اندوہ کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب جو صاحب الہام و کشوف بزرگ تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عاشقانہ محبت رکھتے تھے.۲۲ جون ۱۹۳۷ء کو بوقت عصر ۵ بجے وفات پاگئے.انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ حضرت شاہ صاحب کی زندگی نہایت اعلیٰ درجہ کی تقوی شعاری سے گذری.آپ کی زندگی کے مفصل حالات آئندہ کسی نمبر میں شائع کر سکوں گا و باللہ التوفیق.اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت کے اعلیٰ مقامات پر رکھے.آپ کے پسماندگان کو صبر کی توفیق دے.ہم اس صدمہ جانکاہ میں جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامه، میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب، سید عزیز اللہ شاہ صاحب فارسٹر، سید محمود اللہ شاہ صاحب بی.اے وسید عبدالرزاق صاحب اور آپ کی ہمشیرگان کے ساتھ پورے طور پر شریک ہیں.(الحکم قادیان ۷ جولائی ۱۹۳۷ صفحہ۱۱ ) احباب کا اظہار تشکر حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کے وصال پر احباب کرام نے اہل خاندان کے نام غیر معمولی تعزیت نامے اور اظہار ہمدردی پر مشتمل خطوط ارسال کئے.اس موقع پر حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب کے فرزندار جمند حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے احباب جماعت کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے فرمایا:.میں احباب کا تہ دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے موقعہ پر میرے ساتھ غایت درجہ ہمدردی کا اظہار کیا گیا.گویا قریباً ہر خط میں اس بات کا اظہار کیا گیا.کہ گویا میرے ساتھ ہی ان کا پدرانہ اور مشفقانہ سلوک) تھا.اور اس لئے ان کی جدائی پر سب ۱۹
ناه صاح باب اول....ابتدائی حالات کو رنج ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ حضرت قبلہ والد صاحب مرحوم ایک بیش بہا وصیت اپنے ہاتھ سے رقم فرما گئے ہیں.اور وہ محفوظ تھی جسے اب کھولا گیا ہے.اس میں انہوں نے یہ بھی درخواست کی ہے کہ بزرگان سلسلہ سے درخواست کرتے رہنا کہ وہ ان کے لئے فوت ہو جانے کے بعد دعائیں کرتے رہیں.اور یہ کہ جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی بہشتی مقبرہ میں تشریف لے جائیں تو ان سے بھی درخواست کی جائے کہ سید عبد الستار شاہ (اللہ آپ سے راضی ہو ) کی قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعائے رحمت فرما ئیں.سوان کی اس درخواست کے مطابق میں احباب سے درخواست کرتا ہوں.کہ وہ اس کو قبول کر کے شکریہ کا موقع دیں.میں نے ہر اس دوست کو جس نے مجھے خط لکھا ہے.بذریعہ ڈاک ان کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے ان سے درخواست کی ہے.کہ وہ اپنی اپنی جگہوں پر تحریک کر کے قبلہ والد صاحب مرحوم کے جنازہ کا انتظام کریں.اور اب اخبار کے ذریعہ سے بھی یہی درخواست دہراتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ( رفقاء) کرام میں سے ایک ایک کی زندگی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت و برکات کے لئے زندہ نشان ہے.احمق انسان حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ذات ستودہ صفات پر اعتراض کرتا ہے.وہ ذات جس کے مبارک ہونے کے متعلق اللہ تعالیٰ کی مہر ثبت ہو چکی ہے کہ اسے کوئی توڑ نہیں سکتا.وہ ذات تو الگ رہی بلکہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ( رفقاء) کرام میں ہر ایک نے اپنے اندر ایک خوارق عادت نمونہ دکھلا کر یہ شہادت قائم کی ہے.کہ ان کی زندگی کے اندر انقلاب پیدا کرنے والا انسان لاریب ایک ربانی پارس تھا.جس کو چھو کر وہ پاک وصاف ہو گئے.ان ( رفقاء) کرام میں سے حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ذات اپنوں اور غیروں کے لئے ہمیشہ سر چشمہ رحمت رہی ہے.اور آپ کا وہ سلوک جو آپ کا ہر ملاقات کرنے والے کے ساتھ تھا.سفارش کرتا ہے کہ آپ کی اس درخواست کو قبول کیا جائے.الفضل قادیان ۲۰ جولائی ۱۹۳۷ ء صفحہ ۸) ۲۰
شاہ صاحب باب اول.....ابتدائی حالات آپ کی اہلیہ حضرت سیدہ سعیدۃ النساء صاحبہ آپ ۱۸۶۸ء میں پیدا ہوئیں.والد ماجد کا نام حضرت سید گل حسین شاہ صاحب تھا جو کہ ایک صوفی منش بزرگ تھے.حضرت گل حسین شاہ صاحب کے والد ماجد کا نام حضرت سید حسین شاہ صاحب تھا اور حضرت سید باغ حسن شاہ صاحب کے والد ماجد کا اسم گرامی حضرت سید قائم شاہ صاحب تھا.یعنی حضرت ڈاکٹر سید عبدالستارشاہ صاحب کے دادا محترم اور حضرت سیدہ سعیدۃ النساء صاحبہ کے نا نامحترم دونوں سگے بھائی تھے.آپ کی بیعت اور اخلاص حضرت سیدہ سعیدۃ النساء صاحبہ کی بیعت کی بابت حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں:.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تو میری اہلیہ گو حضرت اقدس کے بارے میں حسن ظن رکھتی تھیں تاہم لوگوں کی طعن و تشنیع کے علاوہ اس وجہ سے بھی بیعت سے رکی ہوئی تھیں کہ سابق مرشد کو جنہیں ہم پیشوا کہتے تھے کسی قدرخوش کرنا چاہیے تا کہ وہ بددعانہ کریں.آپ اس اثناء میں بیمار ہو گئیں یہ علالت باعث رحمت بنی.ٹائیفائڈ سے ان کی حالت اتنی سخت خراب ہو گئی کہ صحت یابی کی کچھ امید نہ تھی.میرے مشورہ پر آپ نے اپنے بھتیجے شیر شاہ کو حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) کی خدمت میں نسخہ کے لئے بھیج دیا کہ امید ہے خداوند کریم صحت دے گا.(وہ) دوسرے روز حضور کی خدمت میں پہنچا اور اس نے دعا کی درخواست پیش کی.حضور نے اسی وقت توجہ سے دعا کی اور فرمایا کہ میں نے بہت دعا کی ہے، اللہ تعالیٰ ان پر فضل کرے گا.آپ جا کر ڈاکٹر صاحب سے کہیں کہ گھبرائیں نہیں اور حضرت اقدس کے کہنے پر حضرت مولوی نورالدین صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) نے ایک نسخہ تحریر کر دیا.جس روز شام کو حضور ( علیہ السلام) نے دعا کی اس سے دوسرے روز شیر شاہ (ابن ۲۱
مارشاہ صاحب باب اول......ابتدائی حالات سید میراں شاہ جو حضرت سیدہ سعیدۃ النساء صاحبہ کے بھانجے تھے ) نے واپس آنا تھا.وہ رات اس مریضہ پر اس قدر سخت گزری کہ معلوم ہوتا تھا کہ صبح تک وہ نہ بیچیں گی.اور مریضہ کو بھی یہی یقین تھا کہ وہ نہیں بچیں گی.اسی روز انہوں نے خواب دیکھا کہ رعیہ میں جہاں میں ملازم تھا اس کے شفاخانہ کے باہر ایک بڑا خیمہ لگا ہوا ہے لوگ کہتے ہیں کہ یہ خیمہ مرزا صاحب قادیانی کا ہے.کچھ مرد اور کچھ عورتیں ایک طرف بیٹھے ہیں.مرداندر جاتے اور واپس آتے ہیں.عورتیں اپنی باری پر ایک ایک کر کے اندر جاتی ہیں.آپ اپنی باری پر بہت ہی نحیف شکل میں پردہ کئے حضور ( علیہ السلام) کی خدمت میں جا کر بیٹھ گئیں.پوچھنے پر کہ کیا تکلیف ہے انہوں نے انگلی سے سینہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ مجھ کو بخار، دل کی کمزوری اور سینہ میں درد ہے.حضور (علیہ السلام) نے اسی وقت ایک خادمہ سے ایک پیالہ پانی منگوا کر اس پر دم کر کے اپنے ہاتھ سے ان کو دیا اور فرمایا.اس کو پی لیں.اللہ تعالیٰ شفا دے گا.پھر حضور (علیہ السلام) نے اور سب لوگوں نے دعا کی اور وہ پانی انہوں نے پی لیا.پھر میری اہلیہ نے پوچھا کہ آپ کون ہیں اور اسم شریف کیا ہے.فرمایا کہ میں مسیح موعود اور مہدی موعود ہوں اور میرا نام غلام احمد ہے اور قادیان میں میری سکونت ہے.خدا کے فضل سے پانی پیتے ہی ان کو صحت ہوگئی ( خواب کا ذکر ہورہا ہے ) اس وقت انہوں نے نذر مانی کہ حضور کی خدمت میں بیعت کے لئے جلد حاضر ہوں گی.فرمایا بہت اچھا.خواب کے بعد وہ بیدار ہوئیں شیر شاہ دوسرے روز صبح واپس پہنچا.اس رات کو بہت مایوسی تھی اور میرا خیال تھا کہ صبح جنازہ ہو گا.لیکن صبح بیدار ہونے پر انہوں نے آواز دی کہ مجھے بھوک لگی ہے.مجھے کچھ کھانے کو دو اور مجھے بٹھا ؤ اسی وقت ان کو اٹھایا اور دودھ دیا اور سخت حیرت ہوئی کہ وہ مردہ زندہ ہوگئیں.عجب بات یہ تھی کہ اس وقت ان میں طاقت بھی اچھی پیدا ہوئی اور وہ اچھی طرح گفتگو بھی کرنے لگیں.۲۲
مارشاہ صاحب باب اول....ابتدائی حالات میرے پوچھنے پر انہوں نے یہ خواب سنایا اور کہا کہ یہ سب اس پانی کی برکت ہے.جو حضرت صاحب نے دم کر کے دیا تھا اور دعا کی تھی اور صبح کو خود بخود بیٹھ بھی گئیں اور کہا کہ مجھے فوراً حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچا دو.کیونکہ میں عہد کر چکی ہوں کہ میں آپ کی بیعت کے لئے حاضر ہوں گی.میں نے کہا کہ ابھی آپ کی طبیعت کمزور ہے اور آپ سفر کے قابل نہیں.حالت اچھی ہونے پر آپ کو پہنچا دیا جائے گا.لیکن وہ برابر اصرار کرتی رہیں کہ مجھ کو بے قراری ہے.جب تک بیعت نہ کر لوں مجھے تسلی نہ ہوگی.اور شیر شاہ بھی اسی روز قادیان سے دوائی لے کر آ گیا اور اس نے سارا ماجرا بیان کیا کہ حضرت صاحب نے بڑی توجہ اور درد دل سے دعا کی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ اچھی ہو جائیں گی.جب میں نے تاریخ کا مقابلہ کیا تو جس روز حضرت صاحب نے قادیان میں دعا کی تھی اسی روز خواب میں ان کی زیارت ہوئی تھی اور یہ واقعہ پیش آیا تھا.اس پر ان کا اعتقاد کامل ہو گیا اور جانے کے لئے اصرار کرنے لگیں.سو وہ صحت یاب ہوئیں تو ان کے بھائی سید حسین شاہ صاحب اور بھتیجے شیر شاہ کے ساتھ انہیں قادیان روانہ کر دیا گیا.حضرت صاحب نے بڑی شفقت اور مہربانی سے ان کی بیعت لی اور وہ چار روز تک قادیان میں ٹھہریں.حضور علیہ السلام نے ان کی بڑی خاطر تواضع کی اور فرمایا کہ کچھ دن اور ٹھہر ہیں.وہ چاہتی تھیں کہ کچھ دن ٹھہریں.مگر ان کا بھتیجا طالب علم تھا اور بھائی کی ملازمت تھی.اس لئے وہ مزید ٹھہر نہ سکیں.(سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۹۲۷) حضرت اقدس کی خدمت میں حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں:- ایک مرتبہ میرے گھر والوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور ! مرد تو آپ کی تقریر بھی سنتے ہیں اور درس بھی لیکن ہم ۲۳
مارشاہ صاحب باب اول.....ابتدائی حالات مستورات اس فیض سے محروم ہیں.ہم پر کچھ رحمت ہونی چاہیے کیونکہ ہم اس غرض سے آئے ہیں کہ کچھ فیض حاصل کریں.حضور (علیہ السلام) بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ جو بچے طلب گار ہیں ان کی خدمت کے لئے ہم ہمیشہ ہی تیار ہیں.ہمارا یہی کام ہے کہ ہم ان کی خدمت کریں.اس سے پہلے حضور (علیہ السلام) نے بھی عورتوں میں تقریر یا درس نہیں دیا تھا.مگر ان کی التجا اور شوق کو پورا کرنے کے لئے عورتوں کو جمع کر کے روزانہ تقریر شروع فرما دی.جو بطور درس تھی.پھر چند روز بعد حضور ( علیہ السلام ) نے حکم فرمایا کہ مولوی عبد الکریم صاحب اور مولوی نورالدین صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) اور دیگر بزرگ بھی عورتوں میں درس دیا کریں.چنانچہ مولوی عبد الکریم صاحب درس کے لئے بیٹھے اور سب عورتیں جمع ہوئیں.اور چونکہ مولوی صاحب کی طبیعت بڑی آزاد اور بے دھڑک تھی، تقریر کے شروع میں فرمانے لگے کہ اے مستورات! افسوس ہے کہ تم میں سے کوئی ایسی سعید روح والی عورت نہ تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تقریر یا درس کے لئے توجہ دلاتی اور تحریک کرتی تمہیں شرم کرنی چاہیے.اب شاہ صاحب کی صالحہ بیوی ایسی آئی ہیں جس نے اس کارِ خیر کے لئے حضور کو توجہ دلائی.اور تقریر کرنے پر آمادہ کیا.تمہیں ان کا نمونہ اختیار کرنا چاہیے.نیز حضرت مولوی نورالدین صاحب بھی اپنی باری سے تقریر اور درس فرمانے لگے.اس وقت سے مستورات میں مستقل طور پر تقریر اور درس کا سلسلہ جاری ہو گیا.(سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۸۸۲) یہ گھر آپ کا ہے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ اپنی والدہ ماجدہ کی روایت بیان فرماتے ہیں ۲۴
شاہ صاحب باب اول.....ابتدائی حالات ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہماری والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ یہ آپ کا گھر ہے.آپ کو جو ضرورت ہو بغیر تکلف آپ اس کے متعلق مجھے اطلاع دیں.آپ کے ساتھ ہمارے تین تعلق ایک تو آپ ہمارے مرید ہیں.دوسرے آپ سادات ہیں.تیسرا ہمارا آپ کے ساتھ ایک اور تعلق ہے.یہ کہہ کر حضور علیہ السلام خاموش ہو گئے.والدہ صاحبہ کو اس آخری فقرہ سے حیرانگی سی ہوئی.اور ڈاکٹر صاحب سے آکر ذکر کیا.اس وقت ہمشیرہ مریم بیگم صاحبہ پیدا نہیں ہوئی تھیں.ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ کوئی روحانی تعلق ہوگا.لیکن حضور کا یہ قول ظاہری معنوں میں لمبے عرصہ بعد پورا ہو گیا.ہمشیرہ سیدہ مریم بیگم صاحبہ کی ولادت اور پھر ان کے رشتہ کی وجہ سے“.تابعین احمد جلد سوم ، با رسوم صفحه ۲۳ ۲۲۰ ) بعد میں اس تعلق نے کئی روپ دھارے اور خدا تعالیٰ نے ان دونوں مقدس خاندانوں کونسلاً بعد نسل نیک، پاک ، صالح اور متقی اولاد سے نوازا اور اس خاندانِ مقدس کی اولاد کو مسند خلافت پر متمکن فرمایا اور ہر دو خاندان متعد درشتوں میں منسلک ہو گئے.سیرت و اخلاق حضرت سیدہ سعیدۃ النساء بیگم صاحبہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اپنی والدہ ماجدہ کے سیرت و اخلاق کے بارہ میں بیان فرماتے ہیں:- والدہ صاحبہ کے اعلیٰ اخلاق سے خواتین قادیان اور تحصیل رعیہ کے سب لوگ واقف ہیں جہاں والد صاحب ہسپتال میں متعین تھے.آپ تقوی و طہارت کا نمونہ تھیں.خدمت ( دین حق ) کے لئے فراخ حوصلہ سے مال خرچ کرتی تھیں.چندہ تعمیر (بیت) لندن کی تحریک کے لئے رعیہ میں حضرت حافظ روشن علی صاحب ( اللہ آپ سے راضی ہو ) تشریف لائے تو دس پندرہ پونڈ جو آپ نے اپنی بیٹی مریم کی شادی پر اس کے ہاتھ پر رکھنے کے ارادہ سے رکھے تھے وہ سارے حافظ صاحب کو بھجواتے ہوئے کہا کہ ۲۵
شاہ صاحب باب اول.....ابتدائی حالات اس وقت مجھے اتنی ہی توفیق ہے.آپ کیسی کو نہ بتا ئیں.آپ نے وفات سے پہلے اپنے پار چات مساکین میں تقسیم کر دئیے.رات ایک بجے پیکا یک دل کی حرکت بند ہونے سے آپکی وفات ہوئی.وہ ہمیشہ دعا کرتی تھیں کہ جان کنی کی تکلیف سے اللہ تعالیٰ بچائے.سوالیسا ہی ہوا اور آرام سے وہ چل بسیں.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ نے بچپن سے آخر تک عمر عبادت الہی میں گزاری.بچپن اور جوانی میں اپنوں اور دوسروں میں ”پارسا“ کے لقب سے مشہور تھیں.بیعت کے بعد آپ کے عبادت و ذکر الہی کی کیفیت پانی اور مچھلی کی سی ہوگئی تھی.آپ دن رات انتھک دعائیں اور ذکر الہی کرنے والی اور تقویٰ و طہارت کا بہترین اسوہ تھیں.رات کو بارہ ایک بجے کے بعد آپ بیدار ہو جاتیں اور صبح تک نماز میں مشغول رہتیں.بسا اوقات رقت سے زار زار روتیں اور صلى الله ہچکیاں بندھ جاتیں.ساتھ ہی حضرت رسول کریم ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دونوں کے آل اور ( رفقاء کرام ) اور جماعت احمدیہ کے لئے دعائیں کرتیں.جماعت ہائے سیالکوٹ ، حیدر آباد اور لنڈن مشن وغیرہ جن افراد اور جماعتوں کے نام یاد ہوتے نام لے کر تفصیلاً ان کی دینی و دنیوی ترقیات کے لئے اور تمام جماعت کے لئے آپ دعائیں کرتی تھیں.پھر اشراق کی نماز ادا کرتیں.ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کے درمیان عبادت میں مشغول رہتیں.گویا دن رات کا بڑا حصہ اسی عبادت و ذکر الہی میں صرف ہوتا جو آپ کی زندگی کی روح رواں بن گیا تھا.سخت بیماری میں بھی آپ ایسا ہی کرتیں.جب گھر میں سے کوئی حکم الہی کا ذکر کرتا کہ اپنی طاقت سے بڑھ کر اپنی جان کو تکلیف نہ دو تو فرماتیں.میری جان کو تو اس سے راحت ہوتی ہے.آخری مرض تک میں آپ باجماعت نماز ادا کرتی تھیں.کئی کئی گھنٹے کی عبادت سے آپ کو تھکاوٹ نہ ہوتی.آپ دوسروں کو بتاتیں کہ نماز تو وہ ہوتی ہے جب انسان عرش معلیٰ پر جا کر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرے.میں نماز سے سلام نہیں پھیرتی جب تک ۲۶
مارشاہ صاحب باب اول....ابتدائی حالات میری روح اللہ تعالیٰ کے حضور جا کر سجدہ نہیں کرتی.اور یہ حالت ہوتی ہے تو میں اس وقت ( دین حق ) اور ساری جماعت احمدیہ کے لئے دعاؤں میں لگ جاتی ہوں“.الفضل قادیان ۱۱دسمبر ۱۹۲۳ ء صفحه ۸،۷) حضرت سیدہ سعیدۃ النساء بیگم صاحبہ کی دعا سے شفایابی محترم بابا اندر جی بیان کرتے ہیں:.مجھے حضرت ڈاکٹر صاحب کے پاس آئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ حضرت مائی جی ( حضرت سیدہ سعیدة النساء بیگم صاحبہ والدہ حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ ) نے مجھے کہا.اندر! تو بہ کرو.اور اپنی اصلاح کرو.خدا تعالیٰ تم پر ناراض ہے.میں نے آپ کی اس نصیحت کو زیادہ اہمیت نہ دی اور اپنی روش پر قائم رہا.کچھ عرصہ بعد میرے کندھے کی ہڈی پر ایک تکلیف دہ خطرناک پھوڑا نکل آیا.دعا کے لئے عرض کرنے پر آپ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں کہا تھا کہ خدا تعالیٰ تم پر ناراض ہے.تو یہ کرو اور اصلاح کرو اور اس کو خوش کر و.اب تمہیں پھوڑا نکل آیا ہے اب بھی تو بہ کرو.چنانچہ آپ بھی میرے لئے دعا کرتی رہیں اور میں نے بھی دعا شروع کی اور مجھے شفائے کاملہ ہوگئی.میری شادی ہوگئی.زچگی پر بیوی کو پرسوت کا بخار ہوا.ڈاکٹر صاحب کے علاج سے فائدہ نہ ہوا.مجھے بہت گھبراہٹ تھی.مائی جی کے کہنے پر میں نے بیوی کو ان کے پاس بھیج دیا.آپ کے علاج سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین دن میں ورم بخار دور ہو گیا علاج یہ تھا.اجوائن چار تولے ابال کر ایک تہائی جو شاندہ سے حلوہ بنا کر دن میں تین بار کھایا جائے.اور بقیہ جوشاندہ سے ٹکور کی جائے.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے بندے موجود ہیں جن کی دعا توجہ اور علاج سے شفا ہو سکتی ہے.ایک دفعہ آپ سفر پر تشریف لے گئیں.ایک برساتی نالہ کی طغیانی کی وجہ سے آپ کو ایک معزز گھرانے میں چند دن ٹھہر نا پڑا.ایک روز آپ نے مجھ ۲۷
ارشاہ صاحب باب اول......ابتدائی حالات سے کہا کہ میری نمازوں کی کیفیت پہلے جیسی نہیں رہی.میرا اندازہ ہے کہ اس خاندان کی آمد میں حرام کی ملونی ہے.چنانچہ آپ وہاں سے فوراوا پس رعیہ چلی گئیں.تابعین احمد ، جلد سوم ، با رسوم صفحه ۲۴، ۲۵ ) إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمُ محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں :- ”میری نانی صاحبہ اور ہمشیرہ صاحبہ کی رہائش بدوملہی ضلع سیالکوٹ میں تھی.دونوں احمدی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو اپنے صاحبزادوں کی شادی پر بلایا تھا.نانی صاحبہ بہت مد براورد بیدار تھیں.غلہ آنے پر غرباء کو دیتی تھیں.سوت کات کر پار چات تیار کرتیں اور موسم سرما میں غریب طبقہ میں تقسیم کرتی تھیں.حضرت ڈاکٹر صاحب رعیہ میں متعین تھے.آپ کے خاندان سے میرے نانا کے خاندان و میری نانی صاحبہ اور ہمشیرہ صاحبہ کا بہت پیار تھا.ہم رعیہ ملنے جاتے.ڈاکٹر صاحب اور اماں جان ( والدہ سیدہ ام طاہر صاحبہ ) بڑے پیار سے پیش آتے.میری ہمشیرہ کی بہن خیر النساء صاحبہ سے بہت پیار محبت تھی.میری ہمشیرہ کے ہاں بہت مدت کے بعد بچی عطاء ہوئی.تین چار دن بعد ہمشیرہ بہت بیمار ہوگئیں.شاہ صاحب نے انہیں علاج کے لئے اپنے پاس بلایا.ایک دو دن بعد ہمشیرہ نے کہا.مجھے بدوملہی (تحصیل وضلع نارووال ) واپس لے چلو.میرے آخری دن قریب ہیں.ساتویں روزان کی وفات ہوگئی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ رعیہ میں سیدہ مریم بیگم صاحبہ سے میں خوشی سے کھیلتی.وہ ابھی چھوٹی تھیں.اور کھیلتی پھرتی تھیں.میری شادی کی بارات گجرات سے آئی اور شاہ صاحب کے ہاں ٹھہری.اور آپ نے اپنے نوکر کے ذریعہ بدوملہی اس کی اطلاع دی تا کہ بارات کو ۲۸
ارشاہ صاحب باب اول....ابتدائی حالات لے جائیں.جب میں شادی کے بعد واپس آئی تو اماں جی نے مجھ سے حالات پوچھے.میں نے کہا.اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِندِ اللهِ أَتْقَاكُمُ.یہ سن کر آپ بہت خوش ہوئیں.( تابعین احمد جلد سوم با رسوم صفحه ۲۵ ) ایسے مقبول شخص کی صحبت سے جلدی فائدہ اُٹھانا چاہتے“ حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب اپنی اہلیہ محترمہ کی بابت بیان فرماتے ہیں:.ایک دن میری اہلیہ نے بتایا کہ میں نے خواب میں رسول اللہ علیہ کو دیکھا ہے.آپ نے وسطی اور سبابہ * دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا کہ میں اور مسیح ایک ہیں.آپ بیعت سے پہلے بھی صاحب حال تھیں.پیغمبروں، اولیاء اور فرشتوں کی زیارت کر چکی تھیں.ان کو خواب دیکھنے سے حضرت صاحب پر بہت ایمان پیدا ہو گیا تھا.اور مجھ سے انہوں نے کہا کہ آپ کو تین ماہ کی رخصت لے کر قادیان جانا چاہیے.اور سخت بے قراری ظاہر کی.کہ ایسے مقبول شخص کی صحبت سے جلدی فائدہ اٹھانا چاہیے.زندگی کا اعتبار نہیں.ان کے اصرار پر میں تین ماہ کی رخصت لے کر مع اہل و عیال قادیان پہنچا.حضرت صاحب کو کمال خوشی ہوئی.اور حضور علیہ السلام نے اپنے قریب کے مکان میں جگہ دی.اور بہت ہی عزت کرتے تھے اور خاص محبت و شفقت اور خاطر تواضع سے پیش آتے تھے.اس عرصہ قیام کے تعلق میں حضرت ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ میری اہلیہ کے دانت میں شدید درد ہوا جس سے نہ ان کو رات کو نیند آتی تھی اور نہ دن کو.ڈاکٹری علاج اور حضرت مولوی نورالدین ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) صاحب کے علاج سے کوئی فائدہ نہ ہوا.حضرت اماں جان اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) نے حضور کی خدمت میں بیان کیا کہ ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) کی بیوی کے دانت میں سخت درد ہے اور آرام نہیں آتا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ ان کو بلائیں وسطی درمیانی اور سبابہ شہادت والی انگلی کو کہتے ہیں.(مرتب) ۲۹
رشاہ صاحب باب اول.....ابتدائی حالات کہ وہ آکر مجھے بتائیں کہ انہیں کہاں تکلیف ہے.چنانچہ انہوں نے آکر عرض کی کہ مجھے اس دانت میں سخت تکلیف ہے.ڈاکٹری اور حضرت مولوی صاحب کی بہت سی دواؤں کے استعمال سے کوئی فائدہ نہیں ہوا.فرمایا کہ آپ ذرا ٹھہریں.حضور نے وضو کیا اور فرمایا کہ میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں.آپ کو اللہ تعالی آرام دے گا.گھبرائیں نہیں.حضور نے دو نفل پڑھے اور (اس دوران آپ ) خاموش بیٹھی رہیں.اتنے میں انہیں محسوس ہوا کہ درد والے دانت کے نیچے سے ایک شعلہ قدرے دھوئیں والا دانت کی جڑھ سے نکل کر آسمان کی طرف جارہا ہے.اور ساتھ ہی درد کم ہوتا جاتا ہے.چنانچہ جب وہ شعلہ آسمان تک جا کر نظر سے غائب ہو گیا.تو تھوڑی دیر بعد حضور علیہ السلام نے سلام پھیرا.اور وہ درد فوراً رفع ہو گیا.حضور علیہ السلام نے فرمایا.کیوں جی ! اب آپ کا کیا حال ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ حضور کی دعا سے آرام ہو گیا ہے.اور ان کو بڑی خوشی ہوئی کہ خدا نے ان کو اس عذاب سے بچالیا.(سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۸۸۴) وصال حضرت سیدہ سعیدۃ النساء صاحبہ (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) حضرت سیدہ سعیدۃ النساء ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کا وصال ۱۳ اور ۱۴ نومبر ۱۹۲۳ء کی درمیانی شب بعمر ۵۵ سال ہوا.آپ موصیبہ ہونے کا شرف رکھتی تھیں.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں عمل میں آئی.آپ کے وصال کا اعلان الفضل میں شائع ہوا اور احباب جماعت کونماز جنازہ غائب پڑھنے کی تحریک کی گئی.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے.الفضل قادیان ۲۰ ،۲۳ نومبر ۱۹۲۳ء) O
باب دوم....سیرت و اخلاق پاپ دوم سیرت و اخلاق حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) ۳۱
ناہ صاحب باب دوم....سیرت و اخلاق حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین صاحب بھیروی فرماتے دوستم نے دیکھا ہوگا کہ میں سخت بیمار ہو گیا تھا اور میں نے کئی دفعہ یقین کیا تھا کہ میں اب مر جاؤں گا.ایسی حالت میں بعض لوگوں نے میری بڑی بیمار پرسی کی تمام رات جاگتے تھے.ان میں سے خاص کر ڈاکٹر ستارشاہ صاحب ہیں.بعضوں نے ساری ساری رات دبایا اور یہ سب خدا کی غفور رحیمیاں ہیں ،ستاریاں ہیں جو ان لوگوں نے بہت محبت اور اخلاص سے ہمدردی کی.(اخبار الحکم قادیان ۳۱ اگست ۱۹۰۷ء صفحه ۱۱) ۳۲
شاہ صاحب باب دوم....سیرت و اخلاق حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) کی عملی زندگی کا ایک طویل عرصہ رعیہ خاص میں گذرا اور آپ قریباً ۱۸۹۵ ء سے لے کر ۱۹۲۰ء تک رعیہ میں اسٹنٹ سرجن کے طور پر خدمات بجالاتے رہے.اس باب میں خصوصی طور پر رعیہ کے حوالہ سے آپ کی حیات طیبہ کے بعض واقعات، مشاہدات اور تاثرات قارئین کی خدمت میں پیش کئے جارہے ہیں.سیالکوٹ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ یہ پانچ ہزار سال پرانا شہر ہے.اس کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ سیالکوٹ قدیم شہر سکالہ Sakala یا ساگل Sagal سے بنا ہے.سیالکوٹ کی موجودہ حدود ۱۸۴۷ء میں قائم کی گئیں.۱۸۸۱ء میں اسے پانچ تحصیلوں میں تقسیم کر دیا گیا.یعنی تحصیل سیالکوٹ، ڈسکہ، پسرور ، ظفروال اور رعیہ.اُس زمانے میں تحصیل رعیہ ہیڈ کوارٹر تھا جس کا رقبہ ۴۸۷ مربع میل پر مشتمل تھا.رعیہ کی تحصیل میں ۴۹۱ گاؤں شامل تھے.دریائے راوی رعیہ میں شمال مشرق سے داخل ہوتا ہے ".اُس زمانے میں تحصیل رعیہ میں حضرت ڈاکٹر سید عبدالستارشاہ صاحب ہے*.بطور اسسٹنٹ سرجن متعین تھے.رعیہ کی موجودہ تحصیل و ضلع نارووال ہے اب رعیہ محض ایک گاؤں بن کر رہ گیا ہے.البتہ یہاں تحصیل ہیڈ کوارٹر اور کچہری کے آثار باقی ہیں.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اپنے والد ماجد کے اخلاق فاضلہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں.رعیہ میں آپ کے محاسنِ اخلاق کے اثرات بتایا جا چکا ہے کہ والدم حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب سابقہ تحصیل رعیہ ضلع سیالکوٹ کے شفا خانہ میں انچارج ڈاکٹر تھے جن دنوں کا واقعہ بیان *Gazetteers of SialkoDistrict 1920, by PunjabGovt Lahore: Punjab Govt., 1921.pp1-20 ۳۵
رشاہ صاحب باب دوم...سیرت و اخلاق کرنے لگا ہوں ان دنوں میری عمر چھ سات برس سے زیادہ نہ تھی.تحصیل کے افسران تحصیلدار ، نائب تحصیلدار ناظر اور انچارج تھانہ سبھی حضرت والد صاحب کی بہت عزت کرتے اور ان سے حسن عقیدت رکھتے.ان کی مستورات کا ہمارے گھر آنا جانا تھا.خواہ مسلم ہوں یا ہند و یا عیسائی.ان میں سے ایک ناظر حضرت والد صاحب کے بڑے عقیدت مند تھے.لیکن ان کا اپنا حال یہ تھا کہ راگ و ساز کے شیدائی اور ان کے لوازمات میں کھوئے ہوئے تھے.ایک دن ان کے بچوں سے ملنے ان کے ہاں گیا، ڈھولکی اور سارنگی کی آواز سن کر باہر کے ایک کمرے میں جھانکا.ساری مجلس مست و مگن تھی.لیکن ناظر صاحب کچھ شرمائے.سیدوں کی بڑی قدر کرتے تھے.گانا بجانا تو کچھ دیر کے لئے بند ہو گیا اور مجھے اندرون خانہ بھجوادیا.ان کی دنیا کی رنگ رلیوں کے شغف میں ان کی ہر خاص و عام میں شہرت تھی.اب تک ان کی شکل نہیں بھولتی.بڑی بڑی مونچھیں اور داڑھی صاف.جب میں قادیان آیا تو ایک دن کیا دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب سجدہ میں سرنگوں ہیں اور نہ معلوم اپنے مولا سے کس قسم کے راز و نیاز کی کیفیت میں غائب.ان کے لمبے سجدوں اور طول طویل نماز کو دیکھ کر مجھے تعجب ہوا.چہرے پر داڑھی تھی میں پہچان نہ سکا.نماز سے فارغ ہونے پر انہوں نے مجھے خود ہی گلے لگایا اور بتایا کہ وہ وہی مولا بخش بھٹی ہیں جو رعیہ میں ناظر تھے اور جس کی شہرت جیسی تھی سب کو معلوم ہے اور مجھے ان سے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب غالباً براہین احمدیہ ان کو پڑھنے کے لئے والد صاحب نے انہیں دی اور جب وہ رعیہ سے تبدیل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی توفیق بخشی اور یہ وہ مشہور (رفیق) ہیں جن کی اولاد سے ہمارے نہایت مخلص دوست ڈاکٹر شاہ نواز صاحب ہیں جنہوں نے ملازمت کے بعد اپنے آپ کو خدمت دین اور اشاعت دین حق کے لئے وقف کیا اور اب بطور (مبشر ) کام کر رہے ہیں.(خود نوشت سوانح سید ولی اللہ شاہ صاحب.غیر مطبوعہ ) ۳۶
رشاہ صاحب باب دوم....سیرت و اخلاق نماز اور دعائیں میری طبیعت میں رچ گئی ہیں، حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب ہمہ وقت دعا گو شخصیت تھے اور اپنی ستر سالہ حیات طیبہ میں نماز اور دعاؤں کو اپنی طبیعت ثانیہ اور فطرت ثانیہ بنا کر خوبصورت عملی نمونہ پیش فرمایا اور احباب کرام سے بھی اس بات کی توقع رکھتے تھے کہ اپنی زندگیوں میں نماز اور دعاؤں کو فطرت ثانیہ اور اپنی عادات بنالیں.آپ اپنی حیات طیبہ کی بابت بیان فرماتے ہیں:- اور دعاؤں کو اپنی غذا اور پانی مثل غذا جسمانی بنالو.اور اپنی ایک طبع ثانی میں شامل کر لو.اور مایوسی کو تم زہر قاتل اور ہلاک کنندہ روح و جسم سمجھو.العیاذ باللہ.اب اس جگہ میں بطور تحديث بالنعمۃ کے اور ترغیب مخلوق الہی کی غرض سے اپنا تجر بہ بابت استجابت دعا تحریر کرتا ہوں.شاید تمہیں بھی ترغیب اور شوق پیدا ہو.میں بخدا سچ کہتا ہوں.کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے.اور غالباً بلوغ سے اوّل عالم طفولیت میں ہی نماز اور دعاؤں سے مجھ کو ایک دلچپسی جس کو ٹھرک کہتے ہیں ، بفضل خدا میری طبیعت میں ایسے رچ گئی کہ میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا.اور آرام و قرار نہیں پکڑ سکتا تھا.اور اس کو ایک غذا جسمانی کی طرح سمجھتا تھا.شاید چونکہ میں پانچ یا چھ سال سے یتیم و یک رہ گیا تھا.اور یہ زمانہ یتیمی بھی اس کا محرک ہوا ہو.اس لئے یہ بھی اس ذات الہی کا رحم اور فضل تھا کہ میں ہر ایک حاجت کیا چھوٹی کیا بڑی.سب میں دعاؤں سے کامیاب ہوتا رہا.میرے ساتھ ہمیشہ عادت اللہ یہی کام کرتی رہی.کہ تا وقتیکہ میں اپنی ضروریات سائلا نہ طور پر اول سے عرض نہ کر لوں میری مشکل آسان اور کامیابی نہیں ہوتی تھی.جیسا کہ ایک بچہ شیر خوار جب تک دودھ کے لئے اپنی تڑپ اپنے چہرہ وحرکات سے اپنی والدہ پر ظاہر نہ کرے تب تک اس کی توجہ کامل طور پر مبذول نہیں ہوتی.یہی حال رب اور فیاض مطلق کا ہے اور کثرت سے میری دعائیں قبول ہوتی رہی ہیں.شاید سو دعاؤں میں دس یا ہیں حسب مدعا میری قبول ۳۷
رشاہ صاحب باب دوم...سیرت و اخلاق نہ ہوئی ہوں گی.مگر وہ جو میری منشاء کے مطابق بظاہر قبول نہیں ہوئی تھیں وہ بھی درحقیقت رد نہیں ہوئی ہیں.بلکہ دوسرے رنگ میں قبول ہوئی ہیں.یعنی یا تو وہ میرے حق میں مضر اور موجب نقصان عظیم تھیں ، اس لئے فیاض مطلق نے مجھ کو بذریعہ رد محفوظ رکھا.یا اس کے عوض اور کوئی بلا یا مصیبت جو میری شامل اعمال کا نتیجہ تھی وہ ٹال دی.یا اس کا نتیجہ عالم برزخ میں میرے لئے بطور امانت رکھا.بہر حال یہ بھی سب قبولیت کے انعام میں ہوا.کیونکہ اللہ تعالیٰ تو کسی کی دعا جو خلوص قلب اور تضرع سے کی جاوے کبھی بھی رد نہیں کرتے.دعا ایک بیج کی طرح ہے.جب کوئی بیج کسی غلہ کا یا جنس کا زمین میں بویا جاوے.تو عمدہ زمین میں بلحاظ حفاظت و نگہداشت کے وہ بیج اپنی اپنی فطرتی استعداد کے لحاظ سے ضرور زمین پر اپنا رنگ اور روئیدگی کا جامہ پہن کر نمودار ہوتا ہے.مگر ہر جنس کے بیج کے نمودار ہونے کی مختلف میعادیں ہوتی ہیں.وہ ضرور اپنی اپنی میعاد پر اپنی نشو و نما پاتے ہیں.اسی طرح سے سب دعائیں قبول ہوتی ہیں.اور جو نہیں قبول ہوتیں، وہ دوسرے رنگ میں ظاہر ہو کر رہتی ہیں.اور دعا کنندہ سمجھ لیتا ہے کہ میری منشاء کے مطابق قبول نہیں ہونی چاہیے تھیں.پس بعض دعا ئیں تو فوراً دعا کرتے ہی اور بعض ایک ماہ میں، بعض ایک سال میں ، اور بعض اس سے زیادہ عرصہ میں قبول ہوتی ہیں.جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا حضرت رسول کریم ﷺ کے حق میں تین ہزار سال کے بعد قبول ہوئی.الغرض دعاؤں میں مایوسی اور ضعف اور تکان اور بزدلی سے کام نہ لیا جاوے.انتھک اور مردانہ وار مرتے دم تک لگا تار لگا ر ہے تو ضرور قبولیت سے کامیابی ہوگی.لیکن یہ بھی یادر ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی دعاؤں میں کامیاب ہوتارہے تو وہ اپنے آپ کو مستجاب الدعوات دیکھ کر نازاں اور متکبر نہ ہو جائے کیونکہ یہ کوئی خاص قرب کا درجہ اس نے حاصل نہیں کیا اور اس سے مقبول الہی مقرب خدا نہیں بن گیا.کیونکہ اگر وہ ایک سائلا نہ حیثیت میں ایک سخی اور غنی بادشاہ کے دروازے پر ہر روز بوقت سوال و عرض کے کچھ حاصل کر لیتا ہے اور بھی ۳۸
مارشاہ صاحب باب دوم....سیرت و اخلاق بھی محروم نہیں جاتا.تو گویا وہ تو بھیک مانگنے والے فقیروں اور سوالیوں کے رنگ میں اس معطی و منعم کے فیض سے محروم نہیں رہتا.بہر حال یہ سائل ہے اور وہ معطی ہے.یہ کیا بن گیا.آخر ہم انسان بھی تو اپنے گھر کے کتے کو جو ہمیشہ ہمارے دروازے پر گرا رہتا ہے ، ہڈی یا ٹکڑا ڈال دیتے ہیں.تو اس سے اُس شان یا فطرت میں کوئی فرق نہیں پڑسکتا.انسان انسان ہے، کتا کتا ہی ہے.اس میں اُس کے لئے کون سی شان یا فخر ہے.اسی طرح سے بندہ بندہ ہے، اور خدا خدا.یہ سائل ہے اور وہ معطی ہے.ہاں البتہ اُس کا فضل و احسان ہے کہ وہ اپنے سائل کو اور اپنے دروازہ پر افتادگان کو نواز نے اور انہیں اپنے وجود اور فیضان ربوبیت سے بھی بھی محروم نہیں رکھتا.( وصیت حضرت شاہ صاحب صفحه ۲۱-۲۳) فلسفه دعا حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب دعا کی بابت تحریر فرماتے ہیں:.دعا تو اللہ تعالیٰ سے فیوض و برکات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ اور ابتدائی منزل ہے.اس لئے تم کو اس منزل مبارک کے حصول کے لئے سر سے پاؤں تک کوشاں اور ہر حالت میں چلتے پھرتے حسب فرصت دعاؤں کو طبع خانی کی طرح اپنا شیوہ و و تیرہ اور بقاء روح کے لئے انہیں وسیلہ اور دار و مدار حیات روح سمجھنا چاہیے.اگر ایسی حالت میسر ہو جاوے تو شکر کرو اور اس کا فضل و احسان سمجھو کہ تمہارے سوالوں اور دعاؤں کو رد نہیں کرتا.اور یہ کہ تم نے اپنا حقیقی اور معطی رب شناخت کر لیا اور اُس نے اپنے سائل اور محتاج بندہ کی حالت دیکھ لی ہے کہ اس کا کوئی ذریعہ قضائے حاجات کا میرے بغیر نہیں ہے.پس وہ رفتہ رفتہ اپنے فضل و احسان سے تمہاری سائلا نہ ومحتاجانہ حالت سے ترقی دے کر اپنے قرب کے اُس مقام پر تم کو پہنچا دے گا.جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آئینہ کمالات ۳۹
66* شاہ صاحب باب دوم...سیرت و اخلاق اسلام * میں فنا اور بقا کی منازل میں اور براہین احمدیہ کے حصہ پنجم ** میں روحانی ترقی کے مقامات ستہ میں بالتفصیل فرمایا ہے.وہاں ملاحظہ کرو.اور ان مقامات کے حصول کے لئے دعائیں کرو.اور کوشش کرو کہ اس منزل پر تم کو اللہ تعالیٰ پہنچا دیوے کیونکہ یہ قابل عزت اور اعلیٰ درجہ مقام قرب الہی ہے.مگر اس مقام پر بھی پہنچ کر تم کو مطمئن اور نازاں نہیں ہونا چاہیے.جب تک کہ آخری کوچ اس دنیا سے ہو کر عالم برزخ یا عالم بقا میں اُن پاس شدہ مقبولانِ الہی کی ہمسائیگی میں تم کو جگہ نہ ملے.تب تک لگا تار دعاؤں میں لگے رہو.جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام با وجود نبی مقرب ہونے کے اپنے آخری وقت نزع تک یہ دعامانگتے رہے.ربّ قَدْ اَعْطَيْتَنِي مِنَ المُلْكِ وَ عَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ (سورة یوسف : ۱۰۲).یعنی اے رب ! زمینی و آسمانی نعمت دنیوی سلطنت و نبوت سے تو نے مجھ کو ممتاز کیا ہے.اے فاطر السموات والارض یعنی معطی نعماء سماوی ارضی چونکہ اب میں تیرے حضور حاضر ہونے والا ہوں.انت ولى فى الدنيا والآخرة تو ہی میری سب مشکلات اور حاجات دنیوی و آخرت کا متولی رہا ہے.اور اس لئے تیرے حضور اے رب میری یہ عرض ہے کہ اب تو ہی میرا خاتمہ بالخیر کیجئیو.وہ یہ کہ تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَالْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ (سورۃ یوسف:۱۰۲).حضور میری یہ دو عرضیں ہیں، زیادہ نہیں.اوّل میری وفات اسلام پر ہو.دوم میرا الحاق اور ہمسائیگی با صالحین ہو.یعنی انبیاء وشہداء وغیرہ کے زمرہ میں میرا مکان و بود و باش ہو.ایسا نہ ہو کسی معمولی مومن و معمولی منعم کی رفاقت ہو بلکہ اعلیٰ درجہ کے منعم علیہ گروہ میں شمولیت ہو.آمین.جب ایک نبی کا یہ حال ہے تو ہم کس شمار میں ہیں.کیونکہ ذات الہی غنی ہے پر واہ اور غیور ہے.جب تک اے * ملاحظہ ہو آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد نمبر ۵ صفحه ۶۳ تا ۸۰ **ملاحظہ ہو براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۵ ۱۸ تا ۲۲۸
شاہ صاحب باب دوم....سیرت و اخلاق کہ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (سورة البينة: ٩ ) کا سرٹیفکیٹ بوقت کوچ سفر آخرت حاصل نہ ہو.تب تک انسان ہمیشہ خطرہ میں ہے.( وصیت حضرت شاہ صاحب صفحه ۲۳، ۲۶) انہیں یہ فکر رہتا تھا کہ کہیں نماز قضاء نہ ہو جائے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اپنے والد ماجد کے اخلاق فاضلہ کے بارہ میں فرماتے ہیں:.حضرت قبلہ والد صاحب مرحوم کے آخری ایام کے چوبیس گھنٹے بحالت نماز گذرتے انہیں یہ فکر رہتا کہ کہیں نماز اول وقت سے قضا نہ ہو جائے.کیا دن کی نمازوں کے لئے اور کیا رات کی نمازوں کے لئے بھی اپنی جھلی بیٹی سیدہ خیر النساء کا نام لے کر اور بھی میرا نام لے کر بار بار دریافت فرماتے ولی اللہ شاہ وقت ہو گیا ہے؟ یعنی نمازوں کا.یہ آواز اب تک میرے کانوں میں گونجتی ہوئی معلوم ہوتی ہے.اور اس کا تصور الگ نہیں ہوتا.رات بھر اسی فکر میں جاگتے رہتے کہ کہیں نماز تہجد قضاء نہ ہو جائے گویا نماز کے انتظار میں ان کے سارے اوقات بحالت نماز تھے.اور سلسلہ اور اس کی ترقی کے لئے اور جماعت کے ہر فرد کے لئے وہ دعاؤں میں مشغول رہتے.اور عجیب عجیب طریقوں سے جناب الہی کی رحمت کو تحریک فرمایا کرتے.جب کبھی مجھے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کسی کام کے لئے باہر بھیجتے اور میں واپس آتا تو مجھ سے دریافت فرماتے کیا مقصد میں کامیابی ہوگئی ؟ اور جواب سن کر فرماتے تم تو باہر کے میدان میں جہاد کر رہے تھے اور میں یہاں اپنی دعاؤں کے ذریعہ تمہاری کامیابی کے لئے جہاد کر رہا تھا.سلسلے کے تمام مربیان کے لئے خصوصیت سے وہ دعاؤں میں لگے رہتے تھے.اس خیال سے کہ وہ اب اور کوئی کام نہیں کر سکتے.دعا کا کام ہے جو وہ آسانی سے کر سکتے.میں احباب سے امید کرتا ہوں کہ اس دعا گو مجاہد کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے ان کی مغفرت اور روحانی ترقیوں کے لئے ۴۱
مارشاہ صاحب باب دوم....سیرت و اخلاق دعا کریں گے.اور ان میں حضرت والدہ صاحبہ مرحومہ کو بھی شریک کریں گے.جن کی دعائیں احباب کے لئے ان سے کم نہ تھیں.الفضل قادیان ۲۰ جولائی ۱۹۳۷ ، صفحه ۸) اللہ تعالی کی تائید و نصرت کے نشانات محترم بابا اندر صاحب بیان کرتے ہیں:.ایک دفعہ گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے دائیں کلائی ٹوٹ جانے سے بیماری کی وجہ سے بار بار سمن آنے پرڈپٹی کیشو داس کی عدالت میں شہادت دینے کے لئے حاضر نہ ہو سکے.مجسٹریٹ نے یہ سمجھ کر کہ آپ عمداً حاضری سے گریز کر رہے ہیں.سول سرجن سیالکوٹ کی معرفت حاضری کا حکم نامہ بھجوایا.اور ناراضگی کا اظہار کیا.سول سرجن کے تاکیدی حکم پر آپ کو مجبوراً حاضر ہونا پڑا.عدالت کے باہر مجسٹریٹ پاس سے گزرا تو اس کی ہنیت سے غصہ ظاہر ہوتا تھا.آپ نے مجھے کہا کہ ڈپٹی صاحب خفا معلوم ہوتے ہیں.خوف ہے کہ مجھ پر نا پسندیدہ جرح کر کے میری خفت نہ کریں.وضو کے لئے پانی لاؤ تا کہ عدالت کی طرف سے آواز پڑنے سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرلوں.چنانچہ آپ نے نہایت خشوع و خضوع سے نفل ادا گئے.آپ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو مجسٹریٹ نے اپنا سر پکڑ لیا اور ریڈر کو کہا کہ میرے سر میں شدید درد شروع ہو گیا ہے.میں پچھلے کمرہ میں آرام کرتا ہوں.تم ڈاکٹر صاحب کی شہادت قلم بند کر لو.ڈاکٹر صاحب کی شہادت پر ریڈر دستخط کرانے گیا.تو مجسٹریٹ نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کے خرچہ کا کاغذ بھی تیار کر لو.اور کمرہ عدالت میں آ کر دونوں پر دستخط کر دیئے اور خرچہ دلا کر جانے کی اجازت دیدی.باہر آ کر ڈاکٹر صاحب نے مجھے کہا.اندر! دیکھا ( دین حق کا خدا! اس کی نصرت اور معجزات کیا عجیب شان رکھتے ہیں.تابعین احمد جلد سوم با رسوم صفحه ۱۵، ۱۶) ۴۲
ناه صاح قبولیت دعا کے ثمرات باب دوم....سیرت و اخلاق محترم بابا اندر صاحب بیان کرتے ہیں:.آپ اکثر دعا کرتے تھے کہ میرا بیٹا ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ انڈین میڈیکل سروس میں آجائے.انہوں نے عرض کیا کہ ایسی ترقی کے لئے ولایت میں تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے.فرمایا کہ ہمارا خدا ہر چیز پر قادر ہے.سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے جنگ عظیم دوم میں خدمات سرانجام دینے کی درخواست دیدی اور ان کو ملازمت میں لے لیا گیا.جب آپ والد صاحب کی ملاقات کے لئے آئے تو پوچھنے پر بتایا کہ کندھوں پر کراؤن آئی ایم ایس ہو جانے کی وجہ سے ہیں.تو آپ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ دیکھو! میرے بیٹے کو میرے خدا نے آئی ایم ایس کر دیا اور میری دعا قبول کر لی.تابعین احمد جلد سوم، با رسوم صفحه ۱۶) ڈاکٹر صاحب دواؤں سے فائدہ نہیں ہوا دُعا کریں محترم حکیم محمد امین صاحب آف بدوملی ( وصال جون ۲۰۰۲ء) ایک معمر غیر احمدی کے تاثرات بیان کرتے ہیں کہ:- میری آنکھیں اتنی خراب ہوگئی تھیں کہ بینائی ضائع ہونے کا خطرہ تھا.بہت علاج کیا تھا.ڈاکٹر صاحب نے بھی علاج کیا مگر افاقہ نہ ہوا.تو میں نے تنگ آکر ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ دواؤں سے آرام آنے سے رہا آپ اللہ تعالیٰ کے بزرگ بندوں میں سے ہیں.اللہ تعالیٰ ضرور آپ کی دعا سنے گا.اس پر آپ نے کچھ دعائیں پڑھیں اور سر مچو اپنے دہن مبارک سے لعاب لگا کر ایک ایک سلائی دونوں آنکھوں میں لگائی اور کچھ دیر دعائیں کرتے رہے اور فرمایا ! انشاء اللہ اس کے بعد کوئی دوا آنکھوں میں ڈالنے کی ضرورت نہیں.چنانچہ اس دن سے میری بینائی بہت اچھی ہے.عینک تک کی ضرورت نہیں“.( تابعین احمد جلد سوم با رسوم صفحہ۱۵) ۴۳
شاہ صاحب باب دوم...سیرت و اخلاق مشہور تھا کہ آپ دوا کے ساتھ دعا بھی کرتے ہیں محترم حکیم محمد امین صاحب مرحوم بیان کرتے ہیں :- کچھ عرصہ پہلے رعیہ گاؤں میں ایک احمدی لڑکی کی تدفین کے موقعہ پر ایک غیر احمدی معمر دوست نے حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کا تذکرہ شروع کیا اور آخر ڈاکٹر صاحب اور جماعت احمدیہ کو بہت دعائیں دینے لگے.انہوں نے سنایا کہ آس پاس کی احمدی جماعتوں کے قیام میں ڈاکٹر صاحب کی کوششوں کا اہم حصہ ہے.آپ بہت بزرگ اور تہجد گزار تھے.ہر جمعہ کے روز آپ ایک قربانی کر کے تقسیم کرتے.مریض دور دور سے علاج کے لئے آتے تھے.کیونکہ مشہور تھا کہ آپ دوا کے ساتھ جو دعا کرتے ہیں اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ شفا دیتا ہے.( تابعین احمد جلد سوم با رسوم صفحه ۱۵) ان بزرگوں نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے محترم بابا اندر صاحب، حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیلی کی قبولیت دعا کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ: جنگ عظیم اوّل میں آپ کے فرزند سید زین العابدین حرکی میں تھے.والدین ان کی خیریت کے لئے بڑے سوز و گداز سے دعائیں کرتے تھے.حضرت شاہ صاحب اکثر کہتے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے یوسف کو خیریت سے واپس لائے لیکن لمبے عرصہ تک آپ کی خیریت کی کوئی خبر نہ ملی.ایک دفعہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) حضرت شاہ صاحب سے ملاقات کے لئے رعیہ تشریف لائے تو دونوں نے سید ولی اللہ شاہ صاحب کی خیریت کے بارے میں دعا کرنے کی درخواست مولوی صاحب سے کی.میرے سامنے کی بات ہے کہ ان ۴۴
مارشاہ صاحب باب دوم..سیرت و اخلاق بزرگوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے.تھوڑی دیر بعد حضرت مولوی صاحب پر غنودگی کی حالت طاری ہوگئی جس کے دور ہونے پر آپ نے بتایا کہ میں نے ابھی کشف میں دیکھا ہے کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب عسل خانہ سے نہا کر باہر نکلے ہیں.اور ان کے بالوں سے پانی کے قطرات ٹپک رہے ہیں.اور وہ دعا کر رہے ہیں کہ جس مقصد کے لئے میں آیا ہوں.اللہ تعالیٰ وہ پورا کرے.مولوی صاحب نے فرمایا کہ اس نظارہ سے مجھے یقین ہے کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب بخیریت اور صحیح سالم ہیں.سوسب کو اطمینان ہوا.چنانچہ بعد میں سید ولی اللہ شاہ صاحب بخیریت واپس آئے“.تابعین احمد جلد سوم با رسوم صفحہ کا ) آپ کے دیرینہ خادم بابا اندر جی کا تعارف مکرم و محترم ملک صلاح الدین ایم.اے آف قادیان تحریر کرتے ہیں:.بابا اندر جی کی شہادت بہت وقیع ہے.باباجی ۱۹۵۰ء کے لگ بھگ قادیان میں ہمارے دفتر مقامی میں آئے اور بتایا کہ تقسیم ملک پر خود میجر ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے ایک موٹر کا انتظام کر کے میرے سارے خاندان کو ہندوستان بھجوایا.میں کوئی ستائیس سال بطور وارڈ قلی رعیہ ہسپتال میں حضرت ڈاکٹر سید عبدالستاری شاہ صاحب کے ساتھ رہا ہوں.میں موضع تلونڈی جھنگلاں میں آباد ہوں تقسیم ملک سے پہلے بھی چندہ دیتا تھا.گواب میں کوئی کام نہیں کرتا.اور میری اولا د میرے اخراجات کی کفیل ہے آنے کے بعد سے جمع کر رہا ہوں اور آپ نے ایک پوٹلی ہمارے سپرد کی یہ چندہ خزانہ میں جمع کرا دیا گیا.آپ حضرت ڈاکٹر صاحب کے خاندان سے والہانہ محبت رکھتے تھے اور ان کی خیریت پوچھتے رہتے تھے اور محبت کی وجہ سے کچھ رقم اس خاندان کے بعض بچوں کے لئے ہدیہ کے طور پر خاکسار کے ذریعہ بھجواتے تھے.آپ ربوہ کے بزرگان کی خیریت معلوم کر کے خوش ہوتے.آپ کسی کی بیماری کی خبر سنتے یا خاکسار کسی بات کے لئے دعا کے ۴۵
مارشاہ صاحب باب دوم..سیرت و اخلاق لئے عرض کرتا تو دوسری دفعہ آنے پر آپ اس بارے میں دریافت کرتے.جس سے خاکسار کو احساس ہوتا کہ آپ یا درکھ کر دعا کرتے ہیں.تابعین احمد جلد سوم، بار سوم صفحه ۳۱۴،۳۱۳) محترم بابا اندر جی بیان کرتے ہیں:.کہ حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) کے ساتھ قادیان آنے پر مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ اسیح الاوّل اللہ آپ سے راضی ہو ) کی زیارت نصیب ہوئی.( تابعین احمد جلد سوم، با رسوم صفحه ۳۱۴) قبولیت دعا کے بعض نشانات محترم میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ مرحوم سابق امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی اپنے تاثرات یوں سپرد قلم کرتے ہیں:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایسے ایسے پاک فطرت اور سراپا نور وجود عطا فرمائے کہ ان کی مثال ( دین حق ) کے صد راول کے بعد کسی زمانہ میں بھی نہیں ملتی.بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ایسے بزرگ چند ایک تھے یہ چمکتے ہوئے موتیوں کی ایک کان تھی کہ جس طرف دیکھیں آنکھیں نور سے چندھیا جاتی تھیں اور اب جب کہ وہ خدا کو پیارے ہو گئے تو ان کی یاد بے اختیار آنکھوں میں آنسو لے آتی ہے.آج میں یہ سطور حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) کے متعلق لکھ رہا ہوں.حضرت شاہ صاحب بڑے پاک صورت جاذب شکل، پرکشش اور بڑے ہی پاک سیرت بزرگ تھے.آپ قصبہ کلرسیداں ضلع راولپنڈی کے ایک مشہور سید خاندان کے بزرگ تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ساداتی کو اس درجہ نوازا کہ سرور کائنات علیہ کے سب سے بڑے عاشق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ آپ کے خاندان کو اس طرح ملا دیا
رشاہ صاحب باب دوم..سیرت و اخلاق کہ دونوں خاندان ایک ہو گئے.حضرت شاہ صاحب کو اس بات کی بڑی خوشی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی ساداتی کو تسلیم کیا.مجھے جو بات آج بہت یاد آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے میری اسی فیصدی دعائیں قبول کی ہیں آج کل دہریت کی نہایت درجہ مسموم ہوا اتنی پھیلی ہوئی ہے کہ سانس لینا دشوار ہو گیا ہے.دہریہ سائنسدان اور ٹیکنالوجسٹ بر ملا و بے محابا یہ کہتے ہیں کہ تمام وہ باتیں جو پہلے بلحاظ اسباب سمجھ میں نہیں آ سکتی تھیں اب ان کے سلسلۂ علت پر سائنس نے قابو پالیا ہے اور کوئی بات ایسی نہیں جس کی وجہ قوانین قدرت کے اندر ہمیں معلوم نہ ہو اور ہمیں کسی مابعد الطبیعاتی وجود کی طرف نگاہ کرنا پڑے.روزنامه الفضل ربوه ۱۰ جنوری ۱۹۶۹ ، صفحیم) حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق و محبت محترم میاں عطاء اللہ صاحب مرحوم ایڈووکیٹ سابق امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی حضرت شاہ صاحب کی سیرت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ:- ایک دفعہ حضرت شاہ صاحب (بیت) محلہ دارالرحمت قادیان میں تشریف فرما تھے تو میں نے عرض کیا کہ حافظ شیرازی مجھے شاعر ہی معلوم ہوتے ہیں.اس پر آپ نے فرمایا ایسا ہرگز نہ کہنا.مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زیر مطالعہ تین کتب ہوا کرتی تھیں.مثنوی مولانا روم، تذکرۃ الاولیا ء مصنفہ فریدالدین عطار اور دیوان حافظ شیرازی“.مراد یہ تھا کہ حافظ شیرازی صرف شاعر نہیں بلکہ بزرگ ولی اللہ تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پسندیدہ تھے.روزنامه الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۶۹ ، صفحہ ۳)
ناه صاحب اللہ تعالیٰ کی عجیب قدرت محترم بابا اندر صاحب بیان کرتے ہیں:.باب دوم.....سیرت و اخلاق "سید حبیب اللہ شاہ صاحب ڈاکٹری کا امتحان پاس کر کے والد صاحب کے پاس آئے ہوئے تھے اور آپ نے والد صاحب کے کہنے پر ایک مضروب کو ڈاکٹری سر ٹیفکیٹ دیا.لیکن خان محمد تحصیل دار کی عدالت میں پیش کئے جانے پر اس حاکم نے اسے منظور نہ کیا اور حضرت شاہ صاحب کا سرٹیفیکٹ لانے کے لئے کہا.اس نامنظوری پر حضرت شاہ صاحب نے ہتک محسوس کی لیکن اس سرٹیفکیٹ کی تصدیق کر دی.اللہ تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے.یہ تحصیل دار بیمار ہوا اور اسے حضرت شاہ صاحب کے سرٹیفکیٹ پیش کرنے کو کہا گیا.یہ صاحب لاہور میں ڈاکٹر سید حبیب اللہ صاحب کے پاس آئے.وہ آئی ایم ایس ہو چکے تھے.انہوں نے از راہ ہمدردی تین ماہ کی رخصت کا سرٹیفکیٹ دے دیا.حضرت شاہ صاحب کو علم ہوا تو فرمایا کہ خان محمد نے میرے بیٹے کا سرٹیفکیٹ نامنظور کر دیا تھا جو دعاؤں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی سے ڈاکٹر بنا تھا.اب جب کہ میرا لڑکا آئی ایم ایس ہو گیا ہے تو اس سے اپنے لئے سرٹیفکیٹ لیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو اس سرٹیفکیٹ سے فائدہ نہیں اٹھانے دے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور باوجود اس سرٹیفکیٹ کے افسران بالا کی طرف سے اس کی مزید رخصت منظور نہ ہوئی.شاہ صاحب نے فرمایا اندر! آخر خدا تعالیٰ بھی اپنے بندوں کے لئے غیرت رکھتا ہے.تابعین احمد جلد سوم ، با رسوم صفحہ ۱۷، ۱۶) بابا اندر جی سے شفقت و محبت کے مثمرات محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے آف قادیان تحریر کرتے ہیں:.بابا اندر جی نے یہ بات بیان کی کہ ایک دفعہ مائی صاحبہ (حضرت سیدہ سعیدۃ النساء اہلیہ حضرت ڈاکٹر سید عبد الستارشاہ صاحب) نے مجھے کہا تھا ۴۸
رشاہ صاحب باب دوم..سیرت و اخلاق کہ اندر! ایسا نہ ہو کہ ہم جنت میں ہوں اور تم وہاں نہ جاؤ.یہ بھی بتایا کہ مائی صاحبہ اور ڈاکٹر صاحب مجھ سے بچوں جیسا سلوک کرتے تھے.میں کم عمر تھا.خاکسار مؤلف نے یہ بات سن کر ان سے کہا کہ یہ دونوں بزرگ اور ان کی اولاد میں سے بعض وفات پاچکے ہیں.اور آپ بھی ستر بہتر سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں.( دین حق ) کی صداقت کے آپ قائل ہیں.آپ مخفی بیعت کر لیں.آپ نے کہا میں ایک ہفتہ بعد بتاؤں گا.اگلے ہفتہ آکر میرے ذریعہ آپ نے بیعت کر لی اور پھر چندہ تحریک جدید میں بھی شامل ہوئے.تھوڑا عرصہ بعد آپ وفات پاگئے تو ان کے بچوں کے پاس پیغام بھجوایا گیا کی نعش وہ ہمارے سپرد کر دیں تا کہ ہم تدفین کر سکیں.تو انہوں نے کہلا بھیجا کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ ( دین حق ) قبول کر چکے تھے.شفا خانہ میں داخل کرتے تو نعش احمد یہ جماعت کے سپر دہی رہتی.اب اقارب میں سے نعش نکال کر قادیان بھجوانا ہمارے لئے ممکن نہیں.چند دن بعد ناظر امور عامه مکرم مولوی برکات احمد صاحب را جیکی بی اے، خاکسار اور چودھری منظور احمد صاحب منیر چیمہ درویش کو لے کر تعزیت کے لئے گئے.گاؤں کے قریب ایک سکھ زمیندار سے ان کے کنویں پر ہم ملے.جو دیکھتے ہی کہنے لگا کہ آپ بابا اندر جی کی وفات کی وجہ سے آئے ہیں؟ وہ پکے احمدی تھے.چارہ کاٹنے آتے تو احمد یہ لٹریچر ساتھ لاتے اور ( دعوۃ الی اللہ ) کرتے.سب کو معلوم ہے کہ وہ (احمدیت ) قبول کر چکے تھے.تابعین احمد جلد سوم، با رسوم صفحه ۳۱۵،۳۱۴) میں تجھے ایک بیٹا دوں گا حضرت مولانا برکات احمد صاحب را جیکی محترم بابا اندر کی روایت بیان کرتے ہے ” جب میں رعیہ ضلع سیالکوٹ میں حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب اللہ آپ سے راضی ہو) کے ہاں ملازم تھا تو ایک دفعہ حضرت شاہ صاحب ۴۹
ہیں مارشاہ صاحب باب دوم..سیرت و اخلاق (اللہ آپ سے راضی ہو ) نے مجھے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے الہاماً فرمایا ہے کہ میں تجھے بیٹا دوں گا“.دواڑھائی ماہ کے بعد بجائے لڑکا پیدا ہونے کے لڑکی پیدا ہوئی.جس کا نام مریم النساء بیگم رکھا گیا.حضرت ڈاکٹر صاحب نے مجھے علیحدہ لے جا کر کہا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے لڑکا دینے کا وعدہ فرمایا تھا.لیکن لڑکی پیدا ہوتی ہے.شاید مجھے اللہ تعالیٰ کا الہام سمجھنے میں غلطی لگی ہے.اور شاید الہام آئندہ کسی وقت پورا ہونا ہو.میں نے عرض کیا کہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس لڑکی کو لڑکوں سے بڑھ کر دے اور یہ اپنی شان اور کام میں بیٹوں سے بھی بڑھ جائے.جب حضرت مریم النساء بیگم صاحبہ (ام طاہر ) کی شادی سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ہوئی تو میں نے مبارکباد دی.اور عرض کی کہ دیکھ لیجئے یہ لڑکی لڑکوں سے بڑھ گئی ہے.اور اس کی شان بہت بلند ہوگئی ہے.حضرت شاہ صاحب نے خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی اطلاع کا مطلب تم خوب سمجھے ہو.روزنامه الفضل ربوه ۳ استمبر ۱۹۵۷ء صفحه ۳) آج فلاں مریض کو تکلیف ہے جا کر دباؤ محترم میاں عطاء اللہ صاحب ایڈوکیٹ مرحوم سابق امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی لکھتے عزیز اللہ اور محمود اللہ شاہ صاحبان اللہ ان سے راضی ہو ) کے ساتھ پڑھنے کائی آئی ہائی سکول میں مجھے بھی شرف حاصل ہوا.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نے مجھے سنایا کہ جب حضرت شاہ صاحب گھر تشریف لاتے تو فرماتے کہ آج فلاں فلاں مریض کو تکلیف ہے ان کو جا کر دباؤ.اور ان مریضوں میں مسلمان ہی نہیں ہندو اور سکھ بھی شامل تھے اور ان لوگوں کی صفائی کا معیار مجھے بیان کرنے کی ضرورت نہیں لیکن یہ پاک صورت و پاک
نشاہ صاحب باب دوم..سیرت و اخلاق سعادت مند نوجوان حافظ قرآن ان مریضوں کی یہ خدمت کیا کرتے تھے.یہ خدمت نفس کو قابو میں رکھنے کے لئے کافی سے زیادہ ہے اور خودی اور خود پسندی کا کچھ بھی باقی نہیں رہ جاتا.(روز نامه الفضل ربوه ۱۰ جنوری ۱۹۶۹، صفحه ۳) خدمت خلق کے عجیب نظارے محترم میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ مرحوم سابق امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی حضرت شاہ صاحب کے خدمت خلق کی بابت تحریر کرتے ہیں:.ملازمت سے ریٹائر ہو کر حضرت شاہ صاحب نور ہسپتال میں مفت کام کرتے تھے اور ان کا رتبہ بلند قادیان دارلامان کے ہر کس و ناکس کو معلوم تھا لیکن ان کی نظر انتخاب اپنی رفاقت کے لئے حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) جو محلہ دارالفضل میں رہتے تھے پر پڑی.اور یہ نظارہ آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ حضرت شاہ صاحب حضرت حافظ صاحب کا بازو پکڑے انہیں بہشتی مقبرے لے جارہے ہوتے.آسمان کے فرشتے یہ نظارہ دیکھ کر کس قدر خوش ہوتے ہوں گے کہ حضرت شاہ صاحب کو اپنی دنیوی عزت و وجاہت کا ذرہ برابر بھی خیال نہیں.اور جہاں روحانی اتحاد میسر آیا وہیں رفاقت پیدا کر لی.(روز نامه الفضل ربود ۱۰ جنوری ۱۹۶۹ ، صفحه ۳) حسنات دارین کی وجاہتیں محترم میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ مرحوم سابق امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی تحریر کرتے ہیں:- حضرت شاہ صاحب ڈاکٹر تھے اور آپ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ رعیہ کے ہسپتال میں گزرا.آپ کی اولاد دینی اور دنیاوی وجاہت کی مالک تھی.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) ۵۱
رشاہ صاحب باب دوم..سیرت و اخلاق ڈاکٹر میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب و حافظ سید عزیز اللہ شاہ صاحب اور سید محمود اللہ شاہ صاحب اور سید عبدالرزاق صاحب آپ کے بیٹے تھے.ر آپ کی ایک صاحبزادی حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت اصلح الموعود ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کی زوجیت کا فخر بخشا اور پھر اُن کی وفات پر آپ کی ایک پوتی محترمہ سیدہ مہر آیا صاحبہ ( بنت سید عزیز اللہ شاہ صاحب مرحوم ) کو یہی سعادت نصیب ہوئی لیکن ان کی دنیوی وجاہت کے ساتھ ساتھ ان کو ایسی تربیت ملی تھی کہ میں جب بھی سوچتا ہوں حیران ہو جاتا ہوں کہ یہ لوگ کیا تھے“ (روز نامه الفضل ربود ۱۰ جنوری ۱۹۶۹ ، صفحه ۳) جن کا وجود سراسر برکت تھا حضرت مولانا شیر علی صاحب حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ کو اپنے تعزیہ نامے میں لکھتے ہیں:.بخدمت مکرم اخویم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته حضرت شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو) کی وفات کا سخت افسوس ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.وہ ایک نہایت ہی پاک نفس انسان تھے.جن کا وجود سراسر برکت تھا.ایسے وجود دنیا میں بہت کم نظر آتے ہیں.ان کی وفات نہ صرف آپ کے لئے اور آپ کے تمام خاندان کے لئے ایک نا قابل تلافی نقصان ہے بلکہ تمام جماعت کے لئے ایک عظیم الشان صدمہ ہے.وہ ہر ایک کے محسن اور سب کے خیر خواہ تھے.ان کی برکت سے اور ان کی دعاؤں سے ایک دنیا فیض حاصل کر رہی تھی.ایک نہایت مبارک وجود ہم سے جدا ہو گیا.وہ خدا کی رحمت کا سایہ تھے.خدا تعالیٰ کی رحمتیں ان پر اور ان کے خاندان اور ان کے دوستوں اور محبوں پر ہمیشہ جاری رہیں.آپ نہایت ہی خوش قسمت تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ۵۲
رشاہ صاحب باب دوم...سیرت و اخلاق ایسے والدین عطا فرمائے جن کی مثال دنیا میں کم نظر آتی ہے.ہزاروں انسان ان کی خاص دعاؤں سے فیض یاب ہورہے تھے.اور سینکڑوں کے لئے خیر و برکت کا سر چشمہ تھے.ہائے افسوس ایسا مبارک وجود ہم سے جدا ہو گیا.ایسا دعا کرنے والا باپ.ایسا محسن اور ایسا با برکت وجود کہاں ملے گا.اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں بلند مقام اور حضرت مسیح موعود کے قرب میں جگہ عطا فرما دے.یہ بھی ان کی کرامت ہے کہ اللہ تعالیٰ ( کی خاطر ) ان کا کام دنیا پر احسان کرنا ہے اور اس کا بدلہ خدا تعالیٰ ان کو دیتا ہے.دنیا کے لوگ ان کو کوئی بدلہ نہیں دے سکتے.اس بات کا بہت افسوس ہے کہ میری غیر حاضری میں وہ اس عالم سے رخصت ہو گئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.خدا تعالیٰ کا سایہ آپ پر اور ہم سب پر ہو.آمین خاکسار.شیر علی عفی عنہ الفضل قادیان ۲۰ جولائی ۱۹۳۷ء صفحه ۸،۹) احمد یہ لائبریری کو عطیہ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) کا علمی ذوق بہت بلند تھا.اور اکثر کتب آپ کے زیر مطالعہ رہتی تھیں.آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ۱۹۲۷ء میں آپ نے احمدیہ مرکزی لائبریری قادیان کو ۴۸ کتب بطور عطیہ عنایت فرمائیں.رپورٹ مجلس مشاورت قادیان ۱۹۲۷ء صفحه ۹۲) فیس کیا لینی تھی بچہ کو ہد یہ عطافرمایا محترم میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ سابق امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی بیان کرتے ہیں:- ۱۹۲۷ء میں میرے ہاں پہلا لڑ کا عزیزم ڈاکٹر محمد طاہر پیدا ہوئے اور ابھی سات دن کے تھے کہ بیمار ہو گئے ان دنوں حضرت شاہ صاحب محلہ ۵۳
مارشاہ صاحب باب دوم...سیرت و اخلاق دار الرحمت ( قادیان ) میں قیام فرما تھے میں حاضر خدمت ہوا اور مدعا بیان کیا آپ میرے ساتھ چل پڑے اور نفیس تو کیا لینی تھی اس بچہ کو ہدیہ بھی عطا فرمایا.جزاہ اللہ احسن الجزاء.روزنامه الفضل ربود ۱۰ جنوری ۱۹۶۹ ، صفحه ۳) والدین کے ساتھ حسن سلوک کی ایک خوبصورت مثال حضرت سید میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی ابن حضرت میر حسام الدین صاحب شاہ سیالکوٹی یکے از احباب تین صد تیرہ کا شمار صوفی منش اور بزرگ احباب جماعت میں ہوتا ہے.آپ نے اپنی نظم ونثر سے اور اپنے عملی نمونہ سے خدمات سلسلہ احمدیہ کی توفیق پائی.آپ کا وصال ۱۹۱۸ ء میں ہوا *.حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب آپ کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.یاد رکھو کہ صالح ومتقی اولاد اپنے والدین کے لئے ایک عجیب نعمت الہی اور تفضلات و انوار و برکات کا چشمہ ہے.اس کا نمونہ حضرت سید حامد شاہ صاحب مرحوم میں دیکھو کہ اپنی ۵۵ سالہ عمر میں باوجود کثیر الاولاد ہونے کے اپنی تنخواہ اور آمدنی اور کمائی کو حتی کہ ایک پیسہ تک بھی خود خرچ نہیں کرتے تھے.اور اپنے بوڑھے والد کے حوالہ کر دیتے.وہ جس طرح چاہتے ان کی بیوی یا بال بچوں میں تقسیم کرتے.اور اس میں کسی قسم کا انقباض صدر اور تنگی دل محسوس نہ کرتے.بلکہ یہ کام ماتحت حکم الہی اپنے شرح صدر سے اپنی بیوی اور بال بچوں کی خوشنودی سمجھتے تھے.اس کے باوجود اپنے باپ سے کسی ادنی نافرمانی پر بھی لوگوں کے سامنے مار کھانے اور بے عزت ہونے کے لئے تیار ہو جایا کرتے.اور اپنے والدین کے جوش طبع اور غصہ اور اشتعال کو بخوشی دل قبول کر کے اُن کو خوش رکھتے تھے.* حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی کے احوال و خدمات کی بابت ملاحظہ ہو ماہنامہ انصار اللہ مئی ۲۰۰۱ء (مرتب) ۵۴
ارشاہ صاحب باب دوم....سیرت و اخلاق سبحان اللہ! اولا د ہو تو ایسی ہو لیکن بعض ایسی بھی اولاد ہوتی ہے کہ والدین جو اور چٹنی وغیرہ سے پیٹ بھریں.اور اولاد گوشت و پلاؤ سے شکم سیر ہو.اللہ تعالیٰ ایسوں کو ہدایت دیوے.اور ان کے قصوروں کو معاف کرے.ایسی اولاد اپنی بیوی اور بال بچہ کی رضاء کو ہمیشہ مقدم رکھنے سے کبھی بارآور و کامیاب نہیں ہوسکتی.کم از کم اتنا چاہیے کہ اپنے والد کو اپنی ماہوار آمد سے اطلاع دینی چاہیے کہ حضرت میری اتنی آمدنی ہے اور یہ اس قدر خرچ ہے.اگر حکم ہو تو یہ رقم قدر آمدنی سے خرچ کر ڈالوں.تو بھی والدین کی خوشی کا موجب ٹھہرتا ہے“.( وصیت حضرت شاہ صاحب صفحہ ۳۹۳۸) غیر از جماعت احباب آپ کو پیر مانتے تھے محترم میاں محمد ابراہیم صاحب جمونی مرحوم و مغفور آف ربوہ بیان کرتے ہیں:.غیر احمدیوں میں ایک طبقہ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) کا عقیدت مند تھا اور آپ کو پیر مانتا تھا آپ کے احمدیت قبول کرنے کے بعد بھی ان لوگوں کی عقیدت مندی میں مطلقاً فرق نہ آیا.بلکہ پھر بھی آپ حسب سابق ان میں مقبول تھے اور بزرگ شمار ہوتے تھے.اور وہ لوگ آپ کی خدمت کرنا باعث سعادت سمجھتے تھے اور خاص و عام آپ کے زہد وانقاء سے متاثر تھے.میرے آباؤ اجداد کو اس لیے نفس بزرگ کی مریدی کا شرف حاصل ہوا.ان کی اکثریت غیر احمدی تھی اور ہے.ان کی انتہائی خواہش ہوتی تھی کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے ہاں ٹھہرانے کا شرف حاصل کریں.میری عمر کوئی آٹھ نو سال کی ہوگی کہ ڈاکٹر صاحب سیالکوٹ شہر کے محلہ شبہ میں ہمارے بزرگوں کے ہاں تشریف لائے.مجھے بچپن سے ہی بزرگوں کی باتیں توجہ سے سننے کا شوق تھا.بتایا گیا کہ ”رعیہ والے شاہ صاحب آئے ہیں.ملازمت کا بیشتر حصہ اس مقام پر گزارنے کیوجہ سے آپ اس نام سے یاد کئے جاتے ہیں.یہ بھی
رشاہ صاحب باب دوم....سیرت و اخلاق بتایا گیا کہ آپ کے ساتھ ایسے بچے ہیں جو قرآن مجید حفظ کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں.غالباً مراد آپ کے فرزندان سید حبیب اللہ شاہ صاحب اور سید محموداللہ شاہ صاحب ہوگی.سو حضرت شاہ صاحب، احمدیت کے فدائی کا شمار اپنے سابق عقیدت مندوں کی نظر میں حقیقی مطاع و مخدوم کے طور پر تھا.ایسا شرف بالعموم کسی ” پیز کو حاصل نہیں ہوتا کہ اس سے عقائد میں مریدوں کو اختلاف بھی ہو.پھر بھی اپنی بزرگی اور بے نفسی کی وجہ سے وہ ان کی نظر میں صاحب عزت و شرف بھی ہو“.(تابعین احمد جلدسوم، با رسم صفحه ۱) منکسر المزاج اور نورانی وجود محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے آف قادیان تحریر کرتے ہیں:.خاکسار خوش قسمت ہے کہ آپ کو دیکھنے کا موقع پایا.آپ گداز جسم اور وجہیہ تھے.سفید لباس اور سفید پگڑی زیب تن ہوتی.شکل نورانی اور پر وقار.منکسر المزاج.آپ کا حلقہ احباب غرباء میں سے نیک طبقہ تھا.آپ جمعہ کے لئے (بیت) اقصیٰ کے قدیم اندرونی حصہ میں بیٹھتے تھے.( تابعین احمد جلد سوم با رسوم صفحه ۱۳ ) اخبار بدر قادیان اور تشحیذ الا ذہان اخبار بدر قادیان کا اجراء ۱۹۰۲ء میں ہوا.بیعت کے بعد آپ نے باقاعدہ طور پر جماعتی اخبارات خصوصاً اخبار بدر اور الحکم اپنے نام جاری کروائے.آپ کا اخبار بدر کا خریداری نمبر ۳۹ تھا.چنانچہ ۱۹۰۲ ء سے لے کر ۱۹۲۰ء تک بدراخبار میں آپ کا نام چندہ دہندگان کی فہرست میں باقاعدہ طور پر شائع ہوتا رہا.مثلاً اخبار بدر۳۰ نومبر۱۹۱۱ء ، ۲۵ جنوری و ۵ ستمبر ۱۹۱۲ء اور ۱۲۴ کتوبر ۱۹۱۳ء میں آپ کا نام شامل اشاعت ہے.(تفصیل کے لئے اخبار قادیان ۱۹۰۲ء تا ۱۹۲۱ء) اس طرح جب مارچ ۱۹۰۶ء میں تشحمید الا ذہان کا آغاز ہوا تو یہ رسالہ بھی آپ نے رعیہ میں اپنے نام جاری کروایا.آپ کا خریداری نمبر ۲۲۰ تھا.اپریل ۱۹۰۸ ء کے رسالہ میں آپ کا نام چندہ دہندگان کی فہرست میں شامل ہے.(تفصیل کے لئے تشحی الاذہان مارچ ۱۹۰۶ ء تا ۱۹۲۰ء) ۵۶
ناه صاحب باب دوم....سیرت و اخلاق تاثرات مکرم و محترم سید داؤ د مظفر شاہ صاحب آپ تحریر کرتے ہیں.غالباً آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا جب ۱۹۳۷ ء میں حضرت دادا جان (جن کو ہم سب شاہ جی کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے ) کا انتقال ہوا.قادیان میں رہائش سے قبل کے حالات کا علم نہیں ہے.جن بزرگوں کو علم تھا وہ تو فوت ہو گئے.حضرت شاہ جی کی آخری عمر کے حصہ میں (میں ) نے اکثر ان کو نمازیں باجماعت پڑھائی تھیں.خصوصاً جمعہ کی نماز یں.وہ نماز با جماعت کے بڑے پابند تھے جب تک صحتمند رہے ( بیت ) میں جا کر نمازیں پنجوقتہ ادا کیا کرتے تھے.جب چلنے پھرنے سے معذور ہوئے تو سب نمازیں گھر میں ہی باجماعت ادا کیا کرتے تھے.اس کے لئے ایک ( بیت ) نما تھڑا گھر کے اندر محلہ دارالا نوار قادیان میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے گھر میں ) اور ایک (بیت) نما چبوترا باہر باغ کے اندر بنوایا تھا.وہاں مغرب کی نماز باجماعت ادا کیا کرتے تھے.اس نماز میں باہر کے چند دوست آکر شریک ہوا کرتے تھے.مغرب کی نماز کے بعد روزانہ عموماً حضرت شاہ جی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظمیں سنا کرتے تھے“.۳.ایک دفعہ جمعہ کی نماز میں نے نہیں پڑھائی.( میں ) بیت اقصیٰ میں پڑھنے چلا گیا.واپس آیا تو حضرت شاہ جی ناراض ہوئے.کہنے لگے تم نے مجھے نماز نہیں پڑھائی.تمہارا ابا آئے گا ( وہ مشرقی افریقہ کینیا میں مقیم تھے ) تو میں تمہاری شکایت کروں گا.افسوس اس کے بعد جلد ہی حضرت شاہ جی وفات پا گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.خاکسار سید داؤ د مظفرشاه دار الصدر شرقی ربوه ۸/جون ۱۹۸۸ء ۵۷
ارشاہ صاحب باب دوم....سیرت و اخلاق تاثرات محترمہ صاحبزادی امتہ الحکیم صاحبہ (مرحومہ) آپ تحریر کرتی ہیں."شاہ جی (سید عبدالستار شاہ صاحب) کو گھر میں سب بچے، پوتے، پوتیاں، نواسے نواسیاں شاہ جی کہہ کر پکارا کرتے تھے.شاہ جی کی وفات پر میں سوا گیارہ سال کی تھی.دو باتیں خاص طور پر یا درہ گئی ہیں.ایک تو یہ کہ امی ( حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ ) جب شاہ جی سے ملنے جایا کرتی تھیں وہ کہا کرتے تھے.مریم دعا کرو میرا خاتمہ بالخیر ہو.امی کہا کرتی تھیں.میں جب بھی آپ کے پاس آتی ہوں آپ یہی کہتے ہیں.میرا خاتمہ بالخیر ہو.آپ دعا گو بزرگ آدمی ہیں.آپ کا خاتمہ بالخیر کیوں نہیں ہوگا.شاہ جی کہا کرتے تھے تمہیں نہیں پتہ.بس دعا کیا کرو میرا خاتمہ بالخیر ہو.شاہ جی کو غسل خانے میں گر جانے کی وجہ سے سخت چوٹیں آئی تھیں.ان دنوں اتفاق سے ہمارے ماموں ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ صاحب بھی قادیان آئے ہوئے تھے.وہ بھی اور باقی دوسرے بھائی بہن بہت زور دیتے تھے کہ شاہ جی دوائی پی لیں.لیکن وہ انکار کر دیتے تھے کہ میرا وقت پورا ہو چکا ہے.اب دوائی سے کوئی فائدہ نہ ہوگا.امی نے کہا شاہ جی! حضرت صاحب ( حضرت مصلح موعود اللہ آپ سے راضی ہو ) نے کہا ہے دوائی پی لیں.تو انہوں نے کہا کہ اگر حضرت صاحب نے کہا ہے تو پی لیتا ہوں.لیکن میرا وقت پورا ہو چکا ہے.( تحریر کرده ۱۰ جون ۱۹۸۸ء) رعیہ خاص.تاثرات احباب حضرت سیدڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب کی عملی زندگی کا ایک بڑا حصہ تحصیل رعیہ خاص ضلع سیالکوٹ ( آج کل رعیہ ایک پرانا گاؤں ہے جس کی تحصیل وضلع نارووال ہے ) میں گذرا.اور حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کی روایات کے مطابق کم از کم ستائیس سال ۵۸
مارشاہ صاحب باب دوم....سیرت و اخلاق آپ رعیہ میں بطور اسسٹنٹ سرجن متعین رہے.۱۹۲۰ء تک آپ وہاں خدمات بجالاتے رہے.اس زمانہ میں لوگ دور دراز علاقوں سے علاج کے لئے رعیہ آتے تھے.رعیہ خاص کے بعض مضافات مثلا متکے ،ہفتوں کے بھنگالہ، ہلو والی، کافی جعفر آباد، کلاس والی، بدوملہی ، جیون گورائیہ، باٹھا نوالہ، پیچو والی کوٹلی نتھو ملی ، جے سنگھ والا ، بیلو والی اور بعض اور ملحقہ قصبات اور دیہات کے لوگ رعیہ خاص بغرض علاج جاتے تھے.خاکسار مرتب کتاب ہذا کو ان میں سے بعض مواضع اور قصبات کا سفر کرنے کا اتفاق ہوا اور جس گاؤں میں بھی گئے وہاں کے ستر سال سے زائد عمر کے بزرگان نے حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب کا ذکر خیر کیا.آپ کی حیات طیبہ کے بعض حالات و واقعات جو انہوں نے خود مشاہدہ کئے تھے یا اپنے والدین سے سنے تھے.راقم الحروف کو بتلائے.خاکسار مورخہ ۱۶ تا ۱۸ جولائی ۲۰۰۲ ء کور بوہ سے بدوملہی ، رعیہ خاص ،فتو کے اور متکے کے قصبات کے لئے بغرض سفر روانہ ہوا.ان علاقوں میں آپ کا روحانی وجسمانی فیضان جاری تھا اور خاندان سادات کی بدولت ہندو، سکھ اور مسلمان آپ کو پیر مانتے تھے.رعیہ ،فتو کے اور متکے کے گاؤں کے دوستوں نے بتایا کہ آپ بلا مذہب وملت ہر ایک کو فیض روحانی و جسمانی پہنچاتے تھے.یہی وجہ ہے کہ آج اگر چہ وہ لوگ جنہوں نے آپ کو دیکھا ہے شاذ ہی رہ گئے ہیں تاہم ان کی نسلیں اُس زمانہ کی بہت سی یاد میں اپنے سینوں میں محفوظ کئے ہوئے ہیں.ان دیہات کی بعض بزرگ شخصیات کے تاثرات یہاں پیش کئے جارہے ہیں.مکرم با با ملک چراغ دین صاحب ولد ملک گوہر صاحب عمر ۱۰۰ سال.موضع رعیہ خاص تحصیل و ضلع نارووال ) خاکسار نے ۱۸ جولائی ۲۰۰۲ ء کو اُن سے تاثرات حاصل کئے.راقم کے استفسار پر جو باتیں آپ نے پنجابی زبان میں بیان کیں وہ ذیل میں بیان کی جارہی ہیں :- نہایت بااخلاق اور اچھے انسان تھے.کبھی کسی کو ناراض نہیں ہونے دیتے تھے.جب کوئی مریض کبھی بخار کے علاج کے لئے ان کے پاس جاتا تو ۵۹
مارشاہ صاحب باب دوم....سیرت و اخلاق اسے علاج کے طور پر گلو اجوائن بتاتے اور تسلی تشفی سے ہی مریض کو آدھا صحت یاب کر دیتے.آپ کا برتاؤ ہر ایک سے بہت اچھا تھا خواہ کوئی ہندو سکھ اور عیسائی بھی آتا تو اس کے ساتھ غیر معمولی شفقت کا سلوک فرماتے.محترم ملک چراغ دین صاحب نے پنجابی میں بار بار یہ فقرہ دھرایا که اونہاں نوں ملک جانند اسی اُونہاں دی ساری دنیا عزت کردی سی یعنی انہیں دنیا جانتی تھی اور تمام لوگ اُن کی عزت کرتے تھے.حضرت شاہ صاحب لوگوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھتے تھے اور جو بھی ان کے پاس جاتا اس کی مدد کرتے“.ملک چراغ دین صاحب نے بتایا کہ آپ کے گھر اور ہسپتال کے قریب ایک بہت بڑا پیپل کا درخت ہے جس کے نیچے آپ کرسی میز لگا کر لوگوں کو دوائی دیتے تھے.پیپل کے نیچے صنفیں بچھا کر نمازیں بھی ادا کرتے تھے.آپ غریب غربا سے فیس نہیں لیتے تھے.اور مفت علاج کرتے تھے اور لوگوں کی امداد بھی کرتے تھے.۱۹۲۰ ء میں آپ کے ہجرت کر جانے کے بعد لوگ آپ کو بڑا یاد کیا کرتے تھے.مکرم چوہدری غلام محمد صاحب ولد فقو صاحب موضع متکے تحصیل و ضلع نارووال عمر قریباً۰ ۸ سال) انہوں نے بتایا کہ اس علاقے کے بزرگان اور پرانے لوگ جواب سارے وفات ہیں.حضرت شاہ صاحب کا بڑا ذ کر کیا کرتے تھے.اور ان کے کارناموں کا ذکر اکثر گھروں اور بیٹھکوں میں ہوتا تھا.جس کا ذکر گذشتہ صفحات میں گذر چکا ہے.عمومی طور پر انہوں نے آپ کے اعلیٰ اخلاق کا ذکر کیا اور نیکی اور بزرگی کی بابت اپنے والد صاحب کے تاثرات بتلائے.مکرم چوہدری محمد اسماعیل صاحب موضع متکے نز در عیہ خاص تحصیل و ضلع نارووال عمر قریباً ۰ ۸ سال) مکرم چوہدری محمد اسماعیل صاحب نے بھی اس علاقہ کے پرانے بزرگوں کی روایات کا تذکرہ کیا کہ ہم بچپن سے ہی حضرت شاہ صاحب کے اخلاق و واقعات کے ۶۰
مارشاہ صاحب باب دوم..سیرت و اخلاق بارہ میں گاؤں کے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں اور ہمارے گھروں میں بھی اُن کا ذکر ہوتا تھا.آپ نے بتایا کہ ا.آپ بڑے با اخلاق انسان تھے ۲.آپ نے یہاں بڑا اچھا دور گزارا،.ساری دنیا سے تعاون کرتے تھے ہم.سب ان کی صفات بیان کرتے تھے، ۵.آپ اپنی ڈیوٹی پورے طور پر ادا کرتے تھے.مکرم چوہدری حنیف احمد صاحب سکواڈرن لیڈر موضع فتو کے تحصیل و ضلع نارووال ) حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) رعیہ میں جہاں مریضوں کا ظاہری علاج کرتے تھے.وہاں آپ کی بدولت کئی سعید روحوں کو سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی.۱۹۰۲ء میں رعیہ خاص میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا.ایک منشی مولوی رحیم بخش صاحب عرائض نولیس نے آپ کو ایک لوٹا مارا جس سے آپ زخمی ہو گئے.تاریخ سلسلہ میں یہ واقعہ لوٹے والا واقعہ کے نام سے مشہور ہے.چند ماہ قبل خاکسار جب موضع فتو کے حالات دریافت کرنے گیا تو خاکسار کی ملاقات مکرم چوہدری حنیف احمد صاحب سے ہوئی جو احمدی ہیں.وہاں کے صدر جماعت بھی ہیں.آپ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ آپ اس بزرگ کے پوتے ہیں.جنہوں نے مخالفت کے جوش میں آکر حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو) کی پیشانی پر لوٹادے مارا تھا.چنانچہ چوہدری حنیف احمد صاحب آف فتو کے نے بتایا کہ دادا جان حضرت چوہدری منشی رحیم بخش صاحب ولد چوہدری عبداللہ صاحب رعیہ کی تحصیل کچہری میں عرائض نویس اور قانون دان تھے اور عمر میں حضرت ڈاکٹر سید عبدالستارشاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) سے بڑے تھے.اس علاقہ میں لوگ آپ سے فتاویٰ حاصل کرتے تھے.آپ دین کا شغف رکھنے والے انسان تھے.خاکسار کے دادا جان حضرت شاہ صاحب کے زیر ( دعوۃ ) تھے.شفاخانہ رعیہ اور کچہری رعیہ کا درمیانی فاصلہ قریباً دو فرلانگ بنتا ہے.حضرت شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ད
مارشاہ صاحب باب دوم..سیرت و اخلاق ہو ) شفا خانہ میں مریضوں کے علاج معالجہ سے فارغ ہو کر دعوۃ الی اللہ کے لئے کچہری میں تشریف لے جاتے اور دعوت الی اللہ کا سلسلہ جاری رہتا.کچہری میں مولوی رحیم بخش صاحب عرائض نو لیس تھے.جن سے آپ کا تبادلہ خیالات ہوتا رہتا تھا.ایک روز دوپہر کا وقت تھا.حضرت شاہ صاحب مولوی صاحب سے تبادلہ خیالات کر رہے تھے کہ نبوت کے مسئلہ پر مولوی صاحب جوش میں آگئے اور اس مسئلہ پر آپ نے ایک لوٹا اُٹھا کر حضرت شاہ صاحب کے ماتھے پر دے مارا جس سے لوٹا خون بہنا شروع ہو گیا.حضرت شاہ صاحب کچہری سے فوری طور پر ہسپتال تشریف لے گئے.مرہم پٹی کر کے اور لباس تبدیل کر کے دوبارہ کچہری میں تشریف لے آئے.اس دوران مولوی صاحب کی حالت بدل گئی اور کچہری میں جتنے لوگ موجود تھے سب نے کہا ڈاکٹر صاحب سرکاری آدمی ہیں.آپ نے یہ کیا کر دیا آپ کو سزا بھی ہو سکتی ہے.مولوی صاحب اسی طھبراہٹ میں تھے کہ شاہ صاحب نے آکر مولوی صاحب سے مخاطب ہوکر فرمایا مولوی صاحب کیا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہے؟ کچہری میں سب دوست شاہ صاحب کے اس رویہ سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوئے.اگر شاہ صاحب چاہتے تو ان پر مقدمہ بھی کروا سکتے تھے تاہم آپ نے کمال وسعت حوصلہ کا مظاہرہ فرما کر درگزر کر دیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولوی صاحب پر رقت طاری ہو گئی اور بے اختیار ہو کر کہنے لگے کہ شاہ صاحب میری بیعت کا خط لکھ دیں.اور اپنی غلطی پر معذرت کارویہ اختیار کیا.اس کے بعد ان بزرگان کا قادیان جانے کا پروگرام بنا اور زیارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے قادیان روانہ ہو گئے.اس واقعہ کی بابت مکرم سید احمد علی شاہ صاحب مربی سلسلہ تحریر کرتے ہیں :- مورخہ ۴ امئی ۱۹۶۷ء کو مجھے سلسلہ کے ایک کام کے لئے دھرگ میانہ نزد رعیہ ضلع سیالکوٹ میں جانے پر مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب امیر جماعت احمد یہ حلقہ دھرگ نے ایک واقعہ سنایا جو سبق آموز اور از دیادِ ایمان کا موجب ہے.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) کے والد ماجد حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب جو کہ حضرت مسیح ۶۲
رشاہ صاحب باب دوم...سیرت و اخلاق موعود علیہ السلام کے (رفیق) تھے.رعیہ کے ہسپتال میں لمبا عرصہ ملازم رہے ہیں.انہی ایام کا واقعہ ہے کہ ایک روز حضرت شاہ صاحب نماز کی ادائیگی کے لئے نزدیکی ( بیت) میں تشریف لے گئے اس وقت ایک سخت مخالفت احمدیت چوہدری رحیم بخش صاحب وضو کے لئے مٹی کا لوٹا ہاتھ میں لئے وہاں موجود تھے.حضرت ڈاکٹر صاحب کو دیکھتے ہی مذہبی بات چیت شروع کر دی.حضرت ڈاکٹر صاحب کی کسی بات پر چوہدری رحیم بخش صاحب نے شدید غصہ میں آ کر مٹی کا لوٹا زور سے آپ کے ماتھے پردے مارا.لوٹا ماتھے پر لگتے ہی ٹوٹ گیا.ماتھے کی ہڈی تک ماؤف ہوگئی اور خون زور سے بہنے لگا.ڈاکٹر صاحب کے کپڑے خون سے لت پت ہو گئے.آپ نے زخم والی جگہ کو ہاتھ سے تھام لیا اور فوراً مرہم پٹی کے لئے ہسپتال چل دیئے.ان کے واپس چلے جانے پر چوہدری رحیم بخش صاحب گھبرائے کے اب کیا ہوگا؟ یہ سرکاری ڈاکٹر ہیں.افسر بھی ان کی سنیں گے اور میرے بچنے کی اب کوئی صورت نہیں.میں کہاں جاؤں! اور کیا کروں! وہ ان خیالات میں ڈرتے ہوئے اور سہمے ہوئے ( بیت ) میں ہی دبکے پڑے رہے.اُدھر ڈاکٹر صاحب نے ہسپتال میں جا کر زخمی سر کی مرہم پٹی کی.دوائی لگائی اور پھر خون آلود کپڑے بدل کر دوبارہ نماز کے لئے اسی (بیت) میں آگئے.جب ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب دوباره (بیت) میں داخل ہوئے اور چوہدری رحیم بخش صاحب کو وہاں دیکھا تو دیکھتے ہی آپ مسکرائے اور مسکراتے ہوئے پوچھا کہ:- چوہدری رحیم بخش ! ابھی آپ کا غصہ ٹھنڈا ہوا ہے یا نہیں؟“ یہ فقرہ سنتے ہی چودھری رحیم بخش کی حالت غیر ہوگئی.فوراً ہاتھ جوڑتے ہوئے معافی کے میجی ہوئے اور کہنے لگے کہ شاہ صاحب! میری بیعت کا خط لکھ دیں.یہ اعلیٰ صبر کا نمونہ اور نرمی اور عفو کا سلوک سوائے الہی جماعت کے افراد کے کسی سے سرزد نہیں ہوسکتا.چنانچہ چوہدری صاحب احمدی ہو گئے کچھ عرصہ بعد ان کے باقی افراد خانہ بھی جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے.چوہدری صاحب اور حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب تو ۶۳
ارشاہ صاحب باب دوم..سیرت و اخلاق اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں مگر خدا کے فضل سے دونوں کے خاندان احمدیت کی آغوش میں پرورش پارہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے بزرگوں کے نیک نمونہ پر چلنے کی توفیق ے.اور دونوں کے درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۳ جون ۱۹۶۷ء صفهیم) رعیہ میں حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب نے منشی رحیم بخش صاحب عرائض نویس کو بغرض مطالعہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب تحفہ گولڑویہ عنایت کی.جسے پڑھ کر وہ وفات مسیح کے قائل ہو گئے.دونوں بزرگان کی قادیان روانگی ان بزرگان کی قادیان دارالامان آمد کے بارے میں اخبارالحکم قادیان تحریر کرتا ” بعد ادائے نماز مغرب جب ہمارے سید ومولی شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے تھے تو ڈاکٹر سید عبدالستار صاحب رعیہ نے عرض کی کہ ایک شخص منشی رحیم بخش عرضی نویس بڑا سخت مخالف تھا مگر اب تحفہ گولڑویہ پڑھ کر اس نے مسیح کی موت کا تو اعتراف کر لیا ہے اور یہ بھی مجھ سے کہا کہ مسیح کا جنازہ پڑھیں.میں نے تو یہی کہا کہ بعد استصواب واستمزاج حضرت اقدس جواب دوں گا.فرمایا: جنازہ میت کے لئے دعا ہی ہے کچھ حرج نہیں.وہ پڑھ لیں یہی اعتراض میری سچائی کا گواہ ہے.(حضرت ) ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے منشی رحیم بخش عرضی نویس کا خط پیش کیا جس میں دو سوال لکھے تھے پہلا سوال یہ تھا کہ براہین (احمدیہ ) میں مسیح کی آمد ثانی کا اقرار تھا کہ وہی مسیح آئے گا پھر اس کے خلاف دعوی کیا گیا یہ تزلزل بیانی قابل اعتبار نہیں ہوگی فر مایا:- ہمیں اس سے انکار نہیں کہ ہم نے ایسا لکھا ہے اور ہمیں یہ بھی دعوی نہیں ہے کہ ہم عالم الغیب ہیں ایسا دعویٰ کرنا ہمارے نزدیک کفر ہے اصل بات ۶۴
مارشاہ صاحب باب دوم..سیرت و اخلاق یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نہ آوے ہم کسی امر کو جو مسلمانوں میں مروج ہو چھوڑ نہیں سکتے.براہین احمدیہ کے وقت اس مسئلہ کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی.پھر جب کہ ایک چرخہ کاتنے والی بڑھیا بھی یہی عقیدہ رکھتی تھی اور جانتی تھی کہ مسیح دوبارہ آئے گا تو ہم اس کو کیسے چھوڑ سکتے تھے جب تک کہ خدا کی طرف سے صریح حکم نہ آجاتا اس لئے ہمارا بھی یہی خیال تھا.مخالفوں کی بے ایمانی ہے کہ ایک خیال کو وحی یا الہام بنا کر پیش کرتے ہیں.براہین احمدیہ ) میں یہ بات عامیانہ اعتقاد کے رنگ میں ہے نہ یہ کہ اس کی نسبت وحی کا دعوی کیا گیا ہو مگر جب خدا تعالیٰ نے ہم پر بذریعہ وحی اس راز کو کھول دیا اور ہم کو سمجھایا اور یہ وحی تو اتر تک پہنچ گئی تو ہم نے اس کو شائع کر دیا.انبیاء علیہم السلام کی بھی یہی حالت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ کسی امر پر اطلاع دیتا ہے تو وہ اس سے ہٹ جاتے ہیں یا اختیار کرتے ہیں.دیکھو ا فک عائشہ رضی اللہ عنہا میں رسول اللہ ﷺ کو اول کوئی اطلاع نہ ہوئی یہاں تک نوبت پہنچی کہ حضرت عائشہ اپنے والد کے گھر چلی گئیں اور آنحضرت ﷺ نے یہ بھی کہا کہ اگر ارتکاب کیا ہے تو تو بہ کر لے ان واقعات کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کوکس قد راضطراب تھا مگر یہ راز ایک وقت تک آپ پر نہ کھلا لیکن جب خدا تعالیٰ نے اپنی وحی سے تبریہ کیا اور فرمایا الخَبيثَتُ لِلْخَبِيثِينَ....وَالطَّيِّبَتُ لِلطَّيِّبِينَ (سورۃ النور: ۲۷ ) تو آپ کو اس افک کی حقیقت معلوم ہوئی اس سے کیا آنحضرت ﷺ کی شان میں کوئی فرق آتا ہے؟ ہرگز نہیں وہ شخص ظالم اور نا خدا ترس ہے جو اس قسم کا وہم بھی کرے اور یہ کفر تک پہنچتا ہے.آنحضرت ﷺ اور انبیاء علیہم السلام نے کبھی دعوی نہیں کیا کہ وہ عالم الغیب ہیں.عالم الغیب ہونا خدا کی شان ہے.یہ لوگ سنت انبیاء علیہم السلام سے اگر واقف اور آگاہ ہوں تو اس قسم کے اعتراض ہرگز نہ کریں افسوس ہے کہ ان کو گلستان بھی یاد نہیں جہاں حضرت یعقوب کی حکایت لکھی ہے.یہ سچی بات ہے اور ہمیں اس کا اعتراف ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے
رشاہ صاحب باب دوم..سیرت و اخلاق دکھائے بغیر نہیں دیکھتے اور اس کے سنائے بغیر نہیں سنتے اور اس کے سمجھائے بغیر نہیں سمجھتے.اس اعتراف میں ہمارا فخر ہے ہم نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ ہم عالم الغیب ہیں ہم نے انہیں خیالات کے مسلمانوں میں نشو نما پایا تھا ایسا ہی مہدی ومسیح کے متعلق ہمارا علم تھا مگر جب خدا تعالیٰ نے اصل راز ہم پر کھولا اور حقیقت بتا دی تو ہم نے اس کو چھوڑ دیا اور نہ خود چھوڑا بلکہ دوسروں کو بھی اس کی طرف اسی کے حکم سے دعوت دی اور اس کو چھڑایا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ جس امر کو نادان اعتراض کے رنگ میں پیش کرتا ہے اسی میں ہمارا فائدہ اور ہماری تائید ہوتی ہے دیکھو براہین ( احمد یہ ) میں ایک طرف مجھے مسیح موعود ٹھہرایا ہے اور وہ تمام وعدے جو آنے والے مسیح کے حق میں ہیں میرے ساتھ کئے اور دوسری طرف ہم اپنے اسی قلم سے مسیح کے دوبارہ آنے کا اقرار کرتے ہیں اب ایک دانشمند اور خدا ترس مسلمان اس معاملہ میں غور کرے اور دیکھے کہ اگر یہ دعوی ہمارا افتراء ہوتا اور ہم نے از خود بنایا ہوتا یا منصوبہ بازی ہوتی تو اس قسم کا اقرار ہم اس میں کیوں کرتے یہ سادگی صاف بتاتی ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے ہم کو علم دیا اسے ہم نے ظاہر کیا بظاہر یہ کاروائی متناقض ہے مگر ایک سعید فطرت انسان کے لئے ایک روشن تر دلیل ہے کیونکہ جب تک خدا تعالیٰ نے ہم پر نہیں کھولا باوجود یکہ ہمارے ساتھ وہی وعدے جو مسیح موعود کے ساتھ کئے جاتے اور اسی براہین احمدیہ ) میں میرا نام مسیح رکھا جاتا اور هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ ( سورۃ صف : ۱۰ ) الہام ہوتا ہے اگر اسی قلم سے میں لکھتا ہوں کہ مسیح موعود دوبارہ آئے گا ہم نے قیام فی ما اقام اللہ کو نہیں چھوڑ ا جب تک کہ آفتاب کی طرح کھل نہیں گیا یہی اعتراض ہماری سچائی کا گواہ ہے.نبی کریم ﷺ پر جب پہلے پہل وحی آئی تو آپ نے یہی فرمایا خَشِيتُ عَلى نَفْسِی (بخاری کتاب بدء الوحی حدیث نمبر ۳) بیوی کہتی ہے كَلَّا لَا وَاللَّهِ اور پھر بیوی نے کہا کہ آپ ضعفاء کے مددگار ہیں آپ کو خدا ضائع نہیں کرے گا پھر خدا تعالیٰ نے جب آپ پر امر نبوت کو واضح طور پر کھول دیا تو ۶۶
مارشاہ صاحب باب دوم..سیرت و اخلاق آپ نے تبلیغ اور اشاعت میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا.مومن اس مقام کو جہاں ہوتا ہے نہیں چھوڑتا جب تک خدا نہ چھڑائے“.مولوی عبد الکریم صاحب (سیالکوٹی) نے ضمنا عرض کیا کہ تعجب کی بات ایک قوم اور بھی تو ہے جس نے خدا کے اس راستباز اور صادق مسیح موعود کو تسلیم کیا ہے اور وہ اس پر ایمان لائی ہے.اس کے سامنے کیا یہ باتیں نہیں ہیں؟ ہیں مگر ان کو ان پر اعتراض نہیں معلوم ہوتا بلکہ ایمان بڑھتا اور اس کی سچائی پر ایک عرفانی رنگ کی دلیل پیدا ہوتی ہے.حضرت اقدس نے سن کر فرمایا بے شک یہ تو سچائی کی دلیل ہے نہ اعتراض.کیونکہ ماننا پڑے گا کہ تصنع سے یہ دعویٰ نہیں کیا گیا بلکہ خدا کے حکم اور وحی سے کیا گیا کیونکہ حضرت عیسی (علیہ السلام) کی آمد کے واقعات کو ہی تو اس میں بیان کیا بلکہ میرا نام عیسی رکھا اور لکھا کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الَّدِينِ كُلِّهِ ( سورة صف:۱۰) میرے حق میں ہے اور ادھر کوئی توجہ نہیں.پس اس سے صاف ثابت ہے کہ اگر میرا یہ کام ہوتا تو اس میں دوبارہ آنے کا اقرار نہ ہوتا.یہ اقرار ہی بتاتا ہے کہ یہ خدا کا کام ہے.اس پر مولوی عبد الکریم صاحب (سیالکوٹی) نے اس نکتہ سے خاص ذوق اٹھا کر عرض کیا کہ یہ بعینہ وہی بات ہے جو قرآن شریف کی حقانیت پر پیش کی جاتی ہے کہ اگر یہ آنحضرت ﷺ کا کلام ہوتا تو اس میں زینب کا قصہ نہ ہوتا.حضرت اقدس (علیہ السلام) نے پھر اس سلسلہ کلام میں فرمایا کہ ”اب کونسی نئی بات ہے جس کا ذکر براہین احمدیہ ) میں نہیں ہے براہین ( احمد یہ ) کو طبع ہوئے چھپیں برس کے قریب ہوگزرے ہیں اور اس وقت کے پیدا ہوئے بچے بھی اب بچوں کے باپ ہیں اس میں ساری باتیں درج ہیں بناوٹ کا مقابلہ اس طرح پر ہو سکتا ہے؟ کیا تمیں برس پہلے ایک شخص ایسا منصوبہ کر سکتا ہے؟ جب کہ اسے اتنا بھی یقین نہیں کہ وہ اس عرصہ تک زندہ رہے گا.پھر کیونکر میں اپنا نام اتنے سال پہلے از خود عیسی رکھ سکتا ہوں اور ان کا موں کو جو اس کے ساتھ منسوب تھے اپنے ساتھ منسوب کرتا.ہاں اس سے منصوبہ بے شک پایا جا تا اگر میں اس وقت لکھ دیتا کہ آنے والا میں ہی ہوں مگر اس وقت نہیں کہا با وجودیکه هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ ۶۷
نارشاہ صاحب باب دوم..سیرت و اخلاق رَسُولَهُ بِالْهُدَى (سورة صف:۱۰) کا اعتراف کیا ہے کہ میرے حق میں ہے یہ خدا کا کام تھا کہ مسیح کا دعویٰ تو اس میں بیان کیا گیا مگر اس کو چھپایا اور زبان سے یہ نکلوا دیا کہ وہ آئے گا میں حلفاً یہ کہتا ہوں کہ آج جو دعویٰ کیا گیا ہے براہین (احمدیہ ) میں یہ سارا موجود ہے لفظ بھی کم و بیش نہیں ہوا اگر اس میں الہامات نہ ہوتے تو اعتراض کی گنجائش ہوتی گو اس وقت بھی اعتراض فضول ہوتا کیونکہ وہ دعوی وحی سے نہیں تھا بلکہ اپنی ذاتی رائے تھی خدا تعالیٰ نے یہ اس لئے کیا تاظنون اور جعلسازی کے وہم دور ہوں“.چوہدری منشی رحیم بخش صاحب کا دوسرا سوال دوسرا سوال ان کا اس امر پر تھا کہ آپ نے مسیح موعود کولکھا ہے کہ وہ قریش میں.نہیں اور پھر بعض جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ وہ قریشی ہے اس کی مطابقت کیونکر ہو؟ فرمایا:- و مسیح موعود کو جس طرز پر ہم کہتے ہیں کہ وہ قریش میں سے نہیں وہ اس اعتبار سے نہیں جیسے قریش ہیں اہل فارس کو رسول اللہ ﷺ نے قریش میں سے ٹھہرایا ہے اور میرا الہام بھی ہے سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْت (مستدرک حاکم کتاب معرفۃ الصحابه باب ذکر سلمان فارسی ) اسی نام سے مجھے اہل بیت میں داخل کیا ہے.داخل کرنا اور بات ہے اور ہونا اور.یہ آنحضرت ﷺ کا اختیار ہے اہل فارس کو آنحضرت صلی اللہ نے اہل بیت اور قریش سے ٹھیرایا ہے اس لئے میں رسول اللہ علیہ کے اعلام سے قریش اور اہل بیت میں ہوں.اس پر حضرت حکیم الامتہ (حضرت مولانا نورالدین صاحب بھیروی اللہ آپ سے راضی ہو) نے يُسْلَبُ المُلْكُ مِنْ قُرَيْشٍ کا ذکر کر کے عرض کیا کہ حضور ہم قریشیوں سے ملک چھینا گیا مگر کسی نے ہماری قوم سے غور نہیں کی کہ کیوں ایسا ہوا؟ تکبر کا اتنا بڑا خطر ناک مرض ہماری قوم میں ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں.سید کی لڑکی کسی دوسرے کے گھر میں دینا کفر سمجھا گیا ہے اس پر میر صاحب (حضرت میر ناصر نواب دہلوی اللہ آپ سے راضی ہو) نے کہا ہم سے کوئی پوچھا کرتا ہے تو اس کو یہی جواب دیا کرتے ہیں کہ حضرت یام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی ایک بہن تھی کوئی ہمیں بتائے وہ کس سید کو دی گئی ΥΛ
ناہ صاحب بروز کی حقیقت پھر بروز کے متعلق سلسلہ کلام یوں شروع ہوا.فرمایا :- باب دوم.....سیرت و اخلاق نیکیوں اور بدوں کے بروز ہوتے ہیں.نیکوں کے بروز میں جو موعود ہے وہ ایک ہی ہے یعنی مسیح موعود.ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ ( سورة الفاتحة: ۷۶) سے نیکوں کا بروز اور ضالین عیسائیوں کا بروز اور مغضوب سے یہودیوں کا بروز مراد ہے اور یہ عالم بروزی صفت میں پیدا کیا گیا ہے جیسے پہلے نیک یا بد گزرے ہیں ان کے رنگ اور صفات کے لوگ اب بھی ہیں خدا تعالیٰ ان اخلاق اور صفات کو ضائع نہیں کرتا.ان کے رنگ میں اور آ جاتے ہیں جب یہ امر ہے تو ہمیں اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ ابرار اور اخیار اپنے اپنے وقت پر ہوتے رہیں گے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلا جاوے گا جب یہ سلسلہ ختم ہو جاوے گا تو دنیا کا بھی خاتمہ ہے لیکن وہ موعود جس کے سپر د عظیم الشان کام ہے وہ ایک ہی ہے کیونکہ جس کا وہ بروز ہے یعنی محمد ﷺ وہ بھی ایک ہی ہے.صل الله اخبار الحکم قادیان ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۱۰۸) جب حضرت منشی رحیم بخش صاحب داعی الی اللہ بن گئے ہمارے مہدی سید نا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی تاثیر قدسی نے اشد ترین مخالفین کو بھی فنا فی اللہ وجود بنا دیا اور وہ جو مخالفت میں پیش پیش ہوتے تھے.آپ کی بیعت کرنے کے بعد دعوت الی اللہ میں بھی پیش پیش نکلے.حضرت منشی رحیم بخش صاحب عرائض نولیس بیعت کے بعد ایک مستعد داعی الی اللہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے اور آپ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستارشاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) کے ہمراہ اکٹھے دعوت الی اللہ کے لئے روانہ ہوتے.آپ کی ان خدمات کی جھلک اخبار بدر کی ایک رپورٹ سے ظاہر ہوتی ہے.جس میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اور آپ کا ایک مکتوب گرامی بھی ہے.اس مکتوب میں حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے السلام علیکم کا ۶۹
شاہ صاحب باب دوم....سیرت و اخلاق پیغام بھجوایا ہے.چنانچہ حضرت مولوی رحیم بخش صاحب تحریر کرتے ہیں:.خاکسار معه سید عبدالستارشاه صاحب ڈاکٹر رعیہ بماہ مئی ۱۹۰۶ء بحضور والاشان مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام بغرض زیارت قادیان دارالامان پہنچا.بروقت رخصت حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارا تعلق بوجہ ہم اعتقادی و ہم طریق مولوی محمدحسین بٹالوی و مولوی عبدالجبار غزنوی وغیرہ سے رہا ہے.ان کو ہمارے دعویٰ میں شک ہے تو ان کو زبانی امورات ذیل سے آگاہ کر دو.شاید کوئی سعید فطرت سمجھ جائے.ا.پیشگوئیاں انبیاء سابق ۲.شہادت اللہ تعالیٰ بذریعہ مکالمہ و مخاطبہ بقولہ تعالى قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيداً بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ.(سورة بنی اسرائیل : ۹۷) یعنی امور غیبیہ کا اطلاع دینا قبل وقوعہ امر واقعہ اور پھر ان کا ظہور ہو جانا.۳.ترقی جماعت مبائعین و تبدیلی حالات بہ تحت احکام ہو کر مقتضی ہونا مخلوق اللہ کا ، یہ بھی سنت اللہ چلی آئی ہے جس پر نظر غور و نظر کمال جائے.امورات مذکور سے ہمارا دعویٰ ثابت ہوتا ہے.سو کمترین معہ ڈاکٹر صاحب موصوف صاحبان مذکور (مولوی محمد حسین بٹالوی ،مولوی عبدالجبار غزنوی) کی خدمت میں حاضر ہوکر سنانے گئے.انہوں نے جو جواب دیئے بذریعہ نیاز نامہ حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا گیا تھا.اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے نواز نامہ بنام کمترین رحیم بخش عرائض نولیس درجہ اول بمقام رعیہ سکنہ فتو کے دستخطی خود ارسال فرمایا جو ذیل میں حرف بہ حرف مشتہر ہونے کے لئے حضرت ممدوح ، درج اخبارات بدر والحکم پیش کرتا ہوں اور اجازت طبع ہونے کی بذریعہ مفتی محمد صادق صاحب ایڈ میٹر بدرجلد عام ہوگی“.
شاہ صاحب باب دوم....سیرت و اخلاق مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دوبسم اللہ الرحمن الرحیم حامدا ومصلياً مجی اخویم مولوی رحیم بخش صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.جس قدر آپ نے کوشش کی ہے.خدا تعالیٰ آپ کو اس کا اجر بخشے در حقیقت علماء کو اپنے شائع کردہ اقوال اور عقائد سے رجوع کرنا مشکل ہے.ورنہ یہ مسائل ایسے صاف ہیں کہ ان کا سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے.آپ اسی طرح کوشش جاری رکھیں اور ہر ایک نیک طبع انسان کو یہ مسائل سنا دیا کریں.جو لوگ قرآن شریف کی کچھ پرواہ نہیں کرتے.ان کو سمجھنا مشکل ہے.ورنہ بات تو بہت سہل ہے.میں در دنقرس سے بیمار ہوں.چلنے کی طاقت بھی نہیں.یہ نسبت سابق کچھ آرام ہے مگر طاقت رفتار نہیں.باقی سب طرح سے خیریت ہے.بخدمت اخونیم سید عبدالستار شاہ صاحب.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته برسد الراقم مرزا غلام احمد ۳۰ جون ۱۹۰۶ء (اخبار بدر قادیان ۱۵ اگست ۱۹۰۷ ء صفحه۱۱) O
ناہ صاحب باب سوم......اولاد باب سوم اولاد حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو )
ناہ صاحب باب سوم......اولاد ”آپ نے اپنی اولاد کی خوب تربیت اور پرورش کی ہے.جس سے ہم کو دیکھ کر رشک آتا ہے“ ( حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل ) ۷۳
ناہ صاحب......اولاد باب سوم....اولا د حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب اللہ تعالیٰ نے اس فنافی اللہ وجود کو جو اولا د عطا فرمائی ان میں سے ہر ایک اپنی ذات اور صفات میں قبولیت دعا کا نشان ہے.آپ کی اولا دکو خدا تعالیٰ نے حسنات کا ئنات اور محاسن عالم سے نوازا.آپ کی اولاد کے بارہ میں سیدنا حضرت خلیفۃ امسیح الاول (اللہ آپ سے راضی ہو) نے ایک موقعہ فرمایا تھا کہ: ”آپ نے اپنی اولاد کی خوب تربیت اور پرورش کی ہے جس سے ہم کو دیکھ کر رشک آتا ہے.آپ کی اولاد کا یہاں اختصار کے ساتھ ذکر کیا جا رہا ہے..حضرت سیدہ زینب النساء بیگم صاحبہ آپ کی پیدائش ۱۸۸۵ء میں ہوئی.آپ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں.آپ نے اپریل ۱۹۰۲ء میں بیعت کی سعادت حاصل کی.آپ (رفیقہ ) تھیں.آپ کا وصال سڑسٹھ سال کی عمر میں ہوا.حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اپنی اس ہمشیرہ کے جنازہ کی درخواست کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:.وہ عبادت ، تقویٰ اور نیک شعاری کی وجہ سے خواتین میں ”بزرگ صاحبہ کے نام سے موسوم تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے بہت محبت رکھتی تھیں.اور انہی کے ہاں اکثر ان کی بود و باش تھی.خصوصاً سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور صاحبزادی سیدہ امتہ القیوم صاحبه، بیگم صاحبزادہ مرزا مظفراحمد صاحب کے ہاں.موخر الذکر تو انہیں اپنے ہاں ٹھہرنے کے لئے مجبور کرتیں اور ان کی جدائی کو پسند نہ کرتیں اور وہ ان کے ہاں خوش رہتیں.ہجرت کے بعد ان کے اکلوتے بیٹے سید محمد عبد اللہ شاہ صاحب بمقام کلر سیداں مقیم تھے.آپ گذشتہ ماہ ان کے پاس جانا چاہتی تھیں.میں نے بتایا کہ اب انہیں آرام ہے.میں خود آپ کو لے جاؤں گا.لیکن دوبارہ لاہور آنے پر معلوم ہوا که صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب راولپنڈی جارہے تھے اور ہمارا ایک عزیز بھی
مارشاہ صاحب......اولاد باب سوم.......رسیداں سے آیا ہوا تھا اس لئے وہ چلی گئیں.اطلاع ملی تھی کہ جلسہ سالانہ پر آ رہی ہیں لیکن پھر ۲۶ دسمبر کو مجھے خط ملا کہ وہ انفلوائنزا کی وجہ سے سفر کے ناقابل ہیں پھر تار آیا کہ وہ فوت ہو گئیں ہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اس مقام پر احمدیوں کے صرف دو خاندان تھے.اسی خدشہ کی وجہ سے میں انہیں روکتا تھا.آپ تمام جماعت کے لئے دعا گو رہتی تھیں.صوم وصلوٰۃ کی وہ اتنی پابند تھیں کہ بڑھاپے کے باوجو د رمضان کے روزے نہیں ترک کرتی تھیں.حالانکہ میں ان کو مشورہ دیتا تھا کہ اس عمر اور کمزوری میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے.لیکن وہ کہتیں کہ مجھے روزہ ترک کرنے سے تکلیف ہوتی ہے.ان کی علالت کی اطلاع ملنے سے چند دن پہلے میری بھتیجی سیدہ بشری بیگم صاحبہ (المعروف ”مہر آپا) نے خواب دیکھا کہ کہ ان کی پھوپھی جان کا ایک نیا مکان بنا ہے.جو خوبصورت ہے.اس کے ایک بہت ہی سجے ہوئے کمرہ میں ایک تخت پوش پر وہ نماز پڑھنے لگی ہیں.ان کا لباس نہایت خوبصورت ہے.ان کو خیال آیا کہ پھوپھی جان کو پانچ روپے نذرانہ دوں اور دعا کی درخواست کروں.دروازہ سے اس غرض سے جھانکا کہ انہوں نے اللہ اکبر کہا اور نماز میں مشغول ہوگئیں.میں نے یہ تعبیر بتائی کہ ہمشیرہ موصوفہ کے بلند مقام پر خواب دلالت کرتی ہے اور آپ کی دعا قبول ہو گئی.مجھے اس خواب سے ان کی موت کا خیال نہ آیا.وہ دنیا میں عابدہ تھیں اور اسی حالت میں وہ دنیا سے رخصت ہوئیں اور انہیں وہاں عبودیت کا مقام حاصل ہے.خدا کرے ہمارا انتقال بھی عبد ہونے کی حالت میں ہو *.(روز نامه الفضل ربوه ۳ جنوری ۱۹۵۱ء صفه ۲) ۲.حضرت سیدہ خیر النساء بیگم صاحبہ آپ ۱۸۸۶ء میں سیہالہ میں پیدا ہوئیں.آپ (رفیقہ ) تھیں.آپ نے ۱۵/ اپریل ۱۹۰۲ء کو بیعت کی.جلد بیوہ ہو گئیں.بہت طویل عرصہ تک آپ کو اپنے اقارب کی خدمت کی توفیق ملی.حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ نے آپ کا دودھ پیا تھا.رضاعی والدہ ذکر حبیب‘ کے باب میں حضرت سیدہ زینب النساء صاحبہ کی روایت درج کی گئی ہے.(مرتب) ۷۵
رشاہ صاحب باب سوم..........اولاد ہونے کی وجہ سے دونوں کا باہم گہراتعلق تھا.تقسیم ملک سے پہلے سالہا سال تک آپ کا قیام حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ کے ہاں رہا.آپ کی طبیعت میں بے حد سادگی تھی.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ ) آپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی.اور فرش پر بیٹھنے لگی تو حضور علیہ السلام نے اصرار کر کے مجھے چار پائی پر بٹھلایا اور فرمایا کہ آپ سید زادی ہیں اور کئی دفعہ دیکھ کر حضور اکر اما اٹھ کھڑے ہوتے تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے بیان کیا کہ حضور کے اٹھ کھڑے ہونے کی بات میں نے خود محترمہ خالہ جان سے سنی ہے.لیکن یہ یاد نہیں کہ ہمیں دیکھ کر اٹھنے کا ذکر کیا تھا یا ” مجھے “.درایہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ اپنی والدہ کے ہمراہ آتی ہوں گی تو والدہ صاحبہ کی تعظیم کے لئے حضور اٹھتے ہوں گے.وصال الفضل میں نہایت افسوس کے ساتھ خبر دی گئی کہ محترمہ خیر النساء بیگم صاحبہ جو سید لال شاہ صاحب مرحوم کی اہلیہ، حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب (اللہ آپ یسے راضی ہو ) کی صاحبزادی اور محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی ہمشیرہ تھیں ۱۹ جنوری ۱۹۶۲ء کو بعمر چھہتر سال وفات پاگئیں.انا للہ وا نالیہ راجعون.محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے احاطہ ( بیت ) مبارک ربوہ میں نماز جنازہ پڑھائی جس میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد اور اہل ربوہ بہت کثیر تعداد میں شریک ہوئے اور آپ کو قطعہ ( رفقاء) میں بہشتی مقبرہ میں دفن کیا گیا.پیدائشی احمدی ہونے کے با وجو دانہوں نے ۱۹۰۲ء میں خود بھی بیعت کی.بہت نیک ،صوم وصلوٰۃ کی پابند، تہجد گزار اور ہر آن ذکر الہی میں مصروف رہنے والی خاتون تھیں.( دین حق ) اور سلسلہ احمدیہ اور (مربیان) سلسلہ کے لئے ہر وقت دعا گو رہتی تھیں.سید بشیر احمد شاہ صاحب منیجر دوا خانہ خدمت خلق ربوہ آپ کے اکلوتے فرزند اور آپ کی ایک بیٹی آپ کی یاد گار ہیں.(روز نامه الفضل ربوه ۲۱ جنوری ۱۹۶۲ء) نوٹ: آپ سے مروی بعض روایات ذکر حبیب کے باب میں شامل کی گئی ہیں
شاہ صاحب......اولاد باب سوم....۳.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب آپ ۱۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو پیدا ہوئے.آپ نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں ذکر فرمایا ہے کہ آپ کے گھرانہ میں احمدیت کا تذکرہ کب شروع ہوا.۱۹۰۳ء میں آپ اپنے بھائی حضرت سید حبیب اللہ شاہ صاحب کے ہمراہ حصول تعلیم کے لئے قادیان دارالامان حاضر ہوئے.حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نے قادیان آمد، زیارت قادیان اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی مجالس میں شمولیت کا ذکر اپنے خود نوشت سوانح حیات میں کیا ہے.(خود نوشت سوانح حیات سید ولی اللہ شاہ ) آپ نے ابتدائی تعلیم مشن سکول نارووال سے حاصل کی اور ۱۹۰۸ء میں قادیان سے میٹرک کا امتحان پاس کیا.میٹرک کرنے کے بعد آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف ایس سی میں داخلہ لے لیا.کیونکہ والد صاحب کے منشا کے مطابق آپ ڈاکٹری کی تعلیم پانا چاہتے تھے.لیکن حضرت خلیفہ اسیح الاول نے فرمایا کہ آپ میری شاگردی اختیار کریں.جس رستہ پر نورالدین آپ کو چلائے گا اس میں آپ کے لئے کامیابی ہے.سو آپ کے درس سے استفادہ کے علاوہ آپ کے ارشاد پر حضرت ولی اللہ شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) نے حضرت حافظ روشن علی صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو) سے صرف ونحو اور عربی ادب وغیرہ اور حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ہلالپوری ( اللہ آپ سے راضی ہو ) سے منطق پڑھی.پرسید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی تحریک پر آپ نے خدمت دین کا عہد باندھا.اور آپ ہی کی تحریک پر صاحب (حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ) اور ایک اور شخص ۲۹ جولائی ۱۹۱۳ء لو (تعلیم) و تحصیل علوم عربیہ کے لئے مصر روانہ ہوئے.سید صاحب کی مشایعت کے لئے حضرت صاحبزادہ صاحب ( مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب) مع انصار اللہ و دیگر
مارشاہ صاحب احباب قریہ سے باہر تک گئے.......اولاد باب سوم....(الفضل قادیان۳۰ جولائی ۱۹۱۳ صفحہ۱ ) ۱۹۱۳ء تا ۱۹۱۹ ء تک آپ بلا دعر بیہ میں حصول تعلیم کے لئے مقیم رہے.اور قاہرہ، حلب سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی.بیت المقدس میں امتحان میں آپ اعلیٰ نمبروں.کامیاب ہوئے.اور وہاں بعض کا لجز میں تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے.خدمات عالیہ محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے آپ کی خدمات کی بابت لکھتے ہیں :- جنگ عظیم اول کے بعد آپ ۱۹۱۹ء میں بیرون ملک سے وطن واپس پہنچے.ابتداء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو) کے عرصہ رخصت میں قائم مقام ناظر امور عامہ اور پھر ۱۹۲۰ ء تا یکم جون ۱۹۵۴ء ناظر (اصلاح وارشاد)، ناظر امور عامه و خارجه، ناظر تعلیم و تربیت، قائم مقام ناظر اعلیٰ اور ایڈیشنل ناظر اعلیٰ کے اعلیٰ مناصب پر آپ مختلف اوقات میں فائز رہے.یکم جون ۱۹۵۴ء کو پنشن پانے کے بعد بھی آپ ناظر امور خارجہ مقرر رہے.ان تمام فرائض کو خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے اور صحیح البخاری کی شرح تالیف کرنے کی آپ نے توفیق پائی.تقسیم ملک کے دوران میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے، حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ( جو ناظر امور عامہ تھے )، چوہدری شریف احمد باجوہ مولوی احمد خان صاحب نسیم اور مولوی عبدالعزیز صاحب بھا مبرڑی کو تقسیم برصغیر کے پرفتن دور میں ۱۴ ستمبر ۱۹۴۷ ء تامئی ۱۹۴۸ء فی سبیل اللہ قید و بند کا اعزاز حاصل ہوا.تابعین احمد جلد سوم، با رسوم صفحه ۳۲-۳۳) بطور مجاہد شام تقر ر و روانگی.سفر یورپ میں ۱۹۲۴ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنے وفد سمیت اگست میں چند روز دمشق میں قیام فرمایا.اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول کر کے رجوع خلائق کا LA
رشاہ صاحب باب سوم....سوم......اولاد عجیب نظارہ دکھایا.صبح سے نصف رات تک دوسو سے بارہ سوتک لوگ ہوٹل کے سامنے کھڑے رہتے.اکثریت نہایت محبت کا اظہار کرتے.وہاں کے ایک مشہور ادیب شیخ عبدالقادر المغربی نے جو حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے دوست تھے حضور سے کہا کہ آپ ایک جماعت کے معزز امام ہیں اس لئے ہم آپ کا اعزاز و اکرام کرتے ہیں.چونکہ ہم لوگ عرب نسل کے ہیں اور عربی ہماری مادری زبان ہے.اور کوئی ہندی خواہ کتنا ہی عالم ہو ہم سے زیادہ قرآن وحدیث سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا.اس لئے آپ یہ امید نہ رکھیں کہ ان علاقوں میں کوئی شخص آپ کے خیالات سے متاثر ہوگا.حضور نے اس کی تردید کی اور فرمایا کہ ہندوستان واپس جانے کے بعد میرا پہلا کام یہ ہوگا کہ آپ کے ملک میں (مربی) روانہ کروں.اور دیکھوں گا کہ خدائی جھنڈے کے علم برداروں کے سامنے آپ کا کیا دم خم ہے.( سلسلہ احمدیہ مولفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحه ۳۷۵-۳۷۶) چنانچہ خدا تعالیٰ نے دمشق میں مربیان بھیجنے کی توفیق عطا فرمائی اور جماعت احمدیہ کے مربیان نے وہاں غیر معمولی کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے.جس کی تفصیل حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں رقم فرمائی ہے.(خود نوشت سوانح حیات سید ولی اللہ شاہ ) حضرت شاہ صاحب کی مراجعت حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب • امئی ۱۹۲۶ء کو قادیان واپس تشریف لائے اور (بیت) مبارک میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( اللہ آپ سے راضی ہو ) سے شرف ملاقات حاصل کیا اور اپنے حالات عرض کئے.الفضل مورخه ۱۴ مئی ۱۹۲۶ صفحه ۱ ) ے امئی کو طلباء ٹی آئی ہائی سکول نے آپ کو دعوت چائے دی اور ایڈریس پیش کیا.محترم شاہ صاحب نے دو گھنٹے کے قریب وقت میں شام کے حالات و مشکلات بیان کئے.آخر پر حضور نے دعا کی.الفضل مورخہ ۲۱ مئی ۱۹۲۶ ء صفحه ا )
ناہ صاحب پیشگوئی مصلح موعود......اولاد باب سوم....حضرت خلیفہ اسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو) پر انکشاف ہونے پر کہ پیشگوئی مصلح موعود کے آپ ہی مصداق ہیں متعدد شہروں میں اس بارے میں پبلک جلسے منعقد کئے گئے.بمقام ہوشیار پور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مصلح موعودؓ کے عطا ہونے کے بارے اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی تھی.چنانچہ ۲۰ فروری ۱۹۴۴ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چلے والے مکان کے قریب یہ جلسہ کیا گیا.حضرت مصلح موعود اللہ آپ سے راضی ہو ) نے اپنے خطاب میں دعاؤں کے بعد اس پیش گوئی اور تازہ انکشاف کے ذکر میں فرمایا کہ:- میں آج اسی واحد اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ و تصرف میں میری جان ہے کہ میں نے جور و یا بتائی ہے وہ مجھے اس طرح آئی ہے.میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میں نے کشفی حالت میں کہا انا الْمَسِيحُ المَوْعُوْدُ مَثِيْلُهُ وَ خَلِيفَتُهُ اور میں نے اس کشف میں خدا کے حکم سے یہ کہا کہ میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لئے انیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں.بس میں خدا کے حکم کے ماتحت قسم کھا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیش گوئی کے مطابق آپ کا وہ موعود بیٹا قرار دیا ہے جس نے زمین کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پہنچانا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ میں ہی موعود ہوں اور کوئی موعود قیامت تک نہیں آئے گا“.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیش گوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اور موعود بھی آئیں گے.اور بعض ایسے موعود بھی ہوں گے جو صدیوں کے بعد پیدا ہوں گے بلکہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ ایک زمانہ میں خود مجھ کو دوبارہ دنیا میں بھیجے گا.جسکے معنی یہ ہیں کہ میری روح ایک زمانہ میں کسی اور شخص پر جو میرے جیسی طاقتیں رکھتا ہوگا، نازل ہوگی اور وہ میرے نقش قدم پر چل کر دنیا کی اصلاح کرے گا.پس آنے والے آئیں گے اور اللہ تعالیٰ ۸۰
مارشاہ صاحب سوم......اولاد باب سوم....کے وعدوں کے مطابق اپنے اپنے وقت پر آئیں گے.میں جو کچھ کہتا ہوں ہوں وہ یہ ہے کہ وہ پیش گوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اس شہر ہوشیار پور میں سامنے والے مکان میں نازل ہوئی جس کا اعلان آپ نے اس شہر سے فرمایا اور جس کے متعلق فرمایا کہ وہ نو سال کے عرصہ میں پیدا ہوگا.وہ پیش گوئی میرے ذریعہ سے پوری ہو چکی ہے اور اب کوئی نہیں جو اس کا مصداق ہو سکے.الفضل قادیان ۲۴ فروری ۱۹۴۴ صفحه ۳) اس انکشاف کے بعد جن اہل قلم احمدیوں نے اس پیشگوئیوں کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ان میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) بھی شامل تھے.چنانچہ اخبار الفضل قادیان بابت مارچ تا جولائی ۱۹۴۴ء کے شماروں میں آپ کے پر معارف مضامین شامل ہیں.بعد ازاں اٹھارہ (مربیان ) یا ان کے نمائندگان نے قریباً دو درجن ممالک کے متعلق باری باری اس امر پر روشنی ڈالی کہ پیشگوئی کی یہ بشارت کہ.خدا تیری تبلیغ کو دنیاکے کناروں تک پہنچا دے گا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ذریعہ بہت شان و شوکت کے ساتھ پوری ہو چکی ہے.ہر ایک کی تقریر کے دوران جس ملک کی ( دعوۃ الی اللہ ) کا ذکر ہوتا تو اس ملک کا نام جلی حروف میں سامعین کے سامنے لٹکا دیا جاتا.ان ( مربیان ) میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بھی شامل تھے.آپ کی تقریر ملک شام کے بارے میں تھی.بعد ازاں صاحب مکان کی اجازت ے حضرت مصلح موعود نے پینتیس احباب سمیت اس مقدس کمرہ میں دعا کی.دیگر باہر گلی میں اور ملحقہ میدان میں جلسہ ہوا تھا.احباب دعا میں شریک ہوئے.حضور کے ارشاد پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے احباب کو اندر بھجوانے کا اہتمام کیا.حضور کا ارشاد تھا کہ.اس موقع پر کسی ذاتی غرض کے لئے دعا نہ کی جائے بلکہ صرف ( دین حق ) کی ترقی وشوکت کے لئے دعا کی جائے.ΔΙ
مارشاہ صاحب دعا نہایت گریہ وزاری سے دس منٹ کے قریب کی گئی.......اولاد باب سوم....الفضل قادیان ۲۴ ۲۵ جنوری ۱۹۴۴ء) آپ نے دمشق اور بیروت میں کئی غیر معمولی دینی علمی اور تربیتی کارنامے سرانجام دیئے.مسلسل کئی سال آپ قادیان اور پھر ربوہ میں کلیدی عہدوں پر خدمات بجالاتے رہے.آپ نے ۳۰ کے قریب تحقیقی کتب تحریر کیں.آپ کے بیسویوں مضامین اخبار الحکم، الفضل ، فرقان اور ریویو آف ریلیجنز میں شائع ہوتے رہے.کشمیر کمیٹی میں آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں.وصال حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) ۱۶،۱۵ مئی ۱۹۶۷ء کی درمیانی شب کو بعمر ۷۸ سال رحلت فرما گۓ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.۶ امئی کو سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ( رحمہ اللہ تعالیٰ ) نے بہشتی مقبرہ ربوہ کے میدان میں نماز جنازہ پڑھائی جنازہ کو کندھا دیا بعد تدفین دعا کرائی.ربوہ کے احباب بکثرت شریک ہوئے اور بیرون کے احباب بھی شامل ہوئے.حضرت شاہ صاحب نے اپنی ساری زندگی ( دین حق ) واحمدیت کی خدمت میں وقف رکھی.( دعوۃ الی اللہ )، تربیتی اور تعلیمی میدان میں آپ کو سلسلہ احمدیہ کی گرانقدر خدمات بجالانے کی توفیق ملی.خدمت سلسلہ کے دوران جماعت احمدیہ کے خلاف کئی خطرناک فتنے برپا ہوئے اور جماعت پر بہت سے نازک دور آئے.ہر مرحلہ پر آپ نے نہایت کامیابی کے ساتھ اپنے فرائض کو انجام دیا اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خوشنودی حاصل کی.جلسہ سالانہ پر آپ کی نقار بر ایک خاص رنگ رکھتی تھیں.مسلمانان کشمیر کی جد و جہد آزادی میں آپ کو حضور کی زیر ہدایت بھاری خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی.مرکز ربوہ کے قیام کے ابتدائی دور میں آپ کو بطور امیر مقامی اور بطور ناظر کام کرنے کا موقع ملا.بعد پنشن آپ ۱۹۶۲ء میں فالج سے سے بیمار ہونے تک ناظر امور خارجہ کا کام کرتے رہے.آپ صاحب رؤیا و کشوف اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے.کئی مواقع پر اللہ تعالیٰ نے کشوف
مارشاہ صاحب......اولاد باب سوم....کے ذریعہ آپ کی رہنمائی کی اور بشارات سے آپ کو نوازا.آپ با قاعدہ تہجد گزار تھے قرآن مجید سے آپ کو غایت درجہ محبت تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے.عربی اور اردو کے بلند پایہ ادیب تھے.آپ کی یاد گار پانچ لڑکیاں اور دولڑ کے ہیں.آپ کی وفات کا تار موصول ہونے پر حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب امیر مقامی قادیان نے خطبہ ثانیہ میں یہ افسوسناک اطلاع دیتے ہوئے رقت بھری آواز میں آپ کے مناقب جلیلہ پر مختصر روشنی ڈالی.بعد نماز جمعہ جنازہ غائب پڑھایا اور مقامی انجمن نے تعزیتی قرار داد بھی پاس کی.( بدر قادیان ۲۵ مئی ۱۹۶۷ ء والفضل ربوہ ۱۸مئی ۱۹۶۷) تاثرات محترم شیخ نور احمد صاحب منیر مرحوم مربی سلسله آپ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:.مجھے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کی طویل بیماری میں آپ سے کئی بار ملاقات کا موقع ملا.آپ کے منہ سے روحانیت اور نورانیت سے پر کلمات نکلتے.رضائے الہی رشکر ربانی کے جذبہ سے معمور آپ کی گفتگو ہوتی.آپ کا ایک خاص امتیاز (رفیق) ابن ( رفیق ) ہونے کا تھا.حضرت مرزا محموداحمد صاحب (خلیفۃالمسیح الثانی) نے عربی کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے آپ کو ۲۶ جولائی ۱۹۱۳ء کومصر بھیجوایا تھا.حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کی دلی دعاؤں کے ساتھ آپ روانہ ہوئے.بعض وجوہات سے آپ قاہرہ میں زیادہ قیام نہ کر سکے.سو آپ بیروت اور پھر حلب چلے گئے.اور بیت المقدس میں آپ نے عربی کا امتحان پاس کیا.چوٹی کے اساتذہ سے آپ نے تعلیم حاصل کی.استاد الشیخ صالح الرافعی آپ سے بہت ہی محبت و عقیدت رکھتے تھے اور وہ آپ کی ( دعوۃ الی اللہ ) سے بیعت بھی کر چکے تھے.چنانچہ اس ضمن میں ایک تاریخی مگر نا قابل فراموش واقعہ بیان کرتا ہوں.ایک مرتبہ بیروت کی میونسپلٹی کے ایک کارکن ٹیکس وصول کرنے آئے.میں نے ان کی تواضع کی اور کئی امور پر باتیں ہوئیں.وہ کہنے لگے کہ ٨٣
شاہ صاحب......اولاد باب سوم......میرے والد مرحوم بھی اس عقیدہ کے تھے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کا ظہور ہو چکا ہے.اور میں نے ان کو قبول کر لیا ہے.ان کے والد کا نام پوچھا تو انہوں نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا.”شیخ صالح الرافعی الطرابلسی انہوں نے بتایا کہ استاد زین العابدین عربی پڑھنے کے لئے ہمارے گھر روزانہ آتے تھے.اور میں دروازہ کھولا کرتا تھا.ہمارے گھر میں حضرت شاہ صاحب کا ایک فوٹو بھی ہے جس پر والد صاحب نے یہ لکھا ہے.تِلْمِيذُ مِنْ تَلَامِيذِ الْمَهْدِى عَلَيْهِ السَّلَامِ جَاءَ مِنَ الْهِنْدِ لِتَلَقَّى الْعُلُومِ الْعَرَبِيَّةِ “ یعنی حضرت مہدی علیہ السلام کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد جو ہندوستان سے عربی تعلیم کے لئے آئے.شاہ صاحب جب قرآن مجید کے بعض مشکل مقامات کی تفسیر بیان کرتے آپ کے کئی عرب ساتھی اور اساتذہ دریافت کرتے.يَا أُسْتَاذُ مِنْ أَيْنَ تَعَلَّمْتَ هَذَا التَفْسِير.تو آپ جوابا کہتے تَعَلَّمُتُ مِنْ اسْتَاذِي المُفِضَّالِ الشَّيْحَ نَوْرَ الدَّيْنِ اللہ آپ سے راضی ہو ) یعنی حضرت مولوی نورالدین سے میں نے تفسیر سیکھی ہے.واقعہ مجھ سے الشیخ عبدالقادر المغربی ریئس المجمع العلمی العربی نے بیان کیا تھا.شاہ صاحب عرب ممالک میں تین دفعہ تشریف لے گئے.( پہلی مرتبہ ) ۱۹۱۳ء میں پھر ۱۹۲۵ء میں حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس کے ساتھ دمشق گئے.چھ ماہ تک وہاں قیام کیا وہاں آپ نے شادی بھی کی.آپ کے برادر نسبتی السید احمد فائق الساعا تی محکمہ پولیس کی ایک کلیدی اسامی پر فائز ہیں.تیسری مرتبہ آپ ۱۹۵۶ء میں گئے اور تقریباً دو ماہ قیام کیا.اس دوران آپ بیروت بھی تشریف لائے تھے.(روز نامه الفضل ربوه ۱۹ مئی ۱۹۶۷ء ) ۸۴
رشاہ صاحب......اولاد باب سوم....۴.حضرت ڈاکٹر حافظ سید حبیب اللہ شاہ صاحب آپ ۱۸۹۴ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۰۲ء میں بیعت کی سعادت حاصل کی.انہیں اورسید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو آپ کے والد ماجد نے ۱۹۰۳ء میں حصول تعلیم کے لئے قادیان بھجوایا.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال تک حضور سے فیض یاب ہوئے.آپ حافظ قرآن تھے.قرآن مجید سے آپ کو بے حد محبت تھی.کسی سے سنتے تب بھی آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے.اپنی بہنوں اور بھائیوں کی طرح خلافت احمدیہ سے گہری وابستگی رکھتے تھے.ڈپٹی انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کے اعلیٰ عہدہ سے آپ ریٹائر ہوئے.آپ پنشن کے وقت میجر تھے.خود نوشت سوانح حیات ولی اللہ شاہ.غیر مطبوعہ ) آئی ایم ایس ہونا روز نامہ الفضل قادیان میں زیر عنوان ”مبارک ہو‘ اخبار احمد یہ میں یہ خوشخبری دی گئی کہ جناب ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ صاحب جنہوں نے چھ سال قادیان میں تعلیم پائی پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف ایس سی اور پھر ایم بی بی ایس کیا اور اسسٹنٹ سرجن پبلک میڈیکل افسر مقرر ہوئے تھے.اب بفضلہ تعالٰی برٹش کمیشن آئی ایم ایس میں لیفٹینٹ کے عہدہ پر ممتاز ہوکر لاہور چھاؤنی میں متعین ہوئے ہیں.آپ بڑے اعلیٰ اخلاق کے نوجوان اور احمدیت کا عمدہ نمونہ ہیں.اور ہر ملنے والے کے دل میں اپنی محبت پیدا کر لیتے ہیں.آپ اپنی سرکاری وردی میں یہاں حضرت خلیفہ مسیح الثانی ( اللہ آپ سے راضی ہو ) سے نیاز حاصل کرنے کے لئے آئے تھے.اور ایک ایک بچہ سے اس طرح ملتے تھے کہ بے اختیار آپ کی تعریف کرنے کو دل چاہتا.الفضل قادیان ۱۹ / اگست ۱۹۴۱ صفحها ) قیدیوں سے حسن سلوک روز نامہ پرتاب جالندھر کے ایڈیٹر ویر چندر جی جو آریہ سماجی ہیں اپنی جوانی میں کانگرس کی سیاسی تحریک میں قید ہوئے تھے اور شورش کشمیری جو ہمیشہ جماعت احمدیہ کے ۸۵
رشاہ صاحب باب سوم......اولاد مخالف رہے.دونوں نے اپنا ذاتی تجر بہ بیان کیا کہ ڈاکٹر سید حبیب اللہ صاحب کے ہم مداح ہیں کہ آپ قیدیوں سے بلا تفریق مذہب وملت حسن سلوک کرتے تھے.انہیں سیر بھی کرا دیتے تھے.اور ان کی غذا کا بھی اچھا انتظام کر دیتے تھے.اخبار ریاست دہلی کے مشہور ایڈیٹر سر دارد یوان سنگھ مفتون تحریر کرتے ہیں کہ :- جیل کی دنیا کی تاریخ کے مظالم میں لالہ چمن لال، لالہ داروغہ جیل پنجاب ہے مثل تھا.اس کے بیٹے چمن لال ایم اے کو براہ راست ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل بھرتی.کیا گیا.(جس کی) تقرری سب سے پہلے اولڈ سنٹر جیل ملتان میں ہوئی جہاں کہ اس زمانہ میں سپر نٹنڈنٹ کے عہدہ پر ایک بہت ہی نیک دل اور خدا ترس میجر حبیب اللہ شاہ صاحب تھے.(جو) ڈاکٹر تھے اور مذہبی اعتبار سے قادیان کے احمدی اور احمدیوں کے موجودہ پیشوا کے قریبی رشتہ دار.آپ کے گھر میں یورپین بیوی (Enaid) تھی.مگر نیکی، پارسائی، نماز اور روزہ کے اعتبار سے آپ ایک پکے مسلمان تھے“.کانگرس تحریک میں سینکڑوں کانگرسی قید ہوئے.دسمبر کا مہینہ تھا.سردی اپنے جو بن پر تھی.وارڈ کے معائنہ کے وقت ایک کانگرسی نے رضائی کی لمبائی اور روٹی کی مقدار کم ہونے کی شکایت کی تو چمن لال نے جواب دیا کہ یہ کانگریسی بدمعاش ہے اور جھوٹی شکایت کرتا ہے.ڈاکٹر صاحب نے رضائی تبدیل کرنے کا حکم دیا.جیل میں سکھ قیدیوں کی دو پارٹیوں میں جھگڑا ہونے پر چمن لال نے ان پارٹیوں کے دوسر کردہ لیڈروں کی ہڈیاں لاٹھیوں سے تڑوائیں اور الگ الگ کمروں میں بند کر دیا.بستر نہ دیئے گئے.(ان میں سے ) ایک صبح نمونیہ سے مرا پایا گیا.چمن لال نے چاہا کہ یہ معاملہ اسی طرح ختم کر دیا جائے.جیسے اس کا باپ قیدیوں کو جلتے تنور میں ڈلوا کر ہلاک کرنے پر چھوٹ جاتا تھا.لیکن ” میجر شاہ نیک دل اور انصاف پسند شخصیت تھے انہوں نے لاش کا پوسٹ مارٹم کرایا.اور تار دیئے جانے پر انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات موقعہ پر آئے.چمن لال وغیرہ گرفتار ہوئے.اپیل در اپیل پر چھن لال کی سزائے میں اضافہ ہو کر پانچ سال کی ہوئی کیونکہ دفعہ ۳۲ کی رو سے اس سے زیادہ قید نہ ہوسکتی جب چمن لال قید میں تھا تو اس وقت میجر سید حبیب اللہ شاہ سنٹرل جیل کے ۸۶
مارشاہ صاحب......اولاد باب سوم....سپرنٹنڈنٹ تھے.معائنہ کے دوران اسی چمن لال نے شکایت کی کہ میرا قد لمبا ہے.رضائی چھوٹی ہے اور روئی کم ہے.سردی زیادہ ہے.آپ نے کہا کہ ملتان میں ایک کانگریسی قیدی کی شکایت پر تم نے کہا تھا کہ یہ قیدی بدمعاش ہے اور جھوٹ بولتا ہے.تمہاری شکایت پر میں بھی تمہیں یہی کہتا ہوں.نا قابل فراموش از دیوان سنگھ مفتون صفحه ۴۶۹ تا ۴۷۱) حسنات دارین اخروی نعماء کے ذکر میں حضرت مصلح موعود ( اللہ آپ سے راضی ہو ) حضرت ڈاکٹر سید حبیب اللہ صاحب ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کے بارے میں ذیل کا لطف اندوز واقعہ تحریر فرماتے ہیں:.ایک دفعہ ایک اینگلو انڈین استانی میرے پاس آئی وہ چاہتی تھی کہ میں اس کی ملازمت کے لئے کہیں سفارش کر دوں.وہ اپنے متعلق کہا کرتی تھی کہ میرا رنگ اتنا سفید نہیں جتنا ہونا چاہیے.اور واقعہ یہ تھا کہ اس کا رنگ صرف اتنا کالانہیں جتنا حبشیوں کا ہوتا ہے.میں ان دنوں تبدیلی آب و ہوا کے لئے دریا پر جارہا تھا.اور اتفاقاً ان دنوں میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب مرحوم....وہ بھی قادیان آئے ہوئے تھے.انہوں نے ایک انگریز عورت سے شادی کی ہوئی تھی.وہ بھی میرے ساتھ چل پڑے کیونکہ ان کی ہمشیرہ ام طاہر مرحومہ اس سفر میں میرے ساتھ جارہی تھیں.ان کی بیوی نے اس استانی کی بھی سفارش کی کہ میری ہمجولی ہوگی.اسے بھی ساتھ لے لو.چنانچہ اسے بھی ساتھ لے لیا.وہاں پہنچ کر ایک ( کشتی ) میں میں ، ام طاہر اور میری سالی ( زوجہ سید حبیب اللہ شاہ صاحب مرحوم ) تھی اور دوسری میں وہ استانی، میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے.کشتیاں پاس پاس چل رہی تھیں.اتنے میں مجھے آواز میں آنی شروع ہوئیں.وہ استانی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب سے باتیں کر رہی تھی کہ فلاں وجہ سے میرا رنگ کالا ہو گیا ہے اور میں فلاں فلاں دوائی رنگ گورا کرنے ۸۷
رشاہ صاحب......اولاد باب سوم....کے لئے استعمال کر چکی ہوں.آپ چونکہ تجربہ کار ہیں اس لئے مجھے کوئی ایسی دوا بتا ئیں جس سے میرا رنگ سفید ہو جائے.اور ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ فلاں فلاں دوائی استعمال کی ہے یا نہیں؟ اس نے نے کہا کہ وہ بھی استعمال کر چکی ہوں.غرض اسی طرح ان کی آپس میں باتیں ہو رہی تھیں مجھے ان کی باتوں سے بڑا لطف آرہا تھا.وہ ڈاکٹر صاحب سے بار بار کہتی تھیں کہ ڈاکٹر صاحب! یہ بیماری اتنی شدید ہے کہ باوجود کئی علاجوں کے آرام نہیں آتا.حالانکہ یہ تو کوئی بیماری تھی ہی نہیں.یہ تو اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ رنگ تھا.سید حبیب اللہ شاہ صاحب بچپن میں میرے بہت دوست ہوا کرتے تھے اور بعد میں بھی ان سے گہرے تعلقات رہے.انہیں قرآن مجید پڑھنے کا بہت شوق تھا.وہ اس وقت بھی کشتی میں حسب عادت اونچی آواز سے قرآن کریم پڑھ رہے تھے.میں یہ تماشہ دیکھنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب اس کا رنگ کس طرح سفید کرتے ہیں.آخر تھوڑی دیر کے بعد سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے قرآن کریم بند کیا اور درمیان میں بول پڑے اور اسے کہنے لگے.ڈاکٹر صاحب تم کو کوئی نسخہ نہیں بتا سکتے.اس دنیا میں تمہارا رنگ کالا ہی رہے گا.البتہ ایک نسخہ میں بتاتا ہوں.قرآن کریم میں لکھا ہے کہ ”جو شخص نیک عمل کرے گا اس کا قیامت کے دن منہ سفید ہوگا“.اس دنیا میں تو تمہارا رنگ سفید نہیں ہو سکتا ہے تم قرآن پر عمل کرو تو قیامت کے دن تمہارا رنگ ضرور سفید ہو جائے گا.سیر روحانی جلد اول صفحه ۲۵-۲۵۵) آپ کا ایمانی جذ بہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) کی جلسہ سالانہ کی تقریر در منثور میں بیان کردہ ایک واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ڈاکٹر صاحب کو کیسا یقین وایمان تھا.ΑΛ
ارشاہ صاحب......اولاد باب سوم....حیدر آباد دکن کے طالب علم عبدالکریم صاحب کو قادیان میں ایک کتے نے کاٹ لیا اور وہ کسولی سے علاج کرا کے صحت یاب ہو کر آئے تو پھر انہیں ہائڈروفوبیا (Hydrophobia) ہو گیا.تار دینے پر وہاں سے جواب آیا کہ افسوس! بیماری کے حملے کے بعد عبدالکریم کا کوئی علاج نہیں.Sorry! Nothing can be done for Abdul Karim حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی شفایابی کے لئے دعا اور القاء الہی کے ماتحت ظاہری علاج کے طور پر کچھ دوا بھی دی.قدرت الہی سے یہ بچہ بالکل تندرست ہو گیا یوں کہو کہ مردہ زندہ ہو گیا.یہ بیان کر کے حضرت صاحبزادہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ سید حبیب اللہ شاہ صاحب جب لاہور میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھے اور کلاس میں اس مرض کا ذکر آیا تو سید صاحب نے اپنے ایک ہم جماعت طالب علم سے عبدالکریم صاحب کا واقعہ بیان کیا.طالب علم نے ضد میں آکر ان سے کہا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں.ہائڈروفوبیا کا علاج ہوسکتا ہے.سید صاحب نے دوسرے روز اپنے ہم جماعت کا نام لئے بغیر اپنے انگریز پروفیسر سے پوچھا کہ اگر کسی کو دیوانہ کتا کاٹ لے اور اس کے نتیجہ میں بیماری کا حملہ ہو جائے تو کیا اس کا بھی علاج ہے؟ پروفیسر نے چھٹتے ہی جواب دیا کہ Nothing on earth can save him د یعنی اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچاسکتی“ تاثرات احباب (سیرۃ طیبہ صفحہ ۱۲۷ - ۱۲۸ ) محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے بیان کرتے ہیں:.آپ کی وفات سے محترم ڈاکٹر عطر دین صاحب درویش (رفیق) نے بہت صدمہ محسوس کیا.اور یہ بیان کیا کہ ہم نے بچپن کا وقت اکٹھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت اولی کے زمانوں میں گزارا.آپ اخلاق حمیدہ کے مالک تھے.جو ہر ملاقاتی کا دل موہ لیتے تھے.لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں نیلا گنبد میں یہ طے پایا کہ حضرت سیدنا مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا اور میرا دوڑ کا مقابلہ ۸۹
مارشاہ صاحب......اولاد باب سوم....ہوا اور سید حبیب اللہ شاہ صاحب ریفری ہوں.دوڑ میں حضرت صاحبزادہ صاحب جیت گئے.لیکن میں نے ہار نہ مانی.اس پر صاحبزادہ صاحب کے کہنے پر دوبارہ دوڑ ہوئی.اس میں بھی صاحبزادہ صاحب کامیاب ہوئے.وہ بہت ہی الفت ومحبت کا زمانہ تھا.آقا اور آقازادے باہم رشتہ اخوت میں منسلک تھے.خاکسار کے استفسار پر سید عبدالرزاق شاہ صاحب ( مرحوم ) آپ کے بھائی نے تحریر کیا تھا کہ ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ صاحب دینی غیرت اور قرآن مجید سے عشق رکھتے تھے اور نمازوں اور تہجد میں با قاعدہ تھے.ایک دفعہ ان کی انگریز بیوی نے مجھے کہا کہ حبیب گاڈ (God) کو Disturb ( پریشان) کرتا ہے اور رونے والا منہ بنا کر کہا کہ وہ اس طرح منہ بنا کر روتا ہے.ڈاکٹر صاحب راولپنڈی سنٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ تھے.داروغہ نے بے وقت آ کر شکایت کی کہ قیدی کنچنی بہت تنگ کر رہی ہے اور سب کو گندی گالیاں دے رہی ہے اور بے قابو ہے.آپ نے کہا کہ میں آتا ہوں.آپ نے دو نفل ادا کر کے دعا کی اور موقعہ پر پہنچے.وہ کھڑی تھی.آپ کو دیکھتے ہی زبان بند ہوگئی اور وہ کا پنپنے لگی.آپ حضرت خلیفہ المسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو ) سے بہت محبت رکھتے الہ تھے اور حضور سے بے تکلف تھے.لیکن حضور کا پاس ادب بھی تھا.ایک دفعہ آپ کی دعوت پر حضور مع سیدہ ام طاہر صاحبہ مادھو پور (ضلع گورداسپور ) کے نہر کے بنگلہ میں تشریف لے گئے.ان کی انگریز بیوی نے کچھ کہا ہوگا.( کیونکہ وہ اپنے تمدن کے مطابق مہمانوں کا زیادہ وقت قیام پسند نہیں کرتے ) تو حضور نے سیدہ ام طاہر صاحبہ کو کہا کہ اب چلتے ہیں.ڈاکٹر صاحب نے باوجود پاس ادب کے حضور ( خلیفہ اسیح الثانی اللہ آپ.راضی ہو ) کو چھا مار کر صوفے پر بٹھالیا اور کہا کہ میں آپ کو اس طرح نہیں جانے دوں آخری عمر میں جب کہ ڈاکٹر صاحب بیماری کی وجہ سے بیمار ہو گئے تھے ربوہ تشریف لائے اور چند دن کے بعد آپ کے کہنے پر میں آپ کو سیالکوٹ چھوڑنے گیا جہاں آپ کو مکان الاٹ تھا اور آپ کا قیام تھا.اس وقت تقسیم ملک کے بعد مخالفت احمدیت کے شدید فسادات شروع ہو چکے تھے.آپ فکرمندی کی وجہ سے راستہ میں بار بار کہتے کہ اب جماعت کا کیا بنے گا.میں رات وہاں ٹھہرا.تو خواب دیکھا کہ میں کار میں سڑک پر کھڑا
ارشاہ صاحب سوم......اولاد باب سوم.......ہوں یکدم سیلاب کی صورت میں پانی آ رہا ہے.میں کہتا ہوں کہ ان فصلوں کا کیا بنے گا.سیلاب گزر گیا تو میں نے دیکھا کہ فصلیں اسی شان کے ساتھ کھڑی ہیں.میں نے ڈاکٹر صاحب کو آیت كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْنَهُ ( سورة الفتح : ۳۰) پڑھ کر خواب سنائی.جس.آپ بہت خوش ہوئے.وفات تابعین احمد جلد سوم با رسوم صفحه ۵۲ ۵۳) حضرت ڈاکٹر سید حبیب اللہ صاحب ( اللہ آپ سے راضی ہو ) نے (سیالکوٹ میں ) ۱۸ اپریل ۱۹۵۳ء کو بعمر ساٹھ سال وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے.۱۰.اپریل کو ( بیت ) اقصیٰ قادیان میں آپ کا جنازہ غائب پڑھا گیا.اور بتایا گیا کہ آپ بہت مخلص اور ملنسار تھے.اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سچی محبت رکھنے والے اور دینی خدمت میں پیش پیش تھے.(روز نامه الفضل ربو ۱۱،۱۰۰ اپریل ۱۹۵۳ء) ۵.حضرت حافظ سید عزیز اللہ شاہ صاحب آپ کی پیدائش رعیہ میں ہوئی.۱۹۰۲ ء میں آپ نے بیعت کی سعادت حاصل کی.آپ نے ابتدائی تعلیم رعیہ میں حاصل کی بعد ازاں ٹی آئی ہائی سکول قادیان میں داخل ہوئے جہاں سے آپ نے میٹرک کیا.آپ حافظ قرآن تھے.سچے اور صاف گو تھے.جھوٹ اور ٹیڑھی باتوں سے متنفر تھے.سرکاری ملازمت میں رشوت لینا تو الگ رہا تحائف تک آپ قبول نہ کرتے تھے.تقسیم ملک کے بعد خاکسار ( مکرم ملک صلاح الدین ایم اے) کی سفروں میں اتفاقا متعد د غیر مسلموں سے ملاقات ہوئی.ہر ایک نے خودسید صاحب کا ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ سید صاحب سے وہ قریبی واقفیت رکھتے ہیں.ہر ایک نے محبت کے ساتھ آپ کا ذکر کیا اور بتایا کہ آپ نیک تھے اور رشوت سے نفرت کرتے تھے.حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ (اللہ آپ سے راضی ہو ) کے انتقال کے بعد ان کی ۹۱
مارشاہ صاحب باب سوم....سوم......اولاد اولاد کی پرورش کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کے مطابق حضرت مصلح موعود ( اللہ آپ سے راضی ہو) نے سید عزیز اللہ شاہ صاحب کی صاحبزادی سیدہ بشری بیگم صاحبہ سے شادی کی جن کا نام اللہ تعالیٰ نے حضور کو ”بشری غلام مرزا “ اور مہر آیا بتایا.محترمہ نے اس اولاد کی پرورش کی اور حضور کی آخری بیماری میں خدمت کی پائی.ایک عجیب بات بابا اندر جی نے خاکسار ( ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے) کو سنائی تھی کہ جب حضرت سید عزیز اللہ شاہ صاحب کے ہاں سیدہ بشری بیگم صاحبہ پیدا ہوئیں تو حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) نے مجھے بتایا کہ سید عزیز اللہ شاہ صاحب کو الہام ہوا تھا یا خواب آئی تھی کہ اس بچی کا نام محمد بشری رکھو.حضرت شاہ صاحب نے سید عزیز اللہ شاہ صاحب سے فرمایا کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ یہ بچی آپ کے لئے برکتیں لائے گی.چنانچہ یہی بیٹی حضرت خلیفہ امسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو ) کے عقد میں آ کر باعث برکت ہوئی.تابعین احمد جلد سوم با رسوم ۵۴، ۵۵) تاثرات حضرت سید ہ مہر آیا صاحبہ حضرت حافظ عزیز اللہ شاہ صاحب کے تو کل علی اللہ اور غیر معمولی قبولیت دعا اور نصرت الہی کے تعلق میں آپ بیان کرتی ہیں." آپ کی ملازمت محکمہ جنگلات کی تھی.جنگلات اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر قیام ہوتا اور برفباری ،طوفان جھکڑ وغیرہ سے پالا پڑتا رہتا تھا لیکن ان باتوں کو آپ خاطر میں نہ لاتے تھے.حفاظت الہی کے عجیب نظارے ایک دفعہ گھنے جنگل میں پڑاؤ تھا.مغرب کے وقت ہی اندھیری رات کا سا سماں تھا.والد صاحب نے بتایا کہ میں نے خیمہ سے چند گز کے فاصلہ پر وضو کرتے ہوئے دو گھورتی ہوئی سرخ آنکھیں دیکھیں اور خطرناک غرانے کی آواز قریب تر ہوتی محسوس ہونے لگی.یہ احساس ہوا کہ مجھے خیمہ کے اندر ہی وضو کرنا چاہیے تھا.خیمہ میں جا کر اسلحہ ۹۲
رشاہ صاحب لا نا بھی ممکن نہ تھا کہ پیچھے سے یہ جانور حملہ آور ہو جائے گا.......اولاد باب سوم....سو میں اونچی آواز سے سبحان اللہ وبحمدہ اور درود شریف کا ورد کر کے اس طرف پھونکنے لگا.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا کہ یہ موذی خطرناک بھیڑ یا کسی دوسرے جانور کی آواز سے الٹے پاؤں بھاگ اٹھا اور اس طرح بچاؤ ہوا.دو افراد کی بیعت ایک دفعہ ابا جان دورے میں رات کو گھنے جنگل اور برفانی پہاڑی پر پڑاؤ ڈالنے پر مجبور ہو گئے.جب سونے لگے تو شدید برفباری شروع ہو گئی.خانساماں اور اردلی وغیرہ نے اپنی چھولداریاں آپ کے خیمہ کے قریب لگانا چاہیں تا کہ آپ کے بارے اطمینان رہے لیکن آپ نے ان کو تسلی دلادی.اور ایسا کرنے سے منع کر دیا.رات کے دو بجے شدید برفباری سے عملہ کی چھولداریاں اکھڑ گئیں اور وہ گھبرا کر آپ کے خیمہ کی طرف بھاگے.دیکھا کہ خیمہ گرا ہوا ہے اور اوپر ڈھیروں برف پڑی ہے.برف ہٹائی تو دیکھا کہ آپ پلنگ کے پاس سجدہ میں پڑے ہیں.چونکہ اوپر برف پڑتی گئی اس لئے آپ اٹھ نہ سکے.عملہ کو بے انتہا تعجب ہوا کہ آپ زندہ سلامت اور خوش باش ہیں.ایسے تو کل اور عبادت کو دیکھ کر دو افراد نے بیعت کر لی.جانوروں سے حسن سلوک.ایک دفعہ جنگل سے گذرتے ہوئے اباجان نے ایک ہرن کا دودھ پیتا بچہ دیکھا جو اپنی ماں سے بچھڑ گیا تھا اور بھوکا تھا.آپ نے سامان میں سے دودھ نکال کر رومال بھگویا اور وہیں بیٹھ کر اسے پلانے لگے.مغرب کا وقت قریب ہو گیا.عملہ میں سے کسی نے کہا کہ گھر کی مسافت بہت ہے اور جنگلی راستے سے گھوڑے بمشکل چلیں گے.اس بچے کو یا تو ساتھ لے چلیں یا چھوڑ دیں.ابا جان نے کہا کہ ایسا ظلم میں نہیں کروں گا.سیر ہو کر دودھ پی لے تو اطمینان ہو اور بہت ممکن ہے کہ اس کی ماں اسے تلاش کرتی ہوئی ادھر آ نکلے.میں اللہ تعالیٰ کی اس معصوم مخلوق کے لئے دعا کر رہا ہوں.ابھی پندرہ بیس منٹ نہ گزرے تھے کہ ہرنی چوکڑی بھرتی ہوئی ادھر آئی اور دور دور سے بچے کے گرد چکر کاٹنے لگی.ابا جان نے الحمد للہ پڑھا اور اسے چھوڑ دیا اور روانہ ہو گئے.دیر سے گھر پہنچے تو میری ۹۳
شاہ صاحب......اولاد باب سوم......والدہ کے پوچھنے پر کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر کس قدر مہربان ہے کہ اس نے اس ننھے جانور کی بھوک کی تسکین کے لئے مجھے ذریعہ بنایا اور ہمیں نصیحت کی کہ ایسے جانوروں پر کبھی ظلم نہیں کرنا چاہیے.اور ان کوکھیل کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے.یہ بے زبان مخلوق بھی فریاد کرتی ہے.ان بے زبانوں سے دعائیں لیا کرو.ان سے پیار کرو.انہیں دانہ پانی کھلاؤ.خلیفہ وقت ہونے کی وجہ سے حضرت خلیفہ مسیح ثانی اللہ آپ سے راضی ہو ) کی زبان سے نکلے ہوئے سرسری الفاظ کی بہت وقعت والد صاحب کے نزدیک تھی.اور آپ اسی میں سب خیر و برکت سمجھتے تھے.حضور کی دعاؤں پر آپ کو بہت یقین تھا.جب کوئی تکلیف ہوتی ابا جان حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کی خدمت میں تار یا خط بھیجتے اور کہتے کہ اب مجھے اطمینان ہو گیا ہے.اس کی کئی مثالیں ہیں.ابا جان اولاد کی اعلیٰ تعلیم کے حامی تھے.ملازمت کی وجہ سے جنگلات اور پہاڑوں پر دورے کرتے رہنے کی وجہ سے تعلیم کا انتظام ممکن نہ تھا اس لئے آپ چاہتے تھے کہ بچیوں کو بطور بورڈ داخل کرائیں جس کی والدہ صاحبہ اجازت نہ دیتی تھیں.مجھے اعلیٰ تعلیم کا شوق بچپن سے تھا.میں نے میٹرک کیا تو میں نے مطالبہ کیا کہ میڈیکل لائن اختیار کرنے کی میری خواہش پوری کریں.آپ نے حسب معمول حضرت خلیفہ اسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو ) سے مشورہ چاہ بتایا کہ یہ بچی کی دیرینہ خواہش ہے اور یہ ذہین ہے.حضور نے جواب دیا کہ میں اپنے خاندان کی لڑکیوں کے لئے میڈیکل یعنی ڈاکٹری کی اجازت نہیں دوں گا.کو ایجو کیشن Co-Education کی وجہ سے بے پردگی اس میں ضروری ہوتی ہے.خواہ کچھ بھی ہو“.مجھے داخلہ کے لئے بلایا جا چکا تھا اور روانگی کی تیاری ہو چکی تھی.ابا جان مجھے اپنی ساری اولاد سے زیادہ چاہتے تھے.اور میری بات کو انہوں نے کبھی رد نہیں کیا تھا.اس موقعہ پر انہوں نے مجھ سے کہا کہ خلیفہ وقت جو ہمارے خاندان کے ہیڈ بھی ہیں ان کا منشاء نہیں کہ اس لائن میں داخلہ لو.سو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں داخلہ خیر و برکت کا موجب نہیں ہوسکتا.۹۴
مارشاہ صاحب......اولاد باب سوم....میرے ٹانسلز کے آپریشن کا موقعہ آیا.مشورہ لینے پر حضور نے مشورہ دیا کہ فی الحال آپریشن نہ کرا ئیں دعا اور دیگر علاج سے کام لیں.ابا جان نے اپنی بیوہ بہنوں اور ان کی اولاد کی ضروریات کا حسب توفیق آخر تک بہت خیال رکھا.حضرت دادا جان ( ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب) کی خدمت بھی ابا جان حسب توفیق کرتے رہے.دادا جان آپ سے بہت خوش تھے اپنی ہوش کے وقت سے میں نے دادا جی کو یہ کہتے سنا.”میرے عزیز اللہ! اللہ تمہیں اپنا عزیز بنائے“.۱۹۳۵ء کے قریب کی بات ہے.ابا جان کی کسی تکلیف کے ازالہ کے لئے دادا جان نے دعا کی تو آپ کو تسلی بخش دو الہام ہوئے.اس وقت ( میں ) دادا جان کے سامنے ابا جان کے ساتھ کھڑی تھی.وفات سید عزیز اللہ شاہ صاحب نے ۱۲.جولائی ۱۹۴۸ء کو بمقام لاہور مختصر علالت کے بعد وفات پائی.جہاں آپ اپنے بیٹے کے آپریشن کے لئے آئے تھے.ربوہ آپ کی آخری آرام گاہ ہے.الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۴۸ صفحها ) دعا حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ تحریر کرتی ہیں:.”اے میرے خدا! میرے ابا، تیرے اس عاجز بندہ نے جو تیرے کلام پاک کا حافظ ہی نہیں تھا بلکہ تیرے حکم، تیرے فرمان، تیرے کلام کے مطابق حسب توفیق عمل کرتا رہا.اس نے اپنی تمام زندگی بڑی پاک و مطہر اور تیرے در کی ناصیہ فرمائی میں گزاری.تیرے فرمان وحکم کے مطابق رہا.تیرے رسولوں کے حکم پر چلتا رہا.تجھے تیری ربوبیت کی قسم ! تو اس پر ہمیشہ بے شمار رحمت و فضل کی بارشیں تا قیامت رکھیو.تو اپنی قربت میں، اپنی رحمت کے سایہ میں انہیں رکھیو.ایک بشر کی حیثیت سے وہ تو بے شک کمزور
مارشاہ صاحب سوم......اولاد باب سوم....محض تھے.مگر تو عالی ہے.تو انہیں اپنی عفو کی چادر میں لپیٹ رکھنا.کیونکہ تیرا مقام رفیع یہی ہے.اور اے میرے محسن خدا! تو ان کی اولاد کو بھی کبھی ضائع نہ کیجیئو.ان کو ان کے نقش قدم پر بہترین طور پر رکھنا محض اپنے اس بندے کے طفیل ہی جس کی جائے پناہ تو ہی تھا.تجھ پر ہی تمام عمر تو کل رکھا اور پھر اسی کی اس اٹھی انگلی کی ہی لاج رکھیو جو بوقت نزع اماں کے سوال پر کہ آپ ہمیں کس کے سہارے پر چھوڑے جارہے ہیں، تو آپ نے آہستہ آہستہ تسبیح و تحمید کرتے ہوئے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اپنی لرزتی ہوئی انگلی اوپر اٹھادی.میرے محسن و محبوب خدا! تو جنت کی تمام نعمتیں اپنی پوری سخاوت سے ان کو عطا کر دیجیو.اور ہمیں بھی شکر گزار بندے بناتے ہوئے ہر مقام پر صبر و سکون عطار رکھنا اور اس حسین روح کے لئے ہمارے وجود کو بھی تا قیامت سکون کا باعث ہی رکھنا.آمین تابعین احمد جلد سوم صفحه ۵۷-۵۸) وہ رشک چمن کل جو زیب چمن تھا چمن جنبش شاخ سینہ زن تھا گیا میں جو اس بن چمن میں تو ہر گل اُس گھڑی اخگر ہے درد خدا جانے جانے کس کا تن گیا وہ پیرہن تھا کلچپس نے توڑا نقش مرده کو کیا تکلف تو جس سے مزین یہ ނ دین تھا رکھنا تن تھا (روز نامہ الفضل لاہور.۱۹ جولائی ۱۹۴۸ء) O ۹۶
ناہ صاحب......اولاد باب سوم....۶.حضرت حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحب زیارت حضرت اقدس آپ دسمبر ۱۹۰۰ ء میں رعیہ خاص میں پیدا ہوئے.آپ کا بیان ہے کہ میں نے ۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کا موقعہ پایا.میں نے کئی دفعہ حضور کو قرآن مجید سنایا.حضور نے مجھے کبھی پان اور کبھی مٹھائی وغیرہ عنایت فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۲۴ جنوری ۱۹۵۳ء) آپ نے آٹھ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا.قادیان میں آپ نے ۱۹۱۷ء میں میٹرک کیا.پھر اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا.انگلستان سے واپس آکر آپ نے علی گڑھ سے بی ٹی کیا.اور ٹی آئی ہائی سکول قادیان میں ٹیچر کے طور پر کام کرنے آپ ۲۵نومبر۱۹۲ء کور میلوے انجنیئرنگ کی تعلیم پانے کے لئے انگلستان گئے.روزنامه الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۵۳ء) روانگی کے وقت حضرت خلیفہ مسیح الثانی اللہ آپ سے راضی ہو ) نے آپ کے لئے جو نصائح فرما ئیں وہ ہر ایک طالب علم کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں.اور آج بھی جو طالب علم بیرون ملک حصول تعلیم کی غرض سے جاتا ہے اس کا سرمایہ حیات ہیں آپ نے ذیل کی نصائح تحریر فرمائیں:.عزیزم مکرم السلام علیکم.اللہ تعالیٰ حافظ و ناصر ہو.چند باتوں کو اگر یاد رکھیں تو انشاء اللہ فائدہ ہوگا.اللہ تعالیٰ پر توکل کریں.وہ بہت بڑا کارساز ہے ہم نے خود اس کی قدرت کو دیکھا ہے اور ساری دنیا کے انکار پر بھی اپنی آنکھوں دیکھی چیز کا انکار نہیں کر سکتے.دعائیں سنتا ہے.سفر میں مشکلات ہوتی ہیں.ایسے وقت میں اس سے رجوع
رشاہ صاحب سوم......اولاد باب سوم....کریں.اس سے زیادہ محبت کرنے والا کوئی نہیں.رشتہ داروں، عزیز محبوں سے بہت بڑھ کر وہ خبر گیری کرے گا.۲.نمازوں میں ستی نہ ہو.ایک نماز رہ جائے تو پھر اس کی کمی پوری کرنا نہایت مشکل ہے.اس بات کو مد نظر رکھیں کہ باہر ایک انسان دوسروں کی نظر کے نیچے ہوتا ہے لوگوں کو آپ پر نکتہ چینی کا موقعہ نہ ملے اور (وہ) محسوس کریں کہ اس شخص نے ایک نمایاں نمونہ دکھایا.یہ بیشک ایک ظاہر ہے.مگر بہت سے ظاہر باطن کے مددگار ہوتے ہیں.اپنی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دیں.اگر جنگ وغیرہ کا کوئی حادثہ ہو.تو سید ولی اللہ شاہ کی طرح اپنے والدین کو تکلیف کا شکار نہ بنائیں.بلکہ فوراً ہالینڈ چلے جاویں یا کسی ایسے ملک میں جیسے سوئٹزرلینڈ جس میں جنگ نہ ہو.باقی تعلیم انگلستان میں ہوسکتی ہے.ایسے خطر ناک مقامات پر رہنا طالب علم کا کام نہیں..احمدیوں سے وہاں زیادہ میل جول رکھنا چاہیے.خواہ (وہ ) ادنی تعلیم کے ہوں یا ان کے مذاق مختلف ہوں.جب تک عصبیت نہ ہو اور اپنوں اور دوسروں میں فرق نہ ہو وہ کامل اتحاد نہیں ہوتا جس سے قومیں ترقی کرتی ہیں.علم کے لئے قرآن کریم کی تلاوت اور حضرت صاحب کی کتب ( کا مطالعہ ) نہایت مفید ہے.اللہ تعالی مقصد میں کامیاب کر کے لاوے اور پچھلوں کے لئے موجب خوشی بناوے اللھم آمین.خاکسار مرزا محمود احمد ۹۸
شاہ صاحب لندن میں دعوت الی اللہ میں امداد باب سوم..........اولاد حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر (مربی) انگلستان اپنی رپورٹ ”نامہ نیر تحریر کرتے ہیں.عزیز حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحب بی اے ابھی ( دارالذکر ) میں مقیم ہیں اور کام میں بھی مدددیتے ہیں.الفضل قادیان ۱۹ فروری ۱۹۲۳ - صفحه ۲ ) مشرقی افریقہ میں خدمات آپ ۱۹۲۹ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو ) کی اجازت سے نیروبی ( مشرقی افریقہ ) گئے آپ وہاں انڈین ہائی سکول میں ٹیچر تھے.( تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحه ۲۲۶) وہاں آپ کا قیام پندرہ برس رہا.اپنے اور بیگانے سب آپ کا احترام کرتے کئی مجالس کے رکن اور بعض کے صدر بنائے گئے.مسٹر من (McMillan) نے ایک خطیر رقم خرچ کر کے اپنے نام پر ایک لائبریری قائم کی تھی اس کی وصیت کے مطابق غیر یورپین لوگوں کو اس سے استفادہ ممنوع تھا.لیکن حضرت شاہ صاحب واحد ایشیائی تھے جن کو آپ کی درخواست اور مطالبہ کے بغیر لائبریری سے استفادہ کی اجازت دے رکھی تھی.آپ کا نام مشرقی افریقہ کی تاریخ احمدیت میں ہمیشہ جلی حروف سے لکھا جائے گا.آپ نے احمدی مخلصین کے تعاون سے چند سال کے اندر جماعت کے اندر زندگی کی ایسی روح پھونک دی کہ جماعت نے مرکز سے درخواست کی کہ وہ اس جماعت کے خرچ پر چھ ماہ کے لئے وہاں ایک (مربی) بھجوائے اس پر محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب اللہ آپ کے درجات بلند کرے) کو نومبر ۱۹۳۴ء میں بھجوایا گیا.اس طرح اس ملک میں پہلے احمدیہ ( مرکز تربیت کی بنیاد رکھی گئی.قیام (مرکز) کے بعد بھی حضرت شاہ صاحب کی دینی خدمات کا سلسلہ جاری رہا.درس قرآن کریم.پبلک تقاریر اور انفرادی ( دعوۃ الی ۹۹
مارشاہ صاحب......اولاد باب سوم....اللہ ) میں آپ ذوق و شوق سے حصہ لیتے رہے.اور ( جماعتی فنڈ کا مقامی چندہ بھی آپ باقاعدگی سے دیتے رہے.رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یه قادیان ۱۹۳۴ ، ۱۹۳۵ صفحه ۵۲۵) تعمیر بیت شوره حضرت خلیفہ مسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو ) نے ہدایت فرمائی تھی کہ مشرقی افریقہ میں (بیت) کی تعمیر کی طرف خاص طور پر توجہ دی جائے جماعت احمدیہ کے لئے کام آسان نہ تھا.طبورہ میں ایک قطعہ پر تعمیر کا کام شروع ہونے پر غیر از جماعت مسلمانوں نے شدید مخالفت کی.حالات کے مد نظر انتظامیہ اور گورنر نے اجازت نہ دی.اس قطعہ میں تعمیر کی اجازت نہ ملنا برکات کا موجب ہوا.۱۹۴۲ء میں دس ہزار مربعہ فٹ کا ایک نہایت عمدہ اور با موقعہ اور بہتر قطعہ نانوے سال کی اقساط پر اور صرف ایک شلنگ سالانہ کرایہ پرمل گیا.جنگ عظیم دوم کا زمانہ تھا.عمارتی سامان پر حکومت کا کنٹرول تھا.مگر حکومت نے فراخ دلی سے سامان تعمیر کی اجازت دے دی.مزید یہ نصرت الہی حاصل ہوئی کہ جب کہ معمار اور ترکھان کی روزانہ اجرت ہیں شلنگ تھی اٹالین جنگی قیدی جو کئی ہزار وہاں آچکے تھے اور ان میں بہترین معمار وغیرہ تھے وہ صرف دو شلنگ روزانہ اجرت پر میسر آگئے.حضرت مصلح موعود (اللہ آپ سے راضی ہو ) نے اس کا نام ( بیت ) فضل تجویز فرمایا جو اواخر ۱۹۴۴ء میں تکمیل کو پہنچی.اس پر پینتیس ہزار شلنگ صرف ہوئے.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب، سید عبدالرزاق شاہ صاحب، فضل کریم صاحب لون، عبدالکریم صاحب بٹ اور محمد اکرم صاحب غوری نے خصوصاً اور دیگر ایشیائی اور افریقین احمدیوں نے عموماً تعمیر ( بیت ) میں مدد دی.(روز نامه الفضل ربوه ۱۲۵ اپریل ۱۹۵۲ء صفحہ ۶.الفضل قادیان ۲۱ نومبر ۱۹۴۲ء صفحه ۴ ) سچ کی برکات ۱۹۴۴ء میں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب جماعت احمد یہ افریقہ کی مرکزی انجمن کے پریذیڈنٹ تھے.چوہدری محمد شریف صاحب بی اے ( مقیم نیروبی ) نے بیان کیا کہ
رشاہ صاحب......اولاد باب سوم.......حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ (اللہ آپ سے راضی ہو ) کی وفات پر تعزیت کے لئے ہم ان کی خدمت میں پہنچے.تو آپ نے بتایا کہ آج صبح کشفا مجھے ایک نظارہ دکھا کر یہ علم دیا گیا ہے.کہ دنیا پر بہت سی آفات کا نزول شروع ہو گیا ہے.اور پہلے کئی دفعہ میری زبان پر یہ دعا جاری ہوتی رہی.اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنْ جُهْدِ الْبَلَاءِ وَدَرُكِ الْشَّقَاءِ وَسُوءِ الْقَضَاءِ وَشِمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ (اتحاف جلد ۵ حدیث نمبر ۸۴ بحواله موسوعه جلد ۲ صفحه ۲۱۶) (اے اللہ ! میں بلا کی تکلیف سے اور بدبختی کے آنے سے اور برے فیصلہ سے اور دشمنوں کے خوش ہونے سے تیری پناہ چاہتا ہوں ) اس کشف کے بعد کی بات ہے کہ حضرت سید صاحب خرابی صحت کی بناء پر رخصت پر ہندوستان آرہے تھے.جنگ عظیم دوم کے حالات میں چونکہ بحری سفر مخدوش تھا.آپ نے حضرت مصلح موعود اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو) کی خدمت میں دعا کی خاطر خطوط لکھے اور اطلاع کی کہ عنقریب سفر اختیار کیا جارہا ہے تار بھی دی جائے گی.حکومت نے شبہ کیا کہ جنگ کے حالات میں یہ خطوط اور تار د شتمن کے ہاتھ آ جائے تو برطانوی جہازوں اور جانوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے.اس وجہ سے ڈیفنس ایکٹ کے تحت آپ پر مقدمہ دائر کیا گیا.وکلاء نے خیر خواہی کے طور پر مشورہ دیا کہ آپ اپنے خطوط کے بارے میں خاموش رہیں.بار ثبوت پولیس پر ہے کہ وہ ثابت کرے کہ یہ خطوط آپ کے تحریر کردہ ہیں.لیکن آپ نے یہ مشورہ قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ نتیجہ خواہ کچھ ہو میں سچائی سے ذرہ بھر انحراف نہ کروں گا.ایک انگریز مسٹر ایڈ ورڈنکن حضرت شاہ صاحب کی طرف سے گواہ کے طور پر پیش ہوئے.جو تمیں سال تک ڈپٹی کمشنر قائم مقام کمشنر اور پنجاب گورنمنٹ کے سیکرٹری کے معز عہدوں پر فائز رہ چکے تھے اور ضلع گورداسپور کے بھی ڈپٹی کمشنر رہے تھے.اور کئی اضلاع میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سول سرجن (اللہ آپ سے راضی 1+1
مارشاہ صاحب سوم......اولاد باب.......ہو) کے ساتھ رہنے کی وجہ سے سلسلہ احمدیہ سے بخوبی واقف تھے اور معلوم ہوتا تھا کہ شاہ صاحب کے بھائی میجر ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ صاحب اور جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) سے بھی اچھی طرح واقف تھے.اس گواہ نے بیان کیا کہ یہ خط کسی عام دوست یا رشتہ دار کو نہیں بلکہ حضرت امام جماعت احمدیہ کولکھا گیا ہے جن کے متعلق احمدیوں کا اعتقاد ہے کہ ان کی دعا سارے جہاز کی حفاظت کا موجب ہوسکتی ہے.حکومت کی نظر میں یہ جماعت نہایت وفادار اور قابل احترام ہے.صرف یہی واحد جماعت ہے جس نے من حیث الجماعۃ اس جنگ میں امداد دی ہے.ماتحت عدالت اور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلوں میں تسلیم کیا کہ دوران جنگ شاہ صاحب نے حکومت کی مدد کی ہے.اور یورپین اور ہندی اقوام میں اس کا چر چاہے اور یہ کہ شاہ صاحب کا کیریکٹر ہر داغ سے مبرا ہے.اور جماعت احمد یہ وفا دار ہے.اس کے باوجود قانونی لحاظ سے اپیل مسترد ہوئی.اس دن حضرت سید صاحب ( بیت) میں تشریف نہ لائے جہاں باوجود علالت و نقاہت کے آپ کی حاضری یقینی ہوتی ہے.(اس عدم حاضری کی وجہ سے ) احباب جماعت کی حالت اس امر کی آئینہ دار تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے کس درجہ اخوت احمدی (جماعت) میں رکھ دی ہے.میری زبان پر حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ (اللہ آپ سے راضی ہو ) کے دو شیعر بار بار آتے تھے صرف فرق یہ تھا کہ ( دارالامان ) کی بجائے مدنظر ( بیت ) احمد یہ نیروبی تھی.سب تڑپتے ہیں کہاں ہے زینت دارالامان رونق بستان احمد دلر بائے قادیان جان پڑ جاتی تھی جن سے وہ قدم ملتے نہیں قالب بے روح سے ہیں کوچہ ہائے قادیاں ہز ایکسیلنسی گورنر صاحب کینیا کالونی کے پاس اپیل کی گئی.احمد یہ وفد کی ملاقات کے وقت چیف سیکرٹری اور اٹارنی جنرل بھی موجود تھے.گورنر صاحب کا رویہ بہت
مارشاہ صاحب باب سوم......اولاد ہمدردانہ رہا.مقدمہ حکومت اور ہر مذہب کے افراد کو احمدیت کے متعلق مزید معلومات بہم پہنچانے اور غلط فہمیوں کے ازالہ کا موجب ہوا.اس عرصہ میں احباب جماعت حکومت سے تعاون کرتے رہے.اور باوجود قانون کے ہاتھوں تکلیف اٹھانے کے محترم شاہ صاحب حضور انور کے ارشاد کے مطابق نہایت توجہ اور اضطراب سے اتحادیوں کی فتح کے لئے دعا کرتے رہے.یقینا یہ ایسی ممتاز حیثیت ہے جس کی مثال صفحہ دنیا میں بجز احمد یوں کے ملنی ممکن نہیں.مکرمہ محترمیه فرخندہ بیگم صاحبہ کو اپنے خاوند حضرت شاہ صاحب کی علالت کی وجہ سے بہت گھبراہٹ تھی.ان کی خواہش کے مطابق اپیل کی سماعت کے وفد کی ملاقات کے بعد ان کی ملاقات کا انتظام ہو گیا.موصوفہ کی ملاقات سے گورنر صاحب بہت متاثر ہوتے تھے.نیز موصوفہ نے اپنے میاں کے لئے جس جان سوزی اور کچی رفاقت اور ہمدردی کا ثبوت دیا اور ساری ساری رات گریہ وزاری سے دعا کرتی رہیں ایسی صالحات و قنات کا وجود بھی ان روشن انوار کے نزول کا ثبوت ہے جو ہمارے پیارے اور مقدس حضرت مصلح موعود ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کی برکت سے ہر آن جماعت احمدیہ پر نازل ہوتے رہتے ہیں.فالحمد للہ.صحت ہونے پر وہ ہندوستان کو روانہ ہوں گے نہ معلوم ان کی واپسی اس ملک میں ہوگی یا نہیں لیکن اس میں شک نہیں مشرقی افریقہ کی سرزمین حضرت امیر المومنین کے اس بچے عاشق احمدیت اور اخلاق کے اعلیٰ نمونہ اور ہمارے محترم اور شفیق بھائی کی یاد کو مدتوں فراموش نہ کر سکے گی“.(الفضل قادیان ۱ جولائی ۱۹۴۴ء) تقسیم ملک کے وقت خدمات تقسیم برصغیر کے وقت نہایت کٹھن حالات میں جن بزرگ ہستیوں نے دیگر مسلمانوں کو جو مضافات قادیان میں جمع ہو رہے تھے اور جماعت کو محفوظ رکھنے بحفاظت لاہور بھجوانے اور قادیان میں متعین سول اور فوجی حکام سے رابطہ رکھنے کی خصوصی خدمات سرانجام دیں.ان میں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) بھی ١٠٣
شاہ صاحب باب سوم......اولاد شامل تھے.اس کام کا مرکز حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کا مکان تھا.۱۹۴۸ء میں جب ربوہ آباد ہوا تو حضرت محمود اللہ شاہ صاحب ٹی آئی سکول کے طلباء کی مدد سے ربوہ کی آباد کاری میں ہر ممکن امداد فراہم کرتے.ر پورٹس سالانه صد را مجمن احمد یہ ۱۹۴۷ء تا ۱۹۵۱ روز میر پورٹ ہائی سکول ) ٹی آئی ہائی سکول میں غیر معمولی کارنامے مشرقی افریقہ سے قادیان پہنچنے کے چند روز بعد اکتو بر۱۹۴ء میں آپ کوئی آئی ہائی سکول قادیان کا ہیڈ ماسٹر حضرت مصلح موعود (اللہ آپ سے راضی ہو ) کی طرف سے مقرر کر دیا گیا.آپ نے حسن تدبیر، معاملہ نہی اور محنت و استقلال سے جلد سکول کی ہر لحاظ سے کایا پلٹ دی.ان اصلاحات میں خاص طور پر جن باتوں کی طرف توجہ دی گئی.ان میں سے بعض یہ ہیں.اردو زبان میں گفتگو کرنا اساتذہ اور طلباء کے لئے لازمی قرار دیا گیا.سیکنڈری حصہ کے طلباء کو چار ایوانوں (حمزہ ہاؤس، طارق ہاؤس، خالد ہاؤس اور اسامہ ہاؤس) میں تقسیم کیا گیا.باری باری ایک ہفتہ کے لئے ہر ایوان سکول کی صفائی کا نگران ہوتا.اسی طرح انٹر ہاؤس ٹورنا منٹ بھی شروع کئے گئے.حضرت مصلح موعود ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کی نئی جاری کردہ تحریکات میں سے تراجم قرآن فنڈ اور وقف زندگی کو مقبول بنانے کی بہت جدوجہد کی گئی.نتیجتاً اس مالی جہاد کے لئے ایک معقول رقم جمع ہوئی اور بہت سے طلباء نے اپنی زندگیاں خدمت ( دین حق ) کے لئے پیش کیں.تقسیم برصغیر کی وجہ سے اس سکول کو بھی پاکستان میں از سرنو بمقام چنیوٹ (ضلع جھنگ) جاری کرنا پڑا.حضرت مصلح موعود ( اللہ آپ سے راضی ہو ) اور سید محمود اللہ شاہ صاحب اور اساتذہ کی جدوجہد کے نتیجہ میں ۱۹۵۳ء میں میٹرک کے امتحان میں طلباء نے اول سوم ششم اور ہفتم پوزیشن حاصل کی.اس شاندار نتیجہ پر حضرت مصلح موعود نے ان الفاظ میں اظہار خوشنودی فرمایا:- انگریزی تعلیمی اداروں میں سے ٹی آئی ہائی سکول ربوہ پہلا ادارہ ہے جس نے ایک ایسا ریکارڈ قائم کر دیا ہے جو گذشتہ پچاس سال سے جب سے سکول قائم ہوا ہے قائم ۱۰۴
رشاہ صاحب......اولاد باب سوم......نہ ہو سکا.احمدی بچوں کا اول، سوم، ششم اور ہفتم آنا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر ہمارے بچے پروگرام کے مطابق تعلیم وتربیت حاصل کریں تو علیمی میدان میں بازی لے سکتے ہیں.ڈویژنل انسپکٹر آف سکولز اس سکول کے بلند معیار علمی کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے ریمارکس دیئے کہ یہ سکول ایک مثالی سکول ہے جس میں بچوں کی صحیح اور (دینی) رنگ میں تربیت کی جاتی ہے اور اس کے اساتذہ بھی فرض شناس ہیں.اس عہد میں سکول نے اخلاقی اور دینی اعتبار سے بھی بہت ترقی کی.فوجی ٹریننگ اور طبی امداد کے انتظامات ہوئے.ادبی اور علمی مجالس قائم ہوئیں.بزرگان سلسلہ کی تقاریر کے علاوہ بیرونی ممالک سے آنے اور جانے والے مجاہدین کے اعزاز میں تقاریب منعقد کرنے سے احمدیت کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا اور نونہالان قوم کو ایک پاکیزہ اور خالص (دینی) ماحول میسر آیا.تاثرات احباب محترم میاں محمد ابراہیم صاحب جمونی بی اے ( مرحوم و مغفور ) نے جو بعد میں اس اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہوئے حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے سات سالہ کامیاب دور کے بارے میں لکھا کہ:- حضرت شاہ صاحب کا تقر ر اس لئے کیا گیا تھا کہ اس وقت مرکزی سکول کی وہ حالت نہ تھی جو اس کا طرہ امتیاز ہونا چاہیے تھی.مقصود یہ تھا کہ آپ اس ادارہ کی گرتی حالت کو سنبھالیں اساتذہ کو باہم مربوط بنائیں اور طلباء واساتذہ کو سلسلہ سے وابستہ رکھیں.اور انہیں قوم کے لئے ایک مفید وجود اور اغیار کی نظروں میں باوقار بنائیں.آپ کو محیر العقول کامیابی حاصل ہوئی.آپ نے اس مختصر عرصہ میں اس سکول کو اوج کمال تک پہنچایا اور وہ پنجاب کے چوٹی کے سکولوں میں شمار ہوا.پچانوے چھیانوے فیصد نتیجہ نکلا.بفضلہ تعالیٰ یہ آپ کی نگرانی اور خدا داد قابلیت اور دعاؤں کا نتیجہ تھا.میرے اس سکول میں مدرسی کے تمہیں سال میں افسران تعلیم نے اس سکول ۱۰۵
رشاہ صاحب سوم......اولاد باب سوم....کے متعلق ایسی تعریفی رائے کا اظہار نہیں کیا جو آپ کے عہد میں تقریراً اور تحریراً کیا.ہجرت کے بعد لاہور سے ہوتے ہوئے ہم چنیوٹ آئے تو اساتذہ اور طلباء کی تعداد مجموعۂ صرف چونتیس تھی.پھر کوشش سے اکاون ہوئی اور سکول شروع ہوا.آپ نے خندہ پیشانی سے بے سروسامانی اور مشکلات کا مقابلہ کیا.اور رہبری کی کہ اس سکول نے چنیوٹ کے پرانے مدارس سے زیادہ ناموری حاصل کر لی.اور آپ کے حسن اخلاق سے متاثر ہوکر غیر احمدی افسران و معززین نے اپنے بچوں کو ہمارے سکول میں داخل کرادیا اور یہ سلسلہ بعد تک جاری رہا.وہ فرشتہ ہیں فرشتہ“ اپنے اور دوسرے آپ کے مداح تھے.اور نہایت محبت سے آپ سے ملتے تھے.سلسلہ کے ایک کلرک کسی کام سے چنیوٹ تحصیل گئے.شاہ صاحب کا ذکر آیا تو سرکاری خزانچی صاحب نے اپنے ایک غیر احمدی ساتھی سے کہا کہ شاہ صاحب کی کیا بات ہے.ان صاحب نے پوچھا کون سے شاہ صاحب خزانچی صاحب نے تعجب سے کہا.سید محمود اللہ شاہ صاحب.آپ ان کو بھی نہیں جانتے ؟ وہ فرشتہ ہیں فرشتہ آپ بہت خوش گفتار اور جہاندیدہ تھے.ہر مجلس پر چھا جاتے.محکمہ تعلیم کے افسران جن سے لوگ مرعوب ہوتے ہیں وہ مجلس میں خود شاہ صاحب کی طرف متوجہ ہوتے اور ان سے باتیں سنے پر مجبور ہوتے.متحدہ پنجاب میں لدھیانہ میں صوبہ کے ہیڈ ماسٹروں کی کانفرنس میں میاں عبد الحکیم صاحب ہیڈ ماسٹر اسلامیہ ہائی سکول لاہور نے جو طالب علمی کے زمانہ سے آپ کو جانتے تھے باوجود غیر از جماعت ہونے کے آپ کو دیکھتے ہی صدارت کے لئے آپ کا نام تجویز کر دیا اور دوسروں نے تائید کی.آپ کی اسی لیاقت اور ہر دلعزیزی کا یہ نتیجہ تھا کہ اس پراونشل ایجوکیشنل ایسوسی ایشن کا سہ روزہ اجلاس ۱۹۴۵ء میں قادیان میں منعقد ہوا اور صوبہ بھر کے ہیڈ ماسٹر سلسلہ کے مرکز اور اوراس کے عہد یداروں سے متعارف ہوئے.محترم میاں محمد ابراہیم صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ آپ کی طبیعت ١٠٦
شاہ صاحب......اولاد باب سوم....میں اس قدر استغناء اور بے نفسی تھی کہ کسی عہدہ یا اعزاز کو آپ قطعاً قبول نہ کرتے جب تک کہ خود دعا کر کے آپ کو اس بات کا یقین نہ ہو جاتا کہ اس میں سلسلہ احمدیہ کی بہتری ہوگی.روزنامه الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۵۲ء - نیز تاریخ احمدیت جلد ۱۵ - صفحه ۴۰۳ تا ۴۰۸) تاثرات مکرم ومحترم چوہدری مبارک مصلح الدین صاحب آپ تحریر کرتے ہیں :- حضرت سید محموداللہ شاہ صاحب کائی آئی ہائی سکول قادیان کے ہیڈ ماسٹر کے طور پر تقرر پر آپ کی رہائش مع اہل و عیال کچھ عرصہ بورڈ نگ تحریک جدید کے بالائی منزل کی سپرنٹنڈنٹ کی رہائش گاہ کی پارٹیشن کے جنوبی حصہ میں رہی اور شمالی حصہ میں والدم حضرت صوفی غلام محمد صاحب ( سپرنٹنڈنٹ) کا قیام مع اہل وعیال رہا.اس قرب کی وجہ سے ہمیں حضرت شاہ صاحب سے استفاضہ کا موقعہ ملا تقسیم ملک کے بعد مرکز ربوہ کے قیام سے پہلے یہ سکول چنیوٹ میں جاری ہوا.شاہ صاحب کے ذمہ ہیڈ ماسٹری کے علاوہ امیر جماعت کے فرائض بھی تھے.آپکے اہل وعیال کو بھی خدمات سلسلہ کی توفیق حاصل ہوئی.آپ کی اہلیہ فرخندہ اختر صاحبہ جامعہ نصرت ربوہ کی پرنسپل رہیں.آپکے بیٹے سید مسعود مبارک شاہ صاحب نے جوانی میں وقف زندگی کی.سیکرٹری مجلس کار پرداز پھر ناظر بیت المال رہے.حضرت شاہ صاحب کے فرزند سید داؤد مظفر شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالی ( داماد حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اللہ آپ سے راضی ہو) پہلے سندھ کی اراضی سلسلہ کی انتظامیہ سے منسلک رہے.اور بعد ازاں کئی سال سے بطور واقف زندگی آنریری طور پر وکالت تبشیر میں کام کرتے رہے.آپ بہت خوش شکل اور خوش لباس تھے.باوجود اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے بہت ہی سادگی رکھتے تھے.اور دلوں کو موہ لینے والی طبیعت پائی تھی.بچوں سے نہایت شفقت کا سلوک تھا.آنے والے کو دور سے ہی السلام علیکم کہنے میں پہل کرتے.چنانچہ کوشش کے باوجود میں پہل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوا.1.2
شاہ صاحب شاگردوں کی حوصلہ افزائی......اولاد باب سوم....آپ ہمیشہ شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرتے.نہایت احسن طریق سے سمجھاتے اور ہر ممکن رہنمائی اور امداد فرماتے تھے.حوصلہ افزائی کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک روز سحری کے وقت میں ریلوے سٹیشن ربوہ پہنچا تو شاہ صاحب مع مسز شاہ اور بیٹے سید مشہود احمد کے ٹکٹ والی کھڑکی کے پاس کھڑے تھے.فوراً مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ ہمارا Mathematician آ گیا اور فرمایا کہ ڈھائی روپے فی ٹکٹ کے حساب سے اڑھائی ٹکٹ کے کتنے پیسے بنے.میں نے جھٹ کہا سوا چھ روپے فرمانے لگے.تم کیسے اتنی جلدی حساب نکال لیتے ہو.میں نے عرض کیا کہ بہت آسان ہے.دوٹکٹ کے پانچ روپے بنے پھر نصف ٹکٹ کا سوار و پیر.کیل سواچھ ہوئے.اس پر آپ نے مسز شاہ سے کہا.دیکھا ہماراMathematician کتنی جلدی حساب نکال لیتا ہے.حوصلہ افزائی اور راہنمائی کا ایک واقعہ یہ ہے کہ سائنس گروپ کے طلباء بالعموم انگریزی میں اتنے اچھے نہیں ہوتے جتنے وہ سائنس اور حساب میں ہوتے ہیں.میں اچھے طلباء میں شمار ہوتا تھا.ایک روز ہمارے انگریزی کے ٹیچر ساری کلاس سے خفا تھے اور انہوں نے کہا کہ تم اس سال بھی لگے ہو تو میٹرک نہیں کر سکتے.شام کو حضرت شاہ صاحب سے ملاقات ہوتی تھی.میں نے افسردگی سے اس وقت یہ بات سنائی تو آپ نے بڑے پیار سے مجھے کہا نہیں نہیں.تم تو بہت ہی اچھے طالب علم ہو اور نہ صرف تم اسی سال کامیاب ہو گے بلکہ انشاء اللہ اعلیٰ نمبروں پر پاس ہو گے اور آپ نے مجھے بتیس صفحات کا ایک پمفلٹ دیا کہ اسے پڑھ لو.پڑھ لیا تو فرمایا کہ اپنے الفاظ میں یہ مضمون لکھوں جو میں نے چند منٹ میں لکھ لیا.آپ نے اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا کہ تم نے کتنا اچھا مضمون لکھا ہے.تم بہت اچھا لکھتے ہو اور مسز شاہ کو بھی دکھایا اور کہا کہ دیکھو ہمارے Mathematician نے کیسا اچھا مضمون لکھا ہے.پھر ہمارے استاد پروفیسر محمد ابراہیم صاحب ناصر کو رقعہ لکھا جو ہمیں حساب پڑھاتے تھے اور انگریزی اور فزکس میں بھی لائق تھے اور بہت اچھے استاد تھے کہ روزانہ مجھے ایک مضمون، چٹھی یا ترجمہ کا اقتباس دیا کریں جو یہ دوسرے روز دکھایا کرے.سوانہوں نے چند روز مجھے کام دیا اور اس کی اصلاح کی.اور پھر شاہ صاحب کو رپورٹ دی ۱۰۸
مارشاہ صاحب کہ اب انشاء اللہ یہ بغیر راہنمائی کے خود بخود ترقی کرلے گا.......اولاد باب سوم....میں میٹرک میں بہت اچھے نمبروں سے کامیاب ہوا اور شاہ صاحب نے مجھے اعلیٰ سرٹیفکیٹ دیا.آپ نے مجھے بہت سی دعاؤں سے نوازان کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا اور مجھے بطور واقف زندگی خدمت سلسلہ کی توفیق مل رہی ہے.شاہ صاحب قاضی بھی تھے.ایک شخص تحریر نہ ہونے کی وجہ سے مدعی کی رقم دینے سے انکاری تھا.آپ کا تاثر یہ تھا کہ دعویٰ صحیح ہے.آپ نے مدعی علیہ سے بڑے دلنشیں انداز سے کہا کہ ضروری نہیں کہ آپ کا قول اور فعل ایک جیسا ہو.آپ بڑی آسانی سے کہہ دیں کہ دعویٰ درست نہیں.وہ صاحب اتنے شرمندہ ہوئے.کہنے لگے شاہ صاحب! ان کی بات درست ہے.اور میں رقم دینے کو تیار ہوں.اس طرح آپ نے احسن طریق سے چند لمحوں میں معاملہ نمٹا دیا.آپ نے قادیان میں تفریح کے وقت میں اضافہ کر دیا تھا.اور بورڈنگ ہاؤس سے آلو کی بھجیا یا چنے وغیرہ پکوا کر ہر طالب علم کو مہیا کروائے.اس کی بہت کم قیمت کا بھی جو طالب علم متحمل نہ تھا اسے مفت دلوایا.بیت الخلاء کو بہترین قسم کی فلش لیٹرین میں تبدیل کروایا.اور ایک ایک کلاس کو بلوا کر ان کے استعمال کا طریق سمجھایا گیا.آپ نے اچھے طلباء کی خصوصی حوصلہ افزائی اور سپیشل کلاسز کے اجراء اور امتحانات وظائف کی تیاری اور کتب مہیا کرنے کا اور لائبریری اور لیبارٹری کو مکمل کرنے کا انتظام کیا.جب بھی سکول میں کوئی تقریب منعقد ہوتی تو آپ کی پرکشش اور پراثر شخصیت کی وجہ سے دیگر مدارس کے ہیڈ ماسٹرز اساتذہ اور محکمہ تعلیم کے عہدیداران اور حکومت کے کارندے اور غیر از جماعت اعلیٰ طبقہ کے احباب شمولیت کے لئے تشریف لاتے اور بہت اچھا اثر لے کر جاتے.آپ کے شاگردوں ہی سے ایک کثیر تعداد نے آپ کی رہنمائی اور دعاؤں سے خدمت سلسلہ کی توفیق پائی اور پارہے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ سے بہت خوش ہو.آپ کی طبیعت میں خوش خلقی اور نے نفسی تھی.آپ نہایت نیک اور دعا گو تھے.روزنامه الفضل ربوه ۱۳ جون ۱۹۸۹ ، صفحه ۴، ۵) 1.9
ناه صاحب باب سوم..........اولاد تاثرات محترم محمد اکرم صاحب غوری ، آپ تحریر کرتے ہیں :- خاکسار قبول احمدیت کے بعد (مشرقی افریقہ سے) پہلی بار۱۹۳۴ء میں جلسہ سالانہ قادیان پر آیا.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کی دعوت پر خاکسار نے ان کے شاہ پاس حضرت خلیفہ اسی ثانی (اللہ آپ سے راضی ہو ) کی کوٹھی دار الحمد ( واقعہ دار الانوار ) میں قیام کیا.اس وقت ہمارے موجودہ امام حضرت میاں طاہر احمد صاحب کی عمر پانچ برس کی ہوگی.اس وقت میں نے بار ہا ان کو یہ پڑھتے سنا.نام میرا طاہر احمد، طاری طاری کہتے ہیں مسیح موعود کے گھر میں بڑی خوشی سے رہتے ہیں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کا مجھ پر ایک احسان بھی ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا ترجمہ کرنے کا شوق مجھ میں پیدا کیا.کئی کتب مثلاً.تذکرۃ الشہادتین.کے ترجمے کر چکا ہوں.اعلیٰ مقام انتقاء اور اخلاق فاضلہ آپ عشق رسول کریم ﷺ سے معمور، صاحب الہام، ذکر الہی کرنے والے، عفیف، نظافت پسند، خنده رو ( اور ) نرم مزاج بزرگ تھے.باوجودشدید علالت کے بشاشت سے سلسلہ اور احباب کے کام کو سر انجام دیتے تھے.اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے احباب میں بہت مقبول ومحبوب تھے.آپ ہر ایک کی خدمت کرنے کو تیار رہتے تھے کسی وجہ سے کسی کا کام نہ ہو سکتا تب بھی آپ کی ہمدردی کا اس پر خاص اثر ہوتا.دینی شعار کی پاسداری لندن میں محکمہ ریلوے کی اعلیٰ ملازمت کے لئے آپ کا انٹرویو ہوا جس میں ایک سوال کے جواب میں آپ نے کہا کہ میں تو اپنی بیوی کو پردہ کراؤں گا.اسی وجہ سے آپ کو ملازمت سے محروم رکھا گیا.ایک اور مسلم امیدوار نے آپ سے کہا کہ آپ بھی میری طرح جواب دیتے کہ میں پردہ نہیں کراؤں گا.بعد میں کسی نے کیا پوچھنا ہے.اور میری +11
مارشاہ صاحب باب سوم......اولاد بیوی تو ہے بھی بھدی اور بدشکل.کلب میں اس کے ایک دو دفعہ بے پردہ جانے پر خود ہی لوگ کہہ دیں گے کہ یہ نہ آیا کرے.لیکن سید صاحب نے کہا کہ میں تو زبانی بھی ایسا کلمہ کہنے کو تیار نہیں.یہ دوسرا شخص چیف میجر ریلوے کے عہدہ تک پہنچا.خاکسار حضرت شاہ صاحب کے ذکر خیر کے طور پر مشرقی افریقہ سے ہی متعلق ایک واقعہ عرض کرتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نہ صرف ایشین آبادی اور افریقن لوگوں میں بہت مقبول اور ہر دلعزیز تھے اور اپنے بلند اخلاق کی وجہ سے معروف تھے بلکہ مشرقی افریقہ پر اس زمانہ میں حکومت کرنے والے انگریز افسران کے نزدیک بھی اپنے اعلیٰ کردار محنت اور دیانت سے اپنی ذمہ داری ادا کرنے والے شمار ہوتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے حسن سلوک کی وجہ سے ان میں مقبول و معروف تھے.اور انگریزوں سے بھی اس وجہ سے ان کے ساتھ نہایت اچھے اور مخلصانہ مراسم اور دوستانہ تعلقات تھے.میں ان کو بھی فراموش نہیں کر سکا ایک انگریز رابرٹ ڈونی یا اینتھونی ۱۹۵۶ء میں نیروبی (مشرقی افریقہ) سے سیرالیون تبدیل ہو کر آئے.حکومت سیرالیون نے انہیں انسپکٹر آف سکولز سے ترقی و کر ڈائریکٹر آف ایجو کیشن بنادیا.وہ معائنہ مدارس کے سلسلہ میں سیرالیون کے وسطی شہر بو (BO) میں آئے.خاکسار اس وقت امیر جماعت ہائے احمد یہ سیرالیون کے علاوہ جنرل پریذیڈنٹ احمد یہ سکولز بھی تھا.وہاں انہوں نے سب سے پہلے ہمارے سکول کا معائنہ کیا اور اس سکول کے کام سے بہت خوش ہوئے اور لاگ بک میں بہت اچھے ریمارکس دیئے.اور اسکول میں مزید کلاس روم بنانے کی سفارش کرتے ہوئے اخراجات کا انتظام بھی انہوں نے فرمایا.ان کے اس ملک میں نئے آنے کی وجہ سے جماعت احمدیہ سے متعارف کرنے کے لئے میں نے قرآن شریف انگریزی اور انگریزی کتب پیش کرنے کے ساتھ جماعت کے متعلق بہت سی معلومات بتائیں.اور یہ بھی کہا کہ مشرقی افریقہ کے کئی اور علاقوں میں بھی ہمارے کئی مشن اور جماعتیں اور مدارس اور ( مربیان ) کامیابی کے ساتھ خدمت خلق میں مصروف ہیں.میری باتیں سن کر انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ آپ
مارشاہ صاحب......اولاد باب سوم....سمجھتے ہیں کہ میں آپ کے مشن اور (دین) کے متعلق نا واقف محض ہوں.میں تو ایک لمبے عرصے سے نہ صرف احمد یہ مشن سے جماعت کی ( تربیتی) و تعلیمی سرگرمیوں سے متعارف ہوں بلکہ آپ کی جماعت اور (مربیان ) سے میرے بڑے اچھے مراسم رہے ہیں اور میں آپ کی جماعت کے مداحوں میں سے ہوں اور بہت کچھ جانتا ہوں آپ کی جماعت کے افراد کے اعلیٰ اخلاق وحسن کردار سے بہت متاثر ہوں.اور کئی ایک سے میرے دوستانہ مراسم بھی رہے ہیں ان میں سے ایک احمدی مخلص دوست سید محمود اللہ شاہ صاحب کو تو ان کی علمی قابلیت اور بلند اخلاق اور امانت و دیانت کی وجہ سے کبھی فراموش نہیں کر سکتا.وہ بھی میری طرح وہاں انسپکٹر آف سکولز تھے.اور میں ان کی جاذب اور پرکشش شخصیت اور حسن معاملہ اور دوست پروری سے بہت متاثر تھا.اس پر میں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے اس قول کی طرف توجہ دلائی کہ درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اور یہ صورت حال ثبوت ہے کہ جس درخت کے یہ احمدی شیریں پھل ہیں وہ سچا ہے تو انہوں نے کہا کہ جماعت احمدیہ کے بانی کے دعاوی اور ( دین حق ) کی صداقت کے متعلق میں نے کبھی سوچا نہیں.اس حد تک میرا مذہب سے لگاؤ نہیں.البتہ احمدی ( دین حق ) کی تعلیم پر صحیح طور پر عمل کرنے اور غیر مسلموں کو ( دین حق) کی ( دعوۃ الی اللہ ) کرنے میں دوسروں سے زیادہ مستعد ہیں.اس پر میں نے مناسب رنگ میں اس بارے میں توجہ کرنے کی تلقین کی.(روز نامه الفضل ربوه ۳۱ مارچ ۱۹۸۳ء) آپ کے اخلاق کا تذکرہ از فرمودات حضرت خلیفتہ اسیح الرابع ایدہ اللہ بنصرہ العزیز) حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۴ دسمبر ۱۹۸۲ء کو ( بیت ) مبارک ربوہ میں خطبہ نکاح کے لئے آیات مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- عزیزم سید محمود اللہ شاہ جس کے نکاح کا اعلان کرنے کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں ہمارے ماموں حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) کا پوتا ہے.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب اپنے غیر معمولی اخلاص اور بعض دیگر صفات حسنہ کی وجہ
شاہ صاحب باب سوم....سوم......اولاد سے زندگی میں جہاں بھی رہے بہت ہی ہر دلعزیز تھے.ان کی طبیعت میں بہت ہی محبت اور شفقت پائی جاتی تھی.بلا امتیاز مذہب وملت ہر ایک سے ہمدردی کرتے تھے.لوگ بھی ان سے بہت جلد اور بے حد محبت کرنے لگ جاتے تھے جو دراصل انہی کی طبیعت کا انعکاس تھا.بڑے تہجد گزار، صاحب کشف والہام اور بہت ہی خوبیوں کے مالک تھے.ایک ہند وطالب علم کا والہانہ اظہار محبت ایک مرتبہ گورنمنٹ کالج لاہور میں مجھے ان کے نیک اثر کی وسعت اور گہرائی کا اس طرح علم ہوا کہ کالج میں ہندولڑکوں کا ایک گروپ تھا جو مشرقی افریقہ سے آیا ہوا تھا.چونکہ وہ انگریزی سکولوں کے پڑھے ہوئے تھے ان میں باقی لڑکوں کے مقابل پر نسبتاً امتیازی حیثیت کا احساس پایا جاتا تھا.وہ اپنے آپ کو دوسروں سے نسبتا افضل سمجھتے تھے.ان کا آپس میں اٹھنا بیٹھنا تھا.ایک دفعہ ایک لیبارٹری میں ہم کام کر رہے تھے.میرے ساتھ ایک مسلمان لڑکا تھا اس سے باتوں باتوں میں سید محمود اللہ شاہ صاحب کا ذکر آ گیا.ایک ہندولڑ کا چند سیٹیں پرے دوسری طرف بیٹھا کام کر رہا تھا.وہ سن کر ایک دم چونکا اور دوڑ کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا یہ کس کا نام تم نے لیا ہے؟ میں نے کہا سید محمود اللہ شاہ صاحب کا.وہ کون تھے؟ میں نے کہا وہ میرے ماموں تھے.مشرقی افریقہ میں رہا کرتے تھے.یہ سنتے ہی وہ میرے گلے لگ گیا.شدت جذبات سے اس کی آواز گلو گیر ہوگئی.کہنے لگا وہ تو میرے بڑے محسن تھے.مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ تم ان کے بھانجے ہو.بے حد محبت کے انداز میں یعنی جس طرح ہندو گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اس قسم کا اس نے والہانہ محبت کا اظہار کیا.علاوہ ازیں کئی غیر از جماعت طالب علم جو ان کے شاگر در ہے ہیں.جب بھی ان سے ماموں جان کا ذکر ہوا انہوں نے بہت ہی غیر معمولی احترام اور محبت کا اظہار کیا.جن کے احسانات میں کبھی نہیں بھول سکتا ابھی حال ہی میں انگلستان کے دورے کے وقت میرے دوسرے ماموں زاد بھائی سید نسیم احمد صاحب بھی وہاں گئے ہوئے تھے ان کو دل کی تکلیف تھی.انہوں نے وہاں
مارشاہ صاحب......اولاد باب سوم.......معائنہ کروانا تھا.مجھے انہوں نے بتایا کہ جس ڈاکٹر سے میں علاج کروا ر ہا تھا.اس نے بھی مشرقی افریقہ ہی میں تعلیم پائی تھی.نسیم نے اس ڈاکٹر سے میرا ذکر کیا تو اس کو میری نسبت پتہ تھا کہ میں کون ہوں اور حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے ساتھ میرا رشتہ کیا ہے پھر اس نے فورا نسیم سے پوچھا کہ تم کس کے بیٹے ہو اور پھر سید محموداللہ شاہ صاحب کا پوچھا.چنانچہ وہ ان کا علاج کرتا رہا.وہاں علاج بہت مہنگا ہے اس لئے کم از کم سینکڑوں پونڈ اسکی فیس بننی چاہیے تھی.لیکن ایک آنہ بھی نہیں لیا.اور بڑا اصرار کیا کہ اس بات کا ذکر بھی نہ کرو.تم میرے ایسے استاد کے عزیز ہو جس کے احسانات کو میں کبھی بھول نہیں سکتا.خلیق انسان اپنے پیچھے بڑے گہرے اثرات چھوڑتا ہے اور بڑے وسیع اثرات چھوڑتا ہے.اسی وجہ سے ان کی ( دعوۃ الی اللہ ) میں بڑا اثر تھا.ان کے ذریعہ بعض ایسے لوگ بھی احمدی ہوئے جو اس سے پہلے احمدیت کے شدید معاند تھے.لیکن پھر احمدیت میں آکر عشق الہی اور مذہبی خلوص میں غیر معمولی ترقی کی.انہی میں سے ایک ہمارے محمد اکرم صاحب غوری ہیں جواب لنڈن میں جماعت کے سیکرٹری کے فرائض انجام دیتے ہیں.غوری صاحب اور ان کا خاندان، حضرت سیدمحمود اللہ شاہ صاحب کی ( دعوۃ الی اللہ ) ہی سے احمدی ہوا تھا.( دعوۃ الی اللہ ) بعد میں ہوئی.پہلے ان کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر انہوں نے احمدیت میں دلچسپی لینی شروع کی.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس خاندان میں اگلی نسلوں میں بھی یہ نیکیاں جاری اور قائم رکھے گا.ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے آباؤ اجداد کی نیکیوں کی نسلاً بعد نسل حفاظت کی توفیق بخشے بلکہ نیکیوں میں آگے بڑھنے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین یہ نکاح جس کا میں اعلان کرنے لگا ہوں عزیزہ مکرمہ در مشین سلمہا اللہ تعالیٰ کا ہے جو مکرم محمد امین صاحب اوکاڑہ کی بیٹی ہیں.ان کا نکاح سید محمود اللہ شاہ صاحب ابن مکرم سید مسعود مبارک شاہ صاحب ساکن ربوہ کے ساتھ دس ہزار روپے حق مہر پر قرار پایا ہے“.ایجاب وقبول کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس رشتہ کے بہت ہی بابرکت اور مثمر ثمرات حسنہ ہونے کے لئے حاضرین سمیت دعا کرائی.(روز نامه الفضل ربوه ۲ مارچ ۱۹۸۳ء) ۱۱۴
ناہ صاحب وصال......اولاد باب سوم....آپ کا وصال ۱۶ دسمبر۱۹۵۲ء کور بوہ میں ہوا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.مرحوم نے جس حسن و خوبی سے احمدیت کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا وہ انہی کا حصہ ہے.اور ان کی یہ خدمت ہمیشہ کے لئے یادگار رہے گی.خدا تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور اپنے خاص فضل سے ان کا بہترین قائم مقام پیدا کرے.آمین روزنامه الفضل ربوہ ۱۷ دسمبر ۱۹۵۲ ء صفحه ۱ ) ۱۱۵
ناه صاح مکرم و محترم سید عبدالرزاق شاہ صاحب باب سوم..........اولاد آپ نے ابتدائی تعلیم رعیہ خاص اور مشن سکول نارووال سے حاصل کی بعد ازاں والدین نے آپ کو ۱۹۱۷ء کے قریب قادیان بھجوایا جہاں آپ نے ٹی.آئی ہائی سکول سے میٹرک کیا.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے ۱۹۲۷ء میں مشرقی افریقہ جانے کے چند سال بعد آپ بھی وہاں چلے گئے اور اسی سکول میں ملازم ہو گئے.مشرقی افریقہ میں خدمات مشرقی افریقہ میں آپ کچھ عرصہ سیکرٹری مال اور کچھ عرصہ صدر جماعت رہے.ملک احمد حسن صاحب ممبر کینیا Legislative کے زیراہتمام ۲۳ جولائی ۱۹۳۶ء اخبار الھدی کا اجراء ہوا.کتابت و طباعت کا سارا کام محمد اکرم صاحب غوری نے اور سید عبدالرزاق شاہ صاحب اور ملک احمد حسن صاحب اور مضمون نویسی کا کام مولانا مبارک احمد صاحب (مربی) انچارج اور دیگر احباب سرانجام دیتے تھے.تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحه ۲۶۲ تا ۲۶۵) مرکز میں واپسی محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے تحریر کرتے ہیں:.آپ نے مشرقی افریقہ سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( اللہ آپ سے راضی ہو) کی خدمت میں اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کرنے کی اطلاع دی اور آپ کی تحریک پر آپ کے نوجوان بیٹے عبد الباسط نے بھی اپنی زندگی وقف کر دی.جو اس وقت سینئر کیمبرج کے امتحان کی تیاری میں مصروف تھے.لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ ایک حادثہ میں راہی ملک بقا ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ محترم سید صاحب ۱۹۴۶ء میں قادیان واپس آئے.حضرت مصلح موعود ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کی رائے تھی کہ آپ واپس نہ جائیں بلکہ خدمت سلسلہ میں لگ جائیں.اس وقت ایک دو سال تک پنشن ہونے والی تھی اور محکمہ تعلیم بھی فارغ کرنے پر آمادہ نہیں تھا اور وہاں سے وارنٹ گرفتاری قادیان پہنچا.ان حالات کے باوجود بھی حضور کے مشورہ
نارشاہ صاحب سوم......اولاد باب سوم....کے مطابق آپ واپس نہ گئے.اور اپنی پینشن وغیرہ کے حقوق کی قربانی کرنے کی آپ نے توفیق پائی.پھر صوبہ سندھ میں حضور، تحریک جدید اور صدرانجمن احمدیہ کی اراضی کی انتظامیہ میں آپ نے بارہ سال تک بطور اسسٹنٹ ایجنٹ کا کام کیا.۱۹۶۳ء میں آپ حضور کے مختار عام تھے.حضرت مصلح موعود (اللہ آپ سے راضی ہو ) کی آخری لمبی بیماری میں محترم سید عبدالرزاق شاہ صاحب کی برادرزادی حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ کو بھی خدمت کا بہت موقعہ مل رہا تھا سید عبدالرزاق شاہ صاحب کو بھی حضور کی خدمت میں کئی گھنٹے تک حاضر باشی اور عیادت میسر آتی تھی.حضور کے سیر پر جانے پر ساتھ ہوتے تھے.وصال تابعین احمد جلد سوم نمبر سوم صفحہ ۷۷ ) کئی سال قبل بذریعہ رویا خدا تعالیٰ نے آپ کو وفات کی اطلاع دی تھی.چنانچہ رویا کے مطابق آپ کی وفات دورانِ سفر ہوئی.آپ نے ۲۲ دسمبر ۱۹۸۱ء میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی.(روز نامه الفضل ربوه ۵ جنوری ۱۹۸۲ء) O ۱۱۷
ناہ صاحب باب چہارم...حضرت ام طاہر باب چهارم حضرت سیدہ ام طاہر مریم النساء بیگم صاحبہ (اللہ آپ سے راضی ہو ) ۱۱۸
ارشاہ صاحب باب چہارم حضرت ام طاہر اس لڑکی کا رشتہ ہمارے ہی گھر میں ہو تو اچھا ہے! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش اور اس کی مقبولیت روز نامه الفضل قادیان نے آپ کے وصال پر تحریر کیا:.حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو) کی دختر نیک اختر تھیں.آپ کا نام مریم بیگم تھا.آپ سے فروری ۱۹۲۱ ء کو حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو) کے عقد میں آئیں.سیدہ مرحومہ مغفورہ کا رشتہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلے حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب سے کیا تھا.مگر جب وہ اللہ تعالیٰ کے الہامات کے مطابق وفات پاگئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ خواہش ظاہر فرمائی.کہ اس لڑکی کا رشتہ ہمارے ہی گھر میں ہو تو اچھا ہے.حضور کی اس خواہش کے احترام کے طور پر حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو) نے انہیں اپنے حرم میں داخل فرمایا.اور خدا کے فضل اور حضور کی تربیت سے آپ جماعت احمدیہ کے خصوصاً طبقہ نسواں کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئیں.دینی خدمات سرانجام دینے کے لئے خواتین کی تنظیم کرنے اور ان میں بیداری پیدا کرنے کے لئے آپ نے اپنی زندگی وقف کر دی.اور وہ وہ خدمات سرانجام دیں جن کا ذکر تاریخ سلسلہ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا.لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی زمام حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ کے ہی ہاتھ میں تھی.اور انہی کی سرگرمی اور روح عمل کا یہ نتیجہ ہے کہ آج خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی خواتین دینی امور میں بیش از پیش حصہ لے رہی ہیں.اہم دینی خدمات سرانجام دینے کے علاوہ آپ قادیان کے ہر چھوٹے بڑے امیر و غریب کی خوشی اور رنج میں بذات خود شرکت فرما تیں.خوشی کی تقریب میں اپنے مبارک وجود اور شیریں کلامی سے کئی گنا اضافہ فرما دیتیں.اور رنج کے موقعہ پر اپنے نہایت ہی ہمدردانہ اور مشفقانہ کلام سے اس کی تلخی کو دور کر دیتیں.آپ کا در ہر رنجیدہ اور مصیبت زدہ کے لئے ہر وقت کھلا رہتا.آپ کے ہاں عورتوں کا تانتا لگا رہتا.کسی کوممکن امداد دینے سے کبھی دریغ نہ فرماتیں.ایسے نافع الناس اور قیمتی وجود کی وفات جماعت کے لئے جس قدر افسوس ناک ہے الفاظ اسے بیان کرنے سے قاصر ١١٩
ارشاہ صاحب باب چہارم حضرت ام طاہر ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ہم کہتے ہیں.بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر الفضل قادیان ۸ مارچ ۱۹۴۴ صفحه ۳) ابتدائی حالات زندگی آپ ۱۹۰۵ء میں رعیہ ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں جہاں آپ کے والد ماجد حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب رعیہ سرکاری ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر تھے.گویا آپ نے احمدی گھرانے میں اور احمدی ماحول میں آنکھیں کھولیں اور نیک والدین کی آغوش میں آپ نے تربیت پائی.آپ پیدائشی احمدی تھیں.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب سے نکاح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب سے جو آٹھ سال کی عمر کے تھے.سیدہ مریم بیگم صاحبہ کا جو دو اڑھائی برس کی تھیں نکاح ۳۰/ اگست ۱۹۰۷ء کو حضرت مولوی نورالدین صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) نے پڑھا.الحکم جلد نمبر ۳ راگست ۱۹۰۷ صفحه ۵ ) صاحبزادہ صاحب ۱۴ جون ۱۸۹۹ ء کو پیدا ہوئے تھے نکاح کے چند روز بعد ۱۶ ستمبر ۱۹۰۷ ء کو اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.الحکم قادیان کے استمبر ۱۹۰۷ ، بدر قادیان ۹ ستمبر ۱۹۰۷ء ) حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے نکاح کی تقریب کیونکر پیدا ہوئی اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خواہش کس طور پر پوری ہوئی نیز اس کے کیا ثمرات مترتب ہوئے.ان کی تفاصیل آئندہ صفحات میں پیش کی جارہی ہیں.حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب اپنے آقا کے دربار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد بہت ہی پیارے تھے.کسی شخص نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مرزا مبارک احمد صاحب کی شادی ہو رہی ۱۲۰
رشاہ صاحب باب چہارم.....حضرت ام طاہر ہے.بظاہر تعبیر موت معلوم ہوتی تھی.تاہم معبرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر خواب کو ظاہری صورت میں پورا کر دیا جائے تو بعض دفعہ تعبیر مل جاتی ہے.اس موقعہ پر ہمارے پیارے مہدی سیدنا حضرت مسیح موعود نے کیا احسن انتظام فرمایا اور اس کے کیا ثمرات مترتب ہوئے ، اس کے بارے میں حضرت سیدنا مصلح الموعود اللہ آپ سے راضی ہو ) فرماتے ہیں :- دنیا میں بعض اعمال بظاہر متفرق کڑیاں معلوم ہوتے ہیں اور بعض اعمال ایک زنجیر کی طرح چلتے ہیں.آج جس واقعہ کا میں ذکر کرتا ہوں.وہ بھی اسی زنجیر کی قسم کے واقعات میں سے ہے.آج سے ۳۸ سال قبل ایک واقعہ یہاں ہوا ہے.ہمارا ایک چھوٹا بھائی تھا.جس کا نام مبارک احمد تھا.اس کی قبر بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کے مشرق کی طرف موجود ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ بہت پیارا تھا.مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے ہوتے تھے.ہمیں مرغیاں پالنے کا شوق پیدا ہوا.کچھ مرغیاں میں نے رکھیں کچھ میر محمد اسحاق صاحب مرحوم نے رکھیں.اور کچھ میاں بشیر احمد صاحب نے رکھیں.اور بچپن کے شوق کے مطابق مقابلہ ، ہم ان کے انڈے جمع کرتے.پھر ان سے بچے نکالتے.یہاں تک کہ سو کے قریب مرغیاں ہو گئیں.بچپن کے شوق کے مطابق صبح ہی صبح ہم جاتے اور مرغیوں کے دڑبے کھولتے.انڈے گنتے اور پھر فخر کے طور پر ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے کہ میری مرغی نے اتنے انڈے دیئے ہیں اور میری نے اتنے.ہمارے اس شوق میں مبارک احمد مرحوم بھی جا کر شامل ہو جاتا.اتفاقا ایک دفعہ وہ بیمار ہو گیا.اس کی خبر گیری سیالکوٹ کی ایک خاتون کرتی تھیں.جن کا عرف دادی پڑا ہوا تھا.ہم بھی اسے دادی ہی کہتے اور دوسرے سب لوگ بھی.حضرت خلیفہ اول (اللہ آپ سے راضی ہو ) اسے دادی کہنے پر بہت چڑا کرتے تھے...اس لئے آپ بجائے دادی کے انہیں جگ دادی کہا کرتے تھے.جب مبارک احمد مرحوم بیمار ہوا.تو دادی نے کہہ دیا کہ یہ بیمار اس لئے ہوا ہے کہ مرغیوں کے پیچھے جاتا ہے.جب حضرت ۱۲۱
رشاہ صاحب باب چہارم.....حضرت ام طاہر مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات سنی تو فوراً حضرت اماں جان اللہ آپ سے راضی ہو) سے فرمایا کہ مرغیاں گنوا کر ان بچوں کو قیمت دے دی جائے.اور مرغیاں ذبح کر کے کھائی جائیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبارک احمد بہت پیارا تھا.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے معالج حضرت شاہ صاحب ۱۹۰۷ ء میں وہ بیمار ہو گیا.اور اس کو شدید قسم کا ٹائیفائڈ کا حملہ ہوا.اس وقت دو ڈاکٹر قادیان میں موجود تھے.ایک ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین مرحوم و من و مغفور تھے.ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ ہمیں باہر نوکری کرنے کی بجائے قادیان میں رہ کر خدمت کرنی چاہیے.اور اس رنگ میں شائد وہ پہلے احمدی تھے جو ملازمت چھوڑ کر یہاں آگئے تھے.ایک تو وہ تھے اور دوسرے حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب تھے جور خصت پر یہاں آئے ہوئے تھے.حضرت خلیفہ اوّل (اللہ آپ سے راضی ہو ) بھی ان کے ساتھ مل کر مبارک احمد مرحوم کا علاج کیا کرتے تھے اس کی بیماری کے ایام میں کسی شخص نے خواب میں دیکھا کہ مبارک احمد کی شادی ہورہی ہے.اور معبرین نے لکھا ہے کہ اگر شادی غیر معلوم عورت سے ہو تو اس کی تعبیر موت ہوتی ہے مگر بعض معبرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر ایسے خواب کو ظاہری صورت میں پورا کر دیا جائے تو بعض دفعہ یہ تعبیر مل جاتی ہے.پس جب خواب دیکھنے والے نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنا یہ خواب سنایا تو آپ نے فرمایا کہ معبرین نے لکھا ہے کہ اس کی تعبیر موت ہے.مگر اسے ظاہری رنگ میں پورا کر دینے کی صورت میں بعض دفعہ یہ تعبیر مل جاتی ہے.اس لئے آؤ مبارک احمد کی شادی کر دیں.گویا وہ بچہ جسے شادی بیاہ کا کچھ بھی علم نہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کی شادی کا فکر ہوا.جس وقت حضور علیہ السلام یہ باتیں کر رہے تھے.تو اتفاقاً ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کے گھر سے (یعنی آپ کی اہلیہ حضرت سیدہ سعیدۃ النساء بیگم صاحبہ ) جو یہاں بطور مہمان آئے ۱۲۲
ارشاہ صاحب باب چہارم....حضرت ام طاہر ہوئے تھے صحن میں نظر آئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو بلایا اور فرمایا ہمارا منشا ہے.کہ مبارک احمد کی شادی کر دیں.آپ کی لڑکی مریم ہے.آپ اگر پسند کریں تو اس سے مبارک احمد کی شادی کر دی جائے.انہوں نے کہا حضور مجھے کوئی عذر نہیں.لیکن اگر حضور کچھ مہلت دیں تو ڈاکٹر صاحب سے بھی پوچھ لوں.ان دنوں ڈاکٹر صاحب مرحوم اور ان کے اہل وعیال گول کمرہ میں رہتے تھے.وہ ( اہلیہ حضرت ڈاکٹر صاحب) نیچے گئیں اور جیسا کہ بعد کے واقعات معلوم ہوئے.وہ یہ ہیں کہ ڈاکٹر صاحب شاید وہاں نہ تھے.کہیں باہر گئے ہوئے تھے.انہوں نے کچھ دیر انتظار کیا.تو وہ آگئے جب وہ آئے تو انہوں نے اس رنگ میں ان سے بات کی کہ اللہ تعالیٰ کے دین میں جب کوئی داخل ہوتا ہے تو بعض دفعہ اس کے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے.اگر اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان کی آزمائش کرے تو کیا آپ پکے رہیں گے.ان کو اس وقت دو خیال تھے کہ شاید ان کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کو یہ رشتہ کرنے میں تامل ہو.ایک تو یہ کہ اس سے قبل ان کے خاندان کی کوئی لڑکی غیر سید کے ساتھ نہ بیاہی گئی تھی.اور دوسرے یہ کہ مبارک احمد ایک مہلک بیماری میں مبتلا تھا.اور ڈاکٹر صاحب مرحوم خود اس کا علاج کرتے تھے.اور اس وجہ سے وہ خیال کریں گے کہ یہ شادی ننانوے فیصدی خطرہ سے پر ہے.اور اس سے لڑکی کے ماتھے پر جلد ہی بیوگی کا ٹیکہ لگنے کا خوف ہے.ان باتوں کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کے گھر والوں کو یہ خیال تھا کہ ایسا نہ ہو ڈاکٹر صاحب کمزوری دکھائیں.اور ان کا ایمان ضائع ہو جائے اس لئے انہوں نے پوچھا کہ اگر اللہ تعالیٰ آپکے ایمان کی آزمائش کرے تو کیا آپ پکے رہیں گے.ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ استقامت عطا کرے گا.اس پر والدہ مریم بیگم مرحومہ نے ان کی بات سنائی اور بتایا کہ اس طرح میں او پر گئی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مریم کی شادی مبارک احمد سے کردیں یہ بات سن کر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ اچھی بات ہے اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ پسند ہے تو ١٢٣
ناہ صاحب باب چہارم...حضرت ام طاہر ہمیں اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.ان کا یہ جواب سن کر مریم بیگم مرحومہ کی والدہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے رو پڑیں.اور بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اس پر ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا.کیا تم کو یہ تعلق پسند نہیں.انہوں نے کہا مجھے پسند ہے.بات یہ ہے کہ جب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نکاح کا ارشاد فرمایا تھا.میرا دل دھڑک رہا تھا.اور میں ڈرتی تھی کہ کہیں آپ کا ایمان ضائع نہ ہو جائے.اور اب آپ کا جواب سن کر میں خوشی سے اپنے آنسو روک نہیں سکی.چنانچہ یہ شادی ہوگئی اور کچھ دنوں کے بعد وہ لڑکی بھی بیوہ ہوگئی.اللہ تعالیٰ کسی کے اخلاص کو ضائع نہیں کرتا.آخر وہی لڑکی پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں آئی.اور خلیفہ وقت سے بیاہی گئی.اور با وجود شدید بیمار رہنے کے اللہ تعالیٰ نے اسے اس وقت تک مرنے نہیں دیا جب تک کہ اس نے اپنی مشیت کے ماتحت اس پیشگوئی کے میرے وجود پر پورا ہونے کا انکشاف نہ فرمایا جو دین حق ) اور احمد بیت کی ترقی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی تھی اور اسے ان خواتین مبارکہ میں شامل نہ کر لیا.جو ازل سے مصلح موعود سے منسوب ہو کر حضرت مسیح موعود کا جز وکہلانے والی تھیں.میں سمجھتا ہوں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس ایمان کی جزا تھی جو مریم بیگم مرحومہ کی والدہ نے اس وقت ظاہر کیا تھا.الفضل قادیان یکم اگست ۱۹۴۴ ، صفحه ۲۱) حضرت مسیح موعود کے محاسن اخلاق ( بیت ) مبارک قادیان میں بعد نماز فجر ے فروری ۱۹۲۱ء کوحضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ اسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو ) اور حضرت سیدہ مریم النساء بیگم صاحبہ (اللہ آپ سے راضی ہو ) کے نکاح کے موقعہ پر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) نے نہایت لطیف اور دلکش انداز میں خطبہ دیا.جس میں آپ نے فرمایا:- ۱۲۴
ارشاہ صاحب باب چہارم حضرت ام طاہر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سادات میں نکاح کرنے کو اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھا ہے.حضرت رسول کریم ﷺ کی اس عظمت وشان کی وجہ سے جو آپ کے دل میں تھی.جس بات کو حضور نے اپنے لئے فضل سمجھا ہے میرا ایمان ہے کہ وہ آپ کے صاحبزادوں میں سے کسی ایک کو یا سب کو فردا فردا ملے گی.اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے اس بات کا یقین تھا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو ) کا نکاح سادات میں ہوگا.اس وقت یقین تھا جب اس نکاح کا پتہ ہی نہیں تھا.کئی سال ہوئے میں نے اپنے گھر میں بیان کیا تھا کہ اسی جگہ جہاں آج نکاح ہو رہا ہے نکاح ہوگا..اس کے بعد میں یہ بتا تا ہوں کہ اس نکاح کی تحریک کیونکر ہوئی.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کے فوت ہونے کے بعد حضرت مسیح موعود نے یہ خواہش ظاہر کی اور طبعی طور پر ہونی چاہیے تھی کیونکہ خدا تعالیٰ نے انبیاء کی طبیعت نہایت ہی شکر گزار بنائی ہوتی ہے میں نے خود بلا کسی واسطہ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا.آپ نے فرمایا مجھے یاد نہیں کسی نے ایک پیسہ بھی مجھے دیا ہو اور میں نے اس کے لئے دعانہ کی ہو.کیا ہی شان ہے وہ جس کے متعلق خدا کہتا ہے کہ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيدِى ( الهام حضرت مسیح موعود ) اس کو کوئی ایک پیسہ بھی دیتا ہے تو وہ شکر گزاری کے طور پر اس کے لئے دعا کرتا ہے.بات اصل میں یہ ہے کہ نبی کبھی اپنے اوپر کسی کا احسان نہیں رہنے دیتے بلکہ دوسروں پر اپنا احسان رکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود (علیہ السلام) نے ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی اس بات کو نہایت احسان کی نظر سے دیکھا تھا اور چونکہ یہ لوگ کبھی پسند نہیں کرتے کہ ان کے ساتھ کوئی احسان کا فعل کرے اور وہ اس کا بدلہ نہ دیں.اس لئے حضرت مسیح موعود نے یہ خیال کر کے کہ لڑکے کا فوت ہو جاناڈاکٹر صاحب ۱۲۵
مارشاہ صاحب باب چہارم...حضرت ام طاہر کے خاندان کوناگوار گزرا ہوگا پھر جولڑ کی اس طرح رہ جائے اس کے متعلق برے خیالات ظاہر کئے جاتے ہیں.پھر غیرت کا بھی تقاضا ہوتا ہے کہ جن کا رشتہ ہوتا ہے وہ یہی خیال کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں ہی ہو.ان باتوں کو مد نظر رکھ کر حضور نے گھر میں ذکر کیا کہ اس لڑکی کا رشتہ ہمارے ہی گھر میں ہو تو اچھا ہے.چنانچہ یہ بات روایتہ یہاں مشہور ہے کوئی اب نہیں بنائی گئی.میں بوڑھا ہوں، میں چلا جاؤں گا مگر میرا ایمان ہے کہ جس طرح سے پہلے سیدہ سے خادم دین پیدا ہوئے اس طرح اس سے بھی خادم دین ہی پیدا ہوں گے.یہ مجھے یقین ہے جولوگ زندہ ہوں گے وہ دیکھیں گے.* الفضل قادیان ۱۴ فروری ۱۹۲۱ء ) خدمات سلسلہ احمدیه حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۱۷ مارچ ۱۹۲۵ کودار مسیح میں مدرستہ الخواتین جاری کیا جس میں حضرت سیدہ ام ناصر صاحب اور حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ ( اللہ آ راضی ہو ) بھی شریک ہوئیں.اس مدرسہ کے اجراء سے مقصود یہ تھا کہ اس میں تربیت دے کر ایسی خواتین تیار کی جائیں جو خواتین اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کی نگرانی کر سکیں.حضور نے افتتاحی تقریر میں فرمایا کہ:- ابلیسیت نہیں نکل سکتی جب تک علم کی طرف خاص توجہ نہ کی جائے اور وہ اسی وقت نکلے گی جب عورتوں کی تعلیم کی طرف پوری پوری توجہ رہے گی“.اس مدرسہ میں دینیات، عربی، انگریزی ، جغرافیہ اور تاریخ کی تعلیم کا انتظام تھا.حضرت مولوی شیر علی صاحب اس کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے.دیگر اساتذہ حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی اے ( سابق مجاہد ماریشس ) حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اے ) سابق مہر سنگھ ) اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور بعض اور بزرگان تھے.اس مدرسہ کی مزید اہمیت اس امر سے ظاہر ہے کہ حضرت مصلح موعود( اللہ * خدا تعالیٰ نے حضرت سیدہ مریم النساء بیگم صاحبہ ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کے بطن مبارک نے ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفہ ایسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پیدا فرمائے.١٢٦
رشاہ صاحب باب چہارم.....حضرت ام طاہر آپ سے راضی ہو ) باجود بھاری ذمہ داریوں اور عظیم مصروفیات کے بہ نفس نفیس تاریخ و جغرافیہ کی تعلیم دیتے تھے.اور جب سید ولی اللہ شاہ صاحب کو یہ سلسلہ ( دعوۃ الی اللہ ) ملک شام کو بھیجا گیا تو حضور ان کا مضمون عربی ادب بھی خود پڑھانے لگے.تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول صفحه ۲ ۱۵ ۱۵۳) حضرت ممدوحہ نے مدرستہ الخواتین میں تعلیم پانے کے مقصد کو کما حقہ پورا کیا.حضرت خلیفہ اسیح کے حرم ہونے کی وجہ سے آپ خواتین کا مرجع و مرکز تھیں.بعض خدمات کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے.۱.حضور نے یہ ہدایت دی کہ نصرت گرلز سکول کی نگرانی بجنہ کرے.چنانچہ نظارت تعلیم کے مشورہ کی روشنی میں پانچ نمبرات کی ایک کمیٹی زیر صدارت حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ تجویز ہوئی.جنوری ۱۹۳۰ ء میں حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ بھی اس کی ممبر مقرر تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول صفحہ ۲۳۶، ۲۳۷) ۲- جلسہ سالانہ خواتین ۱۹۳۰ء میں اس کی منتظمہ سیدام طاہر صاحبہ نے عورتوں کی اصلاح خود ان کے ہاتھ میں“ کے موضوع پر تقریر کی.زنانہ فرودگاہوں میں ساڑھے سات صد مستورات نے قیام کیا.سوا دوصد نے بیعت کی.(ماہنامہ مصباح یکم و ۱۵ جنوری و یکم فروری ۱۹۳۱ء) ۳- جلسہ سالانہ ۱۹۳۱ء میں زنانہ جلسہ گاہ کی آپ منتظمہ جلسہ تھیں چنانچہ آپ نے سالانہ رپورٹ پیش کی.الفضل ۴ جنوری ۱۹۳۴ ء وماہنامہ مصباح ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء) ۴- جلسہ سالانہ خواتین ۱۹۳۳ء میں آپ نے جو سیکرٹری لجنہ اور منتظمہ جلسہ تھیں سالانہ رپورٹ پیش کی.(ماہنامہ مصباح جنوری ۱۹۳۴ء) ۵- جلسہ سالانہ خواتین ۱۹۳۵ء میں آپ سیکرٹری لجنہ تھیں.آپ نے سالانہ رپورٹ پیش کی جس میں چندہ تحریک جدید کے بارے میں لجنہ کی مساعی حسنہ کا ذکر کیا گیا ۱۲۷
شاہ صاحب باب چہارم.....حضرت ام طاہر اور یہ بھی بتایا گیا کہ اس وقت بیرون قادیان صرف سولہ مقامات پر لجنات قائم ہیں.اس سال میں ایک تقریب کے سلسلہ میں آپ نے بیوگان ویتامی کے لئے روپیہ جمع کرنے کی تحریک کی.تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اوّل صفحه ۳۴۳ تا ۳۴۵) ۶ - جون ۱۹۳۶ء میں حضور کی ہدایت کی تعمیل میں آپ نے قادیان میں لجنہ کی محلہ دار کمیٹیاں قائم کیں.( تاریخ لجنہ جلد اول صفحه ۳۶۱) ے.لجنہ لاہور کو آپ نے ۱۹۳۷ء میں تحریک کی کہ غرباء فنڈ کھولیں.سو بہنیں اس میں آنہ دو آنہ ماہوار چندہ دیتی تھیں جس سے مقامی غرباء کی مدد کی جاتی تھی.( الفضل قادیان ۱۴ستمبر ۱۹۳۷ء) ۸- اس سال سیرۃ النبی ﷺ کا جلسہ آپ کے مکان پر زیر صدارت حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ (اللہ آپ سے راضی ہو ) منعقد ہوا.اسی مکان میں حضور خواتین میں درس قرآن مجید و حدیث شریف دیتے تھے.اس درس کے بعد اشاعت مصباح کے لئے قائم شدہ کمیٹی کا اجلاس زیر صدارت سیدہ اُم طاہر صاحبہ منعقد ہوا.( الفضل قادیان ۵ نومبر ۱۹۳۷ء ) ۹ - جلسہ سیرۃ النبی ﷺ سیدہ ام طاہر صاحبہ کے مکان پر دسمبر ۱۹۳۸ء میں منعقد ہوا.خواتین کی تقاریر وغیرہ کے علاوہ حضور کی تقریر (بیت اقصیٰ) کے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ سنی گئی.( الفضل قادیان ۱۴ دسمبر ۱۹۳۸ ) ۱۰ مئی ۱۹۳۹ء کے ایک خطبہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے توسیع (بوت) کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ عورتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں.وہ جمعہ کے ثواب سے بالکل محروم رہتی ہیں.اب لاؤڈ اسپیکر لگ جانے کی وجہ سے وہ ام طاہر کے صحن میں جمع ہو کر
مارشاہ صاحب باب چہارم...حضرت ام طاہر شامل ہو جاتی ہیں (پس) (بیت) اقصیٰ میں بھی توسیع کی ضرورت ہے اور ( بیت ) مبارک کی بھی.( بیت ) اقصیٰ کے ایک حصہ میں باپردہ خواتین کے لئے جمعہ میں شرکت کا انتظام کیا گیا.لیکن بچوں کے شور و غل کی وجہ سے حضور نے حسب سابق سیدہ ام طاہر صاحبہ کے مکان میں ہی انتظام کرنے کی ہدایت فرمائی.الفضل قادیان ۱۳ مئی، ۹ ستمبر، ۱۲ نومبر ۱۹۳۹ء) حضرت مولانا شیر علی صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) نے ایک جمعہ پڑھایا.اس روز اس قدر اجتماع تھا کہ بہت سے لوگوں نے گلیوں میں اور خواتین نے سیدہ ام طاہر صاحبہ کے مکان پر نماز ادا کی.۱۱- اسی مکان پر خواتین کا جلسہ سیرۃ النبی ﷺ اکتوبر۱۹۳۹ ء میں زیر صدارت محترمه عزیزہ رضیہ بیگم صاحبہ ( ہمشیرہ حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ ) منعقد ہوا.لجنہ کے اپنے پروگرام کے علاوہ ( بیت ) اقصیٰ کی تقاریر بذریعہ لاؤڈ اسپیکر سنی گئیں.۳ دسمبر کو پہلی بار یوم سيرة پیشوایان مذاہب منایا گیا.اسی طرح اس مکان میں خواتین تقاریر نے سنیں.الفضل قادیان ۱۳ اکتو بر و۳دسمبر ۱۹۳۹ء) ۱۲ - آپ (حضرت سیدہ ام طاہر ) جنرل سیکرٹری لجنہ نے اپنے بھائی سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی معیت میں ۲۷ فروری ۱۹۴۰ء کو قادیان کے ملحقہ دیہات منگل خورد و کلاں، قادر آباد اور بھینی بانگر کی تعلیمی حالت کا جائزہ لیا.الفضل قادیان ۲۹ فروری ۱۹۴۰ ء - صفحه ۲ ) ۱۳ - سیدہ ام طاہر صاحبہ کے مکان پر ۲۰ مارچ۱۹۴۱ء کو ماہانہ جلسہ منعقد ہوا جس میں حافظ محمد رمضان صاحب فاضل کی تقریر ہوئی.(الفضل قادیان ۱۳ را پریل ۱۹۴۱ء ) ۱۴ - آپ کے مکان پر لجنہ قادیان کے اجلاس فروری ۱۹۴۳ء میں آپ کی تقریر ہوئی.آپ نے تعلیم نسواں اور پردہ کے بارے میں نصائح کیں.اسی ماہ میں لجنہ محلہ دارالانوار کا جلسہ برمکان حضرت چوہدری ابوالہاشم خان صاحب آپ کی ۱۲۹
بد عبد الستار شاہ صاحب باب چہارم...حضرت ام طاہر صدارت میں ہوا.آپ نے تعاون کرنے ، ایفائے عہد کرنے اور ناجائز رسومات ترک کرنے کی تلقین کی.الفضل قادیان ۲ مارچ ۲۵ فروری ۱۹۴۳ء) ۱۵ - احباب نے ۱۹۴۳ ء میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی (اللہ آپ.سے راضی ہو ) کے بارے میں منذ رخوا میں دیکھیں.اس پر حضرت اماں جان اللہ آ آپ سے راضی ہو ) کی طرف سے بار بار دعا کرنے کی تحریک ہوئی.حضور علیل ہو گئے اور علالت نے طول پکڑا.عورتوں اور مردوں نے صدقات دیئے.ماہ جون میں سیدہ ام طاہر صاحبہ کے مکان پر مقامی لجنہ کی طرف سے حضور کی صحت و دراز کی عمر کے لئے اجتماعی دعا کی گئی.الفضل قادیان ۸ جون ۱۹۴۳ء ) ۱۲ مئی ۱۹۴۳ء میں حضرت مصلح موعود کی معیت میں آپ دہلی تشریف لے گئیں تو وہاں کی لجنہ کے جلسہ میں عہدہ داران و خواتین آپ کی بطور صدر لجنہ مرکز یہ قیمتی نصائح سے ستفیض ہوئیں جو اجلاسات میں درمین کثرت سے پڑھنے ، فرمانبرداری کی روح پیدا کرنے اور امور خیر میں جلدی کرنے ، تربیت کو اپنا مقصد بنانے اور اپنا نیک نمونہ پیش کرنے (جو کہ بہترین تربیت ہے) بچوں کی تربیت کی طرف متوجہ ہونے اور لجنہ کے ساتھ تعاون کرنے کے بارے میں تھیں.آپ نے ایک اور اجلاس منعقد کرا کے عہدیداران کا انتخاب کروایا اور کارکنات کے فرائض بیان کئے اور لجنہ کو امتہ اٹھتی لائبریری کی شاخ کھولنے کی بھی تحریک کی.(ماہنامہ مصباح قادیان مارچ ۱۹۴۴ء) سیرت حضرت سیدہ ام طاہر المصل حضرت سیدنا اصلح الموعود اللہ آپ سے راضی ہو) نے حضرت سیدہ ام طاہر اللہ آپ سے راضی ہو ) کے وصال کے موقعہ پر ایک عارفانہ اور رقت آمیز مضمون تحریر فرمایا.جو غیر معمولی ایمان افروز محاسن پر مشتمل ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.
ناہ صاحب میری مریم إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اَلِيْهِ رَاجِعُونَ بلانے والا ہے سب سے پیارا اے دل تو جاں فدا کر اسی นี باب چہارم حضرت ام طاہر رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبَّاوَ بِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسولَ اللَّهِ وَبِالْقُرانِ حَكَمًا.چھتیں سال کے قریب ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی لڑکی مریم بیگم کا نکاح پہلے ہمارے مرحوم بھائی مبارک احمد سے پڑھوایا.اس نکاح کے پڑھوانے کا موجب غالباً بعض خواہیں تھیں.جن کو ظاہری شکل میں پورا کرنے سے ان کے اندازی پہلو کو بدلنا مقصود تھا.مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت پوری ہوئی اور مبارک مرحوم اللہ تعالیٰ سے جاملا اور وہ لڑکی جو ابھی شادی اور بیاہ کی حقیقت سے ناواقف تھی.بیوہ کہلانے لگی.اس وقت مریم کی عمر دو اڑھائی سال تھی اور وہ اور ان کی ہمشیرہ زادی نصیرہ اکٹھی گول کمرہ سے جس میں اس وقت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب مرحوم ٹھہرے ہوئے تھے کھیلنے کے لئے اوپر آ جایا کرتی تھیں اور کبھی کبھی گھبرا کر جب منہ بسورنے لگتیں تو میں کبھی مریم کو اٹھا کر کبھی نصیرہ کو اٹھا کر گول کمرے میں چھوڑ آیا کرتا تھا.اس وقت مجھے یہ خیال بھی نہ آ سکتا تھا کہ وہ بچی جسے میں اُٹھا کر گول کمرے میں چھوڑ آیا کرتا ہوں کبھی میری بیوی بننے والی ہے اور یہ خیال تو اور بھی بعید از قیاس تھا کہ کبھی وہ وقت آئے گا کہ میں اس کو اٹھا کر نیچے لے جاؤں گا مگر گول کمرہ کی طرف نہیں بلکہ قبر کی لحد کی طرف.اس خیال سے نہیں کہ کل پھر اس کا چہرہ دیکھونگا بلکہ اس یقین کے ساتھ کہ قبر کے اس کنارہ پر پھر اس کی شکل جسمانی آنکھوں سے دیکھنا یا اس سے بات کرنا میرے نصیب میں نہ ہوگا.
ناہ صاحب ۱۹۰۷ ء سے ۱۹۱۷ ء تک کا عرصہ باب چہارم حضرت ام طاہر عزیز مبارک احمد فوت ہو گیا اور ڈاکٹر صاحب کی رخصت ختم ہوگئی وہ بھی واپس اپنی ملازمت پر رعیہ ضلع سیالکوٹ (موجودہ ضلع نارووال ) چلے گئے.سید ولی اللہ شاہ صاحب اور ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ صاحب اس وقت سکول میں پڑھایا کرتے تھے.دونوں میرے دوست تھے.مگر ڈاکٹر حبیب اللہ شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) عام دوستوں سے زیادہ تھے.ہم یک جان دو قالب تھے.مگر اس وقت بھی وہم بھی نہ آتا تھا کہ ان کی بہن پھر کبھی ہمارے گھر میں آئے گی.ان کی دوستی خود ان کی وجہ سے تھی.اس کا باعث یہ نہ تھا کہ ان کی ایک بہن ہمارے ایک بھائی سے چند دن کے لئے بیاہی گئی تھی.دن کے بعد دن اور سالوں کے بعد سال گزرگئے اور مریم کا نام بھی ہمارے دماغوں سے مٹ گیا.مگر حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل (اللہ آپ سے راضی ہو ) کی وفات کے بعد ایک دن شاید ۱۹۱۷ ء یا ۱۹۱۸ء تھا کہ میں امتہ الکئی مرحومہ کے گھر میں بیت الخلا سے نکل کر کمرہ کی طرف آ رہا تھا.راستہ میں ایک چھوٹا سا صحن تھا اس کے ایک طرف لکڑی کی دیوار تھی.میں نے دیکھا ایک دبلی پتلی سفید کپڑوں میں ملبوس لڑکی مجھے دیکھ کر اس لکڑی کی دیوار سے چمٹ گئی اور پوچھنے پر امتہ الھی نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب کی لڑکی مریم ہے.میں نے کہا اس نے پردہ کیا تھا اور اگر سامنے بھی ہوتی تو میں اسے کب پیچان سکتا تھا.۱۹۰۷ء کے بعد اس طرح مریم دوبارہ میرے ذہن میں آئی.اب میں نے دریافت کرنا شروع کیا کہ کیا مریم کی شادی کہیں تجویز ہے.جس کا جواب مجھے یہ ملا کہ ہم سادات ہیں ہمارے ہاں بیوہ کا نکاح نہیں ہوتا.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں کسی جگہ شادی ہوگئی تو کر دیں گے ورنہ لڑکی اسی طرح بیٹھی رہے گی.میرے لئے یہ سخت صدمہ کی بات تھی.میں نے بہت کوشش کی کہ مریم کا نکاح کسی اور جگہ ہو جائے مگر نا کامی کے سوا کچھ نتیجہ نہ نکلا.آخر میں نے مختلف ذرائع سے اپنے بھائیوں میں تحریک کی کہ اس طرح اس کی عمر ضائع نہ ہونی چاہیے ان میں سے کوئی مریم سے نکاح کرلے.لیکن اس کا جواب بھی نفی میں ملا.تب میں نے اس وجہ سے کہ ان کے دو بھائیوں سید حبیب اللہ شاہ اور سید محمود اللہ شاہ صاحب سے مجھے بہت محبت تھی.میں نے
ارشاہ صاحب باب چہارم...حضرت ام طاہر فیصلہ کرلیا کہ میں مریم سے خود نکاح کرلوں گا.اور ۱۹۲۰ء میں اس کی بابت ( حضرت ) ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب سے میں نے درخواست کر دی.جو انہوں نے منظور کر لی.نکاح کے وقت دعاؤں میں سب کی چیخیں نکل رہی تھیں.اور گریہ وزاری سے سب کے رخسار تر تھے.رخصتانہ کے وقت نہایت سادگی سے جا کر میں مریم کو اپنے گھر لے آیا اور حضرت اماں جان اللہ آپ سے راضی ہو ) کے گھر میں ان کو اتارا جنہوں نے ایک کمرہ ان کو دے دیا.وہی کمرہ جس میں اب مریم صدیقہ رہتی ہیں وہاں پانچ سال تک رہیں اور وہیں ان کے ہاں پہلا بچہ طاہر احمد (اول) پیدا ہوا.بہر حال جب میں سفر انگلستان سے واپس آیا اور آنے کے چند ہی روز بعد امۃ المی فوت ہوگئیں.تو ان کے چھوٹے بچوں کو سنبھالنے والا مجھے کوئی نظر نہ آتا تھا.ادھر ان کی وفات کے وقت ان کے دل پر اپنے بچوں کی پرورش کا سخت بوجھ تھا.خصوصاً امتہ القیوم بیگم کے بارہ میں وہ بار بار کہتی تھیں کہ رشید کو دائی نے پالا ہے اسے میرا اتنا خیال نہ ہوگا.خلیل ابھی ایک ماہ کا ہے اسے میں یاد بھی نہ رہوں گی.امتہ القیوم بڑی ہے اس کا کیا حال ہوگا.کبھی وہ ایک کی طرف دیکھتی تھیں اور کبھی دوسرے کی طرف.مگر اس بارہ میں میری طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھتی تھیں.شاید بجھتی ہونگی کہ مرد بچوں کو پالنا کیا جانیں.میں بار باران کی طرف دیکھتا تھا.مگر دوسرے لوگوں کی موجودگی سے شرما جاتا تھا آخر ایک وقت خلوت کا مل گیا اور میں نے امتہ ائی مرحومہ سے کہا امتہ احئی ! تم اس قدر فکر کیوں کرتی ہو؟ اگر میں زندہ رہا تو تمہارے بچوں کا خیال رکھوں گا اور انشاء اللہ انہیں کوئی تکلیف نہ ہونے دوں گا.میں نے ان کی تسلی کے لئے کہنے کو تو کہہ دیا مگر سمجھ نہیں سکتا تھا کہ کیا کروں...احمدیت پر سچا ایمان مریم کو احمدیت پر سچا ایمان حاصل تھا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قربان تھیں.ان کو قرآن کریم سے محبت تھی.اور اس کی تلاوت نہایت خوش الحانی سے کرتی تھیں.انہوں نے قرآن کریم ایک حافظ سے پڑھا تھا.اس لئے طبق خوب بلکہ ضرورت سے زیادہ زور سے ادا کرتی تھیں.علمی باتیں نہ کر سکتی تھیں.مگر علمی باتوں کا مزہ خوب لیتی تھیں.جمعہ کے دن اگر کسی خاص مضمون پر خطبہ کا موقعہ ہوتا تھا.تو واپسی میں ۱۳۳
شاہ صاحب باب چہارم.....حضرت ام طاہر اس یقین سے گھر میں گھستا تھا کہ مریم کا چہرہ چمک رہا ہوگا اور وہ جاتے ہی تعریفوں کے پل باندھ دیں گی.اور کہیں گی کہ آج بہت مزہ آیا اور یہ میرا قیاس شاذ ہی غلط ہوتا تھا.میں دروازے پر انہیں منتظر پاتا.خوشی سے ان کے جسم کے اندر ایک تھر تھراہٹ پیدا ہورہی ہوتی تھی.بچوں سے محبت اور رشتہ داروں سے حسنِ سلوک میری مریم کو میرے رشتہ داروں سے بہت محبت تھی.وہ ان کو اپنے عزیزوں.زیادہ پیار کرتی تھی.میرے بھائی میری بہنیں میرے ماموں اور ان کی اولاد میں بے حد عزیز تھے.ان کی نیک رائے کو وہ بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں اور اس کے حصول کے لئے ہرممکن کوشش کرتی تھیں.حضرت (اماں جان اللہ آپ سے راضی ہو ) کی خدمت کا بے انتہا شوق تھا.اوّل اوّل جب آپ کے گھر میں رہی تھیں تو ایک دو خادمہ سے ان کو بہت تکلیف تھی.اس وجہ سے ایک دو سال حجاب رہا مگر پھر یہ حجاب دور ہو گیا.ہمارے خاندان میں کسی کو کوئی تکلیف ہو سب سے آگے خدمت کرنے کو مریم موجود ہوتی تھیں اور رات دن جاگنا پڑے تو اس سے دریغ نہ ہوتا تھا.بچوں کی ولادت کے موقعہ پر شدید بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود زچہ کا پیٹ پکڑے گھنٹوں بیٹھتیں اور اف تک زبان پرنہ آنے دیتیں.سارہ بیگم کی وفات کے بعد ان کے بچوں سے ایسا پیار کیا کہ وہ بچے ان کو اپنی ماں کی طرح عزیز سمجھتے تھے.باہمی رقابت صرف سارہ بیگم کی وفات تک رہی.انتہا درجہ کی مہمان نواز وہ مہمان نواز انتہا درجہ کی تھیں ہر ایک کو اپنے گھر میں جگہ دینے کی کوشش کرتیں اور حتی الوسع جلسہ کے موقعہ پر بھی گھر میں ٹھہرنے والے مہمانوں کا لنگر سے کھانا نہ منگوا تیں.خود تکلیف اٹھا تیں.بچوں کو تکلیف دیتیں لیکن مہمان کو خوش کرنے کی کوشش کرتیں.بعض دفعہ اپنے پر اس قدر بوجھ لادیتیں کہ میں بھی خفا ہوتا کہ آخر لنگر خانہ اسی غرض کے لئے ہے تم کیوں اپنی صحت برباد کرتی ہو.آخر تمہاری بیماری کی تکلیف مجھے ہی اٹھانی پڑتی ہے مگر اسبارہ میں کسی نصیحت کا ان پر اثر نہ ہوتا.کاش اب جبکہ وہ اپنے رب کی مہمان ہیں.ان کی مہمان نوازیاں ان کے کام آجائیں.اور وہ کریم میزبان اس وادی ۱۳۴
بد عبد الستار شاہ صاحب باب چہارم حضرت ام طاہر غربت میں بھٹکنے والی روح کو اپنی جنت الفردوس میں مہمان کر کے لے جائے.....لجنہ کے کام کو غیر معمولی ترقی دی ان کا دل کام میں تھا.کتاب میں نہیں.جب سارہ بیگم فوت ہو گئیں.تو مریم کے کام کی روح ابھری اور انہوں نے لجنہ کے کام کو خودسنبھالا.جماعت کی مستورات اس امر کی گواہ ہیں کہ انہوں نے باوجود علم کی کمی کے اس کام کو کیسا سنبھالا.انہوں نے لجنہ میں جان ڈال دی.آج کی لجنہ وہ لجنہ نہیں جو امتہ ائی مرحومہ یا سارہ بیگم مرحومہ کے زمانہ کی تھی.آج وہ ایک منظم جماعت ہے جس میں ترقی کرنے کی بے انتہاء قابلیت موجود ہے.بیواؤں کی خبر گیری، یتامی کی پرسش ، کمزوروں کی پرسش ، جلسہ کا انتظام، باہر سے آنیوالی مستورات کی مہمان نوازی، غرض ہر بات میں انتظام کو آگے سے بہت ترقی دی.اور جب یہ دیکھا جائے کہ اس انتظام کا اکثر حصہ گرم پانی سے بھری ہوئی ربڑ کی بوتلوں کے درمیان چار پائی پر لیٹے ہوئے کیا جاتا تھا.تو احسان شناس کا دل اس کمزور ہستی کی محبت اور قدر سے بھر جاتا ہے.اے میرے رب ! تو اس پر رحم کر اور مجھ پر بھی.۱۹۴۲ء کی بیماری ۱۹۴۲ء میں میں سندھ میں تھا کہ وہ سخت بیمار ہوئیں اور دل کی حالت خراب ہو گئی.مجھے تار گئی کہ دل کی حالت خراب ہے.میں نے پوچھا کہ کیا میں آجاؤں تو جواب گیا کہ نہیں.اب طبیعت سنبھل گئی ہے.یہ دورہ مہینوں تک چلا.۱۹۴۳ء میں ان کو دہلی لے گیا تا کہ ایک حکیم صاحب کا علاج کراؤں لیکن یہ علاج انہیں پسند نہیں آیا.اس بیماری میں بھی جاتے آتے آپ ریل میں فرش پر لیٹیں اور میری دوسری بیویوں کے بچوں کوسیٹوں پرلٹوایا...کچھ دنوں بعد مجھے پھر نقرس کا دورہ ہوا اور پھر وہاں جانا چھٹ گیا.اس وقت ڈاکٹروں کی غلطی سے ایک ایسا ٹیکہ لگایا گیا.جس کے خلاف مریم نے بہت شور کیا کہ یہ مجھے موافق نہیں ہوتا جو بڑے بڑے ڈاکٹروں کے نزدیک ان کے مخصوص حالات میں واقعی مضر تھا.اس ٹیکہ کا یہ اثر ہوا کہ ان کا پیٹ یکدم اتنا پھولا کہ موٹے سے موٹے آدمی کا اتنا پیٹ نہیں ہوتا.میں نے لاہور سے ایک اعلیٰ ڈاکٹر اور امرتسر سے ایک لیڈی ڈاکٹر کو ۱۳۵
مارشاہ صاحب باب چہارم...حضرت ام طاہر بلایا.ان کے مشورہ پر انہیں ۱۷ دسمبر کو لاہور لے جایا گیا.۹،۸ جنوری تک دواؤں سے علاج ہوتا رہا.مگر آخر اس ڈاکٹر نے یہ فیصلہ کیا کہ آپریشن کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی رائے اس کے خلاف تھی.مگر اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آتا تھا اس لئے میں نے ان سے ہی پوچھا تو ان کا مشورہ آپریشن کا تھا اور اسے ضروری سمجھتی تھیں.آپریشن کے بعد دل کی حالت خراب ہوگئی.پھر خون دینے سے حالت اچھی ہوتی گئی.۲۵ جنوری کو مجھے کہا گیا کہ اب چند دن تک ان کو ہسپتال سے رخصت کر دیا جائے گا.اور اجازت لے کر چند دن کے لئے قادیان آ گیا.میرے قادیان جانے کے بعد ہی ان کی حالت خراب ہوگئی اور زخم پھر دوبارہ پورے کا پورا کھول دیا گیا.مگر مجھے اس سے غافل رکھا گیا.اور اس وجہ سے میں متواتر ہفتہ بھر قادیان ٹھہرا رہا.ڈاکٹر غلام مصطفی جنہوں نے ان کی بیماری میں بہت خدمت کی جزاہ اللہ احسن الجزاء انہوں نے متواتر تاروں اور فون سے تسلی دلائی اور کہا کہ مجھے جلدی کرنے کی ضرورت نہیں.لیکن جمعرات کی رات کو شیخ بشیر احمد صاحب کا فون ملا کہ برادرم سید حبیب اللہ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ان کی حالت خراب ہے آپ کو فوراً آنا چاہیے جس پر میں جمعہ کو واپس لاہور گیا اور ان کو سخت کمزور پایا.یہ کمزوری ایسی تھی کہ اس کے بعد تندرستی کی حالت پھر نہیں آئی..آخری لمحات بہر حال اب انجام قریب آرہا تھا.مگر اللہ تعالیٰ پر امید قائم تھی.میری بھی اور ان کی بھی.وفات سے پہلے دن ان کی حالت دیکھ کر اقبال بیگم ( جو ان کی خدمت کے لئے ہسپتال میں اڑھائی ماہ رہیں.اللہ تعالیٰ انہیں دونوں جہان میں بڑے مدارج عطا فرمائے ) رونے لگیں ان کا بیان ہے کہ مجھے روتے دیکھ کر مریم بیگم محبت سے بولیں.بچگی روتی کیوں ہو؟ اللہ تعالیٰ میں سب طاقت ہے دعا کر ووہ مجھے شفا دے سکتا ہے.چار مارچ کی رات کو حضرت میر اسماعیل صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) نے مجھے بتایا کہ اب دل کی حالت نازک ہو چکی ہے.اب وہ دوائی کا اثر ذرا بھی قبول نہیں کرتا.اس لئے میں دیر تک وہاں
شاہ صاحب باب چہارم.....حضرت ام طاہر رہا.پھر جب انہیں کچھ سکون ہوا تو شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر پر سونے کے لئے چلا گیا.کوئی چار بجے آدمی دوڑتا ہوا آیا کہ جلد چلیں حالت نازک ہے.اس وقت میرے دل میں یہ یقین پیدا ہو گیا کہ اب میری پیاری مجھ سے رخصت ہونے کو ہے.اور میں نے خدا تعالیٰ سے اپنے اور اس کے ایمان کے لئے دعا کرنی شروع کر دی.اب دل کی حالت کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی تھی.اور میرے دل کی ٹھنڈک دار الآخرۃ کی طرف اڑنے کے لئے پر تول رہی تھی...خدا تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہو گیا آخر دو بج کر دس منٹ پر جب کہ میں گھبرا کر باہر نکل گیا تھا.عزیزم میاں بشیر احمد صاحب نے باہر نکل کر مجھے اشارہ کیا کہ آپ اندر چلے جائیں.اس اشارہ کے معنی یہ تھے کہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہو چکا ہے.میں اندر گیا اور مریم کو بے حس و حرکت پڑا ہوا پایا.مگر چہرہ پر خوشی اور اطمینان کے آثار تھے.ان کی لمبی تکلیف کی وجہ سے مجھے ڈر تھا کہ وفات کے وقت کہیں بے صبری کا اظہار نہ کر بیٹھیں اس لئے ان کے شاندار اور مومنانہ انجام پر میرے منہ سے بے اختیار الحمد للہ نکلا.اور میں ان کی چار پائی کے پاس قبلہ رخ ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر گیا.اور دیر تک خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہا کہ اس نے ان کو ابتلاء سے بچایا اور شکر گزاری کی حالت میں ان کا خاتمہ ہوا.اس کے بعد ہم نے ان کو قادیان لے جانے کی تیاری کی.اور شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر لا کر انہیں غسل دیا گیا.پھر موٹروں اور لاریوں کا انتظام کر کے قادیان خدا کے مسیح (علیہ السلام ) کے گھران کو لے آئے ایک دن ان کو انہی کے مکان کی نچلی منزل میں رکھا اور دوسرے دن عصر کے بعد بہشتی مقبرہ میں ان کو خدا کے مسیح علیہ السلام کے قدموں میں ہمیشہ کی جسمانی آرام گاہ میں خود میں نے سر کے پاس سے سہارا دے کر اتارا اور لحد میں لٹا دیا.اللَّهُمَّ ارْحَمْهَا وَارْحَمُنِي اولاد مرحومہ کی اولا د چار بچے ہیں تین لڑکیاں اور ایک لڑکا.یعنی امتہ الحکیم امۃ الباسط، طاہر احمد اور امۃ الجمیل (سلمهم الله تعالی و كان معهم في الدنيا والاخرة) جب اورامۃ ۱۳۷
ناه صاح باب چہارم حضرت ام طاہر مرحومہ کو لے کر ہم شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر پہنچے تو چھوٹی لڑکی امتہ الجمیل جو ان کی اور میری بہت لاڈلی تھیں اور کل سات برس کی عمر کی ہے.اسے میں نے دیکھا کہ ہائے امی ہائے امی کہہ کر چیخیں مار کر رو رہی ہے.میں اس بچی کے پاس گیا اور اسے کہا.جمی جمی ( ہم اسے جمی کہتے ہیں ) امی اللہ میاں کے گھر گئی ہیں.وہاں ان کو زیادہ آرام ملے گا.اور اللہ میاں کی یہی مرضی تھی کہ اب وہ وہاں چلی جائیں.دیکھو رسول اللہ علیہ فوت ہو گئے تمہارے دادا جان فوت ہوگئے کیا تمہاری امی ان سے بڑھ کر تھی.میرے خدا کا سایہ اس بچی سے ایک منٹ کے لئے بھی جدا نہ ہو.میرے اس فقرہ کے بعد اس نے ماں کے لئے آج تک کوئی چیخ نہیں ماری.اور یہ فقرہ سنتے ہی بالکل خاموش ہوگئی.بلکہ دوسرے دن جنازے کے وقت جب اس کی بڑی بہن جو کچھ بیمار ہے صدمہ سے چیخ مار کر بیہوش ہوگئی تو میری چھوٹی بیوی مریم صدیقہ کے پاس جا کر میری جمی ان سے کہنے لگی.چھوٹی آپا (انہیں بچے چھوٹی آپا کہتے ہیں) باجی کتنی پاگل ہے.ابا جان کہتے ہیں.امی کے مرنے میں اللہ کی مرضی تھی.پھر بھی روتی ہے.اے میرے رب! اے میرے رب! چھوٹی بچی نے تیری رضا کے لئے اپنی ماں کی موت میں غم نہ کیا.کیا تو اسے اگلے جہان میں غم سے محفوظ نہ رکھے گا.اے میرے رحیم خدا ! تجھ سے ایسی امید رکھنا تیرے بندوں کا حق ہے.اور اس امید کو پورا کرنا تیرے شایان شان ہے.آخری درد بھرا پیغام اے مریم کی روح! اگر خدا تعالیٰ تم تک میری آواز پہنچا دے تو لو یہ میرا آخری دردبھرا پیغام سن اور جاؤ خدا تعالیٰ کی رحمتوں میں جہاں غم کا نام کوئی نہیں جانتا، جہاں درد کا لفظ کسی کی زبان پر نہیں آتا.جہاں ہم ساکنین الارض کی یاد کسی کو نہیں ستاتی.والسلام واخر دعوانا الحمدلله رب العالمين.اس دنیا کی سب محبتیں عارضی ہیں اور صدمے بھی.اصل محبت اللہ تعالیٰ کی ہے.اس میں ہو کر ہم اپنے مادی عزیزوں سے مل سکتے ہیں اور اس سے جدا ہو کر ہم سب کچھ کھو بیٹھتے ہیں.ہماری ناقص عقلیں جن امور کو اپنے لئے تکلیف کا موجب سمجھتی ہیں بسا اوقات ان میں اللہ تعالیٰ کا کوئی احسان پوشیدہ ہوتا ہے پس میں تو یہی کہتا ہوں کہ میرا دل ۱۳۸
ناہ صاحب جھوٹا ہے اور میر اخدا سچا ہے والحمد للہ علی کل حال“.باب چہارم حضرت ام طاہر خدا تعالیٰ کے فضل کا طالب.مرزا محمود احمد روزنامه الفضل قادیان ۱۲ جولائی ۱۹۴۴ صفحه ۱ - ۸) حضرت سیدہ ام طاہر اور حضرت مرزا مبارک احمد صاحب کا ذکر خیر ۱۰ مارچ ۱۹۴۴ء کو خطبہ جمعہ میں سید نا حضرت مصلح موعود نے فرمایا :- اس ہفتے میرے گھر میں ایک واقعہ ہوا ہے یعنی میری بیوی ام طاہر فوت ہوئی ہیں.اس کے متعلق میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں بڑا درد پایا جاتا ہے.خصوصاً عورتیں اور غریب عورتیں بہت زیادہ اس درد کو محسوس کرتی ہیں.کیونکہ میری یہ بیوی جو فوت ہوئی ہیں.ان کے دل میں غرباء کا خیال رکھنے کا مادہ بہت زیادہ پایا جاتا تھا.ان کی بیماری کے لمبے عرصہ میں جماعت نے جس قسم کی محبت اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے.وہ ایک ایسی ایمان بڑھانے والی بات ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ مومن واقعہ میں ایک ہی جسم کے ٹکڑے ہوتے ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ جماعت کی ہمدردی گو دعاؤں کی شکل میں ہی ہوتی تھی لیکن قادیان کے لوگوں کے متعلق جب مجھے معلوم ہوتا کہ وہ بار بار مسجد میں جمع ہو کر ان کی صحت کے لئے دعائیں کرتے ہیں تو کئی دفعہ مجھے شک گزرتا کہ ایسا نہ ہو کہ ہمارا یہ گند اضطرار خدا کو نا پسند ہو.جہاں تک میاں بیوی کا تعلق ہوتا ہے.ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے گھر میں آنے کے لئے چنا اور ان کی پہلی شادی ہمارے چھوٹے بھائی مبارک احمد مرحوم سے ہوئی تھی.اس سے لئے ان کا انتخاب گویا خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی کیا ہوا تھا.۱۹۲۱ء کے شروع میں وہ مجھ سے بیاہی کہیں.اور اب ۱۹۴۴ء میں وہ فوت ہوئی ہیں.اس طرح ۲۳ سال کا لمبا عرصہ انہوں نے میرے ساتھ گزارا جولوگ ہمارے گھر کے حالات جانتے ہیں.ان کو معلوم ہے کہ مجھے ان سے شدید محبت تھی لیکن با وجود اس کے جو اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اس پر کسی قسم کا شکوہ کا ہمارے دل میں پیدا ہونا ایمان کے بالکل منافی ہوگا.ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ہی ہے.ہمیں رسول کریم ﷺ نے یہی تعلیم دی ہے جب کوئی شخص وفات پا جائے ہمارا اصل کام یہی ہوتا ہے.کہ ہم کہدیں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ ۱۳۹
مارشاہ صاحب باب چہارم.....حضرت ام طاہر راجِعُون یہ کیسی لطیف تعزیت ہے.اس مومن کی اصل تعزیت إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ پس رَاجِعُون ہی ہے.باقی جہاں تک جسم کا تعلق ہے.جسم جب کہتا ہے تو ضرور دکھ پاتا ہے.جنگوں میں شہید ہوئے اور اپنی خوشی سے شہید ہوئے.آخر بدر یا احد یا احزاب کے موقع پر کون ان کو پکڑ کر لے گیا تھا.وہ اپنی خوشی سے گئے اور اپنی خوشی سے شہید ہوئے لیکن جہاں تک جسم کے کٹنے کا سوال ہے ان کو ضرور تکلیف ہوئی.پس جسم بیشک دیکھ پاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہوتا ہے اس بندے پر جس کی روح خدا تعالیٰ کے آستانہ پر جھکی رہے اور اس سے کہے کہ اے میرے رب مجھے کوئی شکوہ نہیں.تو نے جو کچھ کیا ٹھیک کیا.یہی عین مصلحت تھی اور یہی چیز میرے لئے بہتر تھی.تیرا فعل بالکل درست ہے.اور گو مجھے سمجھ میں نہ آئے.مگر میں یہی کہتا ہوں کہ تیرا کوئی کام حکمت کے بغیر نہیں.میں نے جہاں تک ہوس کا مرحومہ کے علاج کے لئے کوشش کی.لمبی بیماری تھی.لیکن اس بیماری میں خدا تعالیٰ نے مجھے تو فیق عطا فرمائی.کہ میں نے ان کی ہر طرح خدمت کی اور ان کے علاج کے لئے کوشش کی اس طرح اللہ تعالیٰ نے میرے لئے ثواب کا ایک موقع بہم پہنچا دیا.اور اس بات کا بھی کہ میاں بیوی میں بعض دفعہ رنجشیں ہو جاتی ہیں.خصوصاً جس کی گئی بیویاں ہوں ان میں سے بعض کہہ دیا کرتی ہیں کہ ہم سے محبت نہیں فلاں سے ہے.چاہے اس سے زیادہ محبت ہو.مگر اس قسم کے شکوے بعض دفعہ پیدا ہو جایا کرتے ہیں.مجھے ان کی لمبی بیماری کی وجہ سے بہت تکلیف تھی.مگر میں سمجھتا تھا اس کے کئی فوائد بھی ہیں ایک تو یہ کہ میں سمجھتا تھا کہ کم سے کم میری خدمت کی وجہ سے اگر ان کے دل میں اس قسم کا کوئی خیال ہو گا بھی کہ میرا خاوند مجھ سے محبت نہیں کرتا ، تو یہ خیال ان کے دل سے جاتا رہے گا اور ان کی وفات اطمینان کی وفات ہوگی اور یہ سمجھتے ہوئے ہوگی کہ میرا خاوند مجھ سے محبت کرتا ہے.دوسری حکمت اس میں یہ تھی کہ ہر انسان سے اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ غلطیاں اور کوتاہیاں ہو جاتی ہیں.لمبی بیماریاں بیشک انسان کے لئے بڑے دکھ کا موجب ہوتی ہیں مگر لمبی بیماریوں سے مرنے والا بشرطیکہ وہ مومن ہو.خدا تعالیٰ کی مغفرت کا مستحق ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اپنی بیماری کے ایام میں تو بہ کی توفیق دے دیتا ہے.استغفار کی توفیق دے دیتا ہے.دعا کی توفیق دے دیتا ہے اور یہ سب چیزیں مل کر اس کی مغفرت اور ترقی درجات کا باعث بن جاتی ہے.تیسری حکمت یہ ہے کہ ایسی ۱۴۰
مارشاہ صاحب باب چہارم...حضرت ام طاہر لمبی بیماریوں میں چونکہ بیمار کے رشتہ دار بھی کثرت سے دعائیں کرتے ہیں.اس لئے خدا کے حضور جب وہ دعائیں ظاہری صورت میں قبول ہونے والی نہیں ہوتیں تو وہ ان دعاؤں کے بدلہ میں مرنے والے کی عاقبت کو درست کر دیتا ہے.اور فرماتا ہے ہم نے اسے دنیا میں تو صحت نہیں دی مگر آخرت میں اس کی روح کو صحت دے دی ہے.پھر ہمارے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ ہے اور درحقیقت تمام کامل اور سچے مومنوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ قبل از وقت ایسی خبریں دے دیتا ہے جن کے پورے ہونے پر ریج میں بھی خوشی کا سامان پیدا ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق فاضلہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہمارے چھوٹے بھائی مبارک احمد مرحوم سے بہت محبت تھی.جب وہ بیمار ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اتنی محنت اور اتنی توجہ سے اس کا علاج کیا کہ بعض لوگ سمجھتے تھے اگر مبارک احمد فوت ہو گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت صدمہ پہنچے گا.حضرت خلیفہ اول (اللہ آپ سے راضی ہو ) بڑے حوصلہ والے اور بہادر انسان تھے.جس روز مبارک احمد مرحوم فوت ہوا.اس روز صبح کی نماز پڑھ کر آپ مبارک احمد کو دیکھنے کے لئے تشریف لائے میرے سپر داس وقت مبارک احمد کو دوائیاں دینے اور اس کی نگہداشت وغیرہ کا کام تھا.میں ہی نماز کے بعد حضرت خلیفہ اول (اللہ آپ سے راضی ہو ) کو اپنے ساتھ لے کر آیا تھا.میں تھا حضرت خلیفہ اول ( اللہ آپ سے راضی ہو ) تھے.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے.اور شائد ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب بھی تھے.جب حضرت خلیفہ اول (اللہ آپ سے راضی ہو ) مبارک احمد کو دیکھنے کے لئے پہنچے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا حالت اچھی معلوم ہوتی ہے بچہ سو گیا ہے مگر در حقیقت وہ آخری وقت تھا.جب میں حضرت خلیفہ اول کو لے کر آیا اس وقت مبارک احمد کا شمال کی طرف سر اور جنوب کی طرف پاؤں تھے.حضرت خلیفہ اول (اللہ آپ سے راضی ہو ) بائیں طرف کھڑے ہوئے انہوں نے نبض پر ہاتھ رکھا مگر نبض آپ کو محسوس نہ ہوئی اس پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ حضور مشک لائیں اور خود بغل کے قریب اپنا ہاتھ لے گئے.اور نبض محسوس کرنی ۱۴۱
رشاہ صاحب باب چہارم...حضرت ام طاہر شروع کی اور جب وہاں بھی نبض محسوس نہ ہوئی تو گھبرا کر کہا حضور جلد مشک لا ئیں اس عرصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام چابیوں کے چھے سے کنجی تلاش کر کے ٹرنک کا تالا کھول رہے تھے.جب آخری دفعہ حضرت مولوی صاحب نے گھبراہٹ سے کہا کہ حضور مشک جلدی لائیں.اور اس خیال سے کہ مبارک احمد کی وفات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت صدمہ ہوگا با وجود بہت دلیر ہونے کہ آپ کے پاؤں کانپ گئے.اور آپ کھڑے نہ رہ سکے اور زمین پر بیٹھ گئے ان کا خیال تھا کہ شائد نبض دل کے قریب چل رہی ہو.اور مشک سے قوت کو بحال کیا جاسکتا ہے.مگر ان کی آواز سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ امید موہوم تھی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی آواز کے تربخش کو محسوس کیا.تو آپ سمجھ گئے.کہ مبارک احمد کا آخری وقت ہے اور آپ نے ٹرنک کھولنا بند کر دیا اور فرمایا مولوی صاحب شائد لڑ کا فوت ہو گیا ہے.آپ اتنے گھبرا کیوں گئے ہیں.یہ اللہ کی ایک امانت تھی جو اس نے ہمیں دی تھی.اب وہ اپنی امانت لے گیا ہے.تو ہمیں اس پر کیا شکوہ ہو سکتا ہے.پھر فرمایا آپ کو شاید یہ خیال ہو کہ میں نے چونکہ اس کی بہت خدمت کی ہے اس لئے مجھے زیادہ صدمہ ہوگا.خدمت کرنا تو میرا فرض تھا.جو میں نے ادا کر دیا اور اب جبکہ وہ فوت ہو گیا ہے.ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر پوری طرح راضی ہیں.چنانچہ اسی وقت آپ نے بیٹھ کر دوستوں کو خط لکھنے شروع کر دیئے.کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کی ایک امانت تھی.جو اس نے ہم سے لے ل.ہمارے رنج اس کی خوشی پر قربان.ہم اس کی خوشی کے دن منحوس باتیں کرنے والے کون ہیں.جتنے احسانات اللہ تعالیٰ نے ہم پر کئے ہیں واقعہ یہ ہے کہ اگر ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ اور اگر ہماری بیویوں اور ہمارے بچوں کا ذرہ ذرہ آروں سے چیر دیا جائے تب بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اس کے احسانوں کا کوئی بھی شکریہ ادا کیا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ میں یا تم میں سے سیارے اس مقام پر ہیں مجھ میں بھی کمزوریاں ہیں اور تم میں بھی لیکن سچی بات یہی ہے اور جتنی بات اس کے خلاف ہے وہ یقیناً ہمارے نفس کا دھوکا ہے آج آسمان پر خدا کی فوجوں کی فتح کے نقارے بج رہے ہیں.آج دنیا کوخدا کی طرف لانے کے سامان کئے جارہے ہیں.آج خدا کے فرشتے اس کی حمد کے گیت گا رہے ہیں.اور ہم بھی اس گیت میں ان فرشتوں کے ہمنوا اور شریک ہیں.اگر ہم جسمانی طور پر غمزدہ ۱۴۲
رشاہ صاحب باب چہارم...حضرت ام طاہر ہیں اور ہمارے دل زخم خوردہ ہیں تب بھی مومنانہ طور پر ہمارا یہی فرض ہے کہ ہم اپنے رب کی فتح اور اس کے نام کی بلندی کی خوشی میں شریک ہوں.تا اس کی بخشش کے مستحق ہوں.اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اور ہمارے غموں کو خود ہلکا کرے.کہ روح اس کے آستانہ پر جھکی ہوئی مگر گوشت پوست کا دل دکھ محسوس کرتا ہے.66 الفضل قادیان ۱۴ مارچ ۱۹۴۴ صفحه ۱ تا ۵ ) ۱۴۳
ناہ صاحب باب چہارم حضرت ام طاہر حضرت سیدہ ام طاہر مریم النساء بیگم تاثرات سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۴۴
ناہ صاحب باب چہارم حضرت ام طاہر حضرت سیدہ ام طاہر مریم النساء بیگم تاثرات سیدنا حضرت مرزا طاہراحمد صاحب خلیفة اصیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمارے پیارے امام سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع ید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی عمر۱۹۳۴ء میں قریباً سولہ سال تھی.جب کہ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ ام طاہر (اللہ آپ سے راضی ہو ) کا وصال ہوا.جس دن آپ کی والدہ کا وصال ہوا اسی روز آپ کا میٹرک کے امتحان میں ریاضی کا پر چہ تھا.انہی ایام میں آپ نے اپنی والدہ ماجدہ کی سیرت اور اخلاق کی بابت اپنے تاریخی تاثرات رقم فرمائے.وہ جذبات جو آپ نے سولہ سال کی عمر میں تحریر فرمائے ایک عام طالب علم کے لئے ان حالات میں لکھنا مشکل امر ہے.تاہم آپ نے کمال صبر و قتل اور وسعت حوصلہ کا مظاہرہ فرماتے ہوئے یہ تاثرات لکھے.جو قارئین کے لئے پیش کئے جار ہے ہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے (اللہ آپ سے راضی ہو ) اس مضمون کی بابت فرماتے ہیں:.میری امی ع چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے ذیل کا مضمون عزیز طاہر احمد سلمہ کا اپنا لکھا ہوا ہے.جس میں دخل دے کر میں نے اس کے ذاتی اور طبعی جذبات کو مصنوعی ملمع سازی سے خراب کرنا پسند نہیں کیا.آخر کے دو شعر بھی اسی کے ہیں.اللہ تعالیٰ اس کی عمر اور صحت اور علم اور عمل اور اخلاص میں برکت دے اور اسے ان خوبیوں سے نوازے جو خدا کی نظر میں محبوب ہیں.تاکہ جہاں ایک ۱۴۵
باب چہارم...حضرت ام طاہر ارشاہ صاحب طرف اسے خدا کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو جو گویا انسانی زندگی کا مقصد ہے وہاں دوسری طرف اس کی مرحومہ امی کی روح بھی جنت میں دنیا کی طرف سے ٹھنڈی اور راحت بخش ہوائیں پاتی رہے.اور اللہ تعالیٰ اس کی تینوں بہنوں کا بھی حافظ و ناصر ہو.آمین یا ارحم الراحمین.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب فرماتے ہیں:.اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على ابراهيم وعلى ال ابرهيم وبارک وسلم اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ O مَالِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ 0 إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ، صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ أمِينَ (سورة فاتحه ) موت اور پھر ایک ایسی ماں کی موت جو بہترین ماں ہونے کے علاوہ ایک سچی مسلمان.خدا اور رسول کی عاشق صادق اور امام وقت کے ادنی اشاروں پر لبیک کہنے والی اور اس کی خاطر جان تک قربان کرنے سے دریغ نہ کرنے والی پھر ایک ایسے وسیع اخلاق کی مالک ماں کہ اپنوں بیگانوں کو اپنا گرویدہ بنالیا.ہاں ایسی ماں کی موت ایک ایسی موت ہے کہ زندگیوں کو ہلا کر رکھ دے.دلوں کو پگھلا دے.اور دماغ کوشل کر دے اور پھر رے لئے تو میری امی کی وفات کا صدمہ ایک ایسا دھکا تھا کہ اگر خدائے رحیم وکریم کا فضل نہ ہوتا تو وہ میری زندگی کی تختی کوالٹ کے رکھ دیتا.کیونکہ اب بھی جب کہ میں اپنی امی کو اس محبت کا جو انہیں مجھ سے تھی خیال کرتا ہوں تو درد سے کانپ اٹھتا ہوں.اور محبت کی یاد میرے دل کو تڑپا دیتی ہے.اور پھر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اسی طرح میری امی کو امام وقت، رسول خدا اور خدا تعالیٰ سے کتنی محبت ہوگی کہ اندازہ سے اکثر ایسا ہوتا تھا کہ جب کبھی بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا یا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا کوئی واقعہ سامنے آتا تو امی کہ اُٹھتیں دیکھو طاری! اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کتنی محبت کرتا ہے اور اس کی مثال میں مجھے بعض دفعہ حضرت موسیٰ اور گڈریے کا قصہ سنا تیں.اور کچھ اس انداز سے اور پیار بھرے لہجہ سے خدا کا ذکر کرتیں کہ ہر ہر لفظ گو یا محبت کی کہانی ہوتا.اور پھر اسی طرح خدا
ارشاہ صاحب باب چہارم...حضرت ام طاہر کے پاک کلام قرآن کریم سے بے انتہاء محبت تھی.سوائے اس کے کہ بیمار ہوں روزانہ صبح نماز سے فراغت حاصل کر کے قرآن کریم پڑھتی تھیں.اور مجھے بھی پڑھنے کے لئے کہتی تھیں.جب میں پڑھتا تھا تو ساتھ ساتھ میری غلطیاں درست کرتی جاتی تھیں اور مجھے نماز پڑھانے کا ایسا شوق تھا کہ بچپن سے ہی کبھی پیار سے اور کبھی ڈانٹ کر مجھے نماز کے لئے ( بیت) میں بھیج دیا کرتی تھیں اور اگر میں کبھی کچھ کوتاہی کرتا.تو بڑے افسوس اور حیرت سے کہتیں کہ طاری تم میرے ایک ہی بیٹے ہو.میں نے خدا سے تمہارے پیدا رنے سے پہلے بھی یہی دعا کی تھی کہ اے میرے رب مجھے ایسا لڑکا دے جو نیک ہو.اور میری خواہش ہے کہ تم نیک بنو.اور قرآن شریف حفظ کرو.اب تم نمازوں میں تو نہ کوتاہی کرو.مگر جب میں نماز پڑھ لیتا تو میں دیکھتا کہ امی کا چہرہ وفور مسرت سے تمتما اُٹھتا.اور مجھے بھی تسکین ہوتی پھر مجھے اکثر کہتیں.طاری قرآن کریم کی بہت عزت کیا کرو.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک واقعہ سنا تیں کہ اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے بچوں پر بہت ہی مہربان تھے اور کبھی بچوں کو نہ مارتے تھے مگر ایک دفعہ کسی بچے نے قرآن کریم کی بے ادبی کی.تو حضرت صاحب نے اسے غصہ میں آکر تھپڑ لگایا.غرض امی کے دل میں خدا کے کلام کی بہت عزت تھی.اور خدا اور اس کے کلام سے بہت عزت کرتی تھیں.اللہ تعالیٰ اور اس کی رحمت پر تو بہت ہی بھروسہ تھا اور ساتھ ہی تقویٰ بھی انتہائی درجہ تک پہنچا ہوا تھا.ایک دفعہ ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ کہ کون بخشا جائے گا اور کون نہیں.امی نے سنا اور ہمیں ایک واقعہ سنایا.اور کہا کہ اس طرح نہیں کرنا چاہیے.واقعہ یہ تھا کہ ایک دفعہ دو آدمی جنگل میں رہتے تھے.ایک بہت ہی نیک تھا.اور ایک شرابی کبابی تھا.ایک دفعہ نیک آدمی نے شرابی سے کہا.کہ تمہیں روزانہ نصیحت کرتا ہوں کہ شراب پینا اور گناہ کرنا چھوڑ دو.مگر تم باز نہیں آتے.آج میں نے تم پر حجت پوری کر دی.اب تم بالکل نہ بخشے جاؤ گے.اس آدمی نے جواب دیا.مجھے اور میرے خدا کو رہنے دو تم کوئی بخشوانے کے ٹھیکیدار نہیں ہو.خدا مہربان ہے.میں اس کی رحمت کی امید کرتا ہوں.اور خدا کو اس کی یہ بات پسند آ گئی اور اس نے بظاہر نیک شخص کو غصے سے ڈانٹا.اور فرمایا جاؤ اور اپنی نیکیوں سمیت جہنم میں چلے جاؤ اور دوسرے آدمی کو رحم فرما کر جنت میں جگہ دے دی.۱۴۷
ناہ صاحب رسول کریم علیہ سے محبت باب چہارم حضرت ام طاہر امی کو حضرت رسول کریم ﷺ سے بھی بہت محبت تھی اور میں نے امی کی زبان سے شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر بہت سنا ہے.بَلَغَ العُلَىٰ بِكَمَالِهِ كَشَفَ الدُّجى بِجَمَالِهِ حَسُنَتْ جَمِيعُ خِصَالِهِ صَلُّوا عَلَيْهِ وَالِهِ * اور میں دیکھتا کہ جب میری امی آنحضرت ﷺ کا ذکر کرتی تھیں تو مجھے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ایک عاشق صادق ابھی ابھی اپنے محبوب کا دیدار کر کے آیا ہے اور واپس آکر اس کی پیاری پیاری باتیں سنا رہا ہے.اور آپ کا ذکر کر کے امی کا دل بالکل پھول کی طرح کھل جاتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اتنی محبت تھی کہ میں بیان نہیں کر سکتا.اور بعض اوقات تو ایسا ہوتا کہ اگر امی کی نظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر پر جا پڑتی تو امی آپ کو کچھ اس طرح دیکھتی چلی جاتی تھیں اور منہ میں محبت کے کلمات گنگناتی رہتی تھیں کہ پانچ پانچ سات سات منٹ گزر جاتے اور ایسے اوقات میں اگر امی سے کوئی بات پوچھتا بھی تو کچھ جواب نہ ملتا.اور میں امی کو بالکل گم سم پاتا اور امی کی آنکھوں میں محبت کا ایک بے پایاں سمندر موجزن پاتا.جو اگر چہ انہوں نے اپنے دل میں چھپائے رکھا تھا مگر طغیانیوں میں وہ آنکھوں کے راستے چھلک ہی جاتا تھا.جب محویت کا عالم کچھ کم ہو جاتا.تو پھر بھی امی کچھ دیر تک مجھ سے بات نہ کر سکتی تھیں کیونکہ آنسوؤں کے مضطرب قطرے ان کی آواز کو بھر دیتے تھے اور بولنے سے روک دیتے.پھر بعض دفعہ امی حضرت ابراہیم ، حضرت یوسف ، حضرت عیسی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قرآنی واقعات بیان کرتیں.اور کسی نبی کی کوئی خاص خوبی جو امی کو پسند ہوتی بتا تیں اور اس کی تعریف میں لگی رہتیں.یہاں تک کہ میں سنتے سنتے تھک جاتا پر امی نہ تھکتی تھیں کبھی * قارئین آپ نے ایم ٹی اے پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آواز میں یہ عربی کلام سنا ہو گا.حضور انور نہایت سوز محبت اور رقت سے یہ نعتیہ کلام پڑھتے ہیں.۱۴۸
مارشاہ صاحب باب چہارم.....حضرت ام طاہر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خدا سے پیاری پیاری باتوں کا ذکر چھیڑ دیتیں بھی حضرت ابراہیم کی کافروں کے ساتھ ہمدردی بیان کرتیں اور حضرت ابراہیم کا باوجود باپ کے بت فروش ہونے کے ان کو ایک بیکار چیز بیان کرنا اور ان کو خریدنے سے لوگوں کو منع کرنا یہ سب کچھ بہت شوق اور محبت سے بیان کرتی تھیں.جس سے ثابت ہوتا تھا کہ امی کو خدا کے پیاروں سے کتنی محبت ہے.حضرت امام جماعت احمدیہ سے محبت اس طرح ابا جان سے بھی امی کو بہت زیادہ محبت تھی.اور اگر چہ اس کا اظہار میرے سامنے کرنا مناسب نہ سمجھتی تھیں.مگر بعض اوقات وفور محبت سے امی کے منہ سے ایسی بات نکل ہی جاتی تھی جس سے ابا جان کی محبت کا اظہار ہو.امی ابا جان کی رضا کو اس قدر ضروری خیال کرتی تھیں کہ بعض دفعہ بالکل چھوٹی چھوٹی باتوں پر جن کی طرف ہمارا خیال بھی نہ تھا.امی نظر رکھتی تھیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں نے مچھلی کے شکار کو جانا چاہا.سب تیاری وغیرہ مکمل کر لی.بس صرف ابا جان سے پوچھنے کی کسر باقی رہ گئی.میں نے امی سے کہا کہ مجھے ابا جان سے اجازت لے دیں کیونکہ اور لوگوں کی طرح ہم بھی اپنے ابا جان سے متعلق کام امی کے ذریعہ ہی کرایا کرتے تھے.امی نے پوچھا مگر ابا جان نے جواب دیا کہ تم کل جمعہ میں وقت پر نہیں پہنچ سکو گے.مگر میں نے وعدہ کیا کہ ہم ضرور وقت پر پہنچ جائیں گے.جس پر ابا جان نے اس شرط پر اجازت دے دی.امی نے اجازت تو لے دی.مگر باہر آ کر مجھے کہا کہ طاری میں تمہارے ابا جان کی طرف سے محسوس کرتی ہوں کہ تمہارے ابا جان نے اجازت دل سے نہیں دی.میں نہیں چاہتی کہ تم اپنے ابا جان کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرو.تم میری خاطر سے آج شکار پر نہ جاؤ.کسی اور دن چلے جانا اگر چہ سب سامان مکمل تھا.مگر امی نے مجھے کچھ اس طرح سے کہا کہ میں انکار نہ کر سکا اور اپنے باقی ساتھیوں سے کوئی بہانہ کر کے اس ٹرپ کا ارادہ چھوڑ دیا.امی نے حضرت صاحب پر ایک رنگ میں جان بھی فدا کر دی.کیونکہ حضرت صاحب کی ہر بیماری میں اس جانفشانی سے خدمت کی کہ حضرت صاحب کے صحت یاب ہوتے ہی خود بیمار ہوگئیں.میں ان کو ہر بیماری میں کمزور سے کمزور ہوتے دیکھتا اور یوں محسوس کرتا کہ یہ بیماریاں امی ۱۴۹
مارشاہ صاحب کو گھن کی طرح کھا رہی ہیں.باب چہارم...حضرت ام طاہر امی کے عادات و اخلاق کے متعلق میں کچھ نہیں لکھنا چاہتا.ہر وہ شخص جو کبھی امی سے ملا ہے یا اسے امی سے واسطہ پڑا ہے.وہ اپنے دل کو ٹولے اور خود اپنے جذبات کے ما تحت محسوس کر لے کہ لوگوں کے ساتھ امی کا سلوک کیسا تھا.اولاد سے محبت اب میں امی کی اپنی اولاد سے محبت کو لیتا ہوں.امی کو اپنی اولاد سے بھی بہت ہی محبت تھی.اور امی کو اپنی اولاد کے نیک اور صالح ہونے کا اتنا خیال رہتا تھا کہ اکثر خدا کے حضور گڑ گڑا کر دعاؤں میں مصروف رہتیں.اور اولاد کی نیکی اور تقوے اور طہارت کے لئے خصوصیت سے دعائیں کرتی تھیں.ایک دفعہ میں نے امی کی ایک بہت پرانی کتاب دیکھی جو غالباً شادی کے کچھ عرصہ بعد کی تھی.اور شاید میرے بڑے بھائی مرحوم طاہر کی بیماری کے ایام کی ہو.اس کے شروع کے ایک صفحہ پر انٹی عبارت میں کچھ لکھا ہوا تھا.میں نے بہت کوشش سے پڑھا تو مجھے مندرجہ ذیل عبارت نظر آئی.بسم الله الرحمن الرحیم محمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ہوالناصر اب میرے مولا میں آپ سے نہایت ہی عاجزی سے دعا مانگتی ہوں کہ تو اپنے فضل و کرم کے ساتھ مجھ پر رحم فرما اور مجھے ہر ایک غم اور رنج سے نجات بخش.میرے مولا میرے گناہ بخش کہ میں ہی گناہ گار ہوں.اے میرے اللہ تو اپنے فضل سے میرے بچے کو کامل شفا بخش.آمین ثم آمین اس عبارت سے بھی اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوسکتا ہے کہ امی اپنی اولاد کے لئے کس قدر عاجزی سے دعائیں کرتی تھیں.یہ تو صحت کے لئے دعا تھی مگر امی اس کے علاوہ اپنی اولاد کے لئے ہر قسم کی دینی ترقیات کے لئے بھی بہت دعائیں کرتی تھیں.اور خاص طور پر میرے لئے.کیونکہ امی کے یہ الفاظ مجھے تازندگی نہ بھولیں گے اور وہ وقت بھی کبھی نہ بھولے گا کہ جب ایک دفعہ امی کی آنکھیں غم سے ڈبڈبائی ہوئی تھیں.آنسو چھلکنے کو تیار تھے اور امی نے بھرائی آواز سے مجھے کہا کہ طاری میں نے خدا تعالیٰ سے
مارشاہ صاحب باب چہارم.....حضرت ام طاہر دعا مانگی تھی کے اے خدا مجھے ایک ایسا لڑکا دے جو نیک اور صالح ہو اور حافظ قرآن ہو.میں نے کافی کوشش کی کہ کسی طرح تم قرآن شریف حفظ کرو.مگر تم نے نہ کیا.تم نمازوں میں بھی سستی دکھاتے ہو تم نے ابھی تک میری خواہش کو پورا نہ کیا.امی میری پیاری امی! تو یہ الفاظ کہہ کر اب خدا کی محبت کی گود میں پہنچ چکی ہے مگر تیرے یہ لفظ مجھے تا زندگی تڑپاتے رہیں گے.میں نے تیرا دل بہت دکھایا اور سخت گناہ کیا.اے میری مہربان امی ! میں نادان تھا تو میری غلطی کو بھول جا.اور مجھے معاف کر دے.تا خدا بھی مجھے معاف کرے اور میرے دل کو تسکین حاصل ہو.اے کاش میں اپنی ماں کی اس خواہش کو اب پورا کر سکوں.میرا دل بیٹھا جاتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.صبر کروپس میں صبر کرتا ہوں اور بے سود چیخ و پکار سے اپنے نفس کو روکے ہوئے ہوں.مگر اس پر بھی ایک خیال ہے جو مجھے دیوانہ بنائے چلا جارہا ہے.اور وہ خیال یہ ہے کہ اے میری امی عمر بھر تیری محبت میری خدمت گیر رہی لیکن جب میں تیری خدمت کے قابل ہوا تو تو چل بسی.اُمّی تو نے دنیا کی کوئی خوشی نہ دیکھی.اپنی دو جوان بچیوں اور ایک چھوٹی بچی کو خدا کے سپر دکر کے چل دی.تیرے اکلوتے بیٹے نے تیری زندگی میں تجھ کوکوئی سکھ نہ پہنچایا.خدا تعالیٰ سے دعا خدا مہربان خدا، اپنے بندوں کی سننے والا، اپنے گڑگڑاتے ہوئے بندوں کی آوازوں کو پورا کرنے والا خدا تجھے جنت الفردوس میں جگہ دے.تجھے انگلی دنیا میں وہ خوشیاں دکھائے کہ جنت کی مخمور فضا ئیں بھی تجھ پر رشک کرنے لگیں.امی جا اور اپنے پیارے خدا اور محبوب رسول اور عزیز از جان مسیح کی صحبت میں خوش رہ.کہ شاید ہم تیرے دنیوی عزیز تیرے قابل نہیں.پس اپنے ان ساتھیوں میں جا.جو تیرا ساتھ کبھی نہ چھوڑیں گے اور ہمیشہ تیری تسکین و رحمت کا باعث بنے رہیں گے.تو باوجود اس کے کہ جسمانی مصائب کے متلاطم سمندر کی تڑپتی ہوئی موجوں میں گرفتار تھی جب کبھی بھی تو نے کوئی سہارا پایا.ڈوبتے ہوؤں کو بچا کر پھر اسی متلاطم سمندر میں ہاتھ پاؤں مارنے لگی.مگر خدا بہترین سہارا ہے.بالآ خر اسی نے تجھے ساحل سے ٹکرا کے پاش پاش ہونے سے روکا اور چاد را نوارتانے ہوئے فرشتے خدائے عز وجل کی رحمت تلے تجھے لینے کے لئے آگے ۱۵۱
مارشاہ صاحب باب چہارم...حضرت ام طاہر بڑھے اور تجھے ایک پھول کی طرح اٹھا لیا.سو جب تجھے ایسا سہارا مل گیا تو اب کس کا ڈر.جا اور خوش خوش خدا کی ابدی جنت میں داخل ہو جا اور گلشن جنت کی خزاں سے نا آشنا بہ بہار فضاؤں کو اپنی خوشبوؤں سے معطر کر دے.کتنے مبارک تھے تیرے آخری لمحات، میں بھی جب کہ تو اس فانی دنیا کو ہمیشہ کے لئے چھوڑنے والی تھی.تیرا محبوب خلیفہ اور پیارا خاوند تیرے سامنے تھا.تیری نوجوان بیٹیاں اور تیری پیاری جمیل.یہ سب جو کچھ دیر کے بعد تجھ سے اس دنیا میں ہمیشہ کے لئے جدا ہونے والی تھی تیرے سامنے لائی جارہی تھی تا کہ تو ان کو اور وہ تجھ کو آخری نظر دیکھ لیں.مگر افسوس کہ تیرا طاری اس وقت قریب نہ تھا.اور آخر وقت میں تیری محبت بھری نظر کو دیکھنے سے محروم رہا.مگر امی مجھے یقین ہے کہ میں تیری آخری وقت کی دعاؤں سے محروم نہیں رہا.تیری محبت اور استقلال اور ارادے میں کوئی فرق نہ آیا.تو جانتی تھی اور یقین رکھتی تھی کہ سب کچھ خدا کا ہے اور خدا کے لئے ہے.اور اسی کی طرف لوٹایا جائے گا.پس ایسے وقت میں اگر تجھے کسی کی یاد نے سہارا دیا تو وہ صرف خدا کی یاد تھی.تیرے ناتواں ہونٹ کا نپتے رہے.اور جب تک ان میں سکت رہی دعاؤں میں مصروف رہے.یہاں تک کہ موت کی آخری غشی نے تجھ کو آلیا.تیرے ہونٹوں کی خفیف حرکت ابدی سکوت میں تبدیل ہو گئی تیری روح جو دنیا میں اپنا وقت پورا کر چکی تھی.فضا میں غائب ہوتے ہوئے پرندے کی طرح بے آواز اور آہستگی کے ساتھ تیرے جسم کو چھوڑ کر اپنے مولا سے جاملی.ہاں اس وقت جب کہ فضا، قرآنی دعاؤں کی پیاری صدا سے گونج رہی تھی اور اس کی خوشبوؤں سے معطر ہورہی تھی.تو ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئی مگر امی پھر بھی اس جدائی پر غم نہ کر کہ: گو جدائی ہے بہت لمبی کٹھن ہے منزل پر مرا آقا بلا لیگا مجھے بھی اے ماں دعا کا طالب خاکسار مرزا طاہر احمد الفضل قادیان ۱۴ را پریل ۱۹۴۴ ، صفحه ۳-۵) O ۱۵۲
ناہ صاحب باب پنجم....اعلام الہی کاظہور باب پنجم اعلام الہی کا ظہور ایک عظیم الشان فرزند کی پیشگوئی ۱۵۳
شاہ صاحب باب پنجم....اعلام الہی کاظہور وو میں تجھے بیٹا دوں گا الہام حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب) حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب وصیت فرماتے ہیں:- کوشش کرو کہ آئندہ تمہارے ہاں اولاد صالح و متقی اور خادم دین ہی پیدا ہوتے رہیں.اس کا گر قرآن شریف میں موجود ہے.حضرت مریم کے والدین اور حضرت زکریا علیہ السلام کی دعاؤں اور ان کا طرز عمل ملاحظہ کر کے اس کی اتباع اور پابندی کریں.بفضلہ تعالیٰ تمہارے ہاں نیک صالح، دیندار اور متقی اولاد پیدا ہوگی.اسی کا خلاصہ یہ ہے کہ نطفہ رحم میں قرار پکڑنے اوّل و ما بعد مسنون دعاؤں میں والدین کو لگا تار مشغول رہنا چاہیے.ان دعاؤں کا نمونہ حضرت مریم و حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا و احادیث نبویہ میں ہے.غور سے اور توجہ سے اور تڑپ اور فلق و تضرع سے تمہیں اس گر کو اختیار کرنا چاہیے.یہاں تک کہ یہ دعا ئیں تمہاری غذائے جسمانی ہو کر تمہاری روح میں سرایت کریں اور تمہارے رگ وریشہ میں طبیعت ثانیہ کی طرح موثر ہو جاویں تو پھر تم انشاء اللہ اولادصالحہ کے وارث ہو جاؤ گے.( وصیت حضرت شاہ صاحب صفحه ۳۰) یہ وصیت حضرت عبدالستار شاہ صاحب نے اپریل ۱۹۲۷ء کو تحریر فرمائی اور امر واقعہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس وصیت کے قریباً ڈیڑھ سال بعد آپ کو ایک نواسہ عطا فرمایا.جو بعد میں آپ کی ساری وصایا اور آپ کی ساری دعاؤں نیز قرآن کریم میں بیان کردہ حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام کی عاجزانہ دعاؤں کا مثیل ثابت ہوا.راقم کی مراد حضرت خلیفتہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں جو دسمبر ۱۹۲۸ء کو ۱۵۴
مارشاہ صاحب باب پنجم....اعلام الہی کاظہور حضرت سیدہ مریم النساء بیگم صاحبہ بنت حضرت سید ڈاکٹر عبدالستار شاہ (اللہ آپ سے راضی ہو) کے بطن مقدسہ سے پیدا ہوئے.اور آج مرجع خلائق ہیں.خدا تعالیٰ کی عجیب شان ہے.وہ بسا اوقات اپنے نیک بندوں کی تمنا ئیں ایسے بھی پوری فرماتا ہے جیسا کہ حضرت شاہ صاحب کی ساری تمنائیں پوری فرمائیں.قرآن کریم کا ایک اسلوب سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے آل عمران کی خاتون کی ایک عظیم الشان مثال بیان فرمائی ہے.یہ وہی پاک خاتون تھیں جن کے بطن سے حضرت مریم صدیقہ علیہا السلام نے جنم لیا اور حضرت مریم صدیقہ علیہا اسلام نے حضرت عیسی علیہ السلام کو جنم دیا.اللہ تعالیٰ سورۃ آل عمران میں فرماتا ہے:.اذْقَالَتِ امْرَأَةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّى نَذَرُتْ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلُ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ العَلِيمُ ، فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَا لَّا نُثَی وِإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِيِّ اعِيدُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ( سورة آل عمران آیات ۳۶ ۳۷) (یاد کرو) جب آل عمران کی عورت نے کہا کہ اے میرے رب! جو کچھ میرے پیٹ میں ہے (اُسے) آزاد کر کے میں نے تیری نذر کر دیا ہے.پس تو (اسے ) میری طرف سے جس طرح ہو قبول فرما.یقینا تو ہی بہت سننے والا ( اور ) بہت جاننے والا ہے.پھر جب اُسے بن کر فارغ ہوئی.اس نے کہا اے میرے رب ! میں نے تو اسے لڑکی کی شکل میں جنا ہے.اور جو کچھ اس نے جنا تھا.اسے اللہ (سب سے) زیادہ جانتا تھا.(اس کا پینی ) لڑکا (اس) لڑکی کی طرح نہیں ( ہو سکتا ).اور ( کہا کہ ) میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے.اور میں اسے او راس کی اولاد کو مردود شیطان کے حملہ ) سے تیری پناہ میں دیتی ہوں.ا ( ترجمه تفسیر صغیر صفحه ۸۳-۸۴)
رشاہ صاحب باب پنجم....اعلام الہی کاظہور قرآن کریم کے اس اسلوب اور انداز سے یہ ایماء ملتا ہے کہ بسا اوقات الہی الہامات اور وحی پر مشتمل پیشگوئیاں اولاد میں پھر اولاد کی اولاد میں بلکہ بعض دفعہ کئی نسلوں تک چلتی ہیں.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کئی پیشگوئیوں میں یہ اسلوب اور اشارہ ملتا ہے.جیسے يَاتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ یہ الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات طیبہ میں بارہا پورے ہوئے.اور پہلی تین خلافتوں اور موجودہ دورِ خلافت میں بھی اُن کا ظہور ہورہا ہے.یہ وہ فعلی شہادت ہے جس سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے.حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کو بھی اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا تھا کہ: میں تجھے ایک لڑکا دوں گا“ حضور انور کی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ ام طاہر بیگم صاحبہ کی پیدائش سے قبل آپ کے والد ماجد حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) کو اللہ تعالیٰ نے الہاما خبر دی کہ میں تجھے ایک بیٹا دوں گا“ اس کی بابت حضرت مولانا برکات احمد صاحب را جیکی ابن حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی محترم بابا اندر صاحب کی روایت بیان فرماتے ہیں کہ:- ” جب میں رعیہ ضلع سیالکوٹ میں حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) کے ہاں ملازم تھا تو ایک دفعہ حضرت شاہ صاحب نے مجھے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے الہام فرمایا ہے کہ ”میں تجھے بیٹا دوں گا“ دواڑھائی ماہ کے بعد بجائے لڑکا پیدا ہونے کے لڑکی پیدا ہوئی.جن کا نام مریم بیگم رکھا گیا.حضرت ڈاکٹر صاحب نے مجھے علیحدہ جا کر کہا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے لڑکا دینے کا وعدہ فرمایا تھا لیکن لڑکی پیدا ہوئی.شاید مجھے اللہ تعالیٰ کا الہام سمجھنے میں غلطی لگی ہے.اور شائد آئندہ کسی وقت میں پورا ہونا ہو.میں نے عرض کیا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس لڑکی کو لڑکوں سے بڑھ کر دے.اور یہ اپنی شان اور کام میں بیٹوں سے بھی بڑھ جائے.جب حضرت مریم بیگم صاحبہ (ام طاہر ) کی شادی سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ہوئی تو میں نے مبارک باد دی.اور عرض کی
ناه صاحب باب پنجم....اعلام الہی کا ظہور کہ دیکھ لیجئے یہ لڑکی لڑکوں سے بڑھ گئی.حضرت شاہ صاحب نے خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی اطلاع کا مطلب تم خوب سمجھتے ہو.(روز نامه الفضل ربوه ۱۳ ستمبر ۱۹۵۷ء).چنانچہ یہ پیشگوئی ہر لحاظ سے پوری ہوئی.خدا تعالیٰ نے حضرت ام طاہر ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کو ممتاز و منفر د فرمایا اور حضرت مصلح موعود (اللہ آپ سے راضی ہو ) کے عقد میں آئیں.اور آپ کے بطن سے نہایت مقدس اور با برکت اولاد پیدا ہوئی.پھر خدا تعالیٰ نے حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب کو حضرت مصلح موعود ( اللہ آپ سے راضی ہو ) جیسا اولوالعزم بیٹا داماد کی صورت میں عطا فرمایا.اور اس پیشگوئی کا عظیم الشان ظہور اس صورت میں بھی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدہ مریم النساء بیگم صاحبہ (اللہ آپ سے راضی ہو ) کو حضرت مرزا طاہر احمد صاحب جیسا اولو العزم اور عظیم المرتبت فرزند ارجمند عطا فرمایا جن کی دس سال کی عمر میں ہی یہ خواہش تھی کہ ” مجھے اللہ تعالیٰ چاہیئے.اللہ تعالیٰ نے اس سید خاندان کے اس فرزند کو مسند خلافت پر متمکن فرمایا.اور مشیت ایزدی اور الہام الہی پوری شان اور شوکت سے ظہور پذیر ہوئے.اللہ تعالیٰ حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا سایہ شفقت و محبت اور ظل روحانی سدا مدام اور قائم و دائم رکھے.اور کامل شفایابی والی لمبی زندگی عطا فرمائے.آمین سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم اللهم صل على محمد وال محمد
ناہ صاحب باب ششم.....ذکره باب ششم ذکر حبیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرمودہ حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب و خاندان حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب ۱۵۸
شاہ صاحب باب ششم.....ذکره سید نا وامامنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احباب کرام نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات طیبہ اور سیرۃ وسوانح نیز آپ کے اخلاق و شمائل کی بابت ہزاروں واقعات، مشاہدات، تاثرات اور روایات بیان فرمائی ہیں.جن میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حیات طیبہ ہمارے سامنے واضح طور پر پیش کی گئی ہے.خاندانِ سادات حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب اور آپ کے اہل بیت نے بھی اپنے اپنے انداز اور اسلوب میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت طیبہ اور شمائل و اخلاق کی بابت اپنے مشاہدات، واقعات ، تاثرات اور روایات بیان کی ہیں.اس باب میں خاندان سادات کی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت و اخلاق کے بارے میں بعض روایات پیش کی جارہی ہیں.قارئین کی سہولت کے لئے روایات پر عناوین لگا دیئے گئے ہیں.”ہم کو ان پر رشک آتا ہے.یہ بہشتی کنبہ ہے“ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں:.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول ( اللہ آپ سے راضی ہو ) سخت بیمار ہو گئے.یہ اس زمانہ کی بات ہے جب حضور کے مکان میں رہتے تھے.حضور نے بکروں کا صدقہ دیا.میں اس وقت موجود تھا.میں رات کو حضرت خلیفہ اول (اللہ آپ سے راضی ہو) کے پاس ہی رہا.اور دوا پلاتا رہا.صبح کو حضور تشریف لائے.حضرت خلیفہ اول (اللہ آپ سے راضی ہو) نے فرمایا.کہ حضور ڈاکٹر صاحب ساری رات میرے پاس بیدار رہے ہیں اور دوا وغیرہ اہتمام سے پلاتے رہے ہیں.حضور علیہ السلام بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے کہ ہم کو بھی ان پر رشک آتا ہے.یہ بہشتی کنبہ ہے.یہ الفاظ چند بار فرمائے.(سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۵۶۳) ۱۵۹
ناہ صاحب باب ششم.....ذکره تربیت خواتین حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں:.ایک مرتبہ میرے گھر سے یعنی والدہ ولی اللہ شاہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور مرد تو آپ کی تقریر بھی سنتے ہیں اور درس بھی سنتے ہیں.لیکن ہم مستورات اس فیض سے محروم ہیں.ہم پر کچھ مرحمت ہونی چاہیے.کیونکہ ہم اسی غرض سے آئے ہیں کہ کچھ فیض حاصل کریں.حضور بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے کہ جو بچے طلب گار ہیں ان کی خدمت کے لئے ہم ہمیشہ ہی تیار ہیں.ہمارا یہی کام ہے کہ ہم ان کی خدمت کریں.اس سے پہلے حضور نے بھی عورتوں میں تقریر یا درس نہیں فرمایا تھا.مگر ان کی التجا اور شوق کو پورا کرنے کے لئے عورتوں کو جمع کر کے روزانہ تقریر شروع فرما دی.جو بطور درس تھی.پھر چند روز بعد حکم فرمایا کہ مولوی عبد الکریم صاحب ( اللہ آپ سے راضی ہو ) اور مولوی نورالدین صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو) اور دیگر بزرگ بھی عورتوں میں درس دیا کریں چنانچہ مولوی عبد الکریم صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) درس کے لئے بیٹھے اور سب عورتیں جمع ہوئیں.چونکہ ان کی طبیعت بڑی آزاد اور بے دھڑک تھی.تقریر کے شروع میں فرمانے لگے.کہ اے مستورات افسوس ہے کہ تم میں سے کوئی ایسی سعید روح والی عورت نہ تھی.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تقریر یا درس کے لئے توجہ دلاتی اور تحریک کرتی.تمہیں شرم کرنی چاہیے.شاہ صاحب کی صالحہ بیوی ایسی آتی ہیں جس نے اس کار خیر کے لئے حضور کو توجہ دلائی.اور تقریر کرنے پر آمادہ کیا تمہیں ان کا نمونہ اختیار کرنا چاہیے.نیز حضرت خلیفہ اول (اللہ آپ سے راضی ہو ) بھی اپنی باری سے تقریر اور درس فرمانے لگے.اس وقت سے مستورات میں مستقل طور پر تقریر اور درس کا سلسلہ جاری ہو گیا“.(سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۸۸۲) ۱۶۰
شاہ صاحب دوفرشتوں نے شیریں روٹیاں دیں باب ششم.....ذکره حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں:.ایک دفعہ ڈاکٹر عبداللہ صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں نے ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ کبھی حضور نے فرشتے بھی دیکھے ہیں.اس وقت حضور بعد نماز مغرب ( بیت ) مبارک کی چھت پر شہ نشین کی بائیں طرف کے مینار کے قریب بیٹھے تھے.فرمایا کہ اس مینار کے سامنے دوفرشتے میرے سامنے آئے جن کے پاس دوشیر میں روٹیاں تھیں اور وہ روٹیاں انہوں نے مجھے دیں اور کہا کہ ایک تمہارے لئے ہے اور دوسری تمہارے مریدوں کے لئے ہے.* (سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۸۸۵) صحبت صالحین فیضان الہی کا ذریعہ اول جب میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تو آپ نے فرمایا کہ آپ کو ہمارے پاس بار بار آنا چاہیے تا کہ ہمارا فیضان قلبی اور صحبت کے اثر کا پر تو آپ پر پڑ کر آپ کی روحانی ترقیات ہوں.میں نے عرض کی کہ حضور ملازمت میں رخصت بار بار نہیں ملتی.( فرمایا ) ایسے حالات میں آپ بذریعہ خطوط بار بار یاد دہانی کراتے رہا کریں تا کہ دعاؤں کے ذریعہ توجہ جاری رہے.کیونکہ فیضان الہی کا اجر قلب پر صحبت صالحین کے تکرار یا بذریعہ خطوط دعا کی یاددہانی پر منحصر ہے“.( سيرة المهدی حصہ سوم روایت نمبر (۸۹۵) * خاکسار ( حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے اللہ آپ سے راضی ہو ) عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ رویا چھپ چکا ہے مگر الفاظ میں کچھ اختلاف ہے.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مکرم ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب اس وقت (جو) جنوری ۱۹۳۹ ء ہے وفات پاچکے ہیں.
ناہ صاحب باب ششم.....ذکره خدمت کرنے کا اجر عظیم حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ اپنی دختر حضرت سیدہ زینب النساء صاحبہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ:- مجھ سے میری بڑی لڑکی زینب بیگم نے بیان کیا کہ میں تین ماہ کے قریب حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں رہی ہوں.گرمیوں میں پنکھا وغیرہ اور اسی طرح کی خدمت کرتی تھی.بسا اوقات ایسا ہوتا کہ نصف رات یا اس سے زیادہ مجھے کو پنکھا ہلاتے گزر جاتی.مجھے کو اس اثنا میں کسی قسم کی تھکان و تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی.بلکہ خوشی سے دل بھر جاتا تھا.دو دفعہ ایسا موقعہ آیا کہ عشاء کی نماز سے لے کر صبح کی اذان تک مجھے ساری رات خدمت کرنے کا موقعہ ملا.پھر بھی اس حالت میں مجھ کو نہ نیند غنودگی اور نہ تھکان معلوم ہوئی.بلکہ خوشی اور سرور پیدا ہوتا تھا.اسی طرح جب مبارک احمد صاحب بیمار ہوئے.تو مجھ کو اُن کی خدمت کے لئے بھی اسی طرح کئی راتیں گزارنی پڑیں.تو حضور نے فرمایا کہ زینب اس قدر خدمت کرتی ہے کہ ہمیں اس سے شرمندہ ہونا پڑتا ہے.اور آپ کئی دفعہ اپنا تبرک مجھے دیا کرتے تھے.(سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۹۱۰) پھر بھی قہوہ پینے سے تکلیف نہ ہوئی حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں:.”میری بڑی لڑکی زینب بیگم نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قہوہ پی رہے تھے کہ حضور نے مجھ کو اپنا بچا ہوا قہوہ دیا.اور فرمایا.زینب یہ پی لو.میں نے عرض کی حضور یہ گرم ہے اور مجھ کو ہمیشہ سے اس سے تکلیف ہو جاتی ہے.آپ نے فرمایا کہ یہ ہمارا بچا ہوا قہوہ ہے تم پی لو.کچھ نقصان نہیں ہوگا.میں نے پی لیا.اور اس کے بعد پھر کبھی مجھے قہوہ سے تکلیف نہیں ہوئی.(سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۸۹۶) ۱۶۴
ناه صاح باب ششم....ذکره آقا کی غلاموں سے شفقت و محبت کے نمونے حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب سیدنا حضرت اقدس کی اپنے ساتھ غیر معمولی شفقت و محبت کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں :- ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں ایک چار پائی پر تشریف رکھتے تھے.اور دوسری دو چار پائیوں پر مفتی محمد صادق صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم ( اللہ ان سے راضی ہو ) وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے.بوری نیچے پڑی ہوئی تھی.اس پر میں دو چار آدمیوں سمیت بیٹھا ہوا تھا.میرے پاس مولوی عبد الستار خان صاحب بزرگ (آف افغانستان.اللہ ان سے راضی ہو ) بھی تھے.حضرت صاحب....تقریر فرمارہے تھے کہ اچانک حضور کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمایا.کہ ڈاکٹر صاحب آپ میرے پاس چار پائی پر آکر بیٹھ جائیں.مجھے شرم محسوس ہوئی کہ میں حضور کے ساتھ برابر ہو کر بیٹھوں.حضور نے دوبارہ فرمایا کہ شاہ صاحب آپ میرے پاس چار پائی پر آجائیں.میں نے عرض کی کہ حضور میں یہیں اچھا ہوں.تیسری بار حضور نے خاص طور پر فرمایا کہ آپ میری چار پائی پر آکر بیٹھ جائیں.کیونکہ آپ سید ہیں اور آپ کا احترام ہم کو منظور ہے.حضور کے اس ارشاد سے مجھے بہت فرحت ہوئی.اور میں اپنے سید ہونے کے متعلق حق الیقین تک پہنچنے کی جو آسمانی شہادت چاہتا تھا.وہ مجھے مل گئی.* (سيرة المهدی حصہ سوم روایت نمبر ۹۱۶) دعائیہ اعجاز حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں :- * خاکسار( حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے) عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو تو اپنے سید ہونے کا ثبوت ملنے پر فرحت ہوئی اور مجھے اس بات سے فرحت ہوئی کہ چودہ سوسال گذر جانے پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ کی اولا د کا کس قدر پاس تھا اور یہ پاس عام تو ہمانہ رنگ میں نہیں تھا بلکہ بصیرت اور محبت پر مبنی تھا.۱۶۳
شاہ صاحب باب ششم.....ذکره ”ایک دفعہ مجھے تین مہینے کی رخصت لے کر مع اہل واطفال قادیان میں ٹھہرنے کا اتفاق ہوا.ان دنوں میں ایسا اتفاق ہوا کہ والدہ ولی اللہ شاہ کے دانت میں سخت شدت کا درد ہو گیا.جس سے ان کو نہ رات کو نیند آتی تھی اور نہ دن کو.ڈاکٹری علاج بھی کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا.حضرت خلیفہ اوّل ( اللہ ان سے راضی ہو ) نے بھی دوا کی.مگر آرام نہ آیا.حضرت (اماں جان ) ( اللہ آپ سے راضی ہو ) نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی بیوی کے دانت میں سخت درد ہے اور آرام نہیں آتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام) نے فرمایا کہ ان کو یہاں بلائیں کہ وہ مجھے آکر بتائیں کہ انہیں کہاں تکلیف ہے.چنانچہ انہوں نے حاضر ہو کر عرض کی.کہ مجھے اس دانت میں سخت تکلیف ہے.ڈاکٹری اور مولوی صاحب ( حضرت حکیم نورالدین بھیروی.اللہ آپ سے راضی ہو ) کی بہت دوائیں استعمال کی ہیں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا.آپ نے فرمایا کہ آپ ذرا ٹھہریں چنانچہ حضور نے وضو کیا اور فرمانے لگے کہ میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں.آپ کو اللہ تعالی آرام دے گا.گھبرائیں نہیں.حضور نے دو نفل پڑھے اور وہ خاموش بیٹھی رہیں اتنے میں انہیں محسوس ہوا کہ جس دانت میں درد ہے اس دانت کے نیچے سے ایک شعلہ قدرے دھوئیں والا دانت کی جڑھ سے نکل کر آسمان تک جا کر نظر سے غائب ہو گیا تو تھوڑی دیر بعد حضور نے سلام پھیرا.اور وہ در دفور ارفع ہو گیا.حضور نے فرمایا.کیوں جی.اب آپ کا کیا حال ہے انہوں نے عرض کی.حضور کی دعا سے آرام ہو گیا ہے.اور ان کو بڑی خوشی ہوئی کہ خدا نے ان کو اس عذاب سے بچالیا.(سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۸۸۴) حضرت اقدس علیہ السلام کی دعا سے شفایابی حضرت ڈاکٹر سید عبدالستارشاہ صاحب اپنی دختر حضرت سیدہ زینب النساء کی ۱۶۴
رشاہ صاحب شفایابی کا غیر معمولی واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ :- باب ششم.....ذکره ” میری لڑکی زینب بیگم نے مجھ سے بیان کیا کہ کہ ایک دفعہ جب حضور علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے.تو میں رعیہ سے ان کی خدمت میں حاضر ہوئی.ان ایام میں مجھے مراق کا سخت دورہ تھا.میں شرم کے مارے آپ سے عرض نہ کر سکتی تھی.مگر میرا دل چاہتا تھا کہ میری بیماری سے کسی طرح حضور کو علیم ہو جائے تا کہ میرے لئے حضور دعا کریں.میں حضور کی خدمت کر رہی تھی کہ حضور نے اپنے انکشاف اور صفائی قلب سے خود معلوم کر کے فرمایا زینب تم کو مراق کی بیماری ہے ہم دعا کریں گے تم کچھ ورزش کیا کرو.اور پیدل چلا کرو.مگر میں ایک قدم بھی پیدل نہ چل سکتی تھی.اگر دو چار قدم چلتی بھی تو دوره مراق و خفقان بہت تیز ہو جاتا تھا.میں نے اپنے مکان پر جانے کے لئے جو حضور کے مکان سے قریباً ایک میل دور تھا.ٹانگے کی تلاش کی.مگر نہ ملا.اس لئے مجبورا مجھ کو پیدل جانا پڑا.مجھ کو یہ پیدل چلنا سخت مصیبت اور ہلاکت معلوم ہوتی تھی.مگر خدا کی قدرت جوں جوں میں پیدل چلتی رہی.آرام معلوم ہوتا تھا.حتی کہ دوسرے روز میں پیدل حضور کی زیارت کو آئی تو دورہ مراق جاتا رہا.اور بالکل آرام آ گیا.(سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت ۹۱۷) اور مردہ زندہ ہو گیا حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب اپنی اہلیہ محترمہ حضرت سیدہ سعیدۃ النساء صاحبہ کی غیر معمولی شفایابی، بیعت اور حضرت اقدس کی دعاؤں کے اعجازات کے بارے میں بیان فرماتے ہیں:.” جب میں نے حضرت صاحب کی بیعت کی تو ولی اللہ شاہ کی والدہ کو خیال رہتا تھا کہ سابقہ مرشد کی ناراضگی اچھی نہیں.ان کو بھی کسی قدر خوش کرنا چاہیئے تا کہ بددعا نہ کریں.ان کو ہم لوگ پیشوا کہا کرتے تھے.ولی اللہ شاہ کی والدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اچھا جانتی تھی اور آپ کی نسبت حسن ظن تھا.صرف لوگوں کی طعن تشنیع اور پیشوا
ناہ صاحب باب ششم.....ذکره کی ناراضگی کا خیال کرتی تھیں.اور بیعت سے رکی ہوئی تھیں.اس اثناء میں وہ خود سخت بیمار ہو گئیں اور تپ محرقہ سے حالت خراب ہوگئی ان کی صحت یابی کی کچھ امید نہ تھی.میں نے ان سے کہا کہ آپ اپنے برادر زادہ شیر شاہ کو جو وہاں پڑھتا تھا.قادیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دعا کے لئے اور مولوی نورالدین صاحب اللہ ان.راضی ہو ) کی خدمت میں کسی نسخہ حاصل کرنے کے لئے روانہ کردو.امید ہے کہ خداوند کریم صحت دے گا.چنانچہ اس کو روانہ کر دیا گیا.اور وہ دوسرے دن قادیان پہنچ گیا اور حضرت صاحب کی خدمت میں درخواست دعا پیش کی.حضور نے اسی وقت توجہ سے دعا کی اور فرمایا کہ میں نے بہت دعا کی ہے اللہ تعالیٰ ان پر فضل کرے گا.ڈاکٹر صاحب سے آپ جا کر کہیں کہ گھبرائیں نہیں.خدا تعالیٰ صحت دے گا اور حضرت خلیفہ اول ( اللہ آپ سے راضی ہو) کو فرمایا کہ آپ نسخہ تجویز فرمائیں.انہوں نے نسخہ تجویز کر کے تحریر فرما دیا.جس روز شام کو حضور نے قادیان میں دعا فرمائی.اس سے دوسرے روز شیر شاہ نے واپس آنا تھا.وہ رات ولی اللہ شاہ کی والدہ پر اس قدرسخت گذری که معلوم ہوتا تھا کہ صبح تک وہ نہیں بچیں گی.اور ان کو بھی یقین ہو گیا کہ میں نہیں بچوں گی.اسی روز انہوں نے خواب میں دیکھا کہ شفا خانہ رعیہ میں جہاں میں ملازم تھا.اس کے احاطہ کے بیرونی طرف سڑک کے کنارے ایک بڑا سا خیمہ لگا ہوا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ یہ خیمہ مرزا صاحب قادیانی کا ہے.کچھ مرد ایک طرف بیٹھے اور کچھ عورتیں ایک طرف بیٹھی ہوئی ہیں.مرد اندر جاتے ہیں اور واپس آتے ہیں پھر عورتوں کی باری آئی وہ بھی ایک ایک کر کے باری باری جاتی ہیں.جب خود ان کی باری آئی تو یہ بہت ہی نحیف اور کمزور شکل میں پردہ کئے ہوئے حضور کی خدمت میں جا کر بیٹھ گئیں.آپ نے فرمایا.آپ کو کیا تکلیف ہے انہوں نے انگلی کے اشارہ سے سینہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ مجھ کو بخار، دل کی کمزوری اور سینہ میں درد ہے.آپ نے اسی وقت ایک خادمہ کو کہا کہ ایک پیالہ میں پانی لاؤ.جب پانی آیا تو آپ نے اس پر دم کیا اور اپنے ہاتھ سے ان کو وہ دیا اور فرمایا.اس کو پی لیں.اللہ تعالیٰ شفا دے گا.پھر سب لوگوں نے اور آپ نے دعا کی اور وہ پانی انہوں نے پی لیا.پھر والدہ ولی اللہ شاہ نے پوچھا کہ آپ کون ہیں اور اسم شریف کیا ہے.فرمایا کہ میں مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں اور میرا نام غلام احمد ہے اور قادیان ۱۶۶
مارشاہ صاحب باب ششم.....ذکره میں میری سکونت ہے.خدا کے فضل سے پانی پیتے ہی ان کو صحت ہو گئی.اس وقت انہوں نے نذر مانی کہ حضور کی خدمت میں بیعت کے لئے جلد حاضر ہوں گی.فرمایا بہت اچھا.بعد اس کے وہ بیدار ہوگئیں.جب انہوں نے یہ خواب دیکھی تو ابھی شیر شاہ قادیان سے واپس نہ پہونچا تھا.بلکہ دوسرے دن صبح کو پہونچا.اس رات کو بہت مایوسی تھی اور میرا خیال تھا کہ صبح جنازہ ہو گا لیکن صبح بیدار ہونے کے بعد انہوں نے آواز دی کہ مجھ کو بھوک لگی ہے.مجھے کچھ کھانے کو دو اور مجھے بٹھاؤ.اسی وقت ان کو اٹھایا اور دودھ پینے کے لئے دیا اور سخت حیرت ہوئی کہ یہ مردہ زندہ ہوگئیں.عجیب بات تھی کہ اس وقت ان میں طاقت بھی اچھی پیدا ہوگئی اور اچھی طرح گفتگو بھی کرنے لگیں.میرے پوچھنے پر انہوں نے یہ سارا خواب بیان کیا اور کہا کہ یہ سب اس پانی کی برکت ہے جو حضرت صاحب نے دم کر کے دیا تھا اور دعا کی تھی صبح کو وہ خود بخود بیٹھ بھی گئیں.اور کہا کہ مجھ کوفوراً حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچا دو.کیونکہ میں عہد کر چکی ہوں کہ میں آپ کی بیعت کے لئے حاضر ہونگی.میں نے کہا انبھی آپ کی طبیعت کمزور ہے اور سفر کے قابل نہیں.جس وقت آپ کی حالت اچھی ہو جائے گی آپ کو پہونچا دیا جائے گا لیکن وہ برابر اصرار کرتی رہیں کہ مجھ کو بے قراری ہے جب تک بیعت نہ کر لوں مجھے تسلی نہ ہوگی اور شیر شاہ بھی اسی روز قادیان سے دوائی لے کر آ گیا.اور سب ماجرا بیان کیا کہ حضرت صاحب نے بڑی توجہ اور در ددل سے دعا کی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ اچھے ہو جائیں گے.جب میں نے تاریخ کا مقابلہ کیا تو جس روز حضرت صاحب نے قادیان میں دعا کی تھی.اسی روز خواب میں ان کو زیارت ہوئی تھی اور یہ واقعہ پیش آیا تھا.اس پر ان کا اعتقاد کامل ہو گیا اور جانے کے لئے اصرار کرنے لگیں.چنانچہ ان کو صحت یاب ہونے پر قادیان ان کے بھائی سید حسین شاہ اور شیر شاہ ان کے بھتیجے کے ساتھ روانہ کر دیا.حضرت صاحب نے بڑی شفقت اور مہربانی سے ان کی بیعت لی اور وہ چار روز تک قادیان ٹھہریں.حضور نے ان کی بڑی خاطر تواضع کی اور فرمایا کچھ دن اور ٹھہر ہیں.وہ تو چاہتی تھیں کہ کچھ دن اور ٹھہریں مگر ان کا بھتیجامدرسہ میں پڑھتا تھا اور بھائی ملازم تھا.اس لئے وہ ٹھہر نہ سکیں اور واپس رعیہ آگئیں.ایک دن کہنے لگیں کہ میں نے خواب میں رسول اللہ علی کو دیکھا.آپ نے دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا.کہ میں اور مسیح دونوں ایک ہیں.وہ انگلیاں وسطی اور
ارشاہ صاحب باب ششم...ذکر سبابہ تھیں.چونکہ ولی اللہ شاہ کی والدہ بیعت سے پہلے بھی صاحب حال تھیں.پیغمبروں اور اولیاء اور فرشتوں کی زیارت کر چکی تھیں ان کو خواب کے دیکھنے سے حضرت صاحب پر بہت ایمان پیدا ہو گیا تھا.اور مجھ سے فرمانے لگیں کہ آپ کو تین ماہ کی رخصت لے کر قادیان جانا چاہئیے اور سخت بے قراری ظاہر کی کہ ایسے مقبول کی صحبت سے جلدی فائدہ اٹھانا چاہیئے.زندگی کا اعتبار نہیں.ان کے اصرار پر میں تین ماہ کی رخصت لے کر قادیان پہونچا.سب اہل و عیال ساتھ تھے.حضرت صاحب کو کمال خوشی ہوئی اور اپنے قریب کے مکان میں جگہ دی اور بہت ہی عزت کرتے تھے اور خاص محبت وشفقت اور خاطر و تواضع سے پیش آتے تھے.(سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۹۲۷) حضرت مسیح موعود نے کیا پاک تبدیلی پیدا فرمائی ؟ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب اپنی بیعت کے بعد کے حالات کی بابت بیان فرماتے ہیں:- ” جب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے واپس ملازمت پر گیا تو کچھ روز میں نے اپنی بیعت کو خفیہ رکھا.کیونکہ مخالفت کا زور تھا اس وجہ سے کچھ کمزوری سی دکھائی.اور لوگ میرے معتقد بہت تھے.رفتہ رفتہ یہ بات ظاہر ہوگئی اور بعض آدمی مخالفت کرنے لگے.لیکن وہ کچھ نقصان نہ کر سکے.گھر کے لوگوں نے ذکر کیا کہ بیعت تو آپ نے کر لی ہے.لیکن آپ کا پہلے پیر ہے اور وہ زندہ موجود ہے.وہ ناراض ہوکر بددعا کرے گا.ان کی آمد ورفت اکثر ہمارے پاس رہتی تھی.میں نے کہا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بیعت کی ہے.اور جن کے ہاتھ بیعت کی ہے وہ مسیح اور مہدی کا درجہ رکھتے ہیں کوئی اور خواہ کیسا ہی نیک اور ولی کیوں نہ ہو وہ اس درجہ کو نہیں پہنچ سکتا اور اس کی بددعا کوئی بداثر نہیں کرے گی.کیونکہ اِنَّمَا الأعْمَالُ بالنِّيَّاتِ.(بخاری کتاب بدا الوحی حدیث نمبر ) اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے.میں نے اپنے اللہ کو خوش کرنے کے لئے یہ کام کیا ۱۶۸
رشاہ صاحب ہے اپنی نفسانی غرض کے لئے نہیں کیا.الغرض وہ میرے پہلے مرشد کچھ عرصہ بعد بدستور سابق میرے پاس آئے اور انہوں نے میری بیعت کا معلوم کر کے مجھے کہا کہ آپ نے اچھا نہیں کیا.جب آپ کا مرشد موجود ہے تو اس کو چھوڑ کر آپ نے یہ کام کیوں کیا ؟ آپ نے ان میں کیا کرامت دیکھی؟ میں نے کہا میں نے ان کی یہ کرامت دیکھی ہے کہ ان کی بیعت کے بعد میری روحانی بیماریاں بفضل خدا دور ہوگئی ہیں.اور میرے دل کو تسلی ہوگئی ہے.انہوں نے کہا میں بھی ان کی کرامت دیکھنا چاہتا ہوں اگر تمہارا ولی اللہ (حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ مراد ہیں ) ان کی دعا سے اچھا ہو جائے تو میں سمجھ لوں گا کہ آپ نے مرشد کامل کی بیعت کی ہے اور اس کا دعوی سچا ہے.اس وقت میرے لڑکے ولی اللہ کی ٹانگ ضرب کے سبب خشک ہو کر چلنے کے قابل نہیں رہی تھی.وہ ایک لاٹھی بغل میں رکھتا تھا اور اس کے سہارے چلتا تھا.اور اکثر دفعہ گر پڑتا تھا.پہلے کئی ڈاکٹروں اور سول سرجنوں کے علاج کئے گئے تھے لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا تھا.مرشد صاحب والی بات کے تھوڑے عرصہ بعد اتفاقاً ایک نیا سرجن ( میجر ہوکر ) سیالکوٹ میں آ گیا.جس کا نام میجر ہیو گو تھا.جب وہ رعیہ کے شفاخانہ کے معائنہ کے لئے آیا تو ولی اللہ کو میں نے دکھایا تو اس نے کہا یہ علاج سے اچھا ہوسکتا ہے مگر تین دفعہ آپریشن کرنا پڑے گا.چنانچہ اس نے ایک دفعہ سیالکوٹ میں آپریشن کیا اور دودفعہ شفاخانہ رعیہ میں جہاں میں متعین تھا آپریشن کیا.ادھر میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کے لئے بھی تحریر کیا.خدا کے فضل سے وہ بالکل صحت یاب ہو گیا.تب میں نے اس بزرگ کو کہا کہ دیکھئے خدا کے فضل سے حضرت صاحب کی دعا کیسی قبول ہوئی.اس نے کہا کہ یہ تو علاج سے ہوا ہے.میں نے کہا کہ علاج تو پہلے بھی تھا.لیکن اس علاج میں شفا صرف دعا کے ذریعہ سے حاصل ہوئی ہے.(سيرة المهدی حصہ سوم روایت نمبر ۹۲۶) ۱۶۹
ناہ صاحب رضائے الہی حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب بیان کرتے ہیں :- ایک دفعہ میں گھوڑی سے گر پڑا.اور میری داپنی کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی.اس لئے یہ ہاتھ کمزور ہو گیا تھا.کچھ عرصہ بعد میں قادیان میں حضور کی زیارت کے لئے حاضر ہوا.حضور نے پوچھا.شاہ صاحب آپ کا کیا حال ہے میں نے عرض کیا کہ کلائی کی ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے میرے ہاتھ کی انگلیاں کمزور ہوگئی ہیں اور اچھی طرح مٹھی بند نہیں ہوتی.حضور دعا فرمائیں کہ پنجہ ٹھیک ہو جائے.مجھ کو یقین تھا کہ اگر حضوڑ نے دعا کی تو شفا بھی اپنا کام ضرور کرے گی لیکن بلا تامل حضور نے فرمایا.کہ شاہ صاحب ہمارے مونڈھے پر بھی ضرب آئی تھی جس کی وجہ سے اب تک کمزور ہے.ساتھ ہی حضور نے مجھے اپنا شانہ نگا کر کے دکھایا.اور فرمایا کہ آپ بھی صبر کریں پس اس وقت سے وہی ہاتھ کی کمزوری مجھ کو بدستور ہے اور میں نے سمجھ لیا کہ اب یہ تقدیر ملنے والی نہیں.* (سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۴۷۹) استغفار کی حقیقت حضرت سید ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں:.ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ یہ جو اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَاتُوبُ إِلَيْهِ پڑھنے کا کثرت سے حکم آیا ہے.اس سے مراد یہ ہے کہ انسانی کمزوریوں اور غلطیوں کی وجہ سے انسان کو گویا ایک ڈنب یعنی دم لگ جاتی ہے جو کہ حیوانی عضو ہے.اور یہ انسان کے لئے بدنما اور اس کی خوبصورتی کے لئے ناموزوں ہے.اس * خاکسار ( حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے مراد ہیں ) عرض کرتا ہے کہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب اپنے احباب) سے کس قدر بے تکلف تھے کہ فوراً اپنا شانہ نگا کر کے دکھا دیا.تا کہ شاہ صاحب اسے دیکھ کر تسلی پائیں.
مارشاہ صاحب واسطے حکم ہے کہ انسان بار بار یہ دعا مانگے اور استغفار کرے تا کہ اس حیوانی دم سے بیچ کر اپنی انسانی خوبصورتی کو قائم رکھ سکے.اور ایک مکرم انسان بنا رہے“.(سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۴۷۸) پہلے شاہ جی کے بچے کھانا کھائیں گے حضرت سیدہ محترمہ خیر النساء صاحبہ بنت حضرت سید ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاح سید نا حضرت اقدس کی شفقت اور محبت اور تواضع کی بابت بیان کرتی ہیں:.ایک دفعہ بارش سخت ہو رہی تھی اور کھانا لنگر میں میاں نجم الدین صاحب پکایا کرتے تھے.انہوں نے کھانا حضور اور بچوں کے واسطے بھجوایا کہ بچے سو نہ جائیں باقی کھانا بعد میں بھجوادیں گے.حضور علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ شاہ جی کے بچوں کو کھانا بھجوا دیا ہے یا نہیں ؟ جواب ملا نہیں ان دنوں دادی مرحومہ وہاں رہا کرتی تھیں حضور نے کھانا اٹھوا کر ان کے ہاتھ بھجوایا اور فرمایا کہ پہلے شاہ جی کے بچوں کو دو بعد میں ہمارے بچے کھالیں گے.ہیں کہ:- (سیرۃ المہدی حصہ پنجم غیر مطبوعہ روایت نمبر ۱۵۵۷) دمدار ستارہ ہماری صداقت کا نشان ہے حضرت سیدہ خیر النساء بنت حضرت سید ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب بیان کرتی ایک دن فجر کے وقت حضور شہ نشین پر ٹہل رہے تھے.میں اور ہمشیرہ زینب اور والدہ صاحبہ نماز پڑھنے کے لئے گئیں تو آپ نے فرمایا.آؤ! تمہیں ایک چیز دکھا ئیں یہ دیکھو یہ دمدار تارا ہماری صداقت کا نشان ہے.اس کے بعد بہت سی بیماریاں آئینگی.چنانچہ طاعون اس قدر پھیلا کہ کوئی حد نہیں رہی.(سیرۃ المہدی حصہ پنجم روایت ۱۵۶۴ غیر مطبوعہ )
شاہ صاحب معلوم ہوتا ہے کہ صبح ہوگئی ہے.حضرت سیدہ خیر النساء بنت حضرت سید ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب اپنی والدہ محترمہ کا ایک کشفی واقعہ جس کی تصدیق کے لئے حضرت اقدس نے استفسار فرمایا تھا بیان کرتی ہیں کہ :- ایک دن میری والدہ صاحبہ نماز فجر باجماعت پڑھنے کے لئے گئیں تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ آج رات کو کوئی خاص چیز دیکھی ہے؟ والدہ صاحبہ نے کہا کہ آدھی رات کا وقت ہوگا کہ مجھے یوں معلوم ہوا جیسے دن چڑھ رہا ہے روشنی تیز ہورہی ہے تو میں جلدی سے اٹھی اور نفل پڑھنے شروع کر دیئے.معلوم تو ہوتا تھا کہ صبح ہو گئی ہے لیکن میں کافی دیر تک نفل پڑھتی رہی اور اس کے بڑی دیر بعد صبح ہوئی.آپ نے فرمایا کہ ”میں نے یہی پوچھنا تھا.(سیرۃ المہدی حصہ پنجم روایت ۱۵۷۲ غیر مطبوعہ ) ہم ایسی ہی ٹوپی پہنا کرتے ہیں حضرت سیدہ خیر النساء بنت حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب سیدنا حضرت اقدس کی سادگی کی بابت ایک واقعہ بیان کرتی ہیں کہ :- ایک دفعہ حضور علیہ السلام نماز پڑھانے کے واسطے تشریف لے جارہے تھے تو خاکسارہ سے فرمایا کہ میری ٹوپی اندر سے لے آؤ.میں دو دفعہ اندر گئی لیکن پھر واپس آگئی.تیسری دفعہ گئی تو میاں شریف احمد صاحب نے کہا کہ تمہیں ٹوپی نہیں ملتی آؤ.میں تمہیں بتا دوں.یہ کہہ کر میاں صاحب نے تا کی میں سے ٹوپی اٹھالی.میں نے کہا یہ تو میں نے دیکھ (کر) رکھ چھوڑی تھی.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ” آپ سمجھتی ہوں گی کہ کوئی بڑی اعلی ٹوپی ہوگی.ہم ایسی ہی ٹوپیاں پہنا کرتے ہیں.(سیرۃ المہدی حصہ پنجم روایت نمبر ۱۵۷۸ غیر مطبوعہ ) ۱۷۲
ناہ صاحب باب ششم.....ذکره مہمانوں کی دلجوئی حضرت سیدہ زینب النساء بیگم صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب بیان کرتی ہیں کہ :- ”میری موجودگی میں ایک دن کا ذکر ہے کہ باہر گاؤں کی عورتیں جمعہ پڑھنے آئی تھیں تو کسی عورت نے کہدیا کہ ان میں سے پسینہ کی بو آتی ہے".چونکہ گرمی کا موسم تھا جب حضور علیہ السلام کو معلوم ہوا تو اس عورت پر ناراض ہوئے کہ تم نے ان کی دل شکنی کیوں کی ؟ ان کو شربت وغیرہ پلایا اوران کی بڑی دلجوئی کی.حضور علیہ السلام مہمان نوازی کی بہت تاکید فرمایا کرتے تھے.(سیرۃ المہدی حصہ پنجم روایت نمبر ۱۵۹۳ غیر مطبوعہ ) گھر میں امام مہدی کے دعوی کا تذکرہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں:- دو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میری عمر قریبا ہے، ۸ سال کی تھی.تو اس وقت ہمارے گھر میں اس بات کا تذکرہ ہوا کہ کسی شخص نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ کہ اس نے یہ خواب بھی دیکھا ہے کہ کچھ فرشتے ہیں جو کالے کالے پودے لگا رہے ہیں جن کی تعبیر یہ بتائی ہے.کہ دنیا میں طاعون پھیلے گی اور یہ کہ میری آمد کی یہ بھی نشانی ہے اس وقت ہم (تحصیل) رعیہ ضلع سیالکوٹ میں تھے والد صاحب شفاخانہ کے انچارج تھے.اسی دوران میں نے ایک خواب دیکھا کہ کسی نے گھر میں آ کر اطلاع دی ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ تشریف لا رہے ہیں.چنانچہ ہم باہر ان کے استقبال کے لئے دوڑے.شفاخانہ کی فصیل کے مشرقی جانب کیا دیکھتا ہوں کہ بہتی میں آنحضرت علیہ سوار ہیں.جہاں تک مجھے یاد ہے سبز عمامہ ہے اور بھاری چہرہ ہے رنگ بھی سفید گندم گوں ہے.اور ریش مبارک ۱۷۳
رشاہ صاحب باب ششم....ذکره بھی سفید ہے اور سورج نکلا ہوا ہے.مجھے فرماتے ہیں.کہ آپ کو قرآن پڑھانے کے لئے آیا ہوں انہی ایام میں میں نے یہ خواب بھی دیکھا کہ رعیہ کی (بیت) ہے اس کے دروازہ پر لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا ہے.لیکن اس کے الفاظ مدہم ہیں.میں بھی ساتھ ہو لیتا ہوں وہاں صفیں ٹیڑھی ہیں.آپ ان صفوں کو درست کر رہے ہیں ہم اس زمانہ میں ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے اس زمانہ میں اس بات کا عام چرچا تھا کہ مسلمان برباد ہو چکے ہیں اور تیرھویں صدی کا آخر ہے.اور یہ وہ زمانہ ہے جس میں حضرت امام مہدی تشریف لائیں گے.اور ان کے بعد حضرت عیسی بھی تشریف لائیں گے چنانچہ حضرت والدہ صاحبہ مرحومہ ہی امام مہدی کی آمد کا ذکر بڑی خوشی سے کیا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ وہ زمانہ قریب آ رہا ہے.اور یہ بھی ذکر کیا کرتی تھیں رمضان میں چاند گرہن اور سورج گرہن کا ہونا بھی حضرت مہدی کے زمانے کے لئے مخصوص تھا.سو وہ بھی نشان پورا ہو چکا ہے.ممکن ہے یہ خواہیں بچپن میں شنیدہ باتوں کے اثر کے ماتحت خواب کی صورت میں نظر آتی ہوں لیکن واقعات بتلاتے ہیں کہ وہ مہدی اور مسیح کے آنے کا عام چرچا اور یہ خواہیں جو بڑوں چھوٹوں کو اس زمانہ میں آیا کرتی تھیں آنے والے واقعات کے لئے بطور آسمانی اطلاع کے تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ہم نے (دین حق ) کا سورج بھی دیکھا اور قرآن مجید بھی پڑھا حضرت اقدس فرمایا کرتے تھے کہ (دین حق ) کی زندگی میرے ساتھ وابستہ ہے اور مجھے چھوڑ کر قرآن مجید کا سمجھنا ناممکن ہے.یہ دونوں باتیں سچ ہیں.الفضل قادیان ۳۱ مارچ ۱۹۴۳ء صفحه ۳) حضرت مسیح موعود کے فیضان نے ہماری روحوں میں جادو بھر دیا حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور حضرت سید حبیب اللہ شاہ
ناہ صاحب باب ششم.....ذکره صاحب ۱۹۰۳ء میں حصول تعلیم کے لئے قادیان پہنچے.اس وقت ان کی دلی کیفیات کیا تھیں.اور قادیان جا کر حضرت مسیح موعود کی قوت قدسیہ نے کیا مسیحائی فرمائی.اس کی بابت آپ بیان فرماتے ہیں :- ۱۹۰۳ء میں جب میرے والد بزرگوار حضرت ڈاکٹر سید عبدالستارشاه صاحب نے مجھے اور میرے بھائی سید حبیب اللہ شاہ صاحب کو برائے تعلیم بھیجا تو ہم رعیہ سے قادیان کی طرف بڑے شوق اور خوشی سے روانہ ہوئے.اس وقت ہماری عمر ۱۱ او ۳ سال کے لگ بھگ تھی.ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھنے کا شوق بہت تھا.مگر ہمارے اس شوق کو صدمہ پہونچا جب ہم چوہڑوں کی تشفی کے پاس پہونچے ( جواب محلہ دارالصحت کہلاتا ہے.اور جس کے مکین اب بفضل تعالیٰ قریباً سارے (احمدی) کہلاتے ہیں ) تو قادیان کو بے رونق اور سنسان سا گاؤں پایا.مدرسہ میں داخل ہوئے تو اس میں بھی کوئی روافق نہیں تھی.کچھ دیواریں چھوٹے چھوٹے کمرے.ہم نارووال مشن سکول میں پڑھتے تھے جس کی عمارت پختہ اور وسیع کمروں پر مشتمل تھی.اس کے بالمقابل ہائی سکول کی.عمارت بھیانک سی معلوم ہوئی.نارووال ایک بارونق شہر تھا.قادیان کے متعلق ہمارے دماغوں میں یہ تصور تھا.کہ حضرت امام مہدی کا شہر بہت بارونق ہوگا.مگر اس میں کچھ بھی نہ تھا.طبیعت اداس ہونے لگی.اور باجماعت نمازوں کی پابندی نے اور بھی تکلیف دہ صورت اختیار کر لی.خصوصاً عشاء اور فجر کی باجماعت نمازوں میں شریک ہونا تو بہت ہی دو بھر تھا.ایک بار عشاء کے وقت جب مانیٹر نے ہمیں جگانا شروع کیا تو میں نے جھنجھلا کر اسے ایک تھپڑ رسید کیا.اور بھائی حبیب بولے کہ ہم کس مصیبت میں پھنس گئے.مگر چھ ماہ نہیں گزرے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیضان نے ہماری روحوں میں کچھ ایسا جادو بھرا اثر کیا کہ ہم دونوں بھائیوں نے با قاعدہ تہجد بھی پڑھنی شروع کر دی اور گھنٹوں نماز میں ۱۷۵
رشاہ صاحب باب ششم.....ذکره کھڑے رہتے اور سجدوں میں پڑے رہتے اور مطلق طبیعت سیر نہ ہوتی ہمارے اساتذہ ہماری اس حالت سے اچھی طرح واقف اور گواہ ہیں“.الفضل قادیان ۳۱ مارچ ۱۹۴۳ صفحریه ) حضرت مسیح موعود کی مجلس میں شریک ہو جانا حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب فرماتے ہیں:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بالعموم نمازوں کے بعد (بیت) مبارک میں بیٹھ کر گفتگو فرمایا کرتے تھے اور میں بورڈنگ کی پابندیوں کو توڑ کر حضور علیہ السلام کے ساتھ نماز میں شریک ہوتا.اور حضور کی باتوں کو بڑے شوق سے سنتا“.الفضل قادیان ۳۱ مارچ ۱۹۴۳ ء صفحه ۴ ) آپ کی کیفیت سیر حضرت امام مہدی علیہ السلام کی پہچان کی علامات میں ایک علامت احادیث نبو.میں یہ بھی بیان فرمائی گئی تھی کہ وَيَكْشِرُ فِی المَشْيِ یعنی وہ کثرت سے چلا کرے گا یا زیادہ چلا کرے گا.حضرت امام مہدی کے بارہ میں احباب کرام کی بیسیوں روایات آ کے تیز چلنے اور باقاعدگی سے سیر کرنے کے بارہ میں ملتی ہیں.جس سے آنحضور علیہ کی بیان فرموده علامات کی تصدیق ہوتی ہے.حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب سید نا حضرت اقدس علیہ السلام کی کیفیت سیر کے بارہ میں بیان کرتے ہیں:.حضرت اقدس علیہ السلام سیر کو بھی جایا کرتے تھے کبھی کسی طرف نکلتے کبھی کسی طرف.حضور علیہ السلام کے ہمراہ حضور کے ( رفقاء) ہوتے اور ہم طلباء بھی یہ سن کر بے تحاشا بورڈنگ سے بھاگ نکلتے اور حضور کے ساتھ ہو لیتے.آگے پیچھے دائیں بائیں جہاں سے حضور پر نظر پڑ سکتی وارفتہ سے ہو کر حضور کو دیکھتے جاتے عجیب زمانہ تھا.ایک دفعہ جب کہ حضور انور دار الانوار کے کھیتوں کی طرف سیر کے لئے جارہے تھے.تو اس وقت میں KY
رشاہ صاحب باب ششم.....ذکره بھی ساتھ گیا.اب جہاں مولوی عبد المغنی خان صاحب وغیرہ کے مکانات ہیں اُن دنوں یہاں بڑ کا درخت ہوتا تھا اور ڈھاب ہوا کرتی تھی.یہاں سے گزر کر حضور علیہ السلام موڑ کے قریب پہنچے.جہاں اب نیک محمد خان صاحب کا مکان واقعہ ہے.تو اس موقعہ پر حکیم عبدالعزیز صاحب پسروری نے حضور علیہ السلام سے پوچھا کہ حضور آدم کے متعلق قرآن میں آتا ہے.عضى آدَمُ رَبَّهُ فَغَواى (سورۃ طہ: ۱۲۲ ).ایک نبی کی شان میں ایسے الفاظ آتے ہیں.حضور نے اس وقت تقریر فرمائی.اس میں سے یہ حصہ مجھے اب تک یاد ہے.حضور علیہ السلام نے عربی کے اشتقاق کے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ عصفور ( چڑیا ) کا لفظ بھی دو لفظوں سے مرکب ہے عصی اور فر ، عصی کے معنی قابو سے نکل گیا.فر کے معنی بھاگ گیا.چڑیا کو عصفور اس لئے کہتے ہیں کہ ذرا موقع پانے پر فورا ہاتھ سے نکل جاتی ہے.اس موقع پر آدمیوں کے ریلے نے مجھے پیچھے دھکیل دیا.چونکہ حضرت اقدس تیز چلتے تھے.اس لئے میں اس کشمکش میں پیچھے رہ گیا اور باقی باتیں نہ سن سکا.الفضل قادیان ۳۱ مارچ ۱۹۴۳ء صفحه ۴ ) اعجاز مسیحائی اور میری ٹانگ نے کوہ ہمالیہ میں سفر کرنے میں روک نہ پیدا کی“ حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب اور آپ کے افراد خانہ نے ذکر حبیب“ کی باتوں میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کی معجزانہ شفایابی کا ذکر فرمایا ہے.اس واقعہ کے بارہ خود حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ :- ”میری عمر کوئی پانچ چھ سال کی ہوگی کہ رعیہ کے شفاخانہ کے احاطہ میں ہمجولیوں سے کبڈی کھیل رہا تھا کہ ایک ساتھی کو زمین پر گرا کر گھر کی طرف بھاگا.عصر کا وقت تھا کہ والدہ مرحومہ چاچی میں وضو کر کے نماز پڑھ رہی تھیں اور وہ چلیچی دروازے کی دہلیز کے سامنے پڑی ہوئی تھی.دہلیز سے جو ٹھوکر لگی
شاہ صاحب باب ششم.....ذکره تو میری ٹانگ دوہری ہوکر گھٹنا چچی کے اند رگڑ گیا جس پر میں بیہوش ہو گیا.یہ بھی یاد نہیں کہ میرا گھٹنا کب اور کس نے چاچی سے نکالا اور کب مجھے ہوش آیا لیکن ہاں یہ مجھے یاد ہے کہ نوکر نے مجھے اٹھایا اور میں اس وقت رور ہا تھا.یہ چوٹ ایسی سخت تھی کہ جس نے مجھے چلنے پھرنے سے معطل کر دیا کیونکہ گھٹنے کا جوڑ نکل گیا تھا اور مختلف ڈاکٹروں کو دکھایا گیا یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا کہ حضرت والد صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور حضور کی خدمت میں میرے لئے دعا کی درخواست کی.غالباً ۱۹۰۲ ء میں مجھے سیالکوٹ کے ہسپتال میں علاج کے لئے لے جایا گیا اور میرے گھٹنے پر وقفہ وقفہ کے بعد مجھے کلو را فارم سونگھا کر اپریشن کیا گیا.اس سے میرا پاؤں زمین پر لگنے لگا لیکن کمزوری اتنی تھی کہ میں بغیر سہارے کے چل نہیں سکتا تھا.اس لئے مجبوراً مجھے بیساکھی کے سہارے چلنا پڑتا تھا.اسی حالت میں قادیان آیا جب والد صاحب مرحوم تین ماہ کی رخصت لے کر قادیان آتے.ہم حضرت اقدس کے گھر میں رہا کرتے تھے گرمی کے ایام میں ایک دن عصر کے بعد جب حضرت ام المومنین (اللہ آپ سے راضی ہو ) اور گھر کی دیگر مستورات باغ کی طرف سیر کو گئی ہوئی تھیں تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تنہا دیکھ کر پنکھاہاتھ میں لیا اور حضور انور کے پاس آ کر پنکھا کرنا شروع کر دیا.حضور علیہ السلام اس وقت ایک چٹائی پر جو زمین پر بچھی ہوئی تھی بیٹھے ہوئے تھے.بدن پر باریک ململ کی قمیص تھی.سر سے ننگے تھے.میں نے جب پنکھا کرنا شروع کیا تو حضور کے سر کے باریک بال ادھر اُدھر ہرانے لگے.میں مسیح موعود کے حالیہ والی حدیث سن چکا تھا اس لئے مجھے خیال آیا کہ یہ وہی بال ہیں جس کی حضرت نبی کریم ﷺ نے پیشگوئی فرمائی ہوئی ہے.دل میں آیا کہ حضور علیہ السلام کے بالوں کو بوسہ دوں لیکن شرم و حیا مانع رہی.ادھر مجھے یہ خیال آیا ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے مڑ کر دیکھا حضور مسکرائے اور فرمایا کہ آپ تھک گئے ہوں گے.آپ بیٹھ جائیں.( حضور چھوٹوں کو بھی آپ" KA
مارشاہ صاحب باب ششم......ذکره کے لفظ سے مخاطب فرمایا کرتے تھے ) حضور انور نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے گھٹنے کا کیا حال ہے.جو حال تھا میں نے بتا دیا اور دعا کے لئے بھی عرض کی.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے آپ کے لئے بہت دعا کی ہے.اس کے بعد میرے چھوٹے بھائیوں کے نام دریافت فرمائے.حضور علیہ السلام اس وقت کچھ لکھ رہے تھے.میں وہاں سے اٹھ کر چلا آیا.انہی دنوں میں جبکہ اس واقعہ کو ایک ہفتہ بھی نہ گزرا ہوگا کہ میری بیساکھی کو ایک کلاس فیلو نے کھیلتے ہوئے تو ڑ دیا.قادیان کی اس زمانہ میں یہ حالت تھی کہ کوئی چھڑی تک نہ مل سکی.ایک شخص کو پیسے دیئے.کہ بٹالہ سے لے آئے.مگر وہ بھول گئے.اور ہفتہ عشرہ تک نہ لا سکے.اس اثناء میں میں سرکنڈے کے سہارے سے دیواروں کو پکڑ پکڑ کر چلتا رہا.اور محسوس کرنے لگا کہ میری ٹانگ اور پاؤں طاقت پکڑ رہے ہیں اس کے بعد مجھے سہارے کے لئے بیساکھی بنانے کی ضرورت ہی نہ رہی اور تصرف الہی کچھ ایسا ہوا کہ بغیر چھڑی کے چلنے لگ گیا.مجھے کامل یقین ہے کہ یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا کا ہی نتیجہ تھا کہ جس نے غیر معمولی طور پر یہ تصرف کیا.حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے اس وقت یہ بھی فرمایا تھا.کہ میٹھے تیل میں کافور ملا کر مالش کیا کرو.چنانچہ مالش کرواتا رہا.اس کے سوا اور کسی علاج کی ضرورت نہ پڑی.اور میری ٹانگ میں جو خفیف سانقص باقی رہا.اس نے کوہ ہمالیہ کی برفانی چوٹیوں اور تھکلیالہ پڑاوا علاقہ پونچھ کی سنگلاخ اور دشوار گزار پہاڑیوں میں پیدل سفر کرنے میں کسی قسم کی روک پیدا نہیں کی.میں گھوڑے کی سواری جانتا ہوں اور گذشتہ جنگ عظیم میں سوار فوج میں شریک ہوا.اور دو معرکوں میں حصہ بھی لیا.سابق وزیر اعظم ترکی حسن رؤف پاشا ہماری فوج کے کمانڈنگ افسر تھے چند سال ہوئے وہ ہندوستان میں تشریف لائے.اور انہوں نے میری جفاکش خدمات کا اعتراف کیا.یہ ذکر میں نے اس لئے کیا ہے کہ حضور علیہ السلام کی استجابت دعا کی شان معلوم ہو“.الفضل قادیان ۱۳ پریل ۱۹۴۳ء صفحه ۳) 19
شاہ صاحب باب ششم.....ذکره بچوں سے شفقت و محبت حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب سیدنا حضرت اقدس کی شفقت و محبت کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ :- م را پریل ۱۹۰۵ء کو جب کانگڑہ کا زلزلہ آیا تو حضور علیہ السلام بڑے باغ میں معہ اپنے اہل وعیال تشریف لے گئے.اور ہم طلبائے مدرسہ بھی باغ میں چلے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ والے مکان میں تشریف رکھتے تھے.جس کا ہم طلبائے مدرسہ باری باری پہرہ بھی دیا کرتے تھے.اس مکان کے جانب مشرقی ایک توت کا درخت تھا.اس کے قریب ایک دفعہ خواجہ عبد الرحمن صاحب فارسٹ رینجر (کشمیر) اور میں پہرہ پر متعین تھے رات اندھیری تھی.اتنے میں ہم نے کسی کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا.قریب پہنچنے پر معلوم کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی بذات خود ہیں.حضور علیہ السلام نے شفقت سے ہمارے سروں پر ہاتھ پھیرا اور حضور بہت خوش ہوئے اور ہماری خوشی کی بھی کوئی انتہاء نہ تھی.(الفضل قادیان ۱/۱۸ اپریل ۱۹۴۳ء صفحه ۳) عیادت مریض اور اعجاز مسیحائی حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب حضرت مولوی عبد الکریم صاحب حیدر آبادی کا ہائیڈ روفوبیا (Hydrophobia) سے اعجازی طور پر شفایابی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان طلباء کا جو باہر سے دارلامان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے تھے بہت خیال رکھا کرتے تھے عبدالکریم یاد گیری ( حیدر آباد دکن) کو جب باؤلے کتے نے کاٹا.اس وقت حضور علیہ السلام کو اس کے متعلق بہت تشویش تھی.ایک رات حضور نے عشاء کے قریب ڈاکٹر عبداللہ صاحب اور غالباً مولوی شیر علی صاحب یا مفتی صاحب کو بلایا.اور انہیں بادام روغن دیا.اور فرمایا کہ یہ اسے استعمال کرایا جائے.۱۸۰
ارشاہ صاحب باب ششم.....ذکره جہاں تک مجھے یاد ہے مسہل دینے کی بھی ہدایت فرمائی.جس وقت یہ ہدایات دی گئیں.میں موجود نہ تھا لیکن مندرجہ ذیل ( رفقاء) ہدایات لینے کے معأبعد بورڈنگ میں آئے.اور ہمارے سامنے حضور کی ان ہدایات کا ذکر کیا.اور انہوں نے یہ بھی بتلایا کہ حضور علیہ السلام نے ایک حدیث بیان کی ہے.کہ جو شخص بیمار کی خدمت کرتا ہے.اللہ تعالی اس کو اس بیماری سے محفوظ رکھتا ہے.گویا یہ حدیث بیان کر کے حضور علیہ السلام نے یہ تلقین فرمائی کہ عبدالکریم کی خدمت میں اس خوف سے کسی قسم کی کمی نہ کی جائے کہ اسے باؤلے کتے نے کاٹا ہے.چنانچہ حضور علیہ السلام کا یہ ارشادسن کر طلباء میں سے سب سے پہلے میں نے اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش کیا.خواجہ عبدالرحمن صاحب نے بھی میرے ساتھ ہی اپنے آپ کو پیش کیا.خواجہ صاحب میرے ہم جماعت تھے.چنانچہ ہمیں دوسرے دن صبح سے شام تک عبدالکریم کی نگرانی اور خدمت کے لئے رکھا گیا.عبدالکریم سید محمدعلی شاہ صاحب مرحوم کے چوبارہ میں ٹھہرایا گیا تھا مجھے یاد ہے کہ جو نبی اسکی طرف سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہوتی یا آواز آتی.میں اور خواجہ صاحب دونوں گھبرا اُٹھتے.اور پیشتر اس کے کہ اس کی طرف سے کوئی حملہ ہوتا ہماری نظریں سیڑھی کے دروازہ کی طرف ہوتیں کہ وقت پر اس کے کاٹنے سے محفوظ ہو جائیں شام کے قریب عبد الکریم نے مجھے دیکھا چونکہ اس کے دل میں میری عزت تھی مجھے دیکھ کر پہچانا.اور نرم آواز سے کہا کہ شاہ صاحب آپ میرے قریب آجا ئیں ڈریں نہیں مجھے آگے سے آرام ہے چنانچہ ہم دونوں اس کے پاس گئے اور اس سے باتیں کیں.ان دنوں کسولی عبد الکریم کے علاج کے لئے تار * بھی دیا گیا تھا.مجھے یاد ہے وہاں سے جواب آیا تھا Sorry! Nothing can be done for Abdul Karim.میرے بھائی میجر ڈاکٹر حبیب اللہ شاہ صاحب جب میڈیکل کالج * کسولی سے جو تار آیا تھا اس تار کی کاپی خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے.مرتب IN
ارشاہ صاحب باب شم......ذکره میں پڑھا کرتے تھے تو ہائڈروفوبیا کی بیماری پر لیکچر دیتے ہوئے ان کے پروفیسر نے جب کہا کہ کیا یہ بیماری جب اس کا دورانیہ شروع ہو جائے تو لا علاج ہوتی ہے تو انہوں نے اٹھ کر کہا کہ یہ بات صحیح ہے یہ مرض لاعلاج ہے.پروفیسر نے پورے وثوق سے کہا کہ یہ مرض اس صورت میں لاعلاج ہو جاتا ہے.اس پر برادرم ڈاکٹر حبیب اللہ شاہ صاحب نے اپنا یہی چشم دید واقعہ بیان کیا کیونکہ وہ بھی ان دنوں ہائی سکول قادیان میں پڑھتے تھے.جب انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا تو پروفیسر نے کہا پھر تو ایک معجزہ ہے یہ واقعہ مجھے میرے بھائی نے سنایا“.الفضل قادیان ۱۸ را پریل ۱۹۴۳ ، صفحه ۳) سچی معرفت حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں:.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جو نبی علاقہ میں یا شہر میں طاعون نمودار ہوتی تو حضور علیہ السلام نہ صرف اپنے گھر کی صفائی کا حکم دیتے بلکہ بورڈنگ ہاؤس کی صفائی کے متعلق اہتمام فرماتے.اور ایسا ہی احباب کو حکم دیتے کہ اپنے گھروں میں گندھک اور آگ اور فینائل اور گل وغیرہ اشیاء سے جراثیم ہلاک کرنے کا انتظام کیا جائے.حضور علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اسباب سے کام لینا اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکریہ ادا کرنا ہے.اور اس کے حکم کی تعمیل کے مترادف ہے اور ترک اسباب شریعت الہیہ کے خلاف ہے.تو کل کا مقام اس کے بعد ہے.یعنی اسباب کو اختیار کر کے ان پر بھروسہ نہ کیا جائے بلکہ سچی معرفت یہ ہے کہ اسباب کے پیچھے خدا تعالیٰ کے ہاتھ کو دیکھا جائے“.صلى الله الفضل قادیان ۲۴ را پریل ۱۹۴۳ء صفحه ۳) فرمودات نبوی ﷺ کی پاسداری حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اپنے والد ماجد کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ :- ۱۸۲
رشاہ صاحب باب ششم.....ذکر ها ”غالباً ۱۹۰۵ء کا واقعہ ہے کہ طاعون پنجاب میں سخت زوروں پر تھی.راولپنڈی کا ضلع خاص طور پر لقمہ اجل بنا ہوا تھا حضرت والد صاحب مرحوم نے حضور علیہ السلام سے اپنے وطن (سیہالہ ضلع راولپنڈی) جانے کی درخواست کی.مگر حضور علیہ السلام نے اس بناء پر جانے سے روک دیا کہ حدیث میں منع ہے کہ کوئی شخص ایسی جگہ جائے جہاں وبا پھیلی ہوئی ہے.الفضل قادیان ۲۴ را پریل ۱۹۴۳ء صفحه ۳) ۲۶ مئی ۱۹۰۸ ء احباب پر کیا گذری حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں:- ”لاہور میں جب حضور علیہ السلام کا انتقال ہوا.تو اس وقت میں بھی لاہور میں تھا.اور گورنمنٹ کالج کی فرسٹ ائیر کلاس میں پڑھتا تھا.۲۶ مئی ۱۹۰۸ء اور منگل کا دن ہمیں کبھی نہیں بھول سکتا.۲۵ مئی کی شام کو سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے احمد یہ بلڈنگ میں خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان کے سامنے کھڑا تھا.میرے ساتھ میاں احمد شریف صاحب ریٹائر ڈائی.اے سی کے علاوہ اور بھی کئی دوست کھڑے تھے کہ اتنے میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام فٹن میں بیٹھے ہوئے آئے تھے.جب حضور کی لکھی خواجہ صاحب کے مکان کے سامنے کھڑی ہوئی.تو اس وقت حضور کی زیارت کرنے والے لوگوں کا ایک انبوہ تھا جس میں غیر احمدی بھی بکثرت تھے.حضور فٹن سے اتر کر مکان پر جانے کے لئے سیڑھی پر چڑھے (ایک چھوٹی سی چوبی سیڑھی کمرے میں جانے کے لئے رکھی ہوئی تھی ).تو اس موقعہ پر کسی شخص نے گالی دی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ کر ہمارے پاس تشریف لے آئے.ادھر ادھر کی باتیں ہونے کے بعد غالباً میاں محمد شریف صاحب نے تجویز کی کہ کل صبح دریائے راوی پر چلیں جب جانے کے متعلق فیصلہ ہو گیا تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتا کید فرمایا.کہ کل صبح ہوسٹل میں تیار رہنا.ہم اسی طرف سے ۱۸۳
ناه صاحب باب ششم.ذك آئیں گے اور تمہیں بھی ساتھ لے جائیں گے.چنانچہ منگل کی صبح کو میں تیار ہو کر ان کی آمد کا انتظار کرنے لگا.مگر انتظار کرتے کرتے دن کے وبج گئے.خواجہ عبد الرحمن صاحب امرتسری جو میرے کلاس فیلو تھے انہوں نے کہا کہ آنے میں دیر ہوگئی ہے.آؤ پہلے کھانا کھا لیں میں کھانا کھانے کے لئے ان کے ساتھ گیا لیکن بوجہ ایک نا معلوم غم کے جو میرے دل پر طاری تھا.میں کھانا کھا نہ سکا.میں نے عبدالرحمن صاحب سے کہا کہ مجھے کوئی حادثہ معلوم ہوتا ہے.خدا نخواستہ حضرت میاں صاحب پر کسی نے حملہ نہ کر دیا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی طرف خیال تک نہ گیا.حالانکہ اس سے دو تین دن پہلے حضور علیہ السلام بیمار تھے.میں عصر کی نماز پڑھنے کے لئے گورنمنٹ کالج سے احمد یہ بلڈنگ میں گیا تو میرے سامنے کسی نے حضور علیہ السلام سے پوچھا کہ حضوراب طبیعت کیسی ہے.اسہال میں کچھ فرق ہے؟ تو حضور علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ میں نے کلور وڈائین استعمال کی ہے.اور آگے سے کچھ افاقہ ہے تو اگر چہ میں جانتا تھا کہ حضور بیمار ہیں لیکن باوجود علم کے میرا ذہن آپ کے متعلق کسی حادثہ کی طرف نہیں گیا.بلکہ یہی خیال غالب ہوا کہ کسی نے حضرت میاں صاحب پر حملہ نہ کر دیا ہو.یہ خیال آتے ہی لقمہ میرے ہاتھ سے گر گیا.اتنے میں چوہدری فتح محمد صاحب اور شیخ تیمور صاحب کو ہوٹل کے گیٹ سے نکلتے ہوئے میں نے دیکھا.میں اس وقت باورچی خانہ کے سامنے کھانے کی میز پر بیٹھا ہوا تھا.میں نے انہیں دیکھا کہ یہ جلدی جلدی باہر جارہے تھے.میں نے اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے ہی ہاتھ کے اشارہ سے ان سے پوچھا کہ کیا ہے؟ انہوں نے کچھ جواب دیا.مگر ہم اسے اچھی طرح نہ سن سکے لیکن یہ ہاتھ کے اشارہ سے ہمیں بلا رہے تھے کہ آؤ.وہاں چلیں جس سے میں سمجھا کہ احمد یہ بلڈنگ کی طرف یہ جارہے ہیں.گھبراہٹ ان کے چہروں سے اور رفتار سے نمایاں تھی.میں بھی عبدالرحمن صاحب کو ساتھ لے کر احمد یہ بلڈنگ کی طرف چلا ۱۸۴
رشاہ صاحب گیا جب ہم اس سڑک کے محاذ پر پہنچے.جو دہلی دروازہ کی طرف سے آکر لوہاری دروازہ کی طرف جاتی ہے تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک انبوہ ہے جو دہلی دروازہ کی طرف سے آ رہا ہے.اور انہوں نے ایک جنازہ اٹھایا ہوا ہے.جنازہ کی چارپائی پر جو شخص لیٹا ہوا ہے اس کا مونہہ کالا کیا ہوا ہے.آنکھیں اس کی چمک رہی ہیں اور اس کا سر ہلتا بھی ہے.اور جنازہ کے ارد گرد کے لوگ یہ کہہ کر پیٹ رہے ہیں کہ ہائے ہائے مرزا میں اس ماجرا کو دیکھ کر حیران رہ گیا اور کچھ نہ سمجھا.ٹانگہ ہمیں جلدی سے احمد یہ بلڈنگ کی طرف لے گیا.اور اترتے ہی ایک شخص سے پوچھا کہ کیا ہے؟ اس نے مجھے جواب دیا کہ سچ ہے.میں اس سے کچھ بھی نہ سمجھا.اور گھبراہٹ میں بجائے اس سے مزید دریافت کرنے کے سیڑھی سے چڑھ کر او پر مکان میں پہنچا اور چوہدری ضیاء الدین صاحب مرحوم سے جو باہر بے بسی کی حالت میں زمین پر بیٹھے ہوئے تھے.پوچھا کہ کیا ہے؟ انہوں نے مجھے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے ہیں.یہ سن کر میری ٹانگوں میں سکت نہ رہی.اور میں بھی بیٹھ گیا.پھر جلدی ہی وہاں سے اٹھ کر احمد یہ بلڈنگ کے پچھواڑے میں جہاں اس وقت ایک کھیت تھا، جا کر خوب رویا.اور تنہائی میں دل کی ساری بھڑاس نکالی.اس وقت دل کے غم کی انتہاء کو سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا تھا.پھر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے جنازہ کے ساتھ گاڑی میں بٹالہ پہنچا.امرتسر اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ہم نے مغرب کی نماز حضرت خلیفہ امسیح اول (اللہ آپ سے راضی ہو) کی اقتداء میں پڑھی جب بٹالہ پہنچے تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا تابوت اتار کر اسٹیشن بٹالہ کے پلیٹ فارم پر رکھا گیا.میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے رات کو اس تابوت کا پہرہ دیا.جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا جسد مبارک باغ والے مکان میں رکھا گیا تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے میں نے اور ۱۸۵
مارشاہ صاحب میرے بھائی (حضرت ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ صاحب ) نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا چہرہ مبارک دیکھنا چاہتے ہیں.چنانچہ آپ ہمیں باغ والے مکان کے اس کمرہ میں لے گئے جہاں حضور علیہ اسلام کا جنازہ رکھا ہوا تھا.حضرت اماں جان (اللہ آپ سے راضی ہو ) جنازہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں.ہم گئے اور ہم نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے خاموش چہرہ کو دیکھا اور چپ سے ہو کر رہ گئے اور باہر آکر اس کمرہ کے سامنے جو لوکاٹ کے درخت تھے.ان میں سے ایک درخت کے نیچے ہم تینوں کھڑے ہو گئے.اس وقت حضرت خلیفہ اسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو ) نے فرمایا کہ میں نے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرہ کو دیکھ کر اپنے دل میں اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا ہے کہ اگر ساری دنیا بھی حضور کو چھوڑ دے تب بھی میں اس عہد بیعت کو نہیں چھوڑوں گا جو حضور سے کیا تھا“.الفضل قادیان ۲۴ را پریل ۱۹۴۳ء صفحه ۴۳) O ۱۸۶
ناہ صاحب باب ہفتم...باب هفتم وصیت حضرت سید ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو )
ناہ صاحب " تعارف وصیت" باب ہفتم..وصیت کرنا سنت انبیاء، سنت صالحین اور سنت بزرگان ہے.قرآن کریم نے وصیت کے بارہ میں تاکید کی ہے.اس زمانہ میں ہمارے پیارے امام مہدی علیہ السلام نے اعلام الہی اور منشائے الہی کے مطابق عالمگیر نظام وصیت جاری فرمایا.جس کی برکات وحسنات کل عالم پر حاوی ہیں.آج جماعت احمدیہ کے لاکھوں احباب اپنے بزرگوں کی کی ہوئی وصیت کے ثمرات حسنہ سے فیضان حاصل کر رہے ہیں.نظام وصیت اور اس کے روحانی فضائل و انوار تا قیامت بلکہ اگلے جہاں میں بھی جاری وساری رہیں گے.ہمارے حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے بھی اپنے افراد خانہ کے لئے ایک لائحہ عمل، ایک بیاض، ایک مشعل راہ اور ایک وصیت فرمائی.یہ وصیت آپ کی حیات طیبہ اور کے ستر سالہ تجربات پر مشتمل ہے.جہاں اس وصیت میں آپ نے اپنی اولاد کو مخاطب فرمایا ہے وہاں اس وصیت کی نصائح عالمگیر اسلوب تربیت اور کل اخلاقی ، اصلاحی ، دینی اور علمی امور پر مشتمل ہیں.آپ کی یہ نصائح عارفانہ اور نگارشات عاجزانہ در حقیقت اپنے آقا و متاع حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی پاک اور مقدس صحبت اور آپ کے روحانی علوم اور روحانی خزائن سے مقتبس ہیں.یہ وصیت ہمارے لئے ایک منشور حیات ہے.آپ نے یہ وصیت اپریل ۱۹۲۷ء میں تحریر فرمائی تھی اور پہلی بار اسے شائع کرنے کی توفیق آپ کے فرزند ارجمند حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو نومبر ۱۹۳۷ ء میں آپ کے وصال کے بعد عطا ہوئی.یہ وصیت کتابی صورت میں۵۰ صفحات پر مشتمل ہے.اس کے ساتھ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے ایک ضمیمہ شائع فرمایا جو.ے صفحات پر مشتمل ہے.اس ضمیمہ میں ۱۹۰ سے زائدا دعیہ القرآن الکریم ، ادعیۃ الرسول ﷺ اور ادعیہ امسیح الموعود شامل ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت شاہ صاحب کے بیان کردہ اخلاق فاضلہ جو آپ نے اپنی وصیت میں بیان فرمائے ہیں، ان سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے.اس باب میں وصیت پیش کی جارہی ہے.ΙΔΑ
ناہ صاحب دیباچه باب ہفتم...حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب تحریر کرتے ہیں:.یہ وصیت اپریل ۱۹۲۷ء میں والدم حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے لکھ کر مجھے دی کہ میں اسے محفوظ رکھوں اور یہ کہ اسے اپنے لئے دستور العمل بنایا جائے.ان دنوں آپ کو اس بات کا شدید رنج و فکر تھا کہ اس وقت تک کیوں ہم نے دارالامان میں مکان نہیں بنوائے.یہ فکر اس حد تک تھا کہ آپ اس سے دن رات بے چین رہتے اور اس قلق واضطراب کی حالت میں شاید دل کو تسکین دینے کی خاطر آپ نے ہمارے لئے یہ وصیت اپنے ہاتھوں سے لکھی.آج رات جب کہ کاتب کتابت کا آخری کام کر چکا تو میں نے اپنے تئیں شفاخانہ رعیہ میں دیکھا.جہاں شاہ جی رحمتہ اللہ علیہ تقریباً پچیس سال تک انچارج ڈاکٹر رہے.کیا دیکھتا ہوں کہ آپ اسی شفا خانہ میں لوگوں کے علاج میں مصروف ہیں.وہ اُجڑا ہوا تھا مگر آپ کی آمد سے آباد ہے.اس میں آج کل حیوانات کا شفا خانہ ہے.خواب میں بھی دیکھتا ہوں کہ اس میں حیوانوں کے علاج کا بھی سامان ہے.اور انسانوں کے علاج کیلئے بھی آپ کو اجازت حاصل ہے.بیمار آپ کے ارد گرد جمع ہیں اور شفا خانہ میں رونق ہے.اس کی تعبیر میں نے یہ کی ہے کہ ممکن ہے کہ یہ وصیت اور یہ مناجات * جو میں نے آپ کی یاد میں بطور ضمیمہ کے ترتیب دی ہے بہت سے دلوں کی شفایابی اور آبادی کا موجب ہو.آمین خاکسار زین العابدین ولی اللہ شاہ دار الانوار ( قادیان) یوم الجمعه ۲۱ رمضان المبارک ۱۳۵۶ھ مطابق ۲۶ نومبر ۱۹۳۷ء یہ مناجات ولی اللہ شاہ اس وصیت کے ساتھ شائع نہیں کی جارہی ہیں.مرتب 119
ناہ صاحب ميرى وصايا باب ہفتم...گو اس میری وصایا اور نصایا میں بظاہر سب سے پہلے میری اولا د مخاطب ہے.لیکن در حقیقت اس کی اشاعت مخلوق الہی میں سے مومنان (دین) بھی مخاطب ہیں اگر ممکن و مناسب ہو تو اس کی اشاعت کی جائے ( وصیت حضرت شاہ صاحب صفحه ۴۰-۴۱) ۱۹۰
ناہ صاحب وصيت باب ہفتم...حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی اولاد کیلئے بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد برخوردار سید زین العابدین ولی اللہ شاہ سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ میں یہ چند کلمات بطور وصیت مختصراً تحریر کرتا ہوں.اس کو تم خود غور سے پڑھ کر اور حافظ عزیز اللہ اور محمود اللہ شاہ کو بھی ملاحظہ کرا کر اپنے صندوق میں محفوظ رکھو تاکید ہے اس میں میری سب اولا د مخاطب خاکسار (سید عبد الستارشاه ) 191
رشاہ صاحب الوصیت باب ہفتم..الوصيت وهي هذه نحمده و نصلی علی رسوله الكريم بسم الله الرحمن الرحيم (ا) اَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ O إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ َاهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ لا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ أمِينِ (سورة فاتحہ ) (۲) رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ 0 (سورة البقرة:۲۰۲) (۳) رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا 0 (سورة الفرقان: ۲۶) (۴) وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنَ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَّكَ وَارِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيم 0 (سورة البقرة : ۱۳۰ ) (۵) رَبِّ إِنِّي أَسْكَنُتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّم (سورۃ ابراہیم: ۳۷) (۲) رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْم الْكَافِرِينَ (سورۃ آل عمران: ۱۴۸) (٧) رَبِّ هَبْ لِي مِنْ اَولادِى وَذُرِّيَّتِى مَامُورًا وَّمُرُسَلًا وَّنَبِيَّا يَتْلُوا عَلَى الْخَلْقِ ايَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ أَمِين بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّحِمِينَ ۱۹۲
شاہ صاحب باب ہفتم..اے میری اولاد میرا موجودہ حالت میں یہ سچا اور بحیح عقیدہ ہے.وَصِيْتُ بِاللَّهِ تَعَالَى رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا وَّ رَسُولًا وَبِالْقُرْآنِ اِمَامًا - وَبِالْكَعْبَةِ قِبْلَةً وَبِالصَّلوةِ فَرِيضَةً وبِالْمَؤْمِنِينَ إِخْوَانًا وَ بِالصَّدِيقِ وَ بِالْفَارُوقِ وَبِذِى النُّورَيْنِ وَبِالْمُرْتَضَى أَئِمَّةً رِضْوَانُ اللهِ تَعَالَى أَجْمَعِينَ وَبِالْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدِ وَالْمَهْدِى الْمَعْهُودِ عَلَيْهِ السَّلَامُ اِيْمَانًا كَامِلًا وَيَقِيْنَا صَادِقًا وَبِالسّلْسِلَةِ الْأَحْمَدِيَّةِ إِخْلَاصاً صَحِيحًا وَّايْمَانًا كَامِلًا وَعَلَى هَذِهِ الشَّهَادَةِ نَحْى وَنَمُوتُ وَعَلَيْهَا نَبْعَثُ إِنْشَاءَ اللَّهُ تَعَالَى وَبِفَضْلِهِ وَ كَرَمِهِ وَ بِرُبُوبِيَّتِهِ وَ رَحْمَتِهِ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.يَا بَنِي! (اے میرے بیٹے ) تم بھی اس عقیدہ پر رہنا.حَتَّى تَمُوتُنَّ وَ أَنتُم مُّسْلِمُونَ.جو جو وصیت حضرت یعقوب علیہ السلام و حضرت ابراہیم علیہ السلام و حضرت لقمان علیہ السلام و حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولا دوغیرہ کیلئے تحریر فرمائی ہیں یا دیگر انبیاء وصلحاء واتقیاء نے کی ہیں.وہی میں تم کو کرتا ہوں اور اس پر کار بند ہونے کیلئے تاکید کرتا ہوں.قرآن شریف کو اپنا تم دستور العمل بناؤ اور انتباع سنت کی پیروی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی اور اشاعت ( دین حق ) میں ہمہ تن مصروف رہو.اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی انہی اُمور کی پابندی کیلئے تیار رکھو اور تم سب اپنی اپنی وصیتیں حسب الحکم (رسالہ الوصیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کرتے جاؤ اور اپنے اپنے مکان رہائشی خاص دارالامان قادیان میں بناؤ اور ایک ہی جگہ میں تم سب بھائیوں کے مکانات تیار ہوں.اور ان سب مکانات کا نام محلہ دار السادات رکھو.يا بني ! خبر دار تم تفرقہ اور انشقاق اور حسد یا کینہ یا بے اتفاقی با ہمی کی زہریلی ہوا سے سخت پرہیز کرو.ورنہ اَن تَفْشَلُوا فَتَذْهَبَ رِيحُكُمُ (سورة الانفال: ۴۷) کے ارشاد کے ماتحت تم خدانخواستہ سب ہلاک ہو جاؤ گے،قطع ۱۹۳
مارشاہ صاحب باب ہفتم..رحمی کے جرم میں سخت ماخوذ ہو گے اور دین اور دنیا میں خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ کے مصداق بنو گے.اللہ تعالیٰ تم کو ان سب بلاؤں سے محفوظ رکھے.آمین يا بني ! تم آپس میں سارا خاندان اس محبت اور انس اور ہمدردی سے اور اتفاق کلی سے اپنی زندگی بسر کرو کہ تم لنفس واحِدَةٍ کی طرح ہو جاؤ اور دیکھنے والے تمہارے اس حُسنِ سلوک و اتفاق اور ہمدردی کو دیکھ کر رشک کریں اور اس مثال اتفاق میں تم سب کیلئے اُسوہ حسنہ ہو جاؤ.جیسا کہ حضرت خلیفۃ اول ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کبھی کبھی مجھے کو فرمایا کرتے تھے کہ آپ نے اپنی اولاد کی خوب تربیت اور پرورش کی ہے.جس سے ہم کو دیکھ کر رشک آتا ہے.پس تم ایسا نہ کرنا کہ اس مرحوم کی حسن ظنی کو اپنے عملی تفرقات سے ثابت کر دکھاؤ.بلکہ آخر دم تک اتفاق اور محبت اور باہمی ہمدردی کا تم سب کیلئے نمونہ اعلیٰ اور اسوہ حسنہ بنے رہو.اسی پر تم سب کی موت ہو.اگر ایسا کرو گے تو انشاء اللہ تعالیٰ حسنات دنیا اور آخرت کے تم وارث ہو جاؤ گے.اور رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً (سورۃ البقرہ:۲۰۲) کے پورے پورے مصداق بنو گے.آمین ثم آمین يابني ! تم اپنے سے بڑے بھائی کا ادب اور لحاظ خصوصاً سب سے بڑے بھائی کا ادب اور تعظیم اپنے والدین کی طرح کرو.اور اس کی اطاعت سچے دل سے کرو اور پورے پورے فرمانبردار رہو.اور بڑے بھائیوں کو چاہئے کہ وہ اپنے سے چھوٹے بھائی کو اپنے بچوں اور اولاد کی طرح سمجھیں.اور وہی سلوک اُن سے کرو جیسا کہ تم اپنی اولاد سے کرتے ہو.اگر ایسا کرو گے تو کبھی بھی تم میں تفرقہ نہ ہوگا.اور اسی میں تمہاری فلاح دارین ہے.اگر کسی بھائی میں کمزوری یا نقص دیکھو تو اس کی اصلاح کی کوشش ایسی حکمت عملی اور حسن تدبیر اور ہمدری سے کرو کہ اس کو ناگوار نہ ہو.اور اس کی دل شکنی نہ ہو.اور اس کوشش میں لگے رہو.جب تک کہ اس کی اصلاح نہ ہو جائے اور وہ اُس کمزوری و نقص سے بالکل مُبر ا ہو جائے.اپنے غریب اور مفلس بھائی اور عیال دار اور مریض یا کسی مصیبت میں مبتلا ۱۹۴
رشاہ صاحب باب ہفتم.شدہ کی اپنے مال اور جان اور ہمت اور کوشش سے دستگیری کرو.جب تک اس کو ان مصائب سے رہائی نہ ہو، لگا تار سعی جمیل و کوشش بلیغ میں لگے رہو.کیونکہ وہ تمہارا باز و اور اعضائے بدن کی طرح ہے.جب اپنے کسی اعضاء میں تکلیف ہو تو سارا بدن بیکا ر ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خَلَقَكُمْ مِنْ نفسٍ وَاحِدَةٍ (سورۃ النساء:۲).اور حضرت سعدی علیہ الرحمۃ اس کی تفسیر اس طرح کرتے ہیں.* بنی آدم اعضائے یک دیگر اند که در آفرینش زیک جوہر اند چو عضوے بدرد آورد روزگار دیگر عضو با نماند قرار پس تم اس نکتہ کو خوب یا درکھو.اور اسپر کار بندر ہو.يَا بَنِی! شرک سے ہمیشہ بچتے رہو.شرک بُری چیز ہے.شرک یہی نہیں کہ کسی بت کے آگے سجدہ کرنا بلکہ اپنے نفس کی خواہشات غیر مشروعہ اور اسباب پر اور مخلوق پر بلکہ اپنے نفس اور اولاد کی امداد پر، اپنے علم اور اپنی شجاعت اور عبادات اور زہد و ریاضت وکشف و کرامات پر بھروسہ رکھنا.یہ سب شرک خفی اور بت اندرونی ہیں.ان پر بھروسہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے بُت کے آگے سجدہ کرنا.حضرت خاقانی علیہ الرحمہ کا یہ نکتہ کیا ہی پیارا معلوم ہوتا ہے جو ان کو ۳۰ سال کی سخت ریاضت شاقہ کے بعد حاصل ہوا.وہ فرماتے ہیں.پس از سی سال این نکته محقق شد بخاقانی که یکدم با خُدا مردن به از تختِ سلیمان * * حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی ارشاد ہے.پس مجھ کو تو قریب سال کی عمر میں یہ تجربہ ہوا ہے کہ اولاد پر اور اسباب پر اور مخلوق پر، بلکہ اپنے نفر * بنی آدم ایک دوسرے کے اعضاء ہیں کیونکہ پیدائش اور تخلیق کے وقت ایک ہی جو ہر سے پیدا کئے گئے تھے.اگر کوئی عضو کسی درد میں مبتلا ہو جائے تو دوسرا عضو قرار نہیں پکڑتا ، بے چین ہو جاتا ہے.** خاقانی پت میں سال کی مسلسل تحقیق کے بعد یہ نکتہ متفق ہوا ہے کہ باخدا انسان بن جانا تخت سلیمانی مل جانے سے بہتر ہے.(مرتب) ۱۹۵
ناہ صاحب باب ہفتم..بھی بھروسہ کرنا کفر ہی نہیں بلکہ شرک ہے.اور ایک قسم کی بت پرستی ہے.سچ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے اور یہ قول ربی بالکل حق ہے.اَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ ـ (سورة الفرقان :۴۴) الحمدللہ کہ مرنے سے قبل یہ بات سمجھ آ گئی ہے.اللہ تعالیٰ اس پر استقامت اور دوام کی بخشے.آمین ثم آمین یابی! اگر تم اپنا انتظام خانگی درست اور با امن رکھنا اور بہشتی نموند اور بہشتی زندگی سے گزارا کرنا چاہتے ہو، تو اس عالم فانی کے آرام کیلئے اپنے کنبہ اور خاندان میں ایک اپنا امام اور سردار اور امیر بطور حکم ہمیشہ مقرر کر لیا کرو.بشرطیکہ وہ قابل اور سب سے متقی اور دانا اور قوت فیصلہ اور ہمدردی میں سب سے بڑھ کر اور اعلیٰ قابلیت رکھتا ہو.اور اس کے لئے تم میں اول حق تمہارے بڑے بھائی کا ہے.اور اگر اُس میں یہ قابلیت نہ ہو تو پھر دوسرے بھائیوں سے جو قابل و عالم، فاضل، متقی اور دانا ہو اس کو اپنے خانگی امور و تنازعات میں حکم و عدل کی طرح سمجھو.اور سب بھائی مل کر ایک مجلس شوری مقرر کر کے مختلف فیہا معاملات کا فیصلہ کر لیا کرو.اگر ایسا کرو گے.تو تمہارا خاندان اور کنبہ بہشتی زندگی بسر کرے گا.اور تمہارا رعب غیر رشتہ داروں وغیرہ سب کے قائم رہے گا.ورنہ ذلت وخسران دنیا و دین میں ہوگی.پس ایسے امیر کی تم سب تابعداری اور اطاعت محبت اور اخلاص سے مومنانہ طرز پر نہ منافقانہ اور نہ کسی پالیسی کی بناء پر ) کرو اور ایسے حگم اور امیر کا شکریہ ادا کرتے رہو تم کامیاب ہو.يَا بَنِی ! تفرقہ سے اور شقاق سے ہمیشہ بچتے رہو.اور ہر وقت اس تلاش میں رہو کہ کہیں تفرقہ کا موش تمہارے باہمی اتحاد اور ہمدردی اور محبت و صلح کے انبار و غلہ وذخیرہ کی کوٹھری میں داخل نہ ہو جاوے.ورنہ تمہارے اتفاق ، اعمال صالحہ کے ذخیرہ کو یکدم ویران کر دے گا اور پھر تم افسوس کرو گے.وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمُ (سورة الانفال: ٤٧) وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا.(سورة آل عمران : ۱۰۴) کا حکم الہی ایک آرسنک (یعنی سنکھیا ہے ) اس کی گولیوں سے ایسے موش کو ہلاک کرتے رہو.ورنہ پھر بہت مشکل ہوگی.۱۹۶
نشاہ صاحب باب ہفتم..يَا بَنِی ! یہ تفرقہ کا موش ہمیشہ اوّل اوّل مستورات کے خیالات کی پیروی اور اُن کے عندیہ کی اتباع کرنے سے تمہارے اندر داخل ہوگا.پھر وہ ترقی کرتے کرتے اپنے حقیقی بھائیوں اور بہنوں وغیرہ اقرباء کی محبت اور صلہ رحمی اور اتحادِ با ہمی و ہمدردی کے پار چات گستر کتر کرستیا ناس کر دے گا.اپنی اپنی بیویوں کی شکایات توجہ سے سنو.مگر خوب تحقیق کر کے اگر وہ عدل و انصاف و راستی پر مبنی ہوں تو عمل کرو.ورنہ تر از روئے عقل اور قوت فیصلہ سے وزن کرنے پر اگر وہ غلط ثابت ہوں.تو اُن کو فورا رڈی کی طرح پھینکو.بلکہ ایسے معاملات میں بھی شوری مقرر کر کے اپنے امیر خاندان کے ذریعہ سے تسلی کرا کر پھر اس پر کار بند رہو.ورنہ اگر تم نے صرف اپنی اپنی بیویوں کی محبت اور لحاظ و پاسداری کو مد نظر رکھا تو اس میں پھر خیر نہیں ہے.میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ مستورات کی بات ہی نہ سنو.اور ان کے واویلا کی کچھ پرواہ نہ کرو نہیں ہرگز نہیں.تم ان سے محبت و ترحم اور حسن سلوک و معاشرت میں شریفانہ برتاؤ کرو.مگر ان کو خانگی اختلافات اور شکایات میں حکم و عدل و امیر ہرگز نہ بناؤ.جب تک مجلس شوریٰ سے اور شہادت صادقہ سے فیصلہ نہ ہو، عمل نہ کرو.اور ایسے بھی نہ ہو جاؤ کہ وہ تمہاری ناک میں نکیل ڈال کر بندر اور ریچھ کی طرح تم کو نچاتی پھریں اور تم اپنی عقل سے معطل اور مشورہ با ہمی سے بکلی غافل رہو.والعیاذ باللہ تعالیٰ يَا بَنِي ! حتی الوسع اپنے کنبہ اور کفو خاندان سے تم اپنی اور اپنے بچوں کی شادی کیا کرو.اپنے کفو کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں پر ترجیح دی ہے بشرطیکہ وہ صالح و دیندار ہوں.اگر ایسا کرو گے تو تم ان کو سکھلا سکتے ہو کیونکہ کفو اور اقرباء میں بہ سبب تعلق خون فطرتی محبت و جوش ہوتا ہے.اور یہ بات غیر میں ناممکن ہے.الا ماشاء اللہ خصوصاً جب کہ غیر متقی و طالح ہو.دیکھو میرے اور میری دوسری اولاد کے ساتھ اینیڈ یا کیتھلین * کوکس طرح خالص ہمدردی یا محبت خونی اقرباء والی ہوسکتی ہے.دین *Enaid حضرت ڈاکٹر سید ب اللہ شاہ صاحب جب کہ Catheline محترم سید عبدالرزاق شاہ صاحب مرحوم کی اہلیہ کا نام ہے.ہر دو حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کی غیر ملکی بہو یں تھیں.مرتب ۱۹۷
ارشاہ صاحب باب ہفتم.گو ہم سب مر جاویں تو ان کو کیا.مگر اپنے کفو میں گود شمنی بھی ہو.پھر بھی بوقت مصیبت اور رنج وموت فطرتی در داور غم ہو گا.یا بنی ؟ تم اپنی اولاد کوعلم دین سکھلا ؤ اور ان میں خادمِ دین اور (مربی) دین ہونے کی قابلیت پیدا کرو.نرے دُنیاوی کمالات کے حصول پر اُن کی عمر ضائع نہ کرو.البتہ اگر دنیاوی تعلیم کا کمال خادم دین اور ( دعوة ) دین ہونے کی خاطر سے ہو، تو یہ جائز ہے.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ (بخاری کتاب بدء الوحی حدیث نمبرا) بَنِی چندہ خاص و چندہ عام کی ادائیگی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی دیگر ضروریات پورا کرنے کو فرض اور ضروری سمجھو.خود بھوکے پیاسے ننگے رہ کر بھی سلسلہ کی اہم ضروریات کو پورا کرو.اور اس میں کوتاہی نہ کرو اور اپنی اولاد کو بھی ان امور کی پابندی کا عادی بناؤ تاکید ہے.يَا بَنِی ! وصیتیں اور نصائح اور بھی بہت ہیں مگر یہ تحر میراب طول پکڑ گئی ہے.شاید تم میں سے بعض میری نازک اولاد کے دماغ انہیں گورکھ دھندا سمجھ کر پریشان خاطر ہوں اس لئے اب میں چند ضروری وصایا پر اس اپنے آرزو نامہ کو ختم کرتا ہوں.اگر زندگی نے وفادی تو علیحدہ سوانح عمری تمہاری والدہ مرحومہ میں بقایا وصایا و ( ادعیہ ) مسیح موعود علیہ السلام و ادعیہ قرآن شریف میں بفضلہ تعالیٰ مفصل ذکر کروں گا.ورنہ اگر مشیت الہی کے ماتحت یہ خواہش نامکمل رہی تو میرے سب سے بڑے فرزند عالم فاضل کو اگر خدا تعالیٰ توفیق دیوے تو وہ اس میری آرزو کو پورا کریں یا اور کوئی اولاد میں سے جس کو توفیق ہو.آمدم برسرِ مطلب اوّل: يَابَنِی! اگر میری موت کے بعد میرے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو تم سب مل کر با توفیق اولا د جس قدر جلدی ممکن ہو قرضہ ادا کرنا ہوگا.* دوم میری طرف سے اور اپنی والدہ مرحومہ کی طرف سے ایک ایک حج *الحمد للہ آپ کے سب قرض آپ کی زندگی میں ہی ادا ہو گئے.( زین العابدین ولی اللہ ) ۱۹۸
شاہ صاحب باب ہفتم.ضرور ادا کرنا ہوگا کیونکہ تمہاری والدہ حج کے شوق میں تڑپتی چلی گئیں ہیں.سوم دو ہزار روپیہی تم سب مل کر اس طرح خرچ کرو کہ پانچ سوز کو ۃ فنڈ اپنے اپنے والدین کی کمی زکوۃ پورا کرنے کیلئے.پانچ سو روپیہ فنڈ وصایا میں.سو میری طرف سے مدد یتامی ومساکین میں بطور کفارہ کسی قسم کی خیانت ذاتی یا غیر ذاتی کے ازالہ کیلئے اور مبلغ پانچ سو قرضہ سمی پیراند نہ متوفی کی بابت جہاں خلیفہ وقت جس جس مد میں خرچ کرنے کی اجازت دیدیں.باقی اگر میری کوئی جائیداد رہ جائے تو حسب حکم میراث قرآن شریف اقرباء و حقداروں نرینہ وزنانہ میں بموجب حصص شرعیہ تقسیم ہو جائے.اگر کوئی حق وصیت مقبرہ بہشتی سے تمہارے والدین کے ذمہ باقی ہو تو وہ بھی فوراً ادا کیا جائے.چہارم اپنی بیوہ ہمشیرگان اور ان کی یتیم اولاد کی پرورش و تربیت میں، جب تک و قابل ولائق گزارہ معاشرت دنیا نہ ہو.سب مل کر امداد دیتے رہو اور ان یتیموں کو دیندار بھی بنانے میں کوشاں رہو.موجودہ حالت میں تمہاری تین ہمشیرگان ہیں ان کی دلجوئی اور ہمدردی میں تم سب کوشاں رہو.اپنی والدہ مرحومہ کی قبر کے پاس جو خالی جگہ ہے وہاں میری قبر ہو.* تم سب اپنی اپنی وصیتیں بہشتی مقبرہ کیلئے تحریر کر دو کیونکہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہے.ہشتم سیہالہ والا مکان و زمین جو بھائی تم سے لینا چاہے وہ گیارہ سو روپیہ یعنی ایک ہزار قرض کا اور ایک سو عزیز حاجی احمد صاحب کا روپیدا دا کر کے زمین آپ کی یہ آرزو بھی اللہ تعالیٰ نے پوری فرمائی.ہر دو بزرگان کی قبریں بہشتی مقبرہ قادیان میں ہیں.مرتب ۱۹۹
رشاہ صاحب باب ہفتم..فک کرا لے * اور یہ مکان پختہ بنوائے اور چاہ کے پاس ایک چھوٹی سی ( بیت ) بنوا کر ایک حافظ احمدی مخلص جس کو تنخواہ یا خرچ مل کر دیا جائے ، اذان کیلئے اور محافظت مکان کیلئے مقرر کرو.شاید وہاں سیہالہ میں احمدیت کا بیج بویا جائے اور یہ مکان اور چاہ وزمین بطور یادگار والدین اور بیت الدعاء اور استجابت دعا کیلئے ہمیشہ آبادر ہے.تا کہ آئندہ اولاد اس سے مستفیض رہے اور اس سیہالہ میں ( دعوۃ ) احمدیت کیلئے کوشش کرتے رہیں کہ ان لوگوں نے میری اور میرے والدین کی اور دیگر اقرباء اور میرے خاندان کی بہت خدمات کی ہیں.اور ہم ان کے ممنونِ احسان ہیں.هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ( سورة الرحمن : ۶۱ ) کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی ، اور ماسوا اس کے کل مخلوق کو ( دعوۃ ) احمدیت کا پہنچانا ایک فرض قطعی ہے.اس لئے ان لوگوں میں خصوصاً ( دعوۃ ) احمدیت کیلئے سعی بلیغ اور دعاؤں سے کام لینا ہمارے ذمہ فرض واجب ** ہے.میرے مرحوم والدین و دیگر اقرباء کا جو قبرستان ہے.اور اس کے گرد جو چار دیواری خام ہے، اس کو پختہ بنایا جائے.اور اس کے قریب جو ایک بن چھوٹی سی ہے اس کو ایک پختہ چھوٹے سے تالاب کی شکل پر بنوایا جائے تا کہ اس سے مال مویشی اور دیگر انسانی ضروریات پوری ہوتی رہیں اور یہ ایک یادگار بطور صدقہ جاریہ و ثواب دارین ہوگی.جو تمہارے والدین اور اجداد گذشتہ مدفون قبرستان سیہالہ کے لئے ان کی ترقی درجات کا موجب رہے گی.اگر تم (میں) سے ایک بھائی ایسے اخراجات کا متحمل نہ ہو سکے تو تم سب مل کر اس * بھائی سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے مذکورہ بالا زمین آپ کی زندگی میں ہی فک کرائی تھی جس پر آپ نے اسے ان کے نام ہبہ کر دیا ہے.زین العابدین ولی اللہ شاہ ** حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی اس خواہش کا اظہار ہمیشہ بے قراری سے فرماتے رہے ہیں اور سیہالہ سے وابستگی کے لئے تائید بھی اسی غرض سے کیا کرتے تھے.کہ شاید اس سے اس علاقہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شناخت کرنے کا موقع ملے.زین العابدین ولی اللہ شاہ ۲۰۰
شاہ صاحب باب ہفتم.مکان اور ( بیت ) اور چار دیواری اور تالاب کا انتظام کرو.اور اس مکان کو بطور مشترکہ بیت الدعاء مقرر کر لیا جائے اور جب کسی پر خدانخواستہ کوئی مصیبت یا ابتلاء اور کوئی مشکل خدانخواستہ بن جائے تو یہاں آکر چند روز قیام پذیر ہو کر ان مشکلات کی مشکل کشائی کیلئے در د دل اور تضرع اور اضطرار کے ساتھ بارگاہ الہی میں جھکے اور بجز و نیاز اور خشوع سے اپنی روح کو اس کے آستانہ پر گرا کر دعائیں مانگی جاویں تو انشاء اللہ تعالیٰ سب مشکلات اور تکالیف حل و رفع ہو جاویں گی.الا ماشاء اللہ.دہم اپنی اپنی نسلوں کے لئے بھی اسی طرح تم سب سلسلہ وصایا اور نصائح کا جاری کرتے رہو.یاز دہم اپنے ذوی الارحام اقرباء کے ساتھ خصوصاً ہمدردی اور محبت قلبی سے مخلصانہ برتاؤ ہمیشہ کرتے رہو کیونکہ ذوی الارحام سے قطع تعلق سخت مجرم اور اس قدر خطر ناک گناہ ہے کہ شرک کے بعد یہ دوم درجہ پر ہے.اس واسطے ایسے گناہ قطع رحمی سے بہت محترز رہو.کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کو قاطعانِ صلہ رحم کے خلاف رحم بارگاہ الہی میں عرش معلی کے دروازے پکڑ کر فریاد کرے گا کہ یا اللہ اس نے دنیا میں مجھ سے قطع تعلق کیا ہے.اس کو بہشت کی نعماء سے محروم رکھا جاوے.العیاذ باللہ.خواہ وہ ذوی القربی بداخلاق اور بد چلن بھی ہوں.یا نجس ہی کیوں نہ ہوں.تو بھی ان کی اصلاح و تربیت میں کوشش کرو اور اگر وہ تم سے خود دوری اور قطع تعلق رکھیں تو تم اپنے اخلاق حمیدہ ، عفو، ستاری، مروت، خوش خلقی ، اور بے غل و غش، بے کینہ، بے بغض، اوصاف حمیدہ کی عملی و اخلاقی خدمت اور تواضع اور احسانات کا پر تو ڈال کران کو اپنی طرف کھینچ لو اور ان کی دوری کو اپنے احسانات اور حسن اخلاق اپنے قرب میں لے آؤ.یعنی تم مؤثر بنو اور اُن پر اپنے اخلاق حمیدہ کا اثر خوب ڈالو.ایسا نہ ہو کہ تم ان کے بداخلاق اور لا پرواہی کے اثرات سے متاثر ہوکر کینہ، غصہ اور جوش میں آکر ان کو دور پھینک دو.اور ان سے قطع تعلق کرتے کرتے ان کے جانی دشمن بن جاؤ.دیکھو مثل مشہور ہے کہ بڑا گر اپنی بدی سے
شاہ صاحب باب ہفتم..باز نہیں آتا اور اس کی فطرت ایسی ہے تو نیک اپنی نیکی اور حسن سلوک جو اس کی خاص فطرت اور اس کا طبعی خاصہ ہے اس کو وہ کیوں بدلتا ہے.وہ اپنا کام کریں تم اپنا کام کرو.اگر تم اس کے معاوضہ و انتقام میں بدخلقی اور بُرانمونہ دکھلاؤ گے تو تم بھی بد بن جاؤ گے.اور اپنی فطرت پاک پر سخت ظلم کرو گے تم اپنی فطرت مت بدلو.تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اخلاق اپنے دشمنوں اور اپنے ذوی الاقرباء سے برتنے چاہئیں.دواز دہم : مہمان نوازی اور سخاوت و حاجت روائی سائلان اور محتاجوں کی امداد میں اپنی جان و مال تک فرق نہ کرو اور ان سے کشادہ پیشانی سے پیش آؤ اور جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمونہ دکھلایا.مہمان نوازی اور سخاوت حاتم طائی میں بزرگان گذشتہ کا نمونہ اختیار کرو.خصوصاً مہمان نوازی اور سخاوت کا فعل نہایت ہی مقبول ورضاء الہی کا موجب و پر تو صفات الہی کا اعلیٰ نمونہ ہے.خود بھوکے رہ کر اور تکلیف بھی اٹھا کر مہمان کی خدمت و دلجوئی اور سائل کی حاجت براری میں مخلص اور بے ریاء ہوکر ، بلکہ اس خدمت اور کام میں چستی سے اور محبت سے اور محض رضاء الہی کے لئے کمر ہمت باندھو تا کہ ثواب دارین حاصل ہو.ایسے کاموں میں صحابہؓ کا نمونہ بھی ملاحظہ کرو.سیز دہم : اگر کوئی مصیبت افلاس یا کوئی اور ابتلاء آ جائے.تو فور أصدقہ و خیرات اور توبہ و استغفار و انابت الی اللہ اور دعاؤں اور تضرع سے کام لو.خصوصاً صدقہ و خیرات کو مقدم رکھو.اگر تم پر افلاس اور تنگی رزق کا زمانہ آ جائے تو بھی حسبِ توفیق صدقات اور خیرات سے محتاجوں کی حاجت براری کرتے رہو.خواہ خود بھوکے رہو.مگر یہ گر نہ بھولنا.بفضلہ تعالیٰ رزق اور وسعتِ مال کے دروازے کھل جاویں گے.الا ماشاء اللہ.افلاس اور تنگی میں بھی مہمان نوازی کا حسب توفیق حق ادا کرو.مہمان اپنا نصیب اور مقدر اور حصہ رزق جو تمہاری کمائی میں اس کا ملا ہوا ہے.علیحدہ کرنے کیلئے آتا ہے وہ تمہارا تو کچھ نہیں کھاتا اپنا کھاتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ تم کو اس خدمت کا مفت ثواب دیتا ہے.کیا تم نے نہیں سنا.٢٠٢
ناہ صاحب باب ہفتم.سیر ہر دانہ بنوشتہ عیاں ئیں فنکار میں فلاں ابن فلاں ابن فلاں * دعاؤں میں لگا تار ڈھیٹ سوالیوں اور خر گدا کی طرح سے استقلال اور امید کامل سے لگے رہو حتی کہ تمہاری دعائیں مانگتے مانگتے جان بھی نکل جائے.مگر تم اخلاص اور امید کامل کے دروازے اور قادر مطلق اور با اختیارکل کے آستانہ پر ہمیشہ گرے رہو.خواہ مر بھی جاؤ تب بھی مایوسی کو نزدیک نہ آنے دو.کیونکہ یہ مایوسی کفر ہے.اور مومن بھی مایوس نہیں ہوتا.کیونکہ اس کا قادر خدا علی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ہے.وہ کسی کی دعا بھی بھی رد نہیں کرتا کیونکہ ہماری دعائیں اور حاجتیں محدود ہیں اور اس کی استجابت دعا اور حاجت روائی اور اس کا فضل و کرم اور اس کے احسانات وانعامات بے پایاں ولامحدود ہیں.اگر کسی مصلحت الہی کے ماتحت اس عالم میں انسان اپنی دعا اور حاجت براری میں کامیاب نہ ہوا تو پھر چونکہ اس نے بعد موت عالم برزخ میں اس خدائے قادر عَلي كُلِّ شَيْيِ قدیر کے سامنے حاضر ہونا ہے.کیونکہ رُوح کسی کا فن نہیں ہوتا.صرف نقل مکانی.اس لئے وہاں عالم برزخ میں وہ اس کی مشکل کشائی کر دے گا.اگر وہاں نہ ہوئی تو پھر عالم جزاء وسزاء میں اس کی اپیل اور فریا دستی جاوے گی.اگر وہاں نہ سنی گئی تو پھر بہشت یا دوزخ کے مکان میں اس کی دستگیری ہوگی.تو پھر مایوسی کیا معنی رکھتی ہے.وہ قادر ومنعم و محسن خدا اپنی صفات میں ہمیشہ اس کے سر پر قائم ہے اور یہ محتاج دعا کنندہ سائل بھی اس کے سامنے اس کی بارگاہ جلال و جمال میں ہمیشہ حاضر رہے گا.تو پھر مایوسی کیا بلا ہے.دیکھو میں پھر کہتا ہوں کہ اپنے قادر محسن ورب العالمین خدا سے مایوس نہ ہونا.اگر تم مایوس ہو گئے تو اپنے قادر و منعم رب کو اس کی صفات کا ملہ قدرت ( منعم حقیقی و حسن و معطی و سمیع و بصیر و قاضی الحاجات وغیرہ) کو بریکار اور معطل قرار دینا ہوگا.جس سے ذات وصفات الہی میں نقص اور عجز اور بے اختیاری کے الزامات جوشانِ خدائی کے منافی اور نقیض ہیں عائد کر کے خود انسان بے ایمان ہو جاتا ہے.اور پھر اس کے اس حکم میں کہ وَمَا دُعَاءُ الكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ (سورة الرعد : ۱۵) کا مصداق ٹھہرتا ہے.یہاں ضلال کے معنی ناکامی اور مایوسی اور کمزوری وغیرہ کے ہیں.الغرض اس مسئلہ دعا میں حضرت مسیح ہر دانے پر کھانا کھانے والے کا نام لکھا ہوتا ہے.(مرتب)
رشاہ صاحب باب ہفتم.موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں بہت شرح وبسط سے اس کی فلاسفی اور حقیقت کو ایسا مفصل بیان کیا ہے کہ جو بعد زمانہ نبوت کے کسی ولی ،غوث، قطب،صالح ، اہل اللہ نے بیان نہیں کیا.ان کتابوں کو غور سے پڑھو اور اس نکتہ کو عمل میں لاؤ.اور دعاؤں کو اپنی غذا اور پانی مثل غذا جسمانی بنا لو اور اپنی ایک طبع ثانی میں شامل کر لو.اور مایوسی کو تم زہر قاتل اور ہلاک کنندہ رُوح و جسم سمجھو.العیاذ باللہ.اب اس جگہ میں بطور تحدیث بالنعمۃ کے اور ترغیب مخلوق الہی کی غرض سے اپنا تجر بہ بابت استجابت دعا تحریر کرتا ہوں.شاید تمہیں بھی ترغیب اور شوق پیدا ہو.میں بخدا سچ کہتا ہوں کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے اور غالبا بلوغ سے اول عالم طفولیت میں ہی نماز اور دعاؤں سے مجھ کو ایک دلچپسی ، جس کو ٹھرک کہتے ہیں.بفضل خدا میری طبیعت میں ایسے رچ گئی کہ میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا اور آرام و قرار نہیں پکڑ سکتا تھا اور اس کو ایک غذا جسمانی کی طرح سمجھتا تھا.شاید چونکہ میں پانچ یا چھ سال سے یتیم و بیکس رہ گیا تھا.اور یہ زمانہ قیمی بھی اس کا محرک ہوا ہو.اس لئے یہ بھی اُس ذات الہی کا رحم اور فضل تھا کہ میں ہر ایک حاجت، کیا چھوٹی کیا بڑی.سب میں دعاؤں سے کامیاب ہوتا رہا.میرے ساتھ ہمیشہ عادت اللہ یہی کام کرتی رہی کہ تا وقتیکہ میں اپنی ضروریات سائلا نہ طور پر اوّل سے عرض نہ کر لوں میری مشکل آسان اور کامیابی نہیں ہوتی تھی.جیسا کہ ایک بچہ شیر خوار جب تک دودھ کے لئے اپنی تڑپ ، اپنے چہرہ و حرکات سے اپنی والدہ پر ظاہر نہ کرے.تب تک اس کی توجہ کامل طور پر مبذول نہیں ہوتی.یہی حال ربّ اور فیاض مطلق کا ہے.اور کثرت سے میری دعائیں قبول ہوتی رہی ہیں.شاید سو دعاؤں میں دس یا ہیں حسب مدعا میری قبول نہ ہوئی ہوں گی.مگر وہ جو میری منشاء کے مطابق بظاہر قبول نہیں ہوئی تھیں، وہ بھی درحقیقت رد نہیں ہوئی ہیں بلکہ دوسرے رنگ میں قبول ہوئی ہیں.یعنی یا تو وہ میرے حق میں مضر اور موجب نقصان عظیم تھیں.اس لئے اس فیاض مطلق نے مجھ کو بذریعہ رڈ محفوظ رکھا.یا اس کے عوض اور کوئی بلا یا ۲۰۴
شاہ صاحب باب ہفتم.مصیبت جو میری شامت اعمال کا نتیجہ تھی وہ ٹال دی.یا اس کا نتیجہ عالم برزخ میں میرے لئے بطور امانت رکھا.بہر حال یہ بھی سب قبولیت کے انعام میں ہوا.کیونکہ اللہ تعالیٰ تو کسی کی دعا جو خلوص قلب اور تضرع سے کی جاوے ، کبھی بھی رد نہیں کرتے.دعا ایک بیج کی طرح ہے جب کوئی پیج کسی غلہ کا یا جنس کا زمین میں بویا جاوے.تو عمدہ زمین میں بلحاظ حفاظت و نگہداشت کے وہ پیج اپنی اپنی فطرتی استعداد کے لحاظ سے ضرور زمین پر اپنا رنگ اور روئیدگی کا جامہ پہن کر نمودار ہوتا ہے.مگر ہر جنس کے بیج کے نمودار ہونے کی مختلف میعادیں ہوتی ہیں.وہ ضرور اپنی اپنی میعاد پر اپنی نشو و نما پاتے ہیں.اسی طرح سے سب دعائیں قبول ہوتی ہیں اور جو نہیں قبول ہوتیں، وہ دوسرے رنگ میں ظاہر ہو کر رہتی ہیں اور دعا کنندہ سمجھ لیتا ہے کہ میری منشاء کے مطابق قبول نہیں ہونی چاہئے تھیں.پس بعض دعا ئیں تو فوراً دعا کرتے ہی اور بعض ایک ماہ میں بعض ایک سال میں اور بعض اس سے زیادہ عرصہ میں قبول ہوتی ہیں.جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تین ہزار سال کے بعد قبول ہوئی.الغرض دعاؤں میں مایوسی اور ضعف اور تکان اور بزدلی سے کام نہ لیا جاوے.ان تھک اور مردانہ وار کرتے تک لگا تار لگا رہے.تو ضرور قبولیت سے کامیابی ہوگی.لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اگر کوئی شخص اپنی دعاؤں میں کامیاب ہوتا رہے تو وہ اپنے آپ کو مستجاب الدعوات دیکھ کر نازاں اور متکبر نہ ہو جائے کیونکہ یہ کوئی خاص قرب کا درجہ اس نے حاصل نہیں کیا اور اس سے مقبول الہی و مقرب خدا نہیں بن گیا کیونکہ اگر وہ ایک سائلا نہ حیثیت میں ایک سنی اور غنی بادشاہ کے دروازے پر ہر روز بوقت سوال و عرض کے کچھ حاصل کر لیتا ہے اور کبھی بھی محروم نہیں جاتا تو گویا وہ تو بھیک مانگنے والے فقیروں اور سوالیوں کے رنگ میں اس معطی و منعم کے فیض سے محروم نہیں رہتا.بہر حال یہ سائل ہے اور وہ معطی ہے.یہ کیا بن گیا.آخر ہم انسان بھی تو اپنے گھر کے گتے کو جو ہمیشہ ہمارے دروازے پر گرا رہتا ہے، ہڈی یا ٹکڑا ڈال دیتے ہیں تو اس سے اُس کی شان یا فطرت میں کوئی ۲۰۵
ناه صاحب باب ہفتم.فرق نہیں پڑ سکتا.انسان انسان ہے.گفتا گنتا ہی ہے.اس میں اس کے لئے کونسی شان یا فخر ہے.اسی طرح ہے بندہ بندہ ہے.اور خدا خدا.یہ سائل ہے اور وہ وہ معطی ہے.ہاں البتہ اس کا فضل و احسان ہے کہ وہ اپنے سائل کو اور اپنے دروازہ پر افتادگان کو نو از تا اور انہیں اپنے جو د اور فیضانِ ربوبیت سے کبھی بھی محروم نہیں رکھتا.دعا تو اللہ تعالیٰ سے فیوض و برکات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ اور ابتدائی منزل ہے.اس لئے تم کو اس منزل مبارک کے حصول کے لئے سر سے پاؤں تک کوشاں اور ہر حالت میں چلتے پھرتے حسب فرصت دعاؤں کو طبع ثانی اور خدائے جسمانی کی طرح اپنا شیوہ و وطیرہ اور بقاء رُوح کیلئے انہیں وسیلہ اور دار و مدار حیات روح سمجھنا چاہئے.اگر ایسی حالت میسر ہو جاوے تو شکر کرو.اور اس کا فضل و احسان سمجھو کہ تمہارے سوالوں اور دعاؤں کو رد نہیں کرتا اور یہ کہ تم نے اپنا حقیقی اور معطی رب شناخت کر لیا اور اس نے اپنے سائل اور محتاج بندہ کی حالت دیکھ لی ہے کہ اس کا کوئی ذریعہ قضائے حاجات کا میرے بغیر نہیں ہے.پس وہ رفتہ رفتہ اپنے فضل واحسان سے تمہاری سائلا نہ ومحتاجانہ حالت سے ترقی دے کر اپنے قرب کے اُس اعلیٰ مقام پر تم کو پہنچا دے گا جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آئینہ کمالات اسلام میں فنا اور بقاء کی منازل میں اور براہین احمدیہ ** کے حصہ پنجم میں روحانی ترقی کے مقامات ستہ میں بالتفصیل فرمایا ہے.وہاں ملاحظہ کرو اور ان مقامات کے حصول کے لئے دعائیں کرو اور کوشش کرو کہ اس منزل پر تم کو اللہ تعالیٰ پہنچا دیوے کیونکہ یہ قابل عزت اور اعلیٰ درجہ مقام قرب الہی ہے.مگر اس مقام پر بھی پہنچ کر تم کو مطمئن اور نازاں نہیں ہونا چاہئے.جب تک کہ آخری کوچ اس دنیا سے ہو کر عالم برزخ یا عالم بقاء میں ان پاس شدہ مقبولانِ الہی کی ہمسائیگی میں تم کو جگہ نہ ملے.تب تک لگاتار دعاؤں میں لگے رہو.جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام با وجودی مقرب ہونے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد پنجم ۶۳ تا ۸۵ ** ملاحظہ ہو براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد نمبر ۲۱ صفحه ۱۸۵ تا ۲۲۸ ٢٠٦
رشاہ صاحب باب ہفتم..کے اپنے آخری وقت نزاع تک یہ دعا مانگتے رہے.رَبِّ قَدْ أَعْطَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَ عَلَّمْتَى مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ (سورہ یوسف:۱۰۲) یعنی اے رب! زمینی و آسمانی نعمت دنیوی سلطنت و نبوت سے تو نے مجھ کو ممتاز کیا ہے.اے فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ.یعنی اے معطی نعماء سماوی وارضی چونکہ اب میں تیرے حضور حاضر ہونے والا ہوں.اَنْتَ وَلِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.(سوره یوسف :۱۰۲) تو ہی میری سب مشکلات اور حاجات دنیوی و آخرت کا متولی رہا ہے اور اس لئے تیرے حضور اے رب میری یہ عرض ہے کہ اب تو ہی میرا خاتمہ بالخیر کیجیو.وہ یہ کہ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَالْحِقْنِي بالصَّالِحِينَ.(سورہ یوسف :۱۰۲) حضور میری یہ دو عرضیں ہیں، زیادہ کہیں.اوّل میری وفات اسلام پر ہو.دوم میرا الحاق اور ہمسائیگی با صالحین ہو.یعنی انبیاء وشہداء وغیرہ کے زمرہ میں میرا مکان اور بُو دو باش ہو.ایسا نہ ہو کسی معمولی مومن و معمولی منعم کی رفاقت ہو، بلکہ اعلیٰ درجہ کے منعم علیہ گروہ میں شمولیت ہو.آمین.جب ایک نبی کا یہ حال ہے تو ہم کس شمار میں ہیں.کیونکہ ذات الہی غنی ، بے پرواہ اور غیور ہے.جب تک کہ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمُ وَرَضُوا عَنْهُ (سورة البيّة : ٩) کا سرٹیفکیٹ بوقت کوچ سفر آخرت حاصل نہ ہو.تب تک انسان ہمیشہ خطرہ میں ہے.نصائح اور وصایا اور بہت سی ہیں.مگر چونکہ یہ وصیت اب طول پکڑ گئی ہے.ممکن ہے کہ میری نازک دماغ اولاد اس کے پڑھنے کی متحمل نہ ہو سکے.اس لئے اس کو چند مختصر وصایا اور نصائح پر ختم کرتا ہوں.وبالله التوفيق.تم نے اپنی مستقل رہائش ضرور دارلامان میں رکھنی ہوگی.کیونکہ اب ساری دنیا میں یہی ایک دارالامان ہے.باقی سب جگہ دنیا میں دارالخوف اور دار الـطـغـيـان والخسران ہے.کیونکہ یہ نبی کا مولد ومسکن ہے.اور اس کو ارض حرم فرمایا ہے.یہ دین کی جگہ اور دارالاسلام ہے.تمہاری اولاد جو یہاں پیدا ہوگی وہ اس جگہ کے یمن و برکت سے متقی و پارسا اور اہلِ علم و مبلغ دین ہوگی.اگر یہاں تم سکونت نہ رکھو گے تو تمہاری اولا د دین کی اعلیٰ تربیت سے ۲۰۷
شاہ صاحب باب ہفتم.محروم رہے گی.اس لئے تم شکر کرو کہ تمہارے مکانات رہائشی قادیان میں طیار ہوں اور وہاں تمہارا ٹھکا نہ ہو.تم اپنی اولاد کو علم دین اور علم اشاعت ( دین حق ) اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے عالم و عامل بنانے کی کوشش کرو اور انہیں (مربی دین) بناؤ.تا تمہارا بھلا دین ودنیا میں ہو.اگر تم نے اپنی اولا دکو زرا دُنیا دار ہی بنایا اور برے دنیاوی کامیابی کے عروج پر پہنچا دیا تو تم سمجھو کہ تم دنیا سے اُتر گئے اور لا ولد ولا وارث ہو گئے گو تمہاری اولاد بادشاہ ہی کیوں نہ ہو؟ فح نفس اور کل نفس اور کنجوسی سے بچو.یہ سخت مہلک زہر ہے.اس سے مال و جان و اولا د کو ضرور ضر ورضرور تبا ہی آتی ہے.اس کا علاج سخاوت ، بذل مال، مهمان نوازی، غریب پروری، صدقہ و خیرات وغیره مالی ہمدردی تریاق اکبر و فادزہر کا حکم رکھتی ہیں.اور ذوی الارحام کے ساتھ حسن سلوک وصلہ رحمی کا برتاؤ بھی ایک اکسیر کا حکم رکھتی ہے.قطع رحمی سخت ظلم ہے.اپنے محتاج بھائیوں اور محتاج ہمشیرگان کی امداد مالی جانی کرتے رہو.تمہاری تین ہمشیرگان ہیں.دو بیوہ اور ایک خاوند والی ان کے ساتھ خصوصاً ہمدردی اور دلجوئی اور خدمت کا خیال رکھو.ان کی دشکنی سے سخت پر ہیز کرو.اگر ان کی ناحق ناراضگی تم پر ہو تو عقلمندی اور حکمت عملی سے اس کی اصلاح کر کے ان کو خوش کر دو.اور ان کو اگر معین مالی امداد دے سکتے ہو تو ماہوار کچھ رقم بطور جیب خرچ کے ان یتیموں کو ضرور دیتے رہو.خصوصاً بیوگان کی بڑھ کر خدمت کرو اور ان کی اولاد کے ساتھ جب تک وہ قابل کافی گزارہ نہ ہوں، امداد دیتے رہو.خصوصاً تمہاری ہمشیرہ زادی نصیرہ، تم اس کی بہبودی اور خدمت کا فکر کرو.اپنی اطاعت و عبادت و غیره اخلاق فاضلہ پر ہرگز نازاں و مغرور نہ ہو.یہ انقاء اور پارسائی اور اخلاق فاضلہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کیونکہ وَمَنْ يَأْتِي مِنْ خَيْرٍ فَمِنَ اللهِ ہے.وَمَنْ يَأْتِي مِنْ شَرِّ فَمِنْ نَفْسِكَ وَمَا أُبْرِئُ ۲۰۸
رشاہ صاحب باب ہفتم..نَفْسِی.انسان کا خاصہ فطرتی اور امر ربی ہے.اس کے متعلق عارفانِ الہی کا یہ قول ہے.عاصیان از گناه توبه کنند عارفایی از عبادت استغفار عذر تقصیر خدمت آوردم که ندارم بطاعت استظهار* اپنے آپ کو ہر ایک سے بد تر جانو اور دوسروں کو اپنے سے نیک اور پارسا سمجھو.یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حکم ہے.حضرت سعدی بھی یہی فرماتے ہیں.ے.مرا پیر دانائے مُرشد شہاب دو اندرز فرموده بر روئے آب یکے آنکه برخویش خود بین مباش دوم آنکه برغیر بد میں مباش * ** حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام ( رفقاء ) واہل بیت کا ادب و لحاظ ایسا ہی دل و جان و اخلاص سے کرتے رہو.جیسا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت واصحاب کا کرتے ہو.کیونکہ یہ سب مظہر رسول اکرم ﷺ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرتے رہو اور ان کی وصایا اور تمام احکام ونصائح کی پابندی فرض سمجھو اور سلسلہ احمدیہ کی ( دعوۃ ) سے ایک دم غافل نہ ہو.کیونکہ آج عند اللہ مقبول اور خوش کن امرا گر عبادات وطاعت میں سے ہے تو یہی ہے.باقی سب اطاعات و عبادات اس کے نیچے ہیں.زہے خوش قسمت لوگ جو (مربی) دین ہیں.خصوصاً وہ (مربی) جنہوں نے اپنی * گناہ گار عبادت کے ذریعہ سے گناہ سے تو بہ کرتے ہیں اور عارف لوگ عبادت سے مغفرت طلب کرتے ہیں اطاعت کے بہ تکلف اظہار سے وہ فرض ادا نہیں ہوسکتا جو گناہ کے اعتراف سے ہوتا ہے.* * میرے دانا پیرومرشد شہاب نے یہ فرمایا ہے کہ دو طرح سے رونق پیدا ہوتا ہے.ایک یہ کہ خود پسندی نہ پیدا ہو اور دوسرے یہ کہ دوسرے کو بُرا نہ خیال کرو.(مرتب)
مارشاہ صاحب باب ہفتم.جان بھی شہید کابل کی طرح اس سلسلہ میں قربان کر دی ہے.تمام مخلوق کی ہدایت اور ترقی درجات مومنان گذشته و موجودہ جماعت احمدیہ و دیگر صلحاء امت محمدیہ خصوصاً خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہبودی و ترقی درجات کیلئے دعائیں کرتے رہو.میرا قرضہ موجودہ حالت میں جو میرے ذمہ ہے یہ ہے کہ ایک ہزار روپیہ بابت زمین سہالہ.ایک سو روپیہ عزیزم چوہدری حاجی احمد صاحب کا.پچاس روپیه عزیزم مولوی غلام رسول صاحب کے.پانچ سوروپیہ عزیزم بھائی محمود احمد کا.* میری قبر روضہ بہشتی یعنی مقبرہ بہشتی میں اپنی والدہ صاحب مرحومہ کی خالی ماندہ جگہ میں کی جاوے.میری زندگی اور وفات کے بعد بھی تم پر فرض ہے کہ اپنے والدین کی مغفرتِ گناہ اور ترقی درجات کیلئے دعائیں کرتے رہو.بلکہ سب خاندان گذشتہ کے لئے خود اور دوسرے بزرگان وصلحاء امت سے کراتے رہو اور ممکن ہو تو قبر یر خود آ کر اور دوسرے نیک مومنوں کو لا کر بھی خصوصاً خلیفہ وقت اگر بہشتی مقبرہ میں تشریف لاویں تو ان سے ہماری قبروں پر ضرور دعا کرائی جاوے.مکانات جو قادیان میں تمہارے ہوں ان سب کو بیت الدعا بناؤ اور کثرت سے اپنے اپنے مکانوں کو اذان ، نوافل، نماز با جماعت سے رونق دو.اور دعا ئیں ہمیشہ مانگتے رہوتا کہ ان مکانات میں فیوض اور برکات الہیہ کا نزول ہو اور نحوست اور شقاوت اور عذاب اور ابتلاء اور بیماری وغیرہ تکالیف جو شامت اعمال کا نتیجہ ہیں، ان سے تم محفوظ رہو.اور اگر اللہ تعالیٰ تم کو تو فیق دیوے تو کچھ آدمی جو نیک متقی صالح و غریب اور ہمدرد ہوں ان کو ملازم رکھ لو اور ان کے اخراجات ضروری کے تم خود ذمہ وار ہو جاؤ تا کہ اُن کو معیشت و گزران مایحتاج کا کوئی فکر نہ رہے.ان کا کام یہ ہو کہ وہ لگا تار باری باری بطور ڈیوٹی اور فرض منصبی کے ہر وقت دعاؤں میں جو ترقی (دین حق ) و ترقی یہ قرضہ بھی بفضلہ تعالیٰ ادا ہو چکا ہے.۲۱۰
شاہ صاحب باب ہفتم..سلسلہ احمدیہ اور خاندان اور تمہارے کنبہ کے لئے اور تمام مومنین کی سعادت دارین کیلئے اور تمہارے گذشتہ خاندان کی ترقی درجات اور مغفرتِ گناہان کیلئے وہ مثل اصحاب صفہ دعا ئیں بھی مانگتے رہیں.تمہارے مکان پر ایسا کوئی وقت نہ آئے جو ان کی دعا سے خالی رہے.ان کا یہ بھی فرض ہوگا کہ وہ صبح اور شام درسِ قرآن شریف وحدیث کا تمہارے کنبہ اور دیگر مومنین کیلئے سناتے رہیں.علی ہذا القیاس اپنے کنبہ کے خاص مرد اور عورتوں کی بھی ڈیوٹی مقرر کر دو کہ وہ خود بھی اپنی اپنی جگہ پر اس طرح سے دعائیں مانگتے رہیں کہ کوئی وقت بھی دعا سے خالی نہ رہے اور چند اشخاص ( مربی ) نیک وصالح و عالم ملا زم رکھ کر مختلف اطراف اور بیرونی ممالک میں ( دعوۃ ) دین کیلئے مقرر کر دو.کوشش کرو کہ آئندہ تمہارے ہاں اولا دصالح و تقی و خادم دین ہی پیدا ہوتے رہیں.اس کا گر قرآن شریف میں موجود ہے.حضرت مریم کے والدین اور حضرت زکریا علیہ السلام کی دعاؤں اور اُن کا طرز عمل ملاحظہ کر کے اس کی اتباع اور پابندی کریں.بفضلہ تعالیٰ تمہارے ہاں نیک، صالح، دیندار اور متقی اولاد پیدا ہوگی.اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نطفہ رحم میں قرار پکڑنے سے اول ومابعد مسنون دعاؤں میں والدین کولگا تار مشغول رہنا چاہئے.ان دعاؤں کا نمونہ حضرت مریم و حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا و احادیث نبویہ میں ہے.غور سے اور توجہ سے اور تڑپ اور قلق وتضرع سے تمہیں اس گر کو اختیار کرنا چاہئے یہاں تک کہ یہ دعائیں تمہاری غذائے جسمانی ہو کر تمہاری روح میں سرایت کریں اور تمہارے رگ و ریشہ میں طبیعت ثانیہ کی طرح موثر ہو جاویں.تو پھر تم انشاءاللہ اولا دصالح کے وارث ہو جاؤ گے.اپنے والدین کی رضا مندی حاصل کرنے کیلئے جب تک وہ تم میں موجود ہوں.حسب حکم قرآن شریف وَبِالْوَالِدَيْنَ اِحْسَانًا (سورة البقرة :۸۴) أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ (سورة لقمان : ۱۳ ) کو مدنظر رکھ کر ان کی خدمت وتواضع اور رضامندی حاصل کرنے میں ساعی رہو.خصوصاً والدہ جس کے پاؤں کے نیچے ہی تمہارے لئے بہشت ہے.اس کی رضاء تمہارے لئے بہت ضروری ہے.ورنہ یہ تم خوب یا درکھو کہ ان کی ناراضگی تمہارے لئے سخت ہی ۲۱۱
رشاہ صاحب باب ہفتم..مضر ہوگی.اور خَسِرَ الدُّنْيا وَالآخرۃ کا مصداق بنادے گی.اور آئندہ جو تمہارے ہاں اولاد ہوگی وہ بھی تم سے ایسا ہی سلوک کرے گی.جیسا تم نے اپنے والدین سے کیا ہے.مجھ کو خوب یاد ہے، اور تجربہ ہے کہ میرے اپنے اقرباء میں سے ایک سید تھے جو اب مر گئے ہیں.وہ اپنی بیوی پر سخت مفتون تھے.اور اس کی محبت میں سر شار ہو کر اپنی ضعیف والدہ کی خدمت و آداب اور تواضع سے بالکل غافل ہو گئے.جس سے اُن کی والدہ سخت تنگی اور مفلسی اور بھوک پیاس میں وقت گزار کر فوت ہوگئی.آخر کار ان کے فرزند شیدائی زوجہ کی آخری حالت سخت بھوک اور افلاس و شقاوت اور ایسی مصیبت میں گذری کہ وہ سخت بیمار ہوکر جس قریبی رشتہ دار برادران و ہمشیرگان کے پاس علاج و گزارہ مایحتاج کیلئے جاتا تو اس کے قدم و قیام منحوس سے وہ بھی رنگا رنگ کے مصائب میں مبتلاء ہو جاتے اور وہ اس کو نکال دیتے.وہ پھر دوسرے رشتہ دار کے ہاں جاتا.وہاں بھی اس کا یہی حال ہوتا.آخر وہ بڑی ذلت سے مر گیا.اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے اور اس کے قصور معاف کرے.اس لئے تم ناراضگی والدین کو ایک قہر الہی سمجھو کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنے حقوق کے ساتھ والدین کے حقوق مساوی کر دیئے ہیں.ان اشْكُرُلِی وَلِوَالِدَيْكَ ( سورة لقمان : ١٣ ) وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (سورة البقره: ۸۴) کا حکم سخت تاکید رکھتا ہے تو پھر ان کی ناشکری قہر الہی کا موجب کیوں نہ ہو.یہ یاد رکھو کہ والدین اپنی اولاد کو کبھی بھی زبان سے بددعا نہیں دیتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی بددعا کا بداثر اُلٹ کر اُن کے قلب کو پریشان کرے گا.خواہ اولادکیسی ہی تکلیف دے.مگر یہ بھی صحیح ہے کہ ان کی دل شکنی اور تکلیف وہی خود بددعا کا رنگ قبول کر لیتی ہے.کیونکہ وہ عالم الغیب ذات مالک یوم الدین اور غیور ہے اس کی غیرت فورا جوش مارتی ہے اور ایسی اولاد کی سزاد ہی پر فوراً تیار ہو جاتی ہے.اس لئے تم اپنی اولاد کی تربیت کی حسب حکم قرآن شریف و ہدایت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم خوب نگرانی کرتے رہو اور صحبت صالح و اتالیق متقی و استاد بالخُدا کے سپر د کرو.جس طرح سے حضرت مریم علیہا السلام ۲۱۲
رشاہ صاحب باب ہفتم..حضرت زکریا علیہ السلام کے زیر تر بیت باکمال ہوگئیں.اسی طرح سے تم بھی ان کی تربیت کا خیال رکھو.یادرکھو کہ بد صحبت و بد تربیت و بد تعلیم سے اولادتباہ ہو جاتی ہے.اس لئے ان کو ایسی صحبتوں سے ابتداء سے ہی بچاتے رہو.ورنہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی بے فرمان ہوگی.اپنی قوم سادات کی اصلاح و بہبودی کے لئے بھی خاص کر درد دل سے تم دعائیں مانگو، اور ان کو خوب ( دعوۃ الی اللہ ) کرو کیونکہ یہ خاندان اب مغضوب علیہ اور ذلیل اور تباہ ہو گیا ہے.اگر یہ متقی صالح اور باخدا ہوتے تو پھر ان کے مورث اعلیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمت وراثت یعنی مہدویت و عیسویت کے وارث حضرت سلمان فارسی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد کیوں ہوتی اور یہ ہمیشہ کیلئے محروم الارث قیامت تک ہو گئے.اب بھی اگر اس قوم کو خدا تعالیٰ ہدایت دیوے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اتباع اور غلامی سے اپنے مورث اعلیٰ کی نعمت سے مستفیض ہو سکتے ہیں.ورنہ پھر یہ محرومی قیامت تک ان کے گلے کا ہار ہو جاوے گی.العياذُ بِاللَّهِ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اس کے لئے تم کو چاہئے کہ خوب درد دل سے دعائیں مانگتے رہو اور ان کی یہودی کیلئے کوشاں رہو.تاکید ہے.تخلق باخلاق اللہ سے متاثر ہو کر اپنے اندرا خلاق فاضلہ وحمیدہ پیدا کرو.وہ رب ہے.تم بھی محتاج مخلوق کے ساتھ ربوبیت کرو.وہ رحمان ہے.تم بھی بلا معاوضہ اپنے ہم جنس و غیر محتاجوں کے ساتھ بلا بدل نیکی اور احسان کرو وہ رحیم ہے تم بھی اپنے محسنوں اور فیاضوں کا رحیمی صفات کے ماتحت پورا پورا معاوضہ وحق ادا کرو.حتی کہ اپنے ملازموں اور نوکروں سے حسن سلوک اور اپنے فرزندوں کی طرح ان کی پوری پوری خدمت کرو اور ان سے محبت و ہمدردی اور سلوک سے پیش آؤ.کسی قسم کی ان پر سختی اور ظلم نہ کرو کیونکہ وہ تمہارے محتاج ہیں اور تمہاری ہم جنس مخلوق الہی ہیں.اسی طرح جمیع اوصاف الہیہ عفو، احسان، ستاری، غفاری، حلم، مروت واحسان وغیرہ سے متصف ہوکر کیا خویش کیا بیگانہ، سب کے ساتھ ہمدردی سے پیش آؤ.تا تم پر رحم کیا ۲۱۳
رشاہ صاحب باب ہفتم.جاوے.چاند سورج ، زمین ، آب و ہوا کی طرح تمام مخلوق کے ساتھ فیاضانہ سلوک کرو.اپنے دل اور سینہ کو اخلاق فاضلہ سے منور کر کے انہیں ایک بہشتی روضہ اور فردوس اعلیٰ بناؤ.مبارک ہیں وہ جنہوں نے یہاں سفلی زندگی میں ایسا بہشت تیار کر لیا کیونکہ بهشت و دوزخ انسان نے یہاں سے ہی اپنے لئے تیار کرنا ہے.مبادا کہیں گرگ وخوک اور درندگان کی طرح کینہ، بغض، حسد، تفرقہ اور دل آزاری مخلوق اور حقوق العباد سے لا پرواہی وغیرہ اوصاف رذیلہ سے متاثر ہو کر اپنے سینہ کو نارِ دوزخ کی طرح مشتعل کر کے اپنے ساتھ ایک جہنم لے جاؤ.اپنے دل اور سینہ کو اخلاق رذیلہ کی بد بودارٹی نہ بناؤ.بلکہ اوصاف حمیدہ کے عطر اور خوشبو سے معطر ہو کر تم گلستان جنت و مشک تتار بن کر یہاں سے کوچ کرو.بہشتیوں کے جو اوصاف کلام اللہ میں بیان ہوئے ہیں جن کا ذکر سورۃ واقعہ کے مقامات اصحاب الیمین والسابقون میں ہے.علیٰ سُرُرٍ مُوْضُونَةٍ مُّتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَابِلِينَ (سورۃ واقعہ : ۱۶ - ۱۷) وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِةٍ اِخْوَانًا (سورۃ اعراف: ۴۴) انہیں ہمیشہ مدنظر رکھو.تم جب اپنے رشتہ داروں اور اپنے کنبہ وغیرہ مخلوق الہی کے ساتھ اتفاق ،محبت، حسن سلوک اور ہمدردی سے اپنے گھر کو ایک بہشت اور اخلاق فاضلہ کی مشک تار کی خوشبو سے معطر کرو گے، تو تب وہ مراتب بالا و نعماء الهي جو ثُلَّةٌ مِّنَ الأَوَّلِينَ وَقَلِيلٌ مِّنَ الْآخَرِينَ (سورة الواقعۃ : ۱۵۱۴) کے لئے ہیں.ان کے وارث و مستحق بنو گے.ورنہ اگر یہاں تمہارے کنبہ وغیرہ ہم جنس میں اوصاف رذیلہ سے تم اپنے گھر کو دوزخ بناؤ گے تو وہاں بھی دوزخ میں مقام ہوگا.الْعَيَاذُ بِاللهِ.بلکہ اپنے مکان سکونتی کو بیت الدُّعَاء بنا کر ہمیشہ دعاؤں کے ذریعہ اسے جنت بنالو.کاش میری زندگی میں تمہارے مکانات طیار ہو جاتے تو میں ان کو بیت الدعا بنا کر اپنی دعاؤں سے برکت و نزول انعام الہی کا مورد بفضلہ تعالیٰ بنا جاتا ہے.* آپ کی یہ پاک خواہش بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی زندگی میں ہی پوری کی اور آپ نے اپنے بیت الدعا میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی سے اور حضرت اماں جان) اور دیگر افراد اہل بیت حضرت مسیح موعود اور آپ کے ( رفقاء) کرام سے نوافل پڑھوا کر دعائیں کرائی ہیں اور خود بھی تقریبا آٹھ سال تک اس میں دعائیں کیں.فالحمدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِکَ.زین العابدین ۲۱۴
شاہ صاحب باب ہفتم..مگر افسوس کہ بظاہر یہ موقع اپنی حیات میں ناممکن معلوم ہوتا ہے.البتہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ناممکن ممکن کی کوئی وقعت نہیں ہے.یہ انسانی خیالات ہیں وہ قادر الکل ہے.اس کی جناب سے میں کبھی بھی مایوس نہیں ہو سکتا اور لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ ( سورة الزمر :۵۴) کا سہارا مجھ کو بس کافی ہے.۱۶.ہمیشہ اپنے نکاح کے لئے اور اپنی اولاد کے نکاح کیلئے متقی ، صالح، عالم، شریف اور با اخلاق بیویاں تلاش کر کے نکاح میں لاؤ کیونکہ پاک زمین اور قابل اصلاح زمین میں جو بیج ی تختم بویا جاتا ہے.وہ پاک اور لطیف اور فیض بخش اور مفید خلق پودا طیار ہو کر مثمر اور بہرہ ور نعمت کا کام دے گا.جس سے اولاد صالح منتقی اور تابعدار والدین اور با اخلاق پیدا ہوگی.اگر زمین کلر اور گندی شورہ دار ہوگی.تو وہاں بیج اور تخم گو کیسا ہی پاک اور صالح واعلیٰ ہوگا.تب بھی ایسی زمین کی تاثیر سے ضائع ہو جاوے گا اور جو پودا نکلے گا.وہ بھی مضر اور خار مغیلاں وغیرہ کا کام دے گا.یعنی اولا دسفلہ، رذیل، عاق اور والدین واقرباء وغیرہ مخلوق الہی کیلئے ضرر رساں ہو گی.اس لئے نکاح میں یہ اصل یا درکھنا چاہیئے اور اسے کبھی بھی بھولنا نہ چاہئے.یاد رکھو کہ صالح ومتقی اولا د اپنے والدین کیلئے ایک عجیب نعمت الہی اور تفضلات وانوار و برکات کا چشمہ ہے.اس کا نمونہ حضرت سید حامد شاہ صاحب مرحوم میں دیکھو کہ اپنی ۵۵ سالہ عمر میں باوجود کثیر الاولاد ہونے کے اپنی تنخواہ اور آمدنی اور کمائی کوختی کہ ایک پیسہ تک بھی خود خرچ نہیں کرتے تھے اور اپنے بوڑھے والد کے حوالہ کر دیتے.وہ جس طرح چاہتے ان کے بیوی یا بال بچوں میں تقسیم کرتے اور اس میں کسی قسم کا انقباض صدر اور تنگی دل محسوس نہ کرتے تھے.بلکہ یہ کام ماتحت حکم الہی اپنے شرح صدر سے اپنی بیوی اور بال بچوں کی خوشنودی کو کالعدم سمجھتے ہوئے بجالاتے تھے اور والدین کی رضا کو مقدم سمجھتے تھے.اس کے باوجود اپنے باپ سے کسی ادنی نافرمانی پر بھی لوگوں کے سامنے مار کھانے اور بے عزت ہونے کیلئے تیار ہو جایا کرتے اور اپنے والدین کے جوش طبع اور غصہ اور اشتعال کو بخوشی دل قبول کر کے ان کو خوش رکھتے تھے.سبحان اللہ! اولا د ہو تو ایسی ہو لیکن بعض ایسی بھی اولا د ہوتی ہے کہ والدین ۲۱۵
مارشاہ صاحب باب ہفتم..جو اور چٹنی وغیرہ سے پیٹ بھریں اور اولا دگوشت و پلاؤ سے شکم سیر ہو.اللہ تعالیٰ ایسوں کو ہدایت دیوے اور ان کے قصوروں کو معاف کرے.ایسی اولاد اپنی بیوی اور بال بچہ کی رضاء کو ہمیشہ مقدم رکھنے سے کبھی بار آور و کامیاب نہیں ہو سکتی.کم از کم اتنا چاہئے کہ اپنے والد کو اپنی ماہوار آمد سے اطلاع دینی چاہئے کہ حضرت میری اتنی آمدنی ہے اور یہ اس قدر خرچ ہے.اگر حکم ہو تو یہ رقم اس قدر آمدنی سے خرچ کر ڈالوں.تو بھی والدین کی خوشی کا موجب ٹھہرتا ہے.اب یہ وصایا اور نصابا طول پکڑ گئی ہیں.میں اس کو چند مختصر باتوں پر ختم کرتا ہوں.یہ یاد رکھو کہ تفرقہ عناد اور کینہ با ہمی سخت زہر ہے.اس لئے ان باتوں سے نیز جھوٹ، شرک وغیرہ سب اوصاف ردیہ سے ہمیشہ کنارہ کش رہو طریقہ السنۃ والجماعة جس کا نام دوسرے الفاظ میں پیروی سلسلہ احمدیہ ہے لازم پکڑو.اور اسی پر قائم رہو کہ یہی اصل صراط مستقیم و رضاء الہی کا سرچشمہ ہے.باقی جتنے فرقہ ہائے اسلامیہ ہیں وہ سب صراط مستقیم سے دور اور جادہ اعتدال سے برکنار اور افراط و تفریط میں پڑے ہوئے ہیں.ان سب فرقوں میں سے فرقہ شیعہ نہایت ہی بُرا ہے.اور صراط مستقیم سے کوئی نسبت نہیں رکھتا.بلکہ مثلِ فرقہ عیسائیاں یہ بھی سخت مشرک ہے.میں ان کو یعنی فرقہ شیعان وعیسائیاں کو مساوی پلہ میں رکھتا ہوں.یہ حضرت مسیح علیہ السلام کے کفارہ کو موجب نجات اور وہ حضرت علی و حسین واہل بیعت (رضوان اللہ علیہم اجمعین ) کی محبت میں غلو سے کام لینے اور اصحاب کبار وغیرہ بزرگان ملت کی ہجو و دشنام دہی کرنے اور عشرہ محترم میں ماتم و جزع و فزع اور سینہ کوبی کرنے کو کفارہ کی طرح سمجھتے ہیں.ایسے فرقہ سے خصوصا تم قطع تعلق رکھو.اس فرقہ کی صحبت اور اس سے تعلقات رکھنا سخت زہریلی اور مہلک وبا کی طرح ہے.مجھ کو ان سے سخت ہی نفرت ہے.باقی فرقہ ہائے دہریہ، آریہ وغیرہ مشرکین سے بھی انس و ملاقات ومحبت قلبی رکھنا جوا خلاص کے درجہ تک پہنچ جاوے بخت مضر ہے.جیسا کہ میں ذکر کر چکا ہوں چاہئے کہ تم میں سے اپنے کنبہ میں میں ایک قابل شخص امیر وامام خاندان ہو.ایسا ہی فرقہ نسواں میں سے بھی اپنے کنبہ میں جو عمر رسیدہ، تجربہ کار لائق اور دانا وقوت فیصلہ میں ۲۱۶
مارشاہ صاحب باب ہفتم..مہارت رکھتی ہو، وہ اپنے خاندان کی عورتوں میں ان کے باہمی تنازعات کا یا دیگر امور خانہ کا جو مردوں کے تصفیہ کے قابل نہ ہوں تصفیہ کیا کرے اور باقی مستورات اس کے حکم کے ماتحت چلیں اور اس سے عزت اور ادب کی نگاہ سے پیش آویں.گو اس میری وصایا اور نصایا میں بظاہر سب سے پہلے میری اولاد مخاطب ہے.لیکن در حقیقت اس کی اشاعت مخلوق الہی میں سے مومنان (دین حق ) بھی مخاطب ہیں.اگر ممکن و مناسب ہو تو اس کی اشاعت کی جائے.شاید کوئی سعید روح اس سے مستفیض ہو کر میرے حق میں دعا کرے اور اس کی دعا میری نجات و مغفرت اور ترقی قرب الہی کا موجب ہو جاوے.آمین.رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (سورۃ البقرہ: ۱۲۸ ) اس وصیت کو حفاظت سے بطور تبرکات بزرگان اپنے پاس رکھو.اور نسل به نسل اس پر کار بند ہونے کی وصیت اپنی اولاد کو پوری تاکید سے کی جاوے اور کسی عمدہ مضبوط کاغذ و خط میں جو کہ عرصہ تک محفوظ رہ سکے، اس کی نقل بھی رکھی جائے.میں نے اس وصیت کو دعا سے شروع کیا تھا اور اب دعا پر ہی اس کو ختم کرتا ہوں.مُرادِ ما نصیحت بود حوالت با خدا کردیم و رفتیم بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَلَمِينَ.الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ O مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ O إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ٥ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ٥ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ لا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ أَمِينِ (سورۃ فاتحہ ) اے ربّ العالمین میں اپنی اولاد کو جو نسلاً بعد نسل میرے خاندان سے ہوں.صرف تیرے ہی حوالے کرتا ہوں.تو ہی ان کا کفیل و حامی و ناصر و کافی و نعم المولیٰ ہونا.ان کی ذریت میں سے تاقیامت مامور، مرسل، نبی، صدیق، شہداء اور ہمارا مقصد تو نصیحت کرنا تھا جو ہم نے کر دی اب ہم آپ کو حوالہ خدا کر کے رخصت ہوتے ہیں.مرتب ۲۱۷
شاہ صاحب باب ہفتم..صالحین اور خادم دین اور (مربی) دین بناتے رہنا اور جو جو برکات و انعامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے حضور سے طلب کئے ہیں اور تیری بارگاہ سے ان کو الہاماً بطور تسلی عطاء ہوئے ہیں مجھ کو اور میری اولا دسب پر وہی انعامات وتفصلات و برکات دینی و دنیا وی بڑھ چڑھ کر عطا کی جیو.کیونکہ تیری عنایات بے غایات اور لامحدود ہیں.اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولادکو اپنے باپ سے جنسی و نسلی دوہری نسبتیں ہیں.لیکن آخر مجھے اور میری اولا د کو بھی تیرے مسیح و مہدی سے روحانی طور پر ایک نسبت ہے اسی نسبت کے طفیل مجھ پر اور میری اولاد پر رحم وفضل کرنا.اور ہم سب کا خاتمہ بالخیر فرمانا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اتباع اور خدمت سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ہمیں ہمیشہ نصیب کرنا.اور اسی پر ہمارا خاتمہ کیجیو.(١) رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (سورۃ البقرہ: ۱۲۸) (۲) رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِهِ ( سورة البقره: ۲۰۲ ) (۳) رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّثَبِتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (سورۃ اعراف: ۱۲۷ ) (٢) رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِينَا أَوْ أَخْطَانَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلُ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَالَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَقد وَاغْفِرْ لَنَا وَ وَارْحَمْنَا وَ أَنْتَ مَوْلنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (سورۃ بقره: ۲۸۶) (۵) رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ ۲۱۸ ( سورة آل عمران: ۹)
رشاہ صاحب باب ہفتم.(1) رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ ( سورة آل عمران: ۱۵۴) (٧) رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفَرْعَنَّا سَيِّاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِهِ رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيمَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَه (سورۃ آل عمران: ۱۹۴-۱۹۵) (۸) رَبَّنَا وَابْعَتْ فِى اَوْلَادِى وَ ذُرِّيَّتِي مَأْمُورًا وَّمُرْسَلًا يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ایتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ طَ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الحكيمه (۹) رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَبَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلوةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمْ وَارْزُقُهُمْ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ ، وَمَا يَخْفَى عَلَى اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ فِى الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ اسْمَعِيلَ وَإِسْحَقَ طَ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِى فاصلے رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ O رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (سورۃ ابراہیم : ۳۸-۴۲) (١٠) رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ (١١) رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ ) (سورۃ اعراف: ۳۹) ( سورۃ اعراف: ۱۲۷ ) (١٢) رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي وَ مِلے رَبَّنَا وَ تَقَبَّلُ دُعَاءِ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (سورۃ ابراہیم: ۴۱_۴۲) (۱۳) رَبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخَرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي ۲۱۹
نارشاہ صاحب : لَدُنْكَ سُلْطنًا نَصِيرًا مِنْ ؟ باب ہفتم.(سورۃ بنی اسرائیل:۸۱ ) (۱۴) رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِى وَيَسِرُ لِي أَمْرِى O وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِى وَاجْعَلْ لِى وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِي O هَارُونَ أَخِي O اشْدُدْ بِهِ اَزْرِى وَاَشْرِكْهُ فِي اَمْرِى ه كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيرًا ه وَنَذْكُرَكَ كَثِيرًا إِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِيرًا (۱۵) رَبِّ زِدْنِي عِلْمًاه ( سورة طه : ۲۶-۳۶) (سورة طه : ۱۱۵) جب اس دعا پر میں پہنچا تو چند ضروری وصایا ونصائح جو تحریر سے رہ گئی تھیں وہ یاد آ گئی ہیں.یہ کہ تمہاری زندگی کا ٹائم ٹیبل (لائحہ عمل ) اس طرح ہونا چاہئے کہ اوّل ادائے نماز فریضہ با جماعت کا اہتمام کرو.اگر باجماعت نماز پڑھنے کا موقع کسی عذر کی وجہ سے مسجد میں امام کے ساتھ میسر نہ ہو تو گھر میں ضرور پانچ وقت نماز با جماعت اپنے کنبہ کے جمیع ممبرا کو ساتھ ملا کر پڑھا کرو اور ہر نماز سے اول اذان بآواز بلند کہی جاوے.اس سے وہ مکان بابرکت ہو جاتا ہے اور تکالیف ومصائب و ابتلاء سے بھی اس عمل سے رہائی ہو جاتی ہے.بفضلہ تعالیٰ.بعد ادائے نماز صبح بمعہ متعلقین تلاوت قرآن شریف اگر بطور درس ہو تو بہت بہتر ہے.ورنہ اپنی اپنی جگہ سب ممبران تلاوت میں مشغول رہیں.پھر وقت نکال کر احادیث نبویہ اور کتب ہائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مطالعہ بطور درس ضروری ہے.یادرکھو کہ قرآن شریف اور احادیث نبویہ کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے جملہ نکات و معارف و حقائق وعلوم بھی چشمہ وحی اور روح القدس کی توجہ فیضِ خاص سے حضرت صاحب کو حاصل ہوئے ہیں.اس لئے ان کتب کا مطالعہ اور ان میں بار بار توجہ و تدبر بوقت فرصت کرتے رہو اس سے تم پر انشاء اللہ فیوض و برکات آسمانی کا نزول ہوگا اور وہ ۲۲۰
مارشاہ صاحب باب ہفتم.تمہارے لئے روحانی کمالات تک پہنچے کا ایک رہبر ومُر شد کامل کا کام دیں گی.اور ایسا ہوگا کہ گویا تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اور آپ کی موجودگی میں ہی یہ فیض حاصل کر رہے ہو.علاوہ ازیں یہ حل مشکلات و دفع مصائب کے لئے تمہاری دستگیری کریں گی.اس لئے ان کتب کے مطالعہ میں جہاں جہاں مقامات دعائیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر پہنچو وہاں تم بھی با ادب تضرع و خشوع سے اپنے لئے و دیگر مؤمنین کے حل مشکلات وغیرہ کیلئے دعائیں مانگو.یہ بات قبولیت دعا کیلئے خاص وسیلہ اور ذریعہ ہوگی.بعد فراغت از اوقات ذریعہ روزی و معاش اگر فرصت ملے تو یہ وقت ( دعوۃ ) سلسلہ عالیہ احمدیہ کیلئے اور اس کی اشاعت میں خرچ کرتے رہو کہ اس عمل ( دعوۃ الی اللہ ) سے بڑھ کر آج کل کوئی عبادت و ریاضت رضاء الہی کے حصول کیلئے نہیں ہے.اس کے برابر کوئی عمل نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقرر کردہ شرائط بیعت کو ہمیشہ اپنے لئے دستور العمل بناؤ.قرضوں سے بچتے رہو.قرض بدترین بلا ہے مقروض کا جنازہ حضرت رسول مقبول علیہ السلام نہیں پڑھا کرتے تھے.جب تک مقروض کا قرضہ ادا نہ ہو اس کی نجات مشکل ہے.الا ماشاء اللہ.دل آزاری و دل شکنی کسی مخلوق کی بہت بُری ہے اس سے اپنے آپ کو بچاؤ.یہ سب گناہوں سے بڑھ کر گناہ ہے.پس خصوصا بزرگوں اور مخلص و متقی مومنوں اور اپنے سے بڑھ عمر والوں، رشتہ دار ہوں یا غیر رشتہ دار اور تم میں سے جو علم و فضل وغیرہ اوصاف حمیدہ میں بڑھ کر ہو.ایسے تمام اشخاص کی دل آزاری تو بہت ہی مضر ہے.حضرت مولانا رومی علیہ الرحمۃ نے اپنی مثنوی میں کیا عمدہ نکتہ بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ تادلے مَردِ خُدا نائید بدرد هیچ قومی را خُدا رسوا نه کرد * خصوصاً انکار امام وقت و مجد د وقت کا تو ایمان کو جڑھ سے اکھاڑ دیتا ہے.پس اگر تم اپنی زندگانی میں امام وقت یا مجد دوقت یا اس کے کسی خلیفہ کا وقت خدا تعالیٰ کسی قوم کو رسوا نہیں کرتا جب تک کہ کسی بندہ خدا کی دل آزاری نہ کی جائے.(مرتب) ۲۲۱
* رشاہ صاحب باب ہفتم.پاؤ تو فوراً بیعت میں آ جاؤ اور گستاخی اور عجب و تکبر سے اس کا مقابلہ نہ کرو ورنہ مولوی محمد حسین کی طرح یا دوسرے منکروں کی طرح سخت ذلیل ہو گے.اب بڑی چیز ہے ہمیشہ مؤدب و با ادب رہو کسی بزرگ کی بے ادبی سے سخت رسوائی ہوتی ہے جیسا کہ مولوی صاحب نے مثنوی میں فرمایا ہے.بے ادب خود را نه تنها داشت بد بل الاتش خود را بنده اتفاق رو میده ** مکرر پھر یادداشت کے لئے بار بار کہتا ہوں کہ قرضوں سے بچو.قرضوں سے انسان رسوا اور سخت ذلیل ہو جاتا ہے.میں نے اس کا تجربہ کیا ہے کہ قرض کا اصل سبب یہی ہے کہ جب آمدنی سے خرچ بڑھ جائے اور اپنی حیثیت اور وسعت سے زیادہ خرچ کیا جائے تو قرض کے جہنم میں انسان داخل ہو جاتا ہے.اپنی آمدنی سے ہمیشہ کچھ بچاتے رہوتا کہ تمہاری یتیم اولا د اور پس ماندگان کیلئے تمہاری اچانک و بے وقت موت میں ان کے لئے کچھ ذخیرہ اس قدر باقی رہے کہ وہ اپنے حصولِ معاش تک گزارہ کر سکیں.یہ مال جمع کرنا اس غرض سے معیوب نہیں ہے اور بخل میں داخل نہیں کہ اولاد کیلئے ذخیرہ رکھا جائے.بلکہ یہ عمل صالح ہے جیسا کہ حضرت خضر علیہ السلام و موسیٰ علیہ السلام کے مرمت دیوار میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا ہے.ــــــــانَ أَبُـــــوهُــــــــــــا صَالِحًا.(سورۃ کہف:۸۳) ان قیموں کے باپ کو جس نے اپنی اولاد کے لئے ذخیرہ چھوڑا صالح کہا گیا ہے.سو اگر تم یہ مال بعد ادائے زکوۃ، صدقہ و خیرات اور چندہ اشاعت و ( دعوۃ الی اللہ دین حق ) ، باقی ماندہ کو جمع کرو اور اس غرض سے جمع کرو کہ میرے بعد میری یتیم اولا د اور بیوہ در بدر ذلیل اور گدا گروں کی طرح مانگتی نہ پھرے تو یہ جمع کردہ مال اعمال صالحہ میں داخل ہوگا.وَلَا تَجْعَلُ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطُهَا كُلَّ الْبَسْطِ (سورہ بنی اسرائیل :۳۰) کے ارشاد باری تعالیٰ کو مد نظر رکھتے رہو.جھوٹ، حسد، کینه، بخل، غیبت، عجب، ریا کاری اور تکبر وغیرہ اوصاف رذیلہ سے بچتے رہو.خصوصاً تفرقہ و عناد، شقاق با ہمی کو سم قاتل سمجھو.اگر ایسا نہ کرو گے تو والدین کی * معاند احمدیت مولوی محمد حسین بٹالوی مراد ہیں.مرتب بے ادب کی برائی صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتی بلکہ وہ ساری دنیا میں آگ لگا دیتا ہے.** ۲۲۲
مارشاہ صاحب باب ہفتم.رُوح کو صدمہ پہنچاؤ گے.اب پھر میں یہ وصایا باقی ماندہ دعا پر ختم کرتا ہوں اور تم بھی دعا کرو کہ مجھ کو بھی اللہ تعالیٰ ان وصایا و نصائح پر خود بھی عمل کرنے کی توفیق دیوے اور جس جس تک یہ وصیت پہنچے اللہ تعالیٰ ان کو بھی عامل بنائے.آمین.اور میرے لئے اور میری اولاد اور دیگر مومنین عاملین وصیت ہذا کیلئے صدقہ جاریہ والباقیات الصالحات کا کام دیوے.آمین جامع دعائیں (١) تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَّ الْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ (سورة يوسف :۱۰۲) (۲) رَبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجُنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لَى مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطَنَا نَصِيرًا ( سورۃ بنی اسرائیل:۸۱) (۳) رَبِّ هَبْ لِى حُكْمًا وَّ اَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ O وَاجْعَلُ لِى لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِيْنَ وَاجْعَلْنِي مِنْ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ وَ اغْفِرْ لَا بِي إِنَّهُ كَانَ مِنَّ الضَّالِّينَ ، وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُونَ O إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ (۴) رَبِّ أَعْطِنِى قَلْبًا سَلِيمًا.( سورة الشعراء :۸۴-۹۰) (۵) رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَ أَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَاَصْلِحُ لِى فِى ذُرِّيَّتِي : إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (سورۃ احقاف: ۱۶) (1) رَبِّ اَنْزِلْنِي مُنزَلًا مُّبَارَكًا وَّ أَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ (سورۃ المومنون:۳۰) (٧) رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلُ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (سورة حشر: 1) ۲۲۳
نارشاہ صاحب باب ہفتم..(۸) رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةٌ لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ) وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنْ الْقَوْمِ (سورۃ یولس : ۸۶-۸۷) الْكَفِرِينَ (٩) رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۚ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ هِ (سورۃ التحریم:۹) (١٠) رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ والْمُؤْمِنَاتِ ، وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا ( سورة نوح: ٢٩) (۱۱) اَللَّهُمَّ اِنّى اَعْوذُبِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ فِتْنَةِ الْقَبْرِ وَ هَوْلِ الْقَبْرِ ( بخاری کتاب الدعوات حدیث نمبر ۶۳۶۸) (۱۲) رَبَّنَا وَاجْعَلْ قُبُورَنَا رَوْضَةً مِّنْ رِّيَاضِ الْجَنَّةِ.رَبَّنَا أَدْخِلْنَا الْجَنَّةَ بِلَا حِسَابٍ وَكِتَابٍ.(۱۳) وَأَدْخِلْنَا فِي زُمْرَةِ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ (۱۴) الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَلَمِيْنَ الرَّحَمنِ الرَّحِيمِO مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ O إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ O صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ لا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ امِينِ ۲۲۴