Dousakh Se Jannat Tak

Dousakh Se Jannat Tak

دوزخ سے جنت تک

دمشق کے تہہ خانوں میں گزارے ہوئے شب و روز کی ڈائری
Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

دوزخ سے جنت تک) انتساب دوزخ سے دنیا بھر کے بے گناہ قیدیوں کے نام جنت تک اللہ تعالی جلد اُن کی رہائی کے سامان پیدا کرے انسان بسا اوقات اپنی آزمائش میں گرفتار ہو جاتا مورد الزام ٹھہراتا ہے.ہوئے دنوں کو اپنی یاد دمشق کے تہہ خانوں میں گزارے ہوئے ایک ڈائری میں لکھا ہوا عزیز دوست نے اسے ہی غلطیوں کی وجہ سے کسی ہے اور پھر دوسروں کو اسکا شہر دمشق میں گزارے داشت کے لئے میں نے تھا.میرے ایک بہت کتاب کی شکل میں شائع شب و روز کی ڈائری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا سو اُس پیارے دوست کے خلوص کی وجہ سے یہ نام کتاب دوزخ سے جنت تک مصنف ناشر سن اشاعت قیمت پروف ریڈر : مبارک صدیقی کتاب اس وقت آپکے ہاتھوں میں ہے.اس کتاب میں جتنے واقعات ہیں وہ ایسے ہی ظہور پذیر ہوئے.ہاں بعض جگہ بات کو واضح کرنے کے لئے چند فقرات کا اضافہ کیا گیا ہے جو کہ ذاتی تجربات کو کتاب کی صورت میں ڈھالنے کے لئے ضروری ہوتے ہیں یا جیسے کوئی مصور ایک منظر ہمیں دکھانے کے لئے مختلف قسم کے رنگ استعمال کرتا ہے.تعداد اور فاصلوں میں کمی بیشی کا احتمال ہے مثلاً اگر کہیں میں نے لکھا کہ وہاں ہمارے ساتھ کوئی چالیس آدمی تھے تو ممکن ہے وہاں تیں ہوں یا پھر پچاس ہوں.شائد آپکو کچھ باتیں فسانوں جیسی لگیں سو آپ اسے فسانہ سمجھ کے ہی پڑہیں آپ کی صحت کے لئے بہتر ہو گا.بہت سے واقعات نہیں بھی لکھے کیوں کہ ممکن ہے یہ ڈائری کسی بچے کے ہاتھ بھی لگ جائے اور وہ واقعات اُس کے لئے پریشان کن ہوں.ہر تصویر کے دورخ ہو سکتے ہیں.عین ممکن ہے کہ کوئی ملک شام مکتبہ تحلیل، اردو بازار.لاہور کی سیاحت کو جائے اور وہ لکھے کہ شام دنیا کا سب سے خوبصورت نظام والا اور پر 1990 : -/200 روپے رانا عبدالرزاق خاں جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں امن ملک ہے اور ہو سکتا ہے کسی کی رائے اس کے برعکس ہو.بالکل ایسے ہی جیسے دو دوستوں نے ایک گلاس کو دیکھا جو پانی سے آدھا بھرا ہوا تھا.ایک نے لکھا کہ گلاس آدھا بھرا ہوا تھا اور ایک نے لکھا کہ گلاس آدھا خالی تھا.غالب کا ماننا ہے کہ ایک دیدہ بیناء، جو میں گل اور قطرے میں دجلہ دیکھ اور دکھا سکتا ہے.میری یہ پہلی کتاب ہے.میں ایسا اچھا لکھاری تو نہیں ہوں اس لئے ہو سکتا کہ کہیں کی بات کہیں نکل جائے لیکن پھر بھی کوشش کی ہے کہ جہاں ہم تھے وہ مقامات آپکو بھی بذریعہ تحریر دکھا سکوں.مبارک صدیقی (لاہور 10 جنوری 1990 ) 000 رابطه مصفف mubariksiddiqi@hotmail.com

Page 2

دوزخ سے جنت تک ) 2 آخر کار وہ دن بھی آن ہی پہنچا تھا جب ہم خاطر پاکستان میں گھبرائے ہوئے نو جوانوں کوفی دوستوں کا گروپ کراچی ایئر پورٹ کے سبیل اللہ جرمنی بھجواتے ہیں اور یہ بالکل الگ Mernational Jinnah بات ہے کہ اپنا معاوضہ ایڈوانس لیتے ہیں.لاہور کے علاقے سمن آباد میں رہتے ہوئے بھائی لوہاری کی بے ہنگم ٹریفک میں موٹر بائیک پر گھومتے ہوئے یکدم فرینکفرٹ جرمنی جانے کا ٹرمینل کی طرف بڑھ رہا تھا آج ہم ملک شام کو خواب بہت اچھا لگا جہاں کے بارہ میں یار لوگوں پرواز کرنے والے تھے.ہمارے آگے آگے نے بتایا تھا کہ وہاں کے لوگ جانوروں تک سے ہمارے گروپ لیڈر ہمارے ٹریول ایجنٹ اتنا پیار کرتے ہیں کہ انسانوں کو بھی جانوروں صاحب تھے جو کہ شکل وصورت سے انتہائی جیسے حقوق حاصل ہیں میرا مطلب ہے کہ مومن اور کوئی پہنچے ہوئے عالم دین لگتے تھے.انسانوں سے تو پیار کرتے ہی ہیں جانوروں کے نورانی چہرہ ،سفید بے داغ شلوار میض ، لمبی سفید بھی اپنے حقوق ہیں.میرے ایک بہت ہی داڑھی ہاتھ میں تسبیح ، ماتھے پر سجدوں کے گہرے پیارے دوست جو چند ماہ قبل ہی جرمنی پہنچے تھے نشان ایک عجیب روحانی سا نظارہ پیش کر رہے وہاں سے فون کر کے جرمنی کی اتنی تعریفیں کرتے تھے.اُن کی صورت دیکھ کے لوگ مرعوب تھے کہ سننے والے کا ہو کے انہیں حاجی صاحب کہہ رہے تھے.کچھ دل چاہتا تھا کہ اُڑ.عرصہ قبل میرے ایک دوست نے اُن کا غائبانہ کے وہاں پہنچ تعارف کروایا تھا یہ کہہ کر کہ یہ صاحب انتہائی جائے.سڑکیں ہیں نیک دل اور متقی ہیں اور محض انسانی ہمدردی کی گویا شیشے کی بنی ہوئی ہیں.قصاب ایسے

Page 3

دوزخ سے جنت تک) 3 خوبصورت ایران پہنتے ہیں کہ ہمارے ملک کے صرف اس شرط پر لوں گا کہ یہ قرض حسنہ ہوگا.سرجن لگتے ہیں.جون جولائی کی تپتی دوپہروں میں نے انہیں اصل بات نہیں بتائی کہ آجکل میں جب ہمارے لا ہور میں بجلی گئی ہوتی تھی فون قرض حسنہ اُسے کہتے ہیں کہ جب قرض واپس کر کے بتاتے تھے کہ وہاں جرمنی میں ملک شیک مانگا جائے تو قرض دار قرض واپس کرنے کی درجنوں رنگوں میں اور درجنوں ذائقوں میں وافر بجائے صرف ہنسنا شروع کر دے.اگلے کچھ مقدار میں ملتا ہے.فون کے دوران بھی معلوم دنوں میں مبشر بھائی نے رقم خاکسار کے حوالے ہوتا تھا کہ وہ ملک شیک پی رہے ہیں کیونکہ کر دی.رقم لیتے وقت بھی میں نے قومی وقار کو غٹاغٹ کی آواز آرہی ہوتی تھی جو کہ ہماری پیاسی برقرار رکھا اور اُن پر واضح کیا کہ ہم ایک خود دار قوم روح کو اور بھی تڑپاتی تھی.ہیں اور غیر ملکی امداد کو ہاتھ لگانا پسند نہیں کرتے ہمارے لئے اُسکی باتیں کسی افسانے سے کم نہ اسلئے خاموشی سے یہ رقم میری دائیں جیب میں تھیں سو ہم نے اپنے بڑے بھائی جان مبشر ڈال دیں.صدیقی صاحب سے جو کہ ان دنوں برطانیہ سے اللہ اللہ کر کے ایجنٹ کے پیسوں کا بندوبست کیا پاکستان آئے ہوئے تھے ، اپنے جرمنی جانے اور آج ہم کراچی ایئر پورٹ میں داخل ہورہے کے ارادے کا اظہار کیا اور اُن کے روبرو اُنکی تھے.ہمارے ایجنٹ صاحب نے ہمیں بتایا تھا اچھی صفات کا مبالغہ آرائی سے ذکر کیا جس سے کہ وہ ہمیں پہلے ملک شام لے کر جا ئیں گے متاثر ہوکر انہوں نے مطلوبہ رقم عاجز کو دینے کو جہاں جرمنی ایمبیسی میں کام کرنے والے کچھ پیشکش کر دی.میرا دل تو چاہ رہا تھا کہ فوری طور لوگ اُنکے مرید و معتقد ہیں.اُن سے جرمنی کا پر یہ پیشکش قبول کر لوں لیکن وضع داری قائم اصل ویزہ لگوا کر اور ملک شام میں دو دن سیرو رکھتے ہوئے میں نے انہیں کہا کہ میں یہ رقم تفریح کے بعد ہم جرمنی پہنچ جائیں گے.ہمارے

Page 4

دوزخ سے جنت تک ) 4 گروپ میں کوئی پانچ مرد اور دو خواتین تھیں یعنی کی موٹی سی ڈائری میرے حوالے کی اور کہا کہ ہم کل سات تھے.خواتین میں سے ایک میرے اسے خوب احتیاط سے رکھنا کیونکہ اس میں دمشق دوست کی اہلیہ تھیں جبکہ دوسری بزرگ خاتون کے وہ سارے ایڈریس موجود ہیں جہاں جہاں میرے ایک بڑے پیارے اور عزیز دوست کی ہمیں جانا ہے.اس سے والدہ تھیں یعنی ہم کل سات لوگ تھے.میری پہلے کہ میں کچھ کہتا اہلیہ ساتھ نہیں آئیں تھیں کیونکہ مجھے پتہ ہی نہیں مجھے زبردستی ڈائری تھا تھا کہ وہ کون تھیں کیونکہ میری ابھی شادی ہی نہیں کے ہمارا ایجنٹ اُسی خوش ہوئی تھی.آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں ابھی تک نوجوان کے ساتھ کوئی دس پندرہ منٹ کے لئے 6 یوش ایک آزاد ملک کا آزاد شہری تھا اور ہر غیر شادی اندر چلا گیا.آپ قارئین کو شائد عجیب لگا ہو کہ شدہ کی طرح بے فکرا اور بے خوف قسم کا آدمی میں حاجی صاحب کو چلے گئے کی بجائے ” چلا گیا“ تھا.ایئر پورٹ میں داخل ہوتے ہی ایک خوش کہہ رہا ہوں.بات کچھ ایسے ہے کہ میں نے اس پوش نوجوان نے ہمارے ایجنٹ کا والہانہ سے پہلے لکھا تھا کہ وہ شکل وصورت سے انتہائی استقبال کیا کسی بڑے حاجی صاحب کا حال مومن اور کوئی پہنچے ہوئے عالم دین لگتے تھے لیکن احوال پوچھا اور پھر ہم سے بھی ایسی گرمجوشی سے میں یہ بتانا بھول گیا کہ وہ ایک بات میں کوئی دو ہاتھ ملایا کہ ہمیں یقین ہو گیا کہ ہم واقعی معزز لگ تین گالیاں ضرور نکالتا تھا.ایئر پورٹ پر کسی رہے ہیں اور ہمارے درزی نے پہلی بار ہمارے شریف آدمی نے ہمارے ایجنٹ کی توجہ اُسکے کپڑے ہمارے ہی ماپ کے سئے ہیں.ضرورت سے زیادہ لٹکتے ہوئے آزار بند یعنی ہمارے ایجنٹ نے سبکو ایک طرف کھڑا ہونے کا نالے کی طرف دلوائی تو انہوں نے فوراً اپنی شلوار حکم دیا مجھے ایک طرف بُلا کے ایک کالے رنگ کا نالہ اوپر کھنچتے ہوئے اپنے ہی نالے کو بڑی سی

Page 5

دوزخ سے جنت تک ) 5 گالی دی اور پھر وہی گالی اُس شخص کو دی جس نے صالح ٹہلتا ہوا میرے قریب آیا اور میرے کان اس طرف توجہ دلوائی تھی.ہماری شاعرانہ طبیعت میں یہ کہہ کے چلا گیا کہ یہ کالی ڈائری اپنے پاس پر یہ کافی گراں گزرا کہ دو مختلف چیزوں کو ایک نہ رکھو.جیسے مخاطب کیسے کیا جا سکتا ہے.اسکی اس بات نے مجھے پریشان کر دیا کہ آخر یہاں میں اپنے اس ناخوشگوار تجربے کی بناء پہ اس ڈائری میں ہے کیا جو وہ ایجنٹ اپنے پاس اپنے قارئین کو ایک نصیحت کرتا چلوں کہ کبھی کسی کا نہیں رکھنا چاہتا اور بشارت نے مجھے خبر دار کیا ہے ظاہر دیکھ کر فوراً اُس کے متعلق اپنی رائے نہ قائم کہ یہ ڈائری اپنے پاس نہ رکھنا.کر لیں بلکہ اس حدیث پر عمل کریں جس کا مفہوم یہ اُس ایجنٹ اور بشارت صالح دونوں سے آج ہے کہ انسان کے اخلاق کا اُس وقت تک نہیں پتا میری پہلی ہی ملاقات تھی اور میں فیصلہ نہیں کر پا چلتا جب تک اُسے شدید غصے یا شدید خوشی کے رہا تھا کہ ان دونوں میں سے کون میرا ہمدرد ہے عالم میں نہ دیکھ لیا جائے.ہمارے ایجنٹ.ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ ایجنٹ میرے صاحب کو بھی دیکھ کے ایک روحانی سرور ملتا تھا پاس آیا اور ایک بار پھر بڑی تاکید سے ڈائری کو لیکن اُن سے گفتگو کر کے وہ سرور کا فور ہو جاتا تھا سنبھال کے رکھنے کا کہا.میں نے جھٹ سے وہ بہر حال آج ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں تھا ڈائری نکالی اور اسکے ہاتھ میں تھما دی اور اُسے کہا ہمیں اپنے خوابوں کے جزیرے جرمنی پہنچنا کہ میں ڈائری نہیں رکھنا چاہتا.اُس نے بڑے درکار تھا.ائر پورٹ پر کافی دیر تک ہمیں ہمارا غصے کے ساتھ مجھ سے ڈائری لے کے اپنے بیگ ایجنٹ اور ایف آئی اے کا وہ نوجوان ایک کونے میں ڈال لی اور کہا کہ آپ لوگ میرا چھوٹا سا کام میں کھڑے سرگوشیوں میں مصروف نظر آئے.بھی نہیں کر سکتے.یہ لو میں خود رکھ لیتا ہوں عام سی اتنے میں ہی ہمارے گروپ کا ایک فرد بشارت ڈائری ہے میں دل ہی دل میں بہت شرمسارسا

Page 6

دوزخ سے جنت تک ) 6 تھا کہ میں نے اپنے محسن کی اتنی سی بات بھی نہیں ہے.مانی لیکن ساتھ ہی ساتھ بشارت صالح کی بات جہاز کی پرواز کا وقت ہو چکا تھا.ہمارے نام بھی مجھے کھٹک رہی تھی.بہر حال امیگریشن سے پکارے جارہے KLM کلیئر ہونے کے بعد ہم سب اندر انتظار گاہ پہنچ تھے کہ ہم جہاز گئے جہاں سے اب اور کوئی چیکنگ نہیں ہوئی تھی میں داخل ہوں بس جہاز میں ہی سوار ہونا تھا.دنوں انتظار گاہ لیکن ہمارے دو ساتھی ابھی تک تلاشی کے مرحلے میں ساتھ ایک چھوٹی سی مسجد بھی موجود تھی.سے گزر رہے تھے.کافی تشویشناک انتظار کے ہمارے ایجنٹ نے جاتے ہی نماز شروع کر دی بعد میرے وہ دوست بھی اور انکی بزرگ والدہ لیکن نماز کے دوران اُسکی ایک آنکھ برابر باہر صاحبہ بھی پریشان حال ہمارے پاس پہنچ گئیں اُس طرف دیکھ رہی تھی جہاں سے ہمارے اور ہم سب بھاگ دوڑ کے جہاز میں سوار ہوئے گروپ کے ابھی دو مسافر اند رنہیں آئے اور تھوڑی ہی دیر میں سیرین ایر لائن کا طیارہ فضا تھے.پھر جلدی جلدی اُسنے نماز ختم کر کے جالی ء میں بلند ہو چکا تھا.سبحان اللہ ہم فرینکفرٹ اور سے بنی ہوئی دیوار میں سے جھانک کے ہمبرگ کے خوبصورت شہروں میں جلوہ افروز امیگریشن کے اُس حصے کی طرف دیکھنا شروع دیا ہونے کے لئے لئے روانہ ہو چکے تھے.جہاز جہاں ہمارے ایک دوست اور اُسکی والدہ کی بلند ہوتے ہی ایجنٹ صاحب نے اُس بزرگ تفصیلی تلاشی لی جارہی تھی.ہمارے ایجنٹ کا خاتون کے پرس سے اپنی کالی ڈائری واپس لی رنگ متغیر اور اسکی تسبیح کے دانے تیزی سے گھومنا اور میری طرف فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتے شروع ہو گئے.وجہ پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ ہوئے کہا اتنی سی بات تھی.جہاز سے اپنے وطن کالی ڈائری اُس بزرگ خاتون کے بیگ میں عزیز کا منظر بہت خوبصورت تھا.ہمیں اوپر سے

Page 7

) 7 اپنا ملک دیکھتے ہوئے اس پر ترس بھی آیا کہ ہم جتنا انسانی خون اس زمین نے پیا ہے شائد ہی جیسا خوبصورت شخص نکل جانے کے بعد اس ملک کوئی اور ملک اس کی برابری کر سکے.کے پاس فخر کرنے کے لئے رہ ہی کیا جائے گا بات ہورہی تھی ایئر پورٹ سے دمشق شہر جانے لیکن ہماری بھی مجبوری تھی.کی.ایئر پورٹ سے دمشق شہر غالباً کوئی دس بارہ شائد نماز فجر کا وقت ہوگا جب ہم دمشق کے ائر میل دور ہوگا.میں بس کے شیشوں سے باہر پورٹ سے باہر آئے.شہر دمشق کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا کوئی PakWhorl..cxm دیکھتے ہوئے چشم تصور سے صدیوں پہلے کے وہ مناظر دیکھ رہا تھا جب یہاں سے زندگی کا آغاز ہوا.مجھے یاد آرہا تھا کہ جاپانی ماہرین آثار قدیمہ نے لکھا ہے دمشق میں آٹھ لاکھ سال بھی معمولی تجربہ نہ تھا.میں تاریخ کا کوئی ہونہار انسان رہا کرتے تھے.ہمارے آباء و اجداد.طالبعلم تو نہیں لیکن قدیم تہذیب و تمدن کو دیکھنا یہی وہ خطہ زمین تھا جہاں حضرت آدم علیہ السلام ہمیشہ سے میرا شوق رہا ہے اور آج میں اُس سر اور حضرت حوا علیہ السلام رہا کرتے تھے.یہیں زمین پر قدم رکھ چکا تھا جو نبیوں کی زمین تھی.جو پہ قابیل نے کاشتکاری کا آغاز کیا تھا اور ہابیل تمام ماہرین آثار قدیمہ کے متفقہ فیصلوں کے نے بکریاں چرانے کا کام.یہیں پر دنیا کا پہلا قتل مطابق دنیا کا قدیم ترین آباد ملک تھا.یہ ملک ہوا جب حضرت آدم علیہ السلام کے بڑے بیٹے بہت سی تہذیبوں اور ثقافتوں کا مرکز رہا ہے اور قابیل (CAIN) نے اپنے ہی چھوٹے انسانی تاریخ اور ہنگاموں کا ایک خزانہ یہاں بھائی ہابیل (ABEL) کو قتل کیا تھا اور شائد مدفون ہے.یہاں صحرا بھی ہیں پہاڑ بھی ہیں اسی کی بناء پر اسے دمشق یعنی دسم شق کہا گیا.وہ وادیاں بھی ہیں دریا بھی ہیں اور مرغزار بھی ہیں.خون کچھ ایسا ہوا کہ اسکا انتقام ابھی تک جاری ہے

Page 8

) 8.ابتداء میں ساری دنیا ایک ہی ملک تھی.پھر قبضہ کیا اور آج کی بات یہ ہے کہ سن 1970 لالچ اور تعصب کی تلوار سے زمین ٹکڑوں میں بہتی سے یہاں کے موجودہ ہاتھ پارٹی کے سر براہ اور چلی گئی.پھر وہ وقت بھی تھا کہ شام اردن فلسطین مطلق العنان بادشاہ حافظ الاسد نے اقتدار اور اسرائیل ایک ہی ملک ہوا کرتے تھے.پھر سنبھالا ہوا ہے.1982 میں جب اسرائیل نے کوئی نا معلوم ہوس ملک کے اور بھی ٹکڑے کرتی ایک مرتبہ پھر ظلم اور نا انصافی کرتے ہوئے لبنان گئی.آجکل ملک شام، عراق ترکی لبنان پر حملہ کر کے لبنان کے کچھ حصوں پر قبضہ کیا تو اسرائیل اور اردن کے درمیان بسا ہوا ایک ملک جہاں لبنان میں حزب اللہ گروپ نے اسرائیلی تسلط کے خلاف مسلح جد جہد کا آغاز کیا وہیں شامی ہے.مورخین کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوجیوں نے لبنان میں داخل ہو کے اسرائیل کی سے کوئی پانچ سو سال قبل پرشین جنگجوؤں نے فوج کو باہر نکالنے کی کوشش شروع کر دی لیکن یہاں قبضہ جمایا ہوا تھا.پھر اسکے کوئی دو سو سال ساتھ ہی ساتھ خود بھی لبنان پر قابض ہو گئے.آج سن 1988 میں جب ہم شام میں داخل بعد میسی ڈونیا کے یونانی ہیرو اور جنگجو بادشاہ سکندر اعظم ہوئے ہیں تو لبنان نے اس سرزمین کو فتح کیا اور پر شام کا ہی تسلط الله پھر اگر نئے دور کی بات کی ہے اور اسرائیل جائے تو سن 634 میں خالد اور لبنان کی بن ولید نے اس خطہ زمین کو زیرنگیں کیا اور اس پہ سرحدوں پر گوریلا جنگ جاری ہے.اسرائیلی حکمرانی کی.پھر سن 1400 کے اوائل میں تیمور فوجی ظلم و بربریت کی مثالیں قائم کر رہے ہیں اور بادشاہ نے تقریباً آدھے شہر کو قتل کر کے یہاں لبنان کی خوبصورت سر زمین پر گولہ باری کر رہے

Page 9

) ہیں.لبنان کی اپنی گورنمنٹ ہے لیکن فیصلے شہر غربت کی انتہاء کو پہنچے ہوئے لوگ بھی.عالیشان دمشق میں ہی ہوتے ہیں.بہر حال ہمیں سیاسی کاریں بھی تھیں اور افلاس کے مارے ہوئے پس منظر یا پیش منظر سے کوئی غرض نہیں تھی.زنگ آلود سائیکل بھی.ہمیں کچھ بھی اجنبی نہ لگا.ہماری بس ائر پورٹ سے کوئی ایک گھنٹے کے ہاں ایک بات اجنبی لگی.بازار میں ہر دوسرے بعد ایک درمیانے قسم کے ہوٹل پہنچ گئی.بلکہ بڑا موڑ پر کوئی شامی روٹیاں زمین پر رکھے ہوئے ہی سادہ اور سستا قسم کا ہوٹل تھا.فرشی بستر تھے فروخت کر رہا تھا.دمشق کے اس مرکزی حصے میں اور ایک کمرے میں سات آٹھ افراد کے زمین پر سڑکوں پر گلی کے ہر نکڑ پر نو جوان شراب کی ولائتی سونے کا انتظام تھا.سفر کے تھکے ہارے ہم جہاں بوتلیں فٹ پاتھوں پر جگہ ملی سو گئے.اگلے دو روز ہمیں دمشق کی سیر رکھے فروخت کرتے کرنی تھی اور جلیل القدر شخصیات کے مقابر اور نظر آتے تھے اور یہ زیارتیں دیکھنی تھیں سو علی اصبح شام کے گلی کوچے جائز تھا.اندرون دیکھنے کے لئے ہم ہوٹل سے باہر آگئے.دمشق لاہور کی طرح پرانی میں پھرتے ہوئے ہمیں تین چیزیں بڑی وافر نظر گلیاں بھی تھیں اور آئیں.مسجدیں، ہر عمارت ہر دفتر ہر دکان پر بڑی بڑی دمکتی ہوئی شاہراہیں بھی تھیں دمشق کے حافظ الاسد کی تصویر اور ہر دوسرے موڑ پر بازار بہت پر رونق اور آباد تھے.بڑی دکانوں کا بندوقیں تا نہیں ہوئے فوجی اور آرمی کے ٹرک.تو علم نہیں لیکن چھوٹی چھوٹی مارکیٹوں میں خوب حیرت کی بات یہ تھی کہ کلاشنکوفیں تھامے ہوئے بھاؤ تاؤ ہوتا تھا اور اپنے دیس کے پٹھان یاد فوجیوں کے درمیان زندگی رواں دواں تھی.آتے تھے جو ٹیپ ریکارڈر دس ہزار کا کہہ کے دمشق میں بڑے بڑے عالیشان گھر بھی تھے اور بعد میں پانچ سو کا بھی دے دیتے تھے.شہر

Page 10

) 10 دمشق کے بیچوں بیچ دریائے برادا بہتا تھا ہوئی موجود تھی.میں فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ اسکا.ویسے اگر امن اور فراخی ہو تو یہ ملک رہنے والا باعث محبت ہے یا خوف.ویسے وہ محبت جو خوف ہے.خاص طور پر اُس کے لئے جسے تاریخ و سے پیدا ہوتی ہے زیادہ دیر نہیں رہتی ایک دن ثقافت سے دلچسپی ہو.لوگ بہت پیار کرنے غضب کی صورت میں بہت کچھ تباہ کر دیتی ہے.والے مہربان اور خوبصورت تھے.تقریباً ہر میں نے ایک دو ٹیکسی والوں سے پوچھا کہ تم نے دکاندار نے اپنے ساتھ ایک قہوے کا تھر موس ٹیکسی میں حافظ الاسد کی تصویر کیوں لگائی ہوئی بھی رکھا ہوا تھا اور مہمان کو ایک کپ قہوہ پیش ہے تو جواب ملا ہمیں اپنے بادشاہ سے بہت محبت کرنے میں دیر نہ کرتے تھے.شام کے لوگ ہے.ایک ٹیکسی والے نے میرے زیادہ سوال واقعتا بڑے مدد کرنے والے اور ملنسار تھے جس کو پوچھنے پر مجھے ٹیکسی سے فوراً اُتار دیا کہ تم مجھے ایک دفعہ ہم مل لیتے وہ دوسری دفعہ ایسے ملتا جیسے خفیہ پولیس والے لگتے ہو.مجھے بڑی حیرت پرانا واقف ہو.اُن کے اخلاق سے ہم بہت ہوئی.دمشق میں کھڑے ہو کے ارد گرد دور تک پہاڑیوں کا سلسلہ نظر آتا تھا بلکہ یوں کہیں کہ پہاڑوں کے دامن میں ایک پیالے کی شکل میں یہ شہر آباد ہے.ہمارے ساتھ ایک گائیڈ تھا جو متاثر ہوئے.تاہم مزاج میں انتہاء بھی موجود ہمیں مختلف زیارتیں الله الله الرحمن الريال عقار الر نامه رسول الله تھی.جہاں بہت پیار کرنے والے لوگ تھے دکھا تار ہا اور ساتھ ساتھ ہمیں اسکی تاریخ سے آگاہ وہیں یزید کے باقیات بھی نظر آتی تھیں.ہر کرتارہا.اُسکا یہ پیشہ تھا.معروف قبرستان باب عمارت پہ حافظ الاسد کی قد آدم تصویر عوام کو دیکھتی الصغیر دیکھنے کا موقع ملا.حضرت بلال حبشی رضی

Page 11

) 11 اللہ عنہ کا مزار مبارک دیکھا.حضرت یحیی علیہ کئی کئی مہینوں سے وہیں مقیم تھے.نماز کے وقت السلام کے مزار پہ گئے.حضرت آدم علیہ السلام یارلوگوں نے زبر دستی دھکیل کے مجھے آگے کر دیا ع کے چھوٹے بیٹے ہابیل کی قبر دیکھی بہت لمبی قبر سو پہلے دن سے ہی میں انکا امام مقرر ہو گیا.ہوٹل ہے خدا جانے کیا حکمت ہے.مسجد امیہ دیکھی.میں پاکستانیوں کے دو تین گروپ تھے اور اب تاریخ ساز سپہ سالاروں ، صلاح الدین ایوبی اور صرف ہمارے گروپ میں نو مرد تھے اور چار خالد بن ولید کے مقابر دیکھے.پھر ہمیں ہمارا خواتین تھیں.مختلف طبیعتوں کے لوگ تھے کچھ گائیڈ اُس مقام پر لے گیا جہاں اُسکے بقول شہروں کے کچھ گاؤں کے اور کچھ گاؤں سے آگے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام کسی چک کے.بعض بہت غصیلے اور ہتھ نچھٹ نے کچھ دیر عارضی قیام کیا تھا.اُن پہاڑوں پر تھے اور بعض میری طرح شاعرانہ طبیعت کے پھرتے ہوئے دل کی عجیب سی کیفیت تھی جو الفاظ مالک تھے.ایک دن نماز کے بعد ہمارے میں بیان کرنا ناممکن ہے.دمشق کے ارد گرد وہ گروپ کے سب افراد نے متفقہ طور پر میرے نہ پہاڑ ابھی بھی اپنے اندر کچھ ایسی طلسماتی کشش چاہتے ہوئے بھی زبر دستی مجھے امیر قافلہ بنادیا اور رکھتے ہیں کہ لگتا ہے کہ ہمارا ان پہاڑوں سے کوئی کہا کہ جرمنی پہنچنے تک تمام فیصلے آپکے قبول پرانا رشتہ ہے.ہوں گے جبکہ جرمنی جاکر ہر کوئی آزاد شہری ہوگا.چار پانچ دن خوب سیر کی.دمشق کے کھانے اتنی مختلف طبائع کے لوگوں کا امیر بننے سے میں بہت لذیذ تھے.جس ہوٹل میں ہم شہرے ہوئے نے صاف انکار کیا کیونکہ پہلے چار ہی دنوں میں تھے اس کے اور کمروں میں بھی کچھ پاکستانی دو احباب کی کسی غلط فہمی کی بناء پر بہت سخت ہاتھا تھے جو ہمارے اسی ایجنٹ کے ذریعے لائے پائی ہو چکی تھی جس میں تھپڑوں اور گھونسوں کے گئے تھے یا اور ایجنٹوں کے ذریعے آئے تھے اور آزادانہ استعمال کے علاوہ لاتیں مارنے کے عظیم

Page 12

) 12 الشان ہنر کا بھی مظاہرہ کیا گیا تھا.میں نے بہت نے ایجنٹ کو با اصرار کہا کہ وہ ہمیں جرمن ایمبیسی انکار کیا لیکن صالح نصیر اور جمشید نے یقین دہانی کب لے کے جارہا ہے کیونکہ ہمارے پیسے تیزی کروائی کہ آپ صرف نام کے ہی امیر ہوں سے ختم ہو رہے ہیں.اُس نے ہم سب کو ایک گے.کریں گے سب اپنی اپنی ہی.کمرے میں بلایا ، ہماری سادہ لوحی پر دو تین قہقہے شام میں جہاں بعض پر شکوہ عمارتیں اور روپے لگائے اور پھر ہمارے سامنے ہی وہ کالی ڈائری پیسے کی فراوانی دیکھ کے خوشی ہوئی وہاں بعض کھولی.اُسکی جلد پھاڑی اور اُس میں سے جرمنی لوگوں کی بے پناہ غربت اور مجبوریاں دیکھ کے کے ویزوں کے سٹکر نکالے اور بڑی مہارت کے پریشانی بھی ہوئی.مثلاً ہمارے ہی ہوٹل میں ساتھ ہمارے پاسپورٹوں پر چسپاں کر دیئے.ہم اتنی سادہ اور بے تکلف ایمسیسی دیکھ کے حیران رہ گئے اُس نے ہمیں بتایا کہ اسطرح وہ سینکڑوں نوجوانوں کو جرمنی بجھوا چکا ہے اور ویزوں کے بعض مجبور لڑکیاں ہر ہر دروازے پر دستک دیتی اصلی یا نقلی ہونے کی ہمیں فکر کرنے کی ضرورت تھیں اور چند پیسوں کی عوض کمروں کی صفائی نہیں ہے کیونکہ شامی امیگریشن کو ویزوں سے ستھرائی کے علاوہ ہر خدمت کے لئے تیار رہتی نہیں رشوت سے غرض ہے جو انہیں پہنچائی جا چکی تھیں.ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے بعض لوگ ایسی ہے.مجبور لڑکیوں کی مدد کرنے کو انسانی ہمدردی قرار اگلے روز وہ مجھے اپنے ساتھ لے کے سارا دن کےسارا دیتے تھے.کافی پریشانی ہوتی تھی کہ دو ہزار مختلف ٹریول ایجنٹوں کے پاس جاتا رہا اور جرمنی مساجد والے اس شہر میں ابھی تک اتنی غربت اور کے لئے سستی ترین ٹکٹوں کی تلاش کرتا رہا.ایک مجبوریاں کیوں ہیں.تیسرے چوتھے دن ہم چالا کی اُس نے یہ کی کہ خود کسی سے بات نہیں کی

Page 13

) 13 بلکہ صرف مجھے ہی آگے کرتا تھا بات کرنے کو رہی تھی.کوئی بیس منٹ یا آدھ گھنٹے کے بعد ٹرک.چنانچہ میں نے کوئی تین چار ٹریول ایجنٹوں سے رُکا.ہمیں ایک بار پھر گھسیٹ کے نیچے اُتارا گیا.بار ٹکٹوں کے حصول کی بات کی.آخر کار ایک میں نے اپنے ساتھی سے کوئی بات کرنے کی ایجنٹ نے ہمیں اگلے روز ٹکٹیں دینے کا وعدہ کوشش کی تو ساتھ ہی ایک فوجی نے ایسا زنائے کیا اور ہمارے پاسپورٹ رکھ لئے اور اگلے روز دار تھپڑ رسید کیا کہ زمین میری آنکھوں کے آگے ہمیں آنے کا کہا.اگلے روز خاکسار، محمد صالح گھوم گئی.ہمارے سامنے شاہی قلعے جیسی کئی ، گئی.بشارت اور جمشید تینوں دوست بڑے تیار ہو کے منزلوں والی ایک ہیبت ناک عمارت تھی جسکے درو بال سنوار کے خوشبو لگا کے اس ایجنٹ کے دفتر دیوار سے وحشت ٹپکتی تھی.یقینا کوئی ایک ہزار میں جرمنی کی ٹکٹیں لینے پہنچے.دمشق میں ہماری سال سے پرانی عمارت ہو گی.لوہے کا آہنی آزادی کا یہ آخری لمحہ تھا کیونکہ اگلے ہی لمحے پانچ دروازہ کھلا اور فوجیوں سمیت ہم اندر داخل چھ فوجی کلاشنکوفیں تانے ہوئے کمانڈوز کی طرح ہوئے.تھوڑی ہی دیر میں ہمیں لگا جیسے ہم دھاڑتے ہوئے ہماری طرف بڑھے اور اس سے صدیوں پرانے کنویں میں اتر رہے ہوں.مینار پاکستان کی سیڑھیوں جیسی تنگ و تاریک سیڑھیاں تھیں جو نیچے جاتے ہوئے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں.گول گول زینے اترتے ہوئے دائیں بائیں کمروں میں نظر پڑی جن میں قیدی پہلے کہ ہم اس عزت افزائی کی وجہ پوچھتے ہمیں ہتھکڑیاں لگا کے کالے شیشوں والے فوجی ٹرک میں ایسے پھینکا گیا جیسے.کوئی مزدور اجرت نہ ملنے پر سر سے بوری پھینکتا بھیڑ بکریوں کی طرح بند تھے.اور پھر یہیں ہے.خوف کے مارے ہم تینوں خاموش تھے گزرتے ہوئے میں نے چند سیکنڈ کے لئے ایسا بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ہماری آواز نہیں نکل منظر دیکھا کہ مجھے لگا کہ میں نے کوئی خواب دیکھا

Page 14

) ہے.14 مرغزاروں میں جاتے جاتے یہ ہم کس تہہ خانے زینے اترتے ہوئے ایک چھوٹے سے موڈ پر میں پہنچ گئے تھے.سگریٹ اور دھوئیں کی بدبو ہر سلاخوں سے بند اُس روشندان کے پار مجھے ایک طرف پھیلی ہوئی تھی.تھوڑی دیر بعد آنکھیں اُس بڑا ہال کمرہ نظر آیا جس میں مجھے بہت سے نیم روشن کمرے کے ماحول سے واقف ہو ئیں.انسانی ڈھانچے ملتے ہوئے نظر آرہے تھے.بے ایک چھوٹے سے کمرے میں جس میں عام طور پر نور آنکھیں مدقوق چہرے اور جھولتے ہوئے جسم دس بارہ انسانوں کو قید کیا جاسکتا ہے کوئی چالیس.میرا دل خوف کے مارے حلق کو آرہا تھا.آج کے قریب قیدی ڈالے ہوئے تھے.کے دور میں یہ کیسے ہوسکتا ہے.چنگیز ، ہلاکو اور ہٹلر سب سے پہلے میں نے ساتھیوں سے پوچھا کے دور میں تو سنا تھا لیکن آج کل ایک اسلامی کہ سیڑھیاں اترتے کیا آپ نے بھی وہ منظر ملک میں یہ کیا ہو رہا ہے.کیا دوزخ اسی خطہ دیکھا ہے.زمین پر بھی موجود ہے.یہ کون لوگ ہیں اور کس اُن کا جواب جرم کی پاداش میں انہیں یہاں قید کیا گیا ہے.نفی میں تھا انہیں چھڑوانے کے لئے کوئی بولتا کیوں نہیں اور اُنکا کہنا ہے.حافظ الاسد کی تصویر ہر جگہ کیوں آویزاں تھا کہ ہے.یہ سب سوالات سوچتے اب ہم کوئی تین سارے راستے اندھیرا ہی اندھیرا تھا.مجھے یقین منزلیں نیچے پہنچ چکے تھے.ہماری ہتھکڑیاں کھولی ہونے لگا کہ وہ میرا واہمہ ہی ہوگا.آج کے ترقی گئیں اور ایک چھوٹے سے در بہ نما کمرے کا یافتہ دور میں اور ایک اسلامی ملک میں ایسا ممکن آہنی دروازہ کھول کے ہمیں اُس کے اندر پھینک ہی نہیں ہے.بہر حال اب ہم ایک چھوٹے سے دیا گیا.ہماری حالت غیر تھی.جرمنی کے کمرے میں کوئی چالیس کے قریب قیدی تھے.

Page 15

) 15 اس کمرے کے کونے میں ایک ٹائلٹ تھا جو بین الاقوامی اور بھائی چارے کا منظر تھا.افغانی زیادہ تر مصروف رہتا تھا.اسکی بد بو سے طبیعت کافی ہٹا کٹا قسم کا آدمی تھا اور بار بار پہلو بدل کے خراب ہونا شروع ہوگئی.کمرے میں صرف ہم سب کو تنگ کر رہا تھا.کھڑے ہونے کی ہی جگہ تھی بیٹھنے کی گنجائش نہ میرے بچپن کے دوست جانتے ہیں کہ مجھے تھی.کافی دیر کھڑے رہنے کے بعد ہم تھک کے ہجوم والی جگہ پر سانس کی تکلیف ہو جاتی ہے اور یہاں سارے گر گئے.قیدیوں نے بتایا کہ یہ یہاں کی بدنام زمانہ جیل المزہ ہے یا شائد نظار اجیل ہے.سب قیدی ایک ہی کشتی کے مسافر تھے سوکوئی Getty Images کمرے میں دروازے میں صرف ایک ہی کوئی ایک مربع فٹ کی چھوٹی سی سلاخوں والی کھڑکی تھی.مجھے برا نہ مناتا تھا.رات پڑی تو سب فرش پر لیٹ سانس کی تکلیف شروع ہوگئی لیکن وہاں ایسی گئے.میں نے لیٹے لیٹے اپنا سر ایک موٹے سے معمولی چیزوں کی پرواہ کرنے والا کوئی نہ تھا.عربی کے پیٹ پر رکھ دیا جو سانس لیتا تھا تو مجھے جس تہہ خانے میں ہم تھے وہاں رات دن کا پتہ جھولے آتے تھے.میرے سینے پر کسی افغانی نہ چلتا تھا کیونکہ ہر وقت ایک جیسا ماحول اور وہی نشئی کی ٹانگیں پڑی ہو ئیں تھیں اور میری ٹانگیں بلب کی مضمحل ہی روشنی ہوتی تھی.قیدیوں میں کئی ایک پاگل فرانسیسی قیدی انٹونی کے لئے سرہانے لوگ مجھ سے بہت زیادہ تکلیف میں تھے.پتا یعنی تکئے کا کام دے رہیں تھیں.ایک عجیب قسم کا نہیں کیسے چوبیس گھنٹے گزر گئے اگلے روز دروازہ

Page 16

) 16 کھلا اور چھ اور قیدیوں کو ہمارے اوپر پھینک دیا جیلوں میں گزاریں گے.اُسنے بتایا کہ اب کوئی گیا.وہ سر اُٹھا کے ادھر اُدھر ایسے دیکھ رہے تھے تبارک نامی پاکستانی ہمیں ملنے آئے گا جسے جیسے مرغیوں کے بھرے ہوئے دڑبے میں ہمارے ایجنٹ نے ایک بھاری رقم کے عوض ہمیں چھڑوانے کا فریضہ سونپا تھا.اب تک ہمیں معلوم ہو چکا تھا کہ ہمیں جعلی ویزوں کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے.اگلے روز ہم سب نو دوستوں کو اس کمرے سے مزید چھ مرغیاں پھینک دی جائیں.معلوم ہوا کہ نکال کے اسی عمارت کے ایک اور کمرے میں وہ ہمارے ہی باقی چھ ساتھی تھے.وہ دل برداشتہ بلایا گیا اور مختصر بیان ہوئے.سب کو واپس اُسی اور حواس باختہ تھے جبکہ ہم انہیں تسلی دے رہے چھوٹے کمرے میں بھجوا دیا گیا سوائے تھے اور دل ہی دل میں خوش ہو رہے تھے کہ چلو میرے.مجھ سے تین چار بڑے سخت گیر پولیس سب اکھٹے تو ہوئے ہیں.ہمہ یاراں جنت ہمہ افسران عربی زبان میں سوالات پوچھتے رہے.یاراں دوزخ ، انہوں نے بتایا کہ ہمارے گروپ میں نے انگلش میں جواب دینے کی کوشش کی تو کی چار عورتوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے.ہمارا اُن میں سے ایک مجھ پر تھپڑوں اور ٹھوکروں سے ایجنٹ شام میں ہی کہیں روپوش ہو گیا ہے اُسنے پل پڑا اور کہنے لگا عربی بولو.میں نے اردو اور جاتے ہوئے ہمارے لئے پیغام دیا ہے کہ کبھی انگریزی میں کہا کہ میں عربی نہیں بول سکتا.میرا اصل نام حلیہ یا پتہ پولیس کو نہ بتانا کیوں کہ میرے عربی نہ بولنے پر وہ سیخ پا ہو رہے تھے.اس ملک میں صرف میں ہی آپکو چھڑوا سکتا ہوں اسنے عربی میں مجھ سے پوچھا ما اسمك ) اگر میں بھی جیل میں چلا گیا تو ہم ساری عمر انہیں تمہارا نام کیا ہے ).میں نے انگلش میں جواب

Page 17

) 17 دیا کہ میرا نام مبارک ہے.اُنکے لئے یہ ہی بہت بھر پور کہانی سنا رہا ہو.بڑی کامیابی تھی کہ انہوں نے عربی میں مجھ سے اس نے ایک فائل کھولی اور ایک شخص کی تصویر پوچھا تھا اور مجھے سوال کی سمجھ آگئی تھی.اُنکو کیا میرے سامنے رکھ دی.تصویر دیکھ کے میں ہکا بکا پتہ کہ اتنی عربی تو سب کو آتی ہے لیکن اُس وقت رہ گیا.میں نے اپنے چہرے اور جسم پر ہاتھ مل عربی زبان کا وہ انتہائی معمولی سا علم بھی میرے کے دیکھا.وہ واقعی مجھ سے ملتا جلتا کوئی شخص تھا لئے مشکل کا باعث بن گیا ایک جذباتی قسم کے صرف فرق یہ تھا کہ اُسکی داڑھی بھی تھی.ایک سپاہی نے میری گردن پر دو تین تھپڑ لگائے اور لمحے کے لئے تو مجھے بھی شک پڑ گیا کہ واقعی کہیں چینیا عربی بولو.عربی بولو.عربی بولو.مجھے عربی میں اسرائیلی دہشت گرد تو نہیں ہوں.میں نے آتی ہوتی تو بولتا.حواس جمع کرتے ہوئے اُسے ساری بات پھر میز کے اُس طرف بیٹھے ہوئے بڑے جلدی جلدی سنا دی کہ پاکستان سے کوئی ایجنٹ پولیس آفیسر نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کے لئے ہم سے پیسے لے کے ہمیں یہاں لایا ہے جرمنی اشارہ کیا پانی پلایا اور انگلش زبان میں بڑی نرم بجھوانے کے لئے.فلاں ہوٹل میں ہم ٹھہرے آواز میں مجھے کہنے لگا کہ ہمیں معلوم ہے کہ تم ہوئے تھے ابھی ہمارے سوٹ کیس بھی وہیں جان بوجھ کے عربی نہیں بول رہے تم ایک پڑے ہیں.اُس نے اُسی وقت وہاں چھاپہ ا اسرائیلی دہشت گرد ہو جسکی ہمیں کئی برسوں سے مارنے کا حکم دیا اور مجھے ایک طرف بیٹھنے کا حکم دیا تلاش ہے.اُسکی عجیب و غریب باتیں سن کے تھوڑی دیر بعد دو تین آدمی اندر داخل ہوئے یہ میری آنکھیں بھینگی ہور میں تھیں اور میں منہ کھول وہی ٹریول ایجنٹ تھے جن سے میں نے ٹکٹ کے کے اُسکی طرف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ لئے بات کی تھی.مجھے دیکھتے ہی انہوں نے شور مجھے جادو کے کرتب دکھا رہا ہو یا کوئی مجس سے سے مچا دیا.ہلا ہلا واللہ پر نہیں کیا کہ رہے تھے لیکن

Page 18

) 18 مجھے لگا کہ کہہ رہے ہیں یہی ہے یہی ہے پکڑ لو برداشتہ ہو کے اللہ کو پیارے ہو گئے ہمیں تب جانے نہ پائے.اُن کے چہرے خوشی سے ایسے عربی زبان نہیں آئی اب ایک گھنٹے میں کیسے آسکتی تمتما رہے تھے جیسے انہوں نے مریخ پر پانی ڈھونڈ ہے لیکن ایسا ادبی مذاق کرنے کا وقت نہیں تھا میں لیا ہو.انہوں نے پولیس کو میرے متعلق یہی نے پھر یہی کہا کہ میں ایجنٹ نہیں ہوں نہ ہی میں بیان دیا کہ یہی شخص ٹکٹوں کے حصول کے لئے بار اسرائیلی دہشت گرد ہوں میں نے ایک ایجنٹ کو بار ہمارے پاس آتا تھا.وہ پولیس آفیسر کوئی پیسے دیئے تھے کہ کسی طرح مجھے جرمنی پہنچا دو شریف قسم کا آدمی تھا.اُس نے انہیں جانے کا حکم.میرے پیچھے کھڑا پولیس والا میرے بال دیا ،سگریٹ سلگائی اور بڑے دھیمے لہجے میں مجھ دبوچے ہوا کھڑا تھا اور میرے سر کو ایسے دائیں سے کہنے لگا میرا وقت ضائع نہ کرو سچ سچ سب کچھ بائیں ہلا رہا تھا جیسے اُسے اس کام میں لطف آ رہا بتا دو تم کتنے عرصے سے انسانی سمگلنگ میں ملوث ہو.مجھے ہمیشہ سے سر میں مالش کروانے کا شوق ہو اسرائیل سے کب شام پہنچے ہو.کس کے لئے رہا ہے لیکن اُس روز وہ ظالم میرے سر کے بال کام کرتے ہو وغیرہ وغیرہ.اس نے مجھے بتایا کہ ایسے بھینچ کے دیکھ رہا تھا جیسے اُنکی پائیداری یہ وہ جیل ہے جہاں سے کبھی کوئی باہر نہیں گیا جو بھی چیک کر رہا ہو.بڑا افسر مجھے کہنے لگا آج میں مار آتا ہے اُسکی لاش ہی باہر جاتی ہے.اُسنے کہا کہ پیٹ کے موڈ میں نہیں ہوں اسلئے میں تمہیں ابھی جب تمہیں الٹالٹکا ئیں گے تو ایک گھنٹے میں چوبیس گھنٹے کی مہلت دیتا ہوں ضد نہ کرو مان جاؤ تم فرفر عربی بولو گے.میرا دل چاہا کہ اُسے کہوں کہ تم ایک اسرائیلی جاسوس ہو.یہ کہہ کے مجھے کہ ہمارے عربی کے استاد اللہ بخشے ہمیں چار واپس میرے ساتھیوں کے پاس لاک اپ میں سال، چھٹی کلاس سے دسویں کلاس تک سوٹیاں بھجوا دیا گیا.کافی دیر بعد جب میرے ہوش مار مار کے عربی سکھانے کی کوشش میں دل ٹھکانے آئے تو دوستوں کو ساری بات

Page 19

) 19 بتائی.ہمارے پاس وقت بہت کم تھا کسی کو بھی ماررہے ہیں.کبھی کہتا دس دس کوڑے کھانے کے کسی وقت بلا یا جا سکتا تھا چناچہ ہم سب مل کے لئے تیار ہو جاؤ.کبھی کہتا ہمیں کرنٹ لگا کے ہم بیٹھ گئے اور ایجنٹ کا ایک فرضی نام حلیہ اور سے سب کچھ اگلوا لیں گے.ہم سب نے اُس اُسکا پاکستان کا پتہ وغیرہ سوچ لیا بلکہ ساری رات کے آگے ہاتھ جوڑے کہ خدا کے لئے کچھ دیر اُٹھ اُٹھ کے ایک دوسرے کو پوچھتے رہے کہ اگر خاموش ہو جاؤ.بہت تکلیف دہ انتظار کی گھڑیاں اُسکا رنگ پوچھا تو کیا کہنا ہے.اُسک ناک کیسی تھیں.مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ وہ وقت ہے اُسکا قد کتنا ہے.ایک فلمی قسم کے دوست نے اس قدر تذبذب والا تھا کہ ہم سب چاہ رہے تھے تو مشورہ دیا کہ سیدھا سیدھا سلطان راہی کی کہ اگلی باری میری ہوتا کہ جو ہونا ہے جلدی سے شخصیت کو ذہن میں رکھ لیا جائے تاکہ سب صحیح ہو جائے.آخر کوئی چار گھنٹے بعد میری باری بھی حلیہ بیان کرسکیں.اُسکا مشورہ معقول تھا لیکن پتا آہی گئی.کافی دیر میرا انٹرویو ہوا.ایجنٹ کا حلیہ نہیں کیوں نہیں مانا گیا اور فرضی حلیہ ہی سوچا گیا.اور ٹھکا نہ طے شدہ منصوبے کے تحت بتایا.انٹرویو اگلے دن ہم سب کے الگ الگ بیانات کے آخر میں پولیس افسر نے مجھے کہا کہ جب تک ہوئے.جس کو لے جاتے تھے اُسے واپس نہیں وہ ایجنٹ گرفتار نہیں ہو جاتا آپ لوگ جیل میں لاتے تھے اس لئے ہمیں نہیں پتہ تھا کہ اُس کے رہیں گے کیونکہ صرف آپ یعنی ہم ہی اُسے ساتھ کیا ہو رہا ہے.تاہم وقتاً فوقتاً عمارت کے پہچان سکتے ہیں.سیرین ایر لائن کو جرمنی کی مختلف حصوں سے تشد داور چیخ و پکار کی آوزیں آ حکومت نے لاکھوں ڈالر جرمانہ کیا ہے کہ وہ جعلی رہی تھیں جو پہلے بھی آتی رہتی تھیں.ہمارا ایک ویزوں پر مسافروں کو جرمنی لا رہی ہے اس لئے دوست جو کہ گاؤں سے تھا ہمارا ترا نکالنے حکومت شام کے لئے ضروری ہے کہ اس حلئے میں پیش پیش تھا.کبھی کہتا کہ لگتا ہے الٹا لٹکا کے کے ایجنٹ کو فوری گرفتار کیا جائے.یہ سنتے ہی

Page 20

) 20 b میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے کیونکہ اس حلئے کے منگواتے تھے یا بعض کہ رشتے دار انہیں کھانا کا کوئی ہوتا تو پکڑا جاتا.اب اللہ ہی ہمیں بچا سکتا بھجواتے تھے.ہم اس جیل کی حوالات میں بند تھا ہماری تدبیر ہمارے لئے ہی مہلک ثابت ہوئی تھے اس لئے جیل کی طرف سے کچھ نہیں تھا تھی لیکن ہماری مجبوری تھی کہ اس ملک میں ہمیں پیسے نہیں ہیں تو بھوکے رہو چھین کے کھاؤ یا مرجاؤ جاننے والا ایک وہی ایجنٹ تھا.ہمیں اُسکے ہم روٹی منگوانے کے لئے پیسے دیتے تھے.احکامات ماننے تھے ورنہ جنگ کے بعد کے اُن جب وہ روٹی لاتے تو ایک ایک روٹی دور سے دنوں میں شام سے کسی ملک فون تک نہ ہوتا تھا نہ ایسے پھینکتے جیسے فرز بی پھینکتے ہیں.ہم روٹی کوئی ڈاک آتی جاتی تھی کہ ہم کسی کو بتاتے.کھاتے اور اگر خریدی ہوئی پانی کی بوتل ختم ہو ہم سب کے انٹر ویو ہو چکے تھے خدا کا شکر ہے جاتی تو ٹائلٹ کے ساتھ لگی ٹونٹی سے پانی پیتے کہ سب کے بیانات ایک جیسے تھے جسکی وجہ سے تھے.عربی قیدیوں کو جب کبھی گھر سے کھانا آتا پولیس کو یقین ہو گیا کہ ہم خود مظلوم ہیں تا ہم تو وہ دیوار کی طرف منہ کر کے کھاتے تھے تا کہ ہمارے بتائے گئے حلئے والے ایجنٹ کی تلاش کوئی اور شامل نہ ہو.کبھی کبھی کھانے پر لڑائی بھی میں چھاپے مارے جارہے تھے.ایسا کوئی ہوتا ہوتی تھی چھینا جھپٹی تو عام تھی.کوئی ساتویں تو ملتا.ادھر ہم جیل کے شب و روز کے عادی ہو آٹھویں دن ہی ہم بھی اُنکے رنگ میں ڈھلنے لگے چکے تھے.کوئی ایک ہفتے سے اس دڑبے میں ہم تھے.ایک دن تو ایسے ہوا کہ کوئی کھانے کے لئے بند تھے.سارے قیدی واقف بن چکے پوچھنے نہ آیا.کھانا کھائے ہوئے چوبیس گھنٹے گزر تھے.کھانے کا یہ انتظام تھا کہ دن میں دو مرتبہ وہ چکے تھے پانی پی پی کے گزارہ کر رہے تھے.اُسی چھوٹی سی کھڑکی کھول کے پوچھتے کہ کسی نے کچھ روز ایک عربی کو اُسکے گھر والوں نے سالم مرغ منگوانا ہے تو پیسے دے دے.سب پیسے دے روسٹ اور روٹیاں بھجوائیں.وہاں دمشق میں

Page 21

) 21 سالم مرغ روسٹ جسے ہم چرغہ بھی کہتے ہیں بہت کوشش کر رہے تھے لیکن میں نے انہیں روکا کہ عام اور سستا ہے اس لئے بہت کھایا جاتا ہے.سراسر قصور ہمارا ہے.ہمارے گروپ کے نو افراد بہر حال یہ عربی دیوار کی طرف منہ کر کے تیزی میں سے چار بہت سخت جان تھے.صالح تیزی سے دونوں ہاتھوں میں چرغہ دبوچ کے بشارت، جمشید، نصیر تینوں بڑے طاقتور اور کھانے لگا.بھوک کے مارے میری حالت غیر پھر تیلے تھے.ہمارے گروپ میں ہی فیصل ہو رہی تھی میں نے اُسے کہا حبیبی حبیبی انا غریبی.آباد کا ایک نوجوان تو دو افراد پر اکیلا بھاری تھا.مجھے بھی تھوڑا سا دے دو.اُسے سختی سے میرے ذات کا بٹ تھا لیکن صحت میں بٹ برادری کا ہاتھ پہ ہاتھ مار کے مجھے پرے کیا.میں غمزدہ ہو سردار تھا.میں باقی دوستوں کی نسبت سب سے کے خاموش بیٹھ گیا.دوسری طرف ہمارا ساتھی کمزور تھا.ہمارا ایک ساتھی اختر ایک لمبا تڑنگا اور اشرف کا کا بیٹھا ہوا تھا.شاید وہ مجھ سے بھی کڑیل نوجوان تھا جو دل کا نرم تھا لیکن اُسکے قد و زیادہ بھوکا تھا اور اُسنے میرا حشر دیکھ لیا تھا اُسنے قامت کی وجہ سے قیدی اُس سے دبک کے تاڑ کے ایک ہی جھپٹا ایسا مارا کہ اُسکے ہاتھوں سے رہتے تھے.اشرف کا کا، ہلکے جسم کا تھا.پورا چرغہ اچک لیا.کا کے کی اس نازیبا حرکت پر کھانے پہ لڑائی پر ایک بات یاد آئی جو لکھنا ہم سب میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ہم سب نے اپنا نہیں چاہتا لیکن پتہ نہیں کیوں لکھ رہا ہوں اور اپنا حصہ کا کے سے لیا.وہ عربی بھاری وجود کا اور بڑے بوجھل دل کے ساتھ لکھ رہاہوں.ایک دن ظالم آدمی تھا وہ کا کے پر گھونسے برساتا رہا لیکن ایک اور نو جوان کو اس کال کوٹھری میں دھکیلا گیا.کا کے نے ختم کر کے چھوڑا.کاکے کی جان اس سے میں نے پوچھا کہ تم کس جرم میں آئے ہو چھڑانے میں ہم نے بھر پور مدد کی.میرے تو اُس نے بتایا کہ یہاں شام میں ہر نو جوان کے گروپ کے لوگ اُس عربی پر حملہ آور ہونے کی لئے فوج میں دو سالوں کے لئے جبری بھرتی کا.

Page 22

) 22 قانون ہے.مجھے بھی فوج میں جانے کا کہا گیا دعویدار ہیں.ہمیں اس جیل میں کیا ہوتا جا رہا ہے.میرے انکار پر مجھے جیل بھیج دیا گیا ہے اور ہے.کہا گیا ہے کہ پہلے تو دو سال کی آپشن تھی اب جیل میں ہر کوئی ہم سے یہ ضرور پوچھتا تھا کہ تم بطور سزا یا ساری عمر جیل رہو یا ساری عمر فوج سنی ہو یا شیعہ.انکا خیال تھا کہ پاکستان میں میں کسی امیر اور متمول گھرانے کا نوجوان لگ رہا شیعہ سنی ایک دوسرے کو دیکھتے ہی لڑنا شروع تھا.پہلے روز ہی اس نوجوان کے گھر والے اسے کر دیتے ہیں.کوئی ایک ہفتے بعد ہمیں بتایا گیا کھا نا ٹفن میں دے گئے.اس نوجوان نے ٹفن کہ آپ کا کوئی ملاقاتی آیا ہے.ہم بہت خوش پکڑا اور ہم سب سے مخاطب ہو کے کہنے لگا آؤ ہوئے کہ ہماری بھی کوئی عزت ہے.ملاقاتی نے دوستومل کے کھاتے ہیں.اُسکا یہ فقرہ ٹن کے ہم بتایا کہ اُسکا نام تبارک ہے.ہمارا ایجنٹ سب سب حیران ہوئے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کچھ اُسے بتا کر پاکستان فرار ہو گیا ہے.اب وہ صالح بشارت ، اور جمشید نے بیک وقت ایک ہم سے رابطے میں رہے گا اور جلد چھڑوانے کے دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ شخص مسلمان لئے کوشش کرے گا.وہ بہت اچھا آدمی تھا اُسکی نہیں لگتا.شائد وہ کچھ اور کہنا چاہتے تھے.ایجنٹ سے پیسوں کی جو بھی ڈیل ہوئی تھی وہ اُسکا بہر حال کھانا کھایا اُسکا شکریہ ادا کیا اور ذاتی معاملہ ہے لیکن اُسنے ہماری بہت مدد کی.راز داری سے پوچھا کہ کیا تم مسلمان ہو.اُس ایک روز ہمیں بتایا گیا کہ تمارا کوئی ملاقاتی آیا نے کہا میں یہودی ہوں.اب میں کیا لکھوں کہ ہے کھانا لے کے.شام میں ہمارا تبارک کے کیوں ہمیں چپ لگ گئی.سخاوت فیاضی اور علاوہ کوئی واقف نہ تھا سو ملاقاتی کاسن کے ہمیں مہمان نوازی قربانی اور ایثار کے لئے تو ہمارے حیرت ہوئی.میں اُس ملاقاتی کو ملنے گیا.کوئی آباؤ اجداد مشہور ہیں اور ایسی صفات کے تو ہم پاکستانی تھا کھانا ہمیں دے گیا اور باوجود میرے

Page 23

) 23 پوچھنے کے اُس نے اپنا نام نہیں بتایا اور نہ ہی کبھی دوست نے مجھے خبر دار کیا کہ آئیندہ ایسا لفظ منہ دوبارہ نظر آیا.نجانے کون فرشتہ صفت آدمی سے نہ نکالنا ورنہ تمہارا آخری سانس بھی اسی جیل تھا.دنیا میں ہر جگہ اچھے لوگ موجود ہیں اور بہت میں نکلے گا.اُس نے ڈرتے ڈرتے بتایا کہ جس سے ایسے ہیں جو نیکی کرتے ہوئے کبھی سودوزیاں دفتر میں جس گھر میں جس کار میں حافظ الاسد کی نہیں دیکھتے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالی اس تصویر نہ لگی ہو اُس گھر کے سربراہ کو یا قید کر لیا پاکستانی بھائی کو دین و دنیا کی نعمتوں سے جاتا ہے یا ہمیشہ کے لئے وہ غائب کر دیا جاتا ہے نوازے.اس تہہ خانے میں اس کال کوٹھڑی میں.اس جیل کی طرح بہت سی جیلیں صرف دمشق قیدیوں کے درمیان چھوٹی موٹی لڑائی معمول کی میں ہیں.اس نے بتایا کہ اسی جیل میں کئی ایسے بات تھی لیکن ویسے مجموعی طور پر سب اچھے تھے کمرے ہیں جن میں حکومت کے باغی دس دس تعاون کرنے والے تھے.ہمیں ابھی چونکہ ملک پندرہ پندرہ سالوں سے قید تنہائی کاٹ رہے ہیں کی سیاسی صورتحال اور اس کی سنگینی کا علم نہیں تھا.اور کئی ایسے بال ہیں جن میں سینکڑوں قیدی بند اس لئے ایک دن میں نے کہ دیا کہ حافظ الاسد ہیں جنہیں دن میں صرف ایک روٹی دی جاتی ہے اچھا آدمی نہیں ہے.یہ سنتے ہی میرے قریبی اور وہ ڈھانچے بن چکے ہیں.میں نے اُسے بتایا قیدی زرد ہو گئے اور کانوں کو ہاتھ لگا کے تو بہ تو بہ کہ میں نے ایک ہال میں ایسے لوگ دیکھے ہیں جو کرنے لگے اور ایک نے تو اپنے ہاتھ سے میرا ڈھانچے بن چکے ہیں اُس نے کہا یہاں دمشق منہ بند کر دیا.میرے لئے یہ عجیب تھا کیونکہ میں کتنے ہی نجی عقوبت خانے ہیں جہاں سیاسی پاکستان میں ہم سیاسی راہنماؤں سے متعلق اپنی قیدیوں کو بھوکا رکھ کے مارا جاتا ہے.اسنے بتایا رائے گلیوں میں بھی سناتے پھرتے ہیں لیکن کہ خود اُسنے اپنی ٹیکسی میں حافظ الاسد کی تصویر یہاں معاملہ اور تھا میرے ایک عربی قیدی نہیں لگائی ہوئی تھی اُسکی ایک پولیس والے سے

Page 24

) 24 اس موضوع پر اور رشوت نہ دینے پر لڑائی ہوگئی ملک میں ایسا بھی ہوسکتا ہے.ایک قیدی کا جب جسکی وجہ سے اُسے حکومت دشمن قرار دیا گیا اور میں نے تفصیلی انٹرویو لیا تو اُس کے حالات سن اب وہ چھ سال سے اسی عمارت کے مختلف کمروں کے میرے ہوش اڑ گئے اُس پہ اور اسکے گھر میں قید ہے اس نے بتایا کہ جب اُسے پکڑا گیا تھا والوں پہ اسکے بہن بھائیوں پہ اتنا ظلم ہوا تھا کہ انہیں لکھنا کتاب کی تو پلائر کے ساتھ اُسکے ہاتھوں اور پاؤں کے ہیں کے میں ناخن کھینچ لئے گئے تھے.اُسنے بتایا کہ ایک دن اسکے سامنے چھت پر ایک حرمت کے خلاف ہے.اُس دن کے بعد میں نے خاموشی اختیار کر لی لیکن میں دل ہی دل میں دعا کر ملزم کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر پانچویں رہا تھا کہ یا اللہ ان جیلوں کو ان زندانوں کو توڑ منزل سے اُسے نیچے دھکا دے دیا گیا جہاں سے دے جس میں بے گناہ لوگوں کو اذیتیں دی گر کے وہ ہلاک ہو گیا.ایک قیدی نے بتایا کہ جارہی ہیں.حافظ الاسد کی حکومت نے اس ایک دن اُسکے سامنے چار نوجوان اُسکے کمرے وقت اپنے تمام مخالفین کو سیاسی قیدی بنایا ہوا ہے میں لائے گئے اور فوجیوں نے انہیں ٹھوکریں مار اور زیادہ امید یہی ہے کہ یہ سیاسی قیدی اُس وقت مار کے اور اُن کے سر دیوار سے شیخ شیخ کے بلاک رہا ہوں گے جب انہیں اپنی ہوش نہیں ہوگی لیکن کر دیا.خدا جانے اُن کا قصور کیا تھا.اس کے علاوہ ان کے بچے آزاد ہیں کسی نہ کسی دن وہ اس کے اُسنے اتنے واقعات بتائے کہ میں خوف اور خلاف بغاوت ضرور کریں گے.اس طرح دہشت کے مارے دنگ رہ گیا کہ ایک اسلامی خوفزدہ کر کے کچھ سال تو لوگوں کو خاموش رکھا

Page 25

) 25 جاسکتا ہے یا شاید کچھ سو سال خاموش رکھا جاسکتا معلومات حاصل کیں.اقوام متحدہ کو شائد ان تہہ ہے لیکن ہمیشہ کے لئے نہیں.کچھ قیدی تسلیم خانوں کا علم نہیں ہے یا شاید وہ کسی مصلحت کے کرتے تھے کہ ہم لوگ اتنے بے قابو ہو چکے ہیں تحت خاموش ہیں خدا ہی بہتر جانتا ہے.میں یہ کہ ہمیں ایسے ہی حکمران چاہیں اور ان ممالک سوچ رہا تھا کہ اگر اس جیل سے چھوٹ گیا تو آزاد میں کوئی نرم دل حکمران کامیاب نہیں ہو سکتا.لوگوں کے نام ایک خط ضرور لکھوں گا اور انہیں ایک قیدی غالباً عراق کا رہنے والا تھا اسنے بتایا کہوں گا کہ اگر آپ دمشق کی جیل میں نہیں ہیں تو کہ عراق میں بھی یہی صورتحال ہے اور سمجھئے کہ آپ جنت جیسی جگہ میں بیٹھے ہوئے وہاں صدام حسین کے مخالفین کو زیر زمین رکھا جاتا ہیں.کیا آپ اپنی مرضی سے اُٹھ بیٹھ سکتے ہیں.ہے اور اُسکے بڑے بیٹے اودی نے اودھم مچایا کیا آپ چند گز تک اپنی مرضی سے ٹہل سکتے ہیں ہوا ہے.یہ سب باتیں میں نے وہاں قیدیوں کیا آپکو دال روٹی کھانے کو میسر ہے.اگر آپ کا سے سنیں.کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ہے اور کون جواب ہاں میں ہے تو یقین کریں آپ جنت میں ظالم ہے اور کون مظلوم یہ صرف اللہ تعالی کی ذات بیٹھے ہوئے ہیں ناشکری نہ کریں.پھر سوچئے کیا ہی بہتر جانتی ہے میں صرف جیل میں قیدیوں سے آپ کو پانی پینے کے لئے ٹائلٹ میں جا کے ٹونٹی حاصل معلومات آپ جیسے آزاد لوگوں کو پہنچا رہا سے منہ لگا کے پانی پینا پڑتا ہے.کیا آپ پچھلے ہوں.یہ قیدی عام طور پر کوئی معلومات دینے چوبیس گھنٹے سے بھوکے ہیں.کیا آپکے ہاتھوں سے گھبراتے تھے لیکن میں نے انہیں اعتماد میں میں ہتھکڑیاں ہیں.کیا آپ ایک ایسے کمرے لے کے اور انہیں یقین دلا کے کہ میں صحافت کا میں بند ہیں جس میں چالیس پچاس مجرمان یا طالبعلم ہوں اور یہ باتیں اپنے ملک واپس جا ملزمان بند ہیں اور سگریٹ نوشی کر رہے ہیں.اگر کے کسی طرح لکھنا چاہتا ہوں ، اُن سے یہ آپ کا جواب ہے ”نہیں“ تو میں آپکو یقین دلاتا

Page 26

) 26 ہوں کہ آپ جنت میں بیٹھے ہوئے ہیں.صحت و ہے.ہم اپنے ہاتھوں سے دن رات اپنے لئے تندرستی خیر و عافیت اور سوچ اور عمل کی آزادی دکھ کی نہریں کھود رہے ہوتے ہیں.ہم نے جنت جیسی نعمتیں ہیں ان کی قدر کریں.اسی جیل قناعت کا دامن چھوڑ کے خود ہی اپنے لئے میں، میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ یہ تو سلاخوں والی حسرتوں کے پھندے بنالئے ہیں کہ جب تک ہو جیل ہے بہت سی ایسی جیلیں بھی ہیں جو سلاخوں فلاں فلاں کام نہیں ہو جائے گا ہم خوش نہیں.کے بغیر ہیں.ہم میں بہت ہے جو اپنی خواہشوں سکتے انسانی حسرتیں اور خواہشیں کبھی پوری نہیں ہو کے قیدی ہیں، اپنے نفس کے قیدی ہیں اور اپنے سکتیں اور دنیا کی محبت سمندر کے پانی کی طرح ہی بنائی ہوئی مجبوریوں کی جیلوں میں قید ہیں.ہے جتنا پیتے جاؤ گے اتنا ہی پیاس بڑھے گی.بہت سے اپنے ضمیر کے قیدی ہیں.کئی مزدور ایک بادشاہ اپنے درباریوں اور غلاموں کے اپنے آجروں کی قید میں ہیں.کئی گھروں میں بہو ساتھ ایک وسیع وعریض علاقے میں پھر رہا تھا بیٹیاں قیدیوں کی زندگی بسر کر رہی ہوتی ہیں اور جہاں حد نظر زمینیں ، فصلیں باغات چشمے اور گل و محض اپنے والدین کی خوشی کے لئے ساری عمر گلزار مناظر تھے.اُسنے اپنے ایک غلام کی کسی ایک خاموش قید کاٹتی رہتی ہیں.آزادی بہت بات پر خوش ہو کہ کہا کہ مانگو کتنی زمین مانگتے ہو.بڑی نعمت ہے یہ نعمت، یہ حق کسی سے نہ چھینٹے.غلام نے کہا آپ کتنی زمین دے سکتے ہیں.دیکھئے اور سوچئے کہ کہیں کوئی آپکی قید میں تو نہیں بادشاہ نے کہا کہ یہ لو چھڑی اور اس سے زمین پر ، ہے.سچ بات تو یہ ہے کہ اگر ہم اپنی خواہشات سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے ایک دائرہ بنالو اس کے جن پر قابو پالیں تو بہت سی قیدوں سے رہائی دائرے میں جتنی زمین اور باغات ہوئے مل سکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے ہماری زندگی اتنی تمہارے.اب غلام نے دائرہ بنانا شروع کیا اور مشکل نہیں بنائی تھی جتنی ہم نے خود اپنے لئے بنالی ہر باغ کو دیکھ کے اُسکا دل چاہا کہ اُسے بھی اپنے

Page 27

) 27 دائرے میں شامل کر لے یوں لالچ میں آکے ہوئے اپنی موت سے بھی مشورہ کر لیا جائے جو و و دائرہ بڑا کرتا گیا.سورج ڈھلنے کے قریب تھا اس دائرے کے اختتام پر بازو پھیلائے ہمارے اب دائرہ مکمل کرنے کے لئے وقت کم رہ گیا تھا استقبال کے لئے کھڑی ہوتی ہے.کہتے ہیں کہ سو اُس نے اور بھی تیز تیز بھاگنا شروع کر دیا ایک آدمی اپنے دنیا کے کاموں میں مصروف اور تاکہ زیادہ سے زیادہ جگہ کا مالک بن سکے.پھر مستقبل کے خواب بننے میں مصروف تھا کہ موت سورج ڈھل گیا وہ غلام گرتے پڑتے اکھڑی کا فرشتہ سامنے آکھڑا ہوا جسکے ہاتھ میں ایک سانسوں کے ساتھ دوڑتے دوڑتے اُس مقام پہ صندوق تھا.موت کے فرشتے نے کہا چلو بھائی پہنچ گیا جہاں سے دائرہ شروع کیا تھا یہاں پہنچ زندگی تمام ہو گئی ہے.اُس آدمی نے خوفزدہ اور کے غلام گرا اور دم توڑ گیا.دائرہ مکمل ہو چکا تھا اُکھڑی ہوئی سانسوں سے کہا کہ تم نے مجھے کوئی بادشاہ نے درباریوں کو کہا جس جگہ یہ گرا ہے یہیں وارننگ نہیں دی ابھی تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اسکی قبر بنادو.اتنی ہی زمین اسکی تھی یا اتنی ہی زمین کہ تم آ جاؤ گے ابھی تو میرے سارے کام کی اسکو ضرورت تھی یونہی اس نادان نے اتنی میرے سارے خواب ادھورے ہیں.موت تکلیف اُٹھائی.دمشق کے تہہ خانوں میں مجھے کے فرشتے نے کہا کہ ہر روز دنیا میں ہزاروں لوگ لگا کہ ہم بھی اپنی خواہشوں کے غلام ہو کے غلام لمحوں میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں قبرستانوں کے گردشوں میں گھوم رہے ہیں.اپنی خواہشوں کے شہروں کے شہر آباد ہیں اس سے بڑی اور کیا دائرے بڑے کرتے جا رہے ہیں اور ہماری وارننگ دیتے.اُس آدمی نے کہا کہ میرے بیوی موت ہم سے کچھ دور کھڑی ہماری بے سود بچے میرے بغیر کچھ نہیں کر سکتے وہ غم سے مر مشقتوں کو دیکھ کے مسکرا رہی ہوتی ہے.عقلمندی کا جائیں گے.فرشتے نے مسکراتے ہوئے کہا یہ تقاضہ یہ ہے کہ خواہشوں کا دائرہ بڑا کرتے تمہارا وہم ہے.کوئی کسی کے بغیر نہیں مرتا اور

Page 28

) 28 تمہارے بغیر بھی سارے کام ہو جائیں گے.سینکڑوں لوگوں کا خون کر رہے ہیں.واپس تہہ اس پر اُس آدمی نے تعجب سے پوچھا کہ اس خانے میں چلتے ہیں.تہہ خانے میں موجود صندوق میں کیا ہے.فرشتے نے کہا تمہاری ہماری جیل کی جگہ اتنی تنگ تھی کہ مجھے سانس کی جائیداد جو تمہارے ساتھ قبر میں جائے گی.اس تکلیف ہو گئی.میرا دل چاہتا تھا کہ کسی طرح پر اس شخص نے پوچھا کیا اس میں میرے مکانوں جیل میں ہی مجھے کسی کھلی جگہ پر دس منٹ کے لئے اور زمینوں کے کاغذات ہیں.فرشتے نے کہا کہ لے جائیں لیکن وہاں سننے والا کوئی نہیں تھا.وہ مکان وہ زمینیں کبھی بھی تمہاری نہیں تھیں تمہیں ہمارے ساتھ ایک فرانسیسی نوجوان انٹونی بھی دھو کہ لگا ہوا تھا تم صرف اُنکے چوکیدار تھے.تو قید تھا جس کے متعلق قیدیوں نے ہمیں بتایا تھا کہ پھر اس صندوق میں میری کونسی جائیداد ہے آدمی وہ پچھلے کئی سالوں سے اسی جیل میں ہے.ہماری نے پوچھا.فرشتہ کہنے لگا اس میں وہ ہے جو تم نے رائے میں وہ پاگل تھا یا کم از کم جیل میں رہ کے اچھے کام کئے جو نیک اعمال آگے کے لئے جمع پاگل ہو چکا تھا لیکن پولیس والوں کا کہنا تھا کہ وہ کئے اور افسوس کہ تمہارا یہ صندوق خالی ہے اور اسرائیلی جاسوس ہے اور پاگل ہونے کی یہ آخری فقرہ تھا جو تم نے اس دنیا میں سنا.اداکاری کر رہا ہے.انٹونی کوئی تیس برس کا یہ تو ایک کہانی تھی لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہم نوجوان ہوگا.کبھی صحیح باتیں کرتا تھا تو کبھی پاگلوں انسانوں نے سادگی کی زندگی چھوڑ کے اپنے لئے جیسی حرکتیں.وہ جس کے پاس جا کے سونے کی بڑی بڑی مشکلات پیدا کر لی ہیں.اور بہت سے کوشش کرتا تھا سب اُس سے بھاگتے تھے یا حکمران ہیں جو اپنی کرسی اور اقتدار پر قابض اُسے دھکے دیتے اور مارتے تھے.داراصل رہنے کے لئے بڑے ظلم ڈھا رہے ہیں اور صرف اُسنے دو تین دفعہ رات کے وقت اپنے ساتھ اس خوف سے کہ کسی دن وہ قتل نہ ہو جائیں سوئے ہوئے آدمی کا گلہ دبانے کی کوشش کی تھی.

Page 29

) 29 ایک دفعہ ہم سوئے ہوئے تھے کہ ہمارے اوپر ہو گیا.ہم سب یہ دیکھ رہے تھے ہم انٹونی کو بچانا پانی گرنا شروع ہو گیا.اُٹھ کے دیکھا تو ہمارے چاہتے تھے لیکن سب سر جھکائے خاموش بیٹھے چھوٹے سے کمرے کے بیچوں بیچ انٹونی کھڑے تھے.اس طرح کے تکلیف دہ واقعات ہوتے ہو کے پیشاب کر رہا تھا اور ایسے گھوم کے کر رہا تھا رہتے تھے لیکن ایک دن حد ہوگئی.ایک فوجی کہ سب کو سیراب کر رہا تھا.عربی قیدی اُسے اندر آیا اور آتے ہی انٹونی کے پیٹ میں ٹھوکر مارنے کو لپکے لیکن ہم نے اُسے اُن سے بچا یا خود ماری.دروازہ کھلا رہ گیا تھا.انٹونی نے باہر نکلنے کو اور انٹونی کو صاف کیا.اُسے بٹھا کے جو میسر تھا کی کوشش کی جس پر فوجی نے ہنستے ہوئے انٹونی کھانا کھلایا پانی پلایا اور اُسے یقین دلایا کہ کوئی کے منہ پہ ایک اور زور دار ٹھوکر رسید کی.انٹونی اُسے نہیں مارے گا پھر وہ ہمارے درمیان تسلی نجانے کتنے سالوں سے یہ سب کچھ سہتا آرہا تھا سے سو گیا اور ساری رات اُسنے کسی کو تنگ نہیں کیا اُس دن اُس کا میٹر گھوم گیا.اُسنے اُچھل کے.شامی سپاہی جب بھی ہمارے کمرے میں آتے ایک ایسی فلائنگ لک اُس فوجی کے سینے پر ماری انٹونی کو ہنستے ہنستے دو تین ٹھڈے ضرور مارتے کہ وہ دھرا ہو گیا اور پھر دونوں گتھم گھتا ہو گئے.بڑی مشکل سے دونوں کو الگ کیا اور وہ شامی فوجی گالیاں نکالتا ہوا باہر نکل گیا.ہم سب انٹونی کے لئے پریشان ہو رہے تھے.زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ باہر فوجی بوٹوں کی دھڑ دھڑ کی آواز سنائی دی.اب کی بار وہ پانچ چھ فوجی تھے انٹونی تھے.بلکہ ایک دن تو ایک فوجی نے اُسے منہ پر کو اُٹھا کے سامنے والے بال کمرے میں لے ٹھڈے مارے جس سے اُس کا منہ لہولہان گئے جہاں تشدد کیا جاتا تھا.ہمارے کمرے سے

Page 30

) 30 باہر جھانکنے کے لئے صرف ایک مربعہ فٹ کی اُس پر کوڑے برسائے گئے تھے.انٹونی سلاخوں والی کھڑکی تھی جس پر پہلے ہی دوڑ کے میرے ساتھ بے ہوش بڑا تھا اور میں اپنے آپ عربی قیدی پہنچ گئے.سچ بات ہے کہ ہمارے دل کو دنیا کا سب سے بے بس انسان پا رہا تھا.ہم خون کے آنسو رو رہے تھے.پھر تھوڑی ہی دیر انٹونی کا جسم دباتے رہے اُسکے منہ میں پانی میں جیل کی پوری عمارت انٹونی کی دلدوز چینیوں ڈالتے رہے.گو وہ تشدد براہ راست ہمارے سے لرز اُٹھی.پندرہ میں منٹ کا وہ وقت جسموں پر نہیں ہوا تھا لیکن یقین کریں تکلیف ہمارے لئے بہت دشوار تھا.میں منٹ کے بعد اُس سے بھی زیادہ تھی.میری اپنی حالت اُس وہ انٹونی کو بے ہوشی کی حالت میں کمرے میں دن غیر تھی.بخار سے میرا جسم تپ رہا تھا، سانس پھینک گئے.انٹونی کے منہ سے اور ناک سے لینے میں دشواری تھی اور میرے ساتھ لہو لہان خون بہہ رہا تھا.اُسے بہت شدید طریقے سے انٹونی کسی دوسال کے بچے کی طرح بلک بلک کے رورہا تھا اور نیم بے ہوش تھا.میں سوچ رہا تھا مارا گیا تھا ایک عربی جو کھڑ کی میں سے دیکھنے میں کامیاب ہو گیا تھا اُسنے بتایا کہ ظالموں نے انٹونی کو ٹائر میں ایسے ڈالا ہوا تھا کہ اُسکے دونوں پاؤں اور سر بیک وقت ایک ٹائر میں تھے اور پھر کہ نجانے یہ کس کا بیٹا ہے کس کا بھائی ہے.مجھے لگ رہا تھا کہ جنت دوزخ تو آخرت کی زندگی میں ہوں گی لیکن انسانوں نے اپنے ہاتھوں سے دنیا کو دوزخ ضرور بنایا ہوا ہے.اذیت صرف یہ نہیں ہوتی کہ آپ کے جسم پر چوٹیں ہوں بلکہ اذیت یہ بھی ہے کہ آپ کے سامنے کسی پر ظلم کیا جارہا ہو اور آپ کچھ نہ کر سکتے ا ہوں سوائے خاموش رہنے کے.انٹونی کی

Page 31

) 31 حالت اگلے دن اور بھی خراب ہو گئی.میرے بتایا کہ ایجنٹ نے انہیں کہا تھا کہ دو دنوں میں وہ ساتھیوں صالح ، جمشید اور نصیر نے عربی قیدیوں جرمنی ہوں گے اس لئے وہ اس حالت میں بھی کے ساتھ مل کے پروگرام بنایا کہ اب جب وہ سفر پر نکل پڑے تھے.اگلے دن معلوم ہوا کہ فوجی جس نے انٹونی کو مارا تھا اندر آئے تو اللہ تعالی نے انکی اہلیہ کو بیٹی سے نوازا ہے.ہم دروازہ اندر سے بند کر کے اُسے خوب مارا جائے سب بہت خوش ہوئے.اپنے اس دوست کو نتائج چاہے کچھ بھی ہوں.انٹونی کی حالت دیکھ مبارکباد دی اور تسلی دی.اُنکا نام میں جان بوجھ کے دل میرا بھی یہی چاہتا تھا لیکن میں نے اپنے کے نہیں لکھ رہا.تاہم اُن کے حوصلے اور صبر کی دوستوں کو صبر اور دعا کی تلقین کی.ہمارے کچھ میں داد دیتا ہوں.بڑے صبر سے انہوں نے دوست ہم سے زیادہ اذیت میں مبتلا تھے.ایک وقت گزارا.دو دنوں بعد ہمیں خبر دی گئی کہ بچی دوست کی اہلیہ امید سے تھیں اور آجکل میں ماں اللہ کو پیاری ہوگئی ہے اور اُسکی تدفین کر دی گئی بننے والی تھیں وہ عورتوں کی جیل میں تھیں اور پچھلے ہے.ہم سب پر یہ خبر بجلی بن کے گری.بچی فوت آٹھ دنوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا.ایک دوست کی کیسے ہوگئی ؟ کون تدفین کر کے آیا ہے؟ کہاں بزرگ والدہ جو بیمار تھیں وہ بھی عورتوں کی جیل تدفین ہوئی ہے؟ ہمارے سوالوں کے جوابات میں تھیں.اسکے علاوہ دو دوستوں کے بیوی بچے کسی کے پاس نہیں تھے.پھر ایک روز ہمیں بتایا عورتوں کی جیل میں تھے اور کوئی رابطہ نہیں تھا.گیا کہ آج ہمارے گروپ کی عورتوں کو بھی بلوایا سب سے زیادہ میرا وہ دوست پریشان تھا جسکی جا رہا ہے اور سب کا انٹرویو ہو گا.صبح کوئی دس بجے اہلیہ امید سے تھیں کیونکہ تین چار دن اوپر ہو چکے کے قریب ہمیں کوٹھڑی سے نکالا گیا اور اوپر ایک تھے.یہ دوست بہت ہی پیارے اور مہذب اور کمرے میں بٹھایا گیا جہاں خواتین اور چھوٹے ہم سب سے زیادہ شائستہ آدمی تھے.انہوں نے بچے موجود تھے.خواتین زار و قطار رو رہی تھیں.

Page 32

) 32 اسکے بعد ہمیں کوئی تین منزلیں اوپر لے جایا گیا.خاوند بھی اور صالح بشارت ، جمشید ، نصیر وسیم ہمارے ساتھ اُن خواتین کو بھی سیڑھیاں چڑھنی سب اُن پولیس افسران کے سامنے بولنے لگے پڑیں جنہیں شاید دو قدم بھی نہیں چلنا چاہئے تھا.بلکہ صالح بشارت تو اُس پولیس افسر کے راستے میرے دوست اختر کا سب سے چھوٹا بیٹا میں نے میں آکھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ صرف خاتون پولیس اُٹھایا ہوا تھا.اوپر ایک بڑے کمرے میں ہمیں والی ہی اسے لے کے واش روم جاسکتی ہے.دیوار کے ساتھ لگ کے کھڑا ہونے کا حکم دیا گیا.صالح بشارت غالبا لا ہور کا رہنے والا نو جوان تھا.ہمارے ایک دوست کی اہلیہ نے کہا کہ وہ واش دمشق میں قید کے اس سارے عرصے میں وہ روم جانا چاہتی ہیں.دو بد تمیز قسم کے سپاہیوں ہمارے لئے حو صلے اور عزم کا باعث رہا.نہ کبھی نے اُسے پکڑا اور ساتھ لے جانے لگے.اس پہ خود خوف زدہ ہوتا تھا نہ کسی کو ہونے دیتا تھا بلکہ ہم سب نے احتجاج کیا کہ ہمیں خواتین پولیس حوصلہ دلاتا تھا.اب ہم سارے احتجاج کر رہے افسران نظر آ رہی ہیں وہ لے کے جائیں.لیکن تھے.یہ بات اُن کے لئے ناقابل قبول تھی وہ تو انہوں نے نہ سنا اس پر میں نے زیادہ اونچی اُس جگہ کے فرعون تھے.کمرے میں ایک شور مچ آواز میں کہا کہ نہیں یہ صرف خاتون پولیس افسر گیا اور پھر بڑے افسر نے خاتون پولیس والی کو اف کے ساتھ تہہ خانے میں موجود واش روم میں بلا کے کہا کہ اسے واش روم لے جائے.جائے گی.اس پہ ایک شامی پولیس والے نے کمرے کا ماحول بظاہر پرسکون ہوا لیکن ہمیں مجھے دو تین تھپڑ رسید کئے لیکن میں نے اپنا معلوم تھا کہ اس خاموشی کے بعد کوئی طوفان آنے احتجاج جاری رکھا اور کہا کہ کسی صورت میں یہ والا ہے.کوئی چار پانچ منٹ تک خاموشی طاری خاتون مرد پولیس والوں کے ساتھ نیچے تہہ خانے رہی.میں نے ابھی تک اختر کا بیٹا اُٹھایا ہوا تھا.میں نہیں جائے گی.اتنے میں اُس خاتون کا سب کو دیوار کے ساتھ کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا

Page 33

) 33 پھر دو جلا دو قسم کے سپاہی ہاتھوں میں ڈنڈے تکلیف اُٹھانے کے لئے چن لیا گیا تھا.اختر گھماتے ہوئے آگے بڑھے اور کمرے کے عین جس کا پھولوں جیسا بچہ میں نے اُٹھایا ہوا تھا وہ بیچوں بیچ مجھے لا کھڑا کیا.میز کی دوسری جانب یہ منظر برداشت نہ کر سکا.اُسکو ایک جان لیوا قسم بیٹھے افسر نے کچھ کہا اور مجھے معلوم ہو گیا کہ مجھے کا ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ دھڑام سے بے جان سے سختی سے پوچھ گچھ کی اجازت دے دی گئی تختے کی طرح زمین پر گر کے بے حس و حرکت ہو ہے.ایک سپاہی نے ڈنڈا لہراتے ہوئے مجھے گیا.یہ دیکھتے ہی ہم سب تمام مصلحتوں کو بالائے حکم دیا کہ میں بچہ اُسکے باپ کے حوالے کر طاق رکھتے ہوئے اُسکی جانب لپکے.پولیس دوں.کمرے کا ماحول اور پولیس والوں کے والے بھی اسکی جانب دوڑے.پہلے تو وہ سمجھے مزاج دیکھ کے مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ آج میرے کہ اختر بہانہ کر رہا ہے اور لگے گالیاں دینے لئے مشکل دن ہے.میں نے بچہ چھوڑنے سے لیکن اختر کی نبضیں ڈوب رہیں تھیں جیل کے انکار کر دیا.سپاہی نے میری کمر پر دو ڈنڈے ڈاکٹر کو بلایا گیا جس نے تصدیق کی کہ زندگی ایسے مارے کہ میرے وجود میں ناقابل موت کا مسئلہ ہے فوراً ہمیں واپس تہہ خانے برداشت دردیں اُٹھیں.سپاہی چینجا بچے کو چھوڑو میں اور اختر کو بذریعہ ایمبولینس ہسپتال روانہ کیا چھوڑو چھوڑو.مجھے لگ رہا تھا کہ جب تک یہ بچہ گیا.اگلے دو روز ہمیں کچھ علم نہیں تھا کہ اب کیا میرے پاس ہے میں بچا ہوا ہوں سو اس سپاہی ہونے والا ہے.پھر ہمیں بتایا گیا کہ کل پھر سب کے چیخنے چلانے اور غرانے کے باوجود میں نے کے انٹرویو ہوں گے تیار رہیں.بچہ نہیں چھوڑا.اور پھر میرے سارے ساتھی گواہ وہ ساری رات میں خوف کے مارے سونہ پایا ہیں کہ یکدم ایسا ہوا جیسا فلموں اور ڈراموں میں.اگلے دن وہی کمرہ تھا لیکن ایک تبدیلی تھی.وہ ہوتا ہے.میری جان بخشی کے لئے کسی اور کو یہ کہ پاکستانی ایمبیسی سے کوئی آدمی آیا ہوا تھا.

Page 34

) 34 ہمارے باہر والے دوست تبارک نے پاکستانی میں سہگل کا وہ دردناک گانا سنایا ے ایمسیسی کو خبر کر دی تھی اور شامی پولیس سے اُنکا اے کاتب تقدیر مجھے اتنا بتا دے رابطہ ہو گیا تھا.تفتیش کے دوران ہم نے ایمبیسی کیوں مجھ سے خفا ہے تو ، کیا میں نے کیا ہے کے آدمی کو ساری بات بتائی جس پر اُسے یقین ہو ایک اور پاکستانی شخص جو کئی سالوں سے دمشق گیا کہ ہم تو خود مظلوم ہیں.اُس نے شامی پولیس کے تہہ خانوں میں قید تھا اسکی آواز بہت اچھی تھی کی تسلی کروا دی اور پھر ہمیں تسلی دی کہ اب شامی اُسنے ہمیں پاکستان کے ملی نغمے سنائے جنہیں لیس کو یقین ہو گیا ہے کہ ہم سب پاکستانی ہی سن کے دل غم سے بھر گیا کہ واقعی ہمارا اپنا دیس ہیں ہم میں سے کوئی اسرائیلی جاسوس نہیں ہے اور ہمارا وطن کتنا خوبصورت ہے اس کے لوگ کتنے نہ ہی اصل ایجنٹ ہم میں موجود ہے.ہمارے خوبصورت اور محبت کرنے والے ہیں لیکن بعض سوٹ کیس اور ہمارا سارا سامان بھی ہوٹل سے مفاد پرست مذہبی دکانداروں اور سیاسی شعبدہ منگوا کے چیک کر لیا گیا تھا اور سارے شواہد ہمیں بازوں نے ہمارے وطن کا چہرہ اس طرح بگاڑ بے قصور ثابت کر رہے تھے.ہمیں بتایا کہ کل دیا ہے کہ لگتا ہی نہیں ہے کہ یہ وہ ملک ہے جسکا ہمیں عدالت میں پیش کیا جائے گا.خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا.ایسے ہمارے لئے یہ خوشی کی اتنی بڑی خبر تھی کہ اُس حالات سے تنگ آ کے مجھ جیسے کئی نوجوان دیار دن جب ہم اپنی کوٹھٹری واپس پہنچے تو ہمیں لگا غیر کو نکل جانے کا سوچتے ہیں اور راستوں میں کہ ہم کسی فائیو سٹار ہوٹل میں آگئے ہیں.سب ایسی تکلیفیں اٹھاتے ہیں جن سے ہم گزر رہے نے خوب پیسے نکال کے بہترین کھانا منگوایا.تھے.اس جیل میں اپنے گروپ میں نے ابھی سپاہیوں کو پیسے دے کے قہوے کا آڈر کیا خود بھی تک بشارت صالح، جمشید ،نصیر اور اشرف کا کے کا پیا اور سب کو پلایا.نصیر نے اپنی خوبصورت آواز ذکر کیا ہے اسکے علاوہ بھی ہمارے کچھ دوست

Page 35

) 35 تھے.بعض کا نام مصلحتاً نہیں لکھ رہا.ایک تھے ملا تھا.بات ہو رہی تھی جیل کی تو کچھ ہی دنوں میں وسیم صاحب.وسیم دبلے پتلے جسم کا لیکن بہت جیل میں ہم عربی قیدیوں سے گھل مل گئے اور ٹوٹی صابر نو جوان تھا.کھانا ملے نہ ملے نماز اُسنے وقت پھوٹی انگلش اردو عربی میں ایک دوسرے کو لطیفے پر پڑھنی ہوتی تھی.پریشانی اُسے چھو کے نہیں سناتے تھے ایک روز صبح صبح دروازہ کھلا اور مجھے گئی تھی.جیل میں وہ ایسے مزے سے رہتا تھا اور میرے ایک ساتھی نصیر کو باہر بلایا گیا.ہمیں جیسا اُسے پتہ ہو کہ یہ تو پہلے سے ہی تقدیر میں لکھا ایک بڑے ہال کے سامنے لے گئے اور بتایا ہوا تھا.جس طرح میں ہر موقع پر دوستوں کو کہتا تھا کہ اسکے اندر کوئی گٹر بلاک ہو گیا ہے جسکی وجہ کہ شائد اس میں بھی خدا کی کوئی بہتری ہوگی.سے سارا ہال پانی سے بھر گیا ہے ہمیں اُس ہال وسیم بھی ہر وقت صبر کی تلقین کرتا تھا.ایک دو میں گھر کھولنا ہے.یہ کہہ کے ہم دونوں کو اس دوست تھے جو ہمیں خوفزدہ کرنے میں پیش پیش تاریک ہال میں بھیج دیا گیا جس میں گھٹنے گھٹنے تھے اور کہتے رہتے تھے کہ شاید اب ہم اسی جیل بدبودار اور سیاہ پانی کھڑا تھا.ہال میں بہت مدھم میں دم تو ڑیں گے.روشنی تھی.اوپر ہمیں بجلی کے پرانے پرانے میٹر اس جیل میں اور بہت کچھ دیکھنے کو ملا.بہت اور تاریں نظر آ رہی تھیں.اندھیرا تنا تھا کہ ہم سے واقعات میں جان بوجھ کے نہیں لکھ رہا.یہ دونوں ایک دوسرے کو بمشکل دکھائی دیتے تھے.بھی ممکن ہے کہ شام کے لوگ بہت پیارے ہوں ڈرتے ڈرتے ہم نے ٹراؤزر اوپر کئے اور ایک وہاں بہت انصاف ہو.وہاں کی حکومت بہت دوسرے کا ہاتھ پکڑ کے ہال کے گندے پانی میں اچھی ہو وہاں کا نظام بہت اچھا ہو اور رعایا حافظ پاؤں ڈال دیئے.انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ الاسد سے بہت پیار کرتی ہو لیکن بدقسمتی سے ہمیں ہال کے چاروں کونوں میں گٹر کے پائپ ہیں اور صرف ملک شام کا صرف تاریک پہلو ہی دیکھنے کو ان میں سے کوئی ایک یا سارے ہی بلاک

Page 36

) 36 ہیں.ہال کو باہر سے بند کر دیا گیا تھا اور اب ہم دو اور ایک کمرے میں کوئی چالیس لوگ تھے اس دوست ایک تاریک ہال میں گٹر کی تلاش میں لئے اس یخ بستہ سردی سے پالا نہیں پڑا تھا.تھے ساتھ ساتھ ہم ہنس بھی رہے تھے اور میں یہاں ہم عام گراؤنڈ فلور پر تھے اور سردی کے نصیر کو چھیڑ رہا تھا کہ اور جاؤ جرمنی.ایک دو بار ہم جھونکے ہمیں منجمد کر رہے تھے.دن بھر تبارک پھسلے اور سر سے پیر تک پانی میں شرابور اور کالے ہمارے ساتھ عدالت میں رہا اور ہمیں تسلیاں دیتا ہو گئے.کوئی ایک گھنٹے کے بعد آخر کار ہم وہ رہا.چھ بج گئے.عدالت کی لائٹیں آف ہونا بلاک گٹر کھولنے میں کامیاب ہو گئے اور اتنے شروع ہو گئیں.تبارک کہیں رفو چکر ہو گیا.پولیس خوش ہوئے گویا ہم نے مریخ پر راکٹ اُتار لیا والے آئے ہمیں کہا کل عدالت میں حاضری ہے.نصیر صاحب بڑے فخر سے کہہ رہے تھے کہ ہوگی.کل تک یہیں کہیں لاک اپ میں رہنا میرے علاوہ کوئی یہ گڑ نہیں کھول سکتا تھا.ہوگا.وہاں سے ہمیں نکال کے اُس سے بھی بہر حال گھر کھولنے کے بعد بال کے صفائی کرتے زیادہ ٹھنڈے سلاخوں والے کمرے میں بند رہے پھر دروازہ اندر سے پیٹتے رہے کہ بھائی کر دیا گیا.اس بڑے سے ہال کمرے کے ایک ہمیں باہر نکالو.آخر انہوں نے ہمیں باہر نکالا طرف دیوار تھی اور باقی تین اطراف میں سلاخیں نہانے کو جگہ دی.پھر وہ دن بھی آگیا جب ہمیں تھیں.جوں جوں شام بڑھتی گئی سردی کی شدت اس عمارت سے نکال کے فوجی ٹرک میں ڈالا گیا میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا.سردی سے زیادہ اور عدالت لے جایا گیا.اس سارا دن ہماری ہمیں بھوک ستا رہی تھی.ہمارے ساتھ کوئی پیشی کی باری ہی نہیں آئی.بھوک سے سب کا پندرہ میں شامی ملزمان بھی بند تھے.اُنکے عزیز بہت برا حال تھا.پھر لاک اپ میں سردی بہت جاتے جاتے انہیں کوئی روٹی وغیرہ دے گئے زیادہ تھی.اس سے پہلے ہم تہہ خانے میں تھے تھے.ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا.سوصبر کر کے

Page 37

) 37 ہم خاموش بیٹھ رہے.یہ کمرہ کافی بڑا تھا اور عین میں لیٹ کے سونے کی کوشش کرنے لگے.رات ہواؤں کی زد پہ تھا جسکی وجہ سے سردی بڑی تیزی کے کوئی ایک دو بجے کا عمل ہو گا کہ دروازہ کھلنے کی سے بڑھ رہی تھی.ہمارے ساتھ والے کمرے آواز سے ہم چوکنا ہو گئے.تین چار سپاہی اندر میں ایک ماں بیٹی کو بھی قید کیا گیا تھا.دونوں داخل ہوئے اور ان ماں بیٹی کی طرف کمروں کے درمیان سلاخیں تھیں یا یوں کہہ لیں بڑھے.لڑکی اور اُسکی ماں نے زارو قطار رونا کہ ایک بڑے ہال کو سلاخیں لگا کے دو کمرے شروع کر دیا.سپاہیوں نے لڑکی کو بازو سے پکڑا بنائے گئے تھے.اُسکی بیٹی کوئی سولہ سترہ سال کی اور باہر کو گھسیٹنے لگے.شامی قیدی اور ہم سب خوبصورت اور معصوم لڑکی تھی اور خوف کے معاملے کی سنگینی جان گئے اور کھڑے ہو کے ان مارے دونوں ماں بیٹیاں ہمارے قریب لیکن سپاہیوں کو برا بھلا کہنے لگے.شامی قیدیوں کو سلاخوں کے دوسرے پار بیٹھیں تھیں حقیقت پولیس والوں نے بتایا کہ ہم اس لڑکی کو تفتیش کے بات ہے کہ خود سے زیادہ اُن پہ ترس آ رہا تھا کہ وہ لئے لے کر جارہے ہیں.شامی قیدیوں نے اور کیوں اس مشکل میں گرفتار ہیں.آہستہ آہستہ ہم سب نے خوب شور مچایا کہ آپ اس وقت سردی ہمارے بس سے باہر ہونا شروع ہوگئی اور اسے یہاں سے نہیں لے کے جاسکتے.عدالت تو ہم باقاعدہ ٹھٹھر نے لگے.سردی سے بچنے کے کل صبح لگے گی.ہمارے بھر پور احتجاج اور شور لئے ہم نے ہال میں ایک کونے سے دوسرے شرابے کے باوجود اُن درندہ صفت سپاہیوں کے کونے میں دوڑ لگانا شروع کی جس سے وقتی طور آگے ہماری کچھ پیش نہ گئی اور وہ اُس معصوم سی پر جسم گرم ہو گئے.ان شامیوں کے پاس دو تین شامی لڑکی کو اپنے ساتھ لے گئے اور کوئی کمبل بھی تھے لیکن ہمارے پاس کمبل وغیرہ نہ دو گھنٹوں کی تفتیش کے بعد اُسے نیم بے ہوشی کی تھا.آہستہ آہستہ ہم سب تھک گئے اور ایک کونے حالت میں پھینک گئے.ایک بھوک دوسرے

Page 38

) 38 جسم کو کاٹ دینے والی سردی اُس پر ہماری پر غداری کا الزام آسکتا ہے.چنانچہ میں نے آنکھوں کے سامنے بے بس انسانیت کی ایسی اپنے ساتھیوں کا بھر پور ساتھ دیا اور یوں وطن تذلیل.وہ رات بہت مشکل تھی لیکن پھر بھی عزیز سے محبت کا حق ادا کیا.میری حالت ایسی نجانے کیسے مجھے نیند آہی گئی.ابھی میری آنکھ تھی جیسے جنگ میں امریکہ کا ساتھ پاکستان کو لگے کچھ ہی دیر ہوئی ہوگی کہ ایک شور سے میری دینا ہی پڑتا ہے.دومنٹ کے بعد لڑائی رسہ کشی آنکھ کھل گئی.معلوم ہوا کہ بے پناہ سردی کے بلکہ کمبل کشی میں تبدیل ہو گئی یہاں ایک بار پھر باعث ہمارے دوستوں نے عربیوں سے کمبل میں نے اپنے دوستوں کو کہا کہ کمبل چھوڑ دو یہ چھین لیا تھا اور اب گھونسوں اور ٹکروں کا آزادانہ ہمارا نہیں ہے اور ہم ناحق اُن کو تنگ کر رہے ہیں استعمال ہو رہا تھا.پہلے پہل دو دو تین تین کی چناچہ اپنا کمبل لے کر وہ بھی لیٹ گئے اور ہم بھی لڑائی تھی لیکن تھوڑی ہی دیر میں یہ لڑائی دو ملکوں لیٹ گئے.لیٹے لیٹے انتاکشری کی صورت کی غیرت کی لڑائی کی شکل اختیار کر گئی.پہلے پہل دونوں جانب سے سخت الفاظ کا تبادلہ جاری رہا.میں نے لڑائی چھڑوانے کی کوشش کی کیونکہ سراسر ہمارا قصور تھا لیکن لڑائی چھڑوانے کے دوران ایک شامی نوجوان نے میرے سر میں بھر پور مکہ مارا جس کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ اب دفاع واجب ہو گیا ہے.میں نے بھی اپنے دوستوں کا نیند کسی کو بھی نہیں آئی تھی.سردی اپنے عروج پر ساتھ دینا شروع کر دیا.میں لڑنا نہیں چاہتا تھا پہنچ گئی اور پھر کوئی ایک دو گھنٹے بعد اشرف کا کے لیکن اُس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ اگر میں اس نے جا کے ایک شرارتی بندر کی طرح جھپٹا مار کے وقت نہ لڑا تو بعد میں یارلوگوں کی طرف سے مجھ کمبل اُن سے پھر اُتار لیا.اُن میں بھی اب

Page 39

) 39 لڑنے کی سکت نہیں تھیں اس لئے انہوں نے لیٹے اور ہم ہتھکڑیوں میں حج کے سامنے پیش ہوئے.لیے عربی میں ہمیں کچھ سنایا.ایک کمبل میں ہم نو حج نے پوچھا کہ تم یہاں کیا کرنے آئے تھے.دوست سو گئے.ہر کسی کے جسم پہ کم از کم دس ہمارے ایک ساتھی نے جو گاؤں کا رہنے والا ، ہٹا ٹانگیں ضرور تھیں.ایک دو گھنٹوں بعد میری آنکھ کٹا اور اکھر قسم کا تھا اور بس ڈرائیور تھا شام کی کھلی تو پتا چلا کہ کمبل ایک بار پھر اپنے مالک پولیس کو پانچ چھ مناسب قسم کی گالیاں دیں.حقیقی سے جا ملا ہے اور ہمارے جسم سردی کی تبارک نے حج کو کہا کہ یہ کہہ رہا ہے آپکا شدت سے اکڑوں ہو چکے ہیں.بہت مشکل خوبصورت ملک دیکھنے آئے تھے حج کے وقت تھا.جتنا آپ سوچ رہے ہیں اس سے کچھ چہرے پر مسکراہٹ اور طمانیت پھیل گئی.زیادہ.اگلے روز عدالت لگی.ہمارا ترجمان اشرف کا کے، کو اپنے اوپر بلا کا کنٹرول تھا.تبارک ٹہرا.اُسنے کمرہ عدالت تک جاتے ہوئے جب اُس سے پوچھا کہ کیا کرنے آئے تھے تو کہا کہ ہزاروں روپیہ بطور رشوت حج کو دے دیا اُسنے کہا " تیرے گنجے سر پر جوتیاں مارنے کو گیا ہے اسکے علاوہ حج کی فرمائش پہ نیاٹی وی اور دل چاہتا ہے“ تبارک نے پتہ نہیں اسکی کیا فرج اُسکے گھر بھجوا دیا گیا ہے اسلئے آج ہم ٹرانسلیشن کی کہ جج نے مطمئن ہو کے اثبات میں ضرور چھوٹ جائیں گے.پتا نہیں اُسنے ایسا کیا سر ہلایا.باری باری ہر ایک کا انٹرویو تھا یا نہیں لیکن اُسکا یہ بیان تھا.اس نے یہ بھی کہا ہوا.ترجمانی تبارک نے نہائت احسن رنگ میں کہ جب میں آپ سے کوئی سوال پوچھوں تو کی حج بڑا متاثر لگ رہا تھا.اُسنے کہا کہ انہیں جواب میں کچھ بھی ضرور کہیں.آگے موقع کی دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے.اُس روز مناسبت سے ٹرانسلیشن وہ خود کرے گا.ایک ہمیں ایک بار پھر ہتھکڑیاں لگا کے فوجی ٹرک میں طویل انتظار کے بعد ہماری بھی باری آہی گئی پھینکا گیا اور اس بار ہمیں دمشق کی مرکزی جیل غالباً

Page 40

) 40 المدرہ بھجوادیا گیا.یہ جبیل تھی یا کوئی شہر تھا شائد ایک ایک روٹی اور ایک ایک بڑا سا ابلا ہوا آلو تھا کوئی چھ سات ہزار کے قریب قیدی ہوں گے.یقین کریں اُس کھانے کا اتنا لطف آیا کہ بیان اس جیل میں کئی بلاک تھے.ہر بلاک میں آگے سے باہر ہے اور اُس وقت یاد آیا کہ ہم اللہ تعالی کئی کئی راہداریاں تھیں.ہر راہداری میں اندازاً کی نعمتوں کی کیسی ناشکری کرتے ہیں جب کہ کوئی تیس تیس کمرے تھے اور ہر کمرے میں کوئی ایک ایک لقمے پر اُسکا شکر واجب ہے.اُس دن پچاس ساٹھ قیدی تھے.سب سے پہلے ہمیں وہ آلو کھاتے ہوئے اُس بزرگ کا واقعہ سمجھ آیا ایک مولوی صاحب کے پاس لے جایا گیا جب انہوں نے اپنے ایک مرید کولڈو کھانے کا جنہوں نے عربی زبان میں ہمیں لیکچر دیا.ہمیں طریقہ سمجھایا تھا.بات کچھ یوں تھی کہ کہیں سے سمجھ نہیں آئی لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کا نام لڈو آئے تو مرید نے پورا لڈو اُٹھا کے منہ میں سن کے سمجھ میں آیا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ نبیوں پر ڈال لیا اور بغیر شکر یہ یا شکر ادا کئے اپنے کام میں بھی مشکل کے وقت آتے رہے ہیں اور یہ جیل مشغول ہو گیا.اس پر اُس بزرگ نے جنکا نام اپنی اصلاح کرنے کی جگہ ہے.ویسے یہ جیل اتنی شائد حضرت جان جاناں تھا مسکراتے ہوئے صاف ستھری اتنی منظم تھی کہ میں اسکی تعریف کئے اپنے مرید کو کہا کہ آؤ میں تمہیں لڈو کھانے کا صحیح بغیر نہیں رہ سکتا.لیکچر کے بعد ہمیں ڈائٹنگ بال طریقہ بتاتا ہوں.پھر انہوں نے لڈو کا ایک ذرہ لے جایا گیا.ہمیں کھانا دیا گیا.کھانے کے لئے منہ میں ڈالتے ہوئے سبحان اللہ سبحان اللہ کا ورد کیا اور بولے کہ کوئی کسان اپنی نیند قربان کر کے صبح سویرے اپنے کھیتوں میں گیا ہوگا اور اسنے اپنے بیلوں کے ذریعہ زمین میں ہل پھیرا ہوگا پھر گنے کو کاشت کیا ہوگا اور فصل پکنے تک فصل کی

Page 41

) 41 حفاظت کرتا ہوگا صرف اسلئے کہ اس سے تیار ہوتے ہی ہماری خوشی کی انتہاء نہ رہی کمرے میں ہونے والی چینی سے جان جاناں ایک لڈو کھا لے.وہ بزرگ لڈو کا ایک ذرہ منہ میں ڈالتے اور سبحان اللہ سبحان اللہ کا ورد کرتے ہوئے بتاتے جاتے کہ کسطرح آگ کے قریب کھڑے ہو کے کسی نے گنے کے شیرہ کو چینی میں دونوں اطرف دو دو منزلہ لوہے کے بیڈ لگے بدلا ہو گا کس طرح یہ چینی مزدور اٹھا کے دکانوں ہوئے تھے.اندر آزادی تھی قیدی ایک جگہ سے پہ لائے ہوں گے کس طرح حلوائی نے آگ کے دوسری جگہ جا سکتے تھے.کئی قیدی مختلف گروپوں قریب کھڑے ہو کے اور مشقت اُٹھا کے لڈو میں بیٹھے تاش کھیل رہے تھے.ہم جو پچھلے پندرہ بنائے ہوں گے صرف اسلئے کے جانِ جاناں دنوں سے فرش پہ اور تہہ خانے کی کوٹھڑی میں بند ایک لڈو کھائے.سبحان اللہ سبحان اللہ.سو تھے ہمیں یہ جگہ کوئی پر تعیش ہوٹل سے کم نہیں لگ اُس دن دمشق کی اُس جیل میں جب بھوک انتہاء رہی تھی.ہر کمرے کا ایک امیر مقررتھا اور سب پہ پہنچے کے بعد مجھے ایک ابلا ہوا آلو ملا تو میں آلو پر اُسکی اطاعت واجب تھی.ہمارے کمرے کا کھاتے ہوئے سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ رہا امیر ایک انتہائی سفاک دکھائی دینے والا شخص تھا ور متعدد افراد کے قتل کے جرم میں عمر قید کاٹ رہا تھا.کھانے کے بعد ہمیں قیدیوں کے کپڑے تھا.کمرے میں اُسکی عزت بلکہ دہشت تھی.پہننے کے لئے دیئے گئے اور پھر ہم سبکو دو دو کر کے قیدیوں نے اشاروں سے ہمیں بتایا کہ جا کے مختلف کمروں میں بھجوا دیا گیا.مجھے اور نصیر کو اُسے سلام کرو.ہم دونوں اُس کے پاس گئے.ایک کمرے میں بجھوایا گیا تھا.کمرے میں داخل ملے اور اپنی کہانی سنانے کی کوشش کی.اُسنے

Page 42

) 42 اپنے تھر موس میں سے چائے دی اور بتایا کہ اُس چارونا چار دو بیڈوں کے درمیان والے فرش پر کے ہوتے کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے.بغیر تکیے بغیر چادر بغیر کمبل کے لیٹ گئے.دو تین اتنے معزز اور چھٹے ہوئے بدمعاش کی دوستی دنوں میں ہم اس جگہ کے خوب عادی ہو گئے.دو ہمارے لئے کسی اعزاز سے کم نہ تھی چنانچہ ہم بھی وقت کھانے کے لئے گھنٹی بجتی تھی سارے قیدی کچھ سینہ تان کے بیٹھ گئے اور اُس سے فری اپنے اپنے کمروں سے نکل کے ڈائیٹنگ ہال کے ہونے کی کوشش کی.میں نے اشاروں سے اُس باہر جمع ہو جاتے تھے اور ایک دوسرے کو خوب سے پوچھا کہ ہم نے کس بیڈ پر سونا ہے.یہ ٹن دھکے لطف اندوز ہونے کے لئے دیتے تھے.سچ کے اُس نے قہقہے لگانے شروع کر دیئے نصیر اور بات ہے کہ میں بھی دھکے دینے والوں میں پیش میں بھی بلاوجہ اور اُسے خوش کرنے کے لئے پیش ہوتا تھا اور ہجوم میں جان بوجھ کے ہاتھ لمبا کر اُسکے ساتھ ہنسنے لگے.وہ اپنی ہنسی کو ضبط کرتے کے کسی کے چپت رسید کرتا اور پھر دونوں کی تکرار ہوئے بولا کہ تین چار سال نیچے فرش پر سونا ہوگا سن کے لطف اندوز ہوتا.بوریت دور کرنے کے اور پھر بیڈ ملے گا.اب ہماری ہنسی یکدم کھانسی لئے کچھ تو کرنا تھا.ڈائننگ ہال کا دروازہ کھلتا تو میں تبدیل ہوگئی کیونکہ ہمیں اُسکا یہ مذاق پسند نہ آیا سب کھانے پر ٹوٹ پڑتے.کھانے کے لئے تھا.میں نے اُسے کہا کہ ہم تو آئے ہی صرف دو اندازاً دس منٹ کا وقفہ ہوتا تھا.کھانا ظاہر ہے دنوں کے لئے ہیں.یہ سن کے اُسے ایک بار پھر بہت ہی سادہ ہوتا تھا.اکثر روٹی اور عجیب بے جنسی کا دورہ پڑ گیا کہنے لگا ہم سب بھی یہاں دو ذائقہ کی دال ہوتی تھی تھوڑی دیر میں ہی کھانا دو دن کے لئے ہی آئے تھے.اب ہمیں ہمیں ختم ہونے کی گھنٹی بجتی تھی اور ہم ایک آدھ روٹی ہیں سال ہونے کو آئے ہیں.یئن کے ہمارے قمیض میں چھپا کے ساتھ لے آتے اور بے وقت ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے.بھوک لگنے پر کھاتے اور اللہ کا شکر ادا کرتے.

Page 43

) 43 ہمارے کمرے میں بڑے بڑے ادا کار قسم نہیں ہے.اُن قیدیوں کو دن میں ایک روٹی اور کے قیدی تھے.ایک قیدی تو اپنی حرکتوں سے ایک آلو دیا جاتا ہے.ایک قیدی نے بتایا کہ اس ہنسا ہنسا کے دہرا کر دیتا تھا.میرا دوست نصیر ہمدم جیل میں تیس فیصد قیدی سیاسی قیدی ہیں.اگر بڑا خوش اخلاق قسم کا اور بڑا زندہ دل آدمی تھا.پولیس کو پتہ چل جائے یا صرف شک ہی پڑ جائے نظم پڑھنے میں اور گانے میں اُسکی آواز بہت کہ فلاں شخص حافظ الاسد کا حامی نہیں ہے تو اُسے سریلی تھی سو جلد ہی وہ سارے کمرے میں مقبول کسی جھوٹے کیس میں قید کر لیا جاتا ہے اور اکثر ہو گیا جبکہ جتنے ادبی قسم کے قیدی تھے وہ سب اُس وقت رہا کیا جاتا ہے جب وہ ہوش و حواس میرے دوست بن گئے.حیرت کی بات تھی کہ دو سے بیگانہ ہو جاتا ہے.وہاں ہمارے ساتھ ایک دنوں میں ہی نصیر کے وہ لوگ دوست بن گئے جو پاکستانی نوجوان غالباً اشرف بھی قید تھا.اُسنے طاقت آزمائی اور کلائی پکڑنے جیسے کاموں میں بتایا کہ میرے بوڑھے والدین کو پاکستان دلچسپی رکھتے تھے اور شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے میں یہ ہی پتا ہے کہ میں امریکہ میں رہتا ہوں جبکہ والے میرے دوست بن گئے.سچ کہتے ہیں میں دمشق کی اس جیل میں گزشتہ پانچ سالوں کبوتر به کبوتر ، باز به باز.اس جیل میں مجھے بعض سے قید ہوں اور کبھی میری پیشی تک نہیں ہوئی.اوقات نماز با جماعت پڑھانے کا بھی موقع ملا.اس جیل میں قیدیوں سے ہفتے میں ایک دن کام یا خوب اچھا وقت کتنا تھا.ان قیدیوں میں زیادہ تر بریگار یا جبری مشقت بھی لی جاتی تھی یا دوسری عادی مجرم تھے.یہاں رہنے کے دوران صورت میں ایک سولیر اشامی کرنسی کے ادا کرنے بڑی معلومات حاصل ہوئیں.ہمیں بتایا گیا کہ ہوتے تھے.ایک دن ہماری باری بھی آہی گئی.اس جیل میں کئی ایسے حصے ہیں جہاں سیاسی قیدی میرے کمرے میں موجود قیدیوں نے کہا کہ ہیں اور اُس حصے کی طرف دیکھنے کی بھی اجازت مشقت کے لئے نہ جانا ورنہ پچھتاؤ گے لیکن مجھے

Page 44

) 44 تجسس تھا کہ کسی طرح باہر نکل کے جیل کے زیادہ کرنے کے لئے کہا.میں نے جیب سے سولیرا سے زیادہ حصے دیکھوں.اُس وقت سے ہی میں نکالا اور کہا اسے خدا کے بندے میری بس ہو گئی سوچ رہا تھا کہ اگر یہاں سے بچ نکلے تو ایک ہے مجھے جانے دو.اُسنے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے ڈائری ضرور لکھوں گا تا کہ یہاں کے شب و روز یا در ہیں.زیادہ تر قیدی سولیرا ادا کرنے کو ترجیح Syria tube دیتے تھے.ہماری باری والے دن انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ سو لیرے دینے ہیں یا کام پر كمية شهداء أبو الخطاب أو فيك شي جانا ہے.نصیر نے فوراً ایک سولیرہ ادا کر دیا.میں اس لئے دوڑ دوڑ کے کام کرو.بہر حال گرتے نے کام پہ جانے کی حامی بھر لی.کوئی دس قیدی پڑتے دو چکر اور لگائے لیکن اسکے بعد میری واقعی آج مشقت کے لئے بلائے گئے تھے.پہلا کام بس ہو گئی.اب جب میرے کندھے پر بوری دیکھتے ہی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا کہ مجھے سو پھینکی گئی تو میں زمین پر گر گیا اور باوجود کوشش لیرہ دے دینا چاہئے تھا.سب سے پہلا کام تھا کے اُٹھ نہ سکا.زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جب ایک ٹرک سے آٹے کی بوریاں اُتارنا.بوریاں ایسا بوجھ اٹھایا ورنہ میری صحت تو ایسی تھی کہ چائے شائد ایک ایک من کی تھیں لائن بنائی گئی ٹرک کا کپ بھی احتیاط سے اُٹھاتا ہوں کہ کہیں کلائی کے قریب جا کے ہم کاندھا آگے کرتے تھے اور میں موچ نہ آ جائے.اب جب میں گرا تو پولیس ٹرک پر کھڑا آدمی زور سے بوری کندھے پر پھینکتا والے آکے مجھ پر گر جنے لگے لیکن تھوڑی دیر بعد تھا.دو تین چکر میں نے لگا لئے لیکن پھر میری انہیں یقین ہو گیا کہ میں بہانہ نہیں کر رہا تھا اسلئے رفتار کم ہو گئی جس پر ایک سپاہی نے میری ٹانگوں انہوں نے مجھے پیاز اور آلو چھیلنے کا کام دے دیا پر پرڈنڈا رسید کرتے ہوئے مجھے دوڑ دوڑ کے کام.تقریباً سات ہزار قیدیوں کا کھانا پکانا تھا اور

Page 45

) 45 آٹھ دس کھانا پکانے والوں کے ساتھ ہم دس بغیر کسی بڑی مجبوری کے دوسروں کا بوجھ اپنے مددگار تھے.بڑے بڑے دیکھے دھوتے رہے سروں پہ نہیں اُٹھاتا لازمی طور پہ وہ کسی نہ کسی پیاز کاٹتے رہے آلو چھیلتے رہے.صبح نو بجے سے قید میں ہوتا ہے.آخر کسی طرح دن ختم ہو ہی گیا شام کے چھ بجنے کو آئے تھے لیکن ہمارا کام ختم کو اور میں آکے فرش پہ بغیر کھانا کھائے لمبی تان نہیں آرہا تھا آلو چھیل چھیل کے اور کاٹ کاٹ کے سو گیا.اُس کے بعد جب مشقت کی باری کے میرے ہاتھ تھک گئے.وقت دکھانے والی آئی سب سے پہلے میں سولیرہ نکال کے دیتا تھا یہ گھڑی بھی بڑی عجیب چیز ہے جب بہار اور جیل میں ہم قیدی اشاروں سے ٹوٹی پھوٹی خوشی کے دن ہوتے ہیں تو ایسے تیزی سے چلتی انگلش اردو اور عربی میں ایک دوسرے کو کہانیاں ہے کہ لگتا ہے جیسے اسے پر لگ گئے ہوں اور سختی بھی سناتے تھے.مجھے ایک ہی کہانی آتی ہے جو کے اور خزاں کے دن ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بھی سنائی.وہ کچھ ایسے ہے کہ پرانے رک رک کے چل رہی ہے.آج دن ختم ہونے کا زمانے میں کسی ملک میں رواج تھا کہ وہ اپنا ایک نام نہیں لے رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ آج بادشاہ چنتے تھے.دس سال تک اُسکی بے حدو تک کتنے ہی دن نو بجے سے چھ بجے تک آرام حساب عزت اور خدمت کرتے تھے لیکن دس سے گزارے ہیں.ہم تو جیل میں ایسا کر رہے سالوں بعد اُسے اُٹھا کے جنگل بیابان میں تنہا ہیں دنیا میں کتنے لوگ ہیں جنہیں ہر روز ہی ایسا یا مرنے کے لئے چھوڑ آتے تھے اور پھر اپنا نیا اس سے بہت زیادہ کرنا پڑتا ہے.اپنے وطن بادشاہ چن لیتے تھے.اس لئے جو بھی بادشاہ بنتا و کے قلی اور مزدور بہت یاد آئے جو نجانے کتنوں ، دس سال خوب عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتا سالوں سے لوگوں کا بوجھ اُٹھا رہے ہوتے ہیں.اور جلدی جلدی خوب مال و دولت ہیرے صرف ایک دن کام کر کے مجھ پہ کھلا کہ کوئی بھی جواہرات استعمال کرتا کیونکہ اُسے علم ہوتا تھا کہ

Page 46

) 46 یہ سہولتیں عارضی ہیں اور دوبارہ میسر نہ ہوں گی.نہ بنایا بلکہ اپنی ساری مال و دولت سے اُس پھر ایک بار یوں ہوا کہ انہوں نے ایک نیا بادشاہ بیابان میں اپنے لئے عظیم الشان محل باغات اور چنا.یہ بادشاہ کوئی الگ ہی قسم کا تھا.اس بادشاہ ساری سہولیتں بنوالی ہیں جہاں اُسنے یقینا رہنا نے پہلے دن سے ہی اپنی زندگی انتہائی سادہ ہے.کہانی کا نتیجہ یہ ہے کہ عقلمند لوگ اگلے جہان گزارنی شروع کی اور باوجود مال و دولت اور کے لیے بھی اپنی بھر پور تیاری رکھتے ہیں.شامی آرام و آسائش کے وہ اپنے لئے انتہائی سادہ قیدیوں کو یہ کہانی اچھی لگی.زندگی پسند کرتا.دس سال جب ختم ہونے کو آئے جیل میں صرف ایک چیز جو ہمارے دلوں کو تو یہ بادشاہ پہلے کی نسبت زیادہ خوش رہنے لگا.حوصلہ دیتی تھی وہ یہ تھی کہ ہم ایک حد تک بے جوں جوں وقت قریب آتا جاتا تھا وہ بادشاہ پہلے دنوں کی نسبت زیادہ خوش ہوتا اور معلوم ہوتا تھا کہ وہ اُس جنگل بیابان میں جانے سے ہرگز خوفزدہ نہیں ہے بلکہ وہاں جانے کے لئے بے تاب ہے.لوگوں نے کہا کہ بادشاہ دیوانہ ہے قصور تھے یا ہم نے کوئی بہت بڑا یا غیر اخلاقی ساری عمر تو سادگی سے اور ڈرتے ہوئے گزاری جرم نہیں کیا تھا.ہم نے ایجنٹ کو جرمنی کے اصلی اور اب جب کہ جنگل بیابان میں جانے کا وقت ویزے کے پیسے دیئے تھے اُس نے ہمیں جعلی ہے تو مطمئن اور شادمان نظر آتا ہے.لوگوں کا ویزے دیئے تھے.سقراط کی وہ بات یاد آتی تھی تعجب اور حیرت دور کرنے کے لئے بادشاہ نے کہ جب اُسے سزائے موت کا حکم سنائے جانے بتایا کہ چونکہ اُسے علم تھا کہ آخر کار اُسنے اُس کے بعد پینے کو زہر کا پیالہ دیا گیا تو اُس کے بیابان میں جانا ہے اسلئے اُس نے یہاں کچھ بھی شاگر د نے کہا کہ مجھے اس بات کا غم ہے کہ آپ

Page 47

) 47 بے قصور مارے جا رہے ہیں.اس پر سقراط نے السلام علیکم یا جیبی کہہ کے اور ، پاکستان سریا (شام کہا تھا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ میں قصور وار ہوتا اور ( برادر برادر کہہ کہہ کے انکے ساتھ شریک مارا جاتا.تو ہمیں یہ تسلی ضرور تھی کہ ہم نے خود کوئی ہو جاتے.بعض وضع دار تو خاموش رہتے لیکن جرم نہیں کیا.بعض غیر ادبی قسم کے لوگ ہمیں باہر نکال دیتے اس جیل میں ہمیں پندرہ دن گزر گئے.ان تھے.ہم بھی مسکراتے ہوئے ایسے ظاہر کرتے کہ پندرہ دنوں میں شامی قیدی ہمارے بڑے اچھے یہ تو معمولی بے عزتی ہے.اس جیل میں قیام کے دوست بن گئے.لیکن ہماری بے تکلفی کی وجہ دوران مجھے پر ایسے ایسے انکشافات ہوئے جو و سے آہستہ آہستہ وہ کھانے کے اوقات میں ہم میرے لئے بہت اذیت کا باعث تھے.صحافت سے نظریں چراتے تھے.شروع میں ہمیں کبھی ہمیشہ سے میرا پسندیدہ شعبہ رہا ہے سو وہاں بھی کبھی قہوہ پلا دیتے تھے تا ہم تھوڑے دنوں بعد میں نے بے شمار قیدیوں کے انٹر ویو کئے.وہ جب انہوں نے دیکھا کہ ہم میں تکلف نامی کوئی کیسے یہاں تک پہنچے کیوں پہنچے.یہاں ہر موڑ پر چیز نہیں ہے تو وہ چھپ چھپ کے پینے لگے.کھانا حافظ الاسد کی تصویر کیوں ہے.جیل کے فلاں دن میں دو بار ملتا تھا لیکن پورا پورا ہوتا تھا ایسا بلاک میں جانا کیوں ممنوع ہے.ہر قیدی کی اپنی ا کہ پیٹ نہیں بھرتا تھا اور ہر وقت بھوک کا دنیا اپنے حالات اور اپنی کہانی تھی.ایک قیدی احساس رہتا تھا یا شائد میرے لئے وہ کھانا کھانا نے کہا کہ ایک دفعہ وہ ایک ایسے کمرے میں ایک مشکل ہوتا تھا.کئی دفعہ تو ایسے ہوتا تھا کہ کسی کے ایسی حوالات میں بند تھا جہاں اور قیدی نہیں گھر سے کھانا آتا تو وہ ہم سے بچنے کے لئے ڈالے جاسکتے تھے.اس لئے وہاں سے تھیں چادریں تان کے کھانا کھاتے تھے.لیکن ہم بھی قیدیوں کو نکال کے لبنان کے باڈر پر چھوڑا گیا چادر کے نیچے سے رینگ کے اندر پہنچ جاتے اور کہ لبنان بھاگ جاؤ اور پھر اُن کو گولی مار دی گئی.

Page 48

) 48 میں اُنکی باتیں سن کر خوفزدہ بھی تھا اور حیران بھی پیشیاں ہوئیں.ہر پیشی کے بعد ہمیں کسی الگ تھا کہ اسلامی ممالک مثلاً عراق شام مصر اردن عمارت میں ٹہرایا جاتا اور ہم یہ دیکھ کے حیران رہ لیبیا وغیرہ میں ایسے حالات کیوں ہیں کہ گئے کہ شہر دمشق کے عین بیچوں بیچ ہر سرکاری بادشاہوں کو اپنی بادشاہت برقرار رکھنے کے لئے عمارت کے نیچے نجی عقوبت خانے تھے جس میں ہزاروں لوگوں کو زیر زمین رکھنا پڑتا ہے.ٹھیک سیاسی قیدیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بند کیا گیا ہے اور بھی بہت سے ممالک میں یہ سب کچھ ہوتا تھا.ایک دن ایک ایسی ہی عمارت میں ہمیں ہے لیکن اسلامی ممالک میں تو ایسا نہیں ہونا تھوڑی دیر کے لئے رکھا گیا.اصل پولیس والے چاہئے.ٹھیک ہے ہمارے ملک پاکستان کی ہمیں ایک دیوار کے ساتھ لگ کے کھڑا ہونے کا پولیس بھی اپنے کارناموں کے لئے مشہور ہے کہ حکم دے کر چلے گئے اور تقریباً دو گھنٹے واپس لیکن ایک ہی وقت میں صرف جیلمیں سیاسی نہیں آئے.ایک کاہل اور سست قسم کا سپاہی قیدیوں کے لئے جگہ بنانے کے لئے تھیں قیدیوں صرف دروازے پر ہماری نگرانی کے لئے کرسی پہ کو گولی مار دینا یہ کچھ زیادہ ہی تھا.ہو سکتا ہے بیٹھا تھا بلکہ زیادہ تر سویا ہوا تھا.ہم میں سے جو اُس نے مبالغہ آرائی کی ہو لیکن بھی تھک کے بیٹھتا اُسے وہ کھڑا رہنے کا حکم دیتا.اُسکے ایک سے زیادہ قیدیوں نے اس قسم کے واقعات ذکر کیا.ہاتھ میں ڈنڈا تھا اور ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں.پھر اگلے دنوں میں ہماری اوپر نیچے تین چار تھوڑی دیر بعد غالباً وہ سپاہی اپنی بوریت دور

Page 49

) 49 کرنے کے لئے بلا وجہ ہمارا امتحان لینے لگا کسی کو مجھے چھوڑ کر وہ اگلے قیدی سے سوالات پوچھنے کہتا سورت فاتحہ سناؤ کسی کو کوئی اور سورت سنانے لگا.یہ واقعہ جب لکھ رہا ہوں تو ساتھ ہی وہ پرانا کا کہتا.پھر اُسنے صالح بشارت سے پوچھا کہ سالطیفہ بھی یاد آ رہا ہے کہ جب جنت میں جانے امریکہ کا صدر کون ہے.عراق کا صدر کون ہے کے لئے لائن لگی ہوئی تھی اور دروازے پر کھڑا ہوا فلسطین میں کس کی حکومت ہے.بشارت سمجھا کہ فرشتہ ہر ایک سے نام پوچھ کے کہتا اب یہ سورت شائد صیح جوابات پر وہ کہے گا شاباش جاؤ تم آزاد سناؤ اور اندر جاؤ.پہلے کا نام یوسف تھا فرشتے ہو.بشارت نے فٹافٹ جواب دیئے.اُس کے نے کہا سورت یوسف سناؤ.دوسرے کا نام عمران نوے فیصد جوابات درست تھے اس پہ اُس نے تھا فرشتے نے کہا سورت عمران سناؤ.لائن میں بشارت کو تھپڑ مارتے ہوئے کہا انت سیاسی ایک شخص بڑا مضطرب تھا اُسکا نام رحمان تھا.انت سیاسی.یعنی تم کوئی سیاسی قسم کے آدمی جب اُسکی باری آئی تو فرشتے نے پوچھا کہ تمہارا لگتے ہو.پھر میری باری آئی کہنے لگے اسرائیل کا نام کیا ہے اُس نے کہا کہ میرا نام تو رحمان ہے وزیر اعظم کون ہے.میں نے کہا مجھے علم نہیں.لیکن اُسنے مجھے بالوں سے پکڑا ہوا تھا مجھے ہلا جلا کے والے مجھے اُس نے اصرار کیا کہ میں ضرور اُسکے سوال کا پیار سے کوثر جواب دوں.میں صالح کا حشر دیکھ چکا تھا اسلئے کوثر کہہ کے میں نے ذہن پر زور دے کے کہا کہ میرے بلاتے ہیں.خیال میں اسرائیل کے وزیر اعظم کا نام عبدالستار بہر حال یہ تو لطیفہ تھا لیکن اسیری کے اُن دنوں ایدھی ہے.اُس ظالم نے مجھے کان پر تھپڑ مار میں ہر کوئی بلا وجہ ہم پہ رعب ڈالتا تھا اور جو دل کے کہا تم بہت نالائق ہو اور پھر خدا کا شکر ہے کہ میں آتا تھا سوال کرتا تھا.سپاہی اور فوجی اتنے

Page 50

) 50 تھے کہ عام آدمی کم نظر آتے تھے.تین چار پاکستان بجھوایا جائے.دو دن بعد جب پولیس پیشیوں کے بعد حج نے فیصلہ سنایا کہ ہم بے قصور ہمیں لینے آنے والی تھی پھر وہی گفتگو شروع ہوگئی ہیں ہمیں پاکستان بجھوا دیا جائے یا اگر ہمارے کہ جہاں اتنی مشکل اُٹھالی ہے اب لبنان جا کے پاس پاکستان کی واپسی ٹکٹ نہیں ہے تو ہمیں قسمت آزمائی کرنی چاہئے.آخر میں زیادہ لبنان بجھوا دیا جائے.وہ حج جو بھی تھا اُسنے دوستوں کی رائے تھی کہ ایک بار ہم جیل سے آزاد رشوت لی تھی یا نہیں لی تھی بہر حال اُسنے بڑی ہو کے لبنان چلے جائیں تو وہاں سے اپنے ہمدردی اور توجہ سے ہماری بات سنی.لبنان اُن دنوں شام کے زیر تسلط تھا اور شامی مجرمان کے لئے کالا پانی تصور کیا جاتا تھا کیونکہ جنگ کے بعد وہاں روٹی کھانے کو نہ ملتی تھی اور جنگ میں ہزاروں نوجوان مارے گئے تھے.ہمیں سوچنے عزیزوں سے جرمنی رابطہ کر کے پیسے منگوا لیں کے لئے دو دن کی مہلت دی گئی.یہ دو دن بہت گے اور جرمنی نکلنے کی کوشش کریں گے.شام کے سوچ و بچار اور بحث مباحثہ میں گزرے سب کا کوئی پانچ بجے ہوں گے جب دروازہ کھلا ہمیں خیال تھا کہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ جان ہتھکڑیاں لگائی گئیں اور مرکزی دفتر میں لے جایا چھوٹ رہی ہے اس لئے پاکستان جانا چاہئے.دو گیا.وہاں ہم نے بتایا کہ ہم پاکستان نہیں بلکہ تین بضد تھے کہ ہمیں لبنان چلے جانا چاہئے تاکہ لبنان جانا چاہتے ہیں.انہوں نے ایک زرہ بھی ہم وہاں سے جرمنی کی ٹکٹیں بنوا کے نکل جائیں.تعجب نہ کیا اور ہمارے دستخط کروا کے ہمیں فوجی ہم نے پولیس کو لکھ کے دیا کہ ہمارے پاس گاڑی میں لا دیا.لبنان کہاں ہے.کتنی دور ہے پاکستان کی ٹکٹیں نہیں ہیں لیکن ہمیں کسی طرح وہاں کیسے جانا ہے کس کے پاس جانا ہے باڈر پر

Page 51

) 51 AP کونسی دستاویزات دکھانی ہیں.ہمارے گروپ سے ایک ایک تھپڑ مارا گیا ہمارے پاسپورٹ کی عورتیں اس وقت کدھر ہیں ہمیں ان سارے ہمارے حوالے کئے گئے اور بندوقیں تان کے سوالوں کے جوابات میں صرف دھکے ملے.تین فوجیوں نے ہمیں لبنان کے پہاڑوں کی طرف اشارہ کیا کہ ناک کی سیدھ میں چلتے جاؤ زندگی بھر واپس نہ آنا مڑ کے دیکھا تو گولی جسم کے پار ہو جائے گی.ہم سب نے لرزتی ٹانگوں اور دھڑکتے دلوں کے ساتھ ہاتھ او پر کئے اور گاڑی لبنان کے باڈر کی طرف روانہ ہوگئی.کوئی روبوٹ کی مانند لبنان کو چل دیئے.ایک تو ہم پہلے ہی خوفزدہ تھے اوپر سے ہمارا ترا نکالنے دو گھنٹے کی ڈرائیوو کے بعد ہم ویران و سنسان علاقے میں داخل ہو گئے.ہمیں دور دور ٹینک والا دوست کہنے لگا کہ کچھ قدم اور چلنے کے بعد ر اور فوجی نظر آ رہے تھے.علاقے سے معلوم ہوتا وہ ہمیں پیچھے سے گولی ماریں گے.اسکی باتیں سن تھا کہ ہم کسی ملک کی سرحد عبور کر کے دوسرے کے میرا دل چاہا ہے کہ اپنے اس دوست کو کہوں ملک داخل ہو گئے ہیں.پھر آخر ایک مقام پہ کہ مجھے مرنے کا اتنا دکھ نہیں ہے جتنا تمہارا آگے گاڑی رک گئی.رات کا وقت تھا اندھیرا تھا شریک سفر ہونے کا غم ہے لیکن ہم سر گوشیوں میں ہم اور وحشت کا عالم تھا.ہماری ہتھکڑیاں کھولی بھی بات کرنے سے گھبرا رہے تھے مبادا فوجی گئیں.اسی کو بے ادبی خیال کریں.پھر ہمارے عقب ہماری جیبوں کی تلاشی لی گئی.پیسوں کی علاوہ میں گاڑی سٹارٹ ہونے کی زور کی آواز آئی گھڑیاں بھی اتروالی گئیں.الوداعی تقریب کے جس سے ہم واقعی تر پک گئے کہ شاید گولی چلنے دوران ہمیں اعزازی طور پر گردن پر بڑی گرمجوشی کی آواز ہے.لیکن یہ گاڑی واپس جانے کی

Page 52

) آواز تھی.52 اسرائیل اور لبنان کی سرحد کا کوئی علاقہ تھا ہم نو پکا یقین ہونے کے بعد ہم نے مڑ کے دیکھا اور ساتھی تھے اسلئے ٹھیک تھے مجھے یقین ہے کہ یہ دیکھنے کے بعد کہ واقعی گاڑی جا چکی ہے اور ہم اگر کسی کو اکیلے رات کے وقت وہاں چھوڑ دیا آزاد ہیں ہم نے خوشی سے اُچھلنا شروع کر دیا شهری دوست بریک ڈانس جبکہ گاؤں کے دوست بھنگڑا ڈال رہے تھے اور چک میں رہنے والے صرف خوشی سے اُچھل رہے تھے.ہم نے جائے تو شائد خوف سے اُسکا دل بند ہو جائے.یہ آگے پیچھے دائیں بائیں گھوم کے دیکھا کہ ہم سنسان علاقہ نو مین لینڈ تھا یعنی شام اور لبنان واقعی آزاد ہیں.ہمیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ہم اپنی کے درمیان ایسی جگہ تھی جہاں کسی کی حکومت نہیں مرضی سے چند قدم چل سکتے ہیں.زندگی بڑی تھی.ایک سائڈ پر شام کی فوجی چھاؤنیاں تھیں تو عجیب و غریب چیز ہے.زیادہ تر نعمتوں کا دوسری طرف لبنان کی.ہمیں انہوں نے ایسی احساس صرف اُس وقت ہوتا ہے جب وہ ہم سے جگہ چھوڑا تھا جہاں ہمیں دوسری طرف کوئی لبنانی واپس لے لی جاتی ہیں.دو چار منٹ کے بعد اس فوجی نظر نہیں آرہا تھا.بس ٹینک نظر آ رہے تھے جنگل بیابان کی ویرانی کا خیال آیا اور ہم لبنان کو پہاڑوں کی چوٹیوں پر.ہمیں خطرہ ضرور تھا کہ دور چل دیئے کچھ دیر چلتے رہے اور پھر آگے جاکے سے کوئی ہمیں گولی نہ مار دے کیونکہ اخباروں ہم بیٹھ گئے.وہ ڈوبتے سورج کا منظر وہ بیابان میں پڑھتے آئے تھے کہ آجکل شام اور لبنان علاقہ وہ عجیب و غریب پہاڑیوں کے درمیان کے باڈر پر انسانی زندگی اور کتے کی زندگی ایک گھائی اور وہ دور جنگ سے تباہ شدہ ٹینک ایک برابر ہے اور باڈر پر موجود کسی بھی شخص کو گولی مار عجیب پر اسرار منظر پیش کر رہے تھے.شائد وہ دینے سے کسی کو فرق نہیں پڑتا تھا.کافی دیر چلتے

Page 53

) 53 رہے بیٹھتے رہے چلتے رہے آخر ایک جگہ ایک دو آہستہ آہستہ شہروں کا رخ کرتے ہیں.ہم بہت چھوٹی چھوٹی دکا نہیں بلکہ چائے کے ویران سے خوش ہوئے اور اُنہیں وہاں چلنے کے لئے کہا.کھوکھے نظر آئے.یہ کھوکھے کچی مٹی کے بنے جمشید سے اُنکی کرائے کی بات ہوئی.جمشید نے ہوئے تھے اور ان میں بیٹھے ہوئے دکاندار زندگی ہمیں بتایا کہ یہ اتنے پیسے کہہ رہا ہے جبکہ ہمارے سے بیزار نظر آ رہے تھے.انکے پاس نجانے کون پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں.طے یہی پایا کہ ان آتا ہوگا قریب ہی ایک دو پیلے رنگ کی ٹیکسیاں سے متفق ہو کے کسی طرح آبادی تک پہنچا کھڑی تھیں.یہاں ہم نے پوچھا کہ اس وقت جائے.جمشید نے بتایا کہ میں نے اُنہیں ڈبل ہم کس ملک میں اور کس مقام پر ہیں.ہمیں بتایا کرائے کی اور ٹپ کی آفر کی ہے.ٹیکسی والے گیا کہ ہم لبنان میں ہیں اور اسرائیل یہاں سے خوش تھے کہ ایسی خوش قسمت سواریاں ملیں.ہم بہت دور نہیں ہے.ہم میں سے جمشید سعودی گھبرائے ہوئے تھے کہ آگے کیا ہونے والا عرب رہ کر آیا ہوا تھا.اُسنے آگے ہو کے ٹیکسی ہے.کہیں یہ ہمیں لبنانی پولیس کے حوالے نہ والوں کو بتایا کہ ہم بڑی مشکل سے شام کی قید کر دیں.کافی مسافت کے بعد ایک گاؤں کے سے رہا ہو کے آئے ہیں اور اب ہمیں کسی ایسے آثار نظر آئے.ٹیکسی والوں نے ہمیں ایک جگہ شہر یا گاؤں جانا ہے ہے جہاں کوئی پاکستانی رہتا اُتارا اور خود بھی باہر آ گئے اور کرائے کا کہا.ہم ہو.ٹیکسی والوں نے بتایا کہ یہاں قریب ہی سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے.جمشید جو ایک ایسا گاؤں ہے جس میں ایک پاکستانی شخص پہلے فرفر عربی بولتا تھا اب وہ بھی خاموش تھا.دیکھا گیا ہے.اُسنے بتایا کہ جتنے بھی سزا یافتہ جب ڈرائیوروں نے چیخ چیخ کے کرائے کا کہا تو قیدی لبنان ڈی پورٹ کئے جاتے ہیں وہ سب جمشید نے کہا اے میرے پیارے بھائیو سیچ سے پہلے اسی گاؤں جا کر شہرتے ہیں اور پھر بات تو ہے کہ ہم غریب الوطن لوگ ہیں دمشق کی

Page 54

) 54 جیل سے بمشکل چھوٹے ہیں.تم کرائے کی بات رات کے کوئی گیارہ بجے کا وقت ہو گا.ہمیں کرتے ہو.کرایہ دور کی بات ہے ہمارے پاس تو تھوڑی دور گلیوں میں پندرہ سے بیس سال کے کھانے کو کچھ نہیں.اگر ہو سکے تو ہمیں اپنی جیب نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ایک بڑا گر وہ کھیلتے ہوئے سے کھانا کھلا دو.یہ ٹن کے وہ ٹیکسی والے تو پاگل نظر آیا.لڑ کے کوئی تین چار ہوں گے اور لڑکیاں ہو گئے اور جمشید کو گریبان سے پکڑ لیا اور لگے د کوئی پندرہ بیس کے قریب.دیکھنے میں یہ بالکل ھینگا مشتی کرنے.اب ہم آٹھ کے آٹھ افراد نے یورپین بچوں جیسے تھے اور جین شرٹ وغیر ہ لباس بڑی مشکل سے جمشید کا کالر چھڑوایا.ٹیکسی والے تھا البتہ بال سیاہ تھے.ان میں سے کئی بچوں نے کرایہ مانگ رہے تھے اور ہم اُنکی منتیں کر رہے اپنی کمر میں بندوق لٹکا رکھی تھی.ہمیں دیکھ کے خود تھے.جب اُنہوں نے ہماری منتیں نہ مانیں تو ہی یہ بچے ہماری طرف بڑھے جمشید نے انہیں مجبوراً ہم نے تیزی سے گاؤں کی طرف تقریباً ساری بات سمجھائی.انہوں نے کہا کہ وہ ایک بھاگنا شروع کر دیا.تھوڑی دور تک ٹیکسی والے پاکستانی کے گھر کو جانتے ہیں.یہ سنتے ہی ہمیں پکڑنے کے لئے ہمارے پیچھے بھاگے.ہمارے اندر امید اور خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی.روڑے اٹھا کے ہمیں مارتے رہے لیکن پھر اب بچوں کا یہ سارا گروہ آگے آگے اور ہم پیچھے انہیں اپنی ٹیکسیوں کی فکر شروع ہوئی اور وہ واپس پیچھے.کچھ دیر چلے تو سامنے سے ایک شخص آتا مڑ گئے.ہمارا خیال تھا کہ وہ ٹیکسی لے کے دکھائی دیا.بچوں نے اشارہ کر کے بتایا کہ یہی وہ ہمارے پیچھے آئیں گے لیکن خدا کا شکر ہے کہ وہ پاکستانی شخص ہے جس کے گھر کی طرف ہم جا کوئی نیک اور ترس کھانے والے آدمی تھے.اللہ رہے ہیں.اُنکا یہ کہنا تھا کہ ہم اُسکی طرف ایسے تعالیٰ اُنکو جزاء دے اور اپنی جناب سے انہیں لیکے جیسے سیلاب کے دنوں میں متاثرین امدادی بے بہا فراخیاں عطا کرے.ٹرک کی طرف بھاگتے ہیں.نو عجیب و غریب

Page 55

) 55 اور مخبوط الحواس افراد اور انکے پیچھے ہیں پچیس اپنے آپ کو ہم سے آزاد کروایا اور ہم نے اُسے بچوں کو اپنی طرف یکدم بھاگتے ہوئے دیکھ کر وہ اپنی اردو زبان میں ساری بات سمجھائی.جان پاکستانی شخص گھبرا گیا اور پیچھے کو دوڑا.دار اصل بوجھ کے ٹھیٹھ پنچابی کے لفظ استعمال کر کے اُسے میں یہ بتانا بھول گیا کہ ہم نے پچھلے ایک مہینے سے یقین دلایا کہ ہم واقعی پاکستانی ہیں.وہ کہنے لگا شیو نہیں کی تھی نہ ہی بال کٹوائے تھے نہ ہی کہ میں دکان سے انڈے خریدنے جا رہا ہوں.کپڑے بدلے تھے.آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہم آپ یہیں شہریں میں ابھی آتا ہوں.ہم نے کہا کتنے خوبصورت لگ رہے ہوں گے.جمشید نے نہیں ہم ساتھ ہی چلتے ہیں.چنانچہ بچوں کا شکریہ عربی زبان میں دوڑتے ہوئے اُس پاکستانی ادا کرتے ہوئے ہم اُس کے ساتھ چل شخص کو کچھ بتایا تو وہ ڈرتے ڈرتے رک گیا.ہم پڑے.( میں اُسکا نام بھول گیا ہوں) پھر وہ سب دوڑ کے اُسکے گلے لگ گئے.ہم سب ہم سب کو اپنے گھر لے گیا.کچا گھر تھا اور سردی اُسے ایسے مل رہے تھے جیسے وہ ابھی ابھی مسلمان سے پانی دیواروں کے اندر تک آیا ہوا تھا.ہوا ہو.کا کا تو اُسکی گود میں چڑھ کے اُسے چوم سونے کے لئے زمین پر گرے تھے.میں سوچتا رہا تھا اور ہمارا ایک ساتھی اُسکے ہاتھ ایسے چوم ہوں وہ آدمی تھا کہ فرشتہ تھا.کہانیوں اور افسانوں رہا تھا جیسے کوئی گناہ گار اپنے گناہوں کا اقرار جیسے لوگ آج بھی کہیں نہ کہیں مل ہی جاتے ہیں.کرتے ہوئے اپنے پیرو مرشد کی بیعت کرتا ہے شیطان اور فرشتے یقینا کوئی اور مخلوق بھی ہوں ایک دوست نے اُسے قابو کرنے کے لئے اُسکی گے لیکن اس دنیا میں بھی وہ قدم قدم پر ملتے ہیں شلوار کو ایسا پکڑا کہ اُسکی شلوار اتر تے اترتے بچی.اُس نے اپنی بیوی کو جگایا اور پھر دونوں نے لبنانی بچے مفت میں ایسا ڈرامائی منظر دیکھ کے مل کے ہمارے لئے روٹیاں اور آلو انڈے لطف اندوز ہورہے تھے.اُسنے بڑی مشکل سے بنائے.اُسکے بعد ہمارے لئے گرما گرم قہوہ بنایا.

Page 56

) 56 ہماری باتیں سنیں.خود اُسنے بتایا کہ کوئی پانچ کھانا مانگنے کو بھی دل نہ چاہتا تھا.کسی نہ کسی طرح سال قبل اُسکا پاکستانی ایجنٹ اُسے امریکہ گزارا کیا.باڈر پر ہونے کی وجہ سے اس گاؤں بھجوانے کے لئے دمشق کی جیلوں میں چھوڑ کے کے ستر فیصد نوجوان اور مرد جنگ میں مارے جا بھاگ گیا تھا پھر بالکل ہماری طرح اُسے لبنان چکے تھے، فوج میں تھے یا فوج میں جبری بھرتی ڈی پورٹ کیا گیا تھا اور اب وہ پچھلے تین چار کے باعث غائب ہو چکے تھے.سکول جاتے سالوں سے محنت مزدوری کر کے زندگی بسر کر رہا بچوں کے ہاتھوں میں جہاں سکول بیگ نظر آتے تھا اور اُسنے باقی عمر لبنان میں ہی رہنے کا سوچ لیا تھے وہیں سکول بیگ کے ساتھ کلاشنکوف بھی نظر تھا.پھر سونے کی باری آئی.باقیوں کے بستر کا آتی تھی.گاؤں میں عورتیں ہی عورتیں نظر آتی مجھے علم نہیں لیکن میرا گدا نیچے زمین گیلی ہونے تھیں.میں صبح سے بھوکا تھا اور ویسے ہی گلیوں کی وجہ سے گیلا تھا اور میر اسر جس دیوار سے لگ میں گھوم رہا تھا.چلتے چلتے ایک کچی سی کر یا نہ کی رہا تھا وہ دیوار بھی گیلی تھی لیکن آزادی کے سامنے دکان میں فارغ دکاندار نظر آیا سوچا اس سے ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کی کوئی حیثیت نہ تھی.معلومات حاصل کرتا ہوں کہ کس طرح لبنان رات سوئے ہوئے دیوار میں کسی زور دار دھماکے سے جرمنی جایا جا سکتا ہے.جاسکتا سے لزراٹھیں دور غالباً کسی ٹینک نے گولا داغا دکاندار ایک معزز قسم کا پڑھا لکھا آدمی تھا.کر تھا.ہم گھبرا گئے لیکن اس پاکستانی بھائی نے ہمیں انگلش بولتا تھا اسے باتوں باتوں میں ساری بات کہا سو جاؤ یہ معمول کی بات ہے.اگلا دن لبنان بتائی.اُسکی ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی بھی کے اس گاؤں میں گھومتے گزارا.پیسے جیب میں اُسکے پاس ہی کھڑی تھی.اُسے دیکھ کے سمجھ آیا کہ نہ تھے اور اس پاکستانی بھائی کے گھر کی حالت اور لبنان کو دودھ اور شہد کی سر زمین کیوں کہا جاتا کھانے کی مقدار دیکھ کے اُس پر بوجھ بننے کو اور ہے.باقی باتوں کے علاوہ دکاندار کہنے لگا میرا

Page 57

) 57 ایک ہی بیٹا تھا جو جنگ میں مارا گیا ہے اب میری ہورہے تھے.میں سوچ رہا تھا کہ دنیا میں کتنی قسم صرف چھ بیٹیاں ہیں گاؤں میں گنتی کے غیر شادی کے غم اور کتنی قسم کی جیلیں ہیں.شده نو جوان ہیں.تم میری اس بیٹی سے شادی کر میرا دل چاہ رہا تھا کہ واپس مڑ جاؤں لیکن لو.اُسکی بیٹی کو دیکھ کے ایک دفعہ تو مجھے چپ لگ میں آگے کو چلتا رہا.کچھ ہی دور ایک ڈھابے گئی وہ واقعی بہت خوبصورت تھی.اُس لڑکی نے یہ کچھ لوگ کھانا کھاتے نظر آئے.میں بھی کچھ دیر بھی مجھ سے دو تین باتیں کیں میرا نام پوچھا آرام کے لئے اُس ڈھابے کے ڈولتے ہوئے میرے نام کی خوبصورتی کی تعریف کی اور دمشق ہوئے بینچ پہ ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ بیٹھ گیا.میں ہمارے قید ہو جانے پر اظہار افسوس کیا.کافی دیر کے بعد ہوٹل کے مالک نے اشاروں میں تصور ہی تصور میں اُس لڑکی کے ساتھ لبنان کی میں مجھ سے پوچھا کچھ کھاؤ گے.میں نے جیب گلیوں میں پھرتا رہا اور ہمارے بچے اسرائیلی خالی دکھاتے ہوئے اشاروں سے بتایا کہ ٹمینکوں کو پتھر مارتے نظر آئے.پتہ نہیں کیوں میرے پاس پیسے نہیں ہیں.اُس مہربان اور لیکن میں ڈگمگاتے پاؤں شکستہ دل اور بوجھل ضمیر فرشتہ صفت شخص نے ایک روٹی کے اندر کچھ کے ساتھ دکان سے باہر نکل آیا.ایک دو بار مر فلافل قسم کی چیز رکھ کے مجھے دی جو کہ میں نے کے دیکھا ڑکا ، واپس جانے کا سوچا لیکن پھر کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے لے لی.بہت لذیذ آگے کو چل پڑا.میں پچیس سال کا غیر منگنی تھی.اُس نے پوچھا کہ کس ملک کے رہنے شدہ نوجوان تھا.اُس لبنانی لڑکی کی ہمدردی کی والے ہو.پتہ نہیں کیوں لیکن غیر ارادی طور پر باتیں یاد کر کے اور اُس کے باپ کی یہ مجبوری یاد میں نے اُسے کہا کہ میں انڈیا کا رہنے والا ہوں.کر کے کہ چھ بیٹیاں ہیں ایک ہی بیٹا تھا جو جنگ دار اصل جن حالات میں مجھ سے یہ سوال پوچھا میں مارا گیا ہے ، غم سے دل چھلنی اور پاؤں بوجھل گیا تھا مجھے پاکستان کہتے ہوئے اچھا نہیں لگ

Page 58

) 58 رہا تھا.میں اپنی بھوک مٹانے کے لئے پورے بھائیوں کا ہاتھ تھا.بعض نے شبہ ظاہر کیا کہ ملک ملک کو بدنام نہیں کر سکتا تھا.وطن عزیز سے محبت کا شام میں انکا اصل کام پہلے پولیس سے مل کے قرض کہیں تو چکانا تھا.اگلے ہی روز تبارک کا ایک پکڑوانا اور پھر رشوت لے کے چھڑوانا تھا اور بھائی مبارک ہمیں ڈھونڈتا ہوا شام سے اس یہ پولیس کے لئے ہی کام کر رہے ہیں.بہر حال گاؤں آن پہنچا اور پھر سب سے پوچھتے ہوئے وہ جتنے منہ اتنی باتیں ہمارے لئے یہ سب کہانیاں ہم تک پہنچ گیا.ہمیں آج تک نہیں معلوم وہ ہم تھیں.ہماری جس طرح اُن دونوں بھائیوں تک پہنچ کیسے گیا.کوئی فون کوئی خط کوئی وائرلیس نے مدد کی ہم عمر بھر اُنکے بارے میں اچھے نہیں تھی.لیکن اُسنے ہمیں ڈھونڈ لیا ان دونوں ہی خیالات رکھیں گے اور انہیں دعا ہی دیں گے.بھائیوں کا ذریعہ روزگار غیر ملکی کرنسی کی خریدو ہم شام سے لبنان اس لئے آئے تھے کہ شائد فروخت تھی.اسکے علاوہ لوگوں کو باڈر پار کروانا، لبنان کے ائر پورٹ سے جرمنی چلیں جائیں گے اور قیدیوں کو چھڑوانا تھا.ان دونوں بھائیوں کے.یہاں آکے پتا چلا کہ لبنان کا ایر پورٹ بمباری پاس ہر وقت ایک بہت بھاری رقم ہوتی تھی.کی وجہ سے تباہ ہو چکا ہے اور وہاں رن وے پر نکے بارہ میں مختلف کہانیاں مشہور تھیں.کسی نے اب جہازوں کی جگہ بچے سائیکل چلاتے ہیں.کہا کہ دونوں بھائی پاکستان میں قتل کی متعدد کوئی سمندری راستہ نہیں ہے.اگر خط پاکستان وارداتوں میں مطلوب تھے.پھر جب ایک بجھوائیں تو ایک سال میں پہنچتا ہے.کسی بھی ملک پاکستانی طیارہ اغواء ہو کے شام پہنچایا گیا تو یہ کی ایمبیسی یہاں نہیں ہے.یہ کالا پانی ہے یہاں یہ دونوں بھائی بھی اسی طیارے میں تھے پھر کسی اپنی زندگی کی جنگ لڑو اور اگر لبنان سے فرار سیاسی بناء پر دونوں بھائی شام میں ہی رہ گئے.ہونا ہے تو صرف ایک ہی رستہ ہے کہ غیر قانونی کسی کا کہنا تھا کہ طیارہ اغواء کرنے میں بھی انہیں طور پہ اپنی جان کا رسک لے کے یا اسرائیل جایا

Page 59

) 59 جائے یا ملک شام میں داخل ہوا جائے اور وہاں ہمارے پاکستان پہنچے پر وہاں تبارک مبارک سے ہوائی جہاز کے ذریعے ملک سے نکلا جائے.کے بندوں کو ایک ایک پائی اخراجات کی اور جمع شام کا نام سنتے ہی ہم نے کانوں کو ہاتھ لگا کے انکی فیس ادا کر دی جائے گی.ہم لوگ تبارک مبارک کو کہا کہ ہم ہر گز شام نہیں جائیں گے وغیرہ کے لئے اچھی آسامی تھے اسلئے مبارک چاہے لبنان میں ہماری زندگی کی شام نے ہمیں تسلی دلا کے شام کی سرحد عبور کرنے پر ہو جائے.اُسنے بڑا یقین دلایا کہ لبنان میں راضی کر لیا.طے پایا کہ کل علی الصبح مبارک اور زندہ رہنا ممکن نہیں ہے اگر زندہ رہنا ہے تو ہمیں ہم چار دوست جن میں خاکسار مبارک صدیقی، غیر قانونی طور پر سرحد عبور کر کے واپس شام جانا بشارت صالح ، جمشید اور نصیر شامل ہوں گے ایک ہوگا اُس نے ہمیں بتایا کہ چونکہ ہمارے پاس ٹیکسی کے ذریعے باڈر کر اس کریں گے اور اگر ہم لبنان کے ویزے نہیں ہیں اس لئے کسی بھی دن بحفاظت پہنچ گئے تو اگلے ہی روز باقی پانچوں لبنانی پولیس یا فوجی ہمیں گرفتار کر کے جیل میں یہی عمل دھرائیں گے.ساری رات ہم اُٹھ اُٹھ ڈال دیں گے اور یہاں کے بیٹھتے رہے اور پہلو لبنان میں ہمیں چھڑوانے والا کوئی نہیں ہوگا.دراصل یہ دونوں بھائی پاکستان میں ہمارے ایجنٹ سے بدلتے رہے.شام کا نام سن کے ہی ہماری روح کانپ رہی تھی لیکن اور کوئی چارہ بھی نہ تھا.صبح نماز فجر پڑھ کے رابطے میں تھے اور اُس سے رقم کا مطالبہ کر رہے ہم مبارک کے پیچھے پیچھے چل پڑے.کچھ دور تھے.ہمارے ایجنٹ نے انہیں یقین دلایا تھا کہ ایک ٹیکسی ڈرائیور ہمارا انتظار کر رہا تھا.یہ

Page 60

) 60 ڈرائیور بھی کوئی نشئی ہی لگ رہا تھا.اسکی کا راُس نے نہیں دیکھا.تبارک نے بتایا کہ آج پہلی بار سے بھی زیادہ نشے میں تھی اور چلتی کم اور کھڑکتی فوجی اتنی صبح گاڑیوں کی چیکنگ کر رہے ہیں ورنہ زیادہ تھی.مجھے یاد ہے کہ اُس روز مبارک کی عام طور پہ یہ سلسلہ دیر سے شروع ہوتا ہے.اس جیب میں ہزاروں ڈالر تھے.پتہ نہیں وہ اتنی رقم وقت ہم تبارک کے بھائی مبارک کے رحم و کرم پر کہاں سے لاتا تھا اور کس کے لئے کام کرتا تھا.تھے اور اُسکے اشاروں پر اٹھ بیٹھ اور لیٹ رہے مست سا آدمی تھا جب شام سے ہمارے پاس تھے.مبارک نے ہمیں بتایا کہ ایک میل کا فاصلہ لبنان آیا تھا تو کوئی پندرہ گھنٹے مسلسل سویا رہا تھا.ہمیں چھپ کے انہی کھیتوں میں سے طے کرنا بہر حال اُس روز اُسنے ہمیں بتایا تھا کہ یہ ٹیکسی ہوگا تب کہیں جا کے ہم اس فوجی کیمپ سے والا ہمیں ایک اور ٹیکسی تک پہنچائے گا جو ہمیں دور جانکلیں گے.ہم دل ہی دل میں مبارک کو برا شام میں کسی محفوظ جگہ تک پہنچائے گی.وقت یاد بھلا کہہ رہے تھے جس نے ہمیں اس مصیبت نہیں لیکن کافی دیر ہماری ٹیکسی جانب شام روانہ میں ڈالا تھا.اُس نے کہا کہ اگر فائرنگ ہوئی تو رہی اور پھر یکدم ٹیکسی ڈرائیور نے گاڑی کو ایسی جسکا جو دل کرتا ہے کرے جدھر کو موقع ملتا ہے بریکیں لگا ئیں کہ ہم سب زخمی ہوتے ہوتے بچے بھاگ جائے.یہاں ہماری زندگی کی حیثیت اور.اُسنے چیختے ہوئے عربی میں ہمیں کچھ کہا.ایک پلے کی حیثیت برابر ہے.ہمارے دل مبارک کے حکم پر ہم گاڑی سے اتر کے دوڑ کے خوف کے مارے ایسے دھڑک رہے تھے جیسے کسی قریبی کھیتوں میں چھپ گئے اور ٹیکسی والا فوراً پرانی ڈیزل کار کا انجن اپنے آخری دنوں میں واپس لبنان بھاگ گیا.دور کھڑے فوجیوں نے دھڑکتا تھا.ہمیں پتہ چل رہا تھا کہ ہمارا آخری اس طرح ایک گاڑی کو آتے اور اور تیزی سے وقت آگیا ہے.ہم اُس وقت مبارک کے مڑتے دیکھ لیا تھا.ہمیں لگ رہا تھا کہ ہمیں کسی ہاتھوں میں ایسے تھے جیسے کسی نے قربانی کا بکرا

Page 61

) 61 پکڑا ہوا ہو.ہماری اپنی کوئی مرضی نہیں تھی کیونکہ اور شدید سردی ہونے کے باعث اُنکے منہ سے اُن پہاڑی رستوں میں مبارک ہی ہمارا رہنما بھاپ نکلا رہی تھی پانچ چھ فوجی ہم پہ بندوقیں تھا.کچھ دیر تک ہم مبارک کے اشاروں پر اُسکے تانیں کھڑے رہے جبکہ ایک نے آکے ہماری پیچھے ایک گہرے خشک نالے میں جھک کے جامہ تلاشی لی.تلاشی کے دوران مبارک اُنکے چلتے رہے.پھر ہمیں فوجی بوٹوں کی آوازیں آنی پاؤں میں پڑا گڑ گڑا تارہا اور عربی زبان میں کچھ شروع ہوگئیں.وہ ہماری ہی طرف بڑھ رہے کہتا رہا.اُس نے یہ دانائی ضرور کی کہ انکے تھے اور ساتھ اونچی اونچی آواز میں للکار رہے گرجنے کے باوجود ساری کہانی اُنکو سنادی کہ تھے.مبارک نے کہا ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے.انہوں نے مبارک کو شائد ہمارا آخری وقت آ گیا ہے.اب فوجیوں کی آوازیں بہت قریب پہنچ گئی تھیں.مبارک نے بندوق کے بٹوں سے اچھا خاصاز دو کوب کیا اور پھر ہم پانچوں کو گن پوائنٹ پر ہمت کرتے ہوئے چھے چھپے ہی عربی زبان میں اپنے کیمپ کی طرف لے گئے.مبارک مسلسل کچھ چلانا شروع کر دیا اور کسی فوجی کا آرڈر سننے ہاتھ باندھے اُنکی منت سماجت کر رہا تھا اور ساتھ کے بعد ہمیں حکم دیا کہ ہاتھ اپنے سروں کے پیچھے ساتھ ہماری حالت زار بیان کر رہا تھا وہ چاہ رہا تھا باندھ کے کھڑے ہو جاؤ.اگلے ہی لمحوں میں چھ کہ اس سے پہلے کہ وہ گولی چلائیں انہیں ہماری سات فوجی بندوقیں تانیں دوڑتے اور گرجتے اور اپنی صورتحال بتا دیں کہ ہم کوئی دہشت گرد ہوئے ہمارے روبرو پہنچ گئے.وہ فوجی سرخ و نہیں ہیں بلکہ صرف مجبوری میں بارڈر کراس کرنا سفید اور انتہائی سفاک قسم کے تھے.صبح کا وقت چاہ رہے ہیں.کیمپ کے قریب پہنچنے پر ہمیں گن

Page 62

) 62 پوائنٹ پہ ایک لائن میں کھڑا کر دیا گیا اور مجھے لگا کہے ہاتھ اٹھائے اُس کے پیچھے چل پڑو.ہم کہ اب ہمارا آخری وقت آگیا ہے.ایک فوجی لرزتی ٹانگوں اور دھڑکتے دلوں کے ساتھ ہاتھ نے بندوق کا بٹ میری کمر پر ایسا مارا کہ اوپر کا اُٹھائے شام کی سرحد کی طرف چل پڑے سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا پھر اسنے بندوق ہمارے عقب میں فوجی بندوقیں ہم پہ تانے کی نالی عین میرے سینے پہ رکھ دی اور عربی میں کھڑے تھے اور ہمیں لگ رہا تھا کہ کسی بھی لمحے کچھ چلانے لگا.سب عزیزوں پیاروں کے گولی ہمیں اپنا نشانہ بنائے گی.کافی آگے جاکے چہرے ایک دفعہ آنکھوں کے آگے گھوم گئے میں نے زراسی گردن موڑ کے دیکھا تو فوجی واپس.ایک فوجی تو ایسے اُچھل اچھل کے ہمیں مار اپنے کیمپ میں جاچکے تھے.کچھ نہ پوچھئے کتنی پیٹ رہا تھا جیسے اسی کام کی وجہ سے وہ بخشا جائے خوشی ہوئی.مبارک نے ہمیں بتایا کہ میں نے ان گا.ایک فوجی بار بار آ کے ہمارے بال کھینچتا تھا فوجیوں کو بھاری رقم بطور رشوت دی ہے جسکی شائد فوج میں آنے سے پہلے نائی تھا.ہمارا بناء پہ ہماری جان بخشی ہوئی ہے.مبارک نے دوست بشارت صالح جو کہ امیر آدمی تھا ابھی ہمیں تسلی دی کہ اب اگلے شام کے باڈر پر اتنی تک اپنے ڈالروں کی ایک بڑی تعداد پولیس سختی نہیں ہے ہمارے پاس اُسکی باتیں ماننے سے چھپانے میں کامیاب رہا تھا کیونکہ اسنے اپنی کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا.کوئی آدھ جیکٹ کہیں سے پھاڑ کے ڈالر اندر پھینک دیئے گھنٹہ پیدل چلنے کے بعد ہمیں شامی سرحد نظر آنا تھے.لیکن یہاں وہ سارے ڈالر جاتے رہے.شروع ہوگئی.کوئی خاص باڈر نہیں تھا یا شائد ادھر مبارک کو کچھ فوجی گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ مبارک بارڈر کے ہر رُوٹ سے واقف تھا اور یہ کیمپ میں لے گئے.کوئی دس پندرہ منٹ کے نسبتاً محفوظ راستہ تھا.مبارک ایک ایسا شخص تھا بعد مبارک کیمپ سے نکلا اور ہمیں کہا کہ بغیر کچھ کہ اُسکا پلان اور بیان کسی بھی وقت بدل سکتا تھا

Page 63

) 63 شام کی سرحد کے قریب پہنچ کر ایک بار پھر اُسکی نہیں آنی.جس طرح ہمیں والدین نے بچپن ہدایات بدل گئیں.اُسنے ہمیں بتایا کہ ہمیں کسی نہ میں سکھایا تھا کہ خدا ایک ہے اسی طرح تبارک کسی طرح چھپتے چھپاتے شام کی سرحد کے قریب مبارک کے والدین نے انہیں سکھایا تھا کہ جس پہنچنا ہے اور اس سے پہلے کہ شامی فوجی ہمیں گولی پر تمہارا نام نہیں لکھا وہ تمہیں نہیں لگے گی اور دیکھ لیں ہمیں فوراً لبنان کی طرف چل پڑنا ہے جس گولی پر تمہارا نام لکھا ہے وہ تمہیں پوری دنیا اور اگر وہ ہمیں روکیں تو ہم نے لبنان جانے کی میں سے ڈھونڈ نکالے گی.اُس کا فلسفہ حیات جو درخواست کرنی ہے شام جانے کا نام بھی نہیں بھی تھا لیکن اس وقت ہم مکمل طور پر اُس کے رحم لینا.ہمیں اُسکی حکمت عملی بہت غیر مناسب لگ وکرم پر تھے سو ہم اُسکے اشاروں پر اُسکے پیچھے رہی تھی کیونکہ ہم تو لبنان سے آرہے تھے اور شام چلتے رہے شام کے قریب پہنچ کے ایک فوجی چوکی پہنچنا چاہتے تھے.لیکن ہم اُس وقت مبارک کے نظر آئی یہاں مبارک نے ہمیں حکم دیا کہ واپس ہاتھوں میں یرغمال ہو چکے تھے.مبارک اور لبنان کی طرف چلنا شروع کرو اور تم لوگوں نے تبارک دونوں بھائی عجیب کمانڈو اور طالبان قسم ایک لفظ نہیں بولنا.ہمارے عقب میں شامی کے آدمی تھے.مبارک تو پتہ نہیں کس چیز کے چار فوجی ہمیں دیکھ کے ہماری طرف دوڑے اور پانچ کش لگا کے کہتا تھا اب میں پانچ میل چلائے کہ رک جاؤ نہیں تو گولی چلا دی جائے گی.پہاڑوں پر چھلانگیں لگاتا ہوا چڑھ سکتا ہوں.ہم نے مبارک کے اشاروں پر ہاتھ کھڑے کر دونوں بھائی پتہ نہیں کیوں ہر وقت مرنے کے دیئے.فوجی ہمیں پکڑ کے گھسیٹتے ہوئے اپنے لئے تیار رہتے تھے پتہ نہیں وہ نفس مطمنہ تھے یا کیمپ میں لے گئے.یہاں مبارک نے ہم سب ویسے زندگی سے بیزار تھے.کہتے تھے موت کے پاسپورٹ دکھائے جن پر شام کے ویزے جس دن آنی ہے آنی ہے اور جس دن نہیں آنی، لگے ہوئے تھے.مبارک نے انہیں بتایا کہ ہم

Page 64

) 64 سارے بغیر ویزے کے لبنان جانے کی کوشش پاکستان کو نکلنا کتنا دشوار تھا یہ ایک الگ داستان کر رہے تھے لیکن افسوس پکڑے گئے.یہ سن ہے کیونکہ ہمارے پاسپورٹوں پر لبنان ڈی کے شامی فوجیوں نے ہمیں ایک کیمپ میں بند پورٹ کی سٹیمپ لگی ہوئی تھی اور ہم شام میں کر دیا کہا کہ ابھی ہم پولیس کو بلاتے ہیں جو ہمیں تھے.اُن دنوں غالباً جنگ کے بعد یہ صورت جیل میں ڈالے گی.یہ ٹن کے ہم لرز گئے.حال یا قانون تھا کہ کسی بھی غیر ملکی کو شام سے نکلنے مبارک نے یہاں ہم پر بڑا احسان کیا اور کے لئے وزارت داخلہ یا خارجہ سے اپنے ہمارے سامنے ایک بہت بڑی رقم بطور رشوت پاسپورٹ پر خروج یعنی ملک چھوڑنے کی مہر انہیں دے کر اور منت سماجت کر کے اس بات لگوانی ہوتی تھی.ہمارے پاسپورٹوں کے پر راضی کیا کہ وہ پولیس کو نہ بلوائیں بلکہ ہمیں چھوڑ مطابق ہمیں لبنان میں ہونا چاہئے تھا.قصہ مختصر دیں.پیسے لینے کے بعد فوجیوں نے ہمیں شام ایک روز ہمارا طیارہ دمشق ائر پورٹ سے کراچی کی سرحد میں دھکیل دیا.یہی مبارک کی حکمت عملی کے لئے پرواز کر گیا.وطن عزیز کی زمین پر قدم تھی جس میں وہ کامیاب رہا تھا.شام کی سرحد پر رکھتے ہی ہمیں لگا کہ ہم گویا ایک قسم کے دوزخ ایک ٹیکسی ڈرائیور کھڑا تھا ہمیں دیکھتے ہی کہنے لگا سے نکل آئے ہیں.آج جب میرے دوست مجھے علم ہے کہ تم لوگ لبنان سے بھاگ کے آئے نے میری ڈائری کو کتاب کی شکل میں شائع ہو.مبارک ایسے لوگوں کو خاموش کروانا جانتا تھا کرنے کا ارادہ کیا ہے اس بات کو دو سال.ایک بار پھر ہم دمشق کے ایک اور سستے سے ہو گئے ہیں.سنا ہے سب واپس پاکستان پہنچ ہوٹل میں پہنچ کے بے سدھ ہو کے فرش پر سو گئے گئے سوائے ایک دوست کے جو کوشش کے باوجود پھر اگلے مرحلے میں چار اور دوست بھی لبنان لبنان سے نہیں نکل سکا.ہوسکتا ہے اسے وہاں سے شام ہمارے ہوٹل پہنچ گئے.دمشق سے آگے کوئی دکاندارمل گیا ہو.

Page 65

) 65 پاکستان آ کے تبارک کی ایک بات یاد آئی کہ واپسی پر ایک تو اپنی عزت اور وضع داری قائم جس گولی پہ جسکا نام لکھا ہوتا ہے وہ اُسے ڈھونڈھ رکھنے کے لئے خاموش رہا جبکہ دوسر اسب کو خبر دار لیتی ہے.مجھے ایک دوست کی زبانی معلوم ہوا کرتا پھرتا تھا کہ فلاں راستے سے ہر گز نہ گزرنا ہے کہ ہمارا ایک قید کے دنوں کا ساتھی جو ہماری وہاں ایک کنواں ہے جس میں، میں گر گیا تھا.طرح لبنان اور شام کے باڈر سے تو بیچ نکلا تھا میری عادت بھی دوسرے شخص کی مانند ہے.یہاں پاکستان آنے کے بعد کسی دشمنی کی بناء پہ میں نے سب واقعات لکھ دیئے ہیں کیونکہ آجکل پولیس نے اُسے گرفتار کیا اور فیصل آباد کے کسی ایک بار پھر بیرون ممالک جانے کا رحجان اور گاؤں میں اُسے نہر کنارے لے جا کر جعلی پولیس ضرورت بڑھ گئی ہے اسلئے از راہ کرم بیرون مقابلے میں مار دیا.یہ وہی دوست ہے جسے ہر ملک جانے سے پہلے کوشش کریں کہ آپ خود وقت لبنان شام کے بارڈر پر یہ دھڑکا رہتا تھا محنت کر کے اصل ویزہ اور اصل سفری کہ ابھی کوئی ہمیں گولی مار دے گا.خدا جانے دستاویزات حاصل کریں.جہاں جا رہے ہیں اُس کی چھٹی حس نے کیسے اُسے پہلے سے ہی وہاں کی زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں خبر دار کر دیا تھا کہ کوئی گولی اُسکے تعاقب میں کوشش کریں کہ آپکی فلائٹ براہ راست آپکی ہے.ان کچھ دنوں میں جتنا ہم اُسے جان سکے منزل مقصود کو ہی جارہی ہو.اگر راہنمائی کے ہماری رائے میں وہ انتہائی شریف النفس آدمی تھا لئے یا با امر مجبوری کسی ایجنٹ کی ضرورت پیش اللہ تعالی اسے غریق رحمت کرے.آۓ تو صرف اُسے ہی پیسے دیں جس کا کوئی ڈائری ختم ہوگئی ہے آخری بات کرتا چلوں جس مستقل ٹھکانہ ہو اور اچھی شہرت ہو.اپنی بہو کے لئے یہ سب کچھ لکھا ہے.دو دوست کسی بیٹیوں بہنوں خواتین کو ناقابل اعتبار ایجنٹوں کی تاریک راہ سے گزر رہے تھے کہ اندھیرے کے باتوں میں آکے اُنکے ہمراہ روانہ نہ کریں.ہر باعث ایک کنوئیں میں یا گڑھے میں گر گئے.بات کتاب میں نہیں لکھی جا سکتی.000

Page 66

) جیل میں میرے ایک ساتھی قیدی کے تاثرات 66 1988 کا یہ واقعہ ہے جب ہم دمشق میں قید مبارک صدیقی صاحب کا انداز تحریر چونکہ بڑا ہوئے اور بہت ہی اذیت ناک قید کاٹ کے لبنا شگفتہ ہے اس لئے انہوں نے سارے واقعات ن بجھوا دیئے گئے.آج بھی اُن دنوں کا سوچتا ہوں تو جسم پہ ایک لرزہ طاری بڑے ہلکے پھلکے انداز میں درج کر دیئے ہیں حقیقت ہو جاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خوفناک ہے کہ وہ بڑا ہی مشکل وقت تھا اور ایسے اذیت خواب تھا جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ کے آئے ناک اور جان لیوا مر حلے تھے کہ اللہ سب کو محفوظ ہیں.جیل میں ایک ایک دن ایک ایک مہینے کے رکھے اور دمشق کے تہہ خانوں اور عقوبت خانوں برابر تھا کیونکہ صبح شام دن رات ایک جیسے تھے.سے سب کو بچائے.ہمارے ساتھی عربی قیدی.ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ اُس جیل سے چھوٹ ہمیں کہتے تھے کہ تم دس سال سے پہلے جیل سے گئے اور جنگ کے زمانے میں شام اور لبنان کی نکل ہی نہیں سکتے.لبنان اور شام کی سرحد پر ایک سرحد پر فوجیوں کی گولیوں سے محفوظ رہے.دفعہ تو ایسا وقت آیا مجھے یقین ہو گیا کہ یہ ہمارا

Page 67

) 67 آخری وقت ہے.مبارک صاحب نے کتاب ہمارے پاس ٹیکسی کا کرایہ نہ تھا اور کرایہ نہ دینے میں کچھ واقعات نہیں بھی لکھے شاید کسی مصلحت پر وہ ہمیں پولیس کے حوالے کر سکتے تھے.یہاں کے تحت.کتاب میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں یہ بھی مبارک صاحب نے اور خاکسار نے انہیں صحت کا بہت کمزور ہوں لیکن میرے خیال میں سختی سے ایسا کرنے سے منع کیا.اللہ تعالی سبکو ہر دمشق کے اُن خوفناک تہہ خانوں میں سب سے قسم کی مشکلات سے محفوظ رکھے اور دنیا بھر کی زیادہ مبارک صاحب نے ہی ہمارا حوصلہ بلند جیلوں میں قید بے گناہ لوگوں کی رہائی کے سامان رکھا اور ہر قدم پہ ہمیں کہتے رہے کہ شاید خدا کی پیدا کرے اور تمام ممالک کے سربراہان کو یہ اس میں کوئی بہتری ہوگی.ہمارے اپنے گروپ توفیق دے کہ وہ اپنی رعایا کے دلوں پر محبت کے لوگوں میں ایک دفعہ غلط فہمی کی بناء پر بہت کے بل بوتے پر حکمرانی کریں نہ کہ بندوق کے سخت قسم کی لڑائی ہوئی لیکن صلح کروانے میں زور پر.آمین.مبارک صاحب نے بڑا کردار ادا کیا.جیل میں مصیبتیں اُٹھا اُٹھا کے اور نا انصافیاں دیکھ دیکھ کے بہت سے ایسے مقامات آئے جب ہم غصے میں جذباتی فیصلے کرنے والے تھے.مثلاً لبنان کی سرحد سے ٹیکسی پر جاتے ہوئے ہمارے تین ساتھیوں نے جو کہ گاؤں کے رہنے والے جٹ قسم کے لوگ تھے پروگرام بنایا کہ کسی طرح ٹیکسی ڈرائیور کو باندھ کے اُس کی ٹیکسی لے کے پیسے چھین لیتے ہیں.اسکی وجہ یہ تھی کہ ایک تو 000 ( محمد صالح بشارت)

Page 67