Doubt

Doubt

ولکن شُبّھہ لھم

Author: Other Authors

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات
وفات مسیح ناصری

اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز انگلستان کے طبع کردہ اس مختصر کتابچہ میں مولوی محمد یوسف لدھیانوی کے رسالہ ’’نزول عیسیٰ علیہ السلام: چند شبہات کا جواب‘‘ پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور موصوف کے عقیدہ حیات مسیح کے بودے پن اور دیگر غلط فہمیوں کا بڑے موثر انداز میں ازالہ کیا گیا ہے۔ عقل و نقل سے آراستہ اس پیشکش میں مولوی صاحب کی کج فہمیوں کا ساتھ ساتھ جواب دیا گیا ہے اوراحمدی مصنف کے  زبان و بیان میں کوئی بھی تلخی اور سختی نظر نہیں آتی ہے۔ صاف دل قارئین کے لئے اس کتابچہ میں سلف صالحین کے بعض حوالہ جات کی توضیح بھی موجود ہے جو اپنے اپنے وقت میں حیات مسیح کے نظریہ کو ہی بظاہر درست سمجھتے تھے۔


Book Content

Page 1

ولكن شُبَة لهم ایی - ایم - طارق

Page 2

1991 ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD.Published by: Islam International Publications Limited Islamabad Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ U.K.· Printed by: Raqeem Press Islamabad.U.K.ISBN 1 85372 415 7 Electronic version by www.alislam.org

Page 3

(3) نمبر شمار فهرست مضامین عناوین لدھیانوی صاحب کے کتابچہ کے متعلق ایک عمومی جائزہ I عقیدہ حیات مسیح کے متعلق لدھیانوی صاحب کے دعوائے اجماع امت کی حقیقت.صفحہ - نزول مسیح کے متعلق لدھیانوی صاحب کا ایک حوالہ اور اس کا جواب - ۲۱ حضرت امام مالک کے عقیدہ وفات مسیح پر اعتراض اور اس کا جواب ۲۴ حضرت امام ابن حزم کے عقیدہ وفات مسیح کے متعلق اعتراض اور اس کا جواب 4 وفات مسیح کے متعلق حضرت ابن عباس کے قول پراعتراض کا جواب ۲۶ I I D علامہ عبید اللہ سندھی کی تفسیر العام الرحمان کے متعلق اعتراض کا جواب ۳۶ عرب مصر اور مہندوستان کے ایک درجن سے زائد علماء کا عقیدہ وفات سیخ حجت نہ ہونے کے متعلق اعتراض کا جواب A حیات مسیح کے عیسائی عقیدہ کو اسلامی عقیدہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش اور اس کا جواب ۳۸ ۳۹ ۴

Page 4

١٠ ۱۲ اليا) ه سادہ لوح عوام کو دھوکا دینے کی ایک اور کوشش حیات نزول عیسی کے بارے میں پیش کردہ قرآنی آیات کا جواب 1 آیت یا عیسی انی متوفيك ورافعک اتی سے رفع جسمانی ثابت کرنے کی ناکام کوشش ۱۳ ۱۳ قائلین وفات مسیح کا مقام کم تر ہونے اور ان کی تعداد معمولی ہونے کا اعتراض اور اس کا جواب ۴۲۳ ۱۳ (۳) لدھیانوی صاحب کا پیش کردہ علامہ ابن حجر عسقلانی کا ایک سوالہان پیش اور اس کا جواب 04 ۶۳ ۶۵ وفات مسیح کے متعلق قرآن کریم کی پہلی آیت گران گرام دوسری آیت ۱۵ ۱۶ T

Page 5

لدھیانوی صاحب ے کتابچہ کے متعلق ایک عمومی جائزہ مولوی محمد یوسف لدھیانوی صاحب کا ایک رسالہ ہو نزول عیسی علیہ السّلام چند شبہات کا جواب نظر سے گزرا جو مومون نے ایک ایسے سیدھے سادھے مسلمان کے مکتوب کے جواب میں لکھا ہے.چین کا احمدیت سے کوئی واسطہ نہیں.مگر وفات عیسی علیہ السّلام کے قائل ہیں.چنانچہ سائل نے اپنے خط کے آغاز میں ہی لکھا ہے کہ کئی تحقیق است وفات مسیح علیہ السلام کے قائل ہیں ، جناب لدھیانوی صاحب نے بنوابی رسالہ میں اپنی تمام تر کوشش اور سعی حضرت عیسی علیہ السلام کے زندہ ثابت کرنے کے لیے کی ہے.وہ اس میں کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں، اس کا اندازہ آپ کو آئندہ سطور سے ہو جائے گا.کیونکہ مردے کو زندہ ثابت کر نا کوئی آسان کام نہیں.بالخصوص بیسیویں صدی کے سائنس اور ٹیکنا لو جی کے اس دور میں ایک عام انسان بھی ایسے دقیانوسی اور بو دے عقیدہ کو قبول کرنیکے لیے آمادہ نہیں ہو سکتا، کجا یہ کہ اہل علم و عقل جن کی فراست نور قرآن اور نور مصطفوی سے منور ہو ، یہ عقیدہ رکھیں.حیات مسیح کا عقیدہ ابتدائی صدیوں میں عیسائی نو مسلموں کے ذریعہ اسلام میں داخل ہوا ، اور نزول مسیح کی پیش گوئی کے پس منظر میں بہت سے جید علماء بھی غلط فہمی کا شکار ہو گئے.یہاں تک کہ مرور زمانہ سے یہ عقیدہ اتنا راسخ ہوا کہ اصل الاصول سمجھا جانے لگا اور اس کے منکرین پر کفر کے فتوے لگائے گئے.بایں ہمہ ہر دور میں ایسے علماء بھی پیدا ہوتے رہے جو اپنے نوبی فراست کے باعث اس عقیدہ کو رد کرتے رہے اور

Page 6

قرآن وحدیث سے اس کے خلاف استنباط فرماتے رہے لیکن اب تو زمانے کے رنگ ہی بدل چکے ہیں اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس ناقابل فہم عقیدہ سے بیزار ہو چکی ہے لدھیانوی صاحب نے وفات مسیح کے قائل ، سائل کو سبو طفل تسلیاں دینے کی کوشش کی ہے اس کے نمبر دار تجزیہ سے صادق روشن ہو جائے گا کہ وہ اس عقیدہ میں کس قدر غلطی پر ہیں.D لدھیانوی صاحب تمہید میں فرماتے ہیں :- " حضرت عیسی علیہ السّلام کی حیات اور دوبارہ تشریف آوری کا عقیدہ اختلافی نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ محدث دھلوی تک تمام اُمت کا اجتماعی اور متفق علیہ عقیدہ ہے" (رساله مذکوره صفحه ۳) حیرت ہے کہ لدھیانوی صاحب ایسے اصل الاصول مسئلہ کے لیے قرآن اور سنت اور حدیث رسول کو چھوڑ کر علماء کے نام نہاد اجماع کا رخ کر رہے ہیں.جس سے اُن کے مؤقف کی کمزوری صاف عیاں ہے.جناب والا ! ! اگر آپ کا موقعت ایسا ہی مضبوط ہے تو قرآن و حدیث سے بات شروع کی ہوتی.آپ نے تو بگڑی ہوئی تاریک صدیوں میں غلط نہی سے رواج پانے والے ایک بج عقیدہ کو اجتماع کا نام دے دیا.اس اجماع کا پول تو ہم کھولیں گے ہی اور روز روشن کی طرح ثابت کر دیں گے کہ آپ نے اس عقیدہ پر اجتماع کی تعلی کر کے کیسی ناحق جسارت کی ہے لیکن آپ اتنا تو فرمائے کہ کیا آپ قرآن کو علماء کے اجماع پر مقدم نہیں سمجھتے ؟ کیا عالم دین ہونے کا دعوئے رکھنے کے باوجود آپ کو اپنی بھی خبر نہیں کہ اجماع کی بحث تو

Page 7

اٹھتی ہی اس وقت ہے جب قرآن اور حدیث کی نصوص صریحہ قطعی فیصلہ میں حمد نہ ہوسکیں، پھر کیوں قرآن کو اولیت نہیں دیتے.نیز کیا قرآن حکیم پری سب اُمت کا اجماع نہیں ہے.لیکن ہم خوب سمجھتے ہیں کہ یہ آپ کی مجبوری ہے.کیونکہ قرآن میں حیات مسیح کی تائید میں ایک بھی آیت موجود نہیں جبکہ اس کے بر عکس ایسی متعدد آیات ہیں جن سے قطعی طور پر وفات مسیح ثابت ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے متعدد فرمودات بھی ہماری راہنمائی کر رہے ہیں جن سے وفات میں قطعی طور پر مستنبط ہوتی ہے لیکن ایک بھی حدیث ایسی دیکھائی نہیں دیتی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ میں علیہ السلام قوت نہیں ہوئے بلکہ آسمان پر زندہ موجود ہیں.جہاں تک آپ کے نام نہاد اجماع اُمت کا تعلق ہے اس کا یہ حال ہے کہ متعدد بزرگان سلف و علمائے امت وفات مسیح کے ہمیشہ قائل رہے اور قائل ہیں اور حضرت علی علیہ السّلام کے نزول کو استعارہ کا رنگ دیتے ہیں.مگر ہمیں حیرت اور تعجب اس پر ہے کہ آپ نے اس عظیم الشان اجتماع سے کیوں آنکھیں بند کر لیں جو ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے معا بعد ہوا.اسلام کے اس پہلے اجماع صحابہ کو حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں جگہ دی ہے.اور تمین استاد کے ساتھ مختلف مقامات پر تکرار اس کا ذکر کیا ہے.تفصیل اس عظیم الشان اجماع کی یہ ہے کہ وفات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت نہیں نہوئے.اور آپ فرماتے تھے کہ خدا کی قسم مجھے اس بات پر دلی یقین تھا کہ حضور کی وفات نہیں ہوئی اور آپ ضرور ہمارے اندر دوبارہ تشریف لائیں گے.اسی دوران حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کی زیارت کی آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور عرض کیا ! میرے ماں باپ آپ

Page 8

پر قربان آپ زندہ ہونے کی حالت میں بھی پاک تھے اور آپ کو موت بھی اسی حال میں آئی.اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں کبھی جمع نہیں کرے گا پھر آپ نے حضرت عمر کو مخاطب کر کے فرمایا اسے قسمیں کھانے والے مھر جا !! اور پھر آپ نے ایک زبر دست مدلل تقریر فرمائی جس پر تمام صحابہ جو کثیر تعداد میں موجود تھے آپ کی طرف متوجہ ہو گئے.آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا :- "اے لوگو ! تم میں سے جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ آپ وفات پاگئے ہیں اور جو شخص خدا کی عبادت کرتا تھا وہ یقین رکھے کہ ہمارا خدا زندہ ہے اور اس پر کبھی موت نہیں آئے گی.پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: وَمَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُوْلُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (سورة آل عمران : ۱۳۵) کہ محمد مصطفے اصل اللہ علیہ وسلم ایک رسول ہی تو ہیں اور آپ سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں.لہذا آپ کی وفات کوئی اچنبہ نہیں ہے.اس پر لوگ بے اختیار ہو کر رونے لگے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جونہی حضرت ابو کرینہ نے یہ آیت پڑھی ہیں تو سخت دہشت زدہ اور حیران ہو کر رہ گیا.میری ٹانگیں میرے وجود کا بوجھ اٹھانے سے قاصر رہ گئیں.اور میں زمین پر گر پڑا.خدا کی قسم ! ایسے لگتا تھا کہ حضرت ابو بکر نہ کی اس آیت کی تلاوت سے قبل لوگوں کو اس کا علم ہی نہ تھا.اور آپنے سے سُن کر لوگوں نے یہ آیت پڑھنا شروع کردی سنتی کہ مدینہ کے ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی.بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي صلى الله علیه وسلم وكتاب الجنائز باب الدخول على الميت وكتاب المناقب باب مناقب ابی میمیر)

Page 9

لدھیانوی صاحب !.آب فرمائیے کہ آپ اس عظیم الشان اجماع صحابیہ کا کس طرح انکار کریں گے.اگر کسی ایک صحابی کا بھی یہ عقیدہ ہوتا کہ حضرت مسیح ناصری زنده آسمان پر موجود ہیں تو وہ حضرت ابو برید کے تمام نبیوں کی وفات کی قرآنی دلیل کو بڑی قوت سے رد کر تا اور اعلان کرتا کہ چونکہ حضرت عیسی علیہ السّلام زندہ آسمان پر موجود ہیں اور اسی پر ہمارا اجماع ہے لہذا ابوبکریہ کی یہ دلیل بالکل غلط اور بے حقیقت ہے کہ چونکہ سب گزشتہ انبیاء فوت ہو چکے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فوت ہونا تھا.صحیح بخاری، اصح الکتب بعد کتاب اللہ ے مسلم الثبوت اس عظیم الشان اجماع کا منکر کون ہوگا ؟ اس کا فیصلہ ہم لدھیانوی صاحب پر نہیں ، سر صاحب بصیرت پر چھوڑتے ہیں.آپ کے نام نہاد اجماع امت کو اس صحیح بخاری کی ایک حدیث نے پارہ پارہ کر دیا اور ہمیشہ کے لیے اس کا سر توڑنے کے لیے اس پر یہ آیت نگران رہے گی کہ وَمَا مُحَمَّدٌ الاَرَسُوْلَ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (ال عمران : (۱۳۵) ترجمہ : اور مستند صرف ایک رسول ہے.اس سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں.پس جناب مولوی صاحب اہم ابوبکرین کے رنگ استدلال میں ہی گزارش کرتے ہیں کہ ہر درو شخص میں نے حضرت علی علیہ السّلام کو معبود بنارکھا ہے اور اس کی عبادت کرتا ہے وہ جان نے کہ قرآن کی رو سے اُن کا یہ خُدا فوت ہو چکا ہے.پھر بھی آپ کی مزید تسلی کے لیے چند بزرگان اُمت کے حوالے پیش کرتا ہوں جن میں سے ہر ایک آپ کے اجماع کی تعلی کی قلعی کھول رہا ہے.

Page 10

حضرت امام حسن میسی کے جسمانی رفع کے خلاف اور روحانی رفع وطبعی موت کے قائل تھے ابن سعد نے الطبقات الکبری میں حضرت علی کرم اللہ وجھہ کی وفات کے بارہ میں حضرت امام حسن کا یہ قول نقل کیا ہے :- وَلَقَد قُبِضَ في اليةِ الَّتِي عَرَجَ فِيهَا بِرُوحِ عَلَى بْنِ مَرْيَمَ لَيْلَة سَبْعٍ وَعِشْرِينَ مِنْ رَمَضَانَ ر الطبقات الکبری لابن سعد المجلد الثالث في البدر بين من المهاجرين والانصاري واز بیروت الطباعة والنشر) ترجمہ :." اور حضرت علی کی روح اس رات قبض کی گئی جس رات میں علی بن مریم کی روح مرفوع ہوئی بھی یعنی ، اور رمضان کی رات" مفتر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس وفات مسیح کے قائل ہیں ! امام بخاری نے ان کا یہ مذہب اپنی صحیح میں یوں نقل کیا ہے.٢٠ - ا قال ابْنُ عَبَاسٍ مُتَوَفِيكَ مُمْيْتُكَ ( بخاری کتاب" التفسير - سورة المائدة ) یعنی ابن عباس " آیت يَا عِيسَى إِلَى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ.....الخ کے یہ عنى کرتے ہیں کہ اسے عیسی میں تجھے وفات دینے والا ہوں.(یعنی قائمین حیات مسیح کی کی طرح توتی کے معنے آسمان پر اٹھانے کے نہیں کرتے) ۳.حضرت جارو د بن معلی صحابی رسول نے وفات رسول کے بعد اپنے ایک خطبہ میں وفات عیسی کا جو اعلان کیا.مابین بد و با این کتاب متر سیرت رسول صل اللہ علیہ وسلم میں اس کالوں ذکر فرماتے ہیں.

Page 11

أنّهُ قَالَ: مَا شَهَا وَتَكُمْ عَلَى مُوسَى ؛ قَالُوا : نَشْهَدُ اَنَّهُ رَسُولُ اللهِ.قَالَ: فَمَا شَهَارَتُكُمْ عَلَى عينى ؟ قَالُوا : نَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللهِ قَالَ عاشَ كَمَا عَاشُوا وَمَات كَمَا مَاتُوا " ورسوله مختصر سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم شیخ الاسلام، الامام محمد القرين الثاني عشر محمد بن عبد النواب مشتا ذار العربية للطباعة والنشر و التوزيع بيروت لبنان می.سب و ۲۰۸۹ (بیروت لبنان) ۳.ترجمہ: جار و دبن معلی نے کہا ر اے لوگو اہم موسی کے بارے میں تم کیا گواہی دیتے ہو.انہوں نے کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول تھے.حضرت جارود نے پھر پوچھا کہ عیسی کے بارے میں تمہاری کیا گواہی ہے انہوں نے کہا کہ ہم گواہی دیتے کہ وہ اللہ کے رسول تھے اس پر حضرت جارودبن معلی نے فرمایا اور میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول تھے.وہ اسی طرح زندہ رہے میں طرح پہلے رسول زندہ رہے اور اُسی طرح وفات پا گئے نہیں طرح پہلے رسولوں نے وفات پائی.نم - حضرت امام مالک رحمہ اللہ علیہ وفات مسیح کے قائل ہیں.علامہ شیخ محمدطاہر اپنی تصنیف مجمع سحار الانوار میں لکھتے ہیں :.دو وَ الأكثر ان عيسى لَمْ يَمُتْ وَقَالَ مَالِكَ مَاتٌ جمع بحارالانوار من زیره ماده حکم مطلع انشی نول کشور ) یعنی اکثر لوگوں کا تو یہی مذہب ہے کہ عیسی نہیں مرے لیکن امام مالک کہتے ہیں کہ وہ فوت ہو گئے.ه - مشهور شیعه عالم و بزرگ علامه قمی المتوفی ۳۸ د وفات مسیح کے قائل ہیں آپ اپنی کتب

Page 12

اکمال الدين واتمام النعمة فى اثبات الرجعہ ہمیں فرماتے ہیں:.ولم يقدروا على قتلِهِ وَصَلْبِهِ لِأَنَّهُمْ تَوْقَدَرُوا عَلَى وَالِكَ كان تكذيبا يقوله تعالى ولكن رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ بَعْدَ أَن تَوَفاء راكمال الدين واتمام النعمة في إثبات الرجعة - للشيخ الاقدم والمحدث الاكبر إلى جعفر الصدوق محمد بن على بن الحسين بن بابويه العظمى المتوفي ر م ٢١ - المطبعة الحيدرية- النجف ) ترجمہ :.اور وہ ریعنی یہودی مسیح کے قتل اور ان کو صلیب دینے پر قدرت نہ پا سکے کیونکہ اگر وہ اس پر قادر ہو جاتے تو اللہ کی بات جھوٹی نکلتی لیکن اللہ تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کو طبعی طور پر وقات دی اور اس کے بعد اُن کو روحانی رفعت عطا فرمائی.مشہور شیعہ عالم علامہ جنائی وفات مسیح کے قائل ہیں.علاقہ طبرسی تفسیر مجمع البیان میں دیر آیت فَلما تو نيتني....الخ فرماتے ہیں:- فلما توقيتَى أَي تَبَني إِلَيْكَ وَا مَثْنِي مَنِ الْجَبَالِي ر مجمع البيان في تفسير القرآن لو لقد الشيخ الوعل الفضل بن الحسن الطبرسي - الجز الثالث ۲- احیا التراث العربی - بیروت لبنان) ترجمہ :.جب تو نے مجھے وفات دے دی اور طبیعی موت دی.یہ معنے علامہ حیائی نے کئے ہیں.ے.علامہ ابن تیمیہ اپنی تصنیف مجموعة الرسائل الکبری میں وفات مسیح کا ذکر یوں فرماتے ہیں: "ومعلوم ان هذا الذي فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ مِنَ الْخَبَرِ مَنْ مُوسَى وعلى بعد تعرفيهِمَا لَيْسَ هُوَ مِمَّا أَنْزَلَهُ اللَّهُ وَمِمَّا تَلْقَوْهُ مَنْ موسی و عیسی الجزء الاول من مجموعته از سال ابری تالیف شیخ الاسلام تقی الدین ابن عباس احمد عبد الحليم ابن عباسلام

Page 13

بن تيمية الحراني الدشقى المتوفى سنة ٤٢٨ - منت دست - الطبعة الأولى سنة سلامها المطبعة العامرة الشرقية بمصر على نفقته به شركة طبع الكتب العلمية بمصر) ترجمہ:.اور یہ بات ظاہر ہے کہ تورات اور انجیل میں حضرت موسیٰ اور عیسی علیها السلام دونوں حضرا کی وفات کے بعد کے بنو حالات تحریہ ہیں وہ اللہ تعالے کا نازل کردہ کلام نہیں اور نہ ہی ایسا کلام ہے کہ نہیں کہ ان اہل کتاب نے حضرت موسیٰ اور عیسی علیہما السلام سے اخذہ کیا ہو کیونکہ اس کا تعلق ان کی وفات کے بعد کے حالات سے ہے).- علامہ ابن قیم زاد المعاد میں مسیح علیہ السلام کے جہانی مرقع کے عقیدہ کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.وَاهَا مَا يُذكرُ عَنِ الْمَسْحُ أَنَّهُ رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ وَلَهُ ثَلَاتُ وَثَلَا تُونَ سَنَةً ، فَهَذَا لَا يُعْرَفُ لَهُ أَثْرَ مُتَصِل يَجِبُ الْمَصِيرُ إِلَيْهِ ر زاد المعاد في هدي خير العبادة لابن القيم الجوزية الامام الحدث المفتر الفقية شمس الدين ابى عبد الله محمد بن ابی بکر الا عن الدشقی (۷۵۱۰۷۹۱ ) الجزء الاول من مؤسسة الرسالة بیروت شارع سوریا - ترجمہ :.اور یہ تنویح کے بارہ میں مشہور ہے کہ وہ آسمان پر اٹھا لیے گئے جبکہ ان کی عمر ۳۳ برس تھی ، اس کی کوئی ایسی سند متصل موجود نہیں جس کی بناء پر اس قول کو قبول کیا جائے.- آٹھویں صدی کے علامہ ابن حیان نے اپنی تغییر سحر المحیط میں اور بارھویں صدی کے علامہ شوکانی نے اپنی تغییر فستح القدیر میں بعض علماء سے توئی کے معنی موت نقل کر کے ان کے وفات مسیح کے قائل ہونے کا ذکر کیا ہے.- قتل هذَا يَدُلُّ عَلَى اَنَّ اللهَ سُبْحَانَهُ تَوَفَّاهُ قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَهُ سمر الحميد جز رابع صلا ناشر مکتبه و مطابع النصر الحديثة - ریاضی ۱۳۵۰ هـ تفسير فتح القدير العلام شوكاني الجزء الثاني من مطبع مصطفى البابي الحلبى مصر

Page 14

یعنی یہ کہا گیا ہے کہ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیج کو رفع سے پہلے وفات عطا فرمائی.- علامہ ابو مسلم اصفہانی وفات مسیح کے قائل ہیں.علاقہ رازی اپنی تفسیر کبیر میں زیر آیت وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّنَ میں فرماتے ہیں :- رای عمران آیت (۸۲) (الاول) مَا ذَكَرَهُ أَبُو مُندِمِ الْأَصْفَهَانِي فَقَالَ: ظَاهِرُ الآية يدلُّ عَلى أَن الذِينَ أَخَذَ اللَّهُ المِيثَاقَ مِنْهُمْ يَجِبُ عَلَيْهِمُ الإِيمَانُ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِندَ مَبْعَتِهِ ، وَهُل الاشياء عليهم الصلوةُ وَالسَّلَامُ يَكُونُونَ عِنْدَ مَبْعَث مُحَمَّدٍ صَلَّى عَلَيْهِمُ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ زُمْرَةِ الأَمْوَاتِ التفسير الكبير للامام الفخر الرازي الجزء الثامن مثلك الطبعة الثانية الناشر دار الكتب العلمية طهران پہلی بات وہ ہے جس کا ذکر ابو مسلم اصفہانی نے کیا.وہ کہتے ہیں کہ اس آیت کا ظاہری مفہوم اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں سے پختہ عہد لیا مت ان پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت آپ پر ایمان لانا واجب ہے اور راسر واقعہ یہ ہے کہ تمام انبیاء بعثت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت زمرہ اموات میں ہوں گے " ۱۱ - علامہ بھی الدین ابن عربی مسیح کے جسمانی رفع کی تردید اور روحانی رفع کا ذکر کرتے ہوئے بل رفعه الله الیہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :-

Page 15

رَفْعَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ إِنَّصَالَ رُوحِهِ عِنْدَ الْمُفَارَقَةِ مَنِ المِ السَّفْلِي بِالْعَالَمِ الْعَلوي (تفسير القرآن الكريم للشيخ الأكبر العارف بالله العلامة محي الدين بن عربي المتوفى سنة ست مجرته تحقيق وتقديم الدكتور مصطفى غالب المجلد الاول من دار الاندلس للطباعة والنشر و التوزيع - بيروت) بینی حضرت سی کا رفع در اصل ان کی روح کے عالم سفلی سے جدا ہو کر عالم علومی میں قرار کپڑنے کا نام ہے.یہاں یہ امر یادر ہے کہ علامه ابن عربی کا تعلق ان بزرگ صوفیاء سے ہے جنہوں نے مبیع کی آمد ثانی کی میگوئی سے ان کا ایک دوسرے قسم کے ساتھ روحانی نزول مرادیا ہے.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں :- وَلَمَّا كَانَ مَرْجَعَة إِلَى مَفْرِهِ الأصلي وَلَمْ يَصِلْ إِلَى انْكَمَالِ الخَية وجب نزوله فِي آخِرِ الزَّمَانِ بِتَعَلَّقِهِ بِبَدَنِ آخَرَة (تفسیر ابن عربی حواله مذکور) یعنی جب مسیح کا مرجع اپنی اصلی منقر کی طرف ہے اور ابھی وہ اپنے حقیقی کمال کو نہیں پہنچا سلنڈا آپ کا نزول آخری زمانہ میں ایک دوسرے جسم کے ساتھ تعلق کی صورت میں واجب ہے.نہی شہادت علامہ معراج الدین ابن الوردی (۹، ان اپنی کتاب میں دی ہے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ حضرت عیسی کے نزول کے یہی معنی سمجھتا رہا ہے.کہ وہ ایک اور وجود

Page 16

% ۱۲ میں منتقل ہو کر تشریف لائیں گے نہ کہ اپنے وجود کے ساتھ.اب کہاں گیا آپ کا اجماع ؟ گزشتہ تیرہ صدیوں میں اس مزعومہ اجماع کے ٹکڑے بکھرے پڑے ہیں.علامہ این الوری کی شہادت ملاحظہ ہو.وقَالَتْ مرقة نزول عيسى خُرُوجُ رَجُلٍ يَشْبَهُ عِيسَى فِي الفَضْلِ وَ الشَّرْن كَمَا يُقَالُ لِلرُّجُلِ الخَيْر مَلَكَ وَلِتَزِيرِ شَيْطَانَ تَشِيمًا بِهِمَا وَلَا يُراد الاعيان و خريدة العجائب وفريدة الغرائب مساع تالیف سراج الدين ابو شخص عمر بن الوردی متوفی ۷۴۹ مضطح ابال العلمي مصر - الطبعة الثانية اور ایک گروہ کہتا ہے کہ نزول عیسی سے مراد ایسے شخص کی آمد ہے جو فضیلت اور شرف میں علینی سے مشابہ ہو جیس طرح اچھے آدمی کو فرشتہ اور بڑے کو شیطان کہہ دیتے ہیں اور اس سے مراد فرشتہ دشیطان نہیں بلکہ ان سے مشابہت ہوتی ہے.۱۲ - امام ابن حزم وفات مسیح کے قائل ہیں اپنی کتاب المحملی میں فرماتے ہیں:.وَإِنَّ عَلَى عَلَيْهِ السَّلَامُ لَمْ يُقْتَلُ وَلَمْ يَصْلَبُ وَلكِنْ تَوَفَّاهُ اللهُ عز وجل ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَيْهِ لا ل الحمل للحافظ ابی محمد علی بن حزم الاندلسی المظاهر مى الجزء الاول ۲۲ مطبعته الامام ۱۳- شارع قرتول المنشيه بالقاعة بصر) یعنی علی علیہ السلام نہ قتل ہوئے نہ صلیب پر مار گئے لیکن اللہ تعالی نے ان کو وفات دی پھر ان کو رفعت بخشی.۱۳ - امام اکبر سلامه محمود شلتوت مفتی مصر نے الفتاوی میں نہایت شد و مد سے وفات عیلی کا فتویٰ دیا ہے ، فرماتے ہیں :-

Page 17

۱۳ والمعنى أن الله توفى عينى وَرَفَعَهُ إِلَيْهِ وَلَمَهَرَهُ مِنَ الذِيْنَ كَفَرُوا......وَقَدْ فَسَّرَ الأَمُوسى قَوْلَهُ تَعَالَى إِلَى مُتَوَفِّيكَ بِوُجُو.مِنْهَا وَهُوَ أَظْهَرُها إِلى مُسْتَونِى أَجَلَكَ وَمُيْتُكَ كُتف أنفك لا أُسَيطُ عَلَيْكَ مَنْ يَقْتُلُكَ ، وَهُوَ كِنَايَةً عَنْ عِصْمَتِهِ مِنَ الْأَعْدَاء وَمَا هُمْ بِصَدَدِهِ مِنَ الْفَتِكِ بِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ لأَنَّهُ يَنزِمُ مِن استيفا اللهِ أَجَلَهُ وَمَوْتِهِ حَتَّفَ أَنْفِهِ ذَلِكَ وَظَاهِرُ أَن الرفع اللَّذِي يَكُونُ بَعدَ التَّوْفِيةِ - هُوَ رَفع المكانة لَا رَفع الجَسَدِ - من أَيْنَ تُؤْخَذَ كَلِمَةُ السَّمَاءِ مِنْ كَلِمَةِ إِلَيْهِ اللهُم إن هَذَا لقَلَمِ التَّعْبِيرِ الْقُرآنِيَ الْوَامِحِ.روَايَاتٍ لَمْ يَقُمْ عَلَى العَنِ بِهَا - فَضْلًا عَنِ الْيَقِينِ - بُرْهَانَ ولا يشبه برهان انفتادی دراسة لمشكلات المسلم المعاصر في حياته اليومية والعامة الامام الأكبر محمود شلتوت ما - دار الشروق) ترجمہ : - علامه محمود شلتوت آيت يا عيسى إني متوفيك.....الخ کی دلیل دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسی کے ساتھ یہ سب وعدے پورے کئے) ان کو وفات دی اور عزت دی اور کافروں سے پاک کیا.پھر لکھتے ہیں علامہ الوسی نے اپنی تفسیر میں متوفيك کے کئی معنے گئے ہیں ان میں سے سب سے مضبوط معنی یہ ہیں کہ میں تیری عمر پوری کرکے تجھے طبعی موت سے وفات دوں گا اور میں تجھ پر ایسے لوگوں کو مسلط نہیں کروں گا جو تجھے قتل کر دیں اور دراصل یہ وعدہ

Page 18

میچ کی دشمنوں سے حفاظت اور مسیح کو ان کے ارادہ قتل سے بچانے کا اشارہ اپنے اندر رکھتا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے میسج کی عمر کو پورا کر نے اور موت سے طبعی وفات لازم آتی ہے.پھر رفع کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ رفع ہو تو فی کے بعد ہو سکتا ہے وہ رفع مرتبہ ہی ہے یہ فع جسمانی نہیں.پھر رفع سماوی کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ریل تُفعَهُ اللهُ الیہ میں اکیه میں آسمان کا کوئی لفظ موجود نہیں ہے پھر جسمانی رفع کے قائلین کی طرف سے آسمان کا لفظ کہاں سے لیا جاتا ہے یقینا یہ قرآن کے ایک واضح مفہوم کے ساتھ زیادتی ہے محض ایسے تھے اور خلنی روایات قبول کرتے ہوئے جین پر کوئی دلیل تو کیا دلیل کا کوئی ادنی سا شائبہ بھی نہیں.۱۴ - مفسر قرآن علامہ مفتی محمد عبده (قاہرہ) وفات مسیح کے قائل ہیں.آیت انی متونيك (ال عمران) کی تفسیر میں لکھتے ہیں فان هَذا بَشَارَةٌ بِالْجَائِهِ مِنْ مَكْرِهِ وَلَمْ يَنَالُوا مِنْهُ مَا كانوا يزيدُونَ بِالْمَكْرِ وَ الْحَيلة......فالمتبادر في الآية اني مُمِيتِكَ وَجَاعِلُكَ بَعْدَ الْمَوْتِ فِي مَكَانٍ دَقِيعَ كَمَا قَالَ فِي ا درئيسَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا " (تفسير القرآن الحكيم الاستاذ محمد عبده جز نالت بل ۳۱ الطبعة الاولى مطبعہ منار مصر ۱۳۲۵ھ) : پس یہ آیت میسج کو بیہود کی تدبیر اور حیلہ سے بچانے کے لیے بشارت ہے.اور یہ کہ جو تدبیر وہ مسیح کے خلاف کرنا چاہتے تھے اس میں کامیاب نہیں ہوئے.پس آیت کے اولین معنی یہی ہیں کہ رائے عیسی) میں تجھے موت دینے والا ہوں اور موت کے بعد ایک عزت

Page 19

رفعت والی جگہ میں رکھنے والا ہوں میں طرح حضرت ادریس کے بارہ میں فرمایا کہ ہم نے اسے عزت والے مقام پر جگہ دی.۱۵ - مفسر القرآن علامہ رشید رضا قاہرہ اپنی تفسیر القرآن الحکیم، این زیر میت اني متوفيك (ال عمران ) مسیح کی طبعی موت اور رفع روحانی کا یوں ذکر فرماتے ہیں :.(قال) إن الآية عَلَى ظَاهِرِهَا وَ أَنَّ التَّوَنِي عَلَى مَعْنَاهُ الظَّاهِرِ المتبادر وهو الا مَاتَةُ العَادِيَةُ إِنَّ الرَّفْعَ يَكُونُ بَعْدَهُ وَهُوَ رفع الروح ا تفسير القرآن الحكيم الجزء الثالت مشا۳ - تاليف السيد محمد رشيد رضا منى المنار - الطبعة الثانية - ا صدرتها دار المناري شارع الانشا قاهره بنته ۳۶۶ اعلام ترجمہ :.اور دوسرا طریق یہ ہے کہ اس آیت کو اس کے ظاہری معنی پر مانا جائے اور توفی کے ظاہری اور متبادر معنی تسلیم کیے جائیں جو کہ عام طبعی موت کے معنی ہیں اور یہ سلیم کیا جائے کہ رفع اس موت کے بعد ہے اور اس سے مرا در معانی رفع ہے.14 ۱۶ - مفتر القرآن علامہ احمد المصطفى المراعي وفات مسیح کے قائل ہیں.وہ آیت انی متوفیک کی تفسیر میں لکھتے ہیں :- إن الآية على ظَاهِرِهَا وَانَّ التَّوَفي هُوَ الإمانة العادية وان الرَّفْعَ تَبْدَها لِلرُّوحِ.....وَالْمَعْنى إني مُمِيتُكَ وَبَا عِلكَ بَعْدَ الوَيت لي مان رفيع كما قال في إدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا : 1 التغير المراعي الاستاذ احمد مصطفى المراضي جز ثالث ملا مكتبه الطبع مصطفی البابی الملبي مترنم یعنی آیت سے ظاہری معنی مراد ہیں اور توفی سے طبعی موت مراد ہے اور اس موت کے بعد رفع سے روحانی رفع مراد ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں تجھے موت دینے والا

Page 20

ہوں اور طبعی موت کے بعد لند مقام میں رکھنے والا ہوں میں طرح حضرت اور میں علیہ السّلام کے بارہ میں آیت میں مذکور ہے کہ ہمنے ان کو بلند مقام پر رفعت دی.۱۷ - علامہ ڈاکٹر محمد مود حجازی رپر و فیسر جامعه از رزم تغير الواضح میں اني متوفيك کی تفسیر میں وفات مسیح اس طرح ثابت فرماتے ہیں:.مَكَرَ اللهُ بِهِمْ إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِلَى مُتَوَفِّيكَ أَجَلَكَ كَا مِنَّا وَلَنْ يَعْتَدِى عَلَيْكَ مُحْتَد أبدا فَهَذِهِ يَشَارَةٌ لَّهُ بِنَجَاتِهِ مِنْ مَكْرِهِمْ وَتَدْبِيرِهِمْ، وَدَافِعُكَ في مَكَانٍ وَعَلَى، وَالرَّفْعُ رَفْعُ مَكَانَةٍ لَّا مَعَانِ كَمَا قَالَ تَعَالَى فِى شَأنِ إِدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَفَعْنَاهُ : مَكَانًا عَليا) وَكَقَولِهِ في المُؤمِنِينَ رَنِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيك مقْتَدِرٍ فَلَيْسَ المعنى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِهِ أَنَّ عِيسَى رَفَعَ إِلَى السَّمَاءِ وأنه منزل آخر الدُّنْيَا وَيَسْتَوَ فِي أَجَلَهُ ثُمَّ يَمُوتُ له ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے اُن کے خلاف تدبیر کی جب اس نے فرمایا کہ اسے عینی این تیری کامل عمر پوری کروں گا.اور کوئی زیادتی کرنے والا تجھ پر اپنا دست دراز نہیں کر سکے گا.پس یہ مسیح علیہ السّلام کے لیے ان یہود کے مکروں اور تدبیروں سے نجات کی ایک بشارت تھی اور رافعت میں اعلیٰ مقام میں رفعت مراد ہے اور اس رفع سے مراد مرتبے کا رفع ہے کسی جگہ پر جسمانی رفع هرگز مراد نہیں جیسا کہ اللہ تعالی حضرت ادریس علیہ السلام کی شان میں فرماتا ہے وَرَفَعْنَاهُ مَعَانَا عَلِیا.اور جیسا کہ مومنوں کے بارے میں فرمایا فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِيك مُقْتَدِرٍ - پس رائعك کے معنی (واللہ اعلم) یہ نہیں ہیں کہ علی علیہ السلام کا ر ق آسمان کیا ہوا اور یہ کہ وہ دنیا کے آخرمیں پرانی گورانی دات پر پوری کرکے نا پائینگے لا التغير الواضح دكتور محمدمحمد حجازي جامعة الامر الجزء الاول مسلم مطبعة الاستقلال الكبرى بالقاهرة

Page 21

16 ۱۸- استاذ عبد الوہاب النجار وفات مسیح کے قائل ہیں.اپنی تصنیف قصص الانبیاء میں حضرت مسیح ناصری علیہ السّلام کے انجام کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں :- وَالَّذِي اخْتَارُه أَنَّ عَسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ قَدْ أَنجَاهُ اللهُ مِنَ اليَهُودِ فلم يقبِطُوا عَلَيْهِ وَلَمْ يُقْتَلُ وَلَمْ يُصْلَبُ وَانَّ الْوَجْهُ الثَّانِي وَهُوَ انَّ الْمُرَاد مِنَ الآيَةِ الى مُسْتَوبِ اَجَلكَ وَ مُميتك حمد الفك لا أسلم عَلَيْكَ مَنْ يَقْتُلُكَ وَاَنَّ الآية كناية عَنْ عِصْمَتِهِ مِنَ الأعْداءِ هُوَ الْوَجْهُ الْوَجيه الذى يجب ان يُصَار اليه قصص الانبیا ء م ۴۳۳ تالیف عبد الوہاب شجار الطبعة الثالثة دار احیاء التراث العربي شارع صوبہ یا.بیروت) حضرت مسیح ناصری علیہ اسلام کے بارہ میں مختلف آراء کا ذکر کر کے فرماتے ہیں کہ وہ موقف جو میں اختیار کرتا ہوں یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہود سے نجات دی اور وہ آپ پر قدرت نہ پاسکے اور آپ کو قتل نہ کر سکے نہ ہی ملیب دے سکے نیز ید کہ مذکورہ معانی میں سے تونی کے یہ دوسرے معنی ہی دراصل مراد ہیں کہ میں تیری مدت عمر کو پورا کرنے والا ہوں اور تجھے طبعی موت دینے والا ہوں اور تجھ پر ہر گز اپنے لوگوں کو مسلط نہیں کروں گا جو تجھے قتل کر دیں.اوریہ کہ آیت متوفيك مسیح کو ان کے دشمنوں سے بچانے کے لیے کنا یہ ہے.یہی در اصل وہ مضبوط معنی ہیں جو اختیار کرنے چاہئیں.۱۹ - حضرت خواجہ غلام فرید صاحب (چاچڑاں شریعت والے) وفات مسیح کے قائل ہیں.اشارات فریدی میں لکھا ہے :- سخن در رفع حضرت عیسی علیہ السلام افتاده یکی از حضار عر من کرد که قبله حضرت علی علیه

Page 22

السلام بایس جید عنصر می مرفوع شده اند یا بعد موت عرفی روح پاک اوشان مرفوع گردیده است حضور فرمودند که بچوں دیگر انبیاء و اولیاء مرفوع گشته اند اشارات فریدی حصته چهارم م۱۳ در مطلع رفیق عام لاہورست ۱۳۲) یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع کے بارہ میں بات چل پڑی.حاضرین مجلس میں سے ایک نے عرض کیا کہ قبلہ احضرت عیسی علیہ السلام کا اس ظاہری جسم کے ساتھ رفع ہوا یا طبعی موت کے بعد آپ کی پاک روح کو یہ فع و منزلت عطا ہوئی.حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا کہ دیگر انبیاء و اولیاء کی طرح ہی حضرت عیسی علیہ السلام کا بھی رفع ہوا ہے.یعنی روحانی رفع ۲۰ - علامہ عبید اللہ سندھی العام الرحمان فی تفسیر القرآن (اردو ترجمہ) میں فرماتے ہیں : - " ممنتك تجھے مارنے والا ہوں.یہ جو حیات عیسی لوگوں میں مشہور ہے یہ یہودی کہانی نیز صابی من گھڑت کہانی ہے." (العام الرحمان فی تفسیر القرآن سورۃ الفاتحہ تا سورة المائدة از محمد والظلم امام انقلاب علامہ مولانا عبید اللہ سندھی سن ۲۲ - ناشر علامہ مولانا محمد معاویہ - اداره بیت الحکمہ الامام ولی الله الدہلوی - کبیر والہ ضلع ملتان جھنگ روڈ) ۲۱ - نواب اعظم یار جنگ وفات مسیح کے قائل ہیں آپ تحریر فرماتے ہیں :- حضرت علی یقینا مر گئے جس کی خبر قرآن مجید میں دوسری جگہ دی گئی ہے إِذْ قَالَ اللهُ يَا عينى إِلى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى (ال عمران: ۳۸) جس کی تفسیر میں مضمر ین نے بہت کچھ پس و پیش کیا ہے.بلکہ اس کو بالکل الٹ دیا ہے وہ یوں پڑھتے ہیں رافعک اتی و متوفيك مگر اصلی قرآن کی تو یہ عبارت نہیں ہے اگر مفسرین نے کوئی نیا قرآن بنایا ہو تو اس میں ہوگی پھر دوسری جگہ اور بھی صاف ہے.

Page 23

19.فَلمَّا تَوَفَيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرتيب عَلَيْهِم (مائده : ۱۱۷) کہ حضرت علیلی جناب باری میں عرض کریں گے کہ جب تو نے مجھے وفات دے دی تب تو ان پر نگہبان رہے ان دونوں آیتوں میں وفات کا ذکر ہے اور یہ موت کی دلیل ہے.اللَّهُ يَتَوَ في الْأَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا - پس ان کی وفات کی خبر بہت صاف ہے (زمر: ۴۳) رتہذیب الاخلاق جلد سوم مضامین نواب اعظم یار جنگ مولوی محمد چراغ علی خان فنانشل سیکرٹری حیدر آباد دکن ملک فضل دین ، ملک چین دین ، ملک تاج الدین گئے نئی ، تاجران کتب مطبوعه ۱۸۹۶ عرم ۲۲ - سرسید احمد خاں وفات مسیح کے قائل ہیں.آپ تحریر فرماتے ہیں :- حضرت مسیح کے واقعات میں جیسے کہ آپ کی ولادت کا مسئلہ بحث طلب ہے ویسا ہی آپ کی وفات کا مسئلہ بھی غور کے لائق ہے......ہم کو قرآن مجید پر غور کرنا چاہیے کہ اس میں کیا لکھا ہے.قرآن مجید میں حضرت عیسی کی وفات کے متعلق چار جگہ ذکر آیا ہے.پہلی تین آیتوں (آل عمران ۴۹ : مانده ۱۱۸ : مریم ۳۳ تا ۳۵ ناقل) سے حضرت علیلی کا اپنی موت سے وفات پانا علانیہ ظاہر ہے مگر جو کہ علماء اسلام نے یہ تقلید بعضی فرق نصاری کے قبل اس کے مطلب قرآن مجید پر غور کریں یہ تسلیم کرلیا تھا ت علیلی زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں اس لیے انہوں نے ان آیتوں کے بعض الفاظ کو اپنی غیر حق تسلیم کے مطابق کرنے کی ہے جا کوشش کی ہے.........اور چومتی آیت میں لفظ رفع کا بھی آیا ہے جس سے حضرت عیسی کی قدر و منزلت کا اظہار مقصود ہے.ر تصانیف احد یہ حصته اول جلد چهارم تغیر القرآن جلد دوم صفحه ۴۰ تا هم سناء مطبع مفید عام آگره با تمام محمد قادر علی خان صوفی) ۲۳.مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں نہ

Page 24

وفات مسیح کا ذکر خود قرآن میں ہے " الملفوظات آزاد - مرتب : محمد اجمل خان مت ۱۳ ۲۴ - علامہ عنایت اللہ مشرقی (بانی خاکسار تحریک اپنی تفسیر تذکرہ زیر آیت بَل رَّفَعَهُ اللہ الیہ میں فرماتے ہیں:- بلکہ اس میں یہ عبرت انگیز سبق موجود ہے کہ حضرت علیلی کی موت بھی اسی سنت اللہ کے مطابق واقع ہوئی بھی نجس کی بابت قرآن نے کہا ہے وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلاً (فاطر (۳۵) تذکرہ مجلد اول منك للمفتقر الى الله الرحمان محمد عنایت اللہ خان المشرقي السندی - مطبع وکیل امرتسرین با تمام شیخ محمد عبد العزیز ناظم طبع ہو کر ادارة الاشاعة للتذكرة امرتسر پہنا ہے شائع ہوئی) ۲۵ - غلام احمد پرویز ایڈیٹر ماہنامہ طلوع اسلام شعار مستور میں فرماتے ہیں:.باقی رہا عیسائیوں کا یہ عقیدہ کہ آپ زندہ آسمان پر اُٹھا لیے گئے تھے، تو قرآن سے اس کی بھی تائید نہیں ہوتی بلکہ اس میں ایسے شواہد موجود ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے دوسرے رسولوں کی طرح اپنی مدت عمر پوری کرنے کے بعد وفات پائی ایک سلسله معارف القرآن شعله مستور - شائع کردہ ادارہ طلوع اسلام لاہور) ۲۶ - علامہ اقبال نے تو زید میں جماعت احمدیہ کے بارہ میں اپنے ایک مضمون میں وفات مسیح کا کھلے لفظوں میں اقرار کرتے ہوئے لکھا :- یہاں تک میں اس تحریک کا مفہوم سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ مرزائیوں کا یہ عقیدہ کہ حضرت علی علیہ السلام ایک فانی انسانکی مانند جام مرگ نوش رنا چکے ہیں نیز یہ کہ ان کے دوبارہ ظہور کا مقصد یہ ہے کہ روحانی اعتبار نے ان کا ایک مثیل پیدا ہو گا کسی حد تک معقولیت کا پہلو لیے ہوئے ہے؟

Page 25

(مرزائیت کے معلمی پنڈت جواہر لال نہرو کے جواب میں شاعر اسلام منکر مشرق علامہ ڈاکٹر سر حمد اقبال مدظلہ العالی کا بصیرت افروز بیان صفر ۲ ناشر سیکرٹری شعبه اشاعت و تبلیغ سید مبارک برانڈرس روڈ لاہور ما فروری ستاره نیز احمدیت اور اسلام و ختم نبوت اداراہ طلوع کراچی لدھیانوی صاحب ! ! ! اب فرمائیے کیا ان علماء نے آپ کے اجماع معیات مسیح کی وجھیاں بکھیر کر نہیں رکھ دیں.رہا نزولِ مسیح پر اجتماع تو اس بارہ میں آنجناب نے شرح فقہ اکبر کی عبارتیں نقل کرنے کا خواہ مخواہ تکلف کیا ہے.آپ بھی جانتے ہیں کہ نزول مسیح ایک پیشگوئی ہے جس کا تعلق امور غیبیہ سے ہے.اجماع تو زمانہ ماضی یا بھال کے واقعات پر ہوتا ہے.غیب کا تعلق تو مستقبل سے ہے.یہیں پر ایمان لانا فرض ہے لیکن اس پر اجماع چہ معنی دارد ؟ پھر سوچیے کہ جس غیب کی حقیقت ہی معلوم نہیں اس پر اجماع کا مطلب کیا ہوا ؟ جہاں تک نزول مسیح کی پیشگوئی کا تعلق ہے.ایک موعود بسیج مہدی کی آمد اور بعثت پر نہ صرف ہمارا ایمان ہے بلکہ ہم تو ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے پر گواہ بھی بن چکے ہیں.جبکہ مسیح کے نزول کے انتظار کرنے والے مسلمان ۴۰۰ سالہ طویل انتظار سے تنگ آکر آب بالآخر اس عقیدہ سے ہی منکر ہوئے جاتے ہیں.آپ نے نزول مسیح کے حق میں سنت پر علامہ سیوطی کے رسالہ الاعلام حکم علی علیہ السلام کا حسب ذیل حوالہ دینے کی بھی زحمت فرمائی ہے ثم يُقَالُ لهذا الراعم حل انت أخذ بظاهر الحديث من غير حمل على المعنى المذكور فيلزمك ا احد امْرَيْنِ ، مانعی نزول عيسى اونفى النبوة عنه وكلاهما

Page 26

۲۲ كفر دیواله المحادي للمعادى جز ۲ ملام پھر اس مدعی سے کہا جائے گا کہ کیا تم اس حدیث کے ظاہر کو لیتے ہو اور جو مطلب ہم نے اس کا کیا ہے اس پر عمول نہیں کرتے ہو ؟ تو اس صورت میں تجھے دو میں سے ایک صورت لازم آئے گی یا یہ کہ نزول عیسی علیہ السلام کی نفی کرد یا بوقت نزول ان سے نبوت کی نفی کرو اور یہ دونوں باتیں کفر ہیں.ند تو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا شاید آنجناب نے "الحادی" میں یا تو اس سوالے کا سیاق و سباق ملاحظہ نہیں فرمایا یا پھر عمدا کتر بیونت سے کام لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ نزولِ مسیح کا انکار کفر ہے.نزول مسیح سے کسی بھلے مانس کو انکار ہے.ہمیں تو نزول مسیح کے بارے میں آپ کی سراسر مخالت قرآن و حدیث تشریح اور تاویل بعیدہ سے انکار ہے کہ ۱۹۰۰ سالہ مسیح جسم سمیت آسمان سے اترے گا.نزول کے معنی کی وضاحت بعد ہم آپکی تحریف کا پول کھولیں گے.تعجب ہے کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تن انزل الله إِلَيْكُمْ ذِكْراهُ رَسُولاً (الطلاق: ۱۲٫۱۱) میں نزول کا لفظ آئے تو اس سے آپ حضرت آمنہ کے بطن سے پیدا ہونا مراد لیتے ا ہیں.اور مسیح کے بارے میں اسی لفظ نزول کو جسم سمیت آسمان سے اترنے پر محمول کرتے ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے.قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا.(الاعراف: ۲۷) وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ - (الحديد: ۲۶) وَأَنْزَلَ لكُم مِّنَ الاَ تَعامِ ثَانِيَةً أَزْوَاج (الزمرة )

Page 27

کہ ہم نے تم پر لباس اتارا ہے.تم پر لوٹا اتارا ہے اور تم پر آٹھ جوڑوں کی صورت میں سچو پائے بھی نازل کیے ہیں.لدھیانوی صاحب بتائیں کہ کیا یہ سارے اسی طرح آسمان سے نازل ہوئے ، نزول کے لفظ کو حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے تو کڑ کر بیٹھ گئے ہیں.کہ وہ آسمان سے اتریں گئے بتائیں کہ جانور کہاں لٹک کر اترے تھے.اسی قسم کے مولوی ہیں جنہوں نے ساری دنیا میں اسلام کو بدنام کر رکھا ہے.اسی قسم کی عقل کے علماء ہیں جو قرآن کریم کی آیات کو ظاہر پر محمول کر کے ساری غیر مسلم دنیا کو اعتراض کے مواقع بہم پہنچا ر ہے ہیں لیکن پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے.تمام صحارہ کو علم تھا کہ نزول کے کیا متے ہیں.کیا انہیں قرآن کریم میں نزول کا لفظ نظر نہیں آتا تھا کہ ان مذکورہ بالا چیزوں کے لیے بھی استعمال ہوا ہے.ہاں جین معنوں میں قرآن کریم میں ان چیزوں کے لیے لفظ نزول آیا ہے انہیں معنوں میں وہ حضرت عیسی کے نزول کو سمجھتے تھے.اور مولوی صاحب کہیں یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ صحابہ نے لوہے، لباس اور جانوردی کا آسمان سے لٹک کر اتر نا بتایا ہو.ہمارے نزدیک لفظ نزول کے سادہ معنی انہیں کے مویز منقولی و معقولی دلائل ہیں ، یہ ہیں کہ امت محمدیہ میں آنے والا مسیح مطابق حدیث بخاری اِمَامُكُمْ مِنْكُم اور حدیث مسلم احد منحر وہ امت میں ہی پیدا ہو گا لیکن آپ یہ تو بتا ہے کہ آپ اس حدیث کو کیوں نظر انداز کر گئے جس پر علامہ سیوطی کی بحث کا تمام دارو مدار ہے.اُن کی ساری بحث تو - لا نبی بعدی.پر ہے اور وہ فرمارہے ہیں کہ اس حدیث کے یہ ظاہری معنے لینا کہ رسول اللہ کے بعد مطلقاً کوئی نبی نہیں آئے گا درست نہیں کیونکہ اس سے دو میں سے ایک بات بہر حال لازم آتی ہے.

Page 28

۲۴ اول: نزول میلی سے انکار کیونکہ وہ نبی ہیں یا پھر ان کی نبوت ورسالت سے انکار اور - یہ دونوں باتیں کفر ہیں.پھر اس سے بچنے کا واحد راستہ خود علامہ سیوطی یہ بتاتے ہیں کہ.لا نَبِي بَحْدِنی - کے ظاہری معنی مراد نہ لینے جائیں بلکہ یہ مطلب لیا جائے کہ رعیت والا نبی نہیں آئے گا اور غیر تشریعی اور اتنی نہیں رسالت محمدیہ کی اتباع میں آسکتا ہے.اصل الفاظ ملاحظہ ہوں.جواد را و تحریف آنجناب نے نقل نہیں کیئے.يَا مِسْكِينُ لا دَلالَةَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَلَى مَا ذَكَرْتَ بِوَجْهِ مِنَ الوجوه لان المواد لا يَحْدُثُ بَعْدَهُ بُعْتُ بَنِي يَنْسِخُ شَوْعَهُ كمَا نَرَهُ بِذلِكَ الْعُلَماء الحاوی للفتاوی جزثانی من - طابع و ناشر مکتبہ نوریہ بغدادی - جامع مسجد فیصل آباد) مولوی صاحب ! یہ تو ریہی بات ہوئی کہ یہ حوالہ پیش کر کے آپ کو لینے کے دینے 1 + مولوی صاحب ! ایک اور ناحق جرح آپ نے حضرت امام مالک کے وفات مسیح کے مسلک پر فرمائی ہے میں کا لب لباب یہ ہے کہ یہ نزول مسیح کے بھی قائل ہیں.پھر آپنے امام مالک جیسے بزرگ کے منہ میں گفتہ دینے کی بھی کوشش کی ہے کہ موت عیسی سے ان کی مراد بسیج کا آسمان پر جاتا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ عقل کی روشنی آنیتا سب کے دماغ میں داخل ہی نہیں ہوئی.ایسی جسارت کہ امام مالک موقہ کہتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ آسمان پر جانا مراد ہے نہ آپکو کیا خدا نے مامور فرمایا ہے کہ ہر لفظ کا مطلب جو چاہیں بنائیں.اگر موت سے مراد آسمان پر سبانا

Page 29

۲۵ ہے تو اپنے لیے ایسی موت کیوں نہیں مانگتے تاکہ جھگڑا ہی ختم ہو جائے.آسمان سے کوئی آئے یا نہ آئے کم از کم پڑھ کر ہی دکھائے.جناب مولوی صاحب ! کان کھول کر سینے ! موت سے مراد موت ہی ہوتی ہے موت سے ڈریں.آپ نے یہ بے وزن بات بھی خوب کہی کہ بالفرض امام مالک وفات کے قائل سبھی ہیں تو حیات بعد الموت کے قائل ہیں.یہ تو درست ہے کہ امام مالک ہی نہیں تمام مسلمان حیات بعد الموت کے قائل ہیں لیکن یہ ہر گز مراد نہیں کہ اسی دنیا میں مردوں کے جی اُٹھنے کے قائل ہوں.حیات بعد الموت سے مراد حیات الآخرت ہے.قرآن کریم نے تو ن لوگوں کی روحوں کا جومرنے کے بعد جسم سے جدا ہوگئیں واپس آنا قطعی طور پر محال قرار دیا ہے اور تقدیر الہی کے بھی خلاف قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا :- وَحَرُهُ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَها أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (الانباء : ٩٦) ترجمہ:.اور سہر ایک بہتی جسے ہم نے ہلاک کیا ہے اس کے لیے یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ اس کے بسنے والے کوٹ کر اس دُنیا میں نہیں آئیں گے.آپ کو اس فتق صریح کا علم نہ ہو تو کوئی تعجب نہیں لیکن حضرت امام مالک پر یہ الزام لگانے کا آپ کو کیا حتی ہے کہ وہ بھی آپ ہی کی طرح بد عقیدہ تھے.ہم آپ کو چیلنج کرتے ہیں کہ امام مالک کے کسی حوالہ سے ثابت کریں کہ آپ موت سے مراد مرنے کی بجائے آسمان پر جانا مراد لیا کرتے تھے.پھر اس پر مستزاد یہ کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق آپ نے حضرت امام مالک کا وفات مسیح کا عقیدہ اپنی کتاب مجمع بحار الانوار میں نقل کرنے والے امام شیخ محمد طاہر

Page 30

۲۶ گجراتی صاحب کے مسلک کو ناست اس بحث میں اٹھا کر امام مالک کے عقیدہ سے توجہ ہٹانے کی بے سود کوشش کی ہے.چونکہ امام مالک کا مسیح علیہ السّلام کی موت کے بارہ میں واضح ارشاد امام محمد طاہر گجراتی نے اپنی کتاب مجمع بحارالانوار میں درج فرمایا ہے اس لیے آپ نے ایک یہ اچنبھی دلیل بھی تراش لی ہے کہ چونکہ امام محمدطاہر گرانتی مود حیات مسیح کے قائل تھے اس لیے امام مالک کے متعلق ان کا یہ لکھنا کہ وہ ممات مسیح کے قائل تھے، بر عکس منے رکھتا ہے.امام ابن حزم کے عقیدہ وفات میں کو بھی آپ نے اپنی اس رٹ سے کمزور کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ نزولِ مسیح کے بھی قائل ہیں اور آپ نہیں سمجھتے کہ وفات عیسیٰ علیہ السلام کے بعد نزول مسیح کے ہم بھی قائل ہیں تو ابن عزم کا رجحان کسی جانب ہوا ؟ یقیناً وہ ہمارے موقف سے قریب تریں.آپ کو یہ بھی اصرار ہے کہ ابن حزم نے محض مسیح کے قتل ہونے یا صاحب پر سر نے سے انکار کیا ہے حالانکہ خود آپ نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے تَوَفَّاهُ اللهُ ثُمَّ رَفَعَهُ کہ خدا نے پہلے وفات دی پھر اس کے بعد رفع فرمایا.پس اس سے تو تمام نبیوں کی طرح مسیح کا یہ نفع روح ثابت ہوا نہ کریم.اور اپنے رکھ عقیدہ کے مطابق متوفيك در افع کی آیت قرآنی میں آپ تقدیم و تاخیر کرنے کی بے ادبی اور خسارت کرتے ہیں.جہانتک قرآن کریم کی اس آیت کا تعلق ہے اُس میں آپ کی یہ جسارت کر نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے غلطی سے وفات کا ذکر رفع سے پہلے کر دیا حالانکہ عیسیٰ علیہ السلام کی

Page 31

وفات، رفع کے بعد ہوئی تھی تو اس بارہ میں امام ابن حزم کا فتویٰ سن لیجیے.وہ آپ کی اس بودی دلیل کو قطعارور کرتے ہیں اور فرماتے ہیں :- تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ رَفَعَهُ کہ اللہ نے حضرت عیسی علیہ السّلام کو پہلے وفات دی پھر اس کے بعد رفع فرمایا اب بہا نہ بھائے بسیار میں سے ایک آخری حیلہ آپ کے پاس یہ رہ گیا تھا کہ آپ توفی سے مُراد دفاۃ القوم نے لیتے ہیں.تو ابن حزم " اس کا بھی انکار کرتے ہیں اور فرماتے ہیں.فصح انه انما عني وفاة الموت جس کا ترجمہ خود آپ نے یہ کیا کہ فلما تُو فلینی میں وفات نوم کا ارادہ نہیں کیا گیا اس لیے یہ کہنا صحیح ہے کہ اس سے وفات موت کا ارادہ کیا ہے.اس بحث سے قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ آپ کی یہ تعلی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک حیات مسیح کے عقیدہ پر امت محمدیہ کا اجماع رھا ہے محض غلطی ہی نہیں بلکہ عمداً افتراء کا ارتکاب ہے.یہیں شخص کو امام ابن حزم کے ان تمام فرمودات کا علم ہو وہ اپنے ہوش و حواس میں تو یہ جرات نہیں کر سکتا کہ ان کی طرف حیات مسیح کا عقیدہ منسوب کرے سوائے اس کے کہ عمدا افتراء سے کام لے کر انکی طرف یہ غلط بات منسوب کرے.رھا آپ کا یہ رسم باطل کہ قتل اور صلیب کے ذریعہ سیٹے کی موت کا انکار کر کے مُتَوَفِّيكَ اَور تُو نیتی سے میں طبعی موت کا ابن حزم اقرار کر رہے ہیں اس سے مراد وہ دوسری سور سے جو بعثت کے بعد ہوگی.آپ کی منڈ اور ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ ابن حزم کے ان واضح قطعی بیانات

Page 32

٢٨ کے باوجود جو ہر ابہام سے پاک ہیں ، آپ یہ ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہو جاتے.کہ ابن حزم " جب سی کی موت کا کھلم کھلا اقرار کرتے ہیں تو اس سے مراد ان کی صرف یہ ہے کہ آسمان سے جب واپس دنیا میں لوٹیں گے ، پھر مریں گے حالانکہ خوب اچھی طرح آپ کے علم میں ہے کہ حضرت امام ابن حزم رفع کے بعد کی موت کا عقیدہ رد کرتے ہیں اور صاف لکھ رہے ہیں کہ مونیٹ کا عمل کا اعٹ کے عمل سے پہلے واقع ہوا ہے.آپ جاہل عوام کو تو وھو کا دینے میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں، خدا کو کس طرح دھوکہ دے سکتے ہیں.خدا سے ڈرنا چاہیئے.اس کے محضور آپ کی لازما جواب دہی ہوگی.امام ابن حزم کے بیج کے رفع روح کے اس قول کی تائید مزید کتاب الفصل میں درج ان کے اس فیصلہ پر حق سے بھی ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں انبیاد.علیہم السلام کی ارواح کو دیکھا.دیکھئے حیات مسیح کی ایک خطرناک لغزش کے بعد کس طرح آپ کو لغزش پر لغزش اور تاریل پر تاویل کرنی پڑ رہی ہے.صحیح بخاری کی واضح حدیث موجود ہے کہ معراج کی رات باقی نبیوں کی طرح حضرت مسیح علیہ السلام سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہوئی اور علامہ ابن حزم ایک طرف مسیح کی توقی بالموت کے بعد ان کے رفع روح کا اعلان کر رہے ہیں تو دوسری واشگاف لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ شب معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کی ارواح کو دیکھا.نہ کہ ان میں سے کسی کے جسم کو اب آپ کے لیے کیا جائے قرار باقی رہ گئی ہے ؟.- آپ کی یہ تاویل بھی حماقت کا شاہکار ہے کہ انبیا کی روحوں کو ان کے بدنوں ہیں دیکھا گیا ہو گا.ا پر نہ تو کوئی قرآنی دلیل ہے ، نہ مانور اور عقلی دلیل.آپ کا قلم جو چاہے ، اگلتا چلا جارہا ہے اور آپ ذرہ بھر بھی یہ خیال نہیں کرتے کہ بحث و تمحیص میں عقلی و نقلی

Page 33

۲۹ دلائل کی ضرورت ہوا کرتی ہے نہ کہ محض دعاوی کی.اور پھر دعاوی بھی ایسے جنہیں عقل انسانی بالبداہت رو کرتی ہو.قرآن شریعت واقعہ معراج کے بارہ میں فرماتا ہے مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَاراى ٥ (انیم:۱۲) کہ دل نے جو نظارہ دیکھا وہ جھوٹ نہ تھا.یعنی واقعہ معراج میں رویت قلبی تھی نہ کہ رویت عینی که بقول آپ کے تجبتم ارواح " لازم آئے.آپ کی یہ دلیل نہایت احمقانہ ہونے کے باوجود اگر تسلیم بھی کر لی جائے تب بھی آپ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.ابن حزم نے جب یہ لکھا کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی رو میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائی گئیں تو یہ بات قطعی ہوگئی کہ ان میں ایک بھی روح ایسی نہ تھی جو زمین سے اپنا بدن ساتھ لے کر گئی ہو.ورنہ اس روح کے متعلق یہ کہنا لازم تھا کہ سوائے فلاں نبی کے سجو دنیادی بدن سمیت وہاں موجود تھا.پس سیخ کی روح کا دیگر انبیاء کے ساتھ بحیثیت روح کے شامل ہونا قطعی طور پر ثابت ہو گا.اس لا تعلق بحث سے آپ کو کیا فائدہ ہو گا کہ خدا نے ان روحوں کو دکھانے کے لیے بدن عطا کیا تھا یا نہیں ؟ ان روحوں کے زمین پر چھوڑے ہوئے نہ خاک ایران کو آسمان پر لے جانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا اور غالباً آپ بھی پنی بے باکی کے باوجود یہ نظریہ پیش کرنے کی مہارت نہیں کریں گے.انبیاء کی روحوں سے نبی کریم کی ملاقات کا تذکرہ صرف ابن حزم نے ہی نہیں کیا بلکہ علامہ ابن قیم اور داتا گنج بخش نے بھی کیا ہے.پھر بھی آپ ان ارواح کو اجسام مثالیہ سے تعبیر پر کرنے پر مصر ہیں.اجسام مثالیہ کے بارہ میں ہم بات کھول چکے ہیں کہ یہ وہ سم نہیں تھے جو زمین پر چھوڑے گئے تھے.پھر آپ کو اس دلیل سے کوئی فائدہ پہنچنے کی توقع ہے تو سوائے اس

Page 34

کے کہ آپ کی حالت پر رحم کیا جائے اور کیا کیا جا سکتا ہے.آپ نے حضرت داتا گنج بخش نے کا یہ قول نقل کر دنیا کانی سمجھاکہ صحیح احادیث میں وارد ہے کہ مسیح کو آسمان پر اُٹھا لیا گیا مگر اس کی تحقیق نہ فرمائی کیا آپ ایسی کوئی ایک حدیث بھی پیش کر سکتے ہیں جو رفع جسمانی پر دلیل بن سکتی ہو.اب بھی آپ کو چیلنج ہے کہ اگر ایسی کوئی حدیث ہے تو لابیٹے اور بہنیں نہزار روپے کے حضرت مرزا صاحب کے انعامی پیلینج سے فائدہ اٹھائیے.پھر اگر حضرت داتا گنج بخش نے ایک طرف واقعہ معراج میں صحیح بخاری کی حدیث کی رو سے ارواح سے ملاقات کو تسلیم کیا ہے تو اس کے مقابل آسمان پر جانے کی کسی ضعیف روایت کو قبول کرنا کسی طرح قرین قیاس ہے.ایک طرف حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کا یہ اعلان کہ مسیح کی روح بھی ارواج انبیاء میں شامل تھی ، اپنے ساتھ صحیح بخاری کی حدیث کی صورت میں ایک قطعی تائیدی گواہ رکھتا ہے اس لیے اس دعوے کو من وعن قبول کیئے بغیر چارہ نہیں.دوسری طرف جب ان کے اس دعوے پر نظر کرتے ہیں کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ مسیح کو آسمان پر اٹھایا گیا ہے تو تلاش بسیار کے با وجود ایک بھی صحیح حدیث اس دعوے کے ثبوت میں نہیں ملتی.میں یہ دوسری شکل ان معنوں میں تو ہرگز قابل قبول نہیں کہ احادیث صحیحہ میں حضرت میں کے جسم سمیت آسمان پر اٹھا جانے کا ذکر ملتا ہو.ہاں اگر حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ نے اٹھانے سے مراد رفع درجات لیا ہے تو پھر اس معنے میں آپ کے اس ارشاد کو قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں

Page 35

۵ حضرت ابن عباس نے کے مسیح بخاری میں درج قول متوفِّيكَ مُميتك كو آپ نے وز منشور میں ان کی طرف منسوب ایک دوسرے قول سے کمزور کرنے کی بے سود کوشش کی ہے کیا یہ انصاف کا خون نہیں کہ آپ افتح الکتب بعد کتاب اللہ بخاری کی ایک صحیح اور ثقہ روایت بود کهہ قرآن اور عقل جس کے مؤید ہیں) مردود قرار دے رہے ہیں اور در منشور کی ایک کمزور.براسند روایت کو (جو خلاف عقل اور خلاف قرآن بھی ہے) اس لیے قبول کر لیں کہ وہ آپ کے غلط عقیدہ کی تائید کرتی ہے.آپ نے مفتر قرآن حضرت ابن عباس کی بخاری میں درج انس تفسیر (جس سے وفات مسیح ثابت ہوتی ہے) کے ایک راوی علی بن ابی طلحہ پر بلا تحقیق مصنف کا الزام لگایا ہے اور یہ تحقیق نہیں کی کہ علمائے فن نے حضرت ابن عباس ایک پہنچنے والی جملہ اسناد میں سے صرف اسی سند کو ثقہ اور مضبوط قرار دیا ہے جس میں علی بن ابی طلحہ ہوں چنانچہ علامہ سیوطی اتقان میں لکھتے ہیں :.وَقَدْ وَرَدَ عَنِ ابْنِ عِباسِ فِي التَّفْسِيرِ مَا لَا يُحْصى كَثْرَةِ وَ فِيهِ رِدَايَاتُ وَطُرُلٌ مُخْتَلِفَةٌ فَمِنْ جَيَّدِهَا طَرِيقُ عَلِي ابْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْهَا شِمي (الاتقان فی علوم القرآن للعلامه سیوطی جز ۲ - ۰ ۳۲ مطبوعہ مصرم یعنی حضرت ابن عباس سے منسوب تفسیر میں لاتعداد کثرت پائی جاتی ہے اور اس میں مختلف طرق اور روایات ہیں ان میں سب سے بہترین سندہ وہ ہے جو علی بن ابی طلحہ حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں.امام احمد بن مقبل کو مصر میں ایک ایسے نسخے کی موجودگی کا علم ہو ابوعلی بن ابی سلمہ سے

Page 36

مردی تفسیر پشتمل تھا تو آپ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش کوئی شخص علی بن ابی طلحہ سے مروی اس نسخہ کے مطالعہ کے لیے مصر کا قصد سفر کرے یہی اہم نسخہ امام بخاری کے نزدیک قابل اعتماد تھا اس بارہ میں علامہ ابن حجر کی رائے ملاحظہ کیجیے.وہ فرماتے ہیں :.وَهَذِهِ الشَّجَةُ حانَتْ عِنْدَ إِلَى صَالِحٍ كَاتِبِ اللَّيْت رَوَاهَا عَنْ مُعَاوِيَةَ بنِ صَالِحٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَهِيَ عِنْدَ الْبُخَارِي عَنْ أَبِي صَالِحٍ وَقَدِ اعْتَمَدَ عَلَيْهَا في صَحِيحِهِ كَثِيراً فيما تعلقه عَنِ ابْنِ عَبَّاس (الاتقان فی علوم القرآن للعلامہ سیوطی جلد ۲ ص ۳۲ مطبوعہ مصر) یعنی یہ نسخہ لینٹ کے کاتب ابو صالح کے پاس تھا جسے معاویہ بن صالح نے علی بن ابی طلحہ سے اور انہوں نے ابن عباس سے روایت کیا ہے اور یہ روایات امام بخاری کے پاس ابو صالح سے پہنچی ہیں اور امام بخاری نے اس نسخہ پر اپنی صحیح بخاری میں اتنازیادہ اعتماد کیا ہے که علی بن ابی طلحہ کی ابن عباس سے مروی ایسی روایات بطور تعلیق (یعنی بلا سند) اپنی کتاب میں درج کی ہیں.آپ کا یہ اعتراض کہ علی بن ابی طلحہ کا سماع ابن عباس سے ثابت نہیں کوئی نئی تحقیق نہیں بلکہ علماء نے اس سوال کی تسلی بخش تحقیق کر کے پھر علی بن ابی طلحہ کی روایات قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے.چنا نچہ علامہ سیوطی فرماتے ہیں :- " وَقَالَ قَوْم لَمْ يَسْمَعْ ابْنُ أَبِي طَلْحَةَ مِنَ ابْنِ عَبَّاسِ التَّفْسِيْرَ وَ إِنَّمَا أَخَذَهُ عَنْ مُجَاهِرٍ أَوْ سَعِيدٍ ابْنِ جُبَيْرٍ قَالَ ابْنُ حَجْرٍ بَعْدَ أَنْ عَرَفتُ الوَاسِطَة وَهُوَ ثِقَةٌ فَلَا ضَيْرَ في ذلِكَ الاتقان في علوم القرآن للعلامہ سیوطی جز ۲ ص ۳۲ مطبوعہ مصر)

Page 37

یعنی ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ ابن ابی طلحہ نے ابن عباس سے تفسیر نہیں سنی بلکہ (ابن عباس کے شاگردوں) مجاہد اور سعید بن جبیر سے اخذ کی ہے (یہی وجہ ہے کہ ) علامہ ابن حجر نے کہا کہ علی بن ابی طلحہ اور ابن عباس کے درمیانی واسطہ کے معلوم ہو جانے کے بعد اور یہ معلوم ہو جانے کے بعد کہ مجاہد اور سعید بن جبیر ثقہ راوی ہیں علی بن ابی طلحہ کی ابنِ عباس سے روایات قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں.پھر آپ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا فیصلہ بھی سن لیں آپ الفوز الکبیر فصل اول میں شرح غریب قرآن کے عنوان کے تحت تحریہ فرماتے ہیں:.بهترین شرح غریب آن است که اول از ترجمان القرآن عبد الله بن عباس از طریق ابن ابی طلحہ صحیح شده است و بخاری در صحیح خود غالباً برهمی طریق اعتماد کرده است ( الفوز الكبير من مطبع علمی دہلی) یعنی عزائب قرآن کی شروح میں سے بہترین شرح ، شارح قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس کی ہے جو ابن ابی طلحہ کے طریق روایت سے صحت کے ساتھ ہم کو پہنچی ہے اور غالباً امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں اس طریق پر اعتماد فرمایا ہے.اور ہمارے نزدیک حضرت ابن عباس مفتر قرآن کی یہ روایت اس لیے بھی قابل قبول ہے کہ موافق قرآن و سنت و عقل و نقل ہے.اس بحث سے یہ بات تو خوب گھل گئی ہے کہ آپ نے بہو بخاری سے ہماری پیش کردہ ابنِ عباس کی روایت کو رد کرنے کی کوشش کی تھی اس سے وہ روایت تو رد نہیں ہو سکی لیکن آپ کی یہ کوشش یقینا مردود ثابت ہو چکی ہے جو آپ نے اسے رو کرنے کے لیے کی.مزید فائدہ اس بحث سے یہ پہنچا کہ آپ کی علمیت کا پول کھل گیا.پس یا تو آپ کا عالم ہونے کا دعوئے

Page 38

محض ڈھکوسلہ ہے کہ یقیناً ان روایات پر آپ کی نظر نہیں یا پھر اس فیصلہ کے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ عالم تو ہیں مگر تقومنی سے عاری ہیں کہ اتنے ٹھوس علمی دلائل سے صرف نظر کر جانا محض ہیر پھیر کرنے والے کو زیب دیتا ہے، ایک عالم دین ایسی جسارت نہیں کر سکتا.اب ذرا ان روایات کا حال بھی معلوم کر لیجیے جو آپ نے اپنے عقیدہ حیات مسیح کے حق میں پیش کی ہیں در منشور کے حوالے سے ابن عباس کا جو قول آپ نے پیش کیا کہ مُتَوَفِّيكَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ کہ آخری تھانے میں تجھے وفات دوں گا اول تو یہ لاسند قول ہے اور کسی مستند کتاب میں مع سند یہ قول موجود نہیں نہ تفسیر ابن جریر طبری میں نہ ہی تفسیر ابن کثیر میں اور نہ تفسیر ابن عباس میں پھر اس قول پر کیسے اعتماد کیا جائے اور کیوں اُس کے مقابل پر امام بخاری کی مستند مسیح روایت کو ترک کیا جائے جو وفات عیسی کا صاف اعلان کر یہ ہی ہے.آپ کی بوکھلاہٹ کی حد یہ ہے کہ بخاری کی ایسی مستند روایت کو رد کرنے کے لیے آپ نے ایسی روایت تلاش کی جس کی نہ سند کسی مستند کتاب سے لی اور ویسے بھی پر حضرت ابن عباس کی بجائے روایت نقل کرنے والے کا عقیدہ معلوم ہوتا ہے اور ایسی بیشمار مثالیں ہیں کہ لوگ اپنی رائے ابن عباس کی طرف منسوب کر دیتے تھے.اس لیے آپ کی پیش کردہ روایت کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی.دوسرے متوفیک سے آخری زمانے میں مسیح کی توفی یعنی موت مراد لینے سے لازم آتا ہے کہ ان کا رفع ابھی نہیں ہوا کیونکہ متون تک کے بعد رافعک آیا ہے اور یہ عقیدہ وخلاف قرآن ہے قرآن واشگاف لفظوں میں اعلان کر رہا ہے کہ یہود نا مسعود مسیح کو صلیب پر مانہ کے مطابق تو بیت لعنتی ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے بلکہ مسیح کا رفع روحانی مندافرمایا.بَلْ تَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ.اور آپ کا یہ خیال کہ عالم الغیب خدا کے کلام میں بیان کردہ

Page 39

۳۵ ترتيب متوفيكَ دَرا فعك درست نہیں بلکہ اصل اور صحیح ترتیب اس کے الٹ رافع و متوفيك ہے.ایسا عقیدہ رکھنا نہ صرف سوء ادبی ہے بلکہ سخت جاہلانہ خیال ہے اور عالم الغیب خدا پر اعتراض ہے جس کی جرات کوئی صاحب بصیرت انسان نہیں کر سکتا ر ہی حضرت ابن عباس کی وہ روایت جس میں مسیح کے دوبارہ نزول کا ذکر ہے سو وہ ہمارے لیے چنداں مصر نہیں کیونکہ نزولِ مسیح کے ہم بھی قائل ہیں مگر وفات مسیح کے بعد نزولِ مسیح سے ان کے مثیل کی آمد مراد لیتے ہیں.یہی حال حضرت ابن عباس کا ہے جو متوفيك کے معنے موت کرتے ہیں اور مسیح کی وفات تسلیم کرتے ہیں اس کے بعد نزول پر ایمان یقیناً تعبیر طلب ہے.جہاں تک تغیر ابن کثیر کی اس روایت کا تعلق ہے میں میں حضرت ابن عباس سے یہ قول منسوب ہے کہ میسیج کو زندہ آسمان پر اٹھالیا گیا اور یہود نے ان کی جگہ کسی اور کو پکڑ کر قتل و صلب کیا.اول تو یہ روایت صحیح بخاری سے معارض ہونے کے باعث قابل رد ہے دوسرے یہ روایت ابتدائی زمانہ کی کسی حدیث یا تفسیر کی کتاب میں نہیں ملتی بلکہ سات صدیاں بعدا چانگ ابن کثیر کی تفسیر میں در آئی ہے.حضرت ابن عباس کی طرف منسوب ایسی ہی روایات کو درخور اغتناء نہیں سمجھا گیا چنانچہ علامہ سیوطی لکھتے ہیں.وَهُذِهِ التَّفَاسِيرُ العَوَالُ الَّتِي أَسْنَدُوهُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ غَيْرُ مَرْضِيَّةٍ دَوَاهَا مَجَاعِيلُ كَتَفْسِيرِ جَوْ هَرِ عَنِ الضَّحَاكِ عَنِ ابْن عَبَّاسِ وَابْنِ جُرَيْجٍ فِي التَّفْسِيرِ جَمَاعَة رَوَوْا عَنْهُ (الاتقان في علوم القرآن للعلامہ سیوطی ج ۲ ص ۳۲ مطبوعہ مصر) اور یہ طویل تفاسیر جب لوگوں نے حضرت ابن عباس کی طرف منسوب کی ہیں ناپسندیدہ ہیں.ان کے رادی غیر معروف ہیں جیسے جو ہر کی ضحاک سے اور اس کی ابن عباس سے یہ وایت اور ابن جریج کی تفسیر میں روایات جو ایک بڑی تعداد میں ان سے روایت کی گئی ہیں

Page 40

یہی حال آپ کی بیان کردہ روایت تغیر ان کثیر کی سند کا ہے.یر ی ہے کہ کس طرح آپ نے بات تحقیق اس مزدور سند کو سند مسیح قرار دے دیا شاید اسی لیے آپ نے سند نقل کرنے کی زحمت نہیں فرمائی اگر آپ کو بند کے راویوں کے اسماء سے اطلاع ہوتی اور کتب رجال سے ان کے احوال دریافت کیے ہوتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ اس سند کے ایک راوی متهال بن عمرو کو تو ضعیف قرار دیا گیا ہے.ر تہذیب التہذیب جلد نمبر ۱ ۳۳۲ از علامه ابن حجر عسقلانی) دائرۃ المعارف التظاميه الكامنه في الهند ۱۳۲۸ من عمر و سه عیدآباد ) تركي اس سند کے دوسرے راوی ابو معاویہ شیبان بن عبد الرحمان میں جو خود شفتہ ہیں اور اُن کی اعمش.البومعاویہ سے مروی روایات ایسی منفر در احادیث ہوتی ہیں جو منکر ہیں.ابو حاتم ان کی روایت سے دلیل پکڑنے کو جائز نہیں سمجھتے اور ابو معاویہ کی یہ روایت اعمش سے مروی ہے لہذا منکر ہوئی.ر تهذيب التهذيب جلد مشا۳ از این مجر مستقلانی بطبعه فلس دائرة العارف ۱۳۲۵ لمر د سه میلہ آباد) لدھیانوی صاحب ! اس تحقیق حق کے بعد تو مسیح علیہ السلام کے آسمان پر جانے کے سب رستے مسرور ہو گئے ہیں.% 4 آپ نے علامہ عبید اللہ سندھی صاحب کی تفسیر الہام الرحمان کو ان کی تصنیف تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے.مولوی صاحب ! معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے وہ تغیر ا ٹھاکر ہی نہیں دیکھی.یا دیکھی ہے تو حسب عادت ان شواہد سے صرف نظر کر گئے ہیں جو اسی کتاب میں آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آپ کو جھٹلا رہے ہیں.زیر بحث کتاب کے دیباچہ میں مولوی عید اٹھی صاحب نے قطعی شہادت پیش کی ہے کہ :.

Page 41

امام سندھی کے قیام مکہ کے دوران علامہ موسی جار اللہ نے ان کی یہ تفسیر عربی میں فلمیند کی جو علامہ سندھی کی واپسی پر ان کے بھتیجے مولانا عزیز احمد دیگر قلمی ومطبوعہ کتب کے ساتھ بیان لائے امام سندھی کے شاگرد مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی نے اس عربی تفسیر کے دو حصوں کو شائع فرمایا جبکہ امام سندھی کی عربی تغیر کے مسودہ کا ترجمہ ان کے شاگر و مولانا عبدالرزاقی نے کیا اور محمد معاویہ عبید اللہ نے اس کی طباعت کروائی - رویا چه تغیر الهام الرحمان جلد اوران ص ۲ ناشر: علامہ مولانا محمد معاویه - ادارہ بیت الحکمہ الالعام ولی الله العلوی) اس میں شک نہیں کہ مولانا سندھی حضرت شاہ ولی اللہ کے بڑے مداح تھے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ ان پر مقلد ہونے کا الزام لگائیں.علامہ عبید اللہ سندھی نے وفات مسیح کے معاملہ میں آزادانہ طور پر اپنے مذہب کا اظہار کیا ہے.اسی طرح آپ نے اپنی لاعلمی میں مولانا آزاد مرحوم کی طرف وفات مسیح کی نسبت کو غلط قرار دیا ہے امر واقعہ یہ ہے کہ اس بارہ میں بھی آپ کی تحقیق ادھوری رہ گئی.ملفوظات آزاد نا پر درج ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کو ڈاکٹر انعام الشت خان آف بلوچستان نے لکھا کہ مرزائی لوگ آپ کی طرف مختلف معاملات منسوب کرتے رہتے ہیں.کہتے ہیں کہ مولانا و فانت میسج کے قائل ہیں.براہ کرم ایسی فیصلہ کن کتاب لکھ دیں کہ بولنے کی جرات نہ رہے اور اس میں یہ بھی درج فرمائیں کہ اس کے ذریعے تمام پرانی تحریر میں منسور میں اور پرانے خیالات بھی.اس کے جواب میں مولانا ابوالکلام آزاد نے بڑا واضح اور صاف جواب دیا کہ وفات مسیح کا جو ذکر خود قرآن میں ہے.اس پر میں نہیں مولانا آزاد نے اپنی تصنیف نقش آزاد امیں حیات مسیح کے عقیدہ کو غیر اسلامی قرار دیا.اس سے بھی مزید دو میں سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ بغیر علم اور بغیر تحقیق کے بات کرنے کے عادی ہیں تاکہ سادہ بندگان خدا کو دھوکا دیں.یا پھر اراده ان

Page 42

شواہد سے صرف نظر کرتے ہیں جو آپ کے پیش کردہ دلائل اور موقف کو مردود ثابت کرتے ہوں.عرب مصر اور ہندوستان کے ایک درجن سے زائد علماء کرام رسو وفات مسیح کے قائل ہیں) کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ یہ حضرات دیں عقائد میں سند اور محبت نہیں فہم قرآن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، تابعین عظام اور سلف صالحین کا ارشاد لائق استناد ہے.جناب آپ تو حضرت ابن عباس ، حضرت جارو بن معلی نہ حضرت امام مالک کے مذہب وفات مسیح کو بھی سند نہیں مانتے آپ سے علمائے کرام بشمول مفتی مصر علامہ مود شلتوت کو نہ ماننے پر کیا شکوہ.مولوی صاحب ! آپ کی کیفیت تو اس درخت کی سی ہے جسے زمین سے اکھاڑ دیا گیا ہو مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ - آپ کو یہ حیرات تو ہے کہ علامہ محمود شلتوت کے مقابل پر زیادہ مستند اور عالم دین ہونے کا اعلان کر رہے ہیں.لیکن اب بحث صرف یہ رہ گئی ہے کہ علامہ شلتوت اور جید علماء آپ کے اس عقیدہ کے قائل ثابت نہیں ہوئے بلکہ اس کے برعکس عقیدہ کے قائل ہیں.پس آپ کا اجماع امت کہاں گیا ؟ ؟ -

Page 43

حیات مسیح کے عیسائی عقیدہ کو آپ نے اسلامی عقیدہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش بھی کی ہے.اس بارہ میں پہلے ذرا محققین کی آرا کا مطالعہ فرما لیجیے :- : علامہ زرقانی فرماتے ہیں: زاد المعاد میں جو یہ مذکور ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ۳۳ برس کی عمر میں مرفوع ہوئے کوئی متصل حدیث اس بارہ میں نہیں ملتی.شامی کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ تصاری سے مروی ہے کیا شرح زرقانی علامہ محمدبن عبد الباقی جز اول من الطبقة الأولى بالمطبعة الازهريه المصريه ۱۳۲۵) یہی بات علامہ قیم نے زاد المعاد میں اور نواب صدیق حسن خان نے تفسیر فتح البیان میں لکھی ہے.: - سرسید احمد خان تحریر فرماتے ہیں :- قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے متعلق چار جگہ ذکر آیا ہے.چونکہ علماء اسلام نے یہ تقلید بعض فرق نصاری کے قبل اس کے کہ قرآن پر غور کریں یہ تسلیم کر لیا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السّلام زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں.اس لیے انہوں نے ان آیتوں کے بعض الفاظ کو اپنی غیر حق تسلیم کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے.تفسیر احمدی مصنفه مرستید احمد خان منه و مش ۲ حصہ اول جلادت در مطبع مفید عامه ام ۱۳- علامہ عبید اللہ سندھی لکھتے ہیں.یہ تو حیات عیسی لوگوں میں مشہور ہے یہ سیو دی کہانی نیز صابی من گھڑت کہانی ہے.مسلمانوں میں فتنہ عثمان کے بعد بواسطہ انصار بنی ھاشم یہ بات پھیلی اور یہ صابی اور یہودی تھے تغیر العام الرحمان مت ۲۳ از عید اللہ سندھی جلد اول - ناشر :- علامہ مولانا محمد معاوید)

Page 44

: مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں.یہ عقیدہ اپنی نوعیت میں ہر اعتبار سے ایک مسیحی عقیدہ ہے اور اسلامی شکل و لباس میں نمودار ہوا ہے.نقش آزادست ناشرین کتاب منزل لاہور مالف نام رسول سمر بطلع علی رزین پلی اسپتال روڈ لاہور) علامہ شورائی لکھتے ہیں :.یسائی علم نے یہودیوں کو دائرہ عیسائیت میں لانے کی خاطر بے سروپا باتیں عوام میں پھیلا دیں وفات کے متعلق بھی لوگوں کو ذہن نشین کرایا گیا کہ حضرت عیسلی ہو نے صلیب پر جان تو ضرور دی ہے لیکن تین دن کے بعد نہ ندہ ہو کر آسمان پر چڑھ گئے اور قیامت کے قریب زمین پر آئیں گے اور عیسائیت کے دشمنوں کا قلع قمع کریں گے : سانتک قرآن از علامه شورائی مطبوعہ، ایجوکیشنل پریس کر اچھا ناشران قرآن سوسائٹی کراچی) 4 - غلام احمد پر ویز لکھتے ہیں:.حقیقت یہ ہے کہ حضرت نیسٹی کے زندہ آسمان پر اُٹھائے جانے کا تصور مذہب عیسائیت میں بعد کی اختراع ہے یہودیوں نے مشہور کر دیا کہ انہوں نے حضرت مسیح علیہ السّلام کو صلیب پر قتل کر دیا ہے تواریوں کو معلوم تھا کہ حقیقت حال یہ نہیں لیکن وہ تقاضا ہے مصلحیت اس کی تردید نہیں کر سکتے تھے " (شکله مستور اداره طوریع اسلام کراچی مسل) جہاں تک آپ کے اس تجزیے کا تعلق ہے کہ آپ کے عقیدہ حیات ہیں اور عیسائیوں کے عقیدہ حیات مسیح میں کوئی مطابقت نہیں تو آپ کا یہ دعویٰ باطل اور حقائق پر سراسر سپردہ ڈالنے والی بات ہے ہم نے کب یہ دعویٰ کیا ہے کہ تفصیلی اور فروعی مسائل میں آپ عیسائیت سے مطابقت رکھتے ہیں اگر ایسا ہوتا تو آپ مسلمان نہ کہلاتے عیسائی کہلاتے.مگر اس امر میں کیا

Page 45

شک ہے کہ بالعموم آپ کے عقیدہ اور عیسائی عقیدہ میں کوئی فرق نہیں.ذرا پھر غور کر کے دیکھ لیجئے !! ا - کیا آپ یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ مسیح زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ؟ یہی عقیدہ عیسائیوں کا ہے.-۲- کیا آپ یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ مسیح ناصری دوبارہ آسمان سے اتریں گے ؟ اور امت محمدیہ کی اصلاح کے لیے اس امت کا کوئی فرد نہیں آئے گا بلکہ آپ عیسائیوں کی طرح اسی مسیح کے جسمانی نزول کے قائل ہیں مین کو عیسائیوں نے خدا کا بیٹا بنا رکھا ہے.آپ کے عقیدہ اور عیسائیوں کے عقیدہ میں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مسیح مرکز زندہ ہو پھر آسمان پر چڑھا.آپ کہتے ہیں مرا ہی نہیں بلکہ زندہ چڑھا لیکن جہانتک اسی میسج کے انفسہم زندہ آسمان پر جانے اور بنفسہ آنے کا تعلق ہے آپ کے اور عیسائیوں کے عقیدہ میں کوئی فرق نہیں.بحث صرف یہ نہیں کہ آپ میسج کے بنفسہ نہ ندہ آسمان پر جانے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اس کے بنفسہ واپس آنے کا یقین رکھتے ہیں بلکہ اس کے نتیجہ میں عیسائی آپ کو عقلا و نقلاً الوہیت مسیح کے عقیدہ کا قائل کر سکتے ہیں اور برصغیر پاک و ہند میں لاکھوں مسلمان اسی غلط عقید کے باعث عیسائیت کا شکار ہوئے ہیں.اور ہو رہے ہیں.یہ الگ بات ہے کہ آپ مند کر کے بیٹھ جائیں اور نہ مانیں مگر جب وہ قرآن کریم کی یہ دلیل پیش کر دیں کہ جب محمد رصلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا گیا کہ جسم سمیت آسمان پر چڑھ کر اور اتر کر دکھاؤ تو ان کو جگر اتعالیٰ نے یہ بتایا کہ مطالبہ کرنے والوں کے سامنے یہ جواب پیش کر دو کہ ھل كُنتُ الأَبَشَرًا رَّسُولاً لے لینی ہیں تمہارے اس قسم کے ناجائز مطالبے پورے نہیں کر سکتا له بنی اسرائیل: ۹۴

Page 46

بلکہ میں تو محض ایک بشر اور رسول ہوں.گویا بشر اور رسول کا آسمان پرزندہ چڑھ جا تا در اسی طرح زندہ آسمان سے اتر آنا محال ہے.پس اگر آپ قرآن کریم کی اس آیت کی سچائی کے بھی قاتل ہیں تو خواہ منہ سے مانیں یا نہ مائیں ، لاز کا یہ عقیدہ بنے گا کہ وہ مسیح ناصری جو زندہ آسمان پر چڑھ گیا اور زندہ اُتر کر دینا میں ظاہر ہوگا وہ نہ بشر ہوگا ، رسول بلکہ اس کا جانا اور واپس آنا اس کا مافوق البشر اور ما فوق الرسول ہونا ثابت کر لے گا.میں یہی عیسائی عقیدہ ہے اور یہی من وعن ان کی دلیل ہے کہ مسیح عام رسولوں سے مختلف تھا.بشر نہیں بلکہ خدا کا بیٹا تھا اور رسول نہیں بلکہ خود مظہر الوہیت تھا.پس اب آپ کے لیے کوئی راہ فرار نہیں رہی.آپ کا عیسائیت کے ساتھ عقائد میں یہ اشتراک حیات مسیح کے عقیدہ کا لازمی نتیجہ ہے.جس کی وجہ سے آپ مسلمان کہلا کہ عالم عیسائیت کی مدد کر رہے ہیں.اس لیے مقدر متھا کہ مسیح موعود کا سر صلیب بن کر آئے اور صلیبی عقائد کو جو مسلمانوں میں رائج ہو چکے ہیں قلع قمع کرے.چنانچہ کسر صلیب کا یہ کارنامہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود نے خوب انجام دیا.اس سلسلہ میں ہم مولوی اشرف علی تھانوی صاحب کے ترجمہ قرآن کے دیباچہ میں مولوی نور محمد نقشبندی کا یہ حوالہ پیش کر کے بتاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن اور سنت اور بائیبل اور عقل سے میسیج ناصری کی وفات ثابت کر کے اس دور کے مسلمانوں پر کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ ان کو عیسائیت کی خوفناک یلغار سے بچا لیا.مولوی نور محمد نقشبندی کے بارہ میں آپ کم از کم اتنا تو جانتے ہیں کہ وہ احمدیت کے مداحوں میں سے نہیں تھے اور آپ کے بزرگ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کے مخلص مریدوں میں سے تھے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں:.دو اسی زمانہ میں پادری لیفرائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت نے کر اور حلف اُٹھا کہ ولایت سے چلا کر تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنالوں گا..........اسلام

Page 47

۴۳ کی سیرت و احکام پر جو اس کا حملہ ہوا وہ تو ناکام ثابت ہوا......مگر حضرت عیسی علیہ السّلام کے آسمان پر جسم خاکی زندہ ہوئے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کیلئے اُس کے خیال میں کارگر ثابت ہوا.تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہوئے اور لیہ رائے اور اس کی جماعت سے کہا کہ عیسی جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں اور حبس میسلی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں.........اس ترکیب سے اُد سنے ہندوستان سے لے کہ ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی.ردیا چه ترجمه قر آن مولوی اشرف علی تھانوی من را در ماه همان کار از تجارت کتبی آرام باغ کراچی 9 آپ نے کمال بے باکی سے ہم صحابہ کی فہرست شائع کی ہے جنہوں نے مبینہ طور پر نزول مسیح کے ساتھ حیات مسیح کا عقیدہ بھی اپنا رکھا تھا.اس طرح آپ نے سادہ لوح عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے حالانکہ آپ یہ جانتے ہیں کہ نزول مسیح ایک پیشگوئی ہے جسے کیا اس سے بھی زیادہ صحاب نے بیان کیا ہو گا مگر ان میں سے کسی ایک صحابی نے بھی اپنا جیت مسیح کا عقیدہ بیان نہیں کیا.ہمارا آپ کو چیلنج ہے کہ کسی ایک صحابی کی کوئی صحیح روایت حیات میسج کے بارہ میں ثابت کر دیں.وہ صحابہ کرام نیو نہ ہی اصطلاحوں کو آپ سے ہزاروں گنا زیادہ مجھتے تھے اور قرآن کریم کی اس آیت سے خوب آشنا تھے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں لفظ نزول استعمال فرمایا گیا.یعنی قد أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ وَكَرًا رَسُولاً.پس نزول کے لفظ سے ان کے لیے کسی غلط فہمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ جس رنگ میں آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم نے نزول فرمایا تھا ان سب پر روشن تھا کہ نزول سے کیا مراد ہے.

Page 48

حق یہ ہے کہ یہ سب صحابہ کم و بیش وہ ہیں جو فات رسول پر مدینہ میں موجود تھے اور جین کا وفات مسیح پر اجماع ہوا.کیا اس وقت ان صحابہ کو اپنا حیات سیر کا عقیدہ یاد نہیں رہا تھا.ان میں سے ایک کا بھی اعتراض نہ اٹھانا یہ ثابت کر رہا ہے کہ آپ ان پر سراسر بہتان باندھ رہے ہیں کہ وہ نعوذ باللہ حیات مسیح اور اس کے رفع جسمی کے قائل تھے.1 آپ نے حضرت مسیح کے عقیدہ حیات و نزول کے بارہ میں حسب ذیل بعض قرآنی آیات پیش کر کے ان سے حیات مسیح کا عقیدہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے.ل :- یہ آیت کہ وَمَكَرُوا وَ مَكَرَ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ المُكِرِينَ } (ال عمران : (٥٥) کہ سیہود نے تدبیر کی اور اللہ نے بھی تدبیر کی اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے.اس آیت سے میسیج کی حیات یا نزول کا اشارہ تک نہیں ملتا اور جو تدبیر اللہ نے کی اسکا دوسری جگہ ذکر فرمایا که اويْتُهُمَا إِلَى رَبَّوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ هُ (مومنون ۵۱) کریم نے مسیح اور ان کی والدہ کو ایک بلند پہاڑی جگہ پر جو پرسکون اور چوں والی تھی پناہ دی پس یہود کی صلیب پر قتل کرنے کی تدبیر سے بچا کہ حضرت میں کو کشمیر کے علاقہ میں لاکر طبعی عمر سے وفات دینا اللہ تعالی کے خیر الماکرین ہونے پر دلالت کرتا ہے.ذرا سوچیئے آسمان پر لے جانا اور سیح کی جگہ ایک بے گناہ کو صلیب پر چڑھا دیتا اور ادھر یہود کو اس دھو کہ میں مبتلا رکھنا کہ گویا انہوں نے واقعی مسیح کو قتل کر دیا.کیا یہ باتیں خیر الماکرین کو زیب دیتی ہیں.نعوذ باللہ یہ ہرگز خداتعالی کا بہترین مگر نہیں بلکہ کسی خام نکرہ کا بد ترین مکر ہے جو اپنے پر اٹھتا ہے.آپ نے اپنے کمر کو خدا تعالے کی طرف منسوب کرتے ہوئے ذرا بھر خوت نہیں کھایا اور ایسی بے ہودہ اور لغو تدبیر خدا کی طرف منسوب کی ہے کہ میں کا کنایتہ واشارت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں ذکر

Page 49

نی گریاندا کا یار میرا بر صلی الہ علیہ وسلم پر تو ظاہر نہ ہو اشتر الناس پر ظاہر ہو گیا.ب.وَمَا قَتَلُوهُ يَقِيْناه بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ (النساء ١٥٩ion) نہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے میسج کا اپنی طرف رفع کیا.اس آیت سے بھی م کی حیات ہرگز ثابت نہیں ہوتی.رفع کے معنی عربی اور قرآنی محاورہ میں ہمیشہ بندی در بات اور غربت کے ہوتے ہیں.دوسرے یہ کہ آپ نے اس آیت قرآنی کی رو سے مسیح کی زندگی ثابت کرنے کی نہایت طفلانہ کوشش کی ہے.اگر اس آیت کریمہ میں مسیح کے زندہ رہنے کا مضمون بیان ہوتا تو کھلی کھلی من بات یہ ہونی چاہیے تھی کہ یہو د سیم کو قتل کرنے میں یقیناً نا کام ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ رکھا.اس تمام طویل آیت میں اُن کے ایک جگہ بھی زندہ رہنے کا ذکر نہ فرمانا منے رکھتا ہے پیس ندا فرماہی نہیں رہا کہ مسیح کو ہم نے زندہ رکھا.آپ زبر دستی اس کو زندہ کر رہے ہیں اور ذرا خون نہیں کھاتے کہ یہ کتنا بڑا گناہ کر رہے ہیں.رها بل رفعه الله سے آپ کا استنباط تو اول تو قتل کا بر عکس رفع ہو ہی نہیں سکتا منوائے اس کے درجات کی بلندی مراد لی جائے کیونکہ دنیا میں کوئی شخص اس بات کو معقول نہیں سمجھے گا کہ فلاں شخص قتل نہیں ہو لہذا آسمان پر چڑھ گیا.دوسرا قطعی استنباط اس امر سے یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالے نے یہاں بھی بَل فَعَهُ اللهُ إِلَى ALONE نہیں فرمایا بلکہ بَلْ رَفَعَهُ اللهُ ال فرماکر آپ کے استنباط کا سب تار و پود بکھیر دیا ہے.ایک ایسے روحانی وجود کی طرف جو ہر جگہ موجود ہو سمبی رفع ہو ہی نہیں سکتا.صرف روحانی رفع مراد ہے.یعنی قرب الہی اور درجات کی بلندی.آپ کے خیال میں کیا خدا تعالیٰ وہاں موجود نہیں تھا جہاں عیسی کو مصلوب کرنے کی کوشش کی جارہی تھی ؟

Page 50

خدا کی طرف رفع ہونے سے مسیح کا جسم وہ جگہ چھوڑ کر کسی اور جگہ کیوں روانہ ہو گیا جہاں خدا تعالی حاضر و ناظر اور موجود تھا.کاش آپ لوگ قرآن کریم کو سمجھنے میں اگر تقویٰ نہیں تو محض عقل سے ہی کام لے لیا کریں تو نہ خود دھوکا کھائیں اور نہ بنی نوع انسان کو دھوکا میں مبتلا کریں.کیا آپ کا یہ بھی ایمان ہے کہ قرآن کریم نے جس بد نصیب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کوشِئنَا لَرَفَعْنَهُ بیھا اگر ہم چاہتے تو اس کی زوران صلاحیتوں کی وجہ سے اس کا رفع کر لیتے لیکن وہ بد نصیب بد نخست از مین کی طرف جھک گیا.کیا آپ اس آیت کا یہ ترجمہ کرتے ہیں ک اللہ تعالیٰ چاہتا توحسم سمیت اسے آسمان پر اٹھا لے جاتا مگر اس بدبخت نے جسم سمیت زمین کی طرف جھک جانے کو اختیار کر لیا.ج -:- دَاِن مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ الأَليُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ (الساء: ۱۶۰) آپ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں مسیح کے قرب قیامت میں آنے کی خبر ہے.مولوی صاحب ! ذرا سمجھایئے کہ قرب قیادت میں آنے کی دلیل آپ نے قائم کس طرح کی ہے ؟ آیت تو یہ کہ رہی ہے کہ اہل کتاب سیح کے قتل کے عقیدہ پر اپنی موت تک قائم رہیں گے.اس سے سیج کی زندگی کہاں سے ثابت ہوگئی.اگر آپ کی یہ دلیل مان لی جائے کہ تمام یہودیوں نے قرب قیامت سے قبل حضرت مسیح علیہ السّلام پر ایمان نے آتا ہے تو یہ معنے اس آیت کے ہو ہی نہیں سکتے.کیونکہ جب سے یہ آیت نازل ہوئی ، بیسیوں نسلیں یہودیوں کی پیدا ہوئیں اور مرگئیں اور ایک مسل بھی مسیح علیہ لبتہ ایمان نہ لائی اور مرگئی.اگر آپ کی دلیل کو اس طرح من وعن قبوں کو بھی لیا جائے السلامة تو ایک اور آیت قرآنی سے اس کا شدید تصادم ہو گا کیونکہ آپ کے بقول اس آیت کا یہ ترجمہ الاعراف : 144

Page 51

ML بنے گا کہ جب مسیح دربارہ نازل ہوگا توم اس زمانہ کے اہل کتاب تمام ترسیح کے مرنے سے پہلے پہلے اس پر ایمان لا چکے ہوں گے جگہ قرآن کریم کی دوسری آیت وَجَامِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الذِينَ كَفَرُ وا ترجمہ : اور جو تیرے پیرو ہیں انہیں ان لوگوں پر جو منکر ہیں قیامت کے دن تک غالب رکھوں گا) واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کر رہی ہے.اس واضح اور دوٹوک اعلان کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے منکرین باقی رہیں گے.اگر چہ آپ کے ماننے والوں کو ان پر غلبہ رہے گا.اسی طرح منکرین علیلی یعنی یہود کا قیامت تک باقی رہنا قرآن کریم کی اس آیت سے بھی ثبت ہے.فَاغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ (المائدة :- (۱۵) ترجمہ :.تب ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک عداوت اور سخت دشمنی ڈال دی.پس ان صریح الدلالہ آیات کے مقابل پر آپ کی غلط تغیر کی کوئی بھی دلیل نہیں رہتی.ویے بھی ایک ایسی تغیر جس کی صحت کا فیصلہ مستقبل کے حالات سے تعلق رکھتا مورفی ذاتہ محض ایک ظن ہے جو ہرگز استدلال نہیں کہلا سکتی.علاوہ ازیں یہ بات بھی پیش نظر یہ ہے کہ اس آیت میں قبل موت ہے کی دوسری قرأت جو بطور مغیرہ کے ہے قبل موتهم آئی ہے اور تفسیر ابن کثیر کے مطابق حضرت ابن عباس یعنی اللہ عنہ سے یہ قرأت بسند صحیح ثابت ہے تو آپ کا استدلال جو موتی کی ضمیر میں مسیح کا تھا باطل ہوا.د - وَإِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ.(الزخرف : ۲۲) اس آیت میں اللہ کی ضمیر سے مراد آپ نے نزول مسیح کو قیامت کی نشانی قرار دیا ہے حالانکہ حسن بصری جیسے مفسرین نے اِنے سے مراد قرآن شریف لیا ہے.تفسیر ابن جریر - زیر آیت هزام

Page 52

۴۸ ہندا.پہلی ضرب تو آپ کی دلیل کی قطعیت پر یہ پڑگئی کہ اس آیت کریمیہ کی ایک دوسری تغییر جو آپ سے بہتر لوگوں نے کی ہے آپ کی تفسیر سے متصادم ہے اس لیے اگر گذشتہ زمانہ کے جید علماء نے بھی یہ تفسیر کی ہوتی تو اختلاف تغییر کے ہوتے ہوئے کسی ایک تغیر کو محکم دلیل قرار دینا ہرگز جائز نہیں.ویسے نزول مسیح کے ہم بھی قائل ہیں اور وہ صحابہ رضا بھی قائل تھے جنہوں نے مجموعی تصور ہیں جسے اسمارے سکوتی کہا جاتا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد شہادت دے دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل سب انبیا اور فتنے پاچکے ہیں.پس وفات مسیج کے قطعی طور پر ثابت ہونے کے بعد اس آیت کر غیر کی مسیح کے تعلق میں صرف یہی تغییر ممکن ہے کہ روحانی مسیح یا مثیل مسیح کا نازل ہونا قرب ساعۃ کی نشانی ہو گا اور ساختہ کا معنی و ہی کرنا پڑے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق میں اس آمیت میں ساعتہ کا معنی کیا جاتا ہے کہ اقتربت السَّاعَةُ وَالشَّقِّ الْقَمَرُ دیکھو ساعة قريب آگئی اور چاند دو ٹکڑے ہو گیا.پس جو ساعتہ قطعی طور پر آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شق القمر کے وقت قریب آئی تھی.ویسی ہی ساعت کے قرب کی پیش گوئی اس آیت میں کی گئی ہے کہ نزول مسیح کے ساتھ ایک دفعہ پھر وہ ساختہ قریب آجائے گی.وہ قیامت جو زمین کے تہہ و بالا ہو کر برباد ہونے کی آپ کے دماغ میں ہے اس کا تعلق نہ اس ساعتہ سے ہے جو چاند کے پھٹنے سے منسلک کی گئی اور نہ اس ساعتہ سے ہے بچی کا کراس زیر سمت آیت کریمہ میں ہے.ه : - هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدين كله.(الصعت : ۱) اس آیت سے آپ نے نزول مسیح مراد لے کر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

Page 53

۴۹ کی تائیدی عبارتیں اس تغیر کے حق میں نقل کی ہیں.اس تکلف کی آپ کو چنداں ضرورت نہ تھی کیونکہ حضرت مرزا صاحب کا دعوی تو خود مسیح موعود ہونے کا ہے اور وہ ان آیات کو اپنے حق میں پیش کر رہے ہیں آپ نے لَا تَقْرَبُوا الصلوة کی طرح حضرت مرزا صاحب کا آدھا موقفت نقل کیا ہے.ہمارا آپ کا تو نزاع ہی یہ ہے کہ بموجب العام الہی مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کہ وعدہ کے موافق " حضرت مرزہ غلام احمد قادیانی کواللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کے طور پر مبعوث فرمایا.پس بار بار آپ کو ہم یاد دہانی کراتے ہیں کہ فیصلہ کن امر محض وفات مسیح یا حیات میسی کا نتزاع ہے.اگر ، جیسا کہ قطعی طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ وہ وفات شدہ ہے تو اس قسم کے آپ کے دلائل محمض ٹامک ٹوئیاں ہیں.نزول مسیح کے منے سوائے اس کے کوئی انہیں ہو سکتے کہ اس دنیا میں پیدا ہونے والے کسی کو سیب کے رنگ میں مبعوث کیا جائے اور اس بعثت کا نام نز دل قرار پائے.جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر چند کہ جسم سمیت آسمان سے نہیں اتارا گیا بلکہ مبعوث فرمایا گیا.بایں ہمہ آپ کے لیے لفظ نزول سے پیدا ہونے والے اشتباہ کو دور کر دیا گیا.حضرت اقدس سید ناظمہ مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تو بے انتہا بلند ہے.قرآن کریم تو لفظ نزول ان عام چیزوں کے لیے بھی بیان فرماتا ہے جو زمین پر پیدا ہونے والی اور زمین چلنے پھرنے والی بعض حیوانی صورتیں ہیں.فرمایا وَأَنْزَلْنَا الْحَديد (الحديد : ۳۶) وَأَنزَلَ لكُم مِّنَ الْأَنْعَامِ تُمَنِيَةَ أَزْوَاجِ اب ہم آپ کو کتنی بار سمجھائیں کہ مولوی صاحب! یہ قرآنی محاورہ ہے، یہ قرآنی محاورہ ہے !! یہ قرآنی محاورہ ہے !!! اسے سمجھنے کی کوشش کریں.(الزمر: (2) چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی اتنی بار یہ بات یاد کرائی جائے تو انہیں یاد ہو جاتی ہے

Page 54

لیکن آپ کے دماغ میں نہ جانے کتنے پردے پڑ چکے ہیں کہ یہ واضح بات بھی اس میں داخل نہیں ہو رہی.نزول سے مراد قرآنی محاورہ میں فائدہ مند چیز کی تخلیق یا بعثت - #H H H حیات مسیح کے سلسلہ میں آپ نے آیت يَا عيسى إِلَى مُتَوَفِّيكَ وَدَافِعُكَ إِلَى میں الفاظ متونيك کے تفاسیر میں بیان کردہ بعض معانی کا ذکر کر کے نتیجہ رفع جسمانی نکالا ہے جو یقیناً آپ کی کوتاہ بینی پر دلالت کرتا ہے.لفظ توفی کے بارہ میں یہ پہلا اصول آپ کیسے بھول گئے کہ باب تفعل سے یہ لفظ ہو.اللہ قابل ہو اور ذی روح مفعول ہو تو معنے سوائے موت یا نیند کے (جو موت ہی کی عارضی صورت ہے) اور کوئی معنے نہیں لے جا سکتے.لیکن اگر موت کی بجائے نیند کے معنے کرنے ہوں تو اس کے لیے قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر قرینے کے بغیر متوفی کا لفظ استعمال ہو گا تو مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ سوائے موت کے معنے ہو ہی نہیں سکتے.جہاں تک مفترین کی متعدد آراء کا تعلق ہے ، انہوں نے بھی دیگر منے بیان کرنے کے با وجو د موت کے معنوں کو نظر اندازہ نہیں کیا.تاہم ان کے دوسرے معانی کو اپنے عقید سے کی تائید میں اختیار کر لیا آپ کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.ان کے اس استدلال کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے جس کے مقابل پر یہ اہل اور غیر مبدل قانون کھڑا ہو کہ ایک مثال بھی ایسی نظر نہیں آتی کہ خدا تعالیٰ فاعل ہو ، ذی روح مفعول ہو اور باب تفعل میں لفظ متونی استعمال کیا گیا ہو تو مراد موت اور نیند کے سوا کچھ اور ہو.است آپ بار بار بھول جاتے ہیں اور بار بار ہم آپ کو یاد دلا نہیں کہ تفاسیر میں جانے سے پہلے آیت کریمہ سے اپنا پیچھا چھڑا لیں میں میں خدا تعالے نے خود اسی لفظ توفی کی کامل تغییر

Page 55

بیان فرما دی ہے.وہ آیت کریمیہ یہ ہے.اه الله يَتَوَى الاَنْفُضُ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتُ فِي مَنَا مِهَا (الزمر: ۴۳) ترجمہ: اللہ ہر شخص کی روح اس کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور میں کی موت نہیں آئی (اس کی روح) اس کی نیند کے وقت قبض کرتا ہے) پس وہ ذی روح جس کی اللہ تعالے تونی قرار دے سوائے اس کے کہ اس کا نیند کی حالت میں ہونا ثابت ہو ، اس کا مرنا یقینی اور قطعی ثابت ہو جاتا ہے.١٢ آپ کا ایک اور اعتراض قائلین وفات مسیح پر ان کی معمولی تعداد اور کم تر مقام ہے جہاں آپ نے یہ تسلیم کر لیا وہاں آپ کا جھوٹا ہونا ثابت ہو گیا.کیونکہ ساری کتاب میں آپ نے یہ شور مچا رکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر ایک غیر منقطع اجماع چلا آرہا ہے.کہتے ہیں کہ در دوقلو کا حافظہ نہیں ہوتا.اپنی ایک جھوٹی دلیل پر آپ نے خود ایک تبر رکھ دیا جب یہ کہ دیا کہ از منہ اولی میں ایک تعداد رہی ہے.اگر چہ آپ نے قائلین وفات میچ کو مقام میں کم تر اور تعداد میں معمولی قرار دیا ہے.وہ جتنے بھی ہوں اور جیسے بھی ہوں، ان کے صالح ہونے میں کوئی شک نہیں ہے.پیس کہاں گئی آپ کی تعلی کہ رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کے زمانہ سے اب تک اجماع چلا آرہا ہے.مولوی صاحب! جب گذشته اکابرین امت کے بارہ میں بات کریں تو مہوش سے بات کیا کریں کہ آپ نے جن لوگوں کو معدودے چند اور سر پھرے، لکھا ہے.یادرکھیں کہ ان میں حضرت ابن عربی بھی شامل ہیں اور اسی فہرست میں علامہ ابن الوردی اور شیخ محمد کرم صابری

Page 56

اور اسی طرح بعض دیگر مفترین اور علماء بھی شامل ہیں جو نزول مسیح سے مراد ہرگز جسمانی نزول نہیں لیتے بلکہ روحانی اور بروزی طور پر کسی دوسرے جسم میں ظاہر ہونے ہی کو نزول قرار دیتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی زمانہ میں اکثریت کا کسی بات پر جم جانا جسے ہرگز اجماع کی حیثیت حاصل نہیں کیسے دلیل بن سکتا ہے.ایسی دلیل کی کوئی بھی شرعی یا عقلی حیثیت نہیں.ایک طرف نصوص قرآنی آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں، احادیث صحیحہ آپ کو دکھائی جاتی ہیں اور ناقابل تردید عقلی دلائل آپ کے سامنے لائے جاتے ہیں.مگر آپ اکثریت کا ڈھونگ رچا کر اجماع کا دعوی کر دیتے ہیں.ایسے اجماع کی نصوص قرآنیہ کے سامنے کوئی بھی حیثیت نہیں.پھر آپ اپنے اجماع کی قلعی خود ہی یہ کہ کر کھول دیتے ہیں کہ اکثریت اس عقیدہ کی حامل ہے اور پھر اس نام نہاد اکثریت کو نصوص قرآنیہ کے خلاف دلیل بنا کر کھڑا کر دیتے ہیں.ہم تو ایسے شخص کو سمجھانے کی استطاعت نہیں رکھتے.آپ سے تو خدا ہی سمجھے اور ضرور سمجھے گا.آپ نے قرب قیامت میں حضرت عیسی کے قتل درقبال کے عہد کا ذکر کر کے سوال اٹھایا ہے کہ کیا اللہ تعالے کو حضرت عیسیٰ سے عہد کرتے وقت معلوم نہیں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں ؟ مولوی صاحب آپ کے طرز استدلال پر حیرت ہوتی ہے کہ اتنی دور کی کوڑی لانے کی کوشش کی ہے.ان احادیث قدسیہ پر آپ کی نظر کیوں نہیں گئی کہ مین کے مطابق خود ساخت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی فرمائی کہ آخری زمانہ میں مسیح نہ صرف قبل دقبال کرے گا بلکہ قتل خنزیر اور کسیر صلیب بھی.اب ان قطعی شہارات کے بعد آپ جو مسیح تک پہنچے ہیں اور ایسی حدیث لائے ہیں کہ جس کی سند ہی قابل اعتبار نہیں.اس عبث کوشش کی ضرورت ہی کیا تھی.لیکن اصل تو آپ کی اس بوکھلاہٹ پر لطعت آیا ہے کہ جو دلیل جماعت احمدیہ اپنے حق کے طور پر پیش کرتی

Page 57

or ہے.آپ نے اسی کے حق میں ایک اور دلیل پیش کر دی.جناب لدھیانوی صاحب ایسی تو بار بار ہم آپ کو اور آپ کے ہمنواؤں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ مسیح قبل دقبال ، قبل خنزیر اور کسیر صلیب کے لیے دنیا میں نازل ہوگا تو نبی اللہ ہوگا تو کیا اللہ تعالے کو مسلم نہیں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ان معنوں میں ہیں کہ آپ کے بعد کسی قسم کا کوئی بنی ظاہر نہیں ہو سکتا اور خود حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جن پر یہ آیت خاتم النبین نازل ہوئی اس بات پر تعجب کیوں نہ ہوا.پس ایک بات تو قطعی طور پر ثابت ہو چکی ہے کیونکہ فریقین کوتسلیم ہو چکی ہے.آپ کو بھی اور ہمیں بھی کہ جس نبی اللہ عیسی کے آنے کی خبر دی گئی ہے وہ نبی اللہ ہی ہو گا.اور اس کا آنا خدا تعالیٰ کے نزدیک آیت خاتم النبیین کے منافی نہیں ہوگا.فیصلہ طلب بات اب یہی رہ گئی ہے کہ میں طرح قطعی طور پر آنے والے کا نبی اللہ ہونا ثابت ہو گیا.اسی طرح قطعی طور پر یہ معلوم کیا جائے کہ آنے والا نبی اللہ کیا موسومی امت کا عیسی مسیح بنفس نفیس وہی ہو گا میں کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ رسولاً إلى بنی اسرائیل.یا اس کی خوبو اور مثل بن کر امت محمدیہ میں پیدا ہونے والے ایک علام محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خطاب اور منصب عظام ہو گا.پس آج کے بعد قطعی طور پر تسلیم کر لینے کے بعد کہ آنے والا موعود میں لا زمانی اللہ بھی ہے، آئندہ ہرگز نہم سے ختم نبوت کی بحث نہ چھڑ ہیں کیونکہ ہمارے اور آپ کے عقیدے میں اس پہلو سے قطعاً کوئی فرق نہیں.ہاں جو فرق ہے اس پر جتنی چاہیں بخشیں کریں.ہم حاضر ہیں اور ڈنکے کی پوٹ آپ سے اس بارہ میں مباحثہ کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں کہ مسیح ناصری قرآن کریم اور دیگر شواہد کی رو سے فوت ہو چکا ہے یا جسم سمیت زندہ آسمان پر چلا گیا.

Page 58

پس اگر ثابت ہو جائے کہ وہ فوت ہو چکا ہے تو لازما آپ کو ماننا ہو گا کہ میں آنے والے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیسی بن مریم نبی اللہ کے لقب سے یاد فرما ر ہے تھے وہ بطور استعارہ استعمال فرما رہے تھے جیسے کسی بہت بڑے سخنی کو حاتم طائی کہہ دیا جاتا ہے یا جس طرح حضرت ی علیہ السلام کو خود حضرت مسیح علیہ السّلام نے آسمان سے اتر نے والا ایلیا و قرار دیا.فرمایا وہ ایلیاء جو آنے والا تھا یہی بھی ذکریا کا بیٹا ہے جس کو تم نے شناخت نہیں کیا (متی بات آیت ۱۰ تا ۱۳) پس یہ صاف بحث ہے اور اسی سلسلہ میں یہ رسالہ تحریر کیا جارھا ہے اور ایسے قومی دلائل سے آپ کے طفلانہ دلائل کو توڑا جارہا ہے کہ اگر آپ نہیں انصاف کا مادہ ہو تو قرآن وحدیث اور عقلی دلائل کی رو سے جرات کے ساتھ یہ اعلان کریں کہ یقیناً مسیح عیسی ابن مریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام نبیوں کی طرح فوت ہو چکا اور آنے والا مسیح اسی کے نام پر اس کی خو پر آنے والا امت محمدیہ ہی کا ایک رجل عظیم ہو گا جس کو حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی اللہ کے لقب سے یاد فرمایا ہے.مولانا ! آپ نے غلط مبحث کر کے خوامخواہ قارئین کی توجہ ایک طور پر پھیرنے کی کوشش کی ہے.اگر آپ نے یہی طرفہ اختیار کی ہے تو یاد رکھیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ یه قطعی گواہی بہت بڑی فوقیت رکھتی ہے کہ تُولُوا إِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لاني بَعْدَهُ تما مجمع بحارالانوار الجلد الرابع صفه نبرد از وانا شیخ عمار المطلع العمل منشی نول کشورم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء تو کم مگریہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اسی قول کی تشریح میں حضرت امام ابن عربی فرماتے ہیں

Page 59

۵۵ ان النبوة التي انقَطَعَتْ بِوُجُو بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم الْمَاعِي نُبُوةُ المَشْرِيعِ لَا مَقَامَهَا فَلَا شَرَعَ يَكُونَ نَاسِخًا يَتَرَيهِ صلى الله عَلَيْهِ وَلَا يَزِيدُ فِي شُرْعِهِ حُكُمَا آخَرَ وَهُدًا مَعْنَى وَلِهِ صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الرَّسَالَةَ والنبوة قدِ انْقَطَعَتْ فَلا رَسُولَ بَعْدِي وَ لا نَى يَكُونُ عَلَى شَرْعٍ يُخَالِفُ شَرِعِى.افتوحات مکیہ - الجزء الثانی اصل مطبع دار الكتب العربيه الكبرى - مصر) وہ نبوت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے ختم ہوئی ہے وہ صرف شریعت دالی نبوت ہے نہ کہ مقام نبوت.پس اب ایسی شریعت نہیں آسکتی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ قرار دے یا آپ کی شریعت میں کوئی حکم زائد کرے.یہی معنے اس حدیث کے ہیں کہ ان الرسالة والنبوة قد انقطعت کہ اب رسالت اور نبوة منقطع ہو گئی.میرے بعد رسول ہے نہ نبی یعنی کوئی ایسانہی نہیں ہو گا جو ایسی شریعت پر ہو جو میری شریعت کے خلاف ہو بلکہ جب کبھی نبی آئے گا تو وہ میری شریعت کے تابع ہو گا ؟ شیخ ابو عبدالله محمد بن علی بن الحسن الحكيم الترمذی لکھتے ہیں :- فإن الذى عمى من خير هذا يظن أنَّ خَاتَمَ النَّبِيِّين تأويله انه آخرة مَبْعَتًا فَأَى مَنْقَبَةٍ فِي هَذَا ، وَأَى عِلْمٍ في هداء هذا تَأْوِيلُ الْبُلْهِ الْجَهَلَةِ ! الالالا الان شيخ ابوعبدالله لم نعل بنا من الحكم التردر المطلع الكاثولی یکیت بر صفر تیر (۳) ترجمہ:.پس یقیناً وہ لوگ جو خاتم النبیین کے معنی سے نابلد ہیں خیال کرتے ہیں کہ خاتم النبیین کے معنی یہ سنت ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم بیشت کے لحاظ سے آخری نبی ہیں.بھلا اس میں فضیلت کی کون سی بات ہے ؟ اور معرفت کا کیا نکتہ ہے ؟ یہ تو نادان اور بے وقوف لوگوں

Page 60

کی تشریح ہو سکتی ہے.۵۶ عارف ربانی حضرت عبد الکریم جیلانی " فرماتے ہیں:.فا نقطع حكم نبوة التشريع بَعْدَهُ وَكَانَ مُحَمَّد صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم خاتم النبيين لا نَهُ جَاءَ بِالْكَمَالِ وَلَمْ بَعِي أَحَدٌ بِذَلِكَ - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت تشریعی بند ہو گئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین قرار پائے کیونکہ آپ ایک ایسی کامل شریعت نے آئے جو اور کوئی ہی نہ لایا ر الانسان الکامل جلد ام - مطبوعہ دار الكتب العربيه الكبرى - مصر) حضرت شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں.(م.201124 ) "خُتِمَ بِهِ اللبِيُّون الى لا يُوجَدُ مَنْ يَأْمُرُهُ اللهُ سُبْحَانَهُ بِالتَّشْرِيْعِ عَلَى النَّاسِ " تقيمات البيه جلد ۲ مطبوعہ مدینہ ہرتی پرلی بجنور.یوپی بھارت) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اب کوئی ایسا شخص نہیں ہو گا جسے اللہ تعالٰے لوگوں کے لیے شریعت دے کر مامور کرے ۱۳ آپ نے علامہ ابن عمر کے اصابہ کے اس حوالہ کو سب سے مقدم رکھا ہے کہ ایسے نبی کی نفی نہیں ہوتی ہو آپ سے پہلے منصب نبوت پر سرفراز ہو چکا ہو.حالانکہ ابن حجر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمندند حضرت ابراہیم کی نبوت کے قائل ہیں اور یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ابراہیم کی تدفین کے وقت فرمایا کہ یہ خود بھی نبی تھا اور نبی کا بیٹا.پھر ان حجر لکھتے ہیں کہ ابراہیمکو میسی دیجی کی طرح بچپن میں نبوت مل گئی تھی

Page 61

.ر پھرا کی تائید میں یہ یہ بھی ہے کہ آنحضرت صل للہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم روح اور جسم کے ماہین تھے جسم کی تخلیق نہ ہوئی تھی محض روح تھی.پس اگر رسول اللہ آدم کی تخلیق سے قبل نبی تھے تو اس طرح ابر آرسیم کی نبوت کو تبھی مجھا جاسکتا ہے.فتاوی حد شیشه ای محمد من المطبع مصطفی البابی الحلبی مصر ۱۹۷۰ء) پس ابن حجر کے پیش کردہ ان قطعی دلائل کے بعد ان کی طرف کوئی دوسرا عقیدہ منسوب کرنا واضح طور پر نا انصافی ہے اور زیادتی ہے.اگر بالفرض ان کا کوئی اور عقیدہ تھا بھی تو حضرت وہ ابراهیم فرزند حضرت خاتم الانبیاء صل اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا بالصراحت اعلان کر کے یقیناً اپنے مخالف عقیدہ کی نفی کر دیتے ہیں اور ایسے مضبوط دلائل اس عقیدہ کے حق میں لاتے ہیں کہ دوسری جگہ بیان شدہ بات محض ایک مفروضہ دکھائی دیتا ہے اسی حدیث کہ ابر اکسیم زندہ رہتے تو ہی ہوتے کی تشریح میں آپکی اپنی فقہ حنفی کے امام حضرت ملا علی قاری فرماتے ہیں:.ور یہ حدیث خاتم النبیین کے خلاف نہیں کیونکہ خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت منسوخ کرے اور آپ کی امت میں سے نہ ہویا موضوعات کبیر ملا علی قاری به منطبع محمد می لاہور) اب فرمائیے کہ کیا مسیح غیر است کابنی نہیں.اور کیا ملا علی قادری نے آیت خاتم النبیین کی یہ تشریح کرنے کے بعد کہ اس آیہ سے مراد صرف یہ ہے کہ امت محمدیہ میں کوئی بنی پیدا نہیں ہو سکتا جو شریعت محمدیہ کی تنسیخ کرنے والا ہو اور آپ کے تابع نہ ہو ، سو فی صدی احمدی عقیدہ کی تائید نہیں کر دی اور کیا اس "جرم" کی وجہ سے آپ کی قبیل کے علماء قطعی طور پر انہیں غیر مسلم اور داڑہ اسلام سے خارج کرنے کی جرات کریں گے ؟

Page 62

۵۸ ختم نبوت کے اس معنی کی وضاحت بزرگان سلف کے ایک گروہ عظیم نے کی ہے میں ہیں لام کیم ترندنی سید عبدالکریم جیلانی، علامه ابن عربی، علامہ عبد الوہاب شعرانی علامه متنی حضرت عبد القادر جیلانی، علامہ تو بیشتی، علامہ عبدالرحمان جامی وغیر تم شامل ہیں.اسی طرح فتوی دیتے وقت ان بزرگان اُمت کو فتومنی میں شامل ذرما لیجئے جنہوں نے بعینہ یہی معنے ختم نبوت کے سمجھے کہ شریعت کو منسوخ کرنے والا کوئی نہیں آسکتا.جھاں اُمت کے اندر شریعت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع نبی آنا خارج از امکان نہیں.اختصار کی خاطر اور آپ کی تسلی کے لیے دو اقتباسات بطور مثال پیش ہیں حضرت محمد والف ثانی فرماتے ہیں:.خاتم المرسلین کی بعثت کے بعد بطریق وراثت و تبعیت آپ کے پیرو کاروں کو کمالات نبوت کا حصول آپ کی خالقیت کے منافی نہیں.لہذا تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہوئے اردو ترجمہ کو بات دفتر اول حصہ نیم سته مدینه پیشنگ کمپنی بندر روڈ کراچی مکتوبات چنین بندر دوسرا حوالہ آپ کے اپنے پیرو مرشد و بانی دیوند مولانامحمد قاسم نانوتوی صاحب کا ہے جو عورت امام مجد والف ثانی کے حوالہ سے بہت زیادہ واضح اور قطعی نوعیت کا ہے.گر بالفرن بعد زمانہ یوم عمل میں کوئی ہی پیدا ہو تو پر بھی ناقای محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا یا تحذیر انام از ما نام مقام نانوتوی مطبوع خیر خوا سرکار پراسیسی) مولوی صاحب اختم نبوت کی بحث کو ساتھ شامل کر کے آپ نے عوام الناس کو دھوکہ دیتے کی بالکل بے معنی اور لایعنی کوشش کی ہے.خصوصاً اسی صورت میں جب لا ئی گیند ہی میں کلا کو آپ لوگ لائفی جنسی قرار دینے پر خوب تقریریں کرتے ہیں اور خوب اصرار کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اشتباہ کا امکان رکھے بغیر یہ بات کھول کر پیش فرما دی ہے کہ میرے بعد

Page 63

۵۹ کسی قسم کا کوئی نبی نہیں ہوگا ، ایسی صورت میں پرانی قسم کا نبی ہو انٹی کا رانی مین کے ہوتے ہوئے کوئی بھی نہیں آسکتا.تو کہاں گئے وہ آپ کے فرضی دوبارہ آنے والے عیسلی اگر وہ دوبارہ آئیں تو کسی قسم کے نبی تو بہر حال رہیں گئے.مولوی صاحب ! یا در یکھیے کہ قرآن کریم خصوصیت کے ساتھ صرف ایسے نبی کے پیدا ہونے کے امکان کو باقی رکھتا ہے جو امت محمدیہ میں سے ہوا اور اس نے جو کچھ فیض پایا ہوا نصر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے نہ کہ کسی غیر نبی سے.کیا آپ نے اس آیت کا کبھی مطالعہ نہیں فرمایا : وَمَن يُطِعِ الله وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ.عَلَيْهِم مِّنَ اللبِينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِيْنَ » (الفاء (2) وحسن أولئك رفيقا.ترتبہ یہ اور جو لوگ بھی اللہ اور اس رسول کی اطاعت کریں گے وہ اُن لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین (میں) اور یہ لوگ (بہت ہی اچھے رفیق ہیں.بہر حال چونکہ آپ نے خلط مبحث کیا تھا اس لیے ہم بھی ذرا اصل مضمون سے ہٹ کر چند قدم آپ کے ساتھ پہلے تا کہ آپ کو بتایا جائے کہ آپ پر ہر راہ بند ہے.اب اصل مضمون کی طرف یعنی وفات یا حیات مسیح کی طرف لوٹتے ہوئے آخر میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جو سب سے بڑا اختلاف اور جداگانہ نظریہ سمجھا جاتا ہے وہ حضرت عیسی علیہ السّلام کا آسمان پر دو سہزار سال سے زندہ رہنا اور اُمت محمدیہ کی اصلاح کے لیے دوبارہ آتا ہے.جب یہ مسئلہ حل ہوگا تو پھر سارے مسائل خود بخود ختم ہو جائیں گے، اور ختم نبوت کی سچی اور حقیقی تشریح بھی اس مسئلہ کے بعد ظاہر ہوگی.کیونکہ اگر یہ قطعی طور پر ثابت ہو جائے گا کہ عیسی زندہ آسمان پر ہیں

Page 64

تو لاز مادر ہی آئیں گے اور آخرین میں ظاہر ہونے والے وہی ہوں گے اور اگر اس کے برعکس قطعی طور پر ان کا فوت ہونا ثابت ہو جائے اور نہ ندہ آسمان پر جانے کو ڈھکوسلہ ثابت کر دیا جائے تو وہ وجود جس کا نبی ہونا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے لازماً اس کی مثل ہوگا نہ کہ بعنیہ وہ خود.یہی وجہ ہے کہ نزول کے سب ہی قائل ہیں لیکن جسمانی رفع کے سب قائل نہیں.بس اس منظر میں سارے جھگڑوں کا واحد مل اسی وفات وحیات کے جھگڑے میں مضمر ہے.اور کوئی اختلافی مسئلہ باقی نہیں رہتا.یہی وہ روگ ہے جن کے دُور ہوتے ہی سارے مسلمان فرقے ایک ہاتھ پر جمع ہوکر توحید کے قیام کے لیے اخدمت اسلام کے لیے اور غلبہ دین متین کے لیے کام کریں گے.اب وہ دن قریب ہیں جب ہر مسلمان عقیدہ حیات عیسی سے بیزار و مایوس ہو جائے گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السّلام بڑی سختی کے ساتھ پیش گوئی فرماتے ہیں کہ : یاد رکھو، کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا.ہمارے سبب مخالفت جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی ابن مریم کو آسمان سے اُترتا نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان نہیں سے کوئی عیسی ابن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی ، اور پھر اولاد کی اولا دوسرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یکد فعہ اس عقیدہ سے بیزار ہوجائیں گے : تذكرة الشهادتين ما مطبوب الدم پس اس بنیادی اختلاف کے پیش نظر ایک اور واضح کھلا اور انتہائی حقیقت پسندانہ

Page 65

اعلان سید نا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خليفة أمسیح الرابع وامام جماعت احمدیہ کی طرف سے، راپریل ر کو بمقام لندن علی سالانہ کے موقعہ پر فرمایاگیا تھا جس کی طرف آپ نے نہ خود نظر کی اور نہ عوام الناس کو اس طرف راہنمائی کی.پس کیا عجب کہ اپنے مزعومہ مسیح کی آمد سے مایوس ہو چکے ہوں ہم اس پر شوکت اور پر تختہ می اعلان کی طرف ایک دفعہ پھر آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں کہ :- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تواتر کے ساتھ ان کے دینی عیسی ہے کے آنیکی خبر دے رہے ہیں.اس لیے تمہیں فیصلہ کرنا پڑے گا کہ اپنے مبینہ منکر این اسلام کے پیچھے چلو گے یا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلو گے اور آنے والا وہ مسیح اختیار کرو گے تھیں کو اقتربت موسوی سے نسبت ہے اور امت محمدیہ سے اس کو کوئی نسبت نہیں.یا وہ مسیح اختیار کرو گے جو امت محمدیہ میں پیدا ہوا، اسی امت سے نسبت رکھتا ہے اور محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی غلام ہے.اب فیصلہ یہ کرتا ہے کہ موسوی مسیح پر امت راضی ہوگی یامحمدی مسیح پہ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو مسیح محمدی پر راضی ہو گئے ہیں اور یہاں تک میسج کے مقام کا تعلق ہے ہمارا بھی وہی عقیدہ ہے جو تمہارا ہے کہ امت محمدیہ میں آخرین میں میں مسیح نے آتا ہے وہ شریعت محمدیہ اور حضرت محمد مصطفے اصلی اللہ علیہ وسلم کا کامل طور پر طبع اور امتی نبی ہوگا.اس مسیح کے مقام کے بارہ میں ہمارا سیر مو کوئی اختلاف نہیں.یہ بات ہم قطعی طور پر یقینی سمجھتے ہیں اور تم بھی یقینی سمجھتے ہو کہ آنے والا لاز ما انتی بنی ہوگا اور اس بات میں اختلاف ہی کوئی نہیں.اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ آخرین میں ظاہر ہو نیوال موسومی است سے تعلق رکھنے والا مسیح ہے یا امت محمدیہ میں عیسی بن مریم کے مثل کے طور پر پیدا ہونے والا امتی نبی با تمہارا اپنا عقیدہ ہے اور مسلمہ

Page 66

عقیدہ ہے کہ جو شخص بھی مسیح کے نام نہیں آے گا وہ لازم نبی اللہ ہو گا.پرا نا آئے گا یا نیا آئے گا یہ ایک الگ بحث ہے اور تمہارے اپنے بڑے بڑے علماء ، تمہارے اپنے مفکرین یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ وہ ہوگا یقینا نبی الله اور است نبوت سے عاری ماننے والا کافر ہو گا بلکہ بعض عظیم بزرگوں نے یہ تسلیم کیا کہ پرانا نہیں ہو گا.بلکہ بدن آخر سے متعلق ہو کر آئے گا یعنی پہلا سیم نہیں بلکہ دوسرا کوئی شخص ظهور کرے گا اور پھر یہ بھی خود آنحضور صلی للہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے کہ مہدی اور عیسی دو الگ الگ وجود نہیں ہوں گے بلکہ ایک ہی وجود کے دو نام نہوں گے.لا المهدي الا عیسیٰ کا فرمان نبوی اس پر شاہد ناطق ہے " فرمایا در تم ناکام رہے ہو اور......نا کام رہو گے.....اور کبھی عیسی بن مریم کو جو موسی علیہ السلام کی امت کے نبی تھے زندہ نہیں کرسکو گے اور اگر وہ تمہارے خیال میں آسمان پر بیٹھے ہیں تو ہر گز نہیں توفیق نہیں ملے گی کہ ان کو آسمان سے آثار کر دکھا دو.نسل بعد نسل تم ان کا انتظار کرتے رہو مگر خدا کی قسم تمہاری یہ حسرت کبھی پوری نہیں ہو گی.اس بارہ میں امام جماعت احمدیہ کے مذکورہ بالا خطاب میں تمام دنیا کے معاندین کو جو میں چیلنج دیا گیا تھا، آج تک آپ لوگوں کو قبول کرنے کی توفیق نہیں مل سکی.وہ چیخ یہ تھا کہ اگر پرانے علیلی نے ہی امت کی راہنمائی کرنی ہے تو پورا زور لگاؤ.دعائیں کروا سجدوں

Page 67

۶۳ میں گریہ وزاری کرو اور میں طرح بن پڑے مسیح کو ایک دفعہ آسمان سے نیچے اُتار دو تو پھر یہ جھگڑا ایک دفعہ ختم ہو جائے گا اور ایسا عظیم الشان معجزہ دیکھ کراحمدی آنیوالے کو قبول کرنے میں تم پر بھی سبقت لے جائیں گے لیکن یاد رکھو ا ناممکن اور محال ہے اور ہر گنہ کبھی ایسا نہیں ہوگا کہ جو شخص آسمان پر چڑھا ہی نہ ہو اور دیگر انبیاء کی طرح طبعی موت سے فوت ہو چکا ہو وہ جسم سمیت آسمان سے ناندل ہو جائے.سر کو پیٹو آسمان سے اب کوئی آتا نہیں عمر دُنیا سے بھی اب تو آگیا ختم ہزار قارئین کرام! قرآن کریم نے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بارہ میں کثرت سے قطعی ثبوت پیش فرمائے ہیں لیکن طوالت کے ڈر سے ہم آپ کی خدمت میں صرف یہ دو آیات پیش کرتے ہیں جو دو بر ہنہ سونٹتی ہوئی تلواروں کی طرح ہیں جو قرآنی بیان کے خلاف ہر کھڑے ہونے والے کا سر کاٹنے کے لیے تیار ہیں اور وہ یہ ہیں:.پہلی آیت ہے:.حضرت جیسے اعلیہ السلام کی وفات کی خبر دینے والی آیات میں سے ایک واضح آیت یہ مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ الأَ رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ، وَأُمَّةَ صِدِّيقَةٌ، كَانَا يَا كُلَن العامة الصورة مائده رکوع ۱۰- پاره و نه رکوع تمام ترجمہ: مسیح ابن مریم سوائے ایک سول کے اور کچھ نہ تھے اور ان سے قبل تمام رسول گذر چکے

Page 68

ان کی والدہ راستباز تھیں وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے.اب دیکھئے اس آیت سے کتنے واضح طور پر حضرت عیلئے علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے.پہلے فرمایا کہ سیح ابن مریم ایک رسول کے سوا کچھ نہ تھے پھر ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ ان سے قبل تمام رسول گزر چکے ہیں.گویا حضرت بیلے کی وفات پر ایک نا قابل رو دلیل پیش کردی یہ ویسی ہی طرفہ کلام ہے جیسے کوئی کہے کہ زید ایکہ انسان کے سوا کچھ نہیں اور سب انسان مٹی کے بنے ہوتے ہیں.پس جس طرح اس فقرے سے ثابت ہوتا ہے کہ لازماً زیدہ بھی مٹی کا بنا ہوا ہے اسی طرح مذکورہ بالا آیت سے حضرت می کی وفات ثابت ہو جاتی ہے.بصورت دیگر آپ کو رسولوں کے مقدس گروہ سے کوئی الگ چیز ماننا پڑے گا جو ظا ہر غلط ہے.قرآن کریم اس مسئلے پرمز یہ روشنی ڈالتے ہوئے فرماتا ہے.کہ اس کی دینی مسیح کی) والدہ راست باز تھیں اور وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے.سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر حضرت میں اب تک زندہ موجود ہوتے تو کیا ان کے متعلق کھانا کھایا کرتے تھے کے الفاظ آنے چاہیئے تھے ؟ یقینا نہیں بلکہ ایسی صورت میں تو چاہیے تھا کہ حضرت سی کا ذکر حضرت مریم سے الگ کر کے یہ فرمایا جاتا کہ حضرت مریم کھانا کھایا کرتی تھیں میسیج اب تک کھاتے ہیں اور وفات کے دن تک کھاتے رہیں گے.لیکن ایسا نہیں کیا گیا.پس حضرت سی کو بھی حضرت مریم کے ساتھ ملا کر ایک گزرے ہوئے زمانے کے انسان کے طور پر آپ کا ذکر فرمانے سے اس مسئلہ کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے.یعنی یہ کہ حضرت میں ایک رسول سے بڑھ کر رتبہ نہیں رکھتے تھے اور جس طرح دوسرے رسول فوت ہوئے آپ بھی فوت ہوئے اور جس طرح باقی کھانا کھانے کے حاجتمند تھے آپ بھی کھانا کھانے کے حاجتمند تھے اور کھانے کے بغیر ہی زندہ رہنے کی کوئی خدائی صفت ان میں موجود نہ تھی.اس آیت کے ہوتے

Page 69

۶۵ ہوئے بھی کوئی اگر حضرت مسیح کو زندہ مانے تو یہ محض اس کی زبر دوستی ہوگی.بعض عجیب تاویلیں بعض لوگ اس آیت کی زد سے حضرت مسلے کو بچانے کے لیے عجیب عجیب تاویلیں کرتے ہیں.مثلاً یہ کہ اللہ تعالے نے اس آیت میں یہ تو فرمایا ہے کہ حضرت میں اسے پہلے تمام رسول گزر گئے یہ نہیں فرمایا کہ خود حضرت میں بھی گذر گئے.افسوس کہ وہ ذرا بھی اس طریہ کلام پر غور نہیں کرتے.ادنی اسی زبان دانی سے بھی یہ بات سمجھ آجانی چاہیئے کہ حضرت سیے کو زمرہ رسل میں شامل کر کے جب سب رسولوں کے گذرنے کی خبر دی جارہی ہے تو اس کے بعد حضرت مسیح کا زندہ رہ جانا ایک امیر محال ہے لیکن اگر کوئی صاحب اب بھی یہ اصرار فرمائیں کہ اس آیت سے صرف حضرت مسیح سے پہلے انبیاء کی وفات ثابت ہوتی ہے.حضرت میچ کی نہیں.تو ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ للہ انصافا غور کر کے فرمائیں کہ اس صورت میں ذیل کی دوسری آیت سے کیا ثابت ہو گا.وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ، دوسری آیت آنان ماتَ اَدْتُتلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ ( آل عمران رکوع ۱۵ پاره ۴ رکوع (۶) ترجمہ :.نہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) مگر ایک رسول اُن سے قبل نام رسول فوت ہو چکے پس اگر یہ بھی فوت ہو جائیں یا قتل کیے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے ؟ اب فرمائیے کہ حضرت یلئے علیہ السّلام کیسے اس آمیت کی زد سے پہنچ سکتے ہیں ! کیونکہ اگر وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تھے اور آپ جانتے ہیں کہ پہلے ہی

Page 70

تھے تو لازما ان کی وفات تسلیم کرنی پڑے گی.کیونکہ واضح طور پر یہ آیت بتا رہی ہے کہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل تمام رسول فوت ہو چکے.لیکن افسوس ہے کہ بعض علماء اب بھی مندر سے کام لیتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اللہ تعالے کا تمومی اختیار کرتے ہوئے قرآن کے اس دواضح ارشاد کے سامنے سر جھکا دیں.اور اپنی غلطی کو جرات اور دیانتداری کیساتھ تسلیم کرلیں وہ اس آیت کی بھی عجیب و غریب تاویل شروع کر دیتے ہیں.مثلاً یہ کہدیتے ہیں کہ قد خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُل میں جو لفظ خَلَتْ ، استعمال ہوا ہے اس کا مطلب صرف مر جاتا ہی نہیں بلکہ ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جانا بھی ہے.اس لیے ہم اس کا یہ مطلب نکا لیں گے کہ رسول اکرم صلے اللہ علیہ وسلم سے قبل جتنے رسول تھے وہ سب یا تو مر گئے یا اپنی جگہ چھوڑ کر کہیں چلے گئے.لیکن ہم ناظرین پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ محض ایک زبر دستی ہے اور نہ عربی میں جب بھی کسی انسان کے متعلق مطلق طور پر یہ لفظ "خلا " استعمال ہو تو اسکا مطلب موت ہی ہوا کرتا ہے جگہ چھوڑنا نہیں عجیب اتفاق ہے کہ عربی کی طرح انگریزی اور اردو محاورہ میں بھی گزر گیا کے الفاظ ان دونوں معنوں میں استعمال ہوتے ہیں یعنی رستے پر سے گزر جانا اور مر جانا.لیکن جب ہم یہ کہیں کہ گذشتہ تمام انبیاء گذر گئے تو یہ معنے کرنے محض مذاق ہوں گے کہ بعض انبیاء تو فوت ہو گئے اور بعض رستوں پر سے گزر گئے.یا ایک جگہ سے چل کر کسی " دوسری جگہ جا پہنچے.یہ محض ایک دعوی نہیں بلکہ عربی لغت واضح طور پر گواہی دے رہی ہے کہ جب مطلقاً کسی کے متعلق " غلا" کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس سے مراد اس شخص کی موت ہوتی ہے.دیکھئے (1) تاج العروس میں لکھا ہے " خَلَا فُلانٌ : " إِذَا مَاتَ " یعنی جب کہا جائے کہ فلان شخص گذر گیا.تو مراد یہ ہوتی ہے کہ مر گیا.لغت ہی نہیں بلکہ تفاسیر بھی اس آیت میں خلا سے مراد زندگی کا ختم ہونا ہی بیان کرتی ہیں.جیسا کہ تغير القونوی علی البیضاوی خیلدم و تفسیر خازن جلد میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے

Page 71

44 لکھا ہے کہ وَيَخْلُواْ كَمَا خَلَوْا بِالمَوْتِ ادِ الْقَتْلِ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح دار فانی سے کوچ کر جائیں گے جس طرح دوسرے یہ انبیاء علیہم السلام طبعی موت یا قتل کے ذریعہ گزر گئے.پس ثابت ہوا کہ موت کے علاوہ اس لفظ کے کچھ اور منے کرنا ہرگز جائز نہیں.اور اس آیت کے ہوتے ہوئے یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت جھے علیہ السّلام اس آیت کے نزول کے وقت تک زندہ موجود تھے.کیا کسی کی عقل میں یہ بات آسکتی ہے کہ وہی لفظ جو صاف صاف ایک لاکھ چو میں ہزار انبیا تو کی موت کی خبر دے رہا ہو حضرت علی علیہ السّلام کی دفعہ یکدم اپنے معنے ایسے تبدیل کرے کہ مارنے کی بجائے آسمان پر لے جا بٹھائے.اگر اسی طرح الفاظ گرگٹ کی طرح اپنے رنگ بدلنے لگیں تو پھر تو سہ بات کا ہر مطلب نکالا جا سکتا ہے یہ موت سے مراد نہ ندگی اور زندگی سے موت مراد لی جا سکتی ہے.عالم کو جاہل اور جاہل و عالم بنایا جا سکتا ہے رات کو دن اور دن کو رات کہا یا سکتا ہے غرضیکہ جہان معانی میں وہ طوفان بے تمیزی بر پا ہو اور ایسا اندھیر آئے کہ ساتھ کو ہاتھ سمجھائی نہ دے! صحابہ کی گواھی اگر ابھی بھی کسی صاحب کی پوری طرح تسلی نہ ہوئی ہو.تو ان کی تسلی کی خاطر صحابہ رضوان اللہ علیہم کی بھی ایک نا قابل بہ گورا ہی پیش کی جاتی ہے جین کے بعد اس امر میں ایک ذرہ بھر بھی شک نہیں رہتا کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم کے نزدیک بھی آیت وما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُوْلُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ " کا مطلب یہی تھا کہ ب مزید دیکھیں انشعاب علی البیضادی علوم ما تغير آيت وَمَا محمد ال رَسُول إلى الآخر، والصادر بیروت -

Page 72

۶۸ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل جتنے رسول تھے سب فوت ہو چکے اور کوئی بھی زندہ آسمان پر موجود نہیں.کتب تاریخ اور معتبر احادیث میں یہ واقعہ درج ہے جسے امام بخاری نے بھی نقل فرمایا ہے کہ جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا.تو صحابہ غم کے مارے دیوانوں کی طرح ہو گئے یہاں تک کہ بعض کو یقین نہ آنا تھا کہ ایک ایوب آقا ان سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا ہے.اس شدید غم کی کیفیت سے متاثر ہو کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فوت شدہ ماننے سے انکار کر دیا.اور تلوار ہاتھ میںلے کر کھڑے ہو گئے کہ ہجو شخص بھی یہ کہے گا کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم فوت ہو گئے میں تلوار سے اس کی گردن اڑا دونگا.آپ ہرگز فوت نہیں ہوئے.بلکہ میں طرح حضرت موسیٰ علیہ السّلام چالیس دن کیلئے اپنی قوم سے الگ ہو کر خدا تعالے سے مناجات کرنے گئے تھے اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سبھی عارضی طور پر ہم سے جدا ہوئے ہیں اور واپس تشریف لے آئیں گے.اس صورت حال میں بعض صحابہ نے حضرت ابو بکرہ کی طرف آدمی دوڑائے.جب آپ تشریف لائے تو سیدنا و مولانا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک کے پاس حاضر ہوئے ہو سفید کپڑے میں لپٹی پڑی تھی.اس مبارک چہرے سے کپڑا اٹھایا اور یہ دیکھ کر کہ واقعی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں بے اختیار آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے جھک کہ آپ کی پیشانی کو بوسہ دیا اور عرض کیا کہ خدا تعالے آپ پر دو موتیں اکٹھی نہیں کرے گا.یعنی یہ کہ آپ مرکز پھر زندہ اور زندہ ہو کر پھر نہیں مریں گے یا معنوی لحاظ سے یہ مراد ہو گی کہ آپ کا جسم تو رگیا لیکن آپ کا دین ہمیشہ زندہ رہے گا.بہر حال یہ کمگر آپ روتے ہوئے با ہر صحابیہ کے مجمع میں سے تشریف لائے اور ان کے درمیان کھڑے ہو کر بعض آیات کی تلاوت کی جن میں سے پہلی یہ راه بخاری باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ودرفانه من - الجزء الثانی

Page 73

تھی کہ :- ۶۹ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُول قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ فَإِنْ مات أو قُتِلَ انْقَلَبْةُ عَلَى أَعْقَابِكُمْ (ال عمران مخ پاره - رکوع ۶) یعنی نہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم مگر خدا کے رسول.ان سے پہلے جتنے رسول تھے سب گذر گئے.پھر اگر آپ بھی وفات پا جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے ؟ روایت آتی ہے کہ اس آیت کو سنتے ہی صحابہ کو یقین ہو گیا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں.اور حضرت عمر کا تو یہ حال ہوا کہ صدمہ کی شدت سے نیم جان ہو گئے گھٹنوں میں سکت باقی نہ رہی اور لڑکھڑا کر زمین پر گر پڑے.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ نہیں یوں محسوس ہوا جیسے یہ آیت پہلی مرتبہ نازل ہوئی ہو یعنی اس کا یہ مفہوم پہلی مرتبہ ہم پر روشن ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کی طرح وفات پا جائیں گے.پھر کیا ہمیں علماء سے یہ پوچھنے کا حق نہیں کہ اگر اس آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا تھا کہ میں طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل تمام نبی فوت ہو گئے اسی طرح رسولِ اکرم صلے اللہ علیہ وسلم بھی وفات پا جائیں گے تو کیوں حضرت عمرہ اور ان کے ہم خیال صحابہ نے حضرت ابو بحریہ سے تلواریں سونتے ہوئے یہ سوال نہ کیا کہ جس آیت کی رو سے تم سید کو لد آدم صلے اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر دیتے ہو وہ تو ایک ادنی اشان کے نبی یعنی مسیح ناصری کو بھی مارنے کی طاقت نہیں رکھتی اگر وہ اس آیت کے باوجود زندہ آسمان پر چڑھ سکتے ہیں تو کیوں ہمارا آقا ایسا نہیں کر سکتا جو مخیر دو عالم تھا اور سب نبیوں کی بڑی اسے عطا ہوئی تھی یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مقصود عالم کہ جس کی خاطر کا ئنات کو پیدا کیا گیا اُسے تو یہ آیت ناز کر زیر زمین ملا دے اور ایک ادنی نشان کے نبی کو جو اس کی غلامی پر نشہ

Page 74

اور کرنے کے لائق تھا جسم سمیت زندہ اٹھا کر چوتھے آسمان پر لے جا بٹھائے ؛ لیکن ایسا نہیں ہوا اور کسی ایک صحابی کی زبان پر بھی یہ اعتراض نہ آیا.ان میں ابو سیکر یہ بھی تھے اور عمر بھی د عثمان " بھی اور علی بھی اور پھر عائشہ بھی انہی میں تھیں.اور فاطمتہ الز ہیرا بھی.یہ سب عشاق رسول اس وقت موجود تھے لیکن کسی ایک نے بھی تو اعتراض کے لب نہیں کھولے اور سب نے اپنے مولا کی رضا اور اس کی قضاء کے حضور روتے روتے سر جھکا دیئے !! قرآن کا ہر فیصلہ ان کے لیے ناطق اور آخری تھا ! اللہ اللہ صحابہ کے تقویٰ اور روح اطاعت کی کیا شان تھی !!! ایک طرف تو دفور عشق کا یہ عالم کہ اپنے محبوب رسُولِ عربی صلے اللہ علیہ وسلم کے وصال کا تصور بھی برداشت نہ تھا.اور ہاتھ اُٹھ اُٹھ کر تلواروں کے قبضوں پر پڑتے تھے.کہ جو کوئی اس رسول کی وفات کی خبر زبان پر لائے گا.اس کا سر تن سے جدا کر دیا جائے گا.پھر کہاں اطاعت خداوندی کا یہ بے مثال منظر کہ قرآن کے ایک چھوٹے سے کلمے کی خاطر بے چون و چرا اسی سہول کی جدائی برداشت کر گئے کہ جسے زندہ رکھنے کی خاطر ان میں سے ہر ایک کو ہزار جانیں بھی دینی پڑتیں.صد ہزار بادہ بھی مرنا پڑتا تو ور ریغ نہ کرتے دیکھو دیکھو کلام الہی کے ان چند الفاظ نے کیسا تغیر عظیم بر پا کیا.کہ وہ عشاق جو چند لھے پہلے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے وصال کی خبر زبان پر لانے والوں کی جان کے در پہلے تھے.خود ان کی اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور قومی ہیکل جوان غم واندوہ کی شدت سے پچھاڑ کھا کھا کر زمین پر گرے با لیکن یہ وہم تک کسی کے دل میں نہ گذرا کہ قرآن کی ایک چھوٹی سی آیت کی تاویل اپنی مرضی کے مطابق کرلیں.اورمحمد عربی صلی الہ علیہ وسلم کی وفات تسلیم کرنے سے انکار کر دیں !!! پھر دیکھو آجکل کے علماء کو کیا ہوگیا !!! کیوں ان کی محبت کے دھارے رسول مکی و مدنی سے رُخ موڑ کر میچ ناصری کی جانب بہنے لگے اور کیوں بنی اسرائیل کے اس گذرے ہوئے رسول کی محبت میں ایسے حد سے گذر گئے کہ قرآن کے واضح ارشادات کو بھی پس پشت ڈالنے کی جرات کرنے لگے.سیمانتک کہ جن الفاظ میں یہ علماء اليه

Page 75

خود بھی مانتے ہیں کہ قرآن کریم نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی خبر دی تھی.قد خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ LONGAGE کے وہی بعینہ وہی الفاظ جب سیچ ناصری کے حق میں استعمال ہوئے تو اس آیت کے معنے کچھ اور کرنے لگے.کاش وہ حسان بن ثابت نے کی اندھی مگر پیر بصیرت آنکھ ہی سے عرب میں ظاہر ہونے والے اُس نور کو دیکھنے کی قدرت رکھتے اور اس انسان کامل کے حسن کو سراہا جانتے کہ جو حجیم نور تھا اور میں نے صحابہ کے قلوب کو کمال حسن سے شیفتہ و فریفتہ کر رکھا تھا.کاش وہ حسان بن ثابت کے ہمنوا ہو کہ فخر دو عالم صلے او وسلم کو مخاطب کر کے رکھ سکتے.كُنتَ السَّوَادَ لِنَّاظِرِى فَعَى عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْركَ فليمتْ فَعَلَيْكَ كُنتُ أحاذر کہ اے میرے محبوب کو تو میری آنکھ کی پتلی تھا.میں آج میری آنکھ کی پتلی تیری وفات سے اندھی ہو گئی.اب تیرے بعد جو چاہے مرتا پھرے.مجھے تو ایک تیری ہی موت کا ڈر تھا.یہ وہ شعر ہیں جو ایک نابینا شاعر حضرت حسان بن ثابت نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر آپ کو مخاطب کرکے کہے تھے.اسے آقائے مکی و مدنی کی محبت کا دم بھرنے والو دیکھو! یہ تھی وہ روح جس نے درج کے ساتھ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اپنے محبوب آقا کے ساتھ ہمثال محبت کی.ان کے نزدیک اگر دنیا میں کوئی انسان محمد رہنے کا حق رکھتا تھا تو فقط وہ رسولِ عربی صلے اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور ان کی وفات کے بعد انہیں کچھ بھی اس امر کی پرواہ نہ تھی کہ خطہ ارض پر آنے والے ہر زمانے کے تمام رسول سہزار دفعہ فوت ہو جائیں.لیکن ہمارے ان کرم فرما علماء کو بھی ذرا دیکھو کہ ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو تو مارے دیتے ہیں اور سیم ناصری کی زندگی کے کیسے

Page 76

خواہاں ہیں ! ہاں اسی کی زندگی کے خواہاں ہیں.کہ جس کی زندگی خود انہی کے عقائد ان کے دل و جان سے عزیزہ نظریات اور تمناؤں کی موت ہے.ہاں اس کی زندگی کے خواہاں ہیں کہ جس کی زندگی کے باطل تصور نے دنیا کو مشرق سے تاعرب شرک سے بھر دیا ہے ، اور عیسائیت کے مقابل پر اسلام کو محض بے دست و پا کر رکھا ہے.آخر میں لدھیانوی صاحب کو بہار اسمدر وانہ مشرہ ہے کہ جس عیسی کو آپ دلائل کی رو سے آسمان پر چڑھانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں عملاً اسے زمین پر اتارنے میں بھی کلیتہ ناکام رہے ہیں.پس اگر آپ کی یہ دعا قبول نہیں ہوتی کہ اے اللہ پرانے عیسی کو ہی آسمان سے بھیج دے تو اب یہی دعا کیجئے کہ خدا تعالے آپ کو وہ موت دے جس کے معنے بقول آپ کے زندہ آسمان پر پہلے جانا ہے.عیسی آسمان سے اتریں یا نہ اتریں جس دن آپ آسمان پر چڑھ گئے تب بے شک آپ کے مرید ہم پر محبت کرنے کا حق رکھیں گے.اور جب تک ایسا نہیں ہوتا آپ ہم نے اس مسلہ پر گفتگو کرنے کے مجازہ نہیں رہے.

Page 76