Hazrat Masih-e-Maud Ki Do Aham Taqreerein

Hazrat Masih-e-Maud Ki Do Aham Taqreerein

حضرت مسیح موعودؑ کی دو اہم تقریریں

جلسہ سالانہ قادیان 1904ء
Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر 29 اور 30 دسمبر 1904 کو دو تقاریر مسجد اقصیٰ میں فرمائیں۔ یہ تقریریں 1905ء میں اخبار الحکم اور بدر میں شائع ہوئیں۔ نظارت نشر واشاعت نے  تربیت، اصلاح اور روحانی ترقی کے لئے مفید ترین مواد سے پُر ان تقاریر کو کمپیوٹر پر ٹائپ کرواکر کتابی شکل میں شائع کیا ہے تا لوگ مامور و مرسل ربّانی کی زریں نصائح سے باآسانی آگاہ ہوکر رضائے الٰہی حاصل کرنے والے بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں ایک عجیب روحانی تاثیر رکھی ہے کہ آپ کا ایک ایک لفظ دل میں اترتا چلا جاتا ہے۔ ان تقاریر میں آپ علیہ السلام نے احباب جماعت کو حقیقی پاکیزگی اور تقویٰ کے حصول کی تلقین کرتے ہوئے مجاہدے، تدبیر، دعا، صحبت صادقین اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔


Book Content

Page 1

حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دو اہم تقریر میں جو حضور علیہ السلام نے ۳۰/۲۹ د سمبر ۱۹۰۴ کو بتقریب جلسہ سالانہ قادیان مسجد اقصیٰ میں فرمائیں الناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان

Page 2

حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوة والسلام کی دواهم تقریریں جو حضور علیہ السلام نے ۲۹ و۳۰ دسمبر ۱۹۰۴ء کو بتقریب جلسہ سالانہ قادیان مسجد اقصیٰ میں فرمائیں الناشر نظارت نشر و اشاعت قاديان

Page 3

نام کتاب مصنف : حضرت مسیح موعود کی دوا ہم تقریریں : حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام سن اشاعت کمپوزڈ باراول : 2012 $2013: 1000: : فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت صدرانجمن احمد یہ قادیان ، ضلع گورداسپور ، پنجاب، انڈیا.143516 حالیہ طباعت تعداد مطبع ناشر ISBN: 978-81-7912-348-5 Hadhrat Masih Maud (as) ki Do Aham Taqriren Speeches Delievered By: Hadhrat Mirza Ghulam Ahmad of Qadian the Promised Messiah (may peace be upon him).

Page 4

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيم پیش لفظ طبع اول سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پر ۳۰۰/۲۹ دسمبر ۱۹۰۴ء کو دو (۲) تقریریں مسجد اقصیٰ میں فرما ئیں.یہ تقریریں ۱۹۰۵ء میں اخبار ” الحکم اور اخبار ” البدر قادیان میں شائع ہو چکی ہیں.اب ہم نے کتابی طور پر اشاعت کے لئے ان تقاریر کو وو الحكم‘ جلد نمبر اوّل صفحه ۲ و ۳ مورخه ۱ جنوری ۱۹۰۵ء الحكم‘ جلد ۹ نمبر ۳ صفحه ۲ تا ۴ مورخه ۲۴ / جنوری ۱۹۰۵ء اسی طرح الحكم “ جلد نمبر ۴ صفحه ۲ و ۳ مورخه ۳۱ / جنوری ۱۹۰۵ء سے نقل کیا ہے.اور ان کی نقل اور صحت کے سلسلہ میں ملفوظات سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام جلد ہفتم شائع کردہ شرکتہ الاسلامیہ لمیٹڈ.ربوہ اور اخبار البدر ۱۹۰۵ء سے بھی استفادہ کیا ہے.تربیت و اصلاح اور رُوحانی ترقی کے لئے یہ تقاریر بڑی اہم ہیں.خدا تعالیٰ ہمیں مامور ربانی و مرسل یزدانی کی زریں نصائح پر عمل کرنے اور رضائے الہی حاصل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.خاکسار شریف احمد امینی ناظر دعوة وتبلیغ قادیان

Page 5

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم عرض ناشر و على عبده المسيح الموعود کتاب دو اہم تقریریں“ کے مبارک الفاظ اس مقدس ہستی کے ہیں جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آخری زمانہ میں بنی نوع انسان کی ہدایت اور رہنمائی اور اصلاح کے لئے مبعوث فرمایا.یہ مقدس وجود ہمارے پیارے آقا سرور کائنات خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطف اصلی یا ایام کے روحانی فرزند جلیل حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام بانئی جماعت احمد یہ ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب روحانی تأثیر رکھی ہے کہ آپ کا ایک ایک لفظ دل میں اترتا چلا جاتا ہے.جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۰۴ء کے موقعہ پر آپ نے یہ دوروح پرور تقریریں ارشاد فرمائی ہیں جس میں جماعت کو اور خصوصا نونہالان جماعت کو حقیقی پاکیزگی اور تقوی کے حصول کی تلقین کرتے ہوئے مجاہدے، تدبیر، دعا وصحبت صادقین اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی.اس کتاب کا ہر احمدی گھر میں ہونا اور ہر فرد جماعت کو اس کا مطالعہ کرنا از حد ضروری ہے.اس کی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر نظارت نشر و اشاعت قادیان اس کتاب کو سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے افادہ عام کے لئے شائع کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود کی ان قیمتی نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین خاکسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر واشاعت قادیان

Page 6

1 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ تقریر حضرت مسیح موعود عليه الصلوة و السلام جو کہ آپ نے ۲۹؍ دسمبر ۱۹۰۴ء کو سالانہ جلسہ کی تقریب پر بعد نماز ظہر مسجد اقصے میں فرمائی خاتمہ بالخیر ہو میری طرف سے اپنی جماعت کو بار بار وہی نصیحت ہے جو میں پہلے بھی کئی دفعہ کر چکا ہوں کہ عمر چونکہ تھوڑی اور عظیم الشان کام در پیش ہے اس لئے کوشش کرنی چاہیئے کہ خاتمہ بالخیر ہوجاوے.تقسیم عُمر خاتمہ بالخیر ایسا امر ہے کہ اس کی راہ میں بہت سے کانٹے ہیں.جب انسان دنیا میں آتا ہے تو کچھ زمانہ اس کا بے ہوشی میں گذر جاتا ہے.یہ بے ہوشی کا زمانہ وہ ہے جبکہ وہ بچہ ہوتا ہے.اور اس کو دنیا اور اس کے حالات سے کوئی خبر نہیں ہوتی.اس کے بعد جب ہوش سنبھالتا ہے تو ایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ وہ بے ہوشی تو نہیں ہوتی جو بچپن میں تھی.لیکن جوانی کی ایک مستی ہوتی ہے جو اس ہوش کے دنوں میں بھی بے ہوشی پیدا کر دیتی ہے.اور

Page 7

2 کچھ ایسا از خود رفتہ ہو جاتا ہے کہ نفس امارہ غالب آجاتا ہے.اس کے بعد پھر تیسرا زمانہ آتا ہے کہ علم کے بعد پھر لاعلمی آجاتی ہے.اور حواس میں اور دوسرے قومی میں فتور آنے لگتا ہے.یہ پیرانہ سالی کا زمانہ ہے.بہت سے لوگ اس زمانہ میں بالکل حواس باختہ ہو جاتے ہیں اور قومی بیکار ہو جاتے ہیں.اکثر لوگوں میں جنون کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے.ایسے بہت سے خاندان ہیں کہ ان میں ۶۰ یا ۷۰ سال کے بعد انسان کے حواس میں فتور آ جاتا ہے.غرض اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی قومی کی کمزوری اور طاقتوں کے ضائع ہو جانے سے انسان ہوش میں بے ہوش ہوتا ہے اور ضعف و تکامل اپنا اثر کرنے لگتا ہے.انسان کی عمر کی تقسیم انہیں تین زمانوں پر ہے اور یہ تینوں ہی خطرات اور مشکلات میں ہیں.پس اندازہ کرو کہ خاتمہ بالخیر کے لئے کس قدر مشکل مرحلہ ہے.بچپن کا زمانہ تو ایک مجبوری کا زمانہ ہے.اس میں سوائے لہو ، لعب اور کھیل کو د اور چھوٹی چھوٹی خواہشوں کے اور کوئی خواہش ہی نہیں ہوتی.ساری خواہشوں کا منتہا کھانا پینا ہی ہوتا ہے.دنیا اور اس کے حالات سے محض ناواقف ہوتا ہے.امور آخرت سے بکلّی نا آشنا اور لا پروا ہوتا ہے.عظیم الشان امور کی اسے کوئی خبر ہی نہیں ہوتی.وہ نہیں جانتا کہ دنیا میں اس کے آنے کی کیا غرض اور مقصد ہے.یہ زمانہ تو یوں گذر گیا.اس کے بعد جوانی کا زمانہ آتا ہے.کچھ شک نہیں کہ اس زمانہ میں اس کے معلومات بڑھتے ہیں اور اس کی خواہشوں کا حلقہ وسیع ہوتا ہے مگر جوانی کی مستی اور نفس امارہ کے جذبات عقل مار دیتے ہیں اور ایسی مشکلات میں پھنس جاتا ہے اور ایسے ایسے حالات پیش آتے ہیں کہ اگر ایمان بھی لاتا ہے تب بھی نفس امارہ اور اس کے جذبات اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اُسے ایمان اور اس کے ثمرات سے دور پھینک دینے کے لئے حملے کرتے ہیں.اس کے بعد جو پیرانہ سالی کا زمانہ ہے وہ تو بجائے خود ایسا نکما اور رڈی ہوتا ہے جیسے کسی چیز سے عرق نکال لیا جاوے اور اس کا پھوگ باقی رہ جاوے.اسی طرح پر انسانی عمر کا پھوگ بڑھاپا ہے.انسان اس

Page 8

3 وقت نہ دنیا کے لائق رہتا ہے اور نہ دین کے مخبوط الحواس اور مضمحل سا ہو کر اوقات بسر کرتا ہے.قوئی میں وہ تیزی اور حرکت نہیں ہوتی جو جوانی میں ہوتی ہے.اور بچپن کے زمانہ سے بھی گیا گذرا ہو جاتا ہے.بچپن میں اگر چہ شوخی حرکت اور نشو ونما ہوتا ہے لیکن بڑھاپے میں یہ باتیں نہیں.نشو ونما کی بجائے اب قویٰ میں تحلیل ہوتی ہے.اور کمزوری کی وجہ سے شستی اور کا ہلی پیدا ہونے لگتی ہے.بچہ اگر چہ نماز اور اس کے مراتب اور ثمرات اور فوائد سے ناواقف ہوگا یا ہوتا ہے لیکن اپنے کسی عزیز کو دیکھ کر ریس اور اُمنگ ہی پیدا ہو جاتی ہے.مگر اس پیرانہ سالی کے زمانہ میں تو اس کے بھی قابل نہیں رہتا.حواس باطنی میں جس طرح اس وقت فرق آجاتا ہے حواس ظاہری میں بھی معمر ہو کر بہت کچھ فتور پیدا ہو جاتا ہے.بعض اندھے ہو جاتے ہیں.بہرہ ہو جاتے ہیں.چلنے پھرنے سے عاری ہو جاتے ہیں اور قسم قسم کی مصیبتوں اور دکھوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں.غرض یہ زمانہ بھی بڑا ہی رہی زمانہ ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی زمانہ ہے جوان دونوں کے بیچ کا زمانہ ہے یعنی شباب کا جب انسان کوئی کام کر سکتا ہے.کیونکہ اس وقت قویٰ میں نشو ونما ہوتا ہے.اور طاقتیں آتی ہیں.لیکن یہی زمانہ ہے جبکہ نفس امارہ ساتھ ہوتا ہے.اور وہ اس پر مختلف رنگوں میں حملے کرتا ہے اور اپنے زیر اثر رکھنا چاہتا ہے.یہی زمانہ ہے جو مؤاخذہ کا زمانہ ہے.اور خاتمہ بالخیر کے لئے کچھ کرنے کے دن بھی یہی ہیں.لیکن ایسی آفتوں میں گھر اہوا ہے کہ اگر بڑی سعی نہ کی جاوے تو یہی زمانہ ہے جو جہنم میں لے جائے گا اور شقی بنا دے گا.ہاں اگر عمدگی اور ہوشیاری اور پوری احتیاط کے ساتھ اس زمانہ کو بسر کیا جاوے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اُمید ہے کہ خاتمہ بالخیر ہو جاوے کیونکہ ابتدائی زمانہ تو بے خبری اور غفلت کا زمانہ ہے.اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ نہ کرے گا.جیسا کہ اس نے خود فرمایا: لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَهَا ۖ اور آخری زمانہ میں گوبڑھاپے کی وجہ سے البقرة: ۲۸۷

Page 9

4 سستی اور کاہلی ہوگی لیکن فرشتے اس وقت اس کے اعمال میں وہی لکھیں گے جو جوانی کے جذبات اور خیالات ہیں.جوانی میں اگر نیکیوں کی طرف مستعد اور خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والا ، اس کے احکام کی تعمیل کرنے والا اور نواہی سے بچنے والا ہے تو بڑھاپے میں گوان اعمال کی بجا آوری میں کسی قدر سستی بھی ہو جاوے لیکن اللہ تعالیٰ اسے معذور سمجھ کر ویسا ہی اجر دیتا ہے.ہر شخص بڑھے انسان کو دیکھتا ہے کہ وہ کیسا از خود رفتگی کا زمانہ ہے.کوئی بات چشمدید کی طرح سمجھ میں نہیں آتی ہے.اس لئے ان لوگوں پر خدا تعالیٰ کا بڑا ہی فضل ہوتا ہے جو ابتدائی زمانہ میں اس زمانہ کے لئے سعی کرتے ہیں اور اس زمانہ میں ان کے لئے وہی تقویٰ اور خدا تعالیٰ کی بندگی لکھی جاتی ہے.غرض آخر وہی ایک زمانہ جو جوانی کے جذبات اور نفس امارہ کی شوخیوں کا زمانہ ہے کچھ کام کرنے کا زمانہ رہ جاتا ہے.اس لئے اب سوچنا چاہئے کہ وہ کیا طریق ہے جس کو اختیار کر کے انسان کچھ آخرت کے لئے کما سکے.جوانی کا زمانہ کیسے مفید ہو اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ زمانہ جو شباب اور جوانی کا زمانہ ہے ایک ایسا زمانہ ہے که نفس امارہ نے اس کو رڈی کیا ہوا ہے لیکن اگر کوئی کارآمد ایام ہیں تو یہی ہیں.حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی قرآن شریف میں درج ہے ومـا ابرئ نفسي ان النفس لامارة بالسوء الامارحم ربی یعنی میں اپنے نفس کو بری نہیں ٹھہر اسکتا کیونکہ نفس امارہ بدی کی طرف تحریک کرتا ہے.اس کی اس قسم کی تحریکوں سے وہی پاک ہو سکتا ہے جس پر میرا رب رحم کرے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ کی بدلیوں اور جذبات سے بچنے کے واسطے بری کوشش ہی شرط نہیں بلکہ دعاؤں کی بہت بڑی ضرورت ہے.نراز ہدظاہری ہی ( جو انسان اپنی سعی اور کوشش سے کرتا ہے ) کارآمد نہیں ہوتا.جب تک خدا تعالیٰ کا فضل یوسف:۵۴

Page 10

5 اور رحم ساتھ نہ ہو اور اصل تو یہ ہے کہ اصل زُہد اور تقویٰ تو ہے ہی وہی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.حقیقی پاکیزگی اور حقیقی تقوی اسی طرح ملتا ہے.ورنہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ بہت سے جامے بالکل سفید ہوتے ہیں اور باوجو دسفید ہونے کے بھی وہ پلید ہو سکتے ہیں تو اس ظاہری تقویٰ اور طہارت کی ایسی ہی مثال ہے.تا ہم اس حقیقی پاکیزگی اور حقیقی تقوی اور طہارت کے حصول کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسی زمانہ شباب و جوانی میں انسان کوشش کرے جبکہ قومی میں قوت اور طاقت اور دل میں ایک اُمنگ اور جوش ہوتا ہے.اس زمانہ میں کوشش کر نا عقلمند کا کام ہے.اور عقل اسی لئے اللہ تعالیٰ نے دی ہے.اول تدبیر کرو اس مقصد کے حاصل کرنے کے واسطے (جیسا کہ میں پہلے کئی مرتبہ بیان کر چکا ہوں ) اول ضروری ہے کہ انسان دیدہ دانستہ اپنے آپ کو گناہ کے گڑھے میں نہ ڈالے.ورنہ وہ ضرور ہلاک ہو گا.جو شخص دیدہ دانستہ بدراہ اختیار کرتا ہے یا کنوئیں میں گرتا ہے اور زہر کھاتا ہے وہ یقیناً ہلاک ہو گا.ایسا شخص نہ دنیا کے نزدیک اور نہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابلِ رحم ٹھہر سکتا ہے.اس لئے یہ ضروری اور بہت ضروری ہے خصوصاً ہماری جماعت کے لئے (جس کو اللہ تعالیٰ نمونہ کے طور پر انتخاب کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک نمونہ ٹھہرے) کہ جہاں تک ممکن ہے بدصحبتوں اور بد عادتوں سے پر ہیز کریں.اور اپنے آپ کو نیکی کی طرف لگا ئیں.اس مقصد کے حاصل کرنے کے واسطے جہاں تک تدبیر کاحق ہے تدبیر کرنی چاہئے اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرنا چاہئے.یا درکھو تد بیر بھی ایک مخفی عبادت ہے.اس کو حقیر مت سمجھو.اسی سے وہ راہ کھل جاتی ہے جو بدیوں سے نجات پانے کی راہ ہے.جولوگ بدیوں سے بچنے کی تجویز اور تدبیر نہیں کرتے ہیں وہ گویا بدیوں پر راضی ہو جاتے ہیں.اور اس طرح پر خدا تعالیٰ اُن سے الگ ہو جاتا ہے.

Page 11

6 میں سچ کہتا ہوں کہ جب انسان نفس امارہ کے پنجہ میں گرفتار ہونے کے باوجود بھی تدبیروں میں لگا ہوا ہوتا ہے تو اس کا نفس امارہ خدا تعالیٰ کے نزدیک لو امہ ہو جاتا ہے اور ایسی قابل قدر تبدیلی پالیتا ہے کہ یا تو وہ امارہ تھا جولعنت کے قابل تھا اور یا تدبیر اور تجویز کرنے سے وہی قابل لعنت نفس امارہ نفس تو امہ ہو جاتا ہے جس کو یہ شرف حاصل ہے کہ خدا تعالیٰ بھی اس کی قسم کھاتا ہے.یہ کوئی چھوٹا شرف نہیں ہے.پس حقیقی تقویٰ اور طہارت کے حاصل کرنے کے واسطے اول یہ ضروری شرط ہے کہ جہاں تک بس چلے اور ممکن ہوتد بیر کرو اور بدی سے بچنے کی کوشش کرو.اور بد عادتوں اور بدصحبتوں کو ترک کر دو.اُن مقامات کو چھوڑ دو جو اس قسم کی تحریکوں کا موجب ہوسکیں.جس قدر دنیا میں تدبیر کی راہ کھلی ہے اس قد ر کوشش کرو.اور اس سے نیچھ کو نہ ہٹو.دوسرا طریق دُعا ہے دوسرا طریق حقیقی پاکیزگی کے حاصل کرنے اور خاتمہ بالخیر کے لئے جو خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے وہ دعا ہے.اس لئے جس قدر ہو سکے دعا کرو.یہ طریق بھی اعلیٰ درجہ کا مجرب اور مفید ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے خود وعدہ فرمایا ہے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہارے لئے قبول کروں گا.دعا ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کو فخر کرنا چاہئے.دوسری قوموں کو دعا کی کوئی قدر نہیں.اور نہ انہیں اس پاک طریق پر کوئی فخر اور ناز ہوسکتا ہے.اسلام کا خاص فخر بلکہ یہ فخر اور ناز صرف صرف اسلام ہی کو ہے دوسرے مذاہب اس سے بکائی بے بہرہ ہیں.مثلاً عیسائیوں نے جب یہ سمجھ لیا ہے کہ ایک انسان (جس کو انہوں نے خدا مان لیا ) نے المومن : ۶۱

Page 12

7 ہمارے لئے قربانی دے دی ہے.انہوں نے اس پر بھروسہ کر لیا اور سمجھ لیا کہ ہمارے سارے گناہ اُس نے اٹھالئے ہیں.پھر وہ کونسا امر ہے جو اس کو دعا کے لئے تحریک کرے گا.ناممکن ہے کہ وہ گدازش دل کے ساتھ دعا کرے.دعا تو وہ کرتا ہے جو اپنی ذمہ داری اور جواب دہی کو سمجھتا ہے.لیکن جو شخص اپنے آپ کو بری الذمہ تصور کرتا ہے وہ دعا کیوں کرے گا.اس نے تو پہلے ہی سمجھ لیا ہے کہ گناہ دوسرے شخص نے اُٹھالئے ہیں اور اس طرح پر اس کے ذمہ کوئی جو ابد ہی نہیں تو اس کے دل میں تحریک کس طرح ہوگی.اس نے اور شئے پر بھروسہ کر لیا ہے اور اس طرح پر اس طریق سے جو دعا کا طریق ہے وہ دور چلا گیا ہے.غرض ایک عیسائی کے نزدیک دعا بالکل بے سود ہے اور وہ اس پر عمل نہیں کر سکتا.اس کے دل میں وہ رقت اور جوش جو دعا کے لئے حرکت پیدا کرتا ہے ،نہیں ہوسکتا.اسی طرح پر ایک آریہ جو تناسخ کا قائل ہے اور سمجھتا ہے کہ تو بہ قبول ہی نہیں ہو سکتی اور کسی طرح پر اس کے گناہ معاف نہیں ہو سکتے.وہ دعا کیوں کرے گا؟ اس نے تو یہ یقین کیا ہوا ہے کہ جونوں کے چکر میں جانا ضروری ہے.اور بیل ،گھوڑا ، گدھا، گائے ، کہتا ،سور وغیرہ بننا ہے.وہ اس راہ کی طرف آئے گا ہی نہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دعا اسلام کا خاص فخر ہے اور مسلمانوں کو اس پر بڑا ناز ہے.مگر یہ یاد رکھو کہ یہ دعا زبانی بک بک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے اور دعا کرنے والے کی رُوح پانی کی طرح بہہ کر آستانہ اُلوہیت پر گرتی ہے اور اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کے لئے قومی اور مقتدر خدا سے طاقت اور قوت اور مغفرت چاہتی ہے.اور یہ وہ حالت ہے کہ دوسرے الفاظ میں اس کو موت کہہ سکتے ہیں.جب یہ حالت میسر آجاوے تو یقیناً سمجھو کہ باب اجابت اس کے لئے کھولا جاتا ہے.اور خاص قوت اور فضل اور استقامت بدیوں سے بچنے اور نیکیوں پر استقلال کے لئے عطا ہوتی ہے.یہ ذریعہ سب سے بڑھ کر زبردست ہے.

Page 13

8 دُعا اور اہلِ زمانہ مگر بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگ دُعا کی حقیقت اور حالت سے محض ناواقف ہیں.اور اسی وجہ سے اس زمانہ میں بہت سے لوگ اس سے منکر ہو گئے ہیں.کیونکہ وہ ان تاثیرات کو نہیں پاتے اور منکر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے.پھر دُعا کی کیا حاجت ہے.مگر میں خوب جانتا ہوں کہ یہ تونر ابہانہ ہے انہیں چونکہ دعا کا تجربہ نہیں اس کی سلمنا خیرات پر اطلاع نہیں اس لئے اس طرح کہہ دیتے ہیں.ورنہ اگر وہ ایسے ہی متوکل ہیں تو پھر بیمار ہو کر علاج کیوں کرتے ہیں؟ خطرناک امراض میں مبتلا ہوتے ہیں تو طبیب کی طرف دوڑے جاتے ہیں.بلکہ میں سچ کہتا ہوں کہ سب سے زیادہ چارہ کرنے والے یہی ہوتے ہیں.سید احمد خان بھی دعا کے منکر تھے.لیکن جب اُن کا پیشاب بند ہوا تو دہلی سے معالج ڈاکٹر کو بلایا.یہ نہ سمجھ لیا کہ خود بخود ہی پیشاب کھل جاوے گا.حالانکہ وہی خدا ہے جس کے ملکوت میں ظاہری دُنیا ہے جبکہ دوسرے اشیاء میں تاثیرات موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ باطنی دنیا میں تاثیرات نہ ہوں.جن میں سے دعا ایک زبردست چیز ہے.یہ بیچ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قضا و قدر میں سب کچھ ہے.مگر کوئی یہ تو بتائے کہ خدا تعالیٰ نے وہ فہرست کس کو دی ہے جس سے معلوم ہو جاوے.میں سچ کہتا ہوں کہ ان اسرار پر کوئی فتح نہیں پاسکتا.ظاہر میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص قبض سے بیمار ہے تو تر بد یا کسٹرائیل جب اس کو دیا جاوے گا تو اسے اسہال آجاویں گے.اور قبض کھل جائے گی کیا یہ اس امر کا بین ثبوت نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ نے تاثیرات رکھی ہوئی ہیں.اسی طرح پر اور تدابیر کرنے والے ہیں.مثلاً زراعت کرنے والے اور یہی معالجات کرنے والے وہ خوب جانتے ہیں کہ ان تدابیر کی وجہ سے انہوں نے فائدہ اُٹھایا الحکم جلد ۹ نمبر ا صفحه ۲ ۳۰ مورخه ۱۰ار جنوری ۱۹۰۵ء

Page 14

9 ہے.اور اشیاء میں مختلف اثر دیکھے ہیں.پھر جبکہ ان چیزوں میں تاثیرات موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ دُعاؤں میں جو وہ بھی مخفی اسباب اور تدابیر ہیں اثر نہ ہوں؟ اثر ہیں اور ضرور ہیں.لیکن تھوڑے لوگ ہیں جو اِن تاثیرات سے واقف اور آشنا ہیں اس لئے انکار کر بیٹھتے ہیں.میں یقیناً جانتا ہوں کہ چونکہ بہت سے لوگ دنیا میں ایسے ہیں جو اس نقطہ سے جہاں دعا اثر کرتی ہے دُور رہ جاتے ہیں اور وہ تھک کر دعا چھوڑ دیتے ہیں اور خود ہی یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ دعاؤں میں کوئی اثر نہیں ہے.میں کہتا ہوں کہ یہ تو اُن کی اپنی غلطی اور کمزوری ہے.جب تک کافی وزن نہ ہو خواہ زہر ہو یا تریاق اس کا اثر نہیں ہوتا.کسی کو بھوک لگی ہوئی ہو اور وہ چاہے کہ ایک دانہ سے پیٹ بھر لے یا تو لہ بھر غذا کھالے تو کیا ہوسکتا ہے کہ وہ سیر ہو جاوے؟ کبھی نہیں.اسی طرح جس کو پیاس لگی ہوئی ہے ایک قطرہ پانی سے اس کی پیاس کب بجھ سکتی ہے.بلکہ سیر ہونے کے لئے چاہیے کہ وہ کافی غذا کھاوے اور پیاس بجھانے کے واسطے لازم ہے کہ کافی پانی پیوے.تب جا کر اس کی تسلی ہوسکتی ہے.اسی طرح پر دعا کرتے وقت بے دلی اور گھبراہٹ سے کام نہیں لینا چاہئے.اور جلدی ہی تھک کر نہیں بیٹھنا چاہئے.بلکہ اس وقت تک ہٹنا نہیں چاہئے جب تک دعا اپنا پورا اثر نہ دکھائے.جولوگ تھک جاتے اور گھبرا جاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں کیونکہ یہ محروم رہ جانے کی نشانی ہے.میرے نزدیک دعا بہت عمدہ چیز ہے اور میں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں خیالی بات نہیں.جو مشکل کسی تدبیر سے حل نہ ہوتی ہو اللہ تعالیٰ دعا کے ذریعہ اُسے آسان کر دیتا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ دعا بڑی زبر دست اثر والی چیز ہے.بیماری سے شفا اس کے ذریعہ ملتی ہے.دنیا کی تنگیاں مشکلات اس سے دور ہوتی ہیں.دشمنوں کے منصوبے سے یہ بچا لیتی ہے.اور وہ کیا چیز ہے جو دعا سے حاصل نہیں ہوتی.سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان کو پاک یہ کرتی ہے اور خدا تعالیٰ پر زندہ ایمان یہ بخشتی ہے.گناہ سے نجات دیتی ہے اور نیکیوں پر استقامت اس کے ذریعہ سے آتی ہے.بڑا ہی خوش قسمت وہ شخص

Page 15

10 ہے جس کو دعا پر ایمان ہے.کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کو دیکھتا ہے.اور خدا تعالیٰ کو دیکھ کر ایمان لاتا ہے کہ وہ قادر کریم خدا ہے.اللہ تعالیٰ نے شروع قرآن ہی میں دعا سکھائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بڑی عظیم الشان اور ضروری چیز ہے.اس کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ.الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ، مَالِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ : اس میں اللہ تعالیٰ کی چار صفات کو جوائم الصفات ہیں بیان فرمایا ہے.رب العلمین ظاہر کرتا ہے کہ وہ ذرہ ذرہ کی ربوبیت کر رہا ہے.عالم اُسے کہتے ہیں جس کی خبر مل سکے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز دنیا میں ایسی نہیں ہے جس کی ربوبیت نہ کرتا ہو.ارواح اجسام وغیرہ سب کی ربوبیت کر رہا ہے.وہی ہے جو ہر ایک چیز کے حسب حال اس کی پرورش کرتا ہے.جہاں جسم کی پرورش فرماتا ہے وہاں رُوح کی سیری اور تسلی کے لئے معارف اور حقائق وہی عطا فرماتا ہے.پھر فرمایا ہے کہ وہ رحمن ہے.یعنی اعمال سے بھی پیشتر اس کی رحمتیں موجود ہیں.پیدا ہونے سے پہلے ہی زمین، چاند، سورج ، ہوا، پانی وغیرہ جس قدر اشیاء انسان کے لئے ضروری ہیں موجود ہوتی ہیں.اور پھر وہ اللہ رحیم ہے یعنی کسی کے نیک اعمال کو ضائع نہیں کرتا بلکہ پاداش عمل دیتا ہے.پھر مالک یوم الدین ہے یعنی جز او ہی دیتا ہے.اور وہی یوم الجزاء کا مالک ہے.اس قدر صفات اللہ کے بیان کے بعد دعا کی تحریک کی ہے.جب انسان اللہ تعالیٰ کی ہستی اور ان صفات پر ایمان لاتا ہے تو خواہ مخواہ رُوح میں ایک جوش اور تحریک ہوتی ہے اور دعا کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتی ہے.اس لئے اس کے بعد اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم کی ہدایت فرمائی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلیات اور رحمتوں کے ظہور الفاتحه : ۲ تا ۴

Page 16

11 کے لئے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے.اس لئے اس پر ہمیشہ کمر بستہ رہواور بھی مست تھکو.غرض اصلاح نفس کے لئے اور خاتمہ بالخیر ہونے کے لئے نیکیوں کی توفیق پانے کے واسطے دوسرا پہلو دعا کا ہے.اس میں جس قدر تو کل اور یقین اللہ تعالیٰ پر کرے گا اور اس راہ میں نہ تھکنے والا قدم رکھے گا اسی قدر عمدہ نتائج اور ثمرات ملیں گے.تمام مشکلات دُور ہو جائیں گی.اور دعا کرنے والا تقویٰ کے اعلیٰ محل پر پہنچ جائے گا.یہ بالکل سچی بات ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہوسکتا.نفسانی جذبات پر محض خدا تعالیٰ کے فضل اور جذبہ ہی سے موت آتی ہے اور یہ فضل اور جذ بہ دعا ہی سے پیدا ہوتا ہے.اور یہ طاقت صرف دعا ہی سے ملتی ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ مسلمانوں اور خصوصاً ہماری جماعت کو ہرگز ہرگز دعا کی بے قدری نہیں کرنی چاہئے.کیونکہ یہی دعا تو ہے جس پر مسلمانوں کو ناز کرنا چاہئے.اور دوسرے مذاہب کے آگے تو دعا کے لئے گندے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور وہ توجہ نہیں کر سکتے.میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ ایک عیسائی جو خونِ مسیح پر ایمان لا کر سارے گناہوں کو معاف شدہ سمجھتا ہے اُسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ دعا کرتا رہے اور ایک ہندو جو یقین کرتا ہے کہ تو بہ قبول ہی نہیں ہوتی اور تناسخ کے چکر سے رہائی ہی نہیں ہے وہ کیوں دعا کے واسطے ٹکریں مارتا رہے گا.وہ تو یقینا سمجھتا ہے کہ کہتے ، بلے ، بندر، سور بننے سے چارہ ہی نہیں ہے.اس لئے یاد رکھو کہ یہ اسلام کا فخر اور ناز ہے کہ اس میں دعا کی تعلیم ہے.اس میں کبھی سستی نہ کرو اور نہ اس سے تھکو.پھر دعا خدا تعالیٰ کی ہستی کا زبر دست ثبوت ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے: وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت البقرة : ۱۸۷

Page 17

12 ہے تو کہہ دو کہ وہ بہت ہی قریب ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اسے جواب دیتا ہوں.یہ جواب کبھی رویا صالحہ کے ذریعہ ملتا ہے اور کبھی کشف اور الہام کے واسطے سے اور علاوہ بریں دُعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے کہ مشکلات کو حل کر دیتا ہے.غرض دُعا بڑی دولت اور طاقت ہے اور قرآن شریف میں جابجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنی مشکلات سے نجات پائی.انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو.دُعاؤں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہوگی جو خدا تعالیٰ کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جاوے گا.تیسرا پہلوصحبت صادقین ہے تیسرا پہلو جو قرآن سے ثابت ہے وہ صحبت صادقین ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِین یعنی صادقوں کے ساتھ رہو.صادقوں کی صحبت میں ایک خاص اثر ہوتا ہے.ان کا نور صدق اور استقلال دوسروں پر اثر ڈالتا ہے اور اُن کی کمزوریوں کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے.یہ تین ذریعے ہیں جو ایمان کو شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھتے ہیں.اور اُسے طاقت دیتے ہیں اور جب تک ان ذرائع سے انسان فائدہ نہیں اُٹھا تا اس وقت تک اندیشہ رہتا ہے کہ شیطان اس پر حملہ کر کے اس کے متاع ایمان کو چھین نہ لے جاوے.اسی لئے بہت بڑی ضرورت اس امر کی ہے کہ مضبوطی کے ساتھ اپنے قدم کو رکھا جاوے اور ہر طرح التوبة:119

Page 18

13 سے شیطانی حملوں سے احتیاط کی جاوے.جو شخص ان تینوں ہتھیاروں سے ا.نہیں کرتا ہے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ کسی اتفاقی حملہ سے نقصان اٹھاوے.دفع شر وکس خیر لیکن یہ بات یادرکھو کہ کتابوں میں جب لکھا جاتا ہے کہ بدیاں چھوڑ دو اور نیکیاں کرو تو بعض آدمی اتنا ہی سمجھ لیتے ہیں کہ نیکیوں کا کمال اسی قدر ہے کہ جو مشہور بدیاں ہیں مثلاً چوری ، زنا، غیبت، بد دیانتی ، بدنظری وغیرہ موٹی موٹی بدیوں سے بچتے ہیں تو اپنے آپ کو سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم نے نیکی کے تمام مدارج حاصل کر لئے ہیں اور ہم بھی کچھ ہو گئے ہیں.حالانکہ اگر غور کر کے دیکھا جاوے تو یہ کچھ بھی چیز نہیں ہے.بہت سے لوگ ایسے ہیں جو چوری نہیں کرتے ہیں.بہت سے ایسے ہیں جو ڈا کے نہیں مارتے یا خون نہیں کرتے یا بدنظری یا بدکاری کی بد عادتوں میں مبتلا نہیں ہیں.زیادہ سے زیادہ اسے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے ترک شرکیا ہے.خواہ وہ عدم قدرت ہی کی وجہ سے ہو.قرآن شریف صرف اتنا ہی نہیں چاہتا کہ انسان ترک شر کر کے سمجھ لے کہ بس اب میں صاحب کمال ہو گیا.بلکہ وہ تو انسان کو اعلیٰ درجہ کے کمالات اور اخلاق فاضلہ سے متصف کرنا چاہتا ہے کہ اس سے ایسے اعمال و افعال سرزد ہوں جو بنی نوع کی بھلائی اور ہمدردی پر مشتمل ہوں اور اُن کا نتیجہ یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاوے.میں اس بات کو بار بار کہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی اپنی ترقی اور کمال رُوحانی کی یہی انتہا نہ سمجھ لے کہ میں نے ترک بدی کی ہے.صرف ترک بدی نیکی کے کامل مفہوم اور منشاء کو اپنے اندر نہیں رکھتی.بار بار ایسا تصور کرنا کہ میں نے خون نہیں کیا خوبی کی بات نہیں کیونکہ خون کرنا ہر ایک شخص کا کام نہیں ہے.یا یہ کہنا کہ زنا نہیں کیا کیونکہ زنا کرنا تو کنجروں کا کام ہے نہ کہ کسی شریف انسان کا.ایسی بدیوں سے پر ہیز زیادہ سے زیادہ انسان کو بد معاشوں کے طبقے سے خارج کر دے گا.اور اس سے

Page 19

14 زیادہ کچھ نہیں.مگر وہ جماعت (جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں کیا ہے کہ انہوں نے ایسے اعمال صالحہ کئے کہ خدا تعالیٰ اُن سے راضی ہو گیا اور وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہو گئے ) صرف ترک بدی ہی سے نہ بنی تھی.انہوں نے اپنی زندگیوں کو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بیج سمجھا.خدا تعالیٰ کی مخلوق کو نفع پہنچانے کے واسطے اپنے آرام و آسائش کو ترک کر دیا.تب جا کر وہ ان مدارج اور مراتب پر پہنچے کہ آواز آ گئی رَضِيَ اللَّهُ عَنهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت مسلمانوں کی یہ حالت ہو رہی ہے کہ کسب خیر تو بڑی بات ہے اور وہی اصل مقصد ہے لیکن وہ تو ترک بدی میں بھی سُست نظر آتے ہیں.اور ان کاموں کا تو ذکر ہی کیا ہے جو صلحاء کے کام ہیں.پس تمہیں چاہئے کہ تم ایک ہی بات اپنے لئے کافی نہ سمجھ لو.ہاں اول بدیوں سے پر ہیز کرو.اور پھر ان کی بجائے نیکیوں کے حاصل کرنے کے واسطے سعی اور مجاہدہ سے کام لو اور پھر خدا تعالیٰ کی توفیق اور اس کا فضل دعا سے مانگو.جب تک انسان ان دونو صفات سے متصف نہیں ہوتا یعنی بدیاں چھوڑ کر نیکیاں حاصل نہیں کرتا وہ اس وقت تک مومن نہیں کہلا سکتا.مومن کامل ہی کی تعریف میں تو اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ فرمایا گیا ہے.اب غور کرو کہ کیا اتنا ہی انعام تھا کہ وہ چوری چکاری رہزنی نہیں کرتے تھے.یا اس سے کچھ بڑھ کر مراد ہے؟ نہیں.اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں تو وہ اعلیٰ درجہ کے انعامات رکھے گئے ہیں جو مخاطبہ اور مکالمہ الہیہ کہلاتے ہیں لیے اگر اسی قدر مقصود ہوتا جو بعض لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ موٹی موٹی بدیوں سے پر ہیز کرنا ہی کمال ہے تو انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا تعلیم نہ ہوتی.جس کا انتہائی اور آخری مرتبہ اور مقام خدا تعالیٰ کے ساتھ مکالمہ اور مخاطبہ ہے.انبیاء علیہم السلام کا اتنا ہی تو کمال نہ تھا.کہ وہ چوری المائده: ۱۲۵، ۲ الحکم جلد ۹ نمبر ۲ صفحه ۲ ۳ مورخه ۷ ارجنوری ۱۹۰۵ء.

Page 20

15 چکاری نہ کیا کرتے تھے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت، صدق، وفا میں اپنا نظیر نہ رکھتے تھے.پس اس دعا کی تعلیم سے یہ سکھایا کہ نیکی اور انعام ایک الگ شئی ہے.جب تک انسان اُسے حاصل نہیں کرتا اس وقت تک وہ نیک اور صالح نہیں کہلا سکتا.اور منعم علیہ کے زمرہ میں نہیں آتا.اس سے آگے فرمایا: غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّين.اس مطلب کو قرآن شریف نے دوسرے مقام پر یوں فرمایا ہے کہ مومن کے نفس کی تکمیل دور بتوں کے پینے سے ہوتی ہے.ایک شربت کا نام کا فوری ہے اور دوسرے کا نام زنجبیلی ہے.کافوری شربت تو یہ ہے کہ اس کے پینے سے نفس بالکل ٹھنڈا ہو جاوے اور بدیوں کے لئے کسی قسم کی حرارت اس میں محسوس نہ ہو.جس طرح پر کا فور میں یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ زہریلے مواد کو دبا دیتا ہے.اسی لئے اسے کافور کہتے ہیں.اسی طرح پر یہ کا فوری شربت گناہ اور بدی کی زہر کو دبا دیتا ہے.اور وہ موادِر ڈیہ جو اُٹھ کر انسان کی روح کو ہلاک کرتے ہیں اُن کو اُٹھنے نہیں دیتا بلکہ بے اثر کر دیتا ہے.دوسرا شربت شربت زنجبیلی ہے جس کے ذریعہ سے انسان میں نیکیوں کے لئے ایک قوت اور طاقت آتی ہے اور پھر حرارت پیدا ہوتی ہے.پس اھدنا الصراط المستقيم صراط الذين انعمت علیھم تو اصل مقصد اور غرض ہے.یہ گویازنجبیلی شربت ہے.اور غیر المغضوب عليهم ولا الضالین کا فوری شربت ہے.اب ایک اور مشکل ہے کہ انسان موٹی موٹی بدیوں کو تو آسانی سے چھوڑ بھی دیتا ہے.لیکن بعض بدیاں ایسی باریک اور مخفی ہوتی ہیں کہ اول تو انسان مشکل سے انہیں معلوم کرتا ہے اور پھر ان کا چھوڑ نا اُسے بہت ہی مشکل ہوتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ محرقہ بھی گو تخت تپ ہے.مگر اس کا علاج کھلا کھلا ہوسکتا ہے.لیکن تپدق جو اندرہی کھا رہا ہے اس کا علاج بہت ہی مشکل ہے.اسی طرح پر یہ باریک اور مخفی بدیاں ہوتی ہیں جو انسان کو فضائل کے حاصل کرنے سے روکتی ہیں.یہ اخلاقی بدیاں ہوتی ہیں جو ایک

Page 21

16 دوسرے کے ساتھ میل ملاپ اور معاملات میں پیش آتی ہیں اور ذرا ذراسی بات اور اختلاف رائے پر دلوں میں بغض ، کینہ، حسد، ریا، تکبر پیدا ہو جاتا ہے.اور اپنے بھائی کو حقیر سمجھنے لگتا ہے.چند روز اگر نماز سنوار کر پڑھی ہے اور لوگوں نے تعریف کی تو ریا اور نمود پیدا ہو گیا اور وہ اصل غرض جو اخلاص تھی جاتی رہی.اور اگر خدا تعالیٰ نے دولت دی ہے یا علم دیا ہے یا کوئی خاندانی وجاہت حاصل ہے تو اس کی وجہ سے اپنے دوسرے بھائی کو جس کو یہ باتیں نہیں ملی ہیں، حقیر اور ذلیل سمجھتا ہے اور اپنے بھائی کی عیب چینی کے لئے حریص ہوتا ہے اور تکبر مختلف رنگوں میں ہوتا ہے.کسی میں کسی رنگ میں اور کسی میں کسی طرح سے.علماء علم کے رنگ میں اُسے ظاہر کرتے ہیں.اور علمی طور پر نکتہ چینی کر کے اپنے بھائی کو گرانا چاہتے ہیں.غرض کسی نہ کسی طرح عیب چینی کر کے اپنے بھائی کو ذلیل کرنا اور نقصان پہنچانا چاہتے ہیں.رات دن اس کے عیبوں کی تلاش میں رہتے ہیں.اس قسم کی باریک بدیاں ہوتی ہیں جن کا دور کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور شریعت ان باتوں کو جائز نہیں رکھتی ہے.ان بدیوں میں عوام ہی مبتلا نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ جو متعارف اور موٹی موٹی بدیاں نہیں کرتے ہیں اور خواص سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اکثر مبتلا ہو جاتے ہیں.ان سے خلاصی پانا اور مرنا ایک ہی بات ہے.اور جب تک ان بدیوں سے نجات حاصل نہ کر لے تزکیہ نفس کامل طور پر نہیں ہوتا اور انسان ان کمالات اور انعامات کا وارث نہیں بنتا جو تز کیہ نفس کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں.بعض لوگ اپنی جگہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان اخلاقی بدیوں سے ہم نے خلاصی پالی ہے.لیکن جب کبھی موقعہ آپڑتا ہے اور کسی سفیہ سے مقابلہ ہو جاوے تو انہیں بڑا جوش آتا ہے.اور پھر وہ گند اُن سے ظاہر ہوتا ہے جس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا.اس وقت پتہ لگتا ہے کہ ابھی کچھ بھی حاصل نہیں کیا.اور وہ تزکیہ نفس جو کامل کرتا ہے میتر نہیں.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تزکیہ جس کو اخلاقی تزکیہ کہتے ہیں بہت ہی مشکل ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا.اس فضل کے جذب کرنے کے لئے بھی وہی

Page 22

17 تین پہلو ہیں.اوّل مجاہدہ اور تدبیر، دوم دعا، سوم صحبت صادقین.یہ فضل الہی انبیاء علیہم السلام پر بدرجہ کمال ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اول ان کا تزکیہ اخالاقی کامل طور پر خود کر دیتا ہے.ان میں بد اخلاقیوں اور رذائل کی آلائش رہ ہی نہیں جاتی.ان کی حالت تو یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ سلطنت پا کر بھی وہ فقیر ہی رہتے ہیں اور کسی قسم کا کبران کے پاس نہیں آتا.در حقیقت یہ گند جو نفس کے جذبات کا ہے اور بداخلاقی ، کبر، ریا وغیر ہ صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اس پر موت نہیں آتی جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور یہ موادِر ڈیہ جل نہیں سکتے جب تک معرفت کی آگ اُن کو نہ جلائے.جس میں یہ معرفت کی آگ پیدا ہو جاتی ہے وہ ان اخلاقی کمزوریوں سے پاک ہونے لگتا ہے اور بڑا ہو کر بھی اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے.اور اپنی ہستی کو کچھ حقیقت نہیں پاتا.وہ اس نور اور روشنی کو جو انوار معرفت سے اُسے ملتی ہے اپنی کسی قابلیت اور خوبی کا نتیجہ نہیں مانتا اور نہ اسے اپنے نفس کی طرف منسوب کرتا ہے بلکہ وہ اسے خدا تعالیٰ ہی کا فضل اور رحم یقین کرتا ہے جیسے ایک دیوار پر آفتاب کی روشنی اور دھوپ پڑ کر اُسے منور کر دیتی ہے.لیکن دیوار اپنا کوئی فخر نہیں کر سکتی کہ یہ روشنی میری قابلیت کی وجہ سے ہے.یہ ایک دوسری بات ہے کہ جس قدر وہ دیوار صاف ہوگی اسی قدر روشنی زیادہ صاف ہوگی.لیکن کسی حال میں دیوار کی ذاتی قابلیت اس روشنی کے لئے کوئی نہیں بلکہ اس کا فخر آفتاب کو ہے اور ایسا ہی وہ آفتاب کو یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ تو اس روشنی کو اٹھا لے.اسی طرح پر انبیاء علیہم السلام کے نفوس صافیہ ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فیضان اور فیوض سے معرفت کے انوار ان پر پڑتے ہیں.اور ان کو روشن کر دیتے ہیں.اسی لئے وہ ذاتی طور پر کوئی دعوی نہیں کرتے بلکہ ہر ایک فیض کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں.اور یہی سچ بھی ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اعمال سے داخلِ جنت ہوں گے تو یہی فرمایا کہ ہرگز نہیں.خدا تعالیٰ کے فضل

Page 23

18 سے.انبیاء علیہم السلام کبھی کسی قوت اور طاقت کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتے وہ خدا ہی سے پاتے ہیں اور اسی کا نام لیتے ہیں.ہاں ایسے لوگ ہیں جو انبیاء علیہم السلام سے حالانکہ کروڑوں حصہ نیچے کے درجہ میں ہوتے ہیں جو دو دن نماز پڑھ کر تکبر کرنے لگتے ہیں اور ایسا ہی روزہ اور حج سے بجائے تزکیہ کے ان میں تکبر اور نمود پیدا ہوتی ہے.یاد رکھو تکبر شیطان سے آیا ہے اور شیطان بنا دیتا ہے.جب تک انسان اس سے دور نہ ہو.یہ قبول حق اور فیضانِ اُلوہیت کی راہ میں روک ہو جاتا ہے.کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہئے نہ علم کے لحاظ سے نہ دولت کے لحاظ سے نہ وجاہت کے لحاظ سے نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے.کیونکہ زیادہ تر انہیں باتوں سے یہ تکبر پیدا ہوتا ہے اور جب تک انسان ان گھمنڈوں سے اپنے آپ کو پاک صاف نہ کرے گا.اس وقت تک وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ نہیں ہوسکتا.اور وہ معرفت جو جذبات کے موادر ڈیہ کو جلا دیتی ہے اسکو عطا نہیں ہوتی کیونکہ یہ شیطان کا حصہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا.شیطان نے بھی تکبر کیا تھا اور آدم سے اپنے آپ کو بہتر سمجھا اور کہہ دیا اَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهُ مِنْ طِيْنِ.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خدا تعالیٰ کے حضور سے مردود ہو گیا.اور آدم لغزش پر (چونکہ اسے معرفت دی گئی تھی ) اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے لگا اور خدا تعالیٰ کے فضل کا وارث ہوا.وہ جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا.اس لئے دعا کی رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِین.یہی وہ ستر ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کو کہا گیا کہ اے نیک اُستاد! تو انہوں نے کہا کہ تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے اس پر آج کل کے نادان عیسائی تو یہ کہتے ہیں کہ ان کا مطلب اس فقرہ سے یہ تھا کہ تو مجھے خدا کیوں نہیں کہتا.حالانکہ حضرت مسیح نے بہت ہی لطیف بات کہی تھی جو انبیاء علیہم السلام کی فطرت الاعراف: ۱۳، ۱۲ الاعراف: ۲۴

Page 24

19 کا خاصہ ہے.وہ جانتے تھے کہ حقیقی نیکی تو خدا تعالیٰ ہی سے آتی ہے.وہی اس کا چشمہ ہے اور وہیں سے وہ انترتی ہے.وہ جس کو چاہے عطا کرے اور جب چاہے سلب کر لے.مگران نادانوں نے ایک عمدہ اور قابل قدر بات کو معیوب بنا دیا.اور حضرت عیسی کو متکبر ثابت کیا حالانکہ وہ ایک منکسر المزاج انسان تھے.پاک ہونے کا ایک طریق پس میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اور ممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تکبر اور فخر نہ کرے.نہ علمی ، نہ خاندانی، نہ مالی.جب خدا تعالیٰ کسی کو آنکھ عطا کرتا ہے تو وہ دیکھ لیتا ہے کہ ہر ایک روشنی جوان ظلمتوں سے نجات دے سکتی ہے وہ آسمان سے ہی آتی ہے.اور انسان ہر وقت آسمانی روشنی کا محتاج ہے.آنکھ بھی دیکھ نہیں سکتی جب تک سورج کی روشنی جو آسمان سے آتی ہے نہ آئے.اسی طرح باطنی روشنی جو ہر ایک قسم کی ظلمت کو دور کرتی ہے.اور اس کی بجائے تقویٰ اور طہارت کا نور پیدا کرتی ہے آسمان ہی سے آتی ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقومی ، ایمان، عبادت، طہارت، سب کچھ آسمان سے آتا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے.وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دور کر دے.پس سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشئی محض سمجھے.اور آستانہ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے اور اس نور معرفت کو مانگے جو جذبات نفس کو جلا دیتا ہے.اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لئے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے.پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اور بھی ترقی ہو.کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئی سمجھے گا اسی قدر کیفیات

Page 25

20 اور انوار خدا تعالیٰ سے اُتریں گے.جو اس کو رشنی اور قوت پہنچائیں گے.اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی.دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبر ہے اور یہی حالت بنادیتا ہے.پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اسے حقیر سمجھتا ہے.میں یہ سب باتیں بار بار اس لئے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جود نیا میں گم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقوی وطہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی.اسے دوبارہ قائم کرے.عام طور پر تکبر دنیا میں پھیلا ہوا ہے.علماء اپنے علم کی شیخی اور تکبر میں گرفتار ہیں.فقراء کو دیکھو تو ان کی بھی حالت اور ہی قسم کی ہو رہی ہے.ان کو اصلاح نفس سے کوئی کام ہی نہیں رہا.ان کی غرض و غایت صرف جسم تک محدود ہے.اس لئے اُن کے مجاہدے اور ریاضتیں بھی کچھ اور ہی قسم کی ہیں.جیسے ذکرارہ وغیرہ جن کا چشمہ نبوت سے پتہ نہیں چلتا.میں دیکھتا ہوں کہ دل کو پاک کرنے کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں.صرف جسم ہی جسم باقی رہا ہوا ہے جس میں روحانیت کا کوئی نام ونشان نہیں.یہ مجاہدے دل کو پاک نہیں کر سکتے.اور نہ کوئی حقیقی نور معرفت کا بخش سکتے ہیں.پس یہ زمانہ اب بالکل خالی ہے.نبوی طریق جو پاک ہونے کا تھا وہ بالکل ترک کر دیا گیا ہے.اور اس کو بھلا دیا ہے.اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ عہد نبوت پھر آجاوے اور تقویٰ اور طہارت پھر قائم ہو.اور اُس کو اس نے اس جماعت کے ذریعہ چاہا ہے.پس فرض ہے کہ حقیقی اصلاح کی طرف تم توجہ کرو.اسی طرح پر جس طرح پر آنحضرت ﷺ نے اصلاح کا طریق بتایا ہے.الله شریعت کے دو پہلو شریعت کے دو ہی بڑے حصے اور پہلو ہیں.جن کی حفاظت انسان کو ضروری ہے.

Page 26

21 ایک حق اللہ، دوسرے حق العباد حق اللہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کی اطاعت، عبادت، توحید ، ذات اور صفات میں کسی دوسری ہستی کو شریک نہ کرنا.اور حق العباد یہ ہے کہ اپنے بھائیوں سے تکبر ، خیانت اور ظلم کسی نوع کا نہ کیا جاوے.گویا اخلاقی حصہ میں کسی قسم کا فتور نہ ہو.سنے میں تو یہ دو ہی فقرے ہیں لیکن عمل کرنے میں بہت ہی مشکل ہیں.اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل انسان پر ہوتو وہ ان دونوں پہلوؤں پر قائم ہوسکتا ہے.کسی میں قوت غضبی بڑھی ہوئی ہوتی ہے.جب وہ جوش مارتی ہے تو نہ اس کا دل پاک رہ سکتا ہے اور نہ زبان.دل سے اپنے بھائی کے خلاف ناپاک منصو بے کرتا ہے.اور زبان سے گالی دیتا ہے اور پھر کینہ پیدا کرتا ہے.کسی میں قوت شہوت غالب ہوتی ہے اور وہ اس میں گرفتار ہو کر حدود اللہ کو توڑتا ہے.غرض جب تک انسان کی اخلاقی حالت بالکل درست نہ ہو وہ کامل الایمان جو منعم علیہ گروہ میں داخل کرتا ہے اور جس کے ذریعہ سچی معرفت کا نور پیدا ہوتا ہے اس میں داخل نہیں ہوسکتا.پس دن رات یہی کوشش ہونی چاہئے کہ بعد اس کے جو انسان سچا موحد ہوا اپنے اخلاق کو درست کرے.میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت اخلاقی حالت بہت ہی گری ہوئی ہے.اکثر لوگوں میں بدظنی کا مرض بڑھا ہوا ہوتا ہے.وہ اپنے بھائی سے نیک فنی نہیں رکھتے.اور ادنی ادنی سی بات پر اپنے دوسرے بھائی کی نسبت بُرے بُرے خیالات کرنے لگتے ہیں.اور ایسے عیوب اس کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہی عیب اس کی طرف منسوب ہوں تو اس کو سخت ناگوار معلوم ہو.اس لئے اول ضروری ہے کہ حتی الوسع اپنے بھائیوں پر بدظنی نہ کی جاوے.اور ہمیشہ نیک ظن رکھا جاوے.کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور اُنس پیدا ہوتا ہے.اور آپس میں قوت پیدا ہوتی ہے.اور اس کے باعث انسان بعض دوسرے عیوب مثلاً کینہ، بغض، حسد وغیرہ سے بچارہتا ہے.پھر میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھائیوں کے لئے کچھ بھی ہمدردی نہیں.اگر ایک بھائی بھوکا مرتا ہو تو دوسرا توجہ نہیں کرتا اور اس کی خبر گیری کے لئے

Page 27

22 تیار نہیں ہوتا.یا اگر وہ کسی اور قسم کی مشکلات میں ہے تو اتنا نہیں کرتے کہ اس کے لئے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں.حدیث شریف میں ہمسایہ کی خبر گیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیا ہے.بلکہ یہاں تک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکاؤ تو شور با زیادہ کر لوتا کہ اسے بھی دے سکو.اب کیا ہوتا ہے اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں.لیکن اس کی کچھ پروا نہیں.یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتناہی مطلب ہے جو گھر کے پاس رہتا ہو.بلکہ جوتمہارے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی ہیں.خواہ وہ سوکوس کے فاصلے پر بھی ہوں.ہر شخص کو ہر روز اپنا مطالعہ کرنا چاہئے کہ وہ کہاں تک ان امور کی پروا کرتا ہے.اور کہاں تک وہ اپنے بھائیوں سے ہمدردی اور سلوک کرتا ہے.اس کا بڑا بھاری مطالبہ انسان کے ذمہ ہے.حدیث صحیح میں آیا ہے کہ قیامت کے روز خدا تعالیٰ کہے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا.میں پیاسا تھا اور تو نے مجھے پانی نہ دیا.میں بیمار تھا.تم نے میری عیادت نہ کی.جن لوگوں سے یہ سوال ہو گا وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب تو کب بھوکا تھا جو ہم نے کھانا نہ دیا.تو کب پیاسا تھا جو پانی نہ دیا.اور تو کب بیمار تھا جو تیری عیادت نہ کی.پھر خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ جو ہے وہ ان باتوں کا محتاج تھا مگر تم نے اس کی کوئی ہمدردی نہ کی.اس کی ہمدردی میری ہی ہمدردی تھی.ایسا ہی ایک اور جماعت کو کہے گا کہ شاباش ! تم نے میری ہمدردی کی.میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا.میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا وغیرہ.وہ جماعت عرض کرے گی کہ اے ہمارے خدا ہم نے کب تیرے ساتھ ایسا کیا ؟ تب اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ میرے فلاں بندہ کے ساتھ جو تم نے ہمدردی کی وہ میری ہی ہمدردی تھی.در اصل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے.اور خدا تعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ وہ اس سے اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے.عام طور پر دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا خادم کسی اس کے دوست کے پاس جاوے اور وہ شخص اس کی خبر بھی نہ لے تو کیا وہ آقا جس

Page 28

23 کا کہ وہ خادم ہے اس اپنے دوست سے خوش ہوگا؟ کبھی نہیں.حالانکہ اس کو تو کوئی تکلیف اس نے نہیں دی.مگر نہیں.اس نوکر کی خدمت اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک گویا مالک کے ساتھ حسنِ سلوک ہے.خدا تعالیٰ کو بھی اس طرح پر اس بات کی چڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق سے سرد مہری برتے.کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے.پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے.غرض اخلاق ہی ساری ترقیات کا زینہ ہے.میری دانست میں یہی پہلو حقوق العباد کا ہے جو حقوق اللہ کے پہلو کو تقویت دیتا ہے.جو شخص نوع انسان کے ساتھ اخلاق سے پیش آتا ہے خدا تعالیٰ اس کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا.جب انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک کام کرتا ہے اور اپنے ضعیف بھائی کی ہمدردی کرتا ہے تو اس اخلاص سے اس کا ایمان قوی ہو جاتا ہے.مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نمائش اور نمود کے لئے جو اخلاق برتے جائیں وہ اخلاق خدا تعالیٰ کے لئے نہیں ہوتے.اور ان میں اخلاص کے نہ ہونے کی وجہ سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا.اس طرح پر تو بہت سے لوگ سرائیں وغیرہ بنا دیتے ہیں.ان کی اصل غرض شہرت ہوتی ہے اور اگر انسان خدا تعالیٰ کے لئے کوئی فعل کرے تو خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ اسے ضائع نہیں کرتا اور اس کا بدلہ دیتا ہے.میں نے تذکرۃ الاولیاء میں پڑھا ہے کہ ایک ولی اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بارش ہوئی اور کئی روز تک رہی.ان بارش کے دنوں میں میں نے دیکھا کہ ایک اسی (۸۰) برس کا بوڑھا گبر ہے جو کوٹھے پر چڑیوں کے لئے دانے ڈال رہا ہے.میں نے اس خیال سے کہ کافر کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں اس سے کہا کہ کیا تیرے اس عمل سے تجھے کچھ ثواب ہوگا ؟ اس گبر نے جواب دیا کہ ہاں ضرور ہو گا.پھر وہی ولی اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جو میں حج کو گیا تو دیکھا کہ وہی گبر طواف کر رہا ہے.اس گبر نے مجھے پہچان لیا اور کہا کہ دیکھوان دانوں کا مجھے ثواب مل گیا یا نہیں؟ یعنی وہی دانے میرے اسلام تک لانے کا موجب ہو گئے.

Page 29

24 حدیث میں بھی ذکر آیا ہے کہ ایک صحابی نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ ایام جاہلیت میں میں نے بہت کچھ خرچ کیا تھا.کیا اس کا ثواب بھی مجھے ہو گا ؟ آنحضرت مع اللہ نے اس کو جواب دیا کہ یہ اسی صدقہ و خیرات کا ثمرہ تو ہے کہ تو مسلمان ہو گیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کے ادنی افعل اخلاص کو بھی ضائع نہیں کرتا.اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مخلوق کی ہمدردی اور خبر گیری حقوق اللہ کی حفاظت کا باعث ہو جاتی ہے.پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے کہ اگر انسان اسے چھوڑ دے اور اس سے دور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے.انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے جب تک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروت ،سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے جیسا کہ سعدی نے کہا ہے.بنی آدم اعضائے یک دیگراند یا د رکھو ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے.کسی قوم اور فرد کو الگ نہ کرے.میں آج کل کے جاہلوں کی طرح یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کرو.نہیں میں کہتا ہوں کہ تم خدا تعالی کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو.خواہ وہ کوئی ہو.ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اور.میں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں.ان میں بعض اس قسم کے خیالات بھی رکھتے ہیں کہ اگر ایک شیرے کے مکے میں ہاتھ ڈالا جاوے اور پھر اس کو تلوں میں ڈال کر تل لگائے جاویں تو جس قدر تل اس کو لگ جاویں.اس قدر دھوکا اور فریب دوسرے لوگوں کو دے سکتے ہیں.ان کی ایسی بے ہودہ اور خیالی باتوں نے بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے.اور ان کو قریباً وحشی اور درندہ بنا دیا ہے.مگر میں تمہیں بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہرگز ہرگز اپنی ہمدردی کے دائرہ کو محدود نہ کرو.اور ہمدردی کے لئے اس تعلیم کی پیروی کرو جو اللہ تعالیٰ نے دی ہے.یعنی اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي

Page 30

25 الْقُرْبى یعنی اول نیکی کرنے میں تم عدل کو لوظ رکھو.جوشخص تم سے نیکی کرے تم بھی اس کے ساتھ نیکی کرو.اور پھر دوسرا درجہ یہ ہے کہ تم اس سے بھی بڑھ کر اس سے سلوک کرو.یہ احسان ہے.احسان کا درجہ اگر چہ عدل سے بڑھا ہوا ہے.اور یہ بڑی بھاری نیکی ہے لیکن کبھی نہ کبھی ممکن ہے احسان والا اپنا احسان جتلاوے مگر ان سب سے بڑھ کر ایک درجہ ہے کہ انسان ایسے طور پر نیکی کرے جو محبت ذاتی کے رنگ میں ہو.جس میں احسان نمائی کا بھی کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے جیسے ماں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے.وہ اس پرورش میں کسی اجر اور صلے کی خواستگار نہیں ہوتی.بلکہ ایک طبعی جوش ہوتا ہے جو بچے کے لئے اپنے سارے سکھ اور آرام قربان کر دیتی ہے.یہاں تک کہ اگر کوئی بادشاہ کسی ماں کو حکم دے دے کہ تو اپنے بچہ کو دودھ مت پلا.اور اگر ایسا کرنے سے بچہ ضائع بھی ہو جاوے تو اس کو کوئی سزا نہیں ہوگی تو کیا ماں ایسا حکم سن کر خوش ہوگی ؟ اور اس کی تعمیل کرے گی ؟ ہر گز نہیں.بلکہ وہ تو اپنے دل میں ایسے بادشاہ کو کوسے گی کہ کیوں اس نے ایسا حکم دیا.پس اس طریق پر نیکی ہو کہ اسے طبعی مرتبہ تک پہنچایا جاوے.کیونکہ جب کوئی شئے ترقی کرتے کرتے اپنے طبعی کمال تک پہنچ جاتی ہے اس وقت وہ کامل ہوتی ہے.یا درکھو کہ خدا تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے.اگر وہ بدی کو پسند کرتا تو بدی کی تاکید کرتا.مگر اللہ تعالیٰ کی شان اس سے پاک ہے.(سبحانہ تعالیٰ شانہ ) انحل: 91 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑائیوں پر نظر بعض لوگ جن کو حق کے ساتھ دشمنی ہوتی ہے جب ایسی تعلیم سنتے ہیں تو اور کچھ نہیں

Page 31

26 تو یہی اعتراض کر دیتے ہیں کہ اسلام میں ہمدردی اگر ہوتی تو آنحضرت ﷺ نے صلى الله لڑائیاں کیوں کی تھیں؟ وہ نادان اتنا نہیں جانتے کہ آنحضرت ﷺ نے جو جنگ کئے وہ تیرہ برس تک خطر ناک دُکھ اُٹھانے کے بعد کئے اور وہ بھی مدافعت کے طور پر.تیرہ برس تک ان کے ہاتھوں سے آپ تکالیف اُٹھاتے رہے.مسلمان مرد اور عورتیں شہید کی گئیں.آخر جب آپ مدینہ تشریف لے گئے اور وہاں بھی ان ظالموں نے پیچھانہ چھوڑا.تو خدا تعالیٰ نے مظلوم قوم کو مقابلہ کا حکم دیا اور وہ بھی اس لئے کہ شریروں کی شرارت سے مخلوق کو بچایا جائے.اور ایک حق پرست قوم کے لئے راہ کھل جائے.آنحضرت علی نے کبھی کسی کے لئے بدی نہیں چاہی.آپ تو رحم مجسم تھے.اگر بدی چاہتے تو جب آپ نے پورا تسلط حاصل کر لیا تھا اور شوکت اور غلبہ آپ کو مل گیا تھا تو آپ ان تمام آئمۃ الکفر کو جو ہمیشہ آپ کو دکھ دیتے رہتے تھے قتل کروا دیتے اور اس میں انصاف اور عقل کی رُو سے آپ کا پلہ بالکل پاک تھا.مگر باوجود اس کے کہ عرف عام کے لحاظ سے عقل اور انصاف کے لحاظ سے آپ کو حق تھا کہ ان لوگوں کو قتل کروا دیتے مگر نہیں ، آپ نے ان سب کو چھوڑ دیا.آج کل جو لوگ غداری کرتے ہیں اور باغی ہوتے ہیں انہیں کون پناہ دے سکتا ہے.جب ہندوستان میں غدر ہو گیا تھا اور اس کے بعد انگریزوں نے تسلط عام حاصل کر لیا تو تمام شریر باغی ہلاک کر دئے گئے اور ان کی یہ سزا بالکل انصاف پر مبنی تھی.باغی کے لئے کسی قانون میں رہائی نہیں.لیکن یہ آپ ہی کا حوصلہ تھا کہ اس دن آپ نے فرمایا کہ جاؤ تم سب کو بخش دیا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو نوع انسان سے بہت بڑی ہمدردی تھی.ایسی ہمدردی کہ اس کی نظیر دنیا میں نہیں مل سکتی.اس کے بعد بھی اگر کہا جاوے کہ اسلام دوسروں سے ہمدردی کی تعلیم نہیں دیتا تو اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا ؟ یقیناً یاد رکھو کہ مومن متقی کے دل میں شتر نہیں ہوتا.جس قدر انسان متقی ہوتا جاتا ہے اسی قدر وہ کسی کی نسبت سزا اور ایڈا کو پسند نہیں کرتا.مسلمان کبھی کینہ ور نہیں ہوسکتا.ہم خود دیکھتے ہیں کہ

Page 32

27 ان لوگوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے کوئی دُکھ اور تکلیف جو وہ پہنچا سکتے تھے انہوں نے پہنچایا ہے لیکن پھر بھی ان کی ہزاروں خطائیں بخشتے کو اب بھی تیار ہیں.پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو.یادرکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ہمدردی کرو.اور بلا تمیز ہر ایک سے نیکی کرو.کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے.وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيْناً وَ يَتِيماً وَّ أَسِيراً.وہ اسیر اور قیدی جو آتے تھے اکثر کفار ہی ہوتے تھے.اب دیکھ لو کہ اسلام کی ہمدردی کی انتہا کیا ہے.میری رائے میں کامل اخلاقی تعلیم بجز اسلام کے اور کسی کو نصیب ہی نہیں ہوئی.مجھے صحت ہو جاوے تو میں اخلاقی تعلیم پر ایک مستقل رسالہ لکھوں گا.کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جو کچھ میر امنشا ہے وہ ظاہر ہو جاوے.اور وہ میری جماعت کے لئے ایک کامل تعلیم ہو.اور ابتغاء مرضات اللہ کی را ہیں اس میں دکھائی جائیں.مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں آئے دن یہ دیکھتا اور سنتا ہوں کہ کسی سے یہ سرزد ہوا اور کسی سے وہ.میری طبیعت ان باتوں سے خوش نہیں ہوتی.میں جماعت کو ابھی اس بچہ کی طرح پاتا ہوں جو دو قدم اٹھاتا ہے تو چار قدم گرتا ہے.لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کو کامل کر دے گا.اس لئے تم بھی کوشش، تدبیر مجاہدہ اور دعاؤں میں لگے رہو کہ خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے.کیونکہ اس کے فضل کے بغیر کچھ بنتاہی نہیں.جب اس کا فضل ہوتا ہے تو وہ ساری راہیں کھول دیتا ہے.ل الدھر: 9 - الحکم جلد ۹ نمبر ۳ صفحه ۲ تا ۴ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۵ء

Page 33

28 تقریر حضرت مسیح موعود عده الصلاة والسلام جو آپ نے ۳۰ دسمبر ۱۹۰۴ء کو بعد نماز جمعہ مسجد اقصیٰ میں فرمائی چونکہ خاکسار ایڈیٹر (البدر ) کچھ دیر سے پہنچا تھا اس لئے جس قدر ضبط ہو سکا وہ ہدیہ ناظرین ہے.سلسلہ تقریر سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انقطاع دنیا اور حصول قرب الی اللہ کے متعلق مضمون تھا اور وہ تقریر یہ ہے: انسان کو چاہئے کہ حسنات کا پلڑا بھاری رکھے.مگر جہاں تک دیکھا جاتا ہے اس کی مصروفیت اس قدر دنیا میں ہے کہ یہ پلڑا بھاری ہوتا نظر نہیں آتا.رات دن اسی فکر میں ہے کہ وہ کام دنیا کا ہو جاوے.فلانی زمین مل جاوے، فلاں مکان بن جاوے.حالانکہ اسے چاہئے کہ افکار میں بھی دین کا پلڑا دنیا کے پلڑے سے بھاری رکھے.اگر کوئی شخص رات دن نماز روزہ میں مصروف ہے تو یہ بھی اس کے کام ہرگز نہیں آ سکتا.جب تک کہ خدا کو اس نے مقدم نہیں رکھا ہوا.ہر بات اور فعل میں اللہ تعالیٰ کو نصب العین بنانا چاہئے ورنہ خدا کی قبولیت کے لائق ہر گز نہ ٹھہرے گا.دنیا کا ایک بُت ہوتا ہے جو کہ ہر وقت انسان کی بغل میں ہوتا ہے.اگر وہ مقابلہ اور موازنہ کر کے دیکھے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ طرح طرح کی نمائش اس نے دنیا کے لئے بنا رکھی ہے اور دین کا پہلو بہت کمزور ہے.حالانکہ عمر کا اعتبار نہیں اور نہ علم ہے کہ اس نے ایک پل کے بعد زندہ بھی رہنا ہے کہ نہیں.شیخ سعدی نے کیا عمدہ فرمایا ہے.مکن تکیه بر عُمر ناپائدار اس وقت جس قدر لوگ کھڑے ہیں، کون کہہ سکتا ہے کہ ایک سال تک میں ضرور

Page 34

29 زندہ رہوں گا.لیکن اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے علم ہو جاوے کہ اب زندگی ختم ہے تو ابھی سب ارادے باطل ہو جاتے ہیں.پس خُوب یا د رکھو کہ مومن کو دنیا کا بندہ نہ ہونا چاہئے.ہمیشہ اس امر میں کوشاں رہنا چاہئے کہ کوئی بھلائی اس کے ہاتھ سے ہو جاوے.خدا تعالیٰ بڑا رحیم کریم ہے.اور اس کا ہرگز یہ منشا نہیں ہے کہ تم دیکھ پاؤ.لیکن یہ خوب یا درکھو کہ جو اس سے عمداً دوری اختیار کرتا ہے اس پر اس کا قہر ضرور ہوتا ہے.عادت اللہ اسی طرح سے چلی آتی ہے.نوح کے زمانہ کو دیکھو اور لوط کے زمانہ کو دیکھو.موسیٰ کے زمانہ کو دیکھو اور پھر آنحضرت لوہے کے زمانہ کو دیکھو کہ اس وقت جن لوگوں نے عمد أخدا تعالیٰ سے بعد اختیار کیا ان کا کیا حال ہوا.ان لمبی آرزوؤں نے انسان کو ہلاک کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ب الهنكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِر.کہ اے لوگو جو تم خدا تعالیٰ سے غافل ہو.دنیا طلبی نے تم کو غافل کر دیا ہے.یہاں تک کہ تم قبروں میں داخل ہو جاتے ہو.مگر غفلت سے باز نہیں آتے.كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ.مگر اس غلطی کا تم کو عنقریب علم ہو جائے گا.ثُمَّ گلا سَوْفَ تَعْلَمُونَ.پھر تم کو اطلاع دی جاتی ہے کہ عنقریب تم کو علم ہو جاوے گا کہ جن خواہشات کے پیچھے تم پڑے ہودہ ہرگز تمہارے کام نہ آویں گی.اور حسرت کا موجب ہوں گی.كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْيَقِينِ.اگرتم کو یقینی علم حاصل ہو جاوے تو تم علم کے ذریعہ سے سوچ کر اپنے جہنم کو دیکھ لو اور تم کو پتہ لگ جاوے کہ تمہاری زندگی جہنمی زندگی ہے.اور جن خیالات میں تم رات دن لگے ہوئے ہو وہ بالکل ناکارہ ہیں.میں ہر چند کوشش کرتا ہوں کہ کسی طرح یہ باتیں لوگوں کے دلنشین ہو جاویں.مگر آخر کار یہی کہنا پڑتا ہے کہ اپنے اختیار میں کچھ نہیں ہے.جب تک خدا تعالیٰ خود ایک واعظ دل میں نہ پیدا کرے تب تک فائدہ نہیں ہوتا.جب انسان کی سعادت اور ہدایت کے دن آتے ہیں تو دل کے اندر ایک واعظ خود پیدا ہو جاتا ہے.اور اس وقت اس کے دل کو ایسے کان مل جاتے ہیں کہ وہ اتاه التكاثر ۲-۶

Page 35

30 دوسرے کی بات کو سنتا ہے.راتوں کو اور دنوں کو خوب سوچ کر دیکھو تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ انسان بہت ہی بے بنیاد شئے ہے اور اس کے وجود کی کوئی گل بھی اس کے ہاتھ میں نہیں ہے.ایک آنکھ ہی پر نظر کرو کہ کس قدر باریک عضو ہے اگر ایک ذرا پھر آ لگے تو فوراً نابینا ہو جاوے.پھر اگر یہ خدا کی نعمت نہیں ہے تو کیا ہے.کیا کسی نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ اسے ضرور بینا ہی رکھے گا.اور اسی پر سب قومی کا قیاس کرو کہ اگر آج کسی میں فرق آجاوے تو انسان کی کیا پیش چل سکتی ہے.غرض کہ ہر آن اور پل میں اس کی طرف رجوع کی ضرورت ہے.اور مومن کا گزارہ تو ہو ہی نہیں سکتا.جب تک اس کا دھیان ہر وقت اس کی طرف لگا نہ رہے.اگر کوئی ان باتوں پر غور نہیں کرتا اور ایک دینی نظر سے ان کو وقعت نہیں دیتا تو وہ اپنے دنیوی معاملات پر ہی نظر ڈال کر دیکھے کہ کیا خدا تعالیٰ کی تائید اور فضل کے سوا کوئی کام اس کا چل سکتا ہے؟ اور کوئی منفعت دنیا کی وہ حاصل کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں.دین ہو یا دنیا ہر ایک امر میں اسے خدا تعالیٰ کی ذات کی بڑی ضرورت ہے اور ہر وقت اس کی طرف احتیاج لگی ہوئی ہے.جو اس کا منکر ہے سخت غلطی پر ہے.خدا تعالیٰ کو تو اس بات کی مطلق پروانہیں ہے کہ تم اس کی طرف میلان رکھویا نہ.وہ فرماتا ہے: قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُ کم کہ اگر اس کی طرف رجوع رکھو گے تو تمہارا ہی اس میں فائدہ ہوگا.انسان جس قدر اپنے وجود کو مفید اور کارآمد ثابت کرے گا.اسی قدرا سکے انعامات کو حاصل کرے گا.دیکھو کوئی بیل کسی زمیندار کا کتنا ہی پیارا کیوں نہ ہومگر جب وہ اس کے کسی کام بھی نہ آوے گا.نہ گاڑی میں بجھتے گانہ زراعت کرے گا، نہ کنوئیں میں لگے گا تو آخر سوائے ذبح کے اور کسی کام نہ آوے گا.ایک نہ ایک دن مالک اسے قصاب کے حوالہ کر دے گا.ایسے ہی جو انسان خدا کی راہ میں مفید ثابت نہ ہوگا تو خدا تعالیٰ اس کی حفاظت کا ہرگز ذمہ دار نہ ہو گا.ایک پھل اور سایہ دار درخت کی طرح اپنے وجود کو بنانا چاہئے تا کہ مالک الفرقان: ۷۸

Page 36

31 بھی خبر گیری کرتا رہے.لیکن اگر اس درخت کی مانند ہو گا کہ جو نہ پھل لاتا ہے اور نہ پتے رکھتا ہے کہ لوگ سایہ میں آبیٹھیں تو سوائے اس کے کہ کاٹا جاوے اور آگ میں ڈالا جاوے اور کس کام آسکتا ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون کے جو اس اصل غرض کو مد نظر نہیں رکھتا.اور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خریدلوں.فلاں مکان بنالوں.فلاں جائداد پر قبضہ ہو جاوے تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلا لے اور کیا سلوک کیا جاوے.انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ ایک قابل قدر شئے ہو جاوے گا.اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے.اور صرف دنیا اور اس کے مافیہا کا ہی درد ہے.تو آخر تھوڑی سی مہلت پا کر وہ ہلاک ہو جاوے گا.خدا تعالیٰ مہلت اس لئے دیتا ہے کہ وہ حلیم ہے.لیکن جو اس کے حکم سے خود ہی فائدہ نہ اُٹھا دے تو اُسے وہ کیا کرے.پس انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور تعلق بنائے رکھے.سب عبادتوں کا مرکز دل ہے.اگر عبادت تو بجا لاتا ہے.مگر دل خدا تعالیٰ کی طرف رجوع نہیں ہے تو عبادت کیا کام آوے گی.اس لئے دل کا رجوع نام اس کی طرف ہونا ضروری ہے.اب دیکھو کہ کہ ہزاروں مساجد ہیں.مگر الله سوائے اس کے کہ ان میں رسمی عبادت ہو اور کیا ہے؟ ایسے ہی آنحضرت ﷺ کے وقت یہودیوں کی حالت تھی کہ رسم اور عادت کے طور پر عبادت کرتے تھے اور دل کا حقیقی میلان جو کہ عبادت کی روح ہے ہرگز نہ تھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے ان پر لعنت کی.پس اس وقت بھی جو لوگ پاکیزگی قلب کی فکر نہیں کرتے تو اگر رسم و عادت کے طور پر وہ سینکڑوں ٹکریں الذاریات: ۵۷

Page 37

32 مارتے رہیں، ان کو کچھ فائدہ نہ ہوگا.اعمال کے باغ کی سرسبزی پاکیزگی قلب سے ہوتی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَشْهَا کر وہی بامراد ہو گا جو کہ اپنے قلب کو پاکیزہ کرتا ہے اور جو اُسے پاک نہ کر یگا بلکہ خاک میں ملادے گا یعنی سفلی خواہشات کا اسے مخزن بنارکھے گا وہ نامر ادر ہے گا.اس بات سے نہیں انکار نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف آنے کے لئے ہزار ہا روکیں ہیں.اگر یہ نہ ہوتیں تو آج صفحہ دنیا پر نہ کوئی ہندو ہوتا نہ عیسائی.سب کے سب مسلمان نظر آتے.لیکن ان روکوں کو دور کرنا بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے.وہی توفیق عطا کرے تو انسان نیک و بد میں تمیز کر سکتا ہے.اس لئے آخر کار بات پھر اسی پر آٹھہرتی ہے کہ انسان اسی کی طرف رجوع کرے تا کہ قوت اور طاقت دیوے.دنیا میں جس قدر مشورے نفس پرستی اور شہوت پرستی وغیرہ کے ہوتے ہیں.ان سب کا ماخذ نفس امارہ ہی ہے.لیکن اگر انسان کوشش کرے تو اسی امارہ سے پھر وہ تو امہ بن جاتا ہے.کیونکہ کوشش میں ایک برکت ہوتی ہے اور اس سے بھی بہت کچھ تغیرات ہو جاتے ہیں.پہلوانوں کو دیکھو کہ وہ ورزش اور محنت سے بدن کو کیا کچھ بنا لیتے ہیں.تو کیا وجہ ہے کہ محنت اور کوشش سے نفس کی اصلاح نہ ہو سکے نفس امارہ کی مثال آگ کی ہے جو کہ مشتعل ہو کر ایک جوش طبیعت میں پیدا کرتا ہے.جس سے انسان حد اعتدال سے گزر جاتا ہے.لیکن جیسے پانی آگ سے گرم ہو کر آگ کی مثال تو ہو جاتا ہے اور جو کام آگ سے لیتے ہیں وہ اس سے بھی لے لیتے ہیں مگر جب اسی پانی کو آگ کے اوپر گرایا جائے تو وہ اس آگ کو بجھا دیتا ہے.کیونکہ ذاتی صفت اس کی آگ کو بجھانا ہے.وہ وہی رہے گی.ایسے ہی اگر انسان کی روح نفس امارہ کی آگ سے خواہ کتنی ہی گرم کیوں نہ ہو مگر جب وہ نفس سے مقابلہ کرے گی اور اس کے اوپر گرے گی تو اسے مغلوب کر کے چھوڑے گی.بات صرف اتنی ہے الشمس: ۱،۱۰ 11:

Page 38

33 کہ خدا تعالیٰ کو ہر ایک بات پر قادر مطلق جانا جاوے اور کسی قسم کی بدظنی اس پر نہ کی جاوے.جو بدظنی کرتا ہے وہی کافر ہوتا ہے.مومن کی صفات میں سے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو غایت درجہ قادر جانے.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بہت نیکیاں کرنے سے انسان ولی بنتا ہے.یہ نادانی ہے.مومن کو تو خدا تعالیٰ نے اول ہی ولی بنایا ہے.جیسے کہ فرمایا: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ امنوا اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ہزاروں عجائبات ہیں اور انہیں پر کھلتے ہیں جو دل کے دروازے کھول کر رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ بخیل نہیں ہے.لیکن اگر کوئی شخص مکان کا دروازہ خود ہی نہیں کھولتا تو پھر روشنی کیسے اندر آوے.پس جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف رجوع کرے گا.ہاں یہ ضروری ہے کہ جہاں تک بس چل سکے وہ اپنی طرف سے کوتاہی نہ کرے.پھر جب اس کی کوشش اس کے اپنے انتہائی نقطہ پر پہنچے گی تو وہ خدا تعالیٰ کے نور کو دیکھ لے گا.وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ جو حق کوشش کا اس کے ذمہ ہے اسے بجالائے.یہ نہ کرے کہ اگر پانی ۲۰ ہاتھ نیچے کھودنے سے نکلتا ہے تو وہ صرف دو ہاتھ کھود کر ہمت ہار دے.ہر ایک کام میں کامیابی کی یہی جڑ ہے کہ ہمت نہ ہارے.پھر اس امت کے لئے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر کوئی پورے طور سے دعا وتزکیہ نفس سے کام لے گا تو سب وعدے قرآن شریف کے اس کے ساتھ پورے ہو کر رہیں گے.ہاں جو خلاف کرے گا وہ محروم رہے گا.کیونکہ اس کی ذات غیور ہے.اُس نے اپنی طرف آنے کی راہ ضرور رکھی ہے.لیکن اس کے دروازے تنگ بنائے ہیں.پہنچتا وہی ہے جو تلخیوں کا شربت پی لیوے.لوگ دنیا کی فکر میں درد برداشت کرتے ہیں.حتی کہ بعض اسی میں ہلاک ہو جاتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ایک کانٹے کی درد بھی برداشت کرنا پسند نہیں کرتے.جب تک اس کی طرف سے صدق اور صبر اور وفاداری کے آثار ظاہر نہ ہوں تو اُدھر سے رحمت کے آثار کیسے ظاہر ہوں.البقرة: ۲۵۸، ۲ العنکبوت : ۷۰

Page 39

34 ابراہیم علیہ السلام نے صدق دکھلایا تو ان کو ابوالانبیاء بنا دیا.میرے کہنے کامد عاید ہے کہ دن بہت سخت ہیں اور کسی نے اب تک نہیں سمجھا تو آئندہ سمجھ لیوے.مجھے الہام ہوا تھا.عَفَتِ الدَّيَارُ مَحِلُّهَا وَ مَقَامُهَا یہ ایک خطر ناک کلمہ ہے جس میں طاعون کی خبر دی گئی ہے کہ انسان کے لئے کوئی مفر اور کوئی جائے پناہ نہ رہے گی.اس لئے میں تم سب کو گواہ رکھتا ہوں کہ اگر کوئی سچی تبدیلی نہ کرے گا تو وہ ہر گز اس لائق نہ ہو گا کہ مجھ کو دعا کے لئے لکھے جو لوگ خدا تعالیٰ کے بتلائے ہوئے صراط مستقیم پر چلیں گے وہی محفوظ رہیں گے.خدا تعالیٰ کا وعدہ ایسے ہی لوگوں کی حفاظت کا ہے جو سچی تبدیلی اپنے اندر کرتے ہیں.مطلق بیعت انسان کے کیا کام آسکتی ہے.پورانسخہ جب تک نہ پئے تو مریض کو فائدہ نہیں ہوا کرتا.اس لئے پوری تبدیلی کرنی چاہئے.جہاں تک ہو سکے دعا کرو.اوراللہ عال سے ہو کہ وہ م کو ہر ایک قسم کی توفیق عط کرے.منقول از البدر جلد نمبر ۳ صفحه ۲ ۳ مورخه ۲۰ جنوری ۱۹۰۵ء والحکم جلد نمبر ۴ صفحه ۲ ،۳ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۵ء.

Page 39