Language: UR
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَّمُسْلِمَةٍ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہے نونہالان جماعت کے لئے دینا پہلی کتاب مؤلف : عبد الرحمن مبشر مولوی فاضل الناشر: نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان پنجاب
نام کتاب مصنف حالیہ اشاعت تعداد مطبع ناشر : : دینیات کی پہلی کتاب اردو عبد الرحمن مبشر نومبر 2011 1000 : فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمدیہ قادیان گورداسپور ( پنجاب ) بھارت 143516 ISBN: 978-81-7912-336-2
پیش لفظ دینیات کی پہلی کتاب مولانا عبد الرحمن صاحب مبشر نے نو نہالان جماعت کے لئے ابتدائی دینی معلومات پر مشتمل ایک کتاب نہایت آسان اور سلیس اردو زبان میں تیار کی.کتاب ھذا میں بچوں کے لئے مذہب اسلام کی تعریف اس کے معنے اور مذھب کا خلاصہ ،ایمانیات اور آنحضرت ایم کی پاکیزہ زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات آپ کی سوانح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح اور اخلاق حسنہ ، قوی شعار ، آداب مجالس ، علم تعلیم ، اور استاد کے آداب بیان کئے ہیں.نماز کا لفظی ترجمہ بھی دیا ہے.اسی طرح مشکل الفاظ کے معانی اور بعض نظمیں شامل کی گئی ہیں.بچوں کے لئے نہایت مفید علمی کتاب ہے.کتاب ھذا کو ضرورت کے پیش نظر متعدد بار شائع کیا گیا ہے.اب نظارت نشر واشاعت قادیان پہلی بار کمپوزڈ ایڈیشن شائع کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے مبارک کرے اور نافع الناس بنائے.ناظر نشر و اشاعت قادیان
فہرست مضامین اس کتاب کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ ذیل کی فہرست سے لگایا جاسکتا ہے مضمون مضمون صفحہ صفحہ پہلا باب بعد از موت ۱۳ سالہ ملکی زندگی کے ہم کون ہیں؟ حالات مذہب اسلام ۴ بعد از ہجرت ۱۰ ساله مدنی زندگی کے حالات ۴۸ خلاصه مضمون نظم دوسرا باب ایمان پانچواں باب نماز با ترجمه بطرز جدید چھٹا باب لا ایمانیات کا بیان ۱۴ حضرت مسیح موعود کے سوانح ΔΙ تیسرا باب ساتواں باب ہمارا خدا ۱۷ اخلاق حسنه ۹۶ ہمارا خدا (نظم) ۲۰ ہمارے قومی شعار ۹۹ چوتھا باب آٹھواں باب ہمارا پیارا نبی ۲۳ آداب مجالس ۱۱۸ قبل از نبوت ۴۰ سالہ زندگی کے علم اور تعلیم کے آداب واقعات ۲۳ استاد کے آداب ۱۲۴ ۱۲۷
دینیات کی پہلی کتاب بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود پہلا باب (1) ہم گون ہیں؟ پیارے بچو ! جانتے ہو ہم کون ہیں؟ ہم احمدی مسلمان ہیں.ہمارا مذ ہب دین اسلام ہے.اس لئے ہم مسلمان کہلاتے ہیں.ہمارے نبی جن کا ہم کلمہ پڑھتے ہیں.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اس لئے ہم آپ کی امت کہلاتے ہیں.ہمارے مسیح اور مہدی جن کے ذریعہ ہم اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہوئے ہیں.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.اس لئے ہم احمدی کہلاتے ہیں.ہمارے موجودہ امام اور خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہیں.ہم سب نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے.اس لئے ہم مبایعین کہلاتے ہیں.ہم احمدی لوگوں کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو تمام دنیا پر غالب کریں.اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم خود دین کی تعلیم حاصل کریں.اچھی عادات اور عمدہ اخلاق اختیار کریں.جواہ کی باتیں دین کی ہمیں معلوم ہو جائیں.ہم پہلے خود ان پر عمل کریں.اور پھر دوسروں کو سکھائیں تا کہ ہماری اچھی عادات اور اچھے اخلاق دیکھ کر دوسرے لوگ بھی جماعت احمد یہ میں شامل
دینیات کی پہلی کتاب ہوں اور اپنے بچوں کو ہمارے مدرسوں، اسکولوں اور کالجوں میں داخل کرائیں.عزیز بچو ! اگر ہم اچھے اور نیک بن جائیں تو اس میں ہمیں دو فائدے ہیں اول ہمارا پیدا کرنے والا خدا ہم پر خوش ہوگا.جس کے بدلے میں وہ ہمیں ایسی ایسی نعمتیں دے گا جنہیں پا کر ہم ہمیشہ کے لئے شامی اور خوش ہو جائیں گے.دُوسرا فائدہ یہ ہے کہ باقی لوگ ہمیں نیک پا کر نیک بننے کی کوشش کریں گے.اس طرح دُنیا میں نیک اور اچھے لوگ کثرت سے ہو جائیں گے.جولوگ ہمیں دیکھ کر نیک بن جائیں گے اُن کا بھی اچھا بدلہ ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ملے گا.مشکل الفاظ کے معانی:.(۱) مذہب.وہ روش اور راستہ جس پر چل کر انسان خُدا کا قرب حاصل کرے.(۲) حضرت.نو د یکی.حضور میں پہنچا ہؤا.بزرگ لوگوں کے ساتھ ان کی تعظیم کے لئے یہ کلمہ بولتے ہیں.(۳) مصطفی.خدا نے جسے تمام لوگوں سے اچھا پا کر چن لیا ہو.(۴) صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.اس پر اللہ کی طرف سے رحمت اور سلامتی ہو.(۵) امت.ایک ہی طریقے کے لوگ.ایک گروہ جو کسی نبی کا پیر و ہو.(۱) مسیح.سیر و سیاحت کرنے والا.یا جسے خُدا کی رحمت نے چھوا ہو.مسیح موعود و میسیج، جس کا وعدہ دیا گیا تھا.(۷) مہندی.لقب ہے.ہدایت یافتہ.خدا نے سچی باتوں کے لئے جس کی رہ ڈمائی کی ہو.
د مینیات کی پہلی کتاب (۸) مہدی معہود.وہ مہدی جس کے بھیجنے کا وعدہ امت محمدیہ میں دیا گیا تھا.(۹) عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلامُ.اس پر رحمت اور سلامتی ہو.(۱۰) امام.پیشوا.جو آگے آگے چلے.الف کی زیر سے ہے.(1) خلیفہ.جانشین.جو کسی دوسرے کا قائم مقام ہوکر اس جیسے کام کرے.(1) الخامس.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پانچویں خلیفہ.(۱۳) المصلح الموعود.وہ اصلاح کرنے والا جس کا وعدہ دیا گیا تھا.(۱۴) بیعت.لفظی ترجمہ اپنے آپ کو بیچ دینا.اسلامی اضطلاح میں کسی امام و پیشوا کی فرمانبر داری اختیار کرنا.(۱۵) مبایعین.جس شخص نے امام کی بیعت کی ہو.وہ مبالیع کہلاتا ہے.بہت سے لوگوں کو مبایعین کہتے ہیں.غیر مبایعین.جنہوں نے خلیفہ وقت کی بیعت نہ کی ہو.(۱۲) عادات.عادت کی جمع ہے.خصلت ،سبھاؤ.جو بات بار بار کی جائے.(۱۷) اخلاق.الف کی زبر سے ہے.خلق کی جمع ہے.وہ " می بات جو سمجھ سوچ کر انسان موقعہ کے مطابق کرے.
مذہب اسلام عزیز بچھو اخم پہلے سبق میں پڑھ چکے ہو کہ ہمارا مذ ہب دین اسلام ہے.مذہب اُس راستہ کو کہتے ہیں جو انسان کو خُدا تک پہنچا دے.اور اسلام کے معنے فرمانبر دار ہونا.پس ہمارا مذہب فرمانبرداری اور اطاعت اور امن اور سلامتی سکھانے والا مذہب ہے.اگر ایک انسان فرمانبرداری کرے جو اسلام سکھاتا ہے تو وہ خُدا کا پیارا ہو جاتا ہے.دُنیا میں جس قدر بھی لوگ پائے جاتے ہیں وہ سب اپنا اپنا مذ ہب رکھتے ہیں.کوئی عیسائی مذہب کو اچھا سمجھتا ہے.کوئی یہودی مذہب کو.کوئی ہندو مذہب کو.غرضیکہ ہر ایک اپنی اپنی سمجھ کے مطابق جس مذہب کو اچھا سمجھتا ہے اُس کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے.ہم لوگ جس مذہب کو مانتے ہیں وہ مذہب اسلام ہے.اسلام ایک نہایت پیارا نام ہے.اسکے معنے ہیں فرماں بردار ہو جانا.خدا کے حکم کے آگے اپنی گردن کو رکھ دینا.گویا ہمارے مذہب کا خلاصہ اسی نام میں موجو د ہے.خدا تعالیٰ کے حکموں کو ماننا اسلام کہلاتا ہے.اور مسلمان وہ ہے جو خُدا کے حکموں کے آگے ہر وقت اپنی گردن جھکائے رکھے.ہمارے مذہب کی بنیا د پانچ باتوں پر ہے:.(۱) توحید ورسالت کا قائل ہونا جس کا خلاصہ کلمہ طیہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ میں بیان کر دیا گیا ہے.(۲) پانچ وقت نماز ادا کرنا.(۳) رمضان شریف کے روزے رکھنا.
(۴) بیت اللہ کا عمر بھر میں ایک دفعہ اگر توفیق ہو تو حج کرنا.(۵) اگر مال اتنا جمع ہو جائے جس پر زکوۃ واجب ہو تو زکوۃ دینا.جن پانچ باتوں کا اوپر ذکر آیا ہے انہیں ارکانِ اسلام کہتے ہیں.سچے دل سے کلمہ پڑھے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا.اور اسلام کے ان پانچ ارکان میں سے اگر کوئی جان بوجھ کر کسی ایک رکن کو بھی چھوڑ دے تو وہ مسلمان نہیں رہ سکتا.یوں تو بہت سے کلموں کا بیان کتابوں میں لکھا ہے مگر جس کلمہ کے جاننے اور عمل کئے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں بن سکتا وہ دو کلمے ہیں.(۱) کلمہ طیبہ (۲) کلمہ شہادت.(۱) کلمہ طیبہ یہ ہے:.اله الا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے محمد رسول ہیں اللہ کے (۲) کلمہ شہادت یہ ہے:.أَشْهَدُ أَنْ لا اله الا الله وَحْدَهُ میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے اکیلا ہے وہ لا شَرِيْكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ نہیں کوئی ساجھی اس کا اور میں گواہی دیتا ہوں یہ کہ محمد بندے ہیں اُس کے وَ رَسُوْ لُه.اور رسول ہیں اُس کے
مشکل الفاظ کا حل :.(۱) منسوب کرنا.اپنے آپ کو اُس چیز کا نام دینا جسے وہ پسند کرتا ہو.(۲) ارکان.رُکن کی جمع ہے.رکن کے معنے ہیں ستون.کھمبا.چیز کا بڑا حصہ.(۳) کلمہ.قول.بات.شریعت میں اُن الفاظ کے مجموعہ کا نام کلمہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار ہو.(۴) طیبہ.پاکیزہ.(۵) شہادت.گواہی دینا.(1) رسُول بھیجا ہوا.رسُول اور مرسل کے ایک ہی معنے ہیں سوالات:.(۱) اسلام کسے کہتے ہیں؟ (۲) مذ ہب کسے کہتے ہیں؟ (۳) اسلام کی بنیا د رکن پانچ باتوں پر ہے؟ (۴) کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت کیا ہے؟
N اسلام سے نہ بھاگو راه بندگی یہی ہے اے سونے والو جاگو شمس اسمی یہی ہے قسم خُدا کی جس نے ہمیں بنایا اب آسماں کے نیچے دینِ خُدا یہی ہے وہ دلستاں نہاں ہے کس راہ سے اُس کو دیکھیں مشکلوں کا یارو مشکل گشا یہی ہے ان باطن سِیہ ہیں جن کے اس دیں سے ہیں وہ منکر کے اندھیرے والو دل کا دیا یہی ہے پر دنیا کی سب دُکانیں ہیں ہم نے دیکھی بھالیں آخر ہوا ثابت دار الشفا یہی ہے خشک ہو گئے ہر ہیں جتنے تھے باغ پہلے طرف میں نے دیکھا بستاں ہرا یہی ہے دُنیا میں اس کا ثانی کوئی نہیں ہے شربت پی لو تم اس کو یارو آب بقا یہی ہے اسلام کی سچائی ثابت ہے جیسے سُورج پر دیکھتے نہیں ہیں دشمن بلا یہی ہے
، گھل گئی سچائی پھر اس کو مان لینا نیکوں کی ہے یہ خصلت راہ حیا یہی ہے جو ہو مفید لینا جو بد ہو اُس سے بچنا عقل و خرد یہی ہے فہم و ذکا یہی ہے ملتی ہے بادشاہی اس دیں سے آسمانی کے طالبان دولت ظل ہما یہی ہے سب دیں ہے اک فسانہ شرکوں کا آشیانہ اُس کا جو ہے یگانہ چہرہ نما یہی ہے سو سو نشاں دکھا کر لاتا ہے وہ بلا کر کو جو اُس نے بھیجا بس مدعا یہی ہے مشکل الفاظ کے معانی:.(۱) راہ نہ کی.نیکی کا راستہ.ہدایت کا راستہ.( در متین ) (1) شمس اٹھی.مخمس کے معنے سُورج شیٹی کے معنے چاشت کا وقت.ایک پہر تک جب دن چڑھ آئے تو وہ شمس الضحی ہے.(۳) دلستاں.ستدن فارسی زبان کا مصدر ہے.اس کے معنے ہیں لینا.ستاں اس سے اسم فاعل ہے.یعنی لینے والا.دل ستاں.دل کو موہ لینے والا.اپنا گرویدہ بنا لینے والا.اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ لفظ استعمال ہوا ہے.
(۴) نہاں بھی فارسی لفظ ہے.اس کے معنے ہیں پوشیدہ.(۵) مشکل کشا مشکل کے معنے ہیں کٹھن ، دشوار کام، پنجابی میں اوکھا گم“ کہتے ہیں.گشا کے معنے ہیں کھول دینے والا.آسان کر دینے والا.مشکل کام حل کر دینے والا.(۶) باطن.اندر.مُراد دل.(۷) دار الشفاء.دار کے معنے ہیں گھر.الشفاء شین کی زیر سے ہے.اس کے معنے ہیں.تندرستی.صحت پانا.ایسی جگہ یا ایسا گھر جہاں سے صحت اور تندرستی ملتی ہے.عربی میں ہسپتال کو دار الشفاء کہتے ہیں.پانی.(۸) بنتاں.باغ (۹) ثانی.دوسرا.مراد مثل اور مائند ہے.(۱۰) آب بقا.آب کے معنے پانی.بقا کے معنے ہمیشگی.یعنی ہمیشہ زندہ رکھنے والا (۱۱) خصلت.عادت.(۱۲) خرد کے معنے ہیں عقل.دانائی.اچھی سمجھ.جو اچھی سمجھ والا ہو اُسے خردمند اور خر ڈور کہتے ہیں.(۱۳) فہم سمجھے.جو سمجھدار ہوا سے فہیم کہتے ہیں.(۱۴) ذکا.عقل کی تیزی.جس کی عقل تیز ہوا سے ذکی کہتے ہیں.(۱۵) طالبان دولت.دولت کے تلاش کرنے والے.(۱۶) ظل ہما.ظلن کے معنے سایہ.ہما ایک پرندہ کا نام ہے جس کے متعلق مشہور
ہے کہ جس شخص پر اس کا سایہ پڑ جائے وہ صاحب اقبال بن جاتا ہے.(۱۷) فسانہ.قصہ.کہانی.افسانہ کا مخفف ہے.قصہ.کہانی بیان کرنے والے کو (۱۸) آشیانہ.پرندے کے گھونسلے کو کہتے ہیں.اب اس کا استعمال ٹھکانا اور جگہ افسانہ گو کہتے ہیں.کے معنوں میں ہے.(۱۹) یگانہ.بے مثل.یعنی وہ دین جو خُدا دکھاتا ہے وہ دین اسلام ہے.(۲۰) چہرہ نما.چہرہ دکھانے والا.(۲۱)مد عا.مقصد.جو بات چاہی گئی ہو.خُلاصه مضمون نظم اس تکلم میں مذہب اسلام کی بہت سی خوبیاں بیان کی گئی ہیں جو یہ ہیں:.(۱) مذہب اسلام سیدھی راہ دکھاتا ہے.(۲) باقی تمام دین مُردہ ہو چکے ہیں.اب آسمان کے نیچے اگر کوئی زندہ مذہب ہے تو صرف اسلام ہے.(۳) اللہ تعالی کی ذات جو پوشیدہ ہے.اس کو کوئی نہیں دیکھ سکتا.مگر اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والا خدا تعالیٰ کو دلی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے.(۴) اس دین کو سچا ماننے اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے سے آسمانی بادشاہت ملتی ہے.یعنی انسان خُدا کا پیارا بن جاتا ہے آسمان سے اُسے مدد ملتی ہے.(۵) باقی جس قدر دین ہیں اُن کی تعلیم بگڑ چکی ہے.خُدا کی توحید کا پتہ نہیں
چلتا.شرک ہی شرک بھرا ہوا ہے.مگر مذ ہب اسلام کی تعلیم خدائے واحد کا صحیح صحیح پتہ دیتی ہے اور اُسے شرک سے پاک ٹھہراتی ہے.(1) سب سے بڑی خوبی اسلام کی یہ ہے کہ اس کی تعلیم پر عمل کرنے والا انسان خُد اتعالیٰ سے ہم کلام ہو سکتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اسی لئے بھیجا ہے کہ آپ دین اسلام کی سچائی خُدا کے تازہ کلام اور نئے نئے نشانات کے ذریعہ ثابت کریں.
ہیں.۱۲ دوسر ا باب ا.ایمان ایمان کے معنے ہیں دل سے کسی بات کو سچا سمجھتے ہوئے زبان سے اس کا اقرار کرنا.جو شخص دل سے کسی بات کو سچا مانے اور زبان سے اقرار کرے اُسے مومن کہتے جو شخص کسی بات کو دل سے تو سچا نہ مانے مگر دکھاوے کے لئے زبان سے اقرار کرے.وہ منافق کہلاتا ہے.یہ سب سے بُرا ہے.جو شخص نہ دل سے سچا مانے اور نہ زبان سے اقرار کرے اُسے کافر کہتے ہیں.ہماری شریعت میں ان باتوں پر ایمان لانے کا حکم ہے.(۱) اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانا (۲) خُدا کے فرشتوں پر ایمان لانا (۳) خُدا کی طرف سے آئی ہوئی تمام کتابوں کو سچا ماننا (۴) خُدا کے تمام نبیوں کو اور رسولوں کو سچا سمجھنا.(۵) آخرث یعنی قیامت پر یقین رکھنا.(۶) تقدیر پر ایمان لانا.یعنی یہ یقین کرنا کہ ہر اچھی یا بری بات خدا تعالیٰ کے علم اور اس کے اندازے میں ہے.(۷) مرنے کے بعد دوبارہ خُدا کے حکم سے جی اٹھنے پر ایمان رکھنا.
عربی زبان میں ایمان کا بیان یوں ہے.آمَنْتُ بِالله وَ مَلئِكَتِهِ وَكُتُبه وَ رُسُلِهِ میں ایمان لایا اللہ پر اور اُس کے فرشتوں پر اور اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں پر وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَ شَرِّهِ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى وَ اور آخری دن پر اور اندازے پر نیکی اور بدی کے جو خدا کی طرف سے ہے اور عك الْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ - جی اُٹھنے پر بعد مرنے کے.سوالات:- (۱) مومن کسے کہتے ہیں؟ (۲) منافق کون ہوتا ہے؟ اور یہ کافر سے بھی بُرا کیوں ہے؟ (۳) جن باتوں پر ایمان لانے کا حکم ہے.وہ کون سی ہیں؟
ہیں.۲.ایمانیات کا بیان از حضرت اقدس سیدنا مسیح موعود علیہ السلام (۱) اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں.(۲) اور سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے رسُول اور خاتم الانبیاء (۳) اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق.اور حشر انجساد حق.اور جنت حق.اور جہنم حق ہے.(۴) اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے.(۵) اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص شریعت اسلام میں سے ایک ذرّہ زیادہ کرے.یا ترک فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے.وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے.اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ (۶) وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ.اور اسی پر مریں.(۷) اور تمام نبیوں (علیہم السلام) اور تمام کتابوں پر جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے.ایمان لاویں.(۸) اور صوم وصلوٰۃ وزکوۃ وحج.
۱۵ طره ای د مینیات کی پہلی کتاب (۹) اور اسی طرح خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کار بند ہوں.(۱۰) غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالح کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا.اور وہ اُمور جو اہلِ سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں ان سب کا ماننا فرض ہے.اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذ ہب ہے.مشکل الفاظ کے معانی:.لصد ایام اصلح صفحہ ۸۷) ترجمه عربی عبارت) (۱) خاتم الانبیاء.تمام نبیوں کی مہر.یعنی جس کی تصدیق اور پیروی سے کوئی نبی بن جائے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ لقب ہے.آپ کی پیر دی اور اطاعت میں نبوت مل سکتی ہے.(۲) ملائک.ملک کی جمع ہے.فرشتہ کو کہتے ہیں.فرشتے خدا کی پاک مخلوق ہیں جو کہ خدا کی تنسیخ تجمید کرتے اور نیکی کی تحریک کرتے ہیں.(۳) کثیر اجساد.مرنے کے بعد تمام جسموں (انسانوں) کا اٹھایا جانا.(۴) جنت کے اصل معنے باغ کے ہیں.مگر شریعت کی اصطلاح میں وہ اچھی جگہ جس میں ہر قسم کی نعمتیں اور آرام اور خوشی کے سامان تیار کئے گئے ہیں.جو مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر نیک بندے کو ملتا ہے.(۵) جہنم.وہ جگہ جس میں ہر قسم کے دُکھ اور تکلیف کے سامان تیار کئے گئے ہیں.جومرنے کے بعد بُرے لوگوں کی جگہ ہے.
छापले (1) جل شانہ.اُس کی شان بلند ہے.(۷) ترک فرائض.جن باتوں کا کرنا ضروری ہے انہیں چھوڑنا.(۸) اباحت.جن باتوں سے شریعت نے روکا ہے اُن کے کر لینے کو جائز سمجھ لینا یا قرار دینا.(۹) برگشتہ.پھر اہوا.(۱۰) فرائض فریضہ کی جمع ہے.وہ کام جن کے کرنے کا حکم ہے.(۱۱) منہیات.وہ باتیں جن کے نہ کرنے کا حکم ہے.(۱۲) سلف صالح.امت محمدیہ کے وہ بزرگ جو گزر چکے ہیں.(۱۳) اجماع.بہت سے نیک لوگوں کا کسی کام کو پسند کرنایا کرتے چلے آنا.(۱۴) اہلِ سنت.سنت سے مراد وہ فعل ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو.اور بعد میں اُمت میں رائج ہو گیا.اور جولوگ آپ کے نمونہ پر چلتے ہیں اُن کو اہلِ سنت کہتے ہیں.سوالات:- (۱) کون سی باتیں ہمارے ایمانیات میں داخل ہیں؟ (۲) ایمان سے برگشتہ گون ہے؟
تیسرا باب ا ہمارا خدا خُدا کے معنے ہیں خود آ.یعنی ایسا وجو د جسے کسی نے پید انہیں کیا.بلکہ ہمیشہ سے خود بخود چلا آتا ہے.وہ واحد لاشریک یعنی اکیلا ہے.اس کا کوئی ساجھی نہیں.اس کا کوئی بیٹا نہیں اور نہ اس کی کوئی بیوی ہے.کیونکہ اسے ان کی ضرورت نہیں.وہ ساری دُنیا کا پیدا کرنے والا ہے وہ سب کا مالک ہے.اور سب پر حاکم ہے.اس پر کوئی حار کم نہیں.وہ خود زندہ ہے.سب کو زندگی بخشتا ہے.وہی ساری دُنیا کی حفاظت کرتا ہے.اُسے نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ.اور وہ کبھی نہیں تھکتا.اُس کا ایسا جسم نہیں کہ ظاہری آنکھ اُسے دیکھ سکے.بلکہ دل کی آنکھ سے اُسے دیکھا جاسکتا ہے.وہ اپنے پیاروں پر ظاہر ہوتا ہے.وہ کسی ایک جگہ نہیں.بلکہ ہر جگہ موجود ہے.زمین اور آسمان سب اُسی کے قبضہ قدرت میں ہیں.کوئی چیز یا کوئی ذرہ بھی اُس کی بادشاہت سے باہر نہیں جاسکتا.اُسی نے ہمارے لئے ہماری پیدائش سے بہت پہلے سُورج.چاند.ستارے زمین.ہوا اور دریا پید اکئے.تاکہ ہم ان چیزوں سے فائدہ اُٹھا ئیں.اور آرام سے زندگی گزاریں.وہ بولتا بھی ہے.سُننا بھی ہے.مگر اُس کا بولنا اور اُس کا سنا اور دیکھنا انسان کے
بولنے ،سُننے اور دیکھنے کی طرح نہیں.وہ بولنے کے لئے زبان کا محتاج نہیں.اور سننے کے لئے کان کا محتاج نہیں.اور دیکھنے کے لئے آنکھ کا محتاج نہیں.وہ صفائی کو بہت پسند کرتا ہے.اور گندگی کو نا پسند کرتا ہے.جو شخص دوسروں سے لڑے.انہیں گالیاں نکالے.ناحق دُکھ دے.اس سے وہ سخت ناراض ہوتا ہے.اور اسی طرح جو شخص دوساتھیوں میں یا دو بھائیوں یا دوہمسایوں میں یا دو دوستوں میں لڑائی یا فساد ڈلوائے.اُس سے بھی وہ ناراض ہوتا ہے.سچ بولنے والا اس کو بہت پیارا ہے.اور جھوٹ بولنے والا اس کی سزا کا مستحق ہے.وہ ہر ایک عیب.کمی اور بُرائی سے پاک ہے.اور جس قدر بھی خوبی کی باتیں ہو سکتی ہیں وہ سب اس میں پائی جاتی ہیں.وہ چاہتا ہے کہ اُس کے بندے اُس کی صفات کا علم حاصل کریں.اور ان صفات کو اپنے اندر پیدا کریں.اسی غرض کے لئے اُس نے انسان کو پیدا کیا ہے.اپنی صفات کا علم دینے کے لئے وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کو تعلیم دے کر لوگوں کی طرف بھیجتا ہے.تا کہ وہ نیک بن جائیں.وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں.اس کی عبادت و پرستش کریں.اُسی سے اپنے لئے سب کچھ مانگیں.اور جو کچھ وہ مانگتے ہیں اگر اس کا دینا ان کے حق میں اچھا ہو تو وہ دیتا ہے.ورنہ جو اُن کے لئے اچھی چیز ہوتی ہے وہ اُن کو دے دیتا ہے.اُس نے تمام نیک انسانوں کے لئے ایک جگہ بنائی ہے جس میں آرام راحت اور خوشی کے تمام سامان پیدا کئے ہیں.اس کو جنت کہتے ہیں.وہ اپنے جس بندے کے کاموں سے خوش ہوتا ہے اس کی وفات کے بعد اس کو اپنی جنت میں داخل کرتا ہے.اور پھر اُسے وہاں سے نہیں نکالتا.
د مینیات کی پہلی کتاب اُس نے بُرے لوگوں کے لئے بھی ایک جگہ بنائی ہے.جس میں ہر قسم کے دُکھ.غم اور تکلیف دینے والے تمام سامان پیدا کئے ہیں.اس کو دوزخ کہتے ہیں.وہ جس بندہ سے اُس کے بُرے کاموں کی وجہ سے ناراض ہوتا ہے اُس کے مرنے پر اُسے دوزخ میں ڈالتا ہے.ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ جتنے اس کے گناہ ہوتے ہیں اتنی سزا دے کر پھر اپنی بہشت میں داخل کرتا ہے.بچو ! ہمارا خدا جب ہم پر اتنا مہربان ہے کہ باپ اور ماں سے بھی زیادہ ہمارے آرام کا خیال رکھتا ہے.پھر وہ نیک کام کرنے پر اتنا بڑا بدلہ دینے کے لئے تیار ہے کہ ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنا بہشت دے گا تو کیوں نہ ہم اپنے خدا کو راضی اور خوش کریں.ہمیں چاہئیے کہ دن رات میں جب بھی ہمیں موقعہ ملے.اس کی عبادت کریں.اس کی تعریف کریں.اس کی نعمتوں کا شکر کریں.تاہم اُسے خوش کر کے اس کی جنت کے وارث ہوں.اور ہر ایسے عمل اور فعل سے بچیں جو اُس کی ناراضگی کامو جب ہوں.سوالات :- (۱) ہمارے خُدا کی کیا صفات ہیں؟ (۲) ہم اُس کی کیوں عبادت کریں؟ (۳) وہ کن باتوں سے خوش ہوتا ہے؟ اور (۴) کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے؟
۲.ہمارا خُدا از سید نا حضرت امیر المؤمنین امصلح الموعود رضی اللہ تعالی صمد ) ہے ہے مری رات دن بس یہی اک صدا کہ اس عالم گون کا اک خُدا اُسی نے ہے پیدا کیا اس جہاں کو ستاروں کو سُورج کو اور آسماں کو وہ ہے ایک اُس کا نہیں کوئی ہمسر مالک ہے سب کا وہ ہے باپ اُس کا نہ کوئی بیٹا ہے حاکم ہے سب پر ہے اور ہمیشہ رہے گا نہیں اُس کو حاجت کوئی بیویوں کی ضرورت نہیں اُس کو کچھ ساتھیوں کی ہر اک چیز پر اُس کو قدرت ہے حاصل ہے حاصل ہر اک کام کی اُس کو طاقت پہاڑوں کو اُس نے ہی اُونچا کیا ہے سمندر کو اُس نے ہی پانی دیا ہے یہ دریا جو چاروں طرف رہے ہیں اسی نے تو قدرت سے پیدا کئے ہیں
سمندر کی مچھلی ہوا کے پرندے گھریلو چرندے بنوں کے درندے سبھوں کو وہی رزق پہنچا رہا ہے ہر اک اپنے مطلب کی شے کھا رہا ہے ہر اک شے کو روزی وہ دیتا ہے ہر دم خزانے کبھی اُس کے ہوتے نہیں گم وہ زنده ہے اور زندگی بخشتا ہے قائم ہے ہر ایک کا آسرا ہے کوئی شے نظر سے نہیں اُس کی مخفی وہ ހނ بڑی سے بڑی ہو کہ چھوٹی دلوں کی چھپی بات بھی جانتا ہے چھوٹی بدول اور نیکوں کو پہچانتا ہے کو وہ دیتا بندوں ہے اپنے ہدایت دکھاتا ہے ہاتھوں اُن کے کرامت ہے فریاد مظلوم کی سُننے والا صداقت کا کرتا ہے وہ بول بالا یہی رات دن اب تو میری صدا ہے میرا خُدا ہے.خُدا ہے
۲۲ مشکل الفاظ کے معانی:.(۱) گون.ہونا.ہو جانا.عالم گون.جہان کا ہونا.یعنی پیداھد ہ جہان.(۲) ہمسر.برابر.(۳) آسرا.سہارا.(۴)مظلوم.جس پر ظلم کیا گیا ہو.(۵) صداقت سچائی.(1) بول بالا.فتح مند.غالب.(۷) ہدایت.راستہ دکھانا.سیدھے راستہ پر چلانا.منزل مقصود تک پہنچانا.(۸) کرامت.بزرگی.بزرگی کے کام.خلاصه مضمون نظم بس ہماری یہی پکار ہے کہ اس جہان کا پیدا کرنے والا ایک خُدا ہے جس نے اس جہان کو پیدا کیا ہے.اور سُورج اور ستاروں اور آسمان کو اُسی نے بنایا.اُس کی برابری کرنے والا کوئی نہیں.وہ سب کا مالک اور سب پر حکومت کرنے والا ہے.وہ خود زندہ ہے اور زندگی بخشتا ہے.وہ خود قائم ہے.ہر ایک کا سہارا ہے.وہ ہر ایک بات سے واقف ہے.اُسے ہر قسم کی طاقت حاصل ہے.وہ مظلوموں اور غریبوں کی مدد کرتا ہے.وہ اپنے بندوں کو ہدایت دیتا ہے.اور اُن پر رحمتیں کرتا ہے.
۲۳ سوالات :- بتاؤ.(۱) صداقت کا بول بالا کرنے سے کیا مراد ہے؟ اپنے زمانہ کی اس کی کوئی مثال (۲) خدا تعالیٰ کی دس صفات جو اس نظم میں ذکر کی گئی ہیں بیان کرو.(۳) ساری نظم حفظ سُناؤ.چوتھا باب ا.ہمارا پیارا نبی قبل از نبوت ۴۰ سالہ زندگی کے حالات عزیز و! جس نبی کی ہم امت ہیں اُن کا نام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے.جتنی نیک باتیں ہمیں بتائی جاتی ہیں اور جن پر ہم عمل کر کے اپنے خالق اور مالک کو راضی کر کے اُس کی جنت کے وارث ہوتے ہیں.وہ سب باتیں ہمیں اسی پاک نبی کے ذریعے معلوم ہوئیں.اس لئے آپ کی زندگی کے حالات معلوم کرنا آپ سے محبت کرنا اور آپ کی پیروی کرنا ہمارا فرض ہے.آپ کی زندگی کے مختصر واقعات یہ ہیں :.
آپ کا نام محمد ہے.جو آپ کے دادا نے رکھا.محمد کے معنے ہیں تعریف کیا گیا.اسی نام سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن مجید میں یا دفرمایا.اور یہی نام کلمہ کا جر و بنادیا.اور آپ نے بادشاہانِ رُوم و ایران سے اسی نام سے خط و کتابت کی.معاہدات میں بھی یہی نام استعمال فرمایا.ہے.آپ کی پیدائش عام الفیل کی ۱۲ ربیع الاول بروز پیر مطابق ۲۰ را پریل ۵۷ء عام الفیل عام کے معنے سال.الفیل کے معنے ہاتھی.ہاتھی کا سال وہ سال ہے جس میں یمن کا گورنر ابر بہ آپ کی پیدائش سے ایک ماہ بیس دن پہلے کعبۃ اللہ کو گرانے کی نیت سے ایک لشکر لے کر جس میں ہاتھی بھی تھے مکہ پر حملہ کرنے آیا.مگر ابھی حملہ کرنے نہ پایا تھا کہ اُس کے لشکر میں چیچک کی وبا ہ ٹوٹ پڑی.کچھ لوگ مر گئے.اور باقی سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ نکلے آپ کے والد کا نام عبداللہ تھا جو عبدالمطلب کے بیٹے تھے.آپ کی والدہ کا نام آبدیدہ تھا جو بنی زہرہ خاندان سے تھیں.والد ماجد کا انتقال آپ کے پیدا ہونے میں ابھی چند مہینے باقی تھے کہ آپ کے والد بزرگوار کا انتقال ہو گیا.
۲۵ Groo دُودھ پلانے والیاں اپنے والد بزرگ وار کے انتقال کے چند ماہ بعد آپ پیدا ہوئے.آپ کی والدہ نے آپ کو دو تین دن دُودھ پلایا.اس کے بعد ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ نے دُودھ پلایا.پھر عرب کے دستور کے مطابق ہوازن قبیلہ کی ایک عورت حلیمہ سعدیہ نے دو سال تک آپ کو دودھ پلایا.آپ کا دیہات میں رہنا دیہات کی عمدہ آب و ہوا اور وہاں کی محمدہ صاف زبان میں آپ چھ سال تک پرورش پاتے رہے.آپ کے وجود کی برکت کا ایک عجیب واقعہ مکہ کے قریبی دیہات کی کچھ عورتیں جو ہمیشہ سال میں ایک دو دفعہ شہر میں امیروں کے بچے اپنا دودھ پلانے اور ان کی پرورش کرنے کے لئے لینے آتی تھیں آپ کی پیدائش کے بعد بھی مکہ میں آئیں.سب عورتوں نے یہ سمجھ کر کہ اس بچے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے والد چونکہ فوت ہو چکے ہیں اس لئے آپ کی پرورش کرنے کے نتیجہ میں اچھی اُجرت یا انعام نہیں مل سکتا.آپ کی پرورش اپنے ذمہ نہ لی.بلکہ آپ کو وہیں چھوڑ کر امیر گھرانوں کے بچے اپنے ساتھ لے گئیں.جب بی بی حلیمہ کو کوئی بچہ نہ ملا تو انہوں نے خالی جانا مناسب نہ سمجھا.آپ کو اپنے ساتھ اُٹھا کر لے گئیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کے وجود کی برکت سے اُن
کے دُودھ دینے والے جانوروں میں اس کثرت سے دُودھ پیدا کیا کہ وہ پہلے تو اس سے حیران ہوئیں مگر پھر سمجھ گئیں کہ یہ سب اس بچے کی برکت ہے.اس لئے وہ بڑی محبت اور غور سے آپ کی پرورش کرنے لگیں.سفر مدینہ اور آپ کی والدہ کا انتقال ا چھٹے سال آپ کی والدہ آپ کو اپنے نھیال مدینہ میں لے گئیں.واپسی پر ابو امقام پر سفر کی حالت میں آپ کی والدہ بھی اس جہان سے رخصت ہو گئیں.بی بی آمنہ کے ساتھ اُن کی ایک وفا دار لونڈی ایم آئین تھیں جو آپ کو مکہ واپس لائیں.عبد المطلب کی پرورش میں آپ کے دادا عبدالمطلب نے آپ کو اپنی پرورش میں لے لیا.عبدالمطلب آپ سے بہت ہی محبت کرتے اور باوجو دبچہ ہونے کے آپ کی بڑی عزت کرتے تھے.آپ کی عُمر جب آٹھ سال کی تھی تو آپ کے اس مہربان دادا کا بھی سایہ سر سے اُٹھ گیا.ابو طالب کی پرورش میں دادا کی وفات کے بعد آپ کے چچا ابو طالب جو آپ کے والد عبد اللہ سے بڑے تھے نے آپ کو اپنی پرورش میں لے لیا.ابو طالب نے اپنے مرتے دم تک اس عہد کو نباہا.
شام کا سفر بارہ برس کی عمر میں آپ اپنے چچا ابو طالب کے ہمراہ ملک شام کے سفر پر گئے.اس سے آپ کو بہت کچھ تجربہ حاصل ہوا.بکریاں پرانا اور تجارت کرنا آپ کو بے کار ہنا سخت نا پسند تھا اس لئے گزارے کے لئے آپ نے مکہ والوں کی بکریاں بھی ابتداء میں پچرائیں.مگر اس کے بعد مستقل طور پر تجارت کا پیشہ اختیار کیا.اسی سلسلہ میں آپ نے شام ، بضر ئی اور یمن کے کئی سفر کئے.آپ نے مال تجارت میں خُوب نفع حاصل کیا.آپ کی نیکی ، راست بازی اور دیانت وامانت کو دیکھ کر اکثر لوگ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھ دیا کرتے اور اس وجہ سے آپ امین وصد وق کے نام سے مشہور ہو گئے.حزب فجار میں آپ کی شرکت حضرت مسیح کی پیدائش کے بعد ۵۸۰ء اور ۵۹۰ ء کے درمیان قریش اور نفیس کے قبیلوں میں جنگ ہوئی.قریش کے سب خاندان شریک ہوئے.ہر خاندان کا الگ الگ دستہ تھا.ہاشم کے خاندان کا جھنڈ ازبیر بن عبد المطلب کے ہاتھ میں تھا.انہی کے ساتھ آپ شامل تھے.اُس وقت آپ کی عمر ۲۰ برس کی تھی.آپ چونکہ طبعا رحم دل تھے اس لئے آپ نے کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھایا.صرف تیر اندازوں کو تیر پکڑاتے رہے.اس جنگ کا نام حزب فجار اس لئے ہے کہ یہ عزت والے چار مہینوں رجب،
ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم میں لڑی گئی تھی.فجار فاجر کی جمع ہے جس کے معنے بدکردار کے ہیں.جلت الفضول حرب فجار کی صلح کے بعد تین فضل نامی شخصوں کی تجویز سے یہ معاہدہ ہوا کہ ہر شخص جو مظلوم کی حمایت کرے وہ اس میں شریک ہو جائے.چنانچہ آپ بھی اس معاہدہ میں شریک ہو گئے.بعد میں بھی آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں آج بھی اس معاہدہ پر عمل کرنے کو تیار ہوں.حضرت خدیجہ کے مال سے تجارت قریش کے قبیلہ کی خدیجہ نامی ایک دولت مند بی بی تھیں.ان کے شوہر فوت ہو چکے تھے.اپنا سامان دوسروں کو تجارت کے لئے دے کر اپنا گزارہ کرتی تھیں.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت اور امانت کی جب اُس نے تعریف سنی تو آپ کو بلوا کر اپنا سامان تجارت کے لئے آپ کے سپرد کیا.اور اپنا غلام میسرہ بھی آپ کے ساتھ روانہ کیا.آپ وہ سامان لے کر ملک شام میں گئے.اور خوب نفع کما کر واپس کوئے.حضرت خدیجہ آپ کے اس کام سے بہت خوش ہوئیں.حضرت خدیجہ سے نکاح اس سفر سے واپس آئے ابھی تین ہی مہینے گزرے تھے کہ حضرت خدیجہ نے آپ
۲۹ کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا.آپ کی عمر اس وقت ۲۵ برس کی تھی.اور حضرت خدیجہ کی ۴۰ برس کی.لیکن آپ نے اسے بخوشی منظور کر لیا.ابو طالب نے ۵۰۰ درہم حق مہر پر آپ کا نکاح پڑھا.اس بی بی سے آپ کے دولڑ کے ہوئے اور چارلڑ کیاں.بڑے بیٹے کا نام قاسم تھا.جس کی وجہ سے آپ کی کنیت ابو القاسم تھی.آپ کی بیٹیاں رقیہ ، زینب ، ام کلثوم اور حضرت فاطمہ تھیں.حضرت فاطمہ حضرت علیؓ سے بیاہی گئیں.سیدوں کا خاندان انہی سے چلا ہے.تعمیر گغبه جب آپ کی عمر ۳۵ برس کی تھی تو قریش نے کعبتہ اللہ کو ز سر نو تعمیر کیا.اس میں دو عجیب واقعات ہوئے جن کا تعلق خاص طور پر آپ کی ذات سے ہے.پہلا واقعہ یہ ہے کہ کعبہ کی دیواروں کے لئے لوگ پھر لا رہے تھے.آپ بھی پتھر لاتے تھے.دوسرے بچے اپنے کئہ بند اتار کر کندھوں پر رکھ کر پتھر لا رہے تھے.آپ نے بھی اپنے چچا کے اصرار پر کہ بندا تارا ہی تھا کہ بے ہوش ہو کر گر پڑے.مگر پھر آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا.دوسرا واقعہ یہ ہے کہ جب حجر اسوڈ رکھنے کا موقعہ آیا تو ہر قبیلہ کے سردار نے چاہا کہ یہ شرف اُسی کے حصہ میں آئے.اس پر سب سردار آپس میں لڑنے مرنے پر تیار ہو گئے.آخر ایک شخص نے کہالڑومت جو شخص سب سے پہلے اس دروازہ سے آئے اُس سے فیصلہ کرالو.اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرہے ہیں.آپ اندر داخل ہوئے تو سب خوشی سے اُچھل پڑے.اور آپ سے فیصلہ چاہا.آپ نے کمال دانائی سے فرمایا کہ ایک چادر لاؤ.چادر لائی گئی.آپ نے اس میں حجر اسود کھا اور سب سرداروں
۳۰ سے کہا کہ اس چادر کے کونے پکڑ کر اونچا اُٹھاؤ.سب نے حجر اسود اونچا کیا.پھر آپ نے اپنے ہاتھ سے اٹھا کر اس کی اصل جگہ پر رکھ دیا.اس طرح آپ کی دانائی سے سارا عرب گشت وخون سے بچ گیا.غار حرا میں جانا ۲.ہمارا پیارا نبی بعد از نبوت ۱۳ سالہ مکی زندگی کے حالات مکہ سے ۳ میل کے فاصلہ پر ایک غار تھا.جسے حرا کہتے تھے.آپ کچھ دنوں کی خوراک لے کر اس میں چلے جاتے اور اپنے مالک و خالق کو یاد کرتے.اس عرصہ میں آپ کو کثرت سے خواب آتے.جو فورا ہی پورے بھی ہو جاتے تھے.نبوت کا ملنا ایک دن حسب دستور آپ عبادت میں مشغول تھے کہ حضرت جبرائیل ( وحی لانے والا فرشتہ ) آپ کے پاس آئے اور آپ سے کہا پڑھو.آپ نے کہا میں نہیں پڑھوں گا.اُس فرشتے نے اپنے سینے سے لگا کر آپ کو دبایا.تین دفعہ ایسا ہوا.اس کے بعد اُس نے کہا اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ.اپنے رب کے نام سے جس نے آپ کو پیدا کیا ہے پڑھیں.تب آپ نے یہی کلمات پڑھے.
۳۱ سُورۃ علق کی پہلی ۵ آیتیں آپ کو فرشتے نے سکھائیں.اس کے بعد وہ فرشتہ غائب ہو گیا.اور آپ حضرت خدیجہ کے پاس واپس لوٹے اور آتے ہی کہا.زَمِلُوْنِی.زَمَلُونی مجھے کمبل اوڑھاؤ کمبل اوڑھاؤ.آپ نے سارا واقعہ حضرت خدیجہ سے کہ سُنایا.ورقہ بن نوفل کے پاس جانا حضرت خدیجہ نے سنتے ہی کہا کہ آپ غریبوں پر رحم فرمایا کرتے ہیں.بے کسوں کی مدد کیا کرتے ہیں.جو قرضوں وغیرہ کے بوجھوں کے نیچے دبے ہوئے ہوں اُن کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں.خدا آپ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا.پھر حضرت خدیجہ آپ کو اپنے ایک رشتہ دار، ملکہ کے سب سے بڑے عالم ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں.جنہوں نے یہ واقعہ سنتے ہی کہا کہ آپ کے پاس تو وہی پیغام آیا ہے جو حضرت موسی کے پاس آیا تھا.یعنی آپ خُدا کے پیغمبر بنائے گئے.کاش میں اُس وقت جوان ہوتا جبکہ آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی.تو میں آپ کی ضرور مدد کرتا.آپ نے کہا کیا میری قوم مجھے نکال دے گی ؟ اُس نے کہا ہاں.جو شخص بھی آپ کی طرح نبی ہو کر آتا ہے لوگ اُس کی مخالفت کرتے ہیں.پہلے ایمان لانے والے جب آپ نے اپنی رسالت کی تبلیغ شروع کی تو عورتوں میں سے سب سے پہلے آپ پر آپ کی بیوی حضرت خدیجہ ایمان لائیں.مردوں میں سے حضرت ابو بکر نے آپ کو قبول کیا.اور بچوں میں سے حضرت علی آپ کی رسالت پر ایمان لائے.اس کے بعد آہستہ آہستہ لوگ ایمان لاتے گئے.تین سال کے عرصہ میں کوئی چالیس آدمی آپ پر ایمان
ørre لائے.جن میں حضرت عثمان ، زبیر ، عبدالرحمن بن عوف ، طلحہ اور بلال رضی اللہ عنہم کا نمبر پہلے ہے.سب قریش کو بلا کر کوہ صفا پر وغظ فرمانا ابتدائی تین سال تک آپ علیحدہ علیحدہ لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دیتے رہے چوتھے سال جب آپ پر یہ حکم نازل ہوا.11 وَ انْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِيْنَ (سورة شعراء ع ) اور ڈرا تو اپنے قریبی رشتہ داروں کو تو آپ نے سب قریش کو اکٹھا کیا اور کوہ صفا پر چڑھ کر انہیں خُدا کا پیغام سُنا یا.بس پھر کیا تھا تمام قریش آپ کے خلاف بھڑک اُٹھے.ایک عجیب واقعہ آپ نے آواز دے کر جب سب قریش کو جمع کر لیا تو ان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے دشمن کا ایک لشکر تمہاری تباہی کے لئے آرہا ہے تو کیا تم میری اس بات کا یقین کرو گے.سب یک زبان ہو کر بولے کیوں نہیں ! مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا الصّدْقَ ہم نے سوائے سچائی کے آپ میں اور کوئی بات نہیں دیکھی.پھر آپ نے کہا اگر یہ بات ہے تو میں تمہیں خُدا کے عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہاری بد اعمالیوں کے نتیجہ میں تم پر آنے والا ہے.
۳۳ ابو لہب جو آپ کا چا تھا آگ بگولا ہو کر بول اٹھا:.تَبَّا لَّكَ الهذا جَمَعْتَنا؟ تیرابر اہو کیا اس لئے تُو نے ہمیں جمع کیا تھا اُس کی اس گستاخی کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے اس کو آئندہ حق قبول کرنے سے محروم کر دیا.اور اُس کے بارے میں سورۃ تثبت اُتاری جس میں ابو لہب کے بُرے انجام کے علاوہ اُس کی بیوی کے بُرے انجام کا بھی ذکر فرما دیا.اس واقعہ سے ایک عجیب سبق ملتا ہے کہ خُدا کے نبیوں ، ولیوں اور برگزیدوں کے حق میں کبھی برا کلمہ نہیں بولنا چاہیئے ورنہ انسان کو اس کی سزا اس دُنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت کی سزا تو بہت بڑی ہے.قریش کو پرائیویٹ دعوت اس کے بعد آپ نے قریش کی دعوت کی.انہیں کھانا کھلایا.جب سب کھانا کھا چکے تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو تو میرا ساتھ دو.اس پر سب قریش ہنس کر چلے گئے.دوبارہ دعوت آپ نے حضرت علیؓ سے کہا کہ پھر دعوت کا انتظام کرو.اب کے انہیں پہلے خُدا کا پیغام سنائیں گے اور پھر کھانا کھلائیں گے.چنانچہ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے تاریخ طبری و میس بحوالہ سیرت خاتم النب تین جلد اوّل
۳۴ فرمایا:.”دیکھو ! میں تمہاری طرف وہ بات لے کر آیا ہوں کہ اس سے بڑھ کر ادقی بات کوئی شخص اپنے قبیلہ کی طرف نہیں لایا.اس کام میں میرا گون مددگار ہوگا ؟“ آپ کی اس بات پر ساری مجلس میں سناٹا چھا گیا.سب خاموش بیٹھے رہے.تیرہ سالہ بچے کی ایمانی جرات یک لخت ایک طرف سے ایک ۳ سالہ دبلا پتلا لڑکا جس کی آنکھوں سے پانی بہ رہا تھا پوری جُرات سے بولا :.گو میں کمزور ہوں اور سب سے چھوٹا ہوں مگر میں آپ کا ساتھ دوں گا.حاضرین نے جب یہ نظارہ دیکھا تو بجائے شرمندہ ہونے کے کھل کھلا کر ہنس پڑے.اور اسلام اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کمزور حالت کا مذاق اُڑاتے ہوئے اُٹھ کر چلے گئے.بچو ! جانتے ہو یہ آواز اسلام کے کس ہو نہار فرزند کی تھی ؟ یہ آواز حضرت علی ہی تھی.گو یہ آواز ایک بچے کی آواز تھی مگر انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمات سرانجام دے کر اسے پورا کر دکھایا.ان خدمات کا ذکر انشاء اللہ تعالیٰ تمہیں حضرت علیؓ کے بیان میں بتایا جائے گا.
قریش کی منظم مخالفت کی ابتداء ۳۵ آپ کی بڑھتی ہوئی آواز کو روکنے کے لئے قریش آب پوری طرح مخالفت پر آمادہ ہو گئے.اور خدا کے اِس برگزیدہ اور آپ کی جماعت کو ستانا اور دُکھ دینا شروع کر دیا.کبھی پاگل کبھی شاعر اور کبھی جادوگر آپ کو مشہور کرتے.جب آپ باہر نکلتے تو آوازے گئے.کعبہ اللہ میں نماز پڑھتے تو شور وغل مچاتے.ایک دفعہ آپ کعبہ اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے جب آپ سجدے میں گئے تو ایک بد بخت نے ابو جہل کے اشارے سے اُونٹ کی اوجھڑی لا کر آپ کی گردن پر رکھ دی.جس سے آپ اپنا سر نہ اٹھا سکے.اور بہت دیر اسی حالت سجدہ میں پڑے رہے.آخر جب حضرت فاطمہ الزہراء کو پتہ لگا تو وہ دوڑی دوڑی آئیں اور گند کا یہ بوجھ آپ سے دُور کیا.آپ کے ماننے والوں کو بھی قریش نے ستایا.مارنا اور پیٹنا شروع کر دیا.غرضیکہ مسلمانوں کے لئے اب چلنا پھرنا، ادھراُدھر آنا جانا بہت مشکل ہو گیا.قریش کے وفودابوطالب کے پاس اسی پر بس نہیں بلکہ قریش نے ایک وفد ابوطالب کے پاس بھیجا.جس نے انہیں جا کر سمجھایا کہ تمہارا بھتیجا ہمارے بچوں کو بُرا بھلا کہتا ہے اُسے روکو ورنہ ہم اب زیادہ دیر تک تمہاری حمایت برداشت نہیں کر سکتے.پھر تم سے بھی ہماری لڑائی شروع ہو جائے گی.قریش کی اس دھمکی سے ڈر کر ابو طالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر کہا کہ اب قوم کی ناراضگی مجھ سے نا قابلِ برداشت ہے.تم نے اپنی تعلیم کے ذریعہ سے انہیں
ناراض کر دیا ہے.اس لئے ایسی باتوں سے پر ہیز کرو جو ان کی منتقلی کا ٹو جب ہوں.میں اب تمام قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا.آپ نے ایک طرف اپنے چا کی بے بسی دیکھی.اور دوسری طرف اپنے قادر مطلق اور مہربان خدا کے فرمان کو دیکھا.آخر تھوڑی دیر کے بعد اطمینان سے اپنے چچا کو جواب دیا کہ:.” اے چا ! اگر آپ کو اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو آپ بے شک مجھے اپنی پناہ میں رکھنے سے دست بردار ہو جائیں مگر میں احکام الہی کے پہنچانے میں کبھی نہیں رکوں گا.اور خُدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سُورج اور ایک ہاتھ میں چاند بھی لا کر رکھ دیں تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہیں رہوں گا.اور میں اپنے کام میں لگا رہوں گا حتی کہ خدا اسے پورا کرے یا میں اس کوشش میں ہلاک ہو جاؤں.“ اللہ ! اللہ ! ! کیسے پُر شوکت الفاظ تھے جن سے عزم اور استقلال ، ہمت اور بہادری چشمہ کے پانی کی طرح پھوٹ پھوٹ کر باہر آ رہی تھی.اور جو اپنا اثر کئے بغیر نہ رہے.ابو طالب نے آپ کی نورانی پیشانی پر نظر دوڑائی.اور عزم و استقلال کے اس مجسمہ پر نظر دوڑا کر کہا کہ:.جا اپنے کام میں لگارہ.جب تک میں زندہ ہوں اور جہاں تک میری طاقت میں ہے میں تیرا ساتھ دوں گا.“ جب اس قسم کی دھمکیوں سے کام نہ چلا تو کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لالچ دینے کے لئے عتبہ نامی شخص کے ذریعہ کہلا بھیجا کہ سرداری چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا
۳۷ سردار مان لیتے ہیں.دولت چاہتے ہو تو دولت دے دیتے ہیں.خوبصورت عورت سے نکاح کرنا چاہتے ہو تو وہ بھی حاضر ہے.مگر آپ نے ان سب باتوں کے جواب میں سورۃ خم سجدہ کی ابتدائی آیات تلاوت کر دیں.عقبہ گھبرا کر چلا گیا.اور قریش سے جا کر کہا کہ اس شخص کو اس کے حال پر رہنے دو.مگر وہ سب اس سے بھی ناراض ہو گئے.اسی طرح کی اور بھی کئی سازشیں قریش نے کیں.مگر آپ اور آپ کے متبعین کے پائے استقلال میں ذرہ بھی جنبش پیدا نہ کر سکے.بیت از قم کعبۃ اللہ کے پاس ہی ایک گلی میں ایک مخلص صحابی از قم نامی کا گھر تھا جس میں آپ اکثر اپنا وقت گزارتے تھے.مسلمانوں کو درس تدریس دیتے.اور وہیں نمازیں پڑھتے.ہجرت حبشہ نبوی مطابق ۶۱۲۱۵ء جب مسلمانوں کی تکالیف حد سے بڑھ گئیں.تو ا امرد اور ۴ عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی.ان میں حضرت عثمان بن عفان اور اُن کی زوجہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھیں.طبقہ پہنچ کر انہیں امن کی زندگی نصیب ہوئی.قریش نے تعاقب بھی کیا مگر ناکام رہے.قریش کا وفد بھی شاہ نجاشی کے پاس مسلمانوں کے خلاف شکایات لے کر انہیں وہاں سے نکلوانے گیا مگر نا کام واپس ہو ا.
۱۳۸ حضرت عمر کا اسلام لانا حضرت عمر بڑے جری اور سخت طبیعت کے انسان تھے.اسلام کے بڑے پکے دشمن تھے.ایک دفعہ غصہ میں آکر ارادہ کیا کہ روز روز کا جھگڑ امٹانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کر دینا چاہیئے.اسی ارادے سے تلوار لے کر گھر سے نکلے.راستہ میں ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی.انہوں نے پوچھا.عمر کدھر جا رہے ہو؟ حضرت عمر نے جواب دیا کہ محمد کا کام تمام کرنے چلا ہوں.اس مسلمان نے کہا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو کہ تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں یہ سنتے ہی فور اور ہیں سے اپنی بہن کے گھر کا رُخ کیا.پہنچے تو قرآن کی آواز سُنائی دی.بس پھر کیا تھا آگ بگولا ہو گئے.اپنے بہنوئی کو مارنے لگے.بہن بچانے کے لئے سامنے ہوئیں.بجائے خاوند کے انہیں چوٹ لگی اور خون بہر نکلا.حضرت عمر کی شرافت طبعی نے جوش مارا کچھ نرم ہوئے.پھر کہا اچھا کیا پڑھ رہے تھے.مجھے بھی سُناؤ.حضرت عمر کی زیرک اور دانا ہمشیر ہ فاطمہ نے کہا.پہلے غسل کر لو.پھر قرآن مجید کے پاکیزہ اوراق کو ہاتھ لگا سکتے ہو.جب وہ نہانے سے فارغ ہوئے تو حضرت فاطمہ نے وہ اوراق اُن کے ہاتھ میں دیئے.انہوں نے اُٹھا کر دیکھا تو وہ سورہ طا کی ابتدائی آیات تھیں.پڑھناشروع کر دیا.جب اس آیت پر پہنچے :.إِنَّنِي أَنَا الله لَا إِلهُ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَ یقینا میں ہی خدا ہوں میرے سوا اور کوئی معبود نہیں.پس تو میری عبادت کر.اور أَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِيْهِ إِنَّ السَّاعَةَ اتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيْهَا میری یاد کے لئے نماز قائم کر.یقیناً وہ خاص گھڑی آنے والی ہے.قریب ہے کہ میں اسے ظاہر کروں
grap لمجْرَى كُلُّ نَفْسٌ بِمَا تَسْعَى مرطه ع ) تا کہ ہر نفس اپنے کئے کا بدلہ پاسکے.تو بے اختیار بول اٹھے :.اور کہا:.یہ کیسا عجیب اور پاک کلام ہے.“ حضرت خباب ( حضرت عمر کے بہنوئی ) نے یہ الفاظ سنے تو فورا خُدا کا شکر ادا کیا.سید رسول اللہ کی دعا کا نتیجہ ہے.کیونکہ خدا کی قسم ! ابھی کل ہی میں نے آپ کو یہ دُعا کرتے سنا تھا کہ یا اللہ! تو عمر بن الخطاب یا عمر و بن ہشام (ابوجہل ) میں سے ایک کو ضرور اسلام عطا کر دے.“ وہاں سے اٹھے تو سیدھے رسولِ پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیت ارقم میں پہنچے.دروازہ کھلوایا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر آگے بڑھے اور فرمایا:.”اے عمر ! رکس ارادے سے آئے ہو؟ حضرت عمر نے عرض کی :.ایمان لانے کی غرض سے.“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ الفاظ سنے تو خوشی سے اللہ اکبر کہا.ساتھ ہی صحابہ نے بھی اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکہ کی وادی گونج اٹھی.
۴۰ معراج نبوی شہ نبوی میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کا رُوحانی بلند مقام بتانے اور آپ کو آئیندہ ہونے والی فتوحات کی خبر دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعلیٰ درجہ کا روحانی معراج کرایا.جس میں آپ نے بڑے بڑے عجائبات قدرت کے نمونے دیکھے.اسی سال پانچ نمازیں بھی فرض ہوئیں.اس معراج کا ذکر سورۃ النجم اور سورۃ بنی اسرائیل میں مکمل موجود ہے.کہ نبوی مطابق ۶۱۶ شعب ابی طالب میں محصور ہونا سب طرف سے مایوس ہو کر کفار نے مسلمانوں کو دُکھ دینے کی ایک تجویز یہ کی کہ قریش کے سب قبائل نے مل کر بنو ہاشم کے خلاف ایک معاہدہ لکھ کر کعبۃ اللہ کی چھت سے لٹکا دیا جس کا مضمون یہ تھا کہ:.” بنو ہاشم کے ساتھ کسی قسم کا کوئی لین دین نہ کیا جائے نہ ان کے پاس کوئی چیز بیچی جائے اور نہ اُن سے خریدی جائے.نہ ان کو کوئی کھانے پینے کی چیز دی جائے.اور اُن سے نہ کوئی ملے.جب تک کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ لیہ وسلم ) سے الگ ہو جائیں.“ اس معاہدہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام بنو ہاشم مسلم اور غیر مسلم اور بنو مطلب بھی شعب ابی طالب میں (ابو طالب کے نام سے ایک محلہ پہاڑی درہ کی شکل میں تھا ) محصور ( بند ) ہو گئے.
ان محصورین پر جو جو مصائب آئے وہ بیان سے باہر ہیں.انہیں پڑھ کر بدن پر ایک لرزہ سا طاری ہو جاتا ہے.صحابہ کا بیان ہے کہ بعض اوقات انہوں نے درختوں کے پتے کھا کھا کر گزارہ کیا.بعض نے چمڑے کے سُوکھے ٹکڑے پانی میں بھگو کر نرم اور صاف کر کے بُھون کر کھائے.بچوں کے رونے اور چلانے سے ہر وقت ایک گہرام سا مچارہتا تھا.یہ مصیبت تین سال تک جاری رہی.آخر بعض رحم دل لوگوں کی کوشش سے معاہدہ چاک کر دیا گیا سنہ نبوی مطابق 119 ء میں اس سے چھٹکارا ہوا.قبائل میں تبلیغی دورے حج کے ایام میں جب لوگ دُور دراز سے جمع ہوتے یا اشہر خرم (عزت والے مہینے ) میں عرب کی مشہور منڈیوں کا ظ، مجنہ اور ذوالمجاز کے میلوں پر لوگ جمع ہوتے تو ہمارے آقا اُن میں پھر پھر کر تبلیغ کرتے.کوئی مذاق اور ٹھٹھا کرتا.کوئی بُرا بھلا کہتا.کوئی سنجیدگی سے جواب دیتا.کوئی غور سے سُنتا.غرضیکہ آپ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے فرض کو ادا کرتے جاتے.ابو لہب آپ کا چا بھی سایہ کی طرح آپ کے ساتھ لگارہتا.ہر موقعہ پر آپ کی مخالفت کرتا.اسی طرح دوسرے لوگ بھی مخالفت کرتے.ان کی اس مخالفت کی وجہ سے قبائل میں تبلیغی دورہ کا کوئی فوری نتیجہ ظاہر نہ ہوا.ن نبوی مطابق 119 ، حضرت ابو طالب کی وفات آپ کو اس سال پے در پئے کئی صدمے اُٹھانے پڑے.اس لئے آپ نے اس سال کا نام عام الحزن یعنی غموں کا سال رکھا.ابو طالب جو آپ کے جاں نثار مددگار تھے
ول الله كان سخت بیمار ہو گئے.اُن کی موت کا وقت قریب تھا کہ آپ نے جا کر انہیں اسلام لانے کے لئے کہا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ:.وو چا! اگر آپ صرف کلمہ شہادت ہی پڑھ دیں تو میں قیامت کے دن آپ کی شفاعت کروں گا.“ ابو طالب نے کہا :.دو بھتیجے ہمیں ایسا کر لیتا مگر قریش کیا کہیں گے کہ ابوطالب موت سے ڈر کراپنے باپ دادوں کا مذہب بھی چھوڑ گیا.“ اس کے تھوڑے عرصہ بعد ابو طالب ۸۰ برس کی عمر پا کر اس دار فانی سے کوچ کر گئے.رمضان ۱۰ نبوی حضرت خدیجہ کا انتقال اسی سال رمضان شریف میں آپ کی ہمدرد، وفادار، خدمت گزار پیاری اور نہایت پارسا بیوی حضرت خدیجہ کا بھی انتقال ہو گیا.ابو طالب اور حضرت خدیجہ کی وفات سے آپ کے یہ دو مضبوط دُنیاوی سہارے بھی جاتے رہے.نبوی مطابق جنوری ۶۲۰ سفر طائف مکہ والوں کی مخالفت اور انکار کو روز بروز بڑھتے دیکھ کر آپ نے طائف والوں کو تبلیغ کرنے کا عزم کیا.طائف مکہ کے مقابلہ کا شہر تھا.اور مکہ سے تین منزل کے فاصلہ پر تھا.آپ نے اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کو ساتھ لیا.اس شہر میں پہنچ کر شہر کے رؤساء کو تبلیغ کی.مگر سب نے انکار کیا اور جنسی اُڑائی.آخر آپ شہر کے سب سے بڑے
۴۳۰ رئیس عبدیالیل کے پاس گئے.اور اُسے بھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی.مگر اُس نے نہ صرف انکار کیا بلکہ شہر کے آوارہ آدمی ہمارے سردار حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا دیئے جو آپ پر دُور تک پتھر برساتے چلے آئے.جن سے آپ کا بدنِ مُبارک لہو لہان ہو گیا.طائف سے تین میل کے فاصلہ پر عقبہ بن ربیعہ کا ایک باغ تھا جس میں آکر آپ نے پناہ لی.اور ان ظالموں کے ظلم سے رہائی پائی.یہاں ایک دیوار کے سایہ میں کھڑے ہو کر آپ نے اپنے مولیٰ کے حضور اپنی بے بسی اور بے گسی کو پیش کرتے ہوئے اُس سے مدد طلب کی.شوال لا : نبوی مطابق ۶۲۰ ، حضرت سودہ اور حضرت عائشہ سے نکاح اِس سال پہلے حضرت سودہ سے آپ کا نکاح ہوا.اور پھر ایک خواب کی بناء پر حضرت عائشہ سے آپ کا نکاح ہوا.اُس وقت آپ کی عمر ۵۰ برس سے کچھ او پرتھی.ه نبوی مطابق ۶۲۰ اہل مدینہ کے اسلام لانے کا آغاز ایام حج میں قبیلہ خزرج کے آدمیوں سے آپ کی ملاقات ہوئی.آپ نے نہایت نرم لہجہ میں انہیں اسلام کی تبلیغ کی.قرآن مجید کی چند آیات سُنائیں.ان لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کہا کہ:.یہ موقعہ بڑا اچھا ہے.ایسا نہ ہو کہ یہود ہم سے سبقت لے جائیں.“ چنانچہ سب نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گئے.یہ آدمی تھے اُن کے نام یہ ہیں :.
د مینیات کی پہلی کتاب (۱) اسعد بن زرارہ.(۲) عوف بن حارث.(۳) رافع بن مالک.(۴) قطبہ بن عامر.(۵) جابر بن عبد اللہ.(۶) عقبہ بن عامر.یہ لوگ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہوئے تو کہا ہم مدینہ جا کر لوگوں کو تبلیغ کریں گے.شاید اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ ہم لوگوں کو اکٹھا کر دے پھر ہم ہر طرح آپ کی مدد کریں گے.نه نبوی مطابق اپریل ۱۲۱ ء بیعت عقبہ اولیٰ اِس سال میں جب حج کے ایام آئے تو آپ اہلِ یثرب (مدینہ ) کی تلاش میں نکلے.منی کے پاس عقبہ مقام پر مدینہ کے کچھ آدمی آپ کو دکھائی دیئے.انہوں نے بھی آپ کو دیکھا تو نہایت محبت و اخلاص سے آپ کا استقبال کیا.اب کے یہ بارہ آدمی تھے.کچھ پچھلے سال کے مسلمان تھے.اور کچھ نئے تھے.اس دفعہ سب نے آپ کے ہاتھ پر با قاعدہ بیعت کی.اور یہ بیعت تاریخ میں بیعت عقبہ اولیٰ کے نام سے مشہور ہے.اسلام کا پہلا مبلغ مدینہ میں یہ لوگ جب رخصت ہونے لگے تو انہوں نے درخواست کی کہ ہمیں کوئی معلم دیا جائے جو ہمیں دین اسلام کی تعلیم دے اور ہمارے دوسرے بھائیوں میں تبلیغ کرے.آپ نے حضرت مصعب بن عمیر کو اُن کے ساتھ روانہ کر دیا.اُن کے مدینہ میں جانے سے گھر گھر اسلام کا چرچا پھیل گیا اور قبیلہ اوس اور خزرج کے لوگوں نے بڑی تیزی سے اسلام میں آنا شروع کر دیا.
۱۳ به نبوی اپریل ۱۲۲ ء بیعت عقبہ ثانیہ اِس سال بھی ایام حج میں مدینہ سے قریبا ۷۲ آدمی آئے.جن میں دو عورتیں بھی تھیں.مبلغ اسلام حضرت مصعب بن عمیر بھی اُن کے ساتھ تھے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے آنے کی اطلاع ملی تو آپ نے رات کے وقت عقبہ یعنی گھائی میں ملاقات کا وقت مقر ر کیا.چنانچہ آپ رات کے وقت اپنے چچا عباس کے ساتھ وہاں پہنچے.حضرت عباس گو اس وقت مسلمان نہ ہوئے تھے مگر آپ کے ہمدرد تھے.اور آپ سے محبت رکھتے تھے.اتنے میں انصار مدینہ کے لوگ بھی پہنچ گئے.جب ان لوگوں نے یہ تجویز پیش کی کہ حضور ہمارے پاس مدینہ تشریف لے چلیں تو اس پر حضرت عباس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا:.”اے خزرج کے گروہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے گھرانے کے معزز ترین فرد ہیں.اُن کا خاندان ان کی پوری حفاظت کرتا ہے.اگر تم لوگ اُن کی حفاظت کر سکو تو انہیں اپنے ساتھ لے جاؤ.ورنہ ابھی سے جواب دے دو.جب حضرت عباس بات کر چکے تو البراء بن معرور نے کہا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سکتا چاہتے ہیں.آپ نے ایک مختصر تقریر فرمائی جس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کا ذکر فرمایا.ابو الہیشم نامی شخص نے عرض کی.یا رسول اللہ ! ہمارے یہود کے ساتھ تعلقات ہیں.کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو جب اللہ تعالیٰ غلبہ دے تو آپ ہمیں چھوڑ کر چلے آئیں.پھر
۴۶ ہم نہ ادھر کے رہیں نہ اُدھر کے.آپ نے فرمایا.ایسا نہیں ہوگا.تمہارا خون میرا خون ہوگا.تمہارے دوست میرے دوست ہوں گے.عبد اللہ بن رواحہ بولے.یا رسول اللہ ! ہمیں اس کے بدلے میں کیا ملے گا ؟ آپ نے فرمایا.رضوان اللہ (اللہ کی خوشنودی) اور جنت.عبداللہ بن رواحہ بے اختیار بولے:.بس اب سودا ہو چکا.ہمیں منظور ہے.اب نہ آپ پھر میں نہ ہم.اس کے بعد سب نے بیعت کی.آپ نے ان ۷۲ آدمیوں میں سے ۱۲ نقیب چنے.جن کو اپنے اپنے قبیلہ کا نگران مقر رفرمایا.اس کے بعد یہ لوگ واپس مدینہ چلے آئے.۱۳ به نبوی، اپریل ۶۳۴ء بجرت صحابہ مکہ میں جب کفار کے مظالم و تکالیف انتہا کو پہنچ گئیں تو صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ سے مدینے کی طرف ہجرت شروع کر دی.اور مکہ میں صرف چند مسلمان رہ گئے.باقی سب ایک ایک کر کے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے.دار الندوہ میں مشورہ جب اس طرح کفار نے صحابہ کو جاتے دیکھا تو آپس میں مشورہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اب قتل کر دینا چاہئیے اور قریش کے تمام قبائل کا ایک ایک جو ان رات کے وقت آپ کے مکان کا محاصرہ کر لے.اور جب آپ نماز کے لئے نکلیں تو آپ کو قتل کر دے.اس طرح کسی کو پتہ نہیں چلے گا کہ کس نے قتل کیا ہے.اور نہ کوئی جھگڑا ہو گا.
ماه صفر نه نبوی ، ۲۰ جون ۶۲۲ ہجرت نبوی اللہ تعالیٰ نے کفار کے اس منصو بے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع کر دی.آپ کو بھی ہجرت کا حکم مل چکا تھا.چنانچہ آپ نے رات کے وقت حضرت علی کو اپنے بستر پر سلا کر حضرت ابو بکر کو ساتھ لیا.اور مکہ سے باہر غار ثور میں جو تین میل کے فاصلہ پر تھی جا کر چھپ رہے.تین دن کے بعد وہاں سے نکل کر آپ نے مدینہ کی طرف کوچ کیا اور اس طرح خُدا نے اپنے رسول کو اس کے خونخوار دشمنوں کے پنجہ سے نجات دلائی.اور حضور کو کامیابی، کامرانی اور فتح مندی کے راستہ پر ڈال دیا.مشکل الفاظ کا حل:.(۱) ہجرت کے لفظی معنے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا.خُدا کی خاطر کسی جگہ کو چھوڑ کر دُوسری جگہ جانا.ہجرت کرنے والے کو مہاجر کہتے ہیں.(۲) عقبہ کے لفظی معنے بلند پہاڑی راستہ کے ہیں.کہلائے.(۳) اوس اور خو رج.مدینہ میں دو بڑے قبیلے تھے جو مسلمان ہو کر بعد میں انصار (۴) مدینہ.مکہ سے شمال کی طرف قریبا ۲۵۰ میل پر ایک شہر میٹر ب نامی تھا.ہجرت کے بعد مدینۃ الرسول مشہور ہو گیا.اور پھر آہستہ آہستہ صرف مدینہ رہ گیا.
émo.ہمارا نبی دس سالہ مدنی زندگی کے حالات اِسلام کے پر شوکت دور کا آغاز اسلام کا یہ پر شوکت دور واقعہ ہجرت سے شروع ہوتا ہے.اس لئے ذرا تفصیل سے اس کا ذکر کرنا ضروری ہے.جب کفار مکہ نے دار انکہ وہ (کمیٹی گھر ) میں آپ کے قتل کا مطورہ ملک نہ کر لیا تو رات کے وقت مختلف قبائل کے مسلح نو جوان آپ کے مکان کے ارد گرد جمع ہو گئے.مکان سے نکلنے کا جو راستہ تھا اُس پر خاص نگاہ تھی.مکہ والے گو آپ کے مخالف تھے مگر آپ کی امانت اور دیانت کی وجہ سے آپ کے پاس امانتیں رکھ جاتے تھے.اس لئے حضور نے حضرت علی کو بلا کر تمام حساب و کتاب بتا کر امانت کا سارا مال ان کے سپرد کر دیا.اور اپنے بستر پر انہیں لٹا کر اللہ کا نام لے کر گھر سے باہر نکل آئے.جو نو جوان دروازے پر گھات لگائے بیٹھے تھے.اللہ تعالیٰ نے اُن پر ایسی غفلت طاری کی کہ انہیں آپ کے باہر نکلنے کا علم تک نہ ہوا.حضرت ابو بکڑ سے پہلے مشورہ ہو چکا تھا.اس لئے آپ نے انہیں ساتھ لےلیا.اور غار ثور کی طرف رُخ کیا جو مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر تھی.وہاں پہنچ کر اس تنگ و تار یک غار میں دونوں ساتھی روپوش ہو گئے.کفار کو جب پتہ چلا تو پہلے اُنہوں نے ادھر اُدھر تلاش کی.صحابہ سے پوچھا.مگر
۴۹ جب پتہ نہ لگا تو پھر اعلان کر دیا کہ جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو زند ہ یامز دہ لے آئے گا.اُس کو سو اونٹ بطور انعام دئے جائیں گے.اس لالچ میں مکہ کے کئی آدمی ادھر اُدھر آپ کی تلاش میں دوڑ پڑے.غار ثور پر رؤساء قریش کا پہنچنا اور پھر نا کام واپس آنا خود رؤساء قریش بھی چند سُراغ رسانوں کو لے کر آپ کی تلاش میں نکلے.سُراغ نکالنے والے انہیں غار ثور کے منہ تک لے آئے.اور انہیں کہا کہ تمہارے مجرم اس غار تک پہنچے ہیں.یا تو اس غار میں ہیں.یا پھر آسمان پر اڑ گئے ہیں.لکھا ہے کہ قریش اس قدر آپ کے قریب کھڑے تھے کہ آپ اُن کی باتیں سُن رہے تھے.اور اگر وہ ذرا نیچے جھانکتے تو دیکھ سکتے تھے.غار کے منہ پر مکڑی نے جالا تنا ہوا تھا اور کبوتری نے انڈے دے رکھے تھے.ان اشیاء کو دیکھ کر وہ سردار اپنے سُراغ رسانوں کو بے وقوف بتاتے ہوئے واپس چلے گئے.اس موقعہ پر حضرت ابو بکڑ نے گھبراہٹ کا اظہار کیا کہ یا رسول اللہ ! اگر لفار ذرا جھانک لیں تو پھر ہمیں دیکھ لیں گے.آپ نے فرمایا.لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا غم مت کر یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے.سبحان اللہ ! ہمارے آقا کا اپنے اللہ پر کتنا بڑا انیمان اور بھروسہ تھا.یہی وہ یقین ہے جوانسان کو ہرمیدان میں کامیاب کرتا ہے.آپ تین دن اس غار میں ٹھیرے.حضرت ابو بکڑ کے خادم عامر بن فہیر ہو ادھر ادھر
یر ۵۰ کی بکریاں چراتے رہتے اور رات کو اُن کا دُودھ دے جاتے.اور آپ کے فرزند عبد اللہ ، کفار کی خبریں پہنچاتے رہتے.ربیع الاول ۱۴ نبوی ، ۲۰ جون ۶۲۲ ء کو عبد الله بن اریقط کے ہمراہ جو بطور راہ نما اُجرت پر لیا گیا تھا.اور اپنے خادم عامر بن فہیرہ کو ساتھ لے کر حضرت ابو بکر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف کوچ کیا.سُراقہ بن مالک کا تعاقب سراقہ بن مالک ملکہ کا ایک شاہسوار انعام کے لالچ میں آپ کے تعاقب میں نکلا.جب وہ اس چھوٹے سے قافلے کے نزدیک پہنچا تو اُس کا گھوڑا گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا.اس نے فورا اپنا تیر نکال کر فال لی کہ مجھے آگے بڑھنا چاہیے یا نہیں.فال نکلی کہ نہیں.لیکن انعام کے لالچ نے پھر تعاقب پر آمادہ کیا.گھوڑے کو ایڑ لگا کر قریب پہنچا تو پھر گھوڑے نے ایسی ٹھو کر کھائی کہ پیٹ تک ریت میں دھنس گیا.وہ سمجھ گیا کہ اب ایسی کوشش کرنا اپنی ہلاکت کو دعوت دینا ہے.آخر عاجزی سے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے امن کی تحریر دی جائے.جو آدمی آپ کے تعاقب میں آتا ہوا مجھے ملے گا اُسے واپس کر دوں گا.چنانچہ آپ کے حکم سے عامر بن فہیر ہ نے اسے امن کی تحریر لکھ دی.جب وہ واپس لوٹنے لگا تو آپ نے فرمایا.”اے سراقہ ! تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسری (شاہِ ایران ) سے کنگن ہوں گے." حیرت سے سراقہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں.مگر آخر وہی ہوا جو حضور نے فرمایا تھا.
۵۱ اور وہ اس طرح کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب ایران فتح ہوا تو شاہ کنسرٹی کے کنگن بھی مال غنیمت میں آئے.تب حضرت عمر نے اس پیشگوئی کو ظاہری رنگ میں پورا کرنے کے لئے وہ کنگن سُراقہ بن مالک کو پہنا دیئے.اختتام سفر آخر یہ مقدس قافلہ منزل پر منزل مارتا ہوا آٹھ روز کا تیز سفر کر کے ۱۲؍ ربیع الاول، ا نبوی کو پیر کے روز مدینہ کے قریب پہنچ گیا.آپ کے استقبال کے لئے اہلِ مدینہ دوڑے ہوئے آئے.اور اُن کی خوشی کا یہ عالم تھا کہ نعرہ تکبیر سے سارا مدینہ گونج رہا تھا.چھوٹی چھوٹی انصاری لڑکیاں چھتوں پر چڑھ کر گیت گا رہی تھیں.چھوٹے چھوٹے بچے مدینہ کی گلیوں میں جلوس نکالے ہوئے کہتے پھرتے تھے کہ ہمارے پیغمبر آرہے ہیں.اور نوجوان ہتھیار سجائے اپنے آقا کی پیشوائی کی خوشی میں پھولے نہ سماتے تھے.مسجد قبا کی بنیاد مدینہ سے ۳ میل کے فاصلہ پر ٹیلہ پر ایک چھوٹی سی آبادی تھی جن میں زیادہ تر مسلمان آباد تھے.وہاں آپ ۱۴ دن ٹھہرے اور ایک چھوٹی سی مسجد کی بنیا دڈالی جو مسجد قبا کے نام سے مشہور ہوئی.اور جس کا ذکر قر آن مجید کے دسویں پارہ میں اس طرح پر ہے.لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى (وہ مسجد جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے ).
مدینہ میں ورود forb قبا میں ۴ دن رہنے کے بعد آپ نے شہر کا رُخ کیا.جمعہ کا دن تھا.راستہ میں بنو سالم کے محلہ میں جمعہ کی نماز کا وقت آ گیا.آپ نے جمعہ پڑھایا.نماز کے بعد آپ آگے بڑھے.شہر کے تمام معزب زین استقبال کے لئے دورویہ کھڑے تھے.ہر ایک یہی کہتا تھا کہ یا رسُول اللہ ! ہمارے گھر.ہمارے مال.ہماری جانیں حاضر ہیں.حضور شکریہ ادا کرتے ہوئے آگے ہی آگے چلتے گئے.عورتیں مکانوں کی چھتوں پر چڑھ کر یہ گیت گا رہی تھیں :.طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوَدَاع طلوع ہوا چودھویں کا چاند ہم پر وداع کی گھاٹیوں وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَا لِلَّهِ دَاع واجب ہے شکر کرنا ہم پر جب تک کہ دُعا مانگنے والا دُعا مانگے بنو نجار کی لڑکیاں یہ گیت گار ہی تھیں :.نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِي النَّجَارِ يَا حَبَّذَا مُحَمَّدًا مِّنْ جَارٍ! ہم نجار خاندان کی لڑکیاں ہیں آہا! محمد اب ہمارے پڑوسی ہوں گے آپ نے فرمایا کہ میری اونٹنی جہاں ٹھیر جائے گی وہیں میر اٹھیر نا ہوگا.آپ کی اونٹنی جب حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر کے قریب پہونچی تو بیٹھ گئی.بس پھر کیا تھا حضرت ابوایوب کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی.اپنے گھر میں حضور کو اُتارا.سات ماہ تک آپ وہیں مقیم رہے.
۵۳ دو انصاری بچوں کا نمونہ جہاں آپ ٹھیرے تھے اس کے پاس ہی دو یتیم بچوں سہل اور سہیل کی ایک شکستہ ہی حویلی تھی.آپ نے وہاں مسجد بنوانے کی تجویز کی.اُن بچوں کو بلا کر ان سے سودا کرنا چاہا.انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! اس کا معاوضہ قیامت کو ہم اپنے اللہ سے لیں گے.آپ بڑی خوشی سے جو چاہیں اس پر بنوائیں.مگر آپ نے اصرار کر کے قریبا ۹۰ روپے دے کر وہ زمین خرید لی.وہاں حضور کی ازواج مطہرات کے حجرے اور مسجد نبوی تعمیر ہوئی.انصار و مہاجرین میں بھائی چارہ جو لوگ مکہ سے ہجرت کر کے آئے تھے.انہیں مہاجرین کہتے تھے.اور جنہوں نے مدینہ میں اپنے ان غریب بھائیوں کی مدد میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی اُن کو انصار کہتے تھے.حضور نے اس کو زیادہ پختہ کرنے کے لئے ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصاری کا آپس میں بھائی چارہ قائم کر دیا.پھر کیا تھا.انصار نے رہی سہی کسر بھی نکال دی حتی کہ بعض نے اپنے اموال اور اپنی زمینیں تک نصفا نصف کر کے اپنے مہاجر بھائی کو دینی چاہیں.مگر مہاجرین کی سیر چشمی نے اسے قبول نہ کیا.وہ خو د تجارت میں مشغول ہو گئے.اور اس طرح دوسروں پر بوجھ بننے کی بجائے اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے.یہود سے معاہدہ ہجرت کے پہلے سال (مسلمانوں میں جس سن کا رواج ہو اوہ ہجرت کے ہی واقعہ
۵۴۰ سے ہوا) آپ نے یہود سے معاہدات کئے.یہود کے تین خاندان اُس وقت مدینہ میں آباد تھے.(۱) بنو قینقاع (۲) بنونضیر (۳) بنوقریظہ.معاہدہ کی شرطیں یہ تھیں :.(۱) ایک دوسرے کے مذہبی امور میں دخل نہ دیا جائے.(۲) دشمن کے مقابلہ میں سب ایک دوسرے کی مدد کریں.(۳) مدینہ کے اندر آپس میں جھگڑا.خُوں ریزی نہ ہو.(۴) تمام جھگڑوں کا آخری فیصلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کریں.رمضان ۲ ہجری.مارچ ۶۲۳ جنگ بدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے ایک قافلہ کو روکنے کے لئے ۳۱۳ صحابہ کو لے کر نکلے مگر بدر کی جانب کفار مکہ قریبا ایک ہزار مسلح افراد کا ایک لشکر لے کر بدر کے مقام پر پہنچ چکے تھے.جو مدینہ سے تین منزل پر ہے.قافلہ تو نکل گیا.مسلمانوں کا اس لشکر سے مقابلہ ہوا.اور اس لڑائی میں کفار کو شکست ہوئی.اُن کے سات بڑے بڑے سردار جن میں ابو جہل بھی شامل تھا مارے گئے.گل ۷۰ آدمی قتل ہوئے اور ہ ے گرفتار ہوئے.باقی سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ گئے.اس جنگ میں ۱۴ مسلمان شہید ہوئے.کفار کے قیدی بعد میں فدیہ لے کر رہا کر دیئے گئے.اس جنگ میں شامل ہونے والے صحابہ کو خاص رُتبہ عطاہو ا.اس جنگ میں دو انصاری بچوں نے ایک نہایت شاندار کارنامہ سرانجام دیا.یعنی کفار مکہ کے لیڈر اور سردار ابو جہل کو قتل کر دیا.
شوال ۳ ہجری ۲۳ فروری ۶۲۴ ، حضرت عائشہ کا رخصتانه اور بنو قینقاع کی جلاوطنی شوال کے مہینہ میں حضرت عائشہؓ کا رخصتا نہ ہوا.آپ کا یہ نکاح در اصل اسلام کی تقویت کا بہت بڑا پیش خیمہ تھا.کیونکہ مذہبی جماعتیں طاقتور نہیں ہوسکتیں جب تک کہ اُن کی عورتیں دینی ضرورتوں اور مسائل سے واقف نہ ہوں.حضرت عائشہ کے ذریعہ مسلمان عورتوں میں دین کا بڑا چرچا ہوا.اور بہت سے مسائل جو عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ آپ ہی کی معرفت معلوم ہوئے.اس سال بنو قینقاع کو اُن کی بدعہدی کی وجہ سے جلا وطن کیا گیا جو مدینہ چھوڑ کر شام میں جا کر آباد ہو گئے.شوال ۳ : ۵ مارچ ۶۲۴، جنگ اُحد اگلے سال بدر کا بدلہ لینے کے لئے ابو سفیان تین ہزار کا لشکر لے کر مسلمانوں سے لڑنے کے لئے اُحد کے مقام پر جو مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر تھا پہنچا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک ہزار کا لشکر لے کر مدینہ سے نکلے جن میں سے راستہ میں تین سو منافق واپس ہو گئے.اور آپ کے ہمراہ صرف ۷۰۰ آدمی رہ گئے.مقابلہ ہوا دشمن کو شکست ہوئی.مگر پہاڑی درہ کے مورچہ کو خالی پا کر جس پر پہلے مسلمان سپاہی مقر رتھے.جو دشمن کی شکست کی خبر سنتے ہی مالِ غنیمت جمع کرنے لگ
۵۶ پڑے تھے.خالد بن ولید نے پیچھے سے حملہ کر دیا.جس سے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچا.اور وہ دونو طرف سے گھر گئے.اور پھر اچانک حملہ کی وجہ سے پکھر گئے.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دے کر اُن کو جمع کر لیا.کفار نے حضور کو اکیلا پا کر آپ پر حملہ کر دیا.مسلمانوں نے ہر وہ تیر جو کفا ر آپ پر چلاتے تھے اپنے سینے پر لیا.اور تلوار کا ہر وار اپنے بازوؤں پر روکا.آخر اسی کشمکش میں آپ کے دو دانت شہید ہوئے.آپ بے ہوش ہو کر گر پڑے.کفار نے یہ سمجھ کر کہ اب مسلمانوں کو شکست ہوگئی ہے.مکہ کی راہ لی.ستر مسلمان شہید ہوئے.اور بہت سے زخمی ہوئے.حضرت حمز کا بھی اسی لڑائی میں شہید ہوئے.صفر ھئی ۶۲۵: ء پر معونہ کا واقعہ ایک شخص ابو براء نامی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میری قوم مُسلمان ہونا چاہتی ہے.آپ کچھ مبلغ میرے ساتھ کر دیں.آپ نے ۷۰ قاری اس کے ساتھ روانہ کئے.جن کو دھوکہ دے کر بئر معونہ کے مقام پر لے جا کر انہوں نے قتل کر دیا.اس واقعہ سے حضور کو بہت صدمہ پہنچا.واقعہ رجیع ایسا ہی رجیع مقام پر امسلمان قاریوں کا کفار نے دھوکہ سے محاصرہ کر لیا.آٹھ تو و ہیں شہید ہوئے.دو کو اہل مکہ کے پاس بیچ دیا گیا جنہوں نے مقتولین بدر کے بدلے میں لے اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے.
ور ۵ انہیں شہید کر دیا.ربیع الاول سند ھ جون ۱۲۵ بونفسیر کی جلا وطنی ای سال بنو نضیر نے عبد لگنی کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قتل کا منصوبہ کیا.علم ہونے پر اُن کا محاصرہ کیا گیا.آخر کار جلاوطنی پر راضی ہوئے.وہاں سے نکل کر کچھ بیر میں اور کچھ شام میں جا کر آباد ہو گئے.شعبان شه و دسمبر ۶۲۶ عز وہ بنی مصطلق اس سال بنی مصطلق کے متعلق آپ کو معلوم ہوا کہ وہ مسلمانوں سے لڑائی کی تیاری کر رہے ہیں.آپ نے لشکر کشی کی ، چھ سو قیدی بنائے گئے جن میں جو سر یہ بنت الحارث بھی تھیں.جنہیں حضور نے اپنے عقد میں لے لیا.اور ان کی وجہ سے سارے قیدیوں کو آزاد کر دیا.شوال ۵ فروری ۶۲۷ ء غزوہ آخر اب کفار مکہ نے اپنی پے درپے ناکامیوں کو دیکھ کر عرب کے تمام قبائل کو جنگ پر آمادہ کیا.اور دس ہزار سے پندرہ ہزار کا لشکر جرار لے کر مدینہ پر دھاوا بول دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے از دگر خندق کھد وادی.کفار نے چاروں طرف سے محاصرہ کر لیا.مسلمانوں نے بھی جگہ بہ جگہ چوکیاں قائم کر رکھی تھیں.جن کی شب و روز پوری تندہی سے حفاظت کی جاتی تھی.قریبا ۲۵ دن محاصرہ رہا.
۵۸ ایک رات ایسی تیز اور سر دہوا چلی کہ جس سے کفار کے خیمے اُکھڑ گئے اور اُن کی آگیں بجھ گئیں.اور اتنا بڑا منظم لشکر اس ہوا کو اپنے حق میں بدفال سمجھتا ہو انہایت افراتفری میں بھاگ نکلا.اور اس طرح پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اُس بہت بڑی مصیبت سے بغیر جنگ کے نجات عطا فرما دی.ذوالقعده شد ه مارچ و ا پریل ۶۲۷ ، بنو قریظہ کو اُن کی غداری کی سزا اسی دوران میں جب کہ خونخوار کفار چاروں طرف سے مسلمانوں کو گھیرے پڑے تھے بنو قریظہ نے عہد شکنی کر کے مسلمانوں کو مدینہ میں پریشان کر ناشر وع کر دیا.جس قلعہ میں مسلمان عورتوں اور بچوں کو حفاظت کی غرض سے رکھا گیا تھا اُن بدمعاشوں نے اس قلعہ پر حملہ کرنے کی تجویز کی.پہلے اُنہوں نے اپنا ایک جاسوس حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجا.جب اُسے مُسلمان عورتوں نے اپنی طرف آتے دیکھا تو صفیہ بنت عبدالمطلب نے جو حضور کی پھوپھی تھیں ایک موٹا سا ڈنڈا لے کر اس کے سر پر مارا اس چوٹ سے ہی وہ جہنم رسید ہوا.اُنہوں نے اس کا سرکاٹ کر قلعہ کی دیوار کے نیچے گرا دیا حملہ آور یہود یہ دیکھ کر سخت گھبرائے.اور اُنہوں نے سمجھا کہ قلعہ میں بھی کوئی لشکر موجو د ہے.اس لئے واپس پھر گئے.جنگ اخز اب سے فارغ ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو ان کی عہد شکنی کی سزادینے کے لئے اُن کا محاصرہ کیا.انہوں نے حضرت سعد بن معاذ کے
۵۹ فیصلہ پر رضامندی ظاہر کی.جنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جنگ کے قابل بالغ مرد قتل کئے جائیں اور ان کی عورتیں اور بچے قید کئے جائیں.چنانچہ اس فیصلہ کے مطابق اُن کے ۳۰۰ بالغ مرد قتل کئے گئے.اور عورتیں اور بچے قید کر لئے گئے.اس طرح مدینہ میں آئے دن کے یہودی فتنہ کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا.صل ذوالقعد من ھمارچ ۶۲۸ ء صح حد : اس سال اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رؤیاء دکھائی کہ آپ صحابہ کے ہمراہ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں.چنانچہ آپ اس رویاء کو پورا کرنے کی نیت سے ۱۴.۱۵ سو صحابہ کی جمعیت لے کر عمرہ کرنے کے ارادہ سے نکلے.مگر قریش مکہ نے بمقام حد نذیہ (مکہ کے قریب) روک دیا.آخر آپس میں صلح نامہ ہوا.جس کی اہم شرطیں مندرجہ ذیل تھیں.(۱) مسلمان اس سال واپس چلے جائیں.(۲) اگلے سال بغیر ہتھیاروں کے آئیں.(۳) جو شخص مکہ سے مسلمان ہو کر مدینہ جائے اُسے واپس کر دیا جائے گا.(۴) جو مسلمان مدینہ سے مُرتد ہو کر مکہ آجائے.اُسے واپس نہ کیا جائے گا.اس صلح کو اللہ تعالیٰ نے فتح مبین کا نام دیا.کیونکہ اس سے تبلیغ کے لئے بہت راستہ کھل گیا.ا حضرت سعد کا یہ فیصلہ تورات، استثناء باب ۲۰ آیت ۱۰ تا ۱۵ اور گفتی باب ۳۱ کے بالکل مطابق تھا.
رض محرم کہ اگست ۱۲۹ ء غزوہ بخیر - خیر جو مدینہ سے قریباً دوسو میل کے فاصلہ پر تھا.جس میں قریبا تمام یہودی آباد تھے.جو مسلمانوں کے عروج کی خبریں سُن سُن کر جلتے رہتے.آخر انہوں نے قبیلہ غطفان سے سازش کر کے مسلمانوں پر حملہ کی ٹھان لی.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خبر کا یقین ہو گیا تو آپ نے قریبا ڈیڑھ ہزار صحابہ کے ساتھ اُن پر چڑھائی کی.یہود قلعہ بند ہو گئے.آخر حضرت علیؓ کی جواں مردی سے قلعہ کا دروازہ توڑا گیا.یہود نے اطاعت قبول کر لی.اور خیر کی زمین نصف بٹائی پر لے کر وہیں آبادر ہے.جمادی الاولی ۵۸ ستمبر ۶۲۹ غزوہ موتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ایام میں بادشاہوں اور رئیسوں کو کثرت سے تبلیغی خطوط روانہ کئے.ایک خط شرحبیل بن عمر و بصری کے پاس جو حدودِ شام کے قریب تھا حارث بن عمیر کے ہاتھ روانہ کیا.اس بد بخت نے قاصد کو قتل کر دیا.جو بین الاقوامی قوانین کی رُو سے بہت بڑا جرم تھا.آپ نے تین ہزار کا لشکر حضرت زید بن حارثہ ( اپنے آزاد کردہ غلام) کی کمان میں روانہ کیا.موتہ کے مقام پر جنگ ہوئی.زید شہید ہو گئے.اُن کے بعد حضرت جعفر اور عبد اللہ بن رواحہ افسر بھی شہید ہوئے.پھر حضرت خالد نے کمان سنبھال لی.اور نہایت ہوشیاری سے اپنی فوج کو دشمن کے پنجہ سے بچا کر واپس لے آئے.اس واقعہ کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی دے دی.
رمضان کره جنوری ۶۳۰ء فتح مکه قریش نے عہد شکنی کی اور اہلِ اسلام کے حلیف مخزاعہ کے خلاف اپنے حلیف بنو بکر کی مدد کی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ نے خزاعہ کے نقصان کا معاوضہ طلب کیا.قریش نے انکار کیا اور کہا معاہدہ ختم.آخر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار صحابہ کو لے کر مکہ پر چڑھائی کی.اور اس خیال سے کہ ملکہ میں خون خرابہ نہ ہو چپکے چپکے منزلوں پر منزلیں مارتے ہوئے مکہ جا پہنچے.آپ کی اس غیر متوقع آمد پر مکہ والے ہکا بکا رہ گئے.دربار عام ہوا.کفار کے سامنے اُن کے سابقہ مظالم بیان کئے گئے.اور اُن کی درخواست معافی پر معافی کا اعلان کر دیا گیا.اور حضور نے فرمایا:.اِذْهَبُوا أَنْتُمُ الطَّلَقَاءُ.لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ.جاؤ تم آزاد ہو آج کے دن تمہیں کوئی ملامت نہیں ہوگی اللہ اکبر! ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کیسے اعلیٰ اخلاق تھے.جولوگ اس قدرخون کے پیاسے تھے کہ ہر وقت نقصان پہنچانے اور ایذا دینے میں لگے رہتے تھے.جب قابو میں آئے تو انہیں یکدم معاف فرما دیا.اس موقعہ پر کعبہ اللہ کو جوں سے پاک کیا گیا اور ایک دن میں ۳۶۰ بت توڑ دئے گئے.اور اس طرح خدا کی ظاہری بادشاہت بھی آپ کے ذریعہ قائم ہوئی.
۶۲ شوال شه ھ جنوری و فروری ۲۳۰ غز و چنین فتح مکہ کے بعد حضور" کو پتہ چلا کہ حنین کے مقام پر جو مکہ سے تھوڑے فاصلہ پر تھا ہوازن قبیلہ کے لوگ جمع ہورہے ہیں.حضور بارہ ہزار کا لشکر لے کر جن میں دو ہزار کے قریب نو مسلم بھی تھے اور جو نئے نئے جوش کی وجہ سے سب سے آگے تھے نکلے.آخر دونو گروہوں کا مقابلہ ہوا.ہوازن کے مشاق تیر اندازوں نے تیروں کی ایسی بوچھاڑ کی کہ ان نومسلموں میں بھا گڑسی بچ گئی.اور ان کی وجہ سے دوسرے حصہ لشکر میں بھی بھا گڑ پڑ گئی صحابہ کرام اپنی سواریوں کو پیچھے موڑتے تھے.مگر وہ آگے بھاگتی تھیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سوائے حضرت عباس کے اکیلے رہ گئے.آخر حضرت عباس کے آواز دینے پر صحابہ کرام واپس مڑے.اور ایک ایسا زور کا حملہ کیا کہ لشکر ہوازن کے چھکے چھوٹ گئے.۶ ہزار قیدی بنائے گئے جو بعد میں بطور احسان چھوڑ دئے گئے.جب شده ۶۳۰ ، غزوہ تبوک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوا کہ شام کی سرحد پر عیسائیوں کا ایک بہت بڑا لشکر حملہ کی تیاری میں مصروف ہے.تین ہزار فوج لے کر آپ رجب کے مہینے میں جنگ کے لئے نکلے مگر وہاں دشمن نہ ملا.وہاں کے رؤساء سے معاہدات کر کے آپ واپس تشریف لائے.اس جنگ میں سب مسلمانوں کے لئے شامل ہونا آپ نے ضروری قرار دیا تھا.جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے اکثر تو ان میں سے مُنافقین تھے جو بہانے بنا کر بچ گئے.مگر تین
شخصوں کعب بن مالک ، ہلال بن امیہ اور مُرارہ بن ربیع نے جومخلص مومن تھے اپنی غلطی کا اقرار کیا.قریباً ۵۰ روز تک اُن کا بائیکاٹ رہا.آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کا اعلان فرمایا.ذوالحجه شد ه مارچ ۱۳۱ ء مسلمانوں کا حج اور ایک ضروری اعلان 2 اِس سال مسلمانوں نے حضرت ابوبکر کی سرکردگی میں حج کعبہ کیا.سورہ برأت کی ابتدائی آیات حضرت علی کو دے کر آپ نے روانہ کیا.جو حج کے موقعہ پر مشرکین عرب کو پڑھ کر سنائی گئیں.اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا گیا:.آئندہ کوئی مشرک خانہ کعبہ کا حج نہ کرے.نہ کوئی شخص ننگا ہو کر طواف کرے.چنانچہ اس اعلان کے بعد قریبا سارا عرب مسلمان ہو گیا.کوئی مشرک باقی نہ رہا.لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے شروع ہوئے.اور يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا کا نوشتہ پورا ہوا.ذوالحجہنہ ھمارچ ۳۲ حجة الوداع ہجرت کے دسویں سال سردار دو جہان حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم حج کے ارادے سے ملکہ معظمہ پہونچے.اس موقعہ پرا یک لاکھ ۲۴ ہزار فرزندانِ توحید جمع تھے.جبل عرفات پر آپ نے الوداعی خطبہ پڑھا جس میں آپ نے بہت سے اصلاحی اُمور کا ذکر کیا اور ایک خاص وصیت یہ بھی فرمائی:.
و جس طرح یہ عزت والا مہینہ ہے اور یہ عزت والا شہر ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تم پر اپنے مسلمان بھائی کی عزت اور اس کا مال اور اس کی جان حرام کی ہے.تمہارا فرض ہے کہ ہر مسلمان کی عزت ، مال اور جان کی حفاظت کرو.اور میری یہ بات ہر شخص جو حاضر ہے غیر موجود شخص کو پہنچا دے.“ اس موقعہ پر آپ پر یہ آیت نازل ہوئی:.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ آج کے دن میں نے مکمل کر دیا تمہارا دین اور پوری کر دی میں نے تم پر اپنی نعمت اور لَكُمُ الْإِسْلَامَ دننا ط رَضِيْتُ پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو بطور مذہب کے.۱۲ ربیع الاول ہ ھ جون ۶۳۲ آنحضرت ﷺ کا وصال ماہ صفر کے آخری ایام میں حضور تیپ محرقہ سے بیمار ہوئے.آخر بروز پیر ۱۰-۲ا دن بیمار رہنے کے بعد حضور اَللَّهُمَّ بِالرَّفِيقِ الاغلی کا ورد کرتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے جاملے.جس طرح آپ کا نام محمد ہے.ویسے ہی آپ کے کام بھی محمد یعنی تعریف کے قابل ہیں.جو مقصد آپ لے کر آئے تھے باوجود مخالفتوں کے تیز تند طوفانوں کے اور مصائب و مشکلات کی آندھیوں کے آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے.اور سب دشمنوں پر فتح نمایاں حاصل کی.اور ساری دُنیا کے لئے آپ کا وجو د مبارک رحمت اور
برکت کامو جب ثابت ہوا ؎ محمد ہی نام اور محمد ہی کام عَلَيْكَ الصَّلَوةُ عَلَيْكَ السَّلَامُ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَا هِيْمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ سوالات:- ہوں.(۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا نام اور آپ کے والدین کا نام بتاؤ.(۲) آپ کی قبل از نبوت ۴۰ سالہ زندگی کے واقعات بتاؤ.(۳) آپ کی بعد از نبوت ۲۳ سالہ زندگی کے واقعات بتاؤ.(۴) آپ پر سب سے پہلی وحی کونسی اور کس حالت میں نازل ہوئی ؟ (۵) آپ کی زندگی کے چار ایسے واقعات بتاؤ جو تمہیں سب سے زیادہ پسند
۶۶ پانچواں باب نماز مترجم بطرز جدید قرآن مجید میں نماز کے لئے لفظ صلوۃ استعمال ہوا ہے.جس کے معنے عربی میں خُدا کی نسبت سے رحمت نازل کرنے کے ہیں اور بندے کی نسبت سے خُدا کے حضور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے اور اس سے اپنی حاجات اور ضروریات طلب کرنے کے لئے اُس کی عبادت بجالانے کے ہیں.نماز کے مندرجہ ذیل ارکان اور شرائط ہیں.جن کے ادا کرنے سے نماز مکمل ہوتی ہے.شرائط نماز ارکان نماز ا.بدن کا پاک ہونا.ا.تکبیر تحریمہ یعنی اللہ اکبر کہنا.۲.کپڑوں کا پاک ہونا.۳.باوضو ہونا.۲.قیام ( کھڑے ہونا.اگر معذوری ہوتو بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے) ۴.جگہ کا پاک وصاف ہونا (۳) سورۃ فاتحہ پڑھنا ۵.قبلہ کی طرف منہ کرنا (۴) رکوع.۶.کلمات نماز کے معنے معلوم ہونا (۵) سجده ے.نماز میں دل کا حاضر ہونا.(1) قعدہ (التحیات پڑھنے کے لئے بیٹھنا ) ۸.سترگاہ کا ڈھانپنا.(۷) قصد انماز ختم کرنا
نیت نماز ۶۷۰ نماز با ترجمہ بطري جديد إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِ وَ ل الَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَ میں نے متوجہ کیا منہ اپنا لئے (اس) جس نے پیدا کیا آسمانوں اور اور میں نے متوجہ کیا اپنا منہ اس کے لئے جس نے پیدا کیا آسمانوں الْأَرْضَ حَنِيفًا وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (پھر اللہ اکبر کہے اور ثناء پڑھے) اللہ سب سے بڑا ( اللہ ہی سب سے بڑا ہے ) زمین کو خالص ہو کر اور انہیں میں سے مشرکوں زمین کو خالص ہو کر اور نہیں میں مشرکوں سے ثاء سُبْحَنَ كَ اللَّهُمَّ و ب ب حَمْدِكَ وَ تَبَارَكَ پاک تو اے (میرے) اللہ اور ساتھ تعریف اپنی اور برکت والا پاک ہے تو اے (میرے) اللہ اور اپنی تعریف کے ساتھ ہے اور برکت والا ہے
۶۸ اسْمُكَ وَ تَعَالَى جَدُّکَ وَ لا اله معبود غَيرُ نام تیرا اور بلند ہے شان میری اور انہیں کوئی معلم و سوائے تیرے اور بلند ہے تیری شان اور نہیں کوئی معبود تیرے سوا تیرا نام تعود پناہ مانگنا ) اَعُوْذُ ب اللهِ مِنَ الشَّيْطن الرَّحِيْم میں پناہ مانگتا ہوں کی اللہ سے شیطان مردود میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی شیطان مردود سے اسم الله ساتھ نام الرَّحْمَنِ الرَّحِيم الله بے حد رحم کرنے والا بار بار رحم کرنے والا شروع کرتا ہوں اللہ کے نام کے ساتھ جو بے حد رحم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے پھر اس کے بعد سُورۃ فاتحہ پڑھے سورة فاتحہ الْحَمْدُ لِ اللهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تمام تعریفیں لئے اللہ سب جہانوں بے حد رحم کرنے والا بار بار رحم کرنے والا تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو رب ہے سب جہانوں کا بے حد رحم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے ے ثناء اور تعو ذصرف پہلی رکعت میں پڑھتے ہیں.
۶۹ ملک يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ.مالک دن جزا و سزا خاص تیری ہم عبادت کرتے ہیں اور خاص تجھ ہم مدد مانگتے ہیں مالک ہے جزا و سزا کے دن کا تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی ہم مدد مانگتے ہیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ٥ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَى هِمْ چلا ہمیں راستہ سیدھا راستہ ان انعام کیا تو نے پر جن انعام کیا تو نے جن پر امِيْنَ چلا ہمیں سیدھے راستے پر راستہ اُن کا کہ الْمَغْضُوْبِ عَلَى هِمْ وَ لَا الضَّالِّينَ غَيْرِ سوائے نصب کیا گیا ہے جن اور نہ گمراہ لوگوں کی قبول فرما ( سوائے ان کے کہ غضب کیا گیا جن پر اور نہ گمراہوں کی.قبول فرما اس کے بعد قرآن کریم کی کوئی سُورۃ مثلا سُورۃ العصر پڑھیں.سُورة العصر بِسْمِ الله الرَّحْمن ساتھ یہ نام الله رحمن رحیم پڑھتا ہوں اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے وَ الْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرِه إِلَّا الَّذِيْنَ آمَنُوا وَ هم زمانہ بھی انسان البتہ میں کھائے مگر جو ایمان لائے اور یقینا یقیناً قسم ہے زمانہ کی یقیناً انسان البتہ گھاٹے میں ہے.مگر وہ جو ایمان لائے اور
6206 عَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَ تَوَاصَوْا بِ الْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِ الصَّبْرِه عمل کئے اچھے اور نصیحت کی ایکدوسرے کو کی سچائی اور نصیحت کرتے ہیں ایکدوسرے کو ساتھ صبر عمل کئے اچھے اور نصیحت کرتے ہیں ایک دوسرے کو سچائی کی اور نصیحت کرتے ہیں ایک دوسرے کو صبر کی.سُورة اخلاص يُولده قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌه اللهُ الصَّمَدُه لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ کہ وہ اللہ ایک اللہ بے نیاز نہیں اس نے جیتا اور نہیں وہ بتا گیا جنا کہد.اللہ ایک ہے.اللہ بے نیاز ہے.نہیں اس نے جنا اور نہ وہ جنا گیا لَمْ يَكُنْ لَّ هُ كُفُوًا اور نہیں ہے احده واسطے اُس برابری والا کوئی اور نہیں ہے اس کا کوئی برابری کرنے والا.اس کے بعد اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں جائے.رکوع میں پڑھے سُبْحَانَ رَبِّ يَ الْعَظِيمِ (تین بار) پاک ہے رب میرا بزرگی والا پاک ہے میرا رب جو بڑی بزرگی والا ہے
هرات کی قومہ (رکوع سے کھڑا ہو کر پڑھے ) سمع لَ كَ الْحَمْدُ نَا اللهُ ل مَنْ حَمِدَ هُ رَبَّ سُن لی اللہ کی جس تعریف کی اس اے رب ہمارے لئے تیرے تمام تعریف سُن لی اللہ نے اس کی جس نے اس کی تعریف کی.اے ہمارے رب تیرے لئے ہی تمام تعریفیں ہیں حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُّبْرَكًا فِي تعریف بہت پاکیزہ برکت والی میں جس بہت تعریفیں پاکیزہ اور برکت ہے جس میں اس کے بعد اللہ اکبر کہہ کر سجدہ میں جائے.سجدہ میں پڑھے الأغلى (تین بار) سُبْحَانَ رَبِّ يَ الْأَعْلَى پاک ہے سب میرا بلندشان والا ہے پاک ہے میرا رب جو بلند مرتبہ والا ہے.جلسہ (دوسجدوں کے درمیان بیٹھ کر پڑھے) اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِ ي وَارْحَمْ نـي وَ اهد ني اس اللہ بخش دے واسطے میرے اور رقم کر مجھے اور ہدایت دے مجھے اے اللہ بخش دے مجھ کو اور رحم کر مجھ پر اور ہدایت دے مجھے
و عاف ۷۲ ني وَ ارْفَعْ نـي وَ اجْبُرْ ني وَ ارْزُق ني اور تندرستی دے مجھے اور بلند مرتبہ کر میرا اور اصلاح کر میری اور رزق دے مجھے اور عافیت دے مجھے اور بلند مرتبہ کر میرا.اور میری اصلاح کر اور رزق دے مجھے پھر دوسرا سجدہ بھی پہلے کی طرح کرے.اور باقی رکعتیں بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھے.تشهد التَّحِيَّاتُ ل اللَّهِ وَ الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَتُ السَّلَامُ سب (زبانی تھے لئے اللہ اور نمازیں (بدنی عبادتیں) اور پاکیزہ اعمال (مالی عبادتیں) سلامتی ہو سب قسم کے تحفے اللہ کے لئے ہیں.اور نمازیں اور پاکیزہ اعمال.سلامتی ہو عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَكَاتُ هُ السَّلَامُ عَلَيْ نَا کر تجھے اے نبی اور رحمت اللہ اور برکتیں اس سلامتی ہو پر ہم تجھ پر اے نبی اور رحمت اللہ کی اور برکتیں اُس کی.سلامتی ہو ہم پر وَ عَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّلِحِيْنَ اَشْهَدُ أَنْ لا إِلهَ الا الله بندے اللہ ایک میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں کوئی معبود مگر اللہ اور پر اور اللہ کے نیک بندوں پر.میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ وَ رَسُوْلُ : اور میں گواہی دیتا ہوں یہ کہ محمد بندے اس اور رسول اس اور میں گواہی دیتا ہوں یہ کہ محمد اُس کے بندے اور اُس کے رسول ہیں
۷۳ درود شریف صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى ال مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى اے اللہ رحمت بھیج پر محمد اور پر آل محمد جیسے رحمت کی تونے پر اے اللہ رحمت بھیج محمد پر اور آل محمد پر جیسے رحمت کی تُو نے إِبْرَاهِيمَ وَ عَلَى الى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ابراہیم اور پر آل ابراہیم یقینا تو تعریف والا بزرگی والا ابراہیم پر اور ابراہیم کی آل پر ابراہیم کی آل پر یقینا تو ہی تعریف والا اور بزرگی والا ہے اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى اسے اللہ برکت بھیج پر محمد اور پر آل محمد جیسا کہ برکت بھیجی ٹونے پر اے اللہ برکت بھیج محمد پر اور آل محمد پر جیسے برکت بھیجی تو نے إِبْرَاهِيمَ وَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ابراہیم اور پر آل ابراهیم یقیناً تو تعریف والا بزرگی والا ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر یقینا تو ہی تعریف والا اور بزرگی والا ہے درود کے بعد کی دُعائیں رَبَّ نَا اتِ نَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ اے رب ہمارے دے ہمیں میں دُنیا بھلائی اور میں آخرت بھلائی اے ہمارے رب دے ہمیں دُنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی
وَّ قِ نَا عَذَابَ النَّارِ رَبِّ اجْعَلْ نـي مُقِيمَ الصَّلوة و اور بچا ہمیں عذاب آگ بنا مجھے قائم کرنے والا نماز اور اور بچا ہمیں آگ کے عذاب سے.اے میرے رب بنا مجھے قائم کرنے والا نماز کا اور مِنْ ذُرِّيَّةِ ي رَبَّ نَا وَ تَقَبَّلْ دُعَاءِ رَبَّ نَا اغْفِرْ رے سے اولاد میری اے ہمارے اور قبول فرما دُعا میری اے در ہمار بخش د.میری اولاد کو بھی اے ہمارے رب قبول فرما میری دُعا اے ہمارے رب بخش د.ل ي وَل وَالِدَيْ يَ وَ لِ الْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقَوْمَ وَلِ الْحِسَابُ.مجھے اور کو ماں باپ میرے اور واسطے سب مومنٹوں دن قائم ہوگا حساب مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور سب مومنوں کو جس دن کہ قائم ہوگا حساب.کو رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِ ي ظُلْمًا كَثِيرًا فَ اغْفِرْ لِ ے رب یقین میں ظلم کیا جان اپنی پس بخش دے واسطے میرے اے میرے رب یقیناً میں نے ظلم کئے اپنی جان پر بہت ظلم پس بخش دے مجھ کو ذُنُوب ي فَ إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ وَارْحَمْ نـي گناہ میرے پس یقینا نہیں بخت گناہوں مگر تو اور رحم کر مجھ پر میرے گناہ پس یقیناً نہیں کوئی بخشتا گناہوں کو مگر تو ہی اور رحم کر مجھ پر إِنَّ كَ اَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيْمُ اللَّهُمَّ إِنِّي اَعُوْذُ يقيناً تو ہی بخشنے والا مهربان اے اللہ یقینا میں پناہ مانگتا ہوں یقیناً تو ہی بخشنے والا اور مہربان ہے.اے اللہ یقیناً میں پناہ مانگتا ہوں
۷۵ بكَ مِنَ مِنَ الْهَمِّ وَ الْحُزْن وَ الْعَجْز وَ الْكَسْل وَ الْجُبْن وَ تیری تم اور نا ہر بے سرو سامانی در نشستی اور نیوٹی اور رنج اور اور بُزدلی تیری غم اور رنج سے اور بے سروسامانی اور بے سروسامانی اور سستی اور بُزدلی اور الْبُخْلِ وَ غَلَبَةِ الدَّيْنِ وَ قَهْرِ الرِّجَالِ.اَللَّهُمَّ اكْفِ نِي بِ حَلَالِ كَ کنجوسی اور غلبہ قرض اور سختی آدمیوں اے اللہ بچا مجھے ساتھ حلال اپنے کنجوسی اور قرض کے غلبہ سے اور آدمیوں کی سختی سے.اے اللہ بچا مجھے اپنے حلال کے ساتھ عَنْ حَرَامِ رَام کَ وَ اَغْنِ ن ي ب فَضْلِ كَ عَنْ مَّنْ سِوَى كَ سے حرام اپنے اور بے پروا کر دے مجھے ساتھ فضل اپنے سے جو سوائے تیر.فضل اپنے سے جو سوائے تیرے اپنے حرام سے اور بے پروا کر دے مجھے اپنے فضل اس سے جو تیرے سوا فرض نماز کے بعد کی دُعائیں اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَ مِنْ كَ السَّلَامُ وَ إِلَيْكَ يَرْجِعُ السَّلَامُ اسے اللہ کو سلام اور سے تجھے سلامتی اور طرف تیری ہوتی ہے سلامتی تو اے اللہ تو سلام ہے اور تجھ سے سلامتی ہے اور تیری ہی طرف لوٹتی ہے سلامتی تَبَا رَكْتَ وَ تَعَالَيْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِكْرَامِ برکت والا ہے تو اور بلند ہے تیری شان اے والے شوکت اور بزرگی برکت والا ہے تو اور بلندشان ہے تیری اے جلال والے اور اکرام والے
سُبْحَنَ اللَّهِ - ۳۳ بار الْحَمْدُ ل الله ۳۳ بار اللهُ اَكْبَرُ - ۳۴ بار پاک اللہ سب تعریفیں لئے اللہ الله بڑا پاک ہے اللہ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اللہ ہی سب سے بڑا ہے آیة الکرسی اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ اللہ نہیں معبود وَ مگر وہ وہ زندہ قائم رکھنے والا نہیں آتی اُس اُونگھ اور نہ نیند اللہ ہی ہے کہ نہیں کوئی معبود مگر وہی جو زندہ اور قائم رہنے والا ہے.نہیں آتی اس کو اونگھ اور نہ نیند لَ ه مَا فِى السَّمَوَاتِ وَ مَا فِى الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ جائے اس جو میں آسانوں اور جو میں زمین کون ہے جو سفارش کرے اُسی کا ہے جو آسمانوں اور جو زمین میں ہے.کون ہے جو سفارش کرے عِنْدَه الا ب إِذْن ؟ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِي هِمْ وَ مَا خَلْفَ هُمْ پاس اُس مگر ساتھ اجازت اُس جانتا ہے جو سامنے ان اور جو پیچھے اُن اس کے پاس سوائے اس کی اجازت کے وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے.اور جو اُن کے پیچھے ہے وَ لَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمٍ ، إِلَّا بِ مَا شَاءَ وَسِعَ ة اور انہیں دوا حال کر کتے کا چھ سے علم اس عمر جو وہ چاہے گھیر لیا ہے وہ احاطہ اور نہیں وہ احاطہ کر سکتے کچھ بھی اس کے علم سے مگر جو وہ چاہے گھیر لیا ہے
LL كُرْسِيُّهُ السَّمواتِ وَ الْاَرْضَ وَ لَا يَئُودُ هُ حِفْظُ هُمَا حکومت اس آسمانوں اور زمین اور نہیں تھکائی اس حفاظت ان دونو اُس کی حکومت نے آسمانوں اور زمین کو اور نہیں تھکاتی اُس کو حفاظت ان دونو کی اور هُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ وہ بلند مرتبہ عظمت والا اور وہ ہی بلند مرتبہ اور عظمت والا ہے دُعا قُتوت اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِيْنُ كَ وَ نَسْتَغْفِرُ كَ وَ نُؤْمِنُ اے اللہ یقیناً ہم مدد مانگتے ہیں تیری اور بخشش مانگتے ہیں تیری اور ایمان لاتے ہیں پر تجھ اے اللہ یقیناً ہم تیری مدد مانگتے ہیں اور ہم تجھ سے بخشش مانگتے ہیں اور ہم ایمان لاتے ہیں تجھ پر عَلَيْكَ وَ نُثْنِي عَلَيْكَ وَ نَشْكُرُ كَ وَ نَتَوَكَّلُ وہ اور ہم بھروسہ کرتے ہیں کہ تجھے اور ہم تعریف کرتے ہیں میری اور ہم شکر کرتے ہیں حمیرا پر اور ہم تجھ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں اور ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور ہم شکر کرتے ہیں تیرا وَ لَا نَكْفُرُ وَ نَخْلَعُ وَ نَتْرُكُ مَنْ اور نہیں چھری کرتے ہیں تیری اور ہم الگ ہوتے ہیں اور ہم چھڑاتے ہیں جو اور نہیں ہم ناشکری کرتے تیری اور ہم الگ ہوتے ہیں اور ہم چھوڑتے ہیں اُسکو جو
و و يفجر ۷۸ كَ اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ لَكَ نُصَلِّي وَ نافرمانی کرے تیری اے اللہ تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور لئے تیرے ہم نماز پڑھتے ہیں نافرمانی کرے تیری اے اللہ تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تیرے لئے ہم نماز پڑھتے ہیں وَ إِلَيْكَ نَسْعَی وَ نَحْفِدُ و نَرْجُوا نَسْجُدُ ہم سجدہ کرتے ہیں اور طرف تیری ہم دوڑتے ہیں اور ہم حاضر ہوتے ہیں اور ہم امید رکھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور تیری طرف ہم دوڑتے ہیں اور ہم خادمانہ حالت میں حاضر ہیں اور ہم امید رکھتے ہیں رَحْمَتَ كَ وَ نَخْشَى عَذَابَكَ إِنَّ عَذَابَ كَبِ الْكُفَّارِ مُلْحِقُ رحمت تیری اور ہم ڈرتے ہیں عذاب تیرے یقیناً عذاب تیرا ساتھ کفار لگ جانے والا تیری رحمت کی اور ہم ڈرتے ہیں تیرے عذاب سے یقینا تیرا عذاب کفار کولگ جانے والا ہے دوسری دعاقوت اللَّهُمَّ اهْدِ نِي فِي مَنْ هَدَيْتَ عَافِ نيْ فِي مَنْ اساللہ ہدایت دے مجھے میں اس جا تے ہی ٹوٹے اور مائی ہے مجھے میں اس ہدایت دے دے اے اللہ ہدایت دے مجھے اس کے ساتھ کہ ہدایت دی تو نے اور عافیت دے مجھے اس کے ساتھ جسے وَ تَوَلَّ ذِي فِي مَنْ تَوَلَّيْتَ وَ بارک عَافَيْتَ عافیت دی ٹونے اور دوست ہو میرا میں اس دوست کا یا ٹونے اور برکت دے بنایا عافیت دی تو نے.اور دوست رکھ مجھے اس کے ساتھ جسے تُو نے دوست بنایا اور برکت دے
6496 مَا قَضَيْتَ ل ي فِي مَا أَعْطَيْتَ وَ قِ نـي شَرَّ کو مجھ میں مجھے دی ہونے اور کیا مجھے کمرے نتیجہ جو فیصلہ کیا تو نے بچا مجھ کو اس میں جو دیا تو نے مجھے کو.اور بچا مجھے بُرے نتیجہ سے جو فیصلہ کیا تو نے ف إِنَّكَ تَقْضِيْ وَ لَا يُقْضَى عَلَى كَ إِنَّهُ لَا يَذِلُّ پس یقیناً یقین کو حکم کرتا ہے اور نہیں حکم کیا جاتا پر تجھے یقینا وہ انہیں ذلیل ہوتا پس یقینا تو ہی حکم کرتا ہے اور نہیں حکم کیا جاتا تجھ پر یقیناً وہ ذلیل نہیں ہوتا والَيْتَ وَ إِنَّ هُ لَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ تَبَارَكْتَ مَنْ جس (کا) دوست ہوتو اور یقیناً وہ نہیں عزت پاتا جس کو دشمن ہو برکت والا تو تو جس کا تو دوست ہو اور یقیناً وہ عزت نہیں پاتا جس کا تو دشمن ہو.برکت والا ہے تو نا وَ تَعَالَيْتَ وَ صَلَّى اللهُ عَلَى النَّبِيِّ خَيْرِ رَبَّ ہمارے اور بلند مرتبہ تو اور رحمت نازل فرمائے اللہ پر نبی بہترین اے ہمارے رب اور بلند مرتبہ ہے تو اور رحمت نازل فرمائے اللہ نبی پر جو بہترین ہیں و ال ه وَ أَصْحَابِ : أَجْمَعِيْنَ ة خلقت اپنی اور آل اس (کی) اور اصحاب اس سب خلقت اور اس کی آل پر اور اس کی آل پر اور اس کے سب صحابہ پر.
نوٹ نمبر (۱):.دعاء قنوت نماز وتر کی تیسری رکعت میں رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد پڑھنی چاہئے.نماز وتر کی تین رکعت ہیں.جس کے پڑھنے کا وقت نماز عشاء کے بعد سے صبح صادق تک ہے.بہتر ہے کہ نماز وتر سونے سے پہلے پڑھ لی جائے.نوٹ نمبر (۲):- نماز کے دوسرے تمام مسائل انشاء اللہ تعالیٰ دینیات کی دوسری کتاب میں درج کئے جائیں گے.
چھٹا باب سوانح حضرت مسیح موعود علیہ السّلام جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ ہماری جماعت کا نام احمدیہ جماعت ہے اور اس جماعت کو قائم کرنے والے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.جنہیں ہم لوگ خدا کا پیارا نجی مسیح موعود و مہدی معہود مانتے ہیں.آج تمہیں ہم آپ کی زندگی کے کچھ حالات سُناتے ہیں.آپ کا نام (حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ( علیہ السّلام) ہے.آپ کے والد کا نام حضرت مرزا غلام مرتضی تھا اور والدہ ماجدہ کا نام چراغ بی بی تھا.جو ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھیں.آپ کے خاندان کی ابتدا یوں بیان کی جاتی ہے کہ قریباً ۱۵۳۰ء میں جب کہ بابر بادشاہ کا زمانہ تھا.ایک شخص مرزا ہادی بیگ نامی جو امیر تیمور کے چا حاجی برلاس کی نسل میں سے تھا اور ایک با اثر اور علم دوست رئیس تھا.اپنے چند عزیزوں اور خدمت گاروں کے ساتھ اپنے وطن سمر قند سے نکل کر ہندوستان پہنچا.اور پنجاب میں لاہور سے قریباً ۷۰ میل شمال مشرق کی طرف بڑھ کر دریائے بیاس کے قریب ایک جنگل میں ڈیرا لگا دیا.ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ مرزا ہادی بیگ کو دہلی کی شاہی حکومت کی طرف
سے اس علاقہ کا قاضی یعنی حاکم اعلیٰ مقرر کیا گیا.چونکہ اپنے ڈیرے اور کیمپ کا نام آپ نے اسلام پور رکھا تھا.اس لئے قضاء کا عہدہ ملنے کے بعد لوگوں میں اسلام پور قاضیاں مشہور ہو گیا.اور پھر کثرت استعمال کی وجہ سے اسلام پور کا لفظ اُڑ کر فقط قاضیاں اور پھر قاضیان سے بالآخر قادیان بن گیا.آپ کی جائے پیدائش یہی قصبہ قادیان ہے.جو آج مرجع خلائق بنا ہوا ہے.آپ کی پیدائش بروز جمعہ بوقت نماز فجر ۱۴ شوال ۱۲۵۰ھ مطابق ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء اس حال میں ہوئی کہ پہلے ایک لڑکی پیدا ہوئی.اور اس کے بعد آپ پیدا ہوئے.اُس لڑکی کا نام جنت رکھا گیا.جو جلد ہی فوت ہوگئی.آپ کا نام غلام احمد رکھا گیا.لفظ مرزا بطور لقب مغل خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے بعد میں ساتھ ملایا گیا.آپ دراصل فارسی الاصل ہیں.مغلیہ خاندان سے تعلقات کے سبب آپ مغل مشہور ہیں.ورنہ آپ نسلی لحاظ سے مغل نہیں.بلکہ فارسی الاصل ہیں.اور آپ کی بعض دادیاں اور نانیاں سادات میں سے تھیں.آپ کا بچپن آپ کا چونکہ ایک معزز گھرانے سے تعلق تھا.اور اس لحاظ سے بھی کہ اللہ تعالیٰ آپ سے اسلام کی بہت بڑی خدمت لینا چاہتا تھا.اس لئے آپ کا بچپن نہایت پاکیزہ حالات میں گزرا.عام بچوں کی طرح آپ زیادہ وقت کھیل کود میں صرف نہیں کرتے تھے.بلکہ
۸۳ زیادہ وقت علیحدگی میں گزارتے اور نیک باتیں سوچتے رہتے تھے.ایک عجیب واقعہ آپ کے بچپن کا ایک عجیب واقعہ یہ ہے کہ جب کہ آپ کی عمر ابھی بہت چھوٹی تھی ایک اپنی ہم عمر لڑکی سے (جس سے بعد میں بڑے ہو کر آپ کی شادی ہوئی ) کہا کرتے تھے کہ نا مرادے دُعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے.“ عزیز بچو ! اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ بچپن ہی میں کیسے نیک خیالات رکھتے تھے.نماز کا آپ کو کس قدر شوق تھا کہ دوسرے بچوں سے بھی دُعا کے لئے کہتے تھے.آپ کی تعلیم تو ابھی آپ کی چھوٹی ہی عمر تھی کہ آپ کے والد بزرگوار نے آپ کے لئے ایک اُستاد جن کا نام فضل الہی تھا آپ کی تعلیم کے لئے مقرر کر دیا.جن سے آپ نے قرآن مجید اور فارسی کی چند کتب پڑھیں.ان کے بعد فضل احمد صاحب اور گل علی شاہ صاحب نے یکے بعد دیگرے آپ کو کچھ صرف ونحو اور منطق کی کتب پڑھا ئیں.جن سے آپ کو کچھ عر بی اور فارسی سمجھنی اور بولنی آگئی.آپ کی جوانی آپ کی جوانی کے ایام اپنے والد صاحب کے احکام کی تعمیل میں گزرے.آپ کا دنیا کی طرف کوئی رُجحان نہ تھا.لیکن اپنے والد صاحب کے فرمان کے مطابق آپ کو بعض
دفعہ مقدمات میں بھی جانا پڑا.مگر آپ نے کبھی سچ کو نہ چھوڑا اور اگر دوران مقدمہ میں نماز کا وقت آگیا تو نماز بہر حال وقت پر ادا کر لیتے.آپ کو جو کچھ فرصت ملتی اس میں دینی کتب کا مطالعہ کرتے رہتے.اور زیادہ تر قرآن مجید کی آیات کے سمجھنے کی طرف دھیان رکھتے تھے.آپ کی شادی اُنہی ایام میں آپ کے والد صاحب نے آپ کی شادی ایک عورت سے جن کا نام حرمت بی بی تھا کر دی.جو گوان کے عزیزوں میں سے تھیں.لیکن دین کی طرف سے غافل تھیں.زیادہ تر دُنیا کے خیالات میں غرق رہتی تھیں.اُن سے دو بچے پیدا ہوئے.ایک کا نام مرزا افضل احمد اور دوسرے کا نام مرز اسلطان احمد تھا.چونکہ آپ ہمیشہ دین کی طرف زیادہ دھیان دیتے اور دُنیا سے بیزار رہتے تھے.لیکن اس کے برعکس بیوی کے خیالات زیادہ تر دنیاداری کی طرف تھے.اسلئے ان دو بچوں کی پیدائش کے بعد آپ کی اپنی اس بیوی سے علیحدگی رہی.اور بالآخر پوری جُدائی ہوگئی.آپ کی ملا زمت چونکہ آپ اپنے والد صاحب کے نہایت فرماں بردار بیٹے تھے اس لئے باوجود یکہ آپ دُنیا داری کے کاموں سے سخت منتظر تھے مگر پھر بھی جیسے والد صاحب کا حکم ہوتا ویسے اس کی تعمیل کرتے.چنانچہ آپ کو قریباً ۱۸۷۴ء میں اپنے والد صاحب کے حکم کے مطابق سیالکوٹ کے دفتر ضلع میں سرکاری ملازمت اختیار کرنی پڑی.آپ کم و بیش ۴ سال
۸۵ سیالکوٹ میں ملازم رہے.لیکن یہ عرصہ بھی زیادہ تر آپ کے دینی مشاغل میں صرف ہوا.عیسائیوں سے آپ کی مذہبی گفتگو بھی ہوتی رہی.باوجود مخالفت کے عیسائی پادری بھی آپ کے اعلیٰ اخلاق.عمدہ تہذیب اور شستہ کلامی کے گرویدہ تھے.چنانچہ وہاں کے انگریز پادری مسٹر بٹلر ایم.اے جب اپنے وطن انگلستان جانے لگے تو آپ سے ڈپٹی کمشنر صاحب کے دفتر میں آخری ملاقات کر کے گئے.۱۸۶۵ء کے قریب قریب آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا.اور ۱۸۷۶ء میں آپ کے والد بزرگوار کا.اور اُن کی وصیت کے مطابق قادیان کی جامع مسجد کے صحن میں جس کا نام مسجد اقصیٰ ہے.انہیں دفن کیا گیا.آپ کو والد صاحب کی وفات کے متعلق کچھ فکر اور غم سا پیدا ہوا.تو فور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے اس الہام کے ذریعہ تسلی دی کہ:.أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ یعنی کیا خُدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں.خدا پر بھروسہ رکھو.وہ سب سامان کر دے گا.آپ کی محنت کشی اوپر بیان ہو چکا ہے کہ آپ دُنیا سے منتظر تھے.لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ سُست طبع تھے.بلکہ آپ نہایت جفاکش اور لگا تار محنت کرنے کے عادی تھے.جب کبھی آپ کو کسی سفر پر جانا ہوتا.تو سواری کا گھوڑا نوکر کے ہاتھ آپ آگے روانہ کر دیتے اور خود پیدل ہی ۲۰.۲۵ میل کا سفر طے کر کے پہنچ جاتے.
۸۶ آپ کا مجاہدہ اور ایشیار انہی دنوں کا ذکر ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے منشاء اور سُنّتِ انبیاء کے مطابق متواتر ۶ ماہ کے روزے رکھے.بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ جو کھانا گھر سے آتا وہ آپ غریبوں کو دے دیتے.اور خود خالی پیٹ رہتے.آپ کو شروع سے ہی یہ عادت تھی کہ کھانا کم کھاتے تھے.اور غریبوں میں بانٹ دیا کرتے تھے.اور بعض دفعہ خود تو چنے بھنوا کر گزارہ کر لیتے.اور اپنا کھا نا غریبوں کو دے دیا کرتے.اسی لئے آپ کی مجلس میں غریبوں اور محتاجوں کا اکثر ہجوم رہتا تھا.آپ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب نے اپنے والد بزرگوار کی وفات کے بعد چونکہ ساری جائداد پر قبضہ کر رکھا تھا.اور آپ اپنی حیادار طبیعت کی وجہ سے اُن سے اتنا بھی مطالبہ نہیں کر سکتے تھے کہ میرا حصہ جائداد مجھے دے دو.اس لئے آپ کے یہ ایام نہایت تنگی میں گزرے.گو آپ کے بھائی صاحب آپ کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے.اور آپ سے ایک حد تک محبت بھی رکھتے تھے.لیکن وہ اپنے دنیاوی کاموں میں مصروفیت کے سبب آپ کا پورا خیال نہیں رکھ سکتے تھے.لیکن آپ نے نہایت صبر وشکر اور استقلال کے ساتھ اُن کی وفات تک ( جو ۱۸۸۴ء میں ہوئی) یہ آزمائش کے دن گزار دئے.حضرت مسیح موعود اللی کا پبلک میں آنا ۱۸۷ء تک جب کہ آپ کے والد بزرگوار کی وفات ہوئی.آپ کی زندگی گوشہ نشینی میں گزری.مگر اس کے بعد آپ نے پبلک میں آہستہ آہستہ آنا شروع کیا.بلکہ اللہ تعالیٰ ہی
آپ کو اس گوشی تنہائی سے کھینچ کر باہر لایا.انہی ایام میں پنڈت دیانند سرسوتی کی تحریک سے ہندوؤں میں ایک جوشیلی جماعت آریہ سماج قائم ہوئی.اور عیسائی پادریوں نے ۱۸۵۷ء کے غدر کے بعد سر اٹھا نا شروع کیا.ایک طرف آریہ سماج کے جوشیلے ممبر اور دوسری طرف عیسائی پادری اِسلام کے قلعہ پر بڑے جوش و خروش کے ساتھ چڑھ دوڑے.اور اسلام اور حضرت بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف غلط اور بیہودہ اعتراضات کی بھر مار شروع کر دی.اُن کی اس یلغار کی تاب نہ لا کر بہت سے نام کے مسلمان دھڑا دھڑ اسلام کو خیر باد کہ کر بپتسمہ لینے لگ پڑے.جب اس طرح عیسائیوں نے گھلے بندوں قلعہ اسلام پر حملے شروع کر دیئے تو خدا کا یہ بہا در پہلوان اسلام کی اس بے بسی اور بے گسی پر بے قرار ہو کر اٹھا اور دشمنانِ اسلام کے مقابل تنِ تنہا سینہ سپر ہو کر کھڑا ہو گیا.آپ نے دس ہزار روپیہ کے انعامی چیلنج کے ساتھ ایک کتاب براہین احمدیہ شائع فرمائی.جس کے چار حصوں میں اسلام کی صداقت ، قرآن مجید کی فضیلت.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان ، خدا تعالیٰ کے زندہ اور موجو دہونے اور ضرورت الہام پر زبردست دلائل پیش کئے.اس کتاب کا شائع ہونا تھا کہ ایک طرف تو ان قوموں کے ہوش ٹھکانے آگئے.جو اسلام کو کھا جانے کے لئے اٹھی تھیں کیونکہ اب انہیں خود اپنے گھر کی فکر پڑ گئی کہ ہم جسے کمزور سمجھ کر چھا جانے لگے تھے وہ کہیں ہمیں نگل نہ جائے.اور دوسری طرف مسلمانوں کے جو مخالفین اسلام کے پیہم حملوں سے سہمے ہوئے تھے، حوصلے بلند ہو گئے.اور ان کی نظریں خدا کے اس پہلوان پر اس امید سے جم گئیں کہ اب اسلام کا جھنڈا بلند ہو کر رہے
٨٨٠ گا.اور بعض نے یہاں تک کہہ دیا.ہم مریضوں کی ہے بھی یہ نظر تم مسیحا بنو خُدا کے لئے! اہل حدیث فرقہ کے مشہور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے جو بعد میں آپ کا شدید دشمن ہو گیا.براہین احمدیہ کو دیکھ کر یہاں تک لکھ دیا کہ:.” ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے کہ جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی...اس کا مؤقف بھی اسلام کی مالی.جانی قلمی و لسانی و حالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے.جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی جاتی ہے.“ اشاعت السنت جلد ۷، ۶ ۱۸۸۶ء) براہین احمدیہ کو آپ نے چار حصوں میں مکمل کیا جو ۱۸۸ء سے ۱۸۸۴ ء تک شائع ہو کر لوگوں تک پہنچا دئے گئے.مارچ ۱۸۸۲ء میں آپ کو خدا تعالیٰ نے دُنیا کی اصلاح کے لئے مامور فرماتے ہوئے یہ الہام نازل فرمایا :.قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ (براہین احمدیہ حصّہ سوم ) یعنی تو لوگوں سے کہہ دے کہ مجھے خدا کی طرف سے مامور (لوگوں کی اصلاح کے لئے مقرر ) کیا گیا ہے.اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں.۱۸۸۴ء میں آپ نے مجد دیت کا دعویٰ کیا.یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ دین اسلام کو نئی شان و شوکت بخشنے کا ارادہ ظاہر فرمایا.
۸۹ ۱۸۸۴ء کے آخر میں خُدائی بشارات کے ماتحت دہلی کے ایک معز ز خاندان میں آپ کی دوسری شادی ہوئی.آپ کی زوجہ محترمہ کا نام حضرت نصرت جہان بیگم صاحبہ ہے.جو ۶ ۸ سال کی عمر میں مورخہ ۲۰ ۲۱ / اپریل ۱۹۵۲ء کی درمیانی رات کو ربوہ (پاکستان ) میں وفات پاگئیں.آپ جماعت احمدیہ میں اُم المومنین یعنی مومنوں کی ماں کہلاتی ہیں.آپ کی اس نیک اور پارسا بیوی سے تمام اولاد اللہ تعالیٰ کی بشارت سے پیدا ہوئی ہے.جنوری ۱۸۸۶ء میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے ہوشیار پور جا کر ۴۰ دن تک خلوت میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی.جس کے نتیجہ میں خدا نے آپ کو ایک خاص فرزند دینے کا وعدہ فرمایا جس کے آنے کو اپنے جلال اور نور کے پھیلانے اور اسلام کی ترقی اور غلبہ کا موجب قرار دیا.چنانچه بروز ہفتہ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء ده فرزند پیدا ہوا.جن کا نام نامی اور اسم گرامی حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد ہے.جو ہمارے موجودہ امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کے نانا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے خلیفہ اور مصلح موعود تھے.جنہیں اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا مرتبہ عطا فرمایا.اور خدا کے الہام کے مطابق اُن سے قو میں برکتیں حاصل کرتی رہیں.امیر رستگار ہوتے رہے.اور خُدا کا جلال دُنیا میں ظاہر ہوا.دو یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو آپ نے یکے بعد دیگرے اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر بیعت لینے کا اشتہار شائع فرمایا.اور مارچ ۱۸۸۹ء میں بمقام لدھیانہ قریبا چالیس آدمیوں نے آپ کے ہاتھ پر اس
بات کا عہد کر کے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گئے بیعت کی.اواخر ۱۸۹۰ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ:.مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے.“ ( تذکره صفحه ۱۸۶ و۱۸۷) اس پر آپ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات اور اپنے مسیح موعود ہونے کا اعلان فرمایا:.اس اعلان کا کرنا تھا کہ چاروں طرف سے مخالفت کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا.ایک طرف مولوی لوگ آپ کے خلاف کمر بستہ ہو گئے.اور دوسری طرف پنڈت اور پادری صف آراء ہوئے مگر آپ نے باوجودا کیلا ہونے کے ہر ایک کا مقابلہ کیا.اور اسلام کی تائید میں مخالفین کے اعتراضات کے جوابات میں آپ نے ۸۰ کے قریب کتابیں لکھیں.اور سینکڑوں اشتہارات شائع فرمائے.مخالفین اسلام باوجو داپنی کثرت، طاقت اور اثر ورسوخ کے آپ کے مقابلہ میں ہر جگہ ناکام و نامر ادر ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائی.بالآخر اسلام کی ایک بہت بڑی خدمت گزار اور مضبوط جماعت جو ہزاروں ہزار اشخاص پر مشتمل تھی اپنے پیچھے چھوڑ کر ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو بمقام لاہور جب کہ حضور اپنے کام کی تکمیل کے طور پر ایک کتاب ”پیغام صلح لکھ رہے تھے اللہ تعالیٰ کے فرمان :.اَلرَّحِيْلُ - ثُمَّ الرَّحِيْلُ - گوچ (دنیاوی سفر ) پھر گوچ ( آخری سفر ).کے مطابق اپنے مولیٰ کریم کے پاس پہنچ گئے.وہاں سے آپ کا جنازہ قادیان لایا گیا.اور
بہشتی مقبرہ آپ کی ہمیشہ کی آرام گاہ بنا.اللَّهُمَّ صَلَّ وَسَلّمْ عَلَيْهِ وَعَلَى مُطَاعِبَ وَعَلَى جَمِيعِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِيْنَ.امين يا ارحم الراحمين.اے اللہ ! تو فضل اور سلامتی نازل فرما آپ پر اور آپ کے مطاع حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور تمام نبیوں اور رسولوں اور خدا کے نیک بندوں پر.آمین (یا الہ تو قبول فرما) مشکل الفاظ کا حل:.(۱) مرجع خلائق.لوگوں کے لوٹنے کی جگہ.جہاں لوگ بار بار آئیں.(۲) سمر قند.سمر اور کند سے ملا جلا نام ہے.سمر ایک بادشاہ کا نام ہے.اور کند ترکی زبان میں شہر کو کہتے ہیں.یعنی سمر کا بنایا ہوا شہر.یہ شہر چینی ترکستان میں ہے اور ایک بہت بڑا مشہور شہر ہے.(۳) فارسی الاصل.جو اپنے اصل کے لحاظ سے ملک فارس یا فارسی خاندان سے تعلق رکھتا ہو.(۴) سادات.سید کی جمع ہے.حضرت علی کی وہ نسل جو حضرت فاطمہ سے چلی ہے سادات کہلاتی ہے.سید کے معنے سردار کے ہیں.(۵) صرف کے معنے پھیرنا.اصطلاح میں اُس علم کا نام بھی ہے.جس میں کلمات کے بنانے کے قواعد درج ہوں.(1) نحو کے معنے طرف یا طریقے کے ہیں.اصطلاح میں اُس علم کا بھی نام ہے جس میں کلمات کو ایک خاص ترتیب سے رکھنے اور پڑھنے کے قواعد درج ہوں.
(۷) منطق.زبان یا بولی کو کہتے ہیں.اور اصطلاح میں اُس علم کو بھی کہتے ہیں جس میں ایسے قوانین جمع کئے جائیں جن کی رعایت رکھنے سے انسان ذھنی غلطی سے بیچ جائے.کو کہنا.(۸) احکام حکم کی جمع ہے جس کے معنے ہیں.فیصلہ دینا.کسی بات کے کرنے (4) تعمیل عمل میں لانا.پورا کرنا.(۱۰) منتظر نفرت کرنے والا.بُرا سمجھنے والا.(۱۱) تہذیب.آراستہ کرنا.سنوارنا.مُراد یہ ہے کہ ہر کام عمدگی سے کرنا.(۱۲) شستہ کلامی.صاف اور عمدہ طریق سے بات چیت کرنا.(۱۳) گرویدہ ہونا.عاشق ہونا.لگو ہونا.(۱۴) انتقال.اس جہان سے گزرجانا.فوت ہو جانا.(۱۵) وصیت.نصیحت.مرتے وقت مرنے والا جو حکم کرے.(۱۲) دُنیاوی معاش.دُنیا میں رہنے کا گزارہ.(۱۷) جفاکش.خوب سختی سے محنت کرنے والا.(۱۸) مشقت.خوب محنت کرنا.(۱۹) مجاہدہ.خُدا کی راہ میں کوشش کرنا.(۲۰) ایثار.اپنی ضرورت پر دُوسرے کی ضرورت کو مقدم کرنا.(۲۱) گوش شینی.ایک رکنارہ پر بیٹھنا.الگ تھلگ رہنا.(۲۲) بپتسمہ لینا.عیسائی ہونا.جب کسی کو عیسائی کرتے ہیں تو اس پر ایک قسم کا
رنگ ڈالتے ہیں.۰۹۳۰ (۲۳) مؤلّف.بعض حوالوں کو تر تیب دے کر کتاب بنانے والا.(۲۴) اِسلام کی جانی.مالی.قلمی.لسانی اور حالی نصرت.یعنی اسلام کے لئے اپنا مال ، اپنی جان دے دینا اور قلم سے، زبان سے اور اپنے وقت سے اسلام کی مدد کرنا.(۲۵) رستگار ہونا.چھوٹ جانا.نجات پانا.(۲۶) دین کو دُنیا پر مقدم کرنا.یعنی جب دین کا کام سامنے آجائے تو اپنے دنیا کے کام کو چھوڑ کر پہلے دین کا کام کرنا.(۲۷) مشتمل.باتوں کا مجموعہ (۲۸) الہام.اشارہ کرنا.دل میں بات ڈالنا.خدا تعالیٰ کا اپنے بندے سے کلام کرنا.سوالات:- کرے.(۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پورا نام اور آپ کے والد ین کا پورا نام بتاؤ.(۲) قادیان کا اصل نام کیا تھا؟ اور کس طرح قادیان بنا ؟ (۳) آپ کی تاریخ پیدائش کیا ہے؟ (۴) آپ کے بچپن کا کوئی واقعہ بتاؤ.جو جفا کشی اور خدا ئی تعلق پر دلالت (۵) آپ کی جوانی کا زمانہ کیسے گزرا؟
ماله (۲) آپ کی محنت کشی کی کوئی مثال دو.(۷) آپ کے والد صاحب کی وفات پر آپ کو گوشسا الہام ہوا تھا ؟ (۸) آپ نے اپنے مسیح موعود ہونے کا اعلان کب اور کس بنا ء پر کیا ؟ (۹) آپ کی وفات کب اور کہاں ہوئی.دس شرائط بیعت (فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام) اوّل:.بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اُس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے متنب رہے گا.دوم:.یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور خیانت اور فساداور بغاوت کے طریقوں سے بچتارہے گا.اور نفسانی جوشوں کے وقت اُن کا مغلوب نہیں ہوگا اگر چہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے.سوم: یہ کہ بلا ناغہ پنجوقت نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گنا ہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اُس کی حمد اور تعریف کو ہر روز اپنا ورد بنائے گا.
۰۹۵۰ چہارم : یہ کہ عام خلق اللہ کوعموما اور مسلمانوں کو خصوصا اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا.نہ زبان سے، نہ ہاتھ سے ، نہ کسی اور طرح سے.پنجم :.یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عسر اور ٹیسر اور نعمت اور بلا میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضاء ہوگا.اور ہر ایک ذلت اور دُکھ کے قبول کرنے کے لئے اُس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اُس سے منہ نہیں پھرے گا بلکہ قدم آگے بڑھائے گا.ششم :.یہ کہ انتبارع رسم اور متابعت ہو او ہوس سے باز آجائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے اوپر قبول کرے گا اور قَالَ اللهُ اور قَالَ الرَّسُول کو اپنے ہر ایک راہ میں دستورالعمل قرار دے گا.ہفتم: یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور علیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.ہشتم:.یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولا داور اپنے ہر ایک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.ہم :.یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.دہم :.یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض اللہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اُس پرتا وقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہوگا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور ناطوں اور تمام خاد مانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.(اشتہار تکمیل تبلیغ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء)
ساتواں باب اخلاق حسنه نمبر (۱) اخلاق خُلق کی جمع ہے.خلق سخ کی فتح کے ساتھ ظاہری پیدائش کا نام ہے.اور خلق سخ کی پیش سے باطنی پیدائش کا نام ہے.(الف) انسان کے اند ر اللہ تعالیٰ نے بہت سی طاقتیں رکھی ہیں.جب ان میں سے کوئی طاقت اپنے موقعہ اور محل کے مطابق ظاہر ہو تو اُسے خُلق کہتے ہیں اور انسان با اخلاق کہلاتا ہے.آداب.ادب کی جمع ہے.ادب اور خُلق میں فرق یہ ہے کہ خُلق تو اُس اچھی عادت کا نام ہے جو انسان میں پائی جائے.خواہ اُس کا اظہار ہو یا نہ ہو.لیکن ادب اچھی عادت کے اظہار کا نام ہے.مثلاً اطاعت (فرمانمبر داری ) ایک اچھا خُلق ہے.مگر جب کوئی کسی کا کہا مان کر کھڑا ہو جائے یا بیٹھ جائے تو اُسے با ادب کہیں گے.اعلیٰ اخلاق کا پتہ دراصل انسان کے برتاؤ.میل.ملاقات.لین دین وغیرہ سے لگتا ہے.اس لئے با اخلاق ہی باادب ہوگا.بے ادب کبھی با اخلاق نہیں ہوسکتا.اور بداخلاق کبھی با ادب نہیں ہوسکتا.(ب) با ادب بننا ہو تو اچھے اخلاق سیکھنے چاہئیں.اور با اخلاق بننا ہو تو عمد ہ آداب
کا مالک ہونا چاہئیے.با ادب اور با اخلاق بننے کے ذرائع! پہلا ذریعہ یہ ہے کہ انسان ایسی حرکات علیحد گی میں کرنے سے بچے جو دوسروں کو بُری معلوم ہوں.یا اُسے شرمندہ کرنے والی ہوں اگر کوئی شخص خُفیہ طور پر بُری عادات پیدا کرلے جب لوگوں سے ملے گا تو اُس کی وہ عادات بے اختیار ظاہر ہوکر اُسے شرمندہ کریں گی.مثلاً جن لڑکوں کو گالی دینے کی عادت ہو وہ مجلس میں بھی بے اختیار گالی دے دیں گے.اور اپنے آپ کو روک نہیں سکیں گے.جس بچے کو گھر میں اپنے بھائی بہنوں سے لڑنے کی عادت ہوگی وہ باہر کے لڑکوں سے بھی لڑے گا.اسی طرح جو گھر میں کھانے کی چیزوں پر لڑتا ہو گا.وہ باہر بھی ویسا ہی بُرا نمونہ دکھائے گا.پس اچھے اخلاق پیدا کرنے کے لئے پہلے بُری عادات کو چھوڑ نا چاہئیے.بلکہ پیدا ہی نہ ہونے دینا چاہئیے.دوسرا ذریعہ بزرگوں اور نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا اور اُن کی باتیں سنتا ہے.اخلاق کو درست کرنے کا یہ بڑا کامیاب ذریعہ ہے.جولڑ کے اپنے بزرگوں کی صحبت سے جی چراتے ہیں.اُن کی باتیں سننے سے گھبراتے ہیں.وہ ہمیشہ بد اخلاق اور بے ادب ہوتے ہیں.لیکن جو شوق سے بزرگوں کے پاس جاتے.اُن کی باتیں سنتے ہیں وہ عموما با ادب اور با اخلاق بن جاتے ہیں.تیسرا ذریعہ با ادب اور با اخلاق بننے کا بُرے لڑکوں کی صحبت سے بچنا.اور اُن کے بُرے افعال اور بُری باتوں سے نفرت کرنا ہے.مثلاً اگر کسی لڑکے کو گالی دینے کی عادت
۱۹۸۰ ہو.یا لڑنے جھگڑنے اور چوری اور چغلی کی عادت ہو تو ایسے لڑکوں سے ہمیشہ بچنا چاہئیے اور اُن کے اُن افعال کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئیے.کبھی اُن کی حمایت نہیں کرنی چاہیئے.اگر بدی سے نفرت پیدا ہو جائے تو یہ بات بھی انسان کو با اخلاق بنانے میں بڑی مفید ثابت ہوگی.چوتھا ذریعہ وہ ہے جو حضرت لقمان علیہ السلام کے اس مقولہ سے ظاہر ہوتا ہے.کسی نے آپ سے پوچھا کہ آپ نے محمد و اخلاق و آداب کہاں سے سیکھے تو انہوں نے کہا از بے ادباں.یعنی بے ادب اور بے وقوفوں سے پو چھا گیا کس طرح؟ تو آپ نے فرمایا.میں نے جب اُن کو بُرے کام کرتے دیکھا تو اُن سے میں نے پر ہیز کی.یعنی دوسروں کی حالت سے سبق حاصل کرنا بھی انسان کو با اخلاق بنانے کا بڑا بھاری ذریعہ ہے.
ہمارے قومی شعار اخلاق حسنہ نمبر (۲) اب ہم اس سبق میں بعض اخلاق حسنہ کا ذکر کرتے ہیں جو کہ ہمارا قومی شعار ہیں.اور جن کا پایا جانا ہم میں ضروری ہے.(۱) اطاعت اطاعت کے معنے ہیں حکم ماننا.فرمانبرداری کرنا.قرآن مجید میں اطاعت کی بڑی تاکید آئی ہے جیسے فرمایا:.يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ أَوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ.اے ایمان والو! اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو.اور جو تم پر حاکم ہوں اُن کی بھی فرمانبرداری کرو.جو فرمانبرداری کرے اُسے عربی میں مطیع کہتے ہیں.اور جس کی فرمانبرداری کی جائے اُسے مُطاع کہتے ہیں.اطاعت کی ضد بغاوت ہے.یعنی نافرمانی.قرآن مجید میں
ط یعنی اس سے بچنے کی تاکید آئی ہے.فرمایا وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يعني اللہ تعالی تمہیں روکتا ہے بے حیائی اور بُرائی اور بغاوت سے.(۲) امانت امانت کے معنے ہیں وہ چیز جو کسی کی حفاظت میں اس غرض کے لئے دی جائے کہ جب اس سے طلب کی جائے وہ فورا اُسے اُس کے مالک کے سپر دکر دے.جس کے سپرد کوئی چیز کی جائے اُسے آمین کہتے ہیں.قرآن مجید میں حکم ہے کہ :.کرو.(الف) أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا -.امانتیں اُن کے حقداروں کو دے دیا (ب) فَلْيُو دَ الَّذِي ائْتُمِنَ أَمَانَتَہ.جس کے سپر دامانت کی گئی ہو.اُسے چاہیئے کہ وہ اُس کے حقدار کو دے دے.انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب خدا تعالیٰ کی امانت ہے.اس لئے جب وہ اس سے طلب کرے اس کے دینے میں پس و پیش نہ کرے.امانت کی ضد خیانت ہے.یعنی حقدار کا حق مار لینا بُری چیز ہے.اس سے بچنا چاہئیے.(۳) دیانت امانت ، راستی ، اور سچائی کا نام دیانت ہے.اور جس میں دیانت ہوا سے دیانتدار کہتے ہیں.دیانت کا مفہوم بھی قریب قریب امانت کے سمجھنا چاہئیے.اس کا ضد بد دیانتی
فراهان ہے.یعنی اپنے کام کو حکم کے مطابق ادا نہ کرنا.دیانتداری صرف روپیہ پیسہ میں ہی نہیں ہے.بلکہ ہر اس چیز میں ہے جس کا تعلق دوسرے کے حقوق کو ادا کرنے سے ہے.حتی کہ نوکری.اپنے ذمہ کوئی ڈیوٹی لے لینا.ان سب کا اچھی طرح ادا کرنا دیانتداری میں شامل ہے.اور اس میں کو تا ہی کرنا بد دیانتی ہے.(۴) شجاعت شجاعت کے معنے ہیں ، بہادری، جوانمردی، دلیری، بے خوف و خطر آگے بڑھنا، یہ لفظ شین کی زبر سے ہے.جس میں شجاعت پائی جائے اُسے جاع کہتے ہیں.بُز دل ہونا اس کی ضد ہے.جو بہت بُری خصلت ہے.اس سے بچنا چاہئیے.(۵) طہارت طہارت کے معنے ہیں پاکیزگی ،صفائی ، یہ لفظ زیادہ تر اندرونی پاکیزگی پر بولا جاتا ہے.جو پاکیزگی اختیار کرے، اسے طاہر یا مطہر کہتے ہیں.قرآن مجید میں اس کے متعلق ارشاد ہے کہ:.إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ.یقینا اللہ تعالیٰ پیار کرتا ہے تو بہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے.ظاہری طہارت تو یہ ہے کہ انسان کا بدن اور کپڑے گندگی سے صاف ہوں.اور باطنی پاکیزگی یہ ہے کہ انسان کا دل و دماغ ہر قسم کے بُرے خیالات سے پاک وصاف ہو.
طہارت کی ضد نجاست یعنی پلیدگی ہے.جو خُدا کو نا پسند ہے.اس لئے اس سے پر ہیز چاہیئے.(۶) نظافت نظافت کے معنے بھی پاکیزگی اور صفائی کے ہیں.یہ زیادہ تر ظاہری صفائی پر بولا جاتا ہے.جو نظافت اختیار کرے اُسے نظیف کہتے ہیں.(۷) شرافت شرافت کے معنے ہیں.بلندی ، بزرگی.جس شخص میں اخلاق کی بلندی پائی جائے اور بد اخلاقی، کہیںکی اور بُری باتوں سے بچے اُسے شریف کہتے ہیں.اس کی ضد رذالت ہے.یعنی کمینہ اور بداخلاق ہونا ، رذالت سے کوسوں دُور بھاگنا چاہئے.(۸) قناعت قناعت کے معنے ہیں تھوڑی چیز پر راضی ہو جانا.جس میں یہ صفت پائی جائے اُسے قانع کہتے ہیں.یہ ایسی اعلیٰ صفت ہے کہ انسان اس سے بہت کمی رہتا ہے.ورنہ طمع ، حرص، لالچ، حسد، بغض جیسی بُری خصلتیں انسان میں پیدا ہو جاتی ہیں.(۹) فطانت فطانت کے معنے ہیں معاملہ کی تہ تک پہنچنا.اسے سمجھ لینا.اور اس میں ماہر ہو جانا.
۱۰۳ د مینیات کی پہلی کتاب جس میں یہ صفت پائی جائے اسے قاطبن یا فطین کہتے ہیں.یہ لفظاف کی زیر اور زمیر دونوں سے ہے.اس کی ضد غباوت ہے.یعنی معاملہ کونہ سمجھنا.وہ انسان جو گند دماغ ہونبی کہلاتا ہے.اور نجی انسان ہمیشہ ناکام و نامر اداور شرمندہ ہوتا ہے.یہ صفت سوچ و بچار سے بڑھتی ہے.(۱۰) لطافت لطافت کے معنے ہیں باریک ہونا.تھر اہونا، مہربان ہونا.جس میں یہ صفت پائی جائے اُسے لطیف کہتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی بھی صفت ہے.کیونکہ وہ خود بار یک در بار یک یعنی مخفی ہے.اور پھر باریک سے باریک چیزوں کو دیکھتا ہے.اپنے بندوں پر مہربان ہے.لطافت کی ضد کثافت ہے.یعنی کسی چیز کے اصل جسم کا میل کچیل کی وجہ سے یا گرد و غبار کی وجہ سے موٹا ہونا.ناصاف ہونا.(۱۱) لیاقت لیاقت کے معنے ہیں کسی چیز سے چمٹ جانا.کسی کام کو عمدگی سے ادا کرنا.کسی کام کے مناسب اپنے آپ کو بنانا.جس میں یہ صفت پائی جائے اُسے عربی میں لائق اور فارسی میں صاحب لیاقت کہتے ہیں.(۱۲) متانت متانت کے معنے ہیں.کسی بات میں مضبوط اور طاقتور ہونا جس میں یہ صفت پائی
۱۰۴ جائے اسے متعین کہتے ہیں.اس لئے اُردو میں ایسے شخص کو جس میں چھچھورا پن نہ ہو.بات بات پر ہنستا.منہ بناتا اوڑھنتھا مخول نہ کرتا ہو متین یعنی سنجیدہ کہتے ہیں.(۱۳) عدالت عدالت کے معنے ہیں دو شخصوں کے درمیان برابری کرنا.انصاف کرنا.حقدار کواس کا حق دینا.جس میں یہ صفت پائی جائے اُسے عادل کہتے ہیں.اس کی ضد ظلم ہے.یعنی بے انصافی کرنا.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عدل کرنے کا حکم دیا ہے.جیسا کہ فرمایا.إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ.اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم انصاف اور احسان کرو.اللہ تعالیٰ کے ساتھ انصاف یہ ہے کہ اُس کے ساتھ اُس کی مخلوق کو شریک نہ ٹھہرایا جائے.بندوں سے انصاف یہ ہے کہ اُن کے حقوق نہ مارے جائیں.جو جیسا سلوک کرے اُس کے مناسب حال اُس کا بدلہ دیا جائے.(۱۴) سخاوت سخاوت کے معنے ہیں بخشش کرنا.نرم ہونا، فراخ ہونا ، جس میں یہ صفت پائی جائے اُسے فی کہتے ہیں.ایک مشہور حدیث ہے.اَلسَّخِيُّ حَبِيبُ اللهِ کہ تھی اللہ کا دوست ہے.اس کی ضد نخل ہے.یعنی فراخ نہ ہونا.کسی کو کچھ نہ دینا.یہ بڑی بُری صفت ہے.اس سے پر ہیز چاہئیے.
۱۰۵ (۱۵) رفاقت رفاقت کے معنے ہیں نرم ہونا.کسی کا ساتھ دینا، مددگار ہونا.جس میں یہ صفت پائی جائے اُسے رفیق کہتے ہیں.اس کی جمع رفقاء ہے.انسان کو ہمیشہ اچھار فیق تلاش کرنا چاہئیے.جو وقت پر کام آئے.ورنہ بُرے رفیق جو خراب کرتے ہیں.بہت ملتے ہیں.اُن سے بچنا چاہئیے.یہ لفظ ر کی زبر سے ہے.(۱۶) عقت عفت کے معنے ہیں رُک جانا.ایسی بات سے باز رہنا جو نا جائز اور نا ر وا ہو.جس میں یہ صفت پائی جائے اُسے عفیف کہتے ہیں.جو شخص پاکدامن ہو وہ عربی میں عفیف اور فارسی میں عفت ماب کہلاتا ہے.اس صفت کے پیدا ہونے سے انسان بہت سی ناجائز اور ناروا باتوں سے باز رہتا ہے.(۱۷) رِفعت رفعت کے معنے ہیں بلندی ، بلندشان ، جس میں یہ صفت پائی جائے اُسے رفیع کہتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی بھی صفت ہے.کیونکہ سب سے بلندشان کا مالک وہی ہے.اور ڈہ رفیع الدرجات ہے.بندوں کے درجے بلند کرتا ہے.رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ کے معنے ہوں گے اُس نے اُس کی بلندشان ظاہر کی.انسان کے بلندشان ہونے کے یہ معنے ہیں کہ وہ ہر قسم کے نقص اور عیب سے پاک ہو.جس شخص کے اندر بھی عمدہ اخلاق پائے جائیں گے
وہ بھی رفیع کہلائے گا.انسان کے لئے رفعت کے یہ معنے ہر گز نہیں کہ وہ دوسروں کو ذلیل سمجھے.اور اپنے آپ کو سب سے بڑا.یہ رفعت نہیں.بلکہ پستی اور رذالت ہے.(۱۸) مت دمت کے معنے ہیں پکا ارادہ.پختہ مضبوط ارادہ.اہم کام کرنا.سخت معاملے کو اسی لئے مہم کہتے ہیں.جس میں یہ صفت پائی جائے اُسے ذُو الهمد یعنی ہمت والا کہتے ہیں.یہ لفظ ہ کی زبر اور زیر دونوں سے ہے.(۱۹) محنت محنت کے معنے ہیں کسی چیز کا تجربہ کرنا.امتحان لینا.جانچ پڑتال کرنا.وہ مصیبت جس کی وجہ سے انسان کا امتحان لیا جائے.جس میں یہ صفت پائی جائے اُسے محنتی کہتے ہیں.اسی سے امتحان کا لفظ ہے.کیونکہ اس کے ذریعہ انسان کی جانچ پڑتال ہوتی ہے.محنت سے جی پچرانے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے.دُنیا کے تمام کام محنت ہی سے سرانجام پاتے ہیں کوئی کام بغیر محنت کے پورا نہیں کیا جاسکتا.دنیا میں جس قدر بڑے انسان گزرے ہیں.اُن کے بڑے ہونے کا سبب اُن کا محنتی ہونا ہے.اسلئے اگر آپ بڑا بنا چاہتے ہیں تو محنت کیجئے.(۲۰) سبقت سبقت کے معنے ہیں آگے بڑھ جانا.دوسرے کو پیچھے چھوڑنا.خود پہل کرنا.جس میں یہ صفت ہوا سے سابق کہتے ہیں.قرآن مجید میں صحابہ کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ:.
وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُوْنَ أُوْلَئِكَ الْمُقَرَّبُوْنَ جو سب سے سبقت لے جانے والے ہیں وہی خُدا کے مقرب ہیں.مسابقت کے معنے ہیں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا.قرآن مجید میں اس کے بارے میں خاص حکم ہے.فرمایا:.وَلِكُلّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ہرایک کے لئے ایک مقصد ہے جس کی طرف وہ متوجہ ہے.پس اے مسلمانو! تم سب لوگوں سے نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو.(۲۱) شفقت عربی میں اس کا صحیح تلفظ شَفَقَةٌ ف کی زبر سے ہے.مگر اردو میں ف کی جزم سے بولنا عام ہے.اس کے معنے ہیں رحمت سے متوجہ ہونا.مہربان ہونا.اس کے معنے خوف اور ڈر بھی ہیں.جس میں یہ صفت پائی جائے اُسے شفیق کہتے ہیں.خدا کی ہر جاندار مخلوق پر شفقت کرنا نہایت ضروری ہے.(۲۲) اخوت بھائی چارہ اس کے معنے ہیں.ہمارے اندراخوت ہونی چاہئیے.یعنی ایک دوسرے سے بھائی چارہ کا معاملہ کرنا چاہیئے.جو لوگ خدا کے نبی کے ہاتھ پر جمع ہوتے ہیں.وہ سب بھائی بھائی بن جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ شریف ہجرت کر کے پہنچے تو آپ نے تمام کاموں سے پہلا کام یہی کیا کہ انصار اور مہاجرین میں مواخات یعنی
۱۰۸۰ بھائی چارہ قائم کیا.کسی سے بھائی چارہ قائم کرنا بڑا آسان مگر اُس کا نباہنا بڑا مشکل اس لئے زبانی جمع خرچ کی بجائے ہمیشہ اسے نباہنے کی کوشش کرنی چاہئیے.(۲۳) عزت ہے.عزت کے معنے ہیں قوت.غلبہ.مقابلہ میں اپنی شان قائم رکھنا.جس میں یہ صفت پائی جائے اُسے عزیز کہتے ہیں.انہی معنوں میں یہ خدا کی صفت ہے کہ وہ ہر بات اور ہر ایک پر غالب ہے.عزت نفس بڑی چیز ہے.یعنی اپنے آپ کو ذلیل نہ ہونے دینا.رکسی اچھی بات میں دوسرے سے پیچھے نہ رہنا.اس کی ضد ذلت ہے.جس کے معنے ہیں ذلیل وخوار ہونا.ایسے افعال سے بچنا چاہیے جو ذلت کا موجب ہوں.(۲۴) استقامت استقامت کے معنے ہیں کسی کام میں دوام اور ثبات چاہنا.سید ھا پن طا کرنا.لیکن اُردو میں اس کے معنے ہیں ثابت قدم رہنا.ڈٹے رہنا.ہمارے بزرگوں نے کہا الْإِسْتِقَامَةُ فَوْقَ الْكَرَامَةِ یعنی استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے.ہے کہ:.(۲۵) استقلال استقلال قریب قریب استقامت کے معنوں میں ہی ہے.اس کے معنے ہیں کسی چیز کو ہلکا سمجھنا.کسی چیز کو اٹھانا.جس میں یہ صفت ہوا سے مستقل کہتے ہیں.مستقل مزاج
١٠٩٠ وہی ہوتا ہے جو کسی کام کو کسی وقت بھاری نہ سمجھے اور برابر کرتا چلا جائے..(۲۶) صداقت سچائی سے محبت کرنا.سچائی پر قائم و دائم رہنا.سچائی.اس کے معنوں میں معاملہ کی پختگی اور مضبوطی کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے.جس میں یہ صفت پائی جائے اُسے صادق کہتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکم دیا ہے کہ :.كُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِينَ.بچوں کے ساتھ ہو جاؤ.صدیق بہت سچے اور مخلص دوست کو کہتے ہیں.جس کا اچھا عمل اُس کے قول کی تصدیق کرتا ہوا سے صدیق کہتے ہیں.اس کی ضد کذب یعنی جھوٹ ہے.یہ بہت ہی بُری خصلت ہے.اس سے بہت سی بُرائیاں پیدا ہوتی ہیں.جھوٹ کے درخت میں سب سے بڑا پھل نفاق لگتا ہے.دوسرا پھل بُزدلی اور تیسرا پھل چوری.بیہودگی.بڑبولا پن.تکذیب انبیاء.افتراء.وغیرہ.اِس لئے کذب و جھوٹ سے انتہائی نفرت اور صدق سے انتہائی پیار رکھنا چاہئے.(۲۷) وفا وفا کے معنے ہیں پورا کرنا.یعنی جو کہے اُسے پورا کر دکھائے.جس کام کو شروع کرے اُسے پورا نبھائے.جس سے کوئی وعدہ کرے اُسے پورا کرے.جس میں یہ صفت ہو اُسے اُردو میں وفا دار اور عربی میں واف کہتے ہیں.انسان کی وفاداری خُدا اور اس کے رسُول اور خلفاء سے یہ ہے کہ ہر حالت سختی اور نرمی میں.دُکھ اور تکلیف میں اطاعت گزاری نہ چھوڑے.ماں باپ سے وفا یہ ہے کہ بڑھاپے اور دُکھ درد کے وقت اُن کے کام آئے.
٠١١٩ (۲۸) پابندی عید یہ بھی اتمی صفت ہے.اور وفا کی ایک شق ہے.کسی سے جو قول و قرار کرے خواہ کتنا ہی اُسے نقصان پہنچے اُسے پورا کر کے چھوڑے.(۲۹) عفو در گزر کرنا غلطی معاف کرنا.اپنے بھائی کی غلطی سے چشم پوشی کرنا.اور عفو کے معنے زائد اور اچھی چیز کے بھی ہیں.یعنی خدا کی راہ میں اپنی ضرورت سے زائد یا اچھی چیز دینا.جس میں یہ صفت ہوا سے عاف اور عفو کہتے ہیں.(۳۰) خودداری خود داری کے معنے ہیں اپنی حیثیت اور عزت کو برقرار رکھنا.جس میں یہ صفت ہو وہ خود دار کہلاتا ہے.دوسرے کی طمع یا لالچ پر اپنے آپ کو گرانا.یا دوسرے سے مطلب براری کی خاطر اُس کے آگے ذلیل ہو جانا.یہ سب باتیں خود داری کے خلاف ہیں.(۳۱) حق گوئی یہ بھی بڑی اچھی صفت ہے.اس کے معنے ہیں نئی بات کہنا.جب موقعہ ملے اگر انسان کو کوئی صحیح بات معلوم ہو اور اس کے ظاہر نہ کرنے سے قوم اور ملت اور دین کا نقصان ہو تو فورا اُسے ظاہر کرنا چاہیئے.حدیث شریف میں آتا ہے.اَلسَّاكِتُ عَنِ الْحَقِّ
٠١١١ شَيْطَانُ اَخْرَسُ جو حق بات کہنے کے موقعہ پر چپ رہے وہ گونگا شیطان ہے.اس صفت سے جو متصف ہوا سے حق گو کہتے ہیں.(۳۲) بلند همتی بلند ہمت ہونا بڑی اچھی صفت ہے.ہمت بلند دار که نزد خد اوخلق باشد بقدر ہمت تو اعتبار تو یعنی اپنی ہمت بلند رکھو.کیونکہ خدا اور اس کی مخلوق کے نزدیک تیری ہمت کے مطابق تیرا اعتبار ہوگا.(۳۳) مبر مبر کے معنے ہیں بہادری دکھانا.ثابت قدم رہنا.ایک امر پرڑ کے رہنا.اور تکلیف پر شکایت نہ کرنا.جس میں یہ صفت ہو اُسے صابر کہتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.اِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِينَ - اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.اور فرمایا.وَاسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة - خدا سے مدد چاہو صبر دکھا کر اور دُعا کر کے.خدا (۳۴) حیاء حیا کے معنے ہیں قابلِ ملامت کام کے کرنے سے اپنے آپ کو روکنا.حدیث میں آتا ہے.اَلْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِّنَ الْإِيْمَانِ.حیا ایمان کا ایک جزو ہے.جس میں یہ صفت ہو
۱۱۲۰ اُسے حیا دار یا صاحب حیا کہتے ہیں.حیادار انسان ہر قسم کی بے ادبی.گستاخی اور گناہ سے باز رہتا ہے.بے حیا ہونا ہر قسم کی بُرائیوں میں منتقل کرتا ہے.(۳۵) و کا ڈ کا کے معنے ہیں زیرک ہونا.معاملہ کو فور اسمجھ لینا.جس میں یہ صفت ہو اُسے ذکی کہتے ہیں.ذکی وزیرک ہونا انسان کو ہر میدان میں کامیاب کرتا ہے.(۳۶) فهم فہم کے معنے بھی زیر کی اور دانائی کے ہیں.جس میں یہ صفت ہوا سے نہیم کہتے ہیں.(۳۷) عزام عزم کے معنے ہیں پختہ ارادہ.معاملہ کی پختگی.جس میں یہ صفت ہو اُسے أولو العزم کہتے ہیں.قرآن مجید میں حکم ہے.اِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ـ جب تُو پختہ ارادہ کر لے تو پھر اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اُس کام کو کر گزر.عزم سے انسان کامیاب ہوتا ہے.جس میں ارادہ کی پختگی نہ ہو وہ انسان کامیاب نہیں ہوتا.(۳۸) حرم حزم کے معنے ہیں عقلمندی.معاملہ کو مضبوط اور محکم کر لینا.احتیاط سے کام کرنا.جس میں یہ صفت ہوا سے حازم کہتے ہیں.معاملات کے سرانجام دینے میں اس صفت کا
ہونا بڑا ضروری ہے.(۳۹) حکم ۱۳ حلم کے معنے ہیں.بے وقوفی ، جہالت اور طیش میں آنے سے بچنا.برداشت کرنا.بُردبار ہونا.اس کے معنے عقل بھی ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ صفت قرآن مجید میں مذکور ہے.جس میں یہ صفت ہوا سے حلیم کہتے ہیں.(۴۰) تواضع تواضع کے معنے ہیں خاکساری، فروتنی.دوسرے پر بڑائی کا اظہار کرنے سے بچنا.حدیث شریف میں آتا ہے.اِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ جو خاکساری اللہ کے لئے اختیار کرتا ہے اُسے اللہ تعالیٰ ساتویں آسمان پر عزت دیتا ہے.جس میں یہ صفت ہوا سے متواضع کہتے ہیں.( کنز العمال جلد ۲ صفحه ۴۷۵) (۴۱) ہمدردی دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہونا.یہ بڑی اچھی صفت ہے.جس میں یہ صفت ہوا سے ہمدرد کہتے ہیں.(۴۲) ايتار ایثار کے معنے ہیں ترجیح دینا.اختیار کرنا.بزرگی کے کام کرنا.اپنی ضرورت پر
۱۱۴ دوسرے کی ضرورت کو مقدم کرنا.قرآن مجید میں انصار کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے کہ يُؤْثِرُوْنَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ.وہ اپنے نفسوں پر دُوسرے مُہاجر بھائیوں کی ضروریات کو مقدم کرتے ہیں.خواہ انہیں خود بھی سخت ضرورت یا ٹوک کیوں نہ ہو.جس میں یہ صفت ہوا سے ایثار پیشہ یا مو خر کہتے ہیں.(۴۳) قربانی قرب سے ہے.ایسے کام جو خدا کے قرب کا باعث ہوں.اپنی ہر چیز کو خدا کی راہ میں دینا.اپنی عزت، مال اور جان کو کسی کے حکم یا اپنی بھلائی یا دوسرے کی خیر خواہی کی بناء پر دے دینا.جس قوم میں قربانی کی روح ہو وہی کامیاب ہوتی ہے.جس میں یہ صفت ہو اُسے قُربانی کرنے والا ، قربان ہونے والا کہتے ہیں.ایثار اور قربانی میں فرق یہ ہے کہ ایثار تو مقابلے کی چیز ہے.یعنی دوسرے کو بھی ضرورت ہے.اور اس کو بھی ضرورت ہے مگر دوسرے کی ضرورت کو مقدم کر کے اپنی ضرورت کو پیچھے ڈال دینا.مگر قر بانی عام ہے.خواہ دوسرے کو اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو.صرف اس کے حکم پر اپنے آپ کو قربان کر دینا.مثلاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہم کہ دیتے ہیں کہ فلاں نے قربانی کی.لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ اُس نے خُدا کی خاطر ایثار کیا.(۴۴) نشاط نشاط کے معنے ہیں خوش خوش رہنا.دل کی خوشی سے کام سرانجام دینا.قرآن مجید میں بھی اس کا ذکر ہے.جیسے فرمایا.وَالنَّاشِطَاتِ نَشْطًا.اور قسم ہے ان جماعتوں کی جو بڑی خوشی اور فرحت سے کام سرانجام دیتی ہیں.جس میں یہ صفت ہوا سے ناشط یا نشیط کہتے ہیں.
(۴۵) وقار ۱۱۵۰ وقار کے معنے ثابت رہنا.پر عظمت ہونا.جس میں یہ صفت ہوا سے ذوالو قار یا صاحب وقار کہتے ہیں.ہر کام میں انسان وقار کو اختیار کرسکتا ہے.اُردو میں سنجیدہ مزاج ہونا اس کا مفہوم ہے.(۴۶) تو شکل رکسی پر بھروسہ کرتے ہوئے اُس کے سُپر داپنا کام کرنا.پورے طور پر دوسرے پر بھروسہ کرنا.جس میں یہ صفت ہوا سے منور کل کہتے ہیں.ایک دفعہ ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! کیا خدا پر توکل کر کے میں اُونٹ کو چھوڑ کر نماز میں شریک ہو جاؤں.یا اُس کے گھٹنے باندھ کر نماز پڑھوں؟ آپ نے فرمایا تو کل یہ ہے کہ پہلے اونٹ کا گھٹنا باند ھے اور پھر خدا پر بھروسہ کرے.پس تو گل کے معنے یہ ہرگز نہیں کہ انسان خود تولا پروائی اور سستی کرے اور سمجھ لے کہ میں بڑا متوکل ہوں.سوالات:- (۱) اخلاق اور ادب کی تعریف کرو.(۲) تمہارا کونسا شعار ہے؟ اور اس کے کیا معنے ہیں؟
از اخبار الفضل جلد ۱۲ فادیان کی یاد ۲۵ / جولائی ۱۹۲۴ء کلام سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی الصلح الموعود رضی الله عنه ہے رضائے ذاتِ باری اب رضائے قادیاں مدعائے حق تعالی مدعائے قادیاں وہ ہے خوش اموال پر یہ طالب دیدار ہے بادشاہوں سے بھی افضل ہے گدائے قادیاں گر نہیں عرش معلی ٹکراتی تو پھر سب جہاں میں گونجتی ہے کیوں صدائے قادیاں دعوای طاعت بھی ہوگا ادعائے پیار بھی تم نہ دیکھوگے کہیں لیکن وفائے قادیاں میرے پیارے دوستو تم دم نہ لینا جب تلک ساری دُنیا میں نہ لہرائے ہوائے قادیاں بن کے سُورج ہے چمکتا آسماں پر روز و شب کیا عجب معجز نما ہے رہنمائے قادیاں غیر کا افسون اس پر چل نہیں سکتا کبھی لے اڑی ہو جس کا دِل زُلف دوتائے قادیاں یہ نظم حضور نے ستر یورپ کے دوران میں لکھی.
112 آے اب جستجو اُس کی اُس کی ہے امید محال لے چکا ہے دل میرا تو دیر ہائے قادیاں یا تو ہم پھرتے تھے اُن میں یا ہوا یہ انقلاب پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے قادیاں خیال رہتا ہے ہمیشہ اس مقام پاک کا سوتے سوتے بھی یہ کہہ اُٹھتا ہوں ہائے قادیاں آہ کیسی خوش گھڑی ہوگی کہ بانیل مرام باندھیں گے رختِ سفر کو ہم برائے قادیاں پہلی اینٹوں ہی رکھتے ہیں نئی اینٹیں ہمیش پر تبھی چرخ چہارم پر بنائے قادیاں ہے صبر کر اے ناقہ راہِ ہدی ہمت نہ ہار دُور کردے گی اندھیروں کو ضیائے قادیاں ایشیا و یورپ و امریکہ و افریقہ سب دیکھ ڈالے پر کہاں وہ رنگ ہائے قادیاں منہ سے جو کچھ چاہے بن جائے کوئی پر حق یہ ہے ہے بہاء اللہ فقط حسن و بہائے قادیاں گلشن احمد کے پھولوں کی اُڑا لائی جو بُو زخم تازہ کر گئی بادِ صبائے قادیاں کبھی تم کو ملے موقع دُعائے خاص کا یاد کر لینا ہمیں اہلِ وفائے قادیاں
آٹھواں باب ہماری مجالس کے آداب از حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ دُنیا میں مجلسیں کئی قسم کی ہوتی ہیں.ایک شادی کی مجلس ہوتی ہے ایک نمی کی مجلس ہوتی ہے.ایک وعظ کی مجلس ہوتی ہے.میں وہ آداب بتاؤں گا جو تمام قسم کی مجلسوں پر حاوی ہوں.مگر پہلے یہ سُن لو کہ ملنے سے کئی قسم کے نقص پیدا ہوتے ہیں.مثلاً اکیلا آدمی غیبت نہیں کر سکتا.غیبت کا مرتکب انسان اُس وقت ہوتا ہے جب کسی سے ملے.معلوم ہوا کہ ایسے گناہ ایک دوسرے کے ساتھ ملنے سے پیدا ہوتے ہیں.اس لئے مجالس میں نہایت محتاط ہو کر بیٹھنا چاہیئے.پہلا ادب مجلس کا یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی مجلس میں آئے تو دوڑ کر نہ آئے کہ یہ وقار اور سکینت کے خلاف ہے.حدیث میں ہے.عَلَيْكُمُ الْوَقَارَ وَ السَّكِيْنَةَ ـ (تمہیں وقار اور سکینت اختیار کرنی چاہئیے ) دوسرا ادب یہ ہے کہ ( کوئی شخص ) کسی مجلس میں لوگوں کو پھلانگ کر نہ جائے.جہاں جگہ ملے
١٩ بیٹھ جائے.حدیث شریف میں ہے کہ جمعہ کی نماز میں لوگوں کو پھلانگ کر نہ آؤ.اس سے جُمعہ کا ثواب جاتا رہتا ہے.حدیث میں ہے يَجْلِسُ حَيْثُ يَنْتَهِي الْمَجْلِسُ ـ اگر آگے جگہ نہ ہو تو جہاں تک لوگ بیٹھے ہیں وہیں بیٹھ جائے.تیسرا ادب یہ ہے کہ مجلس میں جا کر کوئی لغو حرکت نہ کرے.مثلاً میز کو یا کسی اور چیز کو جو اس قسم کی ہو نہ ہلائے.خاموشی سے بیٹھے اور اہل مجلس کا خیال رکھے.زبان سے بھی خاموش رہے.ہاتھ پیر بھی نہ ہلائے کہ یہ بھی خاموشی کے خلاف ہے.ہاں اپنی باری اور ضرورت پر بات کرے.چوتھا ادب یہ ہے کہ مجلس میں بیٹھ کر اپنے پاس والے سے کسی قسم کی بات چیت نہ کرے.آپس میں کا نا یہ موسی کرنا ادب کے خلاف ہے.پانچواں ادب مجلس میں دوسرے کو چُپ کرانا.یہ بھی لغو ہے.اور آداب مجلس کے خلاف.حدیث میں ہے اِنْ قُلْتَ لِصَاحِبِكَ اُسْكُتْ فَقَدْ لَغَوْتَ ( یعنی اگر تُو نے زبان سے اپنے ساتھی کو کہا چپ رہ تو تو نے بیہودہ کام کیا ) پس دوسرے کو بول کر چپ کرانا بھی ادب کے خلاف ہے.سامعین میں سے کسی کو چپ کرانا ہو تو ہاتھ کے اشارہ سے چُپ کراسکتا ہے.چھٹا ادب اُباسی لینا، ڈکار لینا، انگلیاں چٹی نا ، انگڑائی لینا یہ تمام باتیں بھی ادب کے خلاف ہیں.اپنے او پر قابورکھنا چاہیئے.حدیث میں آتا ہے کہ مجلس میں بیٹھ کر کنکریوں سے نہ کھیلو.
ساتواں ادب ۱۲۰ مجلس کا الاستماع ہے.یعنی غور سے سننا کان لگا کر سُنے کہ خطیب کیا کہہ رہا آٹھواں ادب آنے والے کو جگہ دینا.اور خود سکڑ کر بیٹھ جانا (ہے) قرآن شریف میں ہے.اِذَا قِيْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوْا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا.( جب تمہیں کہا جائے کہ مجلس میں گھل کر بیٹھو تو گھل جایا کرو) نواں ادب یہ ہے کہ مجلس سے بے اجازت نہ جائے.صاحب مجلس سے پوچھ کر اور اجازت لے کر جائے.دسوال ادب یہ ہے کہ خطیب اور لیکچرار کی طرف منہ کر کے بیٹھے.ادھر ادھر نہ دیکھے.لیکچرار کی طرف متوجہ رہے.اور غور سے سُنے.گیارھواں ادب یہ ہے کہ مجلس میں جب کوئی اچھی بات سُنے نوٹ کر لے.اور اس پر عمل کرے.حدیث میں ہے.اُكْتُبُوْا عَنِيْ وَلَوْ كَانَ حَدِيثًا.( میری طرف سے جو بات ہوا سے لکھ لیا کرو.خواہ وہ چھوٹی سی بات ہی کیوں نہ ہو ).بارھواں ادب یہ ہے کہ جب کوئی بات پوچھنی ہو تو کھڑے ہو کر پوچھے کہ یہ بھی ایک ادب ہے.
تیرھواں ادب ل الدرام یہ ہے کہ دورانِ گفتگو میں نہ بولے.اُٹھ کر چپ چاپ کھڑا ہو جائے.صدر مجلس خود مخاطب کرے گا.چودھواں ادب یہ ہے کہ مجلس میں میر مجلس کو مخاطب کرے.کسی اور کو نہ کرے.پندرھواں ادب یہ ہے کہ اگر مجلس میں کسی شخص سے کوئی طبعی حرکت سرزد ہو جائے تو ہنسنا نہیں چاہئیے.کیونکہ ایسی حرکت اُس سے بھی ممکن ہے.لوگ اُس پر بھی ہنسیں گے.اور اُسے شرمندہ ہونا پڑے گا.پس دُوسرے کے لئے وہ بات پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند نہیں کرتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صرف اسی بات پر ایک خطبہ پڑھا.پس رکسی کے اُونگھ جانے پر یا غلط جواب دینے پر یا ہوا خارج ہونے پر ہنسنا نہیں چاہئیے.ہوسکتا ہے کہ یہ نقص اس میں بھی پیدا ہو جائے.اور اُس سے بڑھ کر لوگ اس پر ہنسیں.سولھواں ادب جب مجلس کی کاروائی شروع ہو جائے تو کسی بڑے آدمی کے آجانے پر تعظیم کے لئے اٹھنا بھی ٹھیک نہیں.کیونکہ اب میر مجلس کا حق ہے کہ وہ تعظیم کرے یا نہ کرے.سترھواں ادب یہ ہے کہ مجالس میں کوئی ایسی چیز کھا کر نہ جائے جس سے لوگوں کو تکلیف ہو.نہ ایسا لباس پہن کر جائے جس سے بدبو آتی ہو.اور تعفن کی وجہ سے لوگ کراہت کریں.اس لئے مجلس میں نہا دھو کر جائے.اسی طرح مجلس میں تھوکنا بھی ادب کے خلاف ہے.
Girry الْإِنْضِبَاط في الحركات یعنی مجلس میں بیٹھ کر اپنی حرکتوں کو قابو میں رکھنا.اٹھارھواں ادب اسی کا نام خشوع ہے.انیسواں ادب یہ ہے کہ جن سامانوں سے مجلس یا جلسہ قائم کیا گیا ہے.بعد اختتام جلسہ اُن کو وہاں پہنچا دو جہاں سے لائے تھے.یا پہنچانے والوں کو مدد دو.اکثر دیکھا گیا ہے کہ جلسہ یا مجلس ختم ہونے کے بعد سارے لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں.اور سامان پڑارہ جاتا ہے.چند آدمی رہ جاتے ہیں جنہیں بعد میں بڑی تکلیف ہوتی ہے.پس یہ بھی ایک اچھی بات ہے کہ سامان جہاں سے لایا گیا تھا جلسہ ختم ہونے کے بعد سارے مل کر وہاں پہنچا دیں.پیسوال ادب یہ ہے کہ مجلس میں کسی کو اُٹھا کر خود اُس کی جگہ نہ بیٹھے.اسی طرح جب کوئی شخص اُٹھ کر کسی کام یا کسی حاجت کو جائے تو اُس کی جگہ نہ بیٹھے.اکیسواں ادب جب کسی مجلس سے اُٹھے تو استغفار کرے کیونکہ ممکن ہے کہ اُس نے کسی کی غیبت کی ہو.یا کوئی اور بُری بات منہ سے نکال دی ہو جس کا وبال اُس پر پڑے.اس لئے استغفا ر ضرور کرے.ریویو.جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۴۱ تا ۴۳)
۱۲۳ مشکل الفاظ کے معانی:.(۱) مجلس.بیٹھنے کی جگہ.جہاں لوگ جمع ہوں.(۲) آداب.ادب کی جمع ہے.اٹھنے بیٹھنے ملنے جلنے اور بات چیت کرنے کا اچھا طریقہ.(۳) حاوی.وہ چیز یا وہ بات جو بہت سی چیزوں اور بہت سی باتوں کو اپنے اندر لے لے.(۴) غیبت.کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی بُرائی بیان کرنا.یہ بہت بُرافعل ہے.ہماری شریعت نے اس سے سخت منع کیا ہے.(۵) مرتکب.کرنے والا.(۶ ) وقار.باعزت طور پر کوئی کام کرنا.(۷) سکینت.آرام اور اطمینان سے کام کرنا.(۸) کا ناۂ موسی.چپکے چپکے ایک دوسرے سے کچھ کہنا.(۹) خطیب.خطبہ دینے والا ، تقریر کرنے والا.(۱۰) تعقمن.بدیو.(۱۱) کراہت کرنا.نا پسند کرنا.(۱۲) استغفار.خدا تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگنا.سوالات:- (۱) آداب مجالس میں سے پانچ آداب ایسے بتاؤ جن کا تعلق دوسروں کے ساتھ ہو؟ (۲) تقریر یا خطبہ کے دوران میں کسی کو کس طرح چُپ کراؤ گے؟ 00000
۰۱۲۴ علم اور تعلیم کے آداب طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَّ مُسْلِمَةٍ.ہر ایک مسلمان مرد اور عورت پر علم کا طلب کرنا فرض ہے.(۱) علم سے بصیرت کی آنکھیں روشن ہوتی ہیں.جن سے انسان.......نیکی اور بدی حق اور باطل کو اپنی اصلی صورت میں دیکھ سکتا ہے.علم ایک ٹور ہے.جس سے جہل کی تاریکیاں دُور ہو کر انسان کو حقیقی فضیلت حاصل ہوتی ہے.وہ انسان کے لئے زینت ہے اور ایک ایسا سرمایہ ہے جس میں کبھی نقصان واقع ہونے کا احتمال تک نہیں.وہ ایک ایسا خزانہ ہے جس کو چور نہیں لے جا سکتے.اور جہاں تم جاؤ تمہارے ساتھ رہے گا.اس سے انسان کو اپنی زندگی کا اصلی لطف حاصل ہوتا ہے.اور تہذیب و تمدن کی تمام تر خوبیاں اسی علم کے آثار اور نتائج ہیں.وہ ایک ایسا جو ہر بے بہا اور قابل قدر کمال ہے جس پر آدمی بجا طور پر فخر کر سکتا ہے.وہ عقل کے لئے منتقل ہے.اور ہر ایک بُنر اسی کی بدولت درجہ کمال تک پہنچتا ہے.اہلِ علم اپنے زمانے میں چراغ ہدایت ہوتے ہیں.اور یہی لوگ ہیں جو اشیاء کی حقائق نفس الامریہ کا صحیح ادراک کر سکتے ہیں.انہی کی برکت سے خیر وشر اور نفع و ضرر کی تمیز دنیا میں قائم ہے.جاہل آدمی اگر چہ بظاہر زندہ ہے لیکن حقیقت میں مُردہ بلکہ اس سے بھی بدتر ہے.(۲) اگر تم دیکھو کہ کوئی دوسرا شخص تم سے علم میں فوقیت رکھتا ہے تو یہ کوئی شرمندہ ہونے کی بات نہیں ہے.وَفَوْقَ كُلَّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ.( اور ہر علم والے سے بڑھ کر عالم
و ۱۲۵ والا ہے ) البتہ یہ بات ضرور شرم کا موجب ہے کہ کسی چیز کا علم تم کو حاصل ہوسکتا ہے لیکن تمہاری غفلت اُس سے تم کومحروم کر دے.(۳) طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنے دل میں مال و جاہ کی محبت کو جگہ نہ دے.کوئی حقیقی صاحب علم زر پرست اور نمود پسند نہیں ہوسکتا.نخوت اور تکبر علم کے شایان شان نہیں.برخلاف اس کے علم انسان کو تو اضع اور خوش اخلاقی سکھاتا ہے.(۴) علوم وفنون کے حاصل کرنے میں تدریج کا اصول مد نظر رکھنا چاہئے.ترتیب علوم کوملحوظ رکھیں اور اہم کو غیر اہم پر تقدیم دیں.اس بات کو بخوبی ذہن نشین کرلیں ر تحصیل علم کا اصلی مقصد یہ ہر گز نہیں کہ انسان وکیل یا ڈاکٹر یا انجینئر یا حج یا مجسٹریٹ بن جائے اور بس.بلکہ تحصیل علم کامۂ عالیہ ہے کہ وہ انسانی فرائض کا شناسا ہو اور ہر ایک چیز کی حقیقت کو پہچان لے.(جس سے نیکی بدی اور حق اور باطل میں تمیز کر سکے ) حصول علم کو فخر اور مباہات کا ذریعہ نہ بنائے.کسی کے ساتھ حسد نہ کرے.اور نہ ہی دُوسروں کو بہ مر استحقار دیکھے.اس کی بجائے تواضع کو اپنا شیوہ اور شفقت و ہمدردی کو اپنا شعار بنائے اور خلق اللہ کی خدمت اور ان کو فائدہ پہنچانا اپنی زندگی کا مقصد ٹھہرائے.(۵) بعض لوگ کمال علمی سے خالی ہونے کے باوجود فضیلت اور تفوق کی ڈینگیں مارتے پھرتے ہیں.تم کو ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہئیے.بچے اہل علم کی مثال پُر از میوہ خوشہ کی ہے.جو ہمیشہ اپنا سرزمین کی طرف جھکائے رکھتا ہے.اور اپنے میوہ سے اِنسان کے لئے لطف اور لذت کا باعث ہوتا ہے.برخلاف اس کے جاہل مغرور کی مثال خالی از میوہ خوشہ ہے.جس کا سر آسمان کی طرف اُونچا رہتا ہے.لیکن سوائے اس کے کہ دیکھنے والوں کو دھوکے میں ڈالے اُس سے کسی کو فائدہ حاصل ہونے کی امید نہیں.اگر وہ کسی مصرف کا
Sirto ہے تو یہی کہ اُس کو آگ میں جھونکا جائے.سعدی علیہ الرحمۃ ٹھیک فرماتے ہیں ؎ تو اضع کند هوشمند گزین نهد شاخ پرمیوه سر بر زمین ( ترجمہ : عقلمند خاکساری اختیار کرتا ہے.میوے سے لدی ہوئی شاخ زمین کی طرف جھکتی ہے )
۱۲۷ اُستاد کے آداب أقَدِّمُ اسْتَاذِى عَلَى نَفْسٍ وَالِدِي وَإِنْ نَالَنِيْ مِنْ وَالِدِى الْفَضْلِ وَالشَّرَف فَذَاكَ مُرَبِّى الرُّوحِ وَالرُّوْحُ جَوْهَرٌ وَهَذَا مُرَبِّى الْجِسْمِ وَالْجِسْمُ كَالصَّدَف ترجمہ میں اُستاد کا درجہ خود اپنے والد سے مقدم سمجھتا ہوں.اگر چہ مجھ کو اپنے والد سے ہی فضیلت اور شرافت نسبی حاصل ہوئی ہے.کیونکہ میرے اُستاد نے میری رُوحانی تربیت فرمائی ہے.اور والد نے میرے جسم کی پرورش کی ہے.اور ظاہر ہے کہ رُوح بمنزلہ جو ہر کے ہے اور بدن اس کا صدف ہے.(۱) اُستاد کا ادب اور احترام ہر وقت ملحوظ رکھو.اور باپ سے اس کا حق زیادہ سمجھو.کیونکہ باپ نے تمہارے جسم کی پرورش کی ہے.لیکن اُستاد نے تمہاری عقل اور رُوح کی تربیت فرمائی ہے.(۲) رکسی بات میں اُستاد کی مخالفت نہ کرو.اور خصوصا تعلیمی اُمور میں اُس کو اپنا کامل رہنما سمجھو.تمہاری مثال ایک جاہل مریض کی ہے.جس کو ہر حالت میں حکیم اور ڈاکٹر کی ہدایت کی پیروی کرنا لازم ہے.اُس کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ ڈاکٹر کے تجویز کردہ نسخہ پر نکتہ چینی کرے.اُستاد اور ڈاکٹر میں صرف یہ فرق ہے کہ مؤخر الذکر (جس کا ذکر بعد میں ہے ) جسمانی امراض کا علاج کرتا ہے.اور اوّل الذکر (جس کا ذکر پہلے ہے )
کا کام یہ ہے کہ وہ تمہاری رُوحانی بیماریوں (جہل اور اخلاق بد ) کا علاج کرے.(۳) اپنے اُستاد سے ہمیشہ تواضع اور انکسار کے ساتھ پیش آؤ.اور اس کی خدمت کو اپنا فخر سمجھو.ایک حدیث کا مضمون ہے کہ خوشامد کرنا مومن کے اخلاق میں سے نہیں ہے.لیکن علم کے طلب میں خوشامد کرنا معیوب نہیں.“ (۴) اُستاد کے سامنے نہایت ادب کے ساتھ بیٹھو.اُس کی تقریر کو انتہائی توجہ کے ساتھ سُنو.اور اُس کے مفید نصائح پر ہمیشہ کار بندر ہو.(۵) دوران تعلیم میں جو بات سمجھ میں نہ آئے.اُس کی بابت ضرور سوال کرو لیکن اُستاد کا ادب و احترام اور حسن عبارت کو مہِ نظر رکھو.فضول سوال کبھی نہ رکیا کرو.جو کچھ پوچھوسوچ سمجھ کر معقولیت کے ساتھ پوچھو.اگر تم سے سوال کیا جائے.جب بھی انہی امور کوملحوظ رکھو.اور پہلے تو لو پھر بولو کے اُصول پر عمل کرو.(1) مدرسہ کے باہر بھی اپنے اُستاد کے ادب اور احترام کو فراموش نہ کرو.اور راستے میں کہیں ملاقات ہو جائے تو ادب کے ساتھ سلام کرو.اور اُس کی تعظیم و تکریم میں کو تا ہی نہ کرو.(منقول از جامع الآداب صفحه ۲۶ تا ۳۴٬۳۰ تا ۳۷) مشکل الفاظ کا حل:- (۱) تعلم علم سیکھنا.(۲) بصیرت.اندرونی روشنی سمجھ.(۳) تہذیب و تمدن.عمدہ طریق سے رہنا سہنا.(۴) آثار نشان.(۵) صیقل.چمکدار.(۶) حقائق نفس الامریہ.چیزوں کی اصل حقیقت.
الم (۷) اڈ راک.معلوم کر لینا.(۸) تدریج.درجہ بدرجہ.(۹) تقدیم.پہلے ہونا.(۱۰) تفوق.بڑا بنا.(۱۱) صدف.سیپ.(۱۲) معیوب.عیب والا.(۱۳) علو نسب.خاندانی طور پر بڑا ہونا.سوالات :- (1) علم حاصل کرنے کے تین ضروری ادب بیان کرو.(۲) اُستاد کے بارے میں تمہیں کون سے ادب یاد ہیں جن پر تم عمل کرتے ہو؟ (۳) سوال کرنے اور جواب دینے کا کیا طریق ہے؟
۱۳۰ احمدی طالب علم اسلام اور احمدیت کیلئے کیا کر سکتے ہیں از حَضْرَتْ مُصْلِحْ مَوْعُود رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ (۲۴ / جولائی ۱۹۴۱ء کو طلبائے بورڈ نگ تحریک جدید کو حضور نے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.) تم یہ مت خیال کرو کہ ہم طالب علم ہیں.ہم کیا کر سکتے ہیں.دراصل یہی وہ زمانہ ہے جس میں کی ہوئی تیاری بعد کی زندگی میں مفید ثابت ہوتی ہے.اور یہی وہ زندگی ہے جس میں آئیندہ کام کرنے کے لئے جوش اور ولولہ پیدا کیا جاسکتا ہے.تم میں چھوٹے بھی ہیں اور بڑے بھی.وہ عُمر جو چھوٹوں کی ہے وہ بھی ہم پر گزری ہے اور وہ عمر جو بڑوں کی ہے وہ بھی ہم پر گزری ہے.اس عمر میں اسلام کی خدمت کا ہم میں ایسا جوش پایا جاتا تھا کہ اُس وقت ہم بڑوں کی امداد کے محتاج نہ ہوتے تھے تمہیں یہ یقین رکھنا چاہیئے کہ بہت بڑے مقصد کے لئے تم پیدا کئے گئے ہو.تمہارے اندر اسلام اور احمدیت کو دُنیا میں پھیلانے کیلئے ایک آگ سی لگی ہونی چاہئیے.یہ آگ ہر عمر کے بچہ کے دل میں پیدا ہوسکتی ہے اور اس سے بڑے کام کر اسکتی ہے.کیونکہ جب یہ آگ پیدا ہو جائے تو کوئی چیز مقابلہ نہیں کر سکتی.پس اسلام اور احمدیت کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرو اور اسلام دُنیا میں غالب کرنے کے مقصد کو اپنے سامنے رکھا کرو“ (الفضل مورخہ ۲۶ / جولائی ۱۹۴۱ء)