Language: UR
دنیا بھر میں آب بیتی لکھنے کا رواج عام ہے۔ مورخ احمدیت مولانا دوست محمد شاہدصاحب نے خود ستائی اور خود نمائی سے ماورا ہوکر اپنی زندگی کے 90 واقعات کا انتخاب اس زیر نظر کتاب میں جمع کیا ہے، جن سے خلافت احمدیہ کی اپنے خدام سے شفقت و محبت اور خدمت اسلام کی لگن اور قدردانی کا بھی پتہ چلتا ہے، نیز قادیان اور ربوہ اور یورپ کی مخصوص علمی تاریخ بھی یکجا ہوگئی ہے۔ مصنف نے نہایت سادگی سے اپنی ذاتی زندگی کے بعض متفرق واقعات کا انتخاب پیش کیا ہے جو دراصل جماعتی تاریخ ہیں۔
دلچسپ علمی واقعات و مشاہدات از ۱۹۴۳ء تا ۲۰۰۷ء) دوست محمد شاہد
دلچسپ علمی واقعات و مشاہدات از ۱۹۴۳ء تا ۲۰۰۷ء) دوست محمد شاہد
4 9 35 42 52 95 114 عنوانات حرف آغاز فصل اول (اللہ جلشانہ ، قرآن مجید محمد مصطفی ملے خانہ کعبہ، امہات المومنین) فصل دوم ( آئمہ اہل بیت ، صحابہ نبوی ، خلفاء اور مجددیت ) فصل سوم (سیدنا حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام ) فصل چهارم (حضرت اقدس مسیح موعود ) فصل پنجم ( دس ملکی و غیر ملکی شخصیات سے ملاقات ) کلمه آخر
4 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ حرف آغاز اللہ جل شانہ نے امت مسلمہ کو خیر الامم " کا تاج کیوں عطا فرمایا ہے؟ اس کا جواب خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے مبارک الفاظ میں یہ ہے کہ مَنْ أَسْلَمَ عَلَى يديهِ رَجُلٌ وَجَبَتْ لَهُ الجَنَّة ، ( جامع الصغير للسیوطی جلد ۲ صفحہ ۱۶۴) جس شخص کے ہاتھ پر کوئی مسلمان ہوا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی.حضرت مسیح موعود سورۃ الرعد کی آیت ۱۸ وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ “ کی نہایت پُر کیف تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں: جو کوئی اپنی زندگی بڑھانا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ نیک کاموں کی تبلیغ کرے اور مخلوق کو فائدہ پہنچائے.“ الحاکم قادیان ۲۴ /اگست ۱۹۰۳ صفحه ۳۲) تحریک احمدیت کا قیام وحی ربانی سے ہوا جس کا بنیادی مقصد دعوت الی اللہ ہے.یعنی زندہ خدا کی منادی !! سید نا محمد عربی ﷺ نے پیشگوئی فرمائی کہ : اذا عظمت امتى الدنيا نزعت عنه هيبة الاسلام واذا تركت الامر بالمعروف والنهي عن المنكر حرمت بركة الوحى" (جامع الصغیر للسیوطی جلد اصفحہ ۳۰) یعنی جب میری امت دنیا کو عظمت دینے لگے گی تو ہیبت اسلام اس کے دلوں سے نکل جائے گی اور جب ( تبلیغ یعنی) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ترک کر دے گی تو وحی کی برکت سے محروم ہو جائے گی.اس حدیث سے بالبداہت ثابت ہے کہ آج صرف جماعت احمد یہ ہی کو جناب الہی نے ابلاغ حق کا روحانی پر چم عطا فرمایا ہے کیونکہ باقی سب مسلمان فرقے وحی کی برکت سے یکسر تہی دست ہو چکے ہیں بلکہ اس کے تسلسل سے قطعی طور پر انکاری ہیں.نقشہ عالم میں صرف احمدی ہی ہیں جو زندہ مذہب، زندہ رسول اور زندہ قرآن پر علی وجہ البصیرت ایمان رکھتے ہیں.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود
50 نے دنیا بھر میں ہمیشہ یہ منادی فرمائی: اسلام اس وقت موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا کلام کر رہا ہے.“ ضمیمہ انجام آنتقم صفحه ۶۲ ، اشاعت ۲۷ جنوری ۱۸۹۷ء) مسیح الزماں کی قوت قدسیہ کا یہ اعجاز ہے کہ قادیان کی فضاؤں میں سانس لیتے ہی اشاعت حق کا بے پناہ جذ بہ ، جوش اور ولولہ ذوق و شوق پیدا ہو جاتا ہے.حضرت سید میر محمد اسماعیل صاحب نے ۱۹۲۰ء میں حالات قادیان دارالامان“ کے عنوان سے ایک اثر انگیز نظم بھی تھی جس کے دو شعر یہ تھے کہ: جا گونجی کہاں واه کہنے اذان قادیاں مرحبا تسخیر مغرب کے لے نکلے قادیاں ہیں کچھ خالدان شاعر احمدیت حضرت ثاقب زیروی مرحوم نے مرکز احمدیت کی شان میں ترانہ لکھا: است اونچا قادیاں وار الامان رہے تیرا تیرا نشاں عرفان و حکمت کی مچلتی آبشاروں کے وطن اخلاق اور ایمان را روشن بہاروں کے وطن اے مصطفیٰ کے دیں کے بچے جاں نثاروں کے وطن تیری شجاعت کے ترانے گا رہا ہے آسماں قادیاں دار الاماں اونچا رہے تیرا نشاں
6 ہر اک زباں پر آج ہے بے تاب افسانہ ترا ہے مرجع اقوامِ عالم آج مے خانہ ترا پر چھا گیا اُٹھا جو دیوانہ ترا ہر دوڑ میں ، ہر راہ میں ، آگے ہے تیرا نوجواں فرزانگی قادیاں دار الاماں! اونچا رہے تیرا نشاں دور خسروی قادیان دسمبر ۱۹۴۵ء ) میرے پیارے مولیٰ کریم کے اس ذرہ ناچیز اور لاشئی محض پر بے شمار افضال ہیں اگر ہر بال ہو جاوے سخنور تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر منجملہ ان عنایات کے یہ بھی ہے کہ اُس نے مسلسل گیارہ برس (۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۷ء تک ) اس خدا نما بستی سے (جس کی ایک ایک اینٹ شعائر اللہ میں سے ہے ) براہ راست فیضیاب ہونے کی سعادت بخشی.اس کتاب کی زینت میرے چشمدید اور گوش شنید واقعات یورپ سے جنوبی ایشیا تک ممالک پر محیط ہیں جو بلا مبالغہ دیار حبیب قادیان کی اسی مقناطیسی تاثیرات کا کرشمہ ہیں جس کے پاکیزہ ماحول اور روحانیت کی برقی لہریں مردہ دلوں میں اشاعت حق کی زندہ روح پھونک دیتی ہیں.اس مختصر مقالہ سے مقصود احمدیت کی نئی اور پُر جوش نسل کی خدمت میں صرف بنیادی معلومات پیش کرنا ہے.اس لیے سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الاول کے طرز تحریر اور اسلوب کی رہنمائی میں حشو و زوائد سے حتی الوسع اجتناب کیا گیا ہے اور جملہ واقعات مختلف اہم مباحث کے زیر عنوان درج کیے گئے ہیں تا دنیا بھر میں سرگرم عمل کروڑوں نو نہالانِ احمدیت احمدی علم کلام کے زبر دست دلائل و براہین سے بآسانی متعارف ہوسکیں.مجھے یاد ہے منصب خلافت پر فائز ہونے سے قبل سیدی حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد (خلیفہ امسیح الرابع ) ایک مرتبہ منڈی بہاؤالدین تشریف لے گئے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے
7 یہاں پہلے نہایت ولولہ انگیز خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا پھر ایک مجلس سوال و جواب سے اثر انگیز خطاب کیا.آپ کا خطبہ جمعہ اوّل سے آخر تک دعوت الی اللہ کی مؤثر تحریک پر مشتمل تھا.آپ نے پورے جلال و تمکنت سے فرمایا کہ اسی میں ہماری جان ہے اور یہی ہماری پہچان اور قومی نشان ہے جس سے احمدیوں نے بفضلہ تعالیٰ اپنی دعاؤں اور نمونہ کے ساتھ قلوب عالم کی تسخیر کرنی ہے.اس تعلق میں سیدی رحمہ اللہ نے موجد شطرنج کے مطالبہ انعام کی طرف اشارہ کیا اور مخلصین احمدیت کو درد بھرے اور مؤثر انداز میں توجہ دلائی کہ ۱۸۸۹ء سے اب تک ہر احمدی ہر سال صرف ایک نیا احمدی بھی بنانے کی کوشش کرتا تو آج ساری دنیا احمدی ہوتی اور جس طرح سمندر پانی کے قطروں سے لبریز ہے اور آسمان بے شمار ستاروں سے چمک دمک رہا ہے اور زمین لا تعداد ذروں سے بھری ہوئی ہے اس طرح ہر جگہ صرف اور صرف احمدیت کا پھر مرا لہراتا ہوا نظر آتا.گو یہ الفاظ قطعی طور پر میرے ہیں مگر حضرت سیدی صاحبزادہ صاحب کے خطبہ کی اصل روح یقینا یہی تھی.ہے انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں زبان میری ہے بات ان کی موجد شطرنج کا دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ بادشاہ وقت نے اس پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے کہا میں تمہیں منہ مانگا انعام دوں گا.اُس نے عرض کیا شطرنج کے چونسٹھ خانے ہیں.اس کے پہلے خانے میں ایک چاول دوسرے خانے میں پہلے خانے سے دُگنے اور تیسرے خانے میں دوسرے سے د گنے ، غرضیکہ اسی طرح علی الحساب چونسٹھ خانے چاولوں سے پر کر دیے جائیں.بادشاہ نے کہا یہ حقیر مطالبہ ہمارے شایانِ شان نہیں، کسی اور بڑے انعام کا مطالبہ کرو.موجد نے جواب دیا جس انعام کو آپ معمولی خیال فرماتے ہیں اس کو تمام روئے زمین کے خزانے بھی پورا نہیں کر سکتے.چنانچہ علم حساب کے شاہی سکالرز نے حساب لگایا تو چاولوں کا مجموعی وزن پچہتر کھرب من کے قریب نکلا.بادشاہ دنگ رہ گیا اور یہ حیرت انگیز حساب سن کر کہا کہ تمہارا یہ حسن طلب تو تمہارے حسن ایجاد سے بھی بڑھ کر مستحق انعام ہے.چنانچہ اس فیاض بادشاہ نے اس کو زرکثیر سے مالا مال کر دیا.تلخیص از کتاب مخزن اخلاق تالیف علامہ رحمت اللہ سبحانی)
8 اب راقم الحروف اپنی حیات مستعار کے ۹۰ منتخب واقعات عشاق خلافت کی نذر کرتا ہے.آخر میں دس ملکی و غیر ملکی شخصیات سے ملاقاتوں کی روداد بھی دے دی گئی ہے.اے کاش میری یہ نا چیز کاوش نافع الناس ثابت ہو اور بارگاہ ایزدی میں سند قبولیت کا ذریعہ اور مغفرت کا وسیلہ بن جائے.مصطفیٰ پر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت اُس ༤ نور لیا بار خدایا ہم نے
9 فصل اوّل اللہ جلشانہ اللہ جلشانہ، قرآن مجید، محمد مصطفی ملی، خانہ کعبہ، امہات المومنین ).پچھلی صدی کے آخری عشرہ میں جبکہ میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے ارشاد مبارک پر جرمنی کے طول و عرض میں مجالس سوال و جواب میں شریک ہو رہا تھا، ایک معزز جرمن سکالر نے یہ دلچسپ سوال کیا کہ خدا نظر کیوں نہیں آتا؟ میں نے بتایا کہ ایٹم (Atom) کی دریافت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اشیا جس قدر لطیف سے لطیف تر ہوتی جاتی ہیں ان میں طاقت وقوت کا بے پناہ اضافہ ہوتا جاتا ہے.چنانچہ اس سنسنی خیز انکشاف نے ساری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ آکسیجن (Oxygen) کے اربوں کھربوں ایٹم کی ضخامت بال کے ایک ٹکڑے کے برابر بھی نہیں ہوتی.ایک انچ میں 12 کروڑ 50 لاکھ ایٹم کاغذ کے پن کے سر پر (صرف) ایک ہی لائن میں تقریباً میں لاکھ ایٹم رکھے جاسکتے ہیں.(سائنس شاہراہ ترقی پر صفحہ ۱۳۹ ازعلی ناصر زیدی ناشر کتاب منزل کشمیری بازار لاہور ) یہ جدید سائنٹفک تحقیق بیان کرنے کے بعد میں نے عرض کیا کہ ایٹم جیسی عظیم ترین مگر لطیف ترین طاقت کے خالق کو جس نام سے بھی آپ حضرات یاد کریں آپ مجاز ہیں ، مگر آپ کو یہ ضرور تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایٹم پیدا کرنے والی ہستی کو ایٹم سے بھی زیادہ لطیف در لطیف اور وراء الورا ہونا چاہیے ورنہ وہ ایٹم کی تخلیق ہرگز نہیں کر سکتا.غلامان مصطفیٰ کے ادنی ترین چاکر کے اس جواب سے جرمن سکالر پوری طرح مطمئن ہو گئے جس کے بعد انہیں مزید کسی اور سوال کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی.مرے پکڑنے کی قدرت تجھے کہاں صیاد کہ باغ حسن محمد کی عندلیب ہوں میں
10 اس زمانہ کے مامور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے قیام جماعت سے بھی چار سال قبل ۱۸۸۵ء میں ممالک عالم کے پیشوایان مذاہب اور سربراہان مملکت کو ، جس میں جدید جرمنی کے بانی بسمارک بھی تھے ، بذریعہ اشتہارات زندہ خدا کے زندہ معجزات دکھلانے کی دعوت دی.(الفضل انٹرنیشنل اندان ۶ تا ۱۲ دسمبر ۲۰۰۲ ، صفحه ۳) 2.عرصہ ہوا بعض سعید الفطرت نوجوان ربوہ تشریف لائے.میں نے اُن سے پوچھا کہ اگر آپ حضرات اپنے گھر جائیں اور آپ سے کوئی رشتہ دار بات ہی نہ کرے تو آپ کیا سمجھیں گے.کہنے لگے یہی کہ وہ ناراض ہو گئے ہیں.میں نے کہا کہ اب آپ غور فرمائیں کہ چودہ سو سال سے خدائے عز و جل صلحائے امت کو مکالمہ مخاطبہ اور الہامات سے نوازتا آرہا ہے.مگر آج سوائے جماعت احمدیہ کے کوئی اُن کو جاری نہیں مانتا اور پوری دنیائے اسلام کے مذہبی لیڈر بھی نعمت الہام سے محروم ہیں.ثابت ہوا کہ خالق کا ئنات اُن سے ناراض ہے.قرآن میں لکھا ہے کہ خدا قیامت کے دن مجرموں سے ہر گز کلام نہیں کرے گا اور انہیں عذاب الیم میں داخل کر دے گا.(البقرہ:۱۷۴) 3- ایک دفعہ مجھ سے دریافت کیا گیا کہ ہمیں اگر خدا نے پیدا فرمایا ہے تو خدا کو کس نے پیدا کیا.میں نے کہا آپ نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دے دیا ہے کیونکہ ”خدا“ کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس کی تخلیق اُسی کے وجود سے وابستہ ہے.غیر کا اس میں قطعا کوئی دخل نہیں.قرآن مجید 4 کشمیر کے محاذ جنگ پر بھارت نے شدید بمباری کی تو میری دائیں آنکھ کا ایک پردہ پھٹ گیا اور اپریشن کے لیے مجھے لاہور کے میوہسپتال میں داخل ہونا پڑا.میرے ساتھ ہی ایک پُر جوش کمیونسٹ نو جو ان کا بستر تھا جنہوں نے مجھے سوشلزم اور کمیونزم کا قائل کرنے کی ہفتوں کوشش کی.آخر میں کہنے لگے کہ قرآنی نظام صدیوں سے دنیا کے پردہ سے غائب ہے، مگر روس اشتراکیت کی بدولت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے.کیوں نہ مسلمان اس کو اپنا ئیں.میں نے بتایا کہ قرآن کی رو سے کوئی وجود عبث پیدا نہیں کیا گیا اس لیے میں کارل مارکس ، فریڈرک اینجلز، لینن ، سٹالین اور دوسرے اشترا کی زعما کا دلی احترام کرتا ہوں، بالخصوص کارل مارکس کا.وجہ یہ کہ اس نے جرمنی اور
11 فرانس جیسے پُرشکوہ ملکوں سے جلا وطنی گوارا کر لی مگر ان کے نظام حکومت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور جلاوطنی کے عالم میں انگلستان میں پناہ لی جہاں " DE CAPITAL" میں ایک نیا نظام پیش کیا جس کا اس سے پہلے تاریخ عالم میں نام و نشان تک نہ تھا.آپ بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان میں ابھی نہ قرآنی نظام موجود ہے نہ کمیونزم، اس لیے ہمیں اس ملک میں کوئی سیاسی و معاشی عمارت تعمیر کرنے سے پہلے مختلف نظاموں کے نقشوں پر غور کرنا چاہیے.انشاء اللہ میں ثابت کر دکھاؤں گا کہ قرآنی نقشہ ہی بہترین ہے.کمیونسٹ دوست نے میری رائے سے اتفاق کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ نقشہ تو وہی درست " ہے جو کتاب اللہ نے پیش کیا ہے.اس پر میں نے انہیں دعوت دی کہ وہ جماعت احمدیہ میں داخل ہو کر دنیا کو قرآن کے ضابطہ حیات سے روشناس کریں.تا نہ صرف پاکستان بلکہ تمام ممالک عالم کی تعمیر اسی آفاقی نقشہ کے مطابق ہو سکے.5- ایک مجلس میں ایک فاضل دوست نے سوال کیا کہ قرآن تو ایک محدود صفحات پر مشتمل کتاب ہے.اس کے حقائق و معارف بانی سلسلہ احمدیہ کے دعوی کے مطابق غیر محدود کیونکر ہو سکتے ہیں؟ میں نے بے ساختہ جواب دیا کہ اردو کے حروف تہجی ۳۷، فارسی کے ۳۲ اور عربی کے ۲۹ ہیں.بایں ہمہ انہی چند حروف کو مختلف الفاظ میں ڈھال کر آج تک بے شمار کتا بیں چھپ چکی ہیں اور یہ سلسلہ روز قیامت تک جاری رہے گا.6- ایک بار حضرت خلیفہ اسیح الثالث ”بیت الفضل‘ اسلام آباد کی بالائی منزل میں قیام فرما تھے اور خاکسار نیچے کمرہ میں.پرویزی مسلک کے ایک نوجوان پیغام لائے کہ آپ کے مرزا صاحب نے مجھے آپ کے پاس بغرض گفتگو بھیجا ہے.میرا عقیدہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد مجدد، ولی ، امام، نبی اور وحی و الہام بلکہ کچی خواب کا دعویٰ ختم نبوت کے منافی ہے.اب ہمارے لیے قیامت تک قرآن کافی ہے.( یادر ہے کہ یہی نظریہ ملک محمد جعفر خاں وزیر مملکت مذہبی امور کا تھا اور اسی کے مطابق انہوں نے سے تمبر کی قرارداد کا مسودہ لکھا.شاہد ) میں نے ان کا پُر تپاک استقبال کیا اور عرض کیا کہ اس میں کسی مسلمان کو کلام نہیں کہ قرآن مجید مکمل دستور ہے مگر قیامت کا عالم یہ ہے کہ مسلم دنیا کے تمام ۷۲ فرقے اس کامل قانون کے الگ الگ اور متضاد معنی کرتے ہیں.بالفاظ دیگر ایک
12 قرآن کی ۷۲ تفسیریں ہیں.قرآن میں یہ بھی پیشگوئی ہے کہ دین کامل کو ساری دنیا پر غلبہ نصیب ہوگا.مگر سوال یہ ہے کہ دستور قرآنی کی ۷۲ تفسیروں میں سے کس کو مستند (AUTHORITY) قرار دے تا اس پر خود عمل کرے اور غیر مسلموں کو بھی دعوت قرآن دے.علماء خواہ لاکھوں ہوں وہ صرف اپنے فرقہ کے وکیل ہیں اور فیصلہ وکیل نہیں کر سکتے ، حکومت کا مقرر کردہ حج ہی کر سکتا ہے.اس دستوری نکتہ کو پیش کرنے کے بعد میں ان سے دریافت کیا کہ قرآن عظیم نے عاد، ارم، اصحاب الاخدود، اصحاب الحجر، منبع اور قوم اور فراعنہ مصر کا ذکر کیا ہے جن میں بعض کی آبادی متحدہ پاکستان سے بھی کم تھی.اگر آپ واقعی قرآن مجید کو کامل سمجھتے ہیں تو بتائیے آج پوری امت مسلمہ (جو کروڑوں پر محیط ہے ) کی اس عالمی مصیبت اور اس کے علاج کا ذکر بھی اس میں لکھا ہے.میرے اس سوال پر وہ سخت پریشان ہو کر فرمانے لگے کہ میں نے کبھی اس پہلو سے قرآن پڑھا ہی نہیں ، آپ بتائیے.اس پر میں نے کہا جماعت احمدیہ کا یقین ہے کہ بلا شبہ کتاب اللہ مکمل شریعت ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے عہد حاضر کے مسلمانوں کی کیفیت کا نقشہ ہی نہیں کھینچا ، اس کا علاج بھی بتادیا ہے.چنانچہ سورہ آل عمران کی آیت ۱۸۰ میں صاف پیشگوئی موجود ہے کہ ایک وقت امت پر ایسا آئے گا جبکہ خبیث اور طیب یعنی قرآن کے غلط اور صحیح معانی آپس میں مخلوط ہو جائیں گے مگر خدا تعالیٰ جس نے اس آفاقی قانون کو اتارا ہے، اس صورت حال پر معاذ اللہ خاموش تماشائی نہیں بنارہے گا.نہ وہ ہر مسلمان کو اصل معنی سے باخبر فرمائے گا بلکہ جسے وہ چاہے گا اسے رسول کے طور پر چن لے گا.اس وقت تمہارا فرض ہوگا کہ دستور قرآنی کی اس تشریح کو قبول کرو جو اس آسمانی حج کی طرف سے کی جائے اور گو اس میں مشکلات بے انداز ہوں گی لیکن اگر ایمان لاؤ گے اور تقویٰ پر بھی قدم مارو گے تو تمہیں اجر عظیم سے نوازا جائے گا.یہ قرآنی فیصلہ انہوں نے گہری دلچپسی سے سنا اور اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کا وعدہ کر کے رخصت ہو گئے.7- یہ خلافت ثانیہ کے آخری بابرکت دور کا واقعہ ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد نے حضرت مصلح موعود کی اجازت سے مجھے دنیا پور جانے کا ارشاد فرمایا جہاں مشہور احراری سائیں لال حسین اختر صاحب اشتعال انگیز تقریریں کر رہے تھے..
13 جماعت احمد یہ دنیا پور کے پریذیڈنٹ شیخ محمد اسلم صاحب نے ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا جس میں میں نے اختر صاحب کے تمام ضروری سوالوں کے جواب دیئے.اس کے دوران ان کی طرف سے مجھے مناظرہ کا چیلنج دیا گیا.میں نے اسے فورا منظور کرنے کا لاؤڈ سپیکر پر اعلان کیا.مگر ساتھ ہی یہ شرط رکھی کہ تینوں متنازع موضوعات پر مباحثہ ہوگا اور ہو گا صرف قرآن مجید سے کیونکہ ہمارے خدا کا حکم ہے کہ جو لوگ کتاب اللہ سے فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر اور ظالم و فاسق ہیں.(المائدہ: ۴۵-۴۶ ) سائیں جی نے جواب دیا کہ ہمیں یہ منظور نہیں.مرزا صاحب کی کتب ضرور پیش کریں گے.میں نے سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس جواب سے روز روشن کی طرح کھل گیا کہ مکفرین احمدیت کے پاس گالیاں ، استہزا اور پھکڑہ بازی کے شعبدے تو موجود ہیں مگر قرآن ہرگز نہیں.یہ صرف احمدیوں کے پاس ہے دنیا میں آج حامل قرآن کون ہے گر ہم نہیں تو اور مسلمان کون ہے 8- ایک چکڑالوی یا پرویزی خیال کے تعلیم یافتہ دوست نے دوران گفتگو یہ نظریہ پیش کیا کہ رسول اللہ کا کام صرف قرآن ہم تک پہنچانا تھا.خاکسار نے ان کی توجہ اس طرف دلائی کہ خود قرآن مجید ہی نے آپ کے اس خیال کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور سورہ جمعہ کی تیسری آیت میں بعثت نبوی کے چار مقاصد بیان فرمائے ہیں.تلاوت قرآن صحابہ کا تزکیہ اور ان کو قرآن اور اس کی حکمت کی تعلیم دینا.مؤخر الذکر تینوں مقاصد کی تکمیل سنت وحدیث کے بغیر کیسے ممکن ہے؟ و بہائی ازم کے ایک پر جوش حامی مدتوں قبل ربوہ میں مجھ سے ملے اور خدا کی از کلی سنت کے مطابق شریعتوں کی منسوخی پر بہت زور دیا اور اس کو قرآن مجید کی منسوخی کا جواز بنایا.میں نے انہیں سمجھایا کہ یہ تو آپ کو بھی مسلم ہے کہ شرعی احکام تو بدلتے رہتے ہیں مگر خدا کی محکم پیشگوئیوں پر کبھی خط تنسیخ نہیں کھینچا گیا کیونکہ اس سے خدائے علیم و خبیر کی تو ہین لازم آتی ہے.اب سنئے قرآن نے اطاعت رسول کے نتیجہ میں نبی، صدیق، شہید اور صالح کا انعام پانے کا حتمی وعدہ دے رکھا ہے.پس جب تک کم از کم ایک نبی آنحضرت کی پیروی کی برکت سے ظاہر نہ ہو قرآن ہرگز منسوخ نہیں ہوسکتا.
14 دوسرے آپ کو مسلم ہے کہ انیسویں صدی کے وسط میں علی محمد باب صاحب نے بیان کے ذریعہ نئی شریعت دی جسے انیسویں صدی کے آخر میں ان کے جانشین بہاء اللہ صاحب نے منسوخ کر کے ایک نئی کتاب اقدس تصنیف کی.میں کہتا ہوں بفرض محال دونوں جدید شریعتیں خالق کائنات ہی نے دی تھیں تو اُسی نے اپنے پاک نوشتوں کے مطابق آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق بانی جماعت احمدیہ کو مبعوث فرمایا اور آپ نے خدا سے الہام پاکر براہین احمدیہ کے چاروں حصے (۱۸۸۰ء – ۱۸۸۱ء میں ) شائع کیے جس میں آپ نے دنیا بھر میں بے شمار دلائل دے کر ڈنکے کی چوٹ منادی کی کہ آسمان کے نیچے صرف قرآن مجید ہی ایک ایسی کتاب ہے جو کچی اور کامل اور مشتمل ہے.وہی بے نظیر ابدی معجزہ ہے اور وہ تیرہ سو سال سے مخالفوں کو اس کی مثل لانے کے لیے چیلنج کر رہا ہے.آپ نے پوری تحدی کے ساتھ اردو اور انگریزی میں اشتہار دیئے اور براہین احمدیہ کے دلائل کا جواب دینے والے کو دس ہزار روپے کا انعامی چیلنج دیا مگر دنیا کے کسی مذہبی لیڈر بالخصوص بابیت اور بہاء اللہ کے علمبرداروں کو اسے قبول کرنے کی آج تک جرات نہیں ہوئی.اے عزیز و سنو کہ بے قرآں.حق کو ملتا نہیں انساں تا شیروں پر سه 10- ایک بار مجھے جناب مولا نا مبارک احمد صاحب نذیر مجاہد افریقہ ( حال پرنسپل جامعہ احمد یہ کینیڈا) کے ساتھ بذریعہ بس اسلام آباد جانے کا قیمتی موقع میسر آیا.میرے ساتھ جماعت اسلامی کے ایک پُر جوش رکن بیٹھے تھے جو نظام اسلامی کے نفاذ میں اپنی پارٹی کی مساعی کا تذکرہ فرمارہے تھے.میں نے نہایت ادب سے ان کی توجہ اس حقیقت کی طرف منعطف کرنے کی کوشش کی کہ نظام اسلامی تو اللہ جل شانہ نے چودہ سو سال قبل قرآن مجید کی صورت میں قیامت تک کے لیے نافذ فرما دیا ہے.اب ضرورت صرف یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے.اور جولوگ اپنے چھ فٹ کے جسم پر قرآن کی حکومت قائم نہیں کر سکتے ان کا دنیا بھر میں نظام اسلامی کے قیام کا پراپیگنڈا کرنا نہ صرف سیاسی ہتھکنڈا ہے بلکہ خدا، قرآن اور رسول کی گستاخی بھی ہے.خصوصاً جبکہ بانی جماعت اسلامی مودودی صاحب نے تنقیحات میں صاف اقرار کیا ہے کہ علماء کی نظام اسلامی کا نقشہ دریافت کرنے کی تمام تر کوششیں عبث اور بے کار ہو گئی ہیں کیونکہ زمانہ بالکل بدل چکا تھا اور علم و عمل کی دنیا
15 میں ایسا عظیم تغیر واقع ہو چکا تھا جس کو خدا کی نظر تو دیکھ سکتی تھی مگر کسی غیر نبی انسان کی نظر میں طاقت نہ تھی کہ قرنوں اور صدیوں کے پردے اٹھا کر اُن تک پہنچ سکتی.“ (تنقیحات صفحه ۲۷ ناشر مکتبہ جماعت اسلامی پٹھان کوٹ ) مودودی صاحب واضح طور پر اعتراف کرتے ہیں کہ غیر نبی کی نظر آج اسلام کے صحیح خدوخال سے ہی آشنا نہیں ہو سکتی کجا یہ کہ اس کے عملی قیام کا ادعا کر سکے.مگر یہ حضرت آخر سفر تک یہی رٹ لگاتے رہے کہ عہد حاضر کے دوسرے دساتیر عالم کی طرح جب تک قرآن کے فوجداری، دیوانی اور مالی احکام کو آرٹیکل (ARTICLE) اور کلاز (CLAUSE) میں نہ ڈھالا جائے ، اسلام کا عملی نفاذ ہر گز ممکن نہیں.حق یہ ہے کہ قرآن مجید کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کا اقرار تو کئی مستشرقین کو بھی ہے مثلاً مشہور مؤرخ ایڈورڈ گبن لکھتا ہے: "From the Atlantic to the Ganges the Koran is acknowledged as the fundamental code, not only of theology but of civil and criminal jurisprudence; and the laws which regulate the actions and the property of mankind are guarded by the infallible and immutable sanction of the will of God." (The decline and fall of the Roman Empire by: Edward Gibbon Page: 694-695 First published by Chatto and Windus 1960) 11- زیارت ربوہ کے لیے آنے والے وفد میں شامل ایک سنجیدہ نوجوان نے دریافت کیا کہ جب دین کامل ہو گیا تو اب کسی نبی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.میں نے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المائدہ:۴) کی مکمل آیت پڑھی اور بتایا کہ یہ قرآن کا معجزہ ہے کہ اس نے چودہ سو سال قبل سکمال دین کی خوشخبری دیتے ہوئے ساتھ ہی یہ خبر بھی دے دی تھی کہ ہم نے امت پر اتمام نعمت بھی فرما دی ہے جس کے معنی سورہ یوسف کی ابتدائی آیات کے مطابق فیضانِ نبوت کے عطا کیے جانے کے ہیں.چنانچہ ان آیات میں ہے کہ ہم نے حضرت یوسف ، آل یعقوب اور ابراہیم و اسحاق پر بھی اتمام نعمت فرمائی.یعنی اُن کو نعمت نبوت سے سرفراز فرمایا.انہیں از حد حیرت ہوئی کہ واقعی یہ الفاظ ㅎ
16 کلام اللہ میں موجود ہیں.چنانچہ المائدہ اور سورہ یوسف کی معین آیات ملاحظہ کر کے وہ مطمئن ہو گئے.دوران گفتگو ان کی خدمت میں یہ نکتہ بھی پیش کرنے کی توفیق ملی کہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ کتا بیں چار نازل ہوئیں اور نبی ایک لاکھ چوبیس ہزار آئے.دوسرے الفاظ میں مذہب کی ۵ ہزار سالہ تاریخ میں صرف چار شرعی نبی مبعوث ہوئے اور باقی سب کا مشن پہلی شریعت ہی کا احیا اور ازسرنو قیام تھا.اس اعتبار سے بھی الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کے فقط یہی معنی متعین ہوتے ہیں کہ قرآن شریف قیامت تک کے لیے مکمل کتاب ہے.اب کوئی شخص کسی نئی شریعت کا حامل نہیں ہوسکتا اور اس عقیدہ پر احمدیوں کا مکمل ایمان ہے.یہی وجہ ہے کہ وہ بابیت و بہائیت کے خلاف شروع سے لسانی و قلمی جہاد کر رہے ہیں.دوسری طرف مخالف احمدیت علماء جو ختم نبوت“ کے محافظ بنے پھرتے ہیں ان دجالی تحریکوں کے پشت پناہ بنے ہوئے ہیں جس سے آنحضرت کی پر انوار ذات اقدس سے ان کی پوشیدہ عداوت اور دشمنی کا صاف پتہ چل جاتا ہے.یہ گروہ قرآنی روح سے بیگانہ محض طبقہ رسول اور نبی میں امتیاز کرتا ہے.اس کے عقیدہ کے مطابق رسول نئی شریعت لاتا ہے جبکہ نبی کے لیے یہ ضروری نہیں.قرآن سے باغی بہائی فرقہ کی بنیاد بالکل یہی ہے اور اُن کا استدلال یہ ہے کہ قرآن نے آنحضرت کو خاتم النبین“ کا خطاب دیا ہے خاتم الرسل کا نہیں.ثابت ہوائی شریعت آسکتی ہے اور یہی دعوئی باب اور بہاء اللہ کا تھا.فرمایے مکفر علماء پر کیوں سکوت مرگ طاری ہے اور وہ کیوں اس کا جواب نہیں دیتے.احمدی چونکہ عاشق قرآن ہیں اس لیے وہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی اس شرمناک عقیدہ کو گوارا نہیں کر سکتے.قرآن مجید نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو بیک وقت رسول و نبی دونوں القاب سے یاد فرمایا ہے.(سورہ مریم: ۵۵) اور یہ حقیقت ہے کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام ابرا ہیمی شریعت کے تابع تھے.ہر گز کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئے تھے.در اصل رسول و نبی ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں.اس پہلو سے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلوق خدا کی رہنمائی کے لیے اس کو مامور کیا جاتا ہے وہ رسول کہلاتا ہے اور کثرت مکالمہ مخاطبہ سے مشرف ہونے کے باعث اُس کا نام نبی رکھا جاتا ہے.
17 خانہ کعبہ 12- دفتر شعبہ تاریخ احمدیت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثابت، ہز ایکسی لینسی سفیر چین، کرم ڈاکٹر عبد السلام صاحب مشہور عالم نو بل انعام یافتہ سائنسدان اور سیدی حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (خلیفه امسیح الخامس) نے اپنے مبارک قدموں سے اس کو بھی برکت بخشی ہے.ایک بار حضرت مولانا عبدالمالک خان صاحب ناظر اصلاح و ارشاد ایک اثنا عشری معز دوست کو لے کر تشریف لائے جنہوں نے آتے ہی فرمایا کہ آپ لوگ عرب میں بھی اثر و نفوذ کے دعاوی کرنے کے خوگر ہیں لیکن آپ پر تو خانہ کعبہ کے دروازے ہی بند کر دیئے گئے ہیں.بے ساختہ میری زبان سے نکلا قبلہ یہ اعتراض کی بات نہیں.حضرت مسیح موعود اور جماعت احمدیہ کی صداقت کا چمکتا ہوانشان ہے.چنانچہ میں نے تفسیر الصافی سے سورہ القیامہ کی آیت نمبر 1 کی یہ حقیقت افروز تفسیر انہیں پڑھ کر سنائی.وجمع الشمس والقمر في الغيبة عن القائم عليه السلام انه سئل متى يكون هذا الامر اذا حيل بينكم وبين سبيل الكعبة واجتمع الشمس والقمر واستدار بهما الكواكب والنجوم." ( كتاب الصافي في تفسير القران لمؤلفه الفيض الكاشاني من منشورات المكتبة الاسلامیہ طہران المجلد الثانی صفحه ۷۶۵ چاپ چہارم) ترجمہ : ”کتاب الغیبۃ میں لکھا ہے کہ سورج اور چاند جمع کیے جائیں گے.امام قائم علیہ السلام سے پوچھا گیا تھا کہ یہ معاملہ کب ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا کہ جب تمہارے اور کعبہ کے راستے کے درمیان رکاوٹ ڈال دی جائے گی.یعنی تمہیں کعبہ جانے سے روک دیا جائے گا.سورج اور چاندا کٹھے ہو جائیں گے.ستارے اور کوکب سب ان دونوں کے اردگرد پھرنے لگیں گے.یہ پیشگوئی پڑھتے ہی وہ صاحب یکا یک اٹھ کھڑے ہوئے اور مولانا عبدالمالک خاں صاحب کو ساتھ لے کر لائبریری سے بھی باہر چل دیئے.بعد میں مولانا نے بتایا کہ یہ صاحب اس بات پر سخت حیران تھے کہ انہیں میرے شیعہ ہونے کا علم کیسے ہو گیا ؟
18 خاتم الانبیا محمد مصطفی ( علیہ 13- 1990 ء میں اور میرے آٹھ مخلص ساتھی ” تلونڈی موسیٰ خان سے کیس میں ماخوذ تھے.محترم مکرم خواجہ سرفراز احمد صاحب ایڈووکیٹ جیسے عاشق احمدیت ہمارے وکیل تھے.ہم لوگ گوجرانوالہ کی سیشن کورٹ میں پیشی کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ شہر کے عربی مدارس کے کئی طلبہ اور بعض دیگر شرفا بھی ہمارے پاس آ کے بیٹھ گئے.ایک صاحب نے سوال کیا کہ معراج جسمانی تھا کہ روحانی ؟ پہلے تو میں نے انہیں آنحضرت کی یہ حدیث سنائی کہ سوال علمی خزانہ کی چابی ہے.( در منشور للسیوطی جلد ۲ صفحہ ۶۹ ) پھر اُن کا شکریہ ادا کر کے یہ جواب دیا کہ معراج جسمانی تھا مگر نورانی جسم کے ساتھ.اگر مادی صورت میں ہوتا تو اس وقت اتنی بڑی مسجد اقصیٰ کا ہونا ضروری ہے جس میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں نے آنحضور کی امامت و سیادت میں نماز پڑھی لیکن تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ موجودہ مسجد اقصیٰ ولید بن عبدالمالک نے تعمیر کرائی.ایک حدیث میں یہ بھی لکھا ہے کہ شب معراج میں حضور اقدس کو عرش پر قیامت تک ہونے والی پوری امت کا نظارہ دکھایا گیا جو آفاق پر محیط تھی.پس جو شخص معراج کو مادی قرار دیتا ہے اُسے یہ بھی مانا پڑے گا کہ آنحضرت ﷺ تو بعد میں عرش پر تشریف لے گئے لیکن پوری امت آپ سے پہلے ہی آسمان پر موجود تھی.اس سوال نے گویا مجلس پر ایک لرزہ طاری کر دیا.پھر کسی کو کچھ کہنے کی جرات نہ ہوسکی.میں نے اس موقع پر یہ بھی بتایا که معراج دراصل آنحضرت کے مقام ختم نبوت کی عملی تفسیر ہے جس میں آپ کو کشفی طور پر مشاہدہ کرایا گیا کہ آپ جملہ نبیوں کے امام ہیں اور جہاں دوسرے نبیوں کے مقامات ختم ہوتے ہیں وہاں سے آپ کا مقام شروع ہوتا ہے.اللھم صل على محمد وآل محمد.-14.جس دن ناروے میں بدنام زمانہ شاتم رسول رُشدی کی کتاب کے نارویجن ترجمہ کی تقریب رونمائی تھی ، اتفاق یہ ہوا کہ اوسلو کے ایک مقامی کالج نے عین اس روز مجھے خطاب کرنے کی دعوت دی.اس دن ناروے میں مسلمانوں کے خلاف شدید اشتعال پھیلا ہوا تھا.محترم جناب امیر صاحب ناروے نے ترجمانی کے لیے ایک احمدی طالبہ میرے ساتھ کی اور میں عین وقت پر کالج ہال میں پہنچ گیا.میں نے دیکھا کہ کالجیٹ طلبا اور طالبات تیز سوالوں کی
19 بوچھاڑ کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور ان کے چہروں سے نفرت و حقارت صاف ٹپک رہی تھی.میں نے کھڑے ہو کر کالج کے اساتذہ اور طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں عالمگیر جماعت احمدیہ کا ایک ادنی ترین چاکر ہوں.اس وقت میرا پہلا پیغام تو دنیا بھر کے مسلمان بھائیوں کے نام ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے رسول محمد مصطفی عمل اللہ کا یہ اسوہ مشعل راہ کے طور پر پیش نظر رکھیں کہ آپ نے فتح مکہ پر ہزاروں رشدیوں کو معاف کر دیا تھا.یہ الفاظ سن کر طلبا نے اپنے قلم میزوں پر رکھ دیے اور بڑی دلچسپی کے ساتھ میری انگلی بات سننے کو تیار ہو گئے.التم.میں اپنے ساتھ بائبل کے انگریزی، عربی اور نارویجین زبان کے کئی ایڈیشن لے گیا تھا جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے کہا کہ بائبل استثنا باب ۳۳ میں حضرت موسی کی یہ پیشگوئی خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے اُن پر طلوع ہوا اور فاران کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قد دسیوں کے ساتھ آیا اور اُس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت اُن کے لیے تھی.“ ( آیت ۳) میں نے بتایا اس پیشگوئی میں فاران سے مراد مکہ ہے اور دس ہزار قد وسی وہ صحابہ ہیں جو فتح مکہ کے موقع پر آپ کے ہمرکاب تھے اور آتشی شریعت قرآن مجید ہے.اس مختصر تشریح کے بعد میں نے زور دار الفاظ میں کہا کہ : پس میرا دوسرا پیغام آپ سب کے لیے یہ ہے کہ اگر آپ بچے مسیحی بننا چاہتے ہیں تو حضرت موسیٰ کی اس پیشگوئی پر ایمان لا کر بانی اسلام کے جھنڈے تلے آجائیں.آخر میں خاکسار نے یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ بجائے اس کے کہ مسیحی سکالر اور مذہبی رہنما اس پیشگوئی کے مطابق مسلمان ہو جاتے انہوں نے بائبل کے نئے ایڈیشنوں میں دس ہزار کی بجائے لاکھوں کر دیا ہے اور ایک ایڈیشن میں جو میرے پاس اس وقت موجود ہے، پوری آیت ہی خارج کر دی گئی ہے.اس مختصر تقریر کے بعد سوال و جواب کا وقت مقرر تھا.مگر اس وقت تو سب طلبا پر گویا سکوت مرگ طاری ہو گیا.یہ دیکھ کر کالج کے معزز اسٹاف نے میرا شکریہ ادا کیا اور پُر تپاک طریق سے مجھے اور ترجمان طالبہ کو الوداع کیا.
20 15- ۱۹۶۳ء میں راقم الحروف ” تاریخ احمدیت“ عہد خلافت اولیٰ کی معلومات کی تلاش او میں بذریعہ ریل بھیرہ گیا.میرے کمرہ میں بریلوی اور دیوبندی علماء میں آنحضرت ﷺ کے نور اور بشر ہونے کی بحث چھڑ گئی.قریب تھا کہ نوبت ہاتھا پائی تک پہنچتی ، ایک نوجوان نے میری طرف مخاطب ہو کر کہا یہ صاحب بھی عالم دین معلوم ہوتے ہیں ان کی رائے بھی معلوم کر لی جائے.اس معقول تجویز پر یکا یک فضا بدل گئی اور تمام لوگ میری طرف متوجہ ہو گئے.میں نے اپنا نقطہ نگاہ یہ پیش کیا کہ ہمارے آقا محمد مصطفیٰ خاتم الانبیاعلی نوری بشر تھے اس لیے کہ نور تو جبریل بھی تھے مگر معراج رسالت میں نور محمدی نور جبرائیل سے آگے بڑھ کر عرش عظیم تک پہنچ گیا.وجہ یہ کہ نور محمدی نور بشریت کے جلوہ سے بھی منور تھا.میں نے دونوں مکتبہ فکر کے علماء کرام سے دردمندانہ اپیل کی کہ قرآن مجید نے آنحضرت کو صرف نور نہیں سراج منیر قرار دیا ہے یعنی نور پھیلانے والا سورج.چنانچہ آنحضور کی قوت قدسیہ نے تمام صحابہ ، خلفاً اور اولیائے امت کو نور بنا دیا.اسی طرح سرکار مدینہ کو تیس " کا لقب بھی عطا ہوا ہے جس کے معنی سید البشر کے ہیں.پس میں درخواست کروں گا بریلوی حضرات آنحضرت ع کو سراج منیر سے موسوم کیا کریں اور اہل حدیث اور دیوبندی بزرگ "یس" (یعنی سید البشر ) يس کے خطاب سے یاد فرمائیں.اس طرح امت مرحومہ انتشار سے بچ جائے گی اور سب غیر مسلموں کو مسلمان بنانے میں سرگرم عمل ہو جائیں گے.میرے خیالات کا کبھی پر گہرا اثر ہوا.بعد ازاں میں نے بتایا کہ یہ عاجز جماعت احمدیہ سے وابستہ ہے.اس وقت میں نے ان کی آنکھوں سے اندازہ لگایا کہ اُن کے دل میرے لیے جذبات تشکر سے لبریز ہیں.فالحمد للہ.صلى 16 - سید نا محمود حضرت مصلح موعود کے عہد مبارک کے آخری دور کا واقعہ ہے جبکہ حضرت سیدی مرزا ناصر احمد صاحب نے مجھے جلسہ سالانہ کے لیے پرالی فراہم کرنے کی غرض سے تحصیل حافظ آباد بھجوایا.میں شام کو حافظ آباد سے بذریعہ ٹا نگا کولو تارڑ پہنچا.جہاں قصبہ کے رئیس اعظم چوہدری محمد فیروز صاحب تارژ جماعت کے پریذیڈنٹ تھے.اگر چہ آپ اس وقت بستی میں نہ تھے مگر ان کی حویلی میں اُن کے بعض عزیز مجلس لگائے بیٹھے تھے.وہیں ایک اہل حدیث عالم
21 جناب مولوی عبد القادر صاحب بھی موجود تھے.جو نہی میں نے سلام کیا انہوں نے فرمایا معلوم ہوتا ہے آپ ربوہ سے آرہے ہیں.آپ لوگ بہت اچھے ہیں.اے کاش آپ کا ختم نبوت پر بھی ایمان ہوتا.میں نے بے ساختہ جواب دیا آج پوری دنیا میں صرف احمدی ہی ختم نبوت کے قائل ہیں جس کا ایک فیصلہ کن ثبوت یہ ہے کہ دیو بندی عالم دین شبیر احمد عثمانی صاحب نے اپنے رسالہ ” الشباب‘ میں اگر چہ ہمیں کافر اور واجب القتل تک لکھا ہے مگر آیت خاتم النبین کی ی تفسیر کرنے پر وہ بھی مجبور ہیں کہ : جس طرح روشنی کے تمام مراتب عالم اسباب میں آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں اسی طرح نبوت ورسالت کے تمام مراتب و کمالات کا سلسلہ بھی روح محمدی صلحم پر ختم ہوتا ہے.بدیں لحاظ کہہ سکتے ہیں کہ آپ رتبی اور زمانی بر حیثیت سے خاتم النبیین ہیں اور جن کو نبوت ملی ہے آپ ہی کی مہر لگ کر ملی ہے.( ترجمہ قرآن مجید حاشیہ بر خاتم النبین ) میری زبان سے یہ الفاظ سنتے ہی جناب مولانا صاحب سخت مشتعل ہو گئے اور تحدی کے ساتھ کہا کہ یہ بالکل غلط ہے.میرے پاس علامہ عثمانی کا ترجمہ موجود ہے جس میں ہرگز یہ تشریح موجود نہیں.یہ کہہ کر وہ تیزی سے بھاگتے ہوئے گھر گئے اور ترجمہ لے آئے اور چیلنج کیا کہ یہ عبارت اس میں سے نکال کر دکھاؤ ورنہ افترا پردازی کا اقرار کرو.مجھے معلوم تھا کہ یہ تشریح آیت خاتم النبین کے ترجمہ کے دوسرے صفحہ پر ہے میں نے اطمینان سے آیت کے ترجمہ کا صفحہ الٹ کر دوسر.صفحة موجود یہ پوری عبارت اُن کے سامنے رکھ دی.مولوی صاحب یہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے اور ساتھ ہی مجلس میں موجود تھر یوں میں خوشی کی زبر دست لہر دوڑ گئی.میں نے پُر زور الفاظ میں کہا کہ اس تفسیر سے صاف ثابت ہوا کہ ” خاتم کے معنے مہر کے اور خاتم النبیین کے معنی نبی بنانے والی مہر کے ہیں جس نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کو اپنی مہر سے نبوت بخشی.عہد حاضر کے تمام مکفر علماء فرماتے ہیں کہ آنحضرت ماہ کی مہراب نبی نہیں بنا سکتی.لیکن احمدی ڈنکے کی چوٹ پر ایک صدی سے اعلان عام کر رہے ہیں کہ مہر محمدی از لی اور ابدی ہے اور آج بھی نبی بنا سکتی ہے.لہذا صرف اور صرف احمدی ہی ختم نبوت کے قائل ہیں اور انہی ہاتھوں ہی میں اللہ جل شانہ نے ختم نبوت کا پرچم تھمایا ہے.یہ سنتے ہی
22 مولوی عبد القادر صاحب نے بھی خدا ترسی کا ثبوت دیتے ہوئے بھری مجلس میں اقرار کیا کہ بلاشبہ تمام مسلمانوں میں احمدی ہی خاتم النبین کو صحیح معنوں میں تسلیم کرتے ہیں.2-17 ستمبر کے بدنام زمانہ فیصلہ کے چند ماہ بعد جدہ سے ایک عرب بزرگ سیالکوٹ کے ایک احمدی دوست کے ہمراہ دفتر شعبہ تاریخ تشریف لائے.فرمانے لگے مختصر وقت میں مجھے صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ اسمبلی نے آپ لوگوں کے متعلق کیا فیصلہ کیا ہے؟ میں از خود جواب دینے کی بجائے سعودی عرب کے مسلّمہ مسجد د حضرت محمد بن عبد الوہاب (المتوفی ۱۲۰۶ھ مطابق ۱۷۹۲ء) کی مختصر سیرت الرسول‘ مطبوعہ بیروت کا صفحہ ۱۷۲-۱۷۳ ان کے سامنے رکھا جس میں لکھا تھا کہ امیر المومنین ابو بکر صدیق اور تمام امت مسلمہ جن مرتدوں کے خلاف سر بکف ہوئی اُن کا عقیدہ تھا انقضت النبوة فلا نطيع احدا بعد " یعنی آنحضور نے کے بعد نبوت کا غیر مشروط اور قطعی طور پر خاتمہ ہو گیا ہے.اس لیے آپ کے بعد ہم کسی اور کی اطاعت ہر گز نہیں کریں گے اور بالکل نہیں کریں گے.میں نے دیار حرم کے اس معزز مہمان سے پوچھا کہ عہد صدیقی کے ان مرتدوں اور اسمبلی کی موجودہ قرارداد میں آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں.وہ پکار اٹھے "والله لا فرق بينهما إلا ان عقيدة المرتدين طبعت في اللسان العربيه ونص البارليمان في الارديه" يعنى خدا کی قسم دونوں میں صرف یہ فرق ہے کہ مرتدوں کا عقیدہ عربی زبان میں ہے اور پاکستان پارلیمنٹ کی قرارداد اردو میں ہے.اس کے بعد میں نے کتاب کے صفحات ۱۲ ،۱۳، ۱۹۶ ، ۱۹۷ بھی انہیں دکھائے جن میں حضرت علامہ محمد بن عبد الوہاب نے لکھا ہے کہ آج اصل اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ فیصلہ رسول کے مطابق تہتر فرقوں میں سے صرف ایک کو ناجی کہا جائے.جو شخص اس کی معرفت رکھتا ہے وہی فقیہ ہے اور جو اس پر عمل پیرا ہے وہی مسلمان ہے.نیز یہ کہ صحابی رسول حضرت جارود بن معلی نے آنحضرت کے وصال پر مرتد ہونے والے قبیلہ عبدالقیس میں یہ باطل شکن بیان دیا کہ محمد رسول اللہ ہے اسی طرح وفات پاگئے جس طرح حضرت موسیٰ اور عیسی علیہما السلام.یہ سنتے ہی پورا قبیلہ از سر نو حلقہ بگوش اسلام ہو گیا.
23 18 - ۲۰۰۲ء میں یورپ کے سفروں کے دوران یہ خاکسار فرانس بھی پہنچا.اثنائے قیام میں نے پیرس مسجد کے قریب ایک لبنانی کتب خانہ سے عربی لٹریچر خریدا جس میں ایک ہزار سال برس قبل کے شہرہ آفاق صوفی اور عارف باللہ حضرت شیخ محمد الحکیم الترندی کی کتاب ختم الاولیا بھی تھی.اس کتاب کی مجھے مدت سے تلاش تھی.امارات متحدہ کے کتب خانوں سے بھی دستیاب نہ ہو سکی تھی.میں نے صاحب مکتبہ کا از حد شکریہ ادا کر کے اس کا ہدیہ پیش کر دیا اور پھر معابعد کتاب کا صفحہ ۳۴۱ ملاحظہ کرنے کی درخواست کی جس میں لکھا تھا کہ وہ شخص جو خاتم النبیین کے معنی آخری نبی کرتا ہے وہ اندھا ہے.اس میں بھلا آنحضرت ﷺ کی کیا منقبت ( خوبی) ہے.یہ تاویل تو پاگلوں اور جاہلوں کی تاویل ہے.علم نو از لبنانی بزرگ یہ عبارت پڑھ کر دنگ رہ گئے.میں نے اُن سے یہ کہ کر اجازت مانگی کہ السیدی بعینہ یہی عقیدہ جماعت احمدیہ کا ہے.انہوں نے بڑے غور سے میری بات سنی اور نہایت درجہ خندہ پیشانی اور کمال عقیدت اور احترام سے مجھے اور میرے ساتھیوں کو ( جنہیں جناب اشفاق ربانی صاحب امیر جماعت فرانس نے میرے ساتھ کیا تھا ) رخصت کیا.19.اواخر ۱۹۹۴ء میں جنوبی ہند کے شہر کو کمبٹور ( تامل ناڈو ) میں تین اختلافی مباحث پر نہایت پُر امن مباحثہ ہوا.امام عالی مقام سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الرابع نے حافظ مظفر احمد صاحب اور خاکسار کو احمدی مناظرین کی معاونت کے لیے بذریعہ ہوائی جہاز بھجوایا.ختم نبوت کے موضوع پر اہل حدیث مناظر مولوی زین العابدین صاحب ( نمائندہ جمعیۃ اہل القرآن والحدیث) نے پورے زور سے یہ نظریہ بار بار پیش کیا کہ قرآن مجید کی رو سے ہر رسول کی امت ہے لکل امة رسول (یونس) لہذا اگر مرزا صاحب نبی ہیں تو اُن کی امت مسلمانوں سے بالکل الگ اور نئی امت ہے.دوران مباحثہ اللہ جلشانہ نے حضرت امام ہمام خلیفتہ امسیح الرابع کی زبر دست روحانی توجہ کی برکت سے میری توجہ اس طرف منعطف کرائی کہ حدیث نبوی کے انڈیکس سے معلوم کیا جائے کہ نبی کتنے ہوئے اور امتیں کس قدر گزریں.خدا کی اعجازی نصرت دیکھئے چند منٹوں کی ورق گردانی سے مسند احمد بن حنبل جلد ۵ ہی سے اسی مضمون کی دو حدیثیں مل گئیں.(صفحہ ۱۵ اور ۴۵۵) جن میں فرمان نبوی درج تھا.امت مسلمہ سے قبل انہتر امتیں ہوئیں اور نبیوں کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تھیں.
24 بوقت شب حسب دستور مناظر جماعت مولانا محمد عمر صاحب فاضل مبلغ کیرالہ ( حال ناظر اصلاح ارشاد قادیان)، جناب حافظ مظفر احمد صاحب اور یہ عاجز بغرض مشورہ بیٹھے تو میں نے مولانا محمد عمر صاحب سے عرض کیا کہ کل ختم نبوت پر بحث کا آخری دن ہے.آپ آخری تقریر میں پورے جلال و تمکنت کے ساتھ سامعین کو بتائیں کہ ہم نے تو قرآنی دلائل سے فیضان کا جاری ہونا ثابت کر دیا ہے.مگر افسوس جناب مولانا زین العابدین صاحب قرآن مجید کے فیصلہ کو تسلیم کرنے کی بجائے ہم سے نہیں سید المرسلین خاتم المرسلین کے خلاف جنگ کرتے رہے کیونکہ آنحضور ﷺ کی حدیث سے ثابت ہے کہ امتیں صرف ۶۹ آئیں مگر نبی ایک لاکھ چوبیس ہزار کی تعداد میں مبعوث ہوئے.مگر ہر عاشق رسول کا دل یہ دیکھ کر پاش پاش ہو جاتا ہے کہ فاضل مناظر نے دربار خاتم النبیین کا فیصلہ نہایت بے دردی سے چاک چاک کر ڈالا اور سارا وقت اپنا خود ساختہ نظریہ اور ڈھکونسلا پیش کرنے میں ضائع کر دیا.چنانچہ اگلے روز مکرم مولا نا محمد عمر صاحب فاضل نے جونہی اپنی تقریر میں یہ اثر انگیز اور انقلابی نکته پیش فرمایا ، مولوی زین العابدین صاحب اور اُن کے مددگار علماء ( جو شروع دن سے ہمیں مرعوب کرنے کے لیے سینکڑوں کتابیں میزوں پر سجائے اور بازار لگائے بیٹھے تھے ) یکا یک کھڑے ہو گئے اور احمدی مناظر سے اصل احادیث دکھلانے کا مطالبہ کیا جو بفضلہ تعالیٰ اسی وقت پورا کر دیا گیا.مگر روایت دیکھنے کے باوجود ان حضرات نے اپنا ہنگامہ جاری رکھا اور دہشت زدہ ہو کر یہ دعویٰ کیا کہ علم اسماء الرجال کے مطابق ان حدیثوں کا فلاں راوی ضعیف ہے.مکرم حافظ مظفر احمد صاحب نے فوراً بآواز بلند یہ پر شوکت جواب دیا کہ آپ حضرات جس راوی پر جرح و تنقید فرمارہے ہیں وہ ان احادیث کی اسناد میں سرے سے موجود ہی نہیں.یہ سن کر فریق ثانی کے علمائے کرام پر تو گویا ایک بجلی سی گر پڑی اور وہ آپس میں ہی الجھ پڑے اور اپنے نمائندہ مناظر پر خفگی کا اظہار کیا.یہاں تک کہہ ڈالا کہ ایسے بے بنیا دسوال کرنے کی بھلا ضرورت ہی کیا تھی.یہ تاریخی دن ہمارے لیے یوم الفرقان سے کم نہ تھا جسے ویڈیو کیمرہ کی آنکھ نے بھی ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا.
25 20 - اگر چہ سورہ نساء میں اطاعت رسول عربی کی برکت سے نبی ، صدیق ، شہید اور صالح کے درجات کی خوشخبری دی گئی ہے.ایک عالم دین نے بوقت ملاقات یہ عجیب بات کی کہ ان چار درجات میں سے نبی کا ذکر میرے لیے نا قابل برداشت ہے.آپ صرف باقی درجوں کی نسبت کچھ روشنی ڈالیے.میں نے دریافت کیا کہ صدیق آ سکتے ہیں؟ جواب دیا ہاں.اب میرا سوال یہ تھا کہ صدیق کی اصطلاحی تعریف بتلائیے.اُن کی زبان سے بے ساختہ نکلا جو خدا کے نبی کا پاک چہرہ دیکھتے ہی اول نمبر پر ایمان لے آئے ، صدیق کہلاتا ہے.میں نے ان کی علمی معلومات کو سراہتے ہوئے کہا کہ آپ نے صدیق کی بالکل ٹھیک تعریف کی ہے اور حضرت حکیم الامت شاہ ولی اللہ دہلوی نے حجۃ اللہ البالغہ میں ، حضرت علامہ سیوطی نے تفسیر در منشور میں ، حضرت خواجہ میر درد دہلوی نے ملفوظات میں، حضرت علامہ حلبی نے سیرت حلبیہ میں اور چشتی بزرگ حضرت نظام الدین بدایونی نے ہشت بہشت میں بالکل یہی تعریف صدیق کی بیان فرمائی ہے.اب میں آپ سے بصد ادب پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر فیضان کوثر نبوی کی بدولت باب نبوت بند ہے تو کسی امتی کو مرتبہ صدیقیت کیسے مل سکے گا.یہ بزرگ عالم آبدیدہ ہو کر فرمانے لگے کہ خدا شاہد ہے کہ اس طرف نہ کسی نے مجھے توجہ دلائی نہ خود مجھے ہی اس کا خیال آیا.یہاں میں یہ تصریح کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ خاکسار نے سب سے پہلے حضرت مسیح موعود کے ملفوظات میں یہ تعریف دیکھی تھی جس کی سحر آفرینی کا مشاہدہ اُس دن ہوا.21- خدام الاحمدیہ مرکز یہ پاکستان کے اجتماع ۱۹۸۲ء پر حسب دستور مجلس سوال و جواب کا خصوصی پروگرام تھا جس میں حضرت سیدی مرزا طاہر احمد صاحب ، حضرت ملک سیف الرحمن صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ اور پروفیسر نصیر احمد خاں صاحب بھی شریک محفل تھے.ایک پرچی کے ذریعہ سوال کیا گیا کہ کیا حضرت مسیح موعود کے بعد بھی کوئی نبی آ سکتا ہے.میں نے جوابا بتا یا کہ اس سوال کا جواب حضرت خلیفہ ثالث نے اسمبلی ۱۹۷۴ء میں یہ ارشاد فرمایا کہ حضرت شاہ اسماعیل شہید بالاکوٹ نے تقویۃ الایمان میں تحریر فرمایا ہے کہ خدا تو وہ شہنشاہ ہے جو ایک حرف کن کے نتیجہ میں کروڑوں نبی ہی نہیں کروڑوں محمد بھی پیدا کر سکتا ہے.خاکسار کا بھی یہی جواب ہے البتہ مزید مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ سوال کرنے والے صاحب اگر احمدی ہیں تو انہیں یقین رکھنا چاہیے کہ اگر خدا کی جناب میں مستقبل میں کسی مامور کا آنا مقدر ہے تو اُن کی صالح اولاد میں اُس پر ضرور ایمان لے آئیں گے لیکن یہ سوال اگر
26 کسی غیر از جماعت بزرگ کا ہے تو میں اُن سے بادب کہوں گا کہ جو امتی نبی خاتم النبین کی غلامی میں برپا ہو چکا ہے پہلے اُس کو تو صدق دل سے قبول فرما ئیں وگرنہ ایسا سوال ”ذہنی عیاشی کے سوا کچھ نہیں.22- ۱۹۴۶ء میں جبکہ راقم الحروف جامعہ احمدیہ کا طالب علم تھا، رمضان المبارک کے دوران درس قرآن اور تراویح کے لیے بنگہ ضلع جالندھر میں مقیم تھا.دریں اثنا مجھے مولا نا کرم الہی صاحب ظفر مجاہد سپین کے ایک عزیز ڈاکٹر فضل حق صاحب کے کلینک پر جانے کا اتفاق ہوا.ڈاکٹر صاحب نے بنگہ کے ایک آریہ سماجی جنٹلمین سے جو پہلے ہی تشریف رکھتے تھے ، میرا تعارف کرایا.قادیان کا نام سنتے ہی وہ جوش میں آگئے اور اعتراض کیا کہ آپ کے نبی کریم ساری عمر اهدنا الصراط المستقيم کی دعا کرتے رہے.ثابت ہو ا معاذ اللہ انہیں آخر دم تک حق تک رسائی نہیں ہو سکی.دوسرے یہ کہ سورہ بقرہ کے شروع میں صاف لکھا ہے کہ قرآن صرف متقیوں کو ہدایت دیتا ہے گنہ گاروں کو نہیں دے سکتا.بھلا اس کے نزول کا فائدہ کیا ہوا.ان اعتراضات پر ان صاحب کو بہت ناز تھا.خود ڈاکٹر فضل حق صاحب بڑی بے تابی سے جواب کے لیے مجسم بے قرار اور پیکر اضطراب بنے ہوئے تھے.میں نے آریہ نو جو ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا ہندو دھرم میں شکتی مان ایشوریا پر ماتما کو محدود ہستی بتایا گیا ہے یا غیر محدود؟ اس کا مجھے علم نہیں مگر قرآنی نظریہ کے مطابق خدا تعالیٰ بھی غیر محدود ہے اور اُس کے قرب کی راہیں بھی بے حد و بے حساب ہیں.لہذا آنحضرت ﷺ کا پوری عمر اهدنا" کی دعا دنیا کے لیے یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص نبیوں کا شہنشاہ بھی ہو تو اس کے لیے بھی مولا کریم کے فضلوں کے بے شمار درواز.کھلے ہیں.جہاں تک قرآن کے ھدی للمتقین" ہونے کا تعلق ہے اس کا اصل مطلب تو یہ ہے کہ پہلی کتا ہیں اور صحیفے انسان کو زیادہ سے زیادہ متقی بنا سکتی تھیں مگر قرآن جیسی کامل کتاب متقیوں کے لیے بھی مشعل راہ ہے.علاوہ ازیں متقی کے معنی مسلمہ طور پر پرہیز گار کے ہیں.اب ظاہر ہے دوا خواہ کس درجہ زوداثر ہو فائدہ صرف اُس کو ہو سکتا ہے جو علاج کے ساتھ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق پر ہیز بھی کرے.میرے جواب پر آریہ سماجی معترض بالکل ساکت و صامت ہو گئے اور ڈاکٹر فضل حق صاحب کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا.
27 23- خدائی نصرتوں کا ستمبر ۱۹۷۴ء کے بعد ایک عظیم الشان دروازہ کھل گیا اور پاکستان کے طول و عرض سے ہر جمعرات کو خلیفہ راشد حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے حضور بکثرت وفود آنے لگے.حضور انور کا ارشاد تھا کہ تم شام تک خلافت لائبریری میں رہوتا میری ملاقات کے بعد اصل حوالے دکھا سکو یا مزید استفسارات کے جواب دے سکو.چنانچہ کئی برسوں تک عاجز کو اس خدمت کی توفیق ملی.خدا کے فضل سے ابتلا کے ان پرفتن ایام میں بہت سی سعید روحیں حلقہ بگوش احمدیت ہوئیں.ایک بار وفد کے بعض غیر از جماعت معززین نے یہ اعتراض خوب اچھالا کہ احمدی یقینا ختم نبوت کے منکر ہیں.خاکسار نے حضرت مسیح موعود کی کتاب براہین احمدیہ (حصہ چہارم طبع اول صفحه ۵۰۲-۵۰۳ حاشیه در حاشیه مطبوعہ ۱۸۸۴ء) کا یہ الہام اُن کے سامنے رکھا: صل على محمد و آل محمد سيد ولد آدم و خاتم النبيين" درود بھیج محمد اور آل محمد پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم النبیین ہے.( میں نے دردمند دل سے عرض کیا کہ یہ الہام قیام جماعت سے بھی چھ سال قبل کا ہے جبکہ آپ اور ہم میں سے کوئی بھی پیدا نہیں ہوا تھا.یہ جماعت احمدیہ کا الہامی دستور اور آفاقی منشور ہے جس پر ایمان لائے بغیر قیامت تک کوئی احمدی ہی نہیں ہو سکتا.اور حقیقت ہے کہ یہ الہامی شرط دنیا کے کسی مسلمان فرقے کے داخلہ فارم میں شامل نہیں ہے.24- حضرت مولانا عبد المالک خاں صاحب ناظر اصلاح وارشاد، مجاہد افریقہ خطابت کے شاہسوار، مشفق ہستی تھے جنہیں حق تعالیٰ نے فنافی الخلافت کی خلعت سے نوازا تھا.اس ناچیز اور لاشنی محض سے آپ کو محض اللہ محبت تھی.حضرت مولانا نے ملک کے طول وعرض میں کئی تبلیغی سفروں میں مجھے رفاقت کا شرف بخشا جن کی یادیں میرے لوح قلب پر ہمیشہ کے لیے نقش ہیں جو میرے لیے سرمایہ حیات کی حیثیت رکھتی ہیں آہ !! یاران تیز گام نے محمل کو مجو جرس کارواں جا رہے
28 یہ عاجز دفتری کام میں مصروف تھا کہ یکا یک حضرت مولانا کی السلام علیکم کی آواز سنائی دی اور آپ ایک باریش بزرگ کے ساتھ کمرہ شعبہ تاریخ میں تشریف لائے اور فرمایا میں انہیں تم سے ملانے کے لیے آیا ہوں.میرے معزز مہمان کے پاس وقت بہت تھوڑا ہے.کوئی ایک مختصری بات سنا دیجیے.میں نے ان بزرگ پر نگاہ ڈالی تو حق تعالیٰ کی طرف سے میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ یہ سیال شریف والوں کے مرید ہیں مگر ہیں بہت شریف مزاج.یہ ذہن میں آتے ہی خاکسار نے عرض کیا خدا کے فضل و کرم سے آپ بھی آنحضرت ﷺ کو احمد یقین کرتے ہیں لہذا میری ادب کے ساتھ یہ درخواست ہے کہ اپنے تئیں ہمیشہ احمدی کہا کریں.جھٹ بولے میں احمدی تو ہوں مرزائی ہرگز نہیں.یہ سنتے ہی میں نے انیسویں صدی کے نامور چشتی بزرگ حضرت خواجہ شمس الدین سیال شریف کے حسب ذیل ارشادات و ملفوظات عالیہ اُن کے مطالعہ کے لیے سامنے رکھ دیئے.ان میں لکھا تھا: آپ کے پوتے صاحب زادہ محمد امین صاحب آئے.آپ نے پوچھا اے بیٹے کون سی سورت پڑھتے ہو؟ انہوں نے کہا سورت نور.آپ نے تبسم فرماتے ہوئے یہ شعر سة صورت مرزے یار دی ساری سورت نور والشمس والضحی پڑھیا غفور بندہ نے عرض کیا مرزا سے کیا مراد ہے؟ فرمایا.رسول خدا اور تینوں مذکورہ سورتیں آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں.پھر فرمایا.عاشقوں کا دستور ہے کہ وہ اپنے معشوق کو مرز ایا را نجھا کہہ کر یاد کرتے ہیں.“ ( مرءة العاشقین صفحه ۲۷۲ مرتبہ سید محمد سعید اسلامک بک فاؤنڈیشن.ناشر المعارف گنج بخش روڈ لاہور ۱۹۷۳ ء ) وہ بزرگ یہ عبارت پڑھتے ہی پورے جوش سے فرمانے لگے.آج سے میں احمدی بھی ہوں اور مرزائی بھی اور ساتھ ہی بتایا کہ میرا مسلک چشتی ہے اور میں سیال شریف سے تعلق ارادت رکھتا ہوں.
29 25- ۳ ر ا پریل سے ۳۱ رمئی ۱۹۹۰ ء تک میں اپنے دوسرے آٹھ اسیران راہ مولی کے ساتھ گوجرانوالہ سنٹرل جیل میں رہا.ہمیں پہلے روز قید خانہ کے ایک وسیع کمرہ میں رکھا گیا جو قیدیوں سے بھرا ہوا تھا.ہمیں بتایا گیا کہ یہاں جو صاحب نمازیں پڑھاتے ہیں وہ غالبا تیسری چوتھی بار اغوا کے کیس کی سزا بھگت رہے ہیں.ہم احمدیوں نے الگ نماز پڑھی اور پھر مختلف تبلیغی مسائل پر گفتگو کرنے لگے.ایک شریف النفس اہل حدیث نوجوان میرے قریب بیٹھا نہایت عقیدت سے میری باتیں سن رہا تھا کہ یکا یک اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کس جرم کی پاداش میں یہاں پہنچے ہیں؟ میں نے کہا میاں آپ اپنے اہم سوال کے جواب سے پہلے مجھے اجازت دیں کہ میں اپنے ہدیہ نعت کے چند اشعار سناؤں.نوجوان نے کہا بڑے شوق سے.جس پر خاکسار نے یہ نظم خوش الحانی سے پڑھی: مولا میری بگڑی ہوئی تقدیر بنانے والے عرش تک جلوہ دکھانے والے فرش تیرے احسانوں کا ہو ہم غریبوں کو محمد ارض بھلا کیسے ادا ملانے والے یثرب تیری عظمت یہ ہیں افلاک جھکے شاہ لولاک کو سینے بسانے والے اک نظر شاہد تشنہ کی طرف بھی آقا آپ کوثر سے بھرے جام پلانے والے یہ شعر پڑھنے کے بعد میں نے نوجوان کو بتلایا کہ مجھے اور میرے ساتھیوں کے خلاف گوجرانوالہ کے علماء صاحبان نے ایف آئی آر درج کرائی تھی کہ یہ سب گستاخ رسول ہیں.انہیں پھانسی کے تختہ پرلٹکا دینا چاہیے.رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانہ میں (اکبر الہ آبادی)
30 -26.کسی علمی مجلس میں ایک بریلوی بزرگ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ کہنے کی نسبت تمہارا کیا نظریہ ہے.خاکسار نے بتایا کہ آنحضرت مہ کو حاضر ناظر سمجھ کر نہیں بلکہ اپنے باطنی عشق و فدائیت کے اظہار کے لیے ”یا رسول اللہ کہنا ہمیشہ عشاق رسول کی پہچان رہی ہے.چنانچہ حضرت مولانا جامی رحمتہ اللہ علیہ نے تو اپنی فارسی نعت میں گیارہ بار یا رسول اللہ کے الفاظ ردیف میں استعمال فرمائے ہیں.ان کی شہرہ آفاق نعت کا مقطع یہ ہے.چوں بازوئے شفاعت را کشائی بر گناہگاراں مکن محروم جامی را در آن یا رسول الله فداك ابی و امى يارسول الله الا الله 27.جماعت احمدیہ کراچی کے زیر اہتمام مارٹن روڈ میں ایک جلسہ عام خلافت رابعہ کے عہد میں منعقد ہوا.خاکسار کی تقریر کے دوران ایک اہلحدیث فاضل کی مجھے یہ چٹ پہنچی کہ تم نے حديث "لولاك لما خلقت الافلاك" سنائی ہے.صحاح ستہ میں اس کا حوالہ بھی پبلک کو بتادیجیے.میں نے عرض کیا کہ قرآن مجید نے ہر مسلمان کو آنحضرت میں اللہ کے ہر ارشاد کی تعمیل کا حکم دیا ہے.(وَمَا اتكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ الحشر : ٨، أَطِيعُو الله وَالرَّسُولَ آل عمران : ۱۳۲) میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اللہ جلشانہ نے کہیں یہ بھی قید لگائی ہے کہ مسلمانو حدیث وہی ماننا جو آنحضرت ﷺ کے کئی سو برس بعد صحاح ستہ میں درج ہو اور اگر اولیاء امت اور بزرگان اسلام کی صر کتابوں میں درج ہو تو اسے حقارت سے ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا ؟ میں کہتا ہوں کہ قرآن مجید نے اس حدیث کے مضمون کی ایسی تصدیق فرمائی ہے کہ دن چڑھا دیا ہے.چنانچہ سورہ نجم میں دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ" کے ذریعہ آنحضرت کو خدا سے کامل قرب کی وجہ سے دو قوسوں میں وتر قرار دیا گیا ہے.قوس عربی نعت میں کمان کو کہتے ہیں.جب دو قومیں اکٹھی کر دی جائیں تو مکمل دائرہ کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور جیومیٹری کا مسلّمہ قاعدہ ہے کہ جب تک مرکزی نقطہ فرض نہ کیا جائے دائرہ بن ہی نہیں سکتا.پس جب دائرہ کا ئنات کے آنحضرت ہی نقطہ مرکز یہ قرار پائے تو حدیث لولاك لما خلقت الافلاك کا کوئی سچا مسلمان کیونکر منکر ہوسکتا ہے.این ہو CAN
31 28- خاکسار ایک بار چند خدام کے ساتھ راجہ بازار راولپنڈی کے ایک دیو بندی کتب خانہ پر گیا اور حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی ( وفات ۱۸۸۰ء) کی عظمت شان اور جلالت مرتبت کا ذکر کرنے کے بعد آپ کی تصانیف حاصل کرنے کی درخواست کی.کتب خانہ کے مہتمم ایک عالم دین تھے.جنہوں نے سب موجود کتب میرے سامنے رکھ دیں جن میں سے میں نے چند انتخاب کر کے اُن کی منہ مانگی قیمت ان کے ہاتھ پر رکھ دی.حضرت مولانا قاسم سے اخلاص وعقیدت کے باعث انہوں نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو نہایت محبت سے چائے پلائی.حالانکہ میں نے سلام کے بعد یہ واضح کر دیا تھا کہ میں ربوہ سے حاضر ہوا ہوں اور میرا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے.واپسی پر مہتمم صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی کتاب ” تحذیر الناس' (جو انہی سے چند منٹ قبل خریدی تھی) کھول کر سامنے رکھ دی اور انہیں یقین دلایا کہ ختم نبوت“ سے متعلق جماعت احمدیہ کا وہی مسلک ہے ایک صدی قبل حضرت مولانا نے پیش کیا تھا.یعنی آیت خاتم کے معنی ”آخری نبی، عوام کرتے ہیں اور اصل مفہوم اس منصب عالی کا یہ ہے کہ باقی نبی امتیوں کے باپ تھے اور محمد رسول اللہ خاتم النبین نبیوں کے بھی باپ ہیں.اس لیے آپ کے بعد امت میں کوئی نبی پیدا بھی ہو جائے تو ختم نبوت پر کچھ اثر نہیں پڑے گا.نیز آئمہ اہل سنت کے نزدیک النبين بھی اب جو نبی آئے گا فقط شریعت محمدیہ کی اشاعت کے لیے آئے گا.خاکسار نے مری روڈ کی بیت الذکر میں پہنچ کر خدام سے کہا کہ آپ کو شکایت تھی کہ راولپنڈی کے علماء متعصب ہیں جو کوئی کلمہ حق نہیں سنتے لیکن اب آپ نے دیکھ لیا کہ یہاں بعض ایسے شریف علماء بھی موجود ہیں جو نہ صرف ربوہ سے آنے والوں کو چائے پلاتے بلکہ ختم نبوت“ جیسے حساس موضوع پر نہایت غور سے ہماری بات بھی سنتے ہیں.ضرورت قرآنی حکم کے مطابق حکمت اور 66 موعظہ حسنہ کی ہے.29- " تاریخ احمدیت کی تیسری جلد کی نفیس کتابت جناب شاہ محمد صاحب خوشنویس مقیم چھانگا مانگا ضلع لاہور ) کی مرہون منت ہے.خاکسار ۱۹۵۹ء کے آخر میں کتابت کا جائزہ لینے کے لیے اُن کے پاس گیا.آپ کی قیام گاہ کے قریب معزز بریلوی دوستوں کی مسجد تھی جہاں اگلے دن صلى الله نماز فجر کے بعد ایک رضوی‘ عالم نے وعظ شریف فرمایا کہ محبوب خدا آنحضرت معه مع
32 ,, ازواج واولاد کے روضہ مبارک میں زندہ موجود ہیں.یہ سنتے ہی میرا جگر پارہ پارہ ہو گیا اور جو نبی یہ خطاب ختم ہوا، میں مسجد کے اندر چلا گیا اور ان کی خدمت میں حاضر ہو کر نہایت ادب سے عرض کی کہ کیا آپ ہی نے ابھی روضہ مبارک میں آنحضور کے مع ازواج کے زندہ ہونے کا ذکر کر کے اسے آنحضور کا معجزہ قرار دیا ہے اور اس سے آپ کی سب نبیوں پر فضیلت ثابت کی ہے.جواب دیا بالکل یہی میرا عقیدہ ہے اور اس پر ہم سب اہل سنت قائم ہیں.خاکسار نے سوال کیا کہ اگر خدانخواستہ آپ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ جتنی جگہ میں مع خاندان کے زندہ دفن کر دیا جائے اور او پر ایک گنبد خضرا بھی بنا دیا جائے تو آپ اسے خدا کا بہت بڑا انعام سمجھیں گے یا اسے سزا سے تعبیر کریں گے؟ علامہ یہ بات سنتے ہی اپنے حواریوں سمیت اٹھ کھڑے ہوئے اور نہایت تیزی سے مسجد سے باہر نکل گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے نظر سے اوجھل ہو گئے.30.حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے زمانہ خلافت کے پہلے سال کا واقعہ ہے کہ اخویم محترم جناب شیخ محمد حنیف صاحب رحمہ اللہ امیر جماعت احمدیہ کوئٹہ کی درخواست پر حضور نے مجھے کوئٹہ بھجوایا جہاں خدا کے فضل و کرم سے کئی روز تک دعوت حق کا سلسلہ کامیابی سے جاری رہا.ایک ضیافت میں کوئٹہ کے ایک وکیل بھی تشریف لائے اور خاتم النبین“ کے لغوی معنی دریافت کیا.عاجز نے بتلایا کہ عربی زبان میں زیر اور زبر کے فرق سے مفہوم ہی بدل جاتے ہیں.مثلا عالم جہان کو کہتے ہیں مگر عالم کا مطلب ہے علم رکھنے والا.اسی طرح اہل عرب کے یہاں ختم کرنے کے لیے خاتم کا لفظ مستعمل ہے.اس کے برعکس وہ ہمیشہ خاتم مہر کو کہتے ہیں.اور کالجوں اور مدرسوں کے سرٹیفکیٹوں پر خاتم الکلیہ یا خاتم المدرسہ ضرور لکھا ہوتا ہے.خود ہماری ہائی کورٹوں بلکہ سپریم کورٹ تک بعض اوقات اپنے فیصلہ کے بعد میں اس عبارت کا اضافہ کرتی ہیں.مہر عدالت سے جاری ہوا کبھی سیشن کورٹ ، ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے کسی فیصلہ میں آپ نے یہ الفاظ بھی پڑھے ہیں کہ : مہر عدالت سے بند ہوا
33 جناب وکیل کہنے لگے بس میں سمجھ گیا کہ آنحضرت ﷺ نبیوں کی مہر ہیں.ایسی مہر جس سے فیضان نبوت بند نہیں ہوتا بلکہ جاری ہوتا ہے.میں نے عرض کیا اب آنجناب بآسانی اس نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں کہ آج احمدی ہی ہیں جو خاتمیت محمدی پر دلی ایمان رکھتے ہیں.31- ایک دفعہ دوران مذاکرہ اس سوال پر بہت زور دیا گیا کہ سب نبی امی ہوتے ہیں مگر مرزا صاحب نے تو اپنے اساتذہ کا خود اعتراف کیا ہے.سائل کے دوسرے رفقاء کو بھی فقط اسی اعتراض سے طبعی دلچسپی تھی.میں نے انہیں بتایا کہ ایک عاشق رسول کے لیے یہ انکشاف نہایت درجہ خوشی کا موجب ہونا چاہیے کہ اللہ جل شانہ نے سوائے ہمارے نبی ، نبیوں کے شہنشاہ محمد مصطفی سے کے، کسی نبی کو لفظ خاتم النبین" کا خطاب دیا ہے نہ نبی امی کا (اعراف: ۱۵۸) پس ایک مسلمان کی حیثیت سے آپ کو ہرگز یہ زیب نہیں دیتا کہ آپ آنحضرت ﷺ کا مخصوص آسمانی خطاب حضور سے چھین کر نہایت بے دردی سے تمام نبیوں میں بانٹ دیں.یہ غیرت رسول اور عشق رسول کے سراسر منافی بات ہے جس کی کم از کم آپ سے مجھے قطعا توقع نہیں تھی.بعد ازاں جب انہیں سورہ کہف کی آیت ۶۶، ۶۷ سنائی گئی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے شارع نبی نے ایک بندہ خدا کا شاگرد بننے کی خود درخواست کی تو خدا کے فضل و کرم سے وہ پوری طرح مطمئن ہو کر مجلس سے گئے.ام المومنين : 32- ایک عالم دین تحقیق حق کے لیے ربوہ تشریف لائے.اُن کا واحد اعتراض یہ تھا کہ حضرت مرزا صاحب کے کشف بابت حضرت فاطمہ وغیرہ سے اہل بیت علیہم السلام کی سخت تو ہین ہوتی ہے.اس گستاخی کو نوے کروڑ مسلمان کبھی برداشت نہیں کر سکتے.میں نے گزارش کی کہ یہ کشف تو حضرت بانی سلسلہ عالیہ کے عاشق رسول ہونے پر فیصلہ کن آسمانی شہادت ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ سلطان الفقر حضرت سلطان باہو جیسے اہل کشف پاک نفس بزرگ اور ولی کامل اپنے مشاہدات کی بناء پر تحریر فرماتے ہیں: مشق وجود یہ کی پاکی اور برکت سے مجلس حضرت محمد رسول اللہ علے میں ایک نوری طفل معصوم کی شکل میں حاضر ہو جاتا الله
34 ہے.ہے.حضرت محمد ﷺے کمال لطف ، شفقت اور مرحمت سے اس نوری بچے کو اپنے اہلِ بیت پاک میں جناب امہات المؤمنین حضور حضرت فاطمۃ الزہرا اور حضرت بی بی خدیجتہ الکبری و حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنخن کے سامنے لے جاتے ہیں.وہاں ہر ایک ام المومنین اسے اپنا فرزند کہتی ہیں اور اپنا نوری دودھ پلاتی ہیں اور وہ شیر خوار اہل بیت خاص ہو جاتا ہے اور اس کا نام فرزند حضوری اور خطاب فرزند نوری ہو جاتا ہے.“ پھر اپنے روحانی مشاہدہ کا ذکر فرماتے ہیں کہ حضرت سرور کائنات ﷺ اس فقیر کو باطن میں اپنے حرم محترم کے اندر کمال شفقت اور مرحمت سے لے گئے اور حضرت امہات المومنین حضرت فاطمۃ الزہرا اور حضرت خدیجہ الکبری اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھمن نے اس فقیر کو دودھ پلایا اور آنحضرت مہ اور امہات المومنین نے مجھے اپنے نوری حضوری فرزند کے خطاب سے سرفراز الله فرمایا." ( حق نمائے اردو ترجمہ نورالہدی صفحه ۲۲۴، ۲۲۵ طبع پنجم مقام اشاعت کلاچی ضلع ڈیرہ اسمعیل خان ) 33- خاکسار کا ایک مضمون خلافت رابعہ کے اوائل ہی میں ”الفضل“ کی ایک اشاعت میں چھپا جو حضرت مصلح موعود کی بیان فرمودہ ایک خواب کا اقتباس پر مشتمل تھا.خواب میں’ام المومنین“ کا لفظ بھی تھا جس پر مجھے ربوہ کی حوالات میں بند کر دیا گیا.تھانہ کے ایک کانسٹیبل صاحب مجھے دیکھتے ہی سخت غضبناک تھے کہ تم نے اپنے مضمون میں ام المومنین کی اصطلاح مرزا صاحب کی اہلیہ کے لیے کیوں لکھی ہے.ہم مسلمان اس سے مشتعل ہیں.میں نے انہیں بتلایا کہ یہ خواب جس میں یہ اصطلاح استعمال ہوئی ہے ہمارے امام دوم حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا ہے جو بہشتی مقبرہ میں آسودہ خاک ہیں.دوسرے یا درکھئے ام المومنین کا فارسی ترجمہ "مادر ملت.جس سے ہم سب محترمہ مس فاطمہ جناح صاحبہ کو یاد کرتے ہیں حالانکہ وہ حضرت قائد اعظم کی بہن تھیں اور انہیں ”پھوپھی ملت کہنا چاہیے.کانسٹیبل صاحب بہکا بکا رہ گئے اور میں بھی سید نا حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی دعا کے طفیل چند گھنٹے اسیر حوالات رہنے کے بعد قصر خلافت میں پہنچ گیا.حضور نے مجھے دیکھتے ہی کمال محبت و شفقت سے ارشادفرمایا کہ پچھلی نمازوں میں تمہیں نہ پا کرغم رسیدہ ہو گیا تھا.ع کیا طبیعت ہے بادشاہوں بادشاہوں کی
فصل دوم 35 555 ( آئمہ اہل بیت ، صحابہ نبوی ، خلفاء اور مجددیت ) آئمہ اہل بیت : 34 اکتوبر ۱۹۸۱ء میں حضرت خلیفہ مسیح الثالث کراچی (ڈیفنس سوسائٹی ) میں رونق افروز تھے کہ مجھے فوراً بذریعہ جہاز پہنچنے کا ارشاد ہوا.دراصل ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی صدر ضیاء الحق سے ملاقات مقرر تھی اور انہیں بعض حوالے درکار تھے جو میں نے پیش کر دیئے.انہی ایام کا واقعہ ہے کہ کراچی کے ایک نامور شیعہ رہنما جناب محمد وصی خاں صاحب (صدر مرکزی تنظیم عزا.شیعہ ماتمی انجمنوں کی فیڈ ریشن) نے خلیفہ راشد سے شرف ملاقات حاصل کیا.دراصل انہیں تاریخ پاکستان کے تعلق میں کچھ مواد مطلوب تھا.حضور انور نے انہیں اپنے اس ادنی غلام سے ملنے کے لیے ہدایت فرمائی.جناب محمد ولی خاں صاحب نے ابتدائی گفتگو کے بعد سوال کیا کہ آپ لوگوں کا آئمہ اہل بیت کے متعلق کیا عقیدہ ہے؟ میں نے جواب میں حضرت مسیح موعود کا ایک فارسی شعر پڑھ کر دعوی کیا کہ آئمہ اہل بیت کی حقیقی محبت و شیفتگی کا جھنڈا خدا نے ہمیں عطا کر رکھا ہے.یہ صحیح ہے کہ ہم ماتم نہیں کرتے اس لیے کہ قرآن نے شہدا کو زندہ قرار دیا ہے.مسیح الزماں کا عارفانہ شعر یہ ہے: جان خاکم دلم فدائے جمال محمد نثار کوچه آل محمد است میری جان و دل جمال محمد پر قربان ہے.میری خاک آل محمد کی گلی پر بھی نثار ہے.میں نے کہا یہ کلام کسی ذاکر یا مجتہد کا نہیں، اس شخصیت کا ہے جسے امام مہدی ہونے کا دعوی ہے اور میں سمجھتا ہوں اگر تمام عشاق اہل بیت کے اقوال ایک پلڑہ میں اور حضرت کا یہ شعر دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو بفضلہ تعالیٰ مہدی موعود کا پلڑہ ہی بھاری ثابت ہوگا.ازاں بعد میں نے انہیں بتایا کہ آپ
36 بے چاروں کو تو ماتم حسین اور تعزیہ داری اور سینہ کوبی کرنے سے ہی فرصت نہیں.اس.جماعت احمدیہ کے پیش نظر عالمگیر غلبہ دین اور غیر مسلموں کے حملوں کا جواب ہے.میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ کئی مناظروں میں عیسائی مشنریوں اور آریہ سماجیوں نے اعتراض اٹھایا ہے کہ درود شریف میں کما صليت على ابراھیم کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ جو برکتیں حضرت ابراہیم کو ملیں وہ آپ کے نبی کو عطا نہیں ہوئیں.فرمائیے آپ حضرات کے پاس کیا جواب ہے؟ آپ حضرات سینہ کوبی اور خونی ماتم سے دشمنان اسلام کی تسلی نہیں کراسکتے بلکہ وہ الٹا اسلام سے متنفر ہو جائیں گے.پہلے تو وہ بڑے پروقار انداز میں گفتگو فرما رہے تھے.یہ سوال سنتے ہی ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور لرزتے ہونٹوں اور کا نیتی زبان سے یہ بر ملا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے کہ اس سوال کا ذکر تک ہمارے ذاکروں، مجتہدوں اور شعرائے اہل بیت نے کبھی نہیں کیا.نہ ان کے پاس اس کا کوئی معقول ! جواب ہوگا.خاکسار نے بتایا کہ اگر چہ اس سوال کا عدوان محمد کے لیے کوئی مسکت جواب گزشتہ چودہ سوسالہ لٹریچر میں میری نظر میں نہیں گزرا مگر ہمارے امام عالی مقام خلیفہ موعود مصلح موعود نے اس سلسلہ میں خاص ایک خطبہ ارشاد فرمایا.آپ کے لطیف اور پر معارف جواب کا ایک اقتباس سینیے : حضرت ابراہیم نے خدا تعالیٰ سے دعا مانگی تھی کہ ربنا واجعلنا مسلمين لك ومن ذريتنا امة مسلمة لك (٢-١٢١) کہ میری اور اسمعیل کی اولاد سے امت مسلمہ پیدا کر دے.اب دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السلام تو یہ دعا مانگتے ہیں کہ ان کو امت مسلمہ ملے.مگر خدا تعالیٰ اس دعا کو اس رنگ میں قبول کرتا ہے کہ ہم نبیوں کی جماعت پیدا کریں گے.گویا حضرت ابراہیم نے خدا تعالیٰ سے جو مانگا اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ نے دیا.انہوں نے مانگے مسلم اور ملے نبی.اب یہی بات رسول کریم اللہ کے متعلق سمجھو اور درود کے یہ معنے کرو کہ خدا یا جو معاملہ تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیا، وہی محمد ﷺ سے کرنا.یعنی
37 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو مانگا اس سے بڑھ کر ان کو دیا.اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ نے جو مانگا اس سے بڑھ کر ان کو دینا.اب درجہ کے لحاظ سے فرق یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے عرفان کے مطابق اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں اور رسول کریم ہے نے اپنے عرفان کے مطابق.کیونکہ جتنی جتنی معرفت ہوتی ہے اس کے مطابق.صلى الله مطالبہ کیا جاتا ہے..جب رسول کریم ہے عرفان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بڑھے ہوئے تھے تو یقینی بات ہے کہ آپ کی دعائیں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں سے بڑھی ہوئی ہوں گی.پس درود میں جو دعا مانگی جاتی ہے اس کا صحیح مطلب یہ ہوا کہ البی حضرت ابراہیم نے آپ سے جو مانگا انہیں آپ نے اس سے بڑھ کر دیا.اب محمد اللہ نے جو مانگا انہیں بھی مانگنے سے بڑھ کر عطا کیجئے.دوسرے لفظوں میں اس کے یہ معنی ہوئے کہ جو کچھ حضرت ابراہیم کو ملا محمد مے کو اس سے بڑھ کر دیا جائے اور وہ چیز جس کے لیے حضرت ابراہیم سے بڑھ کر رسول کریم ﷺ کو دینے کی دعا کی گئی ہے یہی ہے کہ حضرت ابراہیم نے امت مسلمہ مانگی.ان کی نسل میں نبوت قائم کر دی گئی.رسول کریم ہے نے اپنی امت کے لیے ان سے بڑھ کر دعا کی.اس لیے آپ کی امت کو ان کی امت سے بڑھ کر نعمت دی جائے.اس نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے درود کو دیکھو تو معلوم ہوسکتا ہے کہ کتنے عظیم الشان مدارج کے حصول کے لیے ہمیں دعا سکھائی گئی ہے.“ الفضل ۱۳؍ جنوری ۱۹۲۸ء صفحه ۸ خطبه فرموده ۶ /جنوری ۱۹۲۸ء قادیان)
38 اس جواب سے جناب محمد وصی خان صاحب از حد متاثر ہوئے.ان کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانا نہ تھا اور انہوں نے عقیدت بھرے جذبات سے مجھے جناب سید حکیم مقبول احمد صاحب دہلوی کا قرآن مجید مترجم کا ہدیہ دیا اور صفحہ اول پر حسب ذیل الفاظ تحریر فرمائے: د و بسم اللہ الرحمن الرحیم پیارے بزرگ اور محقق العصر عالی جناب دوست محمد شاہد صاحب قبلہ کی خدمت میں.ایک طالب علم کا تحفہ قبول فرما کر عزت افزائی فرمائیں.خادم محمد وصی خال ۲۷/۱۰/۸۱.صدر مرکزی تنظیم عزا رجسٹر ڈ شیعہ ماتمی انجمنوں کی فیڈ ریشن E/372 پاکستان کوارٹر نشتر روڈ کراچی.“ 35- مرحوم ڈاکٹر راجہ نذیر احمد صاحب بانی "کیوریٹوسسٹم ربوہ کا شمار بہت پُر جوش داعیان الی اللہ میں ہوتا ہے.ایک بار انہوں نے ایک شیعہ کالجیٹ کو میرے دفتر میں بغرض معلومات بھیجوایا.اس شریف النفس نوجوان نے صرف یہ درخواست کی کہ مجھے آپ کوئی نصیحت فرمائیں.میں نے کہا کہ میری عاجزانہ درخواست ہے کہ سب شیعہ اصحاب محبان اہل بیت بن جائیں.اس بات سے گہری سوچ میں ڈوب گئے اور پریشان خاطر ہو کر کہا کہ میں تو اثنا عشری ہوں اور حب اہل بیت ہی تو ہمارا مذہب ہے.میں نے مستند شیعہ لٹریچر اُن کے سامنے رکھا جس سے یہ حقیقت کھلتی تھی کہ دشت کربلا میں حضرت سید الشہداء امام حسین کے ساتھ جام شہادت نوش فرمایا اُن میں حضرت شیر خدا علی المرتضیٰ علیہ السلام کے ایک لخت جگر کا نام عمر اور ایک کا عثمان تھا.اسی طرح حضرت امام حسن علیہ السلام کے ایک صاحبزادے ابو بکر تھے جنہوں نے دشت کربلا میں خون کے نذرانے پیش کیے.( بحارالانوار جلد ۴۵ صفحه ۶۲ ۶۳ تالیف شیخ باقر مجلسی مطبوعه بیروت ۱۹۸۳ء) یه تاریخی اور دستاویزی حقائق پیش کر کے میں نے اس نوجوان سے دریافت کیا کہ کیا آپ حضرات کبھی اپنے بیٹوں کے نام مختار ثقفی ، یزید یا شمر رکھتے ہیں.کہنے لگے معاذ اللہ ہرگز نہیں.اولاد کو اپنے بزرگوں سے معنون (DEDICATE) کیا جاتا ہے.میں نے اس کی پر زور تائید کرتے ہوئے کہا کہ ثابت ہوا کہ اہل بیت کے نزدیک خلفا ثلاثہ
39 بہت بزرگ شخصیتیں تھیں لہذا وہی شخص محبت اہل بیت تسلیم کیا جا سکتا ہے جو ان سے عقیدت رکھے.-36 کلر کبار ( ضلع چکوال) میں جماعت احمدیہ کا ایک پبلک جلسہ ہوا جس میں عاجز نے سیرت النبی پر تقریر کی.چند لمحوں بعد ہی ایک صاحب کا رقعہ ملا کہ حضرت ابوبکر صدیق نے سيدة النسا حضرت فاطمتہ الزہرا کو باغ فدک کے ورثہ رسول سے محروم کر کے ظلم عظیم کیا.میں نے پہلے تو اصولی جواب دیا کہ خود آنحضرت نے فرما دیا تھا کہ میری کوئی وراثت نہیں ہے.علاوہ ازیں حضرت علی المرتضی نے بھی آنحضور کے اس فیصلہ کی تعمیل فرمائی.ازاں بعد میں نے معزز شیعہ بھائیوں کی خدمت میں پیشکش کی کہ آپ بزرگ فدک کے باغ اور اس کی کھجوروں تک کی قیمت کا تخمینہ دیں اور ہم احمدیوں سے وصول فرمالیں اور خدا کے لیے دنیا بھر کے دوسرے مسلمانوں کا پیچھا چھوڑ دیں.میری اس تجویز پر پبلک پر سنانا چھا گیا اور سنی مسلمان تو فرط مسرت سے گویا جھوم گئے.37.میں ابھی مدرسہ احمدیہ کی ابتدائی کلاسوں میں زیر تعلیم تھا کہ موسمی تعطیلات میں اپنے وطن پنڈی بھٹیاں آیا.میرے والد حضرت حافظ محمد عبد اللہ صاحب کو تبلیغ کا جنون تھا.آپ مجھے ایک شیعه رشته دار فضل حسین صاحب کے پاس لے گئے.یہ صاحب شہر میں تعزیہ داری کے معاملہ میں مشہور تھے.قبل اس کے کہ وہ کوئی بات کرتے میں نے اُن سے سوال کیا کہ شیعہ لٹریچر کی رو سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حضرت ابوبکر صدیق خلیفہ الرسول کی بیعت کرنا ثابت ہے.آپ بھی اسوۂ مرتضوی کے مطابق اُن کی خلافت پر ایمان لے آئیں.فرمانے لگے شیر خدا نے بیعت ضرور کی ہوگی مگر تقیہ کے ساتھ.اس پر میں نے اُن سے پوچھا تقیہ شرعاً جائز ہے؟ حرام ہے؟ فرض ہے یا واجب؟ جواب دیا واجب ( یعنی جس کا تارک گنہ گار ہو جاتا ہے ) میں نے اس خیال کے سلسلہ میں مزید وضاحت طلب کی کہ جب تقیہ شرعاً واجب ہے تو سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام نے تقیہ کرنے کی بجائے میدان کربلا میں خاندان نبوت کے ۷۲ افراد سمیت جام شہادت نوش کر لیا.یہ سنتے ہی وہ بدحواس سے ہو گئے اور فرمانے لگے دراصل تقیہ حرام ہے.اس پر میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ اگر تقیہ حرام ہے تو سید نا حضرت علی المرتضی نے بیعت صدیق کر کے معاذ اللہ حرام کام کیوں کیا ؟ حضرت والد صاحب مرحوم فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے اور مجھے ساتھ لے کر واپس گھر آگئے.فاناللہ وانا الیہ راجعون.
40 40 صحابه نبوی 38 میں بعض احمد ہی نوجوان کی رفاقت میں ربوہ سے بذریعہ ریل لاہور جارہا تھا کہ سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا.ایک احمدی نوجوان نے دریافت کیا کہ ہم حضرت علی خلیفہ رسول کے لیے بھی رضی اللہ کی دعا کرتے ہیں اور حضرت امیر معاویہ کے لیے بھی.حالانکہ مؤخر الذکر خلافت رابعہ کے منکر بلکہ مخالف تھے.اس دلچسپ سوال پر میں نے عزیز سے پوچھا کہ آپ نے کبھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے کہنے لگے نہیں.میں نے کہا مجھے بھی ان کی زیارت کی سعادت نصیب نہیں ہوئی.ہاں سید الشہد احضرت امام حسین علیہ السلام کے برادر اکبر حضرت سیدنا امام حسن علیہ السلام نے انہیں بہت قریب سے دیکھا اور ان کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو کر انہیں رضی اللہ کی دعا کا مستحق بنا دیا.اب میں یا آپ کیا کر سکتے ہیں؟؟ ۱۹۸۵-39ء میں یہ عاجز حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کی ذرہ نوازی سے صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے نمائندہ کے طور پر جلسہ انگلستان میں شامل ہوا.جس کے بعد ملک کی مختلف جماعتوں کے جلسوں اور مجالس سوال و جواب میں شرکت کا موقع میسر آیا.جن کی رپورٹوں پر حضور نے اپنے قلم مبارک سے از حد مسرت اور خوشنودی کا اظہار فرمایا.مجھے یاد ہے بریڈ فورڈ کی ایک مجلس سوال و جواب میں ایک شیعہ دوست نے سوال کیا کہ بخاری شریف میں لکھا ہے کہ آنحضرت نے حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیرخم کے مقام پر حضرت علی المرتضیٰ کی نسبت اعلان فرمایا "من كنت مولاه فعلى مولاه" جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولیٰ ہے.ثابت ہوا کہ حضرت علی ہی خلیفہ بلا فصل تھے.میں نے عرض کیا کہ آپ حضرات اپنے فاضل علماء کو مولانا کے لقب سے یاد کرتے ہیں تو کیا انہیں خلیفہ بلا فصل بھی کہتے ہیں؟ دوسرے ”بخاری کی دوسری حدیث میں اس واقعہ کا بالواسطہ طور پر یہ پس منظر موجود ہے کہ جب حضرت علی نے ابو جہل کی بیٹی سے شادی کا ارادہ کیا تو آنحضرت ﷺ نے شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا.نتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ رسول نے بھی اُن کا بائیکاٹ کر دیا.جس کے بعد انہوں نے اپنا ارادہ ملتوی فرمالیا.یہی وجہ ہے کہ حضرت رسول خدا ﷺ نے میدان عرفات میں خطبہ کی بجائے واپسی پر ۱۸ ذی الحجہ مطابق ۱۵ مارچ ۶۲۲ ء کو جبکہ صرف صحابہ ہی موجود تھے حضرت علی کی معافی کا اعلان فرمایا اور ہدایت فرمائی جو مجھ سے محبت کرتا ہے ان سے بھی محبت کرنا چاہئے.ع اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کردیا
41 سوال یہ ہے کہ اگر یہ خلافت بلا فصل کا شاہی اعلان تھا تو ہمارے شیعہ بھائی ”حدیث قرطاس‘“ کا سوال کیوں اٹھاتے ہیں.جبکہ یہ معاملہ توکئی ماہ قبل نبیوں کے شہنشاہ غم غدیر کے موقع پر ہزاروں صحابہ میں رونق افروز ہوکر طے فرما چکے تھے.خلفا اور مجددیت : 40- دور خلافت ثالثہ میں خاکسار نے حیدر آبادسندھ کے ایک اجتماع میں شرکت کی جہاں یہ سوال بڑے زور شور اور شدومد سے اٹھایا گیا کہ کیا خلیفہ راشد کی موجودگی میں مجدد آسکتا ہے؟ میں نے نونہالانِ احمدیت سے سوال کیا کہ فرض کیجئے اگر تیرہ صدیوں کے مجددا یک میدان میں جمع ہوں عین نماز کے وقت ایک صحابی رسول بھی تشریف لے آئیں تو فرمائیے امامت کے مستحق کون قرار پائیں گے.ہر طرف سے آوازیں بلند ہوئیں صحابی رسول“.میں نے اس امر کو نکتہ آغاز بناتے ہوئے استدلال کیا کہ ثابت ہوا کہ تمام مجد دینِ اُمت سے صحابی رسول کا مقام افضل ہے.اب ذرا تاریخ اسلام دیکھئے.تمام مؤرخین اس واقعہ پر متفق ہیں کہ صحابہ چاہتے تھے کہ وصال نبوی کے بعد مدینہ کا ماحول پُر خطر ہے اس لیے مدینۃ الرسول سے شام کے لیے کوئی لشکر نہ بھجوایا جائے.مگر حضرت ابو بکر صدیق نے تاجدار خلافت کی حیثیت سے تمام صحابہ کا یہ مطالبہ یکسر رد کر دیا جس پر جملہ صحابہ نے بلا تامل پوری بشاشت سے لبیک کہا اور خدا تعالیٰ نے بھی عساکر اسلام کو فتح مبین عطا کر کے اپنی خوشنودی کی مہر تصدیق ثبت کر دی.یہ ہے جملہ مجددین کے مقابل خلیفہ راشد کی شان عظیم.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے انہی دنوں خاص اسی موضوع پر سالانہ اجتماع انصار اللہ مرکزیہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ سب مبلغین احمدیت اپنے اپنے حلقہ میں مجددہی ہیں.اسی طرح قیامت تک لاکھوں کروڑوں بلکہ بے شمار مجدد پیدا ہوں گے.مگر ہوں گے خلیفہ وقت کے خادم اور عاشق !!
42 فصل سوم ( حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام ) 41.1985ء میں جماعت احمد یہ بریڈ فورڈ (انگلستان) نے ایک مجلس سوال و جواب کا اہتمام کیا جو ہر اعتبار سے کامیاب اور پر ہجوم تھی.اس موقعہ پر ایک اہل حدیث بزرگ نے بھی دوسوال کئے.اول حضرت مسیح ناصری کی شادی کا ذکر قرآن مجید سے دکھلائیے.دوم حدیث نبوی سے قبر مسیح کا ثبوت پیش کیا جائے.خاکسار نے پہلے سوال کے جواب میں سورہ الحدید کے آخری رکوع کی آیت نمبر 28 پیش کی جس میں اللہ جلشانہ نے فیصلہ فرما دیا کہ رہبانیت (یعنی شادی نہ کرنا ) ایک بدعت ہے جس کا آغاز معاذ اللہ حضرت مسیح موعود ناصری نے نہیں کیا بلکہ آپ کے بعد نام نہاد مسیحوں نے کیا.اگر حضرت مسیح ناصری عمر بھر واقعی مجر در ہے تو خدا تعالیٰ کو تو شاباش دینی چاہیے تھی کہ تم نے خوب اپنے نبی کی سنت پر عمل کیا مگر اسکی بجائے اعلان عام کیا جاتا ہے رہبانیت بدعت تھی جو سنت نبی کے خلاف تھی قطعی طور پر ثابت ہو گیا کہ مسیح یقیناً شادی شدہ تھے.دوسرے سوال کے جواب میں عاجز نے ”بخاری کتاب الصلوۃ “ حدیث 421-422 پڑھی کہ یہود اور نصاری پر اللہ کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا.رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود و نصاری دونوں پر لعنت کی.اب سوچئے نصاری کا تو ایک ہی نبی ہے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام.لہذا ما نا پڑے گا کہ حضرت مسیح کی قبر موجود ہے اور عیسائی اس کو مسجود بنا کر ملعون قرار پا چکے ہیں.صاف کھل گیا کہ مسیح علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ کی تحقیق کی رو سے کشمیر میں آسودہ خاک ہیں اور عہد حاضر کے مغربی سکالرز ہی نہیں ، عرب و عجم کی متعدد بلند پایہ شخصیتوں کا اس پر اتفاق ہو چکا ہے.-42 7 ستمبر 1974ء کے بدنام زمانہ فیصلہ کے کچھ عرصہ بعد فیصل آباد کے نامور بریلوی عالم دین مولوی سردار احمد صاحب دیال گڑھی کے بعض معتقد علماء بیت مبارک ربوہ میں استاذی المعظم حضرت
43 قاضی محمد نذیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ نے فرمایا مجھے تو ایک فوری کام ہے اور خاکسار کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ آپ اس سے تبادلہ خیالات کر لیں.میں نے گفتگو کا آغاز ان الفاظ سے کیا کہ آپ حضرات سے جماعت احمدیہ کا صرف اور صرف دو لفظی اختلاف ہے.انہوں نے حیرت زدہ ہو کے اسکی وضاحت چاہی جس پر میں نے عرض کیا کہ ہمارا اختلاف صرف لفظ "توفی" اور " مع " کے معنوں میں ہے جس کا فیصلہ کتاب اللہ سے لینا چاہیے.قرآنی دعا ہے وَتَوَفَّنَا مَعَ الابرار : ( آل عمران : 194) قرآن کا کتنا زبردست اعجاز ہے کہ اس نے ایک فقرہ میں دونوں متنازعہ لفظوں کو جمع کر کے دن چڑھا دیا ہے.فرمائیے کیا اس دعا کا ترجمہ یہ ہے کہ اے خدا نیکوں کے ساتھ ہمیں آسمان پر اٹھا لے یا یہ کہ جب کوئی نیک بندہ مرنے لگے تو ساتھ ہی ہمارا ہارٹ بھی فیل ہو جائے.اس استدلال نے انہیں بالکل لاجواب کر دیا اور ان کے منہ پر ہوائیاں اڑ نے لگیں.میں نے ڈنکے کی چوٹ کہا کہ اس دعا کے صرف ایک ہی معنی ہیں کہ ہمیں نیکوں میں شامل کر کے وفات دے.اب انہوں نے ایک چالاک وکیل کی طرح پینترا بدلا اور مجھ سے پوچھا کہ آپ لوگوں کا ختم نبوت پر ایمان ہے؟ میں نے بتایا کہ خاتم النبین پنجابی یا پشتو کا لفظ نہیں بلکہ فصیح و بلیغ عربی کلام ہے جو سورہ احزاب میں انگوٹھی کے نگینہ کی طرح چمک دمک رہا ہے اور آسمان کے بے شمار ستاروں کی طرح لاتعداد معنی کا سمندر اپنے اندر پنہاں رکھتا ہے (چنانچہ میں نے دسمبر 1977 کی تقریر جلسہ سالانہ تفسیر خاتم النبیین اور بزرگان سلف میں قدیم اسلامی لٹریچر سے بالبداہت ثابت کیا ہے کہ ) اب تک صلحائے امت خاتم النبین “ کے منفرد منصب وخطاب کے تہیں معانی بیان فرما چکے ہیں جو ہر احمدی کو مسلم ہیں مگر ہم کوئی ایسا معنی برداشت نہیں کر سکتے جس سے یہودی امت کے نبی حضرت مسیح ناصری کو خاتم النبین قرار دینا پڑے جیسا کہ آپ اصحاب کا عقیدہ ہے.یہ سنتے ہی ایک عالم دین نے فرمایا یہ ہرگز ہمارا عقیدہ نہیں.خاکسار نے عرض کیا کہ اس دعوی کا ثبوت آپ ہی کی زبانِ مبارک سے مل جائے گا کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ علمائے پاکستان نے اسمبلی سے یہ قانون پاس کرایا ہے کہ خاتم النبیین کے معنی ہیں غیر مشروط آخری نبی.اب میں آپ حضرات ہی سے پوچھتا ہوں کہ آپ کے نزدیک خدا کے نبی مسیح ناصری علیہ السلام دوبارہ نہیں آئیں گے ؟ ارشاد ہوا کہ کیوں نہیں مگر وہ آنحضرت ا سے قبل کے نبی ہیں.میں نے وکیلانہ انداز میں اس پر جرح کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس میں کیا شک ہے کہ
44 حضرت عیسی کو خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور قدسی سے صدیوں قبل نبی بنایا گیا مگر میرا اصل سوال یہ ہے کہ فرض کریں حضرت عیسی ابھی دمشق منارۃ البیضاء پر نازل ہو جائیں قطع نظر اس کے کہ انہیں شناخت کون کرے گا کہ گیروے کپڑوں میں ملبوس سچ سچ مسیح ناصری ہی ہیں یا کوئی شخص پیرا شوٹ سے چھلانگ لگا کر مینار کے پاس آگیا ہے؟ پھر آپ اور میں مسلم دنیا کے کروڑوں مسلمان اسے بیک وقت آسمان سے نازل ہوتے ہوئے کس طرح مشاہدہ کر سکتے ہیں؟ فرض کیجیے مسیح علیہ السلام بیت المبارک ربوہ کے بیرونی صحن میں اتریں تو ہم جو اس وقت دفتر شعبہ تاریخ میں محو گفتگو ہیں ، کیونکر زیارت کر سکیں گے؟ پھر حل طلب امر یہ بھی ہے کہ وہ دوبارہ تشریف لا کر کون سی شریعت پھیلائیں گے؟ فرمانے لگے کہ قرآن.میں نے دریافت کیا کہ ان کا بیان اللہ جلشانہ نے سورہ مریم میں ریکارڈ کیا ہے کہ میں عمر بھر الکتاب، یعنی انجیل کی منادی کروں گا.آپ کے نزدیک جب چھ سو سال بعد قرآن مجید کی تجلی قلب مصطفی پر ہوئی وہ آسمان پر تھے.انہیں دنیا میں آکر قرآن کا علم کیسے ہوگا ؟ دوہی صورتیں ہیں یا تو اللہ تعالی براہ راست پورا قرآن دوبارہ ان پر بھی نازل کرے یا وہ آپ علماء کے شاگرد بن کر قرآن مجید سیکھیں مگر آپ کے نظریہ کے مطابق وحی کا دروازہ قیامت تک کے لئے بند ہے اور شاگردی شان نبوت کے منافی ہے.خدارا ان باتوں پر خداترسی سے غور فرمائیں مگر یہ سب پہلو تو برسبیل تذکرہ ذکر ہوئے ہیں.میرا بنیادی سوال یہ ہے کہ حضرت مسیح کی تشریف آوری کے بعد کوئی پرانا نبی آسکتا ہے؟ فرمانے لگے ہرگز نہیں.اور نیا نبی؟ کہنے لگے اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.میں نے کہا آپ حضرات نے خود یہ اعتراف کر لیا ہے کہ آخری نبی ہمارے سید و مولی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ یہودی امت کے نبی ہیں جن کے بعد نہ کوئی پرانا نبی آ سکتا ہے نہ نیا.پس میں آپ کو ختم نبوت کا منکر تو نہیں کہتا صرف یہ کہتا ہوں کہ آپ حضرت عیسی کو خاتم النبین یقین کرتے ہیں اور ہم احمد کی سید لولاک شہر دو عالم حضرت محمد مصطفی صل اللہ کو.ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کرتے ہیں تو تیر چا نہیں ہوتا 43 قیام پاکستان کے بعد میرا پہلا اور آخری پبلک مناظرہ (DEBATE 1951ء کے لگ بھگ بیداد پور (ضلع شیخو پورہ ) میں ہوا جبکہ میری عمر قریباً چوبیس برس ہوگی.فریق ثانی کے مناظر حکیم
45 محمد الحق صاحب وزیر آبادی تھے جو ایک ماہنامہ غالباً اولی الامر“ کے ایڈیٹر بھی تھے.آپ ماشاء اللہ بہت حیم و شیم اور فربہ جسم کے تھے.ایک وسیع حویلی بغرض مباحث مختص کی گئی.گاؤں میں زیادہ تعداد سنی مسلمانوں کی تھی.استاذی المحترم خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے میرے استفسار پر ایک دفعہ بتا یا تھا کہ میں نے ہر مناظرہ سے پہلے حضرت مسیح پاک کا یہ دعائیہ شعر سجدہ میں نہایت تضرع اور گریہ وزاری سے پڑھا ہے.میرے سقم و عیب سے اب کیجئے قطع نظر تانبو خوش دشمنِ دیں جس پہ ہے لعنت کی مار میں نے بھی نماز ظہر و عصر کے دوران سجدہ گاہ کو اس رقت بھری دعا کے ساتھ تر کر دیا اور بارگاہ خداوندی میں عاجزانہ التجا کی کہ تیرا وعدہ ہے کہ میں مسیح موعود کی نصرت کا ارادہ کرنے والوں کی بھی نصرت کروں گا.میں پہلی بار میدان میں قدم رکھ رہا ہوں.میں کم عمر اور بے علم اور نا تجربہ کار ہوں.اپنے پاک وعدہ کے مطابق مصلح موعود کے اس نالائق خادم کی تائید فرما.یہی دعا کرتے ہوئے میں چند احمدی بزرگوں کے جلو میں احاطہ میں داخل ہوا اور مقررہ کرسی پر بیٹھ گیا.حویلی سامعین سے بھری ہوئی تھی اور احمدی معدودے چند تھے.حکیم محمد اسحاق صاحب کی نظر جو نہی مجھ پر پڑی انہوں نے میرا قد اور کمز ور جو دیکھتے ہی خوب مذاق اڑایا اور فرمایا قادیانیو! کسی آدمی کو میرے مقابل پر لانا تھا.میں نے تو آپ کے چوٹی کے علماء کو میدان بحث میں لتاڑا اور پچھاڑا ہے اور شکست فاش دی ہے.یہ سن کر مجھے اپنے اندر ایک غیبی جوش اور طاقت محسوس ہوئی.میں فوراً کھڑا ہو گیا اور بلند آواز سے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ابھی تو مناظرہ شروع بھی نہیں ہوا.انشاء اللہ ابھی پتہ چل جائے گا کہ اصحاب الفیل کون ہیں اور ابابیل کون؟ یہ سن کر پوری مجلس میں سناٹا چھا گیا اور ان مخلص احمدیوں کی بھی جان میں جان آگئی جو مرکز کی طرف سے ایک نامی گرامی مناظر کے مقابلہ کے لئے ایک طالب علم بھیجوانے پر میرے نارنگ اسٹیشن پہنچتے ہی بر ملا اپنی تشویش و اضطراب کا اظہار فرما چکے تھے لیکن اس پہلی للکار نے انہیں اتنا ضرور محسوس کر دیا کہ اس بچہ میں بھی کچھ دم خم اور روح موجود ہے.
46 میں نے جناب حکیم صاحب سے استفسار کیا کہ جناب کس موضوع پر بحث فرما ئیں گے.مسئلہ حیات و وفات مسیح پر انہوں نے کڑک کر جواب دیا.میں نے بھی پورے جذبے اور جوش وخروش سے کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ آپ جیسے بلند بانگ دعاوی کرنے والے ”عالم دین “ اور ” مناظر بے بدل کو اتنا بھی علم نہیں کہ یہ کوئی اختلافی مسئلہ ہی نہیں ہے.چنانچہ میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو کبھی آسمان پر تشریف لے جانے کا اتفاق ہوا ہے.مسکراتے ہوئے فرمانے لگے نہیں.میں نے بھی کہا کہ میں بھی نہیں جا سکتا ( واضح ہو کہ یہ 1951 ء کی بات ہے جبکہ ابھی روس کے پہلے خلانور دیوری گیگارین نے پرواز نہیں کی تھی اور نہ امریکن خلا باز چاند کی سطح پر اتر سکے تھے.یہ دونوں واقعات بالترتیب اپریل 1961 ء اور 20 جولائی 1969ء کے ہیں ) اب آگے سنئے.اس ماحول میں عاجز نے تمام سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ آسمان پر جانے والے صرف ایک ہی وجود ہیں یعنی محمد رسول اللہ ہی ہے.آپ شب معراج میں نفت افلاک سے صلى الله گذر کر عرش عظیم تک پہنچے اور تمام نبیوں کو نہ صرف شرف زیارت بخشا بلکہ ان کی امامت بھی کرائی.میں نے احمدی بزرگوں سے دریافت کیا کہ کیا آنحضرت مہ کی اس غیبی شہادت پر آپ کامل ایمان رکھتے ہیں کہ سب نبی آسمانوں پر زندہ موجود ہیں.سبھی نے بیک زبان اقرار کیا کہ ہمیں مکمل یقین ہے کہ آنحضور کی شہادت برحق ہے.میں نے حاضرین سے کہا کہ جماعت احمد یہ تو ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کو آسمان پر زندہ یقین کرتی ہیں جس میں حضرت عیسی مسیح ناصری بھی شامل ہیں لہذا یہ ہرگز کوئی متنازعہ امر نہیں کہلا سکتا.اصل اختلافی مبحث یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کی رُو سے جملہ انبیاء اپنا جسم خاکی زمین میں چھوڑ کر آسمان تک پہنچے ہیں مگر جناب حکیم صاحب اور ان کے ہمنواؤں کا ادعا یہ ہے کہ آسمانوں پر باقی نبیوں کی تو واقعی روحیں تھیں مگر حضرت مسیح کا بجسد عصری بھی تھا.اب اس کا فیصلہ دربار مصطفیٰ سے ہی ہو سکتا ہے کیونکہ حضرت شد لو لاک ہی عینی شاہد ہیں اور آنحضور ہی آسمان پر تشریف لے گئے لہذا میں حکیم صاحب کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ کسی مسلک کی مطبوعہ احادیث میں کوئی ایک اصل حدیث ہمیں دکھا دیں جس میں خود حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ آسمان پر میں نے جملہ انبیاء کی صرف روحوں کی امامت کرائی ماسوا حضرت عیسی کے جن کا خا کی جسم بھی تھا.سے بحبك خنجر اٹھے گانہ تلوار ان سے یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
47 یہ شعر پڑھ کر میں دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا.چیلنج سن کر ” مناظر لاثانی‘ نے فرمایا کہ میری طبیعت خراب ہو گئی ہے.اس پر اُن کو لانے والے ساتھیوں نے ان کی سخت ملامت کی کہ بڑی بڑی تعلیاں کرنے کے بعد ایک بچے کے سامنے تم نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں.میں نے گذارش کی کہ علامہ کی ناسازی طبع پر انہیں کچھ نہ کہا جائے.میں دو روز تک یہاں ہوں جب طبع مبارک ٹھیک ہو جائے ، یہ خادم حاضر ہو جائے گا مگر میرے قیام کے دوران بھی ان کی طبیعت سنبھل نہ سکی اور وہ وزیر آباد چلے گئے اور میں واپس مرکز احمد بیت ربوہ میں پہنچ گیا.اس مقام پر میں خدا کے ایک خاص تصرف کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا اور وہ یہ کہ میں نے بیداد پور روانہ ہونے سے صرف ایک روز قبل حضرت مسیح موعود و مہدی موعود کی یہ معرکہ آرا تحریر پڑھی تھی کہ انبیاء تو سب زندہ ہیں.مردہ تو ان میں سے کوئی بھی نہیں.معراج کی رات آنحضرت ﷺ کو کسی کی لاش نظر نہ آئی سب زندہ تھے“ آئینہ کمالات اسلام ضمیمہ تحریر 17 ستمبر 1892 ء روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 612) ی محض میرے پیارے مولا کا فضل و احسان ہوا کہ عین وقت پر اس نے اس ذرہ ناچیز کے دل میں خدا کے مسیح کا یہ عظیم الشان نکتہ ڈال دیا.پس مناظرہ بیداد پور کی کامیابی در اصل حضرت مسیح موعود کے باطل شکن علم کلام کا معجزہ ہے جس میں میری کسی قابلیت کا شمہ بھر دخل نہیں.44 ایک مجلس سوال و جواب میں جو حافظ آبادشہر میں ہوئی یہ اعتراض بڑے شد و مد سے پیش کیا گیا کہ مسیح ابن مریم نزول کے بعد آنحضرت کے روضہ مبارک میں دفن کئے جائیں گے.میں نے پبلک کے سامنے سب سے پہلے اس امر پر اظہار افسوس کیا کہ مشکوۃ شریف میں نبیوں کے سردار کا جوارشاد مبارک مندرج ہے، اس کے سراسر خلاف سوال کیا گیا ہے جو کسی محب رسول کو ہرگز زیب نہیں دیتا.خوب غور سے سنئے کہ حدیث کے عربی متن کا ترجمہ یہ ہے کہ عیسی ابن مریم میرے ساتھ میری قبر میں دفن ہوں گے اور میں اور عیسی ابن مریم ابوبکر اور عمر کے درمیان ایک قبر سے اٹھیں گے (باب نزول عیسی حدیث نمبر 5272)
48 اب اگر اس حدیث کی مادی اور ظاہری تشریح کی جائے تو اس سے سرور کائنات ہے کی ایسی شرمناک ہتک لازم آتی ہے کہ رنگیلا رسول شردھانند اور رشدی جیسے گستاخان رسول اس کے سامنے بیچ ہو کر رہ جاتے ہیں.اس اجمال کی تفصیل میں خاکسار نے واضح کیا کہ قدیم مورخ اسلام حضرت سہودی نے ’وفاء الوفا“ میں اور حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی تحقیق کے مطابق آنحضرت ﷺ کی قبر مبارک حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے درمیان نہیں ہے بلکہ حضرت ابوبکر حضور کے قدموں میں آسودہ خاک ہیں اور ان کے متوازی سید نا عمر کا مزار ہے.چونکہ یہ ایک واضح حقیقت ہے اس لئے معترض صاحب نے سرے سے آنحضرت کی حدیث مبارک کے لفظ ” قبر کو کمال دریدہ دہنی سے روضہ یا مقبرہ میں تبدیل کر دیا ہے.اب دیکھئے کہ وہ لوگ جو حدیث رسول کو ظاہری شکل اور مادی رنگ دیتے ہیں دنیائے اسلام کو کیا بتانا چاہتے ہیں.ان کی تشریح کے مطابق مسیح ابن مریم کو چونکہ گنبد خضری ہی میں دفن ہونا ہے اس لئے اُن کی خاطر معاذ اللہ سب سے قبل گنبد خضری کی کسی دیوار کو مسمار کرنا ہو گا پھر حدیث مشکوۃ کے مطابق حضرت ابو بکر کی قبر کو اکھاڑ کر آنحضرت کی قبر مبارک کے دائیں اور حضرت عمر کو بائیں طرف سپر د خاک کیا جائے گا بعد ازاں حدیث کے ظاہری الفاظ کو پورا کرنے کے لئے خود شاہنشاہ دو عالم کی قبر مبارک کھول کر اس میں عیسی ابن مریم کی تدفین عمل میں لائی جائے گی.اناللہ وانا الیہ راجعون.میں پوچھتا ہوں کہ کیا دنیا کا کوئی غیور مسلمان اپنے آقا کے روضہ مبارک کی ایسی شرمناک بے حرمتی گوارا کر سکتا ہے؟ ازاں بعد میں نے حدیث رسول کی تشریح کا ایک دوسرا رخ پیش کیا اور وہ یہ کہ ہمارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کا سرچشمہ اول قرآن پھر کشوف ورد یا ءصالحہ ہیں جو استعارات و مجازات کا مرقع ہیں اس لئے معتبرین اسلام نے ان کو کبھی ظاہر پر محمول کرنے کی جسارت نہیں کی.(الا ماشاء اللہ) لہذا ہمیں اس حدیث کی تفسیر کے لئے قرآن کی طرف رجوع کرنا ہو گا.سورہ عبس کی آیت نمبر 22 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَہ پھر اس نے مارا اور قبر میں رکھا.یہی وہ خدا کی قبر ہے جس کی طرف حدیث رسول میں اشارہ فرمایا گیا ہے اور علاوہ ازیں آنحضور نے یہ مزید تشریح کر کے گویا پوری حقیقت بے نقاب کر دی ہے کہ جو شخص سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجے گا ، وہ قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ قریب ہوگا.اب خلاصہ اس
49 بصیرت افروز حدیث کا یہ ہوا کہ درود کی کثرت اور شب و روز اس میں انہماک مسیح موعود کا طرہ امتیاز ہو گا اور وہ درود شریف کو حرز جان بنانے میں پوری ملت میں اول نمبر پر ہوگا.اللہ جلشانہ نے اپنے پیارے مہدی کو عالم کشف میں دو فرشتے دکھلائے جو کاندھوں پر نور کی مشکیں اٹھائے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجے تھے.انہیں اللہ عليه وسلم (براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه 502 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3.اشاعت 1884ء) پیش کردہ سوال میں چونکہ ضمنا سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لاہور میں وصال کے بارے میں نا پاک پراپیگنڈا کی طرف اشارہ تھا اس لئے مجھے بھی یہ بتانا ضروری تھا کہ حضرت اقدس کے وصال پر مسلم و غیر مسلم پریس نے بالا تفاق آپ کے اسلامی کارناموں کو زبر دست خراج تحسین ادا کیا خصوصاً امام الہند “ابوالکلام آزاد نے اخبار وکیل امرتسر میں ادار یہ لکھا کہ آپ اسلام کے فتح نصیب جرنیل تھے جنہوں نے صلیب پرستوں کی دھجیاں فضائے بسیط میں بکھیر ڈالیں.ازاں بعد میں نے سامعین کو بتایا کہ اس نوع کی افتراپردازی اور خبث باطن کا مظاہرہ بھی حضرت مسیح موعود کی حقانیت کا ایک دائمی نشان ہے.وجہ یہ کہ سورہ فاتحہ میں یہ دعا سکھلائی گئی ہے کہ اے ہمارے رب ہم مغضوب نہ بن جائیں.آنحضور کی تفسیر کے مطابق یہودی علماء مغضوب تھے جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویں صدی میں مسیح ناصری کا ظہور ہوا جسے انہوں نے کافر ومرتد کہا اور سولی کی لعنتی موت مارنے کی ناکام سازش کی اور آپ کی وفات کو ملعون قرار دیا.میں پوچھتا ہوں اگر کسی مسیح موعود نے چودہویں صدی میں مبعوث نہیں ہونا تھا نہ اس کی تکفیر وارتداد پر علمائے زمانہ نے یہودیانہ خصلت کا اعادہ کرنا تھا اور نہ اس کی وفات پر انہی کی طرح اخلاق سوز افسانہ اختراع کرنا تھا تو یہ دعائے خاص کیوں عالم الغیب خدا نے نازل فرمائی اور پھر کیوں شہنشاہ نبوت ﷺ نے ہر نماز میں اس کا پڑھنا لازم قرار دیا.آخر میں خاکسار نے اس حیرت انگیز انکشاف پر روشنی ڈالی کہ عہد حاضر کے چوٹی کے بعض مسلم محققین مثلا علامہ شبلی نعمانی مصنف ”سیرت النبی قدیم اور مستند تاریخی لٹریچر کی ریسرچ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ رسول الله الله فداہ روحی و جسمی ) کی مقدس روح یکم ربیع الاول 11 ہجری
50 مطابق 26 مئی (662ء) کو عرش معلی تک پہنچی تھی اور یہی آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود بانی جماعت احمدیہ کی تاریخ وفات ہے جو خارق عادت بات ہے اور انسانی کوششوں سے بالا.حضرت اقدس فرماتے ہیں ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے تیری الفت پنے سینہ میں مرا ہر ذرہ اک شہر بسایا ہم نے تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے بار اٹھایا ہم نے 45- ایک دفعہ دوران مبادلہ خیالات یہ دلچسپ مسئلہ اٹھایا گیا کہ کیا خدا تعالیٰ حضرت مسیح کو آسمان تک لے جانے میں قادر نہیں؟ میں نے مسکراتے ہوئے حاضرین کو یقین دلایا کہ ہر احمدی ایمان رکھتا ہے کہ خدا ہر شے پر قادر ہے بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ وہ چاہے تو دنیا بھر اور بالخصوص پاکستان کے کافرگر ملاؤں کو بھی آسمان پر لے جا سکتا ہے اور خدا کرے کہ وہ جلد آسمان پر اٹھائے جائیں تا کہ خلقت انکی چیرہ دستیوں سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائے.خس کم جہاں پاک.ایک احمدی شاعر نے عیسائیوں کی طرح حضرت مسیح کی حیات جسمانی کے قائل طائفہ کے اعتقاد کی یوں عکاسی کی ہے خدا ہو چیز پر ہے لیکن قادر سکتا نہیں عیسی مسیح کا ثانی 46.ایک عالم دین نے جنہیں منبر ومحراب کے وارث ہونے کا بھی مفز ، تھا، سیدنا مسیح ناصری کی زندگی پر اپنے جوش خطابت کے خوب جو ہر دکھلائے.میں نے ادب سے گذارش کی کہ میں حیران ہوں کہ مسلمان کہلا کر آپ حضرات گستاخ عیسائی پادریوں سے غلو میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ آنحضرت مے کو تو خدا نے ایک رات بھی آسمان پر آرام کرنے کی اجازت عطا نہ فرمائی لیکن حضرت عیسی کو اس نے انیس سو سال سے اپنے تخت کے بائیں طرف بٹھا
51 رکھا ہے.اس پر بس نہیں عیسائیوں کے باسیلید یہ فرقہ کی طرح آپ بھی صدیوں سے اس عقیدہ کے ناقوس خصوصی بنے ہوئے ہیں کہ خدائے قادر جس نے اپنے حبیب نبیوں کے سردار کو بوقت ہجرت غار میں چھپا دیا، اسی نے یسوع مسیح علیہ السلام کو صلیب سے بچانے کے لئے فوراً آسمان پر اٹھالیا اور ان کی مبارک اور خدا نما شبیہ ایک بدقماش ڈا کو پر ڈال دی اور اس کو یہود نے مسیح سمجھ کر مصلوب کر دیا.اب خدا را بتائیے کیا کوئی سچا مسلمان یہ تسلیم کرسکتا ہے کہ قادر مطلق خدا نے کبھی حضرت آدم کا چہرہ ابلیس کو ، حضرت ابراہیم کا چہرہ نمرود کو، حضرت موسی کا چہرہ فرعون کو اور حضرت سید الشہد حسین کا چہرہ یزید جیسے ملعونوں کو عطا فرمایا ؟ آپ کو ماننا پڑے گا کہ ایسی گستاخی نا قابل معافی ہے کہ ہزاروں لاکھوں بد بخت لیکھر اموں، راجپالوں اور رشدیوں کی عمر بھر کی خباثتیں ، چیرہ دستیاں اور مغلظات اس خیال کے مقابل چنداں کوئی حیثیت نہیں رکھتیر -
فصل چهارم 52 52 ( حضرت اقدس مسیح موعود ) 47- یہ اُن دنوں کا واقعہ ہے جب جماعت اسلامی اور دیوبندی علماء اور ضیا امریکی صدر کی قیادت میں پورے جوش و خروش سے ” جہاد افغانستان کر رہے تھے اور ہر طرف آمر ضیاء کی اسلامائزیشن کا پراپیگینڈ از وروں پر تھا.میں ربوہ اسٹیشن سے لاہور جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھا تھا کہ سانگلہ بل آنے پر میرے کمرہ میں جماعت اسلامی کے ایک رکن یا ( متفق یا متاثر ) تشریف لائے اور میرے ساتھ ہی بیٹھ گئے اور مجھ سے استفسار کیا کہ کہاں جارہے ہو؟ میں نے جواب عرض کیا ربوہ سے آرہا ہوں یہ الفاظ سنتے ہی اُن کے چہرہ کی سنجیدگی اور مسکراہٹیں یکا یک کافور ہو گئیں اور منہ بسورتے ہوئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی نسبت یہ ریمارکس دیئے کہ انہوں نے دعوی کر کے کوئی اچھا کام نہیں کیا.میں نے اس پر صرف یہ کہا کہ حضرت اقدس کا دعوئی بنیادی طور پر یہ ہے کہ مجھے خدا نے بھیجا ہے.اس دعوئی پر تنقید کا حق صرف ایسے شخص کو ہے جو خود صاحب وحی والہام ہوا اور حلفاً بیان کرے کہ حق تعالیٰ نے مجھے الہاما بتایا ہے کہ مرزا صاحب (معاذ اللہ ) صادق نہیں.حضور کے زمانہ میں جو کچے اہل اللہ تھے مثلاً حضرت پیر سراج الحق نعمانی، حضرت مولانا غلام رسول را جیکی ، حضرت پیراشہد الدین سندھ وغیرہ.وہ تو اپنے کشوف والہامات کی بنا پر آپ کے حلقہ ارادت سے منسلک ہو گئے.اگر آپ کو بھی شرف مکالمہ و مخاطبہ حاصل ہے تو آپ قسم کھا کر اعلان کریں کہ مجھے الہا ماً بتایا گیا ہے کہ مرزا صاحب کا دعوئی صحیح نہیں بلکہ محض افترا ہے.اس مطالبہ پر یہ صاحب پہلے تو چند منٹ خاموش رہے پھر یکا یک اٹھ کھڑے ہوئے اور ڈبے ہی کو جلسہ گاہ بنا کر جنرل ضیاء صاحب کے متعلق لچھے دار زبان میں پراپیگنڈا کرنے لگے کہ اُن کی برکت سے تیرہ صدیوں بعد پھر اسلامی نظام زکوة پورے ملک میں قائم ہو چکا ہے، بیت المال بھی موجود ہے اور اسلامی تعزیرات پر بھی عمل جاری ہے.
53 ابھی اعلیٰ حضرت نے اپنے جلالی خطاب کا آغاز ہی فرمایا تھا کہ ایمرسن کالج کا ایک تیز طرار سٹوڈنٹ کھڑا ہو گیا اور بڑی جرات اور پُر زور لہجہ کے ساتھ سوال کیا کہ یزید کی حکومت کے بارہ میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں.اس سوال پر وہ نہایت درجہ سراسیمہ اور مضطرب ہو گئے اور یہ گوہر فشانی کی کہ استغفر اللہ تم کس ملعون کی بات کر رہے ہو.یزید کی حکومت ہرگز ہرگز اسلامی حکومت نہیں تھی.پھر کیا تھی ؟ کالج کے نوجوان طالب علم نے اس پر زبر دست جرح کرتے ہوئے پوچھا.فرمانے لگے وہ مسلمانوں کی حکومت تھی نہ کہ اسلامی حکومت اب نو جو ان کالجیٹ نے پورے زور سے یہ سوال اٹھایا کہ یزید آنحضرت صلی اللہ کے ایک جلیل القدر صحابی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا بیٹا تھا.اس کی سلطنت کی حدود ایران و شام سے لے کر بشمول شرق اوسط کے عرب ممالک کے جنوبی افریقہ تک ممتد تھیں.اس کے عہد میں نظام زکوۃ پوری شان سے رائج ہو چکا تھا.بیت المال بھی تھا اور اسلامی سکے بھی رائج تھے اور اسلامی تعزیرات کا نفاذ بھی ہوا تھا.اگر یزید کی سلطنت اسلامی نہیں تھی تو ضیاء کی حکومت کیونکر اسلامی تسلیم کی جاسکتی ہے.علامہ بتائیں کہ اسلامی حکومت اور مسلمانوں کی حکومت میں کیا فرق ہے؟ اس سوال پر حضرت بالکل بے بس ہو گئے تو مجھے مخاطب کر کے درخواست کی کہ مولانا آپ بھی تو مسلمان ہیں.کچھ آپ بھی راہنمائی فرمائیں.میں نے خدا کی دی ہوئی توفیق سے جواب دیا کہ میری تحقیق کے مطابق اسلامی حکومت نبی اور اس کے بعد خلفا کی تاثیرات قدسیہ سے قائم ہو سکتی ہے.مگر مسلمانوں کی حکومت کا اطلاق ہر اُس مملکت پر ہوسکتا ہے جس کی اکثر آبادی کلمہ گو مسلمانوں پر مشتمل ہو خواہ اُن کے اعمال و عقائد کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے منافی ہی کیوں نہ ہوں.یہ بتا کر میں نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ دوستوں کی رو سے نبوت ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکی ہے.جو نبی کا نام لے، اس کی زبان آپ گدی سے کھینچ لینا چاہتے ہیں.اور ظاہر ہے کہ خلافت کا ظہور نبی کے بعد ہی ہوتا ہے اور یہ کسے معلوم نہیں کہ آج روئے زمین میں صرف جماعت احمد یہ میں نظام خلافت قائم ہے.لہذا جب تک آپ اور ضیاء صاحب، مودودی صاحب کے مرید، خلیفہ وقت کی بیعت نہیں کرتے ، انہیں اسلامی نظام اسلامی حکومت اور اسلامی دستور“ جیسی اصطلاحات کے استعمال کا قطعاً کوئی حق نہیں اور ہر گز نہیں !! اس بات پر ان کی آنکھیں آنسوؤں پر
54 میں تیرنے لگیں اور انہوں نے مجھ سے سو فیصدی اتفاق کیا کہ خلافت کے بغیر اسلامی حکومت کا منصہ شہود پر آنا ممکن نہیں.اس گفتگو کے ختم ہوتے ہی گاڑی شاہدرہ اسٹیشن پر رک گئی.جیسا کہ انہوں نے خود بتایا تھا کہ انہیں لاہور جانا تھا مگر خدا جانے ان کے دل میں ریکا یک کیا خیال آیا وہ چپکے سے اس اسٹیشن پر اتر گئے.یہاں ضمناً یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ جناب سید ابوالاعلی مودودی بانی جماعت اسلامی ولادت ۲۵ ستمبر ۱۹۰۳ ء وفات ۲۳ ستمبر ۱۹۷۹ء) بھی دور حاضر کی کسی بھی مسلمان مملکت کو اسلامی حکومت تسلیم نہیں کرتے تھے.اُن کی نگاہ میں خلافت عثمانیہ کا ساڑھے چھ سو سالہ دور بھی بالکل اسلامی نہ تھا بلکہ صرف پرانے ٹرکش نظام کا فقط چربہ تھا.خلافت کا ادارہ برائے نام تھا.محض ایک بادشاہ کے لیے خلیفہ کا خطاب اختیار کر لیا گیا تھا.حالانکہ خلافت اور بادشاہت (MONARCHY) بالکل مختلف چیز ہے.خطبات یورپ صفحه ۱۴۴ ناشر ا حباب پبلی کیشنز لاہور ) یہ بیان دیا: نیز انہوں نے مجلۃ الغرباء ( لندن ) کے ایک سوالنامہ کا لندن میں جواب دیتے ہوئے اسلامی صرف وہی چیز ہے جو ٹھیک ٹھیک اسلام کے مطابق ہو.مثلاً ایک مسلم حکومت ہر اُس حکومت کو کہا جا سکتا ہے جس کے حکمران مسلمان ہوں لیکن اسلامی حکومت صرف اس کو کہا جا سکتا ہے جو اپنے دستور اور قوانین اور انتظامی پالیسی کے طور پر پوری طرح اسلام پر قائم ہو.“ ( ایضاً صفحه) 48- محمدی بیگم سے متعلق پیشگوئی پر پوری بے حجابی سے تنقید ہمیشہ سے عیسائی پادریوں اور احراری واعظوں کی تحریروں اور تقریروں کا جزو لا ینفک رہی ہے.مجھے یاد ہے جب میں خلافت ثانیہ کے آخری سالوں میں جلسہ سالانہ ربوہ کے لیے حافظ آباد اور اس کے ماحول کے دورے کر رہا تھا تو شہر کے ایک مخالف حلقہ کی طرف سے طنز ا سب سے وزنی سوال یہی اٹھایا گیا تھا.خاکسار نے بتایا کہ اگر میں خدانخواستہ احمدی نہ ہوتا اور صرف محمدی بیگم سے متعلق پیشگوئی اور اس کے حیرت انگیز نتائج کا مطالعہ کرتا تو صرف اسی بنا پر میں فوراً احمدیت قبول کر لیتا.وجہ یہ کہ اصل پیشگوئی کے الہامی الفاظ فقط یہ تھے: يموت و يبقى منه الكلاب المتعددة" تخمه اشتباره ارجولائی ۱۸۸۸ حاشیه )
55 یعنی ایک شخص مرجائے گا اور اس کی طرف سے بہت سے کتے باقی رہ جائیں گے.چنانچہ سو فیصدی ایسا ہی وقوع میں آیا.مرزا احمد بیگ صاحب اپنی بیٹی کے دوسری جگہ رشتہ کرنے کے بعد پیشگوئی کے عین مطابق تین سال کے اندر کوچ کر گئے.اور سارے خاندان میں کہرام مچ گیا.یہ ہیبت ناک اور قہری نشان دیکھ کر اس مخالف خاندان کے دس افراد حضرت مسیح موعود کی صداقت پر ایمان لے آئے.حتی کہ محمدی بیگم کے فرزند مرزا اسحاق محمد صاحب نے قبول احمدیت کا اشتہار دیا.(پوری فہرست کے لیے دیکھئے تفہیمات ربانیہ صفحہ ۶۰۸ مولف خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاً صاحب) اب پیشگوئی کے دوسرے حصہ کے شاندار ظہور کے لیے احراری امیر شریعت کا حیرت انگیز اعتراف ملاحظہ ہو.آپ نے روز نامہ امروز ملتان کو بیان دیتے ہوئے فرمایا: بیٹا جب تک یہ کتیا (زبان) بھونکتی تھی سارا برصغیر ہند و پاک ارادت مند تھا.اس نے بھونکنا چھوڑ دیا ہے تو کسی کو پتہ ہی نہیں رہا کہ میں کہاں ہوں.“ ( حیات امیر شریعت صفحه ۵۴۶ از جانباز مرزا، مکتبہ تبصرہ لا ہور نومبر ۱۹۹۹ء) نبیوں کی ہتک کرنا اور گالیاں بھی دینا تخم فنا یہی ہے کتوں سا کھولنا منہ یہ بیان انہی دنوں امروز ملتان میں شائع ہوا اور اس وقت بھی میرے پاس موجود تھا جو میں نے اس احراری دوست کی خدمت میں پیش کر دیا جسے پڑھ کر وہ بالکل مبہوت ہو گئے.49- ایک بار ربوہ میں بھی وفد میں شامل ایک تیز طرار مولوی صاحب نے یہی اعتراض دو ہر ایا جس پر میں نے قرآن کی سورہ تحریم کی درج ذیل آیت پڑھی: عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَةٌ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَتٍ مُؤمِنتٍ قِنِتَتٍ تَكِبْتٍ عَبِدَتٍ سَيْحَةٍ ثَيِّبَةٍ وَأَبَكَارًا قریب ہے کہ اس کا رب اگر وہ تم ( ازواج مطہرات ) کو طلاق دے دے تو وہ تم سے زیادہ بہتر بیویاں اسے دے دے جو مسلمان ہوں گی ، مومن ہوں گی ، فرمانبردار ہوں گی ، تو بہ کرنے والی ہوں گی عبادت کرنے والی ہوں گی ، روزہ دار ہوں گی ، بیوہ بھی ہوں گی اور کنواریاں بھی.
56 تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت آنحضور ﷺ کے عقد میں گیارہ ازواج تھیں.لہذا تسلیم کرنا پڑے گا کہ خدائے عزوجل نے اپنے محبوب رسول کو کم از کم گیارہ محمدی بیگموں کا یقینی وعدہ کیا.یہ میں اس لیے کہتا ہوں کہ مجدد اسلام علامہ سیوطی اور دوسرے بزرگ مفسرین کا اتفاق ہے کہ اگر عسی کا حرف خدا کے لیے استعمال ہو تو اس کے معنی یقینی اور قطعی کے ہوتے ہیں مثلا عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا (بنی اسرائیل: ۸۰) اس تشریح کے بعد میں نے ان صاحب سے دوٹوک الفاظ میں سوال کیا کہ اگر کوئی گستاخ رسول یہ اعتراض کرے کہ تمہارے نبی کو گیارہ "محمدی بیگمات کی جو قرآنی بشارت ملی وہ غلط نکلی تو آپ کیا جواب دیں گے.نام نباد محافظ ختم نبوت“ سکتے میں آگئے.پھر بولے یہ پیشگوئی آنحضور علیہ السلام کے طلاق دینے سے مشروط تھی.نہ آنحضرت نے طلاق دی نہ گیارہ نئی ازواج آپ کو دی گئیں ھے اپنے دام میں صیاد آ گیا اس پر میں نے بھی یہی جواب دیا کہ حضرت مسیح موعود کی محمدی بیگم سے نکاح کی پیشگوئی بھی اُس کے خاوند کی مخالفت اور اس کے نتیجہ میں اس کی موت کے ساتھ مشروط تھی.خود حضرت اقدس واضح الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں: "ماكان الهام في هذه المقدمه الا كان معه شرط (ضمیمه انجام آتھم صفحه ۲۲۳ طبع اول ۱۸۹۶ء) یعنی اس پیشگوئی کے متعلق کوئی الہام ایسا نہیں کہ اس کے ساتھ شرط نہ ہو.
57 50- کالی کٹ (جنوبی ہند) کی ایک مجلس سوال و جواب میں ایک معزز غیر احمدی دوست نے سوال کیا کہ پیشگوئی اسمه احمد کے متعلق آپ کا کیا موقف ہے؟ میں نے عرض کیا کہ قرآن مجید کی ہر آیت کے کئی بطن اور کئی معانی ہیں مثلاً مفسرین نے ق والقرآن کے تین معنی تحریر کیے ہیں.(۱) قادر خدا (۲) قلب محمد (۳) کوہ قاف.بالکل اسی نقطہ نگاہ سے ہمیں "اسمه احمد" کی شخصیت کے بارہ میں غور و فکر کرنا ہوگا جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے مہدی امت کا نام احمد بتلایا ہے.(فتاوی حدیثیہ صفحہ ۳۳ حضرت ابن حجر المکی مطبوعہ مصر ۱۹۳۷ء ) اس صورت میں اصل سوال تو یہ اٹھنا چاہیے کہ آنحضرت اللہ نے جو حقیقی معنوں میں اس پیشگوئی "اسمۂ احمد“ کے مصداق ہیں، مہدی کا نام کیوں احمد رکھا.سو اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ ”احمد“ کے لغوی معنی ہیں سب سے بڑھ کر تعریف کرنے والا.اس حقیقت کی روشنی میں میرا ایمان ہے کہ اگر آیت اسمه احمد" میں خدا کی انتہائی حمد و ثنا کرنے والے نبی کا ذکر ہے تو اس سے سوائے سیدنا ومولانا حضرت اقدس محمد عربی ﷺ کی مبارک و مقدس ذات کے اور کوئی مراد لیا ہی نہیں جاسکتا اور اگر یہ خیال کیا جاوے کہ یہ پیشگوئی محمد مصطفی سے کے کسی بے مثال عاشق صادق اور سب سے بڑھ کر آپ کے مناقب و محاسن بیان کرنے والے وجود سے تعلق رکھتی ہے تو اسے حضرت بانی جماعت احمدیہ پر ہی چسپاں کرنا ہوگا.یہ تفسیر سن کر سائل نے اعتراض کیا کہ مرزا صاحب کا نام تو غلام احمد تھا.آپ " اسمه احمد" کا مصداق کیونکر ہو سکتے ہیں؟ سارے حاضرین اس دلچسپ سوال کا جواب سننے کے لیے بے تابی سے منتظر تھے کہ میں نے یہ نکتہ پیش کیا کہ آنحضرت ابن عبداللہ تھے کیونکہ عبداللہ تو ہمارے نبی کے والد معظم کا نام تھا مگر اللہ نے سورہ جن آیت ۲۰ میں آپ کو " عبد اللہ کے نام سے پکارا ہے.اسی طرح میں کہتا ہوں جس قادر خدا نے ابن عبد اللہ کو عبد اللہ بنا دیا اُس نے آپ کے غلام صادق کا نام احمد رکھ دیا.یادر ہے عربی میں غلام بیٹے کو بھی کہا جاتا ہے.خود اللہ جلتا نہ فرماتا ہے فَبَشِّرُنَهُ بِغُلَم حليم (الصافات: ١٠٢) 51- ایک مجلس میں سوال اٹھایا گیا کہ بانی سلسلہ نے کشف دیکھا تھا کہ قرآن مجید میں قادیان کا نام ہے.یہ نام کہاں ہے قرآن سے دکھلایئے.میں نے جواب دیا آپ اپنے تئیں کشفی کیفیت طاری کر کے دیکھیں گے تو ضرور مل جائے گا.دوسرا ر بوہ کو ہم قادیان کا ظل اور عکس سمجھتے
58 ہیں.لہذا آپ کو ماننا پڑے گا کہ اگر ظل کا ذکر قرآن میں یقینی طور پر موجود ہے تو اصل کا بھی ضرور ہوگا.چنانچہ ہماری جماعت کے ایک اہل کشف والہام بزرگ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے حیات قدسی میں انکشاف کیا ہے کہ انہیں جناب الہی کی طرف سے بتایا گیا کہ آپ "ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِید کی آیت میں ”ق“ سے مراد قادیان ہے.اور یہ حقیقت ہے کہ قادیان دارالامان سے قرآن مجید، اس کے تراجم و تفسیر اور معارف کی جس کثرت سے اشاعت ہوئی اور ہورہی ہے دنیا کی کوئی اور بستی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.52.ڈیفنس سوسائٹی کراچی میں ایک کامیاب مجلس مذاکرہ منعقد ہوئی.کارروائی کے اختتام پر پاکستان آرمی کے ایک سابق لیفٹیننٹ یا میجر صاحب کھڑے ہو گئے اور ملٹری آفیسر کے لب ولہجہ میں مجھے ڈانٹ پلائی کہ قرارداد اسمبلی کے بعد تمہیں اپنے مسلک کی اشاعت کا کوئی حق نہیں.میں نے بادب جواب دیا کہ آپ کے امیر المومنین ضیاء صاحب نے اس اسمبلی کی سیاہ کاریوں کا قرطاس اسود شائع کر کے ثابت کیا ہے کہ یہ سب لوگ بدقماش ، شہوت پرست اور غنڈے تھے.خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ بدمعاشوں اور غنڈوں نے ہمیں مسلمان تسلیم نہیں کیا.ہاں آپ کو مبارک ہو جنہیں سرکاری مسلمان ہونے کا تمغہ ان کے مقدس ہاتھوں سے عطا ہوا ہے.جو نہی یہ علمی محفل ختم ہوئی یہ فوجی میرے پاس آئے اور معذرت کی کہ انہوں نے ایک نا معقول سوال کر کے مجلسی آداب کو پامال کیا ہے لیکن میں نے ان کا غایت درجہ شکر یہ ادا کیا کہ اُن کی نوازش سے ایک مسئلہ کی حقیقت پبلک میں کھل کر سامنے آگئی ہے.53- ربوہ کا واقعہ ہے تعلیم الاسلام کالج کے بعض احمدی اور غیر احمدی سٹوڈنٹس ایک احراری خطیب کو شعبہ تاریخ میں لے آئے اور بتلایا کہ یہ صاحب بانی جماعت کے اس مصرعہ کا خوب مذاق اڑا رہے ہیں کہ ھے ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار خاکسار نے معزز مہمانوں پر یہ حقیقت واضح کی کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو سمجھنے کے لیے قرآن وحدیث کا علم ضروری ہے ورنہ جو شخص بھی حضرت اقدس کے لٹر پیر کو استہزا کا نشانہ بنائے گا،
59 اس کی اسلام اور قرآن سے جہالت فورا ظاہر ہو جائے گی.مثلاً اسی مصرعہ کو لیجئے.وہ لوگ جو حضرت ابراہیم پر جھوٹ ، حضرت نوح پر شرک ، حضرت یوسف پر ارادہ زنا، حضرت داؤڈ اور پاکوں کے سردار محمد مصطفی ﷺ پر معاشقہ سے متعلق روایات پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، وہی جائے نفرت سے مراد شرمگاہ لیتے ہیں مگر قرآن کا نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے.فرماتا ہے جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ہم انہیں جنت الفردوس کے وارث بنائیں گے.(المومنون رکوع ۱) اس ایک مثال سے ہی واضح ہو گیا کہ اس مصرعہ کو غلط معانی پہنانے والے قرآن مجید کے پکے دشمن ہیں.یہی وہ بد زبان ہیں جن کی دشنام طرازی اس وقت اپنے عروج تک پہنچ جاتی ہے جب وہ سامعین کو مشتعل کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود کا یہ الہام پیش کرتے ہیں کہ الہی بخش تیرا حیض دیکھنا چاہتا ہے“ حالانکہ حضرت خاتم الانبیا نے خود یہ اصطلاح استعمال فرمائی ہے.چنانچہ مشہور حدیث ہے "الكذب حيض والاستغفار طهارته " ( كنوز الحقائق از حضرت امام مناوی رحمۃ اللہ ) یعنی جھوٹ حیض ہے اور جس سے انسان استغفار کر کے پاک ہو جاتا ہے.اس ضمن میں حضرت اقدس نے حمل کا استعارہ بھی اپنے لیے بیان فرمایا ہے جو آنحضرت ﷺ کے ارشاد مبارک میں بھی ہمیں ملتا ہے.آنحضور نے فرمایا حشر میں سب لوگ حاملہ کی طرح ہوں گے جس کو کچھ پتہ نہیں کہ کب وضع حمل ہو گا.چنانچہ ارشاد نبوی ہے "اذا كان الساعة من الناس كالحامل المتمم لايدرى اهلها متى تفجاء لهم بولادتها اليلا أو نهارًا ) متدرك جلد ۴ صفحه ۵۴۶ روایت حضرت عبداللہ بن مسعود.مطبوعہ بیروت لبنان) افسوس صد افسوس جس جھوٹ کو خاتم الانبیا ﷺ نے حیض سے تشبیہ دی ہے دیو بندی اور مودودی امت کے یہاں اُسی کا بازار گرم ہے اور حیض کے طوفانوں میں بُری طرح غرق ہیں جس کا نا قابل تردید ثبوت یہ ہے کہ مودودی صاحب کا عقیدہ تھا کہ بعض اوقات جھوٹ بولنا واجب ہو جاتا ہے.کانگرسی لیڈرحسین احمد مدنی نے بھی نقش حیات میں اس کے وجوب کا فتوی دیا ہے اور مولوی رشید احمد گنگوہی (دیوبندی امت کے بانی اسلام کے ثانی) کہ فتاوی میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ ضرورت کے وقت انسان کو کذب صریح یعنی سفید جھوٹ بولنا چاہیے.سبحان اللہ تقویٰ کی کیسی کیسی باریک راہیں ان دین فروشوں نے کھول دی ہیں !!
60 54- ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ یہ عاجز ساہیوال کے ایک ٹانگہ میں بیٹھا تھا.میرے ساتھ بعض دیوبندی علماء بھی تشریف رکھتے تھے.وقت مختصر تھا اس لیے مجھے اُن سے صرف ایک سوال کرنے کا موقع ملا.وہ یہ کہ آج ہندوستان کے دیوبندی علماء بھارت کی ہندو حکومت سے مطیع و فرمانبردار ہونے کا دم بھرتے ہیں لیکن برطانوی حکومت کے خلاف انہوں نے فتویٰ جہاد دیا.کیا کوئی ایسا قرآن ہے جس میں یہ لکھا ہو کہ اگر حکومت انگریزوں کی ہو تو اس کی بغاوت فرض ہے اور اگر ہندو مہاشے حکمران ہوں تو ان کی اطاعت عین اسلام ہے.سورہ یوسف سے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اگر فرعون کی حکومت ہو اور یوسف علیہ السلام جیسا اولو العزم پیغمبر اس کی رعایا ہو تو اسے فرعونی حکومت کے آئین و دستور کا احترام کرنا ہو گا.الحمدللہ جماعت احمدیہ ۱۸۸۹ء سے آج تک اسی مسلک کی منادی کر رہی ہے.مگر انگریزی حکومت کے خاتمہ کے بعد آپ کو اپنا نظریہ یکسر بدلنا پڑا.اب یہ فیصلہ آپ کا فرض ہے کہ پہلا فتویٰ اسلام کے خلاف تھا یا دوسرا.میں اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ فرمانے لگے اب ہمیں نہیں اترنا ہے.خدا حافظ !! 55- ایک متشرع اہلحدیث بزرگ اپنے بعض شاگردوں سمیت زیارت ربوہ کے لیے تشریف لائے.آپ اپنا قرآن بھی ساتھ لائے اور آتے ہی مطالبہ کیا کہ میں بیعت کے لیے آیا ہوں بشرطیکہ آپ میرے قرآن مجید سے غلام احمد کا نام دکھلا دیں.میں نے ان کا خیر مقدم کرتے ہوئے درخواست کی آپ یہ شرط تحریر فرما دیں.فرمانے لگے اس کی کوئی ضرورت نہیں میرا زبانی اقرار کافی ہے.اس پر عاجز نے سب سے پہلے حضرت مسیح موعود کی یہ تحریر پڑھی کہ : یہ عاجز تو محض اس غرض کے لیے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے کہ....دار النجات میں داخل ہونے کے لیے دروازہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے.“ ( جمعه الاسلام صفحه ۱۲ ۱۳۰، اشاعت ۸ مئی ۱۸۹۳ء) میں نے بتایا کہ چونکہ مسیح محمدی کا مقصد بعثت ہی کلمہ طیبہ کی اشاعت ہے لہذا آپ اپنے قرآن سے کلمہ طیبہ کے تکمل الفاظ دکھا ئیں میں ثابت کر دوں گا کہ اس کے معا بعد غلام احمد کا نام بھی
61 موجود ہے.ظاہر ہے یہ نام فطری اور طبعی ترتیب کے مطابق کلمہ طیبہ کے بعد ہی ہونا چاہیے.یہ بزرگ خاصی دیر تک ورطۂ حیرت میں ڈوبے رہے.پھر ارشاد فرمایا کہ کلمہ طیبہ یقینا قرآن میں موجود ہے لیکن دو الگ الگ سورتوں میں تقسیم ہو کر، یکجا ایک آیت میں نہیں.میں نے عرض کیا جس خدا نے مبارک کلمہ اکٹھا نہیں لکھا وہ اس کے علمبر دار کا نام ایک آیت میں کیوں یکجا رقم فرماتا.پس غلام احمد کے نام کے پیچھے بالکل یہی فلسفہ کارفرما ہے.اللہ جل شانہ نے لفظ غلام آل عمران میں اور لفظ ”احمد“ سورہ صف میں لکھا ہے.پس غلام احمد کا نام بھی یقینا کتاب اللہ میں شامل ہے.لہذا اب مولا نا المکرم اپنے وعدہ کے مطابق ابھی بیعت فارم پر کر دیں.یہ سنتے ہی آنجناب اپنے عزیز شاگردوں کو پکڑ کر فی الفور باہر نکل گئے اور افتاں و خیزاں ربوہ کے اڈہ پر پہنچ کر دم لیا.56- پشاور کی ایک مجلس سوال و جواب عہد خلافت ثانیہ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت حضرت سیدی صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے فرمائی.ایک تحریری سوال یہ ہوا کہ مرزا صاحب نے تمام نبیوں کا بروز ہونے کا دعوی کیا ہے جو گستاخی ہے.میں نے مختصر ابتایا کہ ایسے بلند دعاوی حضرت جنید بغدادی اور دیگر بہت سے صلحائے امت نے بھی کیے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اس دعوی کے ساتھ ہی بیانگ دہل یہ حقیقت بھی نمایاں فرمائی ہے کہ این چشمه روال کہ خلق خدا وہم یک قطره از بحر کمال محمد است a کہ میں مخلوق خدا کو جو چشمہ دے رہا ہوں وہ کمال محمد ﷺ کے نا پیدا کنار سمندر کا فقط ایک قطرہ ہے.اب سامعین حضرات تصور کریں کہ جس نبی کے ایک قطرہ میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی جلوہ گر میں اس نبی کے لامحدود سمندر کی کیا شان ہوگی ؟ ضمنا خاکسار نے جناب باقر مجلسی صاحب ( بلند پایہ شیعہ مؤلف ) کی کتاب ” بحارالانوار جلد ۱۳ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضرت اقدس کا یہ دعوی تو آپ کی صداقت کا چمکتا ہوا نشان ہے.کیونکہ آئمہ اہل بیت کی یہ پیشگوئی اس میں درج ہے کہ امام مہد کی تمام نبیوں کا بروز ہونے کا دعوی کرے گا.
62 57- ایک شیعہ ذاکر مولوی بشیر احمد صاحب آف ٹیکسلا نے احمد نگر متصل ربوہ تقریر کی او جلسہ عام میں اہل سنت و الجماعت کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ لوگ خواہ مخواہ قادیانیوں سے میل ملاپ رکھتے ہو.وہ تو تمہارا جنازہ تک پڑھنے کے روادار نہیں ہیں.اگلے دن جماعت احمد یہ احمد نگر کے زیر اہتمام اس کے جواب میں جلسہ منعقد ہوا جس میں حضرت قاضی محمد نذیر صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ اور گیانی واحد حسین صاحب ( شیر سنگھ ) مربی سلسلہ اور خاکسار کی تقاریر ہوئیں.میں نے جنازہ سے متعلق سوال کی نسبت کہا کہ احمدی تو آنحضرت ﷺ کے پاک اسوہ کے پابند ہیں.حدیثوں سے ثابت ہے کہ حضور نے کسی قرضدار صحابی کا جنازہ نہیں پڑھا.اب میں بتاتا ہوں پوری امت مسلمہ پر بھی آنحضرت ﷺ کا ایک بھاری قرض ہے اور وہ یہ کہ جب امام مہدی کا ظہور ہو تو ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس کی آواز پر لبیک کہے اور خواہ اسے برف کے تودوں پر سے گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے اسے مہدی کے حضور پہنچ کر بیعت کرنی چاہیے.اب کوئی عاشق رسول بتائے کہ جو شخص ہمارے مقدس نبی، نبیوں کے شہنشاہ محمد رسول اللہ ﷺ کا قرضدار ہو ہم غیور احمدی جن کا مذہب ہی عشق رسول ہے، اس شخص کا جنازہ پڑھنے کی کیسے جرات کر سکتے ہیں؟ یہ معاملہ دو ایک منٹ کھڑے ہو کے دعا کرنے کا نہیں.اُس رسول سے غیرت کا سوال ہے جس کی خاطر خدائے ذوالعرش نے کائنات عالم پیدا کی ہے.اس کے بعد میں نے احمد نگر کے سنی بھائیوں سے کہا کہ اب میں آپ حضرات کو یہ بتانا چاہتا ہوں که شیعه دوست بعض اوقات سُنیوں کا نماز جنازہ ضرور پڑھتے ہیں مگر آپ کو یہ بھی معلوم ہونا ضروری ہے کہ اہلسنت کی نماز جنازہ میں جو دعائے مغفرت کرتے ہیں وہ کن الفاظ میں ہوتی ہے.شیعوں کے ثقہ اسلام محمد بن یعقوب کلینی کی زبانی اس کی عبارت سنئے اور غور سے سنئے.< "اللهم املاء جوفه نارا وسلط عليه الحيات والعقارب.( الفروع من الکافی کتاب الجنائز مطبوعہ مطبع نولکشور لکھنو اشاعت ۱۸۸۵ء) یعنی اے خدا اس کا پیٹ آگ سے بھر دے اور اس پر سانپ اور بچھو مسلط فرما دے.دعائے مغفرت کا ترجمہ سنتے ہی شیعہ حضرات تو شرم کے مارے سر چھپا کے چپکے سے کھسک گئے.اگلے روز ہم نے دیکھا کہ احمد نگر کی جس گلی کوچہ سے کوئی شیعہ صاحب گزرتے تھے سنی بچے تک اُن کی شکل دیکھتے ہی مخصوص دعا اونچی آواز سے پڑھ دیتے اور وہ جلدی سے اپنی جان چھڑا کر بھاگ کھڑے ہوتے.
63 58- کھوکھر غربی ( ضلع گجرات) کے ایک جلسہ میں مجھے یہ تحریری سوال دیا گیا کہ مرزا صاحب تو معاذ اللہ برطانوی حکومت کے ایجنٹ تھے.میں نے وقت کی مناسبت سے یہ جواب دیا کہ انگریزوں نے حضرت مسیح موعود کے خاندان کی ۸۲ دیہات پر مشتمل جاگیر غدر ۱۸۵۷ء میں ضبط کر لی مگر آپ کے خلاف سب سے پہلے ملک گیر فتویٰ کفر شائع کرنے والے اہلحدیث عالم مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مربعوں سے نوازا جس کا اعتراف انہوں نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنۃ میں برملا کیا ہے.اب فرمائیے انگریزوں کا ایجنٹ کون ہوا.پھر ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ انگریزی دور میں مخالف علماء جنہوں نے آپ کو قریب سے دیکھا تھا آپ کو باغی کہتے تھے مگر آج کی پیداوار مولوی صاحبان کے پر افترا پراپیگنڈا کا سارا زور اس پر ہے کہ آپ معاذ اللہ انگریزوں کے جاسوس تھے.اب حاضرین خود فیصلہ کریں کہ ان میں سے کون کذاب ہے.میں صرف یہ کہوں گا کہ ہمارے نبی خاتم الانبیاء آنحضرت اللہ نے چودہ صدیوں قبل انذار کیا تھا کہ آخری زمانہ میں امتی کہلانے والے بعض لوگ جھوٹی باتیں پھیلائیں گے.یادرکھو وہ دجال و کذاب ہوں گے.ان سے خبر دار رہنا ور نہ وہ تمہیں گمراہ کر دیں گے.( حدیث حضرت ابو ہریرہ مقدمہ مسلم شریف) 59- ایک جگہ یہ بحث گرم تھی کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں چودھویں صدی کے دوران آنے کی خبر موجود ہے.خاکسار نے معزز سامعین کو بتایا کہ حضرت مسیح موعود نے سورہ فاتحہ کو اپنی صداقت کی محکم دلیل کے طور پر پیش کیا ہے.اس سورۃ میں اللہ جلشانہ نے دعا سکھلائی ہے کہ "غیر المغضوب علیھم کہ ہمیں مغضوب علیہم نہ بنائیو.حدیث سے ثابت ہے کہ مغضوب یہودی تھے جنہوں نے مسیح کا انکار کیا اور تاریخ شہادت دیتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام حضرت موسیٰ کے بعد چودھویں صدی ہی میں مبعوث ہوئے.(مزید تفصیل گزرچکی ہے.دوہرانے کی ضرورت نہیں )
64 60- ۱۹۷۴ء کی بات ہے کہ راولپنڈی سے تبلیغی جماعت کے ایک بزرگ مرکز سلسلہ میں تشریف لائے اور بتلایا کہ انہوں نے لوگوں کو صحیح کلمہ پڑھانے ، وضو اور طہارت کے مسائل سکھلانے اور ان کو پکا نمازی بنانے کی خاطر اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے.میری گزارشات کا خلاصہ یہ تھا کہ ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو پاکستان اسمبلی نے عملاً یہ فیصلہ دیا کہ قانونی اور دستور مسلمان ہونے کے لیے فقط کلمہ گو ہونا کافی نہیں بلکہ اُسے بھٹو صاحب اور علماء کی اختراع کی ہوئی نئی تعریف مسلم پر ایمان لانا ضروری ہے.لہذا جب کلمہ منسوخ کر دیا گیا اسے پڑھانے کی زحمت آپ کیوں گوارا فرماتے ہیں؟ میں نے دریافت کیا کہ آپ اذان بھی دیتے ہیں.جواب دیا ہاں.میں نے ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ مؤذن کو کہنا پڑتا ہے اشهد ان لا اله الا اللہ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.آپ جانتے ہیں کہ شہادت صرف عینی گواہ دے سکتا ہے اور خدا کے موجود ہونے کی گواہی الہام ووحی کا مبط بنے بغیر ممکن ہی نہیں.لیکن آپ حضرات کے نزدیک تو سلسلہ مکالمہ مخاطبہ الہیہ تا روز قیامت بند ہو چکا ہے.لہذا آپ شہادت کیسے دے سکتے ہیں کہ خدا واقعی موجود ہے.یہ اعزاز صرف احمدی کو حاصل ہے جس کے نزدیک اسلام موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا کلام کر رہا ہے لہذا اذان دینے کا اصل حق تو صرف احمدیوں کو حاصل ہے.آپ لوگ اس کے اصولاً مجاز ہی نہیں.آخر میں ان سے دریافت کیا گیا کہ نماز کے دوران آپ حضرات درود شریف بھی پڑھنا لازم سمجھتے ہیں.فرمایا یقینا.میں نے ان سے نہایت ادب سے عرض کیا کہ درود شریف میں دعا سکھلائی گئی ہے کہ اے خدا جو نعمت تو نے آل ابراہیم کو عطا فرمائی تھی آل محمد کو بھی اس سے مالا مال کر دے.ظاہر ہے آل ابراہیم کو جوعظیم ترین نعمت و برکت عطا ہوئی وہ نبوت تھی.اب غور فرمائیے جو سرے سے آنحضرت کی تاثیرات قدسیہ سے فیضان نبوت ہی کو بند کیے بیٹھے ہیں انہیں نماز کے وقت درود شریف پڑھنے کا بھلا کیا حق ہے؟ عاجز کی در دول سے نکلی ہوئی یہ سب باتیں وہ بزرگ بہت توجہ سے سنتے رہے اور آبدیدہ ہو گئے اور دیگر از اور رقت بھرے الفاظ میں فرمانے لگے افسوس ساری عمر گزرگئی مگر کسی ہمارے عالم کو یہ حقائق بتانے کی توفیق نہ ملی.نہ ہمیں ہی ان کا خیال آیا جو ہماری بدنصیبی ہے.
65 ۱۹۸۵-61ء میں خاکسار کو بیت الفضل لنڈن میں ایک خطبہ نکاح پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی.دوران خطبہ خاکسار نے بتایا کہ آنحضرت ﷺ نے "من يهده الله فلا مضل له ومن يضلله فلاهادی له" کے الفاظ خطبہ جمعہ، خطبہ عید اور خطبہ نکاح غرضیکہ ہر قومی اور اجتماعی تقریب کے موقع پر پڑھنے کا ارشاد فرمایا ہے.جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ان مبارک الفاظ کے ذریعہ ایک ایسا ابدی پیغام دینا مقصود ہے جو قیامت تک ہر زماں و مکاں میں گونجتا ر ہے اور کبھی فراموش نہ کیا جاسکے.ترجمه ان انقلاب آفریں الفاظ کا یہ ہے کہ جسے اللہ ہدایت دے کوئی نہیں جو اس کو گمراہ قرار دے سکے اور جسے وہ گمراہ قرار دیتا ہے ناممکن ہے کہ اُس کو کوئی ہدایت دے سکے.اگر ہم چشم بصیرت سے ان الفاظ پر غور کریں تو اس میں ہمیں ایک ایسا پُر اسرار پیغام ملے گا جسے سمجھنے کی دنیا کو پہلے سے کروڑوں گنا بڑھ کر آج زیادہ ضرورت ہے.وجہ یہ کہ یھدی اور یضل مضارع کے صیغے ہیں جو حال اور مستقبل دونوں پر محیط ہیں اور میرے نزدیک اس میں ایک پیشگوئی مضمر ہے جو " من يهده الله" کے الفاظ میں ہے.دراصل یہ پر حکمت الفاظ مہدی ہی کی تشریح ہیں اور مقصود اس حقیقت کی چار دانگ عالم میں منادی ہے کہ کوئی نہیں جو خدا تعالیٰ کے موعود مہدی کو دائرہ اسلام سے خارج کر سکے.ان الفاظ میں یہ بھی اعلان عام ہے کہ کسی ماں نے ایسا بیٹا نہیں جنا جو ان بدنصیبوں کو ہدایت دے سکے جو خدا کے دفتر میں مسلمان نہیں.62- آمر ضیاء کے خلاف اسلام آرڈینینس کے نفاذ کے بعد ایک چالاک نو جوان سفید لباس میں ملبوس مجھے ملا اور درخواست کی کہ مجھے تبلیغ کریں.میں صرف اسی غرض سے یہاں آیا ہوں.میں نے اس کا ایک معزز مہمان کی حیثیت سے پُر تپاک استقبال کیا اور شکریہ بھی ادا کیا کہ آرڈینینس کے باوجود آپ نے مرکز میں تشریف لانے کی زحمت گوارا فرمائی ہے.میں نے عرض کیا کہ ہماری تبلیغ کا تو محمد رسول اللہ اللہ نے قیامت تک کے لیے خود اہتمام فرما دیا ہے.آنحضور ﷺ کے اس احسانِ عظیم کے آگے ہماری گردنیں خم ہیں.اللهم صل على محمد وآل مـ ان صاحب نے حیرت زدہ ہو کر دریافت کیا کہ آنحضرت ﷺ نے کیا تبلیغ فرمائی ہے.یہ تو ایک عجوبہ روزگار بات ہے اور میرے لیے بہت بڑا انکشاف ہوگا.میں نے اس مشکوک شخص کو بتایا
66 99 کہ آنحضرت ﷺ نے ہر امتی کو چودہ صدیوں سے حکم دے رکھا ہے کہ ہر نماز کے وقت مسجد میں داخل ہوتے ہوئے یہ دعا پڑھیں.رب اغفر لي ذنوبي وافتح لي أبواب رحمتك" (ترندی احمد ، ابن ماجہ بحوالہ مشکوۃ) میرے رب میرے گناہ معاف فرما اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے.اور مسجد سے نکلتے ہوئے ان الفاظ میں دعا کرنے کا ارشاد نبوی ہے کہ: رب اغفرلی ذنوبي وافتح لي أبواب فضلك (ایضاً) میرے رب میرے گناہ معاف فرما اور میرے لیے اپنے فضل کے دروازے کھول دے.ان ابدی دعاؤں کا سرچشمہ کتاب اللہ ہے.اور اعجاز قرآنی ملاحظہ ہو کہ آل عمران آیت نمبر ۷۵ میں رحمت وفضل دونوں کا ذکر یکجا طور پر موجود ہے.رب کریم فرماتا ہے يُخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللَّهُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( ترجمہ ) وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے خاص کر لیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا اب سنئے مشہور عالم تابعی مفسر حضرت مجاہد (۶۶۴۲-۷۲۳ء) کے نزدیک اس آیت کریمہ میں رحمت سے مراد نبوت ہے.(در منشور للسیوطی) اور فضل عظیم کی تغییر خود قرآن عظیم نے ( سورہ جمعہ کی آیت ۴ - ۵ میں ) یہ فرمائی ہے کہ : وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم.یعنی آخرین میں بھی وہ رسول اللہ کو بھیجے گا جو ابھی تک ان صحابہ سے نہیں ملی اور وہ غالب اور حکمت والا ہے.یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے گا دے گا اور اللہ فضل عظیم والا ہے.قول مصطفی کی اس قرآنی تفسیر کے بعد مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.63- خلافت ثالثہ کا مبارک دور تھا.خاکسار بیت اقصیٰ میں حضور کا پر معاف خطبہ سننے کے بعد اقصیٰ چوک تک پہنچا تو تعلیم الاسلام کالج کے احمدی اور غیر احمدی طلبہ کا ایک ہجوم نظر آیا جسے ایک
67 بد زبان ملا نے گھیرا ہوا تھا.ایک احمدی کا لجبیٹ کی مجھ پر اتفاقا نگاہ پڑ گئی.وہ دوڑ کر میرے پاس تشریف لائے اور مجمع میں جانے کے لیے اصرار کیا.میں نے اُن کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے انہیں رائے دی کہ میں گھر کی بجائے دفتر شعبہ تاریخ میں جاتا ہوں.آپ سب حضرات وہیں پہنچ جائیں.میں شدت سے انتظار کروں گا.سو الحمدللہ دفتر کا دروازہ کھلتے ہی یہ سب معزز مہمان پہنچ گئے.احمدی طالب علم ملا صاحب کے ساتھ ہی بیٹھ گئے اور اُن کی طرف سے ایک پر چی مجھے دی جس پر حضرت مسیح موعود کا یہ شعر لکھا تھا: کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار خاکسار نے پورا شعر سنانے کے بعد علی وجہ البصیرت بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود چونکہ خدا در مصطفی کے عاشق بے مثال ہیں، اس لیے آپ کا نثری یا شعری کلام صرف ایسا شخص سمجھ سکتا ہے جو کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ کا گہرا مطالعہ رکھتا ہو اور اس کے ہر لفظ کے برحق ہونے پر دل سے اور یقین رکھتا ہو.حضرت اقدس خودارشاد فرماتے ہیں عزیزو ہے قرآن حق کو نہیں انساں باغ احمد سے ہم نے پھل کھایا میرا بستان کلام احمد ہے اس حقیقت کی روشنی میں آئیے قرآن وحدیث کے دربار میں حاضر ہوں.اللہ جل شانہ نے سورہ یس آیت ۷۹۷۸ میں بنی نوع کو نصیحت فرمائی ہے کہ اس حقیقت کو فراموش نہ کرو کہ ہم نے تم سب کو نطفہ سے پیدا کیا ہے.اس آیت کی تفسیر میں حدیث میں کامل الایمان ہونے کی یہ علامت بیان ہوئی ہے کہ ہر انسان کو چاہئے کہ وہ سب مخلوق کو اونٹ کی مینگنی کے برابر اور اپنے تئیں مینگنی سے بھی کمتر اور حقیر سمجھے.( عوارف المعارف باب ۶۳ تالیف عارف باللہ حضرت شہاب الدین سہروردی.ولادت ۱۱۶۶اء وفات ستمبر ۱۲۳۵ء) صاف کھل گیا حضرت اقدس کے عارفانہ شعر کا پہلا مصرعہ اسی روح تصوف کی عکاسی کرتا ہے.
68 اب میں دوسرے مصرعہ کی طرف آتا ہوں.ختم نبوت کے چیمپیئن“ ”بشر کی جائے نفرت سے مراد شرمگاہ لیتے ہیں حالانکہ قرآن مجید نے اس کے بالکل برعکس خوشخبری دی ہے کہ جو مومن اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں انہیں ہمیشہ جنت الفردوس میں رکھا جائے گا.(سورہ مومنون رکوع اول) ہمارا کام تھا وعظ و منادی سو ہم وہ کر چکے واللہ واللہ ھادی 64- ایک عرصہ کی بات ہے کہ ڈیرہ غازی خان شہر میں جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ تھا.دوران تقریر مجھے جماعت اسلامی کے ایک رکن متفق یا متاثر“ کا رقعہ ملا کہ جب ہم دونوں کا مقصد نظام اسلامی کا قیام ہے تو ہمیں ایک ہو کر یہ دینی خدمت انجام دینا چاہیے.خاکسار نے جواب دیا کہ بلا شبہ حضرت مسیح موعود کا مقصد بعثت پوری دنیا پر غلبہ اسلام ہے.مگر اول تو جماعت احمدیہ اور جماعت اسلامی کا تصور اسلام ہی یکسر جدا ہے.دوسرے آنحضرت ﷺ کی حدیث ہے کہ "افتتحت المدينة بالقرآن" کہ مدینہ الیکشن یا تلوار سے نہیں قرآن مجید سے فتح ہوا.(کنز العمال ) اور جماعت احمدیہ انشاء اللہ دنیا پر ثابت کر دے گی کہ جس قرآن نے مدینہ پر فتح پائی تھی اس کی بدولت امریکہ، یورپ، افریقہ، ایشیا اور آسٹریلیا پر پرچم اسلام لہرایا جائے گا.مگر جناب مودودی صاحب نے الجہاد فی الاسلام میں یہ خوفناک نظریہ پیش فرمایا ہے کہ آنحضرت یہ وعظ وتلقین میں سراسر نا کام رہے لیکن تلوار کامیاب ہوئی اور اس کے ذریعہ تمام عرب مسلمان ہوا.محترم آپ جانتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ نے اقتدار کی خاطر ہرگز قبول اسلام نہیں کیا اور انہیں فاقہ پر فاقہ آتا اور کئی بارغش کھا کے گر جاتے مگر آستانہ نبوی سے جدا نہ ہوتے.اللہ کو ان کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ وہ بالآخر بحرین کے گورنر بنا دیئے گئے.بس یہی ہم دونوں میں مابہ الامتیاز ہے.ہم آنحضرت کے در کی غلامی اور گدائی کے مقابل بادشاہت ہفت اقلیم کو بھی بیچ سمجھتے ہیں مگر آپ حضرات صرف گورنری کے خواہاں ہیں.اشاعت اسلام کا قرآنی جہاد آپ کے مقاصد واغراض ہی میں شامل نہیں.کیونکہ آپ مصر کی اخوان المسلمین کا پاکستانی ایڈیشن ہیں.
69 یہ جلسہ بہت کامیاب رہا جس کے بعد مقامی جماعت کی طرف سے معززین شہر کو عصرانہ پیش کیا گیا جس میں ایک صاحب نے وکیلانہ انداز میں مجھ سے پوچھا کہ کسی فرشتے کا نام بھلا " نیچی بھی ہوسکتا ہے.میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اگر عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب اپنا نام ہندی میں ترجمہ کر کے پنڈت کر پارام برہمچاری رکھ سکتے ہیں جیسا کہ شورش کا شمیری صاحب نے ان کی سوانح میں لکھا ہے تو کیا خدا کو یہ حق نہیں کہ وقت مقررہ پر آنے والے کا ترجمہ پنجابی میں کر کے کسی کو ٹیچی کے نام سے پکارے اور پکارے بھی خواب میں.ع این چه بو العجمی است 65- ایک دفعہ مجھے ایک فوجی آفیسر (غالباً کیپٹن یا میجر ) کے ساتھ ایک ہی کلاس میں سرگودھا سے ربوہ تک سفر کا اتفاق ہوا.فوجی آفیسر صاحب روشن دماغ ، وسیع حوصلہ، صاحب ذوق اور شعر و سخن سے والہانہ لگاؤ رکھتے تھے.انہوں نے چوٹی کے اردو شعرا کے متعدد اشعار سنائے.میں نے ان کے حسنِ انتخاب کو سراہا اور ہر شعر پر دل کھول کر داد دی.جن کو کسی مناسب موقع کے انتظار میں پوری خاموش سے سنتا رہا اور بالآخر ان کے آخری شعر کی مناسبت سے میں نے فصیح الملک داغ دہلوی کا یہ پر جلال کلام پڑھا پڑا فلک کو کبھی دل جلوں سے کام نہیں جلا کے خاک نہ کر دوں تو داغ نام نہیں سالة پھر بتایا کہ اس خیال کو برصغیر کے ایک سیاسی اور ایک مذہبی رہنما نے اپنے اشعار میں باندھا ہے.سیاسی لیڈر کہتے ہیں.ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں جسے غرور ہو آئے کرے شکار مرا اور مذہبی پیشوا فر ماتے ہیں.مرے پکڑنے قدرت تجھے کہاں صیاد کہ باغ حسن محمد کی عندلیب ہوں میں تیسرے شعر نے تو اُن پر وجد کی سی کیفیت طاری کر دی اور انہوں نے اس کے بلند پایہ تخیل کو بے پناہ خراج تحسین پیش کیا اور بے تابی سے پوچھا کہ یہ کس بزرگ کی روحانی کاوش کا شاہکار
70 ہے.میں نے انہیں بتایا پہلاشعر تو سید عطاء اللہ شاہ بخاری کانگرسی لیڈر کا ہے اور دوسرا ہماری جماعت کے امام ہمام سید نا محمود الصلح الموعود کا ہے.اس کے بعد اُن کی خصوصی فرمائش پر کلام محمود کے چند اور اشعار پیش کیے اور یہ دلچسپ اور روح پرور سلسلہ مبادلۂ افکار ربوہ اسٹیشن کے آنے تک جاری رہا.میں نے اُن کا شکریہ ادا کر کے رخصت چاہی اور درخواست کی کہ کبھی خاکسار کے یہاں ربوہ بھی تشریف لائیں.66.بعض اہل حدیث علماء سے ربوہ میں ملاقات ہوئی.خاکسار نے تحریک احمدیت کا واقعاتی تعارف کرانے کے بعد اظہار افسوس کیا کہ موحد کہلانے والے خطیب جناب مولوی عبداللہ روپڑی صاحب نے ضیاء الحق جیسے فرعون زمانہ اور نمرود وقت کا قلم اس سے عاجزانہ درخواست کے ساتھ یادگار کے طور پر حاصل کیا.( چٹان لاہور تا ۴ امئی ۱۹۸۴ء صفحہ ۸ ) اور پھر اس کے تقدس کی اپنے ایک بیان میں خوب تشہیر کی.حالانکہ پورا آرڈنینس اسلام، اخلاق اور عالمی دستور کے بالکل خلاف تھا.اب بطور نمونہ اذان کی نسبت آنحضرت ﷺ کا مبارک اسوہ پیش کرتا ہوں.احادیث سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ حضور نے مؤذن الرسول بلال کو اذان دینے پر کبھی انعام نہیں دیا اور انعام دیا ہے تو ایک بدترین دشمن اسلام کو.چنانچہ غزوہ حنین سے واپسی کا واقعہ ہے کہ آنحضرت نے اپنے شدید معاند اور مذاقا اذان دینے والے ابو مخدورہ کو دوبارہ اذان دینے کا حکم صادر فرمایا جسے سن کر آپ اس درجہ خوش ہوئے کہ آنحضرت نے پہلے اپنے دست مبارک سے اس کے سینہ کو برکت بخشی پھر چاندی سے بھری ہوئی تھیلی انعام کے طور پر عطافرمائی اور یہ بھی اجازت دی کہ وہ خانہ کعبہ میں بھی اذان دے سکتا ہے.(دار قطنی جلد اصفحه ۲۳۳ باب فی ذکر اذان ابی محذوره ) اس اسوہ رسول کے برخلاف رو پڑی صاحب نے نہ صرف ضیاء کے حضور اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور اس کے ناپاک قلم کو تبرک سمجھ کر حاصل کیا اور اب یہ جبہ پوش اس قانون کی منظوری کو اپنے دینی کارناموں میں شامل کرتے ہیں.ه چه دلاور است از دے کہ بکف چراغ دارد
71 67- راقم الحروف ایک دفعہ حضرت شیخ علی بن حمزہ کی کتاب ”جواہر الاسرار" کی تلاش میں شاہی مسجد کے ناظم کتب خانہ سے ملنے کا اتفاق ہوا.کتاب تو نہ ملی مگر میں نے وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رہنمائی چاہی کہ ولی اور مولوی میں کیا فرق ہے؟ وہ عالم دین ہونے کے باوجود جواب دینے سے بالکل قاصر رہے.تب میں نے بتایا کہ مولوی ظاہری اور مادی مدرسوں سے علم حاصل کرتا ہے مگر ولی وہ ہے جو خدا کے مدرسہ میں پڑھتا اور اس سے ہم کلام ہو کر عرفان و حکمت کے اسرار سیکھتا ہے اور اسی اختلاف کے باعث ہر دور کے علماء ظواہر نے اولیا امت پر فتویٰ کفر دیا اور بعینہ یہی سلوک آج بانی جماعت احمدیہ سے کیا جا رہا ہے.یہ کہ کر میں لائبریری سے باہر آ گیا.68- ایک بار ملتان جاتے ہوئے خاکسار گورنمنٹ کالج کے ایک پروفیسر صاحب کا ہمسفر تھا.موصوف نے یہ درد ناک سوال کیا کہ ہم خیر امت ہیں اور یہود مغضوب لیکن ایک طویل عرصہ سے اُن کی تیغ ستم کا شکار ہور ہے ہیں.حالانکہ وہ چند لاکھ ہیں اور ہماری تعداد کروڑوں سے متجاوز ہے.کیا خدا نے امت محمدیہ کو چھوڑ دیا ہے اور بنی اسرائیل کو جو مغضوب تھے منعم علیہم کا تاج پہنا دیا ہے.میں نے عرض کیا کہ مسئلہ فلسطین میں عربوں کی فقید المثال وکالت حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے فرمائی اور احمدی آج تک صیہونی فتنہ کے خلاف سرتا پا احتجاج بنے ہوئے ہیں.اس ضمنی تذکرہ کے بعد آپ کے سوال کا واضح جواب یہ ہے کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ کفر و اسلام کے معرکوں میں ہمیشہ حقیقی اسلام کے علمبرداروں کو فتح نصیب ہوئی ہے.مگر جب کافروں اور منافقوں کا مقابلہ ہوتا تو کافر کی جیت ہوتی ہے اور منافق ہار جاتے ہیں.کیونکہ نفاق حق تعالیٰ کی نگہ میں کفر کے مقابل زیادہ سزا کا مستحق ہے.پھر میں نے یہ مثال دی کہ اگر کوئی شخص پانی کے ہزاروں منکے اپنے پاس رکھے تو کوئی حکومت اس پر قدغن نہیں لگائی نہ کوئی دیوانی یا فوجداری قانون حرکت میں آتا ہے لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے پانی سے بھری ہوئی ایک شیشی پر عرق گلاب کا لیبل چسپاں کر کے اسے دواخانہ میں رکھا ہوا ہے تو اس پر 420 کا مقدمہ چل جائے گا.اس مثال نے ان کی آنکھیں کھول دیں اور انہوں نے تسلیم کیا کہ ہم مسلمان ضرور کہلاتے ہیں مگر ہم میں اسلام نہیں ہے اور اسی کی سزا بھگت رہے ہیں.
72 ۱۹۸۱-69ء کا واقعہ ہے کہ حضرت خلیفہ المسح الثالث کے ارشاد پر عاجز ایک وفد کے ساتھ پہلی بار بنگلہ دیش گیا.چٹا گانگ میں نائب امیر جماعت چوہدری عبد الصمد صاحب مرحوم نے اپنی کوٹھی میں ایک شاندار ڈنر کا اہتمام فرمایا جس میں بنگلہ دیش کے قریباً ہر اہم طبقے کے معززین نے شرکت فرمائی.مدعوین میں جماعت اسلامی کے ایک لیڈر بھی تھے جو ڈھا کہ سپریم کورٹ یا ملک کی کسی ہائی کورٹ کے نامور ایڈووکیٹ تھے.فرمانے لگے کہ آپ لوگوں کو تو پاکستان پارلیمنٹ نے غیر مسلم“ قرار دے رکھا ہے.اب آپ کو یہاں تبلیغ کرنے کا کیا حق ہے.میں نے ان کے سوال کا بہت شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ حدیث نبوی میں ہے کہ سوال علمی خزانوں کی کنجی ہے ( جامع الصغیر للسیوطی ) لہذا آپ کی عطا فرمودہ کنجی کے لیے آپ کا ممنون احسان ہوں.ان تمہیدی الفاظ کے بعد اول طور پر میں نے اُن سے یہ پہلا سوال کیا کہ کیا بنگلہ دیش کی عدالتوں میں بھی دستور پاکستان کی عملداری ہے؟ کہنے لگے ہر گز نہیں.بعد ازاں پوچھا کہ پارلیمنٹ میں پاس ہونے والا قانون کیا موثر بہ ماضی ہوتا ہے؟ انہوں نے بالوضاحت جواب دیا کہ سوائے اس کے کہ خود قانون میں اس کا ذکر موجود ہو نئے قانون کا نفاذ پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد ہی ہوتا ہے پہلے ہر گز نہیں ہوسکتا.اس وضاحت کی روشنی میں خاکسار نے یہ آئینی نکتہ پیش کیا کہ پاکستان اسمبلی نے ہمارے خلاف ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو جو قانون پاس کیا اس کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں کہ جو شخص آنحضرت ﷺ کو غیر مشروط طور پر آخری نبی نہیں مانتا یا کسی قسم کے نبی ہونے کا دعوی کرتا یا اس مدعی کو نبی یا مجدد مانتا ہے وہ اغراض قانون کی خاطر ” ناٹ مسلم “ ہے.اب آپ مجھے بتائیے کہ اس شق میں کس مدعی نبوت کی طرف اشارہ ہے.فرمانے لگے آپ کی جماعت کے بانی کی طرف.اب میں نے انہیں ان کی وضاحت ہی کا حوالہ دے کر یہ تاریخی حقیقت پیش کی کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کا وصال ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو برٹش انڈیا میں ہوا جس کے ۳۹ سال بعد ۱۴ را گست ۱۹۴۷ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا اور ۱۹۷۴ء میں اس کی اسمبلی نے قانون پاس کیا.اب میں پوچھتا ہوں کہ وہ شیر خدا جو قیام پاکستان سے ۳۹ سال قبل اور قرارداد اسمبلی سے ستمبر سے ۶۶ سال قبل سے خالق حقیقی کے دربار اور آنحضرت ﷺ کے قدموں میں آرام کر رہا ہے اس پر اسمبلی پاکستان کا ۱۹۷۴ء کا قانون کس طرح لاگو ہو سکتا ہے.جماعت اسلامی کے ایڈووکیٹ نے بے ساختہ جواب دیا کہ ہر گز نہیں.اس پر میں نے بھی بآواز بلند کہا اس صورت میں واضح نتیجہ نکلا کہ ہم احمدیوں پر بھی اس ایکٹ کا نفاذ جائز نہیں اور ہرگز نہیں.
73 تقریب ختم ہوئی تو ہم لوگ چٹا گانگ کے ہوائی اڈہ پر پہنچے جہاں چٹا گانگ پر لیس کے ایک نمائندہ نے مجھ سے کہا کہ ہم نے تو آپ کو اور آپ کے دوسرے ممبران وفد کو خوب کوریج دی ہے حتی کہ آپ کا تعارف "HISTORIAN OF ISLAM" کے طور پر کرایا ہے مگر آپ کو معلوم ہے کہ اب آپ جس ملک میں جارہے ہیں وہ دستوری اعتبار سے آپ کو کس نام سے یاد کرے گا.میں نے بنگالی رپورٹر کو زبانی جواب دینے کی بجائے اسے اکبر الہ آبادی کا یہ شعر لکھ دیا.مسلمان تو وہ ہیں جو ہیں مسلماں علم باری میں کروڑوں یوں تو ہیں لکھے ہوئے مردم شماری میں -70- امسال ۲۰۰۷ء کی بات ہے کہ تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے چار معزز غیر احمدی لیکچراروں سے ( جو دیو بندی ملاؤں کے پرستار تھے ) میری طویل گفتگو ہوئی.میں نے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کی کتاب کو اپنی گفتگو کا محور بنایا اور ختم نبوت سے متعلق آپ کے الفاظ میں اُن کا یہ عقیدہ پوری وضاحت سے بیان کیا کہ عوام تو خاتم النبیین کے معنی آخری نبی کے لیتے ہیں مگر اصل معنی آیت کریمہ کے یہ ہیں کہ باقی نبی تو امتیوں کے باپ تھے اور محمد رسول اللہ خاتم النبین یعنی نبیوں کے باپ ہیں.کتاب کے آخر میں حضرت مولانا قاسم نے علماء اہل سنت کا یہ عقیدہ لکھا ہے کہ آنحضرت کے بعد جو نبی آئے گا وہ آپ ہی کی شریعت کی اشاعت کرے گا.کتاب سے خاتم النبین کے اصل معانی اور اس فتویٰ کے الفاظ نہایت بلند آہنگی سے سنانے کے بعد میں نے لیکچرار صاحبان سے پوچھا کہ آج دنیا کی سطح پر ختم نبوت کے ان حقیقی معنوں پر جماعت احمدیہ کے سوا کون ایمان رکھتا ہے.سب کو بالاتفاق اقرار کرنا پڑا کہ صرف آپ لوگ.لیکن ظلم وستم کی حد یہ ہے کہ یہ صاحبان زبانی اقرار کر کے چل دیئے مگر پوشیدہ پر میز پر ایک کاغذ کا پرزہ چھوڑ گئے جس میں یہ چیلنج درج تھا کہ اگر آپ کو اپنے مذہب پر یقین ہے تو ہم مناظرہ کے لیے تیار ہیں.“ 71- قیام پاکستان کے دوسرے سال جبکہ یہ عاجز فرقان بٹالین کا رضا کا رتھا.امام بربط سے رخصت لے کر راولپنڈی آیا جہاں لیاقت باغ میں ایک طرف احرار کے اجتماع میں احسان شجاع آبادی صاحب تقریر کر رہے تھے اور دوسری طرف جماعت اسلامی کی مجلس مذاکرہ کا کیمپ تھا.
74 میں فوجی وردی میں ہی کیمپ کے اندر جا بیٹھا اور سوال و جواب کی کارروائی سننے لگا.میں نے دیکھا کہ کالجیٹ نوجوان کثیر تعداد میں شریک محفل ہیں.اس وقت جماعت اسلامی کے ایک عالم دین ( غالباً مولوی صدرالدین صاحب) بڑی عمدگی سے اپنا نقطہ نگاہ پیش کر رہے تھے.یکا یک میرے دل میں بھی جوش اٹھا اور اُن کی خدمت میں یہ سوال پیش کر دیا کہ جماعت اسلامی کا نصب العین اسلامی نظام کا قیام بتایا گیا ہے.میں ایک فوجی سپاہی کی حیثیت سے اپنے مطالعہ کی بنا پر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسلامی نظام کا از سر نو قیام گدی نشینوں ، واعظوں اور ادیبوں سے نہیں بلکہ ہمیشہ خدا کے نبیوں کے ذریعہ سے ہوتا رہا ہے.لہذا یا تو قادیانیوں کی طرح صاف اقرار کریں کہ فیضان نبوت پر کوئی قدغن نہیں ہے یا پانچ ہزار سالہ مذہبی تاریخ میں سے صرف ایک مثال پیش کریں کہ کسی غیر نبی کے ہاتھوں خالص اسلامی نظام حیات از سر نو معرض وجود میں آیا ہو.میرے اس سوال پر موصوف کے پاؤں تلے زمین نکل گئی اور اپنی بجائے ایک اور صاحب کو کھڑا کر کے مجلس سے چل دیئے.” جماعت اسلامی کے نئے ترجمان بہت تیز طرار تھے.فرمانے لگے کہ آپ کا اصل سوال کیا ہے؟ ان کی فرمائش پر میں نے اپنا سوال دوہرایا.فرمانے لگے نبی کی تعریف کیا ہے؟ میں نے کہا اس وقت جواب دینے کا فرض تو آپ کا ہے.اس لیے آپ کیمپ لگا کر دوسروں کو دعوت مذاکرہ دے رہے ہیں.بایں ہمہ میں اس وقت حاضرین کے سامنے خود کچھ عرض کرنے کی بجائے قرآن مجید سے نبی کی تعریف پیش کرتا ہوں.کیوں کہ خدا ہی نبی بناتا ہے اور وہی اس مقام بلند کی اصل حقیقت بتلا سکتا ہے.چنانچہ میں نے سورہ آل عمران ( آیت ۱۸۰ ) مَا كَانَ اللهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ کا ترجمہ کیا کہ اس میں تین بار مضارع کا صیغہ استعمال ہوا ہے جو حال اور مستقبل دونوں پر محیط ہے اور خدا کی ازلی سنت کی نشان دہی کرتا ہے اور اس سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ نبی و رسول وہ شخص ہے جو خبیث وطیب (یعنی حق و باطل ) مخلوط ہو جانے کے وقت خدا سے منتخب ہو کر بھیجا جاتا ہے اور اس کی رہنمائی سے حق و باطل کو ممتاز کر دیتا ہے.اس لیے اس کی دعوت پر ایمان فرض ہے.قرآن مجید کی رو سے یہ تعریف پیش کرنے کے بعد میں نے پُر جوش لب والجہ میں چیلنج کیا کہ اب آپ ہمیں بتائیں کہ ان تین شقوں میں سے کون سی شق دائرہ امکان سے خارج ہو چکی ہے؟
75 1.کیا خبیث و طیب یعنی حق و باطل آپس میں گڈیڈ نہیں ہو سکتے.2.کیا خدا نے اپنے او پر دین حق کو خود ممتاز کرنے پر کوئی پابندی لگا رکھی ہے.3.کیا وہ زندہ خدا جو ہمیشہ سے کلام کرتا تھا اب قوت گویائی سے محروم ہو چکا ہے اور بذریعہ الہام رہنمائی کرنے سے قاصر ہے.اب میں ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں کہ اگر ان امور میں سے کوئی امر بھی ناممکن نہیں تو خدا کی طرف سے اصل نظام اسلام کے حقیقی خدو خال بتانے اور ان کو دنیا پر دوبارہ نافذ کرنے کے لیے آنا کیوں محال یا ممنوع ہے؟ پس یا تو آپ کو احمدی ہونے کا اعلان کرنا ہوگا یا نظام اسلامی کے نفاذ کے بلند بانگ دعاوی سے دستبردار ہونا پڑے گا.میں نے دیکھا کہ کیمپ حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے اور کالج کے طلبہ کی خاصی تعداد باہر کھڑی ہے اور بڑے اشتیاق اور بے تابی سے جواب کی منتظر ہے.لیکن افسوس کہ جماعت اسلامی کے ناقوس خصوصی نے وقت نماز کا بہانہ بنا کر اجلاس عام کے خاتمہ کا اعلان کر دیا.مجلس میں راولپنڈی کے بعض احمدی طلبا کے علاوہ حضرت ماسٹر میر عالم صاحب سابق پریذیڈنٹ کوٹلی آزاد کشمیر بھی موجود تھے جنہوں نے حق کی اس فتح مبین پر مجھے کندھے پر بٹھا لیا اور مری روڈ کی قدیم احمد یہ مسجد میں لے آئے جہاں کئی اور احمدی بزرگ بھی پہنچ گئے اور راولپنڈی جماعت میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوشیوں کی ایک برقی لہر دوڑ گئی اور مسیح موعود سے خدا کا یہ الہامی وعدہ ایک بار پھر ہم نے اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھا کہ جو تیری مدد کا ارادہ بھی کرے گا میں خود اس کی نصرت واعانت کروں گا.اللھم صل على محمد وآل محمد 72.ایک بار یہ عاجز جناب گیانی واحد حسین صاحب ( بیعت مارچ ۱۹۲۶ء.وفات ۲ جولائی ۱۹۷۰ ء ) امیر وفد کے ہمراہ بذریعہ ریل ملتان روانہ ہوا.میرے ساتھ حسب معمول لٹریچر سے بھرا ہوا ایک ٹرنک بھی تھا جو میں نے اوپر کی سیٹ پر رکھ دیا.یہ وہی ترتک تھا جس پر آپ مدتوں قبل علاقہ تھل کے پیدل تبلیغی سفر کے دوران یہ لطیف مزاح بھی فرما چکے تھے یہ کیا بوجھ اٹھائے پھرتے ہو.محترم گیانی صاحب کی شگفتہ مزاجی ، طنز ومزاح اور حاضر جوابی کا سکہ ہم سب مربیوں پر بیٹھا ہوا تھا.اُن کی زندگی بھی دلچسپ اور نکتہ آفرینی اور نکتہ چینی کے واقعات سے لبریز تھی لیکن آہ و آن قدح بشکست و آں ساقی نماند
76 اس سفر کے دوران سانگلہ کی طرح جماعت اسلامی کے ایک اور مقرر صاحب نے بھی سامعین کی سمع خراشی کی اور جناب مودودی صاحب کے عالی مقام و منصب پر طویل لیکچر دیا اور اُن کے افکار ونظریات کے پڑھنے اور جماعت اسلامی میں شمولیت کی دعوت دی.محترم گیانی صاحب نے جو بڑی دیر سے یہ پراپیگینڈا اسن رہے تھے میرے کان میں کہا کہ کتابوں کا بوجھ کس غرض کے لیے لائے ہو؟ اگر کوئی اور اسلحہ پاس ہے تو دکھاتے کیوں نہیں ہو ؟ دراصل بات یہ تھی کہ ہمارا سفر لمبا تھا اس لیے میں چاہتا تھا کہ مودودی صاحب کے پرستار اپنا کیس پوری شرح وبسط سے مسافروں کے سامنے رکھیں.یہاں تک کہ ان کا گلا ساتھ چھوڑ جائے.خدا کا کرنا ایسا ہوا جلدی ہی اُن کی آواز بیٹھ گئی جس پر میں کھڑا ہو گیا اور ”مولانا کی معلومات کا حاضرین کی طرف سے شکریہ ادا کیا.پھر اُن سے استفسار کیا کہ قرآن مجید نے امت میں نبی، صدیق شہید اور صالح کے چار درجات کی خبر دی ہے.فرمائیے آپ کے عقیدہ کی رُو سے ان مدارج عالیہ میں سے سید مودودی صاحب کو کون سا درجہ عطا ہوا ہے؟ ہمارے نزدیک تو وہ صرف اہل قلم ہیں اور اسلام کے نام پر اقتدار پر قبضہ ان کا نصب العین ہے.اعلیٰ حضرت نے نہایت نحیف آواز میں جواب مرحمت فرمایا ”وہ صرف امیر جماعت اسلامی پاکستان ہیں.اس پر میں نے گیانی صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ میرا ٹرنک او پر ہے اٹھا کر مچلی سیٹ پر رکھ دیں.چنانچہ انہوں نے خوشی سے تمتماتے ہوئے یہ تکلیف گوارا فرمائی اور ٹرنک کھول کر میرے سامنے رکھ دیا.تصرف النبی ملاحظہ ہو کہ جملہ کتابوں کے اوپر مودودی اخبار " قاصد کشمیر نمبر اور اس کے نیچے فسادات ۱۹۵۳ء کی رپورٹ تحقیقاتی عدالت پڑی تھی.چنانچہ میں نے انہیں دکھاتے ہوئے سامعین پر خوب واضح کیا کہ یہ صاحب صریحا غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں کیونکہ جناب مودودی صاحب کے نزدیک بعض اوقات جھوٹ واجب ہوتا ہے.(رسالہ ترجمان القرآن مئی ۱۹۵۸ء) میں ابھی ثابت کرتا ہوں کہ مودودی جماعت اپنے امیر کو خاتم النبین یقین کرتی ہے.جس کا دستاویز کی ثبوت یہ میرے ہاتھ میں ہے یعنی قاصد کشمیر نمبر اور رپورٹ عدالت.قاصد کے سرورق پر میاں طفیل محمد صاحب قیم جماعت اسلامی کا یہ بیان جلی عنوان سے شائع شدہ ہے کہ مودودی صاحب اسلام کے ہر مسئلہ پر سند تھے اور سند ہیں.اب تحقیقاتی رپورٹ کے
77 صفحہ ۲۳۵ پر جماعت اسلامی کے چوٹی کے لیڈر مولانا امین احسن اصلاحی کا عدالتی بیان سنے.فرماتے ہیں ” خاتم النبیین کے معنی ہیں زندگی کے متعلق تمام معاملات میں سند.“ ان دونوں حوالوں سے پوری طرح نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ جماعت اسلامی کی نگاہ میں مودودی صاحب دور حاضر کے خاتم النبین ہیں.محترم مقر ر صاحب کا فرض ہے کہ وہ اس کا پبلک کے سامنے جواب دیں.گلہ کی خرابی نے اُن کی زبان پر مہر سکوت ثبت کر دی تھی.وہ بھلا کیا جواب دیتے لیکن آدمی ذہین تھے اگلے اسٹیشن کا انتظار کرنے لگے اور جونہی گاڑی رکی.آپ کمال پھرتی سے پلیٹ فارم پر قدم رکھتے ہی آنکھوں سے غائب ہو گئے.گاڑی میں موجود سب شرفاء یہ نظارہ دیکھ کر کم تم ہو گئے.شاید سرا قبال کا یہ مصرعہ انہیں یاد آ رہا ہو ع بہت باریک ہیں واعظ کی چالیں 73- جماعت احمد یہ بدوملہی (ضلع سیالکوٹ) میں جلسہ یوم مسیح موعود میں حضرت خلیفہ امسح الثالث کے ارشاد پر خاکسار کو بھی شرکت کا موقع میسر آیا.میں کارروائی کے شروع ہونے سے چند منٹ قبل آخری نوٹس اور کتابوں کے حوالہ پر آخری نظر ڈالنے میں غرق تھا کہ شہر کے دو اہلحدیث عالم میری قیامگاہ پر تشریف لائے اور بغیر کسی تمہید کے یہ سوال کر ڈالا کہ لاہوریوں سے آپ کا کیا فرق ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اتنا فرق نہیں جتنا اہلحدیثوں اور بریلویوں کے درمیان ہے.آپ رضاخانیوں کو مشرک اور رضا خانی آپ لوگوں کو گستاخ رسول قرار دیتے ہیں.اس کے مقابل ہم دونوں فرقوں میں صرف لفظی نزاع ہے.آنحضرت اللہ نے امت میں آنے والے مسیح موعود کو چار بار نبی اللہ کہا ہے.ہم کہتے ہیں اس سے مراد واقعی نبی اللہ ہی کا منصب ہے مگر ہمارے بچھڑے ہوئے بھائی اسے محض محدثیت سے تعبیر کرتے ہیں.اہلحدیث علماء نے بالا تفاق تسلیم کیا کہ آپ لوگوں کا موقف ہی درست ہے مگر ساتھ ہی کہا کہ یہ تو ضمنی بات تھی ہمارا اصل سوال یہ ہے کہ جماعت احمدیہ نے پاکستان کے علماء کرام کی بجائے بھٹو کی سوشلسٹ پارٹی کو کیوں ووٹ دیا.حسن اتفاق سے اس وقت جناب مودودی صاحب کا رسالہ انتخابی جد و جہد میرے پاس تھا.میں نے اس کے چند فقرے سنائے جس میں انہوں نے ڈٹ کر لکھا تھا کہ ہمارے نبی محمد عربی ﷺ نے عہدہ طلب کرنے والوں کی شدید
78 مذمت کی اور اس کی ممانعت فرمائی ہے.(رسالہ میں مسلم وغیرہ مستند احادیث کا متن بھی دیا گیا ہے ) میں نے عرض کیا کہ بھٹو صاحب تو ایک خالص سیاسی لیڈر ہیں.انہیں ان احادیث کا کہاں پتہ ہوگا لیکن آپ علماء عظام نے یہ احادیث نہ صرف اپنے مدرسوں میں سبقاً سبقاً پڑھی ہیں بلکہ اپنے شاگردوں کو بھی پڑھاتے ہیں.لیکن ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ جب یحییٰ خاں کی طرف سے الیکشن کے لیگل فریم آرڈر کا نقارہ بجا تو بھٹو اور اُن کی پارٹی سے بھی پہلے آپ حضرات لنگر لنگوٹ کس کر انتخابی دنگل میں پہنچ گئے.ہم نے سوچا ہم کلمہ گوسوشلسٹوں کو ووٹ دے سکتے ہیں لیکن رسول اللہ کی واضح حدیثوں کو چاک چاک کرنے والوں کو ہر گز ووٹ نہیں دے سکتے.حسب دستور خاکسار ربوہ پہنچ کر بغرض رپورٹ حضرت اقدس سیدی حضرت خلیفہ ثالث کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور اس جواب سے بہت محظوظ ہوئے اور ارشاد فرمایا تم نے جماعت کے موقف کی بہترین وکالت کی ہے.74.میرے دادا مکرم جناب میاں رحمت اللہ صاحب آخر دم تک احمدیت کی مخالفت پر ڈٹے ر.رہے.مدرسہ احمدیہ میں داخلہ (۱۹۳۶ء) کے کچھ عرصہ بعد جب میں دوران تعطیلات پنڈی بھٹیاں آیا تو انہوں نے مجھے سخت ڈانٹ پلائی کہ تم تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیوں قادیان چلے گئے ہو.بعد ازاں آپ مجھے اپنے پیرو مرشد شیخ محمد امین صاحب چنیوٹی کے پاس لے گئے کہ اسے سمجھا دوہ قادیان جانے سے باز آ جائے اور قادیانیت ترک کر دے.شیخ جی کا یہ عقیدہ تھا کہ آنحضرت ﷺ اور حضرت بو علی پانی پتی پورے قلندر تھے اور میں آدھا قلندر ہوں.دادا صاحب اس خیال پر ایسے لٹو تھے کہ آدھے قلند ر صاحب کے عرس کا اپنے خرچ سے اہتمام کرتے تھے.ایک دفعہ مجھے بھی آپ ربوہ سے کھینچ لے گئے.میں رات بھر ان کی محفل رقص و سرور دیکھتا رہا.وہ اور ان کے ہم مشرب کچھ تو مستی سی طاری تھی اور میرے دل میں حضرت مسیح موعود کا یہ شعر سے بس گیا.وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا قصہ مختصر 112 قلند ر صاحب نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مرزا صاحب تو اپنے تئیں
79 رسول اللہ سے بھی افضل ہونے کے مدعی ہیں.تم کس جال میں پھنس گئے ہو.تم بچہ ہو اور ساتھ ہی انہوں نے بطور سند حضرت اقدس کا یہ مصرعہ بھی پڑھا: بہ ع تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے شیخ جی نے آگے بڑھایا ہم نے“ کے الفاظ اپنے دعوی کو موثر بنانے کے لیے پوری بلند آہنگی سے پڑھے اور پھر ڈرامائی انداز میں اپنا ایک قدم بھی آگے بڑھا دیا.جناب دادا صاحب کو اس ایکٹنگ اور ناٹک سے یقین کامل ہو گیا کہ پیر روشن ضمیر اور مرشد نے اسے خوب پکڑا ہے.میرے لیے مغالطہ آفرینی کا یہ پہلا تجربہ تھا اور میں دجل و فریب کا شرمناک نمونہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا کہ بغض و عداوت کی آگ نے ان لوگوں کو کہاں تک پہنچا دیا ہے.بہر حال میں نے اُن سے درخواست کی کہ آپ ڈریشین خود ملاحظہ فرما ئیں.حضرت اقدس کا پورا شعر یہ ہے "" ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے آپ فرماتے ہیں یا رسول اللہ آپ تمام نبیوں کے سردار ہیں اسی لیے ہم خیر اہم بن گئے.آپ نے نبیوں میں اپنا قدم بڑھایا اور ہم آپ کے طفیل تمام امتوں میں آگے بڑھ گئے.خدا را بتائیے کہ یہ افضیلت ہے؟ یہ سن کر آدھے قلندر صاحب بالکل لاجواب اور ساکت و جامد ہو گئے.بایں ہمہ ہمارے دادا صاحب نے مرتے دم تک ان کا دامن عقیدت چھوڑا نہ مخالفت احمدیت سے باز آئے.اور بالآ خرکئی حسرتیں دل ہی میں لے کر اس جہانِ فانی سے چل بسے اور ہمیشہ کے لیے عبرت کا نشان بن گئے.وجہ یہ کہ اُن کے چھ بیٹوں میں جو تین اُن کے ہم نوار ہے ان میں سے ایک عاقل والی مسجد کے امام تھے جنہوں نے ان کی زندگی میں مسجد میں ہی خود کشی کر لی.ایک بیٹا ساری عمر معذور اور لا ولد رہا.تیسرے کی یادگار غالبا صرف ایک بیٹا ہے.اس کے مقابل آپ کے تینوں احمدی بیٹوں کو خدا نے دین ودنیا کی برکتوں سے معمور رکھا اور ان کی نسلیں نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ کینیڈا، جرمنی اور عرب میں بھی پھل پھول رہی ہیں اور خدا کے فضل و کرم سے عشق خلافت سے سرشار ہیں.یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ محترم دادا جان بھی مرزا امام الدین صاحب ( قادیان ) کی طرح ظاہری طور پر
80 نہایت درجہ بارعب اور طنطنے کے آدمی تھے.رنگ سفید اور سرخی مائل، قدوقامت بلند ، ڈاڑھی متشرع شکل وجیہ اور آواز گر جدار - ۱۹۴۴ء میں قصبہ پنڈی بھٹیاں کے ہندو مسلم اتحاد کے لیے ایک سمجھا قائم ہوئی جو ۴ ارا گست ۱۹۴۷ ء تک قائم رہی.سبھا میں جو چھ معز ز مسلمان نمائندے شامل تھے اُن میں آپ بھی تھے.( پنڈی بھٹیاں اور گردونواح کی تاریخ صفحہ ۱۱۳ ۱۱۴۰ تالیف جناب اسد شیخ سلیم صاحب ناشر اظہار سنز معاون اظہار ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان لاہور.اشاعت ۱۹۹۹ء ) 75- ایک بار دوران مجلس ایک غیر احمدی عزیز نے نہایت حقارت سے طنز ” پنجابی نبی کا لفظ استعمال کیا.میں نے انہیں بتایا کہ حضرات مجددالف ثانی کے مکتوبات میں کئی پنجابی نبیوں کا ذکر ہے جو سر ہند میں آسودہ خاک ہیں.قرآن مجید کا تو اعلان عام ہے کہ ہم نے ہر قوم میں نبی مبعوث کیے ہیں.(فاطر: ۳۵) آنجناب کس کس کا مذاق اڑائیں گے.76- ۱۹۷۴ء کا سال عام الفرقان اور عام الوفود کہلانے کا مستحق ہے کیونکہ اس سال آنحضرت کی پیشگوئی (مشکوۃ) کے عین مطابق ملک کے بہتر فرقوں نے جماعت احمدیہ کو الگ کر کے اس کے حقیقی مسلمان ہونے پر مہر تصدیق کر دی جس کے بعد ملک کے طول وعرض سے ربوہ میں غیر احمدی معززین کے وفود کا ایک تانتابندھ گیا.یہ زائرین حضرت خلیفہ امسیح الثالث کی زیارت کے بعد حضور ہی کی ہدایت کے مطابق خلافت لائبریری میں تشریف لاتے اور خاکسار حضور کے فرمان مبارک کی تعمیل میں ان کے سوالوں کے جوابات پیش کرنے کے علاوہ اصل کتا بیں بھی دکھلاتا تھا.ان دنوں لائبریری کا ہال ہر جمعرات کو ایک پر ہجوم پریس کانفرنس کا منظر پیش کرتا تھا.ایک مرتبہ تشریف لانے والے معززین کی بھاری تعداد اہل السنت والجماعت پر مشتمل تھی.میں نے سبھی حضرات کا خیر مقدم کرتے ہوئے خوشخبری سنائی کہ الحمد للہ آپ حقیقی اہلسنت کے مرکز میں پہنچ گئے ہیں.جس کے ثبوت میں خاکسار نے مجدد اہلسنت حضرت امام علی القاری ( مدفون مکہ معظمہ ۱۰۱۴ھ/ ۱۶۰۶ء) کی مرقاۃ شرح مشکوۃ سے ۷۳ فرقوں والی حدیث کی شرح دکھلائی جس میں مجد داہلسنت نے فرمایا کہ ۷۲ فرقے جسے آخری زمانہ میں جدا کریں گے وہی اہلسنت والجماعت ہوگا اور وہ طریقہ احمد یہ پر ہوگا.
81 77- دورہ یورپ کے دوران ایک موقع پر یہ سوال بھی سامنے آیا کہ حضرت مسیح موعود کو تصویر نہیں کھچوانی چاہیے تھی.میں نے مختصر جواب دیا کہ آنحضرت کی حقانیت و صداقت کا سکہ اہل یورپ و امریکہ پر بٹھانے کے لیے تھی کیونکہ رسول خدا ﷺ نے مہدی موعود کا حلیہ مبارک چودہ سوسال قبل بتلا دیا تھا ( بخاری ) حضرت مسیح موعود آج زندہ نہیں مگر ممالک عالم کا ہر فرد آپ کے فوٹو کو دیکھ کر مخبر صادق آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے پوری ہونے پر عینی گواہ بن سکتا ہے.حضرت اقدس اپنے فارسی کلام میں فرماتے ہیں: موعودم I ماثور آمدم است، گر حیف رنگم چوگندم است 삼성 بنند منظرم و ہمو فرق بین است ز انسان که آمدست (أسيح الموعود ) در اخبار سرورم 78 - ضلع ملتان کی ایک دیہاتی احمدی جماعت کے صدر اسی سال (۲۰۰۷ء ) خاص طور پر مرکز میں تشریف لائے کہ انہیں ایک غیر احمدی دوست کو حضرت سلمان فارسی کے شجرہ نسب سے حضرت مسیح موعود کے آباء واجداد کا نام دکھلانا مقصود ہے.میں نے انہیں اسماء الرجال کی قدیم اور مستند کتاب اسد الغابہ سے حضرت سلمان فارسی کے حالات کا عکس کرا کے دیا جس میں لکھا تھا کہ آپ کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی.دوسرے میں نے ان پر واضح کیا کہ آنحضرت ﷺ نے فقط یہ پیشگوئی فرمائی تھی " من هولاء " کہ یہ موعود سلمان فارسی کی قوم میں سے ہوگا.( نہ یہ کہ آپ کی نسل میں سے ) 79- حضرت خلیفہ امسیح الثالث اور حضرت خلیفہ امسیح الرابع فرمایا کرتے تھے کہ پاکستانی قوم کے ہزار میں سے ۱۹۹۹افراد شریف النفس ہیں.گو علماء سو سے مرعوب ہیں.میں نے یہ تجربہ سو فیصدی درست پایا ہے.یہی وجہ ہے کہ میں اپنے پاکستانی بھائیوں کی زبان سے سخت ترین اعتراض کو بھی نہایت بشاشت، توجہ اور سنجیدگی سے سننے کا خوگر ہوں.ایک دفعہ کسی شوخ مزاج نوجوان نے مجھ سے کہا کہ میں ربوہ میں صرف جنت و دوزخ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے آیا ہوں.کوئی اور
82 گفتگو نہیں کرنا چاہتا.میں نے اُن کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے یہ اصولی بات کہ کر ہم دونوں کا نہایت قیمتی وقت ضائع ہونے سے بچالیا ہے.لہذا مجھے فقط یہ کہنا ہے کہ خدا کے تمام نبی زمین کو جنت نظیر بنانے کے لیے ہی آتے ہیں وگر نہ زمانہ تو ہر جگہ جہنم زار کا نقشہ پیش کر رہا ہوتا ہے.لہذا آپ نہ صرف بہشتی مقبرہ دیکھیں بلکہ پورے ربوہ کی سیر کریں.آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ شہر اپنے روحانی علمی اور روحانی ماحول اور پاکیزہ فضا کے اعتبار سے یقیناً بہشت کا نمونہ ہے.یہی وہ مبارک بستی ہے جہاں ہر طرف سلام ہی کے نغمے گونج رہے ہیں.جیسا کہ کتاب اللہ نے جنتیوں کی ایک علامت یہ بھی بیان فرمائی ہے.علاوہ ازیں رسول اللہ اللہ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جنت کے ربوہ کا نام فردوس ہے."الفردوس ربوة الجنة" (جامع الصغير للسيوطى ) اب میری درخواست ہے کہ آپ بہشت ربوہ میں مشاہدہ فرما لیجئے اور اگر دوزخ کا شوق زیارت بھی ہو تو ” چنیوٹ شریف تشریف لے جائیے !! 80- ایک ادبی محفل میں قرار دادے ستمبر زیر موضوع تھی.میں نے حاضرین کو بالخصوص اس پہلو کی طرف متوجہ کیا کہ قرارداد میں ہمیں احمدی کہلانے کی دستوری اور آئینی طور پر کھلی اجازت ہے اور حضرت مسیح موعود کے نزدیک احمدی کی قانونی تعریف یہ ہے کہ: احمدی ایک امتیازی نام ہے.احمد کے نام میں اسلام کے بانی صلى الله احمد علی کے ساتھ اتصال ہے احمدی ایک امتیازی نشان ہے.خدا تعالیٰ کے نزدیک جو مسلمان ہیں وہ احمدی ہیں.“ اخبار بدر قادیان جلد انمبر ۳۲ صفحه ۴۰۲) 81.ضلع مظفر گڑھ کے مشہور قصبہ علی پور میں جماعت احمدیہ کا ایک جلسہ عام ہوا جس میں معز ز غیر از جماعت بھی ذوق و شوق سے شامل ہوئے اور سوالات بھی کثرت سے ہوئے.ایک سوال یہ تھا کہ احمدی ہمارے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے ، ہمارے ساتھ تعلق نکاح و شادی پر کیوںں ممانعت ہے اور ہمارے بزرگوں کی نماز جنارہ پر کس لیے قدغن لگائی گئی ہے.حالانکہ ہم کلمہ گو مسلمان ہیں.جیسا کہ میں بیان کر آیا ہوں خاکسار خلافت ثانیہ و ثالثہ کے مبارک زمانہ میں اتمام حجت کے لیے ہر سفر تبلیغ میں کتابوں کا صندوق ساتھ رکھتا تھا.بعد میں فوٹو کا پہیوں نے بہت آسانی پیدا کر دی تو میں نے
83 بھی انہی کو ترجیح دی بلکہ پہلی بار جب میں مارچ ۱۹۸۵ء میں لنڈن آیا تو میرے پاس کوئی کتاب تھی.اس لیے میں انڈیا آفس اور برٹش میوزیم کا ممبر بن گیا اور بہت سی کتابوں کے عکسی صفحات خود محمود ہال کی فوٹو اسٹیٹ مشین سے کر لیں اور یہ فوٹو کا پیاں مہیا کر کے ان کی فائلیں بنالیں.جن سے پورے یورپ میں مجھے بہت فائدہ ہوا.اس ضمنی بات کے بعد اب میں بتا تا ہوں کہ جلسہ علی پور کے موقع پر بھی میں نے سٹیج پر بہت سی کتا میں سجا کے رکھی ہوئی تھیں.حسن اتفاق بلکہ خدا کا فضل دیکھئے میرے سامنے اس وقت معاند احمدیت مولوی عبد الاحد خانپوری صاحب کی کتاب اظہار مخادعت مسیلمہ قادیانی رکھی تھی.یہ کتاب انہوں نے ۱۹۰۱ء میں حضرت مسیح موعود کے اشتہار الصلح خیر کے جواب میں شائع کی تھی.جبکہ حضرت اقدس نے علماء زمانہ کو اس معاہدہ کی پیشکش فرمائی کہ فریقین تحریر و تقریر میں اخلاق اسلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر قسم کی تحقیر و توہین ، بد زبانی ، ہجو اور سب وشتم سے مجتنب رہیں گے.میں نے یہ پس منظر بیان کرتے ہوئے حاضرین کو بتایا کہ مسیح محمدی کی اس درد ناک اور مخلصانہ اپیل کے جواب میں مولوی عبدالاحد خانپوری صاحب نے حضور کو پولس ثانی ، مرتد کا فراور مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی ، ابو جہل اور فرعون و ہامان سے موسوم کرتے ہوئے گو ہر افشانی کی کہ: باعث اس صلح نامہ کا یہ ہے کہ طائفہ مرزائیہ بہت خوارو ذلیل ہوئے.عید و جماعت سے نکالے گئے اور جس مسجد میں جمع ہوکر نمازیں پڑھتے تھے اس میں سے بے عزتی کے ساتھ بدر کیے گئے.معامله و برتاؤ مسلمانوں سے بند ہو گیا.عورتیں منکوحہ و مخطوبہ بوجہ مرزائیت کے چھینی گئیں.مُردے اُن کے بے تجہیز وتکفین اور بے جنازہ گڑھوں میں دبائے گئے.“ (صفحہ ۳، مطبع چودھویں صدی راولپنڈی شہر ) اس تاریخی اور مستند حوالہ سے شرفاء کی گردنیں مارے شرم کے جھک گئیں اور میں نے بھی در دبھرے الفاظ صرف اس بات پر اکتفا کیا کہ واقعی چودھویں صدی کے علماء بہت مظلوم ہیں اور احمدی نہایت درجہ ظالم سفاک کیونکہ باوجود یکہ مدت تک ان کو مسجدوں سے بے عزتی کے ساتھ نکالا جاتا رہا
84 یہ لوگ ہمارے علماء کے پیچھے نماز ہی پڑھنا گوارا نہیں کرتے.ان کی عورتیں نہایت بے دردی سے چھینی گئیں.اس انسانی مروت کے باوجود یہ فرقہ ہم سے شادی بیاہ کے تعلقات منقطع کیے ہوئے ہے.ہم نے مرزائیوں کے بچوں تک کو بے تجہیز و تکفین اور بے جنازہ گڑھوں میں دبا دیا اور یہ سلسلہ اب بھی زور وشور سے جاری ہے مگر یہ احسان فراموش اقلیتی فرقہ ہمارے اکابر تک کی نماز جنازہ سے گریزاں ہیں.82- خلافت ثانیہ کے آخری دور کی بات ہے کہ خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح و ارشاد اور حضرت مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئيس التبليغ مشرقی افریقہ اور خاکسار مرکز سے جلسہ سیرت النبی میں شمولیت کے لیے شہر رحیم یارخاں میں پہنچے.مگر وہاں پہنچتے ہی پتہ چلا کہ ہمارے کرم فرما علماء کے دباؤ میں ڈی سی صاحب ضلع نے جلسہ کا اجازت نامہ منسوخ کر دیا ہے.اس پر میں نے سلسلہ کے ان بزرگ علماء ربانی کی خدمت میں تجویز پیش کی کہ جلسہ پر ممانعت ہے مگر ہمیں بذریعہ تحریر علاقہ کے رؤسا، معززین اور عوام کو اس کی اطلاع دینے پر تو پابندی نہیں.حضرت مولانا شمس صاحب نے میرے خیال کی حمایت فرمائی اور مجھے ہی ایک دو ورقہ لکھنے کی ہدایت فرمائی.چنانچہ میں نے جلسہ سیرت النبی ﷺ سے علماء رحیم یار خان کو شدید خطرہ کے عنوان سے مضمون دو ایک گھنٹہ میں لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ یہاں ہر قسم کے کلب، سینما گھر اور بداخلاقی کے اڈے موجود ہیں مگر علاء رحیم یار خان نے کبھی ان کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا لیکن حال ہی میں انہیں جب احمدیوں کے جلسہ سیرت النبی کا پتہ چلا تو انہیں سخت خطرہ لاحق ہو گیا اور انہوں نے اسے بزور بند کرا دیا.سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس مقدس تقریب پر احمدی مقررین نے کیا خطاب کرنا تھا ؟ ہم اس کا شخص حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے عشق رسول میں ڈوبے ہوئے الفاظ میں پیش کرتے ہیں.اس تمہید کے بعد حضرت مسیح موعود کے بارگاہ خاتم النبیین میں ہدیہ عقیدت کے نثری و شعری کلام کے چند رُوح پرور اور وجد آفریں نمونے سپر د قر طاس کیے گئے.خالد احمدیت حضرت مولا نائٹس صاحب کے حکم سے راتوں رات یہ دو ورقہ چھپوا لیا گیا اور ضلع کے پُر جوش احمدی نوجوانوں نے عین اس وقت جب جلسہ سیرت النبی کے انعقاد کا پروگرام تھا، یہ پمفلٹ نہ صرف شہر
85 کے تمام حلقوں میں پہنچادیا بلکہ رحیم یار خاں سٹیشن میں آنے جانے والی گاڑیوں میں بھی تقسیم کر کے اپنے خلوص کی ایک نئی مثال قائم کر دکھائی جو میرے قلب و سینہ میں اب تک نقش ہے.فجر اھم اللہ تعالیٰ 83- ۱۹۸۵ء میں احراری دیو بندی مولویوں نے ضیاء کی پشت پناہی میں لنڈن میں ویمبلے کانفرنس کا ڈھونگ رچایا.جس میں پچھلی صدی کے سب نا پاک اور گھسے پنے اعتراضات کو دوہرایا.حضرت مسیح موعود اور حضور کے خلفاء کے خلاف نہایت اشتعال انگیز اور سب وشتم سے بھری ہوئی تقریریں کیں.کانفرنس میں آمر ضیا کا یہ پیغام بھی پڑھا گیا کہ ہم قادیانیت کے کینسر کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر کے چھوڑیں گے.کانفرنس کے ان اعتراضوں کی حقیقت واضح کرنے کے لیے مولانا عطاء المجیب صاحب را شد امام بیت الفضل لندن کی صدارت میں ایسٹ لندن کے ایک وسیع ہال میں جلسہ منعقد کیا گیا جس کا انتظام مولا نانسیم احمد باجوہ صاحب مبلغ کرائیڈن کے مرہونِ منت تھا.اس تقریب میں خاکسار کو بڑی تفصیل سے تمام اہم اور ضروری اعتراضات کے جوابات دینے کی توفیق ملی.اطلاع ملنے پر حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے بہت خوشنودی کا اظہار کیا اور دنیا بھر کی جماعتوں میں اس کی کیشیں بھیجوانے کا بھی ارشاد فرمایا.بطور نمونہ کا نفرنس کے تین اعتراضوں کے جوابات ہدیہ قارئین کرتا ہوں.ޕ سوال: مرزا طاہر احمد ( 2 ) چھپ کر انگلستان پہنچے ہیں.جواب، تاریخ مذاہب عالم سے ثابت ہے کہ خدا کے فرستادوں اور برگزیدوں نے ہمیشہ رات کی تاریکی میں ہی ہجرت کی ہے.سوال: پاکستانی احمدی کلمہ طیبہ کا بیج کیوں لگاتے ہیں اور بے وجہ پولیس کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنتے اور قید کی صعوبتیں اٹھاتے ہیں؟ جواب: 1- احمدیت کے مخالف علماء صاحبان نے کلمہ طیبہ کے علاوہ بہت سے جعلی کلموں کو بھی فروغ دے رکھا ہے.مثال لا اله الا الله اشرف على رسول الله مگر احمدی اپنے عمل سے اس باطل عقیدہ کے خلاف خاموش احتجاج کرتے اور مسلمانان عالم پر واضح کرتے ہیں کہ کلمہ صرف وہی ہے جو شہنشاہ نبوت خاتم الانبیا محمد مصطفی حمد مجتبی میے کو دربار الوہیت سے عطا ہوا.
86 2.فرعون کی حکومت کے خلاف اسلام، خلاف اخلاق رسوائے عالم آرڈینینس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ کلمہ طیبہ جو چودہ صدیوں سے بے شمار سعید روحوں کو حلقہ بگوش اسلام کرتا رہا ہے اب منسوخ ہو چکا ہے.احمدی ہزاروں بلکہ بیشمار مرتبہ کلمہ پڑھیں وہ قانو نا اس وقت تک مسلمان تسلیم نہیں کیے جاسکتے جب تک بھٹو جیسے سوشلسٹ وزیر اعظم اور علماء سو کی ناپاک سازش سے اسمبلی میں پاس ہونے والے نقلی ، جعلی بلکہ فرضی کلمہ پر ایمان نہ لائیں.احمدی نوجوان اور بچے بیج لگا کر نہایت پر امن طریق سے معملا منادی کر رہے ہیں کہ کہ محمد ( ﷺ ) قیامت تک منسوخ نہیں ہوسکتا اور ہم اس کلمہ سے ساری دنیا کو خاتم النبین ماہ کے قدموں میں لانے کا عہد کرتے ہیں.84- غالباً ۱۹۹۲ء میں جبکہ فرینکنورٹ کے ایک حلقہ کی صدارت کے فرائض شاعر احمدیت میر اللہ بخش صاحب تسنیم ( راہوالی) کے صاحبزادے جناب میر عبداللطیف صاحب انجام دے رہے تھے.مولانا عطاء اللہ صاحب کلیم کی صدارت میں ایک محفل سوال و جواب ہوئی.ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ موجودہ حالات میں جب کہ آپ کی جماعت پر پاکستانی حکومت مظالم کے پہاڑ ڈھارہی ہے، احمد کی بغاوت کیوں نہیں کرتے ؟ اس نازک ترین سوال کے دو جواب خاکسار نے پیش کیے.اول یہ کہ جماعت احمدیہ سے نصرت خداوندی کے جملہ وعدے اس شرط سے مشروط ہیں کہ ہم قانون کا احترام کریں اور اسے کبھی ہاتھ میں نہ لیں.خدا تعالی کی قدرت نمائی دیکھئے آنحضرت می ہے جب اپنے یار غار حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ غار ثور میں چھپے ہوئے تھے تو اس نے آپ کے دفاع کے لیے آسمان سے تو پ، بندوق ،تلوار تھری ناٹ تھری کی رائفل یا گرنیڈ نازل نہیں کیے بلکہ مکڑی کے جالے اور کبوتری کے انڈے سے شہ لولاک اور صدیق اکبر کی حفاظت کا سامان فرمایا اور دشمن کا ظالمانہ منصو بہ پیوند خاک ہو گیا.دوسری بات یہ ہے کہ ہم پاکستانی احمدی جو آج تک با وجود برسراقتدار حکومت ، عدلیہ اور ملاؤں کے مظالم کا تختہ مشق بنے ہوئے ہیں، آنحضرت کی توجہ، دعا اور قوت قدسیہ سے محفوظ ہیں.بغاوت تو وہ کرے جو آنحضرت ﷺ کی نظر کرم سے محروم رہے اور رب ذوالجلال کے قہر کا نشانہ بننے والا ہے.
87 ایسا معلوم ہوتا ہے جناب الہی کی طرف سے چودہ سو سال قبل آنحضرت ﷺ کو مدینہ میں ہم مظلوموں کا نظارہ دکھلایا گیا چنانچہ حضور نے پیشگوئی فرمائی: سيكون بعدى ناس من امتى يسد الله بهم الثخور يوخذ منهم الحقوق ولا يعطون حقوقهم اولئك منى وانا منهم (كنز العمال جلد ۱۲ صفحه ۱۸۷، مطبوعہ بیروت وشام ۱۹۸۹ء) میرے بعد میری امت میں ایسے مردان خدا ہوں گے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اسلام کی سرحدوں کو مضبوط کرے گا.(یعنی وہ مسلمانوں کو کافر بنانے کی بجائے کافروں کو مسلمان بنا ئیں گے.ناقل ) ان کی نشانی یہ ہوگی کہ وہ تو معاشرہ اور ملکی دستور کے سارے حقوق ادا کریں گے مگران کے بنیادی حقوق تک سلب کر لیے جائیں گے.فرمایا (اُس زمانہ کی حکومت اور علماء خواہ کچھ فیصلہ کریں ) یہ میرے ہیں اور میں اُن کا ہوں.85- ایک صاحب نے اپنا یہ نقطہ خیال سامعین کے سامنے فرمایا کہ اگر مہدی موعود کا چاند سورج گرہن بھی قانون قدرت کے عام قواعد کے مطابق ہوگا تو اس میں معجزہ کی کون سی بات ہے.میرا جواب یہ تھا کہ سب حضرات جانتے ہیں کہ آندھیاں ، طوفان اور سمندر کا مدوجزر قانون قدرت کے مطابق ایک معمول کی بات ہے مگر وہ آندھی جو آنحضرت ﷺ کے سنگریزوں سے چلی وہ معجزہ تھا، جو طوفان نوح کے مخالفین کے لیے اٹھا معجزہ تھا اور دریائے نیل کا مدوجزر جس سے فرعون کا لشکر غرق ہوا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھیوں سمیت سلامت باہر آگئے معجزہ تھا.اسی طرح اگر چہ قانون قدرت کے مطابق آج تک سینکڑوں بلکہ ہزاروں گرہن لگ چکے ہیں مگر یہ معجزہ پہلی بار چشم فلک نے دیکھا کہ ادھر ایک شخص نے خدا سے علم پا کر اپنے مہدی ہونے کا اعلان کیا، ادھر دو تین سال کے اندر اندر چاند سورج گرہن نے اس کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی.آپ مکمل تاریخ اسلام پڑھ جائے یہ معجزہ کسی اور مدعی مہدویت کے وقت ظاہر نہیں ہوا.یہ تصور کر کے اس آفاقی نشان کی عظمت بے انداز بڑھ جاتی ہے کہ جس طرح دنیا بھر کے سائنس دان سنگریزوں سے فضا میں آندھی نہیں لا سکتے اسی طرح یورپ، امریکہ، چین اور برصغیر غرضیکہ سب دنیا کے ہیئت دان (ASTRONOMIST)
88 اور ان کی پشت پناہ حکومتیں اگر چاہیں کہ وہ کسی کو مہدی کھڑا کر کے اُس کی تائید میں آنحضرت نے کی مقرر فرمودہ تاریخوں میں چاند سورج کا گرہن لگا دیں تو کھر یوں پاؤنڈ اور ڈالر بے دریغ خرچ کرنے کے باوجود وہ حکومتیں بالکل ناکام و نامرادر ہیں گی.86- حضرت سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی نسبت کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ عزرائیل علیہ السلام دوسرے لوگوں کے ساتھ آپ کے کسی مرید کی روح بھی قبض کر کے محو پرواز تھے کہ حضرت غوث اعظم نے دیکھتے ہی دیکھتے جھپٹ کر ان کی پوری زنبیل چھین لی جس سے سب روھیں اپنے اپنے جسموں میں لوٹ آئین اور آپ کا مرید بھی دوبارہ زندہ ہو گیا.پاکستان کی ایک مجلس میں اس کرامت کا تذکرہ بھی ہوا تو خاکسار نے حضرت شیخ نوراحمد صاحب مالک مطبع ریاض ہند امرتسر کی ایک مطبوعہ روایت کی روشنی میں جواب دیا کہ قرآن مجید نے سورہ نساء کے آخری رکوع میں نظام وراثت پر تیز روشنی ڈالی ہے مگر یہ کہیں نہیں فرمایا کہ اگر کوئی مردہ زندہ ہو کے اپنے گھر آجائے تو اسے اپنی جائیداد سے اس قدر حصہ ملے گا.یا اُسے عمر بھر محروم رہنا ہوگا.لہذا اگر فیج اعوج کے دور میں گھڑا ہوا عقیدہ صحیح فرض کر لیا جائے تو اس سے خود بخود دونتائج برآمد ہوں گے.یا تو اقرار کرنا ہوگا کہ قرآنی نظام وراثت نامکمل ہے یا معاذ اللہ عالم الغیب خدا کو تو علم نہیں مگر علماء کو معلوم ہے کہ اولیا کرام کی کرامت سے حقیقی مرد ے دوبارہ زندہ ہو سکتے ہیں.سید نا حضرت مسیح موعود کیا خوب فرماتے ہیں : کوئی مردوں کبھی آیا تو فرقان نے بھی بتلایا شد از کردگار ہے غور ور نہیں نہیں چگوں أنهم لا يرجعون 87- مدرسہ احمدیہ قادیان میں تحصیل علم کے دوران موسمی تعطیلات ہوئیں تو میں حضرت مصلح موعود کی پُر معارف تقریر سیر روحانی کی پہلی جلد بھی حضرت والد صاحب کی خدمت میں تحفہ لے کر آیا.اُن دنوں پنڈی بھٹیاں کے پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر جناب قادر بخش صاحب بہت
89 شریف النفس بزرگ تھے اور میں بھی اُن کا شاگرد تھا.میں اُن کی خدمت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا اور سیر روحانی بھی بغرض مطالعہ دی.اگلے ہی روز وہ کتاب ہاتھ میں تھامے ہوئے خاکسار کی قیام گاہ پر تشریف لائے اور مجھے یہ کتاب واپس کر دی.میں نے عرض کیا کہ ماشاء اللہ آپ نے ایک رات کے اندر اس کا مطالعہ فرمالیا ہے جو میرے لیے عجوبہ سے کم نہیں.فرمانے لگے نہیں ایسا نہیں.بات یہ ہوئی کہ ابھی میں نے اس کے چند صفحات کی سرسری سی ورق گردانی کی تھی کہ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کوئی غیبی طاقت یا کوئی مقناطیسی قوت مجھے احمدیت کی طرف کھینچ رہی ہے.جس سے میں گھبرا اٹھا ہوں اور خود چل کر کتاب واپس دینے کے لیے آگیا ہوں.تاہم اسے ایک نظر دیکھتے ہی اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آج مرزا محمود احمد آپ کے امام سے بڑھ کر قرآن مجید کا کوئی عالم موجود نہیں.یہ کہتے ہی بڑی تیز سے واپس چل دیئے.88- ایک موقعہ پر برسبیل تذکرہ احراری لیڈروں کے علمی مقام کا ذکر چھڑ گیا.میں نے کہا کہ اُن کی بصیرت کے کیا کہنے.یہ لوگ واقعی ذہین و فریس ہیں اور سیاسی شعور اور بالغ نظری میں بہت کمال رکھتے ہیں.اسی لیے تو انہوں نے اپنا نام دسمبر ۱۹۲۹ء سے احرار رکھا ہے جو کر کی جمع ہے جس کے لغات میں کئی معنی ہیں مثلاً آزاد ، سفید کبوتر اور سانپ کا بچہ.دوسری طرف ہمیں مرزائی کہتے ہیں جس کے ایک لغوی معنی شہزادگی اور پارسائی کے ہیں.89.لاہور کے متعدد اشاعتی اداروں سے میرے ذاتی روابط و مراسم ہیں اور میرا ہمیشہ سے یہ طریق رہا ہے کہ ذاتی سفر بھی ہو تو کوئی ضروری کتاب یا لٹریچر پیغام حق کی خاطر ضر ور ساتھ رکھتا ہوں.اسی طرح کتب فروشوں کو ان کی کتابوں کا ہدیہ پیش خدمت کرنے کے بعد کوئی کلمہ حق ضرور پہنچا دیتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک فرض نمازوں کے تو پانچ اوقات مقرر ہیں مگر دعوت الی اللہ کے لیے کوئی وقت شارع علیہ السلام نے مخصوص نہیں فرمایا.یہ نماز جنازہ کی طرح فرض کفایہ نہیں بلکہ ہر احمدی پر چندہ سے بڑھ کر واجب ہے.اسی دائمی جذبہ کے ساتھ ایک دفعہ میں نے دیو بندیوں کے قدیم کتب خانہ ادارہ اسلامیات ( نیلا گنبد لاہور ) سے ہزاروں روپے کا جدید لٹریچر خریدا اور ناظم ادارہ کی
90 خدمت میں ان کی قیمت پیش کی اور پھر اپنے دستور کے مطابق اُن کی توجہ اس نقطہ کی طرف دلائی کہ آپ جانتے ہوں گے کہ ملکی تقسیم کے وقت پنجاب کے سکھ اٹھ کھڑے ہوئے.پہلے کانگرس کی سر پرستی میں اعلان کیا کہ ہم پنجاب میں خالصتان بنائیں گے.کہ دیکھتے ہی دیکھتے مشرقی پنجاب کا علاقہ (سوائے قادیان کے ) مسلمانوں سے خالی ہو گیا.وگر نہ صوبہ پنجاب بھی مسلم اکثریت کا صوبہ تھا.اس لیے پاکستان کی حدود پانی پت تک ہونی چاہیے تھی.ناظم ادارہ نے جو کٹر دیوبندی تھے میرے اس نظریہ کی پر زور تائید کی جس پر میں نے عرض کیا کہ آپ حضرات برٹش انڈیا اور پاکستان دونوں میں یہ ”جہاد“ کر رہے ہیں کہ کسی طرح کلمہ گوؤں کو ملت اسلامیہ سے خارج کرنے کا معرکہ سر کیا جائے.لیکن بانی جماعت احمدیہ نے ۱۸۹۵ء میں ”ست بچن“ شائع کر کے یہ انکشاف کیا کہ سکھ مذہب کے بانی حضرت بابا نانک جس پر اُن کا چولہ اور پوتھی اور گرنتھ صاحب کے شبد مجسم گواہ ہیں.اس لیے مسلمان علماء کو چاہئے کہ ان کی قوم کو جلد سے جلد داخل اسلام کر لیں.اگر ہمیں کا فرقرار دینے والے ” بزرگ علماء اس تحریک میں باقی سلسلہ کا ساتھ دیتے تو ۱۹۴۷ ء تک سکھوں کی اکثریت مسلمان ہو چکی ہوتی.نہ تقسیم پنجاب کا شاخسانہ کھڑا ہوتا اور نہ چین کی طرح مظلوم.سے ذبح ہوتے اور نہ.اس صورت میں پاکستان کی وسعتوں کا نقشہ ہی بالکل اور ہوتا اور آج ہم دنیا بھر کی ترقی یافتہ اقوام خصوصاً چین سے بہت آگے ہوتے جسے ہم سے دو ایک سال بعد آزادی نصیب ہوئی.تاریخ کے اس پوشیدہ گوشہ کی بے نقابی نے ”مولانا کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا.خصوصا اس وقت جبکہ میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کے مشہور ادارہ نے حضرت بابا نانک کے بارہ میں بھی ریسرچ کر کے کوئی جامع کتاب سپر واشاعت فرمائی ہے.میرے اس سوال کا جواب انہوں نے افسوس بھرے الفاظ میں مکمل نفی میں دیا.اس مرحلہ پر میں نے اپنی ایک احمدی دانشور منشی امیر محمد خاں صاحب مینیجر بک ڈپو قادیان کی مشہور تالیف گر نتھوں میں نور اسلام‘ دکھلائی.( جو میں اپنے بیگ میں انہی کو نذر کرنے کے لیے ربوہ سے لایا تھا) یہ کتاب اکتو بر ۱۹۲۴ء میں پہلی بار قادیان سے چھپی.اب پاکستان میں بھی چھپ چکی ہے اور کئی معز ز سکھوں کو دی جا چکی ہے.
91 ناظم ادارہ اس معرکہ آرا کتاب کا سرورق اور اوراق دیکھتے ہی اس پر گو یا فریفتہ ہو گئے اور مجھ سے بادب درخواست کی کہ آپ مجھے یہ علمی پارہ عنایت فرما سکتے ہیں.میں تو خود انہیں یہ تحفہ دینے کے لیے بے قرار تھا.ان کے اشتیاق اور بے قراری کو غنیمت سمجھتے ہوئے نور اسلام فوراً اُن کے ہاتھ میں تھما دی جس کا انہوں نے بہت شکریہ ادا کیا.یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ پاکستان میں ۱۹۵۳ء کے فسادات کا آغاز دراصل ۱۹۵۱ء میں مولوی شبیر عثمانی صاحب کی اشتعال انگیز کتاب "الشهاب" سے ہوا.اس کتاب میں مؤلف نے ۱۹۲۴ء میں کابل کے دو بزرگ احمدیوں کی سنگساری کو سنت نبوی کے احیاء سے تعبیر کیا اور افغانستان حکومت کو اس پر خراج تحسین ادا کیا.پاکستان میں ”الشھاب کا پہلا ایڈیشن ادارہ اسلامیات ہی نے شائع کیا جس نے ملک بھر میں احمدیوں کے خلاف آگ لگادی جو مارچ ۱۹۵۳ء کے مارشل لا پر منتج ہوئی ہے کو کافر کہنا بہت ہیں مسلمان کاش کوئی کافر مسلمان بنایا ہوتا 90.حضرت خلیفہ ثالث رحمہ اللہ کے حکم پر نا چیز کو سرگودھا کی ایک خصوصی مجلس مذاکرہ میں شرکت کی توفیق ملی جو حضرت مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر صوبائی کی کوٹھی میں منعقد ہوئی.دعوت الی اللہ کی یہ نشست اول سے آخر تک نہایت درجہ خوشگوار ماحول میں ہوئی اور بہت سی دلچسپیوں اور علمی نکتوں کا مرکز بنی رہی.اس یادگار مذاکرہ کا آغاز ایک بزرگ عالم دین کے دو پُر جوش سوالات سے ہوا.جن کی نسبت آپ کا ادعا تھا کہ آج تک مجھے کوئی احمدی فاضل ان کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکا.پہلا سوال یہ تھا کہ حضرت مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کی جلدوں کی اشاعت کا وعدہ کیا مگر صرف پانچ چھاپنے کے بعد یہ کہہ کر ٹرخا دیا کہ پانچ اور پچاس میں صرف ایک نقطہ کا فرق.ا ہے.میں نے عرض کیا کہ یہ فارمولا حضرت اقدس کا نہیں عرش کے خدا کا ہے کیونکہ اُس نے شب معراج میں اپنے محبوب ترین رسول اور نبیوں کے شہنشاہ سے فرمایا کہ پانچ نمازوں کو ہمیشہ پچاس کے برابر سمجھنا ( بخاری کتاب الصلوۃ ) اس ربانی کلام کا صاف مطلب یہ تھا کہ پانچ فرض نمازوں کا ثواب اس کے
92 دربار سے پچاس گنا عطا کیا جائے گا اسی طرح میں کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود نے پچاس کتابوں میں جن معارف کے لکھنے کا ارادہ فرمایا وہ اعجازی طور پر پانچ جلدوں میں ہی ریکارڈ ہو گئے اور ساتھ ہی ایسا فضل ربانی ہوا کہ پہلی چار جلدوں میں جو پیشگوئیاں کی گئی تھیں وہ پانچویں جلد سپر قلم ہونے سے قبل حیرت انگیز طور پر معرض وجود میں آگئیں.اب میں ایک مثال دیتا ہوں جو غور سے سننے کے لائق ہے.ایک شخص کسی کو ایک روپے کے پچاس نوٹ دینے کا وعدہ کرتا ہے.مگر بجائے ایک ایک روپے کے پچاس نوٹ دینے کے دس دس روپے کے پانچ نوٹ اس کے حوالہ کر دیتا ہے.اب فرمائیے کہ یہ پانچ پچاس کے برابر ہوئے یا نہیں.مولوی صاحب اس پر لطف مثال سے بہت محظوظ ہوئے اور کہا کہ میری تسلی ہو گئی ہے.دوسرا سوال اُن کی طرف سے یہ کیا گیا کہ آیت "لوتقول" (الحاقہ : ۴۷ ) میں کوئی معیار صداقت بیان نہیں ہوا یہ آنحضرت کو خطاب ہے اور آنحضور ہی کی ذات سے مخصوص ہے.خاکسار نے حاضرین سے کہا کہ میں اس اہم سوال کا جواب خاتم النبیین محمد عربی ﷺ کی حدیث مبارک سے دیتا ہوں.مشہور روایت ہے کہ حضرت اسامہ بن زید نے جب ایک چوری کرنے والی عورت کی سفارش کی تو در بار نبوی سے ارشاد ہوا کہ خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں.( بخاری کتاب الحدود ) مولانا صاحب بتائیے کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث میں اسلامی تعزیرات کا کوئی اصولی بیان ہوا ہے یا اس کا تعلق صرف حضرت فاطمہ کی ذات سے تھا اور دوسرے لفظوں میں آنحضرت کا فرمان تھا کہ اگر فاطمہ اس جرم کا ارتکاب کرتیں تو انہیں قطع ید کی ضرور سزا دی جاتی.باقی سب لوگوں کو کھلی چھٹی ہے وہ سرقہ کریں یا ڈاکہ ماریں ان کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی.اس تشریح پر اس بزرگ کو کھلے بندوں اعتراف کرنا پڑا کہ آنحضرت نے نے اپنی نور چشم حضرت فاطمتہ الزہرا کا نام اس تعزیری قانون پر مزید زور دینے کے لیے لیا اور واضح فرمایا کہ چوری تو ایسا خطرناک جرم ہے کہ (معاذ اللہ ) میری بیٹی بھی اس کی مرتکب ہوتی تو میں اسے بھی سزا دیئے بغیر ہرگز نہ چھوڑتا.
93 اب میرے لیے اس کلمہ حق کے جاری بر زبان ہونے کے بعد سامعین کو یہ یقین دلانے میں کوئی مشکل نہ رہی کہ آیت لَوْتَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْض الاقَاوِيلِ" میں خالق کائنات کے ازلی ابدی تعزیری دستور وقانون کا تذکرہ ہے.جس کے سامنے برطانوی استعمار یا دنیا کی کسی بڑی سے بڑی مملکت کو دم مارنے کی مجال نہیں اور جس کو نا کام بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا.پس یہ نقطہ نگاہ کہ یہ آیت کوئی اصول بیان نہیں کرتی بلکہ صرف یہ اشارہ کرتی ہے کہ باقی مفتری بے شک دندناتے رہیں لیکن معاذ اللہ رسول اللہ اس کا ارتکاب کرتے تو آپ کی شہ رگ ضرور کاٹ دی جاتی.آنحضرت ﷺ کے شان مبارک کی کھلی گستاخی ہے.کوئی اگر خدا پر کرے کچھ بھی افترا ہوگا وہ قتل ، ہے یہی اس جرم کی سزا ( مسیح موعود ) یہ بزرگ دونوں سوالات کا جواب سننے کے بعد فرمانے لگے کہ اب مجھے احمدی ہی سمجھئے مگر بیعت فارم پر دستخط نہیں کروں گا.ناچیز نے نہایت ادب و احترام سے انہیں نصیحت کی کہ بیعت فارم تو آنحضرت ﷺ کے اس تاکیدی فرمان پر عمل کی زندہ دستاویز ہے کہ آپ کو آنحضور کے ارشاد کی تعمیل میں واقعی خلیفہ اللہ المہدی کی بیعت کا اعزاز حاصل ہے.مجھے ربوہ آنے کے کچھ عرصہ بعد ایک غیر مصدقہ اطلاع ملی کہ اس سعید الفطرت بزرگ عالم دین نے بیعت فارم پر بھی دستخط کر دیئے ہیں.واللہ اعلم بالصواب.ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار
94 فصل پنجم دس ملکی و غیر ملکی شخصیات سے ملاقات) جناب سید ابوالاعلی مودودی صاحب: سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب اور اُن کے رفقا برٹش انڈیا کے زمانہ سے یہ پراپیگینڈا کرتے آرہے تھے کہ جمہوری اسمبلیوں کی رکنیت بھی حرام اور ان کو ووٹ دینا بھی حرام ہے.(رسائل و مسائل) جمہوری انتخاب زہر یلے دودھ کا مکھن ہے.چونکہ ہزار میں سے ۹۹۹ مسلمان کافرانہ ٹائپ رکھتے ہیں اس سے کسی بھی جمہوری انتخاب سے نظام اسلام قائم نہیں ہوسکتا.(مسلمانان ہند کی سیاسی کشمکش حصہ سوم ) جناب مودودی صاحب ۳۱ اگست ۱۹۴۷ء کو دار الاسلام ( پٹھان کوٹ ) چھوڑ کر لا ہور میں پناہ گزین ہوئے جس کے بعد پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کے لیے ”اسلام“ کا نعرہ بلند کیا اور جب پہلا صوبائی انتخاب ہوا تو آپ نے انتخابی جدوجہد پمفلٹ میں احادیث سے ثابت کیا کہ عہدہ طلبی سراسر حرام ہے.نیز دو دستوری خاکے میں برسراقتدار مسلم لیگی حکومت کے خلاف ملک گیر پراپیگنڈا کیا کہ انتخابی پراپیگنڈا کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں.اسی پر بس نہیں جماعت اسلامی کے ترجمان کوثر ( ۲۸ جنوری ۱۹۵۰ء) نے انتخابی مہم کو کتوں کی دوڑ سے تشبیہ دے کر صوبائی انتخاب میں شامل ہونے والی سب سیاسی جماعتوں کی ضیافت’ صالح مغلظات“ سے فرمائی.پاکستان کے پہلے صوبائی انتخابات کے دوران میں جامعتہ المبشرین کا طالب علم تھا.مجھے اخبارات سے پتہ چلا کہ جناب مودودی صاحب مع اپنے رفقاء کے انتخابی اور طوفانی دورہ پر چنیوٹ تشریف لا رہے ہیں اور پرانی سبزی منڈی میں خطاب عام بھی فرمائیں گے.میں ۱۹۴۸ء کے اوائل میں لاہور گیا تو مختصری ملاقاتیں حضرت مولا نا محمد علی صاحب امیر جماعت لاہور اور علامہ عنایت اللہ خان مشرقی کے علاوہ جناب سید ابوالاعلی صاحب مودودی بانی
95 جماعت اسلامی سے بھی ملاقات ہوئی.جناب مودودی صاحب بہت تپاک سے ملے اور اپنی دو کتابیں شہادت حق اور دین حق تحفۂ مرحمت فرما ئیں.شہادت حق میں آپ نے جماعت اسلامی کی امتیازی شان ان الفاظ میں بتائی ہے دعووں اور خوابوں اور کشوف و کرامات اور شخصی تقدس کے تذکروں سے ہماری تحریک بالکل پاک ہے.“ (صفحہ ۳۶) یہ رسالہ دراصل ایک تقریر ہے جو انہوں نے قیام پاکستان سے صرف ساڑھے سات ماه قبل مراد پور (ضلع سیالکوٹ ) میں فرمائی جس کے آغاز میں انہوں نے کہا کہ ”ہمارا خدا ہمیشہ سب کی رہنمائی کے لیے نبی بھیجتا تھا.اب وہ موجود نہیں اس لیے میں بھی صرف دعوت کا وہی حصہ پیش کروں گا جو مسلمانوں کے لیے خاص ہیں.ازاں بعد عامتہ المسلمین اور ان کے مذہبی اور سیاسی پیشواؤں کا پوسٹ مارٹم کیا اور بتایا کہ ہمارے وکیل ، مجسٹریٹ اور حج کی عملی شہادت یہ ہے کہ اسلام کے سارے قانون غلط ہیں.ہماری قوم کا نظام کافروں کا چربہ ہے.ہمارے مذہبی اور سیاسی پیشوا وہی کہتے ہیں جو انہوں نے غیر مسلموں سے سیکھا ہے.مسلمانوں کا تصور قانون الہی ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے اور مسلمان کا نام ذلت و مسکنت اور پس ماندگی کا نشان بن گیا ہے.اس لیے مسلمان اسلام کا لیبل اتار کر کھلم کھلا کفر اختیار کرلیں.اسلام جماعت کے بغیر نہیں اور جو جماعت میں نہیں وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے.رساله دین حق کا موضوع یہ ہے کہ اگر کوئی خدا ر ہنمائی کے لیے موجود نہیں تو انسان کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ خود کشی کرے.جس مسافر کے لیے نہ کوئی رہنما موجود ہو اور نہ جس کے پاس راستہ معلوم کرنے کے ذرائع موجود ہوں اس کے لئے پاس اور کامل پاس کے سوا کچھ مقدر نہیں اور اگر خدا ہے لیکن رہنمائی کرنے والا خدا نہیں ہے تو یہ اور بھی زیادہ افسوسناک صورت حال ہے.روئیے اس پوری نوع کی مصیبت پر ، جو اس بیچارگی کے عالم میں چھوڑ دی گئی...یہ سب کچھ وہ خدا دیکھ رہا ہے جو اُ سے زمین پر وجود میں لایا ہے مگر وہ بس پیدا کرنے سے مطلب رکھتا ہے اور رہنمائی کی پروا نہیں کرتا.“ (صفحہ ۳۰) لوگو سنو کہ زندہ خدا وہ خدا نہیں جس میں ہمیشہ عادت قدرت نما نہیں
96 دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی حسن و جمال یار کے آثار ہی نہیں سیح الموعود ) ان رسائل سے میری فوری توجہ جماعت اسلامی کے مطالعہ کی طرف ہوئی اور اسی پر میں نے ریسرچ کر کے ”جامعتہ المبشرین" سے "شاہد" کی ڈگری حاصل کی.عنوان مقالہ تھا ”مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کی تحریک پر تبصرہ سید نا حضرت مصلح موعودؓ نے خود ہی عنوان تجویز فرمایا.اس کے نمایاں خدو خال پر بلیغ روشنی ڈالی اور اس غلام در کی ہر پہلو سے رہنمائی فرمائی.استاذی المکرم خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطا صاحب جالندھری نے مئی ۱۹۵۵ء کے الفرقان میں یہ پورا مقالہ سپر د اشاعت فرما دیا.جس پر حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب مختار شاہجہانپوری نے اظہارِ مسرت کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مقالہ سے میری ایک دیرینہ تمنا بر آئی ہے.یہ مقالہ منظر عام پر آیا تو جماعت اسلامی کے ایک ممتاز رہنما جناب مولوی گلزار احمد صاحب مظاہری خاص طور پر مجھے ملنے کے لیے ربوہ تشریف لائے اور اپنے نقطہ نظر سے اس پر اپنی رائے کا اظہار بھی فرمایا.دو سال بعد جلسه سالانه ۱۹۵۱ء کے شبیہ اجلاس میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد کی فرمائش پر مجھے ” جماعت اسلامی پر تبصرہ “ کے زیر عنوان جلسہ سالانہ کے مقدس سٹیج سے پہلی بار تقریر کی سعادت نصیب ہوئی جو اللہ کے فضل وکرم سے خاص طور پر نو جوانان احمد بیت میں غیر معمولی طور پر مقبول ہوئی اور صیغہ اشاعت نے ۱۹۵۸ء کی مشاورت کے موقع پر اسے شائع بھی کر دیا.جس کا حضرت مصلح موعود نے ممبران مشاورت میں خاص طور پر تذکرہ فرمایا اور اس کی خرید کی تحریک فرمائی.اب میں جناب مودودی صاحب کی دلچسپ ملاقات کی طرف آتا ہوں.پاکستان میں پہلے صوبائی انتخابات کی سرگرمیاں صوبہ میں عروج پر تھیں کہ پریس نے خبر دی کہ مودودی صاحب اپنے بعض رفقاء کے ساتھ ایک طوفانی انتخابی دورہ فرما رہے ہیں اور سرگودھا کے بعد چنیوٹ کی پرانی منڈی کے جلسہ عام سے خطاب کریں گے.میں نے حضرت پرنسپل صاحب سے اجازت حاصل کی
97 اور اپنی کلاس کے دوسرے طلبہ کے ساتھ خطاب سننے کے لیے چنیوٹ پہنچ گیا.مودودی صاحب نے دیلی کی نہایت شستہ زبان میں اپنی جماعت کا تعارف کرایا اور کئی سوالات کے نہایت قابلیت اور عمدگی سے جواب بھی دیئے.ساتھ ہی سامعین کو دعوت دی کہ وہ مزید استفسارات کے لیے میری قیامگاہ مکان شیخ فیروز دین صاحب) پر تشریف لے آئیں.مجھے اپنے دوسرے دوستوں کا علم نہیں مجھے پر مودودی صاحب کی اس برجستہ، شائستہ اور متین خطاب کا گہرا اثر ہوا.چونکہ آج تک میں نے دوسرے فرقوں کے علماء کی تقریر میں سنجیدگی کا ایسا رنگ کبھی نہیں دیکھا تھا.خصوصاً سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب جن کی ایک تقریر میں نے مرید کے میں احراری سیج پر بیٹھے سنی تھی.عنوان "ختم نبوت“ تھا مگر زبان بازاری تھی جس سے سخت بیزار ہو کر کئی لوگ پنڈال سے بھاگ گئے.جناب مودودی صاحب نے اپنی تقریر میں خاص طور پر یہ بتایا کہ برٹش انڈیا میں غیر ملکی حکومت تھی اس لیے نظام اسلامی کا قیام عملا ناممکن تھا.لیکن اب خدا کے فضل سے افق عالم پر پاکستان کا ستارہ طلوع ہو گیا ہے اب ہمارا فرض ہے کہ یہاں نفاذ اسلام کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں اور اس کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں.اس لیے پنجاب الیکشن کے لیے ہم نے یہ عہد نامہ شائع کیا ہے کہ ووٹر صرف اس امید وار کو ووٹ دیں جو اسمبلی میں اسلامی دستور نافذ کرنے کا اقرار کرے.اس ضمن میں جماعتِ اسلامی نے اسلامی پنچائتوں کی تشکیل کا اعلان کر دیا ہے.جناب مودودی صاحب کی تقریر ختم ہوتے ہی ہم سب طلبہ اُن کی قیام گاہ پہ پہنچ گئے.ہمیں دیکھتے ہی ایک احراری ملا ( عتیق الرحمن) نے اُن سے پوچھا کہ کیا وہ مرزائیوں کو مسلمان سمجھتے ہیں؟ جناب مودودی صاحب نے بے ساختہ جواب دیا کہ یہ فیصلہ کرنا اسمبلی کا کام ہے.ہمارا کام پاکستان میں دستور اسلامی کا نفاذ ہے.مودودی صاحب چاہتے تو مجمع کو خوش کرنے کے لیے اپنا عقیدہ بتا سکتے تھے کہ میں انہیں کافر و مرتد سمجھتا ہوں جیسا کہ ہندوستان میں وہ اپنے رسالہ ” ترجمان القرآن میں لکھ چکے تھے مگر انہوں نے ایسا شریفانہ وحکیمانہ جواب دیا کہ میرا دل عش عش کر اٹھا.بخدا ہم اُن سے سوالات کرنے ہر گز نہیں گئے تھے.صرف جلسہ عام اور پرائیویٹ مجلس میں اُن کے اسلوب بیان اور اندازِ فکر سے متعارف ہونا مقصود تھا.لیکن اُن کا جواب سن کر مجھے بھی اُن
98 سے کچھ دریافت کرنے کی جرات پیدا ہوئی.چنانچہ میں نے اُن کی خدمت میں ادب واحترام سے سوال کیا کہ آپ نے اپنے فصیح و بلیغ خطاب عام میں پاکستان کو نیا ستارہ قرار دے کر امید دلائی ہے کہ انتخاب کے ذریعہ اب نظام اسلامی کا قیام عمل میں آسکتا ہے.یہ عمدہ تخیل ہے مگر میں یہ کہنا چاہتا ہوں که اگر واقعی پاکستان سے اسلامی معاشرہ کے معرض وجود میں آنے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں تو آپ نے تحریک پاکستان کی مخالفت کیوں کی؟ مجھے سخت افسوس ہے کہ آپ جیسے مفکر اسلام، جنہیں قائد اعظم کے ساتھ ہونا چاہیے تھا اُن ایام میں ہمیں ایک سٹیج پر گاندھی جی کے ساتھ نظر آتے ہیں.اس سوال نے مودودی صاحب پر گویا ایک بجلی سی گرادی اور آپ نے نمائشی شرافت کا پردہ چاک کر کے مجھے "کذاب" کے لقب سے نوازا اور فرمایا کہ یہ سراسر غلط ہے.میں نے ہمیشہ پاکستان کی تائید کی ہے یہ پراپیگنڈا ہمارے مخالف کیمپوں کا ہے.اب خدا کی قدرت نمائی ملاحظہ ہو چند روز قبل مجھے مرکز کی طرف سے مجاہد روس حضرت مولانا ظہور حسین صاحب کے ساتھ قصور شہر کے جلسہ سیرت النبی میں شرکت کے لیے بھجوایا گیا تھا.واپسی پر میں نے اچھرہ کے مرکز جماعت اسلامی سے کچھ لٹریچر حاصل کیا جس میں رسالہ ”ترجمان القرآن مارچ ۱۹۴۶ء کا پرچہ بھی تھا.باقی لٹریچر تو ہوٹل میں رکھا تھا لیکن جونہی مودودی صاحب نے ” صالح لقب سے سرفراز فرمایا، مجھے خیال آیا کہ یہ رسالہ تو میرے کوٹ میں موجود ہے.جناب مودودی صاحب نے مجھے ایک نادان دیہاتی طالب علم سمجھ کر غلط بیانی کی جسارت کی تھی.میں نے اُن کے سامنے اصل رسالہ رکھ دیا جس میں انہوں نے کھل کر تحریک پاکستان کوزبردست تنقید کا نشانہ بنایا تھا.اصل رسالہ دیکھتے ہی مودودی صاحب نے ایک شاطر وکیل کا کردار ادا کرتے ہوئے ریکا یک پینترا بدلا اور ارشاد فرمایا کہ ہاں مجھے یاد آ گیا ہے میں نے واقعی لکھا تھا مگر یہ اس زمانہ کی بات ہے جب محمد علی جناح، لیاقت علی، عبدالرب نشتر اور دوسرے مسلم لیگی زعما کے سامنے پاکستان کا کوئی واضح نقشہ نہیں تھا نہ انہیں علم تھا کہ وہ مطالبہ پاکستان کس غرض سے کر رہے ہیں؟ اس جواب نے مولانا کی اسلامیت پوری طرح بے نقاب کر ڈالی جس کا مجھ پر شدید رد عمل ہوا.میں نے بانی جماعت اسلامی کو مخاطب کرتے ہوئے جو تبصرہ کیا وہ کم و بیش ان الفاظ میں تھا دہ کہ آپ کے جواب نے میرے آبگینہ محبت و عقیدت کو پاش پاش کر دیا ہے.ایک مفکر اسلام کی
99 زبان سے اس خلاف حقیقت تو جیبہ کی قطعا امید نہیں تھی کیونکہ یہ پرچہ جس میں آپ نے تحریک پاکستان پر شدید گولہ باری کی ہے مارچ ۱۹۴۶ء کا ہے جبکہ تین ماہ قبل آل انڈیا مسلم لیگ نے مرکزی انتخابات میں تمام مسلم نشستوں پر قبضہ کر لیا اور قائد اعظم کی ہدایت پر پورے ملک میں جشن فتح منایا گیا.ازاں بعد مارچ ۱۹۴۶ء کے صوبائی انتخابات میں بھی مسلم لیگ نے دوسرے تمام نیشنلسٹ اور کانگرسی امیدواروں کو زبر دست شکست دی.کیا آپ اس وقت ہم طالب علموں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ مرکزی اور صوبائی فتوحات کے زمانہ تک قائد اعظم اور دوسرے مسلم لیگی قائدین کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ ان کی تحریک پاکستان کی غرض و غایت کیا ہے؟ اور مسلمانان ہند بھی آنکھوں پر پٹی باندھے اندھا دھند مسلم لیگ کے حق میں ووٹ ڈال رہے تھے.دوسرے لفظوں میں ۱۹۴۶، یعنی پاکستان کے نقشہ عالم پر ابھرنے سے ایک برس قبل بھی تحریک پاکستان محض ایک معمہ اور چیستان بنی ہوئی تھی ؟؟ میں یہاں تک ہی کہنے پایا تھا کہ مودودی صاحب جلال میں آگئے اور فرمایا اب ہمارے کھانے کا وقت ہے.مجلس برخاست کی جاتی ہے لیکن میں نے ادب سے درخواست کی کہ آپ مجھے صرف ایک اور مختصر سوال پیش کرنے کی اجازت مرحمت فرما ئیں.میں آپ کا قیمتی وقت ضائع نہیں کروں گا.میری اس یقین دہانی پر انہوں نے کمال فراخدلی سے مجھے اجازت بخشی.میں نے اُن کی کتاب تجدید و احیائے دین سے تیرھویں صدی کے مجد د حضرت سید احمد بریلوی کی اسلامی حکومت کی ناکامی کا یہ سبب اُن کے الفاظ میں بیان کیا کہ انہوں نے نام کے مسلمانوں کو حقیقی مسلمان سمجھ کر دھو کہ کھا یا لہذا تاریخ کا یہ سبق ہمیشہ یادرکھنا چاہیے کہ جس انقلاب کی جڑیں اخلاق و تمدن میں جمی ہوئی نہ ہوں نقش بر آب ہوتا ہے اور اگر عارضی طاقت سے قائم بھی ہو جائے تو ہمیشہ کے لیے پیوند خاک ہو جاتا ہے.میری گزارش یہ ہے کہ حضرت سید احمد بریلوی مجدد تھے.اُن کا لشکر پورے ہندوستان کے پارسا اور خدارسیدہ بزرگوں پر مشتمل تھا.دوسری طرف صورت یہ ہے کہ آپ مجدد نہیں اور جیسا کہ آپ نے مسلمانان ہند کی سیاسی کشمکش میں تصریح فرمائی ہے کہ موجودہ مسلمان ہزار میں سے ۹۹۹ کافرانہ ٹائپ رکھتے ہیں.اس لیے اگر جمہوری انتخاب ہوتا ہے تو اس کے نتیجہ میں اسلام نہیں لایا جا سکتا.جب دودھ ہی کڑوا ہے تو بالائی کیونکر میٹھی ہوسکتی ہے.اب بتائیے کہ اس صورت میں صوبائی اسمبلی کے لیے آپ اور آپ کی جماعت کا انتخابی دوڑ میں حصہ لینے کا کیا فائدہ ہوگا؟
100 ”مولانا نے جواباً ارشاد فرمایا کہ یہ محض ایک تجربہ ہے.ممکن ہے کامیاب ہو یا نا کام رہے.میں نے اُن سے جانے کی اجازت چاہی اور یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا کہ جس معاملہ میں مجدد ناکام رہے آپ کی کامیابی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ہاں اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے اپنے مخصوص سیاسی مقاصد ہیں جن کو بروئے کار لانے کے لیے آپ سادہ مسلمان عوام کو استعمال کرنا چاہتے ہیں.رپورٹر اخبار ٹائمنرلنڈن: جلسہ سالانہ ۱۹۷۴ء کے موقع پر لنڈن کے روز نامہ ٹائمنز کی ایک کرسچن رپورٹر خاتون ربوہ میں آئیں.دفتر شعبہ تاریخ میں مہمانوں کا ہجوم تھا.انہوں نے بھی آتے ہی یہ سوال کیا کہ فیصلہ اسمبلی کے متعلق آپ کی رائے کیا ہے.میں نے صرف یہ جواب دیا کہ یہ فیصلہ اسلام قرآن اور محمد رسول اللہ اللہ کی صداقت کا چمکتا ہوا نشان ہے.کیونکہ حدیث مندرجہ مشکوۃ میں آنحضرت مہ کی یہ پیشگوئی موجود ہے کہ آخری زمانہ میں مسلمانوں کے بہتر فرقے آگ لگانے میں اکٹھے ہو جائیں گے اور تہترویں فرقے کو الگ کر دیں گے اور ایک عارف باللہ حضرت علامہ علی القاری نے ( مرقاۃ جلدا میں ) خدا سے علم پا کر اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ وہ تہترواں فرقہ فرقہ احمد یہ ہوگا.خاکسار نے اصل دستاویزی ثبوت پیش کرنے کے بعد کہا کہ اسلام کے سوا کسی اور مذہب میں اس نوع کی کسی پیشگوئی کی نظیر نہیں مل سکتی.مصطفیٰ پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت اُس نور لیا بار خدایا ہم نے ان معروضات سے غیر از جماعت معززین بھی بہت متاثر ہوئے.فالحمد للہ علیٰ احسانہ اکابر علمائے اہلحدیث : مرکزی جمعیت اہلحدیث مغربی پاکستان کے زیر اہتمام گوجرانوالہ کے باغ جناح میں بریلوی ۱۲ ۱۳ ۱۴ اکتوبر ۱۹۵۶ء کو ایک کانفرنس منعقد ہوئی.جس میں پہلی بار حضرت سید احمد بر شہید بالاکوٹ کا جھنڈ البرایا گیا.یہ جھنڈا کالا باغ علاقہ ہزارہ کے کرارل قوم کے اہلحدیثوں کے پاس
101 محفوظ تھا.ان دنوں جمعیتہ کے صدر سید داؤد غزنوی اور ناظم اعلیٰ مولوی محمد اسمعیل تھے.اس تاریخی تقریب پر بعض اہلحدیث حضرات نے گوجرانوالہ کے امیر جماعت احمد یہ جناب میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس میں آپ کی جماعت کی بھی نمائندگی ہونی چاہئے.جس پر مرکز سے مجھے بھجوایا گیا.مجھے سٹیج پر جگہ دی گئی.جہاں میں نے جھنڈا کی بھی زیارت کی اور بعض اکابر علمائے اہلحدیث سے گفتگو کا موقع بھی میسر آیا.ایک اہلحدیث عالم دین نے دریافت کیا کہ توحید اور ردشرک کے معاملہ میں اہلحدیث اور احمدی دونوں ایک سا خیال رکھتے ہیں اور دونوں عرس، قبر پرستی اور دیگر مشرکانہ رسوم سے بیزار ہیں.آخر ہمارا اختلاف کیا ہے؟ میں نے وقت اور موقع کی مناسبت سے عرض کیا.بنیادی اعتبار سے صرف دو فرق ہیں.پہلا یہ کہ احمدیت کا مقصد توحید خالص کا قیام ہے اسی لیے ہم کسی ولی بلکہ کسی نبی خصوصاً حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کی خاص صفات سے متصف ماننے کو ہرگز برداشت نہیں کر سکتے.دوسرے یہ کہ اہلحدیث بزرگوں کے نزدیک قافلہ مجددیت تیرھویں صدی ھجری میں پہلے رائے بریلی میں پہنچا پھر بالا کوٹ میں آ کے ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا لیکن ہمارے نزدیک یہ مقدس کاروان چودھویں صدی میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی قیادت میں قادیان سے اٹھا اور اب ربوہ میں اپنی شان کے ساتھ رواں دواں ہے.یاد آیا کہ ایک بار مجھے اہلحدیث عالم مولوی محمد اسمعیل ذبیح خطیب جامع مسجد راولپنڈی کا درس سننے کا اتفاق ہوا.( آپ نے اس کا نفرنس میں بھی خطبہ جمعہ دیا تھا ) درس کا موضوع تو حید اور رو شرک تھا.جس کے بعد میں نے آپ سے ملاقات کی اور اس بات پر اظہار مسرت کیا کہ بہت عمدہ پیرا یہ میں آپ نے وحدانیت پر روشنی ڈالی ہے مگر ہمیں یہ بھی تو سوچنا پڑے گا کہ شرک کیا ہے؟ فرمایا خدا کی ذاتی اور مخصوص صفات کو کسی بندہ سے مخصوص کرنا شرک کہلاتا ہے.مثلاً خالق محی الاموات ، عالم غیب ، الآن کما کان جی و قیوم وغیرہ ذات باری سے ہی مختص ہیں.اس لیے کسی ولی کی طرف بھی ان کو منسوب کرنا انسان کو مشرک بنا دیتا ہے.اُن کی زبان سے یہ کلمہ حق جاری ہونے پر میں نے انہیں بتایا کہ آپ حضرات یہ سب صفات حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے بھی یقین کرتے ہیں.جھٹ بولے
102 کہ یہ تو اُن کے معجزات تھے.اس سے شرک لازم نہیں آسکتا.خاکسار نے اس تو جیہ پراناللہ پڑھی اور در دبھرے الفاظ میں بتایا کہ بالکل یہی دلیل پادری صاحبان میسوع مسیح کی خدائی کی دے کر لاکھوں مسلمانوں کو مرتد کر چکے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا معجزہ کے طور پر اپنی چاروں مخصوص صفات کا تمام انبیاء میں سے صرف یسوع مسیح کو عطا کرنا اور مسلمانوں کے نبی کو بھی اس سے محروم رکھنا الوہیت مسیح کا فیصلہ کن ثبوت ہے.آہ ہمہ عیسائیاں را از مقال خود دادند امریکی کالج کے پروفیسر (HISTORY) عہد خلافت ثالثہ کے ایک جلسہ سالانہ کے موقع پرنیشنل امیر امریکہ مکرم و محترم مظفر احمد صاحب اپنے ساتھ ایک امریکن پروفیسر بھی لائے جو تاریخ کے سکالر تھے.شعبہ تاریخ میں تشریف آوری پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی بتایا کہ آپ کی ملاقات سے مجھے خاص طور پر اس لیے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ خاکسار کی زندگی بھی علم تاریخ ہی کی خدمت اور اشاعت کے لیے وقف ہے.اس تمہید کے بعد موازنہ بائبل اور قرآن پر تبادلہ خیالات شروع ہوا.میں نے اس ضمن میں دو تاریخی حقائق پیش کیے.اول یہ کہ بائبل کی رو سے پہلا انسان آدم تھا جو پانچ ہزار برس قبل پیدا ہوا مگر قرآنی نظریہ ہے کہ آدم پہلے انسان نہیں بلکہ پہلے نبی ہیں اور انسان مدتوں قبل معرض وجود میں آچکے تھے مگر دماغی اور ذہنی صلاحیتوں سے یکسر محروم اور گو یا لاشئی محض تھے.(سورۃ الدھر:۲) ایک مسلمان صوفی حضرت ابن عربی کا کشف ہے کہ انہیں بتایا گیا کہ لاکھوں آدم گزرے ہیں اور آثار قدیمہ نے قرآن مجید اور اس کشف کی تصدیق کر دی ہے اور یورپ اور امریکہ کے عجائب گھر بھی اس پر شاہد ناطق ہیں.دوم اناجیل اربعہ نے بانی عیسائیت کا نام یسوع لکھا ہے مگر قرآن مجید نے ہر مقام پر آپ کو مسیح کہا ہے جس کے قدیم عربی لغات کے مطابق یہ معنی ہیں ( الف ) سیر و سیاحت کرنے والا (ب) شفا دینے والا ( ج ) چیٹے پاؤں والا
103 حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جدید تحقیقات سے حضرت مسیح علیہ السلام کی تینوں خصوصیات بالبداہت ثابت ہو چکی ہیں.اس تقابلی مطالعہ کے بعد ہر مؤرخ (HISTORIAN) با سانی فیصلہ کر سکتا ہے کہ اسے انجیل پر اعتقاد رکھنا چاہیے یا قرآن مجید جس کو الہامی کتاب پر ایمان لانا چاہئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ایک کالج فیلو حضرت مولانا عبدالمالک صاحب ناظر اصلاح و ارشاد اور راقم الحروف ایک بار ظہر سے قبل پیارے آقاسیدی حضرت امیر المومنین خلیفہ ثالث کے قدموں میں بیٹھے تھے کہ ناگاہ لاہور سے ایک معزز دوست آگئے جن کا حضور نے پر تپاک خیر مقدم کیا اور بتایا کہ ہم دونوں گورنمنٹ کالج میں اکٹھے پڑھتے رہے ہیں.حضور نے ان سے باہمی دلچپسی کے بعض معاملات پر دلچسپ گفتگو فرمائی اور آخر میں ہمیں ارشاد فرمایا کہ یہ میرے ذاتی اور نہایت معززمہمان ہیں.انہیں میری طرف سے کھانا پیش کرنے کے بعد ربوہ کے اڈہ پر الوداع کہیں.حسب ارشاد دار الضیافت میں ان کی خدمت میں ظہرانہ پیش کیا گیا.ہمارے معزز مہمان نے کھا نا شروع کرتے ہی بتایا کہ اُن کا تعلق فرقہ جعفریہ سے ہے.ہم لوگ منصب امامت کو نبوت سے افضل گردانتے ہیں.آپ کا کیا خیال ہے.حضرت مولانا عبدالمالک خان صاحب نے مجھے جواب کا ارشاد فرمایا.عاجز نے گزارش کی کہ ہمارے مذہب کی بنیاد تو قرآن مجید ہے.آپ کتاب اللہ سے اپنے اس موقف کی تائید میں صرف ایک آیت سناد بیجئے ہم اس پر بے چون و چراں ایمان لے آئیں گے.اس پر انہوں نے یہ آیت پڑھی: إِذِ ابْتَلَى إِبْرَهِمَ رَبُّهُ بِكَلِمَةٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إمَامًا ( البقرة : ۱۲۵) اُن کا استدلال یہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے جبکہ حضرت ابراہیم نبی تھے امتحان لیا جس میں کامیابی کے بعد انہیں سند امامت عطا ہوئی.ثابت ہوا امام نبی سے افضل ہوتا ہے.میں نے محترم و معزز دوست کا بہت شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے کلام اللہ سے ایک ایسی معرکہ آراء آیت کا انتخاب فرمایا ہے جس سے مسلمانوں کے باقی فرقوں پر کوئی اثر پڑے یا نہ پڑے
104 جعفری تحریک کی پوری عمارت دھڑام سے گر جاتی ہے.وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں پانچ نکات معرفت بیان ہوئے ہیں: 1- امامت یا جاگیر یا ورثہ میں نہیں مل سکتی.2- امامت کے لیے خدا کے آسمانی کالج میں امتحان دینا پڑتا ہے.-3 کمرہ امتحان میں صرف نبی بیٹھ سکتا ہے.4- امید وار کو اللہ جل شانہ کے پرچہ کے تمام سوالات میں سو فیصدی نمبر لینے ضروری ہیں.5- امتحان میں پاس ہوتے ہی کوئی نبی از خود امام نہیں بن سکتا بلکہ بذریعہ الہام اسے مقام امامت سے سرفراز فرماتا ہے.یہ پانچوں نکات بیان ہو چکے تو میں نے ان کی خدمت میں مندرجہ ذیل معروضات پیش کیں: اول: آپ حضرات کے نزدیک جب امام نبی سے افضل ہوتے ہیں اور آپ کے عقیدہ میں بارہ امام ظہور فرما ہو چکے ہیں تو جماعت احمدیہ کے خلاف ختم نبوت“ کی نام نہاد تحریکوں میں آپ کا زور وشور سے حصہ لینا زیب نہیں دیتا.دوم: قرآن کی اس آیت نے صاف فیصلہ کر دیا ہے کہ صرف وہی شخص امام بن سکتا ہے جو پہلے نبوت پر فائز ہو.میری تحقیق کے مطابق آئمہ اہل بیت میں سے کسی نے دعوی نبوت نہیں کیا تو وہ قرآنی اصطلاح کے مطابق امام کیسے قرار پاسکتے ہیں؟ ہاں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو دعا سکھلائی ہے کہ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان: ۷۵) ہمیں متقیوں کے امام بنادے.ہمارا ایمان ہے کہ ان مومنوں میں خانوادہ نبوت کے سب بزرگ بلاشبہ متقیوں کے امام تھے.اصطلاحی معنوں میں ہر گز نہیں.سوم : ایک فکر انگیز پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن کی رُو سے بذریعہ الہام امامت کی شان عطا ہوتی ہے لیکن کوئی نہیں جو آئمہ اثنا عشر میں سے کسی کے متعلق یہ ثابت کر سکے کہ انہیں الہامی طور پر امام قرار دیا گیا ہو.بجائے اس کے کہ یہ معزز دوست کوئی جواب عنایت فرماتے انہوں نے جلدی جلدی کھانا ختم کیا اور جانے کی رخصت چاہی.اور میں نے انہیں ربوہ کے اڈہ تک پہنچ کر رخصت کی سعادت
105 حاصل کی.بعد میں حضرت مولانا نے مجھے بتایا کہ تم حضور کے کلاس فیلو کو الوداع کہنے چلے گئے تھے مگر میں سیدھا قصر خلافت میں پہنچا اور حضور کی خدمت میں اس نشست کی پوری تفصیل عرض کی تو حضور انور بہت محظوظ ہوئے.خود مجھے بھی بہت لطف آیا.حالانکہ میں کئی سال تک شیعیت کے مرکز لکھنو میں مبلغ رہا ہوں اور کئی مناظرے بھی کئے ہیں.رئیس اعظم شارجہ ( متحدہ عرب امارات ) متحدہ عرب امارات دسمبر ۱۹۷۱ ء میں قائم ہوئی.یہ وفاقی حکومت ابوظہبی ، دبئی، شارجہ، ابوظہبی، عثمان ، ام القوین، راس الخیمہ اور فجیرہ جیسی سات چھوٹی ریاستوں پر مشتمل ہے.۱۹۸۸ء میں خاکسار تلونڈی موسیٰ کیس میں دیگر ۸ مخلص احمدیوں کے ساتھ سنٹرل جیل گوجر انوالہ سے ضمانت پر رہا ہوا تو پیارے حضور سیدی حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الرابع نور اللہ مرقدہ کی خصوصی ہدایت پر میں نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا.چونکہ پاکستان سے کوئی جماعتی لٹریچر ساتھ لے جانا ممکن نہ تھا اس لیے میں نے ابوظہبی کی سرکاری لائبریری سے احمدی علم کلام کے تائید میں بزرگان سلف کی عربی کتب کے تائیدی حوالوں کا عکس حاصل کیا اور جس کی سات آٹھ کا پیاں امیر ابوظہبی جناب منیر احمد صاحب نے کرا دیں اور ان سب کو سات فائلوں کی صورت محفوظ کیا جس کے بعد امارات کی جملہ ریاستوں میں اُن پر تعارفی لیکچر دیئے اور ایک ایک کاپی بغرض ریکارڈ و استفادہ ہر ریاست کے امیر جماعت کو دیں.اس طرح ان ریاستوں کے احمدیوں نے محسوس کیا کہ اُن کے ہاتھوں میں دعوت الی اللہ کا ایک نیا علمی طریق مل گیا ہے اور وہ اپنے عرب بھائیوں کو کسی تمہید کے بغیر صرف فوٹو کاپیوں کے ذریعہ بآسانی احمدیت کا پیغام پہنچا سکتے ہیں.اُن دنوں شارجہ کے امیر محترم مرزا بشیر بیگ صاحب مرحوم ( برادر نسبتی مولانا عبد القدیر شاہد سابق مجاہد افریقہ حال کینیڈا) تھے.محترم مرزا صاحب کا حلقہ تعارف بہت وسیع تھا.خصوصاً مقامی رؤساء سے ان کے گہرے روابط و مراسم تھے.آپ نے خاکسار کی ملاقات شارجہ کے ایک رئیس اعظم ( غالباً السید لوطا ) سے کرانے کا انتظام فرمایا اور خاص اس غرض سے عربی لباس تیار کرایا جو
106 ! میں زیب تن کئے ان کی خدمت میں پہنچا.دوران گفتگو میں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ میرا تعلق اسی جماعت سے ہے جس سے یو این او میں فلسطین کا مسئلہ پیش کرنے والے بطل اسلام السید چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو وابستگی کا شرف حاصل ہے.بعد ازاں میں نے آنحضرت مے کی شان میں حضرت مسیح موعود کے عربی قصائد کے اشعار سنائے اور پوری دنیا میں جماعت احمدیہ کے اشاعتی کارناموں کا مختصر تذکرہ کیا.ملاقات مختصر تھی مگر اسید لوطا خاص طور پر حضرت مسیح موعود کے عربی کلام سے غایت درجہ متاثر ہوئے.محل سے باہر نکلتے ہی امیر جماعت دوبئی فرمانے لگے واللہ اس ملاقات کے وقت اگر کوئی اور شخص بھی موجود ہوتا تو وہ پکار اٹھتا کہ تم عربی اور وہ مجھی ہیں.میں نے عرض کیا کہ میری تو اتنی بھی حیثیت نہیں جتنی زندہ آفتاب کے مقابل ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی ہوتی ہے.حق یہ ہے کہ سحر طرازی کے یہ علمی کرشمے آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق مسیح موعود کے چشمہ فیضان کی بدولت ہیں.وگر نہ من آنم کہ من دانم - والله على ما اقول شهيد.ڈپٹی کمشنر صاحب ڈیرہ اسماعیل خان (سرحد): ڈیرہ اسماعیل خان کی مخلص جماعت نے مرکز میں اطلاع دی کہ یہاں جلسہ سیرۃ النبی کا انتظام کیا گیا ہے کوئی مربی بھجوایا جائے.نظارت اصلاح و ارشاد کی طرف سے خاکسار بروقت پہنچ گیا.لیکن پہنچتے ہی یہ معلوم ہوا کہ جناب ڈپٹی کمشنر ضلع نے فرقہ پرست ملاؤں کے شدید دباؤ پر اجازت نامه منسوخ کر دیا ہے.میں نے احباب جماعت سے گزارش کی کہ ہمیں جلسہ کے متبادل کے طور پر دن میں سارا دن درود شریف پڑھنے اور رات تہجد ادا کرنے میں گزارنا چاہیے.اسی روز میری درخواست پر احباب جماعت نے آنحضرت ﷺ کی سوانح سے متعلق انگریزی لٹریچر ایک خوبصورت پیکٹ کی صورت میں تیار کیا جسے لے کر میں ایک جماعتی وفد کے ساتھ جناب ڈی سی صاحب کے دفتر میں پہنچا.اپنا وزٹنگ کارڈ اندر بھیجوایا.چند منٹوں کے بعد ہی انہوں نے (جو شریف النفس انسان تھے ) ممبران وفد کو بلوالیا.اور نہایت اعزاز کے ساتھ کرسیوں پر بٹھایا.میں نے کسی تمہید کے بغیر اُن کی خدمت میں جماعتی لٹریچر تحفہ پیش کرتے ہوئے صرف یہ کہنا کہ میں ربوہ سے یہاں جلسہ سیرت النبی میں شرکت کے لیے حاضر ہوا تھا.واپسی سے قبل میرے دل میں آپ سے ملاقات کی شدید تمنا
107 پیدا ہوئی.اس لیے آپ کا وقت ضائع کیے بغیر آنحضرت محمد مصطفی ﷺ کی سوانح و سیرت پر جماعت احمدیہ کا لٹریچر پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں.گر قبول افتد زہے عز و شرف یہ کہ کر ہم سب اٹھ کھڑے ہوئے اور جانے کی اجازت چاہی لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ وہ جماعت کے متعلق کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں.مثلاً آپ لوگ مرزا صاحب کو کیا سمجھتے ہیں؟ میں نے کہا اُن کا حقیقی مقام ہے غلام احمد اور یہی آپ کا نام بھی ہے.جس کی مزید وضاحت آپ کے شعری کلام میں یوں ملتی ہے: جان خاکم , ودلم فدائے جمال محمد نثار کوچه آل محمد خدا و تم این چشمه روان که بخلق قطره زبحر کمال ز بحر کمال محمد جناب ڈی سی صاحب افغان تھے اور فارسی ان کی مادری زبان تھی.اس لیے انہوں نے دونوں شعر کمال عقیدت سے سنے اور پھر مدحت شہ لولاک کے تصور میں ایسے از خود رفتہ ہو گئے کہ پھر کسی اور سوال کی نوبت نہ آئی.خاموشی کے وقفہ کو میں نے بہت غنیمت سمجھا اور اپنے الوداعی الفاظ میں اُن کا شکر یہ ادا کیا اور بتلایا کہ ہماری نگاہ میں آپ قابل احترام ہستی ہیں کیونکہ آپ اُس مملکت خداداد کے معزز فرد ہیں جس کے قیام بلکہ نام تک کی خبر بذریعہ الہام بانی جماعت احمدیہ کو اپریل ۱۹۰۲ء میں دی گئی تھی.چنانچہ آپ نے قیام پاکستان سے ۴۵ سال قبل اپنا یہ الہام شائع کیا.عیسائی لوگ ایذارسانی کے لیے مکر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا اور وہ دن آزمائش کے دن ہوں گے اور کہہ کہ خدایا پاک زمین میں مجھے جگہ دے.یہ ایک روحانی طور کی ہجرت ہے.( دافع البلاطبع اول صفحہ ۳۲) کینیڈا کی ایک سابق میئر خاتون: ایک عرصہ کی بات ہے کہ کینیڈا کی ایک سابق میئر خاتون ہندوستان خصوصا مدراس اور قادیان کا دورہ کرنے کے بعد ہار در بوہ ہوئیں.ان کے پاس ایک امیر جماعت کا مراسلہ تھا جس میں لکھا تھا کہ
108 یہ کیتھولک خاتون جماعت احمدیہ کی مداح ہے.ہماری خواہش ہے کہ انہیں مؤرخ احمدیت سے گفتگو کا ضرور موقع دیا جائے.چنانچہ جناب نواب منصور احمد خاں صاحب وکیل التبشیر اور سابق مبلغ سویڈن جناب سمیع اللہ زاہد صاحب اس معزز خاتون کو لے کر خاکسار کے غریب خانہ پر تشریف لائے.محترمہ نے بتایا کہ وہ خاص طور پر مدراس میں تھو ما حواری کے مزار کی زیارت کے لیے گئی تھیں.میں نے ان کا مناسب الفاظ میں خیر مقدم (WELCOME) کیا اور مسکراتے ہوئے تذکرہ کیا کہ ہم احمدی ڈیل مسیحی ہیں کیونکہ امت موسوی کے میسی پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور امت محمدیہ کے مسیح موعود پر بھی.پھر کہا کہ میں بھی گزشتہ سال مدر اس گیا تھا اور مزار تھوما پر حاضری کی توفیق پائی.اس بات نے اُن کے دل کو میری بات دلچسپی اور غور سے سننے کی طرف مائل کر دیا.میں نے کہا مجھے آپ کی خدمت میں یہ تاریخی حقیقت پیش کرنا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنا مشن یہ بیان فرمایا تھا: میں بنی اسرائیل کی کھوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.“ ( متی باب ۱۵ آیت ۲۴) چونکہ بنی اسرائیل کے قبائل افغانستان اور کشمیر کے علاوہ مدراس میں بھی موجود تھے اس لئے حضرت یسوع مسیح نے تھو ما حواری کو ان میں اپنی منادی کے لیے بھجوایا.میں اکثر سوچتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ نے انہیں صرف بنی اسرائیل کی طرف مبعوث فرمایا تھا تو وہ افغانستان اور کشمیر میں آباد ہزاروں لاکھوں یہودیوں کو چھوڑ کر اور اپنے اصل مشن کو فراموش کر کے چرخ چہارم پر کیوں تشریف لے گئے.خصوصاً جبکہ ان میں زبر دست قوت پرواز تھی اور وہ بآسانی ان سب مشرقی ممالک میں پہنچ سکتے تھے اور برقی رفتاری سے سب تک اپنا پیغام پہنچا سکتے تھے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک سیکنڈ کے لیے بھی یہ تصور فرض کر لیا جائے تو یہ حضرت سیدنا مسیح جیسے اولوالعزم پیمبر سے بڑی زیادتی ہوگی اور اس سے لازم آتا ہے کہ آپ (پروٹسٹنٹ اور کیتھولک مذہبی سکالرز کے عقیدہ کے مطابق ) خدا کے داہنے ہاتھ پر نہیں بیٹھے بلکہ معاذ اللہ اپنی اس خطرناک حکم عدولی کی پاداش میں آسمانی عدالت میں آپ کا کورٹ مارشل ہورہا ہوگا.یه کینیڈین خاتون یہ بات سن کر گہرے غور و فکر میں ڈوب گئیں اور چند منٹ کی خاموش کے بعد خود بخو داٹھ کھڑی ہوئیں اور گفتگو کا سلسلہ بھی خود بخود اپنے منطقی انجام تک پہنچ گیا.
109 ایک طالب حق ڈینش سیاح ربوہ میں خلافت رابعہ کے دوران ایک متلاشی حق ڈینش سیاح اور اُن کی لیڈی تحریک جدید کے قدیم گیسٹ ہاؤس میں فروکش تھیں.وکالت تبشیر کے ایک پیغام پر میں ان کی ملاقات کے لیے گیا.ترجمانی کے بہترین فرائض مرزا نصیر احمد صاحب شاہد مبلغ انگلستان نے انجام دیئے.ابتدا میں تو انہوں نے اسلام میں عورت کے مقام (STATUS) کی بابت معلومات چاہیں جو میں نے اختصار کے ساتھ بیان کر دیں.ازاں بعد دونوں میاں بیوی پردہ کی مخالفت میں ڈٹ گئے.جس پر میں نے بائبل کی روشنی میں بتایا کہ پردہ ابراہیمی گھرانے میں قدیم سے رائج تھا.اور اسلام کا احسان ہے کہ اس نے حضرت ابراہیم کے دین حنیف کو پھر سے زندہ کیا جو عفت و عصمت اور پارسائی کا زبردست حفاظتی قلعہ ہے.میں نے برسبیل تذکرہ قرآن و انجیل کا موازنہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ انجیل (متی باب ۵ ) میں یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی بری نظر سے کسی کو دیکھے تو اسے خود ہی نا پاک آنکھ پھوڑ دینا چاہیے.اس کے مقابل قرآن مجید نے ایسی خوفناک سزا کو جائز نہیں رکھا بلکہ نہایت خوبصورت اور حکیمانہ طریق سے مرد و عورت دونوں پر غض بصر کا پردہ لازم کر دیا ہے اور صنف نازک کو یہ پر حکمت ہدایت فرمائی ہے وہ چہرے کو ڈھانپ کر رکھے تا کہ کوئی کمینہ فطرت اس کی عصمت پر ڈاکہ نہ ڈال سکے.اس مرحلہ پر ڈینیش سیاح اور اُن کی لیڈی نے یہ دریافت کیا کہ کیا مسلم عورت سے کبھی پردہ کی پابندی اٹھائی بھی جاتی ہے؟ میں نے انہیں بتلایا کہ حج بیت اللہ کے دوران جب ہر ایک خدا کے عشق میں سرشار ہو کر اُس کے ذکر میں محود گداز ہوتا ہے خواتین کو بھی نقاب اوڑھنے کی اجازت نہیں اور دراصل اسلام تو ہر فرد کو سلوک کی اس آخری منزل تک پہنچانا چاہتا ہے کہ ساری دنیا میدان عرفات کی طرح تقومی اور عرفانِ الہی کا مرکز بن جائے اور اس معاملہ میں اسلام نے مرد و عورت میں کوئی تمیز نہیں روا رکھی.بلکہ دونوں میں مسابقت کی سپرٹ پیدا کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا.اس کے لیے حوا کی بیٹیوں کا چراغ مے خانہ بنتا ہر گز گوارا نہیں اور نہ قابل برداشت ہے.کیونکہ وہ اسے شمع خانہ یقین کر کے عالمگیر عائلی نظام کو اخلاق و روحانیت کے زیور سے مرصع کرنے کے لیے اٹھا ہے اور یہ ہمارے نبی اور نبیوں کے شہنشاہ محمد مصطفی ﷺ کا طبقہ نسواں پر عظیم الشان احسان ہے بھیج درود اُس محسن پر تو دن میں دن میں سو سو بار پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار
110 چیف ایڈیٹر ہند سماچار گروپ آف نیوز پیپر جالندھر: ۲۰۰۵ء کے جلسہ سالانہ قادیان دارالامان کی بے شمار روحانی تربیتی اور علمی یاد میں میرے دل پر نقش ہیں مگر تبلیغی یادگار صرف ایک ہے اور وہ ہے جالندھر کے روز نامہ ہند سماچار کے مشہور چیف ایڈیٹر جناب پدم شری وجے کمار چوپڑا صاحب سے مع ان کے سٹاف کے ملاقات.”ہند سماچار ۱۹۴۷ء سے جاری ہے اور چوپڑا خاندان کے مورث اعلیٰ ہوشناک رائے تھے جن کی پیدائش میرے وطن ضلع حافظ آباد میں ہوئی.سرلیپل ایچ گریفن اور کرنل میسی نے تذکرہ رؤسائے پنجاب PUNJAB) (CHIEFS کی دوسری جلد میں اس خاندان کے مشاہیر کا مفصل ذکر کیا ہے.مثلاً جناب رام چند چوپڑا جنہوں نے اچھرہ اور ننکانہ صاحب میں پبلک کے لیے بڑے بڑے تالاب بنوائے.لاہور میں غریبوں کے لیے دواخانہ جاری کیا، امرتسر میں سنسکرت کا سکول کھولا اور بنارس سداورت (مستقل خیراتی لنگر ) قائم کیا.جماعت احمدیہ کے ساتھ جناب پدم شری وجے کمار چوپڑا کے گہرے روابط و مراسم عرصہ سے قائم ہیں اور اُن کا اخبار تو جلسہ سالانہ قادیان کے انعقاد پر اُس کی روح پرور اور باتصویر خبروں کا حسین مرقع بن جاتا ہے.سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے ارشاد مبارک پر خاکسار نے ۱۹۹۲ء کے جلسہ سالانہ پر تحریک وقف نو پر لیکچر دیا تھا.مجھے یاد ہے کہ روز نامہ ”ہند سا چاڑ“ نے اس موقع پر حوالوں کے بادشاہ کی آمد کے جلی عنوان سے ایک خبر زیب اشاعت کی تھی.اب میں جلسہ سالانہ ۲۰۰۵ ء کی تاریخی ملاقات اور انٹرویو کی تفصیلات پیش کرتا ہوں.میرا قیام ان مبارک ایام میں دار الضیافت حضرت مسیح موعود کے ایک کمرہ میں تھا جو گیسٹ ہاؤس سے متصل تھا.یہ تقریب شری.وجے کمار صاحب کی رہین منت تھی.آپ ہی نے اس کے انعقاد کے لیے خصوصی پیغام دیا اور پھر چند منٹوں کے بعد اپنے سٹاف کے جلو میں تشریف لے آئے.اداره اخبار سماچار کے ایک سکالر نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا کہ میری ریسرچ ہے کہ منو سے مراد حضرت نوح ہیں.میں نے ان کی محنت و کاوش کی داد دی کہ ہند و مسلم اتحاد کی نئی راہ کھلے گی مگر ساتھ ہی عرض کیا کہ سلسلہ احمدیہ کے ایک بزرگ سکالر نعمت اللہ خاں صاحب گوہر بی اے
111 نے قادیان سے تقسیم ہند سے قبل ” تحفہ ہندو یورپ ایک محققانہ تالیف شائع کی جس میں ثابت کیا کہ برہما جی در اصل ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے.اور آپ کے صحیفہ کا نام و داد تھا جس کے گیت قدیم آریہ قوم میں دید نام سے رائج ہوئے.یہ معرکہ آرا کتاب وزیر ہند امرتسر پریس میں چھپی اور دسمبر ۱۹۲۸ء میں قادیان دارالامان سے شائع ہوئی.سلسلہ گفتگو آگے بڑھا تو میں نے بتایا کہ ہم سری کرشن کو خدا کا اوتار اور ریشی مانتے ہیں اور اُن کی طرف بعض ہتک آمیز روایات کو ہرگز تسلیم نہیں کرتے.ہمارے نز دیک گوپیوں سے مراد ان کے معتقد ومرید ہیں اور قدیم تصاویر میں مکھن چرانے کا واقعہ محض استعارہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو ملک کے اعلیٰ دماغوں تک اپنا پیغام پہنچانے اور انہیں اپنا گرویدہ اور فریفتہ کرنے میں کامیابی ہوئی.CREAM کا انگریز کی محاورہ بھی اس کی عکاسی کرتا ہے.اسی طرح ہندو مہا پریشوں نے جو آپ کو بانسری بجاتے ہوئے دکھایا ہے وہ ایک شاندار حقیقت کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ جس طرح بانسری کی آواز دراصل اسے بجانے والے کی آواز ہوتی ہے اسی طرح بھگوان سری کرشن جی مہاراج کا اپدیش دراصل پر ماتما کا اپدیلیش تھا.زبان اُن کی تھی مگر بلا والیشور کا تھا.ایک موقعہ پر میں نے بحیثیت مؤرخ یہ بھی واضح کیا کہ ہماری جماعت کے دوسرے امام تمصل حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اصلح الموعود آزادی کے سب سے بڑے علمبر دار تھے.اُن کی نگاہ صرف ہندوستان تک محدود نہ تھی بلکہ ساری دنیا پر تھی اور آپ ہر ملک، ہر قوم اور ہر انسان کو شیطان کی زنجیروں سے آزاد دیکھنا چاہتے تھے.آپ نے ہمیشہ آزادی ہند کے حق میں آواز بلند کی.مگر نہایت سختی، قانون شکنی اور بغاوت کے خلاف احتجاج کیا اور ہمیشہ اہل ملک کو حصول آزادی کے لیے احترام قانون اور پُرامن ذرائع استعمال کرنے کی تاکید فرمائی اور خاص طور پر ایک خطبہ میں یہ کھلا اعتباہ کیا کہ انگریز سمندر پار سے آئے ہیں.جنگ نے اُن کی معاشیات کو تہ و بالا کر دیا ہے.آخر انہیں جلد یا بدیر جانا ہی پڑے گا لیکن اگر ہم نے ان کے خلاف ناجائز اور امن شکن ذرائع استعمال کر کے کامیابی حاصل کر لی تو ملکی آزادی کے بعد عوام ضرور یہی جارحانہ ہتھیار اُن کے خلاف استعمال کریں گے.جناب چیف ایڈیٹر صاحب اور اُن کے معزز رفقاء نے اس بات کی سو فیصدی تائید کی کہ واقعی اب پورے دیش میں ایسا ہی ہو رہا ہے.
112 خاکسار نے انٹرویو کے دوران حضرت مصلح موعود کا ملکی آزادی سے متعلق پالیسی کی طرف محض اشارہ کیا تھا.اب جبکہ میں یہ روداد لکھ رہا ہوں حضور کے ایک اہم بیان کے الفاظ ہدیہ قارئین کرتا ہوں.۲ نومبر ۱۹۴۵ء کی مجلس عرفان کے دوران فرمایا ”ہمارا کانگرس سے اختلاف آزادی کے حصول میں نہ تھا نہ ہے بلکہ ناجائز ذرائع استعمال کرنے میں تھا اور ہے.“ (الفضل ۳ نومبر ۱۹۴۵ صفحہ۲) گفتگو کا آخری محور مسئلہ امنِ عالم تھا جو کئی سال سے تمام ممالک عالم کے لیے تشویش و اضطراب کا موجب بن چکا ہے.خاکسار نے اس بارے میں جو کچھ عرض کیا اس کا مشخص یہ تھا کہ آج پوری دنیا تباہی کے کنارے تک آن پہنچی ہے.ایسے نازک ترین وقت میں عالمی امن ، شانتی اور پریم کا قیام تین اصولوں پر عمل پیرا ہوئے بغیر ہرگز ممکن نہیں.پہلا اصول یہ ہے کہ دنیا کی اکثریت ایسے لوگوں سے بھر جائے جو احترام قانون کو اپنا مذہبی فریضہ یقین کرتے ہوں.نہیں.“ دوسرا اصول یہ ہے کہ ان لوگوں کا ابدی ماٹو ہوا محبت سب کے لیے نفرت کسی سے تیسرا اصول یہ ہے کہ احترام قانون کو مذہب کا جز واعظم سمجھنے والی ان اقوام و افراد کا ایک واجب الاطاعت امام اور مذہبی لیڈر ہو جو آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں ہمیشہ اپنے معتقدین کی ہر مرحلہ پر کڑی نظر رکھے ہوئے رہنمائی کرتا رہے.قرآن (سورہ یوسف) سے واضح ہے کہ اگر فرعون جیسا ظالم و سفاک بادشاہ بھی حکمران ہو اور یوسف جیسا اولوالعزم نبی ( یعنی ریشی یا اوتار بھی) اُس کی رعایا ہو تو اسے بھی قانون کا احترام کرنا ہوگا.دوران گفتگو میں نے آنحضرت نے کی مکی زندگی کے اس تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کیا کہ مسلہ نبوی میں حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ الکبری کی وفات کے بعد آپ کے مخالفین نے آپ کو نہایت بے با کی اور بے رحمی سے جور و جفا کا نشانہ بنانا شروع کر دیا جس پر آپ محض تبلیغ اسلام کے لیے مکہ چھوڑ کر شہر طائف تشریف لے گئے.طائف میں عبدیالیل، مسعود اور حبیب تین رئیس اعظم تھے.سب سے پہلے حضور انہی کے پاس خدا کا پیغام دینے کے لیے پہنچے مگر ان بدقماشوں نے آپ کی دعوت پر کھلا مذاق اڑایا.ایک نے یہ گستاخانہ
113 بات کہی کہ اگر تجھ کو واقعی خدا نے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تو کعبہ کا پردہ چاک کر دیا ہے.دوسرے نے یہ شرمناک پھبتی کسی کہ کیا خدا کو تیرے سوا کوئی اور نہیں ملتا تھا سے کوئی بولا معاذ اللہ وہ بھی ہے خدا کوئی نبی جس کو کہیں ملتا نہیں تیرے سوا کوئی تیسرے بدبخت نے متکبرانہ انداز میں آپ کی دعوت رد کرنے کا یہ جواز پیش کیا کہ میں بہر حال تجھ سے بات نہیں کر سکتا کیونکہ تو اگر سچا ہے تو میری گفتگو بے ادبی ہے اور اگر کا ذب ہے تو قابل التفات ہی نہیں.ان برگشتہ نصیبوں نے اسی پر اکتفا نہ کرتے ہوئے شہر کے غنڈوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا جو اپنی جھولیاں پتھروں سے بھر کر دورو یہ قطار باندھ کر کھڑے ہو گئے اور آپ پر پتھراؤ شروع کر دیا.یہاں تک کہ سارا جسم لہولہان ہو گیا اور آپ کی جوتیاں خون سے بھر گئیں.وہ مقدس خون تھا جس کا ایک ایک قطرہ پوری کائنات سے افضل تھا.جب آپ زخموں سے چور ہو کر بیٹھ جاتے تو یہ غنڈے آپ کا بازو تھام کر کھڑا کر دیتے اور جب آپ چلنے لگتے تو دوبارہ پتھروں کی بارش شروع کر دیتے اور ساتھ ساتھ گالیاں بکتے اور تالیاں بجاتے چلے جاتے.(زرقانی جلد اصفحہ۵۱۶) آخر آپ کو ایک باغ میں پناہ لینا پڑی.اس وقت خدا کی طرف سے فرشتہ نازل ہوا کہ آپ اگر اجازت دیں تو پورے طائف کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے مگر رحمتہ اللعالمین ﷺ نے فرمایا: دعائے قہر کیوں مانگوں یہ نافہم ، غافل ہیں بشر ہیں ، بے خبر ، نادان ہیں گمراہ منزل ہیں منور کردے اپنے نور سے ان سب کے سینوں کو لگا دے ساحل ایمان پر اُن کے سفینوں کو خدایا رحم کر طائف کے گم گشتہ مکینوں بچھا دے رحمتوں کے پھول پتھریلی زمینوں پر ( مرز اظہیر الدین طالب دہلوی) پر
114 آخر آنحضرت دوبارہ مکہ میں آباد ہونے کے لیے غار حرا کے قریب پہنچے تو قبائلی دستور کے مطابق آپ نے زید بن حارثہ کو رؤسائے مکہ کے پاس بھیجا کہ کیا وہ مجھے پناہ دے سکتے ہیں.سبھی نے صاف انکار کر دیا البتہ مکہ کے ایک شریف رئیس اعظم مطعم بن عدی نے آپ کا خیر مقدم کیا.چنانچہ آنحضور نے انہی کے پاس رات گزاری.صبح ہوئی تو مطعم بن عدی مسلح ہو کر اونٹنی پر سوار ہوئے اور اپنے سب بیٹوں کو بھی ہتھیار بند کیا جو آنحضور کو تلوار کے سایہ میں لے کر حدود حرم شریف کے قریب لائے.یہاں پہنچ کر انہوں نے بلند آواز سے اعلان عام کیا کہ اے گروہ قریش میں نے محمد ( ﷺ ) کو پناہ دے دی ہے.اب انہیں کوئی تکلیف نہ دینا.یہ گویا داخلہ مکہ کا ویزا‘ تھا جس کے بعد آنحضرت نے حرم میں قدم مبارک رکھا.نماز ادا کی اور مطعم اور ان کے بیٹے آپ کو تلواروں کے سائے میں گھر تک چھوڑنے آئے.(مشخص از مواہب لدنیہ، طبقات ابن سعد، طبری) اس بیان یا انٹرویو کے بعد جناب چیف ایڈیٹر صاحب ہند سماچار “ اور ان کے سب رفقا نے خاکسار کی گزارشات پر دلی شکر یہ ادا فرمایا اور اپنے خراج تحسین کا عملی ثبوت دیتے ہوئے پانچ سو روپے بھی ناچیز کو دیئے جو میں نے صدرا انجمن احمد یہ قادیان کے خزانہ میں داخل کرادیئے اور ازاں بعد فی الفور امام ہمام حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے حضور بھی اس ملاقات کی روداد ارسال کر دی کیونکہ سب کامیابیاں خلیفہ راشد کی خصوصی تو جہات اور تاثیرات قدسیہ کی برکت سے ہوتی ہیں.کلمه آخر: راقم الحروف ایوان خلافت کا ایک فقیر بے نوا ہے.میں اپنے عمر بھر کے وسیع تجربات کی بنا پر رب ذوالجلال کی قسم کھا کر علی وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ آج ہر نوع کے فیضان محمدی کے سر چشمہ تک رسائی نظام خلافت کے وسیلہ سے ہی ممکن ہے اور خدا کی پاک جماعت کے ہر فرد یا ادارہ پر تمام برکات فرشتوں کی اُن آسمانی افواج کے ذریعہ نازل ہو رہی ہیں جن کو رب محمد (ﷺ) نے اپنے محبوب خلیفہ کو تاج خلافت پہناتے ہی تابع فرمان کر دیا ہے اور ہر مخلص احمد کی اس کے نائب سے حد درجہ وفا کرتا ہے.اس نسبت سے خدائی دستے متعین کر دیئے گئے ہیں جو اس کے ہر دینی کام میں
115 المصل اس کے غیبی معاون بن جاتے ہیں.اسی لیے خلیفہ موعود سید نا حضرت محمد لمصلح الموعود فرماتے ہیں:." وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے.اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے اتنا بھی کام نہیں کر سکتا جتنا بکری کا بکر وٹا کر سکتا ہے.“ نیز ارشادفرمایا: المفضل ۲۰ نومبر ۱۹۴۶ صفحه ۷ ) ” خلیفہ استاد ہے اور جماعت کا ہر فرد شاگرد.جو لفظ بھی خلیفہ کے منہ سے نکلے وہ عمل کیے بغیر نہیں چھوڑنا.“ ( الفضل ۲ مارچ ۱۹۴۶ صفحه ۳ ) وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين