Deobandi Chalon Se Bachiye

Deobandi Chalon Se Bachiye

دیوبندی چالوں سے بچئے

Author: Other Authors

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات

دیوبندی مکتبہ فکر کے مولویوں کی طرف سے جماعت احمدیہ اور بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام پر طرح طرح کے اتہامات اور بہتان تراشی کا سلسلہ جاری رہتا ہے جس میں یہ لوگ نہایت گندی، غلیظ زبان اور اپنی من پسند سوقیانہ طرز اختیار کرتے ہیں تا دلیل اور ثبوت سے عاری،عوام الناس کے مذہبی جذبات سے کھیلنے والا یہ طبقہ معصوم احمدیوں کے خلاف اپنی روائتی اشتعال انگیزی کو جاری رکھ سکیں۔ اس صورت حال میں سادہ لوح مسلمان بھائیوں کو ان دشمنان حق کی اصلیت سے آگاہ کرنے کے لئے مکرم منیر احمد خادم سابق مدیر ہفت روزہ بدر قادیان نے مذکورہ بالا عنوان کے تحت ایک ہفتہ وار اداریئے کا سلسلہ شروع کیا تھا، جسے اولاً 1996ء میں  اخبار میں شائع کیا گیاتھا اور بعد ازاں استفادہ عام کے لئے کتابی شکل دی گئی تھی۔ موجودہ ایڈیشن نظارت نشر و اشاعت قادیان نے فضل عمر پریس سے ٹائپ کرکے شائع کیا ہے۔


Book Content

Page 1

دیو بندی چالوں سے بچئے منیر احمد صاحب خادم

Page 2

دیو بندی چالوں سے بچئے شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت قادیان

Page 3

Name of the Book DEOBANDI CHALOON SE BACHIYE Author: Muneer Ahmad Khadim First Edition in 1996 Present Edition : 2016 Copies: 1000 Published by: Nazarat Nashr-o-Isha'at Qadian, Dist-Gurdaspur-143516 Punjab, India Printed at Fazl-e-Umar Printing Press Qadian

Page 4

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ عرض ناشر دیو بندیوں کی طرف سے جماعت احمد یہ اور حضرت امام جماعت احمدیہ پر طرح طرح کے بہتانات و اتہامات کا سلسلہ جاری رہتا ہے جس میں یہ لوگ نہایت غلیظ اور گندی زبان کا استعمال کرتے ہیں اس لئے مسلمان بھائیوں کو ان کی اصل حقیقت کی اطلاع دینے کی غرض سے مکرم منیر احمد صاحب خادم سابق مدیر ہفت روزہ بدر نے دیو بندی چالوں سے بچئے !“ کے عنوان کے تحت ایک سلسلہ وار اداریہ لکھا تھا جسے ہفت روزہ بدر میں 1996ء میں افادہ عام کے لئے قسط وار اور بعدہ کتابی شکل میں شائع کیا گیا تھا.اس کتاب کو ایک بار پھر شائع کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس کی اشاعت میں تعاون کرنے والے تمام معاونین کو حسنات دارین سے نوازے.آمین.1 ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 5

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ دیو بندی چالوں سے بچئے! گل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دار العلوم دیو بند سہارنپور (یوپی) نے ایک کتا بچہ بعنوان محمد صلعم کے پریمی کہاں ہیں.؟“ شائع کرا کر یوپی ہریانہ اور ملک کے بعض اور صوبوں میں پھیلایا ہے جس میں اپنی پرانی عادت کے مطابق بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت احمدیہ پر طرح طرح کا کیچڑ اُچھالا ہے ، نہایت گندی اور جھوٹی زبان استعمال کی ہے ،لغو اور گھناؤنے الزامات لگائے ہیں اور احمدیوں کے خلاف معصوم مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی ہے.مسلم نو جوانوں کو اُکسایا گیا ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے بہانے ملک میں فساد یعنی ” دیوبندی جہاد میں مصروف ہوں.اس دیوبندی جہاد کے نتیجے میں بعض جگہوں پر احمدیوں کو مارا پیٹا بھی گیا ہے ان کو لہولہان کیا گیا ہے،مسجدوں سے دھکے دے کر نکالا گیا ہے.اور کافر کافر کہہ کر گندی گالیاں نکالی گئی ہیں اور یہ سلسلہ لگا تار جاری ہے.ان دیو بندیوں کو اپنا یہ اسلام مبارک ہو.دراصل سردار دو جہاں حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ عام مسلمان تو در کنار علماء بھی شر پسند اور آسمان کے نیچے بدترین مخلوق بن جائیں گے اس دور کا نقشہ کھینچتے ہوئے آپ نے فرمایا تھا :- يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ 2

Page 6

إِلَّا رَسُمُهُ مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِّنَ الْهُدَى عُلَمَاءُ هُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ مِنْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيْهِمْ تَعُودُ - ( مشکوۃ کتاب العلم صفحہ ۷۶) لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ جب اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کریم کی صرف عبارت باقی رہ جائے گی.مسجد میں ان کی بڑی عالیشان اور آباد ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے انہی میں سے فتنے نکلیں گے اور انہیں میں واپس لوٹیں گے.آج یہ وہی دور ہے جس کی نشاندہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی.اسلام صرف نام کے طور پر رہ گیا ہے یعنی نام پوچھو تو مسلمانوں جیسے ہیں لیکن عمل حقیقی مسلمانوں جیسے نہیں بلکہ اب تو یہاں تک حد ہو چکی ہے کہ ہزاروں مسلمان ایسے بھی ہیں جن کے نام بھی آپ کو مسلمانوں جیسے نظر نہیں آئیں گے بلکہ بات کرنے سے معلوم ہوگا کہ انکے باپ یا دادا مسلمان تھے اور انہوں نے حالات سے مرعوب ہو کر اپنی اولا د کا نام بدل دیا تھا.اسی طرح حدیث شریف کے عین مطابق قرآن کریم کی عبارت صرف لکھے ہوئے الفاظ کے طور پر محفوظ ہے ہزاروں بلکہ لاکھوں مسلمان ایسے ہیں جو اس لکھی ہوئی عبارت کو پڑھنا تک نہیں جانتے ، ترجمہ جاننا اور اس پر عمل کرنا تو دور کی بات ہے.ہزاروں مسلمان گھرانے ایسے ہیں جہاں گھروں میں دیکھنے کے لئے بھی قرآن مجید نہیں ملتا.مذکورہ حدیث مبارک میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مساجد آباد تو ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی آج آپ بر صغیر ہند و پاک میں بظا ہر نہایت خوبصورت مسجدیں بھی دیکھیں گے اور یہ بھی دیکھیں گے کہ ان میں نمازی بھی حاضر ہوتے ہیں لیکن مسجدوں کی آبادی کے نتیجہ میں جو ہدایت حاصل ہونی چاہئے وہ ان میں سے اکثر نمازیوں کو ہر گز نہیں ملتی کیونکہ مسجدوں میں فرقہ 3

Page 7

بندیوں کی تعلیم دی جاتی ہے.دوسرے فرقہ کے لوگوں کو برداشت نہیں کیا جاتا.امام صاحبان گاؤں کے لوگوں سے اناج اور پیسہ وصول کرنے کے لئے مسجدوں میں نمازیں پڑھاتے ہیں.علاوہ ان کے آپ ایسی مسجد میں بھی دیکھیں گے جہاں ان مسجدوں کو آباد کرنے والے دوسرے فرقہ کے لوگوں کا خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کرتے.پاکستان میں آجکل کیا ہو رہا ہے؟ شیعہ سنیوں کی مسجدوں کو لہولہان کر رہے ہیں اور سنتی مولوی شیعہ مسجدوں کے نمازیوں کو خون سے رنگ رہے ہیں.تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بالخصوص ہندوستان میں ہزاروں مسجدیں ایسی ہیں جنہیں یا تو شہید کر دیا گیا ہے اور یا غیر مسلم ان مساجد میں اپنے جانور باندھتے ہیں.جماعت احمدیہ نے ایسی کئی مساجد کو گوبر سے صاف کر کے دھو کر انہیں آباد کیا ہے، ان پر ہزاروں روپے خرچ کر کے انہیں نماز پڑھنے کے قابل بنایا ہے لیکن حد یہ ہے کہ جب احمدی ایسی مسجدوں کو آباد کر لیتے ہیں اور وہاں نماز اور قرآن مجید کی تلاوت شروع ہو جاتی ہے لاؤڈ اسپیکر لگا کر اذان کی آواز دُور دُور تک پہنچائی جاتی ہے تب ان دیو بندی مولویوں کی غیرت اسلام اور عشق رسول کی رگ پھڑکتی ہے اور وہ فورا معصوم مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے انہیں احمدیوں کے خلاف بھڑکاتے ہیں اور اپنے روایتی انداز میں گلے پھاڑ پھاڑ کر مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ قادیانی اللہ اور رسول کی توہین کرنے والے ہیں.سمجھدار مسلمان تو اس چال کو سمجھ جاتے ہیں کہ یہ دیو بندی نہ خود مسلمانوں کی نسل کو تعلیم دیتے ہیں اور نہ برداشت کرتے ہیں کہ یہ پڑھ لکھ کر جہالت کے جنگل سے باہر نکل جائیں چنانچہ وہ ان فساد پھیلانے والے دیوبندی مولویوں سے پوچھتے ہیں کہ اے اسلام کے ہمدرد! اور اے محمد صلعم کے پریمیو!! اُس وقت تم کہاں تھے جب یہاں کی مسجد بے آباد تھی ، اُس میں گندگی پڑی تھی ، ہم اور ہمارے بچے نماز روزے سے غافل اور قرآن مجید سے لاعلم تھے اب جبکہ ہم نے ان احمدیوں کے ذریعہ ہی اسلام کی واقفیت حاصل کی ہے تو تم ان کو کافر اور رسول خُدا کی توہین کرنے والے کہتے ہو.4

Page 8

لیکن بعض جگہوں پر جہاں معصوم مسلمان ان کے بہکاوے میں آجاتے ہیں وہاں مسجد میں پھر بے آباد ہو جاتی ہیں چند دنوں بعد نماز اور قرآن مجید کی تعلیم کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے اس طرح یہ مولوی پھر کسی دوسرے گاؤں کو جہالت کے گڑھے میں دھکیلنے کے لئے نکل پڑتے ہیں.چنانچہ اس لئے مذکورہ حدیث میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ امام مہدی کے زمانہ کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہونگے.فرمایا اسلام نام کا رہ جائیگا اور قرآن مجید کےصرف الفاظ باقی رہ جائیں گے مسجدیں ہدایت سے خالی ہوں گی اور اس کے تمام تر ذمہ دار اس دور کے شر پسند علماء ہوں گے جو اسلام اور قرآن کا نام لے لے کر اور رسولِ خداصلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے جھوٹے دعوے کر کے مسلمانوں میں فتنہ وفساد اور نفرتیں پھیلائیں گے.اس دور کے مسلمانوں کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مسلمان یہود اور نصاری کے نقش قدم پر چل پڑیں گے فرمایا :- لَتَتَّبِعُنَّ سَلَن مَنْ كَانَ قَبْلُكُمْ شَيْرًا بِهِمْرٍ وَذِرَاعًا بِيَدَاعَ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا مُجْرَ ضَتٍ تَبِعْتُمُوهُمْ قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ : الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى ، قَالَ فَمَنْ ؟ (مسلم جلد نمبر ۲ کتاب العلم ومشكوة كتاب الفتن واشراط الساعة ) یعنی اے مسلمانو! تم لوگ پہلی قوموں کے نقش قدم پر چلو گے جس طرح ایک بالشت دوسری بالشت کے مشابہ ہوتی ہے اور ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کے مشابہ ہوتا ہے اسی طرح تم ان کے نقش قدم پر چلو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے بل میں داخل ہوں گے تو تم بھی ایسا ہی کرو گے ( یعنی برے کاموں میں بے عقلی سے ان کی پیروی کرو گے ) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ پہلی قوموں کے طریقوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں فرمایا.اور کون؟ یہی بھید ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے یہودونصاریٰ کے مانند ہو جانے 5

Page 9

پر مسیح موعود کی آمد کی پیشگوئی کی یعنی جس طرح یہود کے بگڑ جانے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیرہ سوسال بعد حضرت عیسی علیہ السلام اصلاح یہود کے لئے تشریف لائے تھے بالکل اسی طرح جب مسلمان مثل یہود کے ہو جائیں گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے تیرہ سو سال بعد اس امت میں بھی مسیح موعود کا وعدہ دیا گیا تھا جس کا دوسرا نام ہمنشا ءحدیث مبارک لا المھند می إلا عیسی امام مہدی بھی ہے.بارھویں صدی ہجری کے مجد د حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر صاف طور پر فرمایا تھا.عَلَّمَنِي رَبِّي جَلَّ جَلالُهُ أَنَّ الْقِيمِةَ قَدْ اقْتَرَبَتْ وَالْمَهْدِئُ تَهَيَّ لِلْخُرُوجِ - ( تفہیمات ربانیہ جلد ۲ صفحه ۱۲۳) یعنی میرے عظمت والے رب نے مجھے بتایا ہے کہ قیامت قریب ہے اور مہدی ظاہر ہونے کو تیار ہے.پس انہی الہی نوشتوں کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام مسیح موعود اور امام مہدی کے منصب پر فائز ہو کر بحکم الہی تشریف لاچکے ہیں اور یہود کے نقش قدم پر چلنے والے علماء اپنے اندر فقیہیوں اور فریسیوں کی کامل مشابہت پیدا کر کے آج ان کی مخالفت کر رہے ہیں اور یہ مخالفت بھی دراصل آپ کی صداقت کی ایک عظیم الشان دلیل ہے بزرگانِ اسلام نے صاف طور پر فرمایا تھا کہ جب امام مہدی مبعوث ہوں گے تو ظاہر پرست علماء ان کی مخالفت کریں گے چنانچہ اشیخ الاکبر حضرت محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں :- وَإِذَا خَرَجَ هَذَا الْإِمَامُ الْمَهْدِيُّ فَلَيْسَ لَهُ عَدُوٌّ مُّبِينٌ إِلَّا الْفُقَهَاءُ خَاصَّةً فَإِنَّهُ لَا يَبْقَى لَهُمْ رِيَاسَةٌ وَلَا تَمِيزُ عَنِ الْعَامَّةِ - (فتوحات مکیہ جلد ۳ صفحه ۳۷۴) کہ جب امام مہدی آئیں گے تو ان کے کھلے دشمن اس زمانے کے علماء وفقہاء ہوں گے کیونکہ 6

Page 10

ان کی سرداری اور تمیز ختم ہو جائے گی.محترم قارئین! آج جبکہ مسلمان گروہ در گروہ ہو کر اپنی طاقت کو کمزور کر چکے ہیں ان کا کوئی ایسا مرکز نہیں جہاں ایک عالمگیر واجب الاطاعت امام ہو جہاں نظام بیت المال ہو جہاں سب مسلمان اپنے جھگڑوں اور اختلافات کو مٹا کر ایک جان اور دل ہو جاتے ہوں ایسا امام جس کی ایک آواز پر سب مسلمان اُٹھتے ہوں اور ایک آواز پر بیٹھ جاتے ہوں ایسا امام جو ان کو اتفاق واتحاد کی تعلیم دیتا ہو، ایسا امام جوان کو قرآن مجید کی سنہری تعلیمات پڑھ پڑھ کر سناتا ہو اور ان پر عمل کرنے کے لئے کہتا ہو ایسا امام جو کسی مسلمان کلمه گوکو کافر نہ کہتا ہو بلکہ سب کو ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونے کے لئے کہتا ہو جو تمام مسلمان بھائیوں کے لئے دن رات فکر مند رہ کر اُنکے لئے اپنے مولیٰ کے حضور میں رو رو کر دعائیں کرتا ہو.تمام دنیا میں نظر اُٹھا کر دیکھئے ایسا امام عالی مقام ایسا امام روحانی سوائے قادیان کی جماعت احمدیہ کے روئے زمین پر آپ کو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا.پیشگوئیوں میں یہ بات بیان کی گئی تھی کہ امام مہدی علیہ السلام جب آئیں گے تو اس وقت مغرب میں رہنے والے اپنے مشرق کے بھائیوں کو اور مشرق کے رہنے والے اپنے مغرب کے بھائیوں کو دیکھ سکیں گے.(النجم الثاقب جلد نمبر اصفحہ (۱) چنانچہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی امام مہدی علیہ السلام کے خلیفہ جب مسلم ٹیلی ویژن احمد یہ عالمگیر سے خطاب فرماتے ہیں تو مشرق والے مغرب میں بیٹھے ہوئے اپنے بھائیوں کو صاف دیکھتے ہیں اور مغرب میں بیٹھے ہوئے اپنے مشرقی بھائیوں کا دیدار کر سکتے ہیں.اسی طرح یہ بھی پیشگوئی تھی کہ جب ان کی بیعت ہو گی تو آسمان سے آواز آئے گی کہ ھذا خليفة الله المهدی فاسمعواله واطیعوا کہ یہ اللہ کا خلیفہ مہدی ہے اس کی آواز سنو اور اس کی اطاعت کرو اور یہ آواز ہر خاص و عام سُنے گا.( قیامت نامه صفحه ۴ مؤلفه رأس المفسرین مولا نا شاہ رفیع الدین مطبع مجتبائی دہلی ) چنانچہ ہر سال عالمی بیعت کے موقع پر جبکہ لاکھوں لوگ حضرت امام مہدی علیہ السلام پر 7

Page 11

ایمان لاتے ہیں آواز بیعت ہر خاص و عام سنتا ہے پس اب تمام دنیا کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس امام کی بیعت کریں جس کے حق میں یہ پیشگوئیاں عین صفائی سے پوری ہوچکی ہیں لیکن بجائے اس کے کہ اس روحانی امام کی قدر کی جاتی جو سب مسلمانوں کا خیر خواہ اور دن رات اُن کی بھلائی کا خواہاں ہے چند کرائے کے مولوی اس امام کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں تا کہ بھولے بھالے مسلمانوں کو لوٹنے کا ان کا گھناؤنا کاروبار جاری رہ سکے.پس اُمت کے بہی خواہ مسلمان بھائیوں سے ہماری دردمندانہ درخواست ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف جھوٹا پرو پیگنڈہ کرنے والے ان دُنیا پرست دیو بندی مولویوں کے جھوٹ سے بچیں اور اس دور میں خدا کی طرف سے آنے والے بچے امام مہدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو شناخت کر کے ان کو قبول کریں اور ان کی بیعت کریں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، جن کی اطاعت وفرمانبرداری ہر مسلمان کا اولین فرض ہے کا فرمان ہے کہ فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَبَايِعُوهُ وَلَوْ حَبُوا عَلَى الثَّلْجِ فَإِنَّهُ خَلِيفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِيُّ (ابوداؤد جلد نمبر ۲ باب خروج المهدی) کہ اے مسلمانو ! جب تمہیں اس کی آمد کا علم ہو جائے تو فورا اس کی بیعت کرو خواہ تمہیں برف پر سے گھٹنوں کے بل جانا پڑے کیونکہ وہ خدا کا خلیفہ مہدی ہے.یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ سالہا سال سے مسلمان دینی تعلیم سے غافل تھے ان کے بچے کلمہ، نماز ، روزہ سے بے خبر تھے جب احمدی مبلغین نے ہندوستان میں تقسیم ملک کے بعد اس کی پہل کی ہزاروں دیہاتوں اور شہروں میں بڑوں اور بچوں کو یہاں تک کہ غیر مسلموں کو بھی کلمہ سکھایا نماز سکھائی اور قرآن مجید پڑھایا جہاں بھی احمدی مبلغین یہ نیک کام شروع کرتے ہیں شیطان کی طرح دینی کام میں روڑا اٹکانے کے لئے یہ دیو بندی مولوی وہاں پہنچ جاتے ہیں اور احمدیوں کو کا فرکا فر کہنا شروع کر دیتے ہیں اگر یہ لوگ اسلام کے سچے خیر خواہ ہیں اگر ان کے 8

Page 12

دلوں میں مسلمانوں کی ہمدردی ہے تو یہ بھی انہیں دینی تعلیم سکھا ئیں قرآن مجید کی تعلیم دیں اگر ان کے دلوں میں غیرت اسلام ہے تو یہ ہندو بن جانے والے یا عیسائیت اختیار کرنے والے لاکھوں مسلمانوں کو دوبارہ اسلام میں لانے کی فکر کریں.آج جماعت احمد یہ جہاں جہاں مسلمان بھائیوں کو دینی تعلیم سکھانے کا انتظام کر رہی ہے وہیں دُنیا بھر میں لاکھوں غیر مسلم اس البی جماعت کے ذریعہ اسلام میں داخل ہو کر کلمہ طیبہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحمد رسُولُ اللہ پڑھ رہے ہیں.پس مسلمان بھائیوں کو چاہئے کہ ان مفاد پرست مولویوں کے چنگل میں پھنسنے کی بجائے گہری نظر سے پہچانیں کہ کون مسلمانوں کا سچا دوست اور کون ان کا دشمن ہے....؟ جیسا کہ ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں کہ جہاں جہاں جماعت احمدیہ مسلمان بھائیوں کو دینی تعلیم دینے ،نماز اور قرآن مجید سکھانے کے لئے کام کر رہی ہے وہاں وہاں پر یہ دیو بندی مولوی پہنچ کر سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قادیانیوں کا کلمہ اور ہے.نعوذ باللہ قادیانی رسول اللہ کی ہتک کرتے ہیں، صحابہ کرام کی ہتک کرتے ہیں، دین اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں ان کا درود شریف اور ہے وغیرہ وغیرہ اور اس جھوٹ کو چھوٹے چھوٹے کتا بچوں کے ذریعہ آجکل خوب پھیلا رہے ہیں چنانچہ حال ہی میں جو کتا بچہ بعنوان ” حضرت محمد صلعم کے پریمی کہاں ہیں دارالعلوم دیو بند کی طرف سے شائع ہوا ہے اس میں اسی طرح کی جھوٹ کی غلاظت بھری پڑی ہے.ان سب جھوٹے اعتراضات کے مقابل پر ہمارا جواب تو بس یہی ہے کہ لَعْنَةُ الله عَلَى الْكَاذِبِین یعنی جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہو.دراصل دیو بندیوں کو ان کے روحانی پیشوا مولوی رشید احمد گنگوہی کی یہ تعلیم ہے کہ احیاء حق کے واسطے جھوٹ بولنا جائز ہے (فتاوی رشیدیہ کامل کتاب الحظر والا باحہ سوال نمبر ۱۱) اس لئے 9

Page 13

اپنے پیشوا کی تعلیم سے مجبور ہوکر یہ لوگ جھوٹ کی غلاظت کھاتے ہیں علاوہ جھوٹ بولنے کے اپنی فطری عادت کی تسکین کے لئے ہمارے مقدس امام کو طرح طرح کی گالیاں بھی نکالتے ہیں اور احمدیوں کو نعوذ باللہ من ذالک کا فر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والے اور اپنے منہ میاں مٹھو بن کر خود کو بڑھ چڑھ کر عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم بتاتے ہیں لیکن ابھی ہم اس مضمون میں ان کے عشق کی قلعی کھولیں گے اور بتائیں گے کہ دراصل جماعت احمدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک نہیں کرتی بلکہ دیو بندی ہیں جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور کلمہ طیبہ کی توہین کرتے ہیں.دیو بندی ہیں جو صحابہ کرام اور اہل بیت کی شانِ اقدس میں گالیاں نکالتے ہیں.یہ دیو بندی ہیں جو گنگوہ کو روضہ شریف سے افضل بتاتے ہیں قرآن مجید کے متعلق غلیظ غلیظ فتوے شائع کرتے ہیں.ہم ان کی گالیوں کے باوجود عرصہ سے خاموش تھے لیکن جب ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ اب نہ صرف معصوم مسلمانوں بلکہ ان کی اگلی نسل کے بھی دشمن بن چکے ہیں جو نہ تو خود مسلمانوں کو دینی تعلیم دیتے ہیں اور نہ یہ برداشت کرتے ہیں کہ کوئی ان کو دینی تعلیم دے تاکہ ان کی کمائی کا وہ کاروبار جو جہالت میں خوب پھلتا پھولتا ہے اپنے تمام تر دھو کے اور فریب کے ساتھ چلتا رہے اور وہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل کے مسلمانوں کو ان پڑھ اور بے علم رکھ کر اچھی طرح لوٹتے رہیں.تو اب ہم بھی ان کے عشق اسلام کا بھانڈا پیچ بازار میں پھوڑنے جار ہے ہیں لیکن پہلے ہم جماعت احمدیہ کے وہ عقائد بیان کرتے ہیں جو سید نا حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائے ہیں آپ فرماتے ہیں:.”ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا الله محمد رسُولُ اللہ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گزراں سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت 10

Page 14

سیدنا ومولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعے سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہوسکتا اور نہ کم ہوسکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہوسکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کی تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزد یک جماعت مؤمنین سے خارج اور ملحد اور کافر ہے.اور ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنی درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ راہ راست کے اعلیٰ مدارج بجز اقتداء اس امام الرسل کے حاصل ہوسکیں کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز کچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے ہمیں جو کچھ ملتا ہے لی اور طفیلی طور پر ملتا ہے“.(ازالہ اوہام حصہ اوّل صفحہ ۱۳۷ طبع اول ، روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحه ۱۷۰،۱۶۹) اسی طرح آپ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:.جن پانچ چیزوں پر اسلام کی بنیاد رکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے اور جس خدا کے کلام کو پنجہ مارناحکم ہے ہم اس کو پنجہ مار رہے ہیں اور فاروق ( یعنی حضرت فاروق) رضی اللہ عنہ کی طرح ہماری زبان پر حسبنا کتاب اللہ ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح اختلاف اور تناقض کے وقت جب حدیث اور قرآن میں پیدا ہو قرآن کو ہم ترجیح دیتے ہیں اور ہم اس بات پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا 11

Page 15

کوئی معبود نہیں اور سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجسادحق اور روز حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالاحق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا ایک ذرہ زیادہ کرے یا ترک فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لا إلَهَ إِلَّا اللهُ مُحمد رسُول اللہ اور اسی پر مریں اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ان سب پر ایمان لاویں اور صوم اور صلوٰۃ اور زکوۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کار بند ہوں غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالحین کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ اُمور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں اُن سب کا ماننا فرض ہے اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے اور جو شخص مخالف اس مذہب کے کوئی اور الزام ہم پر لگاتا ہے وہ تقولی اور دیانت کو چھوڑ کر ہم پر افتراء کرتا ہے اور قیامت میں ہمارا اس پر یہ دعوی ہے کہ کب اس نے ہمارا سینہ چاک کر کے دیکھا کہ ہم باوجود ہمارے اس قول کے دل سے ان اقوال کے مخالف ہیں الا ان لعنة الله على الكاذبين و المفترین (ایام الصلح صفحه ۸۷،۶) بائی جماعت احمدیہ کی مذکورہ تحریرات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ احمدیوں کا کلمہ 55 12

Page 16

إلهَ إِلَّا الله مُحمد رسُول اللہ ہے اور دیو بندی لوگ جھوٹے طور پر ہماری طرف یہ بات منسوب کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ احمدی کلمہ طیبہ لَا إِلَهَ إِلَّا الله محمدرَّ سُول اللہ کی خاطر پاکستان میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں پاکستان کے فوجی حکمران ضیاء الحق نے احمدیوں پر کلمہ طیبہ پڑھنے کی پابندی لگا دی ہوئی ہے چنانچہ آج تک احمدی پاکستان میں کلمہ نہیں پڑھ سکتے اگر احمدیوں کا کلمہ کوئی اور تھا تو پھر کلمہ پڑھنے پر پابندی کیوں لگائی ادھر احمد یوں کی حالت یہ ہے کہ وہ باوجود منع کرنے کے پھر بھی کلمہ طیبہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ پڑھنے سے باز نہیں آتے.انہیں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے جانا منظور ہے، کال کوٹھریوں میں مصیبتوں کی زندگی گزارنا قبول ہے لیکن وہ حضرت بلال کی طرح کلمہ طیبہ سے اپنے آپ کو ہر گز جدا نہیں کر سکتے.اگر یہ دیو بندی خدائی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ احمدی بے شک اپنی کتابوں میں لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدد سُولُ اللہ لکھتے ہیں بظاہر بولتے بھی ہیں لیکن دل میں بجائے محمد رسول اللہ کے احمد رسول اللہ بولتے ہیں تو ہمارا جواب خدائی کے ان دعویداروں سے یہ ہے کہ فتوی تو ہمیشہ کسی زبان کے اقرار پر لگایا جاتا ہے.دل کی حالت پر نہیں کیونکہ دل کی بات صرف علیم و خبیر خدا ہی جانتا ہے.یہاں تک کہ سردار دو جہاں حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیشہ ظاہر پر فتوی دیا ہے.ایک جنگ کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت اُسامہ بن زید نے ایک کافر پر تلوار اُٹھائی اور اس نے بلند آواز سے کہا لا اله الا الله حضرت اُسامہ نے اس شخص کو اس لئے قتل کر دیا کہ ان کے خیال میں وہ کلمہ توحید کا اعلان دل سے نہیں کر رہا تھا بلکہ صرف جان بچانے کے لئے ایسا کر رہا تھا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپ کا چہرہ مبارک سُرخ ہو گیا اور حضرت اُسامہ کو مخاطب کر کے بار بار فرمایا ”آفلا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمَ أَقَالَهَا أم لا“ (صحیح مسلم کتاب الایمان ) کہ اے 13

Page 17

اُسامہ! کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ وہ دل سے کلمہ پڑھ رہا تھا یا نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے واضح ہے کہ کسی شخص کو کسی کے بارے میں یہ کہنے کا حق حاصل نہیں کہ وہ جس بات کا زبان سے قائل ہے دل سے اس کا قائل نہیں اور جو شخص ایسا کرے وہ خواہ کتنا ہی پیارا صحابی کیوں نہ ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر شدید ناراض ہوئے تھے چنانچہ حضرت اسامہ بیان کرتے ہیں کہ اس طرح شدید ناراضگی کے عالم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کر کے یہ فقرہ اتنی بار دہرایا کہ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں آج سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا اور اس طرح مجھے آپ کی ناراضگی نہ دیکھنی پڑتی.حضرت امام سیوطی علیہ الرحمۃ کی کتاب "الخصائص الکبری جلد نمبر ۲ صفحہ ۷۸،۷۷ ناشر مکتبہ نوریہ رضویہ لائلپور باب ” معجزته فيمن مات ولم تقبلہ الارض “ میں درج یہ واقعہ بھی قابل غور ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک جنگ میں ایک مسلمان ایک مشرک پر غالب آ گیا جب مسلمان نے اسے تلوار سے قتل کرنا چاہا تو اس نے فوراً لاالہ الا اللہ پڑھ دیا لیکن وہ مسلمان پھر بھی باز نہیں آیا اور اُسے قتل کر دیا پھر اس مسلمان قاتل کے دل میں خلش پیدا ہوئی تو اس نے ساری بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کر دی جس پر آپ نے فرمایا کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا جب وہ مسلمان قاتل فوت ہو گیا تو اس کی تدفین کے بعد اگلے دن دیکھا گیا کہ اُس کی لاش قبر سے باہر پڑی ہے اس کے ورثاء نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی آپ نے فرمایا اسے دوبارہ دفن کر دو پھر دوبارہ دفن کر دیا گیا تو اگلے دن پھر یہی ماجرا ہوا اُسے تیسری بار دفن کیا گیا تو پھر زمین نے اس کی لاش باہر پھینک دی تب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کلمہ پڑھنے والے کو قتل کرنے والے کی لاش کو قبول کرنے سے زمین نے بھی انکار کر دیا ہے اس لئے اسے غار میں پھینک دو پھر 14

Page 18

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یاز مین اس سے بھی برے اشخاص کو قبول کر لیتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو تمہارے لئے عبرت کا نشان بنانے کے لئے ایسا کیا تا آئندہ تم میں سے کوئی شخص کسی کلمہ پڑھنے والے یا اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے شخص کو قتل نہ کرے.اگر باوجود ایسے عبرتناک واقعات کے دیو بندی پھر بھی احمدیوں کو یہ کہتے ہیں کہ زبان سے احمدی کوئی اور کلمہ پڑھتے ہیں لیکن دل میں ان کا کوئی اور کلمہ ہے تو پھر اب ہم بتاتے ہیں خدائی کے ان دعویداروں کا اصل کلمہ اور اصل درود شریف کیا ہے.دیو بندیوں کا کلمہ اور درود دیو بندی فرقہ کے قابل احترام بزرگ مولوی اشرف علی تھانوی کو اُن کے ایک مرید نے لکھا کہ :- وو کچھ عرصہ ہوا خواب دیکھتا ہوں کہ کلمہ شریف لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله پڑھتا ہوں مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کی جگہ حضور ( مولوی اشرف علی تھانوی ) کا نام لیتا ہوں اتنے میں دل کے اندر خیال پیدا ہوا کہ مجھ سے غلطی ہوئی کلمہ شریف کے پڑھنے میں اس کو صحیح پڑھنا چاہئے اسی خیال سے دوبارہ کلمہ شریف پڑھتا ہوں لیکن زبان سے بے ساختہ بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشرف علی نکل جاتا ہے.کلمہ شریف کی غلطی کے تدارک میں رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شرف پڑھتا ہوں لیکن پھر یہی کہتا ہوں "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى سَيْد نا ونبينا مولانا اشرف على اس خواب کی تعبیر کرتے ہوئے مولوی اشرف علی صاحب تھانوی نے اپنے اس مرید کو یہ نہیں فرمایا کہ کلمہ شریف پڑھتے ہوئے اشرف علی رسول اللہ پڑھنا لعنتیوں کا کام ہے اور یہ شیطانی خواب ہے بلکہ فرمایا کہ یہ خواب بالکل ٹھیک ہے.15

Page 19

دیکھو رساله الامداد ماه صفر ۱۳۳۶ هجری صفحه ۳۵ مطبوعہ تھانہ بھون ) اشرف علی رسول اللہ کے ساتھ ساتھ اپنے دیگر بزرگوں کے کلمے بنانا بھی دیو بندیوں کی ایک عادت اور ان کے دین کا حصہ ہے.چنانچہ اسی طرح ایک مقام پر گنگوہی صاحب کا بھی کلمہ لکھا ہے ملاحظہ فرمائیے! کس شان سے دیو بندی گنگوہی صاحب کو رسول اللہ کہتے ہیں.دد بعض بزرگوں کی بعض مواقع ضرورت پر عادت ہوتی ہے کہ طالب کی ارادت اور اعتقاد کا اس طریق پر امتحان کرتے ہیں کہ کوئی قول یا فعل ایسا کہتے اور کرتے ہیں جس کا ظاہر باطن کے خلاف ہوتا ہے یعنی واقع میں تو شریعت کے موافق ہوتا ہے اور ظاہر میں خلاف ہوتا ہے جیسا شیخ.صادق گنگوہی نے ایک طالب کے سامنے کہہ دیا.لا الہ الا اللہ صادق رسول اللہ.“ شریعت وطریقت مولانا اشرف علی تھانوی مرکزی اداره تبلیغ دینیات جامع مسجد دہلی صفحه ۴۲۵ دوسرا ایڈیشن مطبوعہ اپریل ۱۹۸۱) کتا بچہ محمد صلعم کے پریمی کہاں ہیں ؟“ میں دوسرا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے ہیں (نعوذ بالله من هذه الخرافات ) اور اس بات کو سچا ثابت کرنے کے لئے ” الفضل قادیان ۱۷ جولائی ۱۹۲۲ء سے ایک من گھڑت اور بناوٹی حوالہ اپنی طرف سے بنا کر درج کیا گیا ہے جس میں لکھا ہے کہ: یہ بالکل ٹھیک ہے ہر ایک شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پاسکتا ہے یہاں تک کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ سکتا ہے.(اخبارالفضل قادیان ۱۷ جولائی ۱۹۲۲ء) حقیقت یہ ہے کہ یہ حوالہ بالکل جھوٹ ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ دیو بندی 16

Page 20

مولوی یہودیوں کی طرز پر تحریف کر کے اصل بات کو چھپاتے ہیں اور اپنے پیرومرشد مولوی رشید احمد گنگوہی کے فتوے کے مطابق احیاء حق کے لئے جھوٹ بول رہے ہیں.ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی خدمت میں نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں کہ جو عبارت الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۲۲ء کے حوالے سے درج کر کے انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ایسی کوئی عبارت مذکورہ اخبار میں نہیں ہے.یہ دیو بندیوں کا دجل اور کھلا کھلا جھوٹ ہے.ہمارا چیلنج ہے کہ ایسی کوئی عبارت الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۲۲ میں نظر نہیں آئے گی.اس موقع پر ہم مذکورہ الفضل کی اصل عبارت لکھتے ہیں.محترم قارئین خود جھوٹ سچ کا فیصلہ کر لیں.یہ حوالہ در اصل حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی امام مہدی ومسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد اصلح الموعود کا ہے آپ فرماتے ہیں:.ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کسی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھنے سے نہیں روکا اگر کسی شخص میں ہمت ہے تو بڑھ جائے مگر وہ بڑھے گا نہیں کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قربانی دی ہے کوئی وہ قربانی دے نہیں سکتا پھر فرماتے ہیں :- (الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۲۲) کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا اور نہ قیامت تک کوئی ایسا بچہ جن سکتی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ سکے.“ (خطبه جمعه فرموده حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمدخلیفه ای اشان فرموده ا فروری ۱۹۳۲ء) یہ دیو بندی مولوی تو کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ جماعت احمد یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین کرتی ہے اور ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ اس دور میں اگر کوئی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق صادق ہے تو وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی امام مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام ہیں.آپ 17

Page 21

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مخمور ہو کر فرماتے ہیں بعد از خدا بعشق محمد مخترم گر گفر ایں بود بخدا سخت کافرم یہ آپ کا فارسی شعر ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ میں اللہ کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مدہوش ہوں اگر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کرنا کفر ہے تو میں سب سے بڑا کافر ہوں.اسی طرح آپ فرماتے ہیں:.”اے تمام وہ لوگو! جو زمین پر رہتے ہو اور اے تمام وہ انسانی روحو جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی رُوحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی روحانی زندگی اور پاک جلال کا ہمیں یہ ثبوت ملا ہے کہ اس کی پیروی اور محبت سے ہم روح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں.“ تریاق القلوب صفحه ۵-۷ ۱۹۰۲) (۳) 18

Page 22

کتا بچہ محمد صلعم کے پریمی کہاں ہیں ؟“ میں یہ جھوٹ بھی لکھا ہے کہ قادیانیوں کا درود مسلمانوں کے مروجہ درود سے الگ ہے اس موقعہ پر ہم خدا کو حاضر ناظر جان کر وہ درود لکھتے ہیں جو احمدی لوگ اپنی نمازوں میں پڑھتے ہیں.وہ درود یہ ہے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - اس درود کے متعلق حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں وو : درود شریف کے طفیل اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر ان کی کئی لا انتہا نالیاں ہو جاتی ہیں اور بقد رحصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں.“ فرماتے ہیں:.درود شریف کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس عرش کو حرکت دینا ہے جس سے ی ٹور کی نالیاں نکلتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھے تاکہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو.“ (اخبار الحکم ۲۸ فروری ۱۹۰۳، صفحہ ۷) یہ تو ہے بانی جماعت احمدیہ کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم لیکن دیو بندی جو عشق رسول کے دعویدار ہیں ان کے عشق رسول کی حقیقت سنئے دیو بندیوں کے نزدیک مولوی رشید احمد گنگوہی بانی اسلام کے ثانی تھے اس طرح انہوں نے گنگوہی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر لا کھڑا کیا ہے ”شیخ الہند مولانا محمود حسن خلیفہ برحق مولوی رشید احمد گنگوہی گنگوہی صاحب کی 19

Page 23

وفات پران کا مرثیہ لکھتے ہوئے یوں گل افشانی کرتے ہیں زباں پر اہل اہواء کی ہے کیوں اُعل ہبل شاید اُٹھا عالم سے کوئی بانی اسلام کا ثانی مرثیہ صفحہ ۶ مطبوعہ مطبع بلالی ساڈھورہ ضلع انبالہ ) یہ ہے دیو بندیوں کا عشق رسول کہ رشید احمد گنگوہی کو بانی اسلام کا ثانی “ کہتے ہیں.اسی طرح شیخ محمود حسن اس قصیدہ میں مزید لکھتے ہیں.وفات سرور عالم کا نقشہ آپ کی رحلت تھی ہستی گر نظیر ہستی محبوب سبحانی (مرثیہ صفحہ ۱۱) مذکورہ شعر میں مولوی رشید احمد گنگوہی کی وفات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات قرار دیا ہے اور صاف لکھا ہے کہ مولوی رشید احمد گنگوہی کی وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا نقشہ کھینچتی ہے گویا رشید احمد صاحب گنگوہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہو گئے اور اس وقت موجود ان کے ساتھی رشید احمد گنگوہی کے صحابہ ہو گئے.اسی اعتبار سے محمودحسن صاحب نے اپنے آپ کو حضرت ابوبکر کے مقابل پر کھڑا کرتے ہوئے خود کو رشید احمد گنگوہی کا خلیفہ برحق“ لکھا.چنانچہ مرثیہ کے ٹائیٹل پیج پر جہاں محمود حسن صاحب کا نام درج ہے لکھا ہے.”مرثیہ چکید ، قلم فیض رقم علامہ فروع واصول جامع معقول و منقول حضرت مولنا محمود حسن صاحب خلیفه برحق حضرت مولنا رحمتہ اللہ علیہ.یہی وجہ ہے کہ محمد حسن صاحب گنگوہ کو کعبہ سے بھی افضل سمجھتے ہیں لکھتے ہیں 20 20

Page 24

پھریں تھے کعبہ میں بھی پوچھتے گنگوہ کا رستہ جو رکھتے اپنے سینوں میں تھے ذوق وشوق عرفانی (مرثیه صفحه ۱۳) یہ الفاظ نہایت خطرناک ہیں جو کعبہ کی اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت تو ہین کرتے ہیں سب دنیا کے مسلمان جانتے ہیں کہ مکہ مکرمہ سے سب دُنیا کی بستیاں برکتیں حاصل کرتی ہیں کیونکہ مکہ وہ مقدس بستی ہے جو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کو چوما کرتی تھی.مذکورہ دیوبندی مولانا خلیفہ برحق مولوی رشید احمد گنگوہی کے نزدیک اہل ایمان کو اس وقت تک چین نہیں آسکتا جب تک کعبہ میں بھی گنگوہ کا رستہ نہ پوچھ لیں گو یا اصل قبلہ تو گنگوہ ہے جس کی طرف مکہ اور بیت اللہ کو بھی جانے کا رستہ پوچھنا چاہئے ( واہ ! کیا خوب ہے دیو بندی ایمان) مزید سنئے !دیوبندی بزرگ حاجی امداداللہ مہاجر مکی نے تو یہاں تک فرمایا ہے.یہ فقیر جہاں رہے گا وہیں مکہ اور مدینہ اور روضہ ہے“ (خیر الافادات ملفوظات مولانا اشرف علی تھانوی ناشر ادارہ اسلامیات لاہور اگست ۱۹۸۲ء) واہ رے دیو بندیو! تمہارے عشق رسول کے دعوے ! تم نے عشق رسول کے ساتھ ساتھ مکہ مدینہ اور روضہ شریف سے بھی خوب عشق کیا ہے.اب ہم پوچھتے ہیں کہاں ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق جو ان عشاق رسول سے پوچھیں کہ عشق محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر تم نے کیسے کیسے گل کھلائے ہیں اور تمہیں پوچھنے والا کوئی نہیں اور اس پر بھی تم عشق رسول کا دم بھرتے ہو دراصل انہی باتوں کو عام مسلمان بھائیوں سے چھپانے کے لئے یہ لوگ خود کو تو عشاق رسُول اور دوسروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والے بتاتے ہیں.21 21

Page 25

ایک اعتراض مذکورہ کتابچہ میں یہ کیا گیا ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ : "حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی اشاعت پوری نہیں ہو سکی میں نے اس کو پورا کیا ہے.“ ( حاشیہ تحفہ گولڑ و یه صفحه ۱۶۴ مرزا قادیان) اس حوالہ کو بھی اس کے سیاق و سباق سے الگ کر کے توڑ مروڑ کر دیو بندی عادت کے مطابق پیش کیا گیا ہے.اصل میں دیوبندیوں کی رگ رگ میں اپنے رُوحانی امام کی نصیحت کہ احیائے حق کے لئے جھوٹ بولنا جائز ہے اچھی طرح رچ بس گئی ہے اسی لئے یہ ہر وقت جھوٹ بولتے اور دھوکہ اور فریب کے مُردار پر منہ مارنے کے لئے تیار بیٹھے رہتے ہیں.ذیل میں ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصل عبارت پیش کر کے فیصلہ اپنے محترم قارئین کی خدمت میں چھوڑتے ہیں.آپ فرماتے ہیں : چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا فرض منصبی جو تکمیل اشاعت ہدایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بوجہ عدم وسائل اشاعت غیر ممکن تھا اس لئے قرآن شریف کی آیت و آخر مان من ام ای میل خوب م میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدثانی کا وعدہ دیا گیا ہے اس وعدہ کی ضرورت اس وجہ سے پیدا ہوئی تا دوسرا فرض منصبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یعنی تحمیل اشاعت ہدایت جو آپ کے ہاتھ سے پورا ہونا چاہئے تھا اس وقت باعث عدم وسائل پورا نہیں ہوا.سو اس فرض کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آمد ثانی سے جو بیرونی رنگ میں تھی ایسے زمانہ میں پورا کیا جبکہ زمین کی تمام قوموں تک اسلام پہنچانے کے 22 22

Page 26

لئے وسائل پیدا ہو گئے تھے ،لے (تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۷۷، روحانی خزائن جلد نمبر ۱۷ صفحه ۲۶۳) اصل حقیقت پیش کرنے کے بعد اب ہم عرض کرتے ہیں کہ دیوبندی نے یہ اعتراض تو کر دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی اشاعت مکمل نہیں ہوئی لیکن وہ اپنے پیر ومرشد گنگوہی صاحب کی یہ عبارت کیسے بھول گیا جس میں گنگوہی صاحب لکھتے ہیں کہ حق صرف وہی ہے جو گنگوہی کی زبان سے نکلتا ہے اور نجات اس دور میں صرف گنگوہی کی پیروی سے مل سکتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ اس عبارت میں کہیں ذکر نہیں کرتے چنانچہ ہم وہ عبارت ذیل میں درج کرتے ہیں لکھتے ہیں : ئن لو ! حق وہی ہے جو رشید احمد کی زبان سے نکلتا ہے اور بقسم کہتا ہوں کہ میں کچھ نہیں ہوں مگر اس زمانہ میں ہدایت و نجات موقوف ہے میری اتباع پر “ تذكرة الرشيد جلد نمبر ۲ صفحہ ۱۷ مؤلفہ عاشق الہی میرٹھی) لیجئے مع حوالہ مکمل عبارت پیش ہے.انصاف پسند اب خود ہی غور فرمالیں کہ کیا اس دور میں نجات مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی پیروی سے ملتی ہے یا اب بھی نجات کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی لازم ہے کیا یہ دیو بندیوں کی سراسر تو ہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے.اس کے مقابلہ پر سنئے حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کیا فرماتے ہیں.میری روح بول اُٹھی کہ نجات کی یہی راہ ہے اور گناہ پر غالب آنے کا یہی طریق ہے حقیقت تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم حقیقت پر قدم ماریں فرضی تجویزیں اور خیالی حاشیہ لے جیسا کہ مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کے ذریعہ سے آج دنیا کے کونے کونے میں امام مہدی علیہ السلام کی جماعت تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے.23 23

Page 27

منصوبے ہمیں کام نہیں دے سکتے ہم اس بات کے گواہ ہیں اور تمام دنیا کے سامنے اس شہادت کو ادا کرتے ہیں کہ ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا ہے ہم نے اس خدا کی آواز سُنی اور اس کے پرزور بازو کے نشان دیکھے جس نے قرآن کو بھیجا سو ہم بصیرت کی راہ سے اس دین اور اس روشنی کی طرف ہر ایک کو بلاتے ہیں.“ پھر فرماتے ہیں :- ( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر ۵) ”نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خُد اسچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہیں اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی رسول ہے اور نه قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے.“ (۵) (کشتی نوح بحوالہ ہماری تعلیم صفحه ۹) ایک اعتراض کتابچہ محمد صلم کے پریمی کہاں ہیں ؟“ میں یہ کیا گیا ہے کہ گو یا حضرت بانی سلسله احمدیه امام مهدی و مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ : - حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے جبکہ مشہور تھا کہ اس میں سور کی چربی ملی ہوئی ہوتی تھی.“ مکتوبات مرزا قادیان اخبار الفضل ۲۲ فروری ۱۹۳۴ء) مذکورہ اعتراض میں اصل مفہوم سے ہٹ کر بات کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور مقصد صرف یہ ہے کہ یہ دولائنیں لکھ کر نعوذ باللہ من ذالک یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسا لکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت توہین کی ہے.24 24

Page 28

حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک لمبے خط کی چھوٹی سی عبارت ہے جب تک تمام خط نہ پڑھا جائے یہ عبارت حل نہیں ہو سکتی.اب ہم بتاتے ہیں کہ دیو بندی نے صرف اور صرف اشتعال دلانے کے لئے جھوٹ بولا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جولکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی حلال چیز کو محض شک کی بناء پر حرام قرار نہیں دیا جاسکتا.بعض باتیں بعض قوموں کو مد نظر رکھ کر مشہور ہو جاتی ہیں مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایک قسم کے پنیر کے متعلق یہ مشہور تھا کہ چونکہ اسے عیسائی بناتے ہیں اس لئے ضرور اس میں سور کی چربی ملاتے ہوں گے حالانکہ یہ بات غلط تھی اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پنیر کوخود کھا کر یہ ثابت فرما دیا کہ سنی سنائی بات پر عمل ضروری نہیں.چنانچہ حضرت شیخ زین الدین بن عبد العزیز اپنی کتاب فتح المعین شرح قرة العین میں زیر عنوان باب الصلوۃ مطبوعہ مصر مؤلفہ ۹۸۲ھ میں لکھتے ہیں وَجُوخٌ إشتهر عَمَلُهُ بلحم الخنزير وَجُبْن شَامِي اشتهر عمله بالفحه الخنزير وقد جَاءَ ہ صلی اللہ علیہ وسلم جبنه من عندهم وَلَمْ يَسئل عن ذلك ذكره شيخنا فى المنهاج ترجمہ: اور جوخ جو مشہور ہے بنانا اس کا ساتھ چربی سؤر کے اور پنیر شام کا جو مشہور ہے بنانا اس کا ساتھ پنیر مائع سؤر کے اور آیا جناب سرور علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس پنیر ان کے پاس سے پس کھا یا آنحضرت نے اس سے اور نہ پوچھا اس سے ( یعنی اس کی بابت ).‘“ مذکورہ ترجمه رسالہ اظہار الحق درباره جواز طعام اہل کتاب سے لیا گیا ہے جو ۱۸۷۵ء میں مذکورہ بالا حدیث کی بنیاد پر ہوشیار پور کے قائمقام اکسٹر اسسٹنٹ کمشنر جناب خان احمد شاہ صاحب نے شائع کیا اس رسالہ یا فتویٰ پر شیخ الکل مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی اور کئی دیگر علماء غیر مقلدین کی مہریں ثبت ہیں.25 25

Page 29

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو گزشتہ حوالوں کی بناء پر نہ کہ اپنی طرف سے ایک بات بیان فرمائی ہے کہ صرف شک کی بناء پر کسی حلال چیز کو حرام نہیں قرار دیا جاسکتا (1) مذکورہ کتاب میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ امام مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام پر ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا ہے کہ آپ نے نعوذ باللہ روضہ مبارکہ کی توہین کی ہے رسالہ مذکورہ لکھتا ہے.اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چھپنے کے لئے ایک ایسا نیچ استھان دیا جو بد بودار تنگ و تاریک ( اندھیرا) پشوؤں کے لگنے موتنے کا تھا“.( خزائن جلد نمبر ۱۷ صفحه ۲۰۵) یہ حوالہ سراسر بناوٹی ہے ایسا کوئی حوالہ حضور علیہ السلام کی کسی کتاب میں نہیں ہے.دراصل حضور علیہ السلام نے اس جگہ روضہ مبارکہ کا نہیں بلکہ غار ثور کا ذکر فرمایا ہے جس میں ہجرت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر چھپے تھے.ہم ذیل میں اصل حوالہ لکھ دیتے ہیں قارئین خود ہی اصل حقیقت معلوم فرمالیں اس سے صاف اندازہ ہو جائے گا کہ دیو بندی صرف اشتعال پھیلانے کے لئے ایسے حوالے توڑ مروڑ کر اور جھوٹے رنگ میں لکھتے ہیں ان کے جھوٹ کی قلعی تو خودان کے دئے گئے حوالوں سے بھی گھل جاتی ہے جہاں لکھا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چھپنے کے لئے اب ظاہر ہے کہ آپ روضہ شریف میں چھپے ہوئے نہیں تھے بلکہ دشمنوں کی بڑی تدبیر سے بچنے کے لئے غار ثور میں چھپے تھے.دراصل چورا اپنی چوری کے کہیں نہ کہیں قدم چھوڑ ہی جاتا ہے جس سے وہ پکڑا جاتا ہے اگر دیوبندی نے حوالہ کو توڑ مروڑا تھا تو اس میں سے چھپنے کا لفظ بھی نکال دیتا تو جھوٹ مکمل ہو جاتا.اصل حوالہ یوں ہے.26 26

Page 30

ہم بار بالکھ چکے ہیں کہ حضرت مسیح کو اتنی بڑی خصوصیت آسمان پر زندہ چڑھنے اور اتنی مدت تک زندہ رہنے اور پھر دوبارہ اُترنے کی جو دی گئی ہے اس کے ہر پہلو سے ہمارے بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کا ایک بڑا تعلق جس کا کوئی حد و حساب نہیں حضرت مسیح سے ہی ثابت ہوتا ہے مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سو برس تک بھی عمر نہیں پہنچی مگر حضرت مسیح اب تک دو ہزار برس سے زندہ موجود ہیں اور خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ( غار ثور میں چھپانے کے لئے ایک ایسی ذلیل جگہ تجویز کی جو نہایت متعفن اور تنگ اور تاریک اور حشرات الارض کی نجاست کی جگہ تھی مگر حضرت مسیح کو آسمان پر جو بہشت کی جگہ اور فرشتوں کی ہمسائیگی کا سکان ہے بلا لیا اب بتلاؤ محبت کس سے زیادہ کی ؟ عزت کس کو زیادہ کی ؟ قرب کا مکان کس کو دیا؟ اور پھر دوبارہ آنے کا شرف کس کو بخشا ؟“ ( حاشیہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۱۹ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۷ صفحه ۲۰۵) ہم نے اصل حوالہ کے ساتھ عبارت لکھ دی ہے دیو بندی نے حوالہ تو ٹھیک لکھا تھا لیکن یہودیوں کی طرح تحریف کرتے ہوئے عبارت تو ڑ مروڑ کرلکھی ہے.اب اے دیو بند یو! سچ بتاؤ کہ اس عبارت میں روضہ مبارک کی تو ہین کا ذکر کہاں ہے.حضور تو سمجھا رہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اُٹھانے کا عقیدہ رکھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت تو ہین ہے.یہ دیو بندی تو خود روضے کی توہین کرنے والے ہیں یہ بھلا روضے کی کیا عزت کریں گے ہم ابھی اوپر ایک حوالہ درج کر آئے ہیں جس میں دیو بندی بزرگ لکھتے ہیں کہ میں جہاں رہوں وہیں روضہ ہے اب حقیقت یہ ہے کہ یہ دیو بندی بزرگ اپنی زندگی میں پتہ نہیں کس کس حالت میں ہوتے تھے اور کیا ان کی زندگی کی تمام حالتوں کو روضہ مبارک سے تشبیہ دی جاسکتی ہے قارئین خود ہی گہری نظر سے سوچ لیں؟ اسی طرح ہم اس سے قبل یہ بھی تحریر کر آئے ہیں کہ دراصل دیو بندی کے نزدیک تو روضہ 27

Page 31

مبارک کی گنگوہ کے مقابلہ میں کچھ بھی حیثیت نہیں چنانچہ محمود حسن صاحب خلیفہ برحق مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کا وہ مرثیہ جو انہوں نے ” خاتم الاولیاء “مولوی رشید احمد گنگوہی کی وفات پر لکھا ہے اس میں صاف تحریر ہے کہ خود کعبہ شریف بھی گنگوہ کا راستہ پوچھنے کے لئے بے تاب ہے یہ دیو بندی جو خود کعبہ کی سخت توہین کرنے والے ہیں دوسروں کی نظروں سے اپنی کارستانیوں کو چھپانے کے لئے بلا وجہ معصوم لوگوں پر الزام وا تہام لگاتے ہیں.—(2) مذکورہ کتاب میں ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا ہے کہ گو یا حضرت مرزا صاحب نے یہ لکھا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوکئی الہام سمجھ میں نہیں آئے آپ کی کتاب ازالہ اوہام کی طرف منسوب کر کے نہایت جھوٹا حوالہ درج کیا گیا ہے کہ.و نبی سے کئی غلطیاں ہوئی کئی الہام سمجھ میں نہیں آئے.“ (ازالہ اوہام صفحہ ۱۳۶۳) ہمارا دعویٰ ہے کہ ازالہ اوہام میں کہیں بھی یہ عبارت نظر نہیں آئے گی یہ دیو بندیوں کے جھوٹ سے پیار کرنے کا واضح ثبوت ہے.ازالہ اوہام تو ۶۳ ۱۳ صفحے کی کتاب ہے ہی نہیں اس کتاب کے تو ۵۳۶ صفحے ہیں.-(^)- اسی طرح مذکورہ کتابچہ میں لکھا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ.قرآن شریف میں گندی گالیاں لکھی ہیں اور قرآن عظیم سخت زبانی کے طریقے استعمال کر رہا ہے.“ (ازالہ اوہام) 28 828

Page 32

یہ بھی اپنی طرف سے بنا کر جھوٹا حوالہ درج کیا گیا ہے ازالہ اوہام کا حوالہ بغیر صفحہ نمبر درج کئے دیا گیا ہے تاکہ جھوٹ گھل نہ سکے لیکن ہم دعوی سے کہتے ہیں کہ ازالہ اوہام میں کہیں پر بھی مذکور عبارت نہیں لکھی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو یہ فرمایا ہے کہ قرآن مجید نے بعض مواقع پر کفار کے لئے جو سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں جیسے ان کے معبودوں کو حصب جھتم “ (جہنم کا ایندھن ) اور کفار کے لئے شر البريه “ یعنی بدترین مخلوق کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں عین موقع اور محل کے مطابق حقیقت الا مر کے طور پر استعمال ہوئے ہیں نہ کہ یہ گالیاں ہیں.دیو بندیوں نے جھوٹے طور پر ان کو گالیاں بنالیا ہے.ہیں جہاں تک قرآن مجید کی محبت و عزت کا سوال ہے تو حضرت بانی جماعت احمد یہ فرماتے دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآن کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے اسی طرح فرماتے ہیں :- تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے جولوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کے لئے رُوئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن.(کشتی نوح) یہ تو حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے قرآن مجید کے متعلق پاکیزہ خیالات ہیں جن کی نصیحت آپ اپنی جماعت کو فرما رہے ہیں لیکن اب دیو بندیوں کے خیالات بھی قرآن مجید کے متعلق سنئے جن کی نصیحت یہ ایک دوسرے کو کرتے ہیں.دیو بندیوں کا عقیدہ ہے کہ بحالت خواب قرآن پر پیشاب کرنا اچھا ہے.(نعوذ باللہ اللہ بچائے دیو بندیوں کے اس عقیدے سے.) 29 29

Page 33

ایک شخص نے کہا کہ میں نے ایسا خواب دیکھا ہے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ میرا ایمان نہ جاتا رہے.حضرت نے فرمایا بیان تو کرو ان صاحب نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ قرآن مجید پر پیشاب کر رہا ہوں.حضرت نے فرمایا یہ تو بہت اچھا خواب ہے.“ افاضات یومیہ تھانوی صفحه ۱۳۳ فتاوی رشید یہ صفحہ ۱۰۹ ومزیدالمجید تھانوی صحفہ ۶۶ سطر ۲۳) پھر دیو بندی کہتے ہیں قرآن مجید کو پاؤں تلے رکھنا جائز ہے.لکھا ہے کسی عذر سے قرآن مجید کو قارورات میں ڈال دینا کفر نہیں رخصت ہے اور کوئی اور چیز نہ ہو تو قرآن شریف کو پاؤں کے نیچے رکھ کر او پر مکان سے کھانا اُتار لینا درست ہے اور بوقت حاجت قرآن شریف کو کسی کے نیچے ڈال لینا روا ہے.تحریف اوراق صفحه ۴ بحوالہ وہابی نامه صفحه ۳۵) قرآن مجید کی حد درجہ تو ہین کرنے والے یہ دیو بندی خدا جانے کس طرح معصوموں پر تو ہین قرآن کے الزام لگاتے ہیں.اے دیو بند یو ! مذکورہ حوالوں کو بار بار پڑھو اور خشک دیو بندیت سے تو بہ کر کے بچے امام مہدی کو قبول کر لو تا کہ تمہیں قرآن مجید کا صحیح عرفان نصیب ہو.(9)— مذکورہ کتابچہ میں یہ لکھا ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے صحابہ کی تو ہین کی حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے صحابہ کی جو عزت و عظمت حضور علیہ السلام کے دل میں تھی ان دیو بندیوں کے دلوں میں اس کا ہزارواں حصہ بھی نہیں ہوگی.سنئے ! صحابہ کی شان میں آپ کیا فرماتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت (صحابہ) نے اپنے رسول مقبول کی راہ میں ایسا اتحاد اور ایسی روحانی یگانگت پیدا کر لی تھی کہ اسلام اخوت کی زر سے بیچ بیچ عضو واحد کی طرح 30 50

Page 34

ہوگئی تھی اور ان کے روزانہ برتاؤ اور زندگی اور ظاہر و باطن میں انوار نبوت ایسے رچ گئے تھے کہ گویا وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی تصویریں تھیں.(فتح اسلام صفحہ ۳۵) اسی طرح صحابہ کی تعریف میں آپ اپنے عربی اشعار میں فرماتے ہیں ان الصحابة كلهم كذكاء قَد نَورُوا وجه الورى بضياء صحابہ سب کے سب سورج کی طرح تھے انہوں نے مخلوق کے چہرے کو روشن کر دیا تركوا اقاربهم و حب عيالهم جاءوا رسول الله كالفقراء انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور عیال کی محبت کو ترک کر دیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فقراء کی طرح آئے انى ارى صحب الرسول جميعهم عند المليك بعزة قعساء میرا یقین ہے کہ تمام کے تمام صحابہ اللہ کے نزدیک عزت و تکریم رکھتے تھے -(1+) کتاب ”محمد صلعم کے عاشق کہاں ہیں ؟“ میں نہایت غلط بیانی اور جھوٹ سے کام لیتے ہوئے عوام کو دھوکا دینے کے لئے ایک غلط حوالہ گھڑا گیا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی امام مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ابوبکر حضرت امام حسین اور حضرت فاطمہ کی توہین کی ہے.ہم خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر عرض کرتے ہیں کہ یہ تمام حوالے غلط اور اصل مطلب سے ہٹا کر دھوکہ دینے کے لئے لکھے گئے ہیں مثلاً حضرت ابوبکر رضی 31

Page 35

اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ.تھے.“ ابوبکر وعمر کیا تھے وہ حضرت مرزا قادیانی کی جوتیوں کے تسمے کھولنے کے لائق بھی نہ (رسالہ المہدی جنوری فروری ۱۹۱۴ ء ) یہ حوالہ بالکل جھوٹ اپنی طرف سے گھڑا گیا ہے.ملاحظہ فرمائیے حضرت مرز اصاحب حضرت ابوبکر حضرت عمرؓ کی تعریف و توصیف میں کیا فرماتے ہیں.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں خدائے غیور و قدوس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس گھڑی نے میرا ایمان حضرت اقدس (سیدنا احمد ) کی نسبت اور بھی زیادہ کر دیا.آپ (حضرت احمد ) نے چھ گھنٹے کامل تقریر فرمائی اس سارے مضمون میں آپ (حضرت احمد ) نے رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیمات کے محامد اور فضائل اور اپنی غلامی اور کفش برداری کی نسبت حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے اور جناب شیخین رضی اللہ عنہما ( یعنی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل مذکور فرمائے اور فرمایا میرے لئے یہ کافی فخر ہے کہ میں ان لوگوں ( یعنی صحابہ ) کا مذاح اور خاکپا ہوں جو مجزئی فضیلت خدا تعالیٰ نے انہیں بخشی ہے وہ قیامت تک کوئی اور شخص پا نہیں سکتا.“ 66 (اخبار الحکم نمبر ۲۹ جلد نمبر ۱۷،۳ / اگست ۱۸۹۶ء) حضرت امام حسین کی تعریف و توصیف میں آپ فرماتے ہیں :- حضرت حسین رضی اللہ عنہ ظاہر و مظہر تھا اور بلا شبہ ان برگزیدوں میں سے تھا جن کو خدا اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے.32 32 (تبلیغ حق صفحه ۲۰۱)

Page 36

پھر اپنے ایک فارسی شعر میں آپ فرماتے ہیں جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آل محمد است ( آئینہ کمالات اسلام ) یعنی میری جان اور دل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال پر قربان اور میری خاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آل کی ان گلیوں پر قرآن (جہاں وہ رہے چلے پھرے) جہاں تک مذکورہ کتا بچہ میں لکھے مصرعہ صد حسین است در گریبانم کا تعلق ہے تو اس میں حضور علیہ السلام نے حضرت امام حسین کی تو ہین نہیں فرمائی بلکہ فرمایا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرح سینکڑوں غم میرے گریبان میں پوشیدہ ہیں.دیو بندی تو حضرت امام حسین در کنار ان کے والد محترم خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بھی ہتک کے مرتکب ہوئے.حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ :- انَا خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْتَ يَا عَلَى خَاتَمُ الْأَوْلِيَاءِ ( تفسیر صافی زیر آیت خاتم النبین ) کہ میں خاتم الانبیاء ہوں اور اے علی تو خاتم الاولیاء ہے.جبکہ دیو بندی خاتم کے معنی کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا تو پھر لازماً خاتم الاولیاء کے معنیٰ ہوں گے کہ حضرت علی کے بعد کوئی ولی نہیں آسکتا لیکن جو مرثیہ محمود حسن دیو بندی نے مولوی رشید احمد گنگوہی کہ وفات پر لکھا ہے اس کے ٹائیٹل پیچ پر مولوی رشید احمد گنگوہی کے متعلق خاتم الاولیاء لکھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صریح ہتک کی ہے پس صاف ظاہر ہے کہ جولوگ 33 33

Page 37

باپ کو نہیں بخشے وہ بھلا بیٹوں کو کہاں بخشیں گے؟ چنانچہ مرثیہ کے ٹائیٹل پیج پر ذیل کی عبارت غور سے پڑھیں.حضرت قطب العالم خاتم الاولیاء والمحدثین فخر الفقهاء والمشائخ حضرت عالی ماوائے جہاں مخدوم الکل مطاع العالم جناب مولاناسید رشید احمد گنگوہی کی وفات حسرت آیات پر مرثیہ.“ ہم تو یہاں تک کہیں گے کہ اس میں حضرت علی کے ساتھ ساتھ تمام محدثین کرام کی بھی ہتک کی گئی ہے ساتھ ساتھ دیو بندی نے رشید احمد گنگوہی کو ماوائے جہان.مخدوم الکل اور مطاع العالم لکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی توہین کی ہے.ہمارے نزدیک یہ خطاب صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں.(11)- اسی طرح کتا بچہ ”محمد صلعم کے پریمی کہاں ہیں؟“ میں لکھا ہے کہ حضور علیہ السلام نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی توہین کی اور جھوٹ سے شرما کر (ویسے سید رشید احمد گنگوہی کے فتویٰ کے بعد جھوٹ سے شرمانے کی وجہ ہماری سمجھ میں نہیں آئی.) حوالہ درج نہیں کیا لیکن ہم بتاتے ہیں کہ جھوٹ کونوالہ تر کی طرح نگلنے والے ان دیو بندیوں کے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج و اولاد سے جو محبت ہے اس کا ایک چھوٹا سا نمونہ ذیل کے حوالہ میں ملاحظہ فرمائیں.دیوبندیوں کے پیر ومرشد مولوی اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں.ایک ذاکر صالح کو مکشوف ہوا کہ احقر اشرف علی تھانوی کے گھر حضرت عائشہ آنے والی ہیں انہوں نے مجھے کہا تو میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ کم سن عورت ہاتھ آنے والی ہے“ (رساله الامدادصفر ۱۳۲۵ هجری) ملاحظہ فرمائیے دیوبندیوں کی سراسر تو ہین حضرت عائشہ گھر میں آنے والی ہیں یہ ایک خواب 34 =4

Page 38

ہے جس کی تعبیر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نیکی ، تقوی اور تفقہ فی الدین اس گھر میں ترقی کرے گا لیکن حضرت عائشہ کے خیال سے معا ایک کم سن عورت کا خیال ، واہ رے دیو بندی نیت ! تعجب ہے خواب دیکھنا تو بے اختیاری ہے اور بے بسی کی بات ہے لیکن تعبیر کرنا تو انسان کی اپنی عقل سمجھ میں ہے.اسی طرح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نسبت دیو بندیوں کے پیر ومرشد مولوی اشرف علی صاحب تھانوی لکھتے ہیں :.ہم ایک دفعہ بیمار ہو گئے ہم کو مرنے سے بہت ڈر لگتا ہے ہم نے خواب میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا انہوں نے ہم کو اپنے سینے سے چمٹا لیا.ہم اچھے ہو گئے.الافاضات الیومیہ جلد نمبرے صفحہ نمبر ۲۴۰) دیو بندی اس حوالہ پر کہتے ہیں کہ بھلا یہ بھی کوئی قابلِ اعتراض بات ہے حضرت فاطمہ نے خواب میں مولوی اشرف علی تھانوی کو مادر مہربان کی طرح چمٹایا ہے حالانکہ اس حوالہ میں مادرِ مہربان کا کوئی لفظ نہیں لیکن حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے متعلق باوجود یکہ آپ کے کشف کی عبارت میں صاف لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ نے مادر مہربان کی طرح آپ کو اپنے گود میں رکھ لیا پھر بھی اپنی گندی نیتوں کا اظہار نا پاک اعتراضات کی صورت میں کرتے رہتے ہیں.اور اس کتا بچہ میں بھی بغیر حوالہ دئے یہی ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ گویا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے نعوذ باللہ حضرت فاطمہ کی توہین کی ہے وہ حوالہ جو دیو بندی نے پچھپایا ہے اُسے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں اس حوالہ میں حضرت مرزا صاحب نے اپنے کشف کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ.دیکھا تھا کہ حضرت پنجتن سید الکونین فاطمتہ الزہر آء حضرت علی عین بیداری میں آئے اور حضرت فاطمہ نے کمال محبت اور مادرانہ عطوفت کے رنگ میں اس عاجز کا سرا اپنی ران پر رکھ لیا“.(تحفہ گولڑویہ صفحہ ۳۰) 35

Page 39

اس حوالہ میں حضور یہ ثابت فرمارہے ہیں کہ آپ کو کشفاً حضرت فاطمہ کی اولاد میں قرار دیا گیا ہے اور عبارت میں مادرانہ عطوفت“ کا لفظ بھی موجود ہے اور جو حوالہ ہم نے مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کا الافاضات الیومیہ سے درج کیا ہے اس میں تو کہیں مادرانہ عطوفت کا ذکر نہیں صاف لکھا ہے کہ انہوں نے ہم کو اپنے سینے سے چمٹا لیا.اب قارئین خود ہی فیصلہ فرمالیں کہ اگر یہ توہین ہے تو اس تو ہین کا زیادہ مرتکب کون ہے؟ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ، کلمہ طیبہ کی ، درود شریف کی ،حضرت عائشہ کی اور حضرت فاطمہ کی توہین کرنے والے احمدی نہیں بلکہ دراصل دیو بندی ہیں جو اپنے آپ کو اعتراضات سے بچانے کے لئے دوسروں پر طرح طرح کے گندے الزامات لگاتے آرہے ہیں.اس بناء پر علماء اسلام یہاں تک کہ مکہ اور مدینہ کے علماء نے بھی دیو بندیوں پر کفر کے فتوے لگائے ہیں.چنانچہ دیو بندیوں کے متعلق سنی علماء کا ایک فتوی گفر ملاحظہ فرمائیں.وہابیہ دیو بند یہ اپنی عبارتوں میں تمام اولیاء انبیاء حشتی که حضرت سید الاولین و آخرین صلی اللہ علیہ وسلم اور خاص ذات باری تعالیٰ عرب شانہ کی اہانت و ہتک کرنے کی وجہ سے قطعاً مرتد اور کافر ہیں اور ان کا ارتداد کفر میں سخت سخت سخت اشد درجہ پر پہنچ چکا ہے ایسا کہ جوان مرتدوں کافروں کے ارتداد گفر میں ذرا بھی شک کرے وہ بھی انہی جیسا مرتد و کافر ہے.مسلمانوں کو چاہیے کہ ان سے بالکل مجتنب ومحتر زر ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا ذکر تو کیا اپنے پیچھے بھی ان کونماز نہ پڑھنے دیں اور نہ اپنی مسجدوں میں گھسنے دیں نہان کا ذبیہ کھا ئیں اور نہ ان کی شادی غمی میں شریک ہوں ، نہ اپنے ہاں اُن کو آنے دیں.یہ بیمار ہوں تو عیادت نہ کریں مریں تو گاڑنے تو اپنے میں شرکت نہ کریں مسلمانوں کے قبرستانوں میں جگہ نہ دیں.غرض ان سے بالکل احتیاط واجتناب رکھیں.36 96

Page 40

پس وہابیہ دیو بند یہ سخت اشد و مرتد و کافر ہیں ایسے کہ جوان کو کافر نہ کہے خود کا فر ہو جائے گا اس کی عورت اس کے عقد سے باہر ہو جائے گی جو اولاد ہوگی وہ حرامی ہوگی اور از روے شریعت ترکہ نہ پائے گی.“ دستخط سید حمایت علی شاہ دستخط حامد رمضان خان قاری نوری رضوی.بریلوی.محمد کرم دین بھینی محمد جمیل بدایونی عمر نعیمی ابومحمد دیدار علی مفتی اکبر آباد یوپی شائع کردہ: خاکسار محمد ابراہیم بھاگلپوری حسن برقی پریس اشتیاق منزل نمبر ۶۳ ہیوٹ روڈ لکھنو.) اب ہم آخر پر دیو بندیوں کے اس الزام کا جواب دیتے ہیں کہ نعوذ باللہ من ذالک جماعت احمد یہ انگریزوں کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے حقیقت یہ ہے کہ انگریز لوگ ہندوستان میں اور دیگر ممالک میں اپنے قدموں کو مضبوط کرنے کے لئے یہ ضروری سمجھتے تھے کہ عیسائیت کو اور مسیحی خیالات کو پھیلائیں تاکہ ان کی حکومت کے قدم مضبوطی سے جم سکیں چنانچہ کتاب لارڈ لارنس لائف جلد دوم صفحہ ۳۱۳ میں لکھا ہے.میں اپنے اس یقین کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم سر زمین ہند میں اپنی حکومت کا تحفظ چاہتے ہیں تو ہمیں انتہائی کوشش کرنی چاہیئے کہ یہ ملک عیسائی ہو جائے.“ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کو عیسائی بنانے کے لئے انگریزوں کے مذہبی خیالات میں اُن سے متفق دیو بندی تھے یا احمدی ایک عظمند یکدم پکار اُٹھے گا کہ عقائد کے اعتبار سے تو دیو بندی ملاں احمدیوں کی نسبت انگریزوں کے زیادہ قریب تھے کیونکہ عیسائی بھی یہ مانتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور دیو بندیوں کا بھی عقیدہ ہے جبکہ احمدی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت جن کو عیسائی اپنا خدا سمجھتے ہیں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ فوت ہو چکے ہیں گویا ایک لحاظ سے ان کے خدا کی موت کا اعلان کرتے ہیں تو اب بھلا بتاؤ کہ انگریزوں کی عقل ماری گئی ہے کہ وہ احمدیوں کی مدد کریں گے یا احمدیت کے پودے کو پانی دیں گے وہ تو اس پودے کو 37

Page 41

سیراب کریں گے جو عقیدہ کے لحاظ سے ان کے قریب ہے اور ہوا بھی یہی ہے کہ ان دیو بندیوں نے نہ صرف انگریزوں کی ہر طرح مدد کی ہے بلکہ انگریزوں سے طرح طرح کے فائدے بھی حاصل کئے ہیں جنہیں چھپانے کے لئے اب یہ احمدیوں کو انگریزوں کا خود کاشتہ پودا کہتے ہیں دار العلوم دیو بند کے رسالہ ”دیو بند کی سیر اور اس کی مختصر تاریخ ، مطبوعہ یکم ستمبر ۱۹۱۷ ء پر نٹنگ ورکس دہلی میں لکھا ہے.ہر مومن مسلمان سے استدعا ہے کہ وہ گورنمنٹ عالیہ کے لئے جس کی عہد حکومت میں ہر فرد بشر نہایت عیش و آرام سے زندگی بسر کر رہا ہے اور اس کی عطا کردہ آزادی اسلامی چمنستان سرسبز و بار آور ہے ضرور دن رات اُٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے غرض، ہرلمحہ اور ہر ساعت میں دُعا کریں کہ اے خدا تو ہمیشہ ہمیش کے لئے ( حکومت انگریز کو ) مسند حکومت پر قائم 66 رکھ." یہ ہیں دیو بندی مولویوں کی انگریزی حکومت کی وفاداریوں کے اعلان اور ایسے اعلان کیوں نہ ہوتے جبکہ یہ اس حکومت کے تحت نہایت عیش و آرام سے زندگی بسر کر رہے تھے اس کی چند مثالیں ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :- (1) - با قاعدہ اس غرض کے لئے دیو بندیوں کو تنخواہیں ملتی تھیں کہ وہ انگریزی حکومت کی موافقت واعانت میں آواز میں اُٹھائیں.سوانح حیات مولانا محمد احسن نانوتوی جسے مکتبہ ثانیہ کراچی پاکستان نے شائع کیا ہے میں مؤلف کتاب نے اخبار انجمن پنجاب لاہور بحریہ ۱۹ فروری ۱۸۷۵ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ۳۱ جنوری ۱۸۷۵ء بروز یکشنب لفٹنٹ گورنر کے ایک خفیہ معتمد انگریز مسمی پامر نے مدرسہ دیو بند کا معائنہ کیا اس کا ذکر کرتے ہوئے کتاب میں لکھا ہے:- جو کام بڑے بڑے کالجوں میں ہزاروں روپیہ کے صرف سے ہوتا ہے وہ یہاں 38

Page 42

کوڑیوں میں ہو رہا ہے جو کام پرنسپل ہزاروں روپیہ ماہوار تنخواہ لے کر کرتا ہے وہ یہاں مولوی چالیس روپے ماہانہ پر کر رہا ہے.یہ مدرسہ خلاف سرکار نہیں بلکہ موافق سرکا رمد و معاون سرکار ہے.( مولانا محمد احسن نانوتوی صفحه ۲۱۷ بحوالہ زلزله صفحه ۹۴ پس دیو بندیوں نے صاف اقرار کیا ہے کہ ہم تھوڑی رقم کے عوض میں سرکا رانگلشیہ کی غلامی کر رہے ہیں چنانچہ قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیو بند کا یہ بیان ملاحظہ فرمائیے ! مدرسہ دیو بند میں کارکنوں کی اکثریت ) ایسے بزرگوں کی تھی جو گورنمنٹ کے قدیم ملازم حال پیشنر تھے.“ ( حاشیہ سوانح قاسمی صفحه ۲۴۷ بحوالہ زلزله صفحه ۹۶) اسی طرح یہ بات ہر خاص و عام کو معلوم ہے کہ جنگ عظیم دوم میں متحدہ ہند (ہندوستان.پاکستان اور بنگلہ دیش) کے مسلمانوں کو شامل کرنے کے لئے انگریز نے مولوی رشید احمد گنگوہی کے فتووں سے ہی فائدہ اُٹھایا تھا.پیسہ اخبار لا ہورا امئی ۱۹۱۸ء) پس تاریخ کی یہ منہ بولتی شہادتیں کھول کھول کر بتا رہی ہیں کہ انگریزوں کے دور حکومت میں دیو بندی انگریزوں کے غلام.نوکر.ملازم و پنشنر رہے ہیں.احمدی نہیں ! یہی نہیں ندوۃ العلماء لکھنو جو د یو بندی مسلک کے لوگوں کا ہی ایک ادارہ ہے اس ادارے کاسنگ بنیاد بھی ایک انگریز نے رکھا تھا چنانچہ رسالہ الندوہ میں لکھا ہے.۲۸ نومبر ۱۹۰۸ء کو دارالعلوم ندوۃ العلماء کا سنگ بنیاد ہنر آنر لیفٹیننٹ گورنر بہادر ممالک متحدہ سر جان سکاٹ ہیوس کے سی ایس آئی اسی نے رکھا تھا.“ ( الندوہ دسمبر ۱۹۰۸ء) 39

Page 43

اسی طرح رسالہ الندوہ میں مزید لکھا ہے.علماء ( دیو بند وندوہ ) کا ایک ضروری فرض یہ بھی ہے کہ گورنمنٹ کی برکات سے واقف ہوں اور ملک میں گورنمنٹ کی وفاداری کے خیالات پھیلائیں.“ (الند وہ جولائی ۱۹۰۸) پس صاف کہو کہ اب دیو بندی انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہوئے یا احمدی چنانچہ تاریخ اس امر کی شہادت بھی دیتی ہے کہ اگر ایک طرف دار العلوم دیو بند والے گورنمنٹ برطانیہ کے نوکر تھے تو دوسری طرف ندوہ کو سالانہ چھ ہزار روپے انگریز حکومت کی طرف سے گرانٹ ملتی تھی ( الندوه دسمبر ۱۹۰۸) اسی لئے با قاعدہ جلسوں میں ملکہ وکٹوریہ کو ظلِ سبحانی اور سایہ حق تک کہا جاتا تھا چنانچہ ان دنوں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں پڑھی جانے والی نظم کا ایک شعر یوں بھی تھا سایۂ حق ان پر تھا خود ظلِ سبحانی تھیں یہ سارے عالم میں بڑی یکتا مہارانی تھیں اجلاس انجمن حمایت اسلام منعقدہ اکتوبر ۱۹۰۳ء بمقام امرتسر - پنجاب) اُس زمانہ میں اسی تعریف کے بل بوطے پر یہ دیو بندی مولوی انگریزوں سے سالانہ گرانٹیں اور جاگیر حاصل کیا کرتے تھے چنانچہ اہل حدیث کے لیڈر مولوی محمد حسین بٹالوی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کی وجہ سے تمام طبقہ کے مولویوں کے لیڈر سمجھے جاتے ہیں نے انگریزوں کی خوشامدیں کر کے چک نمبر ۳۶ تحصیل جڑانوالہ ضلع لائلپور ( حال فصل آباد پاکستان ) میں جا گیر حاصل کی تھی ( بحوالہ حیات طیبہ مؤلفہ عبد القادر صاحب سابق سود اگر مل صفحه (۲۶۴) 40 40

Page 44

لیکن اس کے بالمقابل کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے بھی انگریزوں سے اپنے لئے یا جماعت احمدیہ کے لئے کسی قسم کا کوئی فائدہ اُٹھایا بلکہ جس ملکہ کو بیل سبحانی اور سائیہ خدا جیسے القابات سے نوازتے تھے اس کو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی تبلیغ اسلام کرتے تھے چنانچہ آپ نے ملکہ کو مخاطب کر کے لکھا: ”اے ملکہ تو بہ کر اور اس خدا کی اطاعت میں آجا جس کا نہ کوئی بیٹا ہے نہ شریک اور اس کی تمجید کر اسے زمین کی ملکہ اسلام قبول کرتا تو بچ جائے...مسلمان ہو جا.“ آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۳۴) پس اب فیصلہ انصاف پسند بھائیوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ سوچیں کہ کیا انگریز، دیو بندیوں کو اپنا غلام بنائیں گے یا احمدیوں کو جو ایک طرف تو ان کے خدا یسوع مسیح کو مردہ ثابت کر رہے ہیں اور دوسری طرف ان کی ملکہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دے رہے ہیں.اب ہم دیو بندی رسالہ میں درج اعتراضات کے جواب دے چکے ہیں اور اس موقع پر پھر اپنے بھائیوں کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ یہ رسالہ اور اس قسم کے اور دوسرے رسالے جو وقتا فوقتا دیو بندیوں کی طرف سے تحفظ ختم نبوت“ کے نام پر مسلمانوں سے چھپانے کے لئے ایک نام نہاد تنظیم بنائی گئی ہے اس کے ذریعہ پورے ہندوستان میں یہ مشہور کیا جاتا ہے کہ احمدی ختم نبوت کے قائل نہیں حالانکہ احمدی جب بیعت کرتے ہیں تو ختم نبوت پر مکمل ایمان کی بیعت کرتے ہیں اگر یقین نہ ہو تو شرائط بیعت اُٹھا کر پڑھ لیں.دیو بندیوں کی تحفظ ختم نبوت کی تنظیمیں پورے ہندوستان میں مسلمانوں کو احمد یوں کے خلاف اشتعال دلانے کا کام کرتی ہیں اور شور مچاتی ہیں کہ احمدی کلمہ ، نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ اور درود کے منکر ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے ہیں اور ایسا کہہ کر نہ صرف پاکستان میں بلکہ ہندوستان میں بھی اب تک کئی جگہوں پر امن بر باد کیا گیا ہے احمدیوں کا جانی و 41

Page 45

مالی نقصان کرنے کی کوشش کی گئی ہے چنانچہ اب تک بہار، کرناٹک ، کشمیر یو پی غرض ملک کے مختلف صوبوں میں دیو بندی محافظین ختم نبوت“ کی غنڈہ گردی کے کئی واقعات منظر عام پر آچکے ہیں بھا گلپور محلہ برہ پورہ کی احمد یہ مسجد میں بم پھینکا گیا.مالیگاؤں مہاراشٹر میں ختم نبوت کی حفاظت کے بہانے احمدی نوجوانوں کو بری طرح مارا گیا انہیں لہولہان کر دیا گیا.ہندوستان میں تو خیر جو بھی ہورہا ہے پاکستان میں یہی دیو بندی ختم نبوت کے مبارک نام کو بدنام کرتے ہوئے اب تک کئی درجن احمدیوں کو شہید کر چکے ہیں.حکومت پاکستان کی کھلی امداد سے احمدیوں کا کلمہ پڑھنا بند ہے، اذان دینا بند ہے، قرآن مجید پڑھنا پڑھانا بند ہے لیکن احمدی ان سب روکوں کی پروا کئے بغیر خون کے دریاؤں کو عبور کرتے ہوئے اسلامی عبادات پر دن رات عمل پیرا ہیں.انصاف پسندوں سے ہماری اپیل ہے کہ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ کیا یہی ختم نبوت کی حفاظت ہے، کیا یہی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل تھا کیا یہ باتیں اس سلوک کی یاد نہیں دلا تیں جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین آپ کے ساتھ کیا کرتے تھے پس اگر تقویٰ کا کوئی بیچ دل میں باقی ہے اور سچ کہنے کی جرات ہے تو سچ بتائیے کہ جماعت احمد یہ مسلمہ سے جو سلوک آپ روا رکھ رہے ہیں کیا یہ وہ سلوک ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دشمنوں سے روا رکھتے تھے یا یہ وہ سلوک ہے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن آپ سے روار کھتے تھے اس سوال کے جواب میں ہمارے درمیان دوٹوک فیصلہ ہو جاتا ہے.پس دیو بندیوں کو ہماری نصیحت ہے کہ اگر آپ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حمیت میں یہ سمجھتے ہوئے احمدیت کی مخالفت کر رہے ہیں کہ یہ جماعت نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمن ہے تو کم از کم حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ ا والسلام کی نظم و نثر میں ان تحریروں کا مطالعہ کریں جو آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الصلوة 42

Page 46

عشق میں فنا ہو کر لکھی ہیں اور پھر جب آپ کی مخالفت مغلظات بکنے اور گالیاں دینے کو دل چاہے تو اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر خدا کو حاضر و ناظر جان کرضرور یہ غور کر لیا کریں جس شخص کو گالیاں دینے کے لئے دل میں غصہ اُبل رہا ہے اس نے حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں کیسا لا فانی کلام کہا ہے جس کی فطرت میں سچائی کا ذرہ بھی مادہ ہو وہ اس کلام کے مطالعہ کے بعد اپنے دل میں ایسے شخص سے کوئی کینہ نہیں رکھ سکتا جو اس کے محبوب کا اس انداز کا عاشق ہوافسوس ہے کہ آپ لوگ یکطرفہ زہریلے معاندانہ پروپیگنڈہ سے متاثر ہو کر آنکھیں بند کر کے خدا کے ایک مقدس بندے پر زبان درازی کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اس طرح والہانہ شار تھا کہ خود اپنے آپ کو گالیاں دینے والوں کے لئے بھی خدا سے دُعا کیا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نیک ہدایت دے.دیو بندی لیڈر اچھی طرح جانتے تھے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی اسلام کے سچے خادم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق تھے اور یہ لوگ آپ کے لافانی کلام کے دل سے معترف تھے اس لئے آپ کی تحریرات کر چرا کچرا کر اور اپنی طرف منسوب کر کے اپنی کتابوں میں درج کرتے تھے اگر یقین نہ ہو تو دیو بندی اپنے مُجد دالملت مولوی اشرف علی تھانوی کی کتاب ”احکامِ اسلام عقل کی نظر میں کا مطالعہ کریں اور سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کتب اسلامی اصول کی فلاسفی اور سرمہ چشمہ آریہ" کا بھی مطالعہ کریں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح صفحوں کے صفحے ان کتب سے دیوبندی مجد دالملت نے نقل کئے ہیں.بے غیرتی اور بے شرمی یہاں تک کہ جس شخص کے متعلق کفر کا فتویٰ دیا ہے اور جسے اسلام کا دشمن نمبر ایک قرار دیا ہے چوری بھی کی تو اس کے گھر کی.واہ کیا شان ہے دیو بندی مجد دالملکت کی! یہی نہیں یہ دیو بندی اب احمدیوں کے دلائل قاطعہ کے مقابلہ میں اس قدر پریشان ہیں کہ انہوں نے اب بزرگانِ اسلام کی مسلمہ کتب ، احادیث اور تفسیر کی کتب یہاں تک کہ قرآن مجید 43

Page 47

کے تراجم تک میں تبدیلیاں کر دی ہیں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے عظام نے جب جب ان ملاوں کو ان کے غلط عقائد سے آگاہ فرمایا اور بزرگانِ اسلام کی کتب سے نکال نکال کر بتایا کہ آپ کے وہی عقائد و خیالات ہیں جو اس سے قبل بزرگانِ اسلام کے تھے ان دیو بندیوں کے لئے اس واضح حقیقت کے بعد صرف دو ہی راستے تھے یا تو یہ بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کر لیں اور یا پھر چودہ سوسال میں آنے والے سینکڑوں بزرگان اسلام پر بھی کفر کے فتوے لگادیں لیکن یہ دونوں باتیں انہیں منظور نہیں تھی انہوں نے ایک تیسرا رستہ یہ نکالا کہ ان تمام کتابوں کو بدلنے کی مہم شروع کی جوان کے عقائد و خیالات کے خلاف تھیں اور یہاں تک جرأت کی کہ احادیث اور قرآن مجید کے تراجم تک کو بھی اپنی اس یہودیانہ حرکت سے پاک نہ رکھا.اور اس طرح کم از کم اس بات کا ثبوت ضرور دے دیا کہ ایسا کر کے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ کے یہودی علماء کے نقش قدم پر چلے ہیں اور اس طرح یہ ثبوت بھی فراہم کر دیا کہ یہ زمانہ مثیل عیسی کا زمانہ ہے اور خود وہ مثیل علماء یہود ہیں جن کتابوں میں اب تک تحریف کی گئی ہے ان کی فہرست درج ذیل ہے.(۱) - مجموعه خطب ( مؤلفہ مولا نا محمد مسلم صاحب مرحوم ) (۲) - معراج نامه ( مؤلفه مولوی قادر یار صاحب مرحوم) (۳) اربعین فی احوال المہدین ( مؤلّفہ حضرت شاہ اسمعیل شہید ) (۴) - تذکرۃ الاولیاء (تصنیف حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمتہ اللہ علیہ ) (۵) تعطیر الانام ( مؤلفہ حضرت شیخ عبدالغنی نابلسی ) (1) - شمائل ترمذی (از حضرت امام ابو موسیٰ ترمذی رحمتہ اللہ علیہ ) (۷) صحیح مسلم شریف ( حضرت امام مسلم بن حجاج قشیری رحمتہ اللہ علیہ ) (۸) - تفسیر مجمع البیان (حضرت الشیخ فضل بن الحسن الطبری رحمۃ اللہ علیہ ) 44

Page 48

(۹) - تفسیر الصافی (حضرت محمد بن مرتضیٰ الغیض الکا شافی) (۱۰) - ترجمه قرآن کریم ( از حضرت شاہ رفیع الدین) 1 مجموعه خطب انیسویں صدی کے مشہور عالم وخطیب مولانا محمد مسلم (ولادت ۱۸۰۵ ء وفات ۱۸۸۰) کی نہایت مقبول کتاب ہے جس کے مواعظ اور اشعار منبروں پر مدتوں گونجتے رہے اس کتاب میں پنجابی زبان میں ایک یہ شعر درج تھا جس سے قطعی طور پر وفات مسیح کا ثبوت ملتا تھا یعنی اسمعیل اسحق نہ رہیا موسی عیسی نالے ہور الیاس داؤد پیغمبر پیتے اجل پیالے ( مجموعه خطب صفحه ۱۴ - ۱۳۱۹ هجری ۱۹۰۲ء مطبع مفید عام پریس لاہور ) یعنی حضرت اسمعیل اسحق نیز موسی اور عیسی بھی نہ رہے اسی طرح الیاس اور داؤ د پیغمبر نے بھی موت کے پیالے پی لئے.پہلے مصرعہ سے چونکہ وفات حضرت عیسی کے احمد یہ نظریہ کی صریح تائید ہوتی ہے اور صاف طور پر گھل جاتا ہے کہ جماعت احمد یہ ہی آج اہل سنت والجماعت کے قدیم عقائد پر گامزن ہے اس لئے اس رسالہ کا ایک نیا ایڈیشن تیار کیا گیا جس میں مندرجہ بالا شعر کو بدل کر یہ الفاظ لکھ دے گئے.اسمعیل اسحق نہ رہیا بارون موسیٰ نالے لُوط آتے داؤد پیغمبر پیتے اجل پیالے ( مجموعہ خطب پنجابی صفحہ ۱۲ ناشر سراج الدین اینڈ سنز تاجران کتب کشمیری بازار لاہور ) اسلامی لٹریچر میں خوفناک تحریف ( مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد مؤرخ احمدیت ) 45 45

Page 49

معراج نامہ : - معراج نامہ جو مولوی قادر بخش صاحب مرحوم (۱۸۰۲-۱۸۹۲ء) کی مشہور و معروف کتاب ہے اس معراج نامہ کے تمام نسخوں میں یہ شعر آج تک موجود ہے ؎ چپ محمد حرف نہ کیتاست نال نمی دے دھانا رُوح جنا بے خوابوں بت مکاں زمیں تے دوسرے مصرعہ سے چونکہ معراج کی اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے نظریہ کے عین مطابق ہے چنانچہ دوسرا مصرعہ بدل کر یوں کر دیا گیا.دھاناں روح جنا بے خوابوں بت سمیت چلیندے ( معراج نامه مطبوعه شیخ برکت علی اینڈ سنز کشمیری بازار لاہور ) اسی طرح کتاب تذکرۃ الاولیاء میں بھی اکثر حوالے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نظریہ کی تائید کرتے تھے بدل دئے جسکی تفصیل لمبی ہے تعطیر الانام -: حضرت شیخ العارفین قطب زماں سیدنا الشيخ عبد الغني النابلسي (۱۰۵۰ هجری - ۱۱۴۳ هجری) کی بے نظیر کتاب ” تعطیر الانام تعبیر الرؤیا کی دُنیا میں سند سمجھی جاتی ہے افسوس یہ مایہ ناز تصنیف بھی دیو بندی دست برد سے بچ نہیں سکی اس کتاب کے تمام قدیم ایڈیشنوں میں لکھا ہے کہ:- من رای کانه صار الحق سبحانه و تعالی اهتدى الى الصراط المستقيم 66 ( صفحه ۹ مطبوع مصر صفحه ۱۰ مطبوعہ بیروت) یعنی جو شخص خواب میں دیکھے کہ وہ گویا خدا بن گیا ہے اس کی تعبیر یہ ہے کہ اسے صراط مستقیم نصیب ہوگا مگر اس کے جدید ایڈیشن میں اس فقرہ کو یوں بدل دیا گیا ہے کہ.من رأى كانه سار الى الحق سبحانه و تعالى اهتدى إلى الصراط المستقيم ( صفحه اناشر مصطفی البابی الحلبی دادلا ده بمصر ) 46 46

Page 50

اس تبدیلی کے نتیجہ میں مفہوم بالکل الٹ گیا اور معنی یہ بن گئے کہ جو شخص دیکھے کہ گویا وہ خدا کی طرف چل رہا ہے تو وہ سیدھی راہ تک پہنچے گا.افسوس اسلامی علم و معرفت کا وہ خزانہ جو صدیوں سے ہمارے بزرگوں نے اپنے سینہ سے لگا کر محفوظ رکھا تھا اور پوری دیانتداری سے ہم تک منتقل کیا تھا اس لئے غارت کر دیا گیا کہ مسیح وقت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود علیہ السلام کے اس مکاشفہ کو وجہ اشتعال بنایا جائے جس میں حضور نے دیکھا کہ گویا میں خُدا بن گیا ہوں.( آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۶۴ صفحه ۵۶۶) شمائل ترمذی : شمائل ترمذی حضرت ابو عیسی ترمذی (وفات 9 بہ ھجری ۱۹۲۶ء) کی کتاب ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء مبارک کے بارہ میں ایک حدیث درج ہے کہ انا العاقب“ کہ میں عاقب ہوں اس حدیث کے ساتھ بطور تشریح یہ عبارت ہے کہ العاقب الذی لیس بعدہ نبی اسی ترجمہ کے حسین مجتبائی دہلی اور امین کمپنی بازار دہلی میں چھپنے والے نسخوں کے بین السطور میں یہ تصریح موجود ہے کہ هَذَا قَوْلُ الزُّهْرِيِّ ( یہ امام زہری کا قول ہے) علاوہ ازیں مشکوۃ کے شارح حضرت ملا علی قاری (وفات ۱۲ هجری ۲۰۶ء) نے بھی فرمایا ہے کہ.الظاهر ان هذا تفسير للصحابي او من بعده ( مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد نمبر ۵ صفحه ۲۷۶ مطبوعه مصر ۱۳۰۹ هجری) یعنی صاف ظاہر ہے کہ "العاقب الذي ليس بعده نبي “ کسی صحابی یا بعد میں آنے والے کی تشریح ہے.اس واضح حقیقت کے باوجود قرآن محل مقابل مولوی مسافر خانہ کراچی سے ۱۹۶۱ء میں ایک شمائل ترمذی شائع کی گئی جس میں سے ھذا قولُ الزُّھری“ کے بین السطور الفاظ 47

Page 51

بالکل حذف کر دئے گئے ہیں تا کہ بآسانی یہ مغالطہ دیا جا سکے کہ عاقب کی یہ تشریح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی ہے.اور فی الحقیقت یہ حدیث نبوی ہے یہی نہیں اس مغالطہ انگیزی کو انتہا تک پہنچانے کے لئے حاشیہ میں بھی لکھ دیا کہ دلیس بعدی بنی.اور میرے بعد کوئی نبی نہیں.صحیح مسلم شریف: حضرت امام مسلم بن حجاج - ( ولادت ۲۰۲ هجری ۸۲۱ - ۶۸۲۲ وفات ۲۶۱ هجری ۶۸۷۵) علم حدیث کی نہایت معروف کتاب ہے لیکن یہ کتاب بھی تحریف کا شکار ہو چکی ہے حضرت امام مسلم نے کتاب الحج باب فضل صلوة بمسجدى مكةو مدینۃ میں مندرجہ ذیل حدیث بروایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ درج فرمائی ہے.قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فانی آخر الانبیاءوان مسجدی أخر المساجد یعنی میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے یہ حدیث جماعت احمدیہ کے نظریۂ ختم نبوت کی زبر دست مؤید ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی تفسیر خود حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے فرمائی ہے.قارئین کرام ! خون کے آنسو رویئے کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی کرنے والوں نے یہ حدیث بھی صحیح مسلم کتاب الایمان سے نکال دی ہے یہ حذف شدہ نسخہ شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز لا ہور نے نومبر ۱۹۵۶ میں شائع کیا ہے.صحیح مسلم میں دوسرا تغیر و تبدل یہ کیا گیا ہے کہ کتاب الایمان میں سے وہ پورا باب ہی کاٹ کر الگ کر دیا گیا ہے جس کا عنوان ہے باب نزول عیسیٰ ابن مریم حاكمأًبشريعة نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم.اس طرح صرف اس ایک باب کے حذف کے نتیجہ 48

Page 52

میں چھ حدیثیں اور متعدد آثار و اقوال صحیح مسلم کی کتاب الایمان سے نکالے جاچکے ہیں.مسلم شریف میں حضرت نواسی بن سمعان سے مروی ایک حدیث درج ہے جس میں آنحضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح محمدی کو چار مرتبہ نبی اللہ کے پیارے خطاب یاد کرتے ہوئے فرمایا "فيرغب نبي الله عيسى عليه السلام سے و اصحابه-(کتاب الفتن) عشاق رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ اطلاع قیامت صغریٰ سے کم نہیں کہ دیو بندی عالم اور مذہبی راہنما ”حضرت علامہ مولاناسید شمس الحق صاحب نے اپنی تالیف ”علوم القرآن فارسی کے صفحہ ۳۱۵ پر حضرت خاتم النبین (فداہ اقی وابی ) کے مبارک فقرہ سے ”نبی“ کا لفظ نہایت بے دردی کے ساتھ اُڑا دیا ہے اب (معاذ اللہ ) حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب فقرہ کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اللہ یعنی عیسی ابن مریم متوجہ ہوں گے.خدا جانے اس دیو بندی عالم نے توحید کے پلیٹ فارم سے تثلیث کی منادی کیوں کی قارئین خود ہی اندازہ لگالیں.ترجمہ قرآن کریم از حضرت شاہ رفیع الدین: -حضرت شاہ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ کی بلند شخصیت محتاج تعارف نہیں ( وفات ۱۳۴۹ هجری ۱۸۳۳ - ۶۳۴) آپ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی کے دوسرے بیٹے اور یگانہ روزگار اور جلیل القدر عالم اور کئی کتابوں کے مصنف تھے آپ کا عظیم ترین کارنامہ قرآن کریم کا تحت اللفظ ترجمہ ہے.اس ترجمہ کا برصغیر پاک و ہند کے تمام تحت اللفظ تراجم میں اولیت زمانی کا فخر حاصل ہے افسوس کہ یہ ترجمہ بھی یہود خصلت علماء کی تبدیلی کا نشانہ بننے سے محفوظ نہیں رہا.ملاحظہ فرمائیے آیت خاتم النبیین کے ترجمہ میں تبدیلی.شیخ غلام علی تاجر کتب کشمیری بازار لاہور نے ۱۰ مارچ ۱۹۲۴ ء کی تاریخ اشاعت میں جو 49

Page 53

سخہ شائع کیا ہے اس میں آیت خاتم النبین کا ترجمہ درج ذیل الفاظ میں لکھا ہے.نہیں ہے محمد باپ کسی کا مردوں تمہارے میں سے لیکن پیغمبر خدا کا ہے اور مہر تمام نبیوں پر اور ہے اللہ پر چیز کو جاننے والا.“ حضرت شاہ رفیع الدین کا یہی ترجمہ حاجی ملک دین محمد اینڈ سنز تاجران کتب و پبلشرز کشمیری بازار روبل روڈ لاہور نے ۱۳۵۲ هجری ۹۳۳! میں شائع کیا ہے میں ”مہر تمام نبیوں پر “ کے الفاظ بدل کر.ختم کرنے والا ہے تمام نبیوں کا “ لکھ دیا گیا ہے.قارئین کرام ! ان دیو بندیوں کے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی تفصیل بہت لمبی ہے انہوں نے اگر ایک طرف شمشیر تکفیر کے ذریعہ مسلمانوں کو پارہ پارہ کیا ہے تو دوسری طرف اسلامی لٹریچر میں سخت تحریف کی ہے اسی پر بس نہیں انہوں نے رہی سہی کسر مسلمانوں کو ذات برادری اور گروہی نفرتوں کے دائروں میں تقسیم کرنے میں لگا دی ہے.حالانکہ اسلام ہی ایک ایسا واحد مذہب ہے جو ذات برادری کی دیواروں سے اونچا اٹھ کر تمام انسانوں کو ایک نظر سے دیکھتا ہے اسلام کے نزدیک کوئی شخص ذات برادری کنبہ یا قبیلہ کی وجہ سے مکرم ومحترم نہیں بلکہ مکرم معظم صرف منتقی اور اعمال صالحہ بجالانے والا ہے.(الحجرات:) دیگر مذاہب آج تک ذات اور گروہی تقسیم کی نفرتوں کے دائرے میں اُلجھے پڑے ہیں.براہمن کھتری سے متنفر ہے تو ویشیہ شودر کو انسان نہیں سمجھتا شادیاں کرنا تو درکنار یہ قومیں ایک دوسرے کے برتن میں کھا پی بھی نہیں سکتیں.عیسائیوں میں بھی آج تک کالے گورے میں نفرت بھری تفریق کی جاتی ہے.یہود کا کہنا ہے کہ ہم ہی اللہ کے محبوب اور اس کی اولاد ہیں.یہی نفرت کے بیج آج دیو بندیوں نے بھی مسلمانوں میں بونے کی کوشش کی ہے دیو بندیوں کے مجددالملت مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ”دینی مسائل کے چند اقتباسات ہم ذیل میں درج کر رہے ہیں ملاحظہ فرمائیں.50 50

Page 54

مذکورہ کتاب کے حصہ ”کتاب النکاح میں بعنوان ” کون آدمی اپنے اور اپنے میل کے ہیں اور کون نہیں“ لکھا ہے مسئله نمبرا : شرع میں اس کا بڑا خیال گیا ہے کہ بے میل اور بے جوڑ نکاح نہ کیا جائے یعنی لڑکی کا نکاح کسی ایسے مرد سے مت کرو جو کہ برابر درجے کا اور اس کی ٹکر کا نہیں ہے.مسئلہ نمبر ۲: برابری کئی قسم کی ہوتی ہے ایک تو نسب میں برابر ہونا دوسرے مسلمان ہونے میں ، تیسرے دینداری میں، چوتھے عمر میں، پانچویں پیشے میں مسئلہ نمبر ۳: نسب میں برابری تو یہ ہے کہ شیخ ، سید ، انصاری اور علوی یہ سب ایک دوسرے کے ہیں اگر چہ سیدوں کو رتبہ اوروں سے بڑھ کر ہے لیکن اگر سید کی لڑکی شیخ کے یہاں بیاہی گئی تو یہ نہ کہیں گے کہ اپنے میل میں نکاح نہیں ہوا بلکہ یہ بھی میل ہی ہے.مسئلہ نمبر ۴: نسب میں اعتبار باپ کا ہے ماں کا کچھ اعتبار نہیں اگر باپ سید ہو تو لڑکا بھی سید ہے اگر باپ شیخ ہے تو لڑ کا بھی شیخ ہے ماں چاہے جیسی ہو اگر کسی سید نے کوئی باہر کی عورت گھر میں ڈال لی اور اس سے نکاح کر لیا تو لڑ کے سیّد ہوئے اور باعث شرع ( شرع دیو بندی ناقل ) سب ایک ہی میل کے کہلائیں گے.مسئلہ نمبر ۵: مغل پٹھان سب ایک قوم ہیں اور سیدوں کے ٹکر کے نہیں اگر شیخ یا سید کی لڑکی ان کے ہاں بیاہ گئی تو کہیں گے کہ بے میل اور گھٹ کر نکاح ہوا.مسئلہ نمبر ۶: مسلمان ہونے میں برابری کا اعتبار فقط مغل پٹھان وغیرہ اور قوموں میں ہے شیخوں ، سیدوں ، علویوں اور انصاریوں میں اس کا کچھ اعتبار نہیں تو جو شخص خود مسلمان ہو گیا اور اس کا باپ کا فر تھا وہ شخص اس عورت کے برابر نہیں جو خود بھی مسلمان ہے اور اس کا باپ بھی مسلمان تھا اور جو شخص خود بھی مسلمان اور اس کا باپ بھی مسلمان ہے لیکن اس کا دادا مسلمان نہیں وہ اس عورت کے برابر نہیں جس کا دادا بھی مسلمان ہے.51

Page 55

مسئلہ نمبر ے پیشہ میں برابری یہ ہے کہ جلا ہے درزی کے میل اور جوڑ کے نہیں اسی طرح نائی دھوبی وغیرہ بھی درزی کے برابر کے نہیں“.دینی مسائل کتاب النکاح مكتبه الحسنات دہلی صفحه ۳۰۳-۳۰۵) مذکورہ مسائل میں دیو بندیوں کے مجد دالملت نے مسلمانوں کو ذات پات برادری کے لحاظ سے اونچا اور نیچا ثابت کیا ہے.یعنی (۱) - سید، شیخ علوی اور انصاری اونچی ذات کے ہیں اور مغل و پٹھان نیچی ذات کے ہیں اب چاہے کوئی مغل یا پٹھان کتنا ہی دیندار ہو اور مخلص ہو اور ایک سید اور علوی خواہ کتناہی بدعمل ہو مغل اور پٹھان بہر حال سید ، علوی اور انصاری سے نیچے درجے کا کہلائے گا.(۲) اسی طرح مسئلہ نمبر ۶ کے مطابق جو لوگ اپنے دادوں کے مسلمان ہونے کی وجہ سے پیدائشی مسلمان ہیں وہ ہر صورت میں ان لوگوں کی نسبت جو بعد میں خود ایمان لائے افضل و مکرم و محترم قرار پائیں گے گویا سید علوی انصاری کے گھر میں پید اہوناد یو بندی کے نزدیک افضلیت کی نشانی ہے.واہ دیو بند یو ! تم نے اسلام میں نئے شامل ہونے والوں کی خوب حوصلہ افزائی کی ہے حقیقت تو یہ ہے کہ تم نئے اسلام قبول کرنے والوں کی کیا حوصلہ افزائی کرو گے تمہارے نزدیک تو دیو بندیوں کے علاوہ باقی بنے بنائے مسلمانوں کو بھی کافر کہنا بڑے ثواب کا کام ہے.اسی طرح مسئلہ نمبرے میں پیشے کے اعتبار سے بھی مسلمانوں کو اونچا درجے کا اور گھٹیا درجے کا قرار دیا گیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ دیو بندیوں کے مجددالملت مولانا اشرف علی تھانوی ہندؤں کی منوسمرتی سے بے حد متاثر ہیں اور قرآن مجید کو چھوڑ کر ہندؤں کی منوسمرتی کو مسلمانوں پر لاگو کرنے کے لئے بے تاب ہیں منوسمرتی میں بھی صاف لکھا ہے کہ انسان پیدائش کے اعتبار سے افضل و غیر افضل ہوتا ہے منوسمرتی بتاتی ہے کہ پیدائشی ہند کا فضل ہیں اور بعد میں ہندو دھرم میں 52 59

Page 56

شامل ہونے والے سب لوگ شو در اور نیچ ذات کے ہیں بالکل اسی طرح دیو بندیوں کے مجدد الملت کہتے ہیں کہ پیدائشی اعتبار سے جو مسلمان ہے وہ بہر حال بعد میں ہونے والے مسلمان کی نسبت افضل ہے.منوسمرتی کا بھی کہنا ہے کہ براہمن پیدائش کے اعتبار سے افضل ہے اور کھتری دوسرے درجے کے ہیں بالکل یہی بات مولانا اشرف علی صاحب تھانوی فرماتے ہیں کہ سید شیخ، علوی اور انصاری پہلے درجے کے اور مغل و پٹھان دوسرے درجے کے ہیں.اب برادرانِ اسلام خود ہی فیصلہ کرلیں کہ انہوں نے دیو بندیوں کی منوسمرتی والی شریعت کو قبول کرنا ہے یا قرآن مجید کی اس شریعت کو قبول کرنا ہے جس میں کسی سید ، انصاری مغل ، پٹھان یا پیدائشی مسلمان کو افضل نہیں قرار دیا گیا بلکہ ان اکرمکم عندالله اتقکم فرما کر صرف اور صرف متقی کو معز مکرم اور افضل و برتر قراردیا گیا ہے اگر دیو بندی بھول چکے ہیں تو نئے سرے سے سرور کائنات حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ حجۃ الوداع کا مطالعہ کریں ،قرآن مجید کی سورۃ الحجرات کو گہری نظر سے پڑھیں مگر قرآن مجید کا صحیح عرفان بھی دراصل تقویٰ و طہارت رکھنے والوں کو نصیب ہوتا ہے اللہ فرماتا ہے لا یمسه الا المطهرون (الواقعہ :۸۰) کہ قرآن مجید کا صحیح علم اور سچا عرفان پاکبازلوگوں کو ہی نصیب ہے اور دوسرے تو اس کو چھو بھی نہیں سکتے اور اگر چھوئیں گے تو اپنی نیتوں کے فساد کے ہوسکتا نتیجہ میں صحیح مفہوم تک نہیں پہنچ سکیں گے.پس یہ ہے ذات برادری ، قوم و نسل اور پیشے کے اعتبار سے دیو بندی تفریق اور دیو بندی شرع جس کا عام مسلمانوں پر اس قدر بُرا اثر پڑا ہے کہ کئی خاندانوں کی نوجوان لڑکیاں اپنے کنوارے پن کی حالت میں ہی بوڑھی ہو گئیں لیکن ان کے گھٹیا نسل کے ہونے کی وجہ سے ان کی شادیاں نہیں ہوسکیں پریشان ہو کر اور دُکھ میں مبتلا ہو کر کئی خاندان مرتد ہو گئے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے اسلام کو خیر آباد کہہ گئے ایسے دلدوز واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں یہ 53 33

Page 57

دیو بندی علماء تو غفلت کے لحافوں سے باہر آنے کے لئے تیار نہیں انہیں اپنی کمائیوں سے تعویذ گنڈوں سے فرصت نہیں کہ یہ آنکھیں کھول کر دیکھ سکیں کہ اس وقت مسلمان کس دور اور مصیبت کے عالم میں زندگی بسر کر رہے ہیں ورنہ خود بھی ایسے واقعات آنکھوں سے دیکھ لیں ہم نے تو خود ہندوستان کے طول و عرض میں گھوم کر ان دردناک واقعات کا مشاہدہ کیا ہے کہ کس طرح کئی خاندان اس دیو بندی تعلیم کی وجہ سے اسلام کو ہی خیر باد کہہ گئے.چنانچہ ذیل میں ایسا ہی ایک واقعہ مرکز مکتبہ اسلامی دہلی سے شائع ہونے والی کتاب ” آپ کی الجھنیں اور ان کا حل صفحہ ۶۶ صفحہ ۶۷ سے درج کیا جاتا ہے جس میں مؤلف کتاب عمر افضل ایم اے لکھتے ہیں :.بھو پال جیسے شہر کا تذکرہ ہے جو خاصے عرصہ تک مسلم تہذیب و تمدن کا گہوارا رہا ہے اس شہر میں ۱۶ / اپریل ۱۹۷۳ ء کو محلہ جہانگیر آباد کے گرجا گھر کے سامنے ایک تانگہ آکر رُکا جس میں ایک مسلمان مرد، ان کی اہلیہ، دو جوان لڑکیاں اور لڑکے سوار تھے مسلمانوں میں ذات پات کی لعنت نے جس طرح رواج پالیا اس سے تنگ آکر پورے خاندان نے فیصلہ کر لیا وہ عیسائی ہو جائیں گے.اتفاقاً اس وقت ایک شناسا وہاں سے گزرے جب انہوں نے دریافت کیا کہ کہاں کا ارادہ ہے تو پورا مسلمان خاندان رو پڑا انہوں نے بتایا کہ اپنے مسلمان بھائیوں خصوصاً پڑوسیوں کے سلوک سے تنگ آکر انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اسلام کو چھوڑ کر عیسائی مذہب اختیار کرلیں.ان کی ایک لڑکی جوان ہو چکی تھی اور اس کی شادی کے سلسلہ میں وہ سخت پریشان تھے بڑی دوڑ بھاگ کے بعد جب کہیں سے کوئی پیغام آتا تو پڑوسی مسلمان یہ کہہ کر پیغام دینے والوں کو بھڑکا دیتے کہ لڑکی کا خاندان تو نائی برادری سے تعلق رکھتا ہے.حالانکہ وہ اپنی شرافت اور رہن سہن میں بہت سے متوسط شرفاء کے خاندانوں سے بہتر تھا.اور اب اس پیشہ سے عرصہ 54

Page 58

سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا.“ یہ بات صرف شادی بیاہ تک محدود نہیں ہے اس دیو بندی تفریق کا نتیجہ یہاں تک نکلا ہے کہ خود مسلمانوں میں بھی چھوٹی ذات کے کہلائے جانے والے مسلمانوں کے گھروں سے پانی تک نہیں پیا جا تا کھانا نہیں کھایا جا تا ان کے ہاتھ کا ذبیحہ حرام سے بدتر سمجھا جاتا ہے راقم الحروف نے دیو بندی تفریق کے یہ واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں آندھرا پردیش میں ترکل مسلمان اپنے آپ کو پتھر پھوڑ اور دھنگی مسلمانوں سے افضل سمجھتے ہیں اور ان کے گھروں میں کھانا کھانا یا ان کا ذبیحہ کھانا ہر گز پسند نہیں کرتے یہاں تک کہ ان چھوٹی ذات کے مسلمانوں کو تر کل مسلمان جو مکمل طور پر دیوبندی ملاؤں کے زیر اثر ہیں اپنی مساجد میں نماز بھی نہیں پڑھنے دیتے اور یہ چھوٹی ذات کے کہلائے جانے والے غریب مسلمان خود اس قدر احساس کمتری کا شکار ہیں کہ اپنے کھانے کے لئے بھی کلمہ پڑھ کر جانور ذبح نہیں کر سکتے اس پر بھی ترکلوں کی اجارہ داری ہے.یہی حال پنجاب ہریانہ میں بھی دیکھا ہے جہاں آج بھی وہ بے آباد مسجد میں موجود ہیں جن کے متعلق مشہور ہے کہ یہ فلاں قوم کے مسلمانوں کی مسجد ہے ایک ہی گاؤں میں ووقوموں کے مسلمان ایک مسجد میں اکھٹا ہو کر سجدہ ریز نہیں ہو سکتے اور یہ صرف اور صرف اس دیو بندی تعلیم کے نتیجہ میں ہے کہ فلاں قوم فلاں قوم کے برابر نہیں اور فلاں قوم فلاں قوم کے میل کی نہیں.کیا سرور کائنات حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہی اسلام دیا تھا جس کی تشہیر آج یہ دیو بندی کر رہے ہیں؟ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے آزاد کردہ غلام سے ، جی ہاں وہ غلام جن کو عربوں میں سب سے ذلیل ترین قوم سمجھا جاتا تھا اور جن کے ساتھ جانوروں کی طرح کا سلوک کیا جاتا تھا اپنی بہن کی شادی کر دی تھی.حضرت بلال ایک نہایت ہی غریب کالے رنگ کے اور حبشی مسلمان تھے جب ان کو رشتہ کی ضرورت محسوس ہوئی تو انہیں اپنے لئے 55 55

Page 59

بہت سے رشتوں میں سے کسی ایک رشتہ کا انتخاب کرنا مشکل ہو گیا تھا کیونکہ ان سے رشتہ قائم کرنا مہاجرین و انصار سب اپنے لئے باعث فخر سمجھتے تھے لیکن اگر یہ دیو بندی تعلیم رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی جاری ہوتی تو حضرت زید کو حضرت بلال کو اور ان جیسے کئی صحابہ کو ساری عمر کہیں رشتہ نہ ملتا.یہ دیو بندی جو اپنے آپ کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے حقیقی وارث قرار دے کر دوسروں کو دائرہ اسلام سے خارج کرتے ہیں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم تو گرے پڑے کمزور اور غریب لوگوں کو اپنے سینے سے لگاتے تھے اور یہ غریبوں اور چھوٹی قوموں کو دور سے دھکے مارتے ہیں.حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم تو عیسائیوں کو بھی مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دیتے تھے اور یہ کلمہ گو مسلمانوں کو اپنی مسجدوں سے نہ صرف دھکے مار کر نکالتے ہیں بلکہ مار مار کر انہیں لہولہان کر دیتے ہیں چنانچہ حال ہی میں ایسے واقعات نیپال میں رونما ہوئے ہیں ان دیو بندیوں نے جو اپنے آپ کو ختم نبوت کے محافظ کہتے ہیں احمدیوں کو مار مار کر ہلکان کر دیا ان کا بائیکاٹ کیا اور وہ تمام دُکھ دئے جو کفار مکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مقدس صحابہ کو دیتے تھے.خدا بچائے دیو بندیوں کے اس اسلام سے! ہم اس موقعے پر اپنے مسلمان بھائیوں کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے احمدیت کا پودا آج سے سو سال قبل اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے لگا یا تھا اگر یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا نہ ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ ان مولویوں کے اسے اکھاڑنے کی کوشش کرنے کے باوجود اسے کیوں مضبوطی عطا فرماتا ہے اور کیوں دینِ اسلام کی خدمت کرنے کی توفیق دیتا ہے چنانچہ قادیان پنجاب اور ہندوستان سے نکل کر یہ روحانی آواز دُنیا کے ڈیڑھ صد سے زائد ملکوں میں پھیل گئی ہے اور ہر سال ہی لاکھوں سعید روحیں اس رُوحانی قافلہ میں شامل ہوتی جارہی ہیں مسلم ٹیلی ویژن احمد یہ دن رات اسلام کی تبلیغ کررہا ہے اور دُنیا 56 50

Page 60

میں ہزاروں مسجد میں تعمیر کی جاچکی ہیں سینکڑوں مبلغین اسلام کا کام کر رہے ہیں لاکھوں کالے اور گورے افریقہ اور یورپ کے ممالک میں اسلام قبول کر رہے ہیں اور جماعت کے ہزاروں مبلغین مسلمانوں کے بچوں کو دیہاتوں اور شہروں میں مفت دین اسلام کی تعلیم دے رہے ہیں جماعت احمد یہ چاہتی ہے کہ گاؤں گاؤں میں آئندہ ایسے نوجوان تیا ر کر دئے جائیں جو اپنے گاؤں کے دینی کاموں کو سنبھال لیں خود ہی نمازیں پڑھا ئیں جنازے پڑھائیں ، نکاح پڑھائیں.جماعت احمد یہ یہ چاہتی ہے کہ گاؤں گاؤں سے جہالت کا خاتمہ کیا جائے تاکہ مولوی تعویذ گنڈوں کی رقمیں نہ لوٹ سکیں ، جماعت احمد یہ یہ چاہتی ہے کہ گاؤں گاؤں سے ان تمام بری رسموں کا خاتمہ کیا جائے جو آج مسلمانوں کے گلے کا طوق بن چکی ہیں، اور جن کی وجہ سے وہ غیر مسلموں کے مقابلہ میں زندگی کے ہر میدان میں پچھڑے ہوئے ہیں.پس تمام مولویوں کو چاہیے کہ وہ مخالفت چھوڑ کر اس نیک کام میں شامل ہوں جھوٹ بولنا، جھوٹے الزامات لگا نا چھوڑ دیں کیونکہ یہ جھوٹ اور مخالفت ان کے کسی کام نہ آئے گی بلکہ قیامت کے روز انکے لئے سیاہی کا ایک داغ بن جائے گی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ امام مہدی ومسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے یہ ان لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بد قسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے اے لوگو ! تم یقیناً سمجھو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دُعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جا ئیں تب بھی خدا ہرگز کتاب کی موجودہ اشاعت کے وقت یہ تعداد 200 سے تجاوز کر چکی ہے الحمد للہ.ناشر.57

Page 61

تمہاری دُعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرے....پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو کا ذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور.خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا...جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا.خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے لئے ایک موسم پس یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا.خدا سے مت لڑویہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو.“ (ضمیمہ تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۷ صفحہ ۱۳ - ۱۴) اللہ تعالیٰ رُوئے زمین پر اسلام کا بول بالا کرے اور ہر ایک کو مامور زمانہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ! 58

Page 62

Page 62