Language: UR
اس کتاب کو ابتدائی طور پر محترم پروفیسر حبیب اللہ خاں صاحب سابق قائد تعلیم مجلس انصاراللہ نے 1973ء میں مرتب کیا تھا۔ اوروقت کے ساتھ ساتھ جماعتی ترقیات اور عالمگیر فتوحات کےباعث اس میں اضافے لازمی تھے یوں اس کتاب کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کی اساسی غرض یہ تھی کہ اراکین انصاراللہ دینی معلومات کے لحاظ سے ایک ابتدائی معیار کو پہنچ جائیں۔ گو یہ کتاب اراکین مجلس انصاراللہ کے لئے لکھی گئی ہے۔ تاہم جہاں تک بنیادی معلومات کا تعلق ہے انصار، خدام ، اطفال ، لجنات و ناصرات سبھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
دینی معلومات كا بنیادی نصاب برائے اراکین مجلس انصار الله شائع کرده مجلس انصار اللہ پاکستان
نام کتاب ”دینی معلومات کا بنیادی نصاب“ طبع اوّل طبع دوم طبع سوم طبع چہارم طبع پنجم طبع ششم طبع ہفتم $1973 : 1979 $1983 $2003 $2007 $2009 *2013 کمپوزنگ فرحان احمد ذکاء حافظ عبدالمنان کوثر ضیاء الاسلام پریس ربوہ
3 ۱۷ ۲۲ نمبر شمار پیش لفظ باب اوّل فہرست مضامین عناوین عقائد، عبادات اور روزمرہ پیش آنے والے مسائل ہمارا مذہب نماز کے متعلق ضروری امور نماز اور اس کے پڑھنے کا طریق نماز کے بعد کی دعائیں نماز کے متعلق ضروری باتیں نماز جمعه نماز قصر میت کے احکام اور نماز جنازہ دعائے جنازہ روزہ کے احکام ۲۶ ۳۳ م گے اے شام کے کے گے " ۵۱ مسائل زکوة ۱۳ حج کے مسائل باب دوم ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ۱۴
۵۳ ۵۷ ۵۹ ۶۸ > 07 = ۸۶ ۹۳ مالد ۹۶ +1 ᏙᏏ ۱۰۵ االله ۱۳۵ چند منتخب احادیث باب سوم اختلافی مسائل عناوین مسئلہ وفات عیسی علیہ السلام مسئلہ ختم نبوت امکان نبوت از قرآن کریم امکانِ نبوت از احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم صداقت حضرت مسیح موعود از قرآن کریم زار کی حالت زار آہ نادر شاہ کہاں گیا ؟ لیکھرام کے متعلق پیشگوئی ڈاکٹر ڈوئی کے متعلق پیشگوئی طاعون کی پیشگوئی صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از احادیث باب چهارم رسوم و بدعات بد رسوم باب پنجم سیرت I ۲۹ لا ۱۸ ۱۹ σ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ لهلد ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۱۶
الدم الدلد الله ۱۵۳ ۱۵۷ 171 671 +71 ۱۸۹ ۲۱۱ ۲۴۵ ۲۹۸ ۲۹۹ ۳۰۴ ۳۰۸ حياة النبی صلی اللہ علیہ وسلم عناوین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حضرت علی کرم اللہ وجہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام حضرت خلیفتر أصبح الاول حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اصلح الموعود حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ ۳۲ ۳۳ لههلد قدرت ثانیہ کے مظہر خامس سال 2009 ء سال 2010ء سال 2011ء سال 2012ء سال 2013ء ۳۵ ۳۶ ۳۷ ۳۸ ۳۹ { { { IEE ۴۲ ۴۳ لدلد ۴۵ ۴۶ 7J
1 بسم الله الرحمن الرحيم تعدة وتقتلني على رسوله الكريم اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے قیادت تعلیم مجلس انصار اللہ پاکستان کو کتاب ”دینی معلومات کا بنیادی نصاب اراکین انصار اللہ کی خدمت میں ایک بار پھر پیش کرنے کی سعادت نصیب ہورہی ہے.الحمد للہ علی ذالك اس کتاب کو ابتدائی طور پر محترم پروفیسر حبیب اللہ خاں صاحب سابق قائد تعلیم مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے مرتب کیا تھا اور اس سے قبل اس کے چھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں.وقت کے ساتھ ساتھ جماعتی ترقیات کے حوالہ سے اس میں اضافے ہوتے رہے اور سال 2009 ء میں اس کا چھٹا ایڈیشن شائع ہوا.اب اس کے ساتویں ایڈیشن میں 2013ء تک خلافت خامسہ کے با برکت دور کے دورہ جات و تحریکات کو بھی شامل کر دیا گیا ہے.اس کام میں مکرم اسفند یا رمنیب صاحب اور مکرم محمدمحمود طاہر صاحب نے محنت سے کام کیا اور ان کی ٹیم نے معاونت فرمائی.فجزاهم الله احسن الجزاء
2 اس کتاب کی اشاعت کی غرض یہ ہے کہ اراکین انصار اللہ دینی معلومات کے لحاظ سے ایک ابتدائی معیار کو پہنچ جائیں.گو یہ کتاب اراکین انصار اللہ کیلئے لکھی گئی ہے تاہم جہاں تک بنیادی دینی معلومات کا تعلق ہے انصار، خدام، اطفال، لجنات، ناصرات سبھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے.آمین.والسلام خاکسار سید قمر سلیمان احمد قائد تعلیم مجلس انصاراللہ پاکستان 12 ستمبر 2013ء
3 باب اوّل عقائد.عبادات اور روزمرہ پیش آنے والے مسائل
4
5 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ہمارا مذہب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.وو ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لَا اِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ.ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالی اس عالم گذران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا ومولنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین وخیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہوسکتا اور نہ کم ہوسکتا ہے اور اب کوئی ایسی وجی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہوسکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغیر کر سکتا ہو.اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مؤمنین سے خارج اور ملحد اور کافر ہے اور ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنی درجہ
6 صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا.چہ جائیکہ راہ راست کے اعلیٰ مدارج بجز اقتداء اس امام الرسل کے حاصل ہوسکیں.کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت و قرب کا بجز بچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے.ہمیں جو کچھ ملتا ہے علقی اور خلیلی طور پر ملتا ہے".(ازالہ اوہام صفحہ ۶۹ - ۷۰، روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحه ۱۶۹-۱۷۰)
7 روز مرہ کے فقہی مسائل بچے کی ولادت: اسلام کا یہ حکم ہے کہ جب کسی کے گھر بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان کہی جائے اور بائیں کان میں اقامت گھٹی ( جسے ہمارے ملک میں گڑھتی بھی کہتے ہیں) دینا بھی مستحب ہے.ساتویں دن عقیقہ کیا جائے.لڑکے کی طرف سے دو بکرے یا مینڈھے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکرایا مینڈھا ذبح کیا جائے یہ سنت ہے.قربانی کی طرح عقیقہ کا گوشت بھی گھر میں استعمال کے علاوہ ہمسایوں ،رشتہ داروں اور غرباء میں تقسیم کرنا چاہئے.اگر لڑ کا ہوتو عقیقہ کے ساتھ ختنہ بھی کروا دیا جائے تو سہولت ہوگی لیکن ساتھ ہی کروانا ضروری نہیں.تعلیم وتربیت بچپن کا زمانہ تعلیم وتربیت کے لحاظ سے بڑا اہم ہے.اگر گھر اور اردگرد کا ماحول پاک صاف ہو تو بچے کی فطرتی سعادت چہک اٹھتی ہے اس لئے اس کا بہت خیال رکھنا چاہئے.ابتداء قاعدہ یسرنا القرآن سے کی جائے تو بچہ جلدی پڑھنے لگ جاتا ہے جب وہ سات برس کا ہو جائے تو اسے نماز پڑھنے کی ترغیب دینی چاہئے.گویا سات برس کی عمر ہونے تک اسے نماز سکھا دینی چاہئے.دس برس کی عمر میں نماز کی سخت تاکید ہونی چاہئے اور اگر ضرورت محسوس ہو تو کسی قدر سرزنش بھی کی جاسکتی ہے.دینی تعلیم بہر صورت دنیوی تعلیم سے مقدم پینی چاہئے.بلوغت سے قبل صحیح اعتقادات اور اہم اعمال یعنی نماز،
8 روزہ، حج ، زکوۃ وغیرہ سے متعلق ضروری تعلیم دے دینی چاہئے.صحیح عقائد صحیح عقائد جن پر ایمان کی بنیاد ہے یہ ہیں:.خدا تعالیٰ کی توحید کا اقرار اور اس امر پر ایمان رکھنا کہ اس کی ذات اور صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں.فرشتے اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہیں جو خدا تعالیٰ کا پیغام اور اس کا فیضان لوگوں تک پہنچاتے ہیں.دنیا کے تمام کام انہی کے توسط سے ہوتے ہیں.کائنات کا سارا نظام انہی کے ذریعہ سے چل رہا ہے.وہ خالق اور مخلوق میں ایک درمیانی واسطہ کا کام دیتے ہیں.۳.ہر زمانہ اور ہر قوم میں خدا کے نبی آتے رہے ہیں.ان تمام انبیاء کو ماننا ضروری ہے..پہلے زمانوں میں جو انبیاء مبعوث ہوئے ان کی تعلیم ایک خاص قوم کے لئے اور ایک خاص مدت کیلئے ہوتی تھی.ان میں سے بعض صاحب شریعت نبی تھے یعنی نئی تعلیم لے کر آئے تھے.جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام.لیکن بعض صاحب شریعت نہیں تھے بلکہ کسی صاحب شریعت نبی کی شریعت کے تابع تھے.جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ حضرت ہارون علیہ السلام یا ان کے بعد میں مبعوث ہونے والے دیگر انبیاء جو شریعت موسوی کے تحت مبعوث ہوئے.مثلاً حضرت عیسی علیہ السلام
9 ۵.دنیا کی ہدایت کیلئے جتنے نبی پیدا ہوئے.ان کے درجے اور مرتبے الگ الگ تھے اور ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت حاصل تھی.لیکن ان سب کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.آپ کو اولین و آخرین سب پر فضیلت حاصل ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاتم النبیین کے بزرگ خطاب سے نوازا.یعنی سب نبیوں سے اعلیٰ اور افضل اور سب نبیوں کے سردار.دوسرے انبیاء پر آپ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ آپ کی تعلیم اور شریعت کامل اور دائمی ہے جو تا قیامت قائم اور قابل عمل رہے گی اور ایک شعشہ بھی اس کا منسوخ یا تبدیل نہ ہوگا.خدائے تعالیٰ نے خود اس کی لفظی اور معنوی حفاظت کا ذمہ لیا ہے.مختلف زمانوں میں جو کتابیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی ہدایت کیلئے نازل ہوتی رہیں ان سب کو مانا ضروری ہے.لیکن ان پر عمل کرنے کا حکم نہیں کیونکہ قرآن کریم کے نزول کے ساتھ آخری اور کامل شریعت آچکی ہے اور اس کے سوا پہلی تمام شریعتیں منسوخ کی جاچکی ہیں.لہذا اب صرف قرآن کریم کی پیروی سے ہی خدائے تعالیٰ سے تعلق قائم ہو سکتا ہے.اس لحاظ سے وہ درجہ میں سب سماوی کتب سے افضل واعلیٰ ہے اور خدا کی آخری کتاب ہے اور ہر پہلو سے کامل اور کافی ہے جس کے ے.ہوتے ہوئے کسی اور تعلیم کی حاجت نہیں رہتی.مرنے کے بعد ایک دن ایسا آنے والا ہے جب سب کو دوبارہ زندہ کیا
10 جائے گا اور ان سے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا.ان میں سے جو لوگ خدا اور اس کے رسولوں کے احکام کی پیروی کرنے والے ہونگے وہ جنت میں رکھے جائیں گے لیکن وہ لوگ جو شرک اور ظلم اور فتنہ و فساد میں مبتلا رہے اور گندی زندگی بسر کی اُن کا ٹھکانا دوزخ ہوگا.دوزخ کا عذاب ایک خاص مدت کیلئے ہو گا لیکن جنت کا انعام دائمی ہوگا جو بھی ختم نہیں ہوگا..ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے وہ اب بھی دیکھتا اور سنتا اور بولتا ہے.جیسے پہلے دیکھتا، سنتا اور بولتا تھا.اب بھی وہ پکارنے والے کی پکار کوسنتا اور اس کا جواب دیتا ہے.اس کا کلام اپنے پیارے بندوں پر ہمیشہ نازل ہوتا رہا ہے اور اب بھی نازل ہوتا ہے.اس زمانہ کی ہدایت کیلئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور ان کے ذریعہ سے اپنی قدرتوں اور رحمتوں کے جلوے دنیا کو دکھلائے.۹.خدائے تعالیٰ کی تقدیر پر بھی یقین رکھنا ضروری ہے.یعنی اس بات پر کہ ہر خیر وشر کے اس نے اندازے مقرر کئے ہیں اس کی ایک تقدیر قانونِ قدرت کے رنگ میں جاری ہے جس سے ہر مومن و کافر یکساں متاثر ہوتا ہے.لیکن ایک تقدیر وہ ہے جو خاص بندوں سے تعلق رکھتی ہے.عام تقدیر تو یہ ہے کہ طاقتور کمزور پر اور اکثریت اقلیت پر غالب آتی ہے لیکن وہ خاص الخاص خدائی تقدیر تھی جس نے کمزور موسیٰ کو جابر فرعون پر غالب کر دیا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ کو باوجودا کیلے ہونے کے سارے
11 عرب پر غلبہ عطا کیا.خدا کی یہ خاص تقدیر اپنے رسولوں کی تائید کیلئے ہر زمانہ میں ظاہر ہوتی رہتی ہے.- حضرت عیسی علیہ السلام خدا کے ایک بزرگ نبی تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم سے قبل بنی اسرائیل میں نبی ہو کر آئے.ان کی پیدائش بن باپ کے تھی اور وہ دوسرے انسانوں اور دوسرے انبیاء کی طرح اپنی زندگی گذار کر فوت ہو گئے نہ وہ اس خا کی جسم کے ساتھ آسمان پر گئے اور نہ اب دوبارہ دنیا میں آئیں گے.مسیح ابن مریم کے نازل ہونے کی جو خبر ملتی ہے اس سے مراد مثیل مسیح ہے نہ کہ وہ مسیح ناصری جو قرآن کریم کے واضح بیان کے مطابق وفات پا کر ہمیشہ کیلئے اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں.پنج بنائے اسلام جو شخص دل سے کلمہ طیبہ لَا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ پڑھتا ہے وہ مسلمان ہے.اسے مذکورہ صحیح عقائد کی تعلیم دینی چاہئے.علاوہ ازیں ایک لمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اعمال صالحہ کی طرف بھی توجہ دے تب ہی وہ خدا کی رضا حاصل کر سکتا ہے.وہ امور جن پر اسلام کی بنیاد ہے.حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق پانچ ہیں جوار کانِ اسلام کہلاتے ہیں اور وہ یہ ہیں:.کلمہ شہادت جس کے الفاظ یہ ہیں اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - یعنی دل کے اعتقاد اور پورے یقین کے ساتھ زبان سے علی الاعلان یہ گواہی دینی کہ
12 اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ گواہی دینی کہ محمد اللہ کے رسول ہیں (صلی اللہ علیہ وسلم ) ۲.پانچ نمازوں کا ہر روز ان کے مقررہ وقت پر ادا کرنا.۳.رمضان کے روزے رکھنا.۴.بیت اللہ کا حج کرنا.۵.زکوۃ کا ادا کرنا.والدین کا فرض ہے کہ مندرجہ بالا عقائد وارکان اپنے بچوں کو محبت اور شفقت اور پوری توجہ سے سکھائیں اور اس میں ذرا بھی غفلت اور کوتا ہی نہ ہو.بعض اوقات مناسب تأدیب اور سرزنش سے بھی کام لینا پڑتا ہے.لیکن تربیت کا اصل انحصار دعا پر ہے.اگر دعا کا پہلو کمزور رہ جائے تو محض انسانی کوششوں سے نیک نتیجہ ظاہر نہیں ہوسکتا اور تعلیم و تربیت کرتے وقت یہ بات مد نظر رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.اگرِ مُوا أولادَكُمُ.یعنی اپنی اولاد کی عزت کرو اور ان سے احترام سے پیش آؤ.نماز کے متعلق ضروری امور ا.اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں مقرر کی ہیں.یعنی نماز فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء اوقات نماز فجر کی نماز صبح صادق کے ظاہر ہونے سے سورج کے نکلنے تک ادا کی جاتی ہے.
13 ظہر کا وقت سورج کے ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے اور اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب کسی چیز کا سایہ اس کی اونچائی سے بڑھ جائے یہ سایہ اس سایہ کے علاوہ ہے جو کسی چیز کا ٹھیک دوپہر کے وقت ہوتا ہے.ظہر کا وقت ختم ہونے سے شروع ہوتا اور دھوپ کا رنگ زرد ہونے تک رہتا ہے.مجبوری کی صورت میں سورج کے غروب ہونے تک پڑھی جاسکتی ہے.مغرب سورج کے غروب ہو جانے کے بعد سے اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ مغرب کی جانب سرخی اور سفیدی باقی رہے.یعنی شفق کے آخری وقت تک.عشاء شفق کے ختم ہونے سے شروع ہوتا ہے اور آدھی رات تک رہتا ہے.اگر کسی مجبوری کی وجہ سے آدھی رات تک نہ پڑھی گئی ہو تو اس کے بعد بھی نجر سے پہلے ادا کی جاسکتی ہے.اوقات ممنوعہ مندرجہ ذیل اوقات میں نماز پڑھنا ممنوع ہے.(الف) جب سورج نکل رہا ہو یا جب غروب ہورہا ہو.(ب) جب سورج سر پر ہو یعنی ٹھیک دوپہر کے وقت.
14 ج) نماز عصر کے بعد سے سورج کے غروب ہونے تک نفل نماز نہیں پڑھنی چاہئے.(1) صبح کی نماز کے بعد سے سورج کے نکلنے تک نقل نہیں پڑھنے چاہئیں.۴.تعداد رکعات فجر: دوسنت، دو فرض سنتیں اگر فرض سے پہلے نہ پڑھی جاسکیں تو فرضوں کے بعد پڑھ لینا جائز ہے.ظہر: چارسنت ، چار فرض.بعد میں دو یا چارسنتیں.پہلی چارسنتوں کی بجائے دو پڑھنا بھی جائز ہے.عصر چار فرض مغرب: تین فرض، دوسنت عشاء چار فرض.دوسنت.پھر تین رکعت وتر ۵_نوافل فجر کے علاوہ باقی ہر اذان اور اقامت کے درمیان دو نقل.i نماز تہجد کے کم از کم دو نفل زیادہ سے زیادہ آٹھ.iii- نماز اشراق کے دو یا چار نفل.یہ نماز سورج نکلنے کے بعد کچھ دن چڑھنے تک ادا کی جاتی ہے.iv- نماز چاشت کے دو یا چار نفل.اس کا وقت اشراق کے کچھ دیر بعد ہے.
15 ۶.شرائط نماز ومسائل وضو نماز کیلئے جسم، لباس اور جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے اگر انسان جنبی ہو یعنی منی خارج ہو گئی ہو یا مجامعت کی ہو تو پہلے غسل کرنا ضروری ہے.اگر کسی مجبوری کے باعث غسل نہ کر سکے تو تیم کر کے نماز ادا کر سکتا ہے.ے.نماز سے قبل وضو کرنا ضروری ہے.وضو کا طریق یہ ہے کہ تین مرتبہ ہاتھ پہنچوں تک دھوئے پھر تین مرتبہ کھلی کرے.تین دفعہ ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرے.تین مرتبہ منہ دھوئے.پھر کہنیوں تک ہاتھ تین مرتبہ دھوئے پھر ہاتھ تر کر کے سر کا مسح کرے پیشانی سے گڈی تک پھر انگلی کان کے اندر پھرائے اور انگوٹھوں کو کان کی پشت پر سے گزارے.پھر دائیں اور بائیں پاؤں کو تین تین مرتبہ دھوئے.اگر پانی کی قلت ہو تو دود و یا ایک ایک مرتبہ دھونا بھی جائز ہے.۸.اگر پانی بالکل میسر نہ ہو یا اس قدر کم ہو کہ صرف پینے کے لئے کافی ہو یا وضو کرنے یا نہانے سے بیماری پیدا ہونے یا پڑھنے کا ڈر ہو تو تیم کر لینا چاہئے.تیمّم کا طریق یہ ہے کہ پاک مٹی یا کچی دیوار پر ہاتھ مار کر منہ پر ملے اور دوسری مرتبہ ہاتھ مار کر دونوں ہاتھوں پر کہنیوں یا کلائی تک ملے.ایک مرتبہ ہاتھ مار کر تمیم کرنا بھی مسنون ہے.۹.غسل اور وضو کیلئے پانی پاک صاف ہونا چاہئے.چشموں، ندی نالوں،
16 دریاؤں اور کنوؤں کا پانی پاک ہوتا ہے.بند پانی مثلاً تالاب وغیرہ کا پاک سمجھا جاتا ہے بشرطیکہ کسی گندگی کی وجہ سے اس کا رنگ اور ذائقہ نہ بدلا ہو اور نہ بو بدلی ہو.اگر کنویں یا تالاب میں کوئی جانور گر کر مر جائے یا اور کوئی گندی چیز گر جائے تو اسے نکال دینا چاہئے.جب تک پانی کے رنگ بو یا ذائقہ میں اس کی وجہ سے فرق پیدا نہ ہو وہ پاک ہے.اگر ان میں تبدیلی ہوگئی ہے تو اس قدر پانی نکالا جائے کہ رنگ، ذائقہ اور کو صاف ہو جائے.ڈولوں کی تعداد معین نہیں.۱۰.وضو کے بعد یہ دعا پڑھنی چاہئے.اَللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ - اے اللہ مجھے تو بہ کرنے والوں میں سے کر دے اور مجھے پاک رہنے والوں میں سے بنادے.ا.پیشاب، پاخانہ یا کوئی اور رطوبت یا ریح خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے.کسی چیز کا سہارا لگا کر یا لیٹ کر سونے سے بھی وضوٹوٹ جاتا ہے.ہوا خارج ہونے یا وضو ٹوٹ جانے کے بارے میں اگر شک ہو تو شک کی وجہ سے تازہ وضو کر نالازم نہیں آتا.تاہم وضو کر لینا باعث ثواب ہے.۱۲.جرا ہیں اگر وضو کی حالت میں پہنی ہوں تو ان پر مسح کیا جا سکتا ہے.مقیم کیلئے جرابوں پر ایک دن رات تک مسح کرنا جائز ہے.لیکن مسافر تین دن اور تین رات ان پر مسح کر سکتا ہے.وقت کی ابتداء اس گھڑی سے ہوگی جب جرا میں پہننے کے بعد وضو ٹوٹے.اگر کسی نے ظہر کے وقت وضو کر
17 کے جرابیں پہنیں اور مغرب کے وقت وضو ٹوٹا تو اس مغرب سے مسح کا وقت شروع ہوگا اور اگلے روز مغرب تک رہے گا.۱۳.نماز میں کھڑے ہوئے یا رکوع یا سجدہ میں سو جانے یا اونگھنے سے وضو نہیں ٹوٹتا.۱۴.اگر بوٹ ٹخنوں تک ہوں اور ان کو پہن کر نماز پڑھنی ہو تو ان پر مسح ہو سکتا ہے اور نہ بوٹ اُتار کر پاؤں دھوئے یا جرا ہیں بادونو پہنی ہوں تو ان پر مسح کرے.نماز اور اس کے پڑھنے کا طریق نماز پڑھنے والا جب نماز کیلئے تیار ہو تو چاہئے کہ قبلہ رخ کھڑا ہو.دونوں ہاتھ کانوں یا کندھوں تک اُٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ سینے پر یا اس کے نیچے اس طرح باند ھے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ پر پونچے سے آگے ہو اور حسب ذیل ثناء اور تعوذ اور تسمیہ پڑھے.ثاء: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ یعنی اے اللہ تو ہر عیب اور کمزوری سے پاک ہے اور (صرف پاک ہی نہیں بلکہ ) تمام قابل تعریف صفات سے متصف ہے تیرا نام برکت والا اور تیری شان بلند ہے اور تیرے سوا کوئی اور معبود نہیں.تعوّذ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ
18 میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی دھتکارے ہوئے شیطان سے.تمیه: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھتا ہوں اللہ کے نام سے جو بن مانگے دینے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اس کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھ کر کوئی اور سورۃ یا کچھ حصہ قرآن کریم کا سورۃ فاتحہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِن ملِكِ يَوْمِ الدين إيّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ : غير المَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ سب تعریف اللہ تعالیٰ کیلئے ہے جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے.بےحد کرم کرنے والا، بار بار رحم کرنے والا ، جزا سزا کے وقت کا مالک ہے (اے خدا) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں.ہمیں سیدھے راستے پر چلا.اُن لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا ہے.جن پر غضب نہیں کیا گیا اور جو گمراہ نہیں ہوئے.
19 سورة اخلاص بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ قل هو الله احد الله ان لم يلد ولم يولدن وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوا احده ترجمعہ: ” ( میں اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے (پڑھتا ہوں ) تو کہتا چلا جا کہ اللہ اپنی ذات میں اکیلا ہے.اللہ وہ ہستی ہے جس کے سب محتاج ہیں.(اور وہ کسی کا محتاج نہیں ) نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ جنا گیا ہے اور (اس کی صفات میں اس کا کوئی بھی شریک کار نہیں ) اس کے بعد اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں جائے اور کم از کم تین بار سُبحَانَ ربی العظیم پڑھے.(یعنی پاک ہے میرا رب بڑی عظمت والا ) اطمینان سے رکوع کرنے کے بعد سیدھا کھڑا ہو کر تسمیع وتحمید پڑھے.تسميع: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اللہ تعالیٰ نے اس کی سنی جس نے اس کی تعریف کی.تحميد : رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ حَمُدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ - اے ہمارے رب سب تعریف تیرے لئے ہے.تعریف بہت زیادہ اور پاک جس میں برکت ہو.
20 اس کے بعد اللہ اکبر کہہ کر سجدہ میں جائے اور کم ازکم تین بار تسبیح پڑھے.یعنی سُبْحَانَ رَبِّيَ الأعْلَی پاک ہے میرا رب جو بڑی شان والا ہے) اس کے بعد اللہ اکبر کہہ کر بیٹھ جائے اور یہ دعا پڑھے.دعائے بین السجدتین اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمُنِي وَاهْدِنِي وَعَافِنِي وَاجُبُرُنِي وَارْزُقْنِي وَارْفَعُنِي اے میرے اللہ میرے گناہ بخش دے اور مجھ پر رحم کر اور میری رہنمائی فرما اور مجھے تندرستی دے اور میری اصلاح کر اور مجھے رزق عطا فرما.اور میرے درجات بلند کر.اس دعا کے بعد اللہ اکبر کہہ کر دوسرا سجدہ کرے اور تین بار سُبْحَانَ ربي الأغلى پڑھے جس طرح پہلے سجدہ میں پڑھی تھی.پھر اللہ اکبر کہہ کر دوسری رکعت کیلئے سیدھا کھڑا ہو جائے اور ہاتھ باندھ کر پہلی رکعت کی طرح سورہ فاتحہ اور کوئی اور حصہ قرآن کا پڑھے.پھر پہلے کی طرح رکوع کرے.کھڑا ہو اور دوسجدے کر کے دوسری رکعت مکمل کرے اور پھر اس طرح بیٹھ جائے کہ دایاں پاؤں کھڑا ہو اور بایاں پاؤں بچھا ہوا ہو.ہاتھوں کو گھٹنوں کے پاس رانوں پر رکھ کر تشہد، درود اور دعائیں پڑھے.
21 تشهد اَلتَّحِيَّاتُ لِلهِ وَالصَّلَواتُ وَالطَّيِّبَتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّلِحِينَ اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ترجمعہ: تمام زبانی اور بدنی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں ( اور ) اے نبی آپ پر سلام اور اللہ تعلی ک رحمت اور برکتیں ہوں نیز ہم پر بھی سلام ہو اور اس کے دوسرے نیک بندوں پر بھی.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں.“ درود شریف اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اَللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ترجمعہ: ” اے اللہ فضل کر محمد پر اور محمد کی پیروی کرنے والوں پر جس طرح فضل کیا تو نے ابراہیم اور ابراہیم کی پیروی کرنے والوں پر ضرور تو ہی حمد والا بڑی شان والا ہے.اے اللہ برکت نازل فرما محمد پر اور محمد کی پیروی کرنے
22 والوں پر جس طرح تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم پر اور ابراہیم کی پیروی کرنے والوں پر.ضرور تو ہی سب تعریف والا اور بڑی شان والا ہے.“ دعائیں رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے رب دے ہم کو اس دنیا میں ہر قسم کی بھلائی اور آخرت میں بھی ہر قسم کی بھلائی اور بچا ہم کو آگ کے عذاب سے.رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلُ دُعَاءِ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابِ اے اللہ بنا مجھ کو قائم کرنے والا نماز کا اور میری اولاد کو (بھی) اے ہمارے رب اور تو قبول کر دعا کو.اے ہمارے رب بخش دے مجھے اور میرے والدین کو اور سب مومنوں کو جس دن حساب قائم ہو.ان دعاؤں کے بعد پہلے دائیں طرف اور پھر بائیں طرف منہ پھیر کر کہے.اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ.یعنی سلامتی ہو تم پر اور اللہ کی رحمتیں.نماز کے بعد کی دعائیں اللَّهُمَّ اَنْتَ السَّلامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَاذَ الْجَلَالِ
23 وَالْإِكْرَامِ یعنی اے اللہ تو سلام ہے اور تجھ سے ہی ہر قسم کی سلامتی ہے تو بہت برکتوں والا ہے اے جلال اور اکرام والے (خدا) اللَّهُمَّ أَعِنِّى عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ اے اللہ میری مدد فرما کہ میں تیرا ذ کر اور تیرا شکر اور تیری اچھی عبادت بجا لاسکوں.اَللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَالْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ اے اللہ کوئی روکنے والا نہیں اس چیز کو جو تو نے عطا کی اور نہیں دینے والا کوئی چیز جس کو تو نے روک دیا ہو اور نہیں فائدہ دیتی بزرگی والے کو تیرے سامنے کوئی بزرگی.دعاؤں کے بعد تینتیس دفعه سُبْحَانَ الله تینتیس دفعہ الْحَمْدُ لِله اور چونتیس دفعہ اللہ اکبر پڑھے.نماز وتر نماز وتر واجب ہے اس کی تین رکعتیں ہیں جو عشاء کے فرض اور دوسنتوں کے بعد سے تہجد کا وقت ختم ہونے تک پڑھی جاسکتی ہیں.بہتر یہی ہے کہ عشاء کی نماز کے ساتھ پڑھی جائیں لیکن جس شخص کو یقین ہو کہ وہ تہجد کے وقت اُٹھ سکتا ہے وہ اس وقت ادا کرے.پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ ، دوسری میں الکافرون اور تیسری میں سورۃ اخلاص پڑھنا مسنون ہے.تینوں رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی حصہ قرآن کریم پڑھنا ضروری ہے.نماز وتر پڑھنے کے کئی طریق ہیں.
24 دور کعت علیحدہ اور تیسری رکعت علیحدہ ( بخاری ومسلم) تینوں رکعتیں ملا کر یعنی دور کعت کے تشہد کے بعد تیسری رکعت پڑھیں.دعاء قنوت تیسری رکعت میں رکوع کے بعد پڑھیں.دعاء قنوت نمبرا (ابوداؤد - ترندی) اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِيْنُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ وَنَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ - اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُوَنَرْجُوا رَحْمَتَكَ وَنَخْشَى عَذَابَكَ إِنَّ عَذَابَكَ بِالكُفَّارِ مُلْحِقِّ.ترجمعہ: ” اے اللہ ہم یقیناً تیری مدد چاہتے ہیں اور تجھ سے بخشش مانگتے ہیں اور ہم تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور ہم تو کل کرتے ہیں تجھ پر اور ہم تعریف کرتے ہیں تیری بہتر اور ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور ہم تیری ناشکری نہیں کرتے اور ہم الگ ہوتے ہیں اور چھوڑتے ہیں اسے جو نا فرمانی کرے تیری.اے اللہ صرف تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تیرے لئے ہم نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور تیری طرف ہم دوڑتے ہیں اور ہم تیرے حضور حاضر ہوتے ہیں اور ہم امید رکھتے ہیں تیری رحمت کی اور ہم ڈرتے ہیں تیرے
25 ب سے.یقینا تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے.دعاء قنوت نمبر ۲ اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيْمَنْ هَدَيْتَ وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ وَ تَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَبَارِكْ لِى فِيْمَا أَعْطَيْتَ وَقِنِي شَرَّمَا قَضَيْتَ فَإِنَّكَ تَقْضِيْ وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَّالَيْتَ وَإِنَّهُ لَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ نَسْتَغْفِرُكَ وَنَتُوبُ إِلَيْكَ وَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَ تَعَالَيْتَ وَصَلَّى اللهُ عَلى النَّبِيِّ الله ترجمعہ: ” اے اللہ مجھے ہدایت دے اِن میں شامل کر کے جن کو تو نے ہدایت دی اور مجھے سلامت رکھ ان لوگوں میں شامل کر کے جن کو تو نے سلامت رکھا اور مجھے دوست رکھ ان میں شامل کر کے جنہیں تو دوست رکھتا ہے اور برکت دے مجھے اس میں جو تو نے مجھے عطا کیا اور بچا مجھے اس چیز کے شر سے جس کا تو نے فیصلہ کیا.پس یقینا تو ہی فیصلہ کرتا ہے اور نہیں فیصلہ کیا جاتا تیرے خلاف.یقیناً وہ نہیں ذلیل ہوگا جس کا تو دوست بن جائے اور یقیناً وہ نہیں عزت پاتا جس کا تو دشمن ہو جائے.ہم بخشش مانگتے ہیں تجھ سے اور ہم رجوع کرتے ہیں تیری طرف.تو برکتوں والا ہے اے ہمارے رب ! اور تو بلندشان والا ہے اور رحمتیں ہوں اللہ کی نبی (کریم) پر “
26 نماز سے متعلق ضروری باتیں اگر نماز کی صرف دو رکعت پڑھنی ہوں تو دوسری رکعت کے تشہد کے بعد درود اور دعائیں پڑھ کر سلام پھیر دے.۲.اگر نماز کی تین رکعتیں پڑھنی ہوں تو دوسری رکعت میں تشہد پڑھنے کے بعد الله اكبر کہہ کر کھڑا ہو جائے.تیسری رکعت میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھے اور رکوع و سجود سے فارغ ہو کر تشہد وغیرہ پڑھے اور سلام پھیر دے..اگر فرض نماز کی چار رکعتیں پڑھنی ہوں تو پہلی دور کھتیں پڑھ کر بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے.تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھے اور چوتھی رکعت کے سجدوں سے فارغ ہو کر تشہد کیلئے بیٹھے اور درود اور دعاؤں کے بعد سلام پھیر دے..اگر سنتیں یا نکل چار پڑھنے ہوں تو چاروں رکعتوں یا چاہے تو صرف پہلی دورکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کا کوئی حصہ پڑھے.۵.امام سورۃ فاتحہ کے بعد دوسری سورۃ پڑھنے کیلئے بسم اللہ خواہ دل میں (سرا) پڑھے یا بلند آواز سے (جہڑا) پڑھے دونوں طرح درست ہے.اسی طرح آمین بھی آہستہ یا بلند آواز سے کہنا درست ہے.۶ - تشہد میں اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللہ کہتے وقت شہادت کی انگلی اٹھائے.انگلی اٹھانا مستحب ہے.
27 ے.رکوع کے وقت کمر سیدھی ہو اور نگاہیں نیچے سجدہ گاہ پر ہوں.رکوع پورے اطمینان سے کیا جائے.۸.رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا چاہئے.پھر اطمینان سے سجدہ کیا جائے.سجدہ میں جانے کیلئے گھٹنے زمین پر پہلے رکھے سوائے اس کے کہ کوئی مجبوری ہو.سجدہ کے وقت پیشانی ، ناک، دونوں ہاتھ ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے پنجے زمین کو چھورہے ہوں.کہنیاں زمین سے اونچی ہوں.باز و بغلوں سے اور رانوں سے الگ ہوں.ہاتھوں کی انگلیاں اکٹھی اور قبلہ رخ ہوں.اسی طرح پاؤں کی انگلیاں بھی.پاؤں زمین سے اُونچے نہ کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سینے پر ہاتھ باندھتے تھے.بعض لوگ ناف پر یا پیٹ پر باندھتے ہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں.یہ جواز کی صورتیں ہیں.۱۰.نماز میں اگر کچھ بھول جائے یا کسی قسم کی کمی بیشی کا خیال ہو تو یقینی حصہ سے نماز پوری کرے اور تشہد ، درود اور ماثورہ دعاؤں کے بعد سلام سے پہلے یا پیچھے دو سجدے سہو کرے.مثلاً شبہ ہو کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار تو تین یقینی سمجھ کر ایک رکعت اور پڑھے اور پھر سجدہ سہو کرے..امام اگر کوئی چیز بھول جائے یا غلطی کرے تو مقتدیوں کو چاہئے کہ سبحان اللہ کہیں.اگر امام اپنی غلطی کو نہ پہچانے تو امام کی اتباع کی جائے اور بعد نماز غلطی سے مطلع کر دیا جائے.اگر امام کوئی آیت بھول جائے یا غلط ا.
28 پڑھے تو مقتدی اونچی آواز سے صحیح آیت پڑھ دیں.غلطی سے اگر نماز کے ارکان کی ترتیب بدل جائے یا نماز کا کوئی واجب رکن رہ جائے مثلاً درمیانی قعدہ تو سجدہ سہوضروری ہو جاتا ہے.ا.مقتدی کی کوئی حرکت امام سے پہلے نہیں ہونی چاہئے.۱۳.اگر صرف ایک ہی مقتدی ہو تو امام کے دائیں طرف کھڑا ہو.۱۴.جس وقت امام سورۃ فاتحہ کے علاوہ کوئی حصہ قرآن کریم کا پڑھے تو مقتدی خاموش کھڑے رہ کر سنیں.آیات کو زبان سے نہ دہرائیں.البتہ سورۃ فاتحہ خلف امام سب کیلئے پڑھنا ضروری ہے.( ملفوظات جلد نهم صفحه ۴۳۶ ) ۱۵.نمازی کے سامنے سے گزرنا منع ہے اگر کوئی نمازی مسجد میں نماز پڑھ رہا ہو تو ایک صف کی جگہ چھوڑ کر اس کے سامنے سے گذر سکتے ہیں.جو نمازی کھلی جگہ نماز پڑھے اس کو چاہئے کہ کوئی چیز اپنے سامنے رکھ لے.اسے سترہ کہتے ہیں.۱۶.اگر کوئی شخص ایسے وقت میں جماعت میں شامل ہو جب امام ایک یا دو رکعتیں پڑھ چکا ہو تو جتنی رکعتیں رہ گئی ہیں امام کے سلام پھیر لینے کے بعد پوری کرے.یعنی خود امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے بلکہ نماز کی تکمیل کے لئے کھڑا ہو جائے اگر نمازی پہلی یا دوسری رکعت میں شامل نہ ہوسکا ہو تو ایسی صورت میں جو رکعت یا رکعتیں وہ پڑھے گا اس میں سورۃ فاتحہ
29 کے علاوہ بھی قرآن کریم کا ایک حصہ پڑھنا ضروری ہے جو کم و بیش تین آیات کے برابر ہو.اس کے لئے یہ رکعتیں ابتدائی ہونگی.۱۷.اگر کوئی شخص وضوٹوٹ جانے کی وجہ سے باجماعت نماز سے الگ ہوا اور وضو کر نے کے بعد دوبارہ جماعت میں شامل ہو جائے تو جتنی رکعتیں رہ گئی ہیں وہ پوری کرے.اگر کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہے اور نماز پڑھتے پڑھتے وضو ٹوٹ جائے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وضو کر کے وہیں سے نماز شروع کرے جہاں سے چھوڑی تھی بشرطیکہ کسی سے بات نہ کی ہو.بات کرنے کی صورت میں شروع سے نماز پڑھنی ہوگی.۱۸.جو شخص رکوع میں امام کے ساتھ شامل ہو اس کی یہ رکعت ہو گئی رکوع کے بعد شامل ہونے والے کی وہ رکعت نہیں ہوتی.جب نماز کھڑی ہو جائے تو اس خیال سے جماعت میں شامل ہونے سے رکے رہنا کہ رکوع میں شامل ہو جائیں گے درست نہیں جب نماز ہورہی ہو تو فوراً اس میں شامل ہونا ضروری ہے.۱۹.نماز میں شامل ہونے کے لئے بھاگ کر جانا درست نہیں.۲۰.اگر کسی شخص نے پہلے وقت کی نماز نہ پڑھی ہو اور دوسرے وقت کی نماز کھڑی ہوگئی ہو ایسی صورت میں اسے پہلے وقت کی نماز پہلے پڑھنی چاہئے.اگر دوسرے وقت کی نماز کا وقت اس قدر تنگ ہو گیا ہو کہ اگر پہلی پڑھے تو دوسری کا وقت گذر جائے گا تو ایسی صورت میں بعد والی نماز پہلے
30 ادا کرے اور جو پہلی اس کے ذمہ تھی اس کو پیچھے ڈال دے.۲۱.اگر کسی وقت امام دو نمازوں کو جمع کرے اور نمازی کو علم نہ ہو کہ کونسی ہے اور وہ جماعت میں شامل ہو جائے تو اس کی وہ نماز ہوگی جو امام کی تھی اور دوسری نماز بعد میں پڑھے.مثلاً اگر امام عصر کی نماز پڑھ رہا تھا اور نمازی اُسے ظہر سمجھ کر اس میں شریک ہوا تو وہ اس کی بھی عصر کی نماز ہوگی اور ظہر کی قضاء وہ بعد میں ادا کرے گا.لیکن اگر نمازی کو علم ہو جائے کہ امام عصر پڑھ رہا ہے تو اُسے ظہر بہر حال پہلے پڑھنی چاہئے اور پھر بعد میں عصر میں شریک ہو.۲۲.اگر کوئی مقتدی سنتیں پڑھ رہا ہو اور اس اثناء میں نماز کھڑی ہو جائے تو اس کو چاہئے کہ فور اسلام پھیر کر نماز با جماعت میں شامل ہو جائے اور سنتیں بعد میں پڑھ لے.۲۳.اگر امام چار رکعت پڑھا رہا ہو اور وہ درمیانی تشہد بھول کر تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہونے لگے تو سیدھا کھڑے ہونے سے پہلے یاد آنے پر وہ تشہد میں بیٹھ جائے تو سجدہ سہو کی ضرورت نہیں.لیکن اگر وہ تیسری رکعت کے لئے پورا کھڑا ہو گیا ہے تو تشہد کے لئے نہ بیٹھے بلکہ تیسری رکعت پڑھے اور آخر میں سجدہ سہو کرے.جو شخص دو رکعت پڑھ رہا تھا بھول کر تیسری کے لئے کھڑا ہو گیا اور بعد میں اسے یاد آ گیا کہ وہ نماز پوری کر چکا ہے تو وہ اسی وقت بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے اور اپنی نماز پوری کرے.لیکن اگر اس نے تیسری رکعت کا رکوع کر لیا اور پھر یاد آیا تو وہ فوراً تشہد
31 کے لئے بیٹھ جائے اور آخر میں سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے.۲۴.رکوع یا سجدہ کی حالت میں قرآن کریم کی کوئی آیت پڑھنا منع ہے.۲۵.مومن کا امام متقی مومن ہی ہو سکتا ہے.حدیث امــامـکـم مـنـكـم ای طرف اشارہ کر رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.” خدائے تعالیٰ نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذب یا متر زد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو“.۲۶.نظام جماعت کی طرف سے امام مقرر ہوتا ہے جس کے تقریر میں یہ باتیں پیش نظر رکھنی ضروری ہیں.۲۷.نماز کا امام وہ ہونا چاہئے جسے قرآن کریم زیادہ حفظ ہو.اگر اس میں کئی لوگ برابر ہوں تو وہ ہو جو زیادہ عالم اور فقیہہ ہو.اگر اس میں بھی کئی برابر ہوں تو جو عمر میں بڑا ہو وہ امام ہو.اگر دوسری مسجد میں جائے جہاں پہلے سے امام مقرر ہے تو وہاں وہی امام ہوگا.سوائے اس کے کہ کہ وہ دوسرے کو امامت کی اجازت دے.اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کے مکان پر ملنے جائے تو مالک مکان امام ہو گا.سوائے اس کے کہ وہ دوسرے کو اجازت دے.قرآن کریم کے حفظ کے لحاظ سے نا بالغ بھی امام ہو سکتا ہے.۲۸.امام اور مقتدی ایک ہی سطح پر ہونے چاہئیں.لیکن اگر جگہ نہ ہو تو مقتدی امام سے اونچی یا نیچی جگہ پر کھڑے ہو سکتے ہیں بشرطیکہ کچھ مقندی امام
32 کے ساتھ برابر کی سطح میں موجود ہوں.۲۹.مرد عورتوں کا امام ہو سکتا ہے خواہ مقتدی صرف عورتیں ہوں یا مرد اور عورتیں ملے جلے.عورت مردوں کی امام نہیں ہوسکتی البتہ عورتوں کی امام ہوسکتی ہے جب مر دامام ہو اور مقتدی صرف ایک عورت ہو تو وہ اکیلی پیچھے کھڑی ہوگی.اگر مقتدی امام کی بیوی یا محرم ہو یعنی بہن، بیٹی وغیرہ تو و مرد کے ساتھ کھڑی ہو سکتی ہے.وہ ۳۰.اگر امام مسافر ہوتو وہ دورکعت پڑھے گا اور جو مقتدی مقیم ہیں وہ امام کے سلام پھیر نے کے بعد اپنی نماز مکمل کریں گے.۳۱.اگر امام کھڑے ہونے سے معذور ہو تو وہ بیٹھ کر بھی نماز پڑھا سکتا ہے لیکن مقتدی اس کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھیں گے.۳۲.اگر امام کا نماز پڑھاتے وقت وضو ٹوٹ جائے تو وہ مقتدیوں میں سے کسی کو امام بنائے اور آپ الگ ہو جائے.۳۳.کوئی مقتدی امام سے آگے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا.۳۴.نماز میں مسنون دعاؤں کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دعائیں کرنی چاہئیں اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.نماز کے اندر اپنی زبان میں دعا مانگنی چاہئے کیونکہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے پورا جوش پیدا ہوتا ہے.نماز کے اندر ہر موقع پر دعا کی جاسکتی ہے.رکوع میں، بعد تسی سجدہ میں بعد تسبیح، التحیات
33 کے بعد، کھڑے ہوکر ، رکوع کے بعد بہت دعائیں کرو تا کہ مالا مال ہو جاؤ“.(ملفوظات جلد نہم صفحہ ۵۵) ۳۵.ایک وقت کی نماز بھی اگر جان بوجھ کر ترک کی جائے تو یہ کفر کی حالت کو پہنچا دیتی ہے.اس کے لئے بہت تو بہ اور استغفار کرنی چاہئے.اگر کسی بھول کی وجہ سے کوئی نماز رہ جائے تو قضا ادا کرے اور استغفار و توبہ لازم ہے.نماز جمعہ ا.نماز جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کی نماز کا ہے لیکن کسی ضرورت کی وجہ سے امام وقت کی اجازت سے سورج ڈھلنے سے پہلے بھی جمعہ پڑھا جا سکتا ہے.- جمعہ کی نماز سب مسلمان مردوں پر جو مقیم ہوں فرض ہے.جمعہ عورتوں پر واجب نہیں البتہ اگر فتنہ کا ڈر نہ ہو اور پردہ کا انتظام ہو تو عورتوں کو بھی جمعہ پڑھنا چاہئیے.( ملفوظات جلد ششم صفحه ۱۳۹) مسافر پر جمعہ واجب نہیں.سفر میں ہوں تو خواہ جمعہ پڑھیں خواہ ظہر پڑھیں.اگر کسی جگہ تین مرد ہوں تو ضرور جمعہ پڑھیں.اگر تین کی تعداد پوری نہ ہو تو عورتوں کو شامل کر لیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوا کہ دو احمدی کسی گاؤں میں ہوں تو وہ بھی جمعہ پڑھ لیا کریں یا نہ حضور نے فرمایا: ہاں پڑھ لیا کریں.فقہاء نے تین آدمی لکھے ہیں.اگر کوئی
34 اکیلا ہو تو وہ اپنی بیوی وغیرہ کو پیچھے کھڑا کر کے تعداد پوری کر سکتا ہے.( ملفوظات جلد نہم صفحه ۲۱۴) ۴.جمعہ کی دواذانیں ہوتی ہیں.ایک شروع وقت میں اور دوسری اس وقت جب امام خطبہ کیلئے کھڑا ہو.۵.جب جمعہ کی اذان ہو جائے تو سب کا روبار بند کر کے مسجد کی طرف چلے جانا چاہئے.اس بارہ میں قرآن کریم کا حکم بہت واضح ہے.نماز جمعہ کے دو حصے ہیں ایک خطبہ اور ایک باجماعت نماز.خطبہ پہلے ہوتا ہے اس کے بعد دو رکعت فرض پڑھے جاتے ہیں.خطبہ کے بغیر نماز جمعہ نہیں ہوتی.ے.فرض سے پہلے چار سنتیں پڑھے بشرطیکہ خطبہ شروع نہ ہوا ہو.جب خطبہ شروع ہو جائے تو صرف دو سنتیں جلدی جلدی پڑھے لیکن اسے عادت نہ بنائے اور فرض کے بعد دو یا چار سنتیں پڑھے.۸.خطبہ پوری توجہ سے سنا جائے اور بالکل باتیں نہ کی جائیں.کسی کو باتوں سے روکنا ہو تو اشارہ سے روکا جاسکتا ہے.خطبہ کے وقت تنکوں سے کھیلنا بھی ممنوع ہے.جمعہ کے روز غسل کرنے کی خاص تاکید کی گئی ہے.غسل کے بعد انسان
35 اچھے صاف ستھرے کپڑے پہنے اور میسر ہو تو خوشبو لگائے..امام جب مسجد میں آئے تو اذان کا حکم دے اور خطبہ کھڑے ہو کر پڑھے.نماز قصر سفر کی حالت میں نمازیں قصر کرنی چاہئیں جو فرض نماز چار رکعت والی ہو اس کو دو پڑھے جو فرض نماز دو یا تین رکعت کی ہے وہ پوری ادا کرے اور پہلی اور پچھلی سنتیں ضروری نہیں.البتہ صبح کی دو سنتیں اور عشاء کے تین وتر ضرور پڑھے.- حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا گیا کہ انسانوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں.بعض نو دس کوس کو بھی سفر نہیں سمجھتے بعض کیلئے تین چار کوس بھی سفر ہے.حضور نے فرمایا:.شریعت نے ان باتوں کا اعتبار نہیں کیا.صحابہ کرام نے تین کوس کو بھی سفر سمجھا ہے.عرض کیا گیا.حضور بٹالہ جاتے ہیں تو قصر فرماتے ہیں؟ ( بٹالہ قادیان سے گیارہ میل ہے ) فرمایا:.”ہاں کیونکہ وہ سفر ہے.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی طبیب یا حاکم بطور دورہ کئی گاؤں میں پھرتا ہے تو وہ اپنے تمام سفر کو جمع کر کے اسے سفر نہیں کہہ سکتا.(ملفوظات جلد پنجم صفحه ۴۲۶ نیا ایڈیشن)
36 ۳.اگر کسی جگہ پندرہ روز قیام کرنے کا ارادہ ہو تو قصر نہ کرے اور اگر کوئی ارادہ نہیں تو پھر قصر کرتا رہے.نماز جمع سفر کی حالت میں یا بارش کے وقت یا کسی اور مجبوری کے وقت یا کسی دینی اجتماع کی خاطر نمازیں جمع کی جاسکتی ہیں یعنی ظہر اور عصر اور مغرب وعشاء.نماز میں جمع کرنے کی صورت میں سنتیں معاف ہیں.میت کے احکام اور نماز جنازہ ا.جب کوئی شخص فوت ہونے لگے تو اس کے پاس سورۃ یسین پڑھی جائے.ذکر الہی کیا جائے، اکلمہ طیبہ کا ورد کیا جائے اور جب وہ فوت ہو جائے اور اس کی آنکھیں یا منہ کھلا ہو تو انہیں فوراً بند کر دینا چاہئے اور پاؤں سیدھے کر دینے چاہئیں.-۲ میت کو غسل دیا جائے.غسل کے پانی میں بیری کے پتے ابال لینا بہتر ہے.یا کوئی جراثیم کش دو املالی جائے کیونکہ بظاہر بیری کے پتوں کی سہی حکمت معلوم ہوتی ہے.غسل کرانے والا پہلے وضو کی جگہوں کو دھو دے، پھر داہنے پہلوکو، پھر سارے بدن کو.عورت کے بال گندھے ہوئے نہ رہیں انہیں کھول دیا جائے.
37 غسل کے بعد میت کو کفن پہنایا جائے.کفن میں مرد کے لئے تین کپڑے ہیں.ایک کرتہ، ایک تہہ بند اور ایک چادر.عورت کیلئے ان کے علاوہ سینہ بند اور کمر بند ہے.یہ کپڑے سلے ہوئے نہیں ہونے چاہئیں.کرتے سے مراد ایسا کپڑا ہے جو اوپر نیچے گھٹنوں تک آ جائے.اس کو درمیان میں سے گریبان کی طرح چیر دیا جائے تا کہ سرگذر سکے.اگر پورا کفن میسر نہ ہو تو ایک چادر یا کمبل میں لپیٹ کر دفن کیا جاسکتا ہے.۴ فوت ہونے کے بعد کفن دفن میں جلدی کرنی چاہئے تا کہ نعش خراب نہ ہو.کفن پہنانے کے بعد میت کو ایسی جگہ لے جایا جائے جہاں نماز جنازہ ادا ہو سکے.یہ نماز مسجد کے باہر ہونی چاہئے.حسب ضرورت مسجد میں بھی جائز ہے.لیکن نعش مسجد میں نہ لانی چاہئیے.محراب کے باہر امام کے سامنے رکھی جاسکتی ہے.نماز جنازہ: میت امام کے سامنے رکھی جائے.مقتدی ایک یا تین یا پانچ غرض طاق صفوں میں کھڑے ہوں.اس نماز میں رکوع اور سجدہ نہیں.صرف چار تکبیریں ہوتی ہیں.ہاتھ اُٹھا کر پہلی تکبیر کہے پھر شاء تعوذ و تسمیہ پڑھ کر سورۃ فاتحہ پڑھے.دوسری تکبیر کے بعد درود شریف پڑھے.تیسری تکبیر کے بعد ذیل کی دعا پڑھے اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دے.
38 دعاء جنازه اللَّهُمَّ اغْفِرُ لِحَيْنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَكَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَ أَنْشَنَا اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيْمَانِ اللَّهُمَّ لَا تَحْرٍ مِّنَا أَجْرَهُ وَلَا تَفْتِيًّا بَعْدَهُ ترجمعہ: ” اے اللہ بخش دے ہمارے زندوں کو اور مردوں کو اور ان کو جو حاضر ہیں اور جو حاضر نہیں اور ہمارے چھوٹوں کو اور بڑوں کو اور ہمارے مردوں کو اور عورتوں کو.اے اللہ جس کو تو ہم میں سے زندہ رکھے اس کو اسلام پر زندہ رکھ اور جس کو تو ہم میں سے وفات دے اس کو ایمان کے ساتھ وفات دے.اے اللہ ! اس کے اجر سے ہم کومحروم نہ رکھ اور اس کے بعد ہم کو کسی فتنہ میں نہ ڈال.“ نابالغ کیلئے دعا اللهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا سَلَفًا وَّ فَرَطًا وَّ ذُخْرًا وَّاَجْرًا اے اللہ اس کو ہمارے فائدہ کیلئے پہلے جانے والا بنا اور ہمارے آرام کا ذریعہ بنا اور سامانِ خیر بنا اور آرام کا موجب بنا.اگر میت نابالغ لڑکی ہو تو اس طرح دعا کرے.اللَّهُمَّ اجْعَلُهَا لَنَا سَلَفًا وَّ فَرَطًا وَّ ذُخْرًا وَّاَجْرًا - اگر میت سامنے نہ ہو یعنی مرنے والا کسی دوسری جگہ فوت ہو گیا ہو تو حسب
39 ضرورت نماز جنازہ غائب پڑھی جاسکتی ہے.۹.ایک ہی نیت میں کئی میتوں کی نماز جنازہ پڑھنا بھی جائز ہے.ا.ایسا شخص جو وبائی مرض میں مبتلا ہوکر فوت ہو گیا ہو اور دوسروں کے بیمار ہونے کا خطرہ ہو تو اس کو اپنے کپڑوں میں بغیر غسل دفن کرنا جائز ہے.اسی طرح شہید کو بھی بغیر فسل اور کفن دفن کرنا چاہئے تا ہم اگر موقع ہو تو نماز جنازہ پڑھی جائے.ا.قبر کشادہ اور گہری بنائی جائے.میت کو بغیر صندوق کے قبر میں لحد بنا کر یا لحد کے بغیر جسے شق کہتے ہیں، دفنانا بہتر ہے تاہم حفاظت کی غرض سے یا امانتاً صندوق میں بند کر کے دفن کرنا جائز ہے.-۱۲.میت کو دفن کرنے کے بعد میت کے لئے اور اس کے پسماندگان کیلئے دعا کی جائے.۱۳.نماز جنازہ فرض کفایہ ہے یعنی ایک مسلمان کے مرنے پر سب مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں.اگر کچھ لوگ نماز جنازہ پڑھ لیں تو وہ سب کی طرف سے کافی ہو جاتی ہے.لیکن اگر کوئی نہ پڑھے تو سب گنہگار ہوں گے.۱۴.جنازہ ہر ایک مسلمان کا پڑھنا چاہئے خواہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بڑا.جو بچہ ماں کے پیٹ سے زندہ پیدا ہواس کا جنازہ پڑھا جائے.۱۵.جو شخص جنازہ کے ساتھ نماز جنازہ تک رہے اسے ایک قیراط ثواب ملتا
40 ہے اور جو دفن تک ساتھ رہے اسے دو قیراط ثواب ملتا ہے.۱۶.میت کو بوسہ دینا جائز ہے لیکن رونا پیٹنا اور نوحہ کرنا جائز نہیں.روزہ کے احکام ا.ماہ رمضان کے روزے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر بالغ مومن مرد و عورت پر فرض کئے گئے ہیں.ایک دن کا روزہ بھی عمدا بلا کسی شرعی عذر کے ترک کرنا بڑا گناہ ہے جس کی تلافی عمر بھر روزے رکھ کر بھی نہیں ہو سکتی.جب تک کہ ندامت کا احساس اور توبہ واستغفار نہ ہو.جو شخص مسافر ہو یا بیمار ہو اس کے لئے رخصت ہے وہ دوسرے دنوں میں روزے پورے کرے جو دائم المریض ہو یا بہت بوڑھا اور ضعیف ہو گیا ہو اس پر روزہ فرض نہیں وہ بطور فدیہ ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے ۳.جو عورت حاملہ ہو یا بچے کو دودھ پلاتی ہو اس پر روز وفرض نہیں و و بطور فدیہ ایک مسکین کو ہر روز کھانا کھلائے.۴.بھولے سے اگر کوئی چیز کھالی جائے یا پی لی جائے تو روزہ نہیں ٹو تھا لیکن اگر عمدا بلا شرعی عذر مثلاً بیماری یا سفر روزہ توڑ دیا جائے تو ایسے شخص کا کفارہ یہ ہے کہ وہ ساٹھ دن مسلسل روزے رکھے.اگر اس کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے.۵.روزہ کا وقت صبح صادق سے شروع ہوکر غروب آفتاب تک ہوتا ہے.
41.اگر کسی شخص کو سحری کے وقت کھانا کھانے کا موقعہ نہیں ملا تو وہ اس عذر کی وجہ سے روزہ نہیں چھوڑ سکتا.سحری کا کھانا روزہ کیلئے شرط نہیں.ے.مرض اور سفر کی حد شریعت نے مقرر نہیں کی اس کا انحصار ہر شخص کی حالت پر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعامل سے سفر کی حد گیارہ میل معلوم ہوتی ہے اور مرض کی حد یہ ہے کہ جس سے سارے بدن میں تکلیف ہویا کسی ایسے عضو میں تکلیف ہو جس سے سارا جسم بے قرار ہو جائے.جیسے بخار یا آنکھ کا درد.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ روزہ دار کی آنکھ میں تکلیف ہو تو دوائی ڈالنا جائز ہے یا نہیں.فرمایا: یہ سوال ہی غلط ہے.بیمار کے واسطے روزہ رکھنے کا حکم نہیں“ (ملفوظات پنجم صفحہ ۱۳۵ نیا ایڈیشن ).جو شخص سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے وہ بھی خدا کے حکم کی نافرمانی کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.” مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتوی لازم آئے گا“.جو شخص صحت کی حالت میں ہے لیکن اسے خوف ہے کہ اگر میں روزہ رکھوں گا تو بیمار ہو جاؤں گا تو ایسا خوف محض نفس کا دھوکا ہے اور ہرگز شرعی عذر نہیں.ہاں اگر طبیب کہتا ہے کہ روزہ نہ رکھو تو وہ بیمار کے حکم میں ہے.۱۰.جس شخص کا سفر ملازمت کے فرائض میں داخل ہے یا روزی کمانے کے
42 لئے ہے جیسے ریلوے کے ملازم یا گاڑی کے ڈرائیور یا پھیری والے ان سب کو روزہ رکھنا چاہئے.ان کا سفر سفر نہیں بلکہ معمول کی حالت ہے.جولوگ مزدور پیشہ یا زمیندار پیشہ ہیں اور رمضان میں انہیں ایسی مشقت کا کام پڑ جائے کہ اگر چھوڑیں تو 1 ماہ کی فصل ضائع ہو جائے اور اگر کام کریں تو روزہ نہ رکھ سکیں تو وہ مجبور کے حکم میں ہیں.مزدور پیشہ کو چاہئیے کہ وہ باقی سال کے گیارہ مہینہ اس قدر محنت کرے کہ رمضان میں آرام کر سکے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسے کاشت کاروں اور مزدوروں کے بارے میں جن کا گزارہ مزدوری پر ہے اور روزہ ان سے نہیں رکھا جاتا.فرمایا: إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّات.یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں.ہر شخص تقوی وطہارت سے اپنی حالت سوچ لے.اگر کوئی اپنی جگہ مزدوری پر رکھ سکتا ہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے.پھر جب میسر ہور رکھ لے“.( ملفوظات جلد نهم صفحه ۳۹۴) ۱۲.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ روزہ دار آنکھ میں سرمہ ڈالے یا نہ ڈالے.فرمایا: مکروہ ہے اور ایسی ضرورت ہی کیا ہے کہ دن کے وقت سرمہ لگائے.رات سرمہ لگا سکتا ہے“.(ملفوظات جلد نہم صفحہ ۱۷۳) ۱۳.رمضان کی ابتداء چاند دیکھنے سے ہوتی ہے.اگر مطلع صاف نہ ہو تو شعبان
43 کے تمھیں دن پورے کریں اور پھر روزے شروع کریں.چاند کے دیکھے جانے کے بارے میں اگر یقینی اطلاع دوسری جگہ سے مل جائے تو اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے.اسی طرح چاند دیکھ کر ہی رمضان کا اختتام ہوتا ہے اور اگر مطلع ابر آلود ہو تو رمضان کے تمیں دن پورے کرے.سوائے اس کے کہ دوسری جگہ سے یقینی اطلاع موصول ہو جائے.۱۴.قادیان اور ربوہ ہر احمدی کیلئے وطن ثانی کا حکم رکھتا ہے لیکن وطن ثانی کی طرف سفر بھی سفر ہی ہے.اس لئے سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے افطاری کے وقت سے پہلے قادیان آنے والے روزہ داروں کا روزہ کھلوا دیا تھا.اس تعامل سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر روزہ رکھنے کے بعد سفر پیش آ جائے تو ایسی صورت میں روزہ کھول دینا چاہئے.مرکز میں پہنچنے کے بعد دوسرے دن اگر کوئی چاہے تو روز ور کھ سکتا ہے.۱۵.بچوں کو روزہ نہیں رکھنے دینا چاہئے.کیونکہ اس سے ذہنی اور جسمانی ارتقاء پر کیا اثر پڑتا ہے.ہاں جب بچے کافی بڑے ہو جا ئیں تو بلوغت سے قبل معتدل موسم میں ایک دو روزے رکھنے میں مضائقہ نہیں.۱۶ روزوں کی دوسری قسم وہ ہے جو ظلی کہلاتے ہیں.مثلا ماہ شوال کے شروع میں چھ ، ہر ماہ چاند کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو، پیر اور جمعرات کے دن.عرفہ کے دن یعنی ماہ ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو، اسی طرح عاشورہ کا روزہ بھی مسنون ہے.
44 ۱۷.رمضان کے ایام میں عشاء کی نماز کے بعد تراویح پڑھی جاتی ہیں.اس سلسلہ میں ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کہ رمضان میں تراویح آٹھ رکعت با جماعت مسجد میں پڑھنی چاہئے یا اگر پچھلی رات کو اُٹھ کر ا کیلے گھر میں پڑھنی چاہئے.حضور نے فرمایا:.نماز تراویح کوئی جدا نماز نہیں.دراصل نماز تہجد کی آٹھ رکعت کو اول وقت میں پڑھنے کا نام تراویح ہے اور یہ ہر دوصورتیں جائز صلى الله ہیں جو سوال میں بیان کی گئی ہیں.آنحضرت ﷺ نے ہر دوطرح پڑھی ہے لیکن اکثر عمل آنحضرت ﷺ کا اس پر تھا کہ آپ پچھلی رات کو گھر میں اکیلے یہ نماز پڑھتے تھے.( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۳۷۰ نیا ایڈیشن و بدر جلد نمبر ۵۲ صفحه ۲ مورخه ۲۶ دسمبر ۱۹۰۷) ۱۸.روزہ کی حالت میں مسواک کرنا ، تر کپڑا اوپر لینا، بدن کو تیل لگانا ، خوشبو سونگھنایا لگانا تھوک نگلنا جائز ہے.مسائل زکوة زکوۃ اسلام کے ارکان میں سے چوتھا رکن ہے اس کی اہمیت اس سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کے ساتھ ہی زکوۃ کی ادائیگی کا ذکر آیا ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نماز اور زکوۃ کے تارک ایک ہی حکم میں ہیں.۲ زکوۃ کی ادائیگی سے مال میں کمی نہیں آتی بلکہ وہ بڑھتا ہے جو شخص یہ خیال
45 کرتا ہے کہ اس سے مال کم ہوتا ہے وہ نفس کے دھوکے میں مبتلا ہے خدائے تعالیٰ تو قرآن کریم میں فرماتا ہے:.وما أتيتُم مِّن زَكوة تُرِيدُونَ وَجْهُ اللهِ فَأُولَيكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ ( سورة الروم : ۴۰ ) جوز کوۃ تم محض اللہ تعالیٰ کی رضامندی کیلئے دو گے.تو ایسے طور پر دینے والے ( اپنے مالوں کو کم نہیں کرتے بلکہ ) بڑھاتے ہیں.۳.جب امام وقت موجود ہو تو ز کو ۃ اس کے پاس آنی چاہئے وہی بہتر جانتا ہے کہ اسے کس طرح خرچ کرے.چندہ الگ چیز ہے اور زکوۃ الگ ہے.جو شخص وصیت ادا کرتا ہے یا دوسرے طوقی چندے ادا کرتا ہے وہ زکوۃ کی ادائیگی سے مستقلی نہیں ہو سکتا.مندرجہ ذیل پر زکوۃ واجب ہوتی ہے.(الف) اموال باطنه: نقد روپیہ، سونا ، چاندی خواہ کسی شکل میں ہوزیورات یا استعمال کی کوئی اور چیز (ب): اموال ظاہرہ: (i) مویشی مثلاً، اونٹ، گائے، بھینس، بھیڑ، بکری، دنبہ بشر طیکہ یہ سرکاری چراگاہوں یا شاملات دیہہ میں چرتے ہوں اور ان کو گھر میں با قاعد و چارہ ڈالنے کی ضرورت نہ پڑے.(ii) میں میں پیدا ہونے والی فصلیں جیسے گندم، جو ہکئی ، چاول،
46 باجرہ، کھجور، انگور، جنگلی شہد اور کسی نے اکٹھا کیا ہو.( ii ) وہ معدنیات جو افراد کی تحویل میں ہوں مثلاً لوہے کی کان ، تانبے کی کان ، ٹین کی کان، تیل کے کوئیں وغیرہ (iv) اموال تجارت - صنعت و حرفت میں لگا ہوا سر مایہ ( بحواله فقه احمدیه صفحه ۳۵۹،۳۵۸) جن مالوں پر ز کو ۃ واجب ہوتی ہے ان میں سے ہر ایک کیلئے شریعت نے ایک حد مقرر کی ہے جو مال اس مقدار کے برابر یا اس سے زیادہ ہو اس پر زکوۃ واجب ہوتی ہے.اس حد اور مقدار کو نصاب کہتے ہیں.غلوں، کھجوروں، انگوروں پر اسی وقت زکوۃ یا عشر واجب ہوتی ہے جب ان کی فصل تیار ہو جائے اور مالک انہیں کاٹ لے لیکن باقی مال پر زکوۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ مالک کے پاس ایک سال رہا ہو.غلوں، کھجوروں اور انگوروں پر زکوۃ صرف ایک دفعہ واجب ہے خواہ وہ ایک سال سے زائد عرصہ رہیں لیکن باقی اموال پر ہر سال واجب ہوتی ہے بشرطیکہ ان کی مقدار نصاب سے کم نہ ہو.غلہ کا نصاب ۲۱ من ۵ سیر (۷۸۱ کلو۰ ۸۷ گرام) ہے.اس سے کم ہو تو زکوۃ واجب نہیں.جس کھیت کیلئے پانی قیمت ادا کر کے نہ لیا گیا ہو گویا بارانی زمین ہو تو اس کی شرح زکوۃ دسواں حصہ ہے لیکن جس کیلئے قیمت ادا کر کے پانی مہیا کیا گیا ہومثلا زمیندار خود نہر بھینچ کر لایا ہو یا ٹیوب ویل
47 لگوا کر زمین سیراب کرے تو اس کی شرح بیسواں حصہ ہے.۱۰ چاندی کا نصاب ۵۲ تولہ ۶ ماشه ( ۶۱۲ گرام ۱۳۵۱ ملی گرام) ہے اور زکوۃ کی شرح چالیسواں حصہ ہے.یعنی ۵۲ تولہ ۶ ماشہ پر زکوۃ کی مقدار ایک تولہ تین ماشہ چھورتی ( ۱۵اگرام ۳۱ ملی گرام ) بنتی ہے.یہی حکم چاندی کے زیور کا ہے.سونے کا نصاب چاندی کے نصاب کے تابع ہے اور زکوۃ کی شرح اس صورت میں بھی چالیسواں حصہ ہے سونے چاندی کے زیورات پر وزن کے لحاظ سے زکوۃ ہوگی نہ کہ ان کی بنوائی وغیرہ کے لحاظ سے.۱۲.سونے اور چاندی کے وہ زیور جو عام طور پر استعمال میں رہتے ہیں اور غرباء کو بھی عاریتا دئیے جاتے ہوں ان پر زکوۃ واجب نہیں.سونے کے ایسے زیورات کا اندازہ آٹھ تولے تک ہے اور اسی بناء پر بعض فقہاء نے سونے کا نصاب ۸ تو لے۴ ماشہ (۹۷ گرام ۲۰۰ ملی گرام) مقرر کیا ہے لیکن یہ نصاب نہیں بلکہ استعمال کے زیور کے لحاظ سے چھوٹ ہے.۱۳.سکے خواہ وہ کسی دھات کے ہوں یا کاغذ کے ہوں ان کا نصاب چاندی کے مطابق ہوگا.یعنی جس شخص کے پاس اس قدر رو پے یا پونڈ ، ڈالر یا کرنسی نوٹ ہوں جن کی قیمت ۵۲ تولہ ۶ ماشہ چاندی کے برابر ہو تو ایسا شخص صاحب نصاب سمجھا جائے گا اور اسے چالیسواں حصہ زکوۃ دینی ہوگی.یعنی ڈھائی فی صد.
48 ۱۴.اونٹوں کا نصاب ۵ راس (یا عدد ) ہے.اگر ۵ سے کم اونٹ ہوں تو زکوۃ واجب نہ ہوگی.گائیوں اور بھینسوں کا نصاب تمہیں راس ہے.بکری، بھیڑ اور دُنبہ کا چالیس راس ہے.۱۵.جس زمین کا گورنمنٹ لگان لیتی ہو اس کی پیداوار پر زکوۃ واجب نہیں.۱۶.اگر کاشت کار کے پاس زمین اجارہ کے طور پر ہو تو زکوۃ کی ادائیگی اس کے ذمہ ہوگی.اگر اس نے زمین بٹائی پر لی ہو تو زکوۃ مشترکہ طور ہے واجب ہوگی اور زکوۃ کی ادائیگی کے بعد باقی غلہ مالک اور کاشت کار کے درمیان تقسیم ہوگا.حج کے مسائل حج تمام عمر میں ایک دفعہ فرض ہے.۲.حج اس شخص پر فرض ہے جو تندرست ہو اور اخراجات سفر برداشت کر سکتا ہو اور اپنے گھر والوں کے لئے مناسب انتظام کر سکتا ہو.نیز یہ بھی شرط ہے کہ سواری میسر ہو اور راستہ میں امن ہو.اگر مندرجہ بالا چار شرائط میں سے کوئی پوری نہ ہو تو حج فرض نہیں رہتا.۳.اگر کوئی شخص خود رنج نہ کر سکتا ہو لیکن شوق حج میں اور حصول ثواب کے لئے نفلی طور پر کسی اور شخص سے حج کروانا چاہے تو جائز ہے اسے حج بدل کہا جاتا ہے.۴.حج کے لئے وقت مقرر ہے یعنی مقررہ ایام میں ہی حج ہوسکتا ہے.لیکن عمرہ
49 سال کے دوران کسی وقت بھی کیا جاسکتا ہے.حج کے تین ماہ ہیں.شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ یعنی ان مہینوں میں حج کا احرام باندھنا ہوگا.
50 50
51 باب دوم ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلّم
52
53 چند منتخبه احادیث عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ الله عنه عن النبي صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُلكم راع وكلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْأَمِيرُ رَاع - وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ( بخاری ومسلم ) عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اے لوگو! تم سب اپنے اپنے دائرہ میں ) کسی نہ کسی رنگ میں نگران اور حاکم ہو اور ہر شخص سے اس کے دائرہ حکومت کے بارے میں پوچھا جائے گا.افسر بھی نگران ہے ( اس سے اپنے ماتحتوں کے متعلق پو چھا جائے گا ) اور مرد اپنے اہل بیت پر عمران ہے اور عورت اپنے خاوند کے گھر بار اور اس کے بچوں پر نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں جواب طلبی ہوگی.۲- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيْمَانًا اَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَخِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ - (جامع الترندی) ترجمعہ: ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے رمایا کہ مومنوں میں سے ایمان میں زیادہ کامل وہ لوگ ہیں جو اخلاق میں
54 زیادہ اچھے ہیں اور پھر اے مسلمانو! تم میں سے زیادہ اچھے وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ سلوک کرنے میں زیادہ اچھے ہیں.-٣- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ فَحَيْثُ وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا- (ترندی) حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.حکمت کی بات مومن کی گمشدہ چیز ہے.جہاں بھی اسے پائے وہ اس کا حقدار ہے.عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَّنَامَ قَالَ بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ اَمُوْتُ وَأَحْيَا وَإِذَا اسْتَيْقَظَ مِنْ مَنَا مِهِ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَمَا آمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ - (بخاری) حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب سونے کا ارادہ کرتے تو فرماتے اے خدا! میں تیرے نام ہی سے مرتا اور جیتا ہوں اور جب آپ نیند سے بیدار ہوتے تو فرماتے سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مرنے کے بعد ہمیں زندہ کیا اور اسی کی طرف اُٹھ کر جانا ہے.۵- عَنْ أَبِى مُوسَى الْاَشَعَرِيِّ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ لا اله الا اَدُلُّكَ عَلى كِلِمَةٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ أَوْ قَالَ عَلَى كَنُرِ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ فَقُلْتُ بَلَى فَقَالَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ - (مسلم)
55 ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا.کیا میں تجھے ایسے کلمہ کی خبر نہ دوں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے یا فرمایا.میں تجھے جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ کی خبر نہ دوں.میں نے کہا.ضرور بتائیے آپ نے فرمایا.یہ دعا کہ بدی سے بچنے اور نیک کام کرنے کی کوئی طاقت نہیں مگر اللہ کے ساتھ.رض عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ قَدْ كَثُرَتْ عَلَيَّ فَأَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ أَتَثَبَّتُ بِهِ قَالَ لَا يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ- (ترمذی) عبدالله بن بسر کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! اسلام میں شریعت کے احکام تو بہت ہیں.مجھے آپ کوئی ایسی چیز بتا ئیں.جس پر میں مضبوطی سے خاص طور پر قائم رہوں.آپ نے فرمایا.تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہئے.عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ ثَلَانَّا مِنْ غَيْرِ ضَرُورَةٍ طَبَعَ اللَّهِ عَلَى قَلْبِهِ (سنن ابن ماجه ) جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص تین جمعہ کی نماز بلاضرورت چھوڑ دے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے.۸- عَنْ عُمَرَ اَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْأَعْمَالُ
56 بِالنِّيَّاتِ وَلِكُلِّ امْرِيُّ مَانَوى - (بخاری) حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے اور ہر انسان و اسی کا بدلہ ملتا ہے جو اس کی نیت ہوتی ہے.عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُوا بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْكَسْلِ وَ اَرْذَلِ الْعُمُرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَفِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ- (بخاري) حضرت انس کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات سے دعا کیا کرتے تھے.اے خدامیں تیری پناہ چاہتا ہوں بخل سے اور ستی سے اور ارذل عمر سے اور قبر کے عذاب سے اور زندگی اور موت کی آزمائش سے.١٠ - عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَا يُجمعُ أُمَّتِي اَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ عَلَى ضَلَالَةٍ وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ وَمَنْ شَدَّ شُدَّ فِي النَّارِ - (جامع ترمذی) حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللہ تعالیٰ میری ساری امت کو یا فرمایا امت محمدیہ کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کی مدد جماعت کے ساتھ ہوگی جو شخص اس سے الگ ہوگا وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا.نوٹ: ان احادیث میں سے چند ضر ور زبانی یاد ہونی چاہئیں.......
57 باب سوم اختلافی مسائل
59 58
59 مسئلہ وفات عیسی علیہ السلام وإِذْ قَالَ اللَّهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ وَ انْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوني وارتي المَيْنِ مِن دُونِ اللهِ ، قَالَ سُبْحَنَكَ مَا يَكُونُ لِي ان اقول ما ليس لي : يحق إن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ، تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ، إِنَّكَ أَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ ما قلتُ لَهُمُ إلا ما امرني به آن اعْبُدُوا اللهَ رَبّي وَرَبِّكُمْ.وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ انت الرقيب عَلَيْهِمْ، وَانْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدُ HA (المائدہ:۱۱۷ ۱۱۸) اور جب اللہ نے کہا اے عیسی بن مریم ! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سواد و معبود بنا لو تو اس نے جواب دیا کہ (ہم) تجھے ( تمام عیبوں سے ) پاک قرار دیتے ہیں.میری شان کے شایان نہ تھا کہ میں وہ (بات ) کہتا جس کا مجھے حق نہ تھا اور اگر میں نے ایسا کہا تھا تو تجھے ضرور اس کا علم ہوگا.جو کچھ میرے جی میں ہے تو جانتا ہے اور جو کچھ تیرے جی میں ہے میں نہیں جانتا.تو یقیناً (سب) غیب کی باتوں سے اچھی طرح واقف ہے.میں نے ان سے صرف وہی بات کہی تھی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا یعنی یہ کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے اور جب تک میں ان میں
60 (موجود) رہا میں ان کا نگران رہا مگر جب تو نے میری روح قبض کر لی (یعنی وفات دے دی ) تو تو ہی ان پر نگران تھا میں نہ تھا ) اور تو ہر چیز پر نگران ہے.استدلال اس آیت میں قال اللہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں.جس کے معنی ہیں اللہ نے کہا.لیکن اس سے مراد قیامت کا دن ہے.یعنی قیامت کے دن اللہ تعالی عیسی علیہ السلام سے دریافت کرے گا کہ کیا تم نے لوگوں کو یہ تعلیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بناؤ تو وہ جواب دیں گے کہ میں جب تک قوم میں موجود رہا وہ نہیں بگڑی تھی میں ان کا نگران تھا.لیکن فَلَمَّا تَوَفِّيتَنِي جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو اُن کا نگران تھا مجھے ان کے بگڑنے کا کوئی علم نہیں.عیسیٰ علیہ السلام کا یہ جواب اسی وقت درست ہوسکتا ہے جب یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ وفات پا کر اپنی قوم سے ہمیشہ کیلئے جدا ہو گئے.اگر یہ مانا جائے کہ قیامت سے قبل وہ دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو پھر قیامت کے دن قوم کے بگڑنے سے ان کا لاعلمی کا اظہار جھوٹ ٹھہرتا ہے جو کسی طرح ممکن نہیں.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ وہ قوم کے بگڑنے سے قبل وفات پا گئے اور ان کے لئے دوبارہ دنیا میں آنا کسی طرح ممکن نہیں.یا درکھنا چاہئے کہ لفظ توفی فعل ہے.جب اس کا فاعل خدا ہو اور مفعول.کوئی ذی روح ہو تو اس کے معنی سوائے قبض روح کے اور کچھ نہیں
61 ہوتے اور قبض روح صرف دو طرح ہوتا ہے.وفات کے ذریعہ یا نیند کی حالت میں.جب نیند کی حالت میں قبض روح مراد ہو تو اس کے لئے قرینہ موجود ہوتا ہے ورنہ توفی کے معنی ہمیشہ موت کے ہوتے ہیں.عربی زبان میں ایک بھی ایسی مثال موجود نہیں جہاں تو فی کا لفظ ذی روح یعنی جاندار چیز کیلئے استعمال ہوا ہو اور خدا اس فعل کا فاعل ہو تو اس کے معنی قبض روح کے سوا کچھ اور بھی کئے جاسکتے ہوں.دوسری دلیل إذ قال الله يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهَّرُكَ مِن الذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إلى تذو القلمة (آل عمران : ۵۶) ترجمعہ: ” (اس وقت کو یاد کرو) جب اللہ نے کہا.اے عیسی میں تجھے (طبیعی طور پر ) وفات دوں گا اور تجھے اپنے حضور میں عزت بخشوں گا اور کافروں کے الزامات) سے تجھے پاک کروں گا اور جو تیرے پیر و ہیں انہیں ان لوگوں پر جو منکر ہیں قیامت کے دن تک غالب رکھوں گا.استدلال اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں عیسیٰ علیہ السلام سے چار وعدے کئے ہیں.
62 میں تجھے وفات دوں گا یعنی یہودی تجھے مار نہیں سکیں گے.۲.میں تجھے عزت دوں گا.یہودی تجھے صلیب پر مار کر ذلیل نہیں کر سکتے.بائبل میں لکھا ہے جو کا ٹھ پر ( یعنی صلیب پر ) مارا جائے وہ عنتی ہوتا ہے.خدا فرماتا ہے کہ یہودی اس منصوبہ میں ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے اور تجھے صلیب پر موت نہیں آئے گی جو تیری بے عزتی کا موجب ہو..میں تجھے یہود کے الزامات سے پاک ٹھہراؤں گا.۴.میں تیرے ماننے والوں کو انکار کرنے والوں پر قیامت تک غلبہ عطا کروں گا یعنی عیسائی ہمیشہ یہود پر غالب رہیں گے.یہ چاروں وعدے خدائے تعالیٰ نے اسی ترتیب سے پورے کر دیئے پہلے وفات دی پھر انجام بخیر کر کے اپنے حضور میں ان کو عزت بخشی اور ان کے درجات بلند کئے.یہود کے تمام الزامات سے ان کو پاک ٹھہرایا اور ان کے ماننے والوں کو آج تک یہود پر غالب رکھا اور آئندہ بھی قیامت تک یہودی مغلوب رہیں گے.اس آیت میں دافعت الم کے یہ معنی کرنے کہ میں تجھے اُٹھا کر آسمان پر لے جاؤں گا.صراحتا غلط ہیں.اوّل تو آسمان کا کہیں ذکر ہی نہیں.دوسرے اگر رفع کے معنی اٹھانے کے ہی کئے جائیں ( جو اس جگہ بالکل بے جوڑ ہوں گے ) تب بھی لفظی معنی صرف یہ ہوں گے کہ میں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا.اب خدا کی کوئی جہت نہیں.وہ ہر طرف اور ہر جگہ ہے.اوپر کی طرف اٹھائے
63 جانے کی تخصیص کیوں کی جائے.اگر اوپر کی طرف اُٹھانے کے ہی معنی کئے جائیں تب بھی قرآنی محاورہ کے مطابق اس کا مطلب عزت بخشا ہی ہوگا جیسا کہ حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ورَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا (مریم:۵۸) ہم نے اسے نہایت بلند مقام تک اُٹھایا تھا.یعنی بڑا رتبہ عطا کیا تھا اور عزت بخشی تھی.کیا یہ تسلیم کیا جائے کہ ادریس علیہ السلام بھی آسمان پر چلے گئے؟ اس کے علاوہ قرآن کریم نے وفات کا ذکر پہلے کیا ہے اور اُٹھانے کا بعد میں.اگر یہ کہا جائے کہ عیسی علیہ السلام آسمان پر اُٹھائے گئے اور وہ وہاں زندہ ہیں کسی وقت دوبارہ زمین پر نازل ہوں گے اور پھر وفات پائیں گے تو ترتیب بدل جاتی ہے.اس صورت میں ماننا پڑے گا کہ جس ترتیب سے واقعات کا ذکر قرآن کریم میں ہوا ہے وہ (نعوذ باللہ) غلط ہے.قرآن کریم کی ترتیب کو نہ غلط قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ بدلا جاسکتا ہے.غرض رفع کے لفظ کے جو معنی بھی کئے جائیں ان سے عیسی علیہ السلام کا زندہ رہنا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ وفات رفع سے پہلے ہے.ہم نماز میں دعا کرتے ہیں.وَارْفَعُنِی وَاجْبُرْنِی اے اللہ میرا رفع کر.کیا اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ مجھے آسمان پر اُٹھالے.ہرگز نہیں.اس کا مطلب صرف یہی ہے کہ میرے درجات بلند کر.یہی معنی اس آیت میں عیسی علیہ السلام کے لئے کئے جائیں گے.
64 تیسری دلیل ما المَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ الَّا رَسُولَ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ و أمه صدِّيقَةُ ، كَانَا يَا كُلْنِ الطَّعَامَ b (مائدہ: ۷۶) مسیح ابن مریم صرف ایک رسول تھا اس سے پہلے رسول ( بھی ) فوت ہو چکے ہیں اور اس کی ماں راستباز تھی.وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے.استدلال اس آیت میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم کی حیثیت صرف ایک رسول کی ہے اور ان سے پہلے جس قد ر انبیاء آئے وہ فوت ہو گئے وہ خود بھی اور ان کی والدہ بھی کھانا کھایا کرتے تھے.گانا يَأْكُلْنِ الطَّعَام ماضی استمراری ہے یعنی جب زندہ تھے وہ دونوں کھانا کھاتے تھے.لیکن اب نہیں کھاتے.جس طرح حضرت مریم موت کی وجہ سے اب کھانا نہیں کھاتیں اسی طرح مسیح ابن مریم بھی نہیں کھاتے.انبیاء کے متعلق قرآن کریم کہتا ہے ومَا جَعَلَهُمْ جَسَدًا لا يأكلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَلِدِينَ (انبیاء:9) اور ہم نے ان رسولوں کو ایسا جسم نہیں دیا تھا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ وہ غیر معمولی عمر پانے والے لوگ تھے.“
65 اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء بغیر کھانا کھائے زندہ نہیں رہ سکتے.خدا تعالیٰ کا یہ کہنا کہ مسیح ابن مریم کھانا کھایا کرتے تھے صاف بتلاتا ہے کہ اب وہ کھانا نہیں کھاتے اور اب وہ زندہ نہیں ہیں.چوتھی دلیل ومَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ، أَفَأَيْن مات أو قيل القَلبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ (آل عمران : ۱۴۵) اور محمد صرف ایک رسول ہیں.اس سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں.پس اگر وہ وفات پا جائے یا قتل کیا جائے تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل لوٹ جاؤ گے؟ استدلال اس آیت میں صاف بتلایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم سے پہلے آنے والے سب رسول فوت ہو چکے ہیں.قد خلت کے لفظی معنی ہیں گذر چکے ہیں اور گذرنے سے مراد اس جگہ وفات پانے کے ہی ہیں کیونکہ گذرنے کی صرف دو صورتیں اس آیت میں بیان ہوئی ہیں.ایک موت اور دوسرے قتل کیا جانا.اگر حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہوتے تو ضرور ان کا
66 استثناء کر دیا جاتا.پھر انہیں الفاظ میں سورۃ مائدہ آیت ۷۶ ( دلیل سوم ) میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے آنے والے سب انبیاء گذر چکے ہیں.جس طرح باقی انبیاء اس جہاں سے گذر گئے اسی طرح حضرت مسیح ابن مریم بھی اس جہان سے گذر گئے اور اب ہرگز زندہ نہیں ہیں.مندرجہ بالا آیات سے یہ بات واضح ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور وہ ہرگز اس خا کی جسم کے ساتھ آسمان پر اُٹھائے نہیں گئے.انسانوں کے لئے تو خدا کا یہی قانون ہے کہ فِيْمَا تَحْيَونَ وَفِيهَا تمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ (اعراف:۲۶) اسی (زمین) میں تم زندہ رہو گے اور اسی میں تم مرو گے اور اسی میں سے تم نکالے جاؤ گے.اس قانون کے ہوتے ہوئے کسی فرد بشر کا آسمان پر جانا کیسے ممکن ہے؟ اگر کوئی وجود اپنی خوبیوں اور اعلیٰ صفات اور اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے زندہ رکھے جانے کے قابل ہوسکتا تھا تو وہ ہمارے آقاسید و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.بدنیا گر کے پائندہ بودے ابوالقاسم محمد زنده بودے خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ آفَائِن مَتَّ فَهُمُ الْخَلِدُونَ ( انبياء: ۳۵) اور ہم نے کسی انسان کو تجھ سے پہلے غیر طبعی عمر نہیں بخشی.کیا اگر تو مر جائے تو وہ غیر طبعی عمر تک زندہ رہیں گے.
67 کیسے تعجب کی بات ہے کہ مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعوی کرتے ہوئے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ فوت ہو کر زمین میں مدفون ہیں لیکن مسیح ابن مریم (نعوذ بالله) ابھی تک اس خا کی جسم کے ساتھ چوتھے آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں.غیرت کی جا ہے عیسی زندہ ہو آسماں پر مدفون ہو زمیں میں شاہ جہاں ہمارا ابن مریم مر گیا حق کی قسم داخل جنت ہوا وہ محترم عدم رجوع موتے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں یا کسی طرح مر جاتے ہیں ان کے متعلق خدائے تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ وہ پھر اس دنیا میں واپس نہیں آتے.مندرجہ ذیل آیات سے اس قانون کی صراحت ہوتی ہے.وَحَرُم عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (انبیاء:۹۶) اور ہر ایک بستی جسے ہم نے ہلاک کیا ہے اس کے لئے یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ اس کے بسنے والے لوٹ کر اس دنیا میں نہیں آئیں گے.-٢ حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِة
88 68 في اعْمَلَ صَالِحًا فيما ترك إنهَا كَلِمَةَ هُوَ قايلها ، و من ورائهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (المومنون : ۱۰۰-۱۰۱) اور اس وقت جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی وہ کہے گا.اے میرے رب ! مجھے واپس لوٹا دے تا کہ میں اس جگہ جس کو میں چھوڑ کر آ گیا ہوں (یعنی دنیا میں ) مناسب حال عمل کروں.ہرگز ایسا نہیں ہوگا.صرف ایک منہ کی بات ہے جسے وہ کہہ رہے ہیں اور ان کے پیچھے ایک پردہ ہے اس دن تک کہ وہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے ( پس وہ دنیا کی طرف زندہ کر کے کبھی لوٹائے نہیں جائیں گے ) مسئله ختم نبوت جماعت احمدیہ کا عقیدہ جماعت احمدیہ کا اس بات پر ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ درجہ صرف آپ کو ہی ملا.آپ کے سوا کوئی اور وجود ایسا نہیں جو اس صفت سے متصف ہو.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.عقیدہ کی رُو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ
69 کر ہے.اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور پر محمد یت کی چادر پہنائی گئی.کشتی نوح صفحه ۱۵ مطبوعه ۱۹۰۲ء، روحانی خزائن جلد ۱۹) اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاتم بنایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی.اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی.(حقیقۃ الوحی صفحہ ۹۷ حاشیہ مطبوعہ ۱۹۰۷ء) آیت خاتم النبیین اور اس کا مفہوم مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وخاتم النبينَ ، وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (احزاب : ۴۱) نہ حد تم میں سے کسی مرد کے باپ تھے نہ ہیں (نہ ہوں گے ) لیکن اللہ کے رسول ہیں بلکہ (اس سے بھی بڑھ کر ) نبیوں کی مہر ہیں اور اللہ ہر ایک چیز سے خوب آگاہ ہے.یہ آیت پانچ ہجری میں اس وقت نازل ہوئی جب حضرت زیڈ نے حضرت زینب کو طلاق دے دی اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے حضرت زینب سے نکاح کر لیا.حضرت زید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے
70 منہ بولے بیٹے تھے.جب حضور نے زید کی مطلقہ ( یعنی حضرت زینب) سے نکاح کیا تو کفار اور منافقین نے اعتراض کیا کہ آپ نے اپنی بہو سے نکاح کر لیا جو کسی طرح درست نہیں.اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ کسی کو بیٹا کہہ دینے سے وہ بیٹا نہیں بن جاتا.حرمت تو حقیقی بیٹے کی بیوی سے نکاح کرنے میں ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حقیقی بیٹا نہیں.اس لئے حضرت زینب سے نکاح پر اعتراض غلط ہے.سورۃ احزاب کی آیت سے میں یہ کہا گیا تھا کہ النَّبِيُّ أول بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُة أنهتهم، یعنی نبی مومنوں سے ان کی اپنی جانوں کی نسبت بھی زیادہ قریب ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں.نبی کی بیویوں کو ماں قرار دینے سے کوئی شخص یہ استدلال کر سکتا ہے کہ نبی اور مومنین کا رشتہ باپ بیٹے کا ہوا ایسی صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زیڈ کی مطلقہ (حضرت زینب) سے نکاح کرنا اپنی بہو سے نکاح کرنے کے مترادف ہے.اس اعتراض کو دور کرنے کیلئے فرمایا ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ یعنی (جسمانی لحاظ سے ) نہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تم میں سے کسی مرد کے باپ تھے نہ ہیں (اور نہ ہوں گے ) لہذا زیڈ کے طلاق دینے کے بعد حضرت ب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح کسی طرح بھی قابل اعتراض آیت خاتم النبیین کے پہلے ٹکڑے سے بے شک بہو سے نکاح کرنے کا
71 اعتراض دور ہو گیا.لیکن جسمانی ابوت کے انکار سے دو اور شبہات پیدا ہو سکتے تھے.اول یہ کہ بوجہ نبی ہونے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کو مومنوں کا باپ قرار دیا گیا تھا.لیکن جب یہ کہا گیا کہ آپ کسی مرد کے باپ نہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پھر آپ کی نبوت ورسالت بھی جاری ہے یا نہیں؟ دوم یہ کہ آپ کی نرینہ اولاد نہ ہونے کے باعث دشمن آپ کو ابتر کہتا تھا.اب اس آیت میں کہا گیا ہے کہ آپ کسی مرد کے باپ نہیں تو کیا واقعی (نعوذ باللہ ) آپ ابتر مہرے؟ ان ہر دو اعتراضات کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلكِن رَّسُولَ اللهِ.جسمانی ابوت کی نفی سے یہ نہ سمجھنا کہ آپ روحانی لحاظ سے باپ نہیں رہے.اللہ کا رسول ہونے کے لحاظ سے آپ مومنین کے روحانی باپ بدستور ہیں جس طرح ہر نبی اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا ہے.نہ صرف اس قدر بلکہ آپ کا مقام اور مرتبہ دوسرے انبیاء کے مقابلہ میں بہت بلند و بالا ہے اور آپ خاتم النبیین ہیں.یعنی نبیوں کی مہر ہیں.آپ کی تصدیق اور آپ کی تعلیم کی شہادت کے بغیر کوئی شخص نبوت یا ولایت کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا.اس آیت خَاتَمَ النَّبِيِّن میں خَاتَمَ ( تا ء کی زبر کے ساتھ ) کے معنی ختم کرنے والا نہیں ہو سکتے.اگر یہاں خاتم ( تاء کی زیر کے ساتھ ) ہوتا تو ختم کرنے والا کے معنی ہو سکتے تھے لیکن یہاں (ت) پر زبر ہے.جب حاتم ( تاء کی زبر کے ساتھ ) کسی صیغے کے ساتھ استعمال ہو تو اس کے معنی ہمیشہ افضل“ کے ہوتے ہیں.جیسے کہتے ہیں خَاتَمُ الْاَوْلِيَاء خَاتَمُ المحدّثين.خَاتَمُ
72 الشعراء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کے لئے خَاتَمُ الْأَوْلِيَاء کے الفاظ استعمال کئے ہیں ( تفسیر صافی زیر آیت خاتم النبیین ) تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت علیؓ کے بعد کوئی ولی نہیں ہوسکتا.پس محاورہ عرب کے مطابق خاتم النبین کے ایک معنی یہ ہوئے کہ تمام انبیاء سے افضل یا ایسا وجود جس پر کمالات نبوت ختم ہو گئے اور وہ اپنے کمال میں بے مثال ٹھہرا.غرض اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیشک جسمانی لحاظ سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں لیکن روحانی لحاظ سے بحیثیت رسول آپ سب مومنوں کے باپ ہیں.نہ صرف مومنوں کے باپ ہیں بلکہ روحانی لحاظ سے تمام انبیاء کے بھی باپ ہیں.آپ کا محمد ( یعنی قابل تعریف وجود ) ہونا اس بات کا محتاج نہیں کہ آپ کی جسمانی اولاد ہو بلکہ آپ محمد میں رسول اللہ ہونے کے لحاظ سے اور خاتم انبیین ہونے کے لحاظ سے.واضح رہے کہ رسول اللہ ہونے کے لحاظ سے ہر نبی امت کا باپ ہوتا ہے.جو چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوسب سے ممتاز کرتی ہے وہ آپ کا خاتم ہونا ہے.یعنی آپ تمام انبیاء سے بلحاظ مقام ومرتبہ افضل واعلیٰ ہیں.دوسرے آپ کی قوت قدسیہ اور روحانی توجہ نہیں تراش ہے.یعنی آپ کی تعلیم پر عمل کرنے اور آپ کی کامل پیروی سے انسان نبوت کے مقام تک پہنچ سکتا ہے اور یہ خوبی آپ سے قبل کسی نبی کو حاصل نہیں تھی.خاتم انہین کے اس مفہوم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں بیان فرماتے ہیں.
73 تخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مظہرایا گیا جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد براہِ راست فیوض نبوت منقطع ہو گئے اور اب کمال نبوت صرف اسی شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی کی مہر رکھتا ہوگا.اور اس طرح پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا اور آپ کا وارث ہوگا.غرض اس آیت میں ایک طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ ہونے کی نفی کی گئی اور دوسرے طور سے باپ ہونے کا اثبات بھی کیا گیا تا وہ اعتراض جس كا ذكر ان شانئكَ هُوَ الابتر میں ہے دُور کیا جائے.ریویو مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی صفحه ۶.۷) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے بزرگان نے خَاتَمَ النَّبِيِّين کے کیا معنی کئے ا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم اپنے چچا حضرت عباس کے بارے میں فرماتے ہیں:.اِطْمَتَنَّ يَا عَمّ فَإِنَّكَ خَاتَمُ الْمُهَاجِرِينَ فِي الْهِجْرَةِ كَمَا أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ فِي النُّبُوَّةِ - ( كنز العمال جلد ۲ صفحه ۱۷۸) اے چچا! آپ مطمئن رہنے کہ آپ اسی طرح خاتم المہاجرین ہیں جس
74 طرح میں خاتم النبیین ہوں.ظاہر ہے کہ ہجرت کا سلسلہ حضرت عباس پر ختم نہیں ہو گیا حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں خاتم المہاجرین قرار دیتے ہیں.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم نہیں ہو گیا اس قول کا صرف یہ مفہوم ہے کہ آئندہ حضرت عباس کی شان کا اب کوئی مہاجر نہیں ہوگا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا کوئی نبی نہیں ہوگا.حضرت علی کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.أَنَا خَاتَمُ الْآنِبَياءِ وَاَنْتَ يَا عَلِيٌّ خَاتَمُ الْأَوْلِيَاءِ ( تفسیر صافی زیر آیت خاتم النبیین ) اے علی ! میں خاتم الانبیا ء ہوں اور تو خاتم الاولیاء ہے.۳.مجمع بحارالانوار میں جو لغت کی کتاب ہے لفظ خاتم کے نیچے حضرت عائشہ کا ی قول درج ہے.قُولُوا إِنَّهُ حَالَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ.(تما صفحه ۸۵) پر تو کہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں مگر یہ کبھی نہ کہنا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہ آئے گا.اس کے آگے لکھا ہے.هذَا نَاظِرٌ عَلَى نُزُولِ عِيسَى وَهَذَا ايضًا لا يُنَا فِي حَدِيثَ لَا نَبِيٍّ بَعْدِي لَأَنَّهُ أَرَادَ لَا نَبِيَّ يَنسَخُ شَرْعَهُ ( حمل صفحه ۸۵) یعنی قول حضرت عائشہ صدیقہ کا نزول مسیح کا موید و محافظ ہے اور لَا نَبِيَّ بَعْدِی والی حدیث کا بھی مخالف نہیں کیونکہ خاتم النبین والی آیت اور لَا نَبِيَّ بَعْدِي
75 کا مطلب تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرے.امکان نبوت از قرآن کریم قرآن کریم سے یہ ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بند نہیں ہوا بلکہ جاری ہے اور اس امر کا امکان موجود ہے کہ آپ کے بعد ایسے نبی آتے رہیں جو آپ کے امتی ہوں اور قرآن کریم کی تعلیم کو ہی دنیا میں رائج کرنے والے ہوں.ہاں یہ ضرور ہے کہ اسلام کی تعلیم کو چھوڑ کر اور بلا واسطہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قسم کا روحانی مقام حاصل نہیں کیا جا سکتا.خدائے تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے کی سب راہیں مسدود ہیں سوائے اس راہ کے جو قرآن کریم نے بتلائی اور اس اُسوہ کی پیروی کے جو ہمارے آقاسید و مولی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا.پس امتی نبی کے راستہ میں آیت خاتم النبین ہرگز روک نہیں.جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات سے واضح ہے.پہلی آیت ومن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ من التبين والصديقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أوليك رفيقان (نساء: آیت ۷۰)
76 اور جو لوگ بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں میں شامل ہونگے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین ( میں ) اور یہ لوگ ( بہت ہی ) اچھے رفیق ہیں.استدلال اس آیت میں امت محمدیہ کیلئے جو درجات مقدر ہیں ان کا ذکر ہے اور بتلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والوں اور اس رسول یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والوں کو نبوت ،صدیقیت ، شہادت اور صالحیت کے مقام و مرتبے عطا کئے جائیں گے.گویا ایک سچا مومن اور مسلمان صالحیت کے مقام سے ترقی کرتے کرتے نبوت کے مقام تک پہنچ سکتا ہے.قرآن کریم میں جہاں دوسرے انبیاء کا ذکر ہے وہاں بتلایا گیا ہے کہ ان کی پیروی سے زیادہ سے زیادہ صدیقیت کا مقام حاصل ہو سکتا ہے.جیسا کہ فرمایا وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِةٍ أُولَيْكَ هُمُ الصِّدِّيقُوْنَ والشُّهَدَاء عِنْدَ رَبِّهِمْ (الحدید: ۲۰) ترجمعہ: ” اور جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہداء کا درجہ پانے والے ہیں.ان دونوں آیات پر غور کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبیوں کی اطاعت کے نتیجہ میں انسان صرف صدیق
77 شہید اور صالح کا درجہ پا سکتا تھا.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے نتیجہ میں ان مدارج کے علاوہ نبوت کا مرتبہ بھی مل سکتا ہے.یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ سورۃ نساء کی مندرجہ بالا آیت میں مَعَ الَّذِينَ کے الفاظ ہیں یعنی ایسے لوگوں کے ساتھ ہوں گے جو نبی ،صدیق، شہید اور گے.صالح ہوں گے اس سے یہ کہاں پتہ لگا کہ وہ ان میں سے ہوں اعتراض قلتِ تدبیر کا نتیجہ ہے اور عربی زبان اور قرآنی اسلوب بیان.نا واقفیت کا نتیجہ ہے کیونکہ متعہ کے معنی سیاق و سباق اور قرینہ کے مطابق بعض اوقات صرف ”میں“ کے ہوتے ہیں ساتھ کے نہیں.جیسا کہ دعا سکھائی وتوفنا مع الابرار (آل عمران: ۱۹۴) یعنی مومن یہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ وفات دے.اس آیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جب کوئی نیک آدمی مرنے لگے تو ہم بھی مر جائیں بلکہ صرف یہ مطلب ہے کہ ہمیں اس حالت میں وفات دے کہ ہم نیک لوگوں میں شامل ہوں.اگر مندرجہ بالا آیت میں مع“ کا ترجمہ ”ساتھ“ کیا جائے تو آیت بے معنی ہو جاتی ہے کیونکہ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ خدا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی پیروی سے انسان نبی تو نہیں ہو سکتا ہاں ان کے ساتھ ہو گا تو لازما یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان چاروں درجوں میں سے کوئی درجہ بھی نہیں ملے گا.صرف ان کے ساتھ ہونے کا شرف حاصل ہوگا.جن کو یہ مدارج ملیں گے.اگر انسان صالح یا نیک بھی نہ بن سکا تو پھر کیا فائدہ ہوا.اس سے تو نعوذ باللہ یہ
78 ثابت ہوتا ہے کہ دوسرے انبیاء کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بلند ہے کیونکہ ان کی اطاعت سے صدیقیت کا درجہ مل جاتا ہے ظاہر ہے کہ یہ بات درست نہیں.پس ثابت ہوا کہ معہ کے یہی معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے نبوت کے مقام تک فائز ہوں گے.دوسری آیت الله يَصْطَفِي مِن المَلَيْكَةِ رُسُلاً وَ مِنَ النَّاسِ ، إِنَّ الله (الحج :۷۶) اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی رسول منتخب کرتا ہے اور کرتا رہے گا کیونکہ وہ سنے والا اور دیکھنے والا ہے.استدلال اس آیت میں تضطفي مضارع کا صیغہ ہے جو حال اور مستقبل دونوں استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی ہوں گے منتخب کرتا ہے“ اور ”منتخب کرے گا“.گویا اس جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک سنت کا ذکر کیا ہے کہ وہ فرشتوں اور انسانوں میں سے رسول منتخب فرما تا رہتا ہے.اور خدا کی سنت میں تبدیلی نہیں ہوتی.جیسا کہ فرمایا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا - تو خدا کی سنت میں کبھی تبدیلی نہیں پائے گا.
79 تیسری آیت يبني أدم إمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ أيتي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَO (الاعراف: ۳۶) اے آدم کے بیٹو! جب بھی تمہارے پاس تم میں سے رسول بنا کر بھیجے جائیں اور وہ تمہارے سامنے میری آیات پڑھ کر سنائیں تو جولوگ تقویٰ اختیار کریں گے اور اصلاح کریں گے ان کو (آئندہ کیلئے ) کسی قسم کا خوف نہ ہوگا اور شدہ ( ماضی کی طرح کسی بات پر ننگین ہوں گے.استدلال اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جب تک بنی آدم اس دنیا میں موجود ہیں ان میں رسول آتے رہیں گے اور انسانوں کا فرض ہے کہ ان پر ایمان لائیں.اس جگہ اگر چہ ساری نسل انسانی کو عمومی رنگ میں خطاب کیا گیا ہے لیکن در حقیقت آنحضرت علی کے زمانہ اور آپ کے بعد کے زمانہ کے لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے.جیسا کہ اس سے پہلی آیت کے مفہوم سے واضح ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يبني ادم خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا ولا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَة (الاعراف: ۳۲)
80 اے آدم کے بیٹو! ہر مسجد کے قریب زینت (کے سامان ) اختیار کر لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو.کیونکہ وہ ( اللہ ) اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.اس جگہ مسجد میں زینت اختیار کرنے کا حکم امت محمدیہ کو ہے لیکن خطاب بنی آدم کہہ کر کیا گیا ہے.چوتھی آیت هدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ : غيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّايِّينَهُ ( سورۃ فاتحہ آیت ۶.۷) ترجمعہ: (اے اللہ ) ہمیں سیدھے راستے پر چلا.ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا جن پر نہ تو ( بعد میں تیرا ) غضب نازل ہوا ( ہے ) اور نہ وہ (بعد میں ) گمراہ ( ہو گئے ) ہیں.“ استدلال اس آیت میں ہمیں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ ہم انعام یافتہ گروہ کے راستہ پر چلیں اور انعام پائیں.قرآن کریم سورۃ نساء آیت ۶۹ - ۷۰ میں (جس کی تشریح پہلی آیت میں اوپر آچکی ہے ) اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ انعام پانے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں نبوت، صدیقیت ، شہادت اور صالحیت کے
81 مقام پر سرفراز کیا جاتا ہے.اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے.وَاذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إذ جعل فيكُمْ أَنْبِيَاء وَجَعَلَكُمْ قُلُوكًا (المائدہ: ۲۱) اور ( تم اس وقت کو یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم تم اللہ کے اس انعام کو یاد کرو جب اس نے تم میں نبی مقرر کئے تھے اور تمہیں بادشاہ بنایا تھا.اس آیت میں نبوت کو اور بادشاہت کو انعام قرار دیا ہے ان دونوں آیتوں کو ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں خود یہ دعا سکھائی ہے تو دراصل اس میں اس بات کی بشارت دی ہے کہ وہ ہم میں بھی نبوت اور بادشاہت کا انعام جاری رکھے گا.امتِ مسلمہ کو خیر امت قرار دیا گیا ہے.وہ خیر امت اسی طرح ہو سکتی ہے کہ اس میں بھی سلسلہ نبوت جاری رہے جیسے اس سے قبل دوسری امتوں میں جاری تھا.اگر اس انعام کا درواز و بند تسلیم کیا جائے تو پھر امت مسلمہ خیر امت کیونکر قرار دی جاسکتی ہے.امکان نبوت از احادیث نبوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس بارے میں جو کچھ فرمایا اس سے بھی یہی عیاں ہوتا ہے کہ اُمت محمدیہ میں نبوت کا سلسلہ بند نہیں ہوا.چند احادیث پیش ہیں.
82 پہلی حدیث اَبُو بَكْرٍا فُضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِيٌّ (کنوز الحقائق في حديث خیر الخلائق صفحه م) ابوبکر اس امت میں سب سے افضل ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی امت میں پیدا ہو.مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ حضور نے إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِی کہ کر ایک استثناء کر دیا اگر کسی نبی کے پیدا ہونے کا امکان ہی نہیں تھا تو اس استثناء کی ضرورت نہیں تھی.دوسری حدیث آیت خاتم النبیین ۵ھ میں نازل ہوئی 9 ھ میں آنحضرت صلی اللہ عا وسلم کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے اور پھر فوت بھی ہو گئے ان کی وفات پر حضور نے فرمایا: لَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا (ابن ماجہ کتاب الجنائز) اگر ابراہیم زندہ رہتا تو ضر ور سچا نبی ہوتا.اس حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النتین ہونے کے باوجود نبوت کا امکان باقی ہے اگر خاتم انتھین کے سہی معنی ہوتے کہ آئندہ کوئی نبی نہیں ہوگا تو ایسی صورت میں حضور کو یہ فرمانا چاہئے تھا کہ اگر
83 ابراہیم زندہ رہتا تب بھی نبی نہ ہوتا کیونکہ میں خاتم النبیین ہوں.لیکن حضور کا یہ ارشاد ہے کہ ابراہیم کے نبی ہونے میں موت حائل ہوگئی.اگر وہ زندہ رہتا تو ہی ہوتا.تیسری حدیث مسیح موعود کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.أَلَا إِنَّهُ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ وَلَا رَسُولٌ وَأَلَا إِنَّهُ خَلِيفَتِي فِي أُمَّتِي - (طبرانی فی اوسط والكبير ) سن لو! میرے اور مسیح موعود کے درمیان کوئی نبی نہیں اور سن لو کہ وہ میری اُمت میں اخلیفہ ہے.حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِی کی تشریح حديث لا نَبِيَّ بَعْدِی کو عام طور پر اس امر کی تائید میں پیش کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہو گیا ہے لیکن جب قرآن کریم کی متعدد آیات نیز احادیث سے نبوت کے جاری رہنے کا امکان موجود ہے تو لازماً اس حدیث کا وہی مفہوم صحیح ہوسکتا ہے جو قرآن کریم اور دوسری احادیث کے خلاف نہ ہو اس لحاظ سے لَا نَبِيَّ بَعْدِی کا مفہوم بزرگانِ دین نے یہی بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسی نبوت بند ہے جو تشریعی ہو یعنی اب کوئی ایسا نبی نہیں آ سکتا جو قر آنی شریعت کو منسوخ کر
84 دے.امتی نبی کے آنے میں یہ حدیث روک نہیں چند بزرگان کے اقوال درج ہیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: قُولُوا إِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ ( تفسیر الدر المنثور للسیوطی جلد ۵ صفحه ۲۰۴ و تکمله مجمع البحار صفحه ۸۵) اے لوگو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء ضرور کہو مگر یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کسی قسم کا نبی نہ آئے گا.۲.امام ملاعلی قاری فرماتے ہیں:.وَرَدَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي مَعْنَاهُ عِنْدَ الْعُلَمَاءِ لَا يَحْدُتُ بَعْدَهُ نَبِيٌّ بِشَرُعٍ يَنْسَخُ شَرْعَة - (الاشاعۃ فی اشراط الساعۃ صفحہ ۲۲۶) حدیث میں لَا نَبِيَّ بَعْدِی کے جو الفاظ آئے ہیں اس کے معنی علماء کے زدیک یہ ہیں کہ کوئی نبی ایسی شریعت کو لے کر پیدا نہیں ہوگا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرتی ہو.الشیخ الاکبر حضرت محی الدین ابن العربی فرماتے ہیں:.وَهَذَا مَعْنَى قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنَّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلا رَسُوْلَ بَعْدِى وَلَا نَبِيَّ أَيْ لَا نَبِيَّ يَكُونُ عَلَى شَرْعٍ يُخَالِفُ شَرْعِي بَلُ إِذَا كَانَ يَكُونُ تَحْتَ حُكْمِ شَرِيعَتِي - فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحہ ۱۰۰ باب ۷۳)
85 یہی معنی اس حدیث کے ہیں کہ اب رسالت اور نبوت منقطع ہوگئی ہے.میرے بعد نہ رسول ہے اور نہ نبی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے مراد یہ ہے کہ اب ایسا نبی کوئی نہیں ہوگا جو ایسی شریعت پر ہو جو میری شریعت کے خلاف ہو.بلکہ جب کبھی کوئی نبی آئے گا تو وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہوگا.۴.نواب صدیق حسن خان صاحب بھو پالوی ( وفات ۱۸۸۹ء) لکھتے ہیں:.لا نَبِيَّ بَعْدِی آیا ہے.جس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی شرع ناسخ لے کر نہیں آئے گا“.(اقتراب الساعۃ صفحہ ۱۶۲)
86 صداقت حضرت مسیح موعود از قرآن کریم قرآن کریم ایک کامل شریعت ہے اس میں تمام دینی معاملات کے متعلق تفصیلی ہدایات اور راہنمائی موجود ہے اور کوئی پہلو دین کا ایسا نہیں جو تشنہ رہ گیا ہو.ہر مسئلہ سے متعلق نہ صرف ہدایات دی گئی ہیں بلکہ اس کے دلائل اور اس کی حکمتیں بھی بیان کر دی گئی ہیں.ایک مدعی نبوت کی صداقت کا معاملہ بھی ایک اہم دینی مسئلہ ہے.قرآن کریم نے اس بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور ایسے معیار مقرر کئے ہیں جن کے ذریعہ صادق اور کاذب میں تمیز ہو سکتی ہے.معیارِ اوّل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو ثابت کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی تو ان سے کہہ دے فقدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ ، افَلَا تَعْقِلُونَ (یونس: ۱۷) س سے پہلے میں ایک عرصہ دراز تم میں گزار چکا ہوں کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے.استدلال اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی تو ان لوگوں سے کہہ دے کہ میں دھوٹی نبوت سے قبل تم میں ایک لمبی عمر گزار چکا ہوں کیا تم نے مجھے پہلے
87 کبھی جھوٹ بولتے دیکھا ہے.اگر میں نے اپنی چالیس سالہ زندگی میں جو دعوی نبوت سے قبل کی ہے کسی ایک معاملہ میں بھی جھوٹ نہیں بولا تو کیا تمہاری عقل اس بات کو تسلیم کرے گی کہ آج اچانک میں خدائے تعالیٰ کے بارے میں جو احکم الحاکمین ہے جھوٹ اور افتر ا سے کام لینے لگا ہوں.انسانی فطرت تو یہ ہے کہ ہر عادت خواہ نیکی کی ہو یا بدی کی آہستہ آہستہ پڑتی ہے.یہ تو فطرت کے ہی خلاف ہے کہ چالیس سال تک تو انسان بیچ بولتا رہا ہو اور پھر ایک دم ایسا تغیر پیدا ہو جائے کہ انسان خدا کے بارے میں جھوٹ بولنے لگے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دعویٰ نبوت پیش کرنے سے قبل لوگوں کو جمع کیا اور ان سے دریافت کیا کہ اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے ایک لشکر جرار چھپا ہوا ہے تو تم اس بات کو مان لو گے! تو انہوں نے کہا مَا جَرَّبُنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا (بخاری کتاب التفسير سورة الشعراء جلد ۳ صفحه ۱۰۶مصری) ہم نے آپ سے سوائے سچ کے کسی اور چیز کا تجربہ نہیں کیا.تب آپ نے فرمایا.فَإِنِّي نَذِيرٌ لَّكُمْ بَيْنَ يَدَى عَذَابِ شَدِید.میں خدا کی طرف سے نبی ہو کر آیا ہوں اور ایک خطر ناک عذاب سے تمہیں ڈراتا ہوں.یہ بات سن کر حاضرین میں سے ابولہب اٹھا اور اس نے کہا بالک.تیرے لئے ہلاکت ہو تو نے یہ کیا بات کہی ہے.اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی دوست اور دشمن سب کے تجربہ کی رو سے پاک اور صاف ہوتی ہے اور وہ جھوٹ بولنے کا
88 قطعا عادی نہیں ہوتا.درحقیقت اس کی دعویٰ نبوت سے بعد کی زندگی بھی پاک وصاف ہوتی ہے لیکن دعویٰ نبوت کرنے کے بعد لوگ اس کے دشمن ہو جاتے ہیں اور اس پر طرح طرح کے الزامات لگا دیتے ہیں.پس ایک مدعی نبوت کی صداقت کو پر کھنے کیلئے اس کی دعوئی سے قبل کی زندگی کو دیکھنا چاہئے.اگر وہ ہر پہلو سے پاک وصاف ہے تو بلاشبہ وہ سچا ہے.یہ ایسی دلیل ہے جو فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے اور جاہل سے جاہل بھی اس کو سمجھ سکتا ہے.اسی دلیل کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود سیچے قرار پاتے ہیں.دیکھئے حضور علیہ السلام اپنی پاکیزہ زندگی کے بارے میں کیسی تحدی سے فرماتے ہیں:.اب دیکھو خدا تعالیٰ نے اپنی محبت کو تم پر اس طرح پورا کر دیا ہے کہ میرے دعوئی پر ہزار ہا دلائل قائم کر کے تمہیں موقع دیا ہے کہ تا تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے خود کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی میں نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا.کون تم میں سے ہے جو میری سوانح زندگی میں نکتہ چینی کر سکتا ہے.پس یہ خدا کا فضل ہے جو اس نے ابتداء سے مجھے تقومی پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کیلئے یہ ایک دلیل ہے“.( تذکرۃ الشہادتین صفحه ۶۲ )
89 اس چیلنج کو پیش کئے آج سو سال سے زائد ہو گئے ہیں.کوئی شخص حضور علیہ السلام کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر نکتہ چینی نہیں کر سکا.صرف یہی نہیں کہ کوئی نکتہ چینی نہیں کر سکا بلکہ یہ کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جنہوں نے سارے ہندوستان میں پھر کر حضور کے خلاف کفر کے فتوے جمع کئے دعویٰ قبل کی زندگی کے بارے میں گواہی دیتے ہیں کہ حضور متقی اور پرہیز گار تھے اور انہوں نے دین کی بے مثال خدمت کی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے پہلی تصنیف ”براہین احمدیہ پر ریویو کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں.اب ہم اس پر اپنی رائے نہایت مختصر اور بے مبالغہ الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں.ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں شائع نہیں ہوئی اور اس کا مولف ( یعنی حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام ) بھی اسلام کی مالی و جانی قلمی واسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے.(اشاعۃ السنہ جلد 4 صفحہ ۷ ) پس اگر دعوی نبوت سے قبل کی پاکیزہ زندگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ اُمی وابی ) کی صداقت کی دلیل ہے تو یقیناً اہل دانش کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی بھی دلیل ہے کیونکہ آپ نے بھی دنیا کے سامنے خدائی مرسل ہونے کا دعویٰ پیش کیا.
90 معیار دوم صداقت کا دوسرا معیار مدعی کے دعوئی سے تعلق رکھتا ہے اللہ تعالیٰ سورۃ الحاقہ میں فرماتا ہے.وَلَوْ تَقُولَ عَلَيْنَا بَعْض الأقاويل لا خَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الوَتِينَ فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ مَا جِزِينَ (الحاقه ۴۵ تا ۴۸) ترجمعہ: ”اور اگر یہ شخص ہماری طرف جھوٹا الہام منسوب کر دیتا خواہ ایک ہی ہوتا تو ہم یقیناً اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی رگِ گردن کاٹ دیتے سواس صورت میں تم میں سے کوئی بھی نہ ہوتا جواُسے خدا کے عذاب سے بچا سکتا." استدلال اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ مدعی جھوٹا ہوتا اور جھوٹے الہام بنا کر یہ کہتا کہ یہ الہام خدا نے کیا ہے تو ہم اسے پکڑ لیتے اور جلد ہلاک کروا دیتے اُسے اتنی مہلت نہ دی جاتی کہ وہ لوگوں کو مسلسل گمراہ کرتا رہتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعوی نبوت کے بعد ۲۳ سال زندہ رہے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ زندگی اس بارے میں معیار ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اتنے لمبے عرصہ تک ( جو ۲۳ سال پر ممتد ہے ) اس کا زندہ رہنا اس بات کی
91 دلیل ہے کہ وہ اپنے دعوئی میں راستہاز ہے.اگر وہ جھوٹا ہوتا تو بہت جلد ہم گرفت کرتے اور ہلاک کر دیتے.اس آیت سے یہ نتیجہ نکلا کہ کوئی جھوٹا مدعی الہام و وحی اتنا عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا جتنا عرصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم رہے.جب سے دنیا بنی ہے کسی جھوٹے مدعی نبوت کو ( بشر طیکہ وہ مجنون نہ ہو ) عمولی کے ۲۳ سال کی مہلت نہیں ملی.یہ بات یادر کھنے کے لائق ہے کہ اس آیت کریمہ میں لفظ تــــــول استعمال ہوا ہے جو جان بوجھ کر اور عمدا جھوٹ بولنے پر دلالت کرتا ہے ایک مجنون اور دیوانہ اس قانون کی زد میں نہیں آتا کیونکہ وہ بوجہ بیماری معذور ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کا سلسلہ ۳ برس تک جاری رہا.پس آپ کا اتنی مدت تک ہلاک نہ ہونا اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ آپ بلاشبہ راستباز اور منجانب اللہ تھے.معیار سوم عَلِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِمَ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ (الجن : ۲۷.۲۸) غیب کا جاننے والا وہی ہے ( یعنی خدائے تعالیٰ ) اور وہ اپنے غیب پر اپنے رسولوں کے سوا کسی کو کثرت سے اطلاع نہیں دیتا.لا پہلا الہام ۱۸۶۵ء کا ہے اور آخری ۲۰/ مئی ۱۹۰۸ ء اس طرح سلسلہ الہامات ۴۳ سال پر پھیلا ہے.
92 استدلال اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَعِندَة مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُود (الانعام : ٦٠ ) یعنی غیب کی کنجیاں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور غیب کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا.اس آیت میں الغیب سے مراد خالص غیب ہے جس کی پیش بینی کسی سائنسی اصول پر نہیں کی جاسکتی.سورۃ الجن کی آیت میں یہ بتلایا ہے کہ خالص غیب کی خبریں اللہ تعالیٰ صرف اپنے برگزیدہ انبیاء کو ہی کثرت سے بتلاتا ہے.اس اصول کے مطابق جس شخص کو کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی جائے اس کے رسول ہونے میں شک نہیں کیا جاسکتا.ظَهَرَ عَلَى الْغَيْبِ کے یہی معنی ہیں کہ امور غیبیہ کثرت سے بتلائی جائیں اور وہ عظیم الشان خبروں پر مشتمل ہوں گو یا کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ گویا غیب پر غلبہ حاصل ہو گیا ہے.قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایسی غیبی خبریں کچھ آفاق یعنی اطراف عالم سے تعلق رکھتی ہیں اور کچھ افراد سے تعلق رکھتی ہیں جیسا کہ فرمايا سَنُرِيهِمْ ايتنا في الأفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمُ أَنَّهُ الْحَق ( حم سجده:۵۴) ترجمعہ: ” عنقریب ہم ان لوگوں کو اطراف عالم میں بھی نشان دکھا ئیں
93 گے اور خودان کی جانوں میں بھی یہاں تک کہ ان کے لئے ظاہر ہو جائے گا کہ یہ ( قرآنی وحی ) حق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہزار ہا امور غیبی سے مطلع کیا گیا جن کا تعلق قوموں اور ملکوں، دوستوں اور دشمنوں، اپنے خاندان والوں اور خود اپنی ذات سے تھا اور وہ اپنے اپنے وقت پر بعینہ اسی طرح ظاہر ہو کر خدائے تعالیٰ کی ہستی، ا اسلام کی صداقت اور آپ کے منجاب اللہ ہونے پر گواہ ٹھہرے ان میں سے چند کا اس جگہ ذکر کیا جاتا ہے.ا.زار کی حالت زار پہلی جنگ عظیم سے قبل زار روس کی حکومت دنیا کی طاقتور ترین حکومت سمجھی جاتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے خبر پاکر ۱۵/اپریل ۱۹۰۵ء میں پیشگوئی فرمائی کہ وقت آ رہا ہے جب زار روس کی حالت قابلِ رحم ہو جائے گی.چنانچہ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں.اک نشان ہے آنے والا آج سے کچھ دن کے بعد جس سے گردش کھائیں گے دیہات و شہر اور مرغزار آئے گا قہر خدا سے خلق پر اک انقلاب اک برہنہ سے نہ تہ ہوگا کہ تا باندھے ازار اک جھپک میں یہ زمیں ہو جائے گی زیر و زبر نالیاں خوں کی چلیں گی جیسے آپ رود بار
94 خوں سے مُردوں کے کوہستان کے آب رواں سرخ ہو جائیں گے جیسے ہو شراب انجبار مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جن و انس زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار ( براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۹۷) اس پیشگوئی کے مطابق ۱۹۱۴ء میں پہلی عالمگیر جنگ شروع ہوئی بیشمار جانیں ضائع ہوئیں اور خون کی ندیاں بہہ گئیں اور روس میں ایک انقلاب بر پا ہو گیا جس کے نتیجہ میں آنا فانا زار روس کا نہ صرف خاتمہ ہو گیا بلکہ اس کی اور اس کے خاندان کی حالت واقعی ایسی ہوگئی جس پر رونا آتا ہے اور زار روس با حالِ زار ہو گیا.۲.آہ نادر شاہ کہاں گیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۳ مئی ۱۹۰۵ء کو ایک روڈ یا ہوا فرمایا: صبح کے وقت لکھا ہوا دکھا یا گیا آہ نادر شاہ کہاں گیا".( تذکره صفحه ۴۳ ۵ طبع دوم ) اس الہام کا تعلق سرزمین کا بل سے ہے ۱۸۸۳ء میں جو الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوئے ان میں سے ایک یہ تھا.شَاتَان تُذبَحَانٍ وَكُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان ( تذکره صفحه ۲ ۸ طبع دوم ) یعنی دو بکریاں ذیج کی جائیں گی اور زمین پر کوئی ایسا نہیں جو مرنے سے بچ جائے گا.یعنی ہر ایک کے لئے قضاء وقدر در پیش ہے اور موت سے کسی کو خلاصی نہیں.
95 اس پیشگوئی کے مطابق ۱۹۰۳ء میں حضرت شہزادہ سید عبداللطیف صاحب اور مولوی عبد الرحمن صاحب جو کابل کے رہنے والے تھے افغانستان کے شاہی خاندان کے حکم سے صرف اس وجہ سے سنگسار کر دیئے گئے انہوں نے احمدیت کو قبول کر لیا تھا.یہ کارروائی امیر حبیب اللہ خاں کے دور میں ہوئی.پھر یکم جنوری ۱۹۰۶ء کو الہام ہوا:.تین بکرے ذبح کئے جائیں گے“.( تذکرہ صفحہ ۵۸۲ طبع دوم ) چنانچہ یہ الہام ۱۹۲۴ء میں اس طرح پورا ہوا کہ افغانستان کے اسی شاہی خاندان کے آخری حکمران امیر امان اللہ خاں کے حکم سے جماعت احمدیہ کے تین اور افراد یعنی حضرت مولوی نعمت اللہ خاں صاحب، حضرت مولوی عبدالحکیم صاحب اور ملا نور علی صاحب صرف احمدیت کی وجہ سے شہید کر دیئے گئے.اول الذکر ۳۱/ اگست ۱۹۲۴ء کو شہید کئے گئے اور دوسرے دو افراد۲/ فروری ۱۹۲۵ء کو شہید کئے گئے.اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ افغانستان کا یہ شاہی خاندان بیگناہ احمدیوں کے خون سے ہاتھ رنگے گا اس لئے علام الغیوب خدا نے ایک اور خبر آہ نادر شاہ کہاں گیا“ کے الفاظ میں دی اور فرمایا کہ یہ خاندان اپنے کئے کی سزا بھگتے گا.چنانچہ ۱۹۲۹ء میں ایک نہایت ہی معمولی شخص حبیب اللہ خاں المعروف بچہ سقہ کے ہاتھوں اس خاندان کا تخت اُلٹ گیا اور وہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گئے.اس وقت نادر خاں نامی ایک جرنیل فرانس میں بیمار پڑا تھا افغانوں نے اس کو بلایا اور وہ افغانستان کا بادشاہ بن گیا.اس نے
96 ” خان کا ملکی لقب ترک کر کے شاہ کا لقب اختیار کیا اور نادر شاہ کہلانے لگا.پھر ۱۸ نومبر ۱۹۳۳ء کو عین دن کے وقت ایک شخص عبد الخالق نے ایک بڑے مجمع میں اسے قتل کر دیا.اس طرح نادر شاہ کی بے وقت اور اچانک موت نے نہ صرف افغانستان بلکہ تمام دنیا کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلوا دیئے کہ آہ! نادر شاہ کہاں گیا“.لیکھرام کے متعلق پیشگوئی لیکھرام ہندوستان کے آریہ سماج فرقہ کا ایک لیڈر تھا جو بہت گندہ دہن تھا اور اسلام پر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر رکیک حملے کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے بہت سمجھایا اور ان باتوں سے باز رکھنے کی کوشش کی لیکن وہ شرارت ، شوخی اور بدگوئی میں بڑھتا گیا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو آپ کو بتایا گیا کہ:.عِجُلٌ جَسَدٌ لَهُ خَوَارٌ لَهُ نَصَبٌ وَّ عَذَابٌ یعنی یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکر وہ آواز نکل رہی ہے اور اس کے لئے ان گستاخیوں اور بد زبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جو ضرور اس کومل کر رہے گا.(اشتہار ۲۰/ فروری ۱۸۹۳ء) پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر تحریر فرمایا:.اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے یعنی
97 ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اند ر الہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں“.(اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء) ایک اور الہام کے الفاظ ہیں:.يُقْضَى أَمْرُهُ فِي سِتٌ - (استفتاء اُردو حاشیه صفحه ۱۷، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۲۵) اس کا معاملہ چھ میں ختم ہو جائے گا.اس کے بعد آپ نے پیشنگوئی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ جس دن یہ پیشگوئی پوری ہوگی وہ عید کے دن کے ساتھ ملا ہوا دن ہو گا.اسی طرح آپ نے اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں لیکھر ام کے بارے میں لکھا:.الا اے دشمن نادان و بے راہ بنترس از شیخ بران P محمد (روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۴۹) ان تمام پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لیکھر ام کے بارے میں مندرجہ ذیل امور آپ کو بتلائے گئے تھے..لیکھرام پر ایک عذاب آئے گا جس کا نتیجہ موت ہوگا.یہ عذاب چھ سال کے عرصہ میں آئے گا.
98.یہ عذاب عید کے ساتھ ملے ہوئے دن میں آئے گا..لیکھرام سے گوسالہ سامری کا سا سلوک کیا جائے گا اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کا کشتہ ہو گا.ان پیشگوئیوں کے پانچ سال بعد کسی نا معلوم شخص نے لیکھرام کے گھر میں تیز بخنجر سے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور وہ عید کے ساتھ ملا ہوا دن تھا.گوسالہ سامری کو ہفتہ کے دن ٹکڑے ٹکڑے کر کے پہلے جلایا گیا اور پھر راکھ دریا میں پھینک دی گئی اسی طرح لیکھرام ہفتہ کے دن ہلاک ہوا.پہلے جلایا گیا اور پھر راکھ دریا میں ڈال دی گئی اس کی ہلاکت اسلام کی صداقت ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کا ایک زبر دست ثبوت ہے اور اہلِ ہند بالخصوص ہنود کے لئے وہ حجت ٹھہری.۴.ڈاکٹر ڈوئی کے متعلق پیشگوئی ڈاکٹر الیگزنڈر ڈوئی امریکہ کا ایک مشہور عیسائی مناد تھا جس نے صحون نامی ایک شہر بسایا اور اعلان کیا کہ حضرت مسیح اسی شہر میں اُتریں گے.اس شخص کو بہت شہرت حاصل ہوئی اور اس کا شہر بہت بارونق ہو گیا.اسے اسلام سے سخت عداوت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُسے مباہلہ کی دعوت دی تا کہ عیسائیت اور اسلام کی صداقت کا فیصلہ ہو سکے.اس سلسلہ میں اس نے اپنے اخبار میں لکھا.
99 ”ہندوستان کا ایک بیوقوف محمدی مسیح مجھے بار بار لکھتا ہے کہ یسوع مسیح کی قبر کشمیر میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو کیوں اس شخص کو جواب نہیں دیتا.مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں گا.اگر میں ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو میں ان کو کچل کر مارڈالوں گا“.اس پر حضور علیہ السلام نے اپنے مباہلہ کے چیلنج کو دوبارہ دہرایا اور لکھا کہ ڈوئی اگر چہ پچاس برس کا جوان ہے اور میں ستر برس کا ہوں لیکن فیصلے کا انحصار عمروں پر نہیں ہوتا.احکم الحاکمین اس کا فیصلہ کرے گا.نیز کہا.اگر ڈوئی مقابلہ سے بھاگ گیا تب بھی یقینا سمجھو کہ اس کے صحون پر جلد آفت آنے والی ہے“.(اشتہار ۲۳/ گست ۱۹۰۳ء) اس خدائی پیشگوئی کے بموجب خدا کا قہر اس پر نازل ہوا.عین اس وقت جب کہ وہ ایک عظیم اجتماع سے خطاب کر رہا تھا اس پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ زبان بند کر دی گئی جو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہرزہ سرائی کرتی تھی.پھر دماغی فتور اور کئی اور بیماریوں میں مبتلا ہو گیا.اس پر غبن کا الزام تھا.شہر میحون تباہ ہو گیا نہ صرف مریدوں نے بلکہ اہل وعیال نے بھی ساتھ چھوڑ دیا.بیٹے نے کہا کہ وہ دلد الزنا تھا.بالآخر ہزاروں مصیبتیں اور ذلتیں سہتا ہوا ۱۹ مارچ ۱۹۰۷ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اس جہان سے رخصت ہوا.بیوی بچے تک جنازے میں شریک نہ ہوئے.گھر میں سے
100 شراب کی بوتلیں اور کنواری لڑکیوں کے عاشقانہ خطوط برآمد ہوئے.غرض پیشگوئی کے مطابق وہ ذلت و رسوائی کے ساتھ اس جہان سے رخصت ہوا اور اس کی عبرتناک موت عیسائی دنیا کے لئے ایک حجت قرار پائی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح محمدی کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر گئی جو رہتی دنیا تک ایک نشان رہے گا.۵.طاعون کی پیشگوئی ۲ فروری ۱۸۹۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشف میں دیکھا:.خدائے تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں...میں نے لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقرب ملک میں پھیلنے والی ہے.( تذکره صفحه ۳۱۹ طبع ثانی) اس پیشگوئی کے مدنظر آپ نے اشتہار کے ذریعہ لوگوں کو مشورہ دیا کہ کھلے مقامات پر رہائش اختیار کریں.لوگوں نے اس کا بڑا مذاق اُڑایا کیونکہ ملک میں طاعون کا نشان تک نہ تھا.پیسہ اخبار لا ہور نے لکھا.مرزا اسی طرح لوگوں کو ڈرایا کرتا ہے.دیکھ لینا خود اسی کو طاعون ہوگی.لیکن پیشگوئی کے مطابق چند ماہ بعد طاعون نمودار ہوگئی مگر حملہ کمزور تھا اس
101 لئے لوگ تمسخر سے باز نہ آئے تو حضور نے از راہ ہمدردی ۱۷ مارچ ۱۹۰۱ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں تحریر کیا:." سواے عزیز و ! اس غرض سے پھر یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ سنجل جاؤ اور خدا سے ڈرو اور ایک پاک تبدیلی دکھلاؤ تا خدا تم پر رحم کرے اور وہ بلا جو بہت نزدیک آ گئی ہے خدا اس کو نابود کر دے.اے غافلو! یہ نفسی اور ٹھٹھے کا وقت نہیں ہے یہ وہ بلا ہے جو آسمان سے آتی اور صرف آسمان کے خدا کے حکم سے دُور ہوتی ہے“.جب لوگوں نے اس تنبیہہ سے فائدہ نہ اٹھایا تو خدائے ذوالجلال کا غضب بھڑ کا اور ۱۹۰۲ء میں طاعون نے اس قدر زور پکڑا کہ لوگ کتوں کی طرح مرنے لگے اور گاؤں کے گاؤں اُجڑ گئے.اس قدرموتا موتی ہوئی کہ لاشوں کو سنبھالنے والا کوئی نہ ملتا.یہ حالات دیکھ کر آپ نے پھر ایک رسالہ ”دافع البلاء و معيار اهل الاصطفاء تحریر فر مایا اور لوگوں کو توجہ دلائی کہ اس مصیبت کا حقیقی علاج یہی ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کی طرف توجہ کی جائے اور اس کے فرستادہ کو قبول کیا جائے.چنانچہ تحریر فرمایا :.إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ إِنَّهُ أوَى الْقَرْيَةَ - یعنی خدا نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اس بلائے طاعون کو ہرگز دور نہیں کرے گا جب تک لوگ ان خیالات کو دُور نہ کر لیں جو ان کے دلوں میں ہیں یعنی جب تک وہ خدا کے مامور اور
102 رسول کو مان نہ لیں تب تک طاعون دُور نہیں ہوگی اور وہ قادر خدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا تائم سمجھو کہ قادیان اسی لئے محفوظ رکھی گئی ہے کہ وہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا“.( دافع البلاء صفحه ۱۲ تا ۱۴) پھر خداوند عزوجل نے یہ بھی خبر دی کہ إِنِّي أَحَافِظُ كَلَّ مَنْ فِي الدَّارِ إِلَّا الَّذِينَ عَلَوامِنِ اسْتِكْبَارٍ وَ أَحَافِظُكَ خَاصَّةً - سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِيم - ( تذکره صفحه ۴۴۳ طبع دوم ) یعنی میں ہر ایک ایسے انسان کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا جو تیرے گھر میں ہوگا مگر وہ لوگ جو تکبر سے اپنے تھیں اونچا کریں اور میں تجھے خصوصیت کے ساتھ بچاؤں گا.خدائے رحیم کی طرف سے تجھے سلام".طاعون کی مصیبت سے لوگوں کو بچانے کیلئے حکومت وقت نے طاعون کا ٹیکہ لگوانا شروع کیا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو ٹیکہ کرانے سے منع کر دیا تا کہ وہ نشان جو حضور علیہ السلام کی صداقت کے لئے مقررکیا گیا تھا مشتبہ نہ ہو جائے.چنانچہ حضور علیہ السلام نے ایک کتاب ”کشتی نوح تصنیف فرمائی اور اس میں تحریر فرمایا:.اس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تو اور جو شخص تیرے گھر کی چار دیواری کے اندر ہوگا اور وہ جو کامل پیروی اور اطاعت اور سچے تقویٰ سے تجھ میں محو ہو جائے گا وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے اور
103 ان آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہوگا تا وہ قوموں میں فرق کر کے دکھلاوے لیکن وہ جو کامل طور پر پیروی نہیں کرتا وہ تجھ میں سے نہیں ہے اس کے لئے مت دلگیر ہو یہ حکم الہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے نفس کے لئے اور ان سب کے لئے جو ہمارے گھر کی چاردیواری میں رہتے ہیں ٹیکہ کی کوئی ضرورت نہیں“.(کشتی نوح صفحه ۲) میں بار بار کہتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ اس پیشگوئی کو ایسے طور پر ظاہر کرے گا کہ ہر ایک طالب حق کو کوئی شک نہیں رہے گا اور وہ سمجھ جائے گا کہ معجزہ کے طور پر خدا نے اس جماعت سے معاملہ کیا ہے بلکہ بطور نشانِ الہی کے یہ نتیجہ ہوگا کہ طاعون کے ذریعہ سے یہ جماعت بڑھے گی اور خارق عادت ترقی کرے گی اور ان کی ترقی تعجب سے دیکھی جائے گی“.(کشتی نوح صفحہ ۵) غرض جیسا کہ کہا گیا تھا ویسا ہی وقوع میں آیا.لوگ حیرت سے مشاہدہ کرتے تھے کہ احمدی اس بلا سے باوجود ٹیکہ نہ کرانے کے محفوظ رہتے ہیں اگر کسی گھر کے چار افراد میں سے ایک احمدی ہوتا تو وہ بچ جاتا اور باقی تین بیماری کا شکار ہو جاتے.طاعون کے کیڑے کس طرح فرق کرتے تھے.کہ فلاں احمدی ہے اور فلاں نہیں.لوگوں کیلئے یہ ایک حیرت انگیز امر تھا اور اس مشاہدہ کی وجہ سے لوگ کثرت سے اس جماعت میں شامل ہوئے.گو یا خدائے تعالی
104 کی فعلی شہادت نے یہ بات واضح کر دی کہ وہ اس جماعت کے ساتھ ہے اور اس کو ترقی دینا چاہتا ہے.پھر قادیان میں بھی حسب وعدہ اس مرض کی وہ شدت نہ ہوئی جو دوسرے قصبات اور شہروں میں ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا کے وعدوں پر کس قدر یقین تھا اس کا اندازہ اس امر سے ہو جاتا ہے کہ حضور علیہ السلام کے ایک مرید مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کو جو حضور علیہ السلام کے گھر کے ایک حصہ میں رہتے تھے.کچھ بخار ہو گیا اور انہیں خیال ہوا کہ مرض طاعون کا حملہ ہے.حضور نے پورے وثوق سے فرمایا.اگر آپ کو طاعون ہو گئی ہے تو پھر میں جھوٹا ہوں اور میرا دعویٰ الہام غلط ہے.یہ کہ کر میں نے ان کی نبض پر ہاتھ لگایا.یہ عجیب نمونہ قدرت الہی دیکھا کہ ہاتھ لگانے کے ساتھ ہی ایسا بدن سرد پایا کہ تپ کا نام و نشان نہ تھا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۶۵)
105 صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از احادیث پہلی حدیث حدیث میں ہے إِنَّ لِمَهْدِينَا ايَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ يَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لَاَوَّلِ لَيْلَةٍ مِّنْ رَّمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ - (دار قطنی صفحه ۱۸۸) ہمارے مہدی کی صداقت کے دو نشان ہیں اور جب سے خدا نے زمین و آسمان پیدا کئے یہ دونشان کسی کیلئے ظاہر نہیں ہوئے.ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہدی معہود کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کو گرہن کی راتوں ۱۳ ۱۴ ۱۵ میں سے ) پہلی رات کو گرہن لگے گا.دوسرا نشان یہ ہے کہ اسی رمضان میں سورج گرہن کی تاریخوں ( یعنی ۲۹،۲۸،۲۷ میں سے ) درمیانی تاریخ ( یعنی (۲۸) کو گرہن لگے گا.حدیث کے الفاظ میں اَوَّلَ لَيْلَةٍ سے یہ مراد نہیں ہو سکتی کہ رمضان کی پہلی تاریخ کو گرہن لگے گا کیونکہ پہلی رات کو تو علم ہیئت کی رُو سے گرہن لگتا ہی نہیں.دوسرے پہلی رات کے چاند کو عربی میں ہلال کہتے ہیں لیکن حدیث میں ”قمر“ کے الفاظ ہیں.چاند تین راتوں کے بعد قمر کہلاتا ہے.(دیکھو لغت کی كتاب المنجد )
106 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کے چار پہلو ہیں.(۱) چاند کا گرہن کی مقررہ تاریخوں میں سے پہلی رات کو یعنی تیرھویں کو گرہن لگے گا.(۲) سورج گرہن کے مقررہ دنوں میں سے درمیانی دن یعنی اٹھائیسویں کو گرہن لگنا.(۳) دونوں گرہنوں کا ایک ہی رمضان میں وقوع پذیر ہونا.(۴) ایک مہدویت کے دعویدار کا موجود ہونا جس کی صداقت کے لئے یہ نشان ظاہر ہوں ( تفصیل کیلئے دیکھئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب تحفہ گولڑویہ) علم ہیئت کے مطالعہ اور گرہنوں کی تاریخ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں زمین و آسمان کی پیدائش کے وقت سے لیکر ۱۸۹۴ ء تک کبھی ان مقررہ تاریخوں میں سورج وچاند کو گرہن نہیں لگا.ایسا وقوعہ پہلی مرتبہ ۱۸۹۴ء میں ہوا جب کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام مدعی مہدویت موجود تھے.اور اس وقت ان کے سوا دنیا میں کوئی مدعی مہدویت موجود نہیں تھا.یہ نشان ۱۸۹۴ء میں مشرقی نصف کرہ میں ظاہر ہوا.(دیکھو اخبار آزاد ۱۴ دسمبر ۱۸۹۴ء نیز اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ ۶/ دسمبر ۱۸۹۴ء) پھر انہی شرائط کے ساتھ اگلے سال رمضان کے مہینہ میں ہی سورج اور چاند کو دوسری مرتبہ گر ہن لگا اور یہ گرہن دنیا کے مغربی نصف کرہ میں دیکھا گیا.
107 خدائے تعالیٰ نے اپنی فعلی شہادت سے یعنی سورج اور چاند کو مقررہ تاریخوں میں گرہن لگا کر ثابت کر دیا کہ:.ا.ہمارے آقاسید و مولی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشنگوئی درست ہے اور چودہ سو سال قبل ایک اتمی غیب کی ایسی خبر اپنے پاس سے بنا کر پیش نہیں کر سکتا تھا.یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک بین نشان ہے.۲.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعاوی میں راست باز اور واقعی وہی مہدی ہیں جن کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کیونکہ کوئی جھوٹا مدعی سورج اور چاند کو گرہن نہیں لگا سکتا.پھر حدیث میں آتا ہے:.دوسری حدیث عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ لا إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يَّجَدِّدُلَهَا دِيْنَهَا (ابوداؤد جلد ۲ صفحه (۲۴۱) حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر صدی کے سر پر ایک مجد دمبعوث فرمایا کرے گا جو آکر دین کی تجدید کرے گا.
108 سب محدثین کا اس حدیث کی صحت پر اتفاق ہے اور خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت نے اس کے صحیح ہونے کو ثابت کر دیا ہے.چنانچہ اس پیشگوئی کے بموجب ہر صدی کے سر پر مجدد ہوتے رہے.فہرست مجددین نواب صدیق حسن خان صاحب نے اپنی کتاب بیج الکرامہ کے صفحہ ۱۳۵ تا ۱۳۹ پر پیش کی ہے.چودہویں صدی کے آغاز پر ہی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام نے مہدی اور مسیح ہونے کا دعویٰ کیا اور سورج وچاند نے رمضان کی مقررہ تاریخوں میں گرہن ہو کر اس کی تصدیق کر دی چنانچہ حضور کردی فرماتے ہیں:.آسماں میرے لئے تو نے بنایا اک گواہ چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار پھر فرماتے ہیں:.وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا تیسری حدیث جب سورۃ جمعہ کی یہ آیت نازل ہوئی:.وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمع : ٤) ترجمعہ: اور اُن ( یعنی صحابہ کرام) کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی وہ (یعنی اللہ ) اس (رسول) کو بھیجے گا جو ابھی تک ان سے نہیں ملی.تو صحابہ نے
109 پوچھا کہ یا رسول اللہ یہ آخرین کون ہیں جن میں آپ کی دوبارہ بعثت ہوگی تو آپ نے حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا :- لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ أَوْ رِجَالٌ مِّنْ هَوَلَاءِ ( بخاری کتاب التفسير سورة جمعه ) اگر ایک وقت ایمان ثریا تک بھی اُڑ گیا تو اہل فارس کی نسل میں سے ایک یا ایک سے زائد لوگ اسے واپس لے آئیں گے.اس حدیث میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب ایمان دنیا سے اُٹھ کر ثریا تک چلا جائے گا اس وقت اہل فارس کی نسل میں سے ایک شخص یا ایک سے زائد اشخاص ایسے ہوں گے جو دنیا میں پھر ایمان کو قائم کر دیں گے اور ان کے ذریعہ ایک ایسی جماعت قائم ہوگی جو صحا بہ کا نمونہ ہوگی اور اس رجل فارس کا ظہور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک بعثت ثانیہ کا رنگ رکھے گا.گویا آنے والا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ہی بروز ہوگا.تاریخ سے ثابت ہے کہ حاجی بر لاس جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مورث اعلیٰ تھے امیر تیمور صاحبقران کے چچا تھے اور برلاس قبیلہ سمرقند کے علاقہ میں آباد تھا جو ایران (یا فارس) کا ایک علاقہ ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی وہ رجُل فارس ہیں جن کے ذریعہ ایمان دوبارہ دنیا میں قائم ہونا ازل سے مقدر تھا.تفصیل کیلئے دیکھئے تاریخ احمدیت جلد اوّل مولفه مولوی دوست محمد صاحب شاہد )
110
111 باب چهارم رسُوم و بدعات
112
113 بدر شوم خدائے تعالیٰ کے انبیاء ہمیشہ ایسے زمانہ میں آتے ہیں جب کچی تو حید دنیا سے مٹ جاتی ہے اور مشرکانہ رسوم مذہب کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں.ان کا اور ان کے خلفاء کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ شریعت یعنی بچے دین کو دنیا میں قائم کریں اور جو زائد باتیں یا غلط امور بطور رسم اور بدعت لوگ اپنی طرف سے مذہب میں شامل کر دیتے ہیں ان کو مٹا دیں.یہی کام اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سپرد ہوا.آپ حکم اور عدل بن کر تشریف لائے اور آپ کے ذریعہ سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا.آپ نے شریعت حقہ اسلامیہ کو از سرنو قائم کیا.تمام بدرسوم کی نشاندہی کر کے اس کے خلاف جہاد کیا اور اُمتِ مسلمہ کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کی.یہی کام حضور کے خلفاء کا رہا اور وہ بھی اپنے اپنے زمانہ میں مروجہ رسوم کا قلع قمع کرنے میں مصروف رہے.موجودہ دور میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نور اللہ مرقدہ نے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا :.” ہماری جماعت کا پہلا اور آخری فرض یہ ہے کہ توحید خالص کو اپنے نفسوں میں بھی اور اپنے ماحول میں بھی قائم کریں اور شرک کی سب کھڑکیوں کو بند کر دیں...توحید کے قیام میں ایک بڑی روک بدعت اور رسم ہے یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا
114 سکتا کہ ہر بدعت اور ہر بد رسم شرک کی ایک راہ ہے اور کوئی شخص جو توحید خالص پر قائم ہونا چاہے وہ توحید خالص پر قائم نہیں ہوسکتا رسوم جب تک وہ تمام بدعتوں اور تمام بد رسوم کو مٹا نہ دے..تو دنیا میں بہت سی پھیلی ہوئی ہیں.لیکن اس وقت اصولی طور پر ہر گھرانے کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں ہر گھر کے دروازے پر کھڑا ہو کر اور ہر گھرانے کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں اور جو احمدی گھرانہ آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوششوں کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہو گا وہ یا در کھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے.وہ اس طرح جماعت سے نکال کر باہر پھینک دیا جائے گا جس طرح دودھ سے لکھی.پس قبل اس کے کہ خدا کا عذاب کسی قہری رنگ میں آپ پر وارد ہو یا اس کا قہر جماعتی نظام کی تعزیر کے رنگ میں آپ پر وارد ہوا اپنی اصلاح کی فکر کرو اور خدا سے ڈرو اور اس دن کے عذاب سے بچو کہ جس دن کا ایک لحظہ کا عذاب بھی ساری عمر کی لذتوں کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے کہ اگر یہ لذتیں اور عمر میں قربان کر دی جائیں اور انسان اس سے بیچ سکے تو تب بھی مہنگا سودا نہیں ستاسو دا ہے.خطبه جمعه فرموده ۲۳ جون ۱۹۶۷ء)
115 اکثر بد رسوم جو اس وقت رائج ہیں خوشی کی تقاریب مثلاً بچے کی شادی بیاہ وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں یا موت فوت سے.کچھ ایسی ہیں جو معتقدات سے تعلق رکھتی ہیں.ان سب کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء نے جو راہنمائی فرمائی اس کا کچھ ذکر درج ذیل ہے.بچے کی پیدائش سے متعلق رسوم بچے کی ولادت والدین کیلئے خوشی کا ایک اہم موقعہ ہوتا ہے اس موقعہ پر مناسب رنگ میں خوشی منانے سے اسلام نے منع نہیں کیا کیونکہ یہ ایک فطرتی جذبہ ہے.اگر شکرانہ کے طور پر کچھ شرینی و غیر تقسیم کی جائے تو حرج نہیں لیکن ڈھول ڈھمکا، ناچ گانا کسی طرح بھی جائز نہیں.اسلامی طریق یہ ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کیا جائے یعنی لڑکے کی صورت میں دو بکرے اور لڑکی کی صورت میں ایک بکرا ذبح کیا جائے.نومولود کے بال منڈوائے جائیں لیکن اگر کسی کو عقیقہ کی تو فیق نہیں تو ضروری نہیں.بچے بالغ ہو کر خود بھی قربانی کر سکتے ہیں.قربانی کا گوشت غرباء اور عزیز و اقارب میں تقسیم کیا جائے.خود بھی استعمال کر سکتے ہیں.لڑکا ہو تو ختنہ بھی ساتھ ہی کروادینا مناسب ہے.سالگرہ منانا بچوں سے متعلق ایک رسم یہ ہے کہ ہر سال تاریخ پیدائش پر سالگرہ منائی جاتی ہے.دعوت کا اہتمام ہوتا ہے.تحفے تحائف پیش کئے جاتے ہیں اور بہت
116 سا روپیہ صرف کیا جاتا ہے.یہ بدعت اور رسم ہے جس سے اجتناب بہتر ہے.ناک کان چھدوانا، بودی رکھنا بعض لوگ بچوں کے ناک کان چھدواتے اور بالی اور بلاق پہناتے ہیں یا پاؤں میں گھنگر وڈالتے یا سر پر چوٹی سی رکھتے ہیں.یہ سب لغو اور غیر اسلامی رسوم ہیں جو غیر قوموں سے مسلمانوں میں آ گئی ہیں.منت کے طور پر جوسر پر بودی رکھتے ہیں اس کے بارے میں استفسار پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.نا جائز ہے ایسا نہیں چاہئے“.( ملفوظات جلد نم صفحہ ۲۱۶) شادی بیاہ سے متعلق رسوم دف بجانا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.” جو چیز بری ہے وہ حرام ہے اور جو چیز پاک ہے وہ حلال ہے.خدا تعالیٰ کسی پاک چیز کو حرام قرار نہیں دیتا بلکہ تمام پاک چیزوں کو حلال فرماتا ہے.ہاں جب پاک چیزوں میں ہی بری اور گندی چیزیں ملائی جاتی ہیں تو وہ حرام ہو جاتی ہیں.اب شادی کو رف کے ساتھ شہرت کرنا جائز رکھا گیا ہے لیکن اس میں ناچ وغیرہ شامل ہو گیا تو وہ منع ہو گیا اگر اسی طرح پر کیا جائے جس طرح نبی
117 کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کوئی حرام نہیں“.( ملفوظات جلد نهم صفحه ۴۸۱) ناچ گانا ، بینڈ باجے اور آتشبازی بیاہ شادی کی بدر سوم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.”ہماری قوم میں ایک یہ بھی بد رسم ہے کہ شادیوں میں صدہا رو پیکا فضول خرچ ہوتا ہے.سویا درکھنا چاہئے کہ شیخی اور بڑائی کے طور پر برادری میں بھاجی تقسیم کرنا اور اس کا دینا اور کھانا یہ دونوں باتیں عند الشرع حرام ہیں اور آتشبازی چلانا اور رنڈیوں، بھڑوں، ڈوم ڈھاریوں کو دینا حرام مطلق ہے.ناحق روپیہ ضائع جاتا ہے اور گناہ سر پر چڑھتا ہے سو اس کے علاوہ شرع شریف میں تو صرف اتنا حکم ہے کہ نکاح کرنے والا بعد نکاح کے ولیمہ کرے یعنی چند دوستوں کو کھانا پکا کر کھلا دیوے“.(ملفوظات جلد 9 صفحہ ۴۶.۴۷) با جا بجانے کے سلسلے میں فرمایا :.دو باجوں کا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے زمانہ میں نہ تھا.اعلان نکاح جس میں فسق و فجور نہ ہو جائز ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا:.( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۳۱۲)
118 وو بیاہ شادی کے موقع پر پاکیزہ اشعار عورتیں پڑھ سکتی ہیں پڑھنے والی مستاجرہ نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں“.یہ بھی فرمایا :.صرف عورتوں کا عورتوں میں ڈف کے ساتھ پاکیزہ گانا بھی منع نہیں ہے“.(الفضل ۱۴ جون ۱۹۳۸ء) حضرت خلیفہ اسیح الثانی رحمہ اللہ نے فرمایا:.شادی کے موقعہ پر مہندی اور اس کے ساتھ متعلقہ جملہ رسوم جو رائج ہیں ہمارے نزدیک غیر اسلامی ہیں.ہماری جماعت کو اس سے بچنا چاہئے“.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ صفحه ۲۴) جہیز دکھانا چیز دکھانے کا جو طریق رائج ہے اس کے بارے میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی فرماتے ہیں:.لڑکیاں جب اپنی سہیلیوں کے جہیز وغیرہ کو دیکھتی ہیں تو پھر وہ بھی اپنے والدین سے ایسی ہی اشیاء لینا چاہتی ہیں اور اس طرح کی نمائش گو یا جذبات کو صدمہ پہنچانے والی چیز بن جاتی ہے.جو کچھ بھی دیا جائے بکسوں میں بند کر کے دیا جائے.ہمارے گھروں میں یہی طریق ہے.ہاں یہ ضروری ہے کہ وہ بکس جن کے حوالے کئے جائیں ان کو دکھایا جائے کہ فلاں فلاں چیزیں موجود ہیں.
119 یہ نمائش نہیں بلکہ رسید ہے“.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء صفحہ ۲۴) سہرا باندھنا حضرت مصلح موعود سہرا باندھنے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:.یہ تو آدمی کو گھوڑا بنانے والی بات ہے دراصل یہ رسم ہندوؤں سے مسلمانوں میں آئی ہے.نیز فرمایا:.(الفضل ۲۰ اپریل ۱۹۴۶ء ) سہرے کا طریق بدعت ہے (ایضاً) بڑے بڑے مہر رکھوانا مہر ایسے مہر مقرر کرانا جو انسان کی حیثیت اور طاقت سے باہر ہوں ایک رسم کی حیثیت رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ کا صاف ارشاد ہے.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنا نہیں چاہتا.پس محض نام و نمود کیلئے بڑے بڑے مہر نہیں رکھنے چاہئیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ چھ ماہ سے لیکر ایک سال کی آمدنی کے برابر مہر رکھا جا سکتا ہے.مہر بخشوانا ہمارے ملک میں عورت بڑی مظلوم ہے اس کا حق مہر ادا نہیں کیا جاتا بلکہ
120 کئی دفعہ مرتے وقت عورتوں سے بخشوالیا جاتا ہے.عورت بھی جانتی ہے کہ مہر ملنا تو ہے نہیں اس لئے وہ مفت کا احسان خاوند پر کر دیتی ہے.ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ حضور ایک عورت اپنا مہر نہیں بخشتی.آپ نے فرمایا:.یہ عورت کا حق ہے اسے دینا چاہئے.اوّل تو نکاح کے وقت ہی ادا کر دے ورنہ بعد ازاں ادا کر دینا چاہئے.( ملفوظات جلد ششم صفحه ۳۹۱) موٹر سکوٹر ، بھاری جہیز کا مطالبہ آج کل تعلیم یافتہ طبقہ میں یہ ایک رسم ہوگئی ہے کہ لڑکی والوں سے موٹر یا سکوٹر کا مطالبہ کیا جاتا ہے یا بھاری جہیز کی خواہش کی جاتی ہے یہ سب رسوم ہیں.لڑکی والوں پر غیر ضروری بوجھ ڈالنا غیر اسلامی طریق ہے.یہ ایک لحاظ سے شادی کی قیمت طلب کی جاتی ہے جو بالکل نا واجب اور غیر پسندیدہ ہے.موت فوت سے متعلق رسوم رونا پیٹنا موت فوت سے متعلق جو بد رسوم رائج ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ روتے پیٹتے اور چلا چلا کر ہائے ہائے کرتے ہیں.عورتیں خصوصیت سے
121 سیاپا کرتی ہیں جب رشتہ دار یا ہمسائے ماتم پرسی کیلئے آتے ہیں تو عورتیں ہر نئی آنے والی کے گلے میں ہاتھ ڈال کر روتی پیٹتی ہیں.پھر بعض لوگ ایک ایک مہینہ یا ایک ایک سال تک سوگ مناتے ہیں یہ سب باتیں ممنوع ہیں.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.ماتم کی حالت میں جزع فزع اور نوحہ یعنی سیاپا کرنا اور چیچنیں مار مار کر رونا اور بے صبری کے کلمات منہ پر لانا یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کے کرنے سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے اور یہ سب رسمیں ہندوؤں سے لی گئی ہیں اگر رونا ہو تو صرف آنکھوں سے آنسو بہانا جائز ہے اور جو اس سے زیادہ ہے وہ 66 شیطان سے ہے.پھر فرماتے ہیں:.” اپنی شیخی اور بڑائی جتلانے کیلئے صد ہاروپیہ کا پلاؤ اور زردہ پکا کر برادری وغیرہ میں تقسیم کیا جاتا ہے اس غرض سے کہ تا لوگ واہ واہ کریں.سو یہ سب شیطانی طریق ہیں جن سے تو بہ کرنا لازم ہے“.(اشتہار بغرض تبلیغ وانذار ) قُل اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:." قل خوانی کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے.صحابہ کرام
122 بھی فوت ہوئے کیا کبھی ان کی وفات پر کسی نے کل پڑھے؟ صد با سال کے بعد دوسری بدعتوں کی طرح یہ بھی ایک بدعت نکل آئی ہے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ ۶۰۵ نیا ایڈیشن) فاتحہ خوانی کسی کے مرنے کے بعد چند روز لوگ ایک جگہ جمع ہوتے اور فاتحہ خوانی یعنی دعائے مغفرت کرتے ہیں اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.پھر یہ سوال ہے کہ آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام و ائمہ عظام میں سے کسی نے یوں کہا ؟ جب نہیں کیا تو کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ بدعات کا دروازہ کھولنے کی؟ ہمارا مذ ہب تو یہی ہے کہ اس رسم کی کچھ ضرورت نہیں نا جائز ہے جو جنازہ میں شامل ہو سکیں وہ اپنے طور پر دعا کریں یا جنازہ غائب پڑھ دیں.چہلم ( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۲۱۳ ۲۱۴ نیا ایڈیشن ) ایک رسم چہلم کی ہے یعنی کسی عزیز کی وفات کے چالیسویں دن مجلس ہوتی ہے اور کھانا پکا کر مرنے والے کے نام پر لوگوں میں تقسیم کیا جاتا ہے.اس بارے میں حضور علیہ السلام نے فرمایا:.
123 " بی رسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی سنت سے باہر ہے.ختم قرآن (اخبار بدر۱۴/ فروری ۱۹۰۷ء) ختم قرآن سے مراد وہ رسمی قرآن خوانی ہے جو کسی فوت ہونے والے کو ثواب پہنچانے کی غرض سے حلقہ باندھ کر گھروں میں یا قبروں پر کی جاتی ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.مردہ پر قرآن ختم کرنے کا کوئی ثبوت نہیں.صرف دعا اور صدقہ میت کو پہنچتا ہے“.(اخبار بدر۱۴/ مارچ ۱۹۰۴ء) نیز فرمایا:.قرآن شریف جس طرز سے حلقہ باندھ کر پڑھتے ہیں یہ سنت سے ثابت نہیں.ملاں لوگوں نے اپنی آمد کے لئے یہ رسمیں جاری کی ہیں“.(الحکم ۱۰/ نومبر ۱۹۰۷ء بحوالہ افضل ۱۱۲ مئی ۱۹۴۰ء) مُردوں کو ثواب پہنچانے کیلئے کھانا پکانا بعض لوگ کسی وفات یافتہ عزیز کی روح کو ثواب پہنچانے کی نیت سے ایک خاص دن مقرر کر کے لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں.بعض لوگ متواتر چالیس دن تک کھانا کھلاتے ہیں.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے.طعام کا ثواب مردوں کو پہنچتا ہے.گذشتہ بزرگوں کو ثواب
124 پہنچانے کی خاطر اگر طعام پکا کر کھلایا جائے تو یہ جائز ہے.لیکن ہر ایک امرنیت پر موقوف ہے.اگر کوئی شخص اس طرح کے کھانے کے واسطے کوئی خاص تاریخ مقرر کرے اور ایسا کھانا کھلانے کو اپنے لئے قاضی الحاجات خیال کرے تو یہ ایک بُت ہے اور ایسے کھانے کا لینا دینا سب حرام اور شرک میں داخل ہے“.( ملفوظات جلد ۵ صفحہ۲۵۳) عرس منانا آج کل خانقاہوں پر عرس منانے کا بڑا رواج ہے ان موقعوں پر قبروں کے طواف کئے جاتے ہیں ان پر غلاف چڑھائے جاتے ہیں.قبروں کو بوسہ دیا جاتا ہے.عورتیں اور مرد ناچتے ہیں.خانقاہوں کو خوب سجایا جاتا ہے.طوائفیں بلوا کر گیت سنے جاتے ہیں اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.شریعت تو اس بات کا نام ہے کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے دیا ہے اُسے لے لے اور جس بات سے منع کیا ہے اُس سے ہٹے.لوگ اس وقت قبروں کا طواف کرتے ہیں.ان کو مسجد بنایا ہوا ہے.عرس وغیرہ ایسے جلسے نہ منہاج نبوت ہے نہ طریق سنت ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحه ۱۲۸، ۲۹ نیا ایڈیشن)
125 بارہ وفات حضرت خلیفہ مسیح الاوّل فرماتے ہیں:.ایسے عرس میں خواہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کا ہی ہو بدعت نظر آتی ہے...خود مرزا صاحب مغفور ( مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام.ناقل ) نے کبھی بارہ وفات کا جلسہ اپنے گھر میں ہرگز نہیں کیا.غرض میں اپنی زندگی میں چند دنوں کے لئے بدعات کو گوارا نہیں کر سکتا اور ایسے امور میں بدعات کے خطرناک زہروں سے بچنے کا لحاظ رکھو.۲۱/۲۸ فروری ۱۹۱۳ء) مولود خوانی ایک شخص نے مولود خوانی کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا.حضور نے فرمایا:.آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ بہت عمدہ ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء اور اولیاء کی یاد سے رحمت نازل ہوتی ہے اور خود خدا نے بھی انبیاء کے تذکرہ کی ترغیب دی ہے لیکن اگر اس کے ساتھ ایسی بدعات مل جائیں جن سے توحید میں خلل واقع ہو تو وہ جائز نہیں“.
نیز فرمایا:.126 مولود کے وقت کھڑا ہونا جائز نہیں.ان اندھوں کو اس بات کا علم ہی کب ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح آگئی ہے بلکہ ان مجلسوں میں تو طرح طرح کے بدطینت اور بدمعاش لوگ ہوتے ہیں وہاں آپ کی روح کیسے آسکتی ہے اور کہاں لکھا ہے کہ روح آتی ہے.(ملفوظات جلد پنجم صفحه ۱۲.۲۱۱) قبر پر پھول چڑھانا بعض لوگ قبروں پر پھول رکھتے یا پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں.اس بارے میں حضرت خلیفہ اسیح الاوّل نے فرمایا.اس سے میت کی روح کو کوئی خوشی نہیں ہو سکتی اور یہ نا جائز ہے اس کا کوئی اثر قرآن وحدیث سے ثابت نہیں اس کے بدعت اور لغو ہونے میں کوئی شک نہیں“.( بدر ۱۲/ اگست ۱۹۰۹ء) نذرونیاز کیلئے قبرستان جانا اور پختہ قبریں بنانا اس بارے میں حضرت حجتہ اللہ مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے:.نذر و نیاز کے لئے قبروں پر جانا اور وہاں جا کر منتیں مانگنا درست نہیں ہے.ہاں وہاں جا کر عبرت سیکھے اور اپنی موت کو یاد کرے تو جائز ہے.قبروں کے پختہ بنانے کی ممانعت ہے.البتہ
127 اگر میت کو محفوظ رکھنے کی نیت سے ہو تو حرج نہیں ہے.یعنی ایسی جگہ جہاں سیلاب وغیرہ کا اندیشہ ہو اور اس میں بھی تکلفات جائز نہیں ہیں“.( ملفوظات جلد پنجم صفی ۴۳۳) قبروں پر چراغ جلانا ایک رسم جہالت کی یہ بھی ہے کہ بعض لوگ بزرگوں کے مزار پر رات کو چراغ جلاتے ہیں.یہ ہندوانہ اور مشرکانہ بدعت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے.عَنْ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله الا الله لَعَنَ اللهُ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ وَالْمُتَّخِذِينَ عَلَيْهَا الْمَسَاجِدَوَ السُّرُجَ- (ترندى) ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی اور ان پر جو قبروں پر مسجدیں بناتے اور ان پر چراغ جلاتے ہیں.انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت سے منع فرمایا تھا پھر آپ نے اس غرض سے اجازت دی کہ بندہ موت کو یاد کر کے خدا اور آخرت کی طرف رجوع کرے.عورتوں کو ان امور کے بارے میں خاص احتیاط کرنی چاہئے.بسا اوقات وہ کم علمی کی وجہ سے ان باتوں میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتیں.
128 جس کے ہاں ماتم ہواس کے ساتھ ہمدردی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا:.کیا یہ جائز ہے کہ جب کار قضاء کسی بھائی کے گھر میں ماتم ہو جائے تو دوسرے دوست اپنے گھر میں اس کا کھانا تیار کریں.حضور نے فرمایا:.نہ صرف جائز بلکہ برادرانہ ہمدردی کے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ ایسا کیا جائے“.( ملفوظات جلد نهم صفحه ۳۰۴) نصف شعبان کا حلوا ایک رسم یہ جاری ہے کہ شعبان کے مہینہ میں حلوا بناتے اور تقسیم کرتے ہیں.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.وو یہ رسوم حلوا وغیرہ سب بدعات ہیں“.( ملفوظات جلد ۹ صفحه ۳۹۴) عاشورہ محرم کے تابوت اور محفل حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ محرم پر جو لوگ تابوت بناتے ہیں اور محفل کرتے ہیں اس میں شامل ہونا کیسا ہے؟ حضور نے فرمایا کہ: ”گناہ ہے“.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ۲۹ انیا ایڈیشن )
129 قاضی محمد ظہور الدین صاحب الکمل نے سوال کیا کہ محرم کی دسویں کو جو شربت اور چاول وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اگر یہ للہ بہ نیت ایصال ثواب ہو تو اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے.فرمایا:.ایسے کاموں کے لئے دن اور وقت مقرر کر دینا ایک رسم و بدعت ہے اور آہستہ آہستہ ایسی رسمیں شرک کی طرف لے جاتی ہیں.ہیں اس سے پر ہیز کرنا چاہئے کیونکہ ایسی رسموں کا انجام اچھا نہیں.ابتداء میں اسی خیال سے ہوا مگر اب تو اس نے شرک اور غیر اللہ کے نام کا رنگ اختیار کر لیا ہے.اس لئے ہم اسے ناجائز قرار دیتے ہیں.جب تک ایسی رسوم کا قلع قمع نہ ہو عقائدِ باطلہ دُور نہیں ہوتے“.( ملفوظات جلد ۹ صفحه ۲۱۴) تسبیح کا استعمال عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ بعض لوگ چلتے پھرتے اور مجلس میں بیٹھے تسبیح کے دانے گنتے رہتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ گویا وہ ہر لحظہ ذکر الہی میں مصروف ہیں اس بارے میں حضور علیہ السلام نے فرمایا:.دو تسبیح کرنے والے کا اصل مقصود گنتی ہوتا ہے اور وہ اس گنتی کو پورا کرنا چاہتا ہے.اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ یا تو وہ گنتی پورے کرے اور یا توجہ کرے.اور یہ صاف بات ہے کہ گفتی کو پورے کرنے کی فکر کرنے والا سچی توبہ کر ہی نہیں سکتا ہے.انبیاء علیہم السلام اور کاملین
130 لوگ جن کو اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذوق ہوتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے عشق میں فنا شدہ ہوتے ہیں انہوں نے گنتی نہیں کی اور نہ اس کی ضرورت سمجھی“.( ملفوظات جلد ہفتم صفحہ ۱۸) تعویذ گنڈے فقراء اور صوفیاء کا ایک طریق یہ ہے کہ بیماریوں سے شفایابی، مشکلات کے ڈور ہونے ، خوشحالی کے حصول اور مقاصد میں کامیابی کیلئے یا سفر وغیرہ میں محفوظ رہنے کیلئے امام ضامن باندھتے ہیں.یا تعویذ لکھ کر دیتے ہیں اور قسم قسم کی قربانیاں کرنے کیلئے کہتے ہیں اور مختلف قسم کے عمل بتلاتے ہیں.جو نہایت مضحکہ خیز ہوتے ہیں.خود ہی کچھ وہم دلوں میں پیدا کرتے ہیں اور پھر ان کا علاج تجویز کرتے ہیں جہلاء کا تو ذکر کیا اچھے پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ تعویذوں پر اعتقاد رکھتے اور گلے میں ڈالتے ، یا بازوؤں پر باندھتے ہیں.اسی طریق کے مطابق ایک دن رام پور کے ایک شخص نے کچھ حاجات تحریری طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیں.حضور علیہ السلام نے فرمایا:.اچھا ہم دعا کریں گے.وہ شخص حیران ہو کر پوچھنے لگا.آپ نے میری عرضداشت کا جواب نہیں دیا.حضور نے فرمایا.میں نے تو کہا ہے کہ ہم دعا کریں گئے.اس پر وہ شخص کہنے لگا.حضور کوئی تعویذ نہیں کیا کرتے؟ فرمایا:
131 تعویذ گنڈے کرنا ہمارا کام نہیں.ہمارا کام تو صرف اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنا ہے“.(ملفوظات جلد دہم صفحہ ۲۰۳) تمباکونوشی آج کل سگریٹ نوشی عام ہے اور فیشن میں داخل ہے.کثرت استعمال کے باعث اس کو ضروری سمجھ لیا گیا ہے اور نقصان کے پہلو کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات درج ذیل ہیں.حضور فرماتے ہیں:.انسان عادت کو چھوڑ سکتا ہے بشرطیکہ اس میں ایمان ہو اور بہت سے ایسے آدمی دنیا میں موجود ہیں جو اپنی پرانی عادت کو چھوڑ بیٹھے ہیں.دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ ہمیشہ شراب پیتے چلے آئے ہیں.بڑھاپے میں آ کر جب کہ عادت کو چھوڑ نا خود بیمار پڑنا ہوتا ہے بلا کسی خیال کے چھوڑ بیٹھتے ہیں اور تھوڑی سی بیماری کے بعد اچھے بھی ہو جاتے ہیں.میں حقہ کو منع کہتا اور نا جائز قرار دیتا ہوں مگر ان صورتوں میں کہ انسان کو کوئی مجبوری ہو.یہ ایک لغو چیز ہے اور اس سے انسان کو پر ہیز کرنا چاہئے“.(ملفوظات جلد پنجم صفحه ۵۹ نیا ایڈیشن ) ۲.نیز فرمایا: " تمباکو کے بارے میں اگر چہ شریعت نے کچھ نہیں بتایا لیکن ہم اس کو مکر وہ جانتے ہیں اور ہم یقین کرتے ہیں کہ اگر یہ آنحضرت صلی اللہ
132 علیہ وسلم کے وقت میں ہوتا تو آپ نے اپنے لئے اور نہ اپنے صحابہ کے لئے کبھی اس کو تجویز کرتے.بلکہ منع کرتے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحه ۳۶۸ نیا ایڈیشن ) سنیما تھیٹر مغربی ممالک میں جو بے راہ روی پیدا ہو چکی ہے اور فحاشی جس حد تک ان کے معاشرہ میں سرایت کر چکی ہے موجودہ دور میں ان کے مناظر سنیما کے پردہ پر دکھائے جاتے ہیں جو نئی نسل میں مذہب سے دوری اور بد اخلاقی کا میلان پیدا کرتے ہیں.رو پہیہ اور وقت کا ضیاع اس کے علاوہ ہے انہی خرابیوں کے پیش نظر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے جو ہدایات جاری فرمائیں ان میں سے چند بطور نمونہ درج ہیں.فرمایا:.ا.اس کے متعلق میں جماعت کو حکم دیتا ہوں کہ کوئی احمدی سنیما، سرکس، تھیٹر وغیرہ غرضیکہ کسی تماشے میں بالکل نہ جائے اور اس سے بکنی پر ہیز کرے.ہر مخلص احمدی جو میری بیعت کی قدر و قیمت سمجھتا ہے اس کے لئے سنیما یا کوئی اور تماشہ وغیرہ دیکھنا یا کسی کو دکھانا نا جائز ہے.مطالبات تحریک دید ایڈیشن چہارم صفحه ۳۷) سنیما کے متعلق میرا خیال ہے کہ اس زمانہ کی بدترین لعنت ہے.اس نے سینکڑوں شریف گھرانوں کے لڑکوں کو گویا اور سینکڑوں شریف گھرانوں کی لڑکیوں کو ناچنے والی بنا دیا ہے اور سنیما ملک کے اخلاق
133 پر ایسا تباہ کن اثر ڈال رہے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ میرا منع کرنا تو الگ رہا اگر میں ممانعت نہ کروں تو بھی مومن کی رُوح کو خود بخود اس سے بغاوت کرنی چاہئے.( مطالبات صفحہ ۲۷ تا ۴۱ ) اس زمانہ میں ٹیلی ویژن کی وجہ سے سنیما جانے کی ضرورت نہیں پڑتی.گھر میں بیٹھے بیٹھے ڈرامے دیکھے جاسکتے ہیں.سنیما اور ٹیلی ویژن اپنی ذات میں تو بُرے نہیں لیکن اس زمانہ میں ان کا نقصان نفع سے زیادہ ہے اور خرابیوں کے پھیلانے کا ایک اہم ذریعہ بن گئے ہیں اس لئے اس امر کی ضرورت ہے کہ پورا کنٹرول ہو اور لغو نظاروں کے دیکھنے میں وقت نہ ضائع کیا جائے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے جو کچھ سنیما کے بارے میں ارشاد فرمایا وہی ٹیلی ویژن کی فلموں، ڈراموں اور نظاروں پر بھی صادق آتا ہے.ٹیڈی ازم اور فیشن پرستی موجودہ دور کچھ ایسا ہے کہ لوگ ایکٹروں اور ایکٹرسوں کو جس شکل اور جس لباس میں دیکھتے ہیں اس کی نقل کرنے لگتے ہیں اور یہ نقالی ایک روکی طرح ملک میں پھیل جاتی ہے.عورتوں میں ناخن بڑھانے کا فیشن وبا کی صورت اختیار کر گیا ہے اور یہ سب مغربی تہذیب کی نقالی ہے.ایک مجلس مشاورت کے موقع پر حضرت خلیفة اتبع الثالث نور اللہ مرقدہ نے فرمایا:.
134 ٹیڈی ازم، فیشن پرستی کے خلاف بڑی بھاری اکثریت کی رائے ہے.ہمارے احمدی نوجوانوں کی اکثریت ایسی ہے جو یہ چیزیں پسند نہیں کرتی.الا ماشاء اللہ.بعض ایسے بھی ضرور ہیں جو اس رو میں بہہ رہے ہیں ان کو ہمیں سنبھال لینا چاہئے یہ اس قسم کا پیچیدہ مسئلہ نہیں جو حل نہ ہو سکے لیکن یہ احساس جماعت میں ہر وقت بیدار رہنا چاہئے کہ ہم سادہ اور بے تکلف زندگی بسر کرنے والی قوم ہیں ہم ان بداثرات کو اپنے ماحول میں نہیں گھنے دیں گئے.
باب پنجم 135 سیرت
136
137 حياة النبي عليله پیدائش ، بچپن اور جوانی مقدس بانی اسلام سید نا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم آج سے قریباً چودہ سو سال قبل ۲۰/ اپریل ۵۷۱ء مطابق ۹ ربیع الاول بروز دوشنبہ مکہ میں پیدا ہوئے.آپ قبیلہ قریش کی مشہور شاخ بنو ہاشم کے چشم و چراغ تھے.والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ تھا.والد محترم آپ کی پیدائش سے قبل ہی فوت ہو گئے اور آپ یتیم رہ گئے.اس طرح آپ کی پرورش کی تعظیم ذمہ داری آپ کے دادا اور مکہ کے سردار عبدالمطلب نے سنبھالی.ابھی ۶ ماہ کے تھے کہ مکہ کے دستور کے مطابق پرورش کے لئے آپ کو مائی حلیمہ کے سپرد کیا گیا اور حضور ان کے گھر چار پانچ برس تک رہے.جب سوا چھ برس کے ہوئے تو مادر مشفق کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا.پھر آپ اپنے دادا کی کفالت میں آگئے جنہوں نے نہایت محبت و پیار سے آپ کی پرورش کی.ابھی دو سال بھی گذرنے نہ پائے تھے کہ دادا بھی رحلت فرما گئے.دادا کی خواہش کے مطابق آپ کے چچا ابو طالب نے آپ کو اپنی آغوش تربیت میں لے لیا اور نہایت محبت و پیار اور توجہ سے آپ کی خبر گیری کی.با روبرس کی عمر میں آپ نے اپنے شفیق چچا ابو طالب کے ساتھ شام کا پہلا سفر کیا.آپ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے تا ہم کاروبار کے طور طریقوں سے
138 خوب واقف ہو گئے.بچپن سے ہی آپ کی طبیعت میں نیکی ، پاکیزگی ، دیانت اور امانت اور خوش خلقی پائی جاتی تھی.لین دین کے کھرے اور سچائی کے پابند تھے.اسی وجہ سے آپ صادق اور امین کہلاتے تھے.انہی پاکیزہ خصائل کی وجہ سے مکہ کی ایک مالدار بیوہ حضرت خدیجہ نے آپ سے شادی کر لی.اس شادی کے وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچیس برس اور حضرت خدیجہ کی چالیس سال تھی.حضرت خدیجہ کی اولاد میں حضرت فاطمہ شب سے زیادہ مشہور ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت حضرت خدیجہ سے نکاح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلّم فارغ البال ہو گئے آپ اپنی دولت غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کی اعانت میں صرف کیا کرتے.اپنے فراغت کے اوقات عبادت اور ذکر الہی میں صرف کیا کرتے.مکہ کے قریب ایک پہاڑی کی کھوہ تھی جسے غار حرا کہتے ہیں.آپ اکثر وہاں جا کر تنہائی میں عبادت کرتے اور کئی کئی دن تک وہاں ذکرِ الہی اور دعاؤں میں مصروف رہتے.جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم چالیس سال کی عمر کو پہنچے تو تاج رسالت سر پر رکھا گیا اور رمضان کے مبارک مہینہ میں وحی رسالت سے آپ سرفراز لئے گئے.سب سے پہلی وحی جو آپ پر نازل ہوئی وہ یہ تھی.اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ جب حکم ملا کہ خاندان اور قوم کو بت پرستی سے روکیں تو آنحضور نے
139 خاموشی سے تبلیغ شروع کی.تین سال بعد اعلانیہ تبلیغ شروع ہوگئی اور آپ نے پہلے مکہ والوں کو توحید کا پیغام پہنچایا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ مسلمان ہو جاتے ان پر کفار سختیاں کرنے لگے.خود آنحضرت ﷺ کو ہر قسم کی ایذائیں دی گئیں حتی کہ آپ کو اپنے خاندان سمیت تین سال تک ایک گھائی میں جسے شعب ابی طالب کہتے ہیں محصور رہنا پڑا.جہاں مکمل طور پر آپ کا بائیکاٹ رہا.آپ کے چچا ابو طالب جب تک زندہ رہے وہ آپ کی ہر طرح امداد و حمایت کرتے رہے.لیکن نبوت کے دسویں سال ابوطالب کی وفات پر یہ بند بھی ٹوٹ گیا اور قریش کی شرارتوں میں اور اضافہ ہو گیا.مدینہ کی طرف ہجرت صلى الله جب مکہ میں ایذارسانیاں انتہاء کو پہنچ گئیں اور قریش نے آنحضرت علی کو مل کر قتل کرنے کا فیصلہ کیا تو نبوت کے تیرھویں سال حضور خدا تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابو بکر کی معیت میں رات کے وقت مکہ سے نکلے اور مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے.مکہ سے چار پانچ میل دور غار ثور میں قیام فرمایا اور پھر مدینہ چلے گئے.جو لوگ مدینہ میں رہتے تھے اور مسلمان ہو گئے تھے وہ انصار کہلائے.جو مسلمان ایذا رسانیوں سے بچنے کے لئے مدینہ میں آجمع ہوئے وہ مہاجر کہلائے.انصار نے مہاجرین کو اپنے گھروں میں پناہ دی اور آنحضرت نے دونوں میں بھائی چارہ قائم کر دیا.
140 آنحضرت یہ ہجرت کے بعد دس سال زندہ رہے.جب قریش مکہ نے دیکھا کہ مسلمانوں کو مدینہ میں امن حاصل ہو گیا ہے تو انہوں نے متعددبار مسلمانوں پر چڑھائی کی اور فوجی طاقت سے اسلام کو مٹانا چاہا..مسلمان بھی خود حفاظتی کے لئے مقابلہ میں کھڑے ہو گئے.چنانچہ مسلمانوں اور کفار کے درمیان کئی خونریز معرکے ہوئے جن میں جنگ بدر، جنگ احد اور جنگ احزاب بہت مشہور ہیں.جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد صرف ۳۱۳ تھی اور کفار کی تعداد ایک ہزار تھی.جنگ احد میں جو جنگ بدر کے تین سال بعد ہوئی مسلمانوں کی تعداد ۷۰۰ اور دشمن کی تعداد تین ہزار تھی.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیابی عطا کی.۵ ھ میں یہودیوں نے جن کو ان کی شرارتوں اور بد عہدیوں کی وجہ سے مدینہ سے باہر نکال دیا گیا تھا.قریش مکہ کو پھر جنگ کے لئے اکسایا اور دوسرے قبائل کو بھی جنگ پر آمادہ کیا.اس کوشش کے نتیجہ میں دس ہزار کا جرار لشکر مدینہ پر حملہ ا ور ہوا.آنحضور نے شہر کی حفاظت کے لئے اردگر د خندق کھدوائی.قریباً ایک ماہ تک مدینہ کا محاصرہ رہا.پھر خدا کی نصرت اس رنگ میں آئی کہ ایک رات تیز آندھی آئی اور جو احزاب مدینہ کے گرد خیمے ڈالے پڑے تھے ان کی روشنیاں بجھ گئیں اور دلوں میں خوف طاری ہو گیا.پھر سارے گروہ ( احزاب ) ایک ایک کر کے بھاگ گئے اور اپنے ارادوں میں ناکام رہے.یہ جنگ احزاب اور جنگ خندق کہلاتی ہے.
141 صلح حدیبیہ ھ میں آنحضرت ﷺ نے ایک رویا کی بناء پر خانہ کعبہ کی زیارت ( عمرہ) کا ارادہ کیا اور ملکہ کی طرف روانہ ہوئے.حضور کے ہمراہ چودہ سو صحابہ کی ایک جماعت تھی.حدیبیہ کے مقام پر قریش نے آپ کا راستہ روک لیا.بالآ خر مسلمانوں اور قریش میں ایک معاہدہ طے پایا جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے.اس معاہد ہ کی بناء پر حضور مدینہ واپس آگئے.بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آنحضرت ﷺ نے دب کر صلح کرلی ہے لیکن درحقیقت اس کے نتیجہ میں فتح مکہ کا راستہ صاف ہو گیا اور سیاسی طور پر مسلمانوں کو ایک الگ قوم تسلیم کر لیا گیا.بادشاہوں کے نام تبلیغی خطوط جب صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں دس سال تک پر امن رہنے کا کفار سے معاہدہ ہو گیا تو حضور نے دنیا کے مختلف حصوں میں جو سلاطین رہتے تھے ان کو خطوط کے ذریعہ پیغام حق پہنچایا.چنانچہ قیصر روم، کسری پرویز ،شاہ ایران، مقوقس سلطان مصر، ملک حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو اسلام کی دعوت دی گئی.اسی طرح بحرین، بصرہ اور یمامی کے حکمرانوں کو بھی خطوط لکھے.فتح مکه صلح حدیبیہ کی رُو سے دس سال تک جنگ بند رکھنے کا معاہدہ ہو چکا
142 تھا.لیکن ۸ھ میں خود مکہ والوں نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی.اس بناء پر آنحضرت یہ دس ہزار قد وسیوں (صحابہ ) کو ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہو گئے.قریش کو اس لشکر کے آنے کا اس وقت علم ہوا جب وہ مکہ کے بالکل قریب پہنچ گیا.ابوسفیان نے جو مکہ کا سردار تھا اتنا بڑا لشکر دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے اور اسلام کا رعب اس کے دل میں بیٹھ گیا.حضرت عباس کے کہنے پر اس نے اسلام قبول کر لیا.اسلامی لشکر فاتحانہ انداز میں مکہ میں داخل ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ.(آج تم پر کوئی الزام نہیں ) کہہ کر عام معافی کا اعلان فرما دیا اور عفو و در گذر کی ایسی مثال قائم کر دی جس کی نظیر دنیا میں نہیں مل سکتی.فتح مکہ کے بعد اسلام بڑی تیزی سے سارے عرب میں پھیل گیا.تا ہم فتح مکہ کے بعد بھی آپ کو بعض غزوات پیش آئے جن میں غزوہ حنین اور غزوہ تبوک زیادہ معروف ہیں.وصال ہجرت کے بعد صرف ایک مرتبہ یعنی ہجرت کے دسویں سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے حج کیا جو حجۃ الوداع کہلاتا ہے.آپ نے اس موقعہ پر ایک خطبہ دیا اور بطور وصیت آخری نصائح فرمائیں.پھر آپ حج سے فارغ ہو کر واپس مدینہ تشریف لے گئے.مدینہ آ کر مرض الموت میں مبتلا ہو گئے اور ۲۶ مئی ۶۳۲ ء مطابق یکم ربیع الاول ااھ بروز پیر تریسٹھ سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللَّهُمَّ صَلَّ
143 عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِك وَسَلَّم - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی اولا د اور ازواج مطہرات لڑکے : قاسم عبداللہ ( لقب طاہر اور طیب ).ابراہیم لڑکیاں: زینب.رقیہ ام کلثوم.فاطمہ بیویاں: حضرت خدیجہ - حضرت سودہ.حضرت عائشہ حضرت حفصہ حضرت زینب.حضرت ام سلمی.حضرت ام حبیبہ.حضرت زینب بنت جش.حضرت جویرہ.حضرت صفیہ - حضرت میمونہ.حضرت ماریہ قبطیہ.
144 حضرت ابو بکر صدیق عہد خلافت ۶۳۲ء ۶۳۴ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر پہلے خلیفہ منتخب ہوئے.آپ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عہد شباب سے ہی گہرے دوستانہ مراسم تھے اور جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوی نبوت کیا تو مر دوں میں سے سب سے پہلے آپ نے اسلام کی دعوت کو قبول کیا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی کی تصدیق کر کے صدیق کا لقب پایا.ابتدائی زندگی حضرت ابوبکر کا نا عبداللہ، لقب صدیق اور کنیت ابو بکر تھی.والد کا نام ابو قحافہ اور والدہ کا نام اُم الخیر سلمی تھا.چھٹی پشت میں آپ کا شجرہ نسب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے.آپ ۵۷۲ء میں مکہ میں پیدا ہوئے اور وہیں آپ کا بچپن گذرا.جب جوان ہوئے تو کپڑے کی تجارت کرنے لگے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ اخلاق اور اوصاف حمیدہ کا گہرا نقش آپ کے دل پر تھا.یہی وجہ ہے کہ جب آپ کو علم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو فوراً اس کی تصدیق کی اور اسلام قبول کرنے میں اولیت کا شرف حاصل کیا.اسلام قبول کرنے کے بعد خدمت دین کو اپنا شعار بنایا آپ کی کوششوں سے
145 حضرت عثمانؓ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت طلحہ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح، حضرت سعد بن وقاص جیسے جلیل القدرافراد نے اسلام کو قبول کیا اور ان کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی.سفر و حضر میں صلح اور جنگ میں ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام معرکوں میں شریک رہے ہر معاملہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم آپ سے مشورہ کرتے.ہجرت کے وقت بھی آپ آنحضور کے ساتھ رہے اور جب غار ثور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ لی تو حضرت ابوبکر ساتھ تھے.حجتہ الوداع کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم بہت بیمار ہو گئے تو آپ نے حضرت ابو بکر کو حکم دیا کہ وہ مسجد نبوی میں امامت کرائیں.قربانی و ایثار مسلمان ہو جانے کے بعد حضرت ابو بکر تن من دھن سے خدمت اسلام میں مصروف ہو گئے نہ تجارت کا خیال رہا نہ آرام کا.جب روپیہ کی ضرورت ہوتی وہ قربانی میں پیش پیش ہوتے.ایک موقعہ پر جب دین کی خاطر روپیہ کی بہت ضرورت تھی.حضرت عمر نے اپنے گھر کا نصف اثاثہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا اور خیال کیا کہ آج تو میں ابوبکر سے سبقت لے جاؤں گا لیکن حضرت ابوبکر نے موقعہ کی نزاکت کے پیش نظر گھر کا سارا مال پیش کر دیا تھا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ گھر
146 میں بھی کچھ چھوڑا ہے یا نہیں تو حضرت ابوبکر نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نام گھر میں چھوڑا ہے.اسی اخلاص ، وفاداری اور جاں شماری کے پیش نظر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی بیٹی حضرت عائشہ سے شادی کر لی.خلافت کا دور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر پہلے خلیفہ منتخب ہوئے.آپ اپنے تقویٰ علم و معرفت، دانشمندی و معاملہ نہیں، اپنے ایثار و قربانی کی وجہ سے سب صحابہ میں افضل تھے اور خلافت کے سب سے زیادہ اہل تھے.اگر چہ طبیعت میں نرمی اور منکر المزاجی بے انتہا تھی لیکن دینی وقار کے معاملہ میں آپ کسی نرمی اور رواداری کے قائل نہ تھے.آغاز خلافت ہی بعض مشکلات پیش آئیں لیکن آپ نے بڑی استقامت اور جرات و ہمت سے ان کا مقابلہ کیا اور ان پر قابو پا لیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کچھ قبائل جن کے دلوں میں ابھی اسلام اچھی طرح رچا نہیں تھا مرند ہو گئے اور پرانی عصبیت ان پر غالب آ گئی.انہوں نے خود مختار رہنا پسند کیا اور ز کو 3 دینے سے انکار کر دیا بلکہ مدینہ پر حملہ کرنے کی سوچنے لگے.حضرت ابو بکر نے خطرہ کو دیکھ کر مناسب انتظامات کئے اور منکرین زکوۃ کی اچھی طرح سرکوبی کی.بعض لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نبوت کے
147 جھوٹے دعوے کئے.اسود عنسی ، مسیلمہ کذاب، طلیحہ بن خویلد اور ایک عورت سجاح زیادہ معروف ہیں.آئنو ذعنسی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی قتل کیا گیا.باقیوں نے ارتداد کی رو سے فائدہ اٹھا کر قبائل عرب کو بغاوت پر آمادہ کیا.حضرت ابو بکڑ نے سب کو زیر کیا.مسیلمہ کذاب قتل ہوا.طلیحہ نے راہ فرار اختیار کی.یہ حضرت ابو بکر کی ہمت اور استقامت ہی تھی جس کے باعث دور دراز کے مرتدین کی بھی سرکوبی ہوئی اور سارا جزیرہ عرب مسخر ہو کر اسلامی سلطنت میں شامل ہو گیا.اندرونی خلفشار کو دور کرنے کے علاوہ حضرت ابوبکر نے پورے عزم کے ساتھ بیرونی دشمنوں کی طرف توجہ کی اور اس زمانہ کی دو عظیم طاقتوں یعنی کسری شاہ ایران اور قیصر روم سے ٹکر لی.عراق اور شام کی فتح کی طرف متوجہ ہوئے.یرموک کے مقام پر رومی سلطنت سے ایک فیصلہ کن جنگ ہوئی جس نے رومی سلطنت کی تسخیر کے دروازے کھول دئے اور رومیوں کے حوصلے پست کر دیئے.حضرت ابوبکر کے دور میں جن فتوحات کا آغاز ہوا ان کی تعمیل خلافتِ ثانیہ کے دور میں ہوئی.حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے حفاظت قرآن کا بندوبست کیا.یوں تو جب اور جتنا قرآن کریم نازل ہوتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے لکھوا دیتے.قرآن کریم کی ہر سورۃ اور اس کا نام اور اس کی ترتیب، پھر سارے قرآن کریم کی ترتیب آنحضرت صلی اللہ
148 علیہ وسلم کے عہد میں حکم الہی سے عمل میں آچکی تھی.لیکن یہ قرآن چھڑے کے ٹکڑوں، پتھر کی سلوں اور کھجور کی چھال وغیرہ پر متفرق رنگ میں لکھا ہوا تھا.اس خوف سے کہ مبادا قرآن کریم کی عبارت میں بعد ازاں اختلاف ہو جائے.آپ نے تمام تحریروں کو جمع کرایا اور حفاظ کی مدد سے سارے قرآن کو یکجا اور محفوظ کر دیا.وفات حضرت ابوبکر نے ایک دن سردی میں غسل کیا جس کی وجہ سے آپ کو بخار ہو گیا اور آپ پندرہ دن بیمار رہے.اس زمانہ میں آپ نے حضرت عمرؓ کو امارت کے فرائض ادا کرنے کیلئے مقرر کیا.بعد ازاں آپ نے اعلان فرما دیا کہ حضرت عمر آپ کے بعد جانشین ہونگے.آپ دو سال تین ماہ اور گیارہ دن خلیفہ رہے.۲۲/ اگست ۶۳۴ ء مطابق ۲۱ جمادی الآخر ه ۱۳ھ بروز پیر تریسٹھ سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہوئے.
149 حضرت عمر فاروق عہد خلافت ۶۶۳۴ ۶۶۴۴.ابتدائی زندگی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ثانی تھے.آپ کا نام عمر ، لقب فاروق اور کنیت ابنِ خطاب تھی.والد کا نام الخطاب بن نصیل تھا.۵۸۱ء میں مکہ میں پیدا ہوئے.بچپن میں اپنے والد کے اونٹ وغیرہ چراتے رہے.ذرا ہوش سنبھالا تو لکھنا پڑھنا سیکھا.جوان ہوئے تو تجارت کو ذریعہ معاش بنایا اور اکثر شام و عراق کے سفر کئے.قبول اسلام اسلام کے ابتدائی ایام میں حضرت عمرؓ اسلام سے سخت دشمنی رکھتے تھے.ایک دن تلوار لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قتل کے ارادے سے گھر سے نکلے.راستہ میں کسی نے کہا پہلے اپنی بہن کی تو خبر لو.وہ مسلمان ہو چکی ہے.اس پر فورا بہن کے گھر کا رخ کیا.وہاں پہنچے تو قرآن مجید کی تلاوت ہو رہی تھی اُسے سن کر دل صاف ہو گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کر لیا.حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی آنحضر
150 صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! عمر کو اسلام میں داخل کر کے مسلمانوں کو تقویت بخش.حضرت عمرؓ بڑے رعب ودبدبہ کے مالک تھے.اکثر غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوش بدوش رہے.آپ کی معاملہ نہی کی وجہ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے بھی اکثر معاملات میں مشورہ فرماتے تھے.دور خلافت اپنی خلافت کے دور میں حضرت عمرؓ نے ایران و روم کی سلطنتوں کی طرف فوری توجہ دی اور بڑے صبر آزما حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیابیاں عطا کیں.ایران اور عراق فتح ہوا.پھر شام ومصر فتح ہوئے.بیت المقدس جب ۷ اھ میں فتح ہوا تو رومیوں کی درخواست پر حضرت عمر بنفس نفیس وہاں تشریف لے گئے اور صلح کے معاہدہ پر دستخط کئے اور سب کو امان دی.آپ کے دور خلافت میں سلطنت کی حدود بہت وسیع ہوگئی تھیں.مشرق میں افغانستان اور چین کی سرحدوں تک مسلمان فوجیں پہنچ چکی تھیں.مغرب میں طرابلس اور شمالی افریقہ تک شمال میں بحر قز دین تک اور جنوب میں حبشہ تک.ایک دنیا محو حیرت ہے کہ دس بارہ سال کے قلیل عرصہ میں ایک بے سروسامان قوم کس طرح منظم حکومتوں پر چھا گئی.حضرت عمر نے توسیع سلطنت اور فتوحات کے ساتھ ساتھ ملکی انتظام کی طرف بہت توجہ دی.ملک کو مختلف صوبوں میں تقسیم کیا اور ہر صوبے میں حاکم صوبہ، فوجی میرنشی، افسر مال،
151 پولیس افسر ، قاضی اور خزانچی مقرر کئے.عدالت، پولیس اور فوج کے الگ الگ محکمے قائم کئے.ڈاک کا انتظام کیا.جیل خانے بنائے.ٹکسال بنا کر چاندی کے سکے رائج کئے.مدینہ میں نیز تمام ضلعی مراکز میں بیت المال قائم کئے.فوج کی تنخواہیں اور مستحقین کے وظیفے مقرر کئے اور دفتری نظام کی داغ بیل ڈالی.رفاہِ عامہ کے کاموں کے سلسلہ میں بڑے بڑے شہروں میں مسافر خانے تعمیر کرائے.مکہ اور مدینہ کے درمیان چوکیاں، سرا ئیں اور حوض تعمیر کرائے اور کئی نہریں کھدوائیں.حضرت عمرؓ نے ۹۹ میل لمبی ایک نہر کھدوا کر دریائے نیل کو حمر (بحر قلزم ) سے ملا دیا جس سے تجارت کو بہت فروغ ہوا اور مصر کے حر جہاز براہِ راست مدینہ کی بندرگاہ تک آنے لگے.حضرت عمرؓ نے سن ہجری کا آغاز کیا اور اسلامی تقویم (کیلنڈر) کی ابتداء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کے سال سے کی.سیرت حضرت عمرؓ بڑی سادہ زندگی بسر کرتے تھے باوجود وسیع سلطنت کے حکمران ہونے کے آپ کے کپڑوں میں کئی پیوند لگے ہوتے تھے.دنیاوی عیش وعشرت سے کوئی سروکار نہ تھا.خلیفہ بننے کے بعد تجارت کا پیشہ ترک کر دیا اور بیت المال سے دو در ہم روزانہ وظیفہ لیتے.انتظامی معاملات میں کسی کا لحاظ نہ کرتے.عدل و انصاف اور رعایا کی بہبودی کا فکر آپ کی سیرت کی نمایاں خصوصیت ہے.رات کو گشت کر کے لوگوں کی ضروریات کا علم حاصل کرتے
152 اور غریبوں، بیکسوں اور یتیموں کو فوری امداد پہنچاتے.ایک دفعہ دیکھا کہ ایک عورت دردزہ میں مبتلا ہے اور کوئی پاس نہیں فوراً گھر آئے اور اپنی بیوی کو ساتھ لیکر گئے تا کہ اس کی دیکھ بھال ہو سکے.شہادت ایک دن ایک عیسائی غلام ابولولو نے حضرت عمرؓ سے شکایت کی کہ میرا آقا مجھ سے روزانہ دور ہم وصول کرتا ہے وہ نقاشی ، نجاری اور آہنگری میں بڑا ماہر تھا.حضرت عمر نے اس کے پیشے اور آمدنی کے مدنظر اس رقم کو معقول قرار دیا.اس فیصلہ سے ناراض ہو کر اگلے دن اس نے نماز فجر کے وقت خنجر سے آپ پر حملہ کر دیا.حضرت عمرؓ ان زخموں سے جانبر نہ ہو سکے اور ۲۶/ ذی الحجہ ۲۳ ھ کو بروز بدھ تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی.وفات کے بعد آپ کو حضرت عائشہ کے حجرہ میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا گیا.
153 حضرت عثمان غنی عہد خلافت ۶۴۴ ۶ تا ۶۶۵۶ ابتدائی زندگی حضرت عثمان غنی قریش کے مشہور خاندان بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے.پانچویں پشت میں آپ کا شجرہ نسب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے.آپ عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سال چھوٹے تھے.آپ کا ذریعہ معاش بھی تجارت تھا.دولت کی فراوانی کی وجہ سے غنی مشہور ہوئے.شرم و حیا، جو دوسخاوت، عقل و فہم اور شرافت کی وجہ سے آپ نے بڑی شہرت پائی.طبیعت میں بُردباری اور انکسار کوٹ کوٹ کر بھراتھا اور ہر ایک سے حسن سلوک کرتے تھے.جب آپ مشرف بہ اسلام ہو گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ کا نکاح آپ سے کر دیا.قریش مکہ نے جب مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تو آپ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی.کچھ عرصہ بعد پھر مکہ میں آگئے اور بعد ازاں مدینہ کی طرف ہجرت کی.جنگ بدر کے دوران حضرت رقیہ رحلت فرما گئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی اُم کلثوم کو ان کے عقد میں دے دیا.اسی وجہ سے آپ کو ذوالنورین کا لقب ملا.
154 ایثار و قربانی حضرت عثمان بڑے فیاض و سخی تھے.مالی جہاد میں پیش پیش رہتے.آپ کی دولت سے مسلمانوں کو بڑا فائدہ پہنچا.مدینہ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں تھا جو ایک یہودی کی ملکیت تھا آپ نے مسلمانوں کی تکلیف دیکھ کر بیس ہزار درہم میں وہ کنواں خرید لیا اور مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا.جنگ تبوک کے موقعہ پر دس ہزار دینار نقد کے علاوہ ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے مع ساز وسامان پیش کئے.جنگ بدر کے علاوہ تمام جنگوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے.جنگ بدر کے موقعہ پر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بموجب پیچھے رہے.صلح حدیبیہ کے موقعہ پر حضرت عثمان بطور سفیر قریش مکہ کے پاس بھیجے گئے اور جب آپ کی شہادت کی افواہ اڑائی گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کوان کا ہاتھ قرار دے کر ان کی طرف سے بیعت قبول کی اور دوسرے صحابہؓ نے بھی از سرِ نو عہدِ وفا باندھا اسی کو بیعت رضوان کہتے ہیں.حضرت عثمان ان دس صحابہ میں سے ایک تھے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت دی اور عشرہ مبشرہ کہلاتے ہیں.عہد خلافت حضرت عمر نے وفات سے قبل چھ صحابہ کو نامزد کیا اور فرمایا کہ میری وفات کے بعد آپس میں مشورہ کر کے یہ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر المومنین
155 منتخب کر لیں.وہ چھ افراد یہ تھے.حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت زبیر بن عوام ، حضرت طلحہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ابی وقاص.اکثر صحابہ کی رائے حضرت عثمان کے حق میں تھی اس لئے ان کے انتخاب کا اعلان کر دیا گیا.حضرت عثمان کے عہد میں فتوحات کا سلسلہ جاری رہا.آرمینیہ، افریقہ اور قبرص کے علاقے سلطنت میں شامل ہوئے اسی طرح وسط ایشیا کے بہت سے علاقے فتح ہوئے.گویا سلطنت کی حدود وسط ایشیا سے لے کر شمالی افریقہ کے مغربی کنارے تک پھیل گئیں.فتوحات کے ساتھ ساتھ استحکام سلطنت کا کام بھی جاری رہا.بحری فوج اور بیڑے کا قیام بھی حضرت عثمان کا ایک بڑا کارنامہ ہے.آپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے قرآن کریم کی حفاظت کے پیش نظر حضرت ابوبکر والے نسخہ کی نقول تیار کروائیں اور ان کی اشاعت سارے عالم اسلامی میں کی اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ بعض علاقوں میں اختلاف قرآت دیکھا گیا.اہل بصرہ ، اہلِ کوفہ، اہل حمص آیات کو الگ الگ رنگ میں پڑھتے.حضرت عثمان نے اہل مکہ کی قرآت کو بہترین قرار دیا اور اسی کے مطابق قرآن کریم کی کتابت کی گئی اور قریش کا رسم الخط اختیار کیا گیا عرب کے مختلف علاقوں نیز غیر عرب قوموں کے میل جول کے باعث لب ولہجہ اور قرآت کے فرق سے یہ اندیشہ ہو سکتا تھا کہ کہیں تحریف کا راستہ نہ کھل جائے.حضرت عثمان نے ہمیشہ کے لئے اس راستہ کو مسدود کر دیا.
156 شہادت حضرت عثمان جس وقت خلیفہ منتخب ہوئے ان کی عمر ستر برس تھی.خلافت کے پہلے چھ سال امن و امان سے گذرے.لیکن آخری چھ سالوں میں حضرت عثمان کی نرم مزاجی اور دوسری وجوہات کے باعث فتنے کھڑے ہوئے.بالاخر یہ شورشیں رنگ لائیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بارہ سال کی خلافت کے بعد ۳۵ ھ میں شہید کر دئیے گئے.وفات کے وقت ان کی عمر بیاسی سال تھی.
157 حضرت علی رضی الله عنه عہد خلافت ۶۵۶ ء تا ۶۶۱ء ابتدائی زندگی حضرت علی کرم اللہ وجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت ابوطالب کے فرزند تھے.بعثت نبوی سے قریباً آٹھ برس پہلے مکہ میں پیدا ہوئے.والدہ کا نام فاطمہ تھا.حضرت ابوطالب کثیر العیال تھے.جس سال مکہ میں قحط پڑا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علیؓ کو اپنے گھر لے آئے.جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت کیا تو بچوں میں سے سب سے پہلے حضرت علی ایمان لائے اس وقت اُن کی عمر تقریباً دس سال تھی.جب ضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت کے لئے گھر سے نکلے اس وقت حضرت علی آپ کی چار پائی پر سو گئے تا کہ دشمن کو یہی گمان ہو کہ حضور و ہیں ہیں اور وہ حضور کا تعاقب نہ کریں.اس سے حضرت علی کی جاں نثاری اور شجاعت کا بھی پتہ لگتا ہے.کچھ عرصہ بعد حضرت علی بھی ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے.۲ ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ یا نکاح آپ سے کر دیا.اس طرح آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ہونے کا شرف حاصل ہوا.عہد خلافت حضرت عثمان کی شہادت کے بعد آپ خلیفہ منتخب ہوئے اس وقت
158 حالات بہت ناموافق تھے.عوام کا مطالبہ تھا کہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے.حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی اسی خیال کے مؤید تھے لیکن حضرت علیؓ محسوس کرتے تھے کہ باغیوں کا اس وقت بہت زور ہے جب تک امن وسکون نہ ہو حکومت کیلئے قصاص کی کارروائی کرنا بہت مشکل ہے.حضرت طلحہ اور حضرت زبیر جیسے ذی اثر صحابہ فوری بدلہ لینے کے بڑے حامی تھے.حضرت عبداللہ بن عمر نے انہیں بہت سمجھایا کہ خلیفہ وقت کے خلاف کھڑا ہونا مناسب نہیں لیکن انہوں نے اس نصیحت کی کوئی قدر نہ کی.جنگ جمل حضرت عائشہ کو حالات کا پوری طرح علم نہ تھا وہ بھی اس امر کی تائید میں تھیں کہ قاتلین عثمان سے فوری انتقام لیا جائے.حضرت علیؓ نے بہت کوشش کی کہ باہمی جنگ و جدال کا دروازہ نہ کھلے لیکن تمام کوششیں بریکار گئیں اور فریقین میں خونریز جنگ ہو کر رہی.حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اگر چہ حضرت عائشہ کی طرف سے جنگ کیلئے میدان میں آئے لیکن جنگ ہونے سے قبل ہی لشکر سے الگ ہو گئے تاہم کسی مخالف کے ہاتھوں مارے گئے اور حضرت عائشہ کے لشکر کو شکست ہوگئی تاہم فتح کے بعد حضرت علیؓ نے ان کی حفاظت کا پورا اہتمام کیا اور جب وہ مدینہ جانے لگیں تو خود الوداع کہنے گئے.چونکہ اس جنگ میں حضرت عائشہ ایک اونٹ پر سوار تھیں اس لئے اس جنگ کو جنگ جمل کہتے ہیں.( جمل کے معنی اونٹ کے ہیں ) حضرت عائشہ کو بعد میں ساری عمر اس
159 امر کا افسوس رہا کہ کیوں انہوں نے حضرت علیؓ کے خلاف جنگ میں حصہ لیا.جنگ صفین جنگِ جمل کے بعد حضرت علی نے امیر معاویہؓ کو پھر ایک مرتبہ بیعت کر لینے کی تلقین کی لیکن وہ کسی طرح اس امر پر آمادہ نہ ہوئے انہوں نے عمرو بن عاص والی مصر کو اپنا ہمنو ابنایا اور جنگ کی تیاری کی اور ۸۵ ہزار کا لشکر لے کر حضرت علیؓ کے خلاف صف آراء ہو گئے.حضرت علیؓ کے ساتھ بھی ۸۰ ہزار کا لشکر تھا.سات دن تک جنگ کا سلسلہ جاری رہا.ساتویں دن قریب تھا کہ امیر معاویہؓ کا لشکر شکست کھا جائے کہ عمرو بن عاص نے ایک چال چلی.قرآن مجید نیزوں پر رکھ کر بلند کئے اور تجویز پیش کی کہ ثالث مقرر کر کے فیصلہ کر لیا جائے.حضرت علیؓ کے کچھ ساتھی بھی اس دھوکے میں آگئے اور انہوں نے ثالث کی تجویز کو قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی.اپنی صفوں میں انتشار دیکھ کر مجبور ا حضرت علیؓ نے اس تجویز کو قبول کر لینے پر آمادگی ظاہر کی.حضرت علی کی طرف سے ابوموسیٰ اشعری اور امیر معاویہ کی طرف سے عمرو بن عاص ثالث مقرر ہوئے.ابو موسیٰ اشعری سیدھے سادھے صوفی منش آدمی تھے لیکن عمرو بن عاص بہت جہاندیدہ انسان تھے انہوں نے ابو موسیٰ اشعری کو یہ کہہ کر ہم خیال بنا لیا کہ حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہ دونوں کو معزول کر کے نیا انتخاب کیا جائے.چنانچہ ابو موسیٰ نے اس کا اعلان کر دیا لیکن عمرو بن عاص نے کہا کہ میں حضرت علیؓ کے معزول کئے جانے کی تائید کرتا ہوں لیکن امیر معاویہ کو برقرار رکھتا ہوں اس طرح عمر و بن عاص نے لوگوں کو دھوکا دیا.
160 خوارج کا ظہور جب حضرت علی کو اس سیاسی فریب کا علم ہوا تو وہ پھر جنگ کی تیاری کرنے لگے.اسی اثناء میں انہیں علم ہوا کہ ان کی جماعت کا ایک گروہ اس وجہ سے الگ ہو گیا ہے کہ کیوں ثالثی کی تجویز کو قبول کیا گیا انہوں نے اپنا ایک الگ مقرر کر لیا اور اس طرح مسلمان تین گروہوں میں بٹ گئے.حضرت علیؓ نے ان کی سرکوبی کیلئے ایک لشکر تیار کیا.پہلے تو انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب وہ ضد پر قائم رہے تو دونوں لشکروں میں خونریز جنگ ہوئی اور کئی ہزار خارجی مارے گئے صرف چند لوگ زندہ بچ رہے.شہادت اگر چہ خارجیوں کو شکست ہوگئی لیکن ان شوریدہ سر لوگوں نے سوچا کہ کامیابی اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ حضرت علی، حضرت معاویہ اور عمرو بن عاص متینوں کو بیک وقت قتل کر دیا جائے.چنانچہ انہوں نے اس بارے میں منصوبہ تیار کیا.حضرت معاویہ پر حملہ کارگر نہ ہوا.عمرو بن عاص عین وقت پر باہر چلے گئے اس لئے بچ گئے لیکن جو شخص حضرت علیؓ کو قتل کرنے کیلئے مقرر ہوا وہ قاتلانہ حملہ میں کامیاب ہوا اور اس طرح حضرت علی ۲۰ رمضان ۴۰ ھ کو پونے پانچ سال کی خلافت کے بعد تریسٹھ سال کی عمر میں شہید کر دیئے گئے.
161 حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ الصلوۃ والسلام ۱۸۳۵ء تا ۱۹۰۸ء ابتدائی زندگی بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام ۱۴/ شوال ۱۲۵۰ھ مطابق ۱۳ / فروری ۱۸۳۵ء بروز جمعہ قادیان ضلع گورداسپور ( بھارت) میں پیدا ہوئے.آپ مغل قوم کے ایک نہایت معزز خاندان کے چشم و چراغ تھے.آپ کے مورث اعلیٰ حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب سمرقند سے ہندوستان تشریف لائے تھے.آپ کے والد کا نام حضرت مرزا غلام مرتضی اور والدہ کا نام چراغ بی بی تھا.بچپن سے ہی آپ کی طبیعت میں نیکی و پاکیزگی اور متانت و سنجیدگی پائی جاتی تھی.دوسرے بچوں کی طرح کھیل کود کی طرف ذرا بھی راغب نہ تھے.تنہائی کو پسند کرتے اور گہرے غور و خوض کے عادی تھے.ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی.پھر والد کے مقرر کردہ اساتذہ سے آپ نے فاری پڑھی اور کچھ صرف و نحو نیز منطق و فلسفہ اور حکمت کا علم حاصل کیا.جوانی میں بھی خلوت نشینی پسند رہی.قرآن کریم اور احادیث نبوی نیز دوسرے مذاہب کی مذہبی کتب کا مطالعہ آپ کا محبوب مشغلہ تھا اور بیشتر وقت یاد الہی میں یا قرآن کریم پر غور وفکر میں گذرتا تھا.عشق محمد آپ کے رگ وریشہ میں رچا ہوا تھا.
162 بس ایک ہی خواہش اور ایک ہی دھن تھی کہ کسی طرح دین مصطفوی کی خدمت ہو اور اسلام کا نور آشکار کیا جائے.آپ کے مذہبی شغف اور گوشہ نشینی کی عادت کی وجہ سے آپ کے والد بزرگوار کو یہ فکر دامن گیر رہتا کہ اس بچے کی آئیندہ زندگی کیسے بسر ہوگی.اگر چہ آپ کی طبیعت کا میلان دنیا داری کے کاموں کی طرف قطعاً نہ تھا تا ہم آپ نے والد ماجد کی اطاعت کے جذبہ سے ان کے اصرار پر کچھ عرصہ سیالکوٹ میں ملازمت کی اور جدی جائیداد کے حصول کے سلسلہ میں مقدمات کی پیروی بھی کی لیکن بہت جلد والد کی اجازت سے ان امور سے دستکش ہو گئے اور تبلیغ حق کی مہم میں بدل و جان مصروف ہوئے.۱۸۷۶ء میں والد ماجد کا انتقال ہو گیا.ان کی وفات سے قبل الہاما اللہ تعالیٰ نے اس حادثہ کی اطلاع آپ کو دی.اور الیسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کے الفاظ میں یہ بھی ڈھارس بندھائی کہ وہ خود آپ کا کفیل ہوگا.والد کی وفات کے بعد ہی مکالمات و مخاطبات الہیہ کا سلسلہ بڑے زور و شور سے شروع ہو گیا.وہ زمانہ روحانی لحاظ سے انتہائی ظلمت و تاریکی کا تھا.دنیا کا بیشتر حصہ مشرکانہ عقائد ورسوم میں مبتلا تھایا اپنے خالق و مالک سے یکسر بے گا نہ تھا.ایک طرف عیسائی مناد اسلام پر حملے کر رہے تھے تو دوسری طرف آریہ سماج و بر ہمو سماج والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کے خلاف گندہ دھنی اور الزام تراشی میں مصروف تھے.علماء اسلام فروعی مسائل اور ایک دوسرے کے خلاف تکفیر بازی میں اس قدر الجھے ہوئے تھے کہ انہیں خدمت دین کا ذرا
163 بھی ہوش نہ تھا.جو حالات کی نزاکت کا احساس رکھتے تھے ان میں استطاعت یہ تھی کہ مخالفین کے حملوں کا جواب دیتے.ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے دل میں یہ جوش ڈالا کہ آپ اسلام کی حقانیت کو دنیا پر واضح کریں.چنانچہ آپ نے ایک کتاب براہین احمدیہ نامی تصنیف فرمائی اور تمام مذاہب کے پیروؤں کو چیلنج کیا کہ وہ حسن وخوبی اور براہین و دلائل میں قرآن کریم کا مقابلہ کر کے دس ہزار روپیہ کا انعام حاصل کریں لیکن کسی کو اس مقابلہ کی جرأت نہ ہوئی.اس کتاب کی اشاعت نے مذہبی دنیا میں ایک تہلکہ مچادیا.لوگ آپ کی تعریف میں رطب اللسان تھے اور مخالفین پر سکتہ کا عالم طاری ہو گیا تھا.دعوی ماموریت و مسیحیت ۱۸۸۲ء میں اللہ تعالی کی طرف سے ماموریت کا پہلا الہام نازل ہوا.اور آپ کو یہ علم دیا گیا کہ اس زمانہ میں تجدید دین اور احیائے اسلام کی خدمت آپ کے سپرد کی گئی ہے.تاہم آپ نے با قاعدہ رنگ میں فوری طور پر کسی قسم کا دعویٰ نہیں کیا.لیکن متواتر الہامات کے باعث ۱۸۸۵ء میں آپ نے اپنے آپ کو محض مجد دوقت کی حیثیت میں پیش کیا.حالانکہ جو الہامات ۱۸۸۳ء میں اور اس کے بعد ہوئے ان میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے صریح طور پر مسیح ، نبی اور نذیر کے ناموں سے یاد کیا تھا.بات دراصل یہ ہے کہ آپ فدائیت کے نہایت اعلیٰ مقام پر تھے اور طبیعت میں اس درجہ انکسار پایا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف
164 سے ان بزرگ خطابات کی یہی تو جیہہ کرتے کہ ان سے مقصود محض کثرت مکالمہ ومخاطبہ ہے اور زیادہ وضاحت ہوئی تو ایک عرصہ تک اپنے مقام کو جزوی یا ناقص نبوت سے تعبیر کرتے رہے.لیکن پھر ۱۸۹۰ء اور ۱۹۰۰ء کے درمیانی عرصہ میں آپ پر اس امر کا کامل انکشاف ہو گیا کہ آپ نبوت کے مقام پر ہی فائز ہیں.اس رنگ میں کہ ایک پہلو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں اور کثرت مکالمہ الہیہ کے لحاظ سے نبوت کے مقام پر فائز ہیں.۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی اور لدھیانہ میں پہلی بیعت لی.اس روز چالیس افراد بیعت کر کے اس سلسلہ میں داخل ہوئے.بیعت کرنے والوں میں اولیت کا شرف حضرت حاجی الحرمین حکیم مولوی نورالدین صاحب کو حاصل ہوا جو بعد میں آپ کے خلیفہ اول منتخب ہوئے.۱۸۹۰ء میں آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا.اس دعویٰ کے ساتھ ہی آپ کے خلاف ایک طوفانِ بے تمیزی امڈ آیا.بڑے بڑے علماء نے آپ کے خلاف کفر کے فتوے دیئے لیکن خدا تعالیٰ کی نصرت و تائید کے نشانات پے در پے ظاہر ہورہے تھے آپ نے تمام سجادہ نشیوں، پیروں، فقیروں کو مقابلہ کی دعوت دی.مباحثات و مناظر ات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا اور لوگوں پر آپ کی صداقت منکشف ہوتی چلی گئی.پھر آپ نے مکفر علماء کو دعوت مباہلہ بھی دی کہ اگر چاہیں تو اس رنگ میں خدائے تعالیٰ کے فیصلہ کو دیکھ لیں.علماء کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لیڈروں اور نمائندوں کو بھی مقابلہ کے لئے للکارا.
165 ہندوؤں میں سے پنڈت لیکھرام ، عیسائیوں میں سے پادری عبداللہ آتھم اور امریکہ کا جھوٹا مدعی نبوت ڈاکٹر الیگزینڈر ڈوئی اور مسلمانوں میں سے رسل بابا امرتسری، چراغ دین ،جمونی، رشید احمد گنگوہی، عبدالرحمن محی الدین لکھو کے والے، مولوی غلام دستگیر قصوری، محمد حسین بھینی والا و غیر ہم مقابلہ کر کے حسب پیشگوئی ہلاک ہوئے اور آپ کے منجانب اللہ ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر گئے.پھر آپ نے قبولیت دعا کا حربہ استعمال کیا اور تمام مذاہب کے لوگوں کو یہ دعوت دی کہ اگر ان کا مذہب سچا ہے تو مقبولیت کا نشان مقابلہ میں دکھا ئیں.مگر کسی کو اس مقابلہ کی ہمت نہ ہوئی.غرض قبولیت دعاء علمی مقابلوں ، تائیدات سماوی اور بکثرت امور غیبیہ کے اظہار کے ذریعہ یہ ثابت کیا کہ زندہ نبی ہمارے سید و مولی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور زندہ مذہب صرف اسلام ہے.اسلام کی حقانیت اور اپنے دعوی کی صداقت کو ظاہر کرنے کیلئے آپ نے کم و بیش اسی کتب اُردو اور عربی میں تصنیف فرما ئیں.ہزار ہا اشتہارات مختلف ممالک میں شائع فرمائے اور سینکڑوں تقاریر اسلام کی تائید میں کیں.بادشاہوں اور امراء کو خطوط لکھے اور انہیں دعوت حق دی.پھر آپنے مسلمانوں کے غلط عقائد کی اصلاح کی اور تجدید دین کا کام اس رنگ میں کیا جس رنگ میں مسیح و مہدی کے لئے کرنا مقدر تھا.نہ صرف زمین پر آپ کی صداقت کے نشان ظاہر ہوئے بلکہ آسمان نے بھی اس کی گواہی دی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے ظہور مہدی کے لئے جو یہ علامت بیان فرمائی
166 تھی کہ رمضان کے مہینہ میں چاند کو اس کی گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات کو اور سورج گرہن کے مقررہ دنوں میں سے درمیانے دن گرہن لگے گا.عین اس پیشگوئی کے مطابق مشرقی ممالک میں ۲۰ مارچ۱۸۹۴ء کو چاند گرہن ہوا اور ۶/ اپریل ۱۸۹۴ء کو سورج گرہن لگا اور یہ دونوں گرہن اس سال رمضان کے مہینہ میں واقع ہوئے.مغربی ممالک میں بھی اگلے سال ٹھیک انہی شرائک کے ساتھ رمضان میں گرہن لگا اور یہ سماوی نشان اسلام کی صداقت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی صداقت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی زبر دست دلیل ٹھہرے گویا خود خالقِ ارض و سماء نے یہ گواہی دی کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی وہی مسیح موعود اور مہدی ہیں جن کے بارے میں سابق انبیاء اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح پیشگوئی فرمائی تھیں.اولاد آپ کی پہلی شادی اپنے خاندان میں ہوئی جس میں دولڑ کے مرزا فضل احمد اور مرزا سلطان احمد پیدا ہوئے.آپ کی دوسری شادی ۱۸۸۴ء میں دہلی کے ایک مشہور سادات خاندان (خاندان میر درد) میں ایسے وقت میں ہوئی جب کہ آپ کی عمر ۵۰ برس ہو چکی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی يَروجُ وَيُولَدُ لَهُ ( یعنی مسیح موعود شادی کرے گا اور اس کے اولا د ہو گی ) کے مطابق اس شادی سے ایک نئے خاندان کی بنیاد پڑی اور آپ کو وہ مبشر اولا د عطا ہوئی جس کے لئے برکت پانا اور ملکوں میں کثرت سے پھیلنا مقدر ہے.آپ
167 کی دوسری بیوی کا نام حضرت نصرت جہاں بیگم تھا جو بعد میں اماں جان....کہلا ئیں.آپ کے بطن سے پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں پیدا ہوئیں جن کے نام یہ ہیں.ا.صاحبزادی عصمت ( ولادت مئی ۱۸۸۶ء.وفات جولائی ۱۸۹۱ء) صاحبزادہ بشیر اول (ولادت ۱۸ اگست ۱۸۸۷ء.وفات ۲ نومبر ۱۸۸۸ء) ۳.حضرت مصلح موعود صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی.ولادت ۱۲ / جنوری ۱۸۸۹ء.وفات ۷/۸ نومبر کی شب ۱۹۶۵ء) ۴.صاحبزادی شوکت (ولادت ۱۸۹۱ء.وفات ۱۸۹۲ء) ۵.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم.اے ( ولادت ۲۰ / اپریل ۱۹۳ وفات ۲/ ستمبر ۱۹۶۳ء) حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد (ولادت ۲۴ مئی ۱۸۹۵ ء وفات ۲۶/ دسمبر ۱۹۶۱ء) حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ (ولادت ۲ مارچ ۱۸۹۷ء.وفات ۲۲/۲۳ مئی ۱۹۷۷ء.درمیانی شب ) حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ( ولادت ۱۴/ جون ۱۸۹۹ء.وفات ۱۶/ ستمبر ۱۹۰۷ء) صاحبزادی امتہ النصیر ( ولادت ۲۸ / جنوری ۱۹۰۳ء.وفات ۳/ دسمبر ۱۹۰۳ء) حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحب سلمہار تہا.( ولادت ۲۵/ جون ۱۹۰۴ء)
168 وفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چوہتر سال عمر پائی.ساری عمر رات دن خدمت اسلام میں لگے رہے.جس دن وفات پائی اس سے پہلی شام تک ایک کتاب کی تصنیف میں مشغول تھے.اس سے اس سوز و گداز اور اس اخلاص و جوش کا پتہ لگتا ہے.جو آپ کو اللہ تعالیٰ کے جلال کے اظہار اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو ثابت کرنے کیلئے تھا.جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: فَإِذا رَأَيْتُمُوهُ فَبَا يَعُوهُ وَلَوْ حَبُوا عَلَى الَّمْلُيجِ فَإِنَّهُ خَلِيْفَةُ اللَّهُ المهدى (ابوداؤد جلد ۲ باب خروج المهدی) (بحارالانوار جلد ۱۳ صفحه ۱۲ ابن ماجہ مطبع فاروقی دہلی صفحه ۳۱۰ سطر ۴ باب خروج الا مهدی ) ترجمعہ...جب تمہیں اس کا علم ہو جائے تو فورا! اس کی بیعت کرو خواہ تمہیں برف پر سے گھٹنوں کے بل جانا پڑے.کیونکہ وہ خدا کا خلیفہ مہدی ہو گا.اسی طرح آنحضرت معلم نے فرمایا کہ جو اسے پہچان لے فَلْيَقْرَ نَهُ مِنّي السَّلام“ اُسے میری طرف سے سلام کہے.در منشور جلد ۲ صفحه ۴۴۵، بحار الانوار جلد ۳ صفحه ۱۳۸ مطبوعه ایران) یہ گویا اس کے حق میں سلامتی کی دعا اور پیشگوئی تھی.باوجود اس کے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ الصلوۃ والسلام کی ہزار مخالفتیں ہوئیں اور آپ کو قتل کرنے کے بہت سے منصوبے کئے گئے مگر خدائی نوشتوں کے مطابق
169 وہ سب ناکام ہوئے اور آپ اپنا کام ختم کر کے طبعی موت سے ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو لاہور میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے.آپ کا جنازہ قادیان لایا اگلے روز حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول منتخب ہوئے اور انہوں نے ہی حضور کی نماز جنازہ پڑھائی.اس کے بعد میت کو بہشتی مقبرہ میں سپرد خاک کر دیا گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
170 حضرت خلیفة المسیح الاول ۱۸۴۱ء تا ۱۹۱۴ء ابتدائی زندگی حاجی الحرمین حضرت حافظ مولوی نور الدین صاحب خلیفہ المسیح الاول ۱۸۴۱ء میں پنجاب کے ایک قدیم شہر بھیرہ میں پیدا ہوئے.والد کا نام حافظ غلام رسول اور والدہ کا نام نور بخت تھا.۳۲ ویں پشت میں آپ کا شجرہ نسب حضرت عمر فاروق “ سے ملتا ہے آپ کے خاندان میں بہت سے اولیاء و مشائخ گذرے ہیں.گیارہ پشت سے تو حفاظ کا سلسلہ بھی برابر چلا آتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ اس مقدس خاندان کو ابتداء سے ہی قرآن کریم سے والہانہ شغف رہا ہے.ابتدائی تعلیم تو ماں باپ سے حاصل کی پھر لاہور اور راولپنڈی میں تعلیم پائی.نارمل سکول سے فارغ ہو کر چار سال پنڈ دادنخاں میں سکول کے ہیڈ ماسٹر رہے.پھر ملا زمت ترک کر دی اور حصول علم کے لئے رامپور، لکھنو، میرٹھ اور بھوپال کے سفر اختیار کئے ان ایام میں آپ نے عربی، فارسی، منطق، فلسفہ، طب غرض ہر قسم کے مروجہ علوم کی قرآن کریم سے قلبی لگاؤ تھا اور اس کے معارف آپ پر کھلتے رہتے تھے.تو کل
171 کا اعلیٰ مقام حاصل تھا.دعاؤں سے ہر وقت کام لیتے تھے.جہاں جاتے غیب سے آپ کے لئے سہولت کے سامان پیدا ہو جاتے اور لوگ آپ کے گرویدہ ہو جاتے.ایک مرتبہ ایک رئیس زادہ کا علاج کیا تو اس نے اس قدر روپیہ دیا کہ آپ پر حج فرض ہو گیا.چنانچہ آپ مکہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کیلئے تشریف لے گئے.حج بھی کیا اور وہاں کئی اکابر علماء فضلاء سے حدیث پڑھی.اس وقت آپ کی عمر ۲۴ ۲۵ برس تھی.بلا دعرب و ہند سے واپس آ کر بھیرہ میں درس و تدریس اور مطب کا آغاز کیا.مطب کی شان یہ تھی کہ مریضوں کے لئے نسخے لکھنے کے دوران احادیث وغیرہ بھی پڑھاتے.۱۸۷۷ء میں لارڈ لٹن وائسرائے ہند کے دربار میں شرکت کی کچھ عرصہ بھوپال میں قیام کیا.پھر ریاست جموں و کشمیر میں ۱۸۷۶ء سے۱۸۹۲ء تک شاہی طبیب رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت گورداسپور کے ایک شخص کے ذریعہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا غائبانہ تعارف ہوا اور حضور کا ایک اشتہار بھی نظر سے گذرا.مارچ ۱۸۸۵ء میں قادیان پہنچ کر حضور علیہ السلام سے ملاقات کی.اس وقت حضور نے نہ کوئی دعویٰ کیا تھا نہ بیعت لیتے تھے.تا ہم فراست صدیقی سے آپ نے حضور کو شناخت کیا اور حضور کے گرویدہ ہو گئے.حضور کے ارشاد پر آپ نے پادری تھامس ہاول کے اعتراضات کے جواب میں کتاب فصل الخطاب اور پنڈت
172 " لیکھرام کی کتاب ” تکذیب براہین احمدیہ کے جواب میں تصدیق براہین احمدیہ تصنیف فرمائی.۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء میں جب لدھیانہ میں بیعت اولی ہوئی تو سب سے اول آپ نے بیعت کا شرف حاصل کیا.ستمبر ۱۸۹۲ء میں ریاست کشمیر سے آپ کا تعلق منقطع ہو گیا تو بھیرہ میں مطب جاری کرنے کیلئے ایک بڑا مکان تعمیر کرایا.ابھی وہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے بموجب قادیان میں دھونی رما کر بیٹھ رہے قادیان میں ایک مکان بنوا کر اس میں مطب شروع کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ دربارِ شام میں نیز سیر و سفر میں ہمرکاب رہتے.حضور کی مقدس اولا دکو قرآن و حدیث پڑھاتے.صبح سویرے بیماروں کو دیکھتے پھر طالب علموں کو درس حدیث دیتے اور طب پڑھاتے بعد نماز عصر روزانہ درس قرآن کریم دیتے.عورتوں میں بھی درس ہوتا.( بیت) اقصیٰ میں پنجوقتہ نماز اور جمعہ کی امامت کراتے.جب قادیان میں کالج قائم ہوا تو اس میں عربی پڑھاتے رہے.دسمبر ۱۹۰۵ء میں انجمن کار پرداز مصالح قبرستان کے امین مقرر ہوئے جب صدر انجمن بنی تو اس کے پریذیڈنٹ مقرر ہوئے.حضرت مسیح موعود دعلیہ السلام کو حوالہ جات نکالنے میں مدد دیتے اور حضور کی تصانیف کی پروف ریڈنگ کرتے.مباحثات میں مدد دیتے.اخبار الحکم اور البدر کی قلمی معاونت فرماتے.قرآن کریم کا مکمل ترجمہ کیا اور چھپوانے کے لئے مولوی محمد علی صاحب کو دیا لیکن صرف پہلا پارہ چھپ سکا.
173 خلافت کا دور ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو جب کہ آپ کی عمر ۶۷ سال تھی خلیفہ منتخب ہوئے.قریباً بارہ سو افراد نے بیعت خلافت کی.مستورات میں سب سے پہلے حضرت اماں جان..نے بیعت کی.صدر انجمن کی طرف سے اخبار الحکم اور البدر میں اعلان کرایا گیا کہ: ”آپ ( یعنی حضرت اقدس علیہ السلام) کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق حسب مشوره معتمدین صدر انجمن احمدیہ موجودہ قادیان و اقرباء حضرت مسیح موعود و با جازت حضرت اماں جان کل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اس وقت بارہ سو تھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سلمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.معتمدین میں سے ذیل کے اصحاب موجود تھے.حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب، صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، جناب نواب محمد علی خاں صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، مولوی محمد علی صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب، خلیفہ رشید الدین و خاکسار 66 خواجہ کمال الدین )..
174 اور سلسلہ کے سب ممبران کو ہدایت کی گئی کہ وہ فی الفور حکیم الامت خلیفہ امسیح والمہدی کی بیعت کریں.چنانچہ اس کے مطابق عمل ہوا اور حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کا انتخاب حضرت ابوبکر صدیق کی طرح اجماع قوم سے خاص خدائی تصرف سے ہوا اور کسی قسم کا اختلاف اس وقت نہ ہوا.شروع خلافت سے ہی واعظین سلسلہ کا تقرر ہوا.شیخ غلام احمد صاحب، حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی، حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی اولین واعظ مقرر ہوئے.جنہوں نے ملک کے طول وعرض میں پھر کر سلسلہ کی خدمات سرانجام دیں بے شمار تقاریر کیں.مباحثات کئے اور متعدد مقامات پر جماعتیں قائم کیں.آپ کے دور خلافت میں گرلز سکول اور اخبار نور کا۱۹۰۹ء میں اجراء ہوا.نیز مدرسہ احمدیہ کا قیام عمل میں آیا.۱۹۱۰ ء میں ( بیت ) نور کی بنیاد رکھی گئی.اسی طرح مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کے بورڈنگ کی بنیاد رکھی گئی.(بیت) اقصیٰ کی توسیع ہوئی.حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی) کی کوششوں سے انجمن انصار اللہ کا قیام عمل میں آیا اور اخبار الفضل جاری ہوا.۱۹۱۳ء میں یورپ میں سب سے پہلا احمد یہ مشن قائم ہوا.مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب جو صدر انجمن احمدیہ کے سرکردہ ممبر تھے ابتداء سے ہی مغربیت زدہ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی ان کی یہ خواہش تھی کہ جماعت کا نظام اسی رنگ میں
175 چلا ئیں.جیسے دنیاوی انجمنیں چلاتی ہیں.اسی وجہ سے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی لنگر خانہ کے انتظام اور سلسلہ کے دوسرے کاموں پر اعتراض کرتے رہتے تھے اور اخراجات کے بارے میں حضور کی ذات پر بھی نکتہ چینی کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے.حضور کی زندگی میں تو ان کی کچھ پیش نہیں گئی لیکن حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں انہوں نے پر پُرزے نکالنے شروع کئے.خلافت کے دور میں جو پہلا جلسہ سالانہ دسمبر ۱۹۰۸ء میں ہوا اس میں ایسی تقاریر کا انتظام کیا جس سے مقصود جماعت میں یہ خیال پیدا کرنا تھا کہ دراصل صدر انجمن احمد یہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جانشین اور خلیفہ ہے.لیکن حضرت خلیفہ اول نے ان خیالات کی تردید کرتے ہوئے ضرورتِ خلافت اور اطاعت خلیفہ پر زور دیا اور فرمایا:.تم نے خود میری بیعت نہیں کی بلکہ میرے مولیٰ نے تمہارے دلوں کو میری طرف جھکا دیا.پس تمہیں میری فرمانبرداری ضروری ہے.خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کے خیالات کی وجہ سے جماعت میں جو انتشار پیدا ہونے لگا تھا اس کے ازالہ کے لئے آپ نے ۳۱/ جنوری ۱۹۰۹ء کو نمائندگان جماعت کو قادیان میں طلب کیا اور واضح الفاظ میں یہ فیصلہ فرمایا کہ صدرانجمن تو محض ایک تنظیمی ادارہ ہے.جماعت کا امام اور مطاع تو صرف خلیفہ ہی ہے.اس اجتماع میں مندرجہ بالا دونوں حضرات سے
176 جن میں سرکشی پائی جاتی تھی آپ نے دوبارہ بیعت اطاعت لی لیکن بیعت کر لینے اور اقرار اطاعت کے باوجود ان حضرات کے دل صاف نہ ہوئے اور وہ تمر داور سرکشی میں بڑھتے گئے یہاں تک کہ کھلم کھلا مخالفت پر اتر آئے اور آپ کی شان میں گستاخانہ باتیں کرنے لگے.۱۹۱۰ء میں آپ گھوڑے سے گر گئے اور بہت چوٹیں آئیں.علالت کا سلسلہ طویل ہو گیا.اس دوران ایک مرتبہ آپ نے وصیت تحریر فرمائی جو صرف دو الفاظ پر پر مشتمل تھی.یعنی خلیفہ محمود.اس سے ظاہر ہے کہ آپ اپنے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کو خلیفہ نامزد کرنا چاہتے تھے.آپ نے اپنی علالت کے دوران حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف کو اپنی جگہ امام الصلوۃ مقرر فرمایا.یوں بھی آپ ان کی بہت تعظیم و تکریم کرتے تھے اور برملا اس امر کا اظہار کرتے تھے کہ اپنے تقویٰ وطہارت، اطاعتِ امام اور تعلق باللہ میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے.جب آپ کی علالت کا سلسلہ طویل ہو گیا تو منکرین خلافت نے گمنام ٹریکٹ لا ہور سے شائع کئے.جن میں اس امر کا اظہار کیا گیا کہ قادیان میں پیر پرستی شروع ہوگئی ہے اور مرزا محمود احمد صاحب کو خلافت کی گدی پر بٹھانے کی سازشیں ہو رہی ہیں.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے بارے میں لکھا گیا کہ ایک عالم دین نے ایڈیٹر پیغام صلح اور دوسرے متعلقین کو ذلیل و خوار کرنا شروع کر دیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہلبیت کے متعلق تحریر کیا کہ وہ بزرگان سلسلہ ( مراد خواجہ صاحب اور
177 مولوی محمد علی صاحب) کو بدنام کر رہے ہیں.اسی طرح ان لوگوں نے حضرت خلیفہ اول کی دومرتبہ بیعت اطاعت کرنے کے باوجود آپ کو بدنام کرنے اور خلافت کے نظام کو مٹانے کی پوری کوشش کی.لیکن وہ اپنے مذموم ارادوں میں ناکام رہے.حضرت خلیفہ المسح الاول کا سب سے بڑا یہی کارنامہ ہے کہ آپ نے خلافت کے نظام کو مضبوطی سے قائم کر دیا اور خلافت کی ضرورت و اہمیت کو جماعت کے سامنے بار بار پیش کر کے اس عقیدہ کو جماعت میں راسخ کر دیا کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے.انسانی منصوبوں سے کوئی شخص خلیفہ نہیں بن سکتا.خلافت کے الہی نظام کو مٹانے کیلئے منکرین خلافت نے جوفتنہ وفساد برپا کیا اور لوگوں کو ورغلانے اور اپنا ہم خیال بنانے کی جو کارروائیاں کی گئیں آپ نے ان کا تار و پود بکھیر کر رکھ دیا.منکرین خلافت نے اپنے خیالات کی ترویج کے لئے لاہور سے ایک اخبار جاری کیا جس کا نام پیغام صلح رکھا.یہ اخبار حضرت خلیفہ اول کے نام بھی ارسال کیا جانے لگا.آپ نے اس کے مضامین کو پڑھ کر فرمایا.یہ تو ہمیں پیغام جنگ ہے اور آپ نے بیزار ہو کر اس اخبار کو وصول کرنے سے انکار کر دیا.وفات غرض آپ اپنی خلافت کے سارے دور میں جہاں قرآن و احادیث نبوی کے درس و تدریس میں منہمک اور کوشاں رہے وہاں خلافت کے مسئلہ کو بار بار
178 تقریروں اور خطبات میں واضح کیا یہاں تک کہ جماعت کی غالب اکثریت نے اس حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لیا.علالت کے دوران خفیہ ٹریکٹوں کی اشاعت نے آپ کو بہت دکھ پہنچایا اور آپ کی صحت پر بہت بُرا اثر ڈالا.بالآخر آپ نے ۱۳/ مارچ ۱۹۱۴ء بروز جمعہ داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
179 المصلح الموعود حضرت خلیفة المسیح الثانی ۱۸۸۹ء تا ۱۹۶۵ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا دور خلافت اس لحاظ سے ممتاز اور نمایاں ہے کہ اس کے بارے میں سابقہ انبیاء وصلحاء کی پیشگوئیاں موجود ہیں.اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار نشانات اور اس کی پیہم تائیدات نے یہ ثابت کر دیا کہ آپ ہی وہ موعود خلیفہ ہیں جس کا وعدہ دیا گیا تھا.ابتدائی زندگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو ایک مسیحی نفس لڑکے کی پیدائش کی خبر دی جو دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جانا تھا اور بتلایا گیا کہ وہ نو سال کے عرصہ میں ضرور پیدا ہو جائے گا.اس پیشگوئی کے مطابق سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم کے بطن سے ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء بروز ہفتہ تولد ہوئے.الہام الہی میں آپ کا نام محمود، بشیر نانی اور فضل عمر بھی رکھا گیا اور کلمہ اللہ نیز فخر رسل کے خطابات سے نوازا گیا.آپ کے بارے میں الہام یہ بھی بتایا گیا کہ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا.خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا.اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس
180 سے برکت پائیں گی.چونکہ آپ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت سی بشارات ملی تھیں اس لئے حضور آپ کا بہت خیال رکھتے.کبھی آپ کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی.بچپن سے آپ کی طبیعت میں دین سے رغبت تھی.دعا میں شغف تھا اور نمازیں بہت توجہ سے ادا کرتے تھے.آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ تعلیم الاسلام میں پائی.صحت کی کمزوری اور نظر کی خرابی کے باعث آپ کی تعلیمی حالت اچھی نہ رہی اور آپ ہر جماعت میں رعایتی ترقی پاتے رہے.مڈل اور انٹرنس (میٹرک) کے سرکاری امتحانوں میں فیل ہوئے اس طرح دنیوی تعلیم ختم ہو گئی.اس درسی تعلیم کے بعد حضرت خلیفہ اُس الاول نے اپنی خاص تربیت میں لیا.قرآن کریم کا ترجمہ تین ماہ میں پڑھا دیا.پھر بخاری بھی تین ماہ میں پڑھا دی.کچھ طب بھی پڑھائی اور چند عربی کے رسالے پڑھائے.قرآنی علوم کا انکشاف تو موہبت الہی ہوتی ہے مگر یہ درست ہے کہ قرآن کریم کی چاٹ حضرت خلیفۃ اسبح الاول نے ہی لگائی.جب آپ کی عمر ۱۷ ۱۸ سال کی تھی ایک دن خواب میں ایک فرشتہ ظاہر ہوا اور اس نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھائی.اس کے بعد سے تفسیر قرآن کا علم خدا تعالیٰ خود عطا کرتا چلا گیا.۱۹۰۶ء میں جب کہ آپ کی عمرے اسال تھی.صدر انجمن احمدیہ کا قیام عمل میں آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو مجلس معتمدین کا رکن مقرر کیا.۲۶ مئی ۱۹۰۸ ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جب وصال ہوا تو غم کا ایک پہاڑ آپ پر ٹوٹ پڑا.تم اس بات کا تھا کہ سلسلہ کی مخالفت زور پکڑے گی اور لوگ
181 طرح طرح کے اعتراضات کریں گے تب آپ نے حضور کے جسدِ اطہر کے سرہانے کھڑے ہو کر اپنے رب سے عہد کیا کہ:.اگر سارے لوگ بھی آپ ( یعنی مسیح موعود ) کو چھوڑ دیں گے اور میں اکیلا رہ جاؤں گا تو میں اکیلا ہی ساری دنیا کا مقابلہ کروں گا اور کسی مخالفت اور دشمنی کی پرواہ نہیں کروں گا“.(الفضل صہ جوبلی نمبر صفحه ۶۴) یہ عہد آپ کی اولوالعزمی اور غیرت دینی کی ایک روشن دلیل ہے.تاریخ شاہد ہے کہ آپ نے اس عہد کو خوب نبھایا.۱۵.۱۶ برس کی عمر میں پہلی مرتبہ آپ کو یہ الہام ہوا اِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ القيامة.اس پہلے الہام میں ہی اس امر کی بشارت موجود تھی کہ آپ ایک دن جماعت کے امام ہوں گے.قرآن کریم کا فہم آپ کو بطور موہبت عطا ہوا تھا.جس کا اظہار ان تقاریر سے ہوتا تھا جو وقتاً فوقتاً آپ جلسہ سالانہ پر یا دوسرے مواقع پر کرتے تھے.آیت کریمہ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کے مطابق یہ اس امر کا ثبوت تھا کہ سیدنا پیارے محمود کے دل میں خدا اس کے رسول اور اس کے کلام پاک کی محبت کے سوا کچھ نہ تھا.لیکن بُرا ہو حسد اور بغض کا.منکرین خلافت آپ کے خلاف بھی منصوبے بناتے رہتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ کسی طرح حضرت خلیفہ اول آپ سے بدظن ہو جائیں.ان کو آپ سے دشمنی اس بناء پر تھی کہ اول تو آپ حضرت خلیفہ اول کے کامل فرمانبردار اور حضور
182 کے دست و بازو اور زبر دست مؤید تھے.دوسرے آپ کے تقویٰ وطہارت، تعلق باللہ ، اجابت دعا اور مقبولیت کی وجہ سے انہیں نظر آ رہا تھا کہ جماعت میں آپ کی ہر دلعزیزی اور مقبولیت روز بروز ترقی کر رہی ہے اور خود حضرت خلیفہ امسیح الاوّل بھی آپ کا بے حد اکرام کرتے ہیں.ان وجوہات کے باعث آپ کا وجود منکرین خلافت کو خار کی طرح کھٹکتا تھا.خلافتِ اولیٰ کے دور میں آپ نے ہندوستان کے مختلف علاقوں نیز بلادِ عرب ومصر کا سفر کیا.حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے.۱۹۱۱ء میں آپ نے مجلس انصار اللہ قائم فرمائی اور ۱۹۱۳ء میں اخبار الفضل جاری کیا اور اس کی ادارت کے فرائض اپنی خلافت کے دور تک نہایت عمدگی اور قابلیت سے سرانجام دیئے.عہد خلافت حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد ۱۴/ مارچ ۱۹۱۴ء کو ( بیت ) نور میں خلافت کا انتخاب ہوا.دو اڑھائی ہزار افراد نے جو اس وقت موجود تھے بیعتِ خلافت کی.قریباً پچاس افراد ایسے تھے جنہوں نے بیعت نہیں کی اور اختلاف کا راستہ اختیار کیا.اختلاف کرنے والوں میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب جو اپنے آپ کو سلسلہ کا عمود سمجھتے تھے پیش پیش تھے.خلافت سے انکار اور حبل اللہ کی ناقدری کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ لوگ ( قادیان) سے منقطع ہوئے.صدر انجمن احمدیہ سے منقطع ہوئے.نظام وصیت سے منقطع ہوئے.حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کی نبوت سے منکر ہوئے اور اپنے کئی عقائد و ا
183 نظریات میں اس لئے تبدیلی کرنے پر مجبور ہوئے کہ شاید عوام میں مقبولیت حاصل ہو لیکن وہ بھی نصیب نہ ہوئی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا عہدِ خلافت اسلام کی ترقی اور بینظیر کامیابیوں کا درخشاں دور ہے.اس باون سالہ دور میں خدا تعالیٰ کی غیر معمولی نصرتوں کے ایسے عجیب در عجیب نشانات ظاہر ہوئے کہ ایک دنیا ورطہ حیرت میں پڑ گئی اور دشمن سے دشمن کو بھی یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہ رہا کہ اس زمانہ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ نے غیر معمولی ترقی کی ہے اور یہ کہ امام جماعت احمد یہ بے نظیر صلاحیتوں کے مالک ہیں.آپ کے اس باون سالہ عہدِ خلافت میں مخالفتوں کے بہت سے طوفان اُٹھے.اندرونی اور بیرونی فتنوں نے سر اُٹھایا مگر آپ کے پائے استقلال کو ذرا جنبش نہ ہوئی اور سید الہی قافلہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بدستور بڑھتا گیا.ہر فتنہ کے بعد جماعت میں قربانی اور فدائیت کی روح میں نمایاں ترقی ہوئی اور قدم آگے ہی آگے بڑھتا گیا.جس وقت منکرین خلافت مرکز سلسلہ کو چھوڑ کر گئے اس وقت انجمن کے خزانے میں چند آنوں کے سوا کچھ نہ تھا.لیکن جس وقت آپ کا وصال ہوا اس وقت صدر انجمن اور تحریک جدید کا بجٹ اے لاکھ نواسی ہزار تک پہنچ چکا تھا.اختلاف کے وقت ایک کہنے والے نے مدرسہ تعلیم الاسلام کے متعلق کہا کہ یہاں اُلو بولیں گے.لیکن خدا کی شان کہ وہ مدرسہ نہ صرف کالج بنا بلکہ اس کے نام پر بیسیوں تعلیمی ادارے مختلف ممالک میں قائم ہوئے.
184 مصلح موعود کے بارے میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتلایا تھا.وہ لفظاً لفظاً پورا ہوا.حضرت فضل عمر جلد جلد بڑھے اور دنیا کے کناروں تک اشاعتِ اسلام کے مراکز قائم کر کے شہرت پائی.آپ کے بہت سے کارناموں میں سے چند کا ذکر اختصار سے درج ذیل ہے.جماعتی کاموں میں تیزی اور مضبوطی پیدا کرنے کیلئے صدر انجمن احمد یہ کے کاموں کو مختلف شعبوں میں تقسیم کر کے نظار توں کا نظام قائم کیا.بیرونی ممالک میں تبلیغ کے کام کو وسیع پیمانے پر چلانے کے لئے ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید جاری فرمائی اور صدرانجمن احمدیہ سے الگ ایک نئی الجمن یعنی تحریک جدید انجمن احمدیہ کی بنیاد رکھی.اس کے نتیجہ میں فصل ایزدی یورپ، ایشیاء، افریقہ اور امریکہ کے مختلف ممالک اور جزائر میں نے تبلیغی مشن قائم ہوئے.سینکڑوں ( بیوت) تعمیر ہوئیں.قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے اور کثرت کے ساتھ (دینی) لٹریچر مختلف زبانوں میں شائع کیا گیا اور لاکھوں افراد ( دین حق ) کے نور سے منور ہوئے.۳.اندرون ملک دیہاتی علاقوں میں تبلیغ کے کام کو مؤثر رنگ میں چلانے کیلئے ۱۹۵۷ء میں ”وقف جدید انجمن احمدیہ کے نام سے تیسری انجمن قائم کی.۴.جماعت میں قوت عمل کو بیدار رکھنے کیلئے آپ نے جماعت میں ذیلی
185 تنظیمیں یعنی انصار اللہ، خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ قائم فرمائیں تا کہ مرد اور عورتیں، بچے اور جوان سب اپنے اپنے رنگ میں آزادانہ طور پر تعلیم وتربیت کا کام جاری رکھ سکیں اور نئی نسل میں قیادت کی صلاحیتیں اُجاگر ہوں.ان تنظیموں کا قیام جماعت پر احسانِ عظیم ہے.۵.جماعت میں مل جل کر اور منظم رنگ میں کام کو جاری رکھنے کے لئے مجلس شوری کا قیام فرمایا.قرآنی علوم کی اشاعت اور ترویج کے لئے درس قرآن کا سلسلہ جماعت میں جاری رکھا.تفسیر کبیر کے نام سے کئی جلدوں میں ایک تخیم تفسیر لکھی جس میں قرآنی حقائق و معارف کو ایسے اچھوتے انداز میں پیش کیا کہ دل تسلی پاتے اور اسلام کی حقانیت خوب واضح ہوتی ہے.اس کے علاوہ ہر طبقہ کے لوگوں میں قرآنی علوم کا چسکا پیدا کرنے کیلئے قرآن کریم کی ایک نہایت مختصر مگر عام فہم تفسیر الگ تحریر فرمائی جس کا نام "تفسیر صغیر ہے.بحیثیت امام اور خلیفہ وقت جماعتی ذمہ داریوں کو نبھانے کے علاوہ آپ نے ملک وملت کی خدمت میں نمایاں اور قابلِ قدر حصہ لیا.آپ کی تنظیمی صلاحیتوں کے پیش نظر مسلمانان کشمیر کو آزادی دلانے کے لئے جب آل اللہ یا کشمیر کمیٹی قائم ہوئی تو آپ کو اس کا صدر منتخب کیا گیا.ہر
186 اہم سیاسی مسئلہ کے بارے میں آپ نے مسلمانان ہند کی رہنمائی کی اور بیش قیمت مشوروں کے علاوہ دامے درمے ہر طرح ان کی امداد کی.کئی مرتبہ اپنے سیاسی مشوروں کو کتابی شکل میں شائع کر کے ملک کے تمام سر بر آوردہ اشخاص تک نیز ترجمہ کے ذریعہ ممبران برٹش پارلیمنٹ اور برٹش کیبنٹ تک پہنچایا.تقسیم ملک کے وقت جہاں آپ نے مسلمانوں کی حفاظت اور بہبود کے لئے مقدور بھر کوششیں کیں وہاں اپنی جماعت کے لئے ۱۹۴۸ء میں ربوہ جیسے بے آب و گیاہ علاقہ میں ایک فعال مرکز قائم کیا.جہاں سے الحمد للہ تبلیغ ( دین حق ) کی مہم پورے زور سے پروان چڑھ رہی ہے.ایک بنجر اور شور زدہ علاقہ میں بے سرو سامانی کے باوجود ایک پر رونق بستی کا آباد کر دینا خود اپنی ذات میں ایک بڑا کارنامہ ہے.یہ بستی نہ صرف تبلیغ (دین حق ) کا اہم ترین مرکز ہے بلکہ ملک میں علم کی ترقی اور ترویج کا بھی ایک ممتاز سنٹر ہے اس کے علاوہ کھیلوں کے میدان میں بھی قابل ذکر کر دار ادا کر رہی ہے.آپ نے تاریخ اسلام کے واقعات کو بہتر رنگ میں سمجھنے اور یا درکھنے کیلئے ہجری شمسی سن جاری فرمایا.۱۰.آپ نے متعدد والیان ریاست اور سربراہان مملکت کو تبلیغی خطوط ارسال کئے اور انہیں احمدیت یعنی حقیقی (دین حق ) سے روشناس کرایا.ان
187 میں امیر اللہ خاں والی افغانستان، نظام دکن، پرنس آف ویلز اور لارڈ ارون وائسرائے ہند خاص طور پر قابل ذکر ہیں.۱۹۳۹ء میں خلافت کے پچیس سال پورے ہونے پر سلور جوبلی کی تقریب منعقد ہوئی اور جماعت نے تین لاکھ کی رقم اپنے امام کے حضور تبلیغ ( دین حق ) کی توسیع کیلئے پیش کی.پھر ۱۹۶۴ء میں جب خلافت ثانیہ پر پچاس سال پورے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے حضورا ظہار تشکر کے طور پر خاص دعائیں کی گئیں اور اپنے پیارے امام کے مقاصد عالیہ کی تکمیل کے لئے جماعت نے پچیس لاکھ سے زائد رقم بطور شکرانہ پیش کی.۱۹۴۴ء میں بذریعہ رویا والہام آپ پر اس امر کا انکشاف ہوا کہ آپ ہی وہ مصلح موعود ہیں جس کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی تھی.اس انکشاف کے اعلان کے لئے آپ نے ہوشیار پور، لدھیانہ، لاہور اور دہلی میں جلسے منعقد کر کے معرکۃ الآراء تقاریر کیں اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر کیا.آپ نے یورپ کا دو مرتبہ سفر کیا.پہلی مرتبہ آپ ۱۹۲۴ء میں ویمبلے کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن تشریف لے گئے جہاں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے اپنے اپنے مذاہب کی خوبیاں بیان کیں.اس کا نفرنس میں آپ کا مضمون ”احمدیت یعنی حقیقی (دین حق انگریزی میں ترجمہ ہوکر پڑھا گیا.۱۹۵۴ء میں آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا.علاج سے زخم تو بظاہر مندمل ہو گئے لیکن
188 تکلیف جاری رہی.اس لئے ۱۹۵۵ء میں آپ دوسری مرتبہ بغرض علاج یورپ تشریف لے گئے.وفات مندرجہ بالا سانحہ فاجعہ کے بعد آپ کی صحت برابر گرتی چلی گئی.یہاں تک کہ وہ المناک گھڑی آ پہنچی جب آپ تقدیر الہی کے ماتحت اس جہان فانی سے کوچ کر گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یہ کے اور ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کی درمیانی شب تھی.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث نے ۹ نومبر کو بہشتی مقبرہ ربوہ کے وسیع احاطہ میں نماز جنازہ پڑھائی اور پچاس ہزار افراد نے دلی دعاؤں اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ آپ کو سپرد خاک کیا.
189 حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ خلیفہ رحمه ۱۹۰۹ء تا ۱۹۸۲ء ابتدائی زندگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جہاں اللہ تعالیٰ نے اولاد کی بشارت دی تھی وہاں ایک نافلہ کی بھی خاص طور پر بشارت دی تھی جیسا کہ فرمایا: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَافِلَةً لَّكَ (حقیقۃ الوحی صفحه ۹۵ - تذکره ۶۴۶) یعنی ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جو تیرا پوتا ہوگا.مواہب الرحمن صفحہ 114 میں بھی پانچویں فرزند ( یعنی پوتے) کی بشارت موجود ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فرزند کی بشارت دی تھی.چنانچہ آپ اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:.مجھے بھی خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہوگا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہوگا“.( تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحه ۳۲۰) غرض حضرت خلیفہ اسیح الثالث بھی ایک رنگ سے موعود خلیفہ تھے.ان پیش خبریوں کے مطابق حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث ۱۱۶ نومبر ۱۹۰۹ء کو بوقت شب پیدا ہوئے.
190 ۱۷/ اپریل ۱۹۲۲ء کو جب کہ آپ کی عمر ۱۳ سال تھی.حفظ قرآن کی تکمیل کی توفیق ملی.بعد ازاں حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب سے عربی اور اُردو پڑھتے رہے.پھر مدرسہ احمدیہ میں دینی علوم کی تحصیل کے لئے با قاعدہ داخل ہوئے اور جولائی ۱۹۲۹ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے ”مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.اس کے بعد میٹرک کا امتحان دیا اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہو کر ۱۹۳۴ء میں بی.اے کی ڈگری حاصل کی.اگست ۱۹۳۴ء میں آپ کی شادی ہوئی.۶ ستمبر ۱۹۳۴ء کو بغرض تعلیم انگلستان کیلئے روانہ ہوئے.آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم.اے کی ڈگری حاصل کر کے نومبر ۱۹۳۸ء میں واپس تشریف لائے.یورپ سے واپسی پر جون ۱۹۳۹ء سے اپریل ۱۹۴۴ء تک جامعہ احمدیہ کے پرنسپل رہے.فروری ۱۹۳۹ء میں مجلس خدام الاحمدیہ ہی کے صدر بنے.اکتوبر ۱۹۴۹ء میں جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بنفس نفیس خدام الاحمدیہ کی صدارت کا اعلان فرمایا تو نومبر ۱۹۵۴ء تک بحیثیت نا ئب صدر مجلس کے کاموں کو نہایت عمدگی سے چلاتے رہے.مئی ۱۹۴۴ء سے لے کر نومبر ۱۹۶۵ء تک ( یعنی تا انتخاب خلافت ) تعلیم الاسلام کالج کی پرنسپلی کے فرائض سرانجام دیئے.جون ۱۹۴۸ء سے جون۱۹۵۰ء تک فرقان بٹالین کشمیر کے محاذ پر دادِ شجاعت دیتے رہے آپ اس بٹالین کی انتظامی کمیٹی کے ممبر تھے.۱۹۵۳ء میں پنجاب میں فسادات ہوئے اور مارشل لاء کا نفاذ ہوا.تو اس وقت آپ کو گرفتار کر لیا گیا.اس طرح سنت یوسفی
191 کے مطابق آپ کو کچھ عرصہ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں.۱۹۵۴ء میں مجلس انصار اللہ کی زمام قیادت آپ کے سپرد کی گئی.مئی ۱۹۵۵ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے آپ کو صدر انجمن احمدیہ کا صدر مقرر فرمایا.کالج کے پرنسپل کے فرائض علاوہ صدرانجمن احمدیہ کے کاموں کی نگرانی بھی نا انتخاب خلافت آپ کے سپر د رہی.تقسیم ملک سے قبل باؤنڈری کمیشن کیلئے مواد فراہم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا اور حفاظت مرکز ( قادیان) کے کام کی براہ راست نگرانی کرتے رہے.خلافت کا دور حضرت خلیہ اسیح الثانی نے اپنے عہد خلافت میں ہی آئندہ نئے خلیفہ کے انتخاب کے لئے ایک مجلس مقر فرما دی تھی جو مجلس انتخاب خلافت کے نام سے موسوم ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کی وفات پر اس مجلس کا اجلاس ۱۸ نومبر کو بعد نماز عشاء (بیت) مبارک میں زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ منعقد ہوا.جس میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو آئندہ کے لئے خلیفہ منتخب کیا گیا.اراکین مجلس انتخاب نے اسی وقت آپ کی بیعت کی.اس کے بعد انتخاب کا اعلان ہوا اور انداز اپانچ ہزار افراد نے اُسی دن آپ کی بیعت کی.پھر بیرونی جماعتوں نے تاروں اور خطوط کے ذریعہ اقرار اطاعت کیا.خلافت ثالثہ کے انتخاب کے وقت الحمد للہ کسی قسم کا اختلاف نہیں ہوا اور ساری جماعت نے والہانہ انداز میں قدرت ثانیہ کے
192 تیسرے مظہر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو اپنا امام تسلیم کیا.تحريكات آپ نے اپنے دور خلافت میں متعدد تحریکیں جاری فرمائیں جن کا مختصر ذکر درج ذیل ہے.پہلی تحریک: ۱۷ دسمبر ۱۹۶۵ء کو جب ملک میں غلہ کی کمی محسوس ہو رہی تھی آپ نے جماعت کے امراء اور خوشحال طبقہ کو تحریک کی کہ وہ غرباء، مساکین اور یتامی کے لئے مناسب بندوبست کریں اور کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو بھوکا سوئے اس پر جماعت نے بصد شوق عمل کیا اور کر رہی ہے.دوسری تحریک: اس تعلق اور محبت کے اظہار کے لئے جو جماعت کو حضرت فضل عمر سے ہے.آپ نے ۲۵ لاکھ روپیہ کے سرمایہ سے فضل عمر فاؤنڈیشن قائم کرنے کی تحریک فرمائی.جماعت نے بفضل ایزدی ۳۶ لاکھ سے زائد رقم اس مد میں پیش کی.اس فنڈ سے فضل عمر لائبریری قائم ہو چکی ہے.نیز علمی اور تحقیقی شوق پیدا کرنے کیلئے ہزار ہزار روپے کے ۵ انعامات ہر سال بہترین مقالہ نگاروں کو پیش کئے جاتے ہیں.تیسری تحریک تعلیم القرآن کے بارے میں ہے.اس کا مقصد یہ ہے کہ جماعت میں
193 کوئی فرد بھی ایسا نہ رہے جو قرآن کریم ناظرہ نہ جانتا ہو.جو ناظرہ پڑھ سکتے ہوں وہ ترجمہ سیکھیں اور قرآنی معارف سے آگاہ ہوں.چوتھی تحریک وقف عارضی کی ہے.اس تحریک کے تحت واقفین دو سے چھ ہفتوں تک اپنے خرچ پر کسی مقررہ مقام پر جا کر قرآن کریم پڑھاتے اور تربیت کا کام کرتے ہیں.پانچویں تحریک : مجلس موصیاں کا قیام ہے.موصیوں کے لئے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں تعلیم القرآن کا انتظام کریں اور نگرانی کریں کہ کوئی فرد ایسا نہ رہے کہ جو قرآن کریم نہ جانتا ہو.چھٹی تحریک: بک رسوم کو ترک کرنے کی جاری فرمائی.ساتویں تحریک چندہ وقف جدید اطفال کی ہے اس کے تحت ہر احمدی طفل کیلئے لازمی قرار دیا کہ وہ ۵۰ پیسے ماہوار وقف جدید کا چندہ ادا کر کے اس کے مالی جہاد میں شریک ہو.
194 آٹھویں تحریک: تسبیح وتحمید اور درود شریف کا بالالتزام ورد کرنا ہے.بڑے کم از کم ۲۰۰ مرتبہ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيْمِ - اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ کا ورد کریں اور ۱۰۰ بار استغفار کریں.۱۵ سے ۲۵ سال عمر والے ۱۰۰ بار تسبیح پڑھیں اور ۳۳ مرتبہ استغفار.۷ سے ۱۵ سال تک عمر والے۳۳ مرتبہ تسبیح پڑھیں اور ا مرتبہ استغفار.۷ سال سے کم عمر کے بچوں کو والدین با تسبیح اور استغفار پڑھائیں.نویں تحریک : ( نصرت جہاں ریزروفنڈ سکیم ) ۱۹۶۷ء میں حضور نے یورپ کے متعدد ممالک کا دورہ کیا اور ڈنمارک کے دارالسلطنت کوپن ہیگن میں ( بیت ) نصرت جہاں کے افتتاح کے علاوہ اقوامِ مغرب کو جلد آنے والی تباہیوں کے متعلق انذار فرمایا.پھر ۱۹۷۰ء میں حضور نے مغربی افریقہ کے سات ممالک نائیجیریا، گھانا، آئیوری کوسٹ، لائیبیر یا، گیمبیا اور سیرالیون کا دورہ فرمایا.اس دورہ میں منشاء الہی سے ایک خاص پروگرام کا اعلان فرمایا جس کا نام حضور نے لیپ فارورڈ پر وگرام تجویز کیا اور اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایک لاکھ پونڈ کا ”نصرت جہاں ریز روفنڈ“ قائم کرنے کی تحریک فرمائی.اس تحریک کا مقصد افریقہ میں اسلام کا قیام و استحکام تھا.اس فنڈ سے افریقہ کے ممالک میں مزید تعلیمی سنٹر کھولے گئے.اس کے علاوہ وہاں طبی مراکز بھی قائم ہوئے.اسی فنڈ سے افریقہ کے کسی ملک میں
195 ایک طاقتور ریڈ یوٹیشن قائم کرنے کی تجویز تھی.اسی طرح ایک بڑا پریس مرکز میں قائم کرنے کی تجویز تھی جس کے ذریعہ مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اور دوسرا اسلامی لٹریچر شائع کیا جانا تھا.نصرت جہاں ریز روفنڈ سکیم کے تحت افریقی ممالک میں اس وقت تک جو میڈیکل سنٹر ز اور سیکنڈری سکول کھولے جاچکے ہیں ان کی تفصیل یہ ہے.غانا میں میڈیکل سینٹرزے سیکنڈری سکولز اور ۱۴۴ پرائمری سکولز ،سیرالیون میں ۳ میدیکل سینٹرز ۱۴ سیکنڈری سکولز اور ۱۴۸ پرائی سکولز ، گیمبیاء میں ۳ میڈیکل سینٹرز ہم سیکنڈری سکولز ، لائبیریا میں ۲ میڈیکل سینٹرز ایک سیکنڈری سکول اور ۳ پرائمری سکولز ، نائیجیریا میں ۶ میڈیکل سنٹر اور ۴ سیکنڈری سکولز.۱۴۸ پرائمری سکولز ، ایوری کاسٹ میں ایک میڈیکل سینٹر اور پرائمری سکولز ، کانگو میں ایک میڈیکل سینٹر، بورکینا فاسو میں ۴ میڈیکل سینٹرز اور ۲ پرائمری سکولز ، ہین میں ۲ میڈیکل سینٹر ز ، کینیا میں ۳ میڈیکل سینٹرز ، تنزانیہ میں ایک میڈیکل سینٹر یوگنڈا میں ایک میڈیکل سینٹر، ایک سیکنڈری سکول اور ۳۰ پرائمری سکول اس طرح سے اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے ۳۸ طبعی ادارے اور ۵۸ سیکنڈری سکولز اور ۳۰۳ پرائمری سکولز کام کر رہے ہیں.دسویں تحریک : ” صد سالہ احمد یہ جو بلی فنڈ سکیم اللہ تعالیٰ کے منشاء اور حکم کے مطابق جماعت احمدیہ کی بنیاد ۱۸۸۹ء میں رکھی گئی.اس لحاظ سے ۱۹۸۹ء میں اس کے قیام پر سو سال پورے ہوئے اس
196 سال سے جماعت کی دوسری صدی شروع ہوگی جو اللہ تعالیٰ کی بشارات کے مطابق انشاء اللہ غلبہ دین حق کی صدی ہوگی.اس دوسری صدی کے استقبال کے لئے جس کے شروع ہونے میں ابھی سولہ سال باقی تھے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حسب منشاء الہی جلسہ سالانہ ۱۹۷۳ء کے موقع پر جماعت ہائے بیرون کی تربیت، اشاعت ( دین حق ) کے کام کو تیز سے تیز تر کرنے ، غلبہ ( دین حق ) کے دن کو قریب سے قریب تک لانے اور نوع انسان کے دل خدا اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے کیلئے ایک عظیم منصوبے کا اعلان فرمایا.اس کے اغراض و مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ ابھی دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں ہماری منتظم جماعتیں اور مشن قائم نہیں ہوئے.اس لئے اس منصوبہ کے ایک ابتدائی حصہ کی رُو سے یہ تجویز ہے کہ کم از کم سو زبانوں میں اسلام کی بنیادی تعلیم کے تراجم کر کے بیرونی ملکوں میں کثرت سے اشاعت کی جائے اور اس ذریعہ سے وہاں کے باشندوں کی تربیت و اصلاح اور ان کو اسلام کی طرف لانے کی کوشش کی جائے.نیز فرمایا کئی جگہ ہمیں نئے مشن کھولنے پڑیں گے اور وہاں ( بیوت ) بنانی پڑیں گی.اس منصوبے کی تکمیل کے لئے مالی قربانی کے سلسلہ میں حضور نے فرمایا:.میں نے مخلصین جماعت سے آئندہ سولہ سال میں ڈھائی کروڑ روپیہ جمع کرنے کی اپیل کی تھی اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ پر توکل
197 کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ انشاء اللہ یہ رقم پانچ کروڑ تک پہنچ جائے گی.اس مالی جہاد میں شرکت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ: وہ لوگ جو ملا زمت پیشہ یا مزدور پیشہ ہیں اور ان کی ماہوار آمد معین ہے.وہ اپنے وعدہ کو سولہ پر تقسیم کر دیں اور ہر سال کا جو حصہ بنتا ہے اسے بارہ ماہ میں تقسیم کر کے ماہ بماہ ادا ئیگی کرتے چلے جائیں“.زمیندار احباب کے بارے میں جن کی سال میں دو بار آمد ہوتی ہے.فرمایا کہ:.وہ ہر فصل پر اپنے وعدہ کا۱/۳۲ حصہ ادا کرتے رہیں.باقی افراد جو تاجر پیشہ ہیں یا وکلاء، ڈاکٹر انجنیئر وغیرہ ہیں اور جن کی آمد نہ معین ہوتی ہے نہ اس کا وقت مقرر ہے وہ پہلے سال میں ہی شرح کا خیال رکھے بغیر ہمت کر کے جس قدر زیادہ سے زیادہ دے سکتے ہوں ادا کریں اور پھر ہر سال اپنا وعدہ آمد کے مطابق ادا کریں“.اس عظیم منصوبہ کے روحانی پہلو کے طور پر حضور نے سولہ سال کے لئے جو پروگرام تجویز فرمایا وہ یہ تھا:.ا.جماعت احمدیہ کے قیام پر ایک صدی مکمل ہونے تک ہر ماہ احباب جماعت ایک نفلی روزہ رکھا کریں جس کے لئے ہر قصبہ، شہر یا محلہ میں
198 مہینہ کے آخری ہفتہ میں کوئی ایک دن مقامی طور پر مقرر کر لیا جایا کرے.۲.دو نفل روزانہ ادا کئے جائیں.جو نماز عشاء کے بعد سے لے کر فجر سے پہلے تک یا نماز ظہر کے بعد ادا کئے جائیں.کم از کم سات بار سورۃ فاتحہ کی دعا غور وتدبر کے ساتھ پڑھی جائے.-۴- درود شریف، تسبیح وتحمید نیز استغفار کا ورد روزانہ ۳۳،۳۳ بار کیا جائے.درود اور تسبیح کیلئے سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيم.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ پڑھ سکتے ہیں..مندرجہ ذیل دعائیں روزانہ کم از کم گیارہ بارہ پڑھی جائیں.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرُنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ - اَللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ - اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ ۵۴ سے زائد ممالک کی جماعت ہائے احمدیہ نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے.اس تحریک کا ثمرہ یہ ہے کہ گوٹن برگ (سویڈن ) میں ایک شاندار ( بیت ) تعمیر ہو چکی ہے.ایک اور شیریں ثمر یہ ہے کہ اس منصوبہ کے تحت لندن میں ایک بین الاقوامی کسر صلیب کا نفرنس جون ۱۹۷۸ء میں منعقد ہوئی.جس میں کئی ممالک کے عیسائی اور مسلم محققین نے تحقیقی مقالے پڑھے اور ثابت کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب پر
199 وفات نہیں پائی.اس عظیم منصوبے کا ایک اور شیریں وطیب ثمر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بیت نو ر اوسلو کی شکل میں ۱۹۸۰ء میں عطا فرمایا.( بیت ) نور ناروے کی پہلی اور بلحاظ ترتیب یورپ کی آٹھویں (بیت) ہے.جس کا افتتاح حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے سفر یورپ کے دوران فرمایا.اس کے علاوہ بر طافیہ میں پانچ نئے مراکز کا قیام عمل میں آیا.بیت بشارت سپین حضور نے جون تا اکتوبر ۱۹۸۰ء یورپ کا جو سفر کیا اس کا اہم ترین واقعہ بیت بشارت پید رو آباد کی تاسیس تھا.اس سفر کے دوران حضور سپین تشریف لے گئے اور قرطبہ سے ۲۲/۲۳ میل دور قصبہ پیدور آباد میں ایک بیت کی بنیاد رکھی جو حضور کے عہد مبارک میں ہی پایہ تکمیل کو پہنچ گئی.حضور نے اس کا نام بیت بشارت تجویز فرمایا اور اس کے افتتاح کے لئے ۱۰ ستمبر ۱۹۸۲ء کی تاریخ مقر فرمائی.یہ بیت ۷۴۴ سال بعد تعمیر ہونے والی چین کی پہلی بیت ہے.بیت کی بنیاد رکھے جانے کے وقت پیدرو آباد کے ہزاروں مرد، عورتیں اور بچوں نے بڑی خوشی سے اس تقریب میں شرکت کی.قصبہ کی ایک معمر ترین عورت اور ایک سب سے کم عمر بچے نے بھی (بذریعہ اپنی والدہ ) سنگ بنیاد رکھنے کی سعادت حاصل کی.اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.( دین حق ) ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں“
200 چودھویں صدی ہجری کو الوداع اور پندرھویں کا استقبال چودھویں صدی ہجری کے آخری سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ منعقدہ نومبر ۱۹۸۰ء کے موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ چودہویں صدی نے ہمیں خدا سے ملا دیا.ہم پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن اور قرآن کریم کی عظمت واضح کر دی.چودہویں صدی نے جہاں ( دین حق ) کا تنزل دیکھا وہاں تیرہ سو سال پہلے کی بے شمار پیشگوئیاں پوری ہوتی دیکھیں.اس زمانہ میں اسلام کا ضعف بھی دیکھا اور اسلام کی عظمت و جلال کے شاہکار بھی دیکھے.ہمیں چودہویں صدی نے مہدی دیا جس کے آنے سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کی تاثیر سے زندہ خدا کے ساتھ زندہ رشتہ پیدا ہو گیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب مہدی نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہمارے دلوں میں گاڑ دی.پندرھویں صدی ہجری کے آغاز پر اس صدی کو غلبہ ( دین حق ) کی صدی بنانے کے لئے بہت دعائیں کی گئیں اور صدقات دیئے گئے.مرکزی ادارہ جات اور اہالیان ربوہ کی طرف سے یکم محرم الحرام ۱۴۰۱ھ سے ۷ محرم تک ۱۰۱.بکرے بطور صدقہ دئے گئے.۱۹ نومبر کی شام کو غروب آفتاب کے چند منٹ پہلا بکرا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور دعا کی.ربوہ کے علاوہ دوسرے مقامات کے احمدی مردوں اور عورتوں نے کثرت سے قربانیاں کیں اور غلبہ دین حق کیلئے دعائیں مانگیں.
201 جماعت کیلئے تعلیمی منصوبے حضور نے مجلس انصار اللہ کے سالانہ اجتماع منعقدہ اکتوبر ۱۹۷۹ء کے آخری اجلاس میں غلبہ دین حق کی صدی کے استقبال کے لئے ایک دس سالہ تعلیمی پروگرام پیش کیا اور فرمایا:.بلا استثناء ہر احمدی بچہ قاعدہ یسرنا القرآن پڑھے جو احباب قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں وہ ترجمہ سیکھیں اور جو تر جمہ جانتے ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ تفسیر سیکھیں جو خود اللہ تعالی نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھائی اور وہ تفسیر بھی سیکھیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نور اور بصیرت و معرفت کے زیر سایہ خود کی.اس کے علاوہ ہر احمدی بچہ کم از کم میٹرک ضرور پاس کرے اور غیر معمولی ذہانت اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل طلباء کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق مزید اعلی تعلیم دلانا جماعت کی ذمہ داری ہوگی.اس پروگرام کی آخری شق حضور نے یہ بیان فرمائی کہ سب احمدی اسلام کی حسین اخلاقی تعلیم پر قائم ہوں“.(الفضل ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۹ء) حضور نے مجلس مشاورت ۱۹۸۰ء کے موقعہ پر جماعت کے لئے ایک عظیم علمی منصوبے کا اعلان فرمایا جس کے اہم نکات یہ ہیں:.
202 ا.ہر بچہ کم از کم میٹرک تک اور ہر بچی کم از کم مدل تک ضرور تعلیم حاصل کرے‘ (الفضل ۲۴/ اپریل ۱۹۸۱ء).کوئی احمدی بچہ پیچھے نہ رہے گا بلکہ آگے سے آگے بڑھے گا.وہ ذہین بچے جو حالات کی وجہ سے آگے نہیں آسکتے انہیں جماعت سنبھالے گی.دعائیہ لحاظ سے بھی اور مالی لحاظ سے بھی.اس لئے عہد کرو کہ کسی سے یچھے نہیں رہنا.آج خدا تمہیں دینے کو تیار ہے تو تمہیں لینے کو تیار ہوتا چاہئے“.(الفضل ا/ اپریل ۱۹۸۱ء) پہلے -۱- گذشتہ جلسہ سالانہ ( یعنی ۱۹۷۹ء) پر میں نے وظائف کا اعلان کیا تھا کہ مستحق اور ذہین طلباء کو بغیر ذہنی نشو و نما کے نہیں چھوڑا جائے گا اس کا نام انعامی وظیفہ نہیں بلکہ ادا ئیگی حقوق طلباء رکھنا چاہئے سندہ دس برس کے اندر ہر احمدی قرآن کریم کی تعلیم اپنی عمر کے مطابق سیکھے.یہ کام خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کے ذمہ ہے..مرحلہ میں ہر احمدی گھرانے میں ایک تو تفسیر صغیر کا ہونا ضروری ہے اور دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر قرآن بھی پڑھنی ضروری ہے.میں نے اس سلسلہ میں خدام الاحمدیہ انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کو یہ ہدایت دی تھی کہ وہ ان کے خریدنے کے لئے اپنی اپنی کلب بنائیں اور جماعت ایک کمیٹی بنائے جو ان ہر سہ تنظیموں میں Co-ordination (رابطه ) پیدا کرے...یہ جوسکیم میں نے
203 کراچی سے شروع کی تھی آج اس میں وسعت پیدا کر رہا ہوں اور اسے ساری جماعت کیلئے دینی تعلیم سکھانے کی بنیاد بنا رہا ہوں.یہ سکیم اس سال مکمل ہو جانی چاہئے.۴.الف: پانچویں کلاس کے وظیفہ کا امتحان ( جو غالبا ضلعی سطح پر ہوتا ہے) اس میں اوپر کی ۳۰۰ پوزیشنوں میں ہر ضلع میں جو احمد ہی بچہ آئے گا اسے میں اپنے دستخط سے دعائیہ خط اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب تحفہ کے طور پر اپنے دستخطوں اور دعائیہ فقر ولکھ کر بھیجوں گا.(ب) آٹھویں کے وظیفہ کا امتحان جو غالبا ڈویژن کی سطح پر ہوتا ہے.اس میں ہر ڈویژن میں اوپر کی ۳۰۰ نشستوں میں جو احمدی طالب علم آئے گا اسے بھی اپنے دستخطوں سے دعائیہ خط اور کتاب تحفہ بھیجوں گا.(ج) دسویں جماعت کا امتحان ایجوکیشن بورڈ لیتا ہے.ہر بورڈ کے امتحان میں TOP کے ۲۰۰ لڑکوں میں سے جو بھی احمدی طالب علم / طالبہ آئے گا آئے گی اس کو اپنے دستخطوں سے محط اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پانچ کتب میں سے ایک تفسیر کی کتاب ان کی ذہنی قابلیت کی قدر کرتے ہوئے بھیجوں گا.(د) ایف.اے اور ایف.ایس سی میں ہر بورڈ میں اُوپر کی ۳۰۰ پوزیشنوں میں جو بھی احمدی طالب علم آئے گا اسے بھی دعائیہ خط اور ایک تفسیر کی کتاب بھجوائی جائے گی.
204 (ه) یو نیورسٹی کے امتحان میں بی.اے کے لئے علیحدہ اور بی ایس سی کے لئے علیحدہ اوپر کے ۲۰۰ طلباء / طالبات میں سے احمدی طلبہ کے لئے دستخطوں سے دعائیہ خط اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر کی کتابوں میں سے ایک کتاب تحفہ بھیجوں گا.(و) ایم.اے، ایم ایس سی ، میڈیکل یا انجنیئر نگ کے فائنل امتحان میں ہر مضمون میں TOP ( چوٹی) کی سات پوزیشنوں میں جو احمدی طالب علم آئے گا اسے دعائیہ خط ، تفسیر صغیر اردو یا انگریزی ترجمہ قرآن اپنے دستخط کر کے دعائیہ فقرہ کے ساتھ بھیجوں گا.اسی سلسلہ میں حضور نے فرمایا:.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ جماعت کو ذہین بچے عطا کر رہا ہے.پس جو بچے تنیس (Genius) ہیں جماعت ان کی ہر قسم کی مدد کرے گی.آج ہر احمدی بچے کو ایک نظام میں باندھنا ضروری ہے.اس لئے میں دفتر کو ہدایت دیتا ہوں کہ وہ ضلع وار اور پائیدار شکل میں رجسٹر بنا ئیں.پانچویں جماعت سے پی ایچ ڈی تک ہر ذہین بچے پر شفقت کی نظر رکھیں.ہر ایک بچے سے اسی طرح تعلق رکھیں جس طرح طبیب کی انگلیوں کا بیمار کی نبض کے ساتھ تعلق ہوتا ہے.جماعتیں اس بات کا خیال رکھیں کہ پہلی کلاس سے آخری کلاس تک کوئی احمدی بچہ نہ رہے جس نے اس سال ------
205 امتحان دیا اور مجھے اس کا خط نہ آئے.اس بنیاد پر دفتر نے رجسٹر بنانے ہیں.” بیرونی ملکوں کے بارے میں جائزہ لیا جا رہا ہے.سر دست یہ سکیم صرف پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش کی جماعتوں کے لئے ہے جو ۱۹۸۰ء سے شروع ہوتی ہے“.انعامات صد سالہ احمدیہ علیمی منصوبے کے تحت دسمبر ۱۹۸۲ء تک ۴۸ طلبہ اطالبات کو طلائی اور نقر کی تمغے دیئے جاچکے ہیں.میٹرک سے ایم اے/ایم ایس سی تک بورڈ اور یونیورسٹی میں اول آنے والے کو طلائی تمغہ مشتمل ہر ایک تولہ خالص سونا اور تفسیر صغیر یا انگریزی ترجمہ قرآن دو تخطی حضور دیا جاتا ہے.ہر دوم آنے والے طالب علم طالبہ کو طلائی تمغہ مشتمل بر ۳/۴ تولہ سونا اور بر۳/۴ تفسیر صغیر یا انگریزی ترجمہ قرآن دستخطی حضور دیا جاتا ہے.ہر سوم آنے والے والی کو چاندی کا تمغہ اور تفسیر صغیر / انگریزی ترجمہ قرآن دیا جاتا ہے.حضور نے احمدی طلبہ کیلئے آگے بڑھنے کے چند اصول بھی بیان فرمائے ہیں جو یہ ہیں :.ا.سویا بین کا استعمال کیا جائے.ذہن کو تقویت کیلئے بہترین چیز ہے.
206 ۲.ہر احمدی طالب علم محنت سے پڑھے اور وقت کو ضائع نہ کرے.۳.صحت کو برقرار رکھنے کیلئے متوازن غذا استعمال کی جائے..صحت کو برقرار رکھنے کیلئے ورزشیں کی جائیں.لَا إِلَهَ إِلَّا الله کا وِرد مجلس خدام الاحمدیہ کے ۳۶ ویں سالانہ اجتماع کے موقعہ پر فرمایا کہ ۱۸۸۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کو ایک الہام ہوا جس کے پورا ہونے کے سامان نہیں تھے.پھر حضور نے اپنا ایک کشف بیان فرمایا جس میں آپ نے دیکھا کہ ساری کائنات سمندر کی انگوری رنگ کی لہروں کی طرح پر پہر در پہر آگے بڑھتی اور لا اله الا الله ورد کرتی جارہی ہے.حضور نے اس کشف کی یہ تعبیر فرمائی کہ اب توحید الہی کے قیام کا وقت آ گیا ہے.۱۸۸۲ء کے مسیح موعود علیہ السلام کے طویل سلسلہ الہامات کا آخری حصہ لَا إِلهَ إِلَّا الله تھا.اس کے بعد الہام ہوا فاکتب“ اسے لکھ رکھو اور طبع کراؤ اور پھر ساری زمین میں شائع کر دو.اب اس الہام پر عمل کا وقت آ گیا ہے.اسے طبع کرا کر ساری دنیا میں پھیلا دو.حضور کی اس ہدایت پر فوری عمل شروع ہو گیا اور بینروں کے ذریعہ نیز دوسرے طریق پر جماعت میں اس کی اشاعت کی ایک روچل پڑی.فرض نمازوں کے بعد بھی گیارہ مرتبہ دھیمی آواز میں لا اله الا اللہ کا ورد کیا جانے لگا.جو حضور کی زندگی میں برابر جاری رہا.
207 کچھ عرصہ بعد مخالفین نے اعتراض شروع کر دیا کہ احمدیوں نے کلمہ طیبہ میں تصرف شروع کر دیا ہے اور محمد رسول اللہ کے الفاظ (نعوذ باللہ ) حذف کر دیئے ہیں.اس غلط فہمی کو دور کرنے کیلئے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے ہدایت فرمائی کہ اگر جلسوں کے موقع پر لا اله الا اللہ کے بینر آویزاں کرنے ہوں تو حدیث نبوی کے پوری الفاظ یعنی افضل الذكر لَا إِلَهَ إِلَّا الله ( ترمذی کتاب الدعوات ) لکھے جایا کریں تا کہ غلط فہمی کا امکان نہ رہے.نیز مساجد میں اس کا ورد بلند آواز سے نہ کیا جائے بلکہ دوسرے اوراد کی طرح یہ ورد بھی خاموشی سے کیا جائے.قرآن مجید کی عالمی اشاعت خلافت ثالثہ کا ایک اہم کارنامہ قرآن کریم کی وسیع اشاعت ہے.اس غرض کے لئے حضور نے یورپ، امریکہ اور افریقہ کے مختلف ممالک میں ہوٹلوں میں قرآن کریم رکھنے کی ایک مہم جاری فرمائی جس کے نتیجہ میں درجنوں ممالک کے ہوٹلوں میں کلامِ پاک کے ہزار ہا نسخے رکھوائے گئے اور یہ سلسلہ برابر جاری اور ترقی پذیر ہے.حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی وفات حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحب حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثالث مختصر لیکن شدید علیل رہنے کے بعد ۳ اور ۴ دسمبر ۱۹۸۱ء کی درمیانی شب رحلت فرما گئیں.
208 إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِليهِ رَاجِعُونَ ۴ دسمبر کی شام ۴ بجے مرحومہ کا جنازہ احاطہ بہشتی مقبرہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے پڑھا جس میں پچاس ہزار احباب نے شرکت کی.عقد ثاني حضرت سیدہ بیگم صاحبہ کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو ۴۷ سال سے زائد رفاقت کا شرف حاصل ہوا.آپ میں وہ تمام خوبیاں جو خلیفہ وقت کی رفیقہ حیات میں ہونی چاہئیں پائی جاتی تھیں.ایسی رفیقہ حیات کی جدائی قدرتی طور پر حضور کے لئے عظیم صدمہ کا موجب تھی وہاں حضور کے فرائض خلافت اور دینی مہمات میں ایک طرح سے روک اور حرج کا موجب بھی تھی.لہذا خالص للہی اور دینی ضرورت کو پیش نظر رکھ کر حضرت خلیفتہ امیج الثالث نے متواتر چالیس دن دعا ئیں اور چند بزرگان سلسلہ کو سات دن تک استخارہ اور دعائیں کرنے کا ارشاد فرمایا اور جب خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی بشارتوں کے مطابق انشراح صدر ہوگیا تو حضور نے نکاح ثانی کا فیصلہ کیا اور مکرم خان عبدالمجید خاں صاحب آف ویرووال کی صاحبزادی سیدہ طاہرہ صدیقہ بیگم صاحبہ سے مورخہ ۱۱ اپریل ۱۹۸۲ء کو بیت مبارک ربوہ میں بعد نماز عصر حضور نے اپنے عقد ثانی کا اعلان ایک ہزار حق مہر پر فرمایا.نماز مغرب سے قبل کے مردوں اور تین خواتین پر مشتمل حضور کی بارات خان عبدالمجید خاں صاحب کے گھر گئی اور کمال سادگی کے ساتھ تقریب رخصتانہ عمل میں آئی.اگلے روز ۱۲/ اپریل ۱۹۸۲ء کو بعد نماز
209 عشاء حضور نے قصر خلافت میں دعوت ولیمہ کا اہتمام فرمایا جس میں اڑھائی صد احباب جماعت شامل ہوئے جن میں غرباء بھی کثیر تعداد میں مدعو تھے.آخری خطاب ۲ مئی ۱۹۸۲ء کو حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی پندرہ روزہ تربیتی کلاس سے اختتامی خطاب فرمایا جو کسی جماعتی تنظیم سے حضور کا آخری خطاب ہے.ربوہ میں آخری خطبہ جمعہ ۲۱ مئی ۱۹۸۲ء کو حضور نے ربوہ میں آخری خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور ۲۳ مئی کو حضور اسلام آباد تشریف لے گئے.حضور کی علالت اور انتقال پر ملال قیام اسلام آباد کے دوران ۲۶ مئی ۱۹۸۲ء کو حضور پر نور کی طبیعت علیل ہوگئی.بر وقت علاج سے بفضل تعالیٰ افاقہ ہو گیا.لیکن اس مئی کو اچانک طبیعت پھر خراب ہوگئی.ڈاکٹری تشخیص سے معلوم ہوا کہ دل کا شدید حملہ ہوا ہے.علاج کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور ۸ جون تک صحت میں تبدر یج بہتری پیدا ہوتی گئی.لیکن ۸، ۹ جون یعنی منگل اور بدھ کی درمیانی شب پونے بارہ بجے کے قریب دل کا دوبارہ شدید حملہ ہوا اور بقضائے الہی پونے ایک بجے شب ”بیت الفضل اسلام آباد میں حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے.
210 إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ۱۹ جون ۱۹۸۲ء کو حضور کا جسدِ اطہر اسلام آباد سے ربوہ لایا گیا.اجون کوسیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ ایح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بعد نماز عصر احاطہ بہشتی مقبرہ میں نماز جنازہ پڑھائی جس میں ایک لاکھ کے قریب احباب شریک ہوئے.نماز جنازہ کے بعد حضرت مصلح موعود کے پہلو میں جانب شرق حضور کی تدفین عمل میں آئی.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے سوے برس کی عمر پائی.اولاد صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا لقمان احمد صاحب، صاحبزادی امتہ الشکور بیگم صاحبہ، صاحبزادی امتہ الحلیم بیگم صاحبہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ ۱۹۲۸ء تا ۲۰۰۳ء ابتدائی زندگی ہمارے پیارے امام حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت مصلح موعود کے حرم ثالث حضرت سیدہ ام طاہر مریم بیگم صاحبہ کے بطن سے ۱۸ دسمبر ۱۹۲۸ء کو پیدا ہوئے.(الفضل ۲۱ دسمبر ۱۹۲۸ء)
211 حضور کے نانا حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کلرسیداں تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی کے ایک مشہور سید خاندان کے چشم و چراغ تھے.بڑے عابد وزاہد اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے جنہوں نے ۱۹۰۱ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا.آپ کی والدہ حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ بھی نہایت پارسا اور بزرگ خاتون تھیں جو اپنے اکلوتے بیٹے کی تعلیم وتربیت کا بے حد خیال رکھتی تھیں اور اسے نیک ،صالح اور عاشق قرآن دیکھنا چاہتی تھیں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے ۱۹۴۲ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹرک پاس کر کے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی.۷ دسمبر ۱۹۴۹ء کو جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور ۱۹۵۳ء میں نمایاں کامیابی کے ساتھ شاہد کی ڈگری لی.اپریل ۱۹۵۵ء میں حضرت مصلح موعود کے ساتھ یورپ تشریف لے گئے اور لنڈن یونیورسٹی کے سکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں تعلیم حاصل کی.۴ اکتوبر ۱۹۵۷ء کور بوہ واپس تشریف لائے.۱۲ نومبر ۱۹۵۸ء کو حضرت مصلح موعود نے آپ کو وقف جدید کی تنظیم کا ناظم ارشاد مقرر فرمایا.آپ کی نگرانی میں اس تنظیم نے بڑی تیز رفتاری سے ترقی کی.حضرت مصلح موعود کی زندگی کے آخری سال میں اس تنظیم کا بجٹ ایک لاکھ ۷۰ ہزار روپے تھا جو خلافت ثالثہ کے آخری سال میں بڑھ کر دس لاکھ پندرہ ہزار تک پہنچ گیا.نومبر ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۶ء تک آپ نائب
212 صدر خدام الاحمدیہ رہے.۱۹۶۰ء کے جلسہ سالانہ پر آپ نے پہلی مرتبہ اس عظیم اجتماع میں خطاب فرمایا.اس کے بعد قریباً ہر سال ہی جلسہ سالانہ کے موقعہ پر خطاب فرماتے رہے.۱۹۶۱ء میں آپ افتاء کمیٹی کے ممبر مقرر ہوئے.۱۹۶۶ء سے نومبر ۱۹۶۹ء تک مجلس خدام الاحمدیہ کے صدر رہے.یکم جنوری ۱۹۷۰ء کو فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے.۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کے ایک نمائندہ پانچ رکنی وفد نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نور اللہ مرقدہ کی قیادت میں پاکستان اسمبلی کے سامنے جماعت احمدیہ کے موقف کی حقانیت کو دلائل و براہین سے واضح کیا.آپ اس وفد کے ایک رکن تھے.یکم جنوری ۱۹۷۹ ء کو آپ صدر مجلس انصار اللہ مقرر ہوئے اور خلیفہ منتخب ہونے تک اس عہد و پر فائز رہے.۱۹۸۰ء میں آپ احمد یہ آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئر ایسوی ایشن کے سرپرست مقرر ہوئے.جلسہ سالانہ ۱۹۸۰ء کے موقعہ پر اس ایسوسی ایشن نے جلسہ کی تقاریر کا ساتھ ساتھ انگریزی اور انڈو نیشین زبان میں ترجمہ پیش کرنے کا کامیاب تجربہ کیا.دور خلافت ۱۰ جون ۱۹۸۲ء کو حضرت مصلح موعود کی مقرر کردہ مجلس انتخاب خلافت کا اجلاس بعد نماز ظہر بیت مبارک میں زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل الا علی تحریک جدید منعقد ہوا اور آپکو بالاتفاق خلیفہ
213 امسیح الرابع منتخب کیا گیا اور تمام حاضرین مجلس نے انتخاب کے معا بعد حضور کی بیعت کی.حضور ۲۸ جولائی ۱۹۸۲ء کو یورپ کے دورہ پر روانہ ہوئے.آپ کے پروگرام کا بڑا مقصد مختلف مشنز کی کارکردگی کا جائزہ لینا اور بیت چین کا معینہ پروگرام کے مطابق افتتاح کرنا تھا.اس سفر میں حضور نے ناروے، سویڈن، ڈنمارک، جرمنی، آسٹریا، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ، سپین اور انگلستان کا دورہ کیا اور وہاں کے مشنز کا جائزہ لیا.سفر کے دوران تبلیغ وتربیت اور مجالس عرفان کے علاوہ استقبالیہ تقاریب کے ۱۸ پریس کانفرنسوں اور زیورک میں ایک پبلک لیکچر کے ذریعہ اہل یورپ کو پیغام حق پہنچایا.انگلستان میں دو نئے مشن ہاؤسز کا فتتاح کیا.یورپ کے ان ممالک میں ہر جگہ حضور نے مجلس شوریٰ کا نظام قائم فرمایا.نیز حضور نے تمام ممالک کے احمدیوں کو توجہ دلائی کہ وہ شرح کے مطابق لازمی چندوں کی ادائیگی کریں.۱۰ ستمبر ۱۹۸۲ء کو حسب پروگرام حضور نے ”بیت بشارت سپین کا تاریخ ساز افتتاح فرمایا اور واضح کیا کہ احمدیت کا پیغام امن و آشتی کا پیغام ہے اور محبت و پیار سے اہل یورپ کے دل اسلام کے لئے فتح کئے جائیں گے.”بیت بشارت پید رو آباد کے افتتاح کے وقت مختلف ممالک سے آنے والے قریباً دو ہزار نمائندے اور دو ہزار کے قریب اہالیانِ سپین نے شرکت کی.ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعہ بیت بشارت کے افتتاح کا سارے یورپ بلکہ
214 دوسرے ممالک میں بھی خوب چرچا ہوا اور کروڑوں لوگوں تک سرکاری ذرائع سے اسلام کا پیغام پہنچ گیا.الحمدللہ علی ذالک.حضور نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کے فضل سے یورپ میں اب ایسی ہوا چلی ہے کہ اہل یورپ دلیل سننے کی طرف مائل ہورہے ہیں.تحریک بیوت الحمد سپین میں تعمیر بیت کی توفیق ملنے پر ہر احمدی کا دل حمد باری تعالیٰ سے لبریز تھا اس حمد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے حضور نے اپنے خطبہ جمعہ فرموده ۲۹/اکتوبر ۱۹۸۲ء (اخاء ۱۳۶۱ ہش ) میں ارشاد فرمایا کہ خدا کے گھر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ہمیں غرباء کیلے مکان بنوانے کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہیئے حضور نے اس منصوبہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی طرف سے اس فنڈ میں دس ہزار روپے دینے کا اعلان فرمایا.اس وقت تک تحریک بیوت الحمد کے تحت ۱۰۰ کوارٹرز تعمیر ہو چکے ہیں اور ان میں خاندان آباد ہو چکے ہیں.داعی الی اللہ بننے کی تحریک سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۸۳ء کے آغاز میں ہی اپنے متعدد خطبات جمعہ میں جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ موجودہ زمانہ اس امر کا متقاضی ہے کہ ہر احمدی مرد، عورت، جوان، بوڑھا اور بچہ دعوت الی اللہ کے فریضہ کو ادا کرنے کیلئے میدان عمل میں اُتر آئے تا کہ وہ
215 ذمہ داریاں کما حقہ ادا کی جاسکیں جو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے کندھوں پر ڈالی ہیں.تحریک کا پس منظر اس تحریک کا پس منظر بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ اس وقت ایسے مہلک ہتھیار ایجاد ہو چکے ہیں جن کے ذریعہ چند لمحوں میں وسیع علاقوں سے زندگی کے آثار تک مٹائے جاسکتے ہیں.ایسے خطرناک دور میں جب کہ انسان کی تقدیر لامذہبی طاقتوں کے ہاتھ میں جا چکی ہے اور زمانہ تیزی.ہلاکتوں کی طرف جا رہا ہے.احمدیت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.احمدیت دنیا کو ہلاکتوں سے بچانے کا آخری ذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری کیا گیا ہے.آخری ان معنوں میں کہ اگر یہ بھی نا کام ہو گیا تو دنیا نے لازما ہلاک ہو جاتا ہے اور اگر کامیاب ہو جائے تو دنیا کو لیے عرصہ تک اس قسم کی ہلاکتوں کا خوف دامنگیر نہیں رہے گا.دعوت الی اللہ کے تقاضے داعی الی اللہ بننے کے کیا تقاضے ہیں اور وہ کس طرح پورے کئے جاسکتے ہیں.اس بارے میں حضور نے سورۃ حم السجدہ: ۳۴ ومَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وقَالَ انَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:.
216 مختلف مقاصد کی طرف بلانے والوں میں سے سب سے زیادہ حسن اور پیاری آواز اس بلانے والے کی ہے جو اپنے رب کی طرف بلائے لیکن اس کے ساتھ تین شرطیں لگا دیں.(۱) وہ اللہ کی طرف بلائے (۲) وہ عمل صالح رکھتا ہو.(۳) وہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں.درحقیقت اس آیت میں مسلمان بننے کی تعریف میں یہ امر شامل کر دیا کہ اس کے لئے داعی الی اللہ ہونا اور عمل صالح بجالا ناضروری ہے.داعی الی اللہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس دعوت میں بلانے والے کا ذاتی کوئی مقصد پنہاں نہ ہو.وہ خالصہ اللہ تعالیٰ کی خاطر اس کی طرف بلائے.من عمل صالح کی تشریح قرآن کریم میں یوں کی گئی ہے کہ :.إنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بان لَهُمُ الْجَنَّةَ ، (توبه ااا) یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کے نفوس بھی خرید لئے ہیں اور ان کے اموال بھی اور وہ اس کے بدلہ میں انہیں جنت عطا فرمائے گا.اس سودے میں نفوس کی قربانی بھی طلب کی گئی ہے اور اموال کی بھی اور نفوس کو مقدم کر کے اسے شرط اول قرار دیا ہے.پس عمل صالح میں جان کی قربانی، وقت کی قربانی اور مال کی قربانی سب آگئیں محض چندے ادا کر کے یہ سمجھ لینا کہ ذمہ داری ادا ہو گئی بالکل غلط ہے.یہ تو لنگڑا ایمان ہوا جس کی وجہ سے لازماً دعوۃ الی اللہ کے کام میں نقص واقع
217 ہوگا.اس وقت قریباً سوا تین لاکھ عیسائی مبلغ دنیا میں کام کر رہے ہیں.ان کے مقابل دو سویا چارسو مبلغوں کے ذریعہ ( دین حق ) کو دنیا میں غالب نہیں کیا جا سکتا.حضور نے فرمایا کہ میں تمام دنیا کے احمدیوں کو متنبہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد ان میں سے ہر ایک کو لازماً مبلغ بننا پڑے گا.خواہ اس کا تعلق زندگی کے کسی شعبہ سے ہو اور اسے خدا کے حضور اس کا جواب دہ ہونا پڑے گا.دعوۃ الی اللہ کا طریق دعوۃ الی اللہ کس طرح کرنی ہے.اس ضمن میں حضور نے سورۃ النحل کی آیات ۱۲۶ تا ۱۲۹) کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:.اذعر إلى سبيل ربك كے الفاظ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر خدا کی طرف بلانا ہے تو اس طبعی جذ بہ سے بلاؤ کہ گویا تم نے خدا کو پالیا ہے اور اس سے تمہارا ذاتی تعلق قائم ہو چکا ہے.پالینے والے کی آواز میں ایک یقین، ایک ہے شوکت اور ایک کشش ہوتی ہے جیسے عید کا چاند دیکھ لینے والا دوسروں کو بڑے وثوق اور شوق سے چاند دیکھنے کی دعوت دیتا ہے.خدائے تعالی کو پائے بغیر آواز ایسی ہی کھو کھلی اور بے اثر رہتی ہے.جیسے گڈریے کے لڑکے کی آواز تھی جو کہتا تھا کہ شیر آیا.شیر آیا.دوڑنا.پھر جو شخص خدا کو پالیتا ہے وہ دعوت الی اللہ کا پورا اہل ہو جاتا ہے.اسے کسی ہتھیار کی ضرورت نہیں رہتی.بعض لوگ تبلیغ کے معاملہ میں اپنی کم علمی کا عذر پیش
218 کرتے ہیں.یہ نفس کا دھوکا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جوسب سے بڑے اور کامیاب داعی الی اللہ تھے وہ ظاہری علوم سے بالکل بے بہرہ تھے.آپ کے امی ہونے میں ایک یہ حکمت بھی تھی کہ کم علمی کے سوال کو باطل کیا جائے.جو شخص خدا کو پالیتا ہے اسے دلائل خود بخود آ جاتے ہیں.پس کتابوں کا سوال بعد میں پیدا ہوتا ہے.اوّل اور اصل کام یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے ذاتی طور پر مضبوط تعلق قائم کیا جائے.کسی فرد نے خدا کو پا لیا ہے یا نہیں.اس کا ثبوت اس کی گفتار اور کردار سے مل سکتا ہے.جو شخص عمل صالح نہیں رکھتا.گالی گلوچ سے پر ہیز نہیں کرتا.دوسروں کے حقوق غصب کرتا ہے.ظلم کرتا اور لین دین کے معاملات میں صاف نہیں وہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ اس نے خدا کو پالیا ہے.دعوت الی اللہ کے بارے میں دوسری بات یہ فرمائی کہ وہ بالحكمة ہوئی چاہئے.حکمت کے بہت سے پہلو ہیں.مثلاً (۱) موقعہ محل کے مطابق بات کی جائے.(۲) گفتگو کے دوران سب سے مضبوط دلیل پہلے پیش کی جائے.(۳) عمومی تبلیغ کے علاوہ بعض سنجیدہ اور مناسب افراد کو منتخب کر کے انہیں پیغام حق پہنچایا جائے.(۴) منتخب شدہ افراد کو صرف ایک دفعہ تبلیغ کافی نہیں.سچائی بار بار ان کے گوش گزار کی جائے.(۵) کوئی شخص بات سنے کیلئے تیار نہ ہوتو اس سے نصیحت کی بات کہہ کر اعراض کیا جائے.تیسری بات یہ بتلائی کہ دعوت موعظہ حسنہ کے رنگ میں شروع کی جائے.مخاطب کو جتلایا جائے کہ تبلیغ میں ان کا ذاتی مفاد کوئی نہیں بلکہ اس کی ہمدردی اور
219 بھلائی مقصود ہے.کیونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جن قوموں نے خدا کی طرف بلانے والوں کا انکار کیا ہے وہ بالآخر ہلاک ہو گئے ہیں.اس لئے آج جو پکارنے والا پکار رہا ہے عقلمندی اسی میں ہے کہ اس کے پیغام پر کان دھرا جائے.پھر آیت وَاصْبِرُ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ دعوت الی اللہ میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب مخاطب بھڑک اٹھتے اور در پے آزار ہو جاتے ہیں.ایسی صورت میں فرمایا کہ بہترین طرز عمل یہ ہے کہ زیادتی پر صبر کیا جائے.قول کے لحاظ سے صبر یہ ہے کہ اذیتوں کو دیکھ کر دعوت الی اللہ کا کام ترک نہیں کرنا اور نہ کسی سے خوف کھانا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ۱۳ سال تک شدید ایذاؤں کے باوجود دعوۃ الی اللہ میں مصروف رہے.عمل کے لحاظ سے صبر یہ ہے کہ گالی کا جواب گالی سے نہیں دینا.ان حالات میں غصہ کی بجائے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے اور محبت و پیار سے سمجھاتے سے دو.چلے جانا چاہئے.احسن عمل یہ ہے کہ بدی کا جواب اچھائی اور حسن سلوک.بدی خود بخود کم ہو جائے گی.پھر صبر سے کام کرتے چلے جاؤ تو تمہاری استقامت اثر پیدا کرے گی.محبت کا سلوک جاری رہے اور قول و فعل میں حسن برقرار رہے تو اس کا نتیجہ بالآخر یہ نکلتا ہے کہ جو پہلے جانی دشمن ہوتے ہیں وہ دلی دوست بن جاتے ہیں.وَمَا صَبَرُكَ إِلَّا بِاللہ میں یہ بھی فرمایا کہ خدا تعالی کی مدد کے بغیر دعوت الی اللہ کا کام کامیابی سے نہیں کیا جا سکتا.اس لئے دعوۃ کے کام کے دوران اول و
220 آخر دعاؤں پر زور دو اور خدا تعالیٰ سے استعانت طلب کرتے رہو.دلوں کو بدلنا اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور نتائج اسی کے فضل سے ہی خاطر خواہ نکلتے ہیں.حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو ہر ممکن طریق سے داعی الی اللہ بن جانے کی تحریک فرمائی.متعدد خطبات بار بار ہے.بار بار میٹنگز بلانے کی تلقین فرمائی.مختلف زبانوں میں لٹریچر اس غرض کیلئے تیار کرایا.لجنہ اماءاللہ کو دعوت الی اللہ میں جھونکا جماعتوں کو ہر سال نئے نئے ٹارگٹ دیئے.داعیان الی اللہ کی خطوط کے ذریعہ حوصلہ افزائی فرمائی.داعیان الی اللہ کے دلچسپ واقعات کا جلسہ سالانہ کے مواقع پر ذکر فرمایا.مجالس سوال و جواب متعدد فرمائیں اور مخالفانہ اعتراضات کارڈ فرمالیا.پاکستان میں دعوت الی اللہ کی الگ نظارت قائم فرمائی، عالمی بیعت کے ذریعہ دعوت الی اللہ کے مقاصد حاصل کرنے کی بھر پور سعی ہوئی.حضور احباب جماعت کو ولولہ انگیز انداز میں دعوت الی اللہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:.وپس میں تمام احباب جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ تمام دنیا کے انسانوں کو خدائے حی و قیوم کی طرف بلائیں.مشرق کو بھی بلائیں اور مغرب کو بھی بلائیں.کالے کو بھی بلائیں اور گورے کو بھی بلائیں.عیسائی کو بھی بلائیں اور ہندو کو بھی.بھٹکے ہوئے لوگوں کو بھی بلائیں اور دہریوں کو بھی.مشرقی بلاک کو بھی بلانا آج آپ کے سپرد کیا گیا اور مغربی بلاک کو بلا نا بھی آج آپ کے ذمہ لگایا گیا
221 ہے.یہ آپ ہی ہیں جنہوں نے دنیا کوموت کے بدلہ زندگی بخشنی ہے.اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو مرنے والے مر جائیں گے اور اندھیروں میں بھٹکنے والے ہمیشہ بھٹکتے رہیں گے.اس لئے اے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامو! اور اے دین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے متوالو! اب اس خیال کو چھوڑ دو کہ تم کیا کرتے ہو اور تمہارے ذمہ کیا کام لگائے گئے ہیں.تم میں سے ہر ایک مبلغ ہے اور ہر ایک خدا کے حضور اس بات کا جواب دہ ہوگا.تمہارا کوئی بھی پیشہ ہو.کوئی بھی تمہارا کام ہو.دنیا کے کسی خطہ میں تم بس رہے ہو کسی قوم سے تمہارا تعلق ہو.تمہارا اولین فرض یہ ہے کہ دنیا کو محمد مصطفیٰ کے رب کی طرف بلا ؤ اور ان کے اندھیروں کو نور میں بدل دو اور ان کی موت کو زندگی بخش دو“.(الفضل ۱۲۳ مئی ۱۹۸۳ صفحه۱۰) اسی تسلسل میں آپ نے فرمایا :.میں بار بار یہ اعلان کر رہا ہوں کہ داعی الی اللہ بنو.دنیا کو نجات کی طرف بلاؤ.دنیا کو اپنے رب کی طرف بلاؤ.ورنہ اگر بے خدا انسان کے ہاتھ میں دوسروں کی تقدیر چلی جائے تو ان کی ہلاکت یقینی ہو جاتی ہے.ہر احمدی بلا استثناء داعی الی اللہ بنے وہ وقت گزر گیا جب چند مبلغین پر انحصار کیا جاتا تھا.اب تو بچوں کو بھی داعی الی اللہ بنا پڑے گا.بوڑھوں کو بھی داعی الی اللہ بننا پڑے گا.
222 یہاں تک کہ بستر پر لیٹے ہوئے بیماروں کو بھی داعی الی اللہ بنا پڑے گا اور کچھ نہیں وہ دعاؤں کے ذریعہ دعوت الی اللہ کے جہاد میں شامل ہو سکتے ہیں.دن رات اللہ سے گریہ وزاری کر سکتے ہیں کہ اے خدا ہمیں اتنی طاقت نہیں ہے کہ ہم چل پھر کر تبلیغ کرسکیں اس لئے بستر پر لیٹے لیٹے تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ تو دلوں کو بدل دے“.(الفضل ۳۱ مئی ۱۹۸۳ء صفه ۵،۴) امریکہ میں جب ایک مخلص احمدی ڈاکٹر مظفر احمد صاحب کو شہید کیا گیا تو حضور نے فرمایا:.دعوت الی اللہ کی جو جوت میرے مولا نے میرے دل میں جگائی ہے اور آج ہزار ہا احمدی سینوں میں یہ کو جل رہی ہے اس کو مجھنے نہیں دینا.اس کو بجھنے نہیں دینا.تمہیں خدائے واحد و یگانہ کی قسم اس کو بجھنے نہیں دینا.اس مقدس امانت کی حفاظت کرو میں خدائے ذوالجلال والاکرام کے نام کی قسم کھا کر کہتا ہوں اگر تم اس شمع نور کے امین بنے رہو گے تو خدا اسے کبھی بجھنے نہیں دے گا.یہ کو بلند تر ہوگی اور پھیلے گی اور سینہ بہ سینہ روشن ہوتی چلی جائے گی اور تمام روئے زمین کوگھیر لے گی اور تمام تاریکیوں کو اجالوں میں بدل دے گی.(الفضل ۲۲/ اگست ۱۹۸۳ء صفحه ۳) احمدیت کی نئی صدی میں داخل ہونے سے قبل جماعت کو دعوت الی اللہ کی
223 طرف خاص طور پر توجہ دلائی چنانچہ فرمایا.وو ” ہر احمدی کو آئندہ دو سال کیلئے دوبارہ یہ عہد کرنا چاہئے کہ سال میں ایک دفعہ ایک احمدی بنانے کا جو میں عہد کرتا رہا ہوں یا سنتا رہا ہوں کہ مجھے یہ عہد کرنا چاہئے.اب سو سالہ جشن منانے میں آخری دو سال رہ گئے ہیں ان دو سالوں میں بھی اپنا نام خدا تعالیٰ کی اس فہرست میں لکھوالو جس کا ذکر قرآن کریم کی ان آیات میں ملتا ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی خاطر اچھا کام کرتا ہے اس پر خدا تعالیٰ کی نظر پڑتی ہے.تو کہیں یہ نہ ہو کہ سوسال کا عرصہ گزر جائے اور پہلے سوسال میں کہیں شمار ہی نہ ہو یہ بہت ہی اہم فریضہ ہے جسے اگلے سو سال کی تیاری کیلئے ہمیں ادا کرنا ہے“.دو (خطبہ جمعہ ۳۰/ جنوری ۱۹۸۷ء) آپ کو چاہئے کہ اس شان سے اگلی صدی میں داخل ہوں کہ آپ کے ساتھ ایک ذریت طیبہ ہو.یعنی متقیوں کی ایک عظیم الشان روحانی اولاد ہو جو آپ کے ساتھ ساتھ اجتماعی رنگ میں ایک جلوس بناتے ہوئے اس گیٹ سے گذر رہی ہو اس کیلئے بہت ہی محنت کی ضرورت ہے.سب سے بڑی اور پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ اس اہم منصوبہ کا احساس آپ کے دل میں اس قوت کے ساتھ جاگزیں ہو جائے کہ آپ اس احساس کو کسی طرح بھلا نہ
224 سکیں.صبح بھی یہ احساس لے کر اُٹھیں اور رات کو بھی یہ احساس لے کر سوئیں اور دن کو بھی سارا وقت آپ کے دل میں یہ احساس بیدار ر ہے گویا ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ اپنے دل کو کریدتا رہے کہ اس نے کتنے احمدی بنائے ہیں.( خطبہ جمعہ ۳۰/ جنوری ۱۹۸۷ء) حضور کی ان دیوانہ وار کوششوں اور متضرعانہ دعاؤں کو خدا تعالیٰ نے قبول فرمایا اور خدا تعالیٰ نے ساری دنیا میں اپنی خاص نصرت کی ہوائیں چلائیں جس سے دعوت الی اللہ کے گراف غیر معمولی رنگ میں بلند ہوئے.تحریک وقف نو احمدیت کے قیام پر ۲۳ مارچ ۱۹۸۹ء کو سو سال پورے ہونے پر خدا تعالیٰ کے احسانوں پر تشکر کے جذبات کے اظہار کیلئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے دسمبر ۱۹۷۳ء میں صد سالہ جشن تشکر منصوبے کا اعلان فرمایا.جس پر کام کا آغاز آپ کی زندگی میں ہوا.مگر جون ۱۹۸۲ء میں آپ کی وفات کے بعد حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے دورِ خلافت ثالثہ کے اس منصوبہ کی تکمیل کیلئے کئی کام کئے.جوں جوں نئی صدی قریب آتی گئی حضور کے دل میں نئی صدی کے استقبال کیلئے مزید جوش اور ولولہ پیدا ہوتا رہا اور اسی کے تحت آپ نے ۱۳ اپریل ۱۹۸۷ء کو ایک تحریک فرمائی جو تحریک وقف نو کے نام سے موسوم ہے.
225 حضور انور رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں فرمایا:." میں نے یہ سوچا کہ ساری جماعت کو میں اس بات پر آمادہ کروں کہ انگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے جہاں ہم روحانی اولاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں دعوت الی اللہ کے ذریعہ وہاں اپنے آئندہ ہونے والے بچوں کو خدا کی راہ میں ابھی سے وقف کر دیں اور یہ دعا مانگیں کے اے خدا ہمیں ایک بیٹا دے لیکن اگر تیرے نزدیک بیٹی ہی ہونا مقدر ہے تو ہماری بیٹی ہی تیرے حضور پیش ہے.مائیں دعائیں کریں اور والد بھی ابراہیمی دعائیں کریں کہ اے خدا ہمارے بچوں کو اپنے لئے چن لے ان کو اپنے لئے خاص کر لے.اس وقف کی شدید ضرورت ہے.آئندہ سو سالوں میں جس کثرت سے اسلام نے ہر جگہ پھیلنا ہے وہاں لاکھوں تربیت یافتہ غلام چاہئیں جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے غلام ہوں.واقفین زندگی چاہئیں کثرت کے ساتھ اور ہر طبقہ زندگی سے واقفین زندگی چاہئیں.ہر ملک سے واقفین زندگی چاہئیں.آپ اگلی صدی میں خدا کے حضور جو تھے بھیجنے والے ہیں یا مسلسل بھیج رہے ہیں.احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بے شمار چندے دے رہے ہیں مالی قربانیاں کر رہے ہیں.وقت کی قربانیاں کر رہے ہیں.واقلمین زندگی ہیں ایک تحفہ جو مستقبل کا تحفہ
226 ہے وہ باقی رہ گیا تھا.مجھے خدا نے یہ توجہ دلائی کہ میں آپ کو بتا دوں کہ آئندہ دو سال کے اندر یہ عہد کر لیں جس کو بھی جو اولاد نصیب ہوگی وہ خدا کے حضور پیش کر دئے“.اس تسلسل میں حضور نے بچوں کے والدین کو مخاطب کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا:.بچپن ہی سے ان کی اعلیٰ تربیت کرنی شروع کر دیں اور اعلیٰ تربیت کے ساتھ ان کو بچپن ہی سے اس بات پر آمادہ کرنا شروع کریں کہ تم ایک عظیم مقصد کیلئے ایک عظیم الشان وقت میں پیدا ہوئے ہو جب کہ غلبہ اسلام کی ایک صدی غلبہ اسلام کی دوسری صدی سے مل گئی ہے.اس سنگم پر تمہاری پیدائش ہوئی ہے اور اس نیت اور دعا کے ساتھ ہم نے تجھ کو مانگا تھا خدا سے کہ اے خدا! تو آئندہ نسلوں کی تربیت کے لئے ان کو عظیم الشان مجاہد بنا.اگر اس طرح دعائیں کرتے ہوئے لوگ اپنے آئندہ بچوں کو وقف کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ ایک بہت ہی حسین اور بہت ہی پیاری نسل ہماری آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے اپنے آپ کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کیلئے تیار ہو جائے گی“.۱۱۰ فروری ۱۹۸۹ء کو بیت الفضل لندن میں خطبہ دیتے ہوئے حضور نے واقفین کی تربیت کیلئے مفصل ہدایات دیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے.
227 ہیں والدین کو چاہئے کہ ان بچوں کے اوپر سب سے پہلے خود گہری نظر رکھیں.ہر واقف زندگی بچہ جو وقف نو میں شامل ہے بچپن سے ہی اس کو سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہونی چاہئے.بچپن ہی سے ان بچوں کو قانع بنانا چاہئے اور حرص و ہوا سے بے رغبتی پیدا کرنی چاہئے.دیانت اور امانت کے اعلیٰ مقام تک ان بچوں کو پہنچانا ضروری ہے.بچپن سے ہی ایسے بچوں کے مزاج میں شگفتگی پیدا کرنی چاہئے.ہیں اپنے گھر میں اچھے مزاح کو جاری کریں قائم کریں لیکن بُرے مزاح کے خلاف بچوں کے دل میں بچپن سے ہی نفرت اور کراہت پیدا کریں.ہی واقفین بچے غریب کی تکلیف سے منی نہ بنیں.امیر کی امارت سے غنی ہو جائیں.کسی کو اچھا دیکھ کر انہیں تکلیف نہ پہنچے.ابتداء ہی سے واقفین بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم کی طرف سنجیدگی سے متوجہ کریں.بچپن ہی سے واقفین بچوں کو جنرل نالج بڑھانے کی طرف متوجہ کرنا چاہیئے.واقفین بچوں کو شروع ہی سے غصے کو دبانے کی عادت ہونی چاہئے.واقفین بچوں کو مالی لحاظ سے بہت ہی درست ہونا چاہئے.اکاؤنٹس کے متعلق تمام واقفین بچوں کو شروع سے ہی تربیت دینی چاہئے.واقفین بچوں میں جفاکشی کی عادت، نظام جماعت کی اطاعت شروع
228 سے ہی ڈالنی چاہئے.واقفین بچوں میں وقف کو وفا سے نبھانے کا مادہ پیدا کریں.۱۷ / فروری ۱۹۸۹ء کو ہالینڈ میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے حضور نے واقفین کیلئے مزید ہدایات دیں.جن کا خلاصہ یہ ہے.واقفین کی تیاری کے سلسلے میں ان کی بدنی صحت کا بھی خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے.بچوں کے علم کا دائرہ وسیع کرنا چاہئے.گندے لٹریچر سے بچوں کو دور رکھنا چاہئے.سب سے زیادہ زور شروع سے ہی عربی زبان پر دینا چاہئے.بچوں کو اتنی معیاری اُردو سکھانی ضروری ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لٹریچر سے براہ راست استفادہ کر سکیں.آئندہ واقفین نسلوں کو کم از کم تین زبانوں کا ماہر بنانا ہوگا.عربی ،اُردواور مقامی زبان.حمل واقفین بچوں کے اخلاق پر خصوصیت سے توجہ کی ضرورت ہے.واقفین بچیوں کیلئے اُستانیاں، لیڈی ڈاکٹرز، کمپیوٹر سپیشلسٹ ، ٹائپسٹ بنانے کی تلقین.بچوں کی تربیت میں دعاؤں سے بہت زیادہ کام لیں.خود ان کے لئے دعا کریں اور ان کو دعا کرنے والے بچے بنا ئیں.
229 ۱۸ ستمبر اور یکم دسمبر ۱۹۸۹ء کے خطبات میں بھی بچوں کے والدین کیلئے حضور نے ہدایات دیں اور فرمایا کہ بچوں کو بچپن ہی سے متقی بنا ئیں.ابتداء میں تحریک وقف نو دو سال کیلئے تھی.پھر حضور نے اسے مزید دو سال کیلئے بڑھایا اور پھر احباب جماعت کے اشتیاق کے پیش نظر یہ تحریک دائمی تحریک بن گئی.۱۹۹۲ء میں حضور نے واقفین نو بچوں کی تربیت کی خاطر ایک نئی وکالت قائم فرمائی.جو وکالت وقت نو کہلاتی ہے.حضور کی ہدایات کی روشنی میں دنیا بھر میں احمدی احباب اپنے بچوں کی تربیت کر رہے ہیں.مقامی جماعتوں میں سیکرٹریان وقف نو کا بھی اسی غرض کیلئے تقرر کیا جاتا ہے تا وہ بچوں کی تربیت کر سکیں.اس وقت واقفین نو بچوں کی تعداد ۲۶ ہزار سے تجاویز کر گئی ہے.ایم ٹی اے ہمارا دل، ہمارا جسم، ہماری روح کا ہر ذرہ خوش ہے.خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گا رہا ہے اور غیر معمولی مسرت کے جذبات سے جھوم رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے کی عظیم الشان نعمت سے نوازا.ایم ٹی اے در حقیقت متعدد پیشگوئیوں کا مجموعہ اور بے شمار خدا کے فضلوں احسانوں اور انعاموں پر مشتمل ایک عظیم الشان نشان ہے.ایم ٹی اے کی مختصر تاریخ درج ذیل ہے.۳۱ جنوری ۱۹۹۲ء میں حضور کا خطبہ پہلی دفعہ مواصلاتی سیارہ کے ذریعہ
230 بر اعظم یورپ میں دیکھا اور سنا گیا.حمله ۳۱/ جولائی تا ۲/ اگست ۱۹۹۲ء جلسه سالانه انگلستان براہِ راست ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا.۲۱/اگست ۱۹۹۲ء حضور کے خطبات جمعہ سیٹلائٹ کے ذریعہ چار براعظموں میں نشر ہونا شروع ہوئے.یعنی یورپ، ایشیا، افریقہ اور آسٹریلیا.۱۹۹۳ء میں شمالی امریکہ میں سیٹلائٹ کے ذریعہ حضور کے خطبات کی باقاعدہ ٹرانسمشن کا آغاز ہوا.ہیں سے جنوری ۱۹۹۴ء سے باقاعدہ مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کی روزانہ سروس کا آغاز ہوا اور یورپ میں تین گھنٹے اور ایشیا میں بارہ گھنٹے کے پروگرام نشر ہونا شروع ہوئے.حمل ۱۹۹۴ء میں جماعت احمدیہ امریکہ اور کینیڈا کی مشترکہ کاوشوں سے قائم ہونے والے ارتھ سٹیشن کا قیام عمل میں آیا.۱۹۹۵ء میں انٹرنیٹ پر احمد یہ ویب سائٹ قائم ہوئی اور ۱۹۹۶ء میں اس نے حضور کا خطبہ جمعہ نشر کرنا شروع کر دیا.یکم اپریل ۱۹۹۶ء کو ایم ٹی اے کی ۲۴ گھنٹے کی نشریات کا آغاز ہوا.اس موقع پر لندن میں ایک بہت پُر مسرت تقریب منعقد ہوئی جس سے ہمارے پیارے آقا نے خطاب فرمایا اور ایم ٹی اے کی تاریخ ، مقاصد اور در پیش مشکلات اور افضال الہی پر روشنی ڈالی.یہ خطاب تمام دنیا کی
231 جماعتوں نے براہِ راست سنا.حضور نے فرمایا:.آج اللہ تعالی کے فضل ورحم کے ساتھ احمدیت کی تاریخ میں ایک نیا روشن دن طلوع ہورہا ہے.یہ وہ دن ہے جس کی انتظار میں ہم دن گنا کرتے تھے یعنی وہ دن جب کہ ایم ٹی اے نے اپنے ایک نئے روشن تر دور میں داخل ہونا تھا اور چوبیس گھنٹے مسلسل خدائے واحد کا پیغام تمام دنیا کے کناروں تک پہنچایا جانا تھا.یہ وہ دن ہے جس کے انتظار میں ہم نے بہت کٹھن وقت گزارے.بہت محبت اور پیار اور خدا کے حضور التجاؤں کے ساتھ اس دن کی راہ میں آنکھیں بچھائیں اور دل بار ہا اندیشوں میں دھڑکتا رہا کیونکہ بارہا کئی قسم کے ابتلاء در پیش تھے کئی قسم کی ٹھوکریں راہ میں تھیں لیکن ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کی تقدیر، اس کی حفاظت خاص نے ہمیں سنبھال لیا اور جب کوئی اور راہ نہ پاتے تھے تو آسمان ہی سے وہ راہ اُترتی تھی جس سے مستقبل کی امیدیں پھر جاگ اُٹھتی تھیں اور آگے بڑھنے لگتی تھیں“.(الفضل انٹر نیشنل لندن ۲۷ جون ۱۹۹۷ صفحه ۳) ۱۲۱ جون ۱۹۹۶ء کو ایم ٹی اے کے نظام میں ایک اور اہم تبدیلی نظر آئی جو ی تھی کہ حضور کے کینیڈا کے سفر کے موقع پر دوطرفہ رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا.یعنی کینیڈا میں حضور کا خطبہ نشر ہو رہا تھا اور لندن کی تصاویر کینیڈا اپنی رہی تھیں اور
232 تمام دنیا کے احمدی ان دونوں تصاویر کو بیک وقت دیکھ کر حمد وثنا کے ترانے گا رہے تھے.اس موقع پر حضور نے فرمایا :.گذشتہ ایک موقعہ پر میں نے جماعت سے یہ گزارش کی تھی کہ میں امید کرتا ہوں کہ وہ دن بھی آئیں گے جب ہم دوطرفہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے.پس آج کے مبارک جمعہ سے اس دن کا آغاز ہو رہا ہے.اس وقت انگلستان میں مختلف مراکز میں بیٹھے ہوئے احمدی ہمیں دیکھ رہے ہیں اور ان کی تصاویر یہاں پہنچ رہی ہیں اور بیک وقت ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں...یہ دراصل ایک عظیم پیشگوئی تھی جو ایک پہلو سے تو بارہا پوری ہو چکی اب ایک نئے پہلو سے بھی پوری ہورہی ہے.حضرت امام جعفر صادق سے مروی ہے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بہت بلند فرمائے.بہت بڑے بزرگ بہت پائے کے امام تھے اور عارف باللہ تھے اس میں قطعاً ایک ذرے کا بھی شک نہیں آپ نے فرمایا.ہمارے امام القائم کے زمانے میں یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام مہدی معہود کے زمانے میں مشرق میں رہنے والا مومن مغرب میں رہنے والے اپنی دینی بھائی کو دیکھ سکے گا.اس طرح مغرب میں بیٹھا ہوا مومن اپنے مشرق میں مقیم بھائی کو دیکھ سکے گا“.(الفضل انٹر نیشنل ۹/ اگست ۱۹۹۶ء صفحه ۵)
233 یکم اپریل ۱۹۹۶ء سے شروع ہونے والی ۲۴ گھنٹے کی نشریات سے مشرق وسطی کے بعض ممالک نیز افریقہ اور مشرق بعید کے ممالک محروم تھے.۱۷ جولائی ۱۹۹۶ء سے گلوبل ہیم کے ذریعہ ان ممالک تک بھی ایم ٹی اے کی نشریات پہنچانے کا انتظام ہو گیا.اس سلسلہ میں محمود ہال لندن میں ایک نہایت مبارک تقریب ہوئی جس میں حضور انور کی موجودگی میں افریقن احبار بچوں، نوجوانوں اور مستورات نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید پر مشتمل گیت گائے اور افریقن ممالک سے اس دن کیلئے تیار کردہ خصوصی پروگرام دکھائے گئے.الفضل انٹر نیشنل ۱۱۹ جولائی ۱۹۹۶ صفحہ۱۱) 1999ء میں ایم ٹی اے ایک نئے دور میں داخل ہوا.حضور رحمہ اللہ نے جلسہ سالا نہ لندن ۱۹۹۹ء کے موقع پر اس کی تفاصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:.یورپ اور مشرق اوسط میں ڈیجیٹل نشریات کا آغاز ہو چکا ہے اس سال یورپ کے سب سے مقبول سیارے پر جس پر ۳۰۰ چینل کام کر رہے ہیں ایم ٹی اے کو جگہ مل گئی ہے.اب ہم سو فیصدی اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے پانچوں براعظموں میں اب ایم ٹی اے کی نشریات دیکھی جاسکتی ہیں“.الفضل ربوه ۱۶/ اگست ۱۹۹۹ صفحه۱) ایم ٹی اے اپنے جلو میں متعدد پیشگوئیوں کو سموئے ہوئے ہے ان میں سے بعض کا تذکرہ کیا جاتا ہے.
234 متی کی انجیل میں لکھا ہے:.وو جیسے بجلی مشرق سے چمک کر مغرب تک دکھائی دیتی ہے ویسے ہی ابن آدم کی آمد ہوگی“.(متی باب ۲۴: آیت ۲۷) وہ ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتا دیکھیں گے.تب وہ نر سنگے کی بڑی آواز کے ساتھ اپنے فرشتوں کو بھیجے گا اور وہ آسمان کے افق سے لے کر افق تک چاروں طرف سے اس کے برگزیدوں کو جمع کریں گے.(متی باب ۲۴: آیت ۳۰، ۳۱) حضرت امام جعفر صادق کا پہلے بھی ذکر آچکا ہے ان کی ایک پیشگوئی کا ذکر بحارالانوار میں یوں بھی ملتا ہے.ایک منادی آسمان سے آواز دے گا جسے ایک نوجوان لڑکی پردے میں رہتے ہوئے بھی سنے گی اور اہل مشرق و مغرب بھی سنیں گئے.بینابیع المودہ میں حضرت علی کی ایک پیشگوئی ان الفاظ میں ہے.جب قائم آل محمد یعنی امام مہدی آئے گا تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے اہل مشرق و مغرب کو جمع کر دے گا“.بحارالانوار میں حضرت امام باقر کی ایک پیشگوئی یوں درج ہے.ہمارے امام قائم جب مبعوث ہونگے تو اللہ تعالیٰ ہمارے گروہ کی شنوائی اور بینائی کو بڑھا دے گا یہاں تک کہ امام قائم اور
235 ان کے درمیان معمولی فاصلہ رہ جائے گا جب وہ امام ان سے بات کریں گے تو وہ انہیں سنیں گے اور انہیں دیکھیں گے.جب کہ امام اپنی جگہ پر ہی ٹھہرا رہے گا“.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو یہ بشارت دی گئی کہ ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اس وعدہ کو بھی خدا تعالیٰ نے بڑی شان و شوکت سے پورا فرمایا.اسی طرح ۱۸۹۷ء کو آپ کو الہام بتایا گیا.الْأَرْضُ وَالسَّمَاءِ مَعَكَ كَمَا هُوَ مَعِی.اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا.آسمان کا ساتھ ہونا ایم ٹی اے کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے اور یہ امر واقعہ ہے کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ کل عالم میں آسمان نے جو گواہیاں دی ہیں وہ حیرت انگیز ہیں“.(الفضل انٹرنیشنل ۱۲/ ستمبر ۱۹۹۷ء) ۱۷ جنوری ۱۹۳۸ء کو بیت اقصیٰ قادیان میں پہلی دفعہ لاؤڈ سپیکر لگا.اس موقع پر خطبہ جمعہ دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے جو پیشگوئی کی اسے حیرت انگیز طور پر اللہ تعالیٰ نے ۷ / جنوری ۱۹۹۴ء کو اس طرح پورا فرمایا کہ احمد یہ مسلم ٹیلیویژن کی روزانہ سروس کا آغاز ہوا.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:.اب وہ دن دور نہیں کہ ایک شخص اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا ساری "
236 دنیا میں درس و تدریس پر قادر ہو سکے گا.ابھی ہمارے حالات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے ، ابھی ہمارے پاس کافی سرمایہ نہیں اور ابھی علمی وقتیں بھی ہمارے راستے میں حائل ہیں لیکن اگر یہ تمام دقتیں دور ہو جائیں اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ ہمیں ترقی دے رہا ہے اور جس سرعت سے ترقی دے رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریب زمانہ میں ہی یہ تمام دقتیں دور ہو جائیں گی تو بالکل ممکن ہے کہ قادیان میں قرآن اور حدیث کا درس دیا جا رہا ہو اور جاوا کے لوگ اور امریکہ کے لوگ اور انگلستان کے لوگ اور فرانس کے لوگ اور جرمن کے لوگ اور آسٹریا کے لوگ اور ہنگری کے لوگ اور عرب کے لوگ اور مصر کے لوگ اور ایران کے لوگ اور اسی طرح تمام ممالک کے لوگ اپنی اپنی جگہ وائرلیس کے سیٹ لئے ہوئے وہ درس سن رہے ہوں.یہ نظارہ کیا ہی شاندار نظارہ ہوگا اور کتنے ہی عالی شان انقلاب کی یہ تمہید ہوگی کہ جس کا تصور کر کے بھی آج ہمارے دل مسرت و انبساط سے لبریز ہو جاتے ہیں“.(الفضل ۱۳/ جنوری ۱۹۳۸ء صفحہ ۲) ایم ٹی اے کے ذریعہ بے شمار برکات کا ظہور ہورہا ہے.یہ ساری دنیا کو وحدت کی لڑی میں پرونے کا ذریعہ ہے.ہا ہم اپنے پیارے امام کی آواز گھر بیٹھے ہوئے سنتے ہیں اور اپنے دلوں کی
237 پیاس بجھاتے ہیں.ی ایم ٹی اے کے سارے پروگرام ساری دنیا میں نشر ہوتے ہیں اس طرح ساری دنیا میں پیغام حق پہنچانے کا یہ مؤثر ذریعہ ہے.ایم ٹی اے صحبت صالحین کا بہت اعلیٰ اور بابرکت ذریعہ ہے.ایم ٹی اے کے ذریعہ ہم حضور کی تمام مجالس عرفان کو دیکھ سکتے ہیں.یہ امام وقت کی تحریکات کو جلد تر ہر جگہ پہنچانے کا اعلیٰ ترین نظام ہے.ایم ٹی اے کے ذریعہ بچوں، بڑوں،عورتوں اور مردوں کی دلچسپ انداز میں تربیت ہورہی ہے اور علمی پیاس بجھانے کے ہر قسم کے سامان ہیں.اس وقت دنیا بھر میں بہت سے ٹی وی چینل گند پھیلا رہے ہیں جب کہ ایم ٹی اے ان تمام زہروں سے پاک اور زہریلے مادوں کا علاج ہے.ایم ٹی اے کے ذریعہ جماعت کے متعد د کارکن رضا کارانہ طور پر کام کر رہے ہیں اور یہ با برکت ٹی وی اُن کے اندر حیرت انگیز تبدیلی پیدا کرنے کا موجب ہوا ہے.۲۳.مارچ ۲۰۰۷ ء وہ تاریخی دن تھا جب دنیائے عرب کے لئے عربی زبان کے لئے ایم اے الثالثہ ، العربیہ کے نام سے ایک نئے چینل کا اجراء ہوا.اس کی نشریات دن اور رات مقبول ترین عرب سیٹ پر جاری رہیں.
238 عالمی بیعت ہمارے پیارے آقا نے خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے ہوئے ۱۹۹۳ء میں دعوت الی اللہ کی مہم میں تیزی پیدا کرنے کیلئے ایک سکیم جاری فرمائی جو یہ تھی کہ جلسہ سالانہ برطانیہ میں ایم ٹی اے کے ذریعہ ایک خاص بیعت لی جائے.اس بیعت میں جہاں جلسہ سالانہ برطانیہ میں شامل ہونے والے تمام دوست شریک ہوں وہاں دنیا بھر کے تمام احمدی بھی شامل ہوں.اس ضمن میں حضور نے یہ بھی فرمایا :.جلسہ سالانہ پر جو عظیم الشان بیعت کا عالمی پروگرام بنایا گیا ہے اس میں بڑے بڑے صاحب اثر لوگ جلسہ پر آئیں گے.ہم ان کو خاص دعوت دیں گے وہ کمانڈر کے طور پر یہاں آ کر بیعت کریں گئے.دنیا بھر میں بسنے والے احمدیوں کو اس بیعت سے قبل پُر زور انداز میں حضور نے دعوت الی اللہ کی تلقین فرمائی اور مختلف ٹارگٹ دیئے.حضور کی اس سکیم میں خدا تعالیٰ نے غیر معمولی برکت ڈالی اور عالمی بیعت کے پہلے سال دو لاکھ چار ہزار تین سو آٹھ افراد جماعت میں شامل ہوئے.جماعت اس موقع پر غیر معمولی خوشی اور مسرت سے سجدہ ہائے شکر بجالا رہی تھی.۱۹۹۳ء کے سال کو خدا تعالیٰ نے سنگ میل بنا دیا اور جماعت ہر سال غیر معمولی ترقیات کی طرف آگے بڑھنے لگی.حضور نے جماعت کو ہر سال دگنی بیعتوں کے ٹارگٹ دیئے.
239 چنانچہ ۱۹۹۳ء سے لیکر ۲۰۰۳ ء تک یعنی گیارہ سالوں میں ۱۶ کروڑ ۵۷ لاکھ ۶۸ ہزار ۸۸ نئے افراد جماعت میں شامل ہوئے.عالمی بیعت میں جو نئے افراد شامل ہوئے ان کی سال وار تفصیل یہ ہے.سال تعداد 204308 $1993 421753 $1994 847725 $1995 1602721 $1996 3004585 $1997 5004591 $1998 10820226 $1999 41308975 $2000 81006721 $2001 20654000 $2002 892483 $2003 اس بیعت میں دنیا بھر میں احمدی شکر وحمد کے جذبات کے ساتھ شامل ہوتے اور اپنے پیارے امام کے ساتھ سجدہ شکر بجالاتے رہے.عالمی بیعت کے پس منظر میں عہد نامہ جدید میں کتاب رسولوں کے اعمال
240 وو باب ۲ آیات ۱ تا ۸ میں مندرج ایک حوالہ کا تذکرہ از دیا دایمان کا باعث ہے لکھا.جب عید میسن کا دن آیا تو وہ سب مل کر ایک ہی جگہ میں جمع تھے اور یکبارگی آسمان سے ایسی آواز آئی جیسے تند ہوا کا سناٹا ہوتا ہے اور اس سے سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے گونج اُٹھا اور آگ کے شعلے کی سی زبانیں انہیں دکھائی دیں اور جدا جدا ہو کر ہرا ہر ایک پر ٹھہریں اور وہ سب روح القدس سے بھر گئے اور دوسری زبانیں بولنے لگے جس طرح روح نے انہیں بولنا عطا کیا.اور ہر قوم میں سے جو آسمان کے تلے ہے خدا ترس یہودی یروشلم میں رہتے تھے جب آواز سنائی دی تو ہجوم لگ گیا اور لوگ متعجب ہوئے کیونکہ ہر ایک کو یہ سنائی دیتا تھا کہ یہ میری ہی بولی بول رہا ہے اور تعجب کر کے آپس میں کہنے لگے دیکھو یہ جو بولتے ہیں کیا سب جلیلی نہیں.پس کیونکر ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے وطن کی بولی سنتا ہے“.سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے ۱۹۹۳ء کی پہلی عالمی بیعت کے موقع پر مندرجہ بالا حوالہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:.مسیح کے حواریوں پر روح القدس نازل ہوئی اور وہ مختلف بولیاں بولنے لگے جو اس سے پہلے ان کو نہ آتی تھیں اور وہ بولیاں سنے اور سمجھنے لگے اور تعجب کرنے لگے.جہاں تک میں نے تاریخ پر نظر ڈالی ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ایسا واقعہ ہوا ہے.غالب
241 گمان ہے کہ کوئی کشفی واقعہ ہے اور مسیح اوّل کے نہیں بلکہ مسیح ثانی کے دور میں یہ واقعہ رونما ہونا تھا.تاریخی شہادت پیش کرنا تو عیسائیوں کا کام ہے لیکن یہ واقعاتی شہادت جو ہم پیش کر رہے ہیں یہ تمام دنیا کے سامنے کھل کر ظاہر ہو رہی ہے.کوئی اس کا انکار نہیں کر سکتا کہ اگر یہ پیشگوئی تھی یا کشف تھا تو آج یہ بڑی شان کے ساتھ دنیا کے سامنے حقیقت بن کر رونما ہو رہا ہے.الفضل اند نیشنل لندن ۲۶/ اگست ۱۹۹۴ صفحه ۴) خلافت رابع کی یادگار تحریک.مریم شادی فنڈ حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے اپنی مبارک زندگی میں بے شمار یادیں چھوڑیں اور ایسے بے شمار راہنما اصول چھوڑے جو قیامت تک احمدیوں کیلئے مشعل راہ کا کام دیں گے.آپ کی بے شمار یادوں میں سے ایک مبارک یا دجو آپ کی آخری تحریک بھی کہلاتی ہے.مریم شادی فنڈ کی تحریک ہے.یہ تحریک حضور نے ۲۱ فروری ۲۰۰۳ء کے خطبہ جمعہ میں فرمائی آپ نے اپنی والدہ مرحومہ کی غریبوں سے ہمدردی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.ان کی روح کو ثواب پہنچانے کی خاطر میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ جو بھی بیٹیاں بیاہنے والے ہیں اور غربت کی وجہ سے ان کو
242 کچھ دے نہیں سکتے.کچھ تھوڑے بہت کپڑے، کچھ سنگھار کی چیزیں یہ تو لازمی ہیں ورنہ وہ اپنے سسرال میں جا کر بہت شرمندہ ہوتی ہیں.مجھ سے کئی بچیوں نے پچاریوں نے یہ خط لکھ کر اپنے درد کا اظہار کیا ہے کہ ہمارے پاس کچھ زیادہ چیز میں نہیں تھیں معمولی کپڑے تھے نتیجہ یہ نکلا کہ سسرال پہنچے تو طعنے ملنے شروع ہو گئے اور بہت سے طعنے ملتے ہیں یہ تو ظلم کرتے ہیں جو طعنے دیتے ہیں.میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جن کی بیٹیاں بیاہنے والی ہیں اور انہیں مدد کی ضرورت ہے حسب توفیق میں اپنی طرف سے بھی کچھ ان کو پیش کرتا ہوں وہ بے تکلفی سے مجھے لکھیں ان کا مناسب گزارہ ہو جائے گا.اگر میرے اندر اتنی توفیق نہ ہوتو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا تعالیٰ کی جماعت غریب نہیں ہے بہت روپیہ ہے جماعت کے پاس تو انشاء اللہ جماعت کے کسی فنڈ سے ان کی امداد کر دی جائے گی مگران کو توفیق مل جائے گی کہ ان کی بیٹیاں خیر و خوبی کے ساتھ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوں“.(الفضل ۱۲۹ اپریل ۲۰۰۳ صفحہ ۶ تا ۸) یہ تحریک اگر چہ جماعت کیلئے ظاہری الفاظ میں عام نہ تھی مگر جماعت نے اپنے محبوب قائد کے اشاروں کو سمجھتے ہوئے اس فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.جس پر حضور انور رحمہ اللہ کی طرف سے بہت خوشنودی کا اظہار کیا گیا.
243 دور خلافت رابعہ کے آخری لمحات ۱۹/ اپریل ۲۰۰۳ ء کا دن جماعت احمد یہ کیلئے ایک بہت عظیم سانحہ کا دن تھا.اس لئے کہ اس دن ہمارے دلوں کی دھڑکن، ہمارا پیارا ہمارے دل کا سہارا، ہمارا محبوب قائد، وہ وجود جو سینکڑوں وجودوں اور بے شمار خصائل کا مجموعہ تھا ہم سے اچانک جدا ہو گیا.آپ کی ولادت ۱۸؍ دسمبر ۱۹۲۸ء کو ہوئی.آپ کی مقدس زندگی کی ۷۵ بہاریں یوں لگتا ہے پلک جھپکتے ہی گزر گئیں.مگر یہ ۷۵ بہاریں اپنے اندر اتنی بے شمار یا دیں سمیٹے ہوئے ہیں کہ ان کا کئی کتابوں میں سمونا مشکل ہے.اتنی لمبی اور طویل یادوں کی فلم جب ہمارے سامنے آتی ہے اور دوسری طرف اس مقدس وجود کی المناک رحلت کا تصور کرتے ہیں تو دل بے شمار اداسیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے.آپ کی وفات کے روز ہی آپ کا جسد اطہر دیدار کیلئے بیت الفضل لندن کے احاطے میں رکھ دیا گیا.محمود ہال میں قطار در قطار دنیا بھر کے احمدی مرد و زن دیدار کے لئے حاضر ہوئے.ایم ٹی اے کی بدولت دیدار کے مناظر پوری دنیا میں دیکھے گئے.دیدار کا سلسلہ اگلے دوروز تک جاری رہا.۱/۲۳ پریل بروز بدھ آپ کے جسد مبارک کو ایک قافلے کی صورت میں بیت الفضل لندن سے اسلام آبا و لفورڈ لے جایا گیا.روانگی اور اسلام آباد آمد کے فضائی اور زمینی مناظر ایم ٹی اے پر نشر کئے گئے.اس مقدس قافلے کے ساتھ ساتھ ایک پولیس
244 سکواڈ بھی تھا.اسلام آباد میں جسم اطہر کو ایک چھوٹی مارکی میں رکھا گیا.نماز ظہر وعصر کی ادائیگی ، خطاب اور عالمی بیعت کے بعد.حضرت خلیفہ اسیح الخامس نے آپ کا جنازہ پڑھایا.جسد اطہر کو مسلسل کندھا دیا اور پھر تد فین کی پوری کارروائی کے دوران قبر کے پاس موجودرہے.سب سے پہلے آپ نے قبر میں مٹی ڈالی اور پھر دوسرے احباب کو موقع دیا گیا.لندن وقت کے مطابق ساڑھے چار بجے سہ پہر اور پاکستانی وقت کے مطابق ۸:۳۰ بجے رات قبر تیار ہونے پر حضور انور نے دعا کروائی.دعا سے پہلے قبر پر حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے نام کی تختی بھی حضور انور نے نصب فرمائی.(الفضل ۲۵/ اپریل ۲۰۰۳ صفحه۱) قدرت ثانیہ کے مظہر خامس سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کی المناک وفات کے بعد جماعت بہت بے تابی سے اپنے نے عظیم روحانی لیڈر کی منتظر تھی اور افراد جماعت بڑی
245 بے قراری سے دعاؤں میں مصروف تھے.خدا تعالیٰ نے ان کی عاجزانہ دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے ۱/۲۲اپریل ۲۰۰۳ء کو حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کو قدرت ثانیہ کا مظہر خامس منتخب فرمایا اور ایک بار پھر ہمارے خوف کو امن سے بدل دیا.قدرت ثانیہ کے مظہر خامس کے مختصر حالات درج ذیل ہیں.آپ ۱۵ ستمبر ۱۹۵۰ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب مرحوم اور محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کے ہاں ربوہ میں پیدا ہوئے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑپوتے ، حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے پوتے اور حضرت مصلح موعود کے نواسے ہیں.آپ نے میٹرک تعلیم الاسلام ہائی سکول اور بی اے تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے کیا.۱۹۷۶ء میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے ایم ایس سی کی ڈگری ایگریکلچرل اکنامکس میں حاصل کی.۱۳۱ جنوری ۱۹۷۷ء کو آپ کی شادی مکرمہ سیدہ امتہ السبوح بیگم صاحبہ بنت محترمہ صاحبزادی امتہ احکیم صاحبہ مرحومہ ومکرم سید داؤ د مظفر شاہ صاحب سے ہوئی.۲ فروری کو دعوت ولیمہ ہوئی.آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک صاحبزادی امۃ الوارث فاتح صاحبہ اہلیہ مکرم فاتح احمد صاحب ڈاہری نواب شاہ اور مکرم صاحبزادہ مرز اوقاص احمد صاحب سے نوازا.۱۹۷۷ء میں آپ نے زندگی وقف کی اور نصرت جہاں سکیم کے تحت اگست ۱۹۷۷ء میں غانا تشریف لے گئے.غانا میں آپ کا قیام ۱۹۷۷ء سے
246 ۱۹۸۵ء تک رہا.اس دوران آپ نے بطور پرنسپل احمد یہ سیکنڈری سکول اور احمد یہ زرعی فارم ٹمالے شمالی غانا کے مینجر کے طور پر خدمات انجام دیں.آپ نے غانا میں پہلی بار گندم اُگانے کا کامیاب تجربہ کیا.آپ ۱۹۸۵ء میں غانا سے پاکستان تشریف لائے اور ۱۷ مارچ ۱۹۸۵ء سے نائب وکیل المال ثانی کے طور پر آپ کا تقرر ہوا.۱۸ جون ۱۹۹۴ء کو آپ ناظر تعلیم صدرانجمن احمد یہ مقرر ہوئے.۱۰؍ دسمبر ۱۹۹۷ء کو ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی مقرر ہوئے اور تا انتخاب خلافت اس منصب پر مامور رہے.اگست ۱۹۹۸ء میں صدر مجلس کار پرداز مقرر ہوئے.بحیثیت ناظر اعلیٰ آپ ناظر ضیافت اور ناظر زراعت بھی خدمات بجا لاتے رہے.۱۹۹۴ء تا ۱۹۹۷ء چیئر مین ناصر فاؤنڈیشن رہے.اسی عرصہ میں آپ صدر تز مین کمیٹی ربوہ بھی تھے.آپ نے گلشن احمد نرسری کی توسیع اور ربوہ کو سرسبز بنانے کیلئے ذاتی کوشش اور نگرانی فرمائی.۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۵ء تک ممبر قضاء بورڈ رہے.خدام الاحمدیہ مرکز یہ میں ۷۶-۷۷ء میں مہتم صحت جسمانی ۸۵-۸۴ء میں مہتم تجنید ۸۶-۸۵ء تا ۸۸-۸۹ء مہتم مجالس بیرون اور ۹۰.۸۹ء میں نائب صدر خدام الاحمد سیہ پاکستان کے طور پر خدمات انجام دیں.۹۵ء میں انصار اللہ پاکستان میں قائد زمانت و صحت جسمانی اور ۱۹۹۵ تا ۱۹۹۷ء قائد تعلیم القرآن کے طور پر خدمات انجام دیں.۱۹۹۹ء میں ایک مقدمہ میں اسیران راہ مولی رہنے کا اعزاز بھی حاصل کیا.۱۳۰ اپریل کو گرفتار ہوئے اور ۱۰/ مئی کو رہا ہوئے.۱۲۲ اپریل -
247 ۲۰۰۳ء کولندن وقت کے مطابق ۱۱:۴۰ بجے رات آپ کو خدا تعالیٰ نے قدرت ثانیہ کا مظہر خامس بنایا.ما خود المفضل ۱۱۲۴پر میل ۲۰۰۳ پلی ۲) حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ ایح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پہلی بیعت عام سے قبل مختصر خطاب فرمایا جس کے الفاظ یہ ہیں.’احباب جماعت سے صرف ایک درخواست ہے کہ آج کل دعاؤں پر زور دیں.دعاؤں پر زور دیں.دعاؤں پر زور دیں.بہت دعائیں کریں.بہت دعائیں کریں.بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ اپنی تائید و نصرت فرمائے اور احمدیت کا یہ قافلہ اپنی ترقیات کی طرف رواں دواں رہے.(الفضل ۱/۲۴اپریل ۲۰۰۳ صفحه ۲) ۲۳/ اپریل ۲۰۰۳ ء اسلام آباد تلفورڈ میں آپ نے نماز ظہر وعصر پڑھائی اور ایک خطاب عام فرمایا جو ایم ٹی اے کے ذریعہ ساری دنیا میں نشر ہوا.خطاب کے بعد احباب جماعت نے اجتماعی بیعت کی سعادت حاصل کی.۱۲۵ اپریل کو آپ نے پہلا خطبہ جمعہ دیا.۲۷/ اپریل کو آپ کا پڑھایا ہوا پہلا نکاح ایم ٹی اے نے نشر کیا.۱۴ مئی کو ایم ٹی اے کے کارکنوں سے آپ کی (الفضل ۲۶ مئی ۲۰۰۳ صفحه ۲) ملاقات ہوئی.
248 حضرت خلیفۃ ایح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے بیرون ممالک دورہ جات کا مختصر ذکر حضرت خلیفہ اسی الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مختلف ممالک کے دورے کرنے کا پروگرام بنایا.ان دوروں کا مقصد ان ممالک میں افراد جماعت سے ملاقات کرنا.مشن ہاؤسز کی کارکردگی کا جائزہ لینا.نئی بیوت الذکر اور مراکز کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھنا اور تعمیر هد و بيوت الذکر مشن ہاؤسز تعلیمی مراکز اور ہسپتالوں کا افتتاح فرمانا تھا.اس کے علاوہ بعض ممالک میں جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے بھی حضور انور تشریف لے گئے.پہلے مرحلے میں حضور انور نے اگست ۲۰۰۳ء میں جرمنی کا اور ستمبر ۲۰۰۳ء میں فرانس کا دورہ کیا.دورہ افریقہ: حضور انور نے ۲۰۰۴ء میں افریقہ کے چار ممالک غانا.بورکینافاسو.ببینن.اور نائیجریا کا دورہ فرمایا.دوره غانا ۱۳ تا ۲۵ مارچ ۲۰۰۴ء غانا میں حضور انور نے متعد تعلیمی سنٹر ز.ہسپتال اور مشن ہاؤسز کا معائنہ
249 فرمایا.ٹی آئی سیکنڈری سکول المفی ایسار چر کا معائنہ فرمایا جہاں حضور انور غانا میں اپنے قیام کے دوران اکتوبر ۱۹۷۹ء تا مارچ ۱۹۸۳ء پرنسپل رہے.جامعہ احمدیہ کی نئی عمارت کا افتتاح فرمایا.۱۶ مارچ ۲۰۰۴ء کو حضور انور نے کا سوا (KASOA) میں قبرستان برائے موصیان کا معائنہ فرمایا.ویسٹرن ریجن میں واقع احمد یہ ہسپتال کے مختلف شعبوں کا معائنہ فرمایا اور اسی ہسپتال کی نو تعمیر شدہ بیت الذکر کا افتتاح فرمایا.۱۸ / مارچ کو حضور انور نے بستان احمد ( جلسہ گاہ ) میں حاضرین جلسہ سے خطاب فرمایا.۲۰ / مارچ کو حضور انور نے کماسی میں ٹی آئی احمد یہ سکینڈری سکول کا معائنہ فرمایا اس کے علاوہ حضور انور نے جماعت احمدیہ غانا کے تربیتی سنٹر بواڈی.طاہر ہومیو کمپلیکس بواڈی کا معائنہ فرمایا.۲۱ مارچ کو حضور انور نے احمد یہ ہسپتال آسوکورے.احمد یہ سیکنڈری سکول آسوکورے کا معائنہ فرمایا اور نو تعمیر شدہ بیت الذکر کا افتتاح فرمایا.کوکونو میں واقع احمد یہ ہسپتال کا بھی حضور انور نے معائنہ فرمایا یہ ہسپتال ۵۰ بستروں پر مشتمل ہے.۲۲ مارچ کو حضور انور نے احمد یہ ہسپتال نیچی مان کا معائنہ فرمایا.دوره بورکینا فاسو ۲۵ مارچ تا ۴ را پریل ۲۰۰۴ء بورکینا فاسو میں حضور انور نے ۱۵ ویں جلسہ سالانہ کے افتتاحی اور اختتامی اجلاس سے خطاب فرمایا.۲۹ مارچ کو حضور انور نے ہومینٹی فرسٹ سنٹر کا
250 معائنہ فرمایا.اس کے بعد حضور انور نے احمد یہ ہسپتال واگا ڈوگو کے مختلف شعبوں کا معائنہ فرمایا.۳۰ مارچ کو حضور انور مشن ہاؤس تشریف لے گئے اور بیت الذکر سے ملحق قطعہ زمین میں بورکینا فاسو کے پہلے احمد یہ پرائمری سکول کا سنگِ بنیاد رکھا.۳۱ مارچ کو حضور انور نے بیت ھدیٰ کا یا (KAYA) کا افتتاح فرمایا اور بیت الذکر سے ملحق زمین میں احمد یہ مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھا.۲ اپریل کو حضور انور نے احمد یہ ہسپتال بو بوجلاسو کے مختلف شعبہ جات کا معائنہ فرمایا.ہسپتال کے معائنہ کے بعد حضور انور نے احمد یہ ریڈ یوٹیشن کا معائنہ فرمایا.اس کی رینج ۵۰ کلومیٹر سے زائد ہے اور اس کے ذریعہ ایک ملین سے زائد لوگوں کو احمدیت کا پیغام پہنچ رہا ہے.۳ اپریل کو حضور انور نے احمدیہ ہسپتال وا گاڈ و گو کا افتتاح فرمایا.دوره بین ۴ اپریل تا ۱۰ اپریل ۲۰۰۴ء بورکینا فاسو سے حضور انور بین تشریف لے گئے.۵ اپریل کو حضور انور نے بیت الذکر پورٹو نو وو (PORTONOVO) کا سنگ بنیاد رکھا اس تقریب میں PORTONOVO کے بادشاہ اپنے گیارہ رکنی وفد کے ہمراہ شریک ہوئے.۶ اپریل کو حضور انور الا ڈا روانہ ہوئے.کنگ آف الا ڈانے اپنے پیلس میں حضور انور کا استقبال کیا اس تقریب میں ۱۵ گاؤں کے ۸۰۰ سے زائد افراد نے شرکت کی.۷ اپریل کو حضور انور نے ایک سلائی سکول
251 اور PARAKOU شہر میں تعمیر ہونے والی پہلی احمد یہ بیت الذکر (بیت العافیہ ) کا افتتاح فرمایا.اس کے بعد حضور انور نے پارا کو میں تعمیر ہونے والے پہلے احمد یہ ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھا.۸ اپریل کو حضور انور نے RELIGION OF PEACE کے موضوع پر یونیورسٹی میں خطاب فرمایا اسی روز حضور انور نے احمدیہ ہسپتال COTONON کا معائنہ فرمایا.اور شام کو ہو مینٹی فرسٹ بنین کے بورڈ سے میٹنگ کی COTONON میں بیت التوحید پہلے کچی ہوا کرتی تھی.۱۹۸۷ء میں مکرم ڈاکٹر عبد السلام مرحوم بین تشریف لائے تو حکومت نے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے COTONON کی سب سے بڑی مسجد میں انتظام کر رکھا تھا لیکن آپ نے احمد یہ بیت الذکر میں جا کر نماز جمعہ ادا کی جو چھوٹی سی خستہ حال اور جس پر ٹین کی چھت تھی.آج اسی جگہ پر اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایک وسیع و عریض دومنزلہ بڑی خوبصورت بیت الذکر بنانے کی توفیق عطا فرمائی ہے.شام کو حضور انور عبدالسلام انٹر نیشنل سنٹر تشریف لے گئے.انسٹی ٹیوٹ کے ڈائر یکٹر اور وائس ڈائر یکٹر نے آپ کا استقبال کیا.۱۰ اپریل کو حضور انور نے MTA سٹوڈیو کا افتتاح فرمایا.دورہ نائیجیر یا ۱۱ اپریل تا ۱۳ اپریل ۲۰۰۴ء حضور انور نے اا ا پریل کو OWODE بیت الذکر کا افتتاح فرمایا اُسی روز حضور انور نے الا رو شہر کے ORETE ایریا میں احمدیہ بیت الذکر کا
252 افتتاح فرمایا.افتتاح کے بعد آپ جلسہ سالانہ نائیجیریا میں شمولیت کے لئے جلسه گاه تشریف لے گئے.بعد ازاں حضور انور جامعہ احمدیہ کے باقاعدہ معائنہ کے لئے تشریف لے گئے.جامعہ احمدیہ کے معائنہ کے بعد حضور انور نے حافظ کلاس کے ہوسٹل کا سنگ بنیاد رکھا.اس کے بعد حضور انور جماعت کے نیشنل ہیڈ کوارٹر او جو کورو (Ojokoro) تشریف لے گئے.جماعت کے اس کمپلیکس میں تین گیسٹ ہاؤسز پر مشتمل ایک نیا کمپلیکس تعمیر کیا گیا ہے.حضور انور نے اس کا افتتاح فرمایا.۱۲ اپریل کو حضور انور نے اوجو کور و ہسپتال کا معائنہ فرمایا.اس ہسپتال میں ۶۰ بستروں کی گنجائش ہے.ہسپتال کے معائنہ کے بعد حضور انور نے احمد یہ بیت الذکر او جور وکورو کا افتتاح فرمایا.بعد ازاں حضور انور نے اپاپا ہسپتال کا معائنہ فرمایا اور ایک نئے ونگ کا افتتاح فرمایا.یہ ہسپتال لیگوس شہر کے کمرشل علاقہ اپا یا میں واقع ہے.یورپ اور کینیڈا کا دورہ مئی ۲۰۰۴ء میں حضور انور جرمنی کے دورے پر تشریف لے گئے.جون ۲۰۰۴ ء میں حضور انور نے ہالینڈ کا دورہ فرمایا.جون جولائی ۲۰۰۴ء میں حضور انور کینیڈا کے دورے پر تشریف لے گئے.اگست ۲۰۰۴ء میں آپ نے جرمنی، نبر میں سوئٹزر لینڈ اور حکیم اور دسمبر ۲۰۰۴ء میں فرانس کا دورہ فرمایا.جنوری ۲۰۰۵ ء میں حضور انور نے سپین کا مئی ۲۰۰۵ء میں مشرقی افریقہ کے ممالک
253 تنزانیہ اور یوگنڈا کا دورہ فرمایا.ان ممالک میں حضور انور نے چار بیوت الذکر کا سنگ بنیا درکھا اور چھ نئی بیوت الذکر کا افتتاح فرمایا.جون ۲۰۰۵ء میں حضور انور کینیڈا تشریف لے گئے.وینکوور کینیڈا میں آپ نے بیت الذکر (بیت الرحمن ) اور کیلگری میں بھی بیت الذکر کا سنگ بنیاد رکھا اور کینیڈا کے جلسہ سالانہ میں شرکت فرمائی.اگست / ستمبر ۲۰۰۵ء میں حضور انور نے جرمنی کے جلسہ سالانہ میں شرکت فرمائی.ستمبر ۲۰۰۵ء میں حضور انور ڈنمارک ، سویڈن، ناروے اور ہالینڈ کے دورے پر تشریف لے گئے.سکنڈے نیوین ممالک، ڈنمارک، سویڈن اور ناروے کے مشترکہ جلسہ سالانہ میں حضور انور نے شرکت فرمائی.دسمبر ۲۰۰۵ء میں حضور انور نے ماریشس اور بھارت کا دورہ فرمایا اور ان ممالک کے جلسہ سالانہ میں شرکت فرمائی.دورہ مشرق بعید ، ( سنگا پور.آسٹریلیا، فجی، نیوزی لینڈ ، جاپان ) مشرق بعید کے ممالک کے دورے میں سب سے پہلے حضور انور سنگاپور تشریف لے گئے.یہاں آپ کا قیام چھ روز (۵ تا ۱۰ اپریل ۲۰۰۶ء) کے لئے تھا.اپریل کو حضور انور نے بیت طہ سے ملحق مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھا.اس دورے کے دوران حضور انور نے ملائیشیا، انڈونیشیا، فلپائن، کمبوڈیا، پاپوا نیوگنی اور تھائی لینڈ سے آئے ہوئے جماعتی عہد یداروں سے ملاقات کی اور انہیں قیمتی ہدایات سے نوازا.سنگا پور کے واقفین نو ، مربیان و معلمین سے
254 بھی حضور انور نے ملاقات کی اور ان کی راہنمائی فرماتے ہوئے ہدایات دیں.سنگا پور سے حضور انور دو ہفتے (۱۱ تا ۲۵ اپریل ۲۰۰۶ء) کے لئے آسٹریلیا تشریف لے گئے.۱۲ اپریل کو Solomon Island کے ایک وفد نے شرف ملاقات حاصل کیا.۱۴ اپریل کو حضور انور آسٹریلیا کے جلسہ سالانہ میں شریک ہوئے.آپ کا خطبہ براہ راست MTA کے ذریعہ دنیا بھر میں نشر ہوا.۲۱ اپریل کو بیت الھدی کے احاطہ میں جماعت کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر ایک ہال کی تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا اس ہال کا نام Khilafat Centenary Hall رکھا گیا ہے اور خلافت جو بلی سے پہلے اسے تعمیر کرنے کا ارادہ ہے.ہال میں ۱۳۶۳ افراد نماز پڑھ سکیں گے.ہال میں گیسٹ ہاؤس کے علاوہ ذیلی تنظیموں کے دفاتر بھی ہوں گے.آٹھ کھیلوں کا انتظام ہو گا اور جلسہ سالانہ کے لئے ایک بڑا کچن بھی تعمیر کیا جائے گا.۲۲ اپریل کو حضور انور برسبین (Brisbane) تشریف لے گئے.یہاں آپ نے جماعت کے سنٹر بیت المسرور “ کا افتتاح فرمایا.اس سنٹر کا رقبہ دس ایکڑ ہے یہاں ۲۸۶ مربع میٹر کا ہال تعمیر کیا گیا ہے.۲۳ اپریل کو حضور انور جماعت ایڈیلیڈ کے مرکز تشریف لے گئے.یہ مرکز ۲۰ ایکٹر رقبے پر مشتمل پہاڑی سلسلے اور سمندر کے درمیان پُر فضا مقام پر واقع ہے.آسٹریلیا کے بعد حضور انور دس روز ( ۲۵ اپریل تام مئی ۲۰۰۶ ) نبی کے دورے پر تشریف لے گئے.دس ایکڑ پر واقع احمد یہ پرائمری سکول کا حضور انور
255 نے معائنہ فرمایا.۲۸ اپریل کو جلسہ سالانہ نجی میں شرکت فرمائی.نجی کے نیشنل ٹی وی نے خطبہ جمعہ براہ راست نشر کیا جسے MTA نے ساری دنیا میں Live پہنچایا.۲۹ اپریل کو Narere میں احمد یہ پرائمری سکول کا معائنہ فرمایا.اس کے بعد احمدیہ کالج Narere کا معائنہ فرمایا.۳۰ اپریل کو چار ہمسایہ ممالک کے وفود سے ملاقات کی.یکم مئی کو احمد یہ سکینڈری سکول ولوکاVoloca اور کالج کے ایک بلاک کا افتتاح فرمایا.مئی کو لجنہ ہال کا افتتاح فرمایا.نینی کے بعد حضور انور پانچ روز ( ۳ تا ۸ گی ۲۰۰۶ ۰ ) نیوزی لینڈ تشریف لے گئے.ہسٹی نیوزی لینڈ کے جلسہ سالانہ کا پہلا دن جمعۃ المبارک کا روز تھا حضرت خلیفہ اسیح کا خطبہ یہاں سے پہلی دفعہ ساری دنیا میں براہ راست نشر ہو رہا تھا.نیوزی لینڈ میں پروفیسر کیمرٹ ریگ کے پوتے اور پوتی سے ملنے کا موقعہ ملا یہ وہی پروفیسر کلیمنٹ ریگ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اور ۲ امئی ۱۹۰۸ء کو پہلی اور امئی ۱۹۰۸ ء کو ان کی حضرت مسیح موعودؓ سے دوسری ملاقات ہوئی.اس ملاقات کے بعد پروفیسر کیمنٹ ریگ کے خیالات میں نمایاں تبدیلی آئی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے ساتھ خط و کتابت جاری رہی اور آپ کے کہنے کے مطابق پروفیسر کیمنٹ ریگ بعد میں احمدی ہو گئے اور مرتے دم تک اس عقیدہ پر قائم رہے.حضور انور نے ان کے پوتے اور پوتی کو بتایا کہ اُن کے دادا احمدی تھے جس کا انہوں نے اقرار کیا حضور انورے مئی کو ملک
256 کے دارالحکومت تشریف لے گئے اور سب سے پہلے قبرستان جا کر پروفیسر کلیمنٹ کی قبر پر دعا کی.حضور انور نیوزی لینڈ کے بعد ۸ روز ۸ تا ۱۵مئی ۲۰۰۶ء) کے لئے جاپان تشریف لے گئے.جاپان میں قیام کے دوران 4 مئی کو ہلٹن ہوٹل میں ایک استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی جس میں ۶۲ جاپانی مہمان شامل ہوئے ان میں ممبران پارلیمنٹ، غانا، کروشیا کے سفارتکار، سیاستدان، پروفیسر، افسران پولیس افسران، وکلاء، ڈاکٹرز اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے معززین مدعو تھے.۱۲ مئی جاپان کے ۲۶ واں جلسہ سالانہ کا پہلا دن تھا جس کے لئے ایک کمیونٹی سنٹر حاصل کیا گیا تھا.۴ امئی کو آپ بذریعہ بلٹ ٹرین ۴۱۷ کلومیٹر سفر طے کر کے ہیروشیما پہنچے جہاں امریکہ نے ۶ اگست ۱۹۴۵ء کو صبح سوا آٹھ بجے ایٹم بم گرایا تھا جس سے ایک لاکھ چالیس ہزار انسان لقمہ اجل بن گئے.ایٹم بم کی تباہ کاریوں پر مشتمل ایک میوزیم بنایا گیا ہے.جسے دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں آپ نے ان در دنا کیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: دوره ایلجیم بات پر I salute the people of Heroshima.حضور انور ۳ جون ۲۰۰۶ ء کو بیت الفضل لنڈن سے صبح دس بجے روانہ ہوئے اور شام ساڑھے پانچ بچے تعلیم کے مشن ہاؤس پہنچے.۴ جون ۶ ۲۰۰۰ ء کو
257 ظہر و عصر کے بعد جلسہ سالانہ کے اختتامی اجلاس میں حضور انور نے مجلس شوری کو خاص طور پر نمازوں اور دعوت الی اللہ کی تلقین فرمائی.دورہ جرمنی ۵ جون ۲۰۰۶ء کوحضورا نور جرمنی تشریف لے گئے.ذیلی تنظیموں نیشنل مجلس عاملہ کے ساتھ میٹنگز ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ کے اجتماعات میں شرکت فرمائی.اس کے علاوہ وافقتین نو سے ملاقات، فیملی ملاقاتیں، اولڈ سٹوڈنٹس تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے عشائیے میں شرکت ، دارالقضاء کمیٹی کی میٹنگ میں شرکت ، ایم ٹی اے سٹوڈیو کا معائنہ، میوزیم کی سیر اور خطبات جمعہ حضور انور کی خاص مصروفیات تھیں.دورہ ہالینڈ ۱۷ جون ۲۰۰۶ء کو حضور انور ہالینڈ تشریف لے گئے اور جماعت کے ۲۶ ویں جلسہ سالانہ میں شرکت فرمائی.اس کے علاوہ نیشنل مجلس عاملہ، ذیلی تنظیموں کی مجالس عاملہ سے میٹنگ ، مربیان اور فیملز سے ملاقات آپ کی خاص مصروفیات تھیں.۲۰ جون ۲۰۰۶ ء کو حضور انورلندن واپس تشریف لے دورہ یورپ ۱۸ دسمبر ۲۰۰۶ء تا ۷ جنوری ۲۰۰۷ء کے دوران حضور انور نے بیلجیئم ، ہالینڈ اور جرمنی کے ممالک کا دورہ فرمایا.خطبات جمعہ، عیدالاضحیہ کا خطبہ (جرمنی
258 میں ) بیت خدیجہ برلن کا سنگ بنیا د رکھنے کے علاوہ دیگر مختلف تقاریب میں شرکت فرمائی.دوره یورپ ۱۸ اگست ۲۰۰۷ ء تا ۸ دستمبر ۲۰۰۷ء کے دوران حضور نے فرانس، ہالینڈ اور جرمنی کا دورہ فرمایا.اس دوسرے میں فرانس کی زیر تعمیر بیت کا معائنہ، ہالینڈ میں تقریب آمین میں شمولیت ، جرمنی میں واقفات اور واقفین نو کے ساتھ خصوصی میٹنگ ، جرمن میں بیت الجامع اوفن باغ کا سنگ بنیا د رکھنا.جرمنی میں ۳۲ ویں جلسہ سالانہ میں شرکت اور روح پر در خطبات ۴ ستمبر ۲۰۰۸ء کو کاسل جرمنی میں بیت الحمود کا افتتاح و ابران میں بیت المقیت کا افتتاح آپ کی خاص مصروفیات تھیں.دورہ مغربی افریقہ ۱۵ ر ا پریل تا ۶ مئی ۲۰۰۸ء کے دوران حضور انور نے غانا ، نائیجیریا اور بین کا دورہ فرمایا.صد سالہ خلافت احمدیہ کا پہلا جلسہ اور غانا کے ۷۸ ویں جلسہ سالانہ کا خطاب باغ احمد سے براہ راست ٹیلی کاسٹ ہوا.یہ خطاب ۳۵ ممالک کے ایک لاکھ سے زائد مردوزن نے نہایت توجہ اور خاموشی سے سنا جلسہ سالانہ میں صدر مملکت کی شرکت، خطاب، محبت و فدائیت کے دلکش نظارے ، صدر مملکت غانا سے ملاقات ، حضور انور نے دو گیسٹ Centenary Khilafat Ahmadiyya Guest
259 houses کا افتتاح فرمایا.۲۲ / اپریل ۲۰۰۸ء کو حضور انور نے نائیجیریا کا دورہ فرمایا.ہسپتال اور ذیلی تنظیموں کے دفاتر کا معائنہ فرمایا.۲۳ را پریل کو حضور انور بین تشریف لے گئے.۳۰ بادشاہوں کی طرف سے استقبال کیا گیا.صدر مملکت سے ملاقات ، جلسہ سالانہ سے خطاب اور خطبہ جمعہ ساری دنیا میں آڈیو ٹیلی کاسٹ کیا گیا.۲۵ / اپریل کو بیت المہدی کا افتتاح اور بیت مہدی کے بیرونی احاطہ میں مشن ہاؤس کا سنگ بنیا د رکھا.۲۶ اپریل کو حضور انورنا کیجیریا تشریف لے گئے.نائیجیریا IPOKIA کی بیت کا افتتاح فرمایا.۲۷ / اپریل کو اباوان کے علاقہ APATA میں بیت رحیم کا افتتاح فرمایا.۲۸ اپریل ۲۰۰۸ء کو جسٹس عبد القادر Grand Qadhi Sharia Court of Apeal Kawara State سے ملاقات کی.امیر آف بورگو کے محل میں اُن سے ملاقات فرمائی.ابوجہ میں بیت مبارک کا افتتاح فرمایا.۲ مئی کو حدیقہ احمد کا افتتاح فرمایا.یہ آٹھ ایکڑ رقبے پر مشتمل البوجہ سے شمال کی طرف KEFFI Road پر واقع ہے.جلسہ سالانہ اسی جگہ پر منعقد ہوا.حضور انور نے خطابات فرمائے.۶ مئی ۲۰۰۸ء کو حضور انورلندن واپس تشریف لے آئے.دورہ امریکہ (۶ اجون تا ۲۴ جون ۲۰۰۸ ء ) حضور انور نے اس دورہ میں امریکہ میں
260 صد سالہ خلافت احمد یہ جوبلی کے تاریخی سال میں منعقد ہونے والے تاریخی جلسہ سالانہ میں شرکت فرمائی.ایم ٹی اے کے ارتھ سٹیشن اور بیت الرحمن کے توسیعی منصوبے کا جائزہ لیا.سیرالیون کے سفیر و بین کے کونسلر اور غانا کے سفیر سے ملاقات فرمائی.امریکی حکومت کی طرف سے آپ کے اعزاز میں امریکہ کا پرچم لہرانے کی خصوصی تقریب ہوئی.اور وہ پر چم حضور انور کو تحفہ دیا گیا.جلسہ سالانہ میں شرکت و تقریب پرچم کشائی کے علاوہ دو خطبات، ذیلی تنظیموں اور نیشنل مجلس عاملہ کے ساتھ میٹنگز حضور انور کی خاص مصروفیات تھیں.دورہ کینیڈا ( ۲۴ جون تا ۶ جولائی ۲۰۰۸ء) اس دورہ کے دوران حضور انور نے جلسہ سالانہ کینیڈا میں پرچم کشائی، خطبہ جمعہ، دو خطابات فرمائے.نئی جلسہ گاہ حدیقہ احمد ، ونڈمل ، سولر سسٹم ، احمد یہ بورڈ آف پیس ، بیت النور کے کمپلیکس اور مارکیز ولنگر خانے کا معائنہ فرمایا.ایک ممبر آف پارلیمنٹ سے ملاقات اور کینیڈا ڈے کی خصوصی تقاریب میں شمولیت فرمائی.دفتر لجنہ اماءاللہ اور AMJ کا افتتاح فرمایا اور ذیلی تنظیموں اور مجالس عاملہ اور Aims کمیٹی کی میٹنگز میں شرکت فرمائی.مورخہ ۵ جولائی ۲۰۰۸ء کو کیلگری میں خوبصورت بیت النور کا افتتاح فرمایا اس موقع پر وز یر اعظم کینیڈا بھی شریک ہوئے اور خطاب فرمایا اور بعض دیگر سیاسی و مذہبی شخصیات نے بھی اپنے خیالات کا اظہار فرمایا.۶ جولائی کو حضو انور واپس لندن تشریف
261 لے آئے.دورہ جرمنی (۱۳ تا ۲۶ را گست ۲۰۰۸ء) دورہ جرمنی کے دوران حضور انور نے بیت الکریم سٹاڈے، بیت السمیع ہنو ور اور بیت انوار روڈ گاؤ کا افتتاح فرمایا.۲۰ را گست ۲۰۰۸ء کو جامعہ احمدیہ جرمنی کا قیام عمل میں آیا.حضور انور نے طلباء سے خطاب فرمایا.جرمنی میں خلافت جو بلی یورپین ٹورنامنٹس منعقد ہوئے جس میں ۳۲ ٹیموں سے شرکت حضور انور نے ۷اراگست کو اول ، دوم اور سوم آنے والی ٹیموں کو انعامات عطا فرمائے.۲۲ تا ۲۴ اگست ۲۰۰۸ ء کو جرمنی کا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.حضور انور نے خطبہ جمعہ کے علاوہ دو خطابات سے نوازا.دورہ بھارت (۲۲ نومبر تا ۵ دسمبر ۲۰۰۸ء) حضور انور ایدہ اللہ تعلّامی بنصرہ العزیز ۲۲ نومبر ۲۰۰۸ء کو لندنس ے بھارت کے لئے ۳ بجکر ۵۰ منٹ پر بذریعہ برٹش ایر ویز روانہ ہوئے.ساڑھے سات گھنٹے کی مسلسل پرواز کے بعد آپ کا طیارہ بھارت کے مقامی وقت کے مطابق ۲۳ نومبر کی صبح چار بجگر پچاس منٹ پر دہلی کے انٹر نیشنل اندرا گاندھی ائیر پورٹ پر اترا.آپ کے استقبال کے لئے حکومت ہند کے اعلیٰ افسران کے علاوہ جماعت احمد یہ بھارت کی طرف سے مکرم صالح محمد الہ دین صاحب صدر ، صد را انجمن احمدیہ، مکرم محمد ا نعام غوری صاحب ناظر اعلیٰ قادیان ، مکرم ناظر صاحب
262 امور عامہ، اور مکرم محمد نسیم خان صاحب نائب ناظر امور عامہ موجود تھے.فجر کی نماز حضور انور نے لاؤنج میں ہی پڑھائی.اس کے بعد حضور انور بیت الہادی دہلی کے لئے روانہ ہوئے.بیت الہادی کے ساتھ ہی مشن ہاؤس ملحق ہے.حضور انور نے مشن ہاؤس کے رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے.مشن ہاؤس کی اوپر کی منزل میں رہائشی حصہ اور گیسٹ ہاؤس جبکہ نچلی منزل میں دفاتر اور لائبریری ہے.ظہر وعصر کی نمازیں ادا کرنے کے بعد فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں.مختلف علاقوں سے چالیس فیملیز کے ۲۲۰ افراد نے ملاقات کا شرف حاصل کیا.ملاقاتوں کے بعد حضور انور نے مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.۲۴ نومبر ۲۰۰۸ء کو حضور انور صوبہ تامل ناڈو کے شہر چنائی (Chennai) بذریعہ جہاز روانہ ہوئے.چنائی کی جماعت نے حضور انور کے قیام کا انتظام بذریعہ جہاز روانہ ہوئے.چنائی کی جماعت نے حضور انور کے قیام کا انتظام Trident ہوٹل میں کیا تھا.ہوٹل کے ہال میں حضور انور نے چنائی کی لجنہ اور ناصرات سے ملاقات کی اور انہیں نمازوں کی ادائیگی ، دعاؤں اور اولاد کی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصیت سے توجہ دلائی.چنائی شہر کے ایک حلقہ Saint Thomas Mount میں نئی تعمیر ہونے والی احمد یہ بیت ہادی کا حضور انور نے افتتاح فرمایا.بہت ہادی ۴۵ لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہوئی ہے.چار لاکھ روپے لجنہ نے نقدی اور زیورات کی شکل میں پیش کئے ہیں.چنائی کا سابقہ نام مدراس اور آبادی ایک کروڑ ہے.حضرت عیسی کے ایک حواری
263 سینٹ تھا مس حضرت مسیح کے کسی قبیلہ کی تلاش میں کیرالہ سے ہوتے ہوئے یہاں بھی آئے.سینٹ تھامس ماؤنٹ کا علاقہ جہاں بیت ہادی تعمیر ہوئی ہے اُسی حواری کے نام پر ہے.یہ حواری اسی علاقہ میں مدفون ہیں.حضرت مسیح موعود کا پیغام آپ کے زمانہ مبارک میں ہی یہاں پہنچا.انجام آتھم میں ا ارفقاء حضرت مسیح موعود کا ذکر ہے جو چنائی (مدراس) کے رہنے والے تھے.بیت ہادی کی افتتاحی تقریب کے بعد حضور انور بذریعہ جہاز کالیکٹ کے لئے روانہ ہوئے.جہاز ایک گھنٹہ کی پرواز کے بعد کالیکٹ کے ائیر پورٹ پر اترا.صوبہ کیرالہ کے زونل امراء اور دیگر جماعتی عہد یداروں نے حضور انور کا استقبال کیا.رہائش گاہ پر پہنچ کر حضورانور نے مغرب اور عشاء جمع کر کے پڑھائیں.صوبہ کیرالہ کی سرزمین پر یہ پہلی نماز تھی جو کسی بھی خلیفہ وقت نے پڑھائی.کیرالہ میں اسلام کا پیغام آنحضرت کے ایک صحابی مالک بن دنیاڑ کے ذریعہ پہنچا جو ایک تجارتی سفر پر یہاں آئے تھے.اس وقت کے کیرالہ کے حکمران نے بھی اسلام قبول کیا اور پھر مکہ کا سفر اختیار کیا.کیرالہ میں احمدیت کا پیغام ۱۸۹۷ء میں پہنچا جب کیرالہ کے ای عبدالقادر صاحب کو اُن کے دوست محمد سویدی صاحب نے کلکتہ سے...اصول کی فلاسفی ارسال کی.باقاعدہ جماعت کا قیام ۱۹۱۵ء میں عمل میں آیا.اس وقت کیرالہ میں مجموعی طور پر ۵۷۸ جماعتیں ہیں.
264 حضرت مالک بن دینار نے پہلی مسجد کو ڈونگور ( جو پرانے زمانہ میں بندر گاہ تھی) میں تعمیر کرائی.اس جگہ بھی بڑی مخلص اور فدائی احمد یہ جماعت قائم ہے.اور چار ہزار چار سو مربع میٹر کے رقبہ پر ایک مخلص احمدی خاتون اہلیہ مکرم احمد اسماعیل صاحب نے تمہیں لاکھ روپے کی لاگت سے بیت تعمیر کرائی ہے.کیرالہ میں اس وقت ۵۱ بیوت الذکر تعمیر ہو چکی ہیں.تین مقامات پر مشن ہاؤسز کی تعمیر مکمل ہوئی ہے.چار مقامات پر فضل عمر پبلک سکول بھی جاری ہیں.۲۵ نومبر ۱۰۰۸ء کو حضور انو راحمد یہ بیت القدوس کالی کٹ کے لئے روانہ ہوئے.کالی کٹ پہنچ کر حضور انور نے بہت کی بیرونی دیوار میں نصب یادگاری سختی کی نقاب کشائی فرمائی.یہاں ایک بڑی مارکی میں خدام کے ایک گروپ نے حضرت اقدس مسیح موعود کا عربی قصیدہ خوش الحانی سے پڑھا.پھر اطفال کے ایک گروپ نے حضور انور کی خدمت میں استقبالیہ گیت اور ایک نظم خوش الحانی سے پیش کی.اس کے بعد حضور انور نے ایک مختصر خطاب فرمایا.اس استقبالیہ تقریب کی کوریج کے لئے چار اخبارات ، ایک نیوز ایجنسی اور چارٹی وی چینلز کے نمائندے اور جرنلسٹ آئے تھے.بعد ازاں صوبہ کیرالہ کی آٹھ جماعتوں کی ۱۲۰ فیملیز کے ۱۹۹۴ افراد نے حضور انور سے ملاقات کی سعادت حاصل کی.نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور نے لجنہ سے خطاب فرمایا.کالی کٹ کی بیت القدوس کی تعمیر کیلئے ۱۹۷۸ء میں نصف ایکڑ رقبہ
265 خریدا گیا.۸ نومبر ۱۹۸۱ء کو اس کا سنگ بنیا د رکھا گیا.اکتوبر ۱۹۸۶ء کو اس کا افتتاح مکرم صاحبزادہ مرز او سیم احمد صاحب مرحوم ناظر اعلیٰ قادیان نے فرمایا.بیت کی تین منازل ہیں.بیت کے ساتھ جماعتی دفاتر اور ایک گیسٹ روم بھی ہے.ساتھ ایک لائبریری اور نمائش کا انتظام بھی کیا گیا ہے.پروگرام کے مطابق شام کو فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں.صوبہ کیرالہ کی دس جماعتوں کی ۲۱۲ فیمیلز کے۱۳۵۰ افراد نے ملاقات کی سعادت حاصل کی.۲۶ نومبر ۲۰۰۸ء کو حضور انور نے بیت القدوس کی کالی کٹ میں لجنہ اور ناصرات میں سندات خوشنودی اور ایوارڈ عطا فرمائے.بعد ازاں حضور انور نے لجنہ سے خطاب فرمایا.ملیالم زبان کے روز نامہ اخبار Mathrubhumi کے ایڈیٹر نے حضور انور سے شرف ملاقات حاصل کیا.صوبہ کیرالہ میں قائم ہونے والی ایک نئی جماعت ماتھوئم کا وفد بھی حضورانور سے ملاقات کیلئے آیا.یہاں کے میڈیا نے حضور انور کی آمد کو نمایاں طور پر کوریج دی.۲۷ نومبر ۲۰۰۸ء کو حضور انور ہوٹل گیٹ وے کے لئے روانہ ہوئے.جہاں جماعت احمد یہ کالی کٹ نے حضور انور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا تھا اس استقبالیہ میں اڑھائی صد کے قریب مہمان شامل ہوئے.اس تقریب میں کالی کٹ کے میئر ، ادیب، پروفیسر ، ڈاکٹر ز مختلف اخبارات کے ایڈیٹر ، جرنلسٹس ، سیاسی و سماجی زندگی کے مختلف شعبوں
266 سے تعلق رکھنے والے مہمان حضرات شامل تھے.کالی کٹ کے میئر نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا کہ خلیفہ مسیح با وجود پاکستانی ہونے دنیا کے۱۹۳ ممالک میں پھیلی ہوئی جماعت کے روحانی سر براہ ہیں.جہاں پیار، محبت اور رواداری کا پیغام ہر طرف نظر آتا ہے.حضور انور نے اپنے خطاب فرمایا کہ یہ بات بہت ضروری ہے کہ دوسروں کے حقوق ادا کئے جائیں.دوسرے مذاہب کا احترام کیا جائے.دین میں کوئی جبر نہیں.تمام انبیاء کی عزت اور احترام سب پر فرض ہے.نیکیوں کے کام میں دوسروں سے تعاون اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے اور تکبر سے بچنا چاہئے.بعد ازاں مہمانوں کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا اور کھانے کے بعد حضور انور نے مہمانوں کو تحائف عطا فرمائے.۲۸ نومبر کو حضور انور نے بیت القدوس کالی کٹ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.قادیان دارالامان کے بعد یہ ہندوستا کا پہلا ایسا مقام ہے جہاں سے MTA پر Live کوریج ہوئی.نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور نے بیت سے ملحقہ نمائش کا معائنہ فرمایا.شعبہ اشاعت نے حضور انور کو بتایا کہ امسال جماعت کرایلہ کو ۲۶ کتب کے ملیالم زبان میں تراجم کرنے کی توفیق ملی ہے.پروگرام کے مطابق حضور انور ۶ بجکر ۱۰ منٹ پر ۵ بذریعہ جہاز کو چین اور ارنا کولم کے لئے روانہ ہوئے.قریباً ۵۰ منٹ کی پرواز کے بعد جہاز کو چین کے انٹر نیشنل ائیر پورٹ پر اترا.کو چین ائیر پورٹ سے حضور انور ارنا کولم کے لئے روانہ ہوئے.ارنا کولم زون میں پہلی جماعت ۱۹۶۹ء میں قائم ہوئی.اس زون
267 میں دوران سال تین نئی بیوت کی تعمیر مکمل ہوئی ہے.اور ۲ بیوت کی توسیع ہوئی ہے.ملیالم زبان کے ایک اخبار روزنامه Mathrubhuni نے اپنی ۲۸ نومبر ۲۰۰۸ ء کی اشاعت میں لکھا: وو رواداری کے قیام کی ضرورت ہے حضرت مرزا مسرور احمد ۲۹ نومبر ۲۰۰۸ء کو حضور انور نے ۵ بیوت الذکر کا افتتاح فرمایا.بیت ارنا کولم.بیت العافیت کو ڈونگلور (Kodubgallur)، بیت ناصر Alapuzha)، بیت محمود (Palluruth) اور بیت المہدی (Ayirapuram) ارنا کولم شہر ، جہاں بیت عمر تعمیر ہوئی ہے صوبہ کیرالہ کا بڑا تجارتی مرکز ہے.اس علاقہ میں احمدیت کا پیغام ۱۹۳۳ء میں مولانا عبداللہ صاحب کے ذریعہ پہنچا.۱۹۴۱ء میں یہاں با قاعدہ جماعت قائم ہوئی.بیت عمر کی تعمیر پر ۵۰لاکھ روپے لاگت آئی.بیت العافیت ایک مخلص احمدی خاتون اہلیہ مکرم احمد اسماعیل صاحب نے اپنے ذاتی خرچ پر تعمیر کرائی ہے.بیت محمود ایک پرانی بیت کو مزید وسعت دے کر تعمیر کی گئی ہے.بیت الہدی کی تعمیر پر ۱۸ لاکھ روپے لاگت آئی ہے.بیوت الذکر کے افتتاح کے بعد حضور انور نے حاضرین سے اپنے خطاب میں فرمایا کہ بیوت الذکر اس بات کی یاد دہانی کروانے کے لئے ہیں کہ تمہاری حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہو.افتتاحی تقریب کے بعد فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں.ملاقاتوں کے بعد
268 صوبہ کیرالہ کے زونل امراء ، زونل قائدین ،صوبائی ناظم انصار اللہ ، تین جماعتوں کے امراء صوبائی سیکرٹری وقف نو اور صدر پلیکیشن کی حضور انور کے ساتھ میٹنگ ہوئی.ساڑھے پانچ بجے سہ پہر بیت عمر کے لئے روانگی ہوئی.بیت عمر سے پہنچنے پر ملاقاتوں کا پروگرام شروع ہوا.Ernakulam زون کی سات جماعتوں کے ۹۹۵ احباب مردوزن نے حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.صوبہ لکش و ویپ (Lukshdweepe) سے آنے والے بعض احباب نے بھی حضور انور سے ملاقات کی سعادت حاصل کی.صوبہ تامل ناڈو اور آندھراپردیس سے بھی بعض فیملیز نے ارنا کولم پہنچ کر حضور انور سے ملاقات کی سعادت حاصل کی.ملیالم زبان کے سب سے بڑے اخبار Mathrubhumi نے اپنی ۲۹ نومبر کی اشاعت میں حضور انور کی کوچین (Kochin) آمد اور والہانہ استقبال کی تفصیلی خبر دی.انگریزی زبان کے اخبار Indian Express نے بھی اپنی ۲۹ نومبر کی اشاعت میں حضور انور کی آمد اور پُر جوش استقبال کی تفصیلی خبر دی.۳۰ /نومبر ۲۰۰۸ء کوحضورانور سوا دس بجے بیت عمر ارنا کولم کے لئے روانہ ہوئے.پروگرام کے مطابق ساڑھے دس بجے (Palaghat Zone) کی نو جماعتوں کے ۱۱۹۰ احباب مردوزن نے حضور انور سے ملاقات کی سعادت حاصل کی.بعد ازاں صوبہ کیرالہ کی مختلف جماعتوں کے واقفین نو بچوں کی کلاس حضور انور کے ساتھ شروع ہوئی.اس کے بعد واقفات نو کی کلاس حضور
269 انور کے ساتھ شروع ہوئی.حضور انور نے تعلیم کی طرف توجہ دینے اور واقفات کو با پردہ رہنے کی ہدایات دیں.شام کو کیرالہ کی جماعتوں کی طرف سے تاج ہوٹل میں حضور انور کے اعزاز میں ایک تقریب عشائیہ کا اہتمام کیا گیا.مہمانوں میں ممبر پارلیمنٹ نیشنل اسمبلی ، پروفیسر ز ، ڈاکٹر ز ، وکال ، تاجر اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے.تقریب میں ممبر پارلیمنٹ Hon.Sebastain Paul نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا کہ ” مجھے امید ہے کہ حضور انور کا دورہ ہمارے معاشرے میں ایک نئی روح پھونک دے گا.“ آپ کے بعد پروفیسر M.K Sahno ایم کے ساہنو) نے اپنے ایڈریس میں کہا کہ ” مجھے بہت خوشی ہے کہ جماعت احمد یہ دنیا میں امن پھیلانے کا کام کر رہی ہے.میں اس جماعت کا عقیدت مند اور اس کی کامیابی کا خواہاں ہوں.“ ان دونوں مہمانوں کے بعد حضور انور نے انگریزی زبان میں خطاب فرمایا اور بتایا کہ بانی سلسلہ احمدیہ کے مشن کا مقصد ایک خدا کے حضور بندوں کا لا کھڑا کرنا تھا تا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کو ا پہچانیں اور لوگوں کے مابین بھائی چارے ، اخوت اور محبت کی فضا پیدا ہو.حضور انور نے فرمایا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کر لے کہ تم انصاف نہ کرو.انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو.“ (المائدہ:۹) بعض مہمانوں نے حضور انور سے ملاقات کی سعادت حاصل کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کی
270 ساری دنیا کی آزادی کے لئے موثر کوششوں کو سراہا اور حضور انور کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کیا.یکم دسمبر ۲۰۰۸ء کو صبح گیارہ بجے Indian Express کے News Coordinator نے ہوٹل میں آکر حضور انور کا انٹرویو لیا.حضور انور نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ دہشت گردگروپس اور ان کے پیچھے جو طاقتیں ہیں اگر ان کوفتی کے ساتھ روکا نہ گیا تو مزید تباہی ہوگی.ہندوستان کے ایک نیشنل اخبار The Hindo کے چیف رپورٹر نے بھی حضور انور کا انٹرویو لیا.پروگرام کے مطابق صوبہ کیرالہ کی جماعتوں کا دورہ مکمل کرنے کے بعد واپس دہلی کے لئے روانگی تھی.چنانچہ آٹھ بج کر دس منٹ پر حضور انور جہاز میں سوار ہوئے اور تین گھنٹے دس منٹ کی پرواز کے بعد جہاز گیارہ بج کر چالیس منٹ پر دہلی کے انٹر نیشنل ائیر پورٹ پر اترا.یہاں سے حضور انور دہلی مشن ہاؤس بیت الہادی کے لئے روانہ ہوئے اور رات قریباً ایک بجے مشن ہاؤس ۲ دسمبر ۲۰۰۸ء کو حضور انور سے دفتر میں پرائیویٹ سیکرٹری صاحب، ایڈیشنل وکیل التبشیر صاحب، ایڈیشنل وکیل المال صاحب، انچارج صاحب انڈیا ڈیسک یو کے، ناظر اعلیٰ صاحب قادیان ، ناظر صاحب امور عامه قادیان اور صدر صاحب خدام الاحمدیہ بھارت نے باری باری ملاقات کی اور مختلف
271 امور کے بارہ میں ہدایات حاصل کیں.شام پانچ بجے حضور انور نے بعض جماعتی عہد یداروں کو طلب فرما کر مختلف ہدایات سے نوازا.بعد ازاں فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں.۲۰ فیملیز کے ۹۰ سے زائد افراد نے حضور انور سے ملاقات کی سعادت حاصل کی.ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر Vaid Pant نے حضور انور سے ملاقات کی سعادت حاصل کی.بعد ازاں منور خورشید صاحب DIG ریلوے پولیس نے حضور انور سے ملاقات کا شرف پایا.موصوف احمدی ہیں.۳ دسمبر ۲۰۰۸ء کو صبح گیارہ بجے حضور انور نے ان کے دفتر میں بعض جماعتی عہدیداران نے ملاقات کر کے ہدایات حاصل کیں.ساڑھے سات بجے نماز مغرب اور عشاء کی ادائیگی کے بعد حضور انور نے اپنے دفتر میں MTA ٹیم کے انچارج مکرم منیر عودہ صاحب اور ناظر صاحب نشر و اشاعت قادیان کو شرف ملاقات بخشا اور آئندہ کے لائحہ عمل کے بارہ میں ہدایات ۴ دسمبر ۲۰۰۸ء کو حضور انور نے بیت الہادی تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں اور نماز کے بعد دو واقفین زندگی خاندانوں اور خدمت کرنے والے کارکنان کے ۶ نکاحوں کا اعلان فرمایا.پانچ بجگر پچاس منٹ پر پانچ فیملیز کے ۲۱ ممبران نے حضور انور سے ملاقات کی سعادت حاصل کی.ان کے علاوہ مکرم ناظر اعلیٰ صاحب قادیان ،مکرم ناظر صاحب امور عامہ قادیان اور مکرم فاتح احمد خان صاحب انچارج مرکزی انڈیا ڈیسک ہو کے نے مشترکہ
272 طور پر حضور انور سے ملاقات کی.۵ دسمبر ۲۰۰۸ء کو حضور انور نے دفتری ڈاک ملاحظہ فرمائی اور مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے.ایک بجے حضور انور نے بیت الہادی تشریف لا کر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.حضور انور نے فرمایا کہ گزشتہ دنوں ممبئی انڈیا میں دہشت گردی کی جو واردات ہوئی ہے اُس نے پورے ملک میں بے چینی کی فضا پیدا کر دی ہے.ان حالات کی وجہ سے میں نے باہر سے جلسہ سالانہ قادیان پر آنے والے احمدیوں کو روک دیا ہے.اس سلسلہ میں بعض احباب نے فکر مندی والی رؤیا اور خوابوں کے بارہ میں مجھے لکھا تھا.ان خوابوں کو پڑھنے ، سننے کے بعد دعا اور مختلف مشوروں کے بعد باہر سے آنے والے لوگوں کو روکا گیا ہے.نماز جمعہ کے ساتھ نماز عصر جمع کر کے پڑھانے کے بعد حضور انور نے چوہدری محمد احمد صاحب درویش قادیان کی اہلیہ فکر مدامہ الرحمن صاحبہ کی نماز جناز و پڑھائی.ساڑھے پانچ بجے حضور انور اپنے دفتر تشریف لائے.۹ فیملیز کے ۴۱ ممبران نے حضور انور سے ملاقات کی سعادت حاصل کی.نماز مغرب وعشاء کی ادائیگی کے بعد دفتر میں مکرم پرتاب سنگھ باجوہ ممبر پارلیمنٹ نے حضور انور سے ملاقات کی سعادت حاصل کی.آپ چندی گڑھ سے حضور انور سے ملاقات کے لئے تشریف لائے تھے.ساڑھے نو بجے مکرم ناظر اعلیٰ صاحب قادیان، مکرم ناظر صاحب امور عامہ ،صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ بھارت اور مکرم فاتح احمد خان صاحب انچارج مرکزی انڈیا ڈیک لندن کو حضور انور نے دفتر
273 بلایا اور حالات کے پیش نظر بعض انتظامی ہدایات دیں.آج تبدیل شدہ پروگرام کے مطابق دہلی سے واپس لندن کے لئے روانگی تھی.بارہ بج کر پانچ منٹ پر حضو رانور نے اجتماعی دعا کرائی اور رات ایک بج کر دس منٹ پر ائیر پورٹ پہنچے.لاؤنج میں مرکزی وزیر بھارت Oscar Fernandies برائے افرادی قوت نے حضور انور سے ملاقات کی سعادت حاصل کی.برٹش ائیرویز کا جہاز بار بجکر دس منٹ پر دہلی سے لندن کے لئے روانہ ہوا اور قریباً آٹھ گھنٹے کی مسلسل پرواز کے بعد ۶ دسمبر ۲۰۰۸ ء بروز ہفتہ سواسات بجے حضور انور کا جہاز لندن کے انٹر نیشنل ہیتھرو ائیر پورٹ پر اترا.مکرم امیر صاحب یو کے مکرم صدر صاحب مجلس انصاراللہ ہو کے ، مکرم صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ یو کے او ر دیگر عہدیداران نے حضور انور کا استقبال کیا.
274 تحریکات حضرت خلیفہ اسمع الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر والعزیز نے متعد دلی تحریکیں جاری فرما ئیں اور پہلے سے جاری تحریکات پر عمل کرنے کے لئے توجہ دلائی.ان تحریکات کا مختصر ذکر درج ذیل ہے.ا خلافت احمدیہ صد سالہ جوہلی ۲۰۰۸ ء کے لئے دعائیں اور عبادات ہر ماہ ایک نفلی روزہ رکھیں اس میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ خلافت کو جماعت احمدیہ میں ہمیشہ قائم رکھے.دو نفل جماعت کی ترقی اور اس کے استحکام کے لئے روزانہ پڑھیں.روزانہ سات بار سورۃ فاتحہ کو غور سے پڑھیں تا کہ ہر قسم کے فتنہ وفساد سے بچتے رہیں.روزانہ کم از کم ۳۳ بار درود شریف پڑھیں.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ ( روزانہ کم از کم اامرتبہ پڑھیں) ترجمہ : اے ہمارے رب ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کا فرقوم کے خلاف ہماری مددکر.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ
275 لدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (روزانہ کم از کم ۳۳ مرتبہ پڑھیں) ترجمہ: اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر.یقیناً تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے.شُرُوهِم اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُبِكَ مِنْ ( روزانہ کم از کم اامرتبہ پڑھیں) ترجمہ : اے اللہ ہم تجھے اِن (دشمنوں) کے سینوں میں کرتے ہیں (یعنی تیرا رعب ان کے سینوں میں بھر جائے ) اور ہم اُن کے شتر سے تیری پناہ چاہتے ہیں.اسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَّاتُوبُ إِلَيْهِ ( روزانہ کم از کم ۳۳ مرتبہ پڑھیں ) ترجمہ: میں بخشش مانگتا ہوں اللہ سے جو میرا رب ہے ہر گناہ سے اور میں جھکتا ہوں اسی کی طرف.سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيم.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى وَّ الِ مُحَمَّدٍ ( روزانہ کم از کم ۳۳ مرتبہ پڑھیں) ترجمہ: اللہ تعالیٰ پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ اللہ پاک ہے اور بہت عظمت والا ہے.اے اللہ رحمتیں بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی آل پر.روزانہ کم از کم ۳۳ بار درود شریف پڑھیں.
276 ۲.نظام وصیت میں شمولیت کی تحریک پہلا ٹارگٹ پندرہ ہزار افراد کو نظام وصیت میں شامل کرنا تھا.نظام وصیت کے اجراء پر سو سال پورے ہونے پر موصیان کی تعداد ۵۰ ہزار سے زائد جانے کے بعد اگلا ٹارگٹ ۲۰۰۸ ء تک کمانے والے افراد جماعت کے پچاس فیصد کو نظام وصیت میں شامل کرنا ہے.اسی طرح حضور انور نے مرکزی جماعتی و ذیلی تنظیموں نیز مقامی جماعتی و ذیلی تنظیموں کے ۱۰۰ فیصد عہد یداران نظام وصیت میں شمولیت کی ہدایت فرمائی ہے اور آسٹریلیا کے ہر احمدی کو نظام وصیت میں شامل ہونے کی ہدایت فرمائی ہے.۳.با شرح چندہ کی ادائیگی کی تحریک لازمی چندہ جات کو شرح کے مطابق ادا کرنا چاہیئے اگر بامر مجبوری مقررہ شرح کے مطابق چندہ کی ادائیگی مشکل ہو تو خلیفہ وقت سے منظوری حاصل کرنی چاہیئے اور جب بھی توفیق ہو اور حالات کچھ بہتر ہوں تو جتنی جلدی ہو سکے شرح کے مطابق چندہ ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے.نو مبائعین کو مالی جہاد میں شامل کرنے کی تحریک نو مبائعین کو شروع ہی میں یہ عادت ڈال دی جائے کہ چندہ ادا کرنا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس کے دین کی خاطر قربانی کی جائے.اس سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کا پھر ایمان
277 خطرے میں پڑ جاتا ہے جو مالی قربانی نہیں کرتے.احمدی بچوں کو وقف جدید میں شامل کرنے کی تحریک جن گھروں میں مالی قربانی کا ذکر اور عادت ہو ان کے بچے بھی عموماً قربانیوں میں آگے بڑھنے والے ہوتے ہیں اس لئے احمدی مائیں اپنے بچوں کو چندے کی عادت ڈالنے کے لئے وقف جدید میں شامل کریں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے پاکستان میں بچوں کے ذمہ وقف جدید کیا تھا.اُس وقت سے وہاں بچے خاص شوق کے ساتھ یہ چندہ دیتے ہیں.- زکوۃ کی اہمیت اور اس کی ادائیگی کی طرف توجہ زکوۃ ایک اہم چندہ ہے.زکوۃ کا بھی ایک نصاب ہے.پس نصاب اور شرح کے مطابق زکوۃ ادا کی جائے.ے.دفتر پنجم تحریک جدید کا اجراء دفتر چہارم کو 19 سال پورے ہو گئے ہیں اس لئے دفتر پنجم کا آغاز ہوتا ہے جو گزشتہ سالوں میں احمدی ہوئے ہیں لیکن تحریک جدید میں شامل نہیں ہوئے ان سب کو تحریک جدید میں شامل کرنے کی کوشش کریں.اُن کا شمارا دفتر پنجم میں ہوگا.باقاعدہ قرآن کی پڑھنے کی تحریک ہر احمدی کو اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ وہ خود بھی اور اُس کے بیوی بچے
278 بھی قرآن کریم پڑھنے اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دیں.پھر ترجمہ پڑھیں.پھر حضرت مسیح موعود کی تفسیر پڑھیں.دین حق سلامتی کا پیغام ہے اس کو دنیا میں پھیلانا چاہیے.اس سلامتی کے پیغام کو دوسروں تک بھی پھیلائیں اور آپس میں بھی مومن بنتے ہوئے محبت اور پیار کی فضا پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ کی ابدی جنتوں کے بھی وارث بنیں جہاں سلامتی ہی سلامتی ہے.۱۰.اپنے اور اپنی اولاد کی نیک تربیت کے لئے دُعا اور کوشش کرنے کی تحریک ہمیشہ بچوں کے نیک صالح اور دیندار ہونے کی دعائیں کرتے رہنا چاہیئے اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ اپنی اولا داور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے اور اولاد کے واسطے صرف یہ خواہش ہو کہ وہ دین کی خادم ہو.۱۱.واقفین نو بچوں کی تربیت کے متعلق ہدایات واقفین نو بچوں کو وفا سکھلائیں.وقف زندگی کا وفا سے بہت گہرا تعلق ہے.بچوں کو پانچ وقت نمازوں کی عادت ڈالیں اس کے لئے سب سے بڑا والدین کا اپنا نمونہ ہے خود بھی نمازی ہوں گے تو بچے بھی نمازی بنیں گے.کھانا کھانے کی آداب سکھائے جائیں.بچے کو شروع ہی سے بچ سے محبت اور بھوٹ سے نفرت ہونی چاہیے.بچوں کو قناعت سکھائیں.ان کے مزاج میں
279 شگفتگی پیدا کرنی چاہیے تحمل اور سخت جانی کی عادت ڈالیں.اپنے گھر کے ماحول کو ایسا بنا ئیں کہ بچے گھر سے با ہر وقت گزارنے کی بجائے ماں باپ کی صحبت میں گزارنا پسند کریں.بچوں کو متقی بنا ئیں.ان میں خدا تعالیٰ کا خوف پیدا کریں.جو واقفین نو جامعہ میں داخل نہیں ہورہے ان کی دینی تعلیم کے لئے سلیبس تیار کئے جائیں.بیس بائیس سال کی عمر میں ہر واقف نو کو قرآن کریم کا ترجمہ آنا چاہیئے.۱۲ نماز کو خوب سنوار سنوار کر پڑھنا چاہئے.نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے وحدت ہمارے اندر اُس وقت تک قائم رہے گی جب تک ہم اپنی با جماعت نمازوں کا اہتمام کرتے چلے جائیں گے.۱۳.آنحضرت پر بیہودہ اعتراضات کرنے والوں کے جواب دینے کے لئے خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کی خصوصی ٹیمیں تیار کرنے کی تحریک.بعض لوگ آنحضرت کے بارہ میں اخبارات میں لغویات اور فضولیات لکھتے رہتے ہیں اس لئے ذیلی تنظیمیں خدام الاحمد سید اور لجنہ اماءاللہ ان چیزوں ظر رکھیں کیونکہ لڑکوں ، نوجوانوں کی آج کل انٹرنیٹ اور اخباروں پر توجہ ہوتی ہے.دیکھتے بھی رہتے ہیں اس لئے خدام الاحمدیہ بھی کم از کم ۱۰۰ لوگ ایسے تلاش کرے جو اچھے پڑھے لکھے ہوں دین کا علم رکھتے ہوں اسی طرح لجنہ اما اللہ
280 اپنی ۱۰۰ نو جوان بچیاں تلاش کر کے ٹیم بنائیں جو ایسے مضمون لکھنے والوں کے جواب مختصر خطوط کی صورت میں ان اخبارات کو بھیجیں جن میں ایسے مضمون یا خطوط شائع ہوتے ہیں.۱۴.طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے لئے مالی تحریک حضرت خلیفہ صبیح الرابع کی یہ خواہش تھی کہ ربوہ میں ایک ایسا ادارہ ہو جو اس علاقے میں دل کی بیماریوں کے علاج کے لئے سہولت فراہم کر سکے.خلافت خامسہ کے دور میں اس پر کام شروع ہوا.ایک احمدی بھائی نے اپنے والدین کی طرف سے خرچ اٹھانے کی حامی بھری.امریکہ کے احمدی ڈاکٹر بھی اس میں شامل ہوئے.کچھ اور لوگوں نے بھی عمارت کی تعمیر میں حصہ لیا.عمارت تقریباً مکمل ہو چکی ہے لیکن Equipment اور سامان کی ضرورت ہے.لہذا امریکہ یورپ اور پاکستان کے مالی لحاظ سے مضبوط ڈاکٹروں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ خدا کی رضا حاصل کرنے اور غریب انسانیت کی خدمت کرنے کے لئے اس ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کو مکمل کرنے میں حصہ لیں.۱۵.مریم شادی فنڈ کی مستقل نوعیت یہ حضرت خلیفہ مسیح الرائع کی آخری تحریک تھی.بے شمار بچوں کی شادیاں اس فنڈ سے کی گئیں اور کی جاری ہیں مہنگائی کی وجہ سے اخراجات بھی
281 بڑھ گئے ہیں باہر کے ملکوں کے لوگ اپنے بچوں کی شادیوں پر بے شمار خرچ کرتے ہیں اگر وہ ساتھ ہی پاکستان، ہندوستان یا دوسرے غریب ممالک میں غریب بچیوں کی شادیوں کے لئے کوئی رقم مخصوص کر دیا کریں تو یہ ایک صدقہ جار یہ ہوگا.جواُن کے بچوں کی خوشیوں کی بھی ضمانت ہوگا.۱۶.طاہر فاؤنڈیشن کا قیام.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کے علمی خزائن کو مرتب اور شائع کرنے کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الخامس نے یہ ادارہ ۲۰۰۳ ء میں قائم فرمایا.اس ادارہ کے تحت اب تک خطبات طاہر کی ۴ جلدیں اور خطبات عیدین کی دو جلدیں شائع ہو چکی ہیں.۱۷.جرمنی میں ۱۰۰ بیوت الذکر تعمیر کرنے کی تحریک جرمنی میں ہر سال کم سے کم پانچ بیوت الذکر تعمیر کرنے کی تحریک.جرمنی انشاء اللہ یورپ کا پہلا ملک ہوگا جہاں کے سوشہروں یا قصبوں میں بیوت الذکر تعمیر کی جائیں گی جن کے ذریعہ سے اللہ کا نام اس علاقے کی فضاؤں میں گونجے گا.۱۸ وقف عارضی و وقف بعد از ریٹائرمنٹ افریقہ کے ہسپتالوں اور فضل عمر ہسپتال ربوہ کے لئے ڈاکٹر مستقل یا عارضی وقف کریں.حضور انور نے وقف عارضی کے لئے چین جانے کی بھی
282 تحریک فرمائی.19 تعلیم حضور انور نے فرمایا کہ آج یہ ذمہ داری ہم احمدیوں پر سب سے زیادہ ہے کہ علم کے حصول کی خاطر زیادہ سے زیادہ محنت کریں.زیادہ سے زیادہ کوشش کریں.۲۰.تربیت خلفاء کی طرف سے مختلف وقتوں میں بیوت الذکر کو آباد کرنے ، نمازوں کے قیام کے بارہ میں، اولاد کی تربیت کے بارہ میں ، اپنے اندر اخلاقی قدریں بلند کرنے کے بارہ میں ، وسعت حوصلہ کے بارہ میں ، دعوت الی اللہ کے بارہ میں یا متفرق مالی تحریکات کے بارہ میں یاد دہانی کرائی جاتی ہے.بُری عادات مثلاً تمباکو نوشی ، بیہودہ فلموں ، گانوں سے عورتوں اور مردوں دونوں کو یکساں احتیاط کی ضرورت ہے.انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے بچنا چاہئے.۲۱.دُعا کی تحریک انسانیت کو بچانے کے لئے دُعا کریں.پاکستان اور بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لئے خاص طور پر دعائیں کریں.خلیفہ المسیح کی دعاؤں کے ذریعہ مدد کریں.پاکستان کی سلامتی کے لئے دُعا کریں.غریبوں ، لاچاروں
283 ، مریضوں، خدمت انسانیت اور خدمت دین کرنے والوں ، مالی قربانی کرنے والوں، واقفین زندگی ،شہداء کے خاندانوں ، اسیران راہ مولیٰ اور امت مسلمہ کو دعاؤں میں یا در رکھنے کی تحریک.۲۲.خدمت خلق کی تحریک ہر احمدی ڈاکٹر ، ہر احمدی ٹیچر اور احمدی وکیل اور ہر وہ احمدی جو اپنے پیشے کے لحاظ سے کسی بھی رنگ میں خدمت انسانیت کر سکتا ہے غریبوں اور ضرورت مندوں کے کام آ سکتا ہے.ان سے یہ کہتا ہوں کہ وہ ضرور غریبوں اور ضرورت مندوں کے کام آنے کی کوشش کریں.۲۳ - کفالت یکصد یتامی ( خطبه جمعه ۲ ستمبر ۲۰۰۳ء) امراء اپنے ملک میں ایسے احمدی بنامی کی تعداد کا جائز و لیں جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں.پڑھائی نہ کر سکتے ہوں.کھانے پینے کے اخراجات برداشت نہ کر سکتے ہوں.ایسے یتامیٰ کے لئے باقاعدہ ایک سکیم بنا کر کام شروع کریں.اور اپنے اپنے ملکوں میں بتائی کو سنبھالیں.۲۴.دعوت الی اللہ کی تحریک دعوت الی اللہ کر ہیں.حکمت سے کریں.ایک تسلسل سے کریں.مستقل مزاجی سے کریں اور ٹھنڈے مزاج کے ساتھ دوسرے کے جذبات کا بھی خیال
284 رکھیں...ہرعلم عقل اور طبقے کے آدمی کے لئے اس کے مطابق بات کریں.۲۵.کتب حضرت مسیح موعود کا مطالعہ حضرت اقدس مسیح موعود کی کتب کو بھی پڑھنے کی طرف توجہ دینی چاہئے اور ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے.۲۶.سلام کا رواج جہاں احمدی اکٹھے ہوں وہاں تو سلام کو رواج دیں.خاص طور پر ربوہ ، قادیان میں اور بعض اور شہروں میں بھی اکٹھی احمدی آبادیاں ہیں وہاں ایک دوسرے کو سلام کرنے کو رواج دینا چاہئے.۲۷.عزیزوں کے حقوق اپنے عزیزوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دیں.مسکینوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ کریں.ایسے خاندان جو اپنی بہتر تعلیم کی وجہ سے یا بہتر کاروبار کی وجہ سے آسودہ حال ہیں ان کو بھی اپنے اپنے ملکوں میں اپنے ضرورت مند بھائیوں کا خیال رکھنا چاہئے.۲۸.اطاعت نظام جماعت ہر احمدی کو یا درکھنا چاہئے کہ جھگڑوں کی صورت میں ( جو ذاتی جھگڑے ہوتے ہیں ) اپنے دماغ میں سوچتے ہوئے فیصلوں کو اہمیت نہ دیا کریں بلکہ
285 نظام کی طرف سے جو فیصلہ ہو جائے اُسے اہمیت دیں اور فیصلہ کرنے والے کی نیت پر شبہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس سے پھر فتنہ پیدا ہوتا ہے.۲۹.نور فاؤنڈیشن کا قیام حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مارچ ۲۰۰۵ ء میں نور فاؤنڈیشن قائم فرمائی.اس فاؤنڈیشن کا بنیادی مقصد کتب احادیث کے مختلف زبانوں اور بالخصوص اردو زبان میں تراجم کرنا ہے.۳۰.ایک خاص دعا کی تحریک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۷ دسمبر ۱۹۰۲ء کو نماز ظہر کے وقت ( بیت) میں اپنی رؤیا کا ذکر فرمایا جس میں درج ذیل دُعا القاء ہوئی اور نماز مغرب کے بعد نماز میں دُعا کے طور پر پڑھنے کی خصوصی تحریک فرمائی.، كُلّ شَيْء خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِي وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِي ۱۰ دسمبر کو مغرب وعشاء کے درمیان حضرت صاحب نے حضرت میر ناصر نواب صاحب کے پوچھنے پر فرمایا کہ جمع متکلم کے صیغہ سے پڑھنے میں بھی حرج نہیں.(ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحه ۲۶۹،۲۶۴) حضرت خلیفہ اصیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی ایک حالیہ رویا کے نتیجہ میں اپنے ۳ را کتوبر ۲۰۰۸ء کے خطبہ میں یہ دعا پڑھنے کی تاکید و تحریک فرمائی.
286 خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی کے موقع پر تاریخی جلسہ میں حضور انور کا ولولہ انگیز خطاب ۲۷ مئی ۲۰۰۸ء کو Excel سینٹرلندن میں منعقد ہونے والے تاریخی جلسہ میں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ولولہ انگیز اور تاریخی خطاب.حضور انور نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ یہ دن جو آج ہم خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر خاص اہتمام سے منا رہے ہیں یا ہر سال عمومی طور پر مناتے ہیں یہ ہمیں اس بات کی یاد دلانے والا ہونا چاہئے کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اللہ تعلائی کے احکامات اور تمام اوامر و نواہی پر پوری طرح کار بند رہنے کی کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ نے اپنے جس انعام سے ہمیں بہرہ ور فرمایا ہے اور بغیر روک کے اسے جاری رکھا ہوا ہے اور آئندہ بھی جاری رکھنے کا وعدہ ہے اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنتے ہوئے اس نعمت کا اظہار کریں تا کہ اس نعمت کی برکات میں کبھی کمی نہ آئے بلکہ ہر نیا دن ایک نئی شان دکھانے والا ہو.آج کا دن ایک نہا عہد باندھنے کا دن ہے.اللہ تعالیٰ اس نظام کے تحت جہاں مومنوں کے خوف کی حالت کو امن میں بدلتا ہے وہاں اپنے مقرر کردہ خلیفہ کے دل سے ہر قسم کے دنیاوی خوف نکال کر خوف کی حالتوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت عطا فرماتا ہے.صد سالہ خلافت
287 جوبلی کے تاریخی موقع پر دنیا بھر کے احمدی احباب مرد وزن سے خلافت کے استحکام اور اس سے وفا کے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جانے کے لئے ایک عظیم الشان عہد.حضور انور نے فرمایا ” پس آج میں معمولی تبدیلی کے ساتھ اس صد سالہ جو بلی کے حوالے سے آپ سے بھی یہ عہد لیتا ہوں تا کہ ہمارے عمل زمانے کی دوری کے باوجود ہمیں حضرت مسیح موعود کی تعلیم اور اللہ کے حکموں اور اُسوہ سے دور لے جانے والے نہ ہوں بلکہ ہر دن ہمیں اللہ تعالیٰ کے وعدے کی قدر کرنے والا بنائے.پس اس حوالے سے اب میں عہد لوں گا.آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ بھی جو یہاں موجود ہیں احباب بھی ھڑے ہو جائیں اور خواتین بھی کھڑی ہو جائیں.دنیا میں موجود لوگ جو جمع ہیں وہ سب بھی کھڑے ہو کر یہ عہد دہرائیں.(تشہد کے بعد فرمایا ) آج خلافت احمدیہ کے سوسال پورے ہونے پر ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم....اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فریضہ کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وقف رکھیں گے اور بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک کے
288 مجھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچارکھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخری دم تک جد و جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولا دکو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمد یہ محفوظ چلی جائے اور قیامت صلى الله تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ کے کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا! تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فر مایا.اللهم آمین.اللهم آمين اللهم آمين -
289 حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا برطانوی ممبران پارلیمنٹ سے خطاب کا خلاصہ ۲۲ اکتوبر ۲۰۰۸ء کوصد ساله خلافت جوبلی کے سلسلہ میں بیت الفضل لندن کے علاقہ پٹی کی ممبر پارلیمنٹ محترمہ جسٹین گرینگ ممبر پارلیمنٹ کی طرف سے برطانوی پارلیمنٹ ہاؤس منعقدہ ایک استقبالیہ تقریب میں حضور انور نے حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد ، خلافت کے اہم کام ، دین حق کی امن پسند تعلیم ، دنیا میں قیام امن کے سلسلہ میں بڑی طاقتوں کی ذمہ داریوں، آج کل کے عالمی اقتصادی بحران کے اسباب اور سودی نظام کی تباہ کاریوں وغیرہ موضوعات پر نہایت پُر مغز اور جامع خطاب فرمایا.اس خطاب کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے.حضور انور جب ہاؤس آف پارلیمنٹ تشریف لائے تو تقریباً سوا بارہ بجے دوپہر اس تقریب کی میزبان محترمہ جسٹین گرینگ ایم پی نے حضور انور کا استقبال کیا.دونوں ایوانوں سے آئے ہوئے تمہیں سے زائد ممبران پارلیمنٹ اور دنیا بھر کی نمائندگی کرنے سفارت خانوں اور مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات حضور انور کے خطاب کو سننے کے لئے جمع تھیں.خطاب سے پہلے کچھ شخصیات نے حضور انور سے تعارف حاصل کیا.
290 سب سے پہلے محترمہ جشمین گرینگ ایم پی نے اپنی استقبالیہ تقریر میں حضور انور کو خوش آمدید کہنے کے بعد کہا کہ آج ہمارے لئے بہت اہم دن ہے.جب His Holiness یہاں تشریف لائے ہیں.یہ امر ہمارے لئے باعث عزت و افتخار ہے.آپ نے جماعت احمدیہ کی انگلستان میں موجودگی کے بارہ میں کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ سب سے پہلی بیت جو لندن میں میں بنی بیت فضل ہے جو پٹی کے علاقہ میں واقع ہے.جب سے یہ بیت بنی ہے یہاں جمع ہونے والوں نے اس علاقہ کی زندگی میں ایک نہایت نظم وضبط سے بھر پور مثبت اور مرکزی کردار ادا کیا ہے.اس کے بعد انہوں نے وزارت خارجہ کی محترمہ Gillan Merron نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میرے لئے یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ آج مجھے حضورانور سے ملاقات اور خلافت جو بلی کی ایک تقریب میں شمولیت کا موقعہ ملا.انہوں نے کہا کہ اپنی قابل قدر معاشرتی خدمات کی وجہ سے احمدی بہت سے حلقوں میں معروف ہیں اور میں جسٹین کے اس خیال کی تائید کرتی ہوں کہ اتنی بڑی تعداد میں پارلیمانی ممبران کی حاضری اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے دلوں میں افراد جماعت کی کتنی قدرومنزل ہے.محترمہ Gillan Merron کی تقریر کے بعد حضور انور نے حاضرین سے خطاب فرمایا.حضور انور نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ جماعت احمد یہ دین حق کی
291 کچی تعلیمات کی علمبردار ہے.خلافت احمد یہ انشاء اللہ ہمیشہ دنیا میں امن و آشتی کی علمبر در رہے گی اور دنیا میں جہاں جہاں احمدی آباد ہیں.وہ اپنے اپنے وطنوں کے وفا دار شہری رہیں گے.حضور انور نے فرمایا کہ گزشتہ چند صدیوں میں جو جنگیں ہوئیں.وہ در حقیقت مذہبی جنگیں نہیں تھیں.ان کی بنیاد زیادہ تر جغرافیائی اور سیاسی مفادات تھے بلکہ آج کے زمانہ میں بھی جو جنگیں ہوئی ہیں ان کی وجوہات بھی سیاسی ، اقتصادی اور سرحدی مفادات ہیں.یہ وہ عوامل ہیں.اس لئے بڑی طاقتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کوششیں مجتمع کر کے انسانیت کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچاؤ کی تدابیر کریں.حضور انور نے فرمایا.اس وقت تمام دنیا میں بے چینی اور بے قراری پائی جاتی ہے.جگہ جگہ چھوٹی جنگیں بھڑک اٹھتی ہیں.بعض جگہوں پر بڑی طاقتیں یہ دعوی کر رہی ہیں کہ ان کی کارروائیاں قیام امن کے لئے ہیں.حضور انور نے انتباہ فرمایا کہ اگر انصاف کے تقاضوں کو پورانہ کیا گیا تو اندیشہ ہے کہ ان چھوٹی جنگوں کے شعلے بھڑک کر ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں.حضور انور نے فرمایا کہ آجکل ایک مسئلہ جس نے سر اٹھایا ہوا ہے.وہ یہ ہے کہ مذہب کے نام پر بعض مسلمان گروہ خود کش بم کے ذریعہ غیر مسلم فوجیوں اور عوام کا قتل کرنا چاہتے ہیں اور نہایت ظالمانہ طریق پر وہ بے دریغ مسلمانوں ، غیر مسلموں ،
292 عورتوں اور بچوں سب کو ہلاک کر دیتے ہیں.اس قسم کی ظالمانہ کارروائیوں کی دین حق قطعاً اجازت نہیں دیتا.بلکہ ان ظالمانہ کارروائیوں کے باعث غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کے خلاف عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوگئی ہے.حضور انور نے فرمایا آج کے زمانہ میں جب دنیا مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوتی جارہی ہے.انتہاء پسندی زور پکڑتی جارہی ہے.معاشی اور اقتصادی حالات سے بگڑ رہے ہیں.اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہر قسم کی نفرتوں کے بھلا کو امن کی بنیادیں استوار کی جائیں.اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام لوگوں کے جذبات کا احترام کیا جائے ورنہ حالات بگڑ کر نا قابل اختیار حدود سے تجاوز کر جائیں گے.حضور انور نے فرمایا کہ برطانوی قانون سازوں اور سیاستدانوں نے انصاف کو سر بلند کر رکھا ہے اور عوام کے مذہبی حقوق میں مداخلت نہیں کی.در حقیقت یہی راہ ہے جس کی طرف دین حق ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں.دین حق کی تعلیم تو یہ ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو.انصاف کرو.تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے.اور اللہ سے ڈور.یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ باخبر ہے جو تم کرتے ہو.حضور انور نے فرمایا کہ گذشتہ صدی میں وہ عظیم جنگیں لڑی گئیں.ان کی جو بھی وجوہات بنیں لیکن اُن کو اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہی معلوم ہوگا کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا.دنیا میں بے چینی بڑھتی چلی جارہی
293 ہے.جنگیں اور قیام امن کے نام پر کی جانے والی کارروائیاں قوموں کو علامی جنگ کی طرف دھکیلتی نظر آتی ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ لالچ دشمنیوں کو بڑھاتا ہے.اس کا اظہار بعض دفعہ سرحدی پھیلاؤ کے ذریعے لیے دوسری قوموں کے قدرتی ذخائر پر نا جائز تصرف یا پھر ملکوں کے حکمرانوں پر تسلط کے ذریعہ دیکھنے میں آتا ہے.ان ذرائع سے مظالم وجود میں آتے ہیں.آنحضرت نے فرمایا کہ مظلوم اور ظالم دونوں کی مدد کرو.صحابہ کے دریافت کرنے پر فر مایا کہ ظالم کا ہاتھ روک کر اس کی مدد کرو کیونکہ ظلم کرنے سے وہ خد کی ناراضگی کا سزاوار ہوگا.حضور انور نے فرمایا کہ دین حق کی تعلیم کے مطابق انصاف کرنے کے باوجود امن قائم نہ ہو تو سب مل کر زیادتی کرنے والے گروہ سے جنگ کریں یہاں تک کہ وہ ہتھیار ڈال دے.حضور انور نے طاقتور قوموں کو یاددہانی کرائی کہ اُن کے ہاتھ میں ویٹو کی طاقت ہوتی ہے.انہیں چاہئے کہ وہ قیام امن کو بہر حال مد نظر رکھیں.حضور انور نے فرمایا دوسروں کی دولت کے لئے حرص کرنا اور حسد کرنا دنیا میں بے چینی کو بڑھانے اور امن کو خطرے میں ڈالنے کا سبب ہیں.سرحدی چڑھائیاں کر کے دوسروں کے قدرتی ذخائر پر دسترس حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.بعض دفعہ طاقتور قو میں اثر و رسوخ کے بل بوتے پر دوسری قوموں کے مقابل میں دھڑے بنا کر ان کے وسائل اپنے اختیار میں لے لیتی ہیں.
294 حضور انور نے فرمایا کہ غریب ممالک میں بھی ایسے افراد پائے جاتے ہیں جنہیں بعض علمی میدانوں میں اعلیٰ درجہ کی برتری حاصل ہو جاتی ہے.ان حالات میں توقع یہ ہونی چاہئے تھی کہ تمام قو میں مل کر کوشش کریں اور اُن غلطیوں سے باز رہیں جن سے ماضی میں خوفناک جنگیں ہوئیں.انسان کی با ہمی فلاح و بہبود کے طریقے تلاش کئے جاتے.قدرتی وسائل کے بہترین استعمال سے ایک دوسرے کی مدد کی جائے.اللہ تعالیٰ نے ہر ملک کو مختلف وسائل سے نوازا ہے.اگر مل جل کر با قاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ جدید تکنیکی سہولتوں کو بروئے کار لایا جاتا تو دنیا سے بھوک کا خاتمہ ہو جاتا.حضور انور نے فرمایا کہ جن ممالک کو معدنیات کے ذخائر عطا ہوئے ہیں.ان کو آزادی ہونی چاہئے کہ وہ معقول قیمتوں پر کھلی مارکیٹ میں اپنے ذخیروں کی تجارت کر سکیں.اس طرح تمام ممالک ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ جزا سزا کاعمل سوت کے بعد ہی واقع ہو گا مگر خدا تعالیٰ نے جو نظام جاری فرمایا ہے اس کے تحت جب مظالم اپنی انتہاؤں کو چھونے لگیں اور عدل وانصاف کے تقاضوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو اس کے بعض طبیعی نتائج اسی دنیا میں بھی ظاہر ہو جاتے ہیں.جب ظلم بہت بڑھ جاتا ہے رو عمل بھی شدید ہوتا ہے.غریب ممالک کو ان کے صحیح منصب پر کھڑا کیا جائے جو اُن کا حق ہے.حضور انور نے فرمایا کہ اس وقت عالمی مسائل میں ایک بہت بڑا مسئلہ
295 اقتصادی بحران ہے جسے Credit Crunch) قرضوں کی بازیابی کا فقدان کہا جا رہا ہے.اس مسئلے کے تمام شواہد ایک ہی بنیادی حقیقت کی طرف نشاندہی کر رہی ہیں.قرآن کریم میں ہمیں ہدایت ملتی ہے کہ سود سے اجتناب کرو کیونکہ سود ایک ایسی شدید برائی ہے جس سے گھریلو ، قومی اور بین الاقوامی سکون درہم برہم ہو جاتا ہے.حضور انور نے فرمایا کہ آج کے Credit Crunch یعنی قرضوں کے بحران سے صورت حال نہایت وضاحت کے ساتھ سامنے آگئی ہے.ابتداء میں صورت حال یہ تھی کہ افراد جائیداد کی خرید کے لئے قرضے لیتے تھے اور تمام عمر اس قرض کی ادائیگی کرتے کرتے مقروض ہونے کی حالت میں موت کے منہ میں چلے جاتے تھے مگر جائیداد کی ملکیت ان کو حاصل نہیں ہو سکتی تھی.مگر آج کے دور میں حکومتیں قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں.بہت بڑی بڑی کمپنیوں کا دیوالیہ نکل گیا ہے.بہت سے بینک اور مالیاتی ادارے یا تو دیوالیہ ہو گئے ہیں یا حکومتی امداد کے ذریعہ انہیں ڈوبنے سے بچایا گیا ہے.اس سنگین صورت حال سے امیر اور غریب دونوں ممالک دو چار ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ حالت یہ ہے کہ جن لوگوں نے بینکوں میں پیسہ رکھا ہوا ہے اس پیسے کی کوئی قیمت نہیں.دنیا کے بیشتر ممالک میں خاندانوں تاجروں اور اکابرین حکومت کا سکون برباد ہو گیا ہے.یہ سب وہی مسائل ہیں جن کے بارہ میں ہمیں وقت سے بہت پہلے خبر دار کیا گیا تھا.حضور انور نے
296 فرمایا کہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس صورت حال کے مزید کیا نتائج مرتب ہوں گے.آخر میں حضور انور نے فرمایا کہ اصل اور سچا امن انسانوں کو صرف اس صورت میں مل سکتا ہے کہ وہ اپنے رب کریم کی طرف متوجہ ہوں.اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو تو فیق فرمائے کہ وہ اس مرکزی حقیقت کو سمجھ سکیں.
297 سال 2009ء 7 / مارچ 2009ء - لا ر ڈ پر وووسٹ کی دعوت پر گلاسگو کے سٹی چیمبر میں حضور انور کا خطاب.موضوع : دنیا میں قیام امن کے لئے انصاف ضروری 21 / مارچ 2009 ء - پیس کا نفرنس بیت الفتوح مورڈن، یو کے میں حضور انور نے خطاب فرمایا.☆ 13 اگست 2009ء کو جلسہ سالانہ جرمنی کے کارکنان کو خطاب فرمایا رجلسہ کے انتظامات کا معائنہ بھی فرمایا.14 تا 16 اگست 2009 ء - جلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت فرمائی اور 14 اگست 2009ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے کثرت سے ذکر الہی اور توبہ واستغفار کرتے رہنے کی تحریک فرمائی.25 ستمبر 2009 ء - حضور انور نے خطبہ جمعہ میں عباد الرحمن کی 13 خصوصیات بیان کرنے کے بعد احباب جماعت کو ان پر عمل کرنے کی تحریک فرمائی.حمد 20 /نومبر 2009ء - حضور انور نے خطبہ جمعہ میں اللہ کے ولی بننے کی تحریک فرمائی.15 دسمبر 2009ء کو جامعہ احمدیہ جرمنی کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا
298 اور لائبریری ناصر باغ کا افتتاح فرمایا.16 دسمبر 2009 ء کو بیت الباقی Pforzheim کا سنگ بنیاد رکھا.یہاں مقامی میڈیا کے نمائندوں کو انٹرویو دیا.18 دسمبر 2009ء کو بیت نور فرینکفرٹ کی تعمیر پر پچاس سال مکمل رہے تھے.اس پہلو سے حضور انور نے یہاں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور اگلے روز 19 دسمبر کو اسی سلسلہ میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں حضور انور نے معزز مہمانوں سے خطاب فرمایا.☆ سال 2010ء یکم جنوری 2010ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے کثرت.درود شریف پڑھنے کی تحریک فرمائی.26 فروری 2010ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے کفالت یتامیٰ فنڈ میں دنیا بھر کے احمدیوں کو حصہ لینے کی تحریک فرمائی.2 تا 3 را پریل 2010ء حضور انور نے 25 ویں جلسہ سالانہ سپین میں شرکت فرمائی جو بیت بشارت پیڈ رو آباد میں منعقد ہوا.عمیر 9 اپریل 2010ء کو حضور انور نے اسپین میں لجنہ ہال کا سنگ بنیاد رکھا.11 اپریل کو والنسیا اسپین میں بیت الرحمن کا سنگ بنیا درکھا.17 تا 19 اپریل 2010 ء حضور انور نے اٹلی کے شہر Turin
299 میں کفن مسیح کی زیارت کی اور عرب احمدیوں سے ملاقات کی.23 اپریل 2010ء کو فرانس میں امریکن کونسلیٹ کے عہد یدار اور آرچ بشپ سے ملاقات کی اور گفتگو فرمائی.24 اپریل 2010ء کو فرانس کے شہر اسٹراس برگ میں مختلف قوموں کے 27 احباب نے حضور انور کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت حاصل کی.28 رمئی 2010ء کو لاہور کی دو بڑی احمد یہ بیوت الذکر : دارالذکر گڑھی شاہو اور بیت النور ماڈل ٹاؤن میں دشمن نے ظلم و بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہتے احمدی نمازیوں کو اپنے وحشیانہ ظلم کا نشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں 86 احمدی شہید ہوئے.حضور انور نے 28 مئی 2010 ء اور بعد ازاں 11،4 ، 18 ، 25 جون اور نیز 2 اور 9 جولائی 2010ء کے خطبات جمعہ میں تمام شہدائے لاہور کا فرداً فرداً ذکر خیر فرمایا اور شہداء کے کوائف و شمائل بیان ☆ 24 جون 2010ء کو منہائم جرمنی میں بیت احسان کا افتتاح فرمایا.25 تا 28 جون 2010ء جلسہ سالانہ جرمنی منعقد ہوا جس میں حضور انور نے خطابات فرمائے.اس دوران یو نیورسٹی کے طلباء کو ہدایات سے نوازا.14 تا 20 ستمبر 2010 ء دورہ آئر لینڈ کے دوران حضور انور نے بیت مریم گالوے کا سنگ بنیا درکھا.
300 3 / دسمبر 2010ء- خطبہ جمعہ میں حضور انور نے مظلوم احمدیوں کی دادرسی اور جماعت کی ترقی کیلئے روزانہ دونوافل ادا کرنے کی تحریک فرمائی.سال 2011ء ہو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبات جمعہ 14 جنوری، 21 جنوری اور 28 جنوری 2011ء میں آنحضرت کے عفو کے خلق عظیم ، آپ کے عالی مقام، ناموس رسالت، آپ کی حفاظت الہی ، مظالم پر صبر اور آپ کے دشمنوں کی پکڑ اور رسوائی کا تذکرہ فرمایا نیز احباب جماعت کو بکثرت درود شریف پڑھنے کی تحریک فرمائی.محمد حضور انور نے اپنے خطبہ جمعہ 11 فروری 2011ء میں انڈونیشیاء میں ہونے والی 3 دردناک شہادتوں کے تناظر میں انڈونیشیاء میں تاریخ احمدیت کا مختصر تذکرہ فرمایا.☆ 20 / مارچ 2011ء - جماعت احمدیہ برطانیہ کے زیر اہتمام آٹھواں سالانہ امن کمپوزیم طاہر ہال بیت الفتوح لندن میں منعقد ہوا.ایک ہزار سے زائد معزز مہمان شامل ہوئے جن میں وزراء مملکت ممبران پارلیمنٹ، سفارتی نمائندے وغیرہ شامل تھے.کہ خطبہ جمعہ فرمودہ 25 مارچ 2011ء میں حضور انور نے ایک عیسائی پادری جس نے ستمبر 2010ء میں قرآن کریم کے بارہ بے ہودہ گوئی کی اور
301 قرآن جلانے کی باتیں کیں اور دوروز قبل قرآن کریم کو جلانے کی مذموم حرکت کی ، اس پر اسکی شدید مذمت فرمائی.22 تا 25 اپریل 2011 ء - پہلی چار روزہ بین الاقوامی ایم ٹی اے کانفرنس طاہر ہال بیت الفتوح لندن میں منعقد ہوئی.12 ممالک کے 35 نمائندے شامل ہوئے.اختتامی تقریب میں حضور انور کی شمولیت اور نصائح.10 جون 2011ء- خطبہ جمعہ میں حضور انور نے خلیفہ اور مجدد کی تعریف بیان فرمائی.عمر 12 جون 2011ء کو حضور انور نے بیت النصر کولون جرمنی کا افتتاح ، 13 جون بیت العافیت اور بیت الذکر لیولک کا افتتاح فرمایا.☆ 14 جون تا 16 جون 2011ء - حضور انور نے جرمنی کے صوبہ ہمبرگ کے پارلیمنٹ ہاؤس کا وزٹ فرمایا، ہمبرگ کے وزیر اعلیٰ اور میئر نے آپ کا استقبال کیا، ہمبرگ کے ٹی وی نمائندہ کو انٹرویو دیا، جرمنی کی گرین پارٹی کی طرف سے حضور کے اعزاز میں پارلیمنٹ ہاؤس ہال میں ایک تقریب اور حضور انور کا خطاب، مهدی آباد میں ایک مسجد کا سنگ بنیا د رکھا.محمد 17 جون 2011 ء.گروس گیراؤ فرینکفرٹ جرمنی میں حضور انور نے ” سرائے نصرت جہاں کا افتتاح فرمایا.18 جون 2011ء- حضور انور نے بیت الغفور Ginsheim جرمنی کا افتتاح فرمایا.
302 19 جون 2011ء - Selingenstadh ، جرمنی میں حضور انور نے بیت الہادی کا افتتاح فرمایا.☆ 20 جون 2011ء کو افتتاح بیت الامن Nidda اور 21 جون بیت الباقی Dietzenbach جرمنی کا افتتاح حضور انور نے فرمایا.22 جون 2011ء - اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے مذہبی آزادی Prof.Heiner Bielefeldt کی حضور انور سے ملاقات.12 تا 25 ستمبر 2011ء کے دورہ جرمنی کے دوران حضور انور نے دو بیوت الذکر بیت الاحد بروکسال اور بیت الاحد لمبرگ کا سنگ بنیا د رکھا.☆ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن ٹی آئی کالج سے بھی خطاب فرمایا.عد 20 ستمبر 2011ء - یورپین پارلیمنٹ کے وسیع ہال میں جماعت احمدیہ کے متعلق تاریخی تقریب، حضور انور کا پیغام.26 ستمبر تا 3 را کتوبر 2011ء - دورہ ناروے کے دوران حضور انور نے پارلیمنٹ ہاؤس کا وزٹ فرمایا، پارلیمنٹ کے پریزیڈنٹ سے ملاقات کی، کانفرنس روم میں آپ کے اعزاز میں استقبالیہ، آپ کی شمولیت اور مہمانوں سے ملاقات.بیت النصر اور مسرور ہال کا افتتاح فرمایا.بیت النصر کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم ناروے کی طرف سے بھی خیر سگالی کے جذبات پر مبنی پیغام موصول ہوا.7 اکتوبر 2011 ء - خطبہ جمعہ میں حضور انور نے ہر ہفتہ میں ایک نفلی
303 روزہ رکھنے کی تحریک فرمائی.10 اکتوبر 2011 ء - جرمنی کے شہر Vechta میں حضور انور نے بیت القادر کا سنگ بنیا د رکھا.15 اکتوبر 2011ء کوحضور انور نے بیلجیئم کے شہر بروسلز میں بیت المجیب کا سنگ بنیاد رکھا.اس موقع پر متعدد عمائدین نے اپنے خطابات میں جماعت کی اس کوشش کو سراہا.اس کے بعد حضور انور نے خطاب فرمایا.10 نومبر 2011ء کو حضور انور کی طرف سے پوپ بینیڈکٹ شانزدہم کے نام قیام امن کیلئے لکھا ہوا خط کہا بیر کے امیر مکرم شریف عودہ صاحب نے ولیکن میں پوپ کو دستی پہنچایا.☆ حم 3 دسمبر 2011ء - پادری ہنری مارٹن کلارک کے پڑپوتے.Mr Jolyn Martyn Clarke نے حضور انور سے ملاقات کی.خطبہ جمعہ 9 دسمبر 2011 ء میں فرمایا کہ حضور انور نے عیسائی پوپ جناب پوپ بینڈ یکٹ کو امن و آشتی کے قیام میں کردار ادا کرنے کے حوالہ سے ایک خط تحریر فرمایا ہے.سال 2012ء 13 جنوری 2012ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے ہر احمدی کو ستغفار کرنے اور اسے حرز جان بنانے کی تحریک فرمائی.
304 ☆ 24 فروری 2012ء کو بیت الواحد Feltham ہنسلو ، یو کے کا افتتاح اور خطاب حضور انور.26 فروری اور 7, 8 / مارچ 2012 ء حضور انور نے دنیا میں قیام امن کے لئے اسرائیل اور کینیڈا کے وزراء اعظم کے علاوہ ایران، امریکہ اور روس کے صدور کے نام خطوط ارسال کئے.14 مارچ 2012ء کو پیلاطوس ثانی کپتان ولیم ڈگلس کے نواسے کرسٹوفر ڈگلس پولین کی لندن میں حضور انور سے ملاقات.27 رمئی کو جرمنی کے شہر المبرگ میں حضور انور نے بیت الاحد کا افتتاح فرمایا، 28 رمئی الصمد Giessen کا سنگ بنیاد رکھا اور 29 رمئی بیت دار الامان فرائیڈ برگ کا سنگ بنیا د رکھا.محمد 30 رمئی 2012ء کو حضور انور نے ملٹری ہیڈ کوارٹرز کوبلنز جرمنی میں جرمن آرمی آفیسر ز کو خطاب فرمایا اور دین حق کی خوبصورت تعلیم پیش فرمائی.5 جون 2012ء کو شہر آخن جرمنی میں حضور انور نے بیت منصور کا سنگ بنیا درکھا.☆ 18 تا 21 جون 2012ء - دورہ امریکہ کے دوران حضور انور نے بیت فضل عمر ڈیٹن اور بیت الناصر کولمبس کا افتتاح فرمایا.27 رجون 2012ء کیپیٹل ہل میں تاریخی تقریب منعقد ہوئی، اراکین کانگریس کی طرف سے خیر مقدمی قرار داد پیش کی گئی ، حضور انور نے
305 خطاب فرمایا اور کیپیٹل ہل کی تاریخی عمارت کا تفصیلی دورہ کیا.اسی روز بیت مبارک ورجینیا کا افتتاح فرمایا.28 تا 30 جون 2012ء - حضور انور نے بیت الکریم بالٹی مور اور بیت ہادی ہیرس برگ (امریکہ ) کا افتتاح فرمایا، انتظامات جلسہ سالانہ امریکہ کا معائنہ کیا، خواتین سے خطاب اور ہیومینیٹی ایوارڈ کا اعلان فرمایا.یکم جولائی 2012ء کو حضور انور نے جلسہ سالانہ امریکہ میں اختتامی خطاب فرمایا.5 تا 7 / جولائی 2012 ء - دورہ کینیڈا کے دوران حضور انور نے انتظامات جلسہ سالانہ اور ہوٹل جامعہ احمدیہ کینیڈا کا معائنہ کیا ، جلسہ سالانہ کینیڈا میں خواتین سے خطاب اور اختتامی خطاب فرمایا.11، 12 جولائی 2012ء- تقریب تقسیم اسناد جامعہ احمدیہ کینیڈا اور حضور انور کا خطاب، رشتہ ناطہ کمیٹی سے میٹنگ، ایوان طاہر پیس و پیچ کینیڈا کی افتتاحی تقریب،حضور انور کا خطاب، اس موقع پر وزیر اعظم کینیڈا کا پیغام موصول ہوا.☆ 15 جولائی 2012ء کو یونیورسٹی طلباء کینیڈا سے ملاقات کی، 15.14 ہیومینیٹی فرسٹ کے دفتر کا افتتاح فرمایا.☆ جلسہ سالانہ برطانیہ 7, 8, 9 ستمبر 2012ء کو حدیقۃ المہدی ہیمپشائر میں منعقد ہوا.قبل ازیں 31اگست 2012ء کے خطبہ جمعہ میں
306 حضور انور نے جلسہ سالانہ برطانیہ کی انتظامیہ کو زریں نصائح سے نوازا.21 ستمبر 2012ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے توہین رسالت کے مواد پر مبنی بے ہودہ فلم کی شدید مذمت فرمائی.28 ستمبر 2012ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے غیر ملکی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندگان کو دیئے گئے انٹرویو کا ذکر فرمایا جو آنحضرت کے خلاف ایک گستاخانہ فلم کے ریلیز ہونے پر حضور انور کا رد عمل لینے کیلئے آئے تھے.حضور نے فرمایا کہ ہمارا رد عمل تو ڑ پھوڑ نہیں ہے بلکہ آپ کی سیرت کو عام کرنے اور آپ پر بکثرت درود بھیجنے سے ہوگا.28 ستمبر 2012ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے سیرۃ النبی سیمینار کرنے ، حضور کے خطبہ جمعہ 21 ستمبر 2012ء بابت سیرۃ النبی کی بکثرت اشاعت کرنے اور کتاب لائف آف محمد (دیباچہ تفسیر القرآن) کا مطالعہ کرنے کی تحریک فرمائی.21 اکتوبر 2012 ء کو جامعہ احمد یہ یوکے کی نئی عمارت کا حضور انور نے افتتاح فرمایا.4 دسمبر 2012 ء ایک تاریخ ساز دن.دورہ یورپ کے دوران اس روز حضور انور کا یورپین پارلیمنٹ سے خطاب، سٹیج پر ایک طرف یورپین پارلیمنٹ کا جھنڈا تھا تو دوسری طرف لوائے احمدیت لہرا رہا تھا.یورپین پارلیمنٹ 27 ممالک کے 754 ممبران پر مشتمل ہے جنہیں M.E.P کہا
307 جاتا ہے.پارلیمنٹ سے خطاب سے پہلے حضور انور نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور سوالوں کے جوابات دیئے.☆ 13 دسمبر 2012 ء - ایک ممبر پارلیمینٹ Charles Tannock نے حضور کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کیا.اس تقریب عشائیہ میں برطانیہ کے تین ممبران یورپین پارلیمینٹ ،اسٹونیہ اور پولینڈ سے ایک ایک پیجیئم اور سپین سے دو دو، اسی طرح سری لنکا کے سفیر ، ناروے کے پاریلیمینٹ اور دیگر معززین نے شرکت کی.محمد 15 دسمبر 2012ء کو بیت الرشید ہمبرگ کے میناروں کی تقریب افتتاح سے حضور انور نے خطاب فرمایا.عميد 8 دسمبر 2012ء کو حضور انور نے مہدی آباد ہمبرگ جرمنی میں چار مکانوں کا سنگ بنیا درکھا.12 / دسمبر 2012ء کو حضور انور نے بیت الاحد بر خسال اور بیت الباقی Pforzheim کا افتتاح فرمایا.18 / دسمبر 2012ء کو حضور انور نے جامعہ احمدیہ جرمنی کی نئی عمارت کا افتتاح فرمایا.☆ سال 2013ء 18 /جنوری 2013ء-حضور انور نے خطبہ جمعہ میں واقفین نو کے
308 لئے ہدایات فرمائیں.19 فروری 2013 ء - ایوان طاہر پیس و پیج ٹورانٹو کینیڈا میں وزیر اعظم کینیڈا کی آمد اور جماعت احمدیہ کے فورم سے مذہبی آزادی کے دفتر کے قیام کا اعلان کیا.22 فروری 2013ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے احباب جماعت کو مضطر ہو کر دعائیں کرنے کی تحریک فرمائی.26 / مارچ تا 7 اپریل 2013ء دورہ سپین کے دوران حضور انور نے اسپین کے شہر ویلنسیا میں تعمیر ہونے والی بیت الرحمن کا افتتاح فرمایا، القلعہ نامی قصبہ میں مسلمانوں کے ویران گھروں کا بھی وزٹ کیا.دورہ کینیڈا 15 تا 26 رمئی 2013 ء کے موقع پر حضور انور کو اسٹیٹ گیسٹ کی حیثیت دی گئی.اس دوران بیت الرحمن وینکوور کا افتتاح فرمایا، جلسہ سالانہ کینیڈا میں شمولیت فرمائی اور خطابات سے نوازا.