Language: UR
دینی نصاب نومبائعین کی تربیت کیلئے
دینی نصاب نو مبائعین کی تربیت کیلئے شائع کرده نظارت نشر و اشاعت قادیان
دینی نصاب (نومب تعین کی تربیت کیلئے) نظارت نشر و اشاعت قادیان نام کتاب: مرتبہ اشاعت بار اول ( انڈیا ) : جون 1999ء اشاعت بار دوم (انڈیا) اگست 2001ء اشاعت بذ ابا رسوم (انڈیا) جون 2017ء تعداد مطبع ناشر 1000: فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت قادیان ضلع گورداسپور، پنجاب، انڈیا، 143516 Name of the Book Compiled by Ist Edition India 2nd Edition India DINI NISAAB NAZARAT NASHR-O-ISHA'AT QADIAN June 1999 August 2001 Present Edition India June 2017 Quantity 1000 Printed at Fazl-e-Umar Printing Press Qadian Published by Nazarat Nashr-o-Isha'at Qadian Distt.Gurdaspur, Punjab, India, 143516 ISBN-81-7912-008-2
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ فہرست مضامین نمبر شمار پہلا باب ( ارکان اسلام ) صفحہ نمبر 1 جماعت احمدیہ کا تعارف و عقائد 2 ارکان اسلام 3 کلمه طیبه 4 نماز 5 روزه 6 زكوة 7 حج دوسرا باب (فقہی مسائل) 1 بچے کی پیدائش کے ضروری مسائل ماں باپ کیلئے ضروری باتیں 3 نکاح 4 حقوق زوجین 5 تعد دازدواج 1 6 7 7 31 34 37 38 39 39 43 44
44 45 47 48 49 50 51 52 53,54 57 57 60 61 70 76 77 77 79,81 83 6 محرمات نکاح 7 طلاق 8 احکام عدت و خلع 10 العان 11 سود 12 قرض 13 | زراعت 14 اجاره وخرید و فروخت 15 شفعه 16 وراثت تیسر ا باب (بدرسوم) 1 بچے کی پیدائش پر بدرسوم 2 شادی بیاہ سے متعلق بد رسوم موت فوت کی بد رسمیں 4 نصف شعبان کا حلوا 5 تسبیح کا استعمال 6 تعویذ گنڈے 7 تمباکو نوشی اور تھیٹر بے پردگی
90 97 110 120 130 139 169 203 222 228 232 235 238 242 249 255 261 268 چوتھا باب (اختلافی مسائل ) 1 مسئلہ وفات مسیح 2 مسئلہ ختم نبوت مسیح موعود اسی امت میں مسیح و مہدی ایک ہی وجود ہوں گے 5 مہدی اور جہاد بالسیف 6 مسیح و مہدی کی علامات 7 مسیح موعود کا کام صداقت مسیح موعود پانچواں باب (تاریخ اسلام ) 1 حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم 2 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ 3 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ 4 حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ 5 حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت مرز اغلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام 7 خلافت احمد احمدی حضرت خلیفت مسیح الاول رضی اللہ عنہ 9 حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 10 حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ
284 299 325 325 326 326 11 حضرت خلیفة المسیح الرابع حمہ اللہ تعالی حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز چھٹا باب ( نظام جماعت احمدیہ و اخلاقیات ) 327 332 334 335 336 337 338 340 341 343 344 347 357 یه 1 مجلس شوری صدر انجمن احمدیہ تحریک جدید 4 وقف جدید 5 جماعت احمد یہ اور مالی قربانی 6 ذیلی تنظیمیں 7 آداب مساجد 8 آداب مجالس و آداب گفتگو 10 اطاعت والدین 11 آداب لین دین 12 کسب حلال 13 اخلاق فاضلہ 14 وسعت حوصلہ 15 اخلاق سیئہ ساتواں باب (چند نظمیں) آٹھواں باب (یا درکھنے کی باتیں)
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ تبلیغ واشاعت اسلام کیلئے ضروری ہے کہ دعوت الی اللہ کے مقدس فریضے کو اپنا لیا جائے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ (لحم سجده آیت ۳۴) الْمُسْلِمِينَ ترجمہ: اور بات کہنے میں اس سے بہتر کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجالائے اور کہے کہ میں یقیناً کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں.66 سید نا حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کودَاعِيَّا إِلَى اللهِ" اللہ کی طرف بلانے والا کا لقب عطا فرمایا گیا.چنانچہ بعثت کے پہلے دن سے لیکر وصال کے آخری وقت تک آپ صلی یا کہ تم دعوت الی اللہ کے مقدس فریضے میں منہمک رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی دعوت الی اللہ کی غرض سے شب و روز قلمی و لسانی و مالی جہاد میں مصروف رہے.آپ نے ایک موقع پر اپنے دل کی کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:.”ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر گھر پھر کر خدا تعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اس ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دُنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچائیں اور اس تبلیغ میں زندگی ختم کر دیں خواہ مارے ہی جاویں.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحه ۳۹۱) سید نا حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی تحریکات میں سب سے بنیادی اور اہم تحریک جس کی (الف)
طرف آپ اپنے ابتدائے عہد خلافت سے جماعت کو توجہ دلاتے رہے وہ دعوت الی اللہ کی تحریک ہے.آپ نے بار ہا یہ فرمایا کہ اب وہ وقت نہیں رہا کہ چند مبلغین یا معلمین کے ذریعے دعوت الی اللہ کا کام پورا ہو سکے بلکہ اب تو جماعت کے ہر فرد کو داعی الی اللہ بننا لازمی ہوگا.چنانچہ آپ نے فرمایا:.”اے محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامو! اور اے دین محمد کے متوالو! اب اس خیال کو چھوڑ دو کہ تم کیا کرتے ہو اور تمہارے ذمہ کیا کام لگائے گئے ہیں.تم میں سے ہر ایک داعی الی اللہ ہے اور ہر ایک خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہوگا.تمہارا کوئی بھی پیشہ ہو کوئی بھی تمہارا کام ہودُنیا کے کسی خطہ میں تم بس رہے ہو کسی قوم سے تمہارا تعلق ہو تمہارا اولین فرض یہ ہے کہ دنیا کومحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی طرف بلاؤ اور ان کے اندھیروں کو نور میں بدل دو اور ان کی موت کو زندگی بخش دو.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.“ خطبه جمعه فرموده ۲۵ فروری ۱۹۸۳ء) اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارے امام کی اس تحریک میں ایسی برکت عطا فرمائی کہ دعوت الی اللہ کے نتیجے میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں نفوس حقیقی اسلام احمدیت کی آغوش میں آرہے ہیں.اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کثرت سے آنے والوں کی اس رنگ میں تربیت کا انتظام کیا جا سکے جس کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ خود ان کے اندر استحکام اور استقامت پیدا ہو جائے بکہ یہ آگےداعی الی اللہ بن کر مزید ہزاروں لاکھوں سعید روحوں کی ہدایت کا موجب بنتے چلے جائیں جیسا کہ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے فرمایا.اتنی کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے انعامات کے پھلوں کی بارش ہورہی ہے کہ انہیں سنبھالنا ایک بہت بڑا کام ہے اور جو پھل سنبھالا نہ جائے وہ ضائع ہو جایا (ب)
کرتا ہے.اس لئے ایسی تربیت گاہیں کھولنی ضروری ہیں جو تمام سال کام کرتی رہیں اور نئے آنے والوں کو دین کی باتیں اس حد تک سمجھا دیں کہ شیطان ان کو پھسلا نہ سکے اور جب وہ واپس جائیں تو نذیر بن کر جائیں ان نئے آنے والوں کو ایسے مراکز میں بلاؤ جہاں دین کی تعلیم دی جارہی ہو تفقہ فی الدین ہو اور اس حد تک ان کو دین سے آگاہ کر دو کہ ان کے اندر دین کا ولولہ پیدا ہو جائے.وہ شاگرد کے طور پر ہی نہ بیٹھے رہیں بلکہ استاد بن کر جلد واپس جا کر اپنی قوم کو ڈرائیں ( ہوشیار کریں) خطبه جمعه فرموده ۱۹ / اگست ۱۹۹۴ء) اللہ تعالیٰ کے فضل سے مرکز احمدیت قادیان میں دینی علوم سے آراستہ کرنے کیلئے سید نا حضرت اقدس مسیح موعود کی قائم کردہ مبارک درسگاہ جامعہ احمدیہ کے نام سے قائم ہے.چونکہ ہر داعی الی اللہ کیلئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ قادیان آ کر سات سال کا کورس پڑھ کر با قاعده مبلغ بن کر خدمت دین کا حق ادا کر سکے اور دوسری طرف کثرت سے ایسے داعیین الی اللہ کی ضرورت ہے جو ابتدائی معلومات اور بنیادی تعلیم سے واقفیت حاصل کر کے تبلیغ اور تربیت کے کاموں میں مشغول ہو جا ئیں ایسے داعین الی اللہ تیار کرنے کیلئے مجلس مشاورت بھارت منعقدہ دسمبر ۱۹۹۸ء میں یہ تجویز پیش ہوئی تھی کہ ایک ایسا مختصر نصاب تیار کیا جائے جس کو ہر صوبہ کے اندرونی تربیتی مراکز میں داعین الی اللہ کو بلا کر پڑھا دیا جائے تا کہ جہاں وہ خود احمدیت حقیقی اسلام کی ابتدائی تعلیمات سے واقف ہو جا ئیں وہاں اپنے اپنے علاقوں میں تبلیغ و تربیت کے کاموں کو سنبھالنے کے قابل ہو جائیں.چنانچہ سلسلہ احمدیہ کی مختلف کتب انصار اللہ کا بنیادی نصاب تبلیغ ہدایت از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب وغیرہ کی مدد سے ایک مختصر نصاب 1999 میں تیار کر کے شائع کیا گیا جس میں (ج)
اسلام کے بنیادی ارکان نماز روزہ زکوۃ.حج کے مسائل اور ارکانِ ایمان کی تشریح اور روز مرہ کے فقہی مسائل کے علاوہ اختلافی مسائل اور مختصر سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین اور مختصر سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کے علاوہ نظام جماعت سے واقفیت کرادی گئی ہے.امید ہے کہ عام دائمیین الی اللہ کیلئے خواہ وہ پرانے احمدی ہوں یا نئی نسل سے تعلق رکھتے ہوں یا نو مبائعین سے تعلق رکھتے ہوں یہ نصاب مفید ثابت ہوگا.اس کے بعد مزید تفصیلی معلومات کے حصول کیلئے جماعت کا بکثرت لڑیچر موجود ہے.زیادہ دلچسپی رکھنے والے دوستوں کو روحانی خزائن، کتب حضرت مصلح موعود بالخصوص کتاب دعوة الامیر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی کتب تبلیغ ہدایت اور ختم نبوت کی حقیقت اور الحجۃ البالغۃ کے مطالعہ کے لئے تحریک کی جاتی ہے.اس طرح مخالفین کے اعتراضات کے جوابات کیلئے حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے ۱۸ خطبات جمعہ جو ۱۹۸۵ء میں آپ نے پاکستان کے قرطاس ابیض کے جواب میں ارشاد فرمائے تھے اور ہفت روزہ بدر کا مسیح موعود نمبر دسمبر ۱۹۹۵ ء کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے.ہر احمدی کو پتہ ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض کیا ہے؟ اور یہ کہ آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے...پس ہر احمدی کو چاہئے کہ آپ کی کتب کو پڑھے.انگریزی دان جو ہیں یا جن کو اردو زبان نہیں آتی ان کے لئے دوسرے ملکوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف زبانوں میں اتنا لٹریچر موجود ہے کہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد اور آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے اس بارے میں وضاحت سے مواد موجود ہے.اپنے عقیدے کو مضبوط اور پختہ کرنے کی ہر ایک کو ضرورت ہے.اعتراض کرنے والوں کے اعتراضوں کے جواب دیں.خود تیاری کریں گے تو علم بھی حاصل ہوگا اور اعتراضوں ()
کے جواب بھی تیار ہوں گے.اس کے لئے بھی علاوہ اس کے کہ ہر شخص خود سعی اور کوشش کرے، جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی اپنے پروگرام بنانے چاہئیں کہ کس طرح ہم اس بارے میں ہر فرد تک یہ تعلیم پہنچادیں کہ آپ کی بعثت کی غرض کیا ہے اور آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے.مذکورہ بالا ارشادات سے واضح ہے کہ ہر فر د جماعت کے لئے اپنے دینی علوم کو بڑھانا کس قدر ضروری ہے اور اس کے حصول کے لئے کتاب ہذا کا مطالعہ نہایت ضروری ہے.حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی سیرت اور خلافت خامسہ کے بابرکت دور کے اضافہ کے ساتھ ضرورت کے پیش نظر نظارت نشر و اشاعت قادیان حضور انور کی منظوری سے اس کتاب کو ایک مرتبہ پھر شائع کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ داعین الی اللہ کو تیار کرنے میں یہ مختصر تبلیغی و تربیتی نصاب بہت مفید اور بابرکت ثابت ہو.آمین.ناظر نشر واشاعت قادیان ضروری نوٹ:.ہر داعی الی اللہ کو جو اس نصاب کو پڑھنے پر آمادہ ہے اسے سب سے پہلے قرآن کریم ناظرہ آنا ضروری ہے.اگر کسی کو سادہ قرآن پڑھنا نہیں آتا تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس نصاب کی تدریس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم ناظرہ اور پھر اس کا ترجمہ سکھانے کا انتظام کیا جائے.☆ (o)
بسم اللہ الرحمن الرحیم پہلا باب جماعت احمدیہ کا تعارف وعقائد مخبر صادق حضرت محمدمصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر جہاں اُمت کے عروج اور ترقی کے بارہ میں عظیم الشان خبر دی تھی وہاں آخری زمانہ میں اس امت پر آنے والے تنزل واد بار کی بھی بڑے واضح الفاظ میں پیشگوئیاں فرمائی تھیں.چنانچہ حضرت علی سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ :- لا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسُمُهُ مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى عُلَمَاءُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ - ( مشکوۃ کتاب العلم فصل الثالث صفحه ۳۸) یعنی اسلام صرف نام کا رہ جائے گا.اور قرآن مجید صرف الفاظ میں رہ جائے گا.ان کی مسجدیں بظاہر آباد ہوں گی مگر ہدایات سے خالی ہوں گی.اُن کے علماء آسمان کی چھت کے نیچے بدترین خلائق ہوں گے.اس کے علاوہ آپ صلی یا یہ تم نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں عابد جاہل ہوں گے.قاری لوگ فاسق ہوں گے.میاں اپنی بی بی کی اطاعت کرے گا.مسجدوں میں شور ہو گا.عالم اس لئے علم سیکھیں گے کہ روپیہ کما سکیں.قرآن کو تجارت ٹھہرا دیں گے.لوگ مسجد میں بیٹھ کر دنیا کی باتیں 1
کریں گے.خطباء بہت ہوں گے آمر بالمعروف کم ہوں گے.شراب پی جائے گی.مرد عورتوں کی شکل بنائیں گے.عورتیں مرد کی ہم شکل بنیں گی.بے گناہ قتل ہوں گے.(از اقتراب الساعۃ صفحہ ۳۸ طبع في مطبعہ مفید عام الکائنہ فی آگرہ بادارة المنشی محمداحمد خاں ۱۳۰۱ھ ) ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اُمت کے اس ادبار اور تنزل کی بڑی واضح پیشگوئیاں فرمائی تھیں وہاں آپ نے اُمت کو یہ خوشخبری بھی دی تھی کہ اس تنزیل اور ادبار کے بعد پھر میری امت پر بہار کا زمانہ آئے گا اور یہ امت اپنی کھوئی ہوئی ابتدائی شان وشوکت دوبارہ حاصل کرے گی اور آخری زمانہ میں جبکہ مندرجہ بالا پیشنگوئیوں کے مطابق حالات وقوع پذیر ہوں گے تو ایک عظیم وجود خدا تعالیٰ کی طرف سے امت میں کھڑا کیا جائے گا.جس کو آپ نے مہدی اور مسیح کے نام سے یاد فرمایا.چنانچہ آپ مالی ما پیام فرماتے ہیں : كَيْفَ تَهْلِكُ أُمَّةٌ أَنَا أَوَّلُهَا وَعِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ أُخِرُهَا.(کنز العمال جلد ۷ صفحه ۲۰۳ حدیث نمبر ۲۱۲۴) کہ میری اُمت کبھی تباہ و برباد نہیں ہوسکتی جس کے اوّل میں خُدا نے مجھے بھیجا اور جس کی حفاظت اور حمایت کے لئے آخر میں مسیح موعود آئے گا.آنحضور کے اس فرمان سے یہ بھی واضح ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کا آنا ایسے زمانہ میں مقدر تھا.جو امت محمدیہ کے لئے انتہائی خطرات کا زمانہ تھا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی انداری پیشگوئی کے مطابق ہم دیکھتے ہیں کہ تمام علامات ظاہر ہو چکی ہیں جن کی اس عظیم وجود کے زمانہ میں ظاہر ہونے کے متعلق آپ نے خبر دی تھی.پس ضروری تھا کہ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ اس مسیح اور مہدی کو بھی ظاہر فرماتا جس کے ظہور کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آج سے ایک سوسال سے کچھ زائد عرصہ قبل بانی سلسلہ احمدیہ حضرت 2
مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ خبر دی کہ وہ مسیح اور مہدی جس کے ظہور کی خبر آنحضور ملانیا ایتم نے دی تھی وہ آپ ہی ہیں.چنانچہ آپ سیلی ایلیم فرماتے ہیں :.” جب خدا تعالیٰ نے زمانہ کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اور زمین کی طرح طرح کے فسق اور معصیت اور گمراہی سے بھرا ہوا پا کر مجھے تبلیغ حق اور اصلاح کے لئے مامور فرمایا اور یہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس دنیا کے لوگ تیرھویں صدی ہجری کو ختم کر کے چودھویں صدی کے سر پر پہنچ گئے تھے تب میں نے اُس حکم کی پابندی سے عام لوگوں میں بذریعہ تحریری اشتہارات اور تقریروں کے یہ ندا کرنی شروع کی کہ اس صدی کے سر پر جو خُدا کی طرف سے تجدید دین کے لئے آنے والا تھا وہ میں ہی.ہوں تا وہ ایمان جو زمین پر سے اُٹھ گیا ہے اس کو دوبارہ قائم کروں اور خدا سے قوت پاکر اُسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کو اصلاح اور تقویٰ اور راستبازی کی طرف کھینچوں.جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم نے دی تھی وہ میں 66 ہی ہوں.“ ( تذكرة الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۳) چنانچہ آپ نے ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو ایک جماعت کی بنیاد رکھی تا دینِ حق کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ دُنیا میں قائم کیا جائے.اور قرآن کریم کی حکومت کو قائم کیا جائے اور ادیانِ باطلہ کو مٹاکر ساری دُنیا کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کیا جائے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.”ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّد رسُولُ اللہ.ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیاوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سید ناو مولانامحمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین و خاتم المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے 3
اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ 66 راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے.“ (ازالہ اوہام حصہ اول، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۶۹، صفحه ۱۷۰) نوع انسان کے لئے رُوئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم “ کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۳) " آنحضرت خاتم النبیین ہیں اور قرآن شریف خاتم الکتب.اب کوئی اور کلمہ یا کوئی اور نماز نہیں ہو سکتی.جو کچھ آنحضرت صلی یا یہ تم نے فرمایا یا کر کے دکھایا اور جو قرآن شریف میں ہے.اس کو چھوڑ کر نجات نہیں مل سکتی جو اس کو چھوڑے گا جہنم میں جائے گا.یہ ہمارا مذہب اور عقیدہ ہے." ( ملفوظات جلد ۸ صفحه ۲۵۲) اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ بچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ اور اسی پر مریں.اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ان سب پر ایمان لاویں اور صوم وصلوٰۃ اور زکوۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کار بند ہوں.اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے.“ ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۲۳) ”ہماری کتاب بجز قرآن کریم کے نہیں اور ہمارا رسول بحجر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں ہے.اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور قرآن شریف خاتم الکتب 4
ہے.سودین کو بچوں کا کھیل بنانا نہیں چاہیئے اور یا درکھنا چاہئیے کہ ہمیں بجز خادم اسلام ہونے کے اور کوئی دعوی بالمقابل نہیں اور جو شخص ہماری طرف اس کے خلاف منسوب کرے وہ ہم پر افتراء کرتا ہے ہم اپنے نبی کے ذریعہ فیض و برکات پاتے ہیں اور قرآن کریم کے ذریعہ ہمیں فیض ملتا ہے.“ مکتوب حضرت بانی سلسلہ احمدیہ الحکم ۱۷ اگست ۱۸۹۹ء) جماعت احمدیہ کے عقائد ذیل میں جماعت احمدیہ کے عقائد کی مختصر وضاحت درج کی جاتی ہے: اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے اور اس پر ایمان لانا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں وہ واحد لاشریک ہے.اللہ تعالیٰ تمام عیبوں سے پاک اور سب خوبیوں کا جامع ہے.۴.فرشتے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور وہ ہر وہ کام کرتے ہیں جس کا اللہ انہیں حکم دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کی کتابیں برحق ہیں ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت کا سامان کرتا ہے.مشہور الہامی کتابوں میں تورات، انجیل، زبور، صحف ابراہیم اور قرآن مجید شامل ہیں.قرآن مجید آخری شرعی کتاب ہے جو تا قیامت منسوخ نہیں ہوسکتی.- اللہ تعالیٰ کے نبی سچے ہیں.اب تک دنیا کے ہر خطے اور ہر قوم میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی آچکے ہیں.مشہور انبیاء میں حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراھیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام ، حضرت اسحق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شامل ہیں.یہ سب انبیاء اپنے اپنے وقت پر آکر اور خدا کے بندوں کو ہدایت دے کر وفات پاچکے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شرعی 5
نبی ہیں.قرآن مجید میں آپ کو خاتم النبیین اور رحمتہ للعالمین فرمایا گیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق چودھویں صدی میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام آپ کے غلام کی حیثیت سے امام مہدی اور مسیح موعود بن کر تشریف لائے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دُعائیں سنتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنی تقدیر خیر و شر کی جاری کرتا ہے.مرنے کے بعد انسان اُٹھایا جائے گا اور اس کا حساب کتاب ہوگا.اللہ تعالیٰ کے منکر اور دین کے مخالف اگر وہ ان کو اپنی رحمت کا ملہ سے بخش نہ دے جہنم کا عذاب چکھیں گے لیکن یہ جہنم دائی نہیں ہوگی.جب اصلاح ہو جائے گی اللہ تعالیٰ پھر جنت میں داخل فرمادے گا.11.اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور بعث بعد الموت اور تقدیر خیر وشر پر دل وجان سے ایمان رکھنے والوں اور اعمال صالحہ بجالانے والوں کو اللہ تعالی دائمی جنتوں کا وارث بنادے گا.مذکورہ بالا عقائد کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے اسے زبانی مع ترجمہ یاد کرنا چاہیئے.امَنْتُ بِاللهِ وَمَلَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْقَدْرِ خَيْرِه وَشَره میں اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور موت کے بعد اٹھنے پر اور تقدیر خیر وشر پر ایمان لاتا ہوں.پنج ارکان اسلام جو شخص دل سے کلمہ طیبہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ پڑھتا ہے وہ مسلمان ہے.6
اُسے مذکورہ صحیح عقائد کی تعلیم دینی چاہئے.علاوہ ازیں ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اعمال صالحہ کی طرف بھی توجہ دے تب ہی وہ خدا کی رضا حاصل کر سکتا ہے.اہم اعمال جن پر اسلام کی بنیاد ہے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق پانچ ہیں جو ارکان اسلام کہلاتے ہیں : ا کلمہ طیبہ جس کے الفاظ یہ ہیں :.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ - یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں.۲.پانچ نمازوں کا ہر روز ان کے مقررہ وقت پر ادا کرنا..رمضان کے روزے رکھنا.۴.زکوۃ ادا کرنا.۵- بیت اللہ کا حج کرنا.نماز سے متعلق ضروری امور ہے.۱.اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں مقرر کی ہیں یعنی نماز فجر ، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء.۲ - اوقات نماز : فجر کی نماز صبح صادق کے ظاہر ہونے سے سورج کے نکلنے تک پڑھی جاتی ظھر :.ظہر کا وقت سورج کے ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے اور اُس وقت ختم ہو جاتا ہے جب کسی چیز کا سایہ اس کی اونچائی سے بڑھ جائے.یہ سایہ اس سایہ کے علاوہ ہے جو کسی چیز کا ٹھیک دو پہر کے وقت ہوتا ہے.عصر :.ظہر کا وقت ختم ہونے سے شروع ہوتا اور دھوپ کا رنگ زرد ہونے تک رہتا ہے.مجبوری کی صورت میں سورج کے غروب ہونے تک پڑھی جاسکتی ہے.مغرب :.سورج کے غروب ہو جانے کے بعد سے اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ 7
مغرب کی جانب سرخی اور سفیدی باقی رہے.یعنی شفق کے آخری وقت تک.عشاء: شفق کے ختم ہونے سے شروع ہوتا ہے اور آدھی رات تک رہتا ہے.مگر کسی مجبوری کی وجہ سے آدھی رات تک نہ پڑھی گئی ہو تو اس کے بعد بھی فجر سے پہلے پڑھی جاسکتی ہے.۳.اوقات ممنوعه :- مندرجہ ذیل اوقات میں نماز پڑھنا ممنوع ہے:.(۱) جب سورج نکل رہا ہو یا جب غروب ہو رہا ہو.(ب) جب سورج سر پر ہو یعنی ٹھیک دوپہر کے وقت.( ج ) نماز عصر کے بعد سے سورج کے غروب ہونے تک نفل نماز نہیں پڑھنی چاہیئے.(1) صبح کی نماز کے بعد سے سورج کے نکلنے تک نفل نہیں پڑھنے چاہئیں.۴- تعداد رکعات :- فجر : دوسنت.دو فرض سنتیں اگر فرض سے پہلے نہ پڑھی جاسکیں تو فرضوں کے بعد پڑھ لینا جائز ہے.ظھر : - چار سنت.چار فرض.بعد میں دو یا چار سنتیں.پہلی چارسنتوں کی بجائے دو پڑھنا بھی جائز ہے.عصر : - چار فرض_مغرب :- تین فرض.دوست.عشاء:- چارفرض.دوست.پھر تین رکعت وتر.۵- نوافل : (۱) فجر کے علاوہ باقی ہر اذان اور اقامت کے درمیان دونفل.۲.نماز تہجد کے کم از کم دو نفل زیادہ سے زیادہ آٹھ.8
۳.نماز اشراق کے دو یا چار نفل.یہ نماز سورج نکلنے کے بعد کچھ دن چڑھے تک پڑھی جاتی ہے.۴.نماز چاشت کے دو یا چار نفل.اس کا وقت اشراق کے کچھ دیر بعد ہے.۶ - شرائط نماز و مسائل وضو: نماز کیلئے جسم ، لباس اور جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے.اگر انسان جنبی ہو یعنی منی خارج ہوگئی ہو یا مجامعت کی ہو تو پہلے غسل کرنا ضروری ہے اگر کسی مجبوری کے باعث غسل نہ کر سکے تو تیم کر کے نماز ادا کرسکتا ہے.ے.نماز سے قبل وضو کرنا ضروری ہے.وضو کا طریق یہ ہے کہ تین مرتبہ ہاتھ پہنچوں تک دھوئے.پھر تین مرتبہ کلی کرے.تین دفعہ ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرے.تین مرتبہ منہ دھوئے.پھر کہنیوں تک ہاتھ تین مرتبہ دھوئے پھر ہاتھ تر کر کے سر کا مسح کرے پیشانی سے گڈی تک پھر انگلی کان کے اندر پھرائے اور انگوٹھوں کو کان کی پشت پر سے گزارے.پھر دائیں اور بائیں پاؤں کو تین تین مرتبہ دھوئے.اگر پانی کی قلت ہو تو دودو یا ایک ایک مرتبہ دھونا بھی جائز ہے.اگر پانی بالکل میسر نہ ہو یا اس قدر کم ہو کہ صرف پینے کیلئے کافی ہو یا وضو کرنے یا نہانے سے بیماری پیدا ہونے یا برھنے کا ڈر ہو تو تیم کر لینا چاہیئے.تیمم کا طریق یہ ہے کہ پاک مٹی یا کچی دیوار پر ہاتھ مارکرمنہ پر ملے اور دوسری مرتبہ ہاتھ مار کر دونوں ہاتھوں پر کہنیوں یا کلائی تک ملے.ایک مرتبہ ہاتھ مارکر تیم کر نا بھی مسنون ہے.و غسل اور وضو کیلئے پانی پاک صاف ہونا چاہیے.چشموں ، ندی نالوں ، دریاؤں اور کنوؤں کا پانی پاک ہوتا ہے بند پانی مثلاً تالاب وغیرہ کا پاک سمجھا جاتا ہے بشرطیکہ کسی گندگی کی وجہ سے اس کا رنگ اور ذائقہ نہ بدلا ہو اور نہ بو بدلی ہو.اگر کنویں یالا تاب میں کوئی جانور گر کر 9
مرجائے یا اور کوئی گندی چیز گر جائے تو اسے نکال دینا چاہئے.جب تک پانی کے رنگ، بو یا ذائقہ میں اس کی وجہ سے فرق پیدا نہ ہو وہ پاک ہے.اگر ان میں تبدیلی ہوگئی ہے تو اس قدر پانی نکالا جائے کہ رنگ، ذائقہ اور بوصاف ہو جائے.ڈولوں کی تعداد معین نہیں.۱- وضو کے بعد یہ دُعا پڑھنی چاہیئے.اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ.اے اللہ مجھے تو بہ کرنے والوں میں سے کر دے اور مجھے پاک رہنے والوں میں سے بنادے.۱۱.پیشاب، پاخانہ یا کوئی رطوبت یا ریح خارج ہونے سے وضوٹوٹ جاتا ہے.کسی چیز کا سہارا لگا کر یا لیٹ کر سونے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے.ہوا خارج ہونے یا وضو ٹوٹ جانے کے بارے میں اگر شک ہو تو شک کی وجہ سے تازہ وضو کر نالازم نہیں آتا.تاہم وضو کر لینا باعث ثواب ہے.۱۲.جرابیں اگر وضو کی حالت میں پہنی ہوں تو ان پر مسح کیا جاسکتا ہے.مقیم کیلئے جرابوں پر ایک دن رات تک مسح کرنا جائز ہے.لیکن مسافر تین دن اور تین رات ان پر مسح کرسکتا ہے.وقت کی ابتداء اس گھڑی سے ہوگی جب جرابیں پہننے کے بعد وضو ٹوٹے.اگر کسی نے ظہر کے وقت وضو کر کے جرابیں پہنیں اور مغرب کے وقت وضو ٹوٹا تو اس مغرب سے مسح کا وقت شروع ہو گا اور اگلے روز مغرب تک رہے گا.۱۳.نماز میں کھڑے ہوئے یار کوع یا سجدہ میں سو جانے یا اونگھنے سے وضو نہیں ٹوٹتا.۱۴- اگر بوٹ ٹخنوں تک ہوں اور ان کو پہن کر نماز پڑھنی ہو.تو ان پر مسح ہو سکتا ہے ورنہ بوٹ اُتار کر پاؤں دھوئے یا جرابیں باوضو پہنی ہوں تو ان پر مسح کرے.نماز اور اس کے پڑھنے کا طریق : نماز پڑھنے والا جب نماز کیلئے تیار ہوتو قبلہ رخ کھڑا ہو کر پہلے یوں نماز کی نیت پڑھے : 10
إِنِّي وَجَهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ - یقیناً میں نے اپنا رُخ خالص ہو کر اس کی جانب کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں.پھر اللہ اکبر کہہ کر اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھائے اور اپنے ہاتھ سینے پر یا اس کے نیچے اس طرح باندھے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ پر پہنچے سے آگے ہو اور حسب ذیل ثناء اور تعوذ اور تسمیہ پڑھے : ثناء : سُبْحَنَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ یعنی اے اللہ ! تو ہر عیب اور کمزوری سے پاک ہے اور (صرف پاک ہی نہیں بلکہ ) تمام قابل تعریف صفات سے متصف ہے.تیرا نام برکت والا اور تیری شان بلند ہے اور تیرے سوا کوئی اور معبود نہیں.تعوذ : اعُوذُ بالله من الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی دھتکارے ہوئے شیطان سے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پڑھتا ہوں اللہ کے نام سے جو بن مانگے دینے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اس کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھ کر کوئی اور سورۃ یا کچھ حصہ قرآن کریم کا پڑھے.11
سورة فاتحہ : الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ امِينَ سب تعریف اللہ تعالیٰ کیلئے ہے جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے.بے حد کرم کرنے والا.بار بار رحم کرنے والا ہے.جزا سزا کے وقت کا مالک ہے.(اے خدا) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں.ہمیں سیدھے راستے پر چلا.اُن لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا ہے.جن پر نہ تو (بعد میں تیرا) غضب نازل ہوا اور نہ وہ بعد میں گمراہ ہوئے.(اے اللہ ! تو یہ دعا قبول فرما) سورة اخلاص : قُلْ هُوَ اللهُ أَحَده اللهُ الصَّمَدُه لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُه وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ.(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے (پڑھتا ہوں ) تو کہتا چلا جا کہ اللہ اپنی ذات میں اکیلا ہے.اللہ وہ ہستی ہے جس کے سب محتاج ہیں.اور وہ کسی کا محتاج نہیں) نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا اور (اس کی صفات میں ) اس کا کوئی بھی ہم مرتبہ نہیں.اس کے بعد اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں جائے اور کم از کم تین بار سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ پڑھے.( یعنی پاک ہے میرا رب بڑی عظمت والا ).اطمینان سے رکوع کرنے کے بعد سیدھا کھڑا ہوکر سمیع وتحمید پڑھے.سمع : سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اللہ تعالیٰ نے اس کی سنی جس نے اس کی تعریف کی.12
: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمَّدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ اے ہمارے رب ! سب تعریف تیرے لئے ہے.تعریف بہت زیادہ اور پاک جس میں برکت ہو.اس کے بعد اللہ اکبر کہہ کر سجدہ میں جائے اور کم از کم تین بار تسبیح پڑھے.یعنی سُبحان ربي الأغلى - ( پاک ہے میرا رب جو بڑی شان والا ہے ) اس کے بعد اللہ اکبر کہہ کر بیٹھ جائے اور یہ دُعا پڑھے :- دعا بين السجدتين : اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَعَافِنِي وَاجْبُرْنِي وَارْزُقْنِي وَارْفَعْنِي - اے میرے اللہ ! میرے گناہ بخش دے اور مجھ پر رحم کر اور مجھے ہدایت دے اور مجھے خیریت سے رکھ اور میرے نقصان کو پورا کر اور مجھے رزق دے اور میرا رفع کر.اس دُعا کے بعد اللہ اکبر کہہ کر دوسرا سجدہ کرے اور تین بارسُبحان ربي الأعلى پڑھے جس طرح پہلے سجدہ میں پڑھی تھی.پھر اللہ اکبر کہہ کر دوسری رکعت کیلئے سیدھا کھڑا ہو جائے اور ہاتھ باندھ کر پہلی رکعت کی طرح سورۃ فاتحہ اور کوئی اور حصہ قرآن کا پڑھے.پھر پہلے کی طرح رکوع کرے.کھڑا ہو اور سجدے کر کے دوسری رکعت مکمل کرے اور پھر اس طرح بیٹھ جائے کہ دایاں پاؤں کھڑا ہو اور بایاں پاؤں بچھا ہوا ہو.ہاتھوں کو گھٹنوں کے پاس رانوں پر رکھ کر تشہد ، درود اور دعائیں پڑھے.تشهد : التَّحِيَّاتُ لِلهِ وَالصَّلَوتُ وَالطَّيِّبَاتُ السّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ 13
وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّلِحِينَ اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - ہمیشہ کی زندگی اللہ ہی کیلئے ہے.اور تمام عبادتیں اور پاکیز گیاں بھی.( اور ) اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں نیز ہم پر بھی سلام ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور اُس کے رسول ہیں.درود شریف : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى الِ اِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ - اے اللہ ! فضل کر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی کرنے والوں پر جس طرح فضل کیا تو نے ابراہیم اور ابراہیم کی پیروی کرنے والوں پر.ضرور تو ہی بہت تعریف والا اور بڑی شان والا ہے.اے اللہ برکت نازل فرما محمد (صلی اللہ علیہ وسم) اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی کرنے والوں پر جس طرح تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم پر اور ابراہیم کی پیروی کرنے والوں پر.ضرور تو ہی بہت تعریف والا اور بڑی شان والا ہے.دُعائیں : ا - رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے رب! دے ہم کو اس دنیا میں ہر قسم کی بھلائی اور آخرت میں بھی ہر قسم کی بھلائی اور بچا ہم کو آگ کے عذاب سے.14
۲- رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَى وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا.اے ہمارے رب ! میری دعا قبول فرما.اے ہمارے رب ! میری اور میرے والدین اور تمام مومنوں کی بخشش فرما جس دن حساب ہونے لگے.ان دعاؤں کے بعد پہلے دائیں طرف اور پھر بائیں طرف منہ پھیر کر کہے.السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ.( یعنی سلامتی ہو تم پر اور اللہ کی رحمت ) نماز کے بعد کی دعائیں : اللَّهُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ - یعنی اے اللہ! تو سلام ہے.اور تجھ سے ہی ہر قسم کی سلامتی ہے تو بہت برکتوں والا ہے اے جلال اور اکرام والے (خدا).- اللهم أعلى عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ اے اللہ ! میری مددفرما کہ میں تیرا ذ کر اور شکر اور تیری اچھی عبادت بجالا سکوں.- اَللّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِ مِنْكَ الْجَلد اے اللہ ! کوئی روکنے والا نہیں اس چیز کو جو تو نے عطا کی اور نہیں دینے والا کوئی چیز جس کو تو نے روک دیا ہو.اور نہیں فائدہ دیتی بزرگی والے کو تیرے سامنے کوئی بزرگی.دُعاؤں کے بعد تینتیس دفعہ سُبحان اللہ تینتیس دفعہ الحمد للہ.اور چونتیس دفعہ الله اکبر پڑھے.15
نماز وتر : نماز وتر واجب ہے.اس کی تین رکعتیں ہیں جو عشاء کی فرض اور دوستوں کے بعد سے تہجد کا وقت ختم ہونے تک پڑھی جاسکتی ہیں.بہتر ہے کہ عشاء کی نماز کے ساتھ پڑھی جائیں لیکن جس شخص کو یقین ہو کہ وہ تہجد کے وقت اُٹھ سکتا ہے وہ اس وقت ادا کرے.پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ ، دوسری میں سورۃ الکافرون اور تیسری میں سورۃ اخلاص پڑھنا مسنون ہے.تینوں رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی حصہ قرآن کریم پڑھنا ضروری ہے.نماز وتر پڑھنے کے کئی طریق ہیں.۱ - دورکعت علیحدہ اور تیسری رکعت علیحدہ.( بخاری ومسلم ) ۲.تینوں رکعتیں ملا کر یعنی دو رکعت کے تشہد کے بعد تیسری رکعت پڑھیں.دُعائے قنوت تیسری رکعت میں رکوع کے بعد پڑھیں.دعائے قنوت نمبرا : (ابوداؤد.ترمذی) اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِيْنُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ وَنَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ.اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ وَنَخْشُى عَذَابَكَ إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقُ اے اللہ ! ہم یقیناً تیری مدد چاہتے ہیں اور تجھ سے بخشش مانگتے ہیں اور ہم تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور ہم تو کل کرتے ہیں تجھ پر اور ہم تعریف کرتے ہیں تیری بہتر اور ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور ہم تیری ناشکری نہیں کرتے اور ہم الگ ہوتے ہیں اور چھوڑتے ہیں اسے جو نافرمانی کرے تیری.اے اللہ ! صرف تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تیرے لئے ہم نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور تیری طرف ہم دوڑتے ہیں اور ہم تیرے حضور حاضر ہوتے 16
ہیں اور ہم امید رکھتے ہیں تیری رحمت کی اور ہم ڈرتے ہیں تیرے عذاب سے.یقیناً تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے.دُعائے قنوت نمبر ۲ : اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيْمَنْ هَدَيْتَ وَعَافِنِي فِيْمَنْ عَافَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيْمَنْ تَوَلَّيْتَ وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ وَإِنَّهُ لَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ نَسْتَغْفِرُكَ وَنَتُوبُ إِلَيْكَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ وَصَلَّى اللهُ عَلَى النَّبِيِّ - اے اللہ ! مجھے ہدایت دے ان کے ساتھ کہ جن کو تو نے ہدایت دی اور مجھے سلامت رکھے ان لوگوں کے ساتھ کہ جن کو تو نے سلامت رکھا اور مجھے دوست رکھ ان کے ساتھ کہ جنہیں تو دوست رکھتا ہے اور برکت دے مجھے اسمیں جو تو نے مجھے عطا کیا اور بچا مجھے اس چیز کے شر سے جسکا تو نے فیصلہ کیا.پس یقینا تو ہی فیصلہ کرتا ہے اور نہیں فیصلہ کیا جاتا تیرے خلاف.یقیناً وہ نہیں ذلیل ہوگا جسکا تو دوست بن جائے.اور یقیناً وہ نہیں عزت پاتا جس کا تو دشمن ہو جائے.ہم بخشش مانگتے ہیں تجھ سے اور ہم رجوع کرتے ہیں تیری طرف.تو برکتوں والا ہے اے ہمارے رب! اور تو بلندشان والا ہے اور رحمتیں ہوں اللہ کی نبی (کریم) پر.نماز سے متعلق ضروری باتیں : ا.اگر نماز کی صرف دورکعت پڑھنی ہوں تو دوسری رکعت کے تشہد کے بعد درود اور دُعائیں پڑھ کر سلام پھیر دے.۲- اگر نماز کی تین رکعتیں پڑھنی ہوں تو دوسری رکعت میں تشہد پڑھنے کے بعد اللہ اکبر کہہ کر کھڑا ہو جائے.تیسری رکعت میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھے اور رکوع وسجود سے فارغ ہوکر تشہد وغیرہ پڑھے اور سلام پھیر دے.17
۳- اگر فرض نماز کی چار رکعتیں پڑھنی ہوں تو پہلی دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے.تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھے.اور چوتھی رکعت کے سجدوں سے فارغ ہو کر تشہد کیلئے بیٹھے اور درود اور دعاؤں کے بعد سلام پھیر دے.۴.اگر سنتیں یا نفل چار پڑھنے ہوں تو ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی حصہ قرآن کریم کا پڑھے.۵- امام سورۃ فاتحہ کے بعد دوسری سورۃ پڑھنے کیلئے بسم اللہ خواہ دل میں (سرا) پڑھے یا بلند آواز سے ( جہراً) پڑھے دونوں طرح درست ہے.اسی طرح آمین بھی آہستہ یا بلند آواز سے کہنا درست ہے.۶.تشہد میں اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله کہتے وقت شہادت کی انگلی اُٹھائے.انگلی اُٹھانا مستحب (پسندیدہ) ہے.۷.رکوع کے وقت کمر سیدھی ہو اور نگاہیں نیچے سجدہ گاہ پر ہوں.رکوع پورے اطمینان سے کیا جائے.رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا چاہئیے.پھر اطمینان سے سجدہ کیا جائے.سجدہ میں جانے کیلئے گھٹنے زمین پر پہلے رکھے سوائے اس کے کہ کوئی مجبوری ہو.سجدہ کے وقت پیشانی، ناک ، دونوں ہاتھ ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے پنجے زمین کو چھورہے ہوں.کہنیاں زمین سے اونچی ہوں.باز و بغلوں اور رانوں سے الگ ہوں.ہاتھوں کی انگلیاں اکٹھی اور قبلہ رُخ ہوں.اسی طرح پاؤں کی انکھیاں بھی، پاؤں زمین سے اونچے نہ کرے.۹.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سینے پر ہاتھ باندھتے تھے.بعض لوگ ناف پر یا پیٹ پر باندھتے ہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں.یہ جواز کی صورتیں ہیں.۱۰.نماز میں اگر کچھ بھول جائے یا کسی قسم کی کمی بیشی کا خیال ہو تو یقینی حصہ سے نماز پوری 18
کرے.اور تشہد ، در و داور ماثورہ دعاؤں کے بعد سلام سے پہلے یا پیچھے دو سجدے سہو کرے.مثلاً شبہ ہو کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار تو تین یقینی سمجھ کر ایک رکعت اور پڑھے اور پھر سجدہ سہو کرے.1 - امام اگر کوئی چیز بھول جائے یا غلطی کرے تو مقتدیوں کو چاہیئے کہ سبحان اللہ کہیں.اگر امام اپنی غلطی کو نہ پہچانے تو امام کی اتباع کی جائے اور بعد نماز غلطی سے مطلع کردیا جائے.اگر امام کوئی آیت بھول جائے یا غلط پڑھے تو مقتدی اونچی آواز سے صحیح آیت پڑھ دیں.غلطی سے اگر نماز کے ارکان کی ترتیب بدل جائے یا نماز کا کوئی واجب رکن رہ جائے مثلاً درمیانی قعدہ تو سجدہ سہوضروری ہو جاتا ہے.۱۲.مقتدی کی کوئی حرکت امام سے پہلے نہیں ہونی چاہیئے.۱۳ - اگر صرف ایک ہی مقتدی ہو تو امام کے دائیں طرف کھڑا ہو.جب دوسرا مقتدی آجائے تو وہ امام کے بائیں طرف کھڑا ہو.۱۴.جس وقت امام سورۃ فاتحہ کے علاوہ کوئی حصہ قرآن کریم کا پڑھے تو مقتدی خاموش کھڑے رہ کر سنیں.آیات کو زبان سے نہ دہرائیں.البتہ سورۃ فاتحہ خلف امام سب کیلئے پڑھنا ( ملفوظات جلد نهم صفحه ۴۳۶) ۱۵.نمازی کے سامنے سے گذرنا منع ہے.اگر کوئی نمازی مسجد میں نماز پڑھ رہا ہو تو ایک صف کی جگہ چھوڑ کر اس کے سامنے سے گذر سکتے ہیں.جو نمازی کھلی جگہ نماز پڑھے اس کو چاہیے ضروری ہے.کہ کوئی چیز اپنے سامنے رکھ لے.اسے سترہ کہتے ہیں.اگر کوئی شخص ایسے وقت میں جماعت میں شامل ہو جب امام ایک یا دو رکعتیں پڑھ چکا ہو تو جتنی رکعتیں رہ گئی ہیں امام کے سلام پھیر لینے کے بعد پوری کرے.یعنی خود امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے بلکہ نماز کی تکمیل کیلئے کھڑا ہو جائے.اگر نمازی پہلی یا دوسری رکعت میں 19
شامل نہ ہوسکا ہو تو ایسی صورت میں جو رکعت یا رکعتیں وہ پڑھے گا اس میں سورۃ فاتحہ کے علاوہ بھی قرآن کریم کا ایک حصہ پڑھنا ضروری ہے جو کم و بیش تین آیات کے برابر ہو.اس کیلئے یہ رکعتیں ابتدائی ہوں گی.۱۷.اگر کوئی شخص وضو ٹوٹ جانے کی وجہ سے باجماعت نماز سے الگ ہو اور وضو کر نے کے بعد دوبارہ جماعت میں شامل ہو جائے تو جتنی رکعتیں رہ گئی ہیں وہ پوری کرے.اگر کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہے اور نماز پڑھتے پڑھتے وضوٹوٹ جائے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وضو کر کے وہیں سے نماز شروع کرے جہاں سے چھوڑی تھی بشر طیکہ کسی سے بات نہ کی ہو.بات کرنے کی صورت میں شروع سے نماز پڑھنی ہوگی.۱۸ - جو شخص رکوع میں امام کے ساتھ شامل ہو اس کی یہ رکعت ہوگئی.رکوع کے بعد شامل ہونے والے کی وہ رکعت نہیں ہوتی.جب نماز کھڑی ہو جائے تو اس خیال سے جماعت میں شامل ہونے سے رکے رہنا کہ رکوع میں شامل ہو جائیں گے درست نہیں جب نماز ہو رہی ہو تو فوراً اس میں شامل ہونا ضروری ہے.۱۹.نماز میں شامل ہونے کیلئے بھاگ کر جانا درست نہیں.۲۰ - اگر کسی شخص نے پہلے وقت کی نماز نہ پڑھی ہو اور دوسرے وقت کی نماز کھڑی ہوگئی ہو تو ایسی صورت میں اسے پہلے وقت کی نماز پہلے پڑھنی چاہئیے.اگر دوسرے وقت کی نماز کا وقت اس قدر تنگ ہو گیا ہو کہ اگر پہلی پڑھے تو دوسری کا وقت گذر جائے گا تو ایسی صورت میں بعد والی نماز پہلے ادا کرے اور جو پہلی اس کی ذمہ تھی اس کو پیچھے ڈال دے.۲۱- اگر کسی وقت امام دو نمازوں کو جمع کرے اور نمازی کو علم نہ ہو کہ کونسی ہے اور وہ جماعت میں شامل ہو جائے تو اس کی وہ نماز ہوگی جو امام کی تھی.اور دوسری نماز بعد میں پڑھے.20
مثلاً اگر امام عصر کی نماز پڑھ رہا تھا اور نمازی اُسے ظہر سمجھ کر اس میں شریک ہوا تو وہ اس کی بھی عصر کی نماز ہوگی اور ظہر کی قضاء وہ بعد میں ادا کرے گا.لیکن اگر نمازی کو علم ہو جائے کہ امام عصر پڑھ رہا ہے تو اُسے ظہر بہر حال پہلے پڑھنی چاہیئے.اور پھر بعد میں عصر میں شریک ہو.۲۲.اگر کوئی مقتدی سنتیں پڑھ رہا ہو اور اس اثناء میں نماز کھڑی ہو جائے تو اس کو چاہئیے کہ فورا اسلام پھیر کر نماز با جماعت میں شامل ہو جائے.اور سنتیں بعد میں پڑھ لے.۲۳ - اگر امام چار رکعت پڑھا رہا ہو اور وہ درمیانی تشہد بھول کر تیسری رکعت کیلئے کھڑا ہونے لگے تو اگر اس کے گھٹنے سیدھے نہیں ہوئے تو وہ تشہد میں بیٹھ جائے سجدہ سہو کی ضرورت نہیں.لیکن اگر وہ تیسری رکعت کیلئے پورا کھڑا ہو گیا ہے تو تشہد کیلئے نہ بیٹھے بلکہ تیسری رکعت پڑھے اور آخر میں سجدہ سہو کرے.جوشخص دورکعت پڑھ رہا تھا.بھول کر تیسری کیلئے کھڑا ہوگیا اور بعد میں اُسے یاد آ گیا کہ وہ نماز پوری کر چکا ہے تو وہ اسی وقت بیٹھ جائے اور تشہد پڑے اور اپنی نماز پوری کرے.لیکن اگر اس نے تیسری رکعت کا رکوع کر لیا اور پھر یاد آیا تو وہ فوراً تشہد کیلئے بیٹھ جائے اور آخر میں سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے.۲۴.رکوع یا سجدہ کی حالت میں قرآن کریم کی کوئی آیت پڑھنا منع ہے.۲۵.مومن کا امام متقی مومن ہی ہو سکتا ہے.حدیث اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ اسی طرف اشارہ کر رہی ہے اور یہ کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز جائز نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.وہ لوگ ہم کو کافر کہتے ہیں.اگر ہم کا فرنہیں ہیں تو وہ کفرلوٹ کر ان پر پڑتا ہے.مسلمان کو کافر کہنے والا خود کا فر ہے.اس واسطے ایسے لوگوں کے پیچھے نماز جائز نہیں“.( بدر جلد نمبر ۳۹ صفحه ۲ مورخه ۱۵/ دسمبر ۱۹۰۵ء، ملفوظات جلد ۸ صفحه ۲۸۲) ۲۶.نماز کا امام وہ ہونا چاہیئے جسے قرآن کریم زیادہ حفظ ہو.اگر اس میں کئی لوگ برابر ہوں تو وہ ہو جو زیادہ عالم اور فقیہہ ہو.اگر اس میں بھی کئی برابر ہوں تو جو عمر میں بڑا ہو وہ امام 21
ہو.اگر دوسری مسجد میں جائے جہاں پہلے سے امام مقرر ہے تو وہاں وہی امام ہوگا.سوائے اس کے کہ وہ دوسرے کو امامت کی اجازت دے.اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کے مکان پر ملنے جائے تو مالک مکان امام ہوگا.سوائے اس کے کہ وہ دوسرے کو اجازت دے.قرآن کریم کے حفظ کے لحاظ سے نابالغ بھی امام ہوسکتا ہے.۲۷- امام اور مقتدی ایک ہی سطح پر ہونے چاہئیں لیکن اگر جگہ نہ ہو تو مقتدی امام سے اونچی یا نیچی جگہ پر کھڑے ہو سکتے ہیں بشرطیکہ کچھ مقتدی امام کے ساتھ برابر کی سطح میں موجود ہوں.۲۸ - مرد عورتوں کا امام ہوسکتا ہے خواہ مقتدی صرف عورتیں ہوں یا مرداور عورتیں ملے جلے.عورت مردوں کی امام نہیں ہو سکتی البتہ عورتوں کی امام ہو سکتی ہے.جب مرد امام ہو اور مقتدی صرف ایک عورت ہوتو وہ اکیلی پیچھے کھڑی ہوگی.اگر مقتدی امام کی بیوی یا محرم ہو یعنی بہن، بیٹی وغیرہ تو وہ مرد کے ساتھ کھڑی ہوسکتی ہے.۲۹- اگر امام مسافر ہو تو وہ دوگا نہ پڑھے گا اور جو مقتدی مقیم ہیں وہ امام کے سلام پھیر نے کے بعد اپنی نماز مکمل کریں گے.۳۰.اگر امام کھڑے ہونے سے معذور ہوتو وہ بیٹھ کر بھی نماز پڑھا سکتا ہے لیکن مقتدی اس کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھیں گے.۳۱.اگر امام کا نماز پڑھاتے وقت وضو ٹوٹ جائے تو وہ مقتدیوں میں سے کسی کو امام بنائے اور آپ الگ ہو جائے.۳۲.کوئی مقتدی امام سے آگے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا.۳۳.نماز میں مسنون دُعاؤں کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دُعائیں کرنی چاہئیں.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.نماز کے اندر اپنی زبان میں دُعا مانگنی چاہیے کیونکہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے پورا 22
جوش پیدا ہوتا ہے.نماز کے اندر ہر موقعہ پر دُعا کی جاسکتی ہے.رکوع میں بعد تسبیح ،سجدہ میں بعد تسبیح ، التحیات کے بعد، کھڑے ہو کر ، رکوع کے بعد بہت دُعائیں کرو.تا کہ مالا مال ( ملفوظات جلد نهم صفحه ۵۵) ہو جاؤ.۳۴.ایک وقت کی نماز بھی اگر جان بوجھ کر ترک کی جائے تو یہ کفر کی حالت کو پہنچا دیتی ہے.اس کیلئے بہت تو بہ اور استغفار کرنی چاہیئے.اگر کسی بھول کی وجہ سے کوئی نماز رہ جائے تو قضا ادا کرے اور استغفار وتو بہ لازم ہے.نماز جمعہ : ا.نماز جمعہ کا وقت وہی ہے جوظہر کا ہے لیکن کسی ضرورت کی وجہ سے امام وقت کی اجازت سے سورج ڈھلنے سے پہلے بھی جمعہ پڑھا جاسکتا ہے.۲.جمعہ کی نماز سب مسلمان مردوں پر جو مقیم ہوں فرض ہے.جمعہ عورتوں پر واجب نہیں.البتہ اگرفتنہ کا ڈر نہ ہو اور پردہ کا انتظام ہو تو عورتیں بھی جمعہ پڑھ سکتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جب مستی کر دیا ہے تو پھر یہ حکم صرف مردوں کیلئے ہی رہا.“ ( ملفوظات جلد ششم صفحه ۱۲۹) مسافر پر جمعہ واجب نہیں.سفر میں ہوں تو خواہ ظہر پڑھیں.-۳- اگر کسی جگہ تین مرد ہوں تو ضرور جمعہ پڑھیں.اگر تمین کی تعداد پوری نہ ہو تو عورتوں کو شامل کر لیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوا کہ دو احمدی کسی گاؤں میں ہوں تو وہ بھی جمعہ پڑھ لیا کریں یا نہ.حضور نے فرمایا: ہاں پڑھ لیا کریں.فقہاء نے تین آدمی لکھے ہیں.اگر کوئی اکیلا ہو تو وہ اپنی بیوی وغیرہ کو پیچھے کھڑا کر کے تعداد پوری کر سکتا ہے.“ 23 ( ملفوظات جلد نهم صفحه ۲۱۴)
۴.جمعہ کی دو اذانیں ہوتی ہیں.ایک شروع وقت میں اور دوسری اس وقت جب امام خطبہ کیلئے کھڑا ہو.۵.جب جمعہ کی اذان ہو جائے تو سب کا روبار بند کر کے مسجد کی طرف چلے جانا چاہئے.اس بارہ میں قرآن کریم کا حکم بہت واضح ہے.۶.نماز جمعہ کے دو حصے ہیں.ایک خطبہ اور ایک باجماعت نماز.خطبہ پہلے ہوتا ہے اس کے بعد دورکعت فرض پڑھے جاتے ہیں.خطبہ کے بغیر نماز جمعہ نہیں ہوتی.ے.فرض سے پہلے چار سنتیں پڑھے بشرطیکہ خطبہ شروع نہ ہوا ہو.جب خطبہ شروع ہو جائے تو صرف دوسنتیں جلدی جلدی پڑھے لیکن اسے عادت نہ بنائے اور فرض کے بعد دو یا چار سنتیں پڑھے.خطبہ پوری توجہ سے عنا جائے اور بالکل باتیں نہ کی جائیں.کسی کو باتوں سے روکنا ہو تو اشارہ سے روکا جاسکتا ہے.خطبہ کے وقت تنکوں سے کھیلنا بھی ممنوع ہے.۹.جمعہ کے روز غسل کرنے کی خاص تاکید کی گئی ہے.غسل کے بعد انسان اچھے صاف ستھرے کپڑے پہنے اور میٹر ہو تو خوشبو لگائے.۱۰.امام جب مسجد میں آئے تو اذان کا حکم دے.اور خطبہ کھڑے ہو کر پڑھے.خطبہ جمعہ : امام پہلے تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت اس طرح کرے اَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِه مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ إيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ٥ اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ 24
اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ آمين اس کے بعد حسب موقعہ ضروری باتیں اور تربیتی مسائل بیان کر کے تھوڑی دیر کیلئے خاموش بیٹھ جائے پھر کھڑے ہو کر خطبہ ثانیہ پڑھے.خطبہ ثانیہ کے الفاظ یہ ہیں : الحمدُ للهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَنَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ عِبَادَ اللهِ رَحِمَكُمُ اللهُ إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَ إِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ ط تَذَكَّرُوْنَ أَذْكُرُوا اللهَ يَذْكُرُكُمْ وَادْعُوهُ يَسْتَجِبْ لَكُمْ وَلَذِكُرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ہر تعریف اللہ کیلئے ہے.ہم اس کی تعریف کرتے ہیں.اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی سے بخشش طلب کرتے ہیں.اور اسی پر ایمان لاتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں.اور ہم پناہ مانگتے ہیں اللہ کی اپنے نفسوں کی شرارتوں سے اور اپنے اعمال کی برائیوں سے.جس کو اللہ ہدایت دے اس کو کوئی گمراہ قرار نہیں دے سکتا.اور جس کو وہ گمراہ قرار دے اس کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا.اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد سلایا کہ تم اس کے بندے اور رسول ہیں.اے اللہ کے بندو! تم پر اللہ رحم کرے.یقینا اللہ حکم دیتا ہے انصاف کا اور احسان کا اور قریبی رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنے کا اور روکتا ہے بے حیائی، بُری باتوں اور بغاوت سے.وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم نصیحت قبول کرو.اللہ کو یاد کرو وہ تمہیں یاد کرے گا اور اسے بلاؤ وہ تمہیں جواب دے گا اور اللہ کا ذکر کر نا سب سے بڑی ( نعمت ) ہے.اس کے بعد امام دورکعت نماز جمعہ پڑھائے گا.دونوں رکعات میں قرآة بالجہر ہوتی ہے.جس بستی میں تین مومن بندے ہوں ان پر نماز جمعہ واجب ہے.25
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ گاؤں میں جمعہ نہیں ہوسکتا.یہ ٹھیک نہیں ہے.جمعہ ہر اس بستی میں ہوسکتا ہے جہاں تین مسلمان ہوں.البتہ ایک گاؤں میں کئی مساجد ہوں تو نماز جمعہ جامعہ مسجد میں ادا کی جانی چاہئے.نماز عیدین : یکم شوال کو عید الفطر اور دس ذی الحجہ کو عیدالاضحیہ منائی جاتی ہے.کسی کھلی جگہ پر زوال سے پہلے دورکعت نماز عید پڑھی جاتی ہے.پہلی رکعت میں ثناء کے بعد سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں کھڑے ہوتے ہی پانچ تکبیریں زائد کہی جاتی ہیں.دونوں رکعات میں قرآة بالجبر ہوتی ہے.نماز کے بعد امام خطبہ عید دیتا ہے اور عید کا خطبہ جمعہ کی طرح ہی دیا جاتا ہے.خطبہ کے بعد امام تمام سامعین سمیت دعا کراتا ہے.اور پھر سب بغل گیر ہو کر ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دیتے ہیں.نماز قصر :.سفر کی حالت میں نمازیں قصر کرنی چاہئیں.جو فرض نماز چار رکعت والی ہو اس کو دو پڑھے جو فرض نماز دو یا تین رکعت کی ہے وہ پوری ادا کرے اور پچھلی سنتیں ضروری نہیں.البتہ صبح کی دو سنتیں اور عشاء کے تین وتر ضرور پڑھے.۲.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا گیا کہ انسانوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں.بعض نو دس کوس کو بھی سفر نہیں سمجھتے بعض کیلئے تین چار کوس بھی سفر ہے.حضور نے فرمایا: 66 شریعت نے ان باتوں کا اعتبار نہیں کیا.صحابہ کرام نے تین کوس کو بھی سفر سمجھا ہے“.عرض کیا گیا.حضور بٹالہ جاتے ہیں تو قصر فرماتے ہیں؟ ( بٹالہ قادیان سے گیارہ میل ہے) 26
فرمایا:- ’ہاں کیونکہ وہ سفر ہے.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی طبیب یا حاکم بطور دورہ کئی گاؤں میں پھرتا ہے تو وہ اپنے تمام سفر کو جمع کر کے اسے سفر نہیں کہہ سکتا.“ (ملفوظات جلد دہم صفحہ ۱۰۰).اگر کسی جگہ پندرہ روز قیام کرنے کا ارادہ ہو تو قصر نہ کرے.اور اگر کوئی ارادہ نہیں تو پھر قصر کرتا رہے.نماز جمع : سفر کی حالت میں یا بارش کے وقت یا کسی اور مجبوری کے وقت یا کسی دینی اجتماع کی خاطر نمازیں جمع کی جاسکتی ہیں یعنی ظہر اور عصر اور مغرب و عشاء.نمازیں جمع کرنے کی صورت میں سنتیں معاف ہیں.میت کے احکام اور نماز جنازہ ا.جب کوئی شخص فوت ہونے لگے تو اُس کے پاس سورۃ یسین پڑھی جائے ، ذکر الہی کیا جائے، کلمہ طیبہ کا ورد کیا جائے اور جب وہ فوت ہو جائے تو إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھے اور اس کی آنکھیں یا منہ کھلا ہو تو انہیں فوراً بند کر دینا چاہیئے.اور پاؤں سیدھے کر دینے چاہئیں.۲.میت کو غسل دیا جائے.غسل کے پانی میں بیری کے پتے ابال لینا بہتر ہے.یا کوئی جراثیم کش دوا ملالی جائے.کیونکہ بظاہر بیری کے پٹوں کی یہی حکمت معلوم ہوتی ہے.غنسل کرانے والا پہلے استنجاء کر وائے پھر وضو کی جگہوں کو دھو دے، ناک اور منہ میں پانی نہ ڈالے پھر داہنے پہلو کو، پھر سارے بدن کو غسل دے.عورت کے بال گندھے ہوئے نہ رہیں انہیں کھول دیا جائے.بعدہ کا فور وغیرہ لگایا جائے.غسل کے بعد میت کو کفن پہنایا جائے کفن میں مرد کیلئے تین کپڑے ہیں.ایک گرتہ، 27
ایک تہہ بند اور ایک چادر عورت کیلئے ان کے علاوہ سینہ بند اور کمر بند ہے.یہ کپڑے سلے ہوئے نہیں ہونے چاہئیں.گرتے سے مراد ایسا کپڑا ہے جو اوپر نیچے گھٹنوں تک آ جائے.اس کو درمیان میں سے گریبان کی طرح چیر دیا جائے تاکہ سرگذر سکے.اگر پورا کفن میسر نہ ہو تو ایک چادر یا کمبل میں لپیٹ کر دفن کیا جا سکتا ہے.۴ فوت ہونے کے بعد کفن دفن میں جلدی کرنی چاہئیے تا کہ نفش خراب نہ ہو.۵ کفن پہنانے کے بعد میت کو ایسی جگہ لے جایا جائے جہاں نماز جنازہ ادا ہو سکے.یہ نماز مسجد کے باہر ہونی چاہیئے.حسب ضرورت مسجد میں بھی جائز ہے.لیکن نعش مسجد میں نہ لانی چاہئے.محراب کے باہر امام کے سامنے رکھی جاسکتی ہے.-۶ نماز جنازہ کی ترکیب : امام میت کو سامنے رکھ کر نماز پڑھائے.مقتدی ایک یا تین یا پانچ غرض طاق صفوں میں کھڑے ہوں.اس نماز میں رکوع اور سجدہ نہیں.صرف چار تکبیریں ہوتی ہیں.ہاتھ اُٹھا کر پہلی تکبیر کہے.پھر ثناء، تعوذ و تسمیہ پڑھ کر سورۃ فاتحہ پڑھے.دوسری تکبیر کے بعد درود شریف پڑھے.تیسری تکبیر کے بعد ذیل کی دُعا پڑھے اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دے.دُعائے نماز جنازہ :- اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَتِنَا وَمَيْتِنَا وَشَاهِدِنَا وغَائِبِنَا وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَأَنثَنَا اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيْمَانِ اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ وَلَا تَفْتِنَا بَعْدَهُ اے اللہ ! بخش دے ہمارے زندوں کو اور مردوں کو اور ان کو جو حاضر ہیں اور جو حاضر نہیں اور ہمارے چھوٹوں کو اور بڑوں کو اور ہمارے مردوں کو اور عورتوں کو.اے اللہ ! جس کو تو ہم میں سے زندہ رکھے اس کو اسلام پر زندہ رکھ اور جس کو تو ہم میں سے وفات دے اس کو ایمان کے ساتھ 28
وفات دے.اے اللہ ! اس کے اجر سے ہم کومحروم نہ رکھ اور اس کے بعد ہم کو کسی فتنہ میں نہ ڈال.نابالغ کیلئے دُعا :- اللّهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا سَلَفًا وَفَرَطَا وَذُخْرًا وَأَجْرًا - اے اللہ ! اس کو ہمارے فائدہ کیلئے پہلے جانے والا بنا.اور ہمارے آرام کا ذریعہ بنا اور سامانِ خیر بنا اور آرام کا موجب بنا.اگر میت نابالغ لڑکی کی ہو تو اس طرح دُعا کرے:.اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا لَنَا سَلَفًا وَفَرَطَا وَذُخْرًا وَاَجْرًا - اگر میت سامنے نہ ہو یعنی مرنے والا کسی دوسری جگہ فوت ہو گیا ہو تو حسب ضرورت نماز جنازہ غائب پڑھی جاسکتی ہے.۹- ایک ہی نیت میں کئی میت کی نماز جنازہ پڑھنا بھی جائز ہے.ایسا شخص جو وبائی مرض میں مبتلا ہو کر فوت ہو گیا ہو اور دوسروں کے بیمار ہونے کا خطرہ ہو تو اس کو اپنے کپڑوں میں بغیر غسل دفن کرنا جائز ہے.اسی طرح شہید کو بھی بغیر غسل اور کفن دفن کرنا چاہئیے.تاہم اگر موقع ہو تو نماز جنازہ پڑھی جائے.۱۱.قبر کشادہ اور گہری بنائی جائے.میت کو بغیر صندوق کے قبر میں لحد بنا کر دفنانا بہتر ہے تا ہم حفاظت کی غرض سے یا امانتا صندوق میں بند کر کے دفن کرنا جائز ہے.تابوت (صندوق ) کی لمبائی سوا چھ فٹ.چوڑائی پونے دو فٹ.درمیان میں اونچائی ڈیڑھ فٹ.کناروں پر اونچائی ایک فٹ.قبر کوزمین سے اونچا کر دینا چاہیئے اور اونٹ کے کو بان کی مانند بنادینا چاہئیے.صندوق کو رکھنے کیلئے قبر کی لمبائی سات فٹ.چوڑائی ڈھائی فٹ اور گہرائی عموماً ساڑھے تین فٹ رکھی جاتی ہے.29
۱۲.میت کو دفن کرنے کے بعد میت کیلئے اور اس کے پسماندگان کیلئے دُعا کی جائے.۱۳.نماز جنازہ فرض کفایہ ہے یعنی ایک مسلمان کے مرنے پر سب مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں.اگر کچھ لوگ نماز جنازہ پڑھ لیں تو وہ سب کی طرف سے کافی ہو جاتی ہے.لیکن اگر کوئی نہ پڑھے تو سب گنہگار ہوں گے.۱۴.جنازہ ہر ایک مسلمان کا پڑھنا چاہئیے.خواہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بڑا.جو بچہ ماں کے پیٹ سے زندہ پیدا ہو اس کا جنازہ پڑھا جائے.۱۵.جو شخص جنازہ کے ساتھ نماز جنازہ تک رہے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور جو دفن تک ساتھ رہے اسے دو قیراط ثواب ملتا ہے.۱۶ - میت کو بوسہ دینا جائز ہے لیکن رونا پیٹنا اور نوحہ کرنا، کپڑے وغیرہ پھاڑ نا خلاف سنت ہے.فاتحہ خوانی.قل خوانی یا تیسرا.دسواں.چالیسواں وغیرہ سب منع ہے.۱۷.میت کیلئے تین دن سے زیادہ سوگ کرنا منع ہے.ہاں اگر متوفی عورت کا خاوند ہو تو اس عورت کیلئے ۴ مہینے ۱۰ا دن سوگ ہے.وہ اس عرصہ میں زینت وغیرہ نہ کرے.۱۸ - احمدی کو غیر احمدی کا جنازہ پڑھنے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے منع فرمایا ہے.اسلئے کسی احمدی کو غیر احمدی کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئیے.۱۹.قبرستان میں داخل ہوتے وقت السّلامُ عَلَيْكُمْ يَأَهْلَ الْقُبُورِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَا حِقُونَ.ترجمہ: سلامتی ہو تم پر اے قبروں کے رہنے والو مسلمانوں میں سے! اور ہم بھی اللہ چاہے تو تم سے ملنے والے ہیں.۲۰- قبرستان میں جا کر اہل قبور کے حق میں دُعا کرنی چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور ان کو اپنے قرب اور جنت میں جگہ دے.30
روزے کے احکام : ۱ - ماہِ رمضان کے روزے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر بالغ مومن مرد و عورت پر فرض کئے گئے ہیں.ایک دن کا روزہ بھی عملاً بلا کسی شرعی عذر کے ترک کر نا بڑا گناہ ہے جس کی تلافی عمر بھر روزے رکھ کر بھی نہیں ہو سکتی.جب تک کہ ندامت کا احساس اور تو بہ واستغفار نہ ہو.جو شخص مسافر ہو یا بیمار ہو اس کیلئے رخصت ہے.وہ دوسرے دنوں میں روزے ۲.پورے کرے.جو دائم المرض ہو یا بہت بوڑھا اور ضعیف ہو گیا ہو اس پر روزہ فرض نہیں وہ بطور فدیہ ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے..جو عورت حاملہ ہو یا بچے کو دودھ پلاتی ہو اس پر روزہ فرض نہیں وہ بطور فدیہ ایک مسکین کو ہر روز کھانا کھلائے.۴.بھولے سے اگر کوئی چیز کھالی جائے یا پی لی جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا لیکن اگر عمداً بنا شرعی عذر مثلاً بیماری یا سفر روزہ توڑ دیا جائے تو ایسے شخص کا کفارہ یہ ہے کہ وہ ساٹھ دن مسلسل روزے رکھے.اگر اس کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے.۵- روزہ کا وقت صبح صادق سے شروع ہو کر غروب آفتاب تک ہوتا ہے.- اگر کسی شخص کو سحری کے وقت کھانا کھانے کا موقعہ نہیں ملاتو وہ اس عذر کی وجہ سے روزہ نہیں چھوڑ سکتا.سحری کا کھانا روزہ کیلئے شرط نہیں ہے.ے.مرض اور سفر کی حد شریعت نے مقرر نہیں کی.اس کا انحصار ہر شخص کی حالت پر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعامل سے سفر کی حد گیارہ میل معلوم ہوتی ہے اور مرض کی حد یہ ہے کہ جس سے سارے بدن میں تکلیف ہو یا کسی ایسے عضو میں تکلیف ہوجس سے سارا جسم بے قرار ہو جائے.جیسے بخار یا آنکھ کا درد.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ روزہ دار کی آنکھ میں تکلیف ہو تو دوائی ڈالنا جائز ہے یا نہیں.فرمایا: 31
وو یہ سوال ہی غلط ہے.بیمار کے واسطے روزے رکھنے کا حکم نہیں“ ( بدر 7 فروری 1907 صفحہ 4 بحوالہ فقہ المسیح صفحہ 217 ، روزہ اور رمضان ) ۸.جو شخص سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے وہ بھی خدا کے حکم کی نافرمانی کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.۹.مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا.( بدر۱۷ را کتوبر ۱۹۰۷ء بحوالہ فقہ احمد یہ جلد اول صفحہ 290) جو شخص صحت کی حالت میں ہے لیکن اسے خوف ہے کہ اگر میں روزہ رکھوں گا تو بیمار ہو جاؤں گا تو ایسا خوف محض نفس کا دھوکہ ہے اور ہر گز شرعی عذر نہیں.ہاں اگر طبیب کہتا ہے کہ روزہ نہ رکھو تو وہ بیمار کے حکم میں ہے.۱۰.جس شخص کا سفر ملازمت کے فرائض میں داخل ہے یا روزی کمانے کیلئے ہے جیسے ریلوے کے ملازم یا گاڑی کے ڈرائیور یا پھیری والے ان سب کو روزہ رکھنا چاہیئے.ان کا سفر سفر نہیں بلکہ معمول کی حالت ہے.۱.جولوگ مزدور پیشہ یا زمیندار پیشہ ہیں اور رمضان میں انہیں ایسی مشقت کا کام پڑ جائے کہ اگر چھوڑیں تو 4 ماہ کی فصل ضائع ہو جائے اور اگر کام کریں تو روزہ نہ رکھ سکیں تو وہ مجبور کے حکم میں ہیں.مزدور پیشہ کو چاہیے کہ وہ باقی سال کے گیارہ مہینہ اس قدر محنت کرے کہ رمضان میں آرام کر سکے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسے کاشت کاروں اور مزدوروں کے بارے میں جن کا گزارہ مزدوری پر ہے اور روزہ ان سے نہیں رکھا جاتا.فرمایا:.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ.یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں.ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے.اگر کوئی اپنی جگہ مزدوری پر رکھ سکتا ہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے.پھر جب میتر ہو رکھ لے“.( ملفوظات جلد نهم صفحه ۳۹۴) 32
۱۲.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ روزہ دار آنکھ میں سرمہ ڈالے یا نہ ڈالے.فرمایا:.ہے 66 مکروہ ہے اور ایسی ضرورت ہی کیا ہے کہ دن کے وقت سُرمہ لگائے.رات سُرمہ لگا سکتا ( ملفوظات جلد نهم صفحه ۱۷۳) ۱۳ - رمضان کی ابتداء چاند دیکھنے سے ہوتی ہے.اگر مطلع صاف نہ ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کریں اور پھر روزے شروع کریں.چاند کے دیکھے جانے کے بارے میں اگر یقینی اطلاع دوسری جگہ سے مل جائے تو اس کے مطابق عمل کرنا چاہئیے.اسی طرح چاند دیکھ کر ہی رمضان کا اختتام ہوتا ہے.اور اگر مطلع ابر آلو ہو تو رمضان کے تیس دن پورے کریں.سوائے اس کے کہ دوسری جگہ سے یقینی اطلاع موصول ہو جائے.۱۴.قادیان اور ربوہ ہر احمدی کے لئے وطن ثانی کا حکم رکھتا ہے لیکن وطن ثانی کی طرف سفر بھی سفر ہی ہے.اس لئے سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے افطاری کے وقت سے پہلے قادیان آنے والے روزہ داروں کا روزہ کھلوادیا تھا.اس تعامل سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر روزہ رکھنے کے بعد سفر پیش آجائے تو ایسی صورت میں روزہ کھول دینا چاہئیے.مرکز میں پہنچنے کے بعد دوسرے دن اگر کوئی چاہے تو روزہ رکھ سکتا ہے.۱۵ - بچوں کو روزہ نہیں رکھنے دینا چاہیئے.کیونکہ اس سے ذہنی اور جسمانی ارتقاء پر بُرا اثر پڑتا ہے.ہاں جب بچے کافی بڑے ہوجائیں تو بلوغت سے قبل معتدل موسم میں ایک دو روزے رکھنے میں مضائقہ نہیں.۱۶.روزوں کی دوسری قسم وہ ہے جو نفلی کہلاتے ہیں.مثلاً ماہ شوال کے شروع میں چھ، ہر ماہ چاند کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو ، پیر اور جمعرات کے دن عرفہ کے دن یعنی ماہ ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو ، اسی طرح عاشورہ کا روزہ بھی مسنون ہے.33
۱۷.رمضان کے ایام میں عشاء کی نماز کے بعد نماز تراویح پڑھی جاتی ہے.اس سلسلہ میں ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کہ رمضان میں تراویح آٹھ رکعت باجماعت مسجد میں پڑھنی چاہئیے یا اگر پچھلی رات کو اُٹھ کر ا کیلے گھر میں پڑھنی چاہیئے حضور نے فرمایا: نماز تراویح کوئی خدا نماز نہیں.دراصل نماز تہجد کی آٹھ رکعت کو اول وقت میں پڑھنے کا نام تراویح ہے.اور یہ ہر دو صورتیں جائز ہیں جو سوال میں بیان کی گئی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دو طرح پڑھی ہے لیکن اکثر عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر تھا کہ آپ پچھلی رات کو گھر میں اکیلے یہ نماز پڑھتے تھے.“ ( ملفوظات جلد دہم صفحہ ۱۸) ۱۸.روزہ کی حالت میں مسواک کرنا.تر کپڑا او پر لینا.بدن کو تیل لگانا.خوشبو سونگھنا یالگانا.تھوک نگلنا جائز ہے.مسائل زکوة ا.زکوۃ اسلام کے ارکان میں سے چوتھا رکن ہے.اس کی اہمیت اس سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کے ساتھ ہی زکوۃ کی ادائیگی کا بھی ذکر کیا ہے.اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نماز اور زکوۃ کے تارک ایک ہی حکم میں ہیں.۲.زکوۃ کی ادائیگی سے مال میں کمی نہیں آتی.بلکہ وہ بڑھتا ہے جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اس سے مال کم ہوتا ہے وہ نفس کے دھوکے میں مبتلا ہے.خدائے تعالیٰ تو قرآن کریم میں فرماتا ہے :.وما اليكم من زكوة تُرِيدُونَ وَجْةَ اللهِ فَأُوليك هُمُ الْمُضْعِفُونَ.(سورۃ الروم آیت : ۴۰) جو ز کوۃ تم محض اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کیلئے دو گے.تو ایسے طور پر دینے والے (اپنے 34
مالوں کو کم نہیں کرتے بلکہ ) بڑھاتے ہیں.۳.جب امام وقت موجود ہوتو زکوۃ اسی کے پاس آنی چاہئیے وہی بہتر جانتا ہے کہ اسے کس طرح خرچ کرے.۴.چندہ الگ چیز ہے اور زکوۃ الگ ہے.جو شخص وصیت ادا کرتا ہے یا دوسرے طوعی چندے ادا کرتا ہے وہ زکوۃ کی ادائیگی سے مستثنی نہیں ہوسکتا.۵- مندرجہ ذیل مالوں پر زکوۃ واجب ہوتی ہے:.چاندی ،سونا، سکے ،اونٹ، گائے، بھینس، بکری، بھیڑ ،دنبہ (نرومادہ) ، تمام غلے ،کھجور، انگور.۶.جن مالوں پر زکوۃ واجب ہوتی ہے.ان میں سے ہر ایک کیلئے شریعت نے ایک حد مقرر کی ہے جو مال اس مقدار کے برابر یا اس سے زیادہ ہو اس پر زکوۃ واجب ہوتی ہے.اس حد اور مقدار کو نصاب کہتے ہیں.ے.غلوں ،کھجوروں، انگوروں پر اسی وقت زکوۃ یا معشر واجب ہوتی ہے جب ان کی فصل تیار ہو جائے اور مالک انہیں کاٹ لے لیکن باقی مال پر زکوۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ مالک کے پاس ایک سال رہا ہو.غلوں، کھجوروں اور انگوروں پر زکوۃ صرف ایک دفعہ واجب ہے خواہ وہ ایک سال سے زائد عرصہ رہیں لیکن باقی اموال پر ہر سال واجب ہوتی ہے بشرطیکہ ان کی مقدار نصاب سے کم نہ ہو.۹.غلہ کا نصاب ۲۱ من ۵ سیر (۷۸۱ کلو ۸۷۰ گرام ) ہے.اس سے کم ہو تو زکوۃ واجب نہیں.جس کھیت کیلئے پانی قیمت ادا کر کے نہ لیا گیا ہو گو یا بارانی زمین ہو تو اس کی شرح زکوۃ دسواں حصہ ہے لیکن جس کیلئے قیمت ادا کر کے پانی مہیا کیا گیا ہو مثلاً زمیندار خود نہر کھینچ کر لا یا ہو یا ٹیوب ویل لگوا کر زمین سیراب کرے تو اس کی شرح بیسواں حصہ ہے.۱۰- چاندی کا نصاب ۵۲ تولہ ۶ ماشه ( ۶۱۲ گرام ۳۵۱ ملی گرام) ہے.اور زکوۃ کی 35
شرح چالیسواں حصہ ہے.یعنی ۵۲ تولہ ۶ ماشہ پر زکوۃ کی مقدار ایک تولہ تین ماشہ چھورتی (۱۰ گرام ۳۱ ملی گرام) بنتی ہے.یہی حکم چاندی کے زیور کا ہے.۱.سونے کا نصاب چاندی کے نصاب کے تابع ہے اور زکوۃ کی شرح اس صورت میں بھی چالیسواں حصہ ہے سونے چاندی کے زیوارت پروزن کے لحاظ سے زکوٰۃ ہوگی نہ کہ ان کی بنوائی وغیرہ کے لحاظ سے.سونے اور چاندی کے وہ زیور جو عام طور پر استعمال میں رہتے ہیں اور غرباء کو بھی عاریتاً دیئے جاتے ہوں ان پر زکوۃ واجب نہیں.سونے کے ایسے زیوارت کا اندازہ آٹھ تولے تک ہے اور اسی بناء پر بعض فقہاء نے سونے کا نصاب ۸ تولے ۴ ماشه ( ۹۷ گرام ۲۰۰ ملی گرام) مقرر کیا ہے لیکن یہ نصاب نہیں بلکہ استعمال کے زیور کے لحاظ سے چھوٹ ہے.۱۳.سگے خواہ وہ کسی دھات کے ہوں یا کاغذ کے ہوں ان کا نصاب چاندی کے مطابق ہوگا.یعنی جس شخص کے پاس اس قدر روپے یا پونڈ ، ڈالر یا کرنسی نوٹ ہوں جن کی قیمت ۵۲ تولہ ۶ ماشہ چاندی کے برابر ہو تو ایسا شخص صاحب نصاب سمجھا جائے گا.اور اسے چالیسواں حصہ زکوۃ دینی ہوگی.یعنی ڈھائی فی صد.۱۴.اونٹوں کا نصاب ۵ راس ( یا عدد) ہے.اگر ۵ سے کم اونٹ ہوں تو زکوۃ واجب نہ ہوگی.گائیوں اور بھینسوں کا نصاب تیں راس ہے.بکری، بھیڑ اور دنبہ کا چالیس راس ہے.۱۵.جس زمین کا گورنمنٹ لگان لیتی ہو اس کی پیداوار پر زکوۃ واجب نہیں.۱۶ - اگر کاشت کار کے پاس زمین اجارہ کے طور پر ہو تو زکوۃ کی ادائیگی اس کے ذمہ ہوگی.اگر اس نے زمین بٹائی پر لی ہو تو زکوۃ مشترکہ طور پر واجب ہوگی اور زکوۃ کی ادائیگی کے بعد باقی غلہ مالک اور کاشت کار کے درمیان تقسیم ہو گا.36
حج کے مسائل : ۱.حج تمام عمر میں ایک دفعہ فرض ہے.۲.حج اس شخص پر فرض ہے جو تندرست ہو.اور اخراجات سفر برداشت کرسکتا ہو.اور اپنے گھر والوں کیلئے مناسب انتظام کر سکتا ہو.نیز یہ بھی شرط ہیکہ سواری میٹر ہو اور راستہ میں امن ہو.اگر مندرجہ بالا چار شرائط میں سے کوئی پوری نہ ہو تو حج فرض نہیں رہتا.۳.اگر کوئی شخص خود حج نہ کر سکتا ہولیکن شوق حج میں اور حصول ثواب کیلئے نفلی طور پر کسی شخص سے حج کروانا چاہے تو جائز ہے.اسے حج بدل کہا جاتا ہے.۴.حج کیلئے وقت مقرر ہے.یعنی مقررہ ایام میں ہی حج ہوسکتا ہے.لیکن عمرہ سال کے دوران کسی وقت بھی کیا جاسکتا ہے.۵- حج کے تین ماہ ہیں.شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ یعنی ان مہینوں میں حج کا احرام باندھنا ہوگا..حج کے ضروری ارکان میں بیت اللہ کا طواف.صفا مروہ کی سعی.مقام ابراہیم پر نماز.مٹی میں رمی الجمار اور عرفات میں 9 ذی الحجہ کا قیام شامل ہے.37
دوسرا باب بچے کی پیدائش پر ضروری مسائل جب کسی مسلمان کے ہاں لڑکا یالڑ کی پیدا ہوتو اسلام نے حکم دیا ہے کہ اس کے دائیں کان میں اذان کہی جائے اور بائیں کان میں اقامت.کوئی صالح اور متبرک آدمی اُسے گھٹی دے.بچے کا اسلامی نام رکھا جائے.بہتر ہے کسی صالح آدمی سے نام رکھا یا جائے.پھر ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے.بچے کا سرمنڈوایا جائے.سرمنڈوانے کے بعد بالوں کے برابر چاندی تول کر دینا مستحب ہے اور بچے کے سر پر زعفران گھول کر لگانا بھی مستحب ہے.قربانی لڑکی کی طرف سے ایک بکرا یا دنبہ وغیرہ اور لڑکے کی طرف سے دو بکرے یا دُنبے وغیرہ زیادہ پسندیدہ ہے.ایک ایک قربانی بھی جائز ہے.ساتویں روز ختنہ کرنا بھی پسندیدہ ہے.اگر نہ ہو سکے تو بالغ ہونے سے پہلے پہلے ضرروختنہ کرالینا چاہئیے.یہ ابراہیمی سنت ہے.عقیقہ کا اصل دن تو پیدائش کے بعد ساتواں دن ہے.چودھواں اکیسواں دن بھی جائز ہے.بعض نے یہاں تک بھی لکھا ہے کہ لڑکے کے بالغ ہونے تک ماں باپ عقیقہ کر سکتے ہیں اور بالغ ہونے کے بعد لڑ کا خود بھی کر سکتا ہے.بچے کے مربیوں کو بچہ کے بالغ ہونے تک درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہئیے : (۱) رضاع ( دودھ پلانا).یعنی بچے کو خواہ اس کی ماں کا دودھ پلائیں خواہ کسی دوسری عورت کا ، دوسال کی عمر تک دودھ پلوا سکتے ہیں.یہی وہ دودھ ہے جس سے رشتوں کی حرمت قائم ہوتی ہے.دو سال کے بعد اگر بچہ کسی عورت کا دودھ پئے تو وہ عورت اس کی ماں نہیں بن سکتی.(۲) استیذان (اجازت حاصل کرنا ) :- جب بچہ چلنے پھرنے لگے اور باتیں سیکھ جائے 38
تو اس وقت اُسے اجازت حاصل کر کے اندر آنے کی تعلیم دینی چاہئیے یعنی ماں باپ کے پاس جب ان تینوں وقتوں میں آئے تو اجازت لے کر آئے (الف) صبح کی نماز سے پہلے (ب) عشاء کی نماز کے بعد (ج) عین دو پہر کے وقت جب وہ آرام کرتے ہیں.جب بچہ بالغ ہو جائے تو پھر اُسے ہر وقت گھر میں اجازت لے کر آنا چاہیئے.(۳) نماز کی تلقین : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب بچے کی عمر سات سال کی ہو تو اُسے نماز پڑھنے کی ترغیب دی جائے.اس سے ظاہر ہے کہ بچے کو سات برس کی عمر تک پہنچنے سے پہلے نماز یاد نہ ہو تو یاد کرا دینی چاہیئے کیونکہ اگر بچہ کو نماز یاد نہ ہوگی تو اُسے نماز ادا کرنے کی ترغیب کیونکر دی جائے گی.جب بچہ دس سال کا ہو تو اُسے نماز ادا کرنے کی سخت تاکید کی جائے یہاں تک کہ اُسے نماز ادانہ کرنے پر مارنے کا بھی حکم ہے.ماں باپ کیلئے ضروری باتیں : ا.بچے کو جھوٹے وعدہ نہ دیئے جائیں جو بعد میں پورے نہ کئے جاسکتے ہوں.۲- اگر بچہ امانت کے طور پر کوئی چیز رکھوائے تو اسی طرح اس کو واپس کی جائے.۳.بچہ کے سامنے ماں باپ کو لڑائی جھگڑا یا بے حیائی کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں.اول تو بچہ کی غیر موجودگی میں بھی ہر صورت میں پر ہیز کرنا چاہیئے.خلاصہ یہ کہ ماں باپ یا مربیان کو چاہیے کہ ہر کام یا بات کے کرنے سے پہلے یہ اچھی طرح سوچ لیں کہ اس کام یا بات کا بچے کے اخلاق پر کیا اثر پڑے گا.نکاح : نکاح کرنا سنت ہے.جو شخص نکاح کی طاقت رکھنے کے باوجود نکاح نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ 39
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح تاکیدی احکام کی نافرمانی کرتا ہے.نکاح کرنے سے علاوہ رشتہ داریاں بڑھنے کے انسان بہت سے گناہوں مثلاً بد نظری ، زنا اور بہت سی خطر ناک بیماریوں سے بھی بچ جاتا ہے.اور امن سے اپنی زندگی بسر کرتا ہے.لیکن اگر کسی شخص کے پاس نکاح کرنے کیلئے مال وغیرہ نہ ہو یا اسے کوئی رشتہ دار نہ ملتا ہو تو اسے روزے رکھنے کا حکم ہے.نکاح کرتے وقت یہ بات خصوصاً مد نظر رکھنے کا حکم ہے کہ عورت علاوہ اور خوبیوں کے دین دار، نیک اور پاک ضرور ہو.اگر کوئی عورت نیک اور دیندار نہیں تو اس کے ساتھ نکاح نہیں کرنا چاہیئے.کیونکہ پھر وہ فوائد حاصل نہ ہو سکیں گے جن کیلئے شریعت نے نکاح کرنے کا حکم دیا ہے.نکاح کے انعقاد کیلئے چند شرطیں ہیں:.اول :- مرد اور عورت سے دریافت کیا جائے کہ کیا وہ آپس میں نکاح کرنے پر رضامند ہیں.اگر ہر دور رضامند ہوں تو پھر نکاح کیا جائے.اگر ان میں سے کوئی ایک بھی ناپسند کرے تو نکاح نہیں ہو سکتا.دوم : - عورت کی طرف سے اس کے ولی یعنی قریبی رشتہ دار مثلاً باپ یا بھائی کی منظوری بھی ضروری ہے کیونکہ شریعت نے عورت کیلئے ایک ولی کا ہونا ضروری قرار دیا ہے اس لئے عورت کو بطور خود کسی سے نکاح کرنے کا حکم نہیں جب تک کہ اس کا ولی نکاح کی منظوری نہ دے.کی.سوم :- مہر لمقر ر ہو.بغیر مہر کے نکاح نہیں ہوسکتا.شریعت نے مہر کی کوئی حد مقرر نہیں ے مہر اس مال کو کہتے ہیں جو عورت کو بطور جائیداد نکاح کے وقت خاوند کی طرف سے دیا جاتا ہے یا دیئے جانے کا وعدہ کیا جاتا ہے.40
مرد جس قدرا اپنی حیثیت کے موافق دے سکتا ہو اور باہم فریقین کی رضامندی سے طے ہو اُس قدر مہر مقر رہونا چاہیئے.کیونکہ اگر کوئی شخص مہر تو زیادہ مقرر کر لیتا ہے مگر اس کو ادا نہیں کرتا تو وہ گنہ گار ہے.چہارم : - نکاح کا اعلان ہونا چاہیئے.اعلان جتنے زیادہ لوگوں میں کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے کیونکہ خفیہ نکاح کوئی نکاح نہیں.نکاح کے اعلان کا یہ طریق ہے کہ کسی مجلس میں جہاں چند لوگ ( کم از کم دو آدمی ) جمع ہوں.وہاں کوئی عالم مسنون طریق پر نکاح کا اعلان کرے.یعنی پہلے خطبہ نکاح پڑھے : الحَمدُ لِلهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ - أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ ط T وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمَانِ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ترجمہ :.سب تعریفوں کا مستحق چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئے ہم اُس کی تعریف کرتے ہیں.اور اس سے مدد مانگتے ہیں.اور اپنے گناہوں کی اُس سے بخشش چاہتے ہیں.اور اُس پر ایمان لاتے ہیں.اور اُس کی ذات پر توکل کرتے ہیں.اور 41
اپنے نفسوں کے شرور اور اپنے اعمال کے بدنتائج سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں.(دیکھو!) جس کو خدا ہدایت دے تو اُسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے خدا گمراہ قرار دیدے تو اُسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں.ازاں بعد میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں دھتکارے ہوئے شیطان سے.اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو کہ جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا.اور اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا.اور پھر اُن سے ( اولاد پیدا کر کے ) بہت سے مرد اور عورتیں بنا کر پھیلا دیئے.اور تم اللہ سے ڈرو.جس کا واسطہ دے کر آپس میں سوال کرتے ہو.اور رشتہ داروں کے متعلق بھی ( دیکھو اگر خلاف شریعت کام کرو گے تو اللہ تعالیٰ ہر وقت تم پر نگہبان ہے.اے مومنو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی باتیں کیا کرو.وہ تمہارے اعمال بھی درست کر دے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف کر دے گا.اور (دیکھو) جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرے تو یقیناً وہ کامیاب ہو جائے گا.اے مومنو! اور اللہ سے ڈرو.اور چاہئیے کہ ہر شخص محاسبہ کرتار ہے کہ قیامت کے دن کیلئے اُس نے کیا جمع کیا ہے.اللہ سے ڈرو.کیونکہ وہ تمہارے اعمال سے خبر دار ہے.پھر اس کے بعد اعلان کرے کہ فلاں عورت کا نکاح فلاں مرد سے اتنے مہر پر ہونا قرار پایا ہے.پھر ان ہر دو سے دریافت کرے کہ کیا انہیں یہ نکاح منظور ہے؟ اگر وہ اقرار کریں کہ انہیں ے منظور ہے.تب نکاح ہوتا ہے.اسے اصطلاح میں ایجاب وقبول کہتے ہیں.نکاح پر مبارکبادی کے مسنون الفاظ یہ ہیں بَاركَ اللهُ لَكَ، وَبَارَكَ عَلَيْكَ وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ.( حدیث ترمذی) ترجمہ: اللہ تعالیٰ تیرے لئے مبارک کرے اور تجھ پر برکت کرے اور تم دونوں کو با ہم خیر میں اکٹھا کر دے.42
چونکہ عورتوں کو پردہ کا حکم ہے.لہذا عورت کی طرف سے اُس کا ولی ایجاب وقبول کرے گا.عورت کا مجلس میں ہونا ضروری نہیں.اسی طرح بعض مجبوریوں کے پیش نظر مرد کی طرف سے اُس کا ولی یا وکیل ایجاب وقبول کرسکتا ہے.اگر عورت کا ولی اُس مجلس میں حاضر نہ ہو سکتا ہو تو اُسے اختیار ہے کہ وہ اپنی طرف سے کسی دوسرے شخص کو اپنا وکیل مقرر کر دے.تاوہ اُس کی طرف سے ایجاب وقبول کرے.نب ایجاب وقبول ہو جائے تو اب مرد و عورت خاوند اور بیوی بن گئے.اب خاوند ا پنی بیوی کو اپنے گھر لے جاسکتا ہے.جب خاوند کی اپنی بیوی کے ساتھ خلوت صحیحہ ہو جائے تو اُسے چاہئیے کہ حسب توفیق اپنے قریبی رشتہ داروں، دوستوں اور مسکینوں کی دعوت کرے.اس دعوت کو ولیمہ کہتے ہیں.یہ دعوت ولیمہ ) کرنا سنت ہے.اور اس کا قبول کرنا بھی سنت ہے.اور اس دعوت میں غریب اور مسکین لوگوں کو بلانے کا خاص حکم ہے.حقوق زوجین : اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت اور فوقیت دی ہے.اور اس پر فرض قرار دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کیلئے تمام اخراجات خوراک، پوشاک اور رہائش وغیرہ کا انتظام حسب توفیق کرے.اُس پر ناحق خفا نہ ہو.اور اُس پر ناجائز سختی نہ کرے بلکہ ہمیشہ اس کے ساتھ اچھا برتاؤ اور نیک سلوک کرے اور اس کے ساتھ محبت اور پیار سے رہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورت کو مرد کے ماتحت رکھا ہے اور اُس پر فرض قرار دیا ہے کہ وہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے اور اُس کے ہر حکم کی تعمیل کرے.بشرطیکہ خلاف شرع نہ ہو.اُس کے مال ضائع نہ کرے.کفایت شعاری اور قناعت سے کام لے.خواہ مخواہ اُس کو تنگ نہ 43
کرے.اُس کی عزت کی حفاظت کرے.اور اولاد کی اچھی طرح سے پرورش کرے.اور مرد کیلئے باعث راحت و آرام ہو.تعدد ازدواج : اگر کسی شخص کو حقیقی ضرورت ہو.یعنی اس کی بیوی بیمار ہو یا اس کے اولا د نہ ہوتی ہو یا صحت پر برا اثر پڑتا ہو.یا فتنہ میں پڑنے کا خوف ہو تو وہ ایک سے زیادہ شادیاں کرسکتا ہے.مگر ایک وقت میں چار سے زیادہ بیویاں نہیں رکھ سکتا.یہ صرف اسلام کی ہی خوبی ہے کہ اس نے خاص حالات میں کثرت ازدواج ( ایک سے زیادہ شادیاں کرنے ) کا حکم دیا ہے.باقی کسی مذہب میں یہ خوبی نہیں پائی جاتی.مگر شرط یہ ہے کہ وہ ہر ایک بیوی کے ساتھ عدل و انصاف کرے.کسی کا حق نہ مارے یعنی ہر ایک بیوی کو ایک جیسا خرچ دے اور برابر باری مقرر کرے.کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کرے.اگر کوئی شخص عدل و انصاف نہ کر سکتا ہو تو اس کیلئے ہرگز اجازت نہیں کہ وہ دوسری شادی کرے.محرمات نکاح وہ عورتیں جن سے نکاح کرنا حرام ہے یہ ہیں :.(1) ماں (۲) باپ کی منکوحہ (۳) دادی (۴) نانی (۵) پھوپھی (۶) خاله (۷) رضاعی ماں (۸) رضاعی بہن (۹) ساس (۱۰) شادی شدہ عورت (۱۱) بہن (۱۲) بیٹی (۱۳) بھتیجی (۱۴) بھانجی (۱۵) بیوی کے پہلے خاوند کی لڑکی (۱۶) ایک وقت میں دو حقیقی بہنیں (۱۷) ایک وقت میں خالہ اور بھانجی یا پھوپھی اور بھتیجی (۱۸) بیٹے کی بیوی (۱۹) مشرکہ اور (۲۰) زانیہ.ان کے علاوہ سب عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے.44
عورت مومن ہونی چاہیئے.اگر مومن عورت نہ ملے یا کوئی دوسری مصلحت ہو تو اہل کتاب.مثلاً عیسائی.یہودی وغیرہ عورتوں سے بھی نکاح کرنا جائز ہے.رضاعت ( دودھ پلانا) کی مدت دو سال ہے.اگر دو سال کے اندر کسی عورت نے کسی بچہ کو کم از کم پانچ گھونٹ دودھ پلایا ہو وہ اس بچے کی رضاعی ماں اور اس کی اولا د بچے کے رضاعی بہن بھائی بن جاتے ہیں.اور ان سے نکاح کرنا حرام ہوتا ہے.اگر دو سال کے بعد پلایا جائے تو اس سے حرمت نکاح لازم نہیں آتی.نکاح شغار یعنی تبادلہ کا نکاح کہ ایک شخص اپنی لڑکی یا بہن کا کسی شخص سے نکاح کر دے.اور اسکی لڑکی یا بہن کا نکاح اپنے ساتھ کروائے.اور مہر دونوں کا مقرر نہ کیا جائے بلکہ تبادلہ ہی مہر سمجھا جائے تو اسے شغار کہتے ہیں.یہ نکاح منع ہے.اور شریعت نے اسے حرام قرار دیا ہے.متعہ.ایک خاص وقت تک کے لئے مثلاً گھنٹہ دو گھنٹے.رات دورات یا مہینہ دو مہینے یا سال دو سال وغیرہ تک کیلئے نکاح کرنے کو متعہ کہتے ہیں.یہ نکاح بھی حرام ہے.طلاق اگر میاں بیوی میں ناچاقی ہو جائے اور وہ دونوں آپس میں شریعت کے حکم کے مطابق اپنی بقیہ زندگی نہ گزار سکتے ہوں یا عورت کسی خلاف شریعت فعل کی مرتکب ہو یا ماں باپ طلاق دینے کا حکم دیں تو خاوند کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے نکاح سے آزاد کر دے یعنی طلاق دیدے.طلاق دینا اگر چہ جائز ہے مگر طلاق دینے کا اس وقت حکم ہے جبکہ سخت مجبوری ہو.اور بغیر طلاق دینے کے زندگی گزارنا محال ہو.اگر کوئی شخص یونہی بغیر کسی خاص مجبوری کے طلاق دیتا 45
ہے تو وہ سخت برا کام کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے.کیونکہ ایک پاک معاہدہ ( نکاح ) کو توڑتا ہے.طلاق دینے سے قبل غور اور فکر نہایت ضروری ہے.اسلئے شریعت نے حکم دیا ہے کہ جہاں تک ہو سکے صلح صفائی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اور عورت اور مرد ہر دو کو ہر ممکن طریق سے سمجھانا چاہیئے.اگر وہ بالکل نہ سمجھیں تو پھر مرد کوطلاق دینی چاہیئے.طلاق دینے کا یہ طریق ہے کہ مرد اپنی بیوی کو ایام طہر میں طلاق دے.جس طہر میں اس کے پاس نہ گیا ہو.قرآن کریم نے مرد کو تین طلاقیں دینے کا حق دیا ہے.ان تین طلاقوں کا حق یا تو دور جعی اور ایک بائن طلاق کی صورت میں استعمال ہوگا یا تین بائن طلاقوں کی صورت میں جس کی شکل یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک طلاق رجعی دے پھر عدت کے دوران رجوع کرے تو وہ ایک طلاق واقع ہو جائے گی اس کے بعد اگر وہ دوبارہ طلاق رجعی دے اور پھر عدت کے اندر رجوع کرے تو یہ اس کی طرف سے دوسری طلاق واقع شدہ شمار ہو جائے گی.اب اس کے بعد جب تیسری مرتبہ طلاق دے گا تو وہ ”طلاق بتہ “ ہوگی یعنی عدت کے اندر رجوع کرنے اور عدت کے بعد نکاح کرنے کا حق باقی نہیں رہے گا کیونکہ وہ اپنا طلاق دینے کا حق تین مرتبہ استعمال کر چکا ہے.دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق رجعی دے اور عدت کے دوران رجوع نہ کرے اس صورت میں عدت گزرنے کے بعد ایک طلاق بائن ہوگی ( یا مثلاً قبل از رخصتانه طلاق دے جو بائن ہوتی ہے ) اب وہ رجوع تو نہیں کر سکتا مگر دوبارہ نیا نکاح کر سکتا ہے.اس دوسرے نکاح کے بعد اسے طلاق کا حق تین مرتبہ نہیں بلکہ صرف دومرتبہ حاصل ہوگا لہذا اگر وہ اب طلاق دے اور رجوع نہ کرے اور عدت گزر جائے تو یہ اس کی طرف سے دوسری طلاق بائن ہوگی.اس کے بعد وہ پھر باہمی رضامندی سے نکاح کر سکتے ہیں.یہ ان کا 46
تیسرا نکاح ہوگا جس کے نتیجہ میں صرف ایک باقی طلاق کا حق اسے ملے گا.یعنی اگر وہ اب طلاق دے گا تو یہ اس کی طلاق بتہ “ ہوگی اور دونوں میں قطعی جُدائی ہو جائے گی نہ رجوع ہو سکے گا اور نہ دوبارہ نکاح.گویا طلاق بتہ کے واقعہ ہونے کیلئے دو طلاقوں کے درمیان یا تو رجوع حائل ہونا چاہیے یا دوسرا نکاح.اگر ان دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت نہیں تو خواہ کتنی بار وہ منہ سے طلاق کا لفظ بولے طلاق ایک ہی متصور ہوگی.جب کوئی مرد تیسری طلاق دیدے تو پھر اسے رجوع کا اختیار نہیں رہتا.اور نہ وہ اس عورت کے ساتھ اب نکاح کرسکتا ہے.ہاں اگر کوئی دوسرا شخص اس عورت کے ساتھ نکاح کرلے اور پھر وہ فوت ہو جائے یا اپنی مرضی سے کسی مجبوری کی وجہ سے طلاق دیدے تو پھر یہ اس عورت کے ساتھ اس کی رضامندی سے شادی کر سکتا ہے.لیکن اگر عمداً کسی دوسرے کے ساتھ نکاح پڑھا جائے تا کہ وہ نکاح کے بعد اُس عورت کو طلاق دیدے اور یہ پھر اس سے شادی کر سکے تو ایسے نکاح کو حلالہ کہتے ہیں.اور حلالہ حرام ہے.عدت کے ایام میں مرد پر عورت کو نان و نفقہ (خرچ خوراک و پوشاک ) دینا فرض ہے.اور مہر تو عورت کی جائیداد ہے جو بہر حال مرد پر ادا کرنا فرض ہے.اور اگر مہر کے علاوہ اور مال یا جائیداد بھی مرد نے عورت کو دی ہوئی ہو تو وہ ان میں سے بھی کچھ واپس نہیں لے سکتا جب تک کہ وہ فاحشہ مبینہ ( ظاہر ابدکاری) کی مرتکب نہ ہو.احکام عدت عدت اُس میعاد کو کہتے ہیں جس میں عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنا منع ہو.مطلقہ ( وہ عورت جس کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی ہو ) اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت 47
وضع حمل ہے.اور اگر حاملہ نہ ہو تو پھر تین حیض.آئسہ ( بوڑھی عورت ) اور نابالغہ مطلقہ کیلئے تین ماہ عدت مقرر ہے.اگر کسی عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل اور اگر حاملہ نہ ہو تو اس کے لئے چار ماہ دس دن عدت مقرر ہے.خلع کی عدت ایک حیض مقرر ہے.اور غیر مدخولہ مطلقہ کیلئے کوئی عدت نہیں.عدت کے ایام میں عورت کو اپنے مکان سے ہلاضرورت خاص باہر جانا منع ہے.اور اسے نکالنا بھی منع ہے.اگر ضرورتاً کہیں جانا پڑے تو دن کے وقت جاسکتی ہے.نیز عدت کے ایام میں عورت کو شرمہ یا خوشبو وغیرہ لگانا یازینت کرناسب منع ہے.اور سوگ کرنے کا حکم ہے.عدت کے ایام میں عدت والی عورت کو نکاح کا پیغام بھیجنا منع ہے.جب عدت گزر جائے پھر نکاح کا پیغام بھیجاجاسکتا ہے.اگر مطلقہ عورت کا بچہ دودھ پی رہا ہو تو بچے کے باپ پر اس کا نان و نفقہ ایام رضاع ( دو سال کی عمر ) تک فرض ہے.ضلع شریعت نے جس طرح مرد کو یہ اجازت دی ہے کہ اگر اسے کوئی حقیقی مجبوری در پیش ہو تو وہ اپنی عورت کو طلاق دے سکتا ہے.اسی طرح شریعت نے عورت کو بھی یہ حق دیا ہے کہ اگر اُسے کوئی حقیقی مجبوری در پیش ہو.مثلاً اس کا خاوند کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو یا اُس کی ضرورت کو پورا نہ کر سکتا ہو تو وہ اپنے خاوند سے علیحدہ ہونے کیلئے طلاق حاصل کر لے.اس طلاق کو جو عورت اپنی مرضی سے حاصل کرتی ہے خلع کہتے ہیں.اگر مرد طلاق نہ دے تو عورت کو حکم ہے کہ وہ قضاء ( عدالت ) میں قاضی ( حاکم و منصف ) کے پاس درخواست کرے کہ اسے خاوند سے علیحدہ کیا جائے.اگر قاضی معقول وجہ دیکھے گا.تو 48
جو مال اس کے خاوند نے اُسے دیا ہو گا اس میں سے جس قدر اس کے پاس موجود ہو گا وہ اس کے خاوند کو دلا دیگا.اور حکماً اس کو طلاق دلا دے گا.خُلع میں مہر اور نان و نفقہ کی عورت حقدار نہیں.بلکہ اگر خاوند اس سے کچھ مال لے کر خلع کرنا چاہے تو بھی اس کیلئے جائز ہے.مگر جس قدر مال اس نے خود عورت کو دیا ہے اس سے زیادہ لینا اس کیلئے منع ہے.مہر، کثرت ازدواج، طلاق اور خلع وغیرہ یہ سب خوبیاں ہمارے مذہب اسلام کے علاوہ اور کسی مذہب میں نہیں پائی جاتیں.العان اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر یہ الزام لگائے کہ اس نے زنا کیا ہے.اور جیسا کہ شریعت کا حکم ہے.چار گواہ رؤیت موجود نہ ہوں.مرد اپنی بات پر قائم ہو اور عورت انکار کرے تو اس صورت میں معاملہ قضاء ( عدالت ) میں قاضی (حاکم) کے سامنے پیش ہوگا.قاضی ہر دو سے دریافت کرے گا.اگر ہر دو اپنی اپنی بات پر مُصر ہوں تو قاضی ہر دو سے قسمیں کھلائے گا.پہلے چار دفعہ مر قسم کھا کر کہے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس عورت نے زنا کیا ہے.“ اور پانچویں دفعہ کہے گا کہ اگر میں اس معاملہ میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو.اسی طرح عورت چار دفعہ قسمیں کھائے گی کہ اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے زنا نہیں کیا یہ جھوٹ بولتا ہے.اور پانچویں دفعہ کہے گی کہ اگر میں نے اس معاملہ میں جھوٹ بولا ہو تو مجھ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو.49
اس کو لعان کہتے ہیں.لعان کے بعد ان کا نکاح فسخ ہو جائے گا اور ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں رہے گا.اور مہر مرد کو دینا پڑے گا.اگر مرد قسم نہ کھائے اور کہہ دے کہ میں نے جھوٹ بولا تو اسے ۸۰ کوڑے لگائے جائیں گے.اور اگر عورت قسم نہ کھائے اور کہے کہ یہ الزام صحیح ہے اور میں مجرم ہوں تو پھر اسے زنا کی سزا دی جائے گی.سود اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے.جو شخص کسی سے سود لیتا ہے.خواہ سود کم ہو یا زیادہ وہ لعنتی ہے.بلکہ جو گواہ ہوں وہ بھی لعنتی ہیں.سود ایک ایسا لعنت کا طوق ہے کہ اگر کسی کے گلے میں پڑ جائے تو پھر اس کی اس سے رہائی ناممکن ہے.دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی کے باپ نے سود پر روپیہ لیا تو وہ بھی اس کو ادا کرتا مر گیا مگر روپیہ ادانہ ہو سکا.پھر اس کی اولاد اس کو ادا کرتی چلی گئی مگر پھر بھی وہ ادا نہ ہو سکا.لہذا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو سود کی لعنت سے بچانے کیلئے سود کو حرام قرار دے دیا ہے.اور فرمایا ہے کہ جو مسلمان سود لیتا ہے یا دیتا ہے وہ گو یا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے لڑائی کرتا ہے.اور ہر عقلمند یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے مقابلہ کر کے کوئی شخص کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ سود کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا.یہ بات غلط ہے اور ایک شیطانی وسوسہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی.اگر کوئی شخص نیک نیتی سے سود کے بغیر بھی گزارہ کرنا چاہے تو ہوسکتا ہے.50
ہاں اگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے سود لینا پڑے مثلاً کوئی شخص کسی بنک میں روپیہ جمع کراتا ہے تو سود ضرور ملتا ہے.تو ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ سود کا روپیہ صرف اشاعت اسلام میں خرچ کرے اور اسے اپنے کسی مصرف میں نہ لائے.کیونکہ سود کا روپیا اپنے کسی مصرف میں لا نا حرام ہے.قرض قرض لینا اسلام نے جائز قرار دیا ہے.اور حکم دیا ہے کہ اگر تمہارے پاس روپیہ نہ ہو تو تم قرض لے سکتے ہو.اور مالدار لوگوں کو حکم دیا ہے کہ اگر کسی کو روپیہ کی ضرورت ہو تو تم اس کو قرض دو.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور احسان کرنا ہر مومن کا فرض ہے.جو شخص ہمدردی کے طور پر کسی کو قرض دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر خوش ہوتا ہے کہ اس نے میرے مسکین بندے پر احسان کیا.اور اس کے مال میں ترقی دیتا ہے.قرض کیلئے یہ شرط ضروری ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے قرض لے تو وہ تحریر کر لیں.اور دو گواہ بنالیں.اور ساتھ ہی مدت مقرر کر لیں کہ فلاں وقت تک یہ رو پیادا کر دیا جائے گا.بغیر لکھنے اور لکھوانے کے قرض لینا یا دینا درست نہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر قرآن شریف میں حکم دیا ہے کہ قرضہ لیتے یا دیتے وقت تم ضرور تحریر کر لیا کرو.دوستی ، عزت یا اعتبار کا اس میں کوئی سوال نہیں.قرض لینے کیلئے اپنی کوئی چیز مثلاً مکان یا زمین وغیرہ رہن رکھنا بھی جائز ہے.بشرطیکہ اس کا قبضہ بھی مرتہن کو دیدیا جائے.اگر قبضہ نہ دیا جائے تو یہ رہن جائز نہیں.قرض وصول کرنا اگر وقت مقررہ پر قرض وصول نہ ہو سکے تو دیکھنا چاہیے کہ مقروض نے عمداً ادا نہیں کیا یا 51
اسمیں ابھی ادا کرنے کی توفیق نہیں؟ اگر اس وقت اس میں ادا کرنے کی توفیق نہ ہو.تو پھر اسے کچھ مہلت دے دینی چاہیئے تا کہ وہ روپیہ ادا کر دے.کیونکہ یہ مناسب نہیں کہ ایک احسان مند ( مقروض ) کو تنگ کیا جائے.اور اگر اس نے عمداً ادانہ کیا ہو تو پھر قضاء ( عدالت ) میں دعویٰ کرنا چاہیئے.قضاء اس سے حکما روپیہ ادا کروائے گی.اگر مقروض فوت ہو جائے تو اس کے ترکہ میں سے سب سے پہلے قرضہ ادا کیا جائے گا.لیکن اگر مقروض کا ترکہ اس قدر نہ ہو جس قدر کہ قرض ہے.تو پھر اس کی اولاد پر وہ قرضہ ادا کرنا فرض ہے اور اگر کوئی سبیل بھی ادا ئیگی کی نہ ہو سکے تو پھر اسلامی حکومت کا فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ اس کی طرف سے قرضہ ادا کرے.بہر حال قرض خواہ کا روپیہ ضائع نہیں ہوگا.لیکن یہ دوسری بات ہے کہ قرض خواہ بطور احسان کسی مفلس مقروض کو معاف کر دے.قرضہ ادا کرنا نہایت ضروری ہے.اگر کوئی شخص اس جہاں میں اپنا قرضہ ادا نہیں کر یگا تو قیامت کے دن اس سے اس قرض کا مطالبہ کیا جائے گا.اگر کوئی مقروض قرض ادا کرتے وقت اپنی طرف سے بطور شکریہ احسان کے اخذ کردہ روپیہ سے زاید روپیہ دیدے تو یہ بھی بہت اچھی بات ہے.مگر جس قدر قرض لیا ہے اسی قدر تو میعاد معینہ کے اندرادا کرنا نہایت ضروری ہے.زراعت مومنوں کو حلال اور پاک رزق کھانے کا حکم ہے کیونکہ اگر حلال اور پاک مال نہ کھایا جائے تو نیک کام کی بھی توفیق نہیں ملتی.52
مال پاک اور حلال اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ خلاف شریعت طریقوں سے نہ کمایا گیا ہو.اگر پاک مال میں ذرا سا حرام مال بھی مل جائے تو وہ سارے مال کو حرام کر دیتا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ مال کماتے وقت نہایت ہی احتیاط کی جائے.اور ذرہ بھر مال بھی خلاف شریعت طریقوں سے نہ کمایا جائے.زراعت میں ضروری ہے کہ جب کوئی شخص زراعت کرے تو اپنی زمین میں ہی کاشت کرے.کسی دوسرے کی چپہ بھر زمین بھی ناجائز طور پر اپنی زمین میں شامل نہ کرے اور اپنی ہی کھیتی اور فصل اپنے استعمال میں لائے.کسی دوسرے کی فصل کو بالکل نقصان نہ پہنچائے.زمین کا مالک اپنی زمین کو بٹائی (حصہ) پر بھی دے سکتا ہے.مثلاً حصہ مقرر کر لے کہ جس قدر اُس کی پیداوار ہوگی اس کے اس قدر حصے کئے جائیں گے.اتنے حصے تمہارے ہوں گے اور اتنے حصے میرے.اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنی زمین کسی کو زراعت کیلئے دیدے کہ میں سال میں تم سے اتنے روپے لے لیا کروں گا.زمین کے مالک کیلئے ہرگز جائز نہیں کہ وہ مزارع کو زمین کا کوئی حصہ دیدے کہ اس میں جو پیداوار ہوگی وہ تمہاری اور اپنے لئے کوئی خاص حصہ مقرر کر لے کہ اس میں جو پیداوار ہوگی وہ میری.کیونکہ یہ ایک قسم کا ظلم - اجاره اُجرت پر لگنا اور لگانا ہر دو جائز ہیں.مگر یہ ضروری ہے کہ پہلے اُجرت مقرر کر لی جائے.اور جوا جرت مقرر ہو جائے اس سے کم اجرت دینا ہرگز جائز نہیں.بلکہ اگر ہو سکے تو بطور احسان کچھ زیادہ ہی دینا چاہیئے.مزدور کی اُجرت فوراً ادا کر دینی چاہئیے.کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی 53
اللہ علیہ وسلم نے فرما اعطوا الْأَجِيْرَ أَجْرَةَ قَبْلَ أَنْ تَجِفَّ عَرْقُهُ ( رواه ابن ماجه، وصحه الالبانی) ترجمہ: مزدور کو اسکا پسینہ خشک ہونے سے قبل ہی اس کی اجرت ادا کر دو.بہر حال مزدور کی اُجرت کا لحاظ رکھنا نہایت ضروری ہے.اور نہ صرف اُجرت کا لحاظ رکھنا ہی ضروری ہے بلکہ اسے گالی دینا اور مارنا وغیرہ بھی منع ہے.یہ ضروری نہیں کہ ضرور مسلمان کو ہی اُجرت پر لگایا جائے بلکہ غیر مسلم کو بھی اُجرت پر لگایا جا سکتا ہے مگرحتی الوسع اپنے مسلمان بھائیوں کی ہی امداد کرنی چاہیئے.خرید وفروخت رزق حاصل کرنے کا دوسرا طریق خرید و فروخت ہے.خرید وفروخت (تجارت) کرنے میں بہت برکت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تجارت کرنے کے متعلق خاص طور پر تاکید فرمائی ہے.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعویٰ نبوت سے قبل تجارت فرمایا کرتے تھے.اور آپ کے صحابہ بھی مدینہ منورہ میں تجارت کرتے تھے.خرید و فروخت بھی اسی طریق پر کرنی چاہیئے جیسے شریعت نے حکم دیا ہے.جن چیزوں کے خرید کرنے یا فروخت کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے.ان چیزوں کی ہرگز خریدوفروخت نہیں کرنی چاہئیے.اگر کوئی شخص ایسا کرے گا اور خلاف شریعت طریقوں سے مال کمائے گا تو وہ مال ہرگز حلال اور طیب نہیں کہلائے گا.پس ہر شخص جو خرید و فروخت کرنا چاہتا ہے.اس پر فرض ہے کہ وہ شریعت کے احکام کے مطابق اپنا کام کرے.54
آداب خرید وفروخت خرید و فروخت سے قبل وہ چیز جو خریدی جارہی ہے اسے اچھی طرح سے دیکھ لینے کا حکم ہے.خریدار کو چاہیے کہ اپنی تسلی کر لینے کے بعد چیز کوخریدے.بغیر دیکھنے بھالنے کے خریدو فروخت منع ہے.فروخت کرنے والے کو چاہیے کہ اگر اس کی چیز میں کوئی نقص ہو تو وہ خریدار کو پہلے بتادے تا کہ اگر خریدار کی مرضی ہو تو اس کو خریدے.لیکن اگر فر وخت کرنے والا اس چیز کے نقص کو نہ بتائے تو خریدار کو حق حاصل ہے کہ وہ چیز واپس کر دے اور قیمت واپس لے لے.خریدار کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ اگر وہ چاہے تو یہ شرط کر لے کہ اگر یہ چیز پسند آئی تو خریدوں گا ورنہ واپس کر دونگا.فروخت کرنے والوں کو چاہئیے کہ وہ ایسا مال فروخت نہ کریں جونکتا ہو.اور دھوکہ کے طور پر بھی کوئی مال فروخت نہ کریں مثلاً یہ کہ چیز عمدہ دکھا ئیں مگر ناقص دیں.مال کی دو قیمتیں مقرر نہ کریں کہ اگر نقد لو تو یہ قیمت ہے اور اگر اُدھار لو تو یہ قیمت ہے.کیونکہ یہ سود ہے.یا ایسا کریں کہ ہوشیار آدمی سے کم قیمت لیں اور بچے یا ناواقف سے زیادہ قیمت لے لیں.ہاں یہ ان کو اختیار ہے کہ کسی ذاتی تعلق والے سے کم قیمت لے لیں.اگر کسی وقت بائع ( فروخت کنندہ ) اور مشتری (خرید کنندہ) کے درمیان جھگڑا ہو جائے.یعنی بائع کہے کہ میں نے یہ چیز دس روپیہ میں فروخت کی ہے.اور مشتری کہے کہ میں نے آٹھ روپیہ میں خریدی ہے.تو بائع کی بات مانی جائے گی.مشتری کو اختیار ہے کہ خواہ وہ یہ قیمت قبول کرے یا سودا توڑ دے.اور چیز نہ لے.بیع سلم بھی جائز ہے.یعنی ایک شخص ایک تاجر سے یہ سودا کر لے کہ میں تم سے سارا سال 55
اس نرخ پر خریدوں گا.خواہ غلے کا نرخ بڑھ جائے یا گر جائے.ممنوعات ا.وہ چیزیں جو شریعت نے حرام قرار دی ہیں.مثلاً شراب خنزیر ،مر دار وغیرہ کی خریدو.فروخت.پھلوں کی بیع کئی سالوں کیلئے کرنا.درختوں پر کچا پھل پکے ہوئے پھلوں کے بدلے فروخت کرنا.۴.کھیتی کا اندازہ لگا لینا کہ اس میں اس قدر غلہ ہوگا.پھر اس کو اسی قدر کسی سے غلہ لے کر فروخت کرنا.۵ لاٹری.ایسی چیز فروخت کرنا جس میں سراسر دھو کہ ہو یا فروخت کرنے والے کے قبضہ میں ہی نہ ہو.مثلاً پانی میں مچھلیاں یا ہوا میں پرندے.جو چیز کسی کی ملکیت میں ہی نہ ہو اس کو فروخت کرنا.وہ بیع جس میں قیمت ادا کرنے کے میعاد کا علم نہ ہو.قبضہ کرنے سے قبل کسی چیز کوفروخت کرنا مثلاً ایک شخص نے کسی شخص سے پانچ سوروپے کی گندم ہیں سیر فی روپیہ کے حساب سے خریدی ابھی اسے اپنے پاس نہیں لا یا یا اپنے قبضہ میں نہیں کیا.تو اسے فروخت کرنا.۱۰.کسی چیز کو اس نیت سے جمع کر کے رکھ چھوڑنا کہ جب مہنگی ہوگی تو فروخت کرونگا (یہ احتکار کہلاتا ہے) کوئی شخص باہر سے کوئی چیز فروخت کرنے کیلئے لائے.تو کوئی شہری اسے کہے کہ میرے پاس رکھ جاؤ.جب مہنگی ہوگی تو فروخت کر دونگا.56
۱۲.کسی کو کوئی چیز اُدھار ایک قیمت پر دینا پھر وہی چیز اس سے نقد کم قیمت پر خریدنا.مثلاً سو روپیہ کو فروخت کر دی اور ۹۵ کو خرید لی.اور ۵ روپے اس کے ذمہ قرار دیدیئے.۱۳ - خریدنے کا ارادہ نہ ہومگر اس کی قیمت بڑھانے کیلئے بولی دینا.۱۴.خریدار کے سودے پر سودا کرنا.یہ سب منع ہیں.شفعہ اگر کوئی شخص اپنی جائیداد فروخت کرے تو اُس پر فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے اس شخص کے پاس فروخت کرے جس کے ساتھ وہ ملحق ہے.اگر وہ نہ خریدے یا قیمت کم دے.تو پھر اسے اختیار ہے کہ کسی دوسرے شخص کے پاس فروخت کر دے.لیکن اگر اس سے دریافت کرنے کے بغیر کسی دوسرے کے پاس فروخت کر دے تو اس کا حق ہے (جس کے ساتھ جائیداد حق ہے ) کہ وہ قضاء میں حق شفعہ کا دعوی کرے کہ چونکہ یہ جائیداد میرے ساتھ ملحق ہے لہذا میرا حق ہے کہ یہ میرے پاس فروخت کی جائے.اگر وہ فی الواقعہ اس کے ساتھ ملحق ہو اور وہ اس قدر قیمت دے جس قدر قیمت پر وہ فروخت ہو چکی ہے.تو قاضی اس کے حق میں فیصلہ دے گا.اور قیمت خریدار صاحب جائیداد ( جس کے پاس بھی وہ جائیدا اُس وقت ہو ) کو دلا کر جائیداد اس کے حوالے کر دے گا.لیکن اگر یہ خود خریدنا نہ چاہتا ہو یا قیمت کم دیتا ہو تو پھر مالک کا اختیار ہے کہ وہ جس کے پاس چاہے فروخت کرے.اس صورت میں حق شفعہ کا دعویٰ نہیں ہوسکتا.وراثت ہ شخص جس وقت فوت ہوتا ہے تو وہ اپنے پیچھے اپنا مال وجائیداد وغیرہ چھوڑ جاتا ہے.اس مال کو تر کہ کہتے ہیں.شریعت نے حکم دیا ہے کہ سب سے پہلے متوفی کے ترکہ میں سے اگر اس نے کسی کا قرضہ 57
دینا ہو.یا کسی کے حق میں وصیت کی ہو تو ان کو ادا کیا جائے.ان ہر دو کی ادائیگی کے بعد اگر کوئی مال بچے.تو وہ اس کے قریبی رشتہ داروں میں جنہیں شریعت نے وارث قرار دیا ہے.شریعت کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق تقسیم کیا جائے.اگر اس کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کا مال بیت المال میں جمع کرا دیا جائے.ذیل میں وہ رشتہ دار درج کئے جاتے ہیں.جو متوفی کے وارث ہوتے ہیں:.(۱) بیٹا (۲) پوتا (۳) باپ (۴) دادا (۵) بھائی (۶) بھتیجا (۷) چا (۸) چچازاد بھائی (۹) خاوند (۱۰) بیٹی (۱۱) پوتی (۱۲) ماں (۱۳) دادی.(۱۴) بہن (۱۵) بیوی (۱) قاتل کسی صورت میں بھی مقتول کے ورثہ کا حقدار نہ ہوگا.وارثوں میں سے ہر ایک کو مندرجہ ذیل حصوں میں سے مختلف صورتوں کے لحاظ سے کوئی نہ کوئی حصہ ملے گا:.نصف.دو تہائی.ایک تہائی.چوتھا حصہ.چھٹا حصہ.آٹھواں حصہ.58.......
تیر ا باب بد رسوم خدائے تعالیٰ کے انبیاء ہمیشہ ایسے زمانہ میں آتے ہیں جب سچی توحید دنیا سے مٹ جاتی ہے اور مشرکانہ رسوم مذہب کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں.ان کا اور ان کے خلفاء کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ شریعت یعنی سچے دین کو دنیا میں قائم کریں اور جو زائد باتیں یا غلط امور بطور رسم اور بدعت لوگ اپنی طرف سے مذہب میں شامل کر دیتے ہیں ان کو مٹا دیں.یہی کام اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سپرد ہوا.آپ حکم اور عدل بن کر تشریف لائے اور آپ کے ذریعہ سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا.آپ نے شریعت حقہ اسلامیہ کو از سرنو قائم کیا.تمام بد رسوم کی نشاندہی کر کے ان کے خلاف جہاد کیا.اور امت مسلمہ کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کی.یہی کام حضور کے خلفاء کا رہا اور وہ بھی اپنے اپنے زمانہ میں مروجہ رسوم کا قلع قمع کرنے میں مصروف رہے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا :- ”ہماری جماعت کا پہلا اور آخری فرض یہ ہے کہ توحید خالص کو اپنے نفسوں میں بھی اور اپنے ماحول میں بھی قائم کریں اور شرک کی سب کھڑکیوں کو بند کر دیں......توحید کے قیام میں ایک بڑی روک بدعت اور رسم ہے.یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر بدعت اور ہر بد رسم شرک کی ایک راہ ہے اور کوئی شخص جو توحید خالص پر قائم ہونا چاہے وہ توحید خالص پر قائم نہیں ہوسکتا جب تک وہ تمام 59
بدعتوں اور تمام بد رسوم کو مٹانہ دے....رسوم تو دنیا میں بہت سی پھیلی ہوئی ہیں لیکن اس وقت اصولی طور پر ہر گھرانے کو بتادینا چاہتا ہوں کہ میں ہر گھر کے دروازے پر کھڑا ہو کر اور ہر گھرانے کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں.اور جو احمدی گھرانہ آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوششوں کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہو گا وہ یادر کھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے.وہ اس طرح جماعت سے نکال کر باہر پھینک دیا جائے گا جس طرح دودھ سے مکھی.پس قبل اس کے کہ خدا کا عذاب کسی قہری رنگ میں آپ پر وارد ہو یا اس کا قہر جماعتی نظام کی تعزیر کے رنگ میں آپ پر وارد ہوا اپنی اصلاح کی فکر کرو اور خدا سے ڈرو اور اس دن کے عذاب سے بچو کہ جس دن کا ایک لحظہ کا عذاب بھی ساری عمر کی لذتوں کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے کہ اگر یہ لذتیں اور عمریں قربان کر دی جائیں اور انسان اس سے بیچ سکے تو تب بھی مہنگا سودا نہیں سستا سودا ہے.66 خطبه جمعه فرموده ۲۳ / جون ۱۹۶۷ء) اکثر بد رسوم جو اس وقت رائج ہیں خوشی کی تقاریب مثلاً بچے کی شادی بیاہ وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں یا موت فوت سے.کچھ ایسی ہیں جو معتقدات سے تعلق رکھتی ہیں.ان سب کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء نے جوراہنمائی فرمائی اس کا کچھ ذکر درج ذیل ہے:.بچے کی پیدائش سے متعلق رسوم : بچے کی ولادت والدین کیلئے خوشی کا ایک اہم موقعہ ہوتا ہے.اس موقعہ پر مناسب رنگ میں خوشی منانے سے اسلام نے منع نہیں کیا کیونکہ یہ ایک فطرتی جذ بہ ہے.اگر شکرانہ کے طور پر 60
کچھ شیرینی وغیرہ تقسیم کی جائے تو حرج نہیں لیکن ڈھول دھماکہ، ناچ گانا کسی طرح بھی جائز نہیں.اسلامی طریق یہ ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کیا جائے یعنی لڑکے کی صورت میں دو بکرے اور لڑ کی کی صورت میں ایک بکرا ذبح کیا جائے.نومولود کے بال منڈوائے جائیں.لیکن اگر کسی کو عقیقہ کی توفیق نہیں تو ضروری نہیں.بچے بالغ ہو کر خود بھی قربانی کر سکتے ہیں.قربانی کا گوشت غرباء اور عزیز واقارب میں تقسیم کیا جائے.خود بھی استعمال کر سکتے ہیں.لڑکا ہو تو ختنہ بھی ساتھ ہی کروادینا مناسب ہے.سالگرہ منانا : بچوں سے متعلق ایک رسم یہ ہے کہ ہر سال تاریخ پیدائش پر سالگرہ منائی جاتی ہے.دعوت کا اہتمام ہوتا ہے.تحفے تحائف پیش کئے جاتے ہیں اور بہت سا روپیہ صرف کیا جاتا ہے.یہ بدعت اور رسم ہے جس سے اجتناب بہتر ہے.ناک کان چھدوانا ، بودی رکھنا : بعض لوگ بچوں کے ناک کان چھدواتے اور بالی اور بلاق پہناتے ہیں یا پاؤں میں گھنگھر وڈالتے یا سر پر چوٹی سی رکھتے ہیں.یہ سب لغو اور غیر اسلامی رسوم ہیں جو غیر قوموں سے مسلمانوں میں آگئی ہیں.منت کے طور پر جو سر پر بودی رکھتے ہیں اس کے بارے میں استفسار پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:- نا جائز ہے ایسا نہیں چاہئے“ شادی بیاہ سے متعلق رسوم دف بجانا:.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.( ملفوظات جلد نم صفحه ۲۱۶) 61
جو چیز بری ہے وہ حرام ہے اور جو چیز پاک ہے وہ حلال ہے.خدا تعالیٰ کسی پاک چیز کو حرام قرار نہیں دیتا بلکہ تمام پاک چیزوں کو حلال فرماتا ہے.ہاں جب پاک چیزوں میں ہی بُری اور گندی چیزیں ملائی جاتی ہیں تو وہ حرام ہو جاتی ہیں.اب شادی کو دف کے ساتھ شہرت کرنا جائز رکھا گیا ہے لیکن اس میں ناچ وغیرہ شامل ہو گیا تو وہ منع ہو گیا اگر اسی طرح پر کیا جائے.جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کوئی حرام نہیں ( ملفوظات جلد نهم صفحہ ۴۸۱) ناچ گانا، بینڈ باجے اور آتش بازی بیاہ شادی کی بد رسوم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.”ہماری قوم میں ایک یہ بھی بد رسم ہے کہ شادیوں میں صد ہاروپیہ کا فضول خرچ ہوتا ہے.سو یاد رکھنا چاہیئے کہ مشینی اور بڑائی کے طور پر برادری میں بھاتی تقسیم کرنا اور اس کا دینا اور کھانا یہ دونوں باتیں عند الشرع حرام ہیں اور آتشبازی چلانا اور رنڈیوں ، بھڑووں، ڈوم ڈھاریوں کو دینا حرام مطلق ہے.ناحق روپیہ ضائع جاتا ہے اور گناہ سر پر چڑھتا ہے سو اس کے علاوہ شرع شریف میں تو صرف اتنا حکم ہے کہ نکاح کرنے والا بعد نکاح کے ولیمہ کرے یعنی چند دوستوں کو کھانا پکا کر کھلا دیوے.“ ( ملفوظات جلد نهم صفحہ ۴۶.۴۷) با جا بجانے کے سلسلہ میں فرمایا :- ”باجوں کے وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ تھا.اعلان نکاح جس میں فسق و فجور نہ ہو جائز ہے.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۳۱۲) حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرما یا:- بیاہ شادی کے موقع پر پاکیزہ اشعار عورتیں پڑھ سکتی ہیں.پڑھنے والی 62
مستأجر ہ نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں“.یہ بھی فرمایا :.صرف عورتوں کا عورتوں میں دف کے ساتھ پاکیزہ گانا بھی منع نہیں ہے“.جہیز دکھانا : (الفضل ۱۴ جون ۱۹۳۸ء) جہیز دکھانے کا جوطریق رانج ہے اس کے بارے میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی فرماتے ہیں :.”لڑکیاں جب اپنی سہیلیوں کے جہیز وغیرہ کو دیکھتی ہیں تو پھر وہ بھی اپنے والدین سے ایسی ہی اشیاء لینا چاہتی ہیں.اور اسطرح کی نمائش گو یا جذبات کو صدمہ پہنچانے والی چیز بن جاتی ہے.جو کچھ بھی دیا جائے بکسوں میں بند کر کے دیا جائے.ہمارے گھروں میں یہی طریق ہے.ہاں یہ ضروری ہے کہ وہ بکس جن کے حوالے کئے جائیں ان کو دکھایا جائے کہ فلاں فلاں چیز میں موجود ہیں...یہ نمائش نہیں بلکہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ صفحه ۲۴) رسید ہے.“ سہرا باندھنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سہرا باندھنے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:.یہ تو آدمی کو گھوڑا بنانے والی بات ہے دراصل یہ رسم ہندوؤں سے مسلمانوں میں آئی ہے.( الفضل ۴ جنوری ۱۹۴۶ء) نیز فرمایا:.سہرے کا طریق بدعت ہے“ بڑے بڑے مہر رکھوانا (ایضاً) ایسے مہر مقرر کرانا جو انسان کی حیثیت اور طاقت سے باہر ہوں ایک رسم کی حیثیت رکھتا 63
ہے.اللہ تعالیٰ کا صاف ارشاد ہے:.لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا - اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنا نہیں چاہتا.پس محض نام ونمود کیلئے بڑے بڑے مہر نہیں رکھنے چاہئیں.حضرت خلیفۃ لمسیح الثانی ارشادفرمایا کرتے تھے کہ چھ ماہ سے لیکر ایک سال کی آمدنی کے برابر مہر رکھا جاسکتا ہے.مهر بخشوانا : ہمارے ملک میں عورت بڑی مظلوم ہے اس کا حق مہر ادا نہیں کیا جا تا بلکہ کئی دفعہ مرتے وقت عورتوں سے بخشوالیا جاتا ہے.عورت بھی جانتی ہے کہ مہر ملنا تو ہے نہیں اس لئے وہ مفت کا احسان خاوند پر کر دیتی ہے.ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ حضور ایک عورت اپنا مہر نہیں بخشتی.آپ نے فرمایا:.یہ عورت کا حق ہے اسے دینا چاہیئے.اوّل تو نکاح کے وقت ہی ادا کر دے ور نہ بعد ازاں ادا کر دینا چاہئیے.موٹر سکوٹر ، بھاری جہیز کا مطالبہ : ( ملفوظات جلد ششم صفحه ۳۹۱) آج کل تعلیم یافتہ طبقہ میں یہ ایک رسم ہوگئی ہے کہ لڑکی والوں سے موٹر یا سکوٹر کا مطالبہ کیا جاتا ہے یا بھاری جہیز کی خواہش کی جاتی ہے یہ سب رسوم ہیں.لڑکی والوں پر غیر ضروری یہ بوجھ ڈالنا غیر اسلامی طریق ہے.یہ ایک لحاظ سے شادی کی قیمت طلب کی جاتی ہے جو بالکل ناواجب اور غیر پسندیدہ ہے.مہندی کی رسم : حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:.64
فی ذاتہ اس میں قباحت نہیں کہ اس موقعہ پر بچی کی سہیلیاں اکھٹی ہوں اور خوشی منائیں.طبعی اظہار تک اس کو رکھا جائے تو اس میں حرج نہیں لیکن اگر اس کو رسم بنالیا جائے کہ باہر سے دولہا والے ضرور مہندی لے کر چلیں تو ظاہر ہے کہ اس میں ضرور تصنع پایا جاتا ہے بچی کی مہندی گھر پر ہی تیار ہونی چاہیئے.اس پر ایک چھوٹی سی بارات بنانے کا رواج قباحتیں پیدا کرے گا." ( الفضل 26 جون 2002ء) شادی کے موقعہ پر پردے کا اہتمام اور ویڈیو گرافی : جو قباحتیں راہ پکڑ رہی ہیں ان میں سے ایک بے پردگی کا عام رجحان بھی ہے جو یقیناً احکام شریعت کی حدود پھلانگنے کے قریب ہو چکا ہے.کیونکہ معزز مہمانوں میں بہت سی حیاء دار پردہ دار بیبیاں ہوتی ہیں.بے دھڑک انٹ سنٹ فوٹوگرافروں یا غیر ذمہ دار اور غیر محرم مردوں کو بلا کر تصویریں کھنچوانا اور یہ پرواہ نہ کرنا کہ یہ معاملہ صرف خاندان کے قریبی حلقے تک محدود ہے اس بارہ میں واضح طور پر نصیحت ہونی چاہیے کہ آپ نے اگر اندرون خانہ کوئی ویڈیو وغیرہ بنانی ہے تو پہلے متنبہ کردیا جائے اور صرف محدود خاندانی دائرے میں ہی شوق پورے کئے جائیں.“ (الفضل 26 جون 2002ء) حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.کہ اللہ پر ایمان کے ساتھ عمل صالح ضروری ہے.پس ہمشہ اپنے مدنظریہ بات رکھنی چاہئے کہ کون ساعمل صالح ہے اور کون ساغیر صالح ہے.بعض بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں.مثلاً خوشیاں ہیں.یہ دیکھنے والی بات ہے کہ خوشیاں منانے 65
کے لئے ہماری کیا حدود ہیں اور غموں میں ہماری کیا حدود ہیں.خوشی اور غمی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے اور دونوں چیز میں ایسی ہیں جن میں کچھ حدود اور قیود ہیں.آج کل دیکھیں، مسلمانوں میں خوشیوں کے موقعوں پر بھی زمانے کے زیراثر طرح طرح کی بدعات اور لغویات راہ پا گئی ہیں اور غموں کے موقعوں پر بھی طرح طرح کی بدعات اور رسومات نے لے لی ہے.لیکن ایک احمدی کو ان باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جو کام بھی وہ کر رہا ہے اس کا کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ نظر آنا چاہئے.اور ہر عمل اس لئے ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی یا یہ تم نے جو حدود قائم کی ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے ہر کام کرنا ہے.میں نے خوشی اور غمی کا جو ذ کر کیا ہے تو خوشیوں میں ایک خوشی جو بہت بڑی خوشی سمجھی جاتی ہے وہ شادی کی خوشی ہے اور یہ فرض ہے...پس یہ مسلمانوں کے لئے ایک فرض ہے کہ اگر کوئی روک نہ ہو ، کوئی امر مانع نہ ہو تو ضرور شادی کرے لیکن ان میں بعض رسمیں خاص طور پر پاکستانی اور ہندوستانی معاشرہ میں راہ پاگئی ہیں جن کا اسلام کی تعلیم سے کوئی بھی تعلق اور واسطہ نہیں ہے.اب بعض رسوم کو ادا کرنے کے لئے اس حد تک خرچ کئے جاتے ہیں کہ جس معاشرہ میں ان رسوم کی ادائیگی بڑی دھوم دھام سے کی جاتی ہے وہاں یہ تصور قائم ہو گیا ہے کہ شاید یہ بھی شادی کے فرائض میں داخل ہے اور اس کے بغیر شادی ہو ہی نہیں سکتی.مہندی کی ایک رسم ہے.اس کو بھی شادی جتنی اہمیت دی جانے لگی ہے.اس پر دعوتیں ہوتی ہیں.کارڈ چھپوائے جاتے ہیں.سٹیج سجائے جاتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ کئی دن دعوتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور شادی سے پہلے ہی جاری ہو جاتا 66
ہے.بعض دفعہ کئی ہفتہ پہلے جاری ہو جاتا ہے.اور ہر دن نیا سٹیج بھی سج رہا ہوتا ہے اور پھر اس بات پر بھی تبصرے ہوتے ہیں کہ آج اتنے کھانے پکے اور آج اتنے کھانے پکے.یہ سب رسومات ہیں جنہوں نے وسعت نہ رکھنے والوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ایسے لوگ پھر قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں.غیر احمدی تو یہ کرتے ہی تھے اب بعض احمدی گھرانوں میں بھی بہت بڑھ بڑھ کر ان لغو اور بیہودہ رسومات پر عمل ہو رہا ہے یا بعض خاندان اس میں مبتلا ہو گئے ہیں.بجائے اس کے کہ زمانہ کے امام کی بات مان کر رسومات سے بچتے.معاشرہ کے پیچھے چل کر ان رسومات میں جکڑتے چلے جارہے ہیں.چند ماہ پہلے میں نے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ مہندی کی رسم پر ضرورت سے زیادہ خرچ اور بڑی بڑی دعوتوں سے ہمیں رکنا چاہئے...اس لئے اب میں کھل کر کہہ رہا ہوں کہ ان بیہودہ رسوم و رواج کے پیچھے نہ چلیں اور اسے بند کریں...شادیوں پر آتش بازی کی جاتی ہے.اب لوگ اپنے گھروں میں چراغاں بھی شادیوں پر کرتے ہیں اور ضرورت سے زیادہ کر لیتے ہیں...اور دوسری طرف بعض گھر ضرورت سے زیادہ اسراف کر کے نہ صرف ملک کے لئے نقصان کا باعث بن رہے ہیں بلکہ گناہ بھی مول لے رہے ہیں...یہ صدر عمومی کی ذمہ داری ہے کہ اس بات کی نگرانی کریں کہ شادیوں پر بے جا اسراف اور دکھاوا اور اپنی شان اور پیسے کا جو اظہار ہے وہ نہیں ہونا چاہئے.جماعت پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ نمی کے موقعوں پر جو رسوم ہیں ان سے تو بچے ہوئے ہیں.ساتواں ، دسواں ، چالیسواں ، یہ غیر احمدیوں کی رسمیں ہیں ان پر عمل نہیں کرتے.جو بعض دفعہ 67
بلکہ اکثر دفعہ یہی ہوتا ہے کہ یہ رسمیں گھر والوں پر بوجھ بن رہی ہوتی ہیں.لیکن اگر معاشرے کے زیر اثر ایک قسم کی بدرسومات میں مبتلا ہوئے تو دوسری قسم کی رسومات بھی راہ پاسکتی ہیں اور پھر اس قسم کی باتیں یہاں بھی شروع ہو جائیں گی.پس ہر احمدی کو اپنے مقام کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر احسان کرتے ہوئے اسے مسیح و مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اب یہ فرض ہے کہ صحیح اسلامی تعلیم پر عمل ہو.شادی بیاہ کے لئے اسلامی تعلیم میں جو فرائض ہیں وہ شادی کا ایک فرض ہے اس کے لئے ایک فنکشن کیا جاسکتا ہے.اگر توفیق ہو تو کھانا وغیرہ بھی کھلایا جا سکتا ہے.یہ بھی فرض نہیں کہ ہر بارات جو آئے اس میں مہمان بلا کے کھانا کھلایا جائے اگر دُور سے بارات آرہی ہے تو صرف باراتیوں کو ہی کھانا کھلایا جا سکتا ہے.لیکن اگر ملکی قانون روکتا ہے تو کھانے وغیرہ سے رکنا چاہئے اور ایک محدود پیمانے پر صرف اپنے گھر والے یا جو چند باراتی ہیں وہ کھانا کھائیں....دوسرے ولیمہ ہے جو اصل حکم ہے کہ اپنے قریبیوں کو بلا کر ان کی دعوت کی جائے.اگر دیکھا جائے تو اسلام میں شادی کی دعوت کا یہی ایک حکم ہے.لیکن وہ بھی ضروری نہیں کہ بڑے وسیع پیمانے پر ہو.حسب توفیق جس کی جتنی توفیق ہے بلا کر کھانا کھلا سکتا ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارا مقصد پیدائش بتایا ہے.ہر وہ عمل جو نیک عمل ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہے وہ عبادت بن جاتا ہے.اگر یہ مدنظر رہے تو اسی چیز میں ہماری بقا ہے اور اسی بات سے پھر رسومات سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں.بدعات سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں.فضول خرچیوں سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں.68
لغویات سے بھی ہم بیچ سکتے ہیں اور ظلموں سے بھی ہم بچ سکتے ہیں.یہ ظلم ایک تو ظاہری ظلم ہیں جو جابر لوگ کرتے ہی ہیں.ایک بعض دفعہ لاشعوری طور پر اس قسم کی رسم و رواج میں مبتلا ہو کر اپنی جان پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں.اور پھر معاشرے میں اس کو رواج دے کر ان غریبوں پر بھی ظلم کر رہے ہوتے ہیں جو کہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیز شاید فرائض میں داخل ہو چکی ہے.اور جس معاشرے میں ظلم اور لغویات اور بدعات وغیرہ کی یہ باتیں ہوں ، وہ معاشرہ پھر ایک دوسرے کا حق مارنے والا ہوتا ہے اور پھر جیسا کہ میں نے کہا ایک دوسرے پر ظلم کرنے والا ہوتا ہے.لیکن اگر ہم ان چیزوں سے بچیں گے تو ہم حق مارنے سے بھی بیچ رہے ہوں گے.فلموں سے بھی بچ رہے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بھی بن رہے ہوں گے.اور آج احمدی سے بڑھ کر کون ایسے معاشرہ کا نعرہ لگاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور دوسروں کے حقوق قائم کرنے کی باتیں ہو رہی ہوں.آج احمدی کے علاوہ کس نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا.آج احمدی کے علاوہ کس نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا.آج احمدی کے علاوہ کس نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر ایک راہ میں دستور العمل بنائے گا.پس جب احمدی ہی ہے جس نے اللہ اور اس کے رسول اور قرآن کریم کے نور سے فیض پانے کے لئے زمانہ کے امام کے ہاتھ پر یہ عہد کیا ہے جو شرائط بیعت میں داخل ہے تو پھر اپنے عہد کا پاس کرنے کی ضرورت ہے.اس عہد کی پابندی کر کے ہم اپنے آپ کو جکڑ نہیں رہے بلکہ شیطان کے پنجے سے چھڑا رہے ہیں.خدا 69
اور اس کے رسول کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنے تحفظ کے سامان کر رہے ہیں.اپنی فہم وفراست کو جلا بخش رہے ہیں.اپنی عفت و پاکیزگی کی حفاظت کر رہے ہیں.اپنی حیا کے معیار بلند کر رہے ہیں.صبر اور قناعت کی طاقت اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اپنے اندر زہد و تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کر رہے ہیں.اپنی امانت کے حق کی ادائیگی کی بھی کوشش کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی خشیت اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ تعالیٰ کی طرف خالص ہو کر جھکنے کے معیار حاصل کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں تا کہ اپنے مقصد پیدائش کو حاصل کر سکیں....ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ ہم اس نبی کے ماننے والے ہیں جنہوں نے ہمیں صحیح راستہ دکھایا.ہمیں اچھے اور برے کی تمیز سکھائی.اگر اس کے بعد پھر ہم دنیا داری میں پڑ کر رسم و رواج یا لغویات کے طوق اپنی گردنوں میں ڈالے رہیں گے تو ہم نہ عبادتوں کا حق ادا کر سکتے ہیں نہ نور سے حصہ لے سکتے ہیں.“ رونا پیٹنا : (خطبات مسرور جلد ہشتم صفحه 34 تا39 مطبوعه از قادیان ) موت فوت سے متعلق رسوم موت فوت سے متعلق جو بد رسوم رائج ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ روتے پیٹتے اور چلا چلا کر ہائے ہائے کرتے ہیں.عورتیں خصوصیت سے سیا پا کرتی ہیں جب رشتہ دار یا ہمسائے ماتم پرسی کیلئے آتے ہیں تو عورتیں ہر نئی آنے والی کے گلے میں ہاتھ ڈال کر روتی پیٹتی ہیں.پھر بعض لوگ ایک ایک مہینہ یا ایک ایک سال تک سوگ مناتے ہیں یہ سب باتیں ممنوع 70
ہیں.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.قل ماتم کی حالت میں جزع فزع اور نوحہ یعنی یا پا کرنا اور چنیں مار کر رونا اور بے صبری کے کلمات منہ پر لانا یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کے کرنے سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے اور یہ سب رسمیں ہندوؤں سے لی گئی ہیں....اگر رونا ہو تو صرف آنکھوں 66 سے آنسو بہانا جائز ہے اور جو اس سے زیادہ ہے وہ شیطان سے ہے.( فتاویٰ حضرت مسیح موعود صفحہ 103 ، بحوالہ فقہ احمدیہ صفحہ 264) پھر فرماتے ہیں: ”اپنی شیخی اور بڑائی جتلانے کیلئے صدہا روپیہ کا پلاؤ اور زردہ پکا کر برادری وغیرہ میں تقسیم کیا جاتا ہے اس غرض سے کہ تالوگ واہ واہ کریں...سو یہ سب شیطانی طریق ہیں جن سے تو بہ کر نالازم ہے.“ (اشتہار بغرض تبلیغ وانذار ) اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : قل خوانی ( جو مرنے والے کی وفات کے بعد تیسرے دن کی جاتی ہے ) اس کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے.صحابہ کرام بھی فوت ہوئے کیا کبھی ان کی وفات پر کسی نے قل پڑھے؟ صد ہا سال کے بعد دوسری بدعتوں کی طرح یہ بھی ایک (اخبار بدر ۱۹۰۴ء) بدعت نکل آئی ہے.فاتحه خوانی : کسی کے مرنے کے بعد چند روز لوگ ایک جگہ جمع ہوتے اور فاتحہ خوانی یعنی مغفرت کی دُعائیں کرتے ہیں اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.پھر یہ سوال ہے کہ آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام وائمہ عظام میں سے 71
کسی نے یوں کیا ؟ جب نہیں کیا تو کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ بدعات کا دروازہ کھولنے کی؟ ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ اس رسم کی کچھ ضرورت نہیں.نا جائز ہے.جو جنازہ میں شامل ہوسکیں وہ اپنے طور پر دعا کریں یا جنازہ غائب پڑھیں“ ( ملفوظات جلد نم صفحہ ۱۷۷) چیلم : ایک رسم چہلم کی ہے یعنی کسی عزیز کی وفات کے چالیسویں دن مجلس ہوتی ہے اور کھانا پکا کر مرنے والے کے نام پر لوگوں میں تقسیم کیا جاتا ہے.اس بارے میں حضور نے فرمایا :.یہ رسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی سنت سے باہر ہے“.وو ختم قرآن : اخبار بدر ۱۴ / فروری ۱۹۰۷ء) ختم قرآن سے مراد وہ رسمی قرآن خوانی ہے جو کسی فوت ہونے والے کو ثواب پہنچانے کی غرض سے حلقہ باندھ کر گھروں میں یا قبروں پر کی جاتی ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.”مردہ پر قرآن ختم کرنے کا کوئی ثبوت نہیں صرف دعا اور صدقہ میت کو پہنچتا ہے.اخبار بدر 14 مارچ 1904ء) نیز فرمایا : - " قرآن شریف جس طرز سے حلقہ باندھ کر پڑھتے ہیں یہ سنت سے ثابت نہیں.ملاں لوگوں نے اپنی آمد کیلئے یہ رسمیں جاری کی ہیں.“ (احکام ۱۰ نومبر ۱۹۰۷ء بحوالہ الفضل ۱۲ رمئی ۱۹۴۰ء) مردوں کو ثواب پہنچانے کیلئے کھانا پکانا : بعض لوگ کسی وفات یافتہ عزیز کی روح کو ثواب پہنچانے کی نیت سے ایک خاص دن 72
مقرر کر کے لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں.بعض لوگ متواتر چالیس دن تک کھانا کھلاتے ہیں اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے:.طعام کا ثواب مردوں کو پہنچتا ہے.گذشتہ بزرگوں کو ثواب پہنچانے کی خاطر اگر طعام پکا کر کھلایا جائے تو یہ جائز ہے.لیکن ہر ایک ( عمل ) نیت پر موقوف ہے.اگر کوئی شخص اس طرح کے کھانے کے واسطے کوئی خاص تاریخ مقرر کرے اور ایسا کھانا کھلانے کو اپنے لئے قاضی الحاجات خیال کرے تو یہ ایک بت ہے اور ایسے کھانے کا لینا دینا سب حرام اور شرک میں داخل ہے.(اخبار بدر ۱۸ اگست ۱۹۰۷ء) عرس منانا : 66 آج کل خانقاہوں پر عُرس منانے کا بڑا رواج ہے.ان موقعوں پر قبروں کے طواف کئے جاتے ہیں.ان پر غلاف چڑھائے جاتے ہیں.قبروں کو بوسہ دیا جاتا ہے.عورتیں اور مرد ناچتے ہیں.خانقاہوں کو خوب سجایا جاتا ہے.طوائفیں بلوا کر گیت سُنے جاتے ہیں اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :- شریعت تو اس بات کا نام ہے کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اُسے لے لے.اور جس بات سے منع کیا ہے اُس سے ہٹے.لوگ اس وقت قبروں کا طواف کرتے ہیں.ان کو مسجد بنایا ہوا ہے.عرس وغیرہ ایسے جلسے نہ منہاج نبوت ہے نہ طریق سنت ہے.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۱۲۵) بارہ وفات حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :.وو ایسے عرس میں خواہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہو بدعت نظر آتی 73
ہے....خود مرزا صاحب مغفور ( مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام.ناقل ) نے کبھی بارہ وفات کا جلسہ اپنے گھر میں ہر گز نہیں کیا.غرض میں اپنی زندگی میں چند دنوں کیلئے بدعات کو گوارا نہیں کر سکتا.اور ایسے امور میں بدعات کے خطرناک زہروں سے بچنے (۲۱/۲۸ فروری ۱۹۱۳ء) کا لحاظ رکھو.مولود خوانی ایک شخص نے مولود خوانی کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا.حضور نے فرمایا:- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ بہت عمدہ ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء اور اولیاء کی یاد سے رحمت نازل ہوتی ہے اور خود خدا نے بھی انبیاء کے تذکرہ کی ترغیب دی ہے لیکن اگر اس کے ساتھ ایسی بدعات مل جائیں جن سے توحید میں خلل واقع ہو تو وہ جائز نہیں“.نیز فرمایا:- ” مولود کے وقت کھڑا ہونا جائز نہیں.ان اندھوں کو اس بات کا علم ہی کب ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح آگئی ہے بلکہ ان مجلسوں میں تو طرح طرح کے بدطینت اور بد معاش لوگ ہوتے ہیں وہاں آپ کی روح کیسے آسکتی ہے اور کہاں لکھا ہے کہ روح آتی ہے“.( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۱۲- ۱۳) قبر پر پھول چڑھانا بعض لوگ قبروں پر پھول رکھتے یا پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں.اس بارے میں حضرت خلیفہ اسی اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- اس سے میت کی روح کو کوئی خوشی نہیں ہوسکتی اور یہ نا جائز ہے اس کا کوئی اثر 74
قرآن وحدیث سے ثابت نہیں اس کے بدعت اور لغو ہونے میں کوئی شک نہیں“.نذرونیاز کیلئے قبرستان جانا اور پختہ قبریں بنانا : ( بدر اگست ۱۹۰۹ء) اس بارے میں حضرت حجتہ اللہ مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے:.نذرو نیاز کیلئے قبروں پر جانا اور وہاں جا کر منتیں مانگنا درست نہیں ہے.ہاں وہاں جا کر عبرت سیکھے اور اپنی موت کو یاد کرے تو جائز ہے.قبروں کے پختہ بنانے کی ممانعت ہے.البتہ اگر میت کو محفوظ رکھنے کی نیت سے ہو تو حرج نہیں ہے.یعنی ایسی جگہ جہاں سیلاب وغیرہ کا اندیشہ ہو اور اس میں بھی تکلفات جائز نہیں ہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۴۳۳) قبروں پر چراغ جلانا : ایک رسم جہالت کی یہ بھی ہیکہ بعض لوگ بزرگوں کے مزار پر رات کو چراغ جلاتے ہیں.یہ ہندوانہ اور مشرکانہ بدعت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے.عَنِ ابْنِ عَبَّاس قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صلى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ اللهُ زائِرَاتِ الْقُبُورِ وَالْمُتَخِذِينَ عَلَيْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ ( ترندى) ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی اور ان پر جو قبروں پر مسجدیں بناتے اور ان پر چراغ جلاتے ہیں.پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت سے منع فرمایا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غرض سے اجازت دی کہ بندہ موت کو یاد کر کے خدا اور آخرت کی طرف رجوع 75
کرے.عورتوں کو ان امور کے بارے میں خاص احتیاط کرنی چاہئیے.بسا اوقات وہ کم علمی کی وجہ سے ان باتوں میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتیں.جس کے ہاں ماتم ہو اس کے ساتھ ہمدردی : حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا:." کیا یہ جائز ہے کہ جب کا ر قضاء کسی بھائی کے گھر میں ماتم ہو جائے تو دوسر.دوست اپنے گھر میں اس کا کھانا تیار کریں.حضور نے فرمایا:.” نہ صرف جائز بلکہ برادرانہ ہمدردی کے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ ایسا کیا جائے“.نصف شعبان کا حلوا : ( ملفوظات جلد نهم صفحه ۳۰۴) ایک رسم یہ جاری ہے کہ شعبان کے مہینہ میں حلوا بناتے اور تقسیم کرتے ہیں.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.یہ رسوم حلوا وغیرہ سب بدعات ہیں.( ملفوظات جلد نم صفحہ ۳۹۴) عاشورہ محرم کے تابوت اور محفل : حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ محرم پر جولوگ تابوت بناتے ہیں اور محفل کرتے ہیں اس میں شامل ہونا کیسا ہے؟ حضور نے فرمایا کہ:.دو گناہ ہے“.( ملفوظات جلد نهم صفحه ۴۳۶) قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل نے سوال کیا کہ محرم کی دسویں کو جو شربت اور چاول 76
تقسیم کرتے ہیں.اگر یہ للہ بہ نیت ایصال ثواب ہو تو اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے.فرمایا:- ایسے کاموں کے لئے دن اور وقت مقرر کر دینا ایک رسم و بدعت ہے اور آہستہ آہستہ ایسی رسمیں شرک کی طرف لے جاتی ہیں.پس اس سے پر ہیز کرنا چاہیئے کیونکہ ایسی رسموں کا انجام اچھا نہیں.ابتداء میں اسی خیال سے ہوا مگر اب تو اس نے شرک اور غیر اللہ کے نام کا رنگ اختیار کر لیا ہے.اس لئے ہم اسے ناجائز قرار دیتے ہیں.جب تک ایسی رسوم کا قلع قمع نہ ہو عقائد باطلہ دور نہیں ہوتے“.تسبیح کا استعمال ( ملفوظات جلد نم صفحه ۲۱۴) عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ بعض لوگ چلتے پھرتے اور مجلس میں بیٹھے تسبیح کے دانے گنتے رہتے ہیں.اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ گویا وہ ہر لحظہ ذکر الہی میں مصروف ہیں.اس بارے میں حضور نے فرمایا:.دو تسبیح کرنے والے کا اصل مقصود گنتی ہوتا ہے اور وہ اس گنتی کو پورا کرنا چاہتا ہے.اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ یا تو وہ گنتی پوری کرے اور یا توجہ کرے.اور یہ صاف بات ہے کہ گنتی کو پوری کرنے کی فکر کرنے والا سچی توبہ کر ہی نہیں سکتا ہے.انبیاء علیہم السلام اور کاملین لوگ جن کو اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذوق ہوتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے عشق میں فنا شدہ ہوتے ہیں انہوں نے گفتی نہیں کی اور نہ اس کی ضرورت سمجھی“.تعویذ گنڈے ( ملفوظات جلد ہفتم صفحہ ۱۸) فقراء اور صوفیاء کا ایک طریق یہ ہے کہ بیماریوں سے شفایابی، مشکلات کے دُور ہونے ، خوشحالی کے حصول اور مقاصد میں کامیابی کیلئے یا سفر وغیرہ میں محفوظ رہنے کیلئے امام 77
ضامن باندھتے ہیں.یا تعویذ لکھ کر دیتے ہیں.اور قسم قسم کی قربانیاں کرنے کیلئے کہتے ہیں اور مختلف قسم کے عمل بتلاتے ہیں.جو نہایت مضحکہ خیز ہوتے ہیں.خود ہی کچھ وہم دلوں میں پیدا کرتے ہیں اور پھر ان کا علاج تجویز کرتے ہیں جہلاء کا تو ذکر کیا اچھے پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ تعویذوں پر اعتقادر رکھتے اور گلے میں ڈالتے ، یا بازوؤں پر باندھتے ہیں.اسی طریق کے مطابق ایک دن رام پور کے ایک شخص نے کچھ حاجات تحریری طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیں.حضور نے فرمایا :- فرمایا:- ”اچھا ہم دُعا کریں گے.وہ شخص حیران ہو کر پوچھنے لگا.آپ نے میری عرضداشت کا جواب نہیں دیا.حضور نے ”ہم نے تو کہا ہے کہ ہم دُعا کریں گے.اس پر وہ شخص کہنے لگا.حضور کوئی تعویذ نہیں کیا کرتے ؟ حضور نے فرمایا:.تعویذ گنڈے کرنا ہمارا کام نہیں.ہمارا کام تو صرف اللہ تعالیٰ کے حضور دُعا ( ملفوظات جلد دہم صفحہ ۲۰۳) کرنا ہے.“ ,, حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العز یز فرماتے ہیں :.پیروں فقیروں کے پاس جاکر تعویذ گنڈے لینے سے بچیں...آپ کو اکثر ایسی مثالیں نظر آئیں گی کہ پیروں فقیروں کے پاس جا کر تعویذ لئے جاتے ہیں کسی نے بہو کے خلاف لینا ہے کسی نے ساس کے خلاف کسی نے ہمسائی کے خلاف تعویذ لینا ہے کسی نے خاوند کے حق میں تعویذ لینا ہے.بے تحاشہ بدرسمیں پیدا ہو چکی ہیں.یہ سب عورتوں کی بیماریاں ہیں.یہ شرک کی طرف بڑی جلدی مائل ہو جاتی ہیں...اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کو کچھ نہ سمجھنا.نماز اور دعا کی طرف توجہ نہ ہونا.فکر 78
ہے تو پیروں فقیروں کے ہاں حاضریاں دینے کی...یہ سب لغویات ہیں بلکہ شرک ہے.یہ تعویذ گنڈے کرنے والی جو عورتیں ہیں اگر آپ ان کے ساتھ رہ کر ان کا جائزہ لیں تو شاید وہ کبھی نماز نہ پڑھتی ہوں...پھر ہمارے معاشرے میں یعنی جماعت کے باہر اس میں زندہ انسانوں کے علاوہ مردہ پرستی بہت ہے...پیروں فقیروں کی قبروں پر جاتے ہیں اور وہاں مرادیں مانگتے ہیں اب ان قبروں کو بھی لوگوں نے شرک کا ذریعہ بنایا ہوا ہے.( الازھار لذوات الخمار جلد 3 حصہ اول صفحہ 364،363) تمباکونوشی آج کل سگریٹ نوشی عام ہے اور فیشن میں داخل ہے.کثرت استعمال کے باعث اس کو ضروری سمجھ لیا گیا ہے اور نقصان کے پہلو کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.ا.انسان عادت کو چھوڑ سکتا ہے بشرطیکہ اس میں ایمان ہو اور بہت سے ایسے آدمی دنیا میں موجود ہیں جو اپنی پرانی عادت کو چھوڑ بیٹھتے ہیں.دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ جو ہمیشہ شراب پیتے چلے آئے ہیں بڑھاپے میں آکر جبکہ عادت کو چھوڑ نا خود بیمار پڑنا ہوتا ہے بلا کسی خیال کے چھوڑ بیٹھتے ہیں اور تھوڑی سی بیماری کے بعد اچھے بھی ہو جاتے ہیں.میں حقہ کو منع کہتا اور ناجائز قرار دیتا ہوں مگر ان صورتوں میں کہ انسان کو کوئی مجبوری ہو.یہ ایک لغو چیز ہے اور اس سے انسان کو پر ہیز کرنا چاہیئے.“ 66 بدر ۲۸ فروری ۱۹۰۷ء) ۲.تمباکو کے بارے میں اگر چہ شریعت نے کچھ نہیں بتایا لیکن ہم اسے اس لئے مکروہ خیال کرتے ہیں کہ اگر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تو آپ اس کے استعمال کو منع فرماتے“.( بدر ۲۴ / جولائی ۱۹۰۳ء) 79
حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.پھر آجکل کی لغویات میں سے ایک چیز سگریٹ وغیرہ بھی ہیں جیسا کہ مختصر سا میں پہلے ذکر کر آیا ہوں.نوجوانوں میں اس کی عادت پڑتی ہے اور پھر تمام زندگی یہ جان نہیں چھوڑتی سوائے ان کے جن کی قوت ارادی مضبوط ہو.اور پھر سگریٹ کی وجہ سے بعض لوگوں کو اور نشوں کی عادت بھی پڑ جاتی ہے.تو وہ لوگ جو اس لغو عادت میں مبتلا ہیں کوشش کریں کہ اس سے جان چھڑائیں.اور والدین خاص طور پر بچوں پر نظر رکھیں کیونکہ آجکل بچوں کو نشوں کی با قاعدہ پلاننگ کے ذریعے عادت بھی ڈالی جاتی ہے.اور پھر آہستہ آہستہ یہ ہو جاتا ہے کہ بیچارے بچوں کے برے حال ہو جاتے ہیں.آپ یہاں بھی دیکھیں کس قدر لوگ ان نشوں کی وجہ سے اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں.ایک بہت بڑی تعدادان ملکوں میں جن میں آپ رہ رہے ہیں، آپ دیکھیں گے سگریٹ پینے کی وجہ سے حشیش یا دوسرے نشوں میں مبتلا ہو گئی.اور اپنے کاموں سے بھی گئے، اپنی ملازمتوں سے بھی گئے ، اپنی نوکریوں سے بھی گئے ، اپنے کاروباروں سے بھی گئے، اپنے گھروں سے بھی بے گھر ہوئے اور زندگیاں برباد ہوئیں.بیوی بچوں کو بھی مشکل میں ڈالا.خود پارکوں، فٹ پاتھوں یاپکلیوں کے نیچے زندگیاں گزار رہے ہیں.گندے غلیظ حالت میں ہوتے ہیں.لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہوتے ہیں.ڈسٹ بنوں (Dustbins) سے گلی سڑی چیزیں چن چن کے کھارہے ہوتے ہیں.تو یہ سب اس لغو عادت کی وجہ سے ہی ہے.اس لئے کسی بھی لغو چیز کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے.یہی چھوٹی چھوٹی باتیں پھر بڑی بن جایا کرتی ہیں.80
اور اب تو افیون سے بھی زیادہ خطر ناک نشے پیدا ہو چکے ہیں.پس ان لغویات سے بچنے والے ہی تقویٰ پر قائم رہ سکتے ہیں..تو شراب کا جو نشئی ہے وہ بھی مختلف جرائم میں گرفتار ہوتا ہے.بلکہ ان ملکوں میں بھی جہاں شراب کی اجازت ہے آپ دیکھیں گے کہ بعض لوگ نشے میں بعض قسم کی حرکات کر جاتے ہیں اور پھر جیلوں میں چلے جاتے ہیں.اور پھر یہاں کے معاشرے کے مطابق بعض شریف لوگ بظاہر شراب کے نشے میں دھت ہوتے ہیں اور سڑکوں پہ گرے پڑے ہوتے ہیں ، پولیس ان کو اٹھا کے لے جاتی ہے.پھر جوا وغیرہ ہے یہ بھی لغویات ہیں.یہ بھی اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں.شرابیوں کو عام طور پر جوا کھیلنے کی بھی عادت ہوتی ہے.کسی بھی نشہ کرنے والے کو 66 عادت ہوتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے بنیں.“ سنیما، تھیٹر،انٹرنیٹ: (خطبات مسر در جلد دوم صفحه 597 تا599 مطبوعه از قادیان) مغربی ممالک میں جو بے راہ روی پیدا ہو چکی ہے اور فحاشی جس حد تک ان کے معاشرہ میں سرایت کر چکی ہے موجودہ دور میں ان کے مناظر سنیما کے پردہ پر دکھائے جاتے ہیں جو نئی نسل میں مذہب سے دوری اور بداخلاقی کا میلان پیدا کرتے ہیں.روپیہ اور وقت کا ضیاع اس کے علاوہ ہے.انہیں خرابیوں کے پیش نظر حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:.ا.اس کے متعلق میں جماعت کو حکم دیتا ہوں کہ کوئی احمدی سنیما ،سرکس تھیڑ وغیرہ غرضیکہ کسی تماشے میں بالکل نہ جائے اور اس سے بکلی پر ہیز کرے.ہر مخلص احمدی جو میری بیعت کی قدر و قیمت سمجھتا ہے اس کے لئے سنیما یا کوئی تماشہ وغیرہ دیکھنا یا کسی کو دکھانا جائز نہیں“.۲.سنیما کے متعلق میرا خیال ہے کہ اس زمانہ کی بدترین لعنت ہے.اس نے 81
سینکڑوں شریف گھرانوں کے لڑکوں کو گویا اورسینکڑوں شریف گھرانوں کی لڑکیوں کو ناچنے والی بنادیا ہے اور سنیما ملک کے اخلاق پر ایسا تباہ کن اثر ڈال رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ میرا منع کرنا تو الگ رہا اگر میں ممانعت نہ کروں تو بھی مومن کی رُوح کو خود بخو داس سے بغاوت کرنی چاہئیے.( مطالبات صفحہ ۲۷ تا ۴۱) حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.”آج کل کی برائیوں میں سے ایک بُرائی ٹی وی کے بعض پروگرام ہیں، انٹر نیٹ پر غلط قسم کے پروگرام ہیں، فلمیں ہیں.اگر آپ نے اپنے بچوں کی نگرانی نہیں کی اور انہیں ان لغویات میں پڑا رہنے دیا تو پھر بڑے ہو کر یہ بچے آپ کے ہاتھ میں نہیں رہیں گے...اس لئے کبھی یہ نہ سمجھیں کہ معمولی سی غلطی پر بچے کو کچھ نہیں کہنا، ٹال دینا ہے،اس کی حمایت کرنی ہے.ہر غلطی پر اس کو سمجھانا چاہئیے.آپ کے سپر دصرف آپ کے بچے نہیں ہیں ، قوم کی امانت آپ کے سپرد ہے.احمدیت کے مستقبل کے معمار آپ کے سپرد ہیں.ان کی تربیت آپ نے کرنی ہے.پس خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے اپنے عمل سے بھی اور سمجھاتے ہوئے بھی بچوں کو تربیت کریں اور پھر میں کہتا ہوں اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اپنے عہد بیعت کو جو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا ہے اپنے آپ کو بھی دنیاوی لغویات سے پاک کریں...اور اپنے بچوں کے لئے جنت کی ٹھنڈی ہواؤں کے سامان پیدا کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین ( الازھار لذوات الخما رجلد سوم حصہ اول صفحہ 372،371) اس زمانہ میں ٹیلی ویژن کی وجہ سے سنیما جانے کی ضرورت نہیں پڑتی.گھر میں بیٹھے بیٹھے ڈرامے دیکھے جاسکتے ہیں.سنیما، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ اپنی ذات میں تو برے نہیں لیکن اس 82
زمانہ میں ان کا نقصان نفع سے زیادہ ہے اور خرابیوں کے پھیلانے کا ایک اہم ذریعہ بن گئے ہیں اس لئے اس امر کی ضرورت ہے کہ پورا کنٹرول ہو اور لغو نظاروں کے دیکھنے میں وقت نہ ضائع کیا جائے.القرآن :- بے پردگی "مومن عورتیں اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے جو آپ ہی آپ بے اختیار ظاہر ہوتی ہو اور اپنی اوڑھنیوں کو اپنے سینہ پر سے گزار کر اس کو ڈھانک کر پہنا کریں اور اپنی زمینوں کو صرف اپنے خاوندوں ، اپنے باپوں، اپنے خاوندوں کے باپوں، اپنے بیٹوں، اپنے خاوندوں کے بیٹوں اور اپنے بھائیوں، اپنے بھائیوں کے بیٹوں، اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی عورتوں یا جن کے مالک ان کے داہنے ہاتھ ہوئے ہیں ان کے سوا کسی پر ظاہر نہ کیا کریں اور اپنے پاؤں زور سے زمین پر اس لئے نہ مارا کریں کہ وہ چیز ظاہر ہو جائے جس کو وہ اپنی زینت سے چھپا رہی ہیں.“ الحديث :- (سورۃ نور : ۳۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ کو ایک نابینا صحابی سے پردہ کرنے کا حکم دیا.پوچھنے پر فرمایا.کیا تم بھی دونوں نابینا ہو کہ اس کو دیکھ نہیں سکتیں.( مشکوۃ کتاب الادب ) 83
حضرت عائشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر کی قبر پر دعا کی غرض سے بغیر پردہ کے جایا کرتی تھیں مگر حضرت عمر کے اسی جگہ مدفون ہونے کے بعد پردہ کے ساتھ جاتی تھیں.( رواه مسند احمد بن حنبل ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزخیوں کے گروہ کے ذکر میں فرمایا وہ عورتیں جو کپڑے تو پہنتی ہیں مگر حقیقت میں وہ ٹنگی ہوتی ہیں.ناز سے پچکیلی چال چلتی ہیں.لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے جتن کرتی ہیں بختی اونٹوں کی لچکدار کو ہانوں کی طرح ان کے سر ہوتے ہیں.جنت میں داخل نہ ہوں گی بلکہ خوشبو کوبھی نہ پائیں گی.جبکہ اس کی خوشبو بہت دُور تک آئے گی.(مسلم کتاب اللباس والزينته صفحه ۳۳۵ مطبع نعمان کتب خانه) سید نا حضرت مسیح موعود :- : فرمایا ” عورتوں کو چاہیے کہ نامحرم سے اپنے تئیں بچا ئیں اور یادرکھنا چاہئیے کہ بغیر خاوند اور ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور جتنے مرد ہیں ان سے پردہ کرنا ضروری ہے.جو عورتیں نامحرم لوگوں سے پردہ نہیں کرتیں شیطان ان کے ساتھ ہے....جو خدا اور اس کے رسول کے حکموں کا مقابلہ کرتی ہیں نہایت مردود اور شیطان کی بہنیں اور بھائی ہیں کیونکہ وہ خدا اور رسول کے فرمودہ سے منہ پھیر کر اپنے رب کریم سے لڑائی کرنا چاہتی ہیں.“ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۷۰-۶۹) سید نا حضرت خلیفة المسیح الاول.گھونگھٹ کا پردہ بہ نسبت اس پردہ کے جو آجکل ہمارے ملک میں رائج ہے 84
زیادہ محفوظ تھا.بہر حال ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئیے کہ وہ دینی احکام پر عمل کرے.( چہرے کا پردہ کرے ) اور اگر کہیں اس پر کمزوری پائی جاتی ہو تو اُسے دُور کرے.“ (الفضل ۱٫۵ پریل ۱۹۶۰ء) سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی -: جو چیز منع ہے وہ یہ ہے کہ عورت کھلے منہ پھرے اور مردوں سے اختلاط کرے.منہ سے کپڑا اُٹھانا یا مکسڈ (MIXED) پارٹیوں میں جانا اور ان کا مردوں سے بے تکلفی کے ساتھ باتیں کرنا یہ نا جائز ہے.“.....دوو ( تفسیر کبیر جلد ششم سورۃ نور صفحه ۳۰۴ آیت نمبر ۳۲) ”خُمر سے مراد سر کا رومال یا کپڑا ہے.دوپٹہ مراد نہیں اور اس کے معنی یہی ہیں کہ سر سے رومال کو اتنا نیچا کرو کہ وہ سینہ تک آجائے اور سامنے سے آنے والے کو منہ نظرنہ آئے یہ ہدایت بتا رہی ہے کہ عورت کا منہ پردہ میں شامل ہے.آنحضور سلیم اور صحابہ و صحابیات بھی چہرے کو پردہ میں شامل سمجھتے تھے.آنحضور کا ایک رشتہ کی غرض سے ایک صحابیہ ام سلیم کو بھجوانا بتاتا ہے کہ چہرہ کا پردہ تھا.اسی طرح ایک رشتہ کے سلسلہ میں والد نے لڑکی کا چہرہ دکھانے سے انکار کر دیا تو حضور کے ارشاد پر بچی خود سامنے آگئی.اگر وہ لڑکی کھلے منہ پھرا کرتی تھی تو اس نوجوان کو بچی کے باپ سے چہرہ دکھانے کی درخواست کی کیا ضرورت تھی.قرآن نے زینت چھپانے کا حکم دیا ہے اور سب سے زیادہ زینت کی چیز چہرہ ہے اگر چہرہ چھپانے کا حکم نہیں تو پھر زینت کیا چیز ہے جس کو چھپانے کا حکم ہے.“ (خلاصه از تفسیر کبیر جلد ششم صفحه ۳۰۰،۲۹۹ سوره نور ) فرمایا.” پردہ چھوڑنے والا قرآن کی ہتک کرتا ہے ایسے انسان سے ہمارا کیا 85
تعلق.وہ ہمارا دشمن ہے اور ہم اس کے دشمن اور ہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے احمدی مردوں اور ایسی عورتوں سے کوئی تعلق نہ ( الفضل ۷ ۲ جون ۱۹۵۸ء) رکھیں.سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث.قرآن نے پردہ کا حکم دیا ہے.انہیں (احمدی مستورات کو ) بہر حال پردہ کرنا پڑے گا یاوہ جماعت کو چھوڑ دیں کیونکہ ہماری جماعت کا یہ مؤقف ہے کہ قرآن کریم کے کسی حکم سے تمسخر نہیں کرنے دیا جائے گانہ زبان سے اور نہ عمل سے.اسی پر دنیا کی ہدایت اور حفاظت کا انحصار ہے.“ (الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۷۸ء) میں ایسی خواتین سے جو پردہ کوضروری نہیں سمجھتیں پوچھتا ہوں کہ انہوں نے پردہ کو ترک کر کے اسلام کی کیا خدمت کی.آج بعض یہ کہتی ہیں کہ ہمیں یہاں پردہ نہ کرنے کی اجازت دی جائے پھر کہیں گی نگ دھڑنگ سمندر میں نہانے اور ریت پر لیٹنے کی اجازت دی جائے پھر کہیں گی شادی سے پہلے بچے جننے کی اجازت دی جائے.میں کہوں گا پھر تمہیں دوزخ میں جانے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے...66 اپنے آپکو ٹھیک کرلیں قبل اس کے کہ خدا کا قہر نازل ہو.“ 09.....دوره مغرب صفحه ۲۳۸ ناروے جماعت سے اجتماعی ملاقات) سید نا حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سیدنا -: ”بڑی شدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ تحریک ڈالی ہے کہ 86
احمدی مستورات بے پردگی کے خلاف جہاد کا اعلان کریں کیونکہ اگر آپ نے بھی یہ میدان چھوڑ دیا تو پھر دنیا میں اور کون سی عورتیں ہوں گی جو اسلامی اقدار کی حفاظت 66 کے لئے آگے آئیں گی.“ (الفضل ۲۸ رفروری ۱۹۸۳ء) سید نا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حیا ایمان کا حصہ ہے.( صحیح البخاری کتاب الایمان باب امور الایمان حدیث 9).پس حیا دار لباس اور پردہ ہمارے ایمان کو بچانے کے لئے ضروری ہے.اگر ترقی یافتہ ملک آزادی اور ترقی کے نام پر اپنی حیا کو ختم کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دین سے بھی دُور ہٹ چکے ہیں.پس ایک احمدی بچی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے اس نے یہ عہد کیا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گی.ایک احمدی بچے نے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے، ایک احمدی شخص نے ، مرد نے عورت نے مانا ہے، اس نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہے اور یہ مقدم رکھنا اُسی وقت ہوگا جب دین کی تعلیم کے مطابق عمل کریں گے...پس ہر احمدی لڑکی لڑکے اور مرد اور عورت کو اپنی حیا کے معیار اونچے کرتے ہوئے معاشرے کے گند سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ یہ سوال یا اس بات پر احساس کمتری کا خیال کہ پردہ کیوں ضروری ہے؟ کیوں ہم ٹائٹ چین اور بلاؤز نہیں پہن سکتیں؟ یہ والدین اور خاص طور پر ماؤں کا کام ہے کہ چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو اسلامی تعلیم اور معاشرے کی برائیوں کے بارے میں بتائیں تبھی ہماری نسلیں دین پر قائم رہ سکیں گی اور نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے 87
کے زہر سے محفوظ رہ سکیں گی.ان ممالک میں رہ کر والدین کو بچوں کو دین سے جوڑنے اور حیا کی حفاظت کے لئے بہت زیادہ جہاد کی ضرورت ہے.اس کے لئے اپنے نمونے بھی دکھانے ہوں گے....پس ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ حیا کے لئے حیا دار لباس ضروری ہے اور پردہ کا اس وقت رائج طریق حیادار لباس کا ہی ایک حصہ ہے.اگر پردہ میں نرمی کریں گے تو پھر اپنے حیادار لباس میں بھی کئی عذر کر کے تبدیلیاں پیدا کر لیں گی اور پھر اس معاشرے میں رنگین ہو جائیں گی جہاں پہلے ہی بے حیائی بڑھتی چلی جا رہی ہے...ہم احمدیوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ زمانہ بہت خطرناک زمانہ ہے.شیطان ہر طرف سے پرزور حملے کر رہا ہے.اگر مسلمانوں اور خاص طور پر احمدی مسلمانوں، مردوں اور عورتوں ، نوجوانوں سب نے مذہبی اقدار کو قائم رکھنے کی کوشش نہ کی تو پھر ہمارے بچنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے....اسلام کی ترقی کے لئے ہر وہ چیز ضروری ہے جس کا خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے.پردہ کی سختیاں صرف عورتوں کے لئے نہیں ہیں.اسلام کی پابندیاں صرف عورتوں کے لئے نہیں ہیں بلکہ مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم ہے.اللہ تعالیٰ نے پہلے مردوں کو حیا اور پردے کا طریق بتایا تھا.چنانچہ فرمایا کہ قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوْجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (النور: 31) مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں.یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے.یقینا اللہ جو وہ کرتے ہیں اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے.88
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو پہلے کہا کہ غض بصر سے کام لو.کیوں؟ اس لئے کہ ڈلِگ از کی لَهُمْ کیونکہ یہ بات پاکیزگی کے لئے ضروری ہے.اگر پاکیزگی نہیں تو خدا نہیں ملتا.پس عورتوں کے پردہ سے پہلے مردوں کو کہہ دیا کہ ہر ایسی چیز سے بچو جس سے تمہارے جذبات بھڑک سکتے ہوں.عورتوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا، ان میں مکس آپ (Mix up ) ہونا، گندی فلمیں دیکھنا، نامحرموں سے فیس بک (Facebook) پر یا کسی اور ذریعہ سے پیٹ (Chat) وغیرہ کرنا، یہ چیزیں پاکیز نہیں رہتیں.پس یہ پابندیاں صرف عورت کے لئے نہیں بلکہ مرد کے لئے بھی ہیں.مردوں کو اپنی نظریں عورتوں کو دیکھ کر نیچے کرنے کا حکم دے کر عورت کی عزت قائم کی گئی ہے.پس اسلام کا ہر حکم حکمت سے پُر ہے اور برائیوں کے امکانات کو دُور کرتا ہے...اسلام کی تعلیم پر اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ عورت کو حجاب اوڑھا کر، پردہ کا کہ کر اس کے حقوق سلب کئے گئے ہیں اور اس سے کچے ذہن کی لڑکیاں جو ہیں بعض دفعہ متاثر ہو جاتی ہیں.اسلام پردہ سے مراد جیل میں ڈالنا نہیں لیتا.گھر کی چاردیواری میں عورت کو بند کرنا اس سے مراد نہیں ہے.ہاں حیا کو قائم کرنا ہے....اللہ تعالیٰ کرے کہ ہمارے مرد بھی اور ہماری عورتیں بھی حیا کے اعلیٰ معیاروں کو قائم کرنے والے ہوں اور اسلامی احکامات کی ہر طرح ہم سب پابندی کرنے والے ہوں.(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 13 جنوری 2017ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، لندن) 89
چوتھا باب اختلافی مسائل وفات مسیح ختم نبوت - صداقت حضرت مسیح موعود پہلی دلیل :- مسئلہ وفات مسیح علیہ السلام وَإِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ وَ أَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوني وَأُتِيَ الهَيْنِ مِنْ دُونِ اللهِ قَالَ سُبْحَنَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقِّ إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِى وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا اَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ، وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا ج ط ط ( سورۃ المائدہ: ۱۱۷-۱۱۸) دُمْتُ فِيْهِمْ ، فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدُه اور جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو تو اس نے جواب دیا کہ ( ہم ) تجھے ( تمام عیبوں سے پاک قرار دیتے ہیں.میری شان کے شایان نہ تھا کہ میں وہ (بات) کہتا جس 90
کا مجھے حق نہ تھا اور اگر میں نے ایسا کہا تھا تو تجھے ضرور اس کا علم ہوگا.جو کچھ میرے جی میں ہے تو جانتا ہے اور جو کچھ تیرے جی میں ہے میں نہیں جانتا.تو یقینا (سب) غیب کی باتوں سے اچھی طرح واقف ہے.میں نے اُن سے صرف وہی بات کہی تھی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا.یعنی یہ کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی ربّ ہے اور جب تک میں ان میں ( موجود ) رہا میں ان کا نگران رہا.مگر جب تو نے مجھے وفات دے دی، فقط ایک تو ہی ان پر نگران رہا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے.استدلال :- اس آیت میں قَالَ اللہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس کے معنی ہیں اللہ نے کہا.یہ مکالمہ قیامت کے دن ہو گا مگر ماضی کا صیغہ استعمال کیا گیا جو مستقبل میں کسی امر کے حتماً وقوع پذیر ہونے پر بھی دلالت کرتا ہے یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ عیسی سے دریافت کرے گا کہ کیا تم نے لوگوں کو یہ تعلیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بناؤ تو وہ جواب دیں گے کہ میں جب تک قوم میں موجود رہاوہ نہیں بگڑی تھی میں ان کا نگران تھا.لیکن فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی جب تُو نے مجھے وفات دے دی تو تو اُن کا نگران تھا مجھے ان کے بگڑنے کا کوئی علم نہیں.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ جواب اسی وقت درست ہو سکتا ہے جب یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ وفات پا کر اپنی قوم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئے.اگر یہ مانا جائے کہ قیامت سے قبل وہ دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو پھر قیامت کے دن قوم کے بگڑنے سے ان کا لاعلمی کا اظہار جھوٹ ٹھہرتا ہے.جو کسی طرح ممکن نہیں.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ وہ قوم کے بگڑنے سے قبل وفات پاگئے اور ان کے لئے دوبارہ دنیا میں آنا کسی طرح ممکن نہیں.یا درکھنا چاہیے کہ لفظ توفی فعل ہے.جب اس کا فاعل خدا ہوا اور مفعول کوئی ذی روح ہو تو اس کے معنی سوائے قبض روح کے اور کچھ نہیں ہوتے اور قبض روح صرف دوطرح ہوتا ہے 91
وفات کے ذریعہ یا نیند کی حالت میں.جب نیند کی حالت میں قبض روح مراد ہو تو اس کے لئے قرینہ موجود ہوتا ہے ورنہ توئی کے معنی ہمیشہ موت کے ہوتے ہیں.عربی زبان میں ایک بھی ایسی مثال موجود نہیں جہاں تو قی کا لفظ ذی روح یعنی جاندار چیز کے لئے استعمال ہوا ہو اور خُدا اس فعل کا فاعل ہو تو اس کے معنی قبض روح کے سوا کچھ اور بھی کئے جاسکتے ہوں.دوسری دلیل : إِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ ( سورة آل عمران : ۵۶) الْقِيمَةِ ترجمہ : ( اس وقت کو یاد کرو) جب اللہ نے کہا.اے عیسی ! میں تجھے ( طبعی طور پر ) وفات دوں گا اور تجھے اپنے حضور میں عزت بخشوں گا.اور کافروں (کے الزامات ) سے تجھے پاک کروں گا اور جو تیرے پیرو ہیں انہیں ان لوگوں پر جو منکر ہیں قیامت کے دن تک غالب رکھوں گا.استدلال : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حضرت عیسی علیہ السلام سے چار وعدے کئے ہیں :.میں تجھے وفات دوں گا یعنی یہودی تجھے مار نہیں سکیں گے.۲.میں تجھے عزت دوں گا.یہودی تجھے صلیب پر مار کر ذلیل نہیں کر سکتے.بائبل میں لکھا ہے.جو کاٹھ پر ( یعنی صلیب پر ) مارا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے.خدا فرماتا ہے کہ یہودی اس منصوبہ میں ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے اور تجھے صلیب پر موت نہیں آئے گی.جو تیری بے عزتی کا موجب ہو.92
میں تجھے یہود کے الزامات سے پاک ٹھہراؤں گا.۴.میں تیرے ماننے والوں کو انکار کرنے والوں پر قیامت تک غلبہ عطا کروں گا.یعنی عیسائی ہمیشہ یہود پر غالب رہیں گے.یہ چاروں وعدے خُدائے تعالیٰ نے اسی ترتیب سے پورے کر دیئے.پہلے وفات دی پھرانجام بخیر کر کے اپنے حضور میں ان کو عزت بخشی اور ان کے درجات بلند کئے.یہود کے تمام الزامات سے ان کو پاک ٹھہرایا.اور ان کے ماننے والوں کو آج تک یہود پر غالب رکھا اور آئندہ بھی قیامت تک یہودی مغلوب رہیں گے.اس آیت میں رَافِعُكَ إِلَی کے یہ معنی کرنے کہ میں تجھے اُٹھا کر آسمان پر لے جاؤں گا صراحتاً غلط ہیں.اوّل تو آسمان کا کہیں ذکر ہی نہیں.دوسرے اگر رفع کے معنی اٹھانے کے ہی کئے جائیں ( جو اس جگہ بالکل بے جوڑ ہوں گے ) تب بھی لفظی معنی صرف یہ ہوں گے کہ میں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا.اب خدا کی کوئی جہت نہیں.وہ ہر طرف اور ہر جگہ ہے.اُوپر کی طرف اُٹھائے جانے کی تخصیص کیوں کی جائے.اگر اوپر کی طرف اُٹھانے کے ہی معنی کئے جائیں.تب بھی قرآنی محاورہ کے مطابق اس کا مطلب عزت بخشنا ہی ہوگا.جیسا کہ حضرت اور بیس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے -: وَرَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّاه (مریم: ۵۸) ہم نے اُسے نہایت بلند مقام تک اٹھایا تھا یعنی بڑا رتبہ عطا کیا تھا اور عزت بخشی تھی.کیا یہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت ادریس علیہ السلام بھی آسمان پر چلے گئے؟ اس کے علاوہ قرآن کریم نے وفات کا ذکر پہلے کیا ہے اور اٹھانے کا ذکر بعد میں.اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے اور وہاں زندہ ہیں کسی وقت دوبارہ زمین پر نازل ہوں گے اور پھر وفات پائیں گے تو ترتیب بدل جاتی ہے.اس صورت میں ماننا پڑے گا کہ جس ترتیب سے واقعات کا ذکر قرآن کریم 93
میں ہوا ہے وہ (نعوذ باللہ ) غلط ہے.قرآن کریم کی ترتیب کو نہ غلط قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ بدلا جاسکتا ہے.غرض رفع کے لفظ کے جو معنی بھی کئے جائیں ان سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ رہنا ثابت نہیں ہوتا.کیونکہ وفات رفع سے پہلے ہے.ہم نماز میں بین السجدتین ( دوسجدوں کے درمیان ) دُعا کرتے ہیں وَارْفَعْنِی.اے اللہ! میرا ارفع کر.کیا اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ مجھے آسمان پر اُٹھالے، ہر گز نہیں.اس کا مطلب صرف یہی ہے کہ میرے درجات بلند کر.یہی معنی اس آیت میں حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے کئے جائیں گے.تیسری دلیل :- مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُوْلُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ ج ط الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ ، كَانَا يَأْكُلْنِ الطَّعَامَ ط (سورہ مائدہ : ۷۶) مسیح ابن مریم صرف ایک رسول تھا اس سے پہلے رسول ( بھی ) فوت ہو چکے ہیں اور اس کی ماں راستباز تھی.وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے.استدلال :- اس آیت میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم کی حیثیت صرف ایک رسول کی ہے اور ان سے پہلے جس قدر انبیاء آئے وہ فوت ہو گئے.وہ خود بھی اور ان کی والدہ بھی کھانا کھایا کرتے تھے.كَانَا يَا كُلاَنِ الطَّعَام ماضی استمراری ہے یعنی جب زندہ تھے وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے لیکن اب نہیں کھاتے.جس طرح حضرت مریم موت کی وجہ سے اب کھانا نہیں کھاتیں اسی طرح مسیح ابن مریم بھی نہیں کھاتے.انبیاء کے متعلق قرآن کریم کہتا ہے.وَمَا جَعَلْتُهُمْ جَسَدًا لَّا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خُلِدِينَ (سورة الانبياء : ٩) اور ہم نے ان رسولوں کو ایسا جسم نہیں دیا تھا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ وہ غیر معمولی عمر 94
پانے والے لوگ تھے.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء بغیر کھانا کھائے زندہ نہیں رہ سکتے.خدائے تعالیٰ کا یہ کہنا کہ مسیح ابن مریم کھانا کھایا کرتے تھے صاف بتلاتا ہے کہ اب وہ کھانا نہیں کھاتے اور اب وہ زندہ نہیں ہیں.چوتھی دلیل :- وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ ( سورة آل عمران : ۱۴۵) ط اور محمد ” صرف ایک رسول ہیں.اس سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں.پس اگر وہ وفات پا جائے یا قتل کیا جائے تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل کوٹ جاؤ گے؟ استدلال :- اس آیت میں صاف بتلایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آنے والے سب رسول فوت ہو چکے ہیں.قد خَلَتْ کے لفظی معنی ہیں.گزر چکے ہیں اور گزرنے سے مراد اس جگہ وفات پانے کے ہی ہیں.کیونکہ گزرنے کی صرف دوصورتیں اس آیت میں بیان ہوئی ہیں.ایک موت اور دوسرے قتل کیا جانا.اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو ضرور ان کا استثناء کر دیا جاتا.پھر انہیں الفاظ میں سورۃ مائدہ آیت ۷۶ ( دلیل سوم ) میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے آنے والے سب انبیاء گذر چکے ہیں.جس طرح باقی انبیاء اس جہاں سے گذر گئے اسی طرح حضرت مسیح ابن مریم بھی اس جہان سے گذر گئے اور اب ہرگز زندہ نہیں ہیں.مندرجہ بالا آیات سے یہ بات واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور وہ ہرگز اس خا کی جسم کے ساتھ آسمان پر اُٹھائے نہیں گئے.انسانوں کے لئے تو خُدا کا یہی قانون ہے کہ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيْهَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ.(سورۃ اعراف: ۲۶) 95
اسی (زمین) میں تم زندہ رہو گے اور اسی میں تم مرو گے اور اسی میں سے تم نکالے جاؤ گے.اس قانون کے ہوتے ہوئے کسی فرد بشر کا آسمان پر جانا کیسے ممکن ہے؟ اگر کوئی وجود اپنی خوبیوں اور اعلیٰ صفات اور اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے زندہ رکھے جانے کے قابل ہوسکتا تھا تو وہ ہمارے آقاسید و مولیٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.بدنیا گر کسے پائندہ بودے خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.ابوالقاسم محمد زندہ بودے وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَأَبِنْ مِّتَ فَهُمُ الخلدون (سورۃ الانبیاء: ۳۵) اور ہم نے کسی انسان کو تجھ سے پہلے غیر طبعی عمر نہیں بخشی.کیا اگر تو مر جائے تو وہ غیر طبعی عمر تک زندہ رہیں گے.کیسے تعجب کی بات ہے کہ مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ فوت ہو کر زمین میں مدفون ہیں لیکن مسیح ابن مریم (نعوذ باللہ ) ابھی تک اس خا کی جسم کے ساتھ چوتھے آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں.غیرت کی جا ہے کہ عیسی زندہ ہو آسماں پر عدم رجوع موتی مدفون ہو زمیں میں شاہ جہاں ہمارا ابن مریم مرگیا حق کی قسم داخل جنت ہوا وہ محترم جولوگ وفات پا جاتے ہیں یا کسی طرح مرجاتے ہیں ان کے متعلق خدائے تعالیٰ کا قانون 96
یہی ہے کہ وہ پھر اس دنیا میں واپس نہیں آتے.مندرجہ ذیل آیات سے اس قانون کی صراحت ہوتی ہے: وَحَرُمُ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ.(سورة الانبياء : ٩٦) اور ہر ایک بستی جسے ہم نے ہلاک کیا ہے اس کے لئے یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ اس کے بسنے والے لوٹ کر اس دُنیا میں نہیں آئیں گے.حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلَى اعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَابِلُهَا وَمِنْ وَرَابِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (سورۃ المومنون : ۱۰۰ تا ۱۰۱) ترجمہ: یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آجاتی ہے تو کہتا ہے اے میرے رب ! مجھے لوٹا دیجیئے.شاید کہ میں اچھے کام کروں اُس ( دُنیا ) میں جسے چھوڑ آیا ہوں.ہر گز نہیں.یہ تو محض ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے.اور اُن کے پیچھے ایک روک حائل رہے گی اس دن تک کہ وہ اُٹھائے جائیں گے.جماعت احمدیہ کا عقیدہ مسئله ختم نبوت جماعت احمدیہ کا اس بات پر ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ درجہ صرف آپ کو ہی ملا.آپ کے سوا کوئی اور وجود ایسا نہیں جو اس صفت سے متصف ہو.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.۱.عقیدہ کی رُو سے جو خُدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خُدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے.اب بعد 97
اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور سے محمد یت کی چادر پہنائی گئی.“ کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۵-۱۶) ۲ - اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خائم بتایا.یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی.اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا.یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۷) آیت خاتم النبیین اور اُس کا مفہوم مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيَّاه (سورۃ احزاب : ۴۱) نہ محمد تم میں سے کسی مرد کے باپ تھے نہ ہیں ( نہ ہوں گے ) لیکن اللہ کے رسول ہیں بلکہ (اس سے بڑھ کر ) نبیوں کی مہر ہیں اور اللہ ہر ایک چیز سے خوب آگاہ ہے.یہ آیت سنہ پانچ ہجری میں اس وقت نازل ہوئی جب حضرت زید نے حضرت زینب کو طلاق دیدی اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب سے نکاح کر لیا.حضرت زید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ بولے بیٹے تھے.جب حضور نے زید کی مطلقہ ( یعنی حضرت زینب) سے نکاح کیا تو کفار اور منافقین نے اعتراض کیا کہ آپ نے اپنی بہو سے نکاح کر لیا.جو کسی طرح درست نہیں.اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ کسی کو بیٹا کہہ دینے سے وہ بیٹا نہیں بن جاتا.حرمت تو حقیقی بیٹے کی بیوی سے نکاح کرنے میں ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حقیقی بیٹا نہیں.اس لئے حضرت زینب سے نکاح پر اعتراض غلط ہے.سورۃ احزاب کی آیت ے میں یہ کہا گیا تھا کہ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ 98
وَازْوَاجُةً أُمَّهُتُهُمْ.یعنی نبی مومنوں سے ان کی اپنی جانوں کی نسبت بھی زیادہ قریب ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں.نبی کی بیویوں کو ماں قرار دینے سے کوئی شخص یہ استدلال کر سکتا ہے کہ نبی اور مؤمنین کا رشتہ باپ بیٹے کا ہوا.ایسی صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زید کی مطلقہ (حضرت زینب) سے نکاح کرنا اپنی بہو سے نکاح کرنے کے مترادف ہے.اس اعتراض کو دُور کرنے کے لئے فرمایا مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ یعنی (جسمانی لحاظ سے ) نہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تم میں سے کسی مرد کے باپ تھے نہ ہیں (اور نہ ہونگے ) لہذا زید کے طلاق دینے کے بعد حضرت زینب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں.آیت خاتم النبیین کے پہلے ٹکڑے سے بے شک بہو سے نکاح کرنے کا اعتراض دُور ہو گیا.لیکن جسمانی ابوت کے انکار سے دو اور شبہات پیدا ہو سکتے تھے.اوّل یہ کہ بوجہ نبی ہونے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مومنوں کا باپ قرار دیا گیا تھا.لیکن جب یہ کہا گیا کہ آپ کسی مرد کے باپ نہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پھر آپ کی نبوت اور رسالت بھی جاری ہے یا نہیں؟ دوم یہ کہ آپ کی نرینہ اولاد نہ ہونے کے باعث دشمن آپ کو ابتر کہتا تھا.اب اس آیت میں کہا گیا ہے کہ آپ کسی مرد کے باپ نہیں تو کیا واقعی ( نعوذ باللہ ) آپ ابتر ٹھہرے؟ ان ہر دو اعتراضات کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلكِن رَّسُولَ اللهِ.جسمانی ابوت کی نفی سے یہ نہ سمجھنا کہ آپ روحانی لحاظ سے باپ نہیں رہے.اللہ کا رسول ہونے کے لحاظ سے آپ مومنین کے روحانی باپ بدستور ہیں جس طرح ہر نبی اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا ہے.نہ صرف اس قدر بلکہ آپ کا مقام اور مرتبہ دوسرے انبیاء کے مقابلہ میں بہت بلند و بالا ہے اور آپ خاتم النبیین ہیں.یعنی نبیوں کی مہر ہیں.آپ کی تصدیق اور آپ کی تعلیم کی شہادت کے بغیر کوئی شخص نبوت یا ولایت کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا.اس آیت خاتم النبین میں خائم ( تاء کی زبر کے ساتھ ) کے معنی ختم کر نیوالا نہیں 99
ہو سکتے.اگر یہاں خاتم ( تاء کی زیر کے ساتھ ) ہوتا تو ختم کرنے والا کے معنی ہو سکتے تھے لیکن یہاں ت پر زبر ہے.جب خاتم ( تاء کی زبر کے ساتھ ) کسی صیغے کے ساتھ استعمال ہو تو اس کے معنی ہمیشہ افضل“ کے ہوتے ہیں.جیسے کہتے ہیں خَاتَمُ الْأَوْلَيَاء خَاتَمُ الْمُحَدِّثِينَ خَاتَمُ الشُّعَرَاء - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کے لئے خَاتَمُ الْأَوْلِيَاء کے الفاظ استعمال کئے ہیں.( تفسیر صافی زیر آیت خاتم النبیین ) تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت علی کے بعد کوئی ولی نہیں ہوسکتا.پس محاورہ عرب کے مطابق خاتم النبیین کے ایک معنی یہ ہوئے کہ تمام انبیاء سے افضل یا ایسا وجود جس پر کمالات نبوت ختم ہو گئے اور وہ اپنے کمال میں بے مثال ٹھہرا.غرض اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے شک جسمانی لحاظ سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں لیکن روحانی لحاظ سے بحیثیت رسول آپ سب مومنوں کے باپ ہیں.نہ صرف مومنوں کے باپ ہیں بلکہ روحانی لحاظ سے تمام انبیاء کے بھی باپ ہیں.آپ کا محمد ( یعنی قابل تعریف وجود ) ہونا اس بات کا محتاج نہیں کہ آپ کی جسمانی اولا دہو بلکہ آپ محمد مہیں رسول اللہ ہونے کے لحاظ سے.اور خاتم النبیین ہونے کے لحاظ سے.واضح رہے کہ رسول اللہ ہونے کے لحاظ سے ہر نبی امت کا باپ ہوتا ہے.جو چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے ممتاز کرتی ہے وہ آپ کا خاتم ہونا ہے یعنی آپ تمام انبیاء سے بلحاظ مقام و مرتبہ افضل و اعلیٰ ہیں دوسرے آپ صلی یا اسلام کی قوت قدسیہ اور روحانی توجہ نبی تراش ہے.یعنی آپ کی تعلیم پر عمل کرنے اور آپ کی کامل پیروی سے انسان نبوت کے مقام تک پہنچ سکتا ہے اور یہ خوبی آپ سے قبل کسی نبی کو حاصل نہیں تھی.خاتم النبیین کے اسی مفہوم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں بیان فرماتے ہیں:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا گیا جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد براہ راست فیوض نبوت منقطع ہو گئے اور اب کمال نبوت صرف اسی شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال 100
پر اتباع نبوی کی مہر رکھتا ہوگا.اور اسی طرح پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا اور آپ کا وارث ہوگا.غرض اس آیت میں ایک طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ ہونے کی نفی کی گئی اور دوسرے طور سے باپ ہونے کا اثبات بھی کیا گیا تا وہ اعتراض جس کا ذکران شَانِئَكَ هُوَ الا بتر میں ہے دُور کیا جائے.“ ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۱۴) آنحضرت سی سی ایم اور دوسرے بزرگان نے خاتم النبیین کے کیا معنی کئے ۱.حضرت علی کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :.انَا خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْتَ يَا عَلَى خَاتَمُ الْأَوْلِيَاءِ " - ( تفسیر صافی زیر آیت خاتم النبین ) اے علی ! میں خاتم الانبیاء ہوں اور تو خاتم الاولیاء ہے.مجمع بحارالانوار میں لفظ خاتم کے نیچے حضرت عائشہ کا یہ قول درج ہے:.قُولُوا إِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ تکملہ مجمع بحارالانوارجلد چہارم صفحه ۸۵ مطبع نول کشور ) ی تو کہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں مگر یہ بھی نہ کہنا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.اس کے آگے لکھا ہے :.هَذَا نَاظِرُ إِلَى نُزُولِ عِيسَى وَهَذَا أَيْضًا لَا يُنَافِي حَدِيثَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي لِأَنَّهُ أَرَادَ لَا نَبِيَّ يَنْسَخُ شَرْعَهُ (ایضاً) یعنی یہ قول حضرت عائشہ صدیقہ کا نزول مسیح کا مؤید و محافظ ہے اور لا نبئی بعدہی والی حدیث کا بھی مخالف نہیں کیونکہ خاتم النبیین والی آیت اور لا نبی 101
بعدی کا مطلب تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو آنحضرت کی شریعت کو منسوخ کرے.امتی نبی اور قرآن کریم : قرآن کریم سے یہ بات ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بند نہیں ہوا بلکہ جاری ہے اور اس امر کا امکان موجود ہے کہ آپ کے بعد ایسے نبی آتے رہیں جو آپ کے امتی ہوں اور قرآن کریم کی تعلیم کو ہی دنیا میں رائج کرنے والے ہوں.ہاں یہ ضرور ہے کہ اسلام کی تعلیم کو چھوڑ کر اور بلا واسطہ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کسی قسم کا رُوحانی مقام حاصل نہیں کیا جاسکتا.خدائے تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے کی سب راہیں مسدود ہیں سوائے اس راہ کے جو قرآن کریم نے بتلائی اور اُس اُسوہ کی پیروی کے جو ہمارے آقا سید و مولی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا.پس امتی نبی کے راستہ میں آیت خاتم النبین ہرگز روک نہیں.جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات سے واضح ہے:.پہلی آیت -: وَمَن يُطِعِ الله وَالرَّسُولَ فَأُوليك مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِينَ وَالصَّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَبِكَ ( سورة النساء رکوع ۹، آیت: ۷۰) رَفِيقًاه اور جو ( لوگ بھی ( اللہ اور اس رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین ( میں ) اور یہ لوگ ( بہت ہی ) اچھے رفیق ہیں.استدلال : -: اس آیت میں امت محمدیہ کے لئے جو درجات مقدر ہیں ان کا ذکر ہے اور بتلایا گیا ہے کہ 102
اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنیوالوں اور اس رسول کی اطاعت کرنیوالوں کو نبوت ،صدیقیت ، شہادت اور صالحیت کے مقام و مرتبے عطا کئے جائیں گے.گویا ایک سچا مومن اور مسلمان آپ کی بچی پیروی کے نتیجہ میں صالحیت سے لے کر نبوت کے مقام تک پہنچ سکتا ہے.قرآن کریم میں جہاں دوسرے انبیاء کا ذکر ہے وہاں بتلایا گیا ہے کہ اُن کی پیروی سے زیادہ سے زیادہ صدیقیت کا مقام حاصل ہوسکتا ہے.جیسا کہ فرمایا.وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِة أُولَبِكَ هُمُ الصَّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِند ربهم ط (سورۃ الحدید رکوع ۲ آیت : ۲۰) اور جو اللہ پر اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہداء کا درجہ پانے والے ہیں.6 ان دونوں آیات پر غور کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبیوں کی اطاعت کے نتیجہ میں انسان صرف صدیق ، شہید اور صالح کا درجہ پاسکتا تھا من آنحضرت کی اطاعت کے نتیجہ میں ان مدارج کے علاوہ نبوت کا مرتبہ بھی مل سکتا ہے.یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ سورۃ نساء کی مندرجہ بالا آیت میں مَعَ الَّذِینَ کے الفاظ ہیں.یعنی ایسے لوگوں کے ساتھ ہوں گے جو نبی ،صدیق ، شہید اور صالح ہوں گے اس سے یہ کہاں پتہ لگا کہ وہ ان میں سے ہوں گے.یہ اعتراض قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے.اور عربی زبان اور قرآنی اسلوب بیان سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے کیونکہ مع کے معنی سیاق و سباق اور قرینہ کے مطابق بعض اوقات صرف ”میں“ کے ہوتے ہیں ساتھ کے نہیں.جیسا کہ دُعا سکھائی.وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ( سورة آل عمران رکوع ۲۰ آیت: ۱۹۴) یعنی مومن یہ دُعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ وفات دے.اس آیت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ جب کوئی نیک آدمی مرنے لگے تو ہم بھی مر جائیں.بلکہ صرف یہ مطلب ہے کہ ہمیں اس حالت میں وفات دے کہ ہم نیک لوگوں میں شامل ہوں.103
اگر مندرجہ بالا آیت میں ”مع “ کا ترجمہ ”ساتھ“ کیا جائے تو آیت بے معنی ہو جاتی ہے.کیونکہ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ خُدا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے انسان نبی تو نہیں ہوسکتا ہاں اُن کے ساتھ ہوگا.تولا زمانی بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان چاروں درجوں میں سے کوئی درجہ بھی نہیں ملے گا.صرف ان کے ساتھ ہونے کا شرف حاصل ہوگا.جن کو یہ مدارج ملیں گے.اگر انسان صالح یا نیک بھی نہ بن سکا تو پھر کیا فائدہ ہوا.اس سے تو نعوذ باللہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ دوسرے انبیاء کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بلند ہے کیونکہ ان کی اطاعت سے صد یقیت کا در جدل جاتا ہے.ظاہر ہے کہ یہ بات درست نہیں.پس ثابت ہوا کہ مئع کے یہی معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے نبوت کے مقام تک فائز ہوں گے.دوسری آیت:- اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلبِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ، إِنَّ اللهَ سَمِيعٌ (سورۃ الحج رکوع ۱۰ آیت:۷۶) بصِيرُه اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی رسول منتخب کرتا ہے اور کرتارہے گا کیونکہ وہ سُنے والا اور دیکھنے والا ہے.استدلال:- اس آیت میں يَصْطفی مضارع کا صیغہ ہے جو حال اور مستقبل دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے.اور اس کے معنی ہوں گے منتخب کرتا ہے.اور منتخب کرے گا.گویا اس جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک سنت کا ذکر کیا ہے کہ وہ فرشتوں اور انسانوں میں سے رسول منتخب فرما تا رہتا ہے اور خُدا کی سنت میں تبدیلی نہیں ہوتی جیسا کہ فرمایا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا تُو خدا کی سنت میں کبھی تبدیلی نہیں پائے گا.104
تیسری آیت: يُبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ ايَتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ( سورۃ الاعراف رکوع ۴ ، آیت : ۳۶) اے آدم کے بیٹو! جب بھی تمہارے پاس تم میں سے رسول بنا کر بھیجے جائیں اور وہ تمہارے سامنے میری آیات پڑھ کر سنائیں تو جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے اور اصلاح کریں گے ان کو ( آئندہ کیلئے ) کسی قسم کا خوف نہ ہوگا اور نہ وہ ماضی کی کسی بات پر غمگین ہوں گے.استدلال اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جب تک بنی آدم اس دُنیا میں موجود ہیں.ان میں رسول آتے رہیں گے اور انسانوں کا فرض ہے کہ ان پر ایمان لائیں.اس جگہ ساری نسلِ انسانی کو عمومی رنگ میں خطاب کیا گیا ہے.لیکن درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اور آپ کے بعد کے زمانہ کے لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے.جیسا کہ اس سے پہلی آیت کے مفہوم سے واضح ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.يبَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (سورۃ الاعراف: ۳۲) اے آدم کے بیٹو! ہر مسجد کے قریب زینت (کے سامان) اختیار کر لیا کرو.اور کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو کیونکہ وہ ( اللہ ) اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.اس جگہ مسجد میں زینت اختیار کرنے کا حکم امت محمدیہ کو ہے.لیکن خطاب بنی آدم کہہ کر کیا گیا ہے.چوتھی آیت: اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ 105
غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ( سورة فاتحہ ) (اے اللہ ) ہمیں سیدھے راستے پر چلا.ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا جن پر نہ تو ( بعد میں تیرا ) غضب نازل ہوا ( ہے ) اور نہ وہ ( بعد میں ) گمراہ ( ہو گئے ) ہیں.استدلال:- اس آیت میں ہمیں دُعا سکھائی گئی ہے کہ ہم انعام یافتہ گروہ کے راستہ پر چلیں اور انعام پائیں قرآن کریم سورۃ نساء آیت ۶۹، ۷۰ میں (جس کی تشریح پہلی آیت میں اوپر آچکی ہے ) اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ انعام پانے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں نبوت ، صدیقیت ،شہادت اور صالحیت کے مقام پر سرفراز کیا جاتا ہے.اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے :- وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ قُلُوكًا - ( سورة المائدة : ۲۱) اور تم اس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم! تم اللہ کے اس انعام کو یاد کرو جب اس نے تم میں نبی مقرر کئے تھے اور تمہیں بادشاہ بنایا تھا.اس آیت میں نبوت کو اور بادشاہت کو انعام قرار دیا ہے.ان دونوں آیتوں کو ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں خود یہ دعا سکھائی ہے تو دراصل اس میں اس بات کی بشارت دی ہے کہ وہ ہم میں بھی نبوت اور بادشاہت کا انعام جاری رکھے گا.امت مسلمہ کو خیر امت قرار دیا گیا ہے.وہ خیر امت اسی طرح ہو سکتی ہے کہ اس میں بھی سلسلہ نبوت جاری رہے جیسے اس سے قبل دوسری امتوں میں جاری تھا.اگر اس انعام کا دروازہ 106
بند تسلیم کیا جائے تو پھر امت مسلمہ خیر امت کیونکر قرار دی جاسکتی ہے.امتی نبی اور احادیث نبوی : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس بارے میں جو کچھ فرمایا اس سے بھی یہی عیاں ہوتا ہے کہ امت محمدیہ میں نبوت کا سلسلہ بند نہیں ہوا.چند احادیث پیش ہیں:.پہلی حدیث: ابو بَكْرٍ غَيْرُ النَّاسِ إِلَّا أَن تَكُون توئی - (کنز العمال جلد ۶ صفحه ۱۳۷، صفحہ ۱۳۸.فضائل ابوبکر صدیق) ابو بکر اس امت میں سب سے افضل ہیں سوائے اس کے کوئی نبی امت میں پیدا ہو.مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ حضور نے إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِی کہہ کر ایک استثناء کر دیا.اگر کسی نبی کے پیدا ہونے کا امکان ہی نہیں تھا تو اس استثناء کی ضرورت نہیں تھی.دوسری حدیث: آیت خاتم النبیین سن ۵ھ میں نازل ہوئی.سن 9ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے اور پھر فوت بھی ہو گئے ان کی وفات پر حضور نے فرمایا :- لَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا - ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فى الصَّلوة على ابن رسُول الله صلى اللہ علیہ وسلم وذکر وفاته ) اگر ابراہیم زندہ رہتا تو ضر ورسچا نبی ہوتا.“ اس حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کے باوجو د نبوت کا امکان باقی ہے اگر خاتم النبین کے یہی معنے ہوتے کہ آئندہ کوئی نبی نہیں 107
ہوگا تو ایسی صورت میں حضور کو یہ فرمانا چاہیے تھا کہ اگر یہ میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تب بھی نبی نہ ہوتا کیونکہ میں خاتم النبین ہوں.لیکن حضور کا یہ ارشاد ہے کہ ابراہیم کے نبی ہونے میں موت حائل ہوگئی اگر وہ زندہ رہتا تو نبی ہوتا.تیسری حدیث:- مسیح موعود کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :.أَلَا إِنَّهُ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ وَلَا رَسُولٌ، وَأَلَا إِنَّهُ خَلِيْفَتِي فِي أمتى (طبرانی فی اوسط والكبير، سنن ابی داؤد حصہ دوم کتاب الملاحم باب خروج الہ جال صفحہ ۲۴۶) ترجمہ : سُن لو! میرے اور مسیح موعود کے درمیان کوئی نبی نہیں.اور سُن لو کہ وہ میری امت میں میرا خلیفہ ہے.حديث لا نبی بعدی کی تشریح حدیث لا نبی بعدی کو عام طور پر اس امر کی تائید میں پیش کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہو گیا ہے لیکن جب قرآن کریم کی متعدد آیات نیز احادیث سے نبوت کے جاری رہنے کا امکان موجود ہے تو لازماً اس حدیث کا وہی مفہوم صحیح ہو سکتا ہے جو قرآن کریم اور دوسری احادیث کے خلاف نہ ہو.اس لحاظ سے حدیث لا نبی بعدی کا مفہوم بزرگان دین نے یہی بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسی نبوت بند ہے جو تشریعی ہو یعنی اب کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو قرآنی شریعت کو منسوخ کر دے.امتی نبی کے آنے میں یہ حدیث روک نہیں.چند بزرگان کے اقوال درج ذیل ہیں:.ا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:.قُولُوا إِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ." ( تفسير الدر المنثور جلد۵ صفحه ۲۰۴ 108
اے لوگو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء ضرور کہو مگر یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کسی قسم کا نبی نہ آئے گا.- امام ملا علی قاری فرماتے ہیں:.وَرَدَ لَا نَبِيَّ بَعْدِى مَعْنَاهُ عِنْدَ الْعُلَمَاءِ لَا يَحْدُثُ بَعْدَهُ نَبِيٌّ بِشَرْعِ يَنْسَخُ شَرْعَه الاشاعة فى اشراط الساعة صفحه ۲۲۶) حدیث میں لا نبی بعدی کے جو الفاظ آئے ہیں اس کے معنی علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ کوئی نبی ایسی شریعت کو لے کر پیدا نہیں ہوگا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرتی ہو.- الشیخ الاکبر حضرت محی الدین ابن العربی فرماتے ہیں:.وَهَذَا مَعْلَى قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الرَّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِى وَلَا نَبِيَّ أَيْ لَا نَبِيَّ بَعْدِي يَكُونُ عَلَى شَرْعِ يُخَالِفُ شَرْعِى بَلْ إِذَا كَانَ يَكُونُ تَحْتَ حُكْمِ شَرِيعَتِي فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحہ ۳.دار صادر بیروت ) یہی معنی اس حدیث کے ہیں کہ اب رسالت اور نبوت منقطع ہوگئی ہے.میرے بعد نہ رسول ہے اور نہ نبی.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے مراد یہ ہے کہ اب ایسا نبی کوئی نہیں ہوگا جو ایسی شریعت پر ہو جو میری شریعت کے خلاف ہو بلکہ جب کبھی کوئی نبی آئے گا تو وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہوگا.۴.نواب صدیق حسن خانصاحب بھو پالوی ( وفات ۱۸۸۹ء) لکھتے ہیں :.لا نبی بعدی آیا ہے جس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہ لاوے گا.“ اقتراب الساعۃ صفحه ۱۶۲ مطبع مفید عام المکتبہ آگردان ۳ھ) 109
موعود مسیح نے اسی اُمت میں سے ہونا تھا یہاں تک ہم نے بفضل خدایہ ثابت کیا ہے کہ قرآن شریف اور حدیث کی رُو سے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ حضرت مسیح ناصری آسمان پر زندہ نہیں اُٹھائے گئے بلکہ فوت ہوچکے ہیں اور یہ کہ حیات مسیح کا مسئلہ بعد میں مسلمانوں کے اندر داخل ہوا ہے ورنہ صحابہ کرام نے تو اپنے سب سے پہلے اجماع میں فیصلہ فرما دیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جتنے نبی گزرے ہیں وہ سب فوت ہو چکے ہیں.اب میں یہ بتا تا ہوں کہ قرآن شریف اور حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ جس مسیح کا وعدہ دیا گیا ہے وہ اسی اُمت میں سے ہوگا.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وعد اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي (سورۃ نور آیت ۵۶) ارْتَضَى لَهُمْ - یعنی اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے اُن لوگوں سے جو تم میں سے پختہ ایمان لائے اور صالحیت والے اعمال بجالائے کہ ضرور ضرور انہیں دنیا میں خلیفہ بنائے گا جس طرح کہ اُس نے ان لوگوں کو خلیفہ بنا یا جو اُن سے پہلے گزر چکے اور وہ ان کے اس دین کو جو اس نے اُن کیلئے پسند کیا ہے دنیا پر قائم کر دیگا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے وعدہ فرماتا ہے کہ وہ اُن میں اُسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء بنائے گا جس طرح اس نے بنی اسرائیل میں سے حضرت موسیٰ کے بعد بہت سے خلفاء بھیجے جو تورات کی خدمت کرتے تھے.یہ سلسلہ موسوی خلفاء کا حضرت مسیح ناصری کے وجود میں اپنے کمال اور انتہا کو پہنچ گیا.مسلمانوں کو بھی اسی قسم کے خلفاء کا وعدہ 110
دیا گیا تھا اور ٹھیک جس طرح موسوی سلسلہ کا آخری خلیفہ اسرائیلی مسیح ہوا اسی طرح یہ مقدر تھا کہ آخری ایام میں مسلمانوں میں بھی ایک مسیح بھیجا جائے گا جو اسلامی سلسلہ خلفاء کے دائرہ کو پورا کرنے والا اور کمال تک پہنچانے والا ہوگا.گویا اس طرح ان دونوں سلسلوں میں اللہ تعالیٰ نے مشابہت بیان کی ہے جیسا کہ لفظ كما سے ظاہر ہے.اب اہل علم جانتے ہیں کہ مشابہت مغایرت کو بھی چاہتی ہے پس ثابت ہوا کہ محمدی سلسلہ کا مسیح یعنی آخری خلیفہ موسوی سلسلہ کے مسیح سے جدا وجو در کھے اور گو وہ اس کا مثیل ہو گا مگر وہ اس کا عین نہیں ہوگا بلکہ اس سے جدا ہو گا.علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں منگم ( تم میں سے ) کا لفظ رکھ کر سارے جھگڑے کی جڑ کاٹ دی ہے اور صاف بتادیا ہے کہ مسلمانوں میں جو خلفاء ہونگے وہ مسلمانوں میں سے ہی ہونگے اور کوئی شخص باہر سے نہیں آئے گا.تو اب پھر یہ کس قدر ظلم ہے کہ اپنی ضد پوری کرنے کیلئے محمدی سلسلہ کا آخری اور سب سے عظیم الشان خلیفہ بنی اسرائیل میں سے مبعوث کیا جانا خیال کیا جاوے اور اس طرح خدا کے وعدے کو جو اس نے منکم کے لفظ میں کیا رڈی کی طرح پھینک دیا جائے.پھر یہی نہیں بلکہ حدیث بھی صاف طور پر بتارہی ہے کہ مسیح موعود امت محمدیہ میں سے ہی ہوگا اور اسی اُمت کا ایک فرد ہوگا اور باہر سے نہیں آئے گا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ ( بخاری و مسلم بحوالہ مشکوۃ باب نزول عیسی بن مریم ) یعنی کیا ہی اچھا حال ہو گا تمہارا اے مسلمانو! جب تم میں ابن مریم نازل ہوگا اور وہ تمہار امام ہوگا تمہیں میں سے.یہ حدیث غیر تاویل طلب الفاظ میں بتا رہی ہے کہ مسیح موعود مسلمانوں میں سے ہی ایک 111
فرد ہو گا جیسا کہ منگم کے لفظ سے ظاہر ہے.بے شک آنے والے کو ابن مریم کے نام سے یاد کیا گیا ہے مگر منگم کا لفظ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ ابن مریم وہ نہیں جو پہلے ہوگز را بلکہ اے مسلمانو! یہ تمہیں میں سے ایک شخص ہوگا.یہ آگے چل کر بتایا جائے گا کہ ابن مریم کے الفاظ استعمال کرنے میں کونسا بھید تھا مگر فی الحال ناظرین اتنا دیکھیں کہ کیا منکم کے لفظ نے مسیح ناصری کی آمد ثانی کے عقیدہ کو جڑ سے کاٹ کر نہیں رکھ دیا؟ ہائے افسوس ! حضرت خاتم التبيين صلی اللہ علیہ وسلم صاف لفظوں میں خبر دے رہے ہیں کہ مسیح موعود اسی امت میں سے ہوگا مگر مسلمان مسیح ناصری کی محبت میں اس شرک کے مقام تک پہنچ چکے ہیں کہ خواہ مخواہ اپنی اصلاح کیلئے بنی اسرائیل کے قدموں پر گر رہے ہیں.خدا اس قوم پر رحم کرے کہ یہ خیر الامت ہو کر کہاں آکر گری.غرض مسیح موعود کے متعلق اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ کے الفاظ فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے جھگڑے کا فیصلہ کر دیا ہے اور شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی مگر آپ کی شفقت کو دیکھو کہ باوجود صاف لفظوں میں فرما دینے کے آنے والا مسیح میری امت میں سے ہی ایک فرد ہوگا.آپ اس مسئلہ پر خاموش نہیں ہوئے بلکہ مزید تشریح فرمائی.چنانچہ فرماتے ہیں:.رَأَيْتُ عِيسَى وَمُوسَى فَأَمَّا عِيسَى فَأَحْمَرُ جَعْدٌ عَرِيضُ الصَّدْرِ وَأَمَّا مُوسَى فَأَدَمُ جَسِيمٌ سَبْطُ الشَّعْرِ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ الزُّطِ - ( بخاری جلد ۲ کتاب بدء الخلق ) یعنی میں نے کشف میں عیسیٰ اور موسیٰ علیہما السلام دونوں کو دیکھا.عیسی تو سرخ رنگ کے تھے اور ان کے بال گھنگر الے تھے اور سینہ چوڑا تھا اور موسیٰ گندم گوں رنگ کے تھے اور بھاری جسم والے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کوئی شخص رھا قبیلہ میں سے ہے.“ 112
عیسی علیہ السلام اور مسیح موعود کا خلیہ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسی بن مریم کا یہ حلیہ بیان کیا ہے کہ وہ سرخ رنگ کے تھے اور ان کے بال گھنگر الے تھے اس بات کا ثبوت کہ یہاں عیسی سے گذشتہ عیسیٰ مراد ہیں خود اسی حدیث میں موجود ہے اور وہ یہ کہ ان کو ایک گذشتہ نبی یعنی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بیان کیا گیا ہے.ناظرین حضرت مسیح ناصری کے اس حلیہ کو اچھی طرح یاد رکھیں.پھر ایک اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.بَيْمَا أَنَا نَائِمُ أَطُوْفُ بِالْكَعْبَةِ فَإِذَا رَجُلٌ أَدَمُ سَبْطُ الشَّعْرِ يَنْظُفُ اَوْ يُهَرَاقُ رَأْسُه مَاءً فَقُلْتُ مَنْ هَذَا قَالُوا ابْنُ مَرْيَمَ...الخ) ( بخاری کتاب الفتن باب ذکر الہ جال) یعنی ”میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کعبہ کا طواف کر رہا ہوں.اس وقت اچانک ایک شخص میرے سامنے آیا جو گندم گوں رنگ کا تھا اور اس کے بال سید ھے اور لمبے تھے.میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو مجھے بتایا گیا کہ یہ مسیح ابن مریم ہے.اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے مسیح کا یہ حلیہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ رنگ کا گندم گوں ہوگا اور اس کے بال سیدھے اور لمبے ہونگے.اس بات کا ثبوت کہ اس حدیث میں ابن مریم سے آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا مسیح مراد ہے؛ یہ ہے کہ اسی حدیث میں آگے چل کر دجال کا بھی ذکر ہے.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے اسی موقعہ پر دجال کو بھی دیکھا.لہذا ثابت ہوا کہ یہ مسیح وہ ہے جو دجال کے مقابلہ میں ظاہر ہوگا.اب معاملہ بالکل صاف ہے.حضرت مسیح ناصری جو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے اُن کا حلیہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ سُرخ رنگ کے تھے اور ان کے بال گھنگر الے تھے لیکن آنے والا مسیح جو د قبال کے مقابل پر ظاہر ہو گا اس کا حلیہ 113
یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کا رنگ گندم گوں ہوگا اور بال سیدھے اور لمبے ہونگے.دونوں خُلیوں میں فرق ظاہر ہے کسی تشریح کی ضرورت نہیں.کہاں سُرخ رنگ اور کہاں گندم گوں.پھر کہاں گھنگھرالے بال اور کہاں سیدھے اور لمبے.اس سے زیادہ وضاحت کیا ہوگی.دونوں مسیحوں کی تصویریں ناظرین کے سامنے رکھ دی گئی ہیں اور یہ تصویریں بھی حضرت افضل الرسل خاتم التنبيتين صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کی کھینچی ہوئی ہیں.ناظرین خود فیصلہ کر لیں کہ کیا ان دونوں تصویروں میں ایک آدمی کی شکل نظر آتی ہے؟ جسے خدا نے آنکھیں دی ہوں وہ تو ہر گز دونوں کو ایک نہیں کہہ سکتا.حضرت مرزا صاحب کیا خوب فرماتے ہیں کہ : موعودم و بحلیہ ماثور آمدم حیف است گربدیده نه بیند منظرم رنگم چوں گندم است و بهمو فرق بین است زانسان که آمد است در اخبار سرورم ایں مقدمم نہ جائے شکوک است والتباس سید جدا کند ز مسیحائے احمرم یعنی ” میں ہی مسیح موعود ہوں اور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے حلیہ کے مطابق آیا ہوں تو اب افسوس ہے اس آنکھ پر جو مجھے نہیں پہچانتی.میرا رنگ گندم گوں ہے اور بالوں میں بھی مجھے اس شخص سے کھلا کھلا امتیاز حاصل ہے جس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں آتا ہے.سواب میرے معاملہ میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہی کیونکہ ہمارے آقا سردار نے خود مجھے سرخ رنگ والے مسیح سے جدا کر دیا ہے.“ نزول کی حقیقت : مندرجہ بالا دلائل سے یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہو جاتی ہے کہ آنے والا مسیح گذشتہ مسیح ناصرتی سے بالکل الگ شخصیت رکھتا ہے.دیکھو قرآن گواہی دے رہا ہے کہ اسلام کے تمام خلفاء مسلمانوں میں سے ہونگے.حدیث بیان کر رہی ہے کہ مسیح موعود اسی امت میں سے ایک فرد ہے اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو مسیحوں کے الگ الگ فوٹو ہمارے سامنے رکھ کر کسی مزید تشریح 114
کی ضرورت باقی نہیں چھوڑتے تو اب شبہ کی کیا گنجائش رہی ؟ مگر ایک شبہ ضرور باقی رہتا ہے کہ جب مسیح موعود نے اسی امت میں سے ہونا تھا تو پھر اس کے متعلق نزول اور ابن مریم کے الفاظ کیوں استعمال کئے گئے؟ نزول کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ مسیح موعود آسمان سے نازل ہوگا اور مسیح ناصری خود بنفس نفیس تشریف لائیں گے.سو اس کے لئے کسی مرفوع متصل صحیح حدیث میں نزول کے ساتھ سماء کا لفظ استعمال نہیں ہوا کہ تا آسمان سے اترنے کے معنے لئے جائیں.علاوہ ازیں نزول کے معنوں پر غور نہیں کیا گیا.عربی میں نزول کے معنے ظاہر ہونے اور آنے کے بھی ہیں.مثلاً قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : - قَد أَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَّسُولًا يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آیت الله ( سورۃ طلاق رکوع ۲) یعنی اللہ نے تمہاری طرف ایک یاد کرانے والا رسول اتارا ہے جو تم پر اللہ کی آیات پڑھتا ہے.اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نزول کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.حالانکہ سب جانتے ہیں کہ آپ آسمان سے نہیں اترے تھے.بلکہ اسی زمین میں پیدا ہوئے تھے.پھر قرآن شریف فرماتا ہے: وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورۃ الحدید رکوع ۳) یعنی ”ہم نے لوہا اُتارا ہے جس میں لڑائی کا بڑا سامان ہے اور اس میں لوگوں کیلئے اور بھی بہت سے فوائد ہیں.لیجئے لوہا بھی آسمان سے اتر رہا ہے! ان آیات سے ظاہر ہے کہ لفظ نزول کے معنے ہمیشہ لفظی طور پر اور اوپر سے اُترنے کے نہیں ہوتے بلکہ اکثر دفعہ نزول کا لفظ اس چیز کے متعلق استعمال کیا جاتا ہے جو خدا کی طرف سے بنی نوع انسان کو بطور ایک نعمت اور رحمت کے دی جاتی ہے.پس لفظ نزول سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مسیح آسمان سے نازل ہوگا ایک سخت غلطی ہے.پھر کیا ناظرین نے یہ نہیں سنا کہ عربی میں مسافر کو نزیل کہتے ہیں اور جس جگہ قیام کیا جاوے وہ منزل کہلاتی ہے.علاوہ ازیں بعض احادیث میں مسیح کے متعلق بعث اور خروج کے الفاظ بھی آئے ہیں.پس اس صورت میں جو مفہوم بعث اور خروج اور نزول کے درمیان مشترک ہے وہی مقصود سمجھا جائے گا.115
ابن مریم کے نام میں حکمت : اب رہا ابن مریم کے نام کا سوال.سو اس کے متعلق اچھی طرح سمجھ لو کہ آئندہ مبعوث ہونے والے ماموروں کے نام جو کسی نبی کے ذریعہ بتائے جاتے ہیں وہ عام طور پر کسی باطنی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والے ہوتے ہیں.اس لئے انہیں ہمیشہ ظاہر پر محمول کرنا درست نہیں ہوتا بلکہ عام طور پر ان کے استعمال میں غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ آنے والے موعود اور اس کے نام کے درمیان کسی گہرے اور باریک تعلق کو ظاہر کریں.مثلاً بنی اسرائیل کو یہ وعدہ دیا گیا تھا کہ مسیح کے ظہور سے پہلے حضرت الیاس کا ظہور ہوگا جو حضرت مسیح ناصری سے قریباً ساڑھے آٹھ سو سال پہلے گزر چکے تھے.جن کی نسبت یہودیوں میں یہ عقیدہ تھا کہ وہ آسمان کی طرف اُٹھائے گئے ہیں.(۲- سلاطین باب ۲ آیت ۱۱) اس پر یہود نے الیاس کے نزول سے یہ سمجھا کہ وہ الیاس نبی جو گذر چکا وہی بذات خود دوبارہ نازل ہوگا اور اس کے بعد مسیح آئے گا.اس لئے جب حضرت عیسی نے مسیح ہونے کا دعوی کیا تو یہود نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ ہماری کتابوں میں تو لکھا ہے کہ مسیح سے پہلے الیاس نازل ہوگا، لیکن چونکہ ابھی تک الیاس نہیں آیا اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دعویٰ درست نہیں ہو سکتا.اس کا جواب حضرت عیسی علیہ السلام نے دیا کہ الیاس کے آنے کی جو خبر دی گئی تھی اس سے خود الیاس کا آنا مراد نہ تھا بلکہ وہ ایک ایسے نبی کی خبر تھی کہ جو الیاس کی خُو بو پر اس کا مثیل بن کر آنا تھا اور وہ آچکا اور وہی بیٹی ہے جس کی آنکھیں ہوں دیکھے.(متی باب ۱۱ آیت ۱۴) لیکن ظاہر پرست یہوداسی بات پر جمے رہے کہ خود الیاس کو نازل ہونا چاہیئے اور اس طرح وہ نجات سے محروم ہو گئے.( متی باب : ۱۷) اس مثال سے یہ بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ پیشگوئیوں میں جو نام آنے والے مصلحوں کے بتائے جاتے ہیں وہ ہمیشہ ظاہر میں پائے جانے ضروری نہیں ہوتے بلکہ وہ بالعموم 116
کسی باطنی مشابہت کی طرف اشارہ کرنے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں.مثلاً کجا الیاس نبی کا آسمان سے نازل ہونا اور کجا یحیی نبی کا زمین سے پیدا ہونا ! مگر حضرت مسیح یحیی کو ہی الیاس قرار دے رہے ہیں کیونکہ وہ الیاس کی خوبو پر آیا تھا.یہ مثال اس بات کو بھی واضح کر رہی ہے کہ خدا کے کلام میں جب کسی گذشتہ نبی کے آسمان سے نازل ہونے کی پیشگوئی ہو تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتا کہ وہی گذشتہ نبی آسمان کے پردوں کو پھاڑتا ہواز مین پر اترے گا بلکہ اس سے اس کے کسی مثیل کا آنامراد ہوتا ہے.پس معلوم ہوا کہ مسیح کے متعلق جو یہ کہا گیا ہے کہ وہ نازل ہوگا تو اس سے خود مسیح کا آسمان سے نازل ہونا مراد نہیں بلکہ کسی مثیل مسیح کا مبعوث ہونا مراد ہے جیسا کہ الیاس نبی کے آسمان سے نازل ہونے سے ایک مثیل الیاس یعنی یحی کا پیدا ہونا مراد تھا.غرض عیسی ابن مریم کے ظاہری نام پر اڑنا اور صرف اس نام کی وجہ سے آنے والے مسیح کا انکار کر دینا سخت ہلاکت کی راہ ہے جس سے پر ہیز لازم ہے کیونکہ نام ہمیشہ ظاہر میں پائے جانے ضروری نہیں ہوتے بلکہ ان کے اندر معنوی حقیقت مخفی ہوا کرتی ہے.ایک اور مثال جو معاملہ زیر بحث کو اور بھی واضح کر دیتی ہے یہ ہے کہ قرآن شریف کی سورۃ صف میں لکھا ہے کہ حضرت عیسی نے ایک ایسے رسول کی خبر دی تھی جو ان کے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا.(سورۃ صف رکوع ۱) اب ہمارے مخالف مسلمان سب مانتے ہیں کہ یہ پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث سے پوری ہو چکی ہے لیکن ہر ایک جانتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل نام محمد تھا نہ کہ احمد.یہ درست ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے دعوے کے بعد یہ فرمایا کہ میں احمد بھی ہوں لیکن دعوے کے بعد اس نام کو اپنی طرف منسوب کرنا مخالف پر کسی طرح محبت نہیں ہو سکتا.مخالف پر تو مجنت تب ہو جب یہ ثابت کیا جاوے کہ واقعی آپ کے بزرگوں کی طرف سے یہ نام آپ کا رکھا گیا تھا یا یہ کہ دعوے سے پہلے آپ اس نام سے پکارے جاتے تھے، لیکن کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ آپ دعوئی سے پہلے کبھی اس نام سے 117
پکارے گئے ہوں یا کسی بزرگ نے بچپن میں آپ کا یہ نام رکھا ہو.اس لئے اس شبہ کا سوائے اس کے اور کیا جواب ہو سکتا ہے کہ یہ کہا جاوے کہ آپ کے اندر صفت احمدیت پائی جاتی تھی اور یہ کہ آسمان پر آپ کا نام احمد بھی تھا جیسا کہ آسمان پر یحی کا نام الیاس بھی تھا؟ ان دو مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ پیشگوئیوں میں جو نام بتائے جاتے ہیں وہ لازماً ظاہر میں پائے جانے ضروری نہیں ہوتے بلکہ عموماً وہ صفاتی نام ہوتے ہیں اور کسی باطنی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں.اس میں بھید یہ ہے کہ خدا کوحقیقت اشیاء سے تعلق ہے ان کے ظاہری ناموں سے تعلق نہیں.لوگ بے شک عرف کی خاطر ظاہری ناموں کا لحاظ رکھتے ہیں مگر خدا کی نظر میں اصل نام صفاتی نام ہی ہوتا ہے نہ کہ ظاہری نام.اب سوال ہوتا ہے کہ پھر وہ کونسی حکمت ہے جس کی وجہ سے خدا نے آنے والے مسیح کو ابن مریم کے نام سے موسوم کیا؟ اس کے جواب میں کئی باتیں پیش کی جاسکتی ہیں مگر اس مختصر سے رسالے میں سب کا لکھنا موجب طوالت ہوگا.اسلئے چند موٹی موٹی حکمتوں کے بیان کرنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں.اوّل یہ کہ آنے والا مسیح حضرت عیسی کی خُو بو پر آنا تھا جس طرح حضرت الیاس کی خُو بُو پر حضرت یمی آئے.پس جس طرح حضرت یحیی کے آنے سے حضرت الیاس کی آمد کا وعدہ پورا ہوا.اسی طرح کسی مثیل مسیح کی آمد سے حضرت مسیح کی آمد کا وعدہ پورا ہونا تھا.لہذا اس مشابہت کی وجہ سے موعود مسیح کا نام ابن مریم رکھا گیا.دوسری حکمت یہ ہے کہ جس طرح مسیح ناصری موسوی سلسلہ کے خاتم الخلفاء تھے اسی طرح محمدی مسیح نے محمدی سلسلہ کا خاتم الخلفاء ہونا تھا.تیسری اور بڑی حکمت یہ ہے کہ قرآن شریف اور احادیث سے ظاہر ہے کہ آخری زمانہ کیلئے یہ مقدر تھا کہ اس میں عیسائیت زور پکڑے گی اور صلیبی مذہب بڑے غلبہ کی حالت میں ہوگا.اسی 118
لئے مسیح موعود کا بڑا کام یہ رکھا گیا کہ یکسر الصلیب یعنی مسیح موعود صلیبی مذہب کا زور توڑ دے گا.اس میں حکمت یہ ہے کہ جب کسی نبی کی امت میں فساد برپا ہوتا ہے تو پھر اخلاقی طور پر اسی نبی کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس فساد کوڈ ورکرے جیسا کہ اگر کسی حکومت میں فساد برپا ہوجاوے تو باہر کی حکومتوں کا فرض نہیں ہوتا کہ وہ اس فساد کو دور کریں بلکہ خود اس حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اسے دُور کرے.پس چونکہ آخری زمانہ کے موعود کا ایک بڑا کام یہ تھا کہ وہ صلیبی مذہب کے فساد کو دُور کرے گا اس لئے حضرت عیسیٰ کی مماثلت میں آنے والے کا نام عیسی بن مریم اور مسیح رکھا گیا.بلکہ آخری زمانہ کیلئے تو یہ بھی مقد ر تھا کہ وہ فساد عظیم کا زمانہ ہوگا اور تمام امتوں میں فساد برپا ہو جائے گا.ایسے وقت کیلئے ضرورت تھی کہ تمام امتوں کی اصلاح کرتے لیکن چونکہ بہت سے مصلحوں کا ایک ہی وقت میں دنیا میں مبعوث ہونا فساد کو دور کرنے کی بجائے فساد کی آگ کو اور بھی بھڑکا دیتا.پھر علاوہ اس کے چونکہ اب اسلام کی آمد نے تمام روحانی پانی اپنے اندر کھینچ لیا ہے اور اب کوئی روحانی مصلح اسلام کے سوا کسی امت میں ظاہر نہیں ہوسکتا اسلئے یہ مقدر ہوا کہ تمام نبیوں کے بروزوں کو ایک ہی وجود میں اسلام کے اندر مبعوث کیا جاوے.اس آنے والے مصلح کا کام یہ رکھا گیا کہ وہ تمام امتوں کی اصلاح کرے گویا اس موعود مصلح کا کام دو بڑے حصوں میں تقسیم ہو گیا.ایک امت محمدیہ کی اصلاح اور دوسرے باقی تمام امتوں کی اصلاح لیکن چونکہ باقی امتوں کی اصلاح کے کام میں سب سے بڑا کام حضرت مسیح ناصری کی امت کی اصلاح اور اس کے عقائد باطلہ کا رڈ تھا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یکسر الصلیب سے ظاہر ہے جو آپ نے اس موعود مصلح کے متعلق فرمائے.اسلئے اس پہلو کے لحاظ سے آنے والے کو خصوصیت کے ساتھ عیسی ابن مریم کا خطاب دیا گیا.چنانچہ حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں : چوں مرا نورے پئے قوم مسیحی داده اند مصلحت را ابن مریم نام من بنهاده اند یعنی "چونکہ مجھے مسیحی قوم کی اصلاح کیلئے خاص نور عطا کیا گیا ہے اسلئے اس مصلحت سے 119
میرا نام بھی ابن مریم رکھا گیا ہے“.اس کے مقابل پر دوسری امتوں کی اصلاح کے لحاظ سے صرف وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ (سورة مرسلات رکوع ۱) کے الفاظ استعمال کئے گئے یعنی ”آخری زمانہ میں رسول (بروزی رنگ میں ایک ہی وجود کے اندر ) جمع کئے جائیں گے.مگر دوسری طرف امت محمدیہ کی اصلاح کا کام بھی ایک نہایت اہم کام تھا اسلئے اس پہلو کے لحاظ سے آنے والے کا نام محمد اور احمد بھی رکھا گیا.کیونکہ امت محمدیہ کی اصلاح کے کام میں اس موعود نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاخلت اور بُروز ہونا تھا.مسیح موعود اور مہدی ایک ہی ہیں حضرت مسیح ناصری کی وفات اور اس سے تعلق رکھنے والے سوالات کی مختصر بحث کے بعد اب ہم دوسرے سوال کو لیتے ہیں.یعنی کیا مسیح موعود اور مہدی ایک ہی ہیں یا کہ علیحدہ علیحدہ ہیں؟ سوجاننا چاہئیے کہ گو آج کل مسلمانوں میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مسیح اور مہدی دو الگ الگ وجود ہیں لیکن اگر غور سے کام لیا جاوے تو ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ بات غلط ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے خلاف ہے مگر اس بحث میں پڑنے سے پہلے مختصر طور پر یہ بتادینا ضروری ہے کہ مہدی کے متعلق مسلمانوں کی طرف سے کیا کیا خیالات ظاہر کئے گئے ہیں.سو واضح ہو کہ مہدی کے متعلق روایات میں اس قدر اختلاف اور تضاد ہے کہ پڑھنے والے کی عقل چکر میں آجاتی ہے اور پھر اختلاف بھی صرف ایک بات میں نہیں بلکہ قریباً ہر ایک بات میں اختلاف ہے.مثلاً مہدی کی نسل کے معاملہ میں اس قدر اختلاف ہے کہ خدا کی پناہ.ایک گروہ کہتا ہے کہ مہدی حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے ہوگا.مگر اس گروہ کی بھی آگے تین شاخیں ہو جاتی ہیں.بعض کہتے ہیں کہ وہ امام حسن کی اولاد سے پیدا ہوگا اور بعض کہتے ہیں کہ امام حسین کی اولاد سے ہوگا اور تیسری شاخ کا دعویٰ ہے کہ مہدی امام حسن اور حسین دونوں کی 120
اولاد سے ہوگا.یعنی اگر ماں حسنی ہوگی تو باپ حسینی ہوگا یا اگر باپ حسنی ہوگا تو ماں حسینی ہوگی.پھر ایک اور گروہ ہے جو کہتا ہے کہ مہدی حضرت فاطمہ کی اولاد سے نہیں ہوگا بلکہ حضرت عباس کی اولاد سے ہوگا اور بعض کہتے ہیں کہ مہدی حضرت عمر کی اولاد میں سے ہوگا.پھر بعض احادیث ہمیں بتاتی ہیں کہ مہدی کیلئے کسی خاص قوم کی شرط نہیں بلکہ اس کے لئے صرف یہ شرط ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے ہوگا.اس کے علاوہ مہدی اور اس کے باپ کے نام کے متعلق بھی اختلاف ہے.بعض احادیث اس کا نام محمد بتاتی ہیں اور بعض احمد اور بعض عیسی.باپ کا نام سنیوں کے نزدیک عبداللہ ہو گا مگر شیعہ کہتے ہیں کہ حسن ہوگا.اسی طرح مہدی کے ظاہر ہونے کی جگہ کے متعلق بھی اختلاف ہے پھر اسی طرح اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ مہدی کتنے سال دنیا میں کام کریگا.غرض مہدی کے متعلق قریباً ہر ایک بات میں اختلاف ہے اور پھر لطف یہ کہ مختلف گروہ اپنے دعوے کی تائید میں احادیث ہی پیش کرتے ہیں.( دیکھو مج الکرامہ مصنفہ نواب صدیق حسن خان ) پس ایسی حالت میں مہدی کے متعلق جو احادیث وارد ہوئی ہیں.ان تمام کو صحیح نہیں مانا جاسکتا.یہی وجہ ہے کہ امام بخاری اور امام مسلم نے اپنے بیچین میں مہدی کے متعلق کوئی باب نہیں باندھا.کیونکہ انہوں نے ان احادیث میں سے کسی کو بھی قابل اعتبار نہیں سمجھا.اسی طرح بعض بعد میں آنے والے علماء نے بھی مہدی کے متعلق جملہ احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے اور صاف لکھا ہے کہ مہدی کے متعلق جتنی روایات ہیں اُن میں سے کوئی روایت بھی جرح قدح سے خالی نہیں.(دیکھو حج الکرامہ) اب طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اختلاف کی وجہ کیا ہے؟ سو جہاں تک ہم نے سوچا ہے اس کی کچھ وجہ تو یہ ہے کہ گو ایک مہدی خاص طور پر موعود ہے مگر دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی رنگ میں کئی مہدیوں کی خبر دی تھی جنہوں نے مختلف وقتوں میں مختلف حالات کے ماتحت ظاہر ہونا تھا اسلئے ان روایات میں اختلاف کا ہونا ضروری تھا صرف غلطی یہ ہوئی کہ عوام الناس ان روایات کو ایک ہی شخص کے متعلق سمجھنے لگ گئے.حالانکہ وہ مختلف لوگوں کے 121
متعلق تھیں.علاوہ ازیں یہ بھی بالکل سچ ہے اور ہمارا مشاہدہ اس پر گواہ ہے کہ ہر ایک قوم اور فرقہ کو یہ خیال ہوتا ہے کہ تمام خیر اپنی ہی طرف منسوب کر لے.پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی بیان فرمائی کہ میری اُمت میں سے ایک مہدی پیدا ہوگا تو بعد میں سب قبیلوں اور فرقوں کو یہ خواہش پیدا ہوئی کہ موعود مہدی ہم میں سے ہی پیدا ہو اور پھر یہ کہ سب لوگ متقی اور خدا ترس نہیں ہوا کرتے بعض نے ایسی حدیثیں گھڑ لیں جن سے یہ ظاہر ہو کہ مہدی انہی کی قوم سے ہوگا.یہی وجہ ہے کہ مہدی کے متعلق احادیث میں اس قدر گڑ بڑ واقع ہوئی ہے لیکن وہ احادیث جو مہدی کو کسی خاص قوم سے نہیں بتا تیں بلکہ صرف یہ بتاتی ہیں کہ وہ امت محمد یہ میں سے ایک فرد ہے وہ ضرور اس قابل ہیں کہ انہیں قبول کیا جاوے کیونکہ انہیں وضعی قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں.کیونکہ مہدی کے متعلق کسی کو کیا ضرورت تھی کہ وہ یہ حدیث بنا تا کہ مہدی امت محمدیہ سے ایک فرد ہو گا.ہاں بے شک جو احادیث مہدی کو کسی خاص قوم کے ساتھ مخصوص کرتی ہیں اُن کے متعلق یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ وہ بعد میں وضع کر لی گئی ہیں.پس اس اختلاف کے پیش نظر ہمارا یہ فرض ہونا چاہیئے کہ ہم مہدی کوکسی خاص قوم سے نہ قراردیں بلکہ منجملہ صرف اس بات پر ایمان رکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے مہدی کی پیشگوئی فرمائی ہے جو آپ کی امت میں سے آخری زمانہ میں ہوگا.اسی میں ہماری خیر ہے اور یہی احتیاط کا رستہ ہے کیونکہ اگر ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ مہدی حضرت فاطمہ کی اولاد سے ظاہر ہوگا اور آخر کار وہ بنی عباس سے ظاہر ہو جائے تو ہمارا یہ اعتقاد ہمارے راستہ میں بڑی روک ہو جائے گا اور ہم مہدی پر ایمان لانے سے محروم ہو جائیں گے.اسی طرح اگر ہم یہ ایمان رکھیں کہ مہدی بنی عباس سے ہوگا لیکن وہ حضرت فاطمہ کی اولاد سے پیدا ہو جائے یا حضرت عمر کی نسل سے ظاہر ہو جاوے تو ہم اس پر ایمان لانے سے محروم ہوجائینگے.پس اور نہیں تو کم از کم اپنا ایمان بچانے کیلئے ہی ہمیں چاہیے کہ مہدی کو کسی خاص قوم میں سے نہ ٹھہرائیں بلکہ صرف یہ ایمان رکھیں کہ مہدی امت محمدیہ میں سے ظاہر ہوگا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 122
خدام اور متبعین میں سے ہوگا اور بس.ایسا ایمان رکھتے ہوئے ہم بالکل امن میں ہونگے اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی مہدی کو کسی خاص قوم ہی سے قرار دیا ہے تو پھر بھی کوئی حرج لازم نہیں آئے گا.کیونکہ جزو بہر حال گل کے اندر شامل ہوتا ہے.ایک اور بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ گومہدی کے نام اور اس کے باپ کے نام کے متعلق اختلاف ہے لیکن پھر بھی زیادہ غالب مذہب یہی رہا ہے کہ مہدی کا نام محمد ہوگا اور مہدی کے باپ کا نام عبد اللہ ہوگا اور دراصل اس کی تائید میں جو روایات ہیں وہ بھی گوجرح قدح سے پاک نہیں لیکن دوسری روایات سے پھر بھی اصول روایت کے لحاظ سے زیادہ وزن دار ہیں.پس اگر ہم اس قول کو ترجیح دیں تو بعید از انصاف نہیں لیکن اس صورت میں بھی حضرت مرزا صاحب کے دعوی پر کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا.کیونکہ سورۃ جمعہ کی آیت وَأَخَرِيْنَ مَنْهُمْ سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری زمانہ میں ایک اور قوم کی بھی روحانی تربیت فرمائیں گے.جس کا یہ مطلب ہے کہ آخری زمانہ میں آپ کا ایک بروز مبعوث ہو گا جو آپ کے رنگ میں رنگین ہو کر ایک جماعت کی تربیت کریگا.پس ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی موعود کا نام محمد اور اس کے باپ کا نام عبداللہ اس لئے بیان فرمایا کہ تا اس مفہوم کی طرف اشارہ ہو کہ مہدی کوئی مستقل وجود نہیں رکھتا بلکہ وہ آپ کا وہی بروز ہے جس کی سورۃ جمعہ میں پیشگوئی فرمائی گئی ہے.گویا مہدی کے نام کے متعلق محمد بن عبد اللہ کے الفاظ استعمال کرنے سے یہ بتانا مقصود نہ تھا کہ اس کا نام و پتہ بتایا جاوے بلکہ یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ مہدی کی بعثت گویا میری ہی بعثت ہے اور مہدی کا وجود گویا میرا ہی وجود ہے اور آپ کے الفاظ بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کیونکہ حدیث میں یہ نہیں آیا کہ مہدی کا نام محمد بن عبد اللہ ہوگا بلکہ آپ کے الفاظ یہ ہیں.يُوَاطِی اِسْمُهُ اِسْمِی وَاِسْمُ آبِيْهِ اِسْمُ آبی ( مشکوۃ باب اشراط الساعة ) یعنی ” مہدی کا نام میرا نام ہوگا اور مہدی کے باپ کا نام میرے باپ کا نام ہوگا“.پس یہ طرز کلام ہی آپ کے منشاء کو ظاہر کر رہا ہے.123
دوسری بات یہ ہے کہ مہدی کے نسب کے متعلق زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ وہ اہلِ بیت میں سے ہوگا اور باقی اقوال اس کے مقابل پر کم درجہ کے ہیں.مگر اسے بھی درست ماننے میں کوئی حرج لازم نہیں آتا.کیونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب آخَرِينَ مِنْهُم والی آیت اتری تو صحابه کے سوال کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ الثُرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلاء - ( بخاری کتاب التفسیر تفسير سورة جمعہ ) یعنی اگر ایمان دنیا سے اُٹھ کر ثریا ستارے پر بھی چلا گیا تو پھر بھی ان فارسی الاصل لوگوں میں سے ایک شخص اسے وہاں سے اُتار لائے گا.گویا کہ آپ نے مہدی کو سلمان کی قوم سے قرار دیا جو فارسی الاصل تھے.اب دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ غزوہ احزاب کے موقعہ پر آپ نے اسی سلمان کے متعلق فرمایا کہ سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ (طبرانی کبیر و مستدرک حاکم) یعنی مسلمان ہم اہل بیت میں سے ہے.پس مہدی کے متعلق اہل بیت کا لفظ بھی حضرت مرزا صاحب کے دعوی کے مخالف نہیں بلکہ موید ہے اور یہ ایک لطیف نکتہ ہے جو بھولنا نہیں چاہیے گویا مہدی موعود فارسی الاصل بھی رہا جیسا کہ حدیث صحیح سے ثابت ہے اور اہل بیت سے بھی ہو گیا.جیسا کہ عام روایات بتاتی ہیں.اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح و مہدی کے متعلق فرمایا ہے کہ يُدْفَنُ مَعِي في قبری ( مشکوۃ کتاب الفتن باب نزول عیسی بن مریم ) یعنی وہ میرے ساتھ میری قبر میں دفن ہوگا.اس سے بھی اسی اتحاد روحانی کی طرف اشارہ مقصود تھا.ورنہ نعوذ باللہ یہ گمان کرنا کہ کسی دن آپ کی قبر کھاڑی جائے گی اور اُس میں مسیح و مہدی کو دفن کیا جائے گا ایک بے وقوفی اور بے غیرتی کا خیال ہے جسے کوئی سچا اور باغیرت مسلمان ایک سیکنڈ کیلئے بھی قبول نہیں کر سکتا.پس حق یہی ہے کہ ان تمام اقوال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مہدی آپ کا بروز ہوگا اور اس کی بعثت گویا آپ ہی کی بعثت ہوگی.124
اس تمہیدی نوٹ کے بعد ہم بفضلِ خدایہ ثابت کرتے ہیں کہ مہدی اور مسیح الگ الگ وجود نہیں رکھتے بلکہ ایک ہی شخص کے دو نام ہیں جو دو مختلف حیثیتوں کی وجہ سے اُسے دیئے گئے ہیں.پہلی بات جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مسیح اور مہدی ایک ہیں وہ لفظ مہدی کا مفہوم ہے اور نیز یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہدی کے لفظ کو اسم معرفہ کے طور پر نہیں استعمال کیا بلکہ ایک صفتی نام کے طور پر استعمال فرمایا ہے.مہدی کے معنے ہیں.’ہدایت یافتہ اور بعض احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لفظ کو بعض ان لوگوں کے متعلق بھی استعمال فرمایا ہے جو مہدی موعود نہیں ہیں.مثلاً اپنے خلفاء کی نسبت آپ نے فرمایا کہ الخلفاء الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِينَ.(ابو داؤد، ترمذی ) یعنی ” میرے خلفاء ہی مہدی ہیں.لہذا مسیح موعود چونکہ مسلمہ طور پر خلفاء رسول میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے اسلئے وہ سب سے بڑا مہدی ہوا.اور وہی جوسب سے بڑا مہدی ہے وہی مہدی موعود ہے کیونکہ جب بموجب قول نبوی آپ کے سب خلفاء مہدی ہیں تو لازما مہدی موعود وہی ہو گا جو ان میں سے خاص طور پر موعود ہے.پس ثابت ہوا کہ گواور لوگ بھی مہدی ہوں مگر ان میں سے جو خاص طور پر موعود ہے وہی مسیح ہے.پھر حدیث میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ :- كَيْفَ تَهْلِكُ أُمَّةٌ اَنَا اَوَّلُهَا وَعِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ أُخِرُهَا.(کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۲۰۳) یعنی کس طرح ہلاک ہوگی وہ امت جس کے شروع میں میں ہوں اور آخر میں عیسی بن مریم ہے.پھر فرمایا خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَوَّلُهَا وَاخِرُهَا أَوَّلُهَا فِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ وَآخِرُهَا فِيهِمُ عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ وَبَيْنَ ذَلِكَ فَيْجٌ أَعْوَجُ لَيْسُوا مِلِي وَلَسْتُ مِنْهُمْ - ( كنز العمال جلدے صفحہ ۲۰۲) یعنی اس امت میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اس کے اول اور آخر میں ہیں.اول والوں میں رسول خدا ہے اور آخر والوں میں عیسی بن مریم ہے اور دونوں کے درمیان کج رولوگ ہیں جو مجھ سے نہیں اور نہ میں اُن سے ہوں.125
اب اگر وہ مہدی جس کی آمد کا آخری ایام میں وعدہ دیا گیا ہے مسیح سے الگ شخصیت رکھتا ہے تو چاہیئے تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسیح اور مہدی دونوں کے متعلق ذکر فرماتے کہ وہ دونوں آخری ایام میں ظاہر ہو کر میری امت کی نگرانی کرینگے مگر ایسا نہیں کیا گیا بلکہ صرف مسیح کا نام لیا گیا.جس سے ظاہر ہے کہ مسیح اور مہدی ایک ہی ہیں اسی لئے صرف مسیح کا لفظ بول دینے پر اکتفاء کی گئی.غور کرنا چاہیئے کہ اگر جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے مہدی نے امام ہونا تھا اور مسیح نے مقتدی تو کیا یہ تعجب کا مقام نہیں کہ امت کی حفاظت کا ذکر فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی کا ذکر کر دیا مگر امام کو بالکل ہی چھوڑ دیا.پھر دیکھو دوسری حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف دو گروہوں کو ہدایت یافتہ اور اچھے لوگ قرار دیتے ہیں.ایک وہ جنہوں نے خود آپ سے تعلیم حاصل کی اور دوسرے مسیح موعود کے متبعین لیکن مہدی کے متبعین کی طرف اشارہ تک نہیں کرتے بلکہ صاف بتاتے ہیں کہ ان ہر دو قوموں کے درمیان فیج اعوج ہے یعنی گمراہ لوگ ہیں.پس ثابت ہوا کہ مہدی مسیح سے الگ شخصیت نہیں رکھتا بلکہ وہی ہے جسے صرف دو حیثیتوں کی وجہ سے دو نام دیدیئے گئے ہیں.پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ احادیث میں جو کام مسیح موعود کا بتایا گیا ہے قریباً وہی کام مہدی کا بتایا گیا ہے.یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ مسیح اور مہدی ایک ہی ہیں.علاوہ ازیں مسیح اور مہدی کے حلیے بھی احادیث میں ایک بتائے گئے ہیں.(مسند احمد بن حنبل) پس وہ دو کس طرح لے انہی دوگروہوں کی طرف قرآن شریف سورۃ جمعہ میں اشارہ کرتا ہے جہاں خدا فرماتا ہے هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايْتِهِ وَيُزَكِّيهِمُ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یعنی ”خدا ہی ہے جس نے عربوں میں ایک رسول مبعوث فرمایا ہے جو خدا کی آیات اُن پر پڑھتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اگر چہ وہ اس سے پہلے کھلی کھلی ضلالت میں پڑے تھے اور ایک اور بعد میں آنے والی قوم بھی ہے جس کی یہ رسول (اپنے ایک بروز کے ذریعہ ) روحانی تربیت کریگا.منہ 126
ہو سکتے ہیں؟ پھر حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ اگر ایک خلیفہ برحق موجود ہو اور اس وقت کوئی دوسرا شخص خلافت کا دعویٰ کرے تو اُسے قتل کر دو.یعنی جنگ کی صورت ہو تو مقابلہ کر کے اُسے ماردو ور نہ اُسے مُردوں کی طرح سمجھ کر اس سے بالکل قطع تعلق کر لو.اب باوجود اس تعلیم کے دوخلیفوں کا وجود ایک وقت میں کس طرح مان لیا جاوے؟ اسلامی تعلیم کی رُو سے ایک وقت میں ایک ہی امام ہوتا ہے اور باقی اس کے تابع ہوتے ہیں.پس یہ بھی دلیل ہے اس بات کی کہ مسیح اور مہدی دو الگ الگ وجود نہیں ہونگے.بلکہ یہ دو نام ایک شخص کے ہیں جو آخری ایام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خلیفہ ہوگا.یہاں تک تو ہم نے استدلالات سے کام لیا ہے لیکن اب ہم ایک ایسی حدیث پیش کرتے ہیں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ مسیح اور مہدی ایک ہی شخص ہیں.آپ فرماتے ہیں.لَا مَهْدِى إِلَّا عِیسٰی (ابن ماجہ باب شدة الزمان ) یعنی ” حضرت عیسی کے سوا اور کوئی مہدی موعود نہیں ہے“.دیکھو کیسے صاف اور روشن الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جھگڑے کا فیصلہ فرما دیا ہے کہ مسیح اور مہدی الگ الگ نہیں ہیں بلکہ مسیح موعود کے سوا اور کوئی مہدی موعود ہے ہی نہیں.جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتا ہے وہ تو ان الفاظ کے سامنے سر جھکا دے گالیکن جس کے دل میں کبھی ہے وہ ہزاروں حجتیں نکالے گا.مگر ہمیں اس سے کام نہیں.ہمارے مخاطب صرف وہ لوگ ہیں جو روحانی مکتب میں یہ سبق سیکھ چکے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اپنا سر رکھ دینا عین سعادت ہے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک اور حدیث بھی ہے جو صاف الفاظ میں مسیح موعود ہی کو امام مہدی بتاتی ہے.آپ فرماتے ہیں:.يُوشِكُ مَنْ عَاشَ فِيْكُمْ اَنْ يَّلقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِمَامًا مَهْدِيًّا وَحَكَمًا عَدُلًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيْب وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ...الخ.127 (مسنداحمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۴۱۱)
یعنی ” جو تم میں سے اُس وقت زندہ ہو اوہ عیسی بن مریم کو پائے گا جو امام مہدی ہونگے اور حکم عدل ہو نگے اور صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کوقتل کریں گے“.دیکھو اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ حضرت عیسی ہی امام مہدی ہونگے مگر تعجب ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر ایمان لانے کی وجہ سے آج ہمیں کافر اور مرتد کہا جاتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو رڈی کی طرح پھینک دیا جاتا ہے.افسوس ! صد افسوس!! مندرجہ بالا دلائل سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ مسیح اور مہدی ایک ہی ہیں مگر اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف الفاظ میں فرما دیا کہ مہدی معہود مسیح موعود سے الگ وجود نہیں ہے تو پھر مسلمان یہ کس طرح ماننے لگ گئے کہ مسیح اور مہدی الگ الگ ہیں؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ عام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح ناصرتی آسمان پر زندہ اُٹھا لئے گئے تھے اور آخری ایام میں پھر زمین پر نازل ہو نگے.اس کے مقابل میں مہدی کے متعلق یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ وہ امت محمدیہ میں سے ہی پیدا ہوگا.لہذا جب تک مسلمان اس غلط عقیدہ پر قائم ہیں کہ مسیح ناصری ہی آسمان سے نازل ہو نگے اس وقت تک یہ بالکل ناممکن ہے کہ وہ مسیح اور مہدی کو ایک وجود ما نیں.ہاں اگر وہ مسیح کے متعلق صحیح عقیدہ پر قائم ہو جائیں اور گذشتہ مسیح ناصری کو وفات شدہ مان لیں تب اُن کیلئے مسیح موعود اور مہدی کو ایک مان لینا نہایت آسان ہو جائے گا.لیکن زمین سے پیدا ہونے والے اور آسمان سے اتر نے والے کو وہ ایک نہیں مان سکتے.یہ بات کہ ایک شخص کو دو مختلف نام دینے میں کیا حکمت تھی.یہ ہم او پر بیان کر آئے ہیں اعادہ کی ضرورت نہیں.مختصر یہ ہے کہ آنے والے نے مختلف مقاصد کے ماتحت آنا تھا جن میں کسر صلیب اور اصلاح امت محمدیہ دو بڑے مقاصد مدنظر تھے.پس کا سر صلیب ہونے کے لحاظ سے وہ عیسی مسیح کہلایا اور امت محمدیہ کا مصلح ہونے کی حیثیت میں اس 128
نے محمد مہدی کا نام پایا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ حدیثوں میں جو آیا ہے کہ مسیح کے نزول سے پہلے مہدی دنیا میں موجود ہوگا اور یہ کہ مہدی امامت کرائیگا اور مسیح اس کی اقتداء کرے گا وغیرہ وغیرہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہدی مسیح سے الگ وجود رکھتا ہے مگر یہ استدلال بھی درست نہیں.کیونکہ جب دلائل قویہ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مسیح کے زمانہ میں کوئی اور مہدی نہیں ہو سکتا تو یہ باتیں اپنے ظاہری معنوں میں قابل قبول نہ رہیں.پس ضرور ان کے کوئی ایسے معنے کرنے پڑیں گے.جو دوسری صریح احایث کے مخالف نہ ہوں.چنانچہ اس خیال کو مد نظر رکھ کر دیکھا جائے تو کوئی اشکال نہیں رہتا اور وہ اس طرح کہ چونکہ مقام مہدویت کے لحاظ سے آنے والا موعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مثیل اور بروز ہے اور مقام مسیحیت کے لحاظ سے وہ مسیح ابن مریم کا مثیل اور بروز ہے اس لئے اس بات میں کیا شک ہے کہ اس کی صفت مہدویت صفت مسیحیت پر غالب ہے پس اس مفہوم کو بطور مجاز اس رنگ میں ادا کیا گیا ہے کہ گویا مہدی امام ہوگا اور مسیح مقتدی ہوگا.یعنی آنے والے موعود کا مقامِ مہدویت اس کے مقام مسیحیت کے آگے آگے ہوگا اور اس کی صفت مسیحیت اس کی صفتِ مہدویت کی اقتداء کرے گی اور مہدی کے پہلے سے موجود ہونے سے یہ مراد ہے کہ یہ موعود صلح اپنے مقامِ مہدویت میں پہلے ظاہر ہوگا اور مسیحیت کا دعوی بعد میں کرے گا.چنانچہ خدائی تصرف نے حضرت مرزا صاحب سے پہلے صرف چودھویں صدی کے مجد داعظم ہونے کا دعویٰ کروایا جو مقام مہدویت ہے اور پھر اس کے کئی سال بعد مسیح موعود ہونے کا دعوی ہوا.جس کی آنکھیں ہوں دیکھے.مذکورہ بالا بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اوّل مہدی کے متعلق روایات کا نا قابل تطبیق اختلاف ظاہر کر رہا ہے کہ یا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف مہدیوں کی پیشگوئیاں کی تھیں جو بد قسمتی سے ایک شخص کے متعلق سمجھ لی گئیں اور یا اس بارہ میں بعض احادیث غلط اور 129
موضوع ہیں اور درحقیقت یہ دونوں باتیں ہی اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں.دوسرے یہ بات ثابت ہو گئی کہ مسیح موعود کے زمانہ میں کوئی الگ مہدی نہیں ہوگا بلکہ مسیح اور مہدی کا وعدہ ایک ہی وجود میں پورا ہوگا.اس کے بعد مہدی کے متعلق صرف ایک بات قابل حل رہ جاتی ہے جسے گو سوال زیر بحث سے تعلق نہیں لیکن چونکہ مہدی موعود کی شناخت کے رستہ میں وہ ایک بڑی روک ہے اور اس کے دُور ہو جانے کے بعد جہاں تک مہدی کا تعلق ہے کوئی اشکال باقی نہیں رہتا.اس لئے مہدی کی مختصر بحث کو اس جگہ مکمل کرنے کیلئے اس شبہ کا جواب بھی یہیں درج کر دیا جاتا ہے.یہ سوال خونی مہدی سے تعلق رکھتا ہے یعنی آیا مہدی موعود تلوار کے ساتھ ظاہر ہوگا اور کافروں کو تہ تیغ کرے گا یا یہ کہ وہ امن کے طریق پر ظاہر ہوگا.اور سیف فولادی سے نہیں بلکہ سیف براہین سے اسلام کو غلبہ دے گا.ہمارے زمانہ میں مسلمان کہلانے والوں میں عام خیال یہ ہے کہ مہدی کافروں کے ساتھ جہاد بالسیف کرے گا.حتی کہ جزیہ بھی قبول نہیں کرے گا اور یا تو سب کافروں کو مسلمان ہونا پڑے گا اور یاوہ تلوار کے گھاٹ اُتار دیئے جائیں گے مگر ہمارے خیال میں یہ ایک نہایت باطل اور اسلام کو بدنام کرنے والا خیال ہے.مہدی جہاد بالسیف نہیں کریگا اس بحث کیلئے سب سے ضروری اور اصولی بات یہ ہے کہ ہم قرآن شریف کی تعلیم پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ آیا وہ مذہبی معاملات میں تلوار اُٹھانے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ یعنی کیا اسلامی تعلیم کی رو سے یہ جائز ہے کہ لوگوں کو بزور مسلمان کیا جاوے.اگر اسلام ہمیں اجازت دیتا ہے کہ لوگوں کو جبراً اسلام کے اندر داخل کرو تو بے شک اس مسئلہ پرغور کرنا ہمارا فرض ہوگا کہ آیا مهدی اسلام کیلئے تلوار اُٹھائے گا یا کہ صرف صلح سے کام کرے گا لیکن اگر اسلامی تعلیم ہمیں 130
صاف طور پر یہ بتائے کہ دین کے معاملہ میں جبر درست نہیں اور تلوار کے ذریعہ لوگوں کو اسلام کے اندر داخل کرنا نا جائز ہے تو اس کے ساتھ ہی خونی مہدی کے مسئلہ کا بھی خود بخود صفایا ہو جائے گا.کیونکہ جب جبر جائز ہی نہیں تو ایسا مصلح کس طرح آ سکتا ہے جو لوگوں کو جبراً اسلام کے اندر داخل کرے.اب جب ہم قرآن شریف پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں صاف لکھا ہوا پاتے ہیں کہ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَي ( سورة بقره رکوع ۳۴) یعنی دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ ہدایت ضلالت سے ممتاز ہو چکی ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ دین کے معاملہ میں جبر کرنا جائز نہیں اور چونکہ قرآن شریف ہر ایک دعوئی کے ساتھ دلیل بھی لاتا ہے اسلئے اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ جبر اس لئے جائز نہیں کہ ہدایت اور ضلالت کھلی کھلی چیزیں ہیں اور ہر ایک شخص جو ٹھنڈے دل سے غور کرے وہ ہدایت کو دیکھ سکتا ہے.ظاہر ہے کہ جبر کی ضرورت اسی جگہ پیش آتی ہے کہ جہاں کوئی تعلیم ناقص ہو اور اپنی خوبی کے زور سے لوگوں کے دلوں کے اندر گھر نہ کر سکے لیکن قرآن شریف کی تعلیم تو سبحان اللہ ایسی صاف اور روشن ہے کہ ذرا سے تدبر سے انسان حق کو پاسکتا ہے.اسلئے اس کے منوانے کیلئے جبر کا طریق کسی طرح بھی درست نہیں سمجھا جا سکتا.علاوہ ازیں غور کرو کہ تلوار کے زور سے لوگوں کو اسلام کے اندر داخل کرنے کے یہ معنے ہیں کہ ہم صاف لفظوں میں اقرار کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ اسلام جھوٹا ہے یا کم از کم یہ کہ اسلام اس خوبی کا مذہب نہیں کہ خود بخو دلوگوں کو اپنی سچائی کا قائل کر سکے تبھی تو جبر کی ضرورت پیش آسکتی ہے.پھر یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ جبر کی حکومت صرف انسان کے جسم تک محدود ہوتی ہے اس کے ذریعہ انسان کی روح اور خیالات پر قابو نہیں پایا جاسکتا مگر مذہب دل کے تخیلات سے تعلق رکھتا ہے اور گو اعمال بھی اس کے اندر شامل ہیں مگر اعمال کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ دل کی تحریک سے پیدا ہوں.ورنہ اگر وہ کسی بیرونی اثر کے ماتحت ظہور میں آئیں اور دل ان کے ساتھ متفق نہ ہو تو 131
ایسے اعمال ہرگز مذہب کا حصہ نہیں سمجھے جاسکتے بلکہ انہیں مذہب کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں مثلاً خدا کے حضور سجدہ کرنا نیک اعمال میں سے ہے لیکن اگر کوئی شخص بازار میں چلتا ہوا ٹھوکر کھا کر منہ کے بل جاگرے تو گو ظاہری صورت اس کی سجدہ کرنے والے کی سی ہوگی.لیکن مذہب کی اصطلاح میں وہ خدا کے حضور سجدہ کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ اس سجدہ کے ساتھ دل کی تحریک اور نیت شامل نہیں بلکہ یہ صورت صرف کسی بیرونی اثر کے ماتحت پیدا ہوگئی ہے.پس ظاہری حرکات وہی مذہب کے اندر شامل سمجھی جاسکتی ہیں جو دل کی نیت کے ساتھ ہوں.یہی وجہ ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اثْمَا الْأَعْمَالُ بِالرِّيَّاتِ ( بخاری ) یعنی بچے اعمال وہی ہیں جن کے ساتھ دل کی نیت شامل ہو“.ورنہ اگر نیت نہیں تو عمل بھی کوئی عمل نہیں.پس ثابت ہوا کہ یہ قطعاً ناممکن ہے کہ جبر کے ذریعہ کسی کو اسلام کے اندر یا کسی اور مذہب کے اندر داخل کیا جائے.کیونکہ مذہب تو کہتے ہی اس طرز اور رویہ کو جس کے ساتھ اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب ہو.اور یہ بات یکجا جبر کے نتیجہ میں پیدا نہیں ہوسکتی.پس معلوم ہوا کہ جبر کے ذریعہ کسی شخص کو کسی مذہب کے اندر داخل کر لینا محالات عقلی میں سے ہے اسی واسطے خداوند کریم نے فرمایا ہے کہ إِثْمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ - (سورة المائده رکوع ۲) یعنی ” ہمارے رسول کا تو صرف یہ کام ہے کہ لوگوں تک ہمارا پیغام کھول کر پہنچا دیوے.“ آگے ماننا نہ مانا لوگوں کا کام ہے اس سے رسول کو غرض نہیں.رسول کا کام صرف احسن طریقہ پر اپنی رسالت کو پہنچا دینا ہے اور بس.ایک اور دلیل سے بھی جبر کا عقیدہ غلط ثابت ہوتا ہے وہ یہ کہ اسلام نے نفاق کو سخت قابلِ نفرت فعل قرار دیا ہے اور منافق کی سزا کو کافر سے بھی زیادہ سخت رکھا ہے جیسا کہ قرآن شریف فرماتا ہے اِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (سورة النساء ركوع ٢١) یعنی " منافق لوگ دوزخ کے سخت ترین حصہ میں ڈالے جائیں گے مگر ظاہر ہے کہ جبر کے نتیجہ 132
میں منافق پیدا ہوتا ہے نہ کہ سچا مومن.پھر اسلام جبر کی اجازت کس طرح دے سکتا ہے؟ اب یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب قرآن شریف کھلے الفاظ میں تلوار کے ذریعہ لوگوں کو اسلام کے اندر داخل کرنے سے منع فرماتا ہے اور مذہبی معاملات میں جبر کی اجازت نہیں دیتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں تلوار اُٹھائی؟ یہ ایک سوال ہے جو اس موقع پر ضرور دل میں پیدا ہوتا ہے.اسکا حقیقی جواب پانے کیلئے ہمیں چاہئیے کہ قرآن شریف کی اس آیت پر نظر ڈالیں جس میں سب سے پہلے مسلمانوں کو تلوار اٹھانے کی اجازت دی گئی تھی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ O الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ ، وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا - (سورۃ حج رکوع ۶ ) یعنی اجازت دی جاتی ہے لڑنے کی ان لوگوں کو جن کے خلاف کافروں کی طرف سے تلوار اٹھائی گئی ہے.کیونکہ اُن پر ظلم کیا گیا ہے اور بیشک اللہ ان کی مدد پر قادر ہے.ہاں وہی مظلوم جو اپنے گھروں سے نکالے گئے بغیر کسی جائز وجہ کے صرف اس بنا پر کہ انہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو دفاعی جنگ کی اجازت دیکر ایک دوسرے کے ہاتھ سے نہ روکے تو پھر خانقاہیں اور گرجے اور معبد اور مسجدیں جن میں خدا کا نام کثرت سے یاد کیا جاتا ہے وہ سب ایک دوسرے کے ہاتھوں مسمار کر دیئے جائیں“.یہ وہ آیت کریمہ ہے جس نے سب سے پہلے مسلمانوں کو کفار کے مقابل پر لڑنے کی اجازت دی.اب دیکھ لو کہ اس آیت میں کس صراحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے لڑائی کی وجہ بیان فرمائی ہے جو یہ ہے کہ فتنہ دور ہو کر مذہبی آزادی پیدا ہو.اور یہ بھی صاف طور پر فرما دیا ہے 133
کہ مسلمانوں نے پہل نہیں کی بلکہ جب کفار نے ان کے خلاف تلوار اُٹھائی اور ان پر طرح طرح کے ظلم کئے اور انہیں ان کے گھروں سے نکال دیا تب دفع شر کیلئے اللہ تعالیٰ نے انہیں اجازت فرمائی کہ تم بھی ان ظالم کفار کے خلاف تلوار اُٹھاؤ.تیرہ سال تک مسلمانوں نے صبر سے کام لیا اور نہایت استقلال کے ساتھ ہر قسم کی تکالیف کو برداشت کیا.آخر کار مکہ چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کی تاکسی طرح کفار مکہ کی شرارتوں سے امن میں آجائیں مگر یہ لوگ پھر بھی مسلمان کو تکلیف دینے سے باز نہ آئے بلکہ مدینہ پر جا چڑھائی کی تب ہر طرح مجبور ہوکر مسلمانوں کو بھی تلوار اٹھانی پڑی.پس یہ ایک سیاہ جھوٹ ہے کہ مسلمانوں نے لوگوں کو جبراً مسلمان بنانے کیلئے تلوار اُٹھائی بلکہ حق یہ ہے کہ انہوں نے تو مصائب کے برداشت کرنے کا وہ نمونہ دکھایا کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے.پس اس سے بڑھ کر کیا ظلم ہوگا کہ اسلام کی طرف جبر اور تشد و منسوب کیا جائے.مسلمانوں نے تو شروع اسلام میں جو کچھ کیا دفع شر کیلئے کیا اور اس بات کیلئے کہ مذہبی آزادی قائم ہو جائے اور لوگ جس مذہب کو دل سے درست سمجھیں اُسے کھلم کھلا قبول کریں.ہاں بیشک بعد میں جب ابتدائی لڑائیوں کے نتیجہ میں ایک اسلامی سلطنت قائم ہوگئی تو بعض اوقات مسلمانوں کو سیاسی اغراض کے ماتحت بھی جنگ کرنی پڑی یا بعض وقت ان کو اس لئے تلوار اٹھانی پڑی تا وہ ایسے ممالک میں تبلیغ اسلام کا راستہ کھولیں جن میں مذہبی آزادی کے نہ ہونے کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ کا دروازہ بند تھا اور لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے جبراً روکا جاتا تھا لیکن صحابہ نے کبھی بھی کوئی شخص جبراً مسلمان نہیں کیا.پس کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ مہدی کی بعثت کی علت غائی ہی یہ سمجھی جاتی ہے کہ وہ تمام دنیا کو جبراً مسلمان کرتا پھرے گا.کیا ایسے مہدی کا آنا اسلام کیلئے باعث فخر ہو سکتا ہے؟ نہیں اور ہر گز نہیں بلکہ جائے فخر تو یہ ہے کہ اسلام کو دلائل کی قوت اور روحانی جذب کے ذریعہ تمام مذاہب پر غالب ثابت کیا جاوے.اسلام کی خوبیاں 134
لوگوں کے سامنے رکھی جائیں اور یہ بتایا جائے کہ اسلام ہی وہ زندہ مذہب ہے جو اپنی صداقت کے اس قدر دلائل رکھتا ہے کہ اگر خدا کا خوف دل میں رکھ کر اس پر غور کیا جائے تو ممکن ہی نہیں کہ انسان پر اس کی سچائی مخفی رہے.مندرجہ بالا دلائل سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے ہرگز کوئی ایسا مہدی نہیں آئے گا جو آتے ہی لڑنا شروع کر دے اور لوگوں کو جبراً مسلمان کرتا پھرے.فور کا مقام ہے کہ کیا مہدی اسلامی تعلیم کا پابند نہیں ہوگا ؟ کیا اُس کے زمانہ میں شریعتِ اسلام منسوخ ہو جائیگی؟ جب یہ نہیں اور مہدی نے بطور خادمِ اسلام کے ہی ظاہر ہونا ہے تو پھر باوجود اسلام کی اس واضح تعلیم کے کہ مذہب کے معاملہ میں جبر جائز نہیں وہ کفار کے خلاف کس طرح تلوار اُٹھائے گا؟ اگر وہ ایسا کرے گا تو یقیناً وہ مصلح نہیں ہوگا.بلکہ اسلام کی تعلیم کو بگاڑنے والا ٹھہرے گا اور فساد کوڈ ور کرنے کی بجائے خود فساد کا موجب بن جائے گا.پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جب یہ ثابت ہو چکا کہ مسیح اور مہدی ایک ہی شخص کے دو نام ہیں تو مہدی کس طرح تلوار اٹھا سکتا ہے جبکہ مسیح کے متعلق صاف الفاظ میں آتا ہے کہ وہ جنگ کو موقوف کرنے والا ہوگا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :.وَالَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ لَيُوْشِكُنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيْكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْحَرْبَ - ( بخاری مجتبائی مولوی احمد علی صاحب والی جلد باب نزول عیسی بن مریم و نیز فتح الباری جلد ۶) یعنی دو قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ وہ وقت آتا ہے کہ جب تم میں ابن مریم حکم اور عدل کے طور پر نازل ہوگا.وہ صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کر یگا اور جنگ کو موقوف کر دیگا.دیکھو اس حدیث نے کس وضاحت کے ساتھ بتادیا کہ لوگوں کو جبراً مسلمان بنانا تو 135
در کنار مہدی تو جنگوں کے سلسلہ کو بند کرنے والا ہوگا.مگر ہمارے مسلمان بھائی پھر بھی قرآن شریف کی تعلیم کے خلاف غازی مہدی کی راہ دیکھ رہے ہیں.ان تمام دلائل سے ظاہر ہے کہ کوئی غازی مہدی نہیں آئے گا بلکہ اگر کوئی آئے گا تو امن اور صلح سے کام کرنے والا آئیگا.لیکن یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب اسلام مذہب کے معاملہ میں جبر کی تعلیم نہیں دیتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خونی مہدی کی خبر نہیں دی تو مسلمانوں میں یہ عقیدہ کس طرح آگیا؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ بدقسمتی سے عوام الناس کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ پیشگوئیوں کے ظاہری الفاظ پر جم جاتے ہیں اور ان کے باطنی اور حقیقی پہلوکو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں مثلاً ناظرین سے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ بنی اسرائیل سے یہ وعدہ تھا کہ جب اُن میں مسیح ظاہر ہوگا تو وہ ایک عظیم الشان یہودی سلطنت کی بنیاد ڈالے گا.(زکریہ ۹/۱۰) لیکن جب مسیح ناصری نے مسیحیت کا دعوی کیا تو یہود نے دیکھا کہ وہ ایک کمزور بے یارو مددگار آدمی ہے جس نے کسی سلطنت کی بنیاد نہیں ڈالی بلکہ امن کے ساتھ رومی سلطنت کے ماتحت اپنی رسالت کی تبلیغ کرنے لگ گیا.ذرا یہود کی مایوسی کا اندازہ لگاؤ.وہ ایک ایسے شخص کا انتظار کر رہے تھے جس نے انہیں بادشاہت کے تخت پر بٹھانا تھا اور ایک بڑی یہودی سلطنت کا بانی ہونا تھا لیکن جب مسیح آیا تو اس نے کیا کیا ؟ خود اُسی کے الفاظ سنئے :- لومڑیوں کیلئے ماندیں اور ہوا کے پرندوں کے واسطے بسیرے ہیں پر ابن آدم کیلئے (متی باب ۸ آیت ۲۰) جگہ نہیں جہاں اپنا سر دھرے.“ ٹھیک اسی طرح مسلمان ایک غازی مہدی کے منتظر ہیں جو کافروں کو قتل کرے گا اور ایک عظیم الشان اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھے گا لیکن جس طرح بنی اسرائیل کی سب 136
امیدوں پر پانی پھر گیا اسی طرح ان کے ساتھ معاملہ ہوگا کیونکہ خدا اور رسول کے وعدہ کے خلاف امید رکھ کر کوئی شخص مراد کو نہیں پہنچ سکتا.اصل میں بات یہ ہے کہ آئندہ آنے والے مصلح کے روحانی عروج کو ظاہر کرنے کیلئے اور اس کی ترقیات اور لوگوں کی مخالفت کا پورا نقشہ لوگوں کے دلوں پر جمانے کیلئے بعض اوقات جنگی اصطلاحات کو بطور استعارہ کے استعمال کیا جا تا ہے لیکن لوگ لاعلمی کی وجہ سے ایسے کلمات کے ظاہری معنوں پر جم جاتے ہیں اور پھر ان کے مطابق مدعی کو ماپتے ہیں اور وہ اور بھی اندھے ہو جاتے ہیں جبکہ وہ ایک دنیا وی بادشاہ کے ظہور میں اپنا نفع دیکھتے ہیں.ایک امن سے کام کرنے والا مصلح کیا بنا سکتا ہے؟ وہ نہ تو ان کی مالی حالت درست کر سکتا ہے اور نہ ہی سیاسی طور پر ان کی حالت سنوار سکتا ہے.لیکن ایک جنگجو نبی بڑی آسانی کے ساتھ اُن کے خالی کیسوں کو بھر سکتا ہے اور ان کو ملک میں حاکم بنا سکتا ہے اس لئے ان کو کیا ضرورت پڑی کہ ان سبز باغوں سے نکل کر جھاڑ دار راستوں میں قدم رکھیں.لیکن وہ اتنا نہیں سوچتے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے مصلحوں کا اصل کام روحانی اصلاح ہے.پس اگر وہ آتے ہی تلوار اُٹھا لیں تو اُن کی بعثت کا مطلب ہی فوت ہو جاتا ہے.لہذا مہدی معہود کے متعلق بعض احادیث میں جنگی اصطلاحات کا استعمال کیا جانا اس بات کو ظاہر نہیں کرتا کہ مہدی ایک دنیاوی جرنیل کے طور پر ظاہر ہوگا بلکہ ان سے صرف یہ مراد ہے کہ مہدی کی بعثت فوق العادت نشانوں کے ساتھ ہوگی اور وہ اسلام کی صداقت میں ایسے براہین قاطعہ لائے گا جن سے مخالفین پر گو یا موت وارد ہو جائے گی.اس کے سوا ان کا اور کوئی مطلب نہیں.چاہو تو قبول کرو.اب ہم ان دو غلط فہمیوں کو دور کر چکے ہیں جو حضرت مرزا صاحب کے دعوئی کے رستے میں عوام الناس کیلئے ایک خطر ناک ٹھو کر بن رہی ہیں.یعنی ہم بفضلہ تعالیٰ یہ ثابت 137
کر چکے ہیں کہ حضرت مسیح ناصری زندہ بجسم عنصری آسمان پر نہیں گئے بلکہ زمین پر ہی رہے اور زمین پر ہی فوت ہو گئے اور یہ کہ وہ مسیح جس کی آمد کا وعدہ دیا گیا تھا وہ اسی امت مرحومہ میں سے ہے.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادموں میں سے ایک خادم ہے اور کوئی بیرونی فرد نہیں ہے.دوسرے ہم یہ ثابت کر چکے ہیں کہ مسیح موعود کے زمانہ میں کوئی الگ مہدی موعود نہیں ہوگا بلکہ مسیح اور مہدی ایک ہی ہیں.صرف دو مختلف حیثیتوں سے دو مختلف نام دیئے گئے ہیں.علاوہ ازیں یہ بات بھی ہم نے بخوبی ثابت کر دی ہے کہ یہ ایک باطل خیال ہے کہ مہدی موعود کافروں سے تلوار کی جنگ کریگا اور دنیا میں بلا وجہ خون کی نہریں بہائے گا.بلکہ حق یہ ہے کہ اُس کی تلوار براہین کی تلوار ہوگی اور اس کا حربہ روحانی حربہ ہوگا اور وہ امن کے ساتھ کام کریگا اور دلائل کے زور سے اسلام کو غلبہ دیگا.ان امور کے طے کرنے کے بعد اب ہم اصل بحث کو لیتے ہیں اور وہ یہ کہ حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کا جو یہ دعوی ہے کہ میں مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں یہ دعوی کہاں تک صحیح اور درست ثابت ہوتا ہے.وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ - 138
مسیح و مہدی کی علامات پہلے ہم علامات کی بحث کو لیتے ہیں.یعنی قرآن وحدیث سے مسیح موعود اور مہدی معہود کے متعلق جن علامات کا پتہ چلتا ہے ان کے مطابق حضرت مرزا صاحب کے دعوئی کو پرکھتے ہیں.علامات ماثورہ کے متعلق ایک غلط نہی کا ازالہ سو جانا چاہیے کہ مسیح موعود کی علامات کے متعلق بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں لیکن اس معاملہ میں بعض لوگوں نے ایک خطر ناک غلطی کھائی ہے جس نے اس بحث میں طوفان بے تمیزی برپا کر دیا ہے اور وہ غلطی یہ ہے کہ جو علامات اعادہ ہے نبوی میں قرب قیامت کے متعلق بیان ہوئی ہیں ان سب کو مسیح موعود کی علامات سمجھ لیا گیا ہے جو ایک صریح غلطی ہے.کیونکہ اول تو یہ قطعاً ضروری نہیں کہ جو علامات قیامت یا ساعت کی بیان کی گئی ہیں و ہی مسیح موعود کی بھی علامات ہوں بے شک خود مسیح موعود کو ساعت یعنی قیامت کی علامت کہا گیا ہے لیکن یہ ہرگز ضروری نہیں کہ قیامت کی سب علامتیں مسیح موعود کے زمانہ میں ہی ظاہر ہوں بلکہ ممکن ہے کہ بعض علامات مسیح موعود کے ظہور سے قبل اور بعض بوقت ظہور اور بعض بعد میں ظاہر ہوں اور بعض ممکن ہے کہ بالکل قیامت کے متصل ظہور پذیر ہوں.پس گو بے شک خود مسیح موعود قیامت کی علامت ہے لیکن قیامت کی تمام علامات کو مسیح موعود کے وقت میں تلاش کرنا سخت غلطی ہے کیونکہ وہ اس کی علامات نہیں بلکہ محض قرب قیامت کی علامات ہیں جن میں سے بعض ممکن ہے کہ قیامت کے بالکل قریب ظاہر ہوں.دوسرے یہ کہ بعض لوگ ہر جگہ جہاں احادیث نبوی میں ساعت یا قیامت کا لفظ 139
وارد ہوا ہے اس سے قیامت گبری سمجھنے لگ جاتے ہیں.مگر یہ بھی ایک خطر ناک غلطی ہے.بات یہ ہے کہ ساعت اور قیامت کا لفظ عربی زبان میں قیامت کبری کیلئے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ لفظ ہر بڑے انقلاب کے متعلق بھی استعمال کیا جاتا ہے.اس لحاظ سے خلافت راشدہ کے زمانہ کے فتنے بھی ساعت تھے حضرت امام حسین کی شہادت بھی ایک ساعت تھی.بنو امیہ کی تباہی بھی ایک ساعت تھی.بغداد اور بنو عباس کی تباہی بھی ایک بڑی قیامت اور ساعت تھی.سپین سے مسلمانوں کا اخراج بھی ایک ساعت تھی.اور اسی طرح اسلامی تاریخ کے سب بڑے بڑے تغیرات اور انقلابات ساعات ہیں اور احادیث نبوی میں جو ساعت کی علامات بتائی گئی ہیں وہ سب قیامت کبری کے متعلق نہیں ہیں بلکہ بعض ان درمیانی ساعتوں کے متعلق بھی ہیں.یعنی کوئی حدیث کسی ساعت کے متعلق ہے تو کوئی کسی اور کے متعلق.اور بعض علامات ساعت کبری کے متعلق بھی ہیں.یہ ایک ایسی بین حقیقت ہے کہ جو شخص ذرا بھی تدبر سے کام لے اور تاریخ اسلام کو زیر نظر رکھے وہ اس کا انکار نہیں کر سکتا.کیونکہ بعض علامات نے درمیانی ساعتوں پر ظاہر ہو کر اس حقیقت پر عملاً مہر تصدیق ثبت کر دی ہے اندریں حالات ہمارا سب سے پہلا فرض یہ ہونا چاہئیے کہ ہم غور و تد تبر کر کے اُن علامات کو تلاش کریں جو مسیح و مہدی کے زمانہ یا وجود کی مخصوص علامات ہیں.سیح و مہدی کی دس اہم موٹی علامات سوجاننا چاہئیے کہ قرآن شریف اور احادیث سے جو موٹی موٹی علامات مسیح موعود اور مہدی معہود کی ثابت ہوتی ہیں اور جن سے غالباً ہر مسلمان کم و بیش واقف ہے یہ ہیں:.ا.مسیح موعود کا زمانہ ایسا ہو گا جس میں آمد و رفت کے وسائل بہت ترقی کرجائیں گے اور گویا ساری دنیا ایک ملک کا رنگ اختیار کر لے.اور نئی نئی قسم کی سواریاں نکل آئیں گی 140
اور اونٹ کی سواری معطل ہو جائیگی.اور کتب اور رسالہ جات اور اخبارات وغیرہ کی اشاعت نہایت کثرت کے ساتھ ہوگی.مادی علوم کی ترقی ہوگی اور کئی نئے او مخفی علوم ظاہر ہو جائیں گے.اور دریاؤں اور سمندروں کو پھاڑ پھاڑ کر نہریں بنائی جائیں گی اور وسائل آمد رفت میں غیر معمولی ترقی ہوگی وغیرہ وغیرہ.۲.وہ زمانہ ایسا ہوگا کہ صلیبی مذہب اس میں بڑے زوروں پر ہوگا.۳.اس زمانہ میں دجال کا خروج ہوگا.جس کا فتنہ دنیا کے سارے اگلے پچھلے فتنوں سے بڑا ہوگا.۴.اس زمانہ میں یا جوج و ماجوج ( یعنی انگریز وامریکہ اور روس ) اپنے پورے زور میں ظاہر ہونگے اور دنیا کے عمدہ عمدہ حصوں پر قابو پالینگے اور قومیں ایک دوسرے کے خلاف اُٹھیں گی.۵- دین کیلئے وہ زمانہ ایک فساد عظیم کا زمانہ ہوگا.اور ہر طرف مادیت اور دہریت کا بھاری انتشار ہوگا اور اس زمانہ میں اسلام سخت کمزور حالت میں ہوگا اور علمائے اسلام کی حالت نا گفتہ بہ ہوگی.اور اسلام میں بہت سے اختلاف پیدا ہو جائیں گے اور عقائد بگڑ جائیں گے اور لوگوں کے اعمال خراب ہو جائیں گے اور ایمان دنیا سے اُٹھ جائیگا اور بیرونی طور پر بھی اسلام چاروں طرف دشمنوں کے نرغے میں گھر اہو گا.مسیح موعود کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں مقررہ تاریخوں میں چاند اور سورج دونوں کو گرہن لگے گا.ے.اس کے زمانہ میں دابتہ الارض کا خروج ہوگا.۸ مسیح موعود دمشق کے مشرقی جانب ایک سفید منارہ پر نازل ہوگا.۹.اس کا حلیہ یہ ہوگا کہ وہ گندم گوں رنگ کا ہوگا اور اس کے بال سیدھے اور 141
لمبے ہونگے.مسیح موعود صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا اور دقبال کو ماردے گا اور اسلام کو غلبہ بخشے گا.اور اس کے زمانہ میں آفتاب مغرب کی طرف سے طلوع کریگا اور مسیح موعود تمام اندرونی اور بیرونی اختلافات میں حکم و عدل بن کر سچا سچا فیصلہ کر دیگا.اور کھویا ہوا ایمان دنیا میں پھر قائم کر دیگا اور لوگوں کو کثرت کے ساتھ (روحانی ) مال دیگا مگر دنیا اس کے مال کو قبول نہیں کرے گی.(دیکھو قرآن مجید و کتب حدیث و تفسیر ) سیہ وہ دس موٹی موٹی علامات ہیں جو مسیح موعود مہدی معہود اور اس کے زمانہ کے متعلق قرآن شریف اور احادیث نبوی سے ثابت ہوتی ہیں.سو ہم ان دس علامات کو الگ الگ سامنے رکھ کر حضرت مرزا صاحب کی صداقت کو پر کھتے ہیں تا حق و باطل میں امتیاز ہوکر طالب حق کو فیصلہ کی راہ لے.وما توفیقی الا باللہ.پہلی علامت پہلی علامت قرآن شریف کی ان آیات سے پرینگتی ہے جہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے : وَإِذَا الْعِشَارُ عُقِلَتْ O وَإِذَا الْبِحَارُ سُجَرَتْ وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَتْ (سورة تكوير ركوع) یعنی " قرب قیامت اور نزول مسیح موعود کی یہ علامت ہے کہ اس زمانہ میں اونٹنیوں کی سواری معطل ہو جائے گی.یعنی بوجہ نئی نئی اور بہتر سواریاں نکل آنے کے اونٹوں کی سواری چھوڑ دی جائیگی.اور دریا اور سمندر پھاڑے جائیں گے یعنی ان کو پھاڑ پھاڑ کر نہریں بنائی جائیں گی اور کتب اور اخبار ورسالے کثرت کے ساتھ شائع ہونگے.یعنی مطبع ایجاد ہوکر اخباروں، رسالوں اور کتابوں کی اشاعت کا کام بے حد 142
وسیع ہو جائے گا اور مختلف ممالک کے لوگ آپس میں مل جل جائیں گے.یعنی وسائل کی اتنی کثرت ہوگی کہ گذشتہ زمانوں کی طرح ایسا نہیں رہے گا کہ قومیں الگ الگ رہیں بلکہ میل جول کی کثرت سے تمام دنیا گویا ایک ہی ملک ہو جائیگی.“ اور پھر اس کی تائید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث بھی ہے.فرماتے ہیں:.66 ليتُرَكَنَ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا - (صحیح مسلم جلد ۲) یعنی اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی اور اُن پر سفر نہ کیا جائے گا.اور قرآن شریف میں ایک دوسری جگہ فرماتا ہے کہ:.أَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا - یعنی ”آخری زمانہ میں زمین اپنے تمام مخفی بوجھ نکال کر باہر پھینک دیگی اور مادی علوم کی کثرت ہوگی“.وغیرہ وغیرہ اب دیکھ لو کہ اس زمانہ میں یہ علامت کس صراحت کیساتھ پوری ہوئی ہے.نئی نئی سواریاں مثلاً ریل ،موٹر ، جہاز، ہوائی جہاز.پھر محکمہ ڈاک ، تار، بے تار کی برقی اور ٹیلیفون اور ٹیلی ویژن اور ریڈیو.اور پھر نہریں اور پھر کثرت اشاعت کتب و رسالہ جات و اخبارات پھر ایجادات مطبع وٹائپ وشارٹ ہینڈ وغیرہ نے کس طرح ساری دُنیا کو ایک کر رکھا ہے اور اشاعت دین کے کام کو کیسا آسان کر دیا ہے؟ اور ریل اور موٹر وغیرہ نے اونٹنیوں وغیرہ کو عملاً بے کا ر کر رکھا ہے اور خود عرب کے ملک میں بھی ریل پہنچ چکی ہے اور قریب ہے کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان بھی ریل جاری ہو کر اونٹنیوں کو جہاں تک لمبے سفروں کا تعلق ہے بالکل ہی بے کار کر دے جیسا کہ اوراکثر جگہ اس نے کر دیا ہے.در حقیقت یہ علامت اس زمانہ میں اس صفائی کے ساتھ پوری ہوئی ہے کہ کسی عقلمند کے نزدیک کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی.فالحمد اللہ علی ذالک.اسی 143
طرح اس زمانہ میں دنیوی علوم کی بھی جو کثرت ہے اس کی مثال کسی پہلے زمانہ میں نہیں ملتی.اور یا درکھنا چاہئیے کہ ضرور تھا کہ مسیح موعود کی بعثت کیلئے کوئی ایسا ہی زمانہ منتخب کیا جاتا کیونکہ مسیح موعود کا زمانہ اشاعت دین کا زمانہ ہے.پس اسکے زمانہ میں اشاعت کے سامانوں کا مہتا ہونا از بس ضروری تھا تاوہ اور اسکی جماعت آسانی کے ساتھ فرض تبلیغ ادا کر سکے.دوسری علامت دوسری علامت مسیح موعود کے زمانہ کی یہ بتائی گئی تھی کہ اس زمانہ میں صلیبی مذہب کا بڑا زور ہوگا.یعنی نصاری بڑے زوروں پر ہونگے.چنانچہ علاوہ قرآنی اشارات کے حدیث شریف میں مسیح موعود کے کام کے متعلق صراحۂ آتا ہے کہ یکسر الصلیب( دیکھو بخاری و دیگر کتب حدیث) یعنی " مسیح موعود صلیب کو توڑ دے گا“.جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایسے زمانہ میں آئے گا کہ اُس وقت صلیبی مذہب بڑے زور میں ہوگا.تبھی تو وہ اس کے مقابلہ میں اٹھ کر اس کو توڑے گا.ورنہ ویسے عیسائیت کا وجود تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی تھا مگر آپ کے متعلق کسر صلیب کا لفظ نہیں آیا.پس ثابت ہوا کہ کسر صلیب سے مراد یہ ہے کہ پہلے صلیبی مذہب زوروں پر ہو اور پھر کوئی شخص اس کا زور توڑ کر اُسے اسلام کے مقابل پر مغلوب کر دے.اب دیکھ لو کہ اس زمانہ میں صلیبی مذہب کا کتنا زور ہے ،حتی کہ چاروں طرف اسی مذہب کے پیرو نظر آتے ہیں اور انہوں نے ساری دنیا میں اپنے مذہب کی تبلیغ کا عظیم الشان جال پھیلا رکھا ہے.پس ثابت ہوا کہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں مسیح موعود کو نازل ہونا چاہئیے.خود کسر صلیب کی تشریح اور تفصیل کے متعلق ہم آگے چل کر بحث کریں گے.اس جگہ صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ کی یہ ایک علامت بیان کی گئی تھی کہ اس وقت یسوعی مذہب کا زور ہوگا.چنانچہ یہ زمانہ اس علامت کو پوری طرف ظاہر کر چکا ہے.وھوالمراد.144
تیسری علامت تیسری علامت مسیح موعود کی یہ بیان کی گئی تھی کہ اُس زمانہ میں دجال کا خروج ہوگا چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ:- مَا مِنْ نَبِي إِلَّا قَدُ انْذَرَ أُمَّتَهُ الْأَعْوَرَ الْكَذَّابَ أَلَا إِنَّهُ أَغْوَرُ وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ - مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كفر وَفِي رِوَايَةٍ وَإِنَّهُ يَجِينُ مَعَهُ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فَالَّتِي يَقُولُ أَنَّهَا الْجَنَّةُ هِيَ النَّارُ - وَفِي رِوَايَةٍ إِنَّ الدَّجَالَ يَخْرُجُ وَإِنَّ مَعَهُ مَاءً وَنَارًا فَأَمَّا الَّذِي يَرَاهُ النَّاسُ مَاءً فَنَارُ تُحَرِّقُ أَمَّا الَّذِي يَرَاهُ النَّاسُ نَاراً فَمَاءُ بَارِدٌ وَعَذِّبْ وَإِنَّ الرِّجَالَ مَمْسُوحُ الْعَيْنِ عَلَيْهَا ظَفْرَةٌ غَلِيظَةٌ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرُ يَقْرَأَهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ كَاتِبِ وَغَيْرِ كَاتِبِ - وَفِي رِوَايَةٍ أَنَّ الدَّجَالَ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُمْنَى فَمَنْ اَدْرَكَهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأُعَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُوْرَةِ الْكَهْفِ فَإِنَّهَا 2 جوَارُكُمْ مِنْ فِتْنَةٍ وَفِي رِوَايَةٍ وَيَأْمُرُ السَّمَاءَ فَتَمْطَرُوَ يَأْمُرُ الْأَرْضَ فَتَنْبُتُ وَيَمُرُّ بِالْخَرِبَةِ فَيَقُولَ لَهَا أَخْرِجي كُنُوزَكِ فَتَتْبَعَهُ كُنُوزُهَا - وَفِي رِوَايَةٍ يَقُولُ الرِّجَالُ أَرَأَيْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ هَذَاثُمَّ أَحْيَيْتُهُ هَلْ تَسُكُونَ فِي الْأَمْرِ فَيَقُولُونَ لَا فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يُحْيِيهِ وَفِي رِوَايَةٍ إِنَّ مَعَهُ جَبَلُ خُبْرٍ وَنَهْرُ مَاءٍ وَفِي رِوَايَةٍ يَخْرُجُ الرِّجَالُ عَلَى حِمَارٍ أَثْمَرَمَا بَيْنَ (مشكوة كتاب الفتن وغيره ) أُذُنَيْهِ سَبْعُونَ بَاعًا - یعنی کوئی نبی نہیں گذرا جس نے اپنی امت کو یک چشم کذاب سے نہ ڈرایا ہو.145
خبر دار ہوشیار ہوکر سُن لو کہ وہ یک چشم ہے مگر تمہارا رب یک چشم نہیں.اس یک چشم دقبال کی آنکھوں کے درمیان ک ،ف ، رلکھا ہوگا اور ایک روایت میں ہے کہ وہ اپنے ساتھ جنت اور نار کی امثال لائے گا.مگر جس چیز کو وہ جنت کہے گا وہ دراصل نار ہوگی اور ایک روایت میں ہے کہ دقبال خروج کریگا ار اس کے ساتھ پانی اور آگ ہونگے.مگر وہ چیز جو لوگوں کو پانی نظر آئے گی وہ دراصل جلانے والی آگ ہوگی اور وہ جسے لوگ آگ سمجھیں گے وہ ٹھنڈا اور میٹھا پانی ہوگا اور دقبال کی ایک آنکھ بیٹھی ہوئی ہوگی اور اس پر ایک بڑا ناخنہ سا ہوگا اور اس کی آنکھوں کے درمیان کا فرلکھا ہوا ہوگا جسے ہر مومن پڑھ سکے گا خواہ وہ لکھا پڑھا ہو یا نہ ہو.اور ایک روایت میں ہے کہ دجال دائیں آنکھ سے کانا ہوگا.پس جب تم میں سے کوئی اُسے پائے تو اس پر سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے کیونکہ سورۂ کہف کی ابتدائی آیات اس کے فتنے سے تم کو بچانے والی ہونگی اور ایک روایت میں ہے کہ دجال آسمان ( یعنی بادل) کو حکم دیگا کہ پانی برساتو وہ برسائے گا اور زمین کو حکم دیا کہ ا گا تو وہ اُگائیگی اور ویرانے پر گذریگا اور اسے حکم کریگا کہ اپنے خزانے باہر نکال تو اس کے خزانے باہر نکل کر اس کے پیچھے ہو لیں گے اور ایک روایت میں ہے کہ دجال لوگوں سے کہے گا کہ دیکھوا گر میں اس شخص کو قتل کروں اور پھر زندہ کر دوں تو کیا تم میرے امر میں شک کرو گے؟ لوگ کہیں گے نہیں.پھر وہ اسے مارے گا اور پھر دوبارہ زندہ کر دیگا.اور ایک روایت میں ہے کہ اسکے ساتھ ایک پہاڑ روٹیوں کا ہوگا اور ایک نہر پانی کی ہوگی اور ایک روایت میں ہے کہ دجال ایک چمکدار گدھے پر ظاہر ہوگا اور وہ گدھا ایسا ہوگا کہ اس کے دوکانوں کے درمیان ستر ہاتھ کا فاصلہ ہوگا“.یہ دجال کی کیفیت ہے جو میں نے مشکوۃ کی مختلف روایتوں سے بطور اختصار کے جمع 146
کر کے اس جگہ درج کی ہے.اب ہم کو دیکھنا یہ ہے کہ یہ دجال کون ہے؟ اور آیا وہ ظاہر ہو گیا ہے یا نہیں.سب سے پہلے ہمیں دجال کے لفظ پر غور کرنا چاہیئے تا معلوم ہو کہ عربی زبان میں اس لفظ کے کیا معنے ہیں.سو جاننا چاہیئے کہ عربی زبان میں دجال کا لفظ چھ معنوں پر مشتمل ہے:.اوّل.دجال کے معنے کذاب یعنی سخت جھوٹے کے ہیں.دوسرے.دجال کے معنے ڈھانپ لینے والی چیز کے ہیں.کیونکہ عربی میں کہتے ہیں دجل البعیر یعنی اس نے اونٹ کے جسم پر بناء کو اس طرح ملا کہ کوئی جگہ خالی نہ رہی.چنانچہ تاج العروس میں لکھا ہے کہ دجال اسی روٹ سے نکلا ہے لِأَنَّهُ يَعُمُّ الْأَرْضَ كَمَا أَنَّ الْحِنَّاءَ يَعُمُّ الْجَسّد کیونکہ وہ زمین کو اسی طرح ڈھانپ لیگا جس طرح بناء سارے بدن کو ڈھانپ لیتی ہے.تیسرے دجال کے معنے میں سیر و سیاحت کرنے والے کے ہیں چنانچہ کہتے ہیں دَجَل الرَّجُلُ إِذَا قَطَعَ نَوَاحِيَ الْأَرْضِ سَيْراً - یعنی دجل الرجل کے الفاظ اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کسی نے تمام روئے زمین کو اپنی سیر و سیاحت سے قطع کر لیا ہو.چوتھے.دجال کے معنے بڑے مالدار اور خزانوں والے کے ہیں کیونکہ دجال سونے کو بھی کہتے ہیں.پانچویں.وقبال ایک بڑے گروہ کو بھی کہتے ہیں الَّتِي تُغَقِى الْأَرْضَ بِكَثْرَةِ أَهْلِهَا.جو اپنے افراد کی کثرت سے روئے زمین کو ڈھانک لے.چھٹے.دجال اس گروہ کو کہتے ہیں الَّتِي تَحْمِلُ الْمَتَاعَ التَّجَارَةِ جو تجارت کے اموال اُٹھائے پھرے.(دیکھوج تاج العروس وغیرہ) یہ تمام معنے لغت کی نہایت مستند اور مشہور کتاب تاج العروس میں درج ہیں.پس ان معنوں کے لحاظ سے یہ دجال کے معنے ہوئے :- 147
ایک کثیر التعداد جماعت جو تاجر پیشہ ہو اور اپنا تجارتی سامان دنیا میں اُٹھائے پھرے اور جو نہایت مالدار اور خزانوں والی ہو اور جو تمام دنیا کو اپنی سیر و سیاحت سے قطع کر رہی ہو اور ہر جگہ پہنچی ہوئی ہو اور گویا کوئی جگہ اس سے خالی نہ رہی ہو اور مذہباً وہ ایک نہایت جھوٹے عقیدہ پر قائم ہو“.اب اس کیفیت کے ساتھ اس کیفیت کو ملا ؤ جو حدیث نبوی میں بیان ہوئی ہے اور جس کا خلاصه او پر درج کیا گیا ہے تو فورا بلا تامل طبیعت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ دجال سے مغربی ممالک کی مسیحی اقوام مراد ہیں جو اس زمانہ میں تمام روئے زمین پر چھا رہی ہیں اور جن میں تمام مذکورہ بالا حالات واضح طور پر پائے جاتے ہیں.انکا یک چشم ہونا ان کی مادیت ہے جس نے ان کے دین کی آنکھ کو بند کر رکھا ہے.ہاں دنیا کی آنکھ خوب کھلی اور روشن ہے.ان کی آنکھوں کے درمیان کا فر کا لفظ لکھا ہونے سے انکا بدیہی البطلان الوہیت مسیح کا عقیدہ مراد ہے جسے ہر سچا مومن خواہ وہ خواندہ ہو یا نا خواندہ پڑھ سکتا ہے اور ان کا زمین و آسمان میں تصرفات کرنا اور خزانے نکالنا اور زندہ کرنا اور مارنا وغیرہ سے ان کے علوم جدیدہ اور سائنس وغیرہ کی طاقتوں اور سیاسی غلبہ کی طرف مجازی طور پر اشارہ ہے ورنہ از روئے حقیقت تو یہ امورسب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور ان کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا کفر ہے اور دقبال کے ساتھ جنت و دوزخ کا ہونا یہ ہے کہ جو شخص ان کے ساتھ ہو جاتا ہے اور ان کی بات مانتا ہے اور ان کے مذہب کو اختیار کرتا ہے وہ ظاہراً ایک جنت میں داخل ہو جاتا ہے گو دراصل وہ دوزخ ہوتا ہے اور جو شخص اُن کے بد خیالات سے الگ رہتا ہے اس کو ظاہراً ایک دوزخ برداشت کرنا پڑتا ہے گو دراصل وہ جنت ہوتی اور اُن کے ساتھ روٹیوں کے پہاڑ اور پانی کی نہر کا ہونا تو ایک بین چیز ہے جس کی تشریح کی ضرورت نہیں اور دجال کے گدھے سے جس کے دوکانوں کے درمیان کا فاصلہ ستر گز ہے ظاہری گدھا مراد نہیں بلکہ اس سے ریل مراد ہے جو پرانے زمانے کے سواری والے گدھوں 148
کی قائم مقام ہے اور گدھے کے کانوں سے مراد ڈرائیور اور گارڈ ہیں جو ریل کے انتہائی کناروں پر متعین ہوتے ہیں اور جھنڈی ہلاتے ہیں اور کانوں کے درمیان فاصلہ سے گویا ریل کا طول مراد ہے.جو اوسطا ستر ہاتھ کا ہوا کرتا ہے اب دیکھو کہ کسی طرح یہ تمام باتیں مغربی اقوام میں پائی جاتی ہیں اور یہ جو کہا گیا کہ دجال آخری زمانہ میں خروج کرے گا تو اس سے یہ مراد ہے کہ گو وہ پہلے سے موجود ہو گا جیسا کہ بعض احادیث میں بھی اشارہ پایا جاتا ہے مگر پہلے وہ اپنے وطن میں گویا محصور ہوگا لیکن قیامت کے قریب وہ زور کے ساتھ باہر نکلے گا اور روئے زمین پر چھا جائے گا.سو بعینہ اسی طرح ہوا کہ مغربی قو میں پہلے اپنے وطن میں سوئی پڑی تھیں مگر اب بیدار ہو کر تمام روئے زمین پر چھا گئی ہیں.یہ کہنا کہ دجال کو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک فرد واحد کی شکل میں دیکھا تھا پس وہ ایک جماعت کی صورت میں کس طرح مانا جا سکتا ہے ایک باطل شبہ ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نظارے بصورت کشف اور خواب دیکھے تھے جیسا کہ مثلاً حدیث بخاری کے الفاظ بينما أنانائِم أَطُوفُ بِالْكَعْبَۃ.یعنی ”میں نے سوتے ہوئے خواب میں کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا“ سے ظاہر ہے اور ظاہر ہے کہ خواب عموماً تاویل طلب ہوتی ہے اور اس میں کئی دفعہ ایک فرد دکھایا جاتا ہے مگر مراد ایک جماعت ہوتی ہے.مثلاً سورۃ یوسف میں مذکور ہے کہ عزیز مصر نے سات سالہ قحط کے متعلق سات ڈبلی گائیں دیکھیں جس کی تعبیر جیسا کہ حضرت یوسف نے خود بیان کیا ہے یہ تھی کہ ایک گائے ایک سال کے تمام مویشیوں بلکہ تمام جانداروں کی قائم مقام تھی.اور اس کا دبلا ہونا قحط کو ظاہر کرتا تھا اور سات دہلی گایوں کا ہونا سات سالہ قحط کو ظاہر کرتا تھا.گویا ایک گائے تمام مویشیوں کے قائم مقام کے طور پر دکھائی گئی.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال کا نظارہ ایک آدمی کی شکل میں دکھایا گیا جو خوابوں کی تصویری زبان کے عین مطابق ہے.بہر حال ہمارے اس دعوی کے دلائل کہ دجال 149
سے ایک فردمراد نہیں بلکہ ایک کثیر التعداد گر وہ مراد ہے جو اس زمانہ میں مسیحی اقوام کی صورت میں ظاہر ہوا ہے یہ ہیں :- ا.لغت میں دقبال ایک بڑی جماعت کو کہتے ہیں.پس وہ ایک فرد نہیں ہوسکتا.۲.جو فتنے دجال کی طرف منسوب کئے گئے ہیں اور جو طاقتیں اس کے اندر بیان کی گئی ہیں ان کا فرد واحد میں پایا جانا محالات عقلی میں سے ہے..دجال کی کیفیت جن الفاظ میں بیان کی گئی ہے اس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشگوئی میں مجاز اور استعارہ کا دخل ہے ورنہ نعوذ باللہ دجال میں بعض خدائی طاقتیں ماننی پڑتی ہیں.۴- دجال کی تمام کیفیات عملاً عیسائی اقوام میں پائی جاتی ہیں.۵- دجال کا فتنہ سب سے بڑا فتنہ بتایا گیا ہے اور ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ مسیحی اقوام کے مادیت اور فلسفہ نے جو فتنہ آج کل بر پا کر رکھا ہے ایسا فتنہ دین وایمان کیلئے نہ پہلے ہوا اور نہ آئندہ خیال میں آسکتا ہے اور سورہ فاتحہ کے مطالعہ سے بھی سب سے بڑا فتنہ عیسائیت کا فتنہ ہی ثابت ہوتا ہے..آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابن صیاد کے متعلق جو مدینہ کا ایک یہودی لڑکا تھا اور بعد میں مسلمان ہو گیا د قبال ہونے کا شبہ کیا تھا بلکہ حضرت عمرؓ نے آپ کے سامنے اس بات پر قسم کھائی تھی کہ یہی اللہ جال ہے اور آپ نے اس کی تردید نہیں فرمائی.(ملاحظہ ہو مشکوۃ قصہ ابن صیاد ) حالانکہ ابن صیاد میں دجال کی علامات ماثورہ میں سے اکثر بالکل مفقود تھیں.جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام بھی اس پیشگوئی کو مجازی رنگ میں سمجھتے تھے اور تمام علامات کا ظاہری اور جسمانی طور پر پایا جانا ہر گز ضروری نہ سمجھتے تھے.150
ے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دجال کے فتنے سے بچنے کیلئے سورہ کہف کی ابتدائی آیات مطالعہ کرنی چاہئیں (دیکھو مشکوۃ).اب ہم سورہ مذکورہ کی ابتدائی آیات پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں سوائے عیسائیت کے باطل خیالات کے رڈ کے اور کوئی مضمون نہیں پاتے.چنانچہ سورۃ کہف کی ابتدائی آیات یہ ہیں.الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا فَمَا لِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِن لَّدُنْهُ وَيُبَيِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا مَّا كِثِينَ فِيْهِ أَبَدًا وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللهُ وَلَدًا مَّا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ۚ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًاهِ إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا لگ صَعِيدًا جُرُزًاه یعنی ”خدا نے اپنے رسول پر ایک کتاب نازل فرمائی ہے.یہ کتاب لوگوں کو ڈرانے اور ہوشیار کرنے کیلئے اُتری ہے جو خدا کا ایک بیٹا مانتے ہیں یہ بہت بڑے فتنہ کی بات اور سراسر جھوٹ ہے.“ وغیرہ وغیرہ.(سورۃ کہف رکوع ۱) اب اس سے بڑھ کر اس بات کا کیا ثبوت ہوگا کہ دجال سے مراد یہی مسیحی اقوام ہیں جنہوں نے اس زمانہ میں غیر معمولی طور پر زور پکڑا ہے اور ساری دنیا پر چھا گئی ہیں اور اس دقبال کا دجل ان کی مادیت اور فلسفہ اور باطل عقائد ہیں.جس کی آنکھیں ہوں دیکھیں.حضرت مرزا صاحب نے اپنے مخالف مولویوں کو مخاطب کر کے ایک جگہ خوب لکھا ہے کہ نادانو ! تم دجال کو ایک عجیب الخلقت فرد سمجھ کر اس کا انتظار کر رہے ہو.مگر یہاں تمہاری آنکھوں کے سامنے وہ 151
مہیب فتنے اور فسادات ظاہر ہورہے ہیں کہ تمہارے فرضی دجال کے باپ کو بھی یاد نہ ہونگے.فافہم و تد تبر.۸.مسلم کی ایک حدیث میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تمیم داری نے دجال کو گرجے میں بندھا ہوا دیکھا تھا (یعنی بحالت کشف یا رویا ) اور اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ خبر بیان کی تھی اور پھر آپ نے یہ خبر لوگوں کو سنوائی تھی.(مسلم جلد 2 باب خروج الدجال ) پس اب دیکھ لو کہ گرجے سے نکلنے والی کونسی قوم ہے.چوٹھی علامت چوتھی علامت یہ ہے کہ یا جوج ماجوج اپنے پورے زور میں ظاہر ہونگے اور دنیا کے بیشتر اور عمدہ عمدہ حصوں پر قابو پالیں گے اور قو میں ایک دوسرے کے خلاف اُٹھیں گی.چنانچہ قرآن شریف میں آتا ہے:.على إذا فبعث يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ عَذَبٍ يَنْسِلُونَ اور دوسری جگہ آتا ہے:.(سورۃ انبیاء رکوع ۷) وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا (سورۃ کہف رکوع ۱۱) یعنی ” جب یا جوج ماجوج کھولے جائیں گے اور وہ ہر بلند مقام سے دوڑتے ہوئے آئیں گے اور قو میں ایک دوسرے کے خلاف اُٹھیں گی اور اُس وقت ایک صور پھونکا جائے گا جوان سب کو جمع کر لے گا.اسی طرح حدیث میں آتا ہے: - يَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَ مَأْجُوجَ وَهُمْ مِنْ كُلِّ 152
حَدَبِ يَنْسِلُونَ.(مشکوۃ) یعنی ”آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ یا جوج ماجوج کو اُٹھائے گا اِس حال میں کہ وہ ہر بلند جگہ سے دوڑتے پھریں گے“.اب جاننا چاہئیے کہ یا جوج ماجوج سے انگریز اور روس مراد ہیں جیسا کہ بائبل میں بھی صراحت کے ساتھ ان کا ذکر پایا جاتا ہے ( کتاب حز قیل و مکاشفہ ) اور علامات ماثورہ بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہیں.اور انگریزوں کیساتھ شمالی امریکہ کے لوگ بھی شامل ہیں کیونکہ وہ در اصل انہی کا حصہ ہیں.پہلے یہ قو میں کمزور حالت میں تھیں لیکن پھر خدا نے ان کو ترقی دی اور انہوں نے دنیا کے بیشتر حصے کو گھیر لیا اور بہت طاقت پکڑ گئے اور ان کی یہ ساری ترقی موجودہ زمانہ میں ہوئی ہے پہلے یہ حالت نہ تھی اور ان کا اور دوسری قوموں کا ایک دوسرے کے خلاف اُٹھنا تو ایک بدیہی بات ہے جس کی تفصیل کی ضرورت نہیں اور نفخ فی الصو ر سے مسیح موعود کی بعثت مراد ہے کیونکہ خدا کے مرسلین بھی ایک طور یعنی پگل کی طرح ہوتے ہیں جن کے ذریعہ خدا دنیا میں اپنی آواز کو بلند کرتا ہے اور پھر ان کے ذریعہ لوگوں کو ایک نقطہ پر جمع کر دیتا ہے.سواب بھی انشاءاللہ ایسا ہی ہوگا بلکہ ہورہا ہے مگر جس طرح پہلی رات کا چاند ا کثر لوگوں کو نظر نہیں آتا اسی طرح ہر تغیر شروع میں مخفی ہوتا ہے لیکن آہستہ آہستہ بڑھتے ہوئے چاند کی طرح روشن ہوتا چلا جاتا ہے فَتَدَبَّرُوا !! پانچویں علامت پانچویں علامت یہ بتائی گئی تھی کہ مسیح موعود کے زمانہ میں اسلام کی حالت سخت نازک ہوگی اور بے دینی کا زور ہوگا.مسلمان یہودیوں کی طرح ہو جائیں گے اور ان کے علماء کی حالت بھی ابتر ہو جائیگی اور مسلمانوں میں بہت سے اختلافات پیدا ہو جائیں گے اور ایمان دنیا سے اُٹھ جائیگا وغیرہ وغیرہ.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :.لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا مُخْرَضَبٍ 153
لاتَّبَعْتُمُوهُمْ قِيلَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى ، قَالَ فَمَنِ ؟ وَفِي رِوَايَةٍ يَذْهَبُ الصَّلِحُونَ وَيَبْقَى حُفَالَةً كَحُفَالَةِ الشَّعِيرِ أَوِ التَّمْرِ لَا يُبَالِيهِمُ اللهُ بَالَةً - وَفِي رِوَايَةٍ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلْعَمَ يُوْشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكِلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا قَالَ قَائِلُ وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ ؟ قَالَ بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرُ وَ لَكِنَّكُمُ غُتَاءِ كَغْتَاءِ السَّيْلِ وَ لَيَنْزِعَنَ اللهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ قَالَ قَائِلٌ يَارَسُوْلَ اللهِ وَمَا الْوَهْنُ - قَالَ حُبُّ الدُّنْيَا وَ كَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ وَفِي رِوَايَةٍ قَالَ يَكُونُ بَعْدِي أَعْمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهْدَايَ وَلَا يَسْتَتُونَ بَسُنَّتِي وَسَيَقُوْمُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيْطِيْنِ فِي جُثْمَانِ اِنْسِ وَفِي رِوَايَةٍ عُلَمَاءُ هُم شَرَّ مَنْ تَحْتَ ادِيمِ السَّمَاءِ - وَفِي رِوَايَةٍ وَيَرْفَعُ الْعِلْمُ وَيَكْثُرُ الْجَهْلُ وَيَكْثُرُ الزِّنَا وَيَكْثُرُ شُرْبُ الْخَمْرِ.وَفِي رِوَايَةٍ تَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِيْنِ فِرْقَةٍ كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا وَاحِدَةً وَهِيَ الْجَمَاعَةُ وَفِي رَوَايَةٍ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ فَارِسَ.( مشکوۃ کتاب الفتن واشراط الساعة وغيره) یعنی " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اے مسلمانو! تم ضرور بالضرور اپنے سے پہلے گزری ہوئی اُمتوں کے قدم بقدم چلو گے بالشت به بالشت اور دست بدست حتی کہ اگر کوئی سابقه قوم گوہ یعنی سوسمار کے سوراخ میں بھی داخل ہوئی ہو گی تو تم بھی ایسا ہی کرو گے عرض کیا گیا یا رسول اللہ! کیا پہلی اُمتوں سے یہود نصاریٰ مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا : وہ نہیں تو اور کون ؟ اور ایک روایت میں آتا ہے کہ صلحاء گذر جائینگے اور صرف بھوسہ رہ جائے گا.جس طرح جو یا کھجور کا بھوسہ ہوتا ہے اور اللہ ایسے لوگوں کی بالکل پرواہ نہ کریگا اور ایک روایت یوں آتی ہے کہ قریب ہے کہ تمہارے خلاف دوسری اُمتیں ایک دوسرے کو مدد کیلئے بلائیں جس طرح کھانے والا اپنے 154
برتن کی طرف دوسروں کو دعوت دیتا ہے یعنی تم دوسروں کی خوراک بن جاؤ گے اور وہ ایک دوسرے کو تم پر دعوت دینگے.ایک شخص نے عرض کیا.یا رسول اللہ.کیا ہم اس دن تھوڑے ہوں گے؟ اور اس قلت کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہوگا ؟ فرمایا نہیں بلکہ تم اس دن کثیر ہو گے لیکن تم اس جھاگ کی طرح ہو گے جو سیلاب کے بعد ایک برساتی نالے کے کنارے پر پائی جاتی ہے.یعنی نہایت درجہ رڈی اور غیر مفید حالت میں ہو گے اور اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رُعب مٹا دیگا اور تمہارے دلوں میں کمزوری ڈال دیگا.عرض کیا گیا کہ کمزوری سے کیا مراد ہے؟ فرمایا.دنیا کی محبت اور موت کا ڈر.یعنی بزدلی کیوجہ سے نیک کاموں سے رُک جانا اور ایک روایت میں یہ ہے کہ میرے بعد ایک زمانہ میں ایسے علماء پیدا ہوں گے جو میری ہدایت سے ہدایت نہ پائیں گے اور میری سنت پر کار بند نہ ہوں گے اور میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کے دل شیطانوں کے دل ہونگے گوجسم انسانوں کے سے ہوں گے اور ایک روایت اس طرح پر آئی ہے کہ میری امت کے علماء کی یہ حالت ہوگی کہ وہ آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے اور ایک روایت میں یوں ہے کہ علم اُٹھ جائے گا اور جہالت کی کثرت ہوگی اور زنا اور شراب خوری کی بھی کثرت ہوگی اور ایک روایت میں یہ ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں مسلمانوں کی حالت ایسی ہوگی کہ تعداد میں تو کثرت ہوگی مگر دل ٹیڑھے ہو نگے.یعنی نہ ایمان درست ہوگا اور نہ اعمال.اور ایک روایت اس طرح پر آئی ہے کہ میری امت تہتر فرقوں میں منقسم ہو جائے گی جو سب آگ کے رستہ پر ہونگے سوائے ایک کے اور وہ جماعت والا فرقہ ہوگا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ ایمان دنیا سے اُٹھ جائے گا لیکن اگر وہ ثریا پر بھی چلا گیا یعنی دنیا سے بالکل ہی مفقود ہو گیا تو پھر بھی ایک فارسی الاصل شخص اُسے واپس اُتار لائے گا“.یہ وہ نقشہ ہے جو سرور کائنات نے اپنی امت کے اس آخری گروہ کا کھینچا ہے جس میں مسیح موعود کی بعثت مقدر ہے اب ناظرین خود دیکھ لیں کہ آیا اس زمانہ میں مسلمانوں کی حالت اس 155
نقشہ کے مطابق ہے یا نہیں؟ ہم دعویٰ کے ساتھ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی ایسا زمانہ نہیں آیا کہ جب مسلمانوں کی حالت دینی لحاظ سے ایسی پست اور خراب ہوئی ہو جو اس زمانہ میں ہے اور یہ ایسی بات ہے جس پر کسی دلیل کے لانے کی ضرورت نہیں.اعمال میں شست ہونے کے علاوہ اعتقادات میں بھی وہ اندھیر ہے کہ مسلمانوں کے بہتر (72) فرقے ہورہے ہیں جو ایک دوسرے سے عقائد میں سخت مخالف ہیں اور تو اور خود ذات باری تعالیٰ کی صفات کے متعلق بھی بھاری اختلاف ہو رہا ہے.پھر ایمان کا یہ حال ہے کہ نناوے فیصدی مسلمان ایسے ہوں گے کہ جن کے دلوں سے ایمان کلی طور پر پرواز کر چکا ہے.وہ منہ سے تو اقرار کرتے ہیں کہ خدا ہے مگر دراصل دل میں خدا کے منکر ہیں اور در پردہ دہریت کا شکار ہو چکے ہیں.صرف اعتقادی اور زبانی طور پر کہتے ہیں کہ خدا ہے لیکن ذرا گرید کر پوچھو تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا کی ذات کے متعلق سینکڑوں شبہات میں مبتلا ہیں.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات کے متعلق بھی اُن کا ایمان کسی مستحکم برا مینی چٹان پر قائم نہیں بلکہ محض جذباتی رنگ کا ہے اور بعث بعد الموت ، جزاء سزا اور فرشتوں کا وجود تو بالکل ہی وہمی قرار دیا گیا ہے.پھر عبادت کی وہ راہیں جن پر قدم مارنے سے پہلوں نے خدا کے در بار تک رسائی حاصل کی تھی حقارت اور استخفاف کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں.شرک جس کے خلاف سارا قرآن شریف بھرا پڑا ہے مسلمانوں کی حرکات وسکنات سے کھلے طور پر ظاہر ہورہا ہے.روپے سے محبت کی جاتی ہے اور اس پر وہ بھروسہ کیا جاتا ہے جو خود ذات باری تعالیٰ کے شایانِ شان ہے.قبروں پر جا کر سجدے کئے جاتے ہیں.شراب خوری، زنا کاری ، قمار بازی اور حرام خوری کا میدان گرم ہے.سود جس کے متعلق کہا گیا کہ اسے لینے دینے والا خدا تعالیٰ سے جنگ کرنے کو تیار ہو جائے شیر مادر کی طرح سمجھا گیا ہے مسلمانوں کی تمام سلطنتیں کمزور ہو کر کھوکھلی ہوچکی ہیں اور مسیحی 156
حکومتیں ان کو اپنا شکار سمجھتی ہیں.دوسری طرف اسلام کا وجود خود بیرونی حملوں کا اس قدر شکار ہو رہا ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ بس یہ آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں.نبیوں کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گندے سے گندے اعتراض کئے جاتے ہیں.آپ کی ازواج مطہرات کو مختلف قسم کے الزامات کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسلامی تعلیم کو ایک نہایت بد نما شکل میں پیش کر کے اس پر ہنسی اڑائی جاتی ہے.صلیبی مذہب پورے زور پر ہے اور دہریت اپنے کو ایک خوبصورت شکل میں پیش کر رہی ہے.غرض اسلام کی کشتی ایک ایسے طوفانِ بے تمیزی کے اندر گھری ہوئی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ اس کے بچانے کیلئے نہ بڑھے اس کا کنارے پر پہنچنا ناممکنات میں سے ہے.علماء جن کا فرض تھا کہ ایسے وقت میں اسلام کی مدد کیلئے کھڑے ہوتے خواب غفلت میں پڑے سوتے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ خود ہزاروں بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ان کے ایمانوں کی حالت ایسی ابتر ہو چکی ہے کہ الامان ! چند پیسوں پر ایمان فروشی کو تیار ہو جاتے ہیں.یہ تمام حالات پکار پکار کر بتا رہے ہیں کہ یہی وہ زمانہ ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ڈرایا تھا اور یہی وہ وقت ہے جس میں اسلام کے عظیم الشان مجبد دمسیح اور مہدی کی آمد مقدر ہے کیونکہ اگر ایسی اشد ضرورت کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مصلح ظاہر نہ ہو تو پھر نعوذ باللہ خدا کا وہ وعدہ غلط ٹھہرتا ہے کہ میں قرآن اور اسلام کی حفاظت کرونگا اور دین کی خدمت کیلئے خلفاء اور مجبد دین کھڑے کرتارہوں گا.چھٹی علامت چھٹی علامت مسیح و مہدی کی یہ بیان کی گئی تھی کہ اس کے زمانہ میں معینہ تواریخ میں چاند اور سورج کو گرہن لگے گا.چنانچہ امام محمد باقر سے روایت آتی ہے کہ :- إِنَّ لِمَهْدِينَا ايَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ يَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لِاَوَّلِ لَيْلَةٍ مِّنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي 157
النِّصْفِ مِنْهُ.( الدار قطنی جلد اوّل صفحہ ۱۸۸) یعنی ”ہمارے مہدی کیلئے دو نشان مقرر ہیں اور جب سے کہ زمین اور آسمان پیدا ہوئے ہیں یہ نشان کسی اور مامور کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے.ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہدی معہود کے زمانہ میں رمضان کے مہینے میں چاند کو اس کی پہلی رات میں گرہن لگے گا ( یعنی تیرھویں تاریخ میں کیونکہ چاند کے گرہن کیلئے خدائی قانونِ قدرت میں تیرھویں اور چودھویں اور پندرھویں تو اریخ مقرر ہیں جیسا کہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں ) اور سورج کو اس کے درمیانی دن میں گرہن لگے گا (یعنی اسی رمضان کے مہینہ میں اٹھائیس تاریخ کو کیونکہ سورج گرہن کیلئے قانونِ قدرت میں ستائیس ، اٹھائیں اور انتیس تواریخ مقرر ہیں ) اب تمام دنیا جانتی ہے کہ اسلاھ مطابق ۱۸۹۴ء میں یہ نشانی نہایت صفائی کے ساتھ پوری ہو چکی ہے.یعنی اسی ادھ کے رمضان میں چاند کو اس کی راتوں میں سے پہلی رات میں یعنی تیرھویں تاریخ کو گرہن لگا اور اسی مہینہ میں سورج کو اس کے دنوں میں سے درمیانی دن یعنی اٹھائیس تاریخ کو گرہن لگا اور یہ نشان دو مرتبہ ظاہر ہوا.اوّل اس نصف کرہ زمین میں اور پھر امریکہ میں اور دونوں مرتبہ انہی تاریخوں میں ہوا جن کی طرف حدیث اشارہ کرتی ہے.اور یہ نشانی صرف حدیث ہی نے نہیں بتائی بلکہ قرآن شریف نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے جیسا که فرمایا :- وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ - (سورۃ القیامہ رکوع ۱) یعنی ”چاند کو گرہن لگے گا اور اس گرہن میں سورج بھی چاند کے ساتھ شامل ہوگا.یعنی اُسے بھی اسی مہینہ میں گرہن لگے گا.اب دیکھو کس صفائی کے ساتھ یہ علامت پوری ہو کر ہمیں بتا رہی ہے کہ یہی وہ وقت ہے 158
جس میں مہدی کا ظہور ہونا چاہیئے کیونکہ جو اس کے ظہور کی علامت تھی وہ پوری ہو چکی ہے.بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ حضرت امام محمد باقر تک پہنچ کر رک جاتی ہے.دوسرے یہ کہ اس میں چاند گرہن رمضان کی اوّل رات میں اور سورج گرہن رمضان کے وسط میں بیان کیا گیا ہے.حالانکہ عملاً چاند کا گرہن تیرہویں میں اور سورج کا گرہن اٹھائیسویں میں ہوا تھا؟ ان اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ بے شک یہ حدیث ظاہراً موقوف ہے لیکن محدثین کے اصول کے مطابق یہ روایت حکماً مرفوع ہی ہے.پھر یہ بھی تو دیکھو کہ راوی کون ہے؟ کیا وہ اہل بیت نبوی کا درخشندہ گوہر نہیں ؟ اور یہ بات بھی سب لوگ جانتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت کا یہ طریق تھا کہ بوجہ اپنی ذاتی وجاہت کے وہ سلسلہ حدیث کو نام بنام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچانا ضروری نہیں سمجھتے تھے.یہ عادت اُن کی شائع اور متعارف ہے اور بہر حال یہ حدیث ہم نے نہیں بنائی بلکہ آج سے تیرہ سوسال پہلے کی ہے.دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ چاند کو مہینے کی پہلی تاریخ میں اور سورج کو وسط میں گرہن لگنا سنت اللہ اور قانون قدرت کے خلاف ہے.قانونِ قدرت نے جو خدا کا بنایا ہوا قانون ہے چاند کے گرہن کو قمری مہینے کی تیرھویں، چودھویں ، اور پندرھویں میں اور سورج کے گرہن کو ستائیسویں، اٹھائیسویں اور انتیسویں میں محدود کر دیا ہے.پس پہلی تاریخ سے ان تاریخوں میں سے پہلی اور درمیانی تاریخ سے ان تاریخوں میں سے درمیانی مراد ہے نہ کہ مطلقاً مہینہ کی پہلی اور درمیانی تاریخ.اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ مہینے کی ابتدائی راتوں کا چاند عربی زبان میں ہلال کہلاتا ہے مگر حدیث میں قمر کا لفظ رکھا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں ابتدائی رات مراد نہیں.علاوہ ازیں ہمیشہ سے مسلمان علماء ان تاریخوں کے متعلق یہی تشریح کرتے رہے ہیں جو ہم نے اس جگہ کی ہے.چنانچہ اس زمانہ میں بھی مولوی محمد صاحب لکھو کے والے نے اس نشان کے ظاہر ہونے سے پہلے لکھا تھا کہ :- 159
تیرھویں چند ستیہویں سورج گرہن ہوسی اس سالے اندر ماہ رمضانے لکھیا ایہہ ایک روایت والے اس شعر میں مولوی صاحب نے غلطی سے اٹھائیسویں تاریخ کی جگہ ستائیسویں تاریخ لکھ دی ہے مگر بہر حال اصول وہی تسلیم کیا ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ واقعات نے بھی اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ پہلی تاریخ سے تیرھویں تاریخ اور درمیانی تاریخ سے اٹھائیسویں تاریخ مراد ہے.الغرض یہ نشان ایسا واضح طور پر پورا ہوا کہ کسی حیلہ و جنت کی گنجائش باقی نہیں رہی.چنانچہ معتبر ذرائع سے سنا گیا ہے کہ جب یہ نشان پورا ہوا تو بعض مولوی صاحبان اپنی رانوں پر ہاتھ مارتے تھے اور کہتے تھے کہ اب خلقت گمراہ ہوگی.اب خلقت گمراہ ہوگی.“ یہ بھی عُلماءُ هُمُ شَرٌّ مَنْ تَحْت أَدِيمِ السَّمَاءِ ( یعنی مسیح موعود کے وقت میں علماء دنیا کی بدترین مخلوق ہونگے ) کی ایک واضح مثال ہے کہ ادھر خدا کا نشان ظاہر ہورہا ہے اور ادھر مولوی صاحبان کو یہ غم کھائے جارہا ہے کہ یہ نشان کیوں ظاہر ہوا کیونکہ لوگ اس سے ہمارے پھندے سے نکل کر مرزا صاحب کو ماننے لگ جاویں گے.افسوس ! صد افسوس !! اے بد بخت فرقہ مولویان ! تم نے کثیر التعداد سادہ لوح مخلوق خدا کو گمراہ کر دیا.تمہارے بہکانے میں آکر لوگوں نے دیکھتے ہوئے نہ دیکھا اور سنتے ہوئے نہ سنا اور سمجھتے ہوئے نہ سمجھا.خدا سے ڈرو کہ ایک دن اس کے سامنے کھڑے کئے جاؤ گے.ساتویں علامت 66 ساتویں علامت یہ بتائی گئی تھی کہ مسیح موعود کے زمانہ میں دابتہ الارض کا خروج ہوگا جو لوگوں کو کاٹے گا اور مومن و کافر میں امتیاز کر دے گا اور ملک میں چکر لگائے گا.چنانچہ قرآن 160
شریف میں بھی اس کا ذکر موجود ہے جہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمُ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةٌ مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِأَيْتِنَا لا يُوقِنُونَ (سوره نمل رکوع ۶ آیت ۸۳) یعنی ” جب ( مسیح موعود کے بھیجنے سے ) خدا کی حجت اُن پر پوری ہو جائے گی تو ہم زمین میں سے ایک جانور نکالیں گے جولوگوں کو کاٹے گا اور انہیں زخمی کر دیگا.یہ اسلئے ہوگا کہ لوگ خدا کے نشانوں پر ایمان نہیں لائینگے“.پھر احادیث میں بھی کثرت کیسا تھ قرب قیامت کی علامت میں دابتہ الارض کا ذکر پایا جاتا ہے.(دیکھو بخاری و مسلم ) اور یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ایک کیٹر اخروج کر یگا جو ملک میں چکر لگائے گا اور مومنوں اور کافروں میں امتیاز کرتا جاوے گا.اب دیکھ لو کہ طاعون نے حضرت مرزا صاحب کے زمانے میں ظاہر ہو کر اس علامت کو کس وضاحت کے ساتھ پورا کر دیا ہے.یہ بات مسلم ہے کہ طاعون کی بیماری ایک کیڑے سے پیدا ہوتی ہے اور دابتہ الارض کے معنے بھی ایک زمینی کیڑے کے ہیں چنانچہ قرآن شریف میں دوسری جگہ آتا ہے دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ ( سورۃ سبا رکوع ۲) یعنی ” ایک زمینی کیڑا حضرت سلیمان کے عصا کو کھاتا تھا.اسجگہ سب مفسرین دابتہ کے معنے کیڑے کے کرتے ہیں پس کوئی وجہ نہیں کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہونے والے دابتہ الارض سے کیڑے کے سوا کوئی اور معنے لئے جاویں اور دوسری روایات میں جو اس دابتہ کی علامات وارد ہوئی ہیں وہ مجاز اور استعارہ کے طور پر ہیں اور حق یہی ہے کہ طاعون ہی دابتہ الارض ہے جس نے مسیح موعود کے وقت میں ظاہر ہو کر حق و باطل میں امتیاز کر دیا ہے.واقعی اس نے منکروں کے ماتھے پر بھی ایک نشان لگایا اور مومنوں کے ماتھے پر بھی ایک نشان لگا یا اور اس طرح دونوں جماعتوں کو ممتاز کر دیا.یہ ایک بین حقیقت ہے کہ جو ترقی احمد یہ جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں 161
طاعون کے ذریعہ سے ہوئی ہے وہ اور کسی ذریعہ سے نہیں ہوئی.اس بیماری نے حضرت مرزا صاحب کے مخالفوں کو چن چن کر لیا ہے اور دوسری طرف حضرت مرزا صاحب اور آپ کے حواری اس کے اثر سے گویا بالکل محفوظ رہے.پس یہی وہ سفید و سیاہ نشان ہیں جو دابتہ الارض نے لگائے ہیں.جن ایام میں ملک میں طاعون کا زور تھا ان دنوں میں بعض اوقات ایک ایک دن میں کئی کئی سو آدمیوں کی بیعت کی درخواست حضرت مرزا صاحب کے پاس پہنچتی تھی اور لوگ بدحواسوں کی طرح آپ کی طرف دوڑے آتے تھے.یہ ایک عجیب منظر ہے کہ ابتدائی چند سالوں میں احمدیوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہوئی لیکن طاعون یعنی دابتہ الارض کے خروج یعنی ۱۹۰۰ ء کے بعد سے دیکھتے ہی دیکھتے احمد یہ جماعت کا شمار ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں تک پہنچ گیا.فَالْحَمْدُ لِلهِ عَلَى ذَالِكَ.یہ کہنا کہ طاعون میں بعض احمدی بھی فوت ہو گئے ایک جہالت کا اعتراض ہے کیونکہ اول تو مقابلہ نظر ڈالنی چاہئیے کہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں طاعون کی وارداتوں میں کیا نسبت رہی ہے؟ دوسرے کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں مسلمان شہید نہ ہوتے تھے ؟ حالانکہ یہ غزوات کا فروں کیلئے ایک عذاب الہی تھے.پس دیکھنا یہ چاہئیے کہ طاعون کے ذریعہ سے کس جماعت نے ترقی کی اور کس کو نقصان پہنچا ہے اور جو شاز و نادر وارداتیں احمدیوں میں ہوئی ہیں وہ شہادتیں ہیں جو خدا نے ہمارے بعض بھائیوں کو نصیب کی ہیں.مگر پھر بھی جماعت کے سر کردہ لوگ اور خاص مقتر بین طاعون کے اثر سے بالکل محفوظ رہے لیکن مخالفوں میں سے کئی لوگ جو مخالفت میں اول نمبر پر تھے اس بیماری کا شکار ہو گئے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس بیماری نے احمد یہ جماعت کو ایک فوق العادت ترقی دی اور دشمنوں کی تعداد کم ہوئی اور ہماری تعداد بڑھی.غرض دابتہ الارض ظاہر ہو کر اپنا کام کر گیا.اب خواہ خدا کے حضور رؤو اور چلاؤ اور دُعاؤں میں اپنی ناکیں گھسو کوئی اور دابتہ الارض تمہاری مرضی کے مطابق ظاہر نہیں ہوگا.کیونکہ جو ظاہر ہونا 162
تھا وہ ہو چکا.ہاں تمہارے دماغوں میں جہالت اور خود پسندی کا ایک دابہ ضرور مخفی ہے جو تمہیں کھا رہا ہے خدا کرے کہ وہ بھی خروج کرے تا تمہیں کچھ چین آوے.آٹھویں علامت آٹھویں علامت یہ ہے کہ مسیح موعود دمشق کے شرقی طرف ایک سفید منارے کے پاس نازل ہوگا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِ دِمَشْقَ - ( کنز العمال جلدے) یعنی در مسیح موعود دمشق کے مشرقی جانب سفید منارہ کے پاس نازل ہوگا.اس علامت کے متعلق پہلے یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مسیح موعود آسمان سے نازل نہیں ہوگا بلکہ وہ اسی امت کا ایک فرد ہے.پس منارہ پر نازل ہونے کے یہ معنے نہیں ہو سکتے که مسیح موعود واقعی آسمان کی طرف سے کسی مناہ پر نازل ہوگا اور پھر منارہ سے نیچے اُتر یگا.دوسرے یہ کہ اس حدیث میں یہ نہیں کہا گیا کہ منارہ کے اوپر سے اترے گا بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ منارہ کے پاس اُترے گا.یعنی وہ ایسی حالت میں اتریگا کہ سفید منارہ اس کے پاس ہوگا اور ان دونوں میں بھاری فرق ہے.اسکے بعد جاننا چاہئیے کہ قادیان صوبہ پنجاب ملک ہند جو حضرت مرزا صاحب کا وطن ہے ٹھیک دمشق کے مشرق میں واقع ہے.یعنی وہ دمشق کے عین مشرق کی طرف اسی عرض بلد میں واقع ہے جس میں کہ دمشق ہے.پس دمشق کے مشرق والی بات میں تو کوئی اشکال نہ ہوا.اب رہا منارہ کا لفظ سو اس سے مراد یہ ہے کہ مسیح موعود کا نزول ایسے زمانہ میں ہوگا کہ اس وقت وسائل رسل و رسائل اور میل جول کی کثرت یعنی انتظام ریل و جہاز و ڈاک و تار و مطبع وغیرہ کی وجہ سے تبلیغ و اشاعت کا کام ایسا آسمان ہوگا کہ گو یا شخص ایک منارہ پر کھڑا ہوگا اور یہ کہ 163
اس کی آواز دُور دُور تک پہنچے گی اور اس کی روشنی جلد جلد دنیا میں پھیل جائے گی.جیسا کہ منارہ کی خاصیت ہے.گویا کہ مراد یہ نہیں کہ مسیح موعود کا نزول منارہ کے اوپر ہوگا بلکہ مراد یہ ہے کہ مسیح موعود اس حالت میں مبعوث ہوگا کہ سفید منارہ اس کے پاس ہوگا.یعنی اشاعت دین کے بہترین ذرائع اُسے میسر ہونگے اور ان معنوں میں مشرق کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ مسیح موعود کا سورج اپنے افق مشرق سے بہترین حالات کے ماتحت طلوع کریگا اور اس کی کرنیں جلد جلد اکناف عالم میں پھیل جائیں گی.نیز منارے کے لفظ سے یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ جس طرح ایک چیز جو بلندی پر ہو وہ سب کو نظر آجاتی ہے اور دُور دُور کے رہنے والے بھی اسے دیکھ لیتے ہیں اسی طرح مسیح موعود کا قدم بھی ایک منارہ پر ہو گا اور وہ ایسے روشن اور بین دلائل کے ساتھ ظاہر ہوگا کہ اگر لوگ خودا پنی آنکھیں نہ بند کر لیں اور اس کی روشنی کو دیکھنے سے منہ نہ پھیر لیں تو وہ ضرور تمام دیکھنے والوں کو نظر آجائے گا کیونکہ وہ ایک بلند مقام پر ہوگا.پس یہ پیشگوئی استعارہ میں ایک نہایت لطیف کلام پر مشتمل ہے جس کی حقیقت کو سمجھا نہیں گیا.منارہ کے ساتھ سفید کا لفظ بڑھانے میں بھی ایک حکمت ہے اور وہ یہ کہ گو ہر منارہ دُور سے نظر آتا ہے لیکن اگر وہ سفید ہوتو پھر تو خصوصیت کے ساتھ وہ زیادہ چمکتا اور دیکھنے والوں کی نظر کو اپنی طرف زیادہ کھینچتا ہے یا سفید کا لفظ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ مسیح موعود کی بلندی بے عیب ہوگی یعنی یہ نہیں ہو گا کہ وہ کسی دنیاوی وجاہت وغیرہ سے ایک بلند مقام پر ہوگا بلکہ اُس کی بلندی خالص طور پر روحانی ہوگی اور اسی مقدس صورت میں وہ لوگوں کو نظر آئے گا بشرطیکہ لوگ تعصب اور ظلمت پسندی کی وجہ سے اپنی آنکھیں خود نہ بند کر لیں.اس کی ظاہر مثال یوں ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کوٹھڑی کی کھڑکیاں بند کر کے اندر بیٹھ جائے تو باوجود اس کے کہ سورج چڑھا ہوا ہو اس کے کمرہ کے اندر اندھیرا ہی رہے گا.مگر اس میں سورج کا کوئی قصور نہیں.اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے دل کی کھڑکیاں بند کر لے تو روحانی سورج اُسے کس طرح روشنی پہنچا سکتا ہے؟ حضرت مرزا صاحب 164
اس علامت کے پورا ہونے کا اپنے ایک شعر میں یوں ذکر فرماتے ہیں.از کلمه مناره شرقی عجب مدار چون خود ز مشرق است است تحتی نه محلی نیرم یعنی روایات میں جو شرقی منارہ کا ذکر آتا ہے اس کی وجہ سے حیرانی میں نہ پڑو.کیونکہ میرے سورج کا طلوع بھی مشرق ہی سے ہوا ہے“.نویس علامت نویں علامت یہ ہے کہ حدیث میں مسیح موعود کا معتین حلیہ بتایا گیا ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :.بَيْنَمَا أَنَا نَائِمُ أَطُوْفُ بِالْكَعْبَةِ فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ سَبْطُ الشَّعْرِ يَنْطُفُ اَوْيُهَرَاقُ رَأْسُه مَاءً فَقُلْتُ مَنْ هَذَا قَالُوا ابْنُ مَرْيَمَ ثُمَّ ذَهَبْتُ الْتَفَتُ فَإِذَا رَجُلٌ جَسِيمُ أَحْمَرُ جَعْدُالرَّأْسِ أَعْوَرُ الْعَيْنِ كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا قَالُوا هَذَا الرِّجَالُ - نیز فرماتے ہیں:.(صحیح بخاری جلد دوم کتاب بد اخلق ) يَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقٍ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْدُوْدَتَيْنِ وَاضِعاً كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَذَرَمِنْهُ مِثْلُ مَانٍ كَالْلُؤْلُو فَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ مِنْ رِيحِ نَفْسِهِ الامات ( صحیح مسلم جلد دوم) یعنی ”میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کعبہ کا طواف کر رہا ہوں کہ ناگاہ ایک 165
آدمی میرے سامنے آیا.اس کا رنگ گندم گوں تھا اور بال سیدھے اور لمبے تھے اور اس کے سر سے پانی کے قطرے ٹپکتے تھے.میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو مجھے بتایا گیا کہ یہ ابن مریم ہے پھر اس کے بعد میں نے ایک جسیم آدمی دیکھا جو سرخ رنگ کا تھا اور اس کے بال گھنگر الے تھے اور وہ ایک آنکھ سے کانا تھا.گویا کہ اس کی ایک آنکھ انگور کے دانے کی طرح پھولی ہوئی تھی.مجھے بتایا گیا کہ یہ دجال ہے.اور ایک حدیث میں یوں آیا ہے کہ مسیح موعود دمشق سے مشرق کی طرف سفید منارے کے پاس نازل ہو گا اس حال میں کہ وہ دوز رد چادروں میں لپٹا ہوا ہوگا اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے ہونگے.جب وہ اپنا سر جھکائے گا تو اس سے پانی کے قطرے گریں گے اور جب سر کو اٹھائے گا تو اس سے موتی جھڑیں گے اور ہر کا فرجس تک اس کا سانس پہنچے گا مر جائے گا.“ سیہ وہ حلیہ ہے جو احادیث میں مسیح موعود کا بیان ہوا ہے.اب دیکھ لو کہ کس صفائی کے ساتھ یہ حلیہ حضرت مرزا صاحب میں پایا جاتا ہے.دنیا جانتی ہے کہ آپ کا رنگ گندم گوں تھا.آپ کے بال پشم کی طرح نرم اور سیدھے اور لمبے تھے اور سید ھے بھی ایسے کہ ایک ایک بال ریشم کی تار کی طرح الگ الگ نظر آتا تھا.پھر آپ دو زرد چادروں میں لیٹے ہوئے مبعوث ہوئے تھے.یعنی دو بیماریاں آپ کو لاحق تھیں اور دعوئی مسیحیت سے لیکر یومِ وصال تک لاحق رہیں.چنانچہ حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:.دو مرض میرے لاحق حال ہیں.ایک بدن کے اوپر کے حصہ میں اور دوسری بدن کے نیچے کے حصہ میں.اوپر کے حصہ میں دورانِ سر ہے اور نیچے کے حصہ میں کثرت پیشاب ہے اور یہ دونوں مرضیں اس زمانہ سے ہیں جس زمانہ سے میں نے اپنا دعویٰ مامور من اللہ ہونے کا شائع کیا ہے.میں نے ان کیلئے دُعائیں بھی کیں.مگر منع میں جواب پایا.(حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۰۷) 166
یہ بات کہ زرد کپڑے سے عالم رویا میں بیماری مراد ہوتی ہے ایک ایسا تین امر ہے کہ کسی تشریح کی ضرورت نہیں.( مثلاً دیکھو تعطیر الا نام جلد ۲ صفحہ ۴۱).حدیث کے باقی مانده امور کے مسیح موعود کے دم سے کا فرمریں گے اور سر سے قطرے اور موتی جھڑیں گے وغیرہ اس کے متعلق ہم علامات کی بحث کے اختتام پر ایک نوٹ درج کریں گے کیونکہ یہ باتیں حلیہ کا حصہ نہیں بلکہ عام علامات کا حصہ ہیں.نزول مسیح کے متعلق ایک زبر دست پیشگوئی اب جبکہ حضرت مسیح ناصری کی وفات اور مسیح و مہدی کے نزول کی علامات کی بحث مکمل ہو چکی ہے اس لئے اگلی بحث ( یعنی دسویں علامت کا بیان ) شروع کرنے سے قبل حضرت مرزا صاحب کا ایک حوالہ درج کرنا ضروری ہے جس میں حضرت مرزا صاحب نے مسیح ناصری کی وفات اور نزول کے عقیدہ کے متعلق ایک زبر دست پیشگوئی فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں:.”اے تمام لو گوئن رکھو کہ یہ اُس خدا کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور محبت اور برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر ان کی اولا د جو باقی رہے گی وہ بھی مریگی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی اور پھر اولاد کی اولا د مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گذر گیا اور دُنیا 167
دوسرے رنگ میں آگئی.مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب سب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سب سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑ دیں گے اور دُنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.“ ( تذکرۃ الشہادتین صفحه ۶۵، ۶۴ ، روحانی خزائن جلد 6) 168
مسیح موعود کا کام دسویں علامت مسیح موعود کی دسویں علامت یہ بتائی گئی تھی کہ وہ صلیب کو تو ڑیگا اور خنزیر کو مار لگا اور د قبال کو قتل کرے گا اور اسلام کو دوسرے مذاہب پر غلبہ بخشے گا.حتی کہ آفتاب مغرب سے طلوع کریگا اور مسیح موعود تمام اختلافات میں سچا سچا فیصلہ کرے گا اور کھویا ہوا ایمان پھر دُنیا میں قائم کرے گا اور کثرت کے ساتھ اموال تقسیم کرے گا مگر لوگ اس کے مال کو قبول نہیں کریں گے.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:- واللهِ لَيَنْزِلَنَ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَماً عَدْلاً فَيَكْسِرَنَ الصَّليب وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ وَلَيَضَعْنَ الْجُزْيَةَ وَلَتُتْرَكَنَ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا وَلَتَذْهَبَنَّ الشَّحَنَاءُ وَالتَّبَاغُضُ وَالتَّحَاسُدُ وَلَيَدُعُونَ إِلَى الْمَالِ فَلَا يَقْبَلُهُ أَحَدٌ (صحيح مسلم ) وَفِي رِوَايَةٍ يُفِيْضُ الْمَالَ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ ( صحیح بخاری) اور قتل دجال کے متعلق روایت ہے جس کا فارسی ترجمہ یہ ہے کہ :.قبال چوں نظر بعیسی کند بگدازد.چنانچه نمک در آب بگرد از دو بگریزد (حج الکرامہ مصنفہ نواب صدیق حسن خان آف بھوپال سرگر وہ فرقہ اھل حدیث ) فَيَطْلُبَهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُةٍ فَيَقْتُلَهُ - (صحیح مسلم) فَفِي رِوَايَةٍ وَتَطْلَعُ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِيهَا - (مَثَلُوة ) وَفِي رِوَايَةٍ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عند التريَّا لَنَا لَهُ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ أَى أَبْنَاءِ فَارِسَ) 169
( صحیح بخاری) وَقَالَ اللهُ تَعَالَى هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِةَ المُشْرِكُونَ.(مسلم ،مشکوۃ ، بخاری سورۃ تو به رکوع ۵) یعنی ”خدا کی قسم ! تم میں ابن مریم ضرور ضرور نازل ہوگا.اور وہ تمہارے اختلافات میں سچا سچا فیصلہ کرے گا (یعنی روایات یا عقائد یا اعمال وغیرہ میں جو اختلافات پیدا ہو چکے ہونگے اُن میں مسیح موعود سچ سچا فیصلہ کر یگا ) اور وہ ضرور صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا اور جزیہ کو موقوف کر دیگا (اور اس کی تشریح میں بخاری کی ایک روایت ہے کہ وہ جنگ کو موقوف کر دیگا ) اور اس کے زمانہ میں سواری کی اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی یعنی ان پر سفری سواری نہیں ہوگی (اور اس کے ماننے والوں میں ) کینہ اور بغض اور حسد جاتا رہے گا ( اور مسیح موعودلوگوں کو مال کی طرف بلائے گا مگر کوئی اس کے مال کو قبول نہیں کرے گا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ وہ کثرت کے ساتھ مال بہائے گا مگر کوئی نہیں لے گا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ جب دجال اسے دیکھے گا تو اس طرح پگھلنا شروع ہو جائے گا جس طرح کہ پانی میں نمک پگھلتا ہے اور دجال اس سے بھاگے گا لیکن مسیح موعود اس کا پیچھا کر کے باب لد کے پاس اسے آدبائے گا اور اسے قتل کر دے گا اور اس کے زمانہ میں آفتاب مغرب کی طرف سے طلوع کرے گا اور ایمان اگر دنیا سے ایسا مفقود بھی ہو چکا ہوگا کہ گویا ثریا ستارہ پر چلا گیا ہے تو پھر بھی ایک مرد کامل جو فارسی الاصل ہوگا اُسے دوبارہ دنیا میں اُتار لائے گا (یعنی یہی مسیح موعود کھوئے ہوئے ایمان کو دنیا میں پھر دوبارہ قائم کرے گا) اور قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ ہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسے تمام دوسرے دینوں پر غالب 170
کر دکھائے ( اس آیت کو مفسرین نے مسیح موعود کے زمانہ پر منطبق کیا ہے ) اور صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ یہ وعدہ مسیح موعود کے زمانہ میں پورا ہوگا“.مسیح موعود کی علامتوں میں سے یہ دسویں علامت ہے اور در حقیقت یہی تمام علامتوں کی جان ہے کیونکہ اس میں مسیح موعود کا کام بتایا گیا ہے اور ایک روحانی مصلح کی سب سے بڑی شناخت اس کے کام کے ذریعہ سے ہی ہوا کرتی ہے اسی لئے ہم نے اس علامت کی بحث کو ایک الگ اور مستقبل باب میں بیان کرنا مناسب سمجھا ہے.درحقیقت اگر یہ ثابت ہوجائے کہ حضرت مرز اصاحب نے وہ کام کر دکھایا ہے اور سنت رسل کے مطابق اس کی تخم ریزی کر دی ہے جو سیح موعود کے ہاتھ پر سر انجام پانا مقدر تھا تو پھر کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہے گی اور اس کے بعد کسی اور فرضی مسیح و مہدی کا انتظار بے سود ہوگا.کیونکہ اگر بفرض محال یہ مان بھی لیا جاوے کہ حضرت مرزا صاحب موعود مسیح و مہدی نہیں ہیں تو پھر بھی اگر آپ کے ذریعہ مسیح موعود اور مہدی معہود کا مقررہ کام واقعی پورا ہو گیا ہے تو اس اصلی ( گو ہمارے نزدیک فرضی مسیح و مہدی کا مبعوث کیا جانا ایک محض لغو فعل ہوگا جو خدا جیسی حکیم ذات سے ہرگز متوقع نہیں ہو سکتا.مگر اس بحث کو شروع کرنے سے پہلے بعض تمہیدی باتوں کا بیان کر دینا ضروری ہے جو ذیل میں درج کی جاتی ہیں.سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کسر صلیب سے کیا مراد ہے؟ سو ہر عقلمند سوچ سکتا ہے کہ کسر صلیب سے یہ تو ہر گز مراد نہیں ہو سکتی کہ مسیح موعود ظاہری صلیب کی لکڑی کو تو ڑتا پھرے گا اور گویا اس کی بعثت ہی اس غرض سے ہوگی کہ ساری عمر صلیب کی لکڑی کو تو ڑتا پھرے کیونکہ اول تو یہ بات ایک مرسل یزدانی کی شان سے بعید ہے کہ وہ محض ایک لکڑی کو توڑنے کیلئے مبعوث کیا جائے دوسرے ایسا فعل کوئی حقیقی فائدہ بھی نہیں دے سکتا.کیا صلیب کی لکڑی کے توڑے جانے سے مسیح پرستی مٹ سکتی ہے؟ یا اس سے ساری دنیا کی لکڑی ختم ہو جائے گی اور مسیحی لوگ آئندہ صلیب نہیں بنا سکیں گے؟ خوب یاد رکھو کہ جب تک مسیحیت کے باطل خیالات کا زور 171
موجود ہے صلیب قائم ہے اور محض اس کی لکڑی کو توڑ کر خوش ہونا ایک طفلانہ فعل ہے جو سوائے اس کے شماتت اعداء کا موجب ہو کوئی فائدہ نہیں بخش سکتا.صلیب صرف اسی صورت میں ٹوٹ سکتی ہے کہ مسیحی لوگوں کے دلوں کو فتح کر کے صلیبی مذہب کا زور توڑ دیا جاوے اور براہین قویہ سے اس کا بطلان ثابت کر دیا جائے اس صورت میں بیشک صلیب کی ظاہری لکڑی بھی ٹوٹ جاویگی کیونکہ جب دنیا صلیبی عقائد سے بیزار ہوگی تو لازماً صلیب خود بخود تو ڑ کر پھینک دی جائے گی.اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ خیال کرنا کہ کسی زمانہ میں عیسائی مذہب دنیا سے بالکل میٹ جائے گا ایک غلط خیال ہے کیونکہ قرآن شریف کی نص صریح وَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ (سورۃ مائده رکوع ۹) یعنی ہم نے عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان قیامت تک دشمنی بھڑکا رکھی ہے) سے ثابت ہے کہ عیسائی مذہب قیامت تک رہے گا.پس کسر صلیب کے یہ معنے بھی نہیں ہو سکتے کہ صلیبی مذہب بالکل ہی مٹ جائے گا بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ اس کا زور ٹوٹ جاوے گا اور اس کا غلبہ جاتا رہے گا اور بجائے اس کے کہ وہ دنیا کے غالب مذہبوں میں شمار ہو وہ کمزور اور مغلوب مذہبوں میں شمار ہونے لگے گا.دوسرا سوال یہ ہے کہ قتل دجال سے کیا مراد ہے؟ سو اس کے متعلق بھی جب کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ دجال کسی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ مسیحی اقوام اور اس گروہ کے پادریوں کا نام ہے.یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ قتلِ دجال سے ان لوگوں کی مجموعی ہلاکت مراد ہے بلکہ قتلِ دجال سے یقیناً یہی مراد ہے کہ مسیحی اقوام اور ان کے باطنی مذہبی خیالات اور ان کی مادیت اور ان کے جھوٹے فلسفہ کا غلبہ خاک میں ملا دیا جاوے گا.اور اس جگہ ایک خاص نکتہ یادرکھنے کے قابل یہ ہے کہ دجال سے محض مسیحیت مراد نہیں کیونکہ یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی موجود تھی اور آپ کے ساتھ اسکا مقابلہ بھی ہوا اور اسے شکست بھی ہوئی.پس اگر 172
مسیحیت کے باطل خیالات اور اس کے حامی دجال ہیں تو یہ دجال تو آپ کے سامنے آیا اور آپ نے اُسے شکست دی.حالانکہ آپ مسی یا پیام فرماتے ہیں کہ دجال کو صرف مسیح موعود قتل کرے گا اور نیز یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر دجال میرے زمانہ میں نکلا تو میں اس کا مقابلہ کرونگا.جس سے ظاہر ہے کہ وہ آپ کے زمانہ میں نہیں نکلا.پس دجال سے بہر حال وہ چیز مراد لینی ہوگی جو آپ کے زمانہ میں نہیں نکلی.وہ کیا ہے؟ وہ یہی مسیحیت کے باطل خیالات کا عالمگیر غلبہ اور انتشار فی الارض ہے اور مسیحی اقوام کی ترقی کے ساتھ جو مادیت کے فتنے پیدا ہوکر تمام روئے زمین پر ایک سیل عظیم کی طرح چھا گئے ہیں وہ بھی دجال ہیں.نیز وہ باطل خیالات بھی دجال ہیں جو فیج اعوج کے زمانہ میں مسلمانوں کے اندر رائج ہو کر مسیحی عقائد کی تقویت کا موجب ہوئے ہیں.مثلاً عقیدہ حیات مسیح اور مسیح کا آسمان کی طرف زندہ اُٹھایا جانا اور امت محمدیہ کی اصلاح کیلئے محمد رسول اللہ کو چھوڑ کر خدا کے مسیح کو محفوظ رکھنا اور تمام نبیوں میں صرف مسیح ہی کا مس شیطان سے پاک ہونا اور اس کا پرندوں کو پیدا کرنا ،مردوں کو زندہ کرنا وغیرہ وغیرہ سب دجالی طلسم کا حصہ ہیں.یہ وہ چیز میں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں نہ تھیں.یعنی نہ تو مسیحیت کے باطل خیالات کا غلبہ تھا جو ساری دنیا پر چھا گیا ہو اور نہ اس کے علومِ جدیدہ کے نتیجہ میں اس کی خطرناک مادیت اور دین کی راہ کے مہیب فتنے پیدا ہوئے تھے اور نہ خود مسلمانوں کے خیالات بگڑ کر مسیحیت کے مددگار بنے تھے.پس یہی باتیں اور ان باتوں کے حامی اصل دجال ہیں جنہوں نے اس زمانہ میں اپنے پورے زور کے ساتھ خروج کیا ہے.لہذا قتل دجال سے بھی اسی دقبال کا قتل مراد ہے یعنی قتل دقبال سے مسیحیت کے اس خطرناک غلبہ اور اس کے مؤید ات کا کامل کھنڈن مراد ہے جو اس زمانہ میں ظاہر ہوئے ہیں اور الحمد للہ کہ حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ اس قتل کے آثار رونما ہور ہے ہیں اور دجال کو وہ ضر میں لگ چکی اور لگ رہی ہیں جو اُ سے ہرگز جانبر نہ ہونے دیں گی اور یقیناً سمجھو کہ اس کی نزع کی حالت ہے 173
بلکہ اہل بصیرت کے نزدیک تو وہ مردوں میں شامل ہو چکا.جس کی آنکھیں ہوں دیکھے.تیسرا سوال یہ ہے کہ دجال کے پکھلنے سے کیا مراد ہے؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ دجال کے پگھلنے سے یہ مراد ہے کہ خدا تعالیٰ مسیح موعود کو ایسا رعب اور ایسی روحانی طاقت عطا کرے گا کہ اس کے مقابل پر دقبال گویا خود بخود تحلیل ہونا شروع ہو جائے گا اور اُس کے ہاتھ پاؤں ھیلے پڑ جائیں گے اور مسیح موعود کے سامنے میدان میں نکلنے سے ڈرے گا اور خدا تعالیٰ مسیح موعود کے زمانہ میں ایسی مخفی طاقتوں کو حرکت میں لائے گا کہ جو دقبال کا اندر ہی اندر خاتمہ کر دینگی.چنانچہ جیسا کہ آگے چل کر بیان کیا جائے گا اس کے بھی آثار ظاہر ہورہے ہیں.چوتھا سوال یہ ہے کہ باب لڈ سے کیا مراد ہے؟ سوجانا چاہیئے کہ بعض محدثین جو یہ کہتے ہیں کہ لڈ ایک جگہ کا نام ہے جو دمشق کے پاس ہے یہ محض ان کا خیال ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باب لد کی تعیین نہیں فرمائی تو ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم معقول طور پر اس کی کوئی تاویل کریں.سو ہم کہتے ہیں کہ کل ایک عربی لفظ ہے جو اللہ کے جمع ہے جس کے معنے ہیں جھگڑا اور مجادلہ کرنے والا.جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے وَهُوَ اللُّ الْخِصَامِ (یعنی وہ سب جھگڑنے والوں سے زیادہ جھگڑالو ہے ) نیز فرمایا قَوْمًا لُدا ( یعنی جھگڑالوقوم ) پس لفظی طور پر باب لڈ کے یہ معنے ہوئے کہ ” جھگڑا اور مجادلہ کرنے والوں کا دروازہ “.اور اس لحاظ سے حدیث نبوی کے یہ معنے بنتے ہیں کہ مسیح موعود درقبال کو مجادلہ اور جھگڑا کرنے والوں کے دروازہ پر قتل کرے گا یعنی دقبال مسیح موعود سے بھاگے گا لیکن آخر مجادلہ کرنے والوں کے دروازہ کے پاس مسیح موعود اُسے آدبائے گا اور اُسے قتل کر دیگا.اب اس تشریح کے ماتحت کوئی اشکال باقی نہیں رہتا.کیونکہ اس کلام کے صاف طور پر یہ معنے ہیں کہ دجال مسیح موعود کے سامنے آنے سے بھاگے گالیکن مسیح موعود اسکا تعاقب کرے گا.اور آخر مجادلہ و مناظرہ کے میدان میں اُسے آدبائے گا اور اسے مارڈالے گا.یعنی اس کا قتل تلوار کا قتل نہ ہوگا بلکہ دلائل اور براہین کا قتل ہوگا.وھو المراد.66 174
پانچواں سوال حل طلب یہ ہے کہ مال کی طرف بلانے کے کیا معنے ہیں؟ سو اس کا جواب سہل ہے کہ مال سے روحانی مال مراد ہے جو مسیح موعود نے دنیا کے سامنے کثرت کیساتھ پیش کیا لیکن دنیا نے اسے قبول نہ کیا.دوسرے یہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ مسیح موعود اپنے مخالفوں کیلئے بڑے بڑے انعام مقرر کرے گا تا وہ اس کے سامنے آویں اور اس کا مقابلہ کر کے انعام حاصل کریں مگر کوئی مخالف اس کے سامنے نکل کر انعام کا حقدار نہ بنے گا.گویا مراد یہ ہے کہ مسیح موعود اپنے مخالفوں کے سامنے مال پیش کریگا مگر کوئی اُسے نہ لے گا.ورنہ محض دنیا داروں کی طرح مال دینا تو روحانی لوگوں کے لئے کوئی خوبی کی بات نہیں.مذکورہ بالا بیان کے مطابق مسیح موعود و مہدی معہود کا کام خلاصہ مندرجہ ذیل شاخوں میں تقسیم شدہ نظر آتا ہے:.ا اختلافات اندرونی میں حکم و عدل ہو کر فیصلہ کرنا.۲ - اسلام پر جو بیرونی حملے ہوتے ہیں اس کا دفعیہ کرنا.خصوصاً مسیحیت اور مادیت کے زور کو توڑنا اور اسلام کو تمام دوسرے مذاہب پر غالب کر دکھانا اور اس کی تبلیغ کو کناف عالم تک پہنچانا.خصوصاً مغربی ممالک یعنی یورپ اور امریکہ وغیرہ کو اپنی تبلیغ کے ذریع فتح کرنا.کھوئے ہوئے ایمان کو پھر دنیا میں قائم کرنا.یہ وہ تین عظیم الشان کام ہیں جو مسیح موعود کیلئے مقرر ہیں اور خدا کے فضل سے حضرت مرزا صاحب نے ان کا موں کو اس خیر و خوبی سے انجام دیا ہے اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء (جو حکماً آپ کے اندر شامل ہیں) انجام دے رہے ہیں کہ مخالفین کو بھی اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں.سیح موعود کا پہلا کام مسیح موعود کا پہلا کام اختلافات اندرونی کے متعلق حکم ہو کر فیصلہ کرنا تھا.سو اس کے متعلق 175
مشتمل ہیں:- جانا چاہیئے کہ اس زمانہ میں امت محمدیہ کے اندرونی اختلافات چند قسموں پر مش اول صفات باری تعالیٰ کے متعلق اختلافات.دوم ملائکہ کے متعلق اختلافات.سوم سلسلہ رسالت کے متعلق اختلافات.چہارم بعث بعد الموت اور جزاء سزا اور جنت و دوزخ کے متعلق اختلافات.پنجم مسئلہ تقدیر خیر وشر کے متعلق اختلافات.ششم خلافت راشدہ کے متعلق اختلافات.ہفتم قرآن وحدیث کے مرتبہ کے متعلق اختلافات.ہشتم اہل حدیث واہل فقہ کے متعلق اختلافات.نہم مسائل علمی کے متعلق اختلافات.دہم مسائل فقہی کے متعلق اختلافات.یہ وہ دس قسم کے اختلافات ہیں جنہوں نے اس زمانہ میں اسلامی دنیا میں ایک اندھیر مچا رکھا تھا اور علاوہ آپس کی تو تو میں میں کے ان کی وجہ سے مسلمانوں میں ایسی ایسی باتیں پیدا ہوگئی تھیں جنہوں نے اسلام کو دنیا میں بدنام کر دیا تھا اور دشمن کو اسلام پر حملہ کرنے کا ایک بہت بڑا موقعہ ہاتھ آ گیا تھا فہمیدہ مسلمان اس بات سے تنگ آکر اور کوئی مخلصی کی راہ نہ دیکھ کر اسلام کی حالت پر خون کے آنسو بہاتے تھے اور بعض کمزور ایمان تو اسلام کو خیر باد کہہ رہے تھے.ایسے طوفانِ عظیم کے وقت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق حضرت مرزا صاحب کو حکم و عدل بنا کر مبعوث فرمایا.جنہوں نے آتے ہی اپنا سفید جھنڈ ابلند کر دیا اور پکار کر کہا ادھر آؤ کہ خدا نے مجھے تمہارے اختلافات میں حکم بنا کر بھیجا ہے.آؤ کہ میں تمہارے اختلافات میں سچا سچا فیصلہ کروں گا.اس کے بعد آپ اس روحانی عدالت کی کرسی پر جلوہ افروز ہو گئے اور قضاء کا کام شروع ہوا.176
سب سے پہلا اختلاف یہ تھا کہ عام طور پر مسلمانوں میں یہ عقیدہ رائج ہو چکا تھا کہ خدا قدیم زمانہ میں تو بے شک اپنے بندوں کے ساتھ کلام کرتا تھا لیکن اب نہیں کرتا.گویا وہ سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں.آپ نے فیصلہ فرمایا اور دلائل عقلیہ و نقلیہ سے قطعی طور پر ثابت کر دیا کہ خدا کے متعلق ایسا گمان کرنا سخت الحاد ہے کہ اس کی قوت گویائی اب باطل ہوگئی ہے.آپ نے بتایا کہ اگر خدا بولتا نہیں تو اسلام بھی ایک مُردہ مذہب ہے اور اس کا دارومدار بھی دوسرے مذہب کی طرح محض قصوں پر رہ جاتا ہے جو ایک عاشق زار اور حق کے متلاشی کی پیاس کو ہرگز بجھا نہیں سکتے اور آپ نے ثابت کیا کہ اسلام اور قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شیریں پھل ہمیشہ جاری ہے اور جیسا کہ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَاده پھل یہی ہے کہ سچی اتباع کرنے والے کو خدا اپنے ذاتی تعلق سے نوازتا ہے اور اسے حسب استعداد اپنے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف کرتا ہے اور آپ نے اپنے ذاتی مشاہدہ سے اس مسئلہ کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیا.دوسرا اختلاف خدا کے متعلق یہ تھا کہ جب تک خدا نے کسی کے متعلق عذاب کا فیصلہ نہ کیا ہو اُس وقت تک تو وہ بے شک رحمت نازل کر سکتا ہے.مگر عذاب کے بعد وہ تو بہ واستغفار پر بھی عذاب کے فیصلہ کو بدل کر رحمت نازل نہیں کر سکتا.بلکہ وہ نعوذ باللہ مجبور ہے کہ اپنے پہلے فیصلہ کے مطابق عمل کرے.آپ نے اس مسئلہ کو بھی عقل اور نقل ہر دو لحاظ سے صاف کیا اور ثابت کر دیا کہ یہ جھوٹا عقیدہ خدا کی قدرت کاملہ اور اس کی وسیع رحمت ہر دو کے منافی ہے.اسی لئے خدا فرماتا ہے کہ وَاللهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِي پھر خدا کے متعلق یہ اختلاف تھا کہ گویا اس نے بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کے سوا کسی اور اُمت میں رسول نہیں بھیجا اور اپنی رحمت کیلئے بس انہی دو گروہوں کو مخصوص کر لیا.مگر آپ نے بدلائل اس خیال کا باطل ہونا ظاہر کیا اور عقل اور نقل سے یہ بات ثابت کر دی کہ ہر امت نے خدا 177
کے مکالمہ ومخاطبہ سے حصہ لیا ہے اور ہر امت میں اس کے رسول آتے رہے ہیں جیسا کہ قرآن فرماتا ہے کہ وَاِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَافِيهَا نَذِيرٌ چنا نچہ آپ نے ہندوؤں کے کرشن ، بدھ مذہب کے گوتم بدھ ، اہل چین کے کنفیوشس اور پارسیوں کے زرتشت کی رسالت کا بھی اقرار کیا اور بین الاقوامی تعلقات میں ایک انقلابی صورت پیدا کر دی.پھر خدا کے الہام کے متعلق یہ اختلاف تھا کہ الہام الفاظ نہیں ہوتا بلکہ صرف ایک مفہوم دل میں ڈالا جاتا ہے گویا وہ نیک یا عمدہ خیالات جو دل میں پیدا ہوتے ہیں وہی الہام ہیں.آپ نے اس خیال کو غلط ثابت کیا اور قرآنی تعلیم اور عقلی دلائل اور مشاہدہ کی بناء پر ثابت کیا کہ گووحی خفی بھی کلام الہی کی ایک قسم ہے مگر زیادہ اعلیٰ اور زیادہ محفوظ کلام الفاظ کے ذریعہ نازل ہوتا ہے اور قرآنی وحی بھی اسی قسم میں داخل تھی.پھر خدا کی صفت قبولیت دعا کے متعلق یہ اختلاف تھا کہ بعض مسلمان یہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ دُعا صرف ایک عبادت ہے ورنہ یہ نہیں ہوتا کہ کسی کی دُعا کی وجہ سے خدا اپنے فیصلہ یا ارادہ کو تبدیل کرے.آپ نے اس خیال کو بدلائل غلط ثابت کیا اور قرآنی تعلیم اور واقعات اور مشاہدہ کی یقینی دلیل سے اس کا بطلان ظاہر کیا.پھر خدا کے متعلق یہ اختلاف تھا کہ گویا وہ اپنے بندوں کو اپنے اختیارات دے دیتا ہے اور پھر اس کے یہ بندے بھی مستقل طور پر خدا کی طرح خدائی قدرتیں دکھانے لگتے ہیں.اس خیال نے اسلام میں اکاذیب اور جھوٹے قصوں کا ایک طومار کھڑا کر دیا تھا.آپ نے اس کو بدلائل غلط ثابت کیا.پھر خدا سے اتر کر ملائکہ کے متعلق بہت سے اختلافات تھے.مثلاً یہ کہ ان کی ماہیت کیا ہے اور ان کے کیا کیا کام ہیں اور وہ کس طرح اپنا کام کرتے ہیں اور ان کی ضرورت کیا ہے وغیرہ وغیرہ.آپ نے بڑی مدلل بحثوں کے ساتھ ان نازک مسائل پر روشنی ڈالی اور اس مسئلہ میں 178
ایک سچا سا رستہ قائم کر دیا.پھر سلسلہ رسالت کے متعلق اختلاف تھا کہ ہر قسم کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئی ہے اور اب کوئی شخص خواہ وہ آپ سے ہی فیض پانے والا اور آپ کی ہی شریعت کا خادم ہو نبی نہیں ہو سکتا.آپ نے بدلائل ثابت کیا کہ خاتم النبیین کے وہ معنے نہیں ہیں جو سمجھے گئے ہیں اور سلسلہ رسالت کے بند ہونے سے یہ مراد نہیں کہ اب کسی قسم کا بھی نبی نہیں آ سکتا.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف شریعت والی نبوت کا دروازہ بند ہوا ہے مگر غیر تشریعی اور ظلی نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوا.اگر نبوت کے تمام شعبے بند اور منقطع سمجھے جاویں تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود امت محمدیہ سے ایک عظیم الشان رحمت اور انعام الہی کے چھینے جانے کا باعث ہوا ہے.غرض آپ نے نقل و عقل سے اس مسئلہ کا بطلان ثابت کیا.پھر انبیاء اور رسل کے متعلق یہ خطرناک اختلاف تھا کہ گویا نعوذ باللہ سب نبی گنہ گار ہیں اور سوائے مسیح ناصری کے کوئی نبی معصوم اور مسّ شیطان سے پاک نہیں.آپ نے براہین قویہ سے اس خیال کو غلط ثابت کیا اور بڑے زور دار مضامین سے اس معاملہ میں حقیقت امر کو واضح کیا.پھر نبوت کے مفہوم کے متعلق یعنی اس امر کے متعلق کہ نبی کیا ہوتا ہے اور مقام نبوت سے کیا مراد ہے نہایت باطل خیالات رائج ہو گئے تھے.آپ نے ان کو بدلائل صاف کیا.پھر بعث بعد الموت اور جزاء وسزا اور جنت و دوزخ کی حقیقت کے متعلق عجیب عجیب خیالات پیدا ہو گئے تھے جن کی وجہ سے غیروں کو اسلام پر حملہ کرنے کا بہت موقعہ مل گیا تھا.جنت و دوزخ کی حقیقت کے متعلق تو ایسے ایسے خیالات کا اظہار کیا گیا تھا کہ بس خدا کی پناہ.آپ نے اس کے متعلق نہایت لطیف اور مدلل مضامین لکھے اور قرآن وحدیث سے اصل حقیقت واضح فرمائی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن بھی جو پہلے معترض تھا ان مضامین پر عش عش کر اُٹھا.پھر مسئلہ تقدیر ہمیشہ سے بحث کا جولانگاہ رہا ہے اور اس میں اختلافات کی کوئی حد نہیں رہی 179
ہے.آپ نے اسے ایسا صاف کیا کہ اب ایک بچہ بھی اسے سمجھ سکتا.پھر خلافت راشدہ کے متعلق سنیوں شیعوں کے اختلافات شائع و متعارف ہیں ان میں آپ نے سچا فیصلہ فرمایا.پھر قرآن وحدیث کے مرتبہ کے متعلق یعنی ان دونوں میں سے کون دوسرے پر قاضی ہے ایسے خیالات کا اظہار ہوا ہے کہ انہیں سُن کر ایک مسلمان کا بدن کانپ اٹھتا ہے.مسلمانوں کے ایک فرقے نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا تھا اور حدیث کے آگے ایک بت کی طرح گر گئے تھے.آپ نے ان مسائل پر بڑی بڑی لطیف بخشیں کیں.اور ایک طرف تو سنت کو حدیث سے الگ ثابت کیا اور دوسری طرف قرآن وسنت و حدیث کا الگ الگ مرتبہ دلائل اور براہین کے ساتھ متعین کیا.پھر اہل فقہ اور اہل حدیث کے اختلافات اور باہمی کشمکش مشہور ہیں.آپ نے دلائل دے کر طرفین کو ان کی غلطی پر متنبہ کیا اور پھر دونوں کی جو جو خو بیاں تھیں وہ بھی ظاہر فرمائیں اور افراط اور تفریط کے درمیان میانہ روی کا راستہ قائم کیا.پھر معجزات کی حقیقت اور معجزات اور کرامات کے فلسفہ کے متعلق نیچریوں اور اہل حدیث اور حنفیوں میں اختلافات کی کوئی حد نہ تھی.آپ نے اس مسئلہ پر وہ سیر کن بخشیں کیں کہ کسی اختلاف کی گنجائش نہ چھوڑی.پھر مسئلہ جہاد ایک نہایت خطرناک صورت اختیار کر گیا تھا جس سے اسلام پر ایک بدنما دھبہ لگتا تھا کہ گویا اسلام مذہب میں جبر کی تعلیم دیتا ہے.آپ نے روشن دلائل کے ساتھ اسے صاف کیا اور لا اکراہ فی الدین کے اصول کے ماتحت سچی سچی راہ ظاہر فرمائی.پھر انبیاء کا مزعومہ علم غیب اور اس کا فلسفہ باوجود مباحث کا جولانگاہ ہونے کے سخت تاریکی میں پڑا ہوا مسئلہ تھا.آپ نے تحریر وتقریر سے اس پر گویا ایک سورج چڑھا دیا.پھر مسائل فقہی میں تو اختلاف کی کوئی حد ہی نہ تھی آپ نے بعض فروعی اختلافات کو قائم 180
رکھا اور اس کو امت کیلئے ایک رحمت قرار دیا اور بعض میں بدلائل صحیح صحیح راہ بتادی.یہ بعض ان اختلافات کی مختصر فہرست ہے جو مسلمانوں میں رونما ہو چکے تھے اور جن کے متعلق حضرت مرزا صاحب نے حکم ہو کر فیصلہ کیا.اگر اختلافات امت اور ان پر حضرت مرزا صاحب کا محاکمہ پورے طور پر بیان کیا جاوے تو ایک ضخیم کتاب ہو جاوے اس لئے اس جگہ صرف چند موٹے موٹے اختلافات مثال کے طور پر مختصر بیان کئے گئے ہیں.(ان کیلئے دیکھیں کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام.حقیقۃ الوحی ، براہین احمدیہ، نزول اسیح ، انوار الاسلام، انجام آتھم ، لیکچر لاہور ، چشمہ معرفت ، پیغام صلح، آئینہ کمالات اسلام ، توضیح مرام ، برکات الدعا، ایک غلطی کا ازالہ ، اسلامی اصول کی فلاسفی ، الحق لدھیانہ، کشتی نوح ، وغیرہ) اس جگہ اگر کوئی شخص یہ شبہ کرے کہ اختلافات کے متعلق تو تمام علماء اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہی آئے ہیں.حضرت مرزا صاحب نے اس معاملہ میں کیا زیادت کی ؟ تو یہ ایک باطل شبہ ہوگا.کیونکہ رائے کا اظہار تو ایک بچہ بھی کر سکتا ہے مگر حضرت مرزا صاحب نے جس رنگ میں اختلافات امت کا فیصلہ کیا ہے وہ اپنے اندر بعض امتیازی خصوصیات رکھتا ہے جن سے آپ کے حکم ہونے پر زبردست روشنی پڑتی ہے اور وہ خصوصیات یہ ہیں :.۱ - آپ نے کسی مسئلہ میں کسی پارٹی کا جانب دار ہو کر رائے نہیں دی بلکہ ہمیشہ ایک ثالث حکم کے طور پر رائے دی ہے.اسلئے آپ کے فیصلہ جات عصبیت کے زہریلے اثر سے بالکل پاک ہیں اور یہ ایک بڑی بھاری خصوصیت ہے.جو شخص آپ کے فیصلہ جات کو دیکھے گا وہ یہ بات محسوس کرنے پر مجبور ہوگا کہ آپ کا ہر فیصلہ ایک منصفانہ اور غیر جانب دارانہ رنگ رکھتا ہے.۲.آپ نے صرف رائے کا اظہار نہیں کیا بلکہ عقلی اور نقلی دونوں پہلوؤں سے دلائل کا ایک سورج چڑھا دیا ہے اور متلاشیان حق کے لئے کسی اختلاف کی گنجائش نہیں چھوڑی.جس بات پر بھی آپ نے قلم اُٹھایا ہے اس کا ہمیشہ کیلئے ایک ایسا فیصلہ کر دیا ہے جو ایک پہاڑ کی طرح اپنی 181
جگہ سے ہلا یا نہیں جاسکتا اور کوئی غیر متعصب شخص اس کی قطعیت کا لوہا مانے بغیر نہیں رہ سکتا اور ہر فیصلے کیلئے ایسے اصول قائم کئے ہیں کہ منکر کیلئے کوئی جائے فرار نہیں چھوڑی..آپ نے فوق العادت طاقتوں اور خدائی نشانوں کے زور سے اپنی ہر بات قائم کی ہے یعنی صرف نقل و عقل ہی سے اپنی بات ثابت نہیں کی بلکہ منکر کی مخالفت پر تائید الہی کے نشان دکھا دکھا کر اپنے فیصلوں پر خدائی مہر ثبت کر دی ہے.پس گجایہ فیصلے اور گجا مولویوں کی بخشیں !! چہ نسبت خاک را با عالم پاک.مسیح موعود کا دوسرا کام دوسرا کام مسیح موعود کا بیرونی حملوں کو رڈ کرنا اور دوسرے مذاہب کے مقابل پر اسلام کو غالب کر دکھانا تھا اور اسلام کی تبلیغ کو وسیع کر کے اسلام کے نام پر ساری دنیا کو اور خصوصاً ممالک مغربی کو فتح کرنا تھا.یہ کام بھی جس خیر و خوبی سے انجام پایا اور پارہا ہے وہ اپنی نظیر آپ ہی ہے.سب سے پہلے ہم ان باتوں کو لیتے ہیں جو مسلمانوں کی اپنی غلطی سے اسلام میں پیدا ہوئیں اور جنہوں نے دوسرے مذاہب کو اسلام پر حملہ کرنے کا بڑا موقعہ دے دیا.یہ وہ اختلافات اندرونی تھے جن کی وجہ سے اسلام کے منور چہرہ پر گرد چھا گئی تھی.سو اس کے متعلق مختصر بیان کیا جا چکا ہے کہ کس طرح حضرت مرزا صاحب نے وہ گرد دھودی ہے.اب صرف وہ باتیں بیان کرنا باقی ہیں جو خاص طور پر مسیح ناصری کے متعلق مسلمانوں میں پیدا ہوگئی تھیں اور جن کی وجہ سے دجال کو اس قدر تقویت مل گئی کہ وہ اسلامی کیمپ میں سے کئی لاکھ آدمی نکال کر لے گیا.ان باتوں کی تفصیل یہ ہے:.ا مسیح ناصری کے متعلق مسلمانوں کا یہ عقیدہ تھا کہ وہ خلاف سنت اللہ اسی جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے اور موت سے محفوظ رہے درآنحالیکہ نبیوں کے سرتاج محمد رسول اللہ زیر خاک مدفون ہیں.182
۲.یہ عقیدہ کہ مسیح ناصری خلق کیا کرتے تھے.چنانچہ کئی پرندے انہیں کے پیدا کردہ ہیں درآنحالیکہ اور کسی بشر میں یہ طاقت نہیں پائی گئی..یہ عقیدہ کہ مسیح ناصری حقیقی مردے زندہ کیا کرتے تھے.اور وہ اس طرح کہ وہ مُردے کو کہتے تھے اُٹھے اور وہ قبر سے اُٹھ کر ان کے ساتھ ہو لیتا تھا.چنانچہ اس طرح انہوں نے ہزاروں مردے زندہ کئے مگر کسی اور نبی کو یہ طاقت نہیں دی گئی.-۴- یہ عقیدہ کہ مسیح ناصری کا وہ بلند پایہ ہے کہ جب دجال کا فتنہ پیدا ہوگا جو بقول مخبر صادق سارے فتنوں سے بڑا فتنہ ہے تو ان کے سوا اور کسی شخص میں اس فتنے کے مثانے کی طاقت نہ ہوگی.نہ محمد رسول اللہ میں اور نہ کسی اور نبی میں.چنانچہ اسی لئے صرف مسیح ناصری ہی اس کام کیلئے موت سے محفوظ رکھے گئے کیونکہ شاید خدا کو بھی ان جیسا کوئی اور مصلح بنانے کی طاقت تھی.-۵- یہ عقیدہ کہ مسیح ناصری کے سوا کوئی نبی مست شیطان سے پاک نہیں.نہ ( نعوذ باللہ ) محمد رسول اللہ نہ کوئی اور.سب کسی نہ کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں.مگر نہیں ہوا تو صرف یہی مریم صدیقہ کا عجیب و غریب فرزند.یہ وہ پانچ خطر ناک خیالات ہیں جو مسلمانوں میں مسیح ناصری کے متعلق پیدا ہو گئے تھے اور جنہوں نے مسیحیت کو نہایت درجہ تقویت دے دی تھی.ظاہر ہے کہ ان خیالات کے ہوتے ہوئے مسلمان مسیحیوں کے ہاتھ میں ایک نہایت آسان شکار تھے.چنانچہ عیسائیوں نے کئی لاکھ مسلمان اسی داؤ پیچ سے عیسائی بنالئے اور مسلمان بیچارے اُن کے آگے گو یا بالکل بے دست و پا تھے.چنانچہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ایک بڑے مرتبہ کا مسیحی پادری لاہور میں وعظ کہہ رہا تھا اور یہی باتیں مسلمانوں کے خلاف پیش کر رہا تھا.اس کے سامعین جن میں بعض مولوی بھی تھے خوف کے مارے سہمے جا رہے تھے اور وہ مسیحیت کا بہادر سپوت ان دلائل کو بیان کر کر کے رعد 183
کی طرح گرج رہا تھا.اتفاق سے ہمارے معزز دوست مفتی محمد صادق صاحب جو چند سال پیشتر امریکہ میں ہمارے مبلغ رہ چکے ہیں وہاں جا پہنچے اور پادری صاحب سے مخاطب ہوکر کہنے لگے که پادری صاحب! آپ یہ کیا باتیں کہتے ہیں؟ ہم تو ان باتوں کو قبول نہیں کرتے اور نہ یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہیں بلکہ ہم تو مسیح کو صرف اللہ کا ایک نبی مانتے ہیں جو اپنی عمر گزار کر فوت ہو گیا اور اس میں کوئی ایسی خاص بات نہ تھی جو دوسرے نبیوں میں نہ ہو بلکہ کئی اور نبی اُس سے بڑھے ہوئے ہیں وغیرہ وغیرہ.پادری نے مفتی صاحب کی یہ تقریر سنی تو کہنے لگا.معلوم ہوتا ہے تم قادیانی ہو.ہم تم سے بات نہیں کرتا اور یہ کہہ کر اسنے اپنی تقریر بند کر دی.اب دیکھو یہ عقائد کس قدر خطر ناک ہیں مگر حضرت مرزا صاحب نے ان سب کو باطل اور غلط ثابت کر دیا اور قرآن و حدیث سے ثابت کیا کہ یہ سب خیالات بعد کی ملاوٹ ہیں جس کی قرآن اور صحیح احادیث میں کوئی بھی اصل نہیں اور اس طرح آپ نے ایک ہی وار میں دجال کی ایک ٹانگ توڑ دی کیونکہ دجال کی دو ٹانگیں تھی.ایک ٹانگ تو مسلمانوں کے بگڑے ہوئے خیالات تھے جنکی وجہ سے اُسے سہارا مل گیا تھا اور اسلام کے خلاف کام کرنا بہت آسان ہو گیا تھا اور دوسری ٹانگ خود دجال کے اپنے باطل خیالات تھے.جن کے زور کی وجہ سے وہ ایک سیلاب کی طرح اُمڈا چلا آتا تھا.الغرض اسلام کے خلاف جو غیر مذاہب کے حملے ہورہے تھے ان کا ایک بڑا حصہ خود مسلمانوں کے اپنے بگڑے ہوئے خیالات پر مبنی تھا.چنانچہ ان فاسد خیالات کی مدلل طور پر اصلاح ہو جانے سے بیرونی حملوں کا حصہ بالکل باطل ہو گیا.یہ ایک بہت بھاری خدمت تھی جو حضرت مرزا صاحب نے انجام دی اور یہ ایک عوف عظ الشان احسان ہے جو آپ نے مسلمانوں پر فرمایا.اور آپ کے اس فعل سے امت محمدیہ کو دو بڑے فائدے پہنچے.اول یہ کہ ان باطل اور فاسد خیالات سے خود مسلمانوں کی حالت نہایت ابتر ہو رہی تھی اور ان عقائد نے اُن کے ایمان کے شہتیر کوگھن لگا رکھا تھا.پس ان عقائد 184
کی اصلاح سے مسلمانوں کی حالت سنور گئی اور اُنکا ایمان تباہ ہونے سے بچ گیا.دوسرے یہ کہ ان عقائد کی وجہ سے اسلام غیر مذاہب کے خطرناک حملوں کا نشانہ بنا ہوا تھا یعنی مسلمانوں کے ان باطل خیالات کی وجہ سے خواہ وہ عام تھے یا خاص مسیح ناصری کے متعلق کفار کو اسلام پر حملہ کرنے کا ایک بہت بڑا موقعہ ہاتھ آ گیا تھا اور چونکہ مسلمان ان فاسد خیالات کو اپنے دین و مذہب کا حصہ خیال کرتے تھے اور بزعم خود قرآن و حدیث سے ہی اُن کا استنباط کرتے تھے اسلئے حالت اور بھی خطرناک صورت اختیار کر گئی تھی.کیونکہ اس صورت میں زدصرف مسلمانوں پر ہی نہ پڑتی تھی بلکہ اسلام پر بھی ایک کاری ضرب لگتی تھی.مگر ان خیالات کے باطل ثابت.ہونے سے اسلام اس قسم کے تمام حملوں سے بالکل محفوظ ہو گیا.فالحمد لله على ذالك مسیح موعود کے اس کام کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ خود دوسرے مذاہب پر حملہ آور ہوکر انہیں مغلوب کیا جاوے سو یہ کام بھی نہایت خیر و خوبی سے انجام پایا اور پارہا ہے.ہندوستان (اس جگہ تقسیم سے پہلے کا ھندوستان مراد ہے ) مذاہب کا جولانگاہ رہا ہے.دنیا میں اور کوئی ایسا ملک نہیں جس میں اتنے مذاہب اس زور میں پائے جاتے ہوں جیسا کہ یہاں پائے جاتے ہیں اور پھر ہندوستان میں بھی خصوصاً پنجاب کا صوبہ مذاہب کا مرکز ہے.عیسائیوں کا یہاں زور ہے.آریوں کا یہاں زور ہے.سکھوں کا یہاں زور ہے.برہمو سماج کا یہاں زور ہے.دیوسماج کا یہاں زور ہے.غرض کوئی ایسا مذ ہب نہیں جو زندگی کے کچھ آثار اپنے اندر رکھتا ہو اور پھر پنجاب اس سے خالی ہو.پس پنجاب ہی اس بات کے مناسب حال تھا کہ مسیح موعود اس میں مبعوث کیا جاوے تاسارے مذاہب اس کے ساتھ اپنا زور آزما کر دیکھ سکیں اور تاوہ سارے مذاہب کا مقابلہ کر کے اُن کو مغلوب کر سکے.اب جاننا چاہئیے کہ حضرت مرزا صاحب نے ان سب مذاہب پر دونوں رنگ میں حجت پوری کی.یعنی اول عقل اور نقل کے طریق سے ان کا بطلان ثابت کیا دوسرے خدائی نشانوں اور روحانی طاقتوں کیساتھ انہیں مغلوب اور اسلام کو غالب کر دکھایا.185
حضرت مرزا صاحب کا مسیحیت سے مقابلہ پہلے ہم مسیحیت کو لیتے ہیں کیونکہ کئی لحاظ سے اسکا حق مقدم ہے سو جانا چاہیئے کہ مسیحیت کی بنیاد تین اصولوں پر ہے :.اوّل تثلیث.یعنی یہ عقیدہ کہ خدا کے تین اقنوم ہیں (۱) باپ جو عرف میں خدا کہلاتا ہے.(۲) بیٹا یعنی مسیح ناصری جو جامہ انسانیت میں دنیا پر اُترا اور (۳) روح القدس جو گویا بیٹے اور باپ کے درمیان واسطہ ہے.عیسائیوں کے نزدیک یہ تین خدا الگ الگ اور مستقل خدا ہیں.مگر پھر بھی بزعم مسیحی صاحبان خدا تین نہیں ہیں بلکہ ایک ہی خدا ہے.دوسرا اصول مسیحیت کا الوہیت مسیح ہے یعنی یہ عقیدہ کی مسیح ناصری جو دنیا میں نازل ہواوہ گو انسان کے لباس میں اترا تھا مگر دراصل وہ خدا یعنی خدا کا بیٹا تھا اور خدا نے اُسے اس لئے بھیجا تھا کہ وہ اپنی قربانی سے بنی نوع انسان کو گناہ سے نجات دے.تیسرا اصولی عقیدہ اس مذہب کا کفارہ ہے.یعنی یہ کہ مسیح ناصری نے صلیبی موت جو موسوی شریعت کے مطابق ایک لعنتی موت تھی بنی نوع انسان کیلئے برداشت کی اور اس طرح تمام ان لوگوں کے گناہ جو اس کی صلیبی موت پر ایمان لائے اُس نے اپنے سر پر اٹھالئے اور وہ اس لعنت کے بوجھ کے نیچے تین دن تک دبا رہا.اس کے بعد وہ زندہ ہوکر پھر پہلے کی طرح اپنے باپ خدا کے دائیں ہاتھ آسمان پر جا بیٹھا.ان اصولی عقائد کے ضمن میں مسیحیوں کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ رحم بلا مبادلہ یعنی تو بہ واستغفار سے گناہ معاف کر دینا خدا کی صفت عدل کے خلاف ہے اور یہ کہ انسان کو گناہ کا مادہ آدم و حوا سے ورثہ میں ملا ہے پس کوئی بشر کلیۂ گناہ سے پاک نہیں ہوسکتا اور چونکہ دوسری طرف گناہ معاف نہیں ہوتا لہذا ضروری ہوا کہ نجات کیلئے کسی اور بیرونی چیز کی حاجت پیش آئے اور یہ وہی کفارہ یعنی مسیح کی صلیبی موت ہے.پھر انکا یہ بھی عقیدہ ہے کہ شریعت ایک لعنت ہے جس سے 186
ہمیں مسیح نے آزاد کر دیا ہے وغیرہ وغیرہ.اس تمہیدی نوٹ کے بعد اس عظیم الشان اور مقدس جنگ کا ذکر کیا جاتا ہے جو حضرت مرزا صاحب اور مسیحی دنیا کے درمیان واقع ہوئی اور جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق صلیب ٹوٹ گئی اور قتل دقبال کے آثار ظاہر ہو گئے.یوں تو حضرت مرزا صاحب اوائل عمر سے مسیحیوں کے ساتھ اس روحانی جنگ کا کچھ نہ کچھ سلسلہ جاری رکھتے تھے چنانچہ اس امر کی معتبر شہادت موجود ہے کہ جب آپ بالکل نوجوان تھے اور سیالکوٹ میں ملازم تھے.پادری بٹلر وغیرہ کے ساتھ آپ کی مذہبی گفتگو ہوتی رہتی تھی اور پھر براہین احمدیہ کا اشتہار بھی گویا سب عیسائیوں کیلئے چیلنج تھا مگر خاص طور پر ۸۸۴اء کے قریب جبکہ براہین احمدیہ کا چوتھا حصہ طبع ہوا آپ نے انگریزی اور اُردو میں ایک اشتہار ہیں ہزار کی تعداد میں چھپوا کر شائع کیا اور اس اشتہار کی اشاعت کے سلسلہ کو ایسا وسیع کیا کہ یورپ کے مختلف ممالک اور امریکہ اور دوسرے ممالک میں بھی کثرت کے ساتھ تقسیم کیا اور تمام بڑے بڑے آدمیوں کو جن میں شہنشاہ ، بادشاہ، سلطنتوں کے پریذیڈنٹ اور پھر مد تبر ان ملک اور سیاسی لیڈر اور فلاسفر اور مذہبی پیشوا بھی شامل تھے بذریعہ رجسٹر ڈ خطوط بھجوایا اور گو اس اشتہار میں سب مذاہب کے لوگ مخاطب تھے لیکن مسیحی مذہب کے متبعین میں خصوصیت کے ساتھ تقسیم کیا گیا.اس اشتہار میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے مسیح ناصری کے قدم پر اس صدی کا مجد د بنا کر بھیجا ہے اور میں سب دنیا کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ خدا تک پہنچانے والا مذہب صرف اسلام ہی ہے جو شخص میرے اس دعویٰ کی تصدیق چاہے وہ مجھ سے ہر طرح تسلی کر سکتا ہے اور حق کے طالبوں کو خدائی نشانات بھی جمہوری دکھائے جاویں گے.وغیرہ وغیرہ.(دیکھو تبلیغ رسالت یعنی مجموعہ اشتہارات جلد اوّل) اس اشتہار کے قریب کے زمانہ میں ہی آپ نے ایک مطبوعہ خط بھی مشہور پادری صاحبان و آریه صاحبان و بر همو صاحبان و نیچری صاحبان و مخالف مولوی صاحبان کے نام ارسال کیا اور 187
اس میں لکھا کہ جو شخص اسلام کی صداقت میں کوئی شبہ رکھتا ہو یا جسے میرے دعویٰ الہام ومجددیت کے متعلق شک ہو یا جو مطلقا خوارق وغیرہ کا منکر ہو تو میں خدا سے وعدہ پا کر اُسے دعوت دیتا ہوں کہ اگر وہ طالب حق بن کر ایک سال تک میرے پاس قادیان میں آکر قیام کریگا تو ضرور کوئی نہ کوئی خدائی نشان دیکھ لیگا اور اگر اس عرصہ میں کوئی خارق عادت نشان ظاہر نہ ہو تو میں بطریق حرجانہ یا جرمانہ دو سو روپیہ ماہوار کے حساب سے مبلغ چوبیں سو روپیہ نقد ایسے صاحب کے حوالے کر دونگا.وہ جس طرح چاہیں اپنی تسلی کرا لیں.( تبلیغ رسالت) اب دیکھو یہ طریق فیصلہ کیسا راستی پر مبنی تھا.پادری صاحبان اپنے میں سے کسی کو منتخب کر کے ایک سال کیلئے قادیان بھجوا دیتے اور نہیں تو انہیں اپنے مشن کی امداد کیلئے ڈھائی ہزار روپیہ ہی مل جاتا اور اسلام کی شکست اور اُنکی فتح الگ ہوتی اور کم از کم حضرت مرزا صاحب اور ان کے معتقدین کے منہ تو ضرور بند ہو جاتے.مگر خوب یا درکھو کہ باطل حق کے سامنے آنے سے ہمیشہ گھبراتا ہے سوائے اسکے کہ اس کی اجل اسے کھینچ کر ادھر لے آئے اور یہاں مخبر صادق نے پہلے یہ خبر دے رکھی تھی کہ دجال مسیح موعود کے سامنے آنے سے نمک در آب کی طرح پچھلے گا اور اُس سے بھاگے گا.پس وہ کس طرح سامنے آتا؟ حضرت مرزا صاحب نے صرف عام تحریک پر ہی بس نہیں کی بلکہ پرائیویٹ طریق پر بھی بعض پادریوں کو غیرت دلائی اور پر زور تحریکیں کیں مگر کوئی پادری سامنے نہ آیا.بٹالہ میں جو قادیان سے صرف گیارہ بارہ میل پر ہے اُس زمانہ میں پادری وائٹ بریخٹ صاحب موجود تھے اُن کو بھی بہت جگا یا مگر انہوں نے بھی کروٹ نہ بدلی.اب دیکھو کہ یہ کیسی بین حجبت ملزمہ ہے جو اس قوم پر پوری کی گئی.آخر ۱۸۹۳ء میں یہ ہوا کہ امرتسر کے پادریوں نے اس شرط کے مطابق تو فیصلہ منظور نہ کیا لیکن علمی طور پر مناظرہ کرنا منظور کر لیا.چنانچہ مسیحیوں کی طرف سے مسٹر عبداللہ آتھم ای.اے سی مناظر اور پادری ٹامس باول اور پادری ٹھا کر داس وغیرہ ان کے معاون مقرر ہوئے اور اسلام کی 188
طرف سے حضرت مرزا صاحب مناظر قرار پائے اور ہمقام امرتسر یہ مباحثہ شروع ہوا.عیسائیوں کی طرف سے مسٹر مارٹن کلارک صدر جلسہ تھے اور مسلمانوں کی طرف سے شیخ غلام قادر صاحب فصیح صدر تھے.پندرہ دن تک یہ مباحثہ جاری رہا.اس مباحثہ میں غلبہ کس کو رہا ؟ اس سوال کے جواب میں ہمیں اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں.روئیداد جلسہ مفصل طور پر ” جنگ مقدس“ کے نام سے چھپ چکی ہے اس کے مطالعہ سے کسی عظمند پر مخفی نہیں رہ سکتا کہ غالب کون رہا اور مغلوب کون؟ مگر دو باتیں اس مباحثہ میں خاص طور پر نوٹ کے قابل ہیں جو شخص انہیں مد نظر رکھ کر اس کتاب کا مطالعہ کریگا ایک عجیب حظ اٹھائے گا.اول یہ کہ ہر مذہب کے دعوئی اور دلیل کے متعلق حضرت مرزا صاحب نے ایک نہایت محکم اصول پیش کیا ہے جو سارے جھگڑے کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا ہے.مگر مسیحی صاحبان نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اور نہ دراصل وہ توجہ کر سکتے تھے.کیونکہ ایسا کرنے سے وہ بالکل بے دست و پارہ جاتے.اس اصول کے متعلق ہم مفصل آگے چل کرلکھیں گے.دوسری بات یہ ہے جسے ایک ذہین شخص محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ حضرت مرزا صاحب کی زبر دست جرح سے تنگ آکر کئی جگہ آتھم صاحب نے سوائے اس کے اپنے لئے کوئی مخلصی کی راہ نہیں دیکھی کہ معروف مسیحی عقیدہ کو چھوڑ کر اپنے کسی ذاتی خیال کی آڑ میں پناہ لے لیں چنانچہ کئی جگہ اُن کے دعوے اور دلیلیں معروف مسیحی عقیدوں کے خلاف نظر آتی ہیں اور کئی جگہ انہوں نے اپنا پہلو بھی بدلا ہے.پس یہ بھی حضرت مرزا صاحب کے غلبہ کی ایک بین دلیل ہے.ورنہ یہ تو ظاہر ہے کہ خصم خواہ کیسا بھی لاجواب ہو جاوے چچپ نہیں ہوا کرتا.غرض یہ مباحثہ اسلام کیلئے ایک نہایت درجہ کامیاب مباحثہ ثابت ہوا اور مسیحیوں کو شکست فاش نصیب ہوئی.( جنگ مقدس) اس کے بعد پادری صحیح صحیح نے حضرت مرزا صاحب کے مقابل پر میدان میں آنا چاہا مگر 189
ایسی منہ کی کھائی کہ پھر سر نہ اُٹھایا.ہاں اپنی بد باطنی کا ایک ریکارڈ چھوڑ گیا.حضرت مرزا صاحب نے اُس کے اعتراضات کی دھجیاں اُڑادیں.(نور القرآن) اس کے بعد پھر کسی پادری کو یہ جرات نہ ہوئی کہ آپ کے سامنے آتا مگر آپ نے اپنا کام جاری رکھا اور نور الحق سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب اور کتاب البریہ جیسی نہایت زبر دست کتابیں تصنیف فرما ئیں اور بالآخر ۱۹۰۰ ء میں پنجاب کے لارڈ بشپ ریورنڈ جارج لیفر ائے لاہور کو چیلنج دیکر عیسائیوں پر حجت پوری کی.اس چیلنج میں آپ کی تحریک سے احمدیوں کی ایک جماعت نے بشپ صاحب کو ایک تحریری درخواست دی جس میں لکھا کہ چونکہ آپ اس ملک میں تمام مسیحیوں کے سردار ہیں اور آپ کا فرض منصبی بھی ہے کہ طالبانِ حق کی تسلی کرائیں اور آپ ایک طرح سے مسلمانوں کو مباحثہ کا چیلینج بھی دے چکے ہیں لہذا ہم آپکو آپ کے یسوع مسیح کی قسم دے کر کہتے ہیں کہ اس موقعہ پر پیچھے نہ ہٹیں اور حق و باطل کا فیصلہ ہونے دیں اور اسلام اور مسیحیت کی صداقت کے متعلق حضرت مرزا صاحب کے ساتھ بمقام لاہور ایک با قاعدہ مباحثہ کر کے مخلوق خدا پر احسان فرما ئیں.غرض بڑے جوش دلانے والے الفاظ میں بشپ صاحب کو مباحثہ کی طرف بلایا گیا مگر بشپ صاحب کو ہمت نہ ہوئی اور انہوں نے حیلے بہانے کر کے بات ٹال دی.( ریویو آف ریلیجنز آف قادیان) اس کے بعد ۱۹۰۲ء میں حضرت مرزا صاحب نے یورپ اور امریکہ میں تکمیل تبلیغ اسلام کیلئے ایک انگریزی رسالہ ریویو آف ریلیجنز جاری کروایا اور اس میں صداقت اسلام اور ردّ عقائد میسحیت کے متعلق ایسے ایسے زبر دست اور لا جواب مضامین لکھے کہ مسیحیوں کے لمبے دانت کھٹے کر دیئے.کئی غیر متعصب عیسائیوں نے ان مضامین کے بے نظیر ہونے کا اعتراف کیا.آپ نے عقل اور نقل سے یہ ثابت کر دیا کہ تثلیث کا عقیدہ خود بائبل کے مخالف ہونے کے علاوہ اور پھر علاوہ اس بات کے کہ فطرت انسانی اسے دُور سے ہی دھکے دیتی ہے عقل کے بھی صریح 190
مخالف ہے.تین خداؤں کا ہونا دو حالتوں سے خالی نہیں.یا تو وہ تینوں اپنی اپنی جگہ کامل ہیں یعنی تمام خدائی صفات کو کامل طور پر اپنے اندر رکھتے ہیں اور یا وہ کامل نہیں بلکہ تینوں مل کر کامل بنتے ہیں.صورت اوّل میں تین خداؤں کا ہونا ایک عبث فعل ہے.کیونکہ جب ان تینوں میں سے ہر ایک کامل ہے تو پھر ہر اک الگ الگ اس کا رخانہ کو چلا سکتا ہے پس کوئی وجہ نہیں کہ جہاں ایک خدا کام دے سکے وہاں تین خدا کام کریں.اور اگر وہ الگ الگ کامل نہیں اور فرداً فرداً اس کارخانہ کو چلانے کے قابل نہیں تو اس صورت میں وہ سب ناقص ہیں اور خدا نہیں ہو سکتے.اس قسم کے دلائل کے ساتھ آپ نے عقلاً تثلیث کے عقیدہ کا بطلان ثابت کیا اور یہ بھی ثابت کیا کہ انجیل جس پر مسیحیوں کا سارا دارو مدار ہے ہرگز تثلیث کے عقیدہ کی تائید نہیں کرتی بلکہ اس کی اصل تعلیم تو حید پر قائم تھی.اس طرح الوہیت مسیح کے عقیدہ پر آپ نے وہ ضر میں لگائیں کہ خدا ثابت کرنا تو در کنار عیسائیوں کو مسیح ناصری کا ایک کامل بشر ثابت کرنا بھی مشکل ہو گیا.پھر کفارہ پر وہ مضامین لکھے کہ خود بعض مسیحیوں کو اقرار کرنا پڑا کہ وہ زبردست مضامین لا جواب ہیں.آپ نے ثابت کیا کہ کفارہ کا مسئلہ فطرت کے خلاف ہے.زید کے خون سے بکر کے گناہوں کی معافی ایک ایسا خیال ہے جسے عقل دُور سے ہی دھکے دیتی ہے.آپ نے ثابت کیا کہ گناہ صرف ایمان اور یقین سے دور ہو سکتا ہے اُسے کسی خونی قربانی کی ضرورت نہیں اور نقلی طریق سے بھی آپ نے اس خیال کا بطلان ثابت کیا.اسی طرح رحم بلا مبادلہ کے فرضی عقیدہ کی بھی دھجیاں اڑا دیں.غرض آپ نے مسیحیت کے متعلق عقل اور نقل دونوں کی رو سے نہایت مدلل اور سیر کن بخشیں کی ہیں اور اس پر ایسی کاری ضربیں لگائی ہیں کہ اس کا جانبر ہونا مشکل ہے.اس نقلی اور عقلی بحث کے علاوہ ایک اور نہایت عظیم الشان کام تھا جو آپ نے انجام دیا اور گو یا مسیحیت کی عمارت کو بنیادوں سے اُٹھا کر دے مارا.یہ آپ کی وہ عظیم الشان تاریخی تحقیق 191
ہے جو آپ نے واقعہ صلیب اور مسیح ناصری کی قبر کے متعلق فرمائی ہے آپ نے انجیل اور تاریخ سے روز روشن کی طرح ثابت کر دیا ہے کہ:.اوّل مسیح ناصری جس کی صلیبی موت پر کفارے کی عمارت کھڑی کی گئی ہے صلیب پر چڑھانے تو بے شک گئے مگر وہ صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ ششی کی حالت میں زندہ ہی صلیب سے اُتار لئے گئے اور آپ نے یہ بات ایسے روشن دلائل کے ساتھ ثابت کر دی کہ شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہی.دوسرے آپ نے بین دلائل کے ساتھ ثابت کردیا کہ مسیح ناصری جنہیں خدا بنایا گیا ہے فوت ہو چکے ہیں.تیسرے آپ نے زبر دست تاریخی دلائل سے یہ بات ثابت کر دی کہ واقعہ صلیب کے بعد مسیح اپنے ملک سے ہجرت کر کے کشمیر کے طرف آگئے تھے اور پھر آپ نے براہین قاطعہ سے سری نگر محلہ خانیار میں مسیح کی قبر بھی ثابت کر دی.اب دیکھو کہ یہ تین زبر دست تحقیقیں جو آپ نے فرمائی ہیں.مسیحی مذہب کے متعلق کیسا عظیم الشان اثر رکھتی ہیں اور کیا ان کے بعد الوہیت مسیح اور کفارہ کا کچھ باقی رہ جاتا ہے؟ حضرت مسیح اگر صلیب پر نہیں مرے اور صلیب سے زندہ اُتر آئے تو گو یا کفارہ خاک میں مل گیا.پھر اگر مسیح اپنی زندگی کے دن گزار کر دوسرے انسانوں کی طرح وفات پاگئے اور زیر خاک مدفون ہوئے اور ان کی قبر بھی مل گئی تو صرف انہیں پر نہیں بلکہ ان کی خدائی پر بھی موت آگئی اور گویا وہ خود دفن نہیں ہوئے بلکہ اُن کی خدائی بھی دفن ہوگئی اور مسیحیت کا سارا طلسم دھواں ہو کر اڑنے لگا ( مسیح ہندوستان میں اور راز حقیقت ) پھر حضرت مرزا صاحب نے روحانی مقابلہ کیلئے بھی عیسائیوں کو اپنے سامنے بلایا اور بار بار چیلنج دیا کہ تم ان لوگوں میں سے ہونے کا دعوی کرتے ہو جو ایک رائی کے دانہ کے برابرایمان 192
رکھنے پر بھی وہ کچھ دکھا سکتے ہیں جو تمہارے خیال میں مسیح نے دکھایا تو اب میرے مقابل پر نکلو اور اپنے ایمان کا ثبوت دو.میں مسیح کی خدائی کا منکر ہوں.ہاں بیشک وہ خدا کے نبیوں میں سے ایک نبی تھا.مگر مجھے خدا نے اُس سے برتر مرتبہ عطا کیا ہے اور میں کفارے کے خونی عقیدہ کو جھوٹا سمجھتا ہوں.اب اگر تم میں سے کسی کو ہمت ہے کہ روحانی کمالات میں میرا مقابلہ کر سکے تو وہ سامنے آئے اور دُعا اور افاضہ روحانی میں میرے ساتھ مقابلہ کر لے اور پھر دیکھے کہ خدا کس کے ساتھ ہے.آپ نے لکھا کہ قرعہ اندازی کے ساتھ کچھ خطرناک مریض مجھے دیدو اور کچھ تم لے لو.میں اپنے مریضوں کیلئے دعا کروں گا اور اپنے خدا سے ان کی شفایابی چاہوں گا اور تم اپنے مریضوں کے لئے اپنے مسیح سے شفا کے طالب ہونا اور اپنے علوم ظاہری کی مدد سے ان کا علاج بھی کرنا اور پھر ہم دیکھیں گے کہ کس کا خدا غالب ہے اور کون فتح پاتا ہے اور کون ذلیل ہوتا ہے.آپ نے اس چیلنج کو بار بار دہرایا.اور اس کے متعلق کثرت کے ساتھ اشتہارات دیئے اور پادریوں کو غیرت دلا دلا کر اُبھارا اور ان کے بڑے بڑے بشپوں کو بھی دعوتی مراسلے بھیجے مگر کسی کو سامنے آنے کی جرات نہ ہوئی.( تبلیغ رسالت ، ریویو آف ریلینجز ، حقیقۃ الوحی ) کیا اس سے بڑھ کر کوئی روحانی موت ہو سکتی ہے جو اس فرقہ کو نصیب ہوئی ؟ پھر آپ نے اس عظیم الشان مباحثہ کے بعد جو ۱۸۹۳ ء میں امرتسر میں عیسائیوں کے ساتھ ہوا تھا اور جو جنگ مقدس کے نام سے چھپ چکا ہے عیسائیوں کے مناظر ڈپٹی عبداللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی فرمائی کہ چونکہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دقبال کہا ہے اور مجھ پر اور اسلام پر جنسی اُڑائی ہے اور وہ ایک سراسر باطل عقیدہ کا حامی ہے اس لئے اگر اُس نے حق کی طرف رجوع نہ کیا تو وہ پندرہ ماہ میں بسزائے موت ہاویہ کے اندر گرا یا جاوے گا.( جنگ مقدس کا آخری مضمون ) اس پیشگوئی کا ایسا خوف آتھم کے دل پر طاری ہوا کہ وہیں اُسی مجلس میں اُس نے اپنی زبان منہ سے باہر نکال کر اور کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا کہ میں نے تو آنحضرت صلی 193
اللہ علیہ وسلم کو دجال نہیں کہا.حالانکہ وہ اپنی کتاب اندرونہ بائبل میں دجال کہہ چکا تھا پھر اس کے بعد جوں جوں میعاد گزرتی گئی اس کا خوف اور کرب بڑھتا گیا اور وہ ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف بھاگتا تھا اور اُسے اپنے خوف زدہ تخیل میں کبھی تو نگی تلواروں والے نظر آتے تھے اور کبھی سانپ دکھائی دیتے تھے.(دیکھو بیان مارٹن کلارک مشمولہ کتاب البریہ ) اور اُس نے اپنی قلم اور زبان کو اسلام کے خلاف بالکل روک لیا اور معلوم ہوا ہے کہ ان ایام میں وہ الگ بیٹھ کر قرآن شریف بھی پڑھا کرتا تھا اور اگر چہ عیسائیوں نے اس کا خوف کم کرنے کیلئے پولیس کے خاص پہرہ کا انتظام بھی کر دیا تھا لیکن پھر بھی اس کا خوف بڑھتا جاتا تھا آخر اس کی حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ اُنکو ا سے شراب پلا پلا کر مدہوش رکھنا پڑا.غرض ہر طرح اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت اور اسلامی صداقت سے مرعوب ہونے کا اظہار کیا.پس خدا نے پیشگوئی کی شرط کے مطابق اُسے میعاد کے اندر ہاویہ میں گرنے سے بچالیا.لیکن جیسا کہ جھوٹوں کا قاعدہ ہوتا ہے میعاد گذرنے پر عیسائیوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ پیشگوئی غلط نکلی.اس پر حضرت مرزا صاحب نے انکو مدل طور پر سمجھایا کہ آتھم کا بچنا پیشگوئی کے مطابق ہوا ہے کیونکہ یہ پیشگوئی مرکب نوعیت کی تھی یعنی اس کا مفہوم یہ تھا کہ اگر آتھم رجوع نہ کریگا تو پندرہ ماہ میں ہادیہ میں گرایا جائے گا.اور اگر رجوع کریگا تو اس صورت میں محفوظ رہے گا گویا ایک پہلو سے اس کے ہلاک ہونے اور ایک پہلو سے اُس کے زندہ رہنے کی پیشگوئی تھی پس جب اس کا خوف اور رجوع ثابت ہے تو اس کا زندہ رہنا پیشگوئی کے مطابق ہوا نہ کہ مخالف مگر عیسائیوں نے یہ نہ مانا یوں کہو کہ ماننا نہ چاہا.اس پر حضرت مرزا صاحب کی اسلامی غیرت جوش زن ہوئی اور آپ نے بذریعہ اشتہار یہ اعلان کیا کہ اگر آتھم اس بات پر حلف اُٹھا جائے کہ اس پر پیشگوئی کا خوف غالب نہیں ہوا اور اس نے اسلام کی طرف رجوع نہیں کیا اور اس حلف کے بعد وہ ایک سال کے اندر اندر ہلاک نہ ہو جائے تو میں اُسے ایک ہزار روپیہ نقد انعام دونگا.194
اور نیز اس صورت میں میں جھوٹا ہونگا اور تم بچے ثابت ہو گے اور یہ روپیہ ابھی سے جس ثالث کے پاس چاہور کھو اور اپنی تسلی کر لو مگر آتھم صاحب اس طرف نہ آئے.اس پر آپ نے دوسرا اشتہار دیا کہ ہم دو ہزار روپیہ دیں گے اگر آتھم قسم کھالے کہ میں نے رجوع نہیں کیا مگر ادھر سے پھر بھی خاموشی رہی.اس پر آپ نے ایک تیسرا اشتہار دیا کہ اگر آتھم یہ قسم کھالے تو میں تین ہزار روپیہ انعام دونگا مگر پھر بھی صدائے برنخو است.بالآخر آپ نے چوتھا اشتہار دیا کہ میں چار ہزار روپیہ نقد انعام دیتا ہوں اگر آتھم یہ قسم کھالے کہ پیشگوئی کا خوف اس کے دل پر غالب نہیں ہوا اور اُس نے حق کی طرف رجوع نہیں کیا اور آپ نے لکھا کہ اگر تم نے قسم کھالی تو ایک سال میں تمہارا خاتمہ ہے اور اس کے ساتھ کوئی شرط نہیں لیکن اگر تم نے قسم نہ کھائی تو ہر عقلمند کے نزدیک ثابت ہو جائے گا کہ تم نے اپنی خاموشی سے حق پر پردہ ڈالنا چاہا ہے.اس صورت میں گو میں ایک سال کی قید تو نہیں لگا تا لیکن یہ کہتا ہوں کہ جلد تمہارا خاتمہ ہے اور کوئی مصنوعی خدا تمہیں اس ہلاکت سے بچا نہ سکے گا.پھر اس کے بعد آپ نے ۳۰ دسمبر ۱۸۹۵ء کو ایک اور اشتہار دے کر اس مضمون کو دہرایا اور لکھا کہ :.مجھے اُسی خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر آتھم اب بھی قسم کھانا چاہے اور انہیں الفاظ کے ساتھ جو میں پیش کرتا ہوں ( یعنی یہ کہ پندرہ ماہی میعاد میں اس کے دل پر پیشگوئی کا خوف غالب نہیں ہوا اور اسلام کی صداقت کا رعب اس کے دل پر نہیں پڑا اور اس نے کوئی رجوع نہیں کیا) ایک مجمع میں میرے رُو برو تین مرتبہ قسم کھاوے اور ہم آمین کہیں تو میں اسی وقت چار ہزار روپیہ اس کو دیدونگا.اگر تاریخ قسم سے ایک سال تک وہ زندہ سالم رہا تو وہ اس کا روپیہ ہوگا اور پھر اس کے بعد یہ تمام قو میں مجھ کو جو سزا چاہیں دیں.اگر مجھ کو تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کریں تو میں عذر نہیں کرونگا اور اگر دنیا کی سزاؤں میں سے مجھ کو وہ سزا دیں جو سخت تر سزا ہے تو میں انکار نہیں کرونگا اور خود میرے لئے اس سے زیادہ کوئی رسوائی نہیں ہوگی کہ 195
میں اس کی قسم کے بعد جس کی میرے ہی الہام پر بناء ہے جھوٹا نکلوں“.تبلیغ رسالت جلد چہارم) ناظرین! قدرت الہی کا تماشہ دیکھیں کہ اس آخری اشتہار پر ابھی سات ماہ نہیں گذرے تھے کہ آتھم کی صف ۲۷ جولائی ۱۸۹۶ء کو صفیہ دنیا سے ہمیشہ کیلئے لپیٹ دی گئی.آتھم کے مرنے کے بعد بھی حضرت مرزا صاحب نے مخالفین پر اتمام حجت کرنے کیلئے مسیحیوں بلکہ تمام مخالفین کو مخاطب کیا اور لکھا کہ :- اگر اب تک کسی عیسائی کو آتھم کے اس افتراء پر شک ہو تو آسمانی شہادت سے رفع شک کرالیوے.آتھم تو پیشگوئی کے مطابق فوت ہو گیا اب وہ اپنے تئیں اُس کا قائم مقام ٹھہرا کر آتھم کے مقدمہ میں قسم کھا لیوے.اس مضمون سے کہ آتھم پیشگوئی کی عظمت سے نہیں ڈرا بلکہ اس پر یہ چار حملے ہوئے تھے ( یعنی اسکا ڈر اس لئے تھا کہ گویا حضرت مرزا صاحب کی طرف سے اُس کے قتل کیلئے کبھی تلوار وں والے آدمی بھیجے گئے اور کبھی سانپ چھوڑے گئے.کبھی کتے سکھا کر بھیجے گئے.وغیرہ وغیرہ.نعوذ باللہ من ذالک.ناقل ) اگر یہ قسم کھانے والا بھی ایک سال تک بچ گیا تو دیکھو میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنے ہاتھ سے شائع کر دونگا کہ میری پیشگوئی غلط نکلی.اس قسم کے ساتھ کوئی شرط نہ ہو گی.یہ نہایت صاف فیصلہ ہو جائے گا اور جو شخص خدا کے نزد یک باطل پر ہے اُس کا بطلان کھل جائے گا.“ ( انجام آتھم صفحہ ۱۵) مگر اس پر بھی میسحیت کا کوئی بہادر سپوت مردمیدان بن کر سامنے نہ آیا.اللہ اکبرا یہ کتنی بڑی ذلت اور شکست تھی جو اسلام کے مقابلہ میں میسحیت کو پہنچی.مگر جس کی آنکھ نہ ہو وہ کیسے دیکھے.آتھم کی اس ذلت کی موت نے عیسائی کیمپ میں عداوت اور حسد کی شدید آگ مشتعل 196
کر دی.چنانچہ ابھی اس کی موت پر زیادہ عرصہ نہ گذرا تھا کہ ڈاکٹر مارٹن کلارک نے جو امرتسر کا ایک نہایت مشہور عیسائی مشنری تھا اور امرتسر کے مباحثہ میں بھی آتھم کا معین و مدد گار رہا تھا.حضرت مرزا صاحب پر اقدام قتل کا ایک جھوٹا مقدمہ قائم کردیا اور دعویٰ کیا کہ مرزا صاحب نے ایک شخص عبدالحمید جبلی کو میرے قتل کیلئے امرتسر بھیجا ہے اور پادری صاحب موصوف نے لالچ اور خوف دلا کر عبدالحمید مذکور سے اپنے مفید مطلب بیان بھی دلواد یا لیکن پیشتر اس کے کہ یہ مقدمہ پیش ہو اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب کو الہام کے ذریعہ خبر دی کہ آپ کے خلاف ایک مقدمہ ہونے والا ہے مگر اس کا انجام بریت ہے.چنانچہ آپ نے اس الہام کی اشاعت فرما دی.اس کے بعد اس مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی اور آریوں اور بعض مسلمانوں نے عیسائیوں کی امداد کی اور کھلم کھلا اُن کا ساتھ دیا.آریہ وکیلوں نے مارٹن کلارک کی طرف سے مفت مقدمہ کی پیروی کی اور بعض مسلمان مولویوں نے بڑھ بڑھ کر حضرت مرزا صاحب کے خلاف شہادتیں دیں مگر اللہ تعالیٰ نے کپتان ڈگلس ڈپٹی کمشنر گورداسپور پر حق کھول دیا اور بالآخر نتیجہ یہ ہوا کہ عبدالحمید نے کپتان ڈگلس کے پاؤں پر گر کر اس بات کا اقرار کیا کہ یہ مقدمہ بناوٹی ہے اور مجھے پادریوں نے سکھایا تھا کہ اس اس قسم کا بیان دو.پس آپ اللہ تعالیٰ کی بشارت کے مطابق عزت کے ساتھ بری کئے گئے اور عیسائیوں پادریوں کے ماتھے پر ذلت اور شکست کے علاوہ جھوٹ اور سازش اور ارادہ قتل کا سیاہ داغ لگ گیا اور اسلام کو ایک نمایاں فتح نصیب ہوئی.(کتاب البریۃ ) جب حضرت مرزا صاحب نے دیکھا کہ عیسائیوں میں سے کوئی شخص دُعا اور افاضہ روحانی کے مقابلہ کیلئے آگے نہیں آتا تو آپ نے اُن کو مباہلہ کیلئے بلایا.یعنی عیسائیوں کو دعوت دی کہ اگر تمہیں اپنے مذہب کے سچا ہونے کا یقین ہے تو میرے ساتھ مباہلہ کرلو.یعنی میرے مقابل پر آکر یہ دعا کرو کہ اے ہمارے خدا ! ہم مسیحیت کو سچا سمجھتے ہیں اور اسلام کو ایک جھوٹا مذہب جانتے ہیں اور ہما رائد مقابل مرزا غلام احمد قادیانی اسلام کو سچ سمجھتا اور مسیحیت کے عقائد کو باطل 197
قرار دیتا ہے.اب اے خدا! تو جو حقیقت امر سے آگاہ ہے تو ہم دونوں میں سچا سا فیصلہ فرما اور ہم میں سے جو فریق اپنے دعوی میں جھوٹا ہے اس کو سچے فریق کی زندگی میں ایک سال کے اندر اندر عذاب میں مبتلا کر.اور حضرت مرزا صاحب نے لکھا کہ اسی طرح میں بھی دُعا کرونگا اور پھر ہم دیکھیں گے کہ خدا کس کو عذاب میں مبتلا کرتا ہے اور کس کی عزت ظاہر ہوتی ہے مگر افسوس عیسائیوں میں سے اس مقابلہ کیلئے بھی کوئی نہ نکلا.( تبلیغ رسالت) مسٹر والٹر آنجہانی جو ایک امریکن پادری تھا اور جس نے سلسلہ احمدیہ کی ایک مختصری تاریخ انگریزی زبان میں لکھی ہے اس چیلنج کا ذکر کر کے لکھتا ہے کہ دراصل مسیحی لوگ کسی کے متعلق بد دُعا کرنے اور اس کی ہلاکت کے خواہشمند ہونے کے مقام سے بالا تر ہیں کیونکہ وہ مذہباً کسی کی بھی تباہی اور ذلت نہیں چاہتے.اس لئے کوئی مسیحی مرزا صاحب کے مقابلہ پر نہیں آیا.خوب! بہت خوب ! مگر حل طلب امر یہ رہ جاتا ہے کہ آتھم کی میعاد پر شہروں میں جلوس نکلوانے اور سوانگ بھرنے اور پھر اس کی موت پر غضب میں آکر اقدام قتل کے سراسر جھوٹے اور بناوٹی مقدمے کھڑے کرنے اور حضرت مرزا صاحب کو ماخوذ کرا کے پھانسی دلوانے یا عمر بھر کیلئے کالے پانی بھیجوانے وغیرہ کے لئے تو اے مسیحیت کے حلیم بڑ و ! تم تیار ہو اور تمہارا مذہب تمہارے ہاتھ کو نہیں روکتا.مگر اسلام اور مسیحیت میں سچا سچا فیصلہ کرانے کیلئے خدا کے حضور دُعا کیلئے ہاتھ اٹھاتے ہوئے تمہیں اپنا مذہب یاد آ جاتا ہے!! تم نے اسلام اور مقدس بائی اسلام کے خلاف تقریر وتحریر میں زہر اُگلنے اور گالیوں سے اپنی کتابوں کے ورق کے ورق سیاہ کر دینے کو تو جائز کر رکھا ہے اور کوئی موقعہ اسلام کو نقصان پہنچانے کا ہاتھ سے نہیں جانے دیتے مگر جہاں دینی تنازعات کا مقدمہ خدا کی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے وہاں تمہیں ایک گال پر طمانچہ کھا کر مارنے والے کی طرف دوسرا گال پھیر دینے کے مسئلہ پر عمل کرنے کی سوجھتی ہے انہی باتوں کی وجہ سے تو حدیث میں تمہارا وہ نام رکھا گیا جو رکھا گیا.پھر یہ تو بتاؤ کہ بھلا مباہلہ میں تو مسیحیت کی 198
محبت کی تعلیم مانع ہوئی لیکن سامنے آکر نشان دیکھنے اور دکھانے اور مریضوں کی شفایابی کیلئے بالمقابل دُعا کرنے میں کونسا امر مانع تھا.خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا.مطلب یہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے مسیحیوں کو ہر طرح مباہلہ کیلئے بلایا لیکن کسی کو سامنے آنے کی جرات نہ ہوئی مگر خدا کو اس رنگ میں بھی اسلام کا غلبہ اور مسیحیت کی شکست دکھانی منظور تھی.چنانچہ انہی دنوں امریکہ میں ایک شخص ڈوئی کھڑا ہوا جو اصل میں سکاٹ لینڈ کا باشندہ تھا اس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑی جماعت اپنے گرد جمع کر لی اور مسیحیت کی حمایت میں اپنے دجل کا جھنڈا بلند کیا اور کہا کہ میں مسیح ناصری کا رسول ہوں اور مسیح کے عنقریب آنے کی بشارت لے کر آیا ہوں اور کہا کہ میرا یہ بھی کام ہے کہ میں اسلام کو نیست و نابود کروں.شخص پرلے درجہ کا دشمن اسلام تھا اور عیسائیت کی محبت میں گویا محوتھا اور اس کی تائید میں ایک اخبار بھی نکالا کرتا تھا جس کا نام لیوز آف ہیلنگ تھا.اس نے اپنے اس اخبار میں شائع کیا کہ اگر میں سچا نبی نہیں ہوں تو پھر روئے زمین پر کوئی ایسا شخص نہیں جو خدا کا نبی ہو.نیز لکھا کہ ”میں خدا سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آوے کہ اسلام دنیا سے نابود ہو جاوے.اے خدا تو ایسا ہی کر.اے خدا تو اسلام کو ہلاک کر دئے“.اور یہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سخت گالیاں دیا کرتا تھا.غرض تمام مسیحی دنیا میں یہ شخص اسلام کی عداوت اور اس کے متعلق بد زبانی میں اول نمبر والوں میں سے تھا.حضرت مرزا صاحب کو اس کے فتنے کی اطلاع ہوئی تو آپ نے ایک اشتہار کے ذریعہ اس کو مباہلہ کیلئے بلایا اور یہ اشتہار امریکہ و یورپ کے بہت سے اخباروں میں چھپوا دیا.چنانچہ ان اخبارات کی فہرست حقیقۃ الوحی اور ر یو یو آف ریلیجنز میں شائع ہو چکی ہے.ڈوئی اس قدر مغرور تھا کہ اس نے حضرت مرزا صاحب کی اس دعوت مباہلہ کا جواب تک نہ دیا بلکہ صرف اپنے اخبار میں یہ چند سطریں شائع کر دیں کہ: 199
”ہندوستان میں ایک بیوقوف محمدی مسیح ہے جو مجھے بار بار لکھتا ہے کہ یسوع مسیح کی قبر کشمیر میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو اس بات کا جواب کیوں نہیں دیتا اور نیز یہ کہ تو اس شخص کا جواب کیوں نہیں دیتا (یعنی اس کی دعوت مباہلہ کا).مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں گا.اگر میں ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو میں ان کو کچل کر مار ڈالوں.“ پھر دوسرے پرچہ میں لکھتا ہے :.”میرا کام یہ ہے کہ میں مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب سے لوگوں کو جمع کروں اور مسیحیوں کو اس شہر (اس سے ڈوئی کا آباد کیا ہوا شہر صیحون مراد ہے ) اور دوسرے شہروں میں آباد کروں یہاں تک کہ وہ دن آجائے کہ محمدی مذہب دنیا سے مٹا دیا جائے.اے خدا! ہمیں وہ طاقت دکھلا“.اس پر حضرت مرزا صاحب نے دوبارہ ایک اشتہار کے ذریعہ سے ڈوئی کو مخاطب کیا اور لکھا کہ تم نے میری دعوت مباہلہ کا جواب نہیں دیا.اب میں تمہیں پھر چیلنج دیتا ہوں کہ میرے مقابلہ میں نکل آؤ.اور میں تم کو سات ماہ کی مہلت دیتا ہوں.اگر تم نے اس عرصہ میں بھی جواب نہ دیا تو تمہارا فرار سمجھا جائے گا اور تمہارے صیحون پر جس کو تم نے مسیح ناصری کے نزول کے لئے تیار کیا ہے آفت آئے گی اور خدا میرے ذریعہ سے اسلام کا غلبہ ظاہر کر دیا.وغیرہ وغیرہ.یہ اشتہار بھی امریکہ کے کئی اخباروں میں شائع ہو گیا اور نیز ہمارے رسالہ ریویو آف ریلیجنز بابت ۱۹۰۲-۳ء میں بھی اس کا ذکر موجود ہے اور ۲۰ فروری ۱۹۰۷ ء کے ایک اشتہار میں حضرت مرزا صاحب نے اعلان کیا کہ ” خدا فرماتا ہے کہ میں ایک تازہ نشان ظاہر کرونگا جس میں فتح عظیم ہوگی اور وہ تمام دنیا کیلئے ایک نشان ہوگا.( قادیان کے آریہ اور ہم ) اب دیکھو کہ خدا کیا دکھاتا ہے وہ ڈوئی جو حضرت مرزا صاحب کے مقابلہ کے وقت ایک 200
بڑی طاقت کا مالک اور ایک بڑی جماعت کا مقتداء تھا اور شہزادوں کی طرح رہتا تھا اور اپنے ہم وطنوں اور ہم مذہبوں میں بڑا معزز و مکرم سمجھا جاتا تھا اور شہرت عامہ رکھتا تھا اپنی بدزبانیوں اور حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کے بعد اس کی کیا حالت ہوتی ہے.سُنو اور غور کرو :.ا.ڈوئی کے متعلق یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ شراب پیتا ہے حالانکہ وہ شراب کے خلاف وعظ کیا کرتا تھا.۲- یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ ولد الزنا ہے..اس کے مرید اس سے بدظن ہو کر اس کے خلاف ہو جاتے ہیں اور اُس کے کئی کروڑ روپے پر قبضہ کر کے اس کو اس کے شہر صحون سے نکال دیتے ہیں.۴.پچاس برس کی عمر میں جبکہ اسکی صحت بڑی اچھی تھی اُس پر فالج گرتا ہے جو اُسے ایک تختے کی طرح صاحب فراش کر دیتا ہے.۵.اور بالآخر حضرت مرزا صاحب کے آخری اشتہار مورخہ ۲۰ فروری ۱۹۰۷ء کے صرف چند ہی دن بعد یعنی اار مارچ 19ء کو اخباروں میں یہ تار چھپتا ہے کہ مفلوج اور نامراد ڈوئی اس جہان سے گذر گیا.دیکھو یہ کس قدر عظیم الشان نشان ہے جو حضرت مرزا صاحب کے ہاتھ پر اسلام کی صداقت اور مسیحیت کے بطلان میں ظاہر ہوا اور یہ نشان ظاہر بھی ایسے طریق پر ہوا کہ حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئی کے مطابق ساری دنیا اس کی گواہ بن گئی.کیونکہ یورپ اور امریکہ کے بیسیوں انگریزی اخباروں میں حضرت مرزا صاحب اور ڈوئی کے مقابلہ کی خبریں شائع ہوکر زبان زد خلائق ہو چکی تھیں اس سے بڑھ کر کسر صلیب اور قتل دجال کیا ہوگا؟ جس کی آنکھیں ہوں دیکھے.خلاصہ کلام یہ کہ آپ نے چار مختلف مرحلوں سے کسر صلیب اور قتل دجال کا کام انجام 201
دیا.اوّل.وہ اختلافات اندرونی جنہوں نے اسلام کو بدنام کر رکھا تھا اور عیسائیوں کو اسلام کے خلاف بڑا دلیر کر دیا تھا اُن کو آپ نے دلائل نیرہ سے صاف کر دیا.دوسرے آپ نے عقل و نقل سے میسحیت کے اصولی عقائد کا بطلان ثابت کیا اور اس بحث میں دلائل کا ایک سورج چڑھادیا اور مسیحیوں کو ایک بڑے مباحثہ میں مغلوب کیا.تیسرے آپ نے واقعہ صلیب اور وفات مسیح اور قبر مسیح ناصری کے متعلق تاریخی تحقیقات کر کے مسیحی مذہب پر وہ کاری ضرب لگائی جس نے اس کو جڑ سے کاٹ کر رکھ دیا.چوتھے دُعا اور روحانی مقابلوں اور زبردست الہی نشانوں کے ذریعہ آپ نے مسیحیت کے مقابل میں اسلام کو غالب کر دکھایا.ان شموس اربعہ کی روشنی میں سوائے اس شخص کے جو بطن مادر سے ہی بومی صفات لیکر پیدا ہوا ہو کوئی شخص ایک لمحہ کیلئے بھی اسلام کی فتح اور مسیحیت کی شکست میں شک نہیں کر سکتا.اور یہ سب حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ وقوع میں آیا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ وَعَلَى مُطَاعِهِ محمد صلوةٌ وَسَلَامًا دَامَّا وَبَارِك وَسَلِّم - تبلیغ ہدایت صفحه ۵۷ تا ۱۷۰) 202
صداقت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی سیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اے نبی ہو تو ان سے کہہ دے فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ (سورۃ یونس رکوع ۲ آیت ۱۷) أَفَلَا تَعْقِلُونَ اس سے پہلے میں ایک عرصہ دراز تم میں گزار چکا ہوں کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے.استدلال:- اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی ! تو اُن لوگوں سے کہہ دے کہ میں دعویٰ نبوت سے قبل تم میں ایک لمبی عمر گزار چکا ہوں.کیا تم نے مجھے پہلے کبھی جھوٹ بولتے دیکھا ہے؟ اگر میں نے اپنی چالیس سالہ زندگی میں جو دعویٰ نبوت سے قبل کی ہے کسی ایک معاملہ میں بھی جھوٹ نہیں بولا تو کیا تمہاری عقل اس بات کو تسلیم کرے گی کہ آج اچانک میں خدائے تعالیٰ کے بارے میں جو احکم الحاکمین ہے جھوٹ اور افتراء سے کام لینے لگا ہوں.انسانی فطرت تو یہ ہے کہ ہر عادت خواہ نیکی کی ہو یا بدی کی آہستہ آہستہ پڑتی ہے.یہ تو فطرت کے ہی خلاف ہے کہ چالیس سال تک تو انسان سچ بولتا رہا ہو اور پھر ایک دم ایسا تغیر پیدا ہو جائے کہ انسان خُدا کے بارے میں جھوٹ بولنے لگے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دعویٰ نبوت پیش کرنے سے قبل لوگوں کو جمع کیا اور ان سے دریافت کیا کہ اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے ایک لشکر جرار چھپا ہوا ہے تو کیا تم اس بات کو مان لو گے! تو انہوں نے کہا.203
مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا - ( بخاری کتاب التفسير سورة الشعراء جلد ۳ صفحه ۱۰۶ مصری) ہم نے آپ سے سوائے سچ کے کسی اور چیز کا تجربہ نہیں کیا.تب آپ نے فرمایا :- فَإِنِّي نَذِيرٌ لَّكُمْ بَيْنَ يَدَى عَذَابٍ شَدِيدٍ میں خدا کی طرف سے نبی ہو کر آیا ہوں اور ایک خطر ناک عذاب سے تمہیں ڈراتا ہوں.یہ بات سُن کر حاضرین میں سے ابو لہب اُٹھا.اور اُس نے کہا تباً لكَ.تیرے لئے ہلاکت ہوتو نے یہ کیا بات کہی ہے.اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کی دعوئی سے پہلے کی زندگی دوست اور دشمن سب کے تجربہ کی رُو سے پاک اور صاف ہوتی ہے اور جھوٹ بولنے کا قطعا عادی نہیں ہوتا.درحقیقت اس کی دعوی نبوت کے بعد کی زندگی بھی پاک وصاف ہوتی ہے لیکن دعوی نبوت کرنے کے بعد لوگ اس کے دشمن ہو جاتے ہیں اور اس پر طرح طرح کے الزامات لگا دیتے ہیں.پس ایک مدعی نبوت کی صداقت کو پر کھنے کے لئے اس کی دعوی سے قبل کی زندگی کو دیکھنا چاہیئے.اگر وہ ہر پہلو سے پاک وصاف ہے تو بلا شبہ وہ سچا ہے.یہ ایسی دلیل ہے جو فطرت انسانی کے عین مطابق ہے اور جاہل سے جاہل بھی اس کو سمجھ سکتا ہے.اسی دلیل کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام سچے قرار پاتے ہیں.دیکھئے حضور اپنی پاکیزہ زندگی کے بارے میں کیسی تحدی سے فرماتے ہیں :.اب دیکھو خدا نے اپنی حجت کو تم پر اس طرح پر پورا کر دیا ہے کہ میرے دعوئی پر ہزار ہا دلائل قائم کر کے تمہیں یہ موقعہ دیا ہے کہ تا تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب، افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تاتم یہ خیال کرو کہ جوشخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا کون تم میں ہے جو 204
میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے.پس یہ خدا کا فضل ہے جو اس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے.“ (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحہ ۶۴) اس چیلنج کو پیش کئے تقریباً سو سال ہو گئے ہیں.کوئی شخص حضور کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر نکتہ چینی نہیں کر سکا.صرف یہی نہیں کہ کوئی نکتہ چینی نہیں کر سکا بلکہ یہ کہ مولوی محمد حسین بٹالوی جنہوں نے سارے ہندوستان میں پھر کر حضور کے خلاف کفر کے فتوے جمع کئے دعویٰ سے قبل کی زندگی کے بارے میں گواہی دیتے ہیں کہ حضور متقی اور پرہیز گار تھے.اور انہوں نے دین کی بے مثال خدمت کی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے پہلی تصنیف براہین احمدیہ پر ریویو کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:.”اب ہم اس پر اپنی رائے نہایت مختصر اور بے مبالغہ الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں.ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں شائع نہیں ہوئی....اور اس کا مولف ( یعنی حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام ) بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی ولسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے.“ (اشاعۃ السنہ جلد 4 صفحہ ۷ ) پس اگر دعوی نبوت سے قبل کی پاکیزہ زندگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ اُمی وابی) کی صداقت کی دلیل ہے تو یقیناً اہل دانش کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی بھی دلیل ہے.کیونکہ آپ نے بھی دُنیا کے سامنے خدائی مرسل ہونے کا دعویٰ پیش کیا.معیار دوم :- صداقت کا دوسرا معیار مدعی کے دعویٰ سے تعلق رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ الحاقہ رکوع ۲ میں 205
فرماتا ہے:.وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَجِزِيْنَ (سورۃ الحاقه : آیت ۴۵ تا ۴۸) اور اگر یہ شخص ہماری طرف جھوٹا الہام منسوب کر دیتا خواہ ایک ہی ہوتا تو ہم یقیناً اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی رگ گردن کاٹ دیتے سو اس صورت میں تم میں سے کوئی بھی نہ ہوتا جواُسے خدا کے عذاب سے بچا سکتا.استدلال : -: اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ مدعی جھوٹا ہوتا اور جھوٹے الہام بنا کر یہ کہتا کہ یہ الہام خدا نے کیا ہے تو ہم اسے پکڑ لیتے اور جلد ہلاک کروا دیتے.اُسے اتنی مہلت نہ دی جاتی کہ وہ لوگوں کو مسلسل گمراہ کرتا رہتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعوی نبوت کے بعد ۲۳ سال زندہ رہے.حضور کی یہ زندگی اس بارے میں معیار ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اتنے لمبے عرصہ تک (جو ۲۳ سال پر ممتد ہے ) اس کا زندہ رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے دعوئی میں راستباز ہے.اگر وہ جھوٹا ہوتا تو بہت جلد ہم گرفت کرتے اور ہلاک کر دیتے.اس آیت سے یہ نتیجہ نکلا کہ کوئی جھوٹا مدعی الہام و وحی اتنا عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا.جتنا عرصہ سید ولد آدم اصدق الصادقین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ رہے.یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اس آیت کریمہ میں لفظ تقول استعمال ہوا ہے جو جان بوجھ کر اور عمدا جھوٹ بولنے پر دلالت کرتا ہے.ایک مجنون اور دیوانہ اس قانون کی زد میں نہیں آتا کیونکہ وہ بوجہ بیماری معذور ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کا سلسلہ ۴۳ برس تک جاری رہا.پس آپ کا اتنی 206
مدت تک ہلاک نہ ہونا اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ آپ بلاشبہ راستباز اور منجانب اللہ تھے.معیارسوم -: عَلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ ( سورة الجن رکوع ۲ - آیت ۲۸،۲۷) رسُول.غیب کا جاننے والا وہی ہے ( یعنی خدائے تعالیٰ ) اور وہ اپنے غیب پر اپنے رسولوں کے سوا کسی کو کثرت سے اطلاع نہیں دیتا.استدلال:- اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ط (سورة الانعام رکوع ۷ آیت ۲۰) یعنی غیب کی کنجیاں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور غیب کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا.اس آیت میں الغیب سے مراد خالص غیب ہے جس کی پیش بینی کسی سائنسی اصول پر نہیں کی جاسکتی.سورۃ التجن کی آیت میں یہ بتلایا ہے کہ خالص غیب کی خبریں اللہ تعالیٰ صرف اپنے برگزیدہ انبیاء کوہی کثرت سے بتلاتا ہے.اس اصول کے مطابق جس شخص کو کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی جائے اس کے رسول ہونے میں شک نہیں کیا جا سکتا.ظَهَرَ عَلَى الْغَيْبِ کے یہی معنی ہیں کہ امور غیبیہ کثرت سے بتلائی جائیں اور وہ عظیم الشان خبروں پر مشتمل ہوں گو یا کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ گویا غیب پر غلبہ حاصل ہو گیا ہو.قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایسی غیبی خبریں کچھ آفاق سے یعنی اطراف عالم سے تعلق رکھتی ہیں اور کچھ افراد سے تعلق رکھتی ہیں جیسا کہ فرمایا :- 207
الحق سَنُرِيهِمْ أَيْتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ ( سورة حم سجده رکوع۶، آیت:۵۴) عنقریب ہم ان لوگوں کو اطراف عالم میں بھی نشان دکھائیں گے اور خود ان کی جانوں میں بھی.یہاں تک کہ ان کے لئے ظاہر ہو جائے گا کہ یہ ( قرآنی وحی ) حق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہزار ہا امور غیبی سے مطلع کیا گیا جن کا تعلق قوموں اور ملکوں، دوستوں اور دشمنوں ، اپنے خاندان والوں اور خود اپنی ذات سے تھا.اور وہ اپنے اپنے وقت پر بعینہ اسی طرح ظاہر ہو کر خدائے تعالیٰ کی ہستی ، اسلام کی صداقت اور آپ کے منجانب اللہ ہونے پر گواہ ٹھہرے.ان میں سے چند کا اس جگہ ذکر کیا جاتا ہے:.ازار کی حالت زار پہلی جنگ عظیم سے قبل زار روس کی حکومت دُنیا کی طاقتور ترین حکومت سمجھی جاتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے خبر پاکر ۱۵ ۱۷ پریل ۱۹۰۵ ء میں پیشگوئی فرمائی کہ وقت آ رہا ہے جب زار روس کی حالت قابل رحم ہو جائے گی.چنانچہ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:.اک نشاں ہے آنے والا آج سے کچھ دن کے بعد جس سے گردش کھا ئیں گے دیہات و شہر اور مرغزار آئے گا قہر خُدا سے خلق پر اک انقلاب اک برہنہ سے نہ ہوگا یہ کہ تا باندھے ازار اک جھپک میں یہ زمیں ہو جائے گی زیر و زبر نالیاں خوں کی چلیں گی جیسے آپ رودبار خون سے مُردوں کے کوہستاں کے آپ رواں سُرخ ہو جائیں گے جیسے ہو شراب انجبار 208
مضمحل ہو جا ئیں گے اس خوف سے سب جن وانس زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحالِ زار ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۵۱ تا ۱۵۲) اس پیشگوئی کے مطابق ۱۹۱۴ ء میں پہلی عالمگیر جنگ شروع ہوئی بے شمار جانیں ضائع ہوئیں اور خون کی ندیاں بہہ گئیں اور روس میں ایک انقلاب بر پا ہو گیا جس کے نتیجہ میں آنا فاناً زار روس کا نہ صرف خاتمہ ہو گیا بلکہ اس کی اور اس کے خاندان کی حالت واقعی ایسی ہوگئی جو عبرتناک تھی.اور زار روس باحال زار ہو گیا.-۲- آہ نادر شاہ کہاں گیا" حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سرمئی ۱۹۰۵ ء کو ایک رویا ہوا.فرمایا :- در صبح کے وقت لکھا ہوا دکھایا گیا ” آہ نادر شاہ کہاں گیا.“ ( تذکرہ صفحہ ۵۴۷ چوتھا ایڈیشن) اس الہام کا تعلق سر زمین کابل سے ہے.۱۸۸۳ء میں جو الہامات حضرت مسیح موعود پر نازل ہوئے ان میں سے ایک یہ تھا.شَاتَانِ تُذبَحَانِ وَكُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ - ( تذكره صفحه ۸۸ طبع چہارم) یعنی دو بکریاں ذبح کی جائیں گی اور زمین پر کوئی ایسا نہیں جو مرنے سے بچ جائے گا.یعنی ہر ایک کے لئے قضاء وقدر در پیش ہے.اور موت سے کسی کو خلاصی نہیں.“ اس پیشگوئی کے مطابق ۱۹۰۳ ء میں حضرت شہزادہ سید عبداللطیف صاحب اور مولوی عبدالرحمن صاحب جو کابل کے رہنے والے تھے افغانستان کے شاہی خاندان کے حکم سے صرف اس وجہ سے سنگسار کر دیئے گئے کہ انہوں نے احمدیت کو قبول کر لیا تھا.یہ کا رروائی امیر حبیب اللہ خان کے دور میں ہوئی.پھر یکم جنوری ۱۹۰۶ء کو الہام ہوا.تین بکرے ذبح کئے جائیں گئے.‘ ( تذکرہ صفحہ ۵۸۹ 209
چوتھا ایڈیشن) چنانچہ یہ الہام ۱۹۲۴ ء میں اس طرح پورا ہوا کہ افغانستان کے اسی شاہی خاندان کے آخری حکمران امیر امان اللہ خاں کے حکم سے جماعت احمدیہ کے تین اور احباب یعنی حضرت مولوی نعمت اللہ خاں صاحب ، حضرت مولوی عبد الحکیم صاحب اور ملا نو ر علی صاحب صرف احمدیت کی وجہ سے شہید کر دیئے گئے.اوّل الذکر ۱ ۳ اگست ۱۹۲۴ ء کو شہید کئے گئے اور دوسرے دو افراد ۱۲ فروری ۱۹۲۵ کو شہید کئے گئے.اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ افغانستان کا یہ شاہی خاندان بے گناہ احمدیوں کے خون سے ہاتھ رنگے گا.اس لئے اس علام الغیوب خدا نے ایک اور خبر’ آہ نادرشاہ کہاں گیا“ کے الفاظ میں دی اور فر ما دیا کہ یہ خاندان اپنے کئے کی سزا بھگتے گا.چنانچہ ۱۹۲۹ ء میں ایک نہایت ہی معمولی شخص جیب اللہ خاں المعروف بچہ سقہ کے ہاتھوں اس خاندان کا تختہ الٹ گیا اور وہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گئے.اس وقت نادر خاں نامی ایک جرنیل فرانس میں بیمار پڑا تھا.افغانوں نے اُسے بلایا اور وہ افغانستان کا بادشاہ بن گیا.اُس نے ”خان" کا ملکی لقب ترک کر کے ” شاہ کا لقب اختیار کیا اور نادر شاہ کہلانے لگا.پھر ۸ نومبر ۱۹۳۳ء کو عین دن کے وقت ایک شخص عبد الخالق نے ایک بڑے مجمع میں اسے قتل کر دیا.اس طرح نادرشاہ کی بے وقت اور اچانک موت نے نہ صرف افغانستان بلکہ دنیا کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلوادیئے کہ آہ نادر شاہ کہاں گیا.“ ۳ لیکھرام کے متعلق پیشگوئی لیکھرام ہندوستان کے آریہ سماج فرقہ کا ایک لیڈر تھا جو بہت گندہ دہن تھا.اور اسلام پر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر رکیک حملے کرتا تھا.حضرت مسیح موعود نے اُسے بہت سمجھایا اور ان باتوں سے باز رکھنے کی کوشش کی لیکن وہ شرارت، شوخی اور بدگوئی میں بڑھتا گیا.اس پر حضرت مسیح موعود نے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ سے دُعا کی تو آپ کو بتایا گیا کہ :- 210
عجل جَسَدٌ لَهُ خُوَارُ لَهُ نَصَبُ وَعَذَاب.یعنی یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اس کے لئے ان گستاخیوں اور بد زبانیوں 66 کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جو ضرور اس کومل کر رہے گا.“ (اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء مشموله آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۵۰) پھر حضرت اقدس نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر تحریر فرمایا :- اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.“ اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء مشموله آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۵۰ صفحه ۶۵۱) ایک اور الہام کے الفاظ ہیں.يُقضى أَمْرُهُ فِي سِت“ ترجمہ:.اس کا معاملہ چھ میں ختم ہو جائے گا.استفتاء - روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۱۲۵ حاشیه) اس کے بعد آپ نے پیشگوئی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :." کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ جس دن یہ پیشگوئی پوری ہوگی وہ عید کے دن کے ساتھ ملا ہوا دن ہوگا.“ اسی طرح آپ نے اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں لیکھر ام کے بارے میں لکھا:.الا اے دشمن نادان و بے راہ * بترس از تیغ بران محمد آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۴۹) ان تمام پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لیکھر ام کے بارے میں مندرجہ ذیل امور آپ کو بتلائے گئے تھے:.(1) لیکھرام پر ایک عذاب آئے گا جس کا نتیجہ موت ہوگا.211
(۲) یہ عذاب چھ سال کے عرصہ میں آئے گا.(۳) یہ عذاب عید کے ساتھ ملے ہوئے دن میں آئے گا.(۴) لیکھرام سے گوسالہ سامری کا سا سلوک کیا جائے گا اور اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائیگا.(۵) وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کا کشتہ ہو گا.ان پیشگوئیوں کے پانچ سال بعد کسی نامعلوم شخص نے لیکھرام کے گھر میں تیز خنجر سے اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور وہ عید کے ساتھ ملا ہوا دن تھا.گوسالہ سامری کو ہفتہ کے دن ٹکڑے ٹکڑے کر کے پہلے جلایا گیا اور پھر راکھ دریا میں پھینک دی گئی.اسی طرح لیکھرام ہفتہ کے دن ہلاک ہوا.پہلے جلایا گیا اور پھر راکھ دریا میں ڈال دی گئی.اس کی ہلاکت اسلام کی صداقت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کا ایک زبر دست ثبوت ہے اور اہل ہند بالخصوص ہنود کے لئے وہ حجت ٹھہری.م.ڈاکٹر ڈوئی کے متعلق پیشگوئی ڈاکٹر الیگزنڈر ڈوئی امریکہ کا ایک مشہور عیسائی مناد تھا جس نے صحون نامی ایک شہر بسایا اور اعلان کیا کہ حضرت مسیح اسی شہر میں اُتریں گے.اس شخص کو بہت شہرت حاصل ہوئی اور اس کا شہر بہت بارونق ہو گیا.اسے اسلام سے سخت عداوت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُسے مباہلہ کی دعوت دی تاکہ عیسائیت اور اسلام کی صداقت کا فیصلہ ہو سکے اس سلسلہ میں اس نے اپنے اخبار میں لکھا:.”ہندوستان میں ایک بیوقوف محمدی مسیح ہے جو مجھے بار بار لکھتا ہے کہ مسیح یسوع کی قبر کشمیر میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو اس کا جواب کیوں نہیں دیتا اور کہ تو کیوں اس شخص کا جواب نہیں دیتا.مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں گا.اگر میں ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو میں ان کو چل کر مار ڈالوں گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد سوئم صفحہ ۵۶۶ - اشتہار ۲۳ / اگست ۱۹۰۳ء) 212
اس پر حضور نے اپنے مباہلہ کے چیلنج کو دوبارہ دُہرایا اور لکھا کہ ڈوئی اگر چہ پچاس برس کا جوان ہے اور میں ستر برس کا ہوں لیکن فیصلے کا انحصار عمروں پر نہیں ہوتا احکم الحاکمین اس کا فیصلہ کرے گا.نیز کہا :- اگر ڈوئی مقابلہ سے بھاگ گیا تب بھی یقیناً سمجھو کہ اس کے صیحون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے.“ (اشتہار ۲۳ اگست ۱۹۰۳ء مجموعه اشتہارات جلد سوئم ص ۵۶۴) اس خدائی پیشگوئی کے بموجب خدا کا قہر اس پر نازل ہوا.عین اُس وقت جبکہ وہ ایک عظیم اجتماع سے خطاب کر رہا تھا اس پر فالج کا حملہ ہوا.اور وہ زبان بند کر دی گئی جو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہرزہ سرائی کرتی تھی.پھر دماغی فتور اور کئی اور بیماریوں میں مبتلا ہو گیا.اس پر غبن کا الزام تھا.شہر میحون تباہ ہو گیا.نہ صرف مریدوں نے بلکہ اہل وعیال نے بھی ساتھ چھوڑ دیا.بیٹے نے کہا کہ وہ ولد الزنا تھا.بالآخر ہزاروں مصیبتیں اور ذلتیں سہتا ہوا ۹ / مارچ ۱۹۰۷ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اس جہان سے رخصت ہوا.بیوی بچے تک جنازے میں شریک نہ ہوئے.گھر میں شراب کی بوتلیں اور کنواری لڑکیوں کے عاشقانہ خطوط برآمد ہوئے.غرض پیشگوئی کے مطابق وہ ذلت ورسوائی کے ساتھ اس جہاں سے رخصت ہوا.اور اسکی عبرتناک موت عیسائی دنیا کے لئے ایک حجت قرار پائی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح محمدی کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر گئی.جو رہتی دنیا تک ایک نشان رہے گا.۵- طاعون کی پیشگوئی ۶ فروری ۱۸۹۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشف میں دیکھا :- خُدائے تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں.میں نے بعض لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت 213
ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں پھیلنے ( تذکره صفحه ۳۱۴ طبع چہارم) والی ہے.اس پیشگوئی کے مد نظر آپ نے اشتہار کے ذریعہ لوگوں کو مشورہ دیا کہ کھلے مقامات پر رہائش اختیار کریں.لوگوں نے اس کا بڑا مذاق اڑایا کیونکہ ملک میں طاعون کا نشان تک نہ تھا.پیسہ اخبار لاہور نے لکھا:.”مرزا اسی طرح لوگوں کو ڈرایا کرتا ہے.دیکھ لینا خود اسی کو طاعون ہوگی.“ پیسہ اخبار لاہور فروری ۱۸۹۸ء) لیکن پیشگوئی کے مطابق چند ماہ بعد طاعون نمودار ہوگئی مگر حملہ کمزور تھا اس لئے لوگ تمسخر سے باز نہ آئے تو حضور نے ازراہ ہمدردی کار مارچ ۱۹۰۱ میحون کو ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں تحریر کیا :- ”سواے عزیزو! اسی غرض سے پھر یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ سنبھل جاؤ اور خدا سے ڈرو اور ایک پاک تبدیلی دکھلاؤ تا خدا تم پر رحم کرے اور وہ بلا جو بہت نزدیک آگئی ہے خُدا اس کو نابود کرے.اسے غافلو! یہ نسی اور ٹھٹھے کا وقت نہیں ہے.یہ وہ بلا ہے جو آسمان سے آتی اور صرف آسمان کے حکم سے دُور ہوتی ہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحه ۴۰۱ اشتہار ۱۷ مارچ ۱۹۰۱ء) جب لوگوں نے اس تنبیہہ سے فائدہ نہ اٹھایا تو خدائے ذوالجلال کا غضب بھڑکا اور ۱۹۰۲ ء میں طاعون نے اس قدر زور پکڑا کہ لوگ کتوں کی طرح مرنے لگے اور گاؤں کے گاؤں اجڑ گئے.اس قدر موتا موتی ہوئی کہ لاشوں کے سنبھالنے والا کوئی نہ ملتا.یہ حالات دیکھ کر آپ نے پھر ایک رسالہ ” دافع البلاء و معیار اهل الاصطفاء تحریر فرمایا.اور لوگوں کو تو جہ دلائی کہ اس مصیبت کا حقیقی علاج یہی ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کی طرف توجہ کی جائے اور اس کے فرستادہ کو قبول کیا جائے.چنانچہ تحریر فرمایا:- 214
إِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيْرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ إِنَّهُ أَوَى الْقَرْيَةَ یعنی خُدا نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اس بلائے طاعون کو ہرگز دُور نہیں کرے گا جب تک لوگ ان خیالات کو دُور نہ کرلیں جو ان کے دلوں میں ہیں یعنی جب تک وہ خُدا کے مامور اور رسول کو مان نہ لیں تب تک طاعون دُور نہیں ہوگی اور وہ قادر خُدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا تاتم سمجھو کہ قادیان اسی لئے محفوظ رکھی گئی کہ وہ خُدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا.“ دافع البلاء روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۲۵ ، صفحه ۲۲۶) پھر خداوند عز و جل نے یہ بھی خبر دی کہ :-..إنِّي أَحَافِظُ كُلّ مَنْ فِي الدَّارِ إِلَّا الَّذِينَ عَلَوْا مِنْ اِسْتِكْبَارٍ وَأَحَافِظُكَ خَاصَّةً - سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍ رَّحِيمٍ.( تذکره صفحه ۴۶۸ طبع چہارم) یعنی میں ہر ایک ایسے انسان کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا جو تیرے گھر میں ہوگا مگر وہ لوگ جو تکبر سے اپنے تئیں اونچا کریں اور میں تجھے خصوصیت کے ساتھ بچاؤں گا.خدائے رحیم کی طرف سے تجھے سلام.“ طاعون کی مصیبت سے لوگوں کو بچانے کے لئے حکومت وقت نے طاعون کا ٹیکہ لگانا شروع کیا لیکن حضرت مسیح موعود نے اپنی جماعت کو ٹیکہ کرانے سے منع کر دیا تا کہ وہ نشان جو حضور کی صداقت کے لئے مقرر کیا گیا تھا مشتبہ نہ ہو جائے.چنانچہ حضور نے ایک کتاب کشتی نوح تصنیف فرمائی اور اس میں تحریر فرمایا :- اس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تو اور جو شخص تیرے گھر کی چاردیوار کے اندر ہو گا اور وہ جو کامل پیروی اور اطاعت اور سچے تقویٰ سے تجھ میں محو ہو جائے گا وہ 215
سب طاعون سے بچائے جائیں گے.اور ان آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہوگا تا وہ قوموں میں فرق کر کے دکھلاوے لیکن وہ جو کامل طور پر پیروی نہیں کرتا وہ تجھ میں سے نہیں ہے اس کے لئے مت دلگیر ہو یہ حکم الہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے نفس کے لئے اور ان سب کے لئے جو ہمارے گھر کی چار دیوار میں رہتے ہیں ٹیکہ کی کچھ ضرورت نہیں.“ کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲) میں بار بار کہتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ اس پیشگوئی کو ایسے طور سے ظاہر کر دیگا کہ ہر ایک طالب حق کو کوئی شک نہیں رہے گا اور وہ سمجھ جائے گا کہ معجزہ کے طور پر خُدا نے اس جماعت سے معاملہ کیا ہے بلکہ بطور نشان الہی کے نتیجہ یہ ہوگا کہ طاعون کے ذریعہ سے یہ جماعت بہت بڑھے گی اور خارق عادت ترقی کریگی اور انکی یہ ترقی تعجب سے دیکھی جائیگی.“ کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۶) غرض جیسا کہ کہا گیا تھا ویسا ہی وقوع میں آیا.لوگ حیرت سے مشاہدہ کرتے تھے کہ احمدی اس بلا سے باوجود ٹیکہ نہ کرانے کے محفوظ رہتے ہیں.اگر کسی گھر کے چار افراد میں سے ایک احمدی ہوتا تو وہ بچ جاتا اور باقی تین بیماری کا شکار ہو جاتے.طاعون کے کیڑے کس طرح فرق کرتے تھے کہ فلاں احمدی ہے اور فلاں نہیں.لوگوں کے لئے یہ ایک حیرت انگیز امر تھا اور اس مشاہدہ کی وجہ سے لوگ کثرت سے اس جماعت میں شامل ہوئے گویا خدائے تعالیٰ کی فعلی شہادت نے یہ بات واضح کر دی کہ وہ اس جماعت کے ساتھ ہے.اور اس کو ترقی دینا چاہتا ہے.پھر قادیان میں حسب وعدہ اس مرض کی وہ شدت نہ ہوئی جو دوسرے قصبات اور شہروں میں ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا کے وعدوں پر کس قدر یقین تھا اس کا اندازہ اس امر سے ہو جاتا ہے کہ حضور کے ایک مرید مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کو جو حضور کے گھر کے ایک حصہ میں رہتے تھے.کچھ بخار ہو گیا اور انہیں خیال ہوا کہ مرض طاعون کا حملہ ہے.حضور نے 216
پورے وثوق سے فرمایا.میں نے انکو کہا کہ اگر آپکو طاعون ہوگئی ہے تو پھر میں جھوٹا ہوں اور میرا دعویٰ 66 الہام غلط ہے.(حقیقۃ الوحی صفحہ 253، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 265) ان کا بخار جلد اُتر گیا اور انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے ناجی فرقہ صرف جماعت احمدیہ ہی ہے ناجی فرقہ :- حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.یقیناً میری امت پر ایک وقت آئے گا جو بنی اسرائیل پر آچکا ہے اور وہ انہی کے نقش قدم پر چلنے لگے گی.اور اگر بنی اسرائیل کا کوئی آدمی اپنی ماں سے زنا کا مرتکب ہوگا تو میری امت کا مسلمان بھی ایسا ہی کرے گا اور جس طرح بنی اسرائیل کے ۷۲ فرقے ہو گئے تھے اسی طرح میری امت کے ۷۳ فرقے ہوں گے.ان میں سے صرف ایک ناجی ہوگا باقی ۷۲ فرقے ناری ہوں گے.“ ( ترمذی ابواب الایمان باب افتراق لهذه الامة ) ناجی فرقہ کے متعلق مرقاۃ المفاتیح میں لکھا ہے:.66 ناجی فرقہ طریقہ احمدیہ پر گامزن ہوگا او محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشن سنت پر عمل کرے گا.(مرقاۃ المفاتیح جلد اوّل صفحہ ۲۴۸ حاشیہ.مکتبہ امدادیہ ملتان ناشر مجلس اشاعت المعارف.وکٹوریہ پریس ملتان.) ۷ ستمبر ۱۹۷۴ ء کو پاکستان کی اس وقت کی قومی اسمبلی نے جماعت احمدیہ کے خلاف ایک فیصلہ دیا جس نے ایک اور ۷۲ کے فرق کو روز روشن کی طرح واضح کر دیا.چنانچہ اخبار نوائے 217
وقت نے لکھا:.اسلامی تاریخ میں اس قدر پورے طور پر کسی اہم مسئلے پر بھی اجماع امت نہیں ہوا اس فیصلہ کی ایک خاص اہمیت یہ ہے کہ اس پر اجماع امت بالکل صحیح طور پر ہوا ہے.اسلام کی ساری تاریخ میں اس قدر پورے طور پر کسی اہم مسئلہ پر کبھی اجماع نہیں ہوا.اجماع امت میں ملک کے سب بڑے سے بڑے علماء دین اور حاملانِ شرع متین کے علاوہ تمام سیاسی لیڈر اور ہر گروپ کے سیاسی رہنما کماحقہ متفق ہوئے ہیں اور صوفیاء کرام اور عارفین باللہ برگزیدگان تصوف و طریقت کو بھی پورا پورا اتفاق ہوا ہے.قادیانی فرقہ کو چھوڑ کر جو بھی ۷۲ فرقے مسلمانوں کے بتائے جاتے ہیں سب کے سب اس مسئلہ کے اس حل پر متفق اور خوش ہیں.زعماء ملت اور عمائدین کا کوئی طبقہ نظر نہیں آتا جو اس فیصلہ پر خوشگوار رد عمل نہ رکھتا ہو.“ (نوائے وقت مورخہ ۱/۶ اکتوبر ۱۹۷۴ء) مسیح موعود و مہدی مسعود پر ایمان لانے کی اہمیت آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:.و تم میں سے جو عیسی کو پائے میر اسلام کہے.“ (درمنثور ۲/ ۴۴۵ از جلال الدین السیوطی) ” جب تم اس کو دیکھو تو اگر برف کے پہاڑوں پر سے گھسٹ گھسٹ کر اس کے پاس پہنچنا پڑے تو بھی اس کی بیعت کرو“.ابن ماجہ ابواب الفتن باب خروج المہدی.جلد دوئم ) اس کی اطاعت میری اطاعت اور اس کی نافرمانی میری نافرمانی ہوگی.“ ( بحارالانوار جلد ۱۳ صفحه ۱۷ از علامہ باقر مجلسی) 218
جس نے مہدی کے ظہور کا انکار کیا اُس نے گویا محمد پر نازل شدہ باتوں کا انکار کیا.( ینابیع الموده الباب الثامن والسبعون صفحه ۴۴۷ از علامه شیخ سلمان المتوفی ۱۲۹۴ھ ) جس نے مہدی کو جھٹلایا پس اُس نے کفر کیا.‘ ( حج الکرامہ صفحہ ۳۵۱ از نواب محمد صدیق حسن خانصاحب مطبع شاہجہان بھوپال) حضرت سرور کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خبر دیتے ہوئے فرمایا تھا : فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَبَايِعُوْهُ وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ فَإِنَّهُ خَلِيْفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِی ( مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحه ۳۰) اے مسلمانو! جب تم میں مسیح موعود ظاہر ہو اور تم اس کو دیکھ لوتو تمہارا فرض ہے کہ تم اس تک پہنچو اور بیعت کر کے اس کے حلقہ اطاعت میں شامل ہو جاؤ خواہ تمہیں اُس تک پہنچنے کے لئے برف کے یخ تو دوں پر سے گھٹنوں کے بل ہی کیوں نہ جانا پڑے تم ضرور اس کے پاس پہنچو کیونکہ وہ کوئی معمولی ہستی نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ اور اس کی طرف سے ہدایت یافتہ ہوگا.جماعت احمدیہ کا روشن مستقبل سید نا حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں:.”خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا.اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کامنہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت 219
سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سواے سُننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو.اور اِن پیش خبر یوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ کر لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.“ (تجلیات الہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۰،۴۰۹) ”خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دیگا.میں تجھے اُٹھاؤں گا.اور اپنی طرف بلالوں گا پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اُٹھے گا.اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں.اور تیرے نا کام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود نا کام رہیں گے.اور نا کامی اور نامرادی میں مریں گے.لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مراد یں تجھے دے گا.میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا.اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا.اور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے.جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے.خدا انہیں نہیں بھولے گا.اور فراموش نہیں کرے گا.اور وہ علی حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا.یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں.برکت ڈھونڈیں گئے.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۰۲، ۱۰۳) مسیح موعود کا آسمان سے اتر نا محض جھوٹا خیال ہے.یا درکھو کہ کوئی آسمان سے ނ 220
نہیں اُترے گا.ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور ان کی اولا دجو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولا د مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا.اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے.اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑ دیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ ختم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے.( تذکرہ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۷) ☆ 221
پانچواں باب حياة النبی صلی اللہ علیہ وسلم پیدائش ، بچپن اور جوانی مقدس بائی اسلام سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آج سے قریباً چودہ سوسال قبل ۱۲۰ اپریل اے جء مطابق ۹ ربیع الاول بروز دوشنبہ مکہ میں پیدا ہوئے.آپ قبیلہ قریش کی مشہور شاخ بنو ہاشم کے چشم و چراغ تھے.والد کا نام عبد اللہ اور والدہ کا نام آمنہ تھا.والد محترم آپ کی پیدائش سے قبل ہی فوت ہو گئے اور آپ یتیم رہ گئے.اس طرح آپ کی پرورش کی عظیم ذمہ داری آپ کے دادا اور مکہ کے سردار عبدالمطلب نے سنبھالی.ابھی 4 ماہ کے تھے کہ مکہ کے دستور کے مطابق پرورش کے لئے آپ کو دائی حلیمہ کے سپرد کیا گیا اور حضور ان کے گھر چار پانچ برس تک رہے.جب سوا چھ برس کے ہوئے تو مادر مشفق کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا.پھر آپ اپنے دادا کی کفالت میں آگئے جنہوں نے نہایت محبت و پیار سے آپ کی پرورش کی.ابھی دو سال بھی گذرنے نہ پائے تھے کہ دادا بھی رحلت فرما گئے.دادا کی خواہش کے مطابق آپ کے چا ابو طالب نے آپ کو اپنی آغوش تربیت میں لے لیا.اور نہایت محبت و پیار اور توجہ سے آپ کی خبر گیری کی.لے سیرۃ النبی مصنفہ علامہ شبلی نعمانی جلد اول صفحہ ۱۷۲.تاریخ ولادت میں اختلاف ہے.شاہ معین الدین ندوی نے تاریخ اسلام جلد اول میں ۹ ر ربیع الاول مطابق اپریل اے جو لکھی ہے.سید امیر علی نے تاریخ اسلام میں ۲۹ اگست ۵۷۰ لکھی ہے.فلپ ہٹی نے اسے لکھا ہے.مشہور مصری ہیئت دان محمود پاشا فلکی کی تحقیق جدید کی رو سے بھی آنحضرت صلی ای ایم کی ولادت ۹ ربیع الاول بروز دوشنبہ مطابق ۱/۲۰ پریل اے کو ہوئی.222
بارہ برس کی عمر میں آپ نے اپنے شفیق چا ابوطالب کے ساتھ شام کا پہلا سفر کیا.آپ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے تاہم کاروبار کے طور طریقوں سے خوب واقف ہو گئے.بچپن سے ہی آپ کی طبیعت میں نیکی ، پاکیزگی، دیانت اور امانت اور خوش خلقی پائی جاتی تھی.لین دین کے کھرے اور سچائی کے پابند تھے.اسی وجہ سے آپ صادق اور امین کہلاتے تھے.انہی پاکیزہ خصائل کی وجہ سے مکہ کی ایک مالدار بیوہ حضرت خدیجہ نے آپ سے شادی کر لی.اس شادی کے وقت آنحضور کی عمر پچیس برس اور حضرت خدیجہ کی چالیس سال تھی.حضرت خدیجہ کی اولا د میں حضرت فاطمہ سب سے زیادہ مشہور ہیں.آنحضرت کی بعثت : حضرت خدیجہ سے نکاح کے بعد حضور فارغ البال ہو گئے.آپ اپنی دولت غریبوں مسکینوں اور محتاجوں کی اعانت میں صرف کیا کرتے.اپنے فراغت کے اوقات عبادت اور ذکر الہی میں صرف کیا کرتے.مکہ کے قریب ایک پہاڑی کی کھوہ تھی جسے غارِ حرا کہتے ہیں.آپ اکثر وہاں جا کر تنہائی میں عبادت کرتے اور کئی کئی دن تک وہاں ذکر الہی اور دعاؤں میں مصروف رہتے.جب آنحضور چالیس سال کی عمر کو پہنچے تو تاج رسالت سر پر رکھا گیا اور رمضان کے مبارک مہینہ میں وحی رسالت سے آپ سرفراز کئے گئے.سب سے پہلی وحی جو آپ پر نازل ہوئی وہ یہ افر أباسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ تھی:.جب حکم ملا کہ خاندان اور قوم کو بت پرستی سے روکیں تو آنحضور نے خاموشی سے تبلیغ شروع کی.تین سال بعد اعلانیہ تبلیغ شروع ہوگئی اور آپ نے پہلے مکہ والوں کو تو حید کا پیغام پہنچایا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ مسلمان ہو جاتے ان پر کفار سختیاں کرنے لگتے.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرقسم کی ایذائیں دی گئیں حتی کہ آپ کو اپنے خاندان سمیت تین سال تک ایک گھائی 223
میں جسے شعب ابی طالب کہتے ہیں محصور رہنا پڑا جہاں مکمل طور پر آپ کا بائیکاٹ رہا.آپ کے چا ابو طالب جب تک زندہ رہے وہ آپ کی ہر طرح امدا دو حمایت کرتے رہے.لیکن نبوت کے دسویں سال ابو طالب کی وفات پر یہ بند بھی ٹوٹ گیا اور قریش کی شرارتوں میں اور اضافہ ہو گیا.مدینہ کی طرف ہجرت : جب مکہ میں ایذا رسانیاں انتہاء کو پہنچ گئیں اور قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومل کر قتل کرنے کا فیصلہ کیا تو نبوت کے تیرھویں سال حضور خدائے تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابوبکر کی معیت میں رات کے وقت مکہ سے نکلے اور مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے.مکہ سے چار پانچ میل دور غار ثور میں حضور نے تین دن قیام فرمایا اور پھر مدینہ چلے گئے.جولوگ مدینہ میں رہتے تھے اور مسلمان ہو گئے تھے وہ انصار کہلائے.جو مسلمان ایذارسانیوں کے بچنے کیلئے مدینہ میں آ جمع ہوئے وہ مہاجر کہلائے.انصار نے مہاجرین کو اپنے گھروں میں پناہ دی اور آنحضرت نے دونوں میں بھائی چارہ قائم کر دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد دس سال زندہ رہے.جب قریش مکہ نے دیکھا کہ مسلمانوں کو مدینہ میں امن حاصل ہو گیا ہے تو انہوں نے متعدد بار مسلمانوں پر چڑھائی کی اور فوجی طاقت سے اسلام کو مٹانا چاہا.مسلمان بھی خود حفاظتی کیلئے مقابلہ میں کھڑے ہو گئے.چنانچہ مسلمانوں اور کفار کے درمیان کئی خونریز معر کے ہوئے جن میں جنگ بدر ، جنگِ اُحد اور جنگ احزاب بہت مشہور ہیں.جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد صرف ۳۱۳ تھی اور کفار کی تعداد ایک ہزار تھی.جنگ اُحد میں جو جنگ بدر کے تین سال بعد ہوئی مسلمانوں کی تعداد ۷۰۰ اور دشمن کی تعداد تین ہزار تھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیابی عطا کی.2ھ میں یہودیوں نے جن کو ان کی شرارتوں اور بدعہدیوں کی وجہ سے مدینہ سے باہر نکال دیا گیا تھا قریش مکہ کو پھر جنگ کیلئے اکسایا اور دوسرے قبائل کو بھی جنگ پر آمادہ کیا.اس کوشش کے نتیجہ میں دس ہزار کا 224
جرار لشکر مدینہ پر حملہ آور ہوا.آنحضور نے شہر کی حفاظت کے لئے ارد گر دخندق کھدوائی.قریباً ایک ماہ تک مدینہ کا محاصرہ رہا.پھر خدا کی نصرت اس رنگ میں آئی کہ ایک رات تیز آندھی آئی اور جو احزاب مدینہ کے گرد خیمے ڈالے پڑے تھے ان کی روشنیاں بچھ گئیں.اور دلوں میں خوف طاری ہو گیا.پھر سارے گروہ (احزاب) ایک ایک کر کے بھاگ گئے اور اپنے ارادوں میں ناکام رہے.یہ جنگ احزاب اور جنگ خندق کہلاتی ہے.صلح حدیبیه : سن ۶ ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رویاء کی بناء پر خانہ کعبہ کی زیارت (عمرہ) کا ارادہ کیا اور مکہ کی طرف روانہ ہوئے.حضور کے ہمراہ چودہ سوصحابہ کی ایک جماعت تھی.حدیبیہ کے مقام پر قریش نے آپ کا راستہ روک لیا.بالآخر مسلمانوں اور قریش میں ایک معاہدہ طے پایا جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے.اس معاہدہ کی بناء پر حضور مدینہ واپس آگئے.بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دب کر صلح کر لی ہے لیکن درحقیقت اس کے نتیجہ میں فتح مکہ کا راستہ صاف ہو گیا اور سیاسی طور پر مسلمانوں کو ایک الگ قوم تسلیم کر لیا گیا.بادشاہوں کے نام تبلیغی خطوط : جب صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں دس سال تک پرامن رہنے کا کفار سے معاہدہ ہو گیا تو حضور نے دنیا کے مختلف حصوں میں جو سلاطین رہتے تھے ان کو خطوط کے ذریعہ پیغام حق پہنچایا.چنانچہ قیصر روم، کسری پرویز شاه ایران مقوقس سلطان مصر، ملک حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو اسلام کی دعوت دی گئی.اسی طرح بحرین ، بصرہ اور یمامہ کے حکمرانوں کو بھی خطوط لکھے گئے.فتح مکه : صلح حدیبیہ کی رُو سے دس سال تک جنگ بند رکھنے کا معاہدہ ہو چکا تھا.لیکن سن ۸ ہجری 225
میں خود مکہ والوں نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی.اس بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار قدوسیوں (صحابہ) کو ساتھ لیکر مکہ کی طرف روانہ ہو گئے.قریش کو اس لشکر کے آنے کا اس وقت علم ہوا جب وہ مکہ کے بالکل قریب پہنچ گیا.ابوسفیان نے جو مکہ کا سردار تھا اتنابڑ الشکر دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے اور اسلام کا رُعب اس کے دل میں بیٹھ گیا.حضرت عباس کے توجہ دلانے پر اس نے اسلام قبول کر لیا.اسلامی لشکر فاتحانہ انداز میں مکہ میں داخل ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ( آج تم پر کوئی الزام نہیں) کہ کر عام معافی کا اعلان فرما دیا اور عفو و درگذر کی ایسی مثال قائم کر دی جس کی نظیر دنیا میں نہیں مل سکتی.فتح مکہ کے بعد اسلام بڑی تیزی سے سارے عرب میں پھیل گیا.تاہم فتح مکہ کے بعد بھی آپ کو بعض غزوات پیش آئے جن میں غزوہ حنین اور غزوہ تبوک زیادہ معروف ہیں.وصال : ہجرت کے بعد صرف ایک مرتبہ یعنی ہجرت کے دسویں سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا جو حجتہ الوداع کہلاتا ہے.آپ نے اس موقع پر ایک خطبہ دیا اور بطور وصیت آخری نصائح فرما ئیں.پھر آپ حج سے فارغ ہو کر واپس مدینہ تشریف لے گئے.مدینہ آ کر مرض الموت میں مبتلا ہو گئے اور ۲۶ رمئی ۳۲ ء مطابق یکم ربیع الاول الاه روز پیر تریسٹھ سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.لے اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكَ وَسَلِّمْ - له تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۵۵۵ حاشیہ.اخبار جنگ کراچی ۲۸ ستمبر ۱۹۸۵ء صفحہ ۷.ڈاکٹر محمد شہید اللہ صاحب پروفیسر راجشاہی بنگلہ دیش کی تحقیق جدید کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وصال یکم ربیع الاول سن ۱۱ھ مطابق ۲۶ رمئی ۳۲ قرار پاتا ہے.محمد مختار باشاہ ماہر فلکیات کی کتاب "التوفیقات الالہامیہ صفحہ ۶ کی رو سے یکم ربیع الاول سن ااھ کی 226
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولا داور ازواج مطہرات لڑکے:.قاسم عبداللہ ( لقب طاہر اور طیب).ابراہیم.لڑکیاں : - زینب.رقیہ - اُم کلثوم".فاطمہ.رض بیویاں :.حضرت خدیجہ سودہ.عائشہ حفصہ.زینب.اُمّ سلمی.اُمّ حبیبہ.زینب بنت حجش.جویریہ.صفیہ.میمونہ.ماریہ قبطیہ (بقیه حاشیه صفحه 226) تاریخ ۲۶ مئی کی بجائے ۲۷ مئی بنتی ہے.۲۶ رمئی ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ وصال ہے اور آپ کی تدفین کی تاریخ ۲۷ رمئی ہے.اس طرح تاریخوں کا تطابق ظاہری طور پر آنحضرت کی حدیث يُدُ فَنُ مَعِي في قبری ( مشکوۃ باب نزول عیسی ) کی ایک تعبیر بن جاتی ہے.۲ - طبقات ابن سعد حصہ دوم صفحہ ۱۳۷۷ اور تاریخ اسلام مصنفہ معین الدین ندوی نے تاریخ وصال ۱۲ ربیع الاول سن 11 لکھی ہے.سیرت ابن ہشام جلد چہارم.تاریخ اسلام مصنفہ سید امیر علی اور ہسٹری آف دی ار بز مصنفہ فلپ ہٹی میں تاریخ وصال ۸ /جون ۳۲ لکھی ہے.227
حضرت ابو بکر صدیق رینی شینہ عہد خلافت ۶۳۲ تا ۶۶۳۴ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ منتخب ہوئے.آپ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عہد شباب سے ہی گہرے دوستانہ مراسم تھے اور جب آنحضور نے دعوی نبوت کیا تو مردوں میں سب سے پہلے آپ نے اسلام کی دعوت کو قبول کیا اور آنحضور کے دعوئی کی تصدیق کر کے صدیق کا لقب پایا.ابتدائی زندگی : حضرت ابوبکر کا نام عبداللہ.لقب صدیق اور کنیت ابو بکر تھی.والد کا نام ابوقحافہ اور والدہ کا نام اُم الخیر سلمی تھا.چھٹی پشت میں آپ کا شجرہ نسب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے.آپ سے چھ ء میں مکہ میں پیدا ہوئے اور وہیں آپ کا بچپن گزرا.جب جوان ہوئے تو کپڑے کی تجارت کرنے لگے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ اخلاق اور اوصاف حمیدہ کا گہرا نقش آپ کے دل پر تھا.یہی وجہ ہے کہ جب آپ کو علم ہوا کہ آنحضرت نے نبوت کا دعوی کیا تو فوراً اس کی تصدیق کی اور اسلام قبول کرنے میں اولیت کا شرف حاصل کیا.اسلام قبول کرنے کے بعد خدمت دین کو اپنا شعار بنایا.آپ کی کوششوں سے حضرت عثمان، حضرت زبیر ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت طلحہ ، حضرت ابو عبیدہ بن جراح ، حضرت سعد بن ابی وقاص " جیسے جلیل القدر افراد نے اسلام کو قبول کیا اور ان کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی.سفر و حضر میں صلح اور جنگ میں ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ย 228
رہتے.آنحضور کے ساتھ تمام معرکوں میں شریک رہے.ہر معاملہ میں آنحضرت آپ سے مشورہ کرتے.ہجرت کے وقت بھی آپ آنحضور کے ساتھ رہے اور جب غار ثور میں آنحضرت نے پناہ لی تو حضرت ابوبکر ساتھ تھے.حجۃ الوداع کے بعد جب آنحضرت بہت بیمار ہو گئے تو آپ نے حضرت ابوبکر کو حکم دیا کہ وہ مسجد نبوی میں امامت کرائیں.قربانی وایثار مسلمان ہو جانے کے بعد حضرت ابوبکر تن من دھن سے خدمتِ اسلام میں مصروف ہو گئے نہ تجارت کا خیال رہا نہ آرام کا.جب روپیہ کی ضرورت ہوتی وہ قربانی میں پیش پیش ہوتے.ایک موقعہ پر جب دین کی خاطر روپیہ کی بہت ضرورت تھی.حضرت عمرؓ نے اپنے گھر کا نصف اثاثہ آنحضرت کی خدمت میں پیش کر دیا اور خیال کیا کہ آج تو میں ابوبکر سے سبقت لے جاؤں گا.لیکن حضرت ابوبکر نے موقعہ کی نزاکت کے پیش نظر گھر کا سارا مال پیش کر دیا تھا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ گھر میں بھی کچھ چھوڑا ہے یا نہیں تو حضرت ابوبکر نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول کا نام گھر میں چھوڑا ہے.اسی اخلاص ، وفاداری اور جاں نثاری کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی بیٹی حضرت عائشہ سے شادی کر لی.خلافت کا دور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر پہلے خلیفہ منتخب ہوئے.آپ اپنے تقویٰ علم و معرفت ، دانشمندی و معاملہ نہیں، اپنے ایثار و قربانی کی وجہ سے سب صحابہ میں افضل تھے اور خلافت کے سب سے زیادہ اہل تھے.اگر چہ طبیعت میں نرمی اور منکسر المزاجی بے انتہا تھی لیکن دینی وقار کے معاملہ میں آپ کسی نرمی اور رواداری کے قائل نہ تھے.آغاز خلافت سے ہی بعض مشکلات پیش آئیں.لیکن آپ 229
نے بڑی استقامت اور جرات و ہمت سے ان کا مقابلہ کیا.اور ان پر قابو پالیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کچھ قبائل جن کے دلوں میں ابھی اسلام اچھی طرح رچا نہیں تھا مرتد ہو گئے اور پرانی عصبیت ان پر غالب آگئی.انہوں نے خود مختار رہنا پسند کیا.اور زکوۃ دینے سے انکار کر دیا.بلکہ مدینہ پر حملہ کرنے کی سوچنے لگے.حضرت ابو بکر نے خطرہ کو دیکھ کر مناسب انتظامات کئے اور منکرین زکوۃ کی اچھی طرح سرکوبی کی.بعض لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نبوت کے جھوٹے دعوے کئے.اسود عنسی مسیلمہ کذاب، طلیحہ بن خویلد اور ایک عورت سجاح زیادہ معروف ہیں.اسود عنسی تو آنحضرت کی زندگی میں ہی قتل کیا گیا.باقیوں نے ارتداد کی رو سے فائدہ اُٹھا کر قبائل عرب کو بغاوت پر آمادہ کیا.حضرت ابو بکر نے سب کو زیر کیا.مسیلمہ کذاب قتل ہوا.طلیحہ نے راہ فرار اختیار کی.یہ حضرت ابوبکر کی ہمت اور استقامت ہی تھی جس کے باعث دُور دراز کے مرتدین کی بھی سرکوبی ہوئی.اور سارا جزیرہ عرب مسخر ہو کر اسلامی سلطنت میں شامل ہو گیا.اندرونی خلفشار کو دور کرنے کے علاوہ حضرت ابوبکر نے پورے عزم کے ساتھ بیرونی دشمنوں کی طرف توجہ کی اور اس زمانہ کی دو عظیم طاقتوں یعنی کسری شاہ ایران اور قیصر روم سے ٹکر لی.عراق اور شام کی فتح کی طرف متوجہ ہوئے.یرموک کے مقام پر رومی سلطنت سے ایک فیصلہ کن جنگ ہوئی جس نے رومی سلطنت کی تسخیر کے دروازے کھول دئے اور رومیوں کے حوصلے پست کر دیئے.حضرت ابو بکر کے دور میں جن فتوحات کا آغاز ہوان کی تکمیل خلافت ثانیہ کے دور میں ہوئی.حضرت ابوبکر" کے عہد خلافت کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے حفاظت قرآن کا بندوبست کیا.یوں تو جب اور جتنا قرآن کریم نازل ہو تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے لکھوا دیتے.قرآن کریم کی ہر سورۃ اور اس کا نام اور اس کی ترتیب پھر سارے قرآن کریم کی ترتیب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حکم الہی سے عمل میں آچکی تھی.230
لیکن یہ قرآن چمڑے کے ٹکڑوں، پتھر کی سلوں اور کھجور کی چھال وغیرہ پر متفرق رنگ میں لکھا ہوا تھا.اس خوف سے کہ مبادا قرآن کریم کی عبارت میں بعد ازاں اختلاف ہو جائے.آپ نے تمام تحریروں کو جمع کرایا اور حفاظ کی مدد سے سارے قرآن کو یکجا اور محفوظ کر دیا.وفات حضرت ابو بکر نے ایک دن سردی میں غسل کیا جس کی وجہ سے آپ کو بخار ہو گیا اور آپ پندرہ دن بیمار رہے.اس زمانہ میں آپ نے حضرت عمرؓ کو امامت کے فرائض ادا کر نے کیلئے مقرر کیا.بعد ازاں آپ نے اعلان فرما دیا کہ حضرت عمرؓ آپ کے بعد جانشین ہوں گے.آپ دو سال تین ماہ اور گیارہ دن خلیفہ رہے.۲۲ راگست ۶۳۴ ءمطابق ۲۱ / جمادی ساتھ بروز پیر تریسٹھ سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم الآخر کے پہلو میں دفن ہوئے.231.☆
ابتدائی زندگی حضرت عمر فاروق ربنی اشند عہد خلافت ۶۳۴ تا ۶۶۴۴ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ثانی تھے.آپ کا نام عمر ، لقب فاروق اور کنیت ابن خطاب تھی.والد کا نام الخطاب بن نصیل تھا.ا ء میں مکہ میں پیدا ہوئے.بچپن میں اپنے والد کے اونٹ وغیرہ چراتے رہے.ذرا ہوش سنبھالا تو لکھنا پڑھنا سیکھا.جوان ہوئے تو تجارت کو ذریعہ معاش بنایا.اور اکثر شام و عراق کے سفر کئے.قبول اسلام اسلام کے ابتدائی ایام میں حضرت عمرؓ اسلام سے سخت دشمنی رکھتے تھے.ایک دن تلوار لیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے گھر سے نکلے.راستہ میں کسی نے کہا پہلے اپنی بہن کی تو خبر لو.وہ مسلمان ہو چکی ہے.اس پر فوراً بہن کے گھر کا رُخ کیا.وہاں پہنچے تو قرآن مجید کی تلاوت ہورہی تھی اُسے سن کر دل صاف ہو گیا اور آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا.حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دُعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! عمر کو اسلام میں داخل کر کے مسلمانوں کو تقویت بخش.حضرت عمر بڑے رعب و دبدبہ کے مالک تھے.اکثر غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوش بدوش رہے.آپ کی معاملہ نہی کی وجہ سے آنحضور آپ سے بھی اکثر معاملات میں مشورہ فرماتے تھے.232
دور خلافت اپنی خلافت کے دور میں حضرت عمر نے ایران و روم کی سلطنتوں کی طرف فوری توجہ دی.اور بڑے صبر آزما حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیابیاں عطا کیں.ایران اور عراق فتح ہوا.پھر شام و مصر فتح ہوئے.بیت المقدس جب سن ۷ے اٹھ میں فتح ہوا تو رومیوں کی درخواست پر حضرت عمر بنفس نفیس وہاں تشریف لے گئے اور صلح کے معاہدہ پر دستخط کئے.اور سب کو امان دی.آپ کے دور خلافت میں سلطنت کی حدود بہت وسیع ہوگئی تھیں مشرق میں افغانستان اور چین کی سرحدوں تک مسلمان فوجیں پہنچ چکی تھیں، مغرب میں طرابلس اور شمالی افریقہ تک ، شمال میں بحر قزوین تک اور جنوب میں حبشہ تک.ایک دنیا محو حیرت ہے کہ دس بارہ سال کے قلیل عرصہ میں ایک بے سروسامان قوم کس طرح منظم حکومتوں پر چھا گئی.حضرت عمر نے توسیع سلطنت اور فتوحات کے ساتھ ساتھ ملکی انتظام کی طرف بہت توجہ دی.ملک کو مختلف صوبوں میں تقسیم کیا اور ہر صوبے میں حاکم صوبہ ، فوجی میر منشی ، افسر مال، پولیس افسر ، قاضی اور خزانچی مقرر کئے.عدالت ، پولیس اور فوج کے الگ الگ محکمے قائم کئے.ڈاک کا انتظام کیا.جیل خانے بنائے.ٹکسال بنا کر چاندی کے سکے رائج کئے.مدینہ میں نیز تمام ضلعی مراکز میں بیت المال قائم کئے.فوج کی تنخواہیں اور مستحقین کے وظیفے مقرر کئے.اور دفتری نظام کی داغ بیل ڈالی.رفاہ عامہ کے کاموں کے سلسلہ میں بڑے بڑے شہروں میں مسافر خانے تعمیر کرائے.مکہ مدینہ کے درمیان چوکیاں، سرا ئیں اور حوض تعمیر کرائے اور کئی نہریں کھدوائیں.حضرت عمرؓ نے ۹۹ میل لمبی ایک نہر کھدوا کر دریائے نیل کو بحر احمر ( بحر قلزم ) سے ملا دیا جس سے تجارت کو بہت فروغ ہوا اور مصر کے جہاز براہِ راست مدینہ کی بندرگاہ تک آنے لگے.233
حضرت عمر نے سن ہجری کا آغاز کیا اور اسلامی تقویم ( کلینڈر) کی ابتداء آنحضرت صلی ا ستم کے ہجرت کے سال سے کی.حضرت عمررؓ بڑی سادہ زندگی بسر کرتے تھے.باوجود وسیع سلطنت کے حکمران ہونے کے آپ کے کپڑوں میں کئی پیوند لگے ہوتے تھے.دنیاوی عیش و عشرت سے کوئی سروکار نہ تھا.خلیفہ بننے کے بعد تجارت کا پیشہ ترک کر دیا.اور بیت المال سے دو در ہم روزانہ وظیفہ لیتے.انتظامی معاملات میں کسی کا لحاظ نہ کرتے.عدل و انصاف اور رعایا کی بہبودی کا فکر آپ کی سیرت کی نمایاں خصوصیت ہے.رات کو گشت کر کے لوگوں کی ضروریات کا علم حاصل کرتے اور غریبوں ، بیکسوں اور یتیموں کو فوری امداد پہنچاتے.ایک دفعہ دیکھا کہ ایک عورت دردزہ میں مبتلا ہے اور کوئی پاس نہیں فوراً گھر آئے اور اپنی بیوی کو ساتھ لیکر گئے تا کہ اس کی دیکھ بھال ہو سکے.شہادت ایک دن ایک عیسائی غلام ابولولو نے حضرت عمرؓ سے شکایت کی کہ میرا آقا مجھ سے روزانہ دو درہم وصول کرتا ہے.وہ نقاشی نجاری اور آہنگری میں بڑا ماہر تھا.حضرت عمر نے اس کے پیشے اور آمدنی کے مدنظر اس رقم کو معقول قرار دیا.اس فیصلہ سے ناراض ہو کر اگلے دن اس نے نماز فجر کے وقت خنجر سے آپ پر حملہ کر دیا.حضرت عمر ان زخموں سے جانبر نہ ہو سکے اور ۲۶؎ ذی الحجہ سن ۲۳ھ کو بروز بدھ تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی.وفات کے بعد آپ کو حضرت عائشہ کے حجرہ میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا گیا.234
ابتدائی زندگی حضرت عثمان غنی بلند عہد خلافت ۶۴۴ تا ۶۶۵۶ حضرت عثمان غنی قریش کے مشہور خاندان بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے.پانچویں پشت میں آپ کا شجرہ نسب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے.آپ عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سال چھوٹے تھے.آپ کا ذریعہ معاش بھی تجارت تھا.دولت کی فراوانی کی وجہ سے غنی مشہور ہوئے.شرم و حیا، جود وسخاوت عقل و فہم اور شرافت کی وجہ سے آپ نے بڑی شہرت پائی.طبیعت میں بُردباری اور انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا تھا اور ہر ایک سے حسن سلوک کرتے تھے.جب آپ مشرف بہ اسلام ہو گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ کا نکاح آپ سے کر دیا.قریش مکہ نے جب مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تو آپ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی.کچھ عرصہ بعد پھر مکہ میں آگئے اور بعد ازاں مدینہ کی طرف ہجرت کی.جنگ بدر کے دوران حضرت رقیہ رحلت فرما گئیں تو آنحضرت نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت اُم کلثوم کو ان کے عقد نکاح میں دے دیا.اسی وجہ سے آپ کو ذوالنورین کا لقب ملا.ایثار و قربانی حضرت عثمان ” بڑے فیاض و سخی تھے.مالی جہاد میں پیش پیش رہتے.آپ کی دولت سے مسلمانوں کو بڑا فائدہ پہنچا.مدینہ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں تھا جو ایک یہودی کی ملکیت تھا 235
آپ نے مسلمانوں کی تکلیف دیکھ کر بیس ہزار درہم میں کنواں خرید لیا اور مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا.جنگ تبوک کے موقعہ پر دس ہزار دینار نقد کے علاوہ ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے مع ساز وسامان پیش کئے.جنگ بدر کے علاوہ تمام جنگوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے.جنگ بدر کے موقعہ پر خود آنحضرت کے فرمان کے بموجب پیچھے رہے.صلح حدیبیہ کے موقعہ پر حضرت عثمان بطور سفیر قریش مکہ کے پاس بھیجے گئے اور جب آپ کی شہادت کی افواہ اڑائی گئی تو آنحضرت نے اپنے ہاتھ کو ان کا ہاتھ قرار دے کر ان کی طرف سے بیعت قبول کی اور دوسرے صحابہ نے بھی از سر نو عہد وفا باندھا اسی کو بیعت رضوان کہتے ہیں.حضرت عثمان ان دس صحابہ میں سے ایک تھے.جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت دی اور عشرہ مبشرہ کہلاتے ہیں.عہد خلافت حضرت عمرؓ نے وفات سے قبل چھ صحابہ کو نامزد کیا اور فر مایا کہ میری وفات کے بعد آپس میں مشورہ کر کے اپنے میں سے کسی ایک کو امیر المؤمنین منتخب کر لیں.وہ چھ افراد یہ تھے.حضرت عثمان.حضرت علی.حضرت زبیر بن عوام.حضرت طلحہ.حضرت عبد الرحمن بن عوف.حضرت سعد بن ابی وقاص.اکثر صحابہ کی رائے حضرت عثمان کے حق میں تھی اس لئے ان کے انتخاب کا اعلان کر دیا گیا.حضرت عثمان کے عہد میں فتوحات کا سلسلہ جاری رہا.آرمینیہ افریقہ اور قبرص کے علاقے سلطنت میں شامل ہوئے اسی طرح وسط ایشیا کے بہت سے علاقے فتح ہوئے.گویا سلطنت کی حدود وسط ایشیا سے لیکر شمالی افریقہ کے مغربی کنارے تک پھیل گئیں.فتوحات کے 236
ساتھ ساتھ استحکام سلطنت کا کام بھی جاری رہا.بحری فوج اور بیڑے کا قیام بھی حضرت عثمان کا ایک بڑا کارنامہ ہے.آپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے قرآن کریم کی حفاظت کے پیش نظر حضرت ابوبکر والے نسخہ کی نقول تیار کروائیں اور ان کی اشاعت سارے عالم اسلامی میں کی.اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ بعض علاقوں میں اختلاف قرآت دیکھا گیا.اہل بصرہ ، اہل کوفہ ، اہل حمص آیات کو الگ الگ رنگ میں پڑھتے.حضرت عثمان نے اہل مکہ کی قرآت کو بہترین قراردیا اور اسی کے مطابق قرآن کریم کی کتابت کی گئی اور قریش کا رسم الخط اختیار کیا گیا.عرب کے مختلف علاقوں نیز غیر عرب قوموں کے میل جول کے باعث لب ولہجہ اور قرآت کے فرق سے یہ اندیشہ ہو سکتا تھا کہ کہیں تحریف کا راستہ نہ کھل جائے.حضرت عثمان نے ہمیشہ کیلئے اس راستہ کو مسدود کر دیا.شہادت حضرت عثمان جس وقت خلیفہ منتخب ہوئے ان کی عمر ستر برس تھی.خلافت کے پہلے چھ سال امن و امان سے گذرے لیکن آخری چھ سالوں میں حضرت عثمان کی نرم مزاجی اور دوسری وجوہات کے باعث فتنے کھڑے ہوئے.اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بارہ سال کی خلافت کے بعد سن ۳۵ھ میں شہید کر دیئے گئے.وفات کے وقت ان کی عمر بیاسی سال تھی.237
حضرت علی رضی اللہ عنہ عہد خلافت) ۶۵۶ء تا ۶۶۱ء ابتدائی زندگی حضرت علی کرم اللہ وجہہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چا ابو طالب کے فرزند تھے.بعثت نبوی سے قریباً آٹھ برس پہلے مکہ میں پیدا ہوئے.والدہ کا نام فاطمہ تھا.حضرت ابوطالب کثیر العیال تھے.جس سال مکہ میں قحط پڑا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی کو اپنے گھر لے آئے.جب آنحضور نے دعویٰ نبوت کیا تو بچوں میں سے سب سے پہلے حضرت علی ایمان لائے اس وقت اُن کی عمر تقریبا دس سال تھی.جب آنحضرت صلی علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت کے لئے گھر سے نکلے اس وقت حضرت علی " آپ کی چار پائی پر سو گئے تاکہ دشمن کو یہی گمان ہو کہ حضور تو ہیں ہیں اور وہ حضور کا تعاقب نہ کریں.اس سے حضرت علی کی جان نثاری اور شجاعت کا بھی پتہ لگتا ہے.کچھ عرصہ بعد حضرت علی بھی ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے.سن ۲ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ کا نکاح آپ سے کر دیا.اسطرح آپ کو نبی اکرم کے داماد ہونے کا شرف حاصل ہوا.عہد خلافت حضرت عثمان کی شہادت کے بعد آپ خلیفہ منتخب ہوئے.اس وقت حالات بہت ناموافق تھے.عوام کا مطالبہ تھا کہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے.حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی اسی خیال کے مؤید تھے لیکن حضرت علی محسوس کرتے تھے کہ باغیوں کا اس 238
وقت بہت زور ہے جب تک امن وسکون نہ ہو حکومت کیلئے قصاص کی کارروائی کرنا بہت مشکل ہے.حضرت طلحہ اور حضرت زبیر جیسے ذی اثر صحابہ فوری بدلہ لینے کے بڑے حامی تھے.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے انہیں بہت سمجھایا کہ خلیفہ وقت کے خلاف کھڑا ہونا مناس نہیں لیکن انہوں نے اس نصیحت کی کوئی قدر نہ کی.جنگ جمل حضرت عائشہ کو حالات کا پوری طرح علم نہ تھا وہ بھی اس امر کی تائید میں تھیں کہ قاتلین عثمان سے فوری انتقام لیا جائے.حضرت علی نے بہت کوشش کی کہ باہمی جنگ و جدال کا دروازہ نہ کھلے لیکن تمام کوششیں بریکار گئیں اور فریقین میں خونریز جنگ ہو کر رہی.حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اگر چہ حضرت عائشہ کی طرف سے جنگ کے لئے میدان میں آئے لیکن جنگ ہونے سے قبل ہی لشکر سے الگ ہو گئے تاہم کسی مخالف کے ہاتھوں مارے گئے.اور حضرت عائشہ کےلشکر کو شکست ہوگئی تاہم فتح کے بعد حضرت علی نے ان کی حفاظت کا پورا اہتمام کیا اور جب وہ مدینہ جانے لگیں تو خود الوداع کہنے گئے.چونکہ اس جنگ میں حضرت عائشہ ایک اونٹ پر سوار تھیں اس لئے اس جنگ کو جنگ جمل کہتے ہیں ( جمل کے معنی اونٹ کے ہیں ).حضرت عائشہ کو بعد میں ساری عمر اس امر کا افسوس رہا کہ کیوں انہوں نے حضرت علی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا.جنگ صفین جنگ جمل کے بعد حضرت علی نے امیر معاویہ کو بھی ایک مرتبہ بیعت کر لینے کی تلقین کی لیکن وہ کسی طرح اس امر پر آمادہ نہ ہوئے.انہوں نے عمرو بن عاص ” والی مصر کو اپنا ہمنوا بنایا اور جنگ کی تیاری کی اور ۸۵ ہزار کا لشکر لیکر حضرت علی کے خلاف صف آراء ہو گئے.حضرت علی کے ساتھ بھی ۸۰ ہزار کا لشکر تھا.سات دن تک جنگ کا سلسلہ جاری رہا.ساتویں دن 239
قریب تھا کہ امیر معاویہ کا لشکر شکست کھا جائے کہ عمرو بن عاص نے ایک چال چلی.قرآن مجید نیزوں پر رکھ کر بلند کئے اور تجویز پیش کی کہ ثالث مقرر کر کے فیصلہ کر لیا جائے.حضرت علی کے کچھ ساتھی بھی اس دھوکے میں آگئے اور انہوں نے ثالث کی تجویز کو قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی.اپنی صفوں میں انتشار دیکھ کر مجبوراً حضرت علی نے اس تجویز کو قبول کر لینے پر آمادگی ظاہر کی.حضرت علی کی طرف سے ابو موسیٰ اشعری اور امیر معاویہؓ کی طرف عمرو بن عاص ثالث مقرر ہوئے.ابو موسیٰ اشعری سیدھے سادے صوفی منش آدمی تھے لیکن عمرو بن عاص بہت جہاندیدہ سیاس تھے انہوں نے ابو موسیٰ اشعری کو یہ کہہ کر ہم خیال بنالیا کہ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ دونوں کو معزول کر کے نیا انتخاب کیا جائے.چنانچہ ابو موسیٰ نے اس کا اعلان کر دیا لیکن عمرو بن عاص نے کہا میں حضرت علی کے معزول کئے جانے کی تائید کرتا ہوں لیکن امیر معاویہ کو برقرار رکھتا ہوں اس طرح عمر و بن عاص نے لوگوں کو دھو کہ دیا.خوارج کا ظہور جب حضرت علی کو اس سیاسی فریب کا علم ہوا تو وہ پھر جنگ کی تیاری کرنے لگے.اسی اثناء میں انہیں علم ہوا کہ ان کی جماعت کا ایک گروہ اس وجہ سے الگ ہو گیا ہے کہ کیوں ثالثی کی تجویز کو قبول کیا گیا.انہوں نے اپنا ایک الگ امیر مقرر کر لیا اور اسطرح مسلمان تین گروہوں میں بٹ گئے.حضرت علی نے ان کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر تیار کیا.پہلے تو انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب وہ ضد پر قائم رہے تو دونوں لشکروں میں خونریز جنگ ہوئی اور کئی ہزار خارجی مارے گئے صرف چند لوگ زندہ بیچ رہے.شہادت اگر چہ خارجیوں کو شکست ہوگئی لیکن ان شوریدہ سرلوگوں نے سوچا کہ کامیابی اسی صورت 240
میں ہوسکتی ہے کہ حضرت علی ، حضرت معاویہ اور عمر و بن عاص تینوں کو بیک وقت قتل کر دیا رض جائے.چنانچہ انہوں نے اس بارے میں منصوبہ تیار کیا.حضرت معاویہ پر حملہ کارگر نہ ہوا.عمر و بن عاص عین وقت پر باہر چلے گئے اس لئے بچ گئے لیکن جو شخص حضرت علی کو قتل کرنے کیلئے مقرر ہوا وہ قاتلانہ حملہ میں کامیاب ہوا.اور اس طرح حضرت علی ۲۰ رمضان سن ۴۰ھ کو پونے پانچ سال کی خلافت کے بعد تریسٹھ سال کی عمر میں شہید کر دیئے گئے.☆☆☆ 241
حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی عليه الصلوة والسلام ۱۸۳۵ء تا ۱۹۰۸.فينـ ابتدائی زندگی بائی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام ۱۴ رشوال ۱۲۵۰ھ مطابق ۱۳ / فروری ۱۸۳۵ء بروز جمعه قادیان ضلع گورداسپور صوبہ پنجاب (بھارت ) میں پیدا ہوئے.آپ مغل قوم کے ایک نہایت معزز خاندان کے چشم و چراغ تھے.آپ کے مورث اعلیٰ حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب سمر قند سے ہندوستان تشریف لائے تھے.آپ کے والد کا نام حضرت مرز اغلام مرتضیٰ اور والدہ کا نام چراغ بی بی تھا.بچپن سے ہی آپ کی طبیعت میں نیکی اور پاکیزگی اور متانت وسنجیدگی پائی جاتی تھی.دوسرے بچوں کی طرح کھیل کود کی طرف ذرا بھی راغب نہ تھے.تنہائی کو پسند کرتے اور گہرے غور و خوص کے عادی تھے.ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی.پھر والد کے مقرر کردہ اساتذہ سے آپ نے فارسی پڑھی اور کچھ صرف ونحو نیز منطق و فلسفہ اور حکمت کا علم حاصل کیا.جوانی میں بھی خلوت نشینی پسند رہی.قرآن کریم و احادیث نبوی نیز دوسرے مذاہب کی مذہبی کتب کا مطالعہ آپ کا محبوب مشغلہ تھا اور بیشتر وقت یاد الہی میں یا قرآن کریم پر غور و فکر میں گذرتا تھا عشق محمد آپ کے رگ وریشہ میں رچا ہوا تھا.بس ایک ہی خواہش اور ایک ہی دھن تھی کہ کسی طرح دین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ہو اور اسلام کا نور آشکار کیا جائے.آپ کے مذہبی شغف اور گوشہ نشینی کی عادت کی وجہ سے آپ کے والد بزرگوار کو یہ فکر 242
دامن گیر رہتا کہ اس بچے کی آئندہ زندگی کیسے بسر ہوگی.اگر چہ آپ کی طبیعت کا میلان دنیاداری کے کاموں کی طرف قطعا نہ تھا تا ہم آپ نے والد ماجد کی اطاعت کے جذبہ سے اِن کے اصرار پر کچھ عرصہ سیالکوٹ میں ملازمت کی اور جدی جائیداد کے حصول کے سلسلہ میں مقدمات کی پیروی بھی کی.لیکن بہت جلد والد کی اجازت سے ان امور سے دستکش ہو گئے اور تبلیغ حق کی مہم میں بدل و جان مصروف ہوئے.۱۸۷۶ء میں والد ماجد کا انتقال ہو گیا.ان کی وفات سے قبل الہاما اللہ تعالیٰ نے اس حادثہ کی اطلاع آپ کو دی.اور آلیسَ اللهُ بِكَافٍ عبدلی کے الفاظ میں یہ بھی ڈھارس بندھائی کہ وہ خود آپ کا کفیل ہوگا.والد کی وفات کے بعد ہی مکالمات و مخاطبات الہیہ کا سلسلہ بڑے زور وشور سے شروع ہو گیا.وہ زمانہ روحانی لحاظ سے انتہائی ظلمت و تاریکی کا تھا.دنیا کا بیشتر حصہ مشرکانہ عقائد ورسوم میں مبتلا تھا.اپنے خالق و مالک سے یکسر بے گانہ تھا.ایک طرف عیسائی مناد اسلام پر حملے کر رہے تھے تو دوسری طرف آریہ سماج و بر ہمو سماج والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کے خلاف گندہ دہنی اور الزام تراشی میں مصروف تھے.علماء اسلام فروعی مسائل اور ایک دوسرے کے خلاف تکفیر بازی میں اس قدر الجھے ہوئے تھے کہ انہیں خدمت دین کا ذرا بھی ہوش نہ تھا.جو حالات کی نزاکت کا احساس رکھتے تھے ان میں استطاعت نہ تھی کہ مخالفین کے حملوں کا جواب دیتے.ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے دل میں یہ جوش ڈالا کہ آپ اسلام کی حقانیت کو دنیا پر واضح کریں.چنانچہ آپ نے ایک کتاب براہین احمدیہ نامی تصنیف فرمائی اور تمام مذاہب کے پیروؤں کو چیلنج کیا کہ وہ حسن و خوبی اور براہین و دلائل میں قرآن کریم کا مقابلہ کر کے دس ہزار روپیہ کا انعام حاصل کریں لیکن کسی کو اس مقابلہ کی جرات نہ ہوئی.اس کتاب کی اشاعت نے مذہبی دنیا میں ایک تہلکہ مچادیا.آپ تعریف میں رطب اللسان تھے اور مخالفین پر سکتہ کا عالم طاری ہو گیا تھا.243
دعوی ماموریت و مسیحیت ۱۸۸۲ء میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماموریت کا پہلا الہام نازل ہوا اور آپ کو یہ علم دیا گیا کہ اس زمانہ میں تجدید دین اور احیائے اسلام کی خدمت آپ کے سپرد کی گئی ہے تا ہم آپ نے با قاعدہ رنگ میں فوری طور پر کسی قسم کا دعوی نہیں کیا.لیکن متواتر الہامات کے باعث ۱۸۸۵ء میں آپ نے اپنے آپ کو محض مجد دوقت کی حیثیت میں پیش کیا.حالانکہ جو الہامات ۱۸۸۳ء میں اور اس کے بعد ہوئے ان میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے صریح طور پر مسیح، نبی اور نذیر کے ناموں سے یاد کیا تھا.بات دراصل یہ ہے کہ آپ فدائیت کے نہایت اعلیٰ مقام پر تھے اور طبیعت میں اس درجہ انکسار پایا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان بزرگ خطابات کی یہی توجیہ کرتے کہ ان سے مقصود محض کثرت مکالمہ ومخاطبہ ہے.اور زیادہ وضاحت ہوئی تو ایک عرصہ تک اپنے مقام کو جزوی یا ناقص نبوت سے تعبیر کرتے رہے.لیکن پھر ۱۸۹۰ ء اور ۱۹۰۰ ء کے درمیانی عرصہ میں آپ پر اس امر کا کامل انکشاف ہو گیا کہ آپ نبوت کے مقام پر ہی فائز ہیں.اس رنگ میں کہ ایک پہلو سے آنحضرت کے امتی ہیں اور کثرت مکالمہ الہیہ کے لحاظ سے نبوت کے مقام پر فائز ہیں.۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی اور لدھیانہ میں پہلی بیعت لی.اس روز چالیس افراد بیعت کر کے اس سلسلہ میں داخل ہوئے.بیعت کرنے والوں میں اولیت کا شرف حضرت حاجی الحرمین حکیم مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا جو بعد میں آپ کے خلیفہ اول منتخب ہوئے.۱۸۹۰ ء میں آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا.اس دعوی کے ساتھ ہی آپ کے خلاف ایک طوفان بے تمیزی امر آیا.بڑے بڑے علماء نے آپ کے خلاف کفر کے فتوے دیئے لیکن خدائے تعالیٰ کی نصرت و تائید کے نشانات پے در پے ظاہر ہورہے تھے.آپ نے تمام سجادہ 244
نشینوں، پیروں فقیروں کو مقابلہ کی دعوت دی.مباحثات ومناظرات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا.اور لوگوں پر آپ کی صداقت منکشف ہوتی چلی گئی.پھر آپ نے مکفر علماء کو دعوت مباہلہ بھی دی کہ اگر چاہیں تو اس رنگ میں خدائے تعالیٰ کے فیصلہ کو دیکھ لیں.علماء کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لیڈروں اور نمائندوں کو بھی مقابلہ کے لئے للکارا.ہندوؤں میں سے پنڈت لیکھرام ، عیسائیوں میں سے پادری عبداللہ آتھم اور امریکہ کا جھوٹا مدعی نبوت ڈاکٹر الیگزینڈر ڈوئی اور مسلمانوں میں سے رسل بابا امرتسری، چراغدین جمونی، رشید احمد گنگوہی ، عبدالرحمن محی الدین لکھو کے والے مولوی غلام دستگیر قصوری، محمد حسین بھینی والا وغیرہ ھم مقابلہ کر کے حسب پیشگوئی ہلاک ہوئے اور آپ کے منجانب اللہ ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر گئے.پھر آپ نے قبولیت دعا کا حربہ استعمال کیا اور تمام مذاہب کے لوگوں کو یہ دعوت دی کہ اگر ان کا مذہب سچا ہے تو مقبولیت کا نشان مقابلہ میں دکھا ئیں مگر کسی کو اس مقابلہ کی ہمت نہ ہوئی.غرض قبولیت دعا علمی مقابلوں ، تائیدات سمادی اور بکثرت امور غیبیہ کے اظہار کے ذریعہ ثابت کیا کہ زندہ نبی ہمارے سید و مولی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور زندہ مذہب صرف اسلام ہے.اسلام کی حقانیت اور اپنے دعوی کی صداقت کو ظاہر کرنے کیلئے آپ نے کم و بیش اسی کتب اُردو اور عربی میں تصنیف فرما ئیں.ہزار ہا اشتہارات مختلف ممالک میں شائع فرمائے اور سینکڑوں تقاریر اسلام کی تائید میں کیں.بادشاہوں اور امراء کو خطوط لکھے اور انہیں دعوت حق دی.پھر آپ نے مسلمانوں کے غلط عقائد کی اصلاح کی اور تجدید دین کا کام اس رنگ میں کیا جس رنگ میں مسیح و مہدی کیلئے کرنا مقدر تھا.نہ صرف زمین پر آپ کی صداقت کے نشان ظاہر ہوئے بلکہ آسمان نے بھی اس کی گواہی دی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہور مہدی کیلئے جو یہ علامت بیان فرمائی تھی کہ رمضان کے مہینہ میں چاند کو اس کی گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات کو اور سورج کو اس کے گرہن کے مقررہ دنوں میں سے درمیانے دن گرہن لگے گا.عین اس پیشگوئی کے مطابق مشرقی 245
ممالک میں ۲۰ / مارچ ۱۸۹۳ء کو چاند گرہن ہوا.اور ۲ را پر میل ۱۸۹۳ء کوسورج گرہن لگا اور یہ دونوں گرہن اس سال رمضان کے مہینہ میں واقع ہوئے.مغربی ممالک میں بھی اگلے سال ٹھیک انہی شرائط کے ساتھ رمضان میں گرہن لگا اور یہ سماوی نشان اسلام کی صداقت ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی زبردست دلیل ٹھہرے گویا خود خالق ارض و سماء نے یہ گواہی دی کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہی مسیح موعود اور مہدی ہیں جن کے بارے میں سابقہ انبیاء اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح پیشگوئیاں فرما ئیں تھیں.اولاد آپ کی پہلی شادی اپنے خاندان میں ہوئی جس سے دولڑ کے مرزا فضل احمد اور مرزا سلطان احمد پیدا ہوئے آپ کی دوسری شادی ۱۸۸۴ ء میں دہلی کے ایک مشہور سادات خاندان ( خاندان میر درد) میں ایسے وقت میں ہوئی جبکہ آپ کی عمر ۵۰ برس ہو چکی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی يَتَزَوَّجُ وَيُؤلرله ( یعنی مسیح موعود شادی کرے گا اور اس کے اولاد ہوگی ) کے مطابق اس شادی سے ایک نئے خاندان کی بنیاد پڑی اور آپ کو وہ مبشر اولا دعطا ہوئی جس کیلئے برکت پانا اور ملکوں میں کثرت سے پھیلنا مقدر ہے.آپ کی دوسری بیوی کا نام حضرت نصرت جہاں بیگم تھا جو بعد میں اماں جان کہلا ئیں.آپ کے بطن سے پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں پیدا ہوئیں جن کے نام یہ ہیں:.۱.صاحبزادی عصمت ( ولادت مئی ۱۸۸۶ ء وفات جولائی ۱۸۹۱ء ۲.بشیر اؤل ( ولادت ۷ را گست ۱۸۸۷ء وفات ۴ رنومبر ۱۸۸۸ء) -۳- حضرت مصلح موعود صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ السیح الثانی ولادت ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ ء، وفات ۷٫۸ نومبر کی شب ۱۹۶۵ء) 246
۴.صاحبزادی شوکت ( ولادت ۱۸۹۱ء، وفات ۱۸۹۲ء) ۵- حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے رض ولادت ۱/۲۰ پریل ۱۸۹۳ ء ، وفات ۲ ستمبر ۱۹۶۳ء) ۶.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد ولادت ۲۴ مئی ۱۸۹۵ء ، وفات ۲۶ / دسمبر ۱۹۶۱ء) ے.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ولادت ۲ مارچ ۱۸۹۷ء ، وفات ۲۳ / ۲۲ مئی ۱۹۷۷ء درمیانی شب ).حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد ولادت ۱۴ جون ۱۸۹۹ء، وفات ۱۶ رستمبر ۱۹۰۷ء) ۹.صاحبزادی امتہ النصیر ( ولادت ۲۸ / جنوری ۱۹۰۳ء ، وفات ۳ دسمبر ۱۹۰۳ء) رض ۱۰.حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ.ولادت ۲۵ جون ۱۹۰۲ ء وفات ۶ رمئی ۱۹۸۷ء) وفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چوہتر سال عمر پائی.ساری عمر رات دن خدمت اسلام میں لگے رہے.جس دن وفات پائی اس سے پہلی شام تک ایک کتاب کی تصنیف میں مشغول تھے.اس سے اس سوز و گداز اور اس اخلاص و جوش کا پتہ لگتا ہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کے جلال کے اظہار اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو ثابت کرنے کیلئے تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری امت میں سے صرف ایک شخص یعنی مسیح موعود کے حق میں ارشاد فرمایا کہ اس کو میرا سلام پہنچانا.یہ گویا اس کے حق میں سلامتی کی دُعا اور پیشگوئی تھی.باوجود اس کے 247
حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ الصلوۃ والسلام کی ہزار مخالفتیں ہوئیں اور آپ کو قتل کرنے کے بہت منصوبے کئے گئے مگر خدائی نوشتوں کے مطابق وہ سب ناکام ہوئے اور آپ اپنا کام ختم کر کے طبعی موت سے ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ ء کو لاہور میں اس جہان فانی سے رخصت ہوئے.آپ کا جنازہ قادیان لایا گیا.اگلے روز حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول منتخب ہوئے اور انہوں نے ہی حضور کی نماز جنازہ پڑھائی.اس کے بعد میت کو بہشتی مقبرہ میں سپردخاک کردیا گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ☆..248
خلافت احمدیہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خلافت راشدہ کا وعدہ دیا ہے چنانچہ سورہ نور کی آیت ۵۶ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۖ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّاء يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ ترجمہ: اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ اُن کو زمین میں خلیفہ بنادے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا گیا تھا.اور جو دین اُس نے اُن کے لئے پسند کیا ہے وہ اُن کیلئے اُسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور اُن کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کیلئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا.وہ میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جولوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دیئے جائیں گے.لیکن یاد رکھنا چاہئیے کہ یہ وعدہ چار ذمہ داریوں کے ساتھ مشروط ہے.اول یہ کہ مسلمانوں کی جماعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلافتِ راشدہ کے قیام کے وعدہ پر ایمان رکھتی ہو.دوم یہ کہ خلافت حقہ کی منشاء کے مطابق اعمالِ صالحہ پر کار بند ہو.سوم یہ کہ توحید کے قیام کیلئے ہر قسم کی قربانیاں دینے کی صلاحیت رکھتی ہو.چہارم یہ کہ ہر حال میں خلیفہ وقت کی اطاعت کو مقدم رکھتے ہوئے اباء واستکبار کے انجام کو جو آخر کا رفسق تک پہنچا دیتا ہے ہمیشہ ملحوظ 249
رکھتی ہو.چنانچہ تاریخ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ جب تک امت مسلمہ ان چار ذمہ داریوں کو ادا کرتی رہی اللہ تعالیٰ اُن کو خلافت راشدہ کے انعام سے سرفراز فرما تا رہا ہے لیکن جب یہ شرائط مفقود ہوگئیں اور مسلمانوں میں اختلاف اور انتشار پھیل گیا اور اعمال صالحہ سے دوری اور اطاعت و فرمابرداری کی روح ختم ہو گئی تو یہ انعام چھین لیا گیا اور ظالم حکمرانوں کا لمبادور شروع ہو گیا.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس زمانہ میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند جلیل حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود مہدی معہود کی بعثت کے ذریعے اُمت محمدیہ میں پھر ایک ایسی پاک جماعت کا قیام عمل میں آیا جو سورہ نور میں بیان فرمودہ چار شرائط سے آراستہ ہوگئی جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ میں خلافت راشدہ کا سلسلہ شروع ہوا.یہ نظام خلافت اُسی سابقہ خلافت راشدہ کا تسلسل ہے جو آج سے چودہ سو برس قبل سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد منہاج نبوت پر قائم ہوا تھا.اس خلافت راشدہ کے بعد امت محمدیہ میں جو مختلف دور آنے تھے اور آخر حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بعد دوبارہ اسی خلافت راشدہ کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا اس بارے میں مخبر صادق حضرت اقدس محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیل کے ساتھ پیشگوئی کے رنگ میں بیان فرمایا تھا.چنانچہ مسنداحمد ،مشکوۃ کی اس حدیث کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے.عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : تَكُونُ النُّبُوَةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللهُ أَن تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًا 250
فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَا جِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ ( مشکوۃ باب الانذار والتحذیر، مسند احمد جلد ۵ صفحه ۴۰۴) ترجمہ : حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں نبوت ( یعنی نبی کا وجود ) اُس وقت تک رہے گا جب تک خدا چاہے گا پھر اسے اللہ تعالیٰ اُٹھالے گا پھر ( نبی کے وصال کے معاً بعد ) خلافت طریق نبوت پر قائم ہو جائے گی.جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا یہ خلافت قائم رہے گی پھر اسے بھی وہ اُٹھالے گا.اس کے بعد کاٹنے والی ( یعنی لوگوں پر ظلم کرنے والی ) بادشاہت کا دور آئے گا جب تک خدا کا منشاء ہوگا یہ دور چلتا رہے گا پھر خدا اسے بھی اُٹھا دے گا اس کے بعد جبری حکومت کا دور آئے گا ( یعنی ایسی حکومت آئے گی جو جمہوریت کے اصول کے خلاف ہوگی ) پھر کچھ عرصہ بعد یہ دور بھی ختم ہو جائے گا.اس کے بعد پھر دوبارہ خلافت کا دور آئے گا جو ابتدائی دور کی طرح نبوت کے طریق پر قائم ہو گا.راوی کہتے ہیں ثُم سكت اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.یہ لطیف حدیث اسلام کی لہر دار تاریخ کا ایک دلچسپ اور مکمل خلاصہ پیش کر رہی ہے.اور ہمارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال حکمت سے ہر دور کا علیحدہ علیحدہ نقشہ کھینچنے کیلئے ایسے نادر الفاظ چنے ہیں جنہوں نے حقیقہ دریا کو کوزے میں بند کر کے رکھ دیا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے نبوت کا دور ہے جو گویا اس سارے نظام کا مرکزی نقطہ ہے.اس کے بعد خلافت کا دور شروع ہو گا مگر خلافت سے مراد عام خلافت نہیں جس سے بعض اوقات جابر حکمرانوں کا نام بھی خلیفہ رکھ دیا جاتا ہے.بلکہ وہ خلافت علی منھاج النبوت‘ مراد ہے.چنانچہ ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر.حضرت عمر 251
اور حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنھم کی خلافت قائم ہوئی.اس کے بعد آپ نے ملکاً عاضاً کا دور بیان فرمایا ہے جو گویا کاٹنے والا اور ظلم ڈھانے والا دور تھا.یہ وہ دور تھا جس میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور خاندان نبوت کے کئی دوسرے مقدس افراد ظلم کا شکار ہو گئے.اور اسی دور میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عالی مرتبہ نواسہ حضرت عبداللہ بن زبیر بھی شہید کئے گئے.اور یہی وہ دور تھا جس میں حجاج بن یوسف کی تلوار نے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا.اس کے بعد ملکاً جبریہ کا دور بیان فرمایا ہے.یعنی ایسی بادشاہت جس میں سابق دور کی طرح انتہائی ظلم وستم کا رنگ تو نہ ہوگا مگر وہ اسلام کے جمہوری نظام پر قائم نہیں ہوگی بلکہ جبری رنگ کی حکومت ہوگی.چنانچہ اسلام میں یہ جبری دور حکومت صدیوں تک چلتا رہا.اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پھر دوبارہ خلافت علی منہاج النبوۃ“ کا دور قائم ہو جائے گا.یعنی اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے کسی مقرب بندہ کو ظلی اور بروزی طور پر نبوت کے انعام سے نواز کر اس کے ذریعہ پھر سے خلافت راشدہ کا سلسلہ شروع فرمائے گا.راوی بیان کرتے ہیں کہ اس قدر بیان فرمانے کے بعد ثُمَّ سَكت پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے یعنی اس خلافت علی منہاج نبوت کے دور میں پھر اسلام کو غلبہ نصیب ہوگا.اور یہ آخری دور خلافت وہی ہے جو خدا کے فضل سے بانی جماعت احمد یہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ شروع ہو چکا ہے.چنانچہ حدیث کی مشہور کتاب مشکوۃ میں جہاں یہ حدیث نقل کی گئی ہے وہاں اس کے حاشیہ میں یہ الفاظ درج ہیں کہ الظَّاهِرُ أَنَّ الْمُرَادَ بِهِ زَمَنْ عِيسَى وَالْمَهْدِيُّ - 252
یعنی یہ بات ظاہر ہے کہ اس دوسرے دور سے مراد مسیح اور مہدی کا زمانہ ہے.( مشکوۃ طبع اصبح المطابع کراچی صفحه ۴۶۱) بانی جماعت احمد یہ علیہ السلام نے اپنے وصال سے کچھ عرصہ قبل اس نعمت خلافت کی بشارت دیتے ہوئے جماعت کو ان الفاظ میں تسلی دلا ئی تھی کہ :.”سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالی دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی (یعنی اپنے وصال کی خبر سے.ناقل ) عمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں.کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گی جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجو د ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.سوتم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دُعا کرتے رہو اور چاہیے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دُعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہوا اور تمہیں 66 (الوصیت صفحه ۵-۶) دکھا دے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے.اور چاہئیے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں.خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ کیا ایشیا.ان کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں 253
توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے“.حضرت بانی جماعت احمدیہ کی وفات ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ ء کو ہوئی اور اگلے دن ۲۷ رمئی ۱۹۰۸ ء کو جماعت احمدیہ میں خلافت علی منھاج نبوت کا بابرکت سلسلہ حضرت حاجی الحرمین حافظ قرآن حکیم مولانا نور الدین صاحب کے ذریعے شروع ہوا جنہیں جماعت احمدیہ نے خلیفہ اسیح الاوّل کے طور پر منتخب کر کے آپ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی سعادت حاصل کی.آپ کی وفات کے بعد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد دوسرے خلیفہ اور آپ کے بعد حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب تیسرے خلیفہ اور آپ کے بعد حضرت مرزا طاہر احمد صاحب چوتھے خلیفہ اور آپ کے بعد حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پانچویں خلیفہ منتخب ہوئے.ان پانچوں خلفاء کے مختصر حالات اگلے صفحات میں ملاحظہ فرمائیں.254
ابتدائی زندگی حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی الله عنه ۱ ۱۸۴ء تا ۱۹۱۴ء رض حاجی الحرمین حضرت حافظ مولوی نور الدین صاحب خلیفہ امسح الاول (۱۸۴ء میں پنجاب کے ایک قدیم شہر بھیرہ میں پیدا ہوئے.والد کا نام حافظ غلام رسول اور والدہ کا نام نور بخت تھا.۳۲ ویں پشت میں آپ کا شجرہ نسب حضرت عمر فاروق سے ملتا ہے.آپ کے خاندان میں بہت سے اولیاء و مشائح گذرے ہیں.گیارہ پشت سے تو حفاظ کا سلسلہ بھی برابر چلا آتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ اس مقدس خاندان کو ابتداء سے ہی قرآن کریم سے والہانہ شغف رہا ہے.ابتدائی تعلیم تو ماں باپ سے حاصل کی پھر لاہور اور راولپنڈی میں تعلیم پائی.نارمل سکول سے فارغ ہو کر چار سال پنڈ داد انتخاں میں سکول کے ہیڈ ماسٹر رہے.پھر ملازمت ترک کردی اور حصول علم کے لئے رامپور لکھنو، میرٹھ اور بھوپال کے سفر اختیار کئے.ان ایام میں آپ نے عربی ، فارسی ، منطق ، فلسفہ، طب غرض ہر قسم کے مروجہ علوم سیکھے.قرآن کریم سے قلبی لگاؤ تھا اور اس کے معارف آپ پر کھلتے رہتے تھے.تو گل کا اعلیٰ مقام حاصل تھا.دعاؤں سے ہر وقت کام لیتے تھے.جہاں جاتے غیب سے آپ کے لئے سہولت کے سامان پیدا ہو جاتے اور لوگ آپ کے گرویدہ ہو جاتے.ایک مرتبہ ایک رئیس زادہ کا علاج کیا تو اس نے اسقدر رو پہیہ دیا کہ آپ پر حج فرض ہو گیا.چنانچہ آپ مکہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کیلئے تشریف لے گئے.حج بھی کیا 255
اور وہاں کئی اکا بر علماء فضلاء سے حدیث پڑھی.اس وقت آپ کی عمر ۲۴.۲۵ برس تھی.بلا دعرب سے ہندواپس آکر بھیرہ میں درس و تدریس اور مطب کا آغاز کیا.مطب کی شان ی تھی کہ مریضوں کیلئے نسخے لکھنے کے دوران احادیث وغیرہ بھی پڑھاتے.۸۷۷اء میں لارڈ لٹن وائسرائے ہند کے دربار میں شرکت کی کچھ عرصہ بھوپال میں قیام کیا.پھر ریاست جموں و کشمیر میں ۱۸۷۶ء سے ۱۸۹۲ ء تک شاہی طبیب رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت گورداسپور کے ایک شخص کے ذریعہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا غائبانہ تعارف ہوا.اور حضور کا ایک اشتہار بھی نظر سے گذرا.مارچ ۱۸۸۵ء میں قادیان پہنچ کر حضور سے ملاقات کی.اس وقت حضور نے نہ کوئی دعویٰ کیا تھا نہ بیعت لیتے تھے تاہم فراست صدیقی سے آپ نے حضور کو شناخت کیا اور حضور کے گرویدہ ہو گئے.حضور کے ارشاد پر آپ نے پادری تھامس ہاول کے اعتراضات کے جواب میں کتاب فصل الخطاب اور پنڈت لیکھرام کی کتاب تکذیب براہین احمدیہ کے جواب میں تصدیق براہین احمدیہ تصنیف فرمائیں.۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ میں جب لدھیانہ میں بیعت اولی ہوئی تو سب سے اول آپ نے بیعت کا شرف حاصل کیا.ستمبر ۱۸۹۲ء میں ریاست کشمیر سے آپ کا تعلق منقطع ہو گیا تو بھیرہ میں مطب جاری کرنے کیلئے ایک بڑا مکان تعمیر کرایا.ابھی وہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے بموجب قادیان میں دھونی رما کر بیٹھ رہے.قادیان میں ایک مکان بنوا کر اس میں مطب شروع کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ دربار شام میں نیز سیر و سفر میں ہمرکاب رہتے.حضور کی مقدس اولا دکو قرآن وحدیث پڑھاتے.صبح سویرے بیماروں کو دیکھتے پھر طالب علموں کو درس حدیث دیتے اور طب پڑھاتے.بعد نماز عصر روزانہ درس قرآن کریم دیتے.عورتوں میں بھی درس ہوتا.مسجد اقصیٰ میں پنجوقتہ نماز 256
اور جمعہ کی امامت کراتے.جب قادیان میں کالج قائم ہوا تو اس میں عربی پڑھاتے رہے.دسمبر ۱۹۰۵ء میں انجمن کار پرداز مصالح قبرستان کے امین مقرر ہوئے.جب صدر انجمن بنی تو اس کے پریذیڈنٹ مقرر ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حوالہ جات نکالنے میں مدد دیتے اور حضور کی تصانیف کی پروف ریڈنگ کرتے.مباحثات میں مدد دیتے.اخبار الحکم اور البدر کی قلمی معاونت فرماتے.قرآن کریم کا مکمل ترجمہ کیا اور چھپوانے کیلئے مولوی محمد علی صاحب کو دیا لیکن صرف پہلا پارہ چھپ سکا.خلافت کا دور ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کوجبکہ آپ کی عمر ۶۷ سال تھی خلیفہ منتخب ہوئے.قریباً بارہ سو افراد نے بیعت خلافت کی.مستورات میں سب سے پہلے حضرت اماں جان نے بیعت کی.صدر انجمن کی طرف سے اخبار احکام اور البدر میں اعلان کرایا گیا کہ:- ”آپ ( یعنی حضرت اقدس علیہ السلام ) کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق حسب مشوره معتمدین صدر انجمن احمد یه موجوده قادیان و اقرباء حضرت مسیح موعود و با جازت حضرت أم المؤمنین گل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اس وقت بارہ سوتھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سلمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.معتمدین میں سے ذیل کے اصحاب موجود تھے :.حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب.صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب.جناب نواب محمد علی خانصاحب.شیخ رحمت اللہ صاحب.مولوی محمد علی صاحب.ڈاکٹر مرز الیعقوب بیگ 66 صاحب.ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب.خلیفہ رشید الدین و خاکسار ( خواجہ کمال الدین...( بدر جون ۱۹۰۸ء، از خواجہ کمال الدین صاحب سیکریٹری صدر انجمن احمد یہ ) اور سلسلہ کے سب ممبران کو ہدایت کی گئی کہ وہ فی الفور حکیم الامت خلیفتہ اسیح والمہدی کی بیعت 257
کریں.چنانچہ اس کے مطابق عمل ہوا اور حضرت خلیفہ امسیح الاول " کا انتخاب حضرت ابوبکر صدیق کی طرح اجماع قوم سے خاص خدائی تصرف سے ہوا اور کسی قسم کا اختلاف اس وقت نہ ہوا.شروع خلافت سے ہی واعظین سلسلہ کا تقرر ہوا.شیخ غلام احمد صاحب، حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی، حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی اولین واعظ مقرر ہوئے.جنہوں نے ملک کے طول و عرض میں پھر کر سلسلہ کی خدمات سرانجام دیں.بیشمار تقاریر کیں.مباحثات کئے اور متعددمقامات پر جماعتیں قائم کیں.آپ کے دور خلافت میں گرلز سکول اور اخبار نور کا ۱۹۰۹ بر میں اجراء ہوا.نیز مدرسہ احمدیہ کا قیام عمل میں آیا ست 191 ء میں مسجد نور کی بنیاد رکھی گئی.اسی طرح مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کے بورڈنگ کی بنیاد رکھی گئی.مسجد اقصی کی توسیع ہوئی.حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ( خلیفہ اسیح الثانی ) کی کوششوں سے انجمن انصار اللہ کا قیام عمل میں آیا.اور اخبار الفضل جاری ہوا.۱۹۱۳ء میں یورپ میں سب سے پہلا احمد یہ مشن قائم ہوا.مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب جو صدر انجمن احمدیہ کے سر کردہ ممبر تھے ابتداء سے ہی مغربیت زدہ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی ان کی یہ خواہش تھی کہ جماعت کا نظام اسی رنگ میں چلائیں جیسے دنیاوی انجمنیں چلاتی ہیں.اسی وجہ سے وہ حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی لنگر خانہ کے انتظام اور سلسلہ کے دوسرے کاموں پر اعتراض کرتے رہتے تھے اور اخراجات کے بارے میں حضور کی ذات پر بھی نکتہ چینی کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے.حضور کی زندگی میں تو ان کی کچھ پیش نہیں گئی لیکن حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں انہوں نے پر پرزے نکالنے شروع کئے.خلافت کے دور میں جو پہلا جلسہ سالانہ دسمبر ۱۹۰۸ء میں ہوا اس میں ایسی تقاریر کا انتظام کیا جس سے مقصود جماعت میں یہ خیال پیدا کرنا تھا کہ دراصل صدر انجمن احمدیہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جانشین اور خلیفہ 258
ہے.لیکن حضرت خلیفہ اول نے ان خیالات کی تردید کرتے ہوئے ضرورت خلافت اور اطاعت خلیفہ پر زور دیا.اور فرمایا:.”میرا فیصلہ ہے کہ قوم اور انجمن دونوں کا خلیفہ مطاع ہے اور یہ دونوں خادم ہیں.( تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 262 ،فتنہ انکار خلافت کا تفصیلی پس منظر ) خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب وغیرھم کے خیالات کی وجہ سے جماعت میں جو انتشار پیدا ہونے لگا تھا اس کے ازالہ کے لئے آپ نے ۳۱ /جنوری ۱۹۰۹ ء کو نمائندگان جماعت کو قادیان میں طلب کیا اور واضح الفاظ میں یہ فیصلہ فرمایا کہ صدر انجمن تو محض ایک تنظیمی ادارہ ہے.جماعت کا امام اور مطاع تو صرف خلیفہ ہی ہے اس اجتماع میں مندرجہ بالا دونوں حضرات سے جن میں سرکشی پائی جاتی تھی آپ نے دوبارہ بیعت اطاعت لی لیکن بیعت کر لینے اور اقرار اطاعت کے باوجود ان حضرات کے دل صاف نہ ہوئے اور وہ تمر داور سرکشی میں بڑھتے گئے یہاں تک کہ کھلم کھلا مخالفت پر اُتر آئے اور آپ کی شان میں گستاخانہ باتیں کرنے لگے.191ء میں آپ گھوڑے سے گر گئے اور بہت چوٹیں آئیں.علالت کا سلسلہ طویل ہو گیا.اس دوران ایک مرتبہ آپ نے وصیت تحریر فرمائی جوصرف دو الفاظ پر مشتمل تھی.یعنی خلیفہ محمود.اس سے ظاہر ہے کہ آپ اپنے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب" کو خلیفہ نامزد کرنا چاہتے تھے.آپ نے اپنی علالت کے دوران حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف کو اپنی جگہ امام الصلوۃ مقرر فرمایا.یوں بھی آپ ان کی بہت تعظیم و تکریم کرتے تھے.اور برملا اس امر کا اظہار کرتے تھے کہ اپنے تقویٰ وطہارت ، اطاعت امام اور تعلق باللہ میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے.جب آپ کی علالت کا سلسلہ طویل ہو گیا تو منکرین خلافت نے گمنام ٹریکٹ لاہور سے شائع کئے جن میں اس امر کا اظہار کیا گیا کہ قادیان میں پیر پستی شروع ہوگئی ہے اور مرز امحمود احمد صاحب کو خلافت کی گدی پر بٹھانے کی سازشیں ہو رہی ہیں.حضرت خلیفتہ امیج اول کے بارے 259
میں لکھا گیا کہ ایک عالم دین نے ایڈیٹر پیغام صلح اور دوسرے متعلقین کو ذلیل و خوار کرنا شروع کر دیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیعت کے متعلق تحریر کیا کہ وہ بزرگانِ سلسلہ مراد خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب وغیرھم) کو بدنام کر رہے ہیں.اسی طرح ان لوگوں نے حضرت خلیفہ اول کی دو مرتبہ بیعت اطاعت کرنے کے باوجود آپ کو بدنام کرنے اور خلافت کے نظام کو مٹانے کی پوری کوشش کی لیکن وہ اپنے مذموم ارادوں میں نا کام رہے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کا سب سے بڑا یہی کارنامہ ہے کہ آپ نے خلافت کے نظام کو مضبوطی سے قائم کردیا اور خلافت کی ضرورت و اہمیت کو جماعت کے سامنے بار بار پیش کر کے اس عقیدہ کو جماعت میں راسخ کر دیا کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے.انسانی منصوبوں سے کوئی شخص خلیفہ نہیں بن سکتا.خلافت کے الہی نظام کو مٹانے کیلئے منکرین خلافت نے جو فتنہ و فساد برپا کیا اور لوگوں کو ورغلانے اور اپنا ہم خیال بنانے کی جو کاروائیاں کی گئیں آپ نے ان کا تارو پود بکھیر کر رکھ دیا.منکرین خلافت نے اپنے خیالات کی ترویج کیلئے لاہور سے ایک اخبار جاری کیا جس کا نام پیغام صلح رکھا.یہ اخبار حضرت خلیفہ اول کے نام بھی ارسال کیا جانے لگا.آپ نے اس کے مضامین کو پڑھ کر فرمایا.یہ تو ہمیں پیغام جنگ لگتا ہے اور آپ نے بیزار ہوکر اس اخبار کو وصول کرنے سے انکار کر دیا.وفات غرض آپ اپنی خلافت کے سارے دور میں جہاں قرآن کریم و احادیث نبوی کے درس و تدریس میں منہمک اور کوشاں رہے وہاں خلافت کے مسئلہ کو بار بار تقریروں اور خطبات میں واضح کیا یہاں تک کہ جماعت کی غالب اکثریت نے اس حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لیا.علالت کے دوران خفیہ ٹریکٹوں کی اشاعت نے آپ کو بہت دُکھ پہنچایا اور آپ کی صحت پر بہت برا اثر ڈالا.بالآخر آپ نے ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء بروز جمعہ داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.انا للہ وانا إِلَيهِ رَاجِعُونَ 260
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خليفة المسيح الثانى ۱۸۸۹ء تا ۱۹۶۵ء حضرت خلیفہ امسیح الثانی کا دور خلافت اس لحاظ سے ممتاز اور نمایاں ہے کہ اس کے بارے میں سابقہ انبیاء صلحاء کی پیشگوئیاں موجود ہیں.اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار نشانات اور اس کی پیہم تائیدات نے یہ ثابت کر دیا کہ آپ ہی موعود خلیفہ ہیں جس کا وعدہ دیا گیا تھا.ابتدائی زندگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو ایک مسیحی نفس لڑکے کی پیدائش کی خبر دی جو دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور بتلا یا گیا کہ وہ نوسال کے عرصہ میں ضرور پیدا ہو جائے گا.اس پیشگوئی کے مطابق سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم کے بطن سے ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء بروز ہفتہ تولد ہوئے.الہام الہی میں آپ کا نام محمود، بشیر ثانی، فضل عمر اور مصلح موعود بھی رکھا گیا.اور کلمتہ اللہ نیز فخر رسل کے خطابات سے نوازا گیا.آپ کے بارے میں الہاما یہ بھی بتایا گیا کہ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا.خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا، اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا، زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.چونکہ آپ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت سی بشارات ملی تھیں.اس لئے حضور آپ کا بہت خیال رکھتے.کبھی آپ کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی.بچپن سے آپ کی طبیعت میں دین سے رغبت تھی.دعا میں شغف تھا اور نمازیں بہت توجہ سے ادا کرتے تھے.آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ تعلیم الاسلام میں پائی.صحت کی کمزوری اور نظر کی خرابی کے 261
باعث آپ کی تعلیمی حالت اچھی نہ رہی.اور آپ ہر جماعت میں رعایتی ترقی پاتے رہے.مڈل اور اندانس (میٹرک) کے سرکاری امتحانوں میں فیل ہوئے اس طرح دنیوی تعلیم ختم ہوگئی.اس دری تعلیم کے بعد حضرت خلیفتہ امسیح اول نے اپنی خاص تربیت میں لیا.قرآن کریم کا ترجمہ تین ماہ پڑھا دیا پھر بخاری بھی تین ماہ میں پڑھا دی.کچھ طب بھی پڑھائی اور چند عربی کے رسالے پڑھائے.قرآنی علوم کا انکشاف تو موہبت الہی ہوتا ہے مگر یہ درست ہے کہ قرآن کریم کی چاٹ حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے ہی لگائی.جب آپ کی عمر ۱۷-۱۸ سال کی تھی ایک دن خواب میں ایک فرشتہ ظاہر ہوا اور اس نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھائی.اس کے بعد سے تفسیر قرآن کا علم خدائے تعالیٰ خود عطا کرتا چلا گیا.۱۹۰ء میں جبکہ آپ کی عمرے اسال تھی.صدر انجمن احمدیہ کا قیام عمل میں آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو مجلس معتمدین کا رکن مقرر کیا.۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جب وصال ہوا تو غم کا ایک پہاڑ آپ پر ٹوٹ پڑا.غم اس بات کا تھا کہ سلسلہ کی مخالفت زور پکڑے گی اور لوگ طرح طرح کے اعتراضات کریں گے تب آپ نے حضور کے جسد اطہر کے سرہانے کھڑے ہو کر اپنے رب سے عہد کیا کہ :- اگر سارے لوگ بھی آپ ( یعنی مسیح موعود ) کو چھوڑ دیں گے اور میں اکیلا رہ جاؤں گا تو میں اکیلا ہی ساری دنیا کا مقابلہ کروں گا اور کسی مخالفت اور دشمن کی پرواہ نہیں کروں گا“.تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 548 ، سید نا حضرت مسیح موعود کا وصال مبارک جنازه و تدفین ) یہ عہد آپ کی اولوالعزمی اور غیرت دینی کی ایک روشن دلیل ہے.تاریخ شاہد ہے کہ آپ نے اس عہد کو خوب نبھایا.۱۵-۱۶ برس کی عمر میں پہلی مرتبہ آپ کو یہ الہام ہو ان الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.اس پہلے الہام میں ہی اس امر کی بشارت موجود تھی کہ آپ ایک دن جماعت کے امام ہوں گے.قرآن کریم کا فہم آپ کو بطور 262
موہبت عطا ہوا تھا.جس کا اظہار ان تقاریر سے ہوتا تھا جو وقتاً فوقتاً آپ جلسہ سالانہ پر یا دوسرے مواقع پر کرتے تھے.آیت کریمہ لا یمشہ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کے مطابق یہ اس امر کا ثبوت تھا کہ سیدنا پیارے محمود کے دل میں خدا اور اس کے رسول اور اس کے کلام پاک کی محبت کے سوا کچھ نہ تھا.لیکن بُرا ہو حسد اور بغض کا.منکرین خلافت آپ کے خلاف بھی منصوبے بناتے رہتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ کسی طرح حضرت خلیفہ اول آپ سے بدظن ہو جائیں.انکو آپ سے دشمنی اس بناء پر تھی کہ اول تو آپ حضرت خلیفہ اول کے کامل فرمانبردار اور حضور کے دست و بازو اور زبردست مؤید تھے.دوسرے آپ کے تقوی وطہارت تعلق باللہ ، اجابت دعا اور مقبولیت کی وجہ سے انہیں نظر آرہا تھا کہ جماعت میں آپ کی ہر دلعزیزی اور مقبولیت روز بروز ترقی کر رہی ہے اور خود حضرت خلیفتہ امسیح اول بھی آپ کا بیجدا کرام کرتے ہیں.ان وجوہات کے باعث آپ کا وجود منکرین خلافت کو خار کی طرح کھٹکتا تھا.خلافت اولیٰ کے دور میں آپ نے ہندوستان کے مختلف علاقوں نیز بلاد عرب و مصر کا سفر کیا.حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے.1911 ء میں آپ نے مجلس انصار اللہ قائم فرمائی اور ۱۹۱۳ ء میں اخبار الفضل جاری کیا اور اس کی ادارت کے فرائض اپنی خلافت کے دور تک نہایت عمدگی اور قابلیت سے سرانجام دیئے.عہد خلافت حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد ۱۴ مارچ ۱۹۱۷ ء کو مسجد نور میں خلافت کا انتخاب ہوا.دواڑھائی ہزار افراد نے جو اس وقت موجود تھے بیعت خلافت کی.قریباً پچاس افراد ایسے تھے جنہوں نے بیعت نہیں کی.اور اختلاف کا راستہ اختیار کیا.اختلاف کرنے والوں میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب جو اپنے آپ کو سلسلہ کے عمود سمجھتے تھے پیش پیش تھے.خلافت سے انکار اور حبل اللہ کی ناقدری کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ لوگ رسول کی تخت گاہ ( قادیان) 263
سے منقطع ہوئے.صدر انجمن احمدیہ سے منقطع ہوئے.نظام وصیت سے منقطع ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت سے منکر ہوئے اور اپنے کئی عقائد ونظریات میں اس لئے تبدیلی کرنے پر مجبورہوئے کہ شاید عوام میں مقبولیت حاصل ہولیکن وہ بھی نصیب نہ ہوئی.حضرت خلیفہ اسی الثانی کا عہد خلافت اسلام کی ترقی اور بے نظیر کامیابیوں کا درخشاں دور ہے.اس باون سالہ دور میں خدائے تعالیٰ کی غیر معمولی نصرتوں کے ایسے عجیب در عجیب نشانات ظاہر ہوئے کہ ایک دنیا ورطۂ حیرت میں پڑگئی اور دشمن سے دشمن کوبھی تسلیم کئے بغیر چارہ نہ رہا کہ اس زمانہ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ نے غیر معمولی ترقی کی ہے اور یہ کہ امام جماعت احمد یہ بے نظیر صلاحیتوں کے مالک ہیں.آپ کے اس باون سالہ عہد خلافت میں مخالفتوں کے بہت سے طوفان اُٹھے.اندرونی فتنوں نے سراٹھایا مگر آپ کے پائے استقلال کو ذرا جنبش نہ ہوئی اور یہ الہی قافلہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بدستور بڑھتا گیا.ہر فتنہ کے بعد جماعت میں قربانی اور فدائیت کی روح میں نمایاں ترقی ہوئی اور قدم آگے ہی آگے بڑھتا گیا.جس وقت منکرین خلافت مرکز سلسلہ کو چھوڑ کر گئے اس وقت انجمن کے خزانے میں چند آنوں کے سوا کچھ نہ تھا لیکن جس وقت آپ کا وصال ہوا اس وقت صدر انجمن اور تحریک جدید کا بجٹ اے لاکھ نواسی ہزار تک پہنچ چکا تھا.اختلاف کے وقت ایک کہنے والے نے مدرسہ تعلیم الاسلام کے متعلق کہا کہ یہاں اُلو بولیں گے.لیکن خدا کی شان کہ وہ مدرسہ نہ صرف کالج بنا بلکہ اس کے نام پر بیبیوں تعلیمی ادارے مختلف ممالک میں قائم ہوئے.مصلح موعودؓ کے بارے میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتلایا تھا وہ لفظاً لفظاً پورا ہوا.حضرت فضل عمر" جلد جلد بڑھے اور دنیا کے کناروں تک اشاعتِ اسلام کے مراکز قائم کر کے شہرت پائی.آپ کے بہت سے کارناموں میں سے چند کا ذکر اختصار سے درج ذیل ہے :- ۱.جماعتی کاموں میں تیزی اور مضبوطی پیدا کرنے کیلئے صدر انجمن احمدیہ کے کاموں کو مختلف شعبوں میں تقسیم کر کے نظارتوں کا نظام قائم کیا.264
۲.بیرونی ممالک میں تبلیغ کے کام کو وسیع پیمانے پر چلانے کیلئے ۱۹۳۴ ء میں تحریک جدید جاری فرمائی.اور صدر انجمن احمدیہ سے الگ ایک نئی انجمن یعنی تحریک جدید انجمن احمدیہ کی بنیاد رکھی.اس کے نتیجہ میں بفضل ایزدی یورپ، ایشیاء، افریقہ اور امریکہ کے مختلف ممالک اور جزائر میں نے تبلیغی مشن قائم ہوئے.سینکڑوں مساجد تعمیر ہوئیں.قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے اور کثرت کے ساتھ اسلامی لڑیچر مختلف زبانوں میں شائع کیا گیا اور لاکھوں افراد اسلام کے نور سے منور ہوئے.اندرونِ ملک دیہاتی علاقوں میں تبلیغ کے کام کو مؤثر رنگ میں چلانے کیلئے ۱۹۵۷ء میں وقف جدید انجمن احمدیہ کے نام سے تیسری انجمن قائم کی.۴.جماعت میں قوت عمل کو بیدار رکھنے کیلئے آپ نے جماعت میں ذیلی تنظیمیں یعنی انصار الله، خدام الاحمدیہ ، اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ قائم فرمائیں.تا کہ مرد اور عورتیں، بچے اور جوان سب اپنے اپنے رنگ میں آزادانہ طور پر تعلیم وتربیت کا کام جاری رکھ سکیں.اور نئی نسل میں قیادت کی صلاحیتیں اُجاگر ہوں.ان تنظیموں کا قیام جماعت پر احسان عظیم ہے.۵ - جماعت میں مل جل کر اور منظم رنگ میں کام کو جاری رکھنے کے لئے مجلس شوریٰ کا قیام فرمایا.- قرآنی علوم کی اشاعت اور ترویج کے لئے درس قرآن کا سلسلہ جماعت میں جاری رکھا.تفسیر کبیر کے نام سے کئی جلدوں میں ایک ضخیم تفسیر لکھی جس میں قرآنی حقائق و معارف کو ایسے اچھوتے انداز میں پیش کیا کہ دل تسلی پاتے ہیں اور اسلام کی حقانیت خوب واضح ہوتی ہے.اس کے علاوہ ہر طبقہ کے لوگوں میں قرآنی علوم کا چسکا پیدا کرنے کے لئے قرآن کریم کی ایک نہایت مختصر مگر عام فہم تفسیر الگ تحریر فرمائی جس کا نام ” تفسیر صغیر“ ہے.ے.بحیثیت امام اور خلیفہ وقت جماعتی ذمہ داریوں کو نبھانے کے علاوہ آپ نے ملک و 265
ملت کی خدمت میں نمایاں اور قابل قدر حصہ لیا.آپ کی تنظیمی صلاحیتوں کے پیش نظر مسلمانانِ کشمیر کو آزادی دلانے کے لئے جب آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم ہوئی تو آپ کو اس کا صدر منتخب کیا گیا.ہر اہم سیاسی مسئلہ کے بارے میں آپ نے مسلمانانِ ہند کی رہنمائی کی اور بیش قیمت مشوروں کے علاوہ دامے درمے ہر طرح ان کی امداد کی.کئی مرتبہ اپنے سیاسی مشوروں کو کتابی شکل میں شائع کر کے ملک کے تمام سر بر آوردہ اشخاص تک نیز ترجمہ کے ذریعہ ممبران برٹش پارلیمنٹ اور برٹش کیبنٹ تک پہنچایا.تقسیم ملک کے وقت جہاں آپ نے مسلمانوں کی حفاظت اور بہبود کے لئے مقدور بھر کوششیں کیں وہاں اپنی جماعت کے لئے ۱۹۴۸ ء میں ربوہ جیسے بے آب و گیاہ علاقہ میں ایک فقال مرکز قائم کیا.جہاں سے الحمدللہ تبلیغ اسلام کی مہم پورے زور سے پروان چڑھ رہی ہے.ایک بنجر اور شور زدہ علاقہ میں بے سروسامانی کے باوجود ایک پر رونق بستی کا آباد کر دینا خود اپنی ذات میں ایک بڑا کارنامہ ہے.یہ بستی نہ صرف تبلیغ اسلام کا اہم ترین مرکز ہے بلکہ ملک میں علم کی ترقی اور ترویج کا بھی ایک ممتاز سنٹر ہے.اس کے علاوہ کھیلوں کے میدان میں بھی قابل ذکر کردار ادا کر رہی ہے.و.آپ نے تاریخ اسلام کے واقعات کو بہتر رنگ میں سمجھنے اور یا درکھنے کے لئے ہجری سشمسی سن جاری فرمایا.۱۰.آپ نے متعدد والیان ریاست اور سربراہان مملکت کو تبلیغی خطوط ارسال کئے اور انہیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے روشناس کرایا.ان میں امیر امان اللہ خاں والی افغانستان، نظام دکن، پرنس آف ویلز اور لا رڈارون وائسرے ہند خاص طور پر قابل ذکر ہیں.۱۹۳۹ ء میں خلافت کے پچیس سال پورے ہونے پر سلور جوبلی کی تقریب منعقد ہوئی اور جماعت نے تین لاکھ کی رقم اپنے امام کے حضور تبلیغ اسلام کی توسیع کیلئے پیش کی.پھر ۱۹۶۴ء میں جب خلافت ثانیہ پر پچاس سال پورے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے حضور اظہار تشکر کے طور پر 266
خاص دعائیں کی گئیں اور اپنے پیارے امام کے مقاصد عالیہ کی تکمیل کے لئے جماعت نے پچیس لاکھ سے زائد رقم بطور شکرانہ پیش کی.۱۹۴۴ء میں بذریعہ رویاء و الہام آپ پر اس امر کا انکشاف ہوا کہ آپ ہی وہ مصلح موعود ہیں جس کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی تھی.اس انکشاف کے اعلان کے لئے آپ نے ہوشیار پور، لدھیانہ، لاہور اور دہلی میں جلسے منعقد کر کے معرکۃ الآراء تقاریر کیں اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر کیا.آپ نے یورپ کا دومرتبہ سفر کیا.پہلی مرتبہ آپ ۱۹۳۳ء میں ویمبلے کا نفرنس میں شرکت کیلئے لندن تشریف لے گئے جہاں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے اپنے اپنے مذاہب کی خوبیاں بیان کیں.اس کا نفرنس میں آپ کا مضمون ”احمدیت یعنی حقیقی اسلام انگریزی میں ترجمہ ہو کر پڑھا گیا.۱۹۵۴ء میں آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا.علاج سے زخم تو بظاہر مندمل ہو گئے لیکن تکلیف جاری رہی.اس لئے ۱۹۵۵ ء میں آپ دوسری مرتبہ بغرض علاج یورپ تشریف لے گئے.وفات مندرجہ بالا سانحہ فاجعہ کے بعد آپ کی صحت برابر گرتی چلی گئی یہاں تک کہ وہ المناک گھڑی آ پہنچی جب آپ تقدیر الہی کے ماتحت اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے.اِنَّا لِلهِ وَاِنّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یہ ۹/۸ نومبر ۱۹۶۵ ء کی درمیانی شب تھی.حضرت امیر المومنین صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفتہ المسح الثالث نے 9 نومبر کو بہشتی مقبرہ ربوہ کے وسیع احاطہ میں نماز جنازہ پڑھائی اور پچاس ہزار افراد نے دلی دعاؤں اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ آپ کو سپر د خاک کیا.267
ابتدائی زندگی حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خليفة المسيح الثالث ۱۹۰۹ء تا ۱۹۸۲ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جہاں اللہ تعالیٰ نے اولاد کی بشارت دی تھی وہاں ایک نافلہ کی بھی خاص طور پر بشارت دی تھی جیسا کہ فرمایا:- إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَافِلَةً لَكَ.(حقیقۃ الوحی صفحه ۹۵ تذکره صفحه ۶۴۶) یعنی ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جو تیرا پوتا ہوگا.مواہب الرحمن صفحہ ۱۶ میں بھی پانچویں فرزند ( یعنی پوتے) کی بشارت موجود ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فرزند کی بشارت دی تھی.چنانچہ آپ اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:.مجھے بھی خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہوگا اور اسلام کی خدمت پر کمربستہ ہوگا“.( تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۳۲۰) غرض حضرت خلیفتہ اُسیح الثالث بھی ایک رنگ سے موعود خلیفہ تھے.ان پیش خبریوں کے مطابق حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث ۱۶ نومبر ۱۹۰۹ء کو بوقت شپ پیدا ہوئے.۷ را پریل ۱۹۲۲ء کو جبکہ آپ کی عمر ۱۳ سال تھی.حفظ قرآن کی تکمیل کی توفیق ملی.بعد ازاں حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب سے عربی اور اُردو پڑھتے رہے.پھر مدرسہ احمدیہ میں دینی علوم کی تحصیل کیلئے با قاعدہ داخل ہوئے اور جولائی ۱۹۲۹ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے ย 268
مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.اس کے بعد میٹرک کا امتحان دیا.اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہو کر ۱۹۳۴ ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی.اگست ۱۹۳۴ء میں آپ کی شادی ہوئی.۶ رستمبر ۱۹۳۴ ء کو بغرض تعلیم انگلستان کیلئے روانہ ہوئے.آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کر کے نومبر ۱۹۳۸ ء میں واپس تشریف لائے.یورپ سے واپسی پر جون ۱۹۳۹ء سے اپریل ۱۹۳۳ ء تک جامعہ احمدیہ کے پر پل رہے.فروری ۱۹۳۹ء میں مجلس خدام الاحمدیہ کے صدر بنے.اکتوبر ۱۹۴۹ ء میں جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بنفس نفیس خدام الاحمدیہ کی صدارت کا اعلان فرمایا تو نومبر ۱۹۵۴ ء تک بحیثیت نائب صدر مجلس کے کاموں کو نہایت عمدگی سے چلاتے رہے.مئی ۱۹۴۴ ء سے لیکر نومبر ۱۹۶۵ ء تک ( یعنی تا انتخاب خلافت ) تعلیم الاسلام کالج کی پرنسپلی کے فرائض سر انجام دیئے.جون ۱۹۴۸ء سے جون ۱۹۵۰ء تک فرقان بٹالین کشمیر کے محاذ پر داد شجاعت دیتے رہے.آپ اس بٹالین کی انتظامی کمیٹی کے ممبر تھے.۱۹۵۳ ء میں پنجاب میں فسادات ہوئے اور مارشل لاء کا نفاذ ہوا.تو اس وقت آپ کو گرفتار کر لیا گیا.اس طرح سنت یوسفی کے مطابق آپ کو کچھ عرصہ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں.۱۹۵۴ء میں مجلس انصار اللہ کی زمام قیادت آپ کے سپرد کی گئی.مئی ۱۹۵۵ء میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے آپ کو صدر انجمن احمد یہ کا صدر مقر فرمایا.کالج کی پرنسلی کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کے کاموں کی نگرانی بھی تا انتخاب خلافت آپ کے سپر درہی.تقسیم ملک سے قبل باؤنڈری کمیشن کیلئے مواد فراہم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا اور حفاظت مرکز ( قادیان) کے کام کی براہ راست نگرانی کرتے رہے.خلافت کا دور حضرت امیر المومنین خلیفہ المسح الثانی نے اپنے عہد خلافت میں ہی آئندہ نئے خلیفہ کے انتخاب کیلئے ایک مجلس مقرر فرما دی تھی جو مجلس انتخاب خلافت کے نام سے موسوم ہے.269
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی وفات پر اس مجلس کا اجلاس ۸ رنومبر کو بعد نماز عشاء مسجد مبارک میں زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرز اعزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ منعقد ہوا.جس میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو آئندہ کیلئے خلیفہ ایسی منتخب کیا گیا.اراکین مجلس انتخاب نے اسی وقت آپ کی بیعت کی.اس کے بعد انتخاب کا اعلان ہوا.اور انداز آ پانچ ہزار افراد نے اسی دن آپ کی بیعت کی.پھر بیرونی جماعتوں نے تاروں اور خطوط کے ذریعہ اقرار اطاعت کیا.خلافتِ ثالثہ کے انتخاب کے وقت الحمد للہ کی قسم کا اختلاف نہیں ہوا اور ساری جماعت نے والہانہ انداز میں قدرت ثانیہ کے تیسرے مظہر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو اپنا امام تسلیم کیا.تحریکات آپ نے اپنے دور خلافت میں متعددتحریکیں جاری فرما ئیں جن کا مختصر ذکر درج ذیل ہے :- پہلی تحریک ۱۷ / دسمبر ۱۹۶۵ء کو جبکہ ملک میں غلہ کی کمی محسوس ہورہی تھی آپ نے جماعت کے امراء اور خوشحال طبقہ کو تحریک کی کہ وہ غرباء، مساکین اور یتامیٰ کیلئے مناسب بندوبست کریں اور کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو بھوکا سوئے.اس پر جماعت نے بصد شوق عمل کیا اور کر رہی ہے.دوسری تحریک اس تعلق اور محبت کے اظہار کے لئے جو جماعت کو حضرت فضل عمر سے ہے؛ آپ نے ۱۲۵اکھ روپیہ کے سرمایہ سے فضل عمر فاؤنڈیشن قائم کرنے کی تحریک فرمائی.جماعت نے بفضل ایز دی ۳۶ لاکھ سے زائد رقم اس مد میں پیش کی.اس فنڈ سے فضل عمر لائبریری قائم ہو چکی ہے.نیز علمی اور تحقیقی شوق پیدا کرنے کیلئے ہزار ہزار روپے کے ۱۵ انعامات ہر سال بہترین مقالہ نگاروں کو پیش کئے جاتے ہیں.270
تیسری تحریک تعلیم القرآن کے بارے میں ہے.اس کا مقصد یہ ہے کہ جماعت میں کوئی فرد بھی ایسانہ رہے جو قرآن کریم ناظرہ نہ جانتا ہو.جو ناظرہ پڑھ سکتے ہوں وہ ترجمہ سیکھیں اور قرآنی معارف سے آگاہ ہوں.چوتھی تحریک وقف عارضی کی ہے.اس تحریک کے تحت واقفین دو سے چھ ہفتوں تک اپنے خرچ پر کسی مقررہ مقام پر جا کر قرآن کریم پڑھاتے اور تربیت کا کام کرتے ہیں.پانچویں تحریک مجلس موصیان کا قیام ہے.موصیوں کے لئے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں تعلیم القرآن کا انتظام کریں اور نگرانی کریں کہ کوئی فردایسا نہ رہے کہ جو قرآن کریم نہ جانتا ہو.چھٹی تحریک بد رسوم کو ترک کرنے کی جاری فرمائی.ساتویں تحریک چندہ وقف جدید اطفال کی ہے.اس کے تحت ہر احمدی طفل کیلئے لازمی قرار دیا کہ وہ ۵۰ پیسے ماہوار وقف جدید کا چندہ ادا کر کے اس کے مالی جہاد میں شریک ہو.آٹھویں تحریک تسبیح وتحمید اور در و دشریف کا بالالتزام ورد کرنا ہے.بڑے کم از کم ۲۰۰ مرتبہ سُبحان اللہ 271
وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ - اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ کا ورد کریں اور ۱۰۰ بار استغفار.۱۵ سے ۲۵ سال عمر والے ۱۰۰ بار تسبیح پڑھیں اور ۳۳ مرتبہ استغفار.ے سے ۱۵ سال تک عمر والے ۳۳ مر تبہ تسبیح پڑھیں اور اامرتبہ استغفار.۷ سال سے کم عمر کے بچوں کو والدین بار تسبیح اور استغفار پڑھائیں.نویں تحریک ( نصرت جہاں ریزروفنڈ سکیم ) ۱۹۶۷ء میں حضور نے یورپ کے متعدد ممالک کا دورہ کیا تھا اور ڈنمارک کے دارالسلطنت کوپن ہیگن میں مسجد نصرت جہاں کے افتتاح کے علاوہ اقوام مغرب کو جلد آنے والی تباہیوں کے متعلق انذار فرمایا.پھر ۱۹۷۰ ء میں حضور نے مغربی افریقہ کے سات ممالک نائجیر یا.گھانا.آئیوری کوسٹ.لائبیریا.گیمبیا اور سیرالیون کا دورہ فرمایا.اس دورہ میں منشاء الہی سے ایک خاص پروگرام کا اعلان فرمایا جس کا نام حضور نے لیپ فارورڈ پروگرام تجویز کیا.اور اس پروگرام کو ملی جامہ پہنانے کے لئے ایک لاکھ پونڈ کا "نصرت جہاں ریزرو فنڈ قائم کرنے کی تحریک فرمائی.اس تحریک کا مقصد افریقہ میں اسلام کا قیام و استحکام ہے جس کا نتیجہ انشاء اللہ العزیز اسلام کے عالمگیر غلبہ کی صورت میں نکلنا مقدر ہے.اس فنڈ سے افریقہ کے ممالک میں مزید تعلیمی سنٹر کھولے جا رہے ہیں.اس کے علاوہ وہاں طبی مراکز بھی قائم ہورہے ہیں.اسی فنڈ سے افریقہ کے کسی ملک میں ایک طاقتور ریڈیو سٹیشن قائم کرنے کی تجویز تھی جہاں سے اسلام کا پیغام ۲۴ گھنٹے ساری دنیا میں نشر ہونا تھا.اسی طرح ایک بڑا پریس مرکز میں قائم کیا جائے گا جس کے ذریعہ مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اور دوسرا اسلامی لٹریچر شائع کیا جائے گا.نصرت جہاں ریزروفنڈ سکیم کے تحت افریقی ممالک میں اس وقت تک جو میڈیکل سنٹرز اور سیکنڈری سکول کھولے جاچکے ہیں ان کی تفصیل یہ ہے:.272
نائجیریا میں تین میڈیکل سنٹر اور دو سیکنڈری سکول.غانا میں چار میڈیکل سنٹر اور چھ سیکنڈری سکول.لائبیریا میں ایک میڈیکل سنٹر اور ایک سیکنڈری سکول.گیمبیا میں ۵ نئے میڈیکل سنٹر اور سیرالیون میں چارمیڈیکل سنٹر اور چھ سیکنڈری سکول.دسویں تحریک صد سالہ احمد یہ جوبلی فنڈ سکیم اللہ تعالیٰ کے منشاء اور حکم کے مطابق جماعت احمدیہ کی بنیاد ۱۸۸۹ء میں رکھی گئی.اس لحاظ سے ۱۹۸۹ء میں جماعت کے قیام پر سو سال گذر گئے اور اس سال سے جماعت کی دوسری صدی شروع ہوئی جو اللہ تعالیٰ کی بشارات کے مطابق انشاء اللہ غلبہ اسلام کی صدی ہے.اس دوسری صدی کے استقبال کے لئے جس کے شروع ہونے میں بھی سولہ سال باقی تھے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حسب منشاء الہی جلسہ سالانہ ۱۹۷۳ء کے موقع پر جماعت ہائے بیرون کی تربیت اشاعت اسلام کے کام کو تیز سے تیز تر کرنے ، غلبہ اسلام کے دن کو قریب سے قریب تر لانے اور نوع انسان کے دل خدا اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے کیلئے ایک عظیم منصوبے کا اعلان فرمایا.اس کے اغراض و مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ ابھی دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں ہماری منتظم جماعتیں اور مشن قائم نہیں ہوئے.اس لئے اس منصوبہ کے ایک ابتدائی حصہ کی رو سے یہ تجویز ہے کہ کم از کم سوز بانوں میں اسلام کی بنیادی تعلیم کے تراجم کر کے بیرونی ملکوں میں کثرت سے اشاعت کی جائے اور اس ذریعہ سے وہاں کے باشندوں کی تربیت و اصلاح اور ان کو اسلام کی طرف لانے کی کوشش کی جائے.نیز فرمایا کئی جگہ ہمیں نئے مشن کھولنے پڑیں گے اور وہاں مسجد میں بنانی پڑیں گی.اس منصوبے کی تکمیل کیلئے مالی قربانی کے سلسلہ میں حضور نے فرمایا:.” میں نے مخلصین جماعت سے آئندہ سولہ سال میں ڈھائی کروڑ روپیہ جمع کرنے کی اپیل کی تھی اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ انشاء اللہ یہ رقم پانچ 273
کروڑ تک پہنچ جائے گی“.اس مالی جہاد میں شرکت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ جو ملا زمت پیشه یا مزدور پیشہ ہیں اور ان کی ماہوار آمد معین ہے.وہ اپنے وعدہ کو سولہ پر تقسیم کر دیں اور ہر سال کا جو حصہ بنتا ہے اسے بارہ ماہ میں تقسیم کر کے ماہ بماہ ادا ئیگی کرتے چلے جائیں“.زمیندار احباب کے بارے میں جن کی سال میں دو بار آمد ہوتی ہے فرمایا کہ وہ ہر فصل پر اپنے وعدہ کا ۱/۳۲ حصہ ادا کرتے رہیں.باقی افراد جو تاجر پیشہ ہیں یا وکلاء، ڈاکٹر ،انجینئر ، وغیرہ ہیں اور جن کی آمد نہ معین ہوتی ہے نہ اس کا وقت مقرر ہے وہ پہلے سال میں ہی شرح کا خیال رکھے بغیر ہمت کر کے جس قدر زیادہ سے زیادہ دے سکتے ہوں ادا کریں.اور پھر ہر سال اپنا وعدہ آمد کے مطابق ادا کریں.اس عظیم منصوبہ کے رُوحانی پہلو کے طور پر حضور نے سولہ سال کے لئے جو پروگرام تجویز فرمایا وہ یہ ہے:.۱ - جماعت احمدیہ کے قیام پر ایک صدی مکمل ہونے تک ہر ماہ احباب جماعت ایک نفلی روزہ رکھا کریں جس کے لئے ہر قصبہ، شہر یا محلہ میں مہینہ کے آخری ہفتہ میں کوئی ایک دن مقامی طور پر مقرر کر لیا جایا کرے.۲ - دو نفل روزانہ ادا کئے جائیں جو نماز عشاء کے بعد سے لیکر فجر سے پہلے تک یا نماز ظہر کے بعد ادا کئے جائیں.۳.کم از کم سات بار سورۃ فاتحہ کی دُعا غور وتدبر کے ساتھ پڑھی جائے.۴ - درود شریف تسبیح وتحمید نیز استغفار کاور دروزانہ ۳۳، ۳۳ بار کیا جائے.درود اور تسبیح و تحمید کیلئے سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ - اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِ 274
محمد پڑھ سکتے ہیں.۵.مندرجہ ذیل دعائیں روزانہ کم از کم گیارہ بار پڑھی جائیں :.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ اللهم إنا نَجْعَلُكَ فِي نُحورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ ۵۴ سے زائد ممالک کی جماعت ہائے احمدیہ نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے.اس تحریک کا ثمرہ یہ ہے کہ گوٹن برگ ( سویڈن ) میں ایک شاندار مسجد تعمیر ہو چکی ہے.ایک اور شریں شمر یہ ہے کہ اس منصوبہ کے تحت لندن میں ایک بین الاقوامی کسر صلیب کا نفرنس جون ۱۹۷۸ ء میں منعقد ہوئی.جس میں کئی ممالک کے عیسائی اور مسلم محققین نے تحقیقی مقالے پڑھے اور ثابت کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب پر وفات نہیں پائی.اس عظیم منصوبے کا ایک اور شیر میں وطیب شمر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مسجد نور اوسلو کی شکل میں ۱۹۸۰ ء عطافرما یا.مسجد نور ناروے کی پہلی اور بلحاظ تر تیب یورپ کی آٹھویں مسجد ہے جس کا افتتاح حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسح الثالث” نے اپنے سفر یورپ کے دوران فرمایا.اس کے علاوہ برطانیہ میں پانچ نئے مراکز کا قیام عمل میں آیا.مسجد بشارت کی تاسیس حضور نے جون تا اکتو بس ۱۹۸ ء یورپ کا جو سفر کیا اس کا اہم ترین واقعہ مسجد بشارت پیدرو آباد کی تاسیس تھا.اس سفر کے دوران حضور پین تشریف لے گئے اور قرطبہ سے ۲۲/ ۲۳ میل دور قصبہ پیدروآباد میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی جو حضور کے عہد مبارک میں ہی پایہ تکمیل کو پہنچ گئی.حضور نے اس کا نام مسجد بشارت تجویز فرمایا.اور اس کے افتتاح کیلئے ۱۰ ستمبر ۱۹۸۲ء کی تاریخ مقرر فرمائی.یہ مسجد ۷۴۴ سال بعد تعمیر ہونے والی پین کی پہلی مسجد ہے.مسجد کی بنیاد 275
رکھے جانے کے وقت پید رو آباد کے ہزاروں مرد عورتوں اور بچوں نے بڑی خوشی سے اس تقریب میں شرکت کی.قصبہ کی ایک معمر ترین عورت اور ایک سب سے کم عمر بچے نے بھی ( بذریعہ اپنی والدہ) سنگ بنیادرکھنے کی سعادت حاصل کی.اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں“ چودھویں صدی ہجری کو الوداع اور پندرھویں کا استقبال چودھویں صدی ہجری کے آخری سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ منعقدہ نومبر ۱۹۸۰ء کے موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے حضرت امیر المومنین نے فرمایا کہ چودھویں صدی نے ہمیں خدا سے ملا دیا.ہم پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن اور قرآن کریم کی عظمت واضح کردی.چودھویں صدی نے جہاں اسلام کا تنزل دیکھا وہاں تیرہ سو سال پہلے کی بے شمار پیشگوئیاں پوری ہوتی دیکھیں.اس زمانہ میں اسلام کا ضعف بھی دیکھا اور اسلام کی عظمت و جلال کے شاہکار بھی دیکھے.ہمیں چودھویں صدی نے مہدی دیا جس کے آنے سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کی تاثیر سے زندہ خدا کے ساتھ زندہ رشتہ پیدا ہوگیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب مہدی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہمارے دلوں میں گاڑ دی.پندرھویں صدی ہجری کے آغاز پر اس صدی کو غلبہ اسلام کی صدی بنانے کیلئے بہت دعائیں کی گئیں اور صدقات دیئے گئے.مرکزی ادارہ جات اور اہالیان ربوہ کی طرف سے یکم محرم الحرام ادھ سے ۷ محرم تک ۱۰۱ بکرے بطور صدقہ دیئے گئے.9 نومبر کی شام کو غروب آفتاب کے چند منٹ بعد پہلا بکر احضرت امیر المومنین نے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور دُعا 276
فرمائی.ربوہ کے علاوہ دوسرے مقامات کے احمدی مردوں اور عورتوں نے کثرت سے قربانیاں کیں اور غلبہ اسلام کیلئے دعائیں مانگیں.جماعت کیلئے تعلیمی منصوبے حضور نے مجلس انصار اللہ کے سالانہ اجتماع منعقدہ اکتوبر ۹۷۹! ء کے آخری اجلاس میں غلبہ اسلام کی صدی کے استقبال کیلئے دس سالہ تعلیمی پروگرام پیش کیا اور فرمایا:.بلا استثناء ہر احمدی بچہ قاعدہ یسر نا القرآن پڑھے.جو احباب قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں وہ ترجمہ سیکھیں اور جو ترجمہ جانتے ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ تفسیر سیکھیں جو خود اللہ تعالیٰ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھائی.اور وہ تفسیر بھی سیکھیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نور اور بصیرت و معرفت کے زیر سایہ خود کی.اس کے علاوہ ہر احمدی بچہ کم از کم میٹرک ضرور پاس کرے اور غیر معمولی ذہانت اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل طلباء کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق مزید اعلیٰ تعلیم دلانا جماعت کی ذمہ داری ہوگی.اس پروگرام کی آخری شق حضور نے یہ بیان فرمائی کہ سب احمدی اسلام کی حسین اخلاقی تعلیم پر قائم ہوں.“ الفضل ۲۹ اکتوبر ۱۹۷۹ء) حضور نے مجلس مشاورت ۱۹۸۰ء کے موقعہ پر جماعت کیلئے ایک عظیم علمی منصوبے کا اعلان فرمایا جس کے اہم نکات یہ ہیں :- ۱- ہر بچہ کم از کم میٹرک تک اور ہر بچی کم از کم مڈل تک ضرور تعلیم حاصل کرے“.(الفضل ۲۴ ۱٫ پریل ۱۹۸۱ء) ۲.کوئی احمدی بچہ پیچھے نہ رہے گا بلکہ آگے سے آگے بڑھے گا.وہ ذہین بچے جو حالات کی وجہ سے آگے نہیں آسکتے انہیں جماعت سنبھالے گی.دعائیہ لحاظ سے بھی اور مالی لحاظ سے بھی.اس لئے عہد کرو کہ کسی سے پیچھے نہیں رہنا.آج خدا تمہیں دینے کو تیار ہے تو تمہیں لینے کو تیار ہونا 277
چاہئیے.“ (الفضل اارا پریل ۱۹۸۱ء) ۳- گذشتہ جلسہ سالانہ (یعنی ۱۹۷۹ء) پر میں نے وظائف کا اعلان کیا تھا کہ مستحق اور ذہین طلباء کو بغیر ذہنی نشو و نما کے نہیں چھوڑا جائے گا.اس کا نام انعامی وظیفہ نہیں بلکہ ادا ئیگی حقوق طلباء رکھنا چاہئے.آئندہ دس برس کے اندر ہر احمدی قرآن کریم کی تعلیم اپنی عمر کے مطابق سیکھے.یہ کام خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کے ذمہ ہے...پہلے مرحلہ میں ہر احمدی گھرانے میں ایک تو تفسیر صغیر کا ہونا ضروری ہے اور دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر قرآن بھی پڑھنی ضروری ہے.میں نے اس سلسلہ میں خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کو یہ ہدایت دی تھی کہ وہ ان کے خریدنے کیلئے اپنی اپنی کلب بنائیں اور جماعت ایک کمیٹی بنائے جوان ہر سہ تنظیموں میں Co-ordination رابطہ) پیدا کرے یہ جوسکیم میں نے کراچی سے شروع کی تھی آج اس میں وسعت پیدا کر رہا ہوں اور اسے ساری جماعت کیلئے دینی تعلیم سکھانے کی بنیاد بنا رہا ہوں.یہ سکیم اس سال مکمل ہو جانی چاہیئے.۴.۱.پانچویں کلاس کے وظیفہ کا امتحان ( جو غالباً ضلعی سطح پر ہوتا ہے ) اس میں اوپر کی ۳۰۰ پوزیشنوں میں ہر ضلع میں جو احمدی بچہ آئے گا اسے میں اپنے دستخط سے دعائیہ خط اور حضرت مسیح موعود کی کوئی کتاب تحفہ کے طور پر اپنے دستخطوں اور دعائیہ فقرہ لکھ کر بھیجوں گا.ب.آٹھویں کے وظیفہ کا امتحان جو غالباً ڈویژن کی سطح پر ہوتا ہے.اس میں ہر ڈویژن میں اُوپر کی ۳۰۰ نشستوں میں جو احمدی طالب علم آئے گا اسے بھی اپنے دستخطوں سے دعائیہ خط اور کتاب تحفہ بھیجوں گا.ج.دسویں جماعت کا امتحان ایجوکیشن بورڈ لیتا ہے.ہر بورڈ کے امتحان میں Top کے ۲۰۰ لڑکوں میں سے جو بھی احمدی طالب علم طالبہ آئے گار آئے گی اس کو اپنے دستخطوں سے خط 278
اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پانچ کتب میں سے ایک تفسیر کی کتاب ان کی ذہنی قابلیت کی قدر کرتے ہوئے بھیجوں گا.د- ایف اے اور ایف ایس سی میں ہر بورڈ میں اوپر کی ۳۰۰ پوزیشنوں میں جو بھی احمدی طالب علم آئے گا اسے بھی دعائیہ خط اور ایک تفسیر کی کتاب بھجوائی جائے گی.ه یو نیورسٹی کے امتحان میں بی اے کیلئے علیحدہ اور بی ایس سی کیلئے علیحدہ اوپر کے ۲۰۰ طلباء طالبات میں سے احمدی طلبہ کیلئے دستخطوں سے دعائیہ خط اور حضرت مسیح موعود کی تفسیر کی کتابوں میں سے ایک کتاب تحفہ بھیجوں گا.و.ایم اے، ایم ایس سی ، میڈیکل یا انجینئر نگ کے فائنل امتحان میں ہر مضمون میں ٹاپ (چوٹی) کی سات پوزیشنوں میں جو احمدی طالب علم آئے گا اسے دعائیہ خط، تفسیر صغیر اردو یا انگریزی ترجمہ قرآن اپنے دستخط کر کے دعائیہ فقرہ کے ساتھ بھیجوں گا.اسی سلسلہ میں حضور نے فرمایا :- یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ جماعت کو ذہین بچے عطا کر رہا ہے.پس جو بچے جبینیں Genius ہیں جماعت ان کی ہر قسم کی مدد کرے گی.آج ہر احمدی بچے کو ایک نظام میں باندھنا ضروری ہے.اس لئے میں دفتر کو ہدایت دیتا ہوں کہ وہ ضلع وار اور پائیدار شکل میں رجسٹر بنائیں.پانچویں جماعت سے پی ایچ ڈی تک ہر ذہین بچے پر شفقت کی نظر رکھیں.ہر ایک بچے سے اسی طرح تعلق رکھیں جس طرح طبیب کی انگلیوں کا بیماری کی نبض کے ساتھ تعلق ہوتا ہے.جماعتیں اس بات کا خیال رکھیں کہ پہلی کلاس سے آخری کلاس تک کوئی احمدی بچہ نہ رہے جس نے اس سال امتحان دیا اور مجھے اس کا خط نہ آئے.اس بنیاد پر دفتر نے رجسٹر بنانے ہیں.279
بیرونی ملکوں کے بارے میں جائزہ لیا جارہا ہے.سر دست سکیم صرف پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کی جماعتوں کیلئے ہے جو ۱۹۸۰ء سے شروع ہوتی ہے“.انعامات صد سالہ احمدیہ تعلیمی منصوبے کے تحت دسمبر ۱۹۸۲ء تک ۴۸ طلبہ طالبات کو طلائی اور نقر کی تمغے دیئے جاچکے ہیں.میٹرک سے ایم اے /ایم ایس سی تک بورڈ اور یو نیورسٹی میں اول آنے والے کو طلائی تمغہ مشتمل بر ایک تولہ خالص سونا اور تفسیر صغیر یا انگریزی ترجمہ قرآن دستخطی حضور دیا جاتا ہے.ہر دوم آنے والے طالب علم طالبہ کو طلائی تمغہ مشتمل بر ۳٫۴ تولہ سونا اور تفسیر صغیر یا انگریزی ترجمہ قرآن و تخطی حضور دیا جاتا ہے.ہر سوم آنے والے والی کو چاندی کا تمغہ اور تفسیر صغیر/ انگریزی ترجمہ قرآن دیا جاتا ہے.حضور نے احمدی طلبہ کیلئے آگے بڑھنے کے چند اصول بھی بیان فرمائے ہیں جو یہ ہیں:.۱.سویا بین کا استعمال کیا جائے.ذہن کی تقویت کیلئے بہترین چیز ہے.۲.ہر احمدی طالب علم محنت سے پڑھے اور وقت کو ضائع نہ کرے.صحت کو برقرار رکھنے کیلئے متوازن غذا استعمال کی جائے.۴.صحت کو برقرار رکھنے کیلئے ورزشیں کی جائیں.لا اله الا الله کا ورد مجلس خدام الاحمدیہ کے ۳۶ ویں سالانہ اجتماع کے موقعہ پر فرمایا کہ ۱۸۸۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کو ایک الہام ہوا جس کے پورا ہونے کے سامان نہیں تھے.پھر حضور نے اپنا ایک کشف بیان فرمایا.جس میں آپ نے دیکھا کہ ساری کائنات سمندر کی انگوری رنگ کی لہروں کی طرح پر اہر در اہر آگے بڑھتی اور لا إلهَ إِلَّا اللہ کا ورد کرتی 280
جارہی ہے.حضور نے اس کشف کی یہ تعبیر فرمائی کہ اب توحید الہی کے قیام کا وقت آ گیا ہے.۱۸۸۲ء کے مسیح موعود کے طویل سلسلہ الہامات کا آخری حصہ لا إلهَ إِلَّا اللہ تھا.اس کے بعد الہام ہوا فاكتب اسے لکھ رکھو اور طبع کراؤ اور پھر ساری زمین میں شائع کر دو.اب اس الہام پر عمل کا وقت آگیا ہے.اسے طبع کرا کر ساری دنیا میں پھیلا دو.حضور کی اس ہدایت پر فوری عمل شروع ہو گیا اور بینروں کے ذریعہ دوسرے طریق پر جماعت میں اس کی اشاعت کی ایک روچل پڑی.فرض نمازوں کے بعد بھی گیارہ مرتبہ بہت دھیمی آواز میں لا إلهَ إِلَّا اللہ کا ورد کیا جانے لگا جوحضور کی زندگی میں برابر جاری رہا.کچھ عرصہ بعد مخالفین نے اعتراض شروع کر دیا کہ احمدیوں نے کلمہ طیبہ میں تصرف شروع کر دیا ہے اور محمد رسول اللہ کے الفاظ ( نعوذ باللہ) حذف کر دیئے ہیں.اس غلط نبی کو دور کر نے کے لئے حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی کہ اگر جلسوں کے موقعوں پر لا إله إلا الله کے بینر آویزاں کرنے ہوں تو حدیث نبوی کے پورے الفاظ یعنی: - أَفْضَلُ الذِكرِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ - ( ترمذی کتاب الدعوات) لکھے جایا کریں تا کہ غلط فہمی کا امکان نہ رہے.نیز مساجد میں اس کا ورد بلند آواز سے نہ کیا جائے بلکہ دوسرے درود کی طرح یہ ور بھی خاموشی سے کیا جائے.قرآن مجید کی عالمی اشاعت خلافت ثالثہ کا ایک اہم کارنامہ قرآن کریم کی وسیع اشاعت ہے.اس غرض کیلئے حضہ نے یورپ ، امریکہ اور افریقہ کے مختلف ممالک میں ہوٹلوں میں قرآن کریم رکھنے کی ایک مہم جاری فرمائی جس کے نتیجہ میں درجنوں ممالک کے ہوٹلوں میں کلام پاک کے ہزار ہا نسخے رکھوائے گئے اور یہ سلسلہ برابر چاری اور ترقی پذیر ہے.حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی وفات حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفتہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ مختصر لیکن شدید 281
علیل رہنے کے بعد ۱۳ اور ۴ دسمبر ۱۹۸۷ ء کی درمیانی شب رحلت فرماگئیں.إنا لله وانا اليْهِ رَاجِعُونَ.۴ / دسمبر کی شام ۴ بجے مرحومہ کا جنازہ احاطہ بہشتی مقبرہ میں حضرت خلیفہ امسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے پڑھا جس میں پچاس ہزار احباب نے شرکت کی.عقد ثانی حضرت سیدہ بیگم صاحبہ کو حضرت امیر المومنین کی ۷ ۴ سال سے زائد رفاقت کا شرف حاصل ہوا.آپ میں وہ تمام خوبیاں جو خلیفہ وقت کی رفیقہ حیات میں ہونی چاہئیں پائی جاتی تھیں.ایسی رفیقہ حیات کی جدائی قدرتی طور پر حضور کیلئے عظیم صدمہ کا موجب تھی وہاں حضور کے فرائض خلافت اور دینی مہمات میں ایک طرح سے روک اور حرج کا موجب بھی تھی.لہذا خالص لکبی اور دینی ضرورت کو پیش نظر رکھ کر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے متواتر چالیس دن دعا ئیں اور چند بزرگان سلسلہ کو سات دن تک استخارہ اور دعائیں کرنے کا ارشاد فرمایا اور جب خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی بشارتوں کے مطابق انشراح صدر ہو گیا تو حضور نے نکاح ثانی کا فیصلہ کیا اور مکرم خان عبدالمجید خان صاحب آف ویرووال کی صاحبزادی سیدہ طاہر صدیقہ بیگم صاحبہ سے مورخہ ۱۱ارا پریل ۱۹۸۲ ء کو مسجد مبارک ربوہ میں بعد نماز عصر حضور نے اپنے عقد ثانی کا اعلان ایک ہزار حق مہر پر فرمایا.نماز مغرب سے قبل سات مردوں اور تین خواتین پر مشتمل حضور کی بارات خان عبدالمجید خان صاحب کے گھر گئی اور کمال سادگی کے ساتھ تقریب رخصتانہ عمل میں آئی.اگلے روز ۱۲ را پریل ۱۹۸۲ء کو بعد نماز عشاء حضور نے قصر خلافت میں دعوت ولیمہ کا اہتمام فرمایا جس میں اڑھائی صد احباب جماعت شامل ہوئے جن میں غرباء بھی کثیر تعداد میں مدعو تھے.آخری خطاب رمئی ۱۹۸۲ء کو حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی پندرہ روزہ تربیتی کلاس سے اختتامی خطاب فرمایا.جو کسی جماعتی تنظیم سے حضور کا آخری خطاب ہے.282
ربوہ میں آخری خطبہ جمعہ ۲۱ رمئی ۱۹۸۲ ء کو حضور نے ربوہ میں آخری خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.اور ۲۳ رمئی کو حضور اسلام آباد تشریف لے گئے.حضور کی علالت اور انتقال پر ملال قیام اسلام آباد کے دوران ۲۶ مئی ۱۹۸۲ء کو حضور پر نور کی طبیعت علیل ہوگئی.بروقت علاج سے بفضل تعالیٰ افاقہ ہو گیا.لیکن اس مئی کو اچانک طبیعت پھر خراب ہوگئی.ڈاکٹری تشخیص سے معلوم ہوا کہ دل کا شدید حملہ ہوا ہے.علاج کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور ۸ / جون تک صحت میں بتدریج بہتری پیدا ہوتی گئی.لیکن ۸-۹ جون یعنی منگل بدھ کی درمیانی شب پونے بارہ بجے کے قریب دل کا دوبارہ شدید حملہ ہوا اور بقضائے الہی پونے ایک بجے شب ” بیت الفضل اسلام آباد میں حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.9 جون ۱۹۸۲ء کو حضور کا جسد اطہر اسلام آباد سے ربوہ لایا گیا.۱۰ جون کو سید نا حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بعد نماز عصر احاطہ بہشتی مقبرہ میں نماز جنازہ پڑھائی جس میں ایک لاکھ کے قریب احباب شریک ہوئے.نماز جنازہ کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے پہلو میں جانب شرق حضور کی تدفین عمل میں لائی گئی.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۷۳ سال کی عمر پائی.اولاد صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب،صاحبزادہ مرز القمان احمد صاحب،صاحبزادی امتہ الشکور بیگم صاحبہ، صاحبزادی امتہ العلیم بیگم صاحبہ.283
ابتدائی زندگی حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ۱۹۲۸ء تا ۲۰۰۳ء حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احد صاحب خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ تعالی حضرت مصلح موعود کی حرم ثالث حضرت سیدہ اُمّم طاہر مریم بیگم صاحبہ کے بطن سے ۱۸؍ دسمبر ۱۹۲۸ء (۵/رجب ۱۳۴۷ھ ) کو پیدا ہوئے (الفضل ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء).حضور کے نانا حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کلر سیداں تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی کے ایک مشہور سید خاندان کے چشم و چراغ تھے.بڑے عابد وزاہد اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے جنہوں نے ۱۹۰۱ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا.آپ کی والدہ حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ بھی نہایت پارسا اور بزرگ خاتون تھیں.جو اپنے اکلوتے بیٹے کی تعلیم وتربیت کا بیحد خیال رکھتی تھیں اور اسے نیک ، صالح اور عاشق قرآن دیکھنا چاہتی تھیں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے ۱۹۴۴ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹرک پاس کر کے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی.۷/دسمبر ۱۹۴۹ ء کو جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور ۱۹۵۳ء میں نمایاں کامیابی کے ساتھ شاہد ڈگری لی.اپریل ۱۹۵۵ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ یورپ تشریف لے گئے اور لنڈن یو نیورسٹی کے سکول آف اورینٹل اسٹیڈیز میں تعلیم حاصل کی.۱/۴ اکتوبر۱۹۵۷ء کور بوہ واپس تشریف لائے.۱۲ نومبر ۱۹۵۸ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو وقف جدید کی تنظیم کا ناظم ارشاد مقرر 284
فرمایا.آپ کی نگرانی میں اس تنظیم نے بڑی تیز رفتاری سے ترقی کی.حضرت مصلح موعود کی زندگی کے آخری سال میں اس تنظیم کا بجٹ ایک لاکھ ۷۰ ہزار روپے تھا جو خلافت ثالثہ کے آخری سال میں بڑھ کر دس لاکھ پندرہ ہزار تک پہنچ گیا.نومبر ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۶ء تک آپ نائب صدر خدام الاحمد یہ رہے.۱۹۹۰ء کے جلسہ سالانہ پر آپ نے پہلی مرتبہ اس عظیم اجتماع میں خطاب فرمایا.اس کے بعد قریباً ہر سال جلسہ سالانہ کے موقعہ پر خطاب فرماتے رہے.۱۹۶۱ء میں آپ افتاء کمیٹی کے ممبر مقرر ہوئے.۱۹۲۷ء سے نومبر ۱۹۲۹ء تک مجلس خدام الاحمدیہ کے صدرر ہے.یکم جنوری 1920ء کو فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائر یکٹر مقرر ہوئے.۱۹۷۲ء میں جماعت احمدیہ کے ایک نمائندہ پانچ رکنی وفد نے حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی قیادت میں پاکستان اسمبلی کے سامنے جماعت احمدیہ کے موقف کی حقانیت کو دلائل و براہین سے واضح کیا.آپ اس وفد کے ایک رکن تھے.یکم جنوری ۱۹۷۹ ء کو آپ صدر مجلس انصار اللہ مقرر ہوئے اور خلیفہ منتخب ہونے تک اس عہدہ پر فائز رہے.۱۹۸۰ء میں آپ احمد یہ آرکیٹکٹس اینڈ انجینیرز ایسوسی ایشن کے سرپرست مقرر ہوئے.جلسہ سالانہ ۱۹۸ء کے موقعہ پر اس ایسوسی ایشن نے جلسہ کی تقاریر کا ساتھ کے ساتھ انگریزی اور انڈو نیشین زبان میں ترجمہ پیش کرنے کا کامیاب تجربہ کیا.دور خلافت ۱۰ جون ۱۹۸۲ ء کو حضرت مصلح موعودؓ کی مقررکردہ مجلس انتخاب خلافت کا اجلاس بعد نماز ظہر مسجد مبارک میں زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل الاعلیٰ تحریک جدید منعقد ہوا اور آپ کو بالا تفاق خلیفہ اسیح الرابع منتخب کیا گیا اور تمام حاضرین مجلس نے انتخاب کے معابعد حضور کی بیعت کی.حضور ۲۸ جولائی ۱۹۸۲ء کو یورپ کے دورہ پر روانہ ہوئے.آپ کے پروگرام کا بڑا مقصد مختلف مشنوں کی کارکردگی کا جائز لینا اور مسجد اسپین کا معینہ پروگرام کے مطابق افتتاح کرنا 285
تھا.اس سفر میں حضور نے ناروے، سویڈن، ڈنمارک، جرمنی، آسٹریا، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ، اسپین اور انگلستان کا دورہ کیا اور وہاں کے مشنوں کا جائزہ لیا.سفر کے دوران تبلیغ و تربیت اور مجالس عرفان کے علاوہ استقبالیہ تقاریب کے ۱۸ پریس کا نفرنسوں اور زیورک میں ایک پبلک لیکچر کے ذریعہ اہل یورپ کو پیغام حق پہنچایا.انگلستان میں دو نئے مشن ہاؤسوں کا افتتاح کیا.یورپ کے ان ممالک میں ہر جگہ حضور نے مجلس شوریٰ کا نظام قائم فرمایا.نیز حضور نے تمام ممالک کے احمدیوں کو توجہ دلائی کہ وہ شرح کے مطابق لازمی چندوں کی ادائیگی کریں.۱۰ ستمبر ۱۹۸۲ء کو حسب پروگرام حضور نے مسجد بشارت سپین کا تاریخ ساز افتتاح فرمایا اور واضح کیا کہ احمدیت کا پیغام امن و آشتی کا پیغام ہے اور محبت و پیار سے اہل یورپ کے دل اسلام کیلئے فتح کئے جائیں گے.مسجد بشارت پیڈ رو آباد کے افتتاح کے وقت مختلف ممالک سے آنے والے قریباً دو ہزار نمائندے اور دو ہزار کے قریب اہالیان سپین نے شرکت کی.ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعہ مسجد بشارت کے افتتاح کا سارے یورپ بلکہ دوسرے ممالک میں بھی خوب چرچا ہوا.اور کروڑوں لوگوں تک سرکاری ذرائع سے اسلام کا پیغام پہنچ گیا.الحمد اللہ علی ذالک ! حضور نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کے فضل سے یورپ میں اب ایسی ہوا چلی ہے کہ اہل یورپ دلیل سننے کی طرف مائل ہورہے ہیں.تحریک بیوت الحمد سپین میں تعمیر مسجد کی توفیق ملنے پر ہر احمدی کا دل حمد باری تعالیٰ سے لبریز ہے.اس حمد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے حضور نے خطبہ جمعہ فرموده ۲۹ / اخا ء ۱۳۶۱ بهش اکتوبر ۱۹۸۲ء میں ارشاد فرمایا کہ خدا کے گھر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ہمیں غرباء کیلئے مکان بنوانے کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہیئے.حضور نے اس منصوبہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی طرف سے اس فنڈ میں دس ہزار روپے دینے کا اعلان فرمایا.286
داعی الی اللہ بننے کی تحریک سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۸۳ ء کے آغاز میں ہی اپنے متعد د خطبات جمعہ میں جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ موجودہ زمانہ اس امر کا متقاضی ہے کہ ہر احمدی مرد، عورت، جوان، بوڑھا اور بچہ دعوت الی اللہ کے فریضہ کو ادا کرنے کیلئے میدان عمل میں اُتر آئے تا کہ وہ ذمہ داریاں کما حقہ ادا کی جاسکیں جو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے کندھوں پر ڈالی ہیں.تحریک کا پس منظر اس تحریک کا پس منظر بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ اس وقت ایسے مہلک ہتھیار ایجاد ہو چکے ہیں جن کے ذریعہ چند لمحوں میں وسیع علاقوں سے زندگی کے آثار تک مٹائے جاسکتے ہیں.ایسے خطرناک دور میں جبکہ انسان کی تقدیر لا مذہبی طاقتوں کے ہاتھ میں جاچکی ہے اور زمانہ تیزی سے ہلاکتوں کی طرف جارہا ہے.احمدیت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.احمدیت دنیا کو ہلاکتوں سے بچانے کا آخری ذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری کیا گیا ہے.آخری ان معنوں میں کہ اگر یہ بھی ناکام ہو گیا تو دنیا نے لازم ہلاک ہو جانا ہے اور اگر کامیاب ہو جائے تو دنیا کو لمبے عرصہ تک اس قسم کی ہلاکتوں کا خوف دامنگیر نہیں رہے گا.دعوت الی اللہ کے تقاضے داعی الی اللہ بننے کے کیا تقاضے ہیں اور وہ کس طرح پورے کئے جاسکتے ہیں.اس بارے میں حضور نے سورۃ حم السجدہ کی آیت وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ مختلف مقاصد کی طرف بلانے والوں میں سے سب سے ( سورۃ حم سجده آیت ۳۴) 287
زیادہ مستحسن اور پیاری آواز اس بلانے والے کی ہے جو اپنے رب کی طرف بلائے لیکن اس کے ساتھ تین شرطیں لگا دیں.(۱) وہ اللہ کی طرف بلائے (۲) وہ عمل صالح رکھتا ہو (۳) وہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں.در حقیقت اس آیت میں مسلمان بننے کی تعریف میں یہ امر شامل کر دیا کہ اس کیلئے داعی الی اللہ ہونا اور عمل صالح بجالا ناضروری ہے.داعی الی اللہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس دعوت میں بلانے والے کا ذاتی کوئی مقصد پنہاں نہ ہو.وہ خالصہ اللہ تعالیٰ کی خاطر اس کی طرف بلائے عمل صالح کی تشریح قرآن کریم میں یوں کی گئی ہے کہ:.إنَّ اللهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (سورة توبه ) یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی نفوس بھی خرید لئے ہیں اور ان کے اموال بھی اور وہ اس کے بدلہ میں انہیں جنت عطا فر مائے گا.اس سودے میں نفوس کی قربانی بھی طلب کی گئی ہے اور اموال کی بھی اور نفوس کو مقدم کر کے اسے شرط اول قرار دیا ہے.پس عمل صالح میں جان کی قربانی، وقت کی قربانی ، اور مال کی قربانی سب آگئیں محض چندے ادا کر کے یہ سمجھ لینا کہ ذمہ داری ادا ہو گئی بالکل غلط ہے.یہ تو لنگڑا ایمان ہوا جس کی وجہ سے لازماً دعوۃ الی اللہ کے کام میں نقص واقع ہوگا.اس وقت قریباً سوا تین لاکھ عیسائی مبلغ دنیا میں کام کر رہے ہیں.ان کے مقابل دوسو یا چارسو مبلغوں کے ذریعہ اسلام کو دنیا میں غالب نہیں کیا جاسکتا.حضور نے فرمایا کہ میں تمام دنیا کے احمدیوں کو متنبہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد ان میں سے ہر ایک کو لازماً مبلغ بنانا پڑے گا.خواہ اس کا تعلق زندگی کے کسی شعبہ سے ہو اور اسے خدا کے حضور اسکا جوابدہ ہونا پڑے گا.دعوۃ الی اللہ کا طریق دعوۃ الی اللہ کس طرح کرنی ہے.اس ضمن میں حضور نے سورۃ النحل کی آیات اُدعُ الی سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ - - - الخ 288
( سورة حم سجدہ آیات ۱۲۶ تا ۱۲۹) کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اُدْعُ إلى سَبِيلِ ربك كے الفاظ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر خدا کی طرف بلانا ہے تو اس طبعی جذ بہ سے بلاؤ کہ گویا تم نے خدا کو پالیا ہے اور اس سے تمہارا ذاتی تعلق قائم ہو چکا ہے.پالینے والے کی آواز میں ایک یقین، ایک شوکت اور ایک کشش ہوتی ہے جیسے عید کا چاند دیکھ لینے والا دوسروں کو بڑے وثوق اور شوق سے چاند دیکھنے کی دعوت دیتا ہے.خدائے تعالیٰ کو پائے بغیر آواز ایسی ہی کھوکھلی اور بے اثر رہتی ہے جیسے گڈریے کے لڑکے کی آواز تھی جو کہتا تھا کہ شیر آیا.شیر آیا.دوڑنا.- پھر جو شخص خدا کو پالیتا ہے وہ دعوت الی اللہ کا پورا اہل ہوجاتا ہے.اسے کسی ہتھیار کی ضرورت نہیں رہتی.بعض لوگ تبلیغ کے معاملہ میں اپنی کم علمی کا عذر پیش کرتے ہیں.یہ نفس کا دھوکا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو سب سے بڑے اور کامیاب داعی الی اللہ تھے وہ ظاہری علوم سے بالکل بے بہرہ تھے.آپ کے اُمّی ہونے میں ایک یہ حکمت بھی تھی کہ کم علمی کے سوال کو باطل کیا جائے.جو شخص خدا کو پالیتا ہے اسے دلائل خود بخود آ جاتے ہیں.پس کتابوں کا سوال بعد میں پیدا ہوتا ہے.اوّل اور اصل کام یہی ہے کہ خدائے تعالیٰ سے ذاتی طور پر مضبوط تعلق قائم کیا جائے.کسی فرد نے خدا کو پالیا ہے یانہیں.اس کا ثبوت اس کی گفتار اور کردار سے مل سکتا ہے.جو شخص عمل صالح نہیں رکھتا.گالی گلوچ سے پر ہیز نہیں کرتا.دوسروں کے حقوق غصب کرتا ہے ظلم کرتا اور لین دین کے معاملات میں صاف نہیں وہ کس طرح کہ سکتا ہے کہ اس نے خدا کو پالیا ہے.دعوت الی اللہ کے بارے میں دوسری بات یہ فرمائی کہ وہ بالحکمۃ ہونی چاہئیے.حکمت کے بہت سے پہلو ہیں.مثلاً ( موقعہ محل کے مطابق بات کی جائے (۲) گفتگو کے دوران سب سے مضبوط دلیل پہلے پیش کی جائے.(۳) عمومی تبلیغ کے علاوہ بعض سنجیدہ اور مناسب افراد کو منتخب 289
کر کے انہیں پیغام حق پہنچایا جائے.(۴) منتخب شدہ افراد کو صرف ایک دفعہ تبلیغ کافی نہیں.سچائی بار بار ان کے گوش گزار کی جائے (۵) کوئی شخص بات سنے کیلئے تیار نہ ہو تو اس سے نصیحت کی بات کہہ کر اعراض کیا جائے.تیسری بات یہ بتلائی کہ دعوت موعظہ حسنہ کے رنگ میں شروع کی جائے.مخاطب کو بتلایا جائے کہ تبلیغ میں ان کا ذاتی مفاد کوئی نہیں بلکہ اس کی ہمدردی اور بھلائی مقصود ہے.کیونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جن قوموں نے خدا کی طرف بلانے والوں کا انکار کیا ہے وہ بالآخر ہلاک ہو گئے ہیں.اس لئے آج جو پکارنے والا پکار رہا ہے عقلمندی اسی میں ہے کہ اس کے پیغام پر کان دھرا جائے.پھر آیت وَاصْبِرُ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللہ کی وضاحت کرتے فرمایا کہ دعوت الی اللہ میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب مخاطب بھڑک اُٹھتے اور درپئے آزار ہو جاتے ہیں.ایسی صورت میں فرمایا کہ بہترین طرز عمل یہ ہے کہ زیادتی کے وقت صبر کیا جائے.قول کے لحاظ سے صبر یہ ہے کہ اذیتوں کو دیکھ کر دعوت الی اللہ کا کام ترک نہیں کرنا اور نہ کسی سے خوف کھانا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ۱۳ سال تک شدید ایذاؤں کے باوجود دعوۃ الی اللہ میں مصروف رہے.عمل کے لحاظ سے صبر یہ ہے کہ گالی کا جواب گالی سے نہیں دینا.ان حالات میں غصہ کی بجائے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہونا چاہئیے اور محبت و پیار سے سمجھاتے چلے جانا چاہئیے.احسن عمل یہ ہے کہ بدی کا جواب اچھائی اور حسن سلوک سے دو.بدی خود بخود کم ہوجائے گی.پھر صبر سے کام کرتے چلے جاؤ تو تمہاری استقامت اثر پیدا کرے گی.محبت کا سلوک جاری رہے اور قول و فعل میں حسن برقرار رہے تو اس کا نتیجہ بالآخر یہ نکلتا ہے کہ جو پہلے جانی دشمن ہوتے ہیں وہ دلی دوست بن جاتے ہیں.وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللہ میں یہ بھی فرمایا کہ خدائے تعالیٰ کی مدد کے بغیر دعوت الی اللہ کا 290
کام کامیابی سے نہیں کیا جاسکتا.اس لئے دعوۃ کے کام کے دوران اول و آخر دعاؤں پر زور دو اور خدائے تعالیٰ سے استعانت طلب کرتے رہو.دلوں کو بدلنا اسی کے قبضہ قدرت میں ہے اور نتائج اسی کے فضل سے ہی خاطر خواہ نکلتے ہیں.پردے کی پابندی کی تحریک جلسہ سالانہ A ء کے موقعہ پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے احمدی مستورات کو سختی سے پردہ کی پابندی کرنے کی تحریک فرمائی.بفضلہ تعالیٰ اس کے مفید نتائج ظاہر ہور ہے ہیں.ہر ملک میں مجلس شوری کا قیام حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور خلافت کا یہ تاریخ ساز کارنامہ ہے کہ ہر ملک میں مجلس شوری کا قیام ہو چکا.چنانچہ اس کے نتیجہ میں تمام بیرونی ممالک کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو کر ایک نئے جوش اور ولولہ کے ساتھ کام ہورہا ہے.منصوبہ بندی کمیشن کا قیام تبلیغی ، تربیتی اور مالی امور کی مساعی کو تیز اور مؤثر بنانے کیلئے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے تمام ملکوں میں منصو بہ بندی کمیشن کا قیام فرمایا.با شرح چندہ جات کی ادائیگی حضور رحمہ اللہ کے انقلاب انگیز دور سعید کا ایک عظیم کارنامہ ہے کہ حضور نے احباب جماعت کو با شرح چندہ جات کی ادائیگی کی طرف خصوصی تو جہ دلائی ہے اور اس تحریک کے بفضلہ تعالیٰ بہت خوشکن نتائج ظاہر ہورہے ہیں.اس سلسلہ میں ۲۸ / مارچ اور ۴ را پریل ۱۹۸۶ء کے خطبات جمعہ کو خاص طور پر پڑھنے اور سننے کی تاکید کی جاتی ہے.291
تحریک جدید کے دفتر چہارم کا قیام تحریک جدید کے سلسلہ میں خاص طور پر دفتر اول کے مرحوم مجاہدین کے کھاتوں کو زندہ کرنے کی تحریک خصوصی اہمیت کی حامل ہے.اسی طرح حضور انور نے ۲۵ /اکتوبر ۱۹۸۵ء کو تحریک جدید کے دفتر چہارم کا اعلان فرمایا.وقف جدید کو عالمی وسعت تحریک وقف جدید اب تک ہندوستان اور پاکستان تک ہی محدود تھی.اب اس کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۸۵ء میں اس تحریک کو عالمی وسعت عطافرمائی.نئے مراکز کی تحریک حضور انور نے یورپ میں وسیع و عریض مشن ہاؤسز کے قیام کے لئے احباب جماعت سے ایک فنڈ مہیا کرنے کی تحریک فرمائی.بفضلہ تعالیٰ جماعت کے مردوزن نے حیرت انگیز قربانی کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں لندن فلفورڈ میں ۱۱۲۵ یکٹر پر مشتمل رقبہ خرید کر اسلام آباد کے نام سے شاندار مرکز قائم کیا گیا ہے.جبکہ دوسرا مرکز فرینکفرٹ مغربی جرمنی میں ناصر باغ کے نام سے قائم ہو چکا ہے.کمپیوٹر ٹائپ رائٹر کی تحریک حضور انور نے اپنے خطبہ جمعہ ۱۲ جولائی ۱۹۸۵ ء میں اسلام آبا دلندن میں ایک جدید قسم کے پریس کے قیام کیلئے کمپیوٹر ٹائپ رائٹر خریدنے کے لئے ڈیڑھ لاکھ پونڈ کا فنڈ مہیا کرنے کی 292
تحریک فرمائی.بفضلہ تعالیٰ جماعت نے والہانہ لبیک کہا.اس جدید پریس کا اسی سال ۱۹۸۷ء میں افتتاح عمل میں آیا ہے.کلمہ طیبہ کی حفاظت کی خصوصی تحریک ۱۹۸۴ء سے پاکستان میں کلمہ طیبہ کی بے حرمتی کی جارہی ہے.اور احمد یہ مساجد سے کلمہ طیبہ کو مٹایا گیا اور کلمہ کا بیج لگانے والے احمدیوں کو قید کیا گیا.حضور انور نے اس سلسلہ میں احباب جماعت اور خاص طور پر پاکستان کے احمدیوں کو کلمہ طیبہ کی حفاظت کی خاطر ہر قربانی پیش کرنے کیلئے تیار فرمایا.سیدنا بلال فنڈ جماعت احمدیہ کے شہداء کے ورثاء اور اُن کے اہل وعیال کی کفالت کیلئے حضور انور نے سیدنا بلال فنڈ کے نام سے تحریک فرمائی.بفضلہ تعالیٰ جماعت نے اس میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.اب اس فنڈ سے شہداء احمدیت کی طرف سے منتخب آیات قرآنی کا سو سے زائد زبانوں میں ترجمہ شائع کیا جارہا ہے.قرطاس ابیض کا جواب پاکستان کے مبینہ قرطاس ابیض کے نہایت مدلل جواب خود حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبات جمعہ میں دیئے جوسیریز کی شکل میں لندن سے ۱۸ جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں.اسلامی لٹریچر کی اشاعت قرآن کریم کے تراجم اور منتخب آیات قرآنی کے تراجم کی اشاعت کے علاوہ خلافت رابعہ کے دور کا ایک شاندار کارنامہ لندن سے ۴۶ جلدوں پر مشتمل روحانی خزائن کے سیٹ کی 293
اشاعت ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب، ملفوظات، مکتوبات اور حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی تفسیر کبیر کی پوری جلد میں شامل ہیں.مجالس عرفان حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے مبارک دور کی ایک دلکش چیز مجالس عرفان ہیں.جن میں احباب جماعت اور غیر از جماعت بھی حضور سے ہر قسم کے دینی علمی اور معلوماتی سوال پوچھتے ہیں.اور حضور اُن کے تسلی بخش جواب ارشاد فرماتے ہیں.بفضلہ تعالیٰ مجالس عرفان کی رپورٹیں پڑھنے والے احباب بیحد فائدہ اُٹھارہے ہیں.ہجرت سید نا حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپریل ۱۹۸۴ء کو شدید مخالفانہ حالات میں ربوہ سے لنڈن ہجرت فرمائی.ہجرت کے بعد جماعت کی ترقی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے.تحریک شدھی کے خلاف تبلیغی جہاد ۲۲ اگست ۱۹۸۶ء کو حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے شدھی کے خلاف تبلیغی جہاد کی تحریک فرمائی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک کے نہایت خوشکن نتائج ظاہر ہورہے ہیں.تعمیر مکان بھارت بھارت میں مقامات مقدسہ کی تعمیر ومرمت کیلئے حضور انور نے ۲۸ مارچ ۱۹۸۶ء کو تعمیر مکان بھارت فنڈ کی تحریک فرمائی.294
تحریک و قف نو ۱/۳ پریل ۱۹۸۷ ء کو حضور انور نے تحریک وقف نو کا اعلان فرمایا جس کے تحت اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں ہزاروں واقفین و واقفات نو تحریک جدید کے انتظام کے تحت تربیت حاصل کر رہے ہیں.سابق روسی ریاستوں میں وقف نو کی تحریک حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۲ /اکتوبر ۱۹۹۲ء کو سابق روسی ریاستوں میں وقف کی تحریک فرمائی.بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں کی امداد کی تحریک ۱/۳۰اکتوبر ۱۹۹۲ء کوحضور انور نے بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں کی امداد کی تحریک فرمائی.مسلم ٹیلی ویژن احمد یہ انٹر نیشنل ۷ ارجنوری ۱۹۹۴ ء کے سال کو اللہ تعالیٰ نے یہ عظمت بھی عطا فرمائی ہے کہ اسلام کے بصیرت افروز پیغام کو تمام دنیا میں پہنچانے کیلئے اور اسلام کی خوبیوں کو تمام دنیا پر واضح کرنے کیلئے جماعت احمدیہ کو اپنا سیٹلائٹ ٹیلی ویژن چلانے کی توفیق ملی الحمد اللہ.اس سے قبل سیٹلائٹ کے ذریعہ حضور کا خطبہ ۳۱ جولائی سے نشر ہونا شروع ہو چکا تھا.جھوٹ کے خلاف جہاد ۳ فروری ۱۹۹۵ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے جماعت احمدیہ کو جھوٹ کے خلاف جہاد کی تحریک فرمائی.295
صد سالہ تقریبات خلافت رابعہ کے دور کو یہ ایک امتیاز بھی حاصل ہے کہ یہ دور سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دور ماموریت ۱۸۸۲ء کے عین سو سال بعد یعنی ۱۹۸۲ء سے شروع ہوا.اس لحاظ سے اس مبارک دور خلافت میں درج ذیل سالانہ تقریبات منعقد ہوئیں :.- ۱۹۸۶ ء میں مصلح موعود کی پیشگوئی کے پورے ہونے کی سوسالہ تقریب.- ۱۹۸۹ء میں جماعت احمدیہ کے قیام پر سو سال پورے ہونے پر جماعت نے نہایت شاندار عالمگیر جشن تشکر منایا.* 1991 ء میں سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی مسیحیت پر اور جلسہ سالانہ پرسوسال پورے ہونے پر سیدنا حضرت اقدس امیر المومنین خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بنفس نفیس ہندوستان تشریف لائے.اس طرح تقسیم ہند کے ۴۴ سال بعد کسی خلیفہ کو پہلی بار قادیان آنے کی توفیق عطا ہوئی.* - ۱۹۹۴ء میں پیشگوئی کسوف و خسوف پر سو سال پورے ہونے پر جماعت نے صد سالہ تقریبات منعقد کیں.1997ء میں لیکچر اسلامی اصول کی فلاسفی کی صد سالہ تقریب منائی گئی.1997-☆ تراجم قرآن مجید خلافت رابعہ کے مبار دور میں 20 زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم شائع ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا معرکۃ الآراء لٹریچر حضوراقدس کے دور خلافت میں آپ کی کئی کتب منظر عام پر آچکی ہیں چند ایک کے نام 296
نمونہ کے طور پر درج ہیں :.(۱) خلیج کا بحران اور نظام نو.Islam's Response to Contemporary issues (r) (۳) ذوق عبادت اور آداب دُعا.(۴) حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ Christianity-A Journey from facts To fiction (*) (1) زهق الباطل Absolute Justice (4) (۸) ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل Revelation,Rationality,Knowledge and truth (9) عالمی درس القرآن ۱۲ فروری ۱۹۹۴ ء کا دن ہمیشہ یاد گار رہے گا کیونکہ اس روز حضور اقدس نے عالمی درس القرآن کا آغا ز فرمایا.عالمی بیعت جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقعہ پر حضور انور نے عالمی بیعت کا سلسلہ شروع فرمایا.23 / مارچ 1994 ء سے ایم ٹی اے پر ہومیو پیتھی کلاسز کا اجرا ہوا.7 جنوری 1994ء سے الفضل انٹر نیشنل کی مسلسل اشاعت جاری ہوئی.1994ء میں حضور نے مخالفین احمدیت کو چیلنج دیا کہ اگر وہ مسیح کو اس صدی کے خاتمہ سے پہلے آسمان سے اتار دیں تو ہر مدعی کو ایک کروڑ روپیہ انعام دیا جائے گا.297
1 را پریل 1996 ء سے ایم ٹی اے کی نشریات 24 گھنٹے پر پھیل گئیں مختلف ترقیات کے ساتھ 1999ء میں ایم ٹی اے کی ڈیجیٹل نشریات کا آغاز ہوا.جنوری 2001 ء سے جماعت کی آفیشیل ویب سائٹ ”الاسلام انٹرنیٹ پر قائم ہوئی.19 جون تا 11 جولائی 2000 حضور نے انڈونیشیا کا دورہ فرمایا جس کی بہت پزیرائی ہوئی ( خلیفہ وقت کا انڈونیشیا کا یہ پہلا دورہ تھا) فروری 2003ء میں غریب بچیوں کی شادی کے انتظام کے لئے مریم شادی فنڈ کی تحریک فرمائی.19 اپریل 2003ء کو آپ مولائے حقیقی سے جاملے.انا للہ وانا الیہ راجعون 22 را پریل کو آپ کی نماز جنازہ سید نا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پڑھائی اور آپ کی تدفین اسلام آبادلندن میں ہوئی.دنیا کے سیاسی ، معاشی، معاشرتی مسائل پر آپ کی بے مثال رہنمائی نے آپ کی ذات اور جماعت کو دنیا بھر میں نئی عزت اور وقار عطا فرمایا.☆ 298
حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب خلیفة اصبح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ابتدائی زندگی ( پیدائش ۱۵ تمبر ۰۱۹۵۰) جماعت احمد یہ عالمگیر کے موجودہ امام حضرت صاحبزادہ مرزا مسر دراحمد خلیفه امسیح النا مس مسرور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں.یوں آپ بھی آنحضور صلی ایتم کی اس پیش گوئی کے مصداق ٹھہرتے ہیں جو آپ نے مسیح موعود کی اولاد کے بارے میں کی تھی.پھر خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر خدا تعالیٰ نے جو الہامات پیش گوئیوں کے رنگ میں نازل فرمائے ان میں سے بعض آپ پر پورے ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات : بعض پیشگوئیاں جو آپ کے والد صاحب اور دادا جان کے متعلق تھیں وہ بڑی شان سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے وجود میں بھی پوری ہوتی نظر آتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی وو پاس کھڑے ہیں.ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا: ” وہ باد شاہ آیا دوسرے نے کہا ”ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے فرمایا قاضی حکم کو بھی کہتے ہیں.قاضی وہ ہے جو تائید حق کرے اور باطل کو ر ڈ کر دئے.( تذکرہ صفحہ 584 ایڈیشن چہارم 2004ء) دسمبر 1907ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا: 299
میں تیرے ساتھ اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں “ إِنِّي مَعَكَ يَا مَسْرُورُ (تذکرہ صفحہ 630 ایڈ یشن چہارم 2004) حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہنے حضور انور ایدہ اللہ کے والد ماجد حضرت مرزا منصور احمد صاحب مرحوم کی وفات کے موقع پر اپنے خطبہ جمعہ 12 دسمبر 1997ء میں حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کو ناظر اعلیٰ مقرر کیے جانے کے ذکر پر فرمایا: میں ساری جماعت کو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کیلئے خاص دعا کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور بعد میں مرزا مسرور احمد صاحب کے متعلق بھی کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صحیح جانشین بنائے تو ہماری جگہ بیٹھ جا“ کا مضمون پوری طرح ان پر صادق آئے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ خود ان کی حفاظت فرمائے اور ان کی اعانت فرمائے.“ الفضل انٹر نیشنل 30 /جنوری تا 5 رفروری 1998ء) ۱۹ را پریل 2003ء کو سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پانچویں جانشین منتخب ہوئے.اس طرح حضرت مسیح موعود کا کشف کہ اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں ( تذکرہ صفحہ 487) بڑی شان کے ساتھ پورا ہوا.خاندانی پس منظر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقدس خاندان سے ہے.آپ کے نانا کا نام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ امسیح الثانی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند تھے اور نانی حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ ہیں جو حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی بڑی بیٹی 300
تھیں.آپ کے دادا کا نام حضرت مرزا شریف احمد صاحب ہے.آپ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند تھے.آپ کی دادی حضرت بوز ینب بیگم صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ کی بڑی صاحبزادی تھیں.آپ کے والد صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب سابق ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان تھے جو 13 / مارچ 1911ء کو حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے گھر پیدا ہوئے.آپ ایک لمبا عرصہ امیر مقامی ربوہ بھی رہے.آپ نے 10 دسمبر 1997ء کو وفات پائی.آپ کی والدہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ تمبر 1911ء میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ہاں پیدا ہوئیں.آپ کی وفات 29 جولائی 2011ء کور بوہ میں ہوئی.پیدائش، تعلیم و تربیت: حضرت مرزا مسرور احمد صاحب مورخہ 15 ستمبر 1950 ءکور بوہ میں پیدا ہوئے.عمر میں آپ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں.آپ کے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں.نہایت پاکیزہ ماحول میں آپ کی تعلیم وتربیت ہوئی.میٹرک تعلیم الاسلام ہائی اسکول ربوہ اور بی اے تعلیم الاسلام کا لج ربوہ سے کیا.ایم ایس سی کے لئے زرعی یو نیورسٹی فیصل آباد میں داخلہ لیا.1976ء میں اس یو نیورسٹی سے ایگریکلچرل اکنامکس میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی.آپ کی خدمات دینیہ کی چند جھلکیاں: سید نا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ غانا میں قریباً ساڑھے سات سال بحیثیت واقف زندگی مختلف خدمات بجالاتے رہے.یہ عرصہ خدمت 1977ء سے 1985ء تک کا بنتا ہے.301
میدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ٹی.آئی احمد یہ اسکول غانا میں پرنسپل کے طور پر اگست 1977 ء تا اگست 1979 ء خدمت بجالاتے رہے.اسی طرح حضور انور کو اکمفی ٹی آئی احمد یہ سیکنڈری اسکول ایسار پرسنٹرل ریجن کے دوسرے ہیڈ ماسٹر کے طور پر خدمت کا موقع ملا.حضور انور نے ٹمالے ( ناردرن ریجن ) کے مقام پر قریباً دو سال قیام فرمایا.آپ کے ذمہ ٹمالے سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر DEPALE نامی گاؤں میں جماعت کے زرعی فارم کی نگرانی تھی.یہاں آپ نے پہلی بارغانا میں گندم کی کاشت کا کامیاب تجربہ فرمایا.حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز 1985ء میں غانا سے پاکستان واپس تشریف لائے اور 17 / مارچ 1985 ء سے نائب وکیل المال ثانی کے طور پر آپ کا تقرر ہوا.18 جون 1994ء کو آپ ناظر تعلیم صدر انجمن احمد یہ مقرر ہوئے.1994ء تا 1997ء چیئر مین ناصر فاؤنڈیشن رہے.اسی عرصہ میں آپ صدر تزئین ربوہ کمیٹی بھی رہے.آپ نے گلشن احمد نرسری کی توسیع اور ربوہ کو سرسبز بنانے کیلئے ذاتی کوشش اور نگرانی فرمائی.حضور انور کی خواہش تھی کہ ربوہ سرسبز و شاداب شہر بن جائے.اگست 1998ء میں صدر مجلس کا رپرداز مقرر ہوئے.1988ء تا1995 ء تک ممبر قضاء بورڈ رہے.اس کے ساتھ ساتھ تنظیمی کا موں میں بھی بھر پور حصہ لیا.خدام الاحمدیہ مرکز یہ میں سال 77-1976ء میں مہتم صحت جسمانی رہے.1984-85ء میں مہتم تجنید رہے.سال 86-1985ء سے 89-1988 ء تک مہتم مجالس بیرون اور 90-1989ء میں نائب صدر خدام الاحمدیہ پاکستان رہے.1995ء میں انصار اللہ پاکستان میں قائد ذہانت و صحت جسمانی اور قائد تعلیم القرآن کے طور پر خدمات بجالاتے رہے.10 دسمبر 1997 ء کو آپ ناظر اعلیٰ و امیر مقامی مقرر ہوئے اور تا انتخاب 302
خلافت اس منصب پر فائز رہے.بحیثیت ناظر اعلیٰ آپ ناظر ضیافت اور ناظر زراعت کے عہدہ پر بھی خدمات بجالاتے رہے.آپ کو ایک جھوٹے مقدمے میں اسیر راہ مولی رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا.آپ 30 را پریل 1999 ء کو گرفتار ہوئے اور 10 مئی 1999ء کو رہا ہوئے.انتخاب خلافت 19 / اپریل 2003ء کا دن تاریخ احمدیت کا ایک اندوہناک دن تھا.اس روز حضرت خليفة امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا قریباً اکیس سالہ دورِ خلافت بھر پور جدو جہد اور نمایاں کامیابیوں کے ساتھ اپنے بابرکت اختتام کو پہنچا اور حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کروڑوں جاں نثاروں کو دل گرفتہ چھوڑ کر اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ مجلس انتخاب خلافت کا اجلاس مسجد فضل لندن میں 22 را پریل 2003ء کو مغرب اور عشاء کی نمازوں کے بعد مکرم و محترم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلی تحریک جدید انجمن احمد یہ پاکستان کی زیر صدارت منعقد ہوا اور لندن وقت کے مطابق 11:40 بجے رات اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسند خلافت پر متمکن کیا.سب سے پہلے اراکین مجلس انتخاب خلافت نے آپ کے دست مبارک پر دستی بیعت کا شرف حاصل کیا اور اس کے بعد تمام دنیا کے احباب جماعت نے MTA کے ذریعہ بیعت کا شرف حاصل کیا.303
حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مبارک تحریکات حضور نے فرمایا:- ” خلفاء کی طرف سے مختلف وقتوں میں مختلف تحریکات بھی ہوتی رہتی ہیں.روحانی ترقی کے لئے بھی جیسا کہ مساجد کو آباد کرنے کے بارہ میں ہے، نمازوں کے قیام کے بارہ میں ہے، اولاد کی تربیت کے بارہ میں ہے، اپنے اندر اخلاقی قدریں بلند کرنے کے بارہ میں، وسعت حوصلہ پیدا کرنے کے بارہ میں ، دعوت الی اللہ کے بارہ میں یا متفرق مالی تحریکات ہیں.تو یہی باتیں ہیں جن کی اطاعت کرنا ضروری ہے.دوسرے لفظوں میں طاعت در معروف کے زمرے میں یہی باتیں آتی ہیں تو نبی نے یا کسی خلیفہ نے تمہارے سے خلاف احکام الہی اور خلاف عقل تو کام نہیں کروانے.یہ تو نہیں کہنا کہ تم آگ میں کود جاؤ اور سمندر میں چھلانگ لگا دو...تو واضح ہو کہ نبی یا خلیفہ وقت کبھی بھی مذاق میں بھی یہ بات نہیں کر سکتا.(خطبات مسر در جلد اول صفحہ 343) حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گزشتہ سالوں میں جماعت کی تعلیم و تربیت اور تبلیغ اسلام و احمدیت اور جماعتی ترقی اور خدمت بنی نوع انسان کے سلسلہ میں مختلف اوقات میں جو بابرکت تحریکات فرما ئیں ان میں سے بعض کا ذکر مختصراً درج ذیل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی دُعا رَبِّ إِنِّي مَظْلُومٌ فَانْتَصِرُ فَسَحِقُهُمْ تَسْحِیقًا “ کرنے کی تحریک.(خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 2003ء) 304
نصرت جہاں سکیم کے تحت احمدی ڈاکٹر ز کو وقف زندگی کی تحریک.الفضل انٹرنیشنل 12 دسمبر 2003ء) بد رسوم ترک کر دینے کی تحریک.(الفضل انٹر نیشنل 5 دسمبر 2003ء) نظام جماعت کی پابندی کی تحریک.خطبات مسرور جلد اوّل صفحہ 515) سچائی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی تلقین.خطبات مسرور جلد اوّل صفحہ 564) ا شادی بیاہ کے موقعہ پر سادگی اور اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھنے کی تاکید.جماعتی عمارات کے ماحول کو صاف رکھنے کا باقاعدہ انتظام ہو، اس کے لئے خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اپریل 2004ء) اللہ وقار عمل کریں.افریقہ کے پیاسے لوگوں کو پینے کا پانی مہیا ہو، احمدی انجینئر ز اس سلسلہ میں جائزہ لے کر Feasibility رپورٹ تیار کریں.(انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹیکٹس اینڈ انجنیئر ز کے یورپین چیپٹر کے زیر انتظام منعقدہ سمپوزیم سے سید نا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب) ( الفضل انٹر نیشنل 4 جون 2004ء) ہر احمدی دعوت الی اللہ کے لئے سال میں کم از کم دو ہفتے وقف کرے.خطبه جمعه فرموده 4 جون 2004ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام سے فائدہ اُٹھائیں.خطبه جمعه فرموده 11 جون 2004ء) ی اجتماعات اور جلسوں سے بھر پور استفادہ کی تلقین.واقفین نو زبانیں سیکھیں خطبه جمعه فرمودہ 18 جون 2004ء) اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے وصیت کے آسمانی نظام میں شامل ہوں.(اختتامی خطاب جلسه سالانه UK فرمودہ یکم اگست 2004ء) 305
* Humanity First“ کی طرف توجہ کریں.(خطبه جمعه فرموده 27 /اگست 2004ء) جرمنی کے ہر شہر میں مسجد بنانے کی تحریک.(خطبه جمعه فرموده 27 /اگست 2004ء) حمد سپین میں Valencia کے مقام پر ایک اور مسجد بنانے کی عظیم الشان تحریک.الفضل انٹرنیشنل 28 جنوری 2005ء) آنحضرت مسلہ تم پر اعتراضات کے جواب دینے کے لئے ٹیمیں تیار کریں.(خطبہ جمعہ 18 فروری 2005ء) لجنہ اماءاللہ ، خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے شعبہ خدمت خلق کو مریضوں کی عیادت کے پروگرام بنانے کی نصیحت.فنڈ میں ضرور شامل ہوا کریں.خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 2005ء) امراء کو پہلے بھی کہہ چکا ہوں اب بھی کہتا ہوں دوبارہ تحریک کر دیتا ہوں کہ مریم شادی خطبه جمعه فرموده 25 نومبر 2005ء) طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے مالی قربانی کی تحریک.الفضل انٹر نیشنل 17 جون 2005ء) حمد جرنلزم پڑھنے کی طرف توجہ کریں.الفضل انٹر نیشنل 3 تا 9 مارچ 2006ء) ڈاکٹر ز کو طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں حصہ لینے کی تحریک.الفضل انٹر نیشنل 21 تا 27 اپریل 2006ء) جماعتیں وقف عارضی کی طرف توجہ کریں.(الفضل انٹر نیشنل 24 تا30 نومبر 2006ء) مغربی ممالک میں بعد از ریٹائر منٹ اپنے آپ کو جماعتی خدمات کے لئے رضا کارانہ طور پر پیش کرنا چاہئے.الفضل انٹرنیشنل 24 تا 30 نومبر 2006ء) یتامی کی خبر گیری کے فنڈ میں دل کھول کر حصہ لینے کی تحریک.الفضل انٹر نیشنل 22 جون تا 28 جون 2007ء) 306
غیر ضروری اخراجات اور قرضوں سے بچنے اور کفایت شعاری سے کام لینے کی تحریک الفضل انٹر نیشنل 6 تا 12 جولائی 2007ء) اپنے پاک ہونے اور قرآن کریم پر عمل کرنے کی طرف مستقل تو جہ دیں.اس پیغام کو ہر شخص تک پہنچانے کے لئے ایک خاص جوش دکھا ئیں تا کہ کسی کے پاس یہ عذر نہ رہے کہ ہم تک تو یہ پیغام نہیں پہنچا.(خطبہ جمعہ 1 فروری 2008ء، الفضل انٹر نیشنل 22 رفروری 2008ء) ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ اپنی نمازوں کو وقت پر ادا کر ہے.(خطبہ جمعہ 15 فروری 2008ء،الفضل انٹر نیشنل 7 / مارچ2008ء) دشمن قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کر رہا ہے اس کی اس مذموم کوشش کے نتیجہ میں ہم احمدی یہ عہد کریں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کروڑوں اربوں دفعہ درود بھیجیں اور بھیجتے چلے جائیں.(خطبہ جمعہ 28 فروری 2008ء ، الفضل انٹر نیشنل 18 اپریل 2008ء) انٹرنیشنل د دنیا کے ہر خطے میں ، ہر شہر میں مسجدوں کی تعمیر کریں.(خطبہ جمعہ 25 اپریل 2008ء، الفضل انٹرنیشنل 16 مئی 2008ء) واقفین نو بچے ، خاص طور پر بچیاں زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ کریں.(خطبہ جمعہ 1 راگست 2008ء، الفضل انٹر نیشنل 22 /اگست 2008ء) رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ کی دعا ہمیشہ ہر احمدی کا روزمرہ کا معمول ہونا چاہئے.(خطبہ جمعہ 21 نومبر 2008ء ،الفضل انٹرنیشنل 12 دسمبر 2008ء) اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ أَذْهِبِ الْبَاسَ إِشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي - لَا شِفَاءَ إِلَّا شفَاءُ كَ- اِشْفِنِي شِفَاءٌ كَامِلًا لَا يُغَادِرُ سَقَمًا کی دعا ہر ایک کو کرنی چاہئے.( خطبہ جمعہ 19 دسمبر 2008ء، الفضل انٹر نیشنل 9 جنوری 2009ء) فلسطینی جو اسرائیل کے ظلم کی بڑی خطرناک چکی میں پس رہے ہیں ان کے لئے دعا 307
اور مدد کی خصوصی تحریک.(16 جنوری 2009ء،الفضل انٹرنیشنل 6رفروری 2009ء) حملہ ہندوستان ،انڈونیشیا میں بھی جماعت کی مخالفت کے حوالہ سے احباب جماعت کو دعاؤں کی خصوصی تحریک.( خطبہ جمعہ 17 / اپریل 2009ء، الفضل انٹرنیشنل 8 مئی 2009ء) انصاف پر قائم ہوتے ہوئے یتامی اور اہل وعیال کے حقوق کی ادائیگی کی تحریک.(خطبہ جمعہ 15 مئی 2009ء ، الفضل انٹر نیشنل 5 جون 2009ء) ذیلی تنظیموں اور جماعتوں کا کام ہے کہ نوجوانوں اور بچوں کو حضرت اقدس مسیح موعود الاسلام کی کتب کے پڑھنے کی طرف توجہ دلائیں.(خطبہ جمعہ 3 جولائی 2009 ء، الفضل انٹر نیشنل 24 جولائی 2009ء) ہم یورپ کے ہر ملک میں جہاں مسجدیں نہیں ہیں آئندہ پانچ چھ سالوں میں کم از کم ایک مسجد بنالیں.( خطبه جمعه 21 /اگست 2009، الفضل انٹر نیشنل 11 ستمبر 2009) (خطبہ جمعہ 25 ستمبر 2009ء ، الفضل انٹر نیشنل 16 اکتوبر 2009ء) راتوں کو نوافل سے سجائیں اور تہجد کی طرف توجہ دیں.دنیا بھر کی جماعتوں کے لئے تاکیدی ہدایت کہ آئندہ سے مسجدوں کے اندرونی ہال میں کسی قسم کی کھانے وغیرہ کی دعوت نہ کی جائے.(خطبہ جمعہ 18 دسمبر 2009ء ، الفضل انٹر نیشنل 8 جنوری 2010ء) شہداء کی فیملیوں کے لئے سیدنا بلال فنڈ میں چندہ دینے کی تحریک.(خطبہ جمعہ 11 جون 2010ء،الفضل انٹر نیشنل 2 جولائی 2010ء) مختلف ویب سائٹس ہیں ان میں مختلف قسم کے بیہودہ قسم کے اعتراضات آتے ہیں، ان کو سچائی کے پیغام سے بھر دیں.(خطبہ جمعہ 24 /جون 2010ء،الفضل انٹر نیشنل 2 جولائی 2010ء) 308
احباب جماعت کو فیس بک کی قباحتوں سے بچنے کے لئے تا کیدی نصیحت.(خطبہ جمعہ 31 دسمبر 2010ء، الفضل انٹر نیشنل 21 جنوری 2011ء) 2010/31²) ایک دوسرے کے مذہب کی عزت کرنے والوں کو جمع کر کے دنیا میں امن قائم کرنے کی مہم چلائیں.( خطبہ جمعہ 14 اکتوبر 2011 ء،الفضل انٹر نیشنل 4 رنومبر 2011ء) دنیا عالمی جنگ کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے ہمیں ان دنوں میں بہت زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں.(خطبہ جمعہ 2 دسمبر 2011ء ، الفضل انٹر نیشنل 23 دسمبر 2011ء) امریکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں بنائی گئی نہایت ظالمانہ اور دلآزار فلم پرحضورانور کی ہدایات : ہر ذی شعور تک اسلامی مؤقف کو پہنچا ئیں.لائبریریوں میں مثلاً یورپ میں یا انگلستان میں یا انگریزی بولنے والے ملکوں میں آنحضرت کی سیرت متعلق جماعت کی وہ کتب رکھوانی چاہئیں جن کا انگریزی ترجمہ ہو چکا ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتاب ”لائف آف محمد“ کی وسیع پیمانے پر اشاعت ہونی چاہئے.سیمینار بھی ہوں، جلسے بھی ہوں اور ان میں غیروں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں بلائیں.یہ تحفہ قیصریہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امن اور مذہب کے احترام کے متعلق جو پیغام دیا ہے اس کی تشہیر کی آج بھی بہت ضرورت ہے.اس پر بھی فوری کام ہونا چاہئے.(خطبہ جمعہ 28 ستمبر 2012 ء، افضل انٹر نیشنل 19 اکتوبر 2012ء) خاص طور پر جہاں اپنے لئے صبر و استقامت کی ہر احمدی دعا کرے، وہاں دشمن کے شرسے بچنے کے لئے رَبّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبَّ فَاحْفَظْنِي وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِی کی دعا بھی بہت پڑھیں.اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ کی 309
دعا بھی بہت پڑھیں.درود شریف پڑھنے کی طرف بھی بہت توجہ دیں.( خطبہ جمعہ 23 نومبر 2012ء ، الفضل انٹر نیشنل 14 دسمبر 2012ء) 201223) جماعت کی ترقی اور اُمت مسلمہ کے لئے خصوصی دعاؤں کی تحریک.(خطبہ جمعہ 28 دسمبر 2012ء، الفضل 18 جنوری 2013ء) ے واقفین ٹو کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو جامعہ احمدیہ میں آنا چاہئے.(18 جنوری 2013ء،الفضل 8 فروری2013ء) جس تیزی سے دنیا میں فحاشی پھیلائی جارہی ہے، ایک احمدی کو اُس سے بڑھ کر اپنے خدا سے تعلق پیدا کر کے اپنے آپ کو اور دنیا کو اس تباہی کے خوفناک انجام سے بچانے کی کوشش ( خطبہ جمعہ 2 /اگست 2013ء،الفضل 23 /اگست 2013ء) کرنے کی تحریک.احمدیوں کو دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے بہت زیادہ دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی تحریک.ہر ملک میں رہنے والے احمدی ، خصوصاً مغربی ممالک میں رہنے والے احمدیوں کو سیاستدانوں کو آنے والی تباہی سے ہوشیار کرنے کی تحریک.(خطبہ جمعہ 13 ستمبر 2013ء،الفضل 4 اکتوبر 2013ء) ایم ٹی اے کی برکات سے فائدہ اُٹھانے کی تحریک.(خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 2013ء،الفضل 8 نومبر 2013ء) تبلیغ کے لئے نئے نئے راستے تلاش کرنے ، نئے نئے طریق تلاش کرنے اور اسلام کا زیادہ سے زیادہ تعارف کروانے کی تحریک.(خطبہ جمعہ یکم نومبر 2013 ء،الفضل 22 نومبر 2013ء) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے فرمودہ ایک خطبہ جمعہ کے حوالہ سے سچائی اور دیگر اخلاق کو مضبوطی سے اپنانے کی تاکیدی تحریک.(خطبہ جمعہ 29 نومبر 2013ء 20 /دسمبر 2013ء) فضل عمر فاؤنڈیشن کو انوار العلوم کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کروانے کی کوششوں کو مزید بہتر کرنے کی تاکید اور تحریک.(خطبہ جمعہ 28 فروری 2014ء ، افضل 21 مارچ 2014ء) / 310
حمد شام، پاکستان اور مصر کے احمدیوں کے لئے خاص طور پر دعا کی تحریک.(خطبہ جمعہ 21 مارچ 2014ء ،الفضل 11 اپریل 2014ء) اسلام کی خوبصورت تعلیم ، اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے متعلق ورقہ دو ورقہ کا اشتہار بنا کر تبلیغ کی تحریک.(خطبہ جمعہ 27 مارچ 2015ء،افضل 17 اپریل 2015ء) کم از کم اب ہمیں چاہئے کہ چالیس روزے ہفتہ وار ہی رکھیں.یعنی چالیس ہفتوں تک خاص طور پر روزے رکھیں، دعائیں کریں ،نفل ادا کریں اور صدقات دیں، چالیس روزوں ، دعاؤں، نوافل اور صدقات کی تحریک.خطبہ جمعہ 12 فروری 2016ء،الفضل 4 / مارچ2016ء) مبلغین کو جغرافیہ، تاریخ ، حساب ، طب، آداب گفتگو، آداب مجلس ، حالات حاضرہ وغیرہ علوم کی اتنی اتنی واقفیت رکھنے کی تحریک جتنی مجلس شرفاء میں شامل ہونے کے لئے ضروری ہے.( خطبہ جمعہ 26 فروری 2016ء،الفضل 18 / مارچ2016ء) تعلقات بنانے کے لئے ایسے لوگوں کو چننا چاہئے جن کی دینی حالت اچھی ہو ، جو نمازوں کی با قاعدہ ادائیگی کرنے والے ہوں اور پابند ہوں.اس حوالے سے ربوہ اور قادیان کے احمدیوں کو خصوصی تحریک.( خطبہ جمعہ 4 / مارچ 2016ء، الفضل 25 / مارچ 2016ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کرام کی تصاویر کے استعمال سے متعلق ضروری احتیاطوں کے اختیار کرنے کی تاکید.احباب جماعت کو مختلف مسائل سے آگاہی کے لئے کتاب فِقْهُ الْمَسِیح“ لینے کی تحریک.66 (خطبہ جمعہ 22 اپریل 2016ء ، الفضل 13 مئی 2016ء) جماعتی نظام اور بالخصوص ذیلی تنظیموں کو ممبران کو سنبھالنے اور جماعت سے مضبوطی کے ساتھ جوڑنے کے لئے عملی کوشش کرنے کی تحریک.(خطبہ جمعہ 20 مئی 2016ء،الفضل 10 جون 2016ء) 311
حميد خطبہ جمعہ کو براہ راست سننے اور اس سے استفادہ سے متعلق تاکیدی ہدایت.خطبہ جمعہ یکم جولائی 2016ء،22 جولائی 2016ء) مبلغین اور داعین الی اللہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو پڑھنے سمجھنے اور ان سے ایسے لیکچر تیار کرنے کی تحریک جن سے بڑے بڑے پروفیسروں اور نام نہاد علماء کے اعتراضات کے جواب دیئے جاسکیں.(خطبہ جمعہ 08 جولائی 2016ء،الفضل 29 جولائی 2016ء) واقفین زندگی کو اپنی صحت قائم رکھنے کے لئے با قاعدہ ورزش یا سیر کرنے کی تحریک.(خطبہ جمعہ 22 جولائی 2016ء،الفضل 12 اگست 2016ء) خلافت خامسہ میں ہونے والے کچھ اہم کاموں کا مختصر تذکرہ نظام وصیت کی مضبوطی : سید نا حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نظام وصیت کو جو مضبوطی عطا فرمائی یہ اپنی ذات میں ایک تاریخ بن گئی.نظامِ وصیت کو ۹۹ سال مکمل ہونے پر سال 2004ء میں پوری دنیا میں کل وصیتوں کی تعدا د صرف اڑتیس ہزار (38,000 ) تھی.حضور پر نور کی تحریک پر اگلے صرف ایک سال میں تقریباً بیس ہزار (20,000 ) وصیتیں مزید ہوگئیں.نیز حضور انور نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ سال 2008 ء تک جو کہ خلافت جوبلی کا سال ہے کل چندہ دہندگان کا 50 فیصد نظام وصیت میں شامل ہو جائے.اللہ تعالیٰ نے حضور انور کی اس خواہش کو بھی بڑی شان کے ساتھ پورا فرمایا.جلسہ سالانہ برطانیہ 2010ء کے دوسرے روز کے خطاب میں حضور پر ٹور نے جہاں اللہ تعالیٰ کے بے پایاں افضال و برکات کا رُوح پرور 312
تذکرہ فرمایا وہاں آپ نے یہ بھی اعلان فرمایا کہ: نظام وصیت میں شامل ہونے والوں کی تعداد میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اضافہ ہو رہا ہے.اب یہ تعداد ایک لاکھ نو ہزار ہو چکی ہے.“ (خطاب فرموده بر موقعه جلسه سالانه برطانیہ 2010ء، دوسرا روز ) خلافت خامسہ کا بابرکت دور اور وَسِعَ مَكَانَگ کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وشِعُ مَكَانَكَ کی جو پیشگوئی فرمائی تھی وہ ہر دور میں بڑی شان و شوکت کے ساتھ پوری ہوئی اور ہوتی چلی جارہی ہے.خلافت خامسہ میں جہاں پوری دُنیا میں عظیم الشان رنگ میں تعمیر وتوسیع مکان کا سلسلہ جاری ہے وہاں قادیان میں بھی تیز رفتاری کے ساتھ مکانات کی تعمیر و توسیع ہورہی ہے.مثال کے طور پر دار امسیح کی رینوویشن ، رینوویشن کے بعد دوسرے مرحلہ پر اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے Retro-fitting کی گئی.مسجد اقصیٰ قادیان کی توسیع مسجد دارالانوار کی از سر نو تعمیر و توسیع ، جامعہ احمدیہ قادیان کی عمارت سرائے طاہر، جدید سہولتوں سے آراستہ نور ہسپتال، کوٹھی دارالسلام اور محلہ احمدیہ میں دیگر جگہوں پر کارکنان کے فلیٹس، چار منزلہ فلیٹس کے ساتھ مزید ایک اور چار منزلہ فلیٹس ہنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توسیع بہشتی مقبرہ میں مقام ظہور قدرت ثانیہ پرنئی یادگار بہشتی مقبرہ کی تزئین، ایوان انصار کے ساتھ جدید سہولتوں سے آراستہ VIP گیسٹ ہاؤس جس کا نام سرائے وسیم ہے، نشر و اشاعت وایم ٹی اے کی عمارت، مرکزی لائبریری ،فضل عمر پرنٹنگ پریس ، ہال لجنہ اماءاللہ ، بیرونی ممالک کے گیسٹ ہاؤسز وغیرہ.نظارت امور عامہ کی نئی بلڈنگ کی تعمیر ، دس ہزار سکوائر فٹ پر روٹی پلانٹ کی تعمیر.پرانے تعلیم الاسلام ہائی اسکول 313
کی بلڈنگ واحاطہ کی رینوویشن، اس وقت سینئرسیکنڈری ہائی اسکول کی عمارت زیر تعمیر ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قادیان میں ہونے والی ترقیات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.وو 2005ء میں میرے دورے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مزید توفیق عطا فرمائی کہ قادیان میں جماعتی عمارات میں وسعت پیدا ہوئی اور جماعتی مرکزی عمارات کے علاوہ آسٹریلیا، امریکہ، انڈونیشیا، ماریشس وغیرہ نے وہاں اپنے بڑے وسیع گیسٹ ہاؤسز بنائے.جماعتی طور پر ایم ٹی اے کی خوبصورت بلڈنگ اور دفتر نشر و اشاعت بن گیا.کتب کے سٹور بھی اس میں مہیا کئے گئے ہیں.بڑے بڑے ہال بنائے گئے ہیں.دومنزلہ نمائش ہال بنایا گیا.ایک بڑی وسیع تین منزلہ لائبریری بنائی گئی ہے.فضل عمر پریس کی تعمیر ہوئی.لجنہ ہال بنا.ایک تین منزلہ گیسٹ ہاؤس مرکزی طور پر بنایا گیا.لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مزید توسیع ہوئی اور نئے بلاک بنے اور اس طرح بے شمار نئی تعمیر اور توسیع ہوئی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسجد اقصیٰ میں توسیع کی گئی ہے جس میں صحن سے پیچھے ہٹ کے تقریباً تین منزلہ جگہ مہیا کی گئی ہے اور اس میں جونئی جگہ بنی ہے اس میں تقریباً پانچ ہزار نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں.اس طرح قادیان میں کئی دوسری مساجد کی تعمیر ہوئی اور سب کی تفصیل کا تو بیان نہیں ہوسکتا اور نہ بغیر دیکھے اس وسعت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جو ان نئی تعمیرات کی وجہ سے وہاں قادیان میں ہو رہی ہے.یہ چند تعمیرات جن کا میں نے ذکر کیا ہے یہ گزشتہ تین چار سال کے عرصہ میں ہوئی ہیں تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا کرنا کہ ہر روز ہم اس الہام کی شان دیکھ رہے ہیں اور نہ صرف قادیان میں بلکہ دنیا میں ہر جگہ حتی کہ پاکستان 314
میں بھی نامساعد حالات کے باوجود اللہ تعالی توفیق دے رہا ہے.ہمارے مخالفین سے کس طرح اللہ تعالیٰ نے مواخذہ کرنا ہے یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.لیکن جہاں تک اس کے وَشِعُ مَكَانَكَ کا سوال ہے اللہ تعالیٰ ہر روز ہمیں ایک شان سے اسے پورا ہوتا دکھا رہا ہے فرمایا : یہ مسجد جو بیت الفتوح ہے یہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے.....اس طرح یو کے میں اور مساجد بن رہی ہیں تو یہ سب وَشِعُ مَكَانَكَ کے نظارے ہیں.66 ( خطبه جمعه فرموده ۱۲ / جون ۲۰۰۹ء) سال 2005ء میں خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں لندن سے گیارہ میل کے فاصلہ پر 208 /ایکڑ زمین خریدنے کی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو تو فیق عطا فرمائی جس کا نام حضور پرنور نے حدیقۃ المہدی تجویز فرمایا.جماعت احمدیہ یو کے کا جلسہ سالانہ یہاں پر منعقد ہوتا ہے.جماعت احمد یہ گھانا نے عکرہ سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلہ پر وینیبا شہر کے قریب 1/460 یکٹر زمین خریدی جس کا نام حضور انور نے ”باغ احمد تجویز فرمایا.اسی طرح جماعت احمدیہ کینیڈا نے جلسہ گاہ کے لئے قصبہ بریڈ فورڈ میں 250 را یکٹر زمین خریدی جس کا نام حضور انور نے وو حدیقہ احمد تجویز فرمایا.خلافت خامسہ اور ایم ٹی اے کی تدریجی ترقی اور اس کے شیریں ثمرات مسلم ٹیلی ویژن احمد یہ انٹرنیشنل کی دلچسپ اور ایمان افروز داستان سفر میں ایک نئے سنگ میل کا اضافہ اس وقت ہوا جب سید نا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یکم اگست 2016ء کومسلم ٹیلی ویژن احمد یہ انٹرنیشنل افریقہ کا مبارک اجرا فرمایا.لندن کے 315
وقت کے مطابق ٹھیک چار بجے سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد فضل لندن کے ایم ٹی اے انٹر نیشنل کے ٹرانسمشن آفس میں تشریف لائے.حضورانور نے ایک بٹن دبا کر ایم.ٹی.اے انٹرنیشنل افریقہ کا آغاز فرمایا.حضور پرنور نے چینل پر نشر ہونے والا مختصر پروگرام ملاحظہ فرمایا اور دعا کروائی.یہ کارروائی ایم ٹی اے انٹرنیشنل پر لائیو نشر ہوئی جسے پوری دُنیا کے احمدیوں نے دیکھا اور حضور کے ساتھ دعا میں شامل ہوئے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 13 اگست کو جلسہ سالانہ یو.کے 2016 ء کے دوسرے روز جماعتی ترقیات پر مشتمل خطاب میں ایم.ٹی.اے انٹر نیشنل افریقہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ایم ٹی اے افریقہ بھی شروع ہوا ہے.یکم اگست 2016 ءکو اس کا آغاز ہوا جو وہاں کی مقبول ترین سیٹلائٹ کے ذریعہ چوبیس گھنٹے اپنی نشریات پیش کرے گا.اس چینل پر افریقہ کی ضروریات کے مطابق خصوصی پروگرام کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے.اس چینل پر اصل آڈیو کے ساتھ بیک وقت چار زبانوں کے تراجم نشر کرنے کی صورت موجود ہے.ماریشس میں ایم ٹی اے افریقہ کا پہلا سٹوڈیو کمل ہو چکا ہے.کام کا آغاز ہوچکا ہے.گھانا میں وہاب آدم سٹوڈیو بھی اپنی تکمیل کے مراحل میں ہے.اس میں جدید ترین آلات رکھے گئے ہیں.اس کا شمار گھانا کے بہترین سٹوڈیوز میں ہوگا.پھر گھانا، نائیجیریا ، سیرالیون، تنزانیہ اور یوگینڈا میں با قاعدہ ایم ٹی اے کی ٹیم بن چکی ہے.ایم ٹی اے گھانا کی ٹیم نے آٹھ سیریز ، کل اڑسٹھ پروگرام ریکارڈ کئے ہیں جو نیشنل ٹی وی ، جی ٹی وی ، سائن پلس پر نشر ہو چکے ہیں.اسی طرح جلسہ سالانہ ، ذیلی تنظیموں کے اجتماعات اور مختلف پروگرامز 316
وہاں دکھائے جارہے ہیں.ان پروگراموں کے نتیجہ میں بہت اچھا رد عمل دیکھنے میں مل رہا ہے.ایک صاحب جو مسلمان ہیں گھانا کے ویسٹرن ریجن سے لکھتے ہیں کہ میں آپ کی جماعت کا پروگرام بہت شوق سے دیکھ رہا ہوں.میرے نزدیک اسلام میں صرف جماعت احمدیہ ہی واحد فرقہ ہے جو اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہے.میں نے اور بھی کئی فرقوں کے پروگرام دیکھے ہیں لیکن جو تعلیمات آپ پیش کرتے ہیں وہی حقیقی اسلامی تعلیمات ہیں.انشاء اللہ میں بھی آپ کی جماعت میں شامل ہو جاؤں گا.(خطاب فرموده بر موقعہ جلسہ سالانہ برطانیہ 2016ء، دوسرا روز ) اس سے پہلے مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کے تین چینل پوری دنیا میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام کر رہے تھے.ایم ٹی اے انٹرنیشنل افریقہ کے اجرا کے ساتھ اب ان کی تعداد چار ہوگئی ہے.(1) mta الأولى جسکے ذریعہ سے یورپ کے علاوہ باقی دنیا میں تبلیغ کا کام ہورہا ہے گویا اہل افریقہ پہلے ایم ٹی اے الاولیٰ کی نشریات سے ہی استفادہ کرتے تھے ) (2)mta الثَّانِيَہ جس کے ذریعہ یورپ میں تبلیغ کا کام ہو رہا ہے.(3)mta3 - الْعَرَبِيَّه جس کے ذریعہ سے عرب ممالک میں تبلیغ کا کام ہو رہا ہے.(4) اور اب سال 2016ء میں چوتھا چینل ایم ٹی اے انٹرنیشنل افریقہ کا مبارک اجرا ہوا ہے جس کے ذریعہ خصوصیت کے ساتھ پورے افریقہ میں تبلیغ واشاعت کا کام شروع ہو چکا ہے.خلافت خامسہ اور تعمیر مساجد دینِ اسلام میں مسجد کی ایک خاص اہمیت ہے.یہ خدا کا گھر کہلاتا ہے جہاں دن میں کم از کم پانچ مرتبہ خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کی جاتی ہے.مساجد جہاں افراد جماعت کی تعلیم و 317
تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہیں وہاں غیروں میں تبلیغ اور قبول حق کا بھی ذریعہ بنتی ہیں.حضور انور یورپ کے شہر شہر اور قریہ قریہ میں خدا کا گھر بنانا چاہتے ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دورہ بلجئیم 2009 ء کے حوالہ سے خطبہ جمعه ۲۱ را گست ۲۰۰۹ء میں ارشاد فرمایا کہ : میں نے وہاں کی جماعت کو یہ ہدایت دی ہے کہ برسلز شہر میں مسجد کے لئے جگہ تلاش کریں تا کہ ہم بلجیم میں جلد ہی مسجد تعمیر کر سکیں.انشاء اللہ.اور امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ جلد وہاں مسجد کی تعمیر کی صورت حال پیدا بھی ہو جائے گی.حضور پر نور نے فرمایا : اللہ تعالیٰ میری اس خواہش کو بھی پورا فرمائے کہ جو پہلی Phase ہے اس میں ہم یورپ کے ہر ملک میں جہاں مسجدیں نہیں ہیں آئندہ پانچ چھ سالوں میں کم از کم ایک مسجد بنالیں.پھر انشاء اللہ جب ایک مسجد بن جائے گی تو ان میں اضافہ بھی ہوتا چلا جائے گا.“ خطبه جمعه فرموده ۲۱ /اگست ۲۰۰۹ء) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبہ جمعہ 27 اپریل 2012ء میں فرماتے ہیں : یورپ میں مختلف ممالک میں گزشتہ سات آٹھ سال میں 44 مساجد کا اضافہ ہوا ہے.2003ء میں جب مسجد بیت الفتوح کا افتتاح ہوا ہے تو اس سے پہلے با قاعدہ مسجد صرف ایک مسجد مسجد فضل تھی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت یوکے کو 14 نئی مساجد بنانے کی توفیق ملی ہے.“ (خطبہ جمعہ 27 اپریل 2012ء، الفضل انٹر نیشنل 8 مئی 2012ء) اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پوری دنیا میں ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں مساجد کا اضافہ ہورہا ہے.صرف خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں ۲۰۰۳ء سے لیکر اب تک 3000 سے 318
زائد مساجد کا اضافہ ہو چکا ہے.جماعت احمدیہ کی مساجد کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے حضور پرنور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :.☆ ☆ ”ہماری مساجد اس ٹور کو اپنے دلوں میں قائم کرنے اور اُسے دُنیا میں پھیلانے کے لئے ہی تعمیر ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ کا نور ہے.چاہے جو بھی اس کی پہچان کے لئے اس کا نام رکھ دیا جائے لیکن اس کا مقصد یہی ہے کہ جونور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے ذریعہ سے ہم پر اُتارا اور پھر اس کا حقیقی پر تو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بنایا، یہ ٹور ہر سو پھیلتا جائے.یہی ہماری مساجد کا مقصد ہے.“ خطبه جمعه فرموده ۱۸ دسمبر ۲۰۰۹ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے کچھ نہایت اہم خطابات 22 اکتوبر 2008ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے برٹش پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنز میں خطاب فرمایا.30 مئی 2012ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بمقام کو بلنز ملٹری ہیڈ کوارٹر جرمنی میں خطاب فرمایا.27 جون 2012ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیپیٹل ہل واشنگٹن ڈی سی میں خطاب فرمایا.4 دسمبر 2012ء کوحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے برسلز بلجیم میں یورپین پارلیمنٹ کے اراکین اور دیگر دانشوروں کے سامنے خطاب فرمایا جس میں 30 ممالک کے اراکین شامل تھے.319
☆ 6 اکتوبر 2015ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہالینڈ کی نیشنل پارلیمنٹ میں خطاب فرمایا.17 اکتوبر 2016 ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کینیڈا کی پارلیمنٹ ’ پارلیمنٹ ہل میں خطاب فرمایا.پیس کا نفرنسز جماعت احمد یہ برطانیہ کی جانب سے طاہر بال بیت الفتوح لندن میں امن کا نفرنس منعقد ہوتی ہے.ان امن کا نفرنسز میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مردو خواتین اور مختلف ممبران پارلیمنٹ ، لندن شہر کے میئر ، حکومتی وزراء مختلف ممالک کے سفراء اور معاشرہ کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے مہمان جماعت احمدیہ کی دعوت پر تشریف لاتے ہیں اور قیام امن کے لئے جماعت احمدیہ کی مساعی پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں.ان کا نفرنسز کا مرکزی نقطہ سید نا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب ہوتا ہے جس میں آپ اسلامی تعلیم اور عالمی حالات کے تجزیہ کی روشنی میں امن عالم کے قیام کے لیے مفید مشورے دیتے ہیں.پہلی امن کا نفرنس 9 مئی 2004ء کو مسجد بیت الفتوح لندن میں منعقد ہوئی.اس کے بعد سے ہرسال با قاعدگی سے کا نفرنس منعقد ہوتی ہے.احمد یہ امن ایوارڈ گزشتہ چند سالوں سے امن عامہ اور خدمت انسانیت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے اس میدان میں کام کرنے والے موزوں ترین شخصیت یا ادارے کو جماعت احمدیہ کی جانب سے احمد یہ امن ایوارڈ دیا جارہا ہے.دس ہزار پاؤنڈ کی رقم پر مشتمل یہ ایوارڈ سید نا حضور انور 320
ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز امن کا نفرنس کے موقعہ پر بنفس نفیس اپنے دست مبارک سے عطا فرماتے ہیں.مختلف اہم شخصیات کے نام خطوط حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دور خلافت کی ایک بہت اہم بات یہ ہے کہ آپ گذشتہ کئی سال سے مسلسل امن عالم کے قیام کی کوشش فرمارہے ہیں.چنانچہ او پر حضور ایدہ اللہ کے جن اہم خطابات کا ذکر کیا گیا ہے وہ تمام خطابات عالمی قیام امن کے بارہ میں ہیں.اس کے علاوہ لندن میں ہر سال ہونے والے امن کا نفرنس میں آپ امن عالم کے قیام کے بارہ میں خطاب فرما چکے ہیں.اسی طرح دُنیا کے مختلف ممالک میں اپنے دوروں کے دوران بھی آپ دُنیا کو مسلسل اس طرف توجہ دلا رہے ہیں.اسی سال 9/اکتوبر 2016ءکو کینیڈا میں ہونے والے جلسہ سالانہ کا اختتامی خطاب عالمی قیام امن کے بارہ میں تھا.آپ نے اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل شخصیات کو خطوط بھی لکھے.(1) پرائم منسٹر اسرائیل مسٹر بینجا من نتن یا ہو (2) صدر اسلامی جمہوریہ ایران محمد احمدی نژاد (3) صدر یونائیٹیڈ سٹیٹس آف امریکہ مسٹر براک اوبامه (4) کینیڈا کے پرائم منسٹر مسٹر سٹیفن ہار پر (5) سعودی عرب کے بادشاہ مسٹر عبد اللہ بن عبدالعزیز السعود (6) چائنا کے پرائم منسٹر مسٹر این جیا با ؤ (7) برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر ڈیوڈ کیمرون (8) جرمنی کی چانسلر محترمہ اینجلا مارکل (9) پریذیڈنٹ آف فرینچ ریپبلک 321
(10) ملکہ برطانیہ ایلز بتھ II (11) ایران کے مذہبی راہنما مسٹر آیت اللہ خمینی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے عالمی دورہ جات سید نا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسند خلافت کا بارگراں سنبھالنے کے بعد بہت ہی غیر معمولی انداز میں اور بڑی ہی سرعت اور تیز قدمی کے ساتھ بیرونی ممالک کا سفر اختیار فرمایا اور مسلسل فرماتے چلے جارہے ہیں.حضور جہاں بھی جاتے ہیں انفرادی ملاقات کا موقع عطا کرتے ہیں.اجتماعی ملاقات کا موقع عطا کرتے ہیں.فیملی ملاقات کا موقع عطا کرتے ہیں.اور ہر ایک کو خلافت کا شیدائی اور فدائی بنا دیتے ہیں.ہر ایک کی دُنیا بدل کر رکھ دیتے ہیں.روحانی تبدیلی کے لئے ایک نیا جوش اور اُمنگ پیدا کر دیتے ہیں.جماعتی کاموں میں ایک خاص ولولہ اور تیزی پیدا کر دیتے ہیں.برکاتِ خلافت خامسہ میں سے یہ ایک خاص برکت ہے جس سے دُنیائے احمدیت اپنی جھولی بھر رہی ہے.علاوہ ازیں حضور جس ملک میں بھی جاتے ہیں پورے ملک میں اس کا ایک خاص اثر مرتب ہوتا ہے.حکومت کے سرکردہ افراد اور سربراہان مملکت سے ملاقات ہوتی ہے.حضور انہیں اسلام کی امن بخش تعلیم سے آگاہ کرتے ہیں جس کا ایک نیک اثر ان پر ہوتا ہے.جماعتی کاموں میں جو روکاوٹیں ہوتی ہیں وہ دُور ہو جاتی ہیں.غیر بھی حضور کی زیارت سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.بہتیرے بیعت بھی کرتے ہیں اور جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دور خلافت میں مندرجہ ذیل ملکوں کا دورہ کیا.آپ نے ان میں سے بہت سے ممالک کا کئی مرتبہ دورہ فرمایا ہے:.322
(1) جرمنی (2) ہالینڈ (3) فرانس (4) غانا (5) بورکینافاسو ( 6 ) ببینن (7) نائیجیریا (8) کینیڈا (9) جرمنی (10) سوئزرلینڈ (11) بلجیم ( 12 ) سپین (13) نیروبی (14) کینیا (15) تنزانیہ (16) یوگینڈا (17) ڈنمارک (18) سویڈن (19) ناروے(20) ماریشس (21) بھارت (22) سنگاپور (23) آسٹریلیا (24) منجی (25) نیوزی لینڈ (26) جاپان (27) یوایس اے (28) اٹلی.خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی سید نا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے 5 سال بعد خلافت احمدیہ کے قیام پر 100 سال مکمل ہونے پر خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی منائی گئی جس میں بہت سے علمی و روحانی پروگرام ہوئے اور حضور نے 27 مئی 2008 ءکولندن میں خطاب فرمایا جو بیک وقت قادیان ربوہ اور لندن سے نشر ہوا.اس موقع پر آپ نے خلافت احمدیہ کی اہمیت و برکات کا ذکر کرنے کے بعد خلافت کے عظیم الشان مقام ومرتبہ پر روشنی ڈالی اور ساری دنیا کے افراد کو اس سے وابستہ ہونے کی طرف توجہ دلائی.اس موقعہ پر حضور نے ایک عہد بھی دہرایا جو ساری دُنیا کے احمدیوں نے آپ کی معیت میں کھڑے ہو کر دہرایا.اللہ تعالیٰ حضور انور کوصحت و تندرستی والی لمبی عمر عطا فرمائے اور ہر آن آپ کی صحت و عمر میں برکت دے اور آپ کے بابرکت دور خلافت میں اسلام احمدیت کو عظیم فتوحات عطا فرمائے.آمین.323
چھٹا باب نظام جماعت احمدیہ یاد رکھنا چاہئیے کہ سارے نظام کا محور اور مقتدر اعلیٰ خلیفہ وقت کی ذات ہے.عالمگیر جماعت کی شاخیں دیہاتوں اور شہروں سے نکل کر ضلعوں ،صوبوں اور ملکوں میں پھیلی ہوئی ہیں جو سب تسبیح کے دانوں کی طرح ایک مضبوط اور مربوط دھاگے میں منسلک ہیں.جس جگہ بھی تین یا اس سے زائد افراد جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہوں وہاں با قاعدہ جماعت قائم کر دی جاتی ہے اور حسب حالات بذریعہ نامزدگی یا بذریعہ انتخاب وہاں ایک صدر مقرر کر دیا جاتا ہے.بڑی جماعتوں میں امارت کا نظام قائم ہے.اس لحاظ سے ہر مقامی جماعت کا صدر یا امیر اعلیٰ عہد یدار ہوتا ہے پھر ہر ضلع یا صوبہ کی جماعتوں کا ایک امیر مقرر ہوتا ہے پھر اس سے اوپر تمام ملک کا ایک نیشنل امیر ہوتا ہے.اس کے علاوہ جماعتی نظام کے مختلف شعبے قائم ہیں اور اس کے نگران سیکریٹری کہلاتے ہیں مثلاً سیکریڑی مال.سیکریڑی تعلیم.سیکریڑی جائیداد.سیکریڑی ضیافت وغیرہ.یہ تمام عہدیدار بذریعہ انتخاب یا بعض حالتوں میں بذریعہ نامزدگی مقرر ہونے پر محض رضا کارانہ طور پر اخلاص اور قربانی کے ساتھ جماعت کی خدمات بجالانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں.ان مقامی ضلعی صو بائی اور ملکی عہدیداروں کے علاوہ خلیفہ وقت کی نگرانی میں مندرجہ ذیل اہم ادارے کام کرتے ہیں :.324
مجلس شوری یا مجلس مشاورت یہ دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو انٹرنیشنل شوری ہے جو خلیفہ وقت کی موجودگی میں منعقد ہوتی ہے جس میں تمام عالمگیر جماعتوں کے نمائندے شامل ہوتے ہیں.دوسرے ملکی شوری ہوتی ہے جس میں اُس ملک کی مجلس عاملہ کے علاوہ تمام جماعتوں کے امراء وصدر صاحبان اور جماعتوں کے منتخب نمائندے شریک ہو کر اہم جماعتی مشورے کرتے اور اپنی تجاویز خلیفہ وقت کی خدمت میں راہنمائی اور منظوری کیلئے پیش کرتے ہیں.اس ضمن میں یہ بات یادر کھنے والی ہے کہ ملکی شوریٰ ہو یا انٹرنیشنل شوری ہو اس کے نمائندوں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ تمام تجاویز غور اور مشورہ کرنے کے بعد اپنی تجاویز خلیفہ وقت کی خدمت میں پیش کر دیں.آخری فیصلہ خلیفہ وقت کا ہوتا ہے.خواہ وہ شوریٰ کی سفارشات کو پورے طور پر منظور فرمالیں یا ترمیم کے ساتھ منظوری عطا فرمائیں یا ان سفارشات کو کلیۂ نامنظور کر کے اس کے نقصانات وغیرہ کے بارے میں راہنمائی فرماتے ہوئے نئی ہدایات جاری فرمائیں.جو بھی فیصلہ خلیفہ وقت کی طرف سے صادر ہو، جماعت اس کو پورے انشراح صدر کے ساتھ تسلیم کرتی ہے کیونکہ جماعت اس عقیدہ اور یقین پر قائم ہے کہ خلیفہ وقت دعا اور غور وفکر کے بعد اللہ کی راہنمائی سے فیصلہ صادر فرماتے ہیں اور جماعت بارہا مشاہدہ کر چکی ہے کہ اللہ تعالی خلیفہ وقت کے فیصلوں میں برکت بخشتا ہے.صدر انجمن احمدیہ یہ جماعت کا سب سے بڑا اور اہم ادارہ ہے جو بانی جماعت احمد یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی ہی میں قائم فرمایا تھا.جماعت کے لازمی چندہ جات کا انتظام والتزام اور تمام تربیتی تعلیمی تبلیغی اور رفاہی کاموں کی نگرانی اس انجمن کے سپر د ہے.تمام مقامی ضلعی اور 325
صوبائی امارت کے نظام اس انجمن کی نگرانی میں چلتے ہیں.اس انجمن کے تحت کئی دفاتر اور نظارتیں ہیں.ہر نظارت کا اعلیٰ عہدیدار ” ناظر کہلاتا ہے.مثلاً ناظر تعلیم.ناظر دعوۃ و تبلیغ.ناظر نشر واشاعت.ناظر بیت المال آمد وخرچ.ناظر امور عامہ وغیرہ اور پوری انجمن کا نگران ناظر اعلیٰ کہلاتا ہے.تحریک جدید انجمن احمد سیہ رض جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ۱۹۳۴ء میں بیرونی ممالک میں تبلیغ و اشاعت اسلام کی غرض سے ایک نئی تحریک جاری فرمائی تھی.اس تحریک کے چندہ سے جمع ہونے والے اموال اور واقفین زندگی وغیرہ کے انتظام اور بیرونی ممالک کے تبلیغی نظام کی نگرانی کیلئے انجمن تحریک جدید قائم کی گئی.اس ادارے کے تحت بھی مختلف شعبے قائم ہیں ہر شعبے کے انچارج کو وکیل“ کہا جاتا ہے.مثلاً وکیل التعلیم.وکیل التبشیر.وکیل المال وغیرہ اور اس انجمن کے نگران اعلیٰ کو وکیل الاعلیٰ“ کہا جاتا ہے.انجمن احمد یہ وقف جدید حضرت خلیفہ المسی الثانی رضی اللہ عنہ نے ہی اندرونِ ملک کی دیہاتی جماعتوں کی تعلیم و تربیت کی غرض سے ۱۹۵۷ء میں وقف جدید کے نام سے ایک تحریک فرمائی تھی.اس تحریک سے جمع ہونے والے چندہ کے انتظام اور تعلیم و تربیت کیلئے مقرر کئے گئے معلمین کی نگرانی وغیرہ کیلئے ایک علیحدہ انجمن "وقف جدید انجمن احمدیہ کے نام سے قائم فرمائی گئی.اس انجمن کے تحت مختلف شعبے قائم ہیں اور ہر شعبہ کے انچارج کو ” ناظم“ کہا جاتا ہے.326
جماعت احمد یہ اور مالی قربانی ہے- القرآن : إنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ط (سورۃ توبہ : ۱۱۱) ترجمہ: اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کو ( اس وعدہ کے ساتھ ) خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی.وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (سورة البقره :٣) ترجمہ:.وہ (متقی ) نماز کو قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں.الحدیث:.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- رکھتا.”اگر میرے پاس اُحد پہاڑ جتنا سونا ہوتا تو تین دن سے زیادہ اپنے پاس نہ (بخاری کتاب الزکوۃ حدیث نمبر ۱۳۱۵) حضرت ابوبکر اور عمر کے مالی قربانی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے پر آنحضور کے پوچھنے پر حضرت ابوبکر نے عرض کیا میں اللہ اور اُس کا رسول گھر چھوڑ آیا ہوں.حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت سعد بن مالک نے پر زور اصرار کر کے ۳/ ا حصہ کی قربانی کی اجازت چاہی.( بخاری کتاب الوصایا.باب الوصیت بالثلث جلد اول صفحه ۳۸۳) حضرت ابوطلحہ نے آیت لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ کے نزول پر ” بیر وحا‘ باغ وقف کر دیا.( بخاری کتاب التفسير باب لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ) 327
اس زمانہ میں جماعتِ احمدیہ صحابہ کی اقتداء پر مالی قربانی کر رہی ہے.مبارک ہو جماعت احمدیہ کو جن میں یہ مبارک نظام جاری ہے اور نظام خلافت کے تحت جماعت احمدیہ میں ایک بیت المال کا نظام جاری ہے جس میں اشاعت اور فلاح و بہبود کے لئے رقوم اکٹھی ہوتی ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے :- چندہ عام :- البی جماعتوں کی طرح جماعت احمد یہ میں بھی مالی قربانی کا نظام جاری ہے.بانی جماعت احمد یہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے اپنے دور میں ہی مالی قربانی کی تحریک کی جس کو چندہ عام کا نام دیا گیا.اس کی شرح اس وقت چندہ دینے والے کی صوابدید پر تھی مگر بعد میں سیدنا حضرت المصلح الموعود نے اسکی شرح 1/16 مقتر رفرمائی.جو ہر کمانے والے پر واجب ہے.چندہ وصیت : ۱۹۰۵ء میں جب حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے وفات کے قریب آنے کی خبر دی تو آپ نے ایک رسالہ ”الوصیت تحریر فرمایا.جس میں آپ نے بہشتی مقبرہ ( قبرستان ) کے لئے اپنا قطع زمین وقف فرمایا.اور مزید ضروریات کے لئے کچھ رقم کا مطالبہ بھی کیا.اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ اسی رسالہ میں فرماتے ہیں:.اس لئے میں نے اپنی ملکیت کی زمین جو ہمارے باغ کے قریب ہے جسکی قیمت ہزار روپیہ سے کم نہیں اس کام کے لئے تجویز کی اور میں دُعا کرتا ہوں کہ خُدا اس میں برکت دے اور اس کو بہشتی مقبرہ بنادے اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خواب گاہ ہو جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کر لیا اور دنیا کی محبت چھوڑ دی اور خدا کے لئے ہو گئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا آمین یارب العالمین.328
پھر میں دُعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر خدا! اس زمین کو میری جماعت میں سے ان پاک دلوں کی قبریں بنا جو فی الواقع تیرے لئے ہو چکے اور دنیا کی اغراض کی ملونی ان کے کاروبار میں نہیں.آمین یا رب العالمین.پھر تیسری دفعہ دُعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر ! اے خُدائے غفور و رحیم توصرف ان لوگوں کو اس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اور بدظنی اپنے اندر نہیں رکھتے اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجالاتے ہیں اور تیرے لئے اور تیری راہ میں اپنے دلوں میں جان فدا کر چکے ہیں جن سے تو راضی ہے اور جن کو تو جانتا ہے کہ وہ بکلی تیری محبت میں کھوئے گئے اور تیرے فرستادہ سے وفاداری اور پورے ادب اور انشراحی ایمان کے ساتھ محبت اور جانفشانی کا تعلق رکھتے ہیں.آمین یارب العالمین.( رساله الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۶) اللہ تعالیٰ نے الہاما اس مقبرہ کے بارہ میں فرمایا :- أُنْزِلَ فِيهَا كُلُّ رَحمة یعنی ہر قسم کی رحمت اس قبرستان میں اتاری گئی ہے.“ (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۸) اور اس میں دفن ہونے والے کے لئے شرائط کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.تیسری شرط یہ ہے کہ اس قبرستان میں دفن ہونے والا متقی ہو اور محرمات سے پر ہیز کرتا اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتا ہو سچا اور صاف مسلمان ہو.“ (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۲۰) پھر فرماتے ہیں :.یادر ہے کہ صرف یہ کافی نہ ہوگا کہ جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کا دسواں حصہ دیا جاوے بلکہ ضروری ہوگا کہ ایسا وصیت کرنے والا جہاں تک اس کے لئے ممکن ہے 329
پابند احکام اسلام اور تقویٰ اور طہارت کے امور میں کوشش کرنے والا ہو اور مسلمان خدا کو ایک جاننے والا اور اس کے رسول پر سچا ایمان لانے والا ہو اور نیز حقوق عباد 66 غصب کرنے والا نہ ہو (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۲۴) ان شرائط مندرجہ میں ایک شرط یہ ہے کہ وہ ۱۰ / ۱ سے ۱/۳ تک اپنی آمدنی اور جائیداد سے احمدیت کے لئے ادا کرے.جسے چندہ وصیت کہتے ہیں.اور چندہ ادا کرنے والے مرد کو موصی اور عورت کو موصیہ کہا جاتا ہے جو شخص یہ چندہ ادا کرے اس پر چندہ عام لازم نہیں.چنده جلسه سالانه حضرت مسیح موعود نے ۱۸۹۱ء میں خدا تعالیٰ سے اذن پا کر جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی.اب یہ جلسہ سالانہ تقریباً ۷ سے زائد ممالک میں ہر سال منعقد ہوتا ہے.اس کے لئے چندہ کی اپیل خود حضرت مسیح موعود نے فرمائی.جواب تک جاری ہے.جس کی شرح پورے سال میں صرف ایک ماہ کی آمد کا دسواں ادا کرنا ہے.چنده تحریک جدید ۱۹۳۴ ء میں اس کی بنیاد سید نا حضرت مصلح موعود خلیفتہ امسیح الثانی نے رکھی تھی اس کے ذریعہ تمام دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کے نام کو بلند کرنا مقصود ہے.آج جماعت احمدیہ اسی مبارک تحریک کے تحت 209 ملکوں میں پھیل چکی ہے.ہر احمدی کا اس تحریک میں چندہ ادا کرنا ضروری ہے جو کم سے کم ۲۴ روپے سالانہ ہے.معیاری چندہ کے لئے تنخواہ کا پانچواں حصہ سال میں ادا کرنا ہوتا ہے.چندہ دہندگان کے اعتبار سے اس تحریک کو چار دفاتر میں تقسیم کیا گیا ہے.دفتر چہارم کا آغاز حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۸۵ء میں فرمایا اس میں خصوصی چندہ دینے والوں کو معاونین خصوصی کہا جاتا ہے.جو درج ذیل ہے :.معاونین خصوصی صف اول / ۱۰۰۰ روپے.معاونین خصوصی صف دوم - ۵۰۰ روپے./ 330
چنده وقف جدید : سید نا حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۵۷ ء میں اندرون ملک عوام کو عیسائی یلغار سے بچانے اور دیہاتی جماعتوں کی تعلیم و تربیت کیلئے اس تحریک کا اعلان فرمایا.۱۹۸۵ء میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع جو اس مبارک تحریک کے پہلے مبر مقرر ہوئے تھے نے اس تحریک کو ساری دُنیا کیلئے وسیع کر دیا.اس تحریک کا ایک اہم شعبہ دفتر اطفال ہے جس میں جماعت احمدیہ کے بچے اور بچیاں چندہ ادا کرتے ہیں جو کم از کم ۱۲ روپے سالانہ ہے اور یکصد روپیہ خصوصی چندہ ادا کرنے والا بچہ تھا مجاہد کہلاتا ہے جبکہ ۱۵ سال سے بڑے افراد کم سے کم شرح ۲۴ روپے ادا کرتے ہیں.اور ۱۰۰۰ اور ۱۵۰۰ادا کرنے والے مجاہد صف اوّل اور مجاہد صف دوم کہلاتے ہیں.زكوة: زکوۃ بھی انفاق فی سبیل اللہ کی ایک قسم ہے جو ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو ز کوۃ کے نصاب کے تحت آتا ہے.اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن قراردیا ہے.چندہ عام الگ ہے اور ز کو الگ.حضرت خلیفہ المسیح الثانی فرماتے ہیں:.تیسری چیز چندہ ہے جو دین کے جہاد کے لئے ہوتا ہے.یہ جہاد خواہ تلوار سے ہو یا قلم اور کتب سے.یہ بھی ضروری ہے کیونکہ زکوۃ اور صدقہ تو غرباء کو دیا جاتا ہے اس سے کتابیں نہیں چھاپی جاسکتیں اور نہ مبلغوں کو دیا جاسکتا ہے.“ ملائکۃ اللہ صفحہ ۶۲ تقریر جلسه سالانه ۲۷ دسمبر ۱۹۲۰ء) زکوۃ کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے برابر نقدی اور زیور ہے اور اس کا 331
چالیسواں حصہ ادا کرنا ہوتا ہے اور ایک سال تک پڑی رقم پر ادا ئیگی فرض ہے.اس زیور پر بھی اس کا نصاب لاگو ہوگا جو ایک سال تک پہنا نہ جائے یا ز کوۃ کے ڈر سے ایک دفعہ پہنے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو عورتوں کو جو آپ کی خدمت میں کڑوں کے ساتھ حاضر ہوئیں.وعید کرتے ہوئے فرمایا اگر زکوۃ ادا نہ کی تو خدا قیامت کے دن اس کے مقابل پر آگ کے کڑے پہنائے گا.“ ( ابوداؤ د کتاب الزكوة باب الكنز ماهو وزكوة الحلى) حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.ہر ایک جو ز کوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے.“ ذیلی تنظیمیں کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۵) سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمدخلیفہ مسیح الثانی نے تربیتی نقطہ نظر سے احباب وخواتین جماعت کو مختلف ذیلی تنظیموں میں تقسیم فرمایا.ان تنظیموں کے بارہ میں یہ بات نوٹ فرمانے کے قابل ہے کہ یہ خالصہ مذہبی تنظیمیں ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں.یہ تنظیمیں مختلف ادوار سے متعلقہ احباب و خواتین کی تعلیم و تربیت کی ذمہ دار ہیں اور ان کی اخلاقی ، دینی، روحانی ، ذہنی صلاحیتوں کو اُجاگر کرتی رہتی ہیں.جماعت احمدیہ کے ہر فرد کا اپنی عمر کے اعتبار سے ان تنظیموں سے منسلک رہنا ضروری ہے.لجنہ اماء الله یہ احمدی مستورات کی روحانی تنظیم ہے.اس کا قیام ۱۹۲۲ء میں عمل میں لایا گیا.پندرہ سال سے اوپر کی عمر کی ہر احمدی خاتون اس کی ممبر ہے.آٹھ سے پندرہ سال کی احمدی لڑکیاں ناصرات الاحمدیہ کی ممبر ہوں گی جو لجنہ اماءاللہ تنظیم ہی کی ایک شاخ ہے.جہاں تین ممبرات 332
موجود ہیں وہاں یہ تنظیم قائم کی جاتی ہے.اپنی اپنی جگہوں پر ممبرات مختلف دینی روحانی شعبوں مثلاً خدمت خلق ، اصلاح وارشاد تعلیم و تربیت کے تحت کام کرتی ہیں.اس تنظیم کا اپنا چندہ ” چندہ ممبری“ کہلاتا ہے جو آمد پر ایک فیصد کے حساب سے ادا کرنا ہوتا ہے جن کی کوئی باقاعدہ آمد نہ ہو وہ اپنی توفیق کے مطابق ادا کر سکتی ہیں.جبکہ ناصرات کم از کم ایک روپیہ ماہوار چندہ ادا کرتی ہیں.مجلس انصار الله یہ احمدی بزرگوں کی تنظیم ہے.۴۰ سال سے او پر تمام مرد حضرات اس تنظیم کے ممبر ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی بنیاد رکھی.اس تنظیم کے ممبر انصار کہلاتے ہیں.اس تنظیم کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے.۴۰ سال سے ۵۲ سال تک کے انصار صف دوم اور ۵۲ سال سے اُوپر کے انصار صف اول میں شامل ہیں.اس میں بھی مالی نظام جاری ہے.اور ہر ناصر ہرسور و پیہ پر ایک روپیہ چندہ ادا کرتا ہے.مجلس خدام الاحمدیہ یہ احمدی نوجوانوں کی روحانی تنظیم ہے جس کا قیام ۱۹۳۸ ء کے اوائل میں عمل میں لایا گیا.اس تنظیم میں پندرہ سے چالیس سال تک کی عمر کے ہر مبائع کا شامل ہونا لازمی ہے.اس تنظیم کا ہر رکن خادم کہلاتا ہے.اس تنظیم کا ماٹو یہ ہے.” قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی.“ مجلس اطفال الاحمدیہ مجلس خدام الاحمدیہ کی زیر نگرانی سات سے پندرہ سال تک کی عمر کے احمدی بچوں کی ایک الگ تنظیم مجلس اطفال الاحمدیہ کے نام سے قائم ہے.جس کا ہر رکن طفل کہلاتا ہے.333
نوجوانوں کی ذہنی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لئے ان کے بھی کئی ایک شعبے ہیں.جن میں تعلیم و تربیت ، اصلاح وارشاد، خدمت خلق، وقار عمل وغیرہ شامل ہیں.ہر خادم جو برسر روزگار ہے سو روپیہ پر ایک روپیہ چندہ ادا کرتا ہے.جبکہ طلباء سے ایک روپیہ ماہوار چندہ مجلس وصول کیا جاتا ہے.مجلس اطفال الاحمدیہ اپنا چندہ الگ جمع کرتی ہے جس کی شرح ایک روپیہ ماہوار ہے.آداب مساجد ماجد اللہ تعالیٰ سے دُعائیں اور مناجات کرنے کی جگہیں ہیں اور خدا تعالیٰ کے انوار اور برکات کی تجلی گاہ ہیں.یہ مومنوں کو ایک مرکز پر متحد کرنے کا بھی ذریعہ ہیں اس لئے ان کا بہت ادب و احترام کرنا چاہئے اور ان کے تقدس و احترام کے منافی کوئی کام نہیں کرنا چاہئیے.چند آداب ذیل میں تحریر کئے جاتے ہیں:.* مسجد میں صاف کپڑے پہن کر آنا چاہیے.خوشبولگا کر آنا پسندیدہ امر ہے.* مسجد کو صاف ستھرا رکھنا چاہئیے.صفیں پاک وصاف ہوں.خوشبو جلانا بھی مستحسن ہے.* مسجد میں کوئی ایسی چیز کھا کر نہیں آنا چاہئیے جس سے بو آتی ہو جیسے پیاز ،مولی لہسن وغیرہ.(مسلم کتاب الصلوۃ باب نهى أكل الثوم) * مسجد میں شور شرابا نہیں کرنا چاہئیے.دینی امور کے علاوہ دنیوی امور سے پر ہیز کرنا * چاہیئے.(ابوداؤ د کتاب الصلوۃ باب التحلق يوم الجمعة ) مسجد میں داخل ہوتے اور باہر نکلتے مسنون دعا پڑھنی چاہیے جو یہ ہے:.اللَّهُمَّ اغْفِرْلِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحمتك اور با ہر نکتے وقت رحمتك کی جگہ فضلك کہنا چاہیئے.مسجد میں داخل ہوتے وقت دایاں پاؤں اندر رکھے اور باہر نکلتے وقت بایاں پاؤں باہر نکالے.334
* مسجد اللہ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے ان میں اللہ کا نام لینے اور اسکی عبادت بجالانے سے کسی کو نہیں روکنا چاہئیے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا کرنے والا بہت بڑا ظالم ہے.(سورۃ البقرہ آیت: ۱۱۵) مسجد میں اگر نکاح کے موقعہ پر یا کسی اور موقعہ پر شیرینی تقسیم ہو تو اس پر جھپٹنا درست نہیں.بڑی متانت اور شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور مسجد کے آداب اور وقار کوملحوظ خاطر رکھنا چاہیئے.آداب مجالس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجالس کے آداب جو بیان فرمائے وہ اتنے مکمل اور بہترین ہیں کہ جن پر عمل کرنے سے مجالس جنت کے باغوں کا نمونہ بن سکتی ہیں.سورۃ المجادلہ کے دوسرے رکوع میں تفصیل سے یہ آداب درج ہیں :.۱- مجالس میں کھل کر بیٹھنا چاہیئے مگر جب سمٹ جانے کو کہا جائے تو سمٹ جانا چاہیئے.جب کسی مجلس سے اٹھ کر چلے جانے کو کہا جائے تو فوراً چلا جائے کیونکہ اصل چیز تو اطاعت و فرمانبرداری ہے.اسلام کے معنی بھی فرمانبرداری کے ہی ہیں.مجلس میں آتے اور جاتے السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہنا چاہیئے مجلس سے جانے کے لئے صاحب صدر سے اجازت لینا چاہیئے ۴.مجلس میں کسی شخص کو اٹھا کر اس کی جگہ خود بیٹھنا نا پسندیدہ بات ہے.جہاں جگہ ملے بیٹھ جائے.۵- مجلس میں کسی آدمی سے علیحدگی میں سرگوشیاں نہیں کرنی چاہئیں.یہ شیطانی کام ہے.مجلس میں غیبت، چغل خوری نہ کی جائے.کسی بھائی کے عیوب نہیں بتانے چاہئیں.ے.مجالس میں تسبیح و تحمید کے ساتھ ساتھ کثرت سے استغفار اور درود پڑھنا چاہیے.335
مجلس میں اگر کوئی چیز تقسیم ہو تو ہمیشہ دائیں ہاتھ سے لیں.9 - مجالس میں بے ہودہ باتیں کرنا، ہوٹنگ کرنا درست نہیں.۱۰- مجالس میں جمائی لینا، ڈکار مارنا، بد بو چھوڑ نا نا پسندیدہ امور ہیں.۱۱- اگر مجلس میں اسلام کے خلاف بات ہو تو غیرت اسلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں سے اُٹھ کر آ جانا چاہیئے.۱۲ مجلس میں بیٹھے احباب کے کندھے پھلانگ کر آگے نہیں بڑھنا چاہیئے.آداب گفتگو مقولہ مشہور ہے ” پہلے تو لو پھر بولو کیونکہ زبان وہ آلہ ہے جو انسان کی دلی حالت اور اس کے خیالات کے اظہار کا ذریعہ ہے.یہ وہ عضو ہے جس کے ذریعہ انسان جنت و دوزخ کی راہ استوار کرتا ہے.یہ وہ مفتاح ہے جس کے ذریعہ انسان نجات کا دروازہ اپنے اوپر کھولتا ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.ہر صبح انسان کے تمام اعضاء زبان کی گوشمالی کرتے ہیں کہ دیکھ ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈر.ہم تو تمہارے ساتھ ہیں تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے ہیں اور تو اگر ٹیڑھی ہوئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہیں.عام زندگی میں خصوصی طور پر دعوت الی اللہ کیلئے گفتگو کے اسلامی آداب کا جاننا ضروری ہے یہ نہ ہو کہ وہ دعوت الی اللہ بھی کر رہا ہو اور ساتھ اسکی دل شکنی کا باعث بھی بن رہا ہو اور کہتے ہیں کہ زبان سے لگا ہوا زخم مندمل کم ہی ہوا کرتا ہے.گفتگو کے چند آداب حسب ذیل ہیں :.سچی اور صاف بات کرے.بات میں بیچ نہ ہو.* عام فہم بات کرے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو عام فہم اور واضح ہوا کرتی تھی اور بات کو تین دفعہ دہرایا کرتے تھے.336
گفتگو پاکیزہ ہو.حدیث میں آتا ہے پاکیزہ کلمہ بھی صدقہ ہے اور آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بھی.گفتگو میں مبالغہ سے کام نہ لے.بے ہودہ اور مخش کلامی نہ کرے.گفتگو میں غیبت جیسی گھناؤنی برائی سے بچا جائے.* غصے اور جوش میں آکر جلد جلد بات نہیں کرنی چاہیئے تحمل سے گفتگو کرے.بے جا غصہ میں کہی ہوئی بات اپنا اثر کھو بیٹھتی ہے.سنی سنائی بات کو آگے پھیلانا درست نہیں.افواہیں پھیلانے سے معاشرہ کی سالمیت اور امن کو نقصان پہنچتا ہے.* جھوٹی گواہی دینا اور بات بات پر قسم کھانا درست نہیں.* گفتگو کے دوران اسلامی شعار کو اپنانا چاہیئے.جزاکم اللہ.انشاء اللہ.ماشاء اللہ.الحمد اللہ.وغیرہ بات بھلی ہو تو کہہ دے ورنہ خاموش رہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے جبڑوں اور ٹانگوں کے شر سے بچا یا وہ جنت میں داخل ہوا.دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کر بچائے گا سیدھا خدا کے فضل سے جنت میں جائیگا وہ ایک زبان ہے عضو نہانی ہے دوسرا یہ ہے حدیث سیدنا سيد الورى اطاعت والدین اور اس کے آداب والدین کی اطاعت پر خدا تعالیٰ نے بار بار تاکیدی احکامات دیئے ہیں اور احادیث نبویہ 337
میں بھی متعد د جگہوں پر والدین کے حقوق اور ان کی تکریم کے آداب ملتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسَانًا کہ ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا تاکیدی حکم دیا ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.الجنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ که جنّت ماؤں کے قدموں تلے ہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دو اشخاص کو اپنے بعد سلام بھیجا جن میں سے ایک امام مہدی اور دوسرے حضرت اویس قرنی تھے.حضرت اویس کو سلام بھجوانے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ حضرت اویس صرف ضعیف والدہ کی خدمت کرنے کی وجہ سے یمن کو چھوڑ کر حضور کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکے.حضور فر ما یا کرتے کہ مجھے یمن کی طرف سے خوشبو آتی ہے.آداب لین دین القرآن:- * وَاَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا.(سورۃ بنی اسرائیل : ۳۶) یعنی جب تم کسی کو ماپ کر دینے لگو تو ماپ پورا دیا کرو.اور جب تول کرو تو بھی سیدھے ترازو کے ساتھ تول کر دیا کرو یہ بات سب سے بہتر اور انجام کے لحاظ سے سب سے اچھی ہے.* وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ ) وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ (سورة التطفيف :۲ - ۴) 0 سودا سلف میں وزن کم کر کے دینے والوں کے لئے عذاب ہی عذاب ہے جو تول کر لیتے ہیں تو خوب پورا لیتے ہیں اور جب دوسروں کو تول کر دیتے ہیں تو پھر 338
وزن میں کمی کر دیتے ہیں.الحديث :- حضرت ابوسعید سے مروی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا : - التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّنَ وَالصَّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ کہ بچے امین تاجر کونبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کی رفاقت نصیب ہوگی.( ترمذی جلد اول کتاب البیوع صفحه ۱۴۵ فاروقی کتب خانه ملتان) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے ناپ تول کرنے والوں کو فرمایا.إِنَّكُمْ قَدْ وُلِيْتُمْ أَمْرَيْنِ هَلَكَتْ فِيْهِ الْأُمَمُ السَّابِقَةُ قَبْلَكُمْ - تمہارے سُپر دجو یہ دو معاملات ہوئے ہیں ان کے سبب پہلی قو میں ہلاک ہوئیں.( ترمذی جلد اول کتاب البیوع صفحه ۱۴۶.الفضل مارکیٹ اُردو بازار لاہور ) اسی طرح ماپ تول میں کمی کر کے خیانت کے مرتکب ہو نیوالوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں:."جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے....و شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بد عملی سے یعنی شراب سے اور قمار بازی سے بدنظری سے اور خیانت سے اور رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرف سے تو بہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۸-۱۹) و تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یادر کھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں 339
66 ستی نہیں کرنی چاہئیے اور ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دور بھاگنا چاہئیے.“ کسب حلال ( ملفوظات جلد ۸ صفحه ۳۱۳) ہرانسان میں خدا تعالیٰ نے بعض صلاحیتیں ودیعت کر رکھی ہیں جو بروئے کار لا کر اپنی زندگی میں ترقیات کے سامان پیدا کر سکتا ہے اور کامیابیوں اور کامرانیوں کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے.مگر بد قسمتی سے بعض لوگ ان خدا داد صلاحیتوں اور استعدادوں سے کام نہ لیتے ہوئے اپنے لئے ہمیشہ کیلئے ناکامیوں اور نامرادیوں کے سامان پیدا کر لیتے ہیں اور پھر ساری عمر کف افسوس ملتے ہوئے مایوسی اور نا اُمیدی کا شکار رہتے ہیں.ایک مقولہ ہے کہ ایک بے کار اور فارغ انسان کا دماغ شیطان کی دوکان ہوتا ہے.اس لحاظ سے انسان اگر جفاکشی محنت.ہمت.اور اولو العزمی جیسی صفات کا مالک ہو تو وہ معاشرے میں انتہائی صحت مند فرد بن سکتا ہے اور معاشرے کی صحت کا ضامن بن جاتا ہے.اپنے معاشرے میں انبیاء کا وجود ایک نمونہ ہوتا ہے اور انبیاء نے اپنے ہاتھ سے کام کر کے دنیا کے لوگوں کو بتا دیا کہ ہاتھ سے کام کرنا بڑی عظمت کا حامل ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- ہر نبی نے بعثت سے قبل بکریاں چرائیں ہیں.صحابہ نے عرض کیا.کیا آپ نے بھی؟ آپ نے فرمایا.ہاں کچھ قیراط لے کر میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چرا یا کرتا تھا.( بخاری کتاب الا جارات باب رعی الغنم علی قراريط ) حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے بعض خطبات میں وقتا فوقتا اپنے ہاتھ سے محنت کرنے پر زور دیا ہے اور اس طرح لکھتے رہنے کی زندگی کو نا پسند فرمایا.آپ فرماتے ہیں:.340
نکھے پن کی عادت پیدا ہو جائے یا جھوٹ کی عادت پیدا ہو جائے تو یقیناً آج نہیں تو کل وہ قوم تباہ ہو جائے گی.“ نیز فرمایا:- (مشعل راه صفحه ۱۳ خطبه جمه فرموده یکم اپریل ۱۹۳۸ از حضرت خلفه لمسیح الثانی) نکے بیٹھنے والے دنیا میں غلامی کے جراثیم پھیلاتے ہیں.“ 66 ہر شخص یہ عہد کرے کہ وہ مانگ کر نہیں کھائے گا.“ مشعل راه صفحه ۱۴۴ - خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۳۹ ء از حضرت مصلح موعود ) تحریک جدید کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا ہے.سچائی:.اخلاق فاضلہ اخلاقیات میں سب سے اول چیز سچائی سے پیار اور جھوٹ سے نفرت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد بار سچ بولنے اور جھوٹ سے پر ہیز کرنے کے بارے میں تاکیدی فرمان جاری فرمائے اور خود اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ میں سچ سے پیار کرتا ہوں اور اسی وجہ سے آپ الصدوق کہلائے.حدیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا کہ کیوں نہ میں تم کو بڑے بڑے گناہوں کے بارے میں بتاؤں.صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ ! ان بڑے گناہوں میں سب سے زیادہ زور حضور نے جھوٹ سے بچنے پر دیا.فرمایا اَلا وَقَوْلَ النُّورِ وَشَهَادَةَ النُّورِ فَمَا زَالَ يُكَرِرُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ 341
سكت ( بخاری کتاب الادب ) خبر دار جھوٹی بات کہنے سے بچو اور جھوٹی گواہی دینے سے.پھر اس کو دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا کہ کاش آپ مزید نہ فرمائیں.اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سچ کو لازم پکڑو کیونکہ سچائی نیکی کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور انسان سچ بولتا ہے اور سچائی ہی کی تلاش میں رہتا ہے.یہاں تک کہ خُدا کے حضور صدیق لکھا جاتا ہے اور تم جھوٹ سے بچو.حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ برائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور برائی جہنم کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ خدا کے حضور کذاب لکھا جاتا ہے.(مسلم کتاب البر والصلة باب فتح الكذب وحسن الصدق وفضله ) اطاعت قومی اور جماعتی ترقی کے راستوں میں سے ایک راستہ احمدی کے اندر اطاعت اور فرمانبرداری کے جذ بہ کا پایا جانا ہے.جب تک اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ افراد کے اندر پوری طرح نہ پایا جائے اس وقت تک جماعتی کام کبھی ترقی نہیں کر سکتے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.و جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی.جوشخص میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کرتا ہے وہ گو یا میری اطاعت کرتا ہے اور جو میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کرتا ہے وہ میری نافرمانی کرتا ہے.“ (مسلم کتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء في غير معصية ) پھر ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- 342
”سنو اور اطاعت کو اپنا شعار بناؤ.خواہ ایک حبشی غلام جس کا سر منگے کی مانند ہو کو ہی کیوں نہ تمہارا امیر مقرر کر دیا جائے.یعنی جو بھی امیر ہو اس کی اطاعت کرو.“ ( بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعة ) حقیقی اطاعت یہی ہے کہ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ( کہ ادھر آواز آئی اور ادھر سانچے میں ڈھلنے کے لئے کمر کس لی ) کو حرز جان بنایا جائے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر بچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک ٹور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے.مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے.مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو.اور یہی ایک مشکل امر ہے.اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے.بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی.اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحد وں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے.صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جو جلالی اور جمالی رنگوں کو لئے ہوئے تھے اُن میں ایک کشش اور قوت تھی جو بے اختیار دلوں کو کھینچ لیتی تھی.اور پھر آپ کی جماعت نے اطاعت الرسول کا وہ نمونہ دکھایا اور ان کی استقامت ایسی فوق الکرامت ثابت ہوئی کہ جو کوئی ان کو دیکھتا وہ (الحکم نمبر ۵ ۱۹۰۱ء) بے اختیار ہوکر ان کی طرف چلا آتا تھا.“ وسعت حوصلہ اور نرم زبان سردار انبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مختصر عرصے میں توحید کے پیغام کو جس طرح دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا اور آپ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے لگے اس کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں لیا ہے کہ اگر آپ تند مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے اردگرد سے 343
بھاگ جاتے.پس حو صلے اور پیار سے بات کرنا حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا شیوہ رہا اور اپنے صحابہ کو بھی اس کی تلقین کرتے رہے.ایک دفعہ ایک یہودی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے قرض کی واپسی کا مطالبہ کرنے آیا اور سختی سے پیش آیا جس پر حضرت عمرؓ نے اس کو ڈانٹا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.عمر تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے اس کو نرمی سے سمجھاؤ.“ ( صحیح بخاری اُردو جلد اول پارہ نمبر ۹ کتاب الوکالت حدیث نمبر ۲۱۲۸) آج اسی تعلیم کو حضرت مسیح موعود نے زندہ کیا اور فرمایا :- اسی طرح فرمایا :- نیست گالیاں سُن کے دُعا دو پاکے دُکھ آرام دو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار تیر تاثیر محبت کا خطا جاتا نہیں تیر اندازو نہ ہونا شست اس میں زینہار دیکھ لو میل و محبت میں عجب تاثیر ہے اک دل کرتا ہے جھک کر دوسرے دل کو شکار اخلاق ستیه قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے غیبت کے مضمون کو سورۃ الحجرات میں بیان فرمایا ہے:.أيُحِبُّ أَحَدُ كُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ (سورۃ الحجرات آیت: ۱۳) 344
کیا تم میں سے کوئی اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا (اگر تمہاری طرف یہ بات منسوب کی جائے تو ) تم اس کو نا پسند کرو گے.پس اللہ تعالیٰ نے پیٹھ پیچھے بات کرنے کو اس قدر ناپسند فرمایا ہے کہ گویا اپنے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سفر معراج کا ذکر کرتے ہوئے ایک واقعہ یہ بھی بیان فرمایا کہ میں معراج کے دوران ایک ایسی قوم کے پاس سے گذرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے.میں نے پوچھا اے جبریل! یہ کون ہیں تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں کا گوشت نوچ نوچ کر کھایا کرتے تھے اور ان کی عزت آبرو سے کھیلتے تھے.یعنی ان کی غیبت کرتے اور ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے.“ بغض اور حسد: (ابوداؤد کتاب الادب باب في الغيبة ) قومی ترقی کے لئے باہمی محبت ضروری ہے.اس کا فقدان قومی زوال کا باعث ہے.حدیث میں آیا ہے کہ حضور نے فرمایا.باہم بغض اور حسد نہ کرو اور ایک دوسرے کو پیٹھ نہ دکھاؤ.اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے.“ (ابوداؤ د کتاب الادب باب فی الحسد ) اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ اِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطب (ابوداؤ د کتاب الادب باب فی الحسد ) حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ ایندھن کو.پس ہمیں پیارے آقا کا یہ فقرہ مد نظر رکھنا چاہئیے کو اللہ کے بندے بھائی بھائی بن 345
جاؤ.اور مومنوں کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ الْمُؤْ مِن لَيْسَ بحقودِ کہ مومن تو کسی سے حسد اور کینہ نہیں رکھتا.اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو جن خاص صفات سے متصف قرار دیا ہے ان میں سے اہم ترین عجز اور انکسار ہے جو کہ تکبر کا متضاد ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا.(سورۃ الفرقان : ۶۴) رحمان خُدا کے نیچے بندے وہ ہوتے ہیں جو زمین پر آرام سے چلتے ہیں.اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضور نے فرمایا.تکبر کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا.تکبر یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرے لوگوں کو ذلیل سمجھے اور ان سے بری طرح پیش آئے.حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں: مسلم کتاب الایمان - تحریم الکبر و بیانه ) بد تر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں اے کرم خاک چھوڑ دے کبر و غرور کو زیبا ہے کبر حضرت رب غیور کو 346
ساتواں باب چند ضروری نظمیں کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام شان حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم وہ پیشوا ہمارا جس نام اُس کا ہے تور سارا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے لیک از اک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے وہ یار لامکانی وہ دلبر نہانی دیکھا ہے ہم نے اُس سے بس رہنما یہی ہے ہے وہ آج شاہ دیں ہے وہ تاج مرسلیں وہ طیب و امیں ہے اُس کی ثنا یہی ہے اُس نور فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں پر وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے وہ دلبر یگانہ علموں کا ہے خزانہ باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا یہی ہے دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے 347
نصرت الہی خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے آتی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے وہ بنتی ہے ہوا اور ہر خس راہ کو اُڑاتی ہے وہ ہو ہے جاتی ہے آگ اور ہر مخالف کو جلاتی کبھی وہ خاک ہوکر دشمنوں کے سر پہ پڑتی ہے کبھی ہوکر وہ پانی اُن پہ اک طوفان لاتی ہے غرض رکتے نہیں ہرگز خدا کے کام بندوں سے بھلا خالق کے آگے خلق کی کچھ پیش جاتی ہے قمر ہے چانداوروں کا ہما را چاند قرآں ہے جمال و حسن قرآں نور جان ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا بھلا کیونکر ہو ہے یکتا کلام پاک رحماں ہے بہار جاوداں پیدا ہے اس کی ہر عبارت میں نہ وہ خوبی چمن میں ہے اس سا کوئی بستاں ہے 348
خدا کے قول سے قول بشر کیونکر برابر ہو وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہے ملائک جس کی حضرت میں کریں اقرار لاعلمی سخن میں اس کے ہمتائی کہاں مقدور انساں ہے بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہرگز تو پھر کیونکر بنانا نور حق کا اُس پہ آساں ہے ہمیں کچھ کیں نہیں بھائیو! نصیحت ہے غریبانہ کوئی جو پاک دل ہووے دل وجاں اُس پہ قرباں ہے قرآن شریف کی خوبیاں نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلی نکلا پاک وہ جس ނ حق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا ناگہاں غیب یا الہی ! تیرا فرقاں ہے انوار کا دریا نکلا پودا چشمه اصفی نکلا کہ اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا سب جہاں چھان چکے ساری دُکانیں دیکھیں مئے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا 349
شانِ اسلام ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلائے شمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے ہم نے اسلام ہے نور اٹھو دیکھو سنایا ہم نے کو خود تجربہ کر کے دیکھا نور اور دینوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے لو تمہیں طور تسلّی تسلی کا بتایا ہم نے آج ان نوروں کا اک زور ہے اس عاجز میں دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے نور ملا نور پیمبر سے ہمیں جب ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے مصطفیٰ ۴ ترا حد ہو سلام اور رحمت اس سے نور لیا بار خدایا ہم نے ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے 350
ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے اولاد کے لئے دردمندانہ دُعائیں تو نے دن دکھایا محمود پڑھ کے آیا دل دیکھ کر یہ احساں تیری ثنا میں گاما صد شکر ہے خدایا صد شکر ہے خدایا تو روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي تین جو پسر ہیں تجھ سے ہی یہ ثمر ہیں! میرے بار و بر ہیں تیرے غلام در ہیں سچے وعدوں والا منکر کہاں کدھر ہیں روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دین و دولت کر ان کی خود حفاظت ہو ان پر تیری رحمت دے رُشد اور ہدایت اور عمر اور عزت روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَاني 351
لخت جگر ہے میرا محمود بندہ تیرا دے اس کو عمر و دولت کر ڈور ہر اندھیرا دن ہوں مرادوں والے پر نور ہو سویرا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي اس کے ہیں دو برادر ان کو بھی رکھیو خوشتر تیرا بشیر کر فضل احمد تیرا شریف اصغر یکسر رحمت سے کر معطر یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي اہل وقار ہوویں فخر دیار ہوویں حق پر شار ہوویں مولی کے یار ہوویں با برگ و بار ہوویں اک یہ سے ہزار ہوویں روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَاني خدایا! تیرے فضلوں کو کروں یاد بشارت تو نے دی اور پھر اولاد کہا ہرگز نہیں ہوں گے برباد بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد خبر مجھ کو تو نے بار ہا دی فسُبحان الَّذِي أَخْزَى الْأَعَادِي 352
بشارت دی کہ اک بیٹا بیٹا ہے تیرا جو ہوگا ایک دن محبوب میرا کروں گا دور اس مہ اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا بشارت کیا ہے اک دل کی غذادی فسُبحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي ہمارا خدا از حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ) میری رات دن بس یہی اک دُعا ہے کہ اس عالم کون کا اک خدا ہے کو اسی نے ہے پیدا کیا اس جہاں ستاروں کو سورج کو اور آسماں کو وہ ہے ایک اس کا نہیں کوئی ہمسر وہ مالک ہے سب کا وہ حاکم ہے سب پر ہر اک شے کو روزی وہ دیتا ہے ہردم خزانے کبھی اس کے ہوتے نہیں کم 353
وہ وہ زندہ ہے اور زندگی بخشتا بخشتا ہے قائم ہے ہر ایک کا آسرا ہے ނ کوئی شے نظر نہیں اُس سے مخفی بڑی سے بڑی ہو کہ چھوٹی چھوٹی ނ دلوں کی چھپی بات بھی جانتا ہے اور نیکوں کو پہچانتا ہے بُروں وہ دیتا ہے بندوں کو اپنے ہدایت دکھاتا ہے ہاتھوں پہ اُن کی کرامت ہے فریاد مظلوم کی سننے والا صداقت کا کرتا ہے وہ بول بالا گناہوں کو بخشش سے ہے ڈھانپ دیتا غریبوں کو رحمت ہے تھام لیتا ہے یہی رات دن اب تو میری صدا میرا خدا ہے میرا خدا اللہ میاں کا خط بلبل ہے منظوم کلام ڈاکٹر حضرت میر محمد اسمعیل صاحب) قرآن سب سے اچھا قرآن سب سے پیارا قرآن دل کی قوت قرآن ہے سہارا 354
اللہ میاں کا خط ہے جو میرے نام آیا اُستانی جی پڑھاؤ جلدی مجھے سیپارہ پہلے تو ناظرے سے آنکھیں کروں گی روشن پھر ترجمہ سکھانا جب پڑھ چکوں میں سارا مطلب نہ آئے جب تک کیونکر عمل ہے ممکن بے ترجمے کے ہر گز اپنا نہیں گزارا يارب تو رحم کر کے ہم کو سکھا دے قرآں ہر دکھ کی روا ہو ہر درد کا ہو چارا دل میں ہو میرے ایماں سینے میں نور قرآں بن جاؤں پھر تو سچ مچ میں آسماں کا تارا احمدی بچی کی دُعا (حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب) نوٹ :.یہ نہایت اچھی اور پیاری نظم حضرت ڈاکٹر صاحب نے اپنی صاحبزادی حضرت سیدہ ام متین مریم صدیقہ صاحبہ سلمہا اللہ تعالیٰ ( حرم حضرت خلیفہ اُسیح الثانی رضی اللہ عنہ وصدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ ) کے لئے اُن کے بچپن کے زمانہ میں لکھی تھی.الہی مجھے سیدھا رستہ دکھا دے مری زندگی پاک و طیب بنا دے مجھے دین و دنیا کی خوبی عطا کر ہر اک درد اور دُکھ سے مجھ کو شفا دے 355
زباں پر میری جھوٹ آئے نہ ہرگز کچھ ایسا سبق راستی کا پڑھا دے گنا ہوں سے نفرت بدی سے عداوت ہمیشہ رہیں دل میں اچھے ارادے اک کی کروں خدمت اور خیر خواہی ہر جو دیکھے وہ خوش ہو کے مجھ کو دُعا دے بڑوں کا ادب اور چھوٹوں شفقت سراسر محبت کی تیلی بنادے بنوں نیک اور اور دوسروں دوسروں کو بناؤں مجھے دین کا علم اتنا سکھا دے خوشی تیری ہو جائے مقصود اپنا کچھ ایسی لگن دل میں اپنی لگا دے دے سخا دے حیا دے وفا دے غنا ہدای دے و دے رضا دے میرا نام ابا نے رکھا ہے مریم خدایا تو صدیقہ مجھ کو بنادے 356.☆.
آٹھواں باب یا در کھنے کی باتیں س.اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام کیا ہے اور اس کے کیا معنی ہیں؟ ج اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام اللہ ہے.یعنی وہ ذات جو تمام خوبیوں کی جامع اور تمام نقائص سے پاک ہے.س.ارکانِ ایمان کتنے ہیں ان کے نام بتائیے؟ ج ارکانِ ایمان چھ ہیں.(۱) اللہ پر ایمان لانا (۲) اس کے فرشتوں پر ایمان لانا (۳) اس کی کتابوں پر ایمان لانا (۴) اس کے رسولوں پر ایمان لانا ( ۵ ) یوم آخرت پر ایمان لانا (۶) اور تقدیر خیر وشر پر ایمان لانا.س.قرآن کریم کی کتنی سورتیں ، رکوع ، آیات اور الفاظ ہیں؟ ج قرآن کریم میں ۱۱۴ سورتیں ہیں.۵۴۰ رکوع ہیں.۶۶۶۶ آیات اور ۷۷۹۳۴ الفاظ ہیں.س.قرآن کریم کی کس سورت سے پہلے بسم اللہ نہیں آتی ؟ ج سورۃ التوبہ کیونکہ یہ سورۃ انفال کا ہی حصہ ہے.س قرآن کریم میں کس صحابی کا نام آیا ہے؟ ج حضرت زید س قرآن کریم کتنے عرصہ میں نازل ہوا ؟ ج- تقریباً ۲۳ سال 357
س.قرآن کریم کے کسی گزشتہ مفتسر کا نام ج- علامہ فخر الدین رازی س.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کب اور کہاں پیدا ہوئے.ج ۱۲ ربیع الاول بمطابق ۱/۲۴ پریل ۵۷۱ء مکہ مکرمہ میں.س.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لقب اور کنیت کیا تھی؟ ج آپ کا لقب صادق و امین اور کنیت ابوالقاسم تھی.س.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی شادی رکس عمر میں اور کس سے ہوئی ج- ۲۵ سال کی عمر میں حضرت خدیجہ سے ہوئی.س.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ۵ ازواج مطہرات کے نام لکھیں.ج.حضرت خدیجۃ الکبری - حضرت سودة بنت زمعہ.حضرت عائشہ صدیقہ - حضرت حفصہ اور حضرت میمونہ.س.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں کے نام؟ ج حضرت زینب ، حضرت رقیہ ، حضرت ام کلثوم ، حضرت فاطمتہ الزہرا.س.آپ کے صاحبزادوں کے نام.ج- حضرت قاسم ، حضرت طاہر، حضرت طیب ، حضرت ابراہیم.س.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی شعرلکھیں؟ ج - أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب : أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَلِب س.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال کب ہوا؟ کس عمر میں ہوا ؟ اور آپ کا روضہ مبارک کہاں ہے؟ ج آپ کا وصال ۲۶ رمئی ۶۳۲ ء کو بعمر ۶۳ سال مدینہ منورہ میں ہوا.اور وہیں آپ کا 358
روضہ مبارک ہے.س.شیخین سے کون مراد ہیں.؟ ج حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق س.حضرت ابوبکر کا اسم گرامی؟ ج- حضرت عبد اللہ بن ابی قحافہ.س.ذوالنورین سے کون مراد ہیں؟ اور کیوں؟ ج- ذوالنورین سے مراد حضرت عثمان غنی ہیں.یعنی دونوروں والا.اس وجہ سے کہ آپ کے عقد میں یکے بعد دیگرے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں آئیں.س.دربار نبوی کے مشہور شاعر کا نام.ج- حضرت حسان بن ثابت.س.تابعین سے کون مراد ہیں.دو مشہور تابعین کے نام؟ ج وہ لوگ جو صحابہ کی صحبت سے فیضیاب ہوئے.حضرت حسن بصری اور حضرت اولیس قرنی س.کسی مشہور مسلمان شاعرہ کا نام؟ ج حضرت خنساء س.فقہ آئمہ اربعہ کے نام؟ ج حضرت امام ابو حنیفہ - حضرت امام شافعی.حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل.س.خلفاء راشدین کے زمانہ خلافت کی تعیین کریں ج حضرت ابوبکر صدیق ۱۱ ہجری تا ۱۳ هجری 359
رض حضرت عمر ۱۳ ہجری تا ۲۳ ہجری ۳۵ هجری حضرت عثمان ۲۳ ہجری تا حضرت علی ۳۵ ہجری تا ۴۰ ہجری س فاتح مصر و ایران و سپین اور سندھ کے نام لکھئے؟ ج- فاتح مصر عمر و بن العاص.فاتح ایران سعد بن ابی وقاص.فاتح سپین طارق بن زیاد اور سندھ کے محمد بن قاسم.س.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود کون ہیں.کب اور کہاں پیدا ہوئے؟ ج- حضرت مرزا غلام احمد قادیانی.۱۴ شوال ۱۲۵۰ ه (۱۳ رفروری ۱۸۳۵ء) بروز جمعه المبارک قادیان میں پیدا ہوئے.س.کب اور کس الہام کی بنیاد پر آپ نے ماموریت کا دعویٰ فرمایا؟ ج- مارچ ۱۸۸۲ء کو الہام ہوا.قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ س.آپ نے پہلی بیعت کب اور کہاں لی.پہلی بیعت کرنے والے کون تھے؟ ج- ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو لدھیانہ میں حضرت صوفی احمد جان صاحب کے مکان پر بیعت لی گئی.حضرت مولانا حکیم نورالدین نے سب سے پہلے بیعت کی.س.حضرت مسیح موعود کی کل کتنی تصنیفات ہیں؟ پہلی اور آخری تصنیف کا نام مع سن لکھے؟ ج کل ۸۵ تصنیفات ہیں.پہلی ”براہین احمدیہ حصہ اوّل و دوم ۱۸۸۰ء میں شائع ہوئی.اور آخری پیغام صلح ۱۹۰۸ء میں.س.جماعت احمدیہ کا نام جماعت احمدیہ کب رکھا گیا ؟ ج- مارچ ۱۹۰۱ء میں مردم شماری کے موقع پر.360
س.جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ کب ہوا اور اس میں کتنے احباب شریک ہوئے؟ ج ۱۸۹۱ء میں ۷۵ احباب نے شرکت کی.س.حضرت مسیح موعود کا یوم وصال کیا ہے؟ ج- ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو حضور نے لاہور میں وفات پائی اور ۷ ۲ رمئی ۱۹۰۸ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے بہشتی مقبرہ قادیان میں نماز جنازہ پڑھائی اور وہیں تدفین ہوئی.س.جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفہ کون تھے ؟ کب پیدا ہوئے اور کب مسند خلافت پر متمکن ہوئے؟ ج- حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب بھیروی ۱۲۵۶ھ یعنی ۱۸۴۱ء میں پیدا ہوئے.۲۷ مئی ۱۹۰۸ ء کو خلیفہ بنے.س.حضرت مولانا نورالدین صاحب کی اطاعت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود نے کیا فرمایا؟ ج.”میرے ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتے ہیں جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے.“ س روز نامہ الفضل کب جاری ہوا اور اس کے پہلے ایڈیٹر کون تھے؟ ج- روزنامه الفضل ۱۹ جون ۱۹۱۳ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی ادارت میں جاری ہوا.س.بیرون ہند جماعت احمدیہ کا پہلا تبلیغی مرکز کب، کہاں اور کس کے ذریعہ قائم ہوا ؟ ج- ۲۸ جون ۱۹۱۴ء کولندن میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے ذریعہ قائم ہوا.س.حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کا وصال کب ہوا؟ ج- ۱۳ / مارچ ۱۹۱۴ ء کو.361
س.خلیفہ اسی الثانی کا انتخاب کب ہوا اور کون خلیفہ بنے ؟ ج - ۱۴ / مارچ ۱۹۱۴ ء کوسید نا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانی منتخب ہوئے.مسجد نور قادیان میں خلافت ثانیہ کا انتخاب عمل میں آیا.س بیرون ممالک سب سے پہلی تعمیر ہونے والی مسجد کونسی ہے؟ ج مسجد فضل لندن.۱۹۲۴ء میں حضرت خلیفۃ امسیح الثانی نے بنیاد رکھی اور ۱۹۲۶ء میں تکمیل پذیر ہوئی.س.پیشگوئی مصلح موعود کب کی گئی اور اس کے مصداق ہونے کا دعوی حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے کب کیا؟ ج - ۱۸۸۶ء میں پیشگوئی مصلح موعود کی گئی اور اس کا مصداق ہونے کا دعوی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے سن ۱۹۴۴ء میں کیا.س.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا وصال کب ہوا؟ ج - ۷-۸ /نومبر ۱۹۶۵ ء کی درمیانی شب کو جو سوموار کی رات تھی.س.خلیفہ المسیح الثالث کا انتخاب کب ہوا اور کون خلیفہ بنے ؟ ج- ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کوسیدنا حضرت حافظ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ منتخب ہوئے اور انتخاب کے معابعد پہلی بیعت مسجد مبارک ربوہ میں ہوئی.س کس ملک کے سربراہ سب سے پہلے احمدی ہوئے اور کس پیشگوئی کا مظہر بنے ؟ ج.مغربی افریقہ کے ملک گیمبیا کے گورنر جنرل الحاج سرایف ایم سنگھائے (جو ۱۹۶۳ء میں احمدی ہوئے اور ۱۹۶۵ء میں گورنر جنرل بنے ) نے حضرت خلیفہ المسیح الثالث سے حصول برکت کی خاطر حضرت مسیح موعود کے کپڑے کی درخواست کی.اس طرح ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے کی پیشگوئی کے پہلے مظہر بنے.362
س.یورپ کی وہ کون سی مسجد ہے جس کا افتتاح حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اپنے دورہ کے دوران فرمایا؟ ج- بیت نصرت جہاں ( کوپن ہیگن.ڈنمارک) کا۲۱ جولائی ۱۹۴۷ء کو افتاح فرمایا.س.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی وفات کب ہوئی؟ ج- ۸ اور ۹ جون ۱۹۸۲ء کی درمیانی شب./ س.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا انتخاب کب ہوا.اور کون خلیفہ بنے ؟ ج - ۱۰ / جون ۱۹۸۲ء کو ۵ بجے سہ پہر حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ منتخب ہوئے.س.حضرت مرزا طاہر احمد کب پیدا ہوئے؟ ج- ۱۸؍ دسمبر ۱۹۲۸ء کو.س.مسجد بشارت سپین کا افتتاح کب ہوا؟ ج ۱۰ ستمبر ۱۹۸۲ ء کو س.حضرت خلیفہ المسح الرابع" کی پانچ تحریکات بیان کریں.ج (1) بیوت الحمد تحریک.۱۹۸۲ء (۲) دعوت الی اللہ.۱۹۸۳ء (۳) سیدنا بلال فنڈ کی تحریک - ۱۹۸۶ء (۴) برائیوں کے خلاف عالمی جہاد کا اعلان.۱۹۸۶ء(۵) تحریک وقف کو ( پیدا ہونے والے بچوں کو وقف کریں).۱۹۸۷ء س.سیٹلائٹ کے ذریعہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا پہلا خطاب کب نشر کیا گیا ؟ ج ۳۱ جولائی ۱۹۹۲ء س- MTA کا آغاز کب ہوا؟ ج- ۷ /جنوری ۱۹۹۴ ء کو ہوا.۱۹۹۴ء کو ہوا.س.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا وصال کب ہوا ؟ ج- 19 /اپریل ۲۰۰۳ء کو 363
- س.حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا انتخاب کب ہوا اور کون خلیفہ بنے ؟ ج 22 اپریل 2003ء کو بعد نماز مغرب و عشاء حضرت صاحبزادہ مرز امسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خلیفہ منتخب ہوئے.س.حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کب : ہوئے؟ ج- ۱۵ ستمبر ۱۹۵۰ء کو.س- MTA افریقہ کا مبارک اجراء کب ہوا.ج یکم اگست ۲۰۱۶ء کو.س.خلافت احمدیہ کی صد سالہ جو بلی کب منائی گئی؟ ج - ۲۷ رمئی ۲۰۰۸ء کو.س.پہلی امن کانفرنس کب منعقد کوئی ؟ ج- ۹ رمئی ۲۰۰۴ ء کولندن میں.س.مسجد بیت الفتوح لندن کا افتتاح کب ہوا؟ ج ۲۰۰۳ ء میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا.☆............⭑ 364