DeadSeaScrolls

DeadSeaScrolls

صحائف وادئ قمران

Author: Other Authors

Language: UR

UR
عیسائیت

Book Content

Page 1

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ صحائف وادي قمران

Page 2

صفحه 1 3 7 16 35 41 14 6 45 61 91 93 105 115 121 125 131 150 169 171 176 202 فہرست مضامین عناوین نمبر شمار باب اول تعارف صحائف کا محفوظ رہنا ایک معجزہ انکشاف صحائف کی فہرست کھنڈرات اور قبرستان صحائف کی اہمیت اور کسمپرسی راسخ العقیدہ علماء کا بائیکاٹ باب دوم عہد نامہ عتیق کے متن پر اثر باب سوم ابتدائی مسیحیت اور نیا عہد نامہ ( پس منظر ) ابتدائی مسیحیت کا پس منظر ایسینی اور عیسائی مشابہتیں مسیحی عقائد نیا عہد نامہ (پس منظر ) 1 2 3 4 LO 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 نئے عہد نامے میں بائیبل کے حوالے 15 باب چہارم جماعت قمران 16 ایسینیوں کا زمانہ 17 باب پنجم استاد صادق عمومی حضرت مسیح علیہ السلام اور استاد صادق میں مشابہت فہرست کتب 18

Page 3

پیش لفظ آج سے تقریباً چوبیس سال قبل بحیرہ مردار کے مغربی ساحل پر بعض غاروں سے دو ہزار سال پرانے صحائف کا انکشاف ہوا.اسکے بعد تقریباً آٹھ سال تک نئی غاریں اور نئے صحائف دریافت ہوتے رہے.مکمل صحائف کی تعداد اگر چہ تھوڑی ہے.تاہم چھوٹے بڑے قطعات کی تعداد کئی ہزار ہے.اس عظیم انکشاف سے پرانے عہد نامے کے متن، ابتدائی مسیحیت، نئے عہد نامے کے پس منظر اور مسیح علیہ السلام کے حالات زندگی پر بہت زیادہ روشنی پڑتی ہے.اگر چہ صحائف ر تحقیق کا کام جاری ہے.تاہم جو مواد اس وقت تک شائع ہو چکا ہے.اس میں یہودیوں اور عیسائیوں کو تبلیغ کا کافی سامان موجود ہے.اسی وجہ سے میں نے اس موضوع کا انتخاب کیا.

Page 4

1 باب اول تعارف

Page 5

3 اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.,, صحائف کا محفوظ رہنا ایک زندہ معجزہ و ما خلقت الجن والانس الا ليعبدون یعنی میں نے جن وانس کو محض اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا.اس غرض کیلئے اس نے سلسلہء انبیاء جاری فرمایا.تا کہ وہ لوگوں کو عبادت کا طریق سکھائیں.انبیاء اللہ تعالیٰ کے کامل پندے ہوتے ہیں.مگر اپنی بشریت کے لحاظ سے عام انسانوں کی طرح قوانین قدرت کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں.ہاں کامل عبودیت کے نتیجے میں انکا وجود اللہ تعالی کا مظہر بن جاتا ہے.اور تمام انسانوں سے بڑھکر اللہ تعالیٰ کی صفات ان کے وجود میں ظاہر ہوتی ہیں.مذاہب عالم کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر انبیاء کی قوموں نے انکی زندگی میں شدید مخالفت کی.انہیں ہنسی مذاق کا نشانہ بنایا.اور قتل کے درپے ہوئے.وطن سے نکالا اور طرح طرح کی تکالیف و مصائب ان پر اور ان کے متبعین پر ڈھاتے رہے.لیکن پھر ایسا ہوتا ہے کہ جب انکی وفات پر کچھ مدت گزر جاتی ہے.اور دین کی ترقی کا زمانہ آتا ہے اور ہر کس و ناکس انکی محبت کا دم بھرنے لگتا ہے.ان کے معجزات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے.تب ہر ایک یہ کوشش کرتا ہے کہ اس کام میں دوسرں سے سبقت لے جائے.اس طرح ان کو پہلے تو خدا کی صفات حقیقی طور پر دی جاتی ہیں.اور جب نور ایمان قلوب سے بکلی گل ہو جاتا ہے تو نوبت یہاں تک آتی ہے کہ ان کو فی الواقع خدا قرار دے دیا جاتا ہے.ابتداء میں مختلف اقوام الگ الگ ممالک میں آباد تھیں اور ذرائع آمد ورفت مفقود تھے.لہذا تمام اقوام میں الگ الگ انبیاء مبعوث ہوئے.ذہن انسانی ابھی ارتقا کے مراحل طے کر رہا تھا.اس وقت کا انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھ نہ سکتا تھا.اسلئے اسکی عقل کے

Page 6

4 مطابق کلام الہی نازل ہوتا رہا.ایک طرف خدا کے رحم کو ظاہر کرنے کیلئے اسے باپ کہا گیا تو دوسری طرف اس کی طاقت اور غلبے کو ذہن نشین کرانے کیلئے اس کو شہنشاہ قرار دیا گیا.کبھی اس کی بلندشان کے اظہار کیلئے اسے آقا کہا گیا اور انبیاء کے اس کے ساتھ شدید تعلق کو ظاہر کرنے کیلئے انہیں خدا کے بیٹے کہ کر پکارا گیا اور کبھی انہیں خدا کے پہلوان کہا گیا.لیکن جب نور نبوت سے بعد کے باعث دلوں میں تاریکی گھر کر لیتی ہے.تو لوگ ان الفاظ کو حقیقی معنے پہنانے لگتے ہیں اور انبیاء کو خدا وند تعالی کے حقیقی بیٹے خیال کرنے لگتے ہیں.آخر وہ وقت بھی آگیا.جب ذہن انسانی ترقی کے مراحل طے کرتا کرتا اپنے کمال کو پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے عرب کی سرزمین سے اپنے کامل بندے کو چنا اور اسے تمام اقوام کے لئے ایک ہی شریعت عطا کی.جو ہر لحاظ سے کامل اور خداوند تعالیٰ کی خالص اور لفظی وحی پر مشتمل تھی.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام دنیا کے لوگوں کو تو حید کی طرف بلایا.اور حقیقی تو حید کو دنیا میں پھیلایا.آپ نے توحید الہی کے پھیلانے کے لئے اس قدر پر زور دلائل دیئے کہ چند ہی سالوں میں تمام دنیا پر توحید کا پرچم لہرانے لگا.چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اقوام بھی توحید کی دعویدار ہیں جن کی کتب مقدسہ انسانی دستبرد کے نتیجے میں شرک کا سر چشمہ بن چکی ہیں.اس روشنی کے زمانے میں نصاری کے سوا کوئی قوم ایسی نظر نہیں آتی جو اپنے نبی کو خدائی کے تخت پر بٹھاتی ہو.کیونکہ آج عقل انسانی ترقی کے اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ کسی بھی طرح شرک کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.عیسائی اقوام اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ جس زبان سے مسیح کو خدا کہتے ہیں اسی زبان سے توحید کا اقرار کرتے ہیں.لیکن جب اس پر گرفت کی جاتی ہے.تو عوام کو یہ کہہ کر دھوکہ دیتے ہیں کہ یہ فلسفہ انسانی ذہن میں سانہیں سکتا.باطل کے اس غلبے کو توڑنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک عظیم الشان روحانی فرزند کا وعدہ فرمایا تھا.جو قادیان میں ظاہر ہوا آپکا نام حضرت مرزا

Page 7

5 غلام احمد قادیانی علیہ السلام تھا.آپ نے حق و باطل کے درمیان آخری معرکے میں حق کی فوجوں کی کمان فرمائی.اور دنیا میں صدق وصفا اور دوستی کا بیج بویا.اب وہ بیج بڑھے گا پچھلے گا پھولے گا اور اس کی شاخیں تمام دنیا پر محیط ہو جائیں گی.اور حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے گا اور باطل اپنی تمام نحوستون کے ساتھ بھاگ جائے گا.آپ نے اس مقصد کے لئے متعدد دیگر کتب کے علاوہ معرکۃ الآراء کتاب «مسیح ہندوستان میں تصنیف فرمائی.اور ہر قسم کے تاریخی، طبی، عقلی اور نقلی دلائل سے میسیج ناصرتی کا صلیب سے زندہ بچکر مصر نصیبین، افغانستان اور پنجاب سے ہوتے ہوئے کھوئی ہوئی بھیٹروں کی تلاش میں کشمیر آنا ثابت فرمایا.جہاں آپ کو اللہ تعالیٰ نے طبعی وفات دی.آپ کی قبر وہاں آج بھی ہے.حضور علیہ السلام نے اس کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی موجود ہے.وو 66 یکسر الصلیب کی وضاحت میں فرمایا.اس پیشگوئی میں یہی اشارہ تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں خدا کے ارادہ سے ایسے اسباب پیدا ہو جائیں گے جن کے ذریعہ صلیبی واقعہ کی اصل حقیقت کھل جائینگی.تب انجام ہوگا.اور اس عقیدہ کی عمر پوری ہو جائے گی.لیکن نہ کسی جنگ اور لڑائی سے بلکہ محض آسمانی اسباب سے جو علمی اور استدلالی رنگ میں دنیا میں ظاہر ہوں گے.“ پس ضروری تھا کہ آسمان ان امور اور ان شہادتوں اور ان قطعی اور یقینی ثبوتوں کو ظاہر نہ کرتا.جب تک مسیح موعود دنیا میں نہ آتا.اور ایسا ہی ہوا.اور اب سے جو وہ موعود ظاہر ہوا.ہر ایک آنکھ کھلے گی.اور غور کرنے والے غور کریں گے.کیونکہ خدا کا مسیح آگیا....اب ہر ایک سعید کو فہم عطا کیا جائیگا.اور ہر ایک سید کو عقل دی جائیگی.کیونکہ جو چیز آسمان میں چمکتی ہے.وہ ضرور زمین کو بھی منور کرتی ہے.مبارک وہ جو اس آسمانی روشنی سے حصہ لیں.“ لے چونکہ صلیب کا کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کرنا تھا.اسلئے اللہ تعالیٰ نے ایسے تمام ثبوت اور دلائل اس وقت کے لئے محفوظ کر چھوڑے تھے.کے مسیح ہندوستانی میں مطبوعہ 1899ء صفحہ 62

Page 8

6 اب ظاہر ہے کہ صحائف قمران میں پائے جانے والے ثبوتوں کو محفوظ کرنے کا یہی ایک ذریعہ ہو سکتا تھا.کہ انہیں انسانی دستبرد سے علیحدہ غاروں میں چھپا دیا جاتا.کیونکہ اگر اس کی بجائے انہیں انسانی ہاتھوں میں رہنے دیا جاتا تو وہ اپنی پرانی عادت کے مطابق ان میں حسب منشاء تصرف کرتے اور اسطرح دلائل کے اس ذخیرے کو ضائع کر دیتے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم الشان معجزہ ہے.کہ اس نے ان صحائف کو محفوظ رکھا اور اگر چہ ان کو لکھنے والے سب مر گئے.اور ان کی ہڈیوں کو بھی زمین نے ہضم کر لیا.مگر معمولی چھڑے اور پے پیرس پر لکھے ہوئے یہ صحائف زندہ رہے.اور نہ صرف صحائف زندہ رہے بلکہ ان کی زبان بھی زندہ رہی.اکثر محققین کو اس معجزے کا اقرار ہے.سی.ایف.پاٹر لکھتے ہیں.Several scholars who have never been accused of harbouring superstitions ideas have stated that it is nothing less than a miracle that so much of the Essene library still exists.(The Last Years of Jesus Revealed P.23) وو ترجمة " بہت سے ایسے علماء نے جن پر کبھی بھی تو ہم پرستی کا الزام نہیں لگایا گیا یہ بیانات دئے ہیں کہ ایسینی لائبریری کے اکثر حصے کا ابتک محفوظ رہنا کسی طرح بھی معجزے سے کم نہیں.“

Page 9

7 انکشاف جس سال پاکستان کی عظیم الشان اسلامی مملکت دنیا کے نقشہ پر ابھری اس سال موسم بہار میں بحیرہ مردار کے مغربی ساحل پر وادی قمران کی غاروں سے نہائیت قیمتی صحائف دریافت ہوئے ان صحائف کو دیکھتے ہی محققین پکار اٹھے کہ یہ ہمارے زمانے کی سب سے بڑی دریافت ہے.کہانی یوں بتائی جاتی ہے کہ ایریل ۱۹۴۷ء میں تعمیر " قبیلے کا ایک بدو نوجوان جس کا نام محمد الذئب تھا بحیرہ مردار کے ساحل پر واقعہ پہاڑیوں میں اپنی بکریاں چرار ہا تھا.اسکی ایک بکری کھو گئی.وہ اس کی تلاش میں تھا کہ اسے ایک بہت بڑی غار دکھائی دی.اس نے غار کے اندر پتھر پھینکا تو اس کے لگنے سے کسی برتن کے ٹوٹنے کی آواز آئی.لڑکا ڈر کر بھاگ گیا.اگلے روز وہ اپنے ساتھی کے ساتھ پھر غار پر پہنچا.غار کا دہانا بہت تنگ تھا.وہ دونوں مشکل سے اس میں داخل ہو گئے.اندر جاکر انہوں نے دیکھا کہ بہت سارے مرتبان قطاروں میں پڑے ہیں.اور بہت سارے ٹوٹے ہوئے ہیں.جذبات کی شدت نے ان کے ذہنوں میں بہیجان پیدا کر دیا ایسے لگتا تھا جیسے کسی بادشاہ کا خزانہ لوٹنے کا خواب دیکھ رہے ہوں دھڑکتے دلوں اور کانپتے ہاتھوں سے انہوں نے بجلی کی تیزی سے باری باری تمام مرتبانوں کے ڈھکنے اٹھائے لیکن اکثر مرتبان کو بالکل خالی اور چند ایک میں چمڑے کے ردی اور نہائیت خستہ طومار دیکھ کر ان کے سارے خزانے خاک میں مل گئے.اور امید کی کرن جو مرتبانوں کو دیکھ کر ان کے دل پر پڑی تھی وہ نفرت و یاس کی تاریکی میں بدل گئی.اور برتنوں ے پاکستان 1947 ء کو معرض وجود میں آیا.عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ صحائف اسی سیال دریافت ہوئے.بعضی محققین نے یہ روائت بھی درج کی ہے کہ صحائف کی دریافت 2 سال قبل 1945 ء میں ہوئی اور بدوؤں نے 2 سال تک صحائف کو چھپائے رکھا.

Page 10

8 بد سے نکلنے والی ہد ہونے انہیں جلدی باہر نکلنے پر مجبور کر دیا.چنانچہ وہ کچھ طوماروں کا بوجھ اٹھائے مایوسی کے پیکر نہائیت درجہ بوجھل دلوں کے ساتھ واپس لوٹ آئے.انہیں کیا معلوم تھا کہ دو ہزار سال تک گہری تاریکی میں رہنے والے یہ صحائف ایک جہان کو اپنے نور سے منور کریں گے.اور لعل و جواہر سے زیادہ قیمت پائیں گے.دریائے اردن کے آخری دس میل جس کے بعد وہ بحر مردار میں جا گرتا ہے.اور اسکے ارد گرد کا علاقہ بہت سے قدرتی مناظر اور تاریخی یاد میں سمیٹے ہوئے ہے.یہ جگہ سطح سمندر سے ۱۲۹۲ فٹ گہری ہے.بحیرہ مردار کے شمالی کنارے پر سیاحوں کا استقبال کرنے والا واحد ہوٹل ہے.اس کے قریب ہی یہ لکھا ہوا ہے.زمین کی سب سے نیچی جگہ عمان سے یروشلم جانے والی سڑک کے پل سے چند میل شمال مغرب میں بریجو کا قدیم تاریخی شہر ہے.جو حالیہ کھدائی کے نتیجے میں دنیا کا قدیم ترین شہر خیال کیا جاتا ہے.اس سے ذرا اوپر وہ جگہ ہے جہاں حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں بنی اسرائیل موعودہ سرزمین کی طرف قدم بڑھا رہے تھے.اس علاقے نے سب سے پہلے حضرت سکی علیہ السلام (یوحنا پتسمہ دینے والے) کی صدائے صحراء کی گونج سنی اور یہ وہ جگہ ہے جس نے مسیحا کے قدم چومے.اس جگہ دریائے اردن کے کنارے آپ نے حضرت کی علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت تو بہ کی.اسی جگہ حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے آسمان کھل گیا.اور آپ نے خدا کا روح کبوتر کی مانند اتر تے اور اپنے اوپر آتے دیکھا.اور یہی وہ جگہ ہے جہاں آپ نے روح القدس کی آسمانی آواز سنی یہ پیارا بیٹا ہے جس نے آج جنم لیا لے پر بچھو کے قریب بھی ویرانے میں آزمائش کا پہاڑ ہے جہاں روح القدس حضرت مسیح علیہ السلام کو شیطان سے آزمائش کیلئے لے گیا.اور چالیس دن تک آپ نے وہاں چلہ کشی کی ہے اس کے مشرق میں موآب کا سلسلہ کوہ زیتون پر بنے ہوئے یادگاری کلیسیائے صعود متی 3/16 متی باب 4

Page 11

9 یح کا گنبد نظر آنے لگتا ہے.یہاں سے جنوب کی طرف بکھیرہ مردار کا بھاری اور کڑوا پانی ہے.جسم انسانی اس میں غرق ہونے کے بعد وہیں اٹک جاتا ہے.اگر چہ یہ بھیرہ لہریں نہ ہونے کے باعث بالکل خاموش ہے.تاہم مختلف رنگوں کے ملے جلے مناظر کے علاوہ تاریکی اور نور کا حسین امتزاج شائقین کے سامنے پیش کرتا ہے.جب ہلکی ہلکی ہوا چل رہی ہو تو اسکا کڑوا پانی لہروں پر اپنا سر پٹختا ہوا ایک خوشکن ساز پیدا کرتا ہے.سمندر کے مغربی ساحل کے ساتھ ایک میل چلنے کے بعد عین جدی کا علاقہ شروع ہوتا ہے.یہاں حضرت داؤد علیہ السلام شاہ سائل کی فوجوں سے کئی ماہ چھپے رہے.شاہ ساؤل آپ کی تلاش میں تین ہزار مسلح سپاہیوں کو لے کر نکلا.اور آرام کرنے کے لئے اسی غار میں داخل ہو گیا جہاں حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کی تاک میں تھے لے یہاں سے دائیں جانب کچھ فاصلے پر 100 فٹ اونچا چونے کے پتھر کا ٹیلہ ہے.اس کی چوٹی سطح سمندر سے کوئی زیادہ بلند نہیں اس جگہ سلسلہ کوہ سمندر سے ہم آغوش ہونے کے لئے آہستہ آہستہ اس کے قریب آتا جاتا ہے.یہ علاقہ قدرتی غاروں سے اٹا پڑا ہے.ذرا آگے وادی قمران ہے.وادی سے ۴۰۰ فٹ کی بلندی پر خربت ہے.ان کھنڈرات سے چند سو گز آگے وہ معروف غار ہے.جو اس زمانے کی عظیم الشان دریافت کو میں صدیوں سے اپنے پیٹ میں چھپائے ہوئے تھی.یہ غاراب غار نمبر 1 کہلاتی ہے.مشہور کوہ نیوہ انہی پہاڑوں میں ہے.اس پہاڑ پر چڑھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے موعود سرزمین کا نظارہ کیا تھا.اور اسی وادی کے متعلق آپ نے فرمایا تھا.اور ایسے وسیع اور ہولناک بیابان میں تیرار ہبر ہوا جہاں جلانے والے سانپ اور بچھو تھے.اور جہاں کی زمین بغیر پانی کے سوکھی پڑی تھی.۲ بحیرہ مردار کے پانی میں مچھلیاں نہیں ہیں.سطح سمندر سے اس قدر گہرائی میں جا کر استثناء 8/15 1 سموئل 24/2

Page 12

10 یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے خود کو دفن کر دیا ہو.جنوبی سمت میں مسئدا کا ٹیلہ ہے.جس پر ہیرو دیس اعظم نے خطرہ سے محفوظ رہنے کے لئے عالیشان محل بنوایا.اس محل میں رومیوں کے ڈر سے ایک ہزار یہودیوں نے پناہ لی مگر سب کو خود کشی کرنا پڑی.اس جگہ کے مقابل سمندر کے مشرقی ساحل پر ہیرودیس کا دوسرا محل سکائرس تھا جس میں اس نے حضرت یحی علیہ السلام کو قید کیا تھا.اور جہاں ہیرودیس اصغر نے آپ کو شہید کیا.یہ بدو جنہوں نے صحائف دریافت کئے اردن سے چیزیں سمگل کر کے بیت اللحم کے ایک بیوپاری کے ہاں فروخت کیا کرتے تھے.اس بیوپاری کا نام کا نڈ و تھا.انہوں نے اس کو یہ صحائف دکھائے اور ان کی قیمت میں پونڈ طلب کی.مگر بریکار سمجھ کر بیو پاری نے انہیں خریدنے سے انکار کر دیا.تاہم یہ صحائف کئی دن اس کی دوکان میں پڑے رہے.بدوں نے ایک دوسرے بیو پاری کو صحائف خریدنے کو کہا.یہ بیو پاری شامی تھا اس نے خود تو خریدنے سے انکار کیا.مگر سینٹ مرقس کی خانقاہ پر شامی میٹرو پولیٹن کو اس خیال سے اطلاع کر دی کہ شائد صحائف پرانی سریانی زبان میں لکھے ہوں.سینٹ مرقس کی خانقاہ پرانے یروشلم میں داؤد سٹریٹ میں واقع ہے.ایک قدیم روائیت کے مطابق یہ یوحنا کی والدہ مریم کا مکان ہے.جو مرقس کہلاتا ہے.اس مکان کی کھڑکی پطرس رسول نے قید سے معجزانہ رہائی کے بعد کھٹکھٹائی تھی لے جب میٹرو پولیٹن (آرک بشپ ) مارا تھنا سیس سموئیل نے صحائف کو دیکھا تو اس نے ان کی اہمیت کا اندازہ لگاتے ہوئے ان میں بہت دلچسپی لی.اور ذرا سا ٹکڑا تو ڑ کر جلایا تاکہ اس کی بو سے اندازہ لگائے کہ یہ چھڑا ہے یا کوئی اور چیز.اس کا خیال تھا کہ صحائف عبرانی زبان میں ہیں.مگر وہ عبرانی نہ جانتا تھا.بہر حال اس نے بیو پاری کو پیغام بھیجا کہ میں صحائف خریدوں گا.اتنے میں بدو یروشلم سے واپس جاچکے تھے.آرک بشپ انکا ہر روز انتظار کرتا.وہ چاہتا تھا کہ صحائف کو جلدی حاصل کرلے.کئی دنوں کے بعد وہ اسے ملنے کے لئے آئے.وہ اس وقت کھانا کھانے گھر گیا ہوا تھا.ان کے ردی لباس کو دیکھ کر ڈیوٹی پر موجود اعمال 12/12,13

Page 13

11 پادری نے انہیں آوارہ خیال کیا اور واپس لوٹا دیا.البتہ اس نے آرک بشپ کو اطلاع دی کہ اس قسم کے دو آدمی اسے ملنے آئے تھے.اسے بہت افسوس ہوا بڑی مشکل سے اس نے انہیں تلاش کر لیا.اور ایک مشہور روائت کے مطابق پچاس پونڈ میں ان سے پانچ صحائف خرید ، لئے.ایک عرصہ تک اس نے کسی سے اس چیز کا اظہار نہ کیا کیونکہ بدؤوں نے محکمہ اثار قدیمہ کو اس دریافت کی اطلاع نہ کی تھی.اور یہ قانون کی خلاف ورزی تھی.اس دریافت کے چھ ماہ بعد ۲۵ نومبر ۱۹۴۷ء کو ہدو مزید صحائف لیکر بیو پاری کے پاس آئے.اس نے یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے پروفیسر سکینک (Sukenik) کو صحائف کا نمونہ بھجوایا.اسے دیکھ کر ۲۹ نومبر کو سکینگ خود تاجر کو ملنے کے لئے آیا.اور صحائف کا مجموعہ اور دومرتبان خرید لئے.مارا تھنا سیس سموئیل اور کراز (Kiraz) نے صحائف کو فروخت کرنے کی کوشش کی مگر جتنی قیمت وہ چاہتے تھے وہ نہ مل سکی.انہوں نے امریکن سکول آف اوری اینٹل ریسرچ کے ڈاکٹر ٹریور (Trever) سے رابطہ قائم کیا.انہوں نے صحائف خریدنے سے انکار کیا.البتہ وہ ان کے فوٹو لینے اور متن شائع کرنے پر رضا مند ہو گئے.اور سینٹ مرقس مونا سٹری (Monastery) کا مجموعہ صحائف امریکہ لے جایا گیا.اور یہ صحائف امریکہ میں دس لاکھ ڈالر کی قیمت پر فروخت کے لئے پیش کئے گئے اور امریکہ کے مختلف شہروں میں ان کی نمائش کی گئی.ستمبر ۱۹۴۸ء میں یروشلم کے خراب سیاسی حالات کے باوجود پروفیسر سکینک نے صحائف کے بارے میں اپنی پہلی رپورٹ شائع کردی.دوسری رپورٹ آئندہ سال شائع ہوئی.اس کے ساتھ ہی ملر بروز ) Millar Burrows of Yale University America) نے یسعیا والف اور تغییر حقوق کے متن شائع کر دیئے.صحائف کی قدامت کا اندازہ لگایا جا چکا تھا اب ان کے مضامین بھی لوگوں کے سامنے آنے لگے اور ان میں عوام کی دلچسپی بڑھنے لگی بہت سے لوگوں کے

Page 14

12 دل میں غار کو دیکھنے کا شوق پیدا ہوا.یہی شوق ۸ فروری ۱۹۴۹ء کو ہارڈنگ اور ڈی واکس کو وادی قمران میں لے گیا ہے وہ دونوں ایک ہفتہ وہاں گزارنے کے بعد یروشلم واپس آگئے.خار تک پہنچنا کافی مشکل ہے.اب اس کا دہانہ پتھر کاٹ - کرتیں انچ چوڑا کر دیا گیا ہے.اندر سے غار ۲۵ فٹ لمبی اور سات فٹ چوڑی ہے.اس کی زیادہ سے زیادہ بلندی دس فٹ ہے.کچھ عرصہ بعد بدؤوں نے صحائف کے مزید ٹکڑے فروخت کے لئے پیش کئے اور.بتانے سے انکار کر دیا کہ وہ کہاں سے ملے ہیں.چنانچہ بحیرہ مردار کے جنوب مغربی کنارے کی تلاشی لینے کے لئے آثار قدیمہ کے ماہرین کا ایک وفد تیار کیا گیا.یہ وفد جہاں بھی گیا ناکام لوٹا.بدو ان سے پہلے غاروں کو خالی کر جاتے انہوں نے بہت سی غاروں سے حاصل کردہ صحائف فروخت کے لئے مارکیٹ میں پیش کئے.وفد کے ماہرین اور بدؤوں کے درمیان ایک قسم کا مقابلہ شروع ہو گیا.وفد کے آدمیوں نے اپنی ناکامی دیکھ کر بدؤوں کو اپنے ساتھ ملایا اور ان کے تعاون سے کھدائی کا کام بہتر طریق پر جاری کیا.چنانچہ اب بڑی تعداد میں صحائف کے ٹکڑے حاصل ہوئے.بدؤوں کو ذاتی کوششوں سے جو صحائف حاصل ہوئے تھے ان کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرنا چاہتے تھے.اور اس خیال سے صحائف اور ان کے ٹکڑوں کو روک رکھتے تھے.چنانچہ علماء نے ان کی قیمت مقرر کر دی جو ایک پونڈ سٹرلنگ فی مربع سنٹی میٹر تھی.یہ قیمت بہت زیادہ تھی اس لئے بدؤوں نے وفد کے ساتھ تعاون کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے طور پر بھی غاروں کی تلاش کا کام جاری رکھا.اور کئی غاروں سے صحائف نکالنے میں کامیاب ہو گئے.۱۹۴۹ء اور ۱۹۵۱ء میں انہوں نے بہت بڑی تعداد میں صحائف نکالے.حکومت نے بدؤوں کو غیر سرکاری کھدائی سے روکنے کے لئے اس علاقے میں ایک حفاظتی دستہ متعین کر دیا.مگر بدو اپنے کام میں بہت ماہر تھے.انہوں نے ستمبر ۱۹۵۲ء میں بہت.The Riddle of the Scrolls P-21 1

Page 15

13 سے صحائف فروخت کے لئے پیش کئے.یہ صحائف غار نمبر 4 سے حاصل ہوئے تھے.اس غار سے حاصل ہونے والے صحائف اور ٹکڑے باقی تمام غاروں سے زیادہ ہیں.اور ہزاروں کی تعداد میں ہیں.حکومت اور بدؤوں دونوں نے صحائف کی دریافت کا کام جاری رکھا.آثار قدیمہ کے وفد نے غار نمبر 5 اور غار نمبر 6 سے کچھ صحائف نکالے.۱۹۵۳ء میں چارنئی غاریں دریافت ہوئیں ۱۹۵۶ء کے موسم بہار میں بدؤوں نے غار نمبر 11 کو کھولا اور بہت اہم صحائف نکالے.غار نمبر 1 سے حاصل ہونے والے صحائف پر ۱۹۴۹ء میں کاربن ۱۴ کا ٹیسٹ کیا گیا.یہ ٹیسٹ قدیم اشیاء کے زمانے کی تعین کرتا ہے.اس سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ کس وقت کسی جاندار چیز کی زندگی ختم ہوئی.اس طرح اگر چہ مقررہ سال کا پتہ نہیں لگ سکتا تاہم مناسب حدود کے اندر صحیح اندازہ حاصل ہو جاتا ہے.چنانچہ شکاگو یونیورسٹی سے حاصل ہونے والی اطلاعات کے مطابق ان صحائف کا زمانہ ایک سوستاسٹھ (۱۷۷) قبل مسیح سے لے کر ۲۳۳ء قرار دیا گیا ہے.محققین نے صحائف کے اس زمانہ کو صحیح تسلیم کر لیا ہے.ان کا خیال ہے کہ وادی قمران کی غاروں سے ملنے والے صحائف یروشلم کی تباہی (۷۰-۶۸ء) کے وقت غاروں میں رکھے گئے.وادی قمران سے سات سو میل جنوب میں مگر کافی بلندی پر وادی مربعات ہے.محققین اس کی متعدد غاروں سے صحائف حاصل ہوئے ہیں یہ صحائف بہت بعد کے ہیں.میں یہ نظریہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ دوسری یہودی بغاوت (۳۵- ۱۳۲ء) کے وقت غاروں میں چھپائے گئے.یہ غاریں بہت وسیع ہیں اور رہائش کے قابل ہیں.بلکہ ان میں انسانی رہائش کے بہت پرانے آثار بھی ملے ہیں.ان غاروں سے بعض کا روباری مخطوط اور اسی قسم کے غیر ادبی ذاتی کاغذات بھی ملے ہیں.ان میں سے بعض پر تاریخ تحریر بھی درج ہے.اس لئے ان تحریرات کے زمانے کی تعین میں کوئی اختلاف پایا نہیں جاتا.

Page 16

14 محققین کو صحائف حاصل کرنے میں بہت نامساعد حالات پیش آتے رہے.سب سے بڑی روک فلسطین کے خطرناک سیاسی حالات تھے.عربوں اور اسرائیلیوں کے درمیان خونریز جنگ ہورہی تھی انگریزی حکومت دونوں طاقتوں کے درمیان مفاہمت کی کوشش کر رہی تھی.اس نے حالات کو قابو میں رکھنے کے لئے کئی عربوں کو تختہ دار پر لٹکایا.اور عربوں نے متعدد انگریز افسروں کو موت کے گھاٹ اتارا.اس وجہ سے صحائف کو یروشلم میں غیر محفوظ سمجھ کر امریکہ بھیج دیا گیا.جہاں ان کی اشاعت ممکن ہوسکی.غاروں سے ملنے والے صحائف قدیم عبرانی اور آرامی زبان میں ہیں ان میں سے بعض کی زبان یونانی اور عبرانی ہے.فونیشی اور بعض نامعلوم حروف میں لکھے ہوئے صحائف بھی قلیل مقدار میں ہیں.ان زبانوں کے ماہرین کی قلت کے باعث صحائف کی اشاعت کو کافی دیر تک التوا میں رکھا گیا.بدوؤں سے صحائف خریدنے کے لئے بڑی بڑی رقموں کی ضرورت تھی جو کوئی بھی انفرادی خریدار ادانہ کر سکتا تھا اس کے لئے اداروں کو بخوشی رقوم وقف کرنا چاہئے تھیں.مگر بڑے بڑے علمی اداروں نے بڑی سرد مہری کا مظاہرہ کیا.اور صحائف کے ماہر ہاتھوں میں پہنچنے کا معاملہ عرصہ تک کھٹائی میں پڑا رہا.خریداروں کی خاموشی کے باعث مارا تھناسیس نے صحائف کی اشاعت کا کام روک دیا.کیونکہ اسکا خیال تھا کہ اس طرح ان کی قیمت گر جائیگی.اس نے جون ۱۹۵۴ء میں نیو یارک میں یہ اشتہار شائع کیا کہ وادی قمران سے حاصل ہونے والے دو ہزار سال پرانے صحائف قابل فروخت ہیں.اس اشتہار کو پڑھ کر اسرائیل کے جنرل باوین نے جو پروفیسرای.ایل سکینک کے بیٹے ہیں نیو یارک کے ایک وکیل کو سودا طے کرنے کو کہا.سیاسی حالات ایسے تھے کہ جنرل یادین کو اپنا نام اختفاء میں رکھنا پڑا.بہر حال نیو یارک کے ایک امیر شخص نے جس کا نام سموئیل کاٹسمین تھا.اس مقصد کے لئے ڈھائی لاکھ کی مطلوبہ رقم مہیا کی.اور جنرل یا دین نے اسرائیلی حکومت کے لئے صحائف خرید لئے.لیکن صحائف کے فلسطین پہنچنے سے پہلے کسی پر اس سودے میں اسرائیل کی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا گیا.حتی کہ ایک سال بعد ۱۳ فروری ۱۹۵۵ء کو اسرائیلی وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ صحائف کو ایک مخصوص

Page 17

15 جائب گھر میں رکھا جائے گا.اور ان کی عام نمائش کی جائینگی.کچھ عرصہ گذرنے پر صحائف کو پڑھنے کے لئے مختلف ممالک کے چھ ماہرین کا ایک وفد تجویز کیا گیا.جو اپنے کام کی رپورٹ با قاعدہ شائع کرتا رہا.چونکہ بعض صحائف بری طرح جڑے ہوئے تھے.ان کو کھولنے کے لئے خاص مہارت کی ضرورت تھی.یہ کام بہت زیادہ محنت طلب تھا.ہر وقت یہ اندیشہ رہتا تھا کہ کہیں ذرہ سی بے احتیاطی سے کسی صحیفے کی عبارت کو نقصان نہ پہنچ جائے.اس لئے ماہر سائنس دانوں کی خدمات حاصل کی گئیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جو بری طرح مروڑے ہوئے تھے.انہیں کھولنے کے لئے کئی مراحل سے گزارنا پڑتا.سب سے پہلے ان کو مختلف مائعات میں رکھ کر نرم کیا جاتا.پھر ان پر جمی ہوئی گرد اور مٹی کو برش سے دور کیا جاتا.اس طرح جب ان کی عبارت واضح ہو جاتی تو ان کو شیشوں میں کس دیا جاتا.اور دھندلی عبارتوں کو واضح کرنے کے لئے حساس کیمروں سے فوٹو لئے جاتے کئی صحائف کی سیاہی کا رنگ بالکل اُڑ چکا تھا.ان کا فوٹو زیریں سرخ (Infra Red) شعاعوں کی مدد سے لیا جاتا.سب سے مشکل کام ڈھیروں ڈھیر پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے ٹکروں کو ترتیب دینا ہے.یہ کام واقعی تھکا دینے والا ہے.ہزاروں ٹکڑے ابھی تک شناخت بھی نہیں کئے جاسکے یہی وجہ ہے کہ صحائف کے بارے میں کسی نظریے کو بھی موجودہ حالات میں حرف آخر قرار نہیں دیا جاسکتا.غاروں سے حاصل ہونے والے صحائف میں بائبل کی تقریباً تمام کتب شامل ہیں بعض مکمل صحائف ہیں اور بعض نا مکمل.اور بعض صحائف کے صرف ٹکڑے ملے ہیں.لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اتنی کثیر تعداد میں صحائف ملنے کے باوجود آستر کی کتاب“ کا کہیں نشان نہیں ملا.کتب بائیبل کے علاوہ غاروں سے حاصل ہونے والے صحائف کی فہرست درج ذیل ہے اگر چہ اس میں زیادہ سے زیادہ صحائف درج کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے تاہم یہ کسی طرح بھی مکمل قرار نہیں دی جا سکتی

Page 18

16 ا تفسیر حقوق ۲ تفسیر پیدائش تفسیر زبور ۴ تفسیر یسعیاه ۵ تفسیر بوسع تفسیر میکاه ۷- تفسیر ناحوم صفنیاہ ۹ - پیدائش (ایا کرفا) ۱۰.دستور العمل ا.صحیفہ دمشق ۱۲.شکرانے کے مناجات صحائف کی فہرست ۱.لاوی بن یعقوب کا عہد نامہ ۱۴.یشوعا کے زبور ۱۵.کاہنوں کے لئے ہیکل کا دستورالعمل ۱۶.یروشلم کا بیان ۱۷.کتاب نوح ۱۸.حنوک کی کتاب ۱۹.بشارات مسیح یا نبی موعود کی پیشگوئیاں ۲۰.کتاب سر میاہ (غیر مقدس)

Page 19

17 ۲۱.مکاشفات جو بلی ۲۲.امثال و برکات ۲۳ محامد ۲۴.طوبت ۲۵.سیراخ ۲۶.نفتالی بن یعقوب کا عہد نامہ ۲۷.مسیح کی آمد کے متعلق تو رات سے اقتباسات ۲۸ کلام میکائل ۲۹.جو بلی ۳۰.کتاب موسیٰ کی تفسیر ۳۱.کتاب الاسرار ۳۲.اقوال موسیٰ ۳۳.جماعت کا دستور العمل ۳۴.کتاب یسعیاہ کے اقتباسات ۳۵.تین ناری زبانیں ۳۶.کاہنوں کے نسب نامے ۳۷.ابنائے نور وظلمت کی جنگ ۸۳ قدیم آرامی تراجم و تشریح (Targum) ۳۹.موسیٰ کا مکاشفہ (Assumption of Moses) ۴۰.زبور ۳۷ کی تفسیر ۴۱.سلیمان کے زبور ۴۲.حکمت سلیمان

Page 20

18 ۴۳.کا پر سکرول ۴۴.ڈیڈا کی (Hagi) ro ۴۵ ۴۶.صحیفہ عبادات ۴۷.بارہ بزرگوں کی شہادت اس فہرست کے بعد بعض صحائف کا تعارف ضروری معلوم ہوتا ہے.تفسیر حبقوق:.یہ صحیفہ اپریل 1947ء میں بد وحمد الذئب نے غار نمبر 1 سے حاصل کیا.اسے میٹرو پولیٹن سموئیل نے خریدا پھر اسے امریکہ لے گیا.وہاں سے جنرل یاوین نے اسے یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے لئے خریدا.یہ صحیفہ مکمل ہے اور سیدھا لپٹا ہوا ہے.اس کا اوپر کا حصہ بالکل محفوظ ہے.مگر نچلہ حصہ غائب ہے.پہلی بار 1950ء میں یہ مذکورہ یونیورسٹی کی سر پرستی میں ملر بروز ، جان سی ٹریور اور ولیم ایچ برونلی کی اجتماعی کوشش سے شائع ہوا.یہ چڑے کی دو تختیوں کو لمبائی کے رخ سی کر بنایا گیا ہے.ہر ایک پر سات کالموں کے حاشیے لگائے گئے ہیں.مگر دوسری کا ساتواں کالم خالی ہے.اور چھٹے کالم میں سے بھی صرف چار سطور لکھی ہوئی ہیں.پہلے کالم میں سے صرف چند الفاظ باقی بچے ہیں.دوسرے کالم کے درمیان میں کافی جگہ خالی ہے.باقی تمام کالم کافی حد تک اچھی حالت میں ہیں.آخری کالم کی چار سطور اور اس سے پہلے کالم کی آخری سطور بعد کا اضافہ ہیں صحیفے میں کئی جگہ بین السطور لکھا ہوا ہے.اس اضافے اور تصحیح کا خط مختلف ہے.بحیثیت مجموعی صحیفے کی لکھائی عمدہ ہے.اس میں ” بیونیم یعنی ”غریبوں کا ذکر موجود ہے.عبرانی زبان کا یہ صحیفہ کتاب حقوق کے پہلے دو ابواب کی تفسیر پر مشتمل ہے.محققین کا کہنا ہے کہ اس میں جو تفسیر بیان ہوئی ہے وہ بالکل آزادانہ ہے.اور مفسر الفاظ سے کھیلتے ہوئے آیات سے ایسا مفہوم اخذ کرتا ہے جو دراصل ان سے نہیں نکلتا.مصنف متن سے ایک آیت درج کرنے کے بعد اس کی تفسیر یہ ہے کہ" کے الفاظ سے اپنی تفسیر شروع کرتا ہے.

Page 21

19 اور اس کتاب کی پیشگوئیوں کو اپنے زمانے پر چسپاں کرتا ہے اور ان کی تفصیلات کو جماعت کے پیش آنے والے روز مرہ کے واقعات پر منطبق کرتا ہے.ان واقعات میں " کتم (Kittim) مکار انسان، بدکار کاھن ابو شالیم کے گھرانے اور خصوصاً ”استاد صادق“ کا ذکر بار بار آتا ہے.ان ناموں سے کیا مراد ہے؟ اور ان کے پیچھے کون کونسی شخصیات پوشیدہ ہیں؟ اس امر پر متفقین میں شدید اختلاف ہے.صرف کم کی تشخیص میں علماء رومیوں پر متفق ہو سکے ہیں.صحیفے کا زمانہ تحریر پہلی صدی عیسوی کا آخری ربع ہے.لے پہلے کا تب نے باب دو آیت 18 تک تغییر کرنے کے بعد صحھنے کوختم کر دیا.مگر دوسرے کا تب نے انگلی دو آیات بھی شامل کر دیں.اس نے ان کی تفسیر اسی نہج پر چلانے کی کوشش کی ہے.محققین ابھی تک یہ معمہ حل نہیں کر پائے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ یہ تو صاف ظاہر ہے کہ پہلے کا تب کی کتاب حبقوق 2/18 پرختم ہو جاتی تھی.مگر دوسرے کاتب کے نسخے میں مزید دو آیات بھی درج تھیں.ان کی تفسیر اس نے اپنی طرف سے شامل کر دی.اس سے بھی زیادہ حیران کن یہ بات ہے کہ اس تفسیر میں کتاب کا موجودہ تیسرا باب بالکل نہیں ملتا.یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ باب جو ایک دعا پر مشتمل ہے کب اور کس کے ہاتھوں بڑھایا گیا؟ ڈین میڈیکو کا خیال ہے کہ یہ دونوں اضافے پہلی صدی عیسوی میں فلسطین میں کئے گئے کے دوسرے کا تب کا نکما خط بتا رہا ہے کہ وہ کسی غیر مہذب دیہاتی علاقے کا رہنے والا تھا.اور فن کتابت سے نا آشنا تھا.اس کے علاوہ تیسرے باب میں واقعہ صلیب کی طرف اشارات ملتے ہیں.اس میں ” بیونیم یعنی غریبوں کا ذکر بھی ہے.جو یروشلم کے عیسائیوں کا خاص نام تھا.یہ اس امر کے لئے زبر دست قرینہ ہے کہ یہ باب واقعہ صلیب کے بعد مسیحی اثر کے تحت بڑھایا گیا.اس میں آپ کو مسیح (ممسوح) کا ذکر بھی ملے گا.بعض آیات درج ذیل ہیں جو خدا تعالی کو مخاطب کر کے لکھی ہیں:.66 The Riddle of the Scrolls P-148 ،

Page 22

20 تو اپنے لوگوں کی نجات کی خاطر نکلا ہاں اپنے ممسوح کی نجات کی خاطر تو نے شریر کے گھر کی چھت گرادی اور اسکی بنیاد بالکل کھود ڈالی سلاہ تو نے اسی کے لٹھ سے اس کے بہادروں کے سر پھوڑے وہ مجھے پراگندہ کرنے کو گرد باد کی طرح آئے وہ غریبوں کو تنہائی میں نگل جانے پر خوش تھے......میری ہڈیاں بوسیدہ ہو گئیں.اور میں کھڑے کھڑے کا پھنے لگا.لیکن میں صبر سے ان کے بُرے دن کا منتظر ہوں.جو ا کٹھے ہو کر ہم پر حملہ کرتے ہیں! یہاں صاف لفظوں میں خدا کے ممسوح یعنی مسیح کو شریر کا ہن اور اُس کے ساتھیوں کے اذیت دینے کا ذکر ہے.واقعہ صلیب کے بعد وہ غریبوں یعنی مسیحیوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں.لیکن مسیح کو خدا تعالی پر پورا یقین ہے وہ اپنی جماعت کی حفاظت اور اپنے دشمن کی ہلاکت کے منتظر ہیں.صحیفہ جنگ: یہ عبرانی صحیفہ 1947ء میں غار نمبر 1 سے ملا تھا.چار مزید نسخوں کے ٹکڑے غار نمبر 4 سے دستیاب ہوئے ہیں اس طرح غار نمبر 1 سے ملنے والے صحیفے کی اڑی ہوئی عبارت پر کرنے میں کافی مدد ملی ہے.غار نمبر 2 سے بھی اسی مضمون پر مشتمل بعض قطعات ملے ہیں.اس صحیفے کے مختلف نسخوں میں اختلافات بہت زیادہ ہیں.سب سے پہلے ملنے والے تینوں صحائف میں سے اس کی حالت بہتر بتائی جاتی ہے.یہ الٹا پھٹا ہوا ملا تھا.صحیفے کی اوپر والی طرف کو کوئی نقصان نہیں پہنچا.یہاں تک کہ سارا حاشیہ بدستور قائم ہے.مگر مچھلی طرف کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے.اور تقریبا آدھا صحیفہ ضائع ہو چکا ہے.اس طرف لہریں بن گئی ہیں صحیفے کو باندھنے کے لئے چمڑے کا 14 انچ لمبا فیتہ اس کے اندر لپیٹا ہوا ملا تھا.معلوم ہوتا ہے.کہ جنہوں نے آخری بار اس کا مطالعہ کیا وہ بہت جلدی میں تھے.یا ان کی بے احتیاطی سے ایسا ہوا.صحیفے کا چمڑا بڑا نہیں ہے.اس کی سفیدی مائل نیلی جھلک اسے دوسرے صحائف سے ممتاز کرتی ہے.حقوق 16-3/13 6

Page 23

21 پہلے صحیفے کے دائیں طرف ایک جگہ کچھ سوراخ نظر آتے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوراخ فیتہ باندھنے کی وجہ سے ہیں.مگر یہ جگہ درمیان میں ہونے کی بجائے بالکل نچلی طرف آگئی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر صحیفہ ضائع ہو چکا ہے.اگر اسی قدر حاشیہ نچلی طرف بھی چھوڑا جائے جتنا اوپر ہے تو ہر کالم میں کم از کم 23 سطور ہونی چاہیے تھیں.لیکن اس وقت کسی کالم میں بھی 14 سے زیادہ سطور محفوظ نہیں ہیں.کیونکہ صحیفہ الٹا لپٹا ہوا تھا.اس لئے اس کی ابتدائی عبارت بالکل محفوظ ہے.مگر آخری حصے کو کافی نقصان پہنچا ہے.موجودہ حالت میں یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا کتنا حصہ ضائع ہو چکا ہے.یہ چار تختیوں کے سرے آپس میں سی کر بنایا گیا ہے.صحیفے کے 18 کالم محفوظ ہیں انیسویں کالم میں صرف چند الفاظ بچے ہوئے ہیں.اس صحیفے کی لکھائی بہت خوبصورت ہے.اس میں غلطیاں بہت کم تعداد میں ہیں.اور ان کی اصلاح پہلے کا تب نے ہی کر دی ہے.اس غرض کے لئے بین السطور لکھا ہوا ہے.کالم 11 سطر 4 میں پہلی عبارت کو مٹا کر نئی تحریر درج کی ہوتی ہے.جس میں بائیل کا حوالہ ہے.جیسا کہ صحیفے کے نام سے ظاہر ہے کہ اس میں دو قسم کی طاقتوں کا ذکر ہے.یعنی نیکی کرنے والی اور بدی کرنے والی.پہلی طاقت نور کہلاتی ہے.ابنائے نور اس کی پیروی کرتے ہیں اور اس کو ترقی دیتے ہیں اس کے برعکس دوسری طاقت کو ظلمت کا نام دیا گیا ہے.جواس کی مخالف ہے.اس کے غلام ابنائے ظلمت کہلاتے ہیں.موجودہ صحیفے میں نور اور ظلمت کی کشمکش کا ذکر ہے.ابنائے ظلمت ابنائے نور پر مظالم ڈھاتے اور ان کو ختم کرنا چاہتے ہیں.مگر وقت آنے والا ہے جب ابنائے نور اپنے مخالفین پر آخری اور فیصلہ کن حملہ کریں گے.اس حملے میں نور کا شہزادہ ابنائے نور کا سپہ سالار ہوگا.اس کی مدد کے لئے اللہ تعالیٰ "روح حق" کو بھیجے گا.اس حملے میں ابنائے ظلمت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا جائے گا.صحیفے میں جنگ کا نقشہ پر ہیبت الفاظ میں کھینچا گیا ہے.ابنائے نور کی افواج کو مختلف

Page 24

22 گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے.ابنائے نور کی افواج کے دستے جس ترتیب سے مارچ کریں گے وہ جو بھی آلات حرب اور جنگی لباس استعمال کریں گے اور جس قسم کے بگل جن سروں میں بجائے جائیں گے ان سب چیزوں کا بیان صحیفے میں بالکل سپاہیانہ انداز میں کیا گیا ہے.اس میں جنگ کی تیاری اور آرمجرن کے مقام پر مڈھ بھیڑ کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہے.یہ بات قابل ذکر ہے کہ ابنائے نور کی کامیابی کو محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور فرشتوں کی تائید کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے.پیدائش (اپاکرفا):.یہ آرامی صحیفہ میٹرو پولیٹن سموئیل کے مجموعے میں شامل تھا.1954ء میں جنرل یا وین نے اسے عبرانی یونیورسٹی کی خاطر خریدا.یہ سیدھا لپٹا ہوا تھا.یہ بہت خراب حالت میں ملا ہے.غار میں رکھنے سے پہلے اس پر مرمت کے آثار ہیں میڈیکو کا خیال ہے.کہ اس کے آخری کالم غار میں رکھنے سے قبل چاقو سے کاٹ لئے تھے.کسی مائع کے کیمیائی عمل سے اس کی نچلی جانب بالکل کھائی جاچکی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ غار کے اندر ایسے حالات میں پڑا رہا جن کا صحیح علم کیمیائی تجزیہ کے بعد ہی ہو سکے گا.کشش شعری کے نتیجے میں یہ نا معلوم مائع صحیفے کی اوپر کی جانب بھی سرائیت کر گئی ہے.اور اس طرف کی سیاہی بھی پھیکی پڑ گئی ہے.اور اکثر مقامات سے پھیل گئی ہے.بعض جگہ سیاہی اور نامعلوم مائع کے اجتماعی عمل سے چمڑہ بھی کھایا گیا ہے.اور سطور کی جگہ جھریاں سی پڑ گئی ہیں.ضرور زمانہ کے اثر سے اور دریافت کے بعد غیر محتاط ہاتھوں سے گذرنے کے باعث اسکا ابتدائی حصہ ضائع ہو چکا ہے.اب یہ معلوم کرنا ممکن نہیں کہ کتنا حصہ ضائع ہو چکا ہے.اس کے کالم 10 تا 15 پر کسی سفید مادے کی ایک دبیز تہہ جمی ہوئی تھی.بعض جگہ یہ بُری طرح چمڑے سے جڑی ہوئی تھی.اور بڑی مہارت سے دور کرنا پڑی.اس مادے کا کیمیائی تجزیہ کیا جا چکا ہے.مگر آخری تین کالم بالکل محفوظ ہیں مگر آخری حصہ کٹ جانے سے عبارت فقرے کے درمیان میں ہی ختم ہو جاتی ہے.یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ کتنے کالم کاٹے گئے.بائیں جانب عبارت کے اوپر چمڑے کا ایک ٹکڑا نہ جانے کیوں چمٹا ہوا ہے.اس صحیفے کے بعض دوسرے نسخوں کے ٹکڑے

Page 25

23 بھی ملے ہیں.ان کو پھٹی ہوئی جگہوں میں رکھنے سے صحیفے کی اشاعت میں مدد ملنے کا امکان ہے.تاحال اس کی مکمل اشاعت نہیں ہوسکتی.جب میٹرو پولیٹین اپنے صحائف کو امریکہ لے گیا تو وہاں ان کو کھولا گیا.باقی صحائف کو کھولنے میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی مگر یہ صحیفہ بالکل ٹھوس شکل اختیار کر چکا تھا.جب اس کو کھولنے کی تمام تر سعی اکارت گئی تو اس کو کاٹنے کی تجویز کی گئی.میٹرو پولیٹن نے جب دیکھا کہ اس کو کھولنے کی کوشش میں صحیفے کو نقصان کا احتمال ہے.جو اس کی قیمت پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے.تو اس نے اس کو کھولنے سے ماہرین کو منع کر دیا.چنانچہ جنرل یاوین نے اس مجموعے کے ہمراہ یہ گمنام صحیفہ بھی خریدا.عبرانی یونیورسٹی میں پروفیسر بیر کراٹ نے اس کو کاٹ کر الگ الگ تختیاں حاصل کر لیں.انہوں نے اس کا کالم 2 اور کالم 19 تا 22 کے فوٹو لئے.انکا عبرانی اور انگریزی ترجمہ شائع کیا اس اشاعت میں باقی کالموں کے مضامین کا خلاصہ بھی شامل تھا.اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صحیفہ کافی دلچسپ ہے.1948ء میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ یہ لمک کی کتاب کا آرامی نسخہ ہے.مگر اب معلوم ہوا ہے کہ اس میں پیدائش کی کتاب کے بعض حصوں کا خلاصہ ہے.ہر حصے میں ایک بزرگ اپنے حالات کہانی کے رنگ میں بیان کرتا ہے.اس کا طرز بیان جو بلی اور حنوک کی کتب سے ملتا ہے.اس کے دوسرے کالم میں نمک بیان کرتا ہے کہ کس طرح اسے اپنی بیوی پر شبہ ہوا اور کس طرح اس کی بیوی نے اپنی وفاداری کے ثبوت میں قسم کھائی.کالم 19 میں حضرت ابراہم علیہ السلام اپنی وہ خواب بیان کرتے ہیں جو انہوں نے مصر پہنچ کر دیکھی تھی.پھر وہ اس کی تعبیر اپنی بیوی سارہ کو بتاتے ہیں کہ فرعون اس کو چھین لے گا.لیکن وہ آپ کی جان بچانے کا ذریعہ بنے گی.اس کے بعد وہ بتاتی ہیں کہ پانچ سال آپ کے مصر میں رہنے کے بعد وہاں کے شہزادے آپ کے پاس آئے.اور ایک شہزادہ سارہ کی خوبصورتی پر فریفتہ ہو گیا.یہاں سارہ کی خوبصورتی کا عجیب و غریب الفاظ میں بیان ہے.اس کے بعد کالم 20 کی سطور 12 تا 21 میں حضرت ابراہم علیہ السلام فرعون مصر کے خلاف اپنی دعا اور اس کی قبولیت

Page 26

24 کا ذکر کرتے ہیں.ان سطور کا ترجمہ بطور نمونہ درج ذیل ہے.وو وہ رات میں نے دعا میں گزاری.خداوند سے منت کی اور عاجزانہ دعا کی میں نے غم زدہ ہو کر بہتے آنسوؤں کے ساتھ عرض کی مبارک ہے تو جوسب سے اعلیٰ خدا ہے.اور تمام جہانوں کا مالک ہے.کیونکہ تو سب کا آقا اور حاکم ہے.تو زمین کے تمام بادشاہوں کا بادشاہ ہے.تو اپنا فیصلہ سب پر نافذ کرتا ہے.میں تیرے حضور شاہ مصر فرعون ” ذوان“ کے بارے میں دعا کرتا ہوں کیونکہ میری بیوی زبر دستی مجھ سے چھین لی گئی ہے.میری خاطر اپنا عذاب اس پر نازل فرما.تا میں تیرا دایاں ہاتھ اس پر اور اس کے گھرانے پر پڑتا دیکھوں.آج رات اس سے تمام طاقت چھین لے کہ وہ میری بیوی کو ناپاک نہ کر سکے.اے آقا! تا وہ تجھے جائیں کہ تو زمین کے سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے.میں اتنا رویا کہ بول نہ سکتا تھا تب اس رات خدا نے طاعونی آندھی چلائی اور فرعون کے علاوہ اسکے گھر کا ہر فرد اس کا شکار ہوا.اور وہ اس کے (سارہ کے ) پاس نہ جاسکا.دو سال وہ اس کے ہاں رہی.پھر طاعون اور بیماری اور بھی زیادہ ہوگئی.اس نے مصر کے تمام اطباء و حکماء کو بلایا.تا اس کا علاج کریں.مگر وہ سب ملکر بھی اسکا علاج نہ کر سکے کہ وہ کھڑا ہو سکے.بیماری کی ہوا انہیں بھی لگتی تھی اور وہ طاعون کا شکار ہوکر بھاگ جاتے تھے.کالم 21 میں حضرت ابراہم علیہ السلام اپنے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام سے علیحدہ ہونے کا ذکر کرتے ہیں.اور پھر اپنا موجودہ سر زمین کا دورہ تفصیل سے بیان کرتے ہیں.یہاں بہت سے تاریخی نام بائیل کے بیان سے مختلف ہیں.جنرل یا دین اور ابن ابو پگڈ کا خیال ہے کہ صحیفہ پہلی صدی قبل مسیح کے آخر میں لکھا گیا.مگر ڈیل میڈیکو اسکی تاریخ تحریر دوسری عیسوی کا نصف بتاتے ہیں.یسعیاہ:.اس کتاب کے دو صحائف ملے ہیں.بڑے صحیفے کو جو 1947 ء میں محمد الذئب

Page 27

25 نے غار نمبر 1 سے حاصل کیا.یسعیاہ الف اور دوسرے صحیفے جو بقدرے چھوٹا ہے.یسعیاہ ب کا نام دیا گیا.دونوں صحائف عبرانی زبان میں ہیں.یسعیاہ الف سیدھا لپیٹا ہوا ملا ہے.یہ کئی جگہ سے کٹا پھٹا ہے.مختلف جگہ اس کی مرمت کی گئی ہے.غار میں رکھنے کے بعد اس کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا بلکہ پہلے ہی کثرت پہلے استعمال کیوجہ سے یہ کافی خراب حالت میں تھا.صحائف کی دریافت کے بعد سب سے یہی صحیفہ شناخت کیا گیا اور اسکو سب سے اہم خیال کیا جانے لگا.یہ صحیفہ چمڑے کی سترو(۱۷) مختلف تختیوں کو سی کر بنایا گیا ہے.جنکی لمبائی 7.34 میٹر یعنی آٹھ (۸) گز سے قدرے زیادہ ہے.صحیفے کے باہر ایک سختی بطور غلاف لگائی گئی تھی.جو غار میں رکھنے سے پہلے ہی کاٹ لی گئی.صحیفے کے کل 54 کالم ہیں اس میں کئی جگہ اصلاح کی گئی ہے.آکسفورڈ یو نیورسٹی کے پروفیسر کابل کا خیال ہے کہ یہ اصلاح عہد عتیق کا متن متعین ہو جانے کے بعد کی گئی.اصلاح کیلئے بعض حروف کو مٹایا ہوا ہے.بعض جگہ اضافے ہیں اور کئی الفاظ کو درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے.حاشیے میں مختلف جگہ 18 ربیوں کے دستخط ہیں.مگر یہ پڑھے نہیں جاسکے.اسکے علاوہ حاشیے میں 11 مقامات پر حروف (X) لکھا ہوا ہے.اسے 1950ء میں ملر بروز نے شائع کیا.محققین کا خیال ہے کہ یہ غار میں رکھنے سے قبل تقریباً ڈیڑھ صدی استعمال میں آچکا تھا لہذا یہ نسخہ لازماً عیسائیت سے پہلے کی تحریر نہیں ہے.اس میں یسعیاہ کی مکمل کتاب موجود ہے.اس کا متن مروجہ عبرانی مسورائی متن کے برعکس یونانی سبعینہ کی تائید کرتا ہے.محققین کا کہنا ہے کہ اس کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ اس وقت ہوگا جب بعد کی کٹائی اور اضافے حذف کر کے اصل عبارت سامنے آئے گی.صحائف کی دریافت سے پہلے یہ بحث چلی آرہی تھی کہ یسعیاہ نام کے دو نبی گزرے ہیں ایک طبقے کا خیال تھا کہ کتاب کے باب 40 سے لیکر جہاں سے پیشنگوئی شروع ہوتی ہے.دوسرے یسعیاہ کی تصنیف ہے.چنانچہ اس صحیفے کی اشاعت پر محققین کو شوق پیدا ہوا کہ

Page 28

26 اس مقام پر کوئی نشان پیدا کریں تا کہ اس پرانے نظریے کی تائید یا تردید ہو سکے.مگر اب تک کوئی ایسا نشان نہ ملا.البتہ باب 33 اور باب 34 کے درمیان تین سطور کی جگہ خالی تھی.اس سے یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ ایسینی فرقہ کے نزدیک دوسرے یسعیاہ کی کتاب باب 34 سے شروع ہوتی تھی.اس سے ایک دوسرے نظریے کی تائید ہوتی ہے.جو صحائف کی دریافت يسعياه سے قبل اسطرف گیا تھا کہ دوسرے یسعیا کی کتاب باب 34 سے شروع ہوتی ہے.یسعیاہ ب کے صحیفے کو نقصان پہنچا ہے.غار میں رکھنے سے قبل یہ اچھی حالت میں تھا.اس کی کسی جگہ سے مرمت نہیں کی گئی.اس کی تہیں آپس میں سختی سے جڑی ہوئی ہیں.میڈیکو کا خیال ہے کہ غار میں رکھنے سے پہلے اس کو گیلا ہونے کی حالت میں مروڑا گیا تھا یہی وجہ ہے کہ اس کو کھولنے کے لئے ماہرین فن کی خدمات حاصل کرنا پڑیں.اس کی تحریر کا رنگ اڑ چکا ہے.آخر سے صرف چند کالم حاصل ہو سکے ہیں.ان کو زیریں سرخ تصاویر کی مدد سے پڑھا گیا ہے.اس کا فن رہیوں کے فن سے مکمل اتفاق کرتا ہے.اس میں معمولی اصلاح کی گئی ہے.اس کی تحریر صاف اور خوبصورت ہے.محققین کا خیال ہے کہ یہ دوسری صدی عیسوی میں کسی وقت لکھا گیا.یہ اس وقت یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کی تحویل میں ہے.ان صحائف کی اہمیت اس امر سے واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے پیش نظر شاہ جیمز کے ترجمے کے نئے ایڈیشن میں پندرہ (۱۵) مقامات پر تبدیلیاں کر دی گئی ہیں.یہ ترجمہ ستمبر 1952ء میں شائع ہوائیے دستور العمل : یہ صحیفہ 1947ء میں غار نمبر 1 سے محمد الذئب چرواہے نے حاصل کیا اس کے بہت سے ٹکڑے غار نمبر 4 میں سے بھی ملے ہیں.ان کی تحریروں سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اخوت ایسین کے پاس اس کے کم از کم گیارہ نسخے موجود تھے.ان میں سے دو پے پیرس (Papyrus) کے اور باقی چمڑے کے تھے.دو نسخوں کا متن باقی نو کی نسبت بہت مختصر ہے.غالباً وہ اس کا ابتدائی متن ہے.جو زیر بحث صحیفے کے پانچویں کالم میں شامل ہے.مختلف نسخوں کے متون میں متعدد اختلافات ہیں The lost year of Jesus Revealed 1

Page 29

27 یه میفہ سیدھا لیٹا ہوا ہے.اس کی اوپر کی جانب معمولی نقصان پہنچا ہے.مگر مچلی جانب نقصان نسبتاً زیادہ ہوا ہے.اور یہ کنارہ لہروں کی صورت اختیار کر چکا ہے.صحیفہ چڑے کی چار تختیوں پر مشتمل ہے پہلی اور تیسری دونوں پر تین تین کالم ہیں.لیکن دوسری پر چار اور چوتھی پر صرف ایک کالم ہے.یہ تین مختلف ہاتھوں کا لکھا ہوا ہے.سب کا خط اچھا ہے.مگر ان میں سے کوئی بھی خوشنویس نہ تھا.صحیفے کی کئی جگہ اصلاح کی گئی ہے.یہ اصلاح کہیں بین السطور لکھ کر کہیں اصل عبارت کو مٹا کر اور کہیں پہلی عبارت کے اوپر نئے الفاظ لکھ کر کی گئی ہے.کالم ایک تا پانچ کی چوڑائی غیر مساوی ہے.ہر کالم میں 26 سطور ہیں.مگر کالم 4تا9 میں ہر ایک کی 27 سطور میں سطروں کا درمیانی فاصلہ بھی برابر نہیں.بلکہ بعض سطور خالی پڑی ہیں.دو تہائی حصہ لکھا ہوا ہے.مگر یہ بہت تنگ لکھا گیا ہے.یہاں تک کہ اس کے دو تہائی حصے میں 22 سطور آگئی ہیں.صرف کالموں کے حاشیے لگائے ہوئے ہیں.سطور کے لئے لکیریں نہیں لگائی گئیں.صحیفے پر کئی جگہ ربیوں کے دستخط ہیں.مگر یہ پڑھے نہیں جا سکتے.وو اس کا زمانہ تحریر 90 ء تا 110 عیسوی بتایا جاتا ہے.اور یہ 115ء میں غار میں رکھا گیا لے صحیفہ دمشق: یہ دستاویز صحائف قمران کی دریافت سے بہت پہلے انیسویں صدی کے آخر میں ، قاہرہ سے ملی تھی.قاہرہ سے ملنے والے دو نسخوں میں سے ایک کو ”الف“ اور دوسرے کو ب سے ظاہر کیا جاتا ہے.صحائف قمران کی دریافت پر اس دستاویز کے ٹکڑے وادی قمران کی غار نمبر 4-5 اور 6 سے بھی حاصل ہوئے.ان قطعات کی مختلف تحریریں بتاتی ہیں کہ اس صحفے کے کم از کم سات نسخے جماعت ایسین میں مستعمل تھے.ان میں سے ایک نسخہ ہے پیرس کا تھا.اور باقی چمڑے کے.کہوف قمران سے حاصل ہونے والے نسخوں کا متن صحیفہ الف سے ملتا ہے.مگر قمرانی نسخوں کے شروع اور آخر میں بہت سی زائد عبارات شامل ہیں.صحیفہ الف آٹھ تختیوں پر مشتمل ہے جو دونوں طرف سے لکھی ہوئی ہیں.یعنی اس کے The Riddle of the Scrolls P-127 L

Page 30

28 14 صفحات ہیں.شروع کے آٹھ صفحات کا خط مختلف ہے.ان میں سے ہر ایک کی 23 سطور ہیں.باقی چاروں صفحات کی نچلی سطور غائب ہیں.صحیفہ ب ایک ہی لمبی سختی کے دونوں طرف لکھا ہوا ہے.اسکے شروع میں صحیفہ الف کے صفحات 7 اور 8 کی عبارت بہت ردو بدل کے ساتھ درج ہے.محققین کا خیال ہے کہ یہ دونوں نسخے دسویں یا بارہویں صدی عیسوی کی تحریر ہیں.ان نسخوں کی وجہ سے محققین کا خیال ہے کہ جماعت ایسین کا ایک حصہ دمشق کی طرف ہجرت کر گیا تھا.شکرانے کے مناجات:.یہ صحیفہ 1947 ء میں غار نمبر 1 سے دستیاب ہوا یہ دو بنڈلوں کی صورت میں تھا.کچھ قطعات ایک بنڈل میں گول کئے ہوئے تھے.باقی قطعات بری طرح پھٹے ہوئے تھے.یہ ایک تختی میں علیحدہ لیٹے ہوئے تھے.یہ بڑی تختی صحیفے کے درمیانی حصہ سے تعلق رکھتی ہے.پہلے بنڈل کو کھولنے سے تین تختیاں حاصل ہوئیں.باہر والی میں چار کالم ہیں.اس سے اندرونی سختی کے دو ٹکڑے ہیں.اس پر بھی چار کالم ہیں.اندرونی سختی پر بھی چار کالم ہیں.مگر آخری ڈیڑھ کالم کا خط مختلف ہے.تختیوں کو سینے کے لئے سوراخ نکالے ہوئے ہیں.دوسرے بنڈل کی باہر والی تختی پر پہلے خط میں تین کالم لکھے ہوئے ہیں.درجن بھر چھوٹے چھوٹے قطعات کو ترتیب دینے سے دومزید کالم حاصل ہوئے ہیں.یہ دوسرے خط میں ہیں.66 ٹکڑے ان کے علاوہ اس بنڈل سے ملے ہیں یہ اس قدر چھوٹے ہیں کہ بعض پر چند الفاظ اور بعض پر چند حروف ملتے ہیں.محققین کا کہنا ہے کہ یہ سب تختیاں اور قطعات ایک ہی صحیفے کے پھٹ جانے سے بن گئے ہیں.اس صحیفے کا خط خراب ہے.اور دوسرے ہاتھ کی لکھائی بہت خراب ہے.چونکہ صحیفہ مختلف زبوروں پر مشتمل ہے اس لئے مضامین کی بنیاد پر اس کی تختیوں اور ٹکڑوں کو ترتیب دینا انتہائی مشکل ہے.اکثر زیور ان الفاظ سے شروع ہوتے ہیں: " میں تیرا شکر کرتا ہوں، میرے آقا! اس وجہ سے اس صحیفے کو " شکرانے“ کے زبور کہا جاتا ہے.محققین کی ایک جماعت اسبات کو تسلیم کرتی ہے کہ یہ زبور ایسینی آقا، استاد صادق کا وو

Page 31

29 منظوم کلام ہیں.ان کا مطالعہ کرنے سے انسان محسوس کرتا ہے کہ ایک اولوالعزم نبی کے خطابات ہیں.یہ عارفانہ کلام انسان کے دل کو معرفت اور یقین کے نور سے روشن کرتا ہے.فرستاده خدا بار بار خدائی نعماء کا ذکر کر کے اس کا شکر ادا کرتا ہے.وہ اپنے مخالفین کی ایذارسانی کا درد انگیز الفاظ میں ذکر کرتا ہے.اور بتاتا ہے کہ وہ اس کو اسفل السافلین میں گرانا چاہتے ہیں.لیکن وہ اس یقین سے معمور ہے کہ خدا تعالیٰ اس کو ان کے ناپاک عزائم سے محفوظ رکھے گا.اور ان کو ہلاک کر کے چھوڑے گا.ان زبوروں میں یہ مامور من اللہ دشمنوں کے ایک ایسے حملے کا ذکر بھی کرتا ہے جس میں اس کی زندگی بالکل ختم ہونے کے قریب پہنچ گئی.لیکن اللہ تعالی نے اپنی خاص تائید سے اس کی جان بچائی اور اس کی صحت کو نئے سرے سے بحال فرمایا اور اس واقعہ کے بعد مامورِ خدا دور دراز علاقے میں اپنی ہجرت کا ذکر کرتا ہے.جہاں بلند و بالا درخت اور پانی کے چشمے ہیں.ان حالات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان زبوروں میں حضرت مسیح علیہ السلام بول رہے ہیں.نمونہ کے لئے دوحوالے درج ذیل ہیں.زبور نمبر 4 میں لکھا ہے:.تو نے اس غریب کی جان بچائی ہے جس کا خون وہ اس غرور کی تشہیر کے لئے کہ وہ تیری عبادت گاہ ہے بہانا چاہتے تھے.انہوں نے مجھے لعنت ملامت کے لئے چنا.لیکن اے خدا تو غریب اور بے آسرا کی مدد کو پہنچا.زور آور کے ہاتھ سے بچانے کے لئے تو نے میری جان کو طاقتور کے پنجہ سے چھڑایا.تو نے مجھے ہمت عطا کی کہ میں ان کے شیطانی مکاید اور رومنوں کے پاس مخبری کے خوف سے تیری عبادت کو ترک کرنے کے گناہ سے بچا رہوں." مجھے میرے وطن سے اس طرح نکال دیا گیا جیسے پرندے کو گھونسلے سے.میرے عزیز واقارب مجھے چھوڑ گئے وہ مجھے ایک ٹوٹا ہوا برتن سمجھتے ہیں.لیکن تو اے خدا شیطان کے صحائف قمران مصنف مکرم شیخ عبدالقادر صاحب صفحہ 109-108

Page 32

30 تمام حربوں کو نا کام کر دے گا.اور تیری ہی باتیں پھیلیں گی.اور تیرے ہی مقاصد ہمیشہ ہمیش مضبوطی سے قائم رہیں گے.عهد نامه لاوی ( بن یعقوب) یہ آرامی صحیفه غار نمبر 1 اور غار نمبر 4 سے ملا ہے اس سے قبل یہ تحریر یونانی زبان میں دنیا کے پاس موجود تھی.اور یہ بارہ بزرگوں کی اناجیل“ نامی کتاب میں شامل تھی.لیکن قمرانی متن اس یونانی متن سے وسیع تر ہے.اس صحیفے کے قطعات قاہرہ سے بھی دستیاب ہوئے ہیں.ان کا متن قمرانی متن سے ملتا جلتا ہے.لاوی کی دعا پر مشتمل ایک ٹکڑے کی عبارت 1955ء میں ملک (Milik) نے شائع کی.یہ دعا "بارہ بزرگوں کی انا جیل میں بھی موجود ہے.اس سے پہلے اس دعا کو بعد کا اضافہ سمجھا جاتا تھا.یشوع کے زبور غار نمبر 4 سے زبوروں کے بعض قطعات ملے ہیں.جن پر یشوع کے زبور“ کا عنوان درج ہے جب ان قطعات کو ترتیب دیا گیا.تو ان زبوروں کے ساتھ بائیبل کا ایک اقتباس بھی حاصل ہوا.اس اقتباس سے حضرت مسیح کی آمد کا استدلال کیا گیا ہے.ڈاکٹر ٹیٹر نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ ایسینی استاد صادق" سے مراد حضرت عیسی علیہ السلام ہیں.ان زبوروں کی شناخت پر ڈاکٹر موصوف نے اس شہادت کو اپنے نظریہ کی صداقت کے زبر دست ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے.ان کا کہنا ہے کہ اب تو استاد صادق کا نام یعنی یشوع بھی غاروں سے مل چکا ہے.لیکن یہاں بھی اکثر محققین اس طرف گئے ہیں کہ یشوع سے مراد یوشع بن نون ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہلے جانشین تھے.لیکن یہ خیال بالبداہت غلط ہے.کاہنوں کے لئے ہیکل کا دستور العمل (Mish moroth):.اس صحیفے کے قطعات وسیع تعداد میں غار نمبر 4 سے ملے ہیں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس تحریر کے کئی نسخے اس لائبریری میں موجود تھے.اس صحیفے میں ہیکل میں عبادت کے طریق اور کا ہن خاندانوں کی باری کے متعلق ہدایات درج ہیں ہر سال، ہر ہفتے اور خاص تہواروں کے لئے خصوصی قوانین کا صحائف قمران مصنف مکرم شیخ عبدالقادر صاحب صفحہ 109-108

Page 33

31 ذکر کیا گیا ہے.اس قسم کا ایک اور نسخہ بھی ملا ہے.جس میں کا بہن خاندان کی فہرست ہے.اس میں سبت کے ایام اور مہینوں کے آغاز پر انکی باری کا اندراج ہے اسمیں بعض جگہ مہینوں کے بابلی نام بھی ملتے ہیں اور چند ایک اہم تاریخی حوالے بھی مرقوم ہیں.یروشلم کا بیان:.اس صحیفہ کے قطعات غار نمبر 1,2,4,5 سے ملے ہیں.یہ آرامی زبان میں ہے.اور مستقبل میں یروشلم اور ہیکل کی حالت کا ذکر کرتا ہے.ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ تمام قطعات ایک ہی ہیں یا اہل قمران کے ہاں اس کے زیادہ نسخے تھے.کتاب نوح:.یہ عبرانی صحیفہ غار نمبر 1 سے ملا ہے.اس کے مضامین سے محسوس ہوتا ہے کہ ”حنوک کی کتاب“ اس سے ماخوذ ہے.اس کتاب سے ملتا جلتا ایک آرامی صحیفہ غار نمبر 6 سے بھی ملا ہے.حنوک کی کتاب :.یہودی تاریخ میں بہت سی ایسی کتب سے واسطہ پڑتا ہے.جو کسی غیر معروف مصنف نے لکھیں لیکن ان کو بلند مقام دینے کے لئے کسی بزرگ یا نبی کی طرف منسوب کر دیں ایسی کتب کو (Pseude pigrapha) کا نام دیا جاتا ہے.حنوک اسی گروہ میں شامل ہے.صحائف کی دریافت سے قبل اس کے نسخے ایتھوپی زبان میں موجود تھے اس کا کچھ حصہ یونانی میں تھا.اس کتاب کے بہت سے قطعات غار نمبر 4 سے ملے ہیں.محققین کا خیال ہے کہ اس کے کم از کم دس نسخے اخوت ایسین کی لائبریری میں موجود تھے.غار نمبر 4 کے علاوہ غار نمبر 6 سے بھی اس کتاب کے متعلق لٹریچر ملا ہے.غاروں سے ملنے والے قطعات اور متعلقہ لٹریچر سب آرامی زبان میں ہیں.غار نمبر 4 سے اس کتاب سے ملتا جلتا ایک عبرانی صحیفہ بھی ملا ہے.یہ صحیفہ مکاشفات پر مشتمل ہے.بائیبل کے صحیفے سینائی(Codex Sinaiticus) میں حنوک کو مقدس قرار دیا گیا ہے اور یہ کتاب مقدس میں شامل ہے.لیکن چوتھی صدی عیسوی میں جبکہ عیسائیت میں روح القدس، کفارہ اور کنواری مریم کے عقائد شامل کئے گئے تو اس کتاب کو جو حضرت مسیح علیہ السلام اور پولوس کا جز وزندگی بن چکی تھی، کتاب مقدس سے خارج کر دیا گیا اور ساتھ ہی اس کے تمام نسخے تلف کر دئے

Page 34

32 گئے.یہ اس لئے ضروری تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی اکثر تعلیمات اس سے ماخوذ ہیں.خصوصاً پہاڑی وعظ اور وہ اخلاقیات جو انجیل کا شاہ کار قرار دی جاتی ہیں.لفظ بلفظ اس کتاب میں موجود ہیں.بشارات مسیح یا نبی موعود کی پیشگوئیاں :.یہ صحیفہ غار نمبر 4 سے ملا ہے.اسکی زبان عبرانی ہے اسمیں بائیل کے وہ حصے درج ہیں.جن میں نبی موعود اور مسیح علیہ السلام کے متعلق پیشگوئیاں ہیں.موجودہ محققین ان تمام پیش خبریوں کو مسیح پر چسپاں کرتے ہیں.اس صحیفے کی آیات ۲ - سموئیل ، زبور یسعیاہ، دانیال اور خروج کی کتب سے ماخوذ ہیں.آیات کی مختصر تفسیر بھی صحیفے میں درج ہے.اس صحیفے کی اشاعت پر استاد صادق اور جماعت قمران کی تعیین میں بڑی مدد ملے گی.امثال و برکات: امثال پر پر مشتمل یہ صحیفہ عبرانی میں ہے.اور غار نمبر 4 سے ملا ہے.اس میں ایسی عبارات ہیں جو حضرت مسیح کے پہاڑی وعظ سے مشابہ ہیں.یہ سب کی سب لفظ مبارک" سے شروع ہوتی ہیں.اس صحیفے میں بد کردار مخالفین کی ایسینیوں کے خلاف شرارتوں کا بھی ذکر ہے.محامد یہ صحیفہ غار نمبر 4 سے ملا ہے.اس کے چھ کالموں میں سے ایک تلف ہو چکا ہے.محققین کا خیال ہے کہ یہ صحیفہ دستور العمل کے ساتھ شامل تھا.لیکن نقل و حمل کے دوران اس سے الگ ہوگیا.اسے 1950ء میں بیت اللحم کے ایک تاجر سے خریدا گیا.اب یہ فلسطین کے عجائب گھر میں ہے.طوبت (Tobit):.صحائف کی دریافت سے قبل اس کے نسخے ، یونانی لاطینی ، سریانی، عبرانی اور ایتھوپی زبانوں میں موجود تھے.یہ کتاب نہائت دلچسپ کہانی پر مشتمل ہے.ایک زمانہ میں یہ کتاب مسیحیوں میں حد درجہ مقبول رہی ہے.اس کے قطعات وادی قمران کے غاروں سے ملے ہیں.قمرانی متن کا پرانے نسخوں سے موازنہ ابھی تک نہیں کیا جاسکا.لے Aninterodution to the Apocrypha by Bruce M.Metzger.L

Page 35

33 سیراخ (Ecclesiasticus): ان اسفار میں شامل ہے جو کتاب مقدس سے خارج کر دیئے گئے ہیں.یہ کتاب اس گروہ میں سب سے اہم اور قابل احترام خیال کی جاتی ہے.اس میں بھی حنوک اور سلیمان کے زبوروں کی طرح مسیح کیلئے چنندہ خدا، ابن آدم اور برگزیدہ کے الفاظ جو عہد جدید میں ملتے ہیں استعمال ہوئے ہیں.اسکے قطعات کہوف قمران کی غار نمبر 4 سے ملے ہیں.عهد نامه نفتالی ( بن یعقوب): یہ عبرانی صحیفہ غار نمبر 4 سے ملا ہے.بارہ بزرگوں کی انا جیل کے مضامین اس صحیفے کے مضامین سے ملتے ہیں.ان انا جیل کا کوئی ٹکڑا غاروں سے نہیں ملا.بعض کا خیال ہے کہ یہ اناجیل اس صحیفے سے ماخوذ ہیں.اقتباسات:.اس صحیفے میں بائیل کی ایسی آیات درج ہیں جو سیخ کی آمد کے لئے بطور ثبوت پیش کی جاسکتی تھیں.یہ غار نمبر 4 سے ملا ہے.اور مندرجہ ذیل آیات پر مشتمل ہے.استثناء آیت / باب 5/28 ، 18/18 ، 33/1168 اور گنتی 24/47715 ان حوالوں کے علاوہ ایک اقتباس یشوعا کے زبوروں میں بھی شائع کیا گیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس صحیفے میں وہ بشارات بھی درج کر دی گئی ہیں جو مسیح نے موعود کی آمد کے لئے بیان کیں کیونکہ یہی اس کا مشن تھا.کہ وہ بنی اسرائیل کو نبی موعود کی آمد کے لئے تیار کرے.کلام میکائیل: یہ آرامی صحیفہ غار نمبر 4 سے ملا ہے.اسکے شروع میں یہ درج ہے: "اس کتاب کے الفاظ جو میکائیل نے فرشتوں کو سنائی“ جوبلی:.یہودی علماء کے نزدیک یہ کتاب (Pseudepigrapha) میں شامل ہے.اس کے قطعات غار نمبر 2،1 اور 4 سے ملے ہیں.یہ قطعات چھ مختلف نسخوں سے تعلق رکھتے ہیں.اسی قسم کی عبارات پر مشتمل دو نسخے غار نمبر 4 سے بھی ملے ہیں.بعض محققین کا کہنا ہے کہ شاید یہ نسخے کتاب جو بلی کی نظر ثانی کر کے تیار کئے گئے ہوں.کتاب موسیٰ کی تفسیر :.اس صحیفے کے ٹکڑے غار نمبر 4 سے ملے ہیں.یہ صحیفہ پے پیرس کا Aninterodution to the Apocrypha P-156

Page 36

34 ہے.کسی پر اسرار طرز تحریر میں لکھا ہوا ہے.کتاب الاسرار : اس کے متعلق صرف اس قدر کہا جاسکتا ہے کہ اس کے دو یا زیادہ نسخے غار نمبر 1 اور 4 سے ملے ہیں.اقوال موسی :.اس میں مختلف تہوار منانے کے لئے ہدایات درج ہیں.یہ صحیفہ غار نمبر 1 سے ملا ہے.جماعت کا دستور : یہ صحیفہ اور صحیفہ محامد دستور العمل کے ساتھ شامل تھے جو غار نمبر 1 سے ملا ہے.جماعت کا دستور صرف دو کالموں پر مشتمل ہے.اس میں ایسینیوں کے خاص قوانین درج ہیں.اقتباسات یسعیاہ: یہ صحیفہ غار نمبر 4 سے ملا ہے.اس میں کتاب یسعیاہ کا انتخاب ہے.مختلف پیروں سے ایک کو (Zanhumine) یعنی سکون کا نام دیا گیا ہے.تین ناری زبانیں:.یہ صحیفہ غار نمبر 1 اور 4 سے ملا ہے.اس میں دینی امور کے متعلق ہدایات درج ہیں.عبارت میں مختلف جگہ آگ کی زبان کی طرف اشارات ہیں.ان اشارات میں خفیہ طریق اختیار کیا گیا ہے.بظاہر ان زبانوں کی تعداد تین معلوم ہوتی ہے.یرمیاہ:.یہ بابل کے ”ایا کرفا“ میں شامل تھے.یہ ایسی کتب ہیں جو شروع میں مقدس قرار دی جاتی تھیں.لیکن بعد میں انہیں غیر مستند قرار دے دیا گیا.اور کتاب مقدس سے خارج کر دیا گیا.زیر بحث صحیفہ غار نمبر 4 سے ملا تھا.اس کے پانچ چھ نسخے ہیں.یہ (Barch) کی کتاب اور یرمیاہ کے خط سے مشابہ تھے.یہ دونوں بھی ” آپا کر فا“ میں شامل ہیں.مکاشفات جو ہلی:.محققین کا خیال ہے کہ یہ کتاب "بارہ بزرگوں کی اناجیل میں سے لاوی کی انجیل" کا ماخذ ہے.

Page 37

35 کھنڈرات اور قبرستان وادی قمران سے ایک میل شمال میں ایک ٹیلے کی چوٹی پر کافی وسیع اور ہموار جگہ ہے.یہاں سے ایک میل پر بحر میت کا خاموش پانی ہے.اس ٹیلے پر قدیم عمارتوں کے کھنڈرات موجود تھے اور خربت قمران کے نام سے مشہور چلے آرہے تھے.یہ جگہ ان غاروں کے بالکل قریب ہے.جہاں سے صحائف دریافت ہوئے ہیں.پہلی صدی کے مشہور مؤرخ پلینی کا بیان ہے کہ اس زمانے میں یہاں ایک یہودی اقلیتی فرقہ آباد تھا.جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ یہ بالکل وہ زمانہ تھا جبکہ صحائف لکھے جارہے تھے.اس فرقہ کو اخوت الیسین" کہتے تھے.چنانچہ اس خیال سے کہ شائد صحائف کو سمجھنے میں کوئی راہنمائی حاصل ہو سکے.محققین نے کھنڈرات میں دلچسپی لینا شروع کی.نومبر 1951ء میں مکرم پیری ڈی واکس اور ہارڈنگ نے کھدائی کا کام شروع کیا.یہ ہموار جگہ 260 گز چوڑی اور 360 گز لمبی ہے.ایک خط مستقیم اس کو دو غیر مساوی حصوں میں تقسیم کرتا ہے.مشرقی حصہ نبتا وسیع ہے.یہ قبرستان ہے.اس میں گیارہ سو قبریں ہیں جو قطاروں میں بڑے سلیقے سے بنائی گئی ہیں.360 گز لمبی ایک دیوار اس قبرستان کو جنوبی حصے سے الگ کرتی ہے.اس دیوار کے بعض حصے اب بھی موجود ہیں.جنوبی حصہ میں مرکزی عمارات ہیں.اس کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی 72 گز ہے.دیوار کے شمال مشرقی جانب ایک ہال 120x96 فٹ ہے.اس سے ذرا آگے دیوار کے مغربی جانب 130 فٹ لمبا تالاب ہے.اس کے آگے دیوار جنوب مغربی کنارے کو نکل جاتی ہے.عمارتوں کے جنوب مغربی کونے میں تین کمرے ہیں.انکی دیوار میں اب بھی نو فٹ اونچی کھڑی ہیں.ان میں سے بڑے کمرے کی دیواروں کے ساتھ چاروں طرف آٹھ اٹھی اونچا پلستر کیا ہوا بنچ بنا ہے.اس کونے میں عمارات کے باہر بھی کچھ حصہ پلستر کیا ہوا ہے.عمارت کے شمال مشرقی

Page 38

36 کونے میں دو اور کمرے ہیں.ایک کمرہ بالکل کونے میں ہے.اور دوسرا اصل عمارت سے باہر ہے.عمارت کی مغربی جانب کھدائی کے دوران ایک کنویں کے آثار بھی ملے ہیں.یہ آثار پہلی کھدائی کے نتیجے میں ظاہر ہوئے تھے جو نومبر دسمبر 1951ء میں کی گئی.محققین کا خیال ہے کہ عمارات کا یہ حصہ پہلی صدی قبل مسیح کے شروع یا دوسری صدی قبل مسیح کے آخر میں تعمیر کیا گیا تھا.یہ عمارت بالکل سادہ تھی.اس کے بعد چار مختلف اوقات میں کھنڈرات کی کھدائی کا کام مکمل کیا گیا.اور بہت سی نئی تعمیرات سامنے آئیں.اور مارچ 1954 ء میں کھدائی کا کام پایہ تکمیل کو پہنچا.ان تعمیرات میں سے سب سے اہم عمارت ایک مینار کو خیال کیا جاتا ہے یہ مظبوط مینار عمارت کے شمال مغربی کونے میں تھا.اس کی دیوار میں چارفٹ موٹی ہیں.مینار کے مشرق میں باورچی خانہ ہے جس میں کئی چولہے ابھی تک قائم ہیں.ہال کے مغرب اور مینار کے جنوب میں بہت سے کمرے ہیں.ان کے مشرق میں ایک لمبا کمرہ ہے جو ہال سے جاملتا ہے.اس کے اوپر دوسری منزل میں اسی قسم کا ایک اور کمرہ ہے.جسکی دیواروں کے ساتھ بیچ بنا ہوا ہے.کمرے میں صحائف لکھے جاتے تھے.یہ وہی کمرہ ہے.اس کمرے میں 17 لمبی فٹ ایک میز بھی تھی.اسی سے رومی عہد کی دو دوا تیں بھی ملی ہیں.ایک دوات پیتل کی اور دوسری مٹی کی بنی ہوئی ہے.ان میں اب تک سیاہی موجود ہے.یہ سب چیزیں نچلے کمرے کی گری ہوئی چھت پر سے ملی ہیں.مینار کے پاس چھوٹا سا صحن ہے.یہ ہال کے شمال میں ہے.ہال کی چھت کو سہارا دینے کی غرض سے چارستون بنائے گئے تھے.خیال ہے کہ اس ہال میں ایسینیوں کے اجلاس ہوتے تھے.تمام جماعت کتاب مقدس کے مطالعے کے لئے یہاں جمع ہوتی تھی اور یہ کمرہ عبادت اور کھانے کے کام بھی آتا تھا.ٹوٹے ہوئے برتن اس کے ایک کونے سے ملے ہیں.اس سے مغرب میں ایک چھوٹا سا کمرہ ہے.اس میں ایک ہزار سے زیادہ برتن قرینے سے رکھے تھے.پکانے کے بعد تقسیم کے لئے کھانا اس کمرے میں رکھا جاتا تھا.صحن کی مشرقی جانب پانی کا تالاب ہے نہانے اور کپڑے دھونے کی جگہ اور بیت الخلا ہیں.

Page 39

37 عمارت کے جنوب مشرق میں کئی جو ہڑ ہیں اس جگہ ایک غسل خانہ اور ایک بہت بڑا حوض ہے.اس حوض میں نیچے اترنے کے لئے سیڑھیاں بنی ہیں.اس کے پاس ہی کمہار کا پہیہ ہے.جس سے صحائف کے لئے مرتبان اور دیگر ضروری برتن بنائے جاتے تھے.عمارت کے اندر اور باہر گندہ پانی جمع کرنے کے لئے حوض بنے ہوئے ہیں.مختلف حوضوں کو ملانے کے لئے نالیوں کا عمدہ انتظام موجود ہے.ایک وسیع تالاب عمارت سے ذرا فاصلے پر جنوب مغرب کی طرف بنا ہے.اس طرف کے وسیع علاقے کا پانی ایک لمبے نالے کے ذریعے اس تالاب میں جمع ہو جاتا ہے.پانی تک پہنچنے کے لئے تالاب میں بارہ سیٹرھیاں بنائی گئی ہیں.مغرب کی طرف واقع میدان میں چکیاں، کمہار کے لئے برتن رکھنے کا کمرہ اس کی بھٹی اور جانوروں کے لئے چارہ اکٹھا کرنے کے کمرے ہیں.چکی کے گول پتھر ابھی تک پڑے ہیں.اس میدان میں ایک اور چھوٹی عمارت ہے.اس کے ایک کمرے میں کچھ مرتبان تھے.ایک مرتبان میں سے 9-8 قبل مسیح کے پانچ صد سے زائد سکے ملے ہیں.اس عمارت کے مشرق میں کھلی جگہ ہے.جس کے آگے قبرستان ہے.یہ عمارتیں سفیدی مائل پتھروں سے بنی ہیں.پہلی کھدائی میں مختلف کمروں سے جو تانبے کے سکے ملے تھے وہ سن عیسوی کے شروع سے لیکر پہلی بغاوت (70-66ء) تک کے تھے.دوسری کھدائی سے دیگر سکوں کے علاوہ ہیرودیس کے زمانے کا ایک سکہ بھی ملا ہے.ان میں 29 قبل مسیح کا ایک سکہ بھی شامل ہے.کھنڈرات سے ملنے والے سکوں کی تعداد ساڑھے سات سو سے زائد ہے.لیکن غاروں سے کوئی سکہ دستیاب نہیں ہوا.سکوں کی اکثریت ارخلاؤس کے زمانے (4 ق م) سے لیکر یہودی بغاوت (70-66ء) کے درمیانی عرصہ سے تعلق رکھتی ہے.کھنڈرات قمران کی کھدائی سے کثیر تعداد میں برتن دستیاب ہوئے ہیں.ان ظروف کی شکل وصورت اُن ظروف سے مشابہ ہے جن میں صحائف محفوظ کئے گئے تھے.اس ضمن میں وہ مرتبان خاص طور پر قابل ذکر ہے.جو ایک کمرے کے کونے میں دبا ہوا تھا.یہ ڈھکا ہوا

Page 40

38 ہونے کے باوجود بالکل خالی تھا.ابتداء میں محققین کا خیال تھا.کہ غاروں سے ملنے والے مرتبان بہت پرانے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں.لیکن مذکورہ مرتبان کے ملنے سے یہ خیال ترک کرنا پڑا.اور اس کی جگہ یہ خیال پیدا ہوا کہ صحائف والے مرتبان بھی ایسینیوں کی مقامی صنعت کا نتیجہ تھے.کھنڈرات سے بعض ایسے ظروف بھی ملے ہیں جن پر صحائف کے رسم الخط میں بعض عبرانی حروف منقوش ہیں.غاروں سے ایک اور دیا اور کھانا پکانے کا برتن بھی ملا ہے.ان اثار سے ایسینی نظریے کے حق میں ناقابل تردید ثبوت مہیا ہو گئے ہیں.اور یہ نظر یہ مکمل طور پر رد کیا گیا.کہ زیر بحث کھنڈرات کسی رومی قلعے کے آثار ہیں یہ نظر یہ اس بات پر مبنی تھا کہ ان عمارات سے لوہے کے تیروں کے کچھ پھل ملے ہیں.لیکن اب اس کی یہ تشریح کی جاتی ہے کہ عمارات رومی حملے کے نتیجہ میں خالی کی گئیں.اور کچھ عرصہ کے لئے یہاں رومی فوج کا محافظ دستہ تعینات کردیا گیا.لیکن دوسری بغاوت کے موقع پر عمارت کا انخلاء لڑائی کے بعد مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا.1953ء کی کھدائی میں قبرستان سے چھ قبریں کھولی گئیں.تین سال بعد مزید بارہ قبریں کھولی گئیں.مگر دونوں دفعہ صرف مردوں کے ڈھانچے حاصل ہوئے.کسی قبر میں بھی عورت دفن نہ تھی.انتہائی مشرق میں ایک چھوٹا قبرستان ہے.جو بڑے قبرستان سے الگ ہے یہاں سے چھ قبریں کھولنے پر عورتوں اور بچوں کے ڈھانچے برآمد ہوئے ہیں.شمال میں ایک اور چھوٹا سا قبرستان ہے.یہاں سے دو قبریں کھولی گئیں.ایک قبر میں مرد اور دوسری میں عورت مدفون تھی.تمام قبریں شمالاً جنو با بنی ہوئی ہیں.اور تقریبا پانچ فٹ گہری ہیں.میت کو رکھنے کے لئے مشرقی دیوار کے نیچے چھوٹا سا کمرہ بنایا ہوا ہے.اس کمرے میں اسے کفن پہنائے بغیر کمر کے بل لٹایا گیا ہے.میت کا سر جنوب کو رکھا جاتا تھا.بعد ازاں کمرے کا دہانہ اینٹوں سے یا پتھر سے بند کر کے قبر کو مٹی سے پر کیا جاتا تھا.کمرے کا دہانہ بند کرنے کے لئے اینٹ اور پتھر کی بجائے ٹوٹے ہوئے برتن بھی استعمال کئے جاتے تھے.یہ برتن بھی صحائف کو محفوظ کرنے والے برتنوں سے ملتے جلتے ہیں.اس سے یہ بات بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ

Page 41

39 صحائف کو لکھنے اور غاروں میں محفوظ کرنے والی یہی جماعت تھی.جو قبرستان میں مدفون ہے.عام طور پر اس زمانہ کی قبروں سے کتبات یا زیورات بھی برآمد ہوئے ہیں.لیکن محققین کے لئے یہ بات حیران کن ہے.کہ ان قبروں سے خلاف توقع کسی قسم کے زیورات، کتبات یا تحائف وغیرہ بالکل نہیں ملے.اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ الہی جماعت ہرقسم کی غلط رسوم سے پاک خالص توحید پر قائم تھی.اور ایک نبی کے انفاس قدسیہ نے انہیں تمام نفسانی خواہشات سے بالا اور ہر قسم کے علائق دنیوی سے بے نیاز کر دیا تھا.تین قسم کے قبرستانوں میں سے ایک میں محض مردوں اور دوسرے میں محض عورتوں اور بچوں اور تیسرے میں مردوں اور عورتوں کو ملا کر دفن کرنے سے محققین کی اکثریت اس رائے پر قائم ہے کہ بڑا قبرستان ایسے مردوں کے لئے مخصوص تھا.جو راھب یا کا ہن ہوتے تھے اور شادی سے اجتناب کرتے تھے.لیکن ایک طبقہ گھریلو زندگی گزارتا تھا.اس کے باوجود جماعت میں شامل تھا.تا ہم یہ طبقہ کا ہنوں میں شمار نہ ہوتا تھا.لیکن میرے نزدیک حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لانے سے قبل تمام ممبران شادی سے اجتناب کرتے تھے.لیکن بعد میں دیگر غلط عقائد کے ساتھ انہوں نے اس خلاف فطرت تعلیم کو بھی خیر باد کہہ دیا.اور ان میں شادی کا رواج عام ہو گیا.یہ بھی قرین قیاس ہے کہ اس کے بعد بھی کاہنوں کے لئے مجرد رہنا ضروری ہو.کیونکہ بعد کی عیسائت میں بھی یہ رسم جاری رہی.پروفیسر سکینک نے غار اول کے متعلق یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ وہ جنیزہ (Geniza) یعنی " دفینہ صحائف ہے.ایچ.ای.ڈیل میڈیکو پروفیسر موصوف کی وفات کے بعد اس نظرئیے کو ابھی تک زندہ رکھے ہوئے ہیں.اور اس کی حمایت میں ایک مبسوط کتاب لکھ چکے ہیں.جیز " اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں مقدس کتاب کو متن میں کثرت اغلاط یا کثرت استعمال سے چمڑہ پھٹ جانے کے بعد نا قابل استعمال ہونے کے باعث رکھ دیا جاتا تھا.کیونکہ ان کتب میں اللہ تعالیٰ کا نام درج ہوتا ہے.اس لئے ان کو جلانا یا اور کسی طریق سے ضائع کرنا ممنوع سمجھا جاتا تھا.اگر چہ ڈیل میڈیکو نے اپنے طریق کی تائید میں پر زور دلائل

Page 42

40 دئے ہیں لیکن محققین نے کھنڈرات اور قبرستان کی کھدائی کے بعد اس نظرئے کو رد کر دیا ہے.اب تمام محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غاروں سے حاصل ہونے والے صحائف کو ایسینیوں نے اپنے فرقہ کے استعمال کے لئے لکھا اور 67 عیسوی میں رومی حملے کے وقت جب انہیں مرکز کو خالی کرنا پڑا تو انہوں نے صحائف کو غاروں میں محفوظ کر دیا.حملے کے دوران عمارت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا.اور عیسائیوں پر رومیوں اور یہودیوں کے مظالم کے باعث جماعت منتشر ہو گئی.اور صحائف کو نکالا نہ جاسکا ان میں سے ایک گروہ نے دوسری بغاوت 35-132 ء تک وادی مربعات کی غاروں میں پناہ لی اور مزید صحائف وہاں محفوظ کئے.وادی مربعات کے صحائف میں عیسائی اثرات زیادہ نمایاں ہیں.⭑⭑⭑⭑⭑

Page 43

41 صحائف کی اہمیت اور کسمپرسی عہد عتیق کے قدیم نسخے:.عہد عتیق کی زبان عبرانی ہے.تھوڑا سا حصہ آرامی میں ہے.پہلی پانچ کتابیں تو رات کہلاتی ہیں.اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کی جاتی ہیں.آپکا زمانہ آج سے تقریبا سوا تین ہزار سال قبل بنتا ہے.لیکن دنیا میں عہد عتیق کا کوئی بھی ایسا عبرانی نسخہ نہ تھا جو دسویں صدی عیسوی سے پہلے کا ہو.موجودہ مسورائی متن پہلی صدی عیسوی میں متعین کر دیا گیا تھا.اس لحاظ سے بھی موجودہ نسخے بہت بعد کی تحریرات ہیں اس وجہ سے یہ سوال عام ہورہا تھا کہ یہ نسخے بائیل کا اصل متن پیش کرنے میں کہاں تک قابل اعتبار ہیں.صحائف کی دریافت سے بائیل کی تمام کتابوں کو دو ہزار سال پرانے نسخے مکمل یا نامکمل شکل میں دنیا کے سامنے آئے اور ہمیں پہلی بار ان کی روشنی میں بائیل کے متن کی چھان بین کا موقعہ ملا جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اسی زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ بائیل کا موجودہ متن متعین کیا جارہا تھا تو انکی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے یہ صحائف پہلے سے موجود قدیم نسخوں سے بھی ایک ہزار سال پرانے ہیں.اس لئے بائیل کا اصل متن پیش کرنے میں بہت زیادہ قابل اعتبار ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی دریافت کے بعد علماء اور عوام میں ایک عجیب کیفیت پیدا ہوئی.لوگ جلد سے جلد ان کے مضامین سے آگاہ ہونا چاہتے تھے.رابرٹ ایم گرانٹ اور ڈیوڈ نوئل فریڈ مین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں."Less than a dozen year ago the world of Bible students and scholars was shaken by the discovery of the Dead Sea Scrolls in the caves near Qumran.These scrolls took the Hebrew text of much of the old testament a millenium

Page 44

42 further back illuminated the Jewish background of the new testament as it had not been illuminated before.↓ ترجمعہ: " تقریباً دس سال ہوئے جبکہ قمران کے قریب صحائف کی دریافت سے بائیل کے طلباء و محققین کی دنیا دہل گئی یہ صحائف پرانے عہد نامے کے عبرانی متن کے اکثر حصہ کو ہزار سال پہلے لے گئے.اور نئے عہد نامے کے یہودی پس منظر پر اتنی زیادہ روشنی ڈالی کہ اس سے قبل کبھی نہ ڈالی گئی تھی." دو خاموش صدیاں:.صحائف کی دریافت سے قبل کوئی بھی ایسی تحریر دنیا کے سامنے موجود نہ تھی جس سے ان حالات کا صحیح انداز و لگایا جا سکے.جن میں عیسائیت نے جنم لیا.اس زمانے کی تمام تحریرات کہاں گئیں ؟ علماء کو اس بارے میں بھی تشویش تھی لیکن ان کے ہاتھوں میں کچھ نہ تھا.اس لئے وہ پہلی صدی عیسوی اور پہلی صدی قبل مسیح دونوں کو خاموش صدیاں قرار دیا کرتے تھے.لیکن زبان سے کہنے کے باوجود اکثر علماء کے دل میں بار بار خیال پیدا ہوتا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا.ان صدیوں کو خاموش قرار دینا مناسب نہیں.کیونکہ یہ دونوں صدیاں تو یہودی تاریخ کا اہم ترین موڑ ہیں.ان میں کیا مذہبی کیا سیاسی رنگ میں قوم یہود انتہائی اہم مراحل میں سے گزری یہ ان کے دل کی آواز تھی.جو 1914ء میں ڈاکٹر آر.ایم.چارلس جو کمیشن آف ویسٹ منیسٹر تھے کی زبان قلم سے ان الفاظ میں ادا ہوئی."These centuries especially the two preceeding in Christian era were till recently regarded as in centuries of silence during which no fresh noise a teaching of God reached the nation.There could bardly be a more mistaken idea.So far from being ages of spiritual The sect saying of Jwsus according to the Gasple of Thomas.13 L

Page 45

43 stagnation and darkness.They might with justice be described as the two more fruitful centuries in religions life of thought in the history of Israel.No new testament scholar can understand the N.T.as the culmination of the spiritual development of the past apart from this literature nor can the Jew explain how Talmudic Judaism came to possess its higher conceptions of the future life unless he studies this literature as the sequel of the old testament." ترجمہ خاص طور پر مسیحی عہد سے پہلے کی دوصدیاں خاموش صدیاں قرار دی جاتی تھیں.یعنی ان میں کوئی تازہ آواز یا ایسی تعلیم قوم کے پاس نہیں تھی.اس سے بڑھ کر غلط نظر یہ کوئی بھی نہیں ہو سکتا.یہ صدیاں روحانی سکوت سے اتنی دور ہیں کہ انہیں بجا طور پر اسرائیل کی تاریخ میں مذہبی حیات و فلسفہ کے لحاظ سے سب سے زیادہ نمبر وار قرار دیا.جاسکتا ہے.نئے عہد نامے کا کوئی بھی طالبعلم ان ادب پاروں کے مطالعہ کے بغیر نئے عہد نامہ کو ماضی کی روحانی ترقی کی حیثیت سے سمجھ نہیں سکتا.نہ ہی کوئی یہودی اس وقت تک اس امر کی وضاحت کر سکتا ہے کہ کس طرح ظالموں کی یہودیت میں اخروی زندگی کے اعلی تصورات نے جگہ پائی جب تک کہ وہ ان ادب پاروں کا مطالعہ پرانے عہد نامے کے نتیجے کے طور پر نہ کرے.صحائف کا اثر : 1947ء میں غاروں سے حاصل ہونے والے صحائف نے علماء کے وہ دل کی آواز کا جواب دیا اور ان خاموش صدیوں کا سارا مواد ان کے سامنے رکھ دیا.اب اپنے کانوں سے دو ہزار سال پرانی آواز کو سن سکتے ہیں.اور بعض اہم فیصلے کر سکتے تھے.یہ معلوم کرتے ہی کہ یہ ان دونوں صدیوں سے تعلق رکھتے ہیں.ہر طرف تجسس کی ایک لہر دوڑ Religions development between the old and new testament P-115

Page 46

44 گئی.اخبارات و رسائل میں تقاریر اور خطبات میں ایک شور پڑ گیا.اخبارات میں جلی حروف سے صحائف کی خبریں شائع ہونے لگیں.ریڈیو اور ٹیلیویژن پر محققین کی تقاریر اور انٹرویو نشر ہونے لگے ہر کوئی جانتا چاہتا تھا کہ اب کیا ہوگا.اس دباؤ سے متاثر ہو کر صحائف پر کام کرنے والے بعض محققین نے متن شائع ہونے سے پہلے ہی ان کے بارے میں ولولہ انگیز بیانات شائع کر دئے.⭑⭑⭑⭑⭑

Page 47

45 راسخ العقیدہ علماء کا بائیکاٹ صحائف کی دریافت کے ساتھ ہی ان کے زمانہ کے تعین کا سوال پیدا ہوا دراصل ان کے زمانے میں ہی ان کی حقیقی قدرو قیمت پنہاں تھی.عیسائیوں کو ڈر تھا کہ ان سے نئے عہد نامے کا متن متاثر ہوگا.اسلئے وہ اس بات پر رضامند نہ تھے کہ انہیں کسی اہمیت کا حامل قرار دیں.انہوں نے ان سے مکمل لاتعلقی کا طریق روا رکھا.چنانچہ ولسن کی رائے میں: "New testament scholars, it seems, have almost without exception boycotted the whole subject of the scholars." ترجمہ: ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نئے عہد نامے سے علماء نے بلا استثناء صحائف سے مکمل بائیکاٹ کر دیا ہے.یہودی علماء نے اگر چہ اس بارے میں کسی قدر جرات سے کام لیا تاہم ان کا رویہ بھی تسلی بخش نہیں تھا.ایک اسرائیلی محقق اے.ایم فیر میں نے اپنی ایک تقریر میں کہا "The Jewish scholars had sometimes been shy of these documents, for fear of their destroying the authority of the masoretic text of the bible, and they sometimes took the attitude that the subject was of less interest to Jews than to Christians".ترجمہ: یہودی علماء ایک عرصہ تک ان تحریرات سے گھبراتے رہے انہیں ڈر تھا کہ یہ بائیبل کے مسورائی متن کی سند کوختم کر دیں گے.ایک لمبا عرصہ انہوں نے یہ رویہ اختیار کئے رکھا کہ یہ معاملہ یہودیوں کی نسبت عیسائیوں کے لئے زیادہ اہمیت کا حامل ہے.

Page 48

46 راسخ العقیدہ یہودی اور عیسائی محققین کی سرد مہری کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ آزاد مشرب محققین نے اس میدان کو سنبھالا اور صحائف پر کام کرنا شروع کیا.مقالہ نگار ولسن ان کی خدمات کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے."It is precisely the more liberal scholar in Britain and the United State who have been most reluctant to deal with the scrolls, for the reason that these liberals tend to assume that the doctrines known as Christian were not really formulated till several generations after Jesus death".(The Dead Sea Scrolls 1947-69 P.99) ترجمہ: یہ محض آزاد متقین ہی ہیں جنہوں نے برطانیہ اور ریاستہائے متحدہ (امریکہ) سے انتہائی خوش دلی سے کام کیا کیونکہ وہ یہ مسلک اختیار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ تمام عقائد جواب مسیحی کہلاتے ہیں در حقیقت یسوع کی وفات کے بعد کئی نسلیں گزر جانے پر گھڑے گئے" آزاد محققین کی کوشش سے جب صحائف کے مضامین عوام کے سامنے آنے شروع ہوئے.اور لوگوں میں طرح طرح کے نظریات پھیل گئے.جو عیسائیت اور یہودیت دونوں کے لئے تباہ کن تھے.نیز ان مضامین نے صحائف کا زمانہ بھی لوگوں پر ظاہر کر دیا تو دونوں مذاہب کے راسخ العقیدہ علماء ان نظریات کی تردید کے لئے آگے بڑھے.طر بروز ان حالات کا نقشہ مندرجہ ذیل الفاظ میں کھینچتے ہیں:.”جب ڈوپنٹ سومر نے یہ نظریہ پیش کیا کہ مسیح علیہ السلام استاد صادق کا حیران کن اوتار دکھائی دیتے ہیں تو علماء کی طرف سے ان پر زبر دست حملہ کیا گیا.“ ان حملوں سے عیسائیوں کا مقصد تحقیق حق کی بجائے مسیح اور نئے عہد نامے کی The dead sea scrolls (1947-69) P-57

Page 49

47 انفرادیت کو بچانا تھا.اس لئے وہ تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے.کہ صحائف اسی زمانہ کی تحریرات ہیں.جب حضرت مسیح اپنے مشن کی تبلیغ فرمارہے تھے.آکسفورڈ کی یونیورسٹی کے پروفیسر جی آر ڈرائیور کی کتاب The Judean Scrolls The Problem and a Solution پر تبصرہ کرتے ہوئے ایڈمنڈ ولسن لکھتے ہیں."The upshot of all this is an attempt to date the scrolls so late between the middle of the first century A.D.and the first half of the second century that the doctrines and practices of the people who wrote them could not possibly have had any influence on the origins of Christianity.ترجمہ :.اس سب کوشش کا ماحصل یہ ہے کہ صحائف کو اس قدر بعد کے زمانہ کا قرار دیا جائے.یعنی پہلی صدی نصف سے لیکر دوسری صدی کے نصف اول تک تا کہ ان لوگوں کے عقائد و اعمال کا اثر عیسائیت کی ابتداء پر نہ پڑے جنہوں نے ان کو لکھا.اور یہودیوں کا مقصد بائیل کے متن کو تنقید سے بچانا تھا.ایڈ منڈ ولسن لکھتے ہیں."In case of these Jewish scholars who have refused to recognize the antiquity of the documents, I believe that this reluctance has been due either to their presenting so many variants from the Masoritic text of the "☑ Bible........ترجمہ:.ایسے یہودی علماء کی صورت میں....جنہوں نے صحائف کی قدامت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے.مجھے یقین ہے کہ ان کی اس بد دلی کا باعث یہ ہے کہ مسورائی متن کے صحائف بہت زیادہ جگہ اختلاف رکھتے ہیں.راسخ العقیدہ علماء میں سے ایک گروہ ایسا بھی پیدا ہوا جس نے یہ کہنا شروع کیا.کہ The dead sea scrolls (1947-69) P-137 The dead sea scrolls (1947-69) P-126 ☑

Page 50

48 غاروں سے حاصل ہونے والے صحائف غلطیوں کی کثرت کی وجہ سے فضول قرار دے کر جنیزہ میں جمع کرادی گئی تھیں.اس لئے ان کی شہادت قابل قبول نہیں.نہ ھی انہیں زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت ہے.ایچ ای ڈیل میڈیکو لکھتے ہیں: "As these results become known theories began to pile up.Professor Sukenik had spoken of apocryphal works (Magilloth Genuzoth) and of a Jewish geniza.He had seen and quite rightly, that these were only discarded rolls and he had the proof of it." ترجمہ: جب (اس دریافت کے ) نتائج لوگوں میں پھیلے تو نظریات کے ڈھیر لگنے شروع ہوئے.پروفیسر سیکنک نے غیر مستند تصانیف اور ایک یہودی جیزہ کا ذکر کیا.اس کا خیال تھا اور یہ صیح بھی ہے کہ کہ یہ متروک طومار ہیں.اور اس کے پاس اس کا ثبوت بھی تھا.ان مخالف حالات میں صحائف کا متن شائع ہوتا رہا.ادھر کھنڈرات اور قبرستان کی کھدائی سے زمانے کی تعیین ہو گئی.صحائف کے مضامین نے خود بتا دیا کہ ایسینی کاہنوں کے ہاتھ سے نکلے ہیں.اس زمانے کی تاریخ سے ایسینی نظریے کے حق میں ناقابل تردید ثبوت مہیا ہو گئے چنانچہ صحائف کو آہستہ آہستہ ان کا حقیقی مقام دیا جانے لگا.اور وہی صحائف جنہیں کانڈو نے محض میں پونڈ میں خریدنے سے انکار کر دیا تھا.اڑھائی لاکھ ڈالر ادا کر کے خرید لئے گئے.انہیں اس زمانہ کی سب سے بڑی دریافت ہونے کے علاوہ عیسائیت کے لئے نظریہ ارتقاء کے بعد سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا.اور متعصب علماء کی زبان ، قلم پر بھی اس قسم کے کلمات جاری ہوئے : "That the scrolls are of importance for the study of the New Testament has been recognized from the start, and increasingly as The dead sea scrolls P-22

Page 51

49 more of the texts become accessible, but these has been much misrepresentation of the nature of that importance." ترجمہ: یہ امر کہ نئے عہد نامے کے مطالعہ میں صحائف خاص اہمیت کے حامل ہیں.ابتدا ہی میں سامنے آچکا تھا.اب روز بروز نیا مواد مہیا ہونے سے یہ اہمیت بڑھتی جارہی ہے.لیکن اہمیت کو بہت غلط رنگ میں عوام کے 66 سامنے رکھا گیا ہے.“ ہے.جناب رولے نے واضح الفاظ میں صحائف کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے.عوام تو پہلے ہی اس سے آگاہ تھی.لیکن ان کا کہنا کہ یہ اہمیت غلط رنگوں میں سامنے لائی گئی ہے.صحائف کی اہمیت کو کم نہیں کر سکتا البتہ یہ ایک تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے.جیسا کہ گزشتہ حوالوں سے ظاہر ہے.صحائف کے زمانہ تحریر کے متعلق یہودی اور عیسائی محققین میں اختلاف موجود تھا.لیکن ماہرین آثار قدیمہ، لسانیات، عمرانیات اور دیگر سائنسی تجربات نے صحائف کے مضامین سے حاصل ہونے والے زمانہ کی پوری پوری تائید کی اور جھگڑاصل ہو گیا.اس کے ساتھ ہی یہودی علماء اس اختلاف سے الگ ہو گئے.گویا ان کا یہ بیان صحیح ثابت ہوا کہ صحائف کی اہمیت زیادہ تر عیسائیوں سے متعلق ہے لیکن اس سے فضا صاف نہیں ہوئی.بلکہ یہ آہستہ آہستہ عیسائی راسخ العقیدہ اور آزاد منش، محققین کی کشمکش میں ڈھل گئی.اس کی کئی وجوہات ہیں.لیکن اصل بنیادی وجہ وہ حقائق ہیں جو حضرت مسیح علیہ السلام کے حالات زندگی اور آپ کی حقیقی تعلیمات کو بے نقاب کرتے ہیں.آئیے آپ کو اس کی وجہ ایڈ منڈ ولسن کی زبانی سناتا ہوں.ترجمہ از انگلش اس موقعہ پر صحائف پر کام کرنے والوں میں اختلاف کی وجہ بیان کر دینا بھی مناسب ہوگا یعنی کسی راسخ العقیدہ عیسائی فرقے میں ایمان یا الحاق رکھنے والوں اور آزاد خیال مفکرین یا غیر متعصب مذہبی علماء کے The dead sea scrolls and the New testament by H.H.Rowley P-3 1

Page 52

50 درمیان اختلاف کی وجہ اول الذکر جبلی طور پر ہر اس بات سے جو بظاہر انا جیل کو خدا کی طرف منسوب کرنے سے کتراتے ہچکچاتے ہیں.اس لئے وہ صحائف اور نئے عہد نامے کے اختلاف پر زور دیگر ان کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ موخر الذکر ان کی مشابہتیں معلوم کرنا زیادہ جوش آور خیال کرتے ہیں.اس کشمکش کی ایک مثال Gilkes کے مندرجہ ذیل بیان میں نظر آئی ہے جو انہوں نے ایک دوسرے محقق ڈیوس کی کتاب کے متعلق دیا."Davies had two further oxes to grind.He ground them so fiercely that his book was described as a bitter attack on the Christian church and faith." ترجمہ: ڈیوس کو ابھی دوبارہ مزید اپنا الو سیدھا کرنا تھا اس لئے اس نے اتنی شدت اختیار کی کہ اس کی کتاب عیسائی کلیسیاء عیسائی عقیدے پر تلخ حملہ قرار دی گئی.یہ کتاب کس بنا پر کلیسیاء کے خلاف تلخ حملہ قرار دی گئی.گلیکز ہی کے الفاظ میں سنئے.لکھتے ہیں: "He complained first, that scholars who can banish bias when assembling the fragments of ancient manuscripts may not be free from preconceptions when if comes to evaluating what they have assembled." اور اس نے پہلی شکائت یہ کی کہ ہو سکتا ہے کہ وہ محققین جنہوں نے قدیم تحریرات کو ملاکر ( گذشتہ ) خامیوں کو دور کرنا ہے وہ مختلف ٹکڑوں کو ملانے کے بعد جب ان کا مفہوم بیان The dead sea scrolls (1947-69) P-140 Impact of the Dead ses scrolls P-128 ✓✓ 6

Page 53

51 کرنے لگتے ہوں تعصب سے پاک نہ ہوتے ہوں.ڈیوس کے اس اعتراض پر حیران ہونے کی کوئی بات نہیں.حیرانی تو پھر گلیکو کے مندرجہ ذیل الفاظ پر ہوتی ہے."It may be that all scholars men of religion among them are subject to this human weakness." ترجمہ: ہو سکتا ہے کہ تمام محققین جن میں مذہبی آدمی بھی ہوتے ہیں اس بشری کمزوری میں مبتلا ہوں.ہم جناب گلمیکز کی جرات کی داد دیتے ہیں کہ انہوں نے اس حقیقت کو بڑی فراخدلی سے قبول کر لیا لیکن اس بات کی کوئی سمجھ نہیں آتی کہ پھر کس بنا پر جناب ڈیوس کی کتاب کو کلیسیا کے خلاف تلخ حملہ قرار دیا گیا.ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ ڈیوس کا مندرجہ ذیل بیان ہو ڈیوس کا خیال ہے کہ: "When the layman and the scholar discuss the historical bias of Christianity they are not talking the same language.The scholar has always known that there are contradictions in the Gospels concerning some of the details of Christ's life but the layman does not, and is therefore alarmed when these are brought to his notice." ترجمہ : ” جب عوام اور علماء عیسائی تاریخ کی خامیوں پر بحث کرتے ہیں تو ان کی زبان بالکل مختلف ہوتی ہے.علماء ہمیشہ سے ہی جانتے ہیں کہ مسیح کی زندگی کی کئی تفاصیل میں اناجیل میں باہمی اختلاف ہے مگر عوام یہ نہیں جانتے.لہذا جب یہ چیز انہیں بتائی جاتی ہے تو وہ چونک پڑتے ہیں." چنانچہ ڈیوس نے اعتراض کیا کہ علماء یہ اعتراضات عوام سے مخفی رکھتے ہیں.لیکن یہ Impact of the dead sea scrolls P-129 L

Page 54

52 اعتراض تو کئی بار محققین دہرا چکے ہیں.چارلس پائر نے کہا ہے کہ: "And once the more intelligent laity realize the nature of the contacts of these pseudepigraphical books they will be asking.embarrassing questions of their pastors and spiritual leaders." ترجمہ: اور جب ذرا ذہین عوام نے ایک دفعہ ان غیر مقدس کتابوں کے مضامین کو پہچان لیا تو وہ اپنے مرشدوں اور روحانی پیشواؤں سے حیران کن سوالات پوچھیں گے.“ انہی پیچیدہ سوالات سے بچنے کے لئے اب روحانی پیشوا اپنے تمام وسائل کو استعمال میں لا رہے ہیں.ویسے تو صحائف کی اشاعت سے تمام مسیحی فرقوں میں رد عمل ہوا مگر رومن کیتھولک چرچ سب سے زیادہ راسخ العقیدہ ہونے کی وجہ سے اس رویے میں سب سے آگے ہے.اور مزعومہ کفن مسیح کو آزاد محققین کے حوالے کر کے جو غلطی ان سے سرزد ہوئی تھی اب وہ اسے صحائف کے بارہ میں دہرانا نہیں چاہتے.چنانچہ انہوں نے صحائف پر ہر رنگ میں قبضہ کرنے کی کوشش کی.جناب ولسن لکھتے ہیں کہ دریافت کے بعد کئی سال تک صحائف فلسطین کے عجائب گھر میں پڑے رہے اس کے بعد جب لمبے لمبے وقفوں سے محققین کے نام جاری کئے جاتے تو ان کے ہمراہ وسیع و عریض ایڈیٹوریل بھی ہوتے اور ان کی قیمت اتنی زیادہ رکھی جاتی کہ ہر آدمی خرید نہ سکے پھر لکھتے ہیں: "This has all been controlled by the Ecole biblique and consequently by catholic authority." ترجمہ : ” یہ سارے کام ایکول بائیبلک کے ہاتھ رہا ہے.جس کا مطلب کیتھولک اقتدار ہے.“ صحائف پر کام کرنے والی موجودہ ٹیم میں نصف سے زیادہ محققین رومن کیتھولک ہیں.اس کے علاوہ کیتھولک چرچ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے فراخدلی سے بھاری رقوم The last years of Jesus Revealed P-52 ↓ The dead sea scrolls 1947-69 P-151 L

Page 55

53 بھی صحائف پر خرچ کر رہا ہے.فادر گرے سٹون نے کیتھولک ٹیبلٹ رسالے میں اپنے قارئین کو جو پیغام دیا وہ ولسن کی زبانی سنئے."...and he reassured his Catholic readers by telling them that at least half of the team now working on the scrolls were Catholic and that the Vetican had just contributed five thousand pounds to the enterprise of deciphering them which meant that five thousand pounds worth of the manuscripts would go to the Vetican library." (The D.S.Ss.1947-69 P.163) ترجمہ: اس نے اپنے کیتھولک قارئین کو یہ بتا کر دوبارہ یقین دلایا کہ اس وقت صحائف پر کام کرنے والی ٹیم میں کم از کم نصف محققین کیتھولک ہیں.اور یہ کہ وٹیکن نے حال ہی میں صحائف کی تفسیر کرنے کے لئے پانچ ہزار پاؤنڈ عطیہ دیا جس کا مطلب ہے کہ تحریرات میں سے پانچ ہزار پاؤنڈ کی قیمت کے مضامین وٹیکن لائبریری کے حق میں جائیں گے.“ کیتھولک کلیسیا کو اتنے مہنگے داموں صحائف پر اقتدار حاصل کرنے کی مصیبت کیوں مول لینا پڑی.جناب ولسن ہی کی زبانی سنئے." '...and it has been intimate that something has been found prejudicial to the dogma of the Catholic Church which on that account is being kept concealed.But although it is no doubt true, as has been sported above, that the Catholics have felt reluctant to attract special attention to the scrolls.I have found no reason to believe that any of these documents has been or is likely to be suppressed.ترجمہ: اور یہ بھی بیان دیا ہے کہ کیتھولک عقیدے کے خلاف بدظن کرنے والی کوئی چیز The dead sea scrolls 1947-69 P-151 1

Page 56

54 ملی ہے جواس وجہ سے مخفی رکھی جارہی ہے اگر چہ جبکہ اوپر والے بیان کے مطابق یہ بلاشبہ صحیح ہے کہ کیتھولکس نے صحائف میں خصوصی توجہ مرکوز کرنا ضروری خیال کیا تاہم میں یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں پاتا کہ ان تحریرات میں سے کوئی دبادی گئی ہے یا اس کے دبائے جانے کا امکان ہے.جناب ولسن کے اس بیان کو سمجھنے کے لئے جان ایگرو کا ذکر کرنا ضروری ہے.آپ آزاد خیال محقق ہیں.صحائف فنڈ کے سیکرٹری بھی ہیں اور اس ضمن میں دیگر کئی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں.عبرانی کے جواں سال ماہر کئی سال سے صحائف پر کام کرنے والی ٹیم کے رکن ہیں.حکومت اردن کے صحائف کے لئے اعزازی مشیر اور مانچسٹر یونیورسٹی میں پرانے عہد نامے اور متعلقہ علوم کے پروفیسر ہیں انہوں نے اپنے مضامین ، تقاریر ، نشریات اور کتب میں عیسائی اور ایسینی مشابہتوں پر زور دیا.بی.بی سی کی ایک نشری تقریر میں انہوں نے تفسیر ناحوم کی روشنی میں یہ ثابت کیا کہ استاد صادق صلیب پر لٹکائے گئے.اس موضوع پر مشہور رسالے ٹائم میں انہوں نے ایک مضمون بھی رقم کیا.بعد کے حالات ولسن کی زبانی سنئے."This article had the result of arousing Pere Roland de Vaux to write a letter to the London times declaring that there was nothing whatever in any of the documents so far deciphered which would indicate that the teacher of Righteousness had been crucified." (The Dead Sea Scrolls 1947-69 P.164) ترجمہ اس مضمون کے نتیجے میں پیری رولینڈ ڈی واکس کولندن ٹائمنز کو ایک مراسلہ بھیجنے کی تحریک ہوئی جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ ان تحریرات میں جواب تک حل کی جاچکی ہیں اس قسم کی کوئی چیز نہیں ہے.جو ظاہر کرے کہ استاد صادق کو صلیب پر لٹکایا گیا.

Page 57

55 اس مراسلے پر صحائف کی ٹیم کے چار ارکان کے دستخط تھے ان میں سے تین کیتھولک پادری تھے اسکے بعد ایک پادری فادر یومتری گرے سٹون کو ان کی ترتیب کا کام سونپا گیا.انہوں نے پورپ کے نمائندے کی حیثیت سے کیتھولک ٹیبلٹ رسالے میں مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا اس کے ساتھ ہی واشنگٹن کی کیتھولک یونیورسٹی کے امریکی پروفیسر پیٹرک سیکہان کو ٹیم میں شامل کر دیا گیا انہون نے بھی جان الیگرو کے خلاف مضامین شائع کئے اور ان کی زیراشاعت کتاب کو بد نام کرنے کی کوشش کی لیکن جب نوجوان الیگرو نے ان چیزوں کی پرواہ نہ کی تو ان کے افسر پروفیسر رولے کے ذریعہ ان کو ڈانٹ پلائی گئی.امریکی مقالہ نگار ولسن لکھتے ہیں: "It is said that his superior at the university Baptist Professor Rawlay admonished him on one occasion Allegro adagio." ترجمہ " کہا جاتا ہے کہ یونیورسٹی میں اس کے افسر پروفیسر رولے نے جو پیٹنٹ عیسائی فرقہ سے ہیں ایک موقعہ پر اس کو تنبیہ کی.“ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نوجوان محقق مسیحی دنیا کی مخالفت کی تاب نہ لا سکا اور اپنے مسلک سے ہٹ گیا.آپ کو یاد ہوگا کہ قرون وسطی میں اس قسم کا ایک واقعہ اٹلی کے مشہور اور نیک دل سائنسدان گلیلیو کو بھی پیش آیا تھا.اس سے کلیسیا کی طرف سے مقرر کردہ تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے ہر قسم کے دلائل دیگر ثابت کیا کہ زمین گول ہے اور یہ کائنات کے مرکز میں نہیں بلکہ خود سورج کے گرد گھومتی ہے اور یہ کہ زمین کی طرف آزادانہ گرنے والی تمام اشیاء ایک ہی رفتار سے گرتی ہیں.وزن کی کمی بیشی ان کی رفتار پر اثر انداز نہیں ہوتی مگر اس کی ایک نہ سنی گئی اور اسے یہ بیان دینے پر مجبور کیا گیا کہ اگر چہ میری عقل وہی کہتی ہے جو میں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے لیکن پھر بھی یہ سب کچھ غلط ہے.بالکل اسی طرح آج ہماری آزاد دنیا میں جان الیگر و کو اپنی غلطی تسلیم کرنے پر مجبور کیا گیا جو انہوں نے کر لی.جناب ولسن لکھتے ہیں: The dead sea scrolls 1947-69 P-164 ↓

Page 58

56 "Mr.Allegro made it plain that his previous statements had been mainly based on conjectures." ترجمہ: "مسٹر الیگرو نے یہ واضح کر دیا کہ میرے سابقہ بیانات قیاس تھے.“ صحائف کے مضامین کی اشاعت سے عیسائی عقیدوں کی قلعی کھل جانے کا اندیشہ ہے اس لئے جیسا کہ آپ جناب ولسن کی زبانی سن چکے ہیں محققین کو خطرہ ہے کہ بعض صحائف ضائع کر دئے جائیں گے.بہر حال اس بارہ میں ابھی تک کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی.ایک بات جو عرصے سے بڑی شدت سے محسوس کی جارہی ہے وہ صحائف کی اشاعت میں تاخیر ہے.اس عظیم دریافت پر چوبیس سال گذر چکے ہیں لیکن ابھی تک نہائت معمولی مقدار میں صحائف کے مضامین لوگوں کے سامنے آئے ہیں.شروع شروع میں اس کام کو کافی سرعت سے چلایا گیا مگر جوں جوں اسکے عیسائیت پر اثرات نمایاں ہوتے گئے یہ کام ست پڑتا گیا.اس تاخیر کی اصل وجوہات آپ کے سامنے آچکی ہیں.لیکن فرانس پائر آپ کو ایک اور وجہ بتانا چاہتے ہیں."It is entirely possible that the delays which have occurred and are still going on are to be explained by "time out" being taken until advice is secured from ecclesiastical head quarters of same of the several faiths involved.Not that any attempt would be made by the scholars to suppress or destroy any of the documents discovered a pious practice of former days but it might be deemed wise, or practical, or realistic (to barrow a current political sementacism used to excuse subterfuge), if the scholars consulted with various religions leaders or ever among The dead sea scrolls 1947-69 P-163

Page 59

57 themselves as to just how or when or how much or in what order the contents of the eaves should be revealed." ترجمہ: صحائف کی اشاعت میں جو دیر آج تک ہوتی رہی ہے اور جو بدستور جاری ہے اسکی یہ تشریح کرنا بالکل صحیح اور ممکن ہے کہ مختلف عقائد رکھنے والے متعلقہ کلیسیاؤں میں سے بعض کے صدر دفاتر سے ہدایات حاصل کرنے کے لئے ” وقفہ لیا گیا ہے.یہ تو شاید نہ ہو کہ علماء از منہ اولیٰ کے مقدس فریضے کی طرح دریافت شدہ تحریرات میں سے بعض کو دبائے جانے یا ضائع کرنے کے لئے کوئی اقدام کریں لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ مختلف مذہبی راہنماؤں سے مشورہ حاصل کرنا یا خود صحائف پر کام کرنے والے علماء میں اس امر پر باہمی صلاح مشورے کرنے کو کہ صحائف کے مضامین کو کیسے، کب اور کس قدر یا کس ترتیب سے لوگوں پر ظاہر کیا جائے عقلمندانہ، قابل عمل اور حقیقت پسندانہ خیال کیا جائے صحائف کی اشاعت میں تاخیر جوں جوں زیادہ ہوتی جارہی ہے عوام میں ان کے متعلق تجس بڑھتا جارہا ہے.اور تصویر کے نت نئے رخ سامنے آتے جا رہے ہیں.اکثر مسیحی محققین کا خیال ہے کہ صحائف کے قطعات کی چھانٹی اور ترتیب کے لئے پچاس برس درکار ہیں لے لیکن کہتے ہیں کہ یہ کام اس سال میں ہو جانا چاہئے کے پچاس سال والی تجویز پر ایک محقق کا تبصرہ پیش خدمت ہے.پائر لکھتے ہیں."Dr.A.Powell Davies said this indeed an amiable suggestion.In fifty years our present New Testament scholars will no longer he teaching and can hand on the problems of the Dead Sea Scrolls to their unfortunate successors." " The last years of Jesus Revealed by Potter P-60 The dead sea scrolls (1947-69) by Wilson P-108 ✓ The last years of Jesus Revealed P-60 ☑

Page 60

58 ترجمہ: ڈاکٹر اے پاول ڈیوس نے کہا کہ یہ تجویز بڑی دلکش ہے.پچاس سال بعد ہمارے موجودہ علمائے عہد نامہ جدید میں سے کوئی بھی شعبہ تدریس میں نہ رہے گا اور وہ بحیرہ مردار کے صحائف کے مسائل آسانی سے اپنے بدقسمت جانشینوں کے سپرد کر دیں گے.“ یہ تو ایک ذوقی بات تھی.اصل بات ہم یہ بیان کر رہے تھے کہ بعض اہم تحریرات کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے.آپ کو یاد ہوگا کہ صحائف کے قطعات حاصل کرنے کے لئے کس قدر انسانی محنت صرف کرنا پڑی اور کس طرح صحائف خریدنے کیلئے بڑی بڑی رقوم پانی کی طرح بہا دی گئی ہیں.یہ بات انسان کو چونکا دینے والی ہے کہ اس عظیم دریافت پر چوبیس سا ل گزر جانے کے باوجود صحائف کے قطعات کو گنا تک نہیں گیا.ولسن لکھتے ہیں: "The tens of thousands of framents there has been no attempt to count them - have been put away in boxes."✓ ترجمہ لاکھوں قطعات جن کو شمار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ڈبوں میں بند کر دئے گئے ہیں.اندھیر ہے.صریح ظلم ہے.غفلت کی انتہا ہے.تعصب کی معراج ہے.سراسر ہٹ دھرمی ہے.اگر محققین جو صحائف پر کام کر رہے ہیں انکی ٹیم کی کارکردگی کا یہی حال ہے تو عوام کا سارا روپیہ ضائع کیا جارہا ہے.جن محققین کے نزدیک صحائف کی اتنی قیمت بھی نہیں کہ ان کی گفتی کر لی جائے تا کہ کوئی ضائع نہ ہو ان سے اس چیز کی توقع کرنا کہ وہ صحائف کو حل کرتے وقت دیانتداری سے کام لیتے ہوں گے بیوقوفی ہے.نادانی ہے.اُن کو کرسیاں سنبھالے ہوئے چوبیس سال ہوئے ہیں جدید ترین سائنسی آلات انہیں میسر ہیں ہر طرح کے ضروری ساز و سامان سے لیس علیحدہ عجائب گھر ان کو دیا گیا ہے.اُن کے جسم وروح کو سکون پہنچانے کیلئے ہر قسم کی آسائش کا سامان مہیا کیا گیا ہے.کمروں کی زیبائش میں کسی قسم کی کمی نہیں کی گئی عجائب گھر کو آرام دہ بنانے کے لئے جدید ترین سہولتیں بہم پہنچائی گئی ہیں یہ آخر The dead sea scrolls (1947-69) P-108

Page 61

59 س لئے کیا گیا؟ اور تم نے کیوں اپنے نام کے ساتھ القابات پسند کر لئے ؟ چومیں سال گذر گئے اور تم صحائف کو گن نہ سکے؟ محقق تو بہت بلند نام ہے ایک عام آدمی بھی اس بات سے بہت بالا ہے.میں کہتا ہوں پاگل کا مقام بھی اس سے اعلیٰ ہے.ہاں پرند چرند بھی اپنی چیزوں کا حساب رکھتے ہیں.تو پھر میں حیران ہوں کہ ان ہستیوں کو کس نام سے پکاروں جو اپنی قیمتی چیز کا حساب نہ رکھیں.جب انکی کرسی بچھانے کا سوال ہو تو کہتے ہیں کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی دریافت پر تحقیق کرتے ہیں.اور جب اس دریافت کا حال پو چھا جائے تو کہتے ہیں کہ چوبیس سال کے لمبے عرصہ میں اس کے اجزاء کو ایک بار گنتی بھی نصیب نہیں ہوسکی!! تم خود ہی بتاؤ کہ ہم تمہاری کس ادا پر جان دیں؟ تمہاری کس وفا کو یاد کریں؟ تمہارے کون سے وعدے پر اعتبار کریں؟ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ تم نے کتنی تحریرات کو قبل اس کے کہ وہ اسیران جہالت کو حریت علم سے بہرہ ور کرتیں زمین کے چہرے سے غائب کر دیا ہے.صحائف کی گنتی نہ کرنے کا سوائے اس کے اور کوئی منطقی نتیجہ نہیں نکلتا کہ محققین کی نیت نیک نہیں.صحائف سے دلچسپی رکھنے والے تمام لوگوں پر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ان کے مضامین عیسائی عقائد کی بیخ کنی کرتے ہیں.ایسی تحریرات کو ضائع کرنے کا خطرہ بھی سبھی محسوس کرتے ہیں لیکن یہ تو سب کچھ تھیلے سے باہر ہورہا ہے اور محض تماشائیوں کے خیالات ہیں.آئیے آپ کو گھر کے بھیدی جان الیگرو کی زبانی کچھ اندر کی بات سنائیں.اپنی کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے پیش لفظ میں رقمطراز ہیں."What is perhaps even more disturbing than this partial boycott of the scrolls on the part of Christian scholars is the cloak of secrecy that has hung over the acquisition and disposal of these vital and often mort controversial documents since 1956.Scrolls have secretly

Page 62

60 unearthed by the Beduin, fleetingly glimpsed off the face of the earth," (The Dead Sea Scrolls a Reappraisal P.104).وه ترجمہ جو بات مسیحی محققین کے صحائف سے جزوی بائیکاٹ سے بھی زیادہ مضطرب کرنے والی ہے وہ پردہ اخفا ہے.جو 1956 ء سے اہم اور انتہائی متنازعہ فیہ تحریرات کے حصول اور محققین کو سپردگی کی راہ میں حائل ہے.بدوؤں نے صحائف کو پر اسرار طریق پر زمین سے کھودا.ماہرین نے چپکے سے ان کی جھلک دیکھی اور پھر انہیں ( ہمیشہ کے لئے ) زمین کی سطح سے روپوش ہونے کی اجازت دے دی گئی.“ اگر ایسا کوئی واقعہ عمل میں آیا ہے اور یقیناً آیا ہے تو یہ علمی دنیا سے بدترین غداری ہے.مسیحیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کی تدابیر خدائی تدبیر کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتیں اے مسیحیو! تمہارے لئے تو اور بھی زیادہ ڈرنے کا مقام ہے کیونکہ تمہارا خدا اپنے تئیس یہودیوں سے بیچا نہ سکا تو تم نا چیز کس کے بھروسے اپنا اعمال نامہ سیاہ کرتے ہو.یاد رکھو کہ وہ تمہارے کسی کام نہ آئے گا.نجات کی صرف ایک ہی راہ ہے یعنی اسلام.پس جلد اس زندگی کے چشمہ کی طرف دوڑو اور زندہ خدا کو پاؤ.

Page 63

61 باب دوم عہد نامہ عتیق کے متن پراثر

Page 64

63 عہد عتیق کے متن پراثر مشتمل ؟ عہد نامہ عتیق یہودیوں اور عیسائیوں کی مقدس کتاب ہے.یہ ان کتب پر مشت جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لیکر حضرت یحیی علیہ السلام تک مبعوث ہونے والے رائیلی انبیاء کی تعلیمات و حالات درج ہیں.اس طرح اسکا زمانہ تالیف چودہ صدیوں پر پھیلا ہوا ہے.مذکورہ بالا دونوں اقوام ان کتب کو الہامی یقین کرتی ہیں.لیکن یہ کتب کن معنوں میں الہامی ہیں؟ ملاحظہ ہو مندرجہ ذیل تعارف:.وو کلام مقدس ان کتابوں کا مجموعہ ہے جو روح القدس کی راہنمائی میں لکھی گئی ہیں.اور بدیں وجہ الہامی مانی جاتی ہیں.انسان مصنفین حضرت موسیٰ سے لے کر یوحنا رسول تک خدا کے ہاتھ میں محض ہتھیار تھے.جن کے ذریعہ اس نے ان سچائیوں کو جو ہماری نجات کے لئے از بس ضروری اور لازمی ہیں زمانے کے دوران میں ظاہر کیا.عہد تحقیق میں مختلف صحائف کی متعدد کتب شامل ہیں.رومی کلیسیاء سے منسلک عیسائیوں کے نزدیک ان کی تعداد چھیالیس ہے.جبکہ پروٹسٹنٹ عیسائی اس میں سے سات کتب کو غیر مستند یعنی پا کر فا“ قرار دیتے ہیں.اور ان کے ہاں عہد عقیق میں صرف انتالیس کتب ہیں.عہد عتیق کی تمام کتابیں عبرانی زبان میں لکھی گئیں سوائے حکمت اور مکابیوں کی دوسری کتاب کے جن کی زبان یونانی ہے.اور عزرا، دانیال اور یرمیاہ کے چند حصوں کے جن کی زبان آرامی تھی.ابتداء کی پانچ کتب کو تو راۃ یعنی شریعت کہتے ہیں.یہودی اور مسیحی راویت کے مطابق ان پانچوں کتابوں کے مصنف خود حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں باقی چالیس کلام مقدس مطبوعہ سوسائٹی آف سینٹ پال رو پا 1958ء

Page 65

64 کتب میں سے صرف آٹھ کتب ایسی ہیں جو بعض انبیاء یا دیگر بزرگوں کی طرف منسوب ہیں.اور اکتیس کتب کے مصنفین بالاتفاق نامعلوم ہیں.جن کے کردار، امانت اور دینداری کے متعلق ہمیں کچھ علم نہیں.ان میں سے اکثر ایسے اشخاص ہیں جن کے متعلق اتنا بھی سراغ نہیں لگ سکا کہ وہ کب پیدا ہوئے اور کہاں رہے.قضات کی کتاب کے متعلق بعض کا خیال ہے.کسی نامعلوم مصنف کی تحریر ہے.لیکن بعض اسے سموئیل کی طرف منسوب کرتے ہیں لے تو راؤ اور دیگر آٹھ کتب جو کسی نبی یا بزرگ کی طرف منسوب ہیں ان میں اندرونی طور پر متعدد شہادتیں اس امر کو باطل کرتی ہیں کہ وہ واقعی انہوں نے لکھی ہیں اور جدید تحقیق نے روز روشن کی طرح ثابت کر دیا ہے.کہ کسی بھی اسرائیلی نبی نے عہد عتیق میں شامل کوئی کتاب نہیں لکھی.نہ ہی اس کی راہنمائی میں لکھی گئی.بلکہ تمام کتب غیر معروف مصنفین نے بعد میں لکھ کر ان کو انبیاء کی طرف منسوب کر دیا.یہ کتب چونکہ خطاء کے پہلے انسانوں کے ہاتھوں کی تصانیف تھیں ان میں بار بار اصلاح کی ضرورت پیش آتی رہی.جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ ہر کتاب کے کئی متن یہود میں شائع و متعارف ہو گئے.حضرت مسیح علیہ السلام سے قبل اور آپ کے زمانے میں بھی عہد عتیق کے متعد دمتون مروج تھے.مسیح علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ ہی قوم یہود میں جو بالکل مر چکی تھی نئے سرے سے زندگی کی روح پھونکی گئی.اور ان میں یہ خیال پیدا ہوا کہ عہد عتیق کا ایسا متن تیار کیا جائے جس پر تمام قوم متفق ہو.چنانچہ مختلف مکاتب فکر سے متعلق رہیوں کا ایک اجلاس بلایا گیا.مشہور امریکی صحافی ایڈ منڈ ولسن لکھتا ہے."The mesoretic text of the Bible, which was established at an unknown date by a committea of rabbinied schoars who did their best to any other text which has since been accepted by the Orthodox Synagogue as the unalterable and کلام مقدس مطبوعہ سوسائٹی آف سینٹ پال رو پا 1958ء

Page 66

unquestionable." 65 ترجمہ بائیل کا مسورائی متن جسے کسی نامعلوم زمانے میں ربیوں کی ایک جماعت نے متعین کیا.اور پوری کوشش سے اس کے علاوہ ہر دوسرے متن کو دبا دیا.اس وقت سے قدیم الخیال یہود کے ہاں نا قابل تغیر اور مسلمہ سمجھا جاتا ہے.“ جان الیگر و بھی اس مجلس کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتے ہیں."A synod was conoeved at Jamnia, near Jaffa, between AD.90 and 100, at which certain disputed questions regarding the acceptability of some of the books were decided."✓ ترجمہ: ”جافا کے قریب جامنیہ میں 90 اور 100 عیسوی کے درمیان اراکین کلیسیاء کی ایک مجلس کا اہتمام کیا گیا.اس موقعہ پر بعض کتب کی قبولیت سے متعلق متنازعہ فیہ مسائل کا فیصلہ کیا گیا.“ ڈاکٹر چارلس فرانس پاٹر اس اہم مجلس کے متعلق اپنی رائے مندرجہ ذیل الفاظ میں ظاہر کرتا ہیں: "Unfortunately, that authorized list of approved writings was not determined by his tosical facts but by theologied considerations, " ترجمه بدقسمتی سے منظور شدہ تحریرات کی اس مصدقہ فہرست کا فیصلہ تاریخی حقائق کی بجائے دینی امور کو ملحوظ رکھ کر کیا گیا.“ اس مجلس کے انعقاد کے تھوڑی دیر بعد مندرجہ ذیل امور کی بھی تعین کر دی گئی کہ کتب مقدسہ یا ان کا کوئی حصہ لکھنے کے لئے صفحے پر فلاں طریق سے لکیریں لگائی جائیں.ہر کالم اتنا لمبا چوڑا ہو.الفاظ و فقرات کا درمیانی فاصلہ اسقدر ہو.فلاں قسم اور فلاں رنگ کی سیاہی استعمال کی جائے.یہاں تک کہ نقل نویس کا لباس بھی مقرر کر دیا گیا.لیکن مقدسین کی اس The dead sea scrolls P-60 ✓ The dead sea scrolls P-126 ↓ The Last Years of Jesus Revealed P.71

Page 67

66 جلس کے متعلق جو جامنیہ میں منعقد ہوئی.یہ یادرکھنا ضروری ہے کہ اس نے کوئی معیاری متن نئے سرے سے ترتیب نہیں دیا.نہ اس نے بہت سی روایات کو مدنظر رکھ کر ان کا تقابل کر کے ایک منتخب ترجمہ تیار کیا.بلکہ اس نے متن کے متعلق مختلف روایات میں سے ایک کو چن لیا.اور اسے ہمیشہ کے لئے کامل معیار اور نمونہ مقرر کیا.اس کے بعد یہود پر طرح طرح کے ادوار آتے رہے.وہ پراگندہ ہو گئے.عبرانی زبان مردہ ہوگئی.اور چونکہ اسمیں حروف علت اور حرکات وسکنات کا نظام موجود نہیں اس لئے کلام مقدس کا ایک متن ہونے کے باوجود مختلف قرآتیں وجود میں آئیں.اس اختلاف کو مٹانے کے لئے ساتویں صدی عیسوی میں یہودی علماء کی ایک انجمن عمل میں آئی.جو اس وجہ سے (Massorities) کہلائے کہ انہوں نے (Massorah) یعنی متن کی پہلی روائت کو منظم کیا.اور کلام مقدس کے تلفظ اور تفسیر کے بارے میں پیدا ہونے والے مسائل کو حل کیا.چنانچہ وہی متن جو پہلی صدی میں متعین ہو چکا تھا اس کی تزئین و تنقید ساتویں صدی میں کی گئی.اور یہ عبرانی متن "مسورائی متن" کے نام سے مشہور ہوا عہد عتیق کا سب سے پہلا ترجمہ تیسری صدی قبل مسیح میں یونانی زبان میں کیا گیا.اسرائیل کے تمام قبائل سے منتخب کئے گئے ستر علماء نے سکندریہ میں شاہ مصر کی درخواست پر یہ کام سرانجام دیا.اس بناء پر اس کو سبعینہ “ کا نام دیا گیا.شروع میں صرف تو راہ کا ترجمہ کیا گیا.دیگر کتب کے تراجم بعد میں مختلف مترجمین نے شامل کئے.اس میں وہ کتب بھی شامل ہیں.جو آج کل پا کر افا" کہلاتی ہیں.جب عیسائی مذہب نے عام منادی شروع کی تو عیسائی اور یہودی مناظروں میں عیسائی مناظر سبعیہ کو یہودیوں کے خلاف استعمال کرتے.چنانچہ یہودی اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے.اور چرچ نے اسے کتاب مقدس کے طور پر اختیار کر لیا.یہودیوں نے اس کے مقابل پر یونانی تراجم تیار کئے ان میں Aquila کا ترجمہ زیادہ مشہور ہے جو اس نے دوسری صدی عیسوی کے نصف میں کیا.اس کے مدنظر مسورائی The dead sea scrolls by Allegro P-61 ✓

Page 68

67 متن سے ملتا جلتا کوئی عبرانی نسخہ تھا.دوسری صدی کے اختتام پر ("Theodotion") نے ترجمہ کیا.اس کا اصل عبرانی نسخہ بھی Aguila سے ملتا تھا.کچھ عرصہ بعد "Symmachus" کا ترجمہ سامنے آیا.یہ ترجمہ آزادانہ ہونے کی وجہ سے عمدہ یونانی زبان پیش کرتا ہے.تیسری صدی کے پہلے نصف میں سکندریہ کے ایک باشندے Origin نے گذشتہ تمام تراجم سے بہتر ترجمہ پیش کرنے کی غرض سے معروف مسدس ترجمہ پیش کیا.اس کے پہلے کالم میں عبرانی متن، دوسرے میں یونانی حروف میں عبرانی متن، تیسرے میں Aguila کا یونانی ترجمہ، چوتھے میں Symmachus کا اور پانچویں میں سوعودیہ مگر اس کی نظر ثانی Origin نے کی تھی.اور جھٹے کالم میں Theodotion کا یونانی ترجمہ شامل تھا.عبرانی مسورائی متن اور یونانی سبعیہ میں موافقت پیدا کرنے کے لئے یہ بہت بڑی کوشش تھی.مگر اس کے باوجود ان دونوں میں کئی اختلافات موجود ہیں.محققین نے بہت کوشش کی کہ کوئی ایسا عبرانی نسخہ مل جائے.جس سے ترجمہ کر کے سبعینہ تیار کی گئی تھی.لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ جتنے بھی نسخے اس سے پہلے موجود تھے ان میں سے کوئی بھی چوتھی پانچویں صدی سے پہلے کا نہ تھا یعنی سب کے سب جامنیہ کی مجلس کے بعد کے تھے.اور ان میں ایسے نسخے کا ملنا ممکن ہی نہ تھا.کیونکہ اس موقعہ پر مسورائی متن کے علاوہ تمام نسخے تلف کر دئے گئے تھے.علماء کی دعائیں 1947 میں سنی گئیں جبکہ بحیرہ مردار کے ساحل سے صحائف کی دریافت نے عبد عقیق کی تمام کتب پر روشنی ڈالی اور ہر کتاب کے متعلق پہلے تمام نسخوں سے ایک ہزار سال پرانے نسخے مہیا کر دیئے.عہد عتیق کے بیسیوں نسخے صحائف سے پہلے موجود تھے.یہ چوتھی صدی سے لے کر سولہویں صدی عیسوی تک کے ہیں.اور مختلف زبانوں میں ہیں.لیکن حیران کن یہ امر ہے کہ کسی بھی نسخے میں تمام کتب شامل نہیں ہیں محققین اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں.کہ مختلف مکاتب فکر کے ہاں بعض کتب غیر مقدس قرار دی جاتی تھیں.چنانچہ صحائف قمران سے آستر کی کتاب کا ابھی تک کوئی نشان نہیں ملا.اس پر F.Moore لکھتا ہے:."More likely, however, Esther was rejected

Page 69

68 by the sectaries, as suggested by H.L.Ginsberg, as is missing purely by chance." ✓ ترجمہ " تاہم ایچ.این.جنبرگ کی تجویز کے مطابق زیادہ احتمال یہی ہے کہ قمرانی آستر کی کتاب کا انکار کرتے تھے.یا پھر اس کا نہ ملنا محض اتفاق ہے.“ عہد عتیق کے قدیم نسخوں میں ہزاروں ہزار اختلافات ہیں.قمرانی صحائف اور قطعات میں عہد عتیق کے جو حصے ملے ان سے مزید اختلافات سامنے آگئے F.More لکھتے ہیں: ہیں."Again the scrolls preserve many new readings some of which are superior to receive readings some of which are inferior." ✓ ترجمہ: ”اس کے علاوہ صحائف میں بہت نئی قرآتیں بھی محفوظ ہیں.جن میں سے بعض موجودہ متن سے بہتر ہیں اور بعض اس سے کم تری لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان سب گوناں گوں اختلافات کے باوجود بائیبل کو لفظاً الہامی مانا جاتا ہے.ہم مسلمانوں کو قرآن مجید جیسی عظیم الشان الہامی کتاب کی موجودگی میں جس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک نقطہ اور ایک ایک شعشہ خدا کا کلام ہے.اس بات پر یقین نہیں آتا.میں تو یہود و نصاریٰ کے اس عقیدے پر بار بار ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہوں کہ کس طرح وہ ان بے ہودہ عقائد پر اڑے ہوئے ہیں حالانکہ ان کی بے ہودگی.آگاہ ہیں.اس حالت میں جب میں امت مسلمہ پر نگاہ ڈالتا ہوں تو دل پر ایک چوٹ لگتی ہے.ایک طرف ہمارے بھائیوں نے قرآن مجید کو مھجور کی طرح پھینک دیا اور اسے حدیث کے تابع کیا.اور دوسری طرف حدیث سے انکار کر کے شمع ہدائت پر تھوکنے کی کوشش کی.اے خدا! تو بڑا ہی رحیم وکریم ہے.ہمارے سب گناہوں کو بخش دے اور ہمیں توفیق دے کہ ایسے وقت میں جبکہ یہود و نصاری اپنی حد درجہ مخدوش کتب کو لفظاً الہامی مانتے ہیں ہم بھی اپنے The Ancient Library of Qumran P-121 ↓ The Ancient Library of Qumran P-125 ✓

Page 70

69 ذرائع ہدایت کی صحیح معنوں میں قدر کریں اور دین ودنیا کی ترقیات سے بہرہ اندوز ہوں ( آمین ).اگر چہ بائیبل کو عقیدہ آج کے دن تک الہامی مانا جاتا ہے.تاہم ایک عرصہ سے اس عقیدے کی حالت اس پھوڑے کی سی ہو رہی تھی.جس کے اندر گند بھرا ہوا ہو.صحائف کی دریافت نے اس پر نشتر کا کام کیا اور اس کے فساد کو ظاہر کر دیا.چنانچہ متقین کا خیال ہے کہ اب ایسے پیشواؤں کی زندگی تلخ ہو رہی ہے.Gelkes لکھتے ہیں: "of course the new knowledge does make things more difficult for those who cling to the verbal inspiration of the Bible of modern scholarship." ترجمہ: البته تازه معلومات سے ان لوگوں کے لئے جو بائیبل کو لفظاً الہامی قرار دیتے ہیں حالات زیادہ تلخ ہوتے جارہے ہیں.کیونکہ وہ جدید علمی تحقیق کے نتائج سے آنکھیں بند کر رہے ہیں.“ چارلس فرانس یا ٹر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: " جب مخلص راسخ العقیدہ عوام کو جن کی امریکی کلیسیاء میں اکثریت ہے.یہ بتایا جائیگا کہ حالیہ دریافت شدہ صحائف اور بائیل کے علاوہ تحریرات مثلاً حنوک اور جو بلی نے بائیبل کو شاہ جیمز اور ہر دوسرے متن کو خواہ وہ یہودی ہو یا عیسائی ناکارہ کر دیا ہے.تو ایک فقید المثال مذہبی نزاع اور تفرقہ پڑنا لازمی ہے..“ اسکے بعد وہ لکھتے ہیں: ”ذرا تصور کیجئے کہ جب انہیں بتایا جائیگا کہ ایسینی صحائف نے ان کی مقدس.معتمد اور معتبر بائیبل کے کئی ابواب کو دینی پہلو سے Impact of the Dead Sea Scrolls.P.121 ترجمه از انگریزی ص 11.The Last Years of Jesus Revealed

Page 71

70 بالکل غلط اور محرف مبدل قرار دے دیا ہے.تو ان پر کیا گذرے گی !! اگر آزمائش چا ہو تو بتا کر دیکھ لو...ملے وووس آخر کار جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا اور و وصداقت جو چودہ سو سال قبل قرآن مجید نے "بحر * قُونَ الكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِ " کے پُر شوکت الفاظ میں بیان فرمائی تھی.اس سے عیسائی متقین کے دلوں کے تار انگیختہ ہوئے اور کچھ اس قسم کی سُریں نکلنے لگیں."Scholars in the most conservative churches recognize that the text has been corrupt at many points in the course of its transmission.If that were not already well known and universally admitted, the dead sea scrolls would demonstrate it, conclusively." ترجمہ انتہائی قدامت پسند کلیسیاؤں کے انتہائی قدامت پسند علماء بھی اس بات کو بخوبی مجھتے ہیں کہ اپنی منتقلی کے دوران کلام مقدس میں بکثرت تحریف واقع ہو چکی ہے.اگر یہ امر قبل ازیں کسی پر واضح نہ تھا یا عالمگیر سطح پر اسے تسلیم نہ کیا جاتا تھا تو صحائف قمران بلا شبہ اسے عملاً دکھا دیں گے.“ سبحان اللہ.کیسے کیسے لوگ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں.رشد و ہدائت کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے مگر ان لوگوں کے ذوق علمی اور اپنی مذہبی کتاب سے پیار کو دیکھ کر ان پر قربان ہونے کو دل چاہتا ہے.جب دیکھا کہ اس کو ہم تک پہنچانے والوں نے دیانتداری سے کام نہیں لیا تو اس زمانے کا جائزہ لینے کی فکر میں ہیں.جس میں مسورائی متن کو بالا دستی حاصل ہوئی چنانچہ F.More لکھتا ہے:."Moreover, thanks to the Murabba at text which extent the series from Qumran down into the second century A.D., we have direct ا ترجمه از انگریزی ص 12.The Last Years of Jesus Revealed More light on the Dead sea scrolls by Millar Burrows P-40 ✓

Page 72

71 evidence for the first time as to just what happened to the text in the crucial era before, during, and after the time when the official text was fixed." ترجمہ: مزید برآں مربعات کے نسخے بھی غیر مترقبہ ہیں جنہوں نے قمرانی سلسلے کو دوسری صدی تک وسیع کر دیا ہے.اور جن کی بدولت ہمیں پہلی بار موقعہ ملا ہے کہ یہ دیکھیں کہ متن پر ان نازک لمحات سے قبل، دوران اور بعد میں کیا گزری جب کہ سرکاری متن متعین کیا جارہا تھا.محققین کا خیال ہے کہ پائیل میں جو غلطیاں راہ پا گئی ہیں.صحائف کی روشنی میں ان کا سراغ لگایا جاسکتا ہے.اور مختلف نسخوں کا مقابلہ موازنہ کرنے سے ایک ایسا متن تیار کیا جا سکتا ہے.جو ہر قسم کے نقائص خصوصا عیسائی اثرات سے پاک ہوگا اگر چہ اس کے لئے لمبی محنت در کا ہے.تا ہم وہ پُر امید ہیں.F.More لکھتے ہیں:."These details are enough to indicate that the biblical scrolls from Qumran begin a new period in the study of the text of the old testament.Perhaps it is not too much to hope that in proper time, old testament scholars will be able to establish a genuinely critical or eclectic text of the old testament which would reconstruct a pre Christian state of the old testament.At all events, the new finds will chart new courses by which progress will be made, toward more accurate, more intelligible old testament." ترجمہ: ”ان تفاصیل سے یہ بات بخوبی وا واضح : واضح ہو جاتی ہے کہ بائیبل سے متعلق قمرانی صحائف نے عہد عتیق کے متن کے گہرے مطالعے کے لئے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے.The Ancient Library of Qumran P-133 ↓ The Ancient Library of Qumran P-145

Page 73

72 اب یہ امید کرنا بے جا نہیں ہے کہ مناسب وقت میں عہد عتیق کے علماء اس قابل ہو جائیں گے کہ جائز تنقید کے بعد مختلف روایات کے تقابل سے عہد عتیق کا ایک منتخب شدہ متن قائم کریں.جو عیسائی اثرات سے بکلی پاک ہو.ہر مرحلے پر نئی دریافتوں کی روشنی میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی.اور ایک زیادہ صحیح زیادہ قابل فہم عہد عتیق ہمارے سامنے ہوگا.عہد عتیق کا کتاب وار مطالعہ اب ہم اس قابل ہو گئے ہیں کہ عہد عتیق کے متعلق ذرا تفصیل سے گفتگو کریں ہر کتاب کے متعلق حاصل شدہ واقفیت درج ذیل ہے.پیدائش پیدائش کی کتاب کے کل چھ نسخے ملے ہیں.متن کے لحاظ سے یہ مسورائی متقن معمولی اختلاف رکھتے ہیں.ان اختلافات کی پوری تفصیل نہیں مل سکی.البتہ ایک اہم بات سامنے آئی ہے پیدائش باب 16 میں لکھا ہے کہ حضرت ہاجرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی ساری کی لونڈی تھیں اور آپ کو شاہ مصر نے حضرت خلیل اللہ کی غلامی کے لئے پیش کیا.خروج کتاب مذکورہ کی آیت 1/5 میں مصر جاتے وقت حضرت یعقوب کے گھرانے کی تعداد ستر بتائی گئی ہے.جبکہ اعمال 7/14 میں یہ تعداد پچھتر (75) بتائی گئی ہے.علماء کے لئے یہ اختلاف پریشان کن تھا.قمران کے صحیفہ خروج میں بھی یہ تعداد 75 درج ہے.اب خیال کیا جاتا ہے کہ تقریر کرتے وقت سٹیفن کے پیش نظر، جس کا اقتباس اعمال 7/14 میں دیا گیا ہے، عہد عتیق کا ایسینی نسخہ تھا.خروج 32/10 میں استثناء 9/20 سے ماخوذ ایک جملہ بڑھایا گیا ہے.مزید اضافوں کے متعلق ملر بروز کا مندرجہ ذیل بیان ملاحظہ ہو."After 7:18a statement is inserted telling how Moses obeyed the command given in the preceding verse.The same kind of interpola- tion

Page 74

73 occurs in four other places also." ترجمه آیت 7/18 کے بعد ایک بیان کا اضافہ کیا گیا ہے.جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح موسی نے گزشتہ آیت میں دئے گئے احکام کی تعمیل کی.اسی قسم کے اضافے چار جگہ اور بھی ہیں.“ اخبار اخبار کی کتاب کے دو نسخے غار نمبر 4 سے ملے ہیں.یہ یونانی زبان میں ہیں.ان کے متعلق ملر بروز لکھتے ہیں: "of other Greek manuscript of leviticus written on leather, only 26:2-16 has survived, but in these fifteen verses there are ten variations from the later Septuagint manuscript and five more readings on which these differ among themselves." " ترجمہ: احبار کے دوسرے یونانی صحیفے میں جو چمڑے پر لکھا ہوا ہے باب 26 کی صرف آیات 2 تا 16 بچی ہوئی ہیں.مگر ان پندرہ آیات میں بھی سبعینہ کے بعد کے نسخوں سے دس جگہ اختلافات ہیں.اور پانچ ایسے مقامات ہیں جہاں ہر دونوں صحائف با ہم اختلاف رکھتے ہیں.“ گنتی گنتی 27/23 کے بعد مندرجہ ذیل عبارت کا اضافہ ہے.”اور اس نے اس کو حکم دیا کہ جو کچھ خدا وند تمہارے خدا نے ان دو بادشاہوں سے کیا وہ سب تو نے اپنی آنکھوں سے دیکھا یہ عبارت استثناء 3/21 سے ماخوذ ہے.۲.گنتی 35/21 میں یہ جملہ بڑھایا گیا ہے.” قاتل یقیناً مریگا.“ سے استثناء:.اس کے چودہ نسخوں کے قطعات ملے ہیں.ان کا متن کبھی ایک روائت کی تائید کرتا ہے اور کبھی دوسری کی.قلیل مقدار میں کئی قرآتیں بھی دستیاب ہوئی ہیں.مسورائی متن More light on the Dead sea scrolls P-136 ✓.d More light on the Dead sea scrolls P-137 ✓

Page 75

74 سے بہتر مفہوم پیدا کرتی ہیں.ا استثناء 32 میں مسورائی متن یوں ہے.اس نے اقوام کی سرحدیں بنی اسرائیل کے شمار کے مطابق ٹھہرائیں.صحیفہ قمران اس عبارت کو اس طرح پیش کرتا ہے ” اس نے اقوام کی سرحدیں خدا کے بیٹوں کے شمار کے مطابق ٹھہرائیں.“ یہی عبارت سبعینہ میں ہے.اور اسے ہی امریکہ کے مستند ترجمے ریوائزڈ سٹینڈرڈ ورشن (.R.S.V) نے اپنایا ہے.32/43-۲ کے تحت مسورائی متن یوں ہے.”اے قومو! اس کے لوگوں کے ساتھ خوشی مناؤ کیونکہ وہ اپنے بندوں کے خون کا انتقام لیگا.اور اپنے مخالفوں کو بدلہ دے گا.اور اپنے ملک اور لوگوں کے لئے کفارہ دے گا.“ قمرانی متن میں عبارت یوں ملی ہے.”اے آسمانو! اس کے ساتھ خوشی مناؤ اور تمام معبود اسے سجدہ کریں کیونکہ وہ اپنے بیٹوں کے خون کا بدلہ دیگا.اور جو اس سے متنفر ہیں ان سے انتقام لے گا.وہ اپنے لوگوں کی سرزمین کی خاطر کفارہ دے گا.“ (تمام معبود اسے سجدہ کریں ) زبور 97/7 میں بھی ہے.سبعینہ میں مندرجہ ذیل عبارت ہے.”اے آسمانو! اس کے لوگوں کے ساتھ خوشی مناؤ اور خدا کے سب فرشتے اسے سجدہ کریں.اے غیر قومو! اس کی امت کے ساتھ خوشی مناؤ.خدا کے تمام بیٹے اس کی طاقت کو جانیں.کیونکہ وہ اپنے بیٹوں کے خون کا بدلہ دیگا.اور انتقام لیگا.اور اپنے مخالفوں کو بدلہ دیگا.اور جو اس سے متنفر ہیں ان کو بدلہ دیگا.اور آقا اپنے لوگوں کی سرزمین کی خاطر کفارہ دے گا.سبعینہ کی عبارت میں ”خدا کے سب فرشتے اسے سجدہ کریں.“ عبرانیوں 1/6 میں ہے.”اے غیر قوموا اسکی امت کے ساتھ خوشی کرو“ رومیوں 15/10 میں ہے.The dead sea scrolls by Allegro.P-75 L

Page 76

75 '.استثناء 19 18/18 میں بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ایک مثیل موسیٰ کے آنے کی پیشگوئی ہے.یہاں بعض علماء کہتے ہیں کہ ایک نبی سے مراد ایک کے بعد ایک نبی ہے.یعنی ان کے خیال میں یہاں پے در پے نبی بر پا کرنے کی پیشگوئی ہے.چنانچہ مافیٹ نے اپنے ترجمہ میں ترمیم کر دی ہے.اور Prophet After Prophet (نبی کے بعد دوسرا نبی) ترجمہ کیا ہے.لیکن صحائف قمران میں جو متن ملا ہے.اس میں ایک پیغمبر کے بر پا ہونے کی پیشگوئی کے علاوہ لکھا ہے کہ ” جو شخص النبی یعنی The Prophet' کی بات نہ سنے گا اس سے حساب لیا جائے گا.۴- استثناء 33/8 کے عبرانی متن میں ہے کے تیرے تمیم“ اور ” اور یم اس مرد خدا 66.“ کے پاس ہیں جسے تو نے منہ پر آزمایا." یہ عبارت قمران سے یوں ملی ہے." تم اپنا تمیم لاوی کو دے دو اور اپنا اور یم اپنے اس مقدس شخص کو جسے تم نے منہ میں آزما لیا.۵ - ان اختلافات کے پیش نظر استثناء باب 2 3 والے متلعہ کے متعلق F.More لکھتے ہیں:."It preserves a text derivative from the Hebrew recention underlying the Septuagint in a passage where the textus receptus is defective, so that by comparison of the three texts, a text superior to any one of the witnesses may be reconstructed." - ترجمہ: ”ایک ایسے پیرے میں جہاں موجودہ متن میں خامیاں ہیں اس سے ایک ایسا متن ملا ہے.جو اس عبرانی متن سے ماخوذ کر کے جس کا ترجمہ کر کے سبعینہ تیار کی گئی.چنانچہ تینوں متون کے موازنہ سے ایسا عمدہ متن تیار کیا جاسکتا ہے جو تینوں شہادتوں سے بہتر ہو.“ شریعت کے بعد کی تاریخی کتب کے متعلق مر بروز نے محقق ملک کا بیان نقل کیا ہے.لکھتے ہیں: The Ancient Library of Qumran.P-134 L

Page 77

76 "Milk says that the manuscript of Joshua, judges, I, II- Samual and I,II Kings from caves 1,4,5, and 6 all seam to be derived from the same Hebrew text as that on which the Septuagint of these books was based."✓ ترجمہ ملک کا کہنا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ یشوع، قضاۃ، 2,1 سموئیل اور 1, 2 سلاطین کے نئے پہلی، چوتھی پانچویں اور چھٹی غاروں میں سے ملے ہیں اس عبرانی متن پر مبنی ہیں جس ے ملے ہیں اس سے ان کتب کی سبعینہ کا متن تیار کیا گیا.“ لیکن ایف مور کے نزدیک اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کتب میں سبعینہ کو مسورائی متن پر کسی قسم کی فوقیت حاصل ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہر اختلاف کا فیصلہ الگ الگ کرنا ہوگا.لکھتے ہیں :."All this does not mean that the Septuagint in the historical books preserved a text which is necessarily superior to the Masoretic text.The question of which witness is superior is another problem to be decided in individual readings." " ترجمہ ” اس تمام بحث کا یہ مطلب نہیں کہ تاریخی کتب میں سبعینہ کا متن لازمی طور پر مسورائی متن سے اعلیٰ ہے.یہ سوال کہ کونسی شہادت بہتر ہے بالکل الگ نوعیت کا ہے.جس کا فیصلہ ہر قرآت میں فرداً فرداً ہوگا.“ سموئیل : سموئیل کی کتاب کا ایک صحیفہ ملا ہے جس کے چھڑے کی پشت پر بے پیرس لگا ہے.یہ سموئیل کی دونوں کتابوں پر مشتمل ہے.اس کے کل 57 کالم ہیں.ان میں سے - 2- 33 کالم 1 سموئیل کے اور 24 کالم 2 سموئیل کے ہیں.یہ سب سے پرانا صحیفہ شمار کیا جاتا ہے.اس کے متعلق ایف مور لکھتے ہیں : More light on the dead sea scrolls P-139 1 The Ancient Library of Qumran.P-134

Page 78

77 "The importance of the exemplar of Samuel lies less in its bulk than in the unusual text it records." ترجمه سموئیل کے اس مثالی صحیفے کی اہمیت اسکی ضخامت کی وجہ سے اتنی نہیں.جتنی اس کے غیر معمولی متن کی وجہ سے ہے.“ اس کا متن سبعینہ کی بہت زیادہ تائید کرتا ہے.یہاں تک کہ ایف مور لکھتے ہیں: "For example, in the few published fragments of the archaic Samuel text (4Q Sam6), there are some thirteen readings in which the Qumran text agrees with the Greek against the readings of the received text, four readings in which the Qumran text agrees with the traditional text against the Septuagint." ترجمہ مثلاً سموئیل کے صحیفہ (4Q Sam) کے جو آرکیائی ( آثار قدیمہ) تحریر میں ہے.چند شائع شدہ قطعات میں تیرہ قمرانی قرآتیں موجودہ متن کے برعکس یونانی سے متفق ہیں.جبکہ صرف چار قمرانی قرآنیں سعید کے خلاف رسمی متن سے اتفاق کرتی ہیں.“ یہ نسبت دوسرے صحیفے (4Q Sama) میں اور بھی بڑھ گئی ہے.اور قمرانی قرآتیں سبعینہ ،مسورائی دونوں سے بہتر مفہوم پیدا کرتی ہیں.نیز دیکھئے The Impact of the Dead Sea Scrolls by A.N.Gilkes P.79.-1 سموئیل 12-23/11 کے تحت مسورائی متن یہ ہے: سلوکیا تعیلہ کے لوگ مجھ کو اس کے حوالہ کر دیں گے؟ کیا ساؤل جیسا تیرے بندہ نے سنا ہے آئیگا ؟ اے خداوند اسرائیل کے خدا میں تیری منت کرتا ہوں کہ اپنے بندہ کو بتادے.خداوند نے کہا وہ آئیگا تب داؤد نے کہا کہ قبیلہ کے لوگ مجھے اور میرے لوگوں کو The Ancient Library of Qumran.P-132 ↓ The Ancient Library of Qumran.P-133 ✓

Page 79

78 ساؤل کے حوالہ کر دیں گے؟ خداوند نے کہا وہ تجھے حوالہ کر دیں گے.“ یہ عبارت صحیفہ قمران میں اس طرح صاف کر دی گئی ہے.کیا ساؤل جیسا تیرے بندہ نے سنا ہے آئیگا ؟ اے خداوند اسرائیل کے خدا تو اپنے بندہ کو بتادے خداوند نے کہا وہ آئیگا تب داؤد نے کہا تعیلہ کے لوگ مجھے اور میرے لوگوں کو ساؤل کے حوالہ کر دیں گے؟ خداوند نے کہا وہ تجھے حوالہ کر دیں گے.(More Light on the Dead Sea Scrolls P.140) اب اس میں پہلا سوال دہرانے کی ضرورت پیش نہیں آئی.جان الیگرو نے اپنی کتاب میں سموئیل (Samuel) کی کتاب کے دوسرے باب اور پہلے باب کی بعض آیات کا ترجمہ دیا ہے اور قمرانی متن اور مسورائی متن اور سبعینہ کا موازنہ کیا ہے.ذیل میں صرف مسورائی متن اور قمرانی متن کی بعض آیات درج کی جاتی ہیں.مسورائی متن سموئیل 25-1/22 قمرانی متن 1- سموئیل 22-1/25 دد لیکن حنہ نہ گئی.کیونکہ اس نے دو لیکن حنہ اس کے ساتھ نہ گئی اس اپنے خاوند سے کہا جب تک لڑکے کا دودھ نے اپنے خاوند سے کہا جب تک بچہ بڑا نہ چھڑایا نہ جائے میں یہیں رہوں گی اور تب ہولے اور میں اس کا دودھ نہ چھڑالوں میں اسے لے کر جاؤں گی تا کہ وہ خداوند کے یہیں رہونگی.تاکہ وہ خداوند کے سامنے سامنے حاضر ہو.اور پھر ہمیشہ وہیں رہے حاضر ہو.اور ہمیشہ خداوند کے حضور حاضر اور اس خاوند القانہ نے اس سے کہا جو تجھے رہے اور ہمیشہ کے لئے جب تک وہ زندہ اچھا لگے سو کر جب تک تو اس کا دودھ نہ رہے گا نذر کے طور دیدونگی اور اس کے چھڑائے.ٹھہری رہ فقط اتنا ہو کہ خداوند خاوند القانہ نے اس سے کہا جو تجھے اچھا اپنے سخن کو برقرار رکھے.سو وہ ٹھہری رہی لگے سوکر جب تک تو اس کا دودھ نہ

Page 80

79 در اپنے بیٹے کو دودھ چھڑانے کے وقت چھڑائے ٹھہری رہ فقط اتنا ہو کہ خداوند تک پلاتی رہی اور جب اس نے اس کا تیرے منہ کی بات برقرار رکھے سو وہ عورت دودھ چھڑایا تو اسے اپنے ساتھ لیا اور تین ٹھہری رہی اور اپنے بیٹے کو دودھ چھڑانے بچھڑے اور ایک ایفہ آٹا اور مے کی ایک کے وقت تک پلاتی رہی اور وہ اسے ساتھ مشک اپنے ساتھ لے گئی.اور اس لڑکے کو لے کر سیلا گئی جب کہ ایک تین سالہ سیلا میں خداوند کے گھر لائی اور وہ لڑکا بہت پچھڑے روٹی اور ایک ایفہ آنا اور مے کی چھوٹا تھا اور انہوں نے ایک بچھڑے کو ذبح ایک مشک کے ساتھ.اور وہ سیدھی خداوند کیا اور لڑکے کو عیلی کے پاس لائے.“ کے گھر میں داخل ہوئی اور بچہ ان کے 1 - سموئیل 1/28 تا2/6 ساتھ تھا وہ خداوند کے حضور حاضر ہوئے اور بچے کے باپ نے قربانی کو ذبح کیا جیسا کہ وہ خداوند کے حضور سال بسال کیا کرتا تھا.اور وہ بچے کو قریب لائے جب اس نے بچھڑے کو ذبح کیا اور بچے کی ماں حنہ ھیلی کے پاس آئی اور اس عورت نے اسے وہیں تب اس نے وہاں خداوند کے آگے سجدہ کیا اور منہ نے دعا کی اور کہا کہ چھوڑا اور خداوند کے آگے سجدہ کیا اور کہا میرا دل خداوند میں مگن ہے.میرا سینگ کہ میرا دل خداوند میں مگن ہے میرا سینگ خداوند کے طفیل اونچا ہو اور میرا منہ میرے خداوند کے طفیل اونچا ہوا میرا منہ دشمنوں پر دشمنوں پر کھل گیا ہے کیونکہ میں تیری نجات کھل گیا ہے میں تیری نجات سے خوش سے خوش ہوں خدا وند کی مانند کوئی قدوس ہوں کیونکہ خداوند کی مانند کوئی قدوس نہیں اور نہ کوئی چٹان ہے جو ہمارے نہیں اور نہ ہی کوئی اب نیک ہے جب

Page 81

80 خداوند کی مانند ہو اسقدر غرور سے اور ہمارا خدا تیرے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں اور باتیں نہ کرو اور بڑا بول تمہارے منہ سے نہ نہ کوئی چٹان ہے جو ہمارے خدا کی مانند نکلے کیونکہ خداوند خدائے علیم ہے اور اعمال ہو.غرور سے باتیں نہ کرو اور بڑا بول کا تولنے والا زور آوروں کی کمانیں ٹوٹ تمہارے منہ سے نہ نکلے کیونکہ خداوند گئیں جو لڑ کھڑاتے تھے قوت سے کمر بستہ خدائے علیم ہے.....زور آور کی کمان ہوئے اور وہ جو آسودہ تھے روٹی کی خاطر ٹوٹ گئی اور جولڑ کھڑاتے تھے وہ قوت سے مزدور بنے اور جو بھوکے تھے ایسے نہ رہے کمر بستہ ہوئے وہ جو آسودہ تھے روٹی کی جبکہ جو بانجھ تھی اس کے ساتھ سوئے اور خاطر مزدور بنے اور بھوکے.....جو جس کے ساتھ بہت بچے ہیں وہ کھلتی جاتی بانجھ تھی اس کے ساتھ سوئے اور جس کے ہے.خداوند مارتا ہے اور جلاتا ہے وہی قبر پاس بہت بچے ہیں وہ گھلتی جاتی ہے.خدا میں اتارتا ہے اور اس سے نکالتا ہے.“ وند مارتا ہے اور جلاتا ہے.وہی قبر میں اتارتا ہے اور اس سے نکالتا ہے.“ 1 - سموئیل 2/16 اور اگر وہ شخص یہ کہتا کہ ابھی وہ ” اور وہ آدمی جواب دیتا اور چربی کو ضرور جلائیں تو تب جتنا تیرا جی کا ہن کے نوکر سے کہتا کہ کا ہن کو ابھی چاہے لے لینا تو وہ اسے جواب دیتا نہیں تو چربی جلانے دو پھر تو سب چیزیں جتنا تیرا مجھے ابھی دے نہیں تو میں چھین کر لے جی چاہے لے لینا جب وہ کہتا نہیں تو یہ مجھے ابھی دے یا میں چھین کر لے جاؤں گا.جب گوشت ابالا جاتا تو کوئی ایک سہ جاؤں گا.شاخہ کانٹا ہاتھ میں لیتا اور اسے ہانڈی یا کڑاہ میں پھینکتا اور جو بھی کانٹا اوپر سے آتا وہ اسے لے جاتا.اگر...اچھا ہوتا

Page 82

81 1 سموئیل 2/20 ” اور عیلی نے القانہ اور اسکی بیوی سوائے چھاتی کے جو پلائی جاتی ہے اور 66 دائیں ران کے.“ اور عیلی نے القانہ اور اسکی بیوی کو دعا دی اور کہا کہ خداوند تجھ کو اس عورت کو یہ کہہ کر دعادی کہ خداوند تجھ کو اس سے اس قرض کے عوض میں جو خداوند کو دیا عورت سے اس قرض کے عوض میں جو گیانسل دے پھر وہ اپنے گھر گئے.اسنے خداوند کو دیا تھا نسل دے اور آدمی اپنے گھر کو چلا گیا.1 - سموئیل 24-2/22 اور عیلی بہت بڑھا ہو گیا تھا اور اور عیلی بہت بڑھا ہو گیا تھا اسنے سب کچھ سنا کہ اسکے بیٹے سارے (90) سال کی عمر تھی اور اس نے سنا کہ اسرائیل سے کیا کیا کرتے ہیں اور ان اس کے بیٹوں نے بنی اسرائیل سے کیا کیا عورتوں سے جو خیمہ اجتماع کے دروازہ پر اور اس نے ان سے کہا تم ایسا کیوں کرتے خدمت کرتی تھیں ہم آغوشی کرتے ہیں اور ہو جو میں خداوند کی قوم کی زبانی سنتا اس نے ان سے کہا تم ایسا کیوں کرتے ہو ہوں.نہیں میرے بیٹو یہ اچھی بات نہیں جو کیونکہ میں تمہاری بدفرمانیاں تمام قوم سے میں سنتا ہوں ایسا نہ کرو کیونکہ جو اطلاعات سنتا ہوں نہیں میرے بیٹو یہ اچھی بات نہیں میں سنتا ہوں وہ اچھی نہیں.“ جو میں سنتا ہوں تم خداوند کے لوگوں سے نافرمانی کرتے ہو.

Page 83

82 امثال :- امثال 1/32 مسورائی متن میں ہے نادانوں کی برگشتگی صحیفہ قمران میں اس جگہ ” نادانوں کی رسی“ لکھا ہے.یسعیاہ:.یسعیا کی کتاب کے دو نسخے مکمل اور تیر و مرید نسخوں کے قطعات ملے ہیں یہ کتاب جماعت قمران میں بہت زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی.غار نمبر 1 سے حاصل ہونے والے یسعیاہ کے صحیفے کے متعلق پروفیسر آر کے امیرسن لکھتے ہیں: "Certain words have either been added or omitted, whilst letters or even words themselves have been transposed."✓ ترجمہ وبعض الفاظ یا تو بڑھا دئے گئے ہیں یا حذف کئے گئے ہیں بعض جگہ حروف بلکہ الفاظ کو بھی آگے پیچھے کر دیا گیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت ایسین کے ہاں کتب مقدسہ کی کتابت میں خاطر خواه احتیاط نہ برتی جاتی تھی.بلکہ اس میں بڑے تساہل سے کام لیا جاتا تھا.اور نقل نویس اپنے آپ کو آزاد تصور کرتے تھے.پروفیسر سکیہان Skehan کا خیال ہے کے یسعیاہ کے اس صحیفے سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام مقدس کو منتقل کرنے کے دوران تفسیری عمل جاری رہا ہے.یعنی نقل نویس مفسر ہوتے تھے.اور اس حد تک آزاد خیال ہوتے تھے کہ کلام مقدس کے جو معنے ان کو سمجھ آتے ان کی وضاحت کے لئے عبارت میں توسیع یا ترمیم کر دیتے تھے.قمرانی صحائف میں اس کی اجازت تھی مگر مربعات کے زمانہ میں جبکہ سرکاری متن متعین کر دیا گیا تھا.اس قسم کی اجازت نہ تھی.پروفیسر موصوف نے اس صحیفے میں ستائیس ایسی قرآتیں نوٹ کی ہیں جو بالکل نرالی ہیں کے 1948ء کے موسم گرما میں ریوائز ڈسٹینڈرڈ بائیل کمیٹی کا اجلاس نارتھ فیلڈ میں ہوا.ڈاکٹر ملر بروز نے یہ قرآتیں اجلاس میں پیش کیں.چنانچہ.R.S.V میں پندرہ جگہ تبدیلی Teach yourself book the dead sea scrolls.P-62 1 More light on the dead sea scrolls.P-147 ↓

Page 84

83 کر دی گئی اس واقعہ کے ذکر پر چارلس پاٹر یسعیاہ 40/8 کا حوالہ دیکر جس میں یہ لکھا ہے کہ خدا کا کلام ابد تک قائم رہے گا لکھتے ہیں: "Then it was only coincidence that fifteen.corrections had already been made in that very book of Isiah by the insertion of readings from the Dead Sea manuscript of Isiah in the place of discarded passages in the King James Version." ترجمہ ”پھر یہ محض اتفاق ہے کہ اس کتاب یعنی یسعیاہ میں صحائف قمران کے مطابق شاہ جیمز کے ترجمے کے رد کئے گئے پیروں میں پندرہ مقامات پر نئی عبارات شامل کر کے پہلے ہی صحیح کی جاچکی ہے.“ یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ صحیح شدہ ایڈیشن ستمبر 1952ء میں شائع کر دیا گیا.لیکن عوام کو ان تبدیلیوں سے پردہ اخفاء میں رکھا گیا.یہاں تک کہ 1955ء میں ایڈمنڈ ولسن کے مضامین مشہور امریکی اخبار نیو یارک میں شائع ہونے سے عوام میں ایک شعور پڑ گیا.تب جا کر عوام کو اس کی اطلاع دی گئی.بعض اختلافات درج ذیل ہیں: 1 - یسعیاہ 53/2 میں آنے والے عظیم الشان پیغمبر کے متعلق لکھا ہے.”نہ اس کی کوئی شکل وصورت ہے.نہ خوبصورتی اور جب ہم اس پر نگاہ کریں تو کچھ حسن و جمال نہیں کہ ہم اس کے مشتاق ہوں.یہ متن محامد سید الانبیاء کے سراسر خلاف ہے.صحیفہ قمران میں اس کا صحیح متن درج ذیل ہے.اس میں یہ عبارت ہے.میں نے اس کے ریخ زیبا کو اسقدر ممسوح کیا کہ کسی شخص کا نہ کیا تھا.اسی لئے اس کی صورت بنی آدم سے نرالی ہے.“ یہ متن موقع محل کے مطابق ہے.اور بہت خوبصورت ہے.چنانچہ یہ درست معلوم ہوتا ہے.2- یسعیاہ 51/5 میں یہ عبارت درج ہے.” میرے باز ولوگوں پر حکمرانی کریں گے The last years of Jesus Revealed.P-62 1

Page 85

84.جزیرے میرا انتظار کریں گے.اور میرے بازو پر ان کا تو کل ہوگا.صحیفہ قمران میں میرا کی جگہ اسکا درج ہے.اس طرح یہ عبارت آنے والے عظیم الشان پیغمبر کے لئے ایک شاندار بشارت میں بدل جاتی ہے.ملاحظہ ہو صحیفہ قمران کی عبارت: اس کے باز ولوگوں پر حکمرانی کریں گے.جزیرے اس کا انتظار کریں گے.اور ان کا تو کل اس کے بازو پر ہوگا.“ 3- یسعیاہ 41/27 میں لکھا ہے.” میں نے ہی پہلے صیون سے کہا کہ دیکھ ان کو دیکھ اور میں ہی یروشلم کو ایک بشارت دینے والا بخشونگا.“ صحیفہ قمران میں یہ عبارت یوں ہے.سن رکھو کہ پہلے صیون کو ایک بشارت لانے والا اور یروشلم کو ایک خوشخبری بیان کرنے والا عطا کرونگا.مسورائی متن کی عبارت بالکل بے معنی تھی.صحیفہ قمران نے اسکو صاف کر دیا ہے.4- یسعیاہ 53/9 میں لکھا ہے.اس کی قبر بھی شریروں کے درمیان ٹھہرائی گئی اور وہ اپنی موت میں دولتمندوں کے ساتھ ہوئی.صحائف قمران سے حاصل ہونے والی عبارت اس طرح ہے.انہوں نے اس کی قبر شریر کے ساتھ بنائی اور دولتمندوں کے ساتھ اس کی اونچی جگہ ( تعمیر کی ).،، 5- یسعیاہ 49/12 میں ہے.دینی اسرائیل سیٹیم کے ملک میں آئیں گے.“ صحیفہ قمران سے یہ عبارت یوں ملی 66 ہے.”بنی اسرائیل سوان سے آئیں گے.“ زبور :.اس کتاب کے سترہ نسخے یا ان کے قطعات حاصل ہوئے ہیں.ایف مور اس کے زبوروں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.More light on the Dead sea scrolls.P-151 L More light on the Dead sea scrolls.P-152 I

Page 86

85 Analysis of the literary types, the prosody, and the language and theological motifs of these documents will greatly expand our knowledge of the development of late old testament psalmody on the one hand, and will illuminate on the other hand difficult problems in the study of the literary and prosodic canons of new testament psalms (especially in the prologue of Luke and poetry."_ ترجمه ادبی اقسام کے تجزیے یعنی ان تحریرات کے عروض، زبان اور دینی اغراض کے علم سے ایک طرف عہد عتیق کے مناجات کو گانے کے فن میں بعد کی ترقی سے متعلق ہماری معلومات بہت وسیع ہو جائیں گی.اور دوسری طرف نئے عہد نامے کے زبوروں (خصوصاً لوقا کے مقدمے) میں ادبی اور عرضی معیاروں کے مطالعے سے متعلق مشکل مسائل 66 پر روشنی پڑے گی.1- عهد عتیق میں کل 150 زبور شامل ہیں اگر چہ ان کی ترتیب میں اختلاف موجود رہا ہے.لیکن ان کی تعداد کے متعلق مکمل اتفاق ہے.اب صحائف قمران کی دریافت سے زبور نمبر 151 کا پتہ چلا ہے.اس زبور میں لکھا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے نغمات سرمدی کے باعث طیور اور جانور وجد میں آجاتے تھے.گویا اس آسمانی موسیقار کی مناجات سے انسان اور حیوانات برابر متاثر ہوتے تھے.اس سے قرآنی بیان کی صداقت کھل کر سامنے آگئی ہے.فرمایا: ” وسخر نامع داؤد الجبال يسبحن والطير“ (انبياء.۸۰) ترجمہ: ”اور ہم نے داؤد کے ساتھ پہاڑوں کو بھی اور پرندوں کو بھی کام پر The Ancient Library of Qumran.P-122 1 Dead sea scrolls (1947-69).P-147

Page 87

86 لگا دیا تھا.وہ سب خدا کی تسبیح کرتے تھے" پھر فرمایا: "ولقد آتينا دائود منا فضلا يجبالُ اوبي معه والطير“ (سبا.ا ١) ترجمہ : ”اور ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے فضل عطا کیا تھا.کہ اے پہاڑ و تم 66 بھی اور اے پر ند و تم بھی اس کے ساتھ خدا کی تسبیح کرو.“ پھر فرمایا: اناسخرنا الجبال معه يسبحن بالعشى والاشراق والطير محشورة كل له اوّاب (ص: ۲۰۱۹) ترجمہ: ہم نے پہاڑوں کو اس کے تابع کر دیا تھا.اور وہ شام اور صبح تسبیح میں لگے رہتے تھے.اور پرندوں کو بھی جمع کر کے اس کے ساتھ لگا دیا تھا.وہ سب کے سب خدا کی طرف جھکنے والے تھے“ 2- زبور 71/6 میں مسورائی متن ہے.تو ماں کے پیٹ ہی سے میرا کاٹنے والا رہا.“ قمرانی مسودہ میں یہ عبارت اس طرح ہے.تو ماں کے پیٹ ہی سے میری طاقت ہے." دیکھئے قلم کے کرشمے.ایک لفظ بدلنے سے بات کہاں سے کہاں جاتی ہے.3- زبور 38/17 میں مسورائی متن کی عبارت ہے کہ "میرے دشمن زندہ طاقتور ہیں.صحائف قمران سے مندرجہ ذیل عبارت ملی ہے.”میرے دشمن بلا وجہ طاقتور ہیں.“ یرمیاہ: یہ کتاب خاص دلچسپی کا باعث ہے.اس کے دو متن ملے ہیں.ایک تو مکمل ہے.جو مسورائی متن کے مطابق ہے.ایک اس کا مختصر متن ملا ہے.جو مکمل متن کا آٹھواں حصہ ہے.سبعینہ میں بھی یہ کتاب مختصر دی گئی ہے.باب 10 میں سبعینہ ایک مقام پر چار More light on the Dead sea scrolls.P-143 ↓

Page 88

87 آیات حذف کرتی ہے.وہی چار آیات نار نمبر 4 سے حاصل ہونے والے صحیفہ یرمیاہ (ب) میں حذف کی گئی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قمرانی بائیکل پر سبعینہ والی روائت کا کافی اثر ہے.دانیال:.اس کتاب کے قطعات کہوف قمران سے دستیاب ہوئے ہیں.لیکن بعض محققین کا خیال ہے کہ ایسینی اس کو کتب مقدسہ میں شمار نہ کرتے تھے.اس کی وجوہات مختلف بتائی گئی ہیں.مطر بروز لکھتے ہیں: "Recognizing, therefore, that there were exception to the standard procedures cross notes that in at least four Qumran manuscripts the book of Danial received an extraordinarily free treatment which at least "strongly suggests" that it was not considered a part of the sacred scriptures." ترجمہ: ”چنانچہ یہ دیکھتے ہوئے کہ مقررہ طریق میں مستثنیات بھی ہوتی تھیں 'کر اس نے بیان کیا ہے کہ دانیال کی کتاب کے کم از کم چار قمرانی مسودات کے ساتھ غیر معمولی آزادانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے.اس سے کم از کم یہ بات بڑی شدت سے ظاہر ہوتی ہے کہ اس کو کتب مقدسہ کا حصہ قرار نہیں دیا جاتا تھا.“ ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ تمام کتب مقدسہ کو لکھنے کے لئے کالموں کی لمبائی، ان کی چوڑائی سے دگنی رکھی گئی ہے.لیکن دانیال کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا گیا.بلکہ اسکے کالم جتنے لمبے ہیں.اتنے ہی چوڑے ہیں.اس کے علاوہ ملر بروز نے ایک طریق کا ذکر کیا ہے.جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ایسینیوں کے ہاں کسی کتاب کو کیا مقام دیا جاتا تھا.اس طریق کی افادیت کا ذکر وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں.The Ancient library of Qumran.P-122 ↓

Page 89

88 "If reliable, this is important because it indicates that one of the book in the Jewish and Hebrew canon, the book of Danial, was not regarded as sacred scripture in the Qumran community."! ترجمہ: اگر یہ اصول قابل اعتماد ثابت ہوا تو یہ بڑا اہم اصول ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہودی اور عبرانی کیفین کی ایک کتاب یعنی دانیال جماعت قمران کے ہاں مقدس نہ تھی." اس کتاب میں مندرجہ ذیل اختلافات پایا گیا ہے.دانیال 4/33 میں بخت نصر کی سات سال کی بیماری کا ذکر ہے لیکن ایسینی صحیفے میں بخت نصر کی بجائے نبونیدس کے سات سال تک ایک خوفناک بیماری میں مبتلا رہنے کا ذکر ہے.عاموس:.اس کتاب کی آیت 9/11 کا اقتباس صحیفہ دمشق اور بشارات مسیح میں دیا گیا ہے.جو مسورائی متن سے مختلف ہے.مسورائی متن کے مطابق یہ آئت اس طرح ہے.اس روز میں داؤد کے گرے ہوئے مسکن کو دوبارہ کھڑا کرونگا.“ لیکن صحیفه دمشق اور بشارات مسیح دونوں جگہ اس روز" کے الفاظ حذف کر دئے گئے ہیں.اور عبارت یوں دی گئی ہے.میں داؤد کے گرے ہوئے مسکن کو دوبارہ کھڑا کرونگا.“ اعمال 15/16 میں بھی اس آیت کا اقتباس دیا گیا ہے وہاں بھی اس روز کے الفاظ گرادئے گئے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ اعمال کے مصنف کے پاس عہد عتیق کا قمرانی متن تھا.حقوق:.یہ کتاب محققین کے درمیان خاصی گرما گرم بحث کا موجب رہی ہے.اس کی قمرانی تفسیر ایسینی آقا کی زندگی کی آئینہ دار ہے.ایسینیوں کے ہاں حقوق کی کتاب کے More light on the Dead sea scrolls.P-175 ↓

Page 90

89 صرف دو ابواب تھے.کیونکہ تیسرا باب صحائف قمران سے دستیاب نہیں ہوا.معلوم ہوتا ہے کہ یہ باب بعد میں اضافہ کیا گیا ہے.چارلس پاٹر کا خیال ہے کہ تیسرا باب 65 قبل مسیح کے کافی عرصہ بعد کا اضافہ ہے کیونکہ غار نمبر 1 سے تفسیر حبقوق کے ساتھ یسعیاہ کا ایک صحیفہ بھی ملا تھا.جو 65 قبل مسیح سے بعد کی تحریر ہے.پس حتمی طور پر ثابت ہوگیا کہ اس وقت تک حبقوق کی کتاب کے صرف دوابواب تھے.وہ لکھتے ہیں."An editor simply attached it to the book of the prophesies of Habakkuk evidently lifting these nineteen verses from a collection of psalms where one was entitled "A prayer of Habakkuk"." ترجمه کسی مدیر نے اپنی سادگی سے زبوروں کے کسی مجموعے سے یہ انہیں (۱۹) آیات جن پر حبقوق کی دعا کا عنوان دیا ہوا تھا، اٹھا کر محبقوق کی پیشگوئیوں کی کتاب“ کے ساتھ لگا دیں.66 صحائف قمران سے حاصل ہونے والے متن اور مسورائی متن میں شدید اختلافات پر نظر کرتے ہوئے ملر بروز (Miller Burrows) لکھتے ہیں: "It would be a sad mistake, however to attribute this diversity to mere indifference and carelessness in quoting and copying.Mistakes were made, deliberate modification were undoubtedly introduced.There was no sense of a divine origin and authority of wards and letters which must be preserved with meticulous The last years of the Jesus Revealed.P-24

Page 91

90 accuracy." (More Light on the Dead Sea Scrolls P.158) ترجمہ: ”اس اختلاف کو اقتباس اور نقل میں بے اعتنائی اور بے احتیاطی کی طرف منسوب کرنا ایک افسوسناک غلطی ہوگی.غلطیاں جان بوجھ کر کی جاتی تھیں.اور اس میں شک نہیں کہ جانتے بوجھتے ترامیم کی جاتی تھیں.اس قسم کا بالکل کوئی خیال نہ تھا.کہ الفاظ و حروف مستند اور الہامی ہیں.جنگی صحت کو انتہائی احتیاط کے ساتھ جزئیات میں بھی محفوظ رکھنا ضروری 66 ہے.

Page 92

91 باب سوم ابتدائی مسیحیت اور نیا عہد نامہ پس منظر )

Page 93

93 -3 " ابتدائی مسیحیت کا پس منظر حضرت مسیح علیہ السلام تشریعی نبی نہ تھے بلکہ آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تابع نبی تھے اور موسوی شریعت کے احیاء کے لئے مبعوث ہوئے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ نے کسی نئے مذہب کی بنیاد نہ رکھی یہاں تک کہ اپنے متبعین کے لئے کوئی علیحدہ فرقہ بنانا بھی پسند نہ کیا اور نہ ہی ان کا کوئی نیا نام رکھا آپ کی وفات کے کئی سال بعد Antioch میں آپ کے متبعین کو مسیحی نام دیا گیا آپ نے بنی اسرائیل کو تبلیغ کرتے ہوئے فرمایا.یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں.منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں کیونکہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہر گز نہ ملے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے پس جو کوئی چھوٹے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑے گا اور وہی آدمیوں کو سکھائے گا وہ آسمان کی بادشاہت میں سب سے چھوٹا کہلائے گا لیکن جو ان پر عمل کرے گا اور ان کی تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائے گا.(متی باب 5) پس آپ کا اصل مشن تورات کی تعلیمات کا احیاء تھا اور آپ عمر بھر یہی تعلیم دیتے رہے کہ تورات کے احکام پر بچے دل سے عمل کرو لیکن بعد میں جب پولوس نے عیسائیت میں کفارے کا عقیدہ داخل کیا تو اس مقصد کے لئے مسیح علیہ السلام کو خدا کا اکلوتا بلکہ خود خدا قرار دیا گیا چنانچہ اس وقت عیسائیت میں سے مسیح کے انسانی پہلو کو مکمل طور پر حذف کر دیا گیا جس طرح عام طور پر انبیاء دنیا میں مبعوث ہوئے اور اپنی اقوام میں تبلیغ کر کے متبعین کا گروہ پیدا کرتے ہیں اور قانون قدرت کے مطابق دنیا میں پھیلتے ہیں بلکہ اس میں مافوق الطبیعاتی عنصر کو غالب کر دیا گیا.اور خاص طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کو انسانیت سے اٹھا کر خدائی رنگ دے دیا گیا اور شریعت کے احکام کی پابندی سے جان چھڑانے کے لئے یہ عقیدہ گھڑ لیا

Page 94

94 گیا کہ حضرت مسیح نے جو معصوم تھے صلیب پر جان دی اور لعنتی ہوئے اور تین دن تک ملعون.رہے.(نعوذ باللہ ) اور اسطرح انسانوں کے گناہوں کا کفارہ ہو چکا ہے.اس کے ساتھ ہی حضرت مسیح علیہ السلام کے مشن کو جو صرف بنی اسرائیل کے لئے تھا تمام اقوام کے لئے وسیع کر دیا گیا حالانکہ انجیل میں لکھا ہے کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام نے بارہ رسولوں کو تبلیغ کے لئے بھیجا تو ان کو حکم دے کر کہا.”غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا.(متی 6-10/5) کفارے کے عقیدہ کو درست ثابت کرنے کے لئے مسیحیوں کو کئی نئے عقاید گھڑنے پڑے.حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا بنایا.آپ کی زندگی سے انسانیت کا پہلو حذف کر دیا گیا اور آپ کی یگانگت کو ثابت کرنے کے لئے وہ تمام کتب جن سے حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی تعلیمات اخذ کی تھیں دبا دی گئیں.اور ان کے تمام نسخے ضائع کرنے کی پوری کوشش کی گئی.یہاں تک کہ جن کتب کو مقدس قرار دیا گیا ان میں سے ان کتب کا ذکر تک حذف کر دیا گیا.جن کو رد کیا گیا تھا.لیکن اس کے باوجود یہودا کے خط میں ایک اشارہ باقی رہ گیا.اب صحائف کی دریافت سے ان کتب میں سے اکثر کتب کے پرانے نسخے سامنے آگئے ہیں اور مسیح علیہ السلام کی وہ تعلیمات جو آج تک بے نظیر اور خدائی الہامات قرار دی جاتی تھیں ان کتب میں پہلے سے موجود پائی گئیں.چنانچہ.سی.ایف پاٹر لکھتے ہیں: "Here are these "rejected" books written B.C., yet containing many sayings and Teaching hither to thought by most Chritians to be original in Christianity's new testament, and to have been first spoken by Jesus Christ as a direct new revelation, a hither to unrevealed message from God the Father!" (The Last Years of Jesus Revealed P.75)

Page 95

95 ترجمہ: یہاں وہ رد کی گئی کتب ہیں جو قبل مسیح میں لکھی گئیں پھر ان میں وہ اقوال و تعلیمات درج ہیں جنہیں اکثر مسیحی آج تک مسیحیت کے نئے عہد نامے میں بالکل نئی اور ابتدائی خیال کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ انہیں یسوع مسیح نے براہ راست تازه وجی پاکر پہلی بار بیان کیا یعنی ایسا پیغام جو آج تک خدا باپ نے کسی دوسرے پر ظاہر نہ کیا تھا.“ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائی علماء نئے عہد نامے کو الہامی تسلیم کرنے کی بجائے یہ کہنے لگے کہ عیسائیت خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوئی بلکہ عام معاشرتی انقلاب کی طرح یہ بھی ایک لمبے تاریخی عمل کا نتیجہ ہے چنانچہ ملر بروز اپنی کتاب میں محقق ڈیوس کی رائے ان الفاظ میں درج کرتے ہیں."Davis says that Christianity is now shown to have originated not in a series of unique events caused by a supernatural intervention but by a natural process of social evolution." (More Light on the Dead Sea Scrolls P.43) ترجمہ: ڈیوس کہتا ہے کہ اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مسیحیت کا ظہور کسی مافوق الفطرت طاقت کے دخل سے وقوع میں آنے والے عدیم المثال واقعات کے باعث نہ ہوا تھا بلکہ ایک سماجی ارتقاء کا نتیجہ ہے.جو عام قوانین قدرت کے مطابق عمل میں آیا.ملر بروز معمولی تبدیلی کیساتھ اس رائے کو ان الفاظ میں تسلیم کرتے ہیں: "Unquestionably Christianity is the fruit of a long historical process.It does not follow, however, that God had nothing to do with it.(More Light on the Dead Sea Scrolls P.42) ترجمه بلاشبہ مسیحیت لمبے تاریخی عمل کا نتیجہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں خدا تعالیٰ کا دخل نہ تھا.اس مفہوم کو فرانس پاٹر مندرجہ ذیل الفاظ میں ادا کرتے ہیں: "And now that the proven Mother of Christianity is known to have been the prior

Page 96

96 community of the new covenant commonly called the essenes, the momentous question challenging the conscience of all Christendom is whether the child will have the grace, courage and honesty to acknowledge and honor its own mother." (The Last Years of Jesus Revealed P.10) ترجمہ: اب جبکہ عیسائیت کی مسلمہ ماں دریافت ہو چکی ہے کہ ”عہد جدید کی وہ سابقہ جماعت تھی جسے عموماً ایسینی کہا جاتا ہے.نہایت اہم سوال جو ساری عیسائی دنیا کے ضمیر کو للکار رہا ہے یہ ہے کہ آیا بچہ اپنی ماں کے احسان کا حق ادا کرنے اور اس کا احترام قائم کرنے کے لئے رحم ، جرات اور دیانت کا اظہار کرتا ہے یا نہیں.“ جہاں تک مسیح علیہ السلام کی یگانگت کا سوال ہے.اب یہ نظریہ ختم ہو رہا اور عیسائیوں کے دلوں میں آپ کیلئے اتنا احترام بھی نظر نہیں آتا جو دیگر انبیاء کے لئے ان کے دلوں میں پایا جاتا ہے.چنانچہ ” جیمس اے پائیک“ جو ریاست کیلیفورنیا کے رومن کیتھولک چرچ کے بشپ ہیں لکھتے ہیں: Jesus world view was that of his time.The concept of kingdom of God which be stressed was that introduced into Judaism in the fifth century B.C., under Zar asterian in fluence.He was influenced by the teaching of the Essenes as is growing more and more evident with the availability of translations of the Dead Sea Scrolls." (A Time for Christian Candaur P.109) ترجمہ کائنات کے متعلق مسیح کے نظریات بھی اسکے زمانے کے مطابق تھے خدا کی بادشاہت کا نظریہ بھی جس پر اس نے بہت زور دیا بالکل وہی تھا جو پانچویں صدی قبل مسیح میں

Page 97

97 زرتشتی اثر کے نیچے یہودیوں میں آیا.صحائف قمران کے تراجم کی اشاعت سے یہ بات ہر روز زیادہ واضح ہوتی جارہی ہے کہ وہ ایسینی تعلیمات سے بھی متاثر تھا.“ بعض محققین حقیقت کے اس قدر قریب چلے گئے ہیں کہ انہوں نے استاد صادق کو مسیح کہنا تسلیم کر لیا ہے چنانچہ اسے مسیح اول قرار دے کر یسوع کو مسیح ثانی کا نام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسیح ثانی نے مسیح اول سے زیادہ کوئی نیا پیغام دنیا کو نہ دیا.چنانچہ ایچ.ایچ.رولے اپنی کتاب میں ایک صحافی کی رائے ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں."Henceforth.....we know that the Messiah of galilee has contributed nothing, absolutely nothing, which was not long familiar to those who believed in the new covenant (i.e.the Qumran Sectaries) the first Christ, who perished under Aristobulus II could only be copied by the second Christ." ترجمہ: ”اب سے....ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ گلیل کے مسیح نے ان تعلیمات میں جن سے اس سے کچھ عرصہ قبل عہد جدید پر یقین رکھنے والے یعنی قمران فرقہ پرست بخوبی واقف تھے قطعاً کوئی اضافہ نہ کیا.مسیح ثانی سے سوائے اس کے کچھ نہ ہوسکا کہ مسیح اول کی جو ارسطو بولوس دوم کے عہد میں فوت ہوا نقل کرے." حقیقت یہ ہے کہ محققین کی اکثریت اسبات پر یقین رکھتی ہے حضرت مسیح ایسینی فرقہ میں مبعوث ہوئے تھے چنانچہ رابرٹ ایم گرانٹ اور ڈیوڈ ٹول فریڈ مین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں."Indeed there were those who argued that both John the Baptist and Jesus had been essenes, and a few held that the Christian interpretation of Jesus crucifixion was based on Etiemble mels mps N.W.Derves vi, No.63 1 بحوالہ (11-The dead sea scrolls and the New testament.P)

Page 98

98 that of the crucified teacher of rightesness" (The secret saying of Jesus according to the gospel of Thomas P.14) ترجمه دراصل ایسے محققین بھی تھے جو اسبات کی وکالت کرتے تھے کہ یوحنا بتسمہ دینے والا اور مسیح دونوں ایسینی تھے.اور بعض اسبات کے قائل تھے کہ یسوع کے صلیب دئے جانے کی وہ تفسیر جو مسیحی کرتے ہیں مصلوب استاد صادق کے صلیب دئے جانے کی ایسی ہی تفسیر پر مبنی ہے.66 چونکہ مسیح علیہ السلام نے بالکل وہی تعلیمات پیش کیں جن پر ایسینی فرقہ پہلے سے ہی عمل پیرا تھا اس لئے وہ آپ پر ایمان لے آئے محققین مذکور اسی صفحہ پر لکھتے ہیں: "What happened to the Essenes? Many of them were killed when the Romans sacked Qumran in A.D.68, others douhtlen became Christians, more or less orthodox, recognizing that the Messiah had already come." ترجمہ: ایسیوں کا کیا بنا؟ ان کی ایک بڑی تعدا اس وقت ماری گئی جب 68 عیسوی میں رومیوں نے قمران کو لوٹا.باقی یہ جان کر کہ مسیح تو پہلے ہی آچکا ہے بلاشبہ عیسائی ہو گئے جو کم و بیش راسخ العقیدہ تھے.یوحنا بپتسمہ دینے والا :.حضرت مسیح علیہ السلام نے حضرت یوحنا کے ہاتھ پر بیعت تو بہ کی جو وادی قمران کے پاس ہی منادی کر رہے تھے صحائف قمران کی روشنی میں اب یہ بات ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے کہ حضرت یوحنا ایسینی تھے اور جب وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے وجی سے مشرف ہوئے تو انہوں نے اپنی تبلیغ کا دائرہ وسیع کیا اور ایسینی تعلیمات کو اپنے متبعین میں پھیلایا.اسبات کے حق میں کہ یوحنا بپتسمہ دینے والا ( حضرت محی علیہ السلام ) ایسینی تھا متعدد دلائل مل چکے ہیں.1- حضرت کی علیہ السلام نے یسعیاہ باب 40 کے مطابق تو بہ کی منادی کی.

Page 99

99 دستور العمل میں جماعت ایسین کے قیام کا مقصد بالکل انہی الفاظ میں بیان ہوا ہے.یعنی بیابان میں پکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ خداوند کی راہ تیار کرو.اس کے راستے سیدھے بناؤ.(متی3/3) 2.حضرت سکی نے اپنے بعد آنے والے مسیح کے متعلق کہا کہ ”وہ تم کو روح القدس اور آگ سے بپتسمہ دے گا.‘ ( متی (3/11) قمرانیوں کا بھی یہی عقیدہ تھا وہ کہتے تھے.."Through the Holy Spirit......sprinkling upon him a spirit of truth as purifying as water." ترجمہ: ”روح القدس.وہ ہ سچائی کی روح سے منور ہوگا جو پانی کی طرح پاکیزگی عطا کرے گی.-3- یوحنا کے نزدیک بپتسمہ اسقدر اہم سمجھا جاتا تھا کہ اس مقصد کے لئے بہت سے تالاب مرکزی عمارت میں بنائے گئے تھے.جین شین مین (Jean Steinman) لکھتے ہیں."The baptism which John was to give obviously recalls the Essene baptism." ترجمہ: بپتسمہ جو یوحنا کا مقصد تھا صریحاً ایسینی بپتسمہ کی یاد دلاتا ہے.“ 4.حضرت سکی علیہ السلام ایسینیوں سے اس قدر متاثر تھے کہ آپ کی خوراک بھی ان ہدایات کے مطابق ہوتی تھی جو ایسینی صحیفہ دمشق میں درج ہیں.مصنف مذکورہ اسی صفحہ پر لکھتے ہیں."We may not even examine so small a detail as his food which was of wild honey and locusts, without finding its siguficance.The Damascus document rules in fact that locusts must be eaten either boiled or roasted (x11:14,15)." Dead sea scrolls by Allegro.P-158 L Saint john the Baptist and the Desert Tradition.P-59

Page 100

ٹڈی پر 100 ترجمہ: ہم اس قدر معمولی تفاصیل یعنی اس کی خوراک کا معائنہ نہیں کر سکتے جو جنگلی شہد اور پر مشتمل ہوتی تھی سوائے اس کے کہ اس کی بھی ایک وجہ نظر آتی ہے حقیقت یہ ہے کہ صحیفہ دمشق میں یہ اصول بیان ہوا ہے کہ ابلی ہوئی یا بریاں ٹڈی ضرور کھانا چاہئے.حضرت بی علیہ السلام شراب کو نا پسند کرتے تھے ایسینی بھی اپنے کھانے میں (tirash) یعنی انگوروں کا شربت استعمال کیا کرتے تھے.5- ایسینیوں کا خیال تھا کہ پتسمہ لینے سے انسان کو ایک نئی زندگی حاصل ہوتی ہے.حضرت یحی علیہ السلام کا بھی یہی خیال تھا.ایضاً صفحہ 44.6- اخوت ایسین کی تعلیمات کے مطابق بیٹی بھی سادہ اور موٹے کپڑے پہنتے تھے.اخوت ایسین چونکہ ابتدا میں شادی کے خلاف تھے اس لئے اس زمانہ کے مشہور مورخ فائلو(Philo) کا خیال ہے کہ وہ دوسروں کے بچوں کو لے کر پالتے اور ان کی تعلیم و تربیت کرتے تھے جان الیگرو کہتے ہیں."One interesting suggestion has been advanced that John had been adopted by the Qumran Sect as a boy, and this would certainly account for his being in the desert at such an early age." ترجمہ: ایک دلچسپ نظریہ یہ پیش کیا گیا ہے کہ فرقہ ایسین نے یوجنا کو بچپن میں معنی بنا لیا تھا چنانچہ اس سے اسبات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ وہ اس چھوٹی عمر میں بیابان میں کیسے 66 چلے گئے.مطر بروز اس نظریے کی حمائت میں رقمطراز ہیں."Brownle's suggestion that the essenes may have adopted John as a boy has been taken up by a number of writers." ✓ ترجمہ: "برونلی کے اس نظریے کو لے کر ایسیوں نے یوحنا کو بچپن میں معلومی بنایا تھا مصنفین Dead sea scrolls by Allegro.P58 1 More light on the Dead sea scrolls.P-61 ✓

Page 101

101 کی ایک بڑی تعداد نے اپنا یا ہے.“ حضرت بی چونکہ پہلے ہی کاہنوں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس لئے ایسینیوں نے آپ کو اعلیٰ تعلیم دلائی ہوگی اور آپ نے اپنی پارسائی کے باعث ان میں معزز مقام حاصل کر لیا ہو گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی سے نوازا.مصنف جین سٹین لکھتے ہیں."God made him understand that he must leave the school of the Essene expositors to become himself a prophet with a new message, as had been the prophets God." ✓ ترجمہ: اللہ تو نے اس کو تفہیم فرمائی کہ ایسینی مفسرین کو ترک کر کے گزشتہ انبیاء کی طرح ایک نئے پیغام کیساتھ خود نبی بنیں.جان الیگرو نے بھی اپنی کتاب Dead sea scrolls کے صفحہ 159 پر یہی نظریہ پیش کیا ہے لیکن جب آپ نے اخوت ایسین کو چھوڑا تو آپ کے ساتھ آپ کے معتقدین کا ایک گروہ بھی آیا.چنانچہ جین سٹین میں لکھتے ہیں."It is not impossible that certain of his disciples amongst whom the fourth gospel numbers Andrews and perhaps also peter and John, had themselves been in the Essene community.' " ترجمہ: یہ ناممکن نہیں کہ اس کے بعض حواری بھی جن میں چوتھی انجیل اندریاس اور شاید پطرس اور یوجنا کو بھی شامل کرتی ہے آپ کے ساتھ اخوت ایسین میں رہے ہوں.“ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر جو حضرت بیچی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے اس بات کا کیا اثر پڑتا ہے؟ جان الیگرو ہماری رہنمائی کے لئے آگے آتے ہیں اور ان کا کہنا ہے: " it is certain that John the baptist and his disciples exercised a very considerable Saint John the Baptism and the Desert Tradition.P-60 ۲ ،

Page 102

102 influence on John and the church, and it is equally certain that much of John's message finds its parallels in Qumran teachings." ! ترجمہ: یہ پختہ بات ہے کہ یوحنا بپتسمہ دینے والا اور اس کے حواری مسیح اور کلیسیاء پر بہت زیادہ حد تک اثر انداز ہوئے اور یہ بھی اتنا ہی یقینی ہے کہ یوجنا کا پیغام زیادہ تر قمرانی تعلیمات کے مشابہ تھا.ان الفاظ میں جان الیگر و بڑے واضح الفاظ میں یہ بات کہہ گئے ہیں کہ مسیح اور کلیسیاء کا سب کچھ ایسینی چشمہ سے پھوٹا تھا.یہی وجہ ہے کہ اخوت ایسین اور ابتدائی کلیسیا میں اس حد تک مشابہت ہے کہ دونوں ایک ہی جماعت دکھائی دیتے ہیں.یعقوب مسیح علیہ السلام کے بھائی یعقوب کو جو آپ کے بعد میر و علم کے مسیحیوں میں صدارت پر فائز رہے ایسینی قرار دیا جاتا ہے لیکن (Gilkes) لکھتے ہیں."Here again the similarities are interesting but not sufficient to justify a claim of direct influence however much we may feel James.Iwould have been more at home than Jesus among the brotherhood." ✓ ترجمہ یہاں بھی مشابہتیں بڑی دلچسپ ہیں.لیکن یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ براہ راست متاثر تھے.خواہ ہم کس قدر شدت سے یہ محسوس کریں.البتہ یعقوب مسیح کی نسبت اخوت (ایسینی ) میں مواد رچا بسا نظر آتا ہے.ان دلچسپ مشابہتوں میں سے ایک یہ ہے کہ یعقوب اپنے خط 4/5 میں لکھتے ہیں." کیا تم سمجھتے ہو کہ کتاب مقدس عبث کہتی ہے کہ روح جو ہم میں سکونت پذیر ہے.وہ غیرت ہی کی مشتاق ہے.لیکن کتاب مقدس میں ایسا کوئی جملہ نہیں.اب دستور العمل سے یہ جملہ مل گیا ہے چنانچہ گاسٹر کا خیال ہے کہ یعقوب کے Dead sea scrolls.P-159 ↓ Impact of the Dead sea scrolls.P-150

Page 103

103 نزد یک صحیفہ دستور العمل بھی کتب مقدسہ میں شامل تھائیے ملر بروز مذکورہ بالا کتاب میں ڈیوس کی یہ رائے بھی نقل کرتے ہیں."A.P.Davies suggests that James may have been the leader of the whole Essence (ایضاً) صفحہ 117) "movement ترجمہ: اے.پی ڈیوس نے تجویز پیش کی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یعقوب تمام سینی تحریک کا راہنما ہو.“ پولوس پولوس جو موجودہ عیسائیت کا بانی سمجھا جاتا ہے اس کو بھی ایسینی قرار دیا گیا ہے.گلکیز لکھتے ہیں."Theologically the covenanters are more closely connected with St.Paul than with James.It has often been noted how acutely both are conscious of a frustrating sense of him." ترجمہ ”دینی پہلو کے لحاظ سے معاہدین کا تعلق یعقوب کی نسبت مقدس پولوس سے زیادہ قریبی ہے بار بار اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ دونوں کو گناہ کی ہوا دینے والی قوت کا کس شدت سے احساس ہے.“ اس سلسلے میں رومیوں کے نام خط 24-7/19 کی عبارت شکرانے کے زبوروں اور دستورالعمل کی عبارات سے بالکل مشابہ ہے.ایسینی تقدیر پر ایمان رکھتے تھے اور اس پر بہت زور دیتے تھے صحیفہ دستور العمل میں اس عقیدے کا ذکر بڑی زور سے کیا گیا ہے.پولوس بھی بالکل انہی معنوں میں تقدیر کا قائل تھا.چنانچہ افسیون کے نام مخط 1/4 میں اس عقیدے کا ذکر آتا ہے.ایسینی اپنے آپ کو خدا کے منتخب شدہ“ کہتے تھے پولوس ان سے بہت آگے بڑھ کر اپنے آپ کو اور اپنی جماعت کو افسیون باب اول میں خدا کے بیٹے قرار دیتا ہے.More light on the Dead sea scrolls.P-131 ↓ Impact of the Dead sea scrolls.P-151

Page 104

104 حقوق ب۲ کی تفسیر کرتے وقت ایسینی مفسر نجات کے لئے یقین کو ضروری قرار دیتا ہے.پولوس کا یہ مقولہ بہت مشہور ہے کہ ”صادق اپنے یقین کی بدولت زندہ رہے گا“ ایسینی صحیفہ جنگ میں ابنائے نور اور اپنائے ظلمت کی جنگ کا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں پولوس نے بھی نور اور تاریکی کا موازنہ کیا اور افسیون 17-4/11 میں تاریکی کے ساتھ جنگ کو تمثیلی رنگ میں بیان کیا.محققین کا خیال ہے کہ یہ عبارت صحیفہ جنگ سے ماخوذ ہے.Testaments of the Twelve Patriarchs بارہ حواریوں کی انا جیل کے نسخے کہوف قمران سے ملے ہیں پولوس کے نظریات اس کتاب سے متاثر تھے اس سے انداز ولگا یا گیا ہے کہ پولوس اس سے آگاہ تھا لے عیسائیت کے تمام ابتدائی بزرگ ایسینی تھے یعنی عیسائیت نے اخوت ایسینی کی کوکھ سے جنم لیا.اور اسی کی گود میں پرورش پائی یہی وجہ ہے کہ اس کے تمام عادات واطوار پر ایسینی رنگ غالب رہا.اگر چہ ہوش سنبھالتے ہی اس نے بغاوت اختیار کی اور بہت سے بے بنیاد عقائد کی طرف مائل ہوگئی تاہم ابتدائی عیسائیت اور اخوت ایسین میں بہت زیادہ مشابہت پائی جاتی ہے.آئندہ صفحات میں چند مشابہتوں کا ذکر کیا جائے گا.Impact of the Dead sea scrolls.P 153 L

Page 105

105 ایسینی اور عیسائی (مشابہتیں) حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت کے وقت یہودی مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے تھے.ان میں سے اکثر ایک دوسرے سے سخت اختلاف رکھتے تھے.مشہور فرقے فریسی، صدوقی اور ایسینی ہیں.فریسیوں اور صدوقیوں کا ذکر نئے عہد نامے میں بار بار آتا ہے کہ انہوں نے مسیح علیہ السلام کی مخالفت کی اور آپ کو سخت سے سخت اذیتیں دی اور آپ کی جان کے در پے ہوئے مگر یہ بات کافی حیران کن ہے کہ ایسینیوں کا نئے عہد نامے میں کہیں ذکر نہیں.نہ اس رنگ میں کہ انہوں نے مسیح علیہ السلام کو تسلیم کر لیا اور نہ ہی اس کے برعکس.یہودیوں میں غالب فرقہ صدوقی تھا اور وہی ہیکل پر قابض تھے.ان میں سے ہی کا ہن اعظم ہوتا تھا اور اسے رومن حکومت کی تائید بھی حاصل تھی.صدوقیوں کو حکومت کی طرف سے یہ اختیار بھی تھا.کہ وہ اندرونی معاملات کے فیصلے کرتے اور رومی گورنر کی منظوری سے انہیں نافذ بھی کرتے تھے.صدوقیوں اور فریسیوں کا ذکر نئے عہد نامے میں تقریباً اکٹھا ہی ہمیں ملتا ہے.لیکن ایسینیوں کے متعلق کسی قسم کی کوئی واقفیت ہمیں نئے عہد نامے سے نہیں ملتی.البتہ اس عہد کے مورخین جوزیفس فائلو اور پلینی کی تحریروں میں انکا تفصیل سے ذکر ہے.جیسا کہ تعارف میں بتایا جاچکا ہے.اسبات کے پیش نظر کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے حضرت بیٹی کی بیعت یہودیہ کے بیابان میں کی.جہاں ایسینی فرقہ رہتا تھا.اور وہیں آپ نے چالیس دن چلہ کشی بھی کی.یہ کہنا ناممکن ہے کہ آپ کو ایسینیوں کے بارے میں کسی قسم کا کوئی علم نہ تھا.پھر کیا وجہ ہے کہ آپ نے اپنی پوری زندگی میں ان کا کہیں بھی ذکر نہیں کیا.لیکن اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ وادی قمران سے برآمد ہونے والی ایسینی تحریرات میں ایک جگہ بھی جماعت کو ایسین" نام سے یاد نہیں کیا گیا.بلکہ ان تحریروں سے

Page 106

106 پتہ چلتا ہے.کہ جماعت کے لوگ اپنے آپکو دل کے غریب یعنی ” بیونی“.حقیقی اسرائیل.چنیدہ اور ایسا فرقہ جو خدا تعالی کے قدیم عہد پر قائم ہے کہتے تھے.بالکل یہی نام ابتدائی مسیحیوں کو حضرت عیسی علیہ السلام نے دیئے.اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ایسینی فرقہ حضرت مسیح علیہ السلام پر آپ کی بعثت کے ابتدائی زمانے میں ہی ایمان لے آیا.اور آپ کے متبعین میں شامل ہو گیا.اور اس طرح ان کا بطور فرقہ کے الگ موجود نہ رہا.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس فرقہ کا کہیں ذکر نہیں کیا.بلکہ ان لوگوں کی تعریف کی جو دل کے غریب ہیں اور خدا تعالیٰ کی راہوں پر چلنے والے ہیں.ایسینی فرقہ کی بنیاد دوسری صدی ق م میں بتائی جاتی ہے.ایسی نی تحریرات سے محققین اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ان کے ہاں علماء کی تربیت کے لئے باقاعدہ مدرسہ موجود تھا.ابتدائی مسیحیت اور ایسینی فرقے کے اعتقادات ، عبادات، رسوم اور انتظامی امور میں غیر معمولی مشابہت ہے.یہی وجہ ہے کہ بہت سے محققین اس طرف گئے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے ایسینی مدرسوں میں تعلیم وتربیت حاصل کی.اور وہیں آپ کو ریاضت اور عبادات بجالانے کے نتیجے میں نبوت کا مقام ملا.اور نبوت کے مقام پر فائز ہونے کے بعد آپ ایسینی فرقے کے قوانین کے پابند نہ رہے.بلکہ آپ نے ایسینیوں کو وحی جدید کی تبلیغ کی.جس پر وہ ایمان لائے اور آپ تمام بنی اسرائیل کو تبلیغ کرنے کے لئے نکلے آپ کے کم از کم تین حواری بھی ایسینی بتائے جاتے ہیں.محققین میں شروع سے یہ خیال چلا آیا ہے کہ ابتدائی مسیحیت اور ایسینیوں میں بہت سی مشابہت پائی جاتی ہیں.چنانچہ ہاورڈ کلاک کی لکھتے ہیں."Scholars have long recognized that there are similarities in the organization, practices beliefs of the essence and the early Christian community.The Dead Sea Scrolls have provided details of the three principal areas of similarity.

Page 107

107 The role of the teacher and of Jesus, the Qumran communal meal and the education, and the essene and early Christian radical interpretations of the law."✓ ترجمہ: علماء کو عرصہ سے معلوم تھا کہ ایسینیوں اور ابتدائی مسیح جماعت کی تنظیم، عبادات اور عقاید میں مشابہت پائی جاتی ہے.اب صحائف قمران نے مشابہت کے تین بنیادی پہلوؤں یعنی استاد صادق اور مسیح کے کردار.قمرانی اجتماعی کھانے اور عشائے ربانی اور ایسینی ابتدائی مسیحیوں کی شریعت کی مخصوص تاویل کی تفاصیل مہیا کر دی ہیں.“ اسی طرح Sherman E-Johnson اپنی کتاب میں لکھتے ہیں.ترجمه از انگریزی.چار ہزار ایسینی شادی کے بغیر رہتے تھے ان کے علاوہ جو شادی کرتے تھے وہ بھی بچے حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتے تھے حالانکہ یہودیوں میں جو کہ گھریلو زندگی کو نعمت الہی خیال کرتے تھے کنوارہ پن ایک نئی چیز تھی.ایسینی اپنی املاک مشترک رکھتے تھے.ان سب کا ایک ہی لباس تھا جو سفید تھا صبح طلوع آفتاب سے قبل سوائے عبادت کے کوئی کلام نہ کرتا تھا.صبح و شام کھیتوں پر کام کرتے تھے دو پہر اور شام کے دونوں کھانوں سے قبل ان کے کاہن برکت کے لئے دعا پڑھتے تھے عام انتظام کے لئے اوور سیر بطور افسر ہوتے تھے اور اجلاسوں میں بیٹھنے کے لئے درجہ بندی کا لحاظ رکھا جاتا تھا.اور اس ترتیب سے باری باری بات کرنے کی اجازت ہوتی تھی.جماعت میں داخلے کے لئے ایک سال کا آزمائشی عرصہ گزارنا پڑتا تھا.اس کے بعد سخت قسم لی جاتی تھی کہ وہ جماعت کے قوانین کی پابندی کرے گا اور خاص تعلیمات اور تحریرات کو عوام سے پوشیدہ رکھے گا ان کے ہاں با قاعدہ فنسل ہوتا تھا جو پاکیزگی اور طہارت کا ذریعہ خیال کیا جاتا تھا.حاجات فطریہ میں وہ کتاب استثناء سے ماخوذ ہدایات طہارت کی پابندی کرتے تھے ہیکل میں قربانی نہ کرتے تھے.ان کے نزدیک روح غیر فانی تھی وہ تقدیر کے قائل تھے.بلا ضرورت بہت زیادہ قسمیں Jesus in History.P-45 L

Page 108

108 کھانے سے پر ہیز کرتے تھے.پرہیز گاری اور انصاف کا قیام ان کا واحد مقصد تھا.کسی کو پرہیزگاری کا نقصان نہ پہنچانا، برائی سے نفرت اور نیکی کا قیام ان کا شعار تھا.کے اس کے بعد لکھتے ہیں.دو محققین کا خیال ہے کہ ان تعلیمات کے پیش نظر مسیح علیہ السلام نے عمر بھر شادی نہ کی.اور اگر چہ پولوس نے شادی کی اجازت تو دی مگر جو طاقت رکھے اس کے لئے اکیلا رہنا بہتر خیال کیا.عیسائیوں میں عشائے ربانی (Last supper) کے موقع پر کوئی عورت موجود نہ ہوتی تھی یروشلم کے مسیحی چرچ میں عرصہ تک املاک کی اجتماعی ملکیت رائج رہی اسبات کا کوئی ثبوت نہیں ملاتا کہ مسیح علیہ السلام نے ہیکل میں عبادت میں حصہ لیا اور نہ ہی واقعہ صلیب سے قبل آپ کے حواری ایسا کرتے تھے متی کی انجیل اور جیمس کا خط دونوں قسمیں کھانے سے روکتے نہیں.عیسائیت میں رحم کی تعلیم پائی جاتی ہے.ہے جہاں تک مسیح علیہ السلام کے ہیکل میں عبادت کرنے کا تعلق ہے ہمیں جناب جانسن سے اتفاق نہیں کیونکہ اناجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہیکل میں عبادات بجالاتے تھے.ان مشابہتوں کے علاوہ جو اوپر گنائی گئی ہیں مندرجہ ذیل مزید مشابہتیں صحائف قمران کی روشنی میں سامنے آتی ہیں.1 - جماعت قمران پر بارہ یا پندرہ آدمی حکومت کرتے تھے جن میں بارہ عمومی نمائندے اور تین امیر ہوتے تھے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کل تعداد بارہ ہوتی ہو اور ان میں سے تین کا امیر ہونا لازمی ہو یروشلم میں عیسائیت کا ابتداء میں بالکل یہی حال تھا بارہ آدمی اس پر حاکم تھے جن کا صدر پطرس تھا.2 صحیفہ دمشق اور دستور العمل دونوں میں ایک اہم عہدے ”عبقر ، یعنی اوور سیر کا ذکر ہے یہ لفظ بشپ کا بالکل ہم معنی ہے جماعت قمران میں اس کا کام اجلاس کی صدارت، اجتماعی Jesus in his own times.P 24-25 1 Jesus in own times.P-26 ✓

Page 109

109 املاک کی نگرانی اور جماعت میں نئے داخل ہونے والوں کا معائنہ تھا.اعمال کی کتاب سے ظاہر ہے کہ پطرس اور دوسرے رسولوں نے خود یہ کام سرانجام دیا.جو بعد میں سٹیفن کے سپرد کیا گیا.جب مسیحیت کے متبعین تعداد میں بڑھتے گئے تو بالکل اسی طریق پر جس طرح ایسیٹیوں میں تقسیم کا رتھی عیسائیوں میں بھی عمل میں آئی.اور پہلی صدی عیسوی کے اختتام کے قریب عیسائیت کے بشپ کے کام بالکل وہی رہ گئے جو ایسینی مبقر کے ہوتے تھے.رسوم.عیسائیت عیسائیت میں عشائے ربانی (Lords supper) اور جماعت قمران کا مائدہ مسیح (Messianic Banquet) بالکل ایک ہی چیز ہیں.محققین کی اکثریت کا اسبات پر اتفاق ہے کہ ان دونوں رسوم میں انتہائی مماثلت ہے چنانچہ پروفیسر آر.کے.ہیریسن اپنی کتاب The Dead Sea Scrolls کے صفحہ 117 پر لکھتے ہیں: "The Essene and Qumran rites constitute important parallels to the Christian service of the lords supper.The primitive "breaking of bread" which according to the accounts in icorinthians often took the form of a communal meal (agape) was presided ever by the leader of followed by a celebration of a Holy Communion in which the bread and wine were blessed by the celebrant.It is evident that both the Qumran of the Christian rites exhibited pronounced Messianic and apocalyptic characteristics, whist the idea of a Messianic banquet at the end of the age was clearly linked by Christ with the last supper when he promised his discipline that they wought eat and drink at his table in his coming kingdom."

Page 110

110 دستور العمل سے ظاہر ہے کہ ایسین مجالس میں بیٹھنے کی ترتیب اہمیت کے مطابق ہوتی اور یہی حال مجالس میں گفتگو کا ہوتا تھا عہدے کے مطابق باری باری بات کرنے کا موقعہ مل سکتا تھا.عیسائی عشائے ربانی میں ترتیب کا خاص خیال رکھا جاتا تھا.لوقا 22/24 میں لکھا ہے.” اور ان میں یہ تکرار بھی ہوئی کہ ہم میں سے کون بڑا سمجھا جاتا ہے" اس سے بھی ہے.”اور زیادہ یوحنا 25-13/21 میں یہ نظارہ دکھائی دیتا ہے.یہ باتیں کہہ کر یسوع اپنے دل میں گھبرایا اور یہ گواہی دی کہ میں تم سے بچ کہتا ہوں کہ تم میں سے ایک شخص مجھے پکڑوائے گا.شاگردشبہ کر کے کہ وہ کس کی نسبت کہتا ہے.ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اسکے شاگردوں میں سے ایک شخص جس سے یسوع محبت رکھتا تھا یسوع کے سینہ کی طرف جھکا ہوا کھانا کھانے بیٹھا تھا پس شمعون پطرس نے اس سے اشارہ کر کے کہا کہ بتا تو وہ کس کی نسبت کہتا ہے اسی طرح یسوع کی چھاتی کا سہارا لے کر کہا.”اے خداوند وہ کون ہے“ اس سے بڑی وضاحت سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ کھانے پر بیٹھنے میں کس حد تک ترتیب کا خیال رکھا جاتا تھا.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسی مجالس میں گفتگو کا طریق کیا تھا.یسوع کی بات سے سب شاگردوں کو شبہ ہوا مگر وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہی رہے کوئی بھی بول نہ سکا.بالآخر پطرس نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا کیونکہ وہ اپنی باری کے مطابق بول نہیں سکتا تھا.تب اس کے ساتھی نے جس کی باری تھی مسیح سے دریافت کیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ ایسینی نمائدہ صحیح اور عیسائی عشائے ربانی بالکل ایک ہی چیز کے دو الگ الگ نام ہیں ان کی تمام تفصیلات میں انتہائی مطابقت ہے.یوحنا کی انجیل اور پہلے مخط میں نور اور تاریکی حق اور باطل کا موازنہ کیا گیا ہے جو صحائف قمران کا طرہ امتیاز ہے صحیفہ جنگ میں ابنائے نور اور ابنائے ظلمت کے درمیان ایک عظیم معرکے کا ذکر بڑی تفصیل سے درج ہے.جماعت قمران اور ابتدائی مسیحی دونوں اپنے آپ کو عہد نامہ جدید کے حامل قرار دیتے ہیں.

Page 111

111 " جماعت قمران اپنے آقا کو استاد صادق کا لقب دیتی ہے.اسی طرح انجیل میں مسیح علیہ السلام کو ”نیک استاد کہہ کر پکارا گیا ہے استاد صادق“ اور ”نیک استاد دونوں کے لئے عبرانی میں ایک ہی الفاظ آتے ہیں.پس بنیادی طور پر یہ ایک ہی لقب ہے.بظاہر جو فرق نظر آتا ہے ترجمے کی وجہ سے پیدا ہو گیا ہے.دونوں جماعتیں اپنے عقاید کی تائید کے لئے عہد عتیق سے ایک ہی عبارت پیش کرتی ہیں.مثلامتی نے یسعیاہ کے حوالے سے مندرجہ ذیل عبارت نقل کی ہے.وو 66 بیابان میں پکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ خداوند کی راہ تیار کرو.اس کے راستے سیدھے بناؤ کے بالکل یہی عبارت جماعت قمران کے صحیفہ دستور العمل میں درج ہے اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ جو الفاظ مستی نے دیئے ہیں وہ موجودہ مسورائی متن میں یسعیاہ کی عبارت سے مختلف ہیں لیکن دستور العمل میں لفظ بلفظ متی کی عبارت ہے.جماعت قمران نور کی ابدی فتح کے لئے ایک عظیم الشان معر کے کی تیاری کر رہی تھی.مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو اس کی تیاری کے لئے کپڑے بیچ کر بھی تلوار میں خریدنے کا حکم دیا.اگر چہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس رنگ میں سمجھا گیا تھا اس رنگ میں دونوں میں سے کسی بھی جماعت کو معرکہ پیش نہیں آیا تا ہم تیاری دونوں کر رہے تھے.ایسینیوں کی طرح ابتدائی کلیسیاء میں بھی اشتراک اموال کا طریق جاری تھا اور ہر نئے رکن کے لئے یہ ضروری تھا کہ اپنا سارا مال بیچ کر ساری جماعت کے حوالے کر دے اگر کوئی اپنے اموال کی غلط رپورٹ دیتا تو اس کو سخت سزا دی جاتی تھی.ہے ایسینی دنیاوی تعلیمات کو چھوڑ کر بیابان میں جا کر آباد ہو گئے تھے اور غربت کی زندگی کو پسند کرتے تھے ابتدائی عیسائیوں میں بھی یہ چیزیں نمایاں نظر آتی ہیں.گلگیز مسیح علیہ السلام کے ذکر پر لکھتے ہیں: "But in his attitude towards poverty and متی 3/3 ، اعمال 4/32

Page 112

112 things of this world he is certainly very close the covenenters." ترجمه و لیکن غربت اور اس دنیا کی اشیاء کے متعلق رویے میں وہ یقینی طور پر معاہدین کے بہت قریب ہے.“ جس طرح مسیح علیہ السلام کا الہام فی ذاتہ شرعی احکام پر مشتمل نہ تھا بلکہ اس کا مقصد عہد عتیق کی تشریح تھا.اسی طرح استاد صادق پر بھی وحی تشریح نازل نہ ہوئی تھی.بلکہ ان کی بعثت کا مقصد صرف عہد عتیق کے صحیح مفہوم کو واضح کرنا تھا ہے اخوت ایسین میں ہر رکن کو ایک خاص درجے میں رکھا جاتا تھا اور ہر رکن کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے سے بلند درجہ رکھنے والے اراکین کی کسی بھی رنگ میں تو ہین کا مرتکب نہ ہو.انا جیل میں بھی حفظ مراتب اور تعظیم بزرگاں کی تعلیم دی گئی ہے متی 23/10 اس کی مثال ہے جماعت قمران میں داخلے کے لئے ہر رکن کو پانی سے اپتسمہ دیا جاتا تھا عیسائیت نے بیتہ بھی اس رسم کو اپنایا.ایسینی اور عیسائی دونوں اپنے آپ کو حقیقی اسرائیل، برگزیدہ، خدا کے ساتھ قدیمی عہد پر قائم، غربت ، خدا کی راہوں پر چلنے والے، اپنائے نور، نئے عہد نامے کی جماعت کہلاتے تھے.(پطرس 2/9 اور دستورالعمل ) دونوں ہی عہد عتیق کو کتاب مقدس قرار دیتے تھے.دونوں کے ہاں ایک ہی قسم کا کیلنڈر رائج تھا جو شمسی تھا اور جو بلی اور حنوک کی کتب میں بیان ہوا ہے.مس اے حابرٹ نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ایسینیوں کی طرح پرانی مذہبی تقویم کی پیروی کرتے تھے.اس نظریے سے اناجیل میں عید فسح کا جھگڑا جو قدیم سے علماء کے لئے پریشان کن تھا حل ہو جاتا ہے یہ عید 14 نیسان کو ہوتی تھی جو مجوزہ کیلنڈر کے مطابق ہر حالت میں منگل کو آتی ہے.واقعہ صلیب یقینی طور پر جمعہ کے دن پیش آیا.اس دن باقی یہودی فرقوں کی عید فسح تھی جو سردار کا ہن کے تابع تھے.اس Impact of the Dead sea scrolls.P-134 ↓ The Dead sea scrolls by Millar Barows.P-331 ✓

Page 113

113 طرح منگل اور جمعہ کے درمیانی تین دن اس لمبی کاروائی کے لئے کافی ہیں جو مسیح علیہ السلام کی عید فسح اور واقعہ صلیب کے درمیان عمل میں آئی.ایسینی اور مسیح دونوں طلوع آفتاب کے وقت عبادت کرتے تھے.۲ لوقا باب 20 میں شادی سے پر ہیز کی تعلیم دی گئی ہے پولوس نے بھی مجرد رہنے کو شادی سے معتبر قرار دیا ہے.یہ تعلیم ایسینیوں سے ماخوذ ہے.اس طرح مسیحیوں کی دیگر اخلاقی تعلیمات بھی ایسینیوں سے ماخوذ تھیں.فرانس پاٹر لکھتے ہیں: "Certainly Jesus teaching of especially.sermon on the mount, and the writings his followers which togethen make up the New testament resemble closely in both vocabulary and ideas the contents of many of the Qumran cave manuscripts." " دو ترجمہ یہ بات یقینی ہے کہ مسیح کی تعلیمات خصوصاً پہاڑی وعظ اور آپ کے متعین کی تحریرات جن کا مجموعہ نیا عہد نامہ کہلاتا ہے الفاظ اور خیالات دونوں کے لحاظ سے کہوف قمران 66 کی دستاویزات کے مضامین سے بہت زیادہ مشابہ ہیں ان کثیر التعداد مشابہتوں کی بناء پر محققین اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ مسیح علیہ السلام دراصل ایسینی تھے اور آپ نے اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ اخوت ایسین میں تعلیم پانے میں بسر کیا.چنانچہ فرانس پاٹر لکھتے ہیں: "Indeed, the opinion that Jesus either lived for several years in the Qumran community which produced the scrolls or at least visited it often is gaining ground among unprejudiced More light on the Dead sea scrolls.P-83 ↓ The Ancient Library of Qumran.P-77 The last years of Jesus Revealed.P-121

Page 114

students." L 114 وو ترجمه در حقیقت یہ نظریہ کہ مسیح علیہ السلام یا تو کئی سال تک جماعت قمران میں رہے جس نے صحائف کو جنم دیا یا کم از کم وہاں بکثرت جاتے رہے، غیر متعصب طلباء میں قبولیت حاصل کر رہا ہے.“ اس کے بعد لازمی نتیجہ یہی لکھتا ہے کہ ایسینی بھی آپ کے متبعین میں داخل ہو کر عیسائی ہو گئے.چنانچہ فرانس پاٹر لکھتے ہیں.کہ وہ اپنے عقائد کے لحاظ سے مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ہی عیسائی تھے.ملاحظہ ہو and since the Essenes were very much.concerned with the coming of judgment day and the Messiah, they were messianists and to use the Greek form of the word, they were Christians before Jesus Christ was born." ترجمہ: ”اور چونکہ ایسینیوں کا تعلق زیادہ تر عدالت کے دن اور مسیح سے تھا اس لئے وہ مسیحی تھے اور اگر اس لفظ کی یونانی شکل استعمال کی جائے تو وہ یسوع مسیح کی پیدائش سے پہلے ہی مسیحی تھے.The last years of Jesus Revealed.P-120 ✓ The last years of Jesus Revealed.P-111 ✓

Page 115

115 مسیحی عقائد تاریخی حقائق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ حضرت مسیح اور ابتدائی مسیحی موجودہ مسیحی عقائد سے آگاہ نہ تھے.بلکہ یہ بعد میں مسیحیت میں داخل کر دئیے گئے.چنانچہ فرانس پاٹر لکھتے ہیں: "The fact that blow generation of the followers of Jesus filled the words exist and Christian and Christianity with complicated theological meaning and adding more and more.doctrines for several centuries, until being a "Christian" meant believing a complex system of dogmas that the Jewiesh Jesus never heard of." (The last year of Jesus revealed) ترجمہ: یہ حقیقت ہے کہ مسیح کے متبعین کی بعد کی نسلوں نے الفاظ مسیح، مسیحی او مسیحیت کو پیچیدہ معنے پہنا دیئے ہیں اور کئی صدیوں تک نئے نئے عقائد کا اضافہ کرتے رہے.یہاں تک کہ اب مسیحی ہونے کا مطلب ایسے اصولوں کے ایک مرکب نظام پر یقین رکھنا ہے.جو یہودی مسیح نے کبھی سنے تک نہ تھے.اگر چہ یہ بات پہلے سے ثابت شدہ تھی.تاہم مسیحی علماء لوگوں کی توجہ اس طرف نہ آنے دیتے تھے اور یہ کہہ کر ٹال دیتے تھے کہ ابتدا سے آبائے کلیسیاء نے ان عقائد کو درست تسلیم کیا ہے.اس لئے یہ کہنا درست نہیں کہ یہ بعد میں پیدا کر لئے گئے.لیکن اب صحائف کی دریافت سے ایک طرف تمام لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول ہوگئی ہے.اور ان میں ایک قسم کا مذہبی جوش پیدا ہو گیا ہے.اور دوسری طرف ان کی فطرت موجودہ عقائد کو درست تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں.کیونکہ ان کی بیہودگی اب واضح ہو چکی ہے.

Page 116

116 چنانچہ عوام کیطرف سے علماء پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا جارہا ہے اور ان یہودی عقائد سے کھلم کھلا بیزاری کا اظہار کیا جارہا ہے.چنانچہ علماء یہ چیز شدت کے ساتھ محسوس کر رہے ہیں کہ ان عقائد میں تبدیلی کے بغیر چارہ نہیں ہے.محققین اب اس چیز کو شدت سے محسوس کر رہے ہیں.کہ عقائد میں تو تبدیلی سے گزارہ ہو جائے گا.لیکن بعض عقائد کو مکمل طور پر خیر باد کہنا ہوگا.ان میں الوہیت مسیح ، کفارہ، گنہگار انسانیت کے علاوہ اقوم ثالث یعنی روح القدس کا عقیدہ بھی شامل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسینی صحائف میں ان عقائد کا ذکر نہیں ملتا.چنانچہ ہیریسن لکھتے ہیں: "Mhilnt the writing of the seet exhibited certain points of contact with the documents which proceeded from the apostolic circle, it is significant that the cordinal Christian doctrines of the incarnate deity.Original sin, redemption through the words of Calvary and the activity of the Holy Spirit as a normative part of Christian experience are nowhere to be found in the dead sea scrolls." (teach yourself book: the Dead Sea Dcrolls P.123) ترجمہ: جب کہ فرقے کی تحریرات سے کئی جگہ رسولوں کے عہد کی دستاویزات کے ساتھ تعلق کا اظہار ہوتا ہے.یہ بات قابل غور ہے کہ مجسم خدا فطرتی گناہ بذریعہ صلیب اور روح القدس بطور بنیادی مسیحی عقائد صحائف قمران میں بالکل نہیں تھے.الوہیت بیح:.جیسا کہ تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد توحید الہی کا قیام ہوتا ہے.مسیح علیہ السلام بھی اسی عظیم الشان مقصد کے لئے دنیا میں آئے.اور یہی تعلیم دیتے رہے.لیکن آپ کے بعد جان بوجھ کر یا سادگی سے آپ کے متبعین نے آپ کو خدائی عرش پر بٹھایا اور آپ کو حقیقی معنوں میں ابن اللہ قرار دیا.لیکن فطرت انسانی ایک سے زیادہ خداؤں کو تسلیم نہیں

Page 117

117 کرتی.اس لئے بہت سے عیسائیوں نے اس پر اعتراض کیا چنانچہ کلیسیا میں اس مسئلہ پر صدیوں بحث کا سلسلہ چلتا رہا.جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسیح کو بیک وقت خدا بھی قرار دیا گیا اور انسان بھی.اس پر اکثر عیسائی اس عقیدے کے قائل ہو گئے مگر ایک گروہ نے اس کا انکار کر دیا.موحد عیسائیوں کا یہ فرقہ آج تک چلا آتا ہے.فرانس پاٹر اس بحث و اختلاف کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتے ہیں: "Then for centuries christions debated how and to what degree jesus partook the nature of God.And how much of him if any was man.They not only debated.They even killed one another over this question of weather the prince of peace was God or man.finally, the creed makers decided that Jesus was both God and man." (The Last Years of Jesus Revealed P.123) ترجمہ: پھر صدیوں تک مسیحی اس امر پر مناظرہ کرتے رہے کہ مسیح نے کیسے اور کس حد تک خدائی سے حصہ پایا ہے.اور اگر کوئی انسانی حصہ ہے تو کس حد تک.نہ صرف مناظرہ کرتے رہے بلکہ اس سوال پر کہ امن کا شہزادہ خدا تھا یا انسان انہوں نے ایک دوسرے کی گردنیں اڑائیں.بالآخر عقیدہ گھڑنے والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یسوع خدا بھی تھا اور انسان بھی.الوہیت مسیح کا یہ عقیدہ گھڑ لیا تھا.اور مسیحیوں کی اکثریت نے اسے تعلیم بھی کر لیا.مگر اب صحائف نے اس کا بطلان ثابت کر دیا ہے.اس کے باوجود مسیحی علماء ضد کر رہے ہیں کہ اسے ترک کرنے کی ضرورت نہیں.فرانس پاٹر کہتے ہیں.کہ موحد مسیحیوں کو تو واقعی اپنے عقائد میں تبدیلی کی ضرورت نہیں.باقی مسیحی اب اس بیہودہ عقیدے پر قائم نہیں رہ سکتے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں."Nor there is any thing in all the hundreds of cave manuscripts.Enoch and all the rest, to

Page 118

118 disturb the faith of a Unitarin, for instance, who does not believe in the deity of Jesus nor in special miraculous resulations virgin birth, bodily resurrection salvation atonement and simila orthodox dogmas." ترجمہ نہ ہی مثلاً کسی یونیٹرین (موحد عیسائی) کے ایمان کو ٹھیس پہنچانے والی کوئی چیز غاروں سے ملنے والی سینکڑوں دستاویزات حنوک اور دیگر تمام دستاویزات میں ملی ہے.کیونکہ وہ الوہیت مسیح، مخصوص معجزانہ وحی کنواری کے ہاں پیدائش، حشر احباد، نجات، کفارے اور اسی قسم کے کٹر اصولوں پر یقین نہیں رکھتا.روح القدس ایسینی نے ممبروں کو پانی سے پتسمہ دیتے تھے لیکن ان کا عقیدہ تھا کہ باطنی صفائی جو پیسے کا اصل مقصد ہے.پانی سے حاصل نہیں ہوتی.محققین کا خیال ہے کہ مسیح علیہ السلام نے جس روح القدس کا ذکر کیا ہے اس سے آپ کی مراد اس قسم کی روح تھی.جو ایسینیوں کے ہاں مراد لی جاتی تھی.چنانچہ فرانس پاٹر لکھتے ہیں: "Jesus was apparently echoing and clarifying.this essence teaching at the time he told his disciples they would receive the Holy spirit and promised when he thus spirit of truth is come the guide in all the truth." ترجمه در اصل مسیح اس وقت وہی گونج سنا رہے تھے اور اسی ایسینی تعلیم کو واضح کر رہے تھے.اب آپ نے اپنے حواریوں کو بتایا کہ ان پر روح القدس نازل ہوگی اور ان سے یہ وعدہ کیا.جب وہ یعنی روح حق آئے گا تو تمہاری راہنمائی کامل سچائی کے ساتھ کرے گا.لیکن بعد میں مسیحیوں نے روح القدس کو اقوم ثالث قرار دے کر تثلیث کا ڈھونگ رچایا.حالانکہ مسیح علیہ السلام نے توحید کی تعلیم دی تھی.محققین کا خیال ہے کہ جب مزید صحائف کے تراجم شائع ہونگے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ مسیح علیہ السلام روح القدس سے کیا مراد لیتے The last years of Jesus Revealed.P-52 ↓

Page 119

119 چنانچہ پاٹر "Jesus "spirit of truth" please and idea most probably reflect the Essene Holy spirit of truth referred to in there manual of discipline on previously noted by us which was certainly very different from the later Christian Holy spirit third person of the trinity." ترجمہ: جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں.اسبات کا انتہائی امکان ہے کہ مسیح کا پیش کردہ روح القدس، اور اس کا تصور ایسینیوں کی دستور عمل میں بیان کردہ سچائی کی روح القدس کا عکس ہے.جو یقینی طور پر بعد کے مسیحی روح القدس سے جو تثلیث کی اقنوم ثالث ہے.بالکل مختلف ہے.اب صحائف سے حاصل ہونے والی روشنی سے اقنوم ثالث والی روح القدس کا عقیدہ ترک کرنا پڑیگا.اور روح القدس کا صحیح مفہوم عود کر آئیگا.محق مذکور لکھتے ہیں: "For it not begins to look as to the study of coming of the Holy spirit of truth may supply the clue to the origin of the Christian doctrine and perhaps bad to its simplification, or once its exrtuol elimination." ترجمہ کیونکہ اب نظر آرہا ہے کہ روح القدس کے نزول اور بپتسمے کے تعلق کے ایسینی نظریے کے مطالعہ سے مسیحی عقیدے کی ابتداء کا سراغ مل سکے گا اس طرح اس عقیدے کو سادہ بنانے اور بالآخر ساقط کرنے کا امکان ہے.کفارہ:.دراصل مسیح علیہ السلام کو خدا بنانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ اس کے بعد کفارہ قائم نہیں رہ سکتا تھا.لیکن اب جب کہ صحائف قمران کے سامنے الوہیت مسیح کا عقیدہ دم تو ڑ رہا ہے.کفارے سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے.نہ رہے بانس نہ بجے بانسری.محقق مذکور لکھتے ہیں: ايضاً 104 ايضاً 102

Page 120

120 "Surely with the evidence at lourd any fair minded Christian should admit that Jesus was not miraculous of a son of God preexistent in the heavens and sent to earth.To long awaited messiah, to suffer and die on the cross for the sims of Adam and all adams children as one atonement to appease the worth of his own Father God." ترجمہ: یہ یقینی ہے کہ موجودہ شہادت کے ہوتے ہوئے کسی بھی صحیح العقل مسیحی کو یہ تسلیم نہیں کرنا چاہئے کہ یسوع کسی نرالے رنگ میں ابن اللہ کا تمثل ہے جو آسمان پر ازل سے موجود تھے.اور ایک ایسے مسیح کی صورت میں زمین پر مبعوث کئے گئے.جس کا عرصے سے انتظار تھا.تا کہ آپ آدم اور اس کی اولاد کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے صلیب پر تکالیف اٹھا کر اور جان دیکر اپنے ہی باپ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کریں.

Page 121

121 نیا عہد نامہ (پس منظر ) نیا عہد نامہ ان کتب اور خطوط پر مشتمل ہے جن میں مسیح علیہ السلام اور آپ کے بعد رسولوں کے حالات اور معجزات درج ہیں.مسیح کی بعثت کا مقصد یہودی شریعت کو بحال کرنا تھا اس لئے آپکی وحی میں کوئی نئے احکام نہیں دئے گئے.بلکہ توراۃ پر عمل کرنے کی تلقین کی گئی ہے.اور یہود کو ان کی غلطیوں کی طرف توجہ دلا کر ان کی اصلاح کی کوشش کی گئی ہے.مسیح کی زندگی میں آپ کی تعلیمات اور حالات کو جمع کرنے کا کوئی انتظام نہ تھا.نئے عہد نامے کے شروع میں چار انا جیل ہیں ان میں مسیح کے حالات درج ہیں.یہ چاروں آپ کے حواریوں ، متی، مرقس، لوکا اور یوحنا کی طرف منسوب ہیں.لیکن جدید تحقیق سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ چاروں انا جیل موجودہ شکل میں بہت بعد کے زمانے میں مرتب کی گئیں.اور ان کے مصنفین دراصل مسیح کے حواری نہ تھے.اسی طرح بعض خطوط کے متعلق بھی جدید تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے.کہ وہ ان رسولوں کی تصانیف نہیں ہیں.جن کی طرف وہ منسوب کئے گئے ہیں.مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ نئے عہد نامے کی تمام کتب اور خطوط روح القدس کی تائید سے لکھے گئے.اس لئے یہ الہامی ہیں.اب صحائف کی دریافت سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ نئے عہد نامے کی اکثر کتب ایسینی فرقے کی تحریرات سے ماخوذ ہیں.نئے عہد نامے میں وہی تعلیمات اور نظریات بیان کئے گئے ہیں.جو ایسیوں میں عرصہ پہلے سے رائج چلے آ رہے تھے.چنانچہ محقق ایف مور لکھتے ہیں."At all events we are now in aposition to use Qumran discoveries to lend weight to the view

Page 122

122 that the testaments are indeed Judeo Christian editions, in part reworked, of older Essene sources." ترجمہ ” بہر حال اب ہم اس مقام پر ہیں کہ قمرانی انکشافات کو اس نظریے کی تائید کے لئے استعمال کریں.کہ اناجیل در حقیقت قدیم ایسینی مآخذ کے یہودی مسیحی شمارے ہیں.جن کے بعض حصے دوبارہ لکھے گئے.“ صحائف قمران سے حاصل ہونے والی معلومات سے اب یہ بات ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے کہ نیا عہد نامہ کلیہ یہودی پس منظر میں لکھا گیا.اس میں جابجا ایسینی محاورات استعمال کئے گئے ہیں.بار بار ایسینی نظریات کا ذکر کیا گیا ہے.اور اس کی عبارتوں میں ایسینی رسوم و عبادت کی جھلک دکھائی دیتی ہے.چارلس فرنس پاٹر اپنی کتاب میں ڈاکٹر ولیم ایف آلبرائٹ کی تقریر کا ذکر، جو انہوں نے 23 مارچ1956ء کو ہاپکنز یونیورسٹی میں کی مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتے ہیں: "He frankly told his fellow townsmen of the very close connection in practices, ideas and even in the turns of a phrase between the people of the scrolls, the Essenes, and the early Christians, and that the background of the new testament is far more Jewish than anyone had ever guessed in print, let alone proved.' " " ترجمہ: ”انہوں نے اپنے ساتھی شہریوں کو صحائف کی جماعت یعنی ایسینیوں اور ابتدائی مسیحیوں کی عبادات، نظریات اور محاورات کے استعمال تک میں انتہائی قریبی تعلق سے آگاہ کیا.اور بتایا کہ نئے عہد نامے کا پس منظر اس حد تک یہودی ہے کہ ثابت کرنا تو کجا آج تک 66 کی تحریرات میں کسی کا قیاس بھی وہاں تک پرواز نہیں کر سکا.“ The Ancient Library of Qumran.P-118 ↓ The last years of Jesus Revealed.P-58 1

Page 123

123 ابتداء میں مسیحیوں کو یہودیوں کا ایک فرقہ سمجھا جاتا تھا.لیکن بعد میں جب مسیحیوں نے نئے نئے عقائد کو اپنایا.جو پرانے عہد نامے کے سراسر خلاف تھے.تو یہودی انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے.ہوتے ہوتے یہ نفرت دشمنی میں بدل گئی.اور فریقین نے ان تمام کتب کو ضائع کر دیا.جو دونوں کے باہمی ربط پر دلیل تھیں.اور جو ان کی درمیانی کڑی کی طرح تھیں.محقق مذکور اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: "When the official canons and doctrines of Jew and Christian were established, in a period when each side hated the other bitterly, as the contemporary literatures of both show historically, then neither side wanted any evidence left around which would reveal that the Essene Book of Enoch was the missing link between Judaism and Christianity." ترجمہ: ”جیسا کہ یہود و نصاریٰ کے اس وقت کے لٹریچر سے ظاہر ہے.جب ایسے زمانے میں دونوں گروہوں کی کتب مقدسہ کا متن اور مذہبی اصول متعین کئے گئے.جس میں وہ ایک دوسرے سے بری طرح نفرت کرتے تھے.تو کوئی فریق بھی نہ چاہتا تھا کہ اس بات کی کوئی شہادت باقی رہ جائے.کہ ایسینیوں کی لکھی ہوئی " حنوک کی کتاب " عیسائیت اور یہودیت کی درمیانی گمشدہ کڑی ہے.“ اس مقصد کے لئے کتب کو کم کرنے میں اسقدر شدت اختیار کی گئی کہ وہ کتب بھی جو کتاب مقدس کا حصہ تھیں اور الہامی قرار دی جاتی تھیں.ٹھکانے لگادی گئیں.چارلس فرنس لکھتے ہیں:." So we see today that these books, the psalms of Solomon, the Epistle of Barnabas and The last years of Jesus Revealed.P-45

Page 124

124 the apocalypse the shephered of Hermas, although included in our oldest and most complete Bible manuscript, codex sinaiticus of the fourth century A.D., were excluded from the slowly evolving Christian Bible."↓ ترجمہ: ”چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ سلیمان کے زبور، بر نہاس کا محط اور ہرمس کے گڈریا کا مکاشفہ ، اگر چہ چوتھی صدی عیسوی سے تعلق رکھنے والے پائیل کے سب سے زیادہ مکمل اور قدیم ترین نسخے کو ڈکس سنیائی میں شامل تھیں.تاہم ارتقاء پذیر مسیحی بائیبل سے خارج کر دی گئیں.اب صحائف کی دریافت سے ان کتب کو گم کرنے کی اصل وجہ سامنے آگئی ہے.ان کا وجود اس بات کا گواہ تھا کہ ابتدائی کلیسیاء ہر لحاظ سے ایسینی یہودیوں کا چربہ تھا.لیکن یہ کتب زیادہ دیر دہائی نہ رہ سکیں.اور انہیں نوشتہ اپنے وقت پر پورا ہوا.اور دو ہزار سالوں سے مقفل غاروں نے ہمارے زمانے میں ماہرین کے لئے اپنے دہانے کھول دیئے.اور حقیقت کے نور نے بناوٹ کے پردوں کو تار تار کر دیا محقق مذکور اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: "Fortunately they did not do a very thorough job and left enough scraps of material around, for our modern scientific scholars to piece thing together and give several good guesses as the real nature and teaching of the human Jesus.' " " ترجمه خوش قسمتی سے انہوں نے اس کام کو عمدہ طریق سے سرانجام نہ دیا.اور ہمارے جدید سائنسی علماء کے لئے کافی خام مواد چھوڑ گئے تا کہ وہ اس بکھرے ہوئے مواد کو جمع کر کے سیح انسانی کی حقیقی تعلیمات کے متعلق کئی عمدہ اندازے دنیا کے سامنے رکھ سکیں." The last years of Jesus Revealed.P-79.↓ ايضا 72

Page 125

125 نئے عہد نامے میں بائیبل کے حوالے نئے عہد نامے میں عہد عتیق کے جو حوالے درج کئے گئے ہیں وہ مسورائی متن سے مختلف ہیں.علماء کو خیال پیدا ہوا کہ شاید یہ سبعینہ میں مل جائیں گے.کیونکہ ابتدائی کلیسیاء کی بائیل وہ یونانی ترجمہ تھا جو سبعینہ کہلاتا ہے.لیکن یہ حوالے سبعینہ کے متن سے بھی اختلاف رکھتے تھے.علماء اس بارے میں شروع سے ہی بڑے پریشان تھے.کہ آخر یہ حوالے کہاں سے لئے گئے ؟ اور انجیل نویسوں کے سامنے پائیل کا کونسا متن تھا؟ یہ بات ان کے تصور میں بھی نہ آسکتی تھی کہ مسیح علیہ السلام کے حواری حسب منشاء مفہوم نکالنے کیلئے بائیل کے متن کو توڑ موڑ کر پیش کیا کرتے تھے.اور ان کے ہاں اس کے الفاظ میں رد و بدل کرنا کوئی گناہ نہ تھا.خصوصاً متدین علماء کی پریشانی اس درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ نویں صدی عیسوی کے ایک مسیحی عالم نے ایک پادری کو مخط لکھا کہ یہ بات مرے دل میں ایک آگ کی طرح جل رہی ہے.جان الیگر و اس پریشانی کا اظہار مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتے ہیں: "What is more puzzling is where they quote the version which is otherwise completely unknown." ,, ترجمہ: جو بات اس سے بھی زیادہ پریشان کن ہے.وہ اس جگہ پیش آتی ہے.جہاں وہ متن کی ایسی روائت کا حوالہ دیتے ہیں.جو بالکل نامعلوم ہے.“ صحائف قمران کی دریافت نے علماء کی اس پریشانی کو دور کر لیا ہے.کیونکہ ان تحریروں سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ انجیل نویسوں سے بہت پہلے ایسینی فرقے میں بھی یہی طریق رائج تھا.ان کی تحریروں میں بکثرت ایسے حوالے ملے ہیں.جو کسی متن سے بھی نہیں لئے گئے.بلکہ اپنی مرضی کے مطابق مفہوم پیدا کرنے کیلئے بائیل کی عبارتوں میں ردو بدل کیا گیا The dead sea scrolls.P-150 1

Page 126

126 ہے.چند مثالیں درج ذیل ہیں.1 - متی 2/6 میں میکاہ 5/2 کا حوالہ دیا گیا ہے.مگر عبارتوں میں نمایاں فرق ہے.میکاہ کی عبارت درج ذیل ہے.دو لیکن اے بیت لحم افرا تاہ! اگر چہ تو یہوداہ کے ہزاروں میں شامل ہونے کے لئے چھوٹا ہے.تو بھی تجھ میں سے ایک شخص نکلے گا.اور میرے حضور اسرائیل کا حاکم ہوگا.اور اس کا مصدر زمانہ سابق ہاں قدیم الایام ہے.“ اب ذرامتی کی عبارت ملاحظہ ہو.”اے بیت لحم یہوداہ کے علاقے! تو یہوداہ کے حاکموں میں ہر گز سب سے چھوٹا نہیں.کیونکہ تجھ میں سے ایک سردار نکلے گا.جو میری امت اسرائیل کی گلہ بانی کرے گا.“ اس فرق کو دیکھ کر گھبرایئے نہیں ذرا اور آگے آئیں.2 متی 13/35 میں زبور 78/2 کا حوالہ دیا گیا ہے.زبور کی عبارت درج ذیل ہے.میں تمثیل میں کلام کرونگا.اور قدیم معمے کہوں گا.جن کو ہم نے سنا اور جان لیا“ اب متی کا کرشمہ دیکھئے کہ یہ عبارت یوں بدل گئی.میں تمثیلوں میں اپنا منہ کھولوں گا.میں ان باتوں کو ظاہر کروں گا جو بنائے عالم سے پوشیدہ رہی ہیں.“ اوہو! الہامی کلام میں ایسی جرات!! لیکن متی کو کون سمجھائے ؟ ذرا اور آگے چلیں ! 3- متی 21/5 میں زکریا 9/9 کا حوالہ درج کر کے اس کے ساتھ یسعیاہ 62/11 کو ملا یا گیا ہے.زکریا: ”اے بنت صیون تو نہائت شادمان ہو.اے دختر یروشلم خوب للکار.کیونکہ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے.وہ صادق ہے.اور نجات اس کے ہاتھ میں ہے.اور گدھے بلکہ جوان گدھے پر سوار ہے.“ يسعياه: دختر صیون سے کہو دیکھ تیرا نجات دینے والا آتا ہے.دیکھ اس کا اجر اس کے ساتھ اور اس کا کام اس کے سامنے ہے.“

Page 127

127 متی میں جاکر یہ دونوں عبارتیں عجیب طریق پر چل کر ایک آمیزہ بناتی ہیں.اور ایک نئی شکل ابھرتی ہے.متی متون کی بیٹی سے کہو کہ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے.وہ حلیم ہے اور 66 گدھے پر سوار ہے.بلکہ لا دو کے بچے پر “ خدا جانے ”لا دو کے بچے پر والا ٹکٹر امتی نے کہاں سے لے لیا ہے.نہ تو یہ زکریا میں ہے نہ یسعیاہ میں بالکل یہی طریق جو انا جیل میں نظر آتا ہے.اہل قمران کے ہاں رائج تھا.ایسے لگتا ہے.جیسے انجیل نویس ایسینی کاہنوں کے شاگرد تھے.جان انیگر و تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ: "...and there is no hermeneutic principal of interpretation in the new testament which cannot be exactly matched in the Qumran literature." وو ترجمہ: ”نئے عہد نامے میں کوئی بھی ایسا اصول التفسیر نہیں ہے.جس کی مثال بعینہ قمرانی لٹریچر سے نہ ملتی ہو.“ محقق مذکور لکھتے ہیں کہ تفسیر حقوق کا مصنف اس فن کو استعمال کرتا ہے.اس نے آئت 2/5 میں ایک عبرانی لفظ کے ہجے بدل دئے ہیں.اور اصل عبرانی لفظ ”hyyn“ کو hwn“ لکھ دیا ہے.اس طرح اس نے معمولی تصرف کر کے معنوں میں عظیم تبدیلی پیدا کردی ہے.کیونکہ اصل لفظ کا ترجمہ شراب یا مئے ہے.اور تبدیل شدہ لفظ کا ترجمہ دولت ہے.یہ تبدیلی اس لئے کی گئی کہ دولت کا مفہوم پیدا کر کے مصنف اخوت ایسین کے فقر اور بد کار کا ہن کی امارت اور لالچ کا موازنہ کرنا چاہتا تھا.ہے یوحنا کی انجیل :- اگر چہ تمام مسیحی تعلیمات اور رسوم اور عبادات جو نئے عہد نامے میں بیان ہیں.ایسینی فرقے کی تعلیمات وغیرہ سے ماخوذ ہیں.اور عہد نامے کی کوئی بھی کتاب ایسی نہیں جس میں ایسینی نظریات و محاورات جابجا پائے نہ جاتے ہوں تاہم یوجنا کی The Dead sea scrolls.P-153 1.1

Page 128

128 انجیل صحائف قمران کے ساتھ سب سے قریبی تعلق رکھتی ہے.اس کے مضامین خصوصاً نور اور ظلمت کی جنگ، صحائف قمران سے لئے گئے ہیں.اس انجیل کے بارے میں انتہائی متعصب مسیحی علماء بھی صحائف کے ساتھ اس کے حقیقی تعلق کو تسلیم کرتے ہیں.یوجنا کے نزدیک مسیح زمین کا نور ہے.جو فتح حاصل کر چکا ہے.صحائف میں اس فتح کو مستقبل کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے.دستور العمل میں اپنائے نور اور ابنائے ظلمت کے درمیان جنگ کا ذکر ہے.محققین تسلیم کرتے ہیں کہ یوحنا باب 1 اور باب 8 میں اس جنگ کا خلاصہ بیان ہوا ہے.یوحنا کے پیدائش کے متعلق نظریات دستور العمل میں پہلے سے بیان تھے.یوحنا 1/3 کے مطابق کوئی چیز بھی اس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی.“ ایسینی دستور العمل میں یہ مفہوم اس طرح ادا کیا گیا ہے." اس کے بغیر کوئی چیز بھی وجود میں نہیں آئی.“ یوحنا 4/14 میں زندگی کے پانی کا ذکر ہے.لکھا ہے.”جو پانی میں اسے دونگا.وہ اس میں ایک چشمہ بن جائیگا.جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے جاری رہے گا.“ زندگی کے پانی کی یہ اصلاح ایسینی تحریرات سے لی گئی ہے.چنانچہ صحیفہ دمشق میں لکھا ہے.”انہوں نے دغا بازی سے کام لیا.اور ہمیشہ کی زندگی والے پانی کے چشمے سے جدا ہو گئے Loo لوقا: لوقا 16/8 میں نور کے فرزندوں کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے.یہی اصطلاح یوحنا 12/36 اور 1- مسلنکوں 5/5 میں بھی ملتی ہے.صحائف قمران میں ایک صحیفے کا نام نور کے فرزندوں اور ظلمت کے فرزندوں کے درمیان جنگ ہے.صاف ظاہر ہے کہ یہ اصطلاح ایسینی فرقے سے لی گئی ہے.روح کے متعلق جو نظریہ جماعت کے دستور العمل کالم 3 سطر 13 اور کالم 4 سطر 24 میں بیان ہوا ہے.وہی نظریہ 1 کرنتھیوں 2/12 ، رومیوں 8/9 اور 1- یوحنا 4/2 میں اختیار کیا گیا ہے.Impact of the Dead sea scrolls by A.N.Gilkes.P-156

Page 129

129 یعقوب کا خط :.اس خط کے باب 1 آئت 12 میں آزمائش کو انسان کی کمزوری اور خواہشات کا نتیجہ قرار دیا ہے.جماعت کے دستور کالم 8 سطر 4 اور شکرانے کے زبور کالم 8 سطر 26 اور کالم 9 سطر 6 اور کالم 11 سطر 19 سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تصور ایسینی فرقے میں پہلے سے رائج تھا.عبرانیوں کے نام خط : اس خط کے متعلق اکثر محققین کا خیال ہے کہ یہ ایسینی فرقے کے مسیحیوں کے نام لکھا گیا تھا.گلگیز لکھتے ہیں: "The main themes of this Epistle show that the Jewish Christians to whom it was addressed had very much the same background as the covenanters."! ترجمہ: اس خط کے بنیادی مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان یہودی مسیحیوں کا پس منظر جنہیں یہ لکھا گیا بالکل ویسا ہی تھا.جو معاہدین (ایسین ) کا تھا.“ مخط کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس فرقے کو یہ لکھا گیا وہ پادریوں کو خاص اہمیت دیتا تھا.اور فرشتوں کی فضیلت کا قائل تھا.ان عقائد کے حامل ایسینی ہی تھے ان کے ان عقائد میں غلو کی اصلاح کے لئے اس خط میں مسیح کی فرشتوں پر فضیلت ثابت کی گئی ہے.اور آپ کو ملک صدق کی طرح ابدی کا ہن اور بادشاہ قرار دیا گیا ہے.ہی.ایف پاٹر نے مذکورہ بالا عام نظریہ بیان کرنے کے بعد کہ یہ مخلط ایسینیوں کو لکھا گیا.آخر میں یہ لکھا ہے کہ اس کی زبان کی صحت، شتگی اور ادبی طرز سب اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ کسی ایسے شخص کے قلم سے نکلا ہے.جو لمبا عرصہ ایسینی علماء کے ہاں زیر تربیت رہا.چنانچہ وہ لکھتے ہیں."It may well have been written not to the Qumran Essenes but very possibly by one who had been trained among them by their great Impact of the Dead sea scrolls P-156 1

Page 130

130 scholars and rhetoricians."✓ بارہ بزرگوں کی شہادت: -.Testament of the Twelve Patriarchs یہ کتاب اکثر علماء کے نزدیک یہودی مسیحیوں کی کتاب سمجھی جاتی تھی.اب اس کے قطعات صحائف قمران سے دستیاب ہوئے ہیں.اور یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اس کا مصنف ایسینی تھا.مسیح اور پولوس کے بہت سے اقوال براہ راست اس سے ماخوذ ہیں.محقق گلکیز کے نزدیک متی باب 25 اور یوسف کی انجیل میں نمایاں مشابہت ہے.وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں."However, similarities between some of the passages in the testaments of the twelve patriarchs and some of the sayings of Jesus and St.Paul are very close indeed."✓ ترجمہ: تاہم بارہ بزرگوں کی شہادت کی بعض عبارات اور مسیح اور پولوس کے بعض اقوال میں واقعی بہت قریبی مشابہتیں ہیں.سلیمان کے زبور : زبوروں کا یہ عظیم الشان مجموعہ پہلے زمانہ میں بائیل کا حصہ تھا.یہ عیسائیت سے پہلے کی ایسینی تحریر ہے.اس میں بیان کردہ تخیلات کو مسیحیوں کے ہاں بڑی عظمت حاصل ہوئی.ابتدائی مسیحی لٹریچر پر اس کا کافی اثر نظر آتا ہے.جب مسیحیوں اور یہودیوں کے درمیان بغض و عداوت کا دور آیا تو دونوں نے اس کو اپنی کتب مقدسہ سے نکال باہر کیا.سی.ایف پاٹر لکھتے ہیں: "The book belongs in our Bible, but it was apparently excluded by the Christians as too Essenic, and by the Jews as too Christian." ترجمہ: یہ کتاب ہماری بائیبل میں شامل تھی.مگر ظاہر ہے کہ عیسائیوں نے اس وجہ سے کہ اس میں ایسینی خیالات ہیں اور یہودیوں نے اس وجہ سے کہ اس میں مسیحی خیالات ہیں.اس کو خارج کر دیا.“ The last years of Jesus Revealed.P-112 ↓ Impact of the Dead sea scrolls.P-124 ✓

Page 131

131 باب چهارم جماعت قمران

Page 132

133 4- جماعت قمران صحائف کی دریافت کے بعد سب سے پہلی چیز جو ان کی اہمیت کے لئے فیصلہ کن تھی ان کے زمانہ تحریر کی تعین تھی.چنانچہ سب سے پہلے یہی کام کیا گیا اور مختلف ماہرین لسانیات و آثار قدیمہ کی خدمات اس کام کے لئے حاصل کی گئیں.چنانچہ شروع شروع میں ہی محققین نے یہ معلوم کر لیا کہ ان صحائف کا زمانہ پہلی صدی قبل مسیح سے لے کر پہلی صدی عیسوی تک ہے.اس کے بعد اس کی تصدیق کیمیاوی طریقوں سے ہوگئی.زمانہ کے تعین کے بعد دوسری چیز جو صحائف کی اہمیت پر سب سے زیادہ اثر انداز ہو سکتی تھی وہ ان کے لکھنے والی جماعت تھی.اس مقصد کے لئے صحائف کو کھولا گیا.لیکن صحائف پر ان کے کا تہوں کے نام کسی جگہ بھی نہ پائے گئے.چنانچہ ان کے مضامین کا گہرا مطالعہ کیا گیا.اتفاق سے پہلی غار سے حاصل ہونے والے صحائف میں دستور العمل کا صحیفہ بھی شامل تھا.جس میں جماعت کے لئے قوانین وضع کئے گئے تھے.جب اس کو پڑھا گیا تو ان پر پورا اترنے والی سب سے پہلی جماعت جو محققین کے ذہن میں آئی وہ ایسینی یہودی تھے.جو ان غاروں کے قرب وجوار میں رہا کرتے تھے جن سے صحائف ملے ہیں.مزید تحقیق کے لئے اس زمانے کے مؤرخین کی تحریرات کا گہرا مطالعہ کیا گیا تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ ان صحائف کو لکھنے والے فی الحقیقت ایسینی تھے.جو بعد میں عیسائیت میں جذب ہو گئے.اگر چہ شروع شروع میں علماء میں اس بارے میں معمولی اختلاف بھی رہا مگر آج کل تمام محققین بالاتفاق یہی رائے رکھتے ہیں کہ صحائف قمران ایسینیوں کی تصانیف ہیں.جو یہودیوں کے باقی فرقوں سے الگ ہوکر بھیرہ

Page 133

134 مردار کے کنارے پر آباد ہو گئے تھے.لے یہودی فرقے اس زمانہ میں جس میں حضرت مسیح علیہ السلام مبعوث ہوئے.یہودیوں کے تین بڑے فرقے تھے.یعنی فریسی.صدوقی اور ایسینی.ان میں سے پہلے دونوں فرقوں کا ذکر حضرت مسیح نے بار بار انجیل میں کیا ہے اور ان کو ان کی غلطیوں سے آگاہ کر کے راہ راست کی طرف بلایا ہے.لیکن تیسرے فرقے یعنی ایسینیوں کو انجیل میں بظاہر کہیں بھی مخاطب نہیں کیا گیا.اس لئے اس کے حالات کو جاننے کے لئے ہمیں کتب تاریخ کا سہارا لینا پڑتا ہے.صدوقی: حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانے میں یہودیوں کا غالب فرقہ صدوقی تھا.بعض محققین کا خیال ہے کہ ان کا نام صدوقی اس وجہ سے تھا کہ وہ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے کے سردار کا ہن صادق کی طرف منسوب ہوتے تھے.لیکن بعض کہتے ہیں کہ اس فرقے کا بانی صادق نامی سردار کا ہن نہ تھا بلکہ کوئی اور استاد تھا جس کی تعین نہیں کی جاسکی.پہلی اور دوسری صدی قبل مسیح میں صدوقیوں کو سیاسی بالا دستی حاصل تھی.اور خاص طور پر امراء کا طبقہ ان کے ساتھ تھا اس چیز کا اندازہ اس امر سے بھی ہوتا ہے.کہ حضرت مسیح علیہ السلام سے پہلے اور بعد لمبے عرصہ تک سردار کا ہن صدوقی ہوا کرتا تھا.سیاسی بالا دستی کے باوجود یہ فرقہ تعداد میں کم تھا.اس لئے مضبوط حکومت کے حق میں تھا اور اپنے لئے حکومت کی سر پرستی کو ضروری خیال کرتا تھا.صدوقی صرف تورات پر اعتقاد رکھتے مط تھے اور اسی وجہ سے ان کے اعمال کا مح نظر مادی دنیا کا حصول تھا.آخرت کے منکر تھے اسی طرح فرشتوں، جنوں ارواح اور جزاء سزا پر ان کا اعتقاد نہیں تھا.وہ کہتے تھے کہ جسم کے ساتھ ل بروز لکھتا ہے:.It is widely assumed that the men of Qumran were the Essenes described by Josephus & Philo and a few of the church fathers.(More light on Dead Sea Scrolls P.253 also see 263.ترجمہ : عام طور پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ جماعت قمران ایسینی تھے.جن کا ذکر جوزیفس ، فلو اور بعض آباد کلیسیاء نے کیا ہے.

Page 134

135 ہی روح انسانی بھی مر جاتی ہے.اور اس کی زندگی بھی وہیں پر ختم ہو جاتی ہے.یروشلم کے زوال کے ساتھ ہی یہ فرقہ اقتدار کھو بیٹھا اور آہستہ آہستہ ختم ہو گیا.فریسی فریسی علیحدگی پسند خیالات کے حامل تھے.حضرت مسیح سے تقریباً 150 سال قبل انہوں نے طاقت حاصل کی یہ شریعت کی سختی سے پابندی کرتے تھے.اگر چہ سردار کا ہن صدوقیوں میں سے ہوتا تھا.تاہم تعداد میں اکثریت فریسیوں کو حاصل تھی.اور حضرت مسیح کے زمانے میں یہ سب سے بڑا فرقہ خیال کیا جاتا تھا.فریسی توراۃ کی اہمیت پر بہت زور دیتے تھے.مگر اس کے ساتھ ساتھ احادیث، تفاسیر کو بھی اہم خیال کرتے تھے.ان کا خیال تھا کہ شریعت اور روایات کی پیروی کے ساتھ مقدس تہواروں پر عمل کرنے.خیرات دینے اور روزے رکھنے سے انسان اللہ کو خوش کر سکتا ہے وہ مادی زندگی کے نظریے کے خلاف اخروی زندگی کے قائل تھے.فرشتوں کو تسلیم کرتے تھے.بعث بعد الموت اور روح کی بقاء کے قائل تھے.لیکن جیسا کہ انجیل سے ظاہر ہے کہ وہ ان امور کی ظاہری بجا آوری پر زیادہ زور دیتے تھے.اس کے لئے لوقا 44-11/37 ملاحظہ ہو.’ جب وہ بات کر رہا تھا کسی فریسی نے اس (حضرت مسیح ناقل ) کی دعوت کی.پس وہ اندر جا کر کھانا کھانے بیٹھا.فریبی نے یہ دیکھ کر تعجب کیا کہ اس نے کھانے سے پہلے غسل نہیں کیا.خداوند نے اس سے کہا اے فریسیو! تم پیالے اور رکابی کو اوپر سے تو صاف کرتے ہو لیکن تمہارے اندر ٹوٹ اور بدی بھری ہے.اے نادانو ! جس نے باہر کو بنایا.کیا اس نے اندر کو نہیں بنایا ؟ ہاں اندر کی چیزیں خیرات کر دو تو دیکھو سب کچھ تمہارے لئے پاک ہوگا.لیکن اے فریسیو ! تم پر افسوس کہ پودینے اور سداب اور ہر ایک ترکاری پر وہ یکی دیتے ہو اور انصاف اور خدا کی محبت سے غافل رہتے ہو.لازم تھا کہ یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے.اے فریسیو! تم پر افسوس کہ تم عبادت خانوں میں اعلیٰ درجہ کی کرسیاں اور بازاروں میں سلام چاہتے ہو.تم پر افسوس.کیونکہ تم ان پوشیدہ قبروں کی مانند ہو جن پر آدمی چلتے ہیں اور ان کو اسبات کی خبر نہیں.

Page 135

136 ایسینی:.جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے تیسرے فرقے یعنی ایسینیوں کا ذکر انجیل میں نہیں ملتا.صحائف کے مطالعہ سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ ایسینی اپنے لئے یہ نام استعمال نہ کرتے تھے.کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں صحائف کی دریافت کے باوجود ایک بھی جگہ یہ نام نہیں آیا.جب ہم ایسینیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو مذکورہ زمانے کے تین مورخ یعنی پلینی ، جوزیفس اور فلو نتیوں کے بیانات اس بارے میں کافی حد تک متفق نظر آتے ہیں.پلینی :.لاطینی مؤرخ پلینی (79-23ء ) ایسینی فرقہ کے متعلق لکھتا ہے: "On the west side (of the sea) and for enough away to escape its noxious fumes, are the Hessenes a race by themselves and remarkably different from all other men in the whole wide world.They live without women, having renounced all sexual love.They live without money, and for companionship they have palm trees!" (The Last Years of Jesus Revealed by C.F.Potter P.31) ترجمه ( بحیرہ مردار ) کے مغربی کنارے مگر اتنے فاصلے پر کہ اس کے مضر صحت بخارات سے محفوظ رہ سکیں ایسینی رہے ہیں.یہ دنیا سے الگ تھلگ ایک نرالی نسل ہیں تمام دنیا کے لوگوں سے مختلف ہیں.عورتوں کے بغیر زندگی گزارتے ہیں کیونکہ صنف نازک کی محبت کو خیر باد کہہ چکے ہیں.وہ روپے کے بغیر رہتے ہیں اور کھجور کے درخت ان کے رفیق حیات ہیں.ملیک کا بیان ہے کہ خربت قمران میں کھجور کے درختوں کے بہت سے تنے بوسیدہ حالت میں موجود تھے.(24.More Light on DS.S.Burrous P) عورتوں سے متعلق پلینی کے بیان کے برعکس قبرستان سے عورتوں اور بچوں کے ڈھانچے بھی ملے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسینی شادی کرتے تھے.بعض محققین کے

Page 136

137 اس اختلاف کو یوں دور کیا ہے کہ ایسیوں میں دو قسم کے لوگ شامل تھے.ایک کا ہنوں کا گروہ تھا جو شادی سے اجتناب کرتا تھا.اور دوسرے عام ممبران ہوتے تھے.انہیں شادی کرنے کی اجازت ہوتی تھی.مگر راقم الحروف کے نزدیک پلینی کا بیان درست ہے.ایک نامور مورخ کبھی بھی اتنی جرات نہیں کر سکتا کہ ایک مشہور و معروف مذہبی فرقے کی طرف ایک سراسر غلط بات منسوب کر دے جبکہ اسکو ایسا غلط بیان دینے کیلئے کوئی محرک کبھی ہمیں نظر نہیں آتا.پلینی کے اس بیان پر دو ہزار سال تک کسی نے شک وشبہ کا اظہار نہیں کیا.اس لئے خوامخواہ اسکے بیان کو رد کرنا عقلمندی نہیں.اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس بیان میں اس امر کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ بعض ایسینی شادی بھی کرتے تھے.ان وجوہات کی بناء پر مذکورہ بالا تعلق قابل قبول نہیں.پس اس اختلاف کو یوں دور کیا جاسکتا ہے کہ پلینی نے جس زمانے میں ایسینیوں کے بارے میں لکھا اس زمانے میں وہ شادی کے مخالف تھے اور ان میں کوئی بھی رکن شادی نہ کرتا تھا.اور پلینی کا بیان درست ہے.لیکن جیسا کہ صحائف کی تحریرات اور دیگر تاریخ نویسوں کے بیانات سے یہ بات پایہ ثبوت پہنچ چکی ہے یہ فرقہ بعد میں حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لایا اور انہوں نے افراط و تفریط کی راہ کو ترک کر کے جادہ مستقیم پر قدم مارا.تب انہوں نے اسکے خلاف فطرت تعلیم کو خیر باد کہ کر شادی کرنا شروع کر دی.فلو : پہلی صدی عیسوی کا مشہور مؤرخ فلو (Philo) (وفات 50ء) اپنی کتاب Apology for the Jews میں ایسینیوں کے بارے میں لکھتا ہے.none of "Their organization is not based on family kinship, in which a man has no choice but on zeal for virtue and love of all men them is striving to get possession of any private property...or any thing to get rich, for everything is put into the common pool, which supplies the wants of all alike." "Dwelling together in one place, they

Page 137

138 therefore study together, eat together and associate with one another, expending all their energies for the common good.There is division.of labor, different men to different kinds of work, but whatever may be their work, they do it with vigor, patience and good cheer never excusing themselves from labor on account of cold, heat, or changes of weather.They are at work before sunrise and after the sun has set, considering their work to be the best sort of gymnastic exercise, pleasanter and of more advantage than more athletics." " They eat at the same table and are satisfied with a simple diet, regularly repeated, lowing fare and abhorring luxury as a disease of mind and body.They have common raiment as well, for in winter thick clocks are ready and in summer cheap sleeveless tummies are in store to which each man can go and take his pick, for what belongs to one is the property of all, and what belongs to all is the property of each." "If any man falls sick, whatever medical treatment or resources are available are devoted to his cure, and his care and recovery are the concern of the whole community.Old men, though they may be childless, are thus assured of happiness and tender care in their old age, just as if they were the fathers of children both numerous and affectionate.Even more, they are honoured and cared for from the free good will of

Page 138

139 the many, rather than from the bounden duty of blood relatives......" "so enviable, then is the Essene way of life, that not only private citizens, but also mighty kings are filled with amazement and admiration at them, and have honoured the fraternity by lavishing praise and honour upon these respected and venerated men." ترجمہ: ان کی تنظیم کا انحصار خاندانی رشتوں پر نہیں.جہاں انسان کوئی انتخاب نہیں کر سکتا بلکہ تمام انسانوں کے لئے نیکی اور محبت کے جذبہ پر ہے....ان میں سے کوئی بھی ذاتی جائیداد کا مالک ہو نیکی خواہش نہیں رکھتا....نہ ہی کسی ایسی چیز کی جس سے وہ دولتمند بن سکے کیونکہ ہر چیز مشترکہ اموال میں جمع کر دی جاتی ہے.جو ہر ایک کی ضرورت کی یکساں کفالت کرتا ہے.“ ایک جگہ اکٹھے رہنے کے باعث وہ اکٹھے ہی مطالعہ کرتے ہیں ، مل کر کھانا کھاتے ہیں.ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور اجتماعی بہبودی کے لئے اپنی تمام قوتیں خرچ کرتے ہیں.ان کے ہاں تقسیم کار کا رواج ہے.یعنی مختلف کاموں پر مختلف آدمی لگائے جاتے ہیں.لیکن کام خواہ کچھ بھی ہو وہ اسے قوت صبر اور خندہ پیشانی سے سرانجام دیتے ہیں.وہ سردی گرمی یا کسی قسم کے موسمی تغیرات کو بھی محنت سے گریز کا بہانہ نہیں بناتے.وہ طلوع آفتاب سے قبل کام شروع کر کے غروب آفتاب کے بعد تک جاری رکھتے ہیں.اور اپنے کام کو جمناسٹک کی بہترین مشقیں قرار دیتے ہیں.جو خشک اتھلیٹکس سے کہیں زیادہ خوشکن اور بہت زیادہ مفید ہیں.“ وہ ایک ہی میز پر کھانا کھاتے ہیں.اور سادہ غذا پر ہی مطمئن ہیں.جو وہ اکثر استعمال کرتے ہیں.کفائت شعاری کو پسند کرتے ہیں.اور عیش وعشرت کو ذہن اور جسم کی The Dead sea scrolls.P-153 1

Page 139

140 بیماری خیال کرتے ہوئے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ان کا لباس بھی مشترکہ ہے.کیونکہ سردیوں میں موٹے چونے اور گرمیوں میں بغیر آستین کے چوغے سٹور میں موجود ہوتے ہیں.ہر آدمی وہاں جا کر اپنی پسند کا چونہ لے سکتا ہے.کیونکہ جو چیز سب کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.وہ ہر ایک کی ملکیت ہے.“ اگر ایک آدمی بیمار ہو جائے تو جو بھی علاج یا وسائل مہیا ہوں وہ اس کے علاج کے لئے وقف کر دئے جاتے ہیں.اور اس کا خیال رکھنا اور اس کی صحت کی بحالی تمام گروہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.بوڑھے آدمیوں کو خواہ ان کی اولاد نہ ہو بڑھاپے کی عمر میں خوشی اور عمدہ طریق پر خیال رکھنے کا یقین دلایا جاتا ہے.کیونکہ وہ بہت سارے محبت کرنے والے بچوں کے باپ ہیں.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر خونی رشتہ داروں کے مجبورانہ فرائض سے بھی زیادہ بہت سے لوگوں کی آزادانہ نیک تمناؤں کے ذریعہ ان کا خیال رکھا جاتا ہے.اور ان کی عزت کی جاتی ہے.پس اسینی طرز زندگی قابل رشک ہے کہ نہ صرف عام شہری بلکہ طاقتور بادشاہ بھی ان پر سخت متعجب ہیں.اور حیران ہیں اور ان کے برادرانہ تعلقات کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اور ان معزز اور قابل تعریف لوگوں کی دل کھول کر تعریف و تعظیم کرتے ہیں.“ جوزیفس (37، تا95ء) کی رائے ایسینیوں کے متعلق درج ذیل ہے."they despise wealth, and their socialism is remarkable.None among them can be found richer than another.It is their law that all who enter the sect must divide their property among the members of the society, with the result that there is never seen among them either object poverty or great wealth, for since every man's possessions are put into the common treasury, they all have, like brothers, one inheritance." The last years of Jesus Revealed.P-28 1

Page 140

141 ترجمہ: وہ دولت کو حقیر سمجھتے ہیں.انکا سوشلزم ممتاز اور غیر معمولی ہے.ان میں سے کوئی بھی دوسرے سے زیادہ امیر نہیں ہے.ان کا یہ قانون ہے کہ جو بھی ان کے گروہ میں داخل ہو وہ اپنی جائیداد سو سائٹی کے اراکین میں تقسیم کر دے.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان میں نہ تو انتہائی فقر نظر آتا ہے.اور نہ ہی بہت زیادہ دولت کیونکہ ہر شخص کی ملکیت مشتر کہ خزانے میں داخل کر دی جاتی ہے.بھائیوں کی طرح وہ سب ایک ہی ورثہ رکھتے ہیں.“ جوزیفس نے مزید لکھا ہے.اس کا کہنا ہے کہ وہ تین سال تک اخوت ایسین میں داخل رہا.اس لئے اس کی رائے وزن رکھتی ہے.لکھتا ہے: "So peculiarly pious are they that they were mention secular affairs before the sun rises, but alter certain ancestral prayers, as if entreating it to rise.Then they are dismissed by the overseers to the tasks in which they are skilled, where they work hard until the fifth hour (about 11am), when they once more assemble, put on linen aprons, and bath in cold water.After this site of purification, they retire to a private roon from which strangers are excluded, and enter, fully purified, into their dining-room as if it were a sacred temple, and quietly take their seats." "The baker then places a loaf of bread before each in turn, and the cook gives each a plate of one kind of food.But no one may taste it until a priest says grace, and after they have breakfasted, he returns thanks, for both before and after eating they praise God the giver of life." "Then they lay aside their white sacred garments, and go back to work until evening,

Page 141

142 when they return to eat supper together and with any visiting strangers.No noise or uproar is ever allowed to preface the house, for whoever speaks must do so in turn.To outsiders, silence seems strange and mysterious to explain, but result of the fact that they are all given just enough food and drink to satisfy their needs, but no more." و, ترجمہ: وہ اس قدر پارسا ہیں کہ وہ کبھی سورج نکلنے سے پہلے دنیوی امور کا تذکرہ نہیں ، کرتے.بلکہ بعض آباء واجداد کی دعائیں زیر اب پڑھتے ہیں.گویا وہ اس سے طلوع ہونے کی التجا کر رہے ہوں اس کے بعد نگران ان کو منتشر کر دیتے ہیں.اور ان کاموں پر لگا دیتے ہیں.جن میں وہ ماہر ہیں.یہاں وہ پانچویں گھنٹے تک (تقریباً 11:00 بجے صبح) محنت سے کام کرتے ہیں.اور پھر دوبارہ اکٹھے ہوتے ہیں.اور کستان کا چوغہ پہن لیتے ہیں اور ٹھنڈے پانی سے غسل کرتے ہیں.پاکیزگی کی اس رسم کے بعد وہ ایک مخصوص کمرے میں چلے جاتے ہیں.جہاں اجنبی نہیں جاسکتے اور مکمل پاک ہو کر وہ اپنے کھانے کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں.جیسے وہ ایک معبد ہو.وہاں وہ خاموشی سے اپنی نشستوں پر بیٹھ جاتے ہیں.“ پھر نانبائی باری باری ہر ایک کے سامنے ایک ایک روٹی رکھ دیتا ہے.اور باور چی ہر ایک کو ایک ہی قسم کے کھانے کی ایک پلیٹ دے دیتا ہے.لیکن کھانے کو اس وقت تک کوئی نہیں چکھ سکتا جب تک ایک کا ہن دعائے شکرانہ نہ پڑھ لے.ناشتہ کرنے کے بعد کا ہن دوباره شکر یہ ادا کرتا ہے.کیونکہ وہ کھانے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی خدا کی تعریف کرتے ہیں.جو کہ زندگی عطا کرنے والا ہے." اس کے بعد وہ اپنے مقدس سفید لباس کو اتار کر رکھ دیتے ہیں.اور کام پر واپس چلے جاتے ہیں.وہاں سے وہ شام کو واپس لوٹتے ہیں.تاکہ مل کر اور اجنبی مسافروں کے The last years of Jesus Revealed.P-31 1

Page 142

143 ساتھ رات کا کھانا کھائیں.گھر کی بے حرمتی سے بچنے کے لئے وہاں کوئی شور و غوغا نہیں ہونے دیتے.بلکہ ہر شخص باری پر بات کرسکتا ہے.باہر کے لوگوں کے لئے اس خاموشی کو بیان کرنا بڑا عجیب اور پر اسرار معلوم ہوتا ہے.لیکن یہ خاموشی ان کی متانت کی وجہ سے ہے.اور متانت اس وجہ سے کہ ان سب کو صرف ان کی ضرورت کے مطابق اور مناسب حال خوراک دی جاتی ہے.اور ضرورت سے زائد نہیں دی جاتی.“.پلینی ، فلو اور جو زمینس کے علاوہ مندرجہ ذیل تاریخی حقائق بھی ایسینیوں کی بعض تعلیمات پر روشنی ڈالتے ہیں.متفرق تاریخی شواہد : حضرت عمر کے زمانہ میں جب مسلمانوں نے تستر (خوزستان) کا شہر فتح کیا تو انہیں ایک برتن ملا.کھولنے پر اس سے ایک قدیم عبرانی صحیفہ حاصل ہوا اسے پڑھ کر نعیم اور بیالیس دوسرے یہودی علماء نے اسلام قبول کیا.اس عبرانی صحیفہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبی موعود کی روشن علامات درج تھیں.تستر وہی مقام ہے جہاں ایک روایت کے مطابق دانیال نبی کا تابوت ملا اور جو بعد میں سرس“ لے جایا گیا.(انسائیکلو پیڈیا) آف اسلام زیر لفظ تستر ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عبرانی صحیفہ ایسے فرقے کی تحریر تھا جس نے نبی موعود کی پیشگوئی کی.اور اس کی علامات خصوصاً جنگی فتوحات کی طرف اشارہ کیا جس کو پڑھ کر یہودی علماء نے اسلام قبول کر لیا.اس کے بعد نویں صدی عیسوی میں ایک شامی اسقف اعظم نے ایک بزرگ کو لکھا کہ پر بچھو کے قریب جو بحیرہ مردار کے شمال مغرب میں واقع ہے، ایک عرب گڈریے نے ایک غار میں قدیم صحائف برتنوں میں بند دیکھے اور میروشلم کے یہودیوں سے اس کا ذکر کیا.چنانچہ ان یہودیوں نے وہاں سے صحائف حاصل کئے جو عبرانی اور ایک قدیم رسم الخط میں تھے.اور بائیبل کے علاوہ کئی دوسری تحریرات بھی ان میں شامل تھیں.(The Dead Sea Scrolls by J.M.Allegro P.166 یہاں پر قابل غور یہ بات ہے کہ جب غار سے صحائف ملے وہ ہر بیجو کے قریب تھی اور

Page 143

144 وادی قمران بریجو کے بالکل قریب ہے.پس قرین قیاس ہے کہ وہ ایسینی تحریرات تھیں.نویں صدی کی اور موجودہ دریافت میں گڈریے کا تو اردو بھی عجیب ہے.نویں صدی کے ایک یہودی مؤرخ قرقانی نے لکھا ہے کہ مغاریہ نامی ایک یہودی فرقہ حضرت مسیح کے زمانے میں موجود تھا.ان کے صحائف چونکہ غاروں میں سے ملے.اس لئے ان کو یہ نام دیا گیا.بہت سے محققین کا خیال ہے کہ یہ صحائف ایسینیوں کے تھے.انہیں مغاریہ اس لئے کہا گیا کہ اس زمانے کے علماء ان کی صحیح شناخت نہ کر سکے.(The Dead Sea Scrols by Millar Burrouss P.265) یہودیوں کے اس فرقہ مغاریہ کا ذکر مسلمان مؤرخین البیرونی اور شہرستانی کے ہاں بھی ملتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ یہ فرقہ پہلی صدی قبل مسیح میں ابھرا اور ان کا کیلنڈر مروجہ یہودی کیلنڈر سے مختلف تھا.(The Dead Sea Scrolls by J.M.Allegro P.166) ایسینی صحائف کی روشنی میں:.تاریخ کے آئینہ میں ایسینی فرقے کو دیکھنے کے بعد اب ہم صحائف کی روشنی میں جماعت قمران کی تعین کے لئے راہنمائی حاصل کرتے ہیں.چنانچہ ہمیں مندرجہ ذیل معلومات صحائف سے حاصل ہوتی ہیں.پہلی صدی عیسوی کی ایک کتاب ”صعود موسی‘ ملی ہے.اس کتاب کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ جماعت قمران کے کسی عالم کی تصنیف ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحائف کو لکھ کر محفوظ کرنا جماعت کے بنیادی فرائض میں شامل تھا.اس مقصد کے لئے جماعت کو مدایت تھی کہ صحائف کو مقدس تیل سے ممسوح کریں اور پھر مٹی کے برتنوں میں بند کر کے مخصوص غاروں میں چھپا دیں.چنانچہ اس کتاب میں لکھا ہے.یہ تحریر تم وصول کر لو.انہیں کیسے محفوظ کرنا ہے.پہلے انہیں ایک ترتیب سے رکھو اور قیدار کا مقدس تیل ان کو لگاؤ.ظروف گل میں ان کو بند کر کے ایسی جگہ چھپاؤ جسے خدا تعالی

Page 144

145 نے ابتدائے آفرینش سے اس غرض کے لئے بنایا ہے.ان چیزوں کو وہاں چھپا کر اللہ تعالیٰ کا نام اس جگہ بلند کرو.یہاں تک کہ آخری زمانہ میں خدا تعالیٰ اس جگہ کے معائنے کے لئے آئے اور وہ تو بہ و پشیمانی کے دن ہوں گے." ( کالم 1 سطور 18-16 از چارلس دوم صفحه (415 15.The Cairo Genizo by P.E.Kahle P ( بحوالہ صحائف قمران از مکرم شیخ عبد القادر صاحب لاہور صفحہ 25) جیسا کہ کتاب کی عبارت سے ظاہر ہے صحائف کو محفوظ کرنے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ جب آخری زمانہ میں حقیقی تعلیمات دنیا سے معدوم ہو جائیں گی تو لوگ ان صحائف سے روشنی حاصل کریں گے.یہودیوں میں صحائف کو محفوظ کرنے کی تعلیم پہلے بھی موجود تھی.چنانچہ دانیال نبی کے صحیفہ کے باب 12 میں لکھا ہے.یہ باتیں آخری وقت تک سر بمہر و بند رہیں گی...تو اے دانیال ! ان باتوں کو بند کر رکھ.اور کتاب پر آخری زمانہ تک مہر لگا دے.بہتیرے اس کی تحقیق و تفتیش کریں گے.66 اور دانش و حکمت افزوں ہوگی." جماعت قمران کے پیش نظر بھی یہ تعلیمات تھیں چنانچہ انہوں نے ان تعلیمات کے پیش نظر اپنے صحائف کو محفوظ کیا.اسی طرح پر میاہ نبی کے صحیفہ 32/15 میں لکھا ہے.رب الافواج اسرائیل کا خدایوں فرماتا ہے کہ یہ کاغذات لے یعنی یہ قبالہ جو سر بمہر ہے.اور یہ جو کھلا ہے اور ان کو مٹی کے برتن میں رکھتا کہ بہت دنوں تک محفوظ رہیں.“ اسی حکم پر عمل کرتے ہوئے جماعت قمران نے اپنے صحائف مٹی کے برتنوں میں سر بمہر کر کے محفوظ کر دئے.صحیفہ دمشق جس کے کئی نسخے وادی قمران سے ملے ہیں اس کے باب پنجم میں لکھا ہے کہ کتاب شریعت ایک تابوت میں سر بمہر کر کے یشوع بن نون کے زمانہ سے ایک مخفی جگہ چھپا دی گئی جو تقریباً 600 سال بعد ایک صادق کا ہن کو ملی.اس واقعہ کا ذکر بائیل کی کتاب

Page 145

146 2 سلاطین میں بھی ملتا ہے.صحیفہ دمشق جو صحائف قمران کا حصہ ہے اسمیں اس حوالہ کا پایا جانا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ جماعت قمران میں صحائف کو محفوظ کرنے کی تعلیمات کو اہمیت حاصل تھی.اور جماعت اس پر پوری طرح عمل پیرا تھی.اراکین قمران ایک اعلی نظام کے تابع تھے.وہ مختلف گروہوں میں تقسیم تھے.دستور العمل اور صحیفہ دمشق میں ہزاروں ، سینکڑوں ، پچاس پچاس اور دس دس افراد کے گروہوں کا ذکر ملتا ہے.اخوت قمران اپنے آپکو دوسرے عام یہودیوں سے بالکل الگ اور ممتاز سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو حقیقی اور بچے اسرائیلی کہتے تھے.صحیفہ دمشق میں بڑی وضاحت سے ذکر ہے کہ جماعت کے چھوٹے چھوٹے گروہ مختلف گروپ مختلف شہروں میں آباد تھے.ان کے لئے بھی قوانین دئے گئے ہیں.ہر چھوٹے گروپ کا سر براہ ایک کا ہن ہوتا تھا.ان گروہوں کے قیام کا مقصد دنیا میں وفاداری کا قیام اور عداوتوں کا خاتمہ تھا.کا ہن ہی اجتماعی دعوتوں پر برکات پڑھتا تھا.کسی نئے ممبر کے عہد نامے میں داخلے کے وقت بھی جو دعوت ہوتی اس میں یہ کام کا ہن ہی سرانجام دیتا.ابنائے ظلمت کے خلاف جنگ میں بھی کا ہن کا کردار بہت اہم ہے.دستور العمل اور صحیفہ دمشق ایک دوسرے افسر کا بھی ذکر کرتے ہیں، جس کو سپرنٹنڈنٹ کہا جا سکتا ہے.عدلیہ کے فیصلوں کے لئے جوں کا ذکر بھی صحیفہ دمشق میں ہے.اس میں ایسے ارکان جماعت کا ذکر بھی ہے جو شادی کرتے تھے.اور گھریلو زندگی گزارتے تھے.عورتوں اور بچوں کا ذکر بھی کئی بار آیا ہے.دستور العمل میں اشتراک اموال کا ذکر ہے.جماعت میں داخلے کے لئے ہر رکن سے ایک سخت قسم کی جاتی تھی.اور باقاعدہ داخلے کے لئے ایک ایک سال کے دو مراحل میں سے گزرنا ضروری تھا.داخلہ کے بعد ہر رکن کو ایک مقررہ درجہ دیا جاتا تھا.مجالس میں حاضری ضروری خیال کی جاتی تھی.مجالس میں بیٹھنے کے لئے عہدوں کے مطابق ترتیب ضروری تھی.

Page 146

147 یہی حال مجالس میں بولنے کا تھا.قوانین کی پابندی کا تختی سے خیال رکھا جاتا تھا.خلاف ورزی کرنے والوں کو مختلف جسمانی اور اخلاقی سزائیں دی جاتی تھیں.ہر رکن کو شریعت کے مطالعہ.کے لئے بہت سا وقت دینا پڑتا تھا.یہ کام سارا سال جاری رہتا تھا.باری اس طرح پر مقرر کی جاتی تھی کہ دن اور رات میں کوئی بھی وقت مطالعہ سے خالی نہ رہے.شریعت کے احکام پر عمل کرنے کے لئے طہارت کا خاص خیال رکھا جاتا تھا.جماعت کے اراکین اکٹھے کھانا کھاتے تھے اور مشورے کرتے تھے.ہر سال مقررہ دنوں میں عہد نامے کی تجدید کی جاتی تھی.دستورالعمل کے زبوروں میں طلوع و غروب آفتاب کے وقت عبادت کا بیان ہے.جماعت کا کیلنڈر سی تھا اور عام مروجہ کیلنڈر سے بالکل مختلف تھا.خلاصه.The dead sea scrolls by Miller Barrows (230-239 نتیجہ :.صحائف سے حاصل ہونے والے بیانات اور تاریخی شہادتوں کو ملانے سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ جماعت قمران دراصل ایسینی یہودی تھے جن کی ابتداء دوسری صدی ق.م کے آخر میں ہوئی.اس کے متعلق کھنڈرات اور قبرستان کی شہادت کے بیان میں ایف.مور 24 نومبر 1951 ء کی کھدائی کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے."It was a small series of soundings nevertheless the excavators found sufficient evidence to date the ruin roughly to the beginning of the Christian era, to suggest that it was nither military nor private, but communal in character, a conclusion reinforced by contemporary cemetery; the poltery of the site.proud to be identical with that of cave & suggested, at least, a direct link between the people who once inhabited the settlement, & the cave deposit." (P.40)

Page 147

148 مصنف نے یہ بیان دینے کے بعد لکھا ہے کہ Pere Devansty کا بھی یہی نظریہ ہے کہ یہاں ایسینی مرکز تھا جیسا کہ تاریخی کتب سے ثبوت ملتا ہے.کھنڈرات اور قبرستان کے غاروں سے اس تعلق اور جماعت قمران کی ایسینی فرقے سے عادات ، عقائد، رسوم اور عبادات وغیرہ میں مشارکت اور زمانی و مکانی توارد کے باعث محققین فرداً فرداً اس نظریے کا اظہار کرنے لگے کہ صحائف کو غاروں میں چھپانے والے در اصل ایسینی تھے.چنانچہ مر بروز نے اپنی کتاب میں لکھا."For myself I must say that the geographical connection remains the strongest reason for regarding the Qumran sectarians as Essenes.If they were not the same, there was hardly room for both Essenes & covenanters in the nicinity of the Wady Qumran." (The dead sea scrolls P.280) ترجمہ: ”جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو کہوں گا کہ جغرافیائی تعلق ہی قمرانی فرقے کو ایسینی قرار دینے کے لئے سب سے ٹھوس دلیل ہے.اگر وہ ایسینی نہ تھے تو وادی قمران کے قرب و جوار میں ان معاہدین اور ایسینیوں دونوں کے لئے گنجائش نہیں ہے.“ ا.اسی رولے جو کہ اکثر نظریات میں دیگر علماء سے شدید اختلاف رکھتے ہیں اس نظریے میں ان سے خاصے متفق نظر آتے ہیں.لکھتے ہیں: "I accept this view with the reservation that it is possible that it was a closely related sect, though were probable that in the scrolls we see the Essenes at an earlier stage in their history than in our other sources, & that this accounts for differences in practices & organization." (The Dead Sea Scrolls & The New T.T.by H.H.Rowley P.4)

Page 148

149 ترجمہ: میں اس نظریے کو اس شرط کے ساتھ تسلیم کرتا ہوں کہ ممکن ہے یہ کوئی نہایت ہی قریبی فرقہ ہو.تاہم تاریخی تحریرات کی نسبت صحائف میں ایسینی اپنے ابتدائی مراحل میں ہمارے سامنے آتے ہیں.اور یہ کہ عبادات و نظام میں معمولی اختلافات کی وجہ بھی یہی ہے.آہستہ آہستہ یہ صورتحال بھی ختم ہوگئی اور تقریباً تمام محققین نے اس نظریے کو اپنا لیا کہ صحائف کا تعلق ایسینی فرقے سے ہی ہے چنانچہ اس وقت محققین کچھ اس قسم کے بیانات دینے لگے."The view that the people of the scrolls were Essenes now enjoys a wide consensus of scholarly opinion.It may, indeed be regarded as one of the best established positions about the scrolls so far reached." (The Scrolls & Christian Origans by Mathew Black P.4) ترجمہ یہ نظریہ کہ صحائف کی جماعت ایسینی تھے.اب علماء میں وسیع مقبولیت کا درجہ حاصل کر چکا ہے.صحائف کے متعلق موجودہ حالات میں یہ نظریہ در حقیقت بہترین بنیادوں پر - قائم ہے.“ یہ فیصلہ کرنے کے بعد کہ صحائف قمران کو ایسینی فرقے نے لکھا اور اسی فرقے نے ان کو اس خیال سے کہ آخری زمانے میں جب حقیقی تعلیمات دنیا سے غائب ہو جائیں گی تو لوگ ان سے روشنی حاصل کریں گے.غاروں میں محفوظ کر دیا.اب ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ فرقہ کس زمانے سے تعلق رکھتا ہے.

Page 149

150 ایسینیوں کا زمانہ مرکز قمران : 125 قبل مسیح سے لے کر 68 عیسوی تک وادی قمران کی عمارات ایسینی فرقے کا مرکز رہیں.اس عرصہ میں 31 قبل مسیح سے لے کر 4 قبل مسیح تک 27 سال کے لئے اس فرقے کو اپنا مرکز خالی کرنا پڑا.محققین کا خیال ہے کہ اس انخلاء کا باعث ایک عظیم الشان زلزلہ تھا.جس کا ذکر جوزیفس نے کیا ہے.یہودیہ کے تیس ہزار کھنڈرات میں اس زلزلے کے اثرات اب بھی موجود ہیں.دیواروں میں مختلف جگہ دراڑیں پڑی ہوئی ہیں.4 قبل مسیح کے بعد جماعت واپس اپنے مرکز میں آباد ہوگئی.اور اگر چه بنی اسرائیل پر اس عرصے میں بہت سی مشکلات آئیں جماعت پہلی بغاوت (68ء) تک اسی مرکز میں آباد رہی.زلزلے کی وجہ سے اخوت ایسین کا مرکز وادی قمران سے منتقل کرنا پڑا.اس بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ وادی قمران کو چھوڑ کر کون سا مرکز اختیار کیا گیا صحائف میں سے ایک صحیفہ دمشق میں جماعت کے ایک حصے کا دمشق کی طرف ہجرت کا ذکر ہے.لیکن اس ہجرت کا باعث کیا تھا اور یہ کس وقت ہوئی اس کے متعلق کوئی معلومات اس صحیفے میں یا کسی اور جگہ نہیں مل سکیں.ہو سکتا ہے کہ یہ ہجرت اسی زلزلے کے باعث ہوئی ہو تا ہم ہجرت کے بعد دمشق کے مرکز کو مستقل حیثیت حاصل ہو گئی اور 4 قبل مسیح کے بعد جماعت کا مرکز وادی قمران میں واپس آجانے کے بعد بھی جماعت کا کچھ حصہ دمشق میں موجود رہا.68 عیسوی کی بغاوت میں وادی قمران کی عمارتوں پر رومی افواج قابض ہو گئیں اور ایسینی جماعت اپنے صحائف کو غاروں میں چھپا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی اس کے بعد وادی قمران ایسینیوں کا مرکز دوبارہ قائم نہیں ہوسکا.وادی مربعات:.وادی مربعات کی غاروں سے جو وادی قمران سے تقریباً بارہ میل

Page 150

151 جنوب میں ہیں دوسری بغاوت (135-132 ء ) تک کے صحائف ملے ہیں.ان صحائف کا تعلق وادی قمران کے صحائف سے ایک ثابت شدہ حقیقت ہے.اس لئے یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ 68ء کے بعد اخوت ایسین کا کچھ حصہ وادی مربعات کی غاروں میں پناہ گزین ہوا.باقی لوگ یا تو ہلاک ہو گئے یا عیسائیت میں جذب ہو گئے اور بطور فرقہ کے ان کا کوئی الگ وجود نہ رہا.صحائف کا زمانہ صحائف کی وسعت زمانی:.غاروں سے ملنے والے صحائف سے متعلق محققین کا یہ خیال ہے کہ ان میں سے اکثر نئی تصانیف ہونے کی بجائے پرانی تصانیف کی نقول ہیں جو وادی قمران میں تیار کی گئیں.اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ اکثر صحائف کے کئی کئی نسخے یا نسخوں کے ٹکڑے ملے ہیں.اور بہت سے صحائف کا تعلق بائبیل کی مقدس کتب اور اس کے متعلق دیگر غیر مستند لٹریچر سے ہے.اس قسم کے صحائف کو کسی صورت میں بھی ابتدائی تصانیف قرار نہیں دیا جا سکتا.اس کے علاوہ جو صحائف خالصۂ اخوت ایسین سے تعلق رکھتے ہیں.متعدد دستور العمل صحیفہ دمشق جماعت کا دستور العمل اور تفاسیر حبقوق و ناحوم...وغیرہ ان کے بھی متعدد نسخے یا ان سے متعلق قطعات برآمد ہوئے ہیں.مختلف نسخوں میں کئی جگہ اختلافات بھی ملتے ہیں.اس سے یہ نتیجہ نکالنے میں مدد ملی ہے کہ جماعت اپنی تاریخ میں ترقی کے کئی مراحل طے کر چکی تھی.ہر مرحلے پر قوانین کا ایک نیا مجموعہ ضروری ترامیم کے ساتھ تیار کیا گیا.بعض صحائف انفرادی مضامین کا مجموعہ ہیں.ان کا تعلق زیادہ تر دینیات سے ہے.زبور اور مناجات ان کی بہترین مثالیں ہیں.یہ بہر حال نئی تصانیف ہیں.اسی وجہ سے ان کے زیادہ نسخے دریافت نہیں ہوئے.اکثر محققین کا خیال ہے کہ مناجات کے صحیفے میں استاد صادق کی تخلیقات ہیں غاروں سے ملنے والے صحائف کو گول کرنے کے بعد کپڑے میں لپیٹا

Page 151

152 گیا ہے.اور پھر مٹی کے برتنوں میں بند کر کے محفوظ کئے گئے ہیں.یہ کپڑا اور برتن صحائف کا زمانہ متعین کرنے میں خاصے مفید ثابت ہوئے ہیں.صحائف کے زمانہ کے چار پہلو ! اس طرح پر صحائف کا زمانہ اپنے اندر چار پہلو لئے ہوئے ہے.سب سے پہلے ہمیں اس زمانے کا پتہ ہونا چاہیے جس میں پہلی دفعہ صحائف کو ان کے مصنفین نے لکھا.اس کے بعد اس زمانہ کا علم ضروری ہے.جس میں ان کی نقول تیار ہوئیں.صحائف کے گرد لیٹے ہوئے کپڑے اور مٹی کے برتن کے زمانے کا علم بھی اس ضمن میں مناسب مقام کا مستحق ہے.اور سب سے آخر پر ان ایام کا جاننا ضروری ہے.جن میں صحائف غاروں میں دفن کئے گئے.اول:.جہاں تک پہلے زمانہ کا تعلق ہے.ہر صحیفے کی تصنیف کا زمانہ دوسرے صحائف سے بہت مختلف ہوگا.اکثر صحائف جن کی نقول جماعت ایسین نے کیں وہ جماعت سے قبل وجود میں آچکے ہیں.اس لئے ان کی تصنیف کا زمانہ ہر صحیفے پر الگ الگ تحقیق کا محتاج ہے.لیکن ترتیب اور ترجمے کی طرف زیادہ توجہ دینے کے باعث محققین ابھی اس میدان میں بالکل معمولی کام سرانجام دے رہے ہیں.دوم:.عہد عتیق سے تعلق رکھنے والے جو صحائف حاصل ہوئے ہیں وہ تیسری صدی قبل مسیح سے لے کر پہلی صدی عیسوی کے نصف اول تک کے وسیع زمانے پر پھیلے ہوئے ہیں.F.Moore لکھتے ہیں: "While biblical manuscripts range in date from the late third century B.C.the middle of the first century A.D, all extent copies of sectarian works fall Hasmonaean and Herodian periods.The earliest manuscripts of the rule of the community include two copies which are best

Page 152

153 dated in the first quarter of the first century B.C, and one papyrus copy in a prto cwsive script which while more difficult to date, is earlier still." ترجمہ: جبکہ بائیبل سے تعلق رکھنے والے مسودات تیسری صدی قبل مسیح کے آخر سے لے کر پہلی صدی کے نصف تک کے زمانے پر پھیلے ہوئے ہیں.فرقے سے متعلق تصانیف کی وسیع تعداد میں نقول ہسمونی اور ہیرودیس کے عہد میں تیار ہوئیں.جماعت کے دستور کے ابتدائی مسودات میں دو نقول شامل ہیں.جن کے زمانہ تحریر کا بہترین انداز پہلی صدی قبل مسیح کا ربع اول ہے.اور ایک نقل جو پاپکرس پر ہے.اور ابتدائی شکتہ تحریر میں ہے.اس کے زمانہ تحریر کی تعین زیادہ مشکل ہے.وہ ان سے بھی زیادہ پرانا ہے.( The Ancient library of (Qumran P.89 صحیفه یسعیاہ کی موجودہ نقل جس زمانے میں تیار ہوئی اس کے متعلق امریکی صحافی ایڈمنڈ ولسن لکھتے ہیں : "This fits in with the date assigned by Albright who arguing from palaeographical evidence, immediately put the Isiah scroll at about 100 B.C." (The Dead Sea Scrolls P.54) ترجمہ : ”یہ اس زمانے کے مطابق ہے جو آثار قدیمہ کی شہادت سے دلیل پکڑتے ہوئے البرائٹ نے متعین کی.اس نے فوراً ہی صحیفہ دمشق کے لئے 100 قبل مسیح کا زمانہ متعین کیا جوبلی ، حنوک ، بارہ بزرگ انا جیل اور استقبال موسیٰ کے زمانہ کے متعلق ولسن لکھتا ہے." '...R.H.Charles and C.C.Torrey are agreed that these writings were produced, in their present form chronologically in the order named between the second half of the second century B.C.and the early years of the first century A.D." (The dead sea scrolls P.57)

Page 153

154 ترجمہ آر ایچ چارلس اور سی سی تارے کا اسی بات پر اتفاق ہے کہ یہ تحریرات موجودہ شکل میں اسی ترتیب زمانی سے جس میں ان کے نام وغیرہ درج ہیں دوسری صدی قبل مسیح کے نصف ثانی سے لے کر پہلی صدی عیسوی کے ابتدائی سالوں تک کے عرصہ میں تیار ہوئیں."The biblical scrolls from Quran span in date about three centuries.A few archail specimens carry us back to the end of the third century, as we have seen.The heavy majority how ever, date in the first century B.C.and in the first Christian century the series terminating with the death of the community centre in A.D.68." (The ancient library of Qumran P.34) آثار قدیمہ غار نمبر 1 کی کھدائی سے پچاس ظروف اور ان کے ڈھکنوں کے علاوہ کپڑے کے کچھ ٹکڑے بھی ملے.یہ ظروف دو قسم کے ہیں.کچھ یونانی طور کے ہیں.ان میں پچاس ظروف ان کے ڈھکنے اور دو چراغ ہیں.اسی قسم کا ایک جار خربت قمران کی کھدائی سے بالکل صحیح حالت میں حاصل ہوا ہے.یہ پہلی صدی قبل مسیح سے تعلق رکھتے ہیں.دوسری قسم کے ظروف میں دو چراغوں کے ٹکڑے اور ایک رومی عہد کا برتن ہے.انہیں تیسری صدی عیسوی کا قرار دیا گیا ہے.غار سے ملنے والے کپڑے کے معائنے سے معلوم ہوا کہ وہ مقامی کتان کا بنا ہوا ہے.فلسطین میں دوسری صدی قبل مسیح سے لے کر دوسری صدی عیسوی تک کے عرصے میں اسی کے تاگوں سے اس قسم کا کپڑا بنا جاتا تھا.یہ کپڑا بھی مقامی طور پر بنا ہوا ہے اور اسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہے.طبیعیات جدید خوش قسمتی سے جس زمانے میں صحائف دریافت ہوئے ان دنوں علم الطبعیات موجودہ ایٹمی دور میں داخل ہو چکا تھا.اس نے صحائف کے زمانے کی تعین میں

Page 154

155 فیصلہ کن کردار ادا کیا.حیاتیاتی مادے میں کاربن کا عنصر وافر مقدار میں پایا جاتا ہے.کاربن کا ایمی وزن 12 ہوتا ہے اور نائٹروجن کا 14 جب کہ فضائے بسیط میں کا سمک شعائیں نائٹروجن کے ایٹموں سے ٹکراتی ہیں.تو وہ اس سے دو الیکٹران چھین لیتی ہیں.اور اسی طرح اسے بھاری کاربن میں بدل دیتی ہیں.اس کا ایٹمی وزن 14 ہوتا ہے.اس لئے اس کو کاربن 14 کہتے ہیں یہ زیادہ عامل ہونے کے باعث آکسیجن کے ساتھ کیمیائی ملاپ کر کے کاربن ڈائی آکسائیڈ بنالیتی ہے.حیاتیاتی مادے عام کاربن ڈائی آکسائیڈ کے علاوہ اس وزنی کارین ڈائی آکسائیڈ کو بھی جذب کر لیتے ہیں اس طرح حیاتیاتی مادے میں خفیف مقدار میں کاربن 14 شامل ہو جاتی ہے.یہ کاربن تابکار ہوتی ہے چنانچہ جب کسی حیاتیاتی مادے کی زندگی ختم ہو جاتی ہے.تو یہ عام کاربن میں تبدیل ہونے لگتی ہے.ریڈیم کی طرح اس کی تابکاری کی شرح یکساں ہوتی ہے.اس لئے کسی مردہ حیاتیاتی مادے میں کاربن 14 کی مقدار معلوم کر کے اس کی موت کا وقت معلوم کیا جا سکتا ہے.اندازہ لگایا گیا ہے کہ ساڑھے پانچ ہزار سال گزرنے پر کسی حیاتیاتی مادے میں اس کی مقدار ابتدائی مقدار سے نصف رہ جاتی ہے.چنانچہ جس مادے کا زمانہ دریافت کرنا ہو.اسے جلا کر اس کا کوئلہ حاصل کیا جاتا ہے جس میں تمام کاربن موجود ہوتی ہے پھر نہایت حساس ریڈیشن کونٹر کے ذریعے کاربن 14 کی نسبت معلوم کی جاتی ہے جس سے اس مادے کا زمانہ معلوم ہوتا ہے لیکن اس طریقہ سے حاصل ہونے والے زمانہ میں دس فیصد کمی بیشی کا امکان ہوتا ہے.شکاگو یونیورسٹی: وادی قمران کی غاروں سے حاصل ہونے والا کپڑا شکا گو یونیورسٹی امریکہ میں بھیجوایا گیا.ڈبلیو.ایف اسی کی نگرانی میں کاربن 14 کا ٹیسٹ اس پر کیا گیا چنانچہ انہوں نے یہ اعلان کیا کہ اسی کے ریشے جن سے کپڑا بنا گیا ہے 33 عیسوی میں کاٹے گئے انہوں نے کہا اس میں دو سو سال کی کمی بیشی کا امکان ہے.چنانچہ گلگیز لکھتا ہے."It was therefore a thrilling confermation of previons by pophenes where doctor Libby

Page 155

156 declared that the flawr of the scrolls, cloths was cut in A.D 33.Allowing for a margin of error of 200 years we get 168 B.C.to A.D 233 as the extreme limits either way." ترجمه چنانچہ گزشتہ نظریے کی یہ بڑی ہی جذباتی ہیجان پیدا کرنے والی تصدیق تھی.جب ڈاکٹر ریسی نے اعلان کیا کہ صحائف کے کپڑوں کی اسی 33 عیسوی میں کائی گئی تھی اس میں 200 سال کی امکانی غلطی کی گنجائش ملانے سے 160 ق.م تا 233 عیسوی کی حدود حاصل ہوتی ہیں.اس طرح علماء کے اس خیال کی مزید تصدیق ہوئی کہ ایسینی فرقہ پہلی صدی قبل مسیح سے لے کر پہلی یہودی بغاوت تک وادی قمران میں رہا.کھنڈرات اور غاروں سے حاصل ہونے والے برتنوں نے بھی اس زمانہ کی طرف اشارہ کیا پروفیسر آر کے ہیرلیس لکھتے ہیں : "The Cermic detaing thus Pointed to cedentary accupation of the site in the Greece Roman Period with level I dating from c.110 B.C to 31 B.C, and level II coming after a break in accupation and being dated C.A.D 1-68.The community.........subsequent labitation accurred for a brief period C.A.D.132 in the second Jewish war against Rome." " ترجمہ: پس برتنوں سے حاصل ہونے والی تاریخ نے ظاہر کیا کہ اس جگہ یونانی، رومی عہد میں غیر فعال آبادی رہی یعنی پہلی سطح کی آبادی 110 قبل مسیح سے 31 قبل مسیح تک اور کچھ عرصہ خالی رہنے کے بعد دوسری سطح کی آبادی 1 عیسوی سے 68 عیسوی تک رہی اس کے بعد یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت کی تاریخ کا خاتمہ ہو گیا.اور اس کے بعد رومیوں کے خلاف دوسری یہودی جنگ کے وقت 132 عیسوی میں مختصر آبادی رہی.Impact of the dead sea scrolls.P-82 1 Teach yourself book the dead sea scrolls.P-57

Page 156

157 سکتے :.کھنڈرات کی کھدائی سے بہت سے سکے حاصل ہوئے انہوں نے برتنوں حاصل ہونے والی تاریخ کی توثیق کردی.چنانچہ پروفیسر مذکور لکھتے ہیں."Others catches of coins brought the total recovered to over seven hundred and fifty.Many of these belonged to the Harmonan period and one coin only has been recovered to date from the live of herod the great.Others had been issued during the rule of the Roman procurators until the fall of Jerusalem in A.D.70, whilst about a dozen dated trom the period of the second Jewish revolt.ترجمہ حاصل ہونے والے دوسرے سکے ملا کر کل تعداد ساڑھے سات سو سے بڑھ گئی ان میں سے اکثر Harmonean period سے تعلق رکھتے تھے صرف ایک ایسا سکہ ملا ہے.جو ہیرودیس کے زمانہ سے تعلق رکھتا تھا دوسرے سکے یروشلم کے زوال (70ء) تک کے رومی سر براہوں کے عہد کے تھے تقریباً ایک درجن سکے دوسری یہودی بغاوت سے متعلق تھے.صحائف کو غاروں میں چھپانے کے زمانہ کے متعلق میتھیو بلیک لکھتے ہیں: "The prevailing theory is that these ancient ruins represent the remains of the famous Essene settlement located in this area by the Elder Plavey, and that the scrolls belong to the library of the sect, hidden away for safety in the nearly caves at some time during the first Jewish Revolt (A.D.64-70), possibly even hurriedly deposited in the caves at a single "movent critique" during the war, when the Roman legions approached the Dead Sea in the summer campaign of vasporian to Jericho in

Page 157

158 A.D.68."(The Scrolls Christian Origins P.4) ترجمہ غالب نظریہ یہ ہے کہ قدیم کھنڈرات اس معروف ایسینی آبادی کے آثار پیش کرتے ہیں جس کی نشاندہی پلیسنی کبیر نے اس علاقے میں کی ہے.اور یہ کہ صحائف اس رقے کی لائبریری کی ملکیت تھے.جو پہلی یہودی بغاوت (70-64ء) کے دوران اغلبا جنگ کے کسی نازک لمحے جبکہ رومی دستے ویسیازین کی سرکردگی میں 68 عیسوی کے موسم گرما میں بریجو پر حملہ کے وقت بحیرہ مردار کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے.بڑی تیزی کے ساتھ بیک دفعہ قریب کی غاروں میں بغرض حفاظت چھیا دئے گئے.ایسینی عقائد ورسوم ایسینی فرقہ یہودیوں کی ایک شاخ تھا اسلئے اس کے بنیادی عقائد یہودیوں سے ہی ماخوذ تھے.عام یہودیوں اور ایسینیوں میں فرق صرف اسقدر تھا کہ ایسینی اصفیا کا راسخ العقیدہ گروہ تھا.جب کہ دوسرے یہودیوں کے دلوں سے نور ایمان کا چراغ گل ہو چکا تھا.ایسینی سختی سے احکام کی پابندی کرتے اور جماعت کے قوانین کی خلاف ورزی نظام سے اخراج کا باعث بنتی.اللہ تعالی کے متعلق ایسینی عقیدہ یہ تھا کہ وہ واحد و یگانہ ہے بے مثل و مانند ہے.وہ بیوی بچوں سے پاک ہے.جو سب سے بلندشان والا ہے.قانون قدرت اسکے بنائے ہوئے ازلی ابدی اصولوں کے تابع چل رہا ہے.ان کے ذریعے وہ اپنے آئندہ نافذ ہونے والے ارادوں کو ظاہر کرتا ہے.وہ اس بات کا بار بار ذکر کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے راز ان گنت ہیں.جو بڑے عجیب اور انسان کے دل میں خشیت پیدا کرتے ہیں.مگر بیروز لکھتا ہے: "In recent discussions of the Dead Sea Scrolls the connection of the absolute sovereignty of God is seen more and were to be basic for the sect." (More Light on the Dead Sea Scrolls p.278)

Page 158

159 ترجمہ: صحائف قمران ہر جدید تحقیقات کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی انتہائی عظمت کا عقیدہ اس فرقے کا بنیادی عقیدہ ہونے کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے.ایسینیوں کا عقیدہ تھا خدا تعالیٰ اپنی اظہار شان کے لئے اپنے فیصلے صادر فرماتا اور اپنے عجیب وغریب کام ظاہر فرماتا ہے.مسٹر بیروز آگے چل کر لکھتے ہیں : "Quili is manner of Paul, they were able to be lies that the wicked were created to serve as objects for the demonstration of God's mighty wrath." (More light on the Dead Sea Scrolls P.278) ترجمہ: ”بالکل پولوس کی طرح ایسینی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ بدکار اس لئے پیدا کئے گئے ہیں کہ خدا تعالی کا غضب ان پر ظاہر ہو.“ ایسینی اللہ تعالی کے عدل پر ایمان رکھتے تھے مگر اس میں بھی اس کی عظمت کا خیال رکھا گیا ہے.اس کے ہاں انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکل سے کام لے.ایوب کی کتاب کے اس عاجزانہ جملہ کی گونج انکی تحریرات میں بار بار سنائی دیتی ہے.(More light on the Dead sea scrolls P.279) "?How can a man be just befor God" کہ آدمی کیونکر خدا تعالیٰ کے حضور اپنے آپ کو نیک کہہ سکتا ہے.ان کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ بڑا رحیم ہے.اس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا.شکرانے کے مناجات میں بار بار اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کیا گیا ہے.جن میں سب.بڑی نعمت پاکیزہ زندگی کو قرار دیا گیا ہے.ایسینی عقیدہ رکھتے تھے کہ جس طرح حضرت موسیٰ کے زمانے میں بنی اسرائیل نے شہروں کو چھوڑ کر جنگل کی زندگی اختیار کی تھی تا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے قدیمی عہد کی تجدید کریں جو ابتداء سے اس نے ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب کیساتھ باندھا تھا.اس طرح وہ بھی

Page 159

160 ویرانے میں جا کر ایک نئے عہد کی امید رکھتے تھے جس طرح موسیٰ اور یسوع کی سرکردگی میں بنی اسرائیل نے خدا کی راہ میں جنگ کی اسی طرح وہ بھی آرمجدن کے مقام پر ہونے والے ایک معرکے کی خاطر تیاری کر رہے تھے.جس طرح اسرائیل میں ابتداء سے انبیاء مبعوث ہوتے آئے تھے.اسی طرح ایسینیوں میں ان کی رہنمائی کے لئے ایک نیا نبی استاد صادق موجود تھا.یہی استاد دنیا کے آخر پر پھر مبعوث ہوگا.اور اسرائیل کے تمام قبائل کو جمع کریگا اور سنہری زمانے کا آغاز کریگا.(Scriptures of the Dead Sea Sect P.15) استاد صادق پر خدا کی وحی نازل ہوتی ہے.اور وہ اس کی روشنی میں اسرار شریعت کو آشکارا کرتا ہے.اس کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ ایسینیوں کے دلوں سے، جب دنیا سرد ہو کر رہ گئی تو وہ ہر قسم کی تکالیف کو بطیب خاطر برداشت کرتے تھے اور ہر قسم کی قربانیاں خدا کی راہ میں دینے کے لئے جان و مال کی پرواہ نہ کرتے تھے.کائنات کے متعلق ایسینیوں کے عقیدے میں بھی عظمت الہی کا اظہار مدنظر ہے ان کے ہاں شرک کا شائبہ تک نہ تھا.اگر چہ ان کے ہاں ابنائے نور اور ابنائے ظلمت کا تصور پایا جاتا ہے.مگر یہ سب چیزیں واحد خدا کے عقیدے کے تابع تھیں جو کائنات کا خالق و مالک ہے وہی پیدا کرتا ہے اور مارتا ہے.جو بھی کام دنیا میں ہورہے ہیں ان سب کے لئے وہی علت العلل ہے.شکرانے کے مناجات کے صحیفہ کے آخر میں نئی زمین اور نئے آسمان کی تخلیق کا ذکر ہے.ان کی کائنات میں دلچسپی اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ حنوک کی کتاب کے کئی نسخے ان کے ہاں ملے ہیں.محققین کا خیال ہے کہ یہ وہ تعلیم تھی جس کے متعلق ان سے قسم کی جاتی تھی کہ جماعت کے باہر بیان نہ کرینگے.غار نمبر 4 سے ایک صحیفہ ملا ہے جو بہت سے رسم الخط ملا کر لکھا گیا ہے.اس میں کائنات کے موضوع پر بحث کی گئی ہے.ایسینیوں میں نور اور ظلمت کی روح کا تصور پایا جاتا ہے محققین کا خیال ہے کہ یہ ایران کے زرتشی مذہب کے اثر کا نتیجہ تھا.ان کا خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابتداء سے نور اور

Page 160

161 ظلمت کی دور میں پیدا کیں.ان کی آپس میں کشمکش شروع ہے یہ کشمکش انسان کے نفس میں بھی جاری ہے اور وسیع پیمانے پر یہ کشمکش ارض و سماء کی وسعتوں میں بھی جاری ہے بعض جگہ ان ارواح کو فرشتے بھی کہا گیا ہے.ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ جب دنیا کا انجام قریب ہوگا تو اللہ تعالیٰ اپنے ایک عظیم الشان رسول کو مبعوث فرمائے گا جس کی قیادت میں ابنائے نور ابنائے ظلمت کے خلاف آخری معرکہ کے لئے نکلیں گے.اپنائے نور کی مدد اللہ تعالیٰ کریگا اور برائی کی طاقتوں کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا جائے گا.صحیفہ جنگ میں اس معرکے کا نقشہ نہایت حسین انداز میں کھینچا گیا ہے.نور کیساتھ تعلق رکھنے والی روح کو دستور العمل میں "روح حق" اور " نور کا شہزادہ بھی کہا گیا ہے.اس کی مدد کے لئے چار فرشتوں کے نزول کا ذکر بھی صحیفہ جنگ میں ہے.یہ فرشتے جبرائیل، میکائیل، ساوی ئیل اور رافائیل ہیں.فرشتوں کے لئے شکرانے کے مناجات میں پاک وجود " کے الفاظ آئے ہیں اور صحیفہ جنگ میں ان کو عظیم الشان اور روحانی قرار دیا گیا ہے.دیگر صحائف میں ان کو آسمان کے بیٹے آسمانی فوج اور ابدی فوج قرار دیا گیا ہے.پرانے عہد نامے کے محاورے کے مطابق کئی جگہ ان کو طاقتور، بہادر اور روح کہا گیا ہے.صحائف میں کئی جگہ " پاک فرشتوں اور سلامتی کے فرشتے کا ذکر ہے.شکرانے کے مناجات میں ایک فرشتے کو " کلام وو وو دو کر نیوالا ، وسیلہ اور خبریں دینے والا کہا گیا ہے.ایسینی عقیدہ رکھتے تھے کہ موت کے بعد روح ہمیشہ کے لئے زندہ رہتی ہے اور جسم فنا ہو جاتا ہے.وہ یوم بعث کے بھی قائل تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اس دن روح کو پھر جسم دیا جائے گا.اور عدالت ہوگی.اس کے بعد نیک لوگ ابدی جنت اور ختم نہ ہونے والی نعمتوں میں رہیں گے.اور خدا کی معرفت اور حکمت میں ترقی کرینگے اور رضائے الہی کے مقام میں ہونگے اور گنہگاروں کو ابدی جہنم میں عذاب کا مزہ چکھنا ہوگا.صحائف میں انسانیت کو اس رنگ میں کہیں بھی گنہ گار قرار نہیں دیا گیا.جس طرح

Page 161

162 مسیحیوں نے آدم کی غلطی کو ورثے میں چلا کر تمام انسانیت کو گنہگار قرار دے دیا بلکہ اللہ تعالیٰ کی کامل پاکیزگی اور تقدس اور اس کے مقابلہ میں انسانی کمزوری کے پیش نظر انسان کو خطا کار قرار دیا گیا.لیکن تمام انسانوں کی روحیں ابتداء میں پاک ہوتی ہیں.پھر ان میں سے بعض برے کام کر کے ابنائے ظلمت میں شامل ہو جاتے ہیں اور بعض نیکیاں بجا لا کر اپنائے نور کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں اس پاک روح کو خراب کرنے والوں کو صحیفہ دمشق میں بہت تبدید کی گئی ہے.ایسینیوں کا عقیدہ تھا کے انسان کی پیدائش سے بھی پہلے اس بات کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ابنائے نور میں شامل ہوگا یا ابنائے ظلمت کا ساتھ دیگا.نور و ظلمت کی کشمکش ہر وقت انسان کے دل میں جاری رہتی ہے.لیکن اس کے باوجود ان کا خیال تھا کہ کوئی انسان اس صورت میں شیطان پر فتح پاسکتا ہے کہ شروع میں اس کے لئے ایسا مقدر ہو چکا ہے.ایسیوں کے ہاں نجات کا مطلب محض عذاب سے رہائی نہیں بلکہ حقیقی نجات گناہ سے بچنے میں ہے.اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی انسان کو مدد نہ ملے تو وہ اس مقصد کو پا نہیں سکتا.ابنائے نور کو نیکی کی توفیق بھی تائید الہی سے ہی ملی ہے.پس انسان کی سعادت اس میں ہے کہ اس کو نیک کردار عطا کیا جائے نیکیوں کا اصل مقصد اندرونی اور دل کی پاکیزگی ہے.ظاہری نیک اعمال بھی انسان کو بچا نہیں سکتے جس شخص کو دل کی پاکیزگی حاصل نہ ہو.اس کے متعلق دستور العمل میں لکھا ہے: "He will not be purified by atonement offerings, and he will not be made clean with water for impurity, he will not sanctify himself with seas and rivers or be made clean with any water for washing." دستور العمل (5-iii سطر 25 کالم ii) ترجمہ: اس کو کفارے کی قربانیاں پاک نہیں کر سکتیں اور اس کی غلاظت کو پانی دور نہیں

Page 162

163 کرے گا.اس کو سمندر اور دریا بھی پاک نہیں کر سکتے خواہ کسی بھی صاف کرنے والے پانی سے اس کو صاف کیا جائے.(وہ صاف نہ ہوگا ) جماعت قمران ایک مسیح کے انتظار میں تھی جو ہارون کی اولاد میں سے آنے والا تھا.اس کے آنے سے خدائی بادشاہت آئے گی.اور جماعت کی تکالیف کا خاتمہ ہو جائیگا.بعض محققین کے نزدیک جماعت کو دو مسیحیوں کی انتظار تھی.دوسرا مسیح داؤد کی نسل سے پیدا ہونے والا تھا.بنیادی طور پر ایسینی ہیکل کا احترام کرتے تھے اور متعلقہ قربانیوں کے قائل تھے.لیکن وہ کا ہن اعظم سے اختلاف کے باعث موجودہ حالات میں یہ عبادات بجانہ لا سکتے تھے.آئندہ چالیس سال کے بعد جب وہ ہیکل پر قابض ہو جائیں گے تو پھر اس میں عبادات بجا لا ئینگے اور اس کے لئے قوانین صحیفہ جنگ میں بیان کئے گئے ہیں.فی الحال ان کا عمل امثال 15/8 پر تھا جس کا حوالہ صحیفہ دمشق کالم 11 سطر 20 میں دیا گیا ہے کہ بد کردار کی قربانی خداوند کی ناراضستگی کا باعث ہے.“ بعض محققین کا خیال ہے کہ ایسیوں نے ہیکل کی عبادت اور قربانیوں کے بدلے درمیانی عرصہ کے لئے اجتماعی طعام جو مقدس سمجھے جاتے تھے.اختیار کر رکھے تھے.قربانی چونکہ ہیکل کے علاوہ کسی اور جگہ نہیں دی جا سکتی اس لئے ان کھانوں میں گوشت شامل نہ ہوتا تھا بلکہ صرف روٹی اور شراب پر اکتفا کیا جاتا تھا اور انہیں کا صحائف قمران میں ذکر بھی ملتا ہے.تا ہم ان کھانوں میں طہارت کے انہیں اصولوں کی پابندی کی جاتی تھی جو ہیکل میں کا ہنوں کے کھانے میں ملحوظ رکھے جاتے تھے.کھنڈرات سے بعض ہڈیوں کے ملنے سے محققین پریشان ہیں کہ وہ کہاں سے آگئیں.وہ کہتے ہیں کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسینی اپنے مرکز میں قربانی پیش کرتے تھے بعض کا خیال ہے کہ جب تمام ایسینی سال میں ایک بار عہد کی تجدید کیلئے مرکز میں جمع ہوتے تھے تو اس وقت جو جانور ذبح کیا جاتا تھا اس کی ہڈیاں برتن میں رکھدی گئیں.

Page 163

164 کتب مقدس کا مطالعہ جماعت میں خاص اہمیت کا حامل تھی کھانے کے ہال میں ایک طرف ایک نشیب جگہ ہے.محققین کا خیال ہے کہ کھانے کے دوران اور اس کے بعد کی مجالس میں ایک شخص وہاں پر کھڑے ہو کر عبد عقیق کی تلاوت کرتا تھا.یہ رسم بعد کی عیسائیت میں بھی جاری رہی.اس ہال میں عام کھانا بھی تقسیم ہوتا تھا.کھانے اور مجالس کے دوران بعض قوانین کی پابندی ضروری ہوتی تھی.کھانے سے قبل طہارت ضروری ہے اس کا ذکر غار نمبر 4 سے حاصل ہونے والی ایک تحریر میں ملتا ہے.اجتماعی کھانوں میں صرف مرد شریک ہوتے تھے.صحیفہ دمشق میں بیان کیا گیا ہے.کہ ایسینیوں کے جنگل میں جاکر زندگی گزارنے کا مقصد سوائے وصال الہی کے اور کچھ نہیں اس مقصد کے حصول کے لئے ایسینی عہد عتیق کے بتائے ہوئے تمام قوانین کی پابندی کرتے ہیں.اور ان کے کھانوں میں جو طہارت وغیرہ دیگر قوانین کی سختی سے پابندی کی جاتی تھی.اس کا مطلب بھی صرف اور صرف خدا سے دوری کوختم کرنا اور خدا کی راہوں پر چل کر اسے خوش کرنا تھا.(صحیفه دستور العمل کالم 8 سطور 4 تا 10 ) جماعت کے دستور میں ایک ایسے طعام کا ذکر ہے جس میں اسرائیل کا مسیح موجود ہوگا بعض محققین اسے مسیح کے دستر خوان کا رنگ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جماعت کے تمام اجتماعی کھانوں کا مقصد اس عظیم الشان دستر خوان کے لئے تیاری کی خاطر مشق کرنا تھا.کھانے کے وقت نشستوں کی ترتیب اور اسی طرح ابتداء کا حق کس کو ہے؟ ان قوانین کے پیچھے روحانی تو جہات ہیں.یہ بھی تصور موجود ہے کہ کھانے میں جب مسیح موجود ہوگا تو بھی اولیت کا ہن کو ہی حاصل ہوگی.کھنڈرات قمران میں پائے جانے والے کثیر التعداد پانی کے حوضوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بپتسمہ کو ایسیوں کے ہاں خاص اہمیت حاصل ہے.ایسینیوں کو شروع میں یہ قسم دیجاتی تھی کہ وہ مذہبی تہواروں کے اوقات میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کرینگے.(دستور العمل کالم 1 سطور 14)

Page 164

165 فریبی اپنے آپ کو موسیٰ علیہ السلام کے جانشین قرار دیتے ہوئے اپنا یہ حق سمجھتے تھے کہ وہ کیلنڈر میں تبدیلی کریں لیکن ایسینی یہ خیال رکھتے تھے کہ موسم اور اوقات کی تعین اللہ تعالیٰ نے ایک ہی دفعہ کر دی ہے اس لئے کسی دوسرے کو اس میں تغیر کا حق نہیں ہے.ایسینی اس کیلنڈر پر عمل پیرا تھے جو جو بلی کی کتاب میں بیان ہے اور وہ مشمسی کیلنڈر ہے.ایسینی ہر سال ایک دفعہ قمرانی مرکز میں جمع ہوتے تھے اور سب مل کر اپنے عہد کی تجدید کرتے تھے.یہ تہوار سال کے تیسرے مہینے میں ہوتا تھا جبکہ ہفتوں کی عید منائی جاتی تھی اس 006 موقعہ پر ایسینی تمام شہروں سے آکر جمع ہو جاتے تھے اور نئے سروں سے بپتسمہ لیتے تھے.بعض محققین کا خیال ہے کہ شکرانے کے زبور اجتماعی عبادت کے موقع پر پڑھے جاتے تھے.لیکن بعض دوسرے محققین کو اس پر اعتراض ہے کہ ان میں واحد کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے.اس لئے یہ اجتماعی عبادات میں نہیں پڑھے جاسکتے.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ہر رکن کا فرض تھا کہ مناسب وقتوں کے بعد ان زبوروں کو دہرائے.اس کا مقصد ان کی ذہنی اور روحانی ترقی تھا لیکن ملر بروز کو اس سے اختلاف ہے.وہ کہتے ہیں کہ ان کی تحریر کا مقصد محض ذاتی تجربات کا بیان تھا.جماعت پر ان کو ٹھونسنا کوئی معنی نہیں رکھتا.چنانچہ لکھتے ہیں: "That they were composed for the purpose of such use seems to ever very improbable." (more light on the Dead Sea Scrolls P.380) وو ترجمہ یہ کہ وہ کسی ایسے استعمال کو سامنے رکھ کر اس مقصد سے لکھے گئے تھے مجھے بالکل ناممکن دکھائی دیتا ہے.“ ایسینی تحریرات کا مقصد ملر بروز کے نزدیک مندرجہ ذیل ہے.:."Sincerity love of ones neighbour perfection, chastity fasting and charity are found to be the outstanding ethical ideals of these two documents." (More light on the Dead Sea Scrolls P.382) ترجمه ان دو مسودات کے پیش نظر اخلاص، ہمسائے سے محبت ، تکمیل نفس، عفت، نفس کشی

Page 165

166 اور صدقات جیسے عظیم الشان اخلاقی مقاصد نظر آتے ہیں.صحیفه دستور جماعت سے واضح ہوتا ہے.ایسینی شادی کرتے تھے اس میں عورتوں اور بچوں کے لئے قوانین واضع کئے گئے ہیں.دستور العمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسینوں میں مکمل اشتراک اموال پایا جاتا تھا.اور رکنیت حاصل کرنے کے لئے اپنی ہر ایک چیز جماعت کے سپرد کرنا ہوتی تھی.(دستورا عمل کالم 1 دستور 12-11) دستور العمل اور صحیفہ دمشق دونوں میں حجی کی کتاب (Book of Haggi) کا ذکر ہے.جس میں بعض اذکار درج تھے.تمام ارکان کو ابتداء میں یہ کتاب پڑھائی جاتی تھی.اور کاہنوں کے لئے اس پر پوری طرح حاوی ہونا ضروری تھا.اس کتاب کا کوئی نشان نہیں مل سکا.قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر سخت سزائیں دی جاتی تھیں.مثلاً اپنی ملکیت کی تاط اطلاع دینے پر خاص مجالس سے ایک سال اس لئے خارج کر دیا جاتا تھا اور راشن گھٹا کر ایک چوتھائی کر دیا جاتا.مجالس میں قطع کلامی کرنے پر دس دن کے لئے مذکورہ بالا سزا دی جاتی.مجلس میں تھوکنے یا سوجانے پر تین دن کی سزادی جاتی تھی.جماعت میں عورتوں کو مناسب مقام نہیں دیا جاتا تھا.ان کے متعلق یہ خیال رائج تھا کہ یہ مرد کو خدا کی راہ میں چلنے سے جو بالکل سیدھی مگر بہت تنگ ہے روکتی ہیں اور طرح طرح کی فریب کاریوں سے اس کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں.ایسینی فلسطین کے تمام علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے.اور قصبوں اور دیہات سے مسلک آبادیوں میں رہتے تھے.اگر کسی رکن کو سفر کرنا ہوتا تو وہ جہاں بھی جاتا وہاں کے جماعتی انتظام سے فائدہ اٹھاتا تھا اور اس کو اپنے ساتھ کسی قسم کا زاد راہ لے جانے کی ضرورت پیش نہ آتی تھی.ایسینی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ انسانی زندگی پر ستاروں کا اثر پیدا ہوتا ہے.الیگر و لکھتے ہیں: "for them the stars and their position could affect men's lives..." (The Dead Sea Scrolls P.126)

Page 166

167 ترجمہ: ”ان کے ہاں ستارے اور ان کی مختلف حالتیں انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں.“ صحیفہ دمشق اور دستورالعمل میں جماعت قمران کے لئے قوانین درج ہیں.لیکن ان میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ یہ زمانہ شیطان کے غلبے کا زمانہ ہے.مسیح کی آمد سے نئے عہد کا آغاز ہوگا اور شیطان کو شکست دی جائے گی.اور خدا کی بادشاہت شروع ہوگی.چنانچہ ان دونوں صحائف میں بتایا گیا ہے کہ ان میں جو بھی قوانین درج ہیں وہ اس عبوری زمانے کے لئے نیا دور آنے پر یہ قوانین ختم ہو جائیں گے.جماعت کے ممبر سوسو پچاس پچاس اور دس دس کے گروہوں میں منقسم ہوتے تھے.سے جماعت کا نظام کا ہنوں کے سپرد تھا.جو نبی ہارون یا نبی صدوق کہلاتے تھے.ہر دس ارکان پر ایک کا من مقرر ہوتا تھا.جماعت میں یہودیوں کا ذکر کم ملتا ہے.تاہم وہ کا ہن کا نائب ہوتا تھا.کاہنوں کے علاوہ سپریذیڈنٹ بھی ہوتے تھے.جو انتظامی امور اور عام نگرانی کا کام کرتے تھے.جب کہ کاہنوں کے سپر د زیادہ تر مذہبی امور ہوتے تھے.پوری جماعت کا انتظام چلانے کے لئے بارہ آدمیوں کی ایک کمیٹی تھی ان کے علاوہ تین کا ہن بھی اس کمیٹی میں شامل ہوتے تھے.سے ہر رکن کو جماعت میں داخلے کے لئے دوسال کا آزمائشی عرصہ گزارنا پڑتا.جس کے بعد وہ با قاعده ممبر بن جاتا.بچوں کو دس سال کے لئے تعلیم دی جاتی تھی.اس مقصد کے لئے خاص منہاج مقرر تھا.ہمیں سال کی عمر میں وہ جماعت کی رکنیت حاصل کرنے کے قابل ہو جاتے تھے.رکنیت سے قبل عام اجلاس میں امیدوار کی ذہانت اور دیگر اخلاقی اقدار کا امتحان لیا جاتا تھا.رکنیت سے قبل دو سال تک وہ امیدوار کی حالت میں گزارتا تھا.اس کے بعد ایک اور عام امتحان لیا جاتا اور پھر عام اجلاس میں ارکان کی رائے لی جاتی اور اس طرح ووٹ سے صحیفہ دمشق کالم 4 سطر 14 - ملر بروز 354.Dead sea scrolls P سے جماعت کا دسطور کالم 1 سطر 14 س دستورالعمل کالم 8 سطر 1 ۳

Page 167

168 اس امر کا فیصلہ کیا جاتا.کہ شخص جماعت کا رکن بن سکتا ہے یا نہیں.اس کے بعد اس سے ایک قسم لی جاتی.جب وہ گزشتہ گناہوں کا اقرار کر کے ان سے توبہ کرتا اور آئندہ کے لئے برائی سے بچتے ہوئے جماعت کے قوانین پر عمل پیرا ہونے کا پافتہ عہد کرتا.اس کے بعد وہ اپنا سارا اثاثہ جماعت کے قبضے میں دے دیتا.اور جماعت کے سٹور سے فائدہ اٹھاتا.اور اجتماعی کھانے اور جماعت کے اجلاس میں شریک ہوتا تھا.25 سال سے کم عمر کا کوئی شخص کسی عہدے پر فائز نہ ہوسکتا تھا.اور تمہیں سال سے کم عمر کا کوئی شخص کنبے کا سردار نہیں بن سکتا تھا.عام معاملات کے لئے ایک کا بینہ ہوتی تھی.جس کی رکنیت کا فیصلہ ووٹ کے ذریعہ سے ہوتا تھا.کوئی بھی فرد جماعت اس کا رکن بن سکتا تھا.لیکن یہ شریعت کے کاموں میں دخل نہ دیتی تھی.ارکانِ جماعت کو جھوٹ بولنے کی سخت ممانعت تھی.اسی طرح قسم کھانا بھی منع تھا.ایک دوسرے کو سلام کی تلقین کی جاتی تھی.

Page 168

169 باب پنجم استاد صادق

Page 169

171 عمومی تعارف: صحائف قمران کی سب سے بڑی شخصیت ”موره با الصدق، یعنی استاد صادق یا ہادی برحق ہے.جو جماعت قمران کا آقا اور خدا کا برگزیدہ ہے.صحائف میں بعض جگہ اس کو مسیح بھی قرار دیا گیا ہے.یہودی کاہنوں نے اس کی پرزور مخالفت کی.اور رومی حکومت میں اس پر مقدمہ چلایا نتیجہ اس کو تختہ دار پر کھینچا گیا.مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو یہودیوں کے شر سے محفوظ رکھا اور وہ اپنے وطن اور عزیزوں کو چھوڑ کر دور دراز ملکوں میں سفر پر نکلا.صحائف پر کام کرنے والے محققین کہتے ہیں کہ صحائف سے استاد صادق کی شخصیت پر بہت کم روشنی پڑتی ہے.اور اس کے کردار کا صحیح خاکہ بنانا مشکل ہے.F.Moore اپنی کتاب The Ancient Library of Qumran کے صفحہ نمبر 116 پر استاد صادق کی بحث میں لکھتے ہیں: "A systematic reconstruction of his career is quite impossible for all our labors, he remains a shadowy figure.We do not know even his name.There is no hint of his identity in our older sources.The Essenes commentaries hide him.under his spiritual title, the righteous teacher.They mention him fairly frequently but usually in very general contexts." ترجمه استاد صادق کے کردار کا باقاعدہ خاکہ بنانا ناممکن ہے.ہماری تمام کاوشوں کے باوجود وہ ایک دھندلی صورت بنا رہتا ہے.ہمیں اس کا نام تک معلوم نہیں ہوتا.ہمارے قدیم ماخذ میں اس کی مماثلت کہیں نظر نہیں آتی.ایسین تفاسیر اس کو روحانی لقب استاد صادق کے پردے میں چھپائے رکھتی ہیں.ان میں اس کا ذکر کثرت سے ہے مگر ہر جگہ بالکل عمومی رنگ

Page 170

172 میں ملتا ہے.66 ان مشکلات کے باوجود استاد صادق کی تعین کرنے کی بہت کوشش کی گئی ہے.لیکن محققین میں شدید اختلافات ہیں.اکثر نے ٹھوکریں کھائیں.اور بہت دور کی کوڑی لائے ہیں.ان سب کوششوں کا مقصد حقیقت پر پردا ڈالنا ہے.لیکن جس چیز کا اظہار اللہ تعالی کے حضور مقدر ہو چکا ہو اس کو انسانی کوششوں سے مخفی نہیں رکھا جا سکتا.صحائف کا مطالعہ کرنے سے ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ان میں حضرت مسیح علیہ السلام کے حالات کا ذکر ہے.وادی قمران کی غاروں سے حاصل ہونے والی تفاسیر میں مفسرین اپنے زمانے کو بائیبل کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والا زمانہ خیال کرتے ہیں.اور ان پیش گوئیوں میں بیان کردہ حالات اپنے ساتھ پیش آنے والے روز مرہ کے واقعات پر چسپاں کرتے ہیں.ایسے لگتا ہے جیسے وہ اپنے آپ کو کوئی خاص جماعت سمجھتے تھے.جو انبیاء کے سابقہ میں اکثر کی پیشگوئیوں کا موضوع تھے ہر نبی نے ان کے لئے پیش سوئی کی تھی اور اس میں بیان کردہ واقعات ان کے وقت میں رونما ہور ہے تھے.ان تفاسیر میں تفسیر حقوق خاص طور پر قابل ذکر ہے.اس تفسیر میں بعض شخصیات کا بار بار ذکر آتا ہے.جو جماعت قمران کی زندگی پر گہرے اثرات کی حامل ہیں.ان میں سے "کیتم " (Kittim) مکار انسان ”Man of Lies‘ بدکار کا ہن ”Wicked priest‘ ابوشالیم کا گھرانہ وو وو House of Ab salem “ اور استاد صادق " The teacher of Righteousness‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں.تفاسیر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت قمران کی زندگی ہر وقت استاد صادق کے گرد چکر لگاتی ہے.وہ ان کا آتا ہے.اور اس پر ایمان ان کے لئے باعث نجات ہے.اس کی مخالفت اور نافرمانی ابدی جہنم کا موجب ہے.ان ناموں سے کیا مراد ہے؟ اور ان کے پیچھے کون کونسی شخصیات پوشیدہ ہیں؟ محققین میں اس امر میں شدید اختلافات ہیں.ان شخصیات کا باہمی تعلق اور ان سے متعلقہ تاریخی واقعات بڑی وضاحت سے تفاسیر اور جماعت

Page 171

173 کے دوسرے لٹریچر میں بیان ہیں.لیکن مشکل یہ ہے.کسی زمانے کی تاریخ میں بھی وہ تمام واقعات وشخصیات موجود نہیں.محققین نے اس مشکل کو حل کرنے کے لئے بہت مغز زنی کی ہے.اور تیسری صدی قبل مسیح سے لیکر آٹھویں صدی عیسوی تک کی تاریخ کا ہر ورق ان واقعات و شخصیات کی تلاش میں چھان مارا ہے.لیکن بے سود یہ تفاصیل نہ ملنی تھی نہ ملیں.اس راہ میں دیگر بہت سی مشکلات کے علاوہ اصل مشکل یہ ہے کہ سب نام تاریخی ہونے کی بجائے محض صفاتی اور مجازی ہیں.لہذا یہاں صفات کے مالک کسی بھی فرد پر چسپاں ہو سکتے ہیں اسی وجہ سے یہ معاملہ محققین میں بہت متنازعہ فیہ ہے.استاد صادق کی شخصیت پر سب سے زیادہ گرم بحث پائی جاتی ہے.دوسری صدی قبل مسیح سے لیکر دوسری صدی عیسوی تک کی تمام شخصیات خاص طور پر زیر بحث لائی گئی ہیں.ایک محقق کسی شخصیت کے سر پر استاد صادق کا عظیم الشان تاج رکھتا ہے تو دوسرا اس کے ماتھے پر جلی حروف میں بدکار کا ہن کی ذلت آمیز مہر لگاتا ہے.کیتم کو اکثر محققین نے رومی حاکم طبقہ قرار دیا ہے.ان کی ظالم حکومت کے خلاف اس زمانے میں تمام یہودی فرقے اٹھ کھڑے ہوئے تھے.بعض محققین نے ہر کناؤس دوم کو بد کار کا ہن قرار دیا ہے.اس صورت میں ابوشالوم سے ارسطو بولوس کا ماموں مراد لیا جائے گا.اور ہر کناؤس اول کا لڑکا بھی ابوشالوم تھا.وہ بھی یہاں چسپاں ہوسکتا ہے.بعض نے الیگزینڈ جناؤس کو بدکار کا جن قرار دیا ہے.اس طرح بعض نے کا ہن اعظم متیلا ؤس کو بھی یہ نام دیا ہے.لیکن اس صورت میں کیتم رومیوں کی بجائے سیلیو کی ہو نگے.بعض محققین نے انبانباس کو بد کار کا ہن قرار دیا ہے.اس بیان کے مطابق مناھیم استاد صادق ہے.اور اس کا وزیر ابوشالوم تھا.اور مکار انسان اگر یا دوم یہ بھی قابل ذکر ہے.کہ مناھیم کو نبی کا ذب بھی قرار دیا گیا ہے.اور یوجنا بپتسمہ دینے والے کو استاد صادق.جیسا کہ شروع میں بیان کیا جا چکا ہے.عیسائی محققین میں صحائف کے خلاف بہت زیادہ مذہبی تعصب پایا جاتا ہے.لیکن استاد صادق کے بارے میں تعصب کو انتہا تک پہنچا دیا

Page 172

174 ا گیا ہے.استاد کی زندگی کے واقعات اور اس کی تعلیمات کے علاوہ اسکے زمانے اور جائے رہائش میں یگانگت نے بہت سے محققین کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہو نہ ہو حضرت مسیح علیہ اسلام ہی استاد صادق ہوں.اور جو لوگ عیسائیوں کے خوف سے یہ بات کھلم کھلا کہنے کی جرات نہیں کر سکتے وہ بھی اتنا تو ضرور کہتے ہیں مسیح علیہ السلام اور استاد صادق میں حیران کن مشابہت ہے.اور اکثر محققین یہاں آکر اپنے مذہبی جذبات پر قابو نہیں پاسکتے اور اپنے عقائد کو بچانے کے لئے عجیب و غریب دلائل دیگر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت مسیح اور استاد صادق میں بعض مشابہتوں کے علاوہ شدید اختلاف بھی ہیں.جو اختلافات وہ یہاں پر گنواتے ہیں.وہ بھی دیکھنے کے قابل ہیں.اور اپنے موقعہ پر قارئین کے سامنے رکھے جائیں گے.یہاں ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ایک رسول تھے.اور آپ کا مشن بنی اسرائیل کو تبلیغ کرنا تھا.جب کہ ابتدائے آفرینش سے ہوتا چلا آیا ہے اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے کامل وجودوں کو بنی نوع انسان کی ہدائت چنتا اور اپنا کلام ان کے منہ میں ڈالتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ انسان ہی رہتے ہیں ان میں انسانوں والے جذبات و احساسات ہوتے ہیں.اور ان پر قانون قدرت کی وہ تمام پابندیاں عائد ہوتی ہیں جو عام انسانوں پر ہوتی ہیں.صرف اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ ان سے کلام کرتا ہے.ان کو خدا بنا لینا اور ان کی پرستش شروع کر دینا اور مافوق الفطرت قوی ان کی طرف منسوب کر دینا، کسی طرح بھی روا نہیں.پس حضرت مسیح علیہ السلام بھی انسانوں میں سے نبی بنے تھے آپ نے بار بار انجیل میں اپنے آپ کو ابن آدم کہہ کر یہ بات اپنے متبعین کو واضح کر دی.بلکہ ، بعض اوقات اپنے آپ کو تیری باندی کا بیٹا بھی فرمایا.اگر عیسائی محققین اپنے غلط عقائد کو چھوڑ کر جو بعد میں انہوں نے اختیار کئے استاد صادق کی زندگی پر غور کریں تو بڑی آسانی سے یہ بات ان کو سمجھ آسکتی ہے کہ در حقیقت حضرت مسیح علیہ السلام ہی استاد صادق ہیں اس طرح صحائف کے عقیدے کو ادا کرنا کوئی مشکل نہیں رہتا بلکہ آزاد محققین کے ایک گروہ کو اللہ تعالیٰ نے بصیرت عطا فرمائی ہے.اور انہوں نے اس حقیقت کو پالیا ہے.دیگر محققین بھی اگر مسیح کی

Page 173

175 الوہیت کو بچانے کی بجائے حق کی پیروی کرتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کو حقیقت سے محروم رکھتا.چنانچہ عیسائی محقق ڈاکٹر جے ایل ٹیٹر نے یہ نظریہ پیش کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام ہی استاد صادق ہیں.انہوں نے اپنے نظریے کو بڑی تحدی کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھا اور حضرت مسیح علیہ السلام اور استاد صادق کی زندگی میں ہر طرح مماثلت ثابت کی.اکثر آزاد محققین اس نظریے سے متاثر ہیں.اگر چہ وہ اس کا ذکر بین السطور کرتے ہیں.لیکن یہ سب کچھ عیسائی دنیا کی مخالفت کے ڈر سے ہے.ورنہ اس وقت بہت سے لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام تمام انبیاء کی طرح ایک نبی تھے.اور الوہیت اور کفارہ اور تثلیث وغیرہ انوکھے عقائد بعد کی پیداوار ہیں.آپ کی جو تعلیمات صحائف سے حاصل ہوئی ہیں ان میں ان چیزوں کا کہیں ذکر نہیں ملتا.واقعہ صلیب کے بعد آپ کا اصل نام کے ساتھ ذکر کیا جاتا یہود کو بھڑ کانے کا موجب تھا.اس لئے آپ کو استاد صادق کا صفاتی نام دیا گیا.صحائف میں مناجات کی ایک کتاب ملی ہے.اس کے مطالعہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام واقعہ صلیب کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے انہیں موت کے پنجہ سے نجات دیدی آپ نے ان اذیتوں کا واضح الفاظ میں ذکر فرمایا ہے.جو یہودیوں نے آپ کے لئے روا رکھیں.آپ اس بات کا بھی ذکر فرماتے ہیں.کہ میری حالت موت کے مشابہہ ہوگئی.لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاتھ نے مجھے بچایا اور میری قسمت پھر سے بحال ہو گئی.لیکن آپ نے فلسطین میں رہنا مناسب خیال نہ کیا اور اللہ تعالی کے حکم سے آپ نے دور دراز کے علاقے کی طرف ہجرت کی.اور انجیل کے بیان کے مطابق کھوئی ہوئی بھیڑوں کی تلاش میں آپ نے کشمیر کا سفر اختیار کیا.اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کے متبعین کو حقیقی علم و معرفت کا وارث کر دیتا ہے.وہ اس علم کی روشنی میں ایسی بار یک اشیاء کو بھی پالیتے ہیں.جو ان کے غیر کے لئے سراسر اخفاء اور تاریکی میں ہوتی ہیں.

Page 174

176 مکرم و محترم شیخ عبدالقادر صاحب لاہور نے اس موضوع پر ایک کتاب ”صحائف قمران شائع کی اس میں آپ نے پر زور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ استاد صادق حضرت مسیح علیہ السلام ہی ہیں.بات یہ ہے کہ یہی نظریہ حقیقت پر مبنی ہے.اور جیسا کہ آئندہ صفحات میں ثابت کیا جائیگا.آپ پر ایمان رکھنے والوں کے لئے خواہ وہ عیسائی ہوں یا مسلمان یہی نظریہ معقول بھی ہے.اور محفوظ بھی اس نظریے کو قبول کرنے سے آپ کی عزت قائم رہ سکتی ہے.وما توفیقی الا با الله العلى العظيم.-1 حضرت مسیح اور استاد صادق میں مشابہت حضرت مسیح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول تھے.استاد صادق بھی اللہ تعالیٰ کا چنیدہ اور برگزیدہ رسول تھا.تھیوڈار ایچ گاسٹر اپنی کتاب The Scriptures of the Dead Sea Sect in English Translation کے صفحہ 15 پر استاد صادق کے ذکر میں لکھتے ہیں: "Just as Israel had been led of old by these prophets and teachers, so it was held a new Prophet and a new Teacher..." ترجمہ: جس طرح قدیم سے بنی اسرائیل کی راہنمائی انبیاء اور استاد کرتے آئے ہیں بالکل اسی طرح اس کو بھی ایک نیا رسول اور نیا استاد یقین کیا جاتا تھا.“ جناب گاسٹر اپنے اس نظریے میں اکیلے نہیں بلکہ بہت سے دیگر محققین کا بھی یہی خیال ہے کیونکہ صحائف میں بار بار استاد صادق کو خدا کا چنیدہ.خدا کا برگزیدہ قرار دیا گیا ہے.F.Moore لکھتے ہیں: "As Moses mediated the old covenant to Israel, so the Righteous Teacher instituted the

Page 175

177 community of the Renewed Covenant, opened up the meaning of the ancient scriptures and established a new discipline in anticipation of the Messianic era." ترجمہ جسطرح حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کے لئے میثاق قدیم کا وسیلہ بنے اسی طرح استاد صادق نے عہد نامہ جدید کے لئے ایک جماعت کی بنیاد ڈالی.پہلی کتب کا صحیح مفہوم واضح کیا اور ایک جدید لائحہ عمل قائم کیا.دور مسیح کی پیش بینی کے طور پر.-2 حضرت مسیح کو اللہ تعالیٰ نے حکمت سے نوازا تھا.آپ کی زبان مبارک سے علم و معرفت کے چشمے رواں تھے.اس کے ثبوت کے لئے انجیل کے کسی بھی ورق کا مطالعہ کافی ہے.استاد صادق کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے لئے خاص کیا تھا.اور اسے تمام نبیوں کے کلام کی کامل معرفت عطاء کی تھی.وہ شریعت کے رازوں کا جاننے والا تھا.ایسینی مفسر حقوق 202 کی تفسیر کرتے ہوئے اسے استاد صادق پر چسپاں کرتا ہے اور لکھتا ہے: "who had been taught by God all the secrets of the words of his servants the prophets.' ترجمہ: جس کو اللہ نے خود تعلیم دی اور اپنے بندوں یعنی انبیاء کے کلام کے تمام اسرار کی معرفت اس کو عطا کی.استاد صادق کے لکھے ہوئے زبوروں کے مطالعہ سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ایک ایک لفظ جو استاد صادق کے منہ سے نکلا ہے حق ومعرفت کا جام ہے.ان کے مطالعہ سے روح کو سرور اور دل کو اطمینان حاصل ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے مسیح سے فرمایا اذعلمتك الكتاب والحكمة والتوراة والانجيل -3 حضرت مسیح علیہ السلام نے یروشلم کی تباہی کے لئے پیشگوئی فرمائی جو واقعہ صلیب کے چالیس سال بعد پوری ہوئی.نائٹس رومی نے میر علم کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور یہودیوں کے لئے یروشلم میں رہنا ناممکن ہو گیا.بہنوں کو اس نے قتل کیا اور صلیب دیگر مارا اور باقی بھا The last years of Jesus Revealed.P-22 1

Page 176

178 گ گئے.استاد صادق نے بھی بالکل یہی پیشگوئی فرمائی کہ اس کی وفات کے چالیس سال بعد یروشلم پر ایک عظیم الشان تباہی آئے گی اور انسان کاذب (Man of Falsehood) اور اس کے ساتھیوں کا انجام ہوگا.Gilpes اپنی کتاب The Impact of the Scrolls کے صفحہ 112 پر لکھتے ہیں: "Thirdly we are told About forty years will elapse from the death of the teacher of the community until all the men who take up arms and elapse in the company of the 'Man of falsehood' are brought to an end." ترجمہ " تیسری بات ہمیں یہ بتائی جاتی ہے کہ استاد صادق کی وفات پر تقریباً چالیس سال گزرنے کے بعد وہ تمام آدمی جو انسان کا ذب کا ساتھ دیتے اور ہتھیاروں سے لیس ہوئے ہیں تباہ کر دئے جائیں گے.یروشلم پر کس کی پیشگوئی کے 40 سال بعد تباہی آتی ؟ کیا وہ صحیح ہی نہ تھے.پس وہی استاد صادق تھے.-4 حضرت مسیح علیہ السلام کے متبعین آپ کا بہت احترام کرتے تھے.اور آپ کو " آقا " کے لقب سے یاد کرتے تھے اور آپکی ناراضگی کو اپنے لئے مہلک تصور کرتے تھے.بالکل یہی حال استاد صادق کے شاگردوں کا ہمیں نظر آتا ہے جن کے متعلق F.Moore اپنی کتاب The Ancient Library of Qumran کے صفحہ 119 پر لکھتے ہیں: "The Essences regared their Master with a respect which approached adoration." ترجمہ: دوریسینی اپنے آقا کا حد درجہ احترام کرتے تھے اور اس سے نہائیت درجہ عقیدت لے استاد صادق کی موت کا صحائف میں کہیں ذکر نہیں.اس بارہ میں وقت آنے پر تفصیل سے ذکر کیا جائیگا.یہاں محقق مذکور نے فطرت کی آواز کے تحت موت کا لفظ استعمال کیا ہے کہ بہر حال استاد صادق مر گیا ہوگا.یہی وجہ ہے کہ وہ وقت کی کوئی تعین نہیں کرسکتا.

Page 177

179 رکھتے تھے.“ اسی صفحہ پر آگے چل کر لکھا ہے: "He was in the eyes of his later disciples an eschatological figure predicted in scripture who was to aid in bringing the New Age to birth." ترجمہ "اپنے بعد کے حواریوں کی نگاہ میں وہ عالم معاد سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت تھے جس کے متعلق کتب مقدسہ میں پیشنگوئیاں کی گئی تھیں اور جو عہد جدید کے برپا کرنے میں جوعہد جدید کے مدد کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے.“ حضرت مسیح ناصری کی بعثت کا مقصد عہد جدید کی آمد کی مندی کرنا اور اس کا آغاز کرنا تھا.انا جیل میں آپ بار بار اس بات کا ذکر کرتے ہیں.متی 4/17 میں لکھا ہے.مسیح نے کہا: تو به کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آگئی ہے“ استاد صادق بھی بالکل یہ مشن لیکر مبعوث ہوئے.انہوں نے عہد تو بہ کی منادی کی.عہد جدید کا آغاز کیا اور عہد جدید کی ایک جماعت تیار کی.-5 حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بچپن میں ہی معرفت کا جام پلایا اور اپنے کلام سے سرفراز فرمایا.اور اپنی خاص حفاظت میں آپ کی پرورش فرمائی.چنانچہ فرمایا اذقال الله يعيسـى بـن مـريـم اذكر نعمتی علیک و علی والدتک اذایدتک بروح القدس تكلم الناس في المهدو كهلا.ترجمہ: جب اللہ تعالی نے فرمایا اے عیسی بن مریم میری اس نعمت کو یاد کر جو میں نے تجھ پر اور تیری والدہ پر کی اور جب میں نے روح القدس سے تیری تائید کی اور تو بچپن میں اور ادھیڑ عمر میں لوگوں سے کلام کرتا تھا.اس نعمت خداوندی کا شکر حضرت مسیح علیہ السلام نے ان الفاظ میں ادا کیا: یسوع نے کہا: اے باپ آسمان اور زمین کے خداوند! میں تیری حمد کرتا ہوں کہ تو نے یہ باتیں داناؤں اور عقلمندوں سے چھپائیں اور بچوں پر ظاہر کیں.ہاں اے باپ کیونکہ ایسا ہی.5/111 L

Page 178

180 تجھے پسند آیا.میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپا گیا.‘لے استاد صادق اور آپ کی والدہ پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں نازل کیں اور بچپن میں ہی اس کو معرفت کا دودھ پلایا گیا اور آسمانی روشنی سے اس کا قلب منور کیا گیا.وہ ان نعمتوں کا شکر اپنے ایک زبور میں یوں ادا کرتے ہیں: "From the womb of my mother thou didst shower me with thy grace and from the breasts of her that conceived me thy mercies have been shed upon me.On the bosom of my nurse (Thou didst sustain me,) and from my youth up.Thou hast enlightened me with understanding of thy judgments, held me firm by thy truth, and caused me to delight in thy holy spirit: and even unto this day thou dost stay my goings." ✓ ترجمہ: "رحم مادر سے ہی تیری رحمتیں مجھ پر برس رہی ہیں اور میری ماں کی چھاتیوں سے دودھ پینے کے وقت سے تیرا فضل مجھ پر نازل ہو رہا ہے اور میری دایہ کی گود سے ہی تو مجھے پاکیزہ رزق پہنچا رہا ہے اور میرے بچپن سے لیکر تو نے میرے صحن سینہ کو اپنے معارف کے نور سے منور کیا.اور سچائی پر مجھے ثبات قدم عطا کیا اور روح القدس کی تائید سے مجھے خوشی عنائت فرمائی اور آج کے دن تک جہاں بھی میں جاتا ہوں تو میرے ساتھ ہوتا ہے.“ حضرت مسیح علیہ السلام اور استاد صادق دونوں کی والدہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوئیں.دونوں کا بچپن پاکیزہ گزرا.دونوں کو بچپن میں معارف حاصل ہوئے.دونوں کو نبوت کا مقام حاصل ہوا.روح القدس سے دونوں کی تائید کی گئی.قارئین یہ کیسی الشان مشابہت ہے.حقیقت یہ ہے کہ استاد صادق کے نام کے پیچھے اصل میں مسیح علیہ السلام بول رہے ہیں.1 مئی 27-11/25 عظه The Scriptures of Dead sea sect by Gaster.P-170

Page 179

181 -6 حضرت مسیح علیہ السلام پر یہودیوں نے رومی حکومت سے بغاوت کا الزام لگایا.آپ پر یہود کی طرف سے کفر کا بھی الزام تھا.پس آپ پر دوہرا مقدمہ چلایا گیا.ایک مقدمہ یہود کی مذہبی عدالت Sanhedron میں چلایا گیا اور آپ کو صلیب پر مارنے کا فیصلہ صادر کیا گیا اور اس کے بعد رومی گورنر ہیرودیس کی عدالت میں پیش کیا گیا اس کی عدالت کے بعض ممبر حضرت مسیح علیہ السلام کے در پردہ مرید تھے لیکن انہوں نے اس نازک موقعہ پر آپ کی کوئی مدد نہ کی اور مکمل خاموشی اختیار کی.یہاں تک کہ یہودیوں نے عدالت پر زور ڈال کر حضرت مسیح کے خلاف فیصلہ کروالیا اور آپ کے پاک وجود کے لئے ہر قسم کی ایذاء روا رکھی اور ہر قسم کے تمسخر اور ٹھٹھے اور مذاق کا آپ کو نشانہ بنایا.یہاں تک کہ آپ کے کپڑے اتار کر آپس میں تقسیم کئے.دیکھئے متی باب 27.اسی طرح استاد صادق کو ایذاء دینے کے لئے طرح طرح کی تدابیر کی گئیں اور بالآخر آپ پر مقدمہ چلایا گیا.چنانچہ تفسیر حقوق 2/15 میں معلم کا ذب کے متعلق لکھا ہے: "Who chased after the true exponent of the law, right to the house where he was dwelling in exile, in order to confuse him by a display of violent temper ترجمہ: ”اس نے شریعت کے حقیقی شارح کا پیچھا عین اس جگہ تک کیا جہاں وہ ہجرت کے دوران رہائش پزیر تھا تا کہ اپنی تند خوئی سے اسے پریشان کرے.“ ڈومینٹ سومر نے اس جگہ عبرانی عبارت کا ترجمہ بایں الفاظ کیا ہے."Thou hast dared to strip him of his clothing." ترجمہ: تو نے اس کے کپڑے اتارنے کی جرات کی.“ اس پر Gilpes نے مندرجہ ذیل تبصرہ کیا ہے: "...the passage would them immediately recall the passage in St.Mathew (xxvii: 28) The Scriptures of Dead sea sect by Gaster.P-240 ↓

Page 180

182 where the soldiers striped Jesus." ✓ ترجمہ اب اس عبارت کو دیکھتے ہی فوراً متی 27/28 کی عبارت یاد آجاتی ہے جس میں ذکر ہے کہ سپاہیوں نے مسیح کے کپڑے اتارے.محققین محسوس کرتے ہیں کہ استاد صادق کے واقعہ اور مسیح کے واقعہ میں بے حد مشابہت ہے.جب کہ بیان ہو چکا ہے رومی عدالت میں بعض ممبر مسیح علیہ السلام کے در پردہ مرید تھے لیکن انہوں نے اس نازک موقعہ پر آپکی تائید نہ کی اسی طرح استاد صادق پر جب الزامات لگائے گئے تو آپ کے بعض پوشیدہ مرید جو آپ کی مدد کر کے آپ کو بری کروا سکتے تھے خاموش رہے تفسیر حقوق 1/13 میں لکھا ہے: "This refers to the house of Absalom and their cronies who kept silent when charges were levelled against the teacher who was expounding the law aright, and who did not come to his aid against the man of lies when the later rejected the Torah in the midst of their entire congregation." (The Scriptures of the Dead Sea Sect P237) ترجمہ: ”اس میں ابوشالوم کے گھرانے اور اس کے حلیفوں کی طرف اشارہ ہے جو اس وقت خاموش رہے جبکہ استاد کے خلاف الزامات لگائے گئے حالانکہ وہ شریعت کی صحیح تشریح بیان کر رہا تھا اور جس نے انسان کا ذب کے خلاف اس کی تائید نہ کی.جبکہ انسان کا ذب نے مجلس عام میں تو رات کا انکار کیا.“ مقدمہ کے بعد فیصلہ کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا..بالکل اسی طرح استاد صادق کو صلیب پر لٹکایا گیا.اگر چہ اس بارہ میں علماء میں اختلاف ہے تاہم ان لوگوں کے ہاتھ میں کوئی دلیل نہیں ہے جو استاد صادق کے صلیب دئے جانے کو تسلیم نہیں Impact of the Scrolls.P-123 1 متی 27/35

Page 181

183 کرتے.ایچ.ایچ.رولے بھی ان لوگوں میں سے ہیں.لیکن اس کے باوجود وہ یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ: "Yet even if the Teacher of Righteousness could be shown to have been crucified, this would have been in no way disturbing for New Testament scholars." ترجمہ تاہم اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ استاد صادق کو صلیب پر لٹکایا گیا تو بھی یہ 66 بات نئے عہد نامے کے علماء کے لئے کسی طرح پریشان کن نہ ہوگی.“ شکرانے کے زبور محققین کے نزدیک استاد صادق کی خود نوشت سوانح ہیں.زبور صفحہ 14 میں جو کالم 8 کی سطور 4 تا 36 میں ہے لکھا ہے: "...and my spirit as sunken low amid the dead.My life had reached the pit, and my soul waxed faint day and might without root." :ترجمہ ”میری روح ڈوب گئی اور مردوں کے درمیان ڈال دی گئی اور میری جان پاتال میں پہنچ گئی اور میری روح دن رات بے آرام رہتی اور بے ہوشی میں اضافہ ہوتا گیا.“ یہ ایک لمبے زبور کا ٹکڑا ہے.پورا ز بور درج کرنے کے بعد ہاورڈ کلارک کی" لکھتے ہیں: "There is an obvious similarity between this poignant portrayal of suffering and the allusions to the psalms of lament in the gospel accounts of Jesus on the cross." ترجمہ مصائب و آلام کی اس انتہائی غمناک تصویر کشی اور مسیح کے صلیب دئے جانے کے وقت مرثیوں اور زبوروں کی طرف انجیلی بیانات میں اشارات میں واضح مشابہت پائی جاتی ہے." The Dead sea scrolls and New Testament.P-7 1 The Scrptures of the Dead sea sect by Gaster.P-166 ✓ Jesus in History.P-468 ☑

Page 182

184 محقق مذکور کے نزدیک تفسیر حبقوق کی مندرجہ ذیل عبارت سے بھی یہ بات واضح ہے کہ استاد صادق کو صلیب پر لٹکایا گیا."And they set upon him in virtue of the wicked judgements and evil profanes committed horrors upon him and vengeance upon his flesh." " ترجمہ "اپنے بدکارانہ فیصلوں کی بدولت وہ اس کی جان کے درپے ہیں.اور ان شیطان ملحدوں نے اس پر دہشت ناک کام کیا اور اس کے جسم کے گوشت سے انتقام لیا.“ جس طرح مسیح علیہ السلام نے ان مشکلات سے بچنے کی پیشگوئی کی تھی اور کہا تھا کہ ابن آدم آدمیوں کے حوالہ کیا جائے گا اور وہ اسے قتل کریں گے اور وہ تیسرے دن زندہ کیا جائے گا.“ نیز مسیح نے فقیہوں اور فریسیوں کے نشان مانگنے پر جواب دیا تھا کہ اس زمانے کے برے اور زنا کار لوگ نشان طلب کرتے ہیں مگر یوناہ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا.کے آپ کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح حضرت یونس علیہ السلام تین دن تک مچھلی کے پیٹ میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہ کر بالآخر زندہ باہر نکل آئے تھے اسی طرح میری حالت تھی واقعہ صلیب کے وقت تین دن موت کے مشابہ ہو جائے گی.لیکن حضرت یونس کی طرح میں بھی اس المیے سے زندہ بچ جاؤں گا.بالکل اسی طرح استاد صادق نے بھی مصائب میں پڑ کر اپنی حالت موت کے مشابہ ہونے اور بالآخر زندہ بچنے کی پہلے سے پیشگوئی کی تھی.آپ کی اس پیشگوئی کا ذکر تفسیر حقوق کے زبور میں ملتا ہے.زبور 37 کی تفسیر میں زیر آیت 33 مفسر کہتا ہے کہ اس کا اشارہ بدکار کا ہن کی طرف ہے.جو کہ استاد صادق کو موت 60 The essene writing from qumran translated by Gaza Vermes.P-264 متی 23-17/22 متی 12/39

Page 183

185 کے گھاٹ اتارنا چاہتا ہے.پھر لکھتا ہے: "Yet though he assail him, God will not abandon him into his hand, nor suffer him to be condemned when he is arraigned, no...' " ترجمہ: پھر بھی اگر چہ وہ اس پر حملہ کرے خدا اس کا ساتھ نہیں چھوڑے گا اور نہ ہی اسے اس کے حوالے کر یگا تا کہ وہ اسے اذیت دے کر ناکارہ کر دیں.جب اس پر مقدمہ چلایا جائیگا واقعہ صلیب سے پہلے رات کے وقت مسیح علیہ السلام نے باغ میں رو رو کر دعا کی کہ یہ پیالہ اس سے مل جائے.اور انجیل میں لکھا ہے کہ خدا ترسی کے سبب سے اس کی سنی گئی.اسی طرح استاد صادق نے بھی اس تکلیف سے بچنے کی دعا کی جو قبول ہوئی.استاد صادق اپنے ایک زبور میں اس کا ذکر کرتا ہے."In the bitterness of my spirit thou hast heard my cry, and in my sighing discerned the song of my pain." ترجمہ: میری روح کی تلخی کے وقت تو نے میری دعاؤں کوسن لیا اور میرے درد بھرے گیت کے وقت میری آہ کو شناخت کر لیا ہے.“ مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی کے مطابق سخت تکالیف کے بعد دشمنوں کے پنجہ سے نجات دی اور جیسا کہ اس بات پر بہت زیادہ شہادتیں مل چکی ہیں جن میں مقدس چادر کی شہادت ہے جس پر خون کے نشان ہیں اور اس کے بعد مریم عیسی کی شہادت ہے اور پھر کشمیر میں آپ کی قبر موجود ہے اس سے یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ آپ نے واقعہ صلیب کے بعد مصر، نصیبین، افغانستان اور پنجاب کی راہ سے ہوتے ہوئے کشمیر کی طرف ہجرت کی.اسی طرح استاد صادق کی جان بچائی گئی اور ان کی صحت بحال ہوگئی اور انہوں نے Scriptures of the Dead sea sect.P-245 ✓ Scriptures of the Dead sea sect.P-151 ✓

Page 184

186 دور دراز علاقوں کا سفر کیا.صحیفہ دمشق اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ نے دمشق کی طرف ہجرت کی اور وہاں جماعت قائم کرنے کے بعد آپ کشمیر کی طرف روانہ ہوئے آپ کی اس ہجرت کا ذکر زبوروں میں بڑی وضاحت سے ملتا ہے.آپ لکھتے ہیں."Though thou show thy power through me, they regard me not, but thrust me forth from my land like a sparrow from its nest; all my friends and familiars are thrust away from me, and deem me a broken pot."✓ ترجمہ: ”اے خدا! اگر چہ تو میرے ذریعہ اپنی طاقت کا اظہار کرتا ہے پھر بھی وہ میرا احترام نہیں کرتے بلکہ انہوں نے مجھے میرے وطن سے دور پھینک دیا ہے جس طرح چڑیا کو اس کے گھونسلے سے اڑا دیا جاتا ہے.اور مجھے میرے سب رشتہ داروں اور دوستوں سے دور پھینک دیا گیا اور وہ مجھے ٹوٹا ہوا برتن قرار دیتے ہیں.ایک اور زبور میں لکھتے ہیں."I give thanks unto thee, O Lord, for thou hast placed me where sells burst forth in dry land, where waters gush in thirsty soil, where an oasis blooms in the desert, like a fir or a pinc or a cypress, trees that never die...ترجمہ: ”اے خدا وند میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ تو نے مجھے ایسی جگہ پر رکھا ہے جہاں خشک زمین میں چشموں سے ندیاں پھوٹتی ہیں.جہاں پیاسی زمین میں چشموں کا پانی زور سے نکلتا ہے.جہاں ویرانے نخلستان بہار دیتا ہے.جو سر ووصنوبر کی طرح خوبصورت ہے.جہاں ایسے درخت ہیں جو سدا بہار ہیں.66 چشموں اور سدا بہار درختوں کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ استاد صادق نے کشمیر کی طرف ہجرت کی تفسیر کے ایک حوالے پر تبصرہ کرتے ہوئے F.Moore لکھتے ہیں: Scriptures of the Dead sea sect.P-145 1 Scriptures of the Dead sea sect.P-164 ✓

Page 185

187 "In light of this test I think we must say that while the wicked priest attempted to take his rival's life, the Righteous Teacher was spared, perhaps to be killed later by another adversary, perhaps to die of old age.' ترجمہ: اس تحریر کی روشنی میں ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اگر چہ بدکار کا ہن نے اپنے رقیب کی جان لینے کی پوری کوشش کی.تاہم استاد صادق کی جان بچائی گئی.ہوسکتا ہے کہ بعد میں کسی اور مخالف نے آپ کو قتل کیا ہولیکن زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ طبعی عمر پا کر فوت ہوئے.“ واقعہ صلیب میں مسیح اور صادق میں حیران کن مشابہت پائی جاتی ہے.یہاں تک کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی بعثت ثانیہ کی پیشگوئی کی اور کہا کہ ” میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ تم سارے شہروں میں نہ پھر چکو گے کہ ابن آدم آجائے گا، نیز کہا کہ ” جب ابن آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اس کے ساتھ آئیں گے تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا اور سب قومیں اس کے سامنے جمع کی جائیں گی اسی طرح استاد وو صادق نے بھی دوبارہ مبعوث ہونے کی پیشگوئی کی.گاسٹر لکھتے ہیں : "It was held a new prophet and a new teacher (perhaps, indeed, one and the same person) would arise at the end of the present era to usher in the Golden Age, when the scattered hots of Israel would be gathered in, a duly ansinted high priest and a duly ansinted king (The Messiahs [ansinted] of Aaron and Israel) installed, and 'the earth filled with the knowledge of the lord like the waters which cover the sea'." ترجمہ: ”اسے ایک نیا نبی ایک نیا استاد تصور کیا جاتا تھا (شاید اپنے اسی جسم کے ساتھ ) 118-The Ancient Library of Qumran.P متی 10/23 متى 25/31 Scriptures of the Dead sea sect.P-15 ✗

Page 186

188 اس عہد کے اختتام پر سنہری زمانے کا آغاز کرنے کے لئے وہ دوبارہ مبعوث ہوگا جب اسرائیل کے تمام قبائل جمع کئے جائیں گے.وہ ایک چنیدہ سردار کا ہن، ایک حقیقی چنیدہ بادشاہ، ہارون اور اسرائیل کے مسیح یعنی چنیدہ کی حیثیت میں مبعوث ہو گا.اور جس طرح سمندر کو پانی نے بھر دیا ہے.اسی طرح زمین خدا کی معرفت سے معمور ہو جائے گی.“ پروفیسر آر کے ہیرین نے کہا ہے کہ استاد صادق کی وفات کے چالیس سال بعد مخالفین کی جاہی کے ساتھ ہی استاد صادق دوبارہ مبعوث ہو گا.لکھتے ہیں: "Immediately following this event the Righteous teacher was expected to rise from the dead and usher in the Messianic era.In CDC XV:4, the messiah from Aaron and Israel was regarded as terminating a period of oppression, which might tend to identify the Righteous teacher and the Messiah."✓ ترجمہ: اس واقعہ کے جلد ہی بعد استاد صادق کے مردوں میں سے دوبارہ جی اٹھنے اور عبد مسیح کے آغاز کرنے کی توقع کی جاتی تھی.دستورالعمل کالم 15 سطر 4 میں ہارون اور اسرائیل کے مسیح کے متعلق یہ عقیدہ تھا کہ وہ محکومی کا دور ختم کر دے گا.ہوسکتا ہے کہ استاد 66 صادق اور مسیح ایک ہی وجود ہوں.“ استاد صادق اور مسیح علیہ السلام کے واقعہ صلیب میں حد درجہ مشابہت ہے اس کے علاوہ ان کی زندگی سے دیگر حالات اور تعلیمات میں غیر معمولی اتحاد پایا جاتا ہے.اور سب سے بڑی بات جو ان کے کامل اتحاد پر دلالت کرتی ہے وہ دونوں کا اتحاد زمانی و مکانی ہے.انہی وجوہات کی بنا پر ڈونیٹ سومر نے کہا ہے کہ حضرت مسیح استاد صادق کے اوتار تھے.ملکیز اپنی کتاب میں ڈونیٹ سومر کے متعلق لکھتے ہیں ؟ "He can be said to have caused a sensation.Describing Jesus as an astonishing Teach yourself books the Dead sea scrolls.P-92 1

Page 187

189 re-incarnation of the Teacher of Righteousness, he implied that Qumran might prove to have been the cradle of Christianity."✓ ترجمہ: کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ایک قسم کا جوش پیدا کر دیا.اس نے مسیح کو استادصادق کا حیران کن اوتار قرار دے کر یہ خیال ظاہر کیا کہ ہوسکتا ہے کہ وادی قمران عیسائیت کا گہوارہ ثابت ہو.“ ڈونیٹ سومر نے اپنا نظریہ بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب میں پیش کیا ہے.اس کا خلاصہ کلکیز ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: "Like the teacher of Righteousness, the Galilean Master preached penitence, poverty, humility, love of one's neighbours and chastity.Like him, he prescribed observance of the Law of Moses, not the whole law, but the law finished and perfected, thanks to his own revelation.Like him, He was the Elect and Messiah of God, the Redeemer of the world.Like him, He was the object of the hostility of the priests, the party of the Sadducees.Like him, He was condemned and put to death.Like him, He pronounced judgement on Jerusalem, which was taken and destroyed by the Romans for having put him to death.Like him, at the end of time, He founded a church, whose adherents fervently awaited His glorious return.In the Christian church, just as in the Essene church, the central site is the sacrificial meal, whose ministers are priests.In both churches at the head of each community, there is the overseer, the bishop.And the ideal Impact of the Dead sea scrolls.P-121 1

Page 188

190 of both churches is essentially that of unity, communion in love even going as for as the sharing of common property." "All these similarities and here I only touch upon the subject taken together, constitute a very impressive whole." ترجمہ بالکل استاد صادق کی مانند کلیلی آقا نے تو بہ غربت، عاجزی عسائے محبت اور پاکدامنی کی تعلیم دی.اسی کی طرح استاد صادق نے یہودی شریعت کی پیروی کی تعلیم دی.دونوں بھی خدا کے چنیدہ اور مسیح تھے.دنیا کے نجات دھندہ اسے بھی صلیب دی گئی ، اس نے بھی سیر و علم پر تباہی کی خبر دی چنانچہ وہ رومنوں کے ذریعہ تباہ ہوا.اس نے بھی ایک کلیسا کی بنیاد رکھی جس میں اس کی آمد ثانی کا آخری زمانے میں شدت سے انتظار تھا.دونوں میں قربانی کی ضیافت اہم ہے جس کی میز بانی پادری یا کا ہن کرتے ہیں.دونوں کلیساؤں میں (عیسائی ایسینی ) رسومات کی نگرانی کیلئے ایک نگران ہوتا ہے دونوں کلیساؤں کے مقاصد اتحاد باہمی، اجتمائی محبت حتی کہ جائیداد میں شراکت بھی مشابہ ہے.یہ ساری مشابہتیں جو میں نے اجزاء کی صورت بیان کی ہیں مل کر ایک نہایت موثر کل بتاتی ہیں جس سے مجموعی صورت ابھر کر سامنے آتی ہے.نظریہ بروز کی وجہ ایسینی فرقے کا آغاز دوسری صدی قبل مسیح کے آخر میں ہوا.اور پہلی یہودی بغاوت (68-70ء) کے ساتھ ہی اس کا شیرازہ بکھر گیا.مسیحی محققین نے جب دیکھا کہ مسیح کی زندگی اور تعلیمات استاد صادق کی زندگی اور تعلیمات سے مکمل اتحاد رکھتی ہیں.تو انہیں یہ فکر ہوئی کہ استاد صادق کو کس زمانے میں رکھا جائے؟ اگر وہ اسے ایسینی فرقے کے آخری ایام میں جگہ دیتے تو یروشلم میں ایک ہی وقت میں دو انبیاء کیسے سما سکتے تھے؟ پھر تو لازما یہ تسلیم کرنا پڑتا تھا Impact of the Dead sea scrolls.P-122 1

Page 189

191 که دراصل یہی استاد صادق تھے.اس مشکل سے بچنے کے لئے انہوں نے استاد صادق کو جماعت ایسین کا بانی قرار دے کر مسیح اور استاد صادق میں بُعد زمانی پیدا کر دیا.اور اپنے خیال میں حضرت مسیح کی لگا نعمت کو بچا لیا.لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈونیٹ سومر نے نظریۂ بروز پیش کر دیا.اس نظریے کی اشاعت پر عیسائی حلقوں میں اس کی بڑی مخالفت ہوئی.کیونکہ موجودہ مسیحیت کی بنیاد الوہیت مسیح پر ہے.جس کے قائم رہنے کے لئے ان کا بے نظیر ہونا.ضروری ہے.ڈونیٹ سومر نے نظریہ بروز پیش کر کے عیسائیت کی جڑوں پر کلہاڑا رکھ دیا.نتایج: بروز اور ظل کا عقیدہ مذہبی دنیا کی مسلمہ حقیقت ہے.ہمیں اس سے انکار نہیں.نہ ہی ہمیں مسیح کی الوہیت کی کچھ حاجت ہے.ہمیں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ اگر مسیح کو استاد صادق کا طل قرار دینا ہے.تو ظلیت کے مسائل کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے.محل کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اصل کی پیروی کرے.اور اسی کی تعلیمات کو دنیا میں پھیلائے.کیونکہ ظل کے معنے عکس کے ہوتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ کل اپنے اصل کی تعلیمات کی مخالفت کر کے اس کا ظل نہیں کہلا سکتا.مثلاً استاد صادق نے توحید کی تعلیمات دی.اب مسیح علیہ السلام تثلیث کی تعلیم دے کر کیونکر اس کے ظل قرار پا سکتے ہیں؟ استاد صادق نے شریعت موسویہ کی پابندی ضروری قرار دی.مسیح علیہ السلام اسی شریعت کو لعنت قرار دیکر کیونکر اس کے بروز قرار پاسکتے ہیں؟ استاد صادق نے نجات کے لئے دلی پاکیزگی اور خلوص نیت کے ساتھ خدا کے احکام کی پیروی اور توبہ و استغفار کو ضروری قرار دیا.ذرا سوچئے کہ میخ ، کفارے کو مدار نجات ٹھہرا کرکس طرح اس کے بروز بن سکتے ہیں؟ پس اگر مسیح علیہ السلام واقعی استاد صادق کے بروز تھے.تو مسیحیوں کے لئے ضروری ہے کہ الوہیت مسیح، تثلیث اور کفارے کے تینوں عقائد کو خیر باد کہہ کر تو حید خالص کی پیروی کریں.اور حقیقی نجات پانے کے لئے لعنتی قربانی پر ایمان لانے کی بجائے خدا تعالی کے حضور اپنے فس کی قربانی پیش کریں.عصمت انبیاء: یہودی تاریخ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لے کر آج تک محفوظ چلی

Page 190

192 آ رہی ہے.عہد عتیق میں چھوٹے بڑے تمام انبیاء اور ملوک کے حالات محفوظ ہیں.یہاں تک کہ قضاۃ کی کتاب میں بنی اسرائیل کے قاضیوں کے حالات بھی محفوظ کر لئے گئے ہیں.چنانچہ اگر یروشلم سے صرف سات میل دور ایک عظیم الشان نبی بر پا ہوا، حکومت وقت اور کاہن اعظم سے اس کو شدید اختلافات رہے، یہاں تک کہ اس کا مقدمہ یہودی عدالت میں فیصلہ ہوکر اسے صلیب پر لٹکایا گیا، اور ایک کثیر جماعت نے اس کی پیروی کی تو کس طرح ممکن ہے کہ یہود نے اس کی تاریخ کو محفوظ نہ کیا ؟ پس اگر استاد صادق کو جماعت ایسین کا بانی قرار دیا جائے.تو یہودی تاریخ کی رو سے اسے نبی قرار نہیں دیا جاسکتا.اس صورت میں مسیح علیہ السلام کو استاد صادق کا بروز قرار دینے کا مطلب، الوہیت تو خیر پہلے ہی غلط ہے، مقام نبوت سے بھی نیچے گرانا ہوگا.کیونکہ نبی اس لئے مبعوث ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے.اور دنیا اسکی پیروی میں معاصی سے چھٹکارا پا کر اللہ تعالیٰ سے وصال حاصل کرے.جو کہ نجات کی حقیقت ہے.آزاد نبی کے مقام کے یہ منافی ہے کہ وہ اپنے غیر کی اتباع اس حد تک کرے کہ قدم قدم پر اسکی راہنمائی کا محتاج ہو.اور بڑے بڑے دینی کارناموں سے لے کر معمولی سے معمولی کاموں تک بھی دوسرے سے اخذ کرے.اور اس کے بغیر ایک قدم بھی اٹھانے کی قابلیت نہ رکھتا ہو.ایسا خیال رکھنا حضرت مسیح علیہ السلام پر بہت بڑا الزام ہے.جو آپ کی عزت کو خاک میں ملاتا.اور آپ کو حلقہ انبیاء سے خارج کر کے استاد صادق کے متبعین میں جگہ دیتا ہے.دنیا کے دونوں غالب مذاہب کے مسلمات کی رو سے حضرت مسیح علیہ السلام اللہ تعالی کے برگزیدہ رسول تھے.آپ کے متعلق ایسے نظریات کی اشاعت، آپ کی توہین کرنے کے علاوہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے جذبات کے ساتھ کھیلنا ہے.پس اس وجہ سے ڈونیٹ سومر کا نظریہ قابل قبول نہیں.صحیح حل.دراصل یہ ساری مشکلات اس وجہ سے پیش آرہی ہیں کہ استاد صادق کو جماعت ایسین کا بانی قرار دیا جاتا ہے.حالانکہ صحائف کی روشنی میں ایسا کرنا صریح غلطی ہے.کیونکہ ایسینوں کے قوانین و روایات ابتداء میں محض زبانی تھے.اور کاہنوں کے سینوں

Page 191

193 میں محفوظ تھے.بعد میں جب جماعت نے ترقی کی تو ان روایات کو تفاسیر و دساتیر کی صور میں ضبط تحریر میں لایا گیا.ایف مور لکھتے ہیں : "In a later era the body of traditional exegesis was put into writing in the commentaries and the related documents which have come into our " hands." ترجمہ کسی بعد کے زمانے میں زبانی تاویل و تفسیر کو ان تفاسیر اور متعلقہ تحریرات کی صورت میں ضبط تحریر میں لایا گیا.اور جواب ہمارے ہاتھ لگی ہیں.آپ اسی صفحہ پر آگے چل کر لکھتے ہیں."In the second place, virtually all commentaries and testimonia appear in manuscripts written in late hands, from the second half of the first century B.C.and the first half of the first century A.D." ترجمہ : ”دوسرے یہ کہ تمام تفاسیر واقتباسات فی الواقع ایسے صحائف میں ملے ہیں جو بہت بعد کی طرز تحریر میں لکھے ہوئے ہیں.یعنی پہلی صدی قبل مسیح کے نصف ثانی اور پہلی صدی 66 عیسوی کے پہلے نصف حصہ میں.“ صحائف کے مطالعہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ابتدائی ایسینی تحریرات میں استاد صادق کا ذکر موجود نہیں.چنانچہ پروفیسر انگی.انچ رولے لکھتے ہیں."But the Teacher is not mentioned in the Manual of discipline, and so far as we know there was no mention of his life or death in any of the rites of the sect.Again, in the first century accounts of the Essenes Teacher of Righteousness nowhere figures, The Ancient Library of Qumran.P-84 ↓ The Dead sea scrolls and the new testament.P-9 ↓

Page 192

194 ترجم ولیکن دستور العمل میں استاد صادق کا ذکر تک نہیں.اور جہاں تک ہمیں علم ہے فرقے کی رسوم میں اسکی زندگی یا موت کا کوئی ذکر نہ کیا جاتا تھا.اس کے علاوہ ایسینیوں کے 66 قرن اول کے بیانات میں استاد صادق کی شخصیت ابھرتی ہوئی نظر نہیں آتی." ان بیانات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے.کہ باوجودیکہ جماعت کا لٹریچر ترقی کے ایام میں لکھا گیا.پھر بھی ابتدائی تحریرات میں استاد صادق کا ذکر نہیں ملتا.گویا استاد صادق کا ذکر صرف ایسی تحریرات میں ملتا ہے.جو جماعت کے آخری ایام میں لکھی گئیں.یعنی 68 ء سے کچھ عرصہ پہلے تصنیف گئیں.اب جناب ایچ.ایچ رولے کا مندرجہ ذیل بیان ملاحظہ ہو: "The teacher is mentioned in some of the commentaries and in the Zadokite work.The references are so allusive and obscure that it is almost certain that these texts were all written within a few decades of his death, when the allusions would be understood." " ترجمه استاد صادق کی وفات کا ذکر بعض تفاسیر اور صحیفہ دمشق میں ہے.ان میں بھی حوالے ایسی تلمیحات و کنایات پر مبنی ہیں کہ یہ بات بالکل یقینی ہے کہ یہ کتب اس کی وفات کے تھوڑا عرصہ بعد ہی لکھی گئی تھیں.جبکہ ان تلمیحات کو سمجھا جا سکتا تھا.“ اب ہم استاد صادق کی وفات کا وقت بآسانی متعین کر سکتے ہیں کیونکہ وہ کتب جن میں اس کی وفات کا ذکر ہے.اس کی وفات کے تھوڑا عرصہ بعد لکھی گئی تھیں.اور ہمیں یہ معلوم ہے.کہ وہ 68ء کے قریب ہی کسی زمانے میں تحریر کی گئیں.پس استاد صادق کی وفات کا زمانہ میں (30) چالیس (40) سن عیسوی بنتا ہے.اور بالکل وہی زمانہ ہے جس میں مسیح علیہ السلام کو واقعہ صلیب پیش آیا.اور آج تک عیسائی اس واقعہ کو آپ کی وفات پر محمول کرتے ہیں.پس صحائف قمران کا گہرا مطالعہ کرنے سے یہ بات روز روشن کی طرح کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ استاد صادق در اصل حضرت مسیح علیہ السلام ہیں.اور جن صحائف میں آپ کا ذکر The Dead sea scrolls and the new testament.P-80 ↓

Page 193

195 ملتا ہے.وہ واقعہ صلیب کے بعد کی تحریرات ہیں.چونکہ اس واقعہ کے بعد مسیح نام سے آپکا ذکر کیا جانا سخت خطرے کا باعث تھا.اس لئے استاد صادق کے صفاتی نام کے تحت آپ کا ذکر کیا جاتا رہا.اس کے باوجود احتیاط کا پہلو مد نظر رکھا گیا.اور تلمیحات اور مخفی اشارات آپ کے ذکر پر غالب رہے.ان وجوہات کی بناء پر کیمبرج کے ڈاکٹر ٹیٹر نے یہ نظریہ پیش کیا کہ استاد صادق در اصل مسیح ہی ہیں.چنانچہ انچ ایچ رولے لکھتے ہیں.ڈاکٹر جے ایل ٹیٹر نے اپنے سلسلہ مضامین میں ثابت کیا ہے کہ جماعت قمران سے مراد ابیونی عیسائی ہیں.یعنی ( پہلی صدی کے موحد ) یہودی مسیحی اور صادق استاد سے مراد یسوع مسیح ہیں.....آپ نے حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ ان کے نظریہ کی تائید صحیفہ قمران کے ایک ایسے ورق سے بھی ہوتی ہے.جس میں یسوع کا نام آیا ہے.“ بحوالہ صحائف قمران از شیخ عبدالقادر صاحب لاہور صفحہ 49 (The Dead Sea Scrolls from Qumran) مکرم شیخ عبدالقادر صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں.ڈاکٹر ہے.ایل ٹیٹر نے 21 مارچ 1958 ء کے لنڈن ٹائمز کے لٹریری سپلیمنٹ میں ایک طویل مقالہ سپرد قلم کیا.جس میں انہوں نے ثابت کیا کہ یشوعا کے نام کی تحریرات ابھی پورے طور پر شائع نہیں ہوئیں.چند سطور جو شائع شدہ موجود ہیں.وہ اپنے سٹائل اور مضمون کے لحاظ سے انجیل کے مشابہ ہیں.اس حصہ میں واضح طور پر Anti-Christ یعنی مسیح الدجال کی پیشگوئی موجود ہے.جو کہ انجیل میں بھی درج ہے.لہذا یشوع بن نون سے ان صحائف کا کوئی تعلق نہیں.یشوع سے مراد یہاں یسوع ناصری ہیں.یشوعا کے زبوروں کے متعلق ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں کہ یہ انجیل قمران کا حصہ ہیں.ہے اس نظریے کی حمائت میں اب دیگر محققین بھی کتب شائع کر رہے ہیں.ملر بروز اپنی بحوالہ صحائف قمران صفحه 53 Loo

Page 194

196 وو کتاب میں ایک محقق ویز ” Weis " کا نظریہ ان الفاظ میں درج کرتے ہیں."Weis therefore infers that Jesus may have been the unique teacher of the Damascus Document and one of the series of teacher of Righteousness honored by the medieval Karaites." " ترجمہ: چنانچہ ویز نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ مسیح صحیفہ دمشق کے یکتا استاد ہوں.اور صادق اساتذہ کے اس سلسلے میں شامل ہوں جن کا احترام قرون وسطی کے کیریٹ (فرقہ کے لوگ) کرتے تھے.“ غار نمبر 4 سے یشوع کے زبوروں کے علاوہ یسوع کی ایک پیشگوئی بھی ملی ہے.اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر ٹیشٹر اس انکشاف کو اپنے نظریہ کی تائید میں ایک درج ذیل رائے کا اظہار کرتے ہیں.ڈاکٹر جے ایل ٹیٹر کا نظریہ اس قدر ٹھوس مکمل اور خوبصورت طریق پر پیش کیا Loo گیا ہے.کہ اسے دوسرے نظریات سے کم درجہ حاصل نہیں.“ حضرت مسیح ایسینی تھے:.جب صحائف قمران سے آہستہ آہستہ وہ تمام تعلیمات برآمد ہونے لگیں جو قبل ازیں حضرت مسیح کی طرف منسوب کی جاتی تھیں تو بعض محققین نے یہ کہنا شروع کیا کہ مسیح ایسینی فرقہ کو جانتے تھے.لیکن جب مشابہت اور بڑھی تو یہ خیال پیدا ہوا کہ ہو نہ ہو آپ اس فرقہ کے ممبر رہے ہوں.لیکن آج کل یہ حالت ہے.کہ تمام محققین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ آپ ان سالوں میں جن کے متعلق انا جیل و تاریخ بالکل خاموش ہیں دراصل ایسینی فرقہ کے رکن رہے.اور ہاں آپ نے تعلیم و تربیت حاصل کی.چنانچہ گلگیز اس ضمن میں لکھتے ہیں."It is also conceivable that he was once a The Dead sea scrolls.P-197 1 لا بحوالہ صحائف قمران صفحہ 59

Page 195

197 وو member of the sect."↓ 66 ترجمہ: یہ بات بالکل قابل فہم ہے کہ آپ کسی وقت اس فرقہ کے رکن رہے.“ یہ تو علماء کا ذکر تھا جہاں سے باتیں چلتی ہیں.لیکن اب یہ بات زمرہ علماء سے نکل کر عام عیسائیوں میں بھی پھیل چکی ہے.اور اکثر عیسائی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح واقعی ایسینی تھے آپ ایسینی فرقہ میں مبعوث ہوئے.جب انہوں نے آپ کی تائید ونصرت کا وعدہ کیا تو آپ نے بنی اسرائیل میں عام تبلیغ فرمائی.ملر بروز کہتے ہیں کہ اگر اس عقیدے پر اعتراض کیا جائے تو بہت سے لوگ ایسے بھی ملتے ہیں.جو اس بات پر ناراضنگی کا اظہار کرتے ہیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں: "Many devout Christians have believed that Jesus was an Essene.I have ever encountered a few who seemed offended when this belief was questioned." ✓ ترجمہ: ” بہت سے متدین عیسائیوں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ حضرت مسیح ایسینی تھے.اب تو مجھے کچھ آدمی ایسے بھی ملے ہیں کہ اگر اس عقیدے پر نکتہ چینی کی جائے تو وہ خنگی کا اظہار کرتے ہیں.“ مذکورہ بالا سنجیدہ محققین کے حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ اب یہ بات ثابت شدہ حقیقت کی طرح تسلیم کی جاتی ہے کہ حضرت مسیح نے اخوت ایسین میں پرورش پائی.چونکہ آپ شروع سے ہی نیک اور پارسا تھے اسلئے ایسینیوں میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے.جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو مقام نبوت پر سرفراز فرمایا تو آپ نے سب سے پہلے اس گروہ مقدسین کو تبلیغ کی.وہ پہلے ہی اس مقصد کیلئے دنیاوی تعلقات توڑ چکے تھے.انہوں نے جلدی ہی آپ کو قبول کر لیا.اور ہر طرح سے آپ کی تائید و نصرت کا بیڑہ اٹھایا.چنانچہ محقق گلکیز لکھتے ہیں.Impact of the Dead sea scrolls.P-133 1 More light on the Dead sea scrolls.P-76 ✓

Page 196

198 "It is more than probable, however, that many of the earlier Christian converts were Essenes." ترجمہ: ”اب یہ بات امکان کی حد سے بہت زیادہ آگے نکل چکی ہے کہ ابتداء میں عیسائیت پر ایمان لانے والوں کی اکثریت ایسینیوں پر مشتمل تھی جب حضرت مسیح علیہ السلام کو اپنی تبلیغ تمام بنی اسرائیل میں وسیع کرنے کا فرمانِ ایز دی ملا.تو آپ نے اخوت کو چھوڑ کر سیاحت کی زندگی کا آغاز کیا.آپ کی اس سیاست کی زندگی میں بھی اس تربیت کے واضح اثرات نظر آتے ہیں جو آپ نے ایسینی کاہنوں کی زیر سرپرستی حاصل کی تھی.متعدد واقعات آپکی زندگی میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں تاہم اختصار کے پیش نظر صرف دو واقعات بطور نمونہ درج ذیل ہیں.-1 لکھا ہے.مرقس 44-6/39 میں حضرت مسیح کے پانچ ہزار مردوں کو کھانا کھلانے کا ذکر ہے.اس نے ان کو حکم دیا کہ سب ہری گھاس پر دستہ دستہ ہو کر بیٹھ جائیں پس وہ سو سو اور پچاس پچاس کی قطاریں باندھ کر بیٹھ گئے.“ (مرقس 6/40,39) یہی واقعہ لوقا 9/14 میں یوں درج ہے." کیونکہ وہ پانچ ہزار مرد کے قریب تھے.اس نے اپنے شاگردوں سے کہا ان کو تخمیناً پچاس پچاس کی قطاروں میں بٹھاؤ.انہوں نے اسی طرح کیا اور سب کو بٹھایا." اس موقعہ پر حضرت مسیح علیہ السلام نے بالکل وہی طریق اختیار فرمایا جو دستور العمل کے کالم 2 سطر 21 کی رو سے جماعت قمران اپنے عہد کی تجدید کے موقعہ پر اختیار کرتی تھی.66 اس میں لکھا ہے کہ ”ہزار ہزار، سوسو ، پچاس پچاس اور دس دس کی قطاروں میں پس حضرت مسیح نے ایسینی فرقے سے ہی یہ طریق سیکھا تھا.-2 حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے متبعین میں اشتراک اموال کا طریق رائج فرمایا.جو بعد کی کلیسیاء میں کھل کر سامنے آگیا.چنانچہ آپ نے متی 6/19 کی رو سے اپنے متبعین کو Impact of the Dead sea scrolls.P-133 ✓

Page 197

199 نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ”اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو.جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے.اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں.“ اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی فرمایا اپنے مال اسباب بیچ کر خیرات کر دو.“ لوقا 12/33 نیز یوحنا کی انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودا کے پاس ایک تھیلی رہتی تھی جس میں حضرت مسیح اور آپ کے شاگردوں کا مال جمع رہتا تھا.(یوحنا 12/6) جب ایک آدمی نے مسیح کے پاس آکر ہمیشہ کی زندگی پانے کی درخواست کی تو آپ نے اس کو درج ذیل ہدائت فرمائی.فرمایا ایک بات کی تجھ میں کمی ہے.جا جو کچھ تیرا ہے بیچ کر غریبوں کو دے.“ 66 مرقس 10/21 ایسینی اپنے آپ کو غریب کہتے تھے.اس لئے مسیح کا یہ فرمانا کہ اپنا مال بیچ کر غریبوں کو دے دو دراصل اس طرف اشارہ تھا کہ جا کر ایسینیوں میں داخل ہو جاؤ.کیونکہ آپ ایسینی فرقے کی اس شاخ کے صدر تھے جو آپ پر ایمان لا چکی تھی.بعض محققین نے اس نظریے کے خلاف کچھ اعتراضات اٹھائے ہیں.مثلاً وہ کہتے ہیں کہ عیسائیت میں مسیح کی صلیبی موت کو باعث نجات ٹھہرایا جاتا ہے.حالانکہ صحائف قمران سے معلوم ہوتا ہے کہ استاد صادق کی وفات کے ساتھ کوئی ایسا عقیدہ وابستہ نہ تھا.اس اعتراض کا جواب ہاورڈ کلارک کی نے دیا ہے.ان کا کہنا ہے کہ Q ماخذ میں جس پر متی اور لوقا کی بنیاد ہے.مسیح کی موت اور تکالیف کو ذریعہ نجات نہیں ٹھرایا گیا.بلکہ ابتدائی مسیحیوں کے ہاں آپ کے امتیاز کی وجہ وہ معرفت تھی جو آپ کو اللہ تعالی کی طرف سے ملی تھی.اور کفارے کا نظریہ پولوس کی پیداوار ہے.جو اس نے 1 کرنتھیوں 24-1/18 میں بیان کیا.چنانچہ آپ لکھتے ہیں."In Q there is no theological meaning

Page 198

200 attached to Jesus, suffering and death, as there is in the other gospel traditions." ترجمہ: ” ماخذ میں مسیح کی موت اور مصائب کو کوئی دینی معنے نہیں پہنائے گئے.جیسا کہ دوسری انجیلی روایات میں کہا گیا ہے.“ اس حقیقت کی روشنی میں جب ہم مسیح اور استاد صادق کا موازنہ کرتے ہیں.تو ان کی زندگی میں ایک نئی مشابہت نظر آتی ہے.چنانچہ مصنف مذکور لکھتے ہیں."The closest analogy to the Qumran community's view of the Teacher is the view of Jesus in one segment of early church as primarily a source of divine wisdom." I ترجمہ: ”جماعت قمران کے اپنے استاد کے متعلق نظریات کو ابتدائی کلیسیاء کی ایک شاخ کے مسیح کے متعلق اس نظریے کے ساتھ کہ ان کی بنیادی حیثیت معرف الہی کا ذریعہ ہونے میں ہے.قریب ترین مماثلت ہے.“ عجیب بات ہے کہ یہ اعتراض میخ اور استاد صادق میں کوئی اختلاف ظاہر کرنے کی بجائے مماثلت میں بدل کر رہ جاتا ہے.دوسرا اعتراض جو اس نظریے پر اٹھایا جاتا ہے.وہ یہ ہے کہ اخوت ایسین میں داخلے کے احکام اور مسیحیت میں داخلے کے طریق میں زمین آسمان کا فرق ہے.لیکن اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ اخوت ایسمین حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت سے قبل ترقی کے کئی مراحل ملے کر چکی تھی.اخوت میں داخلے کے وہ قوانین جن کی طرف معترض اشارہ کر رہا ہے.عہد میںاسے پہلے وضع کئے گئے تھے.اور دستور اعمل میں بیان ہوئے ہیں.جیسا کہ اپنے وقت پر بتایا جا چکا ہے.اس سینے میں استاد صادق کا ذکر موجود نہیں.اس کے علاوہ یہ بات واضح الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ اس صحیفے میں مندرجہ تمام قوانین عبوری نوعیت کے ہیں.جو دور مسیحا کے آتے ہی ختم ہو جائیں گے.پس ایسا ہی ہوا اور مسیح کی بعثت کے ساتھ ہی یہ سب Jesus in History P.49 ۲ ،

Page 199

قوانین اپنے انجام کو پہنچے.201 اس کے علاوہ بھی بعض متعصب محققین نے مختلف اعتراضات کئے ہیں.لیکن ان میں اخوت ایسمین کے ابتدائی ایام کو مد نظر رکھ کر اسے ابتدائی مسیحیوں سے مختلف قرار دیا گیا ہے.ہمیں اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ ابتداء میں ایسینی فرقہ کی زندگی مسیحیوں سے مختلف تھی.لیکن جب مسیح کا دور شروع ہوا تو اس وقت ان میں اور مسیحیوں میں کوئی اختلاف نہ رہا.بلکہ وہ دونوں ایک ہی چیز تھے.اس تشریح کے پیش نظر نہ صرف تمام اعتراضات غائب ہو جاتے ہیں بلکہ صحائف کے وہ تمام مشکل مقامات جنہوں نے محققین کو سرگرداں کر رکھا ہے.بآسانی سمجھ آجاتے ہیں.

Page 200

202 Suk -1- مسیح ہندستان میں مطبوعہ 1899ء 2 - تریاق القلوب 3- کلام مقدس مطبوعہ سوسائٹی آف سینٹ پال روما 1958ء 4- کتاب مقدس پاکستان بائیبل سوسائٹی 1965ء 5- صحائف قمران از مکرم شیخ عبد القادر صاحب 6- اصحاب کہف کے صحیفے از مکرم شیخ عبدالقادر صاحب 7- The Last Years of Jesus Revealed by C.F.Potter 8- The Riddle of the Scrolls by H.E.Del Medico 9- An Introduction to the Apocrypha by Bruce M.Metzger 10-The Secret Sayings of Jesus According to the Gospel of Thomas 1960 by Robert M.Grant and D.Noel 11- Religious developments Between the Old and the New Testament 1914, by Dr.R.M.Charles canon of Westminister 12-The Dead Sea Scrolls (1947-69) by Edmund Wilson 13-The Dead Sea Scrolls and the New Testament by H.H.Rowley 14-Impact of the Dead Sea Scrolls by A.N.Gilkes.15-The Dead Sea Scrolls A.Reappraisal (2nd edition), By John M.Allegro.16-The Ancient Library of Qumran by F.Moore.17-The Dead Sea Scrolls by Millar Burrows 1955 18-More Light on the Dead Sea Scrolls By Millar Burrows 1955 19-Teach Yourself Book: The Dead Sea Scrolls By Profess R.K.Harrison 20-A Time for Christian Candour, by James A.Pike.21-The Essene Writings from Qumran, Translated by Geza Vernes.22-Saint John the Baptist and the Desert Tradition, By Jean Steinman.23-Jesus in History 1971 by Howard Clark Kee.24-Jesus in His Own Times by Sherman E.Johnson.25-The Scrolls and the Christian Origins by Mathew Black 26-Scriptures of the Dead Sea Sect, in English Translation, By Teodore H.Gaster.

Page 200