Language: UR
یہ کتاب حضرت مصلح موعود ؓ نے امیر امان اللہ خان فرمانروائے افغانستان کے لئے اس زمانے میں بطور اتمام حجت بصورت مکتوب تحریر فرمائی تھی۔ اس کتاب کا فارسی ترجمہ کرواکر امیر امان اللہ خان کو بھیجوایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن فارسی زبان میں ہی شائع کیا گیا تھا۔ بعد میں اس کتاب کے اردو زبان میں متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔ اس کتاب میں حضرت مصلح موعود ؓ نے عقائد احمدیت بیان فرماتے ہوئے معاندین سلسلہ احمدیہ کے تمام چیدہ اور مایہ ناز اعتراضات کا انتخاب پیش کرکے ایسے مسکت اور تسلی بخش جواب تحریر فرمائے ہیں جو حق پسند طالبانِ تحقیق کو مطمئن ومسرور اور معاندین کو مبہوت و مفرور بنادینے والے ہیں نیز اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر بکثرت دلائل ساطعہ اور براہین قاطعہ کے ساتھ ایسے دلکش اور دل نشین پیرائے میں بالتفصیل بحث فرمائی گئی ہے جو اپنی نظیر آپ ہے۔ اس لحاظ سے یہ کتاب تبلیغ احمدیت کے نکتہ نظر سے ایک خاص مقام اور اہمیت رکھتی ہے۔
دعوة الامیر || مؤلّفه امام جماعت احمدیه
نام کتاب: دعوة الامیر مصنف: سابقہ تین اشاعتیں : حضرت مرزا بشیر الدین محموداحم خلف المسیح الثانی رضی اللهعه $2000 $ 1988., 1979 69 اشاعت ھذا ( انڈیا ) جنوری 2017 ء تعداد مطبع: ناشر 1000 فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت قادیان ضلع گورداسپور، پنجاب،انڈیا،143516 Name of the Book: Author: | Dawat-ul-Ameer Hazrat Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad Khalifatul Masih 2ndra | Previous Three editions: | 1979 ,1988 ,2000 | Present edition (India): January 2017 Quantity: Printed at: Published by: 1000 Fazl-e-Umar Printing Press Qadian | Nazarat Nashr-o-lsha'at Qadian Dist; Gurdaspur, Punjab, India, 143516
(ٹائٹیل پیج باراول) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ تحف الملوک الحمد الله مجلد سوم از کتاب تحفته الملوک مُسَمًّى بِهِ دعوة الامير اعنی مکتوب حضرت حاجی میرزا بشیر الدین محمود احمد ید اللہ تعالیٰ بنصر و اهریز اِمَامِ جَمَاعَتِ أَحْمَدِيَّة بخدمت عالی شاہِ والا جاہ امیر امان اللہ خان بالقابه فرمانروائے دولت مستقله افغانستان و ممالک محروسه
فہرست مضامین ” دعوۃ الامیر مکتوب بنام امیر امان اللہ خان بادشاہ افغانستان نمبر شمار ۲ २ ۶ 1.11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ مرتبہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) مکتوب لکھنے کی دو غرضیں مضمون جماعت کا نام جماعت احمد یہ رکھے جانے کی وجہ ”اسلام“ نام کے متعلق یسعیاہ نبی کی پیشگوئی فتویٰ منہ کی بات پر لگایا جاتا ہے نہ کہ دل کے خیالات پر عقائد جماعت احمدیہ ہمارا دوسرے لوگوں سے اختلاف صفحہ २ 3 ₹ ۱۴ مخالفوں کے اس اعتراض کا جواب کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو وفات یافته ۱۴ ماننے سے ہم اُن کی ہتک کرتے ہیں قرآن مجید سے وفات مسیح علیہ السلام کا ثبوت احادیث سے وفات مسیح علیہ السلام کا ثبوت وفات مسیح علیہ السلام پر صحابہ کا اجماع اہل بیت نبوی کا وفات حضرت مسیح علیہ السلام پر اتفاق مخالفین کے اس اعتراض کا جواب کہ ہم ایک امتی کو مسیح موعود مانتے ہیں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی دوبارہ واپسی سے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ پر حرف آتا ہے ۱۷ ۲۲ ۲۵ ۲۹ } آنے والا سیح امت محمدیہ میں سے ہونا تھا اور مہدی اور مسیح ایک ہی فرد کے دو نام ہیں ۳۶ ۳۸ لفظ نزول کے معنے ۱۵
صفحه と ۴۴ ۵۰ ۵۱ ۵۲ ۵۵ ۵۸ ۶۶ 45 ۶۷ ۶۹ ۸۸ ۹۴ ۹۶ ۹۸ ۱۰۴ ١١٢ ۱۱۳ ۱۲۰ ۱۲۳ ۱۲۴ نمبر شمار ۱۸ ۱۹ ۲۰ و مضمون آنے والے کا نام عیسی ابن مریم کیوں رکھا گیا ۱ اس اعتراض کا جواب کہ ہم سلسلہ وحی اور سلسلہ نبوت کو جاری سمجھتے ہیں آیت خاتم النبیین کی تفسیر انى أخر الانبیاء کا صحیح مطلب حدیث لا نبی بعدی کے معنے ۲۱ قرآن مجید سے بقائے نبوت کا ثبوت ۲۲ حقیقت جہاد.احمدی جہاد کے منکر نہیں ۲۳ حضرت میرزاغلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ ۲۴ آپ کے دعوے کے دلائل ۲۵ | پہلی دلیل.ضرورتِ زمانہ } ۲۶ دوسری دلیل.شہادت حضرت سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ۲۷ مسیح موعود و مہدی مسعود کے زمانہ کی علامات ۲۸ مسیح موعود کے زمانے کے مذہبی حالات ۲۹ ۳۰ ۳۱ اندرونی مذہبی حالت (مسلمانوں کی مذہبی حالت) اخلاقی حالت علمی حالت حمد فی حالت ۳۲ ۳۳ ۳۴ جسمانی حالت نسلی تناسب ۳۵ تعلقات مابین
نمبر شمار ۳۶ مالی حالت ۳۷ سیاسی حالت ۳۸ زمینی تغیرات ۳۹ فلکی علامات ۴۰ تیسری دلیل نفس ناطقه ز مضمون صفحه ۱۲۵ ۱۲۷ ۱۳۲ ۱۳۲ ۱۳۹ ۴۱ ۴۲ ۴۳ چوتھی دلیل.غلبہ اسلام برادیان باطلہ پہلا حملہ مسیحی مذہب پر وار ۱۵۱ ۱۵۵ تمام مذاہب کیلئے ایک ہی ہتھیار.ظہور مصلح آخر الزمان کے متعلق انبیاء علیہم السلام ۱۵۸ کی پیشنگوئیاں ۴۴ وحربه دوسر احمله وحر بہ سکھوں پر اتمام حجت ۱۶۲ ۴۵ تیسرا حملہ ( حربہ ) مختلف مذاہب اور اُن کے انبیاء کے متعلق اسلام کے نقطۂ نظر کا ۱۶۴ اظہار ۴۶ چوتھا حملہ (حربہ ) رائج الوقت علم کلام کی تبدیلی اور مناظرین کو اپنا دعوئی اور اس کی دلیل اپنی ہی آسمانی کتاب سے پیش کرنے کی دعوت ۴۷ ۴۸ پانچواں حملہ ( حربہ ) تقرب الی اللہ کو کچے مذہب کی کامل پیروی کا قطعی ویقینی نتیجہ ہونے کے لحاظ سے پیش کر کے تمام مذاہب موجودہ میں سے صرف اسلام کے سچا مذہب ہونے کا اثبات پانچویں دلیل تجدید دین ۴۹ مسلمانوں کے توحید کے خلاف مشرکانہ خیالات کی تردید ۵۰ ملائکہ کے متعلق مسلمانوں کے غلط خیالات کی تردید ۱۷۰ ۱۷۲ 122 ۱۸۳ ۱۸۸
صفحه ۱۹۰ ۱۹۷ ۲۰۲ ۲۰۸ ۲۱۰ ۲۱۷ ۲۲۹ ۲۳۱ ۲۴۰ ۲۴۷ نمبر شمار ح مضمون ۵۱ قرآن کریم کے متعلق مسلمانوں کے غلط عقائد کی تردید قرآن کریم اور حدیث کے مراتب کی تعیین اور قرآن شریف کا تفوق ۵۲ ۵۳ انبیاء علیہم السلام کے متعلق مسلمانوں کے غلط خیالات کی تردید بعث بعد الموت اور جنت و دوزخ کے متعلق صحیح عقائد کا بیان ۵۵ عملی حصہ کے متعلق مسلمانوں کے افراط و تفریط کی اصلاح ۵۶ ۵۷ ۵۸ ۵۹ چھٹی دلیل.نصرت الہی پانچ باتیں جو جھوٹے مدعی میں کبھی جمع نہیں ہوسکتیں ساتویں دلیل.دشمنوں کی ہلاکت آٹھویں دلیل.سجدہ ملائکہ نویں دلیل.علوم آسمانی کا انکشاف قرآن مجید کے متعلق ان گیارہ اصولی علوم کا بیان جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ۲۵۴ علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائے دسویں دلیل.پیشگوئیاں ۲۷۰ ا.صاحبزادہ حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب اور مولوی عبد الرحمن صاحب کے ۲۷۲ شہید کئے جانے کی پیشگوئی ۲.سلطنت ایران میں انقلاب ہونے کے متعلق پیشگوئی ۳.آتھم کے متعلق پیشگوئی ۴.امریکہ کے جھوٹے مدعی نبوت“ جان الیگزنڈر ڈوئی کے متعلق پیشگوئی ۵ لیکھرام کے متعلق پیشگوئی ۶.شہزادہ دلیپ سنگھ کے متعلق پیشگوئی ۲۸۱ ۲۸۴ ۲۹۲ ٣٠٦ ۶۰ ۶۱ ۶۲
نمبر شمار ۶۳ ۶۴ صفحہ مضمون ے.طاعون کے متعلق پیشگوئی ۸.زلزلہ عظیمہ کے متعلق پیشگوئی ۹.جنگ عظیم کے متعلق پیشگوئی ۱۰.قادیان کی ترقیات کے متعلق پیشگوئی ۱۱.نصرت مالی کے متعلق پیشگوئی ۱۲.ترقیات جماعت احمدیہ کے متعلق پیشگوئی ۳۱۳ ۳۳۵ ۳۳۹ ۳۴۷ گیارھویں دلیل.اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت مسیح ۳۵۱ موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عشق بارھویں دلیل.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قوت احیاء تتمه ۳۶۶ ۳۷۵
ذ بسم الله الرحمن الرحيم دعْوَةُ الأمير یہ کتاب حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے امیر امان اللہ خاں کے لئے اُس زمانے میں بطور اتمام حجت بصورت مکتوب تحریر فرمائی تھی جبکہ وہ فرمانروائے افغانستان تھے.تا وہ بھی اس نعمت سے متمتع اور اس فائدے میں شریک ہو جائیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحم سے اس زمانے میں آسمان سے نازل فرمایا ہے.یہ کتاب لا جواب اب سے پہلے سات بار شائع ہو چکی اور اب آٹھویں بار شائع کی جارہی ہے.اس کتاب میں حضرت امیر المؤمنین نے عقائد جماعت احمد یہ بیان فرماتے ہوئے معاندین سلسلہ عالیہ احمدیہ کے تمام چیده و مایہ ناز اعتراضات کے ایسے مُسکت اور تسلی بخش جوابات تحریر فرمائے ہیں جو حق پسند طالبانِ تحقیق کو مطمئن و مسرور اور معاندین کو مبہوت و مفرور بنادینے والے ہیں اور اس میں بانی جماعت احمدیہ کی صداقت پر بکثرت دلائلِ ساطعہ اور براہین قاطعہ کے ساتھ ایسے دلکش و دل نشین پیرایے میں بالتفصیل بحث فرمائی گئی ہے جو آپ ہی اپنی نظیر ہے اس لحاظ سے یہ کتاب احمد یہ لٹریچر میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہے.اس کتاب مستطاب میں شہادت سرور انبیاء کے زیر عنوان مسیح موعود و مہدی مسعود کے زمانے کی اُن علامات کا ذکر بڑی تفصیل سے فرمایا گیا ہے جو آج سے قریباً چودہ ا.اس سے قبل نویں بار 1929 ء میں شائع ہوئی تھی اب دسویں بار شائع ہو رہی ہے.صفدر حسین عباسی
سو سال پہلے حضرت نبی کریم علیہ التحیۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ عالم الغیب والشہادۃ سے علم پا کر بیان فرمائی تھیں جن میں مسلمانوں کی موجودہ دینی ، اخلاقی اور سیاسی تنزل و کمزوری اور مخالفین اسلام کی ماڈی قوت و طاقت اور ظاہری عظمت و برتری کی تصویر کچھی ہوئی ہے اس حصہ کو پڑھ کر ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا من جانب اللہ ہونا آفتاب عالم تاب کے مانند روشن و درخشاں نظر آتا ہے اور دوسری طرف دل اس یقین سے معمور ہو جاتا ہے کہ حضرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ خوشخبری دی ہے کہ اسلام کا دوبارہ احیاء و عروج اور اُس کی بے نظیر ترقیات مسیح موعود و مہدی مسعود کے ذریعے ہوں گی حضور انور کی یہ پیشگوئی بھی ضرور بالضرور پوری ہوگی.یہ وہی کتاب دافع حجاب ہے جو بہت سے لوگوں کی ہدایت کا موجب ہونے کے علاوہ خان فقیر محمد خان مرحوم سپر نٹنڈنٹ انجینیئر صوبہ سرحد کے بھی سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہونے کا جبکہ آپ لنڈن میں تھے باعث بنی.آپ ۱۹۱۰ ء میں لنڈن گئے تھے، وہاں انگریزوں کے ظاہری کر و فر اور ماڈی قوت و طاقت کے مشاہدے نے آپ کو ایسا مرعوب کر دیا کہ آپ اسلام کے آئندہ عروج سے بالکل مایوس ہو گئے اور اسلام کا مستقبل آپ کو نہایت تیر و تار نظر آنے لگا.اسی دوران میں آپ نے یہی کتاب ”دعوۃ الا میرے نکالی جو آپ کے برادر معظم محمد اکرم خان صاحب احمدی نے سفر لنڈن کے وقت چند اور کتابوں کے ساتھ آپ کے بیگ میں رکھدی تھی.آپ نے اس کا مطالعہ شروع کر دیا اور جب ”شہادۃ سرور انبیاء کے زیر عنوان موجودہ زمانے کے متعلق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئیاں پڑھیں جن میں طاغوتی طاقتوں کے عروج اور مسلمانوں کے زوال کے بعد پھر مسلمانوں کے عروج اور غلبے کی بشارتیں تھیں تو آپ کا دل اس یقین سے بھر گیا
ز کہ اسلام کا مستقبل تیر و تار نہیں بلکہ نہایت روشن اور شاندار ہے اور یہ اطمینان ہو جانے پر کہ اسلام کا یہ عروج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خدام ہی کے ذریعے ہوگا آپ شرف بیعت حاصل کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو گئے اور روز بیعت سے لیکر یوم وفات تک اس کی ہرندا پر جوشِ دل اور بشاشت رُوح سے لبیک کہتے رہے.فجزاه الله تعالى أحسن الجزاء غرض یہ کتاب دلائل صداقت مسیح موعود اور رڈ اوہام معاندین میں ایک نہایت جامع اور مؤثر کتاب ہے.ذی مقدرت احباب کا فرض ہے کہ وہ بکثرت اس کی اشاعت فرمائیں اور اپنے ان عزیزوں اور دوستوں کو جو بوجہ ناواقفیت ابھی تک سلسلہ عالیہ احمدیہ سے علیحدہ ہیں بطور تحفہ یا برائے چندے بغرض مطالعہ دیں.تا وہ بھی ان انعامات الہیہ کے مستحق بنیں جو سلسلہ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ خاص ہیں.خاکسار جلال الدین شمس
اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّ اصِرُ دعوة الامير از طرف عبداللہ الضعیف میرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفہ المسح وامام جماعت احمدیہ بطرف اعلیٰ حضرت امیر امان اللہ خان بہادر بادشاہ افغانستان وممالک محروسه السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ جناب من! یہ چند اوراق جو جناب کی خدمت میں جناب کے علو مرتبت کے خیال سے اور افادہ عام کی نیت سے طبع کرا کر ارسال ہیں میں امید کرتا ہوں کہ جناب باوجود کم فرصتی کے ان کے مطالعہ کی تکلیف گوارا فرمائیں گے اور مجھے ممنونِ احسان بنائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں سرخروئی حاصل فرمائیں گے.اس مکتوب کے لکھنے کی دو غرضیں ہیں (۱) یہ کہ آپ تک میں اس آواز کو پہنچا دوں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کو مرکز محمد یت پر جمع کرنے کے لئے بلند ہوئی ہے اور (۲) یہ کہ جناب کے زیر سایہ جماعت احمدیہ کے کچھ افراد ر ہتے ہیں ان کے عقائد اور حالات سے جناب کو مطلع کروں تا کہ اگر اُن کے متعلق کوئی امر جناب کی خدمت میں پیش ہو تو جناب اپنے ذاتی علم سے اس میں فیصلہ کرنے کے قابل ہوں.
دعوة الامير جناب من! پیشتر اس کے کہ میں کوئی اور بات کہوں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ کسی نئے مذہب کی پابند نہیں ہے بلکہ اسلام اس کا مذہب ہے اور اس سے ایک قدم ادھر اُدھر ہونا وہ حرام اور موجب شقاوت خیال کرتی ہے.اس کا نیا نام اس کے نئے مذہب پر دلالت نہیں کرتا ہے بلکہ اس کی صرف یہ غرض ہے کہ یہ جماعت ان دوسرے لوگوں سے جو اسی کی طرح اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں، ممتاز حیثیت میں دنیا کے سامنے پیش ہو سکے.اسلام ایک پیارا نام ہے جو خود اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو بخشا ہے اور اس نام کو اس نے ایسی عظمت دی ہے کہ اس کے متعلق وہ پہلے انبیاء کے ذریعے پیشگوئیاں کرتا چلا آیا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ هُوَ سَمْكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا (سورة الحج : ۷۹) یعنی اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے پہلی کتابوں میں بھی اور اس کتاب میں بھی.چنانچہ جب ہم پہلی کتب کو دیکھتے ہیں تو یسعیاہ میں یہ پیشگوئی اب تک درج پاتے ہیں کہ تو ایک نئے نام سے کہلائے گا جسے خداوند کامنہ خود رکھ دیگا.“ (یسعیاہ باب ۶۲ آیت ۲، برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی انارکی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء) پس اس نام سے زیادہ مقدس نام اور کونسا ہو سکتا ہے جسے خود خدا نے اپنے بندوں کے لئے چنا اور جسے اس قدر بزرگی دی کہ پہلے نبیوں کی زبان سے اس کے لئے پیشگوئیاں کرائیں اور کون ہے جو اس مقدس نام کو چھوڑ نا پسند کر سکتا ہے؟ ہم اس نام کو اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتے ہیں اور اس مذہب کو اپنی حقیقی حیات کا موجب.مگر چونکہ اس زمانے میں مختلف لوگوں نے اپنے اپنے خیال کی طرف رجوع کر کے اپنے مختلف نام رکھ لئے ہیں اس لئے ضروری تھا کہ اُن سے اپنے آپ کو ممتاز کرنے کے لئے کوئی نام اختیار کیا جاتا اور
(r) دعوة الامير بہترین نام اس زمانے کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے احمدی ہی تھا، کیونکہ یہ زمانہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام کی اشاعت کا زمانہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی حمد کی اشاعت کا زمانہ ہے.پس آپ کی صفتِ احمدیت کے ظہور کے وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نام سے بہتر کوئی امتیازی نام اس وقت نہیں ہوسکتا تھا.غرض ہم لوگ سچے دل سے مسلمان ہیں اور ہر ایک ایسی بات کو جس کا ماننا ایک سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے مانتے ہیں اور ہر وہ بات جس کا رد کرنا ایک سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے اسے رد کرتے ہیں اور وہ شخص جو باوجود تمام صداقتوں کی تصدیق کرنے کے اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کو ماننے کے ہم پر کفر کا الزام لگا تا ہے اور کسی نئے مذہب کا ماننے والا قرار دیتا ہے وہ ہم پر ظلم کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور میں جوابدہ ہے.انسان اپنے منہ کی بات پر پکڑا جاتا ہے نہ کہ اپنے دل کے خیال پر.کون کہہ سکتا ہے کہ کسی کے دل میں کیا ہے؟ جو شخص کسی دوسرے پر الزام لگاتا ہے کہ جو کچھ یہ منہ سے کہتا ہے وہ اس کے دل میں نہیں ہے، وہ خدائی کا دعویٰ کرتا ہے کیونکہ دلوں کا جاننے والا صرف اللہ ہے اس کے سوا کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کسی کے دل میں کیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ عارف اور کون ہو گا.آپ اپنی نسبت فرماتے ہیں.انَّكُمْ تَخْتَصِمُوْنَ إِلَيَّ وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرْ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ الْحَنَ بِحَجَتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَإِنْ قَضَيْتُ لِأَحَدٍ مِنْكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ فَإِنَّمَا أَقْطَعَ لَهُ قِطْعَةً مِّنَ النَّارِ فَلَا يَا خُذْ مِنْهُ شَيْئاً (ترمذی ابواب الاحكام باب ماجاء فی التشديد على من يقضى له بشيء ليس له ان ياخذه) یعنی تم میں سے بعض لوگ میرے پاس جھگڑالاتے ہیں اور میں بھی آدمی ہوں.ممکن ہے کہ کوئی آدمی تم میں سے دوسرے کی نسبت عمدہ طور پر جھگڑا کرنے والا ہو، پس اگر
(r) دعوة الامير میں تم میں سے کسی کو اس کے بھائی کا حق دلا دوں تو میں اُسے ایک آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دیتا ہوں اسے چاہئے کہ اُسے نہ لے.اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ اُسامہ بن زید کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج کا افسر بنا کر بھیجا.ایک شخص کفار میں سے اُن کو ملا جس پر انہوں نے حملہ کیا، جب وہ اس کو قتل کرنے لگے تو اس نے کلمہ شہادت پڑھ دیا.مگر باوجود اس کے انہوں نے اسے قتل کر دیا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے ان سے دریافت کیا کہ انہوں نے کیوں ایسا کیا ہے؟ اس پر اُسامہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! وہ ڈر سے اسلام ظاہر کرتا تھا.آپ نے فرمایا.اَلا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ ( مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحہ ۲۰۷) تو نے اس کا دل پھاڑ کر کیوں نہ دیکھا.یعنی تجھے کیا معلوم تھا کہ اُس نے اظہار اسلام ڈر سے کیا تھا یا سچے دل سے کیونکہ دل کا حال انسان سے پوشیدہ ہوتا ہے.غرض فتویٰ منہ کی بات پر لگایا جاتا ہے نہ کہ دل کے خیالات پر.کیونکہ دل کے خیالات سے صرف اللہ تعالیٰ آگاہ ہوتا ہے اور جو بندہ کسی کے دل کے خیالات پر فتوی لگاتا ہے وہ جھوٹا ہے.اور اللہ تعالیٰ کے حضور قابل مواخذہ.پس ہم لوگ یعنی جماعت احمدیہ کے افراد جبکہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو کسی کا حق نہیں کہ وہ یہ فتویٰ ہم پر لگائے کہ ان کا اسلام صرف دکھاوے کا ہے ورنہ یہ دل سے اسلام کے منکر ہیں یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے اور کوئی نیا کلمہ پڑھتے ہیں یا نیا قبلہ انہوں نے بنا رکھا ہے.اگر ہماری نسبت اس قسم کی باتیں کہنی جائز ہیں تو ہم پر اس قسم کے الزامات لگانے والوں کی نسبت ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ظاہر میں اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور اپنے گھروں میں جا کر یہ لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور
دعوة الامير اسلام کو نعوذ باللہ گالیاں دیتے ہیں مگر ہم لوگ کسی کی مخالفت کی وجہ سے حق کو نہیں چھوڑ سکتے.ہم کسی پر فتویٰ اس بناء پر نہیں لگاتے کہ یہ ظاہر کچھ اور کرتا ہے اور اس کے دل میں کچھ اور ہے.بلکہ ہم شریعت کے حکم کے ماتحت اسی بات پر بحث کرتے ہیں جسے انسان آپ ظاہر کرتا ہے.اس کے بعد میں جناب کے سامنے اپنی جماعت کے عقائد پیش کرتا ہوں تا کہ جناب غور فر ماسکیں کہ ان عقائد میں کونسی بات خلاف اسلام ہے.ا.ہم لوگ یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ موجود ہے اور اس کی ہستی پر ایمان لانا سب سے بڑی صداقت کا اقرار کرنا ہے نہ کہ وہم و گمان کی اتباع.۲.ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں.اُسکے سوا باقی سب کچھ مخلوق ہے اور ہر آن اس کی امداد اور سہارے کی محتاج ہے نہ اس کا کوئی بیٹا ہے نہ بیٹی نہ باپ نہ ماں نہ بیوی نہ بھائی وہ اپنی توحید اور تفرید میں اکیلا ہے.۳.ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے اور تمام عیوب سے منزہ ہے اور تمام خوبیوں کی جامع ہے.کوئی عیب نہیں جو اس میں پایا جاتا ہو اور کوئی خوبی نہیں جو اس میں پائی نہ جاتی ہو.اس کی قدرت لا انتہاء ہے اُس کا علم غیر محدود اُس نے ہر ایک شے کا احاطہ کیا ہے اور کوئی چیز نہیں جو اس کا احاطہ کر سکے وہ اول ہے وہ آخر ہے وہ ظاہر ہے وہ باطن ہے وہ خالق ہے جمیع کا ئنات کا اور مالک ہے گل مخلوقات کا ، اس کا تصرف نہ کبھی پہلے باطل ہوا نہ اب باطل ہے نہ آئندہ باطل ہوگاؤ ہ زندہ ہے اس پر کبھی موت نہیں، وہ قائم ہے اس پر کبھی زوال نہیں، اس کے تمام کام ارادے سے ہوتے ہیں نہ کہ اضطراری طور پر ، اب بھی
دعوة الامير وہ اُسی طرح دنیا پر حکومت کر رہا ہے جس طرح کہ وہ پہلے کرتا تھا، اس کی صفات کسی وقت بھی معطل نہیں ہوتیں.وہ ہر وقت اپنی قدرت نمائی کر رہا ہے.۴.ہم یقین رکھتے ہیں کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہیں اور يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُوْنَ (النحل: ۵۱) کے مصداق ہیں، اس کی حکمت کا ملہ نے انہیں مختلف قسم کے کاموں کے لیے پیدا کیا ہے وہ واقع میں موجود ہیں، ان کا ذکر استعارہ نہیں ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے اسی طرح محتاج ہیں جس طرح کہ انسان یا دیگر مخلوقات اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے اظہار کے لئے ان کا محتاج نہیں وہ اگر چاہتا تو بغیر ان کے پیدا کرنے کے اپنی مرضی ظاہر کرتا مگر اس کی حکمت کا ملہ نے اس مخلوق کو پیدا کرنا چاہا اور وہ پیدا ہوگئی جس طرح سورج کی روشنی کے ذریعہ سے انسانی آنکھوں کو منور کرنے اور روٹی سے اُس کا پیٹ بھرنے سے اللہ تعالیٰ سورج اور روٹی کا محتاج نہیں ہو جاتا.اسی طرح ملائکہ کے ذریعہ سے اپنے بعض ارادوں کے اظہار سے وہ ملائکہ کا محتاج نہیں ہو جاتا.۵.ہم یقین رکھتے ہیں کہ خدا اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے اور اپنی مرضی ان پر ظاہر کرتا ہے یہ کلام خاص الفاظ میں نازل ہوتا ہے اور اس کے نزول میں بندے کا کوئی دخل نہیں ہوتا نہ اس کا مطلب بندے کا سوچا ہوا ہوتا ہے نہ اس کے الفاظ بندے کے تجویز کئے ہوئے ہوتے ہیں، معنی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اور الفاظ بھی اسی کی طرف سے.وہی کلام انسان کی حقیقی غذا ہے اور اسی سے انسان زندہ رہتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے اُسے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوتا ہے.وہ کلام اپنی قوت اور شوکت میں بے مثل ہوتا ہے اور اس کی مثال
(<) دعوة الامير کوئی بندہ نہیں لاسکتا وہ علوم کے بے شمار خزانے اپنے ساتھ لاتا ہے اور ایک کان کی طرح ہوتا ہے جسے جس قدر کھو دو اسی قدر اس میں سے قیمتی جواہرات نکلتے چلے آتے ہیں بلکہ کانوں سے بھی بڑھ کر.کیونکہ اُن کے خزینے ختم ہو جاتے ہیں مگر اس کلام کے معارف ختم نہیں ہوتے.یہ کلام ایک سمندر کی طرح ہوتا ہے جس کی سطح پر عنبر تیرتا پھرتا ہے اور جس کی تہ پر موتی بچھے ہوئے ہوتے ہیں.جو اس کے ظاہر پر نظر کرتا ہے اس کی خوشبو کی مہک سے اپنے دماغ کو معطر پاتا ہے اور جو اس کے اندر غوطہ لگاتا ہے دولتِ علم وعرفان سے مالا مال ہو جاتا ہے.یہ کلام کئی قسم کا ہوتاہے کبھی احکام وشرائع پر مشتمل ہوتا ہے کبھی مواعظ و نصائح پر کبھی اس کے ذریعے سے علم غیب کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور کبھی علم روحانی کے دفینے ظاہر کئے جاتے ہیں.کبھی اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اپنی خوشنودی کا اظہار کرتا ہے.اور کبھی اپنی ناپسندیدگی کا علم دیتا ہے.کبھی پیار اور محبت کی باتوں سے اس کے دل کو خوش کرتا ہے، کبھی زجر و توبیخ سے اُسے اس کے فرض کی طرف متوجہ کرتا ہے کبھی اخلاق فاضلہ کے بار یک راز کھولتا ہے.کبھی مخفی بدیوں کا علم دیتا ہے.غرض ہم ایمان رکھتے ہیں کہ خدا اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے اور وہ کلام مختلف حالات اور مختلف انسانوں کے مطابق مختلف مدارج کا ہوتا ہے اور مختلف صورتوں میں نازل ہوتا ہے اور تمام کلاموں سے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے کئے ہیں قرآن کریم اعلیٰ اور افضل اور اکمل ہے اور اس میں جو شریعت نازل ہوئی ہے اور جو ہدایت دی گئی ہے وہ ہمیشہ کے لئے ہے.کوئی آئندہ کلام اسے منسوخ نہیں کرے گا.
دعوة الامير ۶.اسی طرح ہم یقین رکھتے ہیں کہ جب کبھی بھی دنیا تاریکی سے بھر گئی ہے اور لوگ فسق و فجور میں مبتلا ہو گئے ہیں اور بلا آسمانی مدد کے شیطان کے پنجے سے رہائی پانا اُن کے لئے مشکل ہو گیا ہے اللہ تعالیٰ اپنی شفقت کا ملہ اور رحم بے اندازہ کے سبب اپنے نیک اور پاک اور مخلص بندوں میں سے بعض کو منتخب کر کے دنیا کی راہنمائی کے لئے بھیجتا رہا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَانْ مَنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيزه(سورة فاطرآيت : ۲۵) یعنی کوئی قوم نہیں ہے جس میں ہماری طرف سے نبی نہ آچکا ہو اور یہ بندے اپنے پاکیزہ عمل اور بے عیب روسیہ سے لوگوں کے لئے خضر راہ بنتے رہے ہیں اور ان کے ذریعے سے وہ اپنی مرضی سے دنیا کو آگاہ کرتا رہا ہے.جن لوگوں نے ان سے منہ موڑ اوہ ہلاکت کو سونپے گئے اور جنہوں نے ان سے پیار کیا وہ خدا کے پیارے ہو گئے اور برکتوں کے دروازے ان کے لئے کھولے گئے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ان پر نازل ہوئیں اور اپنے سے بعد کو آنے والوں کے لئے وہ سردار مقرر کئے گئے اور دونوں جہانوں کی بہتری ان کے لئے مقدر کی گئی.اور ہم یہ بھی یقین کرتے ہیں کہ یہ خدا کے فرستادے جودنیا کو بدی کی ظلمت سے نکال کر نیکی کی روشنی کی طرف لاتے رہے ہیں مختلف مدارج اور مختلف مقامات پر فائز تھے اور ان سب کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے سید ولد آدم قرار دیا اور كَافَةُ لِلنَّاسِ مبعوث فرمایا اور جن پر اس نے تمام علوم کا ملہ ظاہر کئے اور جن کی اُس نے اس رُعب و شوکت سے مدد کی کہ بڑے بڑے جابر بادشاہ ان کے نام کو سنکر تھر ااُٹھتے تھے اور جن کے لئے اس
دعوة الامير نے تمام زمین کو مسجد بناد یا حتی کہ چپہ چپہ زمین پر اُن کی اُمت نے خدائے وحدہ لاشریک کے لئے سجدہ کیا اور زمین عدل وانصاف سے بھر گئی بعد اس کے کہ وہ ظلم وجور سے بھری ہوئی تھی.اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اگر پہلے انبیاء بھی اس نبی کامل کے وقت میں ہوتے تو انہیں اس کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذْ اَخَذَ اللَّهُ مِيْثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا أَتَيْتُكُمْ مَنْ كِتَابٍ وَ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَ كُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقَ لِمَا مَعَكُمْ لَتَؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ (آل عمران آیت: ۸۲) اور جیسا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَتَيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتَّبَاعِيْ الیواقیت والجواهر جلد ۲ صفحہ ۲۲ مطبوعہ مصر ۱۳۲۱ھ میں ”لما" کی جگہ "ما" کا لفظ ہے ) اگر موسیٰ علیہ السلام اور عیسی زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہ تھا.ے.ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کی مشکلات کو ٹالتا ہے وہ ایک زندہ خدا ہے جس کی زندگی کو انسان ہر زمانے میں اور ہر وقت محسوس کرتا ہے.اس کی مثال اس سیڑھی کی نہیں جسے کنواں بنانے والا بنا تا ہے اور جب وہ کنواں مکمل ہو جاتا ہے تو سیڑھی کو توڑ ڈالتا ہے کہ اب وہ کسی مصرف کی نہیں رہی اور کام میں حارج ہوگی، بلکہ اُس کی مثال اس نور کی ہے کہ جس کے بغیر سب کچھ اندھیرا ہے اور اس روح کی ہے جس کے بغیر چاروں طرف موت ہی موت ہے اس کے وجود کو بندوں سے جدا کر دو تو وہ.ایک جسم بے جان رہ جاتے ہیں یہ نہیں ہے کہ اس نے کبھی دنیا کو پیدا کیا اوراب
دعوة الامير خاموش ہو کر بیٹھ گیا ہے بلکہ وہ ہر وقت اپنے بندوں سے تعلق رکھتا ہے اور ان کے عجز وانکسار پر توجہ کرتا ہے اور اگر وہ اسے بھول جائیں تو وہ خود اپنا وجود انہیں یاد دلاتا ہے اور اپنے خاص پیغام رسانوں کے ذریعے ان کو بتا تا ہے کہ إِنِّي قَرِيْبَ أَجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيَوْمِنُوْا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة -۱۸۷) میں قریب ہوں ہر ایک پکارنے والے کی آواز کو جب وہ مجھے پکارتا ہے سنتا ہوں.پس چاہئے کہ وہ میری باتوں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ ہدایت پائیں..ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص الخاص تقدیر کو دنیا میں جاری کرتا رہتا ہے.صرف یہی قانون قدرت اس کی طرف سے جاری نہیں جو طبعی قانون کہلاتا ہے، بلکہ اس کے علاوہ اس کی ایک خاص تقدیر بھی جاری ہے جس کے ذریعہ سے وہ اپنی قوت اور شوکت کا اظہار کرتا ہے اور اپنی قدرت کا پستہ دیتا ہے.یہ وہی قدرت ہے جس کا بعض نادان اپنی کم علمی کی وجہ سے انکار کر دیتے ہیں اور سوائے طبعی قانون کے اور کسی قانون کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور اسے قانون قدرت کہتے ہیں حالانکہ وہ طبعی قانون تو کہلا سکتا ہے مگر قانون قدرت نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس کے سوا اس کے اور بھی قانون ہیں جن کے ذریعے سے وہ اپنے پیاروں کی مدد کرتا ہے اور ان کے دشمنوں کو تباہ کرتا ہے.بھلا اگر ایسے کوئی قانون موجود نہ ہوتے تو کس طرح ممکن تھا کہ ضعیف و کمزور
دعوة الامير موسیٰ فرعون جیسے جابر بادشاہ پر غالب آجاتا.یہ اپنے ضعف کے باوجود عروج پا جاتا اور وہ اپنی طاقت کے باوجود برباد ہو جاتا، پھر اگر کوئی اور قانون نہیں تو کس طرح ہوسکتا تھا کہ سارا عرب مل کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تباہی کے درپے ہو تا مگر اللہ تعالیٰ آپ کو ہر میدان میں غالب کرتا اور ہر حملہ دشمن سے محفوظ رکھتا اور آخر دس ہزار قدوسیوں سمیت اس سرزمین پر آپ چڑھ آتے جس میں سے صرف ایک جان شار کی معیت میں آپ کو نکلنا پڑا تھا.کیا قانون طبعی ایسے واقعات پیش کر سکتا ہے ہر گز نہیں.وہ قانون تو ہمیں یہی بتاتا ہے کہ ہرا دنی طاقت اعلی طاقت کے مقابل پر توڑ دی جاتی ہے اور ہر کمزور طاقتور کے ہاتھوں سے ہلاک ہوتا ہے.۹.ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان پھر اٹھایا جائے گا اور اس کے اعمال کا اس سے حساب لیا جائے گا.جو اچھے اعمال کرنے والا ہوگا اس سے نیک سلوک کیا جائے گا اور جو اللہ تعالیٰ کے احکام کو توڑنے والا ہوگا اسے سخت سزا دی جائے گی اور کوئی تدبیر نہیں جو انسان کو اس بعثت سے بچا سکے خواہ اس کے جسم کو ہوا کے پرندے یا جنگل کے درندے کھا جا ئیں.خواہ زمین کے کیڑے اس کے ذرے ذرے کو جدا کر دیں اور پھر ان کو دوسری شکلوں میں تبدیل کر دیں اور خواہ اس کی ہڈیاں تک جلا دی جائیں ، وہ پھر بھی اٹھایا جائے گا اور اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے حساب دے گا کیونکہ اس کی قدرت کا ملہ اس امر کی محتاج نہیں کہ اس کا پہلا جسم ہی موجود ہوتب ہی وہ اس کو پیدا کر سکتا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ وہ اس کے باریک سے باریک ذرہ یا لطیف
دعوة الامير حصہ روح سے بھی پھر اس کو پیدا کر سکتا ہے اور ہو گا بھی اسی طرح.جسم خاک ہو جاتے ہیں مگر اُن کے باریک ذرات فنا نہیں ہوتے اور نہ وہ روح جو جسم انسانی میں ہوتی ہے خدا کے اذن کے بغیر فنا ہو سکتی ہے.۱۰.ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے منکر اور اس کے دین کے مخالف اگر وہ ان کو اپنی رحمت کا ملہ سے بخش نہ دے، ایک ایسے مقام پر رکھے جائیں گے جسے جہنم کہتے ہیں اور جس میں آگ اور شدید سردی کا عذاب ہو گا جس کی غرض محض تکلیف دینا نہ ہوگی بلکہ ان میں ان لوگوں کی آئندہ اصلاح مدنظر ہوگی.اُس جگہ سوائے رونے اور پیٹنے اور دانت پینے کے ان کے لئے کچھ نہ ہو گا حتی کہ وہ دن آجائے جب اللہ تعالیٰ کا رحم جو ہر چیز پر غالب ہے ان کو ڈھانپ لے اور يَأْتِي عَلَى جَهَنَّمَ زَمَانْ لَيْسَ فِيهَا أَحَدٌ وَ نَسِيمُ الصَّبَا تُحَزِكُ أبوابها (معالم التنزيل في التفسير والتأويل مؤلفه ابی محمد الحسین بن مسعود الجزء الثالث صفحه ۲۴۳ مطبوعہ دارالفکر میں اس روایت کے الفاظ یہ ہیں ”لیاتین على جهنم زمان ليس فيها احدو ذلك بعد مايلبثون احقابا) کا وعدہ پورا ہو جائے.۱۱.اور ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے نبیوں اور اس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں پر ایمان لانے والے ہیں اور اس کے احکام پر جان و دل سے ایمان لاتے ہیں اور انکسار اور عاجزی کی راہوں پر چلتے ہیں اور بڑے ہو کر چھوٹے بنتے ہیں.اور امیر ہو کر غریبوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں اور اللہ کی مخلوق کی خدمت گزاری کرتے ہیں اور اپنے آرام پر
دعوة الامير لوگوں کی راحت کو مقدم رکھتے ہیں اور ظلم اور تعدی اور خیانت سے پر ہیز کرتے ہیں اور اخلاق فاضلہ کے حامل ہوتے ہیں اور اخلاق رذیلہ سے مجتنب رہتے ہیں وہ لوگ ایک ایسے مقام پر رکھے جائیں گے جسے جنت کہتے ہیں اور جس میں راحت اور چین کے سوادُ کھ اور تکلیف کا نام ونشان تک نہ ہوگا.خدا تعالیٰ کی رضا انسان کو حاصل ہوگی اور اس کا دیدار اُسے نصیب ہوگا اور وہ اس کے فضل کی چادر میں لپیٹا جا کر اس کا ایسا قرب حاصل کرے گا کہ گویا اس کا آئینہ ہو جائے گا اور صفات الہیہ اس میں کامل طور پر جلوہ گر ہوں گی.اور اس کی ساری ادنی خواہشات مٹ جائیں گی اور اس کی مرضی خدا کی مرضی ہو جائے گی اور وہ ابدی زندگی پا کر خدا کا مظہر ہو جائے گا.یہ ہمارے عقیدے ہیں اور ان کے سوا ہم نہیں جانتے کہ اسلام میں داخل کرنے والے عقائد کیا ہیں.تمام آئمہ اسلام انہیں باتوں کو عقائد اسلام قرار دیتے چلے آئے ہیں اور ہم ان سے اس امر میں بکلی متفق ہیں.
ہمارا دوسرے لوگوں سے اختلاف دعوة الامير شاید جناب عالی حیران ہوں کہ جب سب عقائد اسلام کو ہم لوگ مانتے ہیں تو پھر ہم میں اور دوسرے لوگوں میں کیا اختلاف ہے اور بعض علماء کو ہمارے خلاف اس قدر جوش اور تعصب کیوں ہے اور کیوں وہ ہم پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں؟ سواے امیر والا شان ! اللہ تعالیٰ آپ کو شرور دنیا سے محفوظ رکھے اور اپنے فضل کے دروازے آپ کے لئے کھول دے اب میں وہ اعتراض بیان کرتا ہوں جو ہم پر کئے جاتے ہیں اور جن کے سبب ہمیں اسلام سے خارج بیان کیا جاتا ہے.ا.ہمارے مخالفوں کا سب سے پہلا اعتراض تو ہم پر یہ ہے کہ ہم حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو وفات یافتہ مانتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس طرح ہم حضرت مسیح کی ہتک کرتے ہیں اور قرآن کریم کو جھٹلاتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو رد کرتے ہیں.لیکن گو یہ بات تو بالکل حق ہے کہ ہم حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو وفات یافتہ تسلیم کرتے ہیں، لیکن یہ درست نہیں کہ ہم اس طرح مسیح علیہ السلام کی ہتک کرتے ہیں اور قرآن مجید کو جھٹلاتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو رد کرتے ہیں کیونکہ ہم جس قدر غور کرتے ہیں ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ الزامات ہم پر مسیح علیہ السلام کے وفات یافتہ ماننے سے عائد نہیں ہوتے بلکہ اس کے خلاف اگر ہم ان کو زندہ مانیں تب یہ الزامات ہم پر لگ سکتے ہیں.ہم لوگ مسلمان ہیں اور بحیثیت مسلمان ہونے کے ہمارا خیال سب سے پہلے اللہ
(10) دعوة الامير تعالیٰ کی عظمت اور اُس کے رسول کی عزت کی طرف جاتا ہے اور گو ہم سب رسولوں کو مانتے ہیں، لیکن ہماری محبت اور غیرت بالطبع اُس نبی کے لئے زیادہ جوش میں آتی ہے جس نے ہمارے لئے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالا اور ہمارے بوجھوں کو ہلکا کرنے کے لئے اپنے سر پر بوجھ اٹھایا اور ہمیں مرتا ہوا دیکھ کر اس نے اس قدر غم کیا کہ گویا خود اپنے او پر موت وارد کرلی اور ہمیں سکھ پہنچانے کے لئے ہر قسم کے سکھوں کو ترک کیا اور ہمیں اوپر اٹھانے کے لئے خود نیچے کو جھکا.اس کے دن ہماری بہتری کی فکر میں صرف ہوئے اور اس کی راتیں ہمارے لئے جاگتے کٹیں حتی کہ کھڑے کھڑے اس کے پاؤں سوج جاتے اور خود بے گناہ ہوتے ہوئے ہمارے گناہوں کو دور کرنے کے لئے اور ہمیں عذاب سے بچانے کے لئے اُس نے اس قدر گریہ وزاری کی کہ اس کی سجدہ گاہ تر ہوگئی اور اس کی رفت ہمارے لئے اس قدر بڑھ گئی کہ اس کے سینے کی آواز اُبلتی ہوئی دیگ سے بھی بڑھ گئی.اس نے خدا تعالیٰ کے رحم کو ہمارے لئے کھینچا اور اس کی رضاء کو ہمارے لئے جذب کیا اور اس کے فضل کی چادر ہم کو اڑھائی اور اس کی رحمت کا لبادہ ہمارے کندھوں پر ڈال دیا اور اس کے وصال کی راہیں ہمارے لئے تلاش کیں اور اس سے اتحاد کا طریق ہمارے لئے دریافت کیا اور ہمارے لئے وہ سہولتیں بہم پہنچا ئیں کہ اس سے پہلے کسی نبی نے اپنی اُمت کے لئے ہم نہ پہنچائی تھیں.ہمیں کفر کے خطاب نہایت بھلے معلوم ہوتے ہیں بہ نسبت اس کے کہ ہم اپنے پیدا کرنے والے اور اپنے پالنے والے اور اپنے زندگی بخشنے والے اور اپنی حفاظت کرنے والے اور رزق دینے والے اور اپنے علم بخشنے والے اور اپنے ہدایت عطا کرنے والے خدا کے برابر مسیح ناصری کو درجہ دیں اور یہ خیال کریں کہ جس طرح وہ آسمانوں پر بلا کھانے اور
دعوة الامیہ پینے کے زندہ ہے مسیح ناصری بھی بلا حوائج انسانی کو پورا کرنے کے آسمان پر زندہ بیٹھا ہے.ہم مسیح علیہ السلام کی عزت کرتے ہیں مگر صرف اس لئے کہ وہ ہمارے خدا کا نبی ہے.ہم اس سے محبت کرتے ہیں مگر صرف اس لئے کہ خدا سے اسے محبت تھی اور خدا کو اس سے محبت تھی.اس سے ہمارا سب تعلق طفیلی ہے.پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس کی خاطر ہم اپنے خدا کی ہتک کریں اور اس کے احسانوں کو فراموش کر دیں اور مسیحی پادریوں کو جو اسلام اور قرآن کے دشمن ہیں مدد دیں اور ان کو یہ کہنے کا موقع دیں کہ دیکھو وہ جو زندہ آسمان پر بیٹھا ہے کیا وہ خدا نہیں.اگر وہ انسان ہوتا تو کیوں باقی انسانوں کی طرح مر نہ جا تا.ہم اپنے منہ سے کس طرح خدا تعالیٰ کی توحید پر حملہ کریں اور اپنے ہاتھ سے کیونکر اس کے دین پر تبر رکھدیں اس زمانے کے مولوی اور عالم جو چاہیں ہمیں کہیں اور جس طرح چاہیں ہم سے سلوک کریں اور کروائیں.خواہ ہمیں پھانسی دیں، خواہ سنگسار کریں ہم سے تو مسیح کی خاطر خدا نہیں چھوڑا جا سکتا اور ہم اس گھڑی سے موت کو ہزار درجہ بہتر سمجھتے ہیں جب ہماری زبانیں یہ کفر کا کلمہ کہیں کہ ہمارے خدا کے ساتھ وہ بھی زندہ بیٹھا ہے جسے مسیحی خدا کا بیٹا کہہ کر خدائے قیوم کی ہتک کرتے ہیں.اگر ہمیں علم نہ ہوتا تو بیشک ہم ایسی بات کہہ سکتے تھے مگر جب خدا کے فرستادہ نے ہماری آنکھیں کھول دیں اور اس کی توحید اور اس کے جلال اور اس کی شوکت اور اس کی عظمت اور اس کی قدرت کے مقام کو ہمارے لئے ظاہر کر دیا تو اب خواہ کچھ بھی ہو ہم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی بندہ کو اختیار نہیں کر سکتے اور اگر ہم ایسا کریں تو ہم نہیں جانتے کہ ہمارا ٹھکانا کہاں ہوگا کیونکہ سب عزتیں اور سب مدارج اسی کی طرف سے ہیں.ہمیں جب صاف نظر آتا ہے کہ مسیح کی زندگی میں ہمارے رب کی ہتک ہے تو ہم اس عقیدہ کو کیونکر حیح تسلیم کر لیں اور گو ہماری سمجھ سے یہ بات باہر ہے کہ کیوں مسیح کی وفات ماننے
دعوة الامير سے اس کی ہتک ہو جاتی ہے جب اس سے بڑے درجہ کے نبی فوت ہو گئے اور ان کی ہتک نہ ہوئی تو مسیح علیہ السلام کے فوت ہو جانے سے ان کی ہتک کس طرح ہو جائے گی.لیکن ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی وقت ہمیں اس بات سے چارہ نہ ہو کہ یا خدا تعالیٰ کی ہتک کریں یا مسیح علیہ السلام کی تو ہم بخوشی اس عقیدے کو تسلیم کر لیں گے جس سے مسیح علیہ السلام کی ہتک ہوتی ہومگر اس کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گے جس میں خدا تعالیٰ کی ہتک ہوتی ہوا اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام بھی جو اللہ تعالیٰ کے عُشاق میں سے تھے کبھی گوارا نہ کریں گے کہ ان کی عزت تو قائم کی جائے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو صدمہ پہنچایا جائے لَنْ يَسْتَنْكِفَ الْمَسِيحُ أَنْ يَكُونَ عَبْدًا لِلَّهِ وَلَا الْمَلَئِكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَ (التاء - ۱۷۳) ہم خدا کے کلام کو کہاں لے جائیں اور جس مُنہ سے وَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَ فَيَتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِم وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيد (المائدة: ۱۱۸) کی آیت پڑھیں جس میں اللہ تعالیٰ خود حضرت مسیح ناصری کی زبانی بیان فرماتا ہے کہ مسیحی لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کے بعد بگڑے ہیں ان کی حیات میں وہ اپنے بچے دین پر ہی قائم رہے ہیں، اسی منہ سے یہ کہیں کہ حضرت مسیح " زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں، ہم خدا تعالیٰ کے کلام یعیسى إِنِّي مُتَوَ فِيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوْا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ (ال عمران: ۵۶) کوکس طرح نظر انداز کر دیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا رفع ان کی وفات کے بعد ہوا، بیشک وہ جو خدا سے زیادہ فصیح زبان جاننے کے دعویدار ہیں کہ دیں کہ اُس نے مُتَوَ فیگ کو جو حضرت مسیح کی وفات کی خبر دیتا ہے پہلے بیان کر دیا ہے اصل میں رافِعُگ پہلے چاہئے تھا مگر ہم تو اللہ تعالیٰ کے کلام کو تمام کلاموں
(IA) دعوة الامير سے افصح جانتے ہیں اور ہر غلطی سے مبراء سمجھتے ہیں، ہم مخلوق ہو کر اپنے خالق کی غلطیاں کیونکر نکالیں اور جاہل ہو کر علیم کو سبق کیونکر دیں.ہم سے کہا جاتا ہے کہ تم یہ کہو کہ خدا کے کلام میں غلطی ہو گئی مگر یہ نہ کہو کہ خود ہم سے خدا کا کلام سمجھنے میں غلطی ہوگئی، مگر ہم اس نصیحت کو کس طرح تسلیم کر لیں کہ اس میں ہمیں صریح ہلاکت نظر آتی ہے.آنکھیں ہوتے ہوئے ہم گڑھے میں کس طرح گر جائیں اور ہاتھ ہوتے ہوئے ہم زہر کے پیالہ کو اپنے منہ سے کیوں نہ ہٹا ئیں.خدا تعالیٰ کے بعد ہمیں خاتم الانبیاءمحمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور کیا بلحاظ اس کے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو سب انبیاء سے بڑا درجہ دیا ہے اور کیا بلحاظ اس کے کہ ہمیں جو کچھ ملا ہے آپ ہی سے ملا ہے اور جو کچھ آپ نے ہمارے لئے کیا ہے اس کا عشر عشیر بھی اور کسی انسان نے خواہ نبی ہو یا غیر نبی ہمارے لئے نہیں کیا.ہم آپ سے زیادہ کسی اور انسان کو عزت نہیں دے سکتے.ہمارے لئے یہ بات سمجھنی بالکل ناممکن ہے کہ حضرت مسیح ناصری کو زندہ آسمان پر چڑھا دیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیر زمین مدفون سمجھیں اور پھر ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھیں کہ آپ مسیح سے افضل بھی ہیں کس طرح ممکن ہے کہ وہ جسے اللہ تعالیٰ نے ذرا سا خطرہ دیکھ کر آسمان پر اٹھالیا ادنی درجہ کا ہو اور وہ جس کا دور دور تک دشمنوں نے تعاقب کیا مگر خدا تعالیٰ نے اسے ستاروں تک بھی نہ اٹھا یا اعلیٰ ہو.اگر فی الواقع مسیح علیہ السلام آسمان پر ہیں اور ہمارے سردار و آقا زمین میں مدفون ہیں تو ہمارے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی موت نہیں اور ہم مسیحیوں کو منہ بھی نہیں دکھا سکتے ، مگر نہیں یہ بات نہیں، خدا تعالیٰ اپنے پاک رسول سے یہ سلوک نہیں کر سکتا.وہ احکم الحاکمین ہے یہ کیونکر ممکن تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوسید ولد آدم بھی بنا تا اور پھر مسیح علیہ
(19) دعوة الامير السلام سے زیادہ محبت کرتا اور ان کی تکالیف کا زیادہ خیال رکھتا.جب اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے قیام کے لئے ایک دنیا کو زیروزبر کر دیا اور جس نے آپ کی ذرا بھی ہتک کرنی چاہی اسے ذلیل کر دیا تو کیا یہ ہوسکتا تھا کہ خود اپنے ہاتھ سے وہ آپ کی شان کو گرا تا اور دشمن کو اعتراض کا موقع دیتا.میں تو جب یہ خیال بھی کرتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو زیر زمین مدفون ہیں اور حضرت مسیح ناصری آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں تو میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور میری جان گھٹنےلگتی ہے اور اسی وقت میرا دل پکار اٹھتا ہے کہ خدا تعالیٰ ایسا نہیں کر سکتا.وہ محمد رسول اللہ صلی ہیں یہ ہم سے سب سے زیادہ محبت کرنے والا تھا وہ اس امر کو ہر گز پسند نہیں کرتا تھا کہ آپ تو فوت ہوکر زمین کے نیچے مدفون ہوں اور حضرت مسیح علیہ السلام زندہ رہ کر آسمان پر جا بیٹھیں.اگر کوئی شخص زندہ رہنے اور آسمان پر جا بیٹھنے کا مستحق تھا تو وہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور اگر وہ فوت ہو گئے ہیں تو گل نبی فوت ہو چکے ہیں.ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ شان اور آپ کے ارفع درجہ کو دیکھتے اور مقام کو پہچانتے ہوئے کس طرح تسلیم کر لیں کہ جب ہجرت کے دن جبل ثور کی بلند چٹانوں پر حضرت ابو بکر کے کندھوں پر پاؤں رکھ کر آپ کو چڑھنا پڑا تو خدا تعالیٰ نے کوئی فرشتہ آپ کے لئے نہ اتارا، لیکن جب مسیح علیہ السلام کو یہودی پکڑنے آئے تو اس نے فوراً آپ کو آسمان پر اٹھا لیا اور چوتھے آسمان پر آپ کو جگہ دی اسی طرح ہم کیونکر مان لیں کہ جب غزوہ اُحد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں نے صرف چند احباب میں گھرا پایا تو اس وقت تو اللہ تعالیٰ نے یہ نہ کیا کہ آپ کو کچھ دیر کے لئے آسمان پر اٹھالیتا اور کسی دشمن کی شکل آپ کی سی بدل کر اس کے دانت تڑوا دیتا، بلکہ اس نے اجازت دی کہ دشمن آپ پر حملہ آور ہو آپ کالمیت زمین پر بے ہوش
دعوة الامير ہو کر جا پڑیں اور دشمن نے خوشی کے نعرے لگائے کہ ہم نے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کر دیا ہے لیکن مسیح علیہ السلام کے متعلق اسے یہ بات پسند نہ آئی کہ ان کو کوئی تکلیف ہو اور جونہی کہ یہود نے آپ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا اس نے آپ کو آسمان کی طرف اٹھالیا اور آپ کی جگہ آپ کے کسی دشمن کو آپ کی شکل میں بدل کر صلیب پر لٹکوا دیا.ہم حیران ہیں کہ لوگوں کو کیا ہو گیا کہ ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوی کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ کی عزت پر حملہ کرتے ہیں اور اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ جو لوگ آپ کی محبت سے مجبور ہو کر آپ پر کسی کو فضیلت دینے سے انکار کر دیتے ہیں ان کو دُکھ دیتے ہیں، ان کے اس فعل کر کفر قرار دیتے ہیں، کیا کفر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے قائم کرنے کا نام ہے، کیا بے دینی آپ کے حقیقی درجے کے اقرار کا نام ہے، کیا ارتداد آپ سے محبت کو کہتے ہیں؟ اگر یہی کفر ہے، اگر یہی بے دینی ہے، اگر یہی ارتداد ہے تو خدا کی قسم ہم اس کفر کولوگوں کے ایمان سے اور اس بے دینی کولوگوں کی دینداری سے اور اس ارتداد کولوگوں کے ثبات سے ہزار درجہ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اور اپنے آقا اور سردار حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہمنوا ہوکر بلاخوف ملامت اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ے از خدا بعشق محمد محمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم در ثمین فارسی صفحه ۱۱۲ مطبوعه باراول) بعد سب کو آخر ایک دن مرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونا ہے اور اسی کے ساتھ معاملہ پڑنا ہے پھر ہم لوگوں سے کیوں ڈریں؟ لوگ ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں، ہم اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرتے ہیں اور اسی سے محبت کرتے ہیں اور اس کے بعد سب سے زیادہ محبت
(ri) دعوة الامير اور ادب ہمارے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.اگر دنیا کی ساری عزتیں اور دنیا کے سارے تعلقات اور دنیا کے تمام آرام آپ کے لئے ہمیں چھوڑنے پڑیں تو یہ ہمارے لئے آسان ہے مگر آپ کی ذات کی ہتک ہم برداشت نہیں کر سکتے.ہم دوسرے نبیوں کی ہتک نہیں کرتے مگر آنحضرت کی قوت قدسیہ اور آپ کے علم اور آپ کے عرفان اور آپ کے تعلق باللہ کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کبھی بھی نہیں مان سکتے کہ آپ کی نسبت کسی اور نبی سے اللہ تعالیٰ کو زیادہ پیار تھا اگر ہم ایسا کریں تو ہم سے زیادہ قابل سزا اور کوئی نہیں ہوگا، ہم آنکھیں رکھتے ہوئے اس بات کو کس طرح باور کرلیں کہ عرب کے لوگ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں کہ اَوْ تَرَقَى فِی السَّمَاءِ وَلَنْ تُؤْمِنَ لِرَقِيَكَ حَتَّى تُنَزِلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَقْرَؤُهُ (بنی اسرائیل: ۹۴) یعنی ہم تجھے نہیں مانیں گے جب تک کہ تو آسمان پر نہ چڑھ جائے اور ہم تیرے آسمان پر چڑھنے کا یقین نہیں کریں گے جب تک کہ تو کوئی کتاب بھی آسمان پر سے نہ لائے جسے ہم پڑھیں تو اللہ تعالیٰ آپ سے فرمائے کہ قُل سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًارَّسُوْلًا (بنی اسرائیل : ۹۴).ان سے کہہ دے کہ میرا رب ہر کمزوری سے پاک ہے میں تو صرف ایک بشر رسول ہوں لیکن حضرت مسیح کو وہ آسمان پر اٹھا کر لے جائے.جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سوال آئے تو انسانیت کو آسمان پر چڑھنے کے مخالف بتایا جائے لیکن جب مسیح کا سوال آئے تو بلاضرورت اُنکو آسمان پر لے جایا جائے.کیا اس سے یہ نتیجہ نہ نکلے گا کہ مسیح علیہ السلام آدمی نہیں تھے بلکہ خدا تھے.نَعُوذُ بِالله مِنْ ذَالِکَ.یا پھر یہ نتیجہ نکلے گا کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ پیارے تھے مگر جب کہ یہ بات اَظْهَرُ مِنَ الشَّمْسِ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب رسولوں اور نبیوں سے افضل ہیں تو پھر کس طرح عقل باور کرسکتی ہے کہ آپ
(rr) دعوة الامير تو آسمان پر نہ جائیں بلکہ اس زمین پرفوت ہوں اور زمین کے نیچے دفن ہوں لیکن مسیح علیہ السلام آسمان پر چلے جائیں اور ہزاروں سال تک زندہ رہیں.پھر یہ سوال صرف غیرت ہی کا نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا بھی سوال ہے آپ فرماتے ہیں لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيْسَى حَيَيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتَّبَاعِيْ اگر موسی و عیسی زندہ ہوتے تو میری اطاعت کے سوا ان کو کوئی چارہ نہ تھا.اگر حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو پھر آپ کا یہ قول نَعُوذُ بِالله باطل ہو جاتا ہے کیونکہ آپ لَوْ كَانَ کہہ کر اور موسیٰ“ کے ساتھ عیسی کو ملا کر دونوں نبیوں کی وفات کی خبر دیتے ہیں.پس نبی کریم کی شہادت کے بعد کس طرح کوئی شخص آپ کی اُمت میں سے کہلا کر یہ یقین رکھ سکتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں اگر وہ زندہ ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپ کے علم پر حرف آتا ہے.کیونکہ آپ تو ان کو وفات یافتہ قرار دیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے حضرت فاطمہ سے اس مرض میں جس میں آپ فوت ہوئے ، فرمایا کہ اِنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَا رِضْنِي الْقُرْآنَ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَةٌ وَإِنَّهُ عَارَضَنِي بِالْقُرْآنِ الْعَامَ مَرَّتَيْنِ وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيْ إِلَّا عَاشَ نِصْفَ الَّذِي قَبْلَهُ وَ أَخْبَرَنِي أَنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَاشَ عِشْرِيْنَ وَمِائَةَ سَنَةٍ وَلَا أَرَانِي إِلَّا ذَاهِبَا عَلَى رَأْسِ السَّيِّينَ (شرح مواهب اللدنيه مؤلفه امام زرقانی جلد ۱ صفحه ۳۵ مطبوعه مصر ۵۱۳۲۵) یعنی جبرائیل ہر سال ایک دفعہ مجھے قرآن سناتے تھے مگر اس دفعہ دو دفعہ سنایا ہے اور مجھے انہوں نے خبر دی ہے کہ کوئی نبی نہیں گزرا کہ جس کی عمر پہلے نبی سے آدھی نہ ہوئی ہو اور یہ بھی انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ عیسی بن مریم ایک سو بیس سال کی عمر تک زندہ رہے تھے.پس میں سمجھتا ہوں کہ میری عمر ساٹھ سال کے قریب ہوگی.اس روایت کا مضمون
(rr) دعوة الامير الہامی ہے کیونکہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے کوئی بات نہیں بیان فرماتے بلکہ جبرائیل علیہ السلام کی بتائی ہوئی بات بتاتے ہیں جو یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر ایک سو بیس سال کی تھی.پس لوگوں کا یہ خیال کہ آپ بتیس ۳۲ تینتیس ۳۳ سال کی عمر میں آسمان پر اٹھائے گئے تھے غلط ہوا کیونکہ اگر حضرت مسیح “ اس عمر میں آسمان پر اٹھائے گئے تھے تو آپ کی عمر بجائے ایک سو بیس سال کے رسول کریم کے زمانے تک قریباً چھ سو سال کی بنتی ہے اور اس صورت میں چاہئے تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کم سے کم تین سو سال تک عمر پاتے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تریسٹھ سال کی عمر میں فوت ہو جانا اور الہاماً آپ کو بتایا جانا کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایک سو بیس سال کی عمر میں فوت ہو گئے ثابت کرتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی اور آسمان پر آپ کا بیٹھا ہونا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے اور آپ کے الہامات اسے رد کرتے ہیں اور جب امر واقع یہ ہے تو ہم لوگ کسی کے کہنے سے کس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات کے قائل ہو سکتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ سکتے ہیں.کہا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ تیرہ سو سال کے عرصہ میں صرف انہیں پر کھلا ہے اور پہلے بزرگ اس سے واقف و آگاہ نہ تھے مگر افسوس کہ معترض اپنی نظر کو صرف ایک خاص خیال کے لوگوں تک محدود کر کے اس کا نام اجماع رکھ لیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ اسلام کے اول علماء خود صحابہ نہیں اور بعد ان کے علماء کا سلسلہ نہایت وسیع ہوتا ہوا سب دنیا میں پھیل گیا ہے.صحابہ کو جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ سب بہ یک زبان ہمارے خیال سے متفق ہیں اور یہ ہو بھی کب سکتا تھا کہ وہ عشاق رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی شان کے مزیل عقیدہ کو ایک دم کے لئے بھی تسلیم کرتے وہ اس بارہ میں ہم سے متفق ہی نہیں ہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ
(r) دعوة الامير علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے پہلا اجماع ہی انہوں نے اس مسئلہ پر کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں چنانچہ کتب احادیث اور تواریخ میں یہ روایت درج ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا صحابہ" پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ گھبرا گئے اور بعض سے تو بولا بھی نہ جاتا تھا اور بعض سے چلا بھی نہ جاتا تھا اور بعض اپنے حواس اور اپنی عقل کو قابو میں نہ رکھ سکے اور بعض پر تو اس صدمہ کا ایسا اثر ہوا کہ وہ چند دن میں گھل گھل کر فوت ہو گئے.حضرت عمر" پر اس صدمہ کا اس قدر اثر ہوا کہ آپ نے حضور کی وفات کی خبر کو باور ہی نہ کیا اور تلوار لے کر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ اگر کوئی شخص یہ کہے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو میں اسے قتل کر دوں گا آپ تو موسیٰ علیہ السلام کی طرح بلائے گئے ہیں جس طرح وہ چالیس دن کے بعد واپس آگئے تھے اسی طرح آپ کچھ عرصہ کے بعد واپس تشریف لائیں گے اور جو لوگ آپ پر الزام لگانے والے ہیں اور منافق ہیں ان کو قتل کریں گے اور صلیب دیں گے اور اس قدر جوش سے آپ اس دعوے پر مُصر تھے کہ صحابہ میں سے کسی کو طاقت نہ ہوئی کہ آپ کی بات کو رد کرتا اور آپ کے اس جوش کو دیکھ کر بعض لوگوں کو تو یقین ہو گیا کہ یہی بات درست ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے اور ان کے چہروں پر خوشی کے آثار ظاہر ہونے لگے اور یا تو سر ڈالے بیٹھے تھے یا خوشی سے انہوں نے سر اٹھالئے.اس حالت کو دیکھ کر بعض دور اندیش صحابہ نے ایک صحابی کو دوڑایا کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جو اس وجہ سے کہ درمیان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کچھ اچھی ہو گئی تھی آپ کی اجازت سے مدینہ کے پاس ہی ایک گاؤں کی طرف گئے ہوئے تھے جلد لے آئیں.وہ چلے ہی تھے کہ حضرت ابوبکر ان کو مل گئے اُن کو دیکھتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور جوش گریہ کو ضبط نہ کر سکے.
(ro) دعوة الامي حضرت ابوبکر سمجھ گئے کہ کیا معاملہ ہے اور ان صحابی سے پوچھا کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں، انہوں نے جواب دیا کہ حضرت عمر کہتے ہیں کہ جو شخص کہے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں میں اس کی گردن تلوار سے اڑا دوں گا ، اس پر آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لے گئے.آپ سنی اسلام کے جسم مبارک پر جو چادر پڑی تھی اُسے ہٹا کر دیکھا اور معلوم کیا کہ آپ فی الواقع فوت ہو چکے ہیں، اپنے محبوب کی جدائی کے صدمے سے اُن کے آنسو جاری ہو گئے اور نیچے جھک کر آپ کی پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا کہ بخدا اللہ تعالیٰ تجھ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا.تیری موت سے دنیا کو وہ نقصان پہنچا ہے جو کسی نبی کی موت سے نہیں پہنچا تھا، تیری ذات صفت سے بالا ہے اور تیری شان وہ ہے کہ کوئی ماتم تیری جدائی کے صدمے کو کم نہیں کر سکتا اگر تیری موت کا روکنا ہماری طاقت میں ہوتا تو ہم سب اپنی جانیں دے کر تیری موت کو روک دیتے.یہ کہہ کر کپڑا پھر آپ کے اوپر ڈال دیا اور اس جگہ کی طرف آئے جہاں حضرت عمر صحابہ کا حلقہ بنائے بیٹھے تھے اور اُن سے کہہ رہے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم فوت نہیں ہوئے بلکہ زندہ ہیں وہاں آکر آپ نے حضرت عمرؓ سے کہا.آپ ذرا چپ ہو جائیں مگر انہوں نے ان کی بات نہ مانی اور اپنی بات کرتے رہے.اس پر حضرت ابوبکر نے ایک طرف ہو کر لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم در حقیقت فوت ہو چکے ہیں.صحابہ کرام حضرت عمر کو چھوڑ کر آپ کے گرد جمع ہو گئے اور بالآخر حضرت عمر کو بھی آپ کی بات سننی پڑی ، آپ نے فرمایا: وَمَامُحَمَّدْ إِلَّا رَسُوْلَ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ = الرُّسُلُ آفَائِنْ مَاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ (ال عمران آیت:۱۴۵) إِنَّكَ مَيِّتُ وَإِنَّهُمْ مَّتِتُونَ (الزمر آيت : ۳۱) يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ ย
دعوة الامير مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَيْ لَا يَمُوتُ ( بخاری کتاب المناقب باب قول النبي صلى الله عليه وسلّم لو كنت متخذا خلیلا).یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک رسول ہیں.آپ سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں، پھر اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل ہو جا ئیں تو کیا تم لوگ اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے.تحقیق تو بھی فوت ہو جائے گا اور یہ لوگ بھی فوت ہو جائیں گے.اے لوگو! جو کوئی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا تھا وہ سن لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اور جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا تھا اسے یادر ہے کہ اللہ زندہ ہے اور وہ فوت نہیں ہوتا.جب آپ نے مذکورہ بالا دونوں آیات پڑھیں اور لوگوں کو بتایا کہ رسول اللہ فوت چکے ہیں تو صحابہ پر حقیقت آشکار ہوئی اور وہ بے اختیار رونے لگے اور حضرت عمر خود بیان فرماتے ہیں کہ جب آیات قرآنیہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی وفات ثابت کی تو مجھے یہ معلوم ہوا کہ گویا یہ دونوں آیتیں آج ہی نازل ہوئی ہیں اور میرے گھٹنوں میں میرے سر کو اٹھانے کی طاقت نہ رہی.میرے قدم لڑکھڑا گئے اور میں بے اختیار شدتِ صدمہ سے زمین پر گر پڑا.( بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اس روایت سے تین امور ثابت ہوتے ہیں.اول یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر سب سے پہلے صحابہ کا اجماع اسی امر پر ہوا تھا کہ آپ سے پہلے سب انبیاء فوت ہوچکے ہیں، کیونکہ اگر صحابہ میں سے کسی کو بھی یہ شک ہوتا کہ بعض نبی فوت نہیں ہوئے تو کیا اُن میں سے بعض اسی وقت کھڑے نہ ہو جاتے کہ آپ آیات سے جو استدلال کر رہے ہیں یہ درست نہیں، کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو چھ سو سال سے آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں.پس یہ غلط ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سب نبی فوت ہو چکے ہیں اور جب کہ ان میں سے بعض زندہ ہیں تو کیا وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نہ رہ سکیں.
(rz) دعوة الامير دوم یہ کہ تمام انبیائے سابقین کی وفات پر ان کا یقین کسی ذاتی خیال کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس امر کو وہ قرآن کریم کی آیات سے مستنبط سمجھتے تھے، کیونکہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو کوئی صحابی تو اُٹھ کر کہتا کہ گو یہ صحیح ہے کہ تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں مگر اس آیت سے جو آپ نے پڑھی ہے یہ استدلال نہیں ہوتا کہ آپ سے پہلے سب انبیاء فوت ہو چکے ہیں.پس صدیق اکبر کا آیت قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُل سے جمیع انبیائے سابقین کی وفات کا ثبوت نکالنا اور گل صحابہ کا نہ صرف اس پر خاموش رہنا بلکہ اس استدلال سے لذت اٹھانا اور گلیوں اور بازاروں میں اس کو پڑھتے پھرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ سب اس استدلال سے متفق تھے.تیسرا امر اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خواہ کسی اور نبی کی وفات کا ان کو یقین تھا یا نہیں مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا انہیں یقیناً کوئی علم نہ تھا، کیونکہ جیسا کہ تمام صحیح احادیث اور معتبر روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر سخت جوش کی حالت میں تھے اور باقی صحابہ سے کہہ رہے تھے کہ جو کہے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں میں اس کا سر اڑا دوں گا اس وقت اپنے خیال کے ثبوت میں حضرت موسیٰ کے چالیس دن پہاڑ پر چلے جانے کا واقعہ تو وہ پیش کرتے تھے مگر حضرت عیسی کے آسمان پر چلے جانے کا واقعہ انہوں نے ایک دفعہ بھی پیش نہ کیا ، اگر صحابہ کا عقیدہ یہ ہوتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ جا بیٹھے ہیں تو کیا حضرت عمر یا اُن کے ہم خیال صحابی اس واقعہ کو اپنے خیال کی تائید میں پیش نہ کرتے ؟ اُن کا حضرت موسی کے واقعہ سے استدلال کرنا اور اس واقعہ سے استدلال نہ کرنا بتاتا ہے کہ ان کے ذہن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق کوئی ایسا واقعہ تھا ہی نہیں.حضرات صحابہ کے اجماع کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح
(PA) دعوة الامير علیہ السلام کی وفات کے متعلق اہل بیت نبوی کا بھی اتفاق ہے.چنانچہ طبقات ابن سعد کی جلد ثالث میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی وفات کے حالات میں حضرت امام حسن سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا.ايُّهَا النَّاسُ قَدْ قُبِضَ اللَّيْلَةَ رَجُلْ لَمْ يَسِيقُهُ الْأَوَّلُونَ وَلَا يُدْرِكْهُ الْأَخَرُونَ قَدْ كَانَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْعَثُهُ الْمَبْعَثَ فَيَكْتَنِفُهُ جِبْرَائِيلُ عَنْ يَمِينِهِ وَمِيكَائِيلُ عَنْ شِمَالِهِ فَلَا يَنْتَنِيْ حَتَّى يَفْتَحِ اللَّهُ لَهُ وَمَا تَرَكَ إِلَّا سَبْعَ مِائَةِ دِرْهَم اَرَادَ أَنْ يَشْتَرِئَ بِهَا خَادِمًا وَلَقَدْ قُبِضَ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي عُرِجَ فِيهَا بِرُوْحِ عِيسَى بْنِ مَرْيَمَ لَيْلَةَ سَبْعِ وَعِشْرِينَ مِنْ رَمَضَانَ (طبقات ابن سعد جلد ۳۹ مطبوعہ بیروت ۵۱۴۰۵).یعنی اے لوگو! آج وہ شخص فوت ہوا ہے کہ اس کی بعض باتوں کو نہ پہلے پہنچے ہیں اور نہ بعد کو آنے والے پہنچیں گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے جنگ کے لئے بھیجتے تھے تو جبرائیل اس کے داہنے طرف ہو جاتے تھے اور میکائیل ائیں طرف پس وہ بلا فتح حاصل کئے واپس نہیں ہوتا تھا.اور اس نے صرف سات سو (۷۰۰) درہم اپنا ترکہ چھوڑا ہے جس سے اس کا ارادہ تھا کہ ایک غلام خریدے اور وہ اس رات کو فوت ہوا ہے جس رات عیسی بن مریم کی روح آسمان کی طرف اُٹھائی گئی تھی یعنی رمضان کی ستائیسویں تاریخ کو.اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے نزدیک بھی حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے تھے کیونکہ اگر ان کا یہ خیال نہ ہوتا تو امام حسن یہ کیوں فرماتے کہ جس رات حضرت عیسیٰ کی روح آسمان کو اٹھائی گئی تھی اسی رات کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ہے.صحابہ کرام اور اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ بعد کے بزرگ بھی
دعوة الامير ضرور وفات مسیح کے ہی قائل ہوں گے کیونکہ وہ لوگ قرآن مجید اور کلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اقوالِ صحابہ اور آرائے اہل بیت کے شیدا تھے، مگر چونکہ وہ اس بات کو معمولی سمجھتے تھے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے اقوال خاص طور پر محفوظ نہیں رکھے گئے لیکن جو کچھ بھی پتہ چلتا ہے وہ اسی امر کی تصدیق کرتا ہے کہ اُن کا مذہب بھی یہی تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں.چنانچہ مجمع البجار میں ہے کہ قَالَ مَالِكَ مَاتَ (مجمع بحارالانوار جلد ۱ صفحه ۲۸۶ مطبوعه مطبع العالی المنشی نولکشور ۵۱۳۱۴) یعنی امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.غرض قرآن کریم اور احادیث کے علاوہ اجماع صحابہ اور آرائے اہل بیت اور اقوال آئمہ سے بھی ہمارے ہی خیال کی تصدیق ہوتی ہے.یعنی یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں ، پس ہم پر یہ الزام لگا نا کہ ہم حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کا عقیدہ رکھ کر حضرت مسیح کی ہتک کرتے ہیں اور قرآن کریم اور احادیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتے ہیں درست نہیں.ہم مسیح علیہ السلام کی ہتک نہیں کرتے ، بلکہ اس عقیدہ کی رُو سے خدا تعالیٰ کی توحید کو قائم کرتے ہیں اور اس کے رسول کی عزت کو ثابت کرتے ہیں اور خود حضرت مسیح علیہ السلام کی خدمت کرتے ہیں کیونکہ وہ بھی کبھی پسند نہیں کریں گے کہ ان کو ایک ایسے مقام پر جگہ دی جائے کہ جس سے توحید باری تعالیٰ کوصد پہنچتا ہو اور شرک کو مددملتی ہو اور سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہو.اب اے بادشاہ! آپ خود ہی غور کر کے دیکھ لیں کہ کیا ہمارے مخالف اس اعتراض میں حق پر ہیں یا ہم ؟ کیا ان کا حق ہے کہ ہم سے ناراض ہوں یا ہمارا حق ہے کہ ان سے ناراض ہوں کیونکہ انہوں نے ہمارے خدا کا شریک مقرر کیا اور ہمارے رسول کی ہتک کی
(r.) دعوة الامير اور اپنے بن کر دشمنوں کی طرح حملہ آور ہوئے.دوسرا اعتراض ہم پر یہ کیا جاتا ہے کہ ہم لوگ دوسرے مسلمانوں کے عقیدے کے خلاف اسی اُمت میں سے ایک شخص کو مسیح موعود مانتے ہیں حالانکہ یہ امر احادیث نبوی کے خلاف ہے کیونکہ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح آسمان سے نازل ہوں گے.یہ بات بالکل درست ہے کہ ہم لوگ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب ساکن قادیان ضلع گورداس لورد اسپورصوبہ پنجاب ملک ہندوستان کو مسیح موعود اور مہدی مسعود سمجھتے ہیں مگر جبکہ قرآن کریم اور احادیث اور عقلِ سلیم سے یہ امر ثابت ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں تو پھر ہم نہیں سمجھتے کہ ہمارا یہ عقیدہ قرآن کریم اور احادیث کے خلاف کیونکر ہوگا جبکہ قرآن کریم سے حضرت مسیح کی وفات ثابت ہے اور احادیث بھی اس پر شاہد ہیں اور جبکہ احادیث نبویہ سے ایک موعود کی جسے ابن مریم کہا گیا ہے آمد کی خبر معلوم ہوتی ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا موعود اسی امت کا ایک فرد ہوگا نہ کہ مسیح ناصری علیہ السلام جو فوت ہو چکے ہیں.کہا جاتا ہے کہ اگر قرآن کریم اور احادیث سے حضرت مسیح کی وفات بھی ثابت ہوتی ہو تب بھی احادیث میں چونکہ مسیح ابن مریم کے آنے کی خبر دی گئی ہے انہیں کی آمد پر یقین رکھنا چاہئے کیونکہ کیا اللہ تعالیٰ قادر نہیں کہ ان کو پھر زندہ کر کے دُنیا کی اصلاح کے لئے بھیج دے اور ہم پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہم گو یا اللہ تعالیٰ کی قدرت کے منکر ہیں ،مگر بات یہ نہیں بلکہ اس کے بالکل برخلاف ہے.ہم خدا تعالیٰ کی قدرت کے انکار کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی قدرت پر ایمان رکھنے کی وجہ سے اس امر کے قائل ہیں کہ حضرت مسیح ناصری کو خدا تعالیٰ زندہ کر کے نہیں بھیجے گا بلکہ اسی اُمت کے ایک فرد کو اس نے مسیح موعود بنا کر بھیج دیا
(ri) دعوة الامير ہے.ہم نہیں سمجھ سکتے ورنہ ہم امید کرتے ہیں کہ کوئی شخص بھی جو پورے طور پر اس امر پر غور کرے گا تسلیم کرے گا کہ مسیح کا دوبارہ زندہ کر کے بھیجا اللہ تعالیٰ کے قادر ہونے کی علامت ہے.ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ جو دولتمند ہوتا ہے وہ مستعمل جامہ کو الٹوا کر نہیں سلوایا کرتا بلکہ اُسے اتار کر ضرورت پر اور نیا کپڑ اسلواتا ہے.غریب اور نادار لوگ ایک ہی چیز کو کئی کئی شکلوں میں بدل بدل کر پہنتے ہیں اور اپنی چیزوں کو سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں.کب اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ایسا تنگ ہوا تھا کہ جب اس کے بندوں کو ہدایت اور رہنمائی کی حاجت ہوئی تو اسے کسی وفات یافتہ نبی کو زندہ کر کے بھیجنا پڑا، وہ ہمیشہ بندوں کی ہدایت کے لئے انہیں کے زمانے کے لوگوں میں سے کسی کو منتخب کر کے ان کی اصلاح کے لئے بھیجتا رہا ہے.حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک ایک دفعہ بھی اس نے ایسا نہیں کیا کہ کسی پچھلے نبی کو زندہ کر کے دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا ہو، اس امر پر تب وہ مجبور ہو جب کسی زمانے کے لوگوں کے دلوں کی صفائی اُسکی قدرت سے باہر ہو جائے اور اس کی حکومت انسانوں پر سے اُٹھ جائے لیکن چونکہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا اس لئے یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ ایک وفات یافتہ نبی کو جنت سے نکال کر دنیا کی اصلاح کے لئے بھیج دے.وہ قادر مطلق ہے.جب اس نے مسیح علیہ السلام کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان پیدا کر دیا تو اس کی طاقت سے یہ بعید نہیں کہ ایک اور شخص مسیح علیہ السلام جیسا بلکہ اُن سے افضل پیدا کر دے.غرض مسیح ناصری نبی کے دوبارہ دنیا میں آنے کا انکار ہم اس وجہ سے نہیں کرتے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو قادر نہیں سمجھتے بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو قادر سمجھتے ہیں کہ وہ جب چاہے اپنے بندوں میں سے کسی کو ہدایت کے منصب پر کھڑا کر دے اور اس کے
(rr) دعوة الامير ذریعے سے گم گشتگان راہ کو اپنی طرف بلائے اور جولوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا بلکہ ضرورت کے موقع پر کسی پچھلے نبی کو لائے گا غلطی پر ہیں.وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِہ.(الزمر: ۶۸) علاوہ اس امر کے مسیح ناصری کے دوبارہ واپس آنے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر حرف آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ پر بھی حرف آتا ہے کیونکہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام کو ہی دوبارہ دنیا میں واپس آنا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پہلی تمام امتیں جب بگڑتی تھیں تو اُن کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ انہیں میں سے ایک شخص کو کھڑا کر دیتا تھا، مگر ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں جب فساد پڑیگا تو اس کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ پہلے انبیاء میں سے ایک نبی کو واپس لائے گا خود آپ کی اُمت میں سے کوئی فرد اس کی اصلاح کی طاقت نہیں رکھے گا.اگر ہم یہ بات تسلیم کر لیں تو ہم یقیناً سیحیوں اور یہودیوں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں کم نہ ہوں گے کیونکہ وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ پر معترض ہیں اور اس عقیدے کے ساتھ ہم بھی آپ کی قوت قدسیہ پر معترض ہو جاتے ہیں.جب چراغ جل رہا ہو تو اس سے اور چراغ یقینا روشن ہو سکتے ہیں ، وہ بجھا ہوا چراغ ہوتا ہے جس سے دوسرا چراغ روشن نہیں ہو سکتا.پس اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر کوئی زمانہ ایسا بھی آتا ہے کہ اس کی حالت ایسی بگڑ جائے گی کہ اس میں سے کوئی شخص اس کی اصلاح کے لئے کھڑا نہیں ہو سکے گا تو ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان بھی نعوذ بالله من ذالک ختم ہو جائے گا، کون مسلمان اس بات کو نہیں جانتا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کو حضرت موسی کا سلسلہ چلا نا منظور تھا اس وقت تک آپ ہی کے اتباع میں سے ایسے لوگ
۳۳ دعوة الامير پیدا ہوتے رہے جو آپ کی امت کی اصلاح کرتے رہے لیکن جب اسے یہ منظور ہوا کہ آپ کے سلسلے کو ختم کر دے تو اس نے آپ کی قوم میں سے نبوت کا سلسلہ بند کر کے بنواسمعیل میں سے نبی بھیج دیا.پس اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی موسوی سلسلے سے آئے گا تو اس کے یہی معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ من ذالک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے کو بھی ختم کر دے گا اور کوئی اور سلسلہ جاری کرے گا اور نعوذ باللہ من ذالک رسول کریم کی قوت قدسیہ اس وقت کمزور ہو جائے گی اور آپ کا فیضان کسی امتی کو بھی اس امر کے لئے تیار نہ کر سکے گا کہ وہ آپ سے نور پا کر آپ کی اُمت کی اصلاح کرے اور اُسے راہ راست پر لا دے.افسوس ہے کہ لوگ اپنے لئے تو ضرورت سے زیادہ غیرت دکھاتے ہیں اور کسی قسم کا عیب اپنی نسبت منسوب ہونا پسند نہیں کرتے لیکن خدا کے رسول کی طرف ہر ایک عیب دلیری سے منسوب کرتے ہیں اس محبت کو ہم کیا کریں جو منہ تک رہتی ہے مگر دل میں اس کا کوئی اثر نہیں اور اس ولولے کو کیا کریں جو اپنے ساتھ کوئی ثبوت نہیں رکھتا.اگر فی الواقع لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے تو ایک منٹ کے لئے بھی پسند نہ کرتے کہ ایک اسرائیلی نبی آکر آپ کی اُمت کی اصلاح کرے گا.کیا کوئی غیرت مند اپنے گھر میں سامان ہوتے ہوئے دوسرے سے مانگنے جاتا ہے یا طاقت ہوتے ہوئے دوسرے کو مدد کے لئے بلاتا ہے.وہی مولوی جو کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ من ذالک رسول کریم کی امت کے لئے اور اس کو مصائب سے بچانے کے لئے مسیح ناصری علیہ السلام آئیں گے، اپنی ذاتوں کے لئے اس قدر غیرت دکھاتے ہیں کہ اگر بحث میں ہار بھی رہے ہوں تو اپنی ہار کا اقرار نہیں کرتے اور کسی دوسرے کو اپنی مدد کے لئے بلانا پسند نہیں کرتے اور اگر کوئی خود بخود
(r) دعوة الامير اُن کی مدد کے لئے تیار ہو جائے تو اس کا احسان ماننے کے بجائے اُس پر ناراض ہوتے ہیں کہ کیا ہم جاہل ہیں کہ تو ہمارے منہ میں لقمہ دیتا ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کس بے پروائی سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کی مدد کے لئے ایک دوسرے سلسلے سے نبی بلوایا جائے گا اور خود آپ کی قوت قدسیہ کچھ نہ کر سکے گی.آہ! کیا دل مر گئے ہیں یا عقلوں پر پتھر پڑ گئے ہیں، کیا سب کی سب غیرت اپنے ہی لئے صرف ہو جاتی ہے اور خدا اور اس کے رسول کے لئے غیرت کا کوئی حصہ باقی نہیں رہتا ، کیا سب غصہ اپنے دشمنوں پر ہی صرف ہو جاتا ہے اور خدا اور اس کے رسول پر حملہ کرنے والوں کے لئے کچھ نہیں بچتا.ہم سے کہا جاتا ہے کہ کیوں تم ایک اسرائیلی نبی کی آمد کے منکر ہو مگر ہم اپنے دلوں کو کہاں لے جائیں اور اپنی محبت کے نقش کس طرح مٹائیں ہمیں تو محمد رسول اللہ کی عزت سے بڑھ کر کسی اور کی عزت پیاری نہیں، ہم تو ایک منٹ کے لئے بھی یہ برداشت نہیں کر سکتے که محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور کے ممنون احسان ہوں ہمارا دل تو ایک منٹ کے لئے بھی اس خیال کو برداشت نہیں کر سکتا کہ قیامت کے دن جب تمام مخلوق از ابتداء تا انتہاء جمع ہوگی اور عَلَی رُؤُوسِ الْأَشْهَادِ ہر ایک کے کام بیان کئے جائیں گے اس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مسیح اسرائیلی کے احسان سے جھکی جا رہی ہوگی اور تمام مخلوق کے سامنے بلند آواز سے فرشتے پکار کر کہیں گے کہ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ جاتی رہی تو اس وقت مسیح اسرائیلی نے ان پر احسان کر کے جنت میں سے نکلنا اپنے لئے پسند کیا اور دنیا میں جا کر ان کی امت کی اصلاح کی اور اسے تباہی سے بچایا ہم تو اس امر کو بہت پسند کرتے ہیں کہ ہماری زبانیں کٹ جائیں یہ نسبت اس کے کہ ایسی ہتک آمیز بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کریں اور ہمارے ہاتھ شل ہو
(ra) دعوة الامير جائیں بجائے اس کے کہ ایسے کلمات آپ کے حق میں تحریر کریں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں ، آپ کی قوت قدسیہ کبھی باطل نہیں ہو سکتی.آپ خاتم النبیین ہیں آپ کا فیضان کبھی رُک نہیں سکتا، آپ کا سر کسی کے احسان کے آگے جھک نہیں سکتا بلکہ آپ کا احسان سب نبیوں پر ہے.کوئی نبی نہیں جس نے آپ کو منوایا ہو اور آپ کی صداقت آپ کے منکروں سے منوائی ہو لیکن کیا لاکھوں کروڑوں انسان نہیں جن سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی انبیاء کی نبوت منوائی ہے.ہندوستان میں آٹھ کروڑ مسلمان بیان کئے جاتے ہیں ان میں سے بہت ہی تھوڑے ہیں جو بیرونی ممالک کے رہنے والے ہیں باقی سب ہندوستان کے باشندے ہیں جو کسی نبی کا نام تک نہ جانتے تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر ابراہیم اور موسیٰ اور عیسی علیہم السلام پر ایمان لے آئے ہیں.اگر اسلام ان کے گھروں میں داخل نہ ہوا ہو تا تو آج وہ ان نبیوں کو گالیاں دے رہے ہوتے اور اُن کو جھوٹے آدمیوں میں سے سمجھ رہے ہوتے جس طرح کہ ان کے باقی بھائی بندوں کا آج تک خیال ہے.اسی طرح افغانستان کے لوگ اور چین کے لوگ اور ایران کے لوگ کب حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کو مانتے تھے ،ان سے ان انبیاء کی صداقت کا اقرار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی کرایا ہے.پس آپ کا سب گزشتہ نبیوں پر احسان ہے کہ ان کی صداقت لوگوں پر مخفی تھی آپ نے اس کو ظاہر فرمایا، مگر آپ پر کسی کا احسان نہیں.آپ پر اللہ تعالیٰ وہ دن بھی نہیں لائے گا جب آپ کا فیضان بند ہو جائے اور کوئی دوسرا نبی آکر آپ کی امت کی اصلاح کرے بلکہ جب کبھی بھی آپ کی امت کی اصلاح کی ضرورت پیش آئے گی اللہ تعالیٰ آپ ہی کے شاگردوں میں سے اور آپ ہی کے امتیوں میں سے ایسے لوگ جنہوں نے سب کچھ آپ ہی سے لیا ہو گا اور آپ ہی سے سیکھا ہو گا مقرر
(y) دعوة الامير فرمائے گا تا کہ وہ بگڑے ہوؤں کی اصلاح کریں اور گمشدوں کو واپس لائیں اور اُن لوگوں کا کام آپ ہی کا کام ہوگا کیونکہ شاگرد اپنے استاد سے علیحدہ نہیں ہوسکتا اور امتی اپنے نبی سے جدا انہیں قرار دیا جا سکتا، ان کی گردنیں آپ کے احسان کے آگے جھکی ہوئی ہوں گی اور ان کے دل آپ کی محبت کی شراب سے لبریز ہوں گے اور ان کے سر آپ کے عشق کے نشے سے سرشار ہوں گے.غرض کسی نبی کے دوبارہ آنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے اور اس سے آپ کا وہ درجہ باطل ہو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيْرُمَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيْرُ وا مَا بِأَنْفُسَهُمْ (الرعد: ۱۲) اللہ تعالیٰ کسی کو کوئی نعمت دیکر چھین نہیں لیا کرتا جب تک کہ خود ان کے اندر کوئی خرابی نہ پیدا ہو جائے.اب اس عقیدے کو مان کر یا تو نعوذباللہ یہ ماننا پڑ تا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی تبدیلی ہو گئی ہے یا پھر یہ ماننا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ توڑ دیا اور باقی لوگوں سے تو وہ یہ سلوک کرتا ہے کہ ان کو نعمت دے کر واپس نہیں لیتا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نے اس کے خلاف سلوک کیا ہے اور یہ دونوں باتیں کفر ہیں کیونکہ ایک میں خدا تعالیٰ کا انکار ہے اور دوسری میں اس کے رسول کا.پس ان وجوہ سے ہم اس قسم کے عقائد سے بیزار ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ مسیح علیہ السلام جن کی آمد کا وعدہ دیا گیا ہے اسی امت میں سے آنے والے ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کا اختیار ہے کہ جسے چاہے کسی مقام پر ممتاز کر دے.احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ آنے والا مسیح اسی امت میں سے ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لَا الْمَهْدِئُ إِلَّا عِيسَی (ابن ماجه کتاب الفتن باب شدة الزمان مطبوعه بيروت ۱۹۸۸ ء) سوائے عیسی کے اور کوئی
﴾۳۷﴿ دعوة الامير مہدی نہیں.دوسری طرف فرماتے ہیں كَيْفَ اَنْتُمْ اذَانَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ ابن مریم) تمہارا کیا حال ہو گا جب تم میں ابن مریم نازل ہوگا اور تمہارا امام تمہیں میں سے ہوگا.ان دونوں ارشادات نبوی کو ملا کر دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں ان کے سوا کوئی اور مہدی نہیں اور وہ اس امت کے امام ہوں گے مگر اسی امت میں سے ہوں گے کہیں باہر سے نہ آئیں گے.پس یہ خیال کہ مسیح علیہ السلام کوئی علیحدہ وجود ہوں گے اور مہدی علیحدہ وجود باطل خیال ہے اور لَا الْمَهْدِئُ الا عیسی کے خلاف ہے.مومن کا یہ کام ہے کہ وہ اپنے آقا کے اقوال پر غور کرے اور جو تضاد ا سے بظاہر نظر آئے اسے اپنے تدبر سے دور کرے.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ یہ فرمایا ہے کہ پہلے مہدی ظاہر ہوں گے پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے جو مہدی کی اتباع میں نماز ادا کریں گے.اور دوسری دفعہ یہ فرمایا ہے کہ مسیح علیہ السلام ہی مہدی ہیں، تو کیا ہمارا یہ کام ہے کہ آپ کے قول کو رد کریں یا یہ کام ہے کہ دونوں پر غور کریں.اگر دونوں اقوال میں کوئی اتحاد کی صورت ہو تو اس کو اختیار کر لیں اور اگر کوئی ادنی تدبر بھی کرے گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ ان دونوں اقوال میں اتحاد کی صورت یہی ہے کہ لَا الْمَهْدِئُ الا عیسی دوسری حدیث کی تشریح ہے یعنی پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سیح علیہ السلام کے نزول کی خبر ایسے الفاظ میں دی تھی جس سے یہ شبہ پڑتا تھا کہ دو علیحدہ علیحدہ وجود ہیں اس کو لَا الْمَهْدِئُ الأَعنسی والی حدیث سے کھول دیا اور بتادیا کہ وہ کلام استعارہ تھا، اس سے صرف یہ مرا تھی کہ امت محمدیہ کا ایک فرد پہلے دنیا کی اصلاح کے لئے مامور کیا جائیگا لیکن کسی رسول کا مقام اسے نہیں دیا جائے گالیکن بعد میں عیسی ابن مریم کے نزول کی پیشگوئی بھی اسی کے حق میں پوری کی جائے گی اور وہ عیسی ہونے
(FA) دعوة الامير کا دعوی کرے گا، اس طرح گویا اُس کے دو مختلف عہدوں کے اظہار کا وقت بیان کیا گیا ہے.یعنی پہلے عام دعوی اصلاح ہوگا اور پھر دعوی مسیحیت ہوگا اور پیشگوئیوں میں اس قسم کا کلام عام ہوتا ہے بلکہ اگر اس قسم کے استعارے پیشگوئیوں سے علیحدہ کر دیئے جائیں تو ان کا سمجھنا ہی بالکل ناممکن ہو جائے.اگر یہ معنی ان احادیث کے نہ کئے جائیں تو دو باتوں میں سے ایک ضرور ماننی پڑے گی اور وہ دونوں ہی خطرناک ہیں.یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ لَا الْمَهْدِى الَّا عِيسَی والی حديث باطل ہے اور یا یہ ماننا پڑے گا کہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ مہدی کا کوئی الگ وجود نہیں بلکہ مسیح اور مہدی کے درجات کا مقابلہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اصل مہدی تو مسیح ہی ہوں گے دوسرا مہدی تو اُن کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں جس طرح کہہ دیتے ہیں کہ لا عَالِم الافلان اور اس سے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کے سوا کوئی عالم ہی نہیں، بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے علم میں دوسروں سے اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ اس کے مقابلہ میں ان کا علم حقیر ہو جاتا ہے اور یہ دونوں معنی خطرناک نتائج پیدا کرنے والے ہیں کیونکہ ایک حدیث کو بلا وجہ باطل کر دینا بھی خطرناک ہے اور خصوصاً ایسی حدیث کو جو اپنے ساتھ شواہد بھی رکھتی ہے اور یہ کہنا کہ مہدی مسیح کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہ رکھیں گے ان احادیث کے مضامین کے خلاف ہے جن میں انہیں امام قرار دیا گیا ہے اور مسیح کو ان کا مقتدی.غرض سوائے ان معنوں کے کہ امت محمدیہ میں ایک ایسے وجود کی خبر دی گئی ہے جو پہلے مصلح ہونے کا دعوی کرے گا اور بعد کو مسیح موعود ہونے کا ، ان احادیث کے اور کوئی معنی نہیں بن سکتے.اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے سار ادھو کا اس امر سے کھایا ہے کہ حدیث میں
(ra) دعوة الامير نزول کا لفظ ہے اور اس لفظ سے سمجھ لیا گیا ہے کہ مسیح اول ہی دوبارہ دنیا میں نازل ہوں گے حالانکہ نزول کے وہ معنی نہیں ہیں جو لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ جب ایک ایسی چیز کی پیدائش کا ذکر کرتے ہیں جو مفید ہو یا پھر ایک ایسے تغیر کا ذکر کرتے ہیں جو بابرکت ہو یا جلالِ الہی کا ظاہر کرنے والا ہو تو اسے عربی زبان میں نزول کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.ثُمَّ انْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلى رَسُولِهِ.(التوبہ : ۲۶) اور پھر فرماتا ہے.ثُمَّ انْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَةِ آمَنَةً نُّعَاسًا (ال عمران : ۱۵۵) اور فرماتا ہے وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْأَنْعَامِ ثَمَنِيَةَ أَزْوَاجِ (الزمر:۷) اور فرماتا ہے.قَد أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَواتِكُمْ وَرِيْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى لا ذلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللهِ لَعَلَّهُمْ يَذْكُرُونَ (الاعراف: ۲۷) اور فرماتا ہے.وَأَنْزَلْنَا عَلَيكُمُ الْمَنَ والسلوى ( البقرة : ٥٨) اور فرماتا ہے وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيْهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَ مَنَافِعُ للنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللهَ قَوِيٌّ عَزِيزُ (الحدید: ۲۶) اور فرماتا ہے وَلَوْ بَسَط اللهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلَكِن يُنَزِلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاءُ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرُ (الشورى: ۲۸) اب یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ سکینت دل میں پیدا کی جاتی ہے.نیند دماغ کے فعل کا نام ہے اور چار پائے اور لباس اور کھیتیاں اور بٹیر اور لوہا اور دنیا کی باقی سب چیزیں ایسی ہی ہیں جو اسی زمین پر پیدا ہوتی ہیں.آسمان سے اترتی ہوئی نہ کسی نے دیکھی ہیں اور نہ اُن کا آسمان سے اتر نا قرآن وحدیث سے ثابت ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ صاف طور پر قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَد رَفِيْهَا أقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءَ لِلسَّائِلِينَ (سورۃ حم سجده : 11) یعنی ہم نے زمین میں
(r.) دعوة الامير اس کی سطح پر پہاڑ پیدا کئے اور زمین میں بہت سے سامان پیدا کئے اور ہر قسم کی غذا میں بھی اس میں پیدا کیں.یہ سب کام زمین کا پیدا ہونا پھر اس میں ہر قسم کے سامانوں اور جانوروں کا پیدا ہونا چار زمانوں میں اختتام کو پہنچا اور یہ بات ہر قسم کے سائلوں کے لئے برابر ہے.یعنی یہ مضمون گو بڑے بڑے مسائل طبعیہ اور دقائق علمیہ پر مشتمل ہے جو کچھ تو اس زمانے میں ظاہر ہو چکے ہیں اور کچھ آئندہ زمانوں میں ظاہر ہوں گے اور نئے نئے سوال اس کے متعلق پیدا ہوں گے.مگر ہم نے اس کو ایسے الفاظ میں ادا کر دیا ہے کہ ہر طبقہ کے لوگ اور ہر زمانے کے آدمی اپنے اپنے علم اور اپنے اپنے زمانے کی علمی ترقی کے مطابق اس میں سے صحیح جواب پالیں گے جو اُن کے لئے موجب تشقی ہوگا.غرض قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب اشیاء جن کا قرآن کریم میں اَنْزَلْنَا کے لفظ کے ساتھ ذکر ہوا ہے آسمان پر سے نازل نہیں ہوئیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اسی زمین میں پیدا کیا ہے.پس اسی طرح آنے والے مسیح کی نسبت بھی لفظ نزول اس کے مقام کے اجلال اور اس کے درجہ کی عظمت کے لئے استعمال ہوا ہے نہ کہ اس سے یہ مراد ہے کہ وہ فی الواقع آسمان سے اترے گا.چنانچہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی یہ لفظ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے اور سب مفسر اس سے آپ کے شرف کا اظہار مراد لیتے ہیں اور وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ سب لوگ جانتے ہیں کہ آپ مکہ مکرمہ میں قریش کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد کا نام عبد اللہ تھا اور آپ کی والدہ کا نام آمنہ تھا.وہ آیت جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزول کا ذکر ہے یہ ہے.قد انْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَّسُولاً يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَتٍ لِيُخْرِجَ الَّذِيْنَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصلتِ مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ (الطلاق: ۱۱-۱۲) یعنی اللہ تعالیٰ
دعوة الامير نے تم پر ذکر یعنی رسول نازل کیا جو تمہیں اللہ کی کھلی کھلی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے تا کہ مومنوں اور نیک عمل کرنے والوں کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاوے.کس قدر تعجب کی بات ہے کہ ایک ہی لفظ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اور مسیح علیہ السلام کی نسبت استعمال کیا جاتا ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اس کے معنی اور کر دیئے جاتے ہیں اور مسیح کی نسبت اس کے اور معنی کر دیئے جاتے ہیں ، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی زمین پر پیدا ہوئے اور آپ کی نسبت نزول کا لفظ استعمال کیا گیا تو کون سے تعجب کی بات ہے اگر یہی لفظ آنے والے مسیح کی نسبت استعمال کیا جائے اور اس سے مراد اس کی پیدائش اور بعثت ہو.تیسرا شبہ یہ کیا جاتا ہے کہ حدیثوں میں آنے والے کا نام عیسی ابن مریم رکھا گیا ہے پس اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہی بعینہ دوبارہ تشریف لائیں گے.لیکن یہ معترض خیال نہیں کرتے کہ کثرت سے ان کے شعروں میں عیسیٰ کا لفظ دوسرے لوگوں کی نسبت استعمال ہوتا ہے مگر اس کو یہ قابل اعتراض نہیں سمجھتے لیکن اللہ تعالیٰ کے کلام میں اگر ایک شخص کا نام بھی عیسی رکھ دیا گیا تو اس پر تعجب آتا ہے.پھر روزانہ بھی لوگوں کی نسبت حاتم طائی اور فلسفیانہ دماغ رکھنے والوں کی نسبت محقق طوسی اور استخراج مسائل کا مادہ رکھنے والوں کی نسبت فخر رازی کا لفظ استعمال کرتے ہیں.مگر ابن مریم کے الفاظ ان کے دلوں میں شبہات پیدا کر دیتے ہیں.اگر ابن مریم کے الفاظ تعیین کے معنی دیتے ہیں تو کیا طائی اور طوسی اور رازی تعیین کے معنی نہیں دیتے ، پھر اگر باوجود ان الفاظ کے استعمال کے ان کی یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ شخص فی الواقع طے کے قبیلے کا ایک فرد ہے یا طوس یارے کا رہنے والا ہے تو ابن مریم کے الفاظ سے کیوں یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ آنے والا عیسی ابن مریم نبی اللہ ہو گا جو آج
دعوة الامير سے انہیں سو سال پہلے گزر چکا ہے، حالانکہ طے اور طوسی اور راز کی ایسے اسماء نہیں ہیں کہ جو مجازاً کسی اور معنی میں استعمال ہوں لیکن مریم ایک ایسا نام ہے جسے ایک خاص حالت کے اظہار کے لئے قرآن کریم میں استعمال کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَضَرَبَ اللهُ مثلاً لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ وَنَجْنِى مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجْنِى مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ * وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَيْهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ (التحريم: ١٢ - ١٣) یعنی اللہ تعالیٰ مومنوں کی مثال فرعون کی بیوی سے دیتا ہے جبکہ اس نے کہا کہ اے میرے رب میرے لیے جنت میں ایک گھر اپنے قرب میں بنا اور مجھے فرعون اور اس کے کاموں سے بچالے اور مجھے ظالم قوم کے پنجے سے چھڑا لے اور یا مومنوں کی مثال مریم بنت عمران سے دیتا ہے جس نے اپنے سوراخوں کی حفاظت کی.پھر ہم نے اس کے دل پر اپنا کلام نازل کیا اور اس نے ہماری باتوں اور ہماری کتابوں کی تصدیق کی اور فرمانبردار لوگوں میں سے ہوگئی ، پس جبکہ مومن کی ایک حالت کا نام اللہ تعالیٰ مریمی حالت رکھتا ہے اور ایسے مومن کو مریم کہتا ہے تو اگر کسی موعود کی نسبت اللہ تعالیٰ ابن مریم کے الفاظ استعمال کرتا ہے تو کیا اس کے یہی معنی نہ ہوں گے کہ وہ اس مریمی حالت سے ترقی کرتے کرتے عیسوی حالت تک پہنچ جائے گا.اس کی ابتدائی زندگی تو مریم کی طرح پاک اور بے عیب ہوگی اور اس کی آخری زندگی عیسی علیہ السلام کی طرح رُوح القدس سے مؤیّد ہوگی اور دنیا کی اصلاح اور صداقت کے قائم کرنے میں صرف ہوگی.قرآن کریم کے معانی پر تدبر کرنا اور اس کے مطالب کے سمندر میں غوطہ لگا کر
۴۳ دعوة الامير معارف کے موتی نکالنا تو اس زمانے کے علماء کے لئے تو حرام ہی ہو گیا ہے، اگر وہ انہیں علوم پر نظر کرتے جو علماء روحانی نے قرآن کریم پر غور کر کے اور انبیاء کی زندگی پر نظر کر کے اور ان کی باتوں کی طرف توجہ کر کے استنباط کئے ہیں اور اپنی کتابوں میں لکھدیئے ہیں تب بھی یہ لوگ ٹھوکر نہ کھاتے.حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی اپنی کتاب عوارف المعارف میں لکھتے ہیں کہ ایک ولادت ولادت جسمانی کے علاوہ ہوتی ہے جسے ولادت معنوی کہتے ہیں اور اس کی تائید میں اور بھی کسی کا نہیں خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول نقل کرتے ہیں.آپ فرماتے ہیں.يَصِيرُالْمُرِيدُ جُزْئَ الشَّيخِ كَمَا إِنَّ الْوَلَدَ جُزْئ الْوَالِدِ فِي الْوِلَادَةِ الطَّبْعِيَّةِ وَتَصِيرُ هَذِهِ الْوِلَادَةُ أَنِفًا وِلَادَةً مَعْنَوِيَّةً كَمَا وَرَدَ عَنْ عِيسَى صَلَوْتُ اللَّهِ عَلَيْهِ لَنْ يَلِجَ مَلَكُوْتَ السَّمَاءِ مَنْ لَّمْ يُوْلَدُ مَرَّتَيْنِ فَبِالْوِلَادَةِ الْأَوْلَى يَصِيرُ لَهُ ارْتِبَاطُ بِعَالَمِ الْمَلَكِ وَبِهَذِهِ الْوِلَادَةِ يَصِيْرُ لَهُ ارْتِبَاطِ بِالْمَلَكُوْتِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَكَذَلِكَ نُرِئَ ابْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوْقِنِينَ (عوارف المعارف مؤلفه شیخ شهاب الدین سهروردی جز اول صفحه ۴۵) یعنی مُرید شیخ کا جزو ہو جاتا ہے جس طرح ولادت طبعی میں بیٹا باپ کا جزو ہوتا ہے اور یہ ولادت اس وقت ولادت معنوی ہو جاتی ہے جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام سے روایت ہے کہ کوئی شخص آسمان کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ دودفعہ پیدا نہ ہو، پھر شیخ اپنی طرف سے فرماتے ہیں کہ پہلی ولادت سے تو اُسے طبعی دنیا سے تعلق پید اہو جاتا ہے اور دوسری ولا دت سے اسے روحانی دنیا سے تعلق پیدا ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ اسی طرح آسمان ااور زمین پر جو غلبہ ہمیں حاصل ہے ہم ابراہیم کو دکھاتے تھے تا کہ وہ یقین کرنے والے لوگوں میں سے ہو جائے.انْتَهَى قَوْلُ الشَّيْخِ.
دعوة الامير مذکورہ بالا عبارت سے ظاہر ہے کہ شیخ شہاب الدین صاحب سہروردی کے نزدیک ہر انسان کے لئے ایک ولادت معنوی ضروری ہے اور وہ اس کی تائید میں ایک تو قرآن کریم کی آیت پیش کرتے ہیں اور دوسرے حضرت مسیح کا ایک قول پیش کرتے ہیں.پس جب ولادت معنوی ایک ضروری شے ہے اور حضرت مسیح اسے روحانی ترقی کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں تو کیا مثیل مسیح کے لئے ہی اس ولادت کا وجود محال اور ناممکن ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت مسیح کا دوبارہ زندہ ہو کر آنا اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کے کلام کے خلاف ہے اور اس کے رسول کی عظمت کے منافی ہے اور اس کی باتوں کے صریح مخالف ہے اور جن باتوں پر اس عقیدے کی بناء رکھی گئی ہے وہ قلت تدبّر سے پیدا ہوئی ہیں اور کمی فکر کا نتیجہ ہیں.اصل بات یہی ہے کہ اسی امت میں سے ایک شخص کو مسیح کے رنگ میں رنگین ہو کر آنا تھا اور وہ آبھی چکا اور اس کے فیض سے بہتوں نے ہدایت پائی اور بہت گم گشتہ راہ سیدھے راستہ پر آگئے.چوتھا اعتراض ہم پر یہ کیا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سلسلہ وحی اور سلسلہ نبوت کو جاری سمجھتے ہیں.یہ اعتراض بھی یا تو قلت تدبر کا نتیجہ ہے یا عداوت و دشمنی کا.اصل بات یہ ہے کہ ہمیں تو الفاظ سے کوئی تعلق نہیں.جس بات میں خدا اور اس کے رسول کی عزت ہو ہمیں تو وہی پسند ہے.ہم کبھی ایک منٹ کے لئے بھی اس امر کو جائز نہیں سمجھتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا شخص آئے جو آپ کی رسالت کو ختم کر دے اور نیا کلمہ اور نیا قبلہ بنائے اور نئی شریعت اپنے ساتھ لائے یا شریعت کا کوئی حکم بدل دے یا جو لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے نکال کر اپنی اطاعت میں لے آئے یا آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے باہر ہو یا کچھ بھی فیض اس
(ro) دعوة الامير کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط کے بغیر ملا ہو، اگر ایسا کوئی آدمی آئے تو ہمارے نزد یک اسلام باطل ہو جاتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالی کے جو وعدے تھے جھوٹے ہو جاتے ہیں.لیکن ہم اس امر کو بھی کبھی پسند نہیں کر سکتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو ایسا سمجھا جائے کہ گویا آپ نے تمام فیوض الہی کو روک دیا ہے اور آپ بجائے دُنیا کی ترقی میں ممد ہونے کے اس کے راستہ میں روک بن گئے ہیں اور گویانعُوذُ بِالله مِنْ ذَالِکَ آپ بجائے دُنیا کو خدا تعالیٰ تک پہنچانے کے اسے وصول الی اللہ کے اعلیٰ مقامات سے محروم کرنے والے ہیں.جس طرح پہلا خیال اسلام کے لئے تباہ کرنے والا ہے، اسی طرح یہ دوسرا خیال بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ایک خطرناک حملہ ہے، اور ہم نہ اُسے قبول کرتے ہیں اور نہ اسے برداشت کر سکتے ہیں ، ہمارا یقین ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے لئے رحمت تھے.اور ہمارا پکا یقین ہے کہ یہ بات ہر ایک آنکھ رکھنے والے کو نظر آ رہی ہے.آپ نے آکر دنیا کو فیوض سماوی سے محروم نہیں کر دیا بلکہ آپ کے آنے سے اللہ تعالیٰ کے فیوض کی روانی پہلے سے بہت زیادہ ہوگئی ہے.اگر پہلے وہ ایک نہر کی طرح بہتے تھے تو اب ایک دریا کی طرح بہتے ہیں، کیونکہ پہلے علم اپنے کمال کو نہیں پہنچا تھا اور علم کامل کے بغیر عرفانِ کامل بھی حاصل نہیں ہوسکتا اور اب علم اپنے کمال کو پہنچ گیا ہے.قرآن کریم میں وہ کچھ بیان کیا گیا ہے جو اس سے پہلے کی کتب میں بیان نہیں کیا گیا تھا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل لوگوں کو عرفان میں زیادتی حاصل ہوئی ہے اور عرفان میں زیادتی کی وجہ سے اب وہ اُن اعلیٰ مقامات پر پہنچ سکتے ہیں جن پر پہلے لوگ نہیں پہنچ سکتے تھے اور اگر یہ ایمان نہ رکھا جائے تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے انبیاء پر کیا فضیلت رہ جاتی ہے.پس ہم اس قسم کی نبوت سے تو
دعوة الامير منکر ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آزاد ہوکر حاصل ہوتی ہو، اور اسی وجہ سے ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسیح ناصری کی آمد سے منکر ہیں مگر ہم اس قسم کی نبوت کی نفی نہیں کر سکتے جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت بالا ہوتی ہو.اے امیر! اللہ تعالیٰ آپ کے دل کو مہبط انوار بنائے اور آپ کے سینے کو حق کی قبولیت کے لئے وسیع کرے.وہی نبوت پہلے نبی کے سلسلے کو ختم کر سکتی ہے جو شریعت والی نبوت ہو اور وہی پہلے نبی کی شریعت کو منسوخ کر سکتی ہے جو بلا واسطہ حاصل ہو لیکن جو نبوت کہ پہلے نبی کے فیض سے اور اس کی اتباع سے حاصل ہو اور جس کی غرض پہلے نبی کی نبوت کی اشاعت ہو اور اُس کی عظمت اور اُس کی بڑائی کا اظہار ہو، وہ پہلے نبی کی ہتک کرنے والی نہیں بلکہ اس کی عزت کو ظاہر کرنے والی ہے اور اس قسم کی نبوت قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور عقلِ سلیم اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اس امت میں حاصل ہوسکتی ہے اور اگر یہ نبوت اس اُمت کو حاصل نہ ہو تو پھر اس امت کو دوسرے نبیوں کی امتوں پر کوئی فضیلت نہیں رہتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ محدث حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں بھی بہت سے گزرے ہیں.(بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمر بن الخطاب ) پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ بھی انسان کو محدثیت کے مقام تک ہی پہنچا سکتی ہے تو پھر آپ کو دوسرے انبیاء پر کیا فضیلت رہی اور آپ سید ولد آدم اور نبیوں کے سردار کیونکر ٹھہرے.خیر الرسل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آپ میں بعض ایسے کمالات پائے جائیں جو پہلے نبیوں میں نہیں پائے جاتے تھے اور ہمارے نزدیک یہ کمال آپ میں ہی ہے کہ پہلے انبیاء کے امتی اُن کی قوت جذب سے صرف محدثیت کے مقام تک پہنچ
(r2) دعوة الامير سکتے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی مقام نبوت تک بھی پہنچ سکتے ہیں اور یہی آپ کی قوت قدسیہ کا کمال ہے جو ایک مومن کے دل کو آپ کی محبت اور آپ کے عشق کے جذبہ سے بھر دیتا ہے.اگر آپ کے آنے سے اس قسم کی نبوت کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے تو پھر آپ کی مدد دنیا کے لئے ایک عذاب بن جاتی ہے اور قرآن کریم کا وجود بے فائدہ ہوجاتا ہے کیونکہ اس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ آپ کی بعثت سے پہلے تو انسان بڑے بڑے درجوں تک پہنچ جاتا تھا مگر آپ کی بعثت کے بعد وہ اُن درجوں کے پانے سے روک دیا گیا اور یہ ماننا پڑے گا کہ قرآن کریم سے پہلی کتب تو نبوت کا درجہ پانے میں ممد ہوا کرتی تھیں یعنی اُن کے ذریعہ سے انسان اس مقام تک پہنچ جاتا تھا جہاں سے اللہ تعالیٰ اُسے نبوت کے مقام کی تربیت کے لئے چن لیتا تھا لیکن قرآن کریم پر عمل کر کے انسان اس درجہ کو نہیں پہنچ سکتا.اگر فی الواقع یہ بات ہو تو اللہ تعالیٰ کے سچے پر ستاروں کے دل خُون ہو جائیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جائیں کیونکہ وہ تو رحمۃ للعالمین اور سید الانبیاء کی آمد پر یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اب ہماری روحانی ترقیات کے لئے نئے دروازے کھل جائیں گے اور اپنے محبوب رب العالمین کے اور بھی قریب ہو جائیں گے لیکن نتیجہ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِگ یہ نکلا کہ آپ نے آکر جو دروازے پہلے کھلے تھے اُن کو بھی بند کر دیا.کیا کوئی مومن رسول کریم کی نسبت اس قسم کا خیال ایک آنِ واحد کے لئے بھی اپنے دل میں آنے دے سکتا ہے؟ کیا کوئی آپ کا عاشق ایک ساعت کے لئے بھی اس عقیدہ پر قائم رہ سکتا ہے؟ بخدا آپ برکت کا ایک سمندر تھے اور روحانی ترقی کا ایک آسمان تھے جس کی وسعت کو کوئی نہیں پاسکتا.آپ نے رحمت کے دروازے بند نہیں کر دیئے بلکہ
(CA) دعوة الامير کھول دیئے ہیں اور آپ میں اور پہلے نبیوں میں یہ فرق ہے کہ ان کے شاگر د تو محدثیت تک پہنچ سکتے تھے اور نبوت کا مقام پانے کے لئے ان کو الگ تربیت کی ضرورت ہوتی تھی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی میں ایک انسان نبوت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے اور پھر بھی آپ کا امتی رہتا ہے اور جس قدر بھی ترقی کرے آپ کی غلامی سے باہر نہیں جا سکتا.اس کے درجہ کی بلندی اسے اُمتی کہلانے سے آزاد نہیں کر دیتی بلکہ وہ اپنے درجہ کی بلندی کے مطابق آپ کے احسان کے بار کے نیچے دیتا جاتا ہے کیونکہ آپ قرب کے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جس تک دوسروں کو رسائی نہیں ہوئی اور آپ نے اس قدر بلندی کو طے کر لیا ہے جس تک دوسروں کا ہاتھ بھی نہیں پہنچا اور آپ کی ترقی اس سرعت سے جاری ہے کہ واہمہ بھی اس کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے.پس آپ کی اُمت نے بھی آپ کے قدم بڑھانے سے قدم بڑھایا ہے اور آپ کے ترقی فرمانے سے ترقی کی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مقام جو اوپر بیان ہوا ہے ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اس قسم کی نبوت کا سلسلہ آپ کے بعد جاری سمجھیں کیونکہ اس میں آپ کی عزت ہے اور اس کے بند کرنے میں آپ کی سخت ہتک ہے.کون نہیں سمجھ سکتا کہ لائق استاد کی علامت یہ ہے کہ اس کے لائق شاگر دہوں اور بڑے بادشاہ کی علامت یہ ہے کہ اس کے ماتحت بڑے بڑے حکمران ہوں.اگر کسی استاد کے شاگر دادنیٰ درجے کے ہیں تو اسے کوئی لائق استاد نہیں کہ سکتا اور اگر کسی بادشاہ کے ماتحت ادنی درجے کے لوگ ہوں تو اسے کوئی بڑا بادشاہ نہیں ہ سکتا.شہنشاہ دُنیا میں عزت کا لقب ہے نہ کہ ذلت اور حقارت کا.اسی طرح وہ نبی ان نبیوں سے بڑا ہے جس کے اُمتی نبوت کا مقام پاتے ہیں اور پھر بھی امتی ہی رہتے ہیں.در حقیقت یہ غلطی جس میں اس وقت کے مسلمان پڑ گئے ہیں ( اس وقت میں اس
(ra) دعوة الامير لئے کہتا ہوں کہ پہلے بزرگوں کی کتب اس غلط عقیدے کے خلاف ظاہر کر رہی ہیں جیسے حضرت محی الدین ابن عربی ، حضرت ملا علی قاری اور علامہ ابن قیم کی کتب ،حضرت مولانا روم کی مثنوی، حضرت مجددالف ثانی شیخ احمد سر ہندی کے مکتوبات وغیرہ ) اس سے پیدا ہوئی ہے کہ انہوں نے نبوت کے معنی سمجھنے میں غلطی کی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ نبی وہی ہوتا ہے جو کوئی جدید شریعت لائے یا پہلی شریعت کے بعض احکام کو منسوخ کرے یا پہلے نبی کی اطاعت سے باہر ہو لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ باتیں نبی کے لئے ضروری نہیں.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نبی ان تینوں قسموں میں سے کسی ایک میں شامل ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک شخص میں یہ تینوں باتیں نہ ہوں.نہ وہ کوئی جدید کتاب لائے نہ پہلی شریعت کے کسی حکم کو منسوخ کرے اور نہ نبوت اسے براہ راست ملے اور پھر بھی وہ نبی ہو کیونکہ نبوت ایک خاص مقام قرب کا نام ہے جس مقام پر فائز شخص کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ دنیا کی اصلاح کرے اور لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف کھینچ کر لائے اور مُردہ دلوں کو زندگی بخشے اور خشک زمین کو شاداب کرے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو کلام لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہو، اسے لوگوں تک پہنچائے اور ایک ایسی جماعت پیدا کرے جو اپنی زندگیوں کو حق کی اشاعت میں لگا دے اور اس کے نمونے کو دیکھ کر اپنے دلوں کی اصلاح کرے اور اپنے اعمال کو درست کرے.غرض نبوت کی نفی نبوت کے مفہوم کو غلط سمجھنے سے پیدا ہوئی ہے ورنہ بعض اقسام کی نبوتیں تو بجائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان گھٹانے کے آپ کی شان بڑھانے والی ہیں.کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بند
(o.) دعوة الامير کرتا ہے کیونکہ فرماتا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ (الاحزاب: ۳۱) کہ محمد ستم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں پس اب کوئی نبی نہیں آسکتا، لیکن قرآن کریم کھول کر نہیں دیکھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ خَاتَمَ النَّبِيِّنَ بِفَتْحِ ” تا “ فرماتا ہے نہ بگشرِ ”تا“.اور خَاتَمَ بِفَتْحِ ”تا“ کے معنی مہر کے ہوتے ہیں نہ کہ ختم کر دینے کے اور مہر تصدیق کے لئے لگائی جاتی ہے پس اس آیت کے تو یہ معنی ہوں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کی مہر ہیں ، چنانچہ امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں خاتم النبین کے معنی نبیوں کی مہر والے نبی کے ہی کئے ہیں اور اس آیت کی تشریح میں وہ احادیث نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر ایک مہر نبوت تھی.(بخاری کتاب المناقب باب خاتم النبوة ) کاش! لوگ قرآن کریم کے الفاظ پر غور کرتے تو اُن کو یہ دھوکا نہ ہوتا ، اگر وہ یہ دیکھتے کہ اس آیت میں مضمون کیا بیان ہو رہا ہے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ پہلے اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں اور پھر اس کے بعد لکن لا کر رسول اور خاتم النبین کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.اب یہ بات ظاہر ہے کہ لکن ازالہ شبہ کے لئے آیا کرتا ہے اور یہ بات ہر ایک مسلمان جانتا ہے کہ پہلے فقرے سے یہی شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ سورہ کوثر میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُه (سورة الكوثر - آیت ۴) تیرا دشمن ہی ابتر ہے تو ابتر نہیں اور یہاں خود تسلیم فرماتا ہے کہ آپ کی نرینہ اولاد نہ ہوگی پس اس شبہ کے ازالہ کے لئے لفظ لکن استعمال فرما کر بتایا کہ اس بیان سے بعض لوگوں کے دلوں میں ایک شبہ پیدا ہوسکتا ہے اس
۵۱ دعوة الامير کا ہم ازالہ کر دیتے ہیں اور وہ اس طرح کہ گوجسمانی طور پر یہ مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں تو بھی یہ ابتر نہیں کہلا سکتا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا رسول ہے.پس اس کا روحانی سلسلہ وسیع ہوگا اور اس کی روحانی اولاد بے انتہاء ہوگی پھر و خاتم النبیین فرما کر پہلے مضمون پر اور ترقی کی کہ نہ صرف بہت سے مومن اس کی اولاد میں ہوں گے بلکہ یہ نبیوں کی بھی مہر ہے اس کی مُہر سے انسان نبوت کے مقام پر پہنچ سکے گا.پس نہ صرف معمولی آدمیوں کا یہ باپ ہوگا بلکہ نبیوں کا بھی باپ ہوگا.غرض اس آیت میں تو اس قسم کی نبوت کا دروازہ کھولا گیا ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے نہ کہ بند کیا گیا ہے.ہاں اس نبوت کا دروازہ بیشک اس آیت سے بند کر دیا گیا ہے جونئی شریعت کی حامل ہو یا بلا واسطہ ہو، کیونکہ وہ نبوت اگر باقی ہو تو اس سے آپ کی روحانی ابوت ختم ہو جائے گی اور اس کی اس آیت میں نفی کی گئی ہے.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.فَإِنِّىٰ آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ (مسلم کتاب الحج باب فضل الصلوة بمسجدى مكة والمدينة ) اور اسی طرح یہ فرمایا.لَا نَبِيَّ بَعْدِئ.(مسلم کتاب الامارة باب وجوب الوفاء ببيعة الخليفة الاوّل فالاول) پس ان احادیث کی رُو سے آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا مگر افسوس کہ یہ لوگ آخر الانبیاء تو دیکھتے ہیں، مگر مسلم کی حدیث میں جو اس کے ساتھ ہی وَاِنَّ مَسْجِدِى أَخِرُ الْمَسَاجِدِ (مسلم کتاب الحج باب فضل الصلوة بمسجدى مكة والمدينة ) آیا ہے اسے نہیں دیکھتے.اگر فانّي أخِرُ الْأَنْبِيَاءِ کے معنی ہیں کہ آپ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں تو وَانَّ مَسْجِدِئ اخر الْمَسَاجِدِ کے بھی یہ معنی ہوں گے کہ مسجد نبوی کے بعد کوئی مسجد نہیں بنوائی جاسکتی لیکن وہی لوگ جو فَإِنّى اخر الأَنْبِيَاءِ کے الفاظ سے استدلال کر کے ہر قسم کی نبوت کی نفی کر دیتے ہیں.وہ وَإِنَّ مَسْجِدِئ آخِرُ الْمَسَاجِدِ کے الفاظ کی موجودگی میں نہ
(۵۲) دعوة الامير صرف اور مسجدیں بنوار ہے ہیں بلکہ اس قدر مساجد تیار کر وار ہے ہیں کہ آج بعض شہروں میں مساجد کی زیادتی کی وجہ سے بہت سی مساجد ویران پڑی ہیں.بعض جگہ تو مسجدوں میں بین بیس گز کا فاصلہ بھی بمشکل پایا جاتا ہے اگر اخِرُ الْأَنْبِيَاءِ کے آنے کے باعث کوئی انسان نبی نہیں ہو سکتا تو اخرُ الْمَسَاجِد کے بعد دوسری مسجد میں کیوں بنوائی جاتی ہیں.اس سوال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ مسجد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی مسجدیں ہیں کیونکہ اُن میں اسی طریق پر عبادت ہوتی ہے جس طریق کی عبادت کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوائی تھی.پس بوجہ ظلیت کے یہ اس سے جدا نہیں ہیں اس لئے اس کے آخر ہونے کی نفی نہیں کرتیں.یہ جواب درست ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ اسی طرح فَإِنِی اخرُ الْأَنْبِيَاءِ کے باوجود ایسے نبی بھی آسکتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بطور ظل کے ہوں اور جو بجائے نئی شریعت لانے کے آپ ہی کی شریعت کے متبع ہوں اور آپ کی تعلیم کے پھیلانے ہی کے لئے بھیجے گئے ہوں اور سب کچھ اُن کو آپ ہی کے فیض سے حاصل ہوا ہو.اس قسم کے نبیوں کی آمد سے آپ کے آخر الانبیاء ہونے میں اسی طرح فرق نہیں آتا جس طرح آپ کی مسجد کے نمونے پر نئی مساجد کے تیار کرانے سے آپ کی مسجد کے آخر المساجد ہونے میں کوئی فرق نہیں آتا.اسی طرح لا نَبِيَّ بَعْدِی کے بھی یہ معنی نہیں کہ آپ کی بعثت کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا بلکہ اس کے بھی یہ معنی ہیں کہ ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے.کیونکہ بعد وہی چیز ہوسکتی ہے جو پہلی کے ختم ہونے پر شروع ہو.پس جو نبی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تائید کے لئے آئے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی نہیں کہلا سکتا.وہ تو آپ کی نبوت کے اندر ہے بعد تو تب ہوتا جب آپ کی شریعت کا کوئی حکم
(or) دعوة الامير منسوخ کرتا.عقلمند انسان کا کام ہوتا ہے کہ ہر ایک مضمون پر پورے طور پر غور کرے اور لفظوں کی تہ تک پہنچے.غالباً انہیں لوگوں کے متعلق اسی قسم کے دھوکے میں پڑ جانے کا ڈر تھا جس کے باعث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ قُوْلُوْا إِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ ( تكمله مجمع بحار الانوار جلد ۴ صفحه ۸۵ مطبوعه مطبع العالی المنشی نولکشور ۱۳۱۴ھ) یعنی اے لوگو! یہ تو کہو کہ آپ خاتم النبیین تھے مگر یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا، اگر حضرت عائشہ کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا نبی بھی نہیں آسکتا تھا تو آپ نے لَا نَبِيَّ بَعْدَہ کہنے سے لوگوں کو کیوں روکا اور اگر اُن کا خیال درست نہ تھا تو کیوں صحابہؓ نے ان کے قول کی تردید نہ کی.پس اُن کا لا نبی بَعْدَہ کہنے سے روکنا بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی تو آسکتا تھا مگر صاحب شریعت نبی یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آزاد نبی نہیں آسکتا تھا اور بہ کا آپ کے قول پر خاموش رہنا بتاتا ہے کہ باقی سب صحابہ بھی ان کی طرح اس مسئلہ صحابة ย کو مانتے تھے.افسوس لوگوں پر کہ وہ قرآن کریم پر غور نہیں کرتے اور خود ٹھو کر کھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی ٹھو کر کھلاتے ہیں اور پھر افسوس ان پر کہ وہ اُن لوگوں پر جو ان کی طرح ٹھوکر نہیں کھاتے ، غصے ہوتے ہیں اور انہیں بے دین اور کافر سمجھتے ہیں مگر مومن لوگوں کی باتوں سے نہیں ڈرتا.وہ خدا کی ناراضگی سے ڈرتا ہے.انسان دوسرے کا کیا بگا ڑسکتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرے گا کہ اس کو مار دے مگر مومن موت سے نہیں ڈرتا اس کے لئے تو موت لقائے یار کا ذریعہ ہوتی ہے.کاش! اگر وہ قرآن کریم پر غور کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ وہ ایک وسیع خزانہ ہے اور ایک نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے جو انسان کی تمام ضروریات کو پورا
دعوة الامير کرنے والا ہے.اس کے اندر روحانی ترقیات کی اس قدر راہیں بیان کی گئی ہیں کہ اس سے پہلے کی کتب میں ان کا عشر عشیر بھی بیان نہیں ہوا اور اگر انہیں یہ بات معلوم ہو جاتی تو وہ کنویں کے مینڈک کی طرح اپنی حالتوں پر خوش نہ ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہیں تلاش کرنے میں قدم مارتے اور اگر وہ لفظوں کی بجائے دلوں کی اصلاح کی قدر جانتے تو ظاہر علوم کے پڑھ لینے پر کفایت نہ کرتے بلکہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرتے اور اگر یہ خواہش ان کے دل میں پیدا ہو جاتی تو پھر ان کو یہ جستجو بھی پیدا ہوتی کہ قرآن کریم نے کس حد تک انسان کے لئے ترقی کے راستے کھولے ہیں اور تب انہیں معلوم ہو جاتا کہ وہ ایک چھلکے پر خوش ہو کر بیٹھ رہے تھے اور ایک خالی پیالہ منہ کو لگا کر مست ہونا چاہتے تھے.کیا وجہ ہے کہ وہ سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں، لیکن ان کے دل میں کبھی یہ خواہش نہیں پیدا ہوتی کہ وہ انعام جو اس کے اندر بیان کئے گئے ہیں ہمیں بھی ملیں.وہ رات دن میں پچاس دفعہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (سورة الفاتحہ آیت ۶.۷) پڑھتے ہیں، لیکن ان کے دل میں یہ خیال نہیں پیدا ہوتا کہ وہ کونسا انعام ہے جو ہم طلب کر رہے ہیں.اگر وہ ایک دفعہ بھی سمجھ کر نماز پڑھتے تو ان کا دل اس فکر میں پڑ جاتا کہ صِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ اور صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم سے کیا مراد ہے اور پھر ان کی توجہ خود بخود سورۃ النساء کی ان آیات کی طرف پھر جاتی کہ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوْعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا هِ وَإِذًا لَأَتَيْنَهُمْ مِنْ لَّدُنَّا أَجْرًا عَظِيمًا وَلَهَدَيْنَهُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّنَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِيْنَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا ه ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللهِ وَكَفَى بِاللَّهِ عَلِيمًا (النساء: ۶۷-۷۱) یعنی اگر لوگ اسی طرح
(00) دعوة الامير عمل کرتے جس طرح ان سے کہا جاتا ہے تو اُن کے لئے اچھا ہوتا اور ان کے دلوں کو یہ بات مضبوط کر دیتی اور اس صورت میں ہم ان کو بہت بڑا اجر دیتے اور ہم ان کو صراط مستقیم دکھا دیتے اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر ہم نے انعام کیا ہے.یعنی نبیوں میں اور صدیقوں میں اور شہیدوں اور صلحاء میں.اور یہ لوگ نہایت ہی عمدہ دوست ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے اور اللہ خوب جاننے والا ہے.ان آیات سے ظاہر ہے کہ منعم علیہ گروہ کا راستہ دکھانے سے مراد نبیوں،صدیقوں، شہیدوں اور صلحاء کے گروہ میں شامل کرنا ہے.پس جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی معرفت ہمیں ہدایت کی ہے کہ ہم قریباً چالیس دفعہ دن میں اس سے صراط مستقیم کے لئے دعا کریں اور وہ خود صراط مستقیم کی تشریح یہ کرتا ہے کہ نبیوں ،صدیقوں ،شہداء اور صلحاء کے گروہ میں شامل کر دیا جائے تو کس طرح ممکن ہے کہ اس امت کے لئے نبوت کا دروازہ منْ كُلِ الْوُجُوْءِ بند ہو.کیا یہ ہنسی نہیں بن جاتی اور کیا اللہ تعالیٰ کی شان تمسخر سے بالا نہیں، کیا یہ ممکن ہے کہ وہ ایک طرف تو ہم پر زور دے کہ مجھ سے نبیوں ، صدیقوں ،شہداء اور صلحاء کے انعامات مانگو اور دوسری طرف صاف کہہ دے کہ میں نے تو یہ انعام اس امت کے لئے ہمیشہ کے واسطے روک دیا، حاشا و کلا، اللہ تعالیٰ کی ذات تمام عیبوں سے پاک ہے اور تمام بدیوں سے منزہ ہے.اگر اس نے یہ انعام روک دیا ہوتا تو وہ کبھی سورہ فاتحہ میں منعم علیہ گروہ کے راستے کی طرف راہنمائی کی دعانہ سکھا تا اور پھر کبھی اس راستہ کی تشریح یہ نہ فرما تا کہ ہمارے اس رسول کی اتباع سے انسان نبیوں کے گروہ میں بھی شامل ہو جاتا ہے.کہا جاتا ہے کہ سورۂ نساء کی آیت میں مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ہے نہ کہ مِنَ
دعوة الامير الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم پس اس سے یہ مراد ہے کہ اس امت کے افراد نبیوں کے ساتھ ہوں گے نہ کہ نبیوں میں شامل ہوں گے.لیکن اس اعتراض کے پیش کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ اس آیت میں صرف نبیوں کا ہی ذکر نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہی صدیقوں ،شہداء اور صلحاء کا بھی ذکر ہے اور اگر مع کی وجہ سے اس آیت کے وہ معنی ہیں جو یہ لوگ کرتے ہیں تو پھر ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑیگا کہ اس امت میں کوئی صدیق بھی نہیں ہوگا بلکہ صرف بعض افراد صدیقوں کے ساتھ رکھے جائیں گے اور شہید بھی کوئی نہیں ہوگا، صرف بعض لوگ شہداء کے ساتھ رکھے جائیں گے اور صالح بھی کوئی نہیں ہوگا صرف کچھ لوگ صلحاء کے ساتھ رکھے جائیں گے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ اس امت کے تمام افراد نیکی اور تقویٰ کے تمام مدارج سے محروم ہوں گے صرف انعام میں ان لوگوں کے ساتھ شامل کر دیئے جائیں گے جو پہلی امتوں میں سے ان مدارج پر پہنچے ہیں.لیکن کیا کوئی مسلمان بھی اس قسم کا خیال دل میں لا سکتا ہے.اس سے زیادہ اسلام اور قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کیا ہوگی کہ امت محمدیہ میں سے نیک لوگ بھی نہ ہوں بلکہ صرف چند آدمی نیک لوگوں کے ساتھ شامل کر کے رکھ دیئے جائیں.غرض اگر مَعَ کے لفظ پر زور دے کر نبوت کا سلسلہ بند کیا جائے گا تو پھر اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے لئے صدیقیت اور شہادت اور صالحیت کا دروازہ بھی بند کرنا پڑے گا.اصل بات یہ ہے کہ مع کے معنی یہی نہیں ہوتے کہ ایک جگہ یا ایک زمانے میں دو چیزوں کا اشتراک ہے بلکہ کبھی مع درجہ میں اشتراک کے لئے بھی آتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا هِ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللَّهِ وَاخْلَصُوْا دِيْنَهُمْ لِلَّهِ فَأُولَئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ
(°c) دعوة الامير وَسَوْفَ يُؤْتِ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا (النساء ۱۴۲-۱۴۷) یعنی تحقیق منافق دوزخ کے نچلے طبقے میں ہوں گے اور تو ان کا کسی کو مددگار نہیں پائے گا مگر ان میں سے وہ مستثنیٰ ہیں جنہوں نے تو بہ کر لی اور اصلاح کرلی اور اللہ تعالیٰ کو خوب مضبوط پکڑ لیا اور اپنے دین کو حض اللہ ہی کے لئے کر دیا اور عمل صالح کرنے والوں اور اللہ تعالیٰ ہی کے ہو کے رہنے والوں اور اطاعت کو خاص کر لینے والوں کی نسبت مَعَ الْمُؤْمِنِینَ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.پس اگر مَعَ کے معنی اس جگہ ساتھ کے لئے جائیں تو اسکے یہ معنی ہوں گے کہ باوجود ان سب باتوں کے وہ مومن نہیں بنیں گے بلکہ صرف مومنوں کے ساتھ رکھے جائیں گے اور یہ بات بالبداہت باطل ہے.پس مع کے معنی کبھی درجہ کی شراکت کے بھی ہوتے ہیں اور انہیں معنوں میں أُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ کی آیت میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے.قرآن کریم کے اور بھی بہت سے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نبوت کا دروازہ اس امت میں گھلا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ظل ہو اور آپ کی نبوت کی اشاعت کے لئے اور آپ کی غلامی اور اطاعت سے حاصل ہو.چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ اعراف میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمت کے ذکر کے دوران میں فرماتا ہے.قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِلُ بِهِ سُلْطَنَا وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ o وَلِكُلِّ أَمَّةٍ أَجَلْ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ يَابَنِي أَدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ يَقْضُونَ عَلَيْكُمْ أَيَتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (الاعراف: ۳۴-۳۶) یعنی ان کو کہہ دے کہ میرے رب نے مجھ پر صرف بری باتیں جو خواہ ظاہری طور پر بری ہوں خواہ بار یک نگاہ سے اُن کی برائی معلوم ہو ، حرام کی ہیں
(ON) دعوة الامير اور گناہ میں مبتلا ہونا اور سرکشی کرنا جو بلا وجہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے شرک کرنا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی دلیل نازل نہیں کی اور اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسی باتیں کہنا جن کی صداقت کا تم کوعلم نہیں ہے حرام کیا ہے اور ہر ایک جماعت کے لئے ایک وقت مقرر ہے جب ان کا وقت آجاتا ہے وہ اس سے ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں.اے بنی آدم ! اگر تمہارے پاس میرے رسول آویں جو تم ہی میں سے ہوں اور تمہیں میرے نشان پڑھ پڑھ کر سنائیں تو جو لوگ تقویٰ کریں گے اور اصلاح کریں گے ، اُن کو نہ آئندہ کا ڈر ہوگا اور نہ پچھلی باتوں کا غم ہو گا، اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ اس امت میں سے بھی نبی آئیں گے، کیونکہ امت محمدیہ کے ذکر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے پاس نبی آویں تو اُن کو قبول کر لینا، ورنہ دکھ اٹھاؤ گے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں اما کا لفظ آیا ہے اور یہ شرط پر دلالت کرتا ہے کیونکہ حضرت آدم کے واقعہ خروج کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے یہی لفظ استعمال فرمایا ہے علاوہ ازیں اگر اس کو شرط بھی سمجھ لیا جائے تو بھی اس سے یہ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نبوت کا سلسلہ بند نہیں ، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے کہ جس امر کی وہ آپ نفی کر چکا ہو اس کو شرط کے طور پر بھی بیان کرے.قرآن کریم کے شواہد کے علاوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کا دروازہ مطلقا مسدود نہیں ، چنانچہ آنے والے مسیح کو آپ نے بار بار نبی کے لفظ سے یاد فرمایا ہے(مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال وصفته ومامعه ) اگر آپ کے بعد کسی قسم کی نبوت بھی نہیں ہو سکتی تھی تو آپ نے مسیح کو نئی اللہ کہہ کر کیوں پکارا ہے.چوتھا اعتراض ہم پر یہ کیا جاتا ہے کہ ہم جہاد کے منکر ہیں.مجھے ہمیشہ تعجب آیا کرتا
(09) دعوة الامير ہے کہ اس قدر جھوٹ انسان کیونکر بول سکتا ہے کیونکہ یہ بات کہ ہم جہاد کے منکر ہیں ، بالکل جھوٹ ہے.ہمارے نزدیک تو بغیر جہاد کے ایمان ہی کامل نہیں ہو سکتا، تمام ضعف جو اسلام اور مسلمانوں کو پہنچا ہے اور ایمان کی کمزوری بلکہ اس کا فقدان جوان میں نظر آ رہا ہے یہ سب صرف جہاد میں سستی کرنے کی وجہ سے ہے.پس یہ کہنا کہ ہم جہاد کے منکر ہیں ہم پر افتراء ہے.جب قرآن کریم کے بیسیوں مقامات پر جہاد کی تعلیم دی گئی ہے تو بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے اور قرآن کریم کے شیدائی ہونے کے ہم جہاد کے منکر کس طرح ہو سکتے ہیں، ہاں ہم ایک بات کے سخت مخالف ہیں اور وہ یہ ہے کہ اسلام کے نام پر خونریزی اور فساد اور غداری اور ڈاکہ زنی اور غارت گری کی جائے کیونکہ اس سے اسلام کے خوشنما چہرے پر نہایت بد نما داغ لگ جاتا ہے.ہم اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے کہ حرص اور طمع اور نفسانیت اور ذاتی فوائد کی خاطر اسلام کے مقدس احکام کو بگاڑا جائے.غرض ہم جہاد کے منکر نہیں ہیں بلکہ اس بات کے مخالف ہیں کہ کوئی شخص ظلم اور تعدی کا نام جہا در رکھ دے.اے امیر ! آپ اس امر کو سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے محبوب پر کوئی حرف گیری کرے تو مُحب کو یہ امرکس قدر برا معلوم ہوتا ہے اور وہ شخص جو اس حرف گیری کا محرک ہو اسے اس پر کسقد رطیش آتا ہے، ہمیں بھی ان لوگوں پر شکوہ ہے جو اسلام کو اپنے نام سے بدنام کرتے ہیں کیونکہ وہ مسلمان کہلا کر اسلام سے دشمنی کرتے ہیں، آج دنیا اسلام کو ایک غیر مہذب مذہب اور اسلام کے رسول کو ایک جابر بادشاہ خیال کرتی ہے.کیا اس لئے کہ اس نے رسول کریم کی زندگی میں کوئی ایسی بات دیکھی ہے جو خلاف تقوی یا خلاف دیانت ہے.نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ مسلمانوں نے اپنے اعمال سے اس کے دماغ میں بعض ایسی باتیں داخل کر دی ہیں کہ وہ ان کو ایک دم کے لئے بھی بھلا نہیں سکتی.میرے نزدیک ان
دعوة الامير خطرناک مظالم میں سے جو رسول مقبول پر کئے گئے ہیں ، ایک یہ ظلم ہے کہ خود مسلمانوں نے آپ کو جو رحم مجسم تھے جو ایک چیونٹی کو بھی ضرر دینا پسند نہیں کرتے تھے دشمنانِ اسلام کے سامنے ایسی شکل میں پیش کیا ہے کہ ان کے دل آپ سے متنفر ہو گئے ہیں اور ان کے دماغ آپ کے خلاف خیالات سے بھر گئے ہیں.میں چاروں طرف سے جہاد جہاد کی آواز سنتا ہوں ، مگر وہ کونسا جہاد ہے جس کی طرف خدا اور اس کا رسول لوگوں کو بلاتے تھے اور آج کو نسا جہاد ہے جس کی طرف لوگوں کو بلایا جاتا ہے قرآن کریم جس جہاد کی طرف ہمیں بلاتا ہے وہ تو یہ ہے کہ فَلَا تُطِعِ الْكَفِرِيْنَ وَجَاهِدُ هُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقان : ۵۳) یعنی کافروں کی بات نہ مان اور اس قرآن کے ذریعہ سے کفار کے ساتھ ایک بہت بڑا جہاد کر مگر آج کیا مسلمان اسی جہاد بالقرآن کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں.کس قدر لوگ ہیں جو قرآن کریم ہاتھ میں لے کر کافروں کے ساتھ جہاد کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے ہیں، کیا اسلام اور قرآن میں کوئی بھی ذاتی جو ہر نہیں.جس سے وہ لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچ سکیں، اگر یہ بات سچ ہے تو پھر اسلام کے سچا ہونے کا کیا ثبوت ہے.انسانوں کے کلام لوگوں کا دل قابو میں کر لیتے ہیں مگر صرف خدا ہی کا کلام ایسا بے اثر ہے کہ اس کے ذریعہ سے لوگوں کے دل فتح نہیں ہو سکتے اس لئے تلوار کی ضرورت ہے جس سے لوگوں کو منوایا جائے مگر آج تک نہیں دیکھا گیا کہ تلوار کے ساتھ دل فتح کئے جا سکے ہوں اور اسلام تو اس بات پر لعنت بھیجتا ہے کہ مذہب ڈر یالالچ سے قبول کیا جائے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (المنافقون : ۲) یعنی منافق جب تیرے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے اور اللہ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول
دعوة الامير ہے مگر اللہ یہ گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹے ہیں.اگر اسلام کے پھیلانے کے لئے تلوار کا جہاد جائز ہوتا تو کیا وہ لوگ جو اسلام لے آئے تھے مگر دل میں منافق تھے ، ان کا ذکر قرآن کریم ان الفاظ میں کرتا جو اوپر بیان ہوئے ہیں کیونکہ اس صورت میں تو یہ لوگ گو یا قرآنی تعلیم کا نتیجہ ہوتے کون امید کر سکتا ہے کہ تلوار کے ساتھ وہ مخلص لوگوں کی جماعت پیدا کرے گا.پس یہ بات غلط ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعے سے غیر مذاہب والوں کو اسلام میں داخل کرنے کا حکم دیتا ہے، اسلام تو سب سے پہلا مذہب ہے جو یہ کہتا ہے کہ مذہب کے متعلق آزادی ہونی چاہئے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ.الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ (البقرۃ: ۲۵۷) دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہدایت گمراہی سے ممتاز ہوگئی ہے.پس ہر ایک شخص دلائل کے ساتھ حق کو قبول کرنے یار د کر نے کا حق رکھتا ہے.اسی طرح فرماتا ہے.وَقَاتِلُوْا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (البقرة: ۱۹۱) اور دین کی لڑائی ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں.مگر یہ خیال رکھو کہ زیادتی نہ کر بیٹھو.پس جب کہ اسلام صرف ان سے دینی جنگ کرنے کا حکم دیتا ہے جو دین کے نام سے مسلمانوں سے جنگ کریں اور مسلمانوں کو جبراً اسلام سے پھیرنا چاہیں اور ان کے متعلق بھی یہ حکم دیتا ہے کہ زیادتی نہ کرو بلکہ اگر وہ باز آجا ئیں تو تم بھی اس قسم کی لڑائی کو چھوڑ دو.تو پھر یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کا حکم ہے کہ غیر مذاہب والوں سے اپنے مذہب کی اشاعت کے لئے جنگ کرو.اللہ تعالیٰ تو مختلف مذہبوں کے مٹانے کے لئے نہیں بلکہ مختلف مذاہب کی حفاظت کے لئے جنگ کا حکم دیتا ہے حجیسا کہ فرماتا ہے أَذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ 0 بِالَّذِينَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقَّ إِلَّا أَنْ يَقْوَلُوْا رَبُّنَا اللَّهَ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ
دعوة الامیہ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعْ وَصَلَوَاتْ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيراً وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزُ (الحج: ۴۰-۴۱) یعنی اجازت دی گئی ہے ان لوگوں کو جن سے بلا وجہ جنگ کی جاتی ہے جنگ کی اس لئے کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد پر قادر ہے یہ وہ لوگ ہیں کہ جو اپنے گھروں سے بلاقصور نکالے گئے ہیں.ان کا کوئی قصور نہ تھا سوا اس کے کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اگر اللہ تعالی بعض لوگوں کے ذریعہ سے بعض کا ہاتھ نہ روکتا تو مسیحیوں کے معبد اور راہبوں کے خلوت خانے اور یہود کی عبادت کی جگہیں اور مسجد میں جن میں اللہ تعالیٰ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے گرادی جاتیں اور اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرے گا، اللہ تعالیٰ طاقتور ہے، غالب ہے.یہ آیات کس قدر کھلے الفاظ میں بتاتی ہیں کہ مذہبی جنگیں تبھی جائز ہیں جبکہ کوئی قوم رَبُّنَا الله کہنے سے رو کے یعنی دین میں دخل دے اور ان کی غرض یہ نہیں کہ دوسری اقوام کے معابد ان کے ذریعہ سے گرائے جائیں اور ان سے ان کا مذہب چھڑ وایا جائے یا ان کو قتل کیا جائے بلکہ ان کی غرض یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے تمام مذاہب کی حفاظت کی جائے اور سب مذاہب کے معابد کو قائم رکھا جائے اور یہی غرض اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے کیونکہ اسلام دنیا میں بطور شاہد اور محافظ کے آیا ہے نہ کہ بطور جابر اور ظالم کے.غرض جہاد جس کی اسلام نے اجازت دی ہے، یہ ہے کہ اس قوم کے خلاف جنگ کی جائے جو اسلام سے جبر آلوگوں کو پھیرے یا اس میں داخل ہونے سے جبر اباز رکھے اور اس میں داخل ہونے والوں کو صرف اسلام کے قبول کرنے کے جرم میں قتل کرے، اس قوم کے سوا دوسری قوم سے جہاد نہیں ہوسکتا، اگر جنگ ہوگی تو صرف سیاسی اور ملکی جنگ ہوگی
۶۳ دعوة الامير جود دو مسلمان قوموں میں بھی آپس میں ہوسکتی ہے.یہ ظالمانہ جنگ جو بعض دفعہ ڈا کہ اور خونریزی سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوتی ، بدقسمتی سے غیر مذاہب سے مسلمانوں میں آئی ہے.ورنہ اسلام میں اس کا نام ونشان تک نہیں تھا اور سب سے زیادہ اس عقیدے کی اشاعت کا الزام مسیحیوں پر ہے جو آج سب سے زیادہ اس کی وجہ سے مسلمانوں پر معترض ہیں.قرون وسطی میں اس قسم کی مذہبی جنگوں کا اس قدر چر چا تھا کہ سارا یورپ اسی قسم کی جنگوں میں مشغول رہتا تھا اور ایک طرف یہ مسلمانوں کی سرحدوں پر اسی طرح چھاپے مارتے رہتے تھے جس طرح آج نیم آزاد سرحدی قبائل ہندوستان کی سرحدوں پر حملے کر رہے ہیں اور دوسری طرف یورپ کی ان قوموں پر حملے کر رہے تھے جو اس وقت تک مسیحیت میں داخل نہیں ہوئی تھیں اور ان ظالمانہ حملوں میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی سمجھتے تھے.معلوم ہوتا ہے جیسا کہ قاعدہ ہے غصے میں آکر انسان کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے.مسلمانوں نے مسیحیوں کی ان حرکات سے متاثر ہو کر خود بھی انہیں کی طرح چھاپے مارنے شروع کر دیئے ہیں اور اپنے مذہب کی تعلیم کو آخر کار بالکل ہی بھلا بیٹھے ہیں.حتی کہ وہ زمانہ آ گیا کہ وہی جو ان کے استاد تھے ان پر اعتراض کرنے لگ گئے.مگر افسوس یہ ہے کہ باوجود اعتراضوں کے پھر بھی مسلمان نہیں سمجھتے.آج ساری دنیا میں اسلام کے خلاف یہی ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے مگر مسلمانوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں اور وہ برابر دشمن کے ہاتھ میں تلوار پکڑا رہے ہیں کہ اسے لو اور اسلام پر حملہ کرو، وہ نہیں دیکھتے کہ یہ ظالمانہ جنگیں جن کا نام جہاد رکھا جاتا ہے اسلام کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان پہنچارہی ہیں.وہ کونسی طاقت ہے جس نے اس ہتھیار کے ذریعے فتح پائی ہو.جنگ میں تعداد کام نہیں آیا کرتی بلکہ ہنر اور انتظام اور تعلیم اور سامان اور جوش اور دوسری قوموں کی ہمدردی کام آتی
دعوة الامير ہے.بعض چھوٹی چھوٹی قو میں ان امور کی وجہ سے بڑی بڑی حکومتوں کو شکست دے دیتی ہیں اور اگر یہ باتیں نہ ہوں تو بڑے بڑے لشکر بھی کمزور اور بے فائدہ ہوتے ہیں.پس بہتر ہوتا کہ مسلمان اپنی حفاظت کے لئے ان سامانوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے نہ کہ جہاد کے غلط معنی لیکر اسلام کو بدنام کرتے اور خود بھی نقصان اٹھاتے کیونکہ جب لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ کوئی قوم اپنے مذہب کی آڑ میں دنیا وی جنگیں کرتی ہے تو سب اقوام اس کی مخالفت میں اکٹھی ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ اس سے ایک ایسا خطرہ محسوس کرتی ہیں جس سے عادل سے عادل حکومت بھی محفوظ نہیں رہ سکتی ، ہر ایک غیر مذہب کی حکومت خیال کر لیتی ہے کہ میں اس سے کتنا ہی اچھا معاملہ کروں مجھے اس سے امن حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کی جنگ ظلم یا فساد کی بناء پر نہیں بلکہ مذہب کے اختلاف کی بناء پر ہے.غرض ہم جہاد کے منکر نہیں ہیں بلکہ جہاد کے ان غلط معنوں کے مخالف ہیں جن سے اس وقت اسلام کو سخت صدمہ پہنچا ہے اور ہمارے نزدیک مسلمانوں کی ترقی کا راز اس مسئلے کے سمجھنے میں مخفی ہے اگر وہ اس امر کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ جہاد کبیر قرآن کریم کے ذریعہ ہوسکتا ہے ، نہ کہ تلوار سے اور اگر وہ سمجھ لیں کہ مذہب کا اختلاف ہرگز کسی کی جان یا اس کے مال یا اس کی آبرو کو حلال نہیں کر دیتا تو ان کے دلوں میں اسی قسم کے تغیرات پیدا ہو جائیں جن سے خود بخود ان کو سیدھے راستے پر قدم مارنے کی طرف توجہ ل فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِيْنَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقان: ۵۳) فَإِنِ اعْتَزَلُوْ كُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوْ كُمْ وَالْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلاً (النساء: ١ ٩) وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِيْنَ يَقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (البقره: ١٩١) لَا يَنْهَكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِى الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتَقْسِطُوا إِلَيْهِمُ انَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (الممتحنة: 9)
(10) دعوة الامير ہو اور وہ لَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَأْتُوا الْبَيَوْتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأَتُوا الْبَيَوْتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (البقرة :190) کے ارشاد پر عمل کر کے ترقی کے صحیح اصول کو سمجھیں اور ان پر عمل پیرا ہوں.اے بادشاہ افغانسان ! جس طرح آپ کے نام میں امان کی طرف اشارہ ہے اسی طرح خدا کرے کہ آپ کے ذریعہ سے ملک افغانستان اور سرحدوں پر امن قائم ہو.میں نے اصولی طور پر آپ کو جماعت احمدیہ کے عقائد اور ان پر جو اعتراض کئے جاتے ہیں اور ان کے جو جواب ہیں، بتا دیئے ہیں اور اب میں چاہتا ہوں کہ مختصر آبانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے دعوے اور اس کے دلائل کے متعلق بھی کچھ بیان کروں.تا اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ٹھہروں کہ میں نے اس کا پیغام آپ کو پہنچا دیا تھا اور آپ اللہ تعالیٰ کے منشاء پر اطلاع پاکر اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں اور اس کی محبت کو جذب کریں.
دعوة الامير حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ و السلام کا دعویٰ تھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے خلق اللہ کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا ہے اور یہ کہ آپ وہی مسیح ہیں جن کا ذکر احادیث میں آتا ہے اور وہی مہدی ہیں جن کا وعدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دیا گیا ہے اور آپ ان تمام پیشگوئیوں کے پورا کرنے والے ہیں جو مختلف مذاہب کی کتب میں ایک مصلح کی نسبت جو آخری زمانے میں ظاہر ہو گا مذکور ہیں اور یہ کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نصرت اور تائید کے لئے بھیجا ہے اور قرآن کریم کا فہم آپ کو عنایت کیا ہے اور اس کےمعارف اور حقائق آپ پر کھولے ہیں اور تقویٰ کی باریک راہوں پر آپ کو آگاہ کیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اور عظمت کے اظہار کا کام آپ کے سپر دکیا ہے اور اسلام کو دیگر ادیان پر غالب کرنے کی خدمت آپ کو سونپی ہے اور آپ کو اس لئے دُنیا میں بھیجا ہے تا کہ دنیا کو بتائے کہ وہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے اور لوگوں کا ان سے دُور رہنا اور غافل رہنا اسے پسند نہیں.اسی طرح آپ کا یہ دعویٰ تھا کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ کا منشاء تھا کہ ساری دنیا کو آپ کے ہاتھ پر جمع کرے اس لئے اللہ تعالیٰ نے تمام ادیان کے گزشتہ بزرگوں کی زبان سے آخری زمانے میں اسی مذہب کے ایک گزشتہ نبی کی دوبارہ بعثت کی پیشگوئی کر دی تھی تا کہ قومی منافرت خاتم النبيين علیہ السلام پر ایمان لانے میں روک نہ ہو.ان پیشگوئیوں میں درحقیقت رسول کریم
(12) دعوة الامي صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک امتی مامور کی خبر دی گئی تھی تا اس کے ذریعے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہو کر تمام ادیان آپ کے ہاتھ پر جمع ہو جائیں.چنانچہ یہ سب پیشگوئیاں آپ کے وجود سے پوری ہو گئیں اور آپ مسیحیوں اور یہودیوں کے لئے مسیح، زردشتیوں کے لئے مسیو در بھی اور ہندوؤں کے لئے کرشن کے مثیل ہو کر نازل ہوئے تا تمام اہلِ مذاہب پر انہیں کی کتب سے آپ کی صداقت ثابت ہو اور پھر آپ کے ذریعے سے اسلام کی صداقت معلوم ہو کر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ غلامی میں باندھے جائیں.آپ کے دعوے کے دلائل آپ کے دعوے کو مختصر الفاظ میں بیان کر دینے کے بعد میں اصولاً اس امر کے متعلق کچھ بیان کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ ایک مامور من اللہ کے دعوے کی صداقت کے کیا دلائل ہوتے ہیں اور پھر یہ کہ ان دلائل کے ذریعے سے آپ کے دعوے پر کیا روشنی پڑتی ہے کیونکہ جب یہ ثابت ہو جائے کہ ایک شخص فی الواقع مامور من اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ہے تو پھر اجمالاً اس کے تمام دعاوی پر ایمان لانا واجب ہو جاتا ہے کیونکہ عقل سلیم اس امر کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ ایک شخص خدا تعالیٰ کا مامور بھی ہو اور لوگوں کو دھوکا دیکر حق سے دُور بھی لے جاتا ہو ، اگر ایسا ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کے علم پر ایک سخت حملہ ہوگا اور ثابت ہوگا کہ نَعُوذُ بِالله مِنْ ذلِکَ اس نے اپنے انتخاب میں سخت غلطی کی اور ایک ایسے شخص کو اپنا مامور بنا دیا جو دل کا نا پاک اور گندہ تھا اور بجائے حق اور صداقت کی اشاعت کے اپنی بڑائی اور عزت چاہتا اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر اپنے نفس کو مقدم کرتا تھا.
(YA) دعوة الامير علاوہ اس کے کہ یہ عقیدہ عقل سلیم کے خلاف ہے قرآن کریم بھی اس کو باطل کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يَؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَاداً لَىٰ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ كُوْنُوْا رَبَّانِيْنَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُوْنَ o وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَخِذُوا الْمَلَئِكَةَ وَالنَّبِينَ أَرْبَاباً أَيَأْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ (ال عمران : ۸۰-۸۱) یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ کتاب اور حکم اور نبوت دیکر بھیجے اور پھر وہ لوگوں سے یہ کہے کہ خدا کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ بلکہ وہ تو یہی کہے گا کہ خدا تعالیٰ کے ہو جاؤ بسبب اس کے کہ تم اللہ تعالیٰ کا کلام لوگوں کو سکھاتے اور پڑھتے ہو اور نہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایسا آدمی لوگوں سے یہ کہے کہ فرشتوں یا نبیوں کو رب سمجھ لو کیونکہ یہ مکن نہیں کہ وہ کوشش کر کے لوگوں کو مسلمان بنائے اور پھر ان کو کافر کر دے.غرض اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ مدعی ماموریت فی الواقع سچا ہے یا نہیں ؟ اگر اس کی صداقت ثابت ہو جائے تو اس کے تمام دعاوی کی صداقت بھی ساتھ ہی ثابت ہو جاتی ہے اور اگر اس کی سچائی ہی ثابت نہ ہو تو اس کے متعلق تفصیلات میں پڑنا وقت کو ضائع کرنا ہوتا ہے.پس میں اسی اصل کے مطابق آپ کے دعوے پر نظر کرنی چاہتا ہوں.تاجناب والا کو ان دلائل سے مختصراً آگا ہی ہو جائے جن کی بناء پر آپ نے اس دعوے کو پیش کیا ہے اور جن پر نظر کرتے ہوئے لاکھوں آدمیوں نے آپکو اس وقت تک قبول کیا ہے.
(19) دعوة الامير پہلی دلیل ضرورت زمانه سب سے پہلی دلیل جس سے کسی مامور کی صداقت ثابت ہوتی ہے وہ ضرورت زمانہ ہے.اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ بے حمل اور بے موقع کوئی کام نہیں کرتا.جب تک کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی وہ اسے نازل نہیں کرتا اور جب کسی چیز کی حقیقی ضرورت پیدا ہو جائے تو وہ اسے روک کر نہیں رکھتا.انسان کی جسمانی ضروریات میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے مہیا نہ کیا ہو.چھوٹی سے چھوٹی ضرورت اس کی پوری کر دی ہے.پس جبکہ دنیاوی ضروریات کے پورا کرنے کا اس نے اس قدر اہتمام کیا ہے تو یہ اس کی شان اور اس کی رفعت کے منافی ہے کہ وہ اس کی روحانی ضروریات کو نظر انداز کر دے اور ان کے پورا کرنے کے لئے کوئی سامان پیدا نہ کرے حالانکہ جسم ایک فانی شے ہے اور اس کی تکالیف عارضی ہیں اور اسکی ترقی محدود ہے اور اس کے مقابلے میں انسانی روح کے لئے ابدی زندگی مقرر کی گئی ہے اور اس کی تکالیف ایک نا قابل شمار زمانے تک ممتد ہوسکتی ہیں اور اس کی ترقی کے راستے انسانی عقل کی حد بندی سے زیادہ ہیں.جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی صفات پر اس روشنی کی مدد سے نظر ڈالے گا جو قرآن کریم سے حاصل ہوتی ہے وہ کبھی اس بات کو باور نہیں کرے گا کہ بنی نوع انسان کی روحانی حالت تو کسی مصلح کی محتاج ہولیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا سامان نہ کیا جائے جس کے ذریعے سے اس کی احتیاج پوری ہو سکے اگر ایسا ہو تو انسان کی پیدائش ہی لغو ہو جاتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا خَلَقْنَا السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا لَعِبِينَ مَا
(<.) دعوة الامير خَلَقْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ (الدخان: ۳۹-۴۱) یعنی ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہے اس کو یوں ہی بلا وجہ بطور کھیل کے نہیں پیدا کیا بلکہ ہم نے اسے غیر متبدل اصول کے ماتحت پیدا کیا ہے لیکن اکثر لوگ اس بات سے ناواقف ہیں.پس حقیقت یہی ہے کہ جب کبھی بھی بنی نوع انسان کی روحانی حالت گر جاتی ہے اور کسی مصلح کی محتاج ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ایک مصلح بھیج دیتا ہے جولوگوں کو راہ راست کی طرف لاتا ہے اور ان کی اندرونی کمزوری کو دور کرتا ہے.گو اللہ تعالیٰ کی صفات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات عقلاً بھی ناممکن ہوتی ہے کہ ضرورت کے وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو لاوارث چھوڑ دے مگر اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو قرآن کریم میں صراحتا بھی بیان فرما دیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلَةَ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (الحجر: ۲۲) ہر ایک چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم اسے نازل نہیں کرتے مگر خاص اندازوں کے ماتحت.یعنی ہر ایک چیز کو اللہ تعالیٰ ضرورت کے ماتحت نازل کرتا ہے نہ اس کے کام بے حکمت ہیں کہ بلا ضرورت کسی چیز کو ظاہر کرے اور نہ اس کے ہاتھ تنگ ہیں کہ ضرورت پر بھی ظاہر نہ کر سکے.اور اسی طرح فرماتا ہے وَاتْكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتَمُوْهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تخضوها (الابراهيم:۳۵) یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر وہ چیز جو تم نے مانگی تم کو عنایت کر دی ہے.اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گنا چاہو تو گن نہیں سکتے.اس آیت میں مانگنے سے مراد حقیقی ضرورت ہی ہے.کیونکہ ہر چیز جسے بندہ مانگتا ہے اسے نہیں مل جاتی ، مگر یہ ضرور ہے کہ ہر ایک حقیقی ضرورت جس کی طرف احتیاج انسان کی فطرت میں رکھی گئی ہے یا ہر احتیاج
دعوة الامير جس کا اثر انسان کی غیر محدود زندگی پر پڑتا ہے اس کے پورا ہونے کا سامان اللہ تعالیٰ ضرور کرتا ہے.یہ تو عام قانون ہے مگر ہدایت کے متعلق تو اللہ تعالیٰ خصوصیت کے ساتھ فرماتا ہے کہ جب اس کے بندے ہدایت کے محتاج ہوں تو وہ ضرور ان کے لئے ہدایت کے سامان مہیا کرتا ہے بلکہ اس نے یہ کام اپنے ہی سپر د کر رکھا ہے دوسرے کو اس میں شریک ہی نہیں کیا چنانچہ فرماتا ہے اِنَّ عَلَيْنَا للهدى (الليل :۱۳) بندوں کو ہدایت دینا ہم نے اپنے اوپر فرض کر چھوڑا ہے اور اس کام کا انصرام اپنی ہی ذات کے متعلق وابستہ رکھا ہے.قرآن کریم ضرورت زمانہ کے مطابق لوگوں کی ہدایت کے سامان پیدا کرنے کو نہ صرف واجب ہی قرار دیتا ہے بلکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایسا انتظام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو بندوں کا حق ہوتا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرتے کہ جب اس نے ان کے پاس ہادی نہیں بھیجے تو وہ ان سے جواب کیوں طلب کرتا ہے اور ان کو عذاب کیوں دیتا ہے.چنانچہ سورۃ طہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُم بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِهِ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُوْلَا فَتَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَذِلَّ وَنَخْزی (طه: ۱۳۵) یعنی اگر رسول کی بعثت سے پہلے ہم ان پر عذاب نازل کر دیتے تو یہ ہم پر اعتراض کرتے کہ جب ہم گمراہ تھے اور ہدایت کے محتاج تھے تو تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم ذلیل اور رسوا ہونے سے پہلے ہی تیرے احکام کو قبول کر لیتے اور اللہ تعالیٰ ان کے اس اعتراض کو تسلیم کرتا ہے اور اس کا رد نہیں کرتا بلکہ اس مضمون کو قرآن کریم کے متعدد مقامات پر بیان کر کے اس کی اہمیت کو ثابت فرماتا ہے.اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرورت کے موقع پر ہادی بھیجے بغیر عذاب
دعوة الامي نازل کرنے کو ظلم قرار دیتا ہے چنانچہ فرماتا ہے.يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلَ مِنْكُمْ يَقْصُوْنَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا قَالُوْا شَهِدْنَا عَلَى أَنفُسِنَا وَغَرَتْهُمُ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا وَشَهِدُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوْا كَافِرِيْنَ ذَلِكَ أَنْ لَّمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا غَافِلُوْنَ (الانعام: ۱۳۱-۱۳۲) اے جنوں اور انسانوں کی جماعتو! کیا تمہارے پاس ہمارے رسول نہیں آئے تھے جو تمہیں ہمارے احکام پڑھ پڑھ کر سناتے تھے اور تم پر جو یہ دن آنے والا تھا اس سے تمہیں ڈراتے تھے.انہوں نے کہا ہم اپنے خلاف آپ گواہی دیتے ہیں اور انہیں ورلی زندگی نے دھوکا دے دیا اور انہوں نے اپنے خلاف آپ گواہی دے دی کہ وہ کافر تھے.یہ (رسولوں کا بھیجنا اور کفار پر حجت قائم کرنا ) اس لئے کیا کہ تیرا خدا شہروں کو اس حالت میں کہ لوگ غافل تھے، ظالمانہ طور پر ہلاک نہیں کرسکتا تھا.ان آیات کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ بلا ہوشیار کر دینے کے کسی قوم پر حجت قائم کر دینا اور اس کی ہلاکت کا فتویٰ لگا دینا ظلم ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ اگر کوئی قوم ہدایت کی محتاج ہو اور اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہادی نہ بھیجے، لیکن قیامت کے دن اسے سزا دیدے کہ تم نے کیوں احکام الہی پر عمل نہیں کیا تھا تو یہ ظلم ہوگا اور اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ، پس ممکن نہیں کہ لوگ ہدایت کے محتاج ہوں لیکن وہ ان کی ہدایت کا سامان نہ کرے.پیچھے جو مضمون گزرا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کی رو سے جب کسی زمانے کے لوگ ہدایت کے محتاج ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کا سامان پیدا کرتا رہتا ہے لیکن قرآن کریم سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس عام قاعدے کے علاوہ امت محمدیہ سے اس کا ایک خاص وعدہ بھی ہے وہ یہ ہے.انا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (الحجر: ١٠) ہم
دعوة الامي نے ہی اس تعلیم کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے.اب حفاظت دو قسم کی ہوتی ہے ایک تو حفاظت ظاہری اور ایک حفاظت معنوی.جب تک دونوں قسم کی حفاظت نہ ہو کوئی چیز محفوظ نہیں کہلا سکتی ، مثلاً اگر ایک پرندے کی کھال اور چونچ اور پاؤں محفوظ کر لئے جائیں اور اس میں بھس بھر کر رکھ لیا جائے تو وہ پرندہ زمانے کے اثر سے محفوظ نہیں کہلائے گا.اسی طرح اگر اس کی چونچ ٹوٹ جائے، پاؤں شکستہ ہو جائیں ، بال بچ جائیں تو وہ بھی محفوظ نہیں کہلا سکتا، ایک کتاب جس کے اندر لوگوں نے اپنی طرف سے کچھ عبارتیں زائد کر دی ہوں یا اس کی بعض عبارتیں حذف کر دی ہوں یا جس کی زبان مُردہ ہوگئی ہو اور کوئی اس کے سمجھنے کی قابلیت نہ رکھتا ہو، یا جو اس غرض کے پورا کرنے سے قاصر ہوگئی ہو جس کے لئے وہ نازل کی گئی تھی محفوظ نہیں کہلا سکتی، کیونکہ گو اس کے الفاظ محفوظ ہیں مگر اس کے معانی ضائع ہو گئے ہیں اور معانی ہی اصل شے ہیں.الفاظ کی حفاظت بھی صرف معنی کی حفاظت ہی کے لئے کی جاتی ہے.پس قرآن کریم کی حفاظت سے مراد اس کے الفاظ اور اس کے مطالب دونوں کی حفاظت ہے.اس وعدے کے ایک حصے کو پورا کرنے کے یعنی قرآن کریم کی ظاہری حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو سامان کئے ہیں ان کا مطالعہ انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے جب تک قرآن کریم نازل نہ ہوا تھا، نہ عربی زبان مدون ہوئی تھی ، نہ اس کے قواعد مرتب ہوئے تھے نہ لغت تھی نہ محاورات کا احاطہ کیا گیا تھا، نہ معانی اور بیان کے قواعد کا استخراج کیا گیا تھا اور نہ تحریر کی حفاظت کا سامان ہی کچھ موجود تھا.مگر قرآن کریم کے نزول کے بعد اللہ تعالیٰ نے مختلف لوگوں کے دلوں میں القاء کر کے ان سب علوم کو مدون کروایا اور صرف قرآن کریم ہی کی حفاظت کے خیال سے علم صرف و نحو اور علم معانی و بیان اور علم تجوید اور علم
(<) دعوة الامير لغت اور علم محاورہ زبان اور علم تاریخ اور علم قواعد، تدوین تاریخ اور علم فقہ وغیرہ علوم کی بنیاد پڑی اور ان علوم نے اسی قدر زیادہ ترقی حاصل کی جس قدر کہ ان علوم کی حفاظت کا قرآن کریم سے تعلق تھا.چنانچہ ظاہری علوم میں سے صرف ونحو اور لغت کا تعلق حفاظت قرآن کے ساتھ سب سے زیادہ ہے اور ان علوم کو اس قدر ترقی حاصل ہوئی ہے کہ یورپ کے لوگ اس زمانے میں بھی عربی صرف و نحو اور لغت کو سب زبانوں کی صرف ونحو اور لغت سے اعلیٰ اور زیادہ مدون خیال کرتے ہیں.ان علوم کی ترقی کے علاوہ حفاظت قرآن کریم کے لئے ہزاروں لاکھوں آدمیوں کے دل میں حفظ قرآن کی خواہش پیدا کر دی گئی اور اس کی عبارت کو ایسا بنایا گیا کہ نہ نثر ہے نہ شعر جس سے اس کا یاد کرنا بہت ہی آسان ہوتا ہے.ہر شخص جسے مختلف قسم کی عبارتوں کے حفظ کرنے کا موقع ملا ہے جانتا ہے کہ قرآن کریم کی آیات کا حفظ کرنا سب عبارتوں سے زیادہ سہل اور آسان ہوتا ہے غرض ایک طرف اگر قرآن کریم ایسی عبارت میں نازل کیا گیا ہے کہ اس کا حفظ کرنا نہایت آسان ہو گیا ہے تو دوسری طرف لاکھوں آدمیوں کے دل میں اس کے حفظ کرنے کی خواہش پیدا کر دی گئی ہے اور نمازوں میں قرآن کریم کی تلاوت فرض کر کے ہر مسلمان کے ذمے اس کے کسی نہ کسی حصے کی حفاظت مقرر کر دی گئی ہے حتی کہ اگر قرآن کریم کے سب نسخوں کو بھی نعوذ باللہ من ذالک کوئی دشمن تلف کر ڈالے تب بھی قرآن کریم دنیا سے مٹ نہیں سکتا.یہ چند مثالیں جو میں نے بیان کی ہیں اس امر کے ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ قرآن کریم کی حفاظت ظاہری کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہت سے ذرائع پیدا کر دیئے ہیں جن کی موجودگی میں اس کا ضائع ہو جانا بالکل ناممکن ہو گیا ہے.
دعوة الامير اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب الفاظ کی حفاظت کے لئے جو مقصود بالذات نہیں ہیں اللہ تعالیٰ نے اس قدر سامان مہیا کئے تو کیا ممکن ہے کہ وہ معانی کو یونہی چھوڑ دے اور ان کی حفاظت نہ کرے؟ ہر شخص جو عقل و دانش سے کام لینے کا عادی ہے اس سوال کا یہی جواب دے گا کہ نہیں یہ بات ممکن نہیں ہے اگر اللہ تعالیٰ نے ظاہری حفاظت کا سامان کیا ہے تو باطنی حفاظت کا سامان اس سے کہیں زیادہ ہوگا اور یہی بات درست ہے.آیۃ کریم إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحْفِظُونَ میں دونوں ہی قسم کی حفاظت کا ذکر ہے.لفظی بھی اور معنوی بھی اور معنوی حفاظت کا سب سے بڑا جزو یہ ہے کہ جب لوگ ہدایت قرآنیہ سے دور ہو جائیں اور قرآن کریم کا نور سمٹ کر الفاظ میں آجائے اور لوگوں کے قلوب اس کے اثر اور تصرف سے خالی رہ جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ایسے سامان پیدا کرے جن کے ذریعے سے اس کے اثر کو پھر قائم کرے اور اس کے معانی کو پھر ظاہر کرے اور ایک قصے کو مرد نی حالت سے نکال کر ایک کامیاب نسخے کی زندگی اور تازگی بخشے.چنانچہ ان معنوں کی احادیث صحیحہ سے بھی تصدیق ہوتی ہے حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلَّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا (ابوداؤد کتاب الملاحم باب ما یذکر فی المائة) اللہ تعالٰی اس امت کے لئے ہر صدی کے سر پر ضرور ایسے آدمی کھڑے کرتا رہے گا جو اس کے دین کی اس کے فائدہ اور نفع کے لئے تجدید کرتے رہیں گے.یہ حدیث در حقیقت إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ کی تفسیر ہے اور آیت ل وَقَدِ اتَّفَقَ الْحَفِظُ عَلَى تَصْحِيحِ هَذَا الْحَدِيثِ مِنْهُمُ الْحَاكِمُ فِي الْمُسْتَدْرَكِ وَالْبَيْهَقِىٰ فِي المدخل (حجج الكرامة في آثار القيامة مؤلفہ نواب محمد صدیق حسن خان صفحه ۱۳۳ مطبوعہ بھو پال ۱۲۰۹ھ)
دعوة الامير کے مضمون کے ایک حصے کو عام فہم الفاظ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دیا ہے تا کہ ظاہر پرست اور کم فہم لوگ اس آیت کے معانی کو صرف ظاہر پر محمول نہ کریں اور دین اسلام کی حفاظت کے ایک زبر دست ذریعے کو نظر انداز کر کے اپنے لئے اور دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ ہوں.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی بعثت کا وقت جوان مفاسد کی اصلاح کے لئے آویں گے اور جو قرآن کریم کے مطالب اور معانی نہ سمجھنے سے اور کلام الہی سے دور ہو جانے کی وجہ سے پیدا ہوں گے، صدی کا سر ہوگا.گو یا قرآن کریم کی حفاظت کے لئے قلعوں کی ایسی زنجیر بنادی گئی ہے کہ کبھی بھی اسلام ایسے لوگوں سے خالی نہیں رہ سکتا جو یا تو کسی مجدد کے صحبت یافتہ ہوں یا صحبت یافتوں کے صحبت یافتہ ہوں اور اس طرح وہ خرابی جو دیگر تمام ادیان میں پیدا ہو چکی ہے کہ ان کا مطلب بگڑ کر کچھ کا کچھ ہو گیا ہے اس سے اسلام بالکل محفوظ ہے اور وعدے کے مطابق بالکل محفوظ رہے گا.خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ (۱) طبعی یا روحانی ضروریات انسان کی اللہ تعالیٰ ضرور پوری کرتا ہے خصوصاً روحانی ضروریات کو جو بوجہ اپنے وسیع اثر اور بڑی اہمیت کے طبعی ضروریات پر مقدم ہیں اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرے تو پیدائش عالم کا فعل لغو ہو جائے.(۲) یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کا وعدہ بھی کیا ہے کہ جب بندہ ہدایت کا محتاج ہوگا تو وہ اسے ہدایت دے گا.(۳) اگر وہ ایسانہ کرے تو بندے کا حق ہے کہ اس کے فعل پر اعتراض کرے (۴) اگر وہ ضرورت کے وقت ہدایت نہ بھیجے اور لوگوں کو سزا دے جو گمراہ ہو گئے ہوں، تو یہ ظلم ہو گا اور خدا ظالم نہیں (۵) مسلمانوں کی اصلاح کے لئے اس قسم کے آدمی ہمیشہ بھیجتے رہنے کا جو مطالب قرآنیہ کی حفاظت کر نے والے ہوں ، خاص طور پر وعدہ
(<<) دعوة الامير ہے (۶) احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کم سے کم ہر صدی کے سر پر ضرور ظاہر ہوں گے.اے بادشاہ افغانستان! اب اللہ تعالیٰ آپ کے سینے کو اپنی باتوں کے قبول کرنے کے لئے کھول دے! آپ غور فرمائیں کہ کیا اس وقت زمانہ کسی مصلح ربانی کا محتاج ہے یا نہیں؟ احادیث تو یہ بتاتی ہیں کہ عام طور پر ایک صدی کے سر پر اس قسم کی احتیاج ضرور پیدا ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی شخص مبعوث ہو کر مطالب قرآنیہ بیان کرے اور دین اسلام کی صحیح حقیقت لوگوں پر آشکار کرے اور اس وقت صدی کا سر چھوڑ کر صدی نصف کے قریب گزر چکی ہے، لیکن ہم ان احادیث کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں اور صرف واقعات کو دیکھتے ہیں کہ کیا اس وقت کسی مصلح کی ضرورت ہے یا نہیں.اگر اس وقت مسلمانوں اور دیگر اقوام کی حالت ایسی عمدہ ہے کہ وہ کسی ربانی مصلح کی محتاج نہیں تو ہمیں کسی مدعی کے دعوے پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں لیکن اگر اس کے برعکس مسلمانوں کی حالت پکار پکار کر کہ رہی ہو کہ اگر اس وقت کسی مصلح کی ضرورت نہیں تو پھر کبھی بھی کسی مصلح کی ضرورت نہیں ہوئی، یا اگر دشمنان اسلام کی دشمنی اور اسلام کے مٹانے کی کوشش حد سے بڑھی ہوئی ہو تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی شخص آنا چاہئے جو اسلام کو پھر اس کی اصلی شکل میں پیش کر کے دشمنان اسلام کے حملوں کو پسپا کرے اور مسلمانوں کو سچا اسلام سمجھا کر اور ان کے دلوں میں دین کی محبت پیدا کر کے اسلام کی قوت احیاء کو ظاہر کرے.ان سوالوں کے جواب کہ اس وقت مسلمانوں کی حالت کیسی ہے اور ان کے دشمنوں کی چیرہ دستی کس حد تک بڑھی ہوئی ہے، میرے نزدیک دو نہیں ہو سکتے ، ہر ایک شخص جو کسی خاص مصلحت کو مد نظر رکھ کر حقیقت کو چھپانا نہیں چاہتا یا انسانیت سے اس قدر دور نہیں ہو گیا کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کرنے کی بھی قابلیت نہیں رکھتا، اس امر کا اقرار کئے بغیر نہیں
دعوة الامير رہ سکتا کہ اس وقت مسلمان عملاً اور عقید تا اسلام سے بالکل دور جا پڑے ہیں اور اگر کسی زمانے کے لوگوں کے حق میں یہ آیت لفظاً لفظاً صادق آسکتی ہے کہ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان: ۳۱) تو وہ اس زمانے کے لوگ ہیں.آج یہ سوال نہیں رہا کہ لوگوں نے کونسی بات اسلام کی چھوڑی ہے بلکہ سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ اسلام کی کونسی بات مسلمانوں میں باقی رہ گئی ہے.کسی نے سچ کہا ہے کہ ”مسلمان در گورو مسلمانی در کتاب.اسلام کا نشان صرف قرآن کریم اور احادیث صحیحہ اور کتب آئمہ میں ملتا ہے.اس کا نشان لوگوں کی زندگیوں میں کہیں نہیں ملتا.اول تو لوگ تعلیم اسلام سے واقف ہی نہیں اور اگر واقف ہونا بھی چاہیں تو ان کے لئے اسلام سے واقف ہونا قریباً ناممکن ہو گیا ہے کیونکہ اسلام کی ہر چیز ہی مسخ کر دی گئی ہے.اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کے متعلق ایسے عقائد تراشے گئے ہیں کہ جن کو تسلیم کر کے سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ (بخاری کتاب التوحید باب قول الله تعالى وَنَضَعْ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ ليوم القيمة) زبان سے نکالنا ایک راستباز انسان کے لئے مشکل ہے.ملائکہ کی نسبت ایسی باتیں بنائی گئی ہیں کہ الامان ! وہ ہستیاں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (سورۃ النحل: ۵۱) کہیں ان کو خدا پر اعتراض کرنے والا قرار دیا جاتا ہے.کہیں انسانی بھیس میں اتار کر نا پاک عورتوں کا عاشق بنایا جاتا ہے.نبیوں کی طرف جھوٹ اور گناہ کی نسبت کر کے ان کی ذات سے جو رشتہ محبت ہونا چاہئے ، اسے ایک ہی وار سے کاٹ دیا جاتا ہے اور کلام الہی کو شیطانی دست بُرد کا شکار بنا کر اسے بالکل ہی ساقط از اعتبار کر دیا جاتا ہے.شراب اور جنت اور دوزخ کی وہ کیفیت بیان کی جاتی ہے کہ یا تو یہ عقائد شاعرانہ نازک خیالی بن جاتے ہیں یا پھر عجیب مضحکہ خیز کہانیاں ہو جاتے ہیں.
(<9) دعوة الامير دوسرے انبیاء تو خیر دور کے لوگ تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کہیں زینب کی محبت کا قصہ اور کہیں چوری چوری ایک لونڈی سے تعلق کرنے کا واقعہ اور اس قسم کے اور بعید از اخلاق واقعات کو منسوب کر کے آپ کی کامل اور حامل اخلاق فاضلہ ذات کو بدشکل کر کے دکھایا جاتا ہے اور كَانَ خَلَقَهُ الْقُرْآنَ(مجمع البحار مؤلفه شیخ حمد طاھر جلد ۱ صفحہ ۳۷۲، مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ ۹۱) کی اس شہادت کو جو آپ کی سب سے زیادہ محرم راز (حضرت عائشہ) کی شہادت ہے، نظر انداز کیا جاتا ہے.نسخ کا مسئلہ ایجاد کر کے اور قرآن کریم جیسی کامل کتاب میں اپنے دل سے اختلاف نکال کر اس کی بہت سی آیات کو بلا شارع کی نص کے منسوخ قرار دیا جاتا ہے اور اس طرح ایک فکر کرنے والے آدمی کے لئے اس کی کوئی آیت بھی قابل عمل اور قابل اعتبار باقی نہیں چھوڑی جاتی.ایک وفات یافتہ موسوی نبی کو واپس لا کر امت محمدیہ کی نا قابلیت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے کسی کا اظہار کیا جاتا ہے.یہ تو عقائد کا حال ہے، اعمال کی حالت بھی کچھ کم قابل افسوس نہیں.پچھتر ۷۵ فی صدی نماز روزہ کے تارک ہیں، زکوۃ اول تو لوگ دیتے ہی نہیں اور جو دیتے ہیں ان میں سے جو اپنی خوشی سے دیتے ہوں وہ شاید سو میں سے دو نکلیں.حج جن پر فرض ہے وہ اس کا نام نہیں لیتے اور جن کے لئے نہ صرف یہ کہ فرض نہیں بلکہ بعض حالات میں ناجائز ہے وہ اپنی رسوائی اور اسلام کی بدنامی کرتے ہوئے حج کے لئے جا پہنچتے ہیں اور جو تھوڑے بہت لوگ ان اعمال کو بجالاتے ہیں وہ اس طرح بجالاتے ہیں کہ بجائے ان احکام کی اصل غرض پوری ہونے کے ان کے لئے تو شاید وہ احکام موجب لعنت ہوتے ہوں گے، دوسروں کے لئے بھی باعث ذلت ہوتے ہیں، نماز کا ترجمہ تو عربی بولنے والے ملکوں کے سوا شاید ہی کوئی
دعوة الامير جانتا ہو، مگر وہ بے معنی نماز بھی جو لوگ پڑھتے ہیں، اسے اس طرح چھٹی سمجھ کر پڑھتے ہیں کہ رکوع اور سجدے میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور نماز میں اپنی زبان میں دعا مانگنا تو کفر ہی سمجھا جانے لگا ہے.روزہ اول تو لوگ رکھتے نہیں اور جولوگ رکھتے ہیں تو جھوٹ اور غیبت سے بجائے موجب ثواب ہونے کے وہ ان کے لئے موجب عذاب ہوتا ہے.ورثہ کے احکام پس پشت ڈالے جاتے ہیں.سود جس کا لینا خدا سے جنگ کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، علماء کی مدد سے ہزاروں حیلوں اور بہانوں کے ساتھ اس کی وہ تعریف بنائی گئی ہے اور اس کے لئے ایسی شرائط لگادی ہیں کہ اب شاید ہی کوئی سود کی لعنت سے محفوظ ہو، مگر باوجود اس کے مسلمانوں کو رفاہت اور دولت حاصل نہیں جو غیر اقوام کو حاصل ہے.اخلاق فاضلہ جو کسی وقت مسلمانوں کا ورثہ اور اس کے حق سمجھے جاتے تھے اب مسلمانوں سے اس قدر دور ہیں جس قدر گفر اسلام سے کسی زمانے میں مسلمانوں کا قول نہ ٹلنے والی تحریر سمجھا جاتا تھا اور اس کا وعدہ ایک نہ بدلنے والا قانون ، مگر آجکل مسلمان کی بات سے زیادہ کوئی اور غیر معتبر قول نہیں ملتا اور اس کے وعدے سے زیادہ اور کوئی بے حقیقت سے نظر نہیں آتی.وفا بے نام ہوگئی.راستی کھوئی گئی.حقیقی جرات مٹ گئی.غداری، جھوٹ ، خیانت اور بزدلی اور تہور نے اس کی جگہ لے لی.نتیجہ یہ ہوا کہ سب دنیا دشمن ہے.تجارتیں تباہ ہوگئی ہیں ، رعب مٹ گیا ہے.علم جو کسی وقت مسلمانوں کا رفیق تھا اور ان کی رکاب ہاتھ سے نہ چھوڑتا تھا آج ان سے کوسوں دور بھاگتا ہے.صوفیاء کا حال خراب ہے.وہ دین کو بے دینی اور قانون کو اباحت بنارہے ہیں ، علماء شقاق ومخالفت پھیلانے کے علاوہ اپنے اقوال کو خدا اور رسول کے اقوال ظاہر کر کے اسلام اور مسلمانوں کی جڑیں کاٹنے میں مشغول ہیں.امراء گو دوسری اقوام کے امراء
دعوة الامير کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے ،مگر پھر بھی اپنی تھوڑی سی پونجی اور دولت پر اس قدر مغرور ہیں کہ دین سے ان کا کوئی سروکار ہی نہیں، دینی کاموں میں حصہ لینا تو درکنار، ان کے دلوں میں دین کا ادب تک باقی نہیں رہا.یورپ کے امراء میں مسیحیت کے مبلغ مل سکتے ہیں مگر مسلمان امراء میں دین کے ابتدائی مسائل جاننے والے بھی بہت کم ملیں گے، حکام کا یہ حال ہے کہ رشوت ستانی اور ظلم ان کا شیوہ ہے ، وہ حکومت کو خدمت کا ایک ذریعہ نہیں سمجھتے بلکہ خدائی کا کوئی جزو خیال کرتے ہیں.بادشاہ اپنی عیاشی میں مست ہیں اور وزراء غداری اور خیانت میں.عوام الناس وحشیوں سے بدتر ہو رہے ہیں اور لاکھوں ہیں جو تر جمہ جانا تو الگ رہا کلمہ توحید اور کلمہ رسالت کے الفاظ تک منہ سے ادا نہیں کر سکتے.وہ اسلام جو ایک اثر دھے کی طرح دیگر ادیان کو کھا تا جارہا تھا آج وہ مردہ کی طرح پڑا ہے اور کتے اور چیلیں اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں، اپنے کاموں اور اپنی ضروریات کے لئے سب کو روپیل جاتا ہے مگر دین کی ضروریات اور اس کی اشاعت کے لئے ایک پیسہ نکالنا دو بھر ہے.بیہودہ بکواس اور لطیفہ گوئیوں اور دوستوں کی مجالس مقرر کرنے کے لئے کافی وقت ہے مگر خدا کا کلام پڑھنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے ایک منٹ کی بھی فرصت نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو نماز نہ پڑھنے والے کو نہیں ، جماعت میں نہ شریک ہونے والے کو نہیں بلکہ صرف عشاء اور صبح کی جماعت میں شریک نہ ہونے والے کو منافق قرار دیتے ہیں اور باوجو د رحم مجسم ہونے کے فرماتے ہیں کہ وَالَّذِی نَفْسِی بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَمْرَ بِحَطَبٍ فَيَحْطَبْ ثُمَّ أَمْرَ بِالصَّلٰوةِ فَيَؤَذَنَ لَهَا ثُمَّ أَمْرَ رَجُلا فَيَؤُمُ النَّاسَ ثُمَّ أَخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ فَأَحَزِقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ (بخاری کتاب الاذان باب وجوب صلوۃ الجماعة ) مجھے اسی خدا کی قسم جس کے
۴۸۲ دعوة الامير ہاتھ میں میری جان ہے میرا دل چاہتا ہے کہ لکڑیاں اکٹھی کروں، پھر نماز کے لئے اذان کا حکم دوں پھر اپنی جگہ کسی اور کو امام مقرر کروں پھر ان لوگوں کے گھروں پر جا کر جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے مکینوں سمیت مکانوں کو جلا دوں لیکن آج مسجد میں قدم رکھنا تو بڑی بات ہے عیدین کے سوا کروڑوں مسلمانوں کو نماز کی ہی فرصت نہیں ملتی اور ان میں سے بھی بہت سے ایسے ہیں جو بلا شروط نماز کے پورا کرنے کے محض دکھاوے کے لئے نماز شروع کر دیتے ہیں اور وضو کے مسائل تک سے بھی واقف نہیں ہوتے.خلاصہ کلام یہ کہ اسلام آج لا وارث ہورہا ہے، ہر ایک کا کوئی نہ کوئی وارث ہے اور اس کا کوئی وارث نہیں.بالفاظ امام الزمان مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی حالت ان دنوں یہ ہے:.ے سزد گر خوں ببارد دیدہ ہر اہل دی مسلمیں بر پریشاں حالی اسلام قحط ا و دین حق را گردش آمد صعبناک و سهمگیں سخت شورے اوفتاد اندر جہاں از کفر وکیں آنکه نفس اوست از هر خیر و خوبی بے نصیب می تراشد عیب با در ذات خير المرسلیں آنکه در زندان ناپاکی ست محبوس و اسیر هست در شان امام پاکبازان نکتہ چیں تیر بر معصوم می بارد خبیث بد گہر آسمان را می سزد گر سنگ بارد بر زمیں
۸۳ دعوة الامير پیش چشمان شما اسلام در خاک اوفتاد چیست عذرے پیش حق اے مجمع المتنعمين ہر طرف کفر است جو شاں ہیچو افواج یزید دین حق بیمار و بے کس ہنچو زین العابدین مردم ذی مقدرت مشغول عشرتہائے خویش خرم و خنداں نشسته بابتان نازنیں عالمان را روز و شب با هم فساد از جوش ہر زاہداں غافل سراسر از ضرورت ہائے دیں کسے از بهر نفس دون خود طرفے گرفت طرفے دیں خالی شدو ہر دشمنے جست از کمیں ایس زمانے آنچناں آمد کہ ہر ابن الجهول از سفاهت می کند تکذیب ایں دین صد ہزاراں ابلہاں ازدیں بروں و برندد رخت متیں صد ہزاراں جاہلاں گشتند صید الماکرین بر مسلماناں ہمہ ادبار زین ره اوفتاد کز پینے دیں ہمت شاں نیست با غیرت قریں گر بگردد عالمی از راه دین ازره غیرت نمی جنبند ہم مصطف جنبند ہم مثل جنیں
ایشاں غرق ہر دم دررہ دنیائے دوں مال ایشاں غارت اندر راه نسوان و بنیں ہر گجا در مجلسے فسق است ایشاں صدر شاں هر کجا هست از معاصی حلقه ایشاں نگیں با خرابات آشنا بیگانه از کوئی ہدی نفرت ت از ارباب دیں با مے پرستاں ہمنشیں این دو رو فکر دین احمد مغز جان ما گداخت کثرت اعدائے ملت قلت انصار دیں اے خدا زود آ و برما آب نصرت با بیار آتشیں یا مرا بردار یا رب زیں مقام اے خدا نور ہدی از مشرق رحمت برار گھریاں را چشم گن روشن از آیات مبین چون مرا بخشیده صدق اندریں سوز و گداز نیست امیدم که ناکام بمیرانی دریں کاروبار صادقاں ہرگز نماند نماند ناتمام صادقان را دست حق باشد نہاں در آستین در ثمین فارسی صفحه ۹۶ طبع بار اول ضیاء الاسلام پریس ) دعوة الامير غرض زمانے کی حالت پکار پکار کر کہ رہی ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف
(10) دعوة الامير سے کوئی مصلح آنا چاہئے اور وہ بھی بہت بڑی شان کا، جو اسلام کو اپنے قدموں پر کھڑا کرے اور گفر کا دلائل قاطعہ سے مقابلہ کرے اور براہین کی تلوار سے اس کو کاٹے اور صدی کے سر پر تمام دنیا میں سے صرف ایک ہی شخص نے اسلام کی حمایت کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کئے جانے کا دعویٰ کیا ہے یعنی بانی سلسلہ احمدیہ نے.اس لئے ہر دانا اور عقلمند کا کام ہے کہ ان کے دعوے پر غور کرے اور اس کو سرسری نظر.دیکھ کر منہ نہ پھیر لے ورنہ اسے ایک قدیم قانون الہی کا منکر ہونا پڑے گا اور خدا تعالیٰ کے حضور اپنی غفلت کا جوابدہ ہونا پڑے گا.اے امیر ! أَيَّدَكَ اللهُ بِنَصْرِهِ الْعَزِيزِ بعض لوگ اس جگہ شبہ پیدا کیا کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ کامل وجود تھے اس لئے آپ کے بعد اب کسی مصلح اور راہنما کی ضرورت نہیں.اب قرآن کریم ہی مصلح ہے اور اس کی قوت قدسیہ ہی راہنما ہے.یہ خیال ان لوگوں کا بظاہر تو نہایت خوبصورت نظر آتا ہے مگر اس پر غور کیا جائے تو قرآن کریم اور حدیث اور عقل اور مشاہدات کے صریح خلاف معلوم ہوتا ہے.قرآن اور حدیث کے خلاف اس لئے کہ ان میں صاف طور پر آئندہ زمانوں میں مجددین اور مامورین کی بعثت کی خبر دی گئی ہے.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مجددکا مبعوث ہونا یا مامور کا کھڑا کیا جانا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل ہونے کے خلاف ہوتا تو آپ کو سب نبیوں کا سردار بنانے والا خدا اور کمال تک پہنچانے والا آقا خود ہی کیوں آئندہ زمانے میں مجددین اور مامورین کی بعثت کا وعدہ دیتا.کیا وہ اپنے کام کو آپ تو ڑتا اور اپنے قول کو آپ رد کرتا ؟ اور پھر کیوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ زمانے میں مجد دین اور مامورین کی آمد کی اطلاع دیتے ؟ کیا آپ کے کمال سے آپ کی نسبت ہم زیادہ واقف ہیں کہ آپ تو اپنے
دعوة الامير بعد بہت سے مجددین کی خبر دیں اور بعض مامورین کی آمد کی اطلاع دیں لیکن ہم اسے آپ کی شان کے خلاف سمجھیں.اور یہ خیال عقل کے اس لئے خلاف ہے کہ عقل ہمیں بتاتی ہے کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مجدد یا مامور کو نہیں آنا تھا تو چاہئے تھا کہ مسلمانوں کی حالت کبھی بھی خراب نہ ہوتی اور وہ ہمیشہ نیکی اور تقویٰ پر قائم رہتے لیکن واقعات اس کے صریح خلاف ہیں.عقل اس امر کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ مسلمانوں میں خرابی تو رُونما ہو اور ان کی حالت بد سے بدتر ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مصلح نہ آئے.اگر اسلام سے اسی قسم کا سلوک ہونا ہے تو یہ اس بات کی علامت نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ کامل وجود ہیں بلکہ اس امر کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلام کو ہلاک کرنا چاہتا ہے.اگر آئندہ مجددین اور مامورین کا سلسلہ بند کر دیا گیا ہے تو اس کی ظاہری علامت یہ ہونی چاہئے تھی کہ مسلمان گمراہی اور ضلالت سے بالکل محفوظ ہو جاتے اور آج بھی ان کو ہم ویسا ہی دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہ کے وقت میں لیکن جب روحانی تنزل موجود ہے تو ضروری ہے کہ روحانی ترقی کے سامان بھی موجود ہوں.دوم یہ کہ اگر بوجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل ہونے کے اب آپ کے مظاہر نہیں آسکتے تو اللہ تعالیٰ جو تمام کمالات کا سرچشمہ ہے اور حی و قیوم ہے اس کے مظاہر دنیا میں کیوں آتے ہیں ، اصل بات یہ ہے کہ جو چیز آنکھوں سے اوجھل ہوتی ہے اسے یاد دلانے کے لئے اور اس کا اثر دلوں میں ثابت کرنے کیلئے مظاہر کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل ہونے کے باوجود آپ کے بعد آپ کے مظاہر اور بروزوں کی ضرورت ہے جولوگوں کو آپ کی یاد دلائیں اور آپ کے
دعوة الامير ۸۷ نمونے کو قائم کریں.مشاہدے کے یہ امر اس لئے خلاف ہے کہ ہمیں اس تیرہ سو سال کے عرصہ میں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد گزرا ہے بیسیوں ایسے آدمی نظر آتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف تھے اور جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ تجدید دین کے لئے کھڑے کئے گئے ہیں اور یہ لوگ ہمیں اسلام کا اعلیٰ نمونہ نظر آتے ہیں اور اسلام کی اشاعت اور اس کے قیام میں ان لوگوں کا بڑا ہا تھ معلوم ہوتا ہے.جیسے کہ حضرت جنید بغدادی ، حضرت سید عبد القادر جیلانی ، حضرت شہاب الدین سہر وردی ، حضرت بہاؤالدین نقش بندی، حضرت محی الدین ابن عربی، حضرت خواجہ معین الدین چشتی ، حضرت شیخ احمد سرہندی مجددالف ثانی ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی وَغَيْرَهُمْ رَحِمَهُمُ اللهُ اَجْمَعِینَ.پس ایسے لوگوں کے وجود اور ان کے کام کو دیکھتے ہوئے ہم کس طرح تسلیم کر سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مصلح کی ضرورت نہیں.حق یہ ہے کہ آپ کے بعد بھی مصلح آسکتے ہیں اور آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے اور اس وقت حالات زمانہ ایک بہت بڑے مصلح کی خبر دے رہے ہیں اور چونکہ اس قسم کے مصلح ہونے کے مدعی حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود ہی ہیں ، اس لئے یہ امران کے صدق دعویٰ کی ایک بہت بڑی دلیل ہے.000 00000 000
(M) دعوة الامير دوسری دلیل شہادت حضرت سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پہلی دلیل سے تو یہ ثابت ہوتا تھا کہ یہ زمانہ ایک مصلح کو چاہتا ہے اور چونکہ اور کوئی مدعی اسلام کی شوکت کے اظہار کا نہیں ہے اس لئے حضرت اقدس مرزا صاحب کے دعوے پر غور کرنے پر ہم مجبور ہیں لیکن چونکہ حضرت اقدس کا دعویٰ صرف ایک مصلح ہونے کا نہیں ہے بلکہ آپ کا دعوی موعود مصلح ہونے کا ہے یعنی آپ کا دعوی ہے کہ آپ مسیح موعود اور مہدی مسعود ہیں اس لئے اس دعویٰ کی تائید مزید کے لئے میں ایک اور شہادت پیش کرتا ہوں اور یہ شہادت سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور بنی نوع انسان میں سے آپ کی شہادت سے زیادہ اور کس کی شہادت قابل قبول ہو سکتی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ مسیح کی آمد ثانی کا عقیدہ اسلامی زمانے سے شروع نہیں ہوا بلکہ یہ عقیدہ امت موسویہ میں سینکڑوں سال بعثت محمدیہ سے پہلے کا رائج ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسلام نے اس عقیدے کے بعض ایسے امور کو منضم کر دیا ہے جن کی وجہ سے یہ عقیدہ اسلام کے اہم عقائد میں شامل ہو گیا ہے اور وہ باتیں یہ ہیں : ا مسیح موعود کے زمانے میں ایک مہدی کے آنے کی خبر دی گئی ہے جسے گو دوسری احادیث میں لَا الْمَهْدِئُ اِلَّا عِيسى (ابن ماجہ کتاب الفتن باب شرة الرمان مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ ء ) کہہ کر مسیح موعود کا ہی وجود قرار دیدیا گیا ہے ، مگر اس پیشگوئی کی وجہ سے مسلمانوں کو مسیح کے وجود سے ایسی قومی وابستگی ہو گئی ہے جیسے کہ ایک اپنے ہم ملت بزرگ سے ہونی چاہئے.
(19) دعوة الامير ۲ میسیج کی آمد کو اسلام کی ترقی کا ایک نیا دور قرار دیا گیا ہے اور اسی کی آمد کے وقت تک دیگر ادیان پر غلبہ اسلام کو ملتوی کیا گیا ہے.۳ مسیح اور مہدی کو ایک قرار دیکر مسیح کی آمد کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد قرار دیا گیا ہے اور اس کے دیکھنے والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور اس طرح عاشقانِ رسالت مآب کے دل میں مسیح“ کا ولولہ انگیز شوق پیدا کر دیا گیا.۴.ایک خطرناک اور پر آشوب زمانہ جس کی خبر نہایت منذر الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی اور جو اپنے ہیبت ناک اثرات سے اسلام کی جڑوں کو ہلا دینے والا ثابت ہونے والا تھا.اس کی آفات کا ازالہ اور آئندہ ہمیشہ کے لئے اسلام کے محفوظ کر دینے کا کام مسیح موعود کے سپر د بتایا گیا تھا.پس مسیح موعود کا انتظار مسلمانوں کو اسی طرح ہو رہا تھا جیسا کہ ایک رحمت کے فرشتے کا ہونا چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ کہ كَيْفَ تَهْلِكُ أُمَّةً أَنَا فِي أَوَّلِهَا وَ الْمَسِيحُ فِي آخِرِهَا (كنز العمال مؤلّف علامه علاؤ الدين على المتقى بن حسام الدين الهندى البرهان النوری المتوفی ۹۷۵ھ ) جلد ۱۴ صفحه ۲۶۹ روایت ۳۸۶۸۲ مطبوعہ حلب ۱۹۷۵ء میں المسیح “ کی بجائے عیسی بن مریم کے الفاظ ہیں) وہ امت کس طرح ہلاک ہو سکتی ہے جس کے شروع میں میں ہوں اور آخر میں مسیح ہوگا.یہی خواہانِ اسلام کو مسیح علیہ السلام کی آمد کے لئے بے تاب کر رہے تھے کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ اس کی آمد کے بعد اسلام چاروں طرف سے مضبوط دیواروں میں گھر کر شیطانوں کے حملوں سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائے گا.
(9.) دعوة الامير ان چاروں باتوں نے مل کر مسیح کی آمد کے مسئلے کو مسلمانوں کے لئے ایک اصولی سوال بنا دیا تھا.اور ممکن نہ تھا کہ ایسا زمانہ جو ایک طرف تو عاشقانِ رسالت مآب کو اپنے محبوب کے روبرو کرنے والا تھا، خواہ ظلیت اور مماثلت کے پردے ہی میں سہی اور دوسری طرف اسلام کو حشر انگیز صدمات سے نکال کر حفاظت اور امن کے مقام پر کھڑا کرنے والا تھا، بلا کافی پتے اور نشان دہی کے چھوڑ دیا جاتا.یہ تو نہ کبھی ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے کہ ماموروں اور مرسلوں کے زمانے اور ان کی ذات کی طرف ایسے الفاظ میں رہنمائی کی جائے کہ گویا متلاشی کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ دے دیا جائے کیونکہ اگر اس طرح کیا جاتا تو ایمان بے فائدہ ہو جاتا اور کافر اور مومن کی تمیز مٹ جاتی.ہمیشہ ایسے ہی الفاظ میں ماموروں کی خبر دی جاتی ہے جن سے ایمان اور شوق رکھنے والے ہدایت پالیتے ہیں.اور شریر اپنی ضد اور ہٹ کے لئے کوئی آڑ اور بہانہ تلاش کر لیتے ہیں.چڑھے ہوئے سورج کا کون انکار کر سکتا ہے؟ مگر اس پر ایمان لانے کا ثواب اور اجر بھی کون دیتا ہے؟ پس ایک حد تک راہنمائی اور ایک حد تک اختفاء ضرور کیا جاتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے.مسیح موعود کے زمانے کی خبروں میں بھی اسی اصل کو مد نظر رکھا گیا ہے.اس کے زمانے کی خبریں ایسے الفاظ میں دی گئی ہیں جس قسم کے الفاظ میں تمام گزشتہ انبیاء کے متعلق خبریں دی جاتی رہی ہیں، مگر پھر بھی ایک سچے متلاشی اور صاحب بصیرت کے لئے وہ ایک روشن نشان سے کم نہیں.وہ جس نے کسی ایک نبی کو بدلائل مانا ہواور صرف نسلی ایمان پر کفایت کئے نہ بیٹھا ہو، اس کے لئے ان نشانات سے فائدہ اٹھانا کچھ بھی مشکل نہیں ، مگر وہ لوگ جو بظاہر سینکڑوں رسولوں پر ایمان لاتے ہیں لیکن درحقیقت ایک رسول کو بھی انہوں
(91) دعوة الامير نے اپنی تحقیق سے نہیں مانا، ان کے لئے کسی راستباز کا ماننا خواہ وہ کتنے ہی نشان اپنے ساتھ کیوں نہ رکھتا ہو ، نہایت مشکل ہے.ان لوگوں کا اپنا ایمان در حقیقت کوئی وجود نہیں رکھتا، ان کا ایمان وہی ہوتا ہے جو ان کے علماء یا مولوی کہہ دیں یا جو باپ دادا کی روایات ان کے کانوں تک پہنچی ہوں ، پس چونکہ انہوں نے کسی ایک رسول کو بھی اس کی اپنی شکل میں نہیں دیکھا ہوتا.رسول کا پہچاننا ان کے لئے ناممکن ہے اور اسی وقت یہ کسی رسول کو دیکھ سکتے ہیں جبکہ پہلے اپنی نظر کی اصلاح آسمانی ہدایت کے سرمہ سے کرلیں اور انسانی اقوال اور رسوم کی تقلید کے خمار کو اپنے سر سے دور کر دیں.اس مختصر تمہید کے بعد میں ان نشانات کو بیان کرتا ہوں جو مسیح موعود کے زمانے کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں.میرے نزدیک اگر کوئی ان نشانات پر بے تعصبی سے غور کریگا تو اس کے لئے مسیح موعود کے زمانے کی تعیین کر لینا ذرا بھی مشکل نہ رہے گا مگر پیشتر اس کے کہ ان نشانات پر غور کیا جائے اس امر کا سمجھ لینا ضروری ہے کہ امت اسلامیہ کے اندر تفرقہ رونما ہونے کے زمانے میں بہت سے لوگوں نے اپنے مقاصد کے حصول کی غرض سے جھوٹی احادیث بھی بہت سی بنا کر شائع کر دی ہیں جن سے ان کی غرض یہ ہے کہ کسی طرح ہمارا فرقہ سچا ثابت ہو جائے مثلاً بہت سی احادیث ایسی ملیں گی جن میں مہدی کے زمانے کی خبر دی گئی ہے مگر ان کے الفاظ اس قسم کے ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ ماضی کے کسی اختلاف کا فیصلہ اپنے حق میں کرانا ان سے مقصود ہے.ایسی روایات میں سے گو بعض سچی بھی ہوں مگر پھر بھی ان کے متعلق محقق کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے اور کم سے کم ان احادیث کی تائید یا تردید پر اس کے دعوے کی بنیاد نہیں ہونی چاہئے.مثلاً بہت سی احادیث بنوعباس کے زمانے کی اس قسم کی ملتی ہیں
۹۲ دعوة الامير جن میں بظاہر تو مہدی کے زمانے کی علامات بتائی گئی ہیں ،مگر در حقیقت بتایا یہ گیا ہے کہ عباسیوں کی تائید میں خراسان میں جو بغاوتیں ہوئی تھیں، وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھیں اور اس کی مرضی کے مطابق تھیں.ان احادیث کا بطلان واقعات نے آپ ہی ثابت کر دیا ہے.اس زمانے پر ایک ہزار سال سے زائد گزر گئے، مگر ان علامات کے بموجب کوئی مهدی ظاہر نہ ہوا، اسی طرح اور بہت سی روایات ہیں جن میں علامات مہدی کو پچھلے واقعات کے ساتھ اس طرح خلط کر کے بیان کیا گیا ہے کہ جب تک ان واقعات کو جو بطور علامات مہدی بیان کئے گئے ہیں، لیکن ہیں زمانہ گزشتہ کئے الگ نہ کر دیا جائے حقیقت حال سے آگا ہی نہیں ہو سکتی ، ان لوگوں نے جو تاریخ اسلام سے ناواقف تھے، ان احادیث سے بہت دھوکا کھایا ہے اور آئندہ زمانے میں بعض ایسے امور کے وقوع کے منتظر رہے ہیں جو ان احادیث کے بنائے جانے سے بھی پہلے واقعہ ہو چکے ہیں اور ان کو علامات مہدی میں شامل کرنے کی وجہ صرف اپنے اپنے فرقے کی سچائی ثابت کرناتھی.پس علامات مہدی پر غور کرتے ہوئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان علامات کو الگ کر لیں جو کسی واقعہ کی طرف اشارہ نہیں کرتیں ، تاکہ اس گڑھے میں گرنے سے بچ جاویں جو بعض خود غرض لوگوں نے اپنی اغراض کو پورا کرنے کے لئے کھودا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا تعالیٰ کی بے انتہاء رحمتیں اور درؤ دہوں ، آپ نے مسیح موعود اور مہدی معہود کی علامات بیان کرتے وقت ایک ایسے طریق کو مد نظر رکھا ہے جس کو یادرکھتے ہوئے انسان بڑی آسانی سے دھوکا دینے والے کے دھو کے سے بیچ جاتا ہے اور وہ یہ کہ آپ نے مسیح و مہدی کے زمانے کے متعلق جو علامات بتائی ہیں ان کو زنجیر کے طور پر بیان کیا ہے جس کی وجہ سے ملاوٹ کرنے والے کی ملاوٹ کا پورا پتہ لگ
(ar) دعوة الامير جاتا ہے اگر آپ اس قسم کی مثلاً علامت بتاتے کہ اس کا یہ نام ہوگا اور فلاں نام اس کے باپ کا ہوگا تو بہت سے لوگ اس نام کے دعوے کرنے کے لئے تیار ہو جاتے.پس آپ نے اس قسم کی علامتیں بیان کرنے کے بجائے جن کا پورا کرنا انسانوں کے اختیار میں ہے اس قسم کی علامتیں بیان فرمائی ہیں جن کا پورا کرنا نہ صرف یہ کہ انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ وہ سینکڑوں سال کے تغیرات کے بغیر ہو ہی نہیں سکتیں.پس کوئی انسان بلکہ انسانوں کی ایک جماعت نسلاً بعد نسل کوشش کر کے بھی ان حالات کے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہوسکتی.دوسری بات علامات مہدی کے بیان کرنے میں یہ مد نظر رکھی گئی ہے کہ بعض علامتیں ان میں ایسی بیان کر دی گئی ہیں جن کی نسبت یہ بیان فرما دیا گیا ہے کہ یہ علامات سوائے مہدی کے زمانے کے اور کسی وقت اس کی آمد سے پہلے ظاہر نہ ہوں گی.پس ان اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے جب وہ زمانہ ہمیں معلوم ہو جائے جس کے ساتھ مسیح موعود اور مہدی معہود کا کام متعلق ہے اور جب وہ علامات پوری ہوجائیں جن کی نسبت بتایا گیا ہے کہ سوائے مہدی کے زمانے کے کسی وقت ان کا ظہور نہیں ہوسکتا اور جب زمین و آسمان کے بہت سے تغیرات جن کا پیدا کرنا انسان کے اختیار میں نہیں اور وہ بطور علامات مہدی کے بیان کئے گئے ہیں ظاہر ہو جائیں تو اس وقت کو مہدی و مسیح کا زمانہ سمجھ لینے میں ہمارے لئے کوئی بھی مشکل نہیں.اس وقت اگر بعض علامات ایسی معلوم ہوں جو اس وقت تک پوری نہیں ہوئیں تو ہمیں دو باتوں میں سے ایک کو تسلیم کرنا ہوگا ، یا یہ کہ وہ علامات جو پوری نہیں ہو ئیں ، علامات مہدی تھیں ہی نہیں بلکہ بعض بے رحم لوگوں کی دست اندازی کے سبب سے ان کو علامات مہدی میں شامل کر دیا گیا تھا یا یہ کہ ان کے معنی سمجھنے میں ہم سے غلطی ہوگئی ہے درحقیقت وہ تعبیر طلب تھیں.
۹۴ دعوة الامير اس کے بعد میں یہ بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو علامات مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانے کے متعلق بیان فرمائی ہیں ان پر ایک ادنی تدبر سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ فرداً فرداً مسیح و مہدی کے زمانے کی علامتیں نہیں ہیں بلکہ تمام مل کر ایک کامل اور ذوالوجوہ علامت بنتی ہیں.مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ مہدی کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کے زمانے میں امانت اُٹھ جائے گی (کنز العمال جلد ۱۴ صفحه ۲۵ ۲ روایت ۴۸۴۹۵ مطبوعه حلب ۱۹۷۵ء ) یا یہ کہ اس وقت جہالت ترقی کر جائے گی.(ابن ماجہ کتاب الفتن باب اشراط الساعة ) اب اگر ان علامات کو مستقل علامتیں قرار دیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ جب امانت دنیا سے اُٹھ جائے ، اس وقت مہدی کوضرور ظاہر ہو جانا چاہئے یا علم کے اُٹھ جانے پر مہدی کوضرور ظاہر ہو جانا چاہئے حالانکہ اس تیرہ سو (۱۳۰۰) سال کے عرصے میں مسلمانوں پر کئی اُتار چڑھاؤ کے زمانے آئے ہیں.کبھی ان میں سے علم اٹھ گیا، کبھی امانت لیکن مہدی ظاہر نہیں ہوا.پس معلوم ہوا کہ یہ علامتیں مستقل علامتیں نہیں ہیں، بلکہ وہ سب علامتیں مل کر جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر بیان فرمایا ہے نہ کہ بعض لوگوں نے اپنے دل سے بنا کر انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا ہے مہدی موعود کے زمانے کی علامتیں ہیں.ایک ایک علامت اور زمانوں میں بھی پائی جاسکتی ہے مگر متعدد علامتیں مل کر مہدی کے زمانے کے سوا اور کسی زمانے میں نہیں پائی جاسکتیں.کسی زمانے کے پہچانے کا بھی وہی طریق ہے جو کسی ایک آدمی کے پہچانے کا طریق ہے.جب ہمیں کسی ایسے شخص کا پتہ کسی کو دینا ہو جس کو اس نے پہلے نہیں دیکھا اور جس کا وہ واقف نہیں تو اس کا یہی طریق ہے کہ ہم اس کی شکل اور اس کے قد اور اس کے
(90) دعوة الامير رنگ اور اس کی عادات اور اس کے کمالات اور اس کے متعلقین کے نشانات اور اس کے گھر کا نقشہ وغیرہ بتا دیتے ہیں مثلاً یہ بتادیں کہ اس کا قد لمبا ہے اور رنگ سفید ہے اور جسم نہ دُبلا ہے نہ موٹا اور ماتھا چکلا ہے اور ناک بالا ہے اور آنکھیں موٹی موٹی اور ہونٹ موٹے ہیں اور ٹھوڑی بڑی ہے اور وہ عربی کا مثلاً عالم ہے اور مسلمانوں میں سے ہے اور اسکی قوم کے لوگ مثلاً اس کے دشمن ہیں اور اس کے اخلاق نہایت اعلیٰ درجہ کے ہیں.اس کا گھر اس شکل کا ہے اور اس کے اردگرد کے گھر اس اس شکل کے ہیں ، اگر اس قدر علامات بتا کر ہم کسی شخص کو کسی گاؤں میں بھیجیں تو اس شخص کا پہچان لینا اور باوجودلوگوں کے دھوکا دینے کے اس کا دھوکا نہ کھانا بالکل سہل امر ہے اگر کوئی خاص زمانہ بتا نا ہوتو اس کے پہچنوانے کا یہی طریق ہے کہ اس زمانے میں مثلاً آسمانی کروں کی کیفیت اور ان کا مقام بتادیا جائے.زمین کے اندر تغیرات جو اس وقت ہونے والے ہوں وہ بتا دیئے جاویں، اس وقت کے جو سیاسی حالات ہوں وہ بتا دیئے جاویں، اس وقت کی تمدنی حالت بتا دی جاوے، اس وقت کی مذہبی حالت بتا دی جائے.اس وقت کی علمی حالت بتا دی جائے اس وقت کی عملی حالت بتا دی جائے اخلاقی حالت بتا دی جائے اس وقت کے تعلقات ما بین الاقوام بتا دیے جاویں، اس وقت کے ترفّہ یا اس وقت کی غربت کی حالت بتادی جائے اور اس زمانے کے میل ملاپ کے طریق اور سفر کے ذرائع پر روشنی ڈال دی جائے ، اگر ان حالات کو بیان کر دیا جائے اور پھر ایک شخص جس کو پہلے سے اس زمانے کے حالات بتا دیئے گئے ہیں اس زمانے کو پالے تو یقینا وہ اس زمانے کو دیکھتے ہی پہچان لے گا اور اس کا پہچاننا اس کے لئے کچھ بھی مشکل نہ ہوگا بلکہ یہ شناخت کا طریق ایسا ہوگا کہ اس میں شبہ کی گنجائش ہی نہ رہے گی.
(94) دعوة الامير یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود اور مہدی مسعود کی شناخت کے لئے اس کے زمانے کا نقشہ کھینچ دیا ہے تا اسلامی فرقوں کے اختلاف کے وقت لوگ ایسی روایات نہ بنالیں جن کی وجہ سے مسیح موعود اور مہدی مسعود کا پہچاننا مشکل ہو جائے.چنانچہ گو لوگوں نے جھوٹی علامتیں تو بنائی ہیں مگر وہ اس نقشے پر چونکہ کچھ بھی تصرف نہیں رکھتے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا تھا اس لئے ان کی کوششیں بالکل رائیگاں گئی ہیں اور اب بھی جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے نقشے پر بحیثیت مجموعی نظر ڈالے تو اس کی زبان سے بے اختیار نکل جائے گا کہ یہی مسیح موعود اور مہدی مسعود کا زمانہ ہے.مسیح موعود کے زمانے کے مذہبی حالات:.اب میں ایک ایک سلسلہ علامات کو لے کر بعض بعض علامات بیان کرتا ہوں جن سے معلوم ہوگا کہ اس زمانے کے سوا مسیح کا نزول اور کسی زمانے میں نہیں ہوسکتا اور ان سلسلوں میں سب سے پہلے مسیح موعود کے زمانے کے مذہبی حالات کو لیتا ہوں.مذہبی حالت کسی زمانے کی دو طرح بیان کی جاسکتی ہے ایک تو اس وقت کے مذاہب کے ظاہری اعداد و شمار سے اور ایک اس وقت کے لوگوں پر مذہب کا جو اثر ہوا سے بیان کر کے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے زمانے کی ان دونوں حالتوں کو بیان فرما دیا ہے.میں ان دونوں حالتوں میں سے پہلے مذاہب کے ظاہری نقشہ کو لیتا ہوں کیونکہ یہ زیادہ ظاہر ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں کہ اس وقت
(92) دعوة الامير مسیحیت کا بہت زور ہوگا.چنانچہ مسلم میں روایت ہے کہ قیامت اس وقت آئے گی جب کہ اکثر اہل ارض روم ہوں گے اور جیسا کہ علمائے اسلام کا اتفاق ہے روم سے مراد نصاریٰ ہیں، کیونکہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں رومی ہی نصرانیت کے نشان کے حامل اور اس کی ترقی کی ظاہری علامت تھے.یہ پیشگوئی اس امر کو مدنظر رکھ کر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.اِذَا هَلَكَ کسری فَلا كِسْرَى بَعْدَهُ وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلاَ قَيْصَرَ بَعْدَهُ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَنْفِقُنَّ كُنُوزَهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ (ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء اذا ذهب کسری فلاکسری بعده) نہایت عظیم الشان نظر آتی ہے کیونکہ رومی حکومت کے اس قدر استیصال کے بعد کہ قیصر کا نام ونشان مٹ جائے.پھر نصاری کا غلبہ ایک حیرت میں ڈال دینے والی خبر تھی ، مگر خدا تعالیٰ کی باتیں پوری ہو کر رہتی ہیں.قیصر کی حکومت مطابق اخبار نبویہ کے مٹ گئی اور ایک عرصہ کے بعد خالی خطاب قیصر کا جو قسطنطنیہ کے بادشاہ کو حاصل تھا فتح قسطنطنیہ پر وہ بھی مٹ گیا اور اسلام دنیا کے چاروں کونوں میں پھیل گیا مگر دسویں صدی ہجری سے فیج اعوج کا زمانہ پھر شروع ہو گیا اور آہستہ آہستہ مسیحیت نے ان ممالک سے ترقی کرنی شروع کی ، جہاں کہ اس وقت جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیحیت کی دوبارہ ترقی کی خبر دی تھی اس کا نام تک بھی نہ پایا جاتا تھا اور ایک سوسال کے عرصے سے تو گل رُوئے زمین پر مسیحی حکومتیں اس طرح مستولی ہیں کہ اہل الارض الروم کی خبر کے پورا ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہا.اس پیشگوئی کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ بعض علمائے اسلام نے اس کی نسبت لکھا ہے کہ یہ علامت سب علامات پوری ہو جانے کے بعد پوری ہوگی.چنانچہ نواب صدیق حسن اے مسلم کتاب الفتن باب تقوم الساعة والروم اكثر الناس
(9N) دعوة الامير خاں صاحب اپنی کتاب حجم الکرامہ میں بحوالہ رسالہ حشر یہ لکھتے ہیں :.چوں جملہ علامات حاصل شود قوم نصاری غلبه کننده بر ملک ہائے بسیار متصرف شوند ( حجج الكرامة في آثار القيامة صفحه ۳۴۴ مطبوعه بهوپال ۱۲۰۹ ) پس علاوہ دوسری علامات سے مل کر زمانہ مسیح موعود کی طرف اشارہ کرنے کے یہ خبر اپنی ذات میں بھی بہت کچھ راہنمائی کا موجب ہے.مسیحیت کی اس ترقی کے مقابل اسلام کی حالت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوں بیان فرماتے ہیں کہ بَدَءَ الْإِسْلَامُ غَرِيْبًا وَ سَيَعُوْدُ غَرِيْبًا فَطُوبِي لِلْغُرَبَاءِ (ابن ماجه کتاب الفتن باب بدء الاسلام غریباً اسلام اس زمانے میں بہت ہی کمزور ہوگا بلکہ دجال والی حدیث میں تو فرماتے ہیں کہ بہت سے مسلمان دجال کے پیرو ہو جائیں گے (ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء في فتنة الدجال ) چنانچہ اب ایسی ہی حالت ہے مسلمان اس شان وشوکت کے بعد جس نے ان کو دنیا کا واحد ما لک بنارکھا تھا آج ایک بیکس اور یتیم بچے کی طرح ہیں کہ بلا بعض مسیحی طاقتوں کی مدد کے ان کو اپنا وجود قائم رکھنا تک مشکل ہے.لاکھوں مسلمان اس وقت مسیحی ہو گئے ہیں اور برابر مسیحی ہور ہے ہیں.اندرونی مذہبی حالت : دنیا کے مذاہب کی طاقت کے علاوہ مسیح موعود کے زمانے میں جو ان کی باطنی حالت ہونے والی تھی اسے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیل سے بیان فرمایا ہے چنانچہ اس وقت کے مسلمانوں کی حالت کا نقشہ آپ نے اس طرح کھینچا ہے.اس وقت لوگ قدر کے منکر ہو جائیں گے چنانچہ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ
(99) دعوة الامير رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ قدر کا انکار کریں گے (مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۹۰ ) اور اس انکار قدر سے مراد یقینا مسلمانوں کا انکار ہے کیونکہ دوسری قومیں تو پہلے ہی اس مسئلے پر ایمان نہیں رکھتی تھیں.یہ مرض جس زور سے مسلمانوں میں رونما ہورہا ہے اس کے بیان کی حاجت نہیں ،علوم جدیدہ کے دلدادہ مسلمان یورپ کے جاہل مصنفین کے اعتراض سے ڈر کر صاف صاف قدر کا انکار کر رہے ہیں اور اس مسئلہ مھمہ کی عظمت اور اس کے فوائد اور اس کی صداقت سے بالکل ناواقف ہور ہے ہیں.دوسرا تغیر مسلمانوں میں آپ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ لوگ زکوۃ کو تاوان سمجھیں گے.(ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء فی اشراط الساعة ) یہ بھی حضرت علی سے البزار نے نقل کیا ہے ( حجج الكرامة في آثار القيامة صفحه ۲۹۸ مطبوعه بهوپال ۵۱۲۰۹) چنانچہ اس وقت جبکہ مسلمانوں پر چاروں طرف سے آفات نازل ہو رہی ہیں اور زکوۃ کے علاوہ بھی جس قدر صدقات و خیرات وہ دیں کم ہیں.اکثر مسلمان زکوۃ کی ادائیگی سے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے، جی چراتے ہیں اور جہاں اسلامی احکام کے ماتحت زکوۃ لی جاتی ہے وہاں تو بادل نخواستہ کچھ ادا بھی کر دیتے ہیں مگر جہاں یہ انتظام نہیں، وہاں سوائے شاذ و نادر کے بہت لوگ زکوۃ نہیں دیتے اور جو اقوام زکوۃ دیتی بھی ہیں وہ اسے نمود کا ذریعہ بنا لیتی ہیں اور اس رنگ میں دیتی ہیں کہ دوسرا اسے زکوۃ نہیں خیال کرتا بلکہ قومی کاموں کے لئے چندہ سمجھتا ہے.ایک تغیر مسلمانوں کی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ قوم جو ہر ایک عزیز سے عزیز شے کو خدا اور رسول کے اشارہ پر قربان کر دیتی تھی اور
(I..) دعوة الامير دنیا اس کی نظروں میں ایک جیفے سے زیادہ حقیقت نہ رکھتی تھی وہ دنیا کی خاطر دین کو فروخت کرے گی (ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء ستكون فتنة كقطع الليل المظلم ) اور یه تغییر اس وقت ایسی کثرت سے ہو رہا ہے کہ ایک اسلام سے محبت رکھنے والے کا دل اسے دیکھ کر پگھل جاتا ہے علماء اور صوفیاء اور امراء اور عوام سب دنیا کو دین پر مقدم رکھ رہے ہیں اور ادنی ادنی دنیاوی فوائد کے لئے دین اور مفادِ اسلام کو قربان کر رہے ہیں.ایک تغیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بروایت ابن عباس ابن مردویہ (حجج الكرامة في أثار القيامة صفحه ۷ ۲۹ مطبوعه بهوپال ۱۲۰۹ھ) نے یہ بیان کیا ہے کہ اس زمانے میں نماز ترک ہو جائے گی ( کنزل العمال جلد ۱۴ صفحه ۵۷۳ روایت ۳۹۶۳۹ مطبوعه حلب ۱۹۷۵ء)، چنانچہ یہ تغیر بھی پیدا ہو چکا ہے.تعداد کے لحاظ سے کل مسلمان کہلانے والے لوگوں میں سے ایک فی صدی بمشکل پانچوں نمازوں کے پابند نظر آویں گے.حالانکہ نماز عملی ارکان میں سے اول رکن ہے اور بعض علماء کے نزدیک اس کا تارک کافر ہے.اس وقت مساجد بہت ہیں، لیکن ان میں نمازی نظر نہیں آتے ، بلکہ بہت سی مساجد میں جانور رہتے ہیں اور ان کی بے حرمتی کرتے ہیں مگر مسلمانوں کو ان کی آبادی کی فکر نہیں.ایک تغییر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت لوگ نماز بہت جلد جلد پڑھا کریں گے چنانچہ ابن مسعود کی روایت سے ابوالشیخ نے اشاعۃ (حجج الكرامة في أثار القيامة صفحه ۲۹۶ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) میں بیان کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پچاس آدمی نماز پڑھیں گے اور ان میں سے کسی کی ایک نماز بھی قبول نہ ہوگی.(حجج الكرامة في أثار القيامة صفحه ۲۹۶ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ء)
۱۰۱ دعوة الامير اس کا مطلب یہی ہے کہ جلدی جلدی نمازیں پڑھیں گے.باطن کی قبولیت تو کسی بات کی علامت نہیں قرار دی جاسکتی کیونکہ اس کا علم سوائے خدا کے کسی کو نہیں ہوسکتا اور ظاہری علامات میں سے جن سے عدم قبولیت نماز کا حال معلوم ہوتا ہے سب سے ظاہر نماز کا جلد جلد پڑھنا ہی ہے کہ جلد جلد نماز ادا کرنے والے سے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز نہیں ہوئی ، پھر ڈ ہرا (ترمذی ابواب الصلوة باب ماجاء في وصف الصلوة) یہ تغیر بھی اس وقت پایا جاتا ہے جو لوگ نماز پڑھتے ہیں وہ نماز کو اس قدر جلد جلد ادا کرتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے مرغ چونچیں مار رہا ہے اور نماز کے بعد لمبے لمبے وظیفے پڑھتے رہتے ہیں.ایک علامت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بیان فرماتے ہیں کہ اس وقت قرآن اٹھ جائے گا اور صرف اس کا نقش باقی رہ جائے گا.(مشكوة كتاب العلم الفصل الثالث صفحه ۳۸ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی ۱۳۶۸ھ ) یہ علامت بھی اس وقت پوری ہو چکی ہے.قرآن کریم موجود ہے مگر اس پر غور اور تدبر کوئی نہیں کرتا.عجیب بات ہے کہ سوائے جماعت مسیح موعود علیہ السلام کے دنیا بھر میں قرآن کریم کہیں نہیں پڑھا جاتا.بعض اچھے اچھے مولوی فقہ اور حدیث کے ماہر قرآن کریم کے ترجمہ سے تعلق نہیں رکھتے اور اس پر غور اور تدبر کرنا حرام جانتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ چند پچھلے علماء نے جو معنے کلام الہی کے کر دیئے ہیں ان کے سوا اب کلام الہی میں کچھ باقی نہیں ہے.حالانکہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تفسیر قرآن کا دروازہ کھلا رہا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اب وہ بند ہو گیا ہو اور اس کے معارف کی کھڑکی بند کر دی گئی ہو.
(I.) دعوة الامير ایک علامت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آخری زمانے کی نسبت بروایت ابن عباس ابن مردویہ نے یہ بیان کی ہے کہ اس زمانے میں لوگ ایک طرف تو قرآن کریم سے بے تو جہی کریں گے دوسری طرف اس کے ظاہری سنگھار اور آرائش میں ایسے مشغول ہوں گے کہ زری کے خلاف اس پر چڑھائیں گے.(حجج الكرامة في آثار القیامۃ صفحہ ۲۹۷ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) یہ علامت بھی پوری ہورہی ہے.مسلمان قرآن کریم کے پڑھنے سے تو بالکل غافل ہیں اور اس کو کھول کر دیکھنا حرام سمجھتے ہیں لیکن زری کے غلاف چڑھا کر قرآن کریم گھروں میں انہوں نے ضرور رکھ چھوڑے ہیں اور اس کی ظاہری آرائش اس قدر کرتے ہیں کہ قرون اولی کے مسلمانوں میں اس قسم کی آرائش کرنے کا ثبوت نہیں ملتا حالانکہ وہ لوگ کیا بلحاظ تقویٰ اور کیا بلحاظ وجاہت دنیاوی ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر تھے.ایک تغیر مسلمانوں کی اندرونی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت مساجد کو آراستہ کریں گے.(کنزل العمال جلد ۱۴ روایت ۳۹۷۲۶ مطبوعه حلب ۱۹۷۵ء) اور یہ تغیر بھی اس وقت پایا جاتا ہے.مسلمان دوسری اقوام کی نقل میں اپنی مساجد کو اس قدر آراستہ کرتے ہیں اور بیل بوٹے بناتے ہیں اور جھاڑ فانوس سے ان کو سجاتے اور خوبصورت پردے ان کی دیواروں پر لٹکاتے ہیں کہ بہ نسبت سادہ اسلامی عبادت گاہ کے بالفاظ حدیث وہ بت خانوں کے زیادہ مشابہ ہیں.(حجج الكرامة في آثار القيامۃ صفحہ ۲۹۷ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) ایک تغیر اس زمانے کے متعلق آپ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت عرب کے
(1+r) دعوة الامير لوگ دین سے بالکل دور جا پڑیں گے اور وہ دین جوان کے ایک آدمی پر نازل ہوا اور ان کے ملک میں اس نے تربیت پائی اور ان کے ملک سے پھیلا اور ان کی زبان میں جس کی الہامی کتاب اتری اور اب تک اسی زبان میں پڑھی جاتی ہے بلکہ اسی کے سبب سے ان کی زبان زندہ ہے وہ اسے چھوڑ دیں گے اور باوجود عربی بولنے کے دین اسلام سے بے بہرہ ہوں گے اور قرآن کریم ان کو نفع نہ دے گا ، بلکہ ان کے دل ویسے ہی عرفان سے خالی ہوں گے جیسے کہ ان لوگوں کے جو قرآن کریم کے سمجھنے کی قابلیت نہیں رکھتے.چنانچہ دیلمی نے حضرت علیؓ سے روایت بیان کی ہے کہ اس وقت لوگوں کے دل اعاجم کی طرح ہوں گے اور زبان عربوں کی طرح (حجج الکرامہ فی آثار القیامۃ صفحہ ۲۹۷ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) یعنی عربی بولیں گے لیکن دین عربی کا ان کے دل پر اثر نہ ہوگا، اس وقت یہ تغیر بھی پیدا ہے، عربوں کو دین سے اس قدر بعد اور دوری ہے کہ ان لوگوں سے کم ان کو دین سے ناواقفیت نہیں ہے جو قرآن کریم کو نہ خود سمجھ سکتے ہیں اور نہ ان کو سمجھانے والا کوئی میسر ہے.ایک تغیر عظیم مسلمانوں کی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت عرب سے مذہبی آزادی اس قدر اٹھ جائے گی کہ وہاں نیک آدمی نہیں ہو سکیں گے.چنانچہ حضرت علیؓ سے دیلمی نے روایت کی ہے کہ ان میں نیک لوگ پوشیدہ ہو کر پھریں گے(حجج الکرامہ فی آثار القیامۃ صفحہ ۲۹۵ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ) یہ تغیر بھی اس وقت عرب میں پیدا ہے، وہاں کے لوگوں میں مذہبی رواداری بالکل باقی نہیں رہی.اپنے خیالات اور رسوم کے اس قدر دلدادہ ہیں کہ خدا اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہنے والوں کی جان ان سے محفوظ نہیں ہے.گو یہ آفت دیگر اسلامی ممالک میں بھی نمو دار ہے ،مگر عرب پر بالخصوص افسوس ہے کہ وہاں فریضہ حج ادا کرنے کے لئے ہر ایک ذی مقدرت انسان کو بحکم الہی جانا پڑتا ہے.
(I.) دعوة الامير پس ان کے تغیر حالت سے راستی کو نقصان پہنچتا ہے اور فریضہ حج کی ادائیگی کی صرف یہی صورت رہ جاتی ہے کہ جہاں تک ہو سکے انسان خاموشی سے اس فرض کو ادا کر کے واپس آجائے.الَّا مَا شَاءَ الله کاش! اللہ تعالیٰ عرب کے لوگوں کو ہدایت دے اور وہ پھر اسی طرح علم الاسلام کے حامل ہوں جس طرح کہ تیرہ سو سال پہلے تھے.اخلاقی حالت:.مذہبی تغیرات کے بعد میں وہ علامات بتا تاہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانہ مسیح موعود کی اخلاقی حالت کے متعلق بیان فرمائی ہیں.ایک علامت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس وقت مخش کثرت سے پھیل جائے گا بلکہ تفحش کثرت سے پھیل جائے گا.لوگ تفحش پر ناز کریں گے.(ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء فی اشراط الساعة) چنانچہ ابن شیبہ کی روایت ہے کہ علامات قرب قیامت میں سے ایک ظہور نخش توپخش بھی ہے (حجج الکرامہ فی آثار القیامۃ صفحہ ۲۹۶ مطبوعہ بھو پال ۱۲۰۹ھ ) اور اسی طرح انس بن مالک سے مسلم میں روایت ہے کہ اشراط ساعت میں سے ایک ظہور زنا ہے(مسلم کتاب العلم باب رفع العلم وقبضة وظهور الجهل والفتنة في أخر زمان ابوہریرہ سے ابن مردویہ نے روایت کی ہے کہ اس وقت ولد الزنا کثرت سے ہو جائیں گے.(حجج الكرامة في أثار القيامۃ صفحہ ۲۹۶ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) (کنز العمال جلد 14 صفحه ۲۴ ۲ روایت ۳۸۴۶۵ مطبوعه حلب ۱۹۷۸ء) یہ سب قسمیں فحش کی ہم اس وقت دنیا میں موجود پاتے ہیں.علاوہ بڑی بد کاری
(1.0) دعوة الامير کے ہم دیکھتے ہیں کہ یورپین تہذیب نے ایسا رنگ اختیار کر لیا ہے کہ اسلام نے جن امور کو فحش قرار دیا ہے وہ اس کی سوسائٹی کے نزدیک تہذیب کا جزو بن گئے ہیں.مثلاً غیر عورتوں کی کمروں میں ہاتھ ڈال کر نا چنا، عورتوں کے حسن و جمال کی تعریف کرنی، غیر عورتوں کو ساتھ لیکر سیروں کو جانا وغیرہ وغیرہ.اس زمانے سے پہلے ان باتوں کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا.نہ عرب میں نہ کسی اور ملک میں ہندوستان باوجو دسب آثار شرک کے اس فحش سے پاک تھا.ایران با وجود عیش پسندی کی روایات کے اس فحش سے مبرا تھا.میسحیت کا سہارا رومی قوم با وجود اخلاقا مردہ ہونے کے اس قسم کی ہوا و ہوس کی غلامی سے محفوظ تھی.اگر آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کا تفصیلی نقشہ پہلے لوگوں کے سامنے بیان کر دیا جا تا تو وہ کبھی تسلیم نہ کرتے کہ کسی قوم کی قوم میں باوجود دعوائے تہذیب یہ حرکات کی جاسکتیں اور تہذیب و شائستگی کا جزو سمجھی جاسکتی ہیں.پہلے زمانے میں بھی ناچ اور تماشے ہوتے تھے لیکن یہ کوئی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھا کہ شریف اور تمدن کی جڑ کہلانے والے خاندانوں کی بہو بیٹیاں اس فعل کو اپنا شغل بنائیں گی اور یہ بات موجب فخر ہوگی اور عورت کی قدر ومنزلت کو بڑھا دے گی اور اس کی شرافت میں کچھ نقص پیدا نہ ہونے دے گی.علاوہ اس فحش کے جو عام ہے بڑا نخش یعنی زنا بھی اس وقت کثرت سے ہے کہ اب وہ اکثر بلا د میں جن میں مسیحیت کا اثر ہے بطور ایک نفسانی کمزوری کے نہیں سمجھا جاتا بلکہ ایک طبعی فعل اور روز مرہ کا شغل خیال کیا جاتا ہے.بیشک کنچنیاں پہلے زمانوں میں بھی ہوتی تھیں مگر یہ کس کے ذہن میں آ سکتا تھا کہ کسی وقت حکومت عورتوں کو بڑی بڑی تنخواہیں دے کر فوجوں کے ساتھ رکھے گی تا فوجی سپاہیوں کی ضروریات پوری ہوں اور ان کو چھاؤنیوں سے باہر جانے کی تکلیف نہ ہو، کون یہ خیال کر سکتا تھا کہ عورت اور مرد کے تعلقات ایسے وسیع
دعوة الامير ہو جائیں گے کہ عورت کا مرد کے گھر پر جانا ایک اخلاقی گناہ نہیں سمجھا جائے گا بلکہ انسانی حریت کا ایک جز وقرار دیا جائے گا.اور نکاح کو اس کی ذہنی غلامی کی علامت سمجھا جائے گا.جیسا کہ آج فرانس اور امریکہ کے لاکھوں آدمیوں کا خیال ہے اور یہ بات کس کے ذہن میں آسکتی تھی کہ کسی وقت نہایت سنجیدگی سے اس پر بخشیں ہوں گی کہ نکاح ایک دقیا نوسی خیال ہے.ہر مرد اس عورت سے جسے وہ پسند کرے تعلق قائم کر کے اولاد پیدا کر سکتا ہے اور عورت ایک قیمتی مشین سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی جس سے پورا کام لے کر ملک کو فائدہ پہنچانا چاہئے ، جیسا کہ آج کل بعض سوشلسٹ حلقوں کا اور خصوصاً بالشویک حلقوں کا خیال ہے.جب فحش کی یہ حالت ہو تو خیال کیا جا سکتا ہے کہ ولد الزناکس کثرت سے ہوں گے کیونکہ جب تک ملک میں زنا ایک عیب سمجھا جائے لوگ ایسی اولاد پیچھے چھوڑ نا پسند نہیں کرتے جسے ولد الزنا ہونے کا طعنہ دیا جائے لیکن جس سوسائٹی میں زنا کے وجود سے ہی انکار کیا جائے اور نکاح کو مذہب کی بے جا دست اندازی تصور کیا جائے اس میں ایسی اولاد سے کیا شرم ہو سکتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ایسی سوسائٹی میں ایسی اولاد کے سوا دوسری اولا دمل ہی کہاں سکتی ہے.چنانچہ اوپر کے بیان کردہ خیالات کے لوگوں میں ایسی ہی اولاد میں پیدا کی جاتی ہیں اور اسے کچھ عیب نہیں سمجھا جاتا.مگر ان کے علاوہ دوسرے لوگ جو نکاح کو کم سے کم ایک قدیم رسم کر کے چھوڑنا نہیں چاہتے ان میں بھی اولا دالزنا کی تائید میں اس وقت اس قسم کا جوش پایا جاتا ہے کہ بڑے بڑے فلاسفران کو ملک کے لئے ایک نعمت اور ذریعہ حفاظت قرار دے رہے ہیں اور ایسی اولا دکو والدین کا وارث بنانے کی تائید میں بڑے زور سے تحریک کر رہے ہیں اور بصورت دیگر حکومت کو انہیں اپنا بچہ تصور کر کے ان کی خاص غور و پرداخت کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں.جب حالات یہ ہوں تو اولا دالزنا کی ان
(1.2) دعوة الامير علاقوں میں جو کچھ کثرت ہوسکتی ہے اس کی مثال پہلے زمانوں میں ملنی تو کیا معنی، یہ بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ پہلے زمانوں کے لوگ اس قسم کی حالت کا تصور بھی کر سکتے تھے.ایک تغیر اس زمانے کی اخلاقی حالت کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت شراب کا استعمال بہت بڑھ جائے گا.چنانچہ انس بن مالک سے مسلم میں روایت ہے کہ اشراط ساعت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ يُشْرَبُ الْخَمْرُ (مسلم کتاب العلم باب رفع العلم وقبضته وظهور الجهل والفتنة في أخر الزمان ) شراب بہت پی جائے گی اور ابو نعیم نے حلیہ میں حذیفہ بن الیمان سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشراط ساعت میں سے ایک یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ اس وقت راستوں میں شراب پی جائے گی.(حجج الكرامة في أثار القيامة صفحه ۲۹۶ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) شراب کی جو کثرت اس زمانے میں ہے وہ کسی بیان کی محتاج نہیں.یورپ میں شراب جس قدر پی جاتی ہے اس قدر پانی نہیں پیا جاتا.پہلے زمانوں میں بھی لوگ شراب پیتے تھے مگر بطور عیش کے یادوا کے لیکن آج گل دنیا کے ایک بڑے حصے میں شراب بطور غذاء اور پانی کے پی جاتی ہے.خصوصاً یہ علامت جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے کہ راستوں میں شراب پی جائے گی.یہ اس زمانے کو پہلے زمانوں سے ممتاز کر دیتی ہے.پہلے زمانوں میں چونکہ شراب سامانِ تعیش میں سے سمجھی جاتی تھی اور اس کے مہیا کرنے کے لئے وہ کوشش نہ کی جاتی تھی جو اب کی جاتی ہے.خاص خاص مقامات پر دکا نہیں ہوتی تھیں.جہاں سے لوگ شراب خرید لیتے تھے ،مگر اب تو یہ حال ہے کہ شراب پانی کی جگہ استعمال ہوتی ہے اس لئے اس کا قریب قریب کے فاصلے پر سڑکوں پر مہیا کرنا
(I.A) دعوة الامير ضروری ہو گیا ہے چنانچہ یورپ میں سڑکوں کے کنارے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر شراب کی دوکانیں کھلی ہوئی ہیں تا مسافروں کا حلق سوکھا نہ رہ جائے اور ریلیوں کے ساتھ شراب کا انتظام کیا جاتا ہے اور خواہ کھانے کا انتظام ہو یا نہ ہو مگر انتظار کے کمروں میں شراب ضرور تیار رکھی جاتی ہے.لنڈن جیسے شہروں میں تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر شراب اور پانی کے گلاس ایک قیمت پر فروخت ہوتے ہیں، مگر پانی پینے کی غرض سے نہیں بلکہ دیگر حاجات پوری کرنے کے لئے رکھا جاتا ہے.کثرت شراب کی حالت کا نقشہ اس قصے سے اچھی طرح ذہن نشین ہو سکتا ہے جو ہماری جماعت کے ایک مبلغ انگلستان کو پیش آیا.ان کا صاحب مکان ان کی نیک چلنی اور خوش معاملگی کو دیکھ کر اس قدر خوش ہوا کہ اس نے ایک دن بڑی محبت سے کہا میں آپ کو ایک نصیحت کرتا ہوں جسے آپ خوب یادرکھیں.اس سے آپ کی صحت بہت اچھی رہے گی اور وہ یہ ہے کہ آپ اس ملک میں پانی بالکل نہ پیئیں.میرے باپ نے ساری عمر میں ایک دفعہ پانی پیا تھا، وہ اسی دن مر گیا اور میں نے اب تک کبھی پانی نہیں پیا.جب ہمارے مبلغ نے کہا کہ وہ تو شراب کا ایک قطرہ بھی نہیں پیتے پانی ہی پیتے ہیں تو وہ نہایت حیران ہوا اور اس بات کا ماننا اسے بہت مشکل معلوم ہوا.ایک اخلاقی تغیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے کے متعلق یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت جوئے کی کثرت ہوگی ، (کنز العمال جلد ۱۴ صفحه ۵۷۴ روایت ۳۹۶۳۹ مطبوعه حلب ۱۹۷۵ء) چنانچہ حضرت علی سے دیلمی میں مروی ہے کہ قیامت کے قرب کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس وقت لعپ میسر ( جوئے کا کھیل ) زیادہ ہو جائے گا.(حجج الكرامة في أثار القيامة صفحه ۲۹۹ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ )
(1.9) دعوة الامير یہ تغیر اس وقت جس حد تک رونما ہورہا ہے اس کے بیان کی حاجت نہیں ، قمار بازی یورپ اور امریکہ کے لوگوں کا نہ صرف مشغلہ ہے بلکہ ان کے تمدن کا ایک جز ولا ینفک ہو گیا ہے.ہر ایک زندگی کے شعبے میں جوئے کا کسی نہ کسی صورت میں دخل ہے.معمولی طریق جوئے کا تو مجالس طعام کے بعد کا ایک معمولی مشغلہ ہے ہی لیکن اس کے سوا بھی لاٹریوں کی وہ کثرت ہے کہ یوں کہنا چاہئے کہ تجارت کا بھی ایک چوتھائی حصہ جوئے کی نذر ہورہا ہے.ادنی سے لے کر اعلیٰ تک سب لوگ جوا کھیلتے ہیں اور کبھی کبھی نہیں قریباً روزانہ اور جوا کی کلمبیں شاید سب کلبوں سے زیادہ امیر ہیں.اٹلی کی کلب مانٹی کارلو میں جوامراء کے جوئے کا مقام ہے، بعض اوقات ایک ایک دن میں کروڑوں روپیہ بعض ہاتھوں سے نکل کر جوئے کے ذریعہ سے بعض دوسرے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے، غرض اس قدر کثرت جوئے کی ہے کہ یہ کہنا نا درست نہ ہوگا کہ تمدن جدید میں سے جوئے کو نکال کر اس قدر عظیم الشان خلا پیدا ہو جاتا ہے کہ اسے کسی اور چیز سے پر نہیں کیا جاسکتا.بلاخوف انکار ورڈ کہا جاسکتا ہے کہ پہلے زمانوں میں سے کوئی زمانہ بھی لے لیا جائے اس کی ایک سال کی قمار بازی اس زمانے کی ایک دن کی قمار بازی سے بھی ہزاروں حصہ کم رہے گی ،لائف انشورنش ، فائر انشورنس ، تھفٹ انشورنس بیسیوں قسم کے بیسے ہی ہیں جن کے بغیر آج کل لوگوں کا کام نہیں چل سکتا اور جن کے نام سے بھی پہلے لوگ ناواقف تھے.ایک تغیر اخلاقی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا تھا کہ اس وقت نفس زکیہ مارا جائے گا.(حجج الكرامة في أثار القيامة صفحه ۳۵۱ مطبوعه بهوپال ۱۲۰۹ه، بحارالانوار مؤلفه شیخ محمد باقر المجلسی جلد ۵۲ صفحه ۳۰۴ مطبوعہ بیروت لبنان ۱۹۸۳ء)
(n.) دعوة الامير لوگ اس کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں.مگر بات صاف ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ اس وقت پاک نفس انسان کا تلاش کرنا ناممکن ہو جائے گا.اب اس امر کو دیکھ لیجئے.مسیح موعود کے اثر کو الگ کر کے گل دنیا پر نظر ڈال جائیں نفس زکیہ کہیں نہ ملے گا.یا تو مسلمانوں میں ایک ایک وقت میں لاکھوں باخدا انسان ہوتے تھے یا اس ضرورت و مصیبت کے وقت ایک اہل اللہ کا ملنا ناممکن ہے.بیشک بڑے بڑے سجادہ نشین اور علماء اور مشائخ اور متصوف موجود ہیں جن کے ہزاروں لاکھوں مرید ہیں لیکن نفس زکیہ کوئی نہیں ، ان میں سے ایک کا بھی خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں.اپنی طرف سے ورد اور وظائف کرنے تو پاکیزگی کی علامت نہیں ہیں.پاکیزگی کی تو یہ علامت ہے کہ ایسے لوگ خدا تعالیٰ کی محبت کو جذب کر لیں اور اللہ تعالیٰ ان کے لئے اپنی محبت کا اظہار کرے اور اپنی غیرت کو ان کے لئے جوش میں لائے اور ان کی نیتوں اور ارادوں کو پورا کرے اور اپنے کلام کے اسرار ان پر کھولے اور عرفان کا دریا ان کے سینے میں بہا دے اور وہ مصائب اسلام کے دور کرنے والے اور مسلمانوں کے سچے امراض دور کرنے والے ہوں مگر ایسا ایک شخص بھی ان لوگوں میں نہیں پایا جاتا جو مشائخ اور صوفیاء اور اقطاب اور ابدال اور علماء اور فضلاء کہلاتے ہیں.پس نفس زکیہ کو آج دنیا نے مار دیا ہے اور نفس امارہ کو زندہ کر دیا ہے اور وہی ان کا مطلوب بن رہا ہے.ایک علامت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے کی یہ بتائی ہے کہ اس وقت امانت اٹھ جائے گی.(ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء فی اشراط اساعة) چنانچہ دیلمی نے حضرت علیؓ سے روایت کی ہے کہ قرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک اضاعت امانت بھی ہے.(حجج الكرامة فى أثار القيامة صفحه ۲۹۹ مجموعه بهوپال ۵۱۲۰۹)
دعوة الامير امانت اٹھ جانے اور اس کی جگہ خیانت کے لے لینے کا نظارہ نظر آرہا ہے اس کی زیادہ تشریح کی ضرورت نہیں، ہر گاؤں اور ہر محلے اور ہر گھر کے لوگ اس تغیر کے تلخ اثر کو محسوس کر رہے ہیں.ایک تغیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے کی اخلاقی حالت میں یہ بیان فرمایا تھا کہ اس وقت لوگ ماں باپ سے تو حسن سلوک نہ کریں گے لیکن دوستوں سے سلوک کریں گے.(ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء فی اشراط الساعة) چنانچہ ابونعیم نے حلیہ میں حذیفہ بن الیمان سے روایت کی ہے کہ اس وقت لڑکا اپنے باپ کی تو نافرمانی کرے گا اور اپنے دوست سے احسان کرے گا.(حجج الكرامة في أثار القيامۃ صفحہ ۲۹۸ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) یہ تغیر بھی اس شدت کے ساتھ پیدا ہو رہا ہے کہ ہر شریف آدمی کا دل اس کو دیکھ کر موم کی طرح پگھل جاتا ہے ، مغربی تمدن کے دلدادہ اور تعلیم جدید سے روشنی حاصل کر نیوالے لوگ اپنے بزرگوں کو پاگل سمجھتے اور ان کی صحبت سے احتراز کرتے ہیں اور اپنے ہم خیال نوجوانوں کی مجالس حیا سوز میں اپنے اوقات صرف کرنے کو راحت سمجھتے ہیں.دوستوں کی دعوتوں اور ان کی خاطر و مدارات وغیرہ پر خرچ کرنے کے لئے ان کے پاس روپیہ نکل آتا ہے.لیکن غریب ماں باپ کی ضروریات کو پورا کرنے کی طرف انہیں کبھی تو جو نہیں ہوتی.ہندوستان میں ہزاروں مثالیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ ماں باپ نے بھوکے پیاسے رہ کر اور رات دن محنت کر کے بچوں کو پڑھایا لیکن جب اولا دصاحب علم ہو کر برسر کار ہوئی تو اس نے اپنے ماں باپ کو اپنے برابر بٹھا نا بھی عار سمجھا اور ان کے ساتھ ایسا
(ur) دعوة الامير سلوک کیا کہ ایک اجنبی آدمی ان کو خادم ہی سمجھ سکتا ہے.اب تو اس قسم کی ہزاروں مثالیں ہیں لیکن پہلے زمانوں میں اس قسم کی ایک مثال بھی ملنی مشکل.علمی حالت :.جس طرح مسیح موعود کے زمانے کی اخلاقی حالت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے اسی طرح آپ نے اس زمانے کی علمی حالت بھی بیان فرمائی ہے، چنانچہ ترمذی میں انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے که اشراط ساعت میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ یزفَعُ الْعِلْمُ وَيَظْهَرُ الْجَهْلُ (ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء فی اشراط الساعة) علم اُٹھ جائے گا اور جہل ظاہر ہو جائے گا.اسی مضمون کی روایت بخاری نے بھی بفرق قلیل انس سے بیان کی ہے.( یر فع العلم و یکثر الجهل “ بخاری كتاب النکاح باب يقل الرجال و يكثر النساء) یہ تغیر بھی پیدا ہو چکا ہے.ایک وہ وقت تھا کہ مسلمانوں کی عورتیں بھی فقیہ تھیں.حضرت عمر فرماتے ہیں کہ انصار کی عورتیں بھی عمر سے زیادہ قرآن جانتی ہیں جس سے ان کا یہ مطلب تھا کہ بچہ بچہ قرآن کریم سے ایساواقف ہے کہ وہ بڑے بڑے عالم کے فتوے پر جرح کر سکتا ہے اور نادانی اور جہالت کی وجہ سے نہیں بلکہ دلائل کی بناء پر.حضرت عائشہ کے علم اور آپ کی ثقاہت کا کون انکار کر سکتا ہے مگر آج علم دین کا یہ حال ہے کہ ایسے لوگوں کے سوا جو دوسرے علوم سیکھنے کی قابلیت نہیں رکھتے اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کرتا اور جو علم صرف اس لئے پڑھا جائے کہ اس کے پڑھنے میں کچھ خرچ نہیں ہوتا بلکہ مفت میں روٹیاں مل جاتی ہیں اس میں کیا برکت ہوسکتی ہے اور اس نیت سے پڑھنے والے دنیا کوکیا نفع پہنچاسکتے ہیں.
(Ir) دعوة الامير اس حدیث کی تائید اور بہت سی احادیث سے بھی ہوتی ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس وقت سب قسم کے علم اُٹھ جائیں گے بلکہ اس سے مرا دصرف علوم دینیہ ہیں، ور نہ علوم دنیاوی کی زیادتی احادیث سے ثابت ہے.چنانچہ ابو ہریرہ سے ترمذی میں روایت ہے کہ آخری زمانے میں دینی اغراض کے سوا اور اغراض کے لئے علوم سیکھے جائیں گے ( ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء فی اشراط الساعة ) اور یہی حالت اس وقت پیدا ہے.علوم دنیاوی اس قدر ترقی کر گئے ہیں کہ ایک عالم ان کی ترقی پر حیرت میں ہے اور علوم مذہبی اس قدر بے توجہی کا شکار ہور ہے ہیں کہ جہاں علماء کہلا رہے ہیں.تمدنی حالت :.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے زمانے کی تمدنی حالت کا بھی نقشہ کھینچا ہے اور بہت سی علامات ایسی بیان فرمائی ہیں جن سے اس وقت کے تمدن کا پورا نقشہ کھنچ جاتا ہے.چنانچہ اُن علامتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس وقت سلام کا طریق بدلا ہوا ہو گا.امام احمد بن حنبل معاذ بن انس سے روایت کرتے ہیں کہ اس امت کی خرابی اور بربادی کے زمانے کی ایک یہ علامت ہوگی ( اور یہی زمانہ مسیح موعود کا ہے ) کہ لوگ آپس میں ملتے ہوئے ایک دوسرے پر لعنت کریں گے (مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۴۳۹) گوشراح اس حدیث کے یہ معنے بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد سفلہ لوگوں کا ملتے وقت ایک دوسرے کو گالیاں دینا ہے ، مگر در حقیقت اس میں اس سے بھی بڑھ کر ایک اور تغیر کی طرف اشارہ کیا ہے جو سفلوں میں نہیں بلکہ بعض علاقوں کے مسلمان شرفاء میں بھی پایا جاتا ہے اور وہ بندگی اور تسلیم کا رواج ہے.ہندوستان میں بڑے لوگ آپس میں سلام کہنا ہتک خیال کرتے ہیں
(۱۱۴) دعوة الامير اور اس کی جگہ آداب اور تسلیم کہتے ہیں ، بلکہ ہندوؤں کی نقل میں بندگی تک کہہ دیتے ہیں جس کے یہ معنے ہیں کہ میں آپکے سامنے اپنی عبودیت کا اظہار کرتا ہوں اور یہ الفاظ اس لفظ کی جگہ استعمال کرنے جس کے معنے سلامتی اور حفاظت کے ہیں در حقیقت ملاعنہ ہی ہے.کیونکہ جب کوئی شخص شرک کے کلمات کہتا ہے، یا خدا کے لئے جس فرماں برداری کا اظہار مخصوص ہے اس کا اظہار بندوں کے لئے کرتا ہے وہ خدا کی لعنت ایک دوسرے پر ڈالتا ہے.لفظ آداب جس کا مسلمانوں میں رواج زیادہ ہے اس کا درحقیقت یہی مطلب ہے کہ ہم بندگی اور تسلیم کہتے ہیں اور یہ لفظ اس لئے اختیار کر لیا گیا ہے تا ایسے مشرکانہ الفاظ بار بار استعمال کرنے سے دل میں جو ملامت پیدا ہوتی ہے اس کے اثر سے محفوظ ہو جائیں.ایک حمد فی تغییر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں عزت بوجہ دین کے نہ ہوگی بلکہ بوجہ مال اور سیاسی اعمال وغیرہ کے ہوگی ، (جی الکرامتہ فی ثار القیامۃ صفحہ ۲۹۷ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اشراط ساعت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس وقت صاحب مال کی تعظیم ہوگی.(حجج الكرامة في أثار القيامۃ صفحہ ۲۹۷ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) یہ حالت بھی اب پیدا ہے وہ قدیم دستور جو خاندانی وجاہت کو سب بواعث عزت پر مقدم کئے ہوئے تھا ، اب بالکل مٹ گیا ہے اور عزت کا ایک ہی معیار ہے کہ انسان صاحب مال ہو، پہلے مالدار اور دولتمند لوگ علماء کی مجالس میں حاضر ہوتے تھے اور اب
(۱۱۵) دعوة الامير علماء اس امر میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ انہیں کسی امیر کی دوستی کا فخر حاصل ہے یا یوں کہئے کہ اس کی ڈیوڑھی پر جبہ سائی کی عزت نصیب ہے.اسی طرح حذیفہ ابن الیمان سے روایت ہے کہ ایک زمانہ مسلمانوں پر آنے والا ہے کہ ایک شخص کی تعریف کی جائے گی کہ مَا أَجْلَدَهُ وَأَظْرَفَهُ وَمَا أَعْقَلَهُ وَمَا فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ اِيْمَانِ (ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء في رفع الامانة) یعنی کہا جاۓ گا کہ فلاں شخص کیا ہی بہادر ہے.کیا ہی خوش طبع اور نیک اخلاق ہے اور کیا ہی عقلمند ہے حالانکہ اس شخص کے دل میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان نہ ہو گا.یہ حالت بھی اس وقت پیدا ہے.کوئی شخص خواہ کیسا ہی بے دین ہومسلمانوں کے حقوق کا نام لے کر کھڑا ہو جائے.جھٹ مسلمانوں کا لیڈر بن جائے گا کوئی نہیں پوچھے گا کہ یہ شخص اسلام پر تو قائم نہیں، اسلام کا لیڈر اسے اللہ تعالیٰ نے کیونکر بنا دیا اتنا ہی کافی سمجھا جائے گا کہ یہ عمدہ لیکچرار ہے یا خوب دانائی سے اپنے حریف کا مقابلہ کر سکتا ہے یا سیاسی ضرورت کے پورا کرنے کے لئے اپنی جان دینے کو تیار ہے.ایک تغیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت مومن ذلیل ہوں گے اور لوگوں کے ڈر سے چھپتے پھریں گے.( حجج الكرامة في أثار القيامة صفحه ۲۹۵ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) حضرت ابن عباس سے ابن مردویہ نے روایت کی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشراط ساعت میں سے ایک علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ مومن لونڈی سے بھی زیادہ ذلیل سمجھا جائے گا.( حجج الكرامة في أثار القيامة صفحه ۲۹۷ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ )
دعوة الامير جس کا یہ مطلب ہے کہ لونڈی سے بھی لوگ رشتہ محبت قائم کر لیتے ہیں اور اس سے شادی کر لیتے ہیں لیکن مومن سے تعلق پیدا کرنا ان دنوں کوئی پسند نہیں کرے گا.اسی طرح حضرت علیؓ سے دیلمی نے روایت کی ہے کہ ان دنوں نیک چھپ چھپ کر پھریں گے.(حجج الكرامة في أثار القيامۃ صفحہ ۲۹۵ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) یہ حالت بھی ایک عرصے سے پیدا ہے.مومنوں سے تعلق کو ناجائز سمجھا جاتا ہے.جو بھی سچا متبع قرآن مجید اور سنتِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو اس سے بدتر انسان مسلمانوں میں کوئی نہیں سمجھا جاتا.حتی کہ مسیح موعود کی آمد کے بعد تو یہ علامت ایسی ظاہر ہو گئی ہے کہ فاحشہ عورتوں اور بے نمازوں اور خائنوں اور جھوٹ بولنے والوں اور اللہ اور رسول کو برا کہنے والوں سے ملنا اور انکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا تو جائز سمجھا جاتا ہے لیکن جن لوگوں نے آسمانی آواز پر لبیک کہا ہے ان کو دھتکارا جاتا ہے.اور ان سے فیمنی رکھی جاتی ہے.ایک علامت اس زمانے کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں عربی کا چر چا کم ہو جائے گا.(کنز العمال جلد ۱۴ صفحه ۵۶۴ روایت ۳۹۶۰۹ مطبوعه حلب ۱۹۷۵ء) چنانچہ ابن عباس سے مردویہ نے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے اشراط ساعت میں سے ایک علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس وقت صفوف تو بڑی لمبی ہوں گی لیکن زبانیں مختلف ہوں گی.(حجج الكرامة في أثار القيامة صفحہ ۲۹۷ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) اور یہ نقشہ حج کے ایام میں خوب نظر آتا ہے، حج کی بڑی اغراض میں سے ایک غرض
(112) دعوة الامير یہ بھی تھی کہ اس کے ذریعے سے اجتماع اسلامی قائم رہے لیکن عربی زبان کو ترک کر دینے کے سبب وہاں لوگ جمع ہو کر بھی فریضہ حج ادا کرنے کے سوا کوئی اجتماعی یا ملی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے ، اگر مسلمان عربی زبان کو زندہ رکھتے تو یہ زبان دنیا کے چاروں گوشوں کے لوگوں کو ایک ایسی مضبوط رتی میں باندھ دیتی جو کسی دشمن کے حملے سے نہ ٹوٹتی.ایک حالت اس وقت کے تمدن کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس وقت عورتیں باوجو د لباس کے نگی ہوں گی (مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۴۳۹) یہ حالت بھی اس وقت دو طرح پیدا ہو رہی ہے.ایک تو اعلیٰ کپڑا اس قدر سستا ہو گیا ہے کہ عام طور پر لوگ وہ کپڑا پہن سکتے ہیں جو پہلے امراء تک محدود تھا اور کپڑے بھی ایسے بار یک تیار ہونے لگ گئے ہیں کہ ان کا لباس پہنے سے ایک خیالی زینت تو شاید پیدا ہو جاتی ہوگی مگر پردہ یقینا نہیں ہوتا اور اکثر حصہ دنیا کا ان لباسوں کا شیدا ہو رہا ہے اور اسے عورتوں کے لئے زینت خیال کر رہا ہے دوسری صورت یہ ہے کہ اہل یورپ اور امریکہ کی عورتوں کے لباس کا طریق ایسا ہے کہ ان کے بعض قابل ستر حصے ننگے رہتے ہیں، مثلاً عام طور پر اپنی چھاتیاں نگی رکھتیں ہیں، کہنیوں تک باہیں نگی رکھتی ہیں.پس باوجود لباس کے وہ جنگی ہوتی ہیں.غرض دو طرح اس علامت کا ظہور ہو رہا ہے.مسلمانوں میں بار یک ا کپڑے کے استعمال سے اور مسیحیوں میں سینہ اور سر اور بازوؤں کے ننگے رکھنے سے.ایک علامت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے کی جو مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ ہے، یہ بیان فرمائی ہے کہ عورتیں اس وقت اونٹ کے کوہان کی طرح سر کے بالوں کو رکھیں گی (مسلم کتاب اللباس باب النساء الكاسيات العاريات المائلات المميلات)
(HA) دعوة الامير چنانچہ یورپ کی عورتوں کا یہی طریق ہے.وہ سر کو گوندھنا نا پسند کرتی ہیں اور بال پھلا کر اس طرح رکھتیں ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ گو یا سر پر کچھ اور چیز رکھی ہے دوسری اقوام بھی ان کے اقتدار سے متاثر ہو کر ان کی نقل کر رہی ہیں اور جس طرح لوگ ان کے باقی اقوال و افعال کو وحی آسمانی سے زیادہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس امر میں بھی ان کی اتباع میں تہذیب کی ترقی دیکھتے ہیں.ایک علامت اس زمانے کی حضرت ابن عباس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت کی ہے کہ اسوقت عورت اپنے خاوند کے ساتھ مل کر تجارت کرے گی (حجج الكرامة في أثار القيامة صفحہ ۲۹۷ مطبوعہ بھو پال ۱۲۰۹ھ کنز العمال جلد ۱۴ صفحه ۵۷۳ روایت ۳۹۶۳۹ مطبوعه حلب ۱۹۷۵ء) یہ علامت بھی ظاہر ہو چکی ہے.بلکہ اس کا اس قدر زور ہے کہ عورتوں کے بغیر تجارت کامیاب ہی نہیں سمجھی جاتی اور اس سے بھی زیادہ اب یہ حالت پیدا ہو رہی ہے کہ یورپ کے بعض شہروں میں دُوکانوں پر بعض خوبصورت عورتیں صرف اس غرض سے رکھی جاتی ہیں کہ وہ گاہکوں سے مل کر ان کے دل لبھانے کی کوشش کیا کریں تا وہ ضرور سودا و ہیں سے خریدیں اور خالی نہ لوٹ جاویں.ایک علامت اس زمانے کے تمدن کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس وقت عورتیں اس قدر آزاد ہوں گی کہ وہ مردوں کا لباس پہنیں گی اور گھوڑوں پر سوار ہوں گی، (کنز العمال جلد ۱۴ صفحه ۵۷۳ روایت ۳۹۶۳۹ مطبوعه حلب ۱۹۷۵ء) بلکہ مردوں پر حکمران ہوں گی (حجج الكرامة في أثار القيامة صفحه ۲۹۸ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ )
(119) دعوة الامير تمدن موجودہ میں یہ تغیر بھی پیدا ہو چکا ہے اور امریکہ اور دیگر مسیحی ممالک میں اور ان کی دیکھا دیکھی دوسرے مذاہب کے پیروؤں میں بھی عورتوں کی آزادی کا ایک غلط مفہوم لیا جانے لگا ہے کہ سنکر حیرت ہوتی ہے اور ان خیالات کے اثر سے موجودہ تمدن پچھلے تمدن سے بالکل بدل گیا ہے، عورتیں کثرت سے مردوں کے ساتھ مل کر گھوڑوں پر سوار ہوکر شکار اور گھوڑ دوڑوں میں شامل ہوتیں ہیں بلکہ سرکس میں تماشے دکھاتیں ہیں اور مردوں کا لباس پہننے کا رواج بھی مسیحی ممالک میں کثرت سے ہے، علی الخصوص جنگ کے بعد سے تو لاکھوں عورتوں نے بالکل مردانہ لباس پہنا شروع کر دیا ہے.برجس اور چھوٹا کوٹ بھی ان میں ایک فیشن کی صورت اختیار کر گیا ہے.عورتوں کو جو حکومت مردوں پر حاصل ہو چکی ہے وہ بھی اپنی نوعیت میں نرالی ہے.در حقیقت اس امر میں یورپ کے تمدن اور اس کے اثر سے دیگر ہلا د کے تمدن میں ایسا فرق آ گیا ہے کہ اس کے بدتنائج اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے دور نہ ہوئے تو ان کے دور ہونے کی اور کوئی صورت نہیں، یا تو ان کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کوئی خطر ناک فساد پھوٹے گا یا شادی کا رواج بالکل بند ہو جائے گا اور نسل انسانی کی ترقی کو ایک نا قابل برداشت صدمہ پہنچے گا.ایک علامت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کے تمدن کی یہ بتائی ہے کہ اس وقت مرد عورتوں کی طرح زینت کریں گے اور ان کی شکلیں اختیار کریں گے (حجج الكرامة في أثار القيامة صفحہ ۲۹۸ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ کنز العمال جلد ۱۴ صفحه ۵۷۳ روایت ۳۹۶۳۹ مطبوعه حلب ۱۹۷۵ء) یہ تغیرات بھی پیدا ہو چکے ہیں.دنیا کا اکثر حصہ داڑھیاں منڈوا کر عورتوں سے مشابہت اختیار کر رہا ہے.کسی وقت داڑھی مرد کے لئے زینت سمجھی جاتی تھی اور مسلمانوں
(ir.) دعوة الامير کے لئے تو باتباع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی شعار تھی.وہ اب اکثر چہروں سے غائب نظر آتی ہے ، بلکہ ایسے لوگ بھی جن کو عالم اسلام میں بہت کچھ دینی وقعت دی جاتی ہے، اس کے مونڈ دینے ہی میں اپنے چہروں کی زینت پاتے ہیں.دوسرا تغیر اس پیشگوئی کے ماتحت تھیروں کی کثرت ہے کہ ان میں کثرت سے مرد عورتوں کا اور عورتیں مردوں کا بھیس بدل کر تماشہ کرتے اور گاتے ناچتے ہیں.اسی طرح یورپ و امریکہ میں مرد جس قدر اپنے سر کی صفائی کا خیال رکھتے ہیں اور جس طرح ان کی زینت کی طرف توجہ کرتے ہیں وہ اس زمانے کی عورتوں سے تو نہیں مگر پرانے زمانے کی عورتوں سے ضرور بڑھ کر ہے.جسمانی حالت :.رسول کریم نے مسیح موعود کے زمانے کے لوگوں کی جسمانی اور صحت کی حالت بھی بیان فرما دی ہے، چنانچہ حضرت انس سے ترمذی میں روایت ہے کہ جب دجال ظاہر ہوگا اور مدینے کی طرف رُخ کریگا تو اس وقت طاعون بھی پڑے گی اور اللہ تعالیٰ طاعون اور دجال دونوں سے مدینے کو بچائے گا.(ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء في ان الدجال لا يدخل المدينة) ۲۵ یہ حالت بھی پیدا ہو چکی ہے.پچھتیس سال سے دنیا میں طاعون اس شدت سے حملہ آور ہے کہ الامان ، لاکھوں گھر ویران ہو گئے ہینکڑوں قصبات اور دیہات اجڑ گئے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے مقامات مقدسہ کو کسی بڑے حملے سے بالکل بچائے رکھا ہے اور ظاہری سبب اس کا یہ بتا دیا ہے کہ مختلف جہات میں قوار نطین (Quarantine) قائم کئے جاچکے ہیں جن کے ذریعے سے اس کے زہر کو دور رکھا جاتا ہے.طاعون کے متعلق رسول
(IMI) دعوة الامير کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف الفاظ میں خبر دی ہے، بعض جگہ اسے دابۃ الارض کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے.(ترمذی ابواب الفتن باب فی الخسف) کیونکہ یہ مرض ایک کیڑے سے پیدا ہوتا ہے جو زمین سے انسان کے جسم میں داخل ہوتا ہے.قرآن کریم میں بھی اس کا یہی نام ہے.یہ طاعون کوئی معمولی وباء نہیں ہے.بلکہ اس وباء نے دنیا کے اکثر حصوں میں اپنی ہلاکت کا جال بچھا دیا ہے اور ہندوستان میں تو چھتیس سال سے اب تک ڈیرہ لگائے ہوئے ہے.اس دابہ کے خروج کی پیشگوئی میں صرف طاعون ہی کی خبر نہیں ہے، بلکہ اس میں یہ بھی اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کئی ایسی بیماریاں پیدا ہو جائیں گی جن کا اثر خورد بینی کیڑوں کے ذریعے سے پھیلے گا اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانے میں کئی ایسی بیماریاں پیدا ہوگئی ہیں جو خوردبینی اجسام کے ذریعے پھیلتی ہیں اور جو اس سے پہلے یا توتھی ہی نہیں یا اس شکل میں کبھی نمودار نہ ہوئی تھیں.اس قرآنی اور نبی کریم کی بتائی ہوئی پیشگوئی میں در حقیقت خوردبین کی ایجاد اور اس کے اثر کا بھی اظہار کیا گیا ہے.کیونکہ اس کے بغیر دنیا کو کیونکر معلوم ہو سکتا تھا کہ ان بیماریوں کا باعث ایک دابہ یعنی کیڑا ہے.پہلے تو لوگ بلغم ، صفرا، سودا اور دم پر ہی سب بیماریوں کے بواعث کی زنجیر کو ختم کر دیتے تھے.مسیح موعود کے زمانے میں صحت عامہ کی حالت کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور بھی نشانات بیان فرمائے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس وقت مرگِ مفاجات ظاہر ہوگی (حجج الكرامة في أثار القيامۃ صفحہ ۲۹۶ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ )
(irr) دعوة الامير یعنی کثرت سے اس کی مثالیں پائی جائیں گی ، ورنہ ایک دو تو ہمیشہ ہوتی ہی رہتی ہیں.چنانچہ برطبق پیشگوئی اس زمانے میں مرگ مفاجات کی بھی مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں.اس کی ایک وجہ تو شراب کی کثرت ہے اور دوسری علوم کی کثرت.شراب سے دل اور دماغ ضعیف ہو جاتے ہیں اور کثرت مطالعہ اور کثرت کار سے اعصاب کی طاقت کمزور ہو جاتی ہے.اور یہ دونوں چیزیں اس وقت اپنے زور پر ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ شراب خور قوموں میں مرگ مفاجات اس کثرت سے ہے کہ الامان ہر سال ہزاروں آدمی آنا فانا دل کی بیماریوں سے کھڑے کھڑے یا بیٹھے بیٹھے یا لیٹے لیٹے مرجاتے ہیں جس کی مثال پہلے زمانوں میں نہیں پائی جاتی.صحت عامہ :.کے متعلق ایک یہ بات بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے کہ اس وقت ایک بیماری ہوگی جو ناک سے تعلق رکھے گی جس سے کثرت سے لوگ مر جائیں گے (مسلم کتاب الفتن باب ذكر الدجال ) یہ بیماری بھی پیدا ہو چکی ہے جسے طبی اصطلاح میں انفلوئنزا کہتے ہیں اس بیماری سے ۱۹۱۸ ء میں دو کروڑ آدمی دنیا بھر میں مرگئے.حالانکہ پنج سالہ جنگ عالمگیر میں صرف ساٹھ لاکھ کے قریب آدمی مرا تھا، گویا گل دنیا کی آبادی کا ڈیڑھ فیصدی حصہ اس بیماری سے فنا ہو گیا اور دنیا کو یہ بیماری قیامت کا یقین دلا گئی.کیونکہ لوگوں نے دیکھ لیا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کیلئے دنیا کا خاتمہ کر دینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے.
دعوة الامير نسلی تناسب:.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ کے نسلی تناسب کا بھی نقشہ کھینچا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں عورتیں مردوں سے زیادہ ہو جائیں گی حتی کہ پچاس عورتوں کا ایک مرد نگران ہوگا.(ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء في اشراط الساعة) یہ پیشگوئی بھی پوری ہو چکی ہے.اس وقت دنیا میں عورتیں زیادہ ہیں اور یورپ کے بعض ممالک میں بوجہ جنگ میں مردوں کے مارے جانے کے عورتوں کی وہ کثرت ہوگئی ہے کہ وہ قومیں جو اسلام پر کثرت ازدواج کے مسئلے کی وجہ سے ہنسا کرتی تھیں اب خود نہایت سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور کر رہی ہیں کہ موجودہ ابتری کا علاج سوائے کثرت ازدواج کے اور کیا ہوسکتا ہے اور بڑے بڑے فلاسفر اس امر پر مضمون لکھ رہے ہیں کہ اس وقت حکومتوں کو تباہی سے بچانے اور نظام تمدن کو قائم رکھنے کے لئے یا تو ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت ہونی چاہئے یاز نا کو ظاہر طور پر جس قدر برا سمجھا جاتا تھا اس پر دہ کو بھی اٹھا دینا چاہئے اور اس بات کی طرف تو اکثر لوگ مائل ہیں کہ ایسے لوگوں کو جو ایک سے زیادہ بیویاں کرتے ہیں ، عدالتوں میں نہیں گھسیٹنا چاہئے اور ان کے اس فعل پر چشم پوشی کرنی چاہئے اور یہ خیالات کا تغیر عورتوں کی زیادتی کا نتیجہ ہے ورنہ کچھ ہی مدت پہلے یورپ کے لوگوں کی نظر میں کثرت ازدواج نہایت سخت جرموں میں سے گنا جاتا تھا اور اس کی تائید اشارتاً بھی کوئی مسیحی نہیں کر سکتا تھا، بلکہ ان کی نفرت کو دیکھ کر مسلمان بھی اسلام کی طرف سے کثرت ازدواج کی اجازت دینے پر معذرت کرنے لگ گئے تھے.
(ir) دعوة الامير تعلقات مابین:.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے زمانے کے متعلق یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ اس وقت اقوام کے تعلقات کس طرح کے ہوں گے.آپ نے خبر دی ہے کہ اس وقت ایسے سامان نکل آویں گے کہ لوگ پرانی سواریوں کو چھوڑ دیں گے اور نئی سواریوں پر چڑھیں گے خشکی اور پانی پر نئی قسم کی سواریاں چلیں گی ، چنانچہ آپ فرماتے ہیں لیتُرَ كَنَّ الْقِلاصُ فَلاَ يُسْعَى عَلَيْهَا (مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسیٰ ابن مریم حاكماً بشريعة نبينا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اس زمانے میں سواری کی اونٹنیاں ترک کر دی جائیں گی اور لوگ ان کی طرف توجہ نہیں کریں گے، چنانچہ اس وقت یہی ہو رہا ہے، اکثر ممالک میں ریل کی سواری کی وجہ سے قدیم سواریاں بریکار ہوتی جاتی ہیں.پہلے خالی ریل تھی تو دوسری سڑکوں پر سفر کرنے کے لئے پھر بھی لوگ اونٹ وغیرہ کے محتاج ہوتے تھے لیکن جب سے موٹر نکل آئی ہے اس وقت سے تو اس قدر ضرورت بھی گھوڑوں وغیرہ کی نہیں رہی اور جوں جوں ان سواریوں کی ترقی ہوگی پرانے سواری کے جانور متروک ہوتے چلے جائیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے کے متعلق یہ خبر بھی دی تھی کہ اس وقت ریلوں کے علاوہ دُخانی جہاز بھی نکل آئیں گے.جیسا کہ آپ فرماتے ہیں.دجال کا گدھا پانی پر بھی چلے گا اور جب وہ چلے گا تو اس کے آگے اور پیچھے بادل ہوگا ( کنز العمال جلد ۱۴ صفحہ ۶۱۳ روایت ۳۹۷۰۹ مطبوعہ حاب ۱۹۷۵ء) اور اس سے مراد آپ کی ریل اور دخانی جہاز ہی ہیں.کیونکہ یہی گدھا ہے جو خشکی اور پانی پر چلتا ہے اور اس سے کلیسیاء نے جسقد ر کام لیا ہے اور کسی قوم نے نہیں لیا.اس کے ذریعہ پادری الجھیلیں بغل میں دبا کر دنیا کے ایک سرے
(۱۲۵) دعوة الامير سے دوسرے سرے تک پہنچ گئے اور سارے جہان کو اپنے دجل کے جال میں پھانس لیا ہے اور ریل اور جہاز کے کبھی آگے اور کبھی پیچھے دھوئیں کا بادل ہوتا ہے جو کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور ان دونوں سواریوں کی خوراک بھی پتھر ہے ( یعنی پتھر کا کوئلہ ) جو خوراک کہ دقبال کے گدھے کی حدیثوں میں بیان ہوئی ہے.ان سواریوں نے تعلقات اقوام کی نوعیت ہی بالکل بدل دی ہے.مالی حالت :.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے زمانے کی مالی حالت کا بھی نقشہ کھینچ کر بتایا ہے.حذیفہ ابن الیمان سے ابونعیم نے حلیہ میں روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ اس وقت سونا زیادہ ہو جائے گا اور چاندی لوگوں سے مطلوب ہو جاۓ گی (حجج الكرامة في أثار القيامة صفحه ۲۹۸ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) یہ حالت بھی اب پیدا ہے سونے کی وہ کثرت ہوگئی ہے کہ اس کا دسواں حصہ بھی پہلے نہ تھی.سینکڑوں سونے اور چاندی کی نئی دکا نہیں نکل آئی ہیں اور پھر سونے اور چاندی کے نکالنے کے جدید ذریعے معلوم کئے گئے ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں سونے کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے.اگر صرف انگلستان کا ہی سونالیا جائے تو شاید پچھلے زمانے کے ساری دنیا کے سونے سے زیادہ نکلے، چنانچہ ایک نمایاں اثر اس کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تجارت نہایت ترقی کر گئی ہے اور سب تجارت سونے اور چاندی کے ساتھ ہوتی ہے.پہلے زمانوں میں پیسوں اور کوڑیوں پر خرید وفروخت کا مدار تھا.اب کوڑیوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں اور بعض ملکوں میں پیسوں کو بھی نہیں جانتا.جیسے انگلستان میں کہ وہاں
۱۲۶ دعوة الامير سب سے چھوٹا مروج سکہ آنے کا سکہ ہے اور امریکہ میں سب سے چھوٹا مروج سکہ دو پیسہ کا ہے اور اکثر کام ان ممالک میں تو سونے کے سکوں سے ہی ہوتا ہے.اس وقت کی مالی حالت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتائی ہے کہ سود بہت بڑھ جائے گا.چنانچہ حضرت علی سے دیلمی نے روایت کی ہے کہ قرب قیامت کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ اس وقت سود خوری زیادہ ہو جائے گی.سور (حجج الكرامة في أثار القيامة صفحه ۲۹۹ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) (کنز العمال جلد ۱۴ صفحه ۵۷۳ روایت ۳۹۷۰۹ مطبوعه حلب ۱۹۷۵ء) اور یہ بات بھی پیدا ہو چکی ہے.اس وقت جس قدر سود کو ترقی حاصل ہے اس کا لاکھواں بلکہ کروڑواں حصہ بھی پہلے کبھی حاصل نہیں ہوئی، شاذ و نادر کومستنقٹی کر کے سب تجارتیں سود پر چلتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اگر سود نہ لیں تو کام چل ہی نہیں سکتا.بنکوں کی وہ کثرت ہے کہ ہزاروں کے شمار سے بھی بڑھ گئے ہیں.حکومتیں سود لیتی اور دیتی ہیں، تاجر ود لیتے اور دیتے ہیں.صناع سود لیتے اور دیتے ہیں.امراء سود لیتے اور دیتے ہیں غرض ہر قوم کے لوگ سود پر کام چلارہے ہیں اور یوں کہنا چاہئے کہ یہ وہ زمانہ ہے جس میں ہر شخص نے عہد کر لیا ہے کہ وہ دوسرے کے روپیہ سے اپنا کام چلائے گا اور اپنا روپیہ دوسرے کو کام چلانے کے لئے دے گا اگر ایک کروڑ کی تجارت ہو رہی ہو تو اس میں شاید چند ہزار روپیہ سود کی زد سے باہر رہے گا.باقی سب کا سب سود کے چکر میں آیا ہوا ہو گا، مسلمان جنہیں کہا جاتا تھا کہ اگر سود لینے سے تم باز نہیں آتے تو فَأذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ (البقرة آيت: ۲۸۰) اللہ تعالیٰ سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.ان کا بھی یہ حال ہے کہ اکثر تو سود کا نام منافع رکھ کر اسے استعمال کر رہے اور بعض اپنی کمزوری کا اقرار کر کے اس کا لین دین کر
(rz) دعوة الامير رہے ہیں.علماء نے عجیب و غریب تو جیہیں کر کے بنکوں کے سود کے جواز کا فتویٰ دیدیا ہے اور یہ کہہ کر کہ کفار کے زیر حکومت ممالک میں سود لینا جائز ہے کسی قسم کے سود میں بھی روک نہیں رہنے دی اور آخری شریعت کے بعد ایک نئی شریعت کے بنانے کے مرتکب ہو گئے ہیں ان سب حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ سود کا حملہ اس زمانے میں ایسا سخت ہے کہ اس کا مقابلہ سوا ان کے جن کو خدا بچائے کوئی نہیں کر سکتا.آخری زمانے کی مالی حالت کی ایک خصوصیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس وقت مسیحی لوگ امیر ہوں گے اور دوسرے لوگ غریب ہوں گے چنانچہ ترمذی نے نواس بن سمعان کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے دجال لوگوں سے کہے گا کہ مجھے مان لو جولوگ اس کا انکار کریں گے ان کے گھر کا سب مال دجال کے ساتھ ہی چلا جائے گا اور جو اس پر ایمان لائیں گے وہ خوب مالدار ہو جائیں گے وہ ان کے لئے آسمان سے برسوائے گا اور زمین سے اُگلوائے گا.(ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء فى فتنة الدجال) چنانچہ یہی حال اب ہے.مسیحی اقوام دن رات مال و دولت میں ترقی کر رہی ہیں اور ان کی مخالف اقوام روز بروز غریب ہوتی جاتی ہیں اور برابر سو سال سے یہی صورت پیدا ہورہی ہے.سیاسی حالت :.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے زمانے کی سیاسی حالت کا ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ اس کو پڑھ کر یہ موجودہ زمانہ خود بخو د سامنے آجاتا ہے مختلف سیاسی تغیرات جو
(IPA) دعوة الامير مسیح موعود کے زمانے میں پیدا ہونے ضروری ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:.۱.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حذیفہ ابن الیمان نے روایت کی ہے اور ابو نعیم نے حلیہ میں اسے بیان کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ قیامت کی علامتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس وقت مسلمانوں پر اس قدر مصائب آئیں گی کہ وہ مثل یہود کے ہو جائیں گے.(حجج الكرامة في أثار القيامۃ صفحہ ۲۹۸ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) جس سے آپ کی یہ مراد ہے کہ مسلمانوں کی حکومتیں اور ان کا اقتدار جاتا رہے گا اور یہود کی طرح دوسروں کے رحم پر ان کی زندگی کا انحصار ہوگا.یہ علامت بھی پوری ہو چکی ہے.اسلامی حکومتیں مٹ گئی ہیں اور نہایت قلیل نشان ان کے باقی ہیں.یا تو دنیا پر اسلامی جھنڈا ہی لہرا تا نظر آتا تھا، یا اب اُس جھنڈے کو لہرانے کے لئے کوئی جگہ نہیں ملتی.مسلمان اپنی حکومتوں کے قائم رکھنے کے لئے بھی کسی نہ کسی مسیحی حکومت کی مدد کے محتاج ہیں.انا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ایک سیاسی تغیر زمانہ مسیح موعود کے وقت کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ شام اور عراق اور مصر اس وقت کے بادشاہ کے ہاتھ سے نکل جائیں گے اور عرب کے لوگوں کی حالت پھر طوائف الملوکی کی ہو جائے گی ، چنانچہ ابو ہریرہ سے مسلم میں روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عراق اپنے درہم اور غلے روک دیگا اور شام اپنے دینار اور غلے کو روک دیگا اور مصر اپنے غلے کو روک دیگا اور تم پھر ویسے کے ویسے ہو جاؤ گے جیسے کہ پہلے تھے.(مسلم کتاب الفتن باب لا تقوم الساعة حتى يحسر الفرات عن جبل من ذهب) یعنی عرب میں طوائف الملوکی پیدا ہو جائے گی.یہ علامت بھی پوری ہو گئی ہے.
(ira) دعوة الامير عراق اور شام اور مصر سلطان کے قبضہ سے نکل گئے ہیں اور ترکی حکومت کو کسی قسم کا خراج اور مدد نہیں دیتے اور عرب پھر طوائف الملوکی کی حالت میں ہو گیا ہے.گوحجاز میں ایک حکومت قائم ہے مگر ابھی تک اس کی حالت بوجہ کثرت اعداء وقلت مال کے محفوظ نہیں ہے اور اس کے علاوہ دیگر علاقہ جات عرب تو بالکل بے انتظام حالت میں ہیں اور وہاں کی حکومتیں متمدن حکومتیں نہیں ہیں.ایک سیاسی تغییر اس زمانے کا آپ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت یا جوج اور ماجوج کو ایسی طاقت حاصل ہوگی کہ دوسری اقوام کو ان سے مقابلے کی بالکل مقدرت نہ ہوگی.چنانچہ نواس بن سمعان کی روایت مسلم اور ترمذی میں ہے کہ مسیح موعود کے زمانے میں اللہ تعالیٰ ان کو وحی کرے گا کہ اِنّى قَدْ اَخْرَجْتُ عِبَادَا لَّىٰ لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ فَحَزِزُ عِبَادِى إِلَى الطَّوْرِ وَيَبْعَثُ اللَّهَ يَأْجُوجَ وَ مَأْجُوجَ(مسلم کتاب الفتن باب ذكر الدجال وصفته و مامعہ) یہ علامت بھی پوری ہو چکی ہے، یا جوج اور ماجوج ظاہر ہو چکے ہیں اور ان سے مقابلہ کرنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے، یا جوج اور ماجوج سے مراد روس اور انگریزوں کی حکومت اور ان کی اتحادی حکومتیں ہیں جیسا کہ بائیبل میں لکھا ہے کہ ”اے جوج روس اور ٹو بالسک کے بادشاہ اور ماجوج جو جزیروں میں امن سے حکومت کرتے ہو“.(حز قیل باب ۳۸ آیت ۲ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ (مفہوم)) یہ دونوں قومیں اپنے حلیفوں کے ساتھ اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں اور ان کا عروج جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے نزول مسیح موعود کے بعد مقدر تھا.پس ان کا عروج اپنی ذات میں بھی دلالت کر رہا ہے کہ مسیح موعود نازل ہو چکا ہے.ایک تغیر اس زمانے کی سیاسی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان
(r.) دعوة الامیہ فرمایا ہے کہ اس وقت مزدوروں کی طاقت بہت بڑھ جائے گی.جیسا کہ حذیفہ ابن الیمان کی روایت میں جوابونعیم نے حلیہ میں نقل کی ہے مذکور ہے کہ اشراط ساعت میں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہ شرط بھی بیان کی ہے کہ اس وقت غریب بر ہنہ لوگ بادشاہ ہو جا ئیں گے (حجج الكرامة في أثار القيامۃ صفحہ ۲۹۸ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) اور برہنہ سے مراد اس جگہ نسبتی طور پر برہنہ ہے اور امراء کے مقابلہ میں غرباء اپنے لباس کی کمی کی وجہ سے برہنہ ہی کہلاتے ہیں.یہ علامت بھی پوری ہو چکی ہے.نیا بتی حکومت کی ترقی کیساتھ ساتھ غرباء کی حکومت بڑھتی جاتی ہے اور وہ بادشاہ بن رہے ہیں مزدور جماعت کی طاقت کے آگے بادشاہوں کے دل کانپ رہے ہیں اور کوئی جماعت خواہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو اپنے قیام کو ان سے صلح رکھے بغیر معرض خطر میں پاتی ہے اور بعض علاقوں میں تو انہیں کامل حکومت حاصل ہے.جیسے روس میں اور سوئیٹزرلینڈ میں اور بعض حصص آسٹریلیا میں اور روز بروز یہ جماعت طاقت پکڑتی جاتی ہے.مسیح موعود کے زمانے کی سیاسی حالت کی ایک خصوصیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس وقت حکام کی کثرت ہوگی ، حذیفہ ابن الیمان روایت کرتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اشراط ساعت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس وقت شر ط زیادہ ہو جائیں گے (حجج الكرامة في أثار القيامة صفحہ ۲۹۸ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) (کنز العمال جلد ۱۴ صفحه ۵۷۴ روایت ۳۹۶۳۹ مطبوعه حلب ۱۹۷۵ء) اور شر ط والی اور حاکم کے مددگاروں اور نائبوں کو کہتے ہیں یہ علامت بھی اس وقت
(۱۳۱ دعوة الامير پوری ہو چکی ہے، پہلے جو نظام حکومت ہوا کرتا تھا اس میں اسقدر مددگاروں کی حاکموں کو ضرورت نہیں پڑتی تھی.ہر علاقے میں ایک دو حاکم کافی سمجھے جایا کرتے تھے لیکن اس زمانے میں انتظام کا طریق اس طرح بدل گیا ہے اور حکومت کی ذمہ داری کی اس قدر شاخیں نکل آئی ہیں کہ پہلے سے سینکڑوں گنے مددگار افسروں کے لئے رکھنے پڑتے ہیں پولیس اور صحت عامہ اور رجسٹریشن اور تعمیر عامہ اور ڈاک خانہ اور ریل اور تارا ور انہار اور نگرانی مخدرات و مسکرات اور پڑتال و غیر با محکمے اس قدر وسیع ہو گئے ہیں کہ پہلے اس قدر وسیع نہ تھے، اس لئے گورنمنٹ کو ہر حاکم کے ساتھ ایک وسیع عملہ رکھنا پڑتا ہے.ایک تغیر مسیح موعود کے زمانے کی سیاست میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس وقت حدود ترک کی جائیں گی ، (حجج الكرامة في أثار القيامة صفحه ۲۹۹ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) حضرت علی سے دیلمی نے روایت کی ہے کہ آخری زمانے کی علامتوں میں سے ایک ترک حدود بھی ہے یہ علامت بھی پوری ہو چکی ہے اسلامی حکومتوں میں اس وقت حدود ترک ہیں.الا ما شاء اللہ.ترکوں کی حکومت میں.عرب میں ، مصر میں ، ایران میں بلکہ خود جناب ہی کے بلاد میں زانی کو رجم کی اور چور کو قطع ید کی سزا نہیں دی جاتی ، بلکہ بعض اسلامی حکومتیں تو بذریعہ معاہدات ان سزاؤں کے دینے سے باز رکھی گئی ہیں.یہ علامت ایسی واضح ہے کہ اسلامی اقتدار کے زمانے میں اس امر کا کوئی خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اسلامی احکام کو اس طرح کبھی پس پشت ڈالا جائے گا اور مسلمان حکومتیں اگر خواہش بھی رکھیں گی تو حدود اسلامیہ کو جاری نہیں کرسکیں گی.علاوہ ان علامات کے بتانے کے جو انسان کے مذہبی ، اخلاقی، علمی، جسمانی ، سیاسی ،
(rr) دعوة الامير نسلی، تمدنی و غیر با زندگی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے زمانے کے متعلق بعض ایسی علامات بھی بیان فرمائی ہیں جو تغیرات مکانی سے تعلق رکھتی ہیں، مثلاً آپ نے اس وقت کی زمینی اور آسمانی حالتوں کو بھی بیان فرمایا ہے جن میں سے بعض میں اس جگہ بیان کرتا ہوں.زمینی تغیرات :.زمین کی اندرونی حالت کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حذیفہ ابن الیمان نے یہ روایت بیان فرمائی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشراط ساعت میں سے بہت سی علامات بیان فرما کر فرمایا کہ جب یہ علامات پوری ہوجائیں تو تم بعض بلاؤں کے منتظر رہو جن میں سے ایک آپ نے خسف بیان فرمائی (حج الكرامة في اثار القيامة صفحه ۲۹۸ مطبوعہ بھوپال ۱۲۰۹ھ ) اور خسف جیسا کہ علم طبیعات سے ثابت ہے زلزلے کے سبب سے ہوتا ہے پس خسف سے مراد جناب سرور کائنات کی زلازل سے ہے اور یہ زمین کے اندر کا تغیر بھی جس کے سبب سے کثرت سے زلزلے آویں پیدا ہو چکا ہے اور پچھلے ہیں ۲۰ سال میں دنیا میں اس قدر زلزلے آئے ہیں کہ ان سے پہلے تین سو سال میں بھی اس قدر زلزلے نہیں آئے تھے اور اس قدر موتیں ان سالوں میں زلزلوں کے ذریعے سے ہوئی ہیں کہ پچھلی کئی صدیوں میں بھی اس قدر موتیں زلزلوں سے نہیں ہوئیں.فلکی علامات :.علاوہ زمینی تغیرات کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے زمانے کے
(rr) دعوة الامير بعض فلکی حالات بھی بیان فرمائے ہیں.مثلاً یہ کہ اس وقت سورج اور چاند کو رمضان کے مہینے میں خاص تاریخوں میں گرہن لگے گا اور اس علامت پر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ رسول کریم نے فرمایا کہ جب سے زمین و آسمان پیدا ہوئے یہ دونوں علامتیں کسی اور نبی کی تصدیق کے لئے ظاہر نہیں ہوئیں ، حدیث کے الفاظ یہ ہیں:انَّ لِمَهْدِيَنَا أَيَتَيْنِ لَمْ تَكُوْنَا مُنذُ خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ يَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لِأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَ تَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِى النِّصْفِ مِنْهُ وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَتِ وَالْأَرْضَ - (سنن دارقطنى باب صفة صلؤة الخسوف والكسوف وهيئتهما جلد ۲ صفحه ۶۵ مطبوعہ مصر ۱۹۶۶ء) یعنی محمد بن علی نے روایت کی ہے کہ ہمارے مہدی کے دو نشان ہیں.یہ نشان آسمان وزمین کی پیدائش کے وقت سے لے کر اب تک کبھی ظاہر نہیں ہوئے ، ایک تو یہ کہ قمر (چاند) کو رمضان میں پہلی رات میں گرہن لگے گا اور دوسرا یہ کہ سورج کو اسی رمضان کی درمیانی تاریخ میں گرہن لگے گا اور یہ دونوں باتیں آسمان و زمین کی پیدائش کے وقت سے نہیں ہوئیں یہ نشان اپنے اندر کئی خصوصیات رکھتا ہے.ایک تو یہ کہ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ سوائے مہدی کے کسی مدعی کے لئے یہ نشان کبھی ظاہر نہیں ہوا.دوسرے یہ کہ اس نشان پر کتب اہلسنت وشیعہ متفق ہیں کیونکہ دونوں کی کتب حدیث میں اس کا ذکر ہے.پس اس میں شبہ تدلیس وغیرہ کا نہیں کیا جاسکتا ، تیسری خصوصیت اس نشان میں یہ ہے کہ جو علامتیں اس میں بتائی گئیں ہیں پہلی کتب میں بھی انہی علامتوں کے ساتھ مسیح کی آمد ثانی کی خبر دی گئی ہے چنانچہ انجیل میں آتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے اپنی آمد کی نشانیوں میں سے ایک یہ علامت بھی بتائی ہے کہ اس وقت سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دیگا.“ متی باب ۲۴ آیت ۲۹ بائیل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء)
(۱۳۴ دعوة الامير جس کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہے کہ سورج اور چاند کو اس کے زمانے میں گرہن لگے گا.گو میں ان پیشگوئیوں کو بیان کر رہا ہوں جن کا احادیث میں ذکر آتا ہے مگر میں اس جگہ اس بات کا ذکر کرنا غیر محل نہیں سمجھتا کہ قرآن کریم میں قرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت سورج اور چاند گرہن کی بیان کی گئی ہے.سورۃ القیامۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَسْتَلُ أَيَّانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُه وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُه (القيامة آيت: ۷ تا ۱۰ ) ( منکر ) پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب ہے؟ ہم اس کی علامتیں بتاتے ہیں وہ تب ہوں گی جب آنکھیں متحیر رہ جائیں گی ، یعنی ایسے حادثات ہوں گے کہ انسان کو حیرت میں ڈال دیں گے اور چاند کو گرہن لگے گا اور پھر سورج اور چاند جمع کر دیئے جائیں گے یعنی اسی ماہ میں چاند گرہن کے بعد سورج گرہن ہوگا چونکہ مسیح کی آمد بھی قیامت کے قریب زمانے میں بتائی گئی ہے اس لئے قرآن کریم سے بھی مذکورہ بالا حدیث کے مضمون کی تائید ہوتی ہے.غرض جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے یہ پیشگوئی خاص اہمیت رکھتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کمل اسلاھ مطابق ۱۸۹۴ء میں یہ پیشگوئی بعینہ انہیں الفاظ میں پوری ہوگئی ہے جن الفاظ میں کہ احادیث میں اسے بیان کیا گیا تھا ، یعنی اس سن کے رمضان میں چاند گرہن کی تاریخوں میں سے پہلی یعنی تیرھویں تاریخ کو چاند گرہن لگا اور سورج گرہن کی تاریخوں ۲۸ ۱۳ میں سے درمیانی یعنی اٹھائیسویں تاریخ کو سورج کو گرہن لگا اور ایک ایسے آدمی کے زمانے میں لگا جو مہدویت کا دعویٰ کر رہا تھا.پس ہر ایک مسلمان کہلانے والے کے لئے دور استوں میں سے ایک کا اختیار کرنا
(ro) دعوة الامير فرض ہو گیا تو وہ اس کلام نبوی پر ایمان لاوے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ نشان کہ اس کے زمانے میں چاند اور سورج کو گرہن لگنے کی پہلی اور درمیانی تاریخوں میں گرہن لگے گا ، سوائے مہدی کے اور کسی کے لئے ظاہر نہیں کیا گیا اور جس کی تائید قرآن کریم اور پہلے انبیاء کی کتب سے بھی ہوتی ہے اور اس شخص کو قبول کرے جس کے دعوائے مہدویت کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ نشان ظاہر کیا ، یا پھر خدا اور اس کے رسول کو چھوڑ دے کہ انہوں نے ایک ایسی علامت مہدی کی بتائی جو در حقیقت کوئی علامت ہی نہیں تھی اور جس سے کسی مدعی کے دعوئی کی صداقت ثابت کرنا خلاف عقل ہے.بعض لوگ یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ پیشگوئی میں چاند کو پہلی تاریخ اور سورج کو درمیانی تاریخ میں گرہن لگنے کی خبر دی گئی ہے ،لیکن جس گرہن کا تم ذکر کرتے ہو وہ تیرھویں اور اٹھائیسویں تاریخ کو ہوا ہے، لیکن یہ اعتراض ایک ذرا سے تدبر سے نہایت غلط اور الفاظ حدیث کے خلاف معلوم ہوتا ہے، یہ لوگ اس امر کو نہیں دیکھتے کہ چاند اور سورج کو خاص تاریخوں میں گرہن لگا کرتا ہے اور اس قاعدے میں فرق نہیں پڑسکتا.جب تک کا ئنات عالم کو تہ و بالا نہ کر دیا جائے.پس اگر وہ معنے درست ہیں جو یہ لوگ کرتے ہیں تو یہ نشان قیامت کی علامت تو ہوسکتا ہے، مگر قرب قیامت اور زمانہ مہدی کی علامت نہیں ہوسکتا.علاوہ ازیں یہ لوگ پہلی اور درمیانی کے الفاظ کو تو دیکھتے ہیں ، لیکن قمر کے لفظ کو نہیں دیکھتے پہلی تاریخ کا چاند عربی زبان میں ہلال کہلاتا ہے، قمر تو چوتھی تاریخ سے اس کا نام ہوتا ہے لغت میں لکھا ہے.وَهُوَ قَمَرْ بَعْدَ ثَلاثِ لَيَالٍ إِلَى آخِرِ الشَّهْرِ وَأَمَّا قَبْلَ ذَالِكَ فَهُوَ هِلَال (اقرب الموارد جلد ۲ صفحه ۰۳۷ از یر لفظ قمر مطبوعه ایران ۱۴۰۳ھ ) یعنی چاند
۱۳۶ دعوة الامير تین راتوں کے بعد قمر بنتا ہے اور مہینے کے آخر تک قمر رہتا ہے مگر پہلی تین راتوں میں وہ ہلال ہوتا ہے.پس باوجود حدیث میں قمر کا لفظ استعمال ہونے کے اور باوجود اس قانون قدرت کے کہ چاند کو تیرہ، چودہ ، پندرہ کو گرہن لگتا ہے نہ کہ پہلی تاریخ کو.پہلی تاریخ سے مہینے کی پہلی تاریخ مراد اور چاند گرہن کی تاریخوں میں سے پہلی تاریخ مراد نہ لینا بالکل خلاف عقل و خلاف انصاف ہے اور اس کی غرض سوائے اس کے کچھ نہیں معلوم ہوتی کہ اللہ اور اس کے رسول کا کلام جھوٹا ہو اور آسمان سے آنے والے پر لوگ ایمان نہ لے آئیں.یہ وہ علامات ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے متعلق بیان فرمائی ہیں اور گوان میں سے بعض ایک ایک بھی مسیح موعود کے زمانے کی ہے اور اس کے لئے نشان ہے، لیکن درحقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان علامات کے بیان کرنے سے مسیح موعود کے زمانے کے حالات کو مجموعی طور پر لوگوں کے سامنے اس صورت میں لا نا تھا کہ کسی کوشک وشبہ کی گنجائش نہ رہے اس میں کوئی شک نہیں کہ طاعون پہلے زمانوں میں بھی پڑتی رہی ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ زلزلے پہلے بھی آتے رہے ہیں، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جوئے کی زیادت پہلے بھی ہوتی رہی ہے.اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اخلاق لوگوں کے پہلے بھی بگڑتے رہے ہیں، مسیحیوں کو بھی ایک زمانے میں ایک معتد بہ حصہ عالم پر اقتدار حاصل رہ چکا ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ سب حالات جو مسیح موعود کے زمانے کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں کبھی کسی وقت دنیا میں جمع بھی ہوئے ہیں یا ان کا کسی اور زمانے میں جمع ہونا ممکن بھی ہے؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ نہیں ہرگز نہیں ، اگر ایک شخص کو جسے اس زمانے کی حالت معلوم نہ ہو پہلے اخبار رسول کریم
(۱۳۷ دعوة الامير صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے واقف کیا جائے پھر اسے دنیا کی تاریخ کی کتب دیدی جاویں کہ ان کو پڑھ کر بتاؤ کہ مسیح موعود کے ظاہر ہونے کا کونسا زمانہ ہے تو آدم علیہ السلام کے زمانے سے شروع کر کے اس زمانے کے شروع ہونے تک کسی ایک زمانے کو بھی مسیح موعود کا زمانہ قرار نہیں دیگا لیکن جونہی وہ اس زمانے کے حالات کو پڑھے گا بے اختیار بول اٹھے گا کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کہا تھا سچ ہے تو مسیح موعود کے ظاہر ہونے کا یہی زمانہ ہے کیونکہ وہ ایک طرف دین سے بے توجہی کو دیکھے گا دوسری طرف علوم دنیاوی کی ترقی کو دیکھے گا، مسلمانوں کی حکومت کو بعد اقتدار کے ضعیف پائے گا، مسیحیت کو تنزل کے بعد ترقی کی طرف قدم مارتا ہوا دیکھے گا.مسیحیت کے ماننے والوں کو ساری دولت پر قابض مگر اس کے مخالفوں کو غریب پائے گا، باوجو د طب اور سائنس کی ترقی کے طاعون اور انفلوئنزا کی اجاڑ دینے والی تباہی کا نقشہ اس کی آنکھوں کے سامنے آئے گا، بیماریوں کو اس زمانے میں کیڑوں کی طرف منسوب کئے جانے کا حال اسے معلوم ہوگا ، رسوم اور بدعات میں لوگوں کو مبتلا ء پائے گا ، ریل اور دخانی جہازوں کی خبر پڑھے گا ، بنکوں کی گرم بازاری کا نقشہ دیکھے گا.زلزلوں کی کثرت معلوم کرے گا ، یا جوج اور ماجوج کی حکومت کا دور دورہ پائے گا، آسمان پر چاند اور سورج گرہن اس کی آنکھوں کو کھولے گا، زمین پر دولت کی کثرت، مزدوروں کی یہ ترقی اس کی توجہ کو اپنی طرف پھیریں گی ، غرض ایک ایک صفحہ اس زمانے کی تاریخ کا اور اس صدی کے واقعات کا اس کو اس امر کی طرف توجہ دلائے گا کہ یہی زمانہ مسیح موعود کا ہے وہ ایک ایک چیز پر نظر نہیں ڈالے گا بلکہ مجموعی طور پر سب نشانات پر غور کرے گا تو اس کے ہاتھ کانپ جائیں گے اور اس کا دل دھڑکنے لگے گا ، اور وہ بے اختیار کتاب کو بند کر دے گا اور بول اٹھے گا کہ میرا کام ختم ہو گیا ، آگے پڑھنا فضول ہے، مسیح موعود یا تو اسی
(IPA) زمانے میں نازل ہوا ہے یا پھر وہ کبھی نازل نہ ہوگا.دعوة الامي اے میں اس جگہ ایک اعتراض کا ذکر کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں جسے مخالف اپنے زعم میں ایک زبردست اعتراض سمجھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مسیح موعود کی آمد سے پہلے دجال کی آمد کی خبر دی گئی ہے وہ چونکہ اب تک نہیں آیا.اس لئے مسیح موعود نہیں آسکتا.اگر دجال کی خبر ایک پیشگوئی نہ ہوتی تو یہ اعتراض کچھ حقیقت بھی رکھتا لیکن یہ دیکھتے ہوئے کہ دجال کی آمد بطور پیشگوئی ہے اور پیشگوئیاں تعبیر طلب ہوتی ہیں، اس اعتراض کی کچھ بھی حقیقت باقی نہیں رہتی ، ایک مسلمان قرآن کریم میں وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتَهُمْ لِي سَاجِدِينَ (یوسف:۵) پڑھتے ہوئے اور رانی أَرَى فِي الْمَنَامِ انّى اَذْبَحُكَ (الصافات : ۱۰۳) کی تلاوت کرتے ہوئے پھر ایک غیر معمولی قسم کے دجال کی تلاش میں لگا رہے تو اس پر ضرور افسوس ہے.افسوس ہے کہ دجال کی پیشگوئی کو سمجھنے کے لئے دوسری احادیث اور سنت اللہ پر بالکل غور نہیں کیا گیا.جبکہ یہ بات احادیث سے ثابت ہے کہ مسیح موعود کی آمد سے پہلے دجال کا خروج ہوگا اور یہ بھی کہ اس وقت مسیحیت کا بھی سخت زور ہو گا تو کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ دجال سے مراد مسیحیت ہی ہے چونکہ ایک ہی وقت میں دجال اور مسیحیت کس طرح دنیا پر غالب آ سکتے ہیں دونوں کا ایک ہی وقت دنیا پر غلبہ بتا تا ہے کہ در حقیقت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.ایک اور بات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دجال اور سیحی فتنہ ایک ہی لئے ہے اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے فتنے سے بچنے کا علاج فواتح سورہ کہف پڑھنا بتایا ہے اور سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات میں میسحیت کا رد ہے چنانچہ فرماتا ہے.وَيُنذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا (الكهف:۵) یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے تاکہ اس کے ذریعے ان لوگوں کو ڈرایا جائے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا بنا لیا.پس ثابت ہوا کہ دجال کا فتنہ اور مسیحی فتنہ ایک ہی شے ہے کیونکہ علاج بیماری کے مطابق ہوتا ہے اگر دجالی فتنہ سیمی فتنے سے علیحدہ ہوتا توممکن نہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا
(ra) دعوة الامير تیسری دلیل نفس ناطقہ آفتاب آمد دلیل آفتاب اس بات کے ثابت کرنے کے بعد کہ زمانہ پکار پکار کر اس وقت ایک مصلح کو طلب کر رہا ہے اور یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت کا مصلح مسیح موعود اور مہدی مسعود کے سوا اور کوئی نہیں اور یہ کہ چونکہ مسیح موعود ہونے کے مدعی صرف بانی سلسلہ احمدیہ ہیں.اس لئے ان کے دعوی کو رڈ کرنا گویا خدا تعالیٰ کی سنت کا ابطال اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی ہتک ہے.اب میں جناب کے سیه : حکیم انسان اس سے بچنے کے لئے ان آیات کا حکم دیتا جن میں دجال کا تو ذکر تک نہیں، ہاں مسیحیت کا رد بیان کیا گیا ہے آپ کا ان آیات کو دجال کے فتنے سے بچنے کے لئے تلاوت کرنے کا ارشاد فرمانا بتاتا ہے کہ آپ کے نزدیک دجال سے مراد مسیحیت کی اشاعت کرنے والے لوگ تھے.در حقیقت دجال کے پہچاننے میں لوگوں کو سب سے بڑی ٹھو کر یہ لگی ہے کہ وہ اسے ایک آدمی سمجھتے رہے ہیں، حالانکہ وہ ایک آدمی نہیں ہے ، كُتب لغت میں دجال کے معنے یہ لکھتے ہیں.اَوْمِنَ الدَّجَالِ بِالتَشْدِيدِ لِلزِفْقَةِ الْعَظِيمَةِ تَغَطَّى الْأَرْضَ بِكَفْرَةِ أَهْلِهَا وَقِيلَ هِيَ الوِفْقَةُ تَحْمِلُ الْمَتَاعَ لِلتَجَارَةِ - (تاج العروس جلدے صفحہ ۳۱۸ زیر لفظ (جل) الدَّجَّالُ الزِفْقَةُ الْعَظِيمَةُ (اقرب الموار دجلد ۱ صفحه ۳۲۰ زیر لفظ دجل، مطبوعه ایران ۱۴۰۳ء) یعنی دجال ایک بڑی جماعت کو کہتے ہیں جو زمین کو اپنی کثرت سے ڈھانک دے اور بعض لوگ اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ یہ ایسی جماعت کا نام ہے جو اسباب تجارت دنیا میں لئے پھرے اور یہ تعریف
(۱۴۰) دعوة الامير سامنے ان دلائل کو پیش کرتا ہوں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام اپنے دعوے میں راستباز تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور اور مرسل تھے اور ان دلائل میں سے سب سے پہلے میں نفس ناطقہ کی دلیل بیان کرتا ہوں.میری مراد اس جگہ نفس ناطقہ سے وہ نہیں جو پہلی کتب میں لی جاتی ہے بلکہ نفسِ ناطقہ سے مراد وہ نفس ہے جسے قرآن کریم نے اپنی صداقت کی آپ دلیل قرار دیا ہے.سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاءَ نَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَذَا أَوْ بَدِلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَبَدِلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوْ حَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ قُلْ لَّوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَيَكُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمْراً مَنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (یونس آیت: ۱۷۱۶) اور جب پڑھے جاتے ہیں ان کے سامنے ہمارے کھلے کھلے بقیه حاشیه : مسیحیت کے منادوں پر پوری طرح چسپاں ہوتی ہے وہ اپنی مذہبی کتب کی تجارت کے علاوہ اپنے مشن کی کامیابی کے لئے ہر قسم کے اسباب اور سامان جولوگوں کی دلچسپی کا موجب ہوں ساتھ رکھتے ہیں اور کئی قسم کی تجارتیں مشن کے کام کے ساتھ ساتھ کیا کرتے ہیں اور اسی طرح دجال کے معنے لکھے ہیں الْمُمَوِهُ (لسان العرب جلد ۴ صفحه ۲۹۴ زیر لفظ دجل، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ) یعنی ملمع ساز اور مسیحی پادریوں سے زیادہ کون ملمع ساز ہوگا جو ایک انسان کو ایسی صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کی نظروں میں خدا نظر آنے لگتا ہے باقی رہیں یہ باتیں کہ دجال کا نا ہوگا اور اس کا ایک گدھا ہوگا جو بڑا قد آور ہوگا اور اس کے آگے پیچھے دھوئیں کا بادل چلے گا سو یہ سب باتیں تعبیر طلب ہیں.دجال کے کانے ہونے سے مراد اس کی روحانی کمزوری ہے کیونکہ دائیں طرف ہمیشہ رویا میں دین اور یمن پر دلالت کرتی ہے.پس دجال کے دائیں آنکھ سے کانے ہونے کا مطلب
۱۴۱ دعوة الامير احکام تو وہ لوگ جو قیامت کے منکر ہیں کہتے ہیں کہ یا تو اس کے سوا کوئی اور قرآن لے آ، یا اس میں سے قابل اعتراض حصہ بدل دے تو کہدے کہ میرا کیا حق ہے کہ میں اپنی طرف سے اس کلام کو بدل دوں ، میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل ہوتی ہے، میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نافرمانی کروں تو اس بڑے دن کے ہیبت ناک عذاب میں مبتلا ہو جاؤں گا، تو کہہ دے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو میں یہ کلام تمہارے سامنے پیش نہ کرتا ، بقیہ حاشیہ : یہ ہے کہ وہ روحانیت سے بالکل کورا ہوگا اور اس کے گدھے سے مراد یہ ریل ہے جو مسیحی ممالک میں ایجاد ہوئی، اس کی رفتار بھی گدھے کے مشابہ ہے اور یہ آگ اور پانی سے چلتی ہے اور اس کے آگے اور پیچھے دھوئیں کے بادل ہوتے ہیں اور مسیحی پادری اس سے فائدہ اٹھا کر ساری دنیا میں پھیل گئے ہیں.یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ تو تاویلیں ہیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت سے ثابت ہے کہ دجال کے متعلق جو اخبار ہیں وہ تاویل طلب ہیں، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابن صیاد کے دیکھنے کیلئے گئے جس کے متعلق عجیب خبریں مشہور تھیں، اس سے جو باتیں آپ نے کیں ان سے معلوم ہوا کہ اس کو کچھ کچھ شیطانی القاء ہوتے ہیں، اس پر حضرت عمرؓ نے تلوار کھینچ لی اور قسم کھا کر کہا کہ یہی دجال ہے اور اسے قتل کرنا چاہا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع کیا اور فرمایا کہ اگر یہ دجال نہیں تو اس کا مارنا درست نہیں اور اگر یہ دجال ہے تو اس کا مارنا مسیح کے لئے مقدر ہے تو اسے مار نہیں سکتا.( مشکوۃ باب قصہ ابن صیاد الفصل الاول صفحہ ۴۷۸ مطبوعه قدیمی کتب خانه آرام باغ کراچی د ۱۳۶۸ ھ تر مذی ابواب الفتن باب ما جاء فی ذکر ابن صیاد ) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال کے متعلق جس قدر اخبار ہیں وہ تعبیر طلب ہیں کیونکہ جب حضرت عمر نے ابن صیاد کو دجال قرار دیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع نہیں کیا، حالانکہ آپ نے خود دجال کی یہ علامتیں بتائی تھیں کہ اس کے ماتھے پر کا فرلکھا ہوا ہوگا.(ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء في ان الدجال لا يدخل المدينة)
۱۴۲ دعوة الامير بلکہ اس کے متعلق تمہارے آگے اشارہ بھی نہ کرتا، چنانچہ اس سے پہلے میں نے تمہارے اندر ایک عمر گزاری ہے کیا تم اس پر نظر کرتے ہوئے اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ میرے جیسا انسان جھوٹ نہیں بول سکتا، بلکہ جو کچھ کہ رہا ہے سچ کہ رہا ہے.یہ ایک دلیل ہے جو قرآن کریم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی دی ہے اور یہ دلیل ہر راستباز کے دعوی کی سچائی پر کھنے کے لئے ایک زبر دست معیار ہے.سورج کی دلیل اس سے زبر دست اور کچھ نہیں کہ خود سورج موجود ہے.اسی طرح صادق اور راستباز کی صداقت کے دلائل میں سے ایک زبردست دلیل اس کا اپنا نفس ہے جو پکار پکار کر کہتا ہے مخالفوں اور موافقوں کو مخاطب کر کے کہتا ہے ، ناواقفوں اور واقفوں سے کہتا ہے، بقیہ حاشیہ: اور یہ کہ وہ کا نا ہوگا (ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء فى ان الدجال لا يدخل المدينة) اور یہ کہ وہ مدینہ میں نہیں آسکے گا (ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء في ذكر ابن صياد) یہ تینوں باتیں ابن صیاد میں نہیں پائی جاتی تھیں ، وہ کانا نہ تھا، اس کے ماتھے پر کا فرلکھا ہوا، دوسرے مومنوں کو تو الگ رہا خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نظر نہیں آیا اور وہ مدینے میں موجود تھا اگر دجال کی نسبت جس قدر اخبار تھیں وہ اپنی ظاہری شکل میں پوری ہونے والی تھیں تو کیوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کے معاملے میں تردد ظاہر کیا اور نہیں بتایا کہ تو نے سنا نہیں میں کہہ چکا ہوں کہ دجال کا نا ہوگا، اس کے ماتھے پر کا فرلکھا ہوگا ، وہ مدینہ میں داخل نہ ہو سکے گا کیا آپ کا حضرت عمرؓ کے قول کو رد نہ کرنا، بلکہ تر ودکا اظہار کرنا بتا تانہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس امر کو جائز سمجھتے تھے کہ دجال کے متعلق جو باتیں بتائی گئی ہیں وہ اصل الفاظ میں پوری نہ ہوں بلکہ کسی اور رنگ میں پوری ہو جائیں اور اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دجال کے متعلق اخبار کو تعبیر طلب قرار دیتے تھے تو کسی اور کا کیا حق ہے کہ وہ واقعات سے منہ موڑ کر الفاظ کو پکڑ کر بیٹھ جائے اور ان کے معنوں اور مطلب پر غور نہ کرے.منہ.
(Ir) دعوة الامير اجنبیوں اور راز داروں سے کہتا ہے کہ مجھے دیکھو اور مجھے جھوٹا کہنے سے پہلے سوچ لو کہ کیا تم مجھے جھوٹا کہہ سکتے ہو؟ کیا مجھے جھوٹا کہہ کر تمہارے ہاتھ سے وہ تمام ذرائع نہیں نکل جائیں گے جن کے ساتھ تم کسی چیز کی حقیقت معلوم کیا کرتے ہو؟ اور کیا مفتری قرار دیکر تم پر وہ سب دروازے بند نہیں ہو جائیں گے جن میں سے گزر کر تم شاہد مقصود کو پایا کرتے ہو، دنیا کی ہر چیز تسلسل چاہتی ہے اور ہر شئے مدارج رکھتی ہے نہ نیکی درمیانی مدارج کو ترک کر کے اپنے کمال تک پہنچ سکتی ہے اور نہ بدی درمیانی منازل کو چھوڑ کر اپنی انتہاء کو پا سکتی ہے پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ مغرب کی طرف دوڑنے والا اچانک اپنے آپ کو مشرق کے دور کنارے پر دیکھے؟ اور جنوب کی طرف جانے والا افق شمال میں اپنے آپ کو کھڑا پائے؟ میں نے اپنی سب زندگی تم میں گزاری ہے.میں چھوٹا تھا اور تمہارے ہاتھوں میں بڑا ہوا، میں جوان تھا اور تمہارے ہاتھوں میں ادھیڑ ہوا، میری خلوت و جلوت کے واقف بھی تم میں موجود ہیں، میرا کوئی کام تم سے پوشیدہ نہیں اور کوئی قول تم سے مخفی نہیں.پھر کوئی تم میں سے ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے کبھی جھوٹ بولا ہو یا ظلم کیا ہو یا فریب کیا ہو یا دھوکا دیا ہو، یا کسی کا حق مارا ہو، یا اپنی بڑائی چاہی ہو، یا حکومت حاصل یا کرنے کی کوشش کی ہو، ہر میدان میں تم نے مجھے آزمایا اور ہر حالت میں تم نے مجھے پرکھا، مگر ہمیشہ میرے قدم کو جادہ اعتدال پر دیکھا اور ہر کھوٹ سے مجھے پاک پایا، حتی کہ دوست اور دشمن سے میں نے امین و صادق کا خطاب پایا.پھر یہ کیا بات ہے کہ کل شام تک تو میں امین تھا، صادق تھا، راستباز تھا ، جھوٹ سے کوسوں دور تھا ، راستی پر فدا تھا بلکہ راستی مجھ پر فخر کرتی تھی، ہر بات اور ہر معاملہ میں تم مجھ پر اعتبار کرتے تھے اور میرے ہر قول کو تم قبول کرتے تھے مگر آج ایک دن میں ایسا تغیر ہو گیا کہ میں بدتر سے بدتر اور
دعوة الامير گندے سے گندا ہو گیا، یا تو کبھی آدمیوں پر جھوٹ نہ باندھا تھا یا اب اللہ پر جھوٹ باندھنے لگا، اس قدر تغیر اور اس قدر تبدیلی کی کیا قانون قدرت میں کہیں بھی مثال ملتی ہے؟ ایک دو دن کی بات ہوتی تو تم کہہ دیتے کہ تکلف سے ایسا بن گیا.سال دو سال کا معاملہ ہوتا تو تم کہتے ہمیں دھوکا دینے کو اس نے یہ طریق اختیار کر رکھا تھا مگر ساری کی ساری عمر تم میں گزار چکا ہوں ، بچپن کو تم نے دیکھ لیا ، جوانی کو تم نے مشاہدہ کیا، کہولت کا زمانہ تمہاری نظروں کے سامنے گزرا، اس قدر تکلف اور اس قدر بناوٹ کس طرح ممکن تھی، بچپن کے زمانے میں جب اپنے بھلے برے کی بھی خبر نہیں ہوتی.میں نے بناوٹ کس طرح کی جوانی جود یوانی کہلاتی ہے اس میں میں نے قریب سے اپنی حالت کو کس طرح چھپایا، آخر کچھ تو سوچو کہ یہ فریب کب ہوا اور کس نے کیا اور اگر غور وفکر کر کے میری زندگی کو بے عیب اور بے لوث ہی نہ پاؤ بلکہ تم اسے نیکی کا مجسمہ اور صداقت کی تمثال دیکھو تو پھر سورج کو دیکھتے ہوئے رات کا اعلان نہ کرو اور نور کی موجودگی میں ظلمت کے شاکی نہ بنو، تم کو میرے نفس کے سوا اور کس دلیل کی ضرورت ہے؟ اور میرے پچھلے چال چلن کو چھوڑ کر اور کس حجت کی حاجت ہے؟ میرا انفس خود مجھ پر گواہ ہے اور میری زندگی مجھ پر شاہد ہے اگر تم میں سے ہر شخص اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھے تو اس کا دل اور اس کا دماغ بھی اس امر کی شہادت دے گا کہ صداقت اس میں قائم ہے اور یہ صداقت سے قائم ہے راستی کو اس پر فخر ہے اور اس کو راستی پر فخر ہے.یہ اپنی سچائی ثابت کرنے کے لئے دوسری چیزوں کا محتاج نہیں اس کی مثال آفتاب آمد دلیل آفتاب کی سی ہے.یہی وہ زبردست دلیل ہے جس نے ابوبکر کے دل میں گھر کر لیا اور یہی وہ طاقتور دلیل ہے جو ہمیشہ صداقت پسندلوگوں کے دلوں میں گھر کرتی چلی جائے گی ، جب آنحضرت
(iro) دعوة الامير صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوی کیا تھا اس وقت حضرت ابوبکر اپنے ایک دوست کے گھر پر تشریف رکھتے تھے.وہیں آپ کی ایک آزاد لونڈی نے اطلاع دی کہ آپ کے دوست کی بیوی کہتی ہے کہ اس کا خاوند اس قسم کا نبی ہوگیا ہے جس قسم کا نبی موسیٰ کو بیان کرتے ہیں.آپ اسی وقت اُٹھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پر تشریف لے گئے اور آپ سے دریافت کیا، آپ نے فرمایا، میں خدا کا رسول ہوں، حضرت ابوبکر نے اس بات کو سنتے ہی آپ کے دعوی کو تسلیم کر لیا چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپ کے ایمان کے متعلق فرماتے ہیں مَا دَعَوْتُ أَحَداً إِلَى الْإِسْلَامِ الأَكَانَتْ عِنْدَهُ كَبَوَةً وَنَظَرْ وَتَرَدُدْ الأَمَا كَانَ مِنْ أَبِي بَكْرٍ مَاعَكُمَ عَنْهُ حِيْنَ ذَكَرْتُ لَهُ (البدايةو النهاية لابو الفداء الحافظ ابن كثير الجزء الثالث صفحہ ۲۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۲۲ء) یعنی میں نے کسی کو اسلام کی طرف نہیں بلا یا مگر اس کی طرف سے کچھ روک اور فکر اور تر ڈ ظاہر ہوا لیکن ابوبکر کے سامنے جب اسلام پیش کیا تو وہ بالکل متردد نہیں ہوا بلکہ اس نے خود اسلام کو قبول کر لیا.یہ کیا چیز تھی جس نے حضرت ابوبکر کو بغیر کسی نشان کے دیکھے رسول کریم پر ایمان لانے کے لئے مجبور کر دیا.یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کانفس ناطقہ تھا جو اپنی سچائی کا آپ شاہد ہے.حضرت خدیجہ ، حضرت علی اور حضرت زید بن حارث بھی اسی دلیل کو دیکھ کر ایمان لائے بلکہ حضرت خدیجہ نے تو نہایت وضاحت سے اس دلیل کو اپنے ایمان کی وجہ کے طور پر بیان بھی کیا ہے، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غار حرا میں فرشتہ نظر آیا اور آپ نے آکر حضرت خدیجہ سے گل واقعہ بیان کر کے فرمایا کہ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِی.کہ میں اپنی جان کے متعلق ڈرتا ہوں، تو اس وقت حضرت خدیجہ رضی الله عنها لے زرقانی جلد اول صفحه ۴
۱۴۶ دعوة الامير نے جواب میں کہا.كَلاةَ اللهِ مَا يُخْزِیكَ اللهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِى الضَّيْفَ وَتُعِيْنُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِ (بخاری باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله صلى الله علیه وسلم) ہرگز نہیں ، ہر گز نہیں.خدا کی قسم اللہ تجھ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا تو تو رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتا ہے اور بیکس کا بوجھ اٹھاتا ہے اور وہ اخلاق فاضلہ جو اس زمانے میں بالکل مفقود تھے تجھ میں پائے جاتے ہیں اور تو مہمان کی مہمان داری کرتا ہے اور لوگوں کی جائز مصائب میں ان کی مدد کرتا ہے.غرض نبی کی صداقت کی پہلی اندرونی دلیل اس کا نفس ہوتا ہے جو بزبان حال اسکی سچائی پر گواہ ہوتا ہے اور اس کی گواہی ایسی زبردست ہوتی ہے کہ اس کی موجودگی میں کسی اور معجزہ یا آیت کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی اور یہ دلیل حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی سچائی ثابت کرنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے اتاری ہے.آپ قادیان کے رہنے والے تھے.جس میں ہندوستان کے تینوں مذاہب کے پیرو یعنی ہندو سکھ اور مسلمان بستے ہیں، گویا آپ کی زندگی کے نگران تین قوموں کے آدمی تھے.آپ کے خاندانی تعلقات ان لوگوں سے ایسے نہ تھے کہ انکو آپ سے کچھ ہمدردی ہو کیونکہ آپ کی ابتدائی عمر کے ایام میں انگریزوں نے اس ملک پر قبضہ کر لیا تھا اور ان کی آمد کیساتھ ہی قادیان کے باشندوں نے جو آپ کے آباؤ اجداد کی رعایا میں سے تھے اس انقلاب حکومت سے فائدہ اٹھا کر اپنی آزادی کے لئے جد و جہد شروع کر دی اور آپ کے والد کے ساتھ تمام قصبے کے باشندوں کے تنازعات اور مقدمات شروع ہو گئے تھے.یہ بھی نہیں کہ آپ ان مقدمات سے علیحدہ تھے باوجود آپ کی خلوت پسندی کے
۱۴۷ دعوة الامير آپ کے والد صاحب نے حکماً کچھ عرصہ تک کے لئے آپ کو ان مقدمات کی پیروی کے لئے مقرر کر دیا تھا.جس کی وجہ سے بظاہر آپ ہی لوگوں کے مد مقابل بنتے تھے.سکھوں کو خاص طور پر آپ کے خاندان سے عداوت تھی کیونکہ کچھ عرصہ کے لئے آپ کے خاندان کو اس علاقے سے نکال کر وہی یہاں حاکم بن گئے تھے.پس اس خاندان کی ترقی ان پر شاق گزرتی تھی اور ایک قسم کی رقابت ان کے دلوں میں تھی.آپ کو ابتدائی عمر سے اسلام کی خدمت کا شوق تھا اور آپ مسیحی ، ہندو اور سکھ مذاہب کے خلاف تقریرا اور تحریراً مباحثات جاری رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان مذاہب کے پیروؤں کو طبعاً آپ سے پر خاش تھی.مگر باوجود اس کے کہ سب اہل مذاہب سے آپ کے تعلقات تھے اور سب سے مذہبی دلچسپی کی وجہ سے مخالفت تھی ہر شخص خواہ ہندو ہو خواہ سکھ خواہ مسیحی خواہ مسلمان ، اس بات کا مقتر ہے کہ آپ کی زندگی دعوے سے پہلے نہایت بے عیب اور پاک تھی اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق فاضلہ آپ کو حاصل تھے سچائی کو آپ کبھی نہ چھوڑتے تھے اور لوگوں کا اعتبار اور یقین آپ پر اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ آپ کے خاندان کے دشمن بعض دفعہ اُن حقوق کے تصفیے کے لئے جن کے متعلق ان کو آپ کے خاندان سے اختلافات ہوتا اس امر پر زور دیتے تھے کہ آپ کو منصف مقرر کر دیا جائے.جو فیصلہ آپ دیں وہ ان کو منظور ہوگا، غرض آپ کے حالات سے واقف لوگ ہرامر میں آپ پر اعتبار کرتے تھے اور آپ کو راستی اور صداقت کا ایک مجسمہ یقین کرتے تھے.مسیحی ، ہندو، سکھ کو مذہبی اختلاف آپ سے رکھتے تھے مگر اس امر کا اقرار کرتے تھے کہ آپ کی زندگی مقدس زندگی ہے.لوگوں کی جو رائے آپ کی نسبت تھی اس کا ایک نمونہ میں ایک شخص کے قلم سے نکلا
(IPA) دعوة الامير ہوا پیش کرتا ہوں جو بعد کو آپ کا سخت مخالف ہو گیا اور آپ کے دعوے پر اس نے سب سے پہلے آپ کی تکفیر کا فتویٰ دیا.یہ صاحب کوئی معمولی شخص نہیں بلکہ اہل حدیث کے لیڈر اور سردار مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں.جنہوں نے آپ کی ایک کتاب براہین احمدیہ پر ریویو کرتے ہوئے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں آپ کی نسبت یوں گواہی دی ہے.مؤلف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے.مؤلف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے (جب ہم قطبی و شرح ملا پڑھتے تھے ) ہمارے ہم مکتب ، اس زمانے سے آج تک ہم میں اُن میں خط و کتابت و ملاقات و مراسلت برابر جاری ہے اس لئے ہمارا یہ کہنا کہ ہم ان کے حالات سے بہت واقف ہیں، مبالغہ قرار نہ دیئے جانے کے لائق ہے.“ اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبرے صفحہ ۱۷۶) یہ بیان تو ان کا اس امر کے متعلق ہے کہ ان کی شہادت یونہی نہیں بلکہ لمبے تجر بہ اور صحبت کا نتیجہ ہے اور ان کی شہادت یہ ہے:.”ہماری رائے میں یہ کتاب (حضرت صاحب کی کتاب ” براہین احمدیہ“ مؤلف ) اس زمانے میں اور موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں لَعَلَّ اللَّهَ يُحدِث بَعْدَ ذَالِکَ اَمْرًا اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم دیکھی جاتی ہے ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم
۱۳۹ دعوة الامير ایک ایسی کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً فرقہ آریہ و برہم سماج سے اس زور شور سے مقابلہ کیا گیا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشان دہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی و جانی و قلمی ولسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑہ اٹھالیا ہو اور مخالفین اسلام اور منکرین الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدی کیساتھ یہ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجود الہام کا شک ہو وہ ہمارے پاس آکر اس کا تجربہ و مشاہدہ کرے اور اس تجربہ اور مشاہدہ کا غیر اقوام کو مزہ بھی چکھا دیا ہو.“ اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبر ۷ ۱۶۹-۱۷۰) یہ رائے آپ کے چال چلن اور خدمت اسلام کی نسبت اس شخص کی ہے جس نے آپ کے دعوائے مسیحیت پر ان اہل مکہ کی طرح جن کی زبانیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امین وصادق کہتے ہوئے خشک ہوتی تھیں نہ صرف آپ کے دعوے کا انکار کیا بلکہ اپنی باقی عمر آپ کی تکفیر اور تکذیب اور مخالفت میں بسر کر دی.مگر دعوے کے بعد کی مخالفت کوئی حقیقت نہیں رکھتی.قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص باوجود بتیس دانتوں میں آئی ہوئی زبان کی طرح مخالفوں اور دشمنوں کے نرغہ میں رہنے کے ہر دوست و دشمن سے اپنی صداقت کا اقرار کر والے اور پھر وہ ایک ہی دن میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے لگے.اللہ تعالیٰ ظالم نہیں کہ ایسے شخص کو جو اپنی بے عیب زندگی کا دشمن سے بھی اقرار کر والیتا ہے یہ بدلہ دیکر ایک ہی دن میں اَشَر الناس بنادے اور یا تو بڑے سے بڑا لالچ اور مہیب سے مہیب خطرہ اسے صداقت سے پھیر نہیں سکتا تھا اور یا پھر اللہ تعالیٰ اس کے دل کو ایسا مسخ کر دے کہ وہ اچانک اس پر جھوٹ باندھنا شروع کر دے.
(10.) دعوة الامي جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخالفوں کو چیلنج پر چیلنج د یا کہ وہ آپ کی پہلی زندگی پر حرف گیری کریں یا بتائیں کہ وہ آپ کو اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا حامل نہیں سمجھتے تھے مگر کوئی شخص آپ کے مقابلے پر نہ آیا، اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ کبھی کوئی مخالف تیری سوانح پر کوئی داغ نہیں لگا سکے گا.نزول المسیح صفحه ۲۱۴ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۹۰ ) اور پھر اس دعوے کے مطابق متواتر مخالفوں کو چیلنج دیا کہ وہ آپ کے مقدس چال چلن کے خلاف کوئی بات پیش کریں یا ثابت کریں کہ وہ آپ کے چال چلن کو بچپن سے بڑھاپے تک ایک اعلیٰ اور قابل تقلید نمونہ اور بے عیب نہیں سمجھتے تھے مگر باوجود بار بار مخالفوں کے اُکسانے کے کوئی شخص آپ کے خلاف نہیں بول سکا اور اب تک بھی وہ لوگ زندہ ہیں جو آپکی جوانی کے حالات کے شاہد ہیں مگر باوجود سخت مخالفت کے وہ اس امر کی گواہی کو نہ چھپا سکتے تھے اور نہ چھپا سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چال چلن حیرت انگیز طور پر اعلیٰ تھا اور بقول بہت سے ہندوؤں اور سکھوں اور مسلمانوں کے آپکے بچپن اور جوانی کی زندگی اللہ والوں کی زندگی تھی.پس جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نفس ناطقہ آپ کی صداقت کا ایک زبر دست ثبوت تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں مخالفوں کے سامنے بطور حجت کے پیش کیا ہے اسی طرح مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی زندگی آپ کی صداقت کا ثبوت ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.آپ کا اپنا نفس ہی آپ کی سچائی کا شاہد ہے.
(101) چوتھی دلیل غلبہ اسلام برادیان باطله دعوة الامير چوتھی دلیل یا یوں کہنا چاہئے کہ چوتھی قسم کے دلائل آپ کی صداقت کے ثبوت میں یہ ہیں کہ آپ کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان پیشگوئی کو پورا کیا ہے جسے قرآن کریم میں مسیح موعود کا خاص کام قرار دیا گیا ہے یعنی آپ کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دیگر ادیان پر غالب کر کے دکھایا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّه (التوبه: ۳۳) خدا ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دیکر بھیجا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو باقی تمام ادیان پر غالب کر کے دکھائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات زمانہ مسیح موعود میں ہوگی، کیونکہ فتنہ دجال کے توڑنے اور یا جوج ماجوج کی ہلاکت اور مسیحیت کے مٹانے کا کام آپ نے مسیح کے ہی سپرد بیان فرمایا ہے اور یہ فتنے تمام فتنوں سے بڑے بتائے گئے ہیں اور یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ دجال یعنی مسیحیت کے حامی اس وقت سب ادیان پر غالب آجائیں گے، پس ان پر غالب ہونے سے صاف ظاہر ہے کہ دیگر ادیان پر بھی اسلام کو غلبہ حاصل ہو جائے گا.پس معلوم ہوا کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلّہ سے مراد مسیح موعود کا ہی زمانہ ہے اور یہ استنباط ایسا ہے کہ قریباً تمام مسلمانوں کو اس سے اتفاق ہے.چنانچہ تفسیر جامع البیان کی جلد ۲۸ میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ وَ ذَلِكَ عِنْدَ نُزُوْلِ عِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ( تفسیر جامع البیان مؤلف ابی جعفر محمد بن جریر الطبری المتوفی ۳۱۰ھ جلد ۲۸ صفحه ۵۸ مطبوعہ مصر ۱۳۲۹ھ )
(۱۵۲) دعوة الامير یہ غلبہ دین عیسی بن مریم کے زمانے میں ہوگا اور قرائن عقلیہ بھی اسی کی تائید کرتے ہیں کیونکہ تمام ادیان کا ظہور جیسا کہ اس زمانے میں ہوا ہے اس سے پہلے نہیں ملتا.آپس میں میل جول کے زیادہ ہو جانے کی وجہ سے اور پریس کی ایجاد کے سبب سے کتب کی اشاعت میں سہولت پیدا ہو جانے کے سبب سے تمام ادیان کے پیروؤں میں ایک جوش پیدا ہو گیا ہے اور اس قدر مذاہب کی کثرت نظر آتی ہے کہ اس سے پہلے اس قدر کثرت نظر نہیں آتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو صرف چار دین ہی اسلام کے مقابلے میں آئے تھے یعنی مشرکین مکہ کا دین اور نصاریٰ کا دین اور یہود اور مجوس کا دین.پس اُس زمانے میں اس پیشگوئی کے ظہور کا ابھی وقت نہیں آیا تھا، اس کا وقت اب آیا ہے کیونکہ اس وقت تمام ادیان ظاہر ہو گئے ہیں اور نو ایجادسواریوں اور تار اور پریس وغیرہ کی ایجاد سے مذاہب کا مقابلہ بہت شدت سے شروع ہو گیا ہے.غرض قرآن کریم اور احادیث اور عقل صحیح سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا غلبہ ادیان باطلہ پر ظاہری طور پر مسیح موعود کے زمانے میں ہی مقدر ہے اور مسیح موعود کا اصل کام یہی ہے اس کام کو اس کے سوا کوئی اور نہیں کر سکتا اور جو شخص اس کام کو بجالائے اسکے مسیح موعود ہونے میں کچھ شک نہیں اور واقعات سے ثابت ہے کہ یہ کام اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے ہاتھوں سے پورا کر دیا ہے پس آپ ہی مسیح موعود ہیں.حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے دعوئی سے پہلے اسلام کی حالت ایسی نازک ہو چکی تھی کہ خود مسلمانوں میں سے سمجھدار اور زمانے سے آگاہ لوگ یہ پیشگوئیاں کرنے لگے تھے کہ چند دنوں میں اسلام بالکل مٹ جائے گا اور حالات اس امر کی طرف اشارہ بھی کر
(۱۵۳) دعوة الامير رہے تھے کیونکہ مسیحیت اس سرعت کیساتھ اسلام کو کھاتی چلی جارہی تھی کہ ایک صدی تک اسلام کے بالکل مٹ جانے کا خطرہ تھا، مسلمان مسیحیوں کے مقابلے میں اسقدر زک پر زک اٹھا رہے تھے کہ نو مسلم اقوام تو الگ رہیں ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد یعنی سادات میں سے ہزاروں اسلام کو چھوڑ کر عیسائی ہو گئے تھے اور نہ صرف عیسائی ہو گئے تھے بلکہ اسلام اور بانی اسلام کے خلاف سخت گندالٹریچر شائع کر رہے تھے اور منبروں پر چڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس پر ایسے دل آزار اتہام لگائے جاتے تھے کہ ایک مسلمان کا کلیجہ ان کو سن کر چھلنی ہوجاتا تھا، مسلمانوں کی کمزوری اسقدر بڑھ گئی تھی کہ وہ مردہ قوم ہنود کی جس کو تبلیغ کے میدان میں کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور جو ہمیشہ اپنے گھر کی حفاظت ہی کی کوشش اور وہ بھی ناکام کوشش کرتی رہی ہے اسے بھی جرات پیدا ہو گئی اور اس میں سے بھی ایک فرقہ آریوں کا کھڑا ہو گیا جس نے اپنا مقصد مسلمانوں کو ہندو بنانا قرار دیا اور اس کے لئے عملی طور پر جد و جہد بھی شروع کر دی.یہ نظارہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے ایک بے خطا نشانچی کی نعش پر گدھ جمع ہو جاتے ہیں، یا تو وہ اس کے زور بازو سے ڈرکر اس کے قریب بھی نہ پھٹکا کرتے تھے یا اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھانے لگتے ہیں اور اس کی ہڈیوں پر بیٹھ کر اس کا گوشت کھاتے ہیں، بعض مسلمان مصنف تک جو اسلام کی تائید کے لئے کھڑے ہوتے تھے، بجائے اس کی تعلیم کی خوبی ثابت کرنے کے اس امر کا اقرار کرنے لگ گئے تھے کہ اسلام کے احکام زمانہ جاہلیت کے مناسب حال تھے اس لئے موجودہ زمانے کی روشنی کے مطابق ان پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے.اس اندرونی مایوسی اور بیرونی حملے کے وقت حضرت اقدس مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام کی حفاظت کا کام شروع کیا اور سب سے پہلاحملہ ہی ایساز بر دست کیا کہ
(۱۵۴) دعوة الامير دشمنوں کے ہوش و حواس گم ہو گئے.آپ نے ایک کتاب’براہین احمدیہ لکھی جس میں اسلام کی صداقت کے دلائل کو بوضاحت بیان فرمایا اور دشمنان اسلام کو چیلنج دیا کہ اگر وہ اپنے مذاہب سے پانچواں حصہ دلائل بھی نکال دینگے تو آپ ان کو دس ہزار روپیہ دیں گے.( براہین احمدیہ چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحہ ۲۷.۲۸) باوجود ناخنوں تک زور لگانے کے کوئی دشمن اس کتاب کا جواب نہ دے سکا اور ہندوستان کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک شور پڑ گیا کہ یہ کتاب اپنی آپ ہی نظیر ہے دشمن حیران رہ گئے کہ یا تو اسلام دفاع کی بھی طاقت نہ رکھتا تھا یا اس مرد میدان کے بیچ میں آکودنے کے سبب سے اس کی تلوار ادیان باطلہ کے سر پر اس زور سے پڑنے لگی ہے کہ ان کو اپنی جانوں کے لالے پڑ گئے ہیں.اس وقت تک آپ نے مسیحیت کا دعویٰ نہیں کیا تھا اور نہ لوگوں میں آپ کی مخالفت کا جوش پیدا ہوا تھا اور وہ تعصب سے خالی تھے.نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں مسلمانوں نے علی الاعلان کہنا شروع کر دیا کہ یہی شخص اس زمانے کا مجدد ہے بلکہ لدھیانے کے ایک بزرگ نے جو اپنے زمانے کے اولیاء میں سے شمار ہوتے تھے یہاں تک لکھدیا کہ ہم مریضوں کی ہے تمہیں پر نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے ! ( تأثرات قادیان مؤلف ملک فضل حسین صفحہ ۶۷ مطبوعہ مسلم پرنٹنگ پریس لاہور دسمبر ۱۹۳۸ء میں یہ شعر اس طرح درج ہے سب مریضوں کی ہے تمہی پہ نگاہ تم مسیحا بنو خدا کے لئے ) اس کتاب کے بعد آپ نے اسلام کی حفاظت اور اس کی تائید میں اس قدر کوشش کی کہ آخر دشمنان اسلام کو تسلیم کرنا پڑا کہ اسلام مردہ نہیں بلکہ زندہ مذہب ہے اور ان کو فکر پڑگئی کہ ہمارے مذہب اسلام کے مقابلہ میں کیونکر ٹھہریں گے.اور اس وقت اس مذہب
(100) دعوة الامير کی جو سب سے زیادہ اپنی کامیابی پر اترا رہا تھا اور اسلام کو اپنا شکار سمجھ رہا تھا یہ حالت ہے کہ اس کے مبلغ حضرت اقدس کے خدام سے اس طرح بھاگتے ہیں جس طرح گدھے شیروں سے بھاگتے ہیں اور کسی میں یہ طاقت نہیں کہ وہ احمدی کے مقابلے پر کھڑا ہو جائے.آج آپ کے ذریعے سے اسلام سب مذاہب پر غالب ہو چکا ہے، کیونکہ دلائل کی تلوار ایسی کاری تلوار ہے کہ گو اس کی ضرب دیر بعدا پنا اثر دکھاتی ہے مگر اس کا اثر نہ مٹنے والا ہوتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ مسیحیت گوا بھی اسی طرح دنیا کو گھیرے ہوئے ہے جس ح پہلے تھی اور دیگر ادیان بھی اسی طرح قائم ہیں جسطرح پہلے تھے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی موت کی گھنٹی بج چکی ہے.اور ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے.رسم ورواج کے اثر کے سبب سے ابھی لوگ اسلام میں اس کثرت سے داخل نہیں ہوتے جس کثرت سے داخل ہونے پر ان کی موت ظاہر بینوں کو نظر آسکتی ہے، مگر آثار ظاہر ہو چکے ہیں.عظمند آدمی بیج سے اندازہ لگاتا ہے.حضرت اقدس نے ان پر ایساوار کیا کہ اس کی زد سے وہ جانبر نہیں ہو سکتے اور جلد یا بدیر ایک مردہ ڈھیر کی طرح اسلام کے قدموں پر گریں گے وہ وار جو آپ نے غیر مذاہب پر کئے اور جن کا نتیجہ ان کی یقینی موت ہے یہ ہیں:.مسیحی مذہب پروار مسیحی مذہب پر تو آپ کا یہ وار ہے کہ اس کی تمام کامیابی اس یقین پر تھی کہ حضرت مسیح صلیب پر مر کر لوگوں کے لئے کفارہ ہو گئے اور پھر زندہ ہو کر آسمان پر خدا کے داہنے ہاتھ پر جابیٹھے ایک طرف انکی موت جسے لوگوں کے لئے ظاہر کیا جاتا تھا لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت کی لہر چلا دیتی تھی اور دوسری طرف ان کی زندگی اور آسمان پر خدا تعالیٰ کے
(104) دعوة الامير داہنے ہاتھ پر جا بیٹھنا ان کی عظمت اور خدا ئی کا اقرار کر والیتا تھا.آپ نے ان دونوں باتوں کو انجیل ہی سے غلط ثابت کر کے دکھایا اور تاریخ سے ثابت کر دیا کہ مسیح کا صلیب پر مرنا ناممکن تھا کیونکہ صلیب پر لوگ تین تین دن تک زندہ رہتے تھے اور مسیح کو صرف بقول اناجیل تین چار گھنٹے صلیب پر رکھا گیا، بلکہ انجیل میں ہے کہ جب ان کو صلیب سے اتارا گیا تو ان کے جسم میں نیزہ چھونے سے جسم سے زندہ خون نکلا ( یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۱ تا ۳۴ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائیٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء (مفہوم) اور مُردے کے جسم سے زندہ خون نہیں نکلا کرتا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ ثابت کیا کہ حضرت مسیح نے پیشگوئی کی تھی جواب تک اناجیل میں موجود ہے کہ آپ زندہ صلیب سے اتر آئیں گے.آپ نے فرمایا تھا ، اس زمانے کے لوگوں کو یونس نبی کا سا معجزہ دکھایا جائے گا.جس طرح وہ تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا اسی طرح ابن آدم تین دن رات قبر میں رہے گا.متی باب ۱۲ آیت ۳۹-۴۰ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائیٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء (مفہوماً) اور یہ بات متفقہ طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ یونس نبی زندہ ہی مچھلی کے پیٹ میں داخل ہوا اور زندہ ہی اس سے باہر آیا.پس اسی طرح مسیح علیہ السلام بھی زندہ ہی قبر میں اتارے گئے اور زندہ ہی اس میں سے نکالے گئے.چونکہ تمام دلائل کی بنیادا نا جیل پر ہی تھی اس حربہ کا جواب مسیحی کچھ نہ دے سکتے تھے اور نہ اب دے سکتے ہیں.پس کفارہ اور مسیح کے دوسروں کی خاطر صلیب پر مارے جانے کا عقیدہ جو مسیحیت کی طرف لوگوں کو کھینچ کر لا رہا تھا بالکل باطل ہو گیا اور اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی.دوسری ٹانگ مسیحیت کے بت کی حضرت مسیح کے زندہ آسمان پر جانے اور خدا
(102) دعوة الامير کے داہنے ہاتھ بیٹھ جانے کی تھی.یہ ٹانگ بھی آپ نے انجیلی دلائل سے ہی توڑ دی کیونکہ آپ نے انجیل سے ہی ثابت کر دکھایا کہ مسیح علیہ السلام صلیب کے واقعہ کے بعد آسمان پر نہیں گئے بلکہ ایران، افغانستان اور ہندوستان کی طرف چلے گئے.جیسا کہ لکھا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے کہا کہ میں بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیٹروں کو اکٹھا کرنے آیا ہوں میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانے کی نہیں مجھے ان کا بھی لانا ضرور ہے (یوحنا باب ۱۰ آیت ۱۶ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائیٹی لا ہورمطبوعہ ۱۹۰۶ء) اور تواریخ سے ثابت ہے کہ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے دس کو قید کر کے افغانستان کی طرف جلا وطن کر دیا تھا.پس حضرت مسیح" کے اس قول کے مطابق ان کا افغانستان اور کشمیر کی طرف آنا ضروری تھا، تا کہ وہ ان گمشدہ بھیڑوں کو خدا کا کلام پہنچادیں.اگر وہ ادھر نہ آتے تو اپنے اقرار کے مطابق ان کی بعثت لغو اور عبث ہو جاتی.آپ نے انجیلی شہادت کے علاوہ تاریخی اور جغرافیائی شہادت سے بھی اس دعویٰ کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا ، چنانچہ پرانی مسیحی تاریخوں سے ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح کے حواری ہندوستان کی طرف آیا کرتے تھے اور یہ کہ تبت میں ایک کتاب بالکل انجیل کی تعلیم کے مشابہ موجود ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس میں عیسی کی زندگی کے حالات ہیں.جس سے معلوم ہوا کہ مسیح علیہ السلام ان علاقوں کی طرف ضرور آئے تھے.اسی طرح آپ نے ثابت کیا کہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے اور افغانستان اور کشمیر کے آثار اور شہروں کے نام اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان ممالک میں یہودی لا کر بسائے گئے تھے، چنانچہ کشمیر کے معنی جو کہ اصل میں کثیر ہے (جیسا کہ اصل باشندوں کی زبان سے معلوم ہوتا
(IDA) دعوة الامير ہے ) شام کے ملک کی مانند کے ہیں.ک کے معنے مثل کے ہیں اور شیر شام کا نام ہے.اسی طرح کا بل اور بہت سے دوسرے افغانی شہروں کے نام شام کے شہروں کے ناموں سے ملتے ہیں اور افغانستان اور کشمیر کے باشندوں کے چہروں کی ہڈیوں کی بناوٹ بھی بنی اسرائیل کے چہروں کی بناوٹ سے ملتی ہے مگر سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ نے تاریخ سے مسیح کی قبر کا بھی پتہ نکال لیا جو کہ کشمیر کے شہر سرینگر کے محلہ خانیار میں واقع ہے.کشمیر کی پرانی تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک نبی کی قبر ہے جسے شہزادہ نبی کہتے تھے اور جو مغرب کی طرف سے انیس سو سال ہوئے آیا تھا اور کشمیر کے پرانے لوگ اسے عیسی صاحب کی قبر کہتے ہیں.غرض متفرق واسطوں سے پہنچنے والی روایات کے ذریعے سے آپ نے ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح فوت ہو کر کشمیر میں دفن ہیں اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ان کے حق میں پورا ہو چکا ہے کہ وَأَوَيْنَا هُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينِ (المومنون آیت : ۵۱) اور ہم نے مسیح اور اس کی ماں کو ایک ایسے مقام پر جگہ دی جو اونچی جگہ ہے اور پھر ہے بھی میدان میں اور اس میں چشمے بھی بہت سے پھوٹتے ہیں اور یہ تعریف کشمیر پر بالکل صادق آتی ہے.غرض مسیح کی زندگی کے حالات ان کی موت تک ثابت کر کے اور ان کی قبر تک کا نشان نکال کر حضرت مسیح موعود نے مسیح کی خدائی پر ایساز بر دست حملہ کیا ہے کہ مسیح کی خدائی کا عقیدہ ہمیشہ کے لئے ایک مردہ عقیدہ بن گیا ہے اور اب کبھی بھی مسیحیت دوبارہ سرنہیں اٹھا سکتی.سب مذاہب کے لئے ایک ہی ہتھیار چونکہ مسیحی مذہب کیا بلحاظ سیاسی فوقیت اور کیا بلحاظ وسعت اور کیا بلحاظ اپنی تبلیغی کوششوں کے اور کیا بلحاظ علمی ترقی کے اس زمانے میں دوسرے تمام ادیان پر ایک فوقیت
(109) دعوة الامير.رکھتا تھا، اس وجہ سے اس کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے آپکو خاص ہتھیار عطا فرمائے ، مگر باقی تمام مذاہب کے لئے ایک ہی ایسا ہتھیار دیا جس کی زد سے کوئی مذہب بیچ نہیں سکتا اور ہر مذہب کے پیرو اسلام کا شکار ہو گئے ہیں وہ ہتھیار یہ ہے کہ ہر مذہب کے پہلے بزرگوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے آخری ایام دنیا میں ایک مصلح کی خبر دے رکھی تھی اور اس خبر کی وجہ سے سب مذاہب ایک نبی یا اوتار یا جو نام بھی اس کا انہوں نے رکھا تھا اس کے منتظر تھے اور اپنی تمام ترقیات کو اس سے وابستہ سمجھتے تھے ، ہندوؤں میں بھی ایسی پیشگوئیاں تھیں اور زرتشتیوں میں بھی تھیں اور دیگر چھوٹے بڑے ادیان کے پیروؤں میں بھی تھیں اور ان سب پیشگوئیوں میں آنے والے موعود کا زمانہ بھی بتا یا گیا تھا ، یعنی چند علامات اس کے زمانے کی بطور شناخت بنادی گئی تھیں، اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود پر یہ کھول دیا کہ یہ جس قدر پیشگوئیاں ہیں اور ان میں جو علامات بتائی گئی ہیں سب ملتی جلتی ہیں اور اگر بعض پیشگوئیوں میں بعض دوسریوں سے زائد علامات بھی بتائی گئی ہیں تو وہ اسی زمانے کی طرف اشارہ کر رہی ہیں جس طرف کہ باقی علامات.پس یہ تمام نبی یا اوتار ایک ہی زمانے میں آنے والے ہیں.اب ادھر تو ان پیشگوئیوں کا ہزاروں سالوں کے بعد اس زمانے میں آکر پورا ہو جانا بتا تا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھیں، انسان یا شیطان کی طرف سے نہ تھیں کیونکہ آیت فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ (الجن : ۲۷-۲۸) اس کا فیصلہ کر رہی ہے اور دوسری طرف یہ بات بالکل خلاف عقل ہے کہ ایک ہی زمانے میں ہر قوم اور ملت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول یا نبی یا او تارکھڑے کئے جاویں جن کا یہ کام ہو کہ وہ اس قوم کو دوسری اقوام پر غالب کریں گویا خدا کے نبی ایک دوسرے کا مقابلہ کریں
(11.) دعوة الامير اور پھر یہ بھی ناممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں ہر قوم دوسری اقوام پر غالب آجائے.پس ایک طرف ان پیشگوئیوں کا سچا ہو کر ثابت ہونا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور دوسری طرف ان کا مختلف وجودوں پر پورا ہو کر باعث فساد بلکہ خلاف عقل ہونا اس بات پر شاہد ہے کہ در حقیقت ان تمام پیشگوئیوں میں ایک ہی وجود کی خبر دی گئی تھی اور اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ پہلے اقوام عالم میں ایک وجود کا انتظار کرائے اور جب وہ آجائے تو اس کے منہ سے اسلام کی صداقت کی شہادت دلا کر ان ادیان کے پیروؤں کو اسلام میں داخل کرے اور اسلام کو ان ادیان پر غالب کرے.پس مہدی کوئی نہ تھا مگر مسیح اور کرشن کوئی نہ تھا مگر مسیح، زرتشتیوں کا مسیو در بیمی کوئی نہ تھا مگر وہی جو کرشن ، مہدی اور مسیح تھا اور اسی طرح دوسری اقوام کے موعود در حقیقت ایک ہی شخص تھے اور غرض مختلف ناموں کے ذریعے سے پیشگوئی کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اپنے نبیوں سے اس کی خبر سن کر اور اپنی زبان میں اس کا نام دیکھ کر وہ اسے اپنا سمجھیں غیر خیال نہ کریں، حتی کہ وہ زمانہ آجائے کہ جب وہ موعود ظاہر ہو اور اس کے وقت میں سب پیشگوئیوں کو پورا ہوتے دیکھ کر ان کی صداقت کا اقرار کرنا پڑے اور اس کی شہادت پر وہ اسلام کو قبول کریں.اس پر حکمت عمل کی مثال بالکل یہ ہے کہ کوئی شخص بہت سی اقوام کو لڑتا دیکھ کر ان سے خواہش کرے کہ وہ ثالثوں کے ذریعے سے فیصلہ کر لیں اور جب وہ اپنے اپنے ثالث مقرر کر چکیں تو معلوم ہو کہ وہ ایک ہی شخص کے مختلف نام ہیں اور اس کے فیصلے پر سب کی صلح ہو جائے.غرض یہ ثابت کر کے کہ مختلف مذاہب میں جو آخری زمانے کے موعود کے متعلق پیشگوئیاں ہیں وہ اس زمانے میں پوری ہو چکی ہیں اور پھر یہ ثابت کر کے کہ ایک ہی وقت
(II) دعوة الامير میں کئی موعود جن کی غرض یہ ہو کہ سب دنیا میں صداقت کو پھیلائیں اور اپنی قوم کو غالب کریں ناممکن ہے آپ نے ثابت کر دیا کہ در حقیقت سب مذاہب مختلف ناموں کے ساتھ ایک ہی موعود کو یاد کر رہے تھے اور وہ موعود آپ ہیں اور چونکہ نبی کسی قوم کا نہیں ہوتا جو خدا کے لئے اس کے ساتھ ہو وہ اس کا ہوتا ہے اس لئے وہ گویا ہر مذہب کے پیروؤں کے اپنے ہی آدمی ہیں اور آپ کے ماننے سے ان کی تمام ترقیات وابستہ ہیں اور آپ کو ماننے کے یہ معنے ہیں کہ اسلام میں داخل ہوں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ پیشگوئی پوری ہو جائے کہ مسیح موعود اس لئے نازل ہوگا تا لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّہ اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دین اسلام کو سب دینوں پر غالب کرے.یہ حربہ ایسا کاری ہے کہ کوئی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ، ہر مذہب میں آخری مصلح کی پیشگوئی موجود ہے اور جو علامات بتائی گئی ہیں وہ اس زمانے میں پوری ہو چکی ہیں لیکن مدعی سوا آپ کے اور کوئی کھڑا نہیں ہوا.پس یا تو اپنے مذاہب کو لوگ جھوٹا سمجھیں یا مجبور ہو کر تسلیم کریں کہ یہ اسلام کا موعود ہی ان کتابوں کا موعود تھا اور اس پر ایمان لائیں.ان دوصورتوں کے سوا اور کوئی تیسری صورت مذاہب عالم کے پیروؤں کے لئے کھلی نہیں اور ان دونوں صورتوں میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو جاتا ہے.کیونکہ اگر دیگر ادیان کے پیرو اپنے مذاہب کو جھوٹا سمجھ کر چھوڑ بیٹھیں تب بھی اسلام غالب رہا اور اگر وہ ان مذاہب کو سچا کرنے کے لئے ان کی پیشگوئی کے مطابق اس زمانے کے مصلح کو قبول کر لیں تب بھی اسلام غالب رہا.یہ وہ حملہ ہے کہ جوں جوں مذاہب غیر کے پیروؤں پر اس حملے کا اثر ہوگا وہ اسلام کے قبول کرنے پر مجبور ہوں گے اور آخر اسلام ہی اسلام دنیا میں نظر آنے لگے گا.مسیح موعود نے سنت انبیاء کے ماتحت بیج بو دیا ہے.درخت اپنے وقت پر نکل کر پھل دے گا اور دنیا
دعوة الامير اس کے پھلوں کی شیرینی کی گرویدہ اور اس کے سائے کی ٹھنڈک کی قائل ہو کر مجبور ہوگی کہ اسی کے نیچے آکر بیٹھے.ایک دین اس حملے کی زد سے کسی قدر بچ رہتا تھا ، یعنی سکھوں کا دین کیونکہ باوا نا نک صاحب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوئے ہیں گوان کے یہاں بھی ایک آخری مصلح کی پیشگوئی موجود ہے بلکہ صاف لکھا ہے کہ وہ بٹالہ کے علاقے میں ہوگا جنم ساکھی بھائی بالا ہندی ناشر پنجاب یو نیورسٹی چندی گڑھ صفحہ ۲۱۱- ۲۱۲) بٹالہ وہ تحصیل ہے جس میں قادیان کا قصبہ واقع ہے.گویا یہ پیشگوئی لفظاً لفظاً پوری ہو چکی ) لیکن ان کی طرف سے یہ اعتراض ہو سکتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خَاتَمَ النَّبِيِّينَ تھے.تو آپ کے بعد اس مذہب کی بنیاد کیونکر پڑی.سواس مذہب کی اصلاح اور اس کو اسلام میں لانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حربہ دیا کہ آپ کو رویا میں بتایا گیا کہ باوا نانک رحمتہ اللہ علیہ نے کوئی نیا دین نہیں نکالا بلکہ وہ پکے مسلمان تھے.اے بادشاہ! آپ یہ سنکر تعجب کریں گے کہ یہ بظاہر عجیب نظر آنے والی بات ایسے زبر دست دلائل کے ساتھ پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ ہزاروں سکھوں کے دلوں نے اس امر کی صداقت کو قبول کر لیا اور وہ سکھ جو اس سے پہلے اپنے آپ کو ہندوؤں کا جزو قرار دیا کرتے تھے بڑے زور سے جد و جہد کرنے لگے کہ وہ ہندوؤں سے علیحدہ ہو جائیں.حضرت مسیح موعود کے اس دعوے سے پہلے سکھ گوردواروں میں ہندوؤں کے بت رکھے ہوئے تھے اس دعوے کے بعد گو سکھ قوم نے بحیثیت قوم تو ابھی اسلام کو قبول نہیں کیا، مگر ایسا تغیر عظیم اُس میں واقع ہوا کہ اُس نے گوردواروں میں سے بت چن چن کر باہر پھینکنے شروع کر دیئے اور ہندو ہونے سے صاف انکار کر دیا.
دعوة الامير حضرت اقدس نے اس رؤیا کے بعد جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ گرنتھ صاحب میں جو با واصاحب علیہ الرحمۃ کے مواعظ کی کتاب ہے نماز پنجگانہ اور روزہ اور زکوۃ اور حج کی سخت تاکید ہے اور ان کے بجانہ لانے پر سخت تہدید کی گئی ہے.بلکہ سکھوں کی کتب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ باوا صاحب علیہ الرحمہ مسلمان اولیاء کے ساتھ جا کر رہا کرتے تھے، ان کے مقابر پر اعتکاف کرتے تھے اور ان کے ساتھ نماز پڑھتے تھے.آپ حج کو تشریف لے گئے تھے اور بغداد وغیر ہا اسلامی آثار کی بھی آپ نے زیارت کی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ بات معلوم ہوئی کہ با واصاحب کا ایک کوٹ ہے جو سکھ صاحبان نے بطور تبرک رکھا ہوا ہے اور انہیں کے قبضہ میں ہے اس میں سور و آیات قرآنیہ جیسے سورۃ اخلاص و آیت الکرسی و آیت انَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهُ الْإِسْلَامُ (آل عمران : ۲۰) لکھی ہوئی ہیں اور کلمہ شہادت بھی جلی قلم سے لکھا ہوا ہے سکھ صاحبان بوجہ عربی سے ناواقفیت کے اس کلام کو آسمانی رموز سمجھتے رہے اور یہ نہ معلوم کر سکے کہ یہ باوا صاحب علیہ الرحمہ کا اعلان اسلام ہے.آپ نے ان زبر دست دلائل کو جو خود سکھ صاحبان کی کتب سے مستنبط ہیں یا ان کے پاس جو تبرکات محفوظ ہیں ان پر ان کی بنیاد ہے بڑے زور شور سے سکھوں میں پھیلا نا شروع کیا اور ان کو توجہ دلائی کہ باو اصاحب علیہ الرحمہ مسلمان تھے.یہ حربہ سکھوں کے اندر تغیر پیدا کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو چکا ہے اور امید ہے کہ جوں جوں سکھ صاحبان اصل حقیقت سے واقف ہوں گے ان پر ثابت ہوتا جائے گا کہ وہ ہمارے بچھڑے ہوئے بھائی ہیں.اسلام ہی ان کا مذہب ہے اور وہ کئی سو سال پہلے کے سیاسی جھگڑوں کو جن کا اصل باعث جیسا کہ تاریخوں سے ثابت ہوتا ہے مسلمان نہ تھے بلکہ ہند و صاحبان تھے دین حق کی قبولیت کے راستے میں روک نہ بنے دیں گے بلکہ اپنی مشہور بہادری سے کام لیکر تمام عوائق کو دور کر کے
۱۶۴ دعوة الامير ست سری اکال کے نعرے لگاتے ہوئے اسلام کی صف میں آکھڑے ہوں گے اور بٹالے کے پرگنہ میں ظاہر ہونے والے مصلح پر ایمان لا کر اور مومنوں کی جماعت میں شامل ہوکر کفر و بدعت کے مقابلہ میں ہمہ تن مشغول ہوجائیں گے.تیسر احربہ جس سے آپ نے اسلام کو دیگر ادیان پر غالب کر دیا اور جس کی موجودگی میں کوئی مذہب اسلام کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتا یہ ہے کہ آپ نے دنیا کا نقطۂ نظر بالکل بدل دیا ہے آپ کے دعوے سے پہلے تمام مذاہب کی بحث اس طرز پر ہوتی تھی کہ ہر ایک دوسرے مذہب کے پیروؤں کو جھوٹا قرار دیتا تھا الا ما شاء الله.یہودی حضرت مسیح کو مسیحی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ، زرتشتی ان تینوں مذاہب کے انبیاء کو اور ان تینوں مذاہب کے پیروز رتشتیوں کے انبیاء کو پھر یہ چاروں دوسری دنیا کے سب بزرگوں کو اور ان کی اقوام کے لوگ ان چاروں مذاہب کے بزرگوں کو جھوٹا قرار دیتے تھے.یہ عجیب قسم کی جنگ تھی جس میں ہر قوم دوسری قوم سے لڑ رہی تھی مگر عقلمند آدمی کوسب مذاہب میں ایسے ثبوت ملتے تھے جن سے ان کا سچا ہونا ثابت ہوتا تھا.پس وہ حیران تھا کہ سب مذاہب کے اندر سچائیاں پائی جاتی ہیں اور سب مذاہب ایک دوسرے کے بزرگوں کو جھوٹا بھی کہہ رہے ہیں.یہ بات کیا ہے؟ اس جنگ کا نتیجہ یہ تھا کہ تعصب بڑھ رہا تھا اور اختلاف ترقی کر رہا تھا، ایک طرف ہندو اپنے بزرگوں کے حالات کو پڑھتے تھے اور ان کی زندگیوں میں اعلیٰ درجے کے اخلاقی کمال دیکھتے تھے.دوسری طرف دوسرے مذاہب کے پیروؤں سے سنتے تھے کہ وہ جھوٹے اور فریبی تھے تو ان کو ان کی عقل پر حیرت ہوتی تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ ان لوگوں کو تعصب نے اندھا کر دیا ہے دوسری طرف دوسرے مذاہب کے لوگ اپنے بزرگوں کی
(MO) دعوة الامير نسبت خلاف باتیں سنکر غم وغصہ سے بھر جاتے تھے ،غرض ایک ایسا لائینحل عقدہ پیدا ہو گیا تھا جو کسی کے سلجھانے سے نہ سمجھتا تھا ، جو لوگ تعصب سے خالی ہو کر سوچتے تھے کہ ربّ العلمین خدا نے کس طرح اپنے بندوں میں سے ایک قوم کو چن لیا اور باقیوں کو چھوڑ دیا ،مگر اس سوال کو پیش کرنے کی کوئی جرات نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ سوال اس کے مذہب کو بیخ و بن سے اُکھاڑ کر پھینک دیتا تھا.ہنود نے اس عقدے کو بزعم خود اس طرح حل کر لیا تھا کہ سب مذاہب خدا کی طرف سے ہیں اور بمنزلہ ان مختلف راستوں کے ہیں جو ایک محل کی طرف جاتے ہیں اور ہندو مذہب سب سے افضل ہے مگر یہ عقدہ کشائی بھی دنیا کے کام کی نہ تھی ، کیونکہ اس پر دو بڑے زبردست اعتراض ہوتے تھے جن کا کوئی جواب نہ تھا.ایک تو یہ کہ اگر سب مذاہب اپنی موجودہ حالت میں خدا کی طرف سے ہیں اور خُدا تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں تو پھر ان میں اصولی اختلاف کیوں ہے.بیشک تفاصیل میں اختلاف ہو سکتا ہے مگر اصول میں نہیں ہوسکتا.ایک شہر کو کئی راستے جا سکتے ہیں، مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ مشرق کی طرف جانے والے راستوں میں سے بعض مغرب کی طرف سے جائیں اور بعض شمال کی طرف سے اور بعض جنوب کی طرف سے وہ تھوڑا تھوڑا چکر تو کھا سکتے ہیں مگر جائیں گے سب ایک ہی جہت کو ، دائی صداقتوں میں کبھی اختلاف نہیں ہو سکتا.یہ مانا کہ خدا نے ایک جماعت کو ایک قسم کی عبادت کا حکم دیا اور دوسری کو دوسری قسم کی عبادت کا لیکن عقل سلیم اس امر کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ اس نے ایک جماعیت سے تو یہ کہا کہ میں ایک خدا ہوں اور دوسری سے کہا کہ میں دو ہوں اور تیسری " کو باپ، بیٹا ، روح القدس کی تعلیم دی اور چوتھی کو لاکھوں بتوں میں اے اہل اسلام و یہود ۲ پارسی ۳ مسیحی ۴.ہنود
دعوة الامير خدائی طاقتوں کا عقیدہ سکھا یا اور پانچویں کو ہر چیز کا الگ دیوتا بتایا یا یہ کہ ایک سے کہا کہ اس کی ذات بالکل منزہ ہے.ممکن نہیں کہ وہ جسم اختیار کرے.دوسری ملک کو بتایا کہ انسانی جسم میں وہ حلول کر سکتا ہے اور تیسری کو یہ بتایا کہ وہ ادنی جانوروں حتی کہ شورتک کی شکل اختیار کر لیتا ہے یا مثلا ایکٹ کو تو اس نے بتایا کہ بعث بعد الموت حق ہے.اور دوسری " ال کو بتایا کہ بعث بعد الموت نہیں ہے.ایک سے کہا کہ مردے زندہ ہو کر دنیا میں نہیں آتے.دوسری سے کہا کہ انسان مرنے کے بعد نئی نئی جونوں میں واپس آتا ہے.غرض یہ تو ممکن ہے کہ احکام اللہ تعالیٰ مختلف اقوام کے حالات کو دیکھ کر بیان فرمادے، مگر یہ ممکن نہیں کہ واقعات اور دائی صداقتیں بھی مختلف اقوام کو مختلف طور پر بتائے لیکن چونکہ موجودہ مذاہب کے صرف احکام میں اختلاف نہیں بلکہ دائی صداقتوں میں بھی اختلاف ہے اس لئے ان سب کو خدا تعالیٰ کی طرف جانے والے مختلف راستے نہیں کہہ سکتے.دوسرا اعتراض اس عقیدہ پر یہ پڑتا تھا کہ ہندو لوگ ایک طرف تو اپنے مذہب کو سب مذاہب سے افضل قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف اسے سب سے پرانا مذہب قرار دیتے ہیں.عقلِ سلیم اسے تسلیم نہیں کر سکتی کہ اللہ تعالیٰ نے افضل مذہب اتار کر پھر ادنی مذاہب اُتارے جبکہ انسان اپنی ابتدائی حالت میں کامل مذہب قبول کرنے کی طاقت رکھتا تھا تو پھر بعد کو علوم وفنون میں ترقی حاصل کرنے پر اس کی طرف ادنی دین اتارنے کی کیا وجہ تھی ؟ بعد کو تو وہی دین آسکتا ہے جو پہلے سے زیادہ مکمل ہو یا کم سے کم ویسا ہی دین ہو.یہ دونوں اعتراض ایسے تھے جن کا جواب اس عقیدے کے پیش کرنے والوں سے کچھ نہ بنتا تھا اور یہ اعتراض قائم رہتا تھا کہ خدا تعالیٰ دنیا کی ہدایت کے لئے ابتدائے عالم ۵ چینی ۶ مسلمانوں کو لے مسیحیوں ۸ ہنود ۹ اسلام نا یہود کے بعض قبائل 11 اہل اسلام ۱۲؎ ہنود.
(192) دعوة الامير سے کیا سامان کرتا چلا آیا ہے.مسیحیوں نے اس عقیدے کا یہ حل بتا یا کہ خُدا نے مسیح کے ذریعے سب دنیا کو ہدایت کی طرف بلایا ہے اس لئے اس پر کسی قوم کی طرفداری کا اعتراض نہیں ہوسکتا مگر یہ حل بھی صحیح نہ تھا کیونکہ اس سے بھی یہ سوال حل نہ ہوتا تھا کہ مسیح کی آمد سے پہلے خدا نے دنیا کی ہدایت کے لئے کیا سامان کیا تھا.بائیبل سے تو ہمیں اسی قدر معلوم ہوتا ہے کہ دوسری اقوام کے لئے اس کی تعلیم نہ تھی لیکن مسیح کے بعد لوگوں کے لئے اگر دروازہ کھولا بھی گیا تو اس سے پہلے جو کروڑوں کروڑ لوگ دیگر اقوام کے گزر گئے ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے کیا سامان کیا.غرض یہ سوال پلا شافی جواب کے پڑا تھا اور لوگوں کے دلوں کو اندر ہی اندر کھا رہا تھا کہ حضرت مرز اصاحب نے قرآن کریم سے یہ استدلال کر کے اس نقطہ نگاہ کو ہی بدل دیا جو اس وقت تک دنیا میں قائم تھا اور بتایا کہ قرآن کریم کی یہ تعلیم ہے کہ.وَاِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَافِيهَا نَذیز (فاطر: ۲۵) کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں ہم نے رسول نہیں بھیجا، پس ہر ملک اور ہر قوم میں اللہ تعالیٰ کے رسول گزر چکے ہیں، ہم یہ نہیں کہتے کہ ہندوستان بلا نبیوں کے تھا، یا چین بلانبیوں کے تھا یا روس پلانبیوں کے تھا، یا افغانستان بلانبیوں کے تھا، یا افریقہ بلا نبیوں کے تھا یا یورپ بلا نبیوں کے تھا، یا امریکہ بلانبیوں کے تھا، نہ ہم دوسری اقوام کے بزرگوں کا حال سن کے ان کا انکار کرتے ہیں اور ان کو جھوٹا قرار دیتے ہیں کیونکہ ہمیں تو یہ بتایا گیا ہے کہ ہر قوم میں نبی گزرچکے ہیں.دوسری اقوام میں نبیوں اور شریعتوں اور کتابوں کا پایا جانا ہمارے مذہب کے خلاف اور اس کے راستے میں روک نہیں ہے بلکہ اس میں اس کی تصدیق ہے.ہاں ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ زمانے کے حالات کے مطابق اللہ
دعوة الامير تعالیٰ نے پہلے مختلف اقوام کی طرف نبی بھیجے اور بعد میں جب انسان اس کامل شریعت کو قبول کرنے کے قابل ہو گیا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت آئی تو اس نے آپ کو سب دنیا کی طرف مبعوث کر کے بھیج دیا.پس کوئی قوم بھی ہدایت سے محروم نہیں رہی اور باوجود اس کے اسلام ہی اس وقت ہدایت کا راستہ ہے کیونکہ یہ آخری دین اور مکمل دین ہے.جب مکمل دین آ گیا تو پہلے دین منسوخ کئے گئے اور ان دینوں کے منسوخ کئے جانے کی یہ بھی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اب ان کی حفاظت چھوڑ دی ان میں انسانی دست برد ہوتی رہتی ہے اور وہ صداقت سے کوسوں دور جا پڑے ہیں اور ان کی شکلیں مسخ ہو چکی ہیں وہ بچے ہیں بلحاظ اپنی ابتداء کے اور جھوٹے ہیں بلحاظ اپنی موجودہ شکل کے.یہ نقطہ نظر جو آپ نے قائم کیا ایسا ہے کہ اس سے کوئی شخص پیچھے ہٹ نہیں سکتا، کیونکہ اگر اس اصل کو تسلیم نہ کیا جائے تو ماننا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض بندوں کی ہدایت کرتا ہے اور بعض انسانوں کو ہلا ہدایت کے سامان پیدا کرنے کے یونہی چھوڑ دیتا ہے اور اسے عقل سلیم تسلیم نہیں کرتی اور اگر وہ اس اصل کو تسلیم کر لیں تو ان کو اسلام کی صداقت کا قائل ہونا پڑتا ہے.کیونکہ اسلام سب سے آخری دین ہے.اور اس لئے بھی کہ اسلام ہی نے اس صحیح اور درست اصل کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.یہ حربہ ایسا زبر دست حربہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ اور وسیع الخیال جماعت جو خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتی ہو.اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی کیونکہ اگر اس اصل کو جو حضرت اقدس نے پیش کیا ہے چھوڑ دیں تو خدا تعالیٰ کو بھی ساتھ ہی چھوڑنا پڑتا ہے اور یہ وہ کر نہیں سکتے اور اگر وہ اس اصل کو قبول کر لیں تو پھر اسلام کو بھی قبول کرنا پڑتا ہے اور اس کے سوا ان کے لئے اور کوئی چارہ نہیں پس دنیا کے نقطۂ نگاہ کو جو پہلے نہایت تنگ تھا بدل
(IMA) دعوة الامير دینے سے حضرت مسیح موعود نے اسلام کے غلبہ کا ایک یقینی سامان پیدا کر دیا ہے.چوتھا حربہ جو آپ نے اسلام کو غالب کرنے کے لئے استعمال کیا اور جس نے اسلام کے خلاف تمام مباحثات کے سلسلے کو بدل دیا ہے اور غیر مذاہب کے پیروؤں کے ہوش اڑا دیئے ہیں یہ ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے رائج الوقت علم کلام کو بالکل بدل دیا اور اس کے ایسے اصول مقرر فرمائے کہ نہ تو دشمن انکار کر سکتا ہے اور نہ ان کے مطابق وہ اسلام کے مقابلے میں ٹھہر سکتا ہے اگر وہ ان اصولوں کو رد کرتا ہے تب بھی مرتا ہے اور اگر قبول کرتا ہے تب بھی مرتا ہے.نہ فرار میں اسے نجات نظر آتی ہے نہ مقابلے میں حفاظت.آپ سے پہلے تنقید اور مباحثے کا یہ طریق تھا کہ ایک فریق دوسرے فریق پر جو چاہتا اعتراض کرتا چلا جاتا تھا اور اپنی نسبت جو کچھ چاہتا تھا کہتا چلا جاتا تھا اور یہ بات ظاہر ہے کہ جب مناظرے کا میدان غیر محدود ہو جائے تو مناظرے کا نتیجہ کچھ نہیں نکل سکتا.جب چند سوار دوڑنے لگتے ہیں تو بعض قواعد کے مطابق دوڑتے ہیں.تب جا کر جیتنے والے کا پتہ لگتا ہے اگر کوئی کسی طرف کو اور کوئی کسی طرف کو دوڑ جائے تو کیا معلوم ہوسکتا ہے کہ کون جیتا.اس طرح دوڑ نے والوں کے متعلق ہم کبھی بھی صحیح رائے قائم نہیں کر سکتے ، اسی طرح مذہبی تحقیق کے معاملے میں جب تک حد بندی نہ ہورائے قائم نہیں کی جاسکتی.پہلے یہ یق تھا کہ ہر شخص کو جو بات اچھی معلوم ہوئی خواہ کسی کتاب میں پڑھی ہو اپنے مذہب کی طرف منسوب کر دی اور کہہ دیا کہ دیکھو ہمارے مذہب کی تعلیم کیسی اچھی ہے گو یا اصل مذہب کے متعلق کوئی گفتگو ہی نہ ہوتی تھی ، بلکہ علماء اور مباحثین کے ذاتی خیالات پر گفتگو ہوتی رہتی تھی ، نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ متلاشیان حق کو فیصلہ کرنے کا موقع نہ ملتا تھا آپ نے آکر اس طریق مباحثہ کو خوب وضاحت سے غلط ثابت کیا اور اور بتایا کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف
(K.) دعوة الامير سے آنے والی کتاب ہماری ہدایت کے لئے آئی ہے تو چاہئے کہ جو کچھ وہ ہمیں منوانا چاہتی ہے وہ بھی اس میں موجود ہو اور جن دلائل کی وجہ سے منوانا چاہتی ہے وہ بھی اس میں موجود ہوں کیونکہ اگر خدا کا کلام دعوے اور دلائل دونوں سے خالی ہے تو پھر اس کا ہمیں کیا فائدہ ہے؟ اور اگر دعوی بھی ہم پیش کرتے ہیں اور دلائل بھی ہم ہی دیتے ہیں تو پھر اللہ کے کلام کا کیا فائدہ؟ اور ہمارا مذہب اللہ کا دین کہلانے کا کب مستحق ہے وہ تو ہمارا دین ہوا اور اللہ کا ہم پر کوئی احسان نہ ہوا کہ ہم نے ہی اس کے دین کے لئے دعوے تجویز کئے اور ہم نے ہی ان دعوؤں کے دلائل مہیا کئے.پس ضروری ہے کہ مذہبی تحقیق کے وقت یہ امر مد نظر رکھا جائے کہ آسمانی مذاہب کے مدعی جو دعویٰ اپنے مذاہب کی طرف سے پیش کریں وہ بھی ان کی آسمانی کتب سے ہو اور جو بھی ان کی آسمانی کتب سے ہو اور جو دلائل دیں وہ بھی انہی کی کتب سے ہوں.یہ اصل ایساز بر دست تھا کہ دوسرے ادیان اس کا ہر گز انکار نہیں کر سکتے تھے کیونکہ اگر وہ کہتے کہ نہیں ہم نہیں کر سکتے تو اس کے یہ معنے ہوتے کہ جو مذہب وہ بیان کرتے ہیں وہ مذہب وہ نہیں ہے جو ان کی آسمانی کتب میں بیان ہوا ہے کیونکہ اگر وہی مذہب ہے تو پھر کیوں وہ اپنی آسمانی کتاب سے اس کا دعوی بیان نہیں کر سکتے یا اگر دعوی بیان کر سکتے ہیں تو کیوں ان کی آسمانی کتاب دلیل سے خالی ہے.جب خدا تعالیٰ نے انسان کے دماغ کو ایسا پیدا کیا ہے کہ وہ بلا دلیل کے کسی بات کو نہیں مان سکتا تو کیوں وہ اسے ایمان کی باتیں بتاتے وقت ایسے دلائل نہیں دیتا جن کی مدد سے وہ ان باتوں کو قبول کر سکے.غرض غیر مذاہب کے لوگ اس اصل کو نہ رد کر سکتے تھے ، کیونکہ ان کے رد کرنے کے یہ معنے تھے کہ ان کے مذہب بالکل ناقص اور ر دی ہیں اور نہ قبول کر سکتے تھے کیونکہ اے بادشاہ! آپ کو یہ معلوم کر کے
(KI) دعوة الامير حیرت ہوگی کہ جب اس اصل کے ماتحت دوسرے مذاہب کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ قریباً نوے فیصدی ان کے دعوے ایسے تھے جو ان کی الہامی کتب میں نہیں پائے جاتے تھے اور جس قدر دعوے مذہبی کتب سے نکلتے تھے ان میں قریباً سو فیصدی ہی دلائل کے بغیر بیان کئے گئے تھے ، گویا خدا نے ایک بات بتا کر انسان پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ اپنی وکالت سے اس کی بات کو ثابت کرے.حضرت اقدس نے ثابت کردیا کہ مختلف مذاہب کے پیرو اپنے دل سے باتیں بنابنا کر یا ادھر ادھر سے خیالات کچرا کر اپنے مذہب کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اور ان مذاہب کی فوقیت پر بخشیں کر کے لوگوں کا وقت ضائع کرتے ہیں کیونکہ اگر وہ اپنی بات کو ثابت بھی کر دیں تو اس سے یہ نتیجہ تو نکل آئے گا کہ ان کے خیالات ان مسائل کے متعلق درست ہیں مگر یہ نتیجہ نہ نکلے گا کہ ان کا مذہب بھی سچا ہے کیونکہ وہ بات ان کی مذہبی کتاب میں پائی ہی نہیں جاتی.پھر آپ نے یہ ثابت کیا کہ قرآن کریم تمام اصول اسلام کو خود پیش کرتا ہے اور ان کی سچائی کے دلائل بھی دیتا ہے اور اس کے ثبوت میں آپ نے سینکڑوں مسائل کے متعلق قرآن کریم کا دعویٰ اور اس کے دلائل پیش کر کے اپنی بات کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیا اور دشمنان اسلام آپ کے مقابلے سے بالکل عاجز آگئے اور وہ اس حربے سے اس قدر گھبرا گئے ہیں کہ آج تک ان کو کوئی حیلہ نہیں مل سکا جس سے اس کی زد سے بچ سکیں اور نہ آئندہ مل سکتا ہے.یہ علم کلام ایسا مکمل اور اعلیٰ ہے کہ نہ اس کا انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کی موجودگی میں جھوٹ کی تائید کی جاسکتی ہے.پس جوں جوں اس حربے کو استعمال کیا جائے گا ادیان باطلہ کے نمائندے مذہبی مباحثات سے جی چرائیں گے اور ان کے پیروؤں پر اپنے مذہب کی کمزوری کھلتی جائے گی اور لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ کا
(۱۷۲ دعوة الامير نظارہ دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھے گی.پانچواں حربہ جو حضرت اقدس مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام نے چلا یا اور جس سے دیگر مذاہب کے جھنڈوں کو کلی طور پر سرنگوں کردیا اور اسلام کو ایساغلبہ عطا کیا جس غلبے کا کوئی شخص انکار ہی نہیں کر سکتا یہ ہے کہ آپ نے بڑے زور سے دشمنانِ اسلام کے سامنے یہ بات پیش کی کہ مذہب کی اصل غرض اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے.پس وہی مذہب سچا ہوسکتا ہے اور موجودہ زمانے میں خدا تعالیٰ کا پسندیدہ دین کہلاسکتا ہے جو بندے کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کر اسکے اور اس تعلق کے آثار دکھا سکے، ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں چھوٹی سے چھوٹی چیز کا بھی کوئی نہ کوئی اثر ہوتا ہے.آگ اگر جسم کو لگتی ہے یا اس کے پاس ہی ہم بیٹھتے ہیں تو جسم یا جل جاتا ہے یا گرمی محسوس کرتا ہے.پانی ہم پیتے ہیں تو فوراً ہماری اندرونی تپش کے زائل ہو جانے کے علاوہ ہمارے چہرہ سے بشاشت اور طراوت کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں، عمدہ غذا کھا ئیں تو جسم فربہ ہونے لگ جاتا ہے ورزش کرنے لگیں تو جسم میں مضبوطی پیدا ہو جاتی ہے اور تاب و توانائی حاصل ہوتی ہے اسی طرح دواؤں کا اثر ہوتا ہے کہ بعض دفعہ مضر اور بعض دفعہ مفید پڑتا ہے مگر یہ عجیب بات ہوگی اگر اللہ تعالیٰ کا تعلق بالکل بے اثر ثابت ہو.عبادات کرتے کرتے ہماری ناکیں گھس جائیں اور روزے رکھتے رکھتے پیٹ پیٹھ سے لگ جائیں، زکوۃ وصدقات دیتے دیتے ہمارے اموال فنا ہو جائیں لیکن کوئی تغیر ہمارے اندر پیدا نہ ہو اور ان کاموں کا کوئی نتیجہ نہ نکلے.اگر یہ بات ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے تعلق کا فائدہ کیا اور اس کی ہمیں حاجت کیا ؟ ایک ادنی حاکم سے ہمارے تعلق کی علامت تو ظاہر ہو جاتی ہے کہ اس کے دربار میں ہمیں عزت ملتی ہے.اس کے ماتحت ہمارا لحاظ کرنے لگتے ہیں وہ ہماری التجاؤں کو سنتا ہے اور ہماری تکلیفوں کو دور کرتا
(kr) دعوة الامير ہے اور ہر ایک شخص اس بات کو محسوس کر لیتا ہے کہ ہم اس کے مقبول اور پیارے ہیں لیکن اگر کچھ پتہ نہیں لگ سکتا تو اللہ تعالیٰ کے تعلق کا کہ نہ اس کا اثر ہمارے نفس پر کچھ پڑتا ہے اور نہ ہمارے تعلقات پر، ہم ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں جیسے کہ پہلے تھے غرض آپ نے ثابت کیا کہ زندہ مذہب میں یہ علامت پائی جانی چاہئے کہ اس پر عمل کرنے والا خدا تعالیٰ کو پاسکے اور اس کا مقرب ہو سکے اور خدا تعالیٰ کے مقربوں میں اس کا قرب پالینے کے کچھ آثار ہونے چاہئیں.پس چاہئے کہ ہر مذہب کے لوگ بجائے آپس میں ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے اپنی روحانی زندگی کا ثبوت دیں اور اپنے مقرب خدا ہونے کو واقعات سے ثابت کریں اور ایسے لوگوں کو پیش کریں جنہوں نے ان دینوں پر چل کر خدا سے تعلق پیدا کیا ہو اور اس کے وصال کے پیالے کو پیاہو، پھر جو مذہب اس معیار کے مطابق سچا ہو اس کو مان لیا جائے ورنہ ایک جسم بے جان سمجھ کر اس کو اپنے سے دور پھینکا جائے کہ وہ دوسرے کو نہیں اٹھا سکتا بلکہ اسکواٹھا نا پڑتا ہے، ایسا مذہب بجائے نفع پہنچانے کے نقصان پہنچائے گا اور اس دنیا میں رسوا کرے گا اور اگلے جہان میں عذاب میں مبتلاء.یہ دعویٰ آپ کا ایسا تھا کہ کوئی سمجھدار اس کو رد نہیں کر سکتا تھا، اس دعوے کے ساتھ ہی غیر مذاہب کے پیروؤں پر بجلی گری اور وہ اپنی عزت کے بچانے کی فکر میں لگ گئے.آپ نے بڑے زور سے اعلان کیا کہ اس قسم کی زندگی کے آثار صرف اسلام میں پائے جاتے ہیں ، دوسرے مذاہب ہرگز اس معیار پر پورے نہیں اتر سکتے.اگر کسی کو اس کے خلاف دعوی ہے تو میرے مقابلے میں آکر دیکھ لے مگر باوجود غیرت دلانے کے کوئی مقابلے پر نہ آیا اور آتا بھی کس طرح؟ کچھ اندر ہوتا تو آتا.گلا پھاڑنے اور چلا چلا کر یہ شور
(km) دعوة الامير بر پا کرنے کے لئے تو ہزاروں لوگ تیار ہو جائیں گے کہ ہمارا مذ ہب سچا ہے مگر خدا کی محبت اور اس کے تعلق کا ثبوت دینا تو کسی کے اختیار میں نہیں ، خدا کی محبت تو کیا خدا سے ایک عارضی تعلق بھی جن لوگوں کو نہ ہو وہ خدا کے تعلق کا کیا ثبوت دیں.آپ نے ہندوؤں کو بھی ایسی دعوت دی اور مسیحیوں کو بھی اور یہود کو بھی اور دیگر تمام ادیان کو بھی مگر کوئی اس حربے کے برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہوا.مختلف پیرایوں اور مختلف مواقع پر آپ نے لوگوں کو اُکسایا مگر صدائے برنخاست.ایک دفعہ پنجاب کے لارڈ بشپ کو آپ نے چیلنج دیا کہ میرے مقابل پر آکر دعا کی قبولیت کا نشان دیکھو، تمہاری کُتب میں بھی لکھا ہے کہ اگر ایک رائی کے دانے کے برابر تم میں ایمان ہو تو تم پہاڑوں سے کہو کہ چلو تو وہ چلنے لگیں گے اور ہماری کتب بھی مومنوں کی نصرت اور تائید اور ان کی دعاؤں کی قبولیت کا وعدہ دیتی ہیں.پس چاہئے کہ تم میرے مقابلہ پر آکر کسی امر کے متعلق دعا کر کے دیکھو تا معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے والوں کی دعائیں مقابلے کے وقت سنتا ہے یا ان کی دعائیں سنتا ہے جو مسیحی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں مگر باوجود بار بار چیلنج دینے کے لارڈ بشپ صاحب خاموش رہے اور ان کی خاموشی ایسی عجیب معلوم ہوتی تھی کہ بعض انگریزی اخبارات نے بھی ان پر چوٹ کی کہ اس قدر بڑی بڑی تنخواہیں لینے والے پادری جب کوئی مقابلے کا وقت آتا ہے تو سامنے ہو کر مقابلہ کیوں نہیں کرتے مگر نہ غیروں کے چیلنج نے پادری صاحب کو مقابلے پر آمادہ کیا اور نہ اپنوں کے طعنوں نے.وہ آنوں بہانوں سے اس پیالے کو ٹالتے ہی رہے.اس قسم کے چیلنج آپ نے متواتر دشمنانِ اسلام کو دیئے ،مگر کوئی شخص مقابلے پر نہ آیا.آپ کا یہ حربہ ایسا ہے کہ ہر ذی عقل اور صاحب شعور آدمی پر اس کا اثر ہوگا اور جوں
۱۷۵ دعوة الامير جوں لوگ اپنے مذاہب کے بے اثر ہونے اور اسلام کے زندہ اور مؤثر ہونے کو دیکھیں گے اسلام کی صداقت ان پر کھلتی جائے گی.کیونکہ مباحثات میں انسان باتیں بنا کر حق کو چھپا سکتا ہے مگر مشاہدے اور تاثیر کے مقابلے میں اس سے کوئی عذر نہیں بن سکتا اور آخر دل سچائی کا شکار ہو ہی جاتا ہے یہ حربہ بھی انشاء اللہ اظہار دین کے لئے نہایت زبردست اور سب سے زبر دست حربہ ثابت ہوگا، بلکہ ہر عقلمند انسان کے نزدیک اس حربے کے ذریعے سے عقلاً اسلام غالب ہو چکا ہے گو مادی نتیجہ کچھ دن بعد پیدا ہو.یہ پانچ حربے جو حضرت اقدس نے دشمنانِ اسلام پر چلائے ہیں میں نے بطور مثال پیش کئے ہیں جن سے معلوم ہو سکتا ہے کہ جو کام مسیح موعود کے لئے تھا وہ آپ کر چکے ہیں اور اگر آپ مسیح موعود نہیں ہیں تو پھر سوال ہوتا ہے کہ اب کونسا کام رہتا ہے جو مسیح موعود آکر کرے گا ؟ کیا یہ تلوار سے لوگوں کو دین میں داخل کرے گا؟ تلوار سے داخل کئے ہوئے لوگ اسلام کو کیا فائدہ دیں گے؟ اور خود ان کو اس جبری ایمان سے کیا فائدہ ہوگا؟ اگر آج مسیحی اپنی طاقت کے نشہ میں مسلمانوں کو جبراً مسیحی بنانے لگیں.تو ان کی نسبت ہر شریف آدمی اپنے دل میں کیا کہے گا ؟ اگر ان کے اس فعل کو ہم گندے سے گندہ فعل خیال کریں گے تو کیوں اسی قسم کا فعل اگر مسیح موعود کریں گے تو وہ بھی قابل اعتراض نہ ہوں گے؟ یقیناً تلوار سے اسلام میں لوگوں کو داخل کرنا اسلام کے لئے مضر ثابت ہوگا نہ کہ مفید.وہ ہر شریف الطبع اور آزادی پسند آدمی کو اسلام سے متنفر کر دے گا.پس تلوار چلانے کے لئے مسیح کی آمد کی ضرورت نہیں ، ان کا یہی کام ہو سکتا ہے کہ وہ دلائل سے اسلام کو غالب کریں اور دلائل سے اور مشاہدات کی تائید سے اسلام کو دوسرے مذاہب پر مرزا صاحب غالب کر چکے ہیں.اب اس کام کا کوئی حصہ باقی نہیں رہا کہ مسیح آکر کریں.پس مرزا صاحب ہی مسیح
(KY) دعوة الامير موعود ہیں کیونکہ انہوں نے وہ کام کر کے دکھا دیا، جو مسیح موعود کے لئے مقرر تھا.اس جگہ پر شاید یہ کہا جائے کہ دلائل تو پہلے بھی موجود تھے پھر یہ کیونکر سمجھا جائے کہ مرزا صاحب نے اسلام کو دیگر ادیان پر غالب کر دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر تلوار موجود ہو اور اس کا چلانے والا موجود نہ ہو تو نہیں کہہ سکتے کہ دشمن مغلوب ہو جائے گا.دشمن تو تبھی مغلوب ہوگا جب اس تلوار کا چلانے والا موجود ہو اور یہاں تو اسلام کا یہ حال تھا کہ تلوار دلائل کی موجود تھی مگر لوگ صرف یہی نہیں کہ تلوار چلانا نہیں جانتے تھے بلکہ اس امر سے بھی ناواقف تھے کہ تلوار موجود ہے.یہ حضرت اقدس ہی کا کام تھا کہ آپ نے قرآن کریم کا فہم اللہ تعالیٰ سے پاکر اسلام کے غلبے کے ان دلائل کو جو اس زمانے کے متعلق تھے مستنبط کیا اور پھر ان دلائل کو غیر مذاہب کے مقابلے میں استعمال کیا اور دوسرے لوگوں کو ان کا استعمال سکھایا.پس آپ کی آمد سے ہی اسلام غالب ہو اور نہ جس طرح بے تو پیچی کے توپ خود اپنی فوج کے لئے مضر ہوتی ہے اسی طرح قرآن کریم اپنے عارف کی عدم موجودگی کے سبب مسلمانوں کے لئے مضر ثابت ہورہا تھا اور اسی کے غلط استعمال سے وہ ہلاک اور تباہ ہور ہے تھے لیکن حضرت اقدس علیہ السلام نے دعوی کیا تو پھر اس کلام کے وہ اثرات ظاہر ہوئے اور آپ نے ایسے دلائل کے ساتھ اسلام کی طرف سے دشمنوں کا مقابلہ کیا کہ مقابلہ کرنا تو الگ رہا ، دفاع بھی ان کے لئے مشکل ہو گیا.اور بعض تو ان میں سے حکومت کے آگے چلانے لگے کہ وہ جبراً حضرت اقدس کو اس مقابلہ سے روک دے اور روز روشن کی طرح ثابت ہو گیا کہ اب اسلام ادیان باطلہ پر غالب ہوکر رہے گا اور اثر دھے کی طرح ان کو نگل جائے گا.
(۱۷۷) پانچویں دلیل تجدید دین دعوة الامير پانچویں دلیل حضرت اقدس مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کی صداقت پر یہ ہے کہ آپ نے اسلام کی اندرونی اصلاح بھی اسی رنگ میں کر دی ہے کہ جس رنگ میں اس کی اصلاح مسیح و مہدی کے سپر تھی.پس معلوم ہوا کہ آپ ہی مسیح موعود ہیں.میرے نزدیک سوا ان مولویوں کے جو بحث مباحثے کی وجہ سے ضد اور تعصب کا شکار ہو گئے ہیں باقی سب تعلیم یافتہ لوگ اس امر کا اقرار کریں گے کہ آج اسلام وہ اسلام نہیں رہا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں تھا.ہر شخص کا دل محسوس کرتا ہے کہ اسلام میں کوئی کمی آگئی ہے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ یا تو وہ زمانہ تھا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ(الحجر:۳) بہت دفعہ کا فربھی چاہتے ہیں کہ کاش وہ مسلمان ہوتے اور ایسی اعلیٰ درجے کی تعلیم پر عمل کرتے اور یا آج یہ زمانہ ہے کہ اسلام سب کا محل اعتراض بن رہا ہے.غیروں کو تو اس نے کیا تسلی دینی تھی خود مسلمانوں میں سے تعلیم یافتہ لوگ اس کے بہت سے مسائل پر شک وشبہ رکھتے ہیں، کوئی اس کی اصولی تعلیم پر معترض ہے کوئی اس کی اخلاقی تعلیم پر حرف گیر اور کوئی اس کی عملی تعلیم کی نسبت متر ڈو.وہ یقین اور وثوق اب پیدا نہیں کرتا جو آج سے پہلے اپنے ماننے والوں کے دلوں میں پیدا کیا کرتا تھا اور اسی وجہ سے اسلام کی خاطر لوگ اس قربانی کے لئے بھی تیار نہیں جس کے لئے وہ پہلے تیار ہوا کرتے تھے اب تین باتوں میں سے
(KA) دعوة الامير ایک ضرور مانی پڑیگی یا تو یہ کہ اسلام کی تاخیر کی نسبت جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ ایک افسانے سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا بزرگوں کی نسبت پچھلوں کی حسن ظنی ہے اور کچھ بھی نہیں.یا یہ ماننا پڑے گا کہ اسلام پر آج کل کوئی عمل ہی نہیں کرتا، یا یہ کہ اسلام میں ہی تغییر آ گیا ہے اس لئے اب اس پر عمل کچھ مفید نہیں ہوتا اور یہ آخری بات ہی درست ہے کیونکہ پہلے زمانے میں جو اس کا اثر تھا وہ روایتوں سے ہی ثابت نہیں.دنیا کے چاروں گوشوں میں اسلام کے آثار اس ترقی کے شاہد ہیں جو اسلام پر چلنے کے سبب سے مسلمانوں کو حاصل ہوئی تھی اور یہ بھی نہیں کہ آج کل کوئی اسلام پر عمل نہیں کرتا ، اسلام کے جو معنے لوگ ا سمجھتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں.بعض لوگ چلہ کشی کرتے کرتے اپنی جان دے دیتے ہیں مگر ان کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا.پس ایک ہی بات رہ گئی اور وہی اصل باعث ہے کہ اسلام کا مفہوم لوگوں کے ذہنوں میں بدل گیا ہے اور سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق لَمْ يَبْقَ مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ (مشكوة كتاب العلم الفصل الثالث صفحه ۳۸ مطبوعه قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی ۱۳۲۸ھ، کنز العمال جلد ۶ صفحه ۴۳ روایت ۷۶۷ مطبوعہ حیدر آباد ۱۳۱۳ ھ میں الفاظ اس طرح ملتے ہیں ”لا يبقى من الاسلام الا اسمه “ آج اسلام کا صرف نام باقی رہ گیا ہے اور زمانہ نبوی سے بعد کی وجہ سے لوگوں نے مغز اسلام کو بالکل بدل دیا ہے اور اب موجودہ شکل میں اپنے پیروؤں کے اندر وہ تبدیلی کے پیدا کرنے سے قاصر ہے جو پہلے پیدا کیا کرتا تھا اور موجودہ شکل میں دوسرے ادیان کے پیروؤں کے دلوں پر بھی کچھ اثر نہیں کر سکتا اور گو کبھی کبھی اس کے محوشدہ آثار کسی سعید فطرت کے دل کو صداقت کی طرف مائل کر دیں مگر بطور قاعدہ اب اس کا وہ اثر نہیں جو پہلے ہوا کرتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے آپ
(۱۷۹) دعوة الامير فرماتے ہیں کہ تَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَ سَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ الأَمِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا مَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي (ترمذی ابواب الایمان باب ما جاء فى من يموت وهو يشهدان لا اله الا الله ) یعنی ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ، ان میں سے سوا ایک کے باقی سب آگ میں ڈالے جائیں گے.لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! وہ کون لوگ ہوں گے جو حق پر ہوں گے آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو اس طریق پر ہوں گے جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں.اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ یايُّهَا النَّاسُ خُذُوا مِنَ الْعِلْمِ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ الْعِلْمُ أَوْ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ قِيْلَ يَا رَسُوْلَ اللهِ كَيْفَ يُرْفَعُ الْعِلْمُ وَهَذَا الْقُرْآنُ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَقَالَ أَيْ تَكَلَتْكَ أَمُّكَ وَهَذِهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى بَيْنَ أَظْهُرِ هِمُ الْمَصَاحِفُ لَمْ يُصْبِحُوْا يَتَعَلَّقُوْنَا بِالْحَرْفِ مِمَّا جَاءَ ثُهُمْ بِهِ أَنْبِيَاؤُهُمْ أَلَا وَإِنَّ ذَهَابَ الْعِلْمِ أَنْ يَذْهَبَ حَمَلَتْهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ (کنز العمال جلد ۱۰ صفحه ۶۸ ۱ روایت ۲۸۸۶۹ مطبوعہ حلب ۱۹۷۱ء) یعنی اے لوگو ! علم حاصل کر وقبل اس کے کہ علم اٹھا لیا جائے.دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہ! علم کس طرح اٹھا لیا جائے گا ؟ حالانکہ قرآن ہمارے پاس موجود ہے آپ نے فرمایا.اسی طرح ہوگا.تیری ماں تجھ پر ماتم کرے.کیا دیکھتے نہیں کہ یہود ونصاری کے پاس کتا بیں موجود ہیں لیکن وہ اس تعلیم کے ساتھ کچھ بھی تعلق نہیں رکھتے جو ان کے انبیاء لائے تھے.سنو! علم اس طرح جاتا ہے کہ عالم دنیا سے گزر جاتے ہیں اور آپ نے یہ فقرہ تین دفعہ بیان فرمایا.
(IA.) دعوة الامير اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت امت محمدیہ نہایت خطرناک حالت کو اختیار کرنے والی ہے جبکہ علم دنیا سے اٹھ جائے گا لیکن ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ایک فرقہ ایسا ہوگا جو حق پر ہوگا اور وہ فرقہ ہوگا جو صحابہ کے رنگ میں رنگین ہوگا اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کے رنگ میں رنگین صرف مسیح موعود کی جماعت ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ اس امت کا پہلا حصہ اچھا ہے یا آخری.پس مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِی سے مراد مسیح موعود کی جماعت ہے اور حق بھی یہی ہے کہ مسیح موعود کی جماعت ہو کیونکہ کوئی جماعت صحابہؓ کی طرح نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ کسی مرسل من اللہ کی صحبت یافتہ نہ ہو.خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدیہ میں سے علم اور دین کے مٹ جانے پر مسیح موعود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ پھر اسلام کو قائم کرنے کا وعدہ کر چکا ہے.پس مسیح موعود ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ شخص جو مدعی ہو اسلام کی اصل تعلیم کو قائم کرنے والا اور قرآن کریم کے صحیح علوم بیان کرنے والا ہو اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو مسیح موعود نہیں ہو سکتا اور جو آخری زمانے کے پرفتن ایام میں اسلام کی تعلیم کو لوگوں کے خیالات سے پاک کرے اور اس کی خوبی کو دنیا پر ظاہر کرے اور مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِی کا نظارہ دکھاوے، اس کے سوا کوئی اور شخص مسیح موعود نہیں ہوسکتا اور جبکہ یہ بات ثابت ہو گئی تو مسیحیت کے مدعی کے دعوے کو پر کھنے کے لئے ایک راہ ہمارے لئے یہ بھی گھل گئی ، ہم دیکھیں کہ کیا فی الواقع اسلام اس وقت سرتا پا اپنی اصل شکل کو چھوڑ چکا ہے.دوسرے یہ کہ کیا اس شخص نے فی الواقع اس کو اس کی اصل صورت میں دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے.
(IMI) دعوة الامير اسلام کا بالکل بدل جانا اور اپنی حقیقت سے دور ہو جانا تو ایسا مسئلہ ہے جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں کوئی عقلمند بھی اس کا منکر نہ ہوگا اور کوئی منکر بھی کب ہوسکتا ہے جب کہ خدا تعالیٰ کا فعل ثابت کر رہا ہے کہ اس وقت مسلمان مسلمان نہیں رہے اور پھر اسلام کی موجودہ شکل جو خود مسلمانوں کو تسلی نہیں دے سکتی وہ آپ اس امر کی گواہ ہے کہ اسلام اس وقت بگڑ چکا ہے پس صرف یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ کیا حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب نے حقیقی اسلام کو جو اپنی خوبصورتی اور دل آویزی کے سبب اپنوں اور غیروں سب کے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے فی الواقع دنیا کے سامنے پیش کیا ہے یا نہیں.اور کیا آپ نے ان مفاسد کو اسلام سے دور کیا ہے یا نہیں جو اس کی پاک تعلیم میں اللہ سے دور اور خود غرض ملاؤں نے ملا دیئے تھے.اس سوال کو حل کرنے کے لئے میں مثال کے طور پر چند موٹی موٹی باتیں جناب کے سامنے پیش کرتا ہوں جن سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اسلام کی شکل کو اس وقت لوگوں نے کیسا بدل دیا تھا اور حضرت اقدس نے کس طرح اس کی شکل کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.مذہب کا نقطہ مرکزی جس کے گرد باقی سب مسائل چکر لگاتے ہیں یا یہ کہ اسلام کی وہ جڑ جس کے لئے باقی سب عقائد اور اعمال بمنزلہ شاخوں اور پتوں کے ہیں ایمان باللہ ہے.تمام عقائد اسکی تائید کے لئے ہیں اور تمام اعمال اسکی تثبیت کے لئے اور ایمان بااللہ کے اجزاء میں سے سب سے بڑا جزو ایمان بالتوحید ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت سے کہ دعویٰ کیا اور اس وقت تک کہ آپ فوت ہوئے لا الہ الا اللہ کی تعلیم کا اعلان جاری رکھا ہر ایک قسم کی تکلیف برداشت کی مگر اس تعلیم کا اظہار ترک نہ کیا، حتی کہ وفات کے وقت بھی آپ کو اگر کوئی خیال تھا تو یہی کہ یہ تعلیم جسے اس قدر قربانیوں کے
(IAP) دعوة الامير بعد آپ نے قائم کیا تھا دنیا سے مٹ نہ جاوے.اے بادشاہ! ایک مسلمان کا دل پگھل جاتا ہے اور اس کا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے جب وہ احادیث اور تاریخوں میں یہ پڑھتا ہے که مرضِ موت میں جبکہ شدت مرض سے آپ کے جسم پر پسینہ آ آ جاتا تھا اور بیماری آپ کے بار یک دربار یک اعصاب پر اپنا اثر کر رہی تھی ، آپ کا کرب اور آپ کی تکلیف اور بھی بڑھ جاتی تھی جب آپ یہ خیال فرماتے تھے کہ کہیں لوگ میرے بعد اس تعلیم کو بھول نہ جائیں اور شرک میں مبتلا نہ ہو جائیں اور آپ اس وقت کی تکلیف میں بھی اپنے نفس کو بھولے ہوئے تھے اور اُمت کی فکر سے دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں کروٹیں بدل بدل کر فرما رہے تھے کہ لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوْا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ (بخاری کتاب الجنائز باب ماجاء فی قبر النبی و ابی بکر و عمر رضی الله عنهم) اللہ تعالیٰ یہود و نصاری پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد بنالیا.جس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ دیکھنا میری عمر بھر کی تعلیم کے خلاف میری وفات کے بعد مجھی کو پوجنے نہ لگ جانا اور توحید الہی کی تعلیم کو بھول نہ جانا.یہ مرض موت میں آپ کا کرب اور توحید الہی کی محبت ایک ایسا دردناک واقعہ تھا کہ آپ سے محبت رکھنے والا انسان اس واقعہ کے درد ناک اثر کے ماتحت شرک کے قریب بھی کبھی نہیں جا سکتا تھا، مگر اے بادشاہ! آپ دیکھتے ہیں کہ مسلمان کہلانے والوں میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جو کھلم کھلا اس تعلیم کے خلاف عمل کر رہے ہیں.وہ کونسا مسلمان ہے جو آج سے تیرہ سو سال پہلے یہ وہم بھی کر سکتا تھا کہ لا الہ الا الله کے علمبر دار کسی وقت قبروں پر سجدے کریں گے، اپنے بزرگوں کے مقامات کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھیں گے.انسانوں کو عَالِمُ الْغَيْبِ قرار دیں گے.اولیاء اللہ کو خدا تعالیٰ کی قدرت کا مالک سمجھیں گے.مردوں سے مرادیں مانگیں گے، قبروں پر نیاز میں
(IAF) دعوة الامير چڑھا ئیں گے، اپنے پیروں کی نسبت یہ یقین رکھیں گے کہ یہ جو چاہیں اللہ تعالیٰ سے منوالیں گے اور ان کو حاضر و ناظر جائیں گے.اللہ کے سوا دوسرے لوگوں کے نام پر قربانیاں دیں گے اور پھر اس سب پر مزید ظلم یہ کریں گے کہ دعوی کریں گے کہ یہ سب تعلیم قرآن کریم کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے مگر مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لیکر جنوب تک جس جس جگہ مسلمان رہتے ہیں یہ سب کچھ ہورہا ہے اور کثیر حصہ مسلمانوں کا مذکورہ بالا باتوں میں سے کسی نہ کسی بات کا مرتکب ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس سوز و گداز کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے آپ کے مزار مبارک کو تو ان بدعات سے بچالیا مگر دیگر بزرگان اسلام کی قبروں پر آجکل ہندوؤں کے مندروں سے کم مشرکانہ رسوم نہیں ہوتیں.یقیناً اگر آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا کر دیکھتے تو ان لوگوں کو مسلمان خیال نہ فرماتے بلکہ کسی اور مشرکانہ دین کے پیرو خیال کرتے.شاید کہا جائے کہ یہ خیالات تو جاہل لوگوں کے ہیں ، علماء ان خیالات سے بیزار ہیں مگر حق یہ ہے کہ کسی قوم کی حالت اس کے اکثر افراد سے دیکھی جاتی ہے.جب مسلمانوں میں سے اکثر ان خیالات کے پیرو ہیں تو یہی فیصلہ کرنا ہوگا کہ مسلمانوں کی حالت بلحاظ توحید کے گر گئی ہے اور وہ لا الہ الا اللہ کے اصل کو جو اسلام کی جان تھا بھلا بیٹھے ہیں مگر یہ بھی درست نہیں کہ عوام الناس ہی ان عقائد کے قائل ہیں ان عوام الناس کے پیراور مولوی بھی ان کے خیالات سے متفق ہیں اور اگر بعض ان میں سے دل سے متفق نہیں تو کم سے کم ان کی حالت بھی اس قدر خراب ہوگئی ہے کہ وہ ظاہر میں عوام الناس کے خیالات کا رد نہیں کر سکتے اور یہ بات بھی اس بات کی علامت ہے کہ ایمان مٹ گیا ہے.بعض فرقے مسلمانوں میں سے ایسے ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ شرک سے بکلی
۱۸۴ دعوة الامير مُجتنب ہیں بلکہ وہ دوسرے لوگوں پر ناراض ہوتے ہیں کہ انہوں نے شرک کر کے اسلام کو صدمہ پہنچایا ہے ، مگر تعجب ہے کہ یہ لوگ خود بھی شرک میں مبتلا ہیں اور دوسروں سے ان کو صرف اس قدر امتیاز حاصل ہے کہ یہ ہر ایک شخص کو اللہ کا شریک نہیں بناتے.صرف مسیح علیہ السلام کو اللہ کا شریک سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح مسیح علیہ السلام کو زندہ آسمان پر بیٹھا ہوا یقین کرتے ہیں،ان کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو افضل الانبیاء تھے زمین میں مدفون ہیں لیکن حضرت مسیح نعوذ بالله من ذالک دو ہزار سال سے آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو موت ہی نہیں دیتا.قرآن کریم میں صاف پڑھتے ہیں کہ جن بزرگوں کو لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ مردہ ہیں زندہ نہیں ہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں گے.أَمْوَاتْ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۚ وَمَا يَشْعُرُوْنَا أَيَّانَ يُبْعَثُونَ (النحل : ۲۲) پھر دیکھتے ہیں کہ مسیحی مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے سوا معبود بنائے ہوئے ہیں مگر یہ حضرت مسیح کی زندگی کا خیال نہیں چھوڑتے اور اپنے آپ کو موحد کہتے ہوئے جھجکتے نہیں.اسی طرح یہ لوگ شرک کے خلاف تو آواز بلند کرتے ہیں مگر یقین رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح مُردے زندہ کیا کرتے تھے.حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خود بھی اس دنیا میں مردوں کو زندہ کر کے نہیں بھیجتا ، جیسا کہ فرماتا ہے.وَحَرَامْ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ ( الانبياء : ۹۶) جو لوگ فوت ہو چکے ہیں ان کے لئے ہم نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ واپس نہیں لوٹ سکیں گے اسی طرح فرماتا ہے وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (المؤمنون: ۱۰۱) یعنی جو لوگ مرچکے ہیں ان کے پیچھے ایک روک ڈال دی گئی ہے جو قیامت کے دن تک جاری رہے گی اس سے پہلے یہ زندہ نہیں کئے جائیں گے.
(IMO) دعوة الامير یہ لوگ اہل حدیث کہلاتے ہیں لیکن اس حدیث کو بھول جاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب حضرت جابر کے والد عبد اللہ شہید ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ مانگو جو کچھ مانگنا ہے.اس پر انہوں نے کہا کہ میری تو یہی خواہش ہے کہ مجھے زندہ کیا جائے اور میں پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کروں اور پھر تیری راہ میں شہید ہوں اور پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر شہید ہوں، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر میں نے اپنی ذات کی قسم نہ کھائی ہوتی تو میں تجھے زندہ کر دیتا، مگر چونکہ میں نے عہد کر لیا ہے کہ میں ایسا نہیں کروں گا اس لئے ایسا نہیں کروں گا ( ترمذی ابواب التفسیر تفسیر سورة ال عمران زیر آیت و ما كان لنبى ان يغل...الخ) یہ لوگ نہیں سوچتے کہ جس کام کو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ بھی نہیں کرتا اور جو اس کی صفات مخصوصہ میں سے ہے اسے مسیح علیہ السلام کس طرح کر سکتے تھے.أخي المؤثى (آل عمران: ۵۰) کے الفاظ قرآن سے دھوکا کھاتے ہیں لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں کہ نیا تھا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيْبُوَالِلَّهِ وَلِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِنِكُمْ (الانفال: ۲۵) اے مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی بات کو قبول کر لیا کرو جب ان میں سے کوئی تم کو بلائے تا کہ تم کو زندہ کرے تو اس وقت اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ زندگی سے مراد رُوحانی زندگی ہے.جب احیاء کے معنے روحانی زندگی دینے کے بھی ہوتے ہیں اور جبکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مردے زندہ نہیں کر سکتا اور جبکہ اس دنیا میں مردے زندہ کر کے اللہ بھی نہیں بھیجتا.تو پھر کیوں احیاء کے وہ معنی نہیں لیتے جو کلام الہی کے مطابق ہوں اور جن سے شرک نہ پیدا ہوتا ہو.اسی طرح یہ موحد کہلانے والے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح پرندے پیدا کیا
(IAY) دعوة الامير کرتے تھے حالانکہ قرآن کریم میں پڑھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شخص کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتا وَ الَّذِيْنَ يَدْعُونَ مِنْ دُوْنِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ (النَّحل: ٢١) جن آدمیوں کو لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں.پھر فرماتا ہے اَمْ جَعَلُوْا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقْوْا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللَّهُ خَالِقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (الرعد : ۱۷) کیا وہ اللہ کے سوا شریک مقرر کرتے ہیں جن کی صفت یہ ہے کہ انہوں نے بھی اللہ کی طرح مخلوق پیدا کی ہے اور اب ان لوگوں کی نظروں میں اللہ تعالیٰ کی اور ان کی مخلوق مشتبہ ہوگئی ہے کہدے کہ اللہ ہی سب چیزوں کا خالق ہے اور وہ ایک ہے ہر چیز اس کے تصرف میں ہے.اسی طرح فرماتا ہے اِنَّ الَّذِينَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ (الحج: ۷۴) وہ لوگ کہ تم ان کو اللہ کے سوا پکارتے ہو ہر گز پیدا نہیں کر سکتے ایک مکھی بھی.گو سب کے سب جمع ہو جائیں اور مسیح علیہ السلام بھی انہیں لوگوں میں سے ہیں جن کو لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں.غرض باوجود اس کے کہ قرآن کریم میں یہ بات صریح طور پر موجود ہے کہ اللہ کے سوا اور کوئی کچھ نہیں پیدا کر سکتا اور اگر کوئی ایسا کرے تو وہ سچا معبود ہے.اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ (آل عمران : ۵۰) کے وہ معنے کرتے ہیں جو قرآن کریم کی محکم تعلیم کے خلاف ہیں اور نہیں سوچتے کہ ایک لفظ کئی کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے.پس وہ معنے کریں جو قرآن کریم کی دوسری آیات کے اور ایک بندے کی شان کے مطابق ہوں ، نہ کہ وہ معنے کریں جو محکمات کے خلاف اور اللہ تعالیٰ کی شان کے منافی ہوں اور موحد کہلاتے ہوئے شرک میں مبتلاء ہوں.یہ وہ خطرناک عقائد ہیں جو اس وقت مسلمانوں میں خواہ عالم ہو ، یا جاہل اور خواہ
(۱۸۷) دعوة الامير مقلد ہو یا غیر مقلد سنی ہو یا شیعہ پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی موجودگی میں کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ مسلمان لَا إِلَهَ إِلَّا الله کے مضمون پر قائم ہیں.بیشک اس وقت بھی لَا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مسلمانوں کے منہ پر جاری ہے لیکن مذکورہ بالا عقائد کی وجہ سے وہ اس کے مفہوم سے اسی قدر دور جا پڑے ہیں جس قدر کہ اور مشرک اقوام.اس تمام گمراہی اور ضلالت کے متعلق حضرت اقدس مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر جو تعلیم دی وہ ایسی موحد انہ اور اللہ تعالیٰ کا جلال قائم کرنے والی ہے کہ اس کو مان کر انسان کا دل محبت الہی سے بھر جاتا ہے اور شرک کی آگ سے انسان بالکل محفوظ ہو جاتا ہے اور توحید کے اس مقام کو پالیتا ہے جس پر صحابہ کرام کھڑے تھے.آپ نے ان سب مذکورہ بالا خیالات کو بدلائل غلط ثابت کیا اور بتایا کہ اللہ ایک ہے اس کے سوا کسی مردے سے مراد میں مانگنی یا قبروں پر نیازیں چڑھانی یا کسی کو سجدہ کرنا خواہ زندہ ہو یا مردہ یا کسی کو اللہ کی قدرت کا مالک جاننا یا عالم الغیب سمجھنا خواہ نبی ہو یا غیر نبی یا اللہ تعالیٰ کے سواکسی کے نام پر جانور ذبح کرنا یا کوئی اور چیز اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے صدقہ کرنی یا کسی کی نسبت یہ یقین کرنا کہ وہ جو کچھ چاہے اللہ تعالیٰ سے منوالے شرک ہے اس سے مومن کو پر ہیز کرنا چاہئے.اسی طرح آپ نے یہ ثابت کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام دیگر انبیاء کی طرح فوت ہو چکے ہیں اور زیر زمین مدفون ہیں.وہ روحانی مُردوں کو زندہ کرتے تھے اور جس طرح انسان پیدا کر سکتا ہے پیدا کرتے تھے.بے جان کو جان دینے کی یا مردے کو زندہ کرنے کی ان میں طاقت نہ تھی.نہ بلا اذن اللہ اور نہ باذن اللہ.کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات مخصوصہ کسی بندہ کو نہیں دیا کرتا اور اس کا کلام ان صفات کے مسیح یا اور کسی آدمی میں پائے جانے کے صریح خلاف ہے اور جس قدر لوگ شرک پھیلاتے ہیں وہ اسی قسم کی باتیں بنایا
(IAA) دعوة الامير کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طاقتیں فلاں شخص کو دیدی ہیں.یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ اس کا پیش کردہ معبود خدا تعالیٰ سے آزاد ہو کر دنیا پر حکومت کرتا ہے.اس مطابق قرآن اور مطابق عقل تعلیم سے آپ نے شرک کی ظلمت کو دور کیا اور مسلمانوں کو وہ سیدھا راستہ دکھا یا جس کو ایک عرصہ سے چھوڑ چکے تھے اور اس طرح وہ کام سرانجام دیا جو مسیح کی آمد ثانی کے لئے مقرر تھا.ایمان باللہ کے بعد اسلام کا دوسرا رکن ایمان بالملائکہ ہے اس رکن کو بھی مسلمانوں نے بالکل مسخ کر دیا تھا.بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ملائکہ نعوذ باللہ گناہ بھی کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ پر بھی معترض ہو جاتے ہیں، آدم کے واقعہ میں ملائکہ کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ گویا وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی حکمتوں پر اعتراض کرتے ہیں.حالانکہ وہ نَحْنُ نُسَبِّحْ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَگ (البقرہ : ۳۱) کہہ کر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے افعال پر نکتہ چینی کر ہی نہیں سکتے.ہاروت اور ماروت کا قصہ ایسا دلخراش قصہ ہے کہ سنکر حیرت ہوتی ہے کہا جاتا ہے کہ دوفرشتے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں آدمیوں کے بھیس میں بھیجے اور وہ ایک فاحشہ عورت پر عاشق ہو گئے اور آخر سزا کے طور پر ایک کنوئیں میں اوندھے منہ لٹکائے گئے نعوذ باللہ من ذالک اسی طرح کہا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ من ذالک ابلیس ملائکہ کا استاد تھا.بعض لوگ ملائکہ کی نسبت یہ عقیدہ رکھنے لگے ہیں کہ گویا وہ بھی مادی وجود ہیں آدمیوں کی طرح اِدھر اُدھر دوڑے دوڑے پھرتے ہیں.عزرائیل کبھی اس کی جان نکالنے جاتے ہیں اور کبھی اس کی.اس کے برخلاف بعض لوگ ملائکہ کے وجود ہی کے منکر وگئے ہیں اور ملائکہ کو ایک وہمی وجود قرار دیتے ہیں اور قرآن کریم کی آیات کی یہ تشریح
(IAA) دعوة الامير کرتے ہیں کہ قوتوں اور طاقتوں کا نام ملائکہ رکھا گیا اور یہاں تک دلیر ہو گئے کہ علی الاعلان قرآن کریم اور احادیث کی تعلیم کے خلاف کہتے ہیں کہ ز جبریل امین قرآں بہ پیغام نمی خواہم، بلکہ ملائکہ کے وجود پر اعتراض کرتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے خلاف سمجھتے ہیں.حضرت اقدس نے ان خلاف اسلام اعتقادات کو بھی آکر رد کیا ہے اور صحیح اعتقاد کو پھیلا یا ہے اور ملائکہ کی ذات سے اعتراضات کو دور کیا ہے.آپ نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ پر اعتراض نہیں کیا کرتے اور نہ وہ گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں،ان کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَا يَعْصُونَ اللهَ مَا أَمَرَ هُمْ وَيَفْعَلُونَ مَايَؤُ مَرُوْنَ (التحريم:-) ملائکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور جن باتوں کا ان کو حکم دیا جاتا ہے انہیں وہ بجالاتے ہیں.پس ایسی مخلوق جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی ان طاقتوں کے ساتھ کیا ہے جو اطاعت اور فرمانبرداری کی طاقتیں ہیں کس طرح بدی میں مبتلا ہوسکتی ہے اور فاحشہ عورتوں کے عشق میں مبتلا ہوسکتی ہے اور اللہ کو بھلا کر عذاب الہی میں مبتلا ہوسکتی ہے.اگر ملائکہ گناہ میں مبتلا ہو سکتے ہیں تو ان پر ایمان لانے کا حکم کیوں دیا جاتا ہے.کیونکہ ایمان لانے کے تو معنی ہی یہ ہوتے ہیں کہ جس پر ایمان لایا جائے اس کی باتوں کو مانا جائے.جو لوگ نافرمانی کر سکتے ہیں ان پر ایمان لانے کا حکم دینا گو یا خود ہلاک ہونے کا حکم دینا ہے.اسی طرح آپ نے بتایا کہ ملائکہ روحانی وجود ہیں وہ ادھر اُدھر دوڑے دوڑے نہیں پھرتے بلکہ جس طرح سورج اپنی جگہ سے روشنی دیتا ہے وہ بھی اپنے مقام سے اللہ تعالی کے احکام کو بجالاتے ہیں اور ان طاقتوں کی مدد سے جو ان کی اطاعت میں لگائی گئی ہیں سب کام کرتے ہیں.
(19.) دعوة الامير اور آپ نے اس خیال کو بھی رڈ کیا ہے کہ ابلیس ملائکہ کا استاد یا یہ کہ ملائکہ کے ساتھ رہنے والا وجود تھا وہ تو ایک خبیث روح تھی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِيْنَ (البقرہ:۳۵) اس کا دل پہلے ہی اللہ تعالیٰ کا منکر تھا.آپ نے اس خیال کی غلطی کو بھی دُور کیا کہ ملائکہ وہمی وجود ہیں یا طاقتوں کو کہتے ہیں.آپ نے اپنے تجربہ اور مشاہدہ کی بناء پر ملائکہ کا وجود ثابت کیا اور ان لوگوں کی جہالت کو ظاہر کیا جو اس بات کو تو مانتے ہیں کہ ظاہری آنکھوں کی مدد کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورج کو پیدا کیا اور آواز پہنچانے کے لئے ہوا کو بنا یا اور اس سے اللہ تعالیٰ کے قادر ہونے پر حرف نہیں آیا لیکن کہتے ہیں کہ روحانی امور کے سرانجام دینے کے لئے اس نے اگر کوئی وسائط پیدا کئے ہیں تو اس سے اس کی قدرت پر حرف آتا ہے اور خود ان کے عقیدے سے ان کو ملزم قرار دیا اور ان کے اقرار سے ان کو پکڑا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا وسائط کو پیدا کرنا اس لئے نہیں کہ وہ اپنے احکام کو بندے تک پہنچا نہیں سکتا، بلکہ اس لئے ہے کہ بندہ اللہ کا کلام سننے کے لئے وسائط کا محتاج ہے اور اس لئے کہ یہ وسائط بندے کی ترقیات میں محمد اور معاون ہوتے ہیں.غرض آپ نے ایمان کے دوسرے رکن کے متعلق جو خرابیاں مسلمانوں میں پیدا ہوگئی تھیں ان کو خوب اچھی طرح دور کیا اور ملائکہ کے وجود کو اس صورت میں ظاہر کیا جس صورت میں کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان کو پیش کیا تھا.تیسرا رکن ایمان کا کتب سماویہ ہیں ان کی نسبت بھی مسلمانوں کے ایمان بالکل متزلزل ہو چکے تھے اور عجیب در عجیب خیالات مسلمانوں میں کتب سماویہ خصوصاً قرآن کریم کے متعلق پیدا ہو گئے تھے اور درحقیقت اسلام میں بلحاظ ایمان کہ قرآن کریم ہی اصل ہے کیونکہ دوسری کتب پر ایمان لانا تو صرف اُصولی طور پر ہے.ورنہ وہ نہ موجود ہیں
(191) دعوة الامير اور نہ اُن پر ان کی موجودہ شکل میں عمل کرنے کا حکم ہے.قرآن کریم کے متعلق مسلمانوں کے جو عقائد ہیں ان کو دیکھ کر مجھے سخت حیرت ہوتی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ حیرت مجھے صرف اس سبب سے ہے کہ میں نے مسیح موعود پر ایمان لا کر اس سے اصل حقیقت کو معلوم کر لیا ہے ورنہ میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح قرآن کریم کے متعلق کسی نہ کسی غلطی کا مرتکب ہوتا ، بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد معا ہی عملاً دنیا سے اٹھا یا گیا اور اس کا ایک بیشتر حصہ نعوذ باللہ من ذالک دنیا سے مفقود ہو گیا ہے بعض کے نزدیک جو موجودہ قرآن ہے اس میں بھی انسانی تصرفات کا اثر موجود ہے بعض لوگ اس قسم کے خیالات کو تو سختی سے رڈ کرتے ہیں اور ان کو کفر قرار دیتے ہیں، لیکن خود اس قسم کے اور خطر ناک عقائد پیش کرتے ہیں.مثلاً یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کا کچھ حصہ منسوخ شدہ ہے اور منسوخ قرار دینے کا ذریعہ انہوں نے یہ قرار دیا ہے کہ جو آیت دوسری آیت کے خلاف معلوم ہو وہ منسوخ ہے نتیجہ یہ ہوا کہ کسی کو بعض اور آیتوں میں اختلاف نظر آیا ہے اور کسی کو بعض اور میں.اس نے ان کو منسوخ قرار دے دیا اور اس نے ان کو اور قرآن کریم کا ایک معتد بہ حصہ منسوخ قرار پا کر قابل عمل نہیں رہا، نعوذ باللہ من ذالک.اس طریق سے یہی نقصان نہیں ہوا کہ قرآن کریم کے بعض حصے منسوخ قرار پاگئے بلکہ ایک خطر ناک اثر اس کا یہ ہوا کہ طبائع میں یہ خلجان پیدا ہو گیا ہے کہ جبکہ اس کے اندر بعض حصے منسوخ ہیں بعض غیر منسوخ ، اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے یہ نہیں بتایا کہ کونسا حصہ منسوخ ہے اور کونسا حصہ منسوخ نہیں تو اس کتاب کا اعتبار ہی کیارہا، ہر شخص کو جو حصہ پسند آیا اس نے اسے اصل قرار دیدیا اور دوسرے کو منسوخ قرار دے دیا.
احاله دعوة الامير دوسرا خطرناک عقیدہ گتپ الہیہ کے متعلق اور خصوصاً قرآن کریم کے متعلق یہ پیدا ہو گیا ہے کہ یہ کلام بھی شیطان کی دست برد سے پاک نہیں اور کہا جاتا ہے کہ بعض دفعہ شیطان الہام الہی میں دخل دیتا ہے اور آیت وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَلَا نَبِيَ الا إِذَا تَمَتَّى الْقَى الشَّيْطَنُ فِي أَمْنِيَّتِهِ (الحج: ۵۳) سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ ہر نبی کے کلام کو سنتے وقت شیطان نے دخل دیا ہے اور ایسے حصے اس میں ملا دیئے ہیں جو شیطان کی طرف سے تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ تھے اور عام قاعدے کے بیان کرنے پر ہی کفایت نہیں کی گئی بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ سورہ نجم پڑھ رہے تھے جب ان آیات پر پہنچے کہ أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنْوةَ الثَّالِثَةَ الأخرى (النجم: ۲۰-۲۱) تو آپ کی زبان پر شیطان نے نعوذ باللہ من ذالک کلمات جاری کر دیے تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لَتَرْتَجَى - (بخاری کتاب التفسیر تفسير سورة النجم باب قوله فاسجدو الله واعبدوا(حاشیه) ) یعنی یہ بت جو بمنزلۂ خوبصورت لمبی گردنوں والی حسین عورتوں کے ہیں ان سے شفاعت کی امید کی جاتی ہے.جب یہ الفاظ آپ کی زبان سے کفار نے سنے تو انہوں نے بھی سجدہ کر دیا.بعد میں آپ کو معلوم ہوا کہ یہ الفاظ شیطان نے آپ کی زبان پر جاری کر دیئے تھے تو آپ کو بہت افسوس ہوا.(نعوذ باللہ من ذالک) بعض لوگوں نے اس کہانی کو اگر حد سے زیادہ خلاف واقعہ اور نا قابل برداشت سمجھا ہے تو یہ کہہ دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر شیطان نے یہ فقرات جاری نہیں کئے تھے بلکہ آپ کی سی آواز بنا کر اس طرح یہ کلمات کہہ دیئے تھے کہ یہی سمجھ میں آتا تھا کہ گویا آپ نے یہ کلمات پڑھے ہیں.اس بات کو صحیح سمجھنے سے قرآن کریم کے متعلق جو
۱۹۳ دعوة الامير بے اعتباری پیدا ہوتی ہے اس کو یوں دور کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَنُ ثُمَّ يُحْكُمُ اللهُ أَيَتِهِ وَ اللهُ عَلِيمٌ حَكِيمُ (الحج : ۵۳) یعنی پھر اللہ تعالیٰ شیطان کی ملاوٹ کو تو مٹا دیتا ہے.اور اپنی آیتوں کو قائم کر دیتا ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے، مگر اس جواب سے کسی کو تسلی کب ہو سکتی ہے کیونکہ اگر شیطان بھی نعوذ باللہ کلام الہی میں دست اندازی کر سکتا ہے تو پھر اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ آیت بھی شیطانی نہیں ہے اور شیطان نے اپنی ملاوٹ کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مطمئن کرنے کے لئے یہ نہیں کہہ دیا ہے کہ شیطان کی طرف سے جو کلام ہو وہ مٹادیا جاتا ہے تا کہ جو نہ مٹا دیا جائے اس کو اللہ کا کلام سمجھ لیا جائے.بعض لوگوں نے قرآن کریم کو ایسا بے وقعت کر دیا ہے کہ اس کے صریح اور صاف احکام کو ضعیف بلکہ موضوع احادیث کے تابع کر دیا ہے اور اتباع سنت کے نام سے اللہ ذوالجلال کے کلام کو بعض خود غرض اور اخلاق ذمیمہ رکھنے والے انسانوں کے خیالات کے تابع کر دیا ہے.قرآن کریم خواہ چلا چلا کر کسی کو رد کرے.لیکن اگر ضعیف سے ضعیف حدیث میں بھی اس کا ذکر ہو تو وہ اس کو وحی الہی پر مقدم کر لیں گے اور اگر قرآن کریم کسی بات کو بیان کرتا ہو لیکن حدیث میں اس کا رڈ ہو تو وہ قرآن کو پس پشت ڈال دیں گے اور حدیث کے بیان کو صحیح سمجھ لیں گے.بعض لوگوں نے کلام الہی سے یہ سلوک کیا ہے کہ وہ اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیال قرار دیتے ہیں اور اس کے اللہ کا کلام ہونے سے انکاری ہیں وہ منہ سے تو یہی کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے مگر ساتھ ہی اس کی تشریح یہ کرتے ہیں کہ رسول کریم کے صاف دل میں جو خیال پیدا ہوتے تھے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی تائید سے ہوتے تھے اس لئے وہ
۱۹۴ دعوة الامير اللہ ہی کا کلام کہلانا چاہئے ورنہ الفاظ ( نعوذ باللہ من ذالک) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیار کردہ ہیں، کیونکہ (ان کے نزدیک اللہ کا کلام الفاظ میں جو اپنے ادا ہونے کے لئے ہونٹ اور زبان چاہتے ہیں نہیں نازل ہوسکتا.بعض نے اللہ کے کلام سے یہ سلوک کیا ہے کہ فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کا ترجمہ ہی نہیں کیا جا سکتا گویا عوام الناس تک اس کے پہنچانے کا جو ذریعہ تھا اُس کو بند کر کے مسلمانوں کو اللہ کے کلام کا مفہوم سمجھنے سے روک دیا ہے اور اس طرح بے دینی کی اشاعت کے ذمہ دار ہو گئے ہیں.بعض نے اللہ کے کلام سے یہ سلوک کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ قرآن ایک مجمل کتاب ہے اس میں اشارۃ بعض ضروری باتیں تو بتا دی گئی ہیں لیکن کوئی مسئلہ اس سے ثابت نہیں ہوسکتا.بعض نے اللہ تعالیٰ کے کلام سے یہ سلوک کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم تمام کا تمام تقدیم اور تاخیر سے بھرا پڑا ہے.جب تک اس کو مد نظر نہ رکھیں اس کی بات سمجھ میں نہیں آسکتی.بعض نے اللہ تعالیٰ کے کلام کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے کہ تمام دنیا کے قصے اور کہانیاں جن کو عقل سلیم رڈ کرتی ہے اور فطرت ان سے نفرت کرتی ہے اکٹھی کر کے قرآن کریم کی طرف منسوب کر دی ہیں اور مضمون ملے یا نہ ملے، بلکہ خواہ الفاظ قرآن کریم ان کے خلاف ہوں وہ اسرائیلی قصوں کے ماتحت اس کے مضمون کو لے آتے ہیں اور ان قصوں کو اللہ تعالیٰ کے کلام کی تفسیر بتاتے ہیں اور ان کو پہلے بزرگوں اور اولیاء اللہ کی طرف بھی منسوب کرنے سے نہیں جھجکتے.
(190) دعوة الامير بعض نے اللہ کے کلام سے یہ سلوک کیا ہے کہ اس کے ربط اور اس کی ترتیب کے بھی منکر ہو گئے ہیں.گویا ان کے نزدیک جس طرح کوئی شخص بیہوشی میں ادھر اُدھر کی باتیں کرتا ہے.اسی طرح قرآن کریم میں ہلاکسی ترتیب کے مختلف واقعات کو بیان کر دیا گیا ہے.کوئی خاص ترتیب اور مضمون مد نظر نہیں.بعض نے بلکہ اس وقت کے کل مسلمانوں نے کلام الہی کے متعلق ایک اور ظلم کیا ہے کہ کہہ دیا ہے کہ پہلے اللہ کا کلام دنیا پر نازل ہوتا تھا لیکن اب نہیں ہوتا، گویا اب اللہ تعالیٰ کی ایک صفت معطل ہوگئی ہے وہ دیکھتا ہے سنتا ہے لیکن بولتا نہیں، نعوذ باللہ من ذالک.غرض ہر شخص سے جس قدر ہو سکا اس نے کلام پاک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کی خوبصورتی کو لوگوں کی نظروں سے چھپانا چاہا ہے اور ان سب کوششوں کا نام خدمت قرآن رکھا ہے حالانکہ ان کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ دنیا قرآن کریم سے متنفر ہوگئی ہے اور اس کا اثر دلوں سے اُٹھ گیا ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے اے بادشاہ ! ان تمام عیوب کو آکر دور کیا اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا آخری ہدایت نامہ ہے وہ نسخ سے محفوظ ہے اُس کے اندر جو کچھ موجود ہے مسلمانوں کے لئے قابل عمل ہے اور اس کا کوئی حصہ نہیں جو دوسرے حصے کے مخالف ہو اور قابل نسخ سمجھا جائے جو اس میں اختلاف دیکھتا ہے وہ خود جاہل اور اپنی کم علمی کو قرآن کریم کی طرف منسوب کرتا ہے اس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ، اس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف اسی طرح ہے جس طرح کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تھا اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کے اندر کوئی تبدیلی کی ہی نہیں جاسکتی.نہ اس کے بعض مضامین کو بدل کر اور نہ اس کے اندر کوئی نئی عبارت بڑھا کر اور نہ
(194) دعوة الامير اس کا کوئی حصہ کم کر کے.اللہ تعالیٰ خود اس کا محافظ ہے اور اس نے اس کی حفاظت کے ایسے سامان کر دیئے ہیں کچھ روحانی اور کچھ جسمانی کہ انسانی دست برداس پر اثر کر ہی نہیں سکتی.پس اس میں کوئی نسخ ماننا بھی غلط ہے اور اس میں کوئی تغیر تسلیم کرنابھی خواہ وہ کیسا ہی ادنی ہے اتہام ہے وہ محفوظ ہے اور محفوظ رہے گا.یہ کہنا کہ اس کا کوئی حصہ دنیا سے اٹھایا گیا ہے اللہ تعالیٰ پر الزام لگانا ہے اور اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ کامل کتاب جو اس نے دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجی تھی وہ ایک دن بھی اس کام کو نہ کر سکی جس کے لئے وہ نازل کی گئی تھی اور اس کے اندر تغیر تسلیم کرنے کے یہ معنے ہیں کہ وہ ہمیشہ کے لئے بے اعتبار ہو گئی لیکن اگر ایسا ہوتا تو یہ بھی ضروری تھا کہ کوئی نبی اور کوئی نئی شریعت دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجی جاتی تاکہ دنیا بلا شریعت کے نہ رہ جاتی.اسی طرح آپ نے ثابت کیا کہ قرآن کریم بلکہ ہر ایک اللہ کا کلام شیطانی تصرف سے پاک ہے یہ ہرگز ممکن نہیں کہ شیطان اللہ تعالیٰ کے کلام میں کچھ دخل دے سکے ، خواہ نبی کی زبان پر تصرف کر کے خواہ نبی کی آواز بنا کر اپنی زبان کے ذریعہ سے اور آپ نے اپنے تجربے سے بتایا کہ جب مجھ پر جو ایک غلام ہوں نازل ہونے والا کلام ہر ایک شک وشبہ سے پاک ہے تو کس طرح ممکن ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو میرے آقا ہیں نازل ہونے والا کلام اور وہ بھی قرآن کریم جو ہمیشہ کے لئے ہدایت بننے والا تھا شیطانی اثر کو قبول کرے خواہ ایک آن کے لئے ہی سہی.آپ نے مسلمانوں کو بتایا کہ قرآن کریم یقینی کلام ہے اس کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے اور اس وعدہ کا ایفاء اس رنگ میں اس نے کیا ہے کہ دشمن بھی اس کی حفاظت کے قائل ہیں پس اس کے مقابلے میں حدیث کو رکھنا اس کی گستاخی کرنا اور اس کو
(192) دعوة الامير جان بوجھ کر رڈ کرنا ہے.جو حدیث قرآن کریم کے مخالف پڑتی ہے.وہ ہرگز حدیث نبوی نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ کا رسول اللہ کے کلام کے مخالف نہیں کہہ سکتا اور احادیث کی تدوین ایسی محفوظ نہیں ہے جیسا کہ قرآن کریم محفوظ ہے.پس قرآن کریم کو زبردستی حدیث کے ماتحت نہیں کرنا چاہئے بلکہ حدیث کو قرآن کریم کے ماتحت کرنا چاہئے اور اگر دونوں مطابق نہ ہو سکیں تو حدیث کو جو ممکن ہے کہ کسی انسان کی دانستہ یا نادانستہ دست برد سے خراب ہو چکی ہو چھوڑ دینا چاہئے.اور آپ نے ان لوگوں کے جواب میں جو یہ کہتے ہیں کہ پورا دین تو ہمیں حدیث سے معلوم ہوا ہے بتایا کہ حدیث اور قرآن کے علاوہ ایک تیسری چیز سنت ہے یعنی وہ کام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کر کے دکھائے اور جو بلا واسطہ صحابہ نے آپ کو کرتے ہوئے دیکھ کر آپ سے سیکھے اور ان کے مطابق عمل کیا ، کسی زبانی حدیث کی ان کے لئے ہمیں ضرورت نہیں ، ہزاروں لاکھوں مسلمانوں نے ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کو وہ کام کرتے ہوئے دیکھا اور اس سے اگلوں نے سیکھا.یہ سنت کبھی قرآن کریم کے مخالف نہیں ہوتی ، ہاں حدیث جوز بانی روایت ہے وہ کبھی قرآن کے مخالف بھی ہو جاتی ہے اور اس میں شبہ کی گنجائش ہوتی ہے جب وہ قرآن کریم کے مخالف ہو تو وہ قابل رڈ ہے اور جب اس کے مطابق ہو قابل قبول.کیونکہ تاریخی شہادت ہے اور تاریخی شہادت کو بلا وجہ رد نہیں کیا جاسکتا ہے ورنہ بہت سی صداقتیں دنیا سے مفقود ہو جائیں.آپ نے اس خیال کی لغویت کو بھی ظاہر کیا کہ قرآن کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں اور بتایا کہ قرآن کریم کا لفظ لفظ اللہ کا کلام ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف وحی کے سنانے والے تھے نہ کہ اس کے بنانے والے.یہ وسوسہ درست نہیں
(19) دعوة الامير کہ کلام ہونٹ اور زبان چاہتا ہے اور اللہ کے ہونٹ اور زبان نہیں کیونکہ یہ قیاس مع الفارق ہے اللہ تعالیٰ تو لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْئ (الشوری: (۱۲) ہے اس پر انسانی طاقتوں کا اندازہ کر کے فیصلہ نہیں دیا جاسکتا اگر کلام بغیر ہونٹ کے نہیں ہوسکتا تو اسی طرح کوئی چیز بغیر ہاتھوں کے نہیں بنائی جاسکتی، بلکہ مادی ہاتھوں کے بغیر نہیں بنائی جا سکتی تو کیا اللہ خالق بھی نہیں ہے؟ پس جس طرح اللہ تعالیٰ بلا مادی ہاتھوں کے اس تمام کائنات کو پیدا کر سکتا ہے اسی طرح بغیر مادی ہونٹ اور زبان ہونے کے وہ اپنی مرضی کو اپنے بندے پر الفاظ میں ظاہر کر سکتا ہے اور آپ نے اپنے تجربے کو پیش کیا اور بتایا کہ یہ وہم صرف اس کوچے سے ناواقفی کی وجہ سے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ خود مجھ سے الفاظ میں کلام کرتا ہے پس جبکہ وہ مجھ سے الفاظ میں کلام کرتا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سب بنی آدم کے سردار اور اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ مقرب تھے کیا وہ الفاظ میں کلام نہ کرتا ہوگا، اس سے زیادہ جاہل اور کون ہوگا جو جاہل ہوکر اس بحث میں دخل دے جواس کے علم سے بالا ہو اور نادان ہوکر اللہ کے رازوں کو اپنی عقل سے دریافت کرنے کی کوشش کرے.آپ نے اس خیال کو بھی رڈ کیا کہ اللہ کے کلام کا ترجمہ نہیں ہوسکتا اور بتایا کہ جب تک لوگوں کو قرآن کریم کا مفہوم نہ پہنچایا جائے وہ اس کی خوبیوں سے کس طرح واقف ہوں گے؟ بیشک خالی ترجمہ کی اشاعت ایک جُرم ہے کیونکہ اس سے لوگوں کو متن سے بعد ہوتا جائے گا اور ممکن ہے کہ ترجمہ در ترجمہ سے وہ ایک وقت اصل حقیقت کو چھوڑ دیں لیکن ان لوگوں کے لئے جو عربی زبان نہیں جانتے قرآن کریم کا ترجمہ اگر متن کے ساتھ ہو تو نہایت ضروری شئے ہے، ہاں یہ ضروری ہے کہ لوگوں میں عربی زبان کو اس قدر رواج دیا جائے کہ لوگ قرآن کریم کو اس کی اصل زبان میں پڑھ کر وہ برکات حاصل کر سکیں جو کہ
(199) دعوة الامير ترجمہ سے حاصل نہیں ہوسکتیں اور کم سے کم ہر شخص کو اس قدر حصہ قرآن کریم کا ضرور سکھا دیا جائے جو نماز میں اس کو پڑھنا پڑتا ہے.آپ نے اس خیال کو بھی کہ قرآن کریم ایک مجمل کتاب ہے اس میں اشارۃ بعض باتیں بیان کی گئی ہیں نہایت واضح دلائل سے رد کر کے بتایا کہ قرآن کریم جیسی جامع و مانع کتاب تو دنیا بھر میں نہیں مل سکتی یہ تم لوگوں کا اپنا قصور تھا کہ اس پر غور کرنا تم نے چھوڑ دیا اور اس طہارت کو حاصل نہ کیا جس کے بغیر اس کے مطالب کا القاء انسان کے قلب پر نہیں ہوتا کیونکہ لَا يَمَسُّهُ إِلا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعه :۸۰) کا ارشاد ہے.پس اپنی کوتاہ نہی کو قرآن کریم کی طرف منسوب نہ کرو اور پھر آپ نے تمام مسائل دینیہ کو قرآن کریم سے ہی استنباط کر کے پیش کیا اور دشمنان اسلام کے ہر اعتراض کو قرآن کریم سے ہی رد کر کے دکھا دیا اور ثابت کر دیا کہ علوم روحانیہ اور دینیہ اور اخلاقیہ کے متعلق قرآن کریم سے زیادہ واضح اور مفصل کتاب اور کوئی نہیں ، اس کے الفاظ مختصر ہیں لیکن مطالب ایک بحر ذخار کی طرح ہیں کہ ایک ایک جملہ بیسیوں بلکہ سینکڑوں مطالب رکھتا ہے اور اس کے مضامین ہر زمانے کے سوالات اور شکوک کو حل کرتے ہیں اور ہر زمانے کی ضروریات کو وہ پورا کرتا ہے.آپ نے اس خیال کو بھی رڈ کیا کہ قرآن کریم تقدیم و تاخیر سے بھرا پڑا ہے اور بتایا که قرآن کریم کے الفاظ اپنی اپنی جگہ پر ایسے واقع ہیں کہ ان کو ہرگز انکی جگہ سے ہلا یا نہیں جاسکتا.لوگ اپنی نادانی سے اس میں تقدیم و تاخیر سمجھ لیتے ہیں ورنہ اس میں جو کچھ جس جگہ رکھا گیا ہے وہی وہاں درست بیٹھتا ہے اور اسی جگہ پر اس کے رکھنے سے وہ خوبی پیدا ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ پیدا کرنا چاہتا ہے اور آپ نے قرآن کریم کے مختلف مقامات کی تشریح کر کے اس مضمون کی صحت کو ثابت کیا اور ان لوگوں کے وسوسہ کو ر ڈ کیا جو اپنی کم علمی کی وجہ سے
(r..) دعوة الامير تقدیم و تاخیر کے چکر میں پڑے ہوئے تھے.آپ نے اس بات پر بھی جرح کی کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں اسرائیلی قصوں کو بھر دیا گیا ہے اور بتایا کہ محض بعض واقعات میں مشابہت کا پیدا ہو جانا یہ ثابت نہیں کرتا که در حقیقت یہ دونوں باتیں ایک ہیں، قرآن کریم اگر بعض واقعات کو مختلف الفاظ میں بیان کرتا ہے تو اس کے یہی معنے ہیں کہ وہ ان واقعات کو اس صورت میں قبول نہیں کرتا جس صورت میں افسانہ گوان کو بیان کرتے ہیں اور یہ بھی بتایا کہ در حقیقت قرآن کریم افسانے کی کتاب ہے ہی نہیں وہ جو واقعات پچھلے بھی بیان کرتا ہے وہ آگے کی پیشگوئیاں ہوتی ہیں اور ان کے بیان کرنے سے یہ غرض ہوتی ہے کہ اسی طرح کا معاملہ آئندہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کی امت کے بعض افراد سے ہونے والا ہے پس اس کی تفسیر میں یہودیوں کے قصوں اور افسانوں کو بیان کرنا اس کے مطلب کو گم کر دینا ہے.قرآن کریم پہلی کتب پر بطور شاہد کے آیا ہے نہ کہ پہلی کتب اس پر بطور شاہد کے ہیں کہ اس کے بتائے ہوئے مضمون کے خلاف ہم ان کتب سے شہادت طلب کریں ، ہمیں چاہئے کہ خود قرآن کریم سے اس کی تفسیر کریں اور اس کے مطلب کو باہر سے تلاش کرنے کی بجائے اس کے اندر ڈھونڈیں.آپ نے یہ بھی ثابت کیا کہ قرآن کریم ایک مرتب اور بار بط کتاب ہے اس کے مضامین یونہی بکھرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ شروع بسم اللہ سے لے کر وَ النَّاسِ تک اس کی آیات اور اس کی سورتوں میں ایک ترتیب ہے جو ایسی اعلیٰ اور طبعی ہے کہ جس شخص کو اس پر اطلاع دی جاتی ہے وہ اس کے اثر سے وجد میں آجاتا ہے اور اس کے مقابلے میں کسی انسانی کتاب کی ترتیب میں لطف حاصل نہیں کر سکتا جن لوگوں نے قرآن کریم کے مضامین
(r.) دعوة الامير کو بے ترتیب قرار دیا ہے یا مختلف واقعات و مضامین کا مجموعہ سمجھا ہے انہوں نے درحقیقت اس بے نظیر کتاب کے معارف سے کوئی حصہ نہیں پایا اور اپنی جہالت پر نازاں ہو گئے اور اپنی کم علمی پر توکل کر بیٹھے ہیں، ان کا خیال بالکل غلط اور باطل ہے اور آپ نے قرآن کے مضامین کی ترتیب کو مثالوں سے ثابت کیا اور دنیا کو حیرت میں ڈال دیا.آپ نے اس خیال کو بھی اپنے تجربے اور مشاہدے اور دلائل سے رڈ کیا کہ اب اللہ تعالیٰ کلام نہیں کرتا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت معطل نہیں جبکہ وہ پہلے کی طرح اب بھی دیکھتا اور سنتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ اب بولنے سے رک گیا ہے.شریعت اور چیز ہے اور خالی وجی اور چیز ہے وحی تو اس کی رضاء کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے اس کے بند ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہیں بند ہوگئیں اللہ کا کلام کبھی منقطع نہیں ہوسکتا.جب تک انسان دنیا میں موجود ہے اور جب تک انسانوں میں سے بعض اللہ تعالیٰ کی رضاء کے حصول کے لئے سچے دل سے کوشاں ہیں اور اسلام کی تعلیم پر عامل ہیں اس وقت تک کلام الہی نازل ہوتار ہے گا.غرض كُتب سماویہ اور کلام الہی کے متعلق جس قدر غلط فہمیاں لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں اور جن کی وجہ سے یہ رکن ایمان بالکل منہدم ہو چکا تھا اُن کو آپ نے دُور کیا اور پھر اس رُکن کو اصل بنیادوں پر قائم کیا اور اللہ کے کلام کی اصل عظمت اور حقیقت کو ثابت کر کے طبائع کو اس کی طرف مائل کیا اور اس کی روشنی کو ان پردوں کے نیچے سے نکالا ، جو اس پر مسلمانوں نے اپنی نادانی کے سبب سے ڈال رکھے تھے اور غیر اقوام بھی قرآن کریم کے نور کو دیکھ کر حیران رہ گئیں ، بلکہ لوگ اس کے نور کی چمک سے اپنی آنکھیں نہیں کھول سکتے.
۲۰۲ دعوة الامير چوتھا رکن اسلام کا انبیاء پر ایمان لانا ہے اس رکن پر بھی حقیقت سے دور اور روحانیت سے عاری مسلمانوں نے عجیب عجیب رنگ آمیزیاں کر دی تھیں اور اس کی شکل کو نہ صرف بدل دیا تھا بلکہ اُس کی شکل ایسی بد نما کر کے دکھائی تھی کہ اپنوں کے دل نبیوں کی محبت سے خالی ہو گئے تھے اور دوسروں کے دل اُن سے نفرت کرنے لگے تھے اور سچ یہ ہے کہ جس قدر گالیاں اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی جارہی ہیں ان کے ذمہ دار یہ مسلمان کہلانے والے لوگ ہیں نہ کوئی اور مسیحی اور دوسرے مخالفین اسلام اس قدرا اپنی طرف سے جھوٹ بنا بنا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض نہیں کرتے جس قدر کہ ان روایات کی بناء پر اعتراض کرتے ہیں، جو خود مسلمانوں سے مروی ہیں اور جن کو مسلمانوں نے تسلیم کر لیا ہے اور جن کو بطور لطائف کے وہ اپنی مجالس میں بیان کرتے ہیں اور اپنے منبروں پر جن کا ذکر کرتے ہیں ، آہ! ایک باغیرت مسلمان کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ ایک مسلمان ہی کی تیار کردہ تلوار سے سرور انبیاء محمد مصطفی " کے تقویٰ کی چادر کو ایک دشمن اسلام خاک برسرش اپنے زعم باطل میں چاک کر رہا ہے.درحقیقت تو وہ خود اس منافق کے نفاق کو کھول رہا ہوتا ہے، مگر ظاہر سمجھا جاتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے عیوب کو ظاہر کر رہا ہے.نبی دنیا میں اس لئے آتے ہیں کہ نیکی اور تقویٰ کو قائم کریں اور ہدایت کو جاری کریں مگر مسلمانوں نے فیج آغوج کے زمانہ میں نبیوں کی طرف وہ عیب منسوب کر دیئے ہیں جن کو سنکر اور پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے.آدم علیہ السلام سے لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر ایک نبی کے انہوں نے گناہ گنوائے ہیں، آدم کو گنہ گار ثابت کیا ہے کہ انہوں نے صاف اور واضح احکام الہیہ کو پس پشت ڈال دیا تھا، نوح علیہ السلام کو گنہگا رثابت کیا
(۲۰۳) دعوة الامير ہے کہ انہوں نے باوجود منع کئے جانے کے اپنے بیٹے کے لئے دعا کی.حضرت ابراہیم کو گنہگار ثابت کیا ہے کہ انہوں نے نعوذ باللہ من ذالک تین جھوٹ بولے تھے.حضرت یعقوب کو گنہگار ثابت کیا ہے کہ انہوں نے گویا اپنے باپ کو بستر مرگ پر دھوکا دیا تھا اور اپنے بڑے بھائی کی جگہ بھیس بدل کر اپنے باپ سے دُعا حاصل کر لی تھی.یوسف علیہ السلام کو گنہگار ثابت کیا ہے کہ انہوں نے عزیز کی بیوی کے ساتھ زنا کرنے کا ارادہ کر لیا تھا اور بالکل اس کام کے لئے تیار ہو گئے تھے حتی کہ باوجود کئی رنگ میں سمجھانے کے نہیں سمجھتے تھے ، آخر یعقوب کی شکل سامنے آگئی تو شرم سے اس کام سے باز رہے.اسی طرح کہا جاتا ہے کہ بچپن میں انہوں نے چوری کی تھی اور ایک دفعہ انہوں نے اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھنے کے لئے فریب بھی کیا تھا.حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو بلا وجہ قتل کیا اور ایک کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوئے اور پھر فریب سے لوگوں کے مال لیکر بھاگ گئے.داؤ پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کی منکوحہ چھینے کے لئے اس کو نا واجب طور پر قتل کروا دیا اور اس کی بیوی سے نکاح کر لیا اور آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو سرزنش ہوئی ،سلیمان پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ایک مشرکہ پر عاشق ہو گئے اور شیطان نے اُن پر تصرف کر لیا ، ان کی جگہ وہ خود حکومت کرنے لگا اور یہ کہ مال کی محبت ان کے دل پر غالب آگئی اور وہ عبادت الہی سے محروم رہ گئے.گھوڑوں کا معائنہ کرتے ہوئے نماز پڑھنا ہی بھول گئے اور سورج ڈوب گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کے احسانات کے نیچے ان لوگوں کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں اور ذرہ ذرہ جن کے انعامات کے نیچے دبا ہوا تھا ان پر ان لوگوں نے سب سے زیادہ حملے کئے ہیں اور آپ کی زندگی کا کوئی پہلو نہیں چھوڑا جس پر اعتراض نہ کیا ہو.بعض نے کہہ دیا کہ آپ
(r.) دعوة الامير حضرت علی کو اپنا جانشین بنانا چاہتے تھے مگر لوگوں کے ڈر سے کچھ نہ کر سکے، بعض نے کہا کہ آپ نعوذ بالله من ذالک اپنی پھوپھی زاد بہن کو دیکھ کر اس پر عاشق ہو گئے اور آخر اللہ تعالیٰ نے زید سے طلاق دلوا کر ان کو آپ کے نکاح میں دیا، بعض نے کہا کہ آپ اپنی بیوی کی ایک لونڈی سے چھپ چھپ کر صحبت کیا کرتے تھے.ایک دن بیوی نے دیکھ لیا تو آپ بہت نادم ہوئے اور اس بیوی سے اقرار کیا کہ پھر آپ ایسا نہیں کریں گے اور اس سے عہد لیا کہ وہ اور کسی کو نہ بتائے بعض کہتے ہیں کہ آپ کے دل میں کبھی کبھی یہ خواہش ہوا کرتی تھی کہ تعلیم اسلام میں نرمی ہو جائے اور ایسی تعلیم نازل ہو جسے مشرکین عرب بھی تسلیم کر لیں.ان کے احساسات اور جذبات کا بھی لحاظ رکھا جائے.یہ وہ خیالات ہیں جو اس وقت کے مسلمانوں میں انبیاء کی نسبت رائج ہیں اور بعض تو اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ان کے ذاتی چال چلن سے گزر کر انہوں نے ان کے دینی چال چلن پر بھی حملہ کر دیا ہے اور کہتے ہیں کہ انبیاء در حقیقت محبانِ وطن تھے جنہوں نے یہ دیکھ کر کہ لوگ ہلا اس عقیدے کو تسلیم کرنے کے کہ کوئی جزا وسزا کا دن ہے اور جنت اور دوزخ حق ہیں تمدنی حدود کے اندر نہیں رہ سکتے تھے.نیک نیتی کے ساتھ مناسب وقت احکام لوگوں کو دیدیئے ، الہام کا دعویٰ درست نہ تھا مگر بوجہ نیت نیک ہونے کے اور اعلیٰ درجہ کی اخلاقی تعلیم پیش کرنے کے وہ قابل عزت ہیں اور باوجود اس قسم کے عقیدوں کے وہ مسلمان کہلاتے ہیں.حضرت اقدس مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں اور عقائد کا رد کیا اور ان میں صحیح راستہ ہمیں بتایا وہاں ان خیالات کے متعلق بھی صحیح اسلامی تعلیم سے مسلمانوں اور دیگر لوگوں کو آگاہ کیا.آپ نے بتا یا کہ انبیاء د نیا میں نیکی قائم کرنے کے لئے آتے ہیں اور
(r.o) دعوة الامير اس لئے لوگوں کے لئے نمونہ ہوتے ہیں اگر وہ نمونہ نہ ہوں تو پھر ان کی بعثت کی کیا ضرورت ہے، کیوں آسمان سے صرف کتاب ہی نازل نہ کی جائے.نبیوں کی بعثت کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول کو لوگ عمل میں آیا ہوا دیکھ لیں اور ان کی عملی تصویر سے لفظی حقیقت کو معلوم کریں اور ان کے نمونے سے جرات حاصل کر کے نیکی کی راہ میں ترقی کریں.اور ان کی قوت قدسیہ سے طاقت حاصل کر کے اپنی کمزوریوں پر غالب آویں.آپ نے دنیا کو تعلیم دی کہ لوگ انبیاء کی نسبت جن غلطیوں میں پڑے ہوئے ہیں اس کا سبب ان کی نا نہی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور بلا تحقیق اپنی بات کو پھیلانا شروع کر دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کے تمام نبی معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں.وہ سچائی کا زندہ نمونہ اور وفا کی جیتی جاگتی تصویر ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہوتے ہیں اور صفائی اور خوبصورتی سے اللہ تعالیٰ کی سبوحیت اور قدوستیت اور اس کے بے عیب ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں.درحقیقت وہ ایک آئینہ ہوتے ہیں جس میں بدکار بعض دفعہ اپنی شکل دیکھ کر اپنی بدصورتی اور زشت روئی کو ان کی طرف منسوب کر دیتا ہے، نہ آدم شریعت کا توڑنے والا تھا نہ نوع گنہ گار تھا نہ ابراہیم نے کبھی جھوٹ بولا ، نہ یعقوب نے دھوکا دیا، نہ یوسف نے بدی کا ارادہ کیا یا چوری کی یا فریب کیا ، نہ موسیٰ نے ناحق کوئی خون کیا، نہ داؤد نے کسی کی بیوی ناحق چھینی ، نہ سلیمان نے کسی مشرکہ کی محبت میں اپنے فرائض کو بھلا یا یا گھوڑوں کی محبت میں نماز سے غفلت کی ، نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی چھوٹا یا بڑا گناہ کیا، آپ کی ذات تمام عیوب سے پاک تھی اور تمام گناہوں سے محفوظ و مصئون.جو آپ کی عیب شماری کرتا ہے وہ خود اپنے گند کو ظاہر کرتا ہے یہ سب افسانے جو آپ کی نسبت مشہور ہیں بعض منافقوں کی روایات
دعوة الامير ہیں جو تاریخی طور پر ثابت نہیں ہو سکتے آپ کی باقی زندگی ان روایات کے بالکل برخلاف ہے اور جس قدر اس قسم کی باتیں آپ کی نسبت یا دوسرے انبیاء کی نسبت مشہور ہیں وہ یا تو منافقوں کے جھوٹے اتہامات کی بقیہ یادگاریں ہیں، یا کلام الہی کے غلط اور خلاف مراد معنی کرنے سے پیدا ہوئی ہیں.آپ نے نہایت وضاحت سے قرآن کریم سے بدلائل قاطعہ ثابت کر دیا کہ در حقیقت اس قسم کے خیالات اسلام کی تعلیم کے خلاف ہیں اور اصل بات تو یہ ہے کہ یہ خیالات مسلمانوں میں مسیحیوں سے آئے تھے کیونکہ مسیحیوں نے حضرت مسیح کی خدائی ثابت کرنے کے لئے یہ رویہ اختیار کر رکھا تھا کہ وہ سب نبیوں کی عیب شماری کرتے تھے تا کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ چونکہ گناہوں سے پاک صرف حضرت مسیح ہیں، اس لئے ضرور وہ انسانیت سے بالا طاقتیں رکھتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں بھی سب نبیوں کے عیب تو گنائے جاتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک اتہامات لگائے جاتے ہیں، مگر حضرت مسیح کو بالکل بے گناہ قرار دیا جاتا اور آپ ہی کو نہیں بلکہ آپ کی والدہ کو بھی بالکل پاک قرار دیا جاتا ہے کیا یہ اس امر کا کافی ثبوت نہیں کہ یہ جھوٹے افسانے اور قابل نفرت قصے مسلمانوں میں مسیحیوں سے ہی آئے ہیں جن کے بداثر کو یا تو بوجہ ایک جگہ رہنے کے مسلمانوں نے قبول کر لیا، یا بعض شریر الطبع لوگوں نے بظاہر اسلام قبول کر کے اس قسم کی مخزیات اور باطل باتیں مسلمانوں میں پھیلانی شروع کر دیں جنہیں ابتداء تو ہمارے مؤرخوں اور محدثوں نے اپنی مشہور دیانتداری سے کام لیکر صحیح روایات کے ساتھ جمع کردیا تھا تا کہ مخالف اور موافق سب روایات لوگوں تک پہنچ جائیں مگر بعد کو آنے والے ناخلف لوگوں نے جو نور نبوت سے خالی ہو چکے تھے ان شیطانی وساوس کو تو قبول کر لیا جو قرآن کریم
(r.) دعوة الامير کی تعلیم کے خلاف تھے اور ان صحیح روایتوں کو نظر انداز کر دیا جو انبیاء کی عصمت اور ان کی پاکیزگی پر دلالت کرتی تھیں اور ان وساوس کے لئے بمنزلہ تیز تلوار کے تھیں جس کی ضرب کو وہ قطعاً برداشت نہیں کر سکتے تھے.مگر الحمد للہ کہ حضرت اقدس نے اس گندگی کو ظاہر کر دیا اور انبیاء کے صحیح مرتبہ کو پھر قائم کر دیا اور ان کی عزتوں کی حفاظت کی ، خصوصاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور آپ کی پاکیزگی کو تو نہ صرف الفاظ میں بیان کیا، بلکہ ایسے زبردست دلائل سے ثابت کیا کہ دشمن کا منہ بھی بند ہو گیا.بقول حضرت اقدس ہر رسولے آفتاب صدق بود ہر رسولی بود ظلِ دین پناه ہر رسولی بود مہر انورے ہر رسولی بود باغ مثمرے گر بدنیا آمدے ایں خیل پاک کار دیں ماندے سراسر ابترے ہر کہ شکر بعث شاں نارد بجا هست او آلائے حق را کافرے آں ہمہ از یک صدف صد گوہراند متحد در ذات و اصل و گوہرے اوّل آدم آخر شان احمد است اے خنک آنکس که بیند آخرے انبیاء روشن گهر هستند لیک هست احمد زان ہمہ روشن ترے آں ہمہ کان معارف بوده اند ہر یکے از راه مولی مُخبرے هر که را علم ز توحید حق است ہست اصل علمش از پیغمبرے آن رسیدش از رو تعلیم با گو شود اکنوں ز نخوت منکرے ہست قومے کج روو ناپاک رائے آنکہ زیں پاکان ہمی پیچد سرے دیده شان روئے حق ہرگز ندید بس کردند روئے دفتری
(r.) دعوة الامير شور بختی ہائے بختِ شان یہ ہیں ناز بر چشم و گریزاں از خورے چشم گر بودے غنی از آفتاب کس نبودے تیز میں بچوں شیرے چون بروز ابتدا تقسیم کرد درمیان خلق از خیر و شرے راستی در حصه او شان فتاد دیگران را کذب شد آبش خوری قول شان ایں ست کا ندر غیرشان آمده صد کاذب و حیلت گرے لعل تابان را اگر گوئی کثیف زین چه قدر روشن جو ہرے طعنه بر پاکان نه بر پاکان بود خود گنی ثابت کہ ہستی فاجرے کا ہد ( براھین احمد یہ چہار حصص.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۰ تا ۲۳) پانچواں رکن ایمان کا بعث بعد الموت اور جنت و دوزخ پر ایمان لانا ہے اس رکن کے انہدام کے لئے بھی اس زمانے کے مسلمانوں نے پورا زور لگایا تھا، دل تو یقینا بعث بعد الموت کے منکر ہو چکے تھے.کیونکہ اگر یہ نہ ہوتا تو اسلام کی تعلیم کو اس طرح پسِ پشت کیوں ڈال دیا جاتا ؟ ظاہری طور پر بھی لوگوں میں اس کے متعلق عجیب عجیب خیالات پھیل رہے تھے، جنت کا جو نقشہ مسلمانوں کے ذہنوں میں سما گیا تھا وہ بتا رہا تھا کہ جنت کا اصل مفہوم لوگوں کے ذہنوں سے نکل چکا ہے جنت اب کیا چیز رہ گئی تھی ، ایک عیش و عشرت کا مقام، گویا اس دنیا میں انسان کی پیدائش صرف اس غرض کے لئے تھی کہ وہ ایک ایسی جگہ پر جابسے جہاں ہر طرح کے کھانے پینے کی اشیاء ہوں اور عورتیں ہوں اور اُن کی صحبت ہو.جب یہ حاصل ہو گیا تو سب کچھ حاصل ہو گیا حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ انسان کی پیدائش کی اصل غرض یہ ہے کہ لِيَعْبُدُونِ (الدريت :۵۷) اس لئے کہ وہ میری عبادت کرے.یعنی ایسی صورت اختیار کرے کہ میری صفات کو اپنے اندر نقش کر لے
(r.q) دعوة الامير کیونکہ عبودیت کے معنے تذلل اور دوسری شے کے نقش کو قبول کر لینے کے ہوتے ہیں.پس یہ خیال کرنا کہ انسان پیمان ساتھ سال تک تو اس کام کو کرے گا جس کے لئے پیدا کیا گیا تھا اور بعد میں ایک نہ ختم ہونے والے وقت کو کھانے پینے اور عیش وعشرت میں بسر کرے گا جو حد درجہ کی نادانی تھی، اسی طرح دوزخ کے متعلق خیال کیا جاتا تھا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کفار کو ایک نہ ختم ہونے والے عذاب کے لئے ڈال دیا اور ایک سخت حاکم کی طرح پھر کبھی ان پر رحم نہ کرے گا.حضرت اقدس نے ان خیالات کو بھی رڈ کیا اور دلائل اور معجزات سے بعث بعد الموت پر ایمان کولوگوں کے دلوں میں قائم کیا اور دنیا کی بے ثباتی اور اخروی زندگی کی خوبی اور برتری کو روز روشن کی طرح ظاہر کر کے لوگوں کے دلوں میں اس کے مطابق عمل کرنے کی خواہش کو پیدا کیا.اسی طرح جنت کے متعلق جو لغو خیالات لوگوں کے تھے ان کو بھی دور کیا، یہ و ہم بھی دور کیا کہ جنت صرف ایک استعارہ ہے اور ثابت کیا کہ جنت کا وجود ایک حقیقت ہے اور اس خیال کی غلطی بھی ثابت کی کہ گویا وہ اس دُنیا کی طرح ہے لیکن اس سے زیادہ وسیع پیمانے کی آرام و آسائش والی جگہ ہے اور بتایا کہ درحقیقت اس جگہ کی نعمتیں اس دنیا سے بالکل مختلف ہیں اور در حقیقت اس جگہ کی مادی نعمتیں اس دنیا کی عبادات کے متمثلات ہیں.گویا یہاں کی روح وہاں کا جسم ہے اور وہاں کی روح ایک اور ترقی یافتہ چیز ہے جس کی طاقتیں اس روح سے بہت بالا ہوں گی.جس طرح کہ نطفہ کی روحانی طاقتوں سے اس سے پیدا ہونے والے انسان کی روحانی طاقتیں اعلیٰ ہوتی ہیں اسی طرح آپ نے یہ ثابت کیا کہ دوزخ کا عذاب جسے لوگ نہ ختم ہونے والا کہتے ہیں در حقیقت ایک وقت پر جا کر ختم ہو جائے گا وہ ابدی ہے یعنی ایک نہایت لمبے عرصہ تک
(ri.) دعوة الامير جانے والا ہے مگر وہ غیر محدود نہیں ہے آخر کاٹا جائے گا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ جو اپنی ذات کی نسبت فرماتا ہے رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف:۱۵۷) اس کی شان سے بعید ہے کہ عاجز بندے کو نہ ختم ہونے والا عذاب دے اور جبکہ قرآن کریم جنت کے انعامات کو غَيْرَ مَجْذُوذٍ (هود: ۱۰۹) اور غَيْرُ مَمْنُونٍ (التين:۷ ) قرار دیتا ہے اور دوزخ کے عذاب کی نسبت یہ الفاظ نہیں استعمال فرماتا تو ضرور ہے کہ دونوں میں کچھ فرق ہو پھر بندہ کیوں خدا کی لگائی ہوئی شرائط کو چھوڑ دے؟ خصوصاً جبکہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کے مطالب کی تفسیر ان الفاظ میں فرما دیں کہ يَأْتِی عَلَى جَهَنَّمَ يَوْمَ مَافِيَهَا مِنْ بَنِي أَدَمَ اَحَدْ تُخْفَقُ اَبْوَابُهَا (کنز العمال جلد ۱۴ صفحه ۵۲۷ روایت ۳۹۵۰۶ مطبوعه حلب ۱۹۷۵ء) یعنی ایک وقت جہنم پر ایسا آئے گا کہ اس کے اندر ایک آدمی بھی نہ رہے گا اور اس کے دروازے کھٹکھٹائے جائیں گے.کسی کا کیا حق ہے کہ خدا کی رحمت اور اس کی بخشش کی حد بندی کرے؟ ان ارکانِ ایمان کے علاوہ عملی حصے میں بھی بہت بڑی بڑی تبدیلیاں پیدا ہوگئی تھیں بعض لوگوں نے اباحت پر زور دے رکھا تھا اُن کا یہ عقیدہ ہو رہا تھا کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ آدمی کہہ دے اور پھر جو چاہے کرے.ان لوگوں کا یہ یقین تھا کہ اگر ہم لوگ گناہ نہ کریں گے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شفاعت کس کی کریں گے.بعض لوگوں کا یہ خیال ہو رہا تھا کہ شریعت اصل مقصود نہیں وہ تو خدا تک پہنچانے کیلئے بمنزلہ کشتی کے ہے پس جب انسان خدا کو پالے تو پھر اسے کسی کشتی میں بیٹھا رہنے کی کیا ضرورت ہے.بعض لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ احکام شریعت در حقیقت باطنی امور کے لئے
۲۱۱ دعوة الامير ظاہری نشانات ہیں.جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اس وقت لوگوں کی حالت بلحاظ تمدن کے بالکل ابتدائی تھی اور لوگ وحشی تھے.ظاہر پر خاص زور دیا جاتا تھا.اب علمی زمانہ ہے.اب لوگ خوب سمجھدار ہو گئے ہیں.اب ان ظاہری رسوم کی پابندی چنداں ضروری نہیں.اگر کوئی شخص صفائی رکھتا ہے، خدا کو دل میں یاد کرتا ہے ، قوم کا درد و غم دل میں رکھتا ہے، غرباء کی مدد کیا کرتا ہے، کھانے پینے میں احتیاط کرتا ہے، قومی کاموں میں شریک ہوتا ہے تو یہی اس کی نماز اور یہی اس کا روزہ اور یہی اس کی زکوۃ اور یہی اس کا حج ہے.بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر رسول کریم سے ایک خاص قسم کا پاجامہ پہننا ثابت ہے تو اسی قسم کا پاجامہ پہنا چاہئے اور اگر آپ نے بال لمبے رکھے ہوئے تھے تو ہمیں بھی بال لمبے رکھنے چاہئیں.على هذا القیاس.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حق نہ تھا کہ لوگوں کو کچھ حکم دیتے وہ ہماری طرح کے انسان ہیں جو کچھ قرآن کریم میں آ گیا وہ حجت ہے باقی سب باطل ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں بزرگوں نے جو کچھ کہدیا کہدیا ، ان کے خیال کے خلاف اور کوئی بات قابل تسلیم نہیں ہمارا فرض ہے کہ اندھادھندان کی تقلید کریں.یہ تو اصولی باتیں ہیں.اب رہیں جزئیات.اُن میں اور بھی اندھیر ہے.بعض لوگ غیر زبانوں کا پڑھنا بھی گفر قرار دیتے ہیں.بعض لوگ علوم جدیدہ کا سیکھنا ایمان کے منافی خیال کرتے ہیں ان کے مقابلے میں ایک حصہ مسلمانوں کا سود جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَأْذَنُوا بِحَرْبِ مِینَ الله (البقرة: ۲۸۰) کو جائز قرار دیتا ہے.
(rir) دعوة الامير نماز ، روزہ ، زکوۃ ، ورثہ ہر ایک امر کے متعلق اس قدر اختلاف ہے کہ حقیقت بالکل پوشدہ ہو گئی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی بات کو اصل اسلام قرار دیا جاتا ہے اور اس کے خلاف کر نے والے کے ساتھ جھگڑا کیا جاتا ہے.مسلمان کہلانے والوں نے اپنے بھائیوں کی انگلیاں اس لئے تو ڑ دی ہیں کہ وہ تشہد کی انگلی کیوں کھڑی کرتے ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے مونہوں میں نجاستیں ڈالی ہیں کہ اس منہ سے آمین بالجبر کیوں نکلی تھی ، غرض عملی حصہ بھی اسی تغیر و تبدل اور اسی فساد کا شکار ہو رہا ہے جیسا کہ اعتقادی حصہ تھا.حضرت اقدس نے اس حصہ کی بھی اصلاح کی اور ایک طرف تو اباحت کے طریق کو باطل ثابت کیا اور بتایا کہ شفاعت ان لوگوں کے لئے ہے جو گناہ سے بچنے کی پوری کوشش کرتے ہیں مگر پھر بعض وجوہ سے ان میں گر جاتے ہیں اور بعض کوتاہیاں اُن کی باقی رہ جاتی ہیں نہ ان کے لئے جو شفاعت کی خاطر گناہ کرتے ہیں.شفاعت گناہ کے مٹانے کے لئے تھی نہ کہ گناہ کی اشاعت کے لئے.اسی طرح یہ بتایا کہ گو شریعت اصل مقصود نہیں مگر عبودیت اصل مقصود ہے پس جس کام کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اور جس وقت تک دیا ہے اسے بجالانا چاہئے.اللہ تعالیٰ کا قرب کوئی محدود شے نہیں کہ کہا جائے کہ اب قرب حاصل ہو گیا ہے.اب عبادت کی ضرورت نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان جب وفات تک ایاگ نَعْبُدُ (الفاتحة: ۵) اور اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة: ۲) کہتا رہا اور آپ کو رَبِّ زِدْنِی عِلْمًا (طه: ۱۱۵) کہنے کاحکم ملا تو اور کون شخص ہے جو کہے کہ میں منزل مقصود تک پہنچ گیا ہوں.اب مجھے عبادت کی ضرورت نہیں.در حقیقت اس قسم کے خیال کے لوگ اللہ تعالیٰ
(rir) دعوة الامير کو ایک دریا کے کنارے کی طرح محدود شے قرار دیتے اور اپنی بے دینی کو دین کے پردہ کے نیچے چھپاتے ہیں.اسی طرح آپ نے بتایا کہ احکام اسلام انسان کی تکمیل کا بہترین ذریعہ ہیں اور ہر زمانے اور ہر علمی حیثیت کے لوگوں کے لئے یکساں مفید ہیں اور ان کے بغیر کوئی روحانی ترقی نہیں ہوسکتی.پس یہ غلط ہے کہ اب ان احکام پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں رہی یا یہ کہ ان کا قائمقام اور کاموں کو قرار دیا جاسکتا ہے.اسی طرح آپ نے بتایا کہ ایک عبادات اور سنتیں ہیں اور ایک رواج ملکی اور دستور قومی.عبادت اور سنت کے علاوہ ایسی باتوں میں جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ملکی رواج اور قومی دستور کے مطابق کرتے تھے لوگوں کو مجبور کرنا کہ وہ بھی آپ ہی کی طرز کو اختیار کریں ظلم ہے خود صحابہ ان امور میں مختلف طریقوں کو اختیار کرتے تھے اور کوئی ایک دوسرے کو بُرا نہ کہتا تھا.آپ نے ان لوگوں کے خیالات کو بھی رڈ کیا جو یہ خیال کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے جیسے انسان ہیں اور آپ کا کوئی حق نہیں کہ ہم آپ کی اطاعت کریں.آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء اللہ تعالیٰ کے کلام کا ایک خاص فہم پاتے ہیں جو دوسروں کو حاصل نہیں ہوتا اس لئے ان کی تشریح کا قبول کرنا مومن کا فرض ہوتا ہے ورنہ ایمان سلب ہو جاتا ہے.آپ نے اس خیال کی بھی غلطی ظاہر کی کہ جو کچھ کسی بزرگ نے کہدیا اس کا تسلیم کرنا ہمارے لئے ضروری ہے ایسے لوگوں کے لئے جو اجتہاد کا مادہ نہیں رکھتے سہولت عمل
(۲۱۴) دعوة الامير کے لئے بیشک ضروری ہے کہ وہ کسی نہ کسی بزرگ کو جس کی صداقت اور تقویٰ اور علمیت اُن پر ظاہر ہوگئی ہے اپنا رہبر بنالیں لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ ہر شخص کو خواہ وہ علم اور فہم رکھتا ہوا ایسا ہی کرنا چاہئے اور اگر وہ دوسرے کی اندھا دھند تقلید نہیں کرتا تو گنہگار ہے بلکہ علم رکھنے والے شخص کو چاہئے کہ جس بات کو وہ قرآن وحدیث کی نصوص سے معلوم کرے اُس میں اپنے علم کے مطابق عمل کرے.آپ نے اس خیال کی لغویت کو بھی ظاہر کیا کہ محض دنیاوی باتوں کو دینی بنالیا جائے.آپ نے بتایا کہ زبانیں سب خدا کی ہیں جو زبان مفید ہو اس کو سیکھنا چاہئے اور جس قدر علوم انسان کی جسمانی، اخلاقی علمی، تمدنی، سیاسی ، روحانی حالت کے لئے مفید ہیں ان کو پڑھنا نہ صرف یہ کہ گناہ نہیں ہے بلکہ ضروری ہے اور بعض حالتوں میں جبکہ اُن کو خدمت دین کے لئے سیکھا جائے موجب ثواب ہے.آپ نے سود کی لعنت سے بچنے کی بھی مسلمانوں کو ہدایت کی اور بتایا کہ یہ کم عظیم الشان حکمتوں پر مبنی ہے.اور اس کو معمولی دنیاوی فوائد کی خاطر بدلنا نہیں چاہئے.اسی طرح آپ نے بتایا کہ دین کے مسائل دو طرح کے ہوتے ہیں.ایک اصول اور ایک فروع.اُصول قرآن کریم سے ثابت ہیں اور ان میں کوئی اختلاف واقع نہیں ہوسکتا.اگر کوئی شخص سمجھنا چاہے تو ان کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے اور جو فروعی مسائل ہیں ان کی دو حالتیں ہیں ایک یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاص طریق پر ایک کام کرنے کا حکم دے دیا ہے اور اس کے سوا اور کسی طریق پر اس کے کرنے سے روک دیا ہے.اس صورت میں تو اسی طریق کو اختیار کرنا چاہئے جس کے اختیار کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے.دوسری صورت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ
(۲۱۵) دعوة الامير علیہ وسلم سے دو یا دو سے زیادہ باتیں مروی ہیں اور مسلمانوں کے بعض حصے بعض روایتوں پر اور بعض حصے بعض روایتوں پر ہمیشہ عمل کرتے چلے آئے ہیں.ان کے بارہ میں یہ یقین رکھنا چاہئے کہ وہ سب طریق درست اور مطابق سنت ہیں، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو کس طرح ممکن تھا کہ آپ کے صحابہ میں سے ایک حصہ ایک طریق کو اختیار کر لیتا اور دوسرا حصہ دوسرے طریق کو.اصل بات یہ ہے کہ بعض امور میں اختلاف طبائع کو مد نظر رکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی طرح اُن کے کرنے کی اجازت دیدی ہے یا خود کئی طریق پر بعض کا موں کو کر کے دکھا دیا ہے تا کہ لوگوں کے دلوں میں شک نہ رہے جیسے رفع یدین ہے کہ کبھی آپ نے رفع یدین کیا، کبھی نہیں کیا، یا آمین بالجہر ہے کہ کسی نے آپ کے پیچھے آمین بالجہر کہا کسی نے نہ کہا اور آپ نے دونوں طریق کو پسند کیا.اسی طرح ہاتھوں کا باندھنا ہے کبھی کسی طرح باندھا، کبھی کسی طرح باندھا.اب جس شخص کی طبیعت کو جس طریق سے مناسبت ہو اس پر کار بند ہو اور دوسرے لوگ جو دوسری روایت پر عمل کرتے ہیں ان پر حرف گیری نہ کرے.کیونکہ وہ دوسری سنت یا رخصت پر عمل کر رہے ہیں ، غرض ان اصول کو مقرر کر کے آپ نے تمام وہ اختلافات اور فتنے دور کر دیئے جو مسائل فقہیہ کے متعلق مسلمانوں میں پیدا ہورہے تھے اور پھر صحابہ کرام کے زمانے کی یاد کو تازہ کر دیا.یہ ایک مختصر نقشہ ہے اس اندرونی اصلاح کا جو آپ نے کی اگر اس کی تفصیل کی جائے تو مستقل کتاب اسی مضمون پر لکھنے کی ضرورت پیش آئے اس لئے میں اسی پر کفایت کرتا ہوں.اب جناب اس سے معلوم کر سکتے ہیں کہ حضرت اقدس نے اسلام کے اندر جس قدر نقائص پیدا کر دیئے گئے تھے خواہ عقائد میں خواہ اعمال میں سب کو دور
۲۱۲ دعوة الامير کر دیا ہے اور اسلام کو پھر اس کی اصل شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس سے اب وہ سب دوست و دشمن کے دلوں کو لبھانے لگ گیا ہے اور اس کی قوت قدسیہ پھر اپنا اثر دکھانے لگ گئی ہے.اے بادشاہ ! جس قدر نقائص او پر بطور مثال بیان ہوئے ہیں جو ان بہت سے نقائص میں سے چند ہیں جو اس وقت مسلمانوں میں پیدا ہو چکے ہیں آپ ان کو دیکھ کر ہی معلوم کر سکتے ہیں کہ ایک محفوظ کتاب کی موجودگی میں جیسا کہ قرآن کریم ہے اس سے زیادہ مفاسد اسلام میں نہیں پیدا ہو سکتے.اگر اس سے زیادہ مفاسد پیدا ہوں گے تو اسی صورت میں کہ قرآن کریم ہی نعوذ باللہ من ذالک بدل جائے ، مگر یہ ناممکن ہے.پس اور مفاسد بھی پیدا ہونے ناممکن ہیں.اب غور کرنا چاہئے کہ جب اسلام کے اندر مفاسد اپنی انتہاء کو پہنچ گئے ہیں تو اور کونسا وقت ہے جبکہ مسیح موعود آئیں گے اور جبکہ ان تمام مفاسد کی اصلاح حضرت اقدس مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام نے کر دی ہے اور اسلام کو ہر ایک شر سے محفوظ کر دیا ہے تو پھر کسی کے آنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ وہ کام مسیح موعود کیلئے اور صرف حضرت مسیح موعود کے لئے مقدر تھا آپ نے باحسن وجوہ پورا کر دیا ہے تو آپ کے مسیح موعود ہونے میں کیا شک ہے.جب سورج نصف النہار پر آجائے تو پھر اس کا انکار نہیں ہوسکتا، اسی طرح ایسے واضح دلائل کی موجودگی میں حضرت مرزا صاحب کے مسیح موعود ہونے کا انکار نہیں کیا جاسکتا.
(۲۱۷) دعوة الامير چھٹی دلیل نصرت الہی چھٹی دلیل آپ کی صداقت کی کہ یہ دلیل بھی درحقیقت بہت سے دلائل پر مشتمل ہے نصرت الہی ہے.مامور ومرسل در حقیقت اللہ تعالیٰ کے پیاروں میں سے ایک پیارا ہوتا ہے اور اس کی صداقت ثابت نہیں ہو سکتی جب تک کہ خدا تعالیٰ کا اس کے ساتھ وہ سلوک نہ ہو جو پیاروں اور محبوبوں سے ہوا کرتا ہے.اگر کوئی شخص دعوائے ماموریت کرتا ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک محبوبوں اور پیاروں والا سلوک نہیں تو وہ جھوٹا ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ اپنا نائب بنا کر بھیجے اور پھر اس کے ساتھ اپنی محبت کا کوئی نمونہ نہ دکھائے اور نہ اس کی مدد کرے.دنیا کے بادشاہ بھی جب کسی کو اپنا نائب بنا کر بھیجتے ہیں تو اس کی مدد کرتے ہیں اور اسکی طرف خیال رکھتے ہیں اور جب بھی اس کو ضرورت ہو اس کی نصرت کے لئے سامان بہم پہنچاتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ جس کے خزانے وسیع ہیں اور جو عالم الغیب ہے کیوں اپنے ماموروں کی مدد نہ کرے گا اور اگر کوئی شخص دعوائے ماموریت کرے اور اس کی خدا تعالیٰ کی طرف سے تائید ہو اور مدد ہو اور خاص نصرت اللہ تعالیٰ کی اس کو پہنچے تو و شخص سچا اور راستباز ہے کیونکہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ایک راستباز کو اللہ چھوڑ دے اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ ایک جھوٹے اور شریر سے اللہ تعالیٰ مواخذہ نہ کرے اور وہ اس کے بندوں کو گمراہ کرتا پھرے اور یہ بات تو اور بھی خلاف عقل ہے کہ ایسے جھوٹے کی اللہ تعالیٰ مدد کرے اور اس کے لئے اپنی نصرت کے دروازے کھول دے.
۲۱۸ دعوة الامير اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيز (المجادلة : ۲۲) اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر فرض کر دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے وہ قوت والا اور غالب ہے.پس اس نے اپنی قوت اور غلبہ کے اظہار کے لئے یہ قانون بنا دیا کہ جب اس کا کلام لیکر اس کے رسول مبعوث ہوں تو وہ ان کو غلبہ دے، کیونکہ اگر وہ ان کو غالب نہ کرے تو اس کی قوت اور عزت میں لوگوں کو شبہ پیدا ہو جائے گا.اسی طرح فرماتا ہے اِنَّا لَتَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوْا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْأَشْهَادُ (المؤمنون: ۵۲) ہم ضرور اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ہمارے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی مدد کیا کرتے ہیں اور فرماتا ہے وَلَكِنَّ اللهَ يُسَلِّطْ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَ اللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيزِ O (الحشر:) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو جن لوگوں پر چاہتا ہے تسلط عطا کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قادر ہے.یہ تو اس مضمون کی آیات ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو غلبہ عطا فرماتا ہے اور ان کو دوسرے لوگوں پر تسلط عطا فرماتا ہے خواہ جسمانی اور روحانی طور پر خواہ صرف روحانی طور پر، ان کے سوا قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی جھوٹا دعوی ماموریت اور رسالت کا کرے تو اس کو سز ابھی ملتی ہے اور وہ کسی صورت میں ہلاکت سے بچ نہیں سکتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ هِ لَا خَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَامِنَهُ الْوَتِينَ (الحاقة : ۴۷۵۴۵) یعنی اگر یہ رسول جان بوجھ کر ہم پر جھوٹ باندھ رہا ہوتا، تو ہم اس کا دایاں بازو پکڑ لیتے اور اس کی رگ جان کاٹ ڈالتے.یعنی اس کی نصرت
(۲۱۹) دعوة الامير اور تائید کا دروازہ بند کر دیتے اور اسے ہلاکت کا منہ دکھاتے.اسی طرح ایک اور جگہ فرماتا ہے.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِايْتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّلِمُوْنَ (الانعام: ۲۲) اور اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھتا ہے یا اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتا ہے.بات یہ ہے کہ ظالم کا میاب نہیں ہوتے یعنی جب کہ ظالم کا میاب نہیں ہوتا تو یہ اللہ تعالیٰ کا گنہگار جوسب قسم کے روحانی ظالموں سے زیادہ ظالم ہے کب کامیاب ہوسکتا ہے.مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو قانون جاری ہیں ایک یہ کہ وہ اپنے رسولوں کی نصرت کرتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے اور دوسرا یہ کہ جو لوگ یہ جانتے ہوئے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر افتراء کر رہے ہیں ایک بات جھوٹ بنا کر پیش کر دیں تو ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نہیں ملتی بلکہ وہ ہلاک کئے جاتے ہیں.جس سے معلوم ہوا کہ جو بات پہلے میں نے عقلاً ثابت کی تھی ، قرآن کریم بھی اس کی تائید کرتا ہے بلکہ اسے سنت اللہ قرار دیتا ہے.اس سنت الہیہ اور ازلی قانون کے مطابق ہم حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے پر غور کرتے ہیں تو آپ کی صداقت ہمیں روز روشن کی طرح ثابت نظر آتی ہے اور آپ کی کامیابی کو دیکھ کر اس امر میں کسی قسم کا شک و شبہ ہی نہیں رہتا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ اور مرسل ہیں.پیشتر اس کے کہ یہ دیکھا جائے کہ (۱) آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا کیا نصرتیں اور تائیدیں حاصل ہوئیں.یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ آپ نے کن حالات کے ماتحت دعویٰ کیا تھا.یعنی وہ کون سے سامان تھے جو آپ کی کامیابی میں مد ہو سکتے تھے (۲) آپ کے
(rr.) دعوة الامير راستے میں کیا کیا روکیں تھیں (۳) آپ کا دعوی کس قسم کا تھا، یعنی کیا دعوئی بطور خود ایسی کشش رکھتا تھا جس کی وجہ سے آپ کو ظاہری سامانوں پر نظر کرتے ہوئے کامیابی کی اُمید ہو سکے.سوال اول کا جواب یہ ہے کہ گو آپ ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے.اور ایسا ہونا ضروری تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مامور ہمیشہ اعلیٰ خاندانوں میں سے ہوتے ہیں ، تا کہ لوگوں پر اُن کا ماننا دو بھر نہ ہو، مگر آپ کا خاندان دنیاوی وجاہت کے لحاظ سے اپنی پہلی شوکت کو بہت حد تک کھو چکا تھا وہ اپنے علاقہ کے خاندانوں میں سے غریب خاندان تو نہیں کہلا سکتا مگر اس کی پہلی شان و شوکت اور حکومت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ ایک غریب خاندان تھا، کیونکہ اس کی ریاست اور جاگیر کا اکثر حصہ ضائع ہو چکا تھا، اول الذکر ( یعنی ریاست) سکھوں کے عہد میں ضبط ہوگئی تھی اور ثانی الذکر ( یعنی جاگیر ) انگریزی حکومت کے آنے پر ملحق کر لی گئی تھی.پس دنیا وی وجاہت اور مال کے لحاظ سے آپ کو کوئی ایسی فوقیت حاصل نہ تھی جس کی وجہ سے یہ کہا جاسکے کہ لوگوں نے اپنی اغراض اور اپنے مقاصد کے پورا کرنے کے لئے آپ کو مان لیا.گو آپ کے والد صاحب نے استاد کھ کر آپ کو تعلیم دلوائی تھی لیکن وہ تعلیم اس تعلیم کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھی جو مدارس میں دی جاتی ہے اس لئے آپ اپنے علاقہ میں یا اپنے علاقہ سے باہر مولویوں اور عالموں میں سے نہیں سمجھے جاتے تھے.پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بوجہ بڑے عالم ہونے کے آپ کو لوگوں نے مان لیا.آپ پیروں یا صوفیوں کے کسی خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے نہ آپ نے کسی پیر یا صوفی کی بیعت کر کے اُس سے خرقہ خلافت حاصل کیا تھا کہ یہ سمجھا جائے کہ خاندانی
(rri دعوة الامير مریدوں یا اپنے پیر بھائیوں کی مدد سے آپ کو یہ کامیابی حاصل ہوگئی.آپ کسی عہدہ حکومت پر ممتاز نہ تھے کہ یہ سمجھا جائے کہ آپ کے اختیارات سے فائدہ اٹھانے کے لئے لوگ آپ کے ساتھ مل گئے.آپ ایک تارک الدنیا، لوگوں سے علیحدہ رہنے والے آدمی تھے.جن کو خلوت نشینی کے باعث قرب وجوار کے باشندے بھی نہیں جانتے تھے صرف چندلوگوں سے آپ کے تعلقات تھے جن میں سے زیادہ تر تو یتیم اور مسکین لوگ تھے جن کو آپ اپنے کھانے میں سے کھانا دے دیا کرتے تھے یا خود فاقہ سے رہ کر اپنی روٹی اُن کو کھلا دیتے تھے یا پھر چند وہ لوگ تھے جو مذہبی تحقیق سے دلچسپی رکھتے تھے.باقی کسی شخص سے آپ کا تعلق نہ ہوتا.نہ آپ لوگوں سے ملتے تھے، نہ لوگوں کو ضرورت ہوتی تھی کہ آپ سے ملیں.دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ ممکن سے ممکن جو روکیں ہوسکتی ہیں وہ آپ کے راستے میں تھیں.آپ کا دعویٰ ماموریت کا تھا اور آپ کے دعوے کو سچا مان کر علماء کی حکومت جو انہیں سینکڑوں سال سے لوگوں پر حاصل تھی جاتی رہتی تھی.اس لئے علماء کو طبعاً آپ سے مخالفت تھی.وہ آپ کی ترقی میں اپنا تنزل اور آپ کے بڑھنے میں اپنا زوال دیکھتے تھے.وہ جانتے تھے کہ اگر ایک شخص خدا سے خبر پا کر دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا ہو گیا تو پھر ہمارے قیاسات کو کون پوچھتا ہے.گدی نشین آپ کے دشمن تھے کیونکہ آپ کی صداقت کے پھیلنے سے اُن کے مُرید اُن کے ہاتھوں سے جاتے تھے اور بجائے شیخ اور رہبر کہلانے کے ایک دوسرے شخص کا مرید بن کر اُن کو رہنا پڑتا تھا اور پھر مریدوں کے جانے کے ساتھ اُن آمد نیوں میں بھی فرق آتا تھا، جن پر اُن کا گزارہ تھا اور ان آزادیوں میں بھی فرق آتا تھا جنہیں وہ اپنا حق سمجھتے تھے.
۲۲۲ دعوة الامير امراء کو بھی آپ سے مخالفت تھی کیونکہ آپ احکام اسلام کی پابندی کرواتے تھے اور ان کو اس قسم کی پابندی کی عادت نہ تھی اور اسے وہ وبالِ جان سمجھتے تھے اور پھر یہ بھی تھا کہ آپ بنی نوع انسان کے ساتھ نیک سلوک اور ہمدردی کا حکم دیتے تھے جس کی وجہ سے أمراء کو خیال تھا کہ آپ کی تعلیم کے پھیلنے سے وہ غلامی کی حالت جولوگوں میں پیدا ہے دور ہو جائے گی اور ان کی نظر وسیع ہو کر ہماری حکومت جاتی رہے گی.غیر مذاہب کے لوگ بھی آپ کے دشمن تھے کیونکہ اُن کو آپ میں وہ شخص نظر آرہا تھا، جس سے اُن کے مذاہب کی ہلاکت مقدر تھی.جس طرح ایک بکری ایک شیر سے طبعی منافرت رکھتی ہے اسی طرح غیر مذاہب کے لوگ آپ سے کھچاوٹ محسوس کرتے اور کوشش کرتے تھے کہ جس قدر جلد ہو سکے آپ کو مٹادیں.حکامِ وقت بھی آپ کے مخالف تھے کیونکہ وہ بھی مسیح و مہدی کے ناموں سے خوفزدہ تھے اور پرانی روایات کے اثر سے متاثر ہو کر ان ناموں والے شخص کی موجودگی اور فساد کے پھیلنے کو لازم وملزوم سمجھتے تھے.آپ کا اظہار وفاداری اُن کے لئے تسلی کا موجب نہ تھا، کیونکہ وہ اسے موقع شناسی پر محمول کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ جب ان کو طاقت حاصل ہو جائے گی اُس وقت یہ ان خیالات امن کو شاید چھوڑ دیں.عوام الناس کو بھی آپ سے مخالفت تھی ، کیونکہ اول تو وہ علماء یا پیروں یا امیروں یا پنڈتوں یا پادریوں کے ماتحت ہوتے ہیں.دوم وہ بوجہ جہالت رسم و عادات کے ہر نئی بات کے سخت مخالف ہوتے ہیں.اُن کے نزدیک آپ کا دعوئی ایک نیا دعویٰ اور اسلام میں رخنہ اندازی کا موجب تھا.اس لئے وہ کچھ تو اپنے سرداروں کے اشاروں پر اور کچھ اپنی جہالت کی وجہ سے آپ کے مخالف تھے.
(rrr) دعوة الامير ان تمام گروہوں نے اپنی اپنی جگہ پر آپ کے تباہ کرنے کے لئے پورا پور از ور لگایا علماء نے کفر کے فتوے تیار کئے اور مکہ اور مدینہ تک اپنے کفر ناموں پر دستخط کرانے کے لئے گئے.اپنی عادتِ مُسْتَمِرہ کے ماتحت کفر کے عجیب وغریب موجبات انہوں نے تلاش کئے اور لوگوں کو آپ کے خلاف بھڑ کا یا اورا کسایا.صوفیاء نے آپ کے طریق کو پچھلے طریقوں کے مخالف بتا بتا کر اور اپنے قرب الی اللہ اور معرفت کی لافوں سے ڈرا ڈرا کر عوام الناس کو روکا اور جھوٹے افسانوں کے پھیلانے اور فریب کی کرامتیں دکھانے تک سے بھی گریز نہ کیا اور بعض نے تو اپنے مریدوں سے یہاں تک کہدیا کہ اگر یہ بچے ہوئے تو ان کے نہ ماننے کا گناہ ہم اٹھا لیں گے تم لوگ کچھ فکر نہ کرو اور اس طرح جہان کو گمراہ کیا.اُمراء نے اپنی دولت اور اپنی وجاہت سے آپ کے خلاف کوشش شروع کی.غیر مذاہب والوں نے اپنی جگہ مسلمانوں کا ہاتھ بٹایا، حکومتوں نے اپنے اقتدار سے کام لے کر لوگوں کو آپ سے ڈرانا شروع کیا اور جو لوگ آپ کو ماننا چاہتے ان کو اپنی ناراضگی کا خوف دلا کر باز رکھنا چاہا.عوام الناس بائیکاٹ اور ایذارسانی سے کام لے کر اپنے سرداروں کا ہاتھ بٹاتے رہے.غرض آپ کی مخالفت کے لئے تمام لوگ کیا مسلمان کہلانے والے اور کیا غیر مسلمان سب جمع ہو گئے اور سب نے ایک دوسرے کی مدد کی.تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ کی تعلیم بھی ایسی نہ تھی جو زمانے کے حالات کے مطابق ہو اور اس کی رو میں بہنے والی ہو.اگر وہ خیالات زمانہ کے مطابق ہوتی تو بھی کہا جاسکتا تھا کہ آپ کی ترقی آسمانی مدد سے نہیں بلکہ اس سبب سے ہے کہ جن خیالات کو آپ
۲۲۴ دعوة الامير نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا وہ اُس زمانے کے خیالات کے مطابق تھے.پس لوگوں نے ان کو اپنے اندرونی احساسات کے مطابق پا کر قبول کر لیا.زمانے کے مطابق خیالات دو کے ہوتے ہیں یا تو وہ کثیر آبادی کے خیالات کے مطابق ہوں یا وہ کثیر آبادی کے خیالات کے تو مخالف ہوں ، مگر ان خیالات کی تائید میں ہوں جو اس وقت کے دنیاوی علوم کا نتیجہ ہوں.اول الذکر قسم کے خیالات کا پھیلا نا تو بہت آسان ہوتا ہے لیکن ثانی الذکر قسم کے خیالات بھی گو ابتداء مخالفت کا منہ دیکھتے ہیں مگر چونکہ علوم جدیدہ کا لازمی نتیجہ ہوتے ہیں کچھ عرصہ کے بعد علوم جدیدہ کے فروغ کے ساتھ ساتھ پھیلتے جاتے ہیں.حضرت اقدس کے خیالات ان دونوں قسم کے خیالات کے مخالف تھے.آپ ان تعلیموں کی طرف لوگوں کو بلا رہے تھے جو نہ رائج الوقت خیالات کے مطابق تھیں اور نہ علوم جدیدہ کی تعلیم کے ذریعے جو خیالات پھیل رہے تھے ان کے مطابق تھیں اس لئے آپ کو دونوں فریق سے مقابلہ در پیش تھا.پرانے خیالات کے لوگوں سے بھی اور جدید خیالات کے لوگوں سے بھی ، قدامت پسند آپ کو ملحد قرار دیتے تھے اور علوم جدیدہ سے تعلق رکھنے والے لوگ آپ کو تنگ خیال اور رجعت قہقری کا مُمد قرار دیتے تھے کیونکہ آپ اگر ایک طرف حیات مسیح، قصص و روایات باطلہ، ملائکہ کے متعلق عوام الناس کے خیالات ، نسخ قرآن، دوزخ و جنت کے متعلق عوام الناس کے خیالات اور شریعت میں تنگی کے خلاف نہایت شدت سے وعظ کرتے تھے تو دوسری طرف احکام شریعت کی لفظاً پابندی ،سود کی حرمت ، ملائکہ کے وجود، دعا کے فوائد ، جنت و دوزخ کے حق ہونے ، الہام کے لفظ مقررہ میں نازل ہونے اور معجزات کے حق ہونے کی تائید میں زور دیتے تھے.نتیجہ یہ تھا کہ نئے اور پرانے خیالات کے گروہوں میں کسی طبقہ سے بھی آپ کے خیالات نہیں ملتے تھے.
۲۲۵ دعوة الامير پس یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ چونکہ آپ کے خیالات رائج الوقت یا آئندہ رواج پانے والے خیالات کی ترجمانی کرتے تھے اس وجہ سے مقبول ہوئے.خلاصہ کلام یہ کہ نہ تو آپ کی ذاتی حالت ایسی تھی کہ آپ کا دعویٰ قبول کیا جاتا نہ آپ کا راستہ پھولوں کی سیج پر سے تھا کہ آپ کو اپنے مطلب میں کامیابی حاصل ہوتی اور نہ وہ خیالات جو آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے ایسے تھے کہ ان سے لوگوں کے خیالات کی ترجمانی ہوتی ہو کہ لوگ آپ کو مان لیں.پس باوجود ان تمام مخالف حالات کے اگر آپ نے کامیابی حاصل کی تو یہ ایک خدائی فعل تھا نہ کہ دنیاوی اور طبعی سامانوں کا نتیجہ.ان حالات کے بیان کرنے کے بعد میں آپ کی کامیابیوں کا ذکر کرتا ہوں.میں بتا چکا ہوں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت بیان فرمائی ہے کہ وہ جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ پر افتراء کرنے والے کو لمبی مہلت نہیں دیا کرتا ، مگر آپ کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ان الہامات کے شائع کرنے کے بعد جن میں آپ نے مصلح ہونے کا اعلان کیا تھا قریباً چالیس سال زندہ رہے اور ہر طرح اللہ تعالیٰ سے مدد ونصرت پاتے رہے.اگر مفتری علی اللہ بھی اس قدر مہلت پاسکتا ہے اور ہلاکت سے بچایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے نصرت پاتا ہے تو پھر نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِکَ یہ ماننا پڑے گا کہ وَلَوْ تَقَولَ والی آیت میں جو معیار بتایا گیا ہے وہ غلط ہے اور یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعوی بے ثبوت رہا ہے.اگر یہ بات نہیں اور ہر گز نہیں تو پھر اسی دلیل کے ماتحت حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنے الہامات شائع کرنے کے اس قدر عرصہ بعد تک ہلاکت سے بچایا جانا اس امر کا ثبوت ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھے.جس وقت آپ نے اپنے الہامات شائع کئے تھے اس وقت آپ کا نام دنیا میں
۲۲۶ دعوة الامير کوئی شخص بھی نہیں جانتا تھا مگر اس کے بعد باوجودلوگوں کی مخالفت کے آپ کو وہ عزت اور رتبہ حاصل ہوا کہ دشمن بھی اب آپ کی عزت کرتے ہیں اور آپ ایک مسلم لیڈر تسلیم کئے جاتے ہیں.گورنمنٹ برطانیہ جو ابتداء آپ کی مخالف تھی اور آپ سے بدظن تھی آپ کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے.دنیا کے دور کناروں تک آپ کا نام پھیلا ہے اور اس قسم کا عشق رکھنے والے اور محبت رکھنے والے لوگ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائے ہیں کہ وہ اپنی جان تک آپ پر قربان کرنے کے لئے تیار ہیں اور یورپین جو اسلام کے دشمن تھے انہوں نے آپ کے ذریعے سے اسلام کو قبول کیا ہے اور آپ کی محبت میں اسقدر سرشار ہیں کہ ان میں سے ایک شخص نے مجھے لکھا ہے کہ مجھ پر مرزا صاحب نے احسان کیا کہ ان کے ذریعے سے مجھے اسلام جیسی نعمت عطا ہوئی ہے اس کا اثر مجھ پر اس قدر ہے کہ میں سوتا نہیں جب تک آنحضرت کے ساتھ آپ پر بھی درود نہیں بھیج لیتا.یہ عزت اور یہ احترام اور یہ محبت باوجود لوگوں کی استقدر مخالفت کے کبھی حاصل نہیں ہوسکتی اگر آپ مفتری علی اللہ تھے.آپ نے جب دعوی کیا تو آپ اکیلے تھے، لیکن باجود اس کے کہ مولویوں، پیروں ، گدی نشینوں، پنڈتوں، پادریوں ، امیروں ، عام لوگوں اور شروع شروع میں حکام نے بھی اپنا زور لگایا کہ لوگ آپ کی بات کو نہ مانیں اور آپ کے سلسلے میں داخل نہ ہوں.ایک ایک کر کے لوگ آپ کے سلسلہ میں داخل ہونے شروع ہوئے.غرباء میں سے بھی، اور امراء میں سے بھی ، علماء میں سے بھی اور صوفیاء میں سے بھی.مسلمانوں میں سے بھی اور ہندوؤں اور عیسائیوں میں سے بھی، ہندوستانیوں میں سے بھی اور دوسرے ممالک کے لوگوں میں سے بھی ، یہاں تک کہ آپ کی وفات کے وقت آپ کی جماعت ہزاروں
(۲۲۷) دعوة الامير سے نکل کر لاکھوں تک ترقی کر چکی تھی اور اب تک برابر ترقی کرتی چلی جارہی ہے حتی کہ خود آپ کی مملکت (افغانستان ) میں بھی باوجود اس کے کہ اس سلسلے کے دو مخلص آدمی صرف مذہبی اختلاف کی بناء پر ملانوں کی دھوکا دہی کی وجہ سے قتل کئے گئے تھے یہ جماعت ترقی کر رہی ہے اور قریباً ہر صوبہ میں اس جماعت کے کچھ نہ کچھ آدمی پائے جاتے ہیں اور علاوہ ازیں اس جماعت کے لوگ عرب میں بھی ہیں، ایران میں بھی ہیں، روس میں بھی ہیں ، امریکہ میں بھی ہیں، مغربی، شمالی اور جنوبی علاقہ جات ، افریقہ میں بھی ہیں، آسٹریلیاء میں بھی ہیں اور یورپ میں بھی ہیں ، ایک محکوم قوم کے ایک فرد کی اطاعت میں حاکم قوم کے افراد کا آجانا اور پھر اس دین کو مان کر جس کے خلاف نسلاً بعد نسل ان کے دلوں میں تعصب بٹھا یا گیا تھا بلا نصرت الہی کے نہیں ہو سکتا.آپ کو لوگوں نے قتل بھی کرنا چاہا، زہر سے بھی مارنا چاہا، عدالتوں میں بھی آپ کو گھسیٹا اور جھوٹے مقدمات بھی آپ پر قائم کئے اور عیسائی اور ہندو اور مسلمان سب آپس میں مل گئے تاکہ پہلے مسیح کی طرح دوسرے مسیح کو بھی صلیب پر لٹکا دیں لیکن ہر دفعہ آپ کامیاب ہوئے اور ہر حملہ سے آپ محفوظ رہے روز بروز خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت بڑھتی گئی.آپ اشاعت اسلام اور تجدید اسلام کے لئے مبعوث ہوئے تھے.ان دونوں کاموں کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخلصوں کی ایک جماعت دی ، مال بھی دیا حتی کہ اس وقت چار پانچ لاکھ روپیہ سلسلہ کی طرف سے سالانہ دینی کاموں پر صرف ہوتا ہے.کئی اخبارات اشاعتِ اسلام کے لئے پنجاب، بنگال، سیلون ، ماریشس اور امریکہ سے جاری ہیں اور سینکڑوں کتابیں آپ کی تائید میں لکھی گئی ہیں.لوگوں کے دلوں کو اللہ تعالیٰ آپ کی
(PTA) دعوة الامير مدد کے لئے کھولتا ہے اور ہزاروں ہیں جن کو رڈیا کے ذریعے سے یا الہام کے ذریعے سے یا کشف کے ذریعے سے آپ کی سچائی بتائی گئی ہے اور باوجود مخالف ہونے کے ان کے دلوں میں آپکی محبت ڈالی گئی ہے.غرض باوجود ہر طرح کے مخالف سامان ہونے کے اور ہر طرح کی مخالفت کے اور ہر طرح کی کمزوری کے اور غیر معمولی کام کے آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور ایک ایسی جماعت جو ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور اپنے سینوں میں اسلام کی اشاعت کی آگ رکھتی ہے آپ نے تیار کر دی اور کیا بلحاظ عزت کے اور کیا بلحاظ مال کے اور کیا بلحاظ اقتدار کے اور کیا بلحاظ رعب کے آپ کی اللہ تعالیٰ مدد کر تارہا ہے.پس اگر اللہ تعالی کا بتایا ہوا یہ قانون سچا ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کون سچا ہوسکتا ہے؟ کہ سچا مامور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد پاتا ہے اور مفتری علی اللہ رسوا کیا جاتا ہے اور ہلاک کیا جاتا ہے تو پھر حضرت اقدس کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا اور اگر باوجود اس دلیل کے آپ کی صداقت میں شبہ کیا جائے تو پھر سوال کیا جا سکتا ہے کہ دوسرے انبیاء کی صداقت کا کیا ثبوت ہے؟ میں اپنے مطلب کی وضاحت کے لئے پھر یہ کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرا یہ مطلب نہیں کہ حضرت اقدس اس لئے بچے تھے کہ آپ پہلے کمزور تھے مگر پھر آپ کو عزت اور رتبہ حاصل ہو گیا ایسی عزتیں تو بہت سے لوگوں کو ملی ہیں.نادر خاں ایک کمزور آدمی تھا پھر عزت پا گیا، نپولین ایک معمولی آدمی سے دنیا کا فاتح بن گیا، مگر باوجود اس کے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ لوگ اللہ کے پیارے اور بزرگ تھے میں یہ کہتا ہوں کہ:.حضرت اقدس نے دعویٰ کیا تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اگر وہ اس
(rra) دعوة الامير دعوے میں مفتری تھے اور جان بوجھ کر لوگوں کو دھوکا دے رہے تھے تو آپ کو ہلاک ہو جانا چاہئے تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ ایسے مفتری کو وہ ہلاک کرتا ہے.آپ کی ترقی کے لئے کوئی دنیاوی سامان موجود نہ تھے.آپ کی مخالفت پر ہر ایک جماعت کھڑی ہوگئی تھی اور کوئی جماعت بھی دعوے ۲.کے وقت آپ کی اپنی نہ کہلاتی تھی جس کی مدد سے آپ کو ترقی حاصل ہوئی ہو.آپ نے دنیا سے وہ باتیں منوائیں جن کے خلاف قدیم اور جدید خیالات کے ۴.لوگ تھے.۵.باوجود اس کے آپ کامیاب ہوئے اور آپ نے ایک جماعت قائم کر دی اور اپنے خیالات کو لوگوں سے منوالیا.اور دشمن کے حملوں سے بچ گئے اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات آپ کے لئے نازل ہوئیں.یہ پانچ باتیں جھوٹے میں کبھی جمع نہیں ہوسکتیں.یہ باتیں جب بھی کسی میں جمع ہوں گی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگا اور راستباز ہو گا ورنہ راستبازوں کی راستبازی کا کوئی ثبوت باقی نہیں رہے گا.ہاں اگر کوئی شخص مدعی ماموریت نہ ہو.یعنی خواہ بالکل مدعی ہو ہی نہیں جیسے نادر خاں یا نپولین یا مدعی ماموریت نہ ہو بلکہ کسی اور بات کا مدعی ہو، مثلاً جیسے خدائی کا مدعی ہو، یا یہ کہ وہ دیوانہ ہو وہ اس معیار کے ماتحت نہیں آتا.اسی طرح ایسا عقیدہ رکھنے والا بھی کہ وہ جو کچھ کہ رہا ہے اللہ کی طرف سے کہہ رہا ہے اس معیار پر پرکھا نہیں جاسکتا، شیخیه فرقه اسی قسم کا عقیدہ رکھتا تھا.اس کا خیال تھا کہ دنیا میں ہر وقت ایسے لوگ موجود رہتے ہیں جو مہدی کی رضاء کی ترجمانی کرتے ہیں اور مہدی کی مرضی خدا کی مرضی ہے.پس ان کی
(Fr.) دعوة الامير زبان پر جو کچھ جاری ہو یا جو کچھ ان کے دل میں آئے وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے.علی محمد باب اور بہاء اللہ بانی فرقہ بہائیہ اسی فرقہ میں سے تھے.ایسے لوگ چونکہ عقید تا اس بات کو مانتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے کہہ رہے ہیں اس لئے وہ بھی مُتَقَوَل نہیں کہلا سکتے اور اس سزا کے مستحق نہیں جس سزا کے جان بوجھ کر جھوٹ باندھنے والے لوگ مستحق ہیں.اسی طرح اس شخص کی عارضی ترقی بھی اس کی صداقت کی دلیل نہیں جس کی ذاتی وجاہت لوگوں کو اس کے ماننے پر مجبور کر دے یا کوئی جماعت جس کی پشت پر ہو، یا جو عوام الناس کے خیالات کی ترجمانی کر رہا ہو.یا علوم جدیدہ کے میلان کی طرف لوگوں کو لا رہا ہو، یا ایک یا دوسری وجہ سے لوگ اس کی مخالفت سے باز رہیں.
(rri) ساتویں دلیل دشمنوں کی ہلاکت دعوة الامير ساتویں دلیل آپ کے دعوے کی صداقت کی کہ وہ بھی بے شمار دلائل کا مجموعہ ہے یہ ہے کہ آپ کے دشمنوں کو اللہ تعالیٰ نے بلا استثناء اور بلا انسانی ہاتھ کی مدد کے ہلاک کیا.ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے پیاروں کو جو تکلیف دے ہم اس کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس کو سزا دیتے ہیں اور جو ہمارے کاموں میں روک بنے اسکو اپنے راستے سے ہٹا دیتے ہیں پس اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور آتے ہیں تو عقل چاہتی ہے کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ اپنی غیرت بھی دکھائے اور جو اُن کے راستے میں روک ہوں اُن کو اُن کے راستے سے دُور کر دے اور جو اُن کی ذلّت چاہیں ان کو ذلیل کر دے اور جو ان کی ناکامی کی کوشش کریں اُن کو نا کامی کا بھی منہ دکھائے.اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کا تعلق اور اس کی محبت بے ثبوت رہے اور ماموروں کے دعوے مشتبہ ہو جائیں.کیونکہ دنیا کے بادشاہ اور حاکم جن کی طاقتیں محدود ہوتی ہیں وہ بھی اپنے دوستوں اور اپنے کارکنوں کے راستے میں روک بننے والوں کو سزا دیتے ہیں اور ان سے عداوت رکھنے والوں سے مؤاخذہ کرتے ہیں.قرآن کریم سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہماری عقل کا مطالبہ بالکل درست ہے اور اللہ تعالیٰ تصدیق فرماتا ہے کہ اس کی طرف سے آنے والوں کے دشمنوں اور معاندوں کی ضرور گرفت ہونی چاہئے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِايَتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّلِمُونَ (الانعام : ۲۲) یعنی اس سے زیادہ ظالم کون ہو
۲۳۲ دعوة الامير سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے.یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کی باتوں کو جھٹلا دے.بات یہ ہے کہ ظالم کبھی کامیاب نہیں ہوتے.اس آیت میں بتایا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ پر افتراء کرنے والا کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا اسی طرح اللہ کی طرف سے آنے والے کی باتوں کو جھٹلانے والا بھی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا.اس طرح فرماتا ہے وَلَقَدِ اسْتَهْزِئُ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوْا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِعُوْنَ قُلْ سِيرُوا فِى الْأَرْضِ ثُمَّ انظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (الانعام: ۱۱-۱۲) اور تجھ سے پہلے جو رسول گزرے ہیں اُن کے ساتھ بھی ہنسی اور ٹھٹھا کیا گیا، مگر آخر یہ ہوا کہ وہ لوگ جو اُن میں خاص طور پر ٹھٹھا کرنے والے تھے اُن کو اُن چیزوں نے گھیر لیا جن سے وہ ہنسی کرتے تھے تو کہہ دے کہ جاؤ زمین میں خوب پھر واور دیکھو کہ خدا کے نبیوں کو جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا ہے اس مضمون کی آیات اس کثرت سے قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں کہ زیادہ زور اس پر دینے کی ضرورت نہیں.خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ اس کے ماموروں اور مُرسلوں کا مقابلہ کرنے والے ہلاک کئے جاتے ہیں اور دوسروں کے لئے موجب عبرت ہوتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اسی مضمون کا الہام ہوا تھا کہ رانی مُهِينٌ مَنْ اَرَادَاهَانَتگ ( تذکره صفحه ۳۴- ایڈیشن چہارم) میں اس کو ذلیل کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ بھی کرے گا اور اس سُنت مستمرہ اور اس وعدہ خاص کے مطابق حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے دشمنوں کے ساتھ وہ سلوک ہوا ہے کہ دیکھنے والے دنگ اور سننے والے حیران ہیں.میں ایک بڑے مولوی صاحب کا ذکر کر چکا ہوں جو فرقہ اہل حدیث کے لیڈر تھے
(rrr) دعوة الامير اور جوحضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے بچپن کے واقف تھے اور جنہوں نے آپ کی تصنیف براہین احمدیہ کی اشاعت پرایک زبر دست ریویو لکھا تھا اور اس میں آپ کی خدمات کو بے نظیر قرار دیا تھا جب آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو یہ مولوی صاحب بگڑ گئے اور سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ شاید کتاب براہین احمدیہ پر جو میں نے ریویو لکھا تھا اُس پر اُن کے دل میں عجب پیدا ہو گیا ہے اور یہ بھی اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگ گئے ہیں اور اس خیال سے انہوں نے یہاں تک لکھدیا کہ یہ میرے ریویو پر نازاں ہے.میں نے ہی اس کو بڑھایا ہے اور میں ہی اس کو اب گرا دوں گا.یہ عزم کر کے یہ مولوی صاحب اپنے گھر سے نکلے اور ہندوستان کے ایک سرے.سے دوسرے سرے تک کا دورہ کیا اور بیسیوں علماء سے گفر کا فتویٰ لیا اور یہاں تک اُن فتوؤں میں لکھوا لیا کہ یہ شخص ہی کا فرنہیں بلکہ اس کے مرید بھی کافر ہیں بلکہ جو شخص اُن سے کلام کرے وہ بھی کا فر ہے اور جو شخص اُن کو کافر نہ سمجھے وہ بھی کافر ہے.اس فتوے کو تمام ہندوستان میں چھپوا کر شائع کیا اور خیال کیا کہ اس زبر دست حملے سے میں نے ان کو ذلیل کر دیا، مگر اس بیچارے کو کیا معلوم تھا کہ آسمان پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ وَلَقَدِ اسْتَهْزِئَ بِرُسُلٍ مِن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوْا مِنْهُم مَّا كَانُوْا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ (الانعام: (۱۱) اور اسی طرح اس کے قدوسی پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ اپنی مُهِينْ مَّنْ اَرَادَاهَا نَتَگ میں اس کی ہتک کرونگا جو تیری ہتک کا رادہ کرے گا.اے بادشاہ ! ابھی بہت عرصہ اس فتوے کو شائع ہوئے نہیں گزرا تھا کہ ان مولوی صاحب کی عزت لوگوں کے دلوں سے اللہ تعالیٰ نے مٹانی شروع کی.اس فتوے کی اشاعت سے پہلے اُن کو یہ عزت حاصل تھی کہ لاہور دارلخلافہ پنجاب جیسے شہر میں جو آزاد
(tre) دعوة الامير طبع لوگوں کا شہر ہے بازاروں میں سے جب وہ گزرتے تھے تو جہاں تک نظر جاتی تھی لوگ اُن کے ادب اور احترام کی وجہ سے کھڑے ہو جاتے اور ہند و وغیرہ غیر مذاہب کے لوگ بھی مسلمانوں کا ادب دیکھ کر اُن کا ادب کرتے تھے اور جس جگہ جاتے لوگ اُن کو آنکھوں پر بٹھاتے اور حکام اعلیٰ جیسے گورنر و گورنر جنرل اُن سے عزت سے ملتے تھے مگر اس فتوے کے شائع کرنے کے بعد بغیر کسی ظاہری سامان کے پیدا ہونے کے ان کی عزت کم ہونی شروع ہوئی اور آخر یہاں تک نوبت پہنچی کہ خود اس فرقے کے لوگوں نے بھی اُن کو چھوڑ دیا جس کے وہ لیڈر کہلاتے تھے اور میں نے اُن کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اسٹیشن پرا کیلے اپنا اسباب جو وہ بھی تھوڑا نہ تھا، اپنی بغل اور پیٹھ پر اُٹھائے ہوئے اور اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے چلے جا رہے ہیں اور چاروں طرف سے دھکے مل رہے ہیں.کوئی پوچھتا نہیں.لوگوں میں بے اعتباری اس قدر بڑھ گئی کہ بازار والوں نے سودا تک دینا بند کر دیا.دوسرے لوگوں کی معرفت سود امنگواتے اور گھر والوں نے قطع تعلق کر لیا ، بعض لڑکوں نے اور بیویوں نے ملنا جلنا چھوڑ دیا، ایک لڑکا اسلام سے مُرتد ہو گیا، غرض تمام قسم کی عزتوں سے ہاتھ دھو کر اور عبرت کا نمونہ دکھا کر اس دنیا سے رخصت ہوئے اور اپنی زندگی کے آخری ایام کی ایک ایک گھڑی سے اس آیت کی صداقت کا ثبوت دیتے چلے گئے کہ قُلْ سِيرُوا فِى الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (الانعام: ۱۲) آپ کے دشمنوں کی ہلاکت کی دوسری مثال کے طور پر میں چراغ دین ساکن جموں کو پیش کرتا ہوں ، پیشخص پہلے حضرت اقدس کے ماننے والوں میں سے تھا مگر بعد کو اس نے دعوی کیا کہ وہ خود دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوا ہے اور آپ کے خلاف اس نے
۲۳۵ دعوة الامير کئی رسائل اور مضامین شائع کئے اور آخر جب اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو آپ کے خلاف دعا کی اور اس دعا کو لکھ کر شائع کرنے کا ارادہ کیا ، اس دعا کا یہ مضمون تھا کہ:.اے خدا! تیرادین اس شخص (یعنی حضرت اقدس ) کی وجہ سے فتنے میں ہے اور یہ شخص لوگوں کو ڈراتا ہے کہ طاعون میرے ہی سبب سے نازل ہوئی ہے اور زلزلے بھی میری ہی تکذیب کا نتیجہ ہیں تو اس شخص کو جھوٹا کر اور طاعون کو اب اُٹھالے تا کہ اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے اور حق اور باطل میں تمیز کر دے.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۸۸-۳۹۲(مفہوم)) یہ دُعا لکھ کر اس نے چھپنے کو دی لیکن خدا تعالیٰ کی گرفت کو دیکھئے کہ مضمون دُعا کی کا پیاں لکھی جا چکی تھیں مگر ابھی پتھر پر نہیں جمائی گئی تھیں کہ وہی طاعون جس کے اُٹھائے جانے کی دُعا اس نے اس لئے کی تھی تا کہ حضرت اقدس کا یہ دعوی باطل ہو جائے کہ طاعون میری صداقت کے ثبوت کے لئے پھیلائی گئی ہے اُس نے اس کے گھر پر آکر حملہ کیا اور پہلے تو اس کے دو بیٹے کہ وہی اس کی اولاد تھے طاعون میں گرفتار ہو کر مر گئے اور اس کی بیوی اس کو چھوڑ کر کسی اور شخص کے ساتھ بھاگ گئی اور لڑکوں کی موت کے بعد وہ خود بھی طاعون ہی کی مرض میں مبتلاء ہو کر مر گیا اور مرتے وقت یہ کہتا تھا کہ اب تو خدا نے بھی مجھے چھوڑ دیا.اس شخص کی موت نے بھی پر شوکت الفاظ میں اس امر پر گواہی دی کہ ماموروں کی مخالفت معمولی چیز نہیں.جو جلد یا بدیر عذاب الہی میں مبتلاء کرتی ہے.چراغ دین جھونی کے سوا اور بیبیوں شخص ایسے ہیں جنہوں نے آپ کے خلاف دعا ہائے مباہلہ کیں اور بہت جلد اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آگئے.جیسے کہ مولوی غلام دستگیر قصوری.یہ شخص حنفیوں میں سے ایک بہت بڑا عالم اور صاحب رسوخ آدمی تھا.اس نے بھی آپ کے خلاف دُعا
(rry) دعوة الامير کی تھی اور اللہ تعالیٰ سے جھوٹے اور کچے کے درمیان فیصلہ چاہا.یہ شخص بھی بہت جلد یعنی چند ماہ کے اندراندر طاعون کی مرض میں گرفتار ہو کر ہلاک ہو گیا اور لوگوں کے لئے عبرت کا موجب بنا.ایک شخص فقیر مرزا نامی ساکن دوالمیال ضلع جہلم کا تھا.اس نے لوگوں میں یہ کہنا شروع کیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی نسبت مجھے بتایا گیا ہے کہ اس رمضان کی ستائیس تاریخ تک وہ ہلاک ہو جائیں گے اور جماعت احمدیہ کے مقامی ممبروں کو ایک تحریر لکھ کر دے دی جس میں اس کشف کا ذکر کیا اور لکھا کہ اگر ۲۷ ؍رمضان المبارک ۳۲۱ ھ تک مرزا صاحب ہلاک نہ ہوئے یا اُن کا سلسلہ تباہ نہ ہوا تو میں ہر قسم کی سزا برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں اور اس کا غذ پر بہت سے لوگوں کے دستخط کر وا کر جماعت احمدیہ کے ممبروں کو دیدیا.یہ کاغذ جیسا کہ اُس پر لکھا ہوا ہے سات رمضان المبارک (۳۲! دھ کو کھا گیا.اس کے بعد ۲۷ رمضان تو گز رہی گئی اور ایسا ہی ہونا چاہئے تھا.صادقوں پر جھوٹوں کی باتوں کا کیا اثر ہوسکتا تھا، مگر اگلا رمضان آیا تو اس گاؤں میں طاعون نمودار ہوئی اور پہلے اس شخص کی بیوی مری.پھر یہ خود بیمار ہوا اور پورے ایک سال کے بعد اسی تاریخ جس تاریخ کو اس نے وہ تحریر لکھ کر دی تھی یعنی سات رمضان المبارک کو ی شخص سخت تکلیف اور دُکھ اُٹھا کر مر گیا اور چند دن بعد اس کی لڑکی بھی گزرگئی.یہ مثالیں اگر جمع کی جائیں تو سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد تک پہنچ جائیں کیونکہ سینکڑوں ہزاروں آدمیوں نے دلائل سے تنگ آکر اور ضد میں گرفتار ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف دعائیں کیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آگئے لیکن سب سے عجیب بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ہلاکت اور ذلت کے نشان کو کئی رنگ میں دکھایا ہے.جن لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ جھوٹے کو بچے کی زندگی میں
۲۳۷ دعوة الامير ہلاک کرے اُنکو آپکی زندگی میں ہلاک کر دیا اور جن لوگوں نے کہا کہ جھوٹے کا سچے کی زندگی میں ہلاک ہو جانا کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ جھوٹے کو لمبی مہلت دی جاتی ہے جیسا کہ مسیلمہ کذاب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہلاک ہوا ان کو اللہ تعالیٰ نے مہلت دی اور مسیلمہ کذاب کا مثیل ثابت کر دیا.اس قسم کے نشانوں میں سے ایک مثال مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری جو اخبار اہلحدیث کے ایڈیٹر ہیں اور فرقہ اہلحدیث کے لیڈر کہلاتے ہیں یہ صاحب اپنی مخالفت میں حد سے بڑھ گئے تو حضرت اقدس نے بموجب حکم قرآنی فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْانَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَآءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (ال عمران : ۶۲) اُن کو مباہلے کی دعوت دی مگر اُن صاحب نے مباہلے میں اپنی خیریت نہ دیکھی اور باوجود بار بار اور مختلف رنگ میں غیرت دلائے جانے کے انہوں نے گریز کیا اور حضرت اقدس نے ایک دُعا لکھی اور اُن سے چاہا کہ اپنے اخبار میں اس کو شائع کر دیں اور اس میں اس معیار کے ذریعے فیصلے کی خواہش ظاہر کی کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں ہلاک ہو جائے.اس دعا پر بھی مولوی صاحب نے گریز کی راہ اختیار کی اور متواتر اور بڑے زور سے اپنے اخبار میں لکھنا شروع کیا کہ یہ ہرگز کوئی معیار نہیں اور میں اس طریق فیصلہ کو بالکل منظور نہیں کرتا کیونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹے کو لمبی مہلت دی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کا فعل بھی اسی کی شہادت دیتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسیلمہ کذاب زندہ رہا.اُن کے اس اعلان کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ نے ان کو ان کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق پکڑا اور اُن کو لمبی مہلت دیدی.حضرت اقدس کی وفات کے بعد ان کو زندہ رکھا
۲۳۸ دعوة الامير اور وہ اپنی تحریر کے مطابق مسیلمہ کذاب کے مثیل ثابت ہوئے اور ان کی زندگی کا ہر دن اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک ثبوت اور اُن کے مسیلمہ ہونے کی ایک زبردست دلیل ہوتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے آپ کے دشمنوں کو ہر رنگ میں ہلاک اور ذلیل کیا جنہوں نے اس معیار کو تسلیم کیا کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں ہلاک ہوتا ہے اُن کو آپ کی زندگی میں ہلاک کیا اور جنہوں نے اس پر زور دیا کہ جھوٹے کا یہ نشان ہوتا ہے کہ وہ لمبی مہلت پاتا ہے اور بچے کے بعد زندہ رکھا جاتا ہے اُن کو لمبی مہلت دی اور حضرت اقدس کے دشمنوں میں ابو جہل اور مسیلمہ دونوں قسم کے لوگوں کے نمونے دکھا کر حضرت اقدس علیہ السلام کے فنافی الرسول ہونے کا ثبوت دیا اور یہ بھی ثابت کیا کہ یہ سب سامان اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا، محض اتفاق نہ تھا، کیونکہ اگر اتفاق ہوتا تو ہر فریق سے اس کے اپنے مسلمہ معیار کے مطابق کیوں سلوک ہوتا.علاوہ اس قسم کی ہلاکتوں کے جو دعا ہائے مباہلہ یا بد دعاؤں کے نتیجہ میں آپ کے دشمنوں کو پہنچیں اور کئی طریق پر بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کے دشمنوں کو ہلاک کیا، یعنی آپ کے زمانے میں قسم قسم کے عذاب نازل کئے اور اس قدر مصائب میں لوگوں کو مبتلا کیا کہ ہر ایک دل کہہ رہا ہے کہ اس قدر تباہی اس سے پہلے دنیا میں کبھی نہیں آئی تھی ، اس کی تفصیل کی اس جگہ ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایسی بات ہے کہ ہر ملک اور ہر قوم اس پر شاہد ہے کونسا ملک ہے جہاں طاعون یا زلزلہ یا انفلوئنزا یا قحط یا جنگ نے بر بادی نہیں کی اور شہروں اور علاقوں کو ویران نہیں کیا.افراد پر جو عذاب نازل ہوئے ہیں ان میں سے بعض اس قسم کے بھی ہوتے تھے کہ جو لوگ آپ پر کوئی اتہام لگاتے تھے اسی بلا میں خود مبتلاء ہو جاتے تھے.مثلاً بعض
دعوة الامير ۲۳۹ لوگ کہہ دیتے تھے کہ آپ کو نعوذ باللہ برص ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو برص کی بیماری میں مبتلاء کر دیتا اور بعض لوگ آپ کی نسبت یہ مشہور کر دیتے کہ آپ طاعون سے فوت ہو گئے ہیں یا ہوں گے تو وہ خود طاعون سے فوت ہو جاتے.ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالے کے ایک میڈیکل افسر نے آپ کی نسبت پیشگوئی کی کہ ” پھیپھڑے کی مرض سے فوت ہوں گے وہ سل سے مرا.اس قسم کی سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں کہ جس شخص نے جو جھوٹ آپ پر باندھا وہی اس پر اُلٹ پڑا اور ایسے قہری نشان اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید میں دکھائے کہ ہر شخص جو تعصب سے خالی ہو کر ان کو دیکھتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے شدید العقاب ہونے پر کامل ایمان حاصل ہوتا ہے اور وہ اس امر کے ماننے پر مجبور ہوتا ہے کہ حضرت اقدس اللہ تعالیٰ کے راستباز بندے تھے ورنہ کیا سبب ہے کہ آپ کے لئے وہ اس قدر غیرت دکھاتا تھا اور اب بھی دکھاتا ہے.00000
(rr.) آٹھویں دلیل سجدہ ملائکہ دعوة الامير قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم کو پیدا کر کے اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو حکم دیا کہ اسے سجدہ کریں (واذقلنا للملئكة اسجدوا لأدم البقرة: ۳۵).سجدہ ایک عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور چیز کے آگے سجدہ کرنا خواہ وہ کس قدر ہی عظمت اور شوکت رکھتی ہو جائز نہیں.حتی کہ انبیاء اور انبیاء میں سے ان کے سردار محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے بھی جائز نہیں اور یہی نہیں کہ سجدہ کرنا غیر اللہ کو جائز نہیں بلکہ سخت گناہ ہے اور اس فعل کا مرتکب اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کے فضل سے محروم رہ جاتا ہے.پس سجدے سے مراد وہ سجدہ تو نہیں ہوسکتا جو بطور عبادت کیا جاتا ہے.یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ پہلے زمانے میں سجدہ کرنا جائز ہوگا بعد میں منع ہو گیا کیونکہ شرک ان گناہوں میں سے نہیں جو کبھی جائز ہوں اور کبھی منع ہو جائیں.تو حید باری اصل الاصول ہے اور اس میں کسی وقت بھی تغیر نہیں ہوسکتا اور اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ پہلے غیر اللہ کو سجدہ جائز تھا لیکن بعد میں اُسکو شرک قرار دیکر حرام کر دیا گیا، تو پھر شیطان کا حق ہے کہ دعویٰ کرے کہ جو بات میں پہلے کہتا تھا آخر نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کو بھی کرنی پڑی.میرا بھی تو یہی عذر تھا کہ غیر اللہ کے سامنے سجدہ نہیں کر سکتا.اللہ کے آگے سجدہ کرنے سے تو میں نے کبھی انکار نہیں کیا.غرض کسی صورت میں غیر اللہ کے آگے سجدہ جائز نہیں ہوسکتا ، نہ اب جائز ہے اور نہ
۲۴۱ دعوة الامير پہلے کبھی جائز تھا.پس ملائکہ کو سجدے کا حکم دینے سے مراد عبادت کرنے والا سجدہ تو نہیں ہو سکتا اس سے ضرور کچھ اور مراد ہے اور وہ مراد مطابق لغت عربی کامل فرمانبرداری ہے.جس طرح سجدہ کے معنے سجدہ عبادت کے ہیں.سجدے کے معنے اطاعت کے بھی ہیں.لسان العرب کی جلد ۴ میں لفظ سجد کے نیچے لکھا ہے وَكُلُّ مَنْ ذَلَّ وَخَضَعَ لِمَا أُمِرَ بِهِ فَقَدْ سَجَدَ (لسان العرب جلد ۴ صفحه ۱۸۹ ، ۹۰ از یر لفظ سجد‘ ایڈیشن اول مطبوعہ مصر ۱۳۰۰ھ لسان العرب جلد ۶ صفه ۱۷۶ زیر لفظ سجد، مطبوعہ بیروت لبنان ۱۹۸۸ء) یعنی جس نے کسی کا حکم پوری طرح مانا اس کی نسبت کہتے ہیں کہ اس نے سجدہ کیا.پس آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دینے کے یہ معنے ہیں کہ ملائکہ اُس کی فرمانبرداری کریں اور ملائکہ کی فرمانبرداری بندوں کے لئے یہ ہے کہ اُن کے کام میں مدد دیں اور یہ حکم آدم سے خاص نہیں ، بلکہ ہر نبی جو دنیا میں آتا ہے اس کے لئے یہی حکم دیا جاتا ہے، بلکہ اگر کسی شخص کے لئے ملائکہ کو اس قسم کا حکم نہ دیا جائے تو وہ مامور کہلا ہی نہیں سکتا.ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس قسم کے بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ ملائکہ نے آپ کے کام میں آپ کی مدد کی.جیسے بدر کے موقع پر کہ ملائکہ نے کفار کے دلوں میں رعب ڈالا.یا آپ کے کنکر پھینکنے پر آندھی زور سے چلی.یا احزاب کے موقع پر آندھی نے ایک سردار کی آگ بجھا دی جس سے لشکر کفار پراگندہ ہو گیا.یا مثلاً ایک یہودیہ کے زہر دینے پر اس کی شرارت آپ پر ظاہر ہوگئی ملائکہ کی فرمانبرداری کا اظہار زیادہ تر قوانین طبعیہ کے ذریعے سے ہوتا ہے وہ چونکہ قوانین طبعیہ کا سبب اول ہیں وہ ایسے مواقع پر جبکہ نبی اور اس کے دشمنوں کا مقابلہ ہوتا ہے قوانین طبعیہ کو اس کی تائید میں لگا دیتے ہیں اور یہی سبب ہوتا ہے کہ جبکہ ظاہری اسباب نبیوں کے مخالف ہوتے ہیں نتیجہ ان کے حق
(rer) دعوة الامير میں نکل آتا ہے اور یہ بات اُن کے صادق ہونے کی دلیل ہوتی ہے.یہ ملائکہ کی مدد حضرت مسیح موعود کو بھی حاصل تھی.آپ کی تائید میں بھی ملائکہ لگے رہتے تھے.اور عجیب عجیب رنگ میں آپ کو مشکلات سے بچاتے تھے اور قوانین طبعیہ کو آپ کی نصرت میں لگا دیتے تھے.ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ آپ اور چند اور لوگ جن میں ہندو، مسلمان مختلف مذاہب کے لوگ شامل تھے ایک مکان میں سورہے تھے.آپ کی اچانک آنکھ کھل گئی اور آپ نے اپنے دل میں یہ شور محسوس کیا کہ مکان گرنے لگا ہے.مکان کے گرنے کی بظاہر کوئی علامت نہ تھی.صرف چھت میں سے اس قسم کی آواز آرہی تھی جیسے کہ لکڑی کو کیڑے کے کاٹنے سے آتی ہے.آپ نے اپنے ساتھیوں کو جگایا اور کہا کہ وہ مکان کو خالی کر دیں مگر انہوں نے کچھ پرواہ نہ کی اور یہ کہکر کہ صرف آپ کا وہم ہے ورنہ کوئی خطرہ نہیں.پھر سو گئے کچھ دیر کے بعد آپ نے پھر وہی شور محسوس کیا اور پھر ان کو جگایا اور بہت زور دیا، اس پر اُن لوگوں نے آپ کا لحاظ کیا اور اُٹھ کھڑے ہوئے مگر شکایت کی کہ آپ نے اپنے وہم کی پیروی میں لوگوں کو خواہ مخواہ دُکھ دیا.آپ نے اپنے دل میں یہ محسوس کیا کہ یہ مکان صرف میرا انتظار کر رہا ہے میں اگر نکلا تو فوراً مکان گر جائے گا اس پر آپ نے پہلے ان لوگوں کو نکالا اور سب کے آخر میں خود نکلے.ابھی آپ نے ایک پیر سیڑھی پر رکھا تھا اور دوسرا اٹھایا تھا کہ مکان کی چھت زور سے گری اور لوگ بہت حیران ہوئے اور آپ کے ممنون ہوئے اور سمجھ لیا کہ صرف آپ کی وجہ سے اُن کی جانیں بچائی گئی ہیں.اسی طرح کبھی ایسا ہوتا تھا کہ بعض بیماریوں کے موقعہ پر ادویہ متمثل ہو کر اپنی حقیقت کو ظاہر کر دیتی تھیں اور یہ ظاہر ہے کہ ادویہ تو بے جان ہیں.درحقیقت یہ ملائکہ کی
۲۴۳ دعوة الامي مددتھی جو تاثیر ادویہ کے ظہور کے لئے مقرر ہیں اور ہر چیز کا سبب اول ہیں.چنانچہ ایک دفعہ آپ کو کسی بیماری سے سخت تکلیف تھی.مختلف ادویہ کے استعمال سے کچھ فائدہ نہ ہوا.اتنے میں ایک شکل منتقل ہوئی اور کہا کہ ”خاکسار پیپر منٹ“ جب اس دوائی کا استعمال کیا گیا تو فوراً آرام ہو گیا.(تذکرہ صفحہ ۵۲۷.ایڈیشن چهارم ) بعض دفعہ آپ کے دشمن آپ کے قتل کرنے کا ارادہ کرتے تھے مگر وہ لوگ جو آ کے قتل کے لئے بھیجے جاتے تھے یا تو ان کے آنے کی اطلاع آپ کو پہلے سے ہو جاتی تھی یا اُن کے دل میں ملائکہ اہل بدر کی طرح کچھ اس قسم کا رُعب ڈال دیتے تھے کہ وہ خود ہی قتل ہو جاتے تھے، یعنی تو بہ کر کے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے اور حضرت عمر کی طرح دشمنی چھوڑ کر اطاعت اختیار کر لیتے.مگر ان سب واقعات سے بڑھ کر وہ عظیم الشان نشان ہے جو طاعون کے متعلق ظاہر ہوا.میں آگے چل کر بیان کرونگا کہ طاعون کس طرح آپ کی پیشگوئیوں کے ماتحت دنیا میں ظاہر ہوئی.سر دست اس قدر کہہ دینا کافی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو طاعون ہاتھی کی صورت میں دکھائی ( تذکر صفحہ ۴۳۰.ایڈیشن چہارم) جو تمام دنیا میں تباہی ڈال رہی ہے مگر سب طرف خونریزی کر کے آپ کے آگے آکر مؤدب بیٹھ جاتی ہے.اس خواب کے معنے یہ تھے کہ طاعون کے ملائکہ کو آپ کی تائید کا حکم دیا گیا ہے.اس نظارہ کی تائید میں اور بھی بہت سے الہام ہوئے مثلا یہ کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی ( بھی ) غلام ہے.“ ( تذکرہ صفحہ ۳۹۷.ایڈیشن چہارم) اور آپ نے اعلان کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ میری جماعت کے لوگ
۲۴۴ دعوة الامير طاعون سے نسبتاً محفوظ رہیں گے.گو بعض حادثات بھی ہو جائیں گے مگر وہ اسی طرح ہونگے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کفار کے مقابلے میں بعض مسلمان بھی شہید ہو جاتے تھے مگر مقابلتا کفار بہت زیادہ مرتے تھے اور صحابہ بہت کم.اسی طرح یہ بھی اعلان کیا کہ بستیوں میں سے قادیان نسبتا محفوظ رہے گا (کشتی نوح صفحه ۴ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲ تذکرہ صفحه ۴۲۹ ایڈیشن چہارم) اور یہاں اس قسم کی سخت طاعون پڑے گی جیسے کہ دوسری جگہوں پر پڑے گی اور گھروں میں سے آپ کا گھر کلی طور پر محفوظ رہیگا، اس میں طاعون کا کوئی حادثہ نہیں ہوگا.ان اعلانوں کے بعد طاعون ہندوستان میں اس شدت کے ساتھ پھیلی کہ الامان ! ہر سال کئی کئی لاکھ آدمی طاعون سے مرجاتا تھا مگر باوجود اس کے کہ آپ نے اپنی جماعت کو طاعون کا ٹیکہ کرانے سے منع کر دیا تھا جو طاعون کا ایک ہی علاج سمجھا جاتا تھا.دوسرے لوگ طاعون سے مرتے تھے مگر آپ کی جماعت کے لوگ نسبتاً طاعون سے محفوظ رہتے تھے اور متواتر اور کئی سال تک اسی طرح ہوتا ہوا دیکھ کر لوگوں نے سوچا کہ آخر کوئی بات ہے کہ اس طرح طاعون کے کیڑے احمدیوں کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں کو پکڑتے ہیں اور ہزار ہا لوگ اس کو دیکھ کر ایمان لائے.بلکہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے اکثر احمدی وہی ہیں جو اس نشان کو دیکھ کر ایمان لائے تھے.یہ بات اُن کے لئے حیرت انگیز تھی کہ طاعون کے کیڑوں کو کون بتاتا ہے کہ فلاں شخص مرزا صاحب کا مانے والا ہے اور فلاں منکر.بڑے بڑے دشمن جیسا کہ پہلی بیان کردہ بعض مثالوں سے ظاہر ہے طاعون سے ہی ہلاک ہوئے لیکن آپ کی جماعت بہت حد تک محفوظ رہی.صرف کبھی کبھی اور کسی جگہ
(rro) دعوة الامير کوئی واقعہ ایسا ہو جاتا تھا کہ اُن میں سے بھی کوئی اس مرض میں مبتلا ہو جائے، متواتر کئی سال تک سارے ملک میں طاعون کی وباء کا پھوٹنا اور ماننے والوں کا نسبتا محفوظ رہنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ آپ کی مذکورہ بالا رویا اور آپ کے الہام ” آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی ( بھی ) غلام ہے “ کے ماتحت ملائکہ اس مرض کے جرمز (Germs) کو آپ کی تائید لیکن آپ کے دشمنوں کی ہلاکت میں لگا رہے تھے اور اس طرح فرمانبرداری کا وہ حق پورا کر رہے تھے جو ہر مرسل کے متعلق اُن کے ذمہ لگایا گیا ہے.قادیان میں بھی ایسا ہی ہوا کہ دوسرے شہروں کی نسبت یہاں بہت ہی کم طاعون ہوئی اور تین سال تک ہو کر ہٹ گئی.حالانکہ دوسرے شہروں میں دس دس سال بلکہ بعض جگہ اس سے بھی زیادہ رہی.آپ کے گھر کے متعلق تو ملائکہ کی فرمانبرداری کا عجیب نمونہ نظر آیا.یعنی با وجود اس کے کہ تین سال تک متواتر آپ کے گھر کے بائیں طرف بھی اور دائیں طرف بھی طاعون پھوٹی ، آپ کے گھر کی دائیں طرف والے ملحق گھر میں بھی موتیں ہوئیں اور بائیں طرف کے گھر میں بھی موتیں ہوئیں ، لیکن آپ کا گھر جس میں سو سے زیادہ آدمی رہتے تھے اور نشیب کے حصہ میں واقع ہونے کے سبب سے صحت افزا جگہ پر بھی نہیں کہلا سکتا.نہ صرف یہ کہ اس میں کوئی موت نہیں ہوئی بلکہ کوئی چوہا بھی اس میں مبتلا نہیں ہوا، حالانکہ طاعون جب کسی گاؤں میں پڑے تو چو ہے فوراً مرنے شروع ہو جاتے ہیں یہ ایک عجیب نشان ہے اور صاحب دانش کے لیے موجب تسلی.اگر ملائکہ آپ کی تائید نہیں کر رہے تھے تو پھر کیا چیز تھی جو امور طبعیہ کو جو حاکموں اور بادشاہوں کے قبضہ میں بھی نہیں ہوتے آپ کی تائید اور غلامی میں لگائے ہوئے تھی.بڑے بڑے
(rry) دعوة الامير ڈاکٹر جو رات دن طبی احتیاطوں سے کام لے رہے تھے طاعون کا شکار ہوتے تھے.شہروں سے باہر صاف محلات میں رہنے والے اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتے تھے.ٹیکا کرانے والے بھی محفوظ نہ تھے، مگر آپ کے گھر کے لوگ بلا کسی ظاہری سبب کے ہلا علاج کے ، بلا حفظان صحت کے سامانوں کی موجودگی کے، ہلا آبادی سے باہر جانے کے، اس وباء کے حملے سے محفوظ رہتے ، بلکہ جانور تک اس کے اثر کو قبول نہ کرتے ، حالانکہ گھر کے ساکنین بہت بڑی تعداد میں تھے بلکہ طاعون کے دنوں میں اور بہت سے لوگ بھی درخواست کر کے گھر کے اندر آ جاتے تھے.اگر قادیان میں طاعون نہ آتا یا اگر قادیان میں طاعون آتا مگر آپ کے گھر کے اردگرد نہ آتا تو کہا جا سکتا تھا کہ اتفاق تھا مگر قبل از وقت یہ بات شائع کر دینے کے بعد کہ ملائکۃ اللہ آپ کی تائید میں ہیں اور طاعون کو اپنی غلامی کا طوق پہنائے ہوئے ہیں.طاعون کا قادیان میں آنا ، پھر آپ کے گھر کے اردگرد آنا ،مگر آپ کے گھر میں سے کسی آدمی یا جانور کا بھی اس سے متاثر نہ ہونا ایک زبر دست ثبوت ہے اس بات کا کہ ملائکہ کو آپ کی فرمانبرداری کا حکم دیا گیا تھا اور وہ آپ کی حفاظت پر مامور تھے اس وجہ سے وہ اسباب طبعیہ بھی جو اُن کے زیر انتظام تھے آپ کی نصرت میں لگے ہوئے تھے.امور طبعیہ کا اس طرح آپ کی تائید کرنا بہت سے واقعات سے ثابت ہوتا ہے،مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس کی مذکورہ بالا چند مثالیں کافی ہونگی اور ان سے اس قسم کے معجزات کی حقیقت آپ پر روشن ہو جائے گی اور آپ معلوم کر سکیں گے کہ اس قسم کی تائید جن کو حاصل ہو وہ مفتری اور کا ذب ہرگز نہیں ہو سکتے.
۲۴۷ دعوة الامير نویں دلیل علوم آسمانی کا انکشاف نویں دلیل آپ کی صداقت کی کہ در حقیقت وہ بھی بہت سے دلائل پر مشتمل ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر قادرانہ طور پر ایسے علوم کا انکشاف کیا جن کا حصول انسانی طاقت سے بالا ہے ، نبیوں کی بعثت کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو اس چشمہ تک پہنچا ئیں جس سے سیراب ہوئے بغیر روحانی زندگی قائم ہی نہیں رہ سکتی ، یعنی تمام زندگیوں کے منبع حضرت احدیت سے اُن کو وابستہ اور متعلق کر دیں اور یہ بات بلا علوم روحانیہ کے حصول کے نہیں ہو سکتی.وہی شخص اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے جسے اس کی معرفت حاصل ہو اور اس کے قرب کے ذرائع معلوم ہوں اور اس کی صفات کا باریک در بار یک علم رکھتا ہو اور دوسروں کو وہی شخص روحانی امور میں ہدایت کر سکتا ہے جو ان باتوں سے حصہ وافر رکھتا ہو.پس کسی ماموریت کے مدعی کا دعویٰ قابل تسلیم نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ خدا تعالیٰ کے غیر محدود علم سے حصہ نہ پائے اور اللہ تعالیٰ اس کی علمی غور و پرداخت نہ کرے.پس حضرت اقدس کے دعوے کی سچائی کے معلوم کرنے کے لئے ہم اس قانون کے ذریعے سے بھی آپ کے دعوے پر غور کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کیا کیا علوم کھولے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا (البقرة : ۳۲) اور اُس
(TCA) دعوة الامير نے حضرت آدم کو سب صفات الہیہ کے معنے صفات الہیہ کا علم دیا اور صفات الہیہ کے علم کے ماتحت سب قسم کا علم آجاتا ہے کیونکہ معرفت الہیہ کے معنے صفات الہیہ کا ایسا علم ہی ہے جو مشاہدہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.یہ علم ہر مامور کو دیا جاتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ حضرت لوط کی نسبت فرماتا ہے.وَلُوطًا أَتَيْنَهُ حُكْمًا وَعِلْمًا (الانبیاء: ۷۵) اور حضرت داؤ د وسلیمان کی نسبت فرماتا ہے ولَقَدْ آتَيْنَا دَاوَدَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا (النمل: ۱۶) اور حضرت یوسف کی نسبت فرماتا ہے وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا (یوسف:۲۳) اور حضرت موسیٰ کی نسبت فرماتا ہے وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَى أَتَيْنَهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَالِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِينَ (القصص:۱۵) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (النساء: ۱۱۴) کہ آپ کو وہ علم سکھایا ہے جو پہلے آپ کو معلوم نہ تھا اور پھر اور علوم کے اظہار کا وعدہ کرتا ہے اور یہ دعا سکھا تا ہے.قُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا ( طه : ۱۱۵).پس ان آیات سے معلوم ہوا کہ ہر مامور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص علم دیا جاتا ہے.چنانچہ اسی قسم کا علم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو.بھی دیا گیا.صرف فرق یہ ہے کہ پہلے ماموروں کو تو صرف باطنی علم دیا جاتا تھا مگر آپ کو اپنے مطاع اور آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ظاہری اور باطنی دونوں قسم کا علم دیا گیا.یعنی علم روحانی بھی دیا گیا اور اس کے بیان کرنے کا اعلی طریق بھی بخشا گیا اور اللہ تعالیٰ نے دونوں باتوں میں آپ کو بے نظیر بنایا، نہ تو علوم باطنیہ کے جاننے میں کوئی شخص آپ کا مقابلہ کر سکتا ہے اور نہ ان کے بیان کرنے میں کوئی شخص آپ کا مقابلہ کر سکتا ہے.ان دونوں قسم کے علموں میں سے پہلے میں ظاہری قسم کا علم لیتا ہوں.یہ معجزہ آپ
۲۴۹ دعوة الامير سے پہلے صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ظاہر کیا گیا ہے.پہلے انبیاء میں اس کی نظیر نہیں ملتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوئی اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِنْ كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوْا شُهَدَاءَ كُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِينَ (البقرہ : ۲۴) کہہ دے اگر تم کو اس کتاب کے سبب جو ہم نے اپنے اس بندے پر نازل کی ہے شکوک وشبہات پیدا ہو گئے ہیں ، تو پھر اس کی ایک سورۃ جیسی ہی کوئی عبارت لے آؤ.اور اس کی تیاری کے لئے اللہ تعالیٰ کے سوا جس قدر تمہارے بزرگ ہیں سب کو اپنی مدد کے لئے جمع کرلو، مگر یاد رکھو کہ پھر بھی تم اس کی مثال لانے پر قادر نہیں ہو سکو گے.اس آیت میں ہر قسم کی خوبیوں میں قرآن کریم کو بے مثل قرار دیا گیا ہے جن میں سے ایک خوبی ظاہری خوبی بھی ہے قرآن کریم کی فصاحت کی طرف اور جگہوں پر بھی اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے چنانچہ فرماتا ہے.کتاب أحْكِمَتْ أيْتَه ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍر (هود:۲) یہ کتاب ایسی ہے کہ اس کے احکام نہایت مضبوط چٹان پر قائم کئے گئے ہیں اور پھر ان کو بے نظیر طور پر کھول کر بیان کیا گیا ہے اس خدا کی طرف سے جو بڑی حکمتوں کا مالک ہے اور واقعات سے باخبر ہے یعنی حکیم کی طرف سے پر حکمت کلام ہی آنا چاہئے اور خبیر جانتا ہے کہ اب علمی زمانہ شروع ہونے والا ہے اس لیے علمی معجزات کی ضرورت ہے.پس اس نے قرآن کریم کی زبان کو مفضل بنایا ہے.یعنی وہ اپنی وضاحت آپ کرتا ہے اور اپنی خوبی کا خود شاہد ہے.چونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد اور آپ کے ظلن تھے اور آپ ہی کے نور سے حصہ لینے والے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی اس خوبی سے حصہ دیا اور آپ کو بھی کلام کی فصاحت عطا فرمائی.میں پہلے لکھ
(۲۵۰) دعوة الامير چکا ہوں کہ حضرت اقدس کسی مشہور مدرسے کے پڑھے ہوئے نہ تھے، معمولی لیاقت کے اُستاد آپ کی تعلیم کے لئے رکھے گئے تھے، جنہوں نے عام درسی کتب کا ایک حصہ آپ کو پڑھا دیا تھا.آپ کبھی عرب وغیرہ ممالک کی طرف بھی نہیں گئے تھے اور نہ آپ ایسے شہروں میں رہے تھے جہاں عربی کا چر چاہو دیہاتی زندگی اور معمولی کُتب پڑھنے سے جس قدر علم انسان کو حاصل ہوسکتا ہے اسی قدر آپ کو حاصل تھا.جب آپ نے دعوی کیا اور دنیا کی اصلاح کی طرف توجہ کی تو آپ کے دشمنوں کی نظر سب سے پہلے ان حالات پر پڑی اور انہوں نے سوچا کہ یہ سب سے بڑا حملہ ہے جو ہم آپ کی ذات پر کر سکتے ہیں اور یہ مشہور کرنا شروع کیا کہ آپ ایک منشی آدمی ہیں اردو نوشت و خواند میں چونکہ مہارت ہوگئی اور لوگوں میں بعض مضامین اچھی نظر سے دیکھے گئے تو خیال کر لیا کہ اب میں بھی کچھ بن گیا اور دعویٰ کر دیا.آپ عربی سے ناواقف ہیں اس علومِ دینیہ میں رائے دینے کے اہل نہیں، اس اعتراض کو ہر مجلس اور تحریر میں پیش کیا جاتا اور لوگوں کو بدظن کیا جاتا تھا.ان لوگوں کا یہ اعتراض کہ آپ عربی زبان سے ناواقف تھے بالکل جھوٹا تھا کیونکہ آپ نے عام درسی کتب پڑھی تھیں مگر یہ سچ تھا کہ آپ کسی بڑے عالم سے نہیں پڑھے تھے اور نہ باقاعدہ کسی پرانے مدرسہ کے سند یافتہ تھے اس لئے ملک کے بڑے عالموں میں شمار نہ ہوتے تھے اور نہ مولوی کی حیثیت آپ کو حاصل تھی.جب اس اعتراض کا بہت چرچا ہوا اور مخالف مولویوں نے وقت اور بے وقت اس کو پیش کرنا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک رات میں چالیس ہزار مادہ عربی زبان کا سکھادیا اور یہ مجزہ عطا فرمایا کہ آپ عربی زبان میں کتب لکھیں اور وعدہ کیا کہ ایک ایسی فصاحت آپ کو عطا کی جاوے گی کہ لوگ مقابلہ نہ کر سکیں گے.چنانچہ آپ نے عربی زبان میں ایک
۲۵۱ دعوة الامير 1 1 + مضمون لکھ کر اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ شائع کیا اور مخالفوں کو اس کے مقابلہ میں رسالہ لکھنے کے لیے بلایا، مگر کوئی شخص مقابلہ پر نہ آسکا.اس کے بعد متواتر آپ نے عربی کتب لکھیں جو بنیں سے بھی زیادہ ہیں اور بعض کتب کے ساتھ دس دس ہزار روپے کا انعام اُن لوگوں کے لئے مقرر کیا جو مقابلہ میں ویسی ہی فصیح کتب لکھیں ، مگر ان تحریرات کا جواب کوئی مخالف نہ لکھ سکا، بلکہ بعض کتب عربوں کے مقابلہ میں لکھی گئیں اور وہ بھی جواب نہ دے سکے.اور پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے ، چنانچہ سید رشید رضا صاحب مدیر المنار کو مخاطب کر کے بھی ایک کتاب (الهدى والتبصرة لمن یری.تالیف ۱۳۲۰ھ میں مکمل ہوئی اور ۱۲ رجون ۱۹۰۲ء کو چھپ کر شائع ہوئی لکھی گئی اور اس کو مقابلہ کے لئے بلایا گیا ،مگر وہ مقابلہ پر نہ آیا، اسی طرح بعض اور عربوں کو مقابلہ کے لئے دعوت دی گئی ،مگر وہ جرات نہ کر سکے.ہندوستان کے مولویوں نے اپنی شکست کا ان لفظوں میں اقرار کیا کہ یہ کتابیں مرزا صاحب خود نہیں لکھتے بلکہ انہوں نے عرب چھپا کر رکھے ہوئے ہیں وہ ان کتب کو لکھ کر دیتے ہیں.اس اعتراض سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کی کتب کی عربی زبان کے وہ بھی قائل تھے مگر ان کو یہ شک تھا کہ آپ خود یہ کتب نہیں لکھ سکتے اور لوگ آپ کو کتابیں لکھ کر دے دیتے ہیں اس پر آپ نے یہ اعلان کیا کہ آپ لوگ بھی عربوں اور شامیوں کی مدد سے میرے مقابلہ پر کتابیں لکھ دیں.مگر باوجود بار بار غیرت دلانے کے کوئی سامنے نہ آیا اور وہ کتب اب تک بے جواب پڑی ہیں.ان کُتب کے علاوہ ایک دفعہ آپ کو الہام ہوا کہ آپ فی البدیہہ ایک خطبہ عربی زبان میں دیں.(الکم یکم مئی ۱۹۰۰ صفحہ ۵) حالانکہ آپ نے عربی زبان میں کبھی تقریر نہ کی تھی.دوسرے دن عید الاضحی تھی.اس الہام کے ماتحت آپ نے عید کے بعد عربی زبان میں ایک
(ror) دعوة الامير لمبی تقریر کی جو خطبہ الہامیہ کے نام سے شائع ہو چکی ہے.اس تقریر کی عبارت بھی ایسی اعلیٰ درجہ کی تھی کہ عرب اور عجم پڑھ کر حیران ہوتے ہیں اور ایسے غوامض و رموز اس میں بیان کئے کہ ان کی وجہ سے اس خطبہ کی عظمت اور بھی بڑھ جاتی ہے.یہ علمی معجزہ آپ کا نہایت زبردست معجزات میں سے ہے کیونکہ ایک تو ان منجزات پر اسے فوقیت حاصل ہے جو زیادہ اثر صرف اس وقت کے لوگوں پر کرتے ہیں جو دیکھنے والے ہوں.دوم اس معجزہ کا اقرار دشمنوں کی زبانوں سے بھی کرادیا گیا ہے اب جب تک دنیا قائم ہے یہ معجزہ آپ کا بھی قائم رہے گا اور قرآن کریم کی طرح آپ کے دشمنوں کے خلاف حجت رہے گا اور روشن نشان کی طرح چمکتا رہے گا.بعض لوگ جب اس معجزہ کو دیکھ کر آپ کی صداقت کا انکار کرنے کی کوئی صورت نہیں دیکھتے تو اس پر ایک اعتراض کیا کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اس قسم کے معجزہ کا دعوی کرنا قرآن کریم کی ہتک ہے کیونکہ قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ اُس کی زبان بے مثل ہے.اگر مرزا صاحب کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی زبان میں کتب لکھنے کی توفیق دے دی جو اپنی خوبیوں میں بے مثل ہے تو اس میں قرآن کریم کی ہتک ہو گئی اور اس کا دعویٰ باطل ہو گیا ان لوگوں کا یہ اعتراض محض تعصب کا نتیجہ ہے ورنہ اگر یہ سوچتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ باوجود حضرت اقدس کی عربی کتب کے بے مثل ہونے کے قرآن کریم کا دعویٰ حق اور راست ہے اور اس کا معجزانہ رنگ موجود ہے بلکہ آگے سے بڑھ گیا ہے.دُنیا میں ہر ایک فضیلت دو قسم کی ہوتی ہے، کامل فضیلت اور وہ فضیلت جو اضافی ہوتی ہے یعنی ایک فضیلت تو وہ جو بلا دوسری چیزوں کو مدنظر رکھنے کے ہوتی ہے اور ایک فضیلت وہ جو بعض اور چیزوں کو مد نظر رکھ کر ہوتی ہے اس کی مثال قرآن کریم سے ہی میں یہ
(ror) دعوة الامير پیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کی نسبت قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ أَنَّىٰ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَلَمِينَ (البقره: ۴۸) میں نے تم کو تمام جہان کے لوگوں پر فضیلت دی اور پھر مسلمانوں کی نسبت فرماتا ہے.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران: ۱۱۱) تم سب سے بہتر اُمت ہو جو سب لوگوں کے لئے نکالی گئی ہو تو ایک طرف بنی اسرائیل کو سب جہانوں پر فضیلت دیتا ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کو سب جہانوں پر فضیلت دیتا ہے.بظاہر اس بات میں اختلاف نظر آتا ہے لیکن اصل میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ ایک جگہ پر تو اپنے زمانے کے لوگوں پر فضیلت مراد ہے اور دوسری جگہ اوّلین و آخرین پر.اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کتب کو جو بے مثلیت حاصل ہے وہ انسانوں کے کلاموں کو مد نظر رکھکر ہے اور قرآن کریم کو جو بے مثلیت عطا ہوئی ہے وہ تمام انسانی کلاموں پر بھی ہے اور خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے دوسرے کلاموں پر بھی اور ان میں حضرت اقدس کے الہامی خطبات اور آپ کی کتب بھی شامل ہیں.پس قرآن کریم کا بے مثل ہونا حقیقی ہے اور حضرت اقدس کی کتب کی زبان کا بے مثل ہونا اضافی.پس آپ کا یہ معجزہ گولوگوں کے لئے حجت ہے مگر قرآن کریم کی شان کا گھٹانے والا نہیں.میں نے اوپر بیان کیا تھا کہ آپ کے معجزہ سے قرآن کریم کے معجزہ کی شان دو بالا ہو گئی ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ بے مثلیت بھی کئی قسم کی ہوتی ہے.ایک بے مثلیت ایسی ہوتی ہے کہ بے مثل کلام کو دوسرے کلاموں پر فضیلت تو ہوتی ہے مگر بہت زیادہ فضیلت نہیں ہوتی.پس گو اس کو افضل کہیں گے مگر دوسرے کلام بھی اس کے قریب قریب پہنچے ہوئے ہوتے ہیں جیسے کہ مثلاً گھوڑ دوڑ میں جب گھوڑے دوڑتے ہیں تو ایک گھوڑا جو اوّل نکلے دوسرے گھوڑے سے ایک بالشت بھی آگے ہو سکتا ہے، ایک گز بھی ہوسکتا ہے
(ror) ۲۵۴ دعوة الامير اور ایک گھوڑے کے کھڑے ہونے کی جگہ کی مقدار بھی آگے ہو سکتا ہے یا اُس سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے یہی حال بے مثل کلام کا ہے کہ وہ اُن سے دوسرے کلاموں کی نسبت جن کے مقابلہ میں اُسے بے مثل ہونے کا دعوی ہے معمولی فضیلت بھی رکھ سکتا ہے اور بہت زیادہ فضیلت بھی رکھ سکتا ہے.اب یہ امر کہ اس کا اور دوسرے کلاموں کا فرق تھوڑا ہے یا بہت اسی طرح معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کے درمیان اور ان کلاموں کے درمیان جن سے وہ افضل ہونے کا مدعی ہے اور کلام آکر کھڑے ہوسکیں کہ وہ بھی بے مثل ہوں ،لیکن اس کے مقابلہ میں وہ بھی ادنی ہوں.پس حضرت اقدس کی کتب نے دوسرے انسانوں کے کلاموں کے مقابلے میں اپنی بے مثلیت ثابت کر کے بتادیا ہے کہ قرآن کریم اپنی بے مثلیت میں دوسرے کلاموں سے بہت ہی بڑھا ہوا ہے کیونکہ وہ کلام جن کو قرآن کریم کے مقابلے پر کھڑا کیا جاتا تھا آپ کے کلام نے اُن کو پیچھے ڈال دیا مگر پھر بھی آپ کا کلام قرآن کریم کے ماتحت ہی رہا اور اس کا خادم ہی ثابت ہوا.جس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم دوسرے کلاموں سے اسقدر آگے نکلا ہوا ہے کہ اس کے اور دوسرے کلاموں کے درمیان ایک وسیع فاصلہ ہے.اس فصاحت کے علاوہ جو آپ کو عطا ہوئی ایک علم ظاہری آپ کو یہ عطا ہوا کہ آپ کو الہاما عربی زبان کے ائم الألسنَةِ ہونے کا علم دیا گیا.یہ ایک عظیم الشان اور عجیب علم تھا کیونکہ یورپ کے لوگ ام الألسنة کے متعلق لمبی کوششوں کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ سنسکرت یا پہلوی زبان اُم الألْسِنَةِ ہے اور بعض لوگ ان دونوں زبانوں کو بھی اس زبان کی جو سب سے پہلی زبان تھی شاخ قرار دیتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ ابتدائی زبان دنیا سے مٹ گئی ہے.یہ تو یورپ کے لوگوں کا حال تھا.عرب جن کی زبان عربی ہے وہ بھی
(roo) دعوة الامير اس فضیلت کے قائل نہ تھے بلکہ یورپ کی تعلیم کے اثر سے اُم الالسة کو دوسرے ممالک کی زبانوں میں تلاش کر رہے تھے ان حالات میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ علم دیا جانا کہ اصل میں عربی زبان ہی اُمُ الْأَلْسِنَةِ ہے ایک قابلِ حیرت انکشاف تھا، مگر قرآن کریم پر تدبر کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ انکشاف قرآن کریم کی تعلیم کے بالکل مطابق تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو ساری دنیا کی طرف نازل ہونا تھا اسی زبان میں نازل ہونا چاہئے تھا جو سب سے ابتدائی زبان ہونے کے لحاظ سے ساری دنیا کی زبان ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلِ الَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ (ابراهیم: ۵) ہم کوئی رسول نہیں بھیجتے مگر اسی زبان میں اس پر کتاب نازل کرتے ہیں جو اُن لوگوں کی زبان ہوتی ہے جن کی طرف وہ مبعوث ہوا ہو.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو ساری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تو آپ کی طرف اسی زبان میں کلام نازل ہونا چاہئے تھا جو بوجہ اُمُ الْأَلْسِنَةِ ہونے کے ساری دنیا کی زبان کہلا سکے اور چونکہ آپ پر عربی زبان میں کلام نازل ہوا ہے اس لیے عربی زبان ہی اُم الْأَلْسِنَةِ ہے.آپ نے اس انکشاف کے ثبوت میں اللہ تعالیٰ سے علم پا کر ایسے اصول مدوّن کئے جن سے روز روشن کی طرح ثابت کر دیا کہ فی الواقع عربی زبان ہی اُمُ الْأَلْسِنَةِ اور الہامی زبان ہے اور باقی کوئی زبان ام الالسنۃ کہلانے کی مستحق نہیں.آپ نے اس تحقیق کے متعلق ایک کتاب بھی لکھنی چاہی جو افسوس کہ نامکمل رہ گئی مگر اصل الاصول آپ نے اُس میں بیان کر دیئے جن کو پھیلا کر اس امر کو دنیا کے ذہن نشین کیا جاسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے چاہا تو میرا منشاء ہے کہ اُن اُصول کے ماتحت جو آپ نے تجویز کئے ہیں اور اس علم کے مطابق جو آپ نے اس کتاب میں مخفی رکھا ہے ایک کتاب تصنیف کروں جس میں
(roy) دعوة الامير بوضاحت آپ کے بیان کردہ دعوے کو ثابت کروں اور اہلِ یورپ کے تیار کردہ عِلْمُ اللَّسَانِ سے جو اس دعوے کی تائید ہوتی ہے وہ بھی بیان کروں اور جہاں اہلِ یورپ نے ٹھوکر کھائی ہے اس کو بھی کھول دوں.وَمَا التَّوْفِيقُ إِلَّا مِنَ اللَّهِ.یہ تحقیق عربی زبان کے مطابق ایک ایسی بے نظیر تحقیق ہے کہ دنیا کے نقطہ نظر کو اسلام کے مطابق بالکل بدل دے گی اور اسلام کو بہت بڑی شوکت اس سے حاصل ہوگی.ان ظاہری علوم کے علاوہ جو آپ کو دیئے گئے باطنی علوم جو انبیاء کا ورثہ ہیں وہ بھی آپ کو عطا ہوئے اور ان علوم کے مقابلہ سے سب دشمن عاجز رہے اور کوئی شخص آپ کا مقابلہ نہ کر سکا جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں آپ کوئی جدید شریعت لیکر نہ آئے تھے بلکہ پہلی پیشگوئیوں کے ماتحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خدمت اور اشاعت کے لیے مبعوث ہوئے تھے اور علوم قرآنیہ کا پھیلانا اور سکھانا آپ کا کام تھا.قرآن کریم کے بعد اب کوئی نیا علم آسمان سے نازل نہیں ہو سکتا، سب علوم اس کے اندر ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا معلم نہیں آسکتا جو شخص آئیگا آپ کے سکھائے ہوئے علوم کی تجدید کرنے والا ہی ہوگا اور انہیں کو دوبارہ تازہ کرے گا جیسا کہ حضرت مسیح موعود کا ایک الہام ہے كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ (تذکرہ صفحہ ۴۵.ایڈیشن چہارم) ہر ایک برکت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے آتی ہے.پس مبارک ہے وہ جس نے سکھایا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مبارک ہے وہ جس نے سیکھا یعنی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام.غرض علوم چونکہ قرآن کریم پر ختم ہو گئے اور جو مامور آئیں گے اُن کو قرآن کریم کے خاص علوم ہی سکھائے جائیں گے نہ کوئی جدید علوم اور ان کی سچائی کی یہی علامت ہوگی
(۲۵۷) دعوة الامير کہ ان کو اللہ تعالیٰ قرآن کریم کا وسیع علم عطا فرما دے جو استدلالیوں والا نہ ہو بلکہ صفاتِ الہیہ کا علم ہو اور روحانی منازل کا علم ہو اور اے بادشاہ! ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے علوم سے ایسا وافر حصہ دیا ہے کہ اگر یوں کہیں کہ آپ کے وقت میں قرآن کریم دوبارہ نازل ہوا ہے تو یہ کوئی مبالغہ نہ ہوگا بلکہ بالکل سچ ہوگا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق ہوگا کیونکہ آپ سے بھی ایک روایت ہے کہ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالقُرَيَّا لَنَا لَهُ رَجُلْ مِنْ فَارِسَ (المعجم الكبير للحافظ ابی القاسم سلیمان بن احمد طبرانی جلد ۱۸ صفحه ۳۵۳ حدیث نمبر ۹۰۰ مکتبه ابن تیمیہ قاہرہ میں "رجل" کی بجائے "رجال" کا لفظ ہے ) کہ اگر قرآن شریف ثریا پر اڑ کر چلا چائے تو ایک شخص فارسی الاصل اُس کو واپس لے آوے گا.سب سے پہلے تو میں علم قرآن کے اُس حصہ کو بیان کرتا ہوں جس نے اُصولی رنگ میں اسلام کو ایسی مدددی اور مختلف ادیان کے مقابلہ میں اسلام کے مقام کو اس طرح بدل دیا کہ فاتح مفتوح ہو گیا اور غالب مغلوب.یعنی قرآن کریم جو اس سے پہلے ایک مردہ کتاب سمجھی جاتی تھی ایک زندہ کتاب بن گئی اور اس کی خوبیوں کو دیکھ کر اس کے مخالف گھبرا کر بھاگ گئے.حضرت اقدس مسیح موعود کے نزول سے پہلے عام طور پر مسلمانوں کا یہ خیال تھا کہ معارف قرآنیہ جو بزرگوں نے بیان کئے ہیں وہ اپنی حد کو پہنچ گئے ہیں اور اب ان سے زیادہ کچھ بیان نہیں ہو سکتا بلکہ اور جستجو کرنی فضول اور دین کے لئے مضر ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کو یہ علم دیا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی مادی پیدائش اپنے اندر بے انتہاء اسرار
۲۵۸ دعوة الامير رکھتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کا کلام بھی اپنے اندر بے انتہاء معانی اور معارف رکھتا ہے اگر ایک مکھی جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے نہایت ادنی درجہ رکھتی ہے ہر زمانے میں اپنی پوشیدہ طاقتوں کو ظاہر کرتی ہے اور اس کی بناوٹ کے رازوں اور اس کے خواص کی وسعت اور اس کی عادات کی تفاصیل کا علم زیادہ سے زیادہ حاصل ہوتا جاتا ہے چھوٹے چھوٹے گھانس اور پودوں کے نئے سے نئے خواص اور تاثیر میں معلوم ہوتی جاتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام محمد ود ہو.کچھ مدت تک تو لوگ اس میں سے معانی اور معارف اخذ کریں اور اس کے بعد وہ اس کان کی طرح ہو جائے جس کا خزانہ ختم ہو جاتا ہے.اللہ کا کلام تو مادی اشیاء کی نسبت زیادہ کثیر المعانی اور وسیع المطالب ہونا چاہئے ، اگر نئے سے نئے علوم دنیا میں نکل رہے ہیں، اگر فلسفہ اور سائنس تیزی کے ساتھ ترقی کرتے چلے جاتے ہیں اگر طبقات الارض اور علم آثار قدیمہ اور علم افعال الاعضاء اور علم نباتات اور علم حیوانات اور علم ہیئت اور علم سیاسیات اور علم اقتصاد اور علم معاملات اور علم النفس اور علم روحانیات اور علم اخلاق اور اسی قسم کے نئے علوم یا تو نئے دریافت ہورہے ہیں یا انہوں نے پچھلے زمانے کے علوم کے مقابلہ میں حیرت انگیز ترقی حاصل کرلی ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کا کلام ہی ایسا را کد ہونا چاہئے کہ وہ اپنے پر غور کرنے والوں کو تازہ علوم اور نئے مطالب نہ دے سکے اور سینکڑوں سال تک وہیں کا وہیں کھڑار ہے.اس وقت جس قدر بے دینی اور اللہ تعالیٰ سے دوری اور شریعت سے بُعد نظر آتا ہے وہ ان علوم کے بالواسطہ یا بلا واسطہ اثر ہی کا نتیجہ ہے.پس اگر قرآن کریم اللہ کا کلام ہے تو چاہئے تھا کہ ان علوم جدیدہ کی ایجاد یا وسعت کے ساتھ اس میں سے بھی ایسے معارف ظاہر ہوں جو یا تو ان علوم کی غلطی کو ظاہر کریں اور بدلائل انسان کو تسلی دیں یا یہ بتائیں کہ
(roa) دعوة الامير جو شبہ پیدا کیا جاتا ہے وہ درحقیقت پیدا ہی نہیں ہوتا اور صرف قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے.اس اصل کو قائم کر کے آپ نے بدلائل ثابت کیا کہ قرآن کریم میں اس زمانے کی ترقیات اور تمام حالات کا ذکر موجود ہے ، بلکہ اس زمانہ کی بعض جزئیات تک کا ذکر ہے، لیکن پہلے مسلمان چونکہ اس زمانہ میں نہیں پیدا ہوئے تھے وہ ان اشارات کو نہیں سمجھ سکے اور ان واقعات کو قیامت پر محمول کرتے رہے.مثلاً سورۃ التکویر میں اس زمانے کی بہت سی علامات مذکور ہیں جیسے (ا) إِذَا الشَّمْسُ كُوّرَتْ (۲) وَإِذَا التَّجُوْمُ انْكَدَرَتْ (۳) وَإِذَا الْجِبَالُ سَيَرَتْ (۴) وَإِذَا الْعِشَارُ عَطِلَتْ (۵) وَإِذَا الْوَحُوْشُ حُشِرَتْ (۲) وَإِذَا الْبِحَارُ سَجَرَتْ (۷) وَإِذَا التفوسُ زُوجَتْ (۸) وَإِذَا الْمَوْعَدَةُ سُئِلَتْ (۹) بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ (۱۰) وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (۱۱) وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتْ (۱۲) وَإِذَا الْجَحِيمَ سُعِرَتْ (۱۳) وَإِذَا الْجَنَّةَ أُزْلِفَتْ ٥ ( التكوير : ۱ تا ۱۴) یعنی (۱) جب سورج لپیٹا جائیگا (۳) وَإِذَا الْجِبَالُ سَيَرَتْ اور جب پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹائے جائیں گے.یعنی ایسے سامان نکل آئیں گے کہ اُن کے ذریعے سے پہاڑوں کو کاٹا جائے گا اور ان کے اندرسوراخ کر دیئے جائیں گے (۴) وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ اور جب دس مہینے کی گابھن اونٹنیاں بے کار چھوڑ دی جائیں گی.یعنی ایسا زمانہ آجائیگا کہ نئی سواریوں کی وجہ سے اونٹوں کی وہ قدرنہ رہے گی جواب ہے.(۵) وَإِذَا الْوَخوش حُشِرَث اور جب دینی علوم سے لوگوں کو ناواقفیت ہوگی اور وہ مثل وحشیوں کے ہو جائیں گے اور اسی طرح وہ اقوام جو پہلے وحشی سمجھی جاتی تھیں جیسے یورپ کے باشندے کہ آج سے چھ سات سو سال قبل جس وقت ایشیائی لوگ نہایت مہذب اور ترقی یافتہ تھے یہ لوگ ننگے پھرتے تھے دنیا میں پھیلا دیئے جائیں
(ry.) دعوة الامير گے اور دنیا کی حکومتوں پر قابض ہو جائیں گے اور یہ بھی کہ اس زمانے میں کچھ وحشی اقوام ہلاک کر دی جائیں گی کہ ان کا نام ہی باقی رہ جائیگا اور یہ عربی زبان کا محاورہ ہے کہ کہتے ہیں حُشِرَ الْوَخوش اَىٰ أَهْلِكَتْ ایسا ہی اس زمانے میں ہوا ہے کہ آسٹریلیا اور امریکہ کے اصلی باشندے کہ اُن کو کہتے بھی وحشی ہی ہیں آہستہ آہستہ اس طرح ہلاک کر دئے گئے ہیں کہ اب ان اقوام کا ان میں نشان تک نہیں ملتا.پھر فرمایا کہ (۶) وَإِذَا الْبِحَارُ سَجَرَتْ جب دریاؤں کو پھاڑا جائیگا یعنی اُن میں سے نہریں نکالی جائیں گی اور (۷) وَإِذَا التَّفُوسُ ذُو جَتْ اور جب لوگ آپس میں جمع کر دیئے جائیں گے یعنی آپس کے تعلقات کے ایسے سامان نکل آئیں گے کہ دُور دُور کے لوگ آپس میں ملا دیئے جائیں گے.جیسے آلات ٹیلیفون ہیں کہ ہزاروں میل کے لوگوں کو آپس میں ملا کر باتیں کروا دیتے ہیں ریل اور تار اور ڈاک کے انتظام ہیں کہ ساری دنیا کو انہوں نے ایک شہر بنادیا ہے (۸) وَإِذَا الْمَوءَ دَةً سُئِلَتْ (۹) بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَت اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکیاں یا عور تیں پوچھی جائیں گی.یعنی مذہبی طور پر انسان کا زندہ گاڑ دینا خواہ جائز ہومگر قوانین حکومت اس کی اجازت نہ دیں گے اور صرف مذہبی جواز کا فتویٰ پیش کر دینا قبول نہ کیا جائے گا.جیسے کہ اس زمانہ سے پہلے زمانوں میں ہوتا چلا آیا ہے (۱۰) وَإِذَا الصُّحُفُ نَشِرَتْ اور جبکہ کتب اور اخبارات اور رسالہ جات پھیلائے جائیں گے جیسا کہ آجکل ہے کہ اخبارات اور کتب کی کثرت کو دیکھ کر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے(۱۱) وَإِذَا السَّمَاءَ كُشِطَتْ اور جب آسمان کا چھلکا اُتارا جائیگا یعنی آسمانی علوم کا ظہور ہوگا، علم ہیئت کی ترقی کے ذریعے سے بھی اور علوم قرآنیہ کے اظہار اور اشاعت کے ذریعے سے بھی (۱۲) وَإِذَا الْجَحِيمُ سَعِرَتْ اور دوزخ بھڑکا دی جائے گی یعنی نئے
۲۶۱ دعوة الامير نئے علوم ایجاد ہوں گے جن کی وجہ سے لوگوں کو دین سے نفرت ہو جائے گی اور دلوں سے ایمان نکل جائے گا اور عیش و عشرت کے سامانوں کی کثرت سے بھی لوگوں میں فساد پیدا ہو جائے گا (۱۳) وَإِذَا الْجَنَّةُ أُزلِفَتْ اور جب جنّت قریب کر دی جائیگی یعنی اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کا فضل بھی جوش میں آئیگا اور جنت بھی قریب کر دی جائے گی یعنی جب فساد اور شرارت بڑھ جائیگی اور بے دینی ترقی کر جائے گی اس وقت اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ایسا سامان کر دے گا کہ لوگوں کے ایمان تازہ ہوں اور دین کی خوبی ظاہر ہو جائے اور ان کاموں کا کرنا لوگوں کے لئے آسان ہو جائے جن کے کرنے پر جنت ملتی ہے.اب آپ غور کر کے دیکھ لیں کہ کیا یہ سب نشانیاں اس زمانے کی نہیں ہیں اور کیا یہ ممکن ہے کہ ان علامات کو قیامت یا کسی اور زمانے پر لگایا جائے.صرف إِذَا الشَّمْسُ كُورَتْ اور إِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ کے الفاظ سے دھوکا کھا کر یہ خیال کر لینا کہ یہ باتیں قیامت کو ہوں گی کب جائز ہو سکتا ہے جبکہ اس کی باقی آیات کا قیامت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں معلوم ہوتا ، قیامت کو دس مہینے کی گا بھن اونٹنیاں بھلا کیوں چھوڑ دی جائیں گی ؟ اگر کہا جائے کہ گھبرا کر تو اس کا جواب یہ ہے کہ اونٹنی کا کیا ذکر اس وقت تو باپ، ماں، بیٹا ، بیٹی ، بیوی ، بھائی بہن سب کو چھوڑ دیا جائے گا ایسے اعلیٰ تعلقات جس وقت ٹوٹ جائیں گے اس وقت کے ذکر میں اونٹنی کے چھوڑ دینے کا ذکر بے محل ہو جاتا ہے.اسی طرح سوال پیدا ہوتا ہے کہ وحشی کیوں اکٹھے کئے جائیں گے؟ دریاؤں میں سے اس دن نہریں کیوں نکالی جائیں گی؟ یا یہ کہ دریا آپس میں کیوں ملائے جائیں گے اور مودودہ کے متعلق اس وقت کیوں سوال ہوگا ؟ اعمال کے متعلق پرسش تو فنا کے بعد حشر اجساد کے دن ہوگی ، نہ کہ جس وقت کا رخانہ عالم درہم برہم ہو رہا ہوگا.اسی طرح ان آیات کے مابعد بھی ایسی باتوں کا
دعوة الامير ذکر ہے جو ثابت کر رہی ہیں کہ اسی دنیا میں یہ سب کچھ ہونے والا ہے جیسے وَالَّيلِ إِذَا عَسْعَسَ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ التكوير: ۱۸-۱۹) اور رات کی قسم جب وہ جاتی رہے گی اور صبح کی قسم جب وہ سانس لے گی یعنی طلوع ہونے لگے گی اور جبکہ شروع میں إِذَا الشَّمْسُ كُوّرَتْ آچکا ہے اگر اس سورۃ میں قیامت کا ہی ذکر ہو تو سورج کے لیٹے جانے کے بعد رات کس طرح چلی جائے گی اور صبح کس طرح نمودار ہونے لگے گی ،غرض ان باتوں کا جو اس سورۃ میں بیان ہوئی ہیں قیامت کے ساتھ کچھ بھی تعلق نہیں ، ہاں اس زمانے کے حالات کے یہ بالکل مطابق ہیں اور گویا اس وقت کا پورا نقشہ ان میں کھینچ دیا گیا ہے پس در حقیقت اس زمانے کی خرابیوں اور مادی ترقیوں اور گناہوں کی کثرت اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کی اس سورۃ میں خبر دی گئی تھی، جس کو پڑھ کر مومن کا ایمان تازہ ہوتا ہے اور سب شکوک وشبہات ہو ا ہو جاتے ہیں.یہ ایک مثال میں نے ان اخبار کی دی ہے جو اس زمانے کے متعلق قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اور جن کو حضرت اقدس نے خود بیان فرمایا ہے یا جن کو آپ کے بتائے ہوئے اصول کے ماتحت آپ کے خدام نے قرآن کریم سے اخذ کیا ہے ورنہ اس زمانے کے مفاسد اور حالات کی خبریں اور اُن کے علاج قرآن کریم میں اس کثرت سے بیان ہوئے ہیں کہ ان کو دیکھ کر سخت سے سخت دشمن بھی یہ اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے جس سے ماضی، حال اور مستقبل کسی زمانے کے بھی حالات پوشیدہ نہیں مگر ان کے بیان کرنے سے اصل مضمون رہ جائے گا اور یہ مکتوب بہت زیادہ لمبا ہو جائے گا.دوسرا اصولی علم جو قرآن کریم کے متعلق آپ کو دیا گیا یہ ہے کہ قرآن کریم میں کوئی
(yr) دعوة الامير دعوی بلا دلیل بیان نہیں کیا جاتا.اس اصل کے قائم کرنے سے اس کے علوم کے انکشاف کے لئے ایک نیا دروازہ کھل گیا اور جب اس کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآن کریم پر غور کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ ہزاروں باتیں جو اس سے پہلے بطور دعوے کے سمجھی جاتی تھیں اور ان کی دلیل یہ سمجھ لی گئی تھی کہ خدا نے کہا ہے اس لیے مان لو، وہ سب اپنے دلائل اپنے ساتھ رکھتی تھیں.اس دریافت کا یہ نتیجہ ہوا کہ فطرت انسانی نے جو علوم کی ترقی کی وجہ سے اس زبردستی کی حکومت کا جُوا اُتار پھینکنے کے لیے تیار ہو رہی تھی عقلی طور پر تسلی پا کر نہایت جوش اور خروش سے قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصول سے لپٹ گئی اور قرآن کریم کی باتوں کے ماننے میں بجائے ایک بوجھ محسوس ہونے کے فرحت حاصل ہونے لگی اور محسوس ہونے لگا که قرآن کریم ایک طوق کے طور پر ہماری گردنوں میں نہیں ڈالا گیا، بلکہ ایک واقف کار راہنما کی مانند ہمارے ہمراہ کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کی ذات کے وہ زبر دست ثبوت آپ نے قرآن کریم سے پیش کئے جن کو موجودہ سائنس رڈ نہیں کر سکتی اور جن کے اثر سے تعلیم یافتہ دہریوں کی ایک جماعت واپس خدا پرستی کی طرف آ رہی ہے.اسی طرح آپ نے ملائکہ پر جو اعتراض ہوتے تھے ان کے جواب قرآن کریم سے دیئے.نبوت کی ضرورت اور نبیوں کی صداقت کے دلائل قرآن کریم سے بیان کئے.قیامت کا ثبوت قرآن کریم سے پیش کیا.اعمال صالحہ کی ضرورت اور ان کے فوائد اور نواہی کے خطرناک نتائج اور ان سے بچنے کی ضرورت یہ سب مسائل اور ان کے سوا باقی اور بہت سے مسائل کے متعلق آپ نے قرآن کریم ہی کے ذکر کردہ عقلی اور نقلی دلائل بیان کر کے ثابت کردیا کہ قرآن کریم پر علوم جدیدہ کی دریافت کا کوئی خراب اثر نہیں پڑسکتا کیونکہ آپ نے بتایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فعل اور اس کا قول مخالف ہوں ، جو
۲۶۴ دعوة الامير کلام اس کے مخالف ہے وہ اس کا کلام ہی نہیں اور جو اُس کا کلام ہے وہ اس کے فعل کے مخالف نہیں ہوسکتا.ان علوم کے بیان کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت صرف آپ ہی کی جماعت ہے جو ایک طرف تو علوم جدیدہ کی تحصیل میں پوری طرح لگی ہوئی ہے اور دوسری طرف سیاسی ضرورت یا نسلی تعصب کی وجہ سے نہیں بلکہ سچے طور پر تقلیدی طور پر نہیں بلکہ علی وجہ البصیرت اسلام کے بیان کردہ تمام عقائد پر یقین رکھتی ہے اور ان کی صداقت کو ثابت کر سکتی ہے.باقی جس قدر جماعتیں ہیں، وہ ان علوم سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے یا تو علوم جدیدہ کی تکذیب کر کے اور اُن کے حصول کو کفر قرار دیکر اپنے خیالی ایمان کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں یا پھر اُن کے اثر سے متاثر ہو کر دین کو عملاً چھوڑ بیٹھی ہیں یا ظاہر میں لوگوں کے خوف سے اظہار اسلام کرتی ہیں مگر دل میں سو قسم کے شکوک اور شبہات اسلامی تعلیم کے متعلق رکھتی ہیں.تیسرا اصولی علم قرآن کریم کے متعلق آپ کو یہ دیا گیا ہے کہ انسانی عقل کوئی شبہ یا وسوسه قرآن کریم کی تعلیم کے متعلق پیدا کرے، اُس کا جواب قرآن کریم کے اندر موجود ہے اور آپ نے اس مضمون کو اس وسعت سے بیان کیا ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے.ہر قسم کے وساوس اور شکوک کا جواب آپ نے قرآن کریم سے دیا ہے اور اس طرح نہیں کہ کہہ دیا ہو کہ قرآن کریم اس خیال کو رد کرتا ہے اس لیے یہ خیال مردود ہے بلکہ ایسے دلائل کے ذریعہ سے جو گو بیان تو قرآن کریم نے کئے ہیں مگر ہیں عقلی اور علمی جن کو ماننے پر ہر مذہب وملت کے لوگ مجبور ہیں.چوتھا اصولی علم قرآن کریم کے متعلق آپ کو یہ دیا گیا ہے کہ اس سے پہلے لوگ عام
۲۶۵ دعوة الامير طور پر یہ تو بیان کرتے تھے کہ قرآن کریم سب کتب سے افضل ہے مگر یہ کسی نے ثابت نہ کیا تھا کہ کتب مقدسہ یا دوسری تصانیف پر اُسے کیا فضیلت حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ بے نظیر ہے اور بے مثل ہے.اس مضمون کو آپ نے قرآن کریم ہی کے بیان کردہ دلائل سے اس وسعت سے ثابت کیا ہے کہ بے اختیار انسان کا دل قرآن کریم پر قربان ہونے کو چاہتا ہے اور مُحَمَّدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَسَلَّمَ پر فدا ہونے کو چاہتا ہے جن کے ذریعے سے یہ تعلیم ہمیں ملی.پانچواں اصولی علم جو آپ کو دیا گیا ہے یہ ہے کہ قرآن ذوالمعانی ہے.اس کے کئی بطون ہیں.اس کو جس عقل اور جس فہم کے آدمی پڑھیں اس میں اُن کی سمجھ اور ان کی استعداد کے مطابق سچی تعلیم موجود ہے، گو یا الفاظ ایک ہیں لیکن مطالب متعدد ہیں اگر معمولی عقل کا آدمی پڑھے تو وہ اس میں ایسی موٹی موٹی تعلیم دیکھے گا جس کا ماننا اور سمجھنا اس کے لئے کچھ بھی مشکل نہ ہوگا اور اگر متوسط درجہ کے علم کا آدمی اس کو پڑھے گا تو وہ اپنے علم کے مطابق اس میں مضمون پائے گا اور اگر اعلیٰ درجہ کے علم کا آدمی اس کو پڑھے گا تو وہ اپنے علم کے مطابق اس میں علم پائے گا.غرض یہ نہ ہو گا کہ کم علم لوگ اس کتاب کا سمجھنا اپنی عقل سے بالا پائیں یا اعلیٰ درجہ کے علم کے لوگ اس کو ایک سادہ کتاب پائیں اور اس میں اپنی دلچسپی اور علمی ترقی کا سامان نہ دیکھیں.چھٹا اصولی علم آپ کو قرآن کریم کے متعلق یہ دیا گیا کہ قرآن کریم علاوہ رُوحانی علوم کے اُن ضروری علوم مادیہ کو بھی بیان کرتا ہے جن کا معلوم ہونا انسان کے لیے ضروری اور ان علوم کا انکشاف زمانے کی ترقی کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے تا کہ ہر زمانے کے لوگوں کا ایمان تازہ ہو.
(YY) دعوة الامير ساتواں اصولی علم آپ کو یہ دیا گیا کہ تفسیر قرآن کریم کے متعلق آپ کو وہ اصول سمجھائے گئے کہ جن کو مد نظر رکھ کر انسان تفسیر قرآن کریم میں غلطی کھانے سے محفوظ ہو جاتا ہے اور جن کی مدد سے انسان پر نئے سے نئے علوم کا انکشاف ہوتا ہے اور ہر دفعہ قرآن کریم کا مطالعہ اس کے لیے مزید لذت اور سرور کا موجب ہوتا ہے.آٹھواں اصولی علم آپ کو قرآن کریم کے متعلق یہ دیا گیا کہ قرآن کریم سے تمام روحانی ترقیات کے مدارج آپ کو سکھائے گئے اور جو علوم اس سے پہلے لوگ اپنی عقل سے دریافت کر رہے تھے اور بعض دفعہ غلطی کھا جاتے تھے اُن کے متعلق آپ کو قرآن کریم سے علم دیا گیا اور سمجھایا گیا کہ تمام روحانی حالتیں ادنی سے لیکر اعلیٰ تک قرآن کریم نے ترتیب وار بیان کی ہیں جن پر چل کر انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے اور اس کے ثمراتِ ایمان بھی کھاتا جاتا ہے.یہ بات پہلے لوگوں کو میسر نہ تھی کیونکہ وہ قرآن کریم کی مختلف آیات سے تو استدلال کرتے تھے مگر سب مدارج روحانیہ یکجائی طور پر اُن کو قرآن کریم سے معلوم نہ تھے.نواں اصولی علم آپ کو یہ دیا گیا کہ قرآن کریم تمام کا تمام کیا سورتیں اور کیا آیتیں سب کا سب ایک خاص ترتیب کے ساتھ اُتر ا ہوا ہے ،اس کا ایک ایک فقرہ اور ایک ایک جملہ اپنی صحیح جگہ پر رکھا ہوا ہے اور ایسی اعلیٰ درجہ کی ترتیب اس میں پائی جاتی ہے کہ دوسری کتب کی ترتیب اس کے مقابلے میں بالکل بیچ ہے کیونکہ دیگر کتب کی ترتیب میں صرف ایک ہی بات مدنظر رکھی جاتی ہے کہ مناسب مضامین یکے بعد دیگرے آجائیں.لیکن قرآن کریم کی ترتیب میں یہ خصوصیت ہے کہ اس میں مضامین کی ترتیب نہ صرف مضامین کے لحاظ سے ہے بلکہ ایسی طرز سے ہے کہ مختلف جہات سے اس کی
۲۶۷ دعوة الامير ترتیب قرار دی جاسکتی ہے.یعنی اگر مختلف مطالب کو مدنظر رکھا جائے تو ہر مطلب کے لحاظ سے اس کے اندر ترتیب پائی جاتی ہے یہ نہیں کہ اس کی ایک تفسیر کریں تو ترتیب قائم رہے اور دوسری تفسیر کریں تو ترتیب میں خلل آجائے بلکہ جس قدر معنے اس کے صحیح اور مطابق اصول تفسیر کے ہیں ان سب کی رعایت کو مد نظر رکھا گیا ہے اور کوئی سے معنے لے کر اس کی تفسیر شروع کر دو اس کی ترتیب میں فرق نہیں آئے گا اور یہ ایسی صفت ہے کہ کسی انسانی کلام میں نہیں پائی جاتی اور نہ پائی جاسکتی ہے.دسواں اصولی علم آپ کو یہ دیا گیا ہے کہ قرآن کریم میں نیکیوں اور بدیوں کے مدارج بیان کئے گئے ہیں یعنی یہ بتایا گیا ہے کہ کون کون سی نیکی سے کون کون سی نیکی کی تحریک ہوتی ہے اور کون کون سی بدی سے کون کون سی بدی پیدا ہوتی ہے.اس علم کے ذریعے سے انسان اخلاق کی اصلاح میں عظیم الشان فائدہ حاصل کر سکتا ہے کیونکہ اس تدریجی علم کے ذریعے سے وہ بہت سی نیکیوں کو حاصل کر سکتا ہے جن کو وہ پہلے باوجود کوشش کے حاصل نہیں کر سکتا تھا اور بہت سی بدیوں کو چھوڑ سکتا ہے جن کو وہ باوجود بہت سی کوشش کے نہیں چھوڑ سکتا تھا، گویا قرآن کریم کا یہ عظیم الشان معجزہ آپ نے بتا دیا ہے کہ اس نے انسان کو نیکیوں اور بدیوں کے چشمے بتا دیئے ہیں جہاں پہنچ کر وہ اپنی پیاس کو بجھا سکتا ہے یا تباہ کرنے والے طوفان کو روک سکتا ہے.گیارھواں اصولی علم آپ کو یہ بتایا گیا کہ سورۃ فاتحہ قرآن کریم کے سب مضامین کا خلاصہ ہے اور باقی قرآن کے لیے بمنزلہ متن ہے اور کل اصولی مسائل اس کے اندر بیان کئے گئے ہیں اور نہایت مفصل اور منحنیم تفاسیر آپ نے اس سورۃ کی شائع کیں اور نہایت پر لطف ایمان کو تازہ کرنے والے مضامین اس سے اخذ کر کے تقسیم
(PTA) دعوة الامير کئے ، اس علم کے ذریعے سے آپ نے حفاظت اسلام کے کام کو آسان کر دیا کیونکہ ہر ایک بات جو مفصل میں سے انسان کی سمجھ میں نہ آئے وہ اس مجمل پر نگاہ کر کے اس کو سمجھ سکتا ہے اور صرف اسی سورۃ کو لے کر تمام دنیا کے ادیان کا مقابلہ کر سکتا ہے اور کل مدارج روحانی کو معلوم کر سکتا ہے.یہ تو بعض امثلہ اصولی علوم کی میں نے بیان کی ہیں ان کے علاوہ بارھواں علم قرآن کریم کے متعلق آپ کو تفصیلی دیا گیا ہے جس کے مطابق مختلف آیات کے تراجم اور ان کے معارف جو آپ نے بیان کئے ہیں اور ضروریاتِ زمانہ کے متعلق جو ہدایات آپ نے قرآن کریم سے اخذ کی ہیں، ان کو اگر بیان کیا جائے تو اس کے لئے کئی مجدد کتابیں چاہئیں ، ان علوم کے چشموں نے ثابت کر دیا ہے کہ آپ کا اُس مبدا فیض سے خاص تعلق ہے جو علیم ہے اور جس کی نسبت آتا ہے.وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ (البقرة: ۲۵۶) کیونکہ انسان کی طاقت سے بالکل باہر ہے کہ وہ ایسے علوم کو اپنی عقل سے دریافت کر سکے.آپ کے بتائے ہوئے علوم اور اصول کے مطابق جب ہم قرآن کریم پڑھتے ہیں تو اس کے اندر علوم کے سمندر موجیں مارتے ہوئے نظر آتے ہیں جن کا کنارہ نظر نہیں آتا.آپ نے آیت لَا يَمَسُّةَ إِلا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة :۸۰) کے مضمون کی طرف توجہ دلا کر بار بار اپنے مخالفوں کو توجہ دلائی کہ اگر آپ لوگوں کے خیالات کے مطابق میں جھوٹا ہوں تو پھر وجہ کیا ہے کہ ایسے بار یک در بار یک علم مجھے عطا کئے جاتے ہیں اور اپنے مخالفوں کو بار بار دعوت مقابلہ دی کہ اگر تم میں سے کوئی عالم یا شیخ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے تو میرے مقابلے پر علوم قرآن کو ظاہر کرے اور ایسا کیا جائے کہ ایک جگہ ایک ثالث شخص بطور قرعہ اندازی قرآن کریم کا کوئی حصہ نکال کر دونوں کو دے اور اس کی تفسیر
(ra) دعوة الامير معارف جدیدہ پر پر مشتمل دونوں لکھیں پھر دیکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ کس فریق کی مدد کرتا ہے مگر باوجود بار بار پکارنے کے کوئی مقابلے پر نہ آیا.اور آتا بھی کیونکر؟ کیونکہ آپ کا مقابلہ تو الگ رہا، علوم قرآن میں آپ کے خدام کا بھی کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اور قرآنِ کریم گو یا اس وقت صرف ہمارا ہی ہے.اس مضمون کے ختم کرنے سے پہلے میں آپ کی ایک فارسی نظم قرآن کریم کے متعلق درج کرتا ہوں جس میں آپ نے علوم قرآنیہ کے متعلق لوگوں کو تو جہ دلائی ہے از نور پاک قرآن صبح صفا دمیده بر غنچہ ہائے دلہا بادِ صبا وزیده ایس روشنی و لمعاں شمس الضحی ندارد و این دلبری و خوبی کس در قمر ندیده یوسف بقعر چاه محبوس ماند تنہا وایں یوسفے که تن با از چاه برکشیده از مشرق معانی صدہا دقائق آورد قدِ ہلال نازک زاں ناز کی خمیده کیفیت علومش دانی چه شان دارد؟ شہد لیست آسمانی از وحی حق چکیده آں غیر صداقت چوں کو بعائم آور ہر بوم شب پرستی در گنج خود خزیده روئے یقین نہ بیند ہرگز کسے بدنیا الا کسی که باشد با رویش آرمیده آن کس که عالمش شد ، شد مخزن معارف واں بے خبر ز عالم کیں عالمے ندیدہ بارانِ فضل رحمن ، آمد بمقدم او بد قسمت آنکه، از وے سوئے دگر دویده میل بدی نباشد، الا رگے ز شیطان آن را بشر بدانم، کز ہر شرے رہیدہ اے کانِ دلربائی ، دانم که از کجائی تو نور آں خدائی، کیں خلق آفریدہ میلم نماند باکس محبوب من کوئی بس زیرا که زاں فغاں رس نورت بما رسیده ( براھین احمد یہ چہار حصص.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۰۴-۳۰۵)
(12.) دعوة الامير دسویں دلیل دسویں دلیل آپ کی صداقت کی کہ وہ بھی درحقیقت سینکڑوں بلکہ ہزاروں دلائل پر مشتمل ہے یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے نہایت کثرت سے اپنے غیب پر مطلع کیا تھا.پس معلوم ہوا کہ آپ خدا کے فرستادہ تھے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ ( الجن : ۲۷.۲۸) یعنی وہ غیب پر کثرت سے اطلاع نہیں دیتا مگر اپنے رسولوں کو (أظْهَرَ عَلَيْهِ کے معنے ہیں اُس کو اُس پر غلبہ دیا ) پس جس شخص کو کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع ملے اور اس پر وحی مصفی پانی کی طرح ہو جو ہر قسم کی کدورت سے پاک ہو اور روشن نشان اُس کو دیئے جاویں اور عظیم الشان امور سے قبل از وقت اُسے آگاہ کیا جائے وہ اللہ تعالیٰ کا مامور ہے اور اس کا انکار کرنا گویا قرآن کریم کا انکار کرنا ہے جس نے یہ قاعدہ بیان فرمایا ہے اور سب نبیوں کا انکار کرنا ہے جنہوں نے اپنی صداقت کے ثبوت میں ہمیشہ اس امر کو پیش کیا ہے.چنانچہ بائیل میں بھی آتا ہے کہ جھوٹے نبی کی علامت ہے کہ جو بات وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہے وہ پوری نہ ہو.(استثناء باب ۱۸ آیت ۲۲ ، بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء) اس معیار کے ماتحت جب ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کو دیکھتے ہیں تو آپ کی سچائی ایسے دن کی طرح نظر آتی ہے جس کا سورج نصف النہار پر ہو.آپ پر اللہ تعالیٰ نے اس کثرت اور اس تواتر کے ساتھ غیب کی خبریں ظاہر کیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کسی نبی کی پیشگوئیوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی بلکہ سچ یہ ہے کہ ان کی تعداد اسقدر بڑھی ہوئی ہے کہ اگر ان کو تقسیم کیا جائے تو کئی نبیوں کی نبوت ان
(ri) دعوة الامير سے ثابت ہو جائے.میں ان اخبار غیبیہ میں سے بارہ بطور مثال کے پیش کرتا ہوں.یہ پیشگوئیاں جو آپ نے کیں بیسیوں اقسام کی تھیں بعض سیاسی امور کے متعلق تھیں، بعض اجتماعی امور کے متعلق تھیں، بعض تغیرات جو کے متعلق تھیں، بعض مذہبی امور کے متعلق تھیں، بعض دماغی قابلیتوں کے متعلق تھیں ، بعض نسلی ترقی یا قطع نسل کے متعلق تھیں ، بعض تغییرات زمینی کے متعلق تھیں، بعض تعلقات ڈول کے متعلق تھیں، بعض تعلقات رعا یا وحکام کے متعلق تھیں، بعض اپنی ترقیات کے متعلق تھیں، بعض دشمنوں کی ہلاکت کے متعلق تھیں ، بعض آئندہ حالات دنیا کے متعلق تھیں.غرض مختلف انواع واقسام کے امور کے متعلق تھیں کہ ان کی اقسام ہی ایک لمبی فہرست میں بیان کی جاسکتی ہیں.اب میں ذیل میں بارہ پیشگوئیاں جو آپ کی پوری ہو چکی ہیں بیان کرتا ہوں اور سب سے پہلے اس پیشگوئی کا ذکر کرتا ہوں جو افغانستان ہی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.0000000
۲۷۲ دعوة الامير پہلی پیشگوئی صاحبزادہ عبداللطیف شهید و مولوی عبدالرحمن صاحب شہید کی شہادت اور واقعات مابعد کے متعلق اے بادشاہ ! اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور ان غلطیوں کے بدنتائج سے محفوظ رکھے جن کے ارتکاب میں آپ کا کوئی دخل نہ تھا.آج سے چالیس سال پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام میں بتایا گیا تھا کہ شَاتَانِ تَذْبَحَانِ وَكُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ( تذکر صفحه ۸ ایڈیشن چہارم) یعنی دو بکرے ذبح کئے جاویں گے اور ہر ایک جو اس زمین پر بستا ہے فنا ہو جائے گا.علم التعبیر کے مطابق شاہ کی دو تعبیر میں ہو سکتی ہیں، ایک تو عورتیں اور دوسرے نہایت مطیع اور فرمانبردار رعایا، چونکہ عورتوں کے معنوں کے ساتھ اگلے فقرے کا کوئی تعلق نہیں معلوم ہوتا کیونکہ عورتوں کا ذبح ہونے سے کم ہی تعلق ہوتا ہے.زیادہ تر جان دینے والے مرد ہی ہوتے ہیں اس لئے زیادہ تر قرین قیاس یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ دو آدمی جو اپنے بادشاہ کے نہایت فرمانبردار اور مطیع ہوں گے باوجود اس کے کہ انہوں نے کوئی جرم اپنے بادشاہ کا نہ کیا ہوگا اور اسکا کوئی قانون نہ توڑا ہوگا اور سزائے قتل کے مستحق نہ ہو نگے قتل کئے جاویں گے اور اس کے بعد ملک پر ایک عام تباہی آوے گی اور ہلاکت اس میں ڈیرے ڈالے گی.اس پیشگوئی میں گوملک وغیرہ کا کچھ نشان نہیں دیا گیا تھا مگر اس کی عبارت سے یہ ضرور معلوم ہوتا تھا کہ اول تو یہ واقعہ انگریزی علاقہ میں نہیں ہوگا بلکہ کسی ایسے ملک میں ہوگا
۲۷۳ دعوة الامير جہاں عام ملکی قانون کی اطاعت کرتے ہوئے بھی لوگوں کے غصے اور ناراضگی کے نتیجے میں انسان قتل کئے جاسکتے ہیں.دوم یہ کہ یہ مقتول منہم کے پیروؤں میں سے ہوں گے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس کو صرف دو مقتولوں کے متعلق خبر دینے کی کوئی وجہ نہ تھی.تیسری یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ قتل ناواجب ہوگا.کسی سیاسی مُجرم کے متعلق نہ ہوگا چوتھے یہ کہ اس نا واجب فعل کے بدلے میں اس ملک پر ایک عام تباہی آوے گی.یہ چاروں باتیں مل کر اے بادشاہ! اس پیشگوئی کو معمولی پیشگوئیوں سے بہت بالا کر دیتی ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ اس میں ملک کی تعیین نہیں اس لیے یہ پیشگوئی مہم ہے ان چاروں باتوں کا یکجاطور پر پورا ہونا پیشگوئی کی عظمت کو ثابت کر دیتا ہے کیونکہ یہ چاروں باتیں اتفاقی طور پر جمع نہیں ہوسکتیں.اس پیشگوئی کے بعد قریباً بیس سال تک کوئی ایسے آثار نظر نہ آئے جن سے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوتی معلوم ہو.مگر جب کہ قریب ہیں ۲۰ سال اس الہام پر گزر گئے تو ایسے سامان پیدا ہونے لگے جنہوں نے اس پیشگوئی کو حیرت انگیز طور پر پورا کر دیا.اتفاق ایسا ہوا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بعض کتب کوئی شخص افغانستان میں لے گیا اور وہاں خوست کے ایک عالم سید عبداللطیف صاحب کو جو حکومت افغانستان میں عزت کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے اور بڑے بڑے حکام ان کا تقویٰ اور دیانت دیکھ کر ان سے خلوص رکھتے تھے وہ کتب دیں.آپ نے ان کتابوں کو پڑھ کر یہ فیصلہ کر لیا کہ حضرت اقدس راستباز اور صادق ہیں اور اپنے ایک شاگرد کو مزید تحقیقات کے لیے بھیجا اور ساتھ ہی اجازت دی کہ وہ اُن کی طرف سے بیعت بھی کر آئے.اس شاگرد کا نام مولوی عبد الرحمن تھا.انہوں نے قادیان آکر خود بھی بیعت کی اور مولوی عبد اللطیف
۲۷۴ دعوة الامير صاحب کی طرف سے بھی بیعت کی.اور پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب لے کر واپس افغانستان کو چلے گئے اور ارادہ کیا کہ پہلے کا بل جائیں تا کہ وہاں اپنے بادشاہ تک بھی اس دعوت کو پہنچا دیں.ان کے کابل پہنچنے پر بعض کو تاہ اندیش بدخواہانِ حکومت نے امیر عبدالرحمن صاحب کو اُن کے خلاف اکسایا اور کہا کہ یہ شخص مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج اور واجب القتل ہے اور اُن کو دھوکا دیکر ان کے قتل کا فتویٰ حاصل کیا اور نہایت ظالمانہ طور پر ان کو قتل کردیا اور وہ جو اپنے بادشاہ سے اس قدر پیار کرتا تھا کہ پیشتر اس کے کہ اپنے وطن کو جاتا پہلے اپنے بادشاہ کے پاس یہ خوشخبری لے کر پہنچا کہ خدا کا مسیح اور مہدی آ گیا ہے.اس کی محبت اور اس کے پیار کا اس کو یہ بدلہ دیا گیا کہ اسے گردن میں کپڑا ڈال کر اور دم بند کر کے شہید کر دیا گیا مگر اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ تھا.اس نے قریب بیس سال پہلے دو وفادار افرا در عایا کی پلاکسی قانون شکنی کے قتل کئے جانے کی خبر دیدی تھی اور اس خبر کو پورا ہو کر رہنا تھا.سواس قتل کے ذریعے سے ان دو شخصوں میں سے جن کے قتل کی خبر دی گئی تھی ایک قتل ہو گیا.اس واقعہ کے ایک دو سال کے بعد صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید حج بیت اللہ کے ارادے سے اپنے وطن سے روانہ ہوئے.چونکہ حضرت اقدس کی بیعت تو کر ہی چکے تھے ارادہ کیا کہ جاتے وقت آپ سے بھی ملتے جائیں.چنانچہ اس ارادے سے قادیان تشریف لائے مگر یہاں آکر اس سے پہلے جو کتابوں کے ذریعے سے سمجھا تھا بہت کچھ زیادہ دیکھا اور صفائی قلب کی وجہ سے نور الہی کی طرف ایسے جذب کئے گئے کہ حج کے ارادے کو ملتوی کر دیا اور قادیان ہی رہ گئے.چند ماہ کے بعد واپس وطن کو گئے اور فیصلہ کر لیا کہ اپنے بادشاہ کو بھی اس نعمت میں شریک کروں جو مجھے ملی ہے اور خوست پہنچتے ہی چار خط کا بل کے
(120) دعوة الامير چار درباریوں کے نام لکھے ان خطوط کے کابل پہنچنے پر جناب کے والد امیر حبیب اللہ خان صاحب (امیر حبیب اللہ خان والی افغانستان اپنے والد عبد الرحمن کی وفات کے بعد یکم اکتوبر ۱۹۰۱ء میں مسند نشین ہوا.اسی کے عہد میں ڈیورنڈ لائن کا تعین کیا گیا اور برطانیہ نے افغانستان کو آزادی دینے کا وعدہ کیا.۲۰ فروری ۱۹۱۹ء کو اس نے وادی النگار (Alngar) میں قلعہ السراج (نعمان ) کے قریب گوش میں پڑاؤ ڈال رکھا تھا کہ اسے قتل کر دیا گیا اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۱ صفحہ ۵۳۷ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد ۷ صفحہ ۸۸۷،۸۸۶ مطبوعہ دانش گاہ پنجاب لاہور ) والئی ریاست کابل کولوگوں نے بھڑ کا یا اور قسم قسم کے جھوٹے اتہام لگا کر ان کو اس بات پر آمادہ کر دیا کہ وہ ان کو پکڑوا کر کابل بلوالیں.خوست کے گورنر کے نام حکم کیا اور صاحبزادہ عبداللطیف کابل حاضر کئے گئے.امیر صاحب نے آپ کو ملانوں کے سپرد کیا جنہوں نے کوئی قصور آپ کا ثابت نہ پایا.مگر بعض لوگوں نے جن کو سلطنت کے مفاد کے مقابلے میں اپنی ذاتی خواہشات کا پورا کرنا زیادہ مد نظر ہوتا ہے امیر حبیب اللہ خان صاحب کو بھڑ کا یا کہ اگر یہ شخص چھوڑ دیا گیا اور لوگوں نے اس کا اثر قبول کر لیا تو لوگوں کے دلوں میں جہاد کا جوش سرد پڑ جائے گا اور حکومت کو نقصان پہنچے گا.آخر ان کے سنگسار کئے جانے کا فتویٰ دے دیا گیا.امیر حبیب اللہ خان صاحب نے اپنے نزدیک ان کی خیر خواہی سمجھ کر ان کو کئی دفعہ تو بہ کرنے کے لئے کہا مگر انہوں نے یہی جواب دیا کہ میں تو اسلام پر ہوں تو بہ کر کے کیا کافر ہو جاؤں ، میں کسی صورت میں بھی اس حق کو نہیں چھوڑ سکتا جسے میں نے سوچ سمجھ کر قبول کیا ہے.جب اُن کے رجوع سے بالکل مایوسی ہوگئی تو ایک بڑی جماعت کے سامنے ان کو شہر سے باہر لے جا کرسنگسار کر دیا.یہ وفادار اپنے بادشاہ کا جان شار چند خود غرض اور مطلب پرست سازشیوں کی سازش کا شکار ہوا اور انہوں نے امیر صاحب کو دھوکا دیا کہ اس کا زندہ رہنا ملک کے لیے مضر
(124) دعوة الامير ہوگا حالانکہ یہ لوگ ملک کے لیے ایک پناہ ہوتے ہیں اور خدا ان کے ذریعے سے ملک کی بلائیں ٹال دیتا ہے.انہوں نے بادشاہ کے سامنے یہ امر پیش کیا کہ اگر یہ شخص زندہ رہا تو لوگ جہاد کے خیال میں مست ہو جائیں گے مگر یہ نہ پیش کیا کہ یہ شخص جس سلسلے میں ہے اس کی یہ بھی تعلیم ہے کہ جس حکومت کے ماتحت رہو اس کی کامل فرمانبرداری کرو.پس اُس کی باتوں کی اشاعت سے افغانستان کی خانہ جنگیاں اور آپس کے اختلاف دُور ہو کر سارے کا سارا ملک اپنے بادشاہ کا سچا جان شمار ہو جائے گا اور جہاں اس کا پسینہ بہے گا وہاں اپنا خون بہانے کے لیے تیار ہوگا اور یہ نہ بتایا کہ جس سلسلے سے یہ تعلق رکھتا ہے اس کی تعلیم یہ ہے کہ خفیہ سازشیں نہ کرو.رشوتیں نہ لو.جھوٹ نہ بولو اور منافقت نہ کرو اور نہ صرف تعلیم دی جاتی ہے بلکہ اس کی پابندی بھی کروائی جاتی ہے پس اگر اس کے خیالات کی اشاعت ہوئی تو ایک دم ملک کی حالت سدھر کر ہر طرح کی ترقیات شروع ہو جائیں گی.اسی طرح انہوں نے یہ نہ بتایا کہ یہ اس جہاد کا منکر ہے کہ غیر اقوام پر بلا اُن کی طرف سے مذہبی دست اندازی کے حملہ کیا جائے اور اسلام کو بدنام کیا جائے.نہ کہ اُس حقیقی دفاعی جہاد کا جو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور نہ اُن سیاسی جنگوں کا جو ایک قوم اپنی ہستی کے قیام کے لیے دوسری اقوام سے کرتی ہے.اس کا تو صرف یہ عقیدہ ہے کہ بغیر اس کے کہ غیر اقوام کی طرف سے مذہبی دست اندازی ہو ان کے ساتھ جہاد کے نام پر جنگ نہیں کرنی چاہئیے تا اسلام پر حرف نہ آئے.سیاسی فوائد کی حفاظت کے لیے اگر جنگ کی ضرورت پیش آئے تو بے شک جنگ کریں مگر اس کا نام جہاد نہ رکھیں کیونکہ وہ فتح جس کے لیے اسلام کی نیک نامی کو قربان کیا جائے اس شکست سے بدتر ہے جس میں اسلام کی عزت کی حفاظت کر لی گئی ہو.غرض بلا وجہ اور امیر حبیب اللہ خان صاحب کو غلط واقعات بتا کر سید عبداللطیف
۲۷۷ دعوة الامير صاحب کو شہید کرادیا گیا اور اس طرح الہام کا پہلا حصہ مکمل طور پر پورا ہوگیا کہ شاتَانِ تُذْبَحَانِ.اس جماعت کے دو نہایت و فادار اور اطاعت گزار آدمی با وجود ہر طرح بادشاہ وقت کے فرمانبردار ہونے کے ذبح کر دیے جائیں گے اور وہ حصہ پورا ہونا باقی رہ گیا کہ اس واقعہ کے بعد اُس سرزمین پر عام تباہی آئے گی اور اس کے پورا ہونے میں بھی دیر نہیں لگی.ابھی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت پر ایک ماہ بھی نہ گزرا تھا کہ کابل میں سخت ہیضہ پھوٹا اور اس کثرت سے لوگ ہلاک ہوئے کہ بڑے اور چھوٹے اس مصیبت نا گہانی سے گھبرا گئے اور لوگوں کے دل خوف زدہ ہو گئے اور عام طور پر لوگوں نے یہ محسوس کر لیا کہ یہ بلا اس سید مظلوم کی وجہ سے ہم پر پڑی ہے جیسا کہ ایک بے تعلق شخص مسٹر اے فرنک مارٹن(Frank, A.Martin) کی جو کئی سال تک افغانستان کی حکومت میں انجینئر انچیف کے عہدے پر ممتاز رہ چکے ہیں، کی اُس شہادت سے ثابت ہوتا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب مسمی بہ انڈردی ابسولیٹ امیر Under The absolute) (1907 Amir published in میں بیان کی ہے.یہ ہیضہ بالکل غیر مترقبہ تھا کیونکہ افغانستان میں بیضے کے پچھلے دوروں پر نظر کرتے ہوئے ابھی اور چار سال تک اس قسم کی وباء نہیں پھوٹ سکتی تھی.پس یہ ہیضہ اللہ تعالیٰ کا ایک خاص نشان تھا جس کی خبر وہ اپنے مامور کوقریباً اٹھائیس سال پہلے دے چکا تھا اور عجیب بات یہ ہے کہ اس پیشگوئی کی مزید تقویت کے لیے اس نے صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کو بھی اس امر کی اطلاع دے دی تھی، چنانچہ انہوں نے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ میں اپنی شہادت کے بعد ایک قیامت کو آتے ہوئے دیکھتا ہوں، اس ہیضے کا اثر کابل کے ہر گھرانے پر پڑا.جس طرح عوام الناس اس حملے سے محفوظ نہ رہے.امراء بھی محفوظ نہ رہے اور ان گھرانوں میں بھی
دعوة الامير اس نے ہلاکت کا دروازہ کھول دیا جو ہر طرح کے حفظانِ صحت کے سامان مہیا رکھتے تھے اور وہ لوگ جنہوں نے شہید سید کے سنگسار کرنے میں خاص حصہ لیا تھا ، خاص طور پر پکڑے گئے اور بعض خود مبتلا ہوئے اور بعض کے نہایت قریبی رشتہ دار ہلاک ہوئے.غرض ایک لمبے عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ کا کلام لفظاً لفظاً پورا ہوا اور اس نے اپنے قهری نشانوں سے اپنے مامور کی شان کو ظاہر کیا اور صاحب بصیرت کے لیے ایمان لانے کا راستہ کھول دیا.کون کہہ سکتا ہے کہ اس قسم کی پیشگوئی کرنا کسی انسان کا کام ہے.کونسا انسان اس حالت میں جبکہ اس پر ایک شخص بھی ایمان نہیں لا یا یہ خبر شائع کر سکتا تھا کہ اس پر کسی زمانے میں کثرت سے لوگ ایمان لے آئیں گے حتی کہ اس کا سلسلہ اس ملک سے نکل کر باہر کے ممالک میں پھیل جائے گا اور پھر وہاں اس کے دومرید صرف اس پر ایمان لانے کی وجہ سے نہ کہ کسی اور جرم کے سبب سے شہید کئے جاویں گے اور جب ان دونوں کی شہادت ہو چکے گی تو اللہ تعالیٰ اُس علاقے پر ایک ہلاکت نازل کرے گا جو ان کیلئے قیامت کا نمونہ ہوگی اور بہت سے لوگ اس سے ہلاک ہوں گے.اگر بندہ بھی اس قسم کی خبریں دے سکتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے کلام اور بندوں کے کلام میں فرق کیا رہا؟ میں اس جگہ اس شبہ کا ازالہ کر دینا پسند کرتا ہوں کہ الہام میں لفظ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان ہے یعنی اس سرزمین کے سب لوگ ہلاک ہو جا ئیں گے لیکن سب لوگ ہلاک نہ ہوئے کچھ لوگ ہلاک ہوئے اور بہت سے بچ گئے.اصل بات یہ ہے کہ عربی زبان کے محاورے میں کل کا لفظ کبھی عمومیت کے لیے اور کبھی بعض کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.ضروری نہیں کہ اس لفظ کے معنی جمع کے ہی ہوں، چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ مکھی کو اللہ تعالیٰ نے وحی کی کہ كُلِي مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ (النحل : ۷۰) حالانکہ ہرکھی سارے پھلوں کو
(129) دعوة الامير نہیں کھاتی.پس اس کے معنے یہی ہیں کہ پھلوں میں سے بعض کو کھا، اسی طرح ملکہ سبا کے متعلق فرماتا ہے وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ (النمل: ۲۴) اس کو ہر ایک چیز دی گئی تھی.حالانکہ وہ دنیا کے ایک نہایت مختصر علاقہ کی بادشاہ تھی.پس اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ دنیا کی نعمتوں میں سے کچھ اس کو دی تھیں.ہاں یہ ضروری ہوتا ہے کہ جب محل کا لفظ بولا جائے تو وہ اپنے اندر ایک عمومیت رکھتا ہو اور کل افراد میں سے ایک نمایاں حصہ اس میں آجائے اور یہ دونوں باتیں وبائے ہیضہ میں جو شہید مرحوم کی شہادت کے بعد کابل میں پڑی پائی جاتی تھیں.ہر ایک جان اس کے خوف سے لرزاں تھی اور ایک بڑی تعداد آدمیوں کی اس کے ذریعے ہلاک ہوئی ،حتی کہ ایک انگریز مصنف (Frank.A.Martin ملاحظه ہو 1907 Under the absolute Amir Published in) جو اس الہام کی حقیقت سے بالکل ناواقف تھا اُسے بھی اپنی کتاب میں اس ہیضے کا خاص طور پر نمایاں کر کے ذکر کرنا پڑا.دوسرا اعتراض یہ کیا جاسکتا ہے کہ الہام میں لفظ تُذْبَحَانِ کا ہے مگر ان دونوں مقتولوں میں ایک تو گلا گھونٹ کر مارا گیا اور دوسرے صاحب سنگسار کئے گئے.پس یہ بات درست نہ نکلی کہ دو آدمی ذبح کئے گئے یہ اعتراض بھی قلتِ تدبر اور قلت معرفت کا ہی نتیجہ ہو سکتا ہے.کیونکہ ذبح کے معنے عربی زبان میں ہلاک کرنے کے بھی ہوتے ہیں.خواہ کسی طرح ہلاک کیا جائے اور قرآن کریم میں متعدد جگہ پر یہ محاورہ استعمال ہوا ہے.جیسا کہ حضرت موسیٰ کے واقعہ میں آتا ہے کہ يُذَبِّحُوْنَ أَبْنَاءَ كُمْ وَ يَسْتَحْيُوْنَ نِسَاءَكُمْ (البقره: (۵۰) تمہارے لڑکوں کو وہ ذبح کرتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ رکھتے تھے.حالانکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ فرعونی لوگ لڑکوں کو ذبح نہیں کرتے تھے بلکہ پہلے تو
۲۸۰ دعوة الامير دائیوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ بچوں کو مار دیں مگر جب انہوں نے رحم دلی سے کام لیا تو دریا میں پھینکنے کا حکم فرعون نے دیا.خروج باب ۱ آیت ۲۲ بائبل سوسائٹی انارکلی لاہور ۱۹۹۴ء) تاج العروس میں ہے الذِّبْحُ الْهَلَالُ (تاج العروس جلد ۲ صفحہ ۱۳۴ از یر لفظ "ذبح ایڈیشن اول مطبوعہ مصر ۱۳۰۶ھ ) ذبح کے معنے ہلاک کر دینے کے بھی ہوتے ہیں.پس یہ اعتراض کرنا درست نہ ہوگا کہ سید عبد اللطیف صاحب سنگسار کئے گئے تھے ذبح نہیں کئے گئے.کیونکہ ذبح کا لفظ ہلاک کر دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.خواہ کسی طریق پر ہلاک کیا جائے.
(FAI) دوسری پیشگوئی سلطنت ایران کا انقلاب دعوة الامير دوسری پیشگوئی جو میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کثیر تعداد پیشگوئیوں میں سے بیان کرنی چاہتا ہوں وہ آپ کی ہمسایہ سلطنت یعنی ایران کے بادشاہ کے متعلق ہے.پندرہ جنوری ۱۹۰۶ ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا کہ " تزلزل در ایوان کسری فتاؤ.(تذکرہ صفحہ ۵۹۱.ایڈیشن چہارم) یہ الہام حسب معمول سلسلے کے اُردو اور انگریزی اخبارات ورسائل میں شائع کر دیا گیا.جس وقت یہ الہام شائع ہوا ہے بادشاہ ایران کی حالت بالکل محفوظ تھی کیونکہ ۱۹۰۵ء میں باشندگانِ ملک کے مطالبات کو قبول کر کے شاہ ایران نے پارلیمنٹ کے قیام کا اعلان کر دیا تھا اور تمام ایران میں اس امر پر خوشیاں منائی جارہی تھیں اور بادشاہ مظفرالدین شاہ مقبولیت عامہ حاصل کر رہے تھے.ہر شخص اس امر پر خوش تھا کہ انہوں نے بلا کسی قسم کی خونریزی کے ملک کو حقوق نیابت عطا کر دیئے ہیں، باقی دنیا میں بھی اس نئے تجربہ پر جو جاپان کو چھوڑ کر باقی ایشیائی ممالک کے لئے بالکل جدید تھا شوق و امید کی نظریں لگائے بیٹھی تھی اور ان خطرناک نتائج سے ناواقف تھی جو نیم تعلیم یافتہ اور ناتجربہ کارلوگوں میں اس قسم کی دو عملی حکومت رائج کرنے سے پیدا ہو سکتے ہیں ایسے وقت میں حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ الہام شائع کرنا کہ " تزلزل در ایوان کسری فتاؤ دنیا کی نظروں میں عجیب تھا مگر خدا تعالیٰ کے لئے وہ کام معمولی ہوتے ہیں جو لوگوں کو عجیب نظر آتے ہیں ایران اپنی تازہ
(۲۸۲ دعوة الامير آزادی پر اور شاہ مظفرالدین اپنی مقبولیت پر خوش ہورہے تھے کہ ۱۹۰۷ ء میں گل پچپی سال کی عمر میں شاہ اس دنیا سے رحلت کر گئے اور ان کا بیٹا مرزا محمد علی تخت نشین ہوا.گومحمد علی مرزا نے تخت پر بیٹھتے ہی مجلس کے استحکام اور نیابتی حکومت کے دوام کا اعلان کیا لیکن چند ہی دن کے بعد دنیا کو وہ آثار نظر آنے لگے جن کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں دی گئی تھی اور حضرت اقدس علیہ السلام کے الہام کے ایک ہی سال بعد ایران میں فتنہ وفساد کے آثار نظر آنے لگے، بادشاہ اور مجلس میں مخالفت شروع ہو گئی اور مجلس کے مطالبات پر بادشاہ نے لیت و لعل کرنا شروع کر دیا.آخر مجلس کے زور دینے پر ان افراد کو دربار سے علیحدہ کرنے کا وعدہ کیا جن کو مجلس فتنے کا بانی سمجھتی تھی ، مگر ساتھ ہی تہران سے جانے کا بھی ارادہ کر لیا.اس تغیر مکانی کے وقت کا سکوں کی فوج جو بادشاہ کی باڈی گارڈ تھی اور قوم پرستوں کے حمایتیوں کے درمیان اختلاف ہو گیا اور الہام ایک رنگ میں اس طرح پورا ہوا کہ ایران کا دار المبعوثین تو پوں سے اُڑا دیا گیا اور بادشاہ نے پارلیمنٹ کو موقوف کر دیا.بادشاہ کے اس فعل سے ملک میں بغاوت کی عام رو پھیل گئی اور لارستان، لابد جان، اکبر آباد، بوشہر اور شیر از اور تمام جنوبی ایران میں علی الاعلان حکام سلطنت کو برطرف کر کے اُن کی جگہ جمہوریت کے دلدادوں نے حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی، خانہ جنگی شروع ہوگئی اور بادشاہ نے دیکھ لیا کہ حالت نازک ہے خزانہ اور اسباب روس کے ملک میں بھیجنا شروع کر دیا اور پورا زور لگایا کہ بغاوت فرو ہومگر گھٹنے کی بجائے فساد بڑھتا گیا حتی کہ جنوری ۱۹۰۹ ء میں اصفہان کے علاقہ میں بھی بغاوت پھوٹ پڑی اور بختیاری سردار بھی قوم پرستوں کے ساتھ مل گئے اور شاہی فوج کو سخت شکست دی ، بادشاہ نے ڈرکر حکومت نیابتی کی حفاظت کا عہد کیا اور بار بار اعلان کئے کہ وہ استبدادی حکومت کو ہرگز
(۲۸۳ دعوة الامير قائم نہیں کرے گا مگر خدا کے وعدے کب ٹل سکتے تھے.ایوان کسریٰ میں گھبراہٹ بڑھتی گئی اور آخر وہ دن آگیا کہ کاسک فوج بھی جس پر بادشاہ کو ناز تھا بادشاہ کو چھوڑ کر باغیوں سے مل گئی اور بادشاہ اپنے حرم سمیت اپنے ایوان کو چھوڑ کر ۱۵ جولائی ۱۹۰۹ء کو روسی سفارت گاہ میں پناہ گزیں ہو گیا اور پورے اڑھائی سال کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود کا الہام ” تزلزل در ایوان کسری فتاد نہایت عبرت انگیز طور پر پورا ہوا.ایران سے استبدادیت کا خاتمہ ہو گیا اور جمہوریت کا نیا تجربہ جس کے نتائج خدا کو معلوم ہیں شروع ہوا.جون اور جولائی کے مہینوں میں گھبراہٹ ، خوف اور پاس کے بادل جو ایوان کسری پر چھا رہے تھے ان کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس قسم کے حالات کا مشاہدہ کر چکے ہوں، یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کو غیر معمولی قوت متخیلہ ملی ہو.مگر بہر حال صاحب بصیرت کے لیے یہ نشان حضرت اقدس علیہ السلام کی سچائی کا بہت بڑا ثبوت ہے مگر کم ہیں جو فائدہ اُٹھاتے ہیں.
۲۸۴ دعوة الامير تیسری پیشگوئی آتھم کے متعلق پیشگوئی جس سے دنیا کے مسیحیوں پر عموماً اور ہندوستان کے مسیحیوں پر خصوصا لجت پوری ہوئی پر تیسری مثال پیشگوئیوں کی میں اُن امور غیبیہ میں سے بیان کرتا ہوں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مسیحی معاندین اسلام کے خلاف شائع کیں تا کہ مسیحی دنیا پر حجت قائم ہو.اے بادشاہ ! میں نہیں جانتا کہ آپ کو ان حالات سے واقفیت ہے یا نہیں کہ مسیحی مناد اور مبلغ مسلمانوں کے غلط عقائد اور ان کے بیان کردہ غلط روایات سے فائدہ اٹھا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سخت سے سخت حملے کرنے کے عادی ہیں مگر اُن کے حملوں کی سختی آج سے تیس چالیس سال پہلے جس حد کو پہنچی ہوئی تھی اس کی مثال آج کل نہیں مل سکتی.ان لوگوں کی حد سے بڑھی ہوئی زبان درازی کو دیکھ کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت زور سے ان کا مقابلہ کرنا شروع کیا اور آخر آپ کے حملوں کی تاب نہ لا کر مسیحی حملہ آور اپنے مقام کو چھوڑ گئے اور اب اس طرز تحریر کا نام نہیں لیتے جو اس وقت انہوں نے اختیار کر رکھی تھی ان لوگوں میں سے جو سخت گندہ دہانی سے کام لیتے تھے ایک صاحب ڈپٹی عبد اللہ آتھم بھی تھے ایک دفعہ ایسا ہوا کہ مسلمانوں اور مسیحیوں نے حضرت اقدس علیہ السلام اور ان کے درمیان امرتسر میں مباحثہ کر وا دیا.مباحثہ میں عبد اللہ آتھم صاحب بہت کچھ ہاتھ پیر مارتے رہے مگر اُن سے کچھ نہ بنا اور اپنوں پرایوں میں اُن کو بہت ذلّت نصیب ہوئی.چونکہ دوران مباحثہ میں معجزات کا بھی ذکر آیا تھا اس لئے اللہ
(FAQ) دعوة الامير تعالیٰ نے نہ چاہا کہ یہ مباحثہ بغیر کسی اعجاز کے خالی چلا جائے اور آپ کو الہاما بتا یا گیا کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور بچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہیں دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہادیہ میں گرایا جاوے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.( جنگ مقدس صفحہ ۲۱۰ ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۹۲) جب آخری پر چہ آپ کی طرف سے لکھا گیا تو اس میں آپ نے یہ پیشگوئی بھی شامل کر دی اور لکھا کہ اگر یہ پیشگوئی پوری ہو گئی تو اس سے ثابت ہوگا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کو تم نے اپنی کتاب ” اندرونہ بائیبل میں نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِكَ دقبال لکھا ہے خدا کے فرستادہ اور رسول تھے.اس پیشگوئی میں دو باتیں بتائی گئی تھیں، اول یہ کہ مسیح علیہ السلام کو خدا بنانے والا فریق ڈپٹی آتھم پندرہ ماہ کے اندرا اپنی ضد اور تعصب کی وجہ سے اور بدگوئی کے سبب سے ہاویہ میں گرایا جاوے گا.دوم یہ کہ اگر یہ فریق حق کی طرف رجوع کرے اور اپنی بات پر پشیمان ہو اور اپنی غلطی کو سمجھ جائے تو اس صورت میں وہ اس عذاب سے بچایا جائے گا.اگر دوسرا فریق حق کی طرف رجوع نہ کرتا اور اپنی ضد پر قائم رہتا اور ہلاک نہ ہوجاتا تو پیشگوئی غلط ہو جاتی اور اگر وہ رجوع کرتا اور پندرہ ماہ کے عرصہ میں مرجاتا تو بھی پیشگوئی جھوٹی ہو جاتی کیونکہ یہ پیشگوئی بتا رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آتھم کی عمر پندرہ ماہ سے زائد ہے اسی صورت میں وہ پندرہ ماہ کے عرصے میں مرے گا جبکہ وہ ضد پر قائم رہے.ایک ادنیٰ غور سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اس پیشگوئی کی دونوں صورتوں میں سے دوسری صورت کے دونوں پہلو پہلی صورت کے دونوں پہلوؤں سے زیادہ شاندار ہیں کیونکہ پہلی صورت کے دو
(PAY) دعوة الامير پہلو یہ تھے کہ اگر آتھم ضد پر قائم رہا تو پندرہ ماہ میں مرجائے گا اور آتھم کا ضد پر قائم رہنا ایک طبعی امر تھا کیونکہ مسیحیوں کا ایک بڑا عالم تھا، متعدد کتب مسیحیت کی تائید میں اور اسلام کے خلاف لکھ چکا تھا، دنیاوی حیثیت سے بھی نہایت معزز تھا اور انگریزوں کے ساتھ اس کے بہت سے تعلقات تھے.اس عظیم الشان مباحثہ میں تمام پادریوں کو چھوڑ کر اسے مقابلہ کے لیے منتخب کیا گیا تھا اور بڑے بڑے پادری اس کے مددگار اور نائب بنے تھے.پس ایسے شخص کی نسبت یہی خیال ہو سکتا ہے کہ اس کو میسحیت پر کامل یقین تھا اور یہ کہ وہ مسیحیت کی اس قدر تائید کرنے اور اُس کا سب سے بڑا مناظر قرار پانے کے بعد مسیح کی خدائی کا ایک منٹ کے لئے بھی منکر نہ ہوگا اور کبھی اسلام کی معجزانہ طاقت کا خیال اپنے دل میں نہیں آنے دے گا اور یہ بات کہ اس صورت میں وہ پندرہ ماہ میں مرجاوے گا گواپنی ذات میں شاندار ہے مگر پھر بھی ایک پینسٹھ سال کی عمر کے آدمی کی نسبت شبہ کیا جا سکتا تھا کہ شاید اس کی عمر ہی پوری ہو چکی ہو مگر اُن کے مقابلے میں دوسری صورت کے دونوں پہلو زیادہ شاندار ہیں یعنی یہ کہ اگر وہ رجوع کرلے گا تو پندرہ ماہ کے اندر ہادیہ موت میں نہیں گرایا جائے گا.اس صورت کا پہلا پہلو بھی کہ آتھم رجوع کرلے اس بات سے کہ وہ اپنی ضد پر قائم رہے زیادہ شاندار ہے کیونکہ کسی انسان کی موت تو انسانوں کے ہاتھوں سے بھی آسکتی ہے مگر کسی کو پندرہ ماہ تک زندہ رکھنا کسی کے اختیار میں نہیں ہے پس اگر دوسری صورت پیشگوئی کی پوری ہوتی تو وہ پہلی صورت کے پورے ہونے کی نسبت بہت شاندار ہوتی اور اللہ تعالیٰ نے جس کے آگے کوئی بات نا ممکن نہیں اس دوسرے پہلو کو ہی جو زیادہ مشکل تھا اختیار کیا یعنی اس نے اپنا رُعب اس کے دل پر ڈال دیا اور پہلا اثر اس پیشگوئی کا یہ ظاہر ہوا کہ آتھم نے عین مجلس مباحثہ میں اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ
(۲۸۷) دعوة الامير وسلم کو دجال نہیں کہتا ہے.اس پیشگوئی کے شائع ہونے کے بعد تمام ہندوستان کی نظریں اس طرف لگ گئیں کہ دیکھئے اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے پندرہ ماہ کا انتظار نہیں کروایا، اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے وقت سے ہی آتھم کی حالت بدلنی شروع ہوگئی اور اُس نے مسیحیت کی تائید میں کتب و رسالہ جات لکھنے کا کام بالکل بند کر دیا.ایک مشہور مبلغ اور مصنف کا اپنے کام کو بالکل چھوڑ دینا اور خاموش ہو کر بیٹھ جانا معمولی بات نہ تھی بلکہ بین دلیل تھی اس امر کی کہ اُس کا دل محسوس کرنے لگ گیا ہے کہ اسلام سچا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے میں اس نے غلطی کی ہے مگر خاموشی پر ہی اس نے بس نہ کی بلکہ ایک روحانی ہاویہ میں گرایا گیا یعنی اس خیال کا اثر کہ اس نے اس مقابلے میں غلطی کی ہے اس قدر گہرا ہوتا چلا گیا کہ اسے عجیب عجیب قسم کے نظارے نظر آنے لگے جیسا کہ اس نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے بیان کیا کبھی تو اُسے سانپ نظر آتے جو اسے کاٹنے کو دوڑتے کبھی گتے اُسے کاٹنے کو دوڑتے اور کبھی نیزہ بردار لوگ اس کے خیال میں اس پر حملہ آور ہوتے.حالانکہ نہ تو سانپ اور گتے اس طرح سدھائے جاسکتے ہیں کہ وہ خاص طور پر عبد اللہ آتھم کو جا کر کائیں اور نہ ہندوستان میں اسلحہ کی عام آزادی ہے کہ لوگ نیزے لیکر شہروں کی سڑکوں پر کھڑے رہیں تا کہ عبداللہ آتھم کو مار دیں.در حقیقت یہ ایک ہاویہ تھی جو اس پشیمانی کی وجہ سے جو اس کے دل میں مسیحیت کی حمایت اور اسلام کے خلاف کھڑے ہونے کے متعلق پیدا ہو چکی تھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بڑی ہاویہ کے بدلے میں پیدا کی گئی تھی جس میں بصورت ضد پر قائم رہنے کے وہ ڈالا جاتا اگر فی الواقع اس کا ایمان مسیحیت پر قائم رہتا اور اسلام کو وہ اسی طرح جھوٹا سمجھتا جس طرح کہ پہلے جھوٹا سمجھتا تھا تو کس طرح ممکن تھا کہ وساوس اور خطرات کی اس جہنم میں پڑ جاتا اور جانوروں اور کیڑوں تک کو اپنا دشمن سمجھ لیتا
۲۸۸ دعوة الامير اور خیالی سانپ اور کتے اُسے کاٹنے کو دوڑتے.اگر وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے خلاف نہیں سمجھنے لگ گیا تھا تو کیوں اُسے خدا کی تمام مخلوق اپنے خلاف کھڑی نظر آتی تھی اور وہ مسیحیت کی قلمی اور زبانی ہر قسم کی مدد کا کام یک لخت ترک کر کے شہروں میں بھاگتا پھرا.غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام میں جو دوسری شق رجوع الی الحق کی بتائی تھی اور جو کہ پہلی شق سے زیادہ مشکل تھی وہ عجیب طور پر پوری ہوئی اور آتھم کا دل مسیح کی خدائی میں شک لانے لگ گیا اور اسلام کی سچائی کا نقش اس کے دل پر جم گیا ، تب اللہ تعالیٰ کی خبر کا دوسرا حصہ بھی پورا ہوا.یعنی باوجود اس کے کہ اسے اندرونی خوف نے موت کے بالکل قریب کر دیا تھا، پندرہ ماہ تک زندہ رکھا گیا تا کہ اللہ تعالیٰ کی بات پوری ہو کہ اگر اس نے رجوع کیا تو وہ بچایا جائے گا.یہ ایک زبردست پیشگوئی تھی جو لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھی لیکن اگر یہ خاموشی سے گزرجاتی تو شاید کچھ مدت کے بعد لوگ کہہ دیتے کہ آتھم نے کوئی رجوع نہ کیا تھا.یہ آپ لوگوں کی بناوٹ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کی مزید وضاحت کے لئے مسیحیوں اور مسلمانوں میں سے ایک گروہ کو کھڑا کر دیا جو ایک مسیحی کی حمایت میں شور کرنے لگے کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی اور آتھم نہیں مرا.اس پر اُن کو بتایا گیا کہ پیشگوئی کی دوصورتیں تھیں، اُن میں سے دوسری صورت وضاحت سے پوری ہوگئی ہے مگر انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ آتھم نے ہرگز رجوع نہیں کیا اس پر آتھم کو حضرت اقدس نے دعوت دی کہ اُس کے مسیحی اور مسلمان وکیل جو کچھ کہ رہے ہیں اگر سچ ہے تو اسے چاہئیے کہ قسم کھا کر اعلان کرے کہ اس کے دل میں اس عرصے میں اسلام کی صداقت اور مسیحی عقائد کے باطل ہونے کے خیالات نہیں آئے ،مگر اس نے قسم کھانے سے انکار کر دیا ہاں ہل قسم کے ایک
۲۸۹ دعوة الامير اعلان کر دیا کہ میں اب بھی مسیحی مذہب کو سچا سمجھتا ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے جس کا دلوں اور دماغوں پر تصرف ہے اُس کے انہیں اعلانات میں اس کے قلم سے یہ نکلوا دیا کہ میں مسیح کو دوسرے مسیحیوں کی طرح خدا نہیں سمجھتا اور جیسا کہ الہام کے الفاظ او پر نقل کئے گئے ہیں پیشگوئی یہ تھی کہ جو ایک بندے کو خدا بنارہا ہے وہ ہادیہ میں گرایا جاوے گا اور آتھم نے اقرار کر لیا کہ وہ مسیح کو خدا نہیں سمجھتا مگر پھر بھی اس پر زور دیا گیا کہ اگر وہ فی الحقیقت ان ایام میں اپنے مذہب کی سچائی کے متعلق متردد نہیں ہوا اور اسلام کی صداقت کا احساس اُس کے دل میں نہیں پیدا ہوگیا تھا تو وہ قسم کھا کر اعلان کر دے کہ میں ان ایام میں برابرا نہیں خیالات پر قائم رہا ہوں جو اس سے پہلے میرے تھے.اگر وہ قسم کھا جائے اور ایک سال تک اُس پر عذاب الہی نہ آئے تو پھر ہم جھوٹے ہوں گے اور یہ بھی لکھا کہ اگر آٹھ قسم کھا جائے تو اسے ہم ایک ہزار روپیہ بھی انعام دیں گے.اس کا جواب آتھم نے یہ دیا کہ اُس کے مذہب میں قسم کھانی جائز نہیں حالانکہ انجیل میں حواریوں کی بہت سی قسمیں درج ہیں اور سیحی حکومتوں میں کوئی بڑا عہدہ دار نہیں جسے بغیر قسم کھانے کے عہدہ دیا جائے یہاں تک کہ بادشاہ کو بھی قسم دی جاتی ہے، جوں کو بھی قسم دی جاتی ہے اور ممبران پارلیمنٹ کو بھی قسم دی جاتی ہے، عہدیداران سول و فوج کو بھی قسم دی جاتی ہے اور عدالتوں میں گواہوں کو بھی قسم دی جاتی ہے بلکہ مسیحی عدالتوں کا تو یہ قانون ہے کہ انہوں نے قسم کو صرف مسیحیوں کے لیے مخصوص کر دیا سوائے مسیحیوں کے دوسروں سے وہ قسم نہیں لیتیں بلکہ گواہی کے وقت یہ کہلواتی ہیں کہ میں جو کچھ کہوں گا خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہوں گا.پس جبکہ مسیحیوں کے نزدیک قسم صرف مسیحیوں کا حق ہے تو اس کا یہ عذر بالکل نامعقول تھا اور صرف قسم سے بچنے کے لئے تھا کیونکہ وہ اُن ہیبت ناک نظاروں کو پہلے دیکھ چکا تھا جو اس کو یقین دلا رہے تھے
(ra.) دعوة الامير کہ اگر اُس نے قسم کھائی تو وہ ہلاک ہو جائے گا اس شخص کے قسم کھانے سے انکار کرنے کی حقیقت اور بھی واضح ہو جاتی ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسیحیوں میں کوئی بڑا مذہبی عہدہ انہیں دیا جاتا جب تک کہ امید وار قسم نہیں کھالیتا اور پراٹسٹنٹ فرقہ کے پادریوں کو تو جس سے آتھم تعلق رکھتا تھا دو قسمیں کھانی پڑتی ہیں ایک گر جا سے وفاداری کی اور ایک حکومت سے وفاداری کی.جب اس کے سامنے یہ باتیں رکھی گئیں تو پھر وہ بالکل ہی خاموش ہو گیا.ادھر سے انعام کی رقم ایک ہزار سے بڑھا کر آہستہ آہستہ چار ہزار تک کر دی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ سال بھر کا انتظار کئے بغیر ہی یہ رقم لے لو اور قسم کھا جاؤ مگر جبکہ اس کا دل جانتا تھا کہ وہ اپنی قوم سے ڈر کر اپنی اس حالت کو چھپا رہا ہے جو پندرہ ماہ تک اس پر طاری رہی ہے تو وہ قسم کیونکر کھا سکتا تھا.اس نے قسم نہ کھائی پر نہ کھائی اور خاموشی سے دن گزار دیئے اور اسلام کے خلاف کتابیں لکھنا یا زبانی مسیحیت کی تبلیغ کرنا بالکل چھوڑ دیا اور اسی طرح اس پیشگوئی کی صداقت اور بھی واضح ہوگئی اور گویا اس ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے دشمن سے مسیح کی خدائی کے عقیدے سے رجوع کا تحریراً اقرار کرالیا اور اسلام کی صداقت کے متعلق اس کے دل میں جو خیالات (حالانکہ اسی مباحثے میں جس کے بعد پیشگوئی کی گئی تھی اس نے ایک پرچے میں مسیح کی خدائی اور تمام صفات الہیہ کو اس کی ذات میں ثابت کرنے کی کوشش کی تھی ) پیدا ہوئے تھے اُن کا اقرار اس کے اس رویہ کے ذریعے کروادیا جو قسم کے مطالبے پر اُس نے اختیار کیا.یہ پیشگوئی اپنی عظمت اور شوکت میں ایسی ہے کہ ہر ایک سعید الفطرت انسان اس کے ذریعے سے ایمان میں ترقی کر سکتا ہے اور خدا کے جلوے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ا انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا
دعوة الامير (rai) ہے کیونکہ ایک اشد ترین مخالف اسلام اور بڑی قوم کے سرکردہ ممبر کا جو دوسرے مذاہب کے خلاف بطور مناظر کے پیش کیا گیا ہو اور جس کی عمر اپنے مذہب کی تائید اور دوسرے مذاہب کی مخالفت میں گزر گئی ہو اس کے دل میں اپنے مذہب کی نسبت شکوک اور دوسرے مذاہب کی صداقت کے خیالات پیدا کر دینا اور فوق العادت نظارے اسکو دکھلانا اور تبدیلی خیالات کے بدلے میں مطابق پیشگوئی اس کو پندرہ ماہ تک زندہ رکھنا انسانی طاقت سے بالکل باہر ہے.****
۲۹۲ دعوة الامير چوتھی پیشگوئی ڈوئی امریکہ کے جھوٹے مدعی کی نسبت پیشگوئی جو مسیحیوں کیلئے عموماً اور امریکہ کے باشندوں کیلئے خصوصا لمحت ہوئی اب میں ایک اور پیشگوئی جو مسیحیوں پر حجت قائم کرنے کے لئے کی گئی تھی مگر اس میں زیادہ تر مغربی ممالک کے لوگوں پر حجت تمام کر نامہ نظر تھا بیان کرتا ہوں.الیگزنڈر ڈوئی (Alexander Dowie) امریکہ کا ایک مشہور آدمی تھا.یہ شخص اصل میں آسٹریلیا کا رہنے والا تھا وہاں سے امریکہ چلا گیا.۱۸۹۲ء میں اس نے مذہبی وعظ کہنے شروع کئے اور جلد ہی اس دعوے کی وجہ سے کہ اُسے ہلا علاج کے شفا بخشنے کی طاقت ہے اس نے مقبولیت عامہ حاصل کرنی شروع کر دی ۱۹۰۱ء میں اس نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ مسیح کی آمد ثانی کے لیے بطور ایلیاہ کے ہے اور اس کا راستہ صاف کرنے آیا ہے.چونکہ علامات ظہور مسیح کے پورا ہونے کی وجہ سے مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مسیح کی آمد کا انتظار لگ رہا تھا اس دعوے سے اس کو بہت ترقی ہوئی.اس نے ایک زمین خرید کر اس پر صحون نامی ایک شہر بسایا اور اعلان کیا کہ مسیح اسی شہر میں اُتریں گے.بڑے بڑے مالدار لوگوں نے سب سے پہلے مسیح کو دیکھنے کی غرض سے لاکھوں روپیہ کے خرچ سے زمین خرید کر وہاں مکان بنوائے اور یہ اس شہر میں ایک بادشاہ کی طرح رہنے لگا.اس کے مرید تھوڑے ہی عرصے میں ایک لاکھ سے زیادہ بڑھ گئے اور تمام بلا دمسیحیہ میں اس کے مناد تبلیغ کے لیے مقرر کئے گئے.اس شخص کو اسلام سے سخت عداوت تھی اور ہمیشہ اسلام کے
۲۹۳ دعوة الامير خلاف سخت کلامی کرتا رہتا تھا.۱۹۰۲ ء میں اس نے شائع کیا کہ اگر مسلمان مسیحیت کو قبول نہ کریں گے تو وہ سب کے سب ہلاک کر دیئے جائیں گے.اس پیشگوئی کی خبر حضرت اقدس مسیح موعود کو ملی تو آپ نے فوراً اس کے خلاف ایک اشتہار شائع کیا جس میں اسلام کی فضیلت بیان کرتے ہوئے لکھا کہ مسیحیت کی صداقت ظاہر کرنے کے لیے کروڑوں آدمیوں کو ہلاک کرنے کی کیا ضرورت ہے میں خدا کی طرف سے مسیح کر کے بھیجا گیا ہوں مجھ سے مباہلہ کر کے دیکھ لو اس سے بچے اور جھوٹے مذہب کا فیصلہ ہو جائے گا اور لوگوں کو فیصلہ کرنے میں مدد ملے گی.ریویوآف ریلیجر ستمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۳۴۲تا۳۴۵(مفہوم) یہ اشتہار آپ کا ستمبر ۱۹۰۲ء میں شائع کیا گیا اور اس کثرت سے یورپ اور امریکہ میں شائع کیا گیا کہ دسمبر ۱۹۰۲ء سے لے کر ۱۹۰۳ ء کے اختتام تک اس اشتہار پر مختلف اخبارات امریکہ و یورپ میں ریویو چھپتے رہے.جن میں سے تقریباً چالیس اخبارات نے تو اپنے پرچے یہاں بھی بھیجے.اس قدر اخبارات میں اشتہار کی اشاعت سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کم سے کم ہیں پچھتیس لاکھ آدمیوں کو اس دعوت مباہلہ کا علم ہو گیا ہوگا.اس اشتہار کا ڈوئی نے جواب تو کوئی نہ دیا، اسلام کے خلاف بددعائیں کرنا شروع کر دیں اور اس پر سخت حملے شروع کر دیئے.۱۴ / فروری سم کو اس نے شائع کیا کہ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آوے کہ اسلام دنیا سے نابود ہو جاوے.اے خُدا! تو ایسا ہی کر اے خدا ! اسلام کو ہلاک کر دے.پھر ۵ / اگست ۱۹۰۳ ء میں شائع کیا کہ انسانیت پر اس سخت بد نما دھبے (اسلام) کو صیحون ہلاک کر کے چھوڑے گا.“ جب حضرت اقدس نے دیکھا کہ یہ شخص اپنی مخالفت سے باز نہیں آتا تو آپ نے ۱۹۰۳ ء میں ان ڈوئی کے اخبار میں جو میحون سے شائع ہوتا تھا.
۲۹۴ دعوة الامير ایک اور اشتہار دیا جس کا نام تھا ” ڈوئی اور پگٹ کے متعلق پیشگوئیاں“.اس اشتہار میں آپ نے لکھا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت اس لئے بھیجا ہے تا کہ اس کی توحید کو قائم کروں اور شرک کو مٹا دوں اور پھر لکھا کہ امریکہ کے لئے خدا نے مجھے یہ نشان دیا ہے کہ اگر ڈوئی میرے ساتھ مباہلہ کرے اور میرے مقابلہ پر خواہ صراحتا یا اشار کا آجائے تو وہ ”میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دُکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے گا“.اس کے بعد لکھا کہ ڈوئی کو میں نے پہلے بھی دعوت مباہلہ دی تھی مگر اس نے اب تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا اس لئے آج سے اس کو سات ماہ کی جواب کے لئے مہلت دی جاتی ہے پھر لکھا ہے کہ ”پس یقین رکھو کہ اس کے صحون پر جلد ایک آفت آنے والی ہے.آخر میں ہلا اس کے جواب کا انتظار کئے دُعا کی کہ اے خدا یہ فیصلہ جلد تر کر کہ پگٹ اور ڈوئی کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کر دے.یہ اشتہار بھی کثرت سے بلا د مغربیہ میں تقسیم کیا گیا اور یورپ اور امریکہ کے متعدد اخبارات مثلاً گلاسگو ، ہیرلڈ انگلستان ، نیویارک کمرشل ایڈورٹائز رامریکہ وغیر ہانے اس کے خلاصے اپنے اخبارات میں شائع کئے اور لاکھوں آدمی اس کے مضمون پر مطلع ہو گئے.جس وقت یہ اشتہار شائع ہوا ہے اس وقت ڈوئی کا ستارہ بڑے عروج پر تھا اُس کے مریدوں کی تعداد بہت بڑھ رہی تھی اور وہ لوگ اس قدر مالدار تھے کہ ہر نئے سال کے شروع میں تیس لاکھ روپیہ کے تحائف اس کو پیش کرتے تھے اور کئی کارخانے اس کے جاری تھے.چھ کروڑ کے قریب اس کے پاس روپیہ تھا اور بڑے بڑے نوابوں سے زیادہ اس کا عملہ تھا اس کی صحت ایسی اچھی تھی کہ وہ اس کو اپنا معجزہ قرار دیتا تھا اور کہتا تھا کہ میں دوسروں کو بھی اپنے حکم سے اچھا کر سکتا ہوں.غرض مال ،صحت ، جماعت ، اقتدار ان
چاروں باتوں سے اس کو حصہ وافر ملا تھا.۲۹۵ دعوة الامير اس اشتہار کے شائع ہونے پر لوگوں نے اس سے سوال کیا کہ وہ کیوں آپ کے اشتہارات کا جواب نہیں دیتا تو اس نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ” تم فلاں فلاں بات کا جواب کیوں نہیں دیتے.جواب ! کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان کیڑوں مکوڑوں کا جواب دوں گا ، اگر میں اپنا پاؤں ان پر رکھوں تو ایک دم میں ان کو کچل سکتا ہوں مگر میں ان کو موقع دیتا ہوں کہ میرے سامنے سے دور چلے جائیں اور کچھ دن اور زندہ رہ لیں“.انسان بعض دفعہ کیسی نادانی کر لیتا ہے.ڈوئی نے مقابلے سے انکار کرتے ہوئے مقابلہ کر لیا.اُس نے غور نہ کیا کہ حضرت اقدس نے صاف لکھ دیا تھا کہ اگر یہ اشارتا بھی میرے مقابل پر آئے گا تو دُکھ کے ساتھ میری زندگی میں ہلاک ہو گا اُس نے آپ کو کیڑا قرار دیگر یہ کہہ کر اگر میں اس پر اپنا پاؤں رکھ دوں تو کچل دوں اپنے آپ کو آپ کے مقابلے پر کھڑا کر دیا اور خدا کے عذاب کو اپنے اوپر نازل کرالیا.مگر اس کی سرکشی اور تکبر یہیں پر ختم نہ ہوا اس نے کچھ دن بعد آپ کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی نسبت یہ الفاظ استعمال کئے.” بیوقوف محمدی مسیح اور یہ بھی لکھا کہ اگر میں خدا کی زمین پر خدا کا پیغمبر نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں.اور دسمبر ۱۹۰۳ء کوتو گھلا گھلا مقابلے پر آکھڑا ہوا اور اعلان کیا کہ ایک فرشتے نے مجھ سے کہا ہے کہ تو اپنے دشمنوں پر غالب آئے گا گویا حضرت اقدس کی پیشگوئی کے مقابلے میں آپ کی ہلاکت کی پیشگوئی شائع کر دی.یہ اس کا مقابلہ جو پہلے اشار تا شروع ہوا اور آہستہ آہستہ صراحت کی طرف آتا گیا جلد پھل لے آیا اور اس آخری حملے کے بعد چونکہ وہ مقابل پر آ گیا تھا، حضرت اقدس مسیح انے ڈوئی کا اخبار
(ray) دعوة الامير موعودؓ نے اس کے خلاف لکھنا چھوڑ دیا اور فَانتَظِرُ إِنَّهُمْ مُنْتَظِرُونَ ہ کے حکم کے مطابق خدائی فیصلے کا انتظار کرنا شروع کر دیا.آخر اللہ تعالیٰ نے جو پکڑنے میں دھیما ہے مگر جب پکڑتا ہے تو سخت پکڑتا ہے اپنا ہاتھ اُس کی طرف بڑھایا اور وہ پاؤں جن کو وہ اس کے مسیح پر رکھ کر کچلنا چاہتا تھا اس نے معطل کر دیئے اس کے مسیح پر پاؤں رکھنے کی طاقت تو اسے کہاں مل سکتی تھی وہ اُن پاؤں کو زمین پر رکھنے کے قابل بھی نہ رہا یعنی خدا کا غضب فالج کی شکل میں اس پر نازل ہوا.کچھ دن کے بعد افاقہ ہو گیا مگر دو ماہ بعد ۱۹ ؍ دسمبر کو دوسرا حملہ ہوا اور اس نے رہی سہی طاقتیں بھی توڑ دیں.جب وہ بالکل لاچار ہو گیا تو اس نے اپنا کام اپنے نائبوں کے سپرد کیا اور خود ایک جزیرہ میں جس کی آب و ہوا فالج کے لیے اچھی تھی بود و باش اختیار کر لی.مگر اللہ تعالیٰ کے غضب نے اس کو اب بھی نہ چھوڑا اور چاہا کہ جس طرح اُس نے اس کے مسیح کو کیڑا کہا تھا اس کو کیڑے کی طرح ثابت کر کے دکھائے اور وہ چیزیں جن پر گھمنڈ کر کے اس نے یہ جرأت کی تھی انہیں کے ذریعے اسے ذلیل کرے.چنانچہ ایسا ہوا کہ اُس کے بیمار ہو کر چلے جانے پر اس کے مریدوں کے دل میں شک پیدا ہوا کہ یہ تو اوروں کو دعا سے نہیں بلکہ اپنے حکم سے اچھا کرتا تھا، یہ خود ایسا کیوں بیمار ہوا اور انہوں نے اُسکے بعد اُس کے کمروں کی جن میں وہ اور کسی کو جانے نہیں دیتا تھا تلاشی لی تو اس میں سے شراب کی بہت سی بوتلیں نکلیں اور اس کی بیوی اور لڑکے نے گواہی دی کہ وہ چُھپ کر خوب شراب پیا کرتا تھا حالانکہ وہ اپنے مریدوں کو سختی سے شراب پینے سے روکتا تھا اور کسی نشہ کی چیز کی اجازت نہیں دیتا تھا حتی کہ تمباکو نوشی سے بھی منع کرتا تھا اور اس کی بیوی نے کہا کہ میں اس کی سخت غربت کے ایام میں بھی وفادار رہی ہوں مگر اب مجھے یہ معلوم کر کے سخت افسوس ہوا ہے کہ اُس نے ایک مالدار بُڑھیا سے شادی کرنے کی خاطر یہ نیا مسئلہ بیان
(+92) دعوة الامير کرنا شروع کیا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں جائز ہیں درحقیقت اس مسئلہ کی تہہ میں اس کا اپنا ارادہ شادی کا ہے چنانچہ اس نے اس بڑھیا کے خطوط جو ڈوئی کے خطوں کے جواب میں آئے تھے لوگوں کو دکھائے.اس پر لوگوں کا غصہ اور بھی بھڑ کا اور جماعت کے اس روپیہ کا حساب دیکھا گیا جو اس کے پاس رہتا تھا اور معلوم ہوا کہ اُس نے اُس میں سے پچاس لاکھ روپیہ بین کر لیا ہے اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ شہر کی کئی نوجوان لڑکیوں کو اس نے خفیہ طور پر ایک لاکھ سے زائد روپیہ کے تحائف دیئے ہیں اس پر اس جماعت کی طرف سے اُسے ایک تار دیا گیا جس کے الفاظ یہ ہیں تمام جماعت بالا تفاق تمہاری فضول خرچی ، ریا کاری ، غلط بیانی ، مبالغہ آمیز کلام، لوگوں کے مال کے ناجائز استعمال ، ظلم اور غصب پر سخت اعتراض کرتی ہے اس واسطے تمہیں تمہارے عہدے سے معطل کیا جاتا ہے.“ ڈوئی ان الزامات کی تردید نہ کر سکا اور آخر سب مرید اس کے مخالف ہو گئے.اُس نے چاہا کہ خود اپنے مریدوں کے سامنے آکر اُن کو اپنی طرف مائل کرے مگر سٹیشن پر سوائے چند لوگوں کے کوئی اس کے استقبال کو نہ آیا اور کسی نے اس کی بات کی طرف توجہ نہ کی.آخر وہ عدالتوں کی طرف متوجہ ہوا مگر وہاں سے بھی اس کو قومی فنڈ پر قبضہ نہ ملا اور صرف ایک قلیل گزارہ دیا گیا اور اس کی حالت ناچاری کی یہاں تک پہنچ گئی کہ اس کے حبشی نوکر اس کو اٹھا اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پر رکھتے تھے اور سخت تکلیف اور دُکھ کی زندگی وہ بسر کرتا تھا.اُس کی تکلیف اور دُکھ کو دیکھ کر اس کے دو چار ملنے والوں نے جو ابھی تک اس سے ملتے تھے اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنا علاج کروائے ، مگر وہ علاج کرانے سے اس بناء پر انکار کرتا رہا کہ لوگ کہیں گے کہ یہ لوگوں کو تو علاج سے منع کرتا تھا اور خود علاج کراتا ہے.آخر جبکہ اس کے ایک لاکھ سے زیادہ مریدوں میں سے صرف دوسو کے قریب باقی رہ گئے
۲۹۸ دعوة الامير اور عدالتوں میں بھی ناکامی ہوئی اور بیماری کی بھی تکلیف بڑھ گئی تو ان تکالیف کو برداشت نہ کر سکا اور پاگل ہو گیا اور ایک دن اُس کے چند مرید جب اس کا وعظ سننے کے لئے گئے تو انہوں نے دیکھا کہ اس کے تمام جسم پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں.اُس نے ان سے کہا کہ اس کا نام جیری ہے اور وہ ساری رات شیطان سے لڑتا رہا ہے اور اس جنگ میں اس کا جرنیل مارا گیا ہے اور وہ خود بھی زخمی ہو گیا ہے اس پر ان لوگوں کو یقین ہو گیا کہ یہ شخص بالکل پاگل ہو گیا ہے اور وہ بھی اس کو چھوڑ گئے اور حضرت اقدس کے یہ الفاظ کہ وہ ” میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دُکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے گا.“ آٹھ مارچ ۱۹۰۴ ء کو پورے ہو گئے یعنی ڈوئی حسرت اور دُکھ کے ساتھ اس دنیا سے کوچ کر گیا اس کی موت کے وقت اس کے پاس صرف چار آدمی تھے اور اس کی پونچھی کل تیس روپے کے قریب تھی.اے بادشاہ! اس سے بڑھ کر حسرت اور اس سے بڑھ کر دُکھ کی کیا کوئی اور موت ہو سکتی ہے؟ یقینا یہ ایک عبرت انگیز واقعہ ہے اور اہلِ مغرب کے لیے گھلا گھلا نشان.چنانچہ بہت سے اخبارات نے اس امر کو تسلیم کیا کہ حضرت اقدس کی پیشگوئی پوری ہو گئی ہے اور وہ ایسا کرنے پر مجبور تھے.مثال کے طور پر میں چند اخبارات کے نام لکھ دیتا ہوں.ڈونول گزٹ (Dunnville Gazette)امریکن اخبار اس واقعہ کا ذکر کے لکھتا ہے.اگر احمد اور ان کے پیرو اس پیشگوئی کے جو چند ماہ ہوئے پوری ہوگئی ہے نہایت صحت کیساتھ 66 پورا ہونے پر فخر کریں تو اُن پر کوئی الزام نہیں.کے جون ۱۹۰۴ء امریکہ کا اخبار رتھ سیکر (۱۵ جون ۱۹۰۴ء) لکھتا ہے: ” ظاہری واقعات چیلنج کر نے والے کے زیادہ دیر تک زندہ رہنے کے خلاف تھے مگر وہ جیت گیا.یعنی حضرت
******* ۲۹۹ اقدس کی عمر ڈوئی سے زیادہ تھی اور وہ آپ کے مقابلہ میں جوان تھا.دعوة الامير بوسٹن امریکہ کا اخبار ہیرلڈ ( ۲۳ / جون ۱۹۰۴ء) لکھتا ہے : ”ڈوئی کی موت کے بعد ہندوستانی نبی کی شہرت بہت بلند ہوگئی ہے.کیونکہ کیا یہ سچ نہیں کہ انہوں نے ڈوئی کی موت کی پیشگوئی کی تھی کہ یہ ان کی یعنی مسیح کی زندگی میں واقع ہوگی اور بڑی حسرت اور دُکھ کے ساتھ اس کی موت ہوگی ، ڈوئی کی عمر پینسٹھ سال کی تھی اور پیشگوئی کرنے والے کی پچھتر سال کی.“ ان چند اقتباسات سے نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اس پیشگوئی کا اثر مسیحی بلکہ دہریہ اخبارات کے ایڈیٹروں کے دل پر بھی نہایت گہرا پڑا تھا اور وہ اس کے حیرت انگیز نتائج سے ایسے متاثر ہو گئے تھے کہ اس اثر کو اخباروں میں ظاہر کرنے سے بھی نہ جھجکے.پس یہ بات بالکل یقینی ہے کہ جب مغربی ممالک کے باشندوں کے سامنے یہ نشان پورے زور سے پیش کیا گیا تو اپنے بیسیوں ہم مذہب اخبار نویسوں کی گواہی کی موجودگی میں وہ اس کی صداقت کا انکار نہیں کر سکیں گے اور اس امر کے تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے.اس میں داخل ہوئے بغیر انسان نجات نہیں پاسکتا اور اپنے پرانے خیالات اور عقائد ترک کر کے وہ لوگ اسلام کے قبول کرنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے میں دریغ نہیں کریں گے بلکہ اس کے آثار ابھی سے شروع ہو گئے ہیں اور امریکہ میں اس وقت دوسو سے زیادہ لوگ احمدی ہو چکے ہیں.
(r..) دعوة الامير پانچویں پیشگوئی لیکھرام کے متعلق آپ کی پیشگوئی جو اہل ہند کے لیے محنت بنی اب میں آپ کی ان پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی بیان کرتا ہوں جواہلِ ہند پر صداقتِ اسلام کے ظاہر کرنے کے لئے کی گئی تھیں اور جنہوں نے اپنے وقت پر پوری ہو کر لاکھوں آدمیوں کے دل ہلا دیئے اور اسلام کی صداقت کا اُن کو دل ہی دل میں قائل کر دیا اور بیسیوں آدمی ظاہر میں اسلام اور برابر اسلام لا رہے ہیں.اس پیشگوئی کی تفصیل یہ ہے کہ چالیس پچاس سال سے ہندوؤں کا ایک فرقہ نکلا ہے جسے آریہ سماج کہتے ہیں اس فرقے نے موجودہ زمانے میں اسلام کی حالت خراب دیکھ کر یہ ارادہ کیا ہے کہ مسلمانوں کو ہندو بنایا جائے اور اس غرض کے لیے ہمیشہ اُس کے مذہبی لیڈر اسلام کے خلاف سخت گندہ اور مخش لڑیچر شائع کرتے رہے ہیں.ان لیڈروں میں سے سب سے زیادہ گندہ دہن اور اعتراض کرنے والا ایک شخص لیکھر ام نامی تھا.حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کے ساتھ بہت دفعہ گفتگو کی اور اسے اسلام کی صداقت کا قائل کیا مگر وہ اپنی ضد میں بڑھتا گیا اور ایسے ایسے گندے ترجمے قرآن کریم کی آیات کے شائع کرتا رہا کہ اُن کو پڑھنا بھی ایک شریف آدمی کے لئے مشکل ہے.اس شخص کے نزدیک گویا سب سے برا شخص دُنیا میں وہ تھا جو تمام انسانی کمالات کا جامع تھا اور سب سے لغو کتاب وہ تھی جو سب علوم کی مخزن ہے مگر سورج کی روشنی ایک بیمار آنکھ کی بینائی کو صدمہ ہی پہنچاتی ہے یہی
(+1) دعوة الامير حال اس کا تھا.جب بحث مباحثے نے طول پکڑا یہ شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بدگوئی میں بڑھتا ہی چلا گیا اور حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت بھی ٹھٹھے کرتا اور کہتا رہا کہ مجھے کوئی نشان کیوں نہیں دکھاتے تو آخر حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس کے متعلق اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور آپ کو بتایا گیا کہ اس کے لیے یہ نشان ہے کہ یہ جلد ہلاک کیا جائے گا.اس پیشگوئی کے شائع کرنے سے پہلے آپ نے لیکھرام سے دریافت کیا کہ اگر اس پیشگوئی کے شائع کرنے سے اس کو رنج پہنچے تو اُس کو ظاہر نہ کیا جائے مگر اُس نے اس کے جواب میں لکھا کہ مجھے آپ کی پیشگوئیوں سے کچھ خوف نہیں ہے.آپ بے شک پیشگوئی شائع کریں مگر چونکہ پیشگوئی میں وقت کی تعیین نہ تھی اور لیکھرام وقت کی تعیین کا مطالبہ کرتا تھا آپ نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے میں اُس وقت تک توقف کیا جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے وقت معلوم ہو جائے.آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر پاکر کہ ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء سے لیکر چھ برس کے اندر لیکھر ام پر ایک درد ناک عذاب آئے گا جس کا نتیجہ موت ہوگا.یہ پیشگوئی شائع کر دی.ساتھ ہی عربی زبان میں یہ الہام بھی شائع کیا جولیکھرام کی نسبت تھا یعنی عِجْلْ جَسَدَلَّهُ خَوَارْ لَهُ نَصَبَ وَعَذَاب ( تذکرہ صفحہ ۲۲۹ ایڈیشن چہارم) یعنی یہ شخص گوساله سامری کی طرح ایک بچھڑا ہے جو یو نہی شور مچاتا ہے ورنہ اس میں روحانی زندگی کا کچھ حصہ نہیں.اس پر ایک بلا نازل ہوگی اور عذاب آئے گا.اس کے بعد آپ نے لکھا کہ اب میں تمام فرقہ ہائے مذاہب پر ظاہر کرتا ہوں کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصے میں آج کی تاریخ سے یعنی ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا کی
(r.) دعوة الامير طرف سے نہیں.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۴۹ تا ۶۵ (مفہوم))) اس پیشگوئی کے کچھ عرصے کے بعد آپ نے دوسری پیشگوئی جس میں اس شخص کی ہلاکت کے متعلق مزید وضاحت تھی شائع کی.اس کے الفاظ یہ تھے.وَبَشَّرَنِي رَبِّي وَقَالَ مُبَشِّرًا سَتَعْرِفُ يَوْمَ الْعِيدِ وَالْعِيْدُ أَقْرَبَ وَمِنْهَامَا وَعَدَنِي رَبِّى وَاسْتَجَابَ دُعَائِي فِى رَجُلٍ مُّفْسِدِ عَدُوّ اللَّهِ وَرَسُوْلِهِ الْمُسَمَّى ليكهرامِ الْفَشَاوَرِئ وَأَخْبَرَنِي رَبِّي أَنَّهُ مِنَ الْهَالِكِيْنَ إِنَّهُ كَانَ يَسُبُّ نَبِيَ اللَّهِ وَيَتَكَلَّمْ فِي شَأْنِهِ بِكَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ فَدَعَوْتُ عَلَيْهِ وَبَشَّرَنِيْ رَبِّي بِمَوْتِهِ فِي سِتِ سَنَةٍ إِنَّ فِي ذَالِكَ لَآيَتٍ لِلطَّالِبِينَ ( استفتاء صفحہ ۱۱.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۱۱۹) یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی ہے کہ تو ایک یوم عید دیکھے گا اور وہ دن عید کے دن سے بالکل ملا ہوا ہوگا اور پھر لکھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ مجھ پر فضل ہوئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک شخص لیکھرام کے متعلق اُس نے میری دعا قبول کر لی ہے اور مجھے خبر دی ہے کہ وہ ہلاک ہو جائے گا یہ شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتا تھا پس میں نے اس کے خلاف دعا کی اور میرے رب نے مجھے بتایا کہ یہ چھ سال کے عرصے میں مرجائے گا.اس میں طلبگاروں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں.اس کے بعد مزید تشریح معلوم ہوئی اور وہ آپ کی کتاب برکات الدعا کے ٹائیٹل پیج پر اس عنوان کے نیچے شائع کی گئی کہ لیکھر ام پشاوری کی نسبت ایک اور خبر اور اس میں یہ لکھا گیا کہ آج جو ۱/۲ پریل ۱۸۹۳ء مطابق ۱۴ ماه رمضان ۱۳۱۰ھ ( روز یکشنبہ.مؤلف) ہے صبح کے وقت تھوڑی سی غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع ل کرامات الصادقین
(r.) دعوة الامي مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں.اتنے میں ایک سی قوی ہیکل مہیب شکل گویا اس کے چہرے سے خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا.میں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے گویا انسان نہیں ملائک شداد و غلاظ میں سے ہے اور اس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اس کو دیکھتا ہی تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے؟ اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے تب میں نے اس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھرام اور دوسرے شخص کی سزا دہی کے لئے مامور کیا گیا ہے.( برکات الدعاصفحہ ۳۳.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳) اور کتاب مستطاب آئینہ کمالات اسلام میں آپ نے لیکھرام کے متعلق اپنی ایک نظم میں یہ اشعار شائع کئے.الا اے دشمن نادان وبے راہ بترس از تیغ بیران محمدم منکر از شانِ محمد هم از نور نمایان محمد الا کرامت گرچه بے نام و نشان است بیا بنگر ز غلمان محمد ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۳۹) ان تمام پیشگوئیوں سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کو مختلف اوقات میں خبر دی گئی تھی کہ (۱) لیکھرام پر کوئی عذاب نازل کیا جائے گا جس کا نتیجہ موت ہوگا (۲) یہ عذاب چھ سال کے عرصے میں آئے گا (۳) یہ عذاب جس دن آئے گا وہ دن عید کے دن سے بالکل ملا ہوا دن ہوگا یعنی عید کے پہلے یا پچھلے دن (۴) لیکھرام سے وہی سلوک کیا جائے گا جو گوسالہ سامری سے کیا گیا تھا اور وہ سلوک یہ تھا کہ گوسالہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلایا اور دریا میں ڈال دیا گیا تھا (۵) اس کی ہلاکت کے لئے ایک شخص جس کی نظروں سے خون ٹپکتا تھا مقرر کیا گیا
(r.) دعوة الامير ہے (۶) وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کا گشتہ ہوگا.یہ نشانات اور علامتیں اتنی واضح ہیں کہ ان کے منطوق اور مفہوم کی نسبت کچھ بھی شبہ نہیں رہ جاتا.ان پیشگوئیوں کے پورے پانچ سال کے بعد جبکہ دشمن ہنس رہے تھے کہ پانچ سال گزر گئے اور کچھ بھی نہیں ہوا.مرزا صاحب جھوٹے نکلے.عید الفطر کے جو جمعہ کو ہوئی تھی دوسرے دن ہفتے کو عصر کے وقت لیکھرام کسی نامعلوم شخص کے تیز بنجر سے زخمی کیا گیا اور اتوار کے دن مر گیا اور اللہ تعالیٰ کا کلام اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ پورا ہوا.الہام میں تھا کہ وہ چھ سال کے اندر مرے گا وہ چھ سال کے اندر ہی مر گیا، بتایا گیا تھا کہ اس کا واقعہ عید کے دن سے ملے ہوئے دن کو ہوگا اور وہ مومنوں کے لیے عید کا دن ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ عید کے دوسرے ہی دن زخمی ہوا.کہا گیا تھا کہ اس کو کوئی شخص جس کے چہرے سے خون ٹپکتا ہوا معلوم ہوتا تھا ہلاک کرے گا سوایسا ہی ہوا.بتایا گیا تھا کہ اس کو تیغ محمدمہ قتل کرے گی سو وہ قتل کیا گیا.خبر دی گئی تھی کہ اس کا حال گوساله سامری کی طرح ہوگا سو جس طرح گوسالہ سامری ہفتے کے دن ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا وہ بھی ہفتے ہی کے دن ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا اور جس طرح گوساله سامری پہلے جلایا گیا اور پھر اس کی راکھ دریا میں ڈالی گئی تھی اسی طرح لیکھرام بھی بسبب ہندو ہونے کے پہلے جلایا گیا اور پھر اس کی راکھ دریا میں ڈالی گئی.اس کے قتل کے واقعات کی تفصیل یہ بتائی جاتی ہے کہ ایک شخص اس کے پاس آیا جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اُس کی آنکھوں سے خُون ٹپکتا تھا اور اس نے لیکھر ام سے کہا کہ وہ مسلمان سے ہندو ہونا چاہتا ہے.لیکھرام نے باوجو دلوگوں کے سمجھانے کے کہ اس کو اپنے پاس رکھنا ٹھیک نہیں اس کو اپنے پاس رکھا.لیکھرام کو اس پر بہت اعتبار ہو گیا تھا، آخر اس نے وہی دن اس کو آریہ بنانے کے لیے مقرر کیا جس دن وہ زخمی کیا گیا وہ ہفتے کا
(r.a) دعوة الامير دن تھا اور لیکھرام کچھ لکھ رہا تھا اس نے نامعلوم شخص سے کوئی کتاب اُٹھا دینے کے لیے کہا.اس پر اُس شخص نے انداز سے تو یہ ظاہر کیا کہ گویا وہ کتاب اُٹھا کر لا رہا ہے لیکن پاس پہنچتے ہی اُس نے لیکھرام کے پیٹ میں خنجر پیوست کر دیا اور پھر اس کو کئی مرتبہ گھما کر ہلایا تا کہ انتڑیاں کٹ جائیں اور پھر وہ شخص جیسا کہ لیکھرام کے رشتہ داروں کا بیان ہے غائب ہو گیا.لیکھرام مکان کی دوسری منزل پر تھا اور اس کے مکان کے نیچے دروازے کے پاس اس وقت بہت سے لوگ جمع تھے لیکن کوئی شخص گواہی نہیں دیتا کہ وہ شخص نیچے اترا ہے.لیکھرام کی بیوی اور اس کی ماں کو یہی یقین تھا کہ وہ گھر میں ہی ہے، لیکن اسی وقت لوگوں کے آکر تلاش کرنے پر وہ مکان میں نہیں ملا اور اللہ تعالیٰ جانے کہاں غائب ہو گیا تو لیکھرام سخت دُکھ کے عذاب میں مبتلاء ہو کر اتوار کو جو عین وہی دن تھا کہ آپ کو کشف دکھایا گیا تھا کہ ایک ہیبت ناک شخص جس کے چہرے سے خون ٹپکتا ہے لیکھرام کا پتہ پوچھتا ہے مر گیا اور اللہ تعالیٰ کے فرستادے کی صداقت کے لیے ایک نشان ٹھہرا اور ان لوگوں کے لئے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات کے خلاف گندہ دہانی کرتے ہیں موجب عبرت بنا.
(r+y) دعوة الامير چھٹی پیشگوئی شہزادہ دلیپ سنگھ کے متعلق پیشگوئی جو سکھوں کیلئے حجت ہوئی اب میں اُن پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی بیان کرتا ہوں جو اپنے وقت پر پوری ہو کر سکھوں کے لیے صداقت اسلام اور صداقتِ مسیح موعود علیہ السلام کے لئے دلیل ہوئی.جب پنجاب کو انگریزوں نے فتح کیا تو مصالح ملکی کے ماتحت راجہ دلیپ سنگھ صاحب کو جو وراث تختِ پنجاب تھے مگر ابھی چھوٹی عمر کے تھے انگریز ولایت لے گئے وہ وہیں رہے اور ان کو واپس آنے کی اجازت نہیں دی گئی یہاں تک کہ پنجاب پر انگریزی قبضہ پوری طرح ہو گیا.غدر کے بعد دہلی کی حکومت بھی مٹ گئی اور کسی قسم کا خطرہ نہ رہا.اس وقت راجہ دلیپ سنگھ صاحب بہادر نے پنجاب آنے کا ارادہ کیا اور عام طور پر مشہور ہو گیا کہ وہ آنے والے ہیں.حضرت اقدس کو الہاماً بتایا گیا کہ وہ اس ارادے میں کامیاب نہیں ہوں گے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۴۸) چنانچہ آپ نے بہت سے لوگوں کو خصوصاً ہندوؤں کو اس کے متعلق اطلاع دے دی اور ایک اشتہار میں اشار تا لکھدیا کہ ایک نو وار درئیس پنجاب کو ابتلاء پیش آئے گا.(الحق مباحثہ لدھیانه صفحه ۱۲ روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۲۴) جس وقت یہ الہام شائع کیا گیا کسی کو خیال بھی نہ تھا کہ وہ ہندوستان آنے سے روک دیئے جائیں گے بلکہ یہ خبر خوب گرم تھی کہ عنقریب وہ ہندوستان پہنچنے والے ہیں مگر اسی عرصے میں گورنمنٹ کو معلوم ہوا کہ راجہ دلیپ سنگھ صاحب کا ہندوستان میں آنا مفادِحکومت کے
(r.) دعوة الامير خلاف ہوگا کیونکہ جوں جوں اُن کے آنے کی خبر پھیلتی جاتی تھی سکھوں میں پرانی روایات تازہ ہوکر جوش پیدا ہوتا جاتا تھا اور ڈر تھا کہ اُن کے آنے پر کوئی فساد ہو جائے.آخر عدن تک پہنچنے کے بعد وہ روک دیئے گئے اور یہ روک دیئے جانے کی خبر اس وقت معلوم ہوئی جبکہ لوگ یہ سمجھ چکے تھے کہ اب وہ چند ہی روز میں داخل ہندوستان ہوا چاہتے ہیں.سکھوں کی اُمیدوں کو اس سے سخت صدمہ پہنچا لیکن اللہ عَالِمُ الْغَيْبِ وَ ذُو الْجَلَالِ کا جلال ظاہر ہوا کہ وہ لوگوں کے دلوں کو اس وقت پڑھ لیتا ہے جب وہ خود اپنے خیالات سے واقف نہیں ہوتے.
(r.) ساتویں پیشگوئی دعوة الامير طاعون کی پیشگوئی جس سے ثابت کیا گیا کہ اللہ تعالی تمام باریک در بار یک اسباب کا مالک ہے افغانستان اور اس کے ہمسایہ ملک کے متعلق حضرت اقدس کی پیشگوئیاں بیان کرنے کے بعد میں نے چار پیشگوئیاں ایسی بیان کی ہیں جن سے تین قوموں پر حجت تمام کی گئی ہے.اب میں ایک ایسی پیشگوئی بیان کرتا ہوں جس سے تمام اقوام ہند اور ان کے ذریعے سے تمام دنیا پر حجت قائم کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ وہ باریک در بار یک اسباب پر قادر ہے اور ان کو اپنے مامور کی تائید میں لگاتا ہے.اس قسم کی پیشگوئیاں بھی حضرت اقدس نے بہت سی کی ہیں جو اپنے اپنے وقت پر پوری ہو چکی ہیں اور بعض آئندہ پوری ہوں گی.مگر میں ان میں سے مثال کے طور پر طاعون کی پیشگوئی کو لیتا ہوں جس میں یہ خصوصیت ہے کہ اس کی خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی دی تھی اور فرمایا تھا کہ یہ بیماری مسیح موعود کے وقت میں پھوٹے گی.(کنز العمال جلد ۱۴ صفحہ ۳۴۳ روایت ۳۸۸۷۹ مطبوعه حلب (۱۹۷۵ء) جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق رمضان کی تیرہ تاریخ کو چاند گرہن اور اٹھائیں" تاریخ کو سورج گرہن ہوا تو اس وقت حضرت اقدس علیہ السلام کو بتایا گیا کہ اگر لوگوں نے اس نشان سے فائدہ نہ اُٹھایا اور تجھے قبول نہ کیا تو اُن پر ایک عام عذاب نازل ہو گا چنانچہ آپ کے اپنے الفاظ یہ ہیں.وَحَاصِلُ الْكَلَامِ أَنَّ
(r.q) دعوة الامير الْكَسَوْفَ وَالْحُسَوْفَ أَيَتَانِ مُخَوَفَتَانِ وَإِذَا اجْتَمَعَا فَهُوَ تَهْدِيدْ شَدِيدُ مِّنَ الرَّحْمَنِ وَإِشَارَةً إِلَى اَنَّ الْعَذَابَ قَدْ تَقَرَّرَ وَاحِدَ مِنَ اللَّهِ لِاَهْلِ الْعَدْوَانِ ( نور الحق حصہ دوم صفحہ ۴۶ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۳۲) یعنی کسوف و خسوف اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو ڈرانے والے نشان ہیں اور جب اس طرح جمع ہو جائیں جس طرح اب جمع ہوئے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور تنبیہہ اور اس بات کی طرف اشارہ ہوتے ہیں کہ عذاب مقرر ہو چکا ہے اُن لوگوں کے لیے جو سرکشی سے باز نہ آویں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لیے آپ کے دل میں تحریک کی کہ آپ ایک وباء کے لیے دعا کریں، چنانچہ آپ اپنے ایک عربی قصیدے میں جو ۱۸۹۴ ء میں چھپا ہے فرماتے ہیں فَلَمَّا طَغَى الْفِسْقُ الْمُبِيدُ بِسَيْلِهِ تَمَنَّيْتُ لَوْ كَانَ الْوَبَاءِ الْمُتَيِّرُ فَإِنَّ هَلَاكَ النَّاسِ عِنْدَ أوْلِي النُّهَى اَحَبَّ وَأَوْلَىٰ مِنْ ضَلَالٍ يُدَقِرَ (خطبہ الہامیہ صفحه ۳۰۳ روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۳۰۳) یعنی جب ہلاک کر دینے والا فسق ایک طوفان کی طرح بڑھ گیا تو میں نے اللہ تعالیٰ سے چاہا کہ کاش ایک وباء پڑے جولوگوں کو ہلاک کر دے.کیونکہ عقلمندوں کے نزد یک لوگوں کا مرجانا اس سے زیادہ پسندیدہ اور عمدہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ تباہ کر دینے والی گمراہی میں مبتلاء ہو جائیں.اس کے بعد ۱۸۹۷ء میں آپ نے اپنی کتاب سراج منیر میں لکھا کہ اس عاجز کو الہام ہوا ہے یا مَسِيحَ الْخَلْقِ عَدُوانا ( ایام اصلح صفحہ ۱۲۰ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۴۶) اے خلقت کے لیے مسیح ہماری متعدد بیماریوں کے لئے توجہ کر.پھر فرماتے ہیں.دیکھو یہ کس
(I.) دعوة الامير زمانے کی خبریں ہیں اور نہ معلوم کس وقت پوری ہوں گی ، ایک وہ وقت ہے جو دُعا سے مرتے ہیں اور دوسرا وہ وقت آتا ہے کہ دعا سے زندہ ہونگے.جس وقت یہ آخری پیشگوئی شائع ہوئی ہے اس وقت طاعون صرف بمبئی میں پڑی تھی اور ایک سال رہ کر رک گئی تھی اور لوگ خوش تھے کہ ڈاکٹروں نے اس کے پھیلنے کو روک دیا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاعیں اس کے برخلاف کہہ رہی تھیں جبکہ لوگ اس مرض کے حملے کو ایک عارضی حملہ خیال کر رہے تھے اور پنجاب میں صرف ایک دو گاؤں میں یہ مرض نہایت قلیل طور پر پایا جاتا تھا.باقی کل علاقہ محفوظ تھا اور بمبئی کی طاعون بھی بظاہر دبی ہوئی معلوم ہوتی تھی اُس وقت آپ نے ایک اور اعلان کیا اور اس میں بتایا کہ ایک ضروری امر ہے جس کے لکھنے پر میرے جوش ہمدردی نے مجھے آمادہ کیا ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ جولوگ روحانیت سے بے بہرہ ہیں اس کو ہنسی اور ٹھٹھے سے دیکھیں گے مگر میرا فرض ہے کہ میں اس کو نوع انسان کی ہمدردی کے لیے ظاہر کروں اور وہ یہ ہے کہ آج جو ۶ / فروری ۱۸۹۸ ء روز یک شنبہ ہے میں نے خواب میں دیکھا کہ خُدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگارہے ہیں اور وہ درخت نہایت بد شکل اور سیاہ رنگ اور خوفناک اور چھوٹے قد کے ہیں.میں نے بعض لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں پھیلنے والی ہے.میرے پر یہ امر مشتبہ رہا کہ اُس نے یہ کہا کہ آئندہ جاڑے میں یہ مرض بہت پھیلے گا یا یہ کہا کہ اس کے بعد کے جاڑے میں پھیلے گا لیکن نہایت خوفناک نمونہ تھا جو میں نے دیکھا.اور مجھے اس سے پہلے طاعون کے بارہ میں الہام بھی ہوا اور وہ یہ ہے.اِنَّ اللهَ لَا يُغَيَرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوْا مَا بِأَنْفُسِهِمْ إِنَّهُ أَوَى الْقَرْيَةَ.(تذکرہ صفحہ ۳۱۴-۳۱۵ ایڈیشن چهارم) یعنی
۳۱۱ دعوة الامير جب تک دلوں کی وباء معصیت دُور نہ ہو تب تک ظاہری و باء بھی دور نہیں ہوگی ( تذکرہ صفحہ ۳۱۳- ۳۱۴.ایڈیشن چہارم) اس اشتہار کے آخر میں چند فارسی اشعار بھی لکھے ہیں جو یہ ہیں گر آں چیزے کہ می بینم عزیزان نیز دیدند ز دنیا تو بہ کر دندے بچشم زار و خونبارے خور تاباں سیه گشت است از بدکاری مردم زمیں طاعوں ہمی آرد پنے تخویف و انذارے به تشویش قیامت ماند ایں تشویش گر بینی علاجے نیست بہر دفع آں مجز محسن کردارے من از همدردی است گفتم تو خود ہم فکر گن بارے خرداز بہیر این روز است اے داناو ہشیارے ایام الصلح صفحہ ۱۳۷.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۶۳) ان پیشگوئیوں سے ظاہر ہے کہ آپ نے ۱۸۹۴ء سے پہلے ایک خطر ناک عذاب اور پھر گھلے لفظوں میں وباء کی پیشگوئی کی اور پھر جب کہ ہندوستان میں طاعون نمودار ہی ہوئی تھی کہ آپ نے خصوصیت کے ساتھ پنجاب کی تباہی کی خبر دی اور آنے والی طاعون کو قیامت کا نمونہ قرار دیا اور فرمایا کہ یہ طاعون اس وقت تک نہیں جائے گی جب تک کہ لوگ دلوں کی اصلاح نہ کریں گے.اس کے بعد جو کچھ ہوا الفاظ اُسے ادا نہیں کر سکتے.طاعون کی ابتداء گو بمبئی سے ہوئی تھی اور قیاس چاہتا تھا کہ وہیں اس کا دورہ سخت ہونا چاہئے مگر وہ تو پیچھے رہ گیا اور پنجاب میں طاعون نے اپنا ڈیرہ لگالیا اور اس سختی سے حملہ کیا کہ بعض دفعہ ایک ایک ہفتے میں تیس تیس ہزار آدمیوں کی موت ہوئی اور ایک ایک سال میں کئی کئی لاکھ آدمی مر گئے.سینکڑوں ڈاکٹر مقرر کئے گئے اور بیسیوں قسم کے علاج نکالے گئے مگر کچھ فائدہ نہ ہوا.ہر سال طاعون مزید شدت اور سختی کے ساتھ حملہ آور ہوئی اور گورنمنٹ منہ دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی اور بہت سے لوگوں کے دلوں نے محسوس کیا کہ یہ عذاب مسیح موعود کے انکار کی وجہ سے ہے اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں آدمیوں
(ir) دعوة الامير نے اس قہری نشان کو دیکھ کر صداقت کو قبول کیا اور اللہ تعالیٰ کے مامور پر ایمان لائے اور اس وقت تک طاعون کے زور میں کمی نہ ہوئی جب تک اللہ تعالیٰ نے اپنے مامور کو نہ بتایا کہ طاعون چلی گئی.بخار رہ گیا..اس کے بعد طاعون کا زور ٹوٹنا شروع ہو گیا اور برابر کم ہوتی چلی گئی مگر بعض الہامات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس مرض کے ابھی کچھ اور دورے ہونگے.اس ملک میں بھی اور دوسرے ممالک میں بھی.اللہ تعالیٰ اپنے عاجز بندوں کو اپنی پناہ میں رکھے.میرے نزدیک یہ پیشگوئی ایسی واضح اور مومن و کافر سے اپنی صداقت کا اقرار کرانے والی ہے کہ اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص ضد کرتا ہے تو اس کی حالت نہایت قابل رحم ہے جس کی آنکھیں ہوں وہ دیکھ سکتا ہے کہ (۱) طاعون کی خبر ایک لمبا عرصہ پہلے دی گئی تھی اور کوئی طبی طریق ایسا نہیں ایجاد ہوا جس سے اتنا لمبا عرصہ پہلے وباؤں کا پتہ دیا جا سکے (۲) طاعون کے نمودار ہونے پر یہ بتایا گیا تھا کہ یہ عارضی دورہ نہیں ہے بلکہ سال بسال یہ بیماری حملہ کرتی چلی جائے گی (۳) یہ بھی قبل از وقت بتایا گیا تھا کہ یہ بیماری پنجاب میں نہایت سخت ہوگی.چنانچہ بعد کے واقعات نے بتادیا کہ پنجاب میں ہی یہ بیماری سب سے زیادہ پھیلی اور یہیں سب سے زیادہ موتیں ہوئیں (۴) ڈاکٹروں نے متواتر پیشگوئیاں کیں کہ اب یہ بیماری قابو میں آگئی ہے مگر آپ نے بتلایا کہ اس وقت تک اس کا زور ختم نہ ہوگا جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا علاج نہ ہوگا اور ایسا ہی ہوا کہ اس کا دورہ برابر نو سال تک سختی سے ہوتا رہا.(۵) آخر میں اللہ تعالیٰ نے خود رحم کر کے اس کے زور کو توڑ دینے کا وعدہ کیا اور آپ کو بتایا گیا کہ طاعون چلی گئی.بخار رہ گیا چنانچہ اس الہام کے بعد طاعون کا زور ٹوٹ گیا اور بخار کا شدید حملہ پنجاب میں ہوا جس سے قریباً کوئی گھر خالی نہیں رہا اور سرکاری رپورٹوں میں تسلیم کیا گیا کہ بخار کا یہ حملہ غیر معمولی تھا.
۳۱۳ آٹھویں پیشگوئی دعوة الامير زلز ایہ عظیمہ کی پیشگوئی جو سب اہلِ مذاہب پر محنت ہوئی اور جس سے ثابت کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ زمین کی گہرائیوں پر بھی ویسی ہی حکومت رکھتا ہے جیسی کہ اُس کی سطح کے اوپر رہنے والی چیزوں پر 66 اب میں ایک پیشگوئی ان پیشگوئیوں میں سے پیش کرتا ہوں جو اس امر کو ظاہر کرنے والی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا تصرف زمین کے اندر بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ زمین کے او پر.یہ پیشگوئی اس زلزلہ عظیمہ کے متعلق ہے جو پنجاب میں ۱/۴ پریل ۱۹۰۵ ء کو آیا اور اس کے ذریعے سے بھی گل ادیان کے پیروؤں پر صداقتِ اسلام اور صداقت مسیح موعود کے متعلق حجت قائم ہوئی.اس زلزلے کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود نے یہ الہام شائع کئے تھے.زلزلہ کا دھکا عَفَتِ الدِّيَارُ مَحِلُّهَا وَ مَقَامُهَا “.(تذکر صفحہ ۵۱۵.ایڈیشن چہارم) یعنی ایک خطر ناک زلزلہ آئے گا جس سے لوگوں کی مستقل سکونت کے مکانات بھی تباہ ہو جائیں گے اور عارضی سکونت کے کیمپ بھی تباہ ہو جائیں گے.یہ الہامات سلسلہ احمدیہ کے متعدد اخبارات میں اُسی وقت شائع کر دیئے گئے اور ان الہامات کا اپنے ظاہر لفظوں میں پورا ہونا ایسا بعید از قیاس تھا کہ سمجھا گیا شاید اس سے طاعون کی سختی مراد ہو، مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک کچھ اور مقدر تھا کانگڑے کی آتش فشاں پہاڑی جو مدتوں سے بالکل بےضرر چلی
(ric) دعوة الامير آتی تھی اور جس کی آتش فشانی تو ہم پرست ہندوؤں سے ایک دیوی کا ہد یہ لینے کے سوا اور کسی لائق نہیں سمجھی جاتی تھی اور جس کے متعلق علم طبقات الارض کے ماہروں کا خیال تھا کہ اپنی قوت انفجار کو ضائع کر چکی ہے اور اس سے کسی تباہی کا خطرہ نہیں رہا ہے اور جس کے ارد گر دسینکڑوں سال پہلے کے بنے ہوئے بڑے بڑے قیمتی مندر موجود تھے اور ہزاروں آدمی جن کی زیارت کے لیے جاتے رہتے تھے.اس نا قابل اندیشہ پہاڑی کو صاحب قدرت و جبروت ہستی کی طرف سے حکم پہنچا کہ وہ اپنے اندر ایک نیا جوش پیدا کرے اور اس کے مامور کی صداقت پر گواہی دے.الہام میں جیسا کہ اس کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے ایسی جگہ زلزلے کے سب سے زیادہ تباہ کن ہونے کی خبر دی گئی ہے جہاں ایسے مکانات کثرت سے ہوں جو عارضی سکونت کے لئے ہوتے ہیں اور ایسے مکانات یا تو سرائیں اور ہوٹل ہوتے ہیں یا کیمپ کی فوجی بارکیں جن میں فوجیں آتی جاتی رہتی ہیں اور جو مستقل سکونت کے لیے نہیں ہوتیں.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ الہام عَفَتِ الذِيَارُ مَحِلُّهَا وَمَقَامُهَا مِیں مَحِلُّهَا کا لفظ مَقَامُهَا کے لفظ سے پہلے رکھنا امر مذکورہ بالا پر زور دینے کے لیے نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ اس مصرع میں شاعر ( حضرت لبید بن ربیعہ عامری) نے قافیہ کی پابندی کی وجہ سے لفظ مَحِلُّ کو لفظ مَقَام سے پہلے رکھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو حضرت لبید کا یہ مصرع الہام کے لیے انتخاب فرمانے میں کوئی مجبوری نہیں تھی.وہ اس کی جگہ کوئی اور عبارت نازل فرما سکتا تھا یا چونکہ یہ مصرع اکیلا ہی الہام کیا تھا یہ کسی دوسرے الہامی مصرع کے ساتھ چسپاں نہیں تھا کہ اس کے قافیے کی رعایت مد نظر ہوتی وہ اسی کے الفاظ کو آگے پیچھے کر سکتا تھا.پس یہ الفاظ در حقیقت اسی بات کے ظاہر کرنے کے لیے برقرار رکھے گئے کہ زلزلہ ایک ایسے مقام پر آئے گا جہاں
۳۱۵ دعوة الامير کثرت سے عارضی سکونت کی عمارتیں بنی ہوئی ہیں اور جیسا کہ ظاہر ہے ایسی عمارتیں چھاؤنیوں، سیر گاہوں اور زیارت گاہوں میں ہی زیادہ ہوتی ہیں.پس ایسے ہی مقامات میں سے کسی ایک میں زلزلے کے آنے کی خبر دی گئی تھی.ان الہامات کے شائع کرنے کے ایک عرصہ بعد جبکہ کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا، کانگڑے کی خاموش آتش فشاں پہاڑی جنبش میں آئی اور ۱/۴ پریل ۱۹۰۵ ء کی صبح کے وقت جبکہ لوگ نمازوں سے فارغ ہوئے ہی تھے اس نے سینکڑوں میل تک زمین کو ہلا دیا.کانگڑہ اور اس کے مندر اور اس کی سرائیں برباد ہو گئیں آٹھ میل پر دھر مسالہ کی چھاؤنی تھی اس کی بیر کیں زمین کے ساتھ مل گئیں اور ان کو ٹھیوں کی جو موسم گرما میں انگریزوں کی سکونت کے لیے تھیں اینٹ سے اینٹ بج گئی.ڈلہوزئی اور بکلوہ کی چھاؤنیوں کی عمارتیں بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوگئیں.دیگر شہروں اور دیہات کو بھی سخت صدمہ پہنچا اور ہیں "ہزار آدمی اس زلزلے سے موت کا شکار ہوئے.طبقات الارض کے ماہر حیران رہ گئے کہ اس زلزلے کا کیا باعث تھا مگر وہ کیا جانتے تھے کہ اس زلزلے کا باعث حضرت مسیح موعود کی تکذیب تھی اور اس کی غرض لوگوں کو اس کے دعوے کی طرف توجہ دلائی تھی.وہ اس کا باعث زمین کے نیچے تلاش کر رہے تھے مگر در حقیقت اس کا باعث زمین کے اوپر تھا اور کانگڑے کی خاموش شدہ آتش فشاں پہاڑی اپنے رب کا حکم پورا کر رہی تھی.اس زلزلے کے علاوہ آپ نے اور بہت سے زلزلوں کی خبر دی جو اپنے وقت پر آئے اور بعض ابھی آئیں گے.
(FI) دعوة الامير نویں پیشگوئی جنگ عظیم کی پیشگوئی جو سب دنیا کے لیے محنت ہوئی اور جس سے ثابت کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ جس طرح جمادات و نباتات پر حکومت رکھتا ہے اسی طرح اُن لوگوں کے دلوں پر بھی جو حکومت کے نشہ میں چور ہو کر اپنے آپ کو خدا تعالی کی خدائی سے باہر سمجھتے ہیں نویں مثال میں اُن پیشگوئیوں میں سے منتخب کرتا ہوں جو ساری دُنیا کے لیے حجت ہوئی اور جن سے یہ ثابت کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں اسی طرح ارباب حکومت کے دل بھی ہیں جس طرح کہ عوام کے اور اسی طرح انسان بھی اس کی فرمانبرداری کرتا ہے جس طرح اور مخلوق.یہ پیشگوئی ۱۹۰۵ء میں شائع کی گئی تھی اور اس میں اس جنگ عظیم کی خبر دی گئی تھی جس نے پچھلے چند سال دنیا کے ہر گوشہ کو حیران و پریشان کر رکھا تھا اور لوگوں کے حواس پراگندہ کر دیئے تھے اور اب بھی اس کا اثر پوری طرح زائل نہیں ہوا بلکہ کہیں نہ کہیں سے اُس کی آگ کا شعلہ سر نکال ہی لیتا ہے.اصل الفاظ جن میں اس جنگ کی خبر دی گئی تھی ایک زلزلہ عظیمہ کی خبر دیتے تھے لیکن جو علامات اس کی بتائی گئی تھیں وہ ظاہر کرتی تھیں کہ زلزلے کے سوا یہ کوئی اور مصیبت ہے اور دوسرے الہامات بھی اسی خیال کی تائید کرتے تھے چنانچہ وہ الہامات جن میں اس جنگ
(MIL) دعوة الامير کی خبر دی گئی تھی یہ ہیں :.تازہ نشان.تازہ نشان کا دھکا.زَلْزَلَةُ السَّاعَةِ قُوْا أَنْفُسَكُمْ ( تذکره صفحہ ۵۳۴.ایڈیشن چہارم) نَزَلْتُ لَگ.لَكَ نُرِئ آيَاتٍ وَ نَهْدِمُ مَا يَعْمُرُوْنَ قُلْ عِنْدِئ شَهَادَةً مِنَ اللَّهِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ كَفَفْتُ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُوْدَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَ ( تذکر صفحہ ۵۳۷ ایڈیشن چہارم) فتح نمایاں، ہماری فتح.( تذکرہ صفحہ ۵۴۳ ایڈیشن چهارم إِلَىٰ مَعَ الْأَفْوَاجِ أَتِيَكَ بَغْتَةً ( تذکرہ صفحہ ۵۴۳.ایڈیشن چہارم) یہ الہام بار بار ہوا.پہاڑ گرا اور زلزلہ آیا.( تذکرہ صفحہ ۵۵۹.ایڈیشن چہارم ) آتش فشاں.( تذکرہ صفحہ ۵۶۳.ایڈیشن چہارم) مَصَالِحُ الْعَرَبِ مَسِيرُ الْعَرَبِ ( تذکره صفحه ۵۶۳ ایڈیشن چہارم) عَفَتِ الذِيَارُ كَذِكْرِي ( تذکره صفحه ۵۶۶ ایڈیشن (چهارم) اُرِيْكَ زَلْزَلَةَ السَّاعَة (تذکرہ صفحہ ۶۰۹.ایڈیشن چہارم) يُرِيْكُمُ اللَّهُ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ ( تذكرہ صفحہ ۲۰۸-۶۰۹.ایڈیشن چہارم) لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ.“ ( تذکرہ صفحہ ۶۲۵.ایڈیشن چہارم) ترجمہ:.قیامت کا نمونہ زلزلہ.اپنی جانوں کو بچاؤ.میں تیری خاطر نازل ہوا.ہم تیری خاطر بہت سے نشان دکھا ئیں گے اور جو کچھ دنیا بنارہی ہے.اس کو منہدم کر دیں گے.تو کہہ دے میرے پاس ایک گواہی اللہ کی طرف سے ہے کیا تم ایمان لاؤ گے.میں نے بنی اسرائیل کی مصیبت دور کر دی.فرعون اور ہامان اور ان دونوں کے لشکر غلطی پر ہیں.فتح نمایاں.ہماری فتح.میں فوجوں ا کے ساتھ تیرے پاس آؤں گا اور اچانک آؤں گا.پہاڑ گرا اور زلزلہ آیا.آتش
(FIA) دعوة الامير فشاں پہاڑ.اہل عرب کے لیے ایسے راستے نکلیں گے کہ اُن پر چلنا ان کے لیے مفید ہوگا اور اہل عرب اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے.گھروں کو اس طرح اُڑا دیا جائے گا جس طرح میر اذ کر وہاں سے مٹ گیا ہے.اسی زلزلے کی مزید تشریح آپ نے اپنی ایک نظم میں فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے.یہ زلزلہ ایسا سخت ہوگا کہ اس سے انسانوں اور دیہات اور کھیتوں پر تباہی آجائے گی.ایک شخص بحالت برہنگی اس زلزلے کی زد میں آجائے تو اس سے یہ نہ ہو سکے گا کہ کپڑے پہن سکے.مسافروں کو اس سے سخت تکلیف ہوگی اور بعض لوگ اس کے اثر سے دُور دُور تک بھٹکتے نکل جائیں گے.زمین میں گڑھے پڑ جائیں گے اور خون کی نالیاں چلیں گی.پہاڑوں کی ندیاں خون سے سرخ ہو جائیں گی.تمام دنیا پر یہ آفت آوے گی اور کل انسان بڑے ہوں خواہ چھوٹے اور کل حکومتیں اس صدمہ سے کمزور ہو جائیں گی اور خصوصاً زار کی حالت بہت زار ہو جائے گی.جانوروں تک پر اس کا اثر پڑے گا اور اُن کے حواس جاتے رہیں گے اور وہ اپنی بولیاں بھول جائیں گے.اس کے علاوہ آپ کو الہام ہوا ، گشتیاں چلتی ہیں تا ہوں کشتیاں ، ( تذکرہ صفحہ ۶۱۵.ایڈیشن چہارم) لنگر اُٹھا دو.“ ( تذکرہ صفحہ ۵۵۰.ایڈیشن چہارم ) اور یہ بھی آپ نے لکھا کہ یہ سب کچھ سولہ سال کے عرصہ میں ہوگا.پہلے آپ کو ایک الہام ہوا تھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ زلزلہ آپ کی زندگی میں آئے گا مگر پھر الہاما یہ دعا سکھائی گئی کہ اے خدا مجھے یہ زلزلہ نہ دکھلا.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ یہ جنگ سولہ سال کے عرصے کے اندر تو ہوئی لیکن آپ کی زندگی میں نہ ہوئی.جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں اس پیشگوئی میں زلزلے کا لفظ ہے لیکن اس سے مراد
(ra) دعوة الامير جنگ عظیم تھی.اب میں وہ دلائل بیان کرتا ہوں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشگوئی میں جنگ عظیم کی ہی خبر دی گئی تھی (۱) زلزلے کا لفظ جنگ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے بلکہ ہر آفت شدید کیلئے قرآن کریم میں بھی یہ لفظ جنگ عظیم کے معنوں میں استعمال ہوا ہے سورۃ احزاب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِذْ جَاءَ وَ كُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذَ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبِ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ باللَّهِ الظُّبُوْنَا ٥ هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْنَا لَا شَدِيدًا ( الاحزاب آیت: ۱۱.۱۲) یعنی یا دکر واس وقت کو جب دشمن تمہارے اوپر کی طرف سے بھی اور نیچے کی طرف سے بھی حملہ آور ہوا تھا، آنکھیں پھر گئی تھیں اور دل حلق میں آگئے تھے اور تم اللہ تعالیٰ کے متعلق قسم قسم کے گمان کرنے لگ گئے تھے.اس موقعہ پر مومنوں کی آزمائش کی گئی تھی اور وہ ایک سخت آفت میں مبتلاء کر دیئے گئے تھے پس جبکہ زلزلے کا لفظ ہر آفت پر بولا جاسکتا ہے اور قرآن کریم میں جنگ کے لیے استعمال ہوا ہے تو پیشگوئی کے الفاظ متحمل ہیں، اگر اس پیشگوئی کے معنی زلزلے کی بجائے کچھ اور کئے جاویں.(۲) جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پیشگوئی کو شائع کیا تو اس وقت یہ نوٹ بھی لکھ دیا کہ گوظاہر الفاظ زلزلے ہی کی طرف اشارہ کرتے ہیں مگر ممکن ہے کہ یہ معمولی زلزلہ نہ ہو بلکہ کوئی اور شدید آفت ہو جو قیامت کا نظارہ دکھاوے جس کی نظیر کبھی اس زمانے نے نہ دیکھی ہو اور جانوں اور عمارتوں پر سخت تباہی آوے“.(تذکرہ صفحہ ۵۴۰ ایڈ یشن چہارم) پس قبل از وقت ملہم کا ذہن بھی اس طرف گیا تھا کہ عجب نہیں کہ زلزلے سے مراد کوئی اور مصیبت ہو اور گومخالفین نے اس امر پر خاص زور دیا کہ آپ زلزلے کے لفظ کے کچھ اور معنے نہ قرار دیں مگر آپ نے متواتر ان کے اعتراضات کے جواب میں یہی لکھا کہ جبکہ الہی
(Fr.) دعوة الامير محاورت میں اختلاف معانی پایا جاتا ہے تو میں اس لفظ کو ایک معنے میں حصر نہیں کرسکتا.پیشگوئی کی عظمت یہ ہے کہ وہ بہت سی ایسی نشانیاں بتاتی ہے جن کا قبل از وقت بتانا انسان کا کام نہیں.پھر وہ وقت بھی بتاتی ہے جس کے اندر وہ واقع ہوگا اور یہ بھی بتاتی ہے کہ اس واقعہ کی نظیر پہلے زمانے میں نہیں ملے گی.(۳) خود پیشگوئی کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ اس سے مراد زلزلہ نہیں ہوسکتا بلکہ کوئی مصیبت مراد ہے کیونکہ (۱) پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ وہ زلزلہ ساری دنیا پر آئے گا اور زلازل زمینی سب دنیا پر ایک وقت میں نہیں آتے بلکہ ٹکڑوں ٹکڑوں پر آتے ہیں (۲) پیشگوئی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زلزلے کی گھڑی مسافروں پر سخت ہوگی اور وہ راستہ بھول جائیں گے اور زلزلے کا اثر مسافروں پر کچھ بھی نہیں ہوتا.زلزلہ اُن لوگوں کے لیے خطرناک ہوتا ہے جو گھروں اور شہروں میں رہنے والے ہوں.وہ مصیبت جس سے مسافر کو راستہ بھول جائے اور وہ کہیں کا کہیں مارا مارا پھرے جنگ ہی ہوتی ہے کیونکہ جنگی لائنوں کو چیر کر وہ باہر جانہیں سکتا اور ادھر ادھر بھاگا بھاگا پھرتا ہے (۳) پیشگوئی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زلزلے کا اثر کھیتوں اور باغوں پر بھی ہوگا اور زلازل ارضی کا اثر کھیتوں اور باغوں پر نہیں ہوتا ہے.کھیتوں اور باغوں پر جنگ کا ہی اثر ہوتا ہے کیونکہ دونوں طرف کی تو پوں سے وہ بالکل بر باد ہو جاتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جنگی فوائد کو مدنظر رکھ کر کھیت اور باغات کاٹ دیئے جاتے ہیں (۴) پیشگوئی سے معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں پر بھی اس زلزلے کا اثر شدید طور پر ہوگا اور وہ اپنی بولیاں بھول جائیں گے اور اُن کے حواس اُڑ جائیں گے.یہ اثر بھی ظاہری زلزلے کا نہیں ہوتا.کیونکہ تھوڑی دیر اس کی حرکت رہتی ہے اور اگر پرندے ہوا میں اُڑ جائیں تو ان کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا مگر جنگ میں یہ
۳۲۱ دعوة الامير بات پائی جاتی ہے کہ بوجہ رات اور دن کی گولہ باری اور درختوں کے کٹ جانے کے جانور ایسے علاقوں میں سے قریباً مفقود ہو جاتے ہیں اور اُن کے حواس اُڑ جاتے ہیں(۵) زلزلے کے الہامات میں ایک فقرہ كَفَفْتُ عَنْ بَنِی اسرائیل ہے.جس کے یہ معنے ہیں کہ میں نے بنی اسرائیل کو شر سے بچالیا.ظاہری زلزلے سے اس امر کا کوئی تعلق نہیں.اس لیے ان الہامات سے کوئی ایسا ہی واقعہ مراد تھا جس سے بنی اسرائیل کو فائدہ پہنچے گا اور یہ میں آگے بیان کروں گا کہ یہ بھی جنگ عظیم کی علامت تھی جو پوری ہوئی.میں یہ بھی بتاؤں گا کہ اس پیشگوئی کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے (۶) الفاظ الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ ہے.کیونکہ زلزلے کے الہامات میں تبایا گیا ہے کہ فرعون و ہامان اور ان کے لشکر غلطی پر تھے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ جرمن قیصر کی طرف اشارہ ہے جو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا قائمقام بتاتا تھا.جس طرح فرعون اپنی نسبت کہتا تھا کہ أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى (التنزعت: ۲۵) اور اس کا وزیر شاہ آسٹریا مراد ہے جو اپنی ہستی کوئی نہیں رکھتا تھا بلکہ جرمن وار لارڈ کے حکم اور اشارے پر چلتا تھا ، اگر زلزلے سے ظاہری زلزلہ مراد لیں تو إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُوْدَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَ کے معنے کرنے مشکل ہو جاتے ہیں.(۷) زلزلے کے ان الہاموں کے ساتھ انِّی مَعَ الْأَفْوَاجِ أَتِيَكَ بَغْتَةً کا الہام بھی بار بار ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی جنگ ہی کی طرف اشارہ ہے.(۸) الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ آتش فشاں پہاڑ پھوٹے گا، اور اس کے ساتھ عرب کی مصلحتیں وابستہ ی ہوں گی اور وہ گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور یہ مضمون ظاہری زلزلے پر ہرگز چسپاں نہیں ہوسکتا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آتش فشاں سے مراد وہ طبائع کا مخفی جوش ہے جو کسی واقعہ کی وجہ سے اُبل پڑے گا اور اس وقت عرب بھی دیکھیں گے کہ خاموش رہنا ان
۳۲۲ دعوة الامير کے مصالح کے خلاف ہے اور وہ بھی اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور اس موقعہ سے فائدہ اٹھائیں گے (۹) الہامات میں بتایا گیا ہے کہ اُس دن بادشاہت اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہوگی، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حکومتیں کمزور ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ اپنی حکومت زور دار نشانوں سے قائم کرے گا (۱۰) ایک الہام یہ ہے کہ پہاڑ گرا اور زلزلہ آیا اور یہ بات بچے تک جانتے ہیں کہ طبعی زلازل پہاڑ گرنے کے نتیجے میں نہیں پیدا ہوتے بلکہ زلزلوں کے سبب سے پہاڑ گرتے ہیں.پس معلوم ہوا کہ پہاڑ گر نے اور زلزلہ آنے سے طبعی زلزلہ مراد نہیں بلکہ استعارہ کچھ اور مراد ہے اور وہ یہی کہ کوئی بڑی مصیبت آئے گی.جس کے نتیجے میں دنیا میں زلزلہ آئے گا اور لوگ ایک دوسرے سے جنگ کرنے لگیں گے.(۴) چوتھا ثبوت اس بات کا کہ زلزلے سے مراد کوئی اور آفت تھی یہ ہے کہ انہیں دنوں کے دوسرے الہامات بھی ایک جنگ عظیم کی طرف اشارہ کرتے تھے جیسے یہ الہام کہ لنگر اٹھا دو.یعنی ہر قوم اپنے بیڑوں کو حکم دے گی کہ وہ ہر وقت سمندر میں جانے کے لیے تیار ر ہیں اور اسی طرح یہ الہام کہ کشتیاں چلتی ہیں تا ہوں گشتیاں یعنی کثرت سے جہاز ادھر سے اُدھر اور ادھر سے ادھر پھریں گے اور بحری جنگ کا موقعہ تلاش کریں گے.یہ بات ثابت کر دینے کے بعد کہ اس پیشگوئی میں زلزلے سے مراد جنگ عظیم ہے جو پچھلے دنوں ہوئی ہے اب میں اس پیشگوئی کے مختلف اجزاء کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کس طرح پورے ہوئے سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیئے کہ اس پیشگوئی میں یہ بتایا گیا تھا کہ اس کی ابتداء اس طرح ہوگی کہ کوئی مصیبت نازل ہوگی اور اس کے نتیجے میں تمام دنیا پر زلزلہ آئے گا چنانچہ اسی طرح اس جنگ کی ابتداء ہوئی.آسٹریا، ہنگری کے شہزادے اور
<rrr) دعوة الامير بیگم کے قتل کی مصیبت اس جنگ کے چھڑنے کا باعث ہوئی نہ کہ ڈول کے سیاسی اختلافات.دوسری بات اس پیشگوئی میں یہ بتائی گئی تھی کہ اس آفت عظیمہ کا اثر ساری دنیا پر ہوگا چنانچہ یہ بات نہایت روز روشن کی طرح پوری ہوئی.اس سے پہلے ایک بھی مصیبت ایسی نہیں آئی جس کا اثر اس وسعت کے ساتھ ساری دنیا پر پڑا ہو، یورپ تو خود اس جنگ کا مرکز ہی تھا، ایشا بھی اس میں ملوث ہوا ، چین میں جنگ ہوئی ، جاپان جنگ میں شریک ہوا، ہندوستان اس جنگ میں شامل ہوا اور جرمن جہاز نے ہندوستانی ساحلوں پر حملہ کیا ، ایران میں انگریزی فوجوں کی ترکوں سے جنگ ہوئی اور جرمن قفصل کے ساتھ ایرانیوں کا فساد ہوا، عراق، شام، فلسطین، سائبیریا میں جنگ ہوئی، افریقہ میں بھی چاروں کونوں پر جنگ ہوئی، جنوبی علاقے میں ساؤتھ افریقہ کی حکومت نے جرمن ویسٹ افریقہ پر حملہ کیا اور خود جنوبی افریقہ میں بغاوت ہوئی ،مشرقی افریقہ میں جرمن نو آبادی میں جنگ ہوئی مغربی ساحل پر کیمران میں جنگ ہوئی ، مغربی ساحل پر نہر سویز اور مصر کی سرحد ملحقہ طرابلس پر جنگ ہوئی ، آسٹریلیشیا کے علاقے میں جرمن جہاز نے حملہ کیا اور آخر پکڑا گیا اور نیو گائنا میں جنگ ہوئی ، امریکہ کے ساحل پر انگریزی اور جرمن بیڑوں میں جنگ ہوئی اور کینیڈا اور ریاستہائے متحدہ جنگ میں شامل ہوئیں اور جنوبی امریکہ کی مختلف ریاستوں نے بھی جرمن کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ، غرض دنیا کا کوئی علاقہ نہیں جو اس جنگ کے اثر سے محفوظ رہا ہو.ایک علامت یہ بتائی گئی تھی کہ پہاڑ اور شہر اُڑائے جائیں گے اور کھیت برباد ہوں گےسوایسا ہی ہوا.بیسیوں پہاڑیاں کثرت گولہ باری اور سرنگوں کے لگانے سے بالکل مٹ گئیں اور بہت سے شہر برباد ہو گئے حتی کہ اربوں روپیہ جرمن کو ان کی دوبارہ آبادی کے لیے دینا پڑا ہے اور اب تک اس غرض کے لیے وہ تاوان ادا کر رہا ہے اور کھیتوں اور باغوں
(Fre دعوة الامير کا جو نقصان ہوا ہے اُن کی تو کچھ حد ہی نہیں رہی.جس ملک کی فوج آگے بڑھی اس نے دوسرے ملک کے کھیت اور شہر اُجاڑ دیئے اور سبزے کا نام ونشان باقی نہ چھوڑا اور چونکہ ہزاروں میل پر توپ خانے کا پھیلاؤ تھا.اس سے بھی اس قدر نقصان ہوا جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا.ایک علامت یہ بتائی گئی تھی کہ جانوروں کے ہوش وحواس اُڑ جائیں گے سوایسا ہی ہوا جن علاقوں میں جنگ ہو رہی تھی وہاں کے جانور حواس باختہ ہوکر نیست و نابود ہو گئے.ایک علامت یہ بتائی گئی تھی کہ زمین اُلٹ پلٹ ہو جائے گی چنانچہ فرانس ، سر و یا اور روس کے علاقوں میں گولہ باری کی کثرت سے بعض جگہ اس قدر بڑے بڑے گڑھے پڑ گئے کہ نیچے سے پانی نکل آیا.اور اسی طرح خندقوں کی جنگ کے طریق پر زور دینے کی وجہ سے ملک کا ہر حصہ گھر گیا اور ایسا ہوا کہ ان علاقوں کو دیکھ کر یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ یہ علاقہ بھی آباد تھا بلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بھٹوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے یا پہاڑ کی غاریں ہیں.ایک یہ علامت بتائی گئی تھی کہ ندیوں کے پانی خون سے سُرخ ہو جائیں گے اور خون کی ندیاں چلیں گی سو بلا مبالغہ اسی طرح ہوا.بعض دفعہ اس قدر خونریزی ہوتی تھی کہ ندیوں کا پانی فی الواقع میلوں میل تک سرخ ہو جاتا تھا اور ہر سرحد پر اس قدر جنگ ہوئی کہ کہہ سکتے ہیں کہ خون کی نالیاں بہہ پڑیں.ایک یہ علامت بتائی گئی تھی کہ مسافروں پر وہ ساعت سخت ہوگی اور بعض ان میں سے راستہ بھولے پھریں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا.خشکی پر فوجوں کے پھیل جانے سے اور سمندر میں آبدوز جہازوں کے حملوں سے مسافروں کو جو تکلیف ہوئی اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا اور جس وقت جنگ شروع ہوئی ہے اس وقت ہزاروں لاکھوں آدمی دشمنوں کے ممالک
(rro) دعوة الامير میں گھر گئے اور بعض ہزاروں میل کا چکر لگا کر گھروں کو پہنچے اور جنگ کے درمیان بھی بہت دفعہ فوجی سپاہیوں کو بعض ناکوں کے دشمن کے قبضے میں چلے جانے کی وجہ سے سینکڑوں میل کا سفر کر کے جانا پڑتا تھا اور انگریز سپاہی بوجہ فرانس میں مسافر ہونے کے راستہ بھول جاتے تھے.چنانچہ اس قسم کے حوادث کی کثرت کی وجہ سے آخر فرانسیسی زبان میں ان کی رجمنٹوں وغیرہ کے نام تختیوں پر لکھ کر ان کے گلوں میں لٹکائے گئے ، تا کہ جہاں جائیں وہ تختیاں دکھا کر منزل مقصود پر پہنچ سکیں.ایک یہ علامت بتائی گئی تھی کہ یورپ جو کچھ عمارات تیار کر رہا ہے وہ مٹادی جائیں گی چنانچہ ایسا ہی ہوا.اس جنگ نے علاوہ ظاہری عمارتوں کے گرانے کے یورپین تمدن کی بنیادوں کو بھی ہلا دیا ہے اور اب وہ اس جال میں سے نکلنے کے لیے سخت ہاتھ پاؤں مار رہا ہے جو خود اس کے ہاتھوں نے تیار کیا تھا مگر کامیاب نہیں ہوتا اور یقیناً دنیا دیکھ لے گی کہ جنگ سے پہلے کا یورپین تمدن اب کامیاب نہیں رہے گا بلکہ اس کی جگہ ایسے طریق اور ایسی رسومات لے لیں گی کہ آخر اسے اسلام کی طرف توجہ کرنی پڑے گی اور یہ خدا کی طرف سے مقدر ہو چکا ہے کوئی اس امر کو روک نہیں سکتا.ایک علامت یہ بتائی گئی کہ بنی اسرائیل کو جو تکلیف پہنچ رہی تھی اس سے وہ بچالیئے جائیں گے.چنانچہ یہ بات بھی نہایت وضاحت کے ساتھ پوری ہوئی، اسی جنگ کے دوران میں اور اسی جنگ کے باعث سے مسٹر بلفور (Balfour, Arthur James ( ۱۸۴۸ - ۱۹۳۰ ء ) مشہور برطانوی سیاستدان.متعدد عہدوں پر فائز رہا.برٹش کنز رو نیٹو پارٹی میں ۵۰ سال تک اپنی پوزیشن برقرار رکھی ۱۹۰۲ء تا ۱۹۰۵ وزیر اعظم رہا.اس نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے اعلان بالفور (۱۹۱۷ء) کے ذریعہ فلسطین کو یہود
(rry) دعوة الامير کا قومی وطن بنانے کے مطالبے کی حمایت کی.(دی نیو انسائکلو پیڈیا برٹین کا جلد ۱ صفحہ ۷۵۷، (۷۵۸) نے جواب لارڈ بلفور ہیں، اس بات کا اعلان کیا کہ یہودی جو بے وطن پھر رہے ہیں اُن کا قومی گھر یعنی فلسطین ان کو دے دیا جائے گا اور اتحادی حکومتیں اس امر کو بھی اپنا نصب العین بنائیں گی کہ اس جنگ کے بعد وہ بے انصافی جو اُن سے ہوتی چلی آئی ہے دور کر دی جائے ، چنانچہ اس وعدے کے مطابق جنگ کے بعد فلسطین ترکی حکومت سے علیحدہ کر لیا گیا اور یہود کا قومی گھر قرار دے دیا گیا اب وہاں حکومت اس طرز پر چلائی جارہی ہے کہ کسی دن وہاں یہود کا قومی گھر بن سکے، چاروں طرف سے وہاں یہود جمع کئے جارہے ہیں اور اُن کا وہ پرانا مطالبہ پورا کر دیا گیا ہے جو وہ اپنے قومی اجتماع کے متعلق پیش کرتے چلے آرہے تھے.اس علامت کے متعلق ایک عجیب بات یہ ہے کہ اس کی طرف قرآن کریم نے بھی اشارہ کیا ہے.سورہ بنی اسرائیل میں آتا ہے.وَقُلْنَا مِنْ بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا ( بنی اسرائیل : ۱۰۵) یعنی فرعون کے ہلاک کرنے کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ اس زمین میں رہو.پھر جب بعد کو آنے والی بات کے وعدے کا وقت آئے گا تو اُس وقت ہم تم سب کو اکٹھا کر کے لے آئیں گے.بعض مفسرین نے اس الارض (زمین) سے مراد مصر لیا ہے اور بعد کو آنے والی بات کے وعدے سے مراد قیامت لی ہے ، مگر یہ دونوں باتیں درست نہیں کیونکہ بنی اسرئیل کو مصر میں رہنے کا حکم نہیں بلکہ ارض مقدسہ میں رہنے کا حکم ملا تھا اور وہیں وہ رہے، اسی طرح وَعْدُ الْآخِرَةِ سے بھی قیامت مراد نہیں کیونکہ قیامت کا تعلق ارض مقدسہ میں رہنے
۳۲۷ دعوة الامير کے ساتھ کچھ بھی نہیں.صحیح معنے یہ ہیں کہ ارض مقدسہ میں رہنے کا اُن کو حکم دیا گیا ہے اور پھر یہ کہہ کر جب وَعْدُ الآخِرَةِ آئے گا، تو ہم پھر تم کو اکٹھا کر کے لے آئیں گے اس بات کا اشارہ کیا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم کو یہ جگہ چھوڑنی پڑے گی لیکن وَعْدُ الْآخِرَةِ کے وقت یعنی مسیح موعود کی بعثت ثانیہ کے وقت ہم تم کو پھر اکٹھا کر کے لے آئیں گے، چنانچہ تفسیر فتح البیان میں لکھا ہے.وَعْدُ الْآخِرَةِ نُزُولُ عِيسَى مِنَ السَّمَاءِ (تفسير فتح البيان مؤلف ابو طیب صدیق بن حسن تفسیر سورۃ بنی اسرائیل زیر آیت فاذاجاء وعد الأخرة “ جلد ۵ صفحه ۳۷۱ مطبوعہ مصر ۱۳۰۱ھ ) اسی سورۃ کے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے متعلق دوز مانوں کا ذکر کیا ہے جن میں سے دوسرے زمانے کے متعلق فرماتا ہے.فَإِذَ اجَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِيَسُوءُ وُجُوْهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَ لِيَتَبَرُوْا مَا عَلَوْا تشير اه (بنی اسرئیل: ۸) پس جب وَعْدُ الْآخِرَةِ آ گیا، تا کہ تمہاری شکلوں کو بگاڑ دیں اور جس طرح پہلی دفعہ مسجد میں داخل ہوئے تھے اس دفعہ بھی مسجد میں داخل ہوں اور جس چیز پر قبضہ پائیں اُسے ہلاک کر دیں.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وَعْدُ الْآخِرَةِ سے مراد وہ زمانہ ہے جو مسیح کے بعد یہود پر آئے گا.کیونکہ اس وَعْدُ الْآخِرَةِ کے بعد بجائے جمع کئے جانے کے یہود پراگندہ کر دیئے گئے تھے اس لیے ماننا پڑتا ہے کہ دوسری جگہ وغدُ الْآخِرَةِ سے مسیح کے نزولِ ثانی کے بعد کا زمانہ مراد ہے اور جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا سے مراد یہود کا وہ اجتماع ہے جو اسوقت فلسطین میں کیا جارہا ہے کہ وہ ساری دنیا سے اکٹھا کر کے وہاں لا کر بسائے جا رہے ہیں اور حضرت اقدس علیہ السلام کے الہام كَفَفْتُ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ سے مراد اس مخالفت کا دُور ہونا ہے جو اقوام عالم بنی اسرائیل ( یہود ) سے رکھتی تھیں اور ان کو کوئی قوم گھر بنانے کی اجازت نہیں دیتی تھی.
(FTA) دعوة الامير ایک علامت اس جنگ کے لیے یہ مقرر کی گئی تھی کہ یہ جنگ بہر حال سولہ سال کے اندر ہوگی چنانچہ ایسا ہی ہوا.۱۹۰۵ء میں اس کے متعلق الہام ہوئے اور ۱۹۱۴ء میں یعنی نو سال کے بعد یہ جنگ شروع ہوگئی.ایک علامت اس جنگ کی یہ بتائی گئی تھی کہ تمام بیڑے اس وقت تیار رکھے جائیں گے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس جنگ کے دوران میں برسر پیکار قوموں کے علاوہ دوسری حکومتوں کو بھی اپنے بیڑے ہر وقت تیار رکھنے پڑتے تھے تا کہ ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کا بیڑہ اُن کے سمندر میں کوئی نامناسب بات کر بیٹھے اور اُن کو جنگ میں خواہ مخواہ مبتلاء ہونا پڑے اور اس غرض سے بھی تا اپنے حقوق کی حفاظت کریں.ایک علامت اس جنگ کی یہ بتائی گئی تھی کہ جہاز پانی میں ادھر ادھر چکر لگائیں گے تا ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کریں.یعنی بحری تیاریاں بھی بڑے زور سے ہوں گی اور تمام سمندروں میں کشتیاں چکر لگاتی پھریں گی.چنانچہ جس قدر جہازات اس جنگ میں استعمال ہوئے اور جس قدرسمندروں کا پہرا اس جنگ میں دیا گیا ہے اس سے پہلے کبھی اس کی مثال نہیں ملتی.خصوصاً چھوٹے جہازات یعنی ڈسٹرائروں (Destroyers) اور آبد وز کشتیوں نے اس جنگ میں اتنا حصہ لیا ہے جتنا پہلے کبھی نہیں لیا تھا اور الہام میں گشتیوں کے لفظ سے اسی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ اس جنگ میں بڑے جہازوں کی نسبت چھوٹے جہازات سے زیادہ کام لیا جائے گا.ایک نشانی اس آفت کی یہ بتائی گئی تھی کہ وہ اچانک آئے گی.چنانچہ یہ جنگ بھی ایسی اچانک ہوئی کہ لوگ حیران ہو گئے اور بڑے بڑے مدبروں نے اقرار کیا کہ گووہ ایک جنگ کے منتظر تھے مگر اس قدر جلد اس کے پھوٹ پڑنے کی اُن کو اُمید نہ تھی، آسٹریا
(rra) دعوة الامير کے شہزادے اور اُس کی بیوی کا قتل ہوا تھا کہ سب دنیا آگ میں کود پڑی.ایک علامت اس جنگ کی یہ بتائی گئی تھی کہ اس کے دوران میں ایسے مواقع نکلیں گے کہ عربوں کے لیے مفید ہوں گے اور عرب ان مواقع سے فائدہ اُٹھائیں گے اور سب جنگ کے لیے نکل کھڑے ہوں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا.ترکوں کے جنگ میں شامل ہونے پر عربوں نے دیکھا کہ وہ قومی آزادی کی خواہش جو صدیوں سے اُن کے دلوں میں پیدا ہو کر مر جاتی تھی اس کے پورا کرنے کا موقع آگیا ہے اور وہ سب یکدم ترکوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اور فوج در فوج ترکوں کے مقابلے کے لیے نکل پڑے اور آخر آزادی حاصل کر لی.ایک علامت یہ تھی کہ جس طرح میرا ذکر مٹ گیا ہے اسی طرح گھر برباد کر دیئے جائیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا.سب سے زیادہ عیاشی میں مبتلا ء علاقہ فرانس کا مشرقی علاقہ تھا.تمام یورپ کو شراب وہیں سے بہم پہنچائی جاتی تھی اور عیش وعشرت کو پسند کرنے والے کل مغربی ممالک سے وہاں جمع ہوتے تھے.سو اس علاقے کوسب سے زیادہ نقصان اُٹھانا پڑا جس طرح خدا کا ذکر وہاں سے مٹ گیا تھا وہاں کے درودیوار اسی طرح مٹادیئے گئے.ایک علامت یہ بتائی گئی تھی کہ ہماری فتح ہوگی.یعنی جس حکومت کے ساتھ مسیح موعود کی جماعت ہوگی اس کو فتح حاصل ہوگی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کی دعاؤں کے طفیل برطانیہ کو اس خطر ناک مصیبت سے نجات دی، گو اُس کے مد بر تو یہ خیال کرتے ہوں گے کہ ان کی تدبیروں سے یہ فتح ہوئی ہے لیکن اگر واقعات پر ایک تفصیلی نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حیرت انگیز اتفاقات انگریزوں کی فتح کا موجب
(Fr.) دعوة الامير ہوئے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فتح آسمانی دخل اندازی سے ہوئی ہے نہ کہ صرف انسانی تدابیر سے.ایک علامت جو اپنے اندر کئی نشانات رکھتی ہے یہ بتائی گئی تھی کہ اس جنگ میں زار کا حال بہت ہی خراب ہوگا.جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی اُس وقت کے حالات اس کے الفاظ کے پورا ہونے کے بالکل مخالف تھے مگر پیشگوئی پوری ہوئی اور ہر ایک کے لیے حیرت کا موجب بنی.اس پیشگوئی میں درحقیقت کئی پیشگوئیاں ہیں.اس میں بتایا گیا ہے کہ اس آفتِ عظمیٰ تک زار کوکوئی نقصان نہیں پہنچے گا.جب یہ جنگ ہوگی ، اس وقت اُس کو صدمہ پہنچے گا لیکن صدمہ اس قسم کا نہیں ہوگا کہ وہ مارا جائے.کیونکہ جو شخص مارا جائے اس کی نسبت یہ نہیں کہا جاتا کہ اس کا حال زار ہے.پس الفاظ الہام بتاتے ہیں کہ اس وقت اس کو موت نہیں آئے گی بلکہ وہ نہایت تکلیف دہ عذابوں میں مبتلاء ہوگا اور پھر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس آفت کے ساتھ ہی زاروں کا خاتمہ ہو جائے گا.کیونکہ اس وقت کا مورد کسی خاص شخص کو نہیں بلکہ زار کو بحیثیت عہدہ بتایا گیا ہے.اب دیکھئے یہ علامت کس شان کے ساتھ پوری ہوئی.اس جنگ سے پہلے زار کے خلاف بہت سی منصوبہ بازیاں ہوئیں مگر وہ بالکل محفوظ رہا.اس کے بعد یہ جنگ ہوئی اور اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا وقت آ گیا تو اس طرح اچانک وہ پکڑا گیا کہ سب لوگ حیران ہیں.جیسا کہ حالات سے معلوم ہوتا ہے جس وقت روس میں فساد پھوٹا ہے اُس وقت زار روس سرحد پر فوجوں کے معائنے کے لیے گیا ہوا تھا اور جب وہ دارالخلافہ سے چلا ہے اس وقت کوئی ایسا فساد نہ تھا.اس کے بعد گورنر کی بعض غلطیوں سے جوش پیدا ہوا، لیکن حکومتوں میں اس قسم کے جوش تو پیدا ہوہی جاتے ہیں اور اس قدر
(Fri) دعوة الامي مضبوطی سے قائم حکومتیں ایسے جوشوں سے یکدم نہیں مٹ جاتیں، مگر اللہ تعالیٰ اس موقع پر کام کر رہا تھا.زار روس نے لوگوں میں جوش کی حالت معلوم کر کے گورنر کو سختی کرنے کا حکم دے دیا مگر اس دفعہ بختی نے خلاف معمول اثر کیا ، لوگوں کا جوش اور بھی بڑھ گیا.بادشاہ نے اس گورنر کو بدل کر ایک اور گورنر مقرر کر دیا اور خود دار الخلافہ کی طرف چلاتا کہ اُس کے جانے سے لوگوں کا جوش ٹھنڈا پڑ جائے ، مگر راستے میں اُسے اطلاع ملی کہ لوگوں کا جوش تیزی پر ہے اور یہ کہ اس کو اس وقت دار الخلافہ کی طرف نہیں آنا چاہیئے مگر بادشاہ نے اس نصیحت کی پرواہ نہ کی اور خیال کیا کہ اس کی موجودگی میں کوئی شور نہیں ہوسکتا اور آگے بڑھتا گیا، کچھ ہی دُور آگے ٹرین گئی تھی کہ معلوم ہوا بغاوت ہوگئی ہے اور باغیوں نے دفاتر وزارت پر قبضہ کر لیا ہے اور ملکی حکومت قائم ہوگئی ہے یہ سب کچھ ایک ہی دن میں ہو گیا یعنی ۱۲؍ مارچ 191ء کی صبح سے شام تک دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ اختیار رکھنے والا بادشاہ جو اپنے آپ کوز ار کہتا تھا یعنی کسی کی حکومت نہ مانے والا اور سب پر حکومت کرنے والا.وہ حکومت سے بے دخل ہو کر اپنی رعایا کے ماتحت ہوگیا اور ۱۵ / مارچ کو مجبوراً اُسے اپنے ہاتھ سے یہ اعلان لکھنا پڑا کہ وہ اور اُسکی اولا د تخت روس سے دست بردار ہوتے ہیں اور حضرت اقدس کی پیشگوئی کے مطابق زاروں کے خاندان کی حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا، مگر ابھی اللہ تعالیٰ کے کلام کے بعض حصوں کا پورا ہونا باقی تھا.نکولس ( زار روس) (۱۸۶۸Nicholas II of Russiaء.۱۹۱۸ء) روسی شہنشاہوں میں سے آخری شہنشاہ تھا ۲۶ رمئی ۱۸۹۵ ء ماسکو میں اس کی تاجپوشی ہوئی.مطلق العنان اور جابر تھا.انقلاب روس نے مارچ ۱۹۱۷ء میں اسے تخت سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیا.اسے پہلے محل زار سکویئے سیلو اور پھر ٹویولسک میں قید رکھا گیا.۱۶ جولائی ۱۹۱۸ ء کو بالشویکوں نے
(rrr) دعوة الامير ایکاٹیرن برگ کے ایک تہہ خانہ میں اس کے خاندان سمیت اسے قتل کر ڈالا.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا.جلد دوم صفحہ ۱۷۴۱ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء، انسائیکلو پیڈیا برٹین کا گیارہواں ایڈیشن جلد ۱۹ صفحہ ۶۵۵) ثانی ( زار روس ) یہ سمجھا تھا کہ وہ حکومت سے بے دخل ہو کر اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی جان بچالے گا اور خاموشی سے اپنی ذاتی جائیدادوں کی آمدن پر گزارہ کر لے گا مگر اس کا یہ ارادہ پورا نہ ہوسکا ۱۵ / مارچ کو وہ حکومت سے دست بردار ہوا اور ۲۱ / مارچ کو قید کر کے سکوسیلیو(Skosilo) بھیج دیا گیا اور بائیں " کو امریکہ نے اور چوبیس " کو انگلستان ،فرانس اور اٹلی نے باغیوں کی حکومت تسلیم کرلی اور زار کی سب اُمیدوں پر پانی پھر گیا.اُس نے دیکھ لیا کہ اس کی دوست حکومتوں نے جن کی مدد پر اُسے بھروسہ تھا اور جن کے لیے وہ جرمن سے جنگ کر رہا تھا ایک ہفتہ کے اندراندر اس کی باغی رعایا کی حکومت تسلیم کر لی ہے اور اُس کی تائید میں کمزوری آواز بھی نہیں اُٹھائی مگر اس تکلیف سے زیادہ تکلیفیں اس کے لیے مقدر تھیں تا کہ وہ اپنی زار حالت سے اللہ تعالیٰ کے کلام کو پورا کرے گو وہ قید ہو چکا تھا مگر روس کی حکومت کی باگ شاہی خاندان کے ایک فرد شہزادہ دلواؤ (Dilvao) کے ہاتھ میں تھی جس کی وجہ سے قید میں اس کے ساتھ احترام کا سلوک ہو رہا تھا اور وہاں اپنے بچوں سمیت باغبانی اور اسی قسم کے دوسرے شغلوں میں وقت گزارتا تھا مگر جولائی میں اس شہزادہ کو بھی علیحدہ ہونا پڑا اور حکومت کی باگ کرنسکی (Kerensky) کیرنسکی الیکسا نڈر فیوڈ رو وچ Kerensky Alexander Feodorovich (۱۸۸۱ ، ۱۹۷۰ ) روسی سیاستدان جو روی انقلابی سوشلسٹ پارٹی سے تعلق رکھتا تھا ۱۹۱۲ ء میں وہ Fourth Duma کے لئے منتخب ہوا.اس کے بعد وزیر قانون اور War Minister بنایا گیا ۱۹۱۷ ء میں بطور عارضی وزیر اعظم شہزادہ لوڈ“ کا جانشین بنا اس کے بے تدبیری سے لینن نومبر میں اس کی حکومت کا تختہ الٹنے کے قابل ہو گیا.انقلاب روس کے بعد امریکہ
(rrr) دعوة الامير میں رہائش پذیر ہوا.(انسائیکلو پیڈیا جلد دوم صفحہ ۱۲۰۱ء مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)) کے ہاتھ میں دی گئی جس سے قید کی سختیاں بڑھ گئیں، تاہم انسانیت کی حدود سے آگے نہیں نکلی تھیں لیکن سات نومبر کو بولشویک بغاوت نے کرنسکی کی حکومت کا بھی خاتمہ کر دیا.اب زار کی وہ خطرناک حالت شروع ہوئی جسے سُن کر سنگدل سے سنگدل انسان بھی کانپ جاتا ہے.زار کوسکوسیکو کے شاہی محل سے نکال کر مختلف جگہوں میں رکھا گیا اور آخر ان مظالم کی یاد دلانے کے لیے جو وہ سائبیریا کی قید کے ذریعے اپنی بیکس رعایا پر کیا کرتا تھا، اکیپٹر ن برگ بھیج دیا گیا.یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے جو جبل یورال کی مشرق کی طرف واقع ہے اور ماسکو سے چودہ سو چالیس میل کے فاصلہ پر ہے اور اس جگہ پر وہ سب مشینیں تیار ہوتی ہیں جو سائبیریا کی کانوں میں جہاں روسی پولیٹیکل قیدی کام کیا کرتے تھے استعمال کی جاتی ہیں گویا ہر وقت اُس کے سامنے اس کے اعمال کا نقشہ رکھا رہتا تھا.صرف ذہنی عذابوں پر ہی اکتفا نہیں کی گئی بلکہ سویٹ نے اس کے کھانے پینے میں بھی تنگی کرنی شروع کی اور اس کے بیمار بچہ کو وحشی سپاہی اس کے اور اس کی بیوی کے سامنے نہایت بے دردی سے مارتے اور اس کی بیٹیوں کو نہایت ظالمانہ طور سے دق کرتے لیکن ان مظالم سے ان کا دل ٹھنڈا نہ ہوتا تھا اور نئی سے نئی ایجادیں کرتے رہتے تھے.آخر ایک دن زارینہ کو سامنے کھڑا کر کے اس کی نوجوان لڑکیوں کی جبراً عصمت دری کی گئی اور جب زارینہ اپنا منہ روتے ہوئے دوسری طرف کر لیتی تو ظالم سپاہی سنگینیں مار کر اسکو مجبور کرتے کہ وہ ادھر منہ کر کے دیکھے جدھر ظالم وحشیوں کا گروہ انسانیت سے گری ہوئی کارروائیوں میں مشغول تھا.زار اسی قسم کے مظالم کو دیکھتا اور ان سے زیادہ سختیاں برداشت کرتا ہوا جتنی کہ شاید کبھی کسی شخص پر بھی نازل نہ ہوئی ہوں گی ۱۶ / جولائی ۱۹۱۸ ء کو معہ کل افراد خاندان کے نہایت سخت عذاب
(Fr) کیسا تھ قتل کردیا گیا اور اللہ تعالیٰ کے نبی کی بات پوری ہوئی کہ زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی با حال زار دعوة الامير ( تذکره صفحه ۵۴۰.ایڈیشن چہارم) زار دکھوں اور تکلیفوں کو برداشت کرتا ہوا مر گیا.جنگ ختم ہوگئی.قیصر اور آسٹریا کے بادشاہ اپنی حکومتوں سے بے دخل ہو گئے.شہر ویران ہو گئے.پہاڑ اُڑ گئے.لاکھوں آدمی مارے گئے.خون کی ندیاں بہہ گئیں.دنیا تہ و بالا ہوگئی مگر افسوس کہ دنیا ابھی اللہ تعالیٰ کے فرستادہ کی صداقت کی دلیل طلب کر رہی ہے اللہ تعالیٰ کے خزانے عذاب سے بھی خالی نہیں.جس طرح کہ رحمت سے خالی نہیں مگر مبارک ہیں جو وقت پر سمجھ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے لڑنے کی بجائے اس سے صلح کرنے کے لیے دوڑتے ہیں اور اس کے نشانوں سے اندھوں کی طرح نہیں گزر جاتے.اللہ تعالیٰ کی اُن پر رحمتیں ہوتی ہیں اور اس کی برکتوں سے وہ حصہ پاتے ہیں اور دنیا کے لیے مبارک ہو جاتے ہیں.
۳۳۵ دسویں پیشگوئی قادیان کی ترقی کا نشان دعوة الامير اس وقت تک تو میں نے وہ نشان بیان کئے ہیں جو یا تو صرف انذار کا پہلو رکھتے تھے.یا دونوں پہلوؤں پر مشتمل تھے اب میں تین ایسے نشان بیان کرتا ہوں جو خالص تبشیر کا پہلو اپنے اندر رکھتے ہیں یہ تین مثالیں جو میں بیان کروں گا یہ بھی ایسی ہی ہیں کہ بوجہ اپنی عمومیت کے دوست اور دشمن میں شائع ہیں اور ہر مذہب وملت کے لوگوں میں سے اس کے گواہ مل سکتے ہیں اور اس وقت سے کہ ان کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ، حضرت اقدس علیہ السلام کی کتب اور ڈائریوں میں شائع ہوتی چلی آئی ہیں.سب سے پہلے میں اس پیشگوئی کا ذکر کرتا ہوں جو قادیان کی ترقی کے متعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت اقدس کو بتایا گیا کہ قادیان کا گاؤں ترقی کرتے کرتے ایک بہت بڑا شہر ہو جائے گا جیسے کہ بمبئی اور کلکتہ کے شہر ہیں.گویا نو دس لاکھ کی آبادی تک پہنچ جائے گا اور اس کی آبادی شمالاً اور شرقاً پھیلتے ہوئے بیاس تک پہنچ جائے گی.( تذکرہ صفحہ ۷۸۲.ایڈیشن چہارم ) جو قادیان سے نومیل کے فاصلے پر بہنے والے ایک دریا کا نام ہے.یہ پیشگوئی جب شائع ہوئی ہے اس وقت قادیان کی حالت یہ تھی کہ اس کی آبادی دو ہزار کے قریب تھی سوائے چند ایک پختہ مکان کے باقی سب مکانات کچے تھے مکانوں کا کرایہ اتنا گرا ہوا تھا کہ چار پانچ آنے ماہوار پر مکان کرایہ پر مل جاتا تھا.مکانوں کی زمین اس قدر ارزاں تھی که دس بارہ روپئے کو قابل سکونت مکان بنانے کے لئے زمین مل جاتی تھی.بازار کا یہ حال
(rry) دعوة الامير تھا کہ دو تین روپئے کا آٹا ایک وقت میں نہیں مل سکتا تھا کیونکہ لوگ زمیندار طبقہ کے تھے اور خود دانے پیس کر روٹی پکاتے تھے.تعلیم کے لئے ایک مدرسہ سرکاری تھا جو پرائمری تک تھا اور اسی کا مدرس کچھ الاؤنس لیکر ڈاک خانے کا کام بھی کر دیا کرتا تھا.ڈاک ہفتے میں دو دفعہ آتی تھی.تمام عمارتیں فصیل قصبہ کے اندر تھیں اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے ظاہری کوئی سامان نہ تھے کیونکہ قادیان ریل سے گیارہ میل کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کی سڑک بالکل کچی ہے اور جن ملکوں میں ریل ہوان میں اس کے کناروں پر جو شہر واقع ہوں انہیں کی آبادی بڑھتی ہے کوئی کارخانہ قادیان میں نہ تھا کہ اس کی وجہ سے قادیان کی ترقی ہوں نہ ضلع کا مقام تھا نہ تحصیل کا حتی کہ پولیس کی چوکی بھی نہ تھی.قادیان میں کوئی منڈی بھی نہ تھی جس کی وجہ سے یہاں کی آبادی ترقی کرتی جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی ہے اس وقت حضرت اقدس علیہ السلام کے مرید بھی چند سو سے زیادہ نہ تھے کہ ان کو حکماً لا کر یہاں بسا دیا جاتا تو شہر بڑھ جاتا.بے شک کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ آپ نے دعوی کیا تھا اس لیے امید تھی کہ آپ کے مُرید یہاں آکر بس جائیں گے لیکن اول تو کون کہہ سکتا تھا کہ اس قدر مرید ہو جائیں گے جو قادیان کی آبادی کو آکر بڑھا دیں گے ، دوم اس کی مثال کہاں ملتی ہے کہ مرید اپنے کام کاج چھوڑ کر پیر ہی کے پاس آبیٹھیں اور وہیں اپنا گھر بنالیں.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا مولد ناصرہ اب تک ایک گاؤں ہے.حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی ، حضرت شیخ احمد سر ہندی مجد دالف ثانی ، حضرت بہاؤ الدین صاحب نقشبندی رحمتہ اللہ علیہم جو معمولی قصبات میں پیدا ہوئے یا وہاں جا کر بسے اُن کے مولد یا مسکن ویسے کے ویسے ہی رہے.اُن میں کوئی ترقی نہ ہوئی یا اگر ہوئی تو معمولی جو ہمیشہ ترقی کے زمانے میں ہو جاتی ہے.شہروں کا
۳۳۷ دعوة الامير بڑھنا تو ایسا مشکل ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بادشاہ بھی اگر اقتصادی پہلو کونظرانداز کرتے ہوئے شہر بساتے ہیں تو اُن کے بسائے ہوئے شہر ترقی نہیں کرتے اور کچھ دنوں بعد اُجڑ جاتے ہیں اور قادیان موجودہ اقتصادی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے نہایت خراب جگہ واقع ہے نہ تو ریل کے کنارے پر ہے کہ لوگ تجارت کی خاطر آکر بس جائیں اور نہ ریل سے اس قدر دور ہے کہ لوگ بوجہ ریل سے دُور ہونے کے اُسی کو اپنا تمدنی مرکز قرار دے لیں.پس اس کی آبادی کا ترقی پانا بظا ہر حالات بالکل ناممکن تھا عجیب بات یہ ہے کہ قادیان کسی دریا یا نہر کے کنارے پر بھی واقع نہیں کہ یہ دونوں چیزیں بھی بعض دفعہ تجارت کے بڑھانے اور تجارت کو ترقی دے کر قصبے کی آبادی کے بڑھانے میں ممد ہوتی ہیں.غرض بالکل مخالف حالات میں اور بلا کسی ظاہری سامان کی موجودگی کے حضرت اقدس مسیح موعود نے پیشگوئی کی کہ قادیان بہت ترقی کر جائے گا.اس پیشگوئی کے شائع ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی جماعت کو بھی ترقی دینی شروع کر دی اور ساتھ ہی اُن کے دلوں میں یہ خواہش بھی پیدا کرنی شروع کر دی کہ وہ قادیان آ کر بسیں اور لوگوں نے ہلا کسی تحریک کے شہروں اور قصبوں کو چھوڑ کر قادیان آکر بسنا شروع کر دیا اور ان کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں نے بھی یہاں آکر بسنا شروع کر دیا.ابھی اس پیشگوئی کے پوری طرح پورے ہونے میں تو وقت ہے مگر جس حد تک یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے وہ بھی حیرت انگیز ہے.اس وقت قادیان کی آبادی ساڑھے چار ہزار یعنی دوگنی سے بھی زیادہ ہے فصیل کی جگہ پر مکانات بن کر قصبے نے باہر کی طرف پھیلنا شروع کر دیا ہے اور اس وقت قصبے کی پرانی آبادی سے قریباً ایک میل تک نئی عمارات بن چکی ہیں اور بڑی بڑی پختہ عمارات اور کھلی سڑکوں نے ایک چھوٹے سے قصبے کو ایک شہر کی حیثیت دے دی ہے بازار نہایت وسیع
(Fra) دعوة الامير ہو گئے ہیں اور ہزاروں کا سودا انسان جس وقت چاہے خرید سکتا ہے.ایک پرائمری سکول کی بجائے دو ہائی سکول بن گئے ہیں جن میں سے ایک ہندوؤں کا سکول ہے.ایک گرل سکول ہے اور ایک علوم دینیہ کا کالج ہے.ڈاک خانہ جس میں ایک ہفتے میں دو دفعہ ڈاک آتی تھی اور سکول کا مدرس الاؤنس لیکر اس کا کام کر دیا کرتا تھا.اب اس میں سات آٹھ آدمی سارا دن کام کرتے ہیں.تب جا کر کام ختم ہوتا ہے.اور تار کا انتظام ہورہا ہے ایک ہفتے میں دوبار نکلنے والا اخبار شائع ہوتا ہے.دو ہفت وار اُردو اور ایک ہفتے وار انگریزی اخبار شائع ہوتے ہیں ایک پندرہ روزہ اخبار شائع ہوتا ہے اور دو ماہوار رسالے شائع ہوتے ہیں.پانچ پریس جاری ہیں جن میں سے ایک مشین پریس ہے بہت سی کتب ہر سال شائع ہوتی ہیں.بڑے بڑے شہروں کی ڈاک اِدھر اُدھر ہو جائے تو ہو جائے مگر قادیان کا نام لکھ کر خط ڈالیں تو سیدھا یہیں پہنچتا ہے غرض نہایت مخالف حالات میں قادیان نے وہ ترقی کی ہے جس کی مثال دنیا کے پردے پر کسی جگہ بھی نہیں مل سکتی اقتصادی طور پر شہروں کی ترقیات کے لیے جو اصول مقرر ہیں ان سب کے علی الرغم اس نے ترقی حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کے کلام کی صداقت ظاہر کی ہے جس سے وہ لوگ جو قادیان کی پہلی حالت اور اس کے مقام کو جانتے ہیں خواہ وہ غیر مذاہب کے ہی کیوں نہ ہوں اس بات کا اقرار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ بیشک یہ غیر معمولی اتفاق ہے.مگر افسوس لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ کیا سب غیر معمولی اتفاق مرزا صاحب ہی کے ہاتھ پر جمع ہو جاتے تھے.
(rra) گیارھویں پیشگوئی نصرت مالی کے متعلق دعوة الامير تبشیری پیشگوئیوں میں سے دوسری مثال کے طور پر میں اس پیشگوئی کو پیش کرتا ہوں جو آپ کی مالی امداد کے متعلق کی گئی تھی.یہ پیشگوئی عجیب حالات اور عجیب رنگ میں کی گئی تھی اور در حقیقت آپ کی عظیم الشان پیشین گوئیوں میں سے یہ سب سے پہلی پیشگوئی تھی.اس کی تفصیل یوں ہے کہ ایک دفعہ آپ کے والد صاحب بیمار ہوئے.اس وقت تک آپ کو الہام ہونے شروع نہ ہوئے تھے.ایک دن جبکہ آپ کے والد صاحب کی بیماری بظاہر معلوم ہوتا تھا کہ جاتی رہی ہے صرف کسی قدر زحیر کی شکایت باقی تھی آپ کو سب سے پہلا الہام وَ السَّمَاءِ وَ الطَّارِقِ ہوا ( تذکرہ صفحہ ۲۴ ایڈیشن چہارم).چونکہ طارق رات کے آنے والے کو کہتے ہیں اس لئے آپ نے سمجھ لیا کہ (اس میں موت کے آنے کی خبر ہے اور آج رات ہونے پر والد صاحب فوت ہو جائیں گے اور یہ الہام بطریق ماتم پرسی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بکمال شفقت آپ سے کی ہے اور آنے والی تکلیف میں آپ کو تسلی دی ہے چونکہ بہت سی آمدنیاں آپ کے خاندان کی آپ کے والد صاحب کی زندگی تک ہی تھیں کیونکہ اُن کو پنشن اور انعام ملا کرتا تھا اسی طرح بہت سی جائیداد بھی ان کی زندگی تک ہی اُن کے پاس تھی ، اس لیے اس الہام پر بوجہ بشریت آپ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جب والد صاحب فوت ہو جائیں گے تو ہماری آمدن کے کئی راستے بند ہو جائیں گے.سرکاری پنشن اور انعام بھی بند ہو جائے گا اور جائیداد کا بھی اکثر حصہ شرکاء کے ہاتھوں میں
(rr.) دعوة الامير چلا جائے گا اس خیال کا آنا تھا کہ فوراً دوسرا الہام ہوا جو ایک بڑی پیشگوئی پر مشتمل تھا اور اس کے الفاظ یہ تھے کہ اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ( تذکرہ صفحہ ۲۵.ایڈیشن چہارم ) کیا خدا تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہ ہوگا.اس الہام میں چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے تکفل اور آپ کی ضروریات کے پورا کرنے کا وعدہ تھا.آپ نے کئی ہندوؤں اور مسلمانوں کو اس کی اطلاع دے دی تا وہ اس کے گواہ رہیں اور ایک ہند و صاحب کو جواب تک زندہ ہیں امرتسر بھیج کر اس الہام کی مہر کندہ کروائی.اس طرح سینکڑوں آدمی اس الہام سے واقف ہو گئے اس الہام کی حقیقت کو اور زیادہ واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ سامان کیا کہ آپ کے خاندان میں کچھ تنازعات ہو گئے اور ان کی وجہ سے آپ کی جائیداد کے متعلق خاندان ہی میں سے بہت سے دعوے دار کھڑے ہو گئے آپ کے بڑے بھائی جائیداد کے منتظم تھے.ان کا رشتہ داروں سے کچھ اختلاف ہو گیا.آپ نے ان کو مشورہ دیا کہ اُن سے حُسنِ سلوک کرنا چاہئیے مگر انہوں نے آپ کے مشورہ کو قبول نہ کیا.آخر عدالت تک نوبت پہنچی اور انہوں نے آپ سے دعا کے لیے کہا آپ نے دُعا کی تو معلوم ہوا کہ شرکا جیتیں گے اور آپ کے بھائی صاحب باریں گے.آخر اسی طرح ہوا.جائیداد کا دو تہائی سے زائد حصہ شرکاء کو دیا گیا اور آپ کے بھائی صاحب اور آپ کے حصے میں نہایت قلیل حصہ آیا.گو یہ جائیداد جو آپ کے حصہ میں آئی آپ کی ضروریات کے لئے تو کافی تھی مگر جو کام آپ کرنے والے تھے اس کے لیے یہ آمدن کافی نہ تھی.اس وقت اسلام کی اشاعت کے لیے اس عظیم الشان کتاب کی تیاری میں مشغول تھے جس کا نام براہین احمدیہ ہے اور جس کے لیے مقد رتھا کہ مذہبی دنیا میں ہل چل مچادے اور اس کتاب کی اشاعت کے لیے ایک رقم کثیر کی ضرورت تھی.اس نا اُمیدی کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے اُمید کے دروازے کھول دیئے اور ایسے
۳۴۱ دعوة الامير لوگوں کے دلوں میں تحریک پیدا کر دی جو دین سے چنداں تعلق نہیں رکھتے اور اس کتاب کی اشاعت کے لیے سامان بہم پہنچا دیا، مگر اس کتاب کے چار حصے ہی ابھی شائع ہوئے تھے کہ اخراجات اور بھی بڑھ گئے.کیونکہ جس طرف سے آپ حملے کا رخ پھیرنا چاہتے تھے اُدھر سے رُخ پھر گیا ، مگر خود آپ کے خلاف لوگوں میں جوش پیدا ہوگیا اور کیا ہندو اور کیا مسیحی اور کیا سکھ صاحبان سب مل کر آپ پر حملہ آور ہوئے اور آپ کے الہامات پر تمسخر شروع کر دیا.اُن کی غرض تو یہ تھی کہ ان الہامات کی عظمت کو صدمہ پہنچے تو وہ اثر جو آپ کی کتابوں سے لوگوں کے دلوں پر پڑا ہے زائل ہو جائے اور اسلام کے مقابلے پر اُن کو شکست نصیب نہ ہو، مگر مسلمانوں میں سے بھی بعض حاسد آپ کی مخالفت پر کھڑے ہو گئے اور گویا ایک ہی وقت میں چاروں طرف سے حملہ شروع ہو گیا اور اس بات کا آسانی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس شخص پر اپنے اور بیگانے حملہ آور ہو جائیں اس کے لیے کیسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے.پس لوگوں کے اعتراضات کا جواب دینے اور اسلام کی شان کو قائم رکھنے کے لیے کثیر مال کی ضرورت پیش آئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی سامان پیدا کر دیا.اس کے بعد تیسرا تغیر شروع ہوا یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ آپ ہی مسیح موعود ہیں اور پہلے مسیح فوت ہو چکے ہیں اس دعوے پر وہ لوگ بھی جو اس وقت تک آپ کے ساتھ تھے جُدا ہو گئے اور کل چالیس آدمیوں نے آپ کی بیعت کی.اس وقت گو یا عملاً ساری دنیا سے جنگ شروع ہوگئی اور جو لوگ پہلے مددگار تھے انہوں نے بھی مخالفت میں اپناز ورخرچ کرنا شروع کر دیا.اب تو اخراجات اندازے سے زیادہ بڑھنے شروع ہو گئے ایک تو مخالفوں کے اعتراضات کے جواب شائع کرنا دوسرے اپنے دعوی کولوگوں کے سامنے پیش کرنا اور اس کے دلائل دینا.تیسرے چھوٹے چھوٹے اشتہارات تقسیم کرنا تا کہ تمام ملک کو
(Fr) دعوة الامير آپ کے دعوے پر اطلاع ہو جائے یہی اخراجات بہت تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے اظہار کے لیے اور اخراجات کے دروازے بھی کھول دیئے یعنی آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ قادیان میں مہمان خانہ تعمیر کریں اور لوگوں میں اعلان کریں کہ وہ قادیان آ کر آپ کے مہمان ہوا کریں اور دینی معلومات کو زیادہ کیا کریں یا اگر کوئی شکوک ہوں تو اُن کو رفع کیا کریں.سب مدد گاروں کا جُدا ہو جانا اور اشاعت کے کام کا وسیع ہو جانا اور پھر اس پر مزید بوجھ مہمان خانے کی تعمیر اور مہمان داری کے اخراجات کا ایسی مشکلات کے پیدا کرنے کا موجب ہو سکتا تھا کہ سارا کام درہم برہم ہو جا تا مگر اللہ تعالیٰ نے ان چند درجن آدمیوں کے دل میں جو آپ کے ساتھ تھے اور جن میں سے کوئی شخص بھی مالدار نہیں کہلا سکتا تھا اور اکثر مسکین آدمی تھے ایسا اخلاق پیدا کر دیا کہ انہوں نے ہر قسم کی تکلیف برداشت کی لیکن دین کے کام میں ضعف نہ پیدا ہونے دیا اور در حقیقت یہ اُن کی ہمت کام نہیں کر رہی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کام کر رہا تھا.یہ وہ زمانہ تھا جب کہ احمدی جماعت پر چاروں طرف سے سختی کی جاتی تھی.مولویوں نے فتویٰ دے دیا کہ احمدیوں کو قتل کر دینا، ان کے گھروں کو لوٹ لینا، اُن کی جائیدادوں کا چھین لینا، اُن کی عورتوں کا بلا طلاق دوسری جگہ پر نکاح کر دینا جائز ہی نہیں موجب ثواب ہے اور شریر اور بدمعاش لوگوں نے جو اپنی طمع اور حرص کے اظہار کے لیے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں، اس فتوے پر عمل کرنا شروع کر دیا.احمدی گھروں سے نکالے اور ملازمتوں سے برطرف کئے جارہے تھے اُن کی جائیدادوں پر جبراً قبضہ کیا جارہا تھا اور کئی لوگ ان مخمصوں سے خلاصی کی کوئی صورت نہ پا کر ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے اور چونکہ ہجرت کی جگہ اُن کے لیے قادیان ہی تھی ، اُن کے قادیان آنے پر مہمان
(rrr) دعوة الامير داری کے اخراجات اور بھی ترقی کر گئے تھے.اس وقت جماعت ایک دو ہزار آدمیوں تک ترقی کر چکی تھی مگر ان میں سے ہر ایک دشمنوں کے حملوں کا شکار ہو رہا تھا، ایک دو ہزار آدمی جو ہر وقت اپنی جان اور اپنی عزت اور اپنی جائیداد اور اپنے مال کی حفاظت کی فکر میں لگے ہوئے ہوں اور رات دن لوگوں کے ساتھ مباحثوں اور جھگڑوں میں مشغول ہوں اُن کا تمام دنیا میں اشاعت اسلام کے لیے روپیہ بہم پہنچانا اور دین سیکھنے کی غرض سے قادیان آنے والوں کی مہمان داری کا بوجھ اُٹھانا اور پھر اپنے مظلوم مہاجر بھائیوں کے اخراجات برداشت کرنا ایک حیرت انگیز بات ہے.سینکڑوں آدمی دونوں وقت جماعت کے دستر خوان پر کھانا کھاتے تھے اور بعض غرباء کی دوسری ضروریات کا بھی انتظام کرنا پڑتا تھا.ہجرت کر کے آنے والوں کی کثرت اور مہمانوں کی زیادتی سے مہمان خانے کے علاوہ ہر ایک گھر مہمان خانہ بنا ہوا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کی ہر ایک کوٹھڑی ایک مستقل مکان تھا جس میں کوئی نہ کوئی مہمان یا مہاجر خاندان رہتا تھا.غرض بوجھ انسانی طاقت برداشت سے بہت بڑھا ہوا تھا.ہر صبح جو چڑھتی اپنے ساتھ تازہ ابتلاء اور تازہ ذمہ داریاں لاتی اور ہر شام جو پڑتی اپنے ساتھ تازہ ابتلاء اور تازہ ذمہ داریاں لاتی،مگر الیس اللَّهُ بِكَافٍ عَبدَہ کی نسیم سب فکروں کو خس و خاشاک کی طرح اڑا کر پھینک دیتی اور وہ بادل جو ابتداء مسلسلہ کی عمارت کی بنیادوں کو اکھاڑ کر پھینک دینے کی دھمکی دیتے تھے تھوڑی ہی دیر میں رحمت اور فضل کے بادل ہو جاتے اور ان کی ایک ایک بوند کے گرتے وقت آلیس اللَّهُ بِكَافٍ عَبدَہ کی ہمت افزا آواز پیدا ہوتی.اس صعوبت کے زمانے کا نقشہ میرے نزدیک افغانستان کے لوگ اچھی طرح اپنے ذہنوں میں پیدا کر سکتے ہیں کیونکہ پچھلے دنوں میں وہاں بھی مہاجرین کا ایک گروہ گیا تھا افغانستان ایک با قاعدہ حکومت تھی جوان
(re) دعوة الامير کے انتظام میں مشغول تھی ، پھر اُن میں سے بہت سے لوگ اپنے اخراجات خود بھی برداشت کرتے تھے مہمانوں کی نسبت میز بانوں کی تعداد بہت زیادہ تھی.افغانستان کے ایک کروڑ کے قریب باشندے صرف ایک دولاکھ آدمیوں کے مہمان دار بنے تھے، مگر باوجود اس کے مہمان داری میں کس قدر دقتیں پیش آئیں ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دو ہزار غریب آدمیوں کی جماعت پر جب ایک ہی وقت میں سینکڑوں مہمانوں اور غریب مہاجرین کا بوجھ پڑا ہو گا اور ساتھ ہی اشاعت اسلام کے کام کے لیے بھی ان کو روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہوگا اور وہ بھی ایسے وقت میں جب کہ اُن کے اپنے گھروں میں بھی لڑائی جاری تھی تو اُن لوگوں کی گردنیں کس قدر بار کے نیچے دب گئی ہوں گی.یہ ضروریات سلسلہ ایک دو روز کے لیے نہ تھیں اور نہ ایک دو ماہ کے لیے نہ ایک دو سال کے لیے، بلکہ ہر سال کام ترقی کرتا جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کام کے لیے آپ ہی بندوبست کر دیتا تھا ، ۱۸۹۸ء میں حضرت اقدس نے جماعت کے بچوں کی دینی تعلیم کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک ہائی سکول کھول دیا اس سے اخراجات میں اور ترقی ہوئی.پھر ایک رسالہ انگریزی اور ایک اُردو ماہواری اشاعت اسلام کے لیے جاری کیا اس سے اور بھی ترقی ہوئی ، مگر اللہ تعالیٰ سب اخراجات مہیا کرتا چلا گیا ، حتی کہ اس وقت ایک انگریزی ہائی سکول کے علاوہ ایک دینیات کا کالج، ایک زنانہ مدرسہ، کئی پرائمری اور مڈل سکول، ہندوستانی مبلغین کی ایک جماعت، ماریشس مشن، سیلون مشن، انگلستان مشن، امریکن مشن اور بہت سے صیغہ جات، تالیف واشاعت تعلیم و تربیت، انتظام عام اور قضاۃ اور افتاء وغیرہ کے ہیں اور تین چار لاکھ کے قریب سالانہ خرچ ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اپنے وعدہ الیس اللهُ بِكَافٍ عَبَدَہ کے ماتحت ہم پہنچارہا ہے.
۳۴۵ دعوة الامير ہماری جماعت غرباء کی جماعت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ ابتداءً غریب لوگ ہی اس کے سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر لوگ کہہ دیا کرتے ہیں مائرنگ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِيْنَ هُمْ أَرَاذِلْنَا بَادِيَ الرَّأْيِ (هود:۲۸) اور اس میں اُس کی حکمت یہ ہوتی ہے تا کوئی شخص یہ نہ کہے کہ یہ سلسلہ میری مدد سے پھیلا اور تا نادان مخالف بھی اس قسم کا اعتراض نہ کر سکیں پس ایسی جماعت سے اس قدر بوجھ اٹھوانا بلا نصرت الہی نہیں ہوسکتا.یہ غریب جماعت اسی طرح سرکاری ٹیکس ادا کرتی ہے جس طرح اور لوگ ادا کرتے ہیں.زمینوں کے لگان دیتی ہے.سڑکوں، شفاخانوں وغیرہ کے اخراجات میں حصہ لیتی ہے.غرض سب خرچ جو دوسرے لوگوں پر ہیں وہ بھی ادا کرتی ہے اور پھر دین کی اشاعت اور اس کے قیام کے لیے بھی روپیہ دیتی ہے اور برابر پینتیس سال سے اس بوجھ کو برداشت کرتی چلی آرہی ہے.اس زمانے میں بے شک نسبتاً زیادہ آسودہ حال اور معز ز لوگ اس جماعت میں شامل ہو گئے ہیں مگر اسی قدر اخراجات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے.پس کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ جبکہ باقی دنیا باوجود ان سے زیادہ مالدار ہونے کے اپنے ذاتی اخراجات کی تنگی پر ہی شکوہ کرتی رہتی ہے.اس جماعت کے لوگ لاکھوں روپیہ سالانہ ہلا ایک سال کا وقفہ ڈالنے کے اللہ کی راہ میں خرچ کر رہے ہیں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس امر کے لیے بھی تیار ہیں کہ اگر اُن سے کہا جائے کہ اپنے سب مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دو تو وہ اُسی وقت دے دیں.یہ بات کہاں سے پیدا ہوگئی؟ یقیناً أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عبدہ کا الہام نازل کرنے والے نے لوگوں کے دلوں میں تغیر پیدا کیا ہے ورنہ کونسی طاقت تھی جو اس وقت جبکہ حضرت مسیح موعود کو معمولی اخراجات کی فکر تھی، اس قدر بڑھ جانے والے اخراجات کے پورا کرنے کا وعدہ کرتی اور اُس وعدہ کو پورا کر کے دکھا دیتی.آخر
(y) دعوة الامير مسلمان کہلانے والے کروڑوں آدمی دنیا میں موجود ہیں وہ کس قدر روپیہ اسلام کی اشاعت کے لیے مہیا کر لیتے ہیں، ہماری جماعت کی تعداد کا اگر زیادہ سے زیادہ اندازہ لگایا جائے تو جس قدر روپیہ وہ اشاعت اسلام پر خرچ کرتی ہے اگر اُسی حساب سے ہندوستان کے دوسرے مسلمان بھی خرچ کریں تو آٹھ دس کروڑ روپیہ سالانہ اُن کو اس صورت میں خرچ کرنا چاہیے جبکہ اُن کی مالی حالت ہماری جماعت کی طرح ہو، لیکن ان میں بڑے بڑے والیان ریاست اور کروڑ پتی تاجر بھی ہیں.اگر اُن کا بھی خیال رکھ لیا جائے تو سالانہ پندرہ سولہ کروڑ روپیہ اشاعت اسلام پر صرف ہندوستان کے مسلمانوں کو خرچ کرنا چاہیئے.مگر وہ تو ہماری جماعت کے چار پانچ لاکھ کے مقابلہ میں ایک دو لاکھ روپیہ بھی خرچ نہیں کرتے.یہ فرق اس لیے ہے کہ ہمارے اندر لَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبَدَه کا وعدہ اپنا کام کر رہا ہے.
(۳۴۷) بارھویں پیشگوئی دعوة الامير ترقی جماعت کے متعلق آپ کی پیشگوئی جو پوری ہو کر دوست ودشمن پر حجت ہورہی ہے آب میں اُن تبشیری پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی کو بطور مثال پیش کرتا ہوں جو اس تعلیم کی اشاعت کے متعلق کی گئی تھیں.جس کے ساتھ آپ مبعوث کئے گئے تھے یعنی وہ علوم اور معارف جو قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں مگر لوگ ان سے ناواقفیت کی وجہ سے غافل ہو چکے تھے.یہ پیشگوئی بھی ایسی ہے کہ لاکھوں آدمی اس کے شاہد ہیں اور اس وقت کی گئی تھی کہ جب اس کے پورا ہونے کے سامان موجود نہ تھے.اس پیشگوئی کے الفاظ یہ تھے.”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ ( تذکرہ صفحہ ۳۱۲.ایڈیشن چہارم) میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور اُن کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا.( تذکرہ صفحہ ۱۴۱.ایڈیشن چہارم ) ( اللہ تعالیٰ ) اس (گروه احمدیان) کو نشو ونما دیگا یہاں تک کہ اُن کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی.يَأْتُونَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ ( تذکرہ صفحہ ۲۹۷.ایڈیشن چہارم) یعنی دنیا کے ہر ملک سے لوگ تیری جماعت میں داخل ہونے کے لیے آئیں گے.اِنَّا أَعْطَيْنگ الْكَوْثَر ( تذکرہ صفحہ ۴۷۶.ایڈیشن چہارم) ہم تجھے ہر چیز میں کثرت دیں گے جن میں جماعت بھی شامل ہے.انگریزی میں بھی آپ کو اس کے متعلق الہام ہوا.“ آئی شیل گو یو اے لارج پارٹی آف اسلام I shall give you a large party of Islam) ( تذکرہ
(FCA) دعوة الامير صفحہ ۱۰۳.ایڈیشن چہارم) میں تم کو مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت دوں گا.ثُلَّةَ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَ ثُلَّهُ مِنَ الْآخَرِيْنَ.(تذکرہ صفحہ ۱۰۳، ایڈیشن چہارم) پہلوں میں سے بھی ایک بڑی جماعت تم کو دی جائے گی اور پچھلوں میں سے بھی جس کے معنی یہ بھی ہیں کہ پہلے انبیاء کی امتوں میں سے بھی ایک گروہ کثیر تم پر ایمان لائے گا اور مسلمانوں میں سے بھی ایک بڑی جماعت تم پر ایمان لائے گی.يَا نَبِيَّ اللَّهِ كُنْتُ لَا أَعْرِفُكَ ( تذکرہ صفحہ ۵۰۳.ایڈیشن چہارم) زمین کہے گی ( یعنی اہل زمین ) کہ اے اللہ کے نبی! میں تجھے نہیں پہچانتی تھی.اِنَّا نَرِثُ الْأَرْضَ نَأْكُلُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ( تذکرہ صفحہ ۴۶۶.ایڈیشن چہارم) ہم زمین کے وارث ہوں گے اُسے اس کے کناروں کی طرف سے کھاتے آویں گے.ان الہامات میں سے بہت سے تو ایسے وقت میں ہوئے اور اسی وقت شائع بھی کرا دیئے گئے جبکہ آپ پر ایک شخص بھی ایمان نہیں لا یا تھا اور بعض بعد کو ہوئے جب سلسلہ قائم ہو چکا تھا مگر وہ بھی ایسے وقت میں ہوئے ہیں جبکہ سلسلہ اپنی ابتدائی حالت میں تھا اس وقت آپ کا یہ الہام شائع کر دینا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ آپ کے ساتھ ایک بڑی جماعت ہو جائے گی اور صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ تمام ممالک میں آپ کے مرید پھیل جائیں گے اور ہر مذہب کے لوگوں میں سے نکل کر لوگ آپ کے مذہب میں داخل ہوں گے.اور اُن کو اللہ تعالیٰ بہت بڑھائے گا اور کسی ملک کے لوگ بھی آپ کی تبلیغ سے باہر نہیں رہیں گے.کیا یہ ایک معمولی بات ہے؟ کیا انسانی دماغ قیاسات کی بناء پر ایسی بات کہہ سکتا ہے؟ یہ زمانہ علمی زمانہ ہے اور لوگ اپنے پہلے مذہب کو جس کی صداقت یوم ولادت سے اُن کے ذہن نشین کی جاتی رہی تھی چھوڑ رہے ہیں.آجکل مسیحی مسیحی نہیں رہے.ہندو ہندو نہیں
۳۴۹ دعوة الامير رہے، یہودی یہودی نہیں رہے اور پارسی پارسی نہیں رہے بلکہ ایک عقلی مذہب ان مذاہب کی رسوم کی چادر میں لپٹا ہوا سب جگہ پھیل رہا ہے نام مختلف ہیں مگر خیالات سب دنیا کے ایک ہو رہے ہیں.اس حال میں آپ کا یہ دعویٰ کرنا کہ جو لوگ اپنے پہلے نبیوں سے بیزار ہو کر نیچر کی اتباع میں مشغول ہیں آپ کو مان لیں گے بظاہر ناممکن الوقوع دعوی تھا، پھر آپ اُردو اور عربی اور فارسی کے سوا اور کوئی زبان نہیں جانتے تھے اور آپ ہندوستان کے باشندے تھے جس ملک کے باشندے آج سے تیس ۳۰ سال پہلے عرب اور ایران میں نہایت حقیر سمجھے جاتے تھے.کب اُمید کی جاسکتی تھی کہ عرب، ایران، افغانستان ،شام اور مصر کے باشندے ایک ہندوستانی پر ایمان لے آئیں گے کون کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان کے انگریزی پڑھے ہوئے لوگ جو قرآن کریم کومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام قرار دینے لگ گئے تھے اس بات کو مان لیں گے کہ اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے اور پھر ایسے آدمی سے جو انگریزی کا ایک لفظ نہیں جانتا جو ان کے نزدیک سب سے بڑا گناہ تھا پھر کونسی عقل تھی جو یہ تجویز کر سکتی تھی کہ السنہ مغربیہ سے ناواقف ،علومِ مغربیہ سے ناواقف ، رسوم و عاداتِ مغربیہ سے ناواقف انسان جو اپنے صوبہ سے بھی باہر بھی نہیں گیا ( حضرت اقدس علیہ السلام پنجاب سے باہر صرف علی گڑھ تک تشریف لے گئے ہیں ) وہ ان ممالک کے لوگوں تک اپنے خیالات کو پہنچا دیگا اور پھر وہ علوم وفنونِ جدیدہ کے ماہر اور ایشیائیوں کو کیڑوں مکوڑوں سے بدتر سمجھنے والے لوگ اس کی باتوں کوشن بھی لیں گے اور مان بھی لیں گے اور پھر کس شخص کے ذہن میں آسکتا تھا کہ افریقہ کے باشندے جو ایشیا سے بالکل منقطع ہیں اس کی باتوں پر کان دھریں گے اور اس پر ایمان لائیں گے حالانکہ اُن کی زبان جاننے والا ہندستان بھر میں کوئی نہیں مل سکتا.یہ سب روکیں ایک طرف تھیں اور اللہ تعالیٰ کا کلام ایک طرف تھا.آخر وہی ہوا
(ro.) دعوة الامير جو اللہ تعالیٰ نے کہا تھاوہ شخص جو تن تنہا ایک تنگ صحن میں ٹہل ٹہل کر اپنے الہامات لکھ رہا تھا اور تمام دنیا میں اپنی قبولیت کی خبریں دے رہا تھا، حالانکہ اس وقت اُسے اس کے علاقے کے لوگ بھی نہیں جانتے تھے باوجود سب روکوں کے اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید سے اُٹھا اور ایک بادل کی طرح گر جا اور لوگوں کے دیکھتے دیکھتے حاسدوں اور دشمنوں کے کلیجوں کو چھلنی کرتا ہوا تمام آسمان پر چھا گیا ہندوستان میں وہ برسا، افغانستان میں وہ برسا،عرب میں وہ برسا، مصر میں وہ برسا سیلون میں وہ برسا، بخارا میں وہ برسا، مشرقی افریقہ میں وہ برسا، جزیرہ ماریشس میں وہ برسا، جنوبی افریقہ میں وہ برسا، مغربی افریقہ کے ممالک میں وہ برسا ، نائیجیریا، گولڈ کوسٹ سیرالیون میں وہ برسا، آسٹریلیا میں وہ برسا، انگلستان اور جرمن اور روس کے علاقوں کو اُس نے سیراب کیا اور امریکہ میں جا کر اُس نے آب پاشی کی.آج دنیا کا کوئی بڑاعظم نہیں جس میں مسیح موعود کی جماعت نہیں اور کوئی مذہب نہیں جس میں سے اُس نے اپنا حصہ وصول نہیں کیا، مسیحی ، ہندو، بدھ، پاری ، سکھ ، یہودی سب قوموں میں سے اس کے ماننے والے موجود ہیں اور یورپین ،امریکن ، افریقن اور ایشیا کے باشندے اُس پر ایمان لائے ہیں اگر جو کچھ اُس نے قبل از وقت بتادیا تھا اللہ تعالیٰ کا کلام نہ تھا تو وہ کس طرح پورا ہو گیا؟ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ وہ یورپ اور امریکہ جو اس سے پہلے اسلام کو کھا رہے تھے مسیح موعود کے ذریعے سے اب اسلام اُن کو کھا رہا ہے کئی سو آدمی اس وقت تک انگلستان میں اور اسی طرح امریکہ میں اسلام لا چکا ہے اور روس اور جرمن اور اٹلی کے بعض افراد نے بھی اس سلسلے کو قبول کیا ہے.وہی اسلام جو دوسرے فرقوں کے ہاتھ سے شکست پر شکست کھا رہا تھا اب مسیح موعود کی دعاؤں سے دشمن کو ہر میدان میں نیچا دکھا رہا ہے اور اسلام کی جماعت کو بڑھا رہا ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ
۳۵۱ دعوة الامير گیارھویں دلیل آپ کا عشق اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی چند پیشگوئیوں کے بیان کرنے کے بعد اب میں آپ کے دعوے کی صداقت کی گیارھویں دلیل بیان کرتا ہوں اور وہ دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوْا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت :۷۰) یعنی جو لوگ ہمارے راستے میں کچی کوشش کرتے ہیں ہم اُن کو اپنے راستے رکھا دیتے ہیں اور اُن پر اُن کو چلاتے ہیں اور اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُل اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ ( آل عمران: ۳۲) کہہ دے کہ اگر تم کو اللہ تعالیٰ سے محبت ہے تو میری اتباع کرو.اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا.ان دونوں آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا سچا عشق اور اُس کی سچی محبت اور اس کے رسول کے عشق اور اس کی محبت کا ہمیشہ یہ نتیجہ ہوا کرتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے جاملتا ہے اور اس کا محبوب ہو جا تا ہے پس اس اُمت کے افراد کی صداقت کا یہ بھی ایک معیار ہے کہ اُن کے دل عشق الہی سے پُر ہوں اور اتباع رسول اُن کا شیوہ ہو اور اس معیار کے مطابق بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت روز روشن کی طرح ثابت ہے.محبت کا مضمون ایک ایسا مضمون ہے کہ مجھے اس پر کچھ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں.ہر ملک کے شاعر اس کی کیفیات کو غیر معلوم زمانے سے بیان کرتے چلے آئے اور تمام مذاہب اس پر ایمان اور وصول الی اللہ کی بنیا درکھتے چلے آئے ہیں، مگر سب شاعروں کے
(For) ۳۵۲ دعوة الامير بیان سے بڑھ کر کامل محبت کی مکمل تشریح وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے یعنی قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتَكُمْ وَأَمْوَالَ إِقْتَرَفْتَمُوْهَا وَتِجَارَةً تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوْا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (التوبہ: ۲۴۰) کہہ دے کہ اگر تمہارے باپ دادے اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں یا تمہارے خاوند اور تمہارے رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے بگڑ جانے سے تم ڈرتے ہو اور مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں کام کرنے سے تمہیں زیادہ پیارے ہیں تو تم کو اللہ تعالیٰ سے کوئی محبت نہیں تب تم اللہ تعالیٰ کے عذاب کا انتظار کرو اور اللہ تعالیٰ ایسے نافرمانوں کو کبھی اپنا رستہ نہیں دیکھا تا یعنی کامل محبت کی علامت یہ ہے کہ انسان اس کی خاطر ہر ایک چیز کو قربان کر دے.اگر اس بات کے لیے وہ تیار نہیں تو منہ کی باتیں اس کے لیے کچھ بھی مفید نہیں.یوں تو ہر شخص کہہ دیتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ سے محبت ہے اور اُس کے رسول سے محبت ہے بلکہ مسلمان کہلانے والا کوئی شخص بھی نہ ہوگا جو یہ کہتا ہو کہ مجھے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت نہیں ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس اقرار کا اثر اس کے اعمال پر ، اس کے جوارح پر اور اُس کے اقوال پر کیا پڑتا ہے.وہی لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنے آپ کو سر شار بتاتے ہیں اور آپ کی تعریف میں نظمیں پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں بلکہ بعض تو خود نعتیں کہتے بھی ہیں آپ کے احکام کی فرمانبرداری کی طرف اُن کو کچھ بھی توجہ نہیں ہوتی.وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اُس سے ملنے کے لئے کچھ بھی کوشش نہیں کرتے.ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کسی کا عزیز
(ror) دعوة الامير آ جائے تو وہ سو کام چھوڑ کر اس سے ملتا ہے.اپنے دوستوں اور پیاروں کی ملاقات کا موقع ملے تو شاداں و فرحاں ہو جاتا ہے.حکام کے حضور شرف باریابی حاصل ہو تو خوشی سے جامے میں پھو لانہیں سما تا لیکن لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعوے کرتے ہیں مگر نماز کے نزدیک نہیں جاتے یا نماز پڑھتے ہیں تو اس طرح کہ کبھی پڑھی کبھی نہ پڑھی یا اگر با قاعدہ بھی پڑھی تو ایسی جلدی جلدی پڑھتے ہیں کہ معلوم نہیں ہوتا کہ سجدہ سے انہوں نے سرکب اُٹھا یا اور پھر کب واپس رکھ دیا.جس طرح مرغ چونچیں مار کر دانہ اُٹھا تا ہے یہ سجدہ کر لیتے ہیں ، نہ خشوع ہوتا ہے نہ خضوع ، اسی طرح اللہ تعالیٰ روزے کا بدلہ اپنے آپ کو قرار دیتا ہے مگر لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑنے کے لیے نہیں جاتے اور اُس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ کی محبت ظاہر کرتے ہیں لیکن لوگوں کے حقوق دباتے ہیں.جھوٹ بولتے ہیں، بہتان باندھتے ہیں ،غیبتیں کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے عشق بیان کرتے ہیں لیکن قرآن کریم کا مطالعہ اور اُس پر غور کرنے کی توفیق اُن کو نہیں ملتی.کیا جس طرح آجکل لوگ قرآن کریم سے سلوک کرتے ہیں اسی طرح اپنے پیاروں کے خطوط سے بھی کیا کرتے ہیں؟ کیا ان خطوں کو لپیٹ کر رکھ چھوڑتے ہیں اور ان کو پڑھ کر ان کا مطلب سمجھنے کی کوششیں نہیں کرتے.غرض محبت کا دعوئی اور شے ہے اور حقیقی محبت اور شے محبت کبھی عمل اور قربانی سے جدا نہیں ہوتی اور اس قسم کی محبت اور اس قسم کا پیار ہمیں اس زمانے میں سوائے حضرت اقدس علیہ السلام اور آپ کے متبعین کے اور کسی شخص میں نظر نہیں آتا.آپ کی زندگی کے حالات بتاتے ہیں کہ جب سے آپ نے ہوش سنبھالا اُسی وقت سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت میں سرشار تھے اور ان کی محبت آپ کے رگ
۳۵۴ دعوة الامير وریشہ میں سمائی ہوئی تھی.بچپن ہی سے آپ احکام شرعیہ کے پابند تھے اور گوشہ نشینی کو پسند کرتے تھے.جب آپ تعلیم سے فارغ ہوئے تو آپ کے والد صاحب نے بہت چاہا کہ آپ کو کسی جگہ ملازم کرا دیں لیکن آپ نے اس امر کو پسند نہ کیا اور بار بار کے اصرار پر بھی انکار کرتے رہے اور خدا کی یاد کو دنیا کے کاموں پر مقدم کر لیا.آپ ایک نہایت معزز خاندان کے فرد تھے.اگر آپ چاہتے تو آپ کو معزز عہدہ مل سکتا تھا.جیسا کہ آپ کے بڑے بھائی کو ایک معتز زعہدہ حاصل تھا، لیکن آپ نے اس سے پہلو ہی بچایا.یہ نہیں تھا کہ آپ سست تھے اور شستی کی وجہ سے آپ نے ایسا کیا کیونکہ آپ کی بعد کی زندگی نے ثابت کر دیا کہ آپ جیسا محنتی شخص دنیا کے پردے پر ملنا مشکل ہے.ایک قادیان کے پاس رہنے والا سکھ جس کے باپ دادوں کے تعلقات آپ کے والد صاحب کے ساتھ تھے سنایا کرتا ہے اور باوجود مذہبی اختلاف ہونے کے اب تک اس واقعہ کوٹنا تے وقت اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں کہ ایک دفعہ ہمیں آپ کے والد صاحب نے آپ کے پاس بھیجا اور کہا کہ جاؤ اُن سے کہو کہ وہ میرے ساتھ حکام کے پاس چلیں، میں اُن کو تحصیلداری کا عہدہ دلانے کی کوشش کروں گا.وہ کہتا ہے کہ جب ہم آپ کے پاس گئے تو آپ ایک کوٹھڑی میں علیحدہ بیٹھے ہوئے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے.جب ہم نے آپ سے کہا کہ آپ کے والد صاحب آپ کو معز ز عہدہ دلانے کے لیے کہتے ہیں.آپ کیوں اُن کے ساتھ نہیں جاتے تو آپ نے کہا کہ میری طرف سے اُن کی خدمت میں باادب عرض کر دو کہ میں نے جس کی نوکری کرنی تھی کر لی ، آب وہ مجھے معاف ہی کر دیں تو اچھا ہے.اُن دنوں آپ کا شغل یہ ہوتا تھا کہ قرآن کریم کا مطالعہ کرتے رہتے یا احادیث کی کتب دیکھتے یا مثنوی رومی کا مطالعہ کرتے اور یتیموں اور مسکینوں کا ایک گروہ کسی کسی وقت
(roo) دعوة الامير آپ کے پاس آجا تا تھا جن میں آپ اپنی روٹی تقسیم کر دیتے اور بسا اوقات بالکل ہی فاقہ کرتے اور بعض اوقات صرف چنے بھنوا کر چبالیتے اور آپ کی خلوت نشینی اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ گھر کے لوگ آپ کو کھانا بھیجنا تک بھول جاتے.ایک دفعہ آپ اس خیال سے کہ والد صاحب کی نظروں سے علیحدہ ہو جاؤں ، تو شاید وہ مجھے دنیا کے کاموں میں پھنسانے کا خیال جانے دیں.قادیان سے سیالکوٹ چلے گئے اور وہاں عارضی طور پر گزارے کے لیے آپ کو ملازمت بھی کرنی پڑی ، مگر یہ ملازمت آپ کی عبادت گزاری میں روک نہ تھی.کیونکہ صرف سوال سے بچنے کے لیے آپ نے یہ ملازمت کی تھی، کوئی دنیاوی ترقی اس سے مقصود نہ تھی.اس جگہ آپ کو پہلی دفعہ اس بات کا علم ہوا کہ اسلام نہایت نازک حالت میں ہے اور دوسرے مذاہب کے لوگ اُسے کھانے کے درپے ہیں اور اس کا ذریعہ یہ ہوا کہ سیالکوٹ میں پادریوں کا بڑا مرکز تھا.وہ بازاروں اور کو چوں میں روزانہ اپنے مذہب کی اشاعت کرتے اور اسلام کے خلاف لوگوں کے دلوں میں شکوک ڈالتے تھے اور آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے کہ کوئی شخص اُن کا مقابلہ نہیں کرتا اور یہ وہ زمانہ تھا کہ لوگ سمجھتے تھے کہ مسیحیت گورنمنٹ کا مذہب ہے اور ڈرتے تھے کہ اس کا مقابلہ کریں گے تو نقصان پہنچے گا اور سوائے شاذ و نادر کے اکثر علماء پادریوں کی باتوں کا رڈ کرنے سے خوف کھاتے تھے اور جو مقابلہ بھی کرتے.وہ اُن کے حملوں کے آگے مغلوب ہو جاتے کیونکہ قرآن کریم کا علم ہی اُن کو حاصل نہ تھا، اس حالت کو دیکھ کر آپ نے پادریوں کا مقابلہ کرنے پر کمر ہمت باندھ لی اور خوب زور سے اُن سے بحث و مباحثہ شروع کیا اور پھر اس مقابلے کے دروازے کو آریوں اور دیگر اقوام کے واسطے بھی وسیع کر دیا.کچھ عرصے کے بعد آپ کو آپ کے والد صاحب نے واپس بلالیا اور پھر یہ خیال
(roy) دعوة الامير کر کے کہ اب تو آپ ملازمت کر چکے ہیں شاید اب ملازمت پر راضی ہوجائیں، پھر آپ کے ملازم کرانے کی کوشش کی مگر آپ ان سے معافی ہی چاہتے رہے.ہاں یہ دیکھ کر کہ آپ کے والد صاحب مصائب دنیوی میں بہت گھرے ہوئے ہیں ان کے کہنے پر یہ کام اپنے ذمے لے لیا کہ اُن کی طرف سے اُن کے مقدمات کی پیروی کر دیا کریں.ان مقدمات کے دوران میں آپ کی انابت الی اللہ اور بھی ظاہر ہوئی.ایک دفعہ ایسا ہوا کہ آپ مقدمے کی پیروی کے لیے گئے اور مقدمے کے پیش ہونے میں دیر ہوگئی ، نماز کا وقت آ گیا ، آپ با وجودلوگوں کے منع کرنے کے نماز کے لیے چلے گئے اور جانے کے بعد ہی مقدمہ کی پیروی کے لیے بلائے گئے مگر آپ عبادت میں مشغول رہے اُس سے فارغ ہوئے تو عدالت میں آئے.حسب قاعدہ سرکاری چاہئیے تو یہ تھا کہ مجسٹریٹ یکطرفہ ڈگری دے کر آپ کے خلاف فیصلہ سنا دیتا مگر اللہ تعالیٰ کو آپ کی یہ بات ایسی پسند آئی کہ اُس نے مجسٹریٹ کی توجہ کو اس طرف سے پھیر دیا اور اس نے آپ کی غیر حاضری کو نظر انداز کر کے فیصلہ آپ کے والد صاحب کے حق میں کر دیا.ایک صاحب جو آپ کے بچپن کے دوست تھے سناتے تھے کہ وہ لاہور میں ملازم تھے آپ بھی کسی اہم مقدمے کی پیروی کے لیے جس کی اپیل سب سے اعلیٰ عدالت میں دائر تھی وہاں گئے اور وہ مقدمہ ایسا تھا کہ اس میں ہارنے سے آپ کے والد صاحب کے حقوق اور بالآخر آپ کے حقوق کو سخت صدمہ پہنچتا تھا.وہ بیان کرتے ہیں کہ جب آپ مقدمے سے واپس آئے تو بہت خوش تھے میں سمجھا کہ آپ مقدمہ جیت گئے ہیں جبھی تو اس قدر خوش ہیں.میں نے بھی خوشی سے مقدمے میں کامیابی کی مبارک باد دی تو آپ نے فرمایا کہ مقدمے میں تو ہم ہار گئے ہیں.خوش اس لیے ہیں کہ اب کچھ دن علیحدہ بیٹھ کر ذکر الہی کا موقع ملے گا.
(۳۵۷) دعوة الامير جب آپ اس قسم کے معاملات سے تنگ آگئے تو آپ نے ایک خط اپنے والد صاحب کو لکھا جس میں اس قسم کے کاموں سے فارغ کر دیئے جانے کی درخواست کی تھی.اس خط کو میں یہاں نقل کر دیتا ہوں تاکہ معلوم ہو کہ آپ ابتدائی عمر سے کس قدر دنیا سے متنفر تھے اور یاد الہی میں مشغول رہنے کو پسند کرتے تھے یہ خط آپ نے اس وقت کے دستور کے مطابق فارسی زبان میں لکھا تھا اور ذیل میں درج ہے.حضرت والد مخدوم من سلامت! مراسم غلامانہ و قواعد فدویا نہ بجا آورده، معروض حضرت والا میکند ، چونکہ در میں ایام برای العین سے بینم و پشم سرمشاہدہ میکنم که در همه ممالک و بلاد ہر سال چناں وبائے مے افتد که دوستاں را از دوستاں و خویشان را از خویشاں جُدا میکند.ویچ سالے نے بینم کہ ایس نائرہ عظیم و چنیں حادثہ الیم در آن سال شور قیامت نیفگند نظر بر آن دل از دنیا سرد شده است ورواز خوفِ جاں زرد و اکثر این دو مصرعہ شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی بیاد می آیند واشک حسرت ریخته میشود مکن تکیه بر عمر نا پائیدار مباش ایمن از بازی روزگار و نیز این دو مصرعہ ثانی از دیوان فرخ ( حضرت اقدس کا ابتدائی ایام کا تخلص ہے ) نمک پاش جراحتِ دل میشود بدنیائے دُوں دل مبند اے جواں کہ وقت اجل مے رسد نا گہاں لہذا می خواہم کہ بقیہ عمر در گوشتہ تنہائی نشینم و دامن از صحبت مردم چینم و بیاد او سبحانه مشغول شوم ، مگر گزشتہ را عذرے و مافات را تدار کے شود عمر بگذشت نماندست جوایا مے چند به که در یاد کسے صبح کنم شامے چند
(ron) دعوة الامير که دنیا را اسا سے محکم نیست و زندگی را اعتبارے نے.وَالْكَيْسُ مَنْ خَافَ عَلَى نَفْسِهِ مِنْ أَفَةِ غَيْرِهِ - وَالسَّلام 66 جب آپ کے والد صاحب فوت ہو گئے تو آپ نے تمام کاموں سے قطع تعلق کر لیا.اور مطالعہ دین اور روزہ داری اور شب بیداری میں اوقات بسر کرنے لگے اور اخبارات اور رسائل کے ذریعے دشمنان اسلام کے حملوں کا جواب دیتے رہے.اس زمانے میں لوگ ایک ایک پیسے کے لئے لڑتے ہیں مگر آپ نے اپنی گل جائیداد اپنے بڑے بھائی صاحب کے سپر د کر دی.آپ کے لیے کھانا ان کے گھر سے آجا تا اور جب وہ ضرورت سمجھتے کپڑے بنوا دیتے اور آپ نہ جائیداد کی آمدن کا حصہ لیتے اور نہ اس کا کوئی کام کرتے.لوگوں کو نماز روزے کی تلقین کرتے تبلیغ اسلام کرتے.غریبوں مسکینوں کی بھی خبر رکھتے اور تو آپ کے پاس اس وقت کچھ تھا نہیں بھائی کے یہاں سے جو کھانا آتا اُسی کو غرباء میں بانٹ دیتے اور بعض دفعہ دو تین تولہ غذاء پر گزارہ کرتے اور بعض دفعہ یہ بھی باقی نہ رہتی اور فاقہ سے ہی رہ جاتے.یہ نہیں تھا کہ آپ کی جائیداد معمولی تھی اور آپ سمجھتے تھے کہ گزارہ ہو رہا ہے اس وقت ایک سالم گاؤں آپ اور آپ کے بھائی کا مشترکہ تھا اور علاوہ ازیں جا گیر وغیرہ کی بھی آمدن تھی.اسی عرصے میں آپ نے اسلام کی نازک حالت دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا و ابتهال و عاجزی شروع کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ پاکر براہین احمدیہ نامی کتاب لکھی جس کے متعلق اعلان کیا کہ اس میں تین سو د لائل صداقتِ اسلام کے دیئے جائیں گے یہ کتاب ہستی باری تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام پر سے اعتراضات کے دفعیہ میں ایک کاری حربہ ثابت ہوئی اور گونامکمل رہی مگر اس شکل میں بھی دوست و دشمن
(roa) دعوة الامير سے خراج تحسین وصول کئے بغیر نہ رہی اور بڑے بڑے علماء نے اس کتاب کے متعلق رائے ظاہر کی کہ یہ کتاب تیرہ سو سال کے عرصے میں اپنی نظیر آپ ہی ہے.اسلام کے بہترین ایام کے اکابر مصنفین کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ تعریف اپنے مطلب کی آپ ہی تشریح کرتی ہے اس کے علاوہ جو بھی رسالہ یا اخبار نکلتا آپ اس میں اسلام کی عظمت اور اُس کی حقیقت کو ظاہر کرتے اور دشمنانِ اسلام کے حملوں کا جواب دیتے.حتی کہ سب اقوام آپ کی دشمن ہوگئیں مگر آپ نے ذرہ بھر بھی پرواہ نہ کی.یہ وہ زمانہ تھا کہ ایک طرف تو مسیحی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دے رہے تھے اور دسری طرف آریہ گندہ دہنی سے کام لے رہے تھے لیکن ہندوستان کے علماء ایک دوسرے کے خلاف تکفیر کے فتوے شائع کر رہے تھے اسلام پامال ہورہا تھا مگر علماء کو رفع یدین اور ہاتھ سینے پر باندھیں یا ناف پر.آمین بالجہر کہیں یا آہستہ، یا اسی قسم کے اور مسائل سے فرصت نہ تھی.اس وقت آپ ہی ایک شخص تھے جو اسلام کے دشمنوں کے مقابلہ میں سینہ سپر تھے اور مسلمانوں میں اعمالِ صالحہ کے رواج دینے کی طرف متوجہ تھے آپ اس بحث میں نہ پڑتے کہ حنفیوں کا استدلال درست ہے یا اہلِ حدیث کا.بلکہ اس امر پر زور دیتے کہ جس امر کو بھی سچا سمجھو اس پر عمل کر کے دکھاؤ اور بے دینی اور اباحت کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل شروع کر دو.پنڈت دیانند بائی آریہ سماج سے آپ نے مقابلہ کیا.لیکھرام ، جیون داس، مرلی دھر، اندر من غرض جس قدر آریہ مذہب کے لیڈر تھے ان میں سے ایک ایک سے آپ بحث کی طرح ڈالتے اور اس وقت تک اس کا پیچھا نہ چھوڑتے جب تک وہ اسلام پر حملہ کرنے سے باز نہ آجاتا یا ہلاک نہ ہو جاتا.اسی طرح مسیحیوں کے مخش گومنادوں کا آپ مقابلہ کرتے کبھی فتح مسیح سے کبھی آتھم سے کبھی مارٹن سے کبھی ہاول
(r.) دعوة الامير سے کبھی رائٹ سے کبھی طالب مسیح سے اور اس پر بھی آپ کو تسلی نہ ہوتی ،انگریزی میں ترجمہ کروا کر ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اشتہارات یورپ اور امریکہ کو بھجواتے اور جس شخص کی نسبت سنتے کہ اسے اسلام سے دلچسپی ہے فوراً اس سے خط و کتابت کرتے اور اسلام کی دعوت دیتے.چنانچہ مسٹروب (Mr.Alexander Webb)امریکہ کا پرانا مسلمان آپ کی اسی وقت کی کوششوں کا نتیجہ ہے.یہ شخص نہایت معزز ہے اور کسی وقت ریاستہائے متحدہ امریکہ کی طرف سے سفارت کے عہدہ پر ممتاز تھا.آپ نے اس کی اسلام سے دلچپسی کا حال سن کر اُس سے خط و کتابت کی اور آخر اس سلیم الطبع آدمی نے اسلام قبول کر لیا اور اپنے عہدے سے دست بردار ہو گیا.غرض اللہ تعالیٰ کی توحید کی اشاعت اور رسول کریم کی صداقت کے اثبات کی آپ کو ڈھن لگی ہوئی تھی اور آپ ایک منٹ کے لیے بھی اس سے غافل نہ رہتے تھے اس کے بعد آپ نے دعوی کیا تو اس وقت سے آپ کا کام اور بھی وسیع ہو گیا.کوئی دشمن اسلام نہیں نکلا جس کے مقابلے پر آپ کھڑے نہ ہوئے ہوں، جہاں کسی کی نسبت سنا کہ وہ اسلام پر حملہ کرتا ہے فوراً اس کا مقابلہ شروع کر دیا.ڈوئی جو امریکہ کا جھوٹا نبی تھا جس کا ذکر پہلے آچکا ہے جب اس کی اسلام دشمنی کا حال آپ نے سنا تو سمندر پار سے اس کا مقابلہ شروع کر دیا.پگٹ (Mr.Piggott) نے ولایت میں خدائی کا دعویٰ کیا تو فوراً اس کوللکارا.غرض دنیا کے پردے پر جہاں کہیں بھی کوئی دشمن اسلام پیدا ہوا و ہیں اسے جا کر پکڑا اور نہیں چھوڑ ا جب تک کہ وہ اپنی شرارت سے باز نہ آ گیا یا مر نہیں گیا.آپ نے چوہتر سال عمر پائی اور تمام عمر رات اور دن خدمت اسلام میں مشغول رہے بعض دفعہ مہینوں تصنیف میں اس طرح مشغول رہتے کہ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ کب سوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کو اس قدر محبت تھی کہ
۳۶۱ دعوة الامير اسلام کے کام کو اپنا کام سمجھتے تھے اگر کوئی دوسرا شخص اسلام کی خدمت کرتا تو اس کے نہایت ہی ممنون ہوتے.بعض اوقات اکثر حصہ رات کا متواتر جاگتے اور کام میں مشغول رہتے اگر کوئی دوسرا شخص ایک دودن پروف ریڈری یا کا پیاں دینے کے کام میں آپ کی مدد کرتا تو اسے اتفاقاً کسی دن رات کو بھی کام کرنا پڑتا تو یہ نہ سمجھتے تھے کہ اس نے اسلام کا کام کیا اور اپنے فرض کو انجام دیا ہے بلکہ اس قدر شکر و امتنان کا اظہار کرتے کہ گویا اُس نے آپ کی کوئی ذاتی خدمت کی ہے اور آپ کو اپنا ممنونِ احسان بنالیا ہے.باوجود ضعف اور بیماری کے اسی سے یادہ کتب آپ نے تصنیف کیں اور سینکڑوں اشتہار اسلام کی اشاعت کے لیے لکھے اور سینکڑوں تقریریں کیں اور روزانہ لوگوں کو اسلام کی خوبیوں کے متعلق تعلیم دیتے رہے اور آپ کو اس میں اس قدر انہماک تھا کہ بعض دفعہ اطباء آپ کو آرام کے لیے کہتے تو آپ ان کو جواب دیتے کہ میرا آرام تو یہی ہے کہ دین اسلام کی اشاعت اور مخالفین اسلام کی سرکوبی کرتا رہوں حتی کہ آپ اپنی وفات کے دن تک خدمتِ اسلام میں لگے رہے اور جس صبح آپ فوت ہوئے ہیں اس کی پہلی شام تک ایک کتاب کی تصنیف میں جو ہندوؤں کو دعوتِ اسلام دینے کی غرض سے تھی مشغول تھے.اس سے اس سوز و گداز اور اس اخلاص و جوش کا پتہ لگ سکتا ہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کے جلال کے اظہار اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے اثبات کے لیے تھا.میں لکھ چکا ہوں کہ صرف محبت کا دعوئی محبت کا پتہ لگانے کے لیے حقیقی معیار نہیں ہے مگر وہ شخص جس نے اپنے ہر ایک عمل اور ہر ایک حرکت سے اپنے عشق ومحبت کو ثابت کر دیا ہو اُس کا دعویٰ اس کے دلی جذبات کے اظہار کا نہایت اعلیٰ ذریعہ ہے.کیونکہ بچے عاشق کے دلی جذبات اس کی غیر معمولی خدمات سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں اور بوجہ اس کے
(myr) دعوة الامي راستباز ہونے کے دوسرے کے دل کو بھی متاثر کرتے رہتے ہیں.پس میں آپ کی دو فارسی نظمیں کہ ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ کے عشق میں ہے اور ایک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں اس جگہ نقل کرتا ہوں:.ہر قربان تست جانِ من اے یار محسنم با من کدام فرق تو کر دی کہ من کنم کردی که ہر مطلب و مراد که می خواستم زغیب آرزو که بود بخاطر معتینم از جود دادہ ہمہ آں مدعائے من واز لطف کرده گذر خود بمسکنم پیچ آگهی نبود عشق و وفا مرا خود ریختی متاع محبت بدامنم این خاک تیره را تو خود اکسیر کرده بود آن جمال تو که نمود است احسنم ایس صیقل دلم نه بر بد و تعبد است خود کرده بلطف و عنایات روشنم صدمنت تو ہست بریں مشت خاک من جانم رہینِ لطفِ عمیم تو ہم تنم سهل است ترک ہر دو جہاں گر رضائے تو آید بدست اے پنہ و کہف و ماهنم فصل بهار و موسم گل نایدم بکار کاندر خیال روئے تو ہر دم به گلشنم چوں حاجت بود بأدیب دگر مرا من تربیت پذیر ز رپ مهیمنم زانساں عنایت ازلی شد قریب من کآمد ندائے یار زہر کوئے و برزنم يارب مرا بہر قدیم استوار دار واں روز خود مباد کہ عہد تو بشکنم در کوئے تو اگر سر عشاق را زنند اول کسے کہ لاف تعشق زند منم آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۵۸) عجب توریست در جان محمد عجب لعله ست در کان محمد زظلمتہائے دلے آنگہ شود صاف که گردد از محتان محمد
۳۶۳ دعوة الامير عجب دارم دلِ آں ناکساں را که رو تابند از خوان محمد ندانم بیچ نفسے در دو عالم که دارد شوکت و شان محمد خدازاں سینه بیزار است صد بار که هست از کینه داران محمد خدا خود سوزد آن کرم دنی را که باشد از عدوان محمد اگر خواہی نجات از مستی نفس ذیل مستان محمد اگر خواہی کہ حق گوید ثنایت بشو از دل ثناخوانِ محمد بیا در هست بربان محمد اگر خواہی دلیلے عاشقش باش محمدم سرے دارم فدائے خاک احمد دلم ہر وقت قربان محمد بگیسوئے رسول اللہ کہ ہستم شار رُوئے تابان محمد در میں رہ گر کشندم در بسو زند نتابم رو ز ایوان محمد دارم بکار دیں نترسم از جہانے رنگ ایمان محمد بسے سهل است از دنیا بریدن بیادِ حسن و احسان محمد فدا شد در رہش ہر ذره من که دیدم حسن پنهان محمدم وگر اُستاد را نامی ندانم که خواندم در دبستان محمد بدیگر دلبرے کارے ندارم که هستم کشته آن محمد مرا آں گوشته چشم بیاید نخواهم جز گلستان محمد دل زارم به پهلویم مجوئید بستیمش بدامان محمد من آن خوش مرغ از مُرغانِ قدیم که دارد جا به بستان محمد تو جان ما منوّر کردی از عشق فدایت جانم اے جان محمد
(myr) ۶۴ دعوة الامير دریغا گردهم صد جاں دریں راہ نباشد نیز شایان محمد چہ ہیبت با بدادند این جواں را کہ ناید کس بمیدان محمد الا اے دشمنِ نادان و بے راہ بترس از تیغ بیران محمد ره مولی که گم کردند مردم بجو در آل و اعوان محمد الا اے منکر از شان محمد ہم از نور نمایان محمد کرامت گرچه بے نام ونشان است بیا بنگر ز غلمان محمد ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۴۹) اب آپ غور کریں کہ جس شخص نے بچپن سے لیکر وفات تک اپنی عمر کی ہر ساعت اور ہر لمحہ کو اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے جلال کے اظہار اور اُس کے کلام کی اشاعت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور آپ کے دین کی اطاعت اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کے استحکام میں خرچ کر دیا ہو اور اپنوں اور بیگانوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی عزت کی حفاظت کے لیے اپنا دشمن بنالیا ہو اور اپنا ہر ذرہ اسلام کی خدمت میں لگا دیا ہو، کیا ایسا شخص گمراہ اور ضات اور مفسد اور دجال ہوسکتا ہے.اگر یہ اعمال مفسدانہ ہیں اگر اس قسم کا عشق کفر کی علامت ہے اگر ایسی محبت رسول گمراہی کا نشان ہے تو بخدا یہ گمراہی خدا مجھے ساری کرے نصیب یہ گفر مجھ کو بخش دے سارے جہان کا اللہ تعالیٰ گواہ ہے اور اس کا کلام گواہ ہے اور اُس کا رسول گواہ ہے اور عقلِ سلیم گواہ ہے کہ ایسا شخص ہرگز ہرگز گمراہ اور جھوٹا نہیں ہوسکتا.اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا اس قدر عشق اور اس کی اس قدر اطاعت اور فرمانبرداری اور اُن کے احکام کی
(10) دعوة الامير اشاعت کے لیے اس قدر کوشش کر کے اور اُن کے لیے پہلوں اور پچھلوں سے زیادہ غیرت دکھا کر بھی کوئی شخص کذاب و دجال ہی بنتا ہے تو دنیا کے پردے پر کبھی کوئی شخص ہدایت کا مستحق نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہوگا.
(PTY) بارھویں دلیل آپ کی قوت اختیاء دعوة الامير بارھویں دلیل کے طور پر میں حضرت اقدس کی قوت احیاء کو پیش کرتا ہوں اور یہ دلیل بھی ماسبق دلائل کی طرح ہزاروں دلائل کا مجموعہ ہے اس وقت مسلمانوں کا مسیحیوں کی طرح یہ خیال ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام جسمانی مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے مگر جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں یہ خیال قرآن کریم کی تعلیم کی رُو سے شرک ہے اور ایمان کو ضائع کرنے والا ہے مگر اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ حضرت مسیح باقی انبیاء کی طرح ضرور مُردے زندہ کیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ کا کلام اس پر گواہ ہے اور اس کا منکر اللہ تعالیٰ کے کلام کا منکر ہے.یہ مُردے رُوحانی مردے ہوتے تھے اور در حقیقت انہیں مردوں کے احیاء کے لیے انبیاء آیا کرتے ہیں اور کوئی نبی نہیں گزرا جس نے اس قسم کے مردے زندہ نہ کئے ہوں.آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک کل انبیاء اسی غرض کے لیے مبعوث کئے گئے تھے کہ مردوں کو زندہ کریں اور اولو العزم انبیاء کی صداقت پر کھنے کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ اُن کے ہاتھوں سے مُردے زندہ ہوں اور اگر کوئی یہ معجزہ نہ دکھا سکے تو اس کا دعویٰ نبوت ضرور مشکوک ہو جاتا ہے اور جو شخص اس قسم کے مردے زندہ کر کے دکھا دے وہ یقینا اللہ تعالیٰ کا فرستادہ ہے کیونکہ یہ احیاء بغیر اذن اللہ کے نہیں ہوسکتا اور جسے اذن اللہ حاصل ہو گیا اس کے بچے ہونے میں کیا شک رہا.اے بادشاہ! یہ نشان حضرت اقدس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ نے اس کثرت سے
۳۶۷ دعوة الامير ظاہر کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اور کسی نبی کی تاریخ اور اس کے حالات سے اس وضاحت کے ساتھ اس نشان کے ظہور کا پتہ نہیں چلتا، واللهُ أَعْلَمُ بِالْصَّوَابِ.حضرت اقدس اس وقت دنیا میں تشریف لائے تھے جس وقت نہ صرف روحانی موت ہی دنیا پر طاری تھی بلکہ مرے ہوئے لوگوں کو اس قدر عرصہ ہو گیا تھا کہ جسم گل سڑ گئے تھے اور افتراق شروع ہو گیا تھا، یہ ایسی سخت موت تھی کہ اس موت کی حسرت ناک حالت سے تمام انبیاء علیہم السلام لوگوں کو ڈراتے آئے ہیں چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں.إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيَّ بَعْدَ نُوْحٍ إِلَّا قَدْ انْذَرَ قَوْمَهُ الدَّجَّالَ وَإِنِّي أَنْذِرُ كُمُوْهُ (ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء فی الدجال) یعنی حضرت نوح کے بعد کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے دجال کے فتنہ سے اپنی قوم کو نہ ڈرایا ہو اور میں بھی تم کو اس سے ڈراتا ہوں.پس دجالی فتنے سے مارے ہوئے لوگوں سے زیادہ زندگی سے دور دوسرے مُردے نہیں ہو سکتے اور ایسے اُمیدوں کی حد سے گزرے ہوئے مُردوں کا زندہ کر نادر حقیقت ایک بہت بڑا مشکل کام تھا مگر آپ نے یہ کام کیا اور ہزاروں لاکھوں مُردے زندہ کر کے دکھا دیئے اور ایک ایسی جماعت پیدا کر دی جس کی نظیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جماعت کو مستی کر کے دوسری جماعتوں میں نہیں ملتی.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تعلقات اپنی قوم کے ساتھ سیاسی بھی تھے.اس لیے ان کی ساری قوم اُن پر ایمان لا کر ہی ان کے ساتھ نہ تھی، بلکہ بہت سے لوگ سیاسی حالات کو مد نظر رکھ کر ان کے ساتھ چلنے پر مجبور تھے جو لوگ اُن پر ایمان لاکر ان کے ساتھ ہوئے اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَمَا آمَنَ لِمُؤْسَى الَّا ذُرِّيَّةً مِنْ قَوْمِهِ (یونس : ۸۴) یعنی موسی کی اطاعت نہیں کی مگر اُن کی قوم کے کچھ نوجوانوں نے.یہ تو قیام مصر کا حال تھا، مصر سے نکل کر بھی اکثر حصہ آپ کی قوم کا آپ کی صداقت کا
(YA) دعوة الامير دل سے قائل نہ تھا ہاں سیاستا آپ کے ساتھ تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ موسیٰ“ کی قوم کے ایک حصہ نے خروج مصر کے بعد اُن سے کہا یمُوْسَی لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّعِقَةُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ (البقرہ: ۵۶) اے موسیٰ ! ہم تیری بات ہرگز نہ مانیں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں.پس تم کو عذاب الہی نے پکڑ لیا.در آں حالیکہ تم دیکھ رہے تھے اسی طرح قرآن کریم سے بھی معلوم ہوتا ہے اور انجیلوں اور تاریخوں سے بھی کہ حضرت عیسی علیہ السلام پر بھی بہت ہی کم لوگ ایمان لائے تھے اور ان میں سے جو خلص تھے اور جنہوں نے حقیقی زندگی پائی تھی وہ تو بہت ہی کم تھے لیکن حضرت اقدس علیہ السلام چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض روحانیہ کے جاری کرنے اور آپ کی برکات کو دنیا میں پھیلانے کے لیے آئے تھے اور مسیح محمدی کا مقام بلند رکھتے تھے آپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے بہت سے مُردے زندہ کئے اور ایسے مردے زندہ کئے کہ اگر اُن پر چشمہ محمدیہ کا پانی نہ چھڑ کا جاتا تو اُن کے جینے کی کوئی اُمید ہی نہیں ہوسکتی تھی.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اس زمانے میں جبکہ چاروں طرف بدعات اور رسوم اور دنیا طلبی اور فسق اور دین سے نفرت اور کلام الہی سے بے پروائی اور شرائع کی ہتک اور اعمالِ صالحہ سے غناء اور دُعا سے بے توجہی اور غیرت دینی کی کمی نظر آرہی ہے حضرت اقدس نے ایک ایسی جماعت پیدا کر دی ہے جو باوجود تعلیم یافتہ ہونے کے اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول اور اس کے ملائکہ اور دُعا اور معجزات اور کلام الہی اور حشر اور نشر اور جنت اور دوزخ پر پورا یقین رکھتی ہے اور شریعتِ اسلام کی حتی الوسع پابند ہے اور اس جماعت میں تلاش سے ہی کوئی آدمی ایسا ملے گا جو نمازوں کی ادائیگی میں تغافل کرتا ہو اور یہ جو کچھ کمی ہے یہ بھی
۳۶۹ دعوة الامير ابتدائی حالت کا نتیجہ ہے اور آہستہ آہستہ دور ہو رہی ہے کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جبکہ کالجوں کے طالب علم اور تعلیم جدید کے دلدادہ دین سے بکلی متنفر ہیں اور دین کو صرف سیاسی اجتماع کا ذریعہ خیال کرتے ہیں.حضرت اقدس کے ذریعے سے ایک ایسی جماعت نو تعلیم یافتہ لوگوں کی تیار ہوئی ہے اور ہورہی ہے جس کی سجدہ گا ہیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں اور جس کے سینے گریہ و بکا کے جوش سے ہانڈی کی طرح اُبلتے ہیں اور جو اشاعتِ اسلام اور اعلائے کلمہ اسلام کو تمام سیاسی ترقیات اور حصول جاہ پر مقدم کر کے ماسویٰ کو اس پر قربان کر رہی ہے.اس میں بہت سے دنیا کما سکتے ہیں، مگر خدا کے دین کو کمزور دیکھ کر اور علمی جہاد کی ضرورت محسوس کر کے تمام اُمنگوں پر لات مار کر دین کی خدمت میں لگ گئے ہیں اور قلیل کو کثیر پر ترجیح دے رہے ہیں اور فاقہ کشی کو سیر شکمی سے زیادہ پسند کرتے ہیں.اُن کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا نام ہے ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت ہے اور ان کے اعمال اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی عظمت کو ظاہر کر رہے ہیں اور اُن کے چہروں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا عشق ٹپک رہا ہے وہ اسی دنیا میں بستے ہیں اور اُن کے کان آزادی کی آوازوں سے نا آشنا نہیں، اُن کے دماغ آزادی کے خیالات سے ناواقف نہیں ، ان کی آنکھیں آزادی کی جدو جہد کے دیکھنے سے قاصر نہیں، انہوں نے بھی وہ سب کچھ پڑھا اور سنا ہے جو دوسرے لوگ پڑھتے اور سنتے ہیں ، مگر بائیں ہمہ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ اسلام اس وقت اس قدر آزادی کا محتاج نہیں جس قدر کہ غلامی کا.دجالی فتنے نے جو نقصان اسلام کو پہنچایا ہے.وہ اس وسیع انتظام کے ذریعہ پہنچایا ہے جو اُس نے اسلام کی بیخ کنی کے لیے اختیار کیا تھا اور یہ کہ اسلام کی ترقی اس وقت صرف ایک بات چاہتی ہے کہ سب لوگ اللہ تعالیٰ کے ہو کر ایک جھنڈے کے نیچے آجائیں.
(rz.) دعوة الامير بڑے اور چھوٹے امیر اور غریب، عالم اور جاہل اپنی اپنی تمام طاقتوں اور قوتوں کو ایک جگہ لا کر رکھ دیں اور ایک ہاتھ پر جمع ہو جائیں تا مشترکہ طور پر کفر و فساد کا مقابلہ کیا جائے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم اور اسلام کے مفاد کو اپنے خیالات پر ترجیح دی اور زمانے کے اثرات سے متاثر ہونے سے انکار کر دیا اور اپنے ہاتھ سے اپنے گلوں میں اطاعت کی رتی ڈال لی اور خوشی سے اس امر کے لیے تیار ہو گئے کہ اسلام کی بہتری کو مد نظر رکھ کر جس طرف اور جدھر بھی وہ ہاتھ اشارہ کرے، جس پر وہ جمع ہو گئے ہیں، وہ بلا عذر اور بلا حیلہ اُدھر کو چل دیں گے اور کسی قربانی سے دریغ نہ کریں گے اور کسی تکلیف کو خیال میں نہ لائیں گے اور یہی نہیں کہ انہوں نے منہ سے یہ اقرار کیا بلکہ عملاً اسی طرح کر کے بھی دکھایا اور اس وقت ان میں سے کئی اپنے وطنوں سے دُور ، اپنے بیوی بچوں سے دور ، روپیہ کے لئے نہیں بلکہ سخت مالی اور جانی تکلیف اُٹھا کر خلیفہ وقت کی اطاعت میں اشاعت اسلام کر رہے ہیں اور بہت ہیں جو اس انتظار میں ہیں کہ کب اُن کو حکم ملتا ہے کہ وہ بھی سب دنیاوی علاقوں کو توڑ کر اللہ تعالیٰ کے جلال کے اظہار کے لیے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں.مِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ.(الاحزاب: ۲۴) فَجَزَاهُمُ اللَّهُ عَنَّا أَحْسَنَ الْجَزَاءِ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے مارے بیٹے جاتے ہیں اور گھروں سے نکالے جاتے ہیں اور اُن کو گالیاں دی جاتی ہیں اور حقیر سمجھا جاتا ہے مگر وہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں کیونکہ اُن کے دل منور ہو گئے اور ان کی باطنی آنکھیں کھل گئی ہیں اور انہوں نے وہ کچھ دیکھ لیا جو دوسروں نے نہیں دیکھا وہ ماریں کھاتے ہیں مگر دوسروں کی خیر خواہی کرتے ہیں.ذلیل کئے جاتے ہیں لیکن دوسروں کے لیے عزت چاہتے ہیں.وہ کون ہیں جو اس وقت اسلام کی حفاظت اور اُس کی اشاعت کے لیے امریکہ میں
(rzi) دعوة الامير تنہا لڑ رہا ہے اور گو ایک وسیع سمندر میں ایک بلبلے کی طرح پڑا ہوا ہے مگر اس کا دل نہیں گھبراتا.وہ ایک مردہ تھا جسے مسیح محمدی نے اپنے ہاتھ سے زندہ کیا ہے اور وہ اس لیے تن تنہا امریکہ کو اسلام کے حلقہ غلامی میں لانے کے لیے کوشاں ہے کہ وہ جانتا ہے کہ ایک زندہ کروڑوں مردوں پر بھاری ہے.وہ کون ہیں جو انگلستان میں اشاعتِ اسلام کر رہے ہیں؟ وہ یہی مسیح محمدی کے زندہ کئے ہوئے لوگ ہیں اور گوجسمانی طور پر انگلستان نے ہندوستان کو فتح کر لیا ہے مگر وہ یہ جانتے ہیں کہ انگلستان کی رُوح مرچکی ہے وہ خدا سے دُور جا پڑا ہے وہ اُس زندگی کے پانی کی بوتلیں لے کر جس سے مسیح نے ان کو زندہ کیا ہے دوسروں کے زندہ کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں.انگلستان کا اقبال ، اس کی دولت، اس کی حکومت ان کو ڈراتی نہیں کیونکہ اُن کو یقین ہے کہ وہ زندہ ہیں اور انگلستان مُردہ.پھر زندہ مردے سے کیا ڈرے اور اس سے کیوں گھبرائے.مغربی افریقہ کا ساحل جہاں مسیحیت نے اپنے پاؤں پھیلانے شروع کئے تھے اور لاکھوں آدمیوں کو مسیحی بنالیا تھا اور ایک آدمی کی پرستش کے لیے لوگ جمع کئے جارہے تھے وہاں کون واحد خدا کے نام کو بلند کرنے کے لیے گیا اور شرک کی توپ کے آگے سینہ سپر ہوا ؟ وہی مسیح موعود کے نفخ سے زندہ ہونے والے لوگ جو اس وقت اسلام کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوئے جب لوگ اسلام کی موت کا یقین کر بیٹھے تھے اور اس کے اثر کو مٹتا ہوا دیکھنے لگے تھے.کس نے ماریشس کی طرف توجہ کی اور اس ایک طرف پڑے ہوئے جزیرے کے باشندوں کو زندگی بخشنے کا کام اپنے ذمہ لیا، کس نے لنکا کو جو نہایت قدیم تاریخی روایات
۳۷۲ دعوة الامير کا مقام ہے جا کر اپنی آواز سے چونکا یا ، کون روس اور افغانستان کے لوگوں کو زندگی کی نعمت بخشنے کے لیے گیا، یہی مسیح موعود کے زندہ کئے ہوئے لوگ.کیا یہ زندگی کی علامت نہیں کہ چالیس کروڑ مسلمانوں میں سے کوئی نظر نہیں آتا جو تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کے لیے اپنے گھر سے نکلا ہو لیکن ایک مٹھی بھر احمد یوں میں سے سینکڑوں اس کام پر لگے ہوئے ہیں اور اُن ممالک میں تبلیغ کر رہے ہیں اور ان لوگوں کو مسلمان بنارہے ہیں جن کی نسبت خیال بھی نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ کبھی اسلام کا نام بھی سنیں گے.اگر اس جماعت کے افراد میں نئی زندگی نہیں پیدا ہوئی تو انہوں نے دنیا کا نقشہ کس طرح بدل دیا اور ان میں تن تنہا ملکوں کا مقابلہ کرنے کی جرات کیونکر پیدا ہوئی اور کس امر نے اُن کو مجبور کیا کہ وہ وطن چھوڑ کر بے وطنی میں دھکے کھاتے پھریں ، کیا اُن کے ماں باپ نہیں ، ان کی بیویاں بچے نہیں ، ان کے بہن بھائی نہیں ، اُن کے دوست آشنا نہیں ، ان کو اور کوئی کام نہیں ؟ پھر کس چیز نے ان کو دُنیا سے ہٹا کر دین کی طرف لگا دیا.اسی بات نے کہ انہوں نے زندگی کی روح پائی اور مُردہ چیزوں کو اس زندہ خدا کے لیے جو سب زندگیوں کا سر چشمہ ہے چھوڑ دیا وہ ان میں سما گیا اور وہ اس میں سما گئے.فَتَبَارَگ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (المؤمنون : ۱۵) میں نے مسیح موعود کی جو زندگی بخش طاقت لکھی ہے یہ مشتبہ رہے گی اگر میں اس زندگی کے اثر کو بیان نہ کروں جو حقیقی معیارِ حیات ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت اقدس نے اپنی قوتِ احیاء میں ایسی زندگی لوگوں کے دلوں میں پیدا کی کہ بہت سے ان میں سے نہ صرف زندہ ہی ہوئے بلکہ اُن کو بھی احیاء موتی کی طاقت دی گئی.اگر یہ طاقت آپ کے
۳۷۳ دعوة الامير ذریعے اوروں کو نہ ملتی تو یہ شبہ رہتا کہ شاید آپ کے دماغ کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ آپ پر وہ علوم کھولے جاتے ہیں جو آپ بیان کرتے ہیں اور آپ وہ نظارے دیکھ لیتے ہیں جو اپنے وقت پر پورے ہو جاتے ہیں اور آپ کی توجہ میں وہ تاثیر پیدا ہوگئی ہے جس سے آپ کی خواہشات برنگ دُعا پوری ہو جاتی ہیں مگر نہیں آپ اس خزانے کو اپنے ساتھ ہی نہیں لے گئے بلکہ جو لوگ بچے طور پر آپ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ان کو بھی یہ سب طاقتیں علیٰ قدر مراتب ملتی ہیں.آپ کی محبت اور آپ کے ساتھ تعلق کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اپنے علوم کی بارش دلوں پر نازل کرتا ہے اور اس وقت آپ کی جماعت میں سے بہت سے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مطالب قرآن کریم کے بیان کرنے میں ایک تیز رو گھوڑے سے زیادہ تیز ہیں اور جن کے بیان میں وہ تاثیر ہے کہ شکوک وشبہات کی رسیاں ان کی ایک ہی ضرب سے کٹ جاتی ہیں، وہ قرآن جو لوگوں کے لیے ایک سر بمہر لفافہ تھا ہمارے لیے کھلی کتاب ہے، اس کی مشکلات ہمارے لیے آسان کی جاتی ہیں اور اس کی باریکیاں ہمارے لیے ظاہر کر دی جاتی ہیں، کوئی دنیا کا مذہب یا خیال نہیں جو اسلام کے خلاف ہو اور جسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم صرف قرآن کریم کی تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے نہ کر دیں اور کوئی آیت ایسی نہیں جس پر کسی علم کے ذریعے سے کوئی اعتراض وارد ہوتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی مخفی وحی ہمیں اس کے جواب سے آگاہ نہ کر دے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام یا کشوف کا ہونا بھی آپ تک محدود نہیں رہا بلکہ آپ کے ذریعہ زندہ ہونے والوں میں سے بہت ہیں جن کو اللہ تعالیٰ الہام کرتا ہے اور رؤیا دکھاتا ہے جو اپنے وقت پر پوری ہو کر اُن کے اور اُن کے دوستوں کے ایمان کو تازہ کرنے والی ہوتی ہیں وہ ان سے کلام کرتا ہے اور ان پر اپنی مرضی کی راہیں کھولتا ہے
(rar) دعوة الامير جس سے اُن کو تقویٰ کے راستوں پر چلنے میں مدد ملتی ہے اور ان کا دل قوی ہوتا ہے اور حوصلہ بڑھتا ہے.دعاؤں کی قبولیت اور نصرت الہیہ کے نزول کے معاملہ میں بھی حضرت اقدس کا فیض جاری ہے اور آپ کے ذریعے سے زندہ ہونے والے لوگ اس زندگی بخش طاقت کو اپنے اندر محسوس کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس جماعت کے اکثر افراد کی دعائیں دوسرے لوگوں سے زیادہ سنتا ہے اور اپنی نصرت ان کے لیے نازل کرتا ہے اور ان کے دشمنوں کو ہلاک کرتا ہے اور ان کی محنتوں کے اعلیٰ ثمرات پیدا کرتا ہے اور ان کو اکیلا نہیں چھوڑتا اور ان کے لیے غیرت دکھاتا ہے.غرض حضرت اقدس نے نہ صرف مردے ہی زندہ کئے بلکہ ایسے لوگ پیدا کر دیئے جو خود بھی مردے زندہ کرنے والے ہیں اور یہ کام سوائے ان بزرگ انبیاء علیہم السلام کے جو اللہ تعالیٰ کے خاص پیارے ہوتے ہیں اور کوئی نہیں کر سکتا اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہ سب فیض آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور آپ کا کام در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی کام تھا.كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ.( تذکر صفحہ ۲۵ ایڈیشن چہارم)
(+20) دعوة الامير تتمه میں سمجھتا ہوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے ثابت کرنے کیلئے یہ بارہ دلائل جو میں نے بیان کئے ہیں کافی ہیں اور جو کوئی شخص بھی ان پر حق کو پالینے کی نیت سے غور کرے گا وہ حق الیقین تک پہنچ جائے گا کہ حضرت اقدس اللہ تعالیٰ کے مسیح اور اس کے مامور اور مرسل ہیں اور یہ کہ اب کسی اور مسیح کا انتظار فضول ہے اور پیاسوں کی طرح آپ پر ایمان لانے کے لیے دوڑے گا اور اس سلک میں پروئے جانے کو اپنے لیے موجب فلاح سمجھے گا جسے مسیح موعود علیہ السلام نے تیار کیا ہے.ایک مسلمان کہلانے والے شخص کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی شہادت سے زیادہ کس چیز کی قیمت ہو سکتی ہے اور جیسا کہ میں بیان کر آیا ہوں حضرت اقدس علیہ السلام کے دعوے کے متعلق اللہ تعالیٰ کی شہادتیں بھی موجود ہیں اور اس کے رسول کی شہادتیں بھی موجود ہیں بلکہ ہر ایک نبی کی جس کا کلام محفوظ ہے آپ کے صدق دعویٰ پر شہادت موجود ہے عقل کہتی ہے کہ اس زمانے میں ایک مصلح آنا چاہئیے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو علامات مسیح موعود اور مہدی معہود کی بیان فرمائی تھیں وہ پوری ہو چکی ہیں.آپ کی پاک زندگی آپ کے دعوے پر شاہد ہے، جن دشمنانِ اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے مسیح موعود کو آنا تھا اور جس رنگ میں اُن کو شکست دینی تھی وہ دشمن اس وقت موجود ہیں اور مسیح موعود نے ان کو شکست دے دی ہے مسلمانوں کے اندرونی فسادات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ اُن سے بڑھ کر قرآن کریم کی موجودگی میں فساد کا پیدا ہونا ناممکن ہے اور ان کی اصلاح بھی اعلیٰ سے اعلیٰ طریق پر حضرت اقدس نے کر دی ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کے
(24) دعوة الامير ساتھ عمر بھر ایسا معاملہ کیا جو وہ اپنے رسولوں اور پیاروں سے کرتا ہے.ہر میدان میں آپ کو فتح دی اور ہر شر سے آپ کو بچایا.آپ کے دشمنوں کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو ماموروں اور مرسلوں کے دشمنوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے، قانونِ قدرت تک کو اُس نے آپ کی خدمت میں اور زمین و آسمان کو آپ کی تائید میں لگا دیا.علوم قرآنیہ کے دروازے آپ پر کھول دیئے اور علوم قرآنیہ کی اشاعت کے ذرائع آپ کے لیے مہتا کر دیئے حتی کہ آپ نے اُن لوگوں کو جو علم و فضل کی کان سمجھے جاتے تھے اپنے مقابلہ کے لیے بلا یا مگر کوئی آپ کے مقابلہ پر نہ آسکا اور معجزانہ طور پر آپ کا کلام غالب رہا اور لا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة: ۸۰) کے وعدہ الہی نے آپ کی صداقت پر گواہی دی.پھر آپ پر غیب کا دروازہ کھولا گیا اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہزاروں امور غیبیہ پر اطلاع دی جو اپنے وقت پر پورے ہو کر جلال الہیہ کو ظاہر کرنے کا موجب ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ امور غیبیہ پر کثرت سے سوائے اپنے رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں فرما تا، آپ نے اپنی تمام عمر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت میں صرف کر دی اور ایسے شخص اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے دھتکارے نہیں جاتے.آپ نے ایک پاک اور کارکن جماعت پیدا کر دی ہے جس میں سے ایک گروہ ایسا ہے جس کا اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق ہے اور جو دوسرے لوگوں کو زندہ کرنے اور روحانی امور کے کھولنے کی قابلیت رکھتا ہے.دین پر فدا ہے اور دنیاوی علائق سے جدا.اسلام کا غمخوار ہے اور ماسواء سے بیزار.پس باوجود ان سب شواہد کے آپ کے دعوی کو قبول نہ کرنا اور آپ پر ایمان نہ لانا کسی طرح درست اور اللہ تعالیٰ کی نظروں میں پسندیدہ نہیں ہوسکتا اور در حقیقت وہ شخص جو اسلام سے محبت رکھتا ہو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق ہو اور اپنے ذاتی مفاد پر اسلام کے فوائد کو مقدم رکھتا ہو اس
۳۷۷ دعوة الامير سے یہ امید ہی نہیں کی جاسکتی کہ اس وضاحت کے بعد خاموش رہے اور حق کے قبول کرنے میں دیر لگائے.اگر یہ دلائل جو او پر بیان ہوئے آپ کی صداقت کو ثابت نہیں کرتے تو پھر اور کون سے دلائل ہیں جن کے ذریعے سے پہلے انبیاء کی صداقت ثابت ہوئی اور جن کی وجہ سے نبیوں پر ایمان لایا جاتا ہے اگر ان سے بڑھ کر بلکہ سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی سب نبیوں کے متعلق اس قدر بھی دلائل نہیں ملتے جتنے اوپر بیان ہوئے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان پر ایمان لایا جاتا ہے اگر ایمان صرف ماں باپ سے سنی سنائی باتوں کو دہرا دینے کا نام نہیں بلکہ تحقیق و تدقیق کر کے کسی بات کو ماننے کا نام ہے تو پھر دو باتوں میں سے ایک ضرور اختیار کرنی پڑیگی ، یا تو سب نبیوں کا انکار کرنا ہوگا یا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کو تسلیم کرنا پڑیگا اور میں اے بادشاہ! آپ جیسے فہیم اور ذکی فرمانروا سے یہی اُمید کرتا ہوں کہ آپ مؤخر الذکر طریق کو اختیار کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے فرستادہ کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے اظہار اور اسلام کو غالب کرنے اور مسلمان کہلانے والوں کو پھر مسلمان بنانے کے لیے آیا ہے قبول کرنے میں دیر نہیں کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کو قبول کرنا اس کے ارادے کے مطابق بہت سی برکات کا موجب ہوتا ہے اور اس کے منشاء کے خلاف کھڑا ہو جانا کبھی بھی با برکت نہیں ہوتا.اسلام کی حالت اس وقت قابلِ رحم ہے اور ممکن نہیں کہ جو شخص اس دین سے سچی محبت رکھتا ہو اس کا دل اس کی حالت کو دیکھ کر اس وقت تک خوش ہو سکے جب تک وہ اُس کی کامیابی کے لیے سامان بہم نہ پہنچائے اور اُسے ہر قسم کے خطرات سے محفوظ نہ دیکھ لے.دشمن تو اس کی عداوت میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اُن کو اس میں کوئی خوبی ہی نظر نہیں آتی ، سر سے پا تک عیب ہی عیب نکالتے ہیں، جو دوست کہلاتے ہیں وہ بھی یا تو دل سے اس سے
(F2A) دعوة الامير متنفر ہیں یا اس کی طرف ان کو کوئی توجہ نہیں.اسلام ان کی زبانوں پر ہے مگر حلق سے نیچے نہیں اُترتا، ان کی تمام تر توجہ سیاسیات کی طرف ہے اگر کوئی ملک ہاتھ سے نکل جائے تو وہ زمین و آسمان کو سر پر اُٹھا لیتے ہیں لیکن اگر ہزاروں لاکھوں آدمی اسلام کو چھوڑ کر مسیحی یا ہندو ہوجائیں تو اُن کو کچھ پروا نہیں.دنیاوی مفاد حاصل کرنے کے لیے تو اُن میں والنٹیئر وں کی کوئی کمی نہیں لیکن اشاعت دین کے لیے اُن میں سے ایک بھی باہر نہیں نکلتا.سلطان ترکی کی خلافت کا اگر کوئی منکر ہو تو اُن کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے لیکن رسول کریم کی رسالت کو ر ڈ کر دے تو اُن کی غیرت جوش میں نہیں آتی اور یہ حالت اُن کی دن بدن بڑھتی جاتی ہے ہندوستان کی تو اب یہ حالت ہے کہ غیر مذاہب کے لوگوں میں تبلیغ کرنا تو دور کی بات ہے اُن کی طرف سے اسلام پر جو حملے ہوتے ہیں اگر اُن کا بھی جواب دیا جائے تو خود مسلمان کہلانے والے لوگ گلو گیر ہو جاتے ہیں اور اُسے مصلحت وقت کے خلاف بتاتے ہیں.غرض اسلام ایک رڈی شے کی طرح گھروں سے نکال کر پھینک دیا گیا ہے اور صرف اس کا نام سیاسی فوائد کے حصول کے لیے رکھ لیا گیا ہے اس حالت کو دور کرنے اور اسلام کو مصیبت سے بچانے کے لیے صرف ایک ہی ذریعہ ہے کہ مسیح موعود کو قبول کیا جائے اور اس کے دامن سے اپنے آپ کو وابستہ کیا جائے بغیر اس کے سایہ میں آنے کے ترقی کا کوئی راستہ کھلا نہیں.اب تلوار کا جہاد اسلام کے لیے مفید نہیں ہوسکتا جب تک ایمان درست نہ ہوں گے اور اسلام کا صحیح مفہوم لوگ نہ سمجھیں گے اور پھر اللہ تعالی کی رسی کو سب کے سب مضبوط نہ پکڑلیں گے اسلام کی ترقی کے سامان پیدا نہیں ہو سکتے.دنیا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا تھا کہ آپ نے نعوذ باللہ تلوار کے ساتھ اسلام کی اشاعت کی تھی ورنہ دل پر اثر کرنے والے دلائل آپ کے پاس موجود نہ تھے اور خود مسلمان اس اعتراض کی
(r29) دعوة الامير تائید کرتے تھے اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس اعتراض کو اپنے رسول سے دُور کرے اور اُس نے اس غرض سے رسول کریم کی اُمت میں سے ایک شخص کو مسیح کر کے بھیجا ہے تا اس کے ذریعے براہین اور دلائل کی تلوار سے دشمن کو مغلوب کرے اور اسلام کو غالب ، تا دنیا کو معلوم ہو کہ جو کام ایک خادم کر سکتا ہے آقا اس کو بدرجہ اولی کر سکتا تھا اب اس ذریعہ کے سوا اسلام کی مد کا اور کوئی طریق نہیں.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو آپ کی غلامی میں داخل کرے اور اس کا ایک ہی طریق ہے کہ اُس بچے اسلام کو جو مسیح موعود لایا ہے اس صحیح طریق سے جو مسیح موعود نے بتایا ہے اس خالص ایمان کے ساتھ جو مسیح موعود نے دلوں میں پیدا کیا ہے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور بھولے بھٹکوں کو راہِ راست پر لایا جائے اگر اللہ تعالیٰ کا منشاء ہوتا کہ کسی اور ذریعے سے اسلام کو ترقی دے تو وہ پہلے سب راستوں کو بند کیوں کرتا؟ پس مسیح موعود سے دور رہنا گویا اسلام کی ترقی میں روک پیدا کرنا ہے اور دشمنوں کو موقع دینا ہے کہ وہ رسول پاک پر حملے کریں اور آپ کی عزت پر تیراندازی کریں جسے کوئی باغیرت مسلمان گوارا نہیں کرسکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ اُمت کس طرح ہلاک ہوسکتی ہے جس کے ایک طرف میں ہوں اور دوسری طرف مسیح موعود ( کنز العمال جلد ۱۴ صفحه ۳۴۷ روایت ۳۸۸۵۸ مطبوعہ حلب ۱۹۷۵ء) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی شخص کا ایمان محفوظ رہ سکتا ہے جو ان دونوں دیواروں کے اندر آ جائے پس مسیح موعود کے نازل ہو جانے کے بعد جو اس پر ایمان نہیں لاتا وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت سے باہر ہے اور جو مسیح موعود کے راستے میں روک بنتا ہے وہ در حقیقت اسلام کا دشمن ہے اور اسلام کی ترقی اس کو نہیں بھاتی.ورنہ وہ اس دیوار کے قائم ہونے میں کیوں روک ڈالتا، جس کے ذریعے سے اسلام محفوظ
۳۸۰ دعوة الامير ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے قہر کی تلوار کے نیچے ہے بہتر ہوتا کہ اس کی ماں اس کو نہ جنتی اور وہ مٹی رہتا.اس نجس دن کو نہ دیکھتا.اے بادشاہ ! مسیح موعود کی آمد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے وعدے وابستہ ہیں اس کے ذریعے سے اسلام کو ایک نئی زندگی دی جائے گی.جس طرح ایک خشک درخت زور کی بارش سے جو وقت پر پڑتی ہے ہر اہو جاتا ہے اسی طرح مسیح موعود کی آمد سے اسلام سرسبز و شاداب ہوگا اور ایک نئی طاقت اور نئی روح ان لوگوں کو دی جائے گی جو مسیح موعودؓ پر ایمان لائیں گے، اللہ تعالیٰ نے دیر تک صبر کیا اور خاموش رہا.مگر اب وہ خاموش نہیں رہے گا وہ کبھی اس امر کی اجازت نہیں دے گا کہ اس کے بندے کو اس کا شریک بنایا جائے ، اُس کا بیٹا قرار دیکر یا آسمان پر زندہ مان کر یا مردے زندہ کرنے والا اور نئی مخلوق پیدا کرنے والا قرار دیکر.وہ رحم کرنے والا ہے مگر غیرت مند بھی ہے.اس نے دیر تک انتظار کیا کہ اس کی پاک کتاب کی طرف لوگ کب توجہ کرتے ہیں مگر مسلمانوں نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا.وہ لغویات کی طرف متوجہ ہو گئے مگر اللہ تعالیٰ کے کلام کی انہوں نے کچھ قدر نہ کی اور یہ آیت اُن کو بھول گئی کہ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ( الفرقان: (۳۱) پس اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور اب وہ اس وقت تک ان کی طرف منہ نہیں کرے گا جب تک وہ اس کے مسیح موعود کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیکر اس بات کا اقرار نہیں کرتے کہ وہ آئندہ اس سے بے توجہی نہیں کریں گے اور اپنی پچھلی غلطیوں کا تدارک کریں گے.لوگوں نے دنیا سے محبت کی مگر اللہ تعالیٰ سے محبت نہ کی.تو اللہ تعالیٰ نے دنیا بھی ان سے لے لی اور ذلت کی ماران پر ماری.انہوں نے مسلمان کہلا کر اللہ تعالیٰ کے محبوب کو تو زمین میں دفن کیا مگر حضرت مسیح “ کو زندہ آسمان پر جا بٹھایا تو اُس
(FAI) ۳۸۱ دعوة الامير نے بھی ان کو زمین پر مسل دیا اور مسیحیوں کو اُن کے سر پر لا کر سوار کیا.یہ حالت ان کی نہیں بدل سکتی جب تک کہ وہ اپنی اندرونی اصلاح نہ کریں.ظاہری تدابیر آج کچھ کام نہیں دے سکتیں، کیونکہ یہ سب تباہی اللہ تعالیٰ کے غضب کے نتیجے میں ہے جب تک مسلمان اللہ تعالیٰ سے صلح نہیں کریں گے اس وقت تک یہ روز بروز ذلیل ہی ہوتے چلے جائیں گے پس مبارک وہ جو اللہ تعالیٰ سے صلح کرنے کو دوڑتا ہے.یقیناً وہ ذلت سے بچایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کی نصرت اس کے ساتھ ہوگی اور اس کا ہاتھ اس کے آگے آگے ہوگا.اے بادشاہ! مسیح موعود کی آمد کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ بہت بڑا وا قعہ ہے مسیح موعود وہ ہے جسے رسول کریم نے سلام بھیجا ہے (در منثور مؤلفہ علامہ جلال الدین السیولی جلد ۲ صفحہ ۲۴۲ زیر آیت "وإن من اهل الكتب) اور فرمایا ہے کہ خواہ سخت سخت صعوبتیں اُٹھا کر بھی اس کے پاس جانا پڑے تب بھی مسلمانوں کو اس کے پاس جانا چاہیے (ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المهدى مطبوعة دار احياء الكتب العربية ۱۹۵۳ء) اس کی نسبت دنیا کے تمام مذاہب میں پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں اور کوئی نبی نہیں جس نے اس کی آمد کی خبر نہ دی ہو.پس جس انسان کی اس قدر نبیوں نے خبر دی ہے اور اپنی امتوں کو اس کی آمد کا منتظر کیا ہے وہ کتنا بڑا انسان ہوگا اور کیسا مبارک ہوگا وہ شخص جس کو اس کا زمانہ میل جائے اور وہ اس کی برکتوں سے حصہ پالے.اے بادشاہ! اللہ تعالیٰ کے مامور اور مرسل روز روز نہیں آیا کرتے اور خصوصاً اس قسم کے عالی شان مرسل کہ جس قسم کا مسیح موعود ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور کسی شخص کی نسبت اس قدر بشارات مروی نہیں جس قدر کہ اس کی نسبت.پس اس سے بڑے آدمی کی آمد کی ہمیں امید نہیں ہو سکتی.وہ نبی کریم کی امت کے لیے خاتم الخلفاء ہے اور
(rar) دعوة الامير اس کے بعد قیامت کے زمانے ہی کا انتظار کیا جا سکتا ہے پس اس کے زمانے کا ایک ایک دن قیمتی ہے اتنا قیمتی کہ دنیا و مافیھا اس کے مقابلے میں حقیر اور ذلیل ہے اور خوش قسمت ہے وہ انسان جو اس کی قدر کو سمجھتا ہے اور اس پر ایمان لا کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ اپنی پیدائش کے مقصد کو پا گیا اور عبودیت کا راز اس پر گھل گیا.اے بادشاہ! جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور آتا ہے تو اس کی جماعت ہمیشہ یکساں حالت میں نہیں رہتی.وہ غریبوں سے شروع ہوتی ہے اور بادشاہوں پر جا کر ختم ہوتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ جماعت اس علاقے پر قابض ہو جاتی ہے جس کی طرف وہ مامور جس نے اس جماعت کو قائم کیا تھا بھیجا گیا تھا.پس ہمیشہ یہی حال نہیں رہے گا کہ ہماری جماعت غرباء کی جماعت رہے، بلکہ یہ دن ڈونی اور رات چوگنی ترقی کرے گی، دنیا کی حکومتیں مل کر بھی اس کی رفتار ترقی کو روک نہیں سکتیں.ایک دن ایسا آئے گا کہ یہ تمام جماعتوں اور فرقوں کو کھا جائے گی جیسا کہ حضرت اقدس کا الہام ہے کہ تیرے ماننے والے قیامت تک تیرے منکروں پر غالب رہیں گے (تذکرہ صفحه ۲۷۹ ایڈیشن چهارم) اور جیسا کہ آپ کا الہام ہے کہ وہ لوگوں کو جو آپ کی بیعت میں داخل نہ ہوں گے کم کرتا چلا جائے گا (تذکره صفحه ۲۷۵ ایڈیشن (چهارم) اور ایسا ہوگا کہ دنیا کے بادشاہ آئندہ اسی جماعت میں سے ہوں گے.یہ مغلوب نہیں رہے گی بلکہ غالب آجائے گی اور مفتوح نہیں رہے گی بلکہ فاتح ہو جائے گی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.( تذکرہ صفحہ ۱۰: ایڈیشن چہارم) مگر ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے.ایک ہی کام ایک وقت میں انسان کو بڑی عزت کا وارث بنادیتا ہے اور دوسرے وقت میں اس کام کو کوئی پوچھتا بھی نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر (ابتداء ) ایمان لانے 66
(rar) دعوة الامير والے آج تک دنیا کے سردار بنے ہوئے ہیں لیکن جو اس وقت ایمان لائے جب اسلام کو غلبہ حاصل ہو چکا تھا، اُن میں سے بہتوں کے نام بھی لوگ نہیں جانتے.پس جو شخص اس وقت کہ یہ جماعت کمزور سمجھی جاتی ہے ایمان لاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سابقون میں لکھا جائے گا اور خاص انعامات کا وارث ہو گا اور عظیم الشان برکات کو دیکھے گا ، اگر چہ بہت سا وقت گزر چکا ہے مگر پھر بھی عزت کے دروازے ابھی کھلے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ابھی آسان ہے.پس میں آپ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس وقت کی قدر کریں اور رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَّا (ال عمران آیت ۱۹۴) کہتے ہوئے اس آواز پر لبیک کہیں جسے خود اللہ تعالیٰ نے بلند کیا ہے تا کہ آپ اُس کے مقبول اور پیارے ہو جا ئیں.میں آپ سے سچ سچ کہتا ہوں کہ احمدیت کے باہر اللہ تعالیٰ نہیں مل سکتا.ہر ایک شخص جو اپنے دل کو ٹولے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کی باتوں پر وہ یقین اور وثوق نہیں جو قطعی اور یقینی باتوں پر ہونا چاہئے اور نہ وہ اپنے دل میں وہ نور پائے گا جس کے بغیر اللہ تعالیٰ کا چہرہ نظر نہیں آسکتا.یہ یقین اور وثوق اور یہ ٹور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے باہر کہیں نہیں مل سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ سب کو ایک نقطے پر جمع کرے مگر کیا کوئی شخص جو موت پر نظر رکھتا ہے اس زندگی پر خوش ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے دُوری میں کٹے اور جس میں اللہ تعالیٰ کے نور سے حصہ نہ ملے.پس اس ٹور کو حاصل کیجئے اور اس یقین کی طرف دوڑیئے جو احمدیت ہی میں حاصل ہو سکتا ہے اور جس کے بغیر زندگی بالکل بے مزہ اور بے لطف ہے اور دوسروں پر سبقت لے جائے تا کہ آئندہ نسلوں میں بھی آپ کا نام ادب اور احترام کے ساتھ لیا جائے اور
(rar) ۳۸۴ زمانے کے آخر تک آپ کے نام پر رحمتیں بھیجنے والے موجود رہیں.دعوة الامير بیشک اللہ تعالیٰ کے سلسلوں میں داخل ہونے والے انسان بڑے بوجھ کے نیچے دب جاتے ہیں مگر ہر ایک بوجھ تکلیف نہیں دیتا.کیا وہ کسان جو اپنی سال بھر کی کمائی سر پر رکھ کر اپنے گھر لاتا ہے بوجھ محسوس کرتا ہے یا وہ ماں جو اپنا بچہ گود میں اُٹھائے پھرتی ہے بوجھ محسوس کرتی ہے؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت میں حصہ لینا اور اُس کے لیے کوشش کرنا مومن کے لیے بوجھ نہیں ہوتا.دوسرے اسے بوجھ سمجھتے ہیں مگر وہ اسے عین راحت خیال کرتا ہے.پس ان ذمہ داریوں سے نہ گھبرائیے جوحق کو قبول کرنے سے انسان پر عائد ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احسانات کو یاد کرتے ہوئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عنایتوں کو سوچتے ہوئے اس بوجھ کے نیچے اپنا کندھا دے دیجئے جس کا اُٹھانا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے.آپ بادشاہ ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے حضور آپ اور دوسرے انسان برابر ہیں.جس طرح اُن پر خدمت اسلام کا فرض ہے آپ پر بھی فرض ہے اور جس طرح اُن کے لیے اللہ تعالیٰ کے ماموروں کا ماننا ضروری ہے آپ کے لیے بھی ضروری ہے.پس اللہ تعالیٰ کے حکموں اور اس کی تعلیموں کو قبول کیجئے.اور اس کے قائم کردہ سلسلے میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کے انعامات سے حصہ لیجئے کہ ان میں سب سے چھوٹا آپ کی ساری مملکت سے بڑا اور زیادہ قیمتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَلَيْسَ مِنَّا _ (مجمع الذوائد ومنبع الفوائد مؤلفه حافظ نور الدین علی بن ابی بکر جلد ۵ صفحه ۲۴۴ مطبوعه قاهره ۱۳۵۳ھ میں اس حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں.” من فارق الجماعة شبر أفقد فارق الاسلام‘) پس اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت سے جدا رہنا نہایت خوف کا مقام ہے اور خصوصاً بادشاہوں
۳۸۵ دعوة الامير کے لیے کہ اُن پر دوہری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ایک ان کی اپنی اور ایک اُن کی رعایا کی.بہت سے نادان دین کے معاملے میں بھی اپنے بادشاہ کی طرف دیکھتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُن کی غلطیوں کے ذمہ دار اُن کے بادشاہ سمجھے جاتے ہیں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیصر کو خط لکھا تھا تو آپ نے اُس کو اسی امر کی طرف تو جہ دلا کر حق کو جلد قبول کرنے کی ترغیب دی تھی اور تحریر فرمایا تھا کہ فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَعَلَيْكَ إِثْمُ الْأَرِيْسِنینَ ( مسند احمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ ۲۶۳) کہ اگر تُو نے انکار کر دیا تو تجھ پر زمینداروں کا گناہ بھی ہوگا.پس آپ حق کو قبول کر کے اپنی رعایا کے راستے سے وہ روک ہٹا دیں جو آب آپ کے راستے میں حائل ہے تا کہ اس کے گناہ آپ کو نہ دیئے جائیں بلکہ ان کی نیکیاں آپ کو ملیں کیونکہ جس طرح وہ بادشاہ جو حق کا انکار کر کے دوسروں کے لیے روک بنتا ہے اُن کے گناہوں میں شریک قرار دیا جاتا ہے.اسی طرح وہ بادشاہ جو حق کو قبول کر کے دوسروں کے لیے حق کے قبول کرنے کا راستہ کھولتا ہے اُن کے ثواب میں شریک کیا جاتا ہے.یہ دنیا چند روزہ ہے اور نہ معلوم کہ کون کب تک زندہ رہے گا آخر ہر ایک کومرنا اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے.اس وقت سوائے صحیح عقائد اور صالح اعمال کے اور کچھ کام نہیں آئے گا.غریب بھی اس دنیا سے خالی ہاتھ جاتا ہے اور امیر بھی.نہ بادشاہ اب تک اس دنیا سے کچھ لے گئے نہ غریب، ساتھ لے جانے والا صرف ایمان ہے یا اعمال صالحہ.پس اللہ تعالیٰ کے مامور پر ایمان لائے تا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو امن دیا جائے اور اسلام کی آواز کو قبول کیجئے تا سلامتی سے آپ کو حصہ ملے.میں آج اس فرض کو ادا کر چکا جو مجھ پر تھا.اللہ تعالیٰ کا پیغام میں نے آپکو پہنچا دیا ہے.آب ماننانہ ماننا آپ کا
(PAY) دعوة الامير کام ہے.ہاں مجھے آپ سے امید ضرور ہے کہ آپ میرے خط پر پوری طرح غور کریں گے اور جب اس کو بالکل راست اور درست پائیں گے تو وقت کے مامور پر ایمان لانے میں دریغ نہیں کریں گے.اللہ تعالیٰ کرے ایسا ہی ہو.وَأَخِرُ دَعْوَنَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ