Dawat Ilallah

Dawat Ilallah

دعوت الی اللہ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

دعوت الی اللہ وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ ترجمہ، اور اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہوگی جو کہ اللہ کی طرف لوگوں کو بڑاتا ہے

Page 2

دعوت الی اللہ

Page 3

بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ للہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ صد سالہ جنین تشکر کی خوشی میں مرتب ہونے والے منصوبوں کے تحت لجنہ اماءاللہ کو کتب کی اشاعت کی توفیق عطا فرماتا چلا جارہا ہے زیر نظر کتاب اس سلسلہ کی انتیسویں کڑی ہے.مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تحریر کردہ یہ کتاب وقت کی اہم ضرورت کے تحت شائع کرنے کے لئے منتخب کی گئی ہے.ہمارے سید مولی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے مذہب کا پہلا اور سب سے بڑا اصول توحید باری تعالیٰ ہے، جو آپ نے دنیا کے سامنے پیش کیا اور تمام زندگی اس مشن کی طرف لوگوں کو بلاتے رہے.اس کتاب میں آپ کے اس مشن کو کامیاب کرنے کے لئے دعوت الی اللہ کی اہمیت و فضیلت اور دعوت الی اللہ کے حکیمانہ طریق بنائے گئے ہیں.اس کتاب کی اشاعت میں نہیں مکرم محرم عبدالباسط شاہد صاحب مربی سلسلہ الی احمدی کا تعاون حاصل ہوا.آپ نے کتابت کروا کے پروف ریڈنگ کی محنت کر کے اصلاح شده مسودہ تیار کر کے دیا.فجزاهم الله تعالى احسن الجزاء اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ قارئین کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے تاکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو کامیاب بنانے میں سب آخرین کا ہاتھ کا ہو، خدا کرے ایسا ہی ہو، آرمین انتھی ہیں.الوا

Page 4

3 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم دعوت الی اللہ دعوت الی اللہ ایک مقدس فریضہ ہے جس کا مقصد حق و صداقت کو پھیلانا اور لوگوں کو اس کا قائل کرتا ہے.دعوت الی اللہ کے لغوی معنی خدا تعالیٰ کی طرف بلانا اور اصطلاحا اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ کسی اچھائی اور خوبی اور بالخصوص دینی امور کو دوسر سے افراد تک پہنچانا.اور انہیں قبول کرنے کی دعوت دینا.دعوت الی اللہ ایک ایسا عمل ہے جس میں کسی نصب العین کی طرف اخلاص سے بلایا جاتا ہے.اس نصب العین سے اختلاف و انحرات کے نقصانات و خطرات سے ڈرایا جاتا ہے.اور غفلت و نسیان کے پردوں کو چاک کر کے اصل نصب العین کو یاد دلانے کے لئے نصیحت کی جاتی ہے.یہ ایمان لانے والوں کے دلوں میں سچائی کا وہ جوش ہوتا ہے جو چکن سے نہیں بیٹھنے دیتا.اور اُن کو اس وقت تک اطمینان نہیں ہوتا جب تک وہ اپنا پیغام ہر فرد بشتر تک نہ پہنچا دیں.اور تمام بنی نوع انسان اُس حقیقت کو تسلیم نہ کریں جسے وہ برحتی یقین کرتے ہیں.دعوت الی اللہ کے دور دوائرہ ہیں.ایک دائر سے میں یہ کسی قوم کے افراد کو اندرونی بگاڑ سے بچانے کا ذریعہ ہے اور دوسر سے دائرے میں عام انسانوں کو کسی خاص نظریے اور نظام کا قائل کرنا ہے جس کے ساتھ منسلک

Page 5

y ہونے کے نتیجہ میں ایک انسان قرب الہی اور عرفان الہی کا مورد بن جاتا ہے.ایک اعتبار سے یہ تحفظ ہے تو دوسرے اعتبار سے توسیع.اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حق وصداقت کی آوانہ کو عام کیا جائے.اور فساد کو دور کیا جائے.گویا دعوت الی اللہ کسی فرد کے لئے زندگی کی علامت ہے.دعوت الی اللہ کے بغیر انفرادی شخص کا برقرار رہنا نا ممکن ہے.قرآن کو بعد میں دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں دو قسم کے ارشادات ہیں.ایک وہ جن میں دعوت الی اللہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور دوسر ہے وہ جن میں دعوت الی اللہ کے طریق کار اور ترتیب کار اور بنیادی اصولوں کو بیان کیا گیا ہے.قرآن کریم میں دعوت الی اللہ کے لئے فرض ، تبشیر، اندار اور تذکیر وغیرہ کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں.دعوت الی اللہ کی اہمیت وفضیلت اللہ تعالٰی قرآن مجید میں دعوت الی اللہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :- وَ مَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَى إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ اِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِيْن.رحم سجده : ۳۴) ترجمہ :.اور اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہوگی جو کہ اللہ کی طرف لوگوں کو ہلاتا ہے اور اپنے ایمان کے مطابق عمل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو فرمانبرداروں میں سے ہوں.

Page 6

اسی طرح ایک دوسری جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض ہی دعوت الی اللہ قرار دی گئی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے :.يَايُّهَا الرَّسُولُ بَلِغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلُ فَمَا بَلَغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ - دالمائده : ۶۸) ترجمہ :.اسے رسول ! تیرے رب کی طرف سے جو کلام بھی تجھ پر اتارا گیا ہے اُسے لوگوں تک پہنچا.اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو گویا تو نے اُس کا پیغام بالکل نہیں پہنچایا.اور اللہ تجھے لوگوں کے حملوں سے محفوظ رکھے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی اور آپ کے ارشادات اور فرمودات سے دعوت الی اللہ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی بہت زیادہ اہمیت اور فضیلت نظر آتی ہے.ایک موقعہ پر آپ نے حضرت علی ضو کو مخاطب کر کے فرمایا :- فَوَ اللهِ لَان يَهْدِى اللَّهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرًا لَكَ مِنْ اَنْ تَكُونَ لَكَ حُمُرُ النَّعَمِ.د بخاری کتاب المغازی) ترجمہ:.آنحضرت نے فرمایا.اسے علی نوہ تمہاری کوشش سے ایک آدمی کا بھی دین حق کو قبول کر لینا سو سُرخ اونٹوں سے بہتر ہے.حضرت ابو سعید خدری رسول کریم سے روایت کرتے ہیں.کہ ست " تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اُسے ہاتھ سے درسہ کمہ د ہے.اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اپنی زبان

Page 7

A اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو اپنے دل سے بڑا جانے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے.(مشكوة المصابيح كتاب الادب ) حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ :.بنی کریم نے فرمایا قسم اس کی جس کے قبضے میں میری جان ہے.کہ تمہیں نتیجی کی ضرور ہدایت کرنی ہوگی اور برائی سے ضرور روکنا ہو گا ورند عین ممکن ہے اللہ تم پر اپنی طرف سے عذاب بھیجے.پھر تم اُسے پکارو اور تمہیں جواب نہ آئے " د مشكاة المصابيح كتاب الادب ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے بوش دعوت کا یہ عالم تھا کہ کفار و نے آپ کو دعوت سے باز رکھنے کے سائے ہر حربہ استعمال کیا.مگر ناکام و نا مراد رہے.آپ کو دعوت سے باز رکھنے کے لئے بڑے سے بڑا لالچ دیا.مگر آپ نے ہر پیشکش کو ٹھکرا دیا.اور فرمایا کہ :- " اگر آپ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاندی کر رکھ دیں تب بھی سے باز نہیں آؤنگا ؟ اس فرمان نبوی کے بعد قریش مکہ کے ایک وفد نے آپ کے چا حضرت ابو طالب سے، احتجاج کیا.ایک روزہ ان کے احتجاج سے مجبور ہو کہ حضرت ابو طالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر کہا کہ یکی تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتا ہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور وشنام دہی سے بازہ آیا.ورنہ میں قوم کے مقابلہ کی تاب نہیں رکھتا یا - :

Page 8

q حضرت ابو طالب کی اس دھمکی کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیر جلال انداز میں فرمایا کہ یہ دشنام رہی نہیں.بلکہ اسی کام کے لئے تو میں بھیجا گیا ہوں.اگر اس سے مجھے مرنا در پیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کہتا ہوں.میری زندگی اسی راہ میں وقف ہے.لیکن موت کے ڈر سے رک نہیں سکتا.بخدا اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار نہ ندہ ہو کر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں.مجھے اسی میں لذت ملتی (سیرت ابن ہشام جلد ا ص ۲) حضرت مہدی دوراں کے دل میں جو کا جوش موجزن تھا.اس کا اندازہ آپ کے ذیل کے ارشادات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے.جس سے کی اہمیت اور ضرورت بھی نمایاں ہو جاتی ہے ہے یا فرمایا :- "ہمار سے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھیر کر خدا تعالیٰ کے پیچھے دین کی اشاعت کریں اور اس کو ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچائیں اور اس تبلیغ میں زندگی ختم کر دیں.خواہ مارے ہی جائیں " ( ملفوظات جلد سوم ما ۳۵ ) کے لئے اپنے دل کی تڑپ کا اظہار اپنے منظوم کلام میں ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں.

Page 9

J.دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعف دین مصطفے مجھ کو کہ اسے میرے سلطان کامیاب و کامگار ایک عالم مرگیا ہے تیرے پانی کے بغیر پھیر دے اسے میر سے مولیٰ اس طرف دریا کی دھا ہر طرف آواز دنیا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار حضرت حافظ حکیم مولانا نورالدین صاحب خلیفہ مسیح الاول رضہ نے ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں ایک مریضہ لکھا.جس کے مضمون سے کی اہمیت و برکات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے.اس خط کا کچھ حصہ یہ ہے :- عالیجناب ! میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں اور امام زمان سے جس مطلب کے واسطے وہ مجدد کیا گیا وہ مطالب حاصل کروں.اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے استعفیٰ د سے دُوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑا رہوں یا اگر حکم ہو.تو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طرف بلاؤں اور اسی راہ میں جان دوں.میں آپ کی راہ میں قربان ہوں.میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے.حضرت پیر و مرشد ! میں کماں راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا کہ د روحانی خزائن جلد سوم ص۳۶)

Page 10

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی کے ان ارشادات سے بھی کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے.آپ فرماتے ہیں :- ہمت کرو اور بڑھتے چلے جاؤ.اور دنیا کے کناروں تک جا کہ خُدا کے نام کو پھیلا دو.اس راستہ میں تمہیں جو بھی قربانی کرنی پڑ سے.اس سے مت گھبراؤ.اور نہ ڈکو.اگر تمہیں اس راہ میں اپنی عزیز سے عزیز چیز بھی قربان کرنی پڑے تو کرو.اور صرف ایک مقصد سے کر کھڑے ہو جاؤ.اور اس عرفان کے خزانے کو دنیا میں پہنچاؤ جس کے لئے احادیث میں آیا ہے کہ مسیح موعود خزا نے تقسیم کر ے گا.مگر لوگ لینگے نہیں مسیح موعود نے تمہیں قرآن کے خزانے دیئے ہیں.ان کو تمام دنیا میں پہنچا دو.اور پھیلا دو د خطبات محمود جلد اول ص ) حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اوّل یہ کہ () کوئی طوعی چندہ نہیں ہے.کوئی فضل نہیں ہے.کہ نہ بھی ادا کریں تو آپ کی روحانی شخصیت مکمل ہو جائے گی.ددعوت الی الله فریضہ ہے.اور ایسی شدت کے ساتھ خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور آنحضرت کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.اگر نہ کی تو تو نے رسالت کو ہی ضائع کر دیا.آپ کی اُمت بھی جواب دہ ہے.ہم میں سے ہر ایک

Page 11

جواب دہ ہے " ر خطبہ جمعہ 19 جولائی ۱۹۸۵ ء بیت الفضل لندن) کے حکیمانہ طریق قرآن کریم نے کے حکیمانہ طریق اور اصول و ضوابط بیان فرمائے ہیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس اعتبار سے منفرد حیثیت حاصل ہے.کہ اپنے کے تمام عملی مراحل کا نمونہ اور دعوت عمل کے لئے بہترین اصول بھی دیئے.جو ہر ایک داعی الی اللہ کے لئے بہترین راہنمائی کا کام دیتے ہیں.قرآن کریم نے اختصار و جامعیت کے ساتھ یہ اصول بیان فرمائے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کے بنیادی اصول بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :- ادْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِ لَهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ اعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ مَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِين.(النحل : ۱۲۵) ترجمہ :.اسے رسول ! تو لوگوں کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ سے اپنے رب کی طرف بلا.اور اس طریق سے جو سب سے اچھا ہو اور ان کے اختلافات کے متعلق بحث کہ تیرا رب ان کو بھی

Page 12

۱۳ جوائس کی راہ سے بھٹک گئے ہوں.سب سے بہتر جانتا ہے.اور ان کو بھی جو ہدایت پاتے ہوں.یہ ایک حقیقت ہے کہ جب ہم کسی کے سامنے کوئی نئی بات پیش کر کے اُسے قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں تو عمو گا تین طریقے برتتے ہیں.یا تو اس بات کے ثبوت اور تائید میں کچھ دلنشین دلیلیں پیش کرتے ہیں یا اس کو مخلصانہ نصیحت کرتے ہیں اور مؤثر اندانہ سے اس کو نیک ویک اور نشیب و فراز سے آگاہ کرتے ہیں.یا یہ کرتے ہیں کہ اس کی دلیلوں کو مناسب طریقہ سے رڈ کرتے ہیں.اور اسکی غلطی کو اس پر واضح کرتے ہیں.پہلے طریقے کا نام حکمت ، دوسرے کا موعظہ حسنہ اور تعمیر سے کا نام جدال بطریق احسن ہے.کے بنیادی طور پر یہی تین طریقے ہیں جن کی عملی تصویر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات میں ملتی ہے.قولی ہو یا فعلی دونوں کا انداز ایسا ہونا چاہیئے کہ مخاطبوں کے دلوں میں حق سرایت کر جائے اور وہ حق کی طرف جھک جائیں.اسی طرح داعی الی اللہ کا طرز عمل بلکہ ہر نقل و حرکت بھی دعوت ہی ہونی چاہیئے.جیسے لوگ جوق در جوق دائرہ حق میں داخل ہو جائیں.حکمت عملی سے ان کے دلوں میں دین حق پر وثوق اور یقین پیدا ہو.عملی موعظت سے اُن میں قناعت قلبی ہو اور عملی مجادلت سے ان کے شکوک و شبہات کا قلع قمع ہو جائے.۱ - حکمت عملی :.قرآنی نقطۂ نظر اور اسوۂ رسول میں حکمت کو دعوی سے طریق کار میں اولین اور بنیادی حیثیت حاصل ہے.

Page 13

۱۴ حکمت کا مطلب ہے کہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت.استعداد اور حالات کو سمجھ کر نیز موقع و محل کو دیکھ کر بات کی جائے.ہر طرح کے لوگوں کو ایک ہی لاٹھی سے نہ ہانکا جائے جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے اس کے مرض کی تشخیص کی جائے.پھر ایسے دلائل سے اس کا علاج کیا جائے جو اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں سے اس کے مرکن کی بیٹے اُکھاڑ سکتے ہوں.حکمت ایک جامع اصطلاح ہے اور اس کے تحت وہ تمام طرز ہائے عمل آ جاتے ہیں جو مخاطب کو قبولِ حق پر آمادہ کریں.مثلاً موقع ومحل کا لحاظ مخاطب کی نفسیات اور عقلی دلائل وغیرہ.- موقع و محل : دعوت بلاشبہ ایک سچے جذبہ اور حقیقی لگن کی متقاضی - ہے.لیکن جوش جنوں میں موقع و محل کا لحاظ نہ کرنا سخت مضر ہے.مثلاً ایک داعی حق کو ان تمام اوقات میں دعوت حق سے اعراض کرنا چاہیے جب مخاطب اعتراض اور نکتہ چینی کی طرف مائل ہو.اسی طرح ایسے موقعہ سے داعی کو اعراض کرنا چاہیے جب مخاطب اپنی کسی ایسی دلچسپی میں منہمک ہو جس کو چھوڑ کر دعوت حق کی طرف متوجہ ہونا اس کی طبیعت پر گراں گزر ہے.حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس نے کہا! کہ لوگوں کو جمعہ جمعہ وعظ کیا کرو.اگر اس سے زیادہ کرنا ہو تو ہفتہ میں دو بار.اگر اس سے زیادہ کرنا ہو تو تین بار ، اور لوگوں کو اس قرآن سے بیزار نہ کرو.اور ایسا نہ ہو کہ تم لوگوں کے پاس ایسے وقت میں آؤ جب وہ اپنی کسی اور دلچسپی میں مصروف ہوں.اور اس وقت ان کو وعظ سنانا شروع کر دو.

Page 14

۱۵ اور اس کا نتیجہ بیزاری ہو.ایسے مواقع پر خاموش رہو.یہاں تک کہ لوگ تم سے خواہش کریں.تو ان کو نماد.تاکہ تمہارا وعظ رغبت سے سنیں - ( مشكاة المصابيح ) ر مخاطب کی نفسیات:.دوسری اہم بات جیسے ایک داعی کو ہمیشہ ہمیش مد نظر رکھنا چاہیے.وہ مخاطب کی استعداد اور نفسی کیفیات ہیں.مشوا عام مخاطب کی ذہنی استعداد کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے منطقی استدلیاں اور فلسفیانہ بخشیں شروع کر دی جائیں.یا کسی دانشور سے گفتگو کرتے ہوئے بے رنگ ، بے ڈھب انداز گفتگو اختیار کیا جائے.بلکہ لوگوں سے ان کی ذہنی استعداد کے مطابق بات کی جائے.دعوت حق کے بعض شدید تقاضے ہوتے ہیں اور بعض سہیں.داغی کو آغاز ہی میں وہ تمام باتیں بیان نہیں کرنی چاہئیں جن سے اکتاہٹ اور تنفر پیدا ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : - يَسرُوا وَلا تَحَسرُوا وَبَشِّرُوا وَلا تَنفِرُوا - د بخاری کتاب العلم ترجمہ :.یعنی آسانی پیدا کرو.تنگی پیدا نہ کرو.اور لوگوں کو ہمیشہ خوشخبری دیا کرو.اور نفرت پیدا کرنے والی باتیں نہ کیا کرو.پھر مخاطب کی کمزوریوں کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے.داعی کو کسی حال میں بھی اپنے مخاطب کے اندر حمیت و جاہلیت کے بھڑکنے کا موقع نہیں پیدا ہونے دینا چاہیئے.مخاطب کے معتقدات کے بارے میں محتاط اندا نیہ بیان اختیار کرنا چاہیئے.کیونکہ جذباتی وابستگی کے باعث بعض اوقات وہ

Page 15

14 بالکل غیر متوازن ہو سکتا ہے.اسی امر کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت کو عید میں ہماری توجہ پھیرنا چاہتا ہے.وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا الله عدوا بغير علمه (الانعام : ۱۰۸) ترجمہ :.اور تم ان کو گالی نہ دو جن کو یہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ ہی علمی کے باعث اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیتا شروع کر دیں.اس ہدایت کا مقصد بھی یہی ہے کہ داعی حق کو ان تمام باتوں سے اعراض کرنا چاہیئے جو عصبیت اور جاہلیت کو بھڑکانے والی اور مخاراب کو عناد و اختلاف کی راہ پر ڈال دینے والی ہوں.اسی طرح مخاطب کی نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے اس امر کا بھی خیال رکھا جائے کہ مخاطب کے معاشرتی و سیاسی مرتبہ کو بھی مد نظر رکھا جائے.کیونکہ اس کا غلط پندار بسا اوقات اُسے حق بات کے سننے سے روک دیتا ہے.حضرت موسیٰ و ہارون کو اسی پہلو سے ہدایت کی گئی کہ : اِذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى ، فَقَوْلَا لَهُ قَوْلاً تَيْنا تَعَلَّهُ يَتَذَكَرُوا وَيَخْشَى (طه : ۳۴) ترجمہ :.(اسے موسی اور ہارون، فرعون کے پاس جاؤ.کیونکہ وہ سرکش ہو گیا ہے اور اُس سے نرمی سے بات کرنا تاکہ وہ نصیحت حاصل کر سے.یا خدا کا خوف محسوس کر ہے.۳- تدریج : حکمت عملی کے ضمن میں ایک اور حقیقت جس کو مدنظر رکھنا ضروری ہے وہ " تدریجو " ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے

Page 16

16 فرمایا ہے کہ کسی قوم کو دعوت دیتے وقت شریعت کے تمام احکام کا بوجھ یکبارگی اس کی گردن پر نہ ڈالا جائے.بلکہ رفتہ رفتہ اس کے سامنے پیش کئے جائیں.پہلے توحید و رسالت اور دیگر عقائد کو پیش کرنا چاہیئے.اس کے بعد عبادات کو.عبادات میں بھی اہم تر کے اصول کو پیش نظر رکھنا چاہیئے.آپؐ نے حضرت معاذ بن جبل کو یمین کی طرف بھیجتے ہوئے یہ نصیحت فرمائی کہ " تم یہودیوں اور عیسائیوں کی ایک قوم کے پاس جاؤ گے تو ان کو پہلے اس بات کی دعوت دینا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اس کے رسول ہیں.جب وہ یہ مان لیں تو ان کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں.اور جب وہ یہ کبھی مان لیں تو ان کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر صدقہ فرض کیا ہے.یہ صدقہ ان کے دولتمندوں سے نے کہ ان کے غریبوں کو دلایا جائے؟ (بخاری کتاب الزکواة ) حکمت عملی اس امر کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ مخاطب سے پہلے اُن امور کو تسلیم کہ دالیا جائے.جن میں کوئی اختلاف نہیں ہے.اس سلسلہ میں ہمیں قرآن کریم سے بھی راہنمائی ملتی ہے.قُلْ يَاهْلَ الْكِتُبِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَ بيْنَكُمْ الأَنَعبُدَ إِلَّا اللهُ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا.د ال عمران : ۶۵) ترجمہ :.یعنی.اسے رسول ! تو اہل کتاب کو پہلے ان باتوں پر اتفاق رائے

Page 17

۱۸ کی دعوت دے جو دونوں فریقوں کے درمیان مشترک حیثیت رکھتی ہیں.یعنی پہلے توحید الہی کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے کی دعوت دے.میں اصل مقصود ہی افراد کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے طلب پیدا کرنا ہے.تمام انبیاءنے سے پہلے لا اله الا الله کی دعوت دی ہے.انبیاء و مصلحین کے طریق دعوت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے بگاڑ کا اصل سبب اللہ تعالٰی سے رابطے کی کمی.کمزوری یا انقطاع ہے.اور خدا کی ذات پر کامل یقین کے بعد مسائل کو حل کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے.۲- موعظه حسنه کے لئے دوسری بنیادی چیز موعظہ حسنہ ہے.اس سے مراد عمدہ نصیحت ہے.عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں.ایک یہ کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کی جائے.دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقے سے کی جائے جس دلسوزی اور خیر خواہی سیکتی ہو.اور مخاطب کو یہ محسوس ہو کہ ناصح کے دل میں اس کی اصلاح کے لئے تڑپ موجود ہے.اور وہ حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے.جذبات انسانی ذہن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں.اور اگر کوئی بات کسی کے جذبات کو متاثر کر جائے تو عقل کی فلسفہ طرازیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں.اور جذبات تک اپیل کرنے کے لئے ہمدرد کی خلق کلی کی

Page 18

19 حیثیت رکھتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ اس پر شاہد ناطق ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مخلوق خدا کی ہدایت کے لئے جو جذبہ ہمدردی آپ کے دل میں موجزن تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے :- لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِين.(شعراء : ۴) ترجمہ :.شاید تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالے گا کہ وہ کیوں مومن نہیں ہوتے.غزوہ اُحد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لہو لہان کیا جاتا ہے اور آپ شدید ترین اذیت کے لمحات میں دست بدعا ہو کہ یوں گویا تھے :- اللهُمَّ اهْدِ قَوْ فِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ.اسلم كتاب الجهاد) یعنی.اسے اللہ ! میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ یہ حقیقت سے نا آشنا ہیں.طائف کے سفر میں آپ سے جو سلوک روا رکھا گیا اس سے کون واقف نہیں مگر اُن کے حق میں بھی بددُعا نہیں کی.پس یہی وہ جذبہ ہمدردی تھا جس نے عرب کے بیاباں میں ایک روحانی انقلاب برپا کر دیا.حدیث میں آتا ہے ایک بڑھیا روزانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی چھت پر سے بغض و عناد کے باعث گند پھینکا کرتی تھی.ایک روز جب ایسا نہ ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ دریافت فرمائی.آپ کو بتایا گیا کہ

Page 19

دراصل وہ بڑھیا آج بیمار تھی اس وجہ سے آج وہ ایسا نہ کر سکی.آیا یہ سُن کر اس کے گھر عبادت کی غرض سے تشریف لے گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ حسنہ سے وہ بڑھیا اس قدر متاثر ہوئی کہ ایمان لائے بغیر نہ رہ سکی.اسی طرح ایک بدوی بڑھیا ایک روز جب مگر میں کچھ سودا سلف خرید نے آئی تو اس نے اپنے کانوں میں اس مقصد کے لئے روٹی ڈال رکھی تھی.تا اس کے کانوں میں نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز نہ پڑ جائے اور وہ اس کے جادو کا شکار ہو جائے.جب وہ بڑھیا واپس جا رہی تھی.تو بوجھ کافی ہونے کے باعث سخت تکلیف میں تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُسے اس تکلیف میں مبتلا دیکھ کر برداشت نہ کر سکے.اور اس کا سامان اٹھا کر اس کے گھر تک پہنچا آئے.جب آپ واپس آنے لگے تو اس بڑھیا نے آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور ساتھ یہ نصیحت کرنے لگی کہ آپ کہیں محمد کے جادو کا شکار نہ ہو جانا.یہ سن کہ آنحضرت نے فرمایا.وہ جادو گر تو میں ہی ہوں.یہ سن کر وہ بڑھیا کہنے لگی کہ اگر تو ہی وہ جادوگر ہے تو پھر مجھ پر تو تیرا جادو چل گیا ہے.خدا کی قسم آپ جیسا بنی نوع انسان کا ہمدرد اور خیر خواہ جھوٹا نہیں ہو سکتا.اسی وقت وہ بڑھیا کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی.غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر جب رسول خدا ایک مقام پر سب سے الگ تھلگ آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے.آپ کی آنکھ لگے ذرا ہی دیر ہوئی تھی.کہ ایک دشمن نے موقعہ پا کہ آپ ہی کی تلوار لے کر آپ کو بیدار کیا اور پوچھا.و اب کون تمہیں میرے ہاتھ سے بچا سکتا ہے یہ آپؐ نے نہایت اطمینان اور بشاشت قلبی سے فرمایا." الله " یہ سننا تھا کہ تلوار دشمن کے ہاتھ سے نیچے گر پڑی.آپ نے اس تلوار کو

Page 20

۲۱ اُٹھایا اور فرمایا ! " اب بتاؤ تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا ، اس آدمی نے کپکپاتے ہوئے کہا.آپ ہی مجھ پر رحم فرمائیں اپنے نے مسکراتے ہوئے اُسے معاف کر دیا.پس یہی وہ ہمدردی و دلسوزی ہے جب سے بدترین مخالف بھی بالآخر حق کی طرف کھینچا چلا آتا ہے.۴ - عقلی استدلال : حکمت دعوت کا تقاضا ہے کہ مخاطب کو غور و نکہ کی دعوت دی جائے.اور اُسے تفکر و تدبر کی راہ پر ڈالا جائے.عقلی دلائل اور مشاہداتی براہین کے ذریعہ دعوت حق کو مؤثر بنایا جائے.مذا ہب عالم کی تاریخ میں نبوت محمدیہ ایک منفر در بانی آواز ہے جس نے حاکمانہ اور آمرانہ اندانہ اختیار کرنے کی بجائے عقل انسانی کو مخاطب کیا.غور و فکر کی دعوت دی اور فہم و تدتبہ کا مطالبہ کیا.قرآن پاک میں عقلی استدلال کی شاندار مثالیں جابجا بکھری پڑی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَ يَحْيِي مَنْ حَتَّ من بَيِّنَةٍ وَانَّ اللهَ سَمِيعٌ عَلِيمه (الانفال: ۴۲) ترجمہ :.تاکہ جو ہلاک ہو وہ دلیل سے ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل سے جئے.اور اللہ تعالٰی خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے.مجادلہ حسنہ -:- مجادلہ سے مراد دلائل کا باہمی رد و بدل ہے جس سے مخاطب کو مطمئن کرنے کے لئے اس کے دلائل کا جواب دیا جاتا ہے.اور ایسا مثبت استدلال کیا جاتا ہے جو فریق ثانی کو قبول حق پر آمادہ کر سکے.اس کی

Page 21

۲۳ نوعیت محض مناظرانہ اور عقلی کشتی اور ذہنی دنگل کی نہ ہو.اس میں کچھ بحثی اور الزام تراشی اور چوٹیں اور پھبتیاں نہ ہوں.اس کا مقصود فریق مخالف کو چپ کرا دیا اور اپنی زبان آوری کے ڈنکے بجا دینا نہ ہو بلکہ اس میں شیریں کلامی ہو.اعلیٰ درجہ کا شریفیانہ اخلاق ہو.معقول اور دل لگنے دلائل ہوں.مخاطب کے اندر ضد اور ہٹ دھرمی پیدا نہ ہونے دی جائے.سیدھے سیدھے طریق سے اس کو بات سمجھانے کی کوشش کی جائے.اور جب محسوس ہو کہ وہ کچھ بحثی پر اتر آیا ہے تو اُسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ گمراہی میں اور زیادہ دور نہ نکل جائے.مجادلہ در حقیقت نام ہے اس بات کا کہ اپنی بات منوانے کے لئے مخاطب پر محبت، اعتماد حسن اخلاق اور حسن استدلال سے گھیر سے ڈالے جائیں.یہاں تک کہ وہ داعی کی دلسوزی اس کی بے لوثی اور اس کے اخلاص سے متاثر ہو کہ اس کی بات کی صداقت پر غور کرنے اور اس کو تسلیم کر نے پر آمادہ ہو جائے.4 - عملی نمونہ :- میں عملی نمونہ کی اہمیت کا اندازہ قرآن کریم کی درج ذیل آیات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے.فرمایا :- وَ مَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَى إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ.رحم سجده : ۳۴) ترجمہ : یعنی.اس شخص سے زیادہ حسین کلام کس کا ہو سکتا ہے جو لوگوں کو خدا تعالی کی طرف دعوت دیتا ہے اور خود بھی اعمال صالحہ بجالاتا ہے اور پہلے خود وہ احکام خداوندی کے سامنے سرتسلیم خم

Page 22

۲۳ کرتا ہے اور کامل فرمانبردار ہو جاتا ہے.اسی طرح ایک دوسرے سے مقام پر فرمایا :- يهَا الرَّسُولُ بَلَغَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَاءُ - ( المائده : ۶۸) ترجمہ : یعنی اسے رسول ا جو پیغام تیری طرف نازل کیا گیا ہے تو اسے دوسر سے لوگوں تک پہنچا.اگر تو نے ایسا نہ کیا تو اسکا مطلب یہ ہوگا کہ تو نے اس کی رسالت کا حق ہی ادا نہ کیا.اس آیت کریمہ میں کان لم تفعل کے الفاظ استعمال کرنے میں حکمت یہی ہے کہ پیغام اہلی کو عملی نمونہ کے ذریعہ بھی لوگوں تک پہنچانا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی نمونہ کو خود خدا تعالیٰ نے آپ کی صداقت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے.اور اس کی تائید کوہ صفا کے مقام پر سب قریش مکہ نے یک زبان ہو کر کی.حضرت ابو بکر صدیق رض جو آپ کے بچپن کے ساتھی تھے وہ بغیر کسی دلیل کے مطالبہ کے آپ پر ایمان لے آئے.اسی طرح ایک اور موقعہ پر جب رؤسا مگر ا کٹھے ہوئے اور یہ فیصلہ کیا کہ مگر میں جو لوگ حج یا دوسر سے مواقع پر آتے ہیں اُن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہکہ بدنام کیا جائے کہ معوذ باللہ آنحضرت لوگوں کو جھوٹی باتیں کہہ کہ فریب دیتے ہیں تو اس پر نذر بن حارث اُٹھا اور اس نے سب حاضرین کو مخاطب کر کے کہا کہ :.محمد تم میں پل بڑھ کر جوان ہوا.تم اس کو بچپن سے جانتے ہو

Page 23

۲۴ اور تم جانتے ہو کہ وہ تمہیں سب سے زیادہ محبوب تھا اور وہ تم سب میں سے زیادہ راست گو اور تم سب سے زیادہ حق امانت ادا کرنے والا ہے.اور جب وہ ادھیڑ عمر کو پہنچا ہے اور اس کی کنپٹیوں پر سفید بال آگئے ہیں تم کہنے لگے ہو کہ وہ فریبی ہے.اور ان اخلاق سے عاری ہے خدا کی قسم ایسا نہیں ہے.اور اگر تم ایسی بات کرو گے تو خود اپنے آپ کو جھٹلا کر رسوا کرو گے.کیونکہ جو شخص بھی محمد کو جانتا ہے وہ تمہاری اس بات کو تسلیم نہیں کر سے گا یہ ایک انگریز مصنف ایچے ایم.بینڈ میں صحابی رسول کی وفاداری اور اس کی وجہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- ظلم و تشدد - غربت.بے وطنی اور بد حالی ہر طرح کے آرام دو مصائب کے باوجود محمدؐ کے ساتھیوں اور پیرو کاروں نے آپ سے بے وفائی نہیں کی.آپ کے صحابہ میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے کسی تکلیف یا مصیبت سے گھرا کہ کسی آسائش یا لالچ کے لئے محمد کے ساتھ غداری یا فریب دہی کے بارہ میں تصور بھی کیا ہو.محمد کی تعلیمات اتنی سچی تھیں اور ان کی شخصیت ما پر کشش کھری اور جاذبیت رکھنے والی تھی کہ ان کا کوئی ساتھی اتنی ہے ایمان لانے کے بعد گمراہ نہ ہوا " ریحوالہ اردو ڈائجسٹ سٹی ۱۹۸۹ء ۳۲) مسٹر ایس کشتا یہ ڈپٹی انسپیکٹر مدارس ضلع گورکھ پور رکھتے ہیں:.در محمد کی سچائی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ کی زبان میں

Page 24

۲۵ اثر تھا.آپ کے صرف ایک زبانی حکم سے عرب میں شراب خوری تو کیا اور کتنے ہی افعال بد ایک قلیل مدت میں بالکل ہی نیست و نابود ہو گئے........آج دنیا میں ایک شخص کی بھی طاقت نہیں ہے کہ وہ حضرت محمدؐ کے کیریکٹر پر ایک سیاہ دھبہ بھی لگا سکے.د نقوش رسول نمبر جلد ۳ ص۴۹ ) ایک ہندو لالہ رام چندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا کردہ روحانی انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- پیغمبر اسلام محمد کو اپنے مشن کے رائج کرنے میں جو کامیابی ہوئی وہ سچ مچ حیرت انگیز ہے.ناشائستہ خونخواہ کینہ ور - جنگجو عربوں کے قبیلوں کو جو ثبت پرستی اور تو ہم پرستی میں غرقاب تھے.آپس کے جھگڑوں اور جوابازی میں محو تھے.حضرت محمدؐ کے پاک اثمر نے آناً فاناً خدا پرست بنا دیا.تمام قبیلے ایک سردار کے جھنڈے کے نیچے آگئے.اور ایک متحدہ قوم بن د نقوش رسول نمبر جلد ۴ ۲۹ ) گئے لا إِرَادَ فِي الدِّين قرآن کریم میں دعوت کے کچھ اور بھی اصول بیان کئے گئے ہیں جن میں سے ایک بہت اہم یہ ہے کہ کسی شخص سے جبرا اپنی بات نہ منوائی جائے.دعوت کے ابتدائی مراحل میں تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.البتہ حق کے مستحکم ہونے پر یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے لیکن قرآن پاک نے ان تمام

Page 25

خدشات کی نفی کر دی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو قرآن کریم کی عملی تصویر ہیں نے دعوت کے تمام مراحل میں میر امن دعوت کو اپنا مقصد بنائے رکھا.آپ کی پوری زندگی میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا جسی جبر و اکراہ ثابت کیا جائے.قبول حق ایک اختیاری معاملہ ہے اور اسلام ان کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے.ارشاد باری تعالیٰ ہے :- وَقُلِ الْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُوهُ مِن وَ مَن شَاءَ فَلْيَكْفُرُ (الكهف: ۲۹) یعنی اسے رسول ! تو کہہ دے کہ حق تمہار سے پروردگار کی طرف سے ہے تو جو چاہے قبول کر لے اور جو چاہے انکار کر ہے.قرآن حکیم میں دعوت دین حق میں انبیاء کرام کی مساعی کو متعین کیا گیا ہے.اور ان حدود کو بیان کیا گیا ہے جہاں پر اُنہیں رُک جانا چاہیئے.فرمایا :- إِنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا البَلغُ الْمُبِين - (مائده : ٩٢) یعنی ہمارے رسول پہ تو صرف اس قدر فرض ہے کہ وہ ہمارہ سے پیغام کو کھول کر پہنچا دے.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے اعراض سے غمگین ہوتے تھے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا :- إنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ (الغاشیه : ۲۲) یعنی.اسے پیغمبر! آپ تو نصیحت کرنے والے ہیں.آپ کو ان پر دروغہ بنا کر نہیں بھیجا گیا.

Page 26

I کو سب سے زیادہ نتیجہ خیز اور ثمر آور بنانے والی ایک داعی الی اللہ کی نیم شبی دعائیں ہیں.دنیا کے سسے بڑے اور مثالی داعی الی اللہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیوں کے روحانی مردوں کے دلوں میں جو روحانی انقلاب برپا کیا وہ در حقیقت آپ کی عاجزانہ دعاؤں اور ذاتی عملی نمونہ کا ہی نتیجہ تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی رشدو ہدایت کے لئے دن رات یہ دُعا کرتے تھے :- اللهُمَّ اهْدِ قَوْنِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ وسلم کتاب الجہاد یعنی اسے اللہ ! تو میری قوم کو ہدایت عطا فرما.کیونکہ یہ حقیقت سے نا آشنا ہیں.حضرت مسیح موعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دل کی گہرائیوں سے نکلے والی دعاؤں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے انقلاب عظیم کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :- ” وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گر مرا کہ لاکھوں مرد سے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑ سے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہو گئے.اور گونگوں کی زبان پر اہلی معارف جاری ہوئے.اور دنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اسے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سُنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا ؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں تھیں جنہوں نے دنیا میں ایک شور مچا دیا.اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس امتی سیکیس سے

Page 27

۲۸ محالات کی طرح نظر آتی تھیں " وبركات الدعاما ) آخر پر امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفتہ ایسیح الرابع ایدہ اللہ نصرہ العزیز کی سے متعلق ایک نصیحت کو پیش کر کے اس مضمون کو ختم کیا جاتا ہے.فرمایا :- "....کی جو جوت میرے مولیٰ نے میرے دل میں جگائی ہے اور آج ہزار ہا احمدی سینوں میں یہ کو جل رہی ہے اس کو بجھتے نہیں دینا.تمہیں خدائے واحد و یگانہ کی قسم کہ اس کو بجھنے نہیں دینا.اس مقدس امانت کی حفاظت کرو.یکی خدائے ذوالجلال والاکرام کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تم اس شمع نو کے امین بنے رہو گے تو خدا اُسے کبھی سمجھنے نہ دے گا.یہ کو بلند تر ہو گی اور پھیلے گی.اور سینہ بسینہ روشن ہوتی چلی جائے گی.اور تمام روئے زمین کو گھیر لے گی.اور تمام تاریکیوں کو اجالوں میں بدل دے گی " الفضل ۲۲ اگست ۶۱۹۸۳ ص۲) شمارہ ۲ ، تعداد ایک ہزار

Page 27