Language: UR
بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سیرت و سوانح کے سلسلہ کی اس مختصر کتاب میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ بچوں کے لئے تبلیغ کی اہمیت کے متعلق موادپیش کیا گیا ہے۔ گو مصنفہ نے ہجرت حبشہ کا دور بتانے کے لئے حضرت مرزا بشیر احمدصاحب رضی اللہ عنہ کی کتاب سیرت خاتم النبیین ؐکو بنیاد بنایا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ وسیع مطالعہ کرکے دیگر قیمتی حوالے بھی پیش کئے ہیں۔
سیرت و سوانح حضرت محمد مصطفی عاله وت الی الله اور ہجرت حبشہ
سیرۃ وسوانح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم دعوت الى الله اور هجرت حبشه امہ الباری ناصر شائع کردہ: نظارت نشر و اشاعت قادیان143516 ضلع گورداسپور.( پنجاب ) بھارت
پیش لفظ لجنہ اماء الله نے صد سالہ جشن تشکر کے موقعہ پر احباب جماعت کی معلومات اور بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے کم از کم سوکتب شائع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس کے تحت مختلف افراد کی طرف سے مرتب کردہ یا تصنیف کردہ کتب شائع کی گئیں.یہ کتب نہایت آسان اور عام فہم سادہ زبان میں لکھی گئیں تا کہ ہر کوئی آسانی سے اسے سمجھ سکے.ان میں سے کتابچہ دعوت الی اللہ اور ہجرت حبشہ خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی سال میں سیدنا حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ کی منظوری سے شعبہ نشر و اشاعت کے تحت شائع کیا جارہا ہے اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے مبارک کرے اور نافع الناس بنائے.برہان احمد ظفر (ناظر نشر و اشاعت قادیان)
3 الحمد لله پیش لفظ جشن تشکر کے سلسلہ کی کتاب بعنوان سيرة وسوانح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم دعوت الی اللہ اور ہجرت حبشہ پیش کرنے کی توفیق مل رہی ہے.ذالک فضل اللہ تعالیٰ اس سے پہلے عزیزہ امتہ الباری ناصر کی سیرت پاک پر بچوں کے لئے چھوٹی چھوٹی کتا بیں حضرت محمد مصطفی میں ان کا بچپن مشاغل شجارت اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی اور آغاز رسالت طبع ہو چکی ہیں.زیر نظر کتاب بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے.یہ کتاب سے منظور شدہ ہے حسب معمول امتہ الباری ناصر نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ کی کتاب سیرت خاتم النبین کو بنیاد بنایا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ وسیع مطالعہ کر کے دیگر قیمتی حوالے بھی پیش کئے ہیں.يايها المدثر مخاطب فرما کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کل عالم کے انسانوں کو خدا تعالی کا پیغام پہنچانے کا فریضہ سونیا.اس فرض کو ادا کرنے کے لئے ابتداء میں کیا حکمت عملی اختیار فرمائی اور کس دلیری سے مخالفتوں کا مقابلہ کیا اس کا ذکر اس کتاب میں پیش کرنے سے مقصد یہ ہے کہ ایک ہی نشست میں ذہن نشین ہو جائے اور تدریج کے ساتھ آپ کے خلق عظیم کے نمونے دلوں میں گھر کرتے چلے جائیں اس طرح بچوں کے لئے ایسی کتابوں کی کمی کو پورا کیا جارہا ہے.ہماری التماس ہے کہ بچوں کو یہ کتابیں پڑھنے کے لئے دی جائیں.ان کا مطالعہ بڑی خاموشی سے گہری تربیت کرے گا اور بچوں کی شخصیت ابتدا ہی سے حُب رسول کے رنگ میں رنگین ہوگی.خلق عظیم
4 کے اعلی ترین درجہ پر متمکن ہستی سے وابستگی ہی اعلیٰ اخلاق سکھا سکتی ہے اللہ تعالی ہمیں اپنی رضا کی راہیں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ہم عزیزہ امتہ الباری ناصر کے ممنون ہیں کہ وہ گہرے مطالعے کے بعد آسان انداز میں ہمارے لئے روحانی مائدہ پیش کرتی ہیں یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہے.اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کی معاونات کو اپنے افضال و برکات سے ہمیشہ نوازے رکھے.آمین اللهم آمین
5 دعوت الی اللہ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے غارحرا کی تنہائیوں میں ذاتی دکھوں پر آنسو نہیں بہائے تھے بلکہ آپ کو یہ تڑپ تھی کہ کسی طرح انسان شیطان کے پنجوں سے آزاد ہو کر خدائے رحمن کے بندے بن جائیں.آپ کو شدید تمنا تھی کہ مسکین، یتیم بے کس لا چار کمزور بیوائیں، غلام سارا محروم طبقہ انسانوں کے ظلموں سے چھٹکارا پا کر خدائے رحیم کی رحمت کے سائے میں آجائے.آپ کو گن تھی کہ جھوٹے خداؤں کی بجائے معبود حقیقی کی عبادت ہو.لوگ اُس قادر و مقتدرہستی کو جانیں اور مائیں جس کا حسن آپ پر جلوہ گر ہوا تھا.یہ بیچی تمنا دل کی پکار خدا تعالیٰ کی رحمت کو کھینچ لائی اور آپ کو وہ نسخہ کیمیا عطا ہوا جس سے کل انسانوں کی قیامت تک ہر طرح کی اصلاح ہو سکتی ہے آپ پر قرآن کریم کا نزول شروع ہوا.اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ”اے چادر میں لیٹے ہوئے شخص اُٹھ کھڑا ہو اور لوگوں کو خدا کے نام پر بیدار کر چادر میں لپٹا ہوا کمزور شخص کانپ گیا.بہت بڑی ذمہ داری تھی مگر پیارے خدا کی دستگیری پر ایمان تھا اپنے رب کے حکم پر سر جھکا دیا اس طرح آپ پہلے اسلام لانے والے یعنی اول المسلمین ٹھہرے.لوگوں کو خدا کے نام پر بیدار کرنے کا کام آپ نے اپنے گھر سے شروع کیا.اپنی زندگی کے ساتھی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو وحدانیت کی تعلیم دی.ان کے لئے یہ پیغام اجنبی نہ تھا میاں بیوی میں دینی اور قلبی ہم آہنگی تھی آپ تو کبھی کبھار غار حرا بھی جایا کرتی تھیں.اچھی طرح جانتی تھیں کہ تلاش حق کے مسافر کو منزل مل گئی ہے.ایک لمحے کے تردد کے بغیر کوئی ثبوت یا معجزہ طلب کئے بغیر آپ کی نبوت کی صداقت کی تصدیق فرمائی اس طرح پہلی مسلمان عورت ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا.اللہ تعالیٰ اُن کی سعادت سے خوش ہوا اور اپنی خوشنودی کا اظہار فرمایا.
6 ابن ہشام کہتے ہیں مجھے ایک معتبر شخص سے روایت پہنچی کہ جبرئیل حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا خدیجہ کو اُن کے پروردگار کی طرف سے سلام دیجئے چنانچہ حضور نے فرمایا اے خدیجہ ! جبرئیل خدا کی طرف سے تمہیں سلام کہتے ہیں خدیجہ نے کہا اللہ سلام ہے اُس سے سلام ہے اور جبرئیل پر بھی سلام ہو (ابن ہشام جلد اول (اردو) صفحه ۱۶۰) یہ پہلا گھرانا تھا جو اسلام کے نور سے منور ہوا.یہیں سے اللہ تعالیٰ کا پیغام پھیلنا شروع ہوا.حضرت خدیجہ کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ پہلی مسلمان عورت ہیں جنہوں نے تبلیغ اسلام کا کام کیا.وہ مکہ والوں کو خصوصا عورتوں میں اللہ تعالی کی وحدانیت اور حضرت محمد رسول اللہ عن اللہ کی رسالت کا پیغام دیتیں.ایک مدبر اور معتبر خاتون کے اسلام کی طرف بلانے کا بہت اچھا اثر حنا الله ہوتا.اب دیکھتے ہیں کہ اپنے رسول میلے کا ساتھ دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مردوں میں سے سب سے پہلے کے منتخب فرمایا.جس دن حضرت رسول کریم ﷺ نے دعوی فرمایا حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ ملہ میں نہیں تھے.بلکہ مکہ سے کہیں باہر گئے ہوئے تھے واپس آئے تو چونکہ سخت گرمی کا موسم تھا ایک دوست کے ہاں دوپہر کے وقت کچھ ستانے کے لئے ٹھہر گئے.ابھی لیٹے نہیں تھے کہ اُن کے دوست کی لونڈی سے برداشت نہ ہو سکا اور وہ کہنے لگی ہائے ہائے بیچارہ اس کا دوست تو پاگل ہو گیا ہے حضرت ابو بکر نے ادھر ادھر دیکھا اور سمجھا کہ یہ الفاظ شاید میرے متعلق ہی کہے گئے ہیں چنانچہ
7 انہوں نے اُس سے پوچھا کہ کون دوست؟ اس نے کہا تمہارا دوست محمد حضرت ابو بکر نے پوچھا کیا ہوا؟ وہ لونڈی کہنے لگی وہ کہتا ہے میرے ساتھ فرشتے باتیں کرتے ہیں حضرت ابو بکر اس وقت لیٹنے ہی لگے تھے کہ یہ بات سُن کر آپ نے چادر سنبھالی اور دوست سے کہا میں اب چلتا ہوں اُس نے کہا ذرا ٹھہرمیں سخت گرمی کا وقت ہے آپ کو اس وقت جانے سے تکلیف ہوگی انہوں نے کہا نہیں اب میں ٹھہر نہیں سکتا چنانچہ وہ سیدھے حضرت رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا حضرت رسول کریم علیے آپ کی آواز سن کر تشریف لائے اور دروازہ کھولا روازہ کھلتے ہی حضرت ابو بکڑ نے کہا میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں آپ بتائیں کہ کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ خدا کے فرشتے آپ پر نازل ہوتے ہیں اور وہ آپ سے باتیں کرتے ہیں؟ حضرت رسول کریم ﷺ نے یہ خیال فرماتے ہوئے کہ یہ میرے دوست ہیں اور ان سے میرے پرانے تعلقات چلے آرہے ہیں ایسانہ ہو کہ ٹھو کر کھا جائیں مناسب سمجھا کہ پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو کچھ سمجھا لیں چنانچہ آپ نے فرمایا ابوبکر پہلے میری بات سن لو بات یہ ہے کہ حضرت ابو بکر نے اُسی وقت آپ کے سلسلہ کلام کو منقطع کرتے ہوئے کہا میں آپ سے کوئی بات نہیں پوچھتا آپ صرف یہ بتائیں کہ کیا آپ نے کہا ہے کہ فرشتے مجھ پر نازل ہوتے ہیں اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں؟ حضرت رسول کریم علیہ نے جواب دینے سے پہلے پھر فرمایا ابو بکر بات تو سن لو آپ نے خیال فرمایا کہ اگر میکدم میں نے کچھ جواب دیا تو ممکن ہے یہ ٹھوکر کھا جائیں تمہید ان
8 سے چند باتیں کہہ لوں.مگر ابو بکڑ نے کہا نہیں میں آپ کو خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ مجھے اور بات نہ بتائیں مجھے صرف یہ بتائیں کہ کیا آپ نے یہ کہا ہے کہ خدا کے فرشتے مجھ پر نازل ہوتے ہیں؟ جب انہوں نے آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دی اور اصرار کیا کہ مجھے کوئی اور بات نہ بتائی جائے صرف میری بات کا جواب دیا جائے تو حضرت رسول کریم عملے کے لئے اور کوئی چارہ نہ رہا اور آپ نے فرمایا ابو بکر ٹھیک ہے میں نے کہا ہے کہ خدا کے فرشتے مجھ پر نازل ہوتے ہیں اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں اس بات کو سنتے ہی حضرت ابو بکر نے کہا پھر آپ گواہ رہیں کہ میں آپ پر ایمان لاتا ہوں ابتدا میں بیعت کا طریق یہ تھا کہ مرد حضور کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اقرار کرتے کہ خدا کو ایک یقین کروں گا کسی قسم کا شرک نہیں کروں گا ہر قسم کے بُرے فعل مثلاً چوری، زنا، قتل جھوٹ سے پر ہیز کروں گا.کسی پر بہتان نہ باندھوں گا" بخاری کتاب الاحکام باب بیعت النساء ( تفسیر کبیر جلد دہم صفحه ۱۱۱) آنحضرت ﷺ کے گھر رہنے والے دس گیارہ سال کے معصوم بچے علی کو علم ہوا کہ بڑے بھائی پر خدا تعالیٰ کا فرشتہ نازل ہوا ہے جو ایک خدا کی تعلیم لایا ہے تو بڑی معصومیت اور سچائی سے اس بات کو تسلیم کر لیا.اس طرح پہلا مسلمان بچہ ہونے کا شرف حاصل کر لیا.اس پیارے بچے کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ جب شروع شروع میں نماز سکھائی گئی تو آپ اسے ساتھ لے کر نماز پڑھتے.کبھی کبھی لوگوں سے چھپ کر کسی پہاڑ کی کھائی میں نماز ادا فرماتے ایک دفعہ آپ دونوں سب سے علیحدہ چھپ کر نماز پڑھ رہے تھے کہ کسی نے ابو طالب کو اطلاع کر دی.ابوطالب
9 آئے اور ان کو اس طرح عبادت کرتا دیکھ کر حیران رہ گئے.پوچھا اے میرے بھتیجے یہ کیا دین ہے جو تو نے اختیار کیا ہے؟ آپ نے فرمایا میرے چچا یہ دین خدا اور اُس کے فرشتوں کا اور اُس کے رسولوں کا ہے اور ہمارے باپ ابراہیم کا ہے مجھ کو خدا نے اس دین کے ساتھ رسول بنا کر بھیجا ہے.میرے چچا میں آپ کو ہدایت کی طرف بلاتا ہوں آپ یہ دین قبول کرلیں اور ہمارا ساتھ دیں ابو طالب نے کہا ”اے بھتیجے میں اپنے باپ دادا کے طریق کو نہیں چھوڑ سکتا مگر جب تک میں زندہ ہوں دشمن تمہیں تنگ نہیں کر سکیں گے پھر ابو طالب نے اپنے بچے علی سے پوچھا تم نے یہ دین اختیار کر لیا ہے؟ ننھے علی نے جواب دیا ابا جان میں خدا اور اُس کے رسول پر ایمان لے آیا ہوں اور اُس کتاب پر بھی جو رسول خدا پر نازل ہوئی ہے.یہ نماز بھی اسی دین کا حصہ ہے.ابو طالب نے کہا بچے! محمد تمہیں بھلائی کی طرف بلاتے ہیں ان کے ساتھ رہنا.حضرت عثمان بن عفان واقعہ فیل کے پانچ سال بعد پیدا ہوئے تھے بچپن میں پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا بڑے ہو کر تجارت میں مشغول ہوئے اپنی سچائی، دیانت امانت کی وجہ سے تجارت میں بڑی ترقی ہوئی.تجارتی قافلوں میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساتھ رہتا جب آنحضور ﷺ نے دعوئی فرمایا حضرت عثمان کی عمر قریباً تیس برس تھی آپ کو سب سے پہلے حضرت ابو بکر نے بتایا کہ حضرت محمد مصطفی امیہ کو خدائے واحد نے دین اسلام کا رسول بنا کر بھیجا ہے.الله
10 پھر آپ کی ایک خالہ سعدی بنت کریز نے بھی ذکر کیا کہ ”محمد بن عبد اللہ کے پاس جبرئیل آتے ہیں اور ایسا روشن پیغام دیتے ہیں جیسے سورج طلوع ہونے پر روشنی پھیل جاتی ہے.آپ کے دین میں خیر ہے کبھی آپ کی مخالفت نہ کرنا ورنہ ذلت اٹھانی پڑے گی.آپ شریف النفس انسان تھے روشنی کو پہچان گئے خود آپ کی خدمت حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا اللہ تعالی نے آپ کو یہ سعادت عطا فرمائی کہ حضرت رسول اکرم مے کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آپ کے عقد میں آئیں اسی لئے آپ ذوالنورین کہلائے.حضرت ابو بکر کی تبلیغ سے حضرت عبدالرحمن بن عوف نے قریباً ۳۰ سال کی عمر میں اسلام قبول کر لیا.حضرت سعد بن ابی وقاص نے صرف انیس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا یہ دونوں حضرات آپ کی والدہ کے قبیلے بنوزہرہ سے تعلق رکھتے تھے اور بہت نیک مزاج تھے.حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ جو آپ کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ بھی کم عمری میں اسلام کی گود میں آگئے.دو تین سال کی دعاؤں اور تبلیغی محنتوں سے اسلام قبول کرنے والے چند گنتی کے لوگ تھے.حضرت ابو عبید اللہ بن عبد اللہ بن الجراح، حضرت عبیدہ بن الحارث، حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد، حضرت ابو حذیفہ بن عقبہ، حضرت سعید بن زید حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عبدالله بن نبخش، حضرت عبداللہ بن جحش ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت بلال بن رباح، حضرت عامر بن نبیرہ ، حضرت خباب بن الارت، حضرت ابوذر غفاری، حضرت اسماء بنت ابی بکر، حضرت فاطمہ بنت خطاب، حضرت ام فضل زوجہ عباس بن عبد المطلب یہ چند لوگ جن میں کم عمر بچے اور نو جوان شامل تھے یا غریب کمزور بوڑھے اس طرح کے غریب مزاج لوگ اپنے خاندان یا قبیلے میں اتنے اہم نہیں تھے کہ ان کے قبول اسلام سے متاثر ہو کر لوگ اسلام کی طرف راغب ہوں.تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے یہ لوگ اپنے اسلام کو چھپا کر رکھتے بعض اوقات ایک دوسرے سے ملنے والے مسلمان ہوتے مگر ایک دوسرے پر ظاہر نہ کرتے.اسلام کی ابتدا ایسے ہی کمزور غریب
11 اور بظاہر بے بس لوگوں سے ہوئی.مگر ان کمزوروں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طاقت تھی وہ مخالفین کفار میں سے چن چن کر ایسے لوگ اسلام کے دائرے میں لا رہا تھا جن سے قوت و طاقت ملے.اب مکہ کے ایک بہادر انسان کے قبول اسلام کا واقعہ سنئے حضرت عمرؓ اسلام کے شدید مخالفین میں سے تھے وہ کسی نہ کسی طرح اس مذہب کو پھیلنے سے روکنا چاہتے تھے.ایک دن اُن کے دل میں خیال پیدا ہوا کیوں نہ اس مذہب کے بانی کا ہی کام تمام کر دیا جائے اس خیال کے آتے ہی انہوں نے تلوار ہاتھ میں لی اور حضرت رسول کریم میہ کے قتل کے لئے گھر سے نکل کھڑے ہوئے راستہ میں کسی نے پوچھا عمر کہاں جارہے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا محمد کو مارنے جا رہا ہوں اُس شخص نے ہنس کر کہا : اپنے گھر کی تو پہلے خبر لو تمہاری بہن اور بہنوئی تو اس پر ایمان لے آئے ہیں.حضرت عمر نے کہا : یہ جھوٹ ہے اُس شخص نے کہا : تم خود جا کر دیکھ لو جب عمر وہاں گئے دروازہ بند تھا اور اندر ایک صحابی قرآن کریم پڑھا رہے تھے آپ نے دستک دی اندر سے آپ کے بہنوئی کی آواز آئی.کون ہے؟ عمرؓ نے جواب دیا : عمر انہوں نے جب دیکھا کہ عمر آئے ہیں اور وہ جانتے تھے کہ آپ اسلام کے شدید مخالف ہیں تو انہوں نے صحابی کو جو قرآن پڑ پھارہے تھے کہیں چھپا
12 دیا اسی طرح قرآن کریم کے اوراق بھی کسی کونے میں چھپا دئے.اور پھر دروازہ کھولا.حضرت عمر چونکہ یہ سن کر آئے تھے کہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں اس لئے انہوں نے آتے ہی دریافت کیا کہ دروازہ کھولنے میں دیر کیوں کی ہے؟ آپ کے بہنوئی نے جواب دیا : آخر دیر لگ ہی جاتی ہے.حضرت عمر نے کہا : یہ بات نہیں کوئی خاص امر دروازہ کھولنے میں روک بنا ہے مجھے آواز آرہی تھی کہ تم اس صابی (مشرکین مکہ حضرت رسول کریم ﷺ کو صابی کہا کرتے تھے ) کی باتیں سن رہے تھے انہوں نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن حضرت عمر کو غصہ آیا اور وہ اپنے بہنوئی کو مارنے کے لئے آگے بڑھے آپ کی بہن اپنے خاوند کی محبت کی وجہ سے درمیان میں آگئیں.حضرت عمر چونکہ ہاتھ اُٹھا چکے تھے اور اُن کی بہن اچانک درمیان میں آئیں وہ اپنا ہاتھ روک نہ سکے اور اُن کا ہاتھ زور سے اُن کی ناک پر لگا اور اُس سے خون بہنے لگا.حضرت عمر جذباتی آدمی تھے یہ دیکھ کر کہ انہوں نے عورت پر ہاتھ اُٹھایا ہے جو عرب کے طریق کے خلاف تھا اور پھر بہن پر ہاتھ اُٹھایا ہے حضرت عمر نے بات ٹلانے کے لئے کہا اچھا مجھے بتاؤ تم کیا پڑھ رہے تھے؟ بہن نے سمجھ لیا کہ عمر کے اندر نرمی کے جذبات پیدا ہو گئے ہیں اُس نے کہا جاؤ تمہارے جیسے انسان کے ہاتھ میں میں وہ پاک چیز دینے کے لئے تیار نہیں.حضرت عمر نے کہا ” پھر میں کیا کروں بہن نے کہا : وہ سامنے پانی ہے نہا کر آؤ تب وہ چیز تمہارے ہاتھ میں دی جاسکتی ہے.حضرت عمرؓ نہائے اور واپس آئے.بہن نے قرآن کریم کے
13 اوراق جو وہ سن رہے تھے آپ کے ہاتھ میں دیے.چونکہ حضرت عمرؓ کے انڈ ایک تغیر پیدا ہو چکا تھا اس لئے قرآنی آیات پڑھتے ہی اُن کے اندر رقت پیدا ہوئی اور جب آیات ختم کر چکے تو بے اختیار انہوں نے کہا أشْهَدُ أن لا إله إلَّا اللَّهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدَارُسولُ اللَّهِ یہ الفاظ سن کر وہ صحابی بھی باہر نکل آئے جو حضرت عمر سے ڈر کر چھپ گئے تھے پھر حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کہ حضرت رسول کریم یہ آج کل کہاں مقیم ہیں؟ حضرت رسول اللہ علیہ ان دنوں مخالفت کی وجہ سے گھر بدلتے رہتے تھے انہوں نے بتایا کہ آج کل آپ دار ارقم میں تشریف رکھتے ہیں.حضرت عمر فورا اسی حالت میں جبکہ تنگی تلوار آپ نے لکائی ہوئی تھی.اُس گھر کی طرف چل پڑے.بہن کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ شاید وہ بُری نیت سے نہ جا رہے ہوں.انہوں نے آگے بڑھ کر کہا خدا کی قسم میں تمہیں اُس وقت تک نہیں جانے دوں گی جب تک تم مجھے اطمینان نہ دلا دو کہ تم کوئی شرارت نہیں کرو گے حضرت عمر نے کہا میں پکا وعدہ کرتا ہوں کہ میں کوئی فساد نہیں کروں گا.حضرت عمر وہاں پہنچے اور دستک دی.حضرت رسول کریم ہے اور صحابہ اندر بیٹھے ہوئے تھے.درس ہورہا تھا.کسی صحابی نے پوچھا کون؟ حضرت عمر نے جواب دیا
14 صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ علہ دروازہ نہیں کھولنا چاہئے ایسانہ ہو کہ کوئی فساد کرے.حضرت حمزہ نئے نئے ایمان لائے ہوئے تھے وہ سپاہیانہ طرز کے آدمی تھے انہوں نے کہا دروازہ کھول دو میں دیکھوں گا وہ کیا کرتا ہے.چنانچہ ایک شخص نے دروازہ کھول دیا.حضرت عمر آگے بڑھے تو حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا عمر تم کب تک میری مخالفت میں بڑھتے چلے جاؤ گے حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ میں مخالفت کے لئے نہیں آیا میں تو آپ کا غلام بننے کے لئے آیا ہوں.وہ عمر جو ایک گھنٹہ پہلے اسلام کے شدید دشمن تھے اور حضرت رسول کریم ں کو مارنے کے لئے گھر سے نکلے تھے ایک آن میں اعلیٰ درجہ کے مومن بن گئے حضرت عمر مکہ کے رئیسوں میں سے نہیں تھے لیکن بہادری کی وجہ سے نوجوانوں پر آپ کا اچھا اثر تھا جب آپ مسلمان ہوئے تو صحابہ نے جوش میں آکر نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے.اس کے بعد نماز کا وقت آیا تو حضرت رسول کریم ﷺ نے نماز پڑھنی چاہی تو وہی عمر جو دو گھنٹے قبل گھر سے اس لئے نکلا تھا کہ حضرت رسول کریم عملے کو مارے.اُس نے دوبارہ تلوار نکال لی اور کہا یا رسول الله ! خدا تعالیٰ کا رسول اور اُس کے ماننے والے تو چھپ کر نمازیں پڑھیں اور مشرکین مکہ باہر دندناتے پھریں یہ کس طرح ہو سکتا ہے میں دیکھوں گا کہ ہمیں خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے سے کون روک سکتا ہے." تفسیر کبیر جلد ششم صفحه ۱۴۱ تا صفحه ۱۴۳
15 اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت کا فرض عائد ہوئے تین سال گزر چکے تھے آپ خاموشی اور حکمت سے پیغام حق دے رہے تھے کیونکہ خدا تعالی کا یہی محکم تھا.پھر خدا تعالیٰ نے اعلانیہ تبلیغ کا حکم دیا.چوتھا سال شروع ہوا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا فَاصْدَعُ بِمَا تُؤْمَرُ (سوره حجر : ۹۵) اے رسول تجھے جو حکم دیا گیا ہے وہ کھول کھول کر لوگوں کو پہنچا دے پھر اس کے قریب ہی یہ آیت نازل ہوئی وَانْذِرُ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (سوره شعراء : (۲۱۵) اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہشیار اور بیدار کر.آپ نے اللہ تعالیٰ کا حکم مانتے ہوئے ایک دن کوہ صفا پر چڑھ کر مختلف قبیلوں کو نام لے کر بلایا.آل غالب، قبیلہ توی ، آلِ مرہ، آپ کلاب اور آل قصئی کے لوگ جمع ہوئے ان میں ابولہب بھی تھا.آپ نے بات شروع فرمائی تم میرے رشتہ دار ہو.مجھے دیر سے جانتے ہو میری عادات سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہو تم یہ بتاؤ کہ میں نے کبھی جھوٹ بولا ہے؟ اُن سب نے متفقہ طور پر کہا ہر گز نہیں آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں“ تو آپ نے فرمایا اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ اس چھوٹی سی پہاڑی کے پیچھے ایک بہت بڑا لشکر تم پر حملہ کرنے کے لئے چھپ کر بیٹھا ہے تو کیا تم یقین کر لو گئے“ اگر چہ وہاں کوئی ایسی اوٹ نہیں تھی جس کے پیچھے لشکر چھپ سکتا بلکہ پہاڑی کے پیچھے بڑا میدان تھا پھر بھی اُن لوگوں نے کہا کہ اگر آپ کہیں گے تو ہم تسلیم کر لیں گے کیونکہ ہمیں پتہ ہے آپ کبھی
جھوٹ نہیں بولتے.16 حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر تم مجھے صادق سمجھتے ہو تو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ خدا نے مجھے یہ کہا ہے کہ میں اُس کا رسول ہوں اور اُس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں ڈراؤں اور تمہیں بتوں کی پرستش سے روکوں اگر تم میری بات نہیں مانو گے تو تباہ ہو جاؤ گے.مکہ والوں نے جو کچھ دیر پہلے ایک بظاہر ناممکن بات پر بھی آپ کو سچا مانے کا اقرار کیا تھا فورا یہ بات ماننے سے انکار کر دیا.آپ کی بات آگے سنی ہی نہیں اور آپس میں باتیں کرتے ہوئے ادھر ادھر چلے گئے کہ دیکھو اس شخص کو کیا ہو گیا ہے الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے.ابولہب نے کہا اے محمد تم پر ہلاکت ہو تم نے اتنی معمولی سی بات کے لئے ہمیں جمع کیا.( تفسیر کبیر جلد دہم سے استفادہ) آپ نے دیکھا کہ کسی نے آپ کی بات پر توجہ نہیں دی تو آپ نے دوسرا طریق اختیار فرمایا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ بنو عبد المطلب کو کھانے کی دعوت پر بلاؤ آپ یہ چاہتے تھے کہ اس طرح دعوت کے بعد آپ اللہ تعالیٰ کا پیغام دیں.دعوت میں سب قریبی رشتہ دار آئے قریباً چالیس آدمی ہو گئے کھانے کے بعد جب آپ نے اپنا مدعا بیان کرنا چاہا تو سب لوگ اُٹھ اُٹھ کر چلے گئے آپ کا پیغام نہ سنا.حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کے ارشاد پر ایک اور دعوت کا انتظام کیا.آپ نے دعوت سے پہلے اپنے رشتہ داروں کو مخاطب کر کے فرمایا اے بنو عبد المطلب! دیکھو میں تمہاری طرف وہ بات لے کر آیا ہوں کہ اس سے بڑھ کر اچھی بات کوئی شخص اپنے قبیلہ کی طرف نہیں لایا میں تمہیں خدا کی طرف بلاتا ہوں اگر تم میری بات مانو تو تم دین و دنیا کی بہترین نعمتوں کے وارث بنو گے اب بتاؤ اس کام میں میرا کون مددگار ہو گا ؟ سب خاموش تھے اور ہر طرف مجلس میں ایک سناٹا تھا یک لخت ایک طرف سے ایک تیرہ
17 سال کا دبلا پتلا بچہ جس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا.اٹھا اور یوں گویا ہوا گو میں سب سے کمزور ہوں اور سب سے چھوٹا ہوں مگر میں آپ کا ساتھ دوں گا.یہ حضرت علی کی آواز تھی آنحضرت ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ سنے تو اپنے رشتہ داروں کی طرف دیکھ کر فرمایا اگر تم جانو تو اپنے بچے کی بات سنو اور اسے مانو حاضرین نے یہ نظارہ دیکھا تو بجائے عبرت حاصل کرنے کے سب کھلکھلا کر ہنس پڑے اور ابو لہب اپنے بڑے بھائی ابو طالب سے کہنے لگا ”لواب محمد تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی پیروی اختیار کرو پھر یہ لوگ اسلام اور آنحضرت ﷺ کی کمزوری پر ہنسی اڑاتے ہوئے رخصت ہو گئے.(طبری، بحوالہ سیرت خاتم النبیین صفحه ۱۲۸ تا ۱۲۹) مکہ کے شریر لوگوں نے سوچا کہ کسی نہ کسی طریق سے اس نئے دین کا راستہ روکنا چاہئے وہ اپنے منصوبے بناتے رہے مگر مکہ کے بعض شریف لوگ اس نئے دین کے متعلق معلومات لینے کے لئے آپ سے ملاقات کرنے کے لئے آنے لگے لوگوں کو آپ کے پاس آتا جاتا دیکھ کر تنگ کرنے والے طرح طرح سے ستاتے اس طرح آپ کے کام میں رکاوٹ آجاتی آپ نے تبلیغ کرنے کے لئے اور نئے مسلمان ہونے والوں کی تربیت کرنے کے لئے ایک گھر کو مرکزی حیثیت دی یہ خوش قسمت گھر ایک صحابی ارقم بن ابی ارقم کی ملکیت تھا.جو دار ارقم کہلاتا تھا بعد میں اسے دار السلام بھی کہا جانے لگا دار ارقم کوہ صفا کے بائیں جانب ۳۵ سے ۴۰ میٹر کے فاصلے نپر واقع تھا اس میں پتھر کے بنے ہوئے دو مجرے تھے.یہ مسلمانوں کا پہلا اسکول، پہلا دارالتبلیغ اور پہلی عبادت گاہ تھا.تین سال تک یعنی نبوت کے چوتھے سال سے چھٹے سال تک یہی مسلمانوں کا مرکز رہا.تبلیغ کا انداز ابھی بھی حکیمانہ خاموشی کا تھا بہر حال نئے مسلمان ہونے والے اور اسلام کے لئے دکھ دیے جانے والے یہیں اکٹھے ہوتے.آنحضرت عﷺ پر ابتدائی ایمان لانے والے گھرانوں میں سے ایک حضرت عمار بن
18 یاسر کا گھرانا تھا.حضرت عمار ان دنوں ایمان لائے جب آپ دار ارقم میں مقیم تھے اسلام کے پیغام نے متاثر کیا دل چاہا کہ خود آنحضور ﷺ کی زبانِ مبارک سے سنیں دار ارقم کی طرف چلے راستے میں حضرت صہیب بن سنان سے ملاقات ہوئی باتوں باتوں میں علم ہوا کہ دونوں کو ایک ہی محبوب کی کشش کھینچ لائی ہے دونوں نے ایک ساتھ اسلام قبول کیا.اس طرح ابتدائی سات مسلمانوں میں شمار ہوئے.حضرت عمار کی والدہ کا نام حضرت سمیہ تھا اور والد کا نام حضرت یا سر اس خاندان پر کفار نے بے انتہا مظالم ڈھائے.خدا کی راہ میں انہیں سخت تکلیف پہنچائی گئی.(اسد الغابه الجزء الرابع صفحه ۴۴) حضرت سمیہ کی تو ظالموں نے جان لے لی اس طرح پہلی شہید مسلمان عورت کا اعزاز حاصل ہوا.حضرت عمار کو دھوپ میں کھڑا کر کے تکلیف دیتے پھر پانی میں ڈبکیاں دیتے.گرم ریت پر لٹا کر مار مار کر ادھ موا کر دیتے کھانے پینے کو بھی نہ دیتے.آپ سے یہ دکھ دیکھے نہ جاتے.فرماتے آل یا سر صبر کرو میں تم سے جنت کا وعدہ کرتا ہوں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے آنحضرت علی سے خود سنا ہے فرماتے ہیں کہ سر سے لے کر پاؤں کے تلووں تک عمارا ایمان سے بھرا ہوا ہے" (استیعاب) حضرت انس رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جنت مشتاق ہے علی، عمار، سلمان اور بلال کی.مکہ کے مشرکین کے لئے حضرت رسول کریم ﷺ کی باتیں اجنبی تھیں.وہ آپ کو اپنے دین میں رخنہ اندازی کرنے کا الزام دیتے تھے.وہ سمجھتے کہ چونکہ محمد بتوں کو برا بھلا کہتے ہیں اس لئے وہ آپ سے ناراض ہو گئے ہیں اور اس ناراضگی کی وجہ سے یہ سزا دی ہے کہ آپ کا دماغ ( نعوذ باللہ ) خراب ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں غلط سلط بے تکی خلاف عقل باتیں کرنے
19 لگے ہیں.مکہ والوں نے سارا زور لگا دیا کہ کوئی آپ کی بات نہ سنے اور اگر سن لے تو مانے نہیں اور اگر مان لے تو اُس کو ایسی سزا دی جائے کہ یا تو وہ توبہ کر لے یا جان سے مار دیا جائے تاکہ دوسروں کو خوف آئے اور وہ محمد کی باتیں قبول نہ کریں.مذہب کی تاریخ میں ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے شدید مخالفت کی جاتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے بندے اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے رہتے ہیں.آپ اور آپ کے ساتھی بھی ہر حال میں مکہ والوں کو دعوت الی اللہ دیتے آپ انہیں سمجھاتے کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا خدا ایک ہے اُس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.جس قدر نبی گزرے ہیں سب ہی توحید کا اقرار کیا کرتے تھے اور اپنے ہم قوموں کو بھی اسی تعلیم کی طرف بلایا کرتے تھے.تم خدائے واحد پر ایمان لاؤ.ان پتھروں کے بتوں کو چھوڑ دو کہ یہ بالکل بے کار ہیں اور ان میں کوئی طاقت نہیں.اے مکہ والو! کیا تم دیکھتے نہیں کہ اُن کے سامنے جوند رو نیاز رکھی جاتی ہے اگر اُس پر مکھیوں کا جھرمٹ آبیٹھے تو وہ ان مکھیوں کو اڑانے کی طاقت بھی نہیں رکھتے.اگر کوئی اُن پر حملہ کرے تو وہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتے.اگر کوئی ان سے سوال کرے تو وہ جواب نہیں دے سکتے.اگر کوئی اُن سے مدد مانگے تو وہ اس کی مدد نہیں کر سکتے مگر خدائے واحد تو مانگنے والوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو زیر کرتا ہے اور اپنے عبادت گزار بندوں کو اعلیٰ ترقیات بخشتا ہے.اُس سے روشنی آتی ہے جو اس کے پرستاروں کے دلوں کو منور کر دیتی ہے.پھر تم کیوں ایسے خدا کو چھوڑ کر بے جان بتوں کے آگے جھکتے ہو اور اپنی عمر ضائع کر رہے ہو.تم دیکھتے نہیں کہ خدا تعالیٰ کی توحید کو چھوڑ کر تمہارے خیالات بھی گندے اور دل بھی تاریک ہو گئے ہیں.تم قسم قسم کی وہ بھی تعلیمات میں مبتلا ہو حلال و حرام کی تم میں تمیز
20 نہیں رہی.اچھے اور برے میں تم امتیاز نہیں کر سکتے اپنی ماؤں کی بے حرمتی کرتے ہو اپنی بہنوں اور بیٹیوں پر ظلم کرتے ہو ان کے حق انہیں نہیں دیتے اپنی بیویوں سے تمہارا سلوک اچھا نہیں.یتامی کے حق مارتے ہو اور بیواؤں سے برا سلوک کرتے ہو غریبوں اور کمزوروں پر ظلم کرتے ہو اور دوسروں کے حق مار کر اپنی بڑائی ظاہر کرنا چاہتے ہو.جھوٹ اور فریب سے تم کو عار نہیں.چوری اور ڈاکے سے تم کو نفرت نہیں.جوا اور شراب تمہارا شغل ہے حصول علم اور قومی خدمت کی طرف تمہاری توجہ نہیں.خدائے واحد کی طرف سے کب تک غافل رہو گے.آؤ اور اپنی اصلاح کرو اور ظلم کو چھوڑ دو ہر حقدار کو اس کا حق دو.خدا نے اگر مال دیا ہے تو ملک و قوم کی خدمت اور کمزوروں اور غریبوں کی ترقی کے لئے اُسے خرچ کر دو عورتوں کی عزت کرو ان کے حق ادا کر د یتیموں کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھو اور اُن کی خبر گیری کو اعلیٰ درجہ کی نیکی سمجھو.بیواؤں کا سہارا بنو نیکیوں اور تقومی کو قائم کرو انصاف اور عدل ہی نہیں بلکہ رحم اور احسان کو اپنا شعار بناؤ اس دنیا میں تمہارا آنا بے کار نہیں جانا چاہئے اچھے آثار اپنے پیچھے چھوڑ و تا دائگی نیکی کا بیج بویا جائے.حق لینے میں نہیں بلکہ قربانی اور ایثار میں اصل عزت ہے.پس تم قربانی کرو خدا کے قریب ہو خدا کے بندوں کے مقابل پر ایثار کا نمونہ دکھاؤ تا خدا تعالی کے ہاں تمہارا حق قائم ہو بے شک ہم حاکم ہیں مگر ہماری کمزوری کو نہ دیکھو آسمان پر سچائی کی حکومت کا فیصلہ ہو چکا ہے اب حضرت محمد رسول اللہ علہ کے ذریعے عدل کا تر از درکھا جائے گا اور انصاف اور رحم کی حکومت قائم کی جائے گی.جس سے کسی پر ظلم نہ ہوگا.مذہب کے معاملے میں دخل اندازی نہ کی جائے گی عورتوں اور غلاموں پر
21 جو ظلم ہوتے رہے ہیں انہیں مٹا دیا جائے گا اور شیطان کی حکومت کی جگہ خدائے واحد کی حکومت قائم کر دی جائے گی.(دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۱۱۹ ۱۲۰ ) قریش مکہ اتنی پیاری اور پر حکمت باتوں کو اہمیت نہ دیتے.ہدایت کا سورج نکل چکا تھا مگر وہ آنکھیں بند کر کے بیٹھے تھے بلکہ بے عقل یہ چاہتے تھے کہ سورج کو پھونکیں مار مار کر بچھا دیں.مگر یہ وہ سورج تھا جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے روشنی دینے کے لئے طلوع ہوا تھا.مکہ والے ہر نئے دن آپ کے ساتھیوں جانثاروں میں اضافہ دیکھتے تو جل بھن جاتے مگر وہ کوئی انتہائی قدم اُٹھاتے ہوئے ڈرتے تھے دراصل وہاں قبائلی نظام رائج تھا.اگر ایک قبیلے والے دوسرے قبیلے کے کسی فرد سے برا سلوک کرتے تو سارا قبیلہ انتقام لینے کو تیار ہو جاتا.حضرت رسول کریم ہی ہے بنو ہاشم سے تعلق رکھتے تھے جن کی سرداری پہلے عبد المطلب کے پاس تھی اُن کی وفات کے بعد ابو طالب سردار ہوئے.قریش مکہ کو ڈر تھا کہ اگر محمد کی جان کو خطرہ ہوا تو بنو ہاشم انتقام لینے کے لئے جنگ کریں گے بنو ہاشم اگر محمد کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیں تو پھر ہم جو مرضی کریں.اس مقصد کے لئے مکہ کے کچھ بڑے لوگ ولید بن مغیرہ ، عاص بن وائل، عتبہ بن ربیعہ، ابو جہل اور ابوسفیان وغیرہ مل کر ابو طالب کے پاس گئے اور ادب سے درخواست کی کہ آپ کے بھتیجے کے نئے دین کی وجہ سے شہر میں پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہے آپ اُس کی حمایت سے ہاتھ اُٹھا لیں ہم خود آپس میں فیصلہ کرلیں گے ابو طالب نے اُن کے ساتھ بہت نرمی سے باتیں کیں اُن کے غصہ کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہے اور بالآخر انہیں ٹھنڈا کر کے واپس کر دیا.ابن ہشام + سیرت خاتم النبین صفحه ۱۳۷) اس کے بعد جب مکہ کے رؤسا نے دیکھا کہ ان کے اپنے گھروں سے لوگ پیدا ہو رہے ہیں جو بتوں کی خدائی طاقت تسلیم نہیں کرتے اور وہ کھلے طور پر خدائے واحد کی پرستش کرتے ہیں تو یہ بات اُن
22 کی برداشت سے باہر ہو گئی اور وہ اکٹھے ہو کر حضرت رسول کریم ماہ کے چچا ابو طالب کے پاس گئے اور اُن سے کہا کہ ہم نے آپ کی خاطر آپ کے بھتیجے کو کچھ نہیں کہا مگر اب معاملہ حد سے نکل چکا ہے اور یہ ہمارے بتوں کی تذلیل کر رہا ہے.اس لئے آپ یا تو اسے سمجھا ئیں اور اس طریق سے اُسے باز رکھنے کی کوشش کریں ورنہ ہم صرف اس کا نہیں بلکہ آپ کا بھی مقابلہ کریں گے اور آپ کو اپنی قوم کی سرداری سے الگ کر دیں گے.ابو طالب کے لئے اپنی ریاست چھوڑ نا ایک نہایت تلخ گھونٹ تھا اُنہوں نے سردارانِ قریش سے وعدہ کر لیا کہ میں اپنے بھتیجے کو سمجھانے کی کوشش کروں گا.چنانچہ اُن کے چلے جانے کے بعد ابو طالب نے حضرت رسول کریم علی کو بلوایا اور آپ سے کہا کہ اے میرے بھتیجے! اب تیری قوم تیرے خلاف سخت مشتعل ہو چکی ہے اور قریب ہے کہ وہ تجھے بھی اور ساتھ ہی مجھے بھی ہلاک کر دیں.میں تجھے خیر خواہی اور ہمدردی سے کہتا ہوں کہ تو بتوں کو برا بھلا نہ کہہ.ورنہ میں اپنی ساری قوم سے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا.جب ابو طالب نے یہ بات کہی تو اُس وقت اُن کی آنکھوں سے.آنسو جاری تھے.انہیں غمزدہ دیکھ کر حضرت رسول کریم ع کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے.مگر آپ نے فرمایا خدا کی قسم اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کر بھی کھڑا کر دیں تب بھی میں اس کام کو نہیں چھوڑ سکتا جس کے لئے خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے اور اے میرے بچا اگر آپ کو اپنی کمزوری اور
23 تکلیف کا احساس ہے تو بے شک مجھے اپنی پناہ میں رکھنے سے دستبردار ہو جائیں میں خدا تعالیٰ کی توحید کی اشاعت سے کسی صورت میں بھی نہیں رُک سکتا.میں اس کام میں مشغول رہوں گا.یہاں تک کہ خدا مجھے موت دے دے.حضرت رسول کریم ﷺ کے اس جواب کا ابو طالب پر اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے کہا اے میرے بھتیجے! تو اپنے کام میں مشغول رہ اگر قوم مجھے چھوڑ نا چاہتی ہے تو بے شک چھوڑ دے میں تجھے کبھی نہیں چھوڑ سکتا.(سیرت ابن ہشام جلد اول صفحه (۸۸) تفسیر کبیر جلد پنجم صفحه ۴۲۶ ، ۴۲۷ یہ واقعہ اتنا اہم اور عظیم الشان ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہا ما سارا واقعہ اور گفتگو بتائی آپ فرماتے ہیں.یہ سب مضمون ابو طالب کے قصے کا اگر چہ کتابوں میں درج ہے مگر یہ تمام عبارت الہامی ہے جو خدا تعالیٰ نے اس عاجز کے دل پر نازل کی صرف کوئی کوئی فقرہ تشریح کے لئے اس عاجز کی طرف سے ہے".(ازالہ اوہام صفحه ۱۹۱۸ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۱۲۱۱۱) آیئے ہم اس واقعہ کو الہامی عبارت میں پڑھیں.تذکرہ صفحہ ۴ ۷ اپر تحریر ہے.جب یہ آیتیں اُتریں کہ مشرکین رجس ہیں، پلید ہیں، شر البریہ ہیں سفباء ہیں اور ذریت شیطان ہیں اور اُن کے معبود وقود النار اور حصب جہنم ہیں تو ابو طالب نے آنحضرت مہ کو بلا کر کہا کہ اے میرے بھتیجے! اب تیری دُشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے.اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور ساتھ ہی مجھ کو بھی تو نے
24 ان کے نظمندوں کو سفیہ قرار دیا ہے اور ان کے بزرگوں کو شر البر یہ کہا اور اُن کے قابل تعظیم معبودوں کا نام ہیزم جہنم اور وقو د النار رکھا اور عام طور پران سب کو رجس اور ذریت شیطان اور پلید ٹھہرایا میں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتا ہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے باز آجاور نہ میں قوم کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا.آنحضرت ﷺ نے جواب میں کہا کہ اے چا یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہار واقعہ اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں اگر اس سے مجھے مرنا در پیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں.میری زندگی اسی راہ میں وقف ہے میں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رک نہیں سکتا.اور اے چا! اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو تو مجھے پناہ میں رکھنے سے دست بردار ہو جا.بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں میں احکام الہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا مجھے اپنے مولی کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں بخدا اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہو کر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں.یہ خوف کی جگہ نہیں.بلکہ مجھے اس میں بے انتہا لذت ہے کہ اس کی راہ میں دُکھ اُٹھاؤں.آنحضرت علی یہ تقریر کر رہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رقت نمایاں ہو رہی تھی.اور جب آنحضرت یہ تقریر ختم کر چکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابو طالب کے آنسو جاری ہو گئے اور کہا کہ
25 میں تیری اس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا تو اور ہی رنگ میں اور اور ہی شان میں ہے جا اپنے کام میں لگارہ جب تک میں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا.(ازالہ اوہام صفحه ۱۶ تا ۱۸ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۱۱۱۱) قریش اس کوشش میں بھی ناکام رہے مگر مخالفت سے باز نہ آئے.ایک اور ترکیب سوچی اور وہ یہ کہ ایک اعلیٰ قریش خاندان کے ہونہار نوجوان عمارہ بن ولید کو ساتھ لے کر ابو طالب کے پاس گئے اور کہنے لگے "ہم عمارہ بن ولید کو اپنے ساتھ لائے ہیں اور تم جانتے ہو کہ یہ قریش کے بہترین نو جوانوں میں سے ہے پس تم ایسا کرو کہ محمد کے عوض میں تم اس لڑکے کو لے لو اور اس سے جس طرح چاہے فائدہ اُٹھاؤ اور چاہو تو اسے اپنا بیٹا بنا لو ہم اس کے حقوق سے کلیۂ دستبردار ہوتے ہیں اور اس کے عوض تم محمد کو ہمارے سپرد کر دو جس نے ہمارے آبائی دین میں رخنہ پیدا کر کے ہماری قوم میں ایک فتنہ کھڑا کر رکھا ہے.اس طرح جان کے بدلے جان کا قانون پورا ہو جائے گا اور تمہیں کوئی شکایت نہیں ہوگی.ابو طالب نے کہا یہ عجیب انصاف ہے کہ میں تمہارے بیٹے کو اپنا بیٹا بناؤں اور اُسے کھلاؤں اور پلاؤں اور اپنا بیٹا تمہیں دے دوں کہ تم اسے قتل کر دو.واللہ یہ کبھی نہیں ہو گا.ابن ہشام ، طبرنی، سیرۃ خاتم النبین صفحہ ۱۳۸) قریش کو پھر نا کام لوٹنا پڑا مگر اب اُن کے ارادے یہ تھے کہ اب جو کچھ ہو سو ہو ا بو طالب تو کسی صورت مانتے نہیں.ہم کو جو بھی کرنا پڑا کر گزریں گے.کفار مکہ نے ظلم کرنے میں اضافہ کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار اور مستقبل کی کامیابیوں کی خوشخبریوں میں اضافہ کر دیا.یہاں ہم شوال پانچ نبوی سے پہلے کا ایک بہت بڑا واقعہ پڑھتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و احسان کا واقعہ ہے.تفسیر کبیر جلد چهارم صفحه ۲۸۳
26 ایک رات آنحضرت معہ مسجد حرام کے اُس خاص حصے میں جو حطیم کہلاتا ہے لیٹے ہوئے تھے آپ نیم خوابی کی کیفیت میں تھے یعنی آپ کی آنکھ سوتی تھی مگر دل بیدار تھا آپ نے دیکھا کہ حضرت جبرئیل نمودار ہوئے.اور آپ کو ساتھ لے کر آسمان کی طرف اُٹھ گئے.پہلے آسمان پر آپ کی ملاقات حضرت آدم سے ہوئی.دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ اور حضرت یحیی سے ملاقات ہوئی.تیسرے، چوتھے اور پانچویں آسمان پر علی الترتیب حضرت یوسف ، حضرت ادریس اور حضرت ہارون کو دیکھا چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ" سے ملاقات ہوئی جب آپ ملاقات کے بعد آگے بڑھنے لگے تو حضرت موسیٰ رو پڑے.جس پر آواز آئی.اے موسی" کیوں روتے ہو؟ حضرت موسیٰ نے کہا.اے میرے اللہ! یہ نو جوان میرے پیچھے آیا مگر اس کی امت میری اُمت کی نسبت جنت میں زیادہ داخل ہوگی.اے میرے اللہ ! میں یہ نہیں سمجھتا تھا کہ کوئی شخص میرے پیچھے آکر مجھ سے آگے نکل جائے گا اس کے بعد ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم سے ملاقات ہوئی اس مقام سے آگے بڑھے تو یہ وہ مقام تھا جو صرف حضرت رسول اللہ کا مقام تھا.یہاں تک کبھی نہ کوئی انسان پہلے پہنچا نہ بعد میں پہنچ سکتا ہے.وہاں ایک بیری کا درخت تھا پھر آپ کو جنت کی سیر کرائی گئی.جبرئیلن کو آپ نے اصلی شکل میں دیکھا اُن کے چھ سوپر تھے.بالآخر آپ نے دیکھا کہ آپ خدائے ذوالجلال کے دربار میں پیش ہوئے ہیں اللہ تعالی نے آپ سے بلا واسطہ کلام فرمایا.اور بعض خوشخبریاں دیں.آپ کی اُمت کے لئے پچاس نمازیں فرض کی گئیں جو آپ کی درخواست پر صرف پانچ رہ گئیں.اس کے بعد آپ مختلف آسمانوں سے ہوتے ہوئے نیچے اُترے تو آپ کی آنکھ کھل گئی.یہ کشفی حالت جاتی رہی اور آپ نے دیکھا کہ آپ مسجد حرام میں لیٹے ہوئے ہیں.بخاری کتاب الصلوة و كتاب بدء الخلق و كتاب التوحيد مسلم ابواب الاسرا تفسیر کبیر جلد چہارم وسیرت خاتم النبین صفحات ۱۹۷تا ۱۹۹
27 ہجرت حبشہ نبوت کا پانچواں سال تھا.اہل مکہ کی مخالفانہ کوششوں کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ کا کام دشوار ہو رہا تھا.ابتدا میں اسلام قبول کرنے والے زیادہ تر غریب اور کمزور لوگ تھے اس لئے مکہ والوں کے ہاتھوں میں ادنی شکار تھے.وہ زبردستی پر اتر آئے تھے.ان حالات میں جہاں جان بچانا مشکل ہو رہا تھا اسلام کی تعلیم پہنچانا بہت مشکل تھا.اس بے چارگی کی حالت میں ایک دن آپ نے اپنے ساتھیوں کو بلوایا اور بڑی رازداری سے انہیں یہ ارشاد فرمایا کہ تم لوگ تھوڑے تھوڑے کر کے مکہ سے نکل جاؤ اور مغرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا مغرب کی طرف سمندر پار ایک زمین ہے جہاں خدا کی عبادت کی وجہ سے ظلم نہیں کیا جاتا وہاں ایک منصف بادشاہ ہے تم لوگ ہجرت کر کے وہاں چلے جاؤ شاید تمہارے لئے آسانی کی راہ پیدا ہو جائے“.آپ کی مراد حبشہ تھی.حبشہ جس کا نام ایتھوپیا اور ابی سینیا بھی ہے براعظم افریقہ کے شمال میں واقع ہے جنوبی عرب سے بحیرہ احمر پار کر کے بالکل مقابل پر واقع ہے.حبشہ کے حکمرانوں کو نجاشی کہتے تھے.آنحضرت ﷺ کے زمانے میں جو نجاشی حبشہ پر حکمران تھا اس کا نام اصمحہ تھا وہ مذہباً عیسائی تھا مزا جا نیک دل، انصاف پسند اور خدا سے خوف رکھنے والا انسان تھا آپ کو توقع تھی کہ وہاں مسلمان امن میں رہ سکیں گے.اور مکہ کی نسبت بے خوف ہو کر جرات اور حوصلہ سے اسلام کا پیغام پہنچانے کا کام کر سکیں گے.اپنا وطن چھوڑ کر چھپتے چھپاتے دوسرے ملک کی طرف ہجرت کرنا آسان کام نہ تھا قدم قدم پر جانی دشمن موقع کی تاک میں لگے رہتے دکھ دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے ایسے میں اگر انہیں سن گن ہو جاتی کہ مسلمان اُن کے ہاتھ سے نکلے جارہے ہیں تو طوفان کھڑا ہو جاتا.دوسرے مسلمانوں کو مکہ سے بہت محبت تھی وطن اور وہ بھی مکہ یکدم چھوڑ دینا اور بے سروسامانی میں غیر یقینی مستقبل کی طرف رُخ کرنا مشکل بلکہ
28 بہت مشکل تھا مگر ایک سب سے بڑا سہارا اللہ تعالیٰ کی ذات اور حضرت محمد رسول اللہ اللہ کی دعائیں اُن کے ساتھ تھیں.رازداری سے سب امور طے کئے اور ماہ رجب ۵ نبوی کی ایک رات اپنے اپنے گھروں اور سامانوں اور ساتھیوں رشتے داروں کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کی طرف ہجرت کرنے والے مکہ سے نکلے.سفر کو خفیہ رکھنے کے لئے روانگی کا وقت صبح نماز فجر سے پہلے کا تجویز ہوا.✓ مکہ میں یہ رواج تھا کہ شہر کے بعض رؤساء رات کو شہر کا گشت کیا کرتے تھے تا کہ چوری ڈکیتی کا کوئی واقعہ نہ ہو.اس رات حضرت عمرہ شہر میں گھوم رہے تھے ایک جگہ دیکھا کہ سفر کا سامان بندھا پڑا ہے اور پاس ایک خاتون ام عبداللہ کھڑی ہیں.حضرت عمر نے حیرت سے کہا ام عبد اللہ یہ تو ہجرت کے سامان نظر آتے ہیں أم عبد اللہ کہتی ہیں میں نے جواب دیا ہاں خدا کی قسم ہم کسی اور ملک میں چلے جائیں گے کیونکہ تم نے ہم کو بہت دُکھ دئے ہیں اور ہم پر بہت ظلم کئے ہیں ہم اس وقت تک وطن نہیں لوٹیں گے جب تک خدا تعالی ہمارے لئے کوئی آسانی اور آرام کی صورت پیدا نہ کردے.(دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۱۲۲) حضرت عمر مضبوط دل کڑیل جوان تھے.مگر یہ جواب سن کر اُن کا دل پسیج گیا اپنا منہ دوسری طرف کر لیا اور کہا ام عبداللہ جاؤ خدا تمہارا حافظ ہو اُن کی آواز بھرائی ہوئی تھی اس خیال سے کہ جذبات سے مغلوب ہو کر رونہ دیں منہ دوسری طرف کر لیا تھا.اتنے میں اُس صحابیہ کے شوہر آگئے عمر کو اپنی بیوی اور بندھے ہوئے سامان کے پاس دیکھا تو گھبرا گئے کہ اب مخبری ہو جائے گی اور سارا منصوبہ دھرا رہ جائے گا مگر ام عبد اللہ نے اپنے شوہر کو بتایا کہ عمر نے ”خدا حافظ کہا ہے اس حالت میں کہ اُن کی آواز بھرائی ہوئی تھی اس سے
29 خیال ہوتا ہے کہ فی الوقت عمر سے کوئی خطرہ نہیں.( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه ۱۴۰ سے استفادہ) سبیح ہونے سے پہلے سب مہاجرین ساحل پر جمع ہوئے پہلے قافلے میں کل چار عورتیں اور دس مرد تھے.حضرت رقیہ بنت رسول اللہ اور اُن کے شوہر حضرت عثمان بن عفان ، حضرت (ابن ہشام) عبدالرحمن بن عوف ، حضرت زبیر بن العوام ، حضرت مصعب بن عمیر ، حضرت ابو سلمہ مبین عبد الاسد اور ان کی زوجہ حضرت اُم سلمہ.اللہ کی قدرت بندرگاہ شعیہ پر دو جہاز جبشہ جانے کے لئے تیار کھڑے تھے یہ تجارتی جہاز تھے مسافروں سے کرایہ بھی واجبی سالیا اور روانہ ہو گئے.روشنی ہوئی دن چڑھا تو قریش مکہ کو خبریں ملنے لگیں کہ کچھ مسلمان ہاتھ سے نکل گئے بندرگاہ تک آدمی دوڑائے مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا جہاز تو بیچارے خوش نصیب مسلمانوں کو لے کر روانہ ہو چکا تھا.اکابرین مکہ نے سوچا "مسلمانوں کی ایک جماعت کو مکہ سے نکال دینا ہماری کامیابی نہیں کہلا سکتا بلکہ یہ ہماری شکست کی علامت ہے کیونکہ اس طرح اسلام کے دو مرکز قائم ہو گئے اور مکہ سے نکل کر تبلیغ ایک قوم کی جگہ دو قوموں یعنی اہل مکہ اور مسیحیوں میں ہونی شروع ہو گئی ہے اس کے ساتھ ہی جب انہیں یہ اطلاعات بھی ملنی شروع ہو گئیں کہ ان لوگوں کو امن میسر آ گیا ہے اور نہ کوئی اُن کو مارتا پیٹتا ہے اور نہ کسی قسم کا دکھ دیتا ہے بلکہ وہ آرام سے عبادتیں اور ذکر الہی کرتے ہیں اور محنت کر کے اپنے لئے روزی پیدا کرتے ہیں تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ میری غلطی ہوگئی ( تفسیر کبیر جلد پنجم صفحه ۳) چنا نچہ اس غلطی کا ازالہ کرنے کے لئے انہوں نے عمرو بن العاص اور عبد اللہ بن ربیعہ کو نجاشی اور اُس کے درباریوں کے لئے بہت سے تحائف دے کر حبشہ بھیجا تا کہ وہ کسی نہ کسی طرح بادشاہ کو قائل کر کے مکہ کے مہاجروں کو واپس لے آئیں.وفد گیا اور درباریوں کو تحائف دے
30 دے کر ہم خیال بنا یا اس طرح بادشاہ تک رسائی حاصل کر لی.بادشاہ نے ملاقات کا وقت دیا تو یہ وفد بڑی شان و شوکت سے دربار میں گیا اور بادشاہ کی خدمت میں قیمتی تحائف پیش کئے.اور اپنا مدعا بیان کیا.بادشاہ سلامت ہمارے چند بے وقوف لوگوں نے اپنا آبائی مذہب ترک کر دیا ہے اور ایک نیادین نکالا ہے جو آپ کے دین کے بھی مخالف ہے اور ان لوگوں نے ملک میں فساد ڈال دیا ہے اور اب ان میں سے بعض لوگ وہاں سے بھاگ کر یہاں آگئے ہیں.پس ہماری یہ درخواست ہے کہ آپ ان کو ہمارے ساتھ واپس بھیجوا دیں.درباریوں نے فوراً ان کی تائید شروع کر دی مگر بادشاہ نے سمجھداری سے کام لیا اور درخواست سن کر یک طرفہ فیصلہ دینے کی بجائے کہا کہ یہ لوگ میری پناہ میں آئے ہیں پس جب تک میں خود ان کا اپنا بیان نہ سُن لوں میں کچھ نہیں کہہ سکتا.چنانچه مسلمان مہاجرین دربار میں بلائے گئے اُن سے نجاشی نے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے اور یہ کیا دین ہے جو تم نے نکالا ہے.مسلمانوں کی طرف سے آنحضور میں لے کے چچازاد بھائی حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا.رے بادشاہ! ہم جاہل لوگ تھے بت پرستی کرتے تھے.مردار کھاتے تھے.بدکاریوں میں مبتلا تھے.قطع رحمی کرتے تھے.ہمسایوں سے بد معاملگی کرتے تھے اور ہم میں سے مضبوط کمزور کا حق دبا لیتا تھا.اس حالت میں اللہ نے ہم میں اپنا ایک رسول بھیجا جس کی نجابت اور صدق اور امانت کو ہم سب جانتے تھے.اُس نے ہم کو تو حید سکھائی اور بت پرستی سے روکا اور راست گفتاری اور امانت اور صلہ رحمی کا حکم دیا اور ہمسایوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تعلیم دی اور بدکاری اور جھوٹ اور تیموں کا مال کھانے سے منع کیا اور خونریزی سے روکا.اور ہم کو عبادت
31 الہی کا حکم دیا.ہم اُس پر ایمان لائے اور اُس کی اتباع کی.لیکن اس وجہ سے ہماری قوم ہم سے ناراض ہو گئی ہے اور اُس نے ہم کو دکھوں اور مصیبتوں میں ڈالا اور ہم کو طرح طرح کے عذاب دیئے اور ہم کو اس دین سے جبرا روکنا چاہا.حتی کہ ہم تنگ آکر اپنے وطن سے نکل آئے اور آپ کے ملک میں آکر پناہ لی.پس اے بادشاہ! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کے ماتحت ہم پر ظلم نہ ہوتا 567 نجاشی یہ تقریرین کر بہت متاثر ہوا اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے کہا جو کلام تم پر اترا ہے وہ مجھے سناؤ" حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے بڑی خوش الحانی سے سورہ مریم کی ابتدائی آیات کی تلاوت کی.(ترجمہ) میں اللہ کا نام لے کر پڑھتا ہوں جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے کھیعص اے عالم اور صادق خدا تو کافی اور ہادی ہے.اس سورۃ میں ) تیرے رب کی (اس) رحمت کا ذکر (ہے) جو اُس نے اپنے بندے زکریا پر (اس وقت) کی ، جب اُس نے اپنے رب کو آہستہ آواز سے پکارا (اور) کہا اے میرے رب ! میری حالت تو یقینا ( ایسی ہے کہ ) میری تمام ہڈیاں تک کمزور ہوگئی ہیں اور (میرا) سر بڑھاپے کی وجہ سے بھڑک اُٹھا ہے اور اے میرے رب ! میں کبھی بھی تجھ سے دعائیں مانگنے کی وجہ سے ناکام و نامراد ) نہیں رہا.اور میں یقیناً اپنے رشتہ داروں سے اپنے (مرنے کے ) بعد ( کے سلوک سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو مجھے اپنے پاس سے ایک دوست (یعنی بیٹا ) عطا فرما.جو میرا بھی وارث ہو اور آل یعقوب سے جو دین و تقومی ہم کو ورثہ میں ملا ہے اس کا بھی وارث ہو.اے میرے رب اس کو (اپنا) پسندیدہ ( وجود ) بنائیو ( اس پر اللہ نے فرمایا ) اے زکریا ! ہم تجھے ایک لڑکے کی خبر دیتے ہیں ( جو جوانی کی عمر تک پہنچے گا اور ) اس کا نام ( خدا کی طرف سے ) بیٹی ہو گا.ہم نے اس سے پہلے کسی کو اس نام سے یاد نہیں کیا ( ذکریا نے کہا اے میرے رب ! میرے ہاں لڑکا کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ میری
32 بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہائی حد کو پہنچ چکا ہوں.(الہام لانے والے فرشتہ نے ) کہا ( جس طرح تو کہتا ہے واقعہ ) اسی طرح ہے (مگر) تیرا رب کہتا ہے کہ یہ (بات) مجھ پر آسان ہے اور ( دیکھ کہ ) میں تجھے اس سے پہلے پیدا کر چکا ہوں حالانکہ تو کچھ بھی نہیں تھا.( زکریا نے ) کہا، اے میرے رب ! میرے لئے کوئی حکم بخش فرمایا.تیرے لئے یہ حکم ہے کہ تو لوگوں سے تین راتیں متواتر کلام نہ کر.اس کے بعد ( زکریا ) محراب سے نکل کر اپنی قوم کے پاس گئے اور انہیں آہستہ آواز میں کہا کہ صبح اور شام خدا کی تسبیح کرتے رہو.(اس کے بعد یکی پیدا ہو گیا اور ہم نے اسے کہا ) اے بیچی ! تو (الہی) کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لے اور ہم نے اُسے چھوٹی عمر میں ہی (اپنے) حکم سے نوازا تھا ( اور یہ بات ) ہماری طرف سے بطور مہربانی اور شفقت کے تھی (اور اسے پاک کرنے کے لئے (تھی) اور وہ بڑا متقی تھا اور اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا تھا اور ظالم اور نا فرمان نہیں تھا اور جب وہ پیدا ہوا تب بھی اُس پر سلامتی تھی اور جب وہ مرے گا اور جب وہ زندہ کر کے اُٹھایا جائے گا تب بھی اُس پر سلامتی ہوگی.( ترجمه از تفسیر صغیر صفحه ۳۰۲ ۳۰۳۰) حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے اتنے درد سے پُر سوز آواز میں ان آیات کی تلاوت کی کہ نجاشی کی آنکھوں میں آنسو آگئے.وہ صرف آواز کی تاثیر سے نہیں پگھلا تھا بلکہ آیات مذکورہ میں بیان مضمون سے اسلامی عقائد اور حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق اسلامی نظریے سے بھی متاثر ہوا.بادشاہ نے کہا خدا کی قسم یہ کلام اور ہمارے مسیح کا کلام ایک ہی منبع نور کی کر نہیں معلوم ہوتی ہیں“.( سيرة خاتم النبین صفحه ۱۵۴) بادشاہ نے قریش کے تحائف اُن کو واپس کر دئے اور مسلمانوں کو اُن کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا.وفد اپنا سا منہ لے کر واپس تو آ گیا مگر ہمت نہیں ہاری اگلے دن پھر دربار میں پہنچ گئے اس مرتبہ عمرو بن العاص نے بادشاہ کے سامنے یوں بات بنائی.
33 حضور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ لوگ مسیح کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ بادشاہ نے یک طرفہ بات سن کر فیصلہ کرنے سے بہتر سمجھا کہ مسلمانوں سے وضاحت کرلی جائے.چنانچہ اس نے مسلمانوں کو بلا بھیجا.بادشاہ کے ہاں سے بلاوے نے مسلمانوں کو کچھ فکر میں ڈال دیا کیونکہ وہ تو حضرت عیسی علیہ السلام کو عام بشر مانتے تھے خدا کا بیٹا نہیں مانتے تھے.مگر مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ عقیدہ سچ سچ بتائیں گے ڈرنا صرف خدا تعالیٰ سے چاہیئے اُس پر تو گل کرنا چاہیئے.چنانچہ اگلے دن دربار میں پیش ہوئے تو حضرت جعفر بن طیار نے بڑے اعتماد سے اپنا عقیدہ پیش کیا.اے بادشاہ! ہمارے اعتقاد کی رُو سے حضرت مسیح علیہ السلام اللہ کا ایک بندہ ہے خدا نہیں ہے مگر وہ اُس کا ایک بہت مقرب رسول ہے اور اُس کے اُس کلام سے عالم ہستی میں آیا ہے جو اُس نے مریم پر ڈالا.نجاشی نے فرش سے تنکا اٹھایا اور کہا داللہ جو تم نے بیان کیا ہے میں اُس سے حضرت مسیح علیہ السلام کو اس تنکے کے برابر زیادہ نہیں سمجھتا.نجاشی کے اس جواب سے عیسائی پادری بہت برہم ہوئے.مگر بادشاہ نے اُن کی برہمی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کیا جب میرا باپ مرا تھا میں بچہ رہ گیا تھا تم لوگوں نے میرے چچا کے ساتھ مل کر چاہا کہ اس حکومت پر قبضہ کر لو تب خدا نے اپنے فضل سے مجھے طاقت بخشی اور اُس نے تم کو شکست دبے کر مجھے اس تخت پر بٹھایا جس خدا نے مجھے اس بے کسی کی حالت میں بادشاہ کے تخت پر بٹھا دیا اور میرے دشمن کو ناکام و نامراد کیا اُس خدا کی نصرت پر مجھے آج بھی یقین ہے اور آج جب اُس نے مجھے طاقت بخشی ہے میں یہ بے شرمی نہیں کر سکتا کہ اُس کے مظلوم بندوں کی مدد نہ کروں اگر تم سارے اسے برا مانو تب بھی میں اُن کو یہاں سے نہیں نکالوں گا.تاریخ الخمیس جلد اول - تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحه ۴۷۴۶)
34 جب یہ وفد نا کام واپس آیا تو مکہ والوں نے ان مسلمانوں کو بلانے کے لئے ایک تدبیر سوچی اور وہ یہ کہ حبشہ جانے والے بعض قافلوں میں یہ خبر مشہور کر دی کہ مکہ کے سب لوگ مسلمان ہو گئے ہیں جب یہ خبر حبشہ پہنچی تو اکثر مسلمان خوشی سے مکہ کی طرف واپس لوٹے مگر مکہ پہنچ کر ان کو معلوم ہوا کہ یہ خبر محض شرار نا مشہور کی گئی تھی اور اس میں کوئی حقیقت نہیں.اس پر کچھ لوگ تو واپس حبشہ چلے گئے اور کچھ مکہ میں ہی ٹھہر گئے.(دیا چه تفسیر القرآن صفحه ۱۱۲) جو لوگ حبشہ سے واپس آئے تھے اہل مکہ نے اُن کو خوب انتقام کا نشانہ بنایا.مارتے تھے اور مکہ چھوڑ کر جانے بھی نہ دیتے تھے.بدقت تمام کچھ گروہ بچ بچا کر نکل جاتے اسی طرح مختلف وقتوں میں قریباً سو احباب مکہ چھوڑنے میں کامیاب ہوئے.جب آپ نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تو کچھ لوگ واپس آگئے اور جو باقی رہ گئے تھے انہیں آپ نے سے ہجری میں واپس بلا روایات کے مطابق نجاشی بعد میں مسلمان ہو گیا تھا.( تفسیر کبیر جلد پنجم صفحه ۵) جب حضرت رسول کریم علیہ کو نجاشی کے انتقال کی خبر پہنچی تو آپ نے نماز جنازہ پڑھی اور (شیلی صفحه (۲۲) دعائے مغفرت کی.یہ زمانہ مسلمانوں کے لئے شدید اذیت کا زمانہ تھا ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کو مان لینے کے بعد تکلیفوں اور دکھوں کا دروازہ کھل جاتا مگر کسی مسلمان نے ان تکلیفوں کے ڈر سے اللہ تعالیٰ کا در نہیں چھوڑا بلکہ ہر مشکل اور ہر آزمائش پر اُن کا ایمان مضبوط ہوتا چلا گیا.جو مصیبتیں تاریخ میں لکھی گئیں وہ ہی اسقدر زیادہ ہیں کہ سنتے ہوئے روح کانپ جاتی ہے.جبکہ اصل مصائب اس سے کہیں زیادہ ہوں گے.خاندان کے ایک رکن کو طرح طرح سے اذیتیں دی جا رہی ہوں تو باقی لوگ بھی سکون سے نہیں رہ سکتے.مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی وہ کسی بھی قسم کا مقابلہ نہیں کر سکتے
35 تھے اور حضرت رسول پاک میلہ بھی انہیں صرف صبر کی تاکید فرماتے اور صبر کے نتیجے میں اللہ تعالی کی خوشنودی کی خوشخبری سناتے.یہ خوشخبری پا کر کوئی دکھ دکھ نہ رہتا.یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے مظالم برداشت کئے مگر توحید سے منہ نہ موڑا.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ عمر رسیدہ تھے خوشحال تھے مکہ کے لوگوں میں مقبول بھی تھے مگر اللہ تعالیٰ کا نام لینا اتنا بڑا جرم تھا کہ اُن کے چا حکم بن ابی العاص نے انہیں رسیوں سے باندھ کر مارا مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کچھ نہ کہا اپنے اللہ کو طبقات ابن سعد حالات عثمان بن عفان ) یاد کرتے رہے.حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کو ان کا ظالم چا چٹائی میں باندھ کر آگ کا دھواں دیا کرتا.(زرقانی جلد اول باب اول من اسلم ) قبیلہ ہذیل کے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو مسحن کعبہ میں مار مار کر ہلکان کر دیا.حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کو مارتے مارتے ادھ موا کر دیا.(اسد الغابه ) ( بخاری کتاب قصه اسلام ابی ذر ) ایک دفعہ حضرت رسول کریم ﷺ کے گلے میں پڑکا ڈال کر اتنے زور سے بھینچا کہ آنکھیں باہر آنے لگیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا تو آکر چھڑایا.اس پر ظالموں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اتنا مارا کہ گھر آئے تو سر کے بالوں کو جہاں ہاتھ لگاتے بال ہاتھ میں آجاتے.ابن ہشام جلد اول صفحه ۲۵۱) حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ لوہار تھے مکہ کے ظالم ان کی بھٹی میں سے جلتے ہوئے کو مکلے نکال کر انہیں پشت کے بل اُن پر لٹا دیتے بار بار اسی طرح تکلیف دینے سے کبر کی کھال جل کر سیاہ ہو گئی اور بار بار جلنے سے موٹی ہو گئی.حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ایک دفعہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا آپ ہمارے لئے خدا سے مدد کیوں طلب نہیں فرماتے ؟ حضور لیٹے ہوئے تھے اُٹھ کر بیٹھ گئے چہرہ مبارک سرخ ہو گیا.آپ نے فرمایا
36 تم سے پہلے لوگوں کے سروں پر آرے رکھ کر انہیں چیر دیا گیا.لوہے کی کنگھیوں سے اُن کے بدن سے گوشت نو چا گیا لیکن یہ تکلیفیں انہیں دین کے راستے سے نہ ہٹا سکیں.پھر فرمایا خدا کی قسم اللہ اس دین کو غالب کرے گا.اپنی منشا پوری کر کے رہے گا اور ایسا وقت آئے گا کہ مسافرا کیلا سفر کرے گا اور سوائے خدا کے اُسے کسی کا ڈر نہیں ہوگا.( بخاری باب مالقی النبی و اصحاب من المشركين بمكة ) جن بے چارے مسلمانوں کی ظاہری حیثیت کم تھی اُن پر تو مصائب کے پہاڑ توڑ دیے گئے حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ ایک حبشی غلام تھے اُن کا آقا امیہ بن خلف ظلم توڑنے میں بڑا ماہر تھا مکہ کی تپتی ریت پر شدید گرمی میں نگا لٹا کر او پر بڑے بڑے پتھر رکھ دیتا اور بلال سے اصرار کرتا کہ اپنے خدا کا انکار کرو تو اس عذاب سے نجات پاؤ گے مگر بلال کے منہ سے ایک ہی لفظ نکلتا احد احد اللہ تعالی ایک ہے مکہ کے لڑکے انہیں پتھر لے گلی کوچوں میں گھسیٹتے پھرتے سارا بدن لہولہان ہو جا تا مگر آپ صرف احد احد کہتے.اسی طرح ابو فکیہ رضی اللہ عنہ، عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ ، صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ اور خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کی تکلیفیں سُن کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.اللہ تعالی کا جو چہرہ آنحضرت نے نے اُن کو دکھایا تھا اتنا حسین تھا کہ کسی دوسری طرف دیکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.ظالموں نے صرف مردوں پر ستم نہیں ڈھائے بلکہ خواتین کو بھی شدید از سینتیں دیں حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا کو ابو جہل نے اتنا مارا کہ آنکھیں ضائع ہو گئیں حضرت لبینہ رضی اللہ عنہا کو ( حضرت ) عمر بن الخطاب ( اسلام لانے سے پہلے ) بہت زور زور سے مارتے جب تھک جاتے تو سانس لینے کو ڑ کتے اور پھر مارتے مگر وہ قومی تنومند آدمی اپنی مار سے ایک لونڈی کو خدا کا نام لینے سے باز نہ رکھ سکا.ظالموں نے ہمارے پیارے آقا پر بھی جسمانی تشددت دریغ نہ کیا بلکہ کئی طرح ایزادی ایک دفعہ خانہ کعبہ میں کفار نے آپ کے گلے میں پڑکا ڈال کر اتنا ھونا کہ آپ کی
37 آنکھیں سرخ ہو کر باہر نکل پڑیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سنا تو وہ دوڑے ہوئے آئے اور حضرت رسول کریم ﷺ کو اس تکلیف کی حالت میں دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ نے کفار کو بناتے ہوئے کہا خدا کا خوف کرو کیا تم ایک شخص پر اس لئے ظلم کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے خدا میرا رب ہے.ایک دفعہ حضرت رسول کریم ع نے مکہ میں ایک چٹان پر بیٹھے کچھ گہری فکر میں تھے کہ اچانک ابو جہل آنکلا اور اُس نے آتے ہی آپ کو تھپڑ مارا اور پھر گندی سے گندی گالیاں آپ کو دینی شروع کر دیں.آپ نے تھپڑ بھی کھالیا اور گالیاں بھی سنتے رہے مگر آپ نے زبان سے ایک لفظ تک نہیں کہا جب وہ گالیاں دے کر چلا گیا تو آپ خاموشی سے اُٹھے اور اپنے گھر تشریف لے گئے.حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی لونڈی اپنے گھر سے دروازہ میں کھڑی یہ نظارہ دیکھ رہی تھی.حمزہ اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے.لونڈی نے سارا واقعہ سنایا ایک عورت اور وہ بھی خادمہ کی زبان سے یہ بات سُن کر حمزہ کی غیرت جوش میں آئی اور خانہ کعبہ کی طرف چل پڑے اور اپنی کمان ابو جہل کے منہ پر مار کر اسے سختی سے ڈانٹا.ایک دفعہ آپ خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے جب آپ سجدہ میں گئے تو بعض شریروں نے آپ کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھڑی لا کر رکھ دی اور چونکہ وہ بھاری تھی آپ سجدہ سے سرنہ اُٹھا سکے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس بات کا علم ہوا تو وہ روتی ہوئی آئیں اور انہوں نے آپ کی پیٹھ پر سے اوجھڑی ہٹائی".( بخاری ابواب الوضو ) ایک دفعہ آپ بازار سے گزر رہے تھے کہ مکہ کے اوباشوں کی ایک جماعت آپ کے گرد ہو گئی اور رستہ بھر آپ کی گردن پر یہ کہ کر تھپڑ مارتی چلی گئی کہ لوگو! یہ وہ شخص ہے جو کہتا ہے میں نبی ہوں.
38 آپ کے گھر میں ارد گرد کے گھروں سے متواتر پھر پھینکے جاتے.باورچی خانہ میں گندی چیزیں پھینکی جاتی تھیں جن میں بکریوں اور اونوں کی انتڑیاں بھی شامل ہوتی تھیں.جب آپ نماز پڑھتے تو آپ کے اوپر گر دو غبار ڈالی جاتی حتی کہ مجبور ہو کر آپ کو چٹان میں سے نکلے ہوئے پتھر کے نیچے چھپ کر نماز پڑھنی پڑتی مگر اس کے باوجود آپ خدائے واحد کا نام بلند کرتے چلے گئے اور ان لوگوں کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرتے رہے.( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحه ۶۳ تا ۶۵) آپ بڑے عمل اور برداشت سے مسلمانوں کو صبر کی تلقین فرماتے.آپ کا قول تھا إِنِّي أُمِرْتُ بِالْعَفُو - فَلا تُقَاتِلُوا مجھے اللہ تعالی نے عضو کا حکم دیا ہے میں تم کو لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا.(نسائی بحوالہ تلخیص الصحاح جلد اول صفحہ ۱۵۲) آپ نے بڑے صبر و قتل سے دعوت الی اللہ کا کام جاری رکھا.ہمارے پیارے آقا ( ہمارے ماں باپ اور ہماری جانیں آپ پر فدا ہوں) نے یہ دُکھ اس لئے اُٹھائے کہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کو اپنے خدا کے سامنے جھکا دیں تا کہ وہ اس دنیا میں بھی سکھی رہیں اور آخرت میں بھی جہنم کی آگ سے بیچ کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی جنت حاصل کر سکیں.ہمیں بھی اسی جذبے سے دعوت الی اللہ کا کام جاری رکھنا چاہیئے.کوئی تکلیف آئے تو یہ سوچ لیں کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کہیں زیادہ دُکھ برداشت کئے تھے.گالیاں سن کے دعا دو پا کے دیکھ آرام دو مبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار اللهم صل على محمد و علی آل محمد و بارک وسلم انک حمید مجید