Das Dalail Hasti Bari Tala

Das Dalail Hasti Bari Tala

دس دلائل ہستی باری تعالیٰ

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
اللہ تعالیٰ

کتابچہ ’’دس دلائل ہستی باری تعالیٰ‘‘ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے دہریوں کے اعتراض کہ ’’اگر خدا ہے تو ہمیں دکھا دو ہم مان لیں گے‘‘ کے جواب میں تحریر فرمایا جو پہلی بار مارچ ۱۹۱۳ء میں طبع ہوا۔ جس میں آپؓ نے تحریر فرمایا کہ خدا کی ہستی چونکہ اَلْطَفْ سے اَلْطَفْ ہے لہذا حواس خمسہ سے اسے نہیں معلوم کیا جاسکتا۔ اس کا علم حاصل کرنے کے لئے اس قسم کی قیود کس طرح جائز ہوسکتی ہیں؟ خدا کی ہستی پر یقین رکھنے کے لئے بعض اور ذرائع اور دلائل ہیں۔ چنانچہ آپؓ نے  دس ایسے دلائل بیان فرمائے جو خداتعالیٰ کی ہستی کا یقینی ثبوت ہیں۔


Book Content

Page 1

دس دلائل ہستی باری تعالیٰ از حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ

Page 2

ونس دلائل ہستی باری تعالی از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد

Page 3

نام کتاب بیان فرموده دس دلائل ہستی باری تعالیٰ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی پہلی اشاعت انڈیا اکتوبر 2018ء تعداد 1000 شائع کردہ مطبع نظارت نشر و اشاعت قادیان ،143516 ضلع گورداسپور ( پنجاب ) انڈیا فضل عمر پریس قادیان DAS DALAIL HASTI BARI TA'ALA By Hazrat Mirza Bashir-ud-din Mahmud Ahmad Khalifatul Masih II First Published in INDIA,2018 Copies: 1000 Published by: Nazarat Nashro Isha'at Qadian - 143516,Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA Printed at Fazl-e-Umar Press Qadian ISBN:

Page 4

بسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ عرض ناشر کتا بچہ دس دلائل ہستی باری تعالی سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح اثانی رضی اللہ عنہ نے دہریوں کے اعتراض کہ اگر خدا ہے تو ہمیں دکھا دو ہم مان لیں گے“ کے جواب میں تحریر فرمایا جو پہلی بار مارچ 1913 میں طبع ہوا.جسمیں آپ نے تحریر فرمایا کہ خدا کی ہستی چونکہ الطف سے الطف ہے لہذا حواس خمسہ سے اسے نہیں معلوم کیا جا سکتا.اس کا علم حاصل کرنے کے لئے اس قسم کی قیود کس طرح جائز ہوسکتی ہیں؟ خدا کی ہستی پر یقین رکھنے کے لئے بعض اور ذرائع اور دلائل ہیں.چنانچہ آپ نے دس ایسے دلائل بیان فرمائےجو خداتعالی کی ہستی کا یقینی ثبوت ہیں.ضرورت زمانہ کے پیش نظر سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسے شائع کرنے کی ہدایت فرمائی ہے.نظارت نشر و اشاعت حضور انور کے ارشاد پر اس کتابچہ کو شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس کی اشاعت ہر لحاظ سے مبارک فرمائے اور ہدایت کا موجب بنائے.آمین.حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 5

2 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم افی اللَّهِ شَكٌ فَاطِرِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ دلائل ہستی باری تعالی اس زمانہ میں عقائد و ایمانیات پر جو مادی دنیا نے اعتراضات کئے ہیں ان میں سے سب سے بڑا مسئلہ انکار ذات باری ہے.مشرک گو خدا کا شریک ان کو بناتا ہے لیکن کم سے کم خدا تعالیٰ کے وجود کا تو قائل ہے دہر یہ بالکل ہی انکاری ہے موجودہ سائنس نے ہر چیز کی بنیاد مشاہدات پر رکھی ہے اسلئے دہر یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر کوئی خدا ہے تو ہمیں دکھاؤ ہم بغیر دیکھے کے اسے کیونکر مان لیں.چونکہ اسوقت کی ہوا نے اکثر نو جوانوں کے دلوں میں اس پاک ذات کے نقش کو مٹادیا ہے اور کالجوں کے سینکڑوں طالب علم اور بیرسٹر وغیرہ وجود باری کے منکر ہورہے ہیں اور انکی تعداد روز افزوں ہے اور ہزاروں آدمی ایسے پائے جاتے ہیں جو بظا ہر قوم و ملک کے خوف سے اظہار تو نہیں کرتے لیکن فی الحقیقت اپنے دلوں میں وہ خدا پر کچھ یقین نہیں رکھتے.اس لئے میں نے ارادہ کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے تو میں اس پر ایک چھوٹا ساٹریکٹ لکھ کر شائع کروں شائد کسی سعید روح کو اس سے فائدہ پہنچ جائے.1 - دہریوں کا پہلا سوال یہ ہے کہ اگر خدا ہمیں دکھا دو تو ہم مان لیتے ہیں.مجھے اس سوال کے سنے کا کئی بار موقع ملا ہے لیکن ہمیشہ اس کے سننے سے حیرت ہوتی ہے انسان مختلف چیزوں کو مختلف حواس سے پہچانتا ہے کسی چیز کو دیکھ کر کسی کو چھوکر کسی کو سونگھ کر کسی کو سن کر کسی کو چکھ کر ، رنگ کا علم دیکھنے سے ہو سکتا ہے سونگھنے یا چھونے یا چکھنے سے نہیں پھر اگر کوئی

Page 6

3 شخص کہے کہ میں تو رنگ کو تب مانوں گا کہ اگر مجھے اسکی آواز سنواؤ تو کیا وہ شخص بیوقوف ہے یا نہیں.اسی طرح آواز کا علم سننے سے ہوتا ہے لیکن اگر کوئی شخص کہے کہ مجھے فلاں شخص کی آواز دکھاؤ پھر میں دیکھ کر مانوں گا کہ وہ بولتا ہے تو کیا ایسا شخص جاہل ہوگا یا نہیں.ایسا ہی خوشبو سونگھ کر معلوم ہوتی ہے لیکن اگر کوئی شخص طلب کرے کہ اگر تم مجھے گلاب کی خوشبو چکھا دو تو تب میں مانوں گا تو کیا ایسے شخص کو دانا کہہ سکیں گے.اس کے خلاف چکھ کر معلوم کرنے والی چیزوں یعنی ترشی ، شیرینی، کڑواہٹ نمکینی کو اگر کوئی سونگھ کر معلوم کرنا چاہے تو کبھی نہیں کرسکتا پس یہ کوئی ضروری نہیں کہ جو چیز سامنے نظر آئے اسے تو ہم مان لیں اور جو چیز سامنے نظر نہ آئے اسے نہ مانیں ورنہ اس طرح تو گلاب کی خوشبو، لیموں کی ترشی ،شہد کی مٹھاس، مصبر کی کڑواہٹ، لوہے کی سختی ، آواز کی خوبی سب کا انکار کرنا پڑیگا کیونکہ یہ چیزیں تو نظر نہیں آتیں بلکہ سونگھنے چکھنے چھونے اور سننے سے معلوم ہوتی ہیں پس یہ اعتراض کیسا غلط ہے کہ خدا کو ہمیں دکھاؤ تب ہم مانیں گے کیا یہ معترض گلاب کی خوشبو کو دیکھ کر مانتے ہیں یا شہد کی شیرینی کو پھر کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق یہ شرط پیش کی جاتی ہے کہ دکھا دو تب مانیں گے.علاوہ ازیں انسان کے وجود میں خود ایسی چیزیں موجود ہیں کہ جن کو بغیر دیکھے کے یہ مانتا ہے اور اسے ماننا پڑتا ہے.کیا سب انسان اپنے دل جگر دماغ انتڑیاں پھیپھڑے اور تلی کو دیکھ کر مانتے ہیں یا بغیر دیکھے کے.اگر ان چیزوں کو اس کے دکھانے کیلئے نکالا جاوے تو انسان اسی وقت مرجائے اور دیکھنے کی نوبت ہی نہ آئے.یہ مثالیں تو میں نے اس بات کی دی ہیں کہ سب چیزیں صرف دیکھنے سے ہی معلوم نہیں ہوتیں بلکہ پانچ مختلف حواس سے ان کا علم ہوتا ہے اب میں بتاتا ہوں کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا علم بلا واسطہ ان پانچوں حواس سے بھی نہیں ہوتا بلکہ ان کے معلوم کرنے کا ذریعہ ہی

Page 7

4 اور ہے مثلاً عقل یا حافظہ یا ذہن ایسی چیزیں ہیں کہ جن کا انکار دنیا میں کوئی بھی نہیں کرتا لیکن کیا کسی نے عقل کو دیکھا ہے یا سنا یا چکھایا سونگھا یا چھوا ہے پھر کیونکر معلوم ہوا کہ عقل کوئی چیز ہے یا حافظہ کا کوئی وجود ہے پھر قوت ہی کو لے لو ہر انسان میں تھوڑی بہت قوت موجود ہے کوئی کمزور ہو یا طاقت ور مگر کچھ نہ کچھ طاقت ضرور رکھتا ہے مگر کیا قوت کو آج تک کسی نے دیکھا یا سنایا چھڑا یا چکھا ہے پھر کیونکر معلوم ہوا کہ قوت بھی کوئی چیز ہے اس بات کو ایک جاہل سے جاہل انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ ان چیزوں کو ہم نے اپنے حواس سے معلوم نہیں کیا بلکہ ان کے اثرات کو معلوم کر کے ان کا پتہ لگایا ہے مثلاً جب ہم نے دیکھا کہ انسان مختلف مشکلات میں گھر کر کچھ دیر غور کرتا ہے اور کوئی ایسی تدبیر نکالتا ہے جس سے وہ اپنی مشکلات دور کر لیتا ہے جب اس طرح مشکلات کو حل ہوتے ہوئے ہم نے دیکھا تو یقین کر لیا کہ کوئی چیز ایسی انسان میں موجود ہے جو ان موقعوں پر اس کے کام آتی ہے اور اس چیز کا نام ہم نے عقل رکھا.پس عقل کو بلا واسطہ ہم نے پانچوں حواسوں میں سے کسی سے بھی دریافت نہیں کیا بلکہ اس کے کرشموں کو دیکھ کر اسکا علم حاصل کیا اسی طرح جب ہم نے انسان کو بڑے بڑے بوجھ اٹھاتے دیکھا تو معلوم کیا کہ اس میں کچھ ایسا مادہ ہے جس کی وجہ سے یہ بوجھ اٹھا سکتا ہے اپنے سے کمزور چیزوں کو قابو کر لیتا ہے اور اس کا نام قوت یا طاقت رکھ دیا.اس طرح جس قدر لطیف سے لطیف اشیاء کو لیتے جاؤ گے انکے وجود انسانوں کی نظروں سے غائب ہی نظر آئیں گے اور ہمیشہ ان کے وجود کا پتہ ان کے اثر سے معلوم ہوگا نہ کہ خود انہیں دیکھ کر یا سونگھ کر یا چکھ اور چُھو کر.پس اللہ تعالیٰ کی ذات جو الطف سے الطف ہے اس کا علم حاصل کرنے کیلئے ایسی ایسی قیدیں لگانی کس طرح جائز ہوسکتی ہیں کہ آنکھوں کے دیکھے بغیر اسے نہیں مانیں گے کیا بجلی کو کہیں

Page 8

5 کسی نے دیکھا پھر کیا الیکٹرسٹی کی مدد سے جو تار خبریں پہنچتی ہیں یا مشینیں چلتی ہیں یا روشنی کی جاتی ہے اسکا انکار کیا جا سکتا ہے.ایتھر کی تحقیقات نے فزیکل علوم کی دنیا میں تہلکہ مچادیا ہے لیکن کیا اب تک سائنس کے ماہرین اسکے دیکھنے سنے سونگھنے چھونے یا چکھنے کا کوئی ذریعہ نکال سکے.لیکن اس کا وجود نہ مانیں تو پھر یہ بات حل ہی نہیں ہو سکتی کہ سورج کی روشنی دنیا تک پہنچتی کیونکر ہے.پس کیسا ظلم ہے کہ ان شواہد کے ہوتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ خدا کو دکھاؤ تو ہم ما نیں گے.اللہ تعالیٰ نظر تو آتا ہے لیکن انہیں آنکھوں سے جو اس کے دیکھنے کے قابل ہیں.ہاں اگر کوئی اسکے دیکھنے کا خواہشمند ہو تو وہ اپنی قدرتوں اور طاقتوں سے دنیا کے سامنے ہے اور باوجود پوشیدہ ہونے کے سب سے زیادہ ظاہر ہے.قرآن شریف میں اس مضمون کو نہایت ہی مختصر لیکن بے نظیر پیرایہ میں اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (الانعام : ۱۰۴) یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے کہ نظریں اس تک نہیں پہنچ سکتیں بلکہ وہ نظروں تک پہنچتا ہے اور وہ لطیف اور خبر دار ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ تیری نظر اس قابل نہیں کہ خدا کی ذات کو دیکھ سکے کیونکہ وہ تولطیف ذات ہے اور لطیف اشیاء تو نظر نہیں آتیں جیسا کہ قوت ہے عقل ہے روح ہے بجلی ہے ایتھر ہے یہ چیزیں کبھی کسی کو نظر نہیں آتیں پھر خدا کی لطیف ذات تک انسان کی نظریں کب پہنچ سکتی ہیں.ہاں پھر خدا کو لوگ کس طرح دیکھ سکتے ہیں اور اس کی معرفت کے حاصل کرنے کا کیا طریق ہے اسکا جواب دیا کہ وَهُوَ يُدْرِكُ الابصار یعنی خود وہ نظروں تک پہنچتا ہے اور باوجود اسکے کہ انسانی نظر کمزوری کی وجہ سے اس کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتی وہ اپنی طاقت اور قوت کے اظہار سے وہ اپنی صفات کا ملہ کے جلوہ سے اپنا وجود آپ انسان کو دکھاتا ہے اور گو نظر انسانی اس کے دیکھنے سے قاصر ہے مگر وہ خود اپنا وجود اپنی لا انتہاء قوتوں اور قدرتوں سے مختلف پیراؤں

Page 9

6 میں ظاہر کرتا ہے کبھی قہری نشانوں سے کبھی انبیاء کے ذریعہ سے کبھی آثار رحمت سے اور کبھی قبولیت دعا سے.اب اس بات کے ثابت کر چکنے کے بعد کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ماننا اس بات پر منحصر کیا جائے کہ ہم اسے دکھا دیں اور سوائے دیکھنے کے کسی چیز کو ماناہی نہ جائے تو دنیا کی قریبا5 /4اشیاء کا انکار کرنا پڑیگا اور بعض فلاسفروں کے قول کے مطابق تو کل اشیاء کا.کیونکہ ان کا مذہب ہے کہ دنیا میں کوئی چیز نظر نہیں آتی بلکہ صرف صفات ہی صفات نظر آتی ہیں.اب میں اسطرف متوجہ ہوتا ہوں کہ وہ کون سے دلائل ہیں جن سے وجود باری تعالیٰ کا پتہ لگتا ہے اور انسان کو یقین ہوتا ہے کہ میرا خالق کوئی اور ہے اور میں ہی اپنا خالق نہیں.دلیل اوّل میں اپنے اس عقیدہ کے ماتحت کہ قرآن شریف نے کمالات روحانی کے حصول کے تمام ذرائع بیان فرمائے ہیں.ہستی باری کے کل دلائل قرآن شریف سے ہی پیش کرونگا.وَمِن الله التَّوْفیق اور چونکہ سب سے پہلا علم جو انسان کو اس دنیا میں آکر ہوتا ہے وہ کانوں سے ہوتا ہے اسلئے میں بھی سب سے پہلے سماعی دلیل ہی لیتا ہوں.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَلَى وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الأولى صُحُفِ اِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى ( الاعلیٰ : ۱۵ - ۲۰) یعنی مظفر و منصور ہو گیا وہ شخص کہ جو پاک ہوا اور اسنے اپنے رب کا زبان سے اقرار کیا اور پھر زبان سے ہی نہیں بلکہ عملی طور سے عبادت کر کے اپنے اقرار کا ثبوت دیا لیکن تم لوگ تو دنیا کی زندگی کو اختیار کرتے ہو

Page 10

7 حالانکہ انجام کار کی بہتری ہی اصل بہتری اور دیر پا ہے.اور یہ بات صرف قرآن شریف ہی پیش نہیں کرتا بلکہ سب پہلی کتابوں میں یہ دعویٰ موجود ہے چنانچہ ابراہیم اور موسیٰ نے جو تعلیم دنیا کے سامنے پیش کی اسمیں بھی یہ تعلیم موجود ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مخالفین قرآن پر یہ حجت پیش کی ہے کہ اپنی نفسانی خواہشوں سے بچنے والے خدا کی ذات کا اقرار کر نیوالے اور پھر اس کا سچا فرمانبردار بننے والے ہمیشہ کامیاب اور مظفر ہوتے ہیں.اور اس تعلیم کی سچائی کا ثبوت یہ ہے کہ یہ بات پہلے مذاہب میں مشترک ہے چنانچہ اسوقت کے بڑے مذاہب مسیحی یہودی اور کفار مکہ پر حجت کیلئے حضرت ابراہیم اور موسی کی مثال دیتا ہے کہ ان کو تو تم مانتے ہو انہوں نے بھی یہ تعلیم دی ہے پس قرآن شریف نے ہستی باری تعالیٰ کا ایک بہت بڑا ثبوت یہ بھی دیا ہے کہ کل مذاہب اس پر متفق ہیں اور سب اقوام کا یہ مشترک مسئلہ ہے چنانچہ جس قدر اس دلیل پر غور کیا جائے نہایت صاف اور سچی معلوم ہوتی ہے.حقیقت میں کل مذاہب دنیا اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی ہستی ہے جس نے کل جہان کو پیدا کیا.مختلف ممالک اور احوال کے تغیر کی وجہ سے خیالات اور عقائد میں بھی فرق پڑتا ہے لیکن باوجود اس کے جس قدر تاریخی مذاہب ہیں سب اللہ تعالیٰ کے وجود پر متفق اللسان ہیں گو اس کی صفات کے متعلق ان میں اختلاف ہو موجودہ مذاہب یعنی اسلام مسیحیت، یہودیت ، بدھ ازم سکھ ازم ، ہندو ازم اور زرتشتی سب کے سب ایک خدا ایلو ہیم، پرم ایشور، پرم آتما ، ست گرو، یا یزدان کے قائل ہی ہیں مگر جو مذاہب دنیا کے پردہ سے مٹ چکے ہیں ان کے متعلق بھی آثار قدیمہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سب کے سب ایک خدا کے قائل اور معتقد تھے.خواہ وہ مذاہب امریکہ کے جدا شدہ ملک میں پیدا ہوئے ہوں یا افریقہ کے جنگلوں میں خواہ رو ما میں خواہ انگلستان میں خواہ جاو او سماٹرا میں خواہ جاپان اور چین میں خواہ سائبیریا منچوریا میں.یہ اتفاق

Page 11

8 مذاہب کیونکر ہوا اور کون تھا جس نے امریکہ کے رہنے والے باشندوں کو ہندوستان کے عقائد سے یا چین کے باشندوں کو اہل افریقہ کے عقائد سے آگاہ کیا.پہلے زمانہ میں ریل و تار اور ڈاک کا یہ انتظام تو تھا نہیں جو اب ہے.نہ اس طرح جہازوں کی آمد ورفت کی کثرت تھی گھوڑوں اور خچروں کی سواری تھی اور باد بانی جہاز آجکل کے دنوں کا سفر مہینوں میں کرتے تھے اور بہت سے علاقے تو اس وقت دریافت بھی نہ ہوئے تھے پھر ان میں مختلف المذاق اور مختلف الرسوم اور ایک دوسرے سے نا آشنا ممالک میں اس ایک عقیدہ پر کیونکر اتفاق ہو گیا.من گھڑت ڈھکوسلوں میں تو دو آدمیوں کا اتفاق ہونا مشکل ہوتا ہے پھر کیا اس قدر قوموں کا اور ملکوں کا اتفاق جو آپس میں کوئی تبادلہ خیالات کا ذریعہ نہ رکھتی تھیں اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ عقیدہ ایک امر واقعہ ہے اور کسی نامعلوم ذریعہ سے جسے اسلام نے کھول دیا ہے ہر قوم پر اور ہر ملک میں اسکا اظہار کیا گیا ہے.اہل تاریخ کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جس مسئلہ پر مختلف اقوام کے مؤرخ متفق ہو جاویں اس کی راستی میں شک نہیں کرتے جب اس مسئلہ پر ہزاروں لاکھوں قوموں نے اتفاق کیا ہے تو کیوں نہ یقین کیا جائے کہ کسی جلوہ کو دیکھ کر ہی سب دنیا اس خیال کی قائل ہوئی ہے.دلیل دوم دوسری دلیل جو قرآن شریف میں ہستی باری تعالیٰ کے متعلق دی ہے ان آیات سے معلوم ہوتی ہے کہ وَتِلْكَ مُجَتُنَا أَتَيْنَهَا ابْرهِيمَ عَلَى قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجَتٍ مَّنْ نَّشَاءُ اِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌهِ وَوَهَبْنَا لَةَ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ كُلًّا هَدَيْنَا، وَنُوحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاوُدَ وَسُلَيْمَنَ وَأَيُّوبَ وَيُوْسُفَ وَمُوسَى وَهُرُوْنَ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلُّ

Page 12

9 منَ الصَّلِحِينَ ، وَاسْمعِيْلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوْطًا، وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَلَمِينَ (الانعام : ۸۴ تا۸۷) پھر کچھ آیات کے بعد فرمایا کہ أُولبِكَ الَّذِينَ هَدَى اللهُ فَهُدهُمُ اقْتَدِةٌ (الانعام:۹۱) یعنی ایک دلیل ہے جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابل میں دی اور ہم جس کے درجات چاہتے ہیں بلند کرتے ہیں تحقیق تیرا رب بڑا حکمت والا اور علم والا ہے اور ہم نے اسے اسحاق و یعقوب دیئے ہر ایک کو ہم نے سچا راستہ دکھایا اور نوح کو بھی ہم نے سچار استہ دکھایا اس سے پہلے اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان ایوب یوسف موسیٰ اور ہارون کو بھی اور ہم نیک اعمال میں کمال کرنے والوں کے ساتھ اسی طرح سلوک کیا کرتے ہیں اور زکریا یحیی عیسی اور الیاس کو بھی راہ دکھایا اور یہ سب لوگ نیک تھے اور اس سمعیل اور یع اور لوط کو بھی راستہ دکھایا اور ان سب کو ہم نے اپنے اپنے زمانہ کے لوگوں پر فضیلت دی تھی اور پھر فرماتا ہے کہ یہ وہ لوگ تھے کہ جن کو خدا نے ہدایت دی پس تو ان کے طریق کی پیروی کر.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس قدر نیک اور پاک لوگ جس بات کی گواہی دیتے ہیں وہ مانی جائے یا وہ بات جو دوسرے ناواقف لوگ کہتے ہیں اور اپنے چال چلن سے ان کے چال چلن کا مقابلہ نہیں کر سکتے.سیدھی بات ہے کہ انہیں لوگوں کی بات کو وقعت دی جاویگی جو اپنے چال چلن اور اپنے عمل سے دنیا پر اپنی نیکی اور پاکیزگی اور گناہوں سے بچنا اور جھوٹ سے پر ہیز کرنا ثابت کر چکے ہیں پس ہر ایک شخص کا فرض ہے کہ وہ انہیں کا تتبع کرے اور ان کے مقابل میں دوسرے لوگوں کی بات کا انکار کر دے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس قدر نیکی اور خلق کے پھیلانے والے گزرے ہیں اور جنہوں نے اپنے اعمال سے دنیا پر اپنی راستی کا سکہ بٹھا دیا تھا وہ سب کے سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ایک ایسی ہستی ہے جسے مختلف زبانوں میں اللہ یا گاڈ یا پر میشور کہا گیا ہے ہندوستان کے راستباز رامچندر کرشن ، ایران کا راستباز زرتشت

Page 13

10 مصر کا راستباز موسی ، ناصرہ کا راستباز مسیح ، پنجاب کا ایک راستباز نانگ پھر سب راستبازوں کا سرتاج عرب کا نور محمد مصطف سال ریتم جس کو اسکی قوم نے بچپن سے صادق کا خطاب دیا اور جو کہتا ہے کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمر (یونس : ۱۷ ) میں نے تو تم میں اپنی عمر گزاری ہے کیا تم میرا کوئی جھوٹ ثابت کر سکتے ہو اور اسکی قوم کوئی اعتراض نہیں کرتی اور ان کے علاوہ اور ہزاروں راستباز جو وقتا فوقتا دنیا میں ہوئے ہیں یک زبان ہو کر پکارتے ہیں کہ ایک خدا ہے اور یہی نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس سے ملاقات کی اور اس سے ہم کلام ہوئے.بڑے سے بڑے فلاسفر جنہوں نے دنیا میں کوئی کام کیا ہو وہ ان میں سے ایک کے کام کا ہزارواں حصہ بھی پیش نہیں کر سکتے بلکہ اگر ان لوگوں اور فلاسفروں کی زندگی کا مقابلہ کیا جائے تو فلاسفروں کی زندگی میں اقوال سے بڑھ کر افعال کے باب بہت ہی کم نظر آئیں گے.وہ صدق اور راستی جو انہوں نے دکھائی وہ فلاسفر کہاں دکھا سکے؟ وہ لوگوں کو راستی کی تعلیم دیتے ہیں مگر خود جھوٹ سے پر ہیز نہیں کرتے لیکن اس کے مقابلہ میں وہ لوگ جن کا نام میں اوپر لے چکا ہوں صرف راستی کی خاطر ہزاروں تکلیفوں کو برداشت کرتے رہے لیکن کبھی ان کا قدم اپنی جگہ سے نہیں ہلا اس کے قتل کرنے کے منصوبے کئے گئے.ان کو وطنوں سے خارج کیا گیا، ان کو گلیوں اور بازاروں میں ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی، ان سے کل دنیا نے قطع تعلق کر لیا مگر انہوں نے اپنی بات نہ چھوڑی اور کبھی نہ کیا کہ لوگوں کی خاطر جھوٹ بول کر اپنے آپ کو بچالیتے اور ان کے عمل نے ، انکی دنیا سے نفرت نے نمائش سے علیحدگی نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ وہ بے غرض تھے اور کسی نفسانی غرض سے کوئی کام نہ کرتے تھے.پھر ایسے صادق ایسے قابل اعتبار یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی اسکی آواز سنی اور اس کے جلوے کا مشاہدہ کیا تو ان کے قول کا انکار کرنے کی کسی کے پاس کیا وجہ ہے.جن لوگوں کو ہم روز جھوٹ بولتے سنتے ہیں وہ بھی

Page 14

11 چندمل کر ایک بات کی گواہی دیتے ہیں تو ماننا ہی پڑتا ہے جن کے احوال سے ہم بالکل ناواقف ہوتے ہیں وہ اخباروں میں اپنی تحقیقات شائع کرتے ہیں تو ہم تسلیم کر لیں گے مگر نہیں مانتے تو ان راستبازوں کا کلام نہیں مانتے.دنیا کہتی ہے کہ لندن ایک شہر ہے اور ہم اسے تسلیم کرتے ہیں جغرافیہ والے لکھتے ہیں کہ امریکہ ایک بڑاعظم ہے اور ہم اسکی تصدیق کرتے ہیں سیاح کہتے ہیں کہ سائبیریا ایک وسیع اور غیر آباد علاقہ ہے ہم اس کا انکار نہیں کرتے.کیوں؟ اس لئے کہ بہت سے لوگوں کی گواہی اس پر ہوگئی ہے.حالانکہ ہم ان گواہوں کے حالات سے واقف نہیں کہ وہ جھوٹے ہیں یا بچے مگر اللہ تعالیٰ کے وجود پر عینی گواہی دینے والے وہ لوگ ہیں کہ جن کی سچائی روز روشن کی طرح عیاں ہے انہوں نے اپنے مال و جان وطن عزت و آبر وکوتباہ کر کے راستی کو دنیا میں قائم کیا پھر ان سیاحوں اور جغرافیہ والوں کی بات کو ماننا اور ان راستبازوں کی بات کو نہ ماننا کہاں کی راستبازی ہے.اگر لندن کا وجود چندلوگوں سے سن کر ثابت ہوسکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا وجود ہزاروں راستبازوں کی گواہی پر کیوں ثابت نہیں ہوسکتا.غرضیکہ ہزاروں راستبازوں کی شہادت جو اپنے عینی مشاہدہ پر خدا تعالیٰ کے وجود کی گواہی دیتے ہیں کسی صورت میں بھی رد کے قابل نہیں ہو سکتی تعجب ہے کہ جو اس کو چہ میں پڑے ہیں وہ تو سب با تفاق کہہ رہے ہیں کہ خدا ہے لیکن جو روحانیت کے کوچہ سے بالکل بے بہرہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان کی بات نہ مانو کہ خدا ہے حالانکہ اصول شہادت کے لحاظ سے اگر دو برابر کے راستباز آدمی بھی ایک معاملہ کے متعلق گواہی دیں تو جو کہتا ہے کہ میں نے فلاں چیز کو دیکھا اسکی گواہی کو اسکی گواہی پر جو کہتا ہے میں نے اس چیز کو نہیں دیکھا ترجیح دی جائے گی کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک کی نظر اس چیز پر نہ پڑی ہو لیکن یہ ناممکن ہے کہ ایک نے نہ دیکھا ہو اور سمجھ لے کہ میں نے دیکھا ہے پس خدا کے دیکھنے والوں کی گواہی اس کے منکروں پر بہر حال حجت ہوگی.

Page 15

12 دلیل سوم تیسری دلیل جو قرآن شریف سے معلوم ہوتی ہے یہ ہے کہ انسان کی فطرت خود خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایک دلیل ہے کیونکہ بعض ایسے گناہ ہیں کہ جن کو فطرت انسانی قطعی طور پر نا پسند کرتی ہے ماں بہن اور لڑکی کے ساتھ زنا ہے.پاخانہ پیشاب اور اس قسم کی نجاستوں کے ساتھ تعلق ہے.جھوٹ ہے یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ جن سے ایک دہریہ بھی پر ہیز کرتا ہے مگر کیوں ؟ اگر کوئی خدا نہیں تو کیوں؟ وہ کیوں ماں اور بہن اور دوسری عورتوں میں کچھ فرق جانتا ہے جھوٹ کو کیوں برا جانتا ہے.کیا دلائل ہیں کہ جنہوں نے مذکورہ بالا چیزوں کو اس کی نظر میں بدنما قرار دیا ہے اگر کسی بالائی طاقت کا رعب اس کے دل پر نہیں تو وہ کیوں ان سے احتراز کرتا ہے؟ اسکے لئے تو جھوٹ اور سچ ظلم اور انصاف سب ایک ہی ہونا چاہئے جو دل کی خوشی ہوئی کرلیا.وہ کو نسی شریعت ہے جو اسکے جذبات پر حکومت کرتی ہے جس نے دل پر اپنا تخت رکھا ہے.اور گو ایک دہر یہ زبان سے اسکی حکومت سے نکل جائے لیکن وہ اسکی بنائی ہوئی فطرت سے باہر نہیں نکل سکتا اور گناہوں سے اجتناب یا اسکے اظہار سے اجتناب اسکے لئے ایک دلیل ہے کہ کسی بادشاہ کی جوابدہی کا خوف ہے جو اس کے دل پر طاری ہے گو وہ اسکی بادشاہت کا انکار ہی کرتا ہے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيمَةِ ، وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوْامَةِ (القيمة :۳،۲) یعنی جیسا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ نہ خدا ہے نہ جزا سزا ہے ایسا نہیں بلکہ ہم ان امور کی شہادت کیلئے دو چیزیں پیش کرتے ہیں ایک تو اس بات کو کہ ہر بات کیلئے ایک قیامت کا دن مقرر ہے جس میں کہ اس کا فیصلہ ہوتا ہے اور نیکی کا بدلہ نیک اور بدی کا بدلہ بدل جاتا ہے اگر خدا نہیں تو جزاء وسزا کیونکرمل رہی ہے اور جو لوگ قیامت کبری کے منکر ہیں وہ دیکھ لیں کہ

Page 16

13 قیامت تو اس دنیا سے شروع ہے زانی کو آتشک و سوز اک ہوتا ہے شادی شدہ کو تو نہیں ہوتا حالانکہ دونوں ایک ہی کام کر رہے ہوتے ہیں.دوسری شہادت نفس لوامہ ہے یعنی انسان کا نفس خود ایسے گناہ پر ملامت کرتا ہے کہ یہ بات بری ہے اور گندی ہے دہر یہ بھی زنا اور جھوٹ کو برا جا نیں گے تکبر اور حسد کو اچھا نہ سمجھیں گے مگر کیوں؟ ان کے پاس تو کوئی شریعت نہیں.اس لئے نا کہ ان کا دل بر امانتا ہے اور دل اسی لئے برا مانتا ہے کہ مجھے اس فعل کی ایک حاکم اعلیٰ کی طرف سے سزا ملے گی گو وہ لفظوں میں اسے ادا نہیں کر سکتا اسی کی تائید میں ایک اور جگہ قرآن شریف میں ہے فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقُوهَا (الشمس: 9) اللہ تعالیٰ نے ہر نفس میں نیکی اور بدی کا الہام کر دیا ہے پس نیکی بدی کا احساس خود خدا کی زبر دست دلیل ہے اگر خدا نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک چیز کو نیک اور ایک کو بد کہا جاوے جو دل میں آئے لوگ کیا کریں.چوتھی دلیل چوتھی دلیل جو قرآن شریف سے ذات باری کے متعلق معلوم ہوتی ہے یہ ہے وَانّ الی رَبَّكَ الْمُنْتَهى وَأَنَّهُ هُوَ اضْحَكَ وابكى وَأَنَّهُ هُوَ امَاتَ وَأَحْيَانِ وَأَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى مِنْ نُّطْفَةٍ إِذَا تُحملی (النجم: ۴۳-۴۷) یعنی یہ بات ہر ایک نبی کی معرفت ہم نے پہنچادی ہے کہ ہر ایک چیز کا انتہاء اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی جا کر ہوتا ہے اور خواہ خوشی کے واقعات ہوں یا رنج کے وہ خدا ہی کی طرف سے آتے ہیں اور موت اور حیات سب اسی کے ہاتھ میں ہیں اور اسنے مرد و عورت دونوں کو پیدا کیا ہے ایک چھوٹی سی چیز سے جس وقت وہ ڈالی گئی.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسطرف متوجہ کیا ہے کہ ہر ایک فعل کا ایک فاعل ہوتا

Page 17

14 ہے اور ضرور ہے کہ ہر کام کے کرنے والا بھی کوئی ہو پس اس تمام کائنات پر اگر غور کرو گے تو ضرور تمہاری رہنمائی اس طرف ہو گی کہ سب اشیاء آخر جا کر ذات باری پر ختم ہوتی ہیں اور وہی انتہاء ہے تمام اشیاء کی اور اسی کے اشارے سے یہ سب کچھ ہورہا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی ابتدائی حالت کی طرف متوجہ کر کے فرمایا ہے کہ تمہاری پیدائش تو ایک نطفہ سے ہے اور تم تو جوں جوں پیچھے جاتے ہو اور حقیر ہوتے جاتے ہو پھر تم کیونکر اپنے خالق ہو سکتے ہو جب خالق کے بغیر کوئی مخلوق ہو نہیں سکتی اور انسان اپنا آپ خالق نہیں ہے کیونکہ اسکی حالت پر جس قدر غور کریں وہ نہایت چھوٹی اور ادنیٰ حالت سے ترقی کر کے اس حالت کو پہنچتا ہے اور جب وہ موجودہ حالت میں خالق نہیں تو اس کمزور حالت میں کیونکر خالق ہوسکتا تھا تو ماننا پڑے گا کہ اس کا خالق کوئی اور ہے جس کی طاقتیں غیر محدود اور قدرتیں لا انتہاء ہیں.غرضیکہ جس قدر انسان کی درجہ بدرجہ ترقی پر غور کرتے جائیں اس کے اسباب باریک سے باریک تر ہوتے جاتے ہیں اور آخر ایک جگہ جا کر تمام دنیاوی علوم کہہ دیتے ہیں کہ یہاں اب ہمارا دخل نہیں اور ہم نہیں جانتے کہ یہ کیوں ہو گیا اور وہی مقام ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ کام کر رہا ہوتا ہے اور ایک سائنس دان کو آخر ماننا پڑتا ہے کہ إلی رَبَّكَ الْمُنعَلی یعنی ہر ایک چیز کی انتہاء ہوتی ہے اور آخر ایک ایسی ہستی پر ہوتی ہے کہ جس کو وہ اپنی عقل کے دائرہ میں نہیں لا سکتے اور وہی خدا ہے یہ ایک موٹی دلیل ہے کہ جسے ایک جاہل سے جاہل انسان بھی سمجھ سکتا ہے.کہتے ہیں کہ کسی نے ایک بدوی سے پوچھا تھا کہ تیرے پاس خدا کی کیا دلیل ہے اس نے جواب دیا کہ جنگل میں ایک اونٹ کی مینگنی پڑی ہوئی ہوتو میں دیکھ کر بتا دیتا ہوں کہ یہاں سے کوئی اونٹ گزرا ہے پھر اتنی بڑی مخلوقات کو دیکھ کر میں معلوم نہیں کر سکتا کہ اسکا کوئی خالق ہے واقعی یہ جواب ایک سچا اور فطرت کے مطابق جواب ہے اور اس مخلوقات کی پیدائش کی الْبَعْرَة تَدلُّ عَلَى الْبَعِيرِ وَأَثَرُ الْقَدَمِ عَلَى السَّفِيرِ فَالسَّمَاءُ ذَاتُ الْبُرُوْجِ وَالْأَرْضُ ذَاتُ فِجَاجِ آمَا تَدُلُّ عَلَى قَدِيْرٍ

Page 18

15 طرف اگر انسان توجہ کرے تو آخر ایک ہستی کو ماننا پڑتا ہے کہ جس نے یہ سب پیدا کیا.پانچویں دلیل پانچویں دلیل ہستی باری کی جو قرآن شریف نے دی ہے گو اسی رنگ کی ہے لیکن اس سے زیادہ زبر دست ہے اور وہاں استدلال بالا ولی سے کام لیا گیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَبرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سموتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفُوتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطَوْرٍ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا ط وَهُوَ حَسِيرُ (الملک : ۲-۵) یعنی بہت برکت والا ہے وہ جس کے ہاتھ میں ملک ہے وہ ہر ایک چیز پر قادر ہے اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ہے تا کہ دیکھے کہ تم میں سے کون زیادہ نیک عمل کرتا ہے اور وہ غالب ہے بخشندہ ہے اسنے ساتوں آسمان بھی پیدا کئے اور ان میں آپس میں موافقت اور مطابقت رکھی ہے تو کبھی کوئی اختلاف اللہ تعالیٰ کی پیدائش میں نہیں دیکھے گا پس اپنی آنکھ کو لوٹا کیا تجھے کوئی شگاف نظر آتا ہے دوبارہ اپنی نظر کو لوٹا کر دیکھ تیری نظر تیری طرف تھک کر اور ماندہ ہو کر لوٹے گی.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تمام کا ئنات اتفاقاً پیدا ہوگئی اور اتفاقی طور پر مادہ کے ملنے سے یہ سب کچھ بن گیا اور سائنس سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہوسکتا ہے کہ دنیا خود بخود جڑ کر آپ ہی چلتی جائے اور اس کا پھر انیوالا کوئی نہ ہو.لیکن ان کا جواب اللہ تعالیٰ ان آیات میں

Page 19

16 دیتا ہے کہ اتفاقی طور سے جڑنے والی چیزوں میں کبھی ایک سلسلہ اور انتظام نہیں ہوتا بلکہ بے جوڑی ہوتی ہے مختلف رنگوں سے مل کر ایک تصویر بنتی ہے لیکن کیا اگر مختلف رنگ ایک کاغذ پر پھینک دیں تو اس سے تصویر بن جائے گی.اینٹوں سے مکان بنتا ہے لیکن کیا اینٹیں ایک دوسرے پر پھینک دینے سے مکان بن جائے گا.بفرض محال اگر یہ مان لیا جائے کہ بعض واقعات اتفاقا بھی ہو جاتے ہیں لیکن نظام عالم کو دیکھ کر کبھی کوئی انسان نہیں کہہ سکتا کہ یہ سب کچھ آپ ہی ہو گیا.مانا کہ خود بخود ہی مادہ سے زمین پیدا ہو گئی اور یہ بھی مان لیا کہ اتفاقاً ہی انسان پیدا ہو گیا لیکن انسان کی خلقت پر نظر تو کرو کہ ایسی کامل پیدائش کبھی خود بخود ہو سکتی ہے عام طور سے دنیا میں ایک صفت کی خوبی سے اسکے صناع کا پتہ لگتا ہے ایک عمدہ تصویر کو دیکھ کر فور اخیال ہوتا ہے کہ کسی بڑے مصور نے بنائی ہے ایک عدہ تحریر کو دیکھ کر سمجھا جاتا ہے کہ کسی بڑے کا تب نے لکھی ہے اور جس قدر ربط بڑھتا جائے اسی قدر اس کے بنانے یا لکھنے والے کی خوبی اور بڑائی ذہن نشین ہوتی جاتی ہے پھر کیونکر تصور کیا جاتا ہے کہ ایسی منتظم دنیا خود بخو د اور یونہی پیدا ہو گئی.ذرا اس بات پر تو غور کرو کہ جہاں انسان میں ترقی کرنے کے قوی ہیں وہاں اسے اپنے خیالات کو عملی صورت میں لانے کیلئے عقل دی گئی ہے اور اس کا جسم بھی اس کے مطابق بنایا گیا ہے چونکہ اس کو محنت سے رزق کمانا تھا اس لئے اسے مادہ دیا کہ چل پھر کر اپنا رزق پیدا کر لے درخت کا رزق اگر زمین میں رکھا ہے تو اسے جڑیں دیں کہ وہ اسکے اندر سے اپنا پیٹ بھر لے.اگر شیر کی خوراک گوشت رکھی تو اسے شکار مارنے کیلئے ناخن دیئے اور اگر گھوڑے اور بیل کیلئے گھاس کھا نا مقدر کیا تو انکو ایسی گردن دی جو جھک کر گھاس پکڑ سکے اور اگر اونٹ کیلئے درختوں کے پتے اور کانٹے مقرر کئے تو اسکی گردن بھی اونچی بنائی کیا یہ سب کارخانہ اتفاق سے ہوا.کیا اتفاق نے اس بات کو معلوم کر لیا تھا کہ اونٹ کو گردن لمبی دوں اور شیر کو پنجے اور درخت کو

Page 20

17 جڑیں اور انسان کو ٹانگیں.ہاں کیا یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ جو کام خود بخود ہو گیا اس میں اس قدر انتظام رکھا گیا ہو.پھر اگر انسان کے لئے پھیپھڑا بنایا تو اس کے لئے ہوا بھی پیدا کی اگر پانی پر اسکی زندگی رکھی تو سورج کے ذریعہ بادلوں کی معرفت اسے پانی پہنچایا اور اگر آنکھیں دیں تو انکے کارآمد بنانے کیلئے سورج کی روشنی بھی دی تا کہ وہ اس میں دیکھ بھی سکے کان دیئے تو ساتھ اس کے خوبصورت آواز میں بھی پیدا کیں زبان کے ساتھ ذائقہ دار چیزیں بھی عطا فرما ئیں ناک پیدا کیا تو خوشبو بھی مہیا کر دی ممکن تھا کہ اتفاق انسان میں پھیپھڑا پیدا کر دیتا لیکن اس کے لئے یہ ہوا کا سامان کیوں کر پیدا ہو گیا اور ممکن تھا کہ آنکھیں انسان کی پیدا ہو جاتیں لیکن وہ عجیب اتفاق تھا کہ جس نے کروڑوں میلوں پر جا کر ایک سورج بھی پیدا کر دیا تا کہ وہ اپنا کام کر سکیں اگر ایک طرف اتفاق نے کان پیدا کر دیئے تھے تو یہ کونسی طاقت تھی جس نے دوسری طرف آواز بھی پیدا کردی بر فانی ممالک میں مان لیا کہ کتے اور ریچھوں کو تو اتفاق نے پیدا کر دیا لیکن کیا سبب کہ ان کتوں یا ریچھوں کے بال اتنے لمبے بن گئے کہ وہ سردی سے محفوظ رہ سکیں.اتفاق ہی نے ہزاروں بیماریاں پیدا کیں اتفاق ہی نے ان کے علاج بنادیئے اتفاق ہی نے بچھو بوٹی جسکے چھونے سے خارش ہونے لگ جاتی ہے پیدا کی اور اس نے اس کے ساتھ پالک کا پودا اگا دیا کہ اس کا علاج ہو جائے.دہریوں کا اتفاق بھی عجیب ہے کہ جن چیزوں کے لئے موت تجویز کی ان کے ساتھ توالد کا سلسلہ بھی قائم کر دیا اور جن چیزوں کے ساتھ موت نہ تھی وہاں یہ سلسلہ ہی نہیں رکھا انسان اگر پیدا ہوتا اور مرتا نہیں تو کچھ سالوں میں ہی دنیا کا خاتمہ ہو جاتا اس لئے اس کے ساتھ فنالگا دی لیکن سورج اور چاند اور زمین نہ نئے پیدا ہوتے ہیں نہ اگلے فنا ہوتے ہیں.کیا یہ انتظام کچھ کم تعجب انگیز ہے کہ زمین اور سورج میں چونکہ کشش رکھی ہے اس لئے ان کو ایک دوسرے سے اتنی دور رکھا کہ آپس میں ٹکرانہ جاویں کیا یہ باتیں اس بات پر دلالت نہیں کرتی ہیں

Page 21

18 کہ ان سب چیزوں کا خالق وہ ہے جو نہ صرف علیم ہے بلکہ غیر محدود علم والا ہے اس کے قواعد ایسے منضبط ہیں کہ ان میں کچھ اختلاف نہیں اور نہ کچھ کمی ہے مجھے تو اپنی انگلیاں بھی اس کی ہستی کا ایک ثبوت معلوم ہوتی ہیں مجھے جہاں علم دیا تھا اگر شیر کا پنجہل جاتا تو کیا میں اس سے لکھ سکتا تھا شیر کوعلم نہیں دیا اسے پنجے دیئے مجھے علم دیا لکھنے کیلئے انگلیاں بھی دیں.سلطنتوں میں ہزاروں مدبر انکی درستی کیلئے رات دن لگے رہتے ہیں لیکن پھر بھی دیکھتے ہیں کہ ان سے ایسی ایسی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں کہ جن سے سلطنتوں کو خطر ناک نقصان پہنچ جاتا ہے بلکہ بعض اوقات بالکل تباہ ہو جاتی ہیں لیکن اگر اس دنیا کا کاروبار صرف اتفاق پر ہے تو تعجب ہے کہ ہزاروں دانا دماغ توغلطی کرتے ہیں لیکن یہ اتفاق تو غلطی نہیں کرتا لیکن سچی بات یہی ہے کہ اس کا ئنات کا ایک خالق ہے جو بڑے وسیع عالم کا مالک اور عزیز ہے اور اگر یہ نہ ہوتا تو یہ انتظام نظر نہ آتا.اب جس طرف نظر دوڑا کر دیکھو تمہاری نظر قرآن شریف کے ارشاد کے مطابق خائب و خاسر واپس آئیگی اور ہر ایک چیز میں ایک انتظام معلوم ہوگا نیک جزاء اور بدکار سزا پا رہے ہیں ہر ایک چیز اپنا مفوضہ کام کر رہی ہے اور ایک دم کیلئے ست نہیں ہوئی یہ ایک بہت وسیع مضمون ہے لیکن میں اسے یہیں ختم کرتا ہوں.عاقل را اشارہ کافی است.دلیل ششم قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے منکر ہمیشہ ذلیل وخوار ہوتے ہیں اور یہ بھی ایک ثبوت ہے ان کے باطل پر ہونے کا کیونکہ اللہ اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ فتوحات دیتا ہے اور وہ اپنے مخالفوں پر غالب رہتے ہیں اگر کوئی خدا نہیں تو یہ نصرت اور تائید کہاں سے آتی ہے چنانچہ فرعون موسیٰ کی نسبت فرماتا ہے کہ فَقَالَ أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى ، فَأَخَذَهُ

Page 22

19 اللهُ نَكَالَ الْآخِرَةِ وَالْأولى ( الزعت: ۲۶،۲۵) یعنی جب حضرت موسی نے اسے اطاعت الہی کی نسبت کہا تو اس نے تکبر سے جواب دیا کہ خدا کیسا ، خدا تو میں ہوں پس اللہ تعالیٰ نے اسے اس جہاں میں بھی اور اگلے جہاں میں بھی ذلیل کر دیا چنانچہ فرعون کا واقعہ ایک بین دلیل ہے کہ کس طرح خدا کے منکر ذلیل و خوار ہوتے رہتے ہیں علاوہ ازیں دنیا میں کبھی کوئی سلطنت دہریوں نے قائم نہیں کی بلکہ دنیا کے فاتح اور ملکوں کے مصلح اور تاریخ کے بنانے والے وہی لوگ ہیں کہ جو خدا کے قائل ہیں کیا یہ انکی ذلت و نکبت اور قوم کی صورت میں کبھی دنیا کے سامنے نہ آنا کچھ معنی نہیں رکھتا.ساتویں دلیل اللہ تعالیٰ کی ہستی کی یہ ہے کہ اس کی ذات کے ماننے والے اور اس پر ایمان رکھنے والے اور اس پر حقیقی ایمان رکھنے والے ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں اور باوجود لوگوں کی مخالفت کے ان پر کوئی مصیبت نہیں آتی خدا تعالیٰ کی ہستی کے منوانے والے ہر ملک میں پیدا ہوئے ہیں اور جس قدر ان کی مخالفت ہوئی ہے اتنی اور کسی کی نہیں لیکن پھر دنیا اس کے خلاف کیا کرسکی.رامچندرکو بن باس دینے والوں نے کیا سکھ پایا؟ اور راون نے کونسی عشرت حاصل کر لی؟ کیا رامچندر کا نام ہزاروں سال کیلئے زندہ نہیں ہو گیا اور کیا راون کا نام ہمیشہ کیلئے بدنام نہیں ہو !؟ اور کرشن کی بات کارڈ کر کے کورو نے کیا فائدہ حاصل کیا.کیا وہ کرو چھتر کے میدان میں تباہ نہ ہوئے؟ فرعون بادشاہ جو بنی اسرائیل سے اینٹیں پتھو اتا تھا اس نے موسی جیسے بے کس انسان کی مخالفت کی مگر کیا موسیٰ کا کچھ بگاڑ سکا؟ وہ غرق ہو گیا اور موسی بادشاہ ہو گئے.حضرت مسیح کی دنیا نے جو کچھ مخالفت کی وہ بھی ظاہر ہے اور انکی ترقی بھی جو کچھ ہوئی پوشیدہ نہیں ان کے دشمن تو تباہ ہوئے اور ان کے

Page 23

20 غلام ملکوں کے بادشاہ ہو گئے.ہمارے آقا بھی دنیا میں سب سے زیادہ اس پاک ذات کے نام کے پھیلانے والے تھے یہاں تک کہ ایک یورپ کا مصنف کہتا ہے کہ ان کو خدا کا جنون تھا.(نعوذ باللہ ) ہر وقت خدا خدا ہی کہتے رہتے تھے.ان کی سات قوموں نے مخالفت کی اپنے پرائے سب دشمن ہو گئے مگر کیا پھر آپ کے ہاتھ پر دنیا کے خزانے فتح نہیں ہوئے؟ اگر خدا نہیں تو یہ تائید کس نے کی؟ اگر یہ سب کچھ اتفاق تھا تو کوئی مبعوث تو ایسا ہوتا جو خدا کی خدائی ثابت کرنے آتا اور دنیا اسے ذلیل کر دیتی مگر جو کوئی خدا کے نام کو بلند کرنے والا اٹھا وہ معزز وممتاز ہی ہو چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ مَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغُلِبُونَ (المائده: ۵۷) اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول اور مؤمنوں سے دوستی کرتا ہے پس یا درکھنا چاہئے کہ یہی لوگ خدا کے ماننے والے ہی غالب رہتے ہیں.دلیل هشتم آٹھویں دلیل جو قرآن شریف سے اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت میں ملتی ہے یہ ہے کہ وہ دعاؤں کو قبول کرتا ہے جب کوئی انسان گھبرا کر اس کے حضور میں دعا کرتا ہے تو وہ اسے قبول کرتا ہے.اور یہ بات کسی خاص زمانہ کے متعلق نہیں بلکہ ہر زمانہ میں اس کے نظارے موجود ہوتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ( البقرہ: ۱۸۷) یعنی جب میرے بندے میری نسبت سوال کریں تو انہیں کہہ دو کہ میں ہوں اور پھر قریب ہوں پکارنے والے کی دعا کو سنتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے پس

Page 24

21 چاہئے کہ وہ بھی میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں اب اگر کوئی شخص کہے کہ کیونکر معلوم ہو کہ دعا خدا سنتا ہے کیوں نہ کہا جائے کہ اتفاقا بعض دعا کرنے والے کے کام ہو جاتے ہیں جیسے بعض کے نہیں بھی ہوتے.اگر سب دعا ئیں قبول ہو جا ئیں تب بھی کچھ بات تھی لیکن بعض کے قبول ہونے سے کیونکر معلوم ہو کہ اتفاق نہ تھا بلکہ کسی ہستی نے قبول کر لیا تو اسکا جواب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت اپنے ساتھ نشان رکھتی ہے چنانچہ ہمارے آقا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے ثبوت باری تعالی کی دلیل میں یہ پیش کیا تھا کہ چند بیمار جو خطرناک طور پر بیمار ہوں چنے جائیں اور بانٹ لئے جائیں اور ایک گروہ کا ڈاکٹر علاج کریں اور ایک طرف میں اپنے حصہ والوں کیلئے دعا کروں پھر دیکھو کہ کس کے بیمارا چھے ہوتے ہیں.اب اس طریق امتحان میں کیا شک ہوسکتا ہے چنانچہ ایک سگ گزیدہ جسے دیوانگی ہوگئی اور جس کے علاج سے کسولی کے ڈاکٹروں نے قطعا انکار کر دیا تھا اور لکھ دیا تھا کہ اس کا کوئی علاج نہیں اس کے لئے آپ نے دعا کی اور وہ اچھا ہو گیا حالانکہ دیوانے کتے کے کٹے ہوئے دیوانہ ہو کر کبھی اچھے نہیں ہوتے.پس دعاؤں کی قبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی ایسی ہستی موجود ہے جو انہیں قبول کرتی ہے اور دعاؤں کی قبولیت کسی خاص زمانہ سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ ہر زمانے میں اس کے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں جیسے پہلے زمانہ میں دعا ئیں قبول ہوتی تھیں ویسے ہی اب بھی ہوتی ہیں.دلیل نهم نویں دلیل قرآن شریف سے وجود باری کی الہام معلوم ہوتی ہے یہ دلیل اگر چہ میں نے نویں نمبر پر رکھی ہے لیکن در حقیقت نہایت عظیم الشان دلیل ہے جو خدا تعالیٰ کے وجود کو یقینی طور

Page 25

22 سے ثابت کر دیتی ہے چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يُقَبَّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ (ابراہیم :۲۸) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندوں کو اس دنیا اور اگلی دنیا میں پکی باتیں سنا سنا کر مضبوط کرتا رہتا ہے پس جب کہ ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ ایک بڑی تعداد کے ساتھ ہم کلام ہوتا رہتا ہے تو پھر اس کا انکار کیونکر درست ہوسکتا ہے اور نہ صرف انبیاء اور رسولوں کے ساتھ ہم کلام ہوتا ہے بلکہ اولیاء سے بھی باتیں کرتا ہے اور بعض دفعہ اپنے کسی غریب بندہ پر بھی رحم کر کے اس کی تشقی کیلئے کلام کرتا ہے چنانچہ اس عاجز سے بھی اس نے کلام کیا اور اپنے وجود کو دلائل سے ثابت کیا پھر یہی نہیں بعض دفعہ نہایت گندے اور بد باطن آدمیوں سے بھی ان پر حجت قائم کرنے کیلئے بول لیتا ہے چنانچہ بعض دفعہ چوہڑوں چماروں کوچنیوں تک کو خوا ہیں اور الہام ہو جاتے ہیں اور اس بات کا ثبوت کہ وہ کسی زبر دست ہستی کی طرف سے ہیں یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ان میں غیب کی خبریں ہوتی ہیں جو اپنے وقت پر پوری ہو کر بتا دیتی ہیں کہ یہ انسانی دماغ کا کام نہ تھا اور نہ کسی بدہضمی کا نتیجہ تھا اور بعض دفعہ سینکڑوں سال آگے کی خبریں بتائی جاتی ہیں تاکہ کوئی یہ نہ کہدے کہ موجودہ واقعات خواب میں سامنے آگئے اور وہ اتفاقاً پورے بھی ہو گئے چنانچہ توریت اور قرآن شریف میں مسیحیوں کی ان ترقیوں کا جنکو دیکھ کر اب دنیا حیران ہے پہلے ذکر موجود تھا اور پھر صریح لفظوں میں تفصیل کے ساتھ.بلکہ ان واقعات کا بھی ذکر ہے جو آئندہ پیش آنے والے ہیں مثلاً إِذَا الْعِشَارُ عطلت (التکویر : ۵) یعنی ایک وقت آتا ہے کہ اونٹیاں بیکار ہو جائیں گی اور حدیث مسلم میں اس کی تفسیر یہ ہے وَلَيُتْرَكَنَ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا یعنی اونٹنیوں سے کام نہ لیا جائے گا چنانچہ اس زمانے میں ریل کے اجراء سے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ریل کے متعلق نبی کریم انی پی ایم کے کلام میں ایسے ایسے اشارے پائے جاتے ہیں جن سے ریل کا نقشہ آنکھوں میں پھر

Page 26

23 جا تا ہے اور یقین ہو جاتا ہے کہ کلام نبوت میں بھی سواری ( مراد ) ہے جو عبس ماء (Steam) سے چلے گی اور اپنے آگے دھوئیں کا ایک پہاڑ رکھے گی اور سواری اور بار برداری کے لحاظ سے حمار کی طرح ہوگی اور چلتے وقت ایک آواز کرے گی وَغَيْرُ ذُلِكَ.دوم - إذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ ( التكوير : 1 ) یعنی کتابوں اور نوشتوں کا بہ کثرت شائع ہونا آجکل بباعث چھاپہ کی کلوں کے جس قدر اس زمانہ میں کثرت اشاعت کتابوں کی ہوئی ہے اسکے بیان کی ضرورت نہیں.سوم - إِذَا النُّفُوسُ زُوجَتْ (التکویر:۸) نوع انسان کے باہمی تعلقات کا بڑھنا اور ملاقاتوں کا طریق سہل ہو جانا کہ موجودہ زمانے سے بڑھ کر متصور نہیں.چہارم - تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ (التزعت : ۲) متواتر اور غیر معمولی زلزلوں کا آنا یہاں تک کہ زمین کانپنے والی بن جائے سو یہ زمانہ اس کے لئے بھی خصوصیت سے مشہور ہے.پنجم - وَإِنْ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيمَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا ( بى اسرائیل : ۵۹) کوئی ایسی بستی نہیں جس کو ہم قیامت سے پہلے پہلے ہلاک نہیں کریں گے یا کسی حد تک اس پر عذاب وارد نہیں کریں گے چنانچہ اسی زمانہ میں طاعون اور زلزلوں اور طوفان اور آتش فشاں پہاڑوں کے صدمات اور باہمی جنگوں سے لوگ ہلاک ہو رہے ہیں اور اس قدر اسباب موت کے اس زمانہ میں جمع ہوئے ہیں اور اس شدت سے وقوع میں آئے ہیں کہ اس مجموعی حالت کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں پائی نہیں جاتی.پھر اسلام تو ایسا مذہب ہے کہ ہر صدی میں اس کے ماننے والوں میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں جو الہام الہی سے سرفراز ہوتے رہتے ہیں اور خارق عادت نشانات سے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک قادر و توانا ، مدبر بالا رادہ ہستی

Page 27

24 ہے.چنانچہ اس زمانہ کے مامور پر نہایت بے بسی و گمنامی کی حالت میں خدا نے وحی نازل کی يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجَ عَمِيقٍ يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُّوْحِيَ إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ وَلَا تُصَعِرْ خَلْقِ اللهِ وَلَا تَسْتَمْ مِنَ النَّاسِ(دیکھو براہین احمدیہ مطبوعہ ۱۸۸۱ صفحه ۲۴۱، روحانی خزائن جلد اصفحہ ۲۶۷ حاشیہ) کہ ہر ایک راہ سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور ایسی کثرت سے آئیں گے کہ وہ راہیں عمیق ہو جائیں گی.تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم آپ القاء کریں گے مگر چاہئے کہ تو خدا کے بندوں سے جو تیرے پاس آئیں گے بد خلقی نہ کرے اور چاہئے کہ تو ان کی ملاقاتوں سے تھک نہ جائے.ایک شخص ایک گاؤں میں رہنے والا جس کے نام سے مہذب دنیا میں سے کوئی آگاہ نہ تھا یہ اعلان کرتا ہے پھر باوجود سخت مخالفتوں اور روکوں کے ایک دنیا دیکھتی ہے کہ امریکہ اور افریقہ سے لیکر تمام علاقوں کے لوگ یہاں حاضر رہتے ہیں اور آدمیوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ ان سب سے مصافحہ و ملاقات کرنا معمولی آدمی کا کام نہیں ایک مقتدر جماعت اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر یہاں رہنا اختیار کرتی ہے اور قادیان کا نام تمام دنیا میں مشہور ہو جاتا ہے.کیا یہ چھوٹی سی بات ہے اور یہ ایسا نشان ہے جسے معمولی نظر سے ٹال دیا جائے؟ دوم عیسائیوں میں سے ڈوئی نے امریکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنے یہ ناپاک کلمات شائع کئے کہ ”میں خدا سے دعا کرتا ہوں وہ دن جلد آئے کہ اسلام دنیا سے نابود ہو جائے اے خدا تو ایسا ہی کر.اے خدا اسلام کو ہلاک کر تو صرف یہ حضور مسیح موعود ہمارے امام علیہ السلام ہی تھے جنہوں نے اس کے مقابلہ میں اشتہار دیا کہ اے شخص جو مدعی نبوت ہے آاور میرے ساتھ مباہلہ کر ہمارا مقابلہ دعا سے ہوگا اور ہم دونوں خدا تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ ہم میں سے جو شخص کذاب ہے وہ پہلے ہلاک ہو ( ٹیلیگراف ۵ جولا ئی ۱۹۰۳ء) لیکن اس نے رعونت سے

Page 28

25 کہا.کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں گا اگر میں اپنا پاؤں ان پر رکھوں تو ان کو کچل کر مار ڈالوں (ڈوئی کا پرچہ دسمبر ۱۹۰۳ء) مگر حضور نے فرمایا تھا اور اسی اشتہار ۲۳ اگست ۱۹۰۳ء میں شائع کیا تھا کہ اگر ڈوئی مقابلہ سے بھاگ گیا تب بھی یقیناً سمجھو کہ اس کے صیحون پر جلد آفت آنے والی ہے.اے خدا اور کامل خدا یہ فیصلہ جلد کر اور ڈوٹی کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کر دے.پھر اس کے بعد معزز ناظرین سنو کیا ہو ا.وہ جو شہزادوں کی زندگی بسر کرتا تھا جس کے پاس سات کروڑ نقد تھا اس کی بیوی اور اس کا بیٹا دشمن ہو گئے اور باپ نے اشتہار دیا کہ وہ ولدالزنا ہے آخر اس پر فالج گرا پھر غموں کے مارے پاگل ہو گیا آخر مارچ ۱۹۰۷ء میں بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ جیسا کہ خدا نے اپنے مامور کو پہلے اطلاع دی اور جیسا کہ حضرت اقدس نے ۲۰ فروری ۱۹۰۷ ء کے اشتہار میں شائع فرمایا تھا.خدا فرماتا ہے کہ ”میں ایک تازہ نشان ظاہر کروں گا جس میں فتح عظیم ہوگی وہ تمام دنیا کے لئے ایک نشان ہوگا‘ ہلاک ہوکر خدا کی ہستی پر گواہی دے گیا.یہ عیسائی دنیا.پرانی دنیا نئی دنیا.دونوں پر حضور کی فتح تھی.سوم اس ملک میں آریوں کا زور ہے انکا زعیم لیکھر ام تھا رسالہ کرامات الصادقین مطبوعہ صفر ۱۳۱۱ھ میں یہ پیشگوئی درج کی کہ لیکھرام کی نسبت خدا نے میری دعا قبول کر کے مجھے خبر دی ہے کہ وہ چھ سال کے اندر ہلاک ہو گا اور اس کا جرم یہ ہے کہ وہ خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا تھا اور بُرے لفظوں کے ساتھ تو ہین کرتا تھا پھر ۲۲ فروری ۱۸۹۳ء کے اشتہار میں اسکے مرنے کی صورت بھی بتادی عجل جَسَدٌ اللَّهُ خُوَارُ لَهُ نَصَبْ وَعَذَابٌ یعنی لیکھرام گو ساله سامری ہے جو بیجان ہے اور اس میں محض ایک آواز ہے جس میں روحانیت نہیں اس لئے اس کو عذاب دیا جاوے گا جو گوسالہ سامری کو دیا گیا تھا ہر ایک شخص جانتا ہے کہ گوسالہ سامری کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا اور پھر جلایا گیا اور دریا میں ڈالا گیا تھا پھر ۱۲ پریل ۱۸۹۳ء کو آپ نے

Page 29

26 ایک کشف دیکھا.(دیکھو برکات الدعا کا حاشیہ.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۳) ایک قوی مہیب شکل جو گو یا انسان نہیں ملائک شداد اور غلاظ سے ہے وہ پوچھتا ہے کہ لیکھر ام کہاں ہے پھر کرامات الصادقین کے اس شعر سے دن بھی بتا دیا وبشرني رَبِّي وَقَالَ مُبَشِّرًا سَتَعْرِفُ يَوْمَ الْعِيْدِ وَالْعِيْدُ أَقْرَبَ یعنی عید سے دوسرے دن ہفتہ والے دن اور ے الا اے دشمن نادان بترس و بے راہ محمد از تیغ بران پانچ سال پہلے شائع کر کے قتل کی صورت بھی بتادی آخر لیکھر ام 4 مارچ ۱۸۹۷ء کو قتل کیا گیا اور سب نے متفق اللفظ مان لیا کہ یہ پیشگوئی بڑی صفائی کے ساتھ پوری ہوکر اللہ کی ہستی کیلئے حجت ناطقہ ٹھہری پس الہام الہی ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے خدا کا انکار کرنا نہایت بے حیائی بے شرمی ہوگی.دلیل دہم دسویں دلیل جو ہر ایک نزاع کے فیصلہ کے لئے قرآن شریف نے بیان فرمائی ہے اس آیت سے نکلتی ہے کہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت:٧٠) یعنی جو لوگ ہمارے متعلق کوشش کرتے ہیں ہم ان کو اپنی راہ دکھا دیتے ہیں اور اس آیت پر جن لوگوں نے عمل کیا وہ ہمیشہ نفع میں رہے ہیں.وہ شخص جو خدا تعالیٰ کا منکر ہوا سے تو ضرور خیال کر لینا چاہئے کہ اگر خدا ہے تو اس کے لئے بہت مشکل ہو گی پس اس خیال سے اگر سچائی کے

Page 30

27 دریافت کرنے کی اس کے دل میں تڑپ ہو تو اسے چاہئے کہ گڑ گڑا کر اور بہت زور لگا کر وہ اس رنگ میں دعا کرے کہ اے خدا اگر تو ہے اور جس طرح تیرے ماننے والے کہتے ہیں تو غیر محدود طاقتوں والا ہے تو مجھ پر رحم کر اور مجھے اپنی طرف ہدایت کر اور میرے دل میں بھی یقین اور ایمان ڈال دے تاکہ میں محروم نہ رہ جاؤں اگر اس طرح بچے دل سے کوئی شخص دعا کرے گا اور کم سے کم چالیس دن تک اس پر عمل کرے گا تو خواہ اس کی پیدائش کسی مذہب میں ہوئی ہو اور وہ کسی ملک کا باشندہ ہو رب العالمین اس کو ضرور ہدایت کرے گا اور وہ جلد دیکھ لے گا کہ اللہ تعالیٰ ایسے رنگ میں اس پر اپنا وجود ثابت کر دے گا کہ اس کے دل سے شک وشبہ کی نجاست بالکل دور ہو جائے گی.اور یہ تو ظاہر ہے کہ اس طریق فیصلہ میں کسی قسم کا دھوکہ نہیں ہوسکتا پس سچائی کے طالبوں کے لئے اس پر عمل کرنا کیا مشکل ہے؟ فی الحال ان دس دلائل پر ہی میں اپنا مضمون ختم کرتا ہوں اور گو قرآن شریف میں اور دلائل بھی ہیں لیکن میں سر دست انہیں پر اکتفا کرتا ہوں اگر کوئی اس پر غور کرے گا تو انہیں دلائل میں سے اس کے لئے اور دلائل بھی نکل آئیں گے وَاللهُ الْمُسْتَعَانُ.آخر میں ان احباب سے جن کے ہاتھ میں یہ پمفلٹ پہنچے استدعا کرتا ہوں کہ اسے پڑھنے کے بعد کسی اور ایسے دوست کو دے دیں جس کے لئے اسے مفید سمجھیں.تشحیذ الا ذبان مارچ ۱۹۱۳ ء ) بحواله (انوار العلوم جلد ۱ صفحه ۴۱۱)

Page 30