Language: UR
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعدد الہامات اور رویاء وکشوف میں ہجرت کا اشارہ موجود ہے۔ 8ستمبر 1894ء کو آپ ؑ کو الہام ہوا: ’’داغ ہجرت‘‘ مشیئت ایزدی سے یہ خبر آپ ؑ کے متبع کامل اور پسر موعود حضرت مصلح موعود ؓ کے دورخلافت میں پوری ہوئی جب 1947ء میں جماعت احمدیہ نے اپنے دائمی اور محبوب مرکز سے ہجرت کرکے ربوہ پاکستان میں نیا مرکز بسایا۔ ایک طویل دور درویشی اور 44 سال کی لمبی جدائی کے بعد 19 دسمبر 1991ء کے تاریخی دن حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ قادیان میں الٰہی تائید و نصرت کے ساتھ وارد ہوئے۔ اور قادیان میں ایک نئے تاریخی دور کا آغاز ہوا۔ اس تاریخ ساز دورہ قادیان 1991ء کی روئیداد اور حضرت خلیفہ المسیح الرابع ؒ کے اس تاریخی سفر کی گوناں گوں مصروفیات کو مرتب کتاب ہذا نے محنت شاقہ سے مرتب کیا ، جو اس موقع پر بطور ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن قافلہ کا حصہ تھے۔ دورہ کا پس منظر، روئیداد، صدسالہ جلسہ تشکر، اس کے انتظامات و کوائف کے علاوہ اس کتاب میں حضور ؒ کے 6 خطبات جمعہ کے مکمل متن بھی شامل ہیں جو تاریخی دورہ قادیان اور اس کے ثمرات پر تاریخی دستاویز ہیں۔ نیز نومبر 2011ء میں طبع ہونے الی اس کتاب میں سفر قادیان کی نادر و نایاب تصاویر بھی شامل ہیں۔
دوره قادیان ۱۹۹۱ء حضرت احمد حضرت مزالامر سر خلیفه ای دارابی رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى اسح مرتبہ : ہادی علی چوہدری
دوره قادمان ۱۹۹۱ء الرابع حضرت مرزاعالم اور خلیفه ای داربی رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى دوره قادیان ۱۹۹۱ء
نام کتاب مرتبہ اشاعت دوره قادیان ۱۹۹۱ء حضرت خلیفہ المسح الرائع مکرم ہادی علی چوہدری صاحب طبع اول نومبر ۲۰۱۱ء
نمبر شمار 1 فہرست مضامین عناوین " باب اول مدعائے حق تعالی 2 حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ایک رؤیا 3 4 50 7 8 باب دوم داغ ہجرت قادیان سے ہجرت کے حالات کا مختصر خاکہ باب سوم ”امن اور برکت امن اور برکت کا ماحول.تاثرات وخطوط وو باب چہارم راضی خوشی آئے.خیر و عافیت سے آئے“ ’مدعائے قادیان، نقد مرالہی کے رنگ 9 حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی لندن سے روانگی 10 دہلی میں آمد و استقبال 11 سکندریہ، فتح پور سکری اور آگرہ کی سیر له 2 3 21 24 22 22 30 335 33 35 38 12 تغلق آباد، قطب مینار کی سیر اور حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کئی کے مزار پر دعا 40 13 دہلی سے قادیان کیلئے روانگی 14 | قادیان میں درودِ مسعود 15 اپنا گھر اور گھر یلونگر 42 47 52 16 حضور رحمہ اللہ کی حضرت اقدس مسیح الموعود کے مزار پر حاضری اور کو چہ ہائے قادیان کی سیر | 53
17 خطبه جمعه فرموده ۲۰ / دسمبر ۱۹۹۱ء 18 حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں استقبالیہ 1 معائنہ انتظامات جلسہ سالانہ اور کارکنان جلسہ سے خطاب 55 52 72 80 20 حضرت آصفہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کی دھلی سے قادیان آمد 83 21 تاریخی صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ مختصر رپورٹ 22 | ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء اور وقف جدید کے سال نو کا اعلان نمایاں پوزیشن لینے والے طلبہ وطالبات میں سندات و تمغہ جات کی تقسیم 23 24 وزیر اعظم کینیڈا کا پیغام 25 صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دیدار 26 درویشان قادیان اور اسیران راہ مولیٰ کیلئے دعا کی تحریک 27 مجلس مشاورت بھارت کا انعقاد 28 خطبه جمعه فرموده ۳/جنوری ۱۹۹۲ء 29 قادیان سے دہلی کیلئے روانگی 89 94 102 104 105 106 108 116 132 136 30 حضرت بیگم صاحبہ کی واپس لندن روانگی ۱۰ جنوری کو حضور کی قادیان واپسی 31 خطبه جمعه فرموده ۰ ارجنوری ۱۹۹۲ء ( Friday the 10th) مسجد اقصی قادیان | 139 32 را جپورہ، پھیر و پیچی کا سفر درویشان قادیان کے ساتھ گروپ فوٹو 34 لالہ ملا وامل اور لالہ بڈھا مل کے خاندان کے افراد کی ملاقات 35 قادیان سے واپسی 153 156 157 159 36 Friday the 10th اسیران را همولی (سکھر ) کی اعجازی رہائی کا نشان 162 37 روانگی برائے لندن 38 خطبه جمعه فرموده ۱۷ / جنوری ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن 167 170
39 خطبه جمعه فرموده ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن / باب پنجم " رنگ ہائے قادیان" 40 193 41 جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۰ء کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا خصوصی پیغام 213 42 کمیٹی صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء 43 نقشہ کمیٹی فرائض کارکنان 44 مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے بارہ میں تحقیق 45 زیارت مقدس چولہ، حضرت با وانا تک رحمۃ اللہ علیہ 216 228 233 237 46 حضور رحمہ اللہ کے ہاتھ پر ۲۸ دسمبر ۱۹۹۱ء کو جلسہ گاہ میں بیعت کنندگان کی فہرست 240 47 48 نکاحوں کا اعلان 48 مسجد اقصیٰ قادیان میں تہجد پڑھانے اور درس دینے والے احباب کی فہرست 49 تفصیل انتظامات استقبال والوداع لاہور 50 پروگرام جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء 51 باب جم "صدائے قادیان“ 52 ہجرت ایک تاریخی سفر کا حال از ڈاکٹر عبدالکریم خالد صاحب 53 | حرف آخر 241 241 242 249 261 266
1 الهام حضرت مسیح موعود علیہ السلام انَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَآدُكَ إِلَى مَعَادٍ الہام حضرت مسیح موعود ال ( تذکره صفحه ۲۵۶) یعنی وہ قادر خدا جس نے تیرے پر قرآن فرض کیا پھر تجھے واپس لائے گا.
2 باب اول مدعائے حق تعالیٰ ہے رضائے ذات باری اب رضائے قادیان مدعائے حق تعالی مدعائے قادیان ایک الہی اشارہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کے ہمراہ سکندرہ ، فتح پور سیکری اور آگرہ کے سفر ۱۹۹۱ء کے دوران مکرم صاحبزادہ مرزا لقمان احمد صاحب نے خاکسار کو بتایا کہ حضور کی ایک پرانی رؤیا ہے جس میں آپ نے مسجد مبارک ربوہ میں مختلف انبیاء علیہم السلام کو دیکھا تھا.اسی رویا میں قادیان واپسی کا ذکر بھی تھا.حضور انور جب سفر قادیان سے واپس لندن تشریف لائے تو خاکسار نے آپ سے اس رویا کے بارہ میں ذکر کیا اور اسے قلمبند کر لینے کی درخواست کی.آپ نے از راہ شفقت اس عاجز کی درخواست کو قبول فرمایا اور یہ رویا بیان فرمائی.خاکسار نے حضورانور ہی کے الفاظ میں اسے قلم بند کیا.اس پر آپ نے اپنے قلم مبارک سے تصدیق بھی فرمائی.اس رؤیا کے تناظر میں جہاں آپ کے سفر قادیان کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے وہاں زیر نظر کتاب میں اسے کلیدی حیثیت حاصل ہے.یہ رویا آپ نے مسند خلافت پر جلوہ افروز ہونے سے کافی عرصہ پہلے دیکھی تھی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ” میں نے دیکھا کہ میں مسجد مبارک ربوہ میں جاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ وہاں ایک بہت بڑی تقریب ہو رہی ہے جس میں تمام انبیاء علیہم السلام شامل ہیں.مجھے طبعی طور پر آنحضرت ﷺ کی تلاش ہوتی ہے کہ ایسی عظیم الشان تقریب جس میں تمام انبیاء جمع ہیں تو اس میں آنحضرت مے بھی ضرور ہوں گے.چنانچہ میرے دل میں طبعی خواہش ہے کہ میں آپ کو دیکھوں مگر مجھے بتایا جاتا ہے
3 کہ اس دور میں آنحضرت نتالیہ کی نمائندگی حضرت مسیح موعود ال کر رہے ہیں ، اس لئے آنحضرت ہ تشریف نہیں لائے.وہاں میں حیران ہوں کہ جماعت میں سے مجھے کیوں نمائندگی ملی ہے اور میرے علاوہ اور کسی کو نہیں ملی.پس میں حضرت مسیح موعود کو تلاش کرنے لگتا ہوں اور ان انبیاء سے بھی ملتا ہوں.یہ ایک بے حد خوشی کا ماحول ہے اور اس مجلس میں ایک عجیب شانِ دلربائی ہے کہ جو دنیا میں کہیں اور دکھائی نہیں دیتی.سارے انبیاء ایک دوسرے سے مل رہے ہیں.جیسے خوشی کی تقریب میں ایک دوسرے سے ملا جاتا ہے.میں حضرت مسیح موعود ال کو تلاش کرتا ہوں اور کوئی سوال کرنا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود ا مجھے مسجد مبارک کے مشرقی برآمدے کے بیرونی در کے قریب مل جاتے ہیں اور یہ محسوس کر کے کہ میں سوال کرنا چاہتا ہوں.آپ مشرقی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے ہیں جس طرح نماز کے بعد امام مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتا ہے اور ہم حلقہ کی صورت میں سب حاضرین بیٹھ جاتے ہیں.مسجد میں چونکہ انبیاء علیہم السلام ہی پھر رہے تھے اس لئے جو بھی حضرت مسیح موعود اللہ کے ارد گرد بیٹھے ہیں وہ غالباً ان انبیاء علیہم السلام میں سے ہی ہیں.حضرت مسیح موعود اللہ وہاں تشریف فرما ہیں تو میں عرض کرتا ہوں کہ آپ سے خاص طور پر ایک سوال کرنے کے لئے آپ کو تلاش کر رہا تھا.اور وہ سوال یہ ہے کہ قادیان واپسی کب ہوگی؟ تو حضرت مسیح موعود اللہ بڑے لطف کے ساتھ جبکہ آپ کے چہرے پر خاص التفات کے آثار ہیں فرماتے ہیں کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے اسی کی تیاری کے لئے تو ہے اور یہ سب انبیاء اسی لئے تو جمع ہیں.اور اسی پر یہ رویا ختم ہوگئی.تحریر کنندہ:.خاکسار ہادی علی مورخہ ۲۴ را پریل ۱۹۹۲ء
4 اس رویا میں ان.اس وقت حضرت خلیفہ امسیح الرابع کو جماعت کی نمائندگی کا ملنا، جماعت کی امامہ یعنی ردائے خلافت آپ کو عطا ہونے کی طرف واضح اشارہ تھا.۲:.اس مجلس میں مختلف انبیاء علیہم السلام کا جمع ہونا اور حضرت مسیح موعود اللﷺ کے جلو میں آنا آپ کا واذَا الرُّسُلُ أقتْ ) اور جب سب رسول اپنے وقت مقررہ پر لائے جائیں گے ) اور حَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلل الانبياء ( خدا تعالیٰ کا پہلوان سب انبیاء کے لباس میں ) کا مصداق ہونے کی طرف اشارہ تھا.:.حضرت مسیح موعود کا مشرقی جانب رخ کرنا ، پیشگوئیوں کے مطابق مسیح کے مشرقی جانب سے نزول کی نشاندہی کے طور پر تھا.۴.حضرت مسیح موعود اللہ کا امام کے طور پر اس طرح بیٹھنا کہ سب انبیاء علیہم السلام آپ کے اردگرد مقتدیوں کی طرح بیٹھے ہوئے تھے، اس اظہار کے لئے تھا کہ سب انبیاء کی امتیں آپ کی بیعت میں داخل ہونگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فر مایا ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی.“ (تجلیات الہیہ ) ۵:.دورِ خلافت رابعہ میں جہاں مختلف انبیاء علیہم السلام کی قوموں میں سے لوگوں کے احمدیت کی طرف رجوع کرنے کی پیشگوئی کا علم ہوتا ہے وہاں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مختلف قومیں قادیان میں واپسی کے واقعہ میں بھی شامل ہونگی.چنانچہ عرب و عجم کی بیسیوں اقوام کے لوگوں نے اس صد سالہ جلسہ قادیان میں شمولیت اختیار کی.:.الغرض اس رویا میں یہ پیشگوئی بالکل واضح تھی کہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمدرحمہ اللہ کے دور خلافت میں قادیان میں خلیفتہ اسیح کا ورود ممکن ہوگا اور امن وسلامتی اور خیر وعافیت کے ماحول میں ہوگا.سوالحمد للہ ثم الحمد للہ کہ حضور کی اس مبارک اور جامع رؤیا میں مضمر پیشگوئیاں اپنی تمام جزئیات کے ساتھ پوری ہوئیں اور تاریخ عالم میں ایک ہی بار رونما ہونے والا واقعہ یعنی خلیفہ مسیح کا قادیان سے ہجرت اور تقسیم ملک کے بعد قادیان واپسی کا پہلا سفر ظہور میں آیا.خاکسار ہادی علی چوہدری
LO 5 باب دوم 66 ” داغِ ہجرت " الہام حضرت مسیح موعود ال ( تذکره صفحه: ۶۵۶) وصل کے عادی سے گھڑیاں ہجر کی کٹتی نہیں بار فرقت آپ کا کیونکر اٹھائے قادیان ( در عدن صفحه : ۶) قادیان سے ہجرت کے حالات کا مختصر خاکہ ۱۹۴۷ء میں جب ب تقسیم ہند ہوئی اور پاکستان معرض وجود میں آگیا تو ضلع گورداسپور ، جس میں قادیان واقع ہے ، ہندوستان میں شامل کر دیا گیا.لہذا اس علاقے سے مسلمانوں کا انخلاء شروع ہو گیا.اس انخلاء کے دوران مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ ٹوٹ پڑے.املاک کٹیں ، جانیں تلف ہوئیں ، گھر اجڑ گئے ، بہن بھائی ، ماں باپ اور بچے ایک دوسرے سے بچھڑ گئے، خاندان برباد ہو گئے ، حتی کہ ہجرت کرنے والے بہت سے قافلے اس وقت کی بربریت کا شکار ہوکر صفحہ ہستی سے مٹ گئے.اس وقت قادیان کی چھوٹی سی بستی ظلم وسفا کی کے اس طوفان میں امن کے ایک جزیرے کی حیثیت رکھتی تھی.لیکن رفتہ رفتہ اس طوفان کی شوریدہ لہریں اس جزیرے سے بھی ٹکرانے لگیں.یہاں تک کہ وہ وقت آگیا کہ حضرت مسیح موعود اس کے الہامات کے مطابق قادیان سے ہجرت ضروری ہو گئی.چنانچہ جن اسباب و حالات کی بناء پر ہجرت کرنا پڑی اُن کا اندازہ درج ذیل تاریخی ریکارڈ
6 سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے.۲۳ را گست ۱۹۴۷ء کو قادیان سے شمالی جانب احمدی گاؤں فیض اللہ چک پر حملہ ہوا جس کے بارہ میں حضرت مصلح موعودہ ﷺ نے مکرم شیخ بشیر احمد صاحب کے نام حسب ذیل خط تحریر فرمایا: مکرمی شیخ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کل رات سے فیض اللہ چک احمدی گاؤں پر حملہ ہوا.دودفعہ وہ لوگ پسپا ہوئے.مگر پھر پولیس کی مدد سے جو جب بھی فیض اللہ چک کو غلبہ ملتا سکھوں کی مدد کرتی.آخر گل قصبہ تباہ ہوا.بہت سے آدمی مارے گئے.دوہزار پناہ گزین قادیان رات کو آیا ہے.اس وقت قادیان کی حالت بالکل بے بسی کی ہے کیونکہ ملٹری اور پولیس کا رویہ خطرناک ہو رہا ہے گو ظاہر انہیں.اس وقت پیرا حسن الدین پر زور دیں کہ ایک ریفیوجی سنٹر قادیان بھی گھلوادیں.جہاں چھ ہزار سے زائد پناہ گزین ہو چکا ہے اور اور لوگ آرہے ہیں.اس طرح یہاں مسلمان ملٹری اور ایک مسلمان افسر رہ سکے گا.جبکہ گورنمنٹ خود مخالفت کر رہی ہے میں سوچ رہا ہوں کہ آیا مقامات سے زیادہ آدمیوں کی حفاظت کی ضرورت نہیں.حضرت صاحب کا ایک الہام بھی ہے کہ يَأْتِي عَلَيْكَ زَمَنْ كَمِثْلِ زَمَنِ مُوسیٰ یعنی موسیٰ کی طرح تجھ پر بھی ایک زمانہ آنے والا ہے.سوممکن ہے عارضی ہجرت اس سے مراد ہو.لیکن اب تک تو کنوائے ہی نہیں آیا.حالانکہ کل اطلاع آئی تھی کہ آرہا ہے بٹالہ سے ہزاروں کی تعداد میں عورتیں بچے نکالے جارہے ہیں.پیراحسن الدین صاحب کو کہہ کر کنوائیز کا انتظام کروادیں تو قادیان سے بھی عورتوں بچوں کو نکلوا دیا جائے مگر نارووال کی طرف.“ ( تاریخ احمدیت جلد نمبر ، صفحہ: ۷۲۹،۷۲۸ ) حضرت مصلح موعود ﷺ کے خط سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قادیان دارالامان میں بھی حالات لحظه به لحظہ تشویشناک ہورہے تھے اور صاف نظر آرہا تھا کہ عنقریب قادیان پر حملہ کرنے کا معتم
7 ارادہ ہو چکا ہے.اس پر حضرت مسیح موعود ﷺ نے صحابہ سے مشورہ کے بعد فیصلہ فرمایا کہ خواتین مصلح مبارکہ کو جلد سے جلد قادیان سے پاکستان پہنچانے کا انتظام کیا جائے.چنانچہ ۲۵ رظہور ر ا گست کو یہ انتظام ہو گیا اور حضرت ام المومنین اور دوسری خواتین مبارکه (باستثناء حضرت سیدہ ام متین صاحبه و حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ ) لاہور تشریف لے آئیں.( تاریخ احمدیت جلد نمبر، صفحہ ۷۳۰۷۲۹ ) حالات کی سنگینی اور غیر معمولی خطرات کے پیش نظر امام جماعت احمد یہ حضرت مصلح موعود ﷺ نے بیرونی جماعتوں کے نام خصوصی دعاؤں ، صدقات اور روزوں کے بارہ میں ایک پیغام بھجوایا.پھر دوسرا پیغام ۳۰ رظهور را گست ۳۲۶اهش ۱۹۴۷ء کو بھجوایا جس میں آپ نے تحریر فرمایا: اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمَ خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر جماعت کو ہدایات جو فو ر اً شائع کر دی جائیں.باوجود بار بار زور دینے کے لاہور کی جماعت نے کنوائے نہیں بھجوائے جس کی وجہ سے قادیان کا بوجھ حد سے زیادہ ہو گیا.اگر کنوائے آتے تو شاید میں بھی چلا جاتا اور جب مسٹر جناح اور پنڈت جی آئے تھے.اُن سے کوئی مشورہ کرتا....ا.اگر قادیان میں کوئی حادثہ ہو جائے تو پہلا فرض جماعت کا یہ ہے کہ شیخو پورہ یا سیالکوٹ میں ریل کے قریب لیکن نہایت سستی زمین لے کر ایک مرکزی گاؤں بسائے مگر قادیان والی غلطی نہیں کہ کوٹھیوں پر زور ہو.سادہ عمارات ہوں.فوراً ہی کالج اور سکول اور مدرسہ احمدیہ اور جامعہ کی تعلیم کو جاری کیا جائے.دینیات کی تعلیم اور اس پر عمل کرنے پر ہمیشہ زور ہو.علماء بڑے سے بڑے پیدا کرتے رہنے کی کوشش کی جائے.۲ تبلیغ کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے.وقف کے اصول پر جلد سے
8 جلد کافی مبلغ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.۳.اگر میں مارا جاؤں یا اور کسی طرح جماعت سے الگ ہو جاؤں تو پہلی صورت میں فوراً خلیفہ کا انتخاب ہوا اور دوسری صورت میں ایک نائب خلیفہ کا.۴.جماعت با وجود ان تلخ تجربات کے شورش اور قانون شکنی سے بچتی رہے اور اپنی نیک نامی کے ورثہ کو ضائع نہ کرے.۵.ہمارے کاموں میں ایک حد تک مغربیت کا اثر آ گیا تھا یعنی محکمانہ کارروائی زیادہ ہوگئی تھی.اسے چھوڑ کر سادگی کو اپنانا چاہئے اور تصوف اور سادہ زندگی اور نماز وروزہ کی طرف توجہ اور دعاؤں کا شغف جماعت میں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.۶ - قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر انگریزی و اردو جلد جلد شائع ہوں.میں نے اپنے مختصر نوٹ بھجوا دیئے ہیں.اس وقت تک جو تر جمہ ہو چکا ہے اس کی مدد سے اور تیار کیا جاسکتا ہے.ترجمہ کرنے والا دُعا ئیں بہت کرے.ے.ان مصائب کی وجہ سے خدا تعالیٰ پر بدظنی نہ کرنا.اللہ تعالیٰ جماعت کو کبھی ضائع نہ کرے گا پہلے نبیوں کو بڑی بڑی تکالیف پہنچ چکی ہیں.عزت وہی ہے جو خدا اور بندے کے تعلق سے پیدا ہوتی ہے.مادی اشیاء سب فانی ہیں خواہ وہ کتنی ہی بزرگ یا قیمتی ہوں.ہاں خدا تعالیٰ کا فضل مانگتے رہو شاید کہ وہ یہ پیالہ ٹلا دے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد ۴۷-۸-۲۰ اگست کے آخر میں قادیان اور اس کے ماحول کی کیا کیفیت تھی اس کی تفصیل قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ﷺ کے ایک مکتوب کے درج ذیل اقتباسات سے با آسانی معلوم ہوسکتی ہے جو آپ نے حضرت مصلح موعود ﷺ کے ارشاد پر حضرت چوہدری فتح محمد سیال کے نام ۳۰ را گست ۱۹۴۷ء کو تحریر فرمایا.آپ نے لکھا:.
9 قادیان میں اس وقت سات آٹھ ہزار پناہ گزین ہے جواردگرد کے مسلمان دیہاتوں سے بے خانماں ہو کر یہاں بیٹھا ہوا ہے.اس کے لئے نہ تو حکومت کی طرف سے پناہ گزینوں کا کیمپ ہے اور نہ ان پناہ گزینوں کو دوسرے علاقہ میں منتقل کرنے کا کوئی انتظام موجود ہے.اس کے علاوہ خود قادیان کی رہنے والی ہزاروں مستورات اور بچے ایسے ہیں جنہیں خطرے کے وقت میں دوسری جگہ منتقل کرنا ضروری ہے.پس اس تعلق میں دوستم کے انتظامات فوری طور پر درکار ہیں.اوّل پناہ گزینوں کے کیمپ کا قیام.دوسرے قادیان سے عورتوں اور بچوں اور پناہ گزینوں کو لاہور یا سیالکوٹ منتقل کرنے کا انتظام.قادیان میں ایک عرصہ سے ریل اور تار بند ہے اور ٹیلیفون گو چند دن بند رہنے کے بعد اب کھلا ہے مگر عملاً اس کا لٹیشن نہیں ملتا اور چونکہ سٹرک کا راستہ مسافروں کے لئے بغیر انتظام کے خطرناک ہے.اس لئے ہمارا مرکز ایک عرصہ سے باہر کے علاقہ سے بالکل کٹا ہوا ہے اور ڈاک اور اخبارات کا سلسلہ بالکل بند ہے.ضروری ہے کہ پبلک میں اعتماد پیدا کرنے کے لئے ریل اور تار کو جلد تیر کھول دیا جائے اور ٹیلیفون کے رستہ میں جو عملی روکیں ہیں کہ امرتسر کا ایکسچینج کنیکشن نہیں دیتا اُسے دُور کیا جائے.ہمارے پاس دو جہاز تھے جن سے ہم اپنی ڈاک و تاریں لاہور بھجواتے تھے اور لاہور سے اپنی ڈاک اور تاریں منگوا لیتے تھے یا دوائیاں اور دیگر ضروریات زندگی لاہور سے منگوا لیتے تھے.یاکسی سواری کو کسی کام پر لاہور بھجوانا ہو تو اُسے بھجوا دیتے تھے.مگر چند دن سے مقامی افسروں نے ہمارے جہازوں پر بھی پابندی لگا دی ہے اور اب وہ لاہور میں بند پڑے ہیں.ہمیں یہ بھی دھمکی دی جارہی ہے کہ قادیان میں جو جائز لائسینس والا اسلحہ ہے، اسے ضبط کر لیا جائیگا.
10 قادیان میں رسد ختم ہورہی ہے اور ہمیں پناہ گزینوں اور مقامی آبادی کو رسد پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہورہا ہے.اس کے لئے بھی مناسب انتظام ہونا چاہئے.جن میں سے ایک یہ ہے کہ کم از کم پناہ گزینوں کے لئے حکومت جنس مہیا کرے.چونکہ سارے انتظامات کے باوجود ایک حصہ آبادی کو قادیان سے لاہور، سیالکوٹ کی طرف منتقل کرنا ہو گا اس لئے کافی تعداد میں اور تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد کنوائے کا انتظام ہونا چاہئے جس کے ساتھ مسلح گارڈ ہوں جس میں کافی حصہ بلکہ موجودہ حالات میں سالم حصّہ مسلمانوں کا ہو.اس کنوائے کے ذریعہ قادیان کی عورتوں اور بچوں اور کمزور بیمار مردوں کے علاوہ پناہ گزینوں کو بھی باہر نکالنے کا انتظام ہوگا.تاریخ احمدیت جلد ۱۰ صفحه: ۷۳۹،۷۳۸) اسی روز یعنی ۳۰ را گست کو مشورہ کے بعد حضرت مصلح موعود اللہ نے قیام امن کی اغراض کے لئے لاہور جانے کا پروگرام بنایا اور رات کو قادیان اور ضلع گورداسپور کی جماعتوں کے نام حسب ذیل الوداعی پیغام لکھا اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کو قادیان میں اپنے پیچھے امیر مقامی مقرر کرتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ آپ کے قادیان سے روانہ ہونے کے بعد یہ پیغام جماعت تک پہنچا دیا جائے.چنانچہ حسب ہدایت امیر مقامی حضرت مرزا بشیر احمد نے اس کی نقلیں کروا کے مغرب اور عشاء کی نمازوں میں قادیان کی تمام احمدی مساجد میں بھجوا دیں جو پڑھ کر سنادی گئیں.پیغام یہ تھا: أعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمَ میں مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ امسیح الثانی تمام پریذیڈشان انجمن احمد یہ قادیان و محلہ جات و دیہات ملحقہ قادیان و دیہات تحصیل بٹالہ وتحصیل گورداسپور کو اطلاع دیتا ہوں کہ متعدد دوستوں کے متواتر اصرار اور لمبے غور کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قیام امن کے اغراض کے لئے مجھے چند دن
11 کے لئے لاہور ضرور جانا چاہئے.کیونکہ قادیان سے بیرونی دنیا کے تعلقات منقطع ہیں اور ہم ہندوستان کی حکومت سے کوئی بھی بات نہیں کر سکے حالانکہ ہمارا معاملہ اس سے ہے لیکن لاہور اور دہلی کے تعلقات ہیں.تار اور فون بھی جا سکتا ہے.ریل بھی جاتی ہے اور ہوائی جہاز بھی جاسکتا ہے.میں مان نہیں سکتا کہ اگر ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال صاحب پر یہ امر کھولا جائے کہ ہماری جماعت مذہباً حکومت کی وفادار جماعت ہے تو وہ ایسا انتظام نہ کریں کہ ہماری جماعت اور دوسرے لوگوں کی جو ہمارے اردگر درہتے ہیں حفاظت نہ کی جائے.جہاں تک مجھے معلوم ہے.بعض لوگ حکام پر یہ اثر ڈال رہے ہیں کہ مسلمان جو ہندوستان میں آئے ہیں ہندوستان سے دشمنی رکھتے ہیں حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ انہیں اپنے جذبات کے اظہار کا موقع ہی نہیں دیا گیا.ادھر اعلان ہوا اور ادھر فساد شروع ہو گیا.ورنہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ مسلمان مسٹر جناح کو اپنا سیاسی لیڈر تسلیم کرنے کے باوجود ان کے اس مشورہ کے خلاف جاتے کہ اب جو مسلمان ہندوستان میں رہ گئے ہیں انہیں ہندوستان کا وفادار رہنا چاہئے.غرض ساری غلط فہمی اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ یکدم فسادات ہو گئے اور صوبائی حکام اور ہندوستان کے حکام پر حقیقت نہیں کھلی.ان حالات میں میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی جگہ جانا چاہئے جہاں سے دہلی وشملہ سے تعلقات آسانی سے قائم کئے جاسکیں.اور ہندوستان کے وزراء اور مشرقی پنجاب کے وزراء پر اچھی طرح سب معاملہ کھولا جاسکے.اگر ایسا ہو گیا تو وہ زور سے ان فسادات کو دُور کرنے کی کوشش کریں گے.اسی طرح لاہور میں سکھ لیڈروں سے بھی بات چیت ہوسکتی ہے جہاں وہ ضرورتا آتے جاتے رہتے ہیں اور اس سے بھی فساد دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے.ان امور کو مد نظر رکھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں چند دن کے لئے لاہور جا کر کوشش کروں.شاید اللہ تعالیٰ میری کوششوں میں برکت ڈالے اور یہ شور وشتر جو اس وقت پیدا ہو رہا ہے دُور ہو جائے.میں نے اس امر کے مد نظر
12 آپ لوگوں سے پوچھا تھا کہ ایسے وقت میں اگر میرا جانا عارضی طور پر زیادہ مفید ہو تو اس کا فیصلہ آپ لوگوں نے کرنا ہے یا میں نے.اگر آپ نے کرنا ہے تو پھر آپ لوگ حکم دیں تو میں اسے مانوں گا لیکن میں ذمہ داری سے سبکدوش ہوں گا اور اگر فیصلہ میرے اختیار میں ہے تو پھر آپ کو حق نہ ہوگا کہ چون و چرا کریں.اس پر آپ سب لوگوں نے لکھا کہ فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے.سو میں نے چند دن کے لئے اپنی سکیم کے مطابق کوشش کرنے کا فیصلہ کیا ہے.آپ لوگ دعائیں کرتے رہیں اور حوصلہ نہ ہاریں.دیکھو مسیح کے حواری کتنے کمزور تھے مگر مسیح انہیں چھوڑ کر کشمیر کی طرف چلا گیا اور مسیحیوں پر اس قدر مصائب آئے کہ تم پر ان دنوں میں اس کا دسواں حصہ بھی نہیں آئے.لیکن انہوں نے ہمت اور بشاشت سے ان کو برداشت کیا.ان کی جدائی تو دائمی تھی مگر تمہاری جدائی تو عارضی ہے اور خود تمہارے اور سلسلہ کے کام کے لئے ہے.مبارک وہ جو بدظنی سے بچتا ہے اور ایمان پر سے اس کا قدم لڑکھڑاتا نہیں.وہی جو آخر تک صبر کرتا ہے.خدا تعالیٰ کا انعام پاتا ہے.پس صبر کرو اور اپنی عمر کے آخری سانس تک خدا تعالیٰ کے وفادار رہو.اور ثابت قدمی اور نرمی اور عقل اور سوجھ بوجھ اور اتحاد واطاعت کا ایسا نمونہ دکھاؤ کہ دُنیا عش عش کر اُٹھے.جو تم میں سے مصائب سے بھاگے گا وہ یقیناً دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوگا.اور خدا تعالیٰ کی لعنت کا مستحق تم نے نشان پر نشان دیکھے ہیں اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا منور جلوہ دیکھا ہے اور تمہارا دل دوسروں سے زیادہ بہادر ہونا چاہئے.میرے سب لڑکے اور داماد اور دونوں بھائی اور بھتیجے قادیان میں ہی رہیں گے اور میں اپنی غیر حاضری کے ایام میں عزیز مرزا بشیر احمد صاحب کو اپنا قائمقام ضلع گورداسپور اور قادیان کے لئے مقرر کرتا ہوں.ان کی فرماں برداری اور اطاعت کرو اور ان کے ہر حکم پر اس طرح قربانی کرو جس طرح محمد رسول اللہ علیہ نے فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں من أطَاعَ أَمِيْرِى فَقَدْ أَطَاعَنِيْ وَمَنْ عَصَى أَمِيْرِي فَقَدْ عَصَانِی یعنی جس نے
13 میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.پس جو اُن کی اطاعت کرے گا وہ میری اطاعت کرے گا اور جو حضرت مسیح موعود ال کی اطاعت کرے گا وہ رسول کریم ہی کی اطاعت کرے گا اور وہی مومن کہلا سکتا ہے دوسرا نہیں.اے عزیز و! احمدیت کی آزمائش کا وقت اب آئے گا اور اب معلوم ہوگا کہ سچا مومن کونسا ہے.پس اپنے ایمانوں کا ایسا نمونہ دکھاؤ کہ پہلی قوموں کی گردنیں تمہارے سامنے جھک جائیں اور آئندہ نسلیں تم پر فخر کریں.شاید مجھے تنظیم کی غرض سے کچھ اور آدمی قادیان سے باہر بھجوانے پڑیں مگر وہ میرے خاندان میں سے نہ ہوں گے بلکہ علماء سے ہوں گے.اس سے پہلے بھی میں کچھ علماء باہر بھجوا چکا ہوں.تم اُن پر بنتی نہ کرو.وہ بھی تمہاری طرح اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں لیکن خلیفہ وقت کا حکم انہیں مجبور کر کے لے گیا.پس وہ ثواب میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں اور قربانی میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں.ہاں وہ لوگ جو آنوں بہانوں سے اجازت لے کر بھاگنا چاہتے ہیں وہ یقیناً کمزور ہیں.خدا تعالیٰ اُن کے گناہ بخشے اور سچے ایمان کی حالت میں جان دینے کی توفیق دے.اے عزیز و! اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہر وقت تمہارے ساتھ رہے اور مجھے جب تک زندہ ہوں سچے طور پر اور اخلاص سے تمہاری خدمت کی توفیق بخشے اور تم کو مومنوں والے اخلاص اور بہادری سے میری رفاقت کی توفیق بخشے.خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور آسمان کی آنکھ تم میں سے ہر مرد ہر عورت اور ہر بچہ کو سچا مخلص دیکھے اور خدا تعالیٰ میری اولاد کو بھی اخلاص اور بہادری سے سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے.والسلام خاکسار مرزا محموداحمد خلیفة المسیح 30/08/47 ( الفضل 18 /حسان / جون 1327 ہش.1948ء صفحہ:3)
14 اگلے روز (31 ظہور راگست 1326 ہش.1947 ء) کو حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے روانگی سے قبل اپنے لخت جگر صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منوراحمد صاحب کو قصر خلافت کا بالائی کمرہ سپر دفر مایا اور انہیں اپنے بعد اس میں قیام پذیر ہونے کی ہدایت فرمائی.ازاں بعد حضور کیپٹن ملک عطاء اللہ صاحب آف دوالمیال کی ایسکورٹ (Escort) میں قریباً ایک بجے احمد یہ چوک قادیان میں موٹر میں سوار ہوئے اور پھر سوا ایک بجے کوٹھی دار السلام قادیان میں پہنچے جہاں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ، صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اور نوابزادہ میاں عباس احمد خاں ( جو حضور کے ساتھ ہی کوٹھی دار السلام میں آئے تھے اور ان کے علاوہ خاندان مسیح موعود ال کے بعض اور افراد نے حضور کو الوداع کہا اور آپ یہاں سے بذریعہ موٹر روانہ ہو کر ساڑھے چار بجے کے قریب شیخ بشیر احمد صاحب امیر مقامی جماعت احمدیہ لاہور کے مکان پر بخیر و عافیت پہنچ گئے.اس تاریخی سفر میں حضرت سیدہ ام متین صاحبہ اور حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ ( حرم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ) بھی حضور کے ہمراہ تھیں.حضرت مسیح موعود کی ہجرت سے متعلق ایک اہم پیشگوئی کا شاندار ظہور لمصله حضرت سیدنا فضل عمر خلیفہ امسیح الثانی المصلح الموعود ﷺ کی ہجرت پاکستان سے حضرت مسیح موعود کی ۸۶-۱۸۸۵ء کی ایک خواب پوری ہوئی جس میں حضور ﷺ پر انکشاف کیا گیا تھا کہ آپ خود یا آپ کا کوئی خلیفہ ہجرت کرے گا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص میرا نام لکھ رہا ہے تو آدھا نام اس نے عربی میں لکھا ہے اور آدھا انگریزی میں لکھا ہے.انبیاء کے ساتھ ہجرت بھی ہے لیکن بعض رویا نبی کے اپنے زمانہ میں پورے ہوتے ہیں اور بعض اولا دیا کسی متبع کے ذریعے سے پورے
15 ہوتے ہیں.مثلاً آنحضرت ﷺ کو قیصر و کسری کی گنجیاں ملی تھیں تو وہ ممالک حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فتح ہوئے“.(ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۶۲) سفر ہجرت کے حالات حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے سفر لمصل حضرت امیر المومنین اصلح الموعود فرماتے ہیں: جماعتی طور پر ایک بہت بڑا ابتلاء ۱۹۴۷ء میں آیا اور الہی تقدیر کے ماتحت ہمیں قادیان چھوڑنا پڑا.شروع میں میں سمجھتا تھا کہ جماعت کا جرنیل ہونے کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ قادیان میں لڑتا ہوا مارا جاؤں ورنہ جماعت میں بزدلی پھیل جائے گی اور اس کے متعلق میں نے باہر کی جماعتوں کو چٹھیاں بھی لکھ دی تھیں.لیکن بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کے مطالعہ سے مجھ پر یہ امر منکشف ہوا کہ ہمارے لئے ایک ہجرت امر مقدر ہے اور ہجرت ہوتی ہی لیڈر کے ساتھ ہے.ویسے تو لوگ اپنی جگہیں بدلتے ہی رہتے ہیں مگر اسے کوئی ہجرت نہیں کہتا.ہجرت ہوتی ہی لیڈر کے ساتھ ہے.پس میں نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ کی مصلحت یہی ہے کہ میں قادیان سے باہر چلا جاؤں.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کے مطالعہ سے میں نے سمجھا کہ ہماری ہجرت یقینی ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ مجھے قادیان چھوڑ دینا چاہئے تو اس وقت لاہور فون کیا گیا کہ کسی نہ کسی طرح ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جائے لیکن آٹھ دس دن تک کوئی جواب نہ آیا اور جواب آیا بھی تو یہ کہ حکومت کسی قسم کی ٹرانسپورٹ مہیا کرنے سے انکار کرتی ہے اس لئے کوئی گاڑی نہیں مل سکتی ، میں اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کا مطالعہ کر رہا تھا.الہامات کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے ایک الہام نظر آیا بعد گیارہ ( تذکرہ صفحہ ۳۲۷) میں نے خیال کیا کہ گیارہ سے مراد گیارہ
16 تاریخ ہے اور میں نے سمجھا کہ شاید ٹرانسپورٹ کا انتظام قمری گیارہ تاریخ کے بعد ہوگا مگر انتظار کرتے کرتے عیسوی ماہ کی 28 تاریخ آگئی لیکن گاڑی کا کوئی انتظام نہ ہوسکا.28 تاریخ کو اعلان ہوگیا کہ 31 اگست کے بعد ہر ایک حکومت اپنے اپنے علاقہ کی حفاظت کی خود ذمہ دار ہوگی.اس کا مطلب یہ تھا کہ انڈین یونین اب مکمل طور پر قادیان پر قابض ہوگئی ہے.میں نے اس وقت خیال کیا کہ اگر مجھے جانا ہے تو اس کے لئے فوراً کوشش کرنی چاہئے ورنہ قادیان سے نکلنا محال ہو جائے گا اور اس کام میں کامیابی نہیں ہو سکے گی.ان لوگوں کے مخالفا نہ ارادوں کا اس سے پتہ چل سکتا ہے کہ انگریز کرنل جو بٹالہ لگا ہوا تھا میرے پاس آیا اور اس نے کہا مجھے ان لوگوں کے منصوبوں کا علم ہے جو کچھ یہ 31 / اگست کے بعد مسلمانوں کے ساتھ کریں گے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا.یہ باتیں کرتے وقت اُس پر رقت طاری ہوگئی لیکن اُس نے جذبات کو دبا لیا اور منہ ایک طرف پھیر لیا.جب میں نے دیکھا کہ گاڑی وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں ہوسکتا اور میں سوچ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام ” بعد گیارہ سے کیا مراد ہے تو مجھے میاں بشیر احمد صاحب کا پیغام ملا کہ میجر جنرل نذیر احمد صاحب کے بھائی میجر بشیر احمد صاحب ملنے کے لئے آئے ہیں.دراصل یہ ان کی غلطی تھی وہ میجر بشیر احمد صاحب نہیں تھے بلکہ ان کے دوسرے بھائی کیپٹن عطاء اللہ صاحب تھے.جب وہ ملاقات کے لئے آئے تو میں حیران تھا کہ یہ تو میجر بشیر احمد نہیں.اُن کے چہرے پر تو چیچک کے داغ ہیں.مگر چونکہ مجھے ان کا نام میجر بشیر احمد ہی بتایا گیا تھا اس لئے میں نے دوران گفتگو میں جب انہیں میجر کہا تو انہوں نے کہا میں میجر نہیں ہوں کیپٹن ہوں اور میرا نام بشیر احمد نہیں بلکہ عطاء اللہ ہے.کیپٹن عطاء اللہ صاحب کے متعلق پہلے سے میرا یہ خیال تھا کہ وہ اپنے دوسرے بھائیوں سے زیادہ مخلص ہیں اور میں سمجھتا تھا کہ اگر خدمت کا موقع مل سکتا ہے تو اپنے بھائیوں میں سے یہی اس
17 کے سب سے زیادہ مستحق ہیں.میں نے انہیں حالات بتائے اور کہا کہ کیا وہ سواری اور حفاظت کا کوئی انتظام کر سکتے ہیں.انہوں نے کہا کہ میں آج ہی واپس جا کر کوشش کرتا ہوں.ایک جیپ میجر جنرل نذیر احمد کو ملی ہوئی ہے اگر وہ مل سکی تو دو اور کا انتظام کر کے میں آؤں گا کیونکہ تین گاڑیوں کے بغیر پوری طرح حفاظت کا ذمہ نہیں لیا جا سکتا.کیونکہ ایک جیپ خراب بھی ہوسکتی ہے اور اس پر حملہ بھی ہو سکتا ہے.لیکن ضرورت ہے کہ تین گاڑیاں ہوں تا سب خطرات کا مقابلہ کیا جاسکے.یہ باتیں کر کے وہ واپس لاہور گئے اور گاڑی کے لئے کوشش کی.مگر میجر جنرل نذیر احمد صاحب کی جیپ انہیں نہ مل سکی.وہ خود کہیں باہر گئے ہوئے تھے.آخر انہوں نے نواب محمد دین صاحب مرحوم کی کارلی اور عزیز منصور احمد کی جیپ.اسی طرح بعض اور دوستوں کی کاریں حاصل کیں اور قادیان چل پڑے.دوسرے دن ہم نے اپنی طرف سے ایک اور انتظام کرنے کی بھی کوشش کی اور چاہا کہ ایک احمدی کی معرفت کچھ گاڑیاں مل جائیں.اس دوست کا وعدہ تھا کہ وہ ملٹری کو ساتھ لے کر آٹھ نو بجے قادیان پہنچ جائیں گے لیکن وہ نہ پہنچ سکے یہانتک کہ دس بج گئے.اس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ شاید گیارہ سے مراد گیارہ بجے ہوں اور یہ انتظام گیارہ بجے کے بعد ہو.میاں بشیر احمد صاحب جن کے سپردان دنوں ایسے انتظام تھے اُن کے بار بار پیغام آتے تھے کہ سب انتظام رہ گئے ہیں اور کسی میں بھی کامیابی نہیں ہوئی.میں نے انہیں فون کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام ” بعد گیارہ“ سے میں سمجھتا ہوں کہ گیارہ بجے کے بعد کوئی انتظام ہو سکے گا.پہلے میں سمجھتا تھا کہ اس سے گیارہ تاریخ مراد ہے لیکن اب میرا خیال ہے کہ شاید اس سے مراد گیارہ بجے کا وقت ہے.میرے لڑکے ناصر احمد نے بھی جس کے سپرد باہر کا انتظام تھا مجھے فون کیا کہ تمام انتظامات فیل ہو گئے ہیں.ایک بدھ فوجی افسر نے کہا تھا کہ خواہ مجھے سزا ہو جائے میں ضرور کوئی نہ کوئی انتظام کروں گا
18 اور اپنی گارڈ ساتھ روانہ کروں گالیکن عین وقت پر اُسے بھی کہیں اور جگہ جانے کا آرڈر آ گیا اور اس نے کہا میں اب مجبور ہوں اور کسی قسم کی مدد نہیں کر سکتا.آخر گیارہ بج کر پانچ منٹ پر میں نے فون اُٹھایا اور چاہا کہ ناصر احمد کو فون کروں کہ ناصر احمد نے کہا کہ میں فون کرنے ہی والا تھا کہ کیپٹن عطاء اللہ یہاں پہنچ چکے ہیں اور گاڑیاں بھی آگئی ہیں.چنانچہ ہم کیپٹن عطاء اللہ صاحب کی گاڑیوں میں قادیان سے لاہور پہنچے.یہاں پہنچ کر میں نے پورے طور پر محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا نہیں بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے ہمیں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ فوراً ایک نیا مرکز بنایا جائے اور مرکزی دفاتر بھی بنائے جائیں“.تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ: 745 748t ) امام جماعت احمد یہ حضرت خلیفہ مسیح اثانی کے لاہور پہنچ جانے کے بعد مختلف قافلے احمدیہ لمسیح کے پاکستان کے لئے روانہ ہوتے رہے.آخری قافلہ قادیان سے مؤرخہ 6 نومبر 1947ء کو پاکستان کیلئے روانہ ہوا.اس میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ ، حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ، دیگر بزرگان سلسلہ اور متعدد نو نهالان خاندان مسیح موعود اللہ شامل تھے.اس کنوائے کی روانگی کے بعد قادیان میں تین سو تیرہ درویشوں نے پیچھے رہ جانا تھا.بوقت روانگی حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے نہایت درد بھرے الفاظ میں کہا.”اے قادیان کی مقدس سرزمین تو ہمیں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ پیاری ہے لیکن حالات کے تقاضے سے ہم یہاں سے نکلنے پر مجبور ہیں.اس لئے ہم تجھ پر سلامتی بھیجتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں.“ ( الفرقان درویشان نمبر صفحہ ۶) اُس وقت کے رقت انگیز منظر کی عکاسی کرتے ہوئے محترم صاحبزادہ مرز اظفر احمد صاحب (مرحوم) بیان فرماتے ہیں: اجتماعی دعاؤں کے بعد جو کہ مسجد مبارک ، بیت الدعا، مسجد اقصیٰ
19 اور بہشتی مقبرہ میں ہوئیں ، سب لوگ ٹرکوں کے پاس پہنچ گئے.مگر منظر ہی کچھ اور تھا.جانے کی خوشی کسی کو کیا ہونی تھی ،ہر ایک رنج اور غم سے لیسا جارہا تھا...ضبط کی طاقت...والوں...کے راز کو اُن کی سرخ آنکھیں پکار پکار کر فاش کر رہی تھیں...( دوسرے ) اس طرح روتے تھے جس طرح کوئی بچہ اپنی ماں سے بچھڑنے کے وقت روتا ہے...الوداعی دعا...جس کرب والحاح کے ساتھ مانگی گئی.اس کو الفاظ بیان نہیں کر سکتے اور جس نے وہ نظارہ دیکھا وہ بھی اسے بھول نہیں سکتا.وہاں...(موجود) غیر مسلم...( ساری ) مسلم ملٹری...سب محو حیرت تھے کہ ان لوگوں کو کیا ہوا ہے.کیا یہ ممکن ہے کہ گزشتہ چار ماہ موت کے منہ میں جھانکنے کے باوجود بھی ان لوگوں کی اس وقت یہ حالت ہے جبکہ ان کو موت سے بچایا جا رہا ہے...پھر ) جانے والے چلے گئے اور پیچھے رہنے والے ایک سکتہ کی حالت میں ان کو تکتے رہے.میں بھی ان لوگوں میں تھا جو کہ ان کو الوداع کہہ رہے تھے.“ (الفضل 10 جنوری 1948ء) یہ تو صیح پاک کی بستی کے پاسبانوں کا حال تھا جو وہاں درویش بن کر رہ پڑے اور دوسری طرف اس پیاری اور مقدس بستی سے جدا ہونے والے تھے جو اُس کی یاد میں تڑپنے لگے.ان کی ہر شام کسی پُر امید صبح کی بیقرار تمناؤں کے سایوں میں رات کی آغوش میں اتر جاتی.لیکن ہر نیا طلوع ہونے والا سورج اُن کے ہجر وفراق کی سوزش میں اضافہ کر جاتا.پھر یہ تڑپ کبھی شعروں کے قالب میں ڈھل کر بے قرار کر جاتی تو کبھی تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ اداسیاں بکھیر جاتی.لیکن ہر ایک کے خوابوں کا مسکن ہمیشہ اس کی وہی پیاری بستی ہی رہی.پھر کوئی اپنی کسی خواب سے قادیان واپس جانے کے تخمینے باندھتا تو کوئی حضرت خلیفہ اسیح کے ارشادات ورؤیا سے واپسی کے اندازے لگاتا.اسی طرح ”تذکرہ سے بھی واپسی کی تاریخیں معتین کرنے کی بڑی کثرت سے کوششیں کی جاتیں.یہ وہ کیفیات تھیں جن کی وجہ سے قادیان سے ہجرت کا داغ ہمیشہ زندہ رہا جس میں واپسی کی تمنا ئیں بھی ہمیشہ بے قرار ر ہیں.قادیان کی یاد میں بے قرار تمناؤں کا اندازہ حضرت مصلح موعود ﷺ کی ایک نظم سے لگایا
20 جا سکتا ہے جو آپ نے ایک عارضی جدائی میں 1924ء میں یورپ کے سفر کے دوران تحریر فرمائی تھی.آپ نے لکھا: ہے رضائے ذات باری اب رضائے قادیاں مدعائے حق تعالی مدعائے قادیاں یا تو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے قادیاں خیال رہتا ہے ہمیشہ اس مقامِ پاک کا سوتے سوتے بھی یہ کہ اٹھتا ہوں ہائے قادیاں آه کیسی خوش گھڑی ہوگی کہ بانیل مرام باندھیں گے رختِ سفر کو ہم برائے قادیاں گلشن احمد کے پھولوں کی اڑا لائی جو کو زخم تازہ کر گئی بادِ صبائے قادیاں جب کبھی تم کو ملے موقع دعائے خاص کا یاد کر لینا ہمیں اہل وفائے قادیاں ( کلام محمود صفحه: 114) اہلِ دل اندازہ کر سکتے ہیں کہ غیر معینہ جدائی کا قلق اور اضطراب ہجر زدوں کے قلب وجگر کو کس طرح خون کرتا ہوگا.چنانچہ حضور نے ہجرت کے بعد جو نظم لکھی یہ جلسہ سالا نہ قادیان میں پڑھی گئی بتاؤں تمہیں کیا کہ کیا چاہتا ہوں ہوں بندہ مگر میں خدا چاہتا ہوں نکالا مجھے جس نے میرے چمن سے میں اس کا بھی دل سے بھلا چاہتا ہوں میرے بال و پر میں وہ ہمت ہے پیدا کہ لے کر قفس کو اڑا چاہتا ہوں ( کلام محمود صفحه : 209)
21 باب سوم امن اور برکت اب تو امن اور برکت کے ساتھ اپنے گاؤں میں جائے گا“ ( تذکرہ صفحہ : 684) قادیان میں جلسہ سالانہ کے بعد ایک سکھ صحافی نے پنجابی میں انٹرویو لیتے ہوئے حضرت خلیفۃ اصیح الرابع رحمہ اللہ سے 1991ء کے اس صد سالہ اور تاریخی جلسہ سالانہ کی بابت پوچھا کہ کا نفرس دے بارے وچ تہاڈے کی وچار نہیں؟“ آپ نے فرمایا: کانفرنس ساڈھے واسطے بہت اہمیت رکھ دی ہے.اس واسطے کہ سوسال دے وچ سو سال دا جلسه اک دفعه ای آناسی نا.لیکن ایس جلسے وچ ، نال ایہ گل شامل ہوگئی کہ جدوں دی پارٹیشن ہوئی ہے اوھدے بعد کوئی خلیفہ کریں ایتھے نہیں آیا اور پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ نے مینوں ہمت دیتی ، فیصلہ کرن دی توفیق عطا فرمائی اور خدا نے فیر سامان ایسے کر دیتے کہ ہندوستان دی حکومت نے ساری دنیا وچ بیحد تعاون کیتا اے.حالانکہ اسیں خیال وی نہیں کر سکدے ہی کہ اوہ ایس طرح کرن گے.پاکستان نے وی کوئی روک نہیں پائی.چتے اُنہاں تے پریشر پٹے نے کہ انہاں دے رستے وچ حائل ہو دو، اللہ دی تقدیر نے ایسا کم ( کام ) کیتا کہ اُنہاں نے کوئی روک نہیں پائی.سب کم خود بخود چل پئے اور آپی آپ چالو ہو گئے.تے تیاری دے بعد وی اور ایتھے پہنچن دے بعد وی اسیں بڑے مزیدار دن گئے نہیں.
22 الیس جلسے تے ھندوستان دی ساری جماعتاں دے اینیں لوک آئے ہیں کہ جیڑھے پہلاں ایتھے کریں کیسے جلسے تے نہیں آئے.“ امن اور برکت کا ماحول ایک تو ہجرت کا وہ سماں تھا جس میں قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ کے بازارگرم تھے اور انتہائی جگر پاش خوں آشام حالات میں ہجرت کرنے والوں نے ایک کس مپرسی اور بے بسی کی حالت میں مسیح پاک کی مقدس بستی قادیان دارالامان کو الوداع کہا.وہ وہاں سے نکلے تو سینے پر جدائی کے پتھر اور جان ہتھیلی پر رکھ کر ایسی جدائی ہمراز ہوئی کہ سوتے میں بھی روح ”ہائے قادیان پکارنے لگتی اور اب واپسی کا منظر ایسا تھا کہ جیسے ہر طرف امن وسلامتی کے پھولوں کی سیج پر خوشیوں اور راحتوں کی ٹھنڈک اتر رہی ہو.خدا تعالیٰ نے اپنے مقدس خلیفہ کے لئے اس بستی میں آمد کیلئے ہر قسم کے اسباب کے دروازے کھول دیئے.راستے کشادہ اور پُر نور کر دیئے.دلوں میں خوش آمدید کے باغ مہکا دیئے.قومیں ”جی آیا نوں کے راگ الاپنے لگیں ، فضا راضی خوشی آئے ، خیر و عافیت سے آئے“ کی خوشبو سے لبریز ہوگئی.قادیان کی احمدی آبادی تو اس آمد پر واری واری ہی تھی لیکن وہاں پر مقیم ہر مذہب کا پیرو اور ہر مکتبہ فکر کا آدمی بھی ”شاہ قادیان“ کو خوش آمدید کہہ رہا تھا.احمد یہ محلے میں بڑے بڑے ۹ آرائشی گیٹ مختلف جگہوں پر لگائے گئے.ان کو آراستہ کیا گیا اور پورے ماحول میں رنگ برنگی جھنڈیاں سجائی گئیں.قادیان کی آرائش و زیبائش کا کام خدام و اطفال نے بڑی محبت کے ساتھ دن رات ایک کر کے کیا اور قادیان کو اس طور سے سجایا اور احباب نے اپنے گھروں کو اس قدر چراغاں کیا کہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوا.احمدی احباب نے اپنے گھروں میں سمٹ سمٹ کر مہمانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ گنجائش نکالی.مکرم سردار ہر یندرسنگھ باجوہ صاحب نے ، جو ان دنوں میونسپل کمیٹی کے صدر تھے، باوجود فنڈز کی کمی کے مہمان خانہ سے احمد یہ چوک تک فرش لگوا دیا اور عارضی سٹریٹ لائٹس لگوا کر روشنی کا خاطر خواہ انتظام فراہم کیا.اسی طرح ٹینکر کی باقاعدہ ڈیوٹی لگا کر روزانہ احمد یہ علاقے میں چھڑکاؤ کا انتظام بھی کیا.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.وہاں کی مختلف ہندو اور سکھ تنظیموں نے اور انفرادی طور پر
23 تاجروں نے بھی حضور کے استقبال کے لئے سٹرکوں پر گیٹ بنائے اور بینر ز سجائے.حضرت مسیح موعود اللہ کے مہمانوں کے لئے ہندوؤں نے بھی اپنے گھروں کو پیش کیا، سکھوں نے بھی اور عیسائیوں نے بھی.مکرم حکیم سورن سنگھ صاحب سابق ممبر میونسپل کمیٹی قادیان یوں تو ہمیشہ ہی جماعت کے ساتھ محبت اور تعاون کا تعلق رکھتے ہیں مگر اس موقع پر خاص طور پر وہ دفتر جلسہ سالانہ میں تشریف لائے اور درخواست کر کے جلسہ سالانہ کے مہمانوں کیلئے اپنے اور اپنے رشتہ داروں اور تعلقدار گھرانوں میں نہ صرف رہائش مہیا کی بلکہ بستر و ناشتے وغیرہ تک کی سہولت دینے میں پہل کی.والے گرو اُن پر کر پا کرے اور اُن کے سب گھروں میں برکتیں بھر دے.الغرض سب لوگوں نے ہی مہمانوں کی خدمت کی اور اس سیوا کو اپنے لئے راحت اور سکون کا موجب یقین کیا.ان کے ایسے جذبات کو ہر احمدی محسوس کرتا تھا اور ان کے لئے دل میں تشکر کے جذبات بھر کر خدا تعالیٰ کی حمد وشکر کے ترانے گاتا تھا.جیسا کہ گزشتہ صفحات میں یہ ذکر آچکا ہے کہ قادیان دارالامان میں ، جلسہ کے ہر انتظام اور ہر پروگرام میں ہر جہت سے خدا تعالیٰ نے برکت کا نزول فرمایا تھا.مگر اس برکت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ قادیان کی بستی کا ہر تا جر خواہ وہ ہندو تھا ،سکھ تھا یا مسلمان و عیسائی ، اُس کی تجارت میں اس قدر برکت پڑی اور چند دنوں میں اس کو اس قدر منافع نصیب ہوا کہ شاید اس سے پہلے کبھی نہ ہوا ہوگا.چنانچہ اس دنیوی برکت کی لذت سے مسرور ہو کر یہ تاجر احمدی احباب سے پوچھتے کہ اگلے سال مرزا صاحب پھر آئیں گے نا؟“ اسی طرح وہ لوگ جنہوں نے حضرت خلیفتہ اسی سے مل کر یا آپ کو دیکھ کر روحانی طور پر برکت حاصل کی تھی ، وہ بھی یہی پوچھتے تھے کہ ”اگلے سال حضرت مرزا صاحب پھر آئیں گے نا؟ حضور جس گلی کوچے سے گزرتے ، احمدی مرد وزن اور بچے تو گھنٹوں انتظار میں کھڑے ہوتے تھے مگر غیر مسلم بھی اشتیاق دیدار میں طویل انتظار کرتے.جب وہ آپ کو دیکھ کر آنکھوں کی تشنگی مٹا چکتے تو بر ملا اظہار کرتے کہ حضور کے چہرے پر الہی نور ہے.قارئین کرام ! اب چند اور امور ملاحظہ فرمائیں ان سے آپ اندازہ کر سکیں گے کہ حضرت مسیح موعود ال کے الہام راضی خوشی آئے ، خیر و عافیت سے آئے کس شان اور روشنی کے ساتھ پورے ہوئے.چنانچہ مکرم عبد الحلیم سحر صاحب آف ربوہ تحریر کرتے ہیں :.
24 خاکسار نے قادیان میں عجیب وغریب نظارے دیکھے.ڈیوٹی کے دوران جب حضور جلسہ گاہ تشریف لاتے تو خاکسار بھی ساتھ ہوتا.حضور جب سٹیج پر چلے جاتے تو خاکسار جہاں سکھ اور ہندو بیٹھے ہوتے تھے وہاں چلا جاتا.حضور جب تقریر فرما رہے ہوتے تو اُن کے تاثرات دیکھتا.بڑا عجیب منظر ہوتا.ان کے چہروں پر بڑی عقیدت ہوتی اور اکثر کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے اور وہ حضور کی ہر بات کے ساتھ دُہراتے ” حضور ٹھیک کیندے نے (کہ حضور ٹھیک کہہ رہے ہیں ) بوڑھے سکھوں کو معلوم بھی نہ ہوتا کہ روتے روتے ان کی داڑھیاں آنسوؤں سے بھر گئی ہیں.بازار سے جو تاثرات ملے وہ بھی عجیب تھے کہ دل بے اختیار " غلام احمد کی جے“ کے نعرے لگانے لگتا.سکھوں اور ہندوؤں کے تاثرات کہتے تھے کہ ہم نے سُنا تھا کہ مرزا صاحب نے کہا ہے کہ قادیان میں اتنے لوگ آئیں گے کہ گڑھے پڑ جائیں گے.ہم نے سوچ رکھا تھا کہ اگر پانچ یا دس ہزار لوگ بھی آگئے تو ہم جان لیں گے کہ مرزا صاحب نے سچ کہا تھا.لیکن اب کی دفعہ تو انتہا ہو گئی لوگوں کی تعداد دس اور میں ہزار سے بھی بڑھ گئی اور آج ہم گواہی دیتے ہیں کہ مرزا صاحب نے سچ کہا تھا.یہ تھے بوڑھے سکھوں اور ہندوؤں کے تاثرات.پھر ایک روز عجیب نظارہ دیکھا.حضور سیر کے لئے تشریف لے گئے.خاکسار دوسرے خادموں کے ساتھ آگے جا رہا تھا.بعض سکھ سائیکلوں پر آرہے تھے کہ اچانک انہیں کسی نے بتایا کہ مرزا صاحب آرہے ہیں تو وہ پاگلوں کی طرح سائیکلوں سے چھلانگیں مارتے سٹرک سے اتر گئے اور بڑی عقیدت اور محبت سے ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ حضور آرہے ہیں ان کا دیدار کرنا ہے.پھر ایک جگہ کچھ سکھوں کو کھڑے دیکھا جو اونچی آواز میں بول رہے
25 تھے.خاکسار قریب ہوا تو معلوم ہوا کہ اس بات پر جھگڑا ہے کہ آج حضور کو میں نے اتنی قریب سے دیکھا ہے اور کوئی کہہ رہا تھا کہ نہیں میں نے زیادہ قریب سے دیکھا ہے.تیسرا کہتا تھا کہ میں نے دیکھا ہے.خاکسار یہ عقیدت دیکھ کر حیران رہ گیا.پھر ایک اور عجیب نظارہ دیکھا جس دن حضور عورتوں کے جلسہ گاہ میں خطاب فرمارہے تھے، خاکسار باہر ڈیوٹی پر کھڑا تھا کہ دو بوڑھے سکھ میاں بیوی اُدھر آئے اور قنات کی طرف جانے لگے.خاکسار نے روکا کہ ادھر نہیں جانا تو کہنے لگے : ”حضور ” کا دیدار کرنا ہے.میں نے کہا کہ ایک طرف کھڑے ہوجائیں حضور ” تقریر کر کے آئیں گے تو آپ دیکھ لیں.وہ کہنے لگے کب آئیں گے.میں نے کہا ایک گھنٹہ بعد تو وہ کہنے لگا پانچ منٹ بعد بس چلی جائے گی.ہم بہت دور کے گاؤں سے آئے ہیں اور آج آئے ہوئے تیسرا دن ہے لیکن حضور کو نہیں دیکھ سکے آج نہیں دیکھ سکے تو کبھی نہ دیکھ سکیں گے.بڑی منت کرنے لگے اور اس طرح رونے لگے جس طرح بچہ روتا ہے اور پھر سکھ بیوی نے تو آگے بڑھ کر دیکھ لیا اور اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی.وہ کبھی دور سے حضور حضور کی طرف دیکھتی ہاتھ کپڑوں پر ملتی کبھی ہاتھ حضور کی طرف کر کے پھر اُن کو چومتی.غرض خوشی کا عجیب اظہار تھا.پھر اس پچھتر سالہ بوڑھے سکھ کی نظر دُور سے حضور پر پڑ گئی.بہت فاصلہ تھا.اس نے ہاتھ باندھے جسم پر ہاتھوں کو ملا اور خوشی سے بے قرار ہوا جاتا تھا.عجیب حالت تھی اس کی کہنے لگا حضور کا دیدار ہو گیا ایک تمنا پوری ہوگئی.اب ہم مطمئن جار ہے 66 ہیں ورنہ ساری زندگی حسرت رہتی.واہ! کیا شان ہے اللہ کے بندوں کی.“ محترم مولانا محمد انعام غوری صاحب ( حال ناظر اعلی قادیان ) آپ کی ڈیوٹی شعبہ ملاقات میں تھی ، لکھتے ہیں:." حضور سے ملاقات کے بارہ میں لوگوں کے تاثرات نہایت دلچسپ تھے.جب کسی کو مصافحہ کا موقع نصیب ہو جاتا تو اُسکی حالت قابلِ دید
26 ہوتی.بڑے شوق سے وہ سنا تا کہ آج دلی تمنا پوری ہوئی کئی دنوں سے موقع تلاش کر رہا تھا آج حضور سے ملاقات کا شرف حاصل ہو گیا اور بات کرنے کا وقع مل گیا.الفاظ میں اُن تأثرات کو بیان کرنا ممکن ہی نہیں حتی کہ غیر مسلموں اور ان کے بچوں کا بھی راستوں میں یہی اشتیاق دیکھا گیا.ایک روز بعد نماز فجر حضور بہشتی مقبرہ تشریف لے جارہے تھے.مہمان خانے کے پاس دو غیر مسلم معمر افراد گزر رہے تھے.ایک نے بڑھ کر حضور سے مصافحہ کیا.حضور نے اس کے احوال دریافت فرمائے.اُسکی تو باچھیں کھل گئیں.وہ بار بار یہ کہتا جاتا تھا کہ بڑے دنوں سے موقع کی تلاش میں تھا آج میرے بھاگ کھل گئے.آج میرے بھاگ کھل گئے.“ مکرم منوہر لال شر ما صاحب پرنسپل خالصہ سینئر سیکنڈری سکول قادیان نے اپنے خط محررہ 19 / مارچ 1992ء میں حضور کی خدمت میں اپنی عقیدت کا اظہار اور دعا کی درخواست کی.انہوں نے لکھا :.نمسکار و تسلیم و آداب کے بعد عرض ہے کہ بندہ خالصہ ہائر سیکنڈری سکول قادیان کا پرنسپل ہے.آپ یہاں تشریف لائے تو آپ سے ملاقات حاصل کر کے بیحد خوشی ہوئی.آپ ایک بابرکت روحانی وجود ہیں ہم آپ کی دعاؤں کے متمنی ہیں.خاکسار کو قبل ازیں Teacher's State Award بھی حکومت پنجاب کی طرف سے مل چکا ہے.اب خاکسار کا کیس National Award کے لئے گیا ہوا ہے جو کہ خاکسار کے نزدیک آپ کی دعاؤں اور آشیرواد کے بغیر ممکن نہیں.لہذا میری آپ سے یہ گزارش ہے کہ خاکسار کو اپنی خاص دعاؤں میں یا درکھیں.جلسہ سالانہ کے دنوں میں آپ کے ساتھ تشریف لائے مہمانوں کی خدمت کا جو موقع ملا وہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ اچھے انسانوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا.
27 آپ سے ہماری گزارش ہے کہ آپ پھر قادیان تشریف لائیں اور ہمیں سیوا کا موقع دیں.آپ کا شجھ چنتک دستخط منوہر لال شرما قادیان کے ایک باسی جناب سردار چمن سنگھ صاحب نے اپنے ایک خط میں حضور کی خدمت میں لکھا: اک اونکار واهگور و ! وا هگورو! مان تے سنتکار یوگ خدا دے پیارے بھائی صاحب جی وا بگو رو جی کا خالصہ وا بگورو جی کی فتح ایتھے سب سکھ ہے.آپ جی دی سکھ وا بگورو پاسوں چنگی منگدا ہاں.میرے من وچ آپ جی نوں ملن واسطے بہت چاہ سی جواس وا بگور و خدا نے پوری کیتی ہے.داس نے آپ جی نوں جدوں آپ جی ریلوے روڈ تے ہیں پچھپیں آدمیاں دے قافلے نال ملے سی تاں داس ۵ منٹ پہلاں ہی آپ جی بارے بچن کر رہاسی کہ میں اک وار آپ جی دے جلسے وچ درشن کرن گیا سی پر نہ ہو سکے.میں ایہ بچن اجے کر ہی رہا سی کہ آپ جی اک دم سامنے آگئے تے میرے من دی خواہش پوری ہوگئی.داس نے آپ جی نو کہیا سی کہ آپ جی دا پچھلا بہت تپ ( عبادت ) ہے.بڑی وڈی بندگی ہے کیونکہ آپ دے کہے بچن تے ہر آدمی پھل چڑھوندا ہے.ایہہ آپ جی دے پچھلے کرماں (اعمال) کی بھگتی ہے.کچھ دن ہوئے ۹۲.۲.۸دی رات نوں جد داس ستا ہو یاسی تاں داس دی آپ جی نال سفنے وچ ( خواب میں ) ملاقات ہوئی کافی دیر تک اس خدا دے گھر دے بچن ہوئے...داس سمجھدا ہے کہ میرا آپ جی نال کچھ پچھلے کر ماں دا سمندھ (تعلق ) ہے.وا بگو رو کر پا کرے آپ جی دی آیو (عمر) لمبی کرے.تسیں قوم نے منکھتا (انسانیت ) دی سیوا کرسکو کیونکہ ایہہ جاتاں
28 دے گھیرے ساڈے اپنے بنائے ہوئے نہیں.اس خدا دے گھر وچ تاں کوئی جات پات نہیں ہے...میرے من وچ آپ جی نوں ملن واسطے ہر ویلے انتشاہ (شوق ) بنار ہندا ہے...جے کر واہگور وخدا نے کرم کیتی شاید تہاڈے پاس آکے آپ جی دے درشن کر سکاں.آپ جی دا داس چمن سنگھ ریلوے روڈ قا دیان ۹۲-۲-۲۹ قادیان کے ایک غیر مسلم دوست ڈاکٹر دیوان چند بھگت صاحب سوشل ورکر قادیان نے مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلی قادیان کے نام تحریر کرتے ہوئے لکھا: میں ہندوستان کے بٹوارے کے بعد سے اب تک قادیان میں ہی رہ رہا ہوں اور میرے جماعت احمدیہ کے بہت سے لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں...اس صد سالہ جلسہ میں حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کے خطبات سن کر دل کو بہت سکون ملا.آپ کا ہر لفظ محبت کا پیغام تھا، امن کا پیغام تھا، روحانیت کا پیغام تھا، انسانیت کا پیغام تھا، آپ سچ مچ خدا کے برگزیدہ بندے ہیں.آپ کو مل کر دنیا کی ہر تھکن دور ہو گئی.ہر ایک کے لئے آپ کے جذبات ایک سے ہیں.خواہ وہ ہندو ہو یا سکھ یا عیسائی ، آپ سب سے ایک جیسی محبت کرتے ہیں.اسی محبت کا نشہ ہے جو ہر احمدی ایک دوسرے کے ساتھ کرتا ہے.خواہ وہ کسی قوم وملت کا ہو.جہاں خلیفہ کی آمد پر ہر قادیان کے واسی کو خوشی اور دلی سکون وسرور حاصل ہوا اور روحانی غذا ملی، اس کے ساتھ ہی بہت سے لوگوں کو اقتصادی فائدہ بھی ہوا اور ہندوستان کے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ آج ہندوستان کے بہت سے صوبوں میں نفرتوں کی آگ سے بہت سے گھر جل رہے ہیں.اس میں مرزا صاحب کا امن کا پیغام بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے.احمد یہ جماعت کا ہر فرد بھی اس کوشش میں لگا ہے کہ تمام عالم میں انسانی دوستی قائم ہو اور ہمارا پیارا ہندوستان امن کا گہوارہ بن جائے.میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب کا پیغام سن کر بہت سے لوگوں کے دلوں میں نیک تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں.کیونکہ پیار کا نام ہی پر ماتما ہے اور یہ ہی کچی
29 تپسیا اور یوگ اور گیان ہے.ہم چاہتے ہیں کہ ایسے جشن ہر سال ہوا کریں جس سے سب لوگ پریرت ( متأثر ) ہو کر انسانیت کی سچے دل کے ساتھ سیوا کریں.( پر ماتما ایسا ہی کرے ) ( بدر قادیان 27 فروری 1992ء) یہ نمونے تو محض مشتے از خروارے ہیں جو محض اس لئے پیش کئے گئے ہیں کہ قارئین حظ بھی اٹھا ئیں اور الہی نوشتوں کو پوری شان کے ساتھ پورا ہوتے ہوئے ملاحظہ کریں کہ قادیان واپسی کا ما حول ”امن“ برکت راضی خوشی اور خیر وعافیت کے ساتھ ہی مقدر تھا.
30 30 باب چهارم وو 66 راضی خوشی آئے خیر و عافیت سے آئے “ دعائے قادیان" تقدیر الہی کے رنگ ,, اب ایک لمحہ ذرا پیچھے مڑ کر دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مسیح پاک اس کی پیاری بستی اور احمدیت کے دائمی مرکز کے فراق میں تڑپتی ہوئی یادوں میں اداسیوں کا بوجھ اُٹھائے کاروانِ وقت صبح امید کی جانب بڑھتا رہا حتی کہ ہجرت کے بعد جنم لینے والوں نے بھی بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ دیئے.بالآخر 1370 ہش 1991ء کا سال امید کی صبح کے ایک نئے سورج کو لے کر طلوع ہوا.یہ سال ایسا تھا کہ جس میں قادیان میں جلسہ سالانہ کے قیام کے سوسال پورے ہورہے تھے.اس مبارک سال کے شروع ہونے سے پہلے ہی یعنی 1329 ہش 1990ء کے اختتام پر الہبی منشاء کے تحت قدرت ثانیہ کے چوتھے مظہر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے قلب صافی پر قادیان میں صد سالہ جلسہ سالانہ منعقد کرنے اور اس میں بنفس نفیس شامل ہونے کی تحریک ہوئی.اللہ تعالیٰ نے قادیان میں آپ کے ورود کے بارے میں بعض احباب کو خوابوں کے ذریعے آگاہ بھی کر دیا تھا.چنانچہ آپ نے جلسہ سالانہ قادیان 1990ء کے موقع پر جو پیغام جماعت قادیان کو بھجوایا ، اس میں فرمایا : وو بیعت لدھیانہ کے ذریعہ 1889ء میں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مقدس ہاتھوں سے مشیت الہی نے جماعت احمدیہ کی بنیاد ڈالی.اس عظیم تاریخ ساز واقعہ کی یاد میں جماعت احمدیہ عالمگیر نے 1989ء کو سو سالہ جشن تشکر کے سال کے طور پر منایا.پس اگر پہلے جلسہ کی بنیاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے جلسہ تشکر کے انعقاد کا انتظام کیا جائے تو اس کے لئے موزوں سال 1991ء بنے گا.
31 احباب جماعت سے میں یہ درخواست کرتا ہوں کہ میری اس دلی تمنا کو برلانے میں دعاؤں کے ذریعہ میری مدد کریں کہ ہم آئندہ سال جب قادیان میں تاریخی جلسہ تشکر منعقد کر رہے ہوں تو میں بھی اس میں شریک ہوسکوں اور کثرت سے پاکستان کے احمدی احباب بھی اس میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کریں.(الفضل ربوہ 13 جنوری 1991 ء) قادیان میں عالمی نوعیت کے صد سالہ جلسہ کا انعقاد ایک ایسی الہی تقدیر تھی جس کو منشائے الہی حرکت میں لا چکی تھی اور خلیفتہ امسیح کی 44 سال بعد دائمی مرکز احمدیت قادیان دارالامان واپسی اسی تقدیر کی سب سے نمایاں، اہم اور غیر معمولی کڑی تھی.اس عدیم المثال جلسہ کی تیاریوں کا میدان بہت ہی وسیع تھا اور انتظامات مختلف اطراف میں اس طرح پھیلے ہوئے تھے کہ ان کا سرانجام پانا، خدا تعالیٰ کی خاص تائید کے بغیر ناممکن تھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے خلیفہ کے ذہن رسا میں جو منصوبہ اتارا اُس کے نقوش بڑی سرعت سے عملی اور واقعاتی رنگ میں نمایاں ہو کر سامنے آنے لگے.آپ نے اس سلسلہ میں قادیان اور ر بوہ جو ہدایات جاری فرمائیں اُن کا تفصیلی ریکار ڈ حصہ دوم باب رخت سنٹر میں ہدیہ قارئین کیا جار ہا ہے.اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان تہ در تہ لیکن وسیع ترین انتظامات کی تکمیل تائید و نصرت الہی کے بغیر ممکن نہ تھی اور یہ کہ واقعہ تقدیر الہی ہی تھی کہ جو اس بابرکت منصو بہ کو پایہ تکمیل تک پہنچار ہی تھی.اس منصوبہ کی شروعات کے ساتھ ہی قادیان اور اُس کے ماحول میں بھی ایسی تبدیلیاں رونما ہونے لگیں کہ بغیر خدا تعالیٰ کی خاص مشیت کے وہ ممکن ہی نہ تھیں.مثلاً اس علاقہ کے حالات ایسے تھے کہ ماحول پر سر شام ہی خوف و ہراس میں ملبوس ایک خوفناک سناٹا مسلط ہو جاتا تھا جس میں کسی فرد بشر کا گھر سے باہر نکلنا ممکن نہ تھا.لیکن اب یہ کیفیت جلد جلد بدلنے لگی.اب تو شام کے دھند لکے بھی امن کے ضامن بننے لگے تھے اور رات کی تاریکیاں بھی.جلسہ کے بابرکت ایام میں تو قادیان کی بستی رات گئے تک چہل پہل اور رونقوں سے معمور تھی بلکہ سارا علاقہ ہی امن وسلامتی کی ٹھنڈی چاندنی میں نہا کر حیات افروز منظر پیش کر رہا تھا.یہ وہ ماحول تھا جو راضی خوشی اور خیر و عافیت سے آنے کے الہی وعدوں کا آئینہ دار تھا.حضرت خلیفہ امسیح کی قادیان وا پسی چونکہ خدا تعالی کی ایک خاص تقدیر کے تحت عمل میں آ رہی تھی.اسلئے مالک تقدیر نے ہر قدم پر اپنی تائید
32 اور رضا کے جلوے ظاہر فرمائے.اس نے جگہ جگہ اپنے خلیفہ کی نہ صرف دعاؤں کو تکوینی قوت عطا فرمائی بلکہ آپ کی خواہشوں کو بھی ایسے قبول فرمایا کہ دنیا کے کام اپنا رخ بدل بدل کر ان کے آگے سجدے کرنے لگے.چنانچہ ایک ایسا ہی واقعہ اس وقت بھی رونما ہوا جب حضرت خلیفہ المسح آپ کے اہل خانہ اور افراد قافلہ کیلئے سیٹوں کی بکنگ کا مرحلہ پیش آیا.یہ مطلوبہ سیٹیں ۲۱ تھیں.برٹش ائیر ویز کی دہلی کی پرواز لندن کے گیٹ وک (Gatwick) ایئر پورٹ سے ہی روانہ ہوتی تھی.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی خواہش یہ تھی کہ لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ سے روانگی ہو.اس کے لئے KLM ( یعنی رائل ڈچ ایئرلائن ) والوں سے بھی رابطہ کیا گیا مگر اتنی تعداد میں فوری طور پر سیٹوں کی دستیابی ممکن نہ ہورہی تھی.اس کے بالمقابل برٹش ایئرویز کی جو پرواز گیٹ وک سے روانہ ہوئی تھی اُس میں سیٹوں کا حصول ممکن تو تھا مگر اس کا دن وہ نہیں تھا جس میں حضور روانگی کے خواہشمند تھے.مکرم آفتاب احمد خان صاحب مرحوم امیر جماعت یوکے کے سپر د اس سفر کا انتظام تھا.انہوں نے مکرم شاہد ملک صاحب جو برٹش ایئر ویز میں کام کرتے تھے، کے ذمہ سیٹوں کی بکنگ کا کام کیا ہوا تھا.مذکورہ بالا صورتحال سے سب پریشان تھے.وقت قریب سے قریب تر چلا آ رہا تھا.ادھر یہ دن بھی ایسے تھے کہ کرسمس کی رخصتوں کی وجہ سے تمام پروازوں میں سیٹوں کی گنجائش یا تو تھی ہی نہیں اور اگر تھی بھی تو وہ فورا پر ہو جاتی تھیں اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ اکتیس تو کیا اکٹھی چار پانچ نشستوں کی گنجائش بھی نہ رہی تھی اور اب اگر تھی تو صرف خدا تعالیٰ کے حسن “ پر ہی نظر تھی جس کو دراصل اس مرد خدا کی خواہش اور دعا متحرک کر چکی تھی.خلیفہ وقت کی اس دعا نے باذنِ الہی عالم سفلی اور علوی میں تصرف کیا اور برٹش ایئرویز کے ارباب اختیار کے دلوں کو اس طرف موڑ دیا کہ وہ اپنی ایک نئی پرواز لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ سے دہلی کے لئے چلائیں.چنانچہ ہیتھرو (Heathrow) ایئر پورٹ سے B.A کی پہلی پرواز اس دن سے شروع ہو گئی جس دن خلیفہ مسیح الرابع قادیان کے سفر کے لئے روانہ ہونا چاہتے تھے یعنی 15 دسمبر 1991ء.سبحان اللہ العظیم.یہ پرواز چونکہ بالکل نئی اور پہلی تھی اس لئے اس میں نہ صرف تمام افراد قافلہ کوسیٹیں ملیں بلکہ یو کے اور تمام یورپ سے اور بہت سے احباب کو بھی اسی پرواز میں اپنے پیارے آقا کے ہمراہ
33 لندن سے سفر کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.الحمد للہ ثم الحمد للہ.الغرض قادیان میں جلسہ سالانہ اور لندن میں سفر وغیرہ کے جملہ انتظامات جب خدا تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے ایک حد تک مکمل ہو گئے اور حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی اس تاریخی اور تاریخ ساز جلسہ میں شمولیت کے لئے ہر تیاری مکمل اور ہر راہ ہموار ہوگئی تو آپ 15 / دسمبر کو اس مبارک سفر کے لئے اپنے اہل وعیال اور ممبران قافلہ کے ہمراہ لندن سے قادیان کے لئے روانہ ہوئے.پھر خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کے فضلوں کے سائبان تلے اس کے مقدس خلیفہ کا مسیح پاک علیہ السلام کی مقدس بستی میں راضی خوشی اور خیر و عافیت سے درود ہوا.اور صد سالہ جلسہ سالانہ کا بابرکت اور پر رحمت انعقاد عمل میں آیا.الحمد للہ ثم الحمد للہ صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان 1991ء کے لئے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الرابع" کا تاریخ ساز سفر لندن سے روانگی مورخہ 15 دسمبر 1991ء بروز اتوار حضرت خلیفہ مسیح الرابیخ تاریخی صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت فرمانے کی غرض سے ساڑھے پانچ بجے مسجد فضل لندن سے ہیتھرو ایئر پورٹ جانے کیلئے روانہ ہوئے مسجد فضل لندن میں آپ کو الوداع کہنے کی غرض سے کثیر تعداد میں افراد جماعت جمع تھے.آپ نے احباب کو مصافحہ کا شرف بخشا اور خواتین کو الوداعی سلام کہہ کر اجتماعی دعا کرائی.یہاں سے روانہ ہو کر حضور انورلندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ کے ٹرمینل نمبر۴ پر تشریف لائے جہاں معمول کی رسمی کاروائی کے بعد برٹش ایئرویز کے بوئنگ طیارہ کی فلائیٹ 1147 B A کے ذریعہ دہلی کیلئے روانہ ہوئے.طیارے کی پرواز کا وقت پونے آٹھ بجے شام تھا جبکہ بعض وجوہات کی بناء پر طیارہ سوا نو بجے روانہ ہوا.اس تاریخ ساز سفر میں حضور اقدس کے افراد خاندان میں سے آپ کی حرم محترمہ حضرت
34 سیده آصفہ بیگم صاحبہ.صاحبزادی یاسمین رحمان مونا صاحبہ، صاحبزادی عطیۃ المجیب طوبیٰ صاحبہ صاحبزادہ مرز اسفیر احمد صاحب ، صاحبزادی شوکت جہاں صاحبہ.صاحبزادہ مرزا احسن رضا صاحب، صاحبزادہ مرز ابلال احمد صاحب ، عزیزہ ملیحہ صباحت احمد صاحبہ.صاحبزادہ مرزا عمن احمد صاحب، صاحبزادی فائزه صاحبہ ، صاحبزادہ مرزا عثمان احمد صاحب ، صاحبزادہ مرزا عدنان احمد صاحب اور عزیزہ نداء النصر صاحبہ حضور انور کے ہمراہ تھے.دفتری عملہ میں سے حسب ذیل افراد کو حضور نے قافلہ میں شامل فرمایا :.مکرم نصیر احمد صاحب قمر پرائیویٹ سیکرٹری.خاکسار ہادی علی ایڈیشنل وکیل التبشیر.مکرم بشیر احمد خان صاحب رفیق ایڈیشنل وکیل التصنیف.ملک اشفاق احمد صاحب عملہ حفاظت.علاوہ ازیں مندرجہ ذیل افراد کو اس تاریخی سفر میں آفیشل قافلہ کے ممبر کے طور پر شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.خالد نبیل ارشد صاحب لندن.ملک شاہد محمود صاحب لندن.مرزا عبدالرشید صاحب لندن.آفیشل قافلہ کے بعض ممبران حضور کی ہدایت کے مطابق انتظامی امور کی انجام دہی کیلئے 15 / دسمبر سے قبل قادیان روانہ ہو چکے تھے.جن میں میجر محمود احمد صاحب چیف سیکیورٹی آفیسر اور آفتاب احمد خان صاحب امیر یو کے اور چوہدری عبدالرشید صاحب آرکیٹیکٹ شامل ہیں جبکہ قافلہ کے دو ممبران محمود احمد صاحب گلزار بعد میں دہلی اور چوہدری رشید احمد صاحب انچارج پریس اینڈ پبلیکیشن سیکشن قادیان پہنچے.اسی طرح جسوال برادران پر مشتمل ویڈیوٹیم کے ارکان سعید احمد جسوال صاحب ، وسیم احمد جسوال صاحب اور محمد احمد جسوال صاحب 15 دسمبر سے قبل قادیان کیلئے روانہ ہوئے تھے.اس تاریخی سفر کے لئے ٹکٹوں کی خرید اور سیٹوں کی بکنگ سے متعلق امور مکرم آفتاب احمد خان صاحب یو کے کی زیر نگرانی مکرم شاہد محمود صاحب آف لندن نے سرانجام دیئے.قافلہ کے سامان کے انتظام کے سلسلہ میں مشہود الحق صاحب سابق امیر سویڈن کو انچارج مقرر کیا گیا تھا اُن کے ساتھ مکرم خالد نبیل ارشد صاحب لندن مکرم عبدالمجید کھوکھر صاحب ناروے اور مکرم شار یوسف صاحب سویڈن نے معاونت کی.فجزاهم الله احسن الجزاء.
35 اس تاریخی سفر میں آفیشل قافلہ کے ممبران کے علاوہ بعض اور احباب کو بھی اسی فلائٹ میں سفر کرنے کی سعادت نصیب ہوئی جس میں شاہ قادیان سوئے قادیاں محو پرواز تھے.ہر فر د جو اس مبارک سفر میں خدا تعالیٰ کے مقدس خلیفہ کے ساتھ تھا اپنی اس خوش بختی پر اللہ تعالیٰ کے حضور جذباتِ تشکر سے لبریز تھا.ان خوش نصیب احباب کے نام حسب ذیل ہیں :.1- محترمہ پروین رفیع مختار صاحبہ یو کے 2.مکرم وجاہت احمد صاحب یوکے.مکرم خواجہ عبدالمومن صاحب ناروے 4.مکرم عبدالرحمان محمود صاحب ناروے 5.مکرم عبدالمجیدکھوکھر صاحب ناروے 6.مکرم اعجاز احمد قریشی صاحب ناروے 7 - مکرم احمد حسنی صاحب جرمنی مکرم اسد اللہ خان صاحب جرمنی و مکرم حبیب اللہ طارق صاحب جرمنی 10 - مکرم طارق محمود گلفام صاحب جرمنی 11 مکرم محمد اسلم صاحب جرمنی 12 - مکرم شاہد محمود فراؤس صاحب ہالینڈ 13 مکرم چوہدری مبشر احمد صاحب ہالینڈ 14.مکرم محمد حفیظ صاحب ہالینڈ 15 مکرم نثار یوسف صاحب سویڈن 16 مکرم مامون الرشید صاحب سویڈن 17 - مکرم مشہودالحق صاحب سویڈن 18.مکرم اعجاز احمد طارق صاحب جرمنی 19 مکرم ممتاز احمد بٹ صاحب مع فیملی یو کے 20.مکرم بشارت احمد اعوان صاحب یو کے اس تاریخی جلسہ میں بعض اور قابل ذکر افراد بھی یو کے سے شامل ہوئے جن کے اسماء یہ ہیں.1.مسٹر ٹام کاکس (Tom cox) ایم پی یوکے -2 مسٹر بلال ایٹکنسن (Bilal Atkinson) صاحب یو کے 3.مسٹر پال ہیچز صاحب(Paul Hedges) یو کے -4.مسٹر راویل بخارا یو صاحب (Ravil Bukharaiev) (شین) یوکے 5.مسٹر ماہاد بوس صاحبہ (Maha Dabboos) (مصری) یوکے دہلی میں آمد و استقبال برٹش ایئر ویز کا طیارہ اگلے روز ۶۱ / دسمبر بروز سوموار ہندوستان کے وقت کے مطابق گیارہ
36 بجے فضائی مستقر پر اترا.ایئر پورٹ کے اندر مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلی قادیان و امیر جماعت احمدیہ قادیان ، مکرم سید فضل احمد صاحب سابق ڈی آئی جی پی بہار اور ان کی اہلیہ صاحبہ نے حضور اور آپ کے اہل خانہ کا استقبال کیا.امیگریشن اور سامان کی کلیئرنس کی کارروائی کے دوران حضور انور مع اہل خانہ ایئر پورٹ کے V.I.P لاؤنج میں تشریف لے گئے.دریں اثنا مکرم سید فضل احمد صاحب اور ان کے بیٹے سید طارق احمد صاحب، مکرم منیر احمد صاحب حافظ آبادی ناظر امور عامه ( Liaison آفیسر ) قادیان اور میجر محمود احمد صاحب نے امیگریشن اور سامان کی کلیئرنس کے لئے خدمات سرانجام دیں.جماعت احمد یہ دہلی نے تمام اراکین قافلہ کی مشروبات وغیرہ سے تواضع کی.تمام مراحل کے سرانجام پانے کے بعد حضور ائیر پورٹ سے باہر تشریف لائے.دہلی ائیر پورٹ پر قادیان اور ر بوہ کے حسب ذیل افراد نے حضور انور کا استقبال کیا: حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلی ربوہ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلی ربوہ.مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ربوہ - مکرم آفتاب احمد خان صاحب یو کے مکرم مولانا سلطان محمود انور صاحب ربوہ مکرم جمیل الرحمان رفیق صاحب ربوہ مکرم حافظ مظفر احمد صاحب ربوہ مکرم چوہدری احمد مختار صاحب کراچی مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب کراچی.مکرم مبارک احمد صاحب بیرسٹر کراچی.مکرم منیر احمد خادم صاحب قادیان صدر خدام الاحمد یہ بھارت.مکرم منظور احمد صاحب گجراتی افسر جلسه سالانه قادیان مکرم سید منصور احمد صاحب قادیان - مکرم صاحبزادہ مرزا کلیم احمد صاحب قادیان مکرم محمود احمد عارف صاحب در ولیش ناظر بیت المال خرچ قادیان - شیخ رحمت اللہ صاحب کراچی.مکرم چوہدری حمید نصر اللہ صاحب لاہور.مکرم چوہدری اعجاز نصر اللہ صاحب لاہور.مکرم سید میر مسعود احمد صاحب ربوہ مکرم خورشید احمد انور صاحب ناظم وقف جدید قادیان.مکرم مولانامحمد انعام غوری صاحب قادیان.مکرم ڈاکٹر حافظ صالح محمد الہ دین صاحب حیدر آباد دکن امیر جماعت آندھرا.مکرم سید تنویر احمد صاحب ناظر نشر واشاعت قادیان.مکرم عبدالحمید صاحب ٹاک امیر جماعت کشمیر، مکرم ماسٹر مشرق علی صاحب امیر جماعت بنگال، مکرم محمد شفیع اللہ صاحب امیر جماعت کرناٹک، مکرمہ صادقہ خاتون صاحبه قادیان نائب صدر لجنہ اماء اللہ بھارت، مکرم چوہدری عبدالرشید صاحب آرکیٹیکٹ مکرم چوہدری عبدالحمید صاحب لاہور اور مکرم بشارت احمد اعوان
37 صاحب لندن اسی طرح اور بھی بہت سے افراد تھے جن کے اسماء معلوم نہ ہو سکے.حضور انور کے ایک دوست سردار ہمت سنگھ صاحب آف جرمنی ( جو حضور انور سے انتہائی محبت وعقیدت کا تعلق رکھتے ہیں ) کے بھائی ہر دیال سنگھ صاحب نے حضور پر گلاب اور دوسرے پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے آپ کو دہلی میں خوش آمدید کہا اور اپنی کا رمع ڈرائیور آپ کی خدمت میں پیش کی.یہ کار دہلی میں قیام کے دوران مستقل طور پر حضور انور کے لئے ریز رورہی.ایئر پورٹ سے حضور انور مذکورہ بالا کار میں دہلی کی احمد یہ مسجد بیت الہادی“ تشریف لائے جس کی پوری عمارت کو رنگ برنگی جھنڈیوں اور قمقموں سے سجانے کے علاوہ "WEL COME" اور "Love For All Hatred For None" کے الفاظ خوبصورت گراسی پلاٹ میں پھولوں سے تحریر کئے گئے تھے.جو اپنے مختلف رنگوں اور مہکار کے ساتھ مسیح پاک کے خلیفہ کو خوش آمدید کہہ رہے تھے.احمدیہ مسجد دہلی میں مکرم مولانا عنایت اللہ صاحب مبلغ دہلی ، مکرم مولانا غلام نبی نیاز صاحب مبلغ دہلی ، مکرم عبدالشکور صاحب صدر جماعت دہلی اور مکرم مولانا بشیر احمد صاحب دہلوی سابق مبلغ دہلی ، دہلی کی مقامی جماعت اور بھارت کی بعض دیگر جماعتوں کے افراد بھی حضور انور کے لئے چشم براہ تھے ( جنکی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی ان میں بہت سے ایسے بھی تھے جومختلف انتظامات میں ہاتھ بٹانے اور خدمت خلق کی ڈیوٹیاں انجام دینے کی غرض سے آئے تھے ) ان سب نے پر تپاک اور والہانہ انداز میں نعرہ ہائے تکبیر ، اسلام زندہ باد، احمدیت زندہ باد، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، غلام احمد کی جے، خلافت احمدیہ زندہ باد اور بعض دیگر خیر مقدمی نعروں کے ساتھ پیارے آقا کا پُر جوش استقبال کیا.حکومت ہند کی طرف سے حضور کی رہائش گاہ پر سیکورٹی کے واسطے خصوصی گارڈ اور آمد ورفت میں آپ کے قافلے کے ساتھ سرخ بتی والی گاڑی بھی مہیا کی گئی تھی.دیلی مسجد پہنچنے کے بعد حضور انور اپنی قیام گاہ میں تشریف لے گئے.کچھ دیر بعد آپ مسجد میں تشریف لائے.جہاں آپ کی اقتداء میں نماز ظہر و عصر قصر ادا کی گئیں.نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور نے مکرم وسیم جسوال صاحب کو بلا کر ان سے وہیں محراب میں ہی سیٹیلائٹ ٹرانسمیشن ، ریکارڈنگ اور مواصلات کے دیگر انتظامات کے بارہ میں میٹنگ کی.اس مختصر میٹنگ کے بعد آپ
38 نے ممبران قافلہ اور دیگر جملہ مہمانانِ کرام کے قیام وطعام کے انتظامات کے جائزہ کیلئے منتظمین سے استفسار فرمایا اور انتظامات کو بہتر بنانے کے سلسلہ میں ہدایات ارشاد فرمائیں.بعد ازاں آپ اپنی قیامگاہ میں جو کہ دہلی مشن ہاؤس میں بالائی منزل پر تھی تشریف لے گئے.دو پہر کے کھانے اور آرام کے بعد آپ ساڑھے پانچ بجے دفتر میں تشریف لائے اور ۱۲۰ افرادکو انفرادی ملاقات کا شرف بخشا.بعد ازاں دیگر دفتری کاموں کے بعد شام ساڑھے سات بجے نماز مغرب وعشاء ادا کی گئیں.حضور انور نے نماز عشاء قصر کر کے پڑھائی.نمازوں کے بعد مجلس عرفان شروع ہوئی جس میں آپ نے سائلین کے سوالات کے جوابات عطا فرمائے.آخر میں آپ نے مہمانوں کے قیام و طعام کے بارہ میں تسلی کے لئے منتظمین سے دریافت فرمایا.آپ کو بتایا گیا کہ پہلے سے کئے گئے انتظام کے تحت مکرم نصیر احمد قمر صاحب پرائیویٹ سیکرٹری ، خاکسار ہادی علی ایڈیشنل وکیل التبشیر ، مکرم میجر محمود احمد صاحب چیف سیکیورٹی آفیسر مکرم ملک اشفاق احمد صاحب سیکیورٹی آفیسر، مکرم محمود احمد خان صاحب ( عمله حفاظت از ربوه)، مکرم مرزا عبدالرشید صاحب اور مکرم مشہودالحق صاحب سویڈن کے قیام کا انتظام مشن ہاؤس میں ہے.جبکہ باقی اراکین قافلہ کیلئے ہوٹل ”راج دوت“ میں رہائش کا انتظام کیا گیا ہے.مہمانوں کے طعام کا انتظام مسجد کے دائیں جانب گراسی پلاٹ میں شامیانہ لگا کر کیا گیا تھا.کھانا پکانے کے انتظامات کے انچارج مکرم مولوی برہان احمد ظفر صاحب مبلغ بمبئی تھے اور کھانا کھلانے کے انتظامات کے انچارج مولوی حمید الدین صاحب شمس ( مرحوم ) تھے جنہوں نے اپنی ٹیم کیساتھ حسن انتظام اور محنت سے ڈیوٹی ادا کی.حضور نے ان انتظامات پرخوشنودی کا اظہار فرمایا.الحمد لله على ذلک اللہ تعالیٰ ان سب کام کرنے والوں کو بہترین جزا دے.۱۷ دسمبر ۱۹۹۱ء بروز منگل.دہلی سکندرہ، فتح پور سیکری اور آگرہ کی سیر دہلی میں ۷ ار دسمبر کو صبح چھ بجکر ہیں منٹ پر سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے نماز فجر پڑھائی.صبح جناب ہر دیال سنگھ صاحب نے اراکین قافلہ کیلئے پر تکلف ناشتہ بھجوایا.فجزاه الله 6
39 صبح ساڑھے سات بجے حضور اقدس اجتماعی دعا کے بعد تاریخی مقامات سکندرہ ، فتح پور سیکری اور آگرہ کیلئے روانہ ہوئے.قافلہ میں تین کاروں ، ایک وین اور ایک منی بس کے علاوہ انڈین سیکیورٹی گارڈز کی ایک کار بھی شامل تھی.حضور انور کی اجازت سے اسی روز حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ اور مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ ربوہ اپنے چند ساتھیوں سمیت دہلی سے قادیان تشریف لے گئے تا کہ وہاں کے جملہ انتظامات کو آخری شکل دینے کی نگرانی کر سکیں.ادھر راستے میں قریبا سو کلومیٹر کے فاصلہ پر حضور انور واراکین قافلہ کچھ دیر کیلئے ایک تفریحی مقام پرڑ کے جہاں پر ایک سپیرا سانپ کے کرتب کے علاوہ بندر کا تماشا بھی دکھا رہا تھا.حضور انور نے اسے نصیحت فرمایا کہ وہ اپنے بچے کو (جو اسکے ساتھ ہی گلے میں سانپ لیے کھڑا تھا) تعلیم سے محروم رکھ کر ایسے کاموں میں نہ لگا دے.حضور کے نواسے مرزا آدم عثمان احمد نے یہاں پر ہاتھی کی سواری بھی کی.ان کے ساتھ مرزا عبدالرشید صاحب بھی ہاتھی پر سوار ہوئے.اسی جگہ پر ایک جرمن شخص بھی ملا جو کسی کا نفرنس میں شرکت کے لئے انڈیا آیا ہوا تھا.وہ حضور کی شخصیت سے بیحد متاثر ہوا اور دوستوں سے حضور اقدس اور جماعت احمدیہ کے بارہ میں دیر تک سوال وجواب کرتا رہا.بالآخر اُس نے اس بات کا اظہار کیا کہ اگر حضور اقدس انہیں مصافحہ کا شرف بخشیں تو اسے وہ اپنی خوش قسمتی تصور کرے گا.اس کی یہ درخواست جب خدمت اقدس میں پہنچائی گئی تو حضور اقدس جو کار میں تشریف فرما ہو چکے تھے، کار سے باہر تشریف لائے اور اسے مصافحہ کا شرف بخشا.جرمن دوست نے اپنا تعارف کرایا اور اپنی طرف سے آپ کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا.آپ نے جرمنی میں جماعت احمدیہ کی مختلف شاخوں کے بارہ میں انہیں بتایا.مکرم مقصود الحق صاحب آف جرمنی جو اس سفر میں قافلہ میں شامل تھے.ترجمانی کے فرائض ادا کرتے رہے.یہاں سے روانہ ہوکر قریباً پونے گیارہ بجے قافلہ سکندرہ پہنچا.یہ وہ جگہ ہے جہاں شہنشاہ اکبر کی قبر کے علاوہ مغلیہ خاندان کے بعض دیگر افراد کی قبریں بھی ہیں.حضور نے قبروں پر دعا کی اور پھر اس جگہ کی کچھ تصاویر بنا ئیں.قافلہ سکندرہ سے ساڑھے بارہ بجے روانہ ہوکر سوا ایک بجے فتح پور سیکری پہنچا.یہاں بھی حضرت خلیفہ اسی نے تاریخی مقامات دیکھے.یہاں پراکبر بادشاہ کی وسیع وعریض مسجد کیسا تھ اُس کا عالی شان محل تھا اور اُس کی مسلمان ، ہندو اور عیسائی بیویوں کے لئے
40 مسجد مندر اور گر جا بھی موجود تھے.ایک بوڑھا شخص بڑی مسجد کے پہلو میں باہر کی طرف اس کی چھت سے ایک گہرے کنویں میں چھلانگ لگا کر لوگوں کیلئے دلچسپی کا موقع فراہم کرتا تھا.حضور انور کو دیکھ کر اس نے خواہش کی کہ حضور انور اس کی چھلانگ کو ملاحظہ فرمائیں.اس کی اس خواہش کو حضور انور نے قبول فرمایا.اُس نے جست لگائی اور پھر حضور انور سے انعام بھی حاصل کیا.بڑی مسجد کے صحن میں اُس زمانہ کے بزرگ حضرت سلیم الدین کا مزار ہے جس پر حضور انور نے دعا کی.دو پہر کے کھانے کا انتظام مکرم مولوی برہان احمد ظفر صاحب اور اُن کے معاونین نے کیا تھا جواس یادگار سفر میں حضرت خلیفہ اسیح کے قافلہ کے ہمراہ تھے.شہنشاہ اکبر کے محل سے ملحق ایک لان میں دو پہر کے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا.کھانے کے بعد وہیں نماز ظہر و عصر ادا کی گئیں.بعد ازاں قافلہ آگرہ کے لئے روانہ ہوا قریبا چار بجے سہ پہر قافلہ آگرہ پہنچا جہاں حضور انور نے تاج محل دیکھا اور اس میں شاہ جہاں کی قبر پر دعا کی یہاں سے شام ساڑھے چھ بجے روانہ ہو کر دس بجے بیت الہادی میں پہنچ کر حضور انور نے نماز مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھائیں.بعد ازاں آپ اپنی رہائش گاہ میں تشریف لے گئے.۱۸؍ دسمبر ۱۹۹۱ء بروز بدھ.دہلی تغلق آباد، قطب مینار کی سیر اور حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار پر دُعا ۱۸؍ دسمبر کا دن حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کا یوم ولادت ہے.اس روز آپ کی عمر تریسٹھ برس ہوگئی.نماز فجر کی ادائیگی اور ناشتہ سے فراغت کے بعد حضور انور مع اراکین قافلہ تغلق آباد میں غیاث الدین تغلق اور محمد بن تغلق کے قدیمی قلعہ کو دیکھنے کیلئے تشریف لے گئے.( کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ ہے جو ساڑھے چھ کلومیٹر سے زائد رقبہ پر پھیلا ہوا ہے.) اس وسیع وعریض قلعہ کو غیاث الدین تغلق نے ۱۳۲۴ء میں چار سال کے مختصر سے عرصہ میں تیار کرایا تھا.حضرت مصلح موعود نے بھی اس قلعہ کی بھی سیر کی تھی.اُس کا ذکر آپ کی معرکۃ الآراء
41 تقاریر بنام ”سیر روحانی“ میں موجود ہے.اس قلعہ میں غیاث الدین تغلق اور محمد بن تغلق کی قبریں بھی ہیں.حضور نے ان قبروں پر دعا کی.قطب مینار کی سیر ان قلعوں کو دیکھنے کے بعد حضور اقدس مع قافلہ قطب مینار دہلی دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے.وہاں پہنچ کر آپ نے مختلف مقامات پر اپنے کیمرہ سے تصاویر بنائیں.عمارتوں پر کندہ قرآن کریم کی آیات کو بغور ملاحظہ فرمایا.یہاں پر ایک قدیمی مسجد کے صرف آثار باقی تھے.گائیڈ نے جب پیمائش کے اعتبار سے اس مسجد کی حد بندی کی تو حضور اقدس نے فرمایا کہ یہ درست معلوم نہیں ہوتی.چنانچہ آپ نے صاحبزادہ مرزا کلیم احمد صاحب ابن مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اور مکرم مقصود الحق صاحب آف جرمنی کو پیمائش کرنے کیلئے ارشاد فرمایا.چنانچہ پیمائش کرنے پر حضوراقدس کا خیال درست ثابت ہوا.قطب مینار کے ساتھ احاطہ میں ایک آھنی ستون ہے.کہا جاتا ہے کہ یہ ستون عظیم ہندو بادشاہ چندر گپت موریہ ( ۴۰۰ سال بعد مسیح) نے بنوایا تھا.اس کے بارے میں مشہور ہے کہ جوشخص اس کے ارد گرد ہاتھ باندھ کر دونوں ہاتھ آپس میں ملا لے وہ بڑا خوش قسمت ہوتا ہے.گواس کا حقیقت سے تو کوئی تعلق نہیں تھا لیکن محض شغل کے طور پر حضور انور کے ارشاد پر بعض نے کوشش کی مگر سوائے ہمارے ڈچ بھائی مکرم شاہد فراؤس صاحب کے ایسا کرنے میں کوئی کامیاب نہ ہوسکا.اس کے بعد حضور انور علائی گیٹ کے مشرقی جانب امام ضامن کی قبر پر تشریف لے گئے اور دعا کی.حضور نے اس جگہ پر قدیم زمانہ میں بنائی گئی دھوپ گھڑی بھی ملاحظہ فرمائی جواب بھی کام کرتی ہے اور سائے کے ذریعہ ایک حد تک درست وقت بتاتی ہے.حضرت خواجہ بختیار کا کئی کے مزار پر دعا قطب مینار کی سیر کے بعد حضور اقدس مع اراکین قافلہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کئی کے مزار پر تشریف لے گئے جہاں تنگ گلیوں کی وجہ سے بہت سا فاصلہ آپ نے پیدل طے کیا.اس مزار پر آپ نے لمبی دعا کی.حضور نے واپسی پر راستے میں موجود تمام فقیروں کو ( جنگی تعداد ایک
42 سو کے قریب تھی ) کچھ رقم دینے کے لئے مکرم نصیر احمد صاحب قمر پرائیویٹ سیکرٹری کو ارشاد فرمایا.دو پہر دو بجے یہاں سے احمد یہ مسجد دہلی کیلئے واپسی ہوئی.ان مقامات کی سیر کے دوران انڈین پولیس کے جوان حفاظت کی غرض سے ہمراہ رہے.مسجد بیت الہادی دہلی میں نماز ظہر وعصر جمع کر کے ادا کی گئیں اور شام کو بعد ادائیگی نماز مغرب وعشاء مجلس عرفان منعقد ہوئی.( حضرت مسیح موعود الا نے یکم نومبر ۱۹۰۵ء کو حضرت خواجہ بختیار کاکی کے مزار پر لمبی دعا کی.(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۵۲۸) اسی طرح حضور اللا ۲۴ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو دہلی میں بزرگان امت کی زیارت قبور کے لئے تشریف لے گئے.(ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۸۸) ۱۹ دسمبر ۱۹۹۱ء بروز جمعرات.دہلی دہلی سے قادیان روانگی ۱۹ار دسمبر کو حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ ودیگر اراکین قافلہ کوحسب پروگرام دہلی سے بذریعہ ہوائی جہاز امرتسر روانہ ہونا تھا مگر شدید دھند کی بناء پر گزشتہ تین روز سے امرتسر کے لئے دہلی کے لئے تمام پرواز میں ملتوی ہو چکی تھیں چنانچہ بذریعہ ریل گاڑی روانگی کا پروگرام طے پایا.اس غرض سے شانِ پنجاب ایکسپریس میں ۹۰ سیٹوں پر مشتمل ایک خصوصی اضافی ہوگی لگوائی گئی.ٹرین کو دہلی ریلوے اسٹیشن سے امرتسر کیلئے صبح ۶:۴۰ پر روانہ ہونا تھا.حضور اقدس ساڑھے چھ بجے اسٹیشن پر تشریف لائے.لندن سے دہلی تک آپ کی معیت میں سفر کرنے والے قافلہ کے علاوہ مختلف ممالک سے صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کرنے والے افراد اور وفود کے شامل ہو جانے سے گل تعداد ۸ ہوگئی.علاوہ ازیں پانچ سرکاری پولیس کانسٹیبلز بھی اس قافلہ کے ہمراہ تھے.جماعت احمد یہ دہلی اور دور و نزدیک کی جماعتوں سے آئے ہوئے ۵۰ سے زائد احباب پیارے آقا کوالوداع کہنے کی غرض سے اسٹیشن پر موجود تھے.حضور قریباً پندرہ منٹ تک ٹرین کے دروازہ میں کھڑے رہے.آپ کی شخصیت سے متاثر ہو کر ہر کوئی رکتا اور پھر جی بھر کر اپنی نظروں کی تشنگی مٹا کر جاتا.اسی طرح ایک سکھ دوست آگے بڑھ کر آپ کی خدمت میں اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کر کے پوچھنے لگے کہ امن کب آئے گا؟ آپ نے فرمایا: ” میری بھی یہی خواہش ہے کہ امن قائم ہواور میں اس کے لئے 66 دعا کرتا ہوں.“
43 گاڑی کی روانگی سے قبل اجتماعی دعا کے بعد پونے سات بجے گاڑی روانہ ہونے پر دہلی میں مقیم احباب جماعت نے فلک شگاف نعروں اور محبت بھری نمناک نگاہوں سے اپنے پیارے آقا کو الوداع کہا اور حرکت کرتی ہوئی ریل گاڑی کے ہمراہ والہانہ انداز میں ہاتھ ہلاتے ہوئے اسوقت تک ٹرین کے ساتھ دوڑتے رہے جب تک پلیٹ فارم ختم نہ ہو گیا.حضور اقدس بھی تمام وقت گاڑی کے دروازہ میں کھڑے خدام کی اس والہانہ محبت کے اظہار کا جواب ہاتھ ہلا ہلا کر دیتے رہے.حضور انور کی غیر معمولی تاریخی نوعیت کی نظم ”اپنے دیس میں اپنی بستی میں کی آمد بھی اسی تاریخی سفر میں ہوئی.حضور انور نے فرمایا تھا کہ قادیان جانے کے سلسلہ میں کسی نظم کیلئے پہلے مزاج ہی نہ بن رہا تھا.پھر دہلی سے امرتسر دوران سفر اس نظم کی آمد ہوئی تو ایک خوبصورت تاریخی نظم بن گئی یہ نظم جلسہ کے تیسرے روز پڑھی گئی.حضور انور اور اراکین قافلہ کے علاوہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے جن افراد جماعت کو دہلی سے امرتسر تک سفر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ان کی ملک وار تفصیل یوں ہے:.سنگا پور ۲۳ انگلستان ۲۵ جرمنی 1 ہالینڈ ۵ سویڈن ۳ ناروے ۳ پاکستان ۳ ماریشس ۲ انڈیا ۲ اردن ۱ امریکہ ۱ ان افراد کے اسماء حسب ذیل ہیں جن کو پیش ہوگی میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی معیت میں دہلی سے قادیان تک سفر کی سعادت نصیب ہوئی:.صاحبزادی یاسمین رحمان مونا صاحبہ، صاحبزادی عطیہ المجیب طوبی صاحبہ، صاحبزادی فائزه صاحبہ، صاحبزادہ مرزا لقمان احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا عثمان احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا عدنان احمد صاحب، صاحبزادی نداء النصر صاحبہ، مکرم نصیر احمد قمر صاحب پرائیویٹ سیکرٹری ، خاکسار ہادی علی ایڈیشنل وکیل التبشیر ، مکرم بشیر احمد خان صاحب رفیق ایڈیشنل وکیل التصنيف، مکرم میجر محمود احمد صاحب چیف سیکیورٹی آفیسر مکرم ملک اشفاق صاحب، مکرم محمود خان صاحب ، کرم خالد نبیل ارشد صاحب، مکرم مرزا عبدالرشید صاحب، مکرم سعید جسوال صاحب مکرم و سیم جسوال صاحب، مکرم محمد احمد جسوال صاحب ،کرم آفتاب احمد خان صاحب امیر جماعت احمد یہ U.K ،کرم مرزا کلیم احمد صاحب
44 ابن صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب قادیان، مکرم کیپٹن شمیم احمد خالد صاحب.امیر و مشنری بیلجیئم ،مکرم چوہدری حمید نصر اللہ صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور، مکرم مشہود الحق صاحب امیر جماعت احمدیہ سویڈن، کرم مقصود الحق صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی ،مکرم عبدالشکور اسلم صاحب نائب امیر جماعت احمد یہ جرمنی مکرم طا قزق صاحب امیر جماعت احمد یہ اردن ، مکرم شاہد محمود فراؤس صاحب ڈچ احمدی ، مکرم کا رل ہربرٹ رچھولڈ امریکن مکرم بابا شاہ دین پہلوان (دیہاتی مبلغ ) گوجرانوالہ، مکرم ڈاکٹر عطاء الہی منصور صاحب سپین، بکرم مامون الرشید صاحب ڈوگر سویڈن ہمکرم نثار یوسف صاحب سویڈن، مکرم محمد اعجاز قریشی صاحب ناروے ، مکرم عبدالمجید کھوکھر صاحب ناروے ،مکرم عبدالرحمان محمود قریشی صاحب ناروے، مکرم احمد عبدالمنیب صاحب جرمنی ، مکرم سردار علی صاحب جرمنی ، مکرم اسد اللہ خان صاحب جرمنی مکرم احمد حسنی صاحب جرمنی مکرم حبیب اللہ طارق صاحب جرمنی مکرم طارق گلفام ملک صاحب جرمنی مکرمه امینہ مرزا صاحبہ جرمنی، مکرمه امته السلام صاحبه جرمنی ، مکرم افتخار احمد جاوید صاحب جرمنی مکرم وجاہت احمد صاحب یو کے، مکرم بشیر احمد شید ا صاحب یو کے، مکرم محمود احمد گلزار صاحب یو کے مکرم شاہد محمود ملک صاحب یو کے، مکرمہ امتہ الباسط شیدا صاحبہ یو کے، مکرم چوہدری مبشر احمد صاحب ڈوگر ہالینڈ، مکرم محمد حفیظ ڈوگر صاحب ہالینڈ ، مکرم محمد الحق ناصر صاحب ہالینڈ ، کرمہ نجمہ صدیقہ صاحبہ ہالینڈ، مکرمہ رضیہ موہن صاحبہ ماریشس،مکرم اسماعیل موہن صاحب ماریشس، مکرم چوہدری عبدالحمید صاحب لاہور، مکرم کلیم احمد صاحب دہلی.جماعت سنگا پور کے مندرجہ ذیل احباب مکر مہ اباجه صاحبه، مکرمه امتہ العزیز صاحبه مکرمه فوزیہ صاحبه مکرمه امتہ المصور صاحبہ مکرمہ صالحہ صاحبہ مکرمہ نور سداح صاحبه، مکرمہ نور سانہ صاحبہ، مکرمہ میمونہ صاحبہ مکرمہ شیا نکا صاحبه، مکرمہ زینب صاحبہ.مکرم سجاری صاحب، مکرم عمات صاحب، مکرم زین العابدین صاحب، مکرم ہدایت اللہ صاحب، مکرم سید علی صاحب، مکرم عثمان صاحب، مکرم شاہد صاحب ، مکرم سید حفیظ صاحب، مکرم سید قمر العارفین صاحب، مکرم سید الہادی صاحب، مکرم حسنی صاحب ، مکرم فضیل صاحب.اس سفر میں حکومت ہندوستان کی طرف سے سیکیورٹی کے لئے حسب ذیل افراد مقرر تھے.ا.رامبیر سنگھ صاحب ہیڈ کانسٹیبل -۲.دھرم چند صاحب ہیڈ کانسٹیبل ۳.رمیش چند صاحب
45 کانسٹیبل ۴.مصری لال صاحب کا نسٹیبل ۵ - چرن سنگھ صاحب کانسٹیبل امرتسر سے قادیان شان پنجاب ایکسپریس براستہ پانی پت، انبالہ، جالندھر اور لدھیانہ اڑھائی بجے بعد دو پہر امرتسر پہنچی.ریلوے سٹیشن پر حضور کو امرتسر میں خوش آمدید کہنے کے لئے وہاں کے ڈی سی اور ایس پی بھی موجود تھے.محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ، مکرم منظور احمد صاحب گجراتی وکیل اعلیٰ تحریک جدید قادیان مکرم خورشید احمد انور صاحب ناظم وقف جدید، مکرم مولوی جلال الدین نیر صاحب نمائندہ انصار اللہ بھارت، محترمہ امتہ القدوس بیگم صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ بھارت اور بعض دیگر افراد جماعت بھی اپنے آقا کے استقبال کیلئے پہلے سے موجود تھے.آپ ڈی سی اور ایس پی امرتسر سے چندمنٹ گفتگو فرماتے رہے.پھر وہ حضور کو امرتسر سے قادیان جانے والی ٹرین تک پہنچانے کے بعد آپ سے اجازت لیکر رخصت ہو گئے.جس ٹرین میں سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الرابع نے امرتسر سے قادیان کے لئے روانہ ہونا تھا، اس کا نام ”میلہ ٹرین تھا اور اسکی روانگی کا وقت چار بجے سہ پہر تھا.ایک عرصہ سے یہ ٹرین بند تھی حکام نے اس تاریخی جلسہ کی وجہ سے اسے دوبارہ جاری کرنے کی اجازت دی تھی.اس کا ایک تاریخی اور خوشکن اتفاقی پہلو یہ بھی ہے جو یقیناً قارئین کیلئے دلچسپی کا باعث ہوگا کہ حضور کی پیدائش کے اگلے روز یعنی ۹ار دسمبر ۱۹۲۸ء کو پہلی بارٹرین قادیان آئی تھی اور آج یہ ٹرین جس پر حضور کو قادیان تک سفر کرنا تھا ایک لمبے عرصہ کے تعطل کے بعد پہلی بار ۱۹؍ دسمبر کو ہی قادیان جا رہی تھی.یہ امر قابل ذکر ہے کہ مکرم منیر احمد صاحب حافظ آبادی ناظر امور عامہ نے حضور کی ہدایت پر دہلی سے ریلوے اتھارٹی سے ملاقات کر کے جلسہ سالانہ کے دنوں میں اس ٹرین کو جاری کروانے کی کارروائی کی.اس موقع پر موصوف نے خاص طور پر ریلوے حکام سے ذکر کیا کہ ۱۸؍ دسمبر حضور کا جنم دن ہے.اس لئے ۱۸ دسمبر سے اس ٹرین کو چلانے کے آرڈر جاری کئے جائیں.اس درخواست کو ریلوے حکام نے خندہ پیشانی سے قبول کیا.
46 دہلی سے قادیان تک سفر میں حضور کی حرم حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ حضور کے ہمراہ نہیں آسکیں.آپ بوجہ علالت کے دہلی میں ہی ٹھہر گئی تھیں.صاحبزادہ مرزا سفیر احمد صاحب اور صاحبزادی شوکت جہاں صاحبہ مع بچگان حضرت بیگم صاحبہ کے پاس دہلی میں ہی ٹھہرے رہے اور ۲۳ / دسمبر کو حضرت بیگم صاحبہ کے ہمراہ دہلی سے قادیان آئے.کوئلہ کے انجن سے چلنے والی ” میلہ ٹرین امرتسر سے قادیان کے لئے سوا چار بجے روانہ ہوئی.ٹرین کی روانگی سے قبل حضور قریباً نصف گھنٹہ سے زائد ٹرین کے دروازہ میں کھڑے رہے اور حضور کی جاذب نظر اور پرکشش شخصیت کو ایک نظر دیکھنے کیلئے سٹیشن پر ہجوم کی سی کیفیت پیدا ہوگئی.ٹرین سہل رفتاری سے مسافت طے کرتی ہوئی بٹالہ پہنچی.جہاں پر ایڈیشنل ڈی سی اور S.D.M بٹالہ نے حضور پر نور کا استقبال کیا اور ملاقات کا شرف حاصل کیا.حضور نے ان دونوں معززین سے چند منٹ گفتگو فرمائی.یہاں حضور نے خاکسار (بادی علی ) کو ارشاد فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شدید ترین مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب یہاں کے رہنے والے تھے.اُن کے بارہ میں پتا کیا جائے کہ آج اس شہر میں اُن کو جاننے والا کوئی ہے بھی کہ نہیں؟“ حضور؟ کے اس ارشاد کی تعمیل میں تحقیق کی گئی جس کی تفصیل ضمیمہ میں ملاحظہ فرمائیں.اس تحقیق کا ذکر حضور انور نے جلسہ سالانہ قادیان کے افتتاحی خطاب میں بھی فرمایا.بٹالہ سے بی ٹرین روانہ ہوئی اور بالآخر قادیان کی مقدس بسنتی کے قریب پہنچی تو حضور کی خواہش کے مطابق اس جگہ پر روک دی گئی جہاں سے مینارہ اسیح دکھائی دینے لگتا ہے.چنانچہ حضور پر نور گاڑی کے دروازہ میں تشریف لے آئے.گاڑی رکی تو کچھ افرا دا تر کر حضور کے قریب پہنچ گئے اور پھر فضاء نعرہ ہائے تکبر اللہ اکبر سے گونج اٹھی.چند لحوں کیلئے حضور اقدس کی دیدار قادیان کیلئے بے قرار اور تشنہ نگاہیں منارہ اسیح پر مرکوز ہو گئیں.کچھ لمحے منارة امسیح کو جو کہ شام کے دھند لکے میں روشنیوں سے بقعہ نور بنا ہوا انتہائی خوبصورت اور نورانی نظر آ رہا تھا، دیکھنے کے بعد حضور پر نور نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے.اس پر تمام شر کا ء سفر بھی حضور کے ساتھ دعا میں شامل ہو گئے.دعا کے بعد اراکین قافلہ اور شر کا ء سفر نے پر جوش نعرے لگانے شروع کئے تو سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے
47 قادیان دارالامان اور درویشان قادیان کے نعرے لگانے کی ہدایت فرمائی.جس پر فضا ان نعروں سے گونج اٹھی.قادیان میں ورود مسعود سات بجے شام ٹرین قادیان کے ریلوے اسٹیشن پر آکر رکی اور بالآخر ۴۴ سال کے طویل انتظار کے بعد وہ تاریخی لمحات آن پہنچے جب قادیان دارالامان کی مقدس سرزمین پر خلیفہ ایسیح نے اپنے مبارک قدم رکھے.قادیان کے ریلوے سٹیشن پر استقبال کے لئے ایک ہجوم جمع تھا جس کی محبت و وارفتگی قابل دید تھی.سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الرابع ٹرین سے باہر تشریف لائے تو حسب ذیل افراد نے آپ کا استقبال کیا: حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلی ربوہ، چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ ربوہ ،صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب، سید میر مسعود احمد صاحب، سید میر محمود احمد صاحب ناصر ربوہ ، ملک صلاح الدین صاحب صدر وقف جدید قادیان سید عبداحی صاحب ناظر اشاعت ربوہ، مولانا سلطان محمود صاحب انور ناظر اصلاح و ارشادر بوه، جمیل الرحمن رفيق صاحب وكيل التصنيف ربوہ ، مکرم ماسٹر مشرق علی صاحب امیر بنگال ،مکرم عبد الحمید ٹاک صاحب امیر جماعت کشمیر، حافظ صالح محمد اللہ دین صاحب امیر آندھرا پردیش ، مولانا سلطان احمد ظفر مبلغ کلکتہ، مولانامحمد انعام غوری صاحب قادیان ، ملک عبدالباری صاحب یوکے ، بشیر احمد شیدا صاحب یو کے نیز قادیان کی انجمن احمدیہ کے دیگر ناظران ان کے نائبین و کارکنان وغیرہ اور اہالیان قادیان اور مہمانان وغیرہ کثرت سے موجود تھے.شام کے اندھیرے میں چونکہ اس جگہ ہجوم کی وارفتگی کا ساں ایسا بے اختیار تھا کہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اپنے آقا کے قدم لینے کے لئے کون کون تھا جو وہاں آنکھیں بچھائے ہوئے تھا.بس جو افراد اُس وقت وہاں شناخت کئے جا سکے اُن کے نام تو تحریر کر دیئے گئے ہیں.امرتسر سے بھی بڑی کثیر تعداد میں احباب اسی ٹرین میں سوار ہوئے تھے جو شاہ قادیان کو قادیان پہنچا رہی تھی.سید نا حضرت خلیفہ اسیح نے جو نہی ٹرین سے باہر قدم رکھا قادیان کی فضا فلک بوس نعروں سے بھر گئی.ہر سمت سے حضرت امیر المومنین.زندہ باد، قادیان دارالامان - زنده باد ، درویشان امیرالم قادیان.زندہ باد، اسیرانِ راہ مولیٰ.زندہ باد، شہدائے احمدیت.زندہ باد ،غلام احمد کی جے.کے
48 نعرے بلند ہوتے رہے.سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ مسیح الرابع قادیان کے ریلوے اسٹیشن کے لاؤنج میں تشریف لائے تو عشاق خلافت کی دیدار خلیفہ کے لئے جو حالت تھی، اُسکے سامنے مرغ بسمل کی مثال بہت ہی ادنی اور کمزور نظر آتی ہے لیکن اُن کے لئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار اپنے بے اختیار نعروں سے کرتے.چنانچہ اُنہوں نے ایسے والہانہ اور فلک شگاف نعرے بلند کئے کہ ان نعروں سے شش جہات گونجتی تھیں.جس کے سبب مسلسل کئی روز تک قادیان کی فضا میں کان اُن نعروں کی بازگشت اور دل ایک ارتعاش محسوس کرتے رہے.یہ ایک ایسی خوشی تھی جو تاریخ کے افق پر صدیوں بعد ابھرتی ہے اور پھر صدیوں تک اپنے نقوش چھوڑ جاتی ہے.قادیان کے درویش جو اپنے آقا کے صرف ایک اشارہ پر اس مقدس بستی کی حفاظت اور مقامات مقدسہ کے تقدس کے پاسبان بن کر اور نصف صدی سے اوپر ایک لمبی جدائی کی سوزش کے ساتھ اُس کے منتظر رہے اور بہت سے اسی امید وصل میں اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.بہر حال آج جو لقائے یار سے ہمکنار ہوئے ، اُن کی آنکھیں خلیفہ اسیح کے وجود با جودکو سرزمین قادیان میں دیکھ کر جذبات حمد و تشکر کے موتی گرانے لگیں اور دلوں کے اندرونی تلاطم کا کچھ اندازہ انڈے ہوئے جذبات اور بے قرار و بے قابو نعروں سے ہورہا تھا.دراصل بات یہ تھی کہ ایک وہ ہجر تھا جو ۱۹۴۷ء میں خلیفہ امسیح کے قادیان ایچ کے قادیان سے ہجرت کر جانے کی وجہ سے بھارت کی جماعتوں نے اور خصوصا قادیان کے درویشوں نے سینہ سے لگایا تھا اور ایک یہ فراق تھا جو ۱۹۸۴ء میں خلیفہ اُسیح کے ربوہ سے ہجرت کر جانے کی وجہ سے ربوہ کے - درویشوں اور پاکستان کی جماعتوں نے حرز جان بنایا تھا.لیکن آج وہ دن تھا کہ دونوں ہجرتوں کی تشنہ لبی وصل کے ایک ہی جام سے مٹائی جارہی تھی.پاکستان کی مختلف جماعتوں اور ر بوہ سے بھی کثرت کے ساتھ احباب آئے ہوئے تھے.اسی طرح بھارت کی ہر سمت سے آنے والے اور قادیان کے سارے باسی بھی وہاں موجود تھے.ملک کے دور ونزدیک سے بعض غریب عشاق خلافت قرض اٹھا کر یا اپنے قیمتی اثاثے بیچ کر بھی قادیان امڈ آئے تھے لیکن بات صرف یہی نہ تھی بلکہ نظارہ بھی کچھ اور تھا اور جذبات کی کیفیت بھی مختلف تھی.جو عاشق تھے وہ معشوق بھی تھے ، جو محب تھے وہ محبوب
49 بھی ، پیا پریمی بھی تھا اور پریمی پیا کیونکہ جس الوہی شمع کے لئے یہ پروانے جمع ہوئے تھے اُس کا اپنا حال یہ تھا کہ لو نغمہ ہائے در دنہاں تم بھی کچھ سنو دیکھونا، میرے دل کی بھی راگن اداس ہے اور یہ کہ ہر لمحہ فراق ہے عمر دراز غم گزرا نہ چین سے کوئی پل آپ کے لئے چنانچہ ان جدائیوں کی ایک ہی وصل سے آبیاری کا یہ نظارہ بھی یقیناً تاریخ عالم کا نہایت منفر داورانوکھا واقعہ تھا جو محض دیکھنے اور محسوس کرنے سے تعلق رکھتا تھا.دلوں کے ہزار ہزار بندٹوٹ رہے تھے اور یہ کیفیت آنے والے کی بھی تھی اور استقبال کرنے والوں کی بھی.حضور کی کا راسٹیشن کے لاؤنج میں ہی موجود تھی.آپ کار میں تشریف فرما ہوئے اور کاروں کے ایک لمبے قافلہ کے جلو میں دارا مسیح کی جانب روانہ ہوئے.قادیان دارالامان کو اہل قادیان نے حضور اقدس کی آمد کی خوشی میں کئی دنوں کی دن رات کی تگ و دو سے دلہن کی طرح سجایا ہوا تھا.منارة أسبح ، مسجد مبارک ، مسجد اقصٰی اور دیگر جماعتی عمارات پر چراغاں کیا گیا تھا.استقبالیہ گیٹ اور راستے رنگ برنگ چمکدار خوبصورت جھنڈیوں اور قمقموں سے مزین تھے.انفرادی طور پر بھی احباب قادیان نے اپنے گھروں پر چراغاں کر رکھا تھا جس سے محلہ احمد یہ قادیان بقعہ نور بنا ہوا تھا.سٹرکوں پر جابجا استقبالیہ بینرز لگے ہوئے اور دیوار میں بھی ایسی ہی تحریروں سے آراستہ تھیں.یہ بینرز اور تحریریں صرف جماعت احمدیہ کی طرف سے ہی نہ تھیں بلکہ قادیان کے دیگر مذاہب کے لوگوں اور تنظیموں کی طرف سے بھی تھیں.ان سب نے بھی حضرت امام جماعت احمدیہ کو جی بھر کر قادیان میں خوش آمدید کہا تھا.حضور پر نورا ایوانِ خدمت کے قریب کار سے اترے تو استقبالیہ کمیٹی کے صد ر مکرم محمد کریم الدین شاہد صاحب صدر عمومی اور ممبران کمیٹی مکرم محمد انعام غوری صاحب صدر مجلس انصار اللہ بھارت اور مکرم منیر احمد خادم صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ بھارت نے استقبال کیا.استقبال کے جملہ
50 انتظامات مذکورہ بالا کمیٹی کے زیر نگرانی مکمل کئے گئے تھے.احباب جماعت جو ایک رو میں ایستادہ تھے، حضرت خلیفتہ اسیح کا استقبال کر رہے تھے اور آپ پر بھی ایک خاص خوشی کی کیفیت طاری تھی جو آپ کے چہرے کے نور اور تقدس پر پھیلی ہوئی تھی.چھ گھنٹے سے زائد انتظار کے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو مسلسل آنکھیں بچھائے کھڑا تھا اور بسا اوقات فرط جذبات سے بے قابو ہو جاتا تھا.حضور انور ایوانِ خدمت کے قریب جہاں کار سے اترے تھے ، وہاں سے دارا مسیح تک لوگوں سے مصافحہ کرتے ہوئے گئے.محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب دورانِ مصافحہ ہر ایک کا تعارف کراتے.حضور ہر ایک سے نہایت محبت اور اپنائیت سے مصافحہ یا معانقہ بھی فرماتے جاتے.باوجود دہلی سے قادیان تک طویل مسافت کی بھاری مشقت کے حضور کا رُخ مبارک تر و تازہ اور ہشاش بشاش دمک رہا تھا.مرد حضرات گیٹ دار مسیح کے اندر تک کھڑے تھے.مردوں کو شرف دیدار و ملاقات بخشنے کے بعد حضور انور آگے صحن میں تشریف لے آئے جہاں مستورات پیارے آقا کے دیدار کے لئے چشم براہ تھیں.آپ نے انہیں سلام کہا اور شرف دیدار عطا کیا.حضور جنہیں ملاقات و مصافحے کا شرف بخشتے وہ اپنی سعادت و خوش بختی پر نازاں تھا اور قلب و روح میں اترے ہوئے عقیدت و محبت کے جلووں اور نظروں میں سمائے ہوئے حضور کے پر نور رخ ماہتاب کے حسین تذکرے کر رہا تھا.گویا دنیا جہاں کا کیا تھا جو ا سے مل نہیں گیا تھا.در ویشان قادیان میں سے بہت سے جو اپنے عہد وفا نبھاتے ہوئے اس دنیا کے پارا اپنے رب کریم کے پاس جاگزیں ہو چکے تھے.لیکن وہ جو اس وقت قادیان میں موجود تھے، اپنی جوانی کو پاٹ کر بڑھاپے کے ساحلوں پر اتر چکے تھے.ان کی خوشی تو نا قابل بیان تھی کیونکہ ان کے ۴۴ سالہ ہجر و انتظار کے طویل فاصلے ان چند لمحات میں سمٹ چکے تھے.پیارے آقا کا دیدار اور آپ سے ملاقات ان کی زندگیوں کا انمول اور حسین ترین واقعہ تھا.اس سے وہ اپنے پرانے دکھ درد بھول کر اپنی.خوش قسمتی پر نازاں ہور ہے تھے.صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی خلیفہ وقت سے عقیدت و اطاعت قابل تقلید تھی.آپ نے اپنے آپ کو حضور کے سامنے (جو اگر چہ آپ کے بھائی اور عمر میں چھوٹے تھے ) نہایت عاجزی،
51 انکساری اور خادمانہ حیثیت میں بچھا دیا تھا.آپ حضور کے کاموں میں ہمہ تن مصروف و مستغرق اور حضور ، آپ کے اہل وعیال اور آپ کے اراکین قافلہ کے آرام کی خاطر اپنے آرام کو بھول چکے تھے.اسی طرح آپ کی بیگم صاحبہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ نے بھی ان سب کی بھر پور خدمت کی توفیق پائی.فجزاهم الله تعالى احسن الجزاء بہر حال حضور رحمہ اللہ دارا اسیح میں تشریف لائے تو سب سے پہلے مسجد مبارک کے پرانے حصہ میں چار نفل ادا کئے پھر حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے دالان میں تشریف لائے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے افراد جو پاکستان سے بھی تشریف لائے ہوئے تھے موجود تھے.آپ اُن سے ملے اور پھر دار اسیح کے اُس حصہ میں گئے جہاں آپ کا بچپن کا وقت گزرا تھا.قادیان میں قیام حضور انور کا فیصلہ تھا کہ آپ اپنے مکان یعنی اپنی والدہ ماجدہ حضرت ام طاہر سیدہ مریم بیگم صاحبہ والے مکان میں قیام فرمائیں گے.چنانچہ اُس کی ضروری مرمت اور دیگر ضروریات وغیرہ کا انتظام پہلے سے ہی کر دیا گیا تھا.لہذا آپ اسی مکان میں مع اہل خانہ قیام پذیر ہوئے.قادیان میں پہلی نماز اپنے محبوب آقا کے دیدار اور مصافحہ سے فارغ ہوتے ہی احباب مسجد اقصیٰ میں جمع ہو گئے ، چندلحوں کے بعد حضور انور بھی نماز مغرب و عشاء کی ادائیگی کے لئے مسجد اقصیٰ میں تشریف لے آئے.آپ نے نماز مغرب کی پہلی رکعت میں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ اور اسطرح إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین تین تین بار پڑھی.ابھی سورۃ فاتحہ کی تلاوت شروع ہی کی تھی کہ آپ کی آواز رقت خیز ہوگئی اور پھر ساری نماز ہی درد اور سوز میں ڈوب گئی.مغرب کی نماز کی پہلی رکعت میں سورۃ الزلزال کی تلاوت فرمائی.دلوں کی زمین جو پہلے ہی مرتعش و حسّاس ہو چکی تھی ،سورۃ الزلزال کی تلاوت اس میں ایک زلزلے کی سی کیفیت پیدا کر رہی تھی.آپ نے دوسری رکعت میں سورۃ النصر کی تلاوت فرمائی.نماز عشاء کی پہلی رکعت میں آیتہ الکرسی اور دوسری رکعت میں فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ (آل عمران: آیات ۲۶.۲۸) کی تلاوت فرمائی.نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انورا اپنی قیامگاہ میں
52 تشریف لے گئے.قادیان میں قیام کے دوران آپ کا عموماً یہ معمول تھا کہ نماز مغرب وعشاء کے بعد دار مسیح میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد سے ملاقات فرماتے.اپنا گھر اور گھر یلونگر یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الرابع نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ چونکہ قادیان میں آپ کا اپنا گھر ہے.اس لئے آپ وہاں مہمان نہیں ہوں گے.چنانچہ ایک دن کی رسمی مہمان نوازی قبول کر لینے کے بعد آپ نے حضرت مسیح موعود اللہ کے لنگر کے ساتھ ساتھ اس کی ایک شاخ کے طور پر الگ گھر یلو لنگر بھی جاری فرمایا.اس گھر کے مختلف کمروں میں آپ کے ذاتی مہمان کے طور پر مکرم مبارک احمد کھوکھر صاحب مع فیملی ، مکرم کیپٹن سجاد حسین صاحب آف لندن مع فیملی ، مکرم ڈاکٹر میر مبارک احمد صاحب آف امریکہ مع فیملی اور مکرم چوہدری شاہنواز صاحب مرحوم کے خاندان میں سے جو افراد بھی تشریف لائے ہوئے تھے ، سب قیام پذیر تھے.چنانچہ آپ کے ذاتی لنگر سے تقریباً چارصدافراد کو روزانہ ناشتہ اور کھانا کھلایا جاتا تھا.اس لنگر کا انتظام مکرم محمد اسلم شاد منگل صاحب پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ مع عملہ اور مکرم صاحبزادہ مرزا لقمان احمد صاحب کے سپرد تھا.فجزاهم الله احسن الجزاء.مکرم محمد اسلم شاد منگل صاحب کے ساتھ کام کرنے والے عملہ کے اسماء یہ ہیں : مکرم با بومحمد لطیف صاحب اسٹنٹ پرائیویٹ سیکریٹری.مکرم اقبال الدین صاحب، مکرم را نامبارک احمد صاحب، مکرم را نا عبدالرشید صاحب، مکرم محمود احمد عباسی صاحب، مکرم وسیم احمد انور صاحب ، مکرم مسعوداحمد مقصود صاحب، مکرم اللہ رکھا صاحب، مکرم سراج الدین صاحب، مکرم ارشاد احمد صاحب، مکرم افتخار الدین قمر صاحب ( قادیان)، مکرم سید عبدالہادی صاحب ( قادیان)
53 ۲۰ / دسمبر ۱۹۹۱ء بروز جمعہ قادیان قادیان دار الامان میں ورود سے اگلے روز حضور اقدس نے مسجد اقصی میں نماز فجر صبح چھ بجکر ہیں منٹ پر پڑھائی.یہ پہلی نماز فجر تھی جو خلیفہ اسیح نے ۴۴ سال کے بعد قادیان میں پڑھائی.نماز فجر کے بعد حضور سب سے پہلے بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے اور سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے مزار مبارک پر دعا کی.اسکے بعد حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل ، اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ، حضرت میر محمد اسحاق صاحب ، حضرت میر محمد اسماعیل صاحب، حضرت نا نا جان میر ناصر نواب صاحب ، حضرت نانی جان، حضرت نواب محمد علی خانصاحب اور حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی قبروں پر دعا کی.اسکے بعد حضور احاطہ خاص سے باہر تشریف لے آئے اور موصیان کے یادگاری کتبوں کو دیکھتے ہوئے اور ان کے لئے زیر لب دعا کرتے ہوئے آگے قدم بڑھاتے رہے.یہ کتنے مختلف پیمائشوں کے تھے.آپ نے انہیں دیکھتے ہوئے فرمایا کہ یہ ایک ہی سائز میں ہونے چاہئیں.اسکے بعد آپ نے اپنے نانا جان حضرت سید عبد الستار شاہ کی قبر کے بارہ میں دریافت فرمایا.اس کے بعد آپ بہشتی مقبرہ سے نکل کر محلہ ناصر آباد سے ہوتے ہوئے جلسہ گاہ کے قریب سے عام قبرستان میں تشریف لے گئے.یہاں ، بچپن میں فوت ہونے والے اپنے دو بھائیوں صاحبزادہ طاہر احمد ( اول ) ( پیدائش : ۱۹۲۳ء ) اور اطہر احمد ( پیدائش: ۱۹۳۱ء) کی قبروں پر دعا کی.اس کے بعد مرزا گل محمد مرحوم ابن مرزا نظام الدین صاحب اور مرز اسعید احمد مرحوم ابن حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد کی قبر پر تشریف لے گئے اور دعا کی.یہاں سے فارغ ہوکر حضور بیوت الحمد کالونی کے پاس سے ہوتے ہوئے مولوی عبد المغنی صاحب، ڈاکٹر ملک بشیر احمد صاحب درویش کے گھروں کی درمیانی سٹرک سے گزرتے ہوئے دارالانوار میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی کوٹھی ”دار الحمد تشریف لے گئے اور اس کوٹھی کے سامنے اور پچھواڑے سے گزرے.یہ کوٹھی آجکل رانا پرتاپ دیو صاحب کی والدہ اور ماموں حسرت صاحب کی ملکیت میں ہے.باغ والا حصہ دیکھتے ہوئے حضور ، حضرت سید ولی اللہ شاہ ، سید عزیز اللہ شاہ اور سید حبیب اللہ شاہ کے مکانوں اور حضرت
54 مولانا عبد الرحیم درڈ کی کوٹھی کی طرف سے واپس ہوتے ہوئے اور حضرت سید سرور شاہ اور حضرت بھائی عبد الرحمان قادیانی کے گھروں کے سامنے سے گزر کر احمد یہ چوک آئے اور پھر یہاں سے سیدھے مکرم سید ناصر شاہ صاحب کے مکان پر تشریف لے گئے.اس میں ان دنوں مکرم مولوی بشیر احمد بانگروی صاحب درویش مقیم تھے.ان کی ایک بیٹی امتہ العزیز نسیم صاحبہ (جو لندن میں مقیم ہیں ) نے حضور کی خدمت میں درخواست کی تھی کہ حضور جب قادیان تشریف لے جائیں تو ان کے گھر بھی اپنے قدموں سے برکت بخشیں.چنانچہ حضور نے ان کے گھر تشریف لے جا کر اہل خانہ سے ملاقات کی.اس موقع پر آپ کی صاحبزادیاں بھی آپ کے ہمراہ تھیں.واپسی پر آپ احمد یہ چوک سے ہوتے ہوئے دارا صیح تشریف لے آئے.گیارہ بجے حضور نے دفتر میں تشریف لاکر دفتری امور سرانجام دیئے اور جلسہ سالانہ کے جملہ انتظامات کا جائزہ لیا.ایک بجے دو پہر جمعہ کی پہلی اذان ہوئی.ایک بجکر پچاس منٹ پر آپ مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے.منبر مسجد اقصیٰ کے بیرونی برآمدے میں درمیانی محراب کے عین وسط میں رکھا گیا تھا.آپ نے فرمایا کہ اسے عین اسی جگہ رکھا جائے جہاں یہ پہلے خطبات وخطابات کیلئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے زمانہ میں ہوا کرتا تھا.چنانچہ خدام نے حضور کی منشاء کے مطابق اسے اٹھا کر تھوڑ اسا دائیں جانب اس ستون کے ساتھ کر دیا.تاریخی اعتبار سے یہ ایک انتہائی اہم جمعہ تھا.اس غیر معمولی جمعہ کیلئے پہلی اذان مکرم وحیدالدین صاحب شمس نے دی اور خطبہ سے قبل یعنی دوسری اذان مکرم مولوی منظور احمد صاحب گھنو کے درویش نے دی.بعد ازاں سید نا حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے سرزمین قادیان میں پہلا تاریخی خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.جس کا مکمل متن شامل اشاعت کیا جا رہا ہے.
55 خطبہ جمعہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: ’ آج کا دن ایک بہت ہی اہمیت کا تاریخی دن ہے.آج ۴۴ سال کے لمبے اور بڑے تلخ التواء کے بعد آخر اللہ تعالیٰ نے خلیفہ اسیح کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ وہ آج کا جمعہ قادیان میں احباب جماعت کے ساتھ ادا کر سکے.قادیان کے درویشوں کے لئے بھی اس میں بہت بڑی خوشخبری مضمر ہے.معلوم ہوتا ہے خدا کی تقدیر نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہجر کے دن چھوٹے ہوجائیں گے اور وصل کے دن قریب آجائیں گے اور ان سب آنے والوں کے لئے بھی اس میں بہت خوشخبری ہے جو دور دور سے تکلیفیں اٹھا کر اور بہت سے اخراجات کا بوجھ اٹھا کر یہاں پہنچے تا کہ ان کے دلوں کے بوجھ ہلکے ہوسکیں.ان کو اللہ تعالیٰ نے سعادت بخشی اور توفیق عطا فرمائی کہ نہ صرف اس تاریخی جلسے میں جو سوسال کے بعد (لازماً سوسالہ جلسہ سو سال کے بعد ہی منعقد ہوتا ہے ) مراد یہ تھی کہ جو سو سال کے بعد سوسالہ جلسہ منعقد ہوتا ہے اس میں شامل ہو سکے ہیں.یہ ایک ایسی سعادت ہے جو سو سال میں ایک ہی دفعہ نصیب ہو سکتی ہے اور اس پہلو سے آج کی نسل کے لئے یہ بہت ہی غیر معمولی سعادت کا لمحہ ہے.لیکن دوسری سعادت جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے، یہ بھی بہت ہی بڑی اور بابرکت اور لائق صد شکر سعادت ہے.خدا تعالیٰ نے چوالیس سال کے انقطاع کے بعد خلیفہ اسیح کو آج قادیان میں جمعہ پڑھانے کی سعادت عطا فرمائی.جو لوگ پیچھے رہ گئے اور جو آج ہمارے ساتھ شامل نہیں خصوصاً وہ لوگ جو اسیران راہ مولیٰ ہیں ، جو ایسے مجبور ہیں، ایسے بے بس ہیں کہ خواہش کے علاوہ اگر ان میں ویسے دنیاوی لحاظ سے استطاعت ہوتی بھی تو یہاں نہ آ سکتے.ان سب کو خصوصیت سے نہ صرف آج اپنی دعاؤں میں یا درکھیں بلکہ اس دوران یعنی جلسے کے ایام اور جلسے کے شب وروز میں مسلسل جب بھی آپ کو توفیق ملے آپ ان سب غیر حاضرین کو اپنی دعاؤں میں یا در کھتے رہیں.میہ وہ دن ہیں کہ جب سے ہم یہاں آئے ہیں خواب سا محسوس ہو رہا ہے یوں لگتا ہے جیسے خواب دیکھ رہے ہیں حالانکہ جانتے ہیں کہ یہ خواب نہیں بلکہ خوابوں کی تعبیر ہے.ایسے خوابوں کی تعبیر جو مڈ توں،سالہاسال ہم دیکھتے رہے اور یہ تمنادل میں کلبلاتی رہی ، بلبلاتی رہی کہ کاش ہمیں قادیان
56 کی زیارت نصیب ہو.کاش ہم اس مقدس بستی کی فضا میں سانس لے سکیں جہاں میرے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ملے کے کامل غلام مسیح موعود علیہ السلام سانس لیا کرتے تھے.جب میں یہاں آیا اور میں نے اس بات کو سوچا کہ ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ ایسی فضا میں دوبارہ سانس لیں گے.تو مجھے بچپن میں پڑھا ہوا سائنس کا ایک سبق یاد آ گیا.جس میں یہ بتانے کے لئے کہ جتنے ایک انسان کے سانس میں ایٹم (Atoms) ہوتے ہیں ان کی تعداد کتنی ہے.وہ مثال دیا کرتے تھے کہ سیزر نے جو آخری دفعہ مرتے وقت ایک سانس لیا تھا اس سانس میں اتنے ایٹم تھے کہ اگر وہ برابر ساری کائنات میں ،ساری فضا میں تحلیل ہو جائیں اور برابر فاصلے پر چلے جائیں تو ہر انسان جو سانس لیتا ہے اس کے ایک سانس میں سیزر کے سانس کا ایک ایٹم بھی ہوگا.تو جب میں نے سوچا تو مجھے خیال آیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں لکھو کھبا مرتبہ سانس لئے ، یہ فضا تو آپ کے سانسوں کے ان اجزاء سے بھری پڑی ہے اور ہر سانس میں خدا جانے کتنے ہزاروں ، لاکھوں،حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سانس کے ایٹم ہوں گے جو آج ہم بھی Inhale کرتے ہیں.یہ سوچتے ہوئے میرا خیال حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ کی طرف منتقل ہوا تو مجھے خیال آیا کہ زمین کا سارا جو اُس ہوا سے بھرا پڑا ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی علیے اپنی سانسوں میں کھینچا کرتے تھے اور نکالا کرتے تھے.جب میں یہاں تک پہنچا تو اس ظاہری خوشی میں کچھ کدورت پیدا ہوگئی کیونکہ میں نے سوچا کہ انہی میں وہ سانس بھی ہیں جو دنیا کے بہت سے بد نصیب بھی تو لیا کرتے تھے اور آج بھی لیتے ہیں.ایسے بدنصیب جنہوں نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کا زمانہ پایا اور سارا زمانہ ان سانسوں کو نور رسالت کے بجھانے کیلئے استعمال کیا.اس کو ہوا دے کر فروغ کر دینے کیلئے استعمال نہیں کیا.تو یہ ظاہری اور جذباتی چیزیں مجھے بے حقیقت دکھائی دینے لگیں.وہ جذباتی لطف جو یہاں آکر آیا تھا.اس میں ایک اور پیغام بھی مجھے ملا کہ حقیقت میں ان سانسوں کی جب تک ہم قدر کرنا نہ جانیں جو محمد مصطفیٰ کے سانس تھے یا آپ کے غلام کامل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سانس تھے.اس وقت تک ہم ان سانسوں سے برکت پانے کے اہل نہیں ہو سکتے کیونکہ مدینہ کی فضا بھی حضرت محمد مصطفی ﷺ کے سانسوں سے بھری پڑی تھی.وہ کتنے بد نصیب تھے جوان سانسوں کو لیتے تھے لیکن ان
57 سے برکت نہ پاتے تھے.پس نظام برکت ایک روحانی نظام ہے اس کے لئے ہر انسان کو اہلیت پیدا کرنی چاہئے.جس طرح دنیا میں ایک نظام انہضام ہے، جب تک نظام انہضام درست نہ ہو قطع نظر اس بات کے کہ غذا اچھی ہے یا بری ، انسان کو اس غذا سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.ایک شخص جس میں بعض اچھی غذاؤں کو ہضم کرنے کی طاقت ہی نہ ہو، بعض دفعہ جب وہ ایسی غذا استعمال کرتا ہے تو رد عمل پیدا ہوتا ہے اور فائدے کی بجائے نقصان پہنچتا ہے.دودھ کو دیکھئے، کیسی کامل غذا ہے کہ دواڑھائی سال تک بچہ مکمل طور پر محض دودھ پر پلتا ہے اور اسی سے اپنی آنکھیں بناتا ہے، اپنے دانت بنانے کی تیاری کرتا ہے ، جسم کا ہر عضلہ اسی دودھ سے پرورش پاکر بنتا ہے ہڈیاں بن رہی ہیں ، ناخن بن رہے ہیں، بال بن رہے ہیں، تمام جسم کے اعضاء خواہ کسی نوعیت کے ہوں اسی ایک دودھ سے قوت پا کر نشو ونما پاتے چلے جاتے ہیں لیکن جن کو دودھ کی الرجی ہو، جو دودھ ہضم نہ کرسکیں ، وہ جب دودھ پیتے ہیں تو مرنے کے قریب پہنچ جاتے ہیں.مجھے چونکہ ہو میو پیتھک علاج کا تجربہ ہے اس لئے بعض مریض میرے سامنے ایسے بھی لائے گئے.مثلاً انگلستان میں ایک بچے کے متعلق بتایا گیا کہ دودھ کا ایک قطرہ بھی وہ برداشت نہیں کر سکتا اور دن بدن اس کی صحت گرتی چلی جارہی ہے.دودھ دیں تو پیٹ میں درد شروع ہو جاتا ہے.یا الٹیاں آجاتی ہیں یا قے شروع ہو جاتی ہے یا اسہال لگ جاتے ہیں الغرض کئی قسم کے وبال چمٹ جاتے ہیں.چنانچہ میں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کا علاج کیا وہ بچہ صحت مند ہوا، صحت مند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس طبعی حالت کی طرف لوٹ گیا جو خدا تعالیٰ نے سب کو عطا کر رکھی ہے.جس کو ہم اپنی غفلتوں سے بگاڑ دیا کرتے ہیں.تو اگر تم نے اپنی روحانی حالتوں کو بگاڑ رکھا ہے ، اگر ان میں خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ روحانی غذاؤں کے انہضام کی صلاحیت باقی نہیں رہی تو محض یہ جذباتی باتیں ہیں کہ آج ہم ان فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں جہاں کسی وقت ہمارے آقا و مولیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سانس لیا کرتے تھے.یہ سب ایک جذباتی کھیل ہوں گے جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوگی.پس وہ لوگ جو آج اس جلسے میں شمولیت کی غرض سے جو سو سالہ جلسہ ہے یہاں تشریف
58 لا سکے ہیں اور اس جمعہ میں بھی شمولیت کی سعادت پارہے ہیں ان کو بھی میں یہ نصیحت کرتا ہوں اور بعد میں آکر ان سے ملنے والوں کو بھی یہ نصیحت کرتا ہوں اور ہم سب کے چلے جانے کے بعد یہاں ہمیشہ رہنے والے درویشوں کو بھی یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اس مقام کے کچھ تقاضے ہیں.ان تقاضوں پر ہمیشہ نگاہ رہنی چاہئے.عام حالتوں سے یہاں رہنے والوں کی حالت کچھ مختلف ہونی چاہئے.ہم سب انسان ہیں ، ہم سب میں کمزوریاں ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں سے صرف نظر فرمائے ، ہماری غفلتوں کو معاف فرمائے لیکن اس کے ساتھ ہی اس ذمہ داری سے ہم بہر حال آنکھیں بند نہیں کر سکتے جو مقدس مقامات پر رہنے والوں کی ذمہ داریاں ہیں.خواہ وہ عارضی قیام کے لئے آئیں یا مستقل قیام کی سعادت پائیں پس ان ایام میں ان ذمہ داریوں کو خصوصیت کے ساتھ پیش نظر رکھتے ہوئے ، دعائیں کرتے ہوئے دن گزاریں، خدا تعالیٰ سے توفیق حاصل کرنے کی دعا مانگیں اور توفیق پائیں کہ ہم اپنے روحانی نظام ہضم کو درست کر سکیں اور جہاں بھی قدرت کی طرف سے کوئی روحانی فیض عطا ہونے کا موقع ملے ہم اس سے پوری طرح استفادہ کر سکیں تجھی ہم ایک تنومند ، مضبوط اور صحت مند روحانی وجود کی صورت میں ارتقاء کر سکتے ہیں.یہ وہ ایام ہیں جن میں کثرت کے ساتھ درود پڑھنے کی ضرورت ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور احسان کے ساتھ جو عظیم الشان تعلیم، اسلام کی صورت میں ہمیں عطا ہوئی ہے ، وہ پاک کلام جس کا کوئی ثانی نہیں، یعنی قرآن کریم یہ حضرت اقدس محمد مصطفی ماہ کے قلب مطہر پر نازل ہوا تھا قرآن کی وحی کی صورت میں بھی اور اس کے علاوہ دیگر وحی کی صورت میں بھی.اسلام کی مکمل تعلیم حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے فیض سے ہمیں عطا ہوئی ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم آپ کو وسیلہ قرار دیتا ہے یعنی وہ واسطہ ہیں جن کے ذریعہ سے تمام روحانی فیوض ، تمام بنی نوع انسان کے لئے ہمیشہ کے لئے جاری کئے گئے.یہی قرآن کریم ہمیں نصیحت فرماتا ہے.هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن :(1) کیا احسان کی جزاء احسان کے سوا بھی ہوسکتی ہے.احسان کی جزاء تو احسان ہی ہونی چاہئے لیکن مشکل در پیش ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ کا احسان اتنا عظیم اور اتنا وسیع اور اتنا دور رس ہے کہ لامتناہی ہے.اس کی حدود قائم کرنے کا انسان کے ادراک کو اختیار نہیں ہے.
59 میں نے جب بھی غور کیا ہے اور گہر ا غور کیا ہے اور نظر کو ہر طرف دوڑایا اور پھیلایا اور سوچا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے احسانات کا احاطہ کر سکوں اور ان کے متعلق ایک ایسا شعور پیدا کرسکوں کہ ہر دفعہ اس احسان کو پہچان لوں تو میں اس کوشش میں ہار گیا اور کوشش کے باوجود آج بھی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بہت سے احسانات ہیں جو ہم پر وارد ہوتے چلے جاتے ہیں اور ہم غفلت کی حالت میں ان سے آگے نکلتے چلے جاتے ہیں.صبح جب آپ اٹھتے ہیں اور اپنے بدن کو پاک اور صاف کرتے ہیں، خدا تعالیٰ کی یاد کی طرف دل کو لگاتے ہیں تو کتنے ہیں جو باقاعدہ بلا استثنا حضرت محمد مصطفی ﷺ کا تصور دل میں لاتے ہیں یالا سکتے ہیں کہ یہ ہمارے آقا و مولیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اچھی صبح کا آغاز سکھایا.یا پھر سارا دن آپ کا مختلف حالتوں میں گزرتا ہے ، کہیں بدیوں سے بچنے کی کوشش میں ، کہیں نیکیوں کی طرف میلان کی صورت میں کہیں کسی غریب پر رحم کے نتیجے میں آپ کے دل میں ایک خاص روحانی لہر دوڑ تی ہے لیکن کتنے ہیں جو سوچتے ہیں کہ یہ سب فیوض حضرت محمد مصطفی ماہ ہی کے فیوض ہیں.آپ نے سب کچھ سکھایا ہے، ایسے کامل معلم ، ایسے کامل مربی کہ آپ نے انسانی ضرورتوں کی ہر چیز کا احاطہ کر لیا.یہ درست ہے کہ یہ احاطہ خدا تعالیٰ کے اس پاک کلام نے کیا جو آپ پر نازل ہوالیکن اس لامتناہی پاک کلام کے فیوض کو اپنی ذات میں جاری کر کے ایک نمونہ بن کر ہمارے سامنے ابھرے.یہ احسان ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کا احسان ہے ورنہ وہ پاک کلام ہماری حد ادراک سے باہر رہتا.ہم قرآن آج بھی تو پڑھتے ہیں.کتنے ہیں جو قرآن کے معارف کو براہِ راست پاسکتے ہیں اور ان کے مطالب کو پہنچ سکتے ہیں.لیکن وہ مطالب جو ہم نے پالئے اور ان میں سے بھی بہت سے ہیں جو ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں.اگر آپ مزید غور کریں تو آپ کا دل اس یقین سے بھر جائے گا کہ یہ تمام فیوض جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ابتداء جاری ہوئے اگر حضرت محمد مصطفی ملے ان فیوض سے اپنا کوثر بھر کر ہمارے لئے ہمیشہ کیلئے جاری نہ فرماتے تو ہم ان فیوض کو پا نہیں سکتے تھے.ان کو سمجھ بھی نہیں سکتے تھے.ان کی تفاصیل سے لاعلم اور جاہل رہتے اس لئے یہ درست ہے کہ ہر برکت کا آغاز خدائے واحد و یگانہ سے ہے.لیکن بعض انسانوں کو وہ تو فیق عطا فرماتا ہے کہ ادنیٰ درجہ
60 کے گنہگار انسانوں کیلئے ایک وسیلہ بن جائیں اور سب سے بڑا وسیلہ دنیا میں حضرت محمد مصطفیٰ بنے کیونکہ سب سے کامل تعلیم آپ پر نازل ہوئی اور زندگی کے سب سے زیادہ تقاضے کرنے والی تعلیم آپ پر نازل ہوئی.اتنے تقاضے ہیں کہ دنیا کے کسی مذہب میں اس کا عشر عشیر بھی آپ کو دکھائی نہیں دے گا.اگر تقاضوں پر نظر رکھیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی زندگی دوبھر ہوجائے گی.اس کی ساری عمر ایک قید خانے میں بسر ہوگی جیسا کہ خود آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کو ذکر کرتے ہوئے ان الفاظ میں ظاہر فرمایا کہ الدنيا سجن للمومن وجنة للكافر ( مسلم كتاب الزهد والرقاق حدیث نمبر : ۵۲۵۶ ) که دنیا مومن کے لئے تو قید خانہ ہی ہے.کافر کی جنت ہوتی ہوگی لیکن مومن کے لئے قید خانہ ہی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب ہم ان لفظوں پر غور کرتے ہیں تو یہ قید خانہ بھی مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے ظاہر ہوتا ہے بعض قیدی ہمیں بہت خوش نظر آتے ہیں اتنے خوش کہ وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ اس قید خانہ سے باہر ایک سانس بھی لیں اور کئی قیدی ہیں جور سے تڑاتے پھرتے ہیں اگر وہ تڑا اسکیں تو تڑا لیتے ہیں، بے قاعد گیاں کر سکیں تو کرتے ہیں.ورنہ ان کی زندگی ایک قسم کا عذاب بنی رہتی ہے.تو کس قسم کا قید خانہ ہم نے قبول کرنا ہے یہ راز بھی حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ہم پر اپنا نمونہ پیش کر کے کھول دیا کہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ قیود کو آپ نے قبول فرمایا اور سب سے زیادہ پُر لطف زندگی حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کی زندگی تھی جن کی عشرت اپنے آقا و مولیٰ اللہ جل شانہ کی کامل اطاعت میں تھی.اس کی عبادت میں آپ کو سرور ملتا تھا.آپ کی تمام تر روحانی لذتیں اپنے خدا کی ذات سے وابستہ تھیں.پس قید بھی تو مختلف قسم کی ہوتی ہے.بعض قیدیں ایسی ہیں جو زندگی کی تمام سہولتیں فراہم کرنے والی ہوتی ہیں اور بعض قیدیں ایسی ہیں جو زندگی کی تمام صعوبتیں وارد کرنے والی ہوتی ہیں.پس اپنے زاویہ نگاہ کو درست یا نا درست کرنے والی بات ہے.یہ وہ مضمون ہے جسے دنیا کا ہر انسان سمجھتا ہے یا سمجھ سکتا ہے چاہے اسے مذہب کی دنیا میں اطلاق کرے یا نہ کرے کسی نہ کسی محبت کا تجربہ ہر انسان کو ہوتا ہے اور محبت بھی تو کچھ پابندیاں عائد کرتی ہے.محبت بھی تو بہت سے تقاضے کیا کرتی ہے ان تقاضوں کو پورا کرنے میں ہی محبت کرنے
61 والے کی لذت ہوا کرتی ہے ، ان تقاضوں سے انحراف کے نتیجہ میں زندگی کا لطف پیدا نہیں ہوتا.محبت کی بھی بے شمار قسمیں ہیں.ان میں سے ایک ماں کی بچے کیلئے محبت.میں آپ کے سامنے مثال کے طور پر رکھتا ہوں کہ ماں کی بچے سے محبت کے تقاضے بعض دفعہ اتنے شدید ہو جاتے ہیں اور اتنے تکلیف دہ ہوتے ہیں کہ انسان ان کے تصور سے بھی کانپتا ہے اور ماؤں کو بڑے رحم کی نظر سے دیکھتا ہے جن کے بیمار بچے ساری رات ان کو بلاتے اور ان سے کسی نہ کسی مدد کے تقاضے کرتے چلے جاتے ہیں.خواہ وہ مدد کر سکیں یا نہ کر سکیں اور بسا اوقات ماں مدد کرنے سے عاری ہوتی ہے نہیں کرسکتی ، بچے کا دکھ دور نہیں کر سکتی.اس کو اپنی آنکھوں کے سامنے تڑپتے دیکھتی ہے.جانتی ہے کہ وہ غلط کہہ رہا ہے کہ ماں ! نہ ہو.میرے ساتھ جاگ اور میرے ساتھ تکلیف اٹھا.وہ جانتی ہے کہ میرا جا گنا میرے ساتھ تکلیف اٹھانا اس بچے کے کسی کام نہیں آئے گا لیکن محبت کا تقاضا ہے.اسے نیند میں عذاب ملتا ہے اسے جاگنے میں راحت نصیب ہوتی ہے.وہ جتنا بیمار بچے کے قریب ہو، جتنا اس کے دکھ کو اپنے قلب پر وارد کرے،اس کے دکھ کا احساس کرتے ہوئے اس تکلیف کو اپنانے کی کوشش کرے، اتنا ہی اس کو کچھ سکون ملتا ہے.لیکن یہ واہمہ بھی اس کے لئے جہنم کے واہمہ کی طرح ہے کہ وہ اپنے بیمار تڑپتے ہوئے بچے کو چھوڑ کر اسلئے سو جائے کہ فائدہ تو میں کچھ پہنچا نہیں سکتی ، کیوں نہ کچھ آرام کروں.تو اسلام کو جس قید خانے کی صورت میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ہمارے سامنے رکھا وہ ان معنوں میں نہیں تھا کہ تم ہمیشہ قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا ہو کر زندگی گزار و اور تمہاری زندگی عذاب بن جائے بلکہ سب سے بڑے قیدی اس قید خانے کے تو حضرت محمد مصطفی ماله خود تھے.کہنے والا جانتا تھا کہ اس قید کے کیا تقاضے ہیں اور اس قید کے کیا فوائد ہیں اور کہنے والا جانتا تھا کہ یہ وہی قید ہے کہ ایک لمحہ بھی میں اس قید سے باہر کا تصور بھی نہیں کر سکتا.چنانچہ آنحضرت ﷺ کے اس قلبی رجحان کو اللہ جل شانہ نے ہم پر ایک ایسے راز کے طور پر کھولا جو بہت ہی مقدس راز ، محبت اور پیار کا راز تھا لیکن جسے بنی نوع انسان کے فوائد کے لئے ان کے سامنے کھولنا ضروری تھا.فرمایا: قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ (الانعام : ۱۶۳) میں ایک ایسا قیدی ہوں کہ میری تمام تر عبادتیں، میری تمام تر قربانیاں، میری زندگی، میرا مرنا ،کلیاً
62 لمحدلمحہ خدا تعالیٰ کا ہو چکا ہے.میری زندگی کا ہرلمحہ اس قید میں جکڑا گیا ہے اور یہی میری لذت کا معراج ہے.فرمایا یہی کہہ کر لوگوں کو اس طرف بلاؤ.اگر یہ ایک تکلیف دہ صورتحال ہوتی تو خدا تعالیٰ اس راز کو چھپاتا، نہ کہ ظاہر کرتا.اگر ایسی بات تھی کہ جس سے طبیعتیں متنفر ہوتیں اور بھا گنتیں اور اسے بوجھ سمجھتیں تو خدا تعالیٰ کو کیا ضرورت تھی کہ اس راز کو مومنوں پر ظاہر کر کے فرماتا کہ یہ حال ہوگا تمہارا.جو میرے عاشقِ صادق محمد ﷺ کا حال ہے اس لئے ادھر نہ آنا.دنیا کے عاشق تو ڈرایا کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہمارا جو حال ہو گیا ہے، خدا نہ کرے تمہارا بھی ہو لیکن اس حال کا جو محمد مصطفی ﷺ کا حال تھا، اس کا عجیب عالم ہے کہ بظاہر دور کی نظر سے ، جتنی دور کی نظر سے اس کو دیکھو اتنا تکلیف دہ دکھائی دیتا ہے.لیکن خدا کی قریب کی نظر نے اس کو ایک جنت کا نہایت اعلیٰ درجہ کا نمونہ دیکھا اور ایسی عظیم زندگی کے طور پر دیکھا کہ جس کا حال جس کا راز اگر بنی نوع انسان کو پتا چلے تو وہ والہانہ اس زندگی کی طرف دوڑتے چلے آئیں اور اسے اپنانے کی کوشش کریں.پس یہ وہ اندرونی مضمون ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں عطا کیا گیا.لیکن اس میں اترنے کی صلاحیت بھی ہونی چاہئے.اسے سمجھے بغیر انسان ان مضامین سے پوری طرح استفادہ نہیں کر سکتا.پس دنیا کے عاشق کو لطف تو آتا ہے لیکن ساتھ ساتھ ڈراتا بھی تو چلا جاتا ہے کہ آلَايَا أَيُّهَا السَّاقِي أَدِرْ كَأْسًا وَّنَاوِلُهَا که عشق آسان نمود اول ولے افتاد مشکلها اے ساقی ! شراب سے لبریز پیمانہ پکڑا تاکہ میں اپنے آپ کو ڈبودوں ، اپنی یادوں کو غرق کر دوں کہ عشق کے سوا اب مجھ سے رہا نہیں جاتا کیونکہ ” آساں نموداؤل عشق آغاز میں تو بہت پر لطف دکھائی دیتا تھا اور بڑا آسان لگتا تھا’ولے افتاد مشکلہا اب اس میں مبتلا ہو گئے ہیں تو بہت مصیبتوں کا پہاڑ سر پر آپڑا ہے.لیکن حضرت محمد اللہ کا عشق دیکھا کہ کس شان سے محبوب کی نظر میں ظاہر ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ اب کہہ دے اتمام بنی نوع انسان کو مطلع کردے کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کہ اے محبت کا دعوی کرنے والو! خدا کی محبت عذاب نہیں ، خدا کی محبت ثواب ہے ، یہ لذت ہے، یہ جنت ہے اور
63 جنت کی بھی نہایت اعلیٰ درجہ کی قسم ہے اسلئے تم بھی اگر محبت کا دعوی کرتے ہو تو میری پیروی کرو، میرے پیچھے آؤ پھر تمہیں پتا لگے گا کہ محبت ہوتی کیا ہے پھر تم محبت کی حقیقت سے آشنا ہو گے اور کچی محبت کے نتیجہ میں خدا کے پیار اور محبت کی نظر میں تم پر پڑنے لگیں گی.پس ان معنوں میں حضرت محمد مصطفی اما وسیلہ ٹھہرے.پس جب ہم درود پر زور دیتے ہیں تو ہرگز نعوذ باللہ من ذالک اس میں کوئی شرک کا پہلو نہیں.اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ ہی ہے اس کے سوا اور کوئی کچھ نہیں.اس کے سوا نہ محمد بیت ہے، نہ احمدیت ہے، نہ زندگی کی کسی اور حقیقت کے کوئی معنی ہیں.تو خدا ہی ہے جو سب کچھ ہے لیکن وہ لوگ بھی بہت کچھ ہوئے جو خدا تعالیٰ سے وابستہ ہو گئے اور وہ لوگ بھی بہت کچھ ہوئے جنہوں نے خدا تعالیٰ سے وابستہ ہونا شروع کر دیا.پس اس پہلو سے وسیلے کی حقیقت کو سمجھیں تو ہم سب آج اپنے رب سے وابستہ ہورہے ہیں اور ہوتے چلے جارہے ہیں.لازماً ہم سب آنحضرت ﷺ کے عظیم احسانات کے صلى الله نیچے دبے پڑے ہیں.اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم احسانات کا بدلہ اتار سکیں.پس قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے کہ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ کہ کیا احسان کی جزاء احسان کے سوا بھی کچھ ہو سکتی ہے؟ پس یہ بھی حضرت محمد مصطفی ملالہ کے احسانوں میں سے ایک احسان ہے اور عظیم احسان ہے کہ آپ نے فرمایا کہ تمہارے دل میں بھی تمنا ہوتی ہوگی کہ مجھے تھے دو.میرے لئے کچھ کرو تو درود پڑھا کرو.خدا کی حمد کے بعد درود پڑھا کرو اور اس کے نتیجے میں بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کچھ احسان اتار رہے ہیں مگر طاقتور سے لڑائی نہیں ہو سکتی ناممکن ہے محسن اعظم کے احسان سے فیضیاب ہونے والے اس سے مقابلہ نہیں کر سکتے.ایک طرف بظاہر ہمارے دل کو تسکین دینے کے سامان پیدا کئے کہ تم بھی مجھ پر کثرت سے درود بھیجو.کچھ تمہیں بھی تو لطف آئے کہ تم نے میرے لئے کچھ کیا اور ساتھ فرمایا کہ اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری دعائیں مقبول ہوں گی.یہ سارے درود خدا تعالیٰ تم پر لوٹا دے گا اور آسمان سے یہ درود برکتیں اور رحمتیں بن کر تم پر نازل ہوا کرے گا.تو کیسا احسان اتارا؟ ایک ذرہ بھی نہیں.احسان اتارنے کی کوشش میں اور احسانوں تلے ہم دیتے چلے جاتے ہیں اور دبتے چلے جائیں گے.
64 پس آنحضرت یہ چشمہ فیض ہیں.آپ کا فیض لازما لوگوں کو پہنچے گا.کسی کا فیض آپ کو نہیں پہنچ سکتا، سوائے خدا کے.میرے نزدیک خاتمیت کا آخری معنی یہی ہے کہ وہ فیض رساں جو ہر دوسرے کو فیض پہنچائے اور کبھی کسی سے فیض حاصل نہ کرے سوائے اس کے کہ جس کی وہ مہر ہے، جس کے ہاتھوں سے لگتی ہے.پس کامل رسول ،سب سے کامل رسول ، اکمل رسول ، سب کا ملوں سے بڑھ کر کامل اور سب خدا رسیدہ لوگوں سے بڑھ کر خدا رسیدہ ایک ایسا رسول تھا جس کا فیض تمام نبیوں پر پھیلا ہے.تمام بنی نوع انسان پر پھیلا ہے.حیوانات پر پھیلا ہے.جمادات پر پھیلا ہے.ان کو پہنچا جو آپ کے آنے سے بہت پہلے پیدا ہوئے.اس کا ئنات کو پہنچا جو بھی ابتدائے وجود کی حالت میں کروٹیں بدل رہی تھی.کیونکہ آپ آخری رسول تھے اس لئے آپ مخفیض رساں ہیں لیکن تمام تر فیوض آپ نے اپنے رب سے پائے.یہ توحید کامل ہے جس کا سمجھنا ضروری ہے اور اس کے نتیجہ میں جہاں حمد کی طرف غیر معمولی توجہ اور عارفانہ توجہ پیدا ہوتی ہے وہاں درود کی طرف بھی غیر معمولی اور عارفانہ توجہ پیدا ہوتی ہے.پس ہم یہ مبارک ایام ان فضاؤں میں سانس لیتے ہوئے یہاں بسر کریں گے جن فضاؤں کے ساتھ ہمارا ایک گہرا جذباتی رابطہ ہے.خواہ ہم اس فیض کو پاسکیں یا نہ پاسکیں لیکن جب ہم یہ سوچتے ہیں اور سوچیں گے کہ حضرت مسیح موعود ان فضاؤں میں سانس لیتے رہے اور آپ کے بزرگ صحابہ اور خلفاء ان فضاؤں میں سانس لیتے رہے تو باوجود اس احساس بے بسی کے ہم زبردستی اس کا فیض نہیں پاسکتے جب تک فیض پانے کی اہلیت پیدا نہ کریں.ایک جذبات میں انگیخت تو ضرور ہوگی ، ایک لرزش پیدا ہوگی.ایک تموج پیدا ہوگا اور تموج بھی ایک عجیب روحانی لطف پیدا کرتا ہے.ایسی کیفیات میں درود پڑھا کریں.ایسی کیفیات میں جو خاص تموج کی حالتیں آپ پر آنے والی ہیں اور آچکی ہونگی اور آئندہ بھی آتی چلی جائیں گی ان حالتوں میں سب سے بڑھ کر حمد باری تعالیٰ کے بعد درود پڑھنے کی ضرورت ہے.اور یہ وہ چیز ہے جو برکتوں کی صورت میں آپ ہی پر نازل ہوگی آپ کا کسی پر کوئی احسان نہیں.نہ حمد کا خدا تعالیٰ پر احسان ے نہ درود کا محمد مصطفی ﷺ پر احسان ہے.یہ احسان ایسا ہے جو کئی گنا ہو کر آپ کی طرف واپس لوٹے گا اور پھر آپ اس کیفیت میں اگر اپنوں کے صلى الله
65 لئے ، غیروں کے لئے ، دوستوں کے لئے اور دشمنوں کے لئے، آزادوں کے لئے اور اسیروں کے لئے ، صحتمندوں کے لئے اور بیماروں کے لئے ، وہ جو خوش نصیب ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے دولت کی فراوانی عطا کی ہے، وہ جو غربت میں سکتے ہوئے زندگیاں بسر کر رہے ہیں جو قرضوں کے بار تلے دبے ہوئے ہیں، جو کئی قسم کے مصائب کا شکار ہیں ان سب کے لئے بھی اگر آپ دعائیں کریں گے تو وہ دعائیں زیادہ مقبول ہوں گی اور ان معنوں میں آپ بھی تو کچھ فیض رساں بن جائیں گے.پس یہ عجیب گر ہمیں حمد وثنا اور درود نے سکھا دیا کہ تم اپنے اوپر والوں کا احسان تو نہیں اتار سکتے مگر اس احسان اتارنے کی کوشش میں اپنے نیچے والوں پر اور احسان کرتے چلے جاؤ تمہیں بھی کچھ فیض رساں ہونے کا سلیقہ عطا ہوگا تمہیں بھی لطف ملے گا کہ اگر اللہ تعالیٰ اور محمد مصطفی ﷺ کا احسان نہیں اتار سکتے تو عاجز بندوں پر کچھ احسان تو کر سکتے ہو اور خدا کے بندوں پر احسان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو احسان مند محسوس فرماتا ہے.حضرت محمد مصطفی ﷺ کی امت پر احسان کرنے کے نتیجہ میں آنحضور ﷺ کی روح آپ پر رحمت اور درود بھیجے گی.یہ ایک ہی راستہ ہے جس سے ہم کچھ احسانات کا بوجھ ہلکا کرنے کی کامیاب کوشش کر سکتے ہیں لیکن اس راستے میں داخل اسی طریق سے ہوتے ہیں جو طریق قرآن کریم نے ہمیں سکھایا جوحمد و ثنا اور درود نے ہمیں سکھایا.پس آج کی اس محفل میں جو باتیں میں آپ کے سامنے کر رہا ہوں انہیں حرز جان بنا ئیں ان پر غور کریں ، سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے کوشش کیا کریں کہ آپ کے اخلاق کے رونما ہوتے وقت یعنی جب اخلاق کسی عمل میں ڈھل رہے ہوتے ہیں یہ دیکھا کریں کہ اس پر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی کتنی چھاپ ہے.اور جب آپ ایسا سوچیں گے تو اکثر صورتوں میں جہاں بھی آپ بھلائی کریں گے آپ حضرت محمد مصطفی امیہ کے زیرا احسان آرہے ہونگے.اور اس وقت کا درود ایک خاص کیفیت کا درود ہوگا.وہ عام حالت کا درود نہیں ہوگا.پس درود، درود کی بھی مختلف قسمیں ہیں.ایسا درود پڑھیں جو دل کی گہرائیوں سے تموج کی حالت میں اٹھے.ایک موج کی صورت میں ، لہر در اہر دل سے نکلے.وہ درود ہے جو آسمان تک پہنچتا ہے ، وہ درود ہے جو برکتیں بن کر آپ پر نازل ہوتا ہے.پھر آپ کی دعائیں آپ کے پیاروں کے حق میں بھی سنی جائیں گی.مجبوروں کے حق میں.
66 بھی سنی جائیں گی، غیروں کے حق میں، اپنوں کے حق میں، ہر اس شخص کے حق میں آپ کی دعائیں سنی جائیں گے جن کیلئے آپ آنحضور ﷺ کے فیض کے اثر کے تابع دعا کریں گے.یہ آخری بات سمجھا کر میں اس خطبہ کو ختم کروں گا.آنحضور ﷺ کے فیض کے تابع اگر آپ دعا کریں تو آپ کی دعا اپنوں کے لئے نہیں رہ سکتی ، صرف اپنوں کیلئے نہیں رہ سکے گی.آنحضور ﷺ کا فیض محسوس کرتے ہوئے اس خاص حالت میں اگر آپ دعا کریں تو ناممکن ہے کہ آپ اپنے دشمن کے لئے بھی دعا نہ کریں.ناممکن ہے کہ تمام حاضر بنی نوع انسان کے لئے دعا نہ کریں.ناممکن ہے کہ آئندہ تمام آنے والی نسلوں کیلئے دعانہ کریں.ناممکن ہے کہ تمام گزرے ہوئے بنی نوع انسان کیلئے دعانہ کریں.کیونکہ آنحضور کے فیض کا یہ وسیع دائرہ تھا جس میں آپ کا فیض پہنچا کرتا تھا.پس آپ کے فیض سے لذت پا کر آپ کے دل میں بھی اسی طرح کی ایک بے کنار موج اٹھے گی جس کا کوئی کنارہ نہیں ہوگا ، آپ کے دل کی گہرائی سے ایسی دعائیں اٹھیں گی جن سے بنی نوع انسان کو بہت سا فائدہ پہنچے گا.ان معنوں میں آپ فیض رساں بن سکتے ہیں اور انہی معنوں میں آپ کو فیض رساں ہونا چاہئے کیونکہ اگر آپ آج فیض رساں نہ بنے تو یہ دنیا ہلاکت کے آخری کنارے تک پہنچی ہوئی ہے.کسی اور کا فیض اس دنیا کو اب ہلاکت سے بچا نہیں سکتا.ایک محمد مصطفی امیہ کا فیض ہے وہ آپ کے اور خدا تعالیٰ کے درمیان وسیلہ بنے ہیں اور آپ کو محمد مصطفی ﷺ اور بنی نوع انسان کے درمیان لازماً وسیلہ بننا ہو گا.یہی وہ وسیلہ ہے جو آج تمام بنی نوع انسان کی نجات کا وسیلہ بنے گا اگر یہ وسیلہ نہ بنا تو بنی نوع انسان کا کچھ نہیں بن سکتا.یہ آج کی دنیا لازماً ہلاک ہونے والی ہے.اس کے اطوار تو دیکھیں.اس کی عادتیں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عادتوں سے کوسوں کیا ، کروڑوں اربوں میل دور جا چکی ہیں.پس وسیلے کے مضمون کو اپنے تک پہنچا کر ختم نہ کر دیا کریں.محمد مصطفی ﷺے وسیلہ صرف خدا تعالیٰ اور آپ کے درمیان نہیں تھے ، خدا تعالیٰ اور سارے بنی نوع انسان کے لئے وسیلہ بننے کے لئے آئے تھے اور آپ کو مزید وسیلوں کی ضرورت ہے.پس وہ جو محمد مصطفی ﷺ سے عشق کا دم بھرتے ہیں ، جو غلامی کا دعویٰ کرتے ہیں، جو عہد کرتے ہیں کہ ہم آپ کی خاطر ، آپ کے ناموس کی خاطر ، آپ کے پیغام کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہو جائیں گے.ان کو لازماً وہ وسیلہ بننا ہوگا اور وسیلے کے تقدس
67 کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے جس حد تک بھی توفیق ملے.جو انسانی کمزوریوں اور بشری بے بسی کے نتیجے میں کمزوریاں لاحق ہوتی ہیں اور ہوتی رہیں گی.ایسی صورت میں مجھے اللہ تعالیٰ سے بھاری امید ہے کہ ایسے لوگوں سے مغفرت کا سلوک فرمائے گا.ان کی کمزوریوں سے صرف نظر فرمائے گا، ان کے گنا ہوں کو بخشے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرے سب سے محبوب اور سب سے محبوب مطلوب سے یہ پیار کرنے والے ہیں.اور اگر اپنے کسی محبوب سے کسی کو پیار ہوتو لا زما اس کی کمزوریوں سے بھی انسان صرف نظر کرنے لگ جاتا ہے اور بہت سی باتیں اس کی برداشت کر جاتا ہے جو دوسروں کی نہیں کر سکتا.پس خدا سے مغفرت پانے کا بھی یہی ایک ذریعہ ہے.اس وسیلے سے تعلق قائم کریں اور اس وسیلے کی خاطر آپ اس کے اور بنی نوع انسان کے درمیان وسیلہ بن جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آج کے خطبے کی آواز دنیا کے مختلف ممالک میں پہنچ رہی ہے اور اس ضمن میں جسوال برداران کا دعا کی خاطر ذکر کرنا چاہتا ہوں، خصوصاً وسیم جسوال صاحب کی غیر معمولی محنت اور کوشش کے نتیجے میں آج یہ سامان مہیا ہوئے ہیں کہ آج یہاں کے خطبے کی آواز انگلستان پہنچے.پھر انگلستان سے سیٹلائٹ کے ذریعہ دنیا کے مختلف ممالک میں مشرق و مغرب میں.اور جاپان تک بھی پہنچے نی میں بھی پہنچے ، ماریشس میں بھی پہنچے، یورپ کے ممالک میں بھی پہنچ جائے.غرضیکہ جہاں جہاں بھی جس جماعت کو توفیق ہے کہ خطبہ سننے کے انتظامات کر سکے ان تک یہ آواز آج براہ راست پہنچ رہی ہے.اس پہلو سے یہ ایک عظیم تاریخی دن ہے کہ آج قادیان سے محمد مصطفی امیہ کے کامل غلام کے ایک ادنی غلام کی آواز ، آپ ہی کی آوازیں بن کر تمام عالم میں پھیل رہی ہیں.اللہ تعالیٰ اس سعادت کے نتیجہ میں ہمیں مزید شکر گزار بندے بنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس شکر گزاری کا آغاز اس بات سے ہونا چاہئے کہ جو لوگ اس بات کیلئے سعادت کا ذریعہ بنے ان کو بھی دعاؤں میں یا درکھیں.صرف یہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے ہیں جنہوں نے ان انتظامات میں بہت ہی کوشش اور بہت ہی محنت کی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے.قادیان کے جلسے کے انتظامات رسمی طور پر تو شاید کل یا پرسوں شروع ہوں گے.لیکن ان
68 انتظامات کا آغاز بہت پہلے سے ہو چکا ہے.انگلستان میں آفتاب احمد خان صاحب جو یو نائیٹڈ کنگڈم (United Kingdom) کے امیر ہیں.وہ خصوصیت سے اس معاملہ میں میری مدد کرتے رہے ہیں اور بہت ہی حکمت، ذہانت اور مسلسل بڑی محنت کے ساتھ اس جلسے کو کامیاب بنانے کے لئے جو کچھ صلاحیتیں ان کو عطا ہوئی تھیں وہ خرچ کی ہیں.اور ان کے علاوہ بہت سے ہمارے انگلستان میں ساتھی اور پھر قادیان میں بہت سے درویش، پھر ربوہ سے آنے والے سلسلہ کے خدام کثرت سے ایسے نام ہیں جو ذہن میں دعا کی غرض سے عمومی طور پر گھوم جاتے ہیں لیکن اس موقع پر تفصیل سے ان ناموں کا بیان ممکن نہیں.اس لئے میں آپ سے یہی درخواست کرتا ہوں کہ ان ایام میں تمام کارکنوں کو جنہوں نے کسی بھی رنگ میں جلسے کی خدمات میں حصہ لیا ہے یا آئندہ لیں گے ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھا کریں.یہ بھی یا درکھیں کہ جلسہ کے ان ایام میں بہت سے مختلف قسم کے لوگ یہاں آئیں گے.اکثر خدا تعالیٰ کے فضل سے اخلاص کے ساتھ ، وفا اور محبت سے مجبور ہوکر یہاں پہنچیں گے ، کچھ شریر بھی آئیں گے ، کچھ تنگ نظر بھی آئیں گے، کچھ بدا را دے لیکر بھی آئیں گے اسلئے جہاں ان پاک نیک لوگوں کے لئے ہم پر کچھ فرائض ہیں جو خدا کے نام کی خاطر اور خدا کے دین اور خدا کے پیاروں کی محبت کی خاطر یہاں پہنچے ہیں یا پہنچتے رہے ہیں ، جہاں ان کے حقوق ادا کرنے کی بڑی ذمہ داریاں ادا ہوتی ہیں وہاں انکو غیروں کے اثر سے بچانے کی بھی ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اس کے لئے آپ سب کو نگران رہنا چاہئے.ظاہری سیکیورٹی وغیرہ کے جو انتظامات ہیں وہ تو محض بہانہ ہوتے ہیں.اصل تو خدا تعالیٰ کا فضل ہے لیکن خدا تعالیٰ کا فضل جن جن مشکلوں میں ڈھلتا ہے، جن جن وسیلوں میں سے گزر کے آگے بڑھتا ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر مومن صاحب فراست ہوتا ہے.ہر مومن کو بیدار مغز ہونا چاہئے.جہاں اس کو کوئی رخنہ دکھائی دے وہاں کوشش ہونی چاہئے کہ وہ رخنہ بند ہو جائے پیشتر اس کے کہ اس کے نتیجہ میں کوئی فساد ابل پڑے.اسی طرح اپنی چیزوں کی بھی حفاظت ضروری ہے.مجھے تجربہ ہے کہ جلسہ کے موقع پر جماعت مومنین کو بھولا بھالا سمجھ کرکئی چور اچکے بھی آجاتے ہیں اور پھر لوگوں کو اس سے بڑی تکلیف پہنچتی ہے.اس لئے میں آپ کو نصیحت کر رہا
69 ہوں.آپ خود بھی یہ نصیحت ذہن نشین کر لیں لیکن آنے والوں کو بھی بتائیں کہ اپنے سامانوں کی حفاظت کریں.باہر سے کثرت سے لوگ آنے والے ہیں.پس جہاں جہاں جس قیام گاہ میں آپ ٹھہرتے ہیں کوئی قیامگاہ ایسی نہیں ہونی چاہئے جہاں آپ اپنا امیر نہ بنائیں.اگر یہ نظام جلسہ سالانہ قادیان کے منتظمین نے جاری فرما دیا ہے تو اس نظام کے مطابق کام کریں.اگر نہیں ہے تو یا درکھیں کہ ہر کمرہ کا ایک امیر ہونا ضروری ہے.اس کا نظام کے تابع انتخاب کر کے یا مقرر کروا کے پھر اندرونی انتظامات کو مکمل کریں.کوئی بیمار ہوتا ہے تو وہ کیا کرے؟ اس کا ان سب کو علم ہونا چاہئے.کوئی اور ایمر جنسی ہو جاتی ہے، حادثہ ہو جاتا ہے تو کیا ہونا چاہئے؟ یہ پھر آپ کی قیامگاہ کے امیر کا کام ہے کہ اپنے ساتھ نائبین بنائے.سب ضروریات پر نظر رکھتے ہوئے وقت پر آپ کو مطلع کرے بلکہ پہلے سے بتا ر کھے کہ یہ بات ہو تو یہ ہونا چاہئے.فلاں بات ہو تو یہ ہونا چاہئے.کوئی کسی قسم کی شرارت کرتا ہے تو اس کا یہ توڑ ہے.اگر پولیس کے پاس جانا ہے تو کس طرح جاتا ہے.کس نظام کی معرفت اور کس وسیلے سے پہنچنا ہے.یہ ساری باتیں ایسی تفصیلی ہیں جو بعض دفعہ منتظمین سمجھتے ہیں کہ سب کے علم میں ہی ہیں.سب کے سب جانتے ہیں کیونکہ خودان کے علم میں ہیں حالانکہ بہت سے بھولے بھالے باہر سے آنیوالے ایسے ہیں کہ ان کو کوئی پتا نہیں ہوتا کہ کیا کرنا چاہئے.ان کی تربیت کرنی ضروری ہے.پس جماعت کے ہر نظام میں تربیت کا ایک از خود رفته نظام جاری ہو جایا کرتا ہے اور جلسے کی برکتوں میں سے ایک یہ بھی برکت ہے کہ اس جاری وساری نظام سے بہت سے لوگ فیض پاتے ہیں اور واپس جا کر بہتر زندگی گزارنے کی اہلیت حاصل کر چکے ہوتے ہیں.پس اس بات کو یا درکھئے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے احسانات میں سے ایک یہ بھی احسان ہے کہ امارت کے بغیر کی زندگی کا کوئی تصور بھی مسلمان کے لئے باقی نہیں رہتا اسے لازماً نظام کی کڑی کے طور پر نظام کے سلسلے سے مربوط ہو کر رہنا پڑے گا اور اس کا یہ طریق ہمیں سمجھایا کہ اگر تم سفر پر جاتے ہو، کہیں بھی ہو، بغیر امارت کے نہیں رہنا چاہئے.یہی امارت ہے جس کا سلیقہ اگر مومنوں کو عطا ہو جائے تو اس سے صالح امامت رونما ہوتی ہے اور خلافت کی حفاظت کے لئے بھی اس نظام کا
70 تفصیل سے جاری رہنا ، جاری رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا بڑا ضروری ہے.پس ان تمام فسادات سے بچنے کے لئے اور اس دیر پا دُور رس اور اعلیٰ نیت کے ساتھ کہ نظام جماعت کی حفاظت اور صالحیت کے لئے یہ باتیں ضروری ہیں.جہاں بھی آپ رہیں گے وہاں ایک امیر بنا کے ان تمام باتوں پر نظر رکھئے جو ایسے بڑے اجتماعات میں حادثوں یا شرارتوں کی صورت میں رونما ہو سکتے ہیں.ان کی پیش بندی کے لئے ترکیب سوچئے ، سامان پیچھے چھوڑ کر جاتے ہیں، کوئی آئے گا کیسے داخل ہوگا ، اس کو اگر روکا جائے تو شرارت کا احتمال نہ ہو، یہ ساری باتیں ہیں جن میں توازن پیدا کرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے اگر بیدار مغزی سے پہلے ہی متنبہ ہوں تو پھر آپ ایسا کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.ہمیں جلسے کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق بخشے.مقامی درویشوں پر بہت بڑا بوجھ ہے.بعض کے گھر اس طرح بھرے ہیں اور بھرنے والے ہیں کہ باہر سے آدمی دیکھے تو سوچ نہیں سکتا کہ اس گھر میں سے اتنے افراد نکلیں گے.آج کل تو مرغی خانے کا نظام اور طرح ہو گیا ہے.پرانے زمانے میں خصوصاً پنجاب میں چھوٹے چھوٹے دڑبے رکھے جاتے تھے اور ان میں قطع نظر اس کے کہ اتنی سانسوں کی گنجائش بھی ہے کہ نہیں ، زمیندار مرغیاں کھسیڑ تا چلا جاتا تھا.حتی کہ آخر پر مشکل سے دروازہ بند کر دیتا تھا.یہ اللہ کی شان ہے کہ ایسی حالت میں مرغیاں بچ جاتی ہیں.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ بچپن میں میں نے دیکھا کہ ایک دربا کھلا تو اس میں اتنی مرغیاں نکلیں گھبرائی ہوئی اور پریشان کہ یقین نہیں آتا تھا کہ اس چھوٹے سے دڑبے میں سے نکل رہی ہیں لیکن یہ صرف مرغیوں کی دنیا کی بات نہیں ہے.احمدی جلسے میں ہر گھر مرغا خانہ بن جاتا ہے اور بعض دفعہ مہمان نکلتے ہیں اور اتنے نکلتے ہیں کہ انسان پریشان ہو جاتا ہے کہ کیسے اس میں سما گئے تھے؟ مگر دل کو خدا تعالیٰ نے وسعت عطا فرمائی ہے ، ایثار کے جذبے عطا کئے ہیں، محبت عطا کی ہے.اس کے نتیجے میں یہ سب انہونی باتیں ہو کر رہتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ محبت اور پیار کے انداز میں ان مشکل تقاضوں کو پورا کریں اور شوق سے اور پیار سے پورا کریں ، لطف اٹھاتے ہوئے پورا کریں نہ کہ تکلیف محسوس کرتے ہوئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
71 خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: جلسہ کے ایام میں اور آج سے لے کر جلسہ تک اور جلسہ کے بعد بھی کچھ عرصہ تک کیونکہ لوگوں کو بار بار مساجد میں اکٹھا ہونے میں تکلیف ہوتی ہے اور ایسی تکلیف کے لئے اللہ تعالیٰ نے سہولت مہیا فرما رکھی ہے اس کے لئے نمازیں جمع ہوتی رہیں گی.آج بھی ہوں گی اور جب تک سہولت پیدا نہ ہو جائے تب تک اس رخصت سے استفادہ کیا جائے گا.تو یا درکھئے کہ اب بھی ،شام کو بھی اور آئندہ بھی ان ایام میں ظہر و عصر کی نمازیں اور مغرب وعشاء کی نمازیں جمع ہوا کریں گی.“ حضور انور بعد دو پہر دفتر میں تشریف لائے اور دفتری امور نیز دفتری و انفرادی ملاقاتوں میں مصروف رہے.نماز مغرب و عشاء کے بعد مسجد اقصیٰ میں عرفان کی مجلس جھی.جس میں احباب نے سوالات کئے اور حضور کے بصیرت افروز جوابات سے مستفیض ہوئے.
72 ۲۱ / دسمبر ۱۹۹۱ء بروز ہفتہ.قادیان.نماز فجر چھ بجکر میں منٹ پر سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی اقتداء میں ادا کی گئی.اس کے بعد سات بجے حضور بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار پر اور قطعہ خاص میں بعض دیگر قبروں پر دعا کی.حضور اقدس کے ہمراہ آپ کی صاحبزادیاں بھی تھیں.قطعہ خاص سے باہر نکل کر حضور نے حضرت سید محمد سرور شاہ کی قبر پر دعا کی اور اس کے بعد بہشتی مقبرہ سے باہر تشریف لائے اور محلہ ناصر آباد سے ہوتے ہوئے زیر تعمیر بیوت الحمد کے مکانوں کا معائنہ کیا اور محلہ دارالانوار کی جانب تشریف لے گئے.قادیان میں جلسہ سالانہ میں مہمانوں کی کثرت سے آمد متوقع تھی.اس کے پیش نظر اس عظیم جلسہ کی تیاریوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہاں مغربی ممالک کی جماعتیں گیسٹ ہاؤسز تعمیر کریں.چنانچہ حضور نے زیر تعمیر بیوت الحمد کے معائنہ کے بعد مختلف ممالک کی طرف سے تعمیر کئے جانے والے ان گیسٹ ہاؤسز کا تفصیلی معائنہ فرمایا.یہاں سے آپ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کی کوٹھی النصرت‘ میں اندر تشریف لے گئے.جس میں آج کل رہائش پذیر بوڑھے سکھ میاں بیوی سے ملاقات کی.بعد ازاں آپ واپس احمد یہ چوک سے ہوتے ہوئے آٹھ بجے دار ا صیح تشریف لے آئے.دفتری امور کی انجام دہی کے بعد ڈیڑھ بجے نماز ظہر وعصر آپ نے مسجد اقصیٰ میں پڑھا ئیں.دو پہر کے بعد آپ دفتر میں تشریف لائے.دفتری امور کے علاوہ دفتری و دیگر ضروری ملاقاتوں نیز ڈاک کے کام کے بعد چار بجے آپ استقبالیہ اجلاس میں شمولیت کے لئے مسجد اقصیٰ میں تشریف لائے.استقبالیہ اجلاس تین بجے سہ پہر مسجد اقصیٰ میں حضرت خلیفہ لمسیح الرابع" کے اعزاز میں ایک مختصر سا استقبالیہ اجلاس منعقد ہوا.اس اجلاس میں جماعت ہائے احمد یہ بھارت وقادیان کی طرف سے آپ کی خدمت میں استقبالیہ پیش کیا گیا.اس تقریب میں مکرم مولوی سلطان احمد ظفر صاحب مبلغ سلسلہ کلکتہ نے تلاوت کی اور مکرم ناصر علی عثمان صاحب نے حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی نظم جو
73 حضرت مصلح موعود کی انگلستان سے واپسی پر لکھی تھی ، وجد آفریں انداز میں پڑھی.جس کے بعد مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر جماعت ہائے احمدیہ قادیان نے حضور کی خدمت میں حسب ذیل سپاسنامہ پیش کیا: بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلى عبده السيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر سپاسنامه بحضور سید نا حضرت مرزا طاہراحمد صاحب خلیفہ مسیح الرابع ایدہ اللہ تعالی منجانب در ویشان قادیان و ہرسہ مرکزی انجمنیں وذیلی تنظیمیں واحباب جماعت ہائے احمد یہ بھارت بر موقع قدوم میمنت لزوم در قادیان دارالامان مورخه ۲۱ / فتح دسمبر ۱۳۷۰هش/ ۱۹۹۱ء الحمدللہ الحمدللہ ثم احمد للہ کہ 4 سال کی طویل فرقت کے بعد معظم امام جماعت احمد یہ سید نا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ کے قدوم میمنت لزوم سے قادیان اور سرزمین ہند مشرف ہوئے.اے ہمارے رحیم و کریم خدا! جن کے دیدار کے لئے آنکھیں ترستی رہیں ،انکی دید سے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک کے جو سامان تو نے اپنے فضل وکرم سے فرمائے تیرے اس احسان اور اپنی خوش نصیبی پر ہم تیرے حضور سر بسجو د ہیں.اے ہمارے پیارے آقا! اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ نے مشرق ومغرب میں کئی ملکوں کے للہی سفر اختیار فرمائے لیکن اس تاریخی سفر کے موقع پر جو تقسیم ملک کے بعد آزاد ہندوستان میں خدا
74 کے خلیفہ کا پہلا مبارک سفر ہے.ہم دل کی گہرائیوں سے حضور کی خدمت میں اهلا و سهلا و مرحبا کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دست به دعا ہیں کہ حضور کے اس سفر کو جماعت احمد یہ نیز ہندوستان کے لئے بے شمار خیر و برکت کا موجب بنائے اور تا اختتام سفر ہر گام پر فرشتوں کا نزول رہے اور ہر آن اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حضور کے شامل حال رہے.اے آمدنت که باعث آبادی ما اے ہمارے محبوب آقا اور اسے قدرت ثانیہ کے مظہر رابع ! ۱۰ جون ۱۹۸۲ء کو اللہ تعالیٰ نے حضور کو مسند خلافت پر متمکن فرمایا اور آج حضور کی مؤید من اللہ قیادت پر صرف ۹ سال کا عرصہ گزرا ہے مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور اسکی نصرتوں کی لہر در ہر موجوں پر سے گزرتے ہوئے جماعت احمدیہ نے دہاکوں کا سفر طے کر لیا ہے.اے خلیفہ برحق ! اللہ تعالیٰ نے حضور کے دور خلافت کو بعض ممتاز خصوصیات سے نوازا ہے.پہلی خصوصیت یہ عطا ہوئی کہ حضور کے عہد خلافت کے اس نوسالہ عرصہ میں ۱۹۸۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی ماموریت پر سو سال پورے ہوئے.۱۹۸۶ء میں پیشگوئی مصلح موعود پرسوسال پورے ہوئے.۱۹۸۹ء میں جماعت احمدیہ کے قیام پر سوسال پورے ہوئے اور ساری دنیا میں عظیم الشان صد سالہ جشن تشکر منایا گیا.۱۹۹۱ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ مسیح موعود پر سوسال پورے ہوئے.نیز اسی سال ہجری سن کے لحاظ سے سورج چاند گرہن کے عظیم الشان نشان پر سوسال پورے ہوئے اور اب جلسہ سالانہ کے قیام پر سو سال پورے ہونے پر جماعت احمد یہ اپنے محبوب امام کی قیادت میں داگی مرکز سلسلہ قادیان میں سوسالہ جلسہ سالانہ کا انعقاد کرنے کی توفیق پارہی ہے.جس میں حضور کی خاص شفقت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوصحابی اور ایک صحابیہ بھی رونق افروز ہیں فالحمد لله وذلك فضل الله يوتيه من يشاء.دوسری خصوصیت یہ عطا ہوئی کہ سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے خلل کامل اور روحانی فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نیابت میں حضور نے اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق دنیا بھر کے معاندین اور مکفرین کو دعوت مباہلہ دی اسکے نتیجہ میں دنیا نے ایک بار پھر حضرت مسیح
75 موعود علیہ السلام کے الہام إِنِّي مُهِيْنٌ مَّنْ اَرَادَ اهَا نَتَک کو کمال شان سے پورا ہوتے دیکھا اور اللہ تعالیٰ نے سرکش دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچایا اور ہمارے پیارے امام ہمام کے اس قول کو بپائیہ قبولیت جگہ دی کہ کل چلی تھی جو لیکھو پہ تیغ دعا آج بھی اذن ہو گا تو چل جائے گی اسکے ساتھ جماعت احمدیہ کو ایسی نفرتوں سے نوازا جسکے شیر میں ثمرات سے انشاء اللہ پوری صدی کے احمدی فیضیاب ہوتے رہیں گے.حضور کے دور خلافت کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ جب دشمن نے یہ یقین کر لیا کہ وہ منہ کی پھونکوں سے چراغ احمدیت کو بجھانے میں مسلسل ناکامیوں اور حسرتوں سے دو چار چلے آئے ہیں تو انتہائی سفلہ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ۲۶ را پریل ۱۹۸۴ء کا آرڈی نینس جاری کر دیا.ہاں اسی ظالمانہ کاروائی کا نتیجہ اس رنگ میں ظاہر ہوا کہ حضور کو ملک سے ہجرت کرنی پڑی.لیکن یہ ہجرت مشیت ایزدی سے کئی شیر میں ثمرات پر منتج ہوئی.اندرون ملک اگر چه احمدیوں پر شدید ظلم وستم روا رکھے گئے.شمع احمدیت کے پروانوں نے ان مصائب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دو درجن سے زائد فدایوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا سینکڑوں فرزندان احمدیت جیلوں میں کوہ عزیمت بنے رہے، سینکڑوں احمدی مقدمات کی سختیاں خوشی خوشی جھیلتے آرہے ہیں اور بیرونی دنیا میں تبلیغ واشاعت اور جماعتوں کی تربیت کی سمت حیرت انگیز کارنامے ظہور پذیر ہوئے.خاص طور پر خدمت قرآن کی توفیق عطا ہوئی.چنانچہ اب تک چھیالیس زبانوں میں مکمل قرآن کریم کے تراجم شائع ہو چکے ہیں.منتخب آیات منتخب احادیث اور منتخب ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اشاعت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جملہ کتب ، ملفوظات، مکتوبات اور تفسیر کی جلدوں پر مشتمل روحانی خزائن کی اشاعت وغیرہ اسکے علاوہ ہے.لندن ، جرمنی اور کینیڈا میں جماعت کے بڑے بڑے کمپلکس قائم ہو چکے ہیں اور ہور ہے ہیں.آسٹریلیا کے پانچویں بر اعظم میں جدید پریس کا قیام، وقف نو کی آسمانی تحریک، حضور کے خطبات کو سٹیلائٹ کے انتظام کے ذریعہ براہِ راست ہزاروں میل دور دیگر ممالک میں سنائے جانے کا پروگرام یہ سب ہجرت کی برکتوں کے طور پر ظاہر ہوئے.پھر اسی ہجرت کے بعد
76 حضور کے دوروں اور ذاتی توجہ کے نتیجہ میں یورپ امریکہ، افریقہ ، مشرق وسطی اور خود ہندوستان میں جماعت کی تبلیغ واشاعت، تربیت اور مالی قربانیوں کا رجحان اس قدر بڑھ گیا کہ بعض ممالک میں ترقی کا گراف ہجرت سے قبل کے سالوں کی نسبت سو گنا سے بھی اوپر نکل چکا ہے.فالحمد للہ علی ذالک.چوتھی خصوصیت حضور انور کے مبارک دورِ خلافت کو یہ عطا ہوئی کہ نائیجیریا کے تین بادشاہوں کو قبول احمدیت کی توفیق ملی اور متعدد ممالک کے وزراء ممبران پارلیمنٹ اور سر کردہ اہم شخصیتیں جماعت کے جلسہ سالانہ میں شرکت کرنے لگیں اور جماعت کو خراج تحسین پیش کیا.پانچویں خصوصیت حضور کے دور درخشندہ کو یہ عطا ہوئی کہ دیوار برلن کے گرنے اور روسی کمیونزم کے زوال کے بارے میں آسمانی پیشگوئیاں ہماری آنکھوں کے سامنے پوری ہوئیں.یہ عجیب نصرت الہی ہے کہ اب نئے میدانوں میں داخل ہونے بلکہ ان راستوں کے کھلنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے برحق خلیفہ کی راہنمائی فرمائی.جس کے نتیجہ میں روسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور دیگر اسلامی لٹریچر کے ترجمہ کی اشاعت کی توفیق ملی اور خلیفہ رابع کی اس خدمت کی قبولیت کا اللہ تعالیٰ نے یہ نشان دکھایا کہ جماعت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس سال جلسه سالانه لندن پر ۱۲۰افراد پر مشتمل روسی وفد نے شرکت کی اور ۲ معز زممبران نے حضور کی خدمت میں اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے روسی لباس کوٹ اور ٹوپی پہنائی اور اپنے ممالک میں آنے کی دعوت دی.پس اے ہمارے دل و جان سے پیارے آقا! حضور کی بابرکت موجودگی میں ہم اللہ تعالیٰ کے ان افضال کی یادداشت تازہ کرتے ہیں اور اسکے نتیجہ میں جو شکر کا حق ہے اسکے ادا کرنے کی توفیق پانے اور جذ بہ اطاعت، قوت عمل اور وفا کے ساتھ تادمِ واپسیس خلافت کے دامن سے وابستہ و پیوستہ رہنے کے لئے حضور اقدس کی خدمت میں عاجزانہ دعا کی درخواست کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے امام ہمام کو صحت و سلامتی والی لمبی عمر سے نوازے، ہمیشہ روح القدس کی تائید حضور کے شامل حال رہے اور ہماری طرف سے ہمیشہ حضور کی آنکھیں ٹھنڈی رکھے اور حضور کے اس نزول در قادیان کو فتح مبین کا پیش خیمہ بنادے اور جماعت ہائے احمد یہ ہندوستان کو اپنے فضل سے اس قابل بنا دے کہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے دائمی مرکز قادیان میں خلافت کی دائمی واپسی کے جلد سامان فرما دے
آمین ثم آمین.77 آخر میں ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامی الفاظ میں یہی عرض کرتے ہیں کہ خوش آمدی.نیک آمدی ( تم خوش آئے ہو اور ا چھے آئے ہو ) ( تذکرہ صفحہ: ۵۹۱) والسلام ہم ہیں حضور کے ادنی غلام اس کے بعد حضور نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :.” جب میں نے آغاز سال ہی میں یہ نیت باندھی کہ اگر خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے تو اس سال جلسہ میں ضرور شرکت کرونگا.قادیان کی طرف سے بار بار درخواستیں آجاتی تھیں کہ اُن کی طرف سے دیئے جانے والے ایک سپاسنامہ کے پڑھنے کی اجازت دی جائے لیکن میں ہمیشہ گہری معذرت کے ساتھ رد کر تا رہا.لیکن اب اس خیال سے کہ دل شکنی نہ ہو تو یہ اجازت دی کہ اگر سپاسنامہ پیش کرنا ہی ہو تو سارے ہندوستان کی جماعتوں کی طرف سے ہوتا کہ میں عمومی رنگ میں مخاطب کر سکوں تردد در اصل اپنی طبیعت کی گھبراہٹ کی وجہ سے کرتا رہا تھا.یہاں جتنا وقت سپاسنامہ پیش ہوتار ہا میں بہت گھٹن اور تنگی محسوس کرتا رہا ہوں.اگر چہ جماعت احمدیہ میں سچائی بڑے گہرے طور پر پائی جاتی ہے لیکن سپاسناموں کا رواج ایسا ہے کہ کسی نہ کسی رنگ میں تکلف بڑھتا جاتا ہے.یہی وجہ تھی کہ مجھے تردد رہا.سورۃ فاتحہ کی الحمد کے مضمون پر آپ جتنا غور کریں گے آپ کی ذات مٹتی چلی جائے گی.اس میں اتنی وسعت ہے کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ سمند ر ختم ہو سکتے ہیں، انمول موتی اور دیگر خزینے ختم ہو سکتے ہیں ، لیکن کلام الہی کی وسعت کبھی ختم نہیں ہوتی.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے اپنے نفس کا محاسبہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس نفس میں بہت سارے بت چھپے ہوئے ہیں.ان تمام بتوں کے مٹنے کے ساتھ اللہ کی حمد کے نئے مضامین اور نئے جلوے نظر آتے ہیں.جب حمد وثنا بندے کے لئے کی جائے تو اس سفر میں روڑے اٹکے ہوئے نظر آتے ہیں.آج یہاں جو سپاسنامہ پڑھ کر سنایا گیا تھا اُس کا جواب دینے سے بھی میں نے معذرت کی
78 تھی اس میں بھی کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں.اب میں جو کھڑا ہوا ہوں جوابی تقریر کے لئے نہیں صرف وضاحت کے لئے کہ کیوں یہ طرز عمل میں نے اختیار کیا.ہم میں سے ہر شخص زندگی کے ہر پہلو میں مسافر ہے.آخری سفر اللہ کی راہ میں سفر ہے.اس راستے میں بہت سارے رہزن ہیں.اسی لئے خدا تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی کہ نَعُوذُ باللهِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِلا کر نفس کی تمام شرارتوں سے اور اپنے اعمال کی تمام برائیوں سے ہم خدا تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں.اس سے بڑی پناہ کوئی اور نہیں ہوسکتی.نفس کی انانیت بہت بڑا دشمن ہے.اس دشمن سے پناہ مانگے بغیر یہ سفر کامیاب نہیں ہوسکتا.اس سفر میں سب سے زیادہ روکیں اُس کے اپنے نفس کی طرف سے عائد ہوتی ہیں.سپاسنامہ وہی ہے جسے خدا کے حضور پیش کیا جائے.سب تعریفیں صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے لئے ہونی چاہئیں صرف وہی تمام تعریفوں کا مستحق ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ یہ پیغام آپ کے دل میں جاگزیں ہوگا.اللہ تعالیٰ ہم سب کے لئے خدا کی جانب کے سفر کو آسان کر دے.آمین اس کے بعد حضور انور نے لمبی دعا کرائی بعد ازاں نماز مغرب وعشاء کے لئے اذان کہی گئی.نمازوں کی ادائیگی کے بعد مجلس عرفان کا انعقاد ہوا.یہ مجلس علم و عرفان ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہی.۲۲ / دسمبر ۱۹۹۱ء بروز اتوار.قادیان حضور نے نماز فجر چھ بج کر بیس منٹ پر مسجد اقصی میں پڑھائی.بعد ادائیگی نماز فجر سات بجے کے قریب حضور پر نور حسب معمول بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر اور دیگر قبروں پر دعا کرنے کے بعد واپس دار اسیح تشریف لے آئے.نو بجے آپ دفتر تشریف لائے اور دفتری امور انجام دینے کے بعد دس بجے کارکنان جلسہ سالانہ کے معائنہ اور مصافحہ کیلئے دارا مسیح میں اپنے دفتر سے باہر تشریف لائے.سب سے پہلے آپ
79 نے دار امسیح کے صحن میں دو رویہ قطاروں میں کھڑے ناظمین منتظمین وغیرہ کو مصافحہ کا شرف بخشا حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ ربوہ ، صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب، چوہدری حمید اللہ صاحب، صاحبزادہ مرزا غلام احمد ، صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب اور منظور احمد صاحب گجراتی افسر جلسہ سالانہ قادیان آپ کے ہمراہ تھے.اس کے بعد حضور دار اسیح کے گیٹ سے باہر تشریف لائے تو سڑک کے دونوں اطراف میں کارکنان قطاروں میں کھڑے تھے.آپ انہیں شرف مصافحہ بخشنے کے بعد مدرسہ احمدیہ کی عمارت میں مقیم مستورات میں تشریف لے گئے.اسکے بعد پیدل چلتے ہوئے دارالضیافت میں گئے اور روٹی پکانے والے پلانٹ کا معائنہ فرمایا.دارالضیافت کے باہر شعبہ رجسٹریشن جلسہ سالانہ اور حلقہ بہشتی مقبرہ میں ڈیوٹی دینے والے کارکنان قطاروں میں کھڑے تھے.آپ نے اُن کو مصافحہ کا شرف بخشا.یہاں سے واپسی پر راستے میں آپ نے ایک عمر رسیدہ سکھ کو پہچان کر ان سے حال احوال دریافت فرمایا اور ان کی پیشانی پر بوسہ دیا.اس پر خدام نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور اسلام زندہ باد اور احمدیت زندہ باد کے نعرے لگائے.ان نعروں کے جواب میں اس عمر رسیدہ سکھ نے بلند آواز میں دیگر احباب کے ساتھ ملکر جواب دیا.یہاں سے حضور پر لیں اور لنگر خانہ کے معائنہ کیلئے تشریف لے گئے.راستہ میں شعبہ بجلی میں ڈیوٹی دینے والے کارکنان سے بھی آپ نے مصافحہ فرمایا.جلسہ سالانہ کے دفاتر کے معاونین سے ملاقات کے بعد آپ حضرت مصلح موعود کی کوٹھی ”دار الحمد“ میں گئے.یہ کوٹھی اب ایک سکھ دوست کی ملکیت میں ہے.جو انہوں نے اس تاریخی جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے قیام کیلئے جماعت کو پیش کی ہوئی تھی.اس کوٹھی کے ساتھ ہی حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی ہے جو اب سرکاری بجلی گھر میں تبدیل کر دی گئی ہے.یہاں سے حضورانور محلہ دار الانوار میں جرمنی ، یو کے کینیڈا اور امریکہ کی طرف سے نئے تعمیر شدہ گیسٹ ہاؤسز میں تشریف لے گئے.پھر حضرت ڈپٹی محمد شریف صاحب کی کوٹھی سے ہوتے ہوئے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی ”دار السلام میں گئے اور وہاں سے خالصہ ہائیر سیکنڈری سکول میں تشریف لے گئے.جو پہلے تحریک جدید کا بورڈنگ ہاؤس ہوا کرتا تھا اور آجکل سکول کی انتظامیہ نے جلسہ کے مہمانوں کے
80 ٹھہرانے کے لئے جماعت کو پیش کیا تھا.فجزاهم الله احسن الجزاء بعد ازاں حضور اقدس مسجد نور میں تشریف لے گئے جو تعلیم الاسلام کا لج ( حال سکھ نیشنل کالج) میں واقع ہے.جہاں پہلے تعلیم الاسلام سکول ہوتا تھا یہ بھی مہمانوں کے قیام کے لئے رضا کارانہ طور پر لیا گیا تھا اور یہاں بورڈنگ کے گیٹ پر شر ما صاحب ہیڈ ماسٹر سکول نے حضور کا استقبال کیا.یہاں پاکستان کی مختلف جماعتوں کے افراد ٹھہرے ہوئے تھے اور بورڈنگ کے برآمدہ میں حضور کے انتظار میں کھڑے تھے.حضور نے جب پاکستان کے افراد سے مصافحہ کیا.بعض احباب جذبات سے بے قابو ہو رہے تھے.حضور نے ان کو سنبھلنے کا اشارہ کیا.سوا ایک بجے آپ معائنہ ختم کرنے کے بعد واپس دار مسیح تشریف لائے اور آپ نے ڈیڑھ بجے نماز ظہر و عصر مسجد اقصیٰ میں پڑھائیں.کارکنان جلسہ سے خطاب پچھلے پہر چار بجے حضور انور نے مسجد اقصیٰ میں منتظمین جلسہ سالانہ سے خطاب فرمایا.مکرم قاری نواب احمد صاحب کی تلاوت قرآن مجید کے بعد آپ نے فرمایا کہ ایسی تقریبات میں سالہا سال سے مجھے شرکت کی توفیق ملتی رہی ہے.قادیان میں بھی ، ربوہ میں بھی اور خلافت کے بعد بھی توفیق ملتی رہی ہے.لیکن اس وقت میرے دل میں مختلف خیالات اور جذبات کا طوفان موجزن ہے.ان جذبات پر میں بے قابو ہو رہا ہوں.حضور انور پر رقت طاری تھی.آپ نے فرمایا وو 66 یہ صد سالہ جلسہ عام جلسوں کی طرح نہیں لیکن یہ اپنی نوعیت کا ایک ہی جلسہ ہے.سو سالہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہے گی لیکن یہ پہلا جلسہ بہر حال پہلا جلسہ ہے.ہم آپ سب بہت خوش قسمت ہیں کہ اس تاریخی جلسہ میں جو صرف سو سال میں ہی ایک دفعہ دوہرایا جاتا ہے ، شرکت کی توفیق ملی ہے.“ حضور انور نے نظم و ضبط کو قائم کرنے اور اعلیٰ اخلاق کے مظہر بن کر خدمت بجالانے کی
81 تلقین فرمائی اور فرمایا:.یہ اخلاق آئندہ تاریخ کی بنا ڈالنے والے ہیں.آپ حضرت محمد مصطفی میلہ کے غلام ہیں.اس کے ساتھ صاحب کوثر کے غلام بھی ہیں.پس خدا تعالیٰ کے عاجز مزدور ہونے کی حیثیت سے اس خدمت میں شرکت کریں.مقبول دعاؤں کا بجز کے ساتھ گہرا ربط ہے.بجز ایک لاشئی کا نام ہے.جس انسان پر خدا کی عظمت کا جلوہ ظاہر ہو اُس کے اندر حقیقی معنوں میں بجز پیدا ہوتا ہے.اس عجز کے نتیجہ میں دعاؤں کا اعجاز ظاہر ہوتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ دعا سکھائی تھی کہ رَبِّ إِنِّي لِمَا اَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ (القصص:۵۲) اس دعا میں صرف اپنے نفس کے لئے خیرو برکت مانگی گئی تھی لیکن حضرت رسول کریم ﷺ نے ہمیں جو دعا سکھائی تھی وہ : اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحہ:۵) کی تھی.اس میں تمام بنی نوع انسان جو موحد ہیں ان کو شامل کر لیا تھا.“ آخر میں حضور انور نے فرمایا: خدا تعالیٰ نے اس جلسہ میں بہت برکتیں مخفی رکھی ہیں اس لئے بہت بجز کے ساتھ دعاؤں کی ضرورت ہے.“ اس کے ساتھ ہی حضور انور نے دعا کرائی ہتمام کارکنان جلسہ سے مصافحہ فرمایا اور دفتر میں تشریف لے آئے جہاں دفتری اور متفرق انفرادی ملاقاتیں کیں.بعد ازاں آپ مکرم چوہدری انورحسین صاحب امیر جماعت ہائے ضلع شیخوپورہ کی عیادت کیلئے دارالضیافت میں تشریف لے گئے.اُن کی طبیعت ایک دو روز سے علیل تھی.اسی طرح مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب ایڈووکیٹ صدر قضا بور ڈ ر بوہ کی والدہ محترمہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیہ تھیں، آپ نے اُن کی بھی عیادت فرمائی.نماز مغرب وعشاء حضور انور کی اقتداء میں مسجد اقصیٰ میں ادا کی گئیں.نمازوں کی ادائیگی کے بعد آپ مسجد میں ہی تشریف فرما ہوئے اور مجلس عرفان کا انعقاد ہوا.اس سے قبل آپ نے مکرم محمد
82 موسیٰ صاحب درویش کے بیٹے محمد شکیل صاحب کی تقریب شادی میں ازرہ شفقت دعا کرائی.حضور کی صحت فلو کی وجہ سے آج متاثر رہی.۲۳ دسمبر ۱۹۹۱ء بروز سوموار.قادیان سید نا حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے نماز فجر چھ بج کر میں منٹ پر مسجد اقصی میں پڑھائی.نماز کی ادائیگی کے بعد آپ بہشتی مقبرہ میں تشریف لے گئے.قطعہ خاص میں سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار مبارک پر اور دیگر قبروں پر دعا کرنے کے بعد قادیان کے مختلف حصوں کی سیر کیلئے پیدل تشریف لے گئے.آپ نے مین سٹرک پر سے ہوتے ہوئے ریتی چھلہ کا معائنہ کیا.یہاں سے بازار کی طرف جاتے ہوئے حضرت میر محمد اسمعیل کی کوٹھی کے بارہ میں دریافت کیا.ان کی کوٹھی کے عقب میں نور ہسپتال والی گلی میں گئے.وہاں پر کھڑے ہو کر اپنی صاحبزادیوں کو بتایا کہ اس کوٹھی میں جامن کے بہت درخت ہوتے تھے اور یہاں پر ہم جامن کھایا کرتے تھے.نور ہسپتال کے پاس بارش کے پانی اور کیچڑ کی وجہ سے راستہ خراب تھا.حضور وہاں سے جو نہی واپس مڑے تو لا بھ سنگھ فخر صاحب ( قادیان کے مشہور سیاستدان) کے پوتے سے ملاقات ہوئی.انہوں نے حضور سے مصافحہ کا شرف حاصل کیا.یہاں سے ٹی آئی ہائی سکول کو جانے والی سٹرک پر سے ہوتے ہوئے خالصہ کالج گئے اور پھر کوٹھی دارالسلام کے اندر تشریف لے گئے اور اس کمرے میں گئے جس میں حضرت خلیفہ اول کی وفات ہوئی تھی.واپسی پر نور ہسپتال کے دروازے پر رک کر اپنی صاحبزادیوں کو نور ہسپتال کے متعلق بتاتے رہے.اسکے بعد ریتی چھلہ سے ہوتے ہوئے سبزی منڈی میں ڈاک خانے کے قریب چند لمحے ٹھہرنے کے بعد چھوٹی گلی سے احمد یہ چوک کی طرف سے واپس دار مسیح تشریف لے آئے.حضور دس بجے دفتر میں تشریف لائے اور دفتری امور کے سلسلہ میں نصیر احمد قمر صاحب پرائیویٹ سیکرٹری ، خاکسار ہادی علی ایڈیشنل وکیل التبشیر اور چوہدری عبدالرشید صاحب آرکیٹیکٹ کو بلا کر
83 ہدایات دیں.آج حضور انور سے اخبار ہند سماچار کا نمائندہ ملنے کیلئے آیا اور اپنے پاس رکھنے کے لئے آپ کی فوٹو بھی لیکر گیا.ڈیڑھ بجے نماز ظہر و عصر حضور کی اقتداء میں مسجد اقصیٰ میں ادا کی گئیں.فلو کی شکایت سے آپ کی طبیعت ناساز تھی جس کا اندازہ صرف آپ کے چہرے اور آواز پر اثر سے ہوتا تھا مگر کاموں کی رفتار اور تسلسل بفضلہ تعالیٰ حسب معمول تھا.نماز مغرب وعشاء کی ادائیگی کے بعد آپ مسجد اقصیٰ میں رونق افروز ہوئے اور مجلسِ عرفان کا آغاز ہوا.رات ساڑھے آٹھ بجے سے دس بجے تک حضور نے سرگودہا اور راولپنڈی ڈویژن کے علاقوں سے آئے ہوئے مہمانوں سے ملاقات فرمائی.آج مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلی تحریک جدیدر بوہ نے بھی اپنی فیملی کے ساتھ شرف ملاقات حاصل کیا.حضور انور نے اُن کی بیٹی عزیزہ رضوانہ حمید کی شادی کی دعا بھی وہیں دفتر میں ہی کرائی.عزیزہ رضوانه حمید کی شادی مکرم نثار یوسف صاحب ابن مکرم کمال یوسف صاحب سابق مبلغ سکینڈے نیویا سے طے ہوئی تھی.حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ کی دہلی سے قادیان آمد حضرت بیگم صاحبہ کی بیماری کے پیش نظر دہلی کے مشہور ہسپتال (سرگنگا رام ہسپتال) کے ماہر امراض شکم و جگر (Gastro Entrologist) کی خدمات حاصل کی گئی تھیں.انہوں نے حضرت بیگم صاحبہ کی صحت کو قادیان کے سفر کے لئے تسلی بخش قرار نہیں دیا تھا.لہذا آپ کو دہلی میں ہی ٹھہرنا پڑا.حضور نے مکرم ڈاکٹرمحمود احمد بٹ صاحب ابن مکرم مولوی محمد ایوب بٹ صاحب در ولیش قادیان کو حضرت بیگم صاحبہ کی دیکھ بھال کے لئے مقرر فرمایا.سپیشلسٹ نے تین روز کے بعد حضرت بیگم صاحبہ کی صحت کو سفر کرنے کے قابل قرار دیا تو مورخہ ۲۳ / دسمبر کو صبح ساڑھے سات بجے دعا کے بعد آپ ایک مختصر قافلہ کے ہمراہ سوئے قادیان روانہ ہوئیں.چونکہ ٹرین اور ہوائی جہازوں میں ۲۵ / دسمبر تک سیٹیں مہیا نہ ہو سکیں اسلئے مجبور دہلی سے قادیان کا طویل سفر بذریعہ کار طے کیا گیا.حضرت بیگم صاحبہ کے ساتھ اس قافلہ میں حسب ذیل افراد تھے:.ا.محترم صاحبزادہ مرزا سفیر احمد صاحب ۲- محتر مہ صاحبزادی شوکت جہاں صاحبہ
84 ۳.صاحبزادہ مرزا احسن رضا احمد صاحب ۴.صاحبزادہ مرز ابلال احمد صاحب ۵- ملیحہ صباحت صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا اسفیر احمد -۶ محترمہ صاحبزادی امتہ الرؤف صاحبه مع بچگان بنت مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ۷.محترم سید فضل احمد صاحب سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس بہار محترمه صوفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ سید فضل احمد صاحب ۹ محترم سید منصور احمد صاحب ۱۰ محترم ڈاکٹر محمود احمد بٹ صاحب.ایک مرسڈیز کار اور ایک فورڈوین پر مشتمل یہ قافلہ دہلی سے نکل کر سر ہند اور لدھیانہ سے ہوتا ہواجب جالندھر کے قریب پہنچا تو شام کے سائے گہرے ہونے لگے.اس سفر کی روائیداد بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر محموداحمد بٹ صاحب تحریر کرتے ہیں: پنجاب کے حالات کے پیش نظر رات کو سفر جاری رکھنا مناسب نہ تھا.لہذا دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اسباب کے حصول کے لئے دلوں میں تڑپ پیدا ہوئی.جالندھر چھاؤنی کے قریب جیسے ہی بارڈرسیکیورٹی فورس BSF کا گیسٹ ہاؤس آیا محترم سید فضل احمد صاحب نے قافلہ کو رکنے کا اشارہ کیا.اس وقت شام کے ساڑھے سات بج رہے تھے.محترم سید فضل احمد صاحب نے BSF کے جوان کو جو ڈیوٹی پر تعینات تھے، اپنا تعارف کرایا اور وہاں کے DSP سے ٹیلیفون پر بات کر کے قافلہ کو گیسٹ ہاؤس میں قیام کرنے کی اجازت طلب کی.اسی اثناء میں دہلی مشن ہاؤس ٹیلیفون کرنے کے لئے کہا گیا.کیونکہ جالندھر سے قادیان بہت کوشش کے باوجود ٹیلیفون پر رابطہ قائم نہیں ہو رہا تھا.قادیان میں حضور انور کو صورتحال سے آگاہ کر کے جالندھر رات گزارنے کی اجازت طلب کرنی تھی.تھوڑی دیر کے بعد دہلی اور قادیان میں رابطہ قائم ہوگیا اور قادیان میں اطلاع کر دی گئی جس کے بعد قادیان سے جالندھر میں BSF کے گیسٹ ہاؤس میں رابطہ ہوا اور حضور انور کو تفصیلاً سفر کے حالات اور حضرت بیگم صاحبہ کی صحت کے بارہ میں رپورٹ دیدی گئی.چونکہ حضرت بیگم صاحبہ کار کے لمبے سفر کی وجہ سے کافی تھکاوٹ محسوس کر رہی تھیں اسلئے حضور نے رات جالندھر ہی میں قیام کرنے کا ارشاد فرمایا.جالندھر گیسٹ ہاؤس میں محترم فضل احمد صاحب کا خاص اثر ورسوخ تھا لیکن اس سے بڑھ
85 کر ہم نے اپنی دعاؤں کو غیر معمولی طور پر مقبول ہوتے دیکھا کہ گیسٹ ہاؤس میں تمام کے تمام کمرے جن کی تعداد پانچ تھی اس روز خالی تھے جو کہ محض ایک اتفاق تھا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص انتظام کے طور پر تھا.ان پانچ کمروں میں اس قافلہ کے سارے افراد نے بڑے آرام سے رات گزاری.گیسٹ ہاؤس کے عملہ نے نہایت ادب اور احترام اور خلوص و محبت سے مہمان نوازی کی.رات کا کھانا اور صبح کا ناشتہ تیار کر کے دیا اور دیگر ضروریات فراہم کیں.فجر اهم الله اگلے روز ۲۴ / دسمبر کو صبح ناشتہ کے بعد سفر کو بعد دعا جاری رکھا گیا.سردی کی زیادتی اور دھند کی وجہ سے آج کا سفر تقریباً صبح ساڑھے 9 بجے شروع ہو سکا...بالآخر تقریباً ساڑھے بارہ بجے دو پہر یہ قافلہ پر نم آنکھوں سے عشق مسیح محمدی سے لبریز دل لئے ہوئے اور شکر الہی میں سجدہ ریز روح کے ساتھ نعرہ ہائے تکبیر کی گونجوں کے استقبال میں قادیان دارالامان میں دارا مسیح میں داخل ہوا.فالحمد لله ثم الحمد لله على ذلك - ۱۲۴ دسمبر ۱۹۹۱ء بروز منگل.قادیان سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع حمد اللہ نےنماز فجر چھ بج کر میں منٹ پر پڑھائی جس کے بعد آپ بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے جہاں پر آپ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار اور قطعہ خاص میں دیگر قبروں پر دعا کی.اسکے بعد قطعہ قاص سے باہر دائیں جانب قبروں کی تختیوں کو دیکھتے ہوئے زیر لب دعائیں کرتے ہوئے گزرے.اس کے بعد بہشتی مقبرہ سے واپسی پر ناصر آباد میں سے گزرتے ہوئے مختلف درویشوں کے گھروں کے باہر کھڑے مردوزن جود یدار محبوب کے لئے اس کی راہ گزر پر نظریں بچھائے ہوئے تھے، انہیں ملتے ہوئے اور ان سے استفسار کرتے ہوئے کہ یہ کن کن کے گھر ہیں؟ آپ جلسہ گاہ کی طرف تشریف لے گئے.وہاں سے احمد یہ چوک سے ہوتے ہوئے واپس دار ا مسیح تشریف لائے اور منارۃ اُسیح کے اوپر تشریف لے گئے.آپ کے ہمراہ آپ کی صاحبزادیاں، صاحبزادہ مرزا لقمان احمد صاحب نیز صاحبزادہ مرزا شمیم احمد صاحب
86 کی ایک صاحبزادی سمیرا احمد صاحبہ بھی تھیں.ساڑھے نو بجے سے سوا گیارہ بجے تک حضور نے صوبہ سندھ سے آئے ہوئے افراد جماعت سے ملاقات کی.مستورات نے مسجد مبارک میں اور مردوں نے مسجد اقصیٰ میں ملاقات کا شرف حاصل کیا ظہر وعصر کی نماز میں حضور کی اقتداء میں ایک بج کرتیں منٹ پر مسجد اقصیٰ میں ادا کی گئیں.آج شام پونے پانچ بجے سے چھ بجے تک صوبہ سندھ و پنجاب پاکستان سے آئے ہوئے افراد جماعت کو آپ نے شرف ملاقات بخشا.اسی طرح ساڑھے آٹھ بجے تا سوا دس بجے شب صوبہ پنجاب انڈیا، ہریانہ اور ھما چل پردیش کے احباب نے حضور اقدس سے ملاقات کا شرف پایا.مستورات کے لئے مسجد مبارک میں اور مردوں کیلئے مسجد اقصیٰ میں ملاقات کا انتظام تھا.بعد ادا ئیگی نماز مغرب وعشاء حضور مسجد اقصیٰ میں رونق افروز ہوئے اور مجلس عرفان منعقد ہوئی جو تقریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہی.آج بھی آپ کو بدستور فلو کی شکایت رہی.۲۵ / دسمبر ۱۹۹۱ء بروز بدھ.قادیان سیدنا حضرت خلیلة امسیح الرابع نے نماز فجر مسجد اقصیٰ میں پڑھائی.سات بجے آپ دار مسیح سے بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے اور حسب معمول سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر دعا کی.اسکے بعد حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کی قبر اور دیگر قبروں پر دعا کی.حضور کی ایک صاحبزادی ، کرم مرزا شمیم احمد صاحب مرحوم کی دو صاحبزادیاں اور صاحبزادہ مرز القمان احمد صاحب آپ کے ہمراہ تھے.بہشتی مقبرہ سے حضور واپس تشریف لائے تو راستے میں شوق دیدار سے سرشار کثیر تعداد میں احباب آپ کا انتظار کر رہے تھے.آپ نے انہیں السلام علیکم کہا اور ناصر آباد سے جلسہ گاہ کو جانے والی گلی میں داخل ہوئے.گلی میں بائیں جانب گھروں کے مکین ، دروازوں میں کھڑے آپ کی آمد کے منتظر تھے.آپ رک کر ان سے ملتے اور دریافت فرماتے تھے کہ یہ کس کا گھر ہے؟ وغیرہ وغیرہ.اسکے
87 بعد آپ جلسہ گاہ میں سے گزر کر ، جلسہ گاہ کو آنے والی گلی میں سے ہوتے ہوئے نئے تعمیر ہونے والے گیسٹ ہاؤس کی طرف تشریف لے گئے.گیسٹ ہاؤس کے باہر بعض افراد نے آپ سے مصافحہ کا شرف حاصل کیا.یہاں سے حضرت ڈپٹی شریف احمد صاحب کی کوٹھی کی جانب گئے جہاں پر ان دنوں جلسہ سالانہ کے مہمان ٹھہرے ہوئے تھے.آپ نے مہمانوں کے بارہ میں دریافت فرمایا کہ کس جماعت کے کتنے مہمان وہاں ٹھہرے ہیں؟ یہاں آپ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کی کوٹھی ” النصرت میں بھی گئے.پھر دار اسیح کی طرف واپس تشریف لاتے ہوئے آپ نے راستہ میں کھڑے ہوئے امریکہ سے آئے ہوئے دو افراد کو مصافحہ کا شرف بخشا.مختلف سکھ گھرانے روزانہ صبح سویرے اپنے بچوں سمیت گھروں کے سامنے انتظار کرتے تھے کہ کب حضور یہاں سے گزریں اور کب وہ آپ کا دیدار کر سکیں اور سلام کریں.چنانچہ ایک سکھ گھرانہ جس کا ایک چھوٹا بچہ پرم ویر سنگھ جو پہلے بھی حضور اقدس کی شفقت و پیار حاصل کر چکا تھا.اُس کی خواہش پر وہ آج بھی اسے لیکر آگے بڑھے اور آپ کی خدمت میں مصافحہ کیلئے حاضر ہوئے اور اپنی عقیدت کا اظہار کیا.آپ نے کمال شفقت کے ساتھ اس بچہ کو پیار کیا.جس پر بچہ کے والدین کی خوشی کا اظہار قابل دید تھا.وہ اس خوش بختی پر پھولے نہ سماتے تھے.حضور اقدس احمد یہ چوک سے ہوتے ہوئے ساڑھے سات بجے واپس دارا صیح تشریف لائے اور اپنے مسکن یعنی اپنی والدہ حضرت اتم طاہر رضی اللہ عنہا کے مکان کی ڈیوڑھی میں سے ہوتے ہوئے اندر تشریف لے گئے.ساڑھے نو بجے سے لیکر پونے دو بجے تک آپ نے جموں و کشمیر، صوبہ سرحد، صوبہ سندھ ، پنجاب پاکستان اور آزاد کشمیر کے احباب و خواتین سے حسب پروگرام مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک میں ملاقات فرمائی.ڈیڑھ بجے حضور کی اقتداء میں نماز ظہر و عصر ادا کی گئیں.چار بجے شام سے لیکر پونے چھ بجے شام تک اڑیسہ، بہار، دہلی، یوپی، راجستھان، مہاراشٹر کے مردوں اور راجستھان، مہاراشٹر، گجرات اور مدھیہ پر دیش کی خواتین نے پیارے آقا سے ملاقات کا فیض پایا.چھ بجے نماز مغرب وعشاء کی ادائیگی کے بعد حضور مسجد اقصیٰ میں رونق افروز ہوئے اور مجلس عرفان منعقد ہوئی.رات ساڑھے آٹھ بجے تا
88 سوا دس بجے تک آندھرا پردیش کرناٹک اور کیرالہ کی مستورات نے مسجد مبارک میں اور مالدیپ، انڈیمان ، سری لنکا اور تامل ناڈو کے مردوں نے حضور سے مسجد اقصیٰ میں اجتماعی ملاقات کا شرف حاصل کیا.۲۶ دسمبر ۱۹۹۱ء بروز جمعرات.قادیان آج عظیم الشان اور تاریخی صد سالہ جلسہ سالا نہ قادیان کا پہلا دن ہے.نماز فجر حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی اقتداء میں صبح چھ بجگر میں منٹ پر ادا کی گئی.سات بجے حضور بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے.اس موقع پر صاحبزادی فائزه صاحبہ، صاحبزادہ مرزا لقمان احمد صاحب، صاحبزادی یاسمین رحمان مونا صاحبہ اور صاحبزادی عطیہ المجیب صاحبہ اور سمیرا احمد بنت مرزا شمیم احمد صاحب مرحوم بھی آپ کے ہمراہ تھیں.آپ نے حسب معمول سب سے پہلے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر دعا کی.اسکے بعد احاطہ خاص میں قبروں پر دعا کرنے کے بعد آپ باہر تشریف لے آئے اور بہشتی مقبرہ میں دیگر قبروں کے کتبات دیکھتے ہوئے زیر لب دعائیں کرتے رہے.حضور نے اپنے نانا حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب کی قبر پر دعا کی اور اسکے بعد آپ دیگر مختلف قبروں کی تختیاں دیکھتے ہوئے احاطہ بہشتی مقبرہ سے باہر تشریف لائے.گیٹ کے باہر کثیر تعداد میں مردوزن اپنے آقا کو ایک نظر دیکھنے کے منتظر تھے اور ہاتھ ہلا ہلا کر اپنی محبت کے جذبات کا اظہار کر رہے تھے.آپ نے ان سب کو السلام علیکم کہا اور ہاتھ ہلاتے ہوئے ناصر آباد کی گلی میں سے ہو کر جلسہ گاہ سے ہوتے ہوئے احمد یہ چوک کی طرف روانہ ہوئے.راستے میں ایک ہندو فیملی اپنے گھر کے دروازے کے باہر ہاتھ باند ھے آپ کو ایک نظر دیکھنے کے لئے کھڑی تھی.جو نہی آپ قریب سے گزرے تو ان سب نے اپنے مروجہ طریق پر ہاتھ باندھ کر آپ کو سلام کیا.آپ نے بچوں اور بچوں کے والد سے ہاتھ ملایا تو منظر قابل دید تھا.بچوں کی والدہ جو ساتھ ہی کھڑی تھی، حضور کی شفقت سے اس قدر مغلوب ہوئی کہ وفور جذبات سے اُس کی سسکیاں نکلنے لگیں.قادیان کے غیر مسلموں سے حضور کی محبت و شفقت کے
89 سلوک نے ان لوگوں کے دلوں میں بیحد عقیدت ومحبت کے جذبات پیدا کر دیئے تھے.ساڑھے سات بجے حضور انور واپس دارا اسی تشریف لے آئے.تاریخی صد ساله جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ مختصر رپورٹ تاریخی جلسه سالانه قادریان ۱۹ کا افتاح فرمانے کی غرض سے سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الرابع " مورخہ ۲۶ دسمبر کو صبح دس بجکر پانچ منٹ پر اپنے خدام کے ہمراہ دار مسیح میں اپنے دفتر سے نکل کر مسجد مبارک کے نیچے سے ہوتے ہوئے پیدل مہان خانہ والی سٹرک پر آئے.مہمان خانہ کی چھت پر انڈو نیشیا اور سنگا پور کی مستورات آپ کے دیدار کی منتظر تھیں.جو نہی آپ اس طرف آئے وہ چھت سے سلام و دعا دینے لگیں.اُن کے جواب میں حضور پر نور نے بھی دعا دی اور ہاتھ ہلا ہلا کر سلام کا جواب دیا وہاں سے گزرتے ہوئے آپ بہشتی مقبرہ والی سٹرک کے پل پر سے گزر کر جلسہ گاہ کی طرف جانے والی سٹرک پر آئے اور جیسے ہی آپ جلسہ گاہ میں پہنچے فضا فلک شگاف نعرہ ہائے تکبیر ، اللہ اکبر سے گونج اٹھی.یوں تو حضور انور کی چلنے کی عمومی رفتار خاصی تیز ہوتی تھی لیکن اس روز با وجود نزلہ وزکام اور بخار کے رفتار اس قدر تیر تھی کہ جیسے زمین آپ کے قدموں تلے لپٹتی چلی جارہی تھی.آپ کے قدموں کے ساتھ آپ کے ہمراہ چلنے والوں کے قدم بھی قدرتی طور پر کچھ اس طرح سرعت کے ساتھ اور مل کر اُٹھ رہے تھے کہ سینہ زمین سے موسیقی کی سی آواز اٹھتی تھی.حضور انور جلسہ گاہ کے سٹیج پر تشریف لائے تو آپ نے پہلے حضرت مولوی محمد حسین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مصافحہ فرمایا.حضرت مولوی صاحب نے آپ کو پر فیوم کی شیشی دی جسے آپ نے کھول کر پہلے حضرت مولوی صاحب پر اور پھر اردگرد کھڑے دوستوں پر بھی چھڑ کا.اس کے فوراً بعد ہی یعنی دس بجکر ہیں منٹ پر لوائے احمدیت لہرانے کی تقریب عمل میں آئی.حضور انور کے ساتھ مکرم ناظر اعلیٰ صاحب صدر انجمن احمد یہ ربوہ مکرم وکیل اعلی صاحب تحریک جدیدر بوه ، مکرم ناظر اعلیٰ صاحب صدر انجمن احمد یہ قادیان اور دیگر ملکوں کے امراء نیز علاقائی وصوبائی امراء صدران مجالس خدام الاحمدیہ وانصار اللہ، ناظم صاحب وقف جدیدر بوہ وقادیان.ناظر دعوة وتبلیغ قادیان.وکیل اعلیٰ
90 قادیان وغیرہ تھے.لوائے احمدیت کے بلند ہوتے ہی فضا نعروں سے گونج اٹھی.حضور اقدس نے لوائے احمدیت لہرانے کے بعد ہاتھ اٹھائے اور اجتماعی دعا کرائی دعا کے بعد آپ جلسہ کے سٹیج پر تشریف لائے اور حضرت مولوی محمد حسین صاحب صحابی سے مصافحہ فرمایا اور پھر کرسی صدارت پر رونق افروز ہوئے.جلسہ کی کاروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو قاری محمد عاشق صاحب آف ربوہ نے کی اور آپ ہی نے آیات کا اردو تر جمہ پڑھ کر سنایا.اس کے بعد مکرم ناصر علی عثمان صاحب آف قادیان ابن مکرم مولوی محمد عمر علی صاحب در ولیش قادیان نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے پر شوکت پاکیزہ کلام میں سے حسب ذیل اشعار نہایت خوش الحانی کے ساتھ سنائے.ہے شکر رب عز وجل خارج از بیاں جس کے کلام سے ہمیں اُس کا ملا نشاں جو دور تھا خزاں کا وہ بدلا بہار سے لگی نسیم عنایات یار سے جتنے درخت زندہ تھے وہ سب ہوئے ہرے پھل اس قدر پڑا کہ وہ میووں سے لد گئے اےسونے والو جا گو کہ وقت بہار ہے اب دیکھو آ کے در پہ ہمارے وہ یار ہے کیا زندگی کا ذوق اگر دو نہیں ملا لعنت ہے ایسے جینے پہ گراس سے ہیں جدا دیکھو خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا گمنام پا کے شہرۂ عالم بنا دیا
91 جو کچھ مری مراد تھی سب کچھ دکھا دیا میں اک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا اک قطرہ اُس کے فضل نے دریا بنادیا میں خاک تھا اُسی نے ثریا بنا دیا میں تھا غریب وبے کس وگمنام وبے ہنر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر لوگوں کی اس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی اب دیکھتے ہو کیسا رجوع جہاں ہوا اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا مکرم ناصر علی عثمان صاحب کی طرز ادا ئیگی کچھ ایسی دلگداز تھی کہ نظم روح میں اترتی چلی جاتی تھی.اس پر طرہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان اشعار کے اعجازی مضامین اور ساتھ قادیان میں تقریباً نصف صدی کے بعد آپ کے خلیفہ کے ورود نے جذبات کو اس قدر متلاطم کر دیا تھا کہ ایک ایک مصرعہ پر دل بے قابو ہوئے جاتے تھے.اسی عالم جذبات و وارفتگی میں جب ہر سمت نعرے گونجنے لگے تو حضور بھی اس کیفیت سے باہر نہ رہ سکے.چنانچہ آپ نے فرمایا: متفرق نعروں سے آواز ادھر اُدھر پھیل جاتی ہے اگر نعرے لگانے ہیں تو پر شوکت آواز میں اور ایک آواز میں لگائیں اس کے ساتھ ہی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حسب ذیل نعرے خود لگوائے.نعرہ تکبیر اللہ اکبر.اسلام زندہ باد.مرزا غلام احمد کی، جے.وہ زمین کے کناروں تک شہرت پا گیا.“ یہ نظم ختم ہوئی تو مکرم داؤد احمد ناصر صاحب آف جرمنی نے حضرت مصلح موعودؓ کی نظم ہے رضائے ذاتِ باری اب رضائے قادیاں“ کے حسب ذیل اشعار ترنم کے ساتھ ایسی پُر درد ئے میں پڑھی کہ ہجرت کے نقوش پھر سے ذہنوں میں ابھرنے لگے اور دل مسیح پاک علیہ السلام کی بستی کے فراق کی یادوں میں ڈوب گئے.وو
92 ہے رضائے ذات باری اب رضائے قادیاں مدعائے حق تعالی مدعائے قادیاں وہ ہے خوش اموال پر، یہ طالب دیدار ہے بادشاہوں سے بھی افضل ہے گدائے قادیان گرنہیں عرشِ معلی سے یہ ٹکراتی تو پھر سب جہاں میں گونجتی ہے کیوں صدائے قادیاں میرے پیارے دوستو تم دم نہ لینا جب تلک ساری دنیا میں نہ لہرائے لوائے قادیاں یا تو ہم پھرتے تھے اُن میں یا ہوا یہ انقلاب پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے قادیاں خیال رہتا ہے ہمیشہ اُس مقام پاک کا سوتے سوتے بھی یہ کہہ اٹھتا ہوں ہائے قادیاں آہ کیسی خوش گھڑی ہوگی کہ بانیل مرام باندھیں گے رختِ سفر کو ہم برائے قادیاں صبر کراے ناقہ راہ ھدی ہمت نہ ہار دور کر دے گی اندھیروں کو ضیائے قادیاں ایشیا و یورپ و امریکہ وافریقہ سب دیکھ ڈالے پر کہاں وہ رنگ ہائے قادیاں گلشن احمد کے پھولوں کی اڑالا ئی جو بُو زخم تازہ کرگئی بادِ صبائے قادیاں جب کبھی تم کو ملے موقع دعائے خاص کا یا د کر لینا ہمیں اہلِ وفائے قادیاں
93 اس نظم کے دوران مضامین کے لحاظ سے نعروں کا گویا تسلسل بندھ گیا تھا.خود حضور انور نے بھی اس دوران بعض نعرے معین فرمائے اور خود اپنے جذبات کو احباب جماعت کے جذبات کے ساتھ شامل فرما کر ایک روح پرور تلاطم برپا کر دیا تھا.سارے اجتماع میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر نہ آتا تھا کہ جو اس نظم کی گہرائی میں نہ اتر گیا ہو.حتی کہ غیر مسلم حاضرین بھی اس ماحول میں پوری طرح جذب ہو کر اس کی اکائی بن چکے تھے.سیدنا حضرت خلیفۃ امسیح الرابع صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان میں افتتاحی خطاب فرمانے کیلئے منبر پر تشریف لائے تو ایک دفعہ نعروں نے پھر شش جہات میں ارتعاش پیدا کر دیا.آپ نے انہیں نعروں میں تشہد شروع فرمایا تو حاضرین فوراً جذبات کے تلاطم سے نکل کر اپنے آقا کی آواز کے لئے ہمہ تن گوش ہو گئے.حضور انور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد افتتاحی خطاب شروع فرمایا.جس میں آپ نے سب حاضرین جلسہ کو اور ان سب کو جو جلسہ میں شامل ہونے سے کسی وجہ سے محروم رہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کی زبان میں ”مبارک سومبارک، پیش کی.حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے اس معرکۃ الآراء تاریخی خطاب میں نظام جلسہ سالانہ کے پس منظر اور پھر حضرت مسیح موعود کے دور میں جو ابتدائی مشکلات تھیں انکا تذکرہ فرمایا اور اب تک اللہ تعالیٰ کے افضال کی جو بارش ہو چکی ہے اس کا روح پرور ذکر بھی فرمایا کہ آج دنیا بھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر جاری ہو چکے ہیں اور کروڑوں روپے ان پر خرچ ہوتے ہیں.حضور نے حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں جلسہ سالانہ کی غرض وغایت اور مقاصد بیان فرمائے.حضور نے مخالفین احمدیت کا ذکر بھی فرمایا جنہوں نے جلسہ سالانہ کو نا کام بنانے کا منصوبہ بنایا تھا اور مولوی محمد حسین بٹالوی لوگوں کو قادیان آنے سے روکا کرتا تھا.لیکن آج قادیان میں دنیا بھر سے احمدی آرہے ہیں لیکن محمد حسین بٹالوی کا بٹالہ سے نام و نشان مٹ چکا ہے.جس قبرستان میں وہ دفن کیا گیا وہ قبرستان آج صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے.خدا کی تقدیر کہ محمد حسین بٹالوی کے نواسے شیخ محمد سعید صاحب احمدی ہو کر حضور کی بیعت میں داخل ہو چکے ہیں.احمدیوں کے جلسوں کو اللہ تعالیٰ غیر معمولی برکات سے نوازا ہے اور اس سے پیغام احمدیت دوسروں تک پہنچ رہا ہے اور جماعت دنیا بھر میں
94 خدمت خلق کے کاموں میں بھی مصروف عمل ہے.حضور نے اہل ہندوستان کو تبلیغ کے میدان میں مساعی تیز کرنے کی طرف توجہ دلائی اور جماعتی ذیلی تنظیموں کومل جل کر کام کرنے کی ہدایت فرمائی.آپ نے تقریر کے آخر پر قادیان کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود کے متعد الہامات بیان فرمائے اور اس یقین کا اظہار فرمایا کہ ایک وقت آئے گا کہ خلافت احمد یہ اپنے دائگی مرکز میں لوٹ آئے گی.انشاء اللہ.حضور انور کا یہ روح پرور تاریخی خطاب پونے دو گھنٹے جاری رہا.آپ کے خطاب کے بعد برطانوی ممبر پارلیمنٹ مسٹر نام کا کس اور گھانا کے منسٹر جناب جسٹس ایکن نے مختصر سا خطاب کیا جس میں انہوں نے اس جلسہ میں شمولیت کو اپنی خوش بختی قرار دیتے ہوئے جذبات تشکر کا اظہار کیا.حضور اقدس نے ان دونوں معززین سے معانقہ بھی فرمایا.دعا کے بعد افتتاحی اجلاس کی کارروائی ختم ہوئی اور آپ پیدل گھر تشریف لے گئے.دو پہر دو بجے دوبارہ تشریف لا کر جلسہ گاہ میں ظہر وعصر کی نمازیں ادا کیں.افتتاحی اجلاس میں حاضرین کی تعداد سترہ ہزار (۱۷۰۰۰) افراد سے زائد تھی اور جلسہ گاہ کا احاطہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.جالندھر اور دہلی ٹی وی کی خبروں میں جلسہ کے متعلق خبر تین منٹ تک دکھائی گئی جس میں حضور انور اور حاضرین جلسہ کے علاوہ برطانوی ممبر پارلیمنٹ مسٹر ٹام کا کس صاحب اور گھانا کے جسٹس مسٹر ا لیکن صاحب کو دکھایا گیا.اسی روز شام ساڑھے آٹھ بجے سے سوانو بجے تک حضرت خلیفہ اصبح الرابع نے سکم، نیپال بھوٹان، بنگلہ دیش، آسام، بنگال لکش دیپ کے علاقوں سے آئے ہوئے مہمانوں سے ملاقات فرمائی.نیز ہندوستان بھر کے علاقوں سے تشریف لانے والے ایسے مہمانوں سے بھی ملاقات فرمائی جو قبل از میں اجتماعی ملاقات میں شامل نہیں ہو سکے تھے.۲۷ دسمبر ۱۹۹۱ء بروز جمعۃ المبارک.قادیان آج جلسہ سالانہ کا دوسرا روز ہے حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے نماز فجر چھ بج کر میں منٹ پر مسجد اقصی میں پڑھائی.ساری نماز ہی انتہائی سوز میں ڈوبی ہوئی تھی.نماز فجر کی ادائیگی کے بعد
95 سات بجے حسب معمول آپ بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے.واپسی پر آپ ایوان خدمت اور جلسہ گاہ کے قریب سے گزر کر مین روڈ پر سے ہوتے ہوئے حضرت ڈپٹی محمد شریف صاحب کی کوٹھی کے اندر گئے اور وہاں پر ٹھہرے ہوئے مہمانان جلسہ سالانہ سے گفتگو فرمائی اور انہیں شرف مصافحہ بخشا.واپسی پر جب آپ مین روڈ سے آرہے تھے تو حسب معمول وہ سکھ فیملی جس کے بچے کو آپ تقریبا ہر روز کی سیر میں پیار کرتے تھے ، آج بھی ادب کے ساتھ آگے بڑھی اور آپ کو سلام کیا.آپ نے بچہ کو پیار کیا اور آپکے ہمراہ آپ کے خاندان کی خواتین نے بھی باری باری اس بچے کو پیار کیا.اس بچے کی عمر کوئی تین سال کے قریب تھی.اس نے حضور اقدس کو ہاتھ باندھ کر اپنے معصومانہ پیارے سے انداز میں جھک کر سلام کیا جس سے تمام احباب بہت محظوظ ہوئے.یہاں سے واپس احمد یہ چوک سے ہوتے ہوئے پونے آٹھ بجے کے قریب آپ دارا اسی تشریف لے آئے.حضور ڈیڑھ بجے نماز جمعہ کیلئے دار اسیح سے جلسہ گاہ تشریف لے گئے.یہ جمعہ جلسہ گاہ میں ادا کیا گیا.آپنے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.اس میں آپ نے تحریک وقف جدید کی اہمیت ، مقاصد، خاص طور پر ہندوستان کے حوالہ سے وقف جدید کی اہمیت اور کوائف بیان فرمائے اور وقف جدید کے نئے مالی سال کا اعلان فرمایا.نماز جمعہ دعصر کی ادائیگی کے بعد حضور واپس دار مسیح میں تشریف لے آئے.ساڑھے تین بجے میں سے چار بجے تک آپ نے بھارت کے مختلف اخباروں کے تیرہ نمائندوں کو انٹرویو دیا.اس کے بعد آپ خواتین سے خطاب کے لئے زنانہ جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے.اس اجلاس کی کاروائی تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوئی جو محترمہ رضیہ درد صاحبہ آف ربوہ نے کی اور پھر ان آیات کا ترجمہ بھی پڑھ کر سنایا.تلاوت اور ترجمہ کے بعد محترمہ امتہ الباسط بشری صاحبہ نے حضرت نواب مبار کہ بیگم کی درج ذیل نظم میں سے چند اشعار پڑھے.یہ نظم حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی کی نظم زیاد قادیان کے جواب میں کہی گئی تھی جو آپ نے ۱۹۲۴ء میں سفر یورپ میں کہی تھی.یہی نظم اس جلسہ کے پہلے دن حضور انور کے افتتاحی خطاب سے قبل بھی پڑھی گئی تھی.حضرت نواب مبار کہ بیگم کی پوری نظم پیش ہے.رض
96 ستیدا! ہے آپ کو شوق لقائے قادیاں ہجر میں خوں بار ہیں یاں چشمہائے قادیاں تڑپتے ہیں کہاں ہے زینت دار الاماں رونق بستان احمد دل ربائے قادیاں جان پڑ جاتی تھی جن سے وہ قدم ملتے نہیں قالب بے روح سے ہیں کوچہ ہائے قادیاں فرقت مہ میں ستارے ماند کیسے پڑ گئے ! ہے نرالا رنگ میں اپنے سمائے قادیاں وصل کے عادی سے گھڑیاں ہجر کی کٹتی نہیں بار فرقت آپ کا کیونکر اٹھائے قادیاں روح بھی پاتی نہیں کچھ چین قالب کے بغیر ان کے منہ سے بھی نکل جاتا ہے ہائے قادیان" ہو وفا کو ناز جس پر جب ملے ایسا مطاع کیوں نہ ہو مشہور عالم پھر وفائے قادیاں کیوں نہ تڑپا دے وہ ، دنیا کو اپنے سوز سوز سے درد میں ڈوبی نکلتی ہے صدائے قادیاں اس گل رعنا کو جب گلزار میں پانی نہیں ڈھونڈ نے جاتی ہے تب بادصبائے قادیاں یاد جو ہر دم رہے اس کو دعائے خاص میں کس طرح دیں گے بھلا اہل وفائے قادیاں دین محمد جس نے کی تیرے سپرد ہو تری کشتی کا حافظ وہ خدائے قادیاں ہیں آئیں گے کب حضرت فضل عمر سوئے رہ نگراں ہیں ہردم دیدہ ہائے قادیاں ہیں سب دعا ہو کر سراپا آرزو جلد شاہ قادیاں تشریف لائے قادیاں ملت جلد فارغ دورہ مغرب سے ہو مطلع مشرق سے پھیلائے ضیائے قادیاں خیریت سے آپ کو اور ساتھ سب احباب کو جامع المتفرقين جلدی سے لائے قادیاں آئیں منصور و مظفر کامیاب و کامراں قصر تنگیشی گاڑ آئیں لوائے قادیاں پیشوائی کے لئے نکلیں گھروں سے مردوزن یہ خبر سن کر کہ آئے پیشوائے قادیاں ابر رحمت ہر طرف چھائے، چلے بادِ کرم بارش انوار سے پر ہو فضائے قادیاں احمد میں آجائے بہار اندر بہار دل لبھائے عندلیب خوشنوائے قادیاں معرفت کے گل کھلیں تازہ بتازہ نوبنو جن کی خوشبو سے مہک اٹھے ہوائے قادیاں مانگتے ہیں ہم دعائیں آپ بھی مانگیں دعا حق سنے اپنے کرم سے التجائے قادیاں
97 علم و توفیق بلاغ دین ہو ان کو عطا قادیاں والوں کا ناصر ہو خدائے قادیاں راہ حق میں جب قدم آگے بڑھادے ایک بار سر بھی کٹ جائے نہ پھر پیچھے ہٹائے قادیاں ہر دو جہاں کی رحمتیں ہوں آپ پر والسلام اے شاہ دیں اے رہنمائے قادیاں اس پر سوز نظم کے بعد دوسری نظم حضور انور کی صاحبزادی محترمہ یاسمین رحمن مونا صاحبہ نے پڑھی.بینظم بھی حضرت نواب مبارکہ بیگم رضی اللہ عنہا کی ہے جو درج ذیل ہے.خالق پھر دکھا دے مجھے مولا مرا شاداں ہونا صحن خانہ کا مرے رشک گلستان ہونا ان کے آتے ہی مرے غنچۂ دل کا کھلنا اس خزاں کا مری صد فصل بہاراں ہونا خلقت انس میں ہے انس و محبت کا خمیر گر محبت نہیں بیکار ہے انساں ہونا قابل رشک ہے اس خاک کے پتلے کا نصیب جس کی قسمت میں ہو خاک در جاناں ہونا رو کے کہتی ہے زمیں گرنہ سنے نام خدا ایسی بستی سے تو بہتر ہے بیاباں ہونا فعل دونوں ہی نہیں شیوہ مرد مومن رونا تقدیر کو تدبیر نازاں ہونا لله الحمد چلی رحمت باری کی نسیم دیکھنا غنچہ دل کا گل خنداں ہونا اس کے بعد حضور انور نے مستورات سے خطاب فرمایا.جس میں آپ نے دین میں عورت کا مقام ، احمدی عورت کی ذمہ داریاں خصوصاً تربیت اولا داور انہیں جنت کا وارث بنانے میں کردار نیز لجنہ اماء اللہ بھارت کی مختلف شعبوں میں مساعی کا ذکر خیر فرمایا اور انہیں نصائح بھی فرمائیں.نماز مغرب وعشاء کے بعد ساڑھے آٹھ بجے سے سوا دس بجے تک حضور نے پاکستان سے آنے والے ان تمام مہمانوں کو جو اس سے قبل اجتماعی ملاقات میں شامل نہ ہو سکے تھے.اجتماعی ملاقات کا شرف بخشا.فلو کی وجہ سے آپ کی طبیعت اگر چہ آج بھی ناساز تھی لیکن بفضلہ تعالیٰ آپ جملہ امور معمول کے مطابق سرانجام دیتے رہے.
98 ۲۸ / دسمبر ۱۹۹۱ء بروز ہفتہ.قادیان حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے نماز فجر مسجد اقصیٰ میں پڑھائی.نماز کے بعد آپ واپس گھر تشریف لے گئے.پھر سات ہے آپ حسب معمول بہشتی مقبرہ گئے.یہاں سے جلسہ گاہ کے بائیں جانب سے گزر کر ڈا کٹر بشیر احمد صاحب درویش کے گھر کے سامنے سے ہوتے ہوئے احمد یہ چوک کی طرف گئے اور وہاں سے دار اسی واپس تشریف لے آئے.تقریباً دس بجے آپ دفتری امور کی سر انجام دہی کے لئے دفتر میں تشریف لائے نیز بعض انفرادی ملاقاتیں کیں.ایک بجے سے ڈیڑھ بجے تک حضور سے پریس کے نمائندے ملنے کیلئے آئے اور انہوں نے آپ کا انٹرویو لیا.ڈیڑھ بجے درج ذیل چار معززین نے آپ سے ملاقات کا شرف پایا.۱.مسٹر آر ایل بھائیہ صاحب ممبر پارلیمنٹ و جنرل سیکرٹری آل انڈیا کانگرس کمیٹی ۲.اشونی سیکھڑی صاحب ایم ایل اے بٹالہ.پنڈت رام رتن شر ما صاحب ڈسٹرکٹ پریذیڈنٹ جنتا دل ۴.منوہر لال شر ما صاحب سابق جنرل سیکرٹری ڈسٹرکٹ کانگرس کمیٹی حال پر نسپل کلاس والا خالصہ ہائرسیکنڈری سکول.سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الرابع تقریباً دو بجے تاریخی جلسہ سالانہ قادیان کے آخری روز اختتامی اجلاس میں خطاب فرمانے کیلئے دار اسیح سے پیدل جلسہ گاہ تشریف لائے.سب سے پہلے ظہر و عصر کی نمازیں آپ کی اقتداء میں ادا کی گئیں.نماز ظہر وعصر کے بعد ? مکرم حسن ابراہیم صاحب آف مدراس کی نماز جنازہ ادا کی گئی.مکرم حسن ابراہیم صاحب جو جلسہ سالانہ یں شرکت کیلئے تشریف لائے ہوئے تھے اور بقضائے الہی اچانک حرکت قلب بند ہو جانے کی
99 وجہ سے قادیان میں وفات پاگئے.ان کی نماز جنازہ حاضر کے ساتھ حضور نے حسب ذیل افراد کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی.۱.مکرم ملک محمد دین صاحب مرحوم اسیر راه مولی ساہیوال ۲.مکرم سیٹھ معین الدین صاحب امیر جماعت احمدیہ حیدر آباد انڈیا۳ مکرم عبد اللطیف صاحب ستکوہی لاہور۴.مکرم ملک مشتاق احمد صاحب ایران ۵- مکرم منشی قمر الدین صاحب انچو می ضلع میرٹھ ۶.مکرم غلام محمد خادم صاحب ربوہے.مکرم چوہدری عبدالواحد صاحب نائب ناظر اصلاح وارشادر بوه ۸- محترمه خورشید سلمی صاحبہ اہلیہ محترم مولوی رشید احمد چغتائی صاحب ربوہ 9 محترمہ والدہ صاحبہ محمد عمر قمر صاحب ڈپلومہ انجینئر حال قادیان ۰۱ محترمہ امۃ العزیز صاحبہ (پھوپھی کیپٹن سجاد حسین صاحب ) حیدر آبا د دکن ۱۱.محترمہ ریاض بیگم صاحبہ والدہ ناصر احمد صاحب کارکن وکالت مال ثانی ربوہ.نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد حضور انور ٹھیک تین بجے کرسی صدارت پر رونق افروز ہوئے تو جلسہ گاہ نعرہ تکبیر اللہ اکبر، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ، اسلام زندہ باد، احمدیت زنده باد، قادیان دارالامان زنده باد درویشان قادیان زنده باد، اسیران راه مولی زنده باد، شہیدان احمدیت زندہ باد اور غلام احمد کی جے کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی.اختتامی اجلاس کی کاروائی کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جو قاری نواب احمد صاحب آف قادیان نے کی.تلاوت کے بعد آیات کا اردو ترجمہ مولوی سلطان احمد ظفر صاحب نے پڑھ کر سنایا.اس کے بعد مکرم ظفر احمد صاحب آف کلکتہ نے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عارفانہ شیریں کلام بعنوان ” مناجات اور تبلیغ حق‘ میں سے حسب ذیل اشعار خوش الحانی سے پڑھ کر سنائے.
100 اے خدا اے کارساز وعیب پوش و کردگار اے مرے پیارے مرے محسن میرے پروردگار کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاس وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار کام جو کرتے ہیں تیری راہ میں پاتے ہیں جزا مجھ سے کیا دیکھا کہ یہ لطف وکرم ہے بار بار یہ سراسر فضل واحساں ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار میرے جیسے کو جہاں میں تو نے روشن کر دیا کون جانے اے میرے مالک ترے بھیدوں کی سار صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کردگار سکتا ہی نہیں میں ضعف دین مصطفیٰ مجھ کو کر اے میرے سلطاں کامیاب و کامگار کیوں عجب کرتے ہوگر میں آگیا ہو کر مسیح خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ بادِ بہار باغ میں ملت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھیلا آئی ہے بادِ صبا گلزار سے مستانہ وار اسمعوا صوت السماء جاء المسيح جاء المسيح نيز بشنو از زمین آمد امام کا مگار اب اسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے وقت ہے جلد آؤ اے آوارگان دشت خار اک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس پر شوکت کلام کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی تازہ نظم جو آپ نے دہلی سے قادیان کے سفر کے دوران مورخہ ۹ار دسمبر ۱۹۹۱ء کو کہی.مکرم ناصر علی عثمان صاحب آف قادیان نے ایسی خوبصورت لے میں پڑھ کر سنائی کہ سامعین مسحور ہو گئے.یہ غیر معمولی اثر رکھنے والی دلنشیں نظم درج ذیل ہے.
101 اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا جیسی سند تھی وہ بستی ویسا وہ گھر بھی سُندر تھا دیس بدیس لئے پھرتا ہوں اپنے دل میں اُس کی گنتھا ئیں میرے من میں آن بسی ہے تن من دھن جس کے اندر تھا سادہ اور غریب تھی جلتا.لیکن نیک نصیب تھی جنتا فیض رساں عجیب تھی جنتا.ہر بندہ، بندہ پرور تھا بچے لوگ تھے، بچی بستی.کرموں والی اُچی بستی جو اونچا تھا.نیچا بھی تھا.عرش نشیں تھا خاک بسر تھا اُس کی دھرتی تھی آکاشی.اُس کی پر جاتھی پر کاشی جس کی صدیاں تھیں متلاشی گلی گلی کا وہ منظر تھا کرتے تھے آآکے بسیرے پنکھ پکھیرو شام سویرے پھولوں اور پھلوں سے بوجھل بستاں کا ایک ایک شجر تھا اس کے سُروں کا چرچا جاجال دیس بدیس میں ڈنکا با جا اُس بستی کا پیتیم را جا.کرشن گنہیا مرلی دھر تھا چاروں اور بجی شہنائی.بھیجوں نے اک دھوم مچائی رت بھگوان ملن کی آئی.پیتیم کا درشن گھر گھر تھا گوتم بدھا بدھی لایا.سب رشیوں نے درس دکھایا عیسی اُترا مہدی آیا جو سب نبیوں کا مظہر تھا مہدی کا دِلدار محمد.نبیوں کا سردار محمد نور نظر سرکار محمد جس کا وہ منظورِ نظر تھا آشاؤں کی اس بستی میں میں نے بھی فیض اس کا پالیا مجھ پر بھی تھا اس کا چھایا.جس کا میں ادنی چاکر تھا اتنے پیار سے کس نے دی تھی میرے دل کے کواڑ پہ دستک رات گئے میرے گھر کون آیا.اُٹھ کر دیکھا تو ایشر تھا عرش سے فرش پہ مایا اتری.روپا ہوگئی ساری دھرتی مٹ گئی گلفت چھا گئی مستی.وہ تھا میں تھا من مندِ رتھا تجھ پر میری جان نچھاور.اتنی کر پا رک پانی پر جس کے گھر نارائن آیا.وہ کیڑری سے بھی کمتر تھا رب نے آخر کام سنوارے گھر آئے پر ہا کے مارے آ دیکھے اُونچے مینارے.نُورِ خدا تاحدِ نظر تھا مولا نے وہ دن دکھلائے.پریمی رُوپ نگر کو آئے ساتھ فرشتے پر پھیلائے.سایہ رحمت ہر سر پر تھا عشق خدائو نہوں پر دستے پھوٹ رہا تھا نور نظر سے اکھین سے مے پہیت کی برسے.قابل دید ہر دیدہ ور تھا لیکن آہ جو رستہ تکتے.جان سے گزرے تجھ کو ترستے کاش وہ زندہ ہوتے جن پر ہجر کا اک اک پل دو بھر تھا آخر دم تک تجھ کو پکارا.اُس نہ ٹوٹی ، دل نہ ہارا مصلح عالم باپ ہمارا.پیکر صبر ورضا، رہبر تھا سدائبا گن رہے یہ بستی.جس میں پیدا ہوئی وہ ہستی جس سے نور کے سوتے پھوٹے.جوٹوروں کا اک ساگر تھا ہیں سب نام خدا کے سُندر وا ہے گرو.اللہ اکبر سب فانی اک وہی ہے باقی.آج بھی ہے جو کل ایشر تھا
102 - واهے گرو.اللہ اکبر، واھے گرو.اللہ اکبر کے نعروں میں یہ نظم ختم ہوئی تو پونے چار بج چکے تھے.مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب ناظر تعلیم ربوہ نے حضور کی اجازت سے ( روایت کے مطابق جلسہ سالانہ کے موقع پر ) پاکستان کے نمایاں اور امتیازی کامیابی حاصل کرنے والے احمدی طلباء و طالبات میں سندات اور طلائی تمغہ جات کی تقسیم کی گیارھویں تقریب کا اعلان کیا ہے اس سال بعض مجبوریوں کی وجہ سے تمغوں کے استحقاق کے صرف سرپیلیٹس تقسیم کئے گئے.اس سے قبل تمغہ جات کی دس تقاریب منعقد ہو چکی ہیں.جن میں ۵۸ طلباء وطالبات میں انعامی تمغہ جات تقسیم کئے جاچکے ہیں.یہ تقریب اس سلسلہ کی گیارھویں تقریب تھی جو آٹھ سال کے بعد منعقد کی جارہی تھی.دسویں تقریب ۱۹۸۳ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ میں منعقد ہوئی تھی.یہ تقریب خلافت رابعہ کی تیسری تقریب تھی.اس کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ قادیان میں اور صد سالہ جلسہ سالانہ میں منعقد ہونے والی پہلی تقریب تھی.اس میں ۱۳ طلباء وطالبات یا اُن کے نمائندوں کو سرٹیفیکیٹ دیئے گئے.مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب ناظر تعلیم ربوہ نے نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والوں کے ناموں کا اعلان کیا.جو نبی کسی طالب علم کا نام لیا جاتا وہ یا اُس کا نمائندہ جلسہ کے سٹیج پر حاضر ہوتا.حضور اُس سے مصافحہ فرماتے اور اسے سرٹیفیکیٹ عطا کرتے ہوئے بارك الله لكم “ کہتے.اس موقع پر جن طلباء وطالبات کو ٹر یفکیٹ دیئے گئے اُن کی تفصیل درج ذیل ہے.(۱) مکرم مصلح الدین صاحب ابن مکرم محمد علیم الدین صاحب آف اسلام آبادایم ایس سی اکنامکس کے فائنل امتحان ۱۹۸۲ء میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں اول آئے.موصوف چونکہ قادیان تشریف نہیں لا سکے، اس لئے ان کے والد محترم نے انکی جگہ سر ٹیفکیٹ وصول کیا.(۲) مکرم خالد مرزا صاحب ابن مکرم مرزا مظفر احمد صاحب آف کراچی الیکٹریکل انجینئر نگ (بی ای) کے فائنل امتحان ۱۹۸۲ء میں این ای ڈی یو نیورسٹی کراچی میں اول آئے.موصوف چونکہ قادیان تشریف نہیں لا سکے، اس لئے ان کے نانا مکرم محترم مرزا عبدالحق صاحب نے ان کی جگہ سر ٹیفکیٹ وصول کیا.(۳) مکرم محمود اکبر صاحب ابن مکرم چوہدری نو راحم صاحب آف لاہور.بی ایس سی اپلائیڈ جیالوجی
103 کے فائنل امتحان ۱۹۸۳ ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اول آئے.موصوف نے ۱۹۸۵ء میں بھی پنجاب یو نیورسٹی لاہور ہی سے ایم ایس سی اپلائیڈ جیالوجی کے فائنل امتحان میں بھی اوّل پوزیشن حاصل کی.اسی طرح عزیز موصوف دوسرٹیفیکیٹس کے مستحق قرار پائے.چونکہ وہ خود تشریف نہیں لے جا سکے تھے، اس لئے اُن کی جگہ پر ان کے والد محترم نے ٹیفکیٹ وصول کئے.(۴) مکر مہ خالدہ سولنگی صاحبہ بنت مکرم نذیر احمد صاحب سونگی آف ربوہ ایم ایس سی زوالوجی کے فائنل امتحان ۱۹۸۳ء میں پنجاب یونیورسٹی سے اول آئیں.عزیزہ چونکہ خود تشریف نہیں رکھتی تھیں، اس لئے ان کی جگہ ان کے والد محترم نے ٹیفکیٹ وصول کیا.(۵) مکرم منصور احمد چغتائی صاحب ابن مکرم طاہر احمد صاحب چغتائی آف ساہیوال انٹرمیڈیٹ کے فائنل امتحان ۱۹۸۴ء میں ملتان بورڈ میں اول آئے.عزیز چونکہ خود حاضر نہیں تھے، اس لئے انکے ماموں مکرم میاں محمد افضل صاحب نے ٹریفکیٹ وصول کیا.(۶) مکرمہ کوکب منیرہ صاحبہ بنت مکرم علی حیدر صاحب آف دوالمیال ایم.اے اکنامکس کے فائنل امتحان ۱۹۸۶ء میں بلوچستان یونیورسٹی میں اول آئیں.عزیزہ چونکہ خود تشریف نہ لاسکیں ، اس لئے ان کی جگہ ان کے بھائی مکرم ڈاکٹر ملک مدثر احمد صاحب نے ٹیفکیٹ وصول کیا.(۷) مکرم عبداللطیف صاحب ابن مکرم عبد المجید صاحب آف اسلام آباد ایم ایس سی اکنامکس کے فائنل امتحان ۱۹۸۶ء میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں اول آئے.موصوف چونکہ خود جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت نہ کر سکے، اس لئے ان کی جگہ ان کے بھائی مکرم عبدالرشید صاحب نے ٹریفکیٹ وصول کیا.(۸) مکرم منور احمد بھٹی صاحب ابن مکرم عبدالسمیع صاحب آف کنری ضلع تھر پارکر ایم.اے اسلامک ہسٹری کے فائنل امتحان ۱۹۸۱ء میں کراچی یونیورسٹی میں دوئم آئے.انہوں نے خود حضورِ انور سے اپنا ٹیفکیٹ وصول کیا.(۹) مکرم اعجاز احمد رؤف صاحب ابن مکرم عبد الجبار صاحب آف ربوہ.ایم ایس سی فزکس کے فائنل امتحان ۱۹۸۳ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں دوئم آئے.چونکہ موصوف جلسہ سالانہ میں شامل نہیں
104 تھے، اس لئے ان کی جگہ پر ان کے بھائی مکرم افضال احمد رؤف صاحب نے ٹیفکیٹ وصول کیا.(۱۰) مکرم ڈاکٹر حامد محمود صاحب ابن مکرم ایم کے ملک صاحب آف راولپنڈی بی.ڈی.ایس کے فائنل امتحان ۱۹۸۴ء میں پشاور یو نیورسٹی میں دوئم آئے.انہوں نے حضور سے اپنا ٹیفکیٹ وصول کیا.(11) مکرم سید غلام احمد فرخ صاحب ابن مکرم سید میر محمود احمد صاحب ناصر آف ربوه انٹرمیڈیٹ کے فائنل امتحان ۱۹۸۵ء میں سرگودھا بورڈ میں سوئم آئے.چونکہ وہ جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت نہ کر سکے ، اس لئے ان کے والد محترم نے ان کی جگہ پر سر ٹیفکیٹ وصول کیا.(۱۲) مکرم بشارت احمد صاحب ابن مکرم محمد یوسف صاحب آف چک نمبر ۹۶ گ.ب ضلع فیصل آباد ایم.اے تاریخ کے امتحان ۱۹۸۷ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں دوئم آئے.موصوف چونکہ خود جلسہ سالانہ میں شامل نہیں تھے ، اس لئے ان کی جگہ پر ان کے ماموں مکرم حکیم دین محمد صاحب نے سر ٹیفکیٹ وصول کیا.(۱۳) مکرم محمد انور ندیم صاحب ابن مکرم محمد اسلم شریف صاحب آف ملتان ایم اے ایجو کیشن کے فائنل امتحان ۱۹۸۹ء میں بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں دوئم آئے.موصوف چونکہ جلسہ سالانہ میں شمولیت نہ کر سکے اس لئے ان کی جگہ پر ان کے چچا مکرم حافظ محمد اکرم صاحب نے سر ٹیفکیٹ وصول کیا.اس تقریب کے بعد مکرم عطا الواحد صاحب ( کینیڈین احمدی) نے کینیڈا کے وزیر اعظم Rt.Hon.M.Brain Mulroney اور کینیڈا کے صوبہ Ontario کے وزیر اعلیٰ کے پیغام پڑھ کر سنائے جو انہوں نے عالمگیر جماعت احمدیہ کے صد سالہ تاریخی جلسہ سالانہ قادیان کے انعقاد پر ارسال کئے تھے.وزیراعظم کینیڈا نے اپنے پیغام میں کہا: جماعت احمدیہ کا صد سالہ جلسہ سالانہ جو قادیان میں منعقد ہو رہا ہے اس تاریخی موقع پر میں بڑی خوشی اور مسرت کے ساتھ نیک خواہشات کا پیغام بھجوا رہا ہوں.حال ہی میں جماعت احمدیہ نے بڑی کامیابی کے ساتھ اپنی صد سالہ جو بلی بھی منائی تھی.
105 مستقبل میں مشکلات پر قابو پانے کیلئے میری دلی اور نیک تمنائیں آپ کے ساتھ اور آپ کی جماعت کے ساتھ ہیں.مجھے امید ہے کہ امام جماعت احمدیہ کی قادیان میں موجودگی کی وجہ سے جلسہ سالانہ انتہائی کامیاب ہوگا اور جو لوگ اس جلسہ میں شامل ہیں اُن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے برکات حاصل ہونگی.“ جلسہ سالانہ کے سٹیج پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت مولوی محمد حسین صاحب (سبز پگڑی والے) کرسی پر تشریف فرما تھے.لیکن سب حاضرین جلسہ آپ کو دیکھ نہ سکتے تھے.حضور نے ان کی کرسی خاص طور پر سامنے کروائی تا کہ سب حاضرین جلسہ اُن کا دیدار کر کے تابعی بن جائیں.اسی طرح مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب ایڈووکیٹ سابق امیر ضلع گوجرانوالہ وصدر قضا بورڈر بوہ کی والدہ محترمہ جو صحابیہ تھیں اور اُن کی عمر ایک سو سال تھی.اُن کی کرسی بھی زنانہ جلسہ گاہ میں سٹیج پر رکھوائی اور حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا: ان وجودوں کو اچھی طرح سے دیکھ لیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں سوسال تک گواہ کے طور پر زندہ رکھا اور آج یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں.چار بجگر پانچ منٹ پر حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا خطاب شروع ہوا.حضور کا خطاب سننے کیلئے بڑی تعداد میں سکھ اور ہندو وغیرہ بھی جلسہ میں شامل ہوئے اور دوران خطاب حضرت گورو بابا نانک جی مہاراج اور حضرت کرشن جی مہاراج اور حضرت مرزا غلام احمد کی جے کے نعرے لگتے رہے.علاوہ دیگر نعروں کے حضور نے وا ہے گرو.اللہ اکبر کے نعرے بھی لگوائے.حضور انور نے اپنے خطاب میں جہاں کامیاب جلسہ سالانہ قادیان کے انعقاد پر شکر اور حمد کے جذبات کا ظہار فرمایا وہاں اپنے خطاب کے موضوع میں حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں کی روشنی میں انقلاب روس کا ذکر بھی بیان فرمایا.نیز ہندوستان میں بسنے والی اقوام کو صلح کا جو پیغام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی آخری کتاب میں دیا اس کو دُہرایا.اسی طرح اسلام کے پیغام محبت اور رواداری جو کہ گورونانک اور کرشن جی مہاراج نے بھی دیا تھا.اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات و تحریرات کی روشنی میں بیان فرمایا.
106 آپ کے اس عظیم الشان خطاب کا غیر مسلم حاضرین کے چہروں پر انتہائی خوش گوار اثر تھا.آخر میں سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے فرمایا کہ قادیان کی بستی سے جماعت احمدیہ کوخواہ دنیا کے کسی خطہ میں رہتی ہو، ایک محبت ہے اور قادیان میں میرا یہ پہلا سفر تو ہے آخری نہیں.خدا کرے کہ میں پھر یہاں آؤں اور خدا کرے کہ ہم دس دس ہیں میں لاکھ کے جلسے یہاں منانے لگیں.آپ نے مختلف ممالک اور اقوام سے تعلق رکھنے والے احمدی و غیر احمدی حاضرین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہ سرزمین ہے جس میں اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی جانے والی ہے.آپ نے آخر میں درویشان قادیان کو اور اسیران راہ مولیٰ کو جو جیلوں کی صعوبتوں میں گرفتار ہیں، خصوصی طور پر اپنی دعاؤں میں یادرکھنے کی تاکید فرمائی.اجتماعی دعا کے ساتھ آپ نے تمام حاضرین جلسہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کی زبان میں ”مبارک سومبارک دی.شام کے دھندلکے میں حضور نے اجتماعی دعا کے بعد تمام احباب کو خدا حافظ کہا اور فلک شگاف نعروں کی گونج میں انتہائی کامیابی کے ساتھ یہ تاریخی ساز اور تاریخی اور غیر معمولی برکتوں اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کا حامل جلسہ خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے سائے تلے اختتام پذیر ہوا.الحمد الله على ذلك ثم الحمد لله - شام سات بجے نماز مغرب وعشاء حضور کی اقتداء میں جلسہ گاہ میں ادا کی گئیں.ان کے بعد حضور انور نے حسب ذیل چار نکاحوں کا اعلان فرمایا.ا.مکرم خالد نبیل ارشد صاحب ابن مکرم عبدالباقی ارشد صاحب آف لندن همراه محترمه منصورہ سلام صاحبہ بنت مکرم عبد السلام صاحب آف لاہور.مکرم عبدالقیوم رشید صاحب ابن مکرم چوہدری عبدالرشید صاحب آرکیٹکٹ آف لندن ہمراہ محترمہ فرزانہ بشیر صاحبہ بنت چوہدری بشیر احمد صاحب نائب امیر ملتان.مکرم سید محمود احمد صاحب ابن مکرم سید داؤ د مظفر شاہ صاحب ربوه همراه محترمه سیده طیبه صاحبہ بنت مکرم سید بشیر احمد صاحب آف پھگلہ مکرم تقی محمد صاحب ابن ڈاکٹر حافظ صالح محمد الہ دین صاحب آف حیدر آباد دکن همراه محتر مہ سعدیہ نیم صاحبہ بنت چو ہدری محمد نعیم صاحب آف کراچی.
107 ان نکاحوں کے اعلان اور دعا کے بعد مکرم مولانا سلطان محمود انور صاحب ناظر اصلاح وارشاد مرکز یہ ربوہ نے ۴۸ نکاحوں کا اعلان کیا جن کی دعا میں حضور ایدہ اللہ نے بھی بنفس نفیس شمولیت فرمائی.نکاحوں کے اعلانات کی تقریب کے بعد جلسہ گاہ میں ہی حضور انور کے ہاتھ پر چالیس افراد نے بیعت کی اور باقاعدہ جماعت احمد یہ میں شمولیت کی سعادت پائی.۲۹ / دسمبر ۱۹۹۱ء بروز اتوار.قادیان آج مورخہ ۲۹؍ دسمبر ۱۹۹۱ء نماز فجر کی اقتداء میں مسجد اقصیٰ میں چھ بجکر بیس منٹ پر ادا کی گئی ادائیگی نماز فجر کے بعد حسب معمول بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے.صاحبزادہ مرزا کلیم احمد صاحب نے بعض قبروں کی نشاندہی کی اور انور کو بتایا کہ کونسی قبرکس کی ہے.بہشتی مقبرہ میں دعا کے بعد آپ ایوان خدمت کے سامنے سے گزر کر اور پھر جلسہ گاہ کی بائیں جانب سے ہوتے ہوئے مکرم بشیر احمد خادم صاحب درویش کی درخواست پر ان کے گھر چند لمحوں کیلئے گئے.راستہ میں بعض لوگوں کو شرف مصافحہ بخشا.یہاں سے آپ ڈاکٹر ملک بشیر احمد صاحب درویش کے گھر تشریف لے گئے.چند منٹ رکنے کے بعد آپ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی کے قریب والی سٹرک سے ہوتے ہوئے حضرت ڈپٹی شریف احمد صاحب کی کوٹھی پر گئے ، جہاں کیرنگ، اڑیسہ اور سویڈن کے مہمان ٹھہرے ہوئے تھے.حضور نے ان سے گفتگو فرمائی اور شرف مصافحہ بھی بخشا.ان مہمانوں سے ملنے کے بعد آپ سامنے والی کوٹھی ، جس میں صو بیدار رام سنگھ کے اہل خانہ رہتے ہیں تشریف لے گئے.صوبیدار رام سنگھ کے بڑے لڑکے نے آپ سے شرف مصافحہ حاصل کیا اور آپ نے اس سے گفتگو فرمائی.یہاں سے آپ نے احمد یہ محلہ کی طرف رخ کیا اور راستے میں ماسٹر بھو پندر سنگھ اور ان کے بچے سے ملاقات کی.احمد یہ چوک سے ہوتے ہوئے حضور واپس دارا مسیح تشریف لے آئے.آج جماعت ہائے احمد یہ بھارت کی مجلس شوری منعقد ہوئی.اس کی مختصر رپورٹ پیش ہے.
108 رپورٹ مجلس مشاورت بھارت قادیان ۲۹ دسمبر ۱۹۹۱ء تقسیم ہند کے بعد قادیان میں مجلس مشاورت کا با قاعدہ انعقاد دو سال قبل شروع ہوا اور یہ تیسری مشاورت تھی.لیکن تقسیم ملک کے بعد ہندوستان کی جماعت ہائے احمدیہ کی یہ اولین مشاورت تھی جو سید نا حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی بابرکت موجودگی میں منعقد ہوئی.چنانچہ صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان کے اختتام پر اگلے دن مورخہ ۱۲۹ دسمبر ۱۹۹۱ء کو جلسہ گاہ میں مجلس مشاورت کا انعقاد عمل میں آیا.اس مجلس مشاورت کے سیکرٹری مکرم مولا نا محمد انعام غوری صاحب آف قادیان تھے.اگر چہ یہ مشاورت ملکی نوعیت کی تھی لیکن حضور نے از راہ شفقت صدرانجمن احمد یہ ربوہ کے ناظران، وکلاء، ناظمین و افسران صیغہ جات ، ایڈیشنل وکلاء لنڈن، پرائیویٹ سیکرٹری لندن و ربوہ.پاکستان کی جماعتوں اور ضلعوں کے امراء ، بیرونی ممالک کے اُمراء، ذیلی تنظیموں کے ملکی صدران ، پاکستان اور بیرونی ممالک کے مربیان اور بیرون کی لجنہ اماء اللہ کی چیدہ چیدہ ممبرات کو بھی شامل کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی.چنانچہ ہندوستان کی ۹۷ جماعتوں کے ۲۵۸ اور پاکستان کے علاوہ دیگر بیرونی ممالک کے ۱۹۶ یعنی کل ۴۲۸۱ مبران نے اس مجلس شورای میں شمولیت فرمائی.اس تاریخی مجلس شورای کا پہلا اجلاس جلسہ گاہ کے شامیانے میں سوا دس بجے صبح مکرم محمود احمد صاحب شاد مربی سلسلہ ( شہید لاہور ۲۸ رمئی ۲۰۱۰ ء ) کی تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوا.اجلاس کی کارروائی میں معاونت کے لئے حضور انور نے مکرم محمد شفیع اللہ صاحب آف بنگلور صوبائی امیر کرناٹک کو اپنے ساتھ سٹیج پر بلایا.ازاں بعد حضور نے سیکرٹری شوری سے ایجنڈا طلب فرمایا.مکرم محمد انعام غوری صاحب سیکرٹری شوری نے چند جماعتوں کی طرف سے موصولہ تجاویز پیش کیں.اس پر حضور اقدس نے قرآن کریم اور سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور سنت اور خلفائے راشدین کے طریق پر روشنی ڈالتے ہوئے شوری کی اہمیت کو واضح فرمایا اور بھارت کی جماعتوں کو اس امر کی طرف متوجہ فرمایا کہ مرکز قادیان ہی سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں شوری کے انعقاد کا آغاز ہوا تھا.لیکن تقسیم ملک کے بعد ہندوستان کی جماعتیں اس اہم (Institution) ادارہ سے ناواقف ہوتی چلی گئیں.اب پھر دوسال سے شوری کا انعقا د شروع
109 ہوا ہے.ابھی جماعتوں کو اس کی اہمیت اور روایات سے پوری طرح آگا ہی نہیں ہے.جس کے سبب قبل از وقت تجاویز نہیں بھجوائی گئیں اور صدرانجمن احمد یہ اور متعلقہ صیغہ جات سے گزار کر انہیں با قاعدہ ایجنڈا پر نہیں لایا جا سکا.آئندہ اس کا خیال رکھا جائے اور بر وقت تجاویز بھجوائی جائیں اور جو تجاویز وقت مقررہ کے بعد موصول ہوں انہیں رد کر دیا جائے اور اگر کوئی تجویز موصول نہ ہو تو شوری کے انعقاد کی ضرورت نہیں رہتی.اس وضاحت کے بعد حضور انور نے سکندرآباد (آندھرا) بنگلور (کرناٹک ) بھبنیشور (اڑیسہ ) اور بمبئی (مہاراشٹرا) کی جماعتوں کی طرف سے موصولہ تجاویز پر تبصرہ فرماتے ہوئے مندرجہ ذیل تجاویز کو شوری میں غور کرنے کے لئے ایجنڈے میں شامل فرمایا : (۱) احباب جماعت ہندوستان کی تعلیمی ، طبی اور اقتصادی حالات کو بہتر بنانے کے لئے قادیان اور دیگر جماعتوں میں کالج اور سکول کے اجراء.شفاخانوں کے قیام اور چھوٹی چھوٹی صنعتوں کے قیام کے سلسلہ میں مجلس مشاورت غور کر کے ابتدائی رپورٹ پیش کرے.(۲) قادیان میں ایک جدید تکنیک کے پرنٹنگ پریس کے قیام اور مختلف زبانوں میں لٹریچر کی اشاعت اور اسکی نکاسی کے بارہ میں مجلس مشاورت غور کر کے رپورٹ پیش کرے.(۳) قادیان میں جامعہ احمدیہ کو معیاری بنانے اور اسمیں مختلف زبانوں کے سکھانے کے لئے ماہرین کو مقرر کرنے وغیرہ امور کا جائزہ لینے کے لئے حضور انور نے انجمن تحریک جدید ربوہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ انٹر نیشنل سطح پر جائزہ لیکر اس بارہ میں رپورٹ پیش کرے.متفرق تجاویز: ا.جماعت کانپور کی اس تجویز پر کہ صدرانجمن احمد یہ قادیان کا مالی سال یکم جنوری تا دسمبر ہونا چاہئے.حضور نے صدر انجمن احمد یہ قادیان کو ہدایت فرمائی کہ وہ جائزہ لیکر اس بارے میں رپورٹ پیش کرے.۲.رشتہ ناطہ کے معاملات کو بہتر بنانے کے سلسلے میں حضور نے فرمایا کہ چونکہ گزشتہ شوریٰ میں یہ تجویز پیش ہو کر میری ہدایات حاصل کی جاچکی ہیں اور ان پر کارروائی زیر عمل ہے اسلئے فی الحال
110 اس تجویز پر مزید مشورہ کی ضرورت نہیں ہے.۳.اس تجویز پر کہ انسپکٹران مال کی طرح انسپکٹران تربیت کے بھی جماعتوں میں دورے ہونے چاہئیں ، حضور نے فرمایا کہ ہندوستان کی جماعتوں کے فاصلوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسے دورے نہ صرف بہت زیادہ اخراجات کے متقاضی ہیں بلکہ نتائج کے لحاظ سے بھی زیادہ سود مند نہ ہوں گے.اصل نظام جس پر ذمہ داری ہے وہ مقامی جماعتوں کا نظام ہے.پس سیکرٹریان مال کے علاوہ دیگر شعبہ جات اور ان کے سیکر ٹریان کو بھی مستعد کرنیکی ضرورت ہے.البتہ وقتاً فوقتاً ناظر تعلیم و تربیت و دیگر ناظر ان کو جماعتوں کے دورے کرنے اور تربیتی امور کا جائزہ لیتے رہنے کی ضرورت ہے.اول الذکر دو تجاویز پر مشورہ کے لئے حضور نے نمائندگان شورای سے رائے حاصل فرمانے کے بعد دوسب کمیٹیوں کی تشکیل فرمائی.تجویز نمبر ا تعلیمی بلیتی اور اقتصادی حالات کو بہتر بنانے کے سلسلہ میں ۳۴ افراد پر مشتمل سب کمیٹی کی منظوری عطا فرمائی.مکرم محمد شفیع اللہ صاحب امیر صوبہ کرناٹک کو اس سب کمیٹی کا صدر اور مکرم منیر احمد صاحب حافظ آبادی ناظر امور عامہ کو سیکرٹری مقرر فرمایا.تجویز نمبر۲.قادیان میں اعلیٰ درجے کے پرنٹنگ پریس کے قیام اور لٹریچر کی طباعت تقسیم کا جائزہ لینے کے لئے سب کمیٹی کی منظوری عطا فرمائی.مکرم سید فضل احمد صاحب پٹنہ کو اس سب کمیٹی کا صدر اور مکرم سید تنویر احمد صاحب ناظر نشر واشاعت کو سیکرٹری مقررفرمایا.سب کمیٹیوں کی تشکیل کے بعد سوا ایک بجے دو پہر شوری کے پہلے اجلاس کی کاروائی اختتام پذیر ہوئی.ہر دوسب کمیٹیوں کے اجلاسات مسجد اقصیٰ میں ۲:۳۰ تا ۴:۳۰ بجے سہ پہر ہوئے جس میں متعلقہ تجاویز پر مشورہ کے بعد ر پورٹس تیار کی گئیں.مجلس شوری کا دوسرا اور اختتامی اجلاس پونے پانچ بجے شام سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کی تشریف آوری پر مسجد اقصیٰ میں
111 شوری کے دوسرے اور آخری اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی.آپ نے تجویز نمبرا کی سب کمیٹی کی رپورٹ پیش ہونے سے قبل مکرم ڈاکٹر عبدالباسط خان صاحب آف کٹک امیر صوبہ اڑیسہ کو معاونت کے لئے بلایا.مکرم محمد شفیع اللہ صاحب صدر کمیٹی نے سب کمیٹی کی رپورٹ پڑھ کر سنائی.ازاں بعد حضور نے اس رپورٹ پر رائے طلب فرمائی.چنانچہ ۱۲ نمائندگان نے اس رپورٹ پر بحث میں حصہ لیا.آخر پر حضور نے فرمایا کہ تعلیمی اورطبی سہولتوں کی فراہمی اور صنعتوں کے قیام کی سکیم تیار کرنے کے لئے سب کمیٹی نے یہ مشورہ دینا تھا کہ کن لائنوں پر اس سکیم کو تیار کیا جاسکتا ہے.اسکی تفاصیل میں جانے کی ضرورت نہیں تھی.کیونکہ اتنے کم وقت میں اسکی تفاصیل کا جائزہ لینا ممکن ہی نہیں.لہذا اب صوبائی کمیٹیاں اپنے اپنے مقامات پر اس بارے میں غور و مشورہ کر کے اپنی رپورٹ متعلقہ نظارتوں یعنی نظارت تعلیم اور نظارت امور عامہ کو بھجوادیں تا کہ وہ صدرانجمن میں مشورہ کے بعد مجھے پیش کریں.البتہ اس رپورٹ کی ایک نقل مجھے براہ راست بھجوا دی جائے تا کہ میں جائزہ لوں کہ کس نہج پر کاروائی ہورہی ہے.دوسری سب کمیٹی کی رپورٹ پیش ہونے سے قبل حضور نے مکرم عبدالحمید صاحب ٹاک آف یاڑی پورہ امیر صوبہ کشمیر کو معاونت کے لئے بلایا.بعدہ مکرم سید فضل احمد صاحب نے سب کمیٹی کی رپورٹ پڑھ کر سنائی.حضور نے اس رپورٹ پر بحث میں حصہ لینے کے لئے نمائندگان کو موقع عطا فرمایا چنانچہ گیارہ نمائندگان نے بحث میں حصہ لیا.آخر میں حضور انور نے قادیان میں نہ صرف آفسیٹ بلکہ کمپیوٹرائزڈ پر لیس کے قیام کے بارہ میں جائزہ لیکر رپورٹ پیش کرنے کے لئے مکرم ناظر صاحب اشاعت قادیان اور دیگر چھ ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی کی منظوری عطا فرمائی اور ہدایت فرمائی کہ تمام امور کا جائزہ لیکرتفصیلی رپورٹ ۲۹ جنوری ۱۹۹۲ ء تک تیار کر کے آپ کو بھجوا دی جائے.نمائندگان کے اظہار خیال پر ساتھ کے ساتھ حضور نے مجلس شورای کو زریں ہدایات اور ارشادات سے متمتع فرمایا.شورای کا یہ آخری اجلاس مسلسل تین گھنٹے جاری رہنے کے بعد اختتامی دعا کے ساتھ ۷:۰۳ بجے شام اختتام کو پہنچا.مجلس شوری کے اجلاس کے اختتام کے بعد نماز
112 مغرب وعشاء کی ادائیگی ہوئی اور پھر آپ نے ساڑھے نو بجے سے سوا دس بجے تک کشمیر سے آئے ہوئے مہمانوں کو شرف ملاقات سے نوازا.۳۰ دسمبر ۱۹۹۱ء بروز سوموار.قادیان حضرت خلیفہ انبیح الرابع نے نماز فجر چھ جگر میں منٹ پر مسجد اقصیٰ میں پڑھائی.سات بجے آپ حسب معمول دعا کیلئے بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے.دعا کے بعد آپ ایوانِ خدمت کے سامنے سے ہوتے ہوئے جلسہ گاہ اور ڈاکٹر بشیر احمد صاحب درویش کے گھر کے سامنے سے گزرے جہاں پر آپ نے باہر کھڑے بچوں کو پیار کیا پھر چوہدری محمد ظفر اللہ خان کی کوٹھی کے پاس سے ہوتے ہوئے ڈپٹی شریف صاحب کی کوٹھی پر وہاں ٹھہرے ہوئے مہمانوں سے ملاقات کی.یہاں سے آپ واپس ہوئے اور راستہ میں سٹرک کے دائیں بائیں کھڑے ان مہمانوں سے جو جلسہ سالانہ میں شرکت کے بعد اب واپس گھروں کو جارہے تھے مصافحہ وملاقات کا شرف عطا فرماتے ہوئے احمد یہ چوک سے ہو کر دار ا مسیح میں داخل ہوئے.صبح دس بجے سے بارہ بجے تک حضور نے ربوہ سے آئے ہوئے ناظران اور وکلاء صاحبان سے ملاقات فرمائی.ڈیڑھ بجے نماز ظہر وعصر حضور اقدس کی اقتداء میں مسجد اقصیٰ میں ادا کی گئیں.بعد دو پہر آپ تقریباً ہم بے دفتر تشریف لائے.آج بھی دفتری کام اور دفتری وانفرادی ملاقاتوں کا بھر پور سلسلہ جاری رہا.ادا ئیگی نماز مغرب وعشاء کے بعد آپ لنگر خانہ سے ملحقہ گیسٹ ہاؤس میں بعض غیر ملکی معززین کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیہ میں بنفس نفیس شرکت کیلئے تشریف لے گئے.جہاں ان سے بے تکلفی کے ماحول میں گفتگو ہوتی رہی.یہ مجلس ساڑھے نو بجے برخواست ہوئی.۳۱ دسمبر ۱۹۹۱ء بروز منگل.قادیان بعد ادا جلیلی نماز فجر سات بجے حضور اقدس حسب معمول صبح کی سیر کیلئے دار اسے سے نکلے مسیح
113 ور سب سے پہلے بہشتی مقبرہ میں دعا کرنے کیلئے گئے.یہاں سے فارغ ہو کر راستہ میں احباب - جو کہ قطاروں میں کھڑے تھے ، مصافحہ کی سعادت بخشتے ہوئے آپ بہشتی مقبرہ سے باہر تشریف لائے اور گزشتہ روز والے راستہ پر سے ہوتے ہوئے ڈاکٹر بشیر احمد صاحب درویش کے مکان کے دروازہ پر چند منٹ رکے اور بچوں کو پیار کیا.یہاں سے آگے چل کر حضرت چوہدری ظفر اللہ خان کی کوٹھی کے قریب چونگی سے بائیں طرف مین سڑک سے ہوتے ہوئے ریلوے گیسٹ ہاؤس والی سڑک پر نکل آئے.ریلوے روڈ پر سردار ستنام سنگھ صاحب باجوہ کی کوٹھی میں ان سے ملنے کیلئے اندر تشریف لے گئے.ان سے ملاقات کے بعد آپ سیر کرتے ہوئے نور بلڈنگ کے نزدیک پہنچے.تھانہ قادیان پار کرنے کے بعد دائیں جانب سے اچانک ایک ادھیڑ عمر سردار چمن سنگھ احتراماہاتھ باندھے حضور سے ملنے آئے.آپ نے انہیں مصافحہ اور معانقہ کا شرف بخشا جس پر انہوں نے آپ سے کہا کہ ابھی آپ کا ذکر خیر ہورہا تھا.آپ نے بڑی بندہ نوازی کی ہے.اس پر حضور انور نے انہیں دوبارہ گلے سے لگایا اور چند باتوں کے بعد وہاں سے براستہ ریتی چھلہ محلہ احمدیہ کی جانب رخ کیا.بازار میں جگہ جگہ مہمانان جلسہ جواب واپس تشریف لے جارہے تھے ، ان کو آپ نے شرف مصافحہ بخشا.راستہ میں عبدالحفیظ صاحب باڈی گارڈ نے حضور انور سے حکیم سورن سنگھ صاحب (جنہوں نے کافی تعداد میں جلسہ سالانہ کے مہمان اپنے ہاں ٹھہرائے تھے) کے لڑکے کا تعارف کروایا.آپ نے ان کو گلے سے لگالیا.یہاں سے حضور راستہ میں کھڑے لوگوں کو سلام کرتے ہوئے دارا مسیح میں داخل ہوئے.دس بجے سے گیارہ بجے تک آپ نے پاکستان کے مبلغین و مربیان اور جامعہ احمدیہ کے اساتذہ طلبا و معلمین وقف جدید کو ملاقات کی سعادت بخشی.مغرب وعشاء کی نمازیں مسجد اقصیٰ میں ساڑھے چھ بجے حضور انور کی اقتداء میں ادا کی گئیں.نمازوں کی ادائیگی کے بعد حسب ذیل دوافراد نے دستی بیعت کی سعادت حاصل کی.ا مکرم محمد عزیز صاحب ابن مکرم کریم بخش صاحب آف پونچھ ۲.مکرم جوزف کو نڈلر صاحب ( Josef Kondler) آف جرمنی.حضور نے انگریزی میں عہد بیعت کے الفاظ دو ہرائے.دعا اور وتروں کی ادائیگی کے بعد
114 آپ کے ارشاد کے مطابق مکرم را ویل بخاراییو صاحب نے ( راویل صاحب تا تاری روسی احمدی ہیں اور شاعر بھی ہیں اور کئی کتب کے مترجم اور مصنف بھی) احباب جماعت کے سامنے روس کے حالات اور وہاں کی معلومات پر مبنی تقریر کی.یکم جنوری ۱۹۹۲ء بروز بدھ.قادیان حضور انور نے نماز فجر چھ بجکر ہیں منٹ پر مسجد اقصیٰ میں پڑھائی.آج نماز کی پہلی رکعت میں آپ نے سورۃ بقرہ آخری رکوع اور دوسری رکعت میں سورۃ آل عمران آیت ۱۹۱ تا ۱۹۵ کی تلاوت فرمائی.آپ نے نماز کے بعد تمام احباب کو نئے سال کی مبارکباد دی اور فرمایا کہ ”ہندوستان میں نئے سال کے پہلے دن پہلی با جماعت نماز آپ سب کو بے حد مبارک ہو.خدا کرے کہ قادیان سے یہ نور نکل کر ساری دنیا میں پھیلے.“ اس کے بعد حضور حسب معمول بہشتی مقبرہ میں تشریف لے گئے.قطعۂ خاص سے نکل کر آپ نے اپنے نانا جان حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب اور دو اور قبروں پر دعا کی.حضور کی طبیعت فلو کے اثر کی وجہ سے ٹھیک نہیں تھی.اسلئے آج لمبی سیر نہیں کی.چنانچہ آپ بہشتی مقبرہ سے باہر تشریف لائے اور ایوانِ خدمت کے قریب سے گزر کر احمد یہ چوک کی طرف آئے.راستہ میں آپ نے جلسہ سالانہ کے موقع پر آئے ہوئے افریقن وفد کے ایک ممبر کو بلا کر حال احوال دریافت فرمایا اور پھر احمد یہ چوک سے واپس دار اسی تشریف لے آئے.صبح گیارہ بجے مسجد اقصیٰ میں جلسہ سالانہ کے تمام کارکنوں کو ملاقات ومصافحے کا شرف بخشا.شام پانچ بجے آپ نے مسجد میں اساتذہ و طلبا مدرسہ احمدیہ قادیان اور بھارت کے مبلغین و معلمین سے اجتماعی ملاقات فرمائی اور مدرسہ احمدیہ کے اساتذہ وطلبا سے تعلیم و تدریس کے متعلق گفتگو فرمائی اور ہدایات دیں اور مختلف گروپس کے ساتھ تصاویر بنوائیں.
115 ۲ جنوری ۱۹۹۲ء بروز جمعرات.قادیان حضور کی اقتدا میں نماز فجر چھ بجکر بیس منٹ پر مسجد اقصیٰ میں ادا کی گئی.سات بجے حسب معمول آپ دعا کی غرض سے بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے.آپ کی طبیعت فلو کی وجہ سے علیل تھی.فلو کا گلے پر خاص طور پر اثر تھا.دعا کے بعد آپ سیر کیلئے تشریف لے جانے سے قبل پاکستان سے آئے ہوئے مہمانوں نے جو بہشتی مقبرہ کے احاطہ میں چھولداریوں میں ٹھہرے ہوئے تھے ، آپ سے شرف مصافحہ حاصل کیا.ان پاکستانی مہمانوں کا قافلہ آج تھوڑی دیر بعد روانہ ہونے والا تھا اور یہ مہمان اپنے آقا سے جدائی کے خیال سے جذبات سے مغلوب و آبدیدہ ہو رہے تھے.اس الوداعی ملاقات کے بعد حضور ایوان خدمت کے سامنے سے ہوتے ہوئے جلسہ گاہ کے راستہ سے احمد یہ چوک کی طرف گئے.آج کی سیر بھی مختصر تھی.احمد یہ چوک سے دار امسیح پہنچ کر آپ اپنے خاندان کے افراد سے ملنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش والے کمرے کے سامنے والے صحن میں پہنچے.آپ نے یہاں ، اور اس طرح بیت الدعا کے سامنے والے صحن میں اپنے خاندان کے افراد سے ملاقات کی اور ان سے مصافحہ و معانقہ فرمایا.ان تمام افراد کو آج پاکستان واپس روانہ ہونا تھا.ان سب کو الوداع کہنے کے بعد حضور اپنے گھر تشریف لے گئے.نماز ظہر وعصر حضور کی اقتداء میں مسجد اقصیٰ میں ادا کی گئیں.ساڑھے پانچ بجے آپ نے وکیل اعلی ربوہ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب، ناظر بیت المال قادیان مکرم محمود احمد صاحب عارف اور خاکسار ( ہادی علی ) کو ہندوستان کی جماعتوں کی بہبود کے منصوبہ کے سلسلہ میں طلب فرمایا.یہ میٹنگ ایک گھنٹہ تک جاری رہی.ساڑھے چھ بجے حضور اقدس نے نماز مغرب وعشاء مسجد اقصیٰ میں جمع کر کے پڑھائیں نماز عشاء کے بعد آپ دفتر میں تشریف لائے اور چوہدری آفتاب احمد صاحب آف لندن کی اہلیہ کی شدید علالت پر فکر کا اظہار کیا اور ان کے مناسب علاج اور نگہداشت سے متعلق ڈاکٹر مبارک احمد صاحب اور ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب کو ہدایات دیں.
116 ۳/ جنوری ۱۹۹۲ء بروز جمعہ قادیان حضرت خدیہ اسیح الرابع کی اقتداء میں نماز فجر جیہ بیچ کر میں منٹ پر مسجد اقصیٰ میں ادا کی گئی.سات بجے کے قریب حسب معمول حضور دعا کیلئے بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے.آپ کی صاحبزادیاں اور صاحبزادہ مرزا لقمان احمد صاحب بھی آپ کے ہمراہ تھے.آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر اور اسکے بعد حضرت خلیفۃ المسيح الاول الاول اور اپنی والدہ محترمہ سیدہ مریم بیگم کی قبروں پر دعا کی.اسکے بعد آپ تین اور قبروں پر بھی گئے اور دعا کی.بہشتی مقبرہ میں دعا کے بعد آپ گزشتہ چند روز کی طرح ایوانِ خدمت کے سامنے سے گزرے.راستہ میں مختلف لوگوں کو مصافحے کی سعادت بخشتے ہوئے احمد یہ چوک سے گزر کر دار ا مسیح میں واپس تشریف لائے.اس سال کی پہلی نماز جمعہ پڑھانے کیلئے حضور انور مسجد اقصیٰ میں ڈیڑھ بجے تشریف لائے.اس تاریخی نماز جمعہ کے لئے مکرم رشید الدین پاشا صاحب نے اذان دی.خطبہ جمعہ کے بعد جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھا ئیں.خطبہ جمعہ کا مکمل متن پیش ہے.خطبه جمعه فرموده ۳ /جنوری ۱۹۹۲ء ( بمقام مسجد اقصی قادیان) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.وو جلسہ سالانہ جو سو سالہ جلسہ سالا نہ ہونے کے لحاظ سے غیر معمولی اہمیت رکھتا تھا ، خدا کے فضل سے بخیر وخوبی اختتام پذیر ہوا اور اس جلسہ کے بعد آج پہلا جمعہ ہے جو ہمیں مسجد اقصیٰ میں ادا کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے اور سال کا بھی یہ پہلا جمعہ ہے.اس لحاظ سے سب سے پہلے میں تمام جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر کو صد سالہ جلسہ سالانہ کے بخیر وخوبی گزرنے پر اور نئے سال کے آغاز پر مبارک باد پیش کرتا ہوں، اپنی طرف سے بھی اور قادیان کے درویشوں اور باشندگان کی طرف سے بھی اور ان سب مہمانوں کی طرف سے بھی جو ابھی تک یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں.جلسہ سالانہ جب قریب آیا تو دن رات کی رفتار میں تیزی آنی شروع ہوئی اور یوں لگتا تھا کہ
117 اچانک دن رات کے چکر کو کسی نے لٹو کی طرح گھما دیا ہے اور دن گھنٹوں میں گزرنے لگے اور جب ہوش آئی تو جلسہ پیچھے رہ چکا تھا اور تمام ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ادا ہو چکی تھیں.اس سے پہلے بھی مجھے گلے کی تکلیف تھی جو یہاں آنے کے بعد غالبا کسی گھی کی الرجی سے شروع ہوئی اور مجھے ڈر تھا کہ یہ کہیں جلسہ کی ذمہ داریوں میں حائل نہ ہو جائے.یہ اللہ تعالیٰ کا عجیب احسان ہے کہ جلسہ کے آغاز پر یہ تکلیف بالکل غائب ہوگئی اور پوری طرح مجھے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق ملی.جلسہ کے بعد یہ تکلیف پھر از سر نو واپس آئی تو مجھے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات اپنے عاجز بندوں سے اعجازی سلوک فرماتا ہے لیکن بشریت کے تقاضوں سے وہ بالا نہیں ہوتے.پس وہ اعجازی دور تھا جو گزر گیا.اب میرے بشری تقاضوں کی بیماری ہے جس نے مجھے آپکڑا ہے لیکن اللہ کے فضل سے طبیعت پہلے کی نسبت بہتر ہے.کل مجھے انشاء اللہ دہلی جانا ہوگا.پرسوں وہاں ایک اہم بین الاقوامی مجلس سے خطاب ہے.احباب جماعت سے گزارش ہے کہ وہ دعا کریں اللہ تعالیٰ اس اہم ذمہ داری کو بھی اسی طرح اپنے خاص فضل کے ساتھ عمدگی کے ساتھ نبھانے کی توفیق عطا فرمائے ، جیسے پہلے اس نے عمدگی سے نبھانے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور ایسی باتیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کے نتیجہ میں دنیا کو کچھ فائدہ پہنچے.محض منہ کی باتیں نہ ہوں بلکہ ایسی باتیں ہوں جو دل سے نکلیں اور دل پر اثر کرنے والی ہوں.جن کے نتیجہ میں خیالات میں بھی تبدیلیاں ہوں اور دلوں میں بھی تبدیلیاں پیدا ہوں کیونکہ یہ دنیا جس دور میں سے گزر رہی ہے اس میں سب فتور خیالات اور دلوں کا فتور ہے.امنِ عالم کی سرسری سطحی باتیں کرنا ایک فیشن سا بن چکا ہے لیکن فی الحقیقت بہت کم ہیں جو مضمون کی تہہ میں ڈوب کر حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے امن کے خواہاں ہیں اور امن کو حاصل کرنے کے لئے وہ کسی قربانی کے لئے تیار ہیں.چونکہ میرا مضمون امن عالم سے تعلق رکھتا ہے اس لئے میں سب احباب جماعت سے درخواست کرتا ہوں کہ دعا کریں کہ ایسے رنگ میں اس مضمون کو ادا کرنے کی توفیق ملے کہ وہ لوگ جو عموما سطحی باتوں کے عادی ہیں ان کی نظر بھی گہری اترے ، مسائل کی تہ تک پہنچیں اور اپنے ماحول اور گردوپیش میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کریں.ہم ایک غفلت کی حالت میں سے گزر رہے ہیں
118 اور اس غفلت کی حالت کو قرآن کریم نے خسران کی حالت بیان فرمایا ہے.وَالْعَصْرِ ) اِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرِ وہ زمانہ گواہ ہے، اس زمانے کی قسم کہ اس وقت کا انسان گھاٹے میں ہوگا.یعنی تمام کا تمام انسان گھاٹے میں ہوگا.اِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ سوائے ان چند لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کے وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ اور حق بات کی نصیحت کی وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ) (العصر :۴۰۲) صبر کے ساتھ صبر کی نصیحت کی اسمیں ایک ذرہ بھی شک نہیں کہ یہ جماعت جس کا یہاں ذکر ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ہے جس کا آغاز قادیان کی اسی بستی میں آج سے تقریباً سو سال پہلے ہوا تھا.پس امن عالم کے حصول کے لئے اگر چہ ہماری طاقتیں بہت محدود ہیں اور إِلَّا الَّذِيْنَ کی ذیل میں ایک مختصر سے گروہ کے طور پر ہمارا ذکر ہوا ہے.اگر چہ اتنی تھوڑی تعداد کے لئے بظا ہر ممکن نہیں کہ وہ تمام عالم کے گھاٹے کو نفع میں تبدیل کر دے.مگر قرآن کریم نے جو نسخہ عطا فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ اگر وہ ایمان پر قائم رہیں.نیک اعمال کے ساتھ چمٹے رہیں اور وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ خواہ کوئی سنے یا نہ سنے حق بات کی نصیحت کرتے رہیں.حق بات کی نصیحت حق طریق پر کرتے رہیں اور صبر کی نصیحت کرتے رہیں اور صبر کے طریق پر نصیحت کرتے رہیں.یہ وہ نسخہ ہے جو قرآن کریم نے تمام عالم کے گھاٹے کو نفع میں تبدیل کرنے کا پیش فرمایا ہے.خدا کرے ہمیں اس کی توفیق ملے.بعض دفعہ ایک نسل کو اپنی زندگی میں ایک انقلاب کا منہ دیکھنے کی توفیق مل جاتی ہے.بعض دفعہ دونسلوں کو یکے بعد دیگرے انقلابات کے کچھ حصے دیکھنے کی توفیق ملتی ہے لیکن ہمارا سفر لمبا ہے.احمدیت کو آئے ہوئے آج تک سو سال سے کچھ زائد عرصہ گزرا کئی نسلیں ہماری گزر چکی ہیں اور ابھی ہم نے لمبا سفر طے کرنا ہے.یہی حکمت ہے کہ صبر پر اتنا زور دیا گیا.وہ لوگ جو صبر کی توفیق نہیں رکھتے اگر ان کو اپنی آنکھوں کے سامنے کا میابی دکھائی نہ دے تو وہ حو صلے ہار بیٹھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس مقصد کی پیروی کا کوئی فائدہ نہیں.جاں کا زیاں ہے اور کوششوں کا نقصان ہے.لیکن وہ لوگ جو خدا کی خاطر کوشش کرتے ہیں وہ اپنے مقصد کو اپنی آخری صورت میں نہ بھی حاصل کر سکیں تو درحقیقت ان کا ایک مقصد ہرلمحہ پورا ہوتا
119 چلا جاتا ہے اور وہ مقصد ہے رضائے باری تعالیٰ کا حصول.وہ دنیا میں جو تبدیلیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں اپنی ذات کی خاطر نہیں ، اپنی تعداد بڑھانے کے لئے نہیں ، اپنے رسوخ کو پھیلانے کے لئے نہیں بلکہ اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے.پس ان میں سے جو بھی جس حالت میں بھی جان دیتا ہے وہ کامیاب حیثیت سے جان دیتا ہے اور اپنے مقصد کو حاصل کرتے ہوئے جان دیتا ہے کیونکہ اس کے رب کی رضا کی نگاہیں اس پر پڑ رہی ہوتی ہیں.یہی وہ یقین کامل ہے، یہی وہ اعلیٰ درجہ کا احساس ہے جے فوز عظیم کہا جاتا ہے.یعنی ایسی کا میابی کہ دشمن کو دکھائی دے یا نہ دے مگر ہر شخص جواس کامیابی کا مزہ چکھتا ہے اور اسمیں سے گزرتا ہے وہ کامل یقین رکھتا ہے کہ وہ کامیاب ہو گیا.ایسا ہی ایک واقعہ ایک ایسے صحابی کے ساتھ پیش آیا جن کو جب قتل گاہ پر لے جایا گیا.دشمن کے نرغے میں آکر بعض اور صحابہ کے ساتھ وہ بھی پکڑے گئے تھے تو جب انہیں قتل گاہ میں لیجایا گیا اور تلوار ان کی گردن پر چلنے لگی تو انہوں نے آخری فقرہ یہ کہا کہ فُرتُ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ خدا کی قسم !ارب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا.کیسی عجیب بات ہے.فوز کی ایک نئی تعریف دنیا کے سامنے ابھری ہے اور یہی وہ تعریف ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.وہ فقرہ سن کر بہت سے کفار مکہ جو اس قتل میں شریک تھے ششدر رہ گئے، حیران ہوئے کہ یہ کیسا جملہ ہے.ایک شخص جو قتل ہونے کے قریب ہے اس کی زندگی کے چند لمحے باقی ہیں وہ یہ اعلان کر رہا ہے کہ رب کعبہ کی قسم ! میں تو کامیاب ہو گیا.یہ کیسی کامیابی ہے.تب ان کی توجہ اسلام کی طرف پھری اور اس ایک جان نے بہت سی سعید رو میں اپنے پیچھے چھوڑ دیں.ایک کامیابی تو ان کو وہ نصیب ہوئی کہ وہ ہمیشہ کے لئے اپنے رب کے پیارے ہوئے اور ایک کامیابی وہ نصیب ہوئی کہ اگر ایک سرگردن سے اتر اتو اور کئی سرمحمد رسول اللہ کی غلامی میں جھک گئے اور وہ جان ضائع نہیں گئی.پس فوز کے یہ معنی ہیں جن کو جماعت احمدیہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.اگر حصولِ مقصد ہم سے بہت دور دکھائی دیتا ہے تو زندگی کا ایک مقصد ایسا ہے جو ہرلمحہ ہمارے ساتھ ہے اور وہ رضائے باری تعالیٰ کا حصول ہے.اگر ہم خود اپنے نفس میں مطمئن ہو جائیں کہ ہمیں رضائے باری تعالیٰ حاصل ہو رہی ہے ، ہم پر اس کے پیار کی نگاہیں پڑ رہی
120 ہیں تو سب سے بڑی کامیابی یہی ہے.اس سے بڑی اور کوئی کامیابی نہیں.جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے روح پرور نظارے جلسہ سالانہ کے متعلق چند مختصر باتیں میں جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.وہ جلسہ کے بعد پہلی بار یہ خطبہ سن رہی ہیں.اس لئے ان کو تو قع ہوگی کہ قادیان سے متعلق اور جلسہ سے متعلق میں اپنے کچھ تاثرات بیان کروں.یہ مضمون بہت مشکل ہے کیونکہ دل کی جو کیفیات تھیں اور ہیں ان کا بیان ممکن نہیں.ایک عجیب خواب کی سی دنیا سے نکل کر ہم آئے ہیں.جو مناظر ہم نے جلسہ میں عشق اور محبت کے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر فدائیت کے نظارے دیکھے، تمام دنیا سے آئے ہوئے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پروانے اس بستی میں بہت تکلیفیں اٹھا کر جمع ہوئے.ہندوستان کے کونے کونے سے اس کثرت سے احباب جماعت یہاں تشریف لائے کہ آج تک سو سالہ تاریخ میں کبھی ان جگہوں سے اس کثرت سے احباب جلسہ سالانہ میں شریک نہیں ہوئے.بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں بھاری اکثریت غربت کا شکار ہے اور اتنی غربت کا شکار ہے کہ ان کے لئے ریل کے تیسرے درجہ کے سادہ دوطرف کے کرائے اکٹھا کرنا بھی ممکن نہیں تھا.اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس طرح انہوں نے قرض اٹھائے یا کسی اور صاحب دل آدمی نے ان کی ضرورت کو محسوس کر کے ان کی مدد کی مگر میں نے جو کثرت سے نگاہ ڈالی تو بھاری اکثریت ایسی تھی جو غرباء کی تھی مگر دل کے غنی تھے.حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی یہ تعریف ان پر صادق آتی تھی کہ الغنى غنى النفس ( بخاری کتاب الرقاق حدیث نمبر: ۵۹۶۵) سنو ابغنی یعنی امیری اور تو نگری اصل میں دل کی امیری اور تو نگری ہوا کرتی ہے.وہ دنیا کی تمناؤں سے بے نیاز اس بستی میں آپہنچے جہاں ان کو سکون ملنا تھا.جس کی راہ وہ بڑی مدت سے دیکھ رہے تھے.ان کی آنکھوں نے وہ دیکھا جس کے متعلق مجھے بہتوں نے کہا کہ ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا.ہماری تمنائیں تھیں کہ ہم اپنی زندگی میں کبھی خلیفہ المسیح کو دیکھیں لیکن سوچ بھی نہیں سکتے تھے.ایسے بوڑھے تھے جو معلوم ہوتا تھا کہ زندگی کے آخری کنارے پر پہنچے ہوئے ہیں.ایسے اپانی تھے جو کرسیوں پر بیٹھ کر آئے.ایسے بیمار تھے جن کو ان کے رشتہ داروں نے سہارے دیئے.قطع
121 ނ نظر اس کے کہ یہاں کی موسم کی سختی کے وہ عادی نہیں تھے.اکثر ایسے علاقوں کے رہنے والے تھے کہ جہاں سارا سال گرمی ہی پڑتی ہے.سردی کم گرمی کا نام ہے اور حقیقت میں وہ سردی سے آشنا نہیں مگر انہی ایک دو کپڑوں میں ملبوس جوگرمیوں کے کپڑے تھے اور جن کے وہ عادی ہیں ان میں وہ تشریف لائے لیکن ان کے اندر ایک ایسا ولولہ ، ایسا جوش تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب سے کم وہ ہیں جو بیمار پڑے.وہ جو ٹھنڈے علاقوں سے آئے تھے.وہ جن کو تن بدن ڈھانکنے کے سارے سامان میسر تھے ان میں بہت زیادہ نزلہ زکام اور بخار نے راہ پائی لیکن عجیب بات تھی کہ ان میں نے میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ اس کا ناک بہ رہا ہو یا سردی سے کانپ رہا ہو.ایک عجیب گرمی تھی جو خدا تعالیٰ نے ان کو اندر سے عطا کر دی تھی اور یہ حیرت انگیز اعجاز تھا جو عام حالات میں ممکن نہیں ہے.ان کی اکثریت جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایسی تھی جنہوں نے کبھی قادیان کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا مثلاً اڑیسہ کے غریب اور تو نگر احمدی ، دل کے امیر احمدی دو ہزار سے زائد تعداد میں یہاں پہنچے اور خدا کے فضل کے ساتھ ان کی کیفیت یہ تھی کہ دن بدن اُن کے اندر پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہوئی دکھائی دیتی تھی.جب آغاز میں ان سے تعارف ہوا تو ان کی نگاہوں میں کچھ تھوڑی سی اجنبیت تھی ، کچھ پہچان کی کوشش کر رہے تھے یہ جاننا چاہتے تھے کہ یہ کیا چیز ہے جو آج ہم دیکھ رہے ہیں اور کچھ فاصلہ سا تھا لیکن آنا فانا وہ فاصلے قربتوں میں تبدیل ہو گئے اور اسکے بعد ان کا جوش اور ولولہ نا قابلِ بیان تھا.آج تک ہم نے کبھی کسی جلسہ سالانہ میں ایسے نظارے نہیں دیکھے جیسے ہندوستان کی دُور دُور سے آئی ہوئی جماعتوں کے اخلاص کے نظارے ہم نے دیکھے.ان میں کیرالہ کے غرباء بھی تھے.ان میں آندھراپردیش کے بھی تھے لیکن یہ ایسا موقع تھا جسمیں غرباء کو امراء سے الگ کرنا شاید زیادتی ہو.یہ وہ موقع تھا جہاں واقعہ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے دکھائی دے رہے تھے.جہاں کوئی تفریق نہیں رہی تھی.سارے دل کے امیر دکھائی دیتے تھے.سارے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور آپ کے اس غلام کامل کے شیدائی دکھائی دیتے تھے.جس نے قادیان کی بستی میں جنم لیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام دنیا میں اس کے دل سے نور کے سوتے پھوٹے.پس یہ وہ نظارے ہیں جن کے بیان کی مجھ میں طاقت نہیں ہے.شاید ویڈ یو والوں نے کچھ ریکارڈ کئے ہوں.
122 لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو اس فضا میں دم لے رہے تھے جنہوں نے ان کے جذبے،ان کے ولولے دیکھے وہ کسی طرح بھی بیان کی حد میں نہیں آسکتے.اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان لوگوں نے کیا پایا اور کیا لے کر لوٹے ؟ مگر میں یہ یقین رکھتا ہوں اور اس میں مجھے ذرہ بھی شک نہیں کہ خدا کے فضل سے وہ اگر پہلے کسی لحاظ سے کمزور بھی تھے تو یہاں سے مالا مال ہو کر لوٹے ہیں اور کسی چیز کی کوئی کمی انہوں نے محسوس نہیں کی.جلسہ میں پاکستان سے شامل ہونے والے احمدیوں کا تذکرہ اب ایک دور ہے جو شروع ہونے والا ہے.لیکن اس سے پہلے میں پاکستان کے احمدیوں کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں.خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک لمبے عرصہ کے بعد پاکستان کے غرباء کو بھی یہ توفیق ملی کہ وہ کسی حد تک یعنی سارے تو نہیں آسکتے تھے ناممکن تھا لیکن کسی حد تک یہاں پہنچ سکیں اور جن کے لئے انگلستان پہنچ کر ملاقات ناممکن تھی ان کو بھی خدا تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ قریب آئیں اور یہاں سے آکر جلسہ میں شمولیت کریں.میرے ساتھ ملاقاتیں کریں اور قریب سے دوبارہ دیکھنے کا موقع ملے.ان کی کیفیت بھی نا قابل بیان تھی.اکثر یہ صورت حال تھی کہ میرے ضبط کا بڑا سخت امتحان تھا.مجھے ہمیشہ ڈر رہا کہ اگر میرا ضبط ٹوٹ گیا تو یہ لوگ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگیں گے.میری جدائی ان پر اور بھی زیادہ سخت ہو جائے گی اور خدا کے ہاں جو علیحدگی کے بقیہ دن مقدر ہیں وہ پہلے سے زیادہ تلخ ہو جائیں گے.اس لئے میں نے حتی المقدور کوشش کی کہ ہنستے ہوئے، مسکراتے ہوئے، ہاتھ اٹھاتے ہوئے سب کو سلام کہوں، سب کے سلام قبول کروں اور حوصلے بڑھاؤں لیکن جو دل کی کیفیت تھی خدا کے سوا اور کوئی نہیں جانتا.بڑے سخت امتحان سے گزرنا پڑا.ان کے آنے کے نظارے بھی عجیب تھے.ان کی واپسی کے نظارے بھی عجیب تھے.ایک موقع پر میری بچیاں بسوں کی رخصت کا منظر دیکھنے کے لئے گئیں.ہمارے خاندان کے بھی بہت سے لوگ اس میں جارہے تھے.انہوں نے مجھے بتایا کہ سب لوگ کھڑکیوں سے اُلٹے پڑتے تھے.گویاوہ زبانِ حال سے کہہ رہے تھے کہ ہم نے نہیں جانا.ہم نہیں جانا چاہتے.چنانچہ میری بچی نے اپنی کسی عزیزہ سے پوچھا کہ تم کیوں الٹ رہی ہو تو اس نے کہا.یہاں سے جانے کو دل نہیں چاہتا.
123 دل چاہتا ہے کھڑکی سے چھلانگ لگادوں.پس یہ وہ کیفیتیں ہیں جن کو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی فصاحت و بلاغت جیسا کہ حق ہے ان کو سمیٹ سکے اور ان کو زندہ جاوید تحریروں میں تبدیل کر سکے.لیکن یہ عجیب دن تھے جو گزر گئے.اب ہمیں آئندہ کی سوچنا چاہئے.احمدیوں کے نئے دور کا آغاز یہ جلسہ جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا نہ صرف ایک تاریخی جلسہ تھا بلکہ تاریخ ساز جلسہ تھا اور تاریخ ساز جلسہ ہے.جو لطف ہم نے اٹھائے وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ زندہ رہیں گے لیکن وہ لطف اس لئے زندہ نہ رہیں کہ ہم جیسے ایک نشئی ایک نشے کی حالت میں لطف اٹھاتا ہے ویسے اس سے لطف اٹھاتے رہیں.وہ لطف اس لئے زندہ رہنے چاہئیں تاکہ ہمیشہ ہمیں عمل کے میدان میں آگے بڑھاتے رہیں اور ہماری ذمہ داریاں ہمیں یاد کراتے رہیں اور یاد کرائیں کہ ایک نیا دور ہے جس میں احمدیت داخل ہو چکی ہے.ترقیات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ہمارے سامنے کھلا پڑا ہے.ایسے نئے ایوان گھل رہے ہیں جن میں پہلے احمدیت نے کبھی جھانکا نہیں تھا.چنانچہ میں یقین رکھتا ہوں کہ خصوصیت کے ساتھ ہندوستان کی جماعتوں میں یہ احساس بیداری پیدا ہوا ہے اور بعض جگہ جو چھوٹی چھوٹی پژمردہ سی جماعتیں تھیں.جن کے خطوں سے امید کی کوئی غیر معمولی کرن نظر نہیں آتی تھی.جن کے خط کچھ بجھے بجھے ، کچھ دبے دبے ایسا منظر پیش کرتے تھے جیسے وہ احمدیت کے ساتھ زندہ ہیں اور احمدیت کے ساتھ زندہ تو رہیں گے لیکن اتنے کمزور ہیں کہ وہ احمدیت کی زندگی سے اپنے ما حول کو زندہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے.اب جو لوٹے ہیں تو ان کی کیفیت یکسر بدل چکی تھی.ان میں سے بہت تھے جنہوں نے مجھ سے کہا کہ اب زندگی کا ایک بالکل نیا دور شروع ہوا ہے.اب آپ دیکھیں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کس طرح ہندوستان میں چاروں طرف احمدیت کا نور پھیلائیں گے.اب گزشتہ زمانوں اور آئندہ زمانوں میں ایک نمایاں فرق پڑ چکا ہے اور یہ جلسہ اس کی حد فاصل ہے.پس اس پہلو سے یہ جلسہ ایک تاریخ ساز جلسہ ہے.میری دعا ہے کہ ان کے ولولے ہمیشہ زندہ رہیں.جہاں تک منصوبوں کا تعلق ہے ان کو تفصیل کے ساتھ سمجھا دیا گیا ہے کہ کس طرح منصوبے
124 بنانے ہیں.کس طرح ان پر عمل درآمد کرنا ہے.ان کو یقین دلا دیا گیا ہے کہ اگر چہ ظاہری طور پر آپ غریب ہیں اور بڑے بڑے اُمید افزا اور تمناؤں سے بھر پور منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی طاقت نہیں رکھتے لیکن کھلے دل کے ساتھ خوب منصوبے بنائیں اور بالکل پرواہ نہ کریں کہ ان پر کیا خرچ آتا ہے.عالمگیر جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے غریب نہیں ہے اور ساری عالمگیر جماعت احمد یہ آپ کی پشت پر کھڑی ہے.تمام عالمگیر جماعت احمدیہ ہمیشہ قادیان کی ممنون احسان رہے گی اور ان درویشوں کی ممنون احسان رہے گی جنہوں نے بڑی عظمت کے ساتھ بڑے صبر کے ساتھ بڑی وفا کے ساتھ اس امانت کا حق ادا کیا جو اُن کے سپرد کی گئی تھی اور لمبی قربانیاں پیش کیں.اسلئے آپ کو کوئی خوف نہیں ، آپ کو کوئی کمی نہیں.اللہ کے فضل کے ساتھ جتنے مفید کارآمد منصوبے آپ بنا سکتے ہیں اور ان پر عمل کر سکتے ہیں ، انشاء اللہ تعالیٰ ان کی تمام ضرورتیں عالمگیر جماعتیں پوری کریں گی اور میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان اس لحاظ سے بہت حد تک نظر انداز ہوتا رہا ہے.اس میں ہم سب کا قصور ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے.قادیان اور ہندوستان کا حق ہندوستان کا اپنا ایک حق تھا جسے ہمیشہ قائم رکھنا چاہئے تھا.ہندوستان وہ جگہ ہے جہاں خدا تعالیٰ نے آخرین کا پیغامبر بھیجا جو ہر مذہب کا نمائندہ بن کر آیا.جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جَرِى اللهِ فِی حُلَلِ الْانْبِيَاءِ ( تذکر صفی: ۱۳) کہ ایک شخص دکھائی دیتا ہے مگر خدا کا پہلوان ہے جو تمام انبیاء کے چوغے اوڑھے ہوئے آیا ہے.اسی میں تمہیں کرشن دکھائی دے گا ، اسی میں تمہیں بدھا دکھائی دے گا، یہ مسیح کی تمثیل بھی ہے اور مہدی بن کر بھی آیا ہے.انبیاء سے تمام دنیا میں جتنے بھی وعدے کئے گئے تھے وہ آج قادیان کی بستی میں اس ذات میں پورے ہورہے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے مامور فرمایا ہے.پس اس پہلو سے ہندوستان کا ایک مرکزی اور دائمی حق ہے جسے نظر انداز کرنا ہماری غلطی تھی.دیگر ممالک میں پہنچے.افریقہ اور امریکہ اور پہین اور یورپ کے ممالک میں مساجد تعمیر کیں اور اذانیں دیں اور اسی بات پر مطمئن رہے کہ خدا کے فضل سے افریقہ کے بعض ممالک میں جماعت
125 اس تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ بعید نہیں کہ آئندہ چند سالوں میں وہاں جماعت کو کلی اکثریت حاصل ہو جائے.یہ سب باتیں اپنی جگہ اطمینان بخش ضرور ہیں مگر ہندوستان کو نظر انداز کرنا ہرگز جائز نہیں تھا اور عقل کے تقاضوں کے خلاف تھا کیونکہ جو اہلیت اور صلاحیت ہندوستان میں جماعت احمدیہ کی نشو ونما کی ہے، وہ شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ہو.یہاں دنیا کے مختلف مذاہب آزادی کے ساتھ اپنے اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنے کی طاقت رکھتے ہیں.یہاں جو بظاہر مذہبی فسادات ہوتے ہیں الا ماشاء اللہ، وہ دراصل سیاسی گروہ بندیوں کے نتیجہ میں اور چھوٹی چھوٹی چپقلشوں کے نتیجہ میں ہوتے ہیں ورنہ ہر مسلمان کو آزادی ہے کہ اپنی مساجد میں اذانیں دے جس سے چاہے اسلام کی بات کرے.جس طرح چاہے اپنے اسلام کا اظہار کرے.کسی فرقے پر کوئی قدغن نہیں.یہی قادیان کی بستی ہے اس میں صبح کے وقت آپ تہجد کی نماز کی تلاوت بھی لاؤڈ سپیکر پر سنتے تھے.یہاں بھیجن بھی ساتھ گائے جارہے تھے.یہاں گردواروں سے تقریریں بھی کی جارہی تھیں.میوزک بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی.عیسائی بھی اپنے اپنے رنگ میں اپنے خدا کو یاد کر رہے تھے اور کبھی نہ کسی احمدی کو اس کی تکلیف ہوئی نہ کسی غیر احمدی کو نہ ہندو کو نہ سکھ کو ،سارے اس بات پر خوش تھے کہ جس کو جس طرح بھی توفیق مل رہی ہے آخر وہ خدا کو یاد کر رہا ہے.ہمیں کیا حق ہے کہ اس پر اعتراض کریں.یہ وہ ماحول ہے جو ہندوستان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کے لئے بہت خوش آئند ہے اور اگر جماعت احمدیہ صیح طریق پر یہاں کام شروع کرے تو خدا کے فضل سے بہت تیزی کے ساتھ تمام ہندوستان میں نفوذ ہوسکتا ہے.مسلمانوں کی راہنمائی کی ضرورت یہاں جو مسلمان لیڈرشپ ہے وہ بد قسمتی سے اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ باوجود اس کے کہ مسلمان دس کروڑ یا شاید اس سے بھی زائد ہیں.یوں لگتا ہے کہ جیسے بے سر کا جسم ہے جو بظاہر زندہ رہ رہا ہے لیکن اس میں چھپتی نہیں ہے.جیسے ایک سر سے اعضاء میں پچھہتی پیدا ہوتی ہے.جیسے دماغ انگلیوں کے پوروں تک اثر دکھاتا ہے اور سارا جسم ایک جان ہو کر رہتا ہے ویسی کیفیت ہندوستان کے مسلمانوں میں دکھائی نہیں دیتی.پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کے لئے اور بھی ضروری ہے کہ
126 مسلمانوں کی راہنمائی کرے اور ان کو وہ سر مہیا کرے جو آسمان سے ان کے لئے نازل ہوا ہے یعنی مہدی اور مسیح کا سر جس کے بغیر نہ ان کو زندگی کے سلیقے آئیں گے نہ ان کو دنیا میں پنپنے کے ڈھنگ آئیں گے.جس حال میں یہ بد نصیب لیڈرشپ کی غلط راہنمائی کے نتیجہ میں بار بار دکھ اٹھا رہے ہیں اور بے شمار تکلیفوں کے دور میں سے گزر رہے ہیں یہاں تک کہ ایسی Tunnel ہے جس کے پرلی طرف کوئی روشنی دکھائی نہیں دیتی.اس ساری صورتحال کو درست کرنے کی صلاحیت احمدیت میں ہے اور احمد بیت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اس پہلو سے بھی ہمیں ہندوستان کی طرف غیر معمولی توجہ دینے کی ضرورت ہے.جب ہم توجہ دے رہے ہیں اور دیں گے اور اور زیادہ دیتے چلے جائیں گے تو لازما یہاں مخالفت کی بھی نئی لہریں اٹھیں گی.اب جب میں قادیان کے جلسہ کے لئے حاضر ہورہا تھا تو معلوم ہوا کہ یہاں کے بعض بڑے بڑے علماء جنہوں نے اپنے آپ کو احمدیت کے خلاف وقف کر رکھا ہے وہ پاکستان پہنچے اور وہاں کے ان مولویوں سے جو مغلظات بکنے میں چوٹی کا مقام رکھتے ہیں مشورے کئے ،سر جوڑے، حکومت پر وہاں بھی ہر قسم کے دباؤ ڈالے گئے اور یہاں بھی ڈالے گئے کہ کسی طرح اس جلسہ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دو ورنہ احمدیت کو غیر معمولی ترقی نصیب ہوگی.لیکن خدا تعالیٰ نے ان کے سب ارادوں کو نا کام کر دیا لیکن پاکستان میں اس کا رد عمل ابھی اور زیادہ چلے گا اور معلوم ہوتا ہے کہ کافی شدت کے ساتھ ظاہر ہوگا کیونکہ ان مولویوں کا دل بہت ہی چھوٹا ہے اور نیکی کو پنپتے ہوئے وہ دیکھ ہی نہیں سکتے.یہ عجیب بیماری ہے کہ اسلام کے نمائندہ ہیں لیکن بدیوں کو پنپتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی گلی گلی میں Drug Addiction ہو رہی ہے ،عورتوں کی عزتیں ختم ہوگئیں، چھوٹے بچوں کا تحفظ جاتا رہا، اغواء کی واردات ہورہی ہیں ، ڈاکو دن دھاڑے جہاں چاہیں جس کو چاہیں لوٹیں.ایک ایسی بدامنی کی کیفیت ہے کہ بسا اوقات یہ سوال بار بار سیاستدانوں کی طرف سے بھی اٹھایا جارہا ہے کہ کیوں نہ دوبارہ فوج کو لائیں اور وہ یہ نہیں سوچتے کہ پہلے بھی تو فوج ہی کے چھوڑے ہوئے مسائل ہیں جن سے قوم اس وقت نبرد آزما ہونے کی کوشش کر رہی ہے اور جو اُن کے لئے اس وقت زندگی اور موت کا سوال بن چکے ہیں.پس ان کو سمجھ نہیں
127 آ رہی کہ ہم کیا کریں اور ملاں کا یہ حال ہے کہ سارے پاکستان میں جتنی چاہے گلی گلی میں بدکاریاں پھیلیں، چوریاں ہوں ، جھوٹ پھیلیں اور سچائی عنقا ہو جائے ، عدالتیں ظلم اور سفاکی سے بھر جائیں، رشوت ستانی کا دور دورہ ہو، ڈا کے پڑیں، کسی عورت کو نہ چادر نصیب ہو نہ گھر کی چار دیواری کا تحفظ ملے یہ سب کچھ ہولیکن ان کے اسلام پر جوں تک نہ رینگے، کوئی تکلیف نہ ہو.عجیب وغریب اسلام ہے لیکن اگر احمدی کلمہ لا الہ الا الله بلند کریں اور کہیں لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ اللہ ایک ہے اور محمد اس کے رسول ہیں تو ان کے تن بدن کو آگ لگ جائے.اگر احمدی نمازیں پڑھیں تو تکلیف سے ان کی جان ہلکان ہونے لگے کہ یہ کیا ہو رہا ہے کہ احمدی نمازیں پڑھ رہے ہیں.احمدی سچ بولیں تو ان کو تکلیف ہو.ہر وہ نیکی جو اسلام سکھاتا ہے اسے عملاً تو وہ احمدیوں کے سپرد کر بیٹھے ہیں اور اب وہاں بھی مٹانے کے درپے ہیں.میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ تم نے اپنے ماحول سے وہ نیکیاں مٹنے دیں تم جانو.خدا کے حضور تم جوابدہ ہو گے لیکن خدا کی قسم ! تم ایڑی چوٹی کا زور لگاؤ.تم سارے مل کر جو کرنا ہے کر گز رو مگر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت کو تم احمدی دلوں سے مٹانہیں سکتے.احمدی اعمال سے تم نوچ نہیں سکتے یہ ہماری زندگی کا حصہ ہیں.یہ ہماری سرشت بن چکی ہیں.پس اسلام کی اعلیٰ قدروں کے اگر ہم آج محافظ ہیں تو یہ خدا کا فیضان ہے اس نے ہمیں عطا کیا ہے.اسی نے یہ جھنڈا ہمیں تھمایا ہے.جو چاہو ظلم کرو.یہ جھنڈا ہم ہمیشہ سر بلند رکھیں گے.پس وہاں کے مسلمان علماء کی عجیب حالت ہے اور ہندوستان کے علماء کو یہ بات دکھائی نہیں دے رہی کہ ان کی زندگیوں میں یہ کیسا تضاد ہے.بدیوں سے گلیاں بھر جائیں اور ان کے اسلام کو کوئی تکلیف نہ ہو اور ربوہ میں چھوٹے چھوٹے بچے درود پڑھتے ہوئے لوگوں کو جگائیں تو ایسی آگ بھڑک اٹھے کہ بچوں کے خلاف تھانوں میں پرچے ہو جائیں.ان کو گھسیٹ کر قیدوں میں ڈالا جائے اور ان کے خلاف مقدمے چلائے جائیں اگر کہو! کیوں؟ کیا کیا انہوں نے ؟ ان معصوم بچوں نے کیا جرم کیا تھا ؟ تو جرم یہ کھوایا جاتا ہے کہ یہ ایسے بد بخت لوگ ہیں کہ صبح نماز کے وقت لا إلهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ پڑھتے ہوئے محمد رسول اللہ پر درود بھیجتے ہوئے ربوہ کی گلیوں میں پھر رہے
128 تھے اور لوگوں کو نماز کے لئے جگا رہے تھے.جب عقلیں ماری جائیں ، جب دلوں پر قفل پڑ جائیں تو یہ سادہ سامنے دکھائی دینے والی باتیں ، روز روشن کی طرح ظاہر باتیں بھی اندھوں کو دکھائی نہیں دیتیں.اسی کا نام قرآن کریم نے دل کا اندھا پن رکھا ہے.جب دل اندھے ہو جائیں تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں ہے.آنکھیں جو دیکھتی ہیں دل ان کو قبول نہیں کرتے.وہ پیغام دلوں تک پہنچتا نہیں ہے.پس اس وقت پاکستان میں یہ حالت ہے اور اب جبکہ احمدیت کو اس جلسہ سالانہ کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی بڑی نئی کامیابیاں عطا ہونے کو ہیں اور دشمن محسوس کر رہا ہے کہ یہ جلسہ یقیناً تاریخ ساز ہے تو اور زیادہ بھڑک اٹھیں گے اور زیادہ منصوبے بنائیں گے.پاکستان کے مظلوم احمدیوں کیلئے دعا کی تحریک پس تمام عالمگیر جماعتوں کو پاکستان کے مظلوم احمدیوں کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ جس طرح اب تک اللہ تعالیٰ نے ان کو ثبات قدم عطا فرمایا، وہ جیلوں میں گئے ،معصوموں پر پھانسی کے پھندے ڈالنے کی کوشش کی گئی ، وہ لمبے عرصہ تک انتہائی دکھوں اور تکلیفوں میں اپنے خاندانوں سے الگ رہ کر محض اللہ ایک زندانی کی کیفیت میں دن گزار رہے ہیں.ان کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں اور باقیوں کو بھی کہ ان کو بھی خدا حوصلہ دے اور ہر امتحان سے کامیابی سے گزار دے اور سب سے بڑی دعایہ کریں کہ اللہ تعالیٰ اب ابتلاء کے یہ دن بدل کر انہیں پاکستان کے لئے بھی عظیم جزاء کے دن بنادے.ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ ہمیں جو جزاء عطا فرما رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس میں پاکستان کے احمدیوں کی قربانی کا ایک بڑا بھاری دخل ہے.ان کی تکلیفیں ہیں جو دعا بن کر اٹھتی ہیں اور رحمت بن کر ساری دنیا میں احمدیوں پر برس رہی ہیں.لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ ہمیشہ تکلیفیں ہی اٹھاتے رہیں اور قربانیاں ہی دیتے چلے جائیں اور تمام دنیا کی احمدی جماعتیں ان کا فیض پاتی رہیں.یہ خدا کی تقدیر نہیں ہے.یہ عارضی قصے ہیں.مجھے یقین ہے کہ یہ دن بدلیں گے اور بہر حال بدلیں گے لیکن کب بدلیں گے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.جب تک نہ بدلیں ہمیں ان کے لئے استقامت کی دعا کرنی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ باقی دنیا کی جماعتوں کو بھی برکتوں کے اس دور میں حتی المقدور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.خدا تعالیٰ نے جو راہیں ہم پر آسان کر دی ہیں اگر ہم ان پر پوری رفتار سے دوڑنا نہ
129 شروع کریں گے تو ہم ناشکرے بندے بنیں گے.اس لئے ہندوستان کی جماعتیں ہوں یا انگلستان کی یا یورپ اور امریکہ کی دوسری جماعتیں اور افریقہ کے وہ ممالک جن میں احمدیت خدا کے فضل سے بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے آپ سب کے لئے میرے دو پیغام ہیں.سب سے پہلے پاکستان کے احمدیوں کو اپنی دعاؤں میں خصوصیت سے یاد رکھیں کیونکہ آپ کی کامیابیوں کے بدلے ان مظلوم احمدیوں سے اتارے جائیں گے اور اس کے لئے منصوبے بنائے جارہے ہیں.لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی طرف جو عادت منسوب فرمائی ہے وہ بہر حال کچی ثابت ہوگی کہو مَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ ) (آل عمران:۵۵) اور إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا وَاكِيْدُ كَيْدًا فَمَهْلِ الْكَفِرِيْنَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْدان ( الطارق: ۱۲-۱۸) یہ دو مختلف آیات ہیں جن میں ایک ہی مضمون کو مختلف رنگ میں بیان فرمایا گیا ہے.پہلی آیت میں فرمایا کہ یہ لوگ ہر وقت سچائی کے خلاف مکر میں مصروف ہیں اور میرے بندوں کو مکر آتا نہیں تو کیسے ان کے مکر کا جواب دیا جائے.فرمایا: مَكَرَ اللهُ یہ نہیں فرمایا: مَكَرَ المومِنُوْنَ.اللہ مکر کرتا ہے لیکن مکر میں بدی کا ایک پہلو بھی پایا جاتا ہے.فرمایا: وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ اللہ کے مکر میں شر کا پہلو نہیں بلکہ سارے بھلائی کے پہلو ہیں اور خَيْرُ الْمُكِرِينَ کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ کا مکر غالب آنے والا مکر ہے.اس میں کوئی دوسرا مکر غالب نہیں آسکتا.تو اللہ تعالیٰ اپنی تدبیروں میں مصروف ہے اور وہ کبھی بھی ہمارے حال سے غافل نہیں رہا.ہماری دعاؤں کے نتیجہ میں اس کا فضل اور بھی زیادہ قریب آجاتا ہے.دوسری جگہ فرمایا: إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا وَاَكِيْدُ كَيْدًا کہ یہ دشمن اسلام اور حق کے دشمن بڑی بڑی کیدیں کرتے ہیں.مکر و فریب کے بڑے منصوبے باندھتے ہیں.کیا سمجھتے ہیں کہ میں خاموش بیٹھا رہوں گاو اکیڈ گیدا میں بھی جوابا بڑی بڑی تدبیریں کروں گا اور بڑی بڑی تدبیریں کرتا ہوں.فَمَهْلِ الْكَفِرِيْنَ اَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًا.اے مومنوں کی جماعت ! ان لوگوں کو اپنی جہالت کی حالت میں کچھ دیر اور بھٹکنے دو بالآخر خدا کی تدبیر ہی غالب آنے والی ہے.خدا کرے کہ ہم جلد اس غالب تدبیر کا منہ دیکھیں جیسے کہ دنیا میں دیکھا ہے پاکستان میں بھی یہ منہ دیکھیں
130 اور پاکستان کے باشندوں کی تقدیر بدل جائے.جب تک یہ ملاں پاکستان کی جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے، اس درخت کو کبھی پھل نہیں لگ سکتے.ایک بے کار درخت بن چکا ہے جس پر کڑوی چیز میں تو اُگ سکتی ہیں مگر ثمرات حسنہ اس کو عطا نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کی جڑیں گندی ہوگئی ہیں.جب تک اہل پاکستان اپنی جڑوں سے ملائیت کے جراثیم نہ نکالیں اور محمد مصطفی ﷺ کے مکارم الاخلاق کو وہاں قائم نہ کریں ، اس وقت تک اس ملک کا بھی کچھ نہیں بن سکتا.اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنے اور دنیا میں عالمگیر تبدیلیاں برپا کرنے کی ہم عاجزوں اور غریب بندوں کو تو فیق عطا فرمائے.آمین.“ کشمیری احمدیوں کے اخلاص کا تذکرہ 66 خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا:.”میں نے اہل کشمیر کا بھی خصوصیت سے ذکر کرنا تھا لیکن اس وقت خیالات دوسری طرف منتقل ہوتے چلے گئے تو ان کا ذکر رہ گیا.جہاں تک اخلاص اور جوش کا تعلق ہے کشمیر سے آنے والے ہزار ہا احمدیوں نے جس اخلاص اور جوش کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی ایک قابل دید منظر تھا ، ایسا جو ہمیشہ کے لئے یادوں میں پیوست ہو جاتا ہے اور وہاں بھی غربت ہے لیکن بعض دوسرے علاقوں کی نسبت کم ہے.لیکن جس طرح علاقے کا امن اٹھ چکا ہے وہاں سے ان حالات میں ان کا جوق در جوق آنا ایک بہت بڑی قربانی کا تقاضا کرتا تھا جو انہوں نے پیش کی.شروع میں مجھے یہ بتایا گیا کہ شاید ہزار کی تعداد میں کشمیری آجائیں اور اس پر بھی خیال یہ تھا کہ ہزار تو بہت زیادہ ہیں.شاید خوش فہمی کا اندازہ ہے مگر وہ جو کشمیر کے جذبے کو اور اخلاص کو جانتے تھے وہ مجھے یقین دلا رہے تھے کہ پندرہ سو دو ہزار اس سے بھی زیادہ کی توقع رکھیں.چنانچہ آخر پر مجھے یہ بتایا گیا کہ اللہ کے فضل سے کشمیر سے آنے والے احمدیوں کی تعداد تقریباً تین ہزار تک پہنچ چکی تھی.خواتین بھی بڑی کثرت سے آئیں ، مرد بھی ، بچے بھی اور بہت ہی محبت اور پیار سے اور بڑی مستعدی سے انہوں نے اپنے اپنے فرائض ادا کئے اور اب بھی ان کی کچھ تعداد ابھی پیچھے ٹھہری ہوئی ہے.کشمیر کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کشمیر کی جماعت کے لئے خصوصی دعا کی تحریک کرتا ہوں.اللہ اس خطے کو بھی سچائی اور انصاف کا امن نصیب کرے.آمین.“
131 اس روز کی دیگر مصروفیات شام کے پانچ بجکر پینتیس منٹ پر جالندھر ٹی وی سے نصف گھنٹہ پر مشتمل جلسہ سالانہ کے متعلق ٹی وی رپورٹ نشر ہوئی.اس میں حضور کی تقاریر کے چیدہ چیدہ حصے اور دیگر مقررین کی تقاریر کے بعض حصوں کے علاوہ جلسہ میں شرکت کرنے والے غیر ملکی نمائندگان کی تقاریر وانٹر ویو پر مشتمل عمدہ رنگ میں پروگرام شامل تھے.حضور نے یہ ٹی وی رپورٹ خود بھی ٹی وی پر ملاحظہ فرمائی اور اسے پسند فرمایا.سوا چھ بجے کیپٹن محمد حسین صاحب چیمہ آف لندن جوصدسالہ جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کیلئے تشریف لائے تھے اور بقضائے الہی دور و قبل قادیان میں وفات پاگئے تھے.حضور نے ان کی نماز جنازہ دفتر محاسب کے سامنے گلشن احمد صحن میں تشریف لا کر پڑھائی.نماز مغرب وعشاء کی ادائیگی کے لئے حضور ساڑھے چھ بجے مسجد اقصیٰ میں تشریف لائے اور دونوں نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.بعد ازاں مکرم مولا نا حکیم محمد دین صاحب نے مکر مہ امت الشافی صاحبہ بنت نذیر محمد صاحب پونچھی آف قادیان کے نکاح کا اعلان ہمراہ مولوی محمد نذیر صاحب مبشر مبلغ سلسلہ ابن مکرم محمد صادق صاحب پونچھی حضورانور کی موجودگی میں کیا اور دعا کرائی.۴ / جنوری ۱۹۹۲ء بروز ہفتہ.قادیان نماز فجر کے بعد حضور حسب معمول حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت علایه مسیح الاول خ اور دیگر مزاروں پر دعا کے لئے تشریف لے گئے.بعد از دعا واپس دار مسیح تشریف لے آئے.آج قادیان سے دہلی روانگی کا پروگرام تھا.چنانچہ گیارہ بجے کے قریب حضور دفتر میں تشریف لائے اور حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ صد را مجمن احمد یہ ربوہ اور دیگر احباب کو جو واپس ربوہ تشریف لے جارہے تھے الوداعی ملاقات اور معانقہ کا شرف بخشا.دو انفرادی ملاقاتوں کے بعد آپ سول لائن کی طرف ماسٹر بھو پندرسنگھ صاحب عرف ماسٹر پی کے گھر تشریف لے گئے.ماسٹر بھو پندرسنگھ صاحب جن کا بچہ پرم ویرسنگھ جسکی عمر تقریبا ۳ سال تھی ، کی خواہش پر ایک
132 روز صبح سیر کے دوران حضور انور ان کے گھر تشریف لے گئے تھے اور اُن کی طرف سے پیش کردہ دودھ بھی نوش فرمایا تھا.یہ بچہ حضور انور سے اس قدر مانوس ہو چکا تھا کہ اپنے والد کو مجبور کرتا تھا کہ وہ اسے آپ سے ملانے کے لئے لے جائے.چنانچہ ۲۹؍ دسمبر کی شام کو جبکہ مسجد اقصیٰ میں مجلس شوری بھارت کا اجلاس جاری تھا کہ ماسٹر صاحب اس بچے کو لے کر دارا صیح تشریف لائے اور انتظار میں آپ کے گھر کے دروازے کے پاس کھڑے رہے کہ جب آپ مشاورت سے فارغ ہو کر تشریف لائیں تو یہ بچہ آپ کو دیکھ لے اور آپ سے پیار لے.شورای کا اجلاس شام ۸ بجے تک جاری رہا اور ادھر یہ بچہ انتظار کرتا کرتا اپنے باپ کی گود میں سو گیا.جب حضورا نور تشریف لائے تو یہ بچہ گہری نیند سو چکا تھا.آپ نے اسے پیار کیا.بچے کے والد نے خدمتِ اقدس میں بڑے ادب اور بڑی آرزو سے یہ درخواست کی کہ ۴ /جنوری کو اس بچے کی سالگرہ ہے حضور ضرور ان کے گھر تشریف لائیں.آپ نے فرمایا کہ ہم سالگرہ منانے اور تقریب منعقد کرنے کے قائل نہیں ہیں البتہ سالگرہ کی مبارکباد دینے کے لئے ضرور آئیں گے.اس وعدہ کے مطابق آج آپ دہلی، امرتسر کیلئے روانہ ہونے سے قبل ان کے گھر تشریف لے گئے.اس بچے کو پیار دیا اور تحفہ پیش کیا اور اس کے والدین کو لا مبارکباد دی.بعد ازاں حضور انور واپس دار مسیح تشریف لائے اور جب حضرت بیگم صاحبہ اور حضور انور کے دیگر اہل خانہ اور افراد قافلہ کاروں میں سوار ہو گئے تو یہ قافلہ جس میں گیارہ کاروں کے علاوہ آگے اور پیچھے پولیس ایسکورٹ کی ایک ایک گاڑی بھی تھی ، روانہ ہوکر دو پہر ۱۲:۵۰ پر امرتسر پہنچ گیا.امرتسر میں Circut House &P.W.D Rest House میں حضور انور مع قافلہ ٹھہرے.وہیں نماز ظہر و عصر ادا کی گئیں اور دو پہر کا کھانا کھایا.وہاں سے ۲ بجے روانہ ہوکر ۵ منٹ کے بعد آپ امرتسر ریلوے اسٹیشن پر تشریف لائے اور ۲:۱۵ پر شان پنجاب ٹرین کی امیر کنڈیشنڈ بوگی میں مع اہل خانہ دہلی کے لئے روانہ ہوئے.یہ گاڑی ۳۰: ابجے شب دہلی اسٹیشن پر رکی.جہاں سے حضورانو راہل قافلہ کاروں اور کوچ کے ذریعہ مسجد بیت الہادی دہلی میں پہنچے.یہ سارا سفر بفضلہ تعالی بخیر وخوبی طے پایا.الحمد للہ
133 ۵/جنوری ۱۹۹۲ء بروز اتوار.دہلی نماز فجر کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی قیامگاہ میں تشریف لے گئے.صبح ۱۰ بجے سے ۱:۳۰ تک مختلف دفتری امور سرانجام دیئے.نماز ظہر و عصر ۳۰: ابجے مسجد بیت الہادی دہلی میں ادا کی گئیں.پچھلے پہر بھی آپ دفتری امور کی سرانجام دہی میں مصروف رہے نماز مغرب وعشاء کی ادا ئیگی کے بعد آپ مسجد میں ہی تشریف فرما ہوئے اور مجلس علم و عرفان کا انعقاد ہوا.یہ مجلس تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی.آپ نے احباب جماعت کے مختلف سوالوں کے جوابات کے علاوہ بعض احباب سے ان کا تعارف حاصل کیا اور بعض کو عند الطلب ہومیو پیتھک نسخے بھی دیئے.مسجد میں کم و بیش ایک سو سے زائد افراد مقیم تھے جو ہندوستان اور بیرون ہندوستان اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہونے کے لئے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے.جو اپنے پیارے امام کے قرب و دیدار سے مستفیض ہوتے رہے.۶ /جنوری ۱۹۹۲ء بروز سوموار.دہلی نماز فجر کی ادائیگی کے بعد حضور قیامگاہ میں تشریف لے گئے جو کہ مسجد کے ساتھ منسلک مشن ہاؤس ایوان الہدی میں ہے صبح ، ابجے محترمہ پر یما وشوانا تھ صاحبہ اسٹنٹ ایڈیٹر سنڈے ٹائمنر آف انڈیا نے مشن ہاؤس آکر آپ کا تفصیلی انٹرویو لیا جو کم و بیش ایک گھنٹہ پندرہ منٹ جاری رہا.اسکے بعد آپ مسجد بیت الہادی کے سامنے سٹرک سے اُس پار آبادی سنگم وہاڑ میں ایک پلاٹ پر دعا کے لئے تشریف لے گئے جہاں جماعت کی طرف سے ہومیو پیتھک وایلو پیتھک ڈسپنسری قائم کی جانی مقصود تھی.بعد دو پہر ۴ بجے راجہ گلاب سنگھ صاحب اپنے بیٹے کے ساتھ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی سے ملنے کے لئے ایوان الہدی تشریف لائے.راجہ صاحب آپ کے کالج کے زمانہ کے دوست تھے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ساتھ ان کے خاندان کے دیرینہ تعلقات تھے.
134 بعد ازاں بعض اور ملنے والوں نے بھی آپ سے شرف ملاقات حاصل کیا.نماز مغرب وعشاء شام ۶:۲۰ پر ادا کی گئیں.نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور مسجد میں تشریف فرما ر ہے اور مجلس علم و عرفان منعقد ہوئی جو تقریباً پون گھنٹہ جاری رہی.۷ جنوری ۱۹۹۲ء بروز منگل.دہلی نماز فجر کے بعد حضور اپنی قیامگاہ میں تشریف لے گئے.صبح ساڑھے دس بجے آپ نے مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلی قادیان، مکرم نصیر احمد قمر صاحب پرائیویٹ سیکرٹری ، مکرم آفتاب احمد خان صاحب امیر جماعت یوکے ، صاحبزادہ مرزا لقمان احمد صاحب اور خاکسار ( ہادی علی ایڈیشنل وکیل التبشیر ) کی میٹنگ بلائی اور بعض امور کے بارہ میں ہدایات فرما ئیں اور آئندہ دنوں میں پروگراموں کا جائزہ لیا.گیارہ بجے ، انڈیا میں انگریزی کے سب سے زیادہ شائع ہونے والے اخبار ”انڈین ایکسپریس (Indian Express) جو سارے انڈیا میں بیک وقت دس مقامات سے شائع ہوتا ہے، کے نمائندہ Mr Sushal Kutty نے حضورانور کا انٹرویو لیا جو تقریباً نصف گھنٹہ جاری رہا.نماز ظہر وعصر ڈیڑھ بجے دوپہر ادا کی گئیں.تین بجے ہندوستان کے ایک بہت مشہور جرنلسٹ سردار خشونت سنگھ صاحب سابق ایڈیٹر Ilustrated Weekly of India حضور انور سے ملاقات کے لئے مشن ہاؤس دہلی تشریف لائے.بعد ازاں ۴:۳۰ پر یہاں کے ایک بہت بڑے کالم نویس اندر ملہوتر اصاحب مع اہلیہ اور ایک اور خاتون جرنلسٹ Uma Vasud Eva بھی آپ سے ملنے کیلئے مشن ہاؤس تشریف لائے.نماز مغرب وعشاء 4 بجے ادا کی گئیں نمازوں کے بعد حضور انور ہندوستان کے مشہور جرنلسٹ اور کالم نویس مکرم کلدیپ نیر صاحب جو کہ انگلستان میں انڈیا کے سابق ہائی کمشنر بھی رہے ہیں، کے گھر اُن کی دعوت پر تشریف لے گئے جہاں آپ تقریباً پون گھنٹہ تشریف فرما ر ہے.وہاں سے
135 رخصت ہو کر آپ مکرم ہر دیال سنگھ صاحب کھڑ بندا کے گھر اُن کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے.ان کے بھائی مکرم سردار ہمت سنگھ صاحب آف جرمنی حضور انور سے غیر معمولی عقیدت اور محبت کا تعلق رکھتے ہیں اور ان کا سارا خاندان ہی آپ سے عقیدت واحترام میں ایک غیر معمولی جوش رکھتا ہے.ہر دیال سنگھ صاحب کو چند روز قبل دل کی تکلیف شروع ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ صاحب صاحبه فراش تھے.جب وہ ہسپتال میں تھے تو وہاں حضور نے اپنی بیٹی صاحبزادی فائزہ بیگم اور صاحبزادہ مرزا لقمان احمد صاحب کے ہاتھ انہیں پھول بھی بھجوائے تھے.جیسا کہ پہلے ذکر گزر چکا ہے، انہوں نے اپنی ایک کار حضور انور ذاتی استعمال کیلئے اور دوسری مشن کے دیگر کاموں کے لئے مع ڈرائیورز دی ہوئی تھیں.اللہ انہیں جزائے خیر دے.حضور گزشتہ کئی روز سے گلے کی خرابی وغیرہ سے علیل تھے.اس تکلیف میں بھی سب کام حسب معمول جاری تھے.حضرت بیگم صاحبہ کی صحت بھی ٹھیک نہیں تھی.دہلی میں مکرم ڈاکٹر جعفر علی صاحب آف امریکہ اور مکرم ڈاکٹر محمود احمد بٹ صاحب آف قادیان حضرت بیگم صاحبہ کے علاج اور آپ کی نگہداشت پر مامور تھے.۸/جنوری ۱۹۹۲ء بروز بدھ.دہلی نماز فجر کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی قیامگاہ میں تشریف لے گئے.مختلف خدام ، جو حیدر آباد اور بعض دوسرے شہروں سے ڈیوٹی کی غرض سے مشن ہاؤس میں مقیم تھے ،انہوں نے صبح ساڑھے دس بجے حضور انور سے شرف ملاقات حاصل کیا.ان کی تعداد 15 تھی.اُن کے علاوہ تین فیملیز نے بھی آپ سے ملاقات کی سعادت پائی.ان انفرادی ملاقاتوں کے علاوہ بعض دفتری ملاقاتیں بھی ہوئیں.نماز ظہر و عصر ڈیڑھ بجے ادا کی گئیں.بعد دو پہر ساڑھے چار بجے حضور انور مع فیملی مکرم راجہ گلاب سنگھ صاحب کی دعوت پر اُن کے گھر تشریف لے گئے.وہاں سے ساڑھے چھ بجے حضور انور مسجد بیت الہادی تشریف لے آئے اور نماز مغرب وعشاء کے بعد اپنی قیامگاہ میں تشریف
136 لے گئے.حضور انور کی طبیعت گلے کی خرابی اور فلو کی وجہ سے بدستور خراب رہی نیز حضرت بیگم صاحبہ کی صحت بھی ٹھیک نہیں تھی.۹ جنوری ۱۹۹۲ء بروز جمعرات.دہلی نماز فجر کی ادائیگی کے بعد حضور انورا اپنی قیامگاہ میں تشریف لے گئے.حضور کی طبیعت بدستور خراب تھی اور جسم میں آج کچھ حرارت بھی رہی.فلو کے شدید حملے ہوتے رہے مگر جیسا کہ قارئین نے نوٹ کیا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعجازی ہمت عطا فرمائی کہ آپ نے سب نمازیں خود پڑھائیں اور قادیان میں قیام کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر روزانہ دعا کیلئے بھی تشریف لے جاتے رہے.بہر حال حضور انور نماز ظہر وعصر کے لئے ۴۵ اوپر تشریف لائے.نمازوں کی ادائیگی کے بعد شام چھ بجے تک آرام فرمایا.سوا پانچ بجے حسب ذیل معززین آپ سے ملنے کے لئے تشریف لائے.۱.مکرم جے نارائن صاحب.سینئر ایڈووکیٹ اور ان کا بیٹا ہ۲.مکرم ود یا نا تھ صاحب.آئی.اے.ایس ریٹائرڈ.سابق سیکرٹری ہیلتھ.گورنمنٹ آف انڈیا ۳.مکرم عبدالاحدصدیقی صاحب IPS (جو اس وقت CRPF-DIG برائے Rapid Action تھے) مکرم سید فضل احمد صاحب سابق ڈی جی آئی پولیس بہار، اُن کے بیٹے سید طارق صاحب، مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب، مکرم آفتاب احمد خان صاحب اور مکرم منیر احمد حافظ آبادی صاحب نے مشن ہاؤس میں ان کی چائے وغیرہ سے تواضع کی.حضور تقریباً سوا چھ بجے ان سے ملنے کے لئے تشریف لائے اور چند منٹ اُن کے ساتھ بیٹھ کر نماز مغرب وعشاء کے لئے مسجد تشریف لے آئے.۱۰ جنوری ۱۹۹۲ء بروز جمعہ.دہلی وقادیان حضور کی حرم حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ کی طبیعت گزشتہ کئی روز سے پتے اور گردے کی
137 تکلیف کی وجہ سے علیل تھی.بعد میں لندن آکر تھوڑے عرصہ بعد معلوم ہوا کہ یہ کینسر تھا جو بالآخر آپ کے وصال کا باعث بنا.نیز یہاں آرام مکمل میسر نہ آ سکنے کی وجہ سے آپ کی جلد لندن واپسی کے لئے برٹش ائیرویز کی فلائٹ BA142 میں سیٹ بک کرائی گئی تھی.آپ کے ہمراہ آپ کی بڑی بیٹی محترمہ صاحبزادی شوکت جہاں صاحبہ کے علاوہ مکرم صاحبزادہ مرزا لقمان احمد صاحب اور اُن کے بچے صاحبزادہ مرزا آدم عثمان احمد صاحب اور صاحبزادی نداء النصر صاحبہ بھی تھے.ان کے علاوہ مکرم مرزا عبدالرشید صاحب لندن، مکرم مشہود الحق صاحب سویڈن اور لندن کے ایک خادم مکرم صباح الدین نجم صاحب اس قافلہ میں شامل تھے.یہ فلائٹ دہلی کے اندرا گاندھی ائیر پورٹ کے ٹرمینل A سے مقامی وقت کے مطابق صبح ۷:۳۰ بجے روانہ ہوئی اور لندن کے گیٹ وک ائیر پورٹ پر مقامی وقت کے مطابق تقریباً ۱۲ بجے پہنچ گئی اور حضرت بیگم صاحبہ بخیریت ۲:۰۰ بجے دوپہر لندن مشن ہاؤس میں اپنی قیامگاہ میں تشریف لے آئیں.الحمد للہ حضور قادیان جانے کیلئے پونے گیارہ بجے دہلی مشن ہاؤس سے دہلی کے اندرا گاندھی ائیر پورٹ کے لئے روانہ ہوئے اور ساڑھے گیارہ بجے ائیر پورٹ کے ٹرمینل B پر تشریف لائے.سامان کی Check In اور دیگر معمول کی کارروائی پہلے سے ہی کر لی گئی تھی.چنانچہ حضور انور سید ھے لاؤنج میں تشریف لائے اور چند ہی منٹوں کے بعد اپنی تین بچیوں ،ایک نواسے اور اراکین قافلہ کے ہمراہ انڈین ائیر لائن کے طیارہ بوئنگ ۳۷ے کی فلائٹ نمبر ۴۲۳ میں سوار ہوئے جو امرتسر جانے کے لئے تیار تھا.حضور کے ہمراہ آپ کی تین بیٹیاں ،محترمہ صاحبزادی فائزہ بیگم صاحبہ مع اپنے بیٹے مرزا عدنان احمد صاحب محترمہ صاحبزادی یاسمین رحمن مونا صاحبہ اورمحترمہ صاحبزادی عطیہ المجیب طوبی صاحبہ تھیں اور قافلہ میں مکرم صاحبزادہ مرز اوسیم احمد صاحب ناظر اعلی قادیان مکرم بشیر احمد خان رفیق صاحب، مکرم نصیر احمد قمر صاحب، خاکسار (بادی علی )، مکرم آفتاب احمد خان صاحب، مکرم میجر محمود احمد صاحب چیف سیکیورٹی آفیسر مکرم ملک اشفاق احمد صاحب، مکرم مرزا عبد الباسط صاحب لندن مکرم خالد نبیل ارشد صاحب، مکرم مسعود حیات صاحب لندن، وجاہت احمد صاحب لندن اور مکرم سید فضل احمد صاحب انڈیا شامل تھے.
138 حضور اس طیارہ میں سیٹ -1-F پر تشریف فرما ہوئے.جہاز ۱۲:۲۵ پر روانہ ہوکر تقریباً ۴۵ منٹ کی پرواز کے بعد امرتسر کے ائیر پورٹ پر اتر گیا.امرتسر ائیر پورٹ پر قادیان سے مکرم سعادت احمد صاحب نائب ناظر امور عامہ قادیان حضور انور کے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے.قافلے کیلئے کاروں کا انتظام موجود تھا.اسی طرح حسب سابق پولیس ایسکورٹ بھی موجود تھی.ائیر پورٹ سے نکلتے ہی حضور انور اور دیگر سب ارکانِ قافلہ کا روں میں بیٹھ گئے اور یہ قافلہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے خلیفہ چہارم کے ہمراہ مسیح پاک کی بستی اور احمدیت کے دائمی مرکز کی جانب رواں دواں ہوا یہ قافلہ سات کاروں ، ایک ویگن اور دو پولیس ایسکورٹ کی گاڑیوں پر مشتمل تھا.حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے دو بجگر چالیس منٹ پر قادیان دارالامان میں ورود فرمایا.دار امسیح سے باہر آقا کے منتظر غلاموں کا جم غفیر تھا جس نے آقا کی سواری دیکھتے ہی نعروں سے فضا میں ایک ارتعاش پیدا کر دیا.ہر چہرے پر ایک ایسی مقدس خوشی رقصاں تھی کہ جیسے وہ آسمان سے اتر رہی ہو.آقا کو ایک نظر دیکھنے کی تمنا میں ہر نظر کار کے نیلے رنگ کے شیشوں کو چیر کر اندر اترنے پر بے قرار تھی اور جس نظر نے آقا کو ایک مرتبہ دیکھ لیا.وہ دوسری دفعہ دیکھنے کیلئے بیتاب ہوگئی.اور جو اس سے حرومری وہ کار کا تعاقب کرتی چلی گئی.حتی کہ کار دار اسی کے بڑے گیٹ میں سے اندر چلی گی اور اس زمین نے خلیفہ اسی کی ایکبار پھر قدم بہی کی جس نے خدا کے پاک مسیح کے بھی قدم چومے تھے.حضرت خلیفہ اسی نے دار مسیح میں تشریف لا کر ارشاد فرمایا کہ جمعہ تین بجے شروع ہوگا چنا نچہ مکرم صاحبزادہ مرزا اوسیم احمد صاحب نے بلند آواز سے احباب کو جمعہ کے وقت سے آگاہ فرمایا.آج حضرت خلیفہ اسیح کے قادیان میں دوبارہ ورود مسعود سے قادیان میں دوبارہ آمد سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام مثنى وثلاث وربع ( تذکره صفحه ۶۸۴) کا ایک حصہ مثنی ایک رنگ میں پورا ہو گیا.فالحمد للہ ( آج جمعہ ہے اور تاریخ دس ہے یعنی Friday The 10th.حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے سفر قادیان کا یہ آخری جمعہ تھا.جو قادیان میں ہونے اور "Friday the 10th" ہونے کی وجہ سے عظیم الشان تاریخی منفر د حیثیت کا حامل تھا.
139 خطبه جمعه فرموده ۱۰/جنوری ۱۹۹۲ء ( بمقام مسجد اقصی قادیان) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آج یہ چوتھا جمعہ ہے جو مجھے قادیان دارالامان ، جماعت احمدیہ کے مستقل مرکز میں ادا کرنے کی توفیق عطا ہورہی ہے.یہ جلسہ جو سو سال کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس جلسے کی یا دلیکر آیا تھا جو آپ نے پہلی مرتبہ قادیان میں شروع کیا، اس بہت ہی اہم ادارے کی تقریب قائم فرمائی اور ہمیشہ کیلئے جماعت احمدیہ کے ایک جگہ اکٹھے ہو کر اللہ اور اس کے رسول کی یادوں میں دن بسر کرنے کی ایک بہت ہی عمدہ سنت قائم فرمائی.یہ ایک ایسی سنت ہے جس کا فیض آج صرف قادیان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے ۱۲۶ ممالک پر ممتد ہو چکا ہے.یہ جلسہ سالانہ جو کبھی قادیان میں ۷۵ افراد کی شمولیت کے ذریعہ شروع ہوا آج دنیا کے کم از کم ۷۵ ایسے ممالک ہیں جن میں ہزار سے بڑھ کر احمدی اپنے اپنے ملکوں کے جلسہ سالانہ میں شریک ہوتے ہیں اور وہ لنگر جس کی بنیاد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں قائم فرمائی اب ایک عالمی لنگر بن چکا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمیں یہ توفیق ملے گی کہ عنقریب ۱۰۰ ممالک سے زائد ممالک میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بدلنگر جاری کر دیں.اس جلسہ کی بہت سی برکات ہیں جو جذباتی نوعیت کی ہیں.وہ لوگ جو اس جلسہ میں دور دور سے تکلیف اٹھا کر شریک ہوئے، جذباتی لحاظ سے وہ بہت سی دولتیں سمیٹ کر یہاں سے گئے.ایسی کیفیات سے ہمکنار ہوئے ایسے عظیم روحانی جذبات سے لذت یاب ہوئے کہ وہ جو شامل نہیں ہو سکے وہ اسکا تصور بھی نہیں کر سکتے.لیکن میں آپ کو اچھی طرح اس بات سے خبر دار کرنا چاہتا ہوں کہ یہ جذباتی لذتیں عارضی ہیں اور فانی ہیں اور چند دلوں اور چند سینوں سے تعلق رکھنے والی لذتیں ہیں.درحقیقت یہ جلسه اسی وقت اور انہی معنوں میں متبرک ثابت ہوگا، اگر ہم اس کا فیض آئندہ صدی تک ممند کر دیں.اور آئندہ سوسال کے بعد ہونے والا جلسہ آپ کی آج کی قربانیوں اور آج کی محنتوں اور آج کی کوششوں
140 کے پھل کھائے اور آپ پر ہمیشہ سلام بھیجے.یہ وہ فرق ہے جو ہر سو سال کے بعد پیدا ہونا ہے اور ہر سو سال کے اندر جماعت احمدیہ نے جو قربانیاں پیش کرنی ہیں سوسال کے بعد جب ہم مڑ کر دیکھتے ہیں یا دیکھیں گے تو اس وقت ہمیں نظر آئے گا کہ ہم سے پہلوں نے ہمارے لئے کیا پیچھے چھوڑا.اس نقطہ نگاہ سے نئی صدی کا ایک اور رنگ میں آغاز ہوا ہے.یعنی جلسہ سالانہ کے سوسال منانے کی وجہ سے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس پیغام کی اہمیت کو آپ اچھی طرح سمجھیں گے.بہت سے مخلصین جذبات کی رو میں بہہ کر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ قادیان واپسی کے سامان ہو چکے ہیں اور وہ دن قریب ہیں.یہ جذباتی کیفیت کا پھل تو ہے لیکن حقیقت شناسی نہیں ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.دنیا میں مذاہب کی تاریخ میں جہاں جہاں بھی ہجرت ہوئی ہے اور واپسی ہوئی ہے، وہاں ہجرت سے واپسی ہمیشہ اس بات کو مشروط رہی کہ پیغام کی فتح ہوئی اور اس دین کو غلبہ نصیب ہوا جس دین کی خاطر بعض مذہبی قوموں کو اپنے وطنوں سے علیحدگی اختیار کرنی پڑی.مذہب کی دنیا میں جغرافیائی فتح کی کوئی حیثیت نہیں اور کسی پہلو سے بھی جغرافیائی فتح کا میں نے مذہب کی تاریخ میں کوئی نشان نہیں دیکھا مگر جغرافیائی فتح صرف اس جگہ مذکور ہے جہاں پیغام کے غلبہ کے ساتھ وہ فتح نصیب ہوئی ہے.حقیقت میں قرآن کریم نے اس مضمون کو سورہ نصر میں خوب کھول کر بیان فرمایا ہے اور ہمیشہ کے لئے ہماری راہنمائی فرما دی ہے کہ اللہ کے نزدیک حقیقی فتح اور حقیقی نصر کیا ہوتی ہے.فرمایا: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ ) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًان فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْةُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ( النصر : ۲-۴) کہ جب تو دیکھے کہ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ اللہ کی فتح آگئی وَ الْفَتْحُ اور اسکی طرف سے فتح عطا ہوئی تو کیا نظارہ دیکھے گا.یہ نہیں کہ تم فوج در فوج علاقوں کو فتح کرتے ہوئے دندناتے ہوئے ان علاقوں پر قبضہ کر لو گے بلکہ یہ نظارہ تم دیکھو گے کہ فوج در فوج وہ جو اس سے پہلے تمہارے غیر تھے ، جو اس سے پہلے تم سے دشمنی رکھتے تھے وہ اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں گویا دین میں فوج در فوج داخل ہونے کا نام فتح ہے نہ کہ غیر لوگوں کے علاقے میں فوج در فوج داخل ہونے کا نام فتح ہے.پس فتح کا جو اسلامی تصور اور دائمی تصویر جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہے، قرآن کریم کی اس سورۃ
141 نے پیش فرمایا یہی وہ تصور ہے جو حقیقی ہے، دائی ہے، جو خدا کے نزدیک معنی رکھتا ہے اس کے سوا باقی سب تصورات انسانی جذبات سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں.پس اگر جماعت احمد یہ چاہتی ہے اور واقعہ تمام دنیا کی جماعت یہ چاہتی ہے کہ قادیان دائی مرکز سلسلہ میں واپسی ہو تو ایسے نہیں ہوگی کہ تمام علاقہ تو احمد بیت سے غافل اور دور رہا ہواور تمام علاقہ اسلام سے نابلد اور نا واقف رہے اور ہم میں سے چند لوگ واپس آکر یہاں بیٹھ رہیں.اس کا نام قرآنی اصطلاح میں نصرت اور فتح نہیں ہے.اس لئے اگر کسی دل میں یہ وہم پیدا ہوا ہے تو اس و ہم کو دل سے نکال دے.پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی اور ہندوستان کے احمدیوں کے لئے بھی میرا یہ پیغام ہے کہ آپ خدا سے وہ فتح مانگیں اُس نصرت کے طلب گار ہوں جس کا ذکر قرآن کریم کی اس چھوٹی سی سورۃ میں بڑی وضاحت کے ساتھ فرما دیا گیا.إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًاتی کہ دیکھو تمہیں ایک عجیب اور ایک عظیم فتح عطا ہونے والی ہے.تم اُن لوگوں کے گھروں پر جا کر قبضہ نہیں کرو گے.تم لوگوں کے ممالک اور وطنوں پر جا کر فتح کے نقارے نہیں بجاؤ گے بلکہ فوج در فوج لوگ تمہارے دین میں داخل ہو نگے اور یہی وہ فتح ہے، یہی وہ نصرت ہے، جو خدا کے نزدیک کوئی قیمت اور معنی رکھتی ہے.پس خصوصیت کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان کے احمدیوں کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بھی ہے ، ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے جسے سمجھنا اور قبول کرنا آج کے وقت کا تقاضا ہے.آئندہ ایک سوسال محنت کے لئے تیار ہونا پڑے گا اور محنت کا آغاز کرنا ہوگا.ایسی محنت جس کے نتیجہ میں روحانی انقلابات برپا ہونے شروع ہوں.پاکستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی کثرت کے ساتھ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پھیلے اور کثرت کے ساتھ فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہو نا شروع ہوں.یہی وہ حقیقی فتح ہے جس کے نتیجہ میں قادیان کی اس واپسی کی داغ بیل ڈالی جائے گی جس واپسی کی خوا میں آج سب دنیا کے احمدی دیکھ رہے ہیں.لیکن وہ خوا ہیں تب تعبیر کی صورت میں ظاہر ہونگی جب ان خوابوں کی تعبیر کا حق ادا ہوگا اور خوابوں کی تعبیر بنانا اگر چہ تقدیر کا کام ہے لیکن انسانی تدبیر کے ساتھ اس کا گہرا دخل ہے اور قرآن کریم نے جوند ہی تاریخ ہمارے سامنے رکھی ہے اس میں اس
142 مضمون کو خوب کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ الہی بشارتوں کے وعدے بھی ،اگر قوم تقدیر کے رُخ پر تد بیراختیار نہ کرے تو ٹل جایا کرتے ہیں اور انذار کے ملنے کی تو بے شمار مثالیں ہیں.جب بھی کسی قوم نے اپنے دل کی حالت بدلی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انذار کی تقدیر بھی بدل گئی اور وہ قوم جو اپنے دل کی حالت کو بدل کر بگاڑ کی طرف مائل ہو جائے خدا تعالیٰ کی مبشر تقدیر بھی اس قوم کیلئے بدل جایا کرتی ہے.پس ہماری تقدیر کا ہماری اس تقدیر سے گہرا تعلق ہے جو اعمال صالحہ کے نتیجہ میں رونما ہوتی ہے اور جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کا پانی آسمان سے برستا ہے.پس میں ایک دفعہ پھر جماعت ہائے احمد یہ ہندوستان اور جماعت ہائے احمد یہ پاکستان کو خصوصیت سے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ایک جھر جھری لیکر بیدار ہو جائیں.آپ کے اندر وہ صلاحیتیں موجود ہیں جو انقلاب بر پا کرنے والی صلاحیتیں ہوا کرتی ہیں.آپ جیسی اور کوئی قوم دنیا میں موجود نہیں.آپ وہ ہیں جنہوں نے سرتا پا اپنے آپ کو خدا کے حضور پیش کر رکھا ہے اور اس دنیا میں رہتے ہوئے اس دنیا سے الگ زندگی بسر کر رہے ہیں.ہر قسم کی تکالیف اور دکھوں کو برداشت کرتے ہوئے تو حید اور حق کے ساتھ چھٹے ہوئے ہیں اور ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيَا يُنَادِي لِلْإِيْمَانِ آنْ أَمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَّا ( آل عمران :۱۹۴) کہ اے ہمارے رب ! ہم نے ایک پکارنے والے کی آواز کو سنا جو یہ اعلان کر رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لے آؤ.فَأَمَنَّا پس ہم ایمان لے آئے.پس آپ مومنوں کی وہ جماعت ہیں جن کے ساتھ خدا تعالیٰ کے وعدے ہیں کہ وہ آپ کی برائیوں کو دور فرمائے گا.آپ کی کمزوریوں سے درگز رفرمائے گا اور آپ کو دن بدن رو بہ اصلاح کرتا چلا جائے گا یہانتک کہ موت نہیں آئے گی سوائے اس کے کہ خدا کی نظر میں آپ ابرار میں شامل ہو چکے ہوں.میہ وہ وعدے ہیں جو آج جماعت احمدیہ کے سوا تمام دنیا میں کسی اور مذہبی جماعت سے نہیں، کسی اور سیاسی جماعت سے نہیں.کسی قوم سے نہیں، آپ سے ہیں، آپ سے ہیں ، آپ سے ہیں.پس جب خدا کے نزدیک آپ کے اندر یہ صلاحیتیں موجود ہیں کہ ایمان کے بعد آپ کی بدیاں دور ہونی شروع ہوں آپ میں نئی صلاحیتیں جاگنی شروع ہوں اور خدا کے رستہ میں آپ ترقی کرتے
143 ہوئے دن بدن ہر بدی کے بدلے اپنی ذات میں حسن پیدا کرتے چلے جائیں یہانتک کہ وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ (آل عمران : ۱۹۴) کا وقت آپہنچے.ایسی حالت میں آپ اپنے رب کے حضور لوٹ رہے ہوں کہ خدا کی نظر آپ پر اس حالت میں پڑ رہی ہو کہ خدا آپ کو ابرار کے زمرے میں شمار کر رہا ہو.پس یہ وہ صلاحیتیں ہیں جن سے آپ آشنا تو ہیں لیکن ان کی اہمیت ابھی دل میں پوری طرح اجاگر نہیں ہوئی.پوری طرح وہ اہمیت دل میں بیدار نہیں ہوئی.آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے ساتھ انقلاب کے تار وابستہ ہیں.آپ کے دلوں کی دھڑکنوں کے ساتھ آج قوموں کی تقدیر وابستہ ہو چکی ہے.آپ اٹھیں گے تو دنیا جاگ اٹھے گی.آپ سوئیں گے تو سارا عالم سو جائے گا.اس لئے آج آپ دنیا کا دل ہیں.آج آپ دنیا کا دماغ ہیں.آپ کو خدا تعالیٰ نے وہ سیادت نصیب فرمائی ہے جس کے نتیجہ میں تمام دنیا کو سعادتیں نصیب ہوں گی.پس اس پہلو سے اپنے مقام اور مرتبے کو سمجھیں اور نئے عزم کے ساتھ ، نئے ولولوں کے ساتھ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام اپنے ماحول اپنے گردو پیش میں دینا شروع کریں.بظاہر یہ ایک بہت ہی دور کی بات دکھائی دیتی ہے کہ اتنے تھوڑے سے احمدی ، جو اس وقت پاکستان میں بھی اپنی ظاہری طور پر معقول تعداد کے باوجود پاکستان کے باقی باشندوں کے مقابل پر اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتے کہ اپنے بنیادی حقوق ان سے حاصل کر سکیں.ہندوستان کے احمدیوں کا حال مقابلہ اس سے بھی زیادہ نازک ہے.اتنی معمولی تعداد ہے کہ اس تعداد کو دیکھتے ہوئے دنیا کے حساب سے اربع لگانے والا یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس قوم کو کبھی غلبہ نصیب ہو سکتا ہے لیکن قرآن کریم کا جو وعدہ ہے وہ بہر حال پورا ہوگا.وہ صفات حسنہ آپ کو عطا ہو چکی ہیں.ان صفات سے کام لینا اور باشعور طور پر یہ یقین رکھنا کہ آپ ہی کے ذریعہ دنیا میں انقلاب ہوگا.یہ سب سے پہلا قدم ہے جو انقلاب کی جانب آپ اٹھا سکتے ہیں.یہ قدم آپ اٹھا ئیں تو خدا کی تقدیر دس قدم آپ کی طرف آئے گی.آپ چل کر خدا کی تقدیر کی طرف آگے بڑھیں تو خدا کی تقدیر دوڑ کر آپ کی طرف آئے گی.پس دنیا کا اربع اپنی جگہ درست، لیکن روحانی انقلابات کے لئے جوار بع قرآن کریم نے پیش فرمایا ہے، جس پر حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے روشنی ڈالی ہے ، وہ یہی بتاتا ہے کہ انسان کے ساتھ جب خدا تعالیٰ کی تقدیر شامل
144 ہو جائے تو فاصلے بہت تیزی سے کٹنے لگتے ہیں اور انسانی کوششوں سے کئی گنا زیادہ ان محنتوں کو پھل عطا ہوتا ہے جو انسان خدا کی راہ میں صرف کرتا ہے.پس بظاہر ناممکن کام ہے لیکن ممکن ہوسکتا ہے.پہلے بارہا ہو چکا ہے.آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی یہی ناممکن من بنادیا گیا تھا اور آج پھر اس نا ممکن کو ممکن بنانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ان غلاموں کا کام ہے، جنہوں نے آپ کی پیشگوئی کے مطابق آئے ہوئے وقت کے امام کو قبول کیا اس کی آواز کو سنا اور اس پر لبیک کہا.پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت احمد یہ اپنی اس ذمہ داری کو خوب اچھی طرح سمجھ لے گی لیکن ذمہ داری کا لفظ حقیقت میں اس صورتحال پر موزوں نظر نہیں آتا کیونکہ ذمہ داری میں ایک قسم کا بوجھ کا مضمون شامل ہے.ذمہ داری یوں لگتا ہے جیسے کسی طالب علم کو جس کا دل پڑھنے کو نہ چاہ رہا ہو، یہ بتایا جارہا ہو کہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ تعلیم حاصل کرو اس کے بغیر تم دنیا میں ترقی نہیں کر سکو گے.ذمہ داریوں کے ان معنوں میں روحانی قومیں انقلاب برپا نہیں کیا کرتیں.ذمہ داری کی بجائے خدا کے کام ان کے دل کے کام بن جایا کرتے ہیں.ان کی جان کی لگن ہو جاتے ہیں.ان کے ذہنوں کی وہ اعلیٰ مرادیں بن جاتے ہیں جن کی خاطر وہ جیتے ہیں جن کی خاطر وہ مرتے ہیں.یہ وہ چیز ہے جو انقلاب بر پا کرنے کے لئے ضروری ہے.پس بہتر الفاظ کی تلاش میں میں اگر چہ صحیح لفظ تلاش نہیں کرسکا،اس لئے میں نے بار بار لفظ ذمہ داری استعمال کیا ہے.لیکن ان معنوں میں ذمہ داری نہیں جن معنوں میں قرآن کریم نے اصرا (البقرہ:۲۸۷) کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی بوجھ کے معنوں میں نہیں بلکہ ایسے اعلیٰ مقصد کے اظہار کے طور پر میں یہ لفظ بول رہا ہوں جس مقصد سے انسان کو عشق ہو چکا ہو.جو اس کے دل کی لگن بن چکا ہو.جیسے محبوب کے پیار کے نتیجہ میں عاشق طرح طرح کی قربانیاں کرتا ہے اور ان کے دکھ محسوس نہیں کرتا.محسوس کرتا بھی ہے تو وہ زیادہ پسند کرتا ہے کہ وہ دکھ محسوس کرے اور اپنے محبوب کی راہ پر چلتا ر ہے بجائے اس کے کہ آرام سے اپنے گھر بیٹھ رہے یا کسی اور طرف کا رخ اختیار کرے.پس احمدیت سے ان معنوں میں حقیقی پیار ہونا ضروری ہے کہ احمدیت کا پیغام آپ کے دلوں کی آرزو بن جائے.آپ کی امنگیں ہو جائے ، آپ کی تمنائیں بن جائے.وہ خواہیں بن جائے
145 جس میں آپ بستے رہیں.محض قادیان کی واپسی ہی پیش نظر نہ ہو بلکہ اسلام کے قادیان میں فتح اور غلبہ کے ساتھ واپسی کی امنگ پیش نظر رہے.ورنہ چند احمدیوں کا واپس آکر یہاں بس جانا حقیقت میں کوئی بھی معنی نہیں رکھتا.یہ درست ہے کہ ہم جب یہاں آئے تو یہاں کے باشندگان نے بڑی وسیع حوصلگی کا ثبوت دیا.بڑی سخاوت کے ساتھ ، بڑی وسیع القلمی کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہا اور جن گلیوں اور سڑکوں سے ہم گزرے ہیں بار ہا یہ آواز میں آئیں کہ آپ آجائیں اور یہیں بس رہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات ان کے حسنِ اخلاق پر روشنی ڈالنے والی تھی اور ان کے اس حسن خلق کا دل پر بہت گہرا اثر پڑا لیکن در حقیقت یہ آواز نہیں ہے جو احمدیت کو دوبارہ قادیان کی طرف لائے گی بلکہ وہ آواز ہے جو امنا اور صدقنا کی آواز ہے، وہ ان گلیوں سے اٹھنے لگے.وہ اس ماحول سے اٹھنے لگے اور کثرت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والے، آپ کو حق جاننے والے، آپ کو حق پرست سمجھنے والے یہاں پیدا ہوں ، تب وہ صورتحال پیدا ہوگی کہ احمدیت فتح وغلبہ کے ساتھ اپنے وطن کو واپس لوٹے گی.اس وقت تک جو بھی خدا کی تقدیر ظاہر ہو ہم نہیں جانتے کہ کس طرح ظاہر ہوگی اور کب ظاہر ہوگی ہم اس پر راضی ہیں اور ہمارے قربانی دینے والے جو بھائی ایک لمبے عرصے سے ان مقدس مقامات کی حفاظت کر رہے ہیں ہم ان کے دل کی گہرائیوں سے ممنون ہیں اور ان کو یقین دلاتے ہیں کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی احمدی بستا ہے ، وہ آپ کی قدر کرتا ہے، آپ کو عزت اور محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.اگر ہم سے آپ کے حقوق ادا کرنے میں پیچھے کوئی غفلت ہوئی تو میں اقرار کرتا ہوں کہ ہم ان غفلتوں کے نتیجہ میں اپنے خدا سے معافی مانگتے ہوئے ہر قسم کی تلافی کی کوشش کریں گے.قادیان کی واپسی جب بھی ہو اس سے پہلے پہلے لازم ہے کہ یہاں آپ کی عزت اور آپ کے وقار کو بحال کیا جائے تا کہ آپ سر بلندی کے ساتھ ان گلیوں میں پھر سکیں.آپ کو کوئی احساس محرومی نہ رہے اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہےاور اللہ کی تقدیر سے امید رکھتا ہوں کہ مجھے توفیق بخشے گا کہ اس فیصلہ پر عملدرآمد کر کے دکھاؤں کہ قادیان کے درویشوں کی دنیا اور آخرت کے لئے بہتری کے جو کچھ بھی سامان ہو سکتے ہیں ہم ضرور وہ سامان پورا کریں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ واپسی سے پہلے پہلے وہ حالات
146 پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جن کے نتیجہ میں آپ نفس کی پوری عزت اور احترام کے ساتھ سر بلند کرتے ہوئے ان گلیوں میں پھریں اور پھر ہمیں خوش آمدید کہیں اور پھر ہمیں اس طرح بلائیں جس طرح ایک معز ز میزبان اپنے مہمان کو بلاتا ہے.خدا کرے کہ وہ دن جلد آئیں ہم انشاء اللہ تعالیٰ بقیہ جو دو تین دن قادیان میں ہیں، مختلف منصوبے سوچنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کے متعلق لائحہ عمل تیار کرنے میں صرف کریں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ جیسا کہ میں نے گزارش کی ہے قادیان ہی نہیں ، بلکہ قادیان کی برکت سے ، قادیان کے درویشوں کی برکت سے، ان منصوبوں کا فیض سارے ہندوستان کی جماعتوں کو پہنچے گا اور انشاء اللہ دن بدن یہاں کے حالات تبدیل ہونا شروع ہوں گے.یہاں کے حالات تبدیل ہوں گے تو پھر آپ ہمیں بلانے کے اہل ثابت ہوں گے.خدا کرے کہ جلد ایسا ہو اور خدا کرے کہ پاکستان کے حالات بھی تبدیل ہوں اور جلد تر تبدیل ہوں.اللہ بہتر جانتا ہے کہ پہلے واپسی کہاں ہے مگر جہاں بھی اس کی انگلی اشارہ کریگی ہم غلامانہ اس کی پیروی کرتے ہوئے حاضر ہو جائیں گے اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہر حال میں رضا اور صبر کے ساتھ اپنے مولا کا پیار حاصل کرتے ہوئے جان دیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.“ اس روز کی دیگر مصروفیات نماز جمعہ اور عصر کی ادائیگی کے بعد حضور نے آرام فرمایا.آج طبیعت قدرے بہتر تھی مگر بظاہر کمزوری اور سفر کی تھکن کے آثار چہرے اور جسم پر عیاں تھے.نماز مغرب وعشاء کے بعد حضور انور نے لندن، ربوہ اور قادیان کے نمائندگان اور بعض صائب الرائے احباب کی میٹنگ طلب فرمائی جو حضور انور کے دفتر میں شام ۷:۱۵ پر دعا سے شروع ہوئی اور تقریباً پونے نو بجے دعا سے اختتام پذیر ہوئی.اس میٹنگ میں متفرق انتظامی و فلاحی امور کے بارہ میں حضور انور نے ارشادات اور ہدایات سے نوازا اور مشورے طلب فرمائے.
147 مورخه ۱۱/جنوری ۱۹۹۲ء بروز ہفتہ.قادیان دارالامان حضرت خلیفتہ امی نے نماز فجر مجد اقصی میں پڑھائی.نماز کے بعد حسب معمول بہشتی مقبرہ میں تشریف لے گئے.وہاں مبارک مزاروں پر دعا کے بعد آپ واپسی پر محترمہ عزیزہ علی صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر جعفر علی صاحب آف کلیولینڈ ا مریکہ کی قیام گاہ میں تشریف لے گئے ( جو اُن دنوں مکرم ڈاکٹر بشیر احمد ناصر در وائیں صاحب کے ہاں مقیم تھیں اوران کا چھوٹا بچہ بہا تھا ) اور ان کے بچے کی عیادت کی اور پھر دار اسیح تشریف لائے.آن صبح جب بہشتی مقبرہ جانے کے لئے حضور انور دار اس کے مین گیٹ سے باہر تشریف لائے تو راستہ میں حکیم سورن سنگھ صاحب میونسپل کمشنر قادیان بڑی گرم جوشی اور تپاک سے خلیفہ اسیح سے ملے اور بر جستہ گویا ہوئے کہ وو جب تقسیم ملک کے بعد ہم یہاں آئے تو ہمیں معلوم ہوا کہ حضرت مرزا صاحب کی قادیان واپس آنے کی پیشگوئیاں ہیں.اُس پر آشوب وقت میں یہ پیشگوئیاں بے حقیقت لگتی تھیں اور ہم ان پر ہنسا کرتے تھے لیکن اب آپ یہاں تشریف لائے ہیں اور ساری دنیا سے احمدیوں کی یہاں آمد دیکھی ہے تو ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ مرزا صاحب کی پیشگوئیاں سچی ہیں.“ اس کے بعد حکیم صاحب موصوف نے مزید خیر سگالی کے جذبات اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا.حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے زمانہ میں بھی اسی طرح کئی غیر مسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے تائیدی نشانوں کو ملاحظہ کرتے تھے اور اُن کا اظہار کرتے تھے اور آج بھی اُن پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے یہ لوگ گواہ بن رہے ہیں جو ایک زمانہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرما ئیں.اللہ کرے کہ گلشن احمد ہمیشہ ہی مسکن بادصبار ہے اور عنایات یار کی نسیم ہمیشہ یہاں چلتی رہے.حضور انور صبح سوا دس بجے دفتر میں تشریف لائے.مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے آج کے پروگراموں کی تفصیل اور دیگر دفتری امور پیش کر کے ہدایات حاصل کیں.ان کے بعد محترمہ
148 عزیزہ علی صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر جعفر علی صاحب نے شرف ملاقات پایا.ان کے بعد مکرم مولا نا محمد انعام غوری صاحب صدر اصلاحی کمیٹی قادیان نے حضرت خلیفہ اسیح " کی خدمت میں امور پیش کر کے ہدایات لیں.بعد ازاں شہر کے غیر مسلم احباب نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر ملاقات کا شرف پایا.بعض گروپس کی صورت میں آئے اور بعض فیملیز کی صورت میں.ان کی مجموعی تعداد ایک سو کے لگ بھگ تھی.ان میں سے ہر ایک نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر برکت حاصل کی اور فیض پایا.بعض نے علاج کے لئے ہو میو پیتھک نسخے بھی حاصل کئے.بيت الذكر وبيت الفکر اور بیت الدعا حضرت خلیفہ اسی نے نماز ظہر وعصر آج مسجد مبارک میں پڑھائیں.الہام الہی میں مسجد مبارک کا دوسرا نام بیت الذکر رکھا گیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ میں تحریر فرمایا ہے کہ أَلَمْ نَجْعَلْ لَكَ سُهُولَةٌ فِى كُلّ أَمْرِ بَيْتُ الْفِكْرِ وَبَيْتُ الذِّكْرِ وَمَنْ دَخَلَهُ كانَ امنا...کیا ہم نے ہر ایک بات میں تیرے لئے آسانی نہیں کی کہ تجھ کو بیت الفکر اور بیت الذکر عطا کیا اور جو شخص بیت الذکر میں باخلاص وقصد تعبد وصحت نیت وحسن ایمان داخل ہوگا وہ سوئے خاتمہ سے امن میں آجائے گا.بیت الفکر سے مراد اس جگہ وہ چوبارہ ہے جس میں یہ عاجز کتاب کی تالیف کے لئے مشغول رہا ہے اور رہتا ہے اور بیت الذکر سے مراد وہ مسجد ہے کہ جو اس چوبارہ کے پہلو میں بنائی گئی ہے.( براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد نمبر صفحه: ۲۲۶ حاشیہ نمبرم) اسی مسجد کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خبر دی ”مبارک و مبارک وكُلُّ أَمْرٍ مُبَارَكِ يُجْعَل فيه یعنی یه مسجد برکت دہندہ اور برکت یافتہ ہے اور ہر ایک امر مبارک اس میں کیا جائے گا.(براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد نمبر صفحه: ۲۶۷ حاشیہ نمبر۴ ) اسی مسجد میں سے حجرہ میں دروازہ کھلتا ہے.یہ وہ حجرہ ہے جس میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام مورخہ ۲۷ رمضان المبارک بروز جمعہ ۱۳۰۲ھ مطابق ۱۰، جولائی ۱۸۸۵ء بعد نماز فجر قبلہ رخ چار پائی پر کروٹ کے بل لیٹے ہوئے تھے جبکہ عالم کشف میں دیکھا کہ حضور نے بعض احکام قضا و قدر
149 اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں کہ آئندہ زمانہ میں ایسا ہوگا اور پھر اس کو دستخط کرانے کے لئے خداوند قادر مطلق جل شانہ کے سامنے پیش کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو ایک حاکم کی شکل پر متمثل تھا اپنے قلم کو سرخی کی دوات میں ڈبو کر اول اس سرخی کو حضور کی طرف چھڑکا اور بقیہ سرخی کا قلم کے منہ میں رہ گیا.اس سے اس کتاب پر دستخط کر دیے اور ساتھ ہی وہ حالت کشفیہ دور ہو گئی اور آنکھ کھول کر جب خارج میں دیکھا تو کئی قطرات سرخی کے تازہ بتازہ کپڑوں پر پڑے.(تفصیل سرمہ چشم آریہ میں دیکھیں ) اس وقت حضرت مولوی عبد اللہ سنوری نے حضرت اقدس سے وہ کر تہ جس پر سرخی کے نشان پڑے تھے، مانگ کر لے لیا تھا.حضرت مولوی عبد اللہ سنوری بیان فرماتے ہیں: اس عاجز نے وہ کر یہ جس پر سرخی گری تھی تبر کا حضرت اقدس علیہ السلام سے باصرار لے لیا ، اس عہد پر کہ میں وصیت کر جاؤں گا کہ میرے کفن کے ساتھ دفن کر دیا جائے.کیونکہ حضرت اقدس اس وجہ سے اسے دینے سے انکار کرتے تھے کہ میرے اور آپ کے بعد اس سے شرک پھیلے گا اور لوگ اس کو زیارت گاہ بنالیں گے اور اس کی پوجا شروع ہو جائے گی.غرضیکہ بہت رد و قدح کے بعد دیا جو میرے پاس اس وقت موجود ہے اور سرخی کے نشان اس وقت تک بلاکم وکاست بعینہ 66 موجود ہیں (افضل ۲۶ / دسمبر ۱۹۱۶ء) حضور علیہ السلام کی عائد کردہ شرائط کے مطابق یہ کرتہ حضرت مولوی صاحب کی وفات پر آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو پہنا دیا گیا اور آپ کے ساتھ ہی ۷ اکتو بر ۱۹۲۷ء بروز جمعہ بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن کر دیا گیا.اس حجرہ کے ساتھ ہی مسجد مبارک میں سے ایک دروازہ سیڑھیوں میں کھلتا ہے.یہ سیڑھیاں نیچے اُس جگہ لے جاتی ہیں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض رشتہ داروں نے دیوار کھینچ کر مسجد اقصیٰ کی طرف جانے والا راستہ بند کر کے نمازیوں اور ملنے والوں کیلئے مسجد مبارک ، مسجد اقصیٰ کی طرف جانے میں روک کھڑی کر دی تھی.اس پر حضور علیہ السلام نے مقدمہ کیا جو تاریخ احمدیت میں ” مقدمہ دیوار کے نام سے مشہور ہے.حجرہ کے ساتھ اس دروازے کے ساتھ ہی مسجد مبارک کی شمالی دیوار میں جو دروازہ کھلتا ہے وہ
150 ”الـدار “ میں لے جاتا ہے.”الدار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آبائی مکان ہے جو حضور علیہ السلام کا مولد ومسکن ہونے کے باعث مہبطِ انوار و برکات ہے.چنیدہ بندگانِ الہی کی خصوصیات کے تسلسل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.ان کے رہنے کے مکانات میں بھی خدائے عزو جل ایک برکت رکھ دیتا ہے.وہ مکان بلاؤں سے محفوظ رہتا ہے.خدا کے فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں (حقیقۃ الوحی ) مزید برآں اسی مکان کی نسبت یہ الہامات متعدد بار حضور علیہ السلام کو ہوئے: اِنّى أُحافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ - (تذکرہ صفحہ ۳۴۸) کہ میں ہر ایک کو جو اس گھر کی چار دیواری کے اندر ہے بچالوں گا.کوئی ان میں سے طاعون یا بھونچال سے نہیں مرے گا.فرمایا.امن است در مکان محبت سرائے ما ( تذکر صفحہ ۴۵۶) ہماری محبت کا گھر امن کا گھر ہے.اسی زمانہ سے خدا تعالیٰ کی یہ فعلی شہادت چلی آرہی ہے کہ ہر قسم کے ارض و سماوی آفات وحوادث میں ” الدار “ اور اس کے ساکنین محفوظ و مامون چلے آرہے ہیں.مسجد مبارک کے اسی دروازہ کے ساتھ سے الدار میں داخل ہوتے ہیں بائیں جانب کی طرف ” بیت الفکر ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۳۰۰ھ بمطابق ۱۸۸۳ء میں اس چوبارہ کے متعلق جس میں کہ حضور علیہ السلام نے اپنی معرکہ آراء کتاب براہین احمدیہ تالیف فرمائی، یہ الہام ہوا.”أَلَمْ نَجْعَل لَكَ سُهُولَةً فِي كُلّ اَمرِ بَيْتِ الفِكْر“ ترجمہ: کیا ہم نے ہر ایک بات میں تیرے لئے آسانی نہیں کی ؟ تجھ کو بیت الفکر عطا کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی کمرہ کی کھڑکی میں سے نکل کر بیت الذكر “ یعنی مسجد مبارک میں تشریف لے جایا کرتے تھے.اس بيت الفكر “ کے ساتھ والے کمرہ میں بیت الدعا“ کا دروازہ ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی خلوت کی دعاؤں اور خدا تعالیٰ سے خاص قوت کیلئے ۱۳، ذوالحجہ ۱۳۲۰ھ بمطابق ۱۳ مارچ ۱۹۰۳ء بروز جمعتہ المبارک کو یہ حجرہ جس کا نام آپ نے بیت الدعاء ، تجویز فرمایا، تیار کروایا اور خدا سے یہ دعا کی کہ اس مسجد البیت اور بیت الدعا کو امن اور سلامتی اور اعداء پر بذریعہ دلائل نیرہ اور براہین ساطعہ کے فتح کا گھر بنادے.(ذکر حبیب.مرتبہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب )
151 یہاں یہ بات بھی قابل ذکر معلوم ہوتی ہے کہ اس روز یعنی جمعۃ المبارک ۱۳ارز والحجم ۱۳۴۲ھ 66 بمطابق ۱۳ مارچ ۱۹۰۳ء کو ہی اپنے دست مبارک سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مینارة المسح ، کی بھی بنیاد رکھی تھی.بیت الدعا کے ساتھ والا مشرقی کمرہ جسے دالان بھی کہا جاتا ہے ، بہت تاریخی اور مقدس ہے.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عمر کا آخری زمانہ گزارا اور بعد میں حضرت اماں جان یہیں رہیں.یہاں حضور علیہ السلام کو بہت سے الہامات ہوئے.بلکہ حضرت اماں جان تو اسے بیت الفکر میں شامل کہا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسے بیت الفکر کا حصہ شمار فرماتے تھے.(مکتوب بنام حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) حضور انور نے آج نماز ظہر و عصر مسجد مبارک میں پڑھائیں.بیت الفکر کے سامنے سے گزر کر حضور مسجد مبارک میں تشریف لائے اور صفوں کے پیچھے سے ہوتے ہوئے عین محراب کے سامنے سے محراب میں تشریف لے آئے.نماز ظہر و عصر جمع ہوئیں.نمازوں کے بعد حضور انور محراب میں ہی تشریف فرمار ہے اور مکرم ڈاکٹر محموداحمد بٹ صاحب کے بارہ میں استفسار فرمایا کہ آیا وہ دہلی سے قادیان تشریف لے آئے ہیں یا نہیں.ڈاکٹر محمود احمد صاحب ، مکرم محمد ایوب بٹ صاحب در ولیش قادیان کے بیٹے ہیں اور ایک نو جوان اور بہت سمجھدار ڈاکٹر ہیں.انہیں دہلی میں ۴ /جنوری تا ۰ ار جنوری کے قیام کے دوران حضرت خلیفہ اسیح اور حضرت بیگم صاحبہ کے علاج کی سعادت نصیب ہوئی تھی.ڈاکٹر صاحب گزشتہ رات کی ٹرین پر دہلی سے قادیان پہنچ گئے تھے.حضورانور نے جب اُن کے بارہ میں دریافت فرمایا تو وہ فوراً خدمت اقدس میں حاضر ہو گئے.حضورانور نے ڈاکٹر صاحب سے چند دو یہ حاصل کیں اور مکرم ڈاکٹر جعفر علی صاحب کے بیٹے کی صحت کے بارہ میں دریافت فرمایا.نیز مکرم بشیر احمد خان رفیق صاحب ایڈیشنل وکیل التصنیف لندن کی صحت کے بارہ میں رپورٹ طلب فرمائی.بشیر احمد رفیق صاحب آج صبح کے اور چکر آجانے کی وجہ سے بیمار تھے.بعد دو پہر اُن کی طبیعت بہتر ہوگئی تھی.
152 بعد از میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع درمیان کے راستہ سے جب مسجد سے باہر جانے کے لئے محراب سے اٹھ کر صفوں کے آخر میں تشریف لائے تو وہاں مکرم فضل الہی خان صاحب درویش سے فرمایا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی تو دروازے سے دائیں جانب جنوبی دیوار کے ساتھ ساتھ گزرکر اگلی صف میں سے ہوتے ہوئے محراب میں آیا کرتے تھے.مکرم فضل الہی خان صاحب اور مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے اس کی تصدیق کی تو حضور نے فرمایا کہ آئندہ ( محراب میں آنے کے لئے ) سے یہی راستہ ہونا چاہئے.اس کے بعد آپ اپنی قیامگاہ میں تشریف لے گئے.نماز مغرب وعشاء سے قبل حضور انور مکرم عبدالعظیم صاحب درویش کی درویش خوشدامن محترمہ سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ سید محمود علی مرحوم کی عیادت کیلئے اُن کے گھر تشریف لے گئے.وہ انتہائی کمزوری اور ضعف کی حالت میں تھیں اور ان پر نیم بیہوشی کی کیفیت تھی.آپ تقریباً دس منٹ وہاں بیٹھے رہے اور ان کے حال احوال کے بارہ میں دریافت فرماتے رہے.وہاں سے آپ مکرم مولوی محمد عبد اللہ صاحب درویش کے گھر تشریف لے گئے.وہ بھی آنکھوں میں موتیا اتر آنے اور بیماری کی وجہ سے کمزور تھے.حضور نے ان کے کمرے میں قدم رنجہ فرمایا تو وہ بستر سے اٹھ کر ملنے کے لئے تیار ہی تھے کہ آپ نے آگے بڑھ کر اس حالت میں کہ وہ ابھی آدھے ہی اٹھے تھے ، اُن سے معانقہ کر لیا.وہاں ان کی چار پائی پر ہی حضور انور تقریباً پندرہ منٹ تشریف فرمار ہے.اس کے بعد نماز مغرب وعشاء کے لئے مسجد مبارک میں تشریف لائے.نمازوں کے معاً بعد حضور انور کی موجودگی میں مکرم سید عبدالحئی شاہ صاحب ناظر اشاعت ربوہ نے نکاحوں کا اعلان کیا اور دعا کرائی.مورخه ۱۲ جنوری ۱۹۹۲ء بروز اتوار.قادیان صبح نماز فجر کے بعد حضرت صاحب بہشتی مقبرہ میں تشریف لے گئے مبارک مزاروں پر دعا کے بعد جلسہ گاہ والے میدان میں سے ہوتے ہوئے احمد یہ چوک کی طرف آئے اور راستے میں مکرم شریف احمد ڈوگر صاحب درویش اور مکرم فضل الہی خان صاحب درویش کے گھر گئے.وہاں سے نکل
153 کر احمد یہ چوک سے ہوتے ہوئے ، دار مسیح کے سامنے سے گزر کر سیدھے چلے گئے اور مکرم بشیر احمد شاد صاحب در ولیش اور مکرم فتح محمد صاحب نانبائی درویش کے گھروں میں گئے.مکرم شاد صاحب مذکور کچھ عرصہ پہلے شدید بیمار تھے اور امرتسر ہسپتال میں زیر علاج تھے.جب آپ کو حضور کی تشریف آوری کا علم ہوا تو آپ ڈاکٹروں کو بتائے بغیر قادیان آگئے کہ اب اگر یہاں رہا تو اور بھی بیمار ہو جاؤں گا.کم از کم زندگی میں حضور سے ملاقات تو ہو جائے گی.اس کے بعد آپ دار ا مسیح میں اپنے گھر تشریف لائے.آج صبح قادیان سے باہر مختلف مقامات کی سیر کا پروگرام تھا چنانچہ حضور انور آٹھ بجے دفتر تشریف لائے.بعض دفتری کاموں اور ملاقاتوں کے بعد صبح سوا نو بجے گیارہ گاڑیوں پر مشتمل قافلہ دار اسیح سے روانہ ہوا.اس میں چھ گاڑیاں حضور کے خاندان اور اراکین قافلہ اور قادیان کے خدام کی تھیں.جبکہ باقی پانچ گاڑیاں پولیس اور سیکیورٹی کے عملہ کی تھیں.یہ قافلہ قادیان سے نکل کر بھینی طغل والا اور گھوڑے واہ سے ہوتا ہوا راج پورہ پہنچا.راج پورہ حضرت مصلح موعودؓ کی زمینوں پر آباد چھوٹا سا گاؤں (ڈیرہ) ہے.یہ زمینیں تقسیم ملک کے بعد سکھوں کو منتقل ہو گئی تھیں.اس وقت نہ وہ مکان باقی رہے تھے جن سے حضرت مصلح موعود کی یادیں وابستہ تھیں اور نہ ہی ان کے مکینوں میں سے کوئی باقی تھا.سب نئے لوگ اور نئی عمارتیں تھیں.البتہ نئے لوگوں کے پاس پرانی یادیں ضرور تھیں.چنانچہ انہوں نے حضور انور کے قدم لئے ، بڑی محبت اور چاہت سے ملے.آپ نے اُن سے چند لمحے باتیں کیں اور ان کے بچوں میں چاکلیٹ اور ٹافیاں وغیرہ تقسیم کیں.آپ وہاں پندرہ میں منہ ظہر کر پھیر واچی آئے.پھیر پیچی تقسیم ملک سے قبل احمد ہوں کا گاؤں تھا اور اب وہاں کلیہ سکھوں کی آبادی ہے.حضورانور کی کار جب وہاں پہنچی تو وہاں کے لوگ دل و نظر فرش راہ کئے ہوئے پائے.وہ فورا کار کی طرف لپکے.آپ کی کارڑ کی تو کار کے شیشے میں سے آپ کے بالکل قریب ہو کر خوش آمدید کہنے لگے.وہ اتنے خوش تھے کہ پھولے نہ سماتے تھے.ایک بڑی عمر کا شخص کہنے لگا کہ پہلے آپ لوگوں نے یہاں سکول وغیرہ قائم کئے تھے جن کی وجہ سے
154 یہاں کا ہر شخص آپ کو یاد کرتا ہے.اب آپ پھر یہاں آجا ئیں تو اس بستی کے بھاگ جاگ اٹھیں گے.حضور انور نے چند لمحے کار میں بیٹھے بیٹھے ان لوگوں سے باتیں کیں اور پھر قافلہ آگے بڑھ گیا.کچھ عرصہ بعد پھیر و پیچی کا ایک عمر رسیدہ سکھ احمد یہ ہسپتال میں علاج کے سلسلے میں قادیان آیا تو یہاں ایک احمدی دوست قریشی فضل اللہ صاحب سے ملا.تعارف کے بعد اس نے حضور کے وہاں جانے کا ذکر بھی کیا.جب اس سے حضور کی شخصیت کے بارے میں پوچھا گیا تو کہنے لگا: وہ تو کوئی ربی نور تھا.عام انسان نہ تھا.اس کے چہرے کے پیچھے الہی قدرت نظر آتی تھی اور وہ ایسی روح رکھتا تھا جو بہت کم دنیا میں آتی ہے.“ پھیرو پیچی سے روانہ ہو کر حضور کا قافلہ ” چک شریف“ سے ہوتے ہوئے ”شالے کے پتین سے کشتی کا پل عبور کر کے مکیریاں کے راستے ڈھانگو کی پہاڑیوں میں سے گزر کر دریائے چکی کے ساتھ واقع P.W.D کے ریسٹ ہاؤس میں کچھ دیر قیام کے لئے رکا.یہیں دو پہر کا کھانا کھایا گیا اور نماز ظہر عصر ادا کی گئیں.یہ وہ ریسٹ ہاؤس ہے جہاں ڈلہوزی آتے جاتے حضرت مصلح موعود کھانے اور آرام کیلئے ٹھہرا کرتے تھے.حضور انور نے مع قافلہ یہاں تھوڑی دیر قیام کیا ،نماز ظہر وعصر پڑھیں اور کھانا کھایا.وہاں پر تقریباً دو گھنٹے قیام کے بعد ۳ بجے کے قریب رخصت ہو کر مادھو پور پہنچے.یہاں دریائے بیاس پر ایک ڈیم ہے جس سے اپر باری دوآب نہر نکلتی ہے.اس نہر کی دوشاخیں ہیں مشرقی شاخ ہر چووال ہے اور مغربی شاخ تلے والی کہلاتی ہے.یہ مؤخر الذکر شاخ قادیان کے قریب سے بھی گزرتی ہے.احمدیت کی تاریخ میں اس نہر کی ایک تاریخی اور یادگار حیثیت یہ بھی ہے کہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رخصت ہوئے تو آپ اسی نہر کے پل تک ان کے الوداع کے لئے اُن کے ساتھ آئے تھے.مادھو پورہ سے اپر باری دو آب نہر کے ساتھ ساتھ حضور انور بھیم سنگھ کے بنگلہ میں آئے.قادیان سے ڈلہوزی جاتے ہوئے حضرت مصلح موعود اس بنگلہ میں بھی ٹھہرا کرتے تھے.ایک لمحہ وہاں رکنے کے بعد حضور انور عازمِ قادیان ہوئے.گورداسپور سٹھیالی،کوٹ ٹوڈرمل اور کھارا سے ہوتے
155 ہوئے قادیان دارالامان پہنچے.رات کی سیاہی چار سو اپنا دامن پھیلا چکی تھی.رات کی یہ سیاہی قادیان دارالامان میں امن وسکون کی ایک دلفریب و دلآویز چادرمحسوس ہوتی تھی.جس کے درمیان نور اور سلامتی کا نشان سفید منارۃ اسیح بڑی عظمت اور جلال اور شان کے ساتھ برقی قمقموں سے جگمگ جگمگ کر رہا تھا.حضور کے قافلہ میں مندرجہ ذیل احباب شامل تھے.آپ کی بیٹیاں صاحبزادی محترمہ فائزہ بیگم صاحبہ، صاحبزادی عطیہ المجیب صاحبہ صاحبزادی یاسمین رحمان صاحبہ، حضور انور کا نواسہ مرزا عدنان احمد صاحب.نیز صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب، آپ کی بیٹی صاحبزادی امتہ الرؤف صاحبہ مع اپنی بیٹی ہبتہ الاعلی.ان کے علاوہ مکرم آفتاب احمد خان صاحب، خاکسار ( ہادی علی ) مکرم میجر محمود احمد صاحب، مکرم ملک اشفاق احمد صاحب، مکرم سید فضل احمد صاحب، مکرم خالد نبیل ارشد صاحب ، مکرم مسعود حیات صاحب، مکرم سعید جسوال صاحب اور مکرم محمد احمد جسوال صاحب.اسی طرح مکرم سعادت احمد صاحب نائب ناظر امور عامہ ابن حضرت مولوی عبد الرحمان صاحب جٹ کے ساتھ قادیان کے کئی خدام تھے جن کے سپر د سیکیورٹی کی ڈیوٹی اور دیگر انتظامات کی سرانجام دہی تھی.نماز مغرب وعشاء کے بعد حضور نے مکرم عبد الحمید ٹاک صاحب صوبائی امیر کشمیر اور مکرم مولوی محمد انعام غوری صاحب صدر اصلاحی کمیٹی قادیان کے ساتھ میٹنگ کی.۱۳ جنوری ۱۹۹۲ء بروز سوموار.قادیان حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے نماز فجر مسجد مبارک میں پڑھائی.نماز کے بعد آپ بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے.بہشتی مقبرہ میں دعا کے بعد آپ مکرم محمد شفیع صاحب مرحوم درویش کی بیوہ کے گھر گئے.پھر آپ نے مکرم خان فضل الہی صاحب در ولیش ، مکرم سید شهامت علی در ولیش، مکرم سید صباح الدین صاحب انسپکٹر وقف جدید، مکرم مولوی منظور احمد گھنو کے درویش ،مکرم ملک نذیر احمد
156 صاحب پشاوری مرحوم کی بیوہ ، مکرم ڈاکٹر دلاور خان صاحب کارکن دعوة وتبلیغ مکرم مولوی محمد عمر علی صاحب در ولیش ، مکرم گیانی عبداللطیف صاحب درویش، مکرم قاضی عبدالحمید صاحب در ولیش ، مکرم مولوی برکت علی صاحب انعام درویش اور مکرم غلام حسین صاحب درویش کے گھروں میں تشریف لے جا کر برکت بخشی.یہاں سے فراغت کے بعد حضور گھر تشریف لائے اور پھر ساڑھے نو بجے دفتر میں آئے.یہاں مکرم ناظر صاحب خدمت درویشاں ربوہ ،مکرم ناظم صاحب وقف جدید قادیان ، مکرم وکیل اعلیٰ صاحب تحریک جدید قادیان اور مکرم ناظر صاحب بیت المال خرچ قادیان کے ساتھ میٹنگ ہوئی جس میں مختلف مالی امور زیر غور آئے.ادھر مسجد اقصیٰ میں 'بادشاہوں سے بھی افضل درویشان قادیان اپنے آقا کے ساتھ ملاقات کے لئے جمع تھے.حضرت صاحب سوا دس بجے مسجد اقصیٰ میں تشریف لائے اور ان کے درمیان رونق افروز ہوئے ،سب سے مصافحہ فرمایا اور تعارف حاصل فرمایا اور پھر گروپ فوٹو ہوئی.اس کے بعد قادیان کے مختلف حلقوں اور محلوں کی ملاقات تھی.حضور نے مسجد اقصٰی میں مردوں سے الگ اجتماعی اور عورتوں سے الگ اجتماعی ملاقات فرمائی.ان ملاقاتوں میں بچوں کی تعلیمی اور ورزشی مساعی کا جائزہ بھی لیا گیا.اس سلسلہ میں آپ نے ہدایات جاری فرما ئیں اور بتایا کہ ایک زمانہ میں کھیلوں کے میدان میں قادیان کی بڑی نیک شہرت تھی اور بلند نام تھا.اسے بحال کرنے کی کوشش کی جائے نیز بتایا کہ کھیلیں جہاں صحت کیلئے انتہائی ضروری ہیں وہاں تربیت کے لئے خاص کردار ادا کرتی ہیں.ملاقاتوں کے بعد آپ دفتر میں تشریف لائے جہاں مکرم ناظر صاحب خدمتِ درویشاں ربوہ اور صدر انجمن احمد یہ قادیان کے مختلف ناظر صاحبان اور بعض دیگر شعبہ جات کے انچارج صاحبان نے اپنے اپنے کام کے بارہ میں باری باری آکر حضور سے ہدایات حاصل کیں.اس دوران کئی ایک انفرادی ملاقاتیں بھی ہوئیں.نماز ظہر و عصر ڈیڑھ بجے ادا کی گئیں.اس کے بعد حضور گھر تشریف لے گئے اور۳ بجکر ۴۵ منٹ پر پھر دفتر تشریف لے آئے اور مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو دفتری امور کی بابت ہدایات دیں.بعد ازاں چند انفرادی ملاقاتیں ہوئیں جن کے بعد ہندوستان کی سب سے بڑی
157 T.Vنیوز کمپنی VIS News جو دنیا بھر کو T.V کی خبریں ترسیل کرتی ہے، کے نمائندہ نے دار المسیح میں آکر حضور کا انٹر ویولیا جو نصف گھنٹہ تک جاری رہا.اس انٹرویو کے بعد خاکسار ( ہادی علی ) نے دفتری امور سے متعلق آپ سے ہدایات حاصل کیں.پھر قادیان کی اصلاحی کمیٹی کی آپ سے میٹنگ تھی.یہ میٹنگ تقریباً ہمیں منٹ جاری رہی.اس کے بعد بعض انفرادی ملاقاتیں ہوئیں.جن میں احباب جماعت کے علاوہ قادیان کے مقامی ہندو سکھ اصحاب بھی شامل تھے.ان میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہندو دوست لالہ ملا وامل کے خاندان سے کرشن لال صاحب ابن لالہ سیٹھ پیارے لال اور جواہری لال صاحب ابن سیٹھ رام نارائن اور لالہ بڈھا مل کے پڑپوتے آر.این ابرول صاحب اور ڈاکٹر انیل کمارا برول صاحب قابلِ ذکر ہیں.ڈاکٹر انیل ابرول صاحب پہلے بھی حضور انور سے شرف ملاقات حاصل کر چکے تھے.لالہ ملاوامل اور لالہ بڑھامل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر ظاہر ہونے والے کئی ایک الہی نشانات کے گواہ تھے.ان کا ذکر آپ کی کئی کتب میں موجود ہے.لالہ ملا وامل صاحب نو جوانی کے زمانہ سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے.مگر اپنے مذہبی اور قومی تعصب میں اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ آپ نے انہیں کئی دفعہ اُن خدا داد نشانوں کی گواہی کے لئے بلا یا جو اُن کی آنکھوں کے سامنے گزرے تھے اور وہ اُن کے چشم دید اور گوش شنید گواہ تھے.مگر وہ ہمیشہ مذہبی تعصب کی وجہ سے شہادت دینے سے گریز کرتے رہے.ایک دفعہ یہی لالہ ملا وامل صاحب دق کے مرض میں مبتلا ہو گئے اور حالت بالکل مایوسی اور نا امیدی کی ہوگئی.اس پر وہ ایک دن بے چین ہوکر حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی حالت زار بتا کر بہت روئے اور باوجود مخالف ہونے کے اُس اثر کی وجہ سے جو آپ کی نیکی کے متعلق اُن کے دل میں تھا آپ سے عاجزی کے ساتھ دعا کی درخواست کی.آپ کو اُن کی یہ حالت دیکھ کر رحم آگیا اور آپ کا دل بھر آیا.آپ نے اُن کے لئے خاص توجہ سے دُعا کی جس پر آپ کو خدا کی طرف سے الہام ہوا : يَا نَارُ كُونِي بَرْد أَوَّ سَلاماً.یعنی اے بیماری کی آگ تو اس نوجوان پر ٹھنڈی ہو جا اور اس کے لئے حفاظت اور سلامتی کا موجب بن جا“ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ: ۲۷۷) چنانچہ اس کے بعد لالہ ملا وامل صاحب بہت جلد اس خطرناک مرض سے جو ان ایام میں گویا
158 موت کا پیغام سمجھی جاتی تھی شفایاب ہو گئے اور نہ صرف شفایاب ہو گئے بلکہ۹۰،۸۰ سال کے قریب عمر پائی اور ملکی تقسیم کے کافی عرصہ بعد قادیان میں فوت ہوئے.لالہ ملا وامل اور لالہ بڈھا مل کے خاندانوں میں سے یہ لوگ جب حضور انور سے ملنے آئے تو آپ نے انہیں جماعت کی ترقی اور اسکی عظمتوں کے بارہ میں بتایا.خاکسار ( راقم الحروف ہادی علی چشم دید گواہ ہے کہ انہوں نے برجستہ کہا کہ وہ خود جماعت احمدیہ کی عظمت اور اس کی صداقت کے گواہ ہیں.“ ان ملاقاتوں کے بعد حضور انور نماز مغرب وعشاء کے لئے مسجد مبارک میں تشریف لائے.قادیان کے اس سفر کی یہ آخری نماز مغرب اور نماز عشاء تھی.نمازوں کی ادائیگی کے بعد آپ محراب میں ہی رونق افروز رہے.محترم صاحبزادہ مرزا اوسیم احمد صاحب ناظر اعلیٰ قادیان نے محترم طاہر احمد چیمہ صاحب ابن چوہدری منظور احمد چیمه در ولیش مرحوم کے نکاح ہمراہ امتہ الحکیم صاحبہ بنت شیخ ذوالفقار احمد صاحب آف قادیان کا اعلان کیا.اس نکاح کو حضور انور نے اپنی موجودگی سے برکت بخشی اور دعا میں شمولیت فرمائی.اس کے بعد حضور انور مسجد مبارک سے نکل کر بیت الدعا میں تشریف لے گئے.بعد ازاں وہاں سے دفتر تشریف لائے جہاں مکرم عبدالحمید ٹاک صاحب صوبائی امیر کشمیر ، مکرم اللہ بخش صادق صاحب ناظر خدمت درویشاں اور مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلی قادیان نے خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر دفتری امور طے کئے.ان کے بعد بعض انفرادی ملاقاتیں ہوئیں اور بعض احباب نے حضور انور کے ساتھ تصاویر بھی اتروا ئیں.یہ سلسلہ دیر تک جاری رہا اور حضورانوررات گئے تک دفتر میں تشریف فرمار ہے.آج بفضلہ تعالیٰ حضور انور کی صحت بہت بہتر تھی.
۱۴ جنوری ۱۹۹۲ء بروز منگل 159 قادیان سے روانگی حضرت خلیفقہ اسی نے نماز فجر مسجد مبارک میں پڑھائی.پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ بقرہ کا پہلا رکوع اور دوسری رکعت میں دوسرے رکوع سے آیت نمبر 17 تک تلاوت فرمائی.یہ نماز فجر قادیان کے اس سفر کی آخری نماز تھی.نماز کے بعد سب احباب جماعت کو آپ نے ” السلام علیکم کہا اور مسجد کے شمالی دروازے سے الدار کی طرف بڑھے ( یہ راستہ حضور انور کی قیامگاہ کی طرف بھی جاتا ہے ) تو احباب جماعت جو آگے بڑھ کر آپ سے ہاتھ ملا سکتے تھے، انہیں آپ نے شرف مصافحہ بخشا اور پھر گھر تشریف لائے.چند منٹوں کے بعد حضرت صاحب بہشتی مقبرہ میں دعا کے لئے تشریف لے گئے.آپ کے ساتھ آپ کی دو بیٹیاں صاحبزادی عطیہ المجیب طوبی صاحبہ اور صاحبزادی یا ہمیں رحمن مونا صاحبہ بھی تھیں.بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت خلیفہ اسیح الاوّل ، حضرت ام طاہر اور حضرت سیّد عبدالستار شاہ اور دیگر مبارک مزاروں پر دعا کے بعد حضور انور حسب ذیل افراد کے گھر تشریف لے گئے.قریشی محمد شفیع عابد صاحب درویش ۲ محمد یوسف گھڑ ا صاحب مرحوم ۳.محمد انعام ذاکر صاحب ۴.چوہدری عبدالحق صاحب درویش مرحوم ۵.مولانامحمد انعام غوری صاحب ۶.چوہدری عبدالقدیر صاحب درویش مرحوم ۷.چوہدری منظور احمد چیمه صاحب درویش مرحوم ۸.مولانا محمد شریف احمدامینی صاحب در ولیش مرحوم ۹ ممتاز احمد ہاشمی صاحب درویش ۱۰.چوہدری بدرالدین عامل صاحب درویش ( یہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے مکان میں رہائش پذیر ہیں ) ۱۱.مولوی محمد حفیظ صاحب بقاپوری درویش مرحوم ۱۲ ماسٹر محمد ابراہیم صاحب درویش.حضور جس درویش کے گھر گئے، اہلِ خانہ سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں.ہر کوئی اپنی خوش قسمتی پر نازاں و فرحاں تھا.یہ چند لحات ان کی زندگیوں کے دلکش ترین لمحات تھے.جو در ولیش بیمار یا معذور تھے، حضور خود ان کی عیادت کے لئے اور انہیں سعادتوں بھری
160 ملاقات کا شرف بخشنے ان کے ہاں تشریف لے گئے.ان گھروں سے ہو کر اور ان کے مکینوں سے مل کر حضور انور دار المسیح کے بڑے گیٹ کے سامنے سے ہوتے ہوئے مدرسہ احمدیہ میں تشریف لے گئے.جہاں مدرسہ کے طلبہ واساتذہ ایک قطار میں کھڑے تھے.حضور نے ان سے مصافحہ فرمایا اور گروپ فوٹو ہوئی.اس کے بعد آپ مکرم مولوی بشیر احمد صاحب طاہر، بکرم ذوالفقار احمد صاحب اور مکرم رشید احمد صاحب ملکانہ کے گھروں میں تشریف لے گئے.یہاں سے آپ دارا صیح میں واپس تشریف لائے تو سامنے مسجد مبارک کی سیٹرھیوں کے قریب مکرم طالب یعقوب صاحب مبلغ سلسلہ زائر کی فیملی اور سسرال والے مکرم محمد شریف صاحب گجراتی مرحوم کے خاندان کے افراد نیز مکرم عبدالحمید ٹاک صاحب صوبائی امیر کشمیر کے افراد خاندان کھڑے تھے.ان تینوں خاندانوں نے اپنے آقا کے ہمراہ ملاقات کا شرف بھی پایا اور تصاویر بھی اتروا ئیں.یہاں سے فراغت کے بعد حضور انور مکرم ملک صلاح الدین صاحب مؤلف اصحاب احمد اور مکرم مولوی محمد ایوب سا جد صاحب مبلغ سلسلہ راجستھان کے گھروں میں تشریف لے گئے.( دونوں گھر احاطہ دارا مسیح میں ہیں) ان گھروں سے آپ باہر تشریف لائے تو سوا آٹھ بج چکے تھے.یہاں سے آپ اپنے گھر تشریف لے گئے.صبح 11 بجے حضرت خلیفہ اسیح کے قادیان سے رخصت ہونے کا وقت تھا.دیار مسیح سے چوالیس سال کے فراق کے بعد وصل کے جو چند دن میسر آئے تھے وہ آج ختم ہورہے تھے اور جو چند گھڑیاں اب باقی تھیں لمحہ فراق انہیں بڑی سرعت سے قطع کرتا چلا جارہا تھا.لوگ صبح نو بجے سے ہی دار امسیح اور اس کے گرد جمع ہونے شروع ہو گئے تھے.منتظمین نے دار مسیح کے گیٹ سے اندر عورتوں کو دور و یہ کھڑا کر دیا تھا اور گیٹ سے باہر مردوں کو.عورتوں کی کثرت کی وجہ سے احاطہ چھلک رہا تھا جبکہ مرد باہر سٹرک کے دونوں طرف کھڑے تھے.اُن کی قطار میں دارا مسیح کے بیرونی گیٹ سے شروع ہوکر لنگر خانہ تک جا چکی تھیں.انہیں قطاروں کی ایک شاخ مدرسہ احمدیہ میں بھی اندر تک چلی گئی تھی.حضور انور تقریباً دس بجے دفتر تشریف لائے.وہاں بعض ضروری امور کی انجام دہی کے بعد ساڑھے دس بجے باہر تشریف لائے اور مستورات والے حصہ میں دونوں طرف ”السلام علیکم کہتے
161 ہوئے اور بچوں کو پیار کرتے ہوئے گیٹ سے باہر تشریف لائے اور قطار میں کھڑے ہوئے ہر فرد کو مصافحہ کا شرف بخشتے ہوئے آگے بڑھتے گئے.ان میں احمدی احباب کے علاوہ مقامی سکھ اور ہندو بھی تھے جنہوں نے بڑھ بڑھ کر حضور انور سے شرف مصافحہ پایا.سوا گیارہ بجے آپ احباب سے مل کر دار اسیح میں تشریف لائے تو آپ کی کا ر اور قافلہ کی دوسری کاریں روانگی کے لئے تیار تھیں.حضور نے کار کے قریب آکر الوداعی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ آنسو اور ہچکیوں کے بندٹوٹ گئے جیسے سینے پھٹ رہے ہوں اور دل حلق کو پہنچ گئے ہوں.یہ منظر بہت ہی دلگداز اور رقت آمیز تھا.خود پیارے آقا کی آنکھوں سے آنسو ڈھلک ڈھلک کر رخسار مبارک سے ہوتے ہوئے ریش مبارک میں جذب ہو رہے تھے.سوز و گداز اور ہچکیوں میں ڈوبی ہوئی الوداعی دعاختم ہوئی.حضور کار میں تشریف لے گئے.مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے کار کا دروازہ بند کیا.کارنے رینگنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ جدائی کے اس قیامت خیز ماحول سے نکلنا شروع ہوئی.ہر فرد بشر جو وہاں موجود تھا، کار کی طرف امڈ رہا تھا اور اسکے شیشوں میں سے اپنے آقا کو ایک نظر دیکھنے کے لئے بے قابو ہورہا تھا.لیکن کار آہستہ آہستہ آگے بڑھتی رہی اور جسمانی فاصلے بھی بڑھتے رہے لیکن روح و قلب کے رشتوں کو مزید مضبوط، تازہ اور دیر پا کر گئے.حضور انور کا قافلہ چوک احمدیہ سے ہوتا ہوا قادیان سے امرتسر کے لئے روانہ ہوا اس قافلہ میں قافلہ کی پانچ کاروں کے ساتھ دو پولیس ایسکورٹ کی گاڑیاں بھی تھیں جن میں سے ایک قافلے کے آگے اور دوسری پیچھے تھی.یہ قافلہ سو بارہ بجے امرتسر سٹیشن پر پہنچ گیا.حضور انور نے اسٹیشن پر ویٹنگ روم میں انتظار فرمایا.شان پنجاب گاڑی جو امرتسر سے دو بجکر دس منٹ پر دہلی کے لئے روانہ ہوتی ہے.لیٹ ہو کر تین بجکر پندرہ منٹ پر روانہ ہوئی.اس دوران کئی ملنے والے آپ سے شرف ملاقات پاتے رہے ہندو اور سکھ دوست بھی آئے.امرتسر میں پنجابی کے ایک اخبار اجیت“ کے نمائندہ نے وہیں انتظارگاہ میں حضور انور کا انٹرویو بھی لیا.مکرم سمنت کمار گوئیل صاحب سینئیر سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی خاص طور پر گورداسپور سے آپ کے شرف ملاقات کے لئے امرتسر اسٹیشن پر
162 تشریف لائے اور شرف یاب ہوئے.قافلہ کے ساتھ قادیان سے آئے ہوئے خدام نے وہیں انتظارگاہ میں کھانا کھایا، پیارے آقا سے مصافحہ کا شرف پایا اور تصاویر بھی اتروائیں.گاڑی جب پلیٹ فارم پر آگئی تو حضور اہل خانہ سمیت گاڑی میں تشریف لے آئے.آپ گاڑی کے دروازے میں کھڑے رہے.اس اثنا میں کئی خدام نے شرف مصافحہ پایا.نیز ہندو بھی بڑی عقیدت سے آکر ملے.تین بجکر بیس منٹ پر گاڑی نے سیٹی بجائی اور آہستہ آہستہ رینگنا شروع ہوئی تو خدام جو پلیٹ فارم پر آقا کو الوداع کے لئے کھڑے تھے ساتھ ساتھ چلنا شروع ہو گئے.گاڑی تیز ہوئی تو خدام ساتھ ساتھ بھاگنے لگے.گاڑی مزید تیز ہوئی تو یہ اور بھی تیزی سے بھاگنے لگے.پلیٹ فارم ختم ہو گیا تو خدام پڑی کے ساتھ ساتھ بھاگتے رہے حتی کہ گاڑی تیز سے تیز سے اور دور تر ہوتی گئی.حضور گاڑی کے دروازے میں ہی کھڑے خدام کو دیکھتے رہے اور ہاتھ ہلاتے رہے.یہاں تک کہ خدام بلکہ امرتسر اسٹیشن بھی نظروں سے اوجھل ہو گیا.گاڑی تین بجکر بیس منٹ پر امرتسر سے روانہ ہو کر شام ساڑھے دس بجے دہلی پہنچی.ریلوے اسٹیشن پر دہلی کے خدام اور ان کے علاوہ مختلف جماعتوں سے آئے ہوئے احباب استقبال کے لئے موجود تھے.حضور انور مع اہل خانہ وافراد قافلہ ساڑھے گیارہ بجے مسجد بیت الہادی وایوان المهدی میں پہنچے.جہاں حیدر آباد سے چالیس کے قریب افراد پیارے آقا سے فیض پانے کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے.آپ نے ان کو ملاقات کا شرف بخشا بعد ازاں حضور انور اپنی قیامگاہ میں تشریف لے گئے.دو "FRIDAY The 10th' اسیران راہ مولی سکھر کی اعجازی رہائی کا نشان قادیان سے دہلی کے سفر کے دوران امرتسر اسٹیشن پر انتظار گاہ میں انتظار کافی طویل تھا.اس اثنا میں دہلی مشن ہاؤس میں فون کیا گیا تو وہاں سے اچانک ایک غیر معمولی خوشی کی خبر ملی کہ ہائی کورٹ سندھ نے سکھر کے اسیرانِ راہ مولیٰ مکرم پروفیسر ناصر احمد قریشی صاحب اور مکرم رفیع احمد قریشی صاحب کی رہائی کے احکام جاری کر دیئے ہیں.یہ دونوں اسیرانِ راہِ مولیٰ ۱۹۸۴ء سے محض
163 از راہ ظلم سکھر جیل میں پابند سلاسل تھے.یہ خبر جب حضور کی خدمت میں پیش کی گئی تو آپ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا جیسے ایک دیرینہ آرزو پوری ہو گئی ہو ، جیسے کوئی متاع گمشدہ مل گئی ہو.الحمد للہ ثم احمد للہ.اس خبر نے پیارے آقا کے چہرے پر خوشی اور حمد کا نور بکھیر دیا.حضور نے حمد و مسرت کے ملے جلے جذبات میں بتایا: ”قادیان میں اس جمعہ یعنی Friday The 10th کو میں نے خاص طور پر ان کی اعجازی رستگاری کیلئے بارگاہ رب العزت میں التجا کی تھی.الحمد للہ کہ خدا تعالیٰ نے اس دعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور الہام Friday The 10th کی چمکار پر تصدیق کی ایک اور مہر ثبت کر دی.الحمد للہ.حضرت خلیفتہ اسی پر اسیران راہ مولیٰ کے دکھوں اور تکالیف کا مسلسل ایک گہرا اثر تھا جس کو آپ نے قلب وروح سے نکلی ہوئی ایک نظم کے قالب میں ڈھال کر اس طرح قادر مطلق خدا کے صدا ہے حضور پیش کیا: یارب یہ گدا تیرے ہی در کا ہے سوالی جو دان ملا تیری ہی چوکھٹ سے ملا ہے گشته اسیران ره مولا کی خاطر مدت سے فقیر ایک دعا مانگ رہا ہے جس رہ میں وہ کھوئے گئے اُس رہ پہ گدا ایک کشکول لئے چلتا ہے لب خیرات کر اب ان کی رہائی میرے آقا کشکول میں بھردے جو مرے دل میں بھرا ہے میں تجھ سے نہ مانگوں تو نہ مانگوں گا کسی سے میں تیرا ہوں تو میرا خدا میرا خدا ہے حضور کی دردبھری دعائیں جو قوت تکوین سے معمور تھیں انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اذن پا کر عالم علوی وسفلی میں تصرف کیا اور نتیجہ کا راسیرانِ راہ مولی سکھر کی اعجازی رہائی کی صورت میں شہود پذیر ہوئیں.اسیرانِ راہ مولیٰ سکھر مکرم پروفیسر ناصراحمد قریشی صاحب مرحوم اور مکرم رفیع احمد قریشی صاحب ۱۹۸۴ء سے جیل میں بند تھے.انہیں آمر وقت کی انتہائی بدنیتی کی بناء پر محض ایک سفا کا نہ فیصلہ کی وجہ سے سزائے موت سنائی گئی تھی لیکن بعد میں یہ سزا عمر قید میں تبدیل کر دی گئی تھی.جنوری ۱۹۹۲ء یعنی تقریباً آٹھ سال بعد پہلی مرتبہ سندھ ہائی کورٹ میں ان کے مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی.مکرم سید علی احمد طارق صاحب ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس
164 کیس کے لئے ان کی طرف سے پیش ہونا تھا.مکرم سید علی احمد طارق صاحب نے اپنی تیاری کی اور محترم چوہدری احمد مختار صاحب مرحوم امیر جماعت کراچی کو کیس کی تمام تفاصیل بتا کر دعا کی درخواست کی.۱۳ جنوری کی صبح مکرم طارق صاحب ہائی کورٹ میں پیش ہونے کیلئے گھر سے نکلے تو سید ھے مکرم امیر صاحب مرحوم کے پاس گیسٹ ہاؤس میں پہنچے اور دعا کی درخواست کی.مکرم امیر صاحب مرحوم نے استفسار کیا کہ کیس پیش کرنے پر کتنا وقت لگے گا.انہوں نے بتایا کہ دودن یا شاید اس سے بھی زیادہ وقت لگ جائے.بہر حال مکرم طارق صاحب عدالت کی طرف روانہ ہو گئے.مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی تو انہوں نے بتانا شروع کیا کہ یہ کیس خالصة بدنیتی پر مبنی ہے.جو فرد جرم ان پر عائد کی گئی ہے اسمیں ایک ذرہ بھی سچائی نہیں اور یہ مقدمہ سراسر ظالمانہ اور جھوٹا ہے.ابتدائی دو گھنٹے صرف اسی بحث میں صرف ہو گئے اور ابھی یہ بات جاری ہی تھی کہ فاضل جج صاحب نے کہا "طارق صاحب ! بس کرو اس سے زیادہ بد نیتی ممکن نہیں اور ہم مختصر حکم کے ذریعہ قیدیوں کی رہائی کا حکم دیتے ہیں.اور ساتھ ہی فاضل حج صاحب نے سرکاری وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : '' تم ایسے کیس کو ڈیفینڈ کرو جو سراسر بدنیتی پر مبنی ہے.ہم اس کی آپ کو اجازت نہیں دیتے.“ سبحان اللہ کیسا عجیب مگر مبنی بر انصاف فیصلہ ہوا.طارق صاحب کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ حج صاحب نے کیا کہہ دیا ہے.عدالت سے فارغ ہوتے ہی دوڑے اور مکرم چوہدری احمد مختار صاحب مرحوم امیر کراچی کو یہ خبر سنائی.امیر صاحب نے پوچھا کہ فیصلہ کہاں ہے اس پر پریشان ہوئے کہ وہ تو خوشی میں عدالت سے حاصل کرنا بھول ہی گیا ہوں.چنانچہ دوبارہ عدالت میں گئے اور فیصلہ کی نقل لے کر امیر صاحب کے پاس پہنچے.مکرم امیر صاحب جماعت کراچی نے فوراً ٹیلیفون پر پیارے آقا کو اسیرانِ راہِ مولا کی رہائی کی خوشخبری سنانے کیلئے دہلی فون کیا.حضور اس وقت قادیان سے دہلی کے سفر کے لئے روانہ ہوکر امرتسر کے اسٹیشن کی انتظار گاہ میں تشریف فرما تھے.اسلئے آپ کو براہِ راست یہ پیغام نہ مل سکا لیکن چند لمحوں بعد دہلی سے یہ اطلاع آپ تک پہنچ گئی جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے.
165 اسیروں کی رہائی محترم سید علی احمد طارق صاحب ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان ،عدالت عالیہ کا حکم لے کر اگلے روز یعنی ۱۴ جنوری کو سکھر پہنچ گئے.امیر صاحب سکھر کے ہمراہ رات ساڑھے گیارہ بجے مسرت حسین صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل کے گھر گئے.ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب چونکہ امیر صاحب کے ساتھ بے تکلفی کا تعلق رکھتے تھے.اس لئے انہیں رات کے اس وقت میں بھی گھر پر خوش آمدید کہا اور ان کامد عامنا اور عدالت عالیہ کا حکم دیکھ کر کہا کہ صبح آجائیں جیسے آپ کہیں گے اُسی طرح کر لیں گے.امیر صاحب نے کہا کہ یہ کام ہر حال میں ابھی کرنا ہے.چنانچہ وہ راضی ہو گئے اور دوبارہ گھر جا کر تیار ہوکر نکلے اور اپنے دیگر دو ساتھیوں کو لیکر سنٹرل جیل گئے اور رہائی کی کارروائی مکمل کی.وہیں رات ایک بجے وہ کہنے لگے کہ چونکہ سپرنٹنڈنٹ صاحب سے پوچھنا ضروری ہے اور وہ ٹیلیفون اٹھا نہیں رہے اس لئے آپ خودان کے پاس جائیں اور بات کریں.ان دونوں نے مسرت صاحب کو بھی ساتھ چلنے کے لئے کہا تو وہ بھی ساتھ جانے پر راضی ہو گئے.رات ڈیڑھ بجے ان تینوں نے گلزار احمد چنہ صاحب سپر نٹنڈنٹ سنٹرل جیل سکھر کو جا کر جگایا.وہ انہیں دیکھ کر سخت حیران ہوئے اور پوچھا کہ اس وقت کیوں آئے ہو؟ انہوں نے کہا، جناب ! نا صر صاحب اور رفیع صاحب کی رہائی کا حکم ہے.آپ مہربانی فرما ئیں اور انہیں رات کے وقت ہی رہا کرا ئیں.وہ تھوڑے سے توقف کے بعد فرمانے لگے کہ آپ ایسا کریں کہ صبح نماز فجر کے بعد آجائیں.آپ کے آدمی تیار ہونگے.انہوں نے کہا کہ صبح اگر یہ بات باہر نکل گئی تو ملاں لوگ آپ کے لئے پریشانی پیدا کر سکتے ہیں.کہنے لگے آپ جائیں.کچھ نہیں ہوگا.صبح آپ کے آنے سے پہلے آپ کے آدمی گیٹ پر تیار ہونگے.پھر بتایا کہ محترم آئی.جی صاحب جیل خانہ جات سکھر میں موجود ہیں اور رات ساڑھے دس بجے میں ساری پوزیشن انہیں بتا کر آیا ہوں اور صبح انہوں نے معائنہ کے لئے آنا ہے اسلئے میری پوزیشن خراب ہوگی.دوسرے یہ کہ جب سے جیل ٹوٹی ہے ہم نے جیل کی بیرونی دیوار پر تعین پولیس کو بہت زیادہ اختیارات دے دیئے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم قیدیوں کو نکالنے جائیں اور وہ ہم پر فائر کر دیں.اس کے بعد طارق صاحب وغیرہ رات دو بجے کے قریب واپس لوٹ آئے اور ٹیلیفون پر مکرم امیر صاحب کراچی کو تمام کاروائی کی رپورٹ پیش کی.نماز فجر کے بعد طارق صاحب اور امیر صاحب سنٹرل جیل کی طرف
166 روانہ ہوئے.جیل کے پاس پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ اسیرانِ راہ مولیٰ ہاتھ ہلا ہلا کر بے حد خوشی سے اپنی رہائی کا اعلان کر رہے تھے.الحمد لله ثم الحمد لله على ذلك اگلا مرحلہ سکھر سے کراچی تک کے سفر کا تھا.مکرم سید علی احمد طارق صاحب کے پاس تو ہوائی جہاز کا واپسی کا ٹکٹ موجود تھا مگر باقی تینوں یعنی مکرم امیر جماعت سکھر،مکرم پروفیسر ناصر احد قریشی صاحب اور مکرم رفیع احمد قریشی صاحب اسیران را ہ مولیٰ کے لئے ٹکٹوں کی ضرورت تھی اور فوکر جہاز میں تین سیٹوں کا ملنا ایک مشکل امر تھا.لیکن جب یہ سارے کام خدا تعالیٰ کی خاص تقدیر کے تحت مرحله در مرحله پایہ تکمیل کو پہنچ رہے تھے تو یہ کام بھی محض اس کے فضل سے ہو گیا اور مطلوبہ تین نمکٹیں مل گئیں اور بالآخر چار افراد کا یہ قافلہ کراچی پہنچا اور کراچی ایئر پورٹ سے جماعتی انتظام کے تحت چند لمحوں میں وہ گیسٹ ہاؤس پہنچ گئے.محترم چوہدری احمد مختار صاحب مرحوم امیر جماعت کراچی نے ان کا والہانہ استقبال کیا اور اسی وقت پیارے آقا کو فون کر کے اس خوشخبری سے آگاہ کیا.حضور نے محترم ناصر احمد قریشی صاحب سے فون پر بات کی اور فرمایا کہ میں جب سے قادیان آیا ہوں.آپ لوگوں کے لئے خصوصیت سے دعائیں کر رہا ہوں اور پھر 'Friday the 10th' جو قادیان میں آیا اس میں میں نے ایسی خصوصیت سے دعا کی کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اب یہ واپس نہیں آئے گی.“ پھر خدا تعالیٰ کی حمد سے بھر کر فرمایا.آج کتنے دن ہوئے ہیں؟“ ناصر صاحب نے کہا حضور! چار دن فرمایا’دیکھ لیں پھر اللہ اکبر ۱۵/جنوری ۱۹۹۲ء بروز بدھ.دہلی نماز فجر کے بعد حضور اپنی قیامگاہ میں تشریف لے گئے اور صبح ۱۰:۰۰ بجے دفتر میں تشریف لا کر اور آج کے پروگراموں کا جائزہ لیا.پروگرام کے مطابق حضور مشن ہاؤس کے صحن میں تشریف لائے جہاں حیدرآباد ( آندھراپردیش ) کے احمدی احباب موجود تھے جن کی تعداد چالیس سے اوپر
167 تھی.یہ لوگ جلسہ سالانہ قادیان میں اس وجہ سے حاضر نہ ہو سکے تھے کہ ان کے عزیز محترم سیٹھ معین الدین صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ حیدر آبادان ایام میں وفات پاگئے تھے.اور اب یہ دوست اپنے آقا کے دیدار اور ان سے ملاقات کے لئے دہلی حاضر ہوئے تھے.حضور نے آدھ گھنٹہ سے زیادہ وقت ان سے ملاقات کی اور اکثر سے تفصیلی گفتگو فرمائی.اسی دوران ان میں سے بہت سارے دوستوں نے اپنے آقا کے ساتھ اس ملاقات کے نقوش کو مستقل یادوں میں ڈھالنے کے لئے تصاویر بھی اتروائیں.ان سے ملنے کے بعد آپ دفتر میں تشریف لائے اور تین فیملیز اور سات افرادکو انفرادی ملاقات کا شرف بخشا.بعد ازاں خاکسار اور مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے دفتری امور کی بابت اکٹھی ملاقات کی اور آپ سے ہدایات حاصل کیں.سکھر کے دونوں اسیران راہ مولیٰ مکرم پروفیسر ناصر احمد قریشی صاحب اور مکرم رفیع احمد قریشی صاحب جو سکھر کی سنٹرل جیل سے رہا ہو کر کراچی پہنچ چکے تھے اُن سے حضور نے فون پر نماز ظہر وعصر سے قبل براہ راست بات کی.حضور ان کی اسیری کے اختتام پر بیحد مسرور تھے.اسی خوشی کے ظاہری اظہار کے طور پر آپ نے دہلی مشن ہاؤس میں موجود سب دوستوں میں مٹھائی تقسیم کروائی.نماز ظہر و عصر ڈیڑھ بجے ادا کی گئیں.بعد دو پہر چار بجے حضور انڈیا کے سابق وزیر خارجہ اندر کمار گجرال صاحب کی دعوت پر ان کے گھر تشریف لے گئے جہاں ایک گھنٹہ کے لگ بھگ وقت گزارا.وہاں سے آپ جب واپس مسجد تشریف لائے تو شام کے دھند کے تاریکی میں بدل رہے تھے.اسی دوران دہلی مشن ہاؤس میں مہمانوں کی خدمت کرنے والے مختلف شعبوں ، حفاظت پر مامورخد ام اور بھارت کے مبلغین کرام جو اس وقت وہاں موجود تھے سب نے اپنے اپنے گروپ میں اپنے آقا کے ساتھ تصویریں اتروا ئیں.حضور انور نے اسکے بعد نماز مغرب و عشاء پڑھا ئیں.ان کے بعد تین وفات یافتگان یعنی اہلیہ صاحبہ محترم چوہدری آفتاب احمد صاحب لندن، محترمہ مبارکہ بیگم صاحبه خوشدامن مکرم عبدالعظیم صاحب مرحوم درویش قادیان اور مکرم سید عبد الریحان صاحب تبرہ پورہ بہار ( بہنوئی مکرم محمد عبد الباقی صاحب بہار کی نماز جنازہ غائب پڑھائی.بعد ازاں حضور مسجد ہی میں رونق افروز رہے اور مختلف
168 احباب سے تعارف حاصل کرتے رہے اور مختلف امور زیر بحث لاتے رہے.یہ مجلس تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی.یہاں سے فارغ ہو کر آپ دفتر میں تشریف لائے اور مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو بعض ہدایات دیں.ان کے بعد خاکسار اور مکرم آفتاب احمد خان صاحب نے لندن واپسی کے پروگرام سے متعلق ہدایات حاصل کیں.اس کے بعد حضور اپنی قیام گاہ میں تشریف لے گئے.روانگی برائے لندن آج کی شب لندن کے لئے روانگی کا پروگرام تھا.سب ارکان قافلہ تیاری میں مصروف تھے.تیاری مکمل ہونے پر سارے قافلہ کا سامان ابجے شب مشن ہاؤس سے ائیر پورٹ پہنچا دیا گیا تھا جسے Check In کروایا گیا اور دیگر معمول کی کارروائی بسلسلہ امیگریشن وغیرہ مکمل کر لی گئی تھی.ادھر ۵ار جنوری سے تاریخ جست لگا کر ۱۶ میں بدل چکی تھی.حضور تقریب ڈیڑھ بجے شب اندرا گاندھی ائیر پورٹ دہلی کے ٹرمینل نمبر ۲ پر تشریف لائے اور سید ھے V.I.P لاؤنج میں تشریف لے گئے.وہاں اپنی بیٹیوں اور مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اُن کی بیگم صاحبہ اور بیٹی کے ہمراہ تقریباً پینتالیس منٹ تک تشریف فرمار ہے.دہلی ائیر پورٹ پر پیارے آقا کو الوداع کہنے کے لئے مکرم صاحبزادہ مرز او سیم احمد صاحب کے علاوہ مکرم آفتاب احمد خان صاحب نیشنل امیر یوکے، مکرم چوہدری منظور احمد صاحب وکیل اعلیٰ قادیان، مکرم خورشید احمد انور صاحب ناظم وقف جدید، مکرم منیر احمد صاحب حافظ آبادی ناظر امورِ عامہ، مکرم مولوی محمد انعام غوری صاحب صدر مجلس انصار اللہ بھارت، مکرم منیر احمد خادم صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ بھارت اور محترمہ امتہ القدوس بیگم صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ بھارت بھی اپنی اپنی مجالس، اہالیانِ قادیان و ہندوستان کی نمائندگی میں آئے تھے.حضور VIP لاؤنج سے رات کے سوا دو بجے اٹھے اور بورڈنگ وغیرہ کی رسمی کاروائی کے بعد برٹش ائیرویز کی فلائٹ BA036 میں فرسٹ کلاس میں سیٹ نمبر 021 پر تشریف فرما ہوئے.اس پرواز کا وقت صبح ۲ بجکر ۳۰ منٹ تھا لیکن کسی وجہ سے ایک گھنٹہ تاخیر سے یعنی مقامی وقت کے مطابق جگر ۳۰ منٹ پر روانہ ہوئی.تقریبا 9 گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد مقامی وقت کے مطابق صبح ے بجگر
169 ۵۰ منٹ پر برطانیہ کے گیٹ وک(Gatwick) ائیر پورٹ پر یہ جہاز اترا.اس سفر میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے ہمراہ آپ کی بیٹیاں ، صاحبزادی عطیہ المجیب طوبی صاحبہ، صاحبزادی یاسمین رحمن مونا صاحبہ اور صاحبزادی فائزہ بیگم صاحبہ مع اپنے بیٹے عزیزم مرزا عدنان احمد تھیں.ان کے علاوہ حسب ذیل افراد نے اس غیر معمولی تاریخی اور افضال و برکات الہیہ سے معمور ۳۲ روزہ دورہ سے واپسی پر حضور کے ساتھ سفر کرنے کی سعادت پائی: مکرم بشیر احمد خان رفیق صاحب ایڈیشنل وکیل التصنيف لندن مکرم نصیر احمد قمر صاحب پرائیویٹ سیکرٹری، خاکسار ہادی علی ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن مکرم میجر محمود احمد صاحب چیف سیکیورٹی آفیسر مکرم ملک اشفاق احمد صاحب عملہ سیکیورٹی ، مکرم خالد نبیل ارشد صاحب لندن مکرم مرزا عبد الباسط صاحب لندن، مکرم و جاہت احمد خان لندن اور جسوال برادران ( سعید احمد صاحب، وسیم احمد صاحب اور محمد احمد صاحب) لندن.حضرت خلیفہ مسیح الرابع کا یہ قافلہ گیٹ وک Gatwick ائیر پورٹ سے ۸ بجکر ۴۸ منٹ پر روانہ ہو کر ساڑھے نو بجے لندن مشن ہاؤس میں پہنچ گیا.الحمد للہ ثم الحمد للہ.ائیر پورٹ پر استقبال کے لئے حسب ذیل افراد تشریف لائے ہوئے تھے.مکرم عبدالباقی ارشد صاحب ، مکرم مبارک احمد ساقی صاحب ، مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب، مکرم شریف احمد صاحب اشرف ایڈیشنل وکیل المال ، مکرم منیر الدین صاحب شمس، مکرم ڈاکٹر ولی احمد شاہ صاحب امیرلندن مکرم نذیر احمد ڈار صاحب، مکرم محمد عثمان چینی صاحب - مکرم عبد الماجد طاہر صاحب، مکرم منیر احمد جاوید صاحب مکرم پیر محمد عالم صاحب، مکرم رفیق احمد حیات صاحب صدر خدام الاحمدیہ برطانیہ اور بہت سے خدام اور دیگر کارکنان بھی استقبال کے لئے موجود تھے.اگلے روز یعنی ۱۷ار جنوری ۱۹۹۲ء کو جمعہ کا روز تھا.خطبہ جمعہ میں حضور نے سفر قادیان کے بارہ میں تفصیلاً بیان فرمایا.اسی طرح مؤرخہ ۲۴ / جنوری ۱۹۹۲ء کے خطبہ جمعہ میں بھی قادیان کے بارہ میں مختلف امور بیان فرمائے.ان دونوں خطبات کا متن شامل اشاعت کیا جارہا ہے.
170 خطبہ جمعہ (فرموده ۱۷ جنوری ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد اور تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.الحمد للہ کہ قادیان کے تاریخی اور تاریخ ساز سوسالہ جلسہ میں شمولیت کے بعد ہمارا وفد خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بخیر و خوبی اس عارضی دار ہجرت میں واپس پہنچ چکا ہے.یہ جلسہ بہت ہی مبارک تھا، بہت سی برکتیں لے کر آیا اور بہت سی برکتیں حاصل کرنے والا تھا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ اس جلسہ کی برکات اور اس کے بعد اتر نے والے اللہ کے فضل ہماری اگلی صدی کے گھروں کو بھر دیں گے اور اس کے بہت دور رس نتائج ظاہر ہوں گے.اس سلسلہ میں میں مختلف پہلوؤں سے جماعت کو آگاہ کر چکا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی اس نئی صورتحال میں کیا کیا ذمہ داریاں ہیں.مختصراً لبعض امور سے متعلق آج بھی میں اس مسئلہ پر گفتگو کروں گا لیکن اس سے پہلے میں ان تمام احباب جماعت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس.جلسہ کو کا میاب بنانے میں بھر پور محنت اور اخلاص اور لگن اور وفا کے ساتھ حصہ لیا اور غیر معمولی قربانی کا مظاہرہ کیا.کچھ کام کرنے والے تو ایسے تھے جو لمبے عرصہ سے قادیان کے اس جلسہ کو کامیاب بنانے کے لئے منصوبے بھی بنارہے تھے ، ان پر عمل درآمد کرنے میں بھی حصہ لے رہے تھے اور کافی لمبے عرصے تک کی یہ خاموش خدمت اس جلسہ کی کامیابی پر منتج ہوئی ہے اور خدمت کرنے والے بعد میں شامل ہوئے.قافلہ در قافلہ خدمت کرنے والوں کا ہجوم بڑھتا رہا لیکن آغاز میں کچھ ایسے افراد کو خدمت کا موقع ملا ہے جو ایک لمبے عرصہ سے مسلسل بڑی محنت اور توجہ اور حکمت کے ساتھ اپنے اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے.ان میں سب سے پہلے تو United Kingdom کے امیر آفتاب احمد خان صاحب کا نام قابل ذکر ہے.ان کو بھی احباب اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.بیرونی دنیا سے جس حد تک ہندوستان پر اثرات مترتب ہو سکتے تھے ان کو منظم کرنے میں اور ان کو بروئے کار لانے میں آفتاب احمد خان
171 صاحب نے بہت ہی غیر معمولی خدمت کی ہے.اس کے علاوہ مجھے یہاں مرکزی مددگار کی ضرورت تھی جو صاحب تجر بہ بھی ہو اور دیگر کاموں سے الگ رہ کر مسلسل ہندوستان اور قادیان سے متعلق مسائل میں میری مدد کر سکے اور مجھ سے ہدایات لے اور اُن پر عمل درآمد کروائے.اس سلسلہ میں بھی آفتاب احمد خان صاحب کو غیر معمولی مؤثر قابل تعریف خدمت کا موقع ملا اور میرا بہت سا بوجھ بٹ گیا اور مسائل آسان ہوئے.عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب کسی کو بات سمجھائی جائے تو تجربہ کار آدمی بھی اس میں کہیں نہ کہیں سمجھنے میں غلطی کر جاتے ہیں اور بار بار پوچھنے اور نگرانی کے باوجو دستم رہ جاتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے United Kingdom کے امیر صاحب کو یہ ملکہ عطا فرمایا ہے کہ وہ ایک ہی دفعہ بات سمجھ کر اس کے تمام پہلوؤں کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیتے ہیں اور پھر ان کو عملدرآمد کے سلسلہ میں یاددہانی کی ضرورت پیش نہیں آتی.اگران کاموں میں مجھے بار بارالجھنا پڑتا تو کام اتنا زیادہ تھا کہ میرے لئے مشکل پیش آسکتی تھی مگر خدا نے بہت فضل فرمایا اور ایک اچھا مددگار اور نصیر مجھے عطا کر دیا.پاکستان سے چوہدری حمید اللہ صاحب اور میاں غلام احمد صاحب نے بڑے لمبے عرصہ تک بہت محنت کی ہے اور قادیان جا کر وہاں کے مسائل کو سمجھا اور میری ہدایات کے مطابق ہر قسم کی تیاری میں بہت ہی عمدہ خدمات سرانجام دی ہیں ورنہ قادیان کی احمدی آبادی اتنی چھوٹی ہے کہ ان کے بس میں نہیں تھا کہ اتنے بڑے انتظام کو سنبھال سکتے.تمام مردوزن عورتیں بچے ملا کر اس وقت کل ۰۰۸۱ کی تعداد میں قادیان میں درویش اور بعد میں آنے والے بس رہے ہیں اور اتنا بڑا جلسہ جس میں تقریباً ۴۲ ہزار مہمان شرکت کر رہے تھے اسے سنبھالنا ان کے بس کی بات نہیں تھی.خصوصاً اس لئے بھی قادیان کی وہ آبادی جو مرکزی حصہ میں آباد ہے اس کے پاس مکان بھی بہت تھوڑے ہیں اور باہر سے آنے والے مہمانوں کے لئے مختلف ممالک سے آنے والے مہمانوں کے لئے رہائش کی سہولتیں مہیا کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی.اس ضمن میں انگلستان ہی کے ایک اور مخلص خادم چوہدری عبدالرشید صاحب آرکیٹیکٹ اور ان کے ساتھیوں کا ذکر بھی ضروری ہے.ان کو بھی دعا میں یا درکھنا چاہئے کیونکہ تعمیری کاموں میں انہوں نے بہت ہی محنت سے اور شوق اور ولولے سے حصہ لیا ہے.بہت قیمتی وقت خرچ کر کے میری ہدایت پر قادیان بھی بار بار جاتے رہے اور تعمیری منصوبہ بندی میں
172 ان کو اور ان کے ساتھ ایسوسی ایشن کے ساتھیوں کو خدا کے فضل سے خاص خدمت کی توفیق ملی ہے کام ابھی جاری ہیں اور قادیان میں جو تعمیری منصوبے ہیں یہ انشاء اللہ آئندہ کئی سالوں تک پھیلے رہیں گے اور کام بڑھتا رہے گا اور میں امید رکھتا ہوں کہ جس اخلاص کے ساتھ پہلے تمام دنیا کے احمدیوں نے جن کو انجینئر نگ سے تعلق ہے خدمت میں حصہ لیا ہے آئندہ بھی انشاء اللہ اللہ تعالیٰ ان کو تو فیق عطا فرما تا رہے گا.قادیان کے ناظر صاحب اعلیٰ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اور ان کے ساتھی ناظران اور نائب ناظران نے بھی بہت لمبا عرصہ ان انتظامات کو مکمل کرنے میں بہت محنت سے کام کیا ہے اور قادیان کے درویشوں کا علاقے میں جو نیک اثر ہے اس کے نتیجہ میں علاقے سے تعاون بھی بہت ملا ہے اور وہ سب تعاون کرنے والے بھی ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں.ہندوستان کی حکومت نے بھی ہر طرح سے تعاون کیا اور پنجاب کی حکومت نے بھی بہت ہی غیر معمولی تعاون کیا ہے.یہاں تک کہ تمام عرصہ جب تک کہ میرا وہاں قیام رہا ہے خواہ مختصر عرصے کے لئے تھوڑی دیر کے لئے کہیں جانا ہوتا تھا تب بھی وہاں پولیس کے تھانے کے انچارج اور ان کے ساتھی بہت ہی مستعدی کے ساتھ آگے پیچھے ہر طرح نگرانی کرتے تھے اور باہر نکلنے کی صورت میں جب قادیان سے باہر چند گھنٹے کے لئے جانا پڑا تو اس وقت بھی کوئی چالیس پچاس افراد پر مشتمل پولیس کی نفری تھی.جس میں جگہ جگہ کے ڈی ایس پی بھی شامل ہوتے رہے اور انسپکٹر پولیس وغیرہ بہت ہی مستعدی کے ساتھ انہوں نے اس طرح خدمت کا حق ادا کیا ہے جیسے کوئی احمدی خود لگن کے ساتھ شوق سے حصہ لے رہا ہوتو یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر صاف کارفرما دکھائی دیتی تھی.قادیان کے بوڑھوں مردوں عورتوں بچوں نے تو اپنی طاقت کی آخری حدوں کو چھولیا.جس حد تک ان کے لئے ممکن تھا انہوں نے خدمت کی لیکن باہر سے جانے والوں نے بھی ماشاء اللہ ان کے کام کو آسان کرنے میں بھر پور حصہ لیا ہے.انگلستان کی جماعت کو بھی خدا نے توفیق بخشی.بہت ہی مستعد کا رکن یہاں سے گئے ہیں اور مسلسل ان تھک رنگ میں انہوں نے خدمت کی ہے.اسی طرح پاکستان سے کثرت کے ساتھ شامل ہونے والوں میں سے ایک بڑی تعداد کو بہت عمدہ اور قابل قدر خدمت کی توفیق ملی.اسی طرح ہندوستان کی جماعتوں میں سے دور دور سے آئے ہوئے
173 مہمان بھی تھے اور میزبان بھی بن گئے تھے اور ہر موقع پر جب بھی ان کی خدمت کی ضرورت پیش آئی ہے انہوں نے بڑے شوق اور ولولے کے ساتھ اس میں حصہ لیا.اس سلسلہ میں اڑیسہ کی جماعت کرناٹک کی جماعت اور کیرلہ کی جماعت کشمیر کی جماعت، آندھراپردیش کی جماعت، پنجاب کی اور دہلی کی جماعتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں ان سب جماعتوں میں بہت ہی ولولہ اور جوش پایا جاتا ہے.دہلی کے قیام کے دوران کیونکہ مقامی سیکیورٹی کی ضروریات کے لئے دہلی کی مقامی جماعت میں کافی افراد نہیں تھے اس لئے وہاں آندھراپردیش کے نو جوانوں نے بہت ہی خدمت کی ہے.دہلی والوں نے بھی بھر پور حصہ لیا اور اسی طرح کشمیر اور دوسری جگہوں سے آنے والے افراد کو بھی خدا نے توفیق بخشی.غرضیکہ اس جلسہ میں کام کرنے والے اور خادم اور مخدوم دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مل جل گئے تھے کہ میرے اور تیرے کی تمیز ممکن نہیں رہی.ہر شخص میزبان بھی تھا اور مہمان بھی تھا اور یہ ایک ایسا بھر پور جذبہ تھا جو میں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمد یہ ہی کا اعجاز ہے اور ساری دنیا میں آپ تلاش کر کے دیکھ لیں ، چراغ لے کے ڈھونڈیں آپ کو ایسی جماعت دنیا کے پردے میں کہیں نظر نہیں آئے گی جو خدا کے فضل کے ساتھ اس طرح گہرے باہمی محبت کے رشتوں میں منسلک ہو کہ خادم اور مخدوم کی تمیز اٹھ جائے.ہر شخص خادم بھی ہو اور ہر شخص مخدوم بھی ہو.اس پہلو سے جب میری نظر حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی وآلہ وسلم کے اس ارشاد پر پڑتی ہے کہ سید القوم خادمهم ( الجهاد ابن المبارک کتاب الجہاد حدیث نمبر : ۲۰۹) تو اس کی ایک نئی تفسیر سامنے ابھرتی ہے.آپ نے فرمایا کہ قوم کا سردار وہی ہوتا ہے جو قوم کا خادم ہو.سردار کے لئے خادم ہونا ضروری ہے اور قوم کے لئے ضروری ہے کہ خادم ہی کو اپنا سردار بنایا کرے.یہ دونوں پیغام ہیں لیکن جماعت احمدیہ پر جس شان کے ساتھ اس مضمون کا اطلاق ہوتا ہے اس سے میرے ذہن میں یہ بات ابھری کہ اس دنیا کے آپ ہی خادم ہیں اور آپ ہی مخدوم ہیں کیونکہ یہ دونوں صلاحیتیں یکجا طور پر جماعت احمدیہ کے سوا دنیا کی کسی اور جماعت میں اکٹھی نہیں مل سکتیں.آپ نظر دوڑا کر دیکھیں مسلمان ہوں یا غیر مسلم ہوں.ترقی یافتہ مغربی اقوام ہوں یا پیچھے رہ جانے والی مشرقی اقوام کسی مذہب سے تعلق رکھنے والی ہوں، کسی جغرافیائی حدود سے تعلق رکھنے والی ہوں ، یہ اعلیٰ شان کا امتزاج کہ خادم مخدوم ہو جائے اور مخدوم خادم بن جائے ، یہ جماعت احمدیہ کے سوا دنیا
174 میں کہیں دکھائی نہیں دے گا.پس ان معنوں میں آپ نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ آپ ہی حضرت اقدس محمد مصطفی علی کی اس عظیم الشان عارفانہ تعریف کے مستحق اور اس تعریف کے نتیجہ میں آئندہ دنیا کے سردار بننے والے ہیں کیونکہ آپ کے اندر یہ دونوں صلاحیتیں اکٹھی کر دی گئی ہیں.جہاں تک آئندہ زمانے کے حالات کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ جلسہ ایک تاریخ ساز جلسہ تھا.محض تاریخی جلسہ ہی نہیں تھا.کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعود کی بہت کی پیشگوئیاں اس کے ساتھ وابستہ ہیں اور ان پیشگوئیوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جلسہ کے بعد خدا تعالیٰ اپنے فضلوں کی ہوا چلائے گا اور ہر طرف غیر معمولی ترقی کے سامان پیدا ہوں گے.اس ضمن میں ایک خوشخبری تو ہندوستان چھوڑنے سے پہلے ہی وہاں مل گئی.خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سکھر کے دو اسیران راہِ مولیٰ لمبی مشقتوں اور دُکھوں کے بعد آزاد کئے گئے.آج صبح ہی کراچی میری بات ہوئی تو وہاں سے مجھے بتایا گیا کہ اللہ کے فضل سے یہاں تو جماعت میں ایک جشن کا سا سماں تھا اور بہت ہی عزت اور محبت سے جماعت نے ان سے سلوک کیا اور غیر معمولی خوشیوں کے سامان تھے تو یہ بھی اسی مقدس جلسہ کی برکتوں میں سے ایک برکت ہے.اور اس یقین دہانی کے لئے کہ خدا کی طرف سے خاص تقدیر کے طور پر یہ نشان ظاہر ہوا ہے.جب میں آج دفتر میں ڈاک دیکھنے گیا تو گوٹھ علم دین سندھ سے آئے ہوئے ایک خط میں ایک خواب درج تھی.یہ گوٹھ علم دین کنری ضلع تھر پارکر کے قریب ایک گاؤں ہے جہاں ابتداء میں کچھ احمدی ہوئے تھے اور ان کے اخلاص کی وجہ سے اور غیر معمولی خواہش کے نتیجہ میں کہ میں خود وہاں جاؤں.بہت پہلے کی بات ہے میں کنری سے وہاں گیا اور وہاں لمبی مجلس لگی اور اللہ کے فضل سے تقریباً سارے گاؤں کو ہی احمدیت میں شامل ہونے کی توفیق ملی.تو اس پہلو سے اس گاؤں کے ساتھ میرا خاص تعلق رہا ہے اور میں پوچھتا رہتا ہوں.تو جانے سے پہلے میں نے کسی احمدی دوست کو ایک خط لکھا تھا اور پرانی باتیں یاد کرا کے اور بعض پرانے نام لے کر اپنا محبت بھرا پیغام بھیجا تھا اس کے جواب میں ان کا خط آیا ہوا تھا اور خاص بات انہوں نے دیکھی کہ میں نے رویا میں دیکھا ہے کہ ہمارے سکھر کے اسیر آزاد ہو گئے ہیں اور اللہ کے فضل سے بہت خوشی کا سماں ہے اور میرے پاس بھی وہ تشریف لاتے ہیں تو ایک مہینے کے
175 خطوں میں ایک ہی رؤیا ہے جس کا تعلق سکھر کے اسیروں کے ساتھ تھا اور ساتھ ہی ان کی دعا بھی ہے کہ خدا کرے میری یہ رویا پوری ہو جائے.چنانچہ پیشتر اس سے کہ میں وہ خط پڑھتا اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ رو یا پوری ہو چکی تھی.یہ اللہ تعالیٰ کے پیار کے اظہار کے انداز ہیں اور یہ یقین دلانے کے لئے ہیں کہ یہ اتفاقی حادثات نہیں ہیں.جو کچھ ہو رہا ہے تقدیر الہی کے مطابق ہو رہا ہے.ورنہ ایک سے زیادہ خط الجھے ہوئے خیالات کے آتے ہی رہتے ہیں جس میں مہم سے رنگ میں بعض خوشخبریاں بھی ہوتی ہیں لیکن سکھر کے اسیران سے تعلق رکھنے والی ایسی واضح خوشخبری اور اس کی Timing کہ کس طرح وہ خط لکھا گیا اور کس وقت پہنچا کہ جب وہ خبر بھی پہنچ رہی تھی ، یہ ساری باتیں اہل ایمان کے ایمان کو بڑھانے کا موجب بنتی ہیں.پس یہ بھی قادیان کے جلسہ کی برکت اور اس کے بعد آنے والے پُر فضا دور کی خوشخبری ہے اور اس کے آغاز کی وہ لہریں ہیں جو بعض دفعہ اچھے موسم آنے سے پہلے ہوا میں پیدا ہوتی ہیں اور انسان کی روح کو تراوت بخشتی ہیں.پس میں سمجھتا ہوں کہ انشاء اللہ آئندہ اور بھی بہت سی خوشخبریاں خدا تعالیٰ کی طرف سے نصیب ہونگی.قادیان کے مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ وہاں کی تھوڑی آبادی ہے.بعض دوستوں کو قادیان کے اس سفر کے نتیجہ میں بہت امیدیں بندھ گئیں کہ اب قادیان کی واپسی قریب ہے لیکن میں جماعت کو سمجھانا چاہتا ہوں اور گزشتہ خطبہ میں بھی میں نے مختصراً اس پر گفتگو کی تھی کہ واپسی کوئی ایک دم آنا فانا رونما ہونے والا واقعہ نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ایک دفعہ لے کر جائے گا، پھر بار با رلائے گا اور امن کے ماحول میں ایسا ہوتا رہے گا.اس لئے میں نہیں کہہ سکتا کہ خدا کی کیا تقدیر کب ظاہر ہوگی اور اس کا منشاء کیا ہے.یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک مرکز سلسلہ با ہر ہی رہے، دارالہجرت میں ہی ہو خواہ وہ دارالہجرت پاکستان کا ہو یا کسی اور جگہ کا اور قادیان کے حالات ایسے ہوں کہ بار بار خلفائے سلسلہ کو وہاں جانے کی توفیق ملتی رہے اور باہر بیٹھ کر قریب کی نگرانی کا بھی موقع ملتا رہے.اس لئے خوابوں میں بسنا ان معنوں میں تو درست ہے کہ خدا تعالیٰ جور و یا دکھائے ، جو خوشخبریاں دکھائے ان امیدوں میں انسان بسا ر ہے، یہی ایمان کی شان ہے لیکن ان معنوں میں خوابوں میں بسنا درست نہیں کہ اپنی مرضی سے اپنے من کی باتوں کو تقدیر بنا بیٹھے اور پھر یہ سمجھے کہ جو میری
176 خواہشات اور تمنائیں ہیں جیسے میں ان کو سمجھتا ہوں اسی طرح خدا کی تقدیر ظاہر ہوگی.یہ طریق درست نہیں ہے یہ ایک بچگانہ طریق ہے.اس لئے سب سے پہلے تو جماعت کو اپنی امیدوں اور امنگوں کی صحت کا خیال رکھنا چاہئے اور ان کو رستے سے بدکنے اور بھٹکنے نہیں دینا چاہئے.راستے وہی معتین ہیں جو خدا تعالیٰ کی تقدیر میں مقدر ہیں اور جن کی خوشخبریاں اللہ تعالیٰ پہلے اپنے برگزیدہ بندوں کو عطا فرما چکا ہے.ان کی روشنی میں مختلف تعبیریں ہوتی رہتی ہیں.مختلف تعبیریں ہو سکتی ہیں اور اس ضمن میں بھی بہت سے خوش فہم لوگ اپنے دل کی تعبیروں کو زبردستی ان الہامات اور پیشگوئیوں کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اور بعض اوقات تو پھر لوگوں سے شرطیں بھی باندھ بیٹھتے ہیں کہ جو تعبیر ہم نے کبھی ہے ویسا ضرور ہوگا.یہ درست طریق نہیں ہے.اس سے پہلے بھی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کے زمانے میں ایک ایسا واقعہ آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم نے منع فرمایا کہ جو خدا کی تقدیر ہے وہ تو ظاہر ہو گی.خوشخبریاں تو بہر حال پوری ہونی ہیں لیکن اپنی مرضی سے ایک تعبیر کر کے اس پر تم شرطیں باندھ بیٹھو کہ یہ ضرور ہوگا یہ درست نہیں ہے لیکن جو ہونا ہے اس کی تیاری تو ہم پر فرض ہے میں اس ضمن میں جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.ایک شخص نے حضرت اقدس محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم سے قیامت کے بارہ میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ مراد یہ تھی کہ اگر تمھیں دوسری دنیا میں جانے کا شوق ہے تو یہ شوق ایک بیرونی شوق بھی ہو سکتا ہے، ذاتی دلچپسی نہیں بلکہ تعجب کے رنگ میں استعجاب کے رنگ میں انسان دلچسپی لے سکتا ہے اور یہ دلچسپی بے معنی اور بے حقیقت ہے.اگر دوسری زندگی کو حقیقت جانتے ہو اور شوق اس لئے ہے کہ تمہیں پتہ لگے کہ تمہاری بہبود کس چیز میں ہے اور مرنے کے بعد کیا ہونے والا ہے تو پھر تمہیں اس کی تیاری کرنی چاہئے اور یہی مضمون ہے جو آج کے حالات پر صادق آتا ہے.مستقبل کے متعلق بعض لوگ شوق سے، یا ذرا الکل پہنچ کے ذریعہ انسان پیش خبریاں کرتا ہے یا آئندہ زمانے کو دیکھنا چاہتا ہے، ویسے دلچسپی لیتے ہیں ایسی دلچسپی کی کوئی حقیقت نہیں ہے.نفس کا ایک بچگانہ کھیل ہے اس سے زیادہ اس کے کوئی بھی معنی نہیں لیکن مستقبل میں ایک دلچپسی ایسی ہے جو زندگی کے اعلیٰ مقاصد سے تعلق رکھتی ہے.ایک انسان اپنے تن من دھن کو
177 اسلام اور احمدیت کے اعلیٰ مستقبل کے لئے وقف کر دیتا ہے اور آئندہ مستقبل میں ہونے والے واقعات اس کی سوچوں کا ایک ایسا حصہ بن جاتے ہیں جواس کے دل کی فکریں ہوتی ہیں اس کے دماغ کے تفکرات ہیں کہ خدا جانے کیا ہو اور کیسا ہو اور میں اپنے فرائض سرانجام دے سکوں یا نہ دے سکوں.یہ وہ دلچسپی ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کا پوچھتے ہو تو بتاؤ کوئی تیاری بھی کی ہے.تو جماعت کو اگر قادیان کی واپسی میں اور جماعت کے عالمگیر انقلاب میں کوئی دلچسپی ہے تو اس کی تیاری کرنی ہوگی اور قادیان کے سلسلہ میں ابھی بہت کام باقی ہیں.جو کچھ خوشخبریاں سطح پر نظر آئی ہیں اور عام آنکھوں نے دیکھ لی ہیں ان کی مثال تو Iceberg کے اس تھوڑے سے حصے سے ہے جو طح سمندر پر دکھائی دیتا ہے.اس کا اصل حصہ تو پانی میں ڈوبا ہوتا ہے یعنی برف کا تو دہ جو سمندر میں تیرتا ہے اس کی تھوڑی سی Tip تھوڑی سی چوٹی ہے جو سمندر سے باہر نظر آتی ہے.ایک دفعہ پہلے بھی میں نے یہ مثال دی تھی جس پر ہندوستان کے سفر میں ایک احمدی دوست نے مجھے توجہ دلائی کہ میں غلطی سے ایک اور تین کی نسبت بہتا بیٹھا.میں ان کا ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے توجہ دلائی کہ ایک اور تین کی نسبت نہیں ہے بلکہ برف کی کثافت پانی کے مقابل پر جتنی کم ہے اسی نسبت سے اس کا ایک حصہ پانی سے اوپر نکلتا ہے اور غالباً یہ دس میں سے ایک حصہ باہر ہوتا ہے اور نو حصے اندر کیونکہ برف کی کثافت پوائنٹ نائن (۹) ہے یعنی پانی کی کثافت اگر ایک ہے تو برف پوائنٹ نائن ۹ ہے یعنی حجم اس کا زیادہ اور وزن کم تو جس نسبت سے وزن کم ہو گا اسی نسبت سے اس کا ایک حصہ باہر نکلا ہوگا تو بعض دفعہ باہر نکلے ہوئے حصے بھی بہت بڑے بڑے دکھائی دیتے ہیں.سمندر میں سفر کرنے والے جانتے ہیں یعنی جن کا کام شمال اور جنوب میں جانا ہے اور وہ ان باتوں کے متعلق اپنی زندگی کے واقعات میں بڑے دلچسپ انداز میں تذکرے بھی کرتے رہتے ہیں کہ بعض دفعہ پانی میں سے برف کا اتنا بلند پہاڑ اونچا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ آدمی حیرت اور استعجاب میں ڈوب جاتا ہے لیکن انسان اگر یہ سوچے کہ اس سے ۹ حصے زیادہ پانی کے اندر ڈوبا ہوا وہ پہاڑ ہے تو اور بھی زیادہ ہیت بڑھتی ہے.تو یہ خوشخبریاں بھی جب پوری ہوتی ہیں تو ان کا ایک حصہ باہر دکھائی دے رہا ہوتا ہے
178 اور جوڈوبے ہوئے حصے ہیں وہ مسائل سے تعلق رکھتے ہیں جو مسائل حل ہو جائیں وہ سطح سمندر سے باہر دکھائی دے رہے ہوتے ہیں اور جوا بھی ڈوبے ہوئے ہیں وہ ان سے بہت زیادہ ہوتے ہیں پس ہمیں ان ڈوبے ہوئے مسائل کی طرف توجہ کرنی ہوگی.قادیان کی عظمت اور عزت اور جلال اور جمال کو بحال کرنے کے لئے ساری دنیا کی جماعتوں کو بہت محنت کرنی ہے اور ہندوستان کی جماعتوں کے کھوئے ہوئے وقار اور مقام کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے ساری دنیا کی جماعتوں کو بہت محنت کرنی ہوگی.اس سلسلہ میں جہاں تک آبادی کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں قادیان کو Industrialize کرنے میں ضرور محنت کرنی ہوگی.جب تک وہاں تجارتی اور صنعتی مراکز قائم نہ کئے جائیں اس وقت تک صحیح معنوں میں باہر سے احمدی آکر وہاں آباد نہیں ہو سکتے اور مقامی احمدیوں کا انخلاء رُک نہیں سکتا.درویشوں نے اور بعد میں آکر بسنے والوں نے اتنی بڑی قربانی دی ہے کہ وہاں پہنچ کر اندازہ ہوتا ہے، دور بیٹھے اس کی باتیں سن کر آپ کو تصور نہیں ہوسکتا کہ کتنے محدود علاقے میں رہ کر انہوں نے ساری زندگیاں ایک قسم کی قید میں کاٹی ہیں اور اپنے دنیاوی مفادات کو ایک طرف پھینک دیا، قربان کر دیا اور مقامات مقدسہ کی حفاظت اور ان کی نگہبانی کے لئے اپنی ، اپنے بچوں، اپنی بیگمات کی زندگیاں قربان کیں.بہت ہی بڑی عظیم الشان قربانی ہے، اس کا بھی حق ہے اس لئے ساری دنیا کی جماعتوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے بھر پور کوشش کریں.چنانچہ یہاں سفر سے پہلے میں نے جو تحریک کی اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ساری دنیا کی جماعتوں نے بہت ہی اعلیٰ نمونہ دکھایا اور خدا تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی کہ صرف قادیان ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی دیگر جماعتوں کی بھی اس خاص موقع پر خدمت کی توفیق ملی اور یہ جلسہ ان کے لئے روحانی برکتیں بھی لے کر آیا اور جسمانی برکتیں بھی لیکر آیا اور بہت ہی غیر معمولی طور پر ان لوگوں نے اس کی لذت محسوس کی ہے تو یہ جسمانی طور پر جو خدمات ہیں اسمیں ساری دنیا کی جماعتوں نے حصہ لیا ہے ورنہ یہ ممکن نہیں تھا اور یہ اچھا ہوا کہ پہلے یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ آپ لوگ اپنے طور پر انفرادی طور پر وہاں جا کر کسی کو دینے کی بجائے جماعت کی معرفت کوشش کریں جو کچھ
179 پیش کرنا ہے جماعت کو دیں تا کہ ایک مربوط طریق پر منظم منصوبے کے ساتھ جو جوضرورتمند ہیں ان کو یہ چیزیں پہنچائی جائیں اور ان کی عزت نفس پر کوئی ٹھیس نہ آئے ، ورنہ انفرادی طور پر جب کوئی انسان کسی غریب کی خدمت کرتا ہے تو لینے والے کی آنکھ جھکتی ہے خواہ وہ چیز کتنی ہی محبت سے پیش کی جائے.پس خدا تعالیٰ نے بہت فضل فرمایا اور اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے تمام دنیا کے احمدیوں نے اپنے تحائف مرکز کی معرفت بھجوائے اور بہت بڑی رقوم اس سلسلہ میں اکٹھی ہوئیں جن کے نتیجہ میں جو بھی خدمت کی جاسکی ہے وہ ٹھوس ہے اور مختلف رنگ کے مختلف طبقات کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے عارضی اور بعض دفعہ مستقل ضرورتیں پوری کرنے کے سامان مہیا ہوئے.آئندہ کے لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کی امداد کی ضرورت کو ختم کرنا سب سے اہم خدمت ہے.جب ضرورت ہو امداد کرنا لازم ہے اور یہ جماعت کے عالمی فرائض میں داخل ہے لیکن قرآن کریم نے خدمت خلق کا جو اعلیٰ تصویر پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ ضرورت اٹھا دو اور کسی شخص کو محتاج نہ رہنے دو بجائے اس کے کہ وہ باہر مدد کے لئے دیکھتا ر ہے.وہ اس نظر سے باہر دیکھے کہ کون محتاج ہے جس کی وہ ضرورت پوری کرے.یہ اعلیٰ شان کی خدمت کی وہ تعلیم ہے جو قرآن کریم میں ملتی ہے اور جس پر حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم نے نہایت ہی حسین رنگ میں عمل کر کے دکھایا ہے.پس یہ دوسرا حصہ ہے جو میرے نزدیک بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور عالمگیر جماعت احمدیہ کو اب اس طرف توجہ کرنی چاہئے.اس ضمن میں ہندوستان کے جو تاجر ہیں اور ہندوستان کے Industrialist ہیں ان کے متعلق میں وہاں ہدایات دے آیا ہوں.وہ انشاء اللہ تعالیٰ قادیان کی اقتصادی بحالی کے لئے پوری کوشش کریں گے لیکن باہر کی دنیا سے بھی کثرت سے لوگ وہاں جاسکتے ہیں اور ہندوستانی قوانین کا لحاظ رکھتے ہوئے وہاں کئی قسم کی صنعتیں قائم کر سکتے ہیں.اس کی طرف آنے سے پہلے ایک رؤیا میں بھی اشارہ ہوا جس کی اور بہت مبارک تعبیروں میں سے ایک یہ بھی تعبیر ہے کہ باہر کی دنیا کے صنعتکاروں اور صاحب حیثیت احمدیوں کو قادیان میں خدمت کی توفیق ملے گی.جس دن میں نے قادیان سے روانہ ہونا تھا اس صبح کو رویا میں دیکھا کہ چوہدری شاہ نواز صاحب مرحوم مغفور بہت ہی اچھی صحت میں اور بہت خوبصورت دکھائی دینے والے قادیان آتے ہیں
180 اور ان کے ساتھ ان کے خاندان کے افراد یعنی مردوں کو میں نے دیکھا ہے اور دور دور کے رشتہ دار اور مداح ایک جمگھٹ بنا کر ارد گرد بیٹھے ہوئے ہیں بہت ہی محبت اور تعریف کی نظر سے ان کو دیکھ رہے ہیں.جو پگڑی انہوں نے پہنی ہوئی ہے وہ مجھے تو بہت خوبصورت لگ رہی ہے اور باقی ان کو یہ مشورے دے رہے ہیں کہ نہیں اس طرح نہیں آپ اس طرح باندھیں.کوئی کہتا ہے اس طرح نہیں اس طرح باندھیں.تو میں چوہدری صاحب کو کہتا ہوں کہ چوہدری صاحب آپ تو مجھے اس میں اتنے اچھے لگ رہے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں آپ کو کبھی ایسا لگتا نہیں دیکھا تھا اور چوہدری صاحب یہ کہتے ہیں اور بغیر آواز کے بھی مسلسل ان کے دل کی یہ آواز سنائی دے رہی ہے کہ باقی سب مشورے دینے والوں کو کہتے ہیں تم جو مرضی (مشورے) دو میں تو وہی مانوں گا جو مجھے یہ کہے گا اور کسی کی بات نہیں مانی.بار بار ان کے دل سے جس طرح خوشبو اٹھتی ہے اس طرح یہ آواز اٹھکر مجھ تک پہنچتی ہے اور میں بھی بڑے اطمینان اور محبت سے ان کو دیکھتا ہوں کہ اللہ نے خاص اخلاص ان کو بخشا ہے قطعاً کوئی پرواہ نہیں کر رہے کہ کتنے مداح ہیں کس طرح تعریفیں کر رہے ہیں اور کیسے کیسے مشورے دے رہے ہیں لیکن یہی کہتے جارہے ہیں کہ میں تو وہی مانوں گا جو یہ کہے گا.چنانچہ اس کی اور بہت سی مبارک تعبیریں ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ باہر کے احمدی Industrialists کو قادیان جا کر خدمت کی توفیق ملے گی اور دوسرے اس میں یہ پیغام ہے کہ برکت اسی میں ہوگی جو خلیفہ کی مرضی کے ماتحت کام ہو، اس کی خوشنودی کے مطابق ہو، اور اپنے طور پر یا اپنے حوالی حواشی وغیرہ کے ساتھ ان کے مشوروں پر چل کر خود کوشش کرو گے تو وہ خدا کے نزدیک مقبول کوشش نہیں ہوگی.پس یہ ایک تعبیر ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ اس مضمون سے تعلق رکھتی ہے جو میں بیان کر رہا ہوں اور تمام دنیا کے احمدی تاجروں اور صنعت کاروں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ اگر اس نیت سے کہ قادیان جو حضرت اقدس مسیح موعود اللہ کی پیدائش اور روحانی پیدائش کا مقام ہے اس کی خاطر وہ اپنی توفیق کے مطابق کچھ خدمت کا حصہ لیں تو قادیان کی بہت سی رونقیں بحال ہوسکتی ہیں جن کا مرکز سلسلہ کے آخری قیام سے گہرا تعلق ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ ایک لمبا عرصہ محنت کا کام ہے.مسائل بہت سے ہیں جوڈوبے پڑے ہیں آپ کو دکھائی نہیں دے رہے مگر بہت مسائل ہیں جن پر نظر پڑتی ہے تو خطرہ
181 محسوس ہوتا ہے.Iceberg کی جو مثال میں نے دی ہے یہ عمد دی ہے کیونکہ اسمیں جو حصہ باہر دکھائی دیتا ہے بڑا خوشنما لگتا ہے اور خوشخبری کا پیغام ہوتا ہے کہ زمین کی طرح کا ایک جزیرہ سمندر کے اندر مل گیا لیکن جو ڈوبا ہوا حصہ ہے اس سے لاعلمی کے نتیجہ میں ہمیشہ حادثات ہو جاتے ہیں اور دنیا کے بڑے بڑے عظیم الشان جہاز نچلے حصوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئے تو مراد یہ ہے کہ جو مسائل گہرے ہیں اور ڈوبے ہیں ان پر اگر نظر نہ رکھی جائے تو وہ خطرناک ہو سکتے ہیں اس لئے قادیان سے تعلق رکھنے والے ان مسائل پر نظر رکھنا ہمیں ضروری ہے جو اس وقت سطح سے نیچے ہیں ان میں ایک حصہ قادیان کے درویشوں کی اقتصادی بحالی کا حصہ ہے یہ بہت ہی اہمیت رکھتا ہے اور دوسرا حصہ قادیان کے باشندوں میں یہ احساس کروانا ہے کہ جماعت احمدیہ کے وقار کے ساتھ تمہارے دنیاوی فوائد بھی وابستہ ہیں اور یہ وہ احساس ہے جو پہلے ہی ابھر چکا ہے.مثلاً اس دفعہ جلسہ میں چونکہ غیر معمولی تعداد میں لوگ باہر سے تشریف لے گئے تھے اور بعض دفعہ ضرورت کے مطابق انہوں نے وہاں کی دکانوں سے چیزیں خریدیں.بعض دفعہ قادیان کی محبت اور شوق میں کوئی تحفہ گھر لیجانے کے لئے انہوں نے وہاں سے چیزیں خریدیں تو وہاں کے تاجروں کے ایک نمائندہ نے مجھے بتایا کہ ہمارے تخمینے کے مطابق ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کی شاپنگ ہوئی ہے جو قادیان جیسے قصبے کے لئے ایک بہت بڑی چیز تھی.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بار بار تاجروں کے وفود آئے اور بڑی منت سماجت کے ساتھ کہا کہ آپ لوگ واپس آجائیں ساری برکتیں جماعت ہی کی ہیں.جماعت ہی کا مرکز ہے.آپ کے بغیر کوئی بات نہیں بنتی.ان کی نظر روحانی رونقوں پر تو نہیں تھی ان کی تو اقتصادی فوائد پر نظر تھی.اس پہلو سے اگر وہاں اقتصادی خدمت کے کام ہوں تو اس علاقہ پر بہت عمدہ اثر مترتب ہوگا اور جو طلب پیدا ہو چکی ہے وہ اور زیادہ بڑھے گی.اس طلب میں صرف اقتصادی فوائد پیش نظر نہیں تھے بلکہ مقامی طور پر جو بھاری اکثریت ہے وہ سکھوں کی ہے اور سکھوں نے دل کی گہرائی سے یہ محسوس کیا ہے کہ یہ جماعت نیک جماعت ہے، نیک لوگوں کی جماعت ہے اور ان کے دل میں نیکی کی عزت اور قدر ہے اور بگڑے ہوئے حالات کی وجہ سے وہ امن چاہتے ہیں.چنانچہ سکھوں کے بہت بڑے بڑے وفود یعنی بڑی بڑی حیثیت کے وفود جن کے پیچھے قادیان کی بہت سی آبادی تھی انہوں نے مل کر اس بات کا اظہار کیا کہ ہم.
182 نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ قادیان کی اصل برکت جماعت احمدیہ سے ہے اور یہ صرف قادیان تک محدود نہیں ہے بلکہ اگر جماعت احمد یہ قادیان میں واپس آجائے تو سارے علاقے کی برکتیں لوٹ آئیں.یہ جو تاثر ہے یہ بغیر کسی لاڈ کے بغیر کسی بناوٹ کے بے اختیار دلوں سے اٹھ رہا تھا.یہانتک کہ ایک موقع پر جب میں صبح کی سیر کرتے ہوئے مختلف علاقوں میں چلا جاتا تھا تو واپسی پر ایک گوردوارے کے سربراہ مجھے ملے اور انہوں نے کہا.آپ گزر رہے ہیں شکر ہے خدا کا کہ ہمیں ملنے کا موقع مل گیا.انہوں نے کہا کہ ہم یہی باتیں کر رہے تھے کہ آپ آئے ہیں تو قادیان میں بڑے مرید بنائے ہیں.مراد یہ تھی کہ جماعت احمدیہ کے بہت مداح پیدا ہو گئے ہیں اور ایک وفد نے تو یہ کہا کہ ہم تو جماعت احمدیہ کے ساتھ ایسا تعلق رکھتے ہیں کہ ہمیں یہاں کے لوگ آدھا احمدی کہتے ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہم پورے احمدی ہیں.خدا تعالیٰ نے یہ جو تائید کی ہوائیں چلائی ہیں یہ کوئی بے مقصد ہوا میں نہیں ہیں اور کوئی عارضی خوشیوں والی ہوا میں نہیں ہیں.خدا تعالیٰ بتارہا ہے کہ میں دلوں کو اس طرف مائل کر رہا ہوں اور ان کو مستقل باندھنے کے لئے اب تمہیں محنت کرنی ہوگی اور کوشش کرنی ہوگی اور جن اعلیٰ مقاصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے دلوں کو بدلا ہے ان مقاصد کی پیروی سنجیدگی سے کرنی ہوگی.اس پہلو سے میں نے جیسا کہ بیان کیا ہمیں وہاں قادیان کو Industrialize کرنے کی بہت ضرورت ہے تا کہ بیرونی غریب جماعتیں کثرت سے وہاں جا کر آباد ہوں.بہت سے گجر مسلمان ہیں جو قادیان میں آتے بھی رہے بیعتیں بھی کرتے رہے.پھر اپنے کاموں سے ادھر ادھر بکھر جاتے رہے.ان کو اگر مستقل قادیان میں بیٹھنے کے سامان مہیا ہو جائیں تو ان کے اندر استقامت پیدا ہوگی.یہ نہیں کہ آئے تعلق باندھا اور پھر رفتہ رفتہ وہ تعلق بھول گیا بلکہ مستقل مستحکم تعلق پیدا ہوگا تو اس طرح قادیان کی احمدی آبادی بڑھنے سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی مرکزیت کے مرتبے اور مقام میں رفعت پیدا ہوگی اور ایک وزن پیدا ہو جائے گا.اس کے نتیجہ میں اور بھی زیادہ علاقہ ایسی نظروں سے جماعت کو دیکھے گا کہ جیسے ہر وقت منتظر ہیں کہ کب آؤ اور برکتیں واپس لے کر آؤ یہ جو احساس ہے یہ اتنا سنجیدہ احساس ہے اور اس تیزی سے وہاں ترقی کیا ہے کہ ایک سکھ لیڈر اپنے ساتھیوں کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے کافی بڑا وفد لیکر آئے تھے انہوں نے کہا کہ جب
183 آپ لوگ گئے تھے اور ہم یہاں آکر آباد ہوئے تھے تو لوگ ہمیں کہتے تھے کہ مرزا صاحب کی پیشگوئیاں ہیں کہ ہم واپس آئیں گے تو ہم آپس میں مذاق کیا کرتے تھے.باتیں تو ہم سن لیتے تھے لیکن باہر جا کر آپس میں مذاق کیا کرتے تھے کہ دیکھو جی! کیسی بچگانہ باتیں ہیں.ایک دفعہ گیا ہوا کب واپس آتا ہے اور کیسے آسکتا ہے.ہم تو اب یہاں آباد ہو گئے.کہتے ہیں لیکن اب جلسہ کے بعد ہم یہ باتیں کر رہے ہیں کہ مرزا صاحب کی ساری باتیں سچی تھیں اور ان لوگوں نے آنا ہی آنا ہے اور قادیان کو چھوڑنے والے نہیں اور بھولنے والے نہیں.انہوں نے لازماً آنا ہے اور وہ پیشگوئیاں ضرور پوری ہوں گی.تو دیکھیں خدا تعالیٰ نے آنا فانا کیسی فضا بدلی ہے اور یہ جو باقی رہنے والی برکتیں ہیں ان میں سے یہ برکتیں ہیں جن کو سنبھالنا اور ان کی مزید افزائش کرنا جماعت احمدیہ کے نیک اعمال سے تعلق رکھتا ہے.محض نیک خواہشات سے تعلق نہیں رکھتا.پس میں جو نصیحت کر رہا ہوں اس کو سنجیدگی سے قبول کریں.جس کو قادیان میں کسی قسم کی صنعت قائم کرنے یا قادیان سے تجارت کرنے کی توفیق ہو اس کو اس میں ضرور کوشش کرنی چاہئے.قادیان کے درویشوں کو میں نے یہ نصیحت کی ہے کہ کشمیر وغیرہ سے اور دوسرے اردگرد کے علاقوں سے جو چیزیں باہرایکسپورٹ ہوتی ہیں تم لوگ مل کر چھوٹی چھوٹی کمپنیاں بناؤ.ان میں حصہ لو.باہر کے احمدی اس معاملہ میں تمہارے ساتھ تعاون کریں گے.ہمیں لکھو کیا کچھ کر سکتے ہو.باہر سے ہم ایسے احمدیوں سے رابطہ کریں گے جو دوسری طرف سے ان کے مددگار ثابت ہوں.تو اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے تجارتیں چمکیں گی اور وہاں لوگوں کے لئے رزق کے اچھے انتظام پیدا ہوں گے بہت سے احمدیوں کو ایمپلائمنٹ (Employment) ملے گی اور یہ نہیں ہوگا کہ بچے پلے اور پھر رزق کی تلاش میں ساری دنیا میں باہر نکل گئے بلکہ اردگرد سے ، دور دور کی جماعتوں سے احمدی بچے بڑے شوق کے ساتھ روحانی کشش کے علاوہ اپنے روزگار کی تلاش میں بھی قادیان آنا شروع ہو جائیں گے اور اس طرح قادیان کی آبادی میں نمایاں اضافہ ہوگا.قادیان کی آبادی کا ایک حصہ ایسا ہے جس نے بہر حال قادیان کو سر دست چھوڑ نا ہی چھوڑنا ہے اور وہ خواتین ہیں، بچیاں ہیں.چھوٹی آبادی میں رشتوں کے بہت مسائل پیدا ہو جاتے ہیں.قادیان کے مرد تو تلاش روزگار میں باہر نکل جاتے ہیں.قادیان کے نکلے ہوئے نوجوان ساری دنیا
184 میں پھیلے ہوئے ہیں.مڈل ایسٹ وغیرہ میں بھی ہیں اور باہر ان کی شادیاں بھی ہو جاتی ہیں.بچیاں پیچھے خالی رہ جاتی ہیں اور ان کے لئے لازم ہے کہ باہر شادیاں کریں کیونکہ وہاں قادیان میں بسنے والے مقامی مرد تو اتنی تعداد میں موجود ہی نہیں ہوتے.اس لئے تمام دنیا کی جماعتوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ برکت کے لئے اور خدمت کے لئے جہاں تک جس کے لئے ممکن ہو وہ قادیان سے رشتے تلاش کرے اور اس سلسلہ میں ناظر صاحب اعلیٰ قادیان کو براہ راست بھی لکھے اور مجھے بھی لکھے اور ناظر صاحب امور عامہ سے بھی بیشک براہ راست رابطہ کرے.بہت سی ایسی بچیاں ہیں جو بہت ہی عمدہ تربیت یافتہ ہیں لیکن تعلقات کی کمی کی وجہ سے ان کے گردوہ جو ایک قید سی ہے اس میں محدود ہونے کی وجہ سے وہ اور ان کے والدین نہیں جانتے کہ اچھا رشتہ کہاں مقدر ہے.تو ساری دنیا کی جماعتوں کو منظم طور پر اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور میں سمجھتا ہوں کہ امراء اگر وہاں پر رابطہ کر کے ان کی بچیوں کے کوائف اس شرط پر منگوائیں کہ تصویروں کے ساتھ بھجوائیں تفصیل سے بھیجیں ہم اپنی تحویل میں رکھیں گے ، عزت و احترام کے ساتھ ان قواعد کا خیال رکھیں گے اور مناسب رشتوں کی راہنمائی کریں گے کہ فلاں فلاں جگہ وہ کوشش کر لیں تو اس سے اس مسئلہ کے حل میں بہت مدد ملے گی.جماعت احمدیہ کا رشتہ ناتے کا جو انتظام ہے، اس میں یہ ذمہ داری نہ جماعت قبول کرتی ہے نہ کرسکتی ہے اور عقلاً کرنی بھی نہیں چاہئے کہ دونوں فریق کو یقین دلائے کہ رشتہ اچھا ہوگا اور آپ کرلیں گویا کہ جماعت کی ذمہ داری ہے.یہ بالکل نامناسب بات ہے.نہ جماعت ایسا کرے گی، نہ جماعت سے ایسی توقع رکھنی چاہئے ورنہ ہر رشتہ جس میں خدانخواستہ کوئی نہ کوئی الجھن پیدا ہو جائے اسکی ذمہ داری جماعت پر تھو پی جائے گی.جماعت کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ حتی المقدور اپنے علم کے مطابق فریقین کا ایک دوسرے سے تعارف کروائے گی اور جو معلومات انسان کو معلوم ہوسکتی ہیں اور ہر قسم کی معلومات انسان کو نہیں ہوسکتیں، اندر کے حالات ایسے ہیں جو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا وہ صدق کے ساتھ اور سچائی کے ساتھ فریقین تک پہنچا دے گی.اس سے زیادہ جماعت اور کچھ نہیں کر سکتی اور نہ جماعت سے اس سے زیادہ کسی کو توقع رکھنی چاہئے لیکن ان حدود کے اندر بہت مدد ہو جاتی ہے.ورنہ باہر کے رشتوں میں اتنے اندھیرے ہیں ،اتنے پر دے ہیں ، ایسی لاعلمی کی باتیں ہیں ، ایسی دھوکے کی باتیں ہوتی ہیں کہ جو کچھ نظر آتا ہے اکثر جھوٹ اور فریب ہی ہوتا ہے یا اندھیرے
185 کی چھلانگ ہے.تو جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی ہے کہ ہر مسئلے کے گرد روشنی کی ایک فصیل کھڑی کر دیتی ہے اس روشنی کے نتیجہ میں بہت کچھ دیکھنے کی توفیق مل جاتی ہے.تو تجارت میں بھی اور انڈسٹری میں بھی جماعت کا جو مرکزی نظام ہے اسی حد تک کام کرے گا اور رشتوں کے معاملہ میں بھی اسی حد تک کام کریگا.تعارف کروائے گا اور لاعلمی کے بہت سے اندھیرے دور کرے گا اور بہت سے وسائل پر روشنی ڈالے گا کہ یہ یہ امکانات روشن ہیں.ہماری اطلاع کے مطابق فلاں شخص کی یہ Reputation ہے، جہاں تک جماعت کو توفیق ہے ہم نے جائزہ لیا ہے، یہ ٹھیک نظر آ رہا ہے باقی آپ کا کام ہے کہ اپنی تجارت ہے، اپنی ذمہ داریاں ہیں، اپنے رشتے کرنے ہیں.دعا بھی کریں، استخارے بھی کریں اور مقدور بھر ذاتی کوشش کر کے مزید چھان بین بھی کریں.تو اس تمہید کے بعد میں توقع رکھتا ہوں کہ رشتوں کے معاملے میں بھی تمام عالمگیر جماعتیں اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گی.نہ صرف وہاں سے رشتوں کے کوائف منگوا ئیں بلکہ اپنے ہاں کچھ ایسے لوگ جو بعض بڑی عمر کو پہنچ جاتے ہیں ان کے نام اور کوائف اور تصویر میں بھی قادیان بھجوائیں اور درمیانی عمر کے اچھے رشتے بھی کیونکہ ضروری نہیں کہ ساری بچیوں کی عمریں بڑی ہورہی ہوں.چند کی ہورہی ہیں.باقی اکثر ایسی ہیں جو اچھی تعلیم یافتہ سبھی ہوئی ہر لحاظ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے نوک پلک سے درست اور شادی کی عمر میں ہیں تو ان کو ایسے لڑکوں کے کوائف بھی بھجوائیں جن کو قادیان میں شادی کی خواہش ہو اور وہاں والے بھی ان کو دیکھیں اور ان کی تصویریں اور ان کے کوائف جان کر رابطے قائم کرنا شروع کریں.اس سے اگلا جو قدم ہے اس کا رشتوں سے ایک تعلق ہے اس لئے اب بعد میں میں اسے بیان کرتا ہوں بہت سے احمدی دوستوں نے جلسہ کے بعد اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ قادیان میں جائیداد بنائیں.مکانات خریدیں اور دوسری جائیداد بنائیں تا کہ جلسہ کے دنوں میں جو تنگی محسوس ہوئی تھی وہ آئندہ نسبتاً کم محسوس ہو اور جس حد تک ہو سکے رہنے والوں کے لئے فراخی میسر آئے اور وہ یہ خواہش رکھتے تھے کہ بے شک انجمن کے نام پر لے لی جائے ، روپیہ وہ بھیجیں گے اور سارا سال انجمن استعمال کرے، جب ہم جلسہ پر آئیں تو ہمیں بھی اور ہمارے مہمانوں کو بھی وہاں ٹھہرنے کی سہولت ملے.یہ تجویز اچھی ہے.قادیان کی بحالی کے سلسلہ میں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم وہاں کثرت سے
186 جائیدادیں بنائیں لیکن اس ضمن میں جو ملکی قوانین ہیں ان کو بہر حال پیش نظر رکھنا ہوگا.ان کا ہم مطالعہ کروار ہے ہیں اور انشاء اللہ جماعت کو راہنمائی ہوگی لیکن ایک راستہ ایسا ہے جس کا رشتوں سے تعلق ہے، جس شخص کی شادی قادیان میں یا بھارت کی جماعتوں میں ہو جائے.مثلاً کشمیر میں بھی یہ بڑا مسئلہ ہے.ادھر اڑیسہ وغیرہ میں بھی ہماری بہت سی احمدی بچیاں اس عمر کو پہنچ رہی ہیں کہ زیادہ دیر ہو تو پھر مایوسی کی طرف مائل ہو جائیں گی تو جن دوستوں کو ہندوستان میں جائیدادیں بنانے کی خواہش ہو اور ان کے عزیز مثلاً شادی کی عمر کے ہوں اور وہ وہاں شادی کروالیں تو جس بچی سے شادی ہوئی ہے اس کے رشتہ دار بھی ان کے نام پر جائیدادیں لے سکتے ہیں.وہ خود بھی لے سکتے ہیں.روپیہ بھجوانے میں آسانی پیدا ہو جائے گی کیونکہ باہر کے رشتہ دار کو حق ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کو وہاں روپیہ بھیج سکے تو اقتصادی مسئلہ ہے جو اس معاشرتی مسئلہ کے ساتھ تعلق رکھنے والا ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ اس ضمن میں دوست اس بات کو پیش نظر رکھیں گے کہ وہاں جائیداد بنانی ہے اور ممکن ہو تو اپنے رشتہ داروں کے نام پر بنائیں ورنہ ہر شخص کی جائیداد انجمن تو نہیں سنبھال سکتی اور یہ بھی ابھی تحقیق طلب ہے کہ انجمن کو اس طرح بے نامی جائیداد خریدنے کی حکومت اجازت بھی دے گی کہ نہیں.اس لئے بہتر یہی ہے کہ جو معروف اور مستند رستے ہیں ان کو اختیار کیا جائے.زمینیں خریدنے کے سلسلہ میں ایک نصیحت میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے تعلقات کے پیش نظر بعض لوگ پھر پھرا کر بعض لوگوں سے سودے کر لیتے ہیں.قادیان کے حالات میں یہ بہت نامناسب اور جماعت کے مفاد کے منافی حرکت ہے.اگر ہم نے وہاں Rehabilitate ہونا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمارا پروگرام ہے اور جس طرح وہاں کی آبادی میں ایک طبعی طلب پیدا ہو چکی ہے تو یہ خطرہ ہے کہ وہاں کی جائیدادیں بہت تیزی کے ساتھ مہنگائی کی طرف مائل ہو جا ئیں.ابھی اس جلسہ کے نتیجہ میں ہی قادیان میں قیمتیں عام ہندوستان کی قیمتوں سے ڈیڑھ گنا بڑھ گئی تھیں.وہی چیزیں جب ہم قادیان میں ڈیڑھ سو روپے کی لے رہے تھے دہلی میں سو(۱۰۰) کی مل رہی تھیں ، امرتسر میں بھی اسی قیمت پر.تو اگر جائیدادوں کی طرف یہ رجحان ہوا جیسا کہ ہونا ہے اور ابھی سے آثار ظاہر ہیں تو بے ہنگم طریق پر جائیدادیں خریدنے کے نتیجہ میں جماعت کو بہت مالی نقصان پہنچے گا اور مرکزی مفادات کو بھی نقصان پہنچے گا.انفرادی طور پر بھی ہر شخص نقصان اٹھائے گا.
187 ایک آدمی اپنی طرف سے یہ چالا کی کر رہا ہے کہ میں جلدی سے سودا کرلوں بعد میں قیمتیں بڑھ جائیں گی تو دراصل اس کی اس عجلت کے پیچھے ایک بد نیتی کارفرما ہوتی ہے.بد نیتی یا خود غرضی کہہ لیں.خالصہ نیکی نہیں ہوتی جائیداد خریدنے میں بلکہ یہ ہوتا ہے کہ اس وقت وقت ہے میں لے لوں، کل کو جب مہنگائی بڑھے گی اور لوگوں میں طلب پیدا ہوگی تو اس زمین کا ایک حصہ بیچ کر میں بہت منافع حاصل کر کے دوسرے حصہ پر اپنا مکان آسانی سے بنا سکتا ہوں.اسے بد نیتی نہ کہیں لیکن خالص نیکی نہ رہی بلکہ کچھ اغراض نفس بھی شامل ہو گئیں اور اس کے نتیجہ میں اس نے یہ نہیں سوچا کہ اگر میں اس طرح کھلی مارکیٹ میں جا کر قیمتیں خراب کرنے لگوں تو کل کو آنے والے میرے بھائیوں کو بڑا نقصان پہنچے گا.جماعت نے جو بڑے وسیع رقبوں کی زمینیں حاصل کرنی ہیں اور آئندہ جو ہمارے منصوبے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ جماعت کے پاس وہاں کثرت سے زمینیں ہوں تا کہ ان میں مرکزی منصوبوں پر عمل درآمد ہو سکے ، ان کو بڑا شدید نقصان پہنچے گا.جو چیز آج ایک لاکھ روپے کی مل رہی ہے وہ دیکھتے دیکھتے ڈیڑھ لاکھ ، دولاکھ ، تین لاکھ کی ہو جائے گی تو وہی جماعتیں جو باہر سے قربانی کر رہی ہیں ان کی قیمت خرید گویا کہ 13 One Third) رہ جائے گی اور نقصان پہنچانے والے بھی وہی باہر کے لوگ ہوں گے جو ایک طرف جماعت کی معرفت چندے بھی بھیج رہے ہیں اور دوسری طرف ان چندوں کو ملیا میٹ کرنے کا بھی انتظام کر رہے ہیں.اس لئے یہ یاد رکھیں کہ کوئی شخص براہ راست وہاں کوئی سودا نہیں کرے گا.میں وہاں انجمن کو ہدایات دے آیا ہوں کہ جس نے سودا کرنا ہے وہ آپ کو لکھے یا مجھے لکھے اور ہم ان کی خاطر تلاش کر کے مناسب قیمتوں پر بغیر کسی منافع کے جگہ ڈھونڈ کر دیں گے.آگے ان کا کام ہے وہ پسند کریں کہ یہ جگہ لینی ہے یا فلاں جگہ لینی ہے لیکن پورے اعتماد کے ساتھ ان کو اس نظام کے مطابق چلنا چاہئے.ان کو اس سے زیادہ اور کیا چاہئے کہ دنیا کا ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا نظام دیانتداری کے ساتھ ان کی خدمت کے لئے تیار ہے اور ان کے اپنے آخری مفاد کا بھی یہی تقاضا ہے کہ انفرادی سودا بازیوں کی بجائے جماعت کی معرفت اپنا کام کریں اور اس کے نتیجہ میں ایک اور خطرہ سے بھی ہمیں نجات مل جائے گی کیونکہ بعض علاقے ایسے ہیں جہاں جماعت کو دلچسپی ہے کہ جماعت وہاں ضرور زمین بنائے اور انفرادی لینے والے جب وہاں ایک دواڑے بنا لیتے ہیں تو ساری سکیم تباہ ہو جاتی ہے چنانچہ ایک دو ایسے واقعات میری نظر میں آئے.
188 قادیان کے پھیلاؤ کی خاطر ہم نے ایک منصوبہ بنایا ہوا ہے اس منصوبے میں جن علاقوں میں بعض آئندہ پروگرام تھے ان میں بعض لوگوں نے اپنے طور پر زمینیں لے لیں چنانچہ ان کو میں نے متنبہ کیا.میں نے کہا یہ درست نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جماعت میں بڑا اخلاص ہے انہوں نے کہا جس قیمت پر ہم نے لی ہیں ہم حاضر ہیں آپ ہم سے واپس لے لیں یا چاہیں تو اس کے متبادل ہمیں کوئی جگہ دے دیں.چنانچہ بعض دفعہ متبادل جگہ دے دی گئی.بعض دفعہ اسی قیمت پر وہ زمین ان سے لے لی گئی تو خدا کے فضل سے اب تک کوئی خرابی نہیں پیدا ہوئی لیکن خرابی کے احتمالات دکھائی دینے لگ گئے ہیں.اس لئے میں ساری دنیا کی جماعتوں کو سمجھاتا ہوں کہ یہ بہت اچھا کام ہے.وہاں جائیدادیں لینی چاہئیں لیکن نظام کے مطابق، نظام کے رستے سے اور دستور اور طریقے کے ساتھ یہ کام کریں تاکہ ساری جماعت کے مفاد کے تقاضے پورے ہوں اور انفرادی مفاد جماعتی مفاد سے ٹکرائے نہیں.اب چونکہ وقت زیادہ ہو رہا ہے اس لئے آخری ایک شکر یہ ادا کرنا چاہتا ہوں.اس کے بعد آج کے خطبہ کو ختم کروں گا.وہاں کی سکھ آبادی نے جس محبت کا سلوک کیا ہے اس میں ایک خاص پہلو یہ تھا کہ اپنے مکانات پیش کئے اور بعض لوگوں کو جب یہ خبریں ملیں کہ غیر احمدی آبادی میں بھی مہمان ٹھہرائے جارہے ہیں تو بڑے ذوق شوق سے وہاں دوڑتے ہوئے آئے.بعض لوگ رات بارہ ایک دو بجے تک ٹھہرے رہے جب تک قافلے آنہیں گئے کہ ہم اس وقت جائیں گے جب ہمارے حصے کے مہمان دو گے اور بعض ایسے خاندان جنہوں نے مہمان اپنے گھر ٹھہرائے تھے انہوں نے بعد میں ملاقاتیں کیں اور انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسا سرور آیا ہے، ایسا لطف آیا ہے کہ کبھی زندگی میں ایسا مزہ نہیں آیا تھا.ایک کمرے میں ہم سب اکٹھے ہو گئے اور سارا گھر مہمانوں کو دے دیا اور مہمانوں نے بھی ہم سے محبت کا ایسا سلوک کیا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ صدیوں کے آشنا ہوں.بچپن سے اکٹھے رہے ہوں تو یہ جو تحریک کی تھی یہ خاص طور پر اسی نیت سے کی گئی تھی.قادیان کو میں نے لکھا تھا کہ آپ کے پاس ساری محنتوں کے باوجود، کوششوں کے باوجود ابھی بھی مہمانوں کو ٹھہرانے کی جگہ نہیں ہے.آپ غیر مسلموں خصوصاً سکھوں تک پہنچیں اور ان سے کہیں کہ قادیان کے مہمان ہیں.تم بھی قادیان کے باشندے ہو اس میں حصہ لو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ دونوں طرف کے تعلقات وسیع ہوں گے اور قادیان
189 کی واپسی کا صرف اس چھوٹے سے حصے سے تعلق نہیں ہے جو اس وقت ہمارے قبضہ میں ہے.سارے قادیان کے دلوں کا ہمارے قبضہ میں آنا ضروری ہے اور اس ضمن میں یہ جو کوشش تھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی مؤثر اور بہت ہی کامیاب ثابت ہوئی ہے.چنانچہ آنے سے پہلے جو وفود ملے ان میں سے ایک وفد اسی سلسلہ میں ملا تھا.اس نے کہا کہ ہم سے تو لوگ ناراض ہیں کہ ہمیں کیوں نہیں بتایا اور جو قصے ہم آگے لوگوں کو سناتے ہیں کہ اس طرح مہمان تھے.ایسے ایسے عجیب انسان تھے.ایسی شرافت کے ساتھ انہوں نے ہم سے برتاؤ کیا.ایسی محبت اور اخلاص کے ساتھ سلوک کیا.کہتے ہیں وہ قصے سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم کیوں پیچھے رہ گئے تو انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ آئندہ اگر آپ ہمیں پہلے اطلاع کریں تو قادیان میں شاید ہی کوئی گھر ہو جو مہمان رکھنے کے لئے تیار نہ ہو اور اس وقت قادیان کی آبادی کا جو پھیلاؤ ہے اگر جیسا کہ خدا تعالیٰ نے آثار ظاہر فرمائے ہیں وہ ان عہدوں پر قائم رہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو اسی طرح احمدیت کی محبت سے بھرے رکھے تو آئندہ مہمان ٹھہرانے کا مسئلہ کوئی مسئلہ نہیں رہے گا.جس طرح پرانے زمانہ میں قادیان کی چھوٹی آبادی تھیں تیں چالیس چالیس ہزار مہمانوں کو ٹھہرالیا کرتی تھی اب یہ آبادی جو وسیع ہو چکی ہے، کچھ اور بھی بہت سے مہمان خانے بننے والے ہیں یہ سب ملا کر میں سمجھتا ہوں کہ ڈیڑھ دولاکھ تک بھی وہاں مہمانوں کے ٹھہرانے کا انتظام ہو سکتا ہے.اس کے لئے تیاری کا جتنا وقت چاہئے اسی نسبت سے اللہ تعالیٰ ہماری توفیق بڑھا رہا ہے.اس دفعہ ہم نے خواہش ظاہر کی تھی کہ حکومت ہندوستان پچاس ہزار تک اجازت دے دے مگر تجربہ نے بتایا کہ پچاس ہزار کی ہمارے اندر توفیق نہیں تھی نہیں سنبھال سکتے تھے.یعنی پوری کوشش کے باوجود سارے کارکن مل کر بھی کام کرتے تب بھی قادیان کے حالات ابھی ایسے نہیں ہیں کہ جماعت احمدیہ قادیان میں اتنے مہمان ٹھہر اسکے لیکن اب وہ وسعتیں پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہیں آغاز ہو چکا ہے تو اگلے سال میں سمجھتا ہوں اگر خدا نے توفیق دی اور یہی اس کا منشاء ہوا کہ ہم پھر وہاں اس جلسہ میں جائیں تو پہلے کی نسبت دو تین گنا زیادہ مہمانوں کو وہاں ٹھہرایا جاسکے گا.پس ہندوستان کی حکومت نے جو دس ہزار کی شرط لگائی وہ معلوم ہوتا ہے تقدیر خیر ہی تھی جسے ہم تقدیر شتر سمجھ رہے تھے.ہم سمجھتے تھے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ پورا تعاون نہیں کیا لیکن ہندوستان کی حکومت کہتی
190 تھی کہ یہاں کے حالات ایسے ہیں ہماری ساری فوجیں، ہماری پولیس وغیرہ سارے پنجاب میں اس طرح مصروف ہے کہ ہم اتنے زیادہ آدمیوں کی ذمہ داری قبول نہیں کر سکتے.اس لئے تعاون کرنا چاہتے ہیں مگر مجبوری ہے.ان کا تو یہ عذر تھا لیکن دراصل جو مجھے دکھائی دیا ہے وہ یہ ہے کہ اس سے زیادہ کی ہمارے اندر بھی استطاعت نہیں تھی، طاقت نہیں پیدا ہوئی تھی.اس لئے طاقت کو بڑھا ئیں تو اللہ تعالیٰ باقی آسانیاں خود پیدا فرما دیگا اور طاقت کو بڑھانا بھی اسی کا کام ہے.اس لئے آخر پر میں ایک دفعہ پھر تمام عالمگیر جماعتوں کی طرف سے ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے قادیان کے جلسہ کو کامیاب بنانے میں بھر پور حصہ لیا ہے.اپنوں کا بھی ، غیروں کا بھی، ہندوستان کی حکومت کا بھی ، پنجاب کی حکومت کا بھی ، پاکستان کی حکومت کا بھی کہ انہوں نے کوئی روک نہیں ڈالی اور جیسا کہ خطرہ تھا کہ معاندین جو حسد کی آگ میں جل رہے تھے وہ رستے میں شرارت پیدا کریں گے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ حکومت پاکستان نے اس معاملہ میں ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی ورنہ کئی شرارتیں پیدا ہو سکتی تھیں.کئی تکلیف دہ واقعات رونما ہو سکتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس شر سے بھی ہمیں بچایا.اس پہلو سے میں حکومت پاکستان کا بھی شکر یہ ادا کرتا ہوں.آخر پر دو ایسے مرحومین کے لئے دعا کی درخواست کرتا ہوں جن کا جماعت انگلستان سے تعلق تھا اور وہ دونوں ہم وہیں پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں.ایک ہمارے کیپٹن محمد حسین صاحب چیمہ ہیں جو جماعت احمد یہ انگلستان کے ایک بہت ہی پیارے اور ہر دلعزیز انسان تھے.بڑی عمر کے باوجود ان کا دل جوان تھا ان کا جسم جوان صحت مند ، ہر قسم کے مقابلوں میں حصہ لیتے ، ہر وقت مسکراتے رہتے اور بڑی عمر میں دین کی خدمت کا ایسا جذبہ تھا کہ ایک دفعہ میں نے تحریک کی کہ گورمکھی جاننے والے ہمارے پاس کم رہ گئے ہیں تو انہوں نے بڑی محنت کے ساتھ گورمکھی زبان سیکھی اور اس میں بہت اعلیٰ سرٹیفیکیٹ حاصل کئے.ان کی گورکھی کی جو تحریر میں نے دیکھی ہے.اخباروں میں بھی چھپتی رہی ہیں ان کی کتابت ہی ایسی خوبصورت تھی کہ آدمی حیران رہ جاتا تھا.یہ سب کام انہوں نے اس عمر میں ولولے اور جوش سے سیکھے اور انگلستان کی جماعت میں تو یہ ایک خلا ہے جو بہر حال رہے گا.جماعت دیر تک ان کو یادر کھے گی.ان کے لئے دعائیں کرتی رہے گی.باقی دنیا کی جماعتوں کو بھی میں درخواست کرتا ہوں ان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.ان کی بڑی خواہش تھی کہ قادیان میں دفن
191 ہوں اس خواہش کا اظہار وہ مجھ سے بھی کر چکے تھے اور یہ بھی بڑی خواہش تھی کہ میں جنازہ پڑھاؤں تو قادیان میں ان کی اچانک وفات سے ان کی یہ دونوں دلی خواہشات پوری ہوگئیں.بہشتی مقبرہ میں ان کو تدفین نصیب ہوئی.مجھے ان کی قبر پر جا کر دعا کی بھی توفیق ملی.دوسرے ہمارے چوہدری آفتاب احمد صاحب بھی ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جوانگلستان کی جماعت میں بہت معروف ہے.خدمت دین میں پیش پیش اور سارا خاندان اور ان کی ساری اولا دہی اللہ کے فضل سے بہت ہی اخلاص رکھتی ہے اور سلسلہ کے کاموں میں پیش پیش ہے ان کی بیگم صاحبہ کی بہت خواہش تھی کہ وہ قادیان جلسہ دیکھیں.باوجود اس کے کہ بہت ہی خطرناک بیماری تھی.جگر بار بار کام کرنا چھوڑ دیتا تھا.میں نے ان کو مشورہ بھی دیا کہ آپ نہ جائیں.یہ بڑی خطرناک چیز ہے.اس سفر کی صعوبت آپ برداشت نہیں کر سکیں گی لیکن پتہ نہیں ڈا کٹر کو کیا کہ کر اس سے اجازت لے لی کہ میں ٹھیک ٹھاک ہوں کوئی بات نہیں.وہاں جا کر بہت زیادہ تکلیف بڑھ گئی وہاں تو خدا تعالیٰ نے فضل کیا.جب دعا کے لئے وہ بار بار کہتی رہیں اور ڈاکٹروں نے کوشش کی.پھر جب ہم دتی آکر دوبارہ گئے ہیں تو اس وقت وہ پاکستان کے لئے روانہ ہو چکی تھیں اور ٹھیک تھیں لیکن اب اطلاع ملی ہے کہ وہاں جا کر یہ تکلیف عود کر آئی اور ہسپتال میں داخل ہوئیں اور غالباً اپریشن ہونا تھا.ہوا یا نہیں اللہ بہتر جانتا ہے مگر ہسپتال ہی میں وفات ہوگئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی.تو آپ کے نمائندوں میں سے ایک کو خدا تعالیٰ نے قادیان کے بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کی سعادت بخشی جلسہ دیکھنے کے بعد اور ایک کو ربوہ کے بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کی سعادت بخشی.یہ تو ان کے لئے بھی سعادت ہے اور ساری جماعت انگلستان کے لئے بھی ہے لیکن ان کے اہل وعیال ان کے بچے بہر حال غمگین ہیں اور ان کی جدائی کا دکھ محسوس کرتے ہیں.مرحومین کو بھی دعا میں یا درکھیں اور ان خاندانوں کو بھی دعا میں یادرکھیں.آج کا خطبہ جاپان، ہمبرگ جرمنی اور پاکستان میں کراچی اور ماریشس میں سنا جا رہا ہے اور پورے لنڈن میں بھی یہ اس وقت مختلف جگہوں پر Relay ہو رہا ہے.ہمارے جسوال برادران نے ماشاء اللہ یہ بہت ہی عمدہ انتظام کیا ہے اور قادیان میں بھی ان بھائیوں کو غیر معمولی خدمت کی توفیق ملی ہے.اگر یہ ہمت نہ کرتے ، بہت ہی محنت اور کوشش سے کام نہ لیتے تو وہاں کے خطبات
192 یہاں سنائی نہیں دیئے جا سکتے تھے.ایسے آلے ساتھ لیکر گئے جو بڑے بوجھل اور بہت ہی محنت طلب تھے.ان کو وہاں جا کر Install کیا.وہاں سارا انتظام سنبھالا تو اللہ تعالیٰ نے جماعت انگلستان کو جلسہ کے موقع پر یہ بھی ایک سعادت بخشی ہے کہ ان کے کارکنوں میں سے جسوال برادران کو غیر معمولی تاریخی خدمت کی توفیق بخشی ہے.اللہ ان کو بھی جزائے خیر عطا فرمائے.ان سب جماعتوں کو جو یہ خطبہ سن رہی ہیں میں سب یو کے کی جماعت کی طرف سے اور اپنی طرف سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کا پیغام دیتا ہوں.
193 خطبه جمعه فرموده ۲۴ جنوری ۱۹۹۲ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت تلاوت فرمائی:.لِلْفُقَرَاءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِيْمُهُمْ ۚ لَا يَسْتَلُونَ النَّاسَ الْحَافَا وَ مَا تُنْفِقُوا وَمَا مِنْ خَيْرِ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ (البقره:۲۷۴) پھر فرمایا:.پیشتر اس سے کہ میں خطبہ کا مضمون شروع کروں جو دوست مسجد میں حاضر ہیں ان سے درخواست ہے کہ وہ مہربانی فرما کر ذرا آگے کو کھسک آئیں کیونکہ باہر سردی زیادہ ہے اور بہت سے دوست باہرسردی میں بیٹھے ہوں گے نماز کے لئے اگر ان کو باہر جانا پڑے تو دوبارہ جاسکتے ہیں.باہر اعلان کروا دیا جائے یا دوست سن ہی رہے ہوں گے.بہر حال جو بھی باہر سردی میں مشکل محسوس کرتے ہوں گے وہ اندر تشریف لے آئیں.امید ہے کچھ نہ کچھ جگہ نکل آئے گی (حضور انور نے حاضرین کو آگے آگے ہونے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا) اور آگے آجائیے.آپ ذرا آگے کی طرف سرکیس قریب آجا ئیں.مسجد میں گنجائش نکل آئی ہے.نماز کے لئے ضرورت ہوگی تو چند منٹوں کے لئے وہ نماز کے لئے باہر تشریف لے جائیں.باقی خطبہ اندر آ کر سن سکتے ہیں.یہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورۃ البقرہ کی آیت ۲۷۴ ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ان فقراء کے لئے یہ خدمتیں اور یہ خدا کی راہ میں خرچ کرنا ہے جو خدا کی راہ میں گھیرے میں آگئے اور ایسے گھیرے میں ہیں کہ جس کے نتیجہ میں باہر نکل کر کسب معاش ان کے لئے ممکن نہیں اور وہ زمین میں کھلا پھر نہیں سکتے.اپنی مرضی سے جہاں چاہیں جانہیں سکتے يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ جاہل ان کو امیر سمجھتا ہے.بے ضرورت سمجھتا ہے مِنَ التَّعَفُّف کیونکہ انہیں مانگنے کی عادت نہیں.کسی داود دوسرے کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے تَعْرِفُهُمْ بِمُهُم یعنی اے محمد ! تو ان کی علامتوں
194 سے جو ان کے چہرے پر ظاہر ہیں.ان کی پیشانیوں پر ظاہر ہیں ان سے ان کو پہچانتا ہے لَا يَسْتَلُونَ النَّاسَ الْحَافَا وہ پیچھے پڑ کر لوگوں سے مانگتے نہیں ہیں.وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِیم اور جو کچھ بھی تم خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو، مال دیتے ہو.خیر سے مراد یہاں مال ہے.فَاِنَّ اللهَ بِہ عَلِیم اللہ تعالیٰ اسے بہت جانتا ہے.یہ آیت اور اس سے پہلے کی جو آیات ہیں جن میں صدقات کا مضمون بیان ہوا ہے، تمام اہل تفسیر کے نزدیک اصحاب الصفہ پر اطلاق پانے والی آیات ہیں.اصحاب الصفہ وہ مہاجرین تھے مسجد نبوی کے ایک تھڑے پر زندگی بسر کر رہے تھے.ان کے متعلق مختلف روایات ہیں.اصحاب الصفہ کی جو تعداد ہے اس میں بھی اختلافات ہیں لیکن بالعموم جو مستند روایات ہیں مثلاً بخاری میں بھی ستر کا ذکر ہے کہ کم و بیش ستر اصحاب الصفہ تھے جو دن رات مسجد نبوی میں ہی رہائش پذیر تھے.ان کا پس منظر یہ ہے کہ جب مہاجرین مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ کی طرف آنا شروع ہوئے تو ان کے لئے گزراوقات کی کوئی صورت نہیں تھی.مسجد میں جب ایک گروہ اکٹھا ہو جاتا تھا تو حضرت اقدس محمد مصطفی ا یہ اعلان فرمایا کرتے تھے کہ جس کے گھر دو کا کھانا ہو وہ تیسرے کو ساتھ لے جائے اس طرح یہ مہاجرین مختلف گھروں میں بٹتے رہے لیکن کچھ ایسے تھے جن کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی ، وہ رفتہ رفتہ اسی مسجد میں ہی بسیرا کر گئے اور ان کی تعداد بڑھتے بڑھتے ستر یا بعض کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ہوگئی.شان نزول تو اصحاب الصفہ ہی ہیں لیکن قرآن کریم کی آیات کو کسی شان نزول کی حدود میں محصور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ دائمی کلام ہے اور تمام عالم پر اثر انداز ہے اس لئے شانِ نزول تک قرآن کریم کی آیات کے مضامین کو محدود کرنا یہ خود محدود عقل کی علامت ہے اور قرآن کریم کی شان کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں بعض لوگ یہ رجحان رکھتے ہیں کہ شانِ نزول بیان کی اور معاملے کو وہیں ختم کر دیا گویا کہ ہر آیت اپنی شان نزول کے ساتھ مقید ہو کر ماضی کا حصہ بن چکی ہے یہ درست نہیں ہے.شان نزول کچھ بھی ہو آیات اپنے اندر اس بات کی قوی گواہی رکھتی ہیں کہ ان کا اطلاق وسیع تر ہے اور آئندہ آنے والے زمانوں پر بھی ہوتا چلا جائے گا.مثلاً یہی آیت جس میں یہ ذکر ہے کہ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ که جابہل ان کو تعفف کی وجہ سے غنی شمار کرتا ہے.اب جہاں تک اصحاب الصفہ کا تعلق ہے کوئی آدمی بھی ایسا نہیں ہوسکتا تھا جو اصحاب الصفہ کو فنی شمار کرتا
195 ہو کیونکہ حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ ہم میں سے اکثر کے پاس تو چادر بھی نہیں تھی جس کو اوڑھ لیتے اور کھانے کا کوئی انتظام نہیں تھا.رات کو کوئی دوست کھانا پیش کر دیتے تھے، صبح آنحضور آکر ہمارا حال دریافت فرماتے اور پوچھا کرتے کہ کچھ کھانے و ملا یا نہیں؟ اور اس پر ہم عرض کرتے کہ یا رسول اللہ کچھ ملا ، تو بہت خوش ہوتے.خدا کا شکر ادا کرتے کہ الحمد للہ خدا کی راہ میں فقیروں کو کچھ کھانے کومل گیا.یہ کیفیت جن لوگوں کی ہو ان کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ کوئی بھی جاہل خواہ کیسا بھی جاہل کیوں نہ ہوان کو امیر سمجھتا تھا اور حاجت مند نہیں سمجھتا تھا یہ ایک بالکل غلط بات ہے اس کا حقیقت سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.پھر اگلی بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے متعلق فرمایا کہ داود تَعْرِفُهُمْ بِيْمُهُم تو اُن کے چہروں کی علامتوں سے ان کو پہچانتا ہے.اصحاب الصفہ کو تو چہروں کی علامتوں سے پہچاننے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی.وہ سب سامنے تھے.ان کا حال ظاہر وباہر تھا.آنحضرت لیے دن رات ان کی فکر میں غلطاں رہا کرتے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کو پہچاننے کی ضرورت ہو.یہ شان نزول تو یقیناً اصحاب الصفہ ہی ہوں گے جیسا کہ روایات میں بیان ہوا ہے لیکن تمام مسلمان سوسائٹی میں خدا کے ایسے بہت سے بندے تھے جن کے رزق کی راہیں تنگ ہو چکی تھیں اور جو عام روز مرہ کی زندگی میں اپنی غربت کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے.انہی کے متعلق آنحضرت نے فرمایا کہ مسکین وہ نہیں ہے جس کو دو تین کھجوریں میسر آجائیں یا دو لقے میسر آجائیں بلکہ مسکین وہ ہے جو خدا کی راہ میں صبر کے ساتھ گزارا کرتا ہے اور کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا تا.اپنی ضرورتوں کو دوسروں پر ظاہر نہیں کرتا.پس اصحاب الصفہ تو اپنے حالات کی وجہ سے ظاہر ہو کرسامنے آچکے تھے کچھ آیات کا مضمون اُن پر ان معنوں میں ضرور صادق آتا ہے کہ شدید غربت کے باوجود ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے اور فاقوں کے باوجود کسی سے مانگتے نہیں تھے.حضرت ابو ہریرہ ﷺ کی وہ روایت بارہا آپ نے سنی ہوگی اور بار ہا سنائی بھی جائے تو وہ کبھی پرانی نہیں ہوتی کہ ایک دفعہ فاقوں سے بے ہوش ہو گئے اور لوگ سمجھے کہ مرگی کا دورہ ہے چنانچہ جو تیاں سنگھا نے لگے.بعض روایات میں آیا ہے کہ ان کو ہوش میں لانے کے لئے تھپڑ بھی مارے گئے اور لوگ یہی سمجھتے تھے کہ یہ مرگی کا دورہ ہے حالانکہ وہ کہتے ہیں کہ میں فاقوں کی وجہ سے -
196 بے ہوش ہوا تھا.تو جن کی یہ کیفیت ہے ان کا خواہ وہ اصحاب الصفہ میں تھے یا باہر تھے.اس وقت تھے یا آئندہ آنے والے تھے ان سب پر ان آیات کا مضمون اطلاق پاتا ہے.پھر فرمایا : أَحْصِرُوا فِي سَبِيْلِ اللهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی راہ میں گھیرے میں آگئے اور ان کا باہر جانا ممکن نہیں تھا.بعض مفسرین مثلاً قرطبی نے یہ لکھا ہے کہ مراد یہ تھی کہ وہ روزی کمانے کے لئے باہر نہیں جاسکتے تھے کیونکہ اردگرد حالات خراب تھے.یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ اصحاب صفہ کے علاوہ اور مسلمان بھی سارے مدینہ میں بس رہے تھے.وہ جب باہر جاسکتے تھے اور کما سکتے تھے تو صرف اصحاب الصفہ پر ہی کیا قیامت آپڑی تھی کہ وہ با ہر نہیں جاسکتے تھے ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ جسمانی لحاظ سے باہر نکلنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے کیونکہ ایک اور روایت بھی اس تفسیر کو غلط قرار دیتی ہے جب حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے یہ نصیحت فرمائی کہ جو خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ بہتر ہے.جس کو دیا جائے اس کی نسبت جو ہاتھ دینے والا ہے وہ بہتر ہے اس قسم کی نصائح کے اثر کے نتیجہ میں اصحاب الصفہ کے متعلق آتا ہے کہ یہ جنگلوں میں لکڑیاں کاٹنے کے لئے چلے جایا کرتے تھے اور جنگلوں سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور وہاں بیچ کر جو کچھ ملتا خود غربت کے باوجود خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے تو اس لئے یہ خیال کہ باہر کا ماحول ان کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیتا تھا یہ درست نہیں ہے.ان پر کچھ اور قیود تھیں اور وہ قیود حضرت محمد مصطفی ﷺ کی محبت کی قیود تھیں.یہ آنحضرت کا دامن چھوڑ کر باہر جانا نہیں چاہتے تھے.بعض روایات میں آتا ہے کہ ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا نہیں.ہم تو یہیں رہیں گے ، اسی مسجد میں رہیں گے.ایک صحابی نے رسول اللہ اللہ سے گزارش کی کہ یا رسول اللہ! ان کو حکم دیں کہ یہ بھی باہر نکل کر کام کریں تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں ان کا حال معلوم نہیں کہ یہ کون لوگ ہیں.کیوں بیٹھے ہوئے ہیں ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہ سے سوال کیا گیا کہ تم کیوں نہیں باہر نکلتے تو انہوں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ میری بہت سی عمر، عمر کا ایک بڑا حصہ جہالت میں ضائع ہو گیا.اب زندگی کے باقی دن ہیں، میں نہیں چاہتا کہ ایک لمحہ بھی ایسا آئے کہ آنحضرت ﷺ باہر تشریف لائیں اور میں دیکھ نہ سکوں یا آپ کی باتیں نہ سن سکوں تو یہ محبت کے قیدی تھے.اُحْصِرُوا فِي سَبِيْلِ الله سے مراد یہ ہے کہ بہت اعلیٰ مقصد کے لئے اللہ کی راہ
197 میں خود قیدی بن کر بیٹھ رہے تھے ورنہ جس طرح مدینہ میں بسنے والے باقی انصار اور مہاجرین کے لئے زمین کھلی تھی اور وہ اپنی کمائی کی خاطر جب چاہیں جہاں چاہیں جاسکتے تھے اس طرح ان پر بھی تو کوئی قید نہیں تھی.یہ جو مضمون ہے یہ اس زمانہ میں خصوصیت کے ساتھ قادیان کے احمدی باشندوں پر صادق آتا ہے.ان کے متعلق بھی جو مضمون میں نے پہلے بیان کیا تھا کہ غربت اور تنگی اور مشکلات کا دور گزرا ہے یہ جسمانی قید تو کوئی نہیں تھی کہ جس کے نتیجہ میں وہ ان مشکلات کے دور میں سے گزرے اور آج تک گزر رہے ہیں بلکہ محض ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر خود اپنے آپ کو انہوں نے محصور کر رکھا ہے اور وہ مقامات مقدسہ کی حفاظت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الدار کی حفاظت ہے اور قادیان کی مقدس بستی کو ہمیشہ آبا در کھنے کا عزم ہے.پس ایک اصحاب الصفہ وہ تھے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں تھے.کچھ وہ تھے جو مدینہ میں بستے تھے.محمد رسول اللہ ان کو پہچانتے تھے اور باقی سب کو دکھائی نہیں بھی دیتے تھے کیونکہ وہ سائل نہیں تھے، مانگنے کے عادی نہیں تھے.عزت دار لوگ تھے اور ایک وہ بھی ہیں جو آخرین میں پیدا ہوئے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دور میں پیدا ہوئے اور وہ اصحاب الصفہ خاص طور پر آج قادیان میں بسنے والے درویش ہیں.درویش کی اصطلاح تو اب انہوں نے ان لوگوں کے لئے مخصوص کر لی ہے جو قادیان سے ہجرت کے دوران وہاں ٹھہرے تھے لیکن میں جب درویش کہتا ہوں تو مراد یہ ہے کہ وہ سارے جو قادیان کی عزت اور اس کے تقدس کی خاطر قربانی کی روح کے ساتھ قادیان آبسے.یہ سارے دور یشان قادیان ہی ہیں اور ان پر اصحاب الصفہ کا اور ان آیات کا مضمون بہت عمدگی سے صادق آتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی میل کے فیوض میں سے ایک فیض قرآن کریم میں یہ بھی بیان ہوا کہ وہ آخرین کو اولین سے ملانے والا ہے یعنی ان کے غلاموں میں سے ایک ایسا پیدا ہوگا جو دور آخر میں بسنے والے محمد مصطفی " کے غلاموں کو اول دور میں پیدا ہونے والے غلاموں کا ہم عصر کر دے گا ، ان کا ساتھی بنادے گا.پس قادیان کے یہ درویش بھی انہی ساتھیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ۱۳۰۰ سے لیکر ۱۴۰۰ سال تک کے زمانے کی فصیل پاٹ دی اور خدا کے فضل سے اولین میں شمار ہوئے.
198 ان کے متعلق جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا بہت سی ایسی تجویزیں ہیں جو میرے زیر غور ہیں اور جن کے متعلق مختصراً مختلف وقتوں میں قادیان میں بھی میں جماعت کے سامنے گزارش کرتا رہا ہوں.پچھلے خطبہ میں بھی میں نے کچھ بیان کیا تھا.اب اسی مضمون کو کچھ اور آگے بڑھا کر جماعت کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ کس رنگ میں ہمیں قادیان کے ان دریشوں کے حقوق ادا کرنے ہیں کیونکہ ان کا ہم پر احسان ہے.ہمارا ان پر احسان نہیں ہوگا اگر ہم ان کی خاطر کچھ کریں.وہ صحابی جس نے رسول اللہ ﷺ سے یہ کہا تھا کہ یا رسول اللہ ! آپ اصحاب الصفہ کو حکم کیوں نہیں دیتے کہ یہ باہر نکل جائیں ، اس کا ایک بھائی اصحاب الصفہ میں شامل تھا خود باہر نکلتا تھا اور کماتا تھا اور اچھا کھاتا پیتا تھا.اس کے ذہن میں دراصل خاص طور پر اپنا بھائی تھا کہ یہ بھی ہاتھ پاؤں کا ٹھیک ٹھاک ہے.یہ کیوں پاگلوں کی طرح یہاں بیٹھ رہا ہے ، نکھا ہے.آنحضرت ﷺ اس کو حکم دیں تو یہ بھی باہر نکلے.اس کے جواب میں جو بات آنحضور ﷺ نے بیان فرمائی جس کے متعلق میں نے کہا تھا کہ تم نہیں اس کا حال جانتے.وہ یہ بات تھی کہ بعض دفعہ خدا لبعضوں کی وجہ سے دوسروں کو رزق عطا کرتا ہے اور تمہیں کیا پتہ کہ تمہیں جو رزق مل رہا ہے وہ اس کی برکت سے مل رہا ہو.یہ ان کے وہ چھپے ہوئے حال تھے جن کا ایک ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس جواب میں کیا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ قادیان کے درویشوں کی برکت بھی اسی طرح سب دنیا کی جماعتوں کے اموال میں شامل ہو چکی ہے.ان کی سہولتوں اور ان کی آسائشوں میں شامل ہو چکی ہے.وہ لوگ جو شعائر اللہ کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں ان کی برکتیں پھیلتی ہیں اور ہم اگر ان کی خاطر کچھ کریں گے تو ان پر احسان کے طور پر نہیں بلکہ ان کے احسان کا بدلہ اتارنے کی کوشش میں کچھ کریں گے.اگر ان کی برکت سے خدا تعالیٰ نے ہمیں مثلاً وسیع رزق عطا نہ بھی کیا ہوتب بھی ان کا حق ہے کہ وہ ساری جماعت کی خاطر ایک فرضِ کفایہ ادا کرتے ہوئے قادیان میں بیٹھ رہے اور انہوں نے بہت ہی عظیم خدمت سر انجام دی ہے لیکن جیسا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کی حدیث بیان کی ہے اس میں ادنی سا بھی شک نہیں کہ وہ لوگ جو خدا کی خاطر اسیر ہو جاتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں اسیر ہیں جن کو باہر نکلنے کی اس لئے طاقت نہیں کہ زنجیروں نے باندھ رکھا ہے یا جیل خانے کی دیوار میں حائل ہیں یا وہ گیٹ حائل ہیں جن میں سلاخیں جڑی ہوئی ہیں.وہ بھی اصحاب الصفہ کی ایک قسم ہیں اور
199 قادیان کے وہ درویش خصوصیت کے ساتھ جن پر ظاہری پابندیاں کوئی نہیں ہیں.کوئی زنجیریں ان کے پاؤں باندھنے والی نہیں.کوئی بہتھکڑیاں ان کے ہاتھوں کو جکڑ نے والی نہیں لیکن ایک فرض کی ادائیگی کے طور پر ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر قربانی کرتے ہوئے وہ نسلاً بعد نسل قادیان کے ہور ہے ہیں ان کا حق ہے اور ان کے حقوق ہمارے اموال میں داخل ہیں اور ہماری سہولتوں میں داخل ہو چکے ہیں.یہ وہ مضمون ہے جو قرآن کریم نے ایک دوسری جگہ بیان فرمایا ہے.جہاں فرمایا : وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذاریات: ۲۰) کہ جولوگ امیر ہیں کھاتے پیتے ہیں جن کو آسائشیں عطا ہوئی ہیں ان کے اموال میں سائل کے حق بھی ہیں اور محروم کے حق بھی ہیں.محروم سے یہاں مراد وہ مسکین ہے جس کی تعریف آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمائی اور یہ تعریف اصحاب الصفہ کے ضمن میں بیان ہوئی تھی.پس قادیان والے سائل تو نہیں ہیں لیکن بہت سے خاندان محرومین میں داخل ہیں.ان کے لئے جو تحائف جماعت نے بھجوائے ، بہت ہی اچھا کام کیا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان سے بہت فوائد حاصل ہوئے لیکن یہ ایسا کام ہے جو مستقلاً با قاعدہ منصوبے کے تحت کرنے والا کام ہے.وقف جدید کا میں نے جو نیا اعلان کیا تھا کہ وقف جدید کو باہر کی دنیا میں بھی عام کر دیا جائے صرف پاکستان تک محدود نہ کیا جائے.اس سے اب مجھے معلوم ہوتا ہے کہ در حقیقت اس میں اللہ تعالیٰ کی یہی تقدیر تھی کہ قادیان اور ہندوستان کی محصور جماعتوں کے لئے ہمیں باہر سے بہت کچھ کرنا تھا اور اگر یہ تحریک نہ ہوتی تو بہت سے ایسے اہم کام جو سر انجام دینے کی توفیق ملی ہے ان سے ہم محروم رہتے.پس اس کے لئے جہاں تک چندوں کا تعلق ہے میں کوئی اور خصوصی تحریک نہیں کرنا چاہتا.وقف جدید کی تحریک کو آپ مزید تقویت دیں.اس وقت تک وقف جدید بیرون میں تقریباً ایک لاکھ پاؤنڈ کے وعدے ہو چکے ہیں اور وقف جدید کا قادیان سے یا ہندوستان کی جماعتوں سے جو گہرا تعلق ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اشارے کی صورت میں اس طرح بھی ظاہر ہوا کہ میں نے قادیان میں جلسہ کے دوران پڑھائے جانے والے جمعہ میں یہ بیان کیا تھا کہ جب وقف جدید کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے ربوہ میں پہلا خطبہ دیا ہے تو وہ ۲۷ دسمبر تھی اور جلسہ کا درمیانی دن تھا اور قادیان میں اب جب میں حاضر ہوا تو جلسہ کے عین درمیان میں جمعہ آیا اور وہ ۲۷ / دسمبر
200 کا دن تھا اور اسی دن وقف جدید کا مجھے بھی اعلان کرنا تھا.کیونکہ دستور یہی ہے کہ سال کے آخری جمعہ میں اعلان کیا جاتا ہے.تو اس وقت میری توجہ اس طرف مبذول کروائی گئی کہ یہ تو ارد کوئی خاص معنی رکھتا ہے.پس یقیناً یہ تو ارد اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ وقف جدید کا ایک تعلق تو پاکستان سے تھا جس کا آغاز پاکستان سے کیا گیا لیکن وہ دوسرا تعلق جس کے لئے میں نے تحریک کی تھی یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رضا یا فتہ فعل ہے اور خدا کے منشاء اور تائید کے مطابق ہی ایسا ہوا ہے اور قادیان اور ہندوستان کی جماعتوں کو بھی تمام بیرونی دنیا کے احمدیوں کی غیر معمولی مالی امداد اور قربانی کی ضرورت ہے اور وہ وقف جدید کے راستے سے کی جائے.چنانچہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس وقت تک ایک لاکھ پاؤنڈ سالانہ کے وعدے ہو چکے ہیں لیکن جہاں تک میں نے اندازہ لگایا ہے ہمیں قادیان اور ہندوستان پر سالانہ کم از کم ایک کروڑ خرچ کرنا ہوگا اور آئندہ کئی سالوں تک اس کو مسلسل بڑھانے کی کوشش کرنی ہوگی کیونکہ جو تفصیلی منصوبے قادیان کی عزت اور احترام کو بحال کرنے کے لئے میں نے بنائے ہیں اور جو تفصیلی منصو بے ہندوستان میں جماعت کے وقار اور جماعت کی تعدا د اور رعب اور عظمت کو بڑھانے کے لئے بنائے ہیں وہ کروڑ ہا روپے کا مطالبہ کرتے ہیں.جیسا کہ میں نے جلسہ قادیان میں بھی بیان کیا تھا کہ میرا یہ تجربہ ہے کہ جب بھی ہم کوئی نیک کام خدا کی خاطر، اس کی رضا کی خاطر شروع کرتے ہیں تو خواہ کتنے بڑے اموال کی ضرورت ہو اللہ تعالیٰ رستے کی سب روکیں دور فرما دیتا ہے اور وہ اموال مہیا ہو جاتے ہیں اور اگر کم بھی ہوں تو ان میں برکت بہت پڑتی ہے اور کبھی بھی میں نے یہ نہیں دیکھا کہ کوئی منصوبہ خالصہ اللہ بنایا گیا ہو اور جب اس پر عمل کرنا ہو تو روپے کی کمی یا دیگر ایسی مجبوریاں حائل ہو جائیں اور ہم اس پر عمل درآمد کرنے سے محروم رہ جائیں ایسا کبھی نہیں ہوا نہ آئندہ کبھی انشاء اللہ ہوگا.یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے خاص سلوک ہے.یہ ایک زندہ خدا کا تعلق ہے جو ہمیشہ جاری رہے گا جب تک جماعت خدا تعالیٰ سے تعلق قائم رکھے گی.پس فکر کے طور پر میں عرض نہیں کر رہا بلکہ میں آپ کو یہ بتارہا ہوں کہ آئندہ قادیان اور ہندوستان کی محصور جماعتوں کے لئے جو بھی خدمتیں کرنی ہوں ان کے لئے رخ ، رستہ وقف جدید کے چندے کا رستہ ہے.اس راہ سے با قاعدہ مسلسل قربانی پیش کرتے رہیں جو وقتی طور پر
201 تحریکیں ہیں وہ ایک دو سال کے کام تو کر دیتی ہیں لیکن مستقل ضرورتیں پوری نہیں کر سکتیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے قادیان اور ہندوستان کی ضرورتیں لمبے عرصہ کی ضرورتیں ہیں اور جماعت کے بہت بڑے مفادات ان سے وابستہ ہیں.ہندوستان میں جماعت کی خدمت کرنے میں اتنے عظیم الشان عالمی مفادات ہیں کہ اگر آپ کو ان کا تصور ہو تو دل میں غیر معمولی جوش پیدا ہوا اور کبھی بھی اس خدمت سے نہ تھکیں.جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ صدی کے ساتھ ہندوستان کی جماعتوں کے بیدار ہونے ، قادیان کی عظمت کے بحال ہونے اور وہاں کثرت سے جماعت کے پھیلنے کا ایک بہت ہی گہرا تعلق ہے اور یہ تعلق مقدر ہے.اس کے نتیجہ میں عظیم انقلابات بر پا ہوں گے اس لئے اس بات کو معمولی اور چھوٹا نہ سمجھیں.جب خدا آپ کو غور کی توفیق عطا فرمائے گا تو آپ اندازہ کریں گے کہ کتنے بڑے بڑے عظیم مقاصد اس منصوبے کے ساتھ وابستہ ہیں.جہاں تک قادیان کے اندر بعض منصوبوں پر عملدرآمد کا تعلق ہے، ہسپتال بھی ان منصوبوں میں سے ایک تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہسپتال کو بہت بہتر حال تک پہنچانے کی توفیق مل چکی ہے.گزشتہ دو تین سال سے ہم یہ کوشش کر رہے تھے کہ بجائے اس کے کہ ایک چھوٹی سی ڈسپنسری جہاں ایک ان کوالیفائیڈ غیر تعلیم یافتہ ڈاکٹر بیٹھا ہوا اور آنے والے کی مرہم پٹی کر لے یا پیٹ درد کے لئے کوئی مکسچر بنا کر دے دے، قادیان کا ہسپتال تو چوٹی کا ہسپتال ہونا چاہئے.اس میں ہر قسم کی جراحی کے سامان ہونے چاہئیں.ہر قسم کے جدید سامان اور آلات مہیا ہونے چاہئیں.اس ہسپتال کا نام روشن ہونا چاہئے.بجائے اس کے کہ قادیان کے ہر مریض کو کٹھیوں میں ڈال کر بٹالہ یا امرتسر یا جالندھر بھجوایا جائے ، بٹالہ یا امرتسر یا جالندھر یا دیگر علاقوں سے لوگ قادیان کے ہسپتال میں شفاء کے لئے آئیں.کیونکہ جو شفا خدا نے قادیان کے ساتھ وابستہ کر رکھی ہے اُس سے اردگرد کا علاقہ فی الواقعہ ہی محروم ہے کیونکہ اس شفا کے ساتھ دعاؤں کا بھی تعلق ہے.اس شفاء کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیئے گئے وعدوں کا تعلق ہے.پس اگر ہسپتال کی ظاہری حالت بہتر بنائی جائے تو مجھے یقین ہے کہ جو شفا اس ہسپتال میں تمام پنجاب کے باشندوں کو یا باہر سے آنے والوں کو نصیب ہوگی اس کا عشر عشیر بھی وہ باہر نہیں دیکھیں گے.چنانچہ ابھی سے یہ محسوس ہونا شروع
202 ہوا ہے کہ اگر چہ ابھی پوری طرح قادیان کے ہسپتال کے وقار کو بحال نہیں کیا جاسکا.لیکن جو کچھ بھی کیا جا چکا ہے اس کے نتیجہ میں مریضوں کا غیر معمولی رخ ہو چکا ہے اور بہت سے مریض دور دور سے آتے ہیں جن کو توفیق ہے کہ بہت بڑے ہسپتالوں میں جا کر زیادہ سے زیادہ اخراجات کر سکیں وہ بھی قادیان یہ کہہ کر اس نیت کے ساتھ آتے ہیں کہ جو شفاء یہاں میسر ہے وہ باہر نہیں مل سکتی.پس اس ضمن میں ابھی آنے سے پہلے ان کی بعض ضروریات کے سامان مہیا کر کے آیا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے جو کچھ پیش کیا تھا اسی میں سے وہ خرچ بھی کیا گیا.بہترین ایکسرے کی مشینیں وہاں لگ چکی ہیں.تجربات کی بہترین مشینیں کچھ وہاں لگ چکی ہیں کچھ مہیا کی جارہی ہیں.ہر قسم کے جدید آلات جو مریضوں کی سہولت کے لئے ضروری ہیں اُن کے لئے اخراجات مہیا کر دئیے گئے ہیں اور موجودہ ہسپتال کے ساتھ قادیان کا جو رہائشی علاقہ تھا سر دست اس میں سے ایک حصہ ہسپتال کے لئے وقف کر دیا گیا ہے.اس سے پہلے خدا تعالیٰ نے جو توفیق بخشی تھی کہ مکانات بنائے جائیں اور ان میں سے کچھ تقسیم کے لئے بھی ہوں.یہ سکیم تھی جو بیوت الحمد کے نام سے جاری کی گئی تھی اس میں تقسیم کے لئے جو مکانات تھے وہ تو نہیں تھے لیکن ۲۳ مکانات بنائے گئے تھے.اب ان کا یہ فائدہ پہنچ رہا ہے کہ قادیان کے مرکزی علاقے سے بعض درویش خاندانوں کو دوسری جگہ منتقل کرنا ضروری ہو تو بڑی سہولت سے ایسا ہوسکتا ہے.چنانچہ یہ تجویز مکمل ہوگئی ہے.مکانوں کی نشاندہی ہوگئی ہے.اب دوسرے دور میں یہاں سے انشاء اللہ عبدالرشید صاحب آرکیٹیکٹ وہاں جا کر اُن مکانوں کو ہسپتال کے اندر جذب کرنے کے لئے نہایت جدید طریق پر اک ایسا منصوبہ پیش کریں گے کہ جس سے یہ نہیں لگے کا کہ گویا پرانے مکان ساتھ مدغم کئے گئے ہیں بلکہ ایک ہی رنگ کا مکمل ہسپتال رونما ہوگا تو آئندہ چھ سات مہینے کے اندراندر انشاء اللہ وہاں کے ہسپتال کے اندر ایک نئی شان و شوکت پیدا ہوگی اور یہ ساری عالمی جماعت کی قربانیوں کا نتیجہ ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی جماعت قربانیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہے گی.ہسپتال کے سلسلہ میں ایک یہ بھی منصوبہ بنایا گیا ہے کہ بیرونی ڈاکٹر جو کسی نہ کسی فن میں غیر معمولی شہرت رکھتے ہیں یا ملکہ ان کو عطا ہوا ہے اور وہ جب بھی ان کو توفیق ملے قادیان کے ہسپتال کے لئے وقف کریں اور اس صورت میں ہم وہاں کیمپ لگایا کریں گے.مثلاً کوئی آنکھوں کے
203 آپریشن کا ماہر ہے اور وہ ایک مہینہ دو مہینے وقف کرتا ہے تو دور دور کے علاقے سے لوگوں کو یہ دعوت دی جائے گی کہ آئیں اور قادیان سے مفت فیض حاصل کریں اور ان آپریشنوں کی کوئی فیس نہیں لی جائے گی یا اگر لی گئی تو اس رنگ میں کہ صاحب حیثیت امراء سے کچھ لے لیا جائے گا اور غرباء کا محض مفت علاج ہوگا اسی طرح دل کے ماہرین ہیں.پھیپھڑوں کے ماہرین ہیں اور انتڑیوں وغیرہ کی بیماریوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین ہیں.اعصابی امراض کے ماہرین ہیں ، سرجری میں ہڈیوں کی سرجری کے سپیشلسٹ ، دل کی سرجری کے سپیشلسٹ وغیرہ وغیرہ.جہاں تک میں نظر ڈال کر دیکھ رہا ہوں خدا کے فضل سے ہر مرض کے علاج میں اس وقت احمدی ماہرین مہیا ہو چکے ہیں اور خدا کے فضل سے اپنے اپنے دائرے میں بہت شہرت یافتہ لوگ ہیں.ہر قسم کی جراحی کا کام اگر چہ اس وقت وہاں نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے لئے ایک سپورٹ کمپلیکس کی ضرورت ہوا کرتی ہے.مثلاً دل کا سر جن یعنی جو دل کا ماہر جرح ہے وہ ہر جگہ تو ہسپتال میں جا کر اپریشن نہیں کر سکتا.اس کے لئے بہت سے ایسے متعلقہ سامان چاہئیں.بہت سے ایسے ماہرین چاہئیں جو سب مل کر وہ فضا قائم کرتے ہیں جس میں جراحی کا وہ درخت لگتا ہے تو امید یہی ہے کہ انشاء اللہ رفتہ رفتہ اس ہسپتال کو بڑھاتے بڑھاتے اس مقام تک پہنچادیں گے کہ جس میں دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں اس کا شمار ہو اور خدا کے فضل سے آغا ز ہو چکا ہے.ایک اور پہلو تعلیم کا ہے.اس حصہ میں میں جماعت کو دعاؤں کی تحریک کرتا ہوں کہ ابھی بہت سی روکیں ہیں.جہاں تک جماعت احمدیہ کے سکول اور کالج کا تعلق ہے اگر چہ حکومت نے صدر انجمن کے نام یہ جائیدادیں بحال کر دی ہیں اور اس میں ہم ہندوستان کی عدلیہ کے بڑے ممنون ہیں جنہوں نے بہت ہی اعلیٰ انصاف کے ساتھ کا روائی کی.کسی تعصب کو انصاف کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا اور اس ثبوت کے مہیا کرنے پر کہ وہ صدرانجمن احمد یہ جو ان چیزوں کی مالک تھی بلا انقطاع قادیان میں موجود رہی ہے اور وہی مالک ہے اس لئے اس کو مہاجر قرار دے کر تمہیں ان جائیدادوں پر قبضہ کرنے کا کوئی حق نہیں.اس دلیل پر ہندوستان کی عدلیہ نے انصاف کا بہت ہی اعلیٰ نمونہ دکھایا اور یہ جائیدادیں بحال کر دیں.لیکن جب تک یہ جائیدادیں بحال ہوئیں اس وقت تک بہت سے اداروں پر دوسرے قابض ہو چکے تھے.مثلاً تعلیم الاسلام کا لج جو پہلے تعلیم الاسلام
204 سکول ہوا کرتا تھا اسے اس وقت سکھوں کا ایک ادارہ ہے جو چلا رہا ہے.نام اس کا مجھے یاد نہیں، خالصہ نام سے کوئی ادارہ ہے اور وہ انہی کے قبضہ میں ہے مگر صورتحال یہ ہے کہ اس کا معیاراتنا گر چکا ہے کہ دیکھ کر رونا آتا ہے.جس حال میں ہم نے تقسیم کے وقت اس عمارت کو چھوڑا تھا اس حال سے بہت زیادہ بدتر ہو چکی ہے لیکن اس کو بحال کرنے کے لئے یا اس میں مزید اضافے کی خاطر کوئی بھی خرچ نہیں کیا گیا یہانتک کہ جو کمرہ زیر تعمیر تھا، جس کی چھت پڑنے والی تھی ، جس حالت میں اینٹیں پڑی تھیں اسی طرح آج بھی پڑی ہیں اور وہ تالاب جسے پیچھے چھوڑ کر آئے تھے جو سکول کا سوئمنگ پول (Swimming Pool) تھا بعد میں کالج کا بن گیا اسے اس زمانہ میں ٹینک (Tank) کہا کرتے تھے اور اس کی حالت یہ ہے کہ اس میں اب گندا پانی جمع ہے کوئی دیکھ بھال کا انتظام نہیں.لیکن وہ وقار عمل سے اور بڑی دعاؤں کے ساتھ تیار کیا گیا تھا.اسکی تعمیر ایسی اعلیٰ اور پختہ ہے کہ میں نے پھر کر دیکھا ہے ایک اینٹ بھی ابھی اپنی جگہ سے نیچے نہیں بیٹھی حالانکہ کھلے آسمان کے نیچے بغیر دیکھ بھال کے پڑا ہوا ہے.تو اصل دعا تو یہی کرنی چاہئے کہ قادیان میں تعلیمی اداروں کو بحال کرنا ہے تو یہ عمارتیں جماعت کو واپس ملیں.اس سلسلہ میں کچھ گفت وشنید کا میں وہاں آغاز کر آیا ہوں.کچھ یہاں سے سکھوں کی اس لیڈرشپ سے بھی بات کریں گے جو باہر ہے اور پنجاب میں بھی اس تحریک کو چلایا جائے گا.اگر وہ ہمیں یہ ادارہ واپس کر دیں تو بہت وسیع کھیل کے میدان بھی اس کے ساتھ ہیں اور ایسا شاندار کالج دوبارہ وہاں قائم کیا جا سکتا ہے جو تمام پنجاب بلکہ ہندوستان میں ایک شہرت اختیار کر جائے.دور دور سے طلباء وہاں آئیں.بہترین اس کے معیار ہوں اور اس کے ساتھ ہی سکول کا قیام بھی تعلق رکھتا ہے.پہلے خیال تھا کہ کالج کے قرب میں الگ سکول تعمیر کیا جائے جو بہترین معیار کا ہو.مگر سوال یہ ہے کہ اگر سکول بہترین معیار کا بنا دیا جائے اور کالج جس حال میں ہے اسی حال میں ہوتو اس کا کوئی فائدہ نہیں.سکول کے چند سالوں کے بعد بچوں کو پھر باہر نکلنا پڑے گا اور پھر غیر فضا سے بداثرات قبول کرنے کے احتمال باقی رہیں گے اور محض سکول سے کسی مقام کی شان نہیں بڑھا کرتی.اس کے ساتھ ایک تعلیمی تسلسل ہونا چاہئے.آئندہ تعلیم کا انتظام.اس سے آگے تعلیم.حتی کہ اس معیار کو زیادہ سے زیادہ بلند کیا جائے اور پھر وسیع کیا جائے.یہ مقاصد ہیں
205 جن کے پیش نظر ہمیں قادیان میں تعلیمی سہولتیں مہیا کرنی ہیں اور بہت اعلیٰ پیمانے کی تعلیمی سہولتیں مہیا کرنی ہیں.میرے ذہن میں جو نقشہ ہے وہ یہ ہے کہ زبانوں کے لحاظ سے بھی یہ بہترین سکول اور بہترین کالج ہو جائیں اگر جرمن زبان پڑھانی ہے تو باہر سے جرمن قوم کے لوگ وہاں جا کر ٹھہریں اور خدا کے فضل سے ایسے موجود ہیں جو میری تحریک پر اپنے آپ کو پیش کر دیں گے.انگریز انگریزی پڑھا ئیں.عرب عربی پڑھائیں اور اسی طرح مختلف زبانوں کے ماہرین جو اپنے ہاں اہل زبان کہلاتے ہیں وہ جاکر ان بچوں کو تعلیم دیں تو اس پہلو سے پنجاب میں خصوصیت کے ساتھ اتنا بڑا خلا ہے.اگر ہمیں یہ توفیق ملے تو انشاء اللہ تعالیٰ بڑی دور دور تک اس تعلیمی ادارے کا شہرہ ہوگا.کیونکہ بدنصیبی سے سکھوں نے تو ہم پرستی کے تابع ہو کر پنجابی پر اتنا زور دے دیا ہے کہ اب وہاں تقریباً تمام اداروں میں پنجابی میں ہی تعلیم دی جارہی ہے اور باقی زبانیں عملاً کالعدم ہیں یا انہیں کالجوں سے اگر با قاعدہ دیس نکالا نہیں ملا تو ان کی حوصلہ افزائی کا ایسا انتظام نہیں ہے جس کی وجہ سے باقی زبانیں عملاً مرچکی ہیں یا محض رسمی طور پر پڑھائی جاتی ہیں اور اس کا شدید نقصان سکھ قوم کو پہنچے گا.میں نے ان کے لیڈروں کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ تم لوگ بہت ہی غلط فیصلہ کر چکے ہو.پنجابی کو مقام دو، بے شک اس کی خدمت کرو ، یہ تمہارے لئے جائز ہے، قومی لحاظ سے ضروری بھی ہوگا لیکن بین الا قوامی زبانوں کو چھوڑ کر اگر صرف پنجابی میں تعلیم دی تو باہر نکل کر یعنی پنجاب سے باہر جا کر یا تم جتنی تعلیم دے سکتے ہو ان حدود سے اوپر جا کر یہ بچے کیا کریں گے.دنیا میں سائنس کی ساری کتابیں یا انگریزی میں ملیں گی یا جرمن میں ملیں گی یا فرنچ میں ملیں گی یا Japanese میں ملیں گی اور پنجابی میں تو کوئی کتاب نظر نہیں آئے گی اور دنیا کے دوسرے ادارے ان کو قبول ہی نہیں کریں گے تو یہ دراصل ایک وسیع پیمانے پر علمی خودکشی ہے.مگر یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہندوستان کی جماعت کا ایک قانون یہ ہے کہ کسی صوبے میں جو تعلیمی پالیسی ہے، اس صوبے سے متعلق ادارے اس تعلیمی پالیسی کے اختیار کرنے کے پابند ہیں لیکن ہر صوبے میں مرکزی تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے کے امکانات ہیں.اس لئے پنجاب کا کوئی تعلیمی ادارہ دہلی کے تعلیمی نظام سے متعلق ہونا چاہے تو وہ ہو سکتا ہے.علی گڑھ کے تعلیمی نظام سے متعلق ہونا چاہے تو وہ ہوسکتا ہے اور اس پر پھر اسی ادارے کا قانون صادر ہو گا جس سے وہ متعلق ہے تو اس لئے جماعت احمدیہ کی
206 راہ میں ایک نہایت اعلیٰ پیمانے کا تعلیم اور تدریس کا نظام جاری کرنا مشکل نہیں ہے اور قانو نا کوئی روک نہیں ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ یہ نمونہ جب قائم ہوگا تو باقی سکھ اداروں کو بھی ہوش آئے گی اور وہ بھی ہماری تقلید کی کوشش کریں گے اور قومی فائدہ پہنچے گا.تو اس ضمن میں جب باہر سے اسا تذہ بلانے کا یا اور خدمات کا وقت آئے گا تو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ ساری دنیا کی جماعتیں اس میں حصہ لیں گی.سر دست تو میں دعا کی تحریک کر رہا ہوں کہ بہت با قاعدگی سے ، سنجیدگی سے دل لگا کر دعا کریں کہ قادیان کی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرنے کے لئے خدا پھر ہمیں توفیق بخشے کہ پرانے تعلیمی اداروں کی روایات کو زندہ کر سکیں اور جو کردار وہ پہلے ادا کرتے رہے ہیں از سر نو پھر وہ یہ کردارادا کر سکیں.قادیان کو تو ساری دنیا میں علم کا مرکز بننا ہے اور خدا نے اس کام کے لئے اُسے چن رکھا ہے.پارٹیشن سے پہلے کی بات کر رہا ہوں کہ جن دنوں میں قادیان ایک چھوٹی سی بستی تھا مگر علمی لحاظ سے اس کی بڑی شان تھی اور پنجاب میں دور دور تک قادیان کے سکول سے نکلے ہوئے طلباء کی عزت کی جاتی تھی ، احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا.ان کو اعلیٰ سے اعلیٰ کالجوں میں داخل کرنے کی راہ میں کوئی روک نہیں ہوا کرتی تھی.انگریزی زبان کا معیار اتنا بلند تھا اور کھیلوں کا معیارا اتنا بلند تھا کہ ان دو غیر معمولی استثنائی امتیازات کی وجہ سے قادیان کے طلباء جب چاہیں گورنمنٹ کالج میں ، ایف سی کالج میں کسی بہترین ادارے میں داخل ہونا چاہیں تو ان کو عزت کے ساتھ لیا جاتا تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو خدا کے فضل سے یہ دونوں امتیاز حاصل تھے کہ انگریزی زبان میں بھی غیر معمولی ملکہ اللہ تعالیٰ نے عطافرمایا تھا، ایک قدرت حاصل تھی اور فٹ بال کے بھی بہترین کھلاڑی تھے یہاں تک کہ جب میں گورنمنٹ کالج میں داخل ہوا ہوں تو اس وقت تک حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تصویر ان طلباء کی صف میں لٹکی ہوئی تھی جنہوں نے گورنمنٹ کالج میں غیر معمولی اعزازی نشانات حاصل کئے تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کا انگریز پروفیسر غالباً سٹیفن نام تھا، مجھے پوری طرح یاد نہیں، اس نے ایک دفعہ اُن سے کہا کہ قادیان میں تم لوگ کیا کرتے ہو؟ وہاں تو میں نے دیکھا ہے کہ دو چیزوں کے کارخانے لگے ہوئے ہیں، اچھے انگریزی دان اور اچھے کھلاڑی.جو بھی قادیان کا طالب علم آتا ہے اس کا
207 زبان کا معیار بہت بلند ہے اور کھیلوں کا معیار بہت بلند ہے اور کھیلوں کا معیار واقعہ اتنا بلند تھا کہ قادیان کی سکول کی ٹیم پنجاب کے چوٹی کے کالجوں سے ٹکرایا کرتی تھی اور اکثر ان کو شکست دے دیتی تھی.قادیان کی کبڈی کی ٹیم سارے پنجاب میں اول درجے کی ٹیم تھی.تو کھیلوں کا معیار بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ بلند تھا اور ان دونوں چیزوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے.اچھے تعلیمی اداروں میں ہمیشہ اچھے کھلاڑی بھی پیدا ہوتے ہیں اور لا ز ما عقل اور ذہن کی صحت کے ساتھ جسمانی صحت کی طرف بھی یہ ادارے توجہ دیتے ہیں.اب قادیان میں دوسری مشکل یہ در پیش ہے کہ ان کے لئے کھیلوں کا کوئی انتظام نہیں ہے میں نے سکول کے بچوں سے بچیوں سے سوالات کئے.وہاں لجنہ سے ، خدام الاحمدیہ سے جائزے لئے تو یہ دیکھ کر بہت ہی تکلیف ہوئی کہ غیروں نے تو تعلیم کی طرح کھیلوں کی طرف بھی توجہ چھوڑ دی ہے اور قادیان کے سکولوں اور کالجوں میں کوئی بھی معیار نہیں رہا ، نہ تعلیم کا نہ کھیل کا ، ہر لحاظ سے پیچھے جا پڑے ہیں حالانکہ اللہ کے فضل سے علاقے میں صحت کا معیار بہت بلند ہے اور اگر جذ بہ ہوتا ، ایک انتظام کے تحت علم اور صحت دونوں کی طرف توجہ کی جاتی تو قادیان ابھی بھی خدا کے فضل سے یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ پنجاب میں اسی طرح چمکے جس طرح پہلے چمک کر دکھا چکا ہے تو کھیلوں کی طرف ہمارے اندرون میں یعنی قادیان کے اس حصہ میں بھی کوئی توجہ نہیں جس میں درویش بستے ہیں اور اس طرح بچوں کی زندگیاں ضائع ہو رہی ہیں.لڑکیوں کے لئے کھیلنے کا کوئی انتظام نہیں.محمد ود علاقے میں قید ہیں.پس تعلیمی منصوبے کے علاوہ ایک منصوبہ یہ بنایا گیا ہے کہ ان کے لئے ہر قسم کی صحت جسمانی کے سامان مہیا کئے جائیں.بہترین جمنیزیم بنائے جائیں.لجنہ کے لئے ایک کھلی زمین خرید کر یا اگر کوئی موجودہ زمین اس کام کے لئے مل سکتی ہو تو اسے احاطہ کر کے لڑکیوں اور عورتوں اور طالبات وغیرہ کے لئے وقف کر دیا جائے.وہاں ہر قسم کی جدید کھیلوں کے انتظام ہونے چاہئیں اور باہر سے کوئی احمدی بچیاں کسی فن میں مہارت رکھتی ہیں.ہندوستان میں بھی کئی کھیلوں کی اچھی اچھی ماہر بچیاں ہیں تو وہ وہاں اپنا وقت لگا ئیں.وہاں جا کر ان کو تعلیم وتربیت دیں.تو ان کے لئے کچھ تو ایسا سامان ہونا چاہئے جس سے وہ دل کی فرحت اور سکینت محسوس کریں.محض ایک سنجیدہ ماحول میں جو روحانی سہی لیکن اتنا تنگ ماحول ہے کہ اس میں زندگی گھٹی
208 گھٹی محسوس ہوتی ہے.ایسے ماحول میں ان بچیوں کو اور لڑکوں اور بڑوں کو زندگی بسر کرنے پر مجبور رکھنا یہ ظلم ہے اس لئے عالمی جماعت کا یہ فرض ہے کہ ان کی اس قسم کی علمی اور صحت جسمانی کی ضرورتیں ضرور پوری کریں اور اس شان سے پوری کریں کہ علاقے میں اسکی کوئی مثال نہ ہو.پس اس بارہ میں میں ہدایات دے آیا ہوں کہ اب تفصیلی منصوبے بنانا تمہارا کام ہے.بناؤ اور جو بھی بناؤ گے انشاء اللہ عالمی جماعت فراخدلی کے ساتھ ان پر عمل درآمد کرنے میں تمہاری مدد کرے گی.اور میری خواہش ہے کہ آئندہ جلسہ سے پہلے پہلے عورتوں اور مردوں کے لئے یہ سپورٹس کمپلیکس مکمل ہو چکے ہوں یا مکمل نہ سہی تو نظر آنے شروع ہوں اور ان کا فیض دکھائی دینے لگے.ہمارے احمدی بچوں کے چہروں پر صحت دکھائی دے.اس لئے یہ بھی وہ ایک ضروری منصوبہ ہے جو شروع کیا جا چکا ہے لیکن یہ قادیان تک محدود نہیں رکھنا.علمی اور صحت کے یہ دونوں منصوبے ہندوستان کی باقی جماعتوں میں ممتد ہوں گے کیونکہ ان کی بھی محصور کی سی ایک کیفیت ہے.بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں مسلمان بعض راہنماؤں کی غلطیوں کی وجہ سے اپنے بنیادی حقوق سے محروم رکھے جارہے ہیں.ان میں جماعت احمد یہ بھی ان تکلیفوں میں حصہ دار بنی ہوئی ہے اگر چہ غلط پالیسیوں کے ساتھ جماعت احمدیہ کا کوئی تعلق نہیں لیکن دوسری مصیبت یہ ہے کہ پاکستان کی طرح کے ملاں وہاں بھی جماعت کے خلاف نفرت کی تحریکات چلاتے اور بھڑکاتے ہیں اور کوئی ہوش نہیں کر رہے کہ باہر کی دنیا میں کیا گندا اثر پیدا کر رہے ہیں.اس لئے احمدیوں کے لئے دو ہری مشکلات ہیں اور وہ ان مخالفتوں میں محصور ہو چکے ہیں.چنانچہ بعض جماعتوں کے ساتھ جب تفصیلی انٹرویو ہوئے تو پتہ لگا کہ واقعہ ان کی محصور کی سی کیفیت ہے.وہ عام روز مرہ کے اپنی زندگی کے حقوق سے کلیۂ محروم ہیں.مسلمان ان سے کنی کتراتے ہیں.ان کے ساتھ معاشرتی تعلقات نہیں رکھتے کیونکہ ان کو نفرتوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ہندو و یسے ہی دور ہٹتے چلے جا رہے اور دن بدن ہند و قوم پرستی یا تشدد پرستی کی جو تحریکات ہیں وہ زیادہ قوی ہوتی جارہی ہیں.اور یہ دراصل پاکستان اور بعض دوسرے مسلمان ممالک کی جہالت کا طبعی نتیجہ ہے.سور نگ میں ان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اسے قومیائی حدود میں جکڑو نہیں اور غیروں کے مقابل پر ایسے ذرائع اختیار نہ کرو کہ وہ سمجھیں کہ تم اپنے مذہب کو زبردستی ان پر ٹھونستے اور ان کو ان کے حقوق سے محروم کرتے
209 ہو.اگر ایسا کرو گے تو اس کا رد عمل پیدا ہوگا.اور اگر اس کے بعد ہند و منوسمرتی کی تعلیم کی طرف رخ کریں اور یہ اعلان کریں کہ اگر پاکستان میں مسلمانوں کو حق ہے کہ قرآن کی تعلیم کو ساری قوم پر ٹھونس دیں خواہ کوئی اسے قبول کرے نہ کرے تو ہمارا کیوں حق نہیں کہ ہم منوسمرتی کی تعلیم کو ساری ہندوستانی قوم پر ٹھونسیں خواہ کوئی قبول کرے یا نہ قبول کرے.پس غلطیوں کے یہ جو دور رس نتائج ہیں ان سے آنکھیں بند ہیں.دو قدم سے زیادہ دیکھ نہیں سکتے اور یہ جونظر کی کمزوری کی بیماری ہے یہ جب راہنماؤں میں ہو جائے تو ساری قوم کے لئے ہلاکت کا موجب بنتی ہے.بہر حال ہندوستان میں جو یہ شدید رو چل پڑی ہے یہ بہت ہی خطرناک عزائم کو ظاہر کر رہی ہے اور دن بدن مجھے ڈر ہے کہ اگر یہ رواسی طرح چلتی رہی تو سارے مسلمان وہاں محصور ہو کر رہ جائیں گے اور احمدیوں پر تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دوہری حصار ہے ایک حصار غیروں کی غلطی کی وجہ سے ہے اور ایک حصار دل کی مجبوری کی وجہ سے خدا کی خاطر جو بھی مخالفت ہوانہوں نے بہر حال قبول کرنی ہے اور بڑی وفا کے ساتھ احمدیت سے وابستہ رہنا ہے.یہ وہ اصحاب الصفہ ہیں جو وسیع تر دائرے سے تعلق رکھنے والے اصحاب الصفہ ہیں.پس قادیان کے لئے بہبود کی جو سکیمیں ہیں ان سے ہندوستان کی باقی جماعتوں کو محروم نہیں رکھا جائے گا اور وہاں بھی صوبائی امارتیں قائم کر کے جہاں نہیں تھیں وہاں قائم کر دی گئی ہیں اور جہاں تھیں ان کو بیدار کیا گیا ہے.یہ سمجھا دیا گیا ہے کہ جہاں اقتصادی ترقی کے منصوبے بناؤ وہاں تعلیمی ترقی کے بھی منصوبے بناؤ.چنانچہ کشمیر میں خدا کے فضل سے پہلے ہی بہت سے سکول بڑی اعلیٰ روایات کے ساتھ چل رہے ہیں.باقی صوبوں کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ اسی طرح مدارس قائم کریں اور جہاں جہاں ممکن ہو کا لجز قائم کریں.ٹیکنیکل کالجز کی وہاں بڑی ضرورت ہے اور قادیان میں بھی انشاء اللہ خیال ہے کہ اعلیٰ پائے کا ٹیکنیکل کالج بھی قائم کیا جائے گا.تو سارے ہندوستان کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھا جائے تو ایک کروڑ سالانہ کی رقم بھی کوئی چیز نہیں ہے لیکن اگر وقف جدید کے ذریعہ ایک سال کے اندر اندر ایک کروڑ کی رقم بھی مہیا ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ شروع کرنے کے لحاظ سے خدا کے فضل سے کچھ نہ کچھ سرمایہ میسر آجائے گا اور باقی اللہ تعالیٰ اور رستے عطا کرتا رہتا ہے.جماعت احمدیہ کی عالمی قربانیوں کا جو مجموعہ ہے اس میں سے جہاں مرکزی منصوبوں
210 پر خرچ ہورہے ہیں مختلف ممالک پر خرچ ہورہے ہیں ایک حصہ اس میں سے بھی قادیان اور ہندوستان کی احمدی جماعتوں کے لئے مزید مخصوص کیا جاسکتا ہے تو آپ دعاؤں میں یادرکھیں اور مالی قربانیوں کی جہاں تک توفیق ملے اسے بڑھانے کی کوشش کریں.وقف جدید کی مالی قربانی پر نظر ثانی کریں.بہت سے احمدی ہیں جو غربت اور تنگی کی حالت میں بھی ہر چندے میں شامل ہیں.وہ تقریباً اپنی استطاعت کی حد کو پہنچے ہوئے ہیں لیکن میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا کی خاطر وہ جو قربانیاں پیش کرتے ہیں یا کریں گے اللہ تعالیٰ ان کے اموال میں برکت دے گا اور ان کی حدود وسیع تر کرتا چلا جائے گا.وہ آیت جس کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی تھی اس سے پہلے اس مضمون کی آیات ہیں جو میں اب آپ کے سامنے رکھ کر اس خطبہ کو ختم کروں گا جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے خدا کی خاطر خود محصور ہو گئے اور جن کے رزق کی راہیں تنگ ہوگئیں یا بند ہو گئیں جو لوگ قربانی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو دین اور دنیا دونوں جگہ جزاء دینے والا ہے اور ان کے اموال کو رکھتا نہیں بلکہ ان میں بہت برکت دیتا ہے.پس وہ برکت جو درویشوں کے ذریعے دوسروں کو پہنچتی ہے اس مضمون کو قرآن کریم نے یہاں ایک خاص رنگ میں کھول کر بیان فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ کی اس نصیحت کا اس آیت سے ہی تعلق ہے جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ تمہیں کیا پتہ کہ کن لوگوں کی وجہ سے تمہارے اموال میں برکت پڑ رہی ہے.پس جولوگ ان غریبوں پر خرچ کرتے ہیں جو خدا کی خاطر محصور ہوئے خدا کا واضح وعدہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تمہیں بہت برکت دے گا.فصاحت و بلاغت کا عجیب انداز ہے کہ پہلے یہ مضمون بیان فرمایا اور پھر بعد میں ان لوگوں کا ذکر کیا جن کی خاطر ان لوگوں کو برکت ملنے والی ہے.فرمایا: اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقْتِ فَنِعِمَّا هِيَ اگر تم خدا کی راہ میں اخراجات کو قربانیوں کو کھول کر پیش کرو، اعلانیہ کر دو تا کہ دوسروں کو تحریک ہو تو فَعِمَّا هِيَ - اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقْتِ فَنِعِمَّا هِيَ : یہ بھی اچھی بات ہے.اس میں کوئی برائی نہیں.وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ لیکن اگر تم ان کو مخفی رکھو اور خدا کی راہ کے فقیروں پر خرچ کرو تو یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے.وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيَّاتِكُم ان غریبوں کی خدمت کا جو سب سے بڑا فیض تمہیں پہنچے گاوہ
211 یہ ہے کہ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيَاتِكُمْ اللہ تعالیٰ تمہاری بدیاں دور کریگا.تمہاری کمزوریاں دور فرمائے گا.پس تمام دنیا میں ہمیں تربیت کے جو مسائل درپیش ہیں خاص طور پر ترقی یافتہ یا آزاد منش ممالک میں ان کا ایک حل قرآن کریم نے یہ بھی پیش فرمایا ہے کہ خدا کی راہ میں محصور اور غرباء پر خرچ کرو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ آپ کی کمزوریاں دور فرمائے گا اور خود تمہاری اصلاح کے سامان مہیا فرمائے گا.پھر فرمایا وَ اللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ.یاد رکھو کہ تم جہاں بھی جو کچھ بھی خدا کی راہ میں کرتے ہو تمہارے اعمال سے خدا خوب واقف ہے.ہر چیز پر اس کی نظر ہے.تمہارا کوئی عمل بھی ایسا نہیں جو خدا کی نظر میں نہ ہو.پھر فرمایا: لَيْسَ عَلَيْكَ هُدُهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ اے محمد ! تجھ پر ان کی ہدایت فرض نہیں ہے.تو نے پیغام پہنچانا ہے.نصیحت کرنی ہے اور تو بہترین نصیحت کرنے والا ہے.وَلَكِنَّ اللهَ يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ ہاں اللہ ہی ہے جس کو چاہے گا ہدایت بخشے گا.جس کو چاہتا ہے ہدایت عطا فرماتا ہے.پھر اس جملہ معترضہ کے بعد واپس اس مضمون کی طرف لوٹتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِانْفُسِكُمُ جو کچھ تم : یا درکھو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو فَلا نُفُسِكُم وہ دراصل اپنی جانوں پر خرچ کر رہے ہو.یہ نہ سمجھو کہ دوسروں پر کوئی احسان کر رہے ہو.تمہارا خرچ اپنے فوائد کے لحاظ سے اور برکتوں کے لحاظ سے خود تم پر ہورہا ہے.وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاء وَجْهِ اللهِ لیکن ہم جانتے ہیں کہ محمد مصطفی اے کے تربیت یافتہ ساتھی اپنے نفوس میں برکت کی خاطر خرچ نہیں کر رہے بلکہ اللہ کی رضا کی خاطر خرچ کر رہے ہیں.پس یہ مراد نہ سمجھی جائے.کوئی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ یہ تعلیم دے رہا ہے کہ اپنے نفس پر خرچ کرنے کی خاطر خرچ کرو.فرمایا ہم جانتے ہیں کہ تمہاراعلیٰ مقصد خدا کی رضا ہے مگر جب خدا کی رضا حاصل ہو جاتی ہے تو محض دین میں نہیں ہوتی بلکہ دنیا میں بھی رضامل جاتی ہے.اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا ایک نتیجہ ہے کہ جو یہ فرمایا گیا کہ جو کچھ تم خرچ کرتے ہوا اپنی جانوں پر خرچ کرتے ہو.ان دونوں آیات کے ٹکڑوں کو ملا کر پڑھا جائے تو مضمون یہ بنے گا کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ تم جو کچھ بھی خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو محض اللہ کے پیار کی خاطر اس کی محبت جیتنے کے لئے اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرتے ہو لیکن اس رضا کا ایک ظاہری نتیجہ بھی ضرور نکلے گا اور وہ یہ کہ تمہارے اموال میں ایسی برکت ملے گی کہ گویا تم دوسروں پر نہیں بلکہ خود اپنی جانوں پر خرچ
212 کرنے والے تھے اور اس کی مزید تفسیر یہ فرمائی کہ: وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرِ يُوَفَّ اِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (البقرہ :۲۷۳) اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے یقین جانو وہ تمہیں خوب لوٹا یا جائے گا.تُوَفَّ اِلَيْكُمْ میں صرف لوٹانے کا مضمون نہیں بلکہ بھر پور طور پر لوٹایا جائے گا اور تم سے کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا.یہ ایک محاورہ ہے.طرز بیان ہے.جب کہا جائے کہ کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا تو مراد یہ نہیں ہے کہ محض عدل کیا جائے گا بلکہ بالکل برعکس مضمون ہوتا ہے.جب یہ کہا جاتا ہے کہ وَهُمْ لَا يُظْلَمُون ان سے ظلم نہیں کیا جائے گا تو مراد یہ ہوتی ہے کہ انہیں بہت زیادہ دیا جائے گا.ظلم تو در کنار اتنا عطا ہوگا کہ احسانات ہی احسانات ہوں گے.یہ ایک طرز بیان ہے جو مختلف زبانوں میں ہے.عربی میں اور خصوصیت کے ساتھ قرآن کریم میں اس طرز بیان کو اختیار فرمایا گیا تو لَا تُظْلَمُونَ ، وَلَا يُظْلَمُونَ کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ ظلم نہیں کرے گا جتنا دیا اتنا واپس کر دے گا.مراد یہ ہے کہ خدا کی طرف سے کوئی کمی واقع نہیں ہوگی.اتنا دے گا کہ تمہارے پیٹ بھر جائیں گے تم کانوں تک راضی ہو جاؤ گے.یہ معنی ہے اس آیت کا.یہ سب بیان کرنے کے بعد فرما یا لِلْفُقَرَاءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ اس وقت جو ہم خرچ کرنے کی تاکید کر رہے ہیں تو یہ عام خرچ نہیں بلکہ خصوصیت سے ان فقراء کی خاطر خرچ ہے جو خدا کے رستے میں گھیرے میں آگئے اور ان میں زمین پر چل کر اپنے کمانے کے لئے گنجائش نہیں رہی.وہ محبت کی رسیوں میں باندھے گئے اور ہمیشہ کے لئے محمد مصطفی ﷺ کے قرب میں انہوں نے ڈیرے ڈال دیئے حالانکہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں.کھانے کے بھی وہ محتاج ہیں.پہننے کے بھی ، اوڑھنے کے بھی محتاج ہیں.ان کی ساری ضرورتیں خدا پر چھوڑ دی گئی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ تمہیں فرماتا ہے کہ تم ان کی ضرورتیں پوری کرو خدا تمہاری ضرورتیں پوری کرے گا اور تمہاری ضرورتیں پوری کرنے میں کوئی کمی نہیں کرے گا.اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو بھی انہی معنوں میں اصحاب الصفہ کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے.وہ جس رنگ میں بھی ہوں جہاں بھی ہوں خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کو ان کی خدمت کی توفیق بخشے اور ان کا فیض خدا تعالیٰ کے فضلوں کی صورت میں ساری دنیا کی جماعت پر نازل ہوتا رہے.
باب پنجم 213 وو ر نگہائے قادیان" صدسالہ جلسہ سالانہ قادیان کے تاریخی ریکارڈ کے بعض رنگا رنگ پہلو جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء پر حضور کا پیغام جلسہ سالانہ قادیان (بھارت) منعقده ۲۶، ۲۷، ۲۸ دسمبر ۱۹۹۰ء کے موقع پر حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ نے مندرجہ ذیل پیغام بھجوایا جس میں آپ نے قادیان آنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: پیارے شرکائے جلسہ سالانہ قادیان! اللہ تعالیٰ کا بہت احسان ہے کہ اس نے آپ کو اس عظیم بابرکت اجتماع میں شرکت کی توفیق عطا فرمائی ہے جس کی بنیا د سیدنا حضرت اقدس بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ ( اللہ تعالیٰ آپ پر ہمیشہ سلامتی نازل فرما تا ر ہے ) نے ۲۷ دسمبر ۱۸۹۱ء کو اسی مقدس بستی قادیان میں رکھی تھی.بیان کیا جاتا ہے کہ اس پہلے جلسہ میں حاضرین کی تعداد ۷۵ تھی لیکن غالباً اس تعداد میں عورتوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا.اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے لئے علیحدہ انتظام ہی شروع نہ ہوا ہو.خدا کی تقدیر نے بعد ازاں ثابت فرما دیا کہ جس مبارک وجود نے اس جلسہ کی داغ بیل ڈالی اور اس کے چند مصاحب جو اس جلسہ میں شریک ہوئے.ان کا مقام خدا کی نظر میں بہت بلند تھا اور ان کی عاجزانہ راہیں خدا کو پسند آئیں.چنانچہ آج جبکہ تقریباً ایک سوسال اس پہلے جلسہ کو گزر چکے ہیں.اس عرصہ میں دنیا بھر میں اتنے
214 ممالک میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں کہ حاضرین جلسہ کی تعداد سے ان ممالک کی تعداد کہیں زیادہ ہے اور ان میں سے ہر ملک میں ان کے سالانہ جلسوں کے شرکاء کی حاضری بھی ۷۵ سے بہت زیادہ ہوتی ہے.آخری جلسہ جس میں مجھے پاکستان میں شمولیت کی توفیق ملی اس ایک جلسہ میں خدا کے فضل سے اڑھائی لاکھ سے زائد مردوزن شریک تھے.انگلستان کے گزشتہ جلسہ میں بھی آٹھ ہزار کے لگ بھگ اور جرمنی کے جلسہ میں دس ہزار سے زائد حاضری تھی.اسی طرح افریقہ اور یورپ اور ایشیا کے بکثرت ایسے ممالک ہیں جن میں ہزارہا کی تعداد میں جلسہ میں شرکت کی جاتی ہے.پس خدا تعالیٰ کے فضل 66 کے ساتھ ” با برگ و بار ہوویں اک سے ہزار ہوویں“ کا منظر دنیا میں ہر طرف دکھائی دیتا ہے.میری نصیحت آپ کو یہ ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے تعداد میں اتنی برکت دی ہے اور حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی اس دعا کو غیر معمولی طور پر شرف قبولیت بخشا ہے کہ با برگ و بارہوویں،اک سے ہزار ہوویں وہاں ہمیشہ اس دعا کے دوسرے حصہ پر بھی آپ کی نظر رہے اور ایسے نیک اعمال بجالائیں کہ آپ حضرت اقدس) کی روحانی اولاد کے طور پر حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی نیک تمناؤں پر پورا اترنے والے ہوں اور آپ کے حق میں حضرت اقدس ) کا یہ منظوم کلام پوری شان سے صادق آئے.اہل وقار ہوویں فخر دیار ہوویں حق پر نثار ہوویں مولا کے یارہوویں بیعت لدھیانہ کے ذریعے ۱۸۸۹ء میں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مقدس ہاتھوں سے مشیت الہی نے جماعت احمدیہ کی بنیاد ڈالی.اس عظیم تاریخ ساز واقعہ کی یاد میں جماعت احمد یہ عالمگیر نے ۱۹۸۹ء کو سو سالہ جشن تشکر کے سال کے طور پر منایا.پس اگر پہلے جلسہ کی بنیاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے جلسہ تشکر کے انعقاد کا انتظام کیا جائے تو اس کے لئے موزوں سال ۱۹۹۱ء بنے گا.احباب جماعت سے میں یہ درخواست کرتا ہوں کہ میری دلی تمنا کو برلانے میں دعاؤں کے ذریعے میری مدد کریں کہ ہم آئندہ سال جب قادیان میں یہ تاریخی جلسہ تشکر منعقد کر رہے ہوں تو میں بھی اس میں شریک ہوسکوں اور کثرت سے پاکستان کے احمدی احباب بھی اس میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کریں.
215 اس دعا کے ساتھ یہ دعا بھی لازم ہے کہ خدا تعالیٰ ہندوستان کو امن عطا فرمائے اور ہندوستان کے شمال و جنوب میں نفرتوں کی جو تحریکات چلائی جارہی ہیں اور ہندوستانی بھائی اپنے ہندوستانی بھائی کے خون کا پیاسا ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ وحشت دور کرے اور سارے ہندوستان کو انسانیت کی اعلیٰ اقدار کے ساتھ وابستہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہندو مسلمانوں اور سکھوں اور پارسیوں اور دیگر مذاہب کے سب لوگوں کو اختلاف مذہب کے باوجود ایک دوسرے سے محبت کرنے اور ایک دوسرے کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ بات سب اہل ہند کے دل میں جاگزیں فرمائے کہ کوئی سچا مذ ہب خدا کے بندوں سے نفرت کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ مذہب کی صداقت کا نشان یہی ہے کہ بندگانِ خدا سے رحمت و شفقت کی تعلیم دے.یادرکھیں کہ جو مخلوق سے محبت نہیں کرتا وہ خالق سے بھی محبت نہیں کرتا.پس احباب جماعت کو کثرت سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہندوستان کو اور اسی طرح باقی دنیا کو بھی امن نصیب فرمائے.قیامِ امن کے سلسلہ میں جماعت احمد یہ عالمگیر کو میں پہلے ہی بار ہا نصیحت کر چکا ہوں.اب خصوصیت سے ہندوستان کی جماعتوں کو اس طرف متوجہ کر رہا ہوں آئندہ سال کے تاریخی جلسہ کے انعقاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے پہلے سے کہیں بڑھ کر ہندوستان کے لئے اور اپنی قوم کے لئے اس کے لئے دعائیں بھی کریں اور کوشش بھی.خدا تعالیٰ آپ سب کا حامی و ناصر ہو.آپ کو ہر قسم کی مشکلات اور مصائب سے نجات بخشے.ہر قسم کے خطرات سے بچائے.یہ دن جو آپ قادیان گزارنے کے لئے آئے ہیں ان کا ہر لمحہ مبارک آئے.روحانی فیوض سے آپ کے دامن بھر دے اور روحانی دولت سے مالا مال ہو کر آپ خیر و عافیت سے اپنے وطن اور گھروں کو لوٹیں اور جو فیض آپ نے یہاں سے پایا ہے اسے دوسروں تک بھی پہنچانے کی سعادت حاصل کریں.خاکسار ( دستخط) مرزا طاہراحمد خلیفہ امسیح الرابع روزنامه الفضل ربوه ۳۱ /جنوری ۱۹۹۱ء)
216 کمیٹی صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۰ء کے موقع پر حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کے نام پیغام بھجوایا اور آئندہ جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء کے متعلق ارشاد فرمایا.اگر پہلے جلسہ کی بنیاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے جلسہ تشکر کے انعقاد کا انتظام کیا جائے اسکے لئے موزوں سال ۱۹۹۱ء کا بنے گا.احباب جماعت سے میں یہ درخواست کروں گا کہ میری اس دلی تمنا کو برلانے میں دعاؤں کے ذریعہ میری مدد کریں کہ ہم آئندہ سال جب قادیان میں یہ تاریخی جلسہ تشکر منعقد کر رہے ہوں تو میں بھی اس میں شریک ہوسکوں اور کثرت سے پاکستان کے احمدی احباب بھی اس میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کریں.“ ( مکتوب از لندن ۱۹۹۰-۱۲-۵) ۲ جنوری ۱۹۹۱ء کو مکرم ومحترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلیٰ قادیان حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ایک مفصل خط لکھا کہ اس عظیم الشان جلسہ میں شرکت کے لئے کثرت سے سب ممالک سے احمدی شرکت کریں گے.قریباً ۲۵۰۰۰.افراد کے قیام و طعام کا انتظام کرنا ہوگا.شرکاء کے لئے قادیان اور انڈیا کے ویزا کے حصول کے لئے خاص کوشش کرنی ہوگی.انڈین حکومت کو بھر پور تعاون کے لئے آگاہ کرنے کے لئے روابط کرنے ہوں گے.اور حضور کی شرکت کے مدنظر حفاظت کے خصوصی انتظام کرنے ہوں گے.وغیرہ وغیرہ محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کا خط حضور ” نے مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب افسر جلسہ سالانہ ربوہ کو اس ارشاد کے ساتھ بھجوایا کہ آپ اس جلسہ کے انتظامات کے سلسلہ میں بحیثیت افسر جلسہ سالانہ ان پر غور کریں اور مشورہ دیں.نیز عمومی طور پر صدرانجمن احمد یہ میں بھی یہ مسئلہ رکھیں.اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین اور بیش از پیش خدمات سرانجام دینے کی توفیق دے.کان اللہ معکم.“ اس خط کے جواب میں ۱۹۹۱ ۲-۱ اکو مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب افسر جلسہ سالانہ نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں لکھا کہ.قادیان کے جلسہ ۱۹۹۱ء کے بارے میں حضور کا ارشا دل گیا ہے.مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب یہاں ( آئے ہوئے ) ہیں ان سے گفتگو ہو چکی ہے.نائب افسران جلسہ اور خاکسار بھی مل کر
217 discuss کر چکے ہیں.صدر انجمن احمدیہ کا اجلاس بھی عنقریب حسب ارشاد حضور اس معاملہ پر غور کرے گا.اسکے بعد حضور کی خدمت میں تفصیلی رپورٹ لکھ کر بھجواؤں گا.انشاء اللہ 6 چنانچہ اس کے بعد افسر جلسہ سالانہ اور نائب افسران جلسہ سالانہ نے باہم مل کر جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء کے موقع پر کی جانے والی تیاریوں کے متعلق ۳۹۱.ے کو حضور انور کی خدمت میں ۸ صفحات پر مشتمل ایک مفصل رپورٹ بھجوائی.جس میں جلسہ سالانہ کے موقع پر ۲۰ تا ۲۵.ہزار افراد کے رہائش ، طعام ،سفر، مردانہ، زنانہ جلسہ گاہ کے انتظام کے متعلق سفارشات اور شرکاء کے لئے ویزا کے حصول کے لئے لائحہ عمل تجویز کیا گیا.اور شرکاء کے آمدورفت کے انتظامات کے متعلق تفصیلات پیش کی گئیں.قادیان میں میسر رضا کاروں کی تعداد بہت تھوڑی تھی.اس لیے یہ بھی سفارش کی گئی کہ پاکستان سے جانے والوں میں سے انتظامات جلسہ کے لئے کم از کم چار سو تجر بہ کا ررضا کار قادیان کے رضا کاروں کی معاونت کے لئے مختص کئے جائیں اور حسب ضرورت نانبائی ، باورچی ، قصاب، الیکٹریشن لاؤڈ سپیکر کے کام کے واقف اور ترجمانی کے کام سے واقف سٹاف بھی بھجوایا جائے.نیز متعدد دوسری سفارشات بھی پیش کی گئیں.افسر صاحب جلسہ سالانہ کی پیش کردہ اس سکیم کا جائزہ لینے کے لیے لندن میں حضور انور نے مکرم آفتاب احمد خان صاحب امیر یو.کے مکرم مبارک احمد ساقی ایڈیشنل وکیل التبشیر اور چوہدری ہدایت اللہ بنگوی صاحب افسر جلسہ یو کے پر مشتمل کمیٹی مقرر فرمائی.افسر صاحب جلسہ سالانہ ربوہ کی رپورٹ پر حضور انور نے جو ارشادات فرمائے.مکرم مبارک احمد ساقی ایڈیشنل وکیل التبشیر نے ان پر مشتمل خط ۹۱ - ۲۶ کو مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب کو لکھا.مکرم محترم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبركاته جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ ء کے بارہ میں آپ کی طرف سے ارسال کردہ سکیم حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں موصول ہوئی ہے.اس بارہ میں حسب ذیل ہدایات نوٹ فرمالیں.1.فرمایا ہے کہ انتظامات اور دیگر امور سرانجام دینے کے لئے ایک کمیٹی مقرر کر لی جائے جس کے حسب ذیل ممبران ہوں گے.
218 1.چوہدری حمید اللہ صاحب افسر جلسہ سالانہ 2.ناظر صاحب خدمت درویشاں 3.ناظر اعلیٰ صاحب 5.ناظر صاحب اصلاح وارشاد 4.ناظر صاحب امور عامہ 6.مرزا وسیم احمد صاحب قادیان.اسکے علاوہ افسر جلسہ سالانہ کے درج ذیل نائبین بھی اس کمیٹی کے ممبر ہوں گے.1 - مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب -2 مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب 3 - مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب افسر صاحب جلسہ سالانہ اس کمیٹی کے چیئر مین ہوں گے.کمیٹی کا نام کمیٹی صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان ہوگا.فرمایا ہے کہ ناظر صاحب اعلیٰ قادیان کو مشورہ میں شامل کیا جائے.لیکن انتظامی امور کا بوجھ ان پر نہ ڈالا جائے.وہ LAISON آفیسر ہوں گے.مزید جلسہ سالانہ کے دوران مجھے بعض دیگر کاموں کیلئے انکی ضرورت ہوگی.2 مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب افسر جلسہ سالانہ مکرم مرزا غلام احمد صاحب اور مکرم ناظر صاحب خدمت درویشاں فوری طور پر قادیان جاویں اور جملہ انتظامات کا جائزہ لیں.فرمایا ہے کہ ناظر صاحب خدمت درویشاں کو سر دست چھوڑا بھی جاسکتا ہے.3.جو کام مستقل نوعیت کے ہیں اور لمبا وقت چاہتے ہیں مثلاً تعمیرات وغیرہ انہیں فوری طور پر شروع کر وا دیا جائے.حضور کے جانے کا پروگرام ہو یا نہیں یہ علیحدہ بات ہے.4.قادیان جاتے وقت مندرجہ بالا ناظر صاحبان کے علاوہ بعض دیگر احباب کو بھی شامل کر لیا جائے جن کا مشورہ انتظامات کے سلسلہ میں مفید ہوسکتا ہے.مثلاً آرکیٹیکٹ ،سول انجینئر، اوورسیر وغیرہ.اسطرح Masons اور Plumbing کے ماہر وغیرہ، لمبے وقت کے لئے وقف کریں اور آپکے دورہ کے بعد یہ لوگ کام شروع کر دیں.5.قادیان میں جو سٹاف ہے وہ انتظامات کے لئے بالکل نا کافی ہے لازماً پاکستان سے ایک ٹیم تیار کرنی ہوگی جو جلسہ سے کچھ عرصہ قبل وہاں پہنچ جائے اور انتظامات کے ضمن میں وہاں کے سٹاف کے ساتھ کام کرے گی.6.ویزوں کے جاری کئے جانے کے لئے ہم یہاں متعلقہ آفیسروں سے بات کریں گے.اس کے علاوہ ہندوستان بھی کسی نمائندہ کو بھجوا کر وہاں کی حکومت سے جلسہ کے انتظامات اور ویزے جاری کئے جانے کے
219 بارے میں رابطہ کیا جائیگا.7.قادیان میں جو 32 مکانات بنانے کی سکیم ہے اسبارہ میں یہ بات مدنظر ر ہے کہ یہ سارے مکانات بیوت الحمد سکیم کے تحت نہیں بنائے جارہے ہیں.ان میں سے بعض مکان ان فیملیوں کو آباد کرنے کے لئے استعمال کئے جاویں گے جو اس وقت خستہ مکانوں میں رہ رہے ہیں.گویا یہ مکانات سر دست خستہ عمارات کی متبادل جگہ ہے اور پرانے ،خستہ گھروں کے بارے میں یہ فیصلہ ہے کہ ان کو مسمار کر کے وہاں نئی آبادی ہوگی.نئی سکیم کے مطابق جو مکان تیار ہو جائیں گے انہیں جلسہ کے لئے استعمال کیا جائے گا.8.عورتوں کے جلسہ گاہ کے لئے باغ والی جگہ ناموزوں ہے کیونکہ یہ مردانہ جلسہ گاہ سے مغرب کی طرف ہے.اسطرح نمازوں کی ادائیگی کے وقت عورتیں امام سے آگے ہوں گی اور اسطرح نماز میں شامل نہ ہو سکیں گی.اس لئے اس جگہ کو تبدیل کیا جائے.حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کے مکان والی طرف ان کے جلسہ گاہ کا انتظام ہو سکتا ہے.اسکا جائزہ لیا جائے.9.ایک تجویز یہ ہے کہ سابق تعلیم الاسلام کالج کی انتظامیہ سے بات کی جائے اور مسجد نور اور کالج کے سامنے والی زمین، کھیلوں کے بڑے میدان جہاں پارٹیشن سے قبل جلسہ سالانہ ہوا کرتا تھا.اس کے استعمال کی اجازت حاصل کی جائے.اس جگہ کے حصول کا ایک فائدہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسجد نور کی تزئین اور اسکی مرمت کا موقع مل جائے گا.نیز چونکہ مہمانوں کا قیام وہاں کے قریبی سکولوں اور کالجوں میں ہوگا یہ جگہ زیادہ موزوں ہوگی.اس کے ساتھ ہی دار السلام کو ٹھی حضرت نواب محمد علی صاحب کے استعمال کا بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے اور اس کی حدود میں عارضی رہائش کا بھی جائزہ لیا جائے.بہر صورت یہ بات مدنظر رکھی جائے کہ وہ جگہ جہاں گزشتہ چند جلسے ہوتے رہے ہیں وہ بہر حال چھوٹی نظر آرہی ہے.مہمانوں کی تعداد کے مطابق نا کافی ہوگی.10.فرمایا ہے کہ سارے انتظامات کا ابتدائی ڈھانچہ تیار ہو جائے تو پھر مکرم منیر فرخ صاحب کو بھی ترجمہ کے لئے جائزہ لینے کے لئے قادیان بھجوایا جائے.11.فرمایا ہے کہ دو کی بجائے تین لنگر ہوں گے.ایک جگہ چاول ساتھ سالن جسے پر ہیزی کھانا کہا جاتا ہے تیار ہوں.
220.روٹی پلانٹ مشینیں نصب ہوں اور ضرورت کے مطابق سالن کا انتظام ہو.ہیں.یو.پی کے نانبائی جن کے بارہ میں رپورٹ میں ذکر ہے کہ وہ تندوروں وغیرہ کا خود انتظام کریں گے.یہ جائزہ بھی لے لیا جائے کہ اگر یو.پی سے کافی تعداد میں نانبائی مل سکتے ہیں تو پھر کیا روٹی پلانٹ کے لگائے جانے کی ضرورت ہوگی یا نہیں.12 لنگر خانہ کی Site کا فیصلہ کر کے وہاں ضروری تعمیر شروع ہو جانی چاہیے اگر رہائش گا ہیں جلسہ گاہ سے دور ہوں گی تو ممکن ہے کہ کھانا وہاں لیجانے کے لیے دیکنوں یا ٹریکٹر ٹرالیوں کی ضرورت ہو.اس پہلو کو بھی دیکھ لیا جائے.13 - دار الانوار میں رہائش کا انتظام ہو سکے تو ٹھیک رہے گا.14.باہر سے آنے والے مہمانوں کی لئے Toilets کا مناسب انتظام کرنا ہوگا.15.بعض یورپین ممالک اور امریکہ، کینیڈا، انڈونیشیا، سنگا پور ، جاپان وغیرہ کو یہ تحریک کی گئی ہے کہ وہ قادیان میں گیسٹ ہاؤس بنوائیں.ان کے لئے فوری طور پر site کا فیصلہ ہونا ضروری ہے.اس کا پلان بنا کر یہاں بھیجیں.یہ گیسٹ ہاؤس دو منزلہ ہونگے.نیچے اجتماعی رہائش کے لئے کمرے ہوں گے، جبکہ اوپر کے حصہ میں فلیٹ ٹائپ کمرے ہوں گے.جہاں فیملیاں ٹھہر سکیں گی.کچن بھی شامل ہوں گے.اسبارہ میں چوہدری رشید آرکیٹیکٹ صاحب نقشہ تیار کر کے بھجوائیں گے.فرمایا ہے کہ ممکن ہے بعض ممالک سے رقم پہنچنے میں دیر لگے اس لئے انتظار نہ کیا جائے.کام شروع ہو جائے.رقم ساتھ کے ساتھ جاتی رہے گی.16 - مکرم آفتاب احمد خان صاحب کو ویزوں کے حصول اور دیگر رابطوں کے لئے ہدایات دی گئی ہیں.17.اخراجات:.قادیان کے جلسہ سالانہ کے اخراجات کے سلسلہ میں وہاں کا بجٹ بہت کم ہے.مستقل تعمیرات کے لئے صد سالہ جو بلی فنڈ کی مد سے رقم لی جائے گی.18.آپ کی طرف سے بھجوائی جانے والی سکیم کے تحت مہمانوں کی تعداد میں ہزار متوقع ہے.فرمایا ہے کہ یہ تعداد میں ہزار (30,000) تک جاسکتی ہے اسکے مطابق پلان تیار کیا جائے.19.جو مغربی ممالک اپنے عارضی مہمانوں کے لئے گیسٹ ہاؤس تیار کریں گے.ان میں بستروں کا بھی
221 انتظام ہو.البتہ پاکستان اور ہندوستان سے آنے والے مہمانوں کو تلقین کی جائے کہ وہ اپنے بستر ساتھ لے کر آویں.لیکن ایمر جنسی کے طور پر ایک ہزار بستر بنانے پر بھی غور کیا جائے.20.پریس اور گورنمنٹ کے نمائندگان کے لئے خصوصی انتظامات ہوں.اس کیلئے ایک علیحدہ شعبہ قائم کیا جائے جوان امور کا ذمہ دار ہو.21 سیکورٹی کا ہندوستان کے خصوصی حالات کے پیش نظر خاص انتظام ہو.حکومت کے تعاون کا جائزہ لے لیا جائے.والسلام خاکسار دستخط مکرم مبارک احمد ساقی صاحب (ایڈیشنل وکیل التبشير لندن) اس دوران ۹۱ ۱۵۳ کو حضور نے اپنے اپنے گیسٹ ہاؤسز کی تعمیر کے متعلق جرمنی، یو.کے، کینیڈا اور U.S.A کے علاوہ اور بعض دوسرے امراء کو مندرجہ ذیل خط لکھا.مکرم السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته خدا تعالیٰ نے توفیق بخشی تو میرا خیال ہے کہ اس سال قادیان کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کروں.اگر امسال نہ بھی توفیق ملے تو آئندہ کوشش اور دُعا یہی ہوگی کہ قادیان کے سالانہ جلسہ میں شمولیت کا موقعہ ملے.اگر میں جلسہ پر گیا تو خیال ہے کہ یورپ.امریکہ کینیڈا وغیرہ ممالک کی جماعتوں سے کثرت سے دوست وہاں پہنچیں گے.اسی طرح پاکستان اور ایشیا کے دیگر ممالک سے بھی بہت سے احباب اس جلسہ میں شامل ہوں گے.لیکن اس وقت تک وہاں مہمانوں کے قیام وغیرہ کے لیے مکانات کی بہت دقت پیدا ہوتی ہے خواہ وہ پاکستانی الاصل ہوں یا مقامی باشندے.اس لئے میرا خیال ہے کہ اگر کینیڈا.امریکہ.انگلستان.جرمنی اور اسی طرح دیگر یورپین ممالک اپنے اپنے حالات کا جائزہ لیکر قادیان میں اپنے اپنے گیسٹ ہاؤس تعمیر کرنا چاہیں تو وہاں کسی خاص مناسب جگہ پر یہ سارے گیسٹ ہاؤس اکٹھے تعمیر کیے جاسکتے ہیں.غالبا یہ مناسب ہوگا کہ نچلے فلور پر ایک طرف خواتین کے اجتماعی قیام کا انتظام ہو اور ایک طرف
222 مردوں کے اجتماعی قیام کا.اور دونوں کے لیے ضروری سہولتیں اپنے اپنے حصہ میں ہوں.بیچ میں ایک جگہ مشترکہ طور پر باہر سے آنے والے اور ملنے والوں کے لیے استعمال ہوسکتی ہے.اوپر کی منزل پر چھوٹے چھوٹے فیملی یونٹس سٹوڈیو فلیٹ ٹائپ کے ہو جائیں جس میں چھوٹا سا چولہا بھی مہیا ہو جائے اور Wash basin بھی.ٹائلٹ اور باتھ روم وغیرہ ایک طرف اکٹھے بن سکتے ہیں.اس عمومی نقشے کے پیش نظر اگر آپ کے ملک کی جماعت کو دلچسپی ہو تو جائزہ لیکر مطلع فرمائیں.فی الحال اس کا تخمینہ لگانا تو مشکل ہے.لیکن میرا خیال ہے کہ مختلف سائزوں کے مطابق ایسے گیسٹ ہاؤس پر اگر بہت چھوٹا ہو تو پانچ لاکھ تک اور درمیانے درجہ کا معقول سائز ہوتو ہیں لاکھ روپے تک کا بن سکے گا.لیکن یہ تفصیلات تو بعد میں طے ہوں گی پہلے آپ اپنے اندازے لگا کر کوائف سے مطلع کریں کہ انداز آپ کے ملک کو کتنے فیملی کمروں کی اور کتنی اجتماعی رہائش کی ضرورت پیش آئے گی اور انداز اکتنا خرچ آپ اپنے ملک کی طرف سے پیش کرسکیں گے.اس کے مطابق پھر آرکیٹیکٹ صاحب مشور ہ دیں گے ، چونکہ وقت تھوڑا ہے.اسلیے جتنی جلدی ممکن ہو مجھے مذکورہ بالا کوائف بھجوائیں تا کہ اس کی روشنی میں مزید اقدامات کیے جاسکیں.جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء والسلام خاکسار دستخط حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ مسیح الرابع ) مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب افسر جلسہ سالانہ ، مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نائب ا سالانہ اور مکرم چوہدری اللہ بخش صاحب ناظر خدمت درویشاں ۳۰ را پریل ۱۹۹۱ء کو دہلی پہنچے اور وہاں سے قادیان کا ویزا حاصل کرنے کے بعد ۴ رمئی ۱۹۹۱ء کو قادیان پہنچے.اس سفر میں مکرم آفتاب احمد خان صاحب امیر یو.کے بھی اُن کے ہمراہ تھے.سفر پر روانہ ہونے سے پہلے مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب نے حضور سے ہدایات مرحمت فرمانے کی درخواست کی تو حضور انور نے اُن کو مورخہ ۹۱-۴-۲۴ کولکھا کہ:.وو اصل بات یہ ہے کہ آپ اور امیر صاحب یو.کے میرے نمائندہ ہیں.“ اس کے بعد پاکستان سے مندرجہ ذیل چار انجینئر صاحبان نے قادیان آکر اپنا اپنا کام شروع کر دیا :.
223 1 - مکرم چوہدری محمد عبدالسمیع صاحب 2 - مکرم راجہ ناصر احمد صاحب سرگودھا ان کے سپر د sewerage اور sanitation کے انتظامات تھے.مکرم چوہدری رشید احمد صاحب انجینئر ادارہ تعمیر ربوہ.ان کے سپر دلنگروں کی تعمیر مسجد نور اور مسجد دارالانوار کی مرمت کے انتظامات تھے.4 مکرم میاں رفیق احمد صاحب ان کے سپر در وٹی پلانٹ کا بنا نا تھا.اس کے بعد دسمبر ۱۹۹۱ء تک مختلف کاموں کی مہارت رکھنے والے اور مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے احباب باری باری مسلسل قادیان جاتے رہے اور اپنا اپنا کام کر کے واپس آتے رہے.ان میں آرکیٹیکٹ ،انجینئر ، مکینک، پلمبر، راج، کار پینٹر، الیکٹریشن سینٹری کے کاریگر، نانبائی، باورچی ، قصاب، ڈاکٹر ز ، مرکزی دفتروں کے کارکن اور متفرق احباب سبھی شامل تھے.حیدر آباد دکن سے مکرم ظہور الدین صاحب انجینئر اور اڑیسہ سے سول انجینئر مکرم فیروز صاحب تشریف لائے.اور ۳۲ کوارٹرز کی تعمیل کا کام اُنہوں نے سنبھالا.مرکزی کمیٹی کے تینوں ممبران نے مکرم صاحبزادہ مرزا دوسیم احمد صاحب ناظر اعلی قادیان اور صدرانجمن احمدیہ کے مختلف ناظران اور افسران صیغہ جات اور افسر صاحب جلسہ سالانہ قادیان مکرم منظور احمد گجراتی صاحب اور ان کے ناظمین جلسہ سالانہ کے ساتھ مل کر جلسہ سالانہ کی منصوبہ بندی کا کام شروع کر دیا.مرکزی وفد نے ۴ مئی ۱۹۹۱ء تا ۱۲ ارجون ۱۹۹۱ ء تک قادیان میں قیام کیا اور جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ء کی ممکن منصوبہ بندی کی.وفد نے اس منصوبہ بندی پر مشتمل اپنی پہلی رپورٹ 7/05/91 کو حضور انور کی خدمت میں بذریعہ fax بھجوائی.جو 13 صفحات پر مشتمل تھی.اسی رپورٹ میں جلسہ گاہ.دارالانوار میں چار گیسٹ ہاؤسز کی تعمیر مسجد نور کی مرمت.مسجد دارالانوار کی مرمت.دارالضیافت کے علاوہ بالمقابل مکان حضرت مولانا سرور شاہ صاحب ایک لنگر اور محلہ ناصر آباد میں دوسرے لنگر کے قیام کی تجویز.مہمانوں کی قیام گاہوں کا نقشہ ( مع تعداد مہمانان جوان قیامگاہوں میں ٹھہر سکیں گے.) مختلف جگہوں پر ۱۵۰ چھولداریاں لگانے کی تجویز.بیرکس کی تعمیر.کالونی ۳۲ کوارٹرز متصل قبرستان عام ) کے بارے میں سفارشات.
224 مسجد اقصے ، مسجد مبارک، دار مسیح کی جلسہ سے قبل Restoration اور اسکے sewerage کے انتظام کے متعلق سفارشات.۲۰ سے ۳۰ ہزار کس کے کھانا کی تیاری اور قیام وطعام کے جملہ انتظامات (خرید اجناس ، حصول خیمہ جات وشامیانے ، روشنی ، آب رسانی ، پرالی، خرید دیگ و غیره ، خرید برتن stainless steel لنگروں کی تعمیر ، جزیٹرز کے انتظام، ٹرانسپورٹ کا انتظام،خرید Pick up، تیاری ۱۰۰۰ بستر) کے بارے میں سفارشات پیش کی گئیں.جن کو بالعموم حضور انور نے منظور فرمایا.اور ان کے بارے میں حضور انور کا جواباً مندرجہ ذیل خط موصول ہوا.لندن مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ کی مراسلہ بذریعہ فیکس 17/05/91 از قادیان مشتمل بر 13 صفحات موصول ہوئی.آپ کے مشورے عمومی طور پر منظور ہیں.بعض جگہ میں نے ان پر نوٹس دیئے ہیں جو آپ کو بھجوائے جارہے ہیں.اس کے علاوہ حسب ذیل امور بھی پیش نظر رکھیں.گیسٹ ہاؤسز کے بارہ میں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ ان کو دارالانوار کی بڑی سڑک پر رکھا جائے یا مکانات کو.چوہدری عبدالرشید صاحب آرکیٹیکٹ کا رجحان اس طرف ہے کہ مکانات کو باہر کی سڑک پر رکھنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ روز مرہ استعمال ہوتے ہیں اسطرح نگرانی رہے گی.اور گیسٹ ہاؤسز اندر کی طرف ہوں.مکانیت کے لحاظ سے یہ ممکن ہوگا یا نہیں یا اس میں کیا ترمیم کرنی پڑے گی.اس بارہ میں اگر کوئی دقتیں ہوں تو ۹۱.۵.۲۷ تک انتظار کر لیں.چوہدری عبدالرشید صاحب خود وہاں تشریف لا رہے ہیں.موقعہ پر افہام و تفہیم سے معاملہ طے ہو جائے گا.لنگر خانوں کے متعلق جو تجویز دی گئی ہے اس میں جہاں دو مکان منہدم کر کے دوسری جگہ لے جانے کی تجویز ہے اور لنگر خانہ کے لئے ایک جگہ تجویز ہوئی ہے اس سلسلہ میں عبدالرشید صاحب آرکیٹیکٹ کا خیال ہے کہ لنگر خانہ کو ساتھ کے رستہ کے بالمقابل دو کنال زمین پر منتقل کر دیا جائے تو موزوں رہے گا اور یہ سارا پلاٹ مکانات یا بیرکس وغیرہ کے لئے استعمال ہو سکتا ہے.ایسی صورت میں جن دو مکانات کو منہدم کرنا ہے.انکو بھی اس جگہ کی تعمیر کی سکیم میں شامل کیا جا سکتا ہے.
225 مکرم عبدالرشید صاحب آرکیٹیکٹ وہاں آرہے ہیں مزید مشورہ وہاں سے موقعہ پر دے دیں گے.Over head tank سے متعلق بھی عبدالرشید صاحب آرکیٹیکٹ سے مشورہ کر لیں.مذکورہ بالا ترمیم یا مزید غور کے قابل امور کے علاوہ باقی تمام تجاویز منظور ہیں.اب وقت کم ہے فوری کام ہونا چاہئے.والسلام خاکسار دستخط ( حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع ) وفد نے اپنی دوسری رپورٹ 17/02/91 کو حضور انور کی خدمت میں بھجوائی.یہ رپورٹ بھی 13 صفحات پر مشتمل تھی.اس رپورٹ میں قادیان میں تعمیرات کی نگرانی کا نظام تجویز کیا گیا.جلسہ گاہ کے انتظامات کے متعلق سفارشات پیش کی گئیں.نیز جلسہ پر کن زبانوں میں ترجمانی ہوگی.ملکی شوری کے انعقاد کے لئے تاریخ تجویز کی گئی.انڈیا میں متعین مبلغین کو جلسہ پر قادیان بلوانے کے متعلق سفارش.جلسہ گاہ ،مردانہ وزنانہ کی تیاری کے اخراجات ، اس دوران انڈیا کے صوبائی امراء کا اجلاس قادیان میں منعقد ہوا.ان کے مشورے اور ان کو دی گئی ہدایات کے بارے میں رپورٹ.چار گیسٹ ہاؤسز، ہائی سکول کی عمارت ۳۲ کوارٹرز کی تعمیر ، مسجد اقصی کے تہہ خانہ کی تعمیر اور مسجد اقصیٰ کے جنوب کی طرف عارضی بیوت الخلاء کی تعمیر، قادیان میں روٹی پلانٹ اور ترجمانی کے آلات کی تیاری ۳۰ جز یٹرز کی خرید کے متعلق سفارش ، قادیان میں انٹرنیشنل فون اور فیکس جلسہ سے قبل لگوانے کے متعلق سفارش ،صدر انجمن احمد یہ قادیان کے پاس موجود ٹرانسپورٹ کے علاوہ ، مزید دو کار میں اور ایک پک اپ خریدنے کی سفارش، نے گیسٹ ہاؤسز کی تعمیر کے متعلق مکرم عبدالرشید صاحب آرکیٹیکٹ کے ساتھ مل کر کمیٹی نے جو سفارشات تیار کیں.۳۲ کوارٹرز کے لئے پانی کی فراہمی کے انتظامات کے بارے میں سفارشات.حضور انور کی طرف سے ان سفارشات پر منظوریاں موصول ہونے کے بعد وفد۹۱.۶.۱۹ کو پاکستان واپس آ گیا.اس دوران خطوط، فیکس اور فون کی ذریعہ قادیان سے رابطہ رہا اور کام کی پیش رفت سے متعلق اطلاعات ملتی رہیں.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب اور مکرم مرزا غلام احمد صاحب دوسری با را کتوبر ۱۹۹۱ء اور تیسری بار
226 نومبر ۱۹۹۱ء میں قادیان گئے اور قادیان میں جلسہ کی تیاری کا جائزہ لیا اور حسب ضرورت ہدایات دیں.دوران جلسہ کے ناظمین کے ساتھ اجلاسات کئے اور ان کے کاموں کی پیش رفت کا جائزہ لیا اور ربوہ آکر کام کی پیش رفت کی رپورٹ حضور انور کی خدمت میں بھجوائی.اور بعض مزید سفارشات بھی پیش کیں.اسی طرح نومبر ۱۹۹۱ ء میں ربوہ سے نور ہسپتال قادیان کو بعض مزید سہولتیں بھی مہیا کرنے کے لئے سفارشات حضور انور کی خدمت میں بھجوائی گئیں.اس جلسہ کے لئے حضور انور نے مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب کو افسر رابطہ جلسہ سالانہ مقررفرمایا.نوٹ : 1.پاکستان سے جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء کے موقع پر ڈیوٹی ادا کرنے والے رضا کاران کی تعداد تقریباً پانچ سوتھی.دیگر ممالک سے جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء کے موقع پر خاص طور پر انگلستان سے آنے والے احباب نے بھی ڈیوٹیوں میں بھر پور حصہ لیا.2 مختلف ممالک سے جلسہ سالانہ قادیان 1991 ء میں شامل ہونے والوں کی تعداد کا ملک وار گوشوارہ درج ذیل ہے:.گوشواره شرکت کنندگان جلسه سالانه قادیان ۱۹۹۱ء نمبر شمار نام ملک تعداد نمبر شمار نام ملک تعداد 1 2 3 4 بھارت/ قادیان | 11229 9 سنگاپور پاکستان انگلینڈ جرمنی 50 کینیڈا 6 7 8 امریکہ ماریشس ناروے 5968 11 383 12 245 13 75 14 124 15 63 16 18 10 فرانس ہالینڈ عمان اردن سویڈن سپین 24 2 3 33 2 1 18 50
17 18 19 لو گنڈا ایران 20 | گیمبیا 22 نه هاته 21 ڈنمارک ابو میبی 23 تھائی لینڈ له الله کینیا 25 26 27 28 زائرے سری لنکا نیپال آسٹریلیا 227 29 4 30 2 31 38 32 1 33 3 34 9 35 3 36 4 37 1 38 57 39 15 2 گوئٹے مالا جنوبی افریقہ جاپان ملائشیاء مصر سوئیٹزرلینڈ پرتگال انڈونیشیا نائیجیریا بنگلہ دیش روس کل تعداد = 18594 (بمطابق رجسٹریشن 91-12-27) 2 1 4 15 2 10 1 64 19 14 1
228 نقشہ فرائض کارکنان جلسه سالانه قادیان افسر رابطہ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ ربوہ مکرم صاحبزادہ مرزا اوسیم احمد صاحب ناظر اعلی قادیان رابطه دفتر جلسه سالانه مکرم چوہدری منظور احمد گجراتی صاحب افسر جلسہ، مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب (افسر جلسه ) ریز رو نمبر ۲ مکرم مبشر احمد بٹ صاحب.مکرم حافظ مظفر احمد صاحب ذاتی لنگر حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مکرم محمد اسلم شاد صاحب منگلا.پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ.طبی امداد مکرم ڈاکٹر طارق احمد صاحب.مکرم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب نگرانی حاضری سپلائی مکرم محمد اکبر صاحب.مکرم شیخ مبارک احمد صاحب مکرم مولوی بشیر احمد صاحب.مکرم شیخ مبارک احمد صاحب ریلوے ریزرویشن مکرم محموداحمد ملکانہ صاحب.مکرم عبدالقدیر نیاز صاحب
استقبال 229 مکانات مکرم نصیر احمد چوہدری صاحب.مکرم سعادت احمد جاوید صاحب مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب.مکرم عبدالسلام صاحب مکرم مجیب احمد اسلم صاحب - مکرم سید نصیر الدین صاحب صفائی.آب رسانی.روشنی مکرم چوہدری منصور احمد چیمہ صاحب.مکرم چوہدری رحمت علی خان صاحب.مکرم را نا عبدالغفور صاحب اجرائے پر چی خوراک مکرم محمود احمد عارف صاحب.مکرم طاہر احمد عارف صاحب مهمان نوازی مرکزی و غیره مکرم مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری.مکرم خواجہ طاہر احمد صاحب گوشت مکرم محمد شفیع صاحب.مکرم چوہدری فضل احمد صاحب مہمان نوازی بیوت الحمد کالونی مکرم زین الدین حامد صاحب.مکرم منیر احمد بسمل صاحب قیام گاہ تہہ خانہ.مسجد اقصیٰ مکرم قریشی محمد فضل اللہ صاحب ، مکرم چوہدری عبدالشکور صاحب مهمان نوازی مستورات
230 مکرم ماسٹر احمد الیاس صاحب.مکرم سید قمر سلیمان احمد صاحب مہمان نوازی نصرت گرلز ہائی سکول مکرم ایم علی کنجو صاحب - مکرم حکیم نذیر احمد ریحان صاحب مکرم محمد یوسف صاحب انور قادیان قیام گاہ اور گرلز ہائی سکول کوٹھی ڈپٹی محمد شریف قیام گاه دید کور پرائمری سکول مکرم شیخ محمود احمد صاحب.مکرم راجہ نصیر احمد صاحب مہمان نوازی فیملیز.مکرم ظہور الدین صاحب قادیان مکرم خواجہ بشیر احمد صاحب قادیان ( حلقه مسجد نور ) حلقه مسجد مبارک مکرم مولوی طاہر احمد چیمہ صاحب حلقه ناصر آباد مکرم رضوان احمد صاحب - مکرم نورالدین چراغ صاحب مهمان نوازی چھولداریاں ناصر آباد مکرم ظفر اللہ ناصر صاحب.مکرم مختار صاحب مہمان نوازی بیوت الحمد مکرم سید صباح الدین صاحب مہمان نوازی بڈھامل بلڈنگ مکرم مولوی سید طفیل احمد صاحب
231 مہمان نوازی چھولداریاں بہشتی مقبرہ مکرم بشیر احمد صاحب طاہر قیام گاه دار مسیح مکرم فاروق احمد صاحب مہمان نوازی گیسٹ ہاؤسز مکرم محمد کریم الدین صاحب شاہد مکرم سید قاسم احمد شاہ صاحب قیام گاه ایوان خدمت قیام گاہ فاطمہ ہائی سکول مکرم محمد یعقوب صاحب جاوید مکرم مولوی خورشید انور صاحب - مکرم رفیق احمد صاحب ثاقب مکرم عزیز احمد اسلم صاحب.مکرم نصیر الحق صاحب قیام گاہ گورنمنٹ ہائی سکول قیام گاه جنج گھر مکرم با سط رسول صاحب ستنام سنگھ میموریل پرائمری سکول مکرم محموداحمد خادم صاحب ٹی آئی کالج مکرم ظہیر احمد صاحب مکرم طارق احمد جاوید صاحب قیام گاه دفاتر مکرم مولوی کریم صاحب.مکرم شریف احمد صاحب
232 چھولداریاں بالمقابل خالصہ کالج مکرم محمد اعظم اکسیر صاحب مکرم محمد یوسف صاحب.قیام گاہ ڈی.اے.وہی پرائمری سیکشن لنگر نمبرا مکرم گیانی عبداللطیف صاحب.مکرم محمد عارف صاحب.(حضرت) صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب روٹی پکوائی لنگر نمبر ۲.مکرم رشید احمد صاحب ربوه مکرم مظفر اقبال چیمہ.مکرم حنیف احمد محمود مکرم مبشر مجید باجوہ صاحب لنگر نمبر ۳ تربیت مکرم قاری نواب احمد صاحب گنگوہی.مکرم حمید احمد خالد صاحب مکرم حکیم محمد دین صاحب - مکرم محمد اسماعیل منیر صاحب نگران قیام گاه مستورات محترمہ سیدہ امتہ القدوس صاحبہ بیگم حضرت مرزا وسیم احمد صاحب (صدر لجنہ بھارت)
233 بٹالہ سے حضرت مسیح موعود الﷺ کے اشد معاند مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے کھوج کی کوشش فاعتبروا یا اولی الابصار انہیں فلک نے یوں مٹا دیا کہ مزار تک کا پتہ نہیں“ ۱۹؍ دسمبر ۱۹۹۱ء کو جب بٹالہ اسٹیشن پر ریل گاڑی رُکی تو حضور نے خاکسار (ہادی علی ) کو ارشاد فر مایا کہ کسی دن یہاں آکر مولوی محمد حسین بٹالوی کے بارہ میں پتا کیا جائے کہ ان کا کوئی جاننے والا بھی یہاں ہے کہ نہیں.چنانچہ حضور انور کے اس خصوصی ارشاد کے مطابق خاکسار، قادیان کے مقامی دوستوں مکرم فضل الہی خان صاحب اور مکرم ملک صلاح الدین صاحب مصنف اصحاب احمد کے ہمراہ اس غرض کے ساتھ مورخہ ۲۴ دسمبر ۱۹۹۱ء کو بٹالہ گیا.وہاں جا کر ہم نے بٹالہ میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے نئے اور پرانے باشندوں سے رابطہ کیا اور ان سب کے انٹرویوز یکارڈ کئے.ان لوگوں میں ڈاکٹر ، تاجر، کالج کے پرنسپل، وکیل ،سرکاری ملازم اور جرنلسٹ وغیرہ شامل ہیں.اس مہم کے نتیجہ میں یہ حیرت انگیز حقیقت سامنے آئی کہ اس شہر میں ایک شخص بھی مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے نام سے آشنا نہیں اور وہ قبرستان بھی صفحہ ہستی سے نابود ہو چکا ہے جس میں وہ دفن کئے گئے تھے.فاعتبروا، مذکورہ بالا افراد کے بیانات پرمشتمل رپورٹ جو حضرت مرہ خلیفہ امسیح الرابع کی خدمت اقدس میں پیش کی گئی.درج ذیل ہے.خاکسار مورخہ ۲۴ / دسمبر ۱۹۹۱ء بروز منگل مکرم ملک صلاح الدین صاحب مکرم فضل الہی خان صاحب کے ہمراہ بٹالہ گیا.۳.ڈاکٹر سیواسنگھ صاحب (سکھ) ۱۹۲۲ء میں بٹالہ میں پیدا ہوئے.پہلے فرنیچر کا کاروبار تھا پھر ایک لمبے عرصہ سے مطب چلا رہے ہیں.صاحب علم دوست ہیں.انہوں نے بٹالہ میں مسلمانوں کی مساعی کو بغور مشاہدہ کیا
234 تھا.چنانچہ بٹالہ میں عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولوی مظہر علی اظہر کے احمدی علماء سے مناظرے بھی سنے ہوئے تھے.ان سے جب مولوی محمد حسین بٹالوی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:.اس شخص کے بارے میں کبھی بھی سنا نہ کبھی کسی محفل میں اس کا نام آیا.لٹریچر وغیرہ میں بھی کبھی اس کا نام نہیں آیا.“ ۴.جسونت سنگھ صاحب ( پیدائش ۱۹۲۴ء بٹالہ ) پاک و ہند پارٹیشن کے وقت جرنلسٹ تھے ۱۹۴۷ء میں قادیان کی رپورٹ اخباروں میں بڑی سچائی سے اور تفصیل سے دیتے رہے.مختلف سیاسی تحریکوں میں حصہ لیا.نہرو کے زمانہ میں ڈسٹرکٹ کانگرس ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر رہے.بٹالہ میں کانگرس کمیٹی کے صدر رہے.مولوی محمد حسین بٹالوی کے بارے میں جب پوچھا گیا تو فرمایا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا، نہ میں نے ان کے بارے میں کبھی کچھ سنا، لوگوں سے کثرت سے ملنا جلنا رہتا ہے.لیکن کسی سے کبھی بھی اس شخص کے بارے میں نہیں سنا جس کے بارے میں آپ پوچھ رہے ہیں.“ ۵.جانکی نا تھ صاحب ۱۹۵۱ء میں یہاں بٹالہ آکر آباد ہوئے.ان کی ورکشاپ ہے اور مشینری کا بزنس ہے.ان کے والد بٹالہ میں بزنس کی تقریباً ہر ایسوسی ایشن کے صدر ر ہے.ان کے بڑے بھائی لوکل کمیٹیوں کے ممبر اور صدر رہے اسی طرح انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بنک کے صدر رہے.روٹری کلب کے ڈسٹرکٹ گورنر بھی رہے.ان سے جب مولوی محمد حسین بٹالوی کی بابت پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ انہیں گزشتہ چالیس سال سے تقریباً بٹالہ کے ہر شخص سے تعارف ہے انہوں نے کبھی کسی شخص سے مولوی محمد حسین بٹالوی کے متعلق کچھ نہیں سنا.“.کیول کرشن نگر وال صاحب ( بزنس مین ) جدی پشتی بٹالہ کے رہنے والے ہیں اور بٹالہ کے ابتدائی ہندو خاندانوں میں سے ہیں.ان سے جب مولوی محمد حسین بٹالوی کے بارہ میں سوال کیا گیا تو انہوں نے بیان کیا کہ ”اس نام کے کسی شخص کو نہ میں جانتا ہوں، نہ اس کے متعلق کبھی کچھ سنا ہے.
235 اگر آپ بٹالہ کی ڈیڑھ لاکھ کی آبادی میں سے ہر شخص سے پوچھ کر بھی دیکھیں تو غالبا ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جو اس نام کے شخص کو جانتا ہو.۳۰ سال سے میرے احمد یوں سے تعلقات ہیں جو بڑھتے ہی جارہے ہیں اور بہت اچھا بھائی چارہ ہے.لیکن جہاں تک اس شخص کا تعلق ہے.میں اس کے متعلق بالکل نہیں جانتا کہ اس نام کا کوئی شخص یہاں کبھی گزرا ہو جبکہ مرزا غلام احمد صاحب کے متعلق کئی مرتبہ نیک اور تکریم والے جذبات کا اظہار ہوتا ہے.حتی کہ قادیان کے ایک سخت مخالف اور کٹر ہندو کنج بہاری لعل جن سے میرے بہت گہرے مراسم تھے ان کی گواہی بھی یہ تھی کہ گو میں نے احمدیوں سے ٹکر تولی ہے لیکن یہ لوگ برے نہیں بلکہ بہت اچھے لوگ ہیں.“ ۷.باسط احمد خان صاحب عمر چالیس سال.پنجاب وقف بورڈ کے برانچ آفیسر ہیں اور ساڑھے چارسال سے بٹالہ میں وقف بورڈ میں کام کر رہے ہیں.ان سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ”مولوی محمد حسین بٹالوی کا نام تک میں نے نہیں سنا جب ان سے ان کی مسجد کے بارہ میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ اُن کے ریکارڈ میں مولوی صاحب کی مسجد کا بھی کوئی ذکر نہیں ملتا.یہاں بٹالہ میں تقریباً اڑھائی سو کے قریب مساجد تھیں.ان میں سے ایک مسجد بھی بطور مسجد استعمال نہیں ہو رہی.چند ایک مساجدا اپنی اصل شکل میں تو موجود ہیں لیکن وہ مدرسوں گوردواروں اور دوسرے مصارف میں ہیں.بٹالہ کے مسلمانوں کے لئے ایک مسجد کی جگہ جس پر سٹی کا نگرس کمیٹی کا قبضہ ہے.وہاں اب ورکشاپ اور دفاتر نما کمرے بنادیئے گئے ہیں.ان کمروں میں سے ایک کمرہ پنجاب وقف بورڈ کے انتظام کے تحت مسجد کیلئے استعمال ہو رہا ہے اور یہاں لوگ نماز پڑھنے کے لئے آتے ہیں.“ (خاکسار ہادی علی نے وہاں جا کر یہ کمرہ دیکھا اور اس کی تصاویر لیں اس کمرے کو تالا لگا ہوا تھا.باہر ایک مسلمان نوجوان کھڑا تھا اس سے نمازوں کے بارہ میں پوچھا تو اُس نے بتایا کہ یہاں
236 صرف جمعہ کی نماز ہوتی ہے اور دس بارہ آدمی اس میں حاضر ہوتے ہیں.) مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب جس قبرستان میں دفن ہوئے اس کی بابت جب با سرہ احمد خان صاحب سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ قبرستان جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں کہ وہاں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب دفن ہوئے تھے اُس کا وقف بورڈ کے کاغذات میں کوئی ریکارڈ نہیں.“ اب اس جگہ پر مکان اور گندم کی فصل موجود ہے یعنی مولوی صاحب کی قبر پر ہل چلا کر اسے صفحہ ہستی سے نا پید کر دیا گیا ہے.).کے.ایم ٹامس صاحب Baring Union Christian Collage Batala) یہ کالج اس معدوم شدہ قبرستان کے قریب واقع ہے جہاں مولوی محمد حسین صاحب کی قبر تھی.آپ اس کالج کے پرنسپل ہیں.پی ایچ ڈی (فزکس ) ہیں.۱۹۵۸ء میں یہاں آئے.ان سے جب مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے بارہ میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اب تک کبھی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا نام نہیں سنا نہ ہی کسی جگہ کسی مجلس یا کسی حلقہ میں ان کا کبھی ذکر سنا ہے.“ ۹.کلدیپ سنگھ بیدی صاحب حضرت گردو باوانانک جی سے براہ راست سولہویں پشت میں سے ہیں.صاحب علم اور علم دوست شخصیت ہیں.گھر کا ہر فرد صاحب علم ہے.یہ پیشہ کے لحاظ سے وکیل ہیں.تقریب سے سال سے بٹالہ میں مقیم ہیں.ان سے جب مولوی محمد حسین بٹالوی کے بارہ میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے بٹالہ کی مشہور شخصیتوں کے بارہ میں پڑھا ہے.لٹریچر سے میرا گہرا تعلق ہے.موجودہ زمانہ میں بٹالہ کی مشہور شخصیتوں کے متعلق مجھے ذاتی علم ہے اور ان میں سے بہت سے لوگوں سے میرا بہت گہرا تعلق ہے.لیکن مجھے تعجب ہے کہ جن صاحب کا آپ نے پوچھا اور بتایا ہے کہ وہ بٹالہ کے رہنے والے تھے ان کے متعلق میں نے نہ کبھی کچھ سنا اور نہ پڑھا ہے.“ (نوٹ: اس رپورٹ کا ذکر حضور انور کے افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء میں ملاحظہ فرمائیں.)
237 زیارت مقدس چولہ حضرت با وانا تک رحمۃ اللہ علیہ قریباً ۱۸۷۲ء کی بات ہے کہ حضرت اقدس نے باوانا تک گودو مرتبہ خواب میں دیکھا ان سے باتیں بھی کیں اور انہوں نے اقرار کیا کہ میں مسلمان ہوں اور اسی چشمہ سے پانی پیتا ہوں جس سے آپ پیتے ہیں.حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ مجھے اپنی ذات میں تو یقین تھا کہ باوانا نک مسلمان تھے لیکن چونکہ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لئے کوئی ثبوت نہیں تھا اس لئے میں خاموش تھا.مگر ایک لمبے عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ثبوت مہیا کر دیئے جن سے یہ امر حق الیقین تک پہنچ گیا کہ آپ مسلمان تھے.ان میں سے چولہ صاحب ایک اہم ترین ثبوت ہے.یہ بات بہت مشہور تھی کہ حضرت باوانانک کے پاس ایک چولہ تھا جو انہیں آسمان سے ملا تھا وہ چولہ ڈیرہ باوانا تک ضلع گورداسپور میں کا بلی مل کی اولاد کے قبضہ میں تھا اور اس کی زیارت کرنے کے لئے بڑی بڑی دُور سے سکھ احباب آیا کرتے تھے اور سکھوں کو جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی تھی.اس چولہ کو سر پر رکھ کر دعائیں کرتے اور وہ مشکل حل ہو جاتی.چولہ صاحب کی اس تعریف کو سن کر حضرت اقدس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اس چولہ کو ضرور دیکھنا چاہئے.چنانچہ آپ استخارہ مسنونہ کے بعد ۳۰ ستمبر ۱۸۹۵ء کو پیر کے دن صبح اپنے چند احباب کے ساتھ جن کے نام درج ذیل ہیں ڈیرہ باوانا نک کی طرف روانہ ہوئے.ا.حضرت مولاناحکیم نورالدین صاحب.حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب ۳.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ۴.جناب منشی غلام قادر صاحب فصیح ۵.حضرت شیخ عبدالرحیم صاحب ( بھائی جی) ۶.جناب شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی ے.جناب مرزا ایوب بیگ صاحب ۹.حضرت میر محمد اسمعیل صاحب.حضرت میر ناصر نواب صاحب ۱۰.حضرت شیخ حامد علی صاحب قریبا دس بجے قبل دو پہر آپ ڈیرہ باوانا تک پہنچے.گیارہ بجے ایک مخلص دوست کی کوشش
238 سے چولہ دیکھنے کا موقع ملا.اس چولہ پر سینکڑوں رومال لیٹے ہوئے تھے جو بھی بڑا آدمی آتا.اس پر کوئی قیمتی رومال بطور چڑھاوا چڑھا جاتا.مگر کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ اس میں کیا لکھا ہوا ہے.حضرت اقدس اور حضور کے ساتھیوں نے کافی رقم چولہ دکھانے والے شخص کو دے کر چولہ دیکھا حضرت اقدس نے مختلف احباب کے ذمہ ڈیوٹی لگادی تھی کہ فلاں شخص دائیں بازو پرلکھی ہوئی عبارت نقل کریں فلاں بائیں بازو کی اور فلاں سینہ پر کی وغیرہ وغیرہ.چنانچہ ہر دوست نے اپنی اپنی ڈیوٹی ادا کی.معلوم ہوا کہ اس چولہ پر لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ إِنَّ الذِيْنَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ، أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.سورۃ فاتحہ، آیت الکرسی اور سورۃ اخلاص وغیر لکھی ہوئی ہیں.چنانچہ حضور نے واپس قادیان تشریف لا کر اس سفر کے حالات پر مشتمل ایک کتاب ست بچن لکھی جس میں علاوہ چولہ صاحب کا فوٹو درج کرنے کے جنم ساکھیوں سے بھی متعدد حوالے اس امر کے ثبوت میں پیش کئے کہ باوانا تک صاحب مسلمان تھے.اس واقعہ کے تقریبا۹۵ سال بعد صدسالہ جلسہ سالا نہ قادیان کے موقع پر حضرت خلیفہ اسح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خواہش سے لندن کا ہمارا ایک وفد چولہ صاحب کے دیدار کے لئے گیا تا کہ اس مقدس چولہ کی وڈیو فلم بھی بنالی جائے اور تصاویر بھی اتار لی جائیں.قادیان سے مکرم فضل الہی درویش صاحب ہمارے ساتھ تھے.انہوں نے اپنے بہت ہی قابلِ قدر دوست مکرم کلدیپ سنگھ بیدی صاحب آف بٹالہ کو بھی اپنے ساتھ لے لیا.بیدی صاحب حضرت گرو بابا نانک جی سے براہِ راست سولہویں پشت میں سے ہیں اور بٹالہ میں مقیم ہیں جہاں وکالت کرتے ہیں.ان کی وجہ سے ہمارا یہ سفر بہت کامیاب ثابت ہوا.ہمارے وفد میں حسب ذیل ارکان تھے.مکرم بشیر احمد خان رفیق صاحب، مکرم را ویل بخارا بیو صاحب ، مکرم سعید احمد جسوال صاحب، مکرم وسیم احمد جسوال صاحب، مکرم مسٹر ایڈمسن صاحب (مصنف کتاب A Man of God)، خاکسار ہادی علی یکم جنوری ۱۹۹۲ء کو ہم صبح دس بجے کے قریب ڈیرہ باوانا تک کیلئے روانہ ہوئے.تقریباً ایک گھنٹہ کے سفر کے بعد اپنی منزل پر پہنچ گئے.ڈیرہ باوا نا نک ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس میں ایک مکان میں حضرت باوانا تک جی کا وہ مقدس چولہ لکڑی کی ایک کھٹولی سی میں رکھا گیا ہے جس کے اوپر والے حصوں پر شیشے کے فریم میں جو موٹے کپڑے سے ڈھکے رہتے ہیں ان شیشوں میں
239 سے چولہ کے اوپر لیٹے ہوئے غلاف نظر آتے ہیں.بس اسی طرح چولہ صاحب کا دیدار ان شیشوں میں سے ہی کیا جاتا ہے.اس کے تالے کھول کر اصل چولہ صاحب کا دیدار عوام کو تو کیا خواص کو بھی نہیں کرایا جا تا.اس چولہ کے محافظ اعلیٰ مکرم انوپ سنگھ بیدی صاحب ہیں.یہ بھی حضرت باوا نانک جی کی براہِ راست صلب سے ہیں.انہوں نے ہمارا بہت خوشی سے استقبال کیا اور ہماری درخواست پر اس فریم کا تالہ کھول کر بڑی وسعت قلبی سے ہمیں چولہ صاحب دکھایا.ہم نے اسے مس بھی کیا.اس کا کپڑا کھدر کی قسم کا نسبتا کھلی بانتی والا ہے.مرور زمانہ کی وجہ سے اس کا رنگ بھورا سا ہو چکا ہے اور تحریروں کی سیاہی بھی خا کی ہو چکی ہے.کپڑ اخستگی کی طرف مائل ہے بلکہ بعض جگہوں سے پھٹ بھی چکا ہے.اس کو تہہ کر کے رکھا گیا ہے.خستگی کی وجہ سے اس کی ساری تہیں کھولنی مشکل تھیں.اس لئے جناب انوپ سنگھ بیدی صاحب نے ہمیں چند تہیں ہی کھول کر دکھا ئیں.جن میں کلمہ شہادۃ ، اسمائے باری تعالی ، آیات قرآنیہ وغیرہ ہم نے مشاہدہ کیں.اس پاک چولہ کی تصاویر ہم نے اتاریں.اس چولہ صاحب کی فلم MTA پر بھی ایک سے زائد بار دکھائی جا چکی ہے.مکرم انوپ سنگھ بیدی صاحب نے جس طرح خندہ پیشانی اور اپنائیت کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہا اور جس وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس غیر معمولی سعادت سے ہمیں نوازا کہ ہمیں یہ سر بستہ پاک چولہ صاحب دکھایا ہمارے دل ان کے لئے جذبات تشکر سے لبریز ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزا دے.جناب انوپ سنگھ بیدی صاحب جماعت قادیان سے بہت محبت کا تعلق رکھتے ہیں.جب یہ لندن تشریف لائے تو حضور انور نے ان کا شایان شان استقبال فرمایا.محمود ہال مسجد فضل لندن میں ان کا ایک پروگرام بھی رکھا گیا جس میں کثیر تعداد میں احباب جماعت نے شرکت کی اور ان کے شبدوں سے حظ پایا.چولہ باوانا نگ کے دیدار کے بعد ہم اس عمارت میں گئے جہاں وفات کے بعد حضرت باوانا تک جی کی نعش مبارک ایک چادر کے نیچے رکھی گئی تھی.صبح دیکھا گیا تو اس چادر کے نیچے سے آپ کی نعش غائب تھی.چنانچہ یہ چادر آدھی مسلمانوں نے لے لی اور آدھی ہندوؤں نے.جو حصہ چادر کا ہندوؤں کے پاس تھا وہ اس عمارت میں دفن کیا گیا ہے.جس کے اوپر ایک سنہری محراب بنی
240 ہوئی ہے.یہ عمارت اب ایک بڑے گوردوارہ کی صورت میں ہے جسے مزید وسیع کیا جارہا ہے.ہم مکرم کلدیپ سنگھ بیدی صاحب کے بھی دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہیں جنہوں نے ایک راہنما کے طور پر ہمارے ساتھ یہ سفر اختیار کیا.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.اس تاریخی جلسہ پر بیعت کنندگان کے اسماء مورخہ ۲۸ دسمبر ۱۹۹۱ء کو جلسہ گاہ میں ہی حضورانور کے دست مبارک پر بیعت کرنے والے افراد کے اسماء حسب ذیل ہیں:.(۱) مکرم ڈاکٹر خلیل احمد صاحب پر سونی نیپال (۲) مکرم بھگیلو میاں صاحب پر سونی نیپال (۳) مکرم بابونند صاحب پر سونی نیپال (۴) مکرم محمد فتح اللہ صاحب سکوئی جمنیاں نیپال (۵) مکرم ریاض احمد صاحب سکوئی جمنیاں نیپال (۶) مکرم نگینہ صاحب سنبر سہ نیپال (۷) مکرم شاہجہاں صاحب کنچن پور نیپال (۸) مکرم شوکت علی صاحب دیور بانہ نیپال (۹) مکرم مقبول اللہ صاحب یوربانہ نیپال (۱۰) مکرم سراج الحق صاحب دیہی نیپال (۱۱) مکرم ایوب احمد صاحب رہی نیپال (۱۲) مکرم محمد سلیم صاحب دہی نیپال (۱۳) مکرم اعجاز احمد صاحب گنگٹوک سکم (۱۴) مکرم عبدالرحمن صاحب گنگٹوک سکم (۱۵) مکرم اعجاز احمد صاحب گلبرگ لاہور پاکستان (۱۶) مکرم اے عبدالسلیم صاحب کا واشیری کیرالہ اسٹیٹ (۱۷) مکرم عبد القیوم صاحب کبیرا بنگال (۱۸) مکرم حافظ الحق صاحب کبیرا بنگال (۱۹) مکرم حسن صاحب ملا کبیر ابنگال (۲۰) مکرم محمد مہتاب عالم صاحب سیکھواں پنجاب (۲۱) مکرم ہادی عبدالغفور خان صاحب علی گنج یوپی (۲۲) مکرم محمد یسین صاحب کانپور یوپی (۲۳) مکرم آفتاب یسین صاحب کانپور یوپی (۲۴) مکرم حکیم برکت علی صاحب کانپور یوپی (۲۵) مکرم پی کے علی یار کا کا ناڈ کو چین کیرالہ (۲۶) مکرم شیخ محمد خالد صاحب حافظ آباد پاکستان (۲۷) مکرم نورالدین صاحب ترور پالا کرتی ورنگل آندھرا اسٹیٹ (۲۸) مکرم رشیدالدین صاحب ترور پالا کرتی ورنگل آندھرا اسٹیٹ (۲۹) مکرم اقرار احمد صاحب شاہجہانپور یوپی (۳۰) مکرم عاشق حسین صاحب راٹھورسرینگر کشمیر
241 فہرست خواتین جو ۲۸ دسمبر کو بیعت اور دعا میں شامل تھیں (۳۱) مکرمہ زینب بیگم صاحبہ بنت محمد ابراہیم صاحب مرحوم گنگٹوک سکم (۳۲) مکرمه منجو چھیتری بیگم صاحبہ بنت کثیر چھیتری گنگٹوک سکم (۳۳) مکرمہ پاکیزہ بیگم صاحبہ بنت حبیب اللہ شاہ صاحب مرحوم گنگٹوک سکم (۳۴) مکرمہ حلیمہ بی بی صاحبہ اہلیہ منہاج ملا صاحب کبیرا بنگال ( ۳۵) مکرمہ حفیظہ بی بی صاحبہ اہلیہ حسن ملا صاحب کبیر ابنگال (۳۶) مکرمه فائزہ بی بی اہلیہ حسن ملا صاحب کبیرا بنگال (۳۷) مکرمہ عذرا محی الدین بنت مکرم غلام محی الدین صاحب شیر کشمیر کالونی انت ناگ کشمیر (۳۸) مکرمہ فاطمہ رضیہ بنت عبد العزیز صاحب عابدین کولمبوسری لنکا (۳۹) مکرمہ نو را فشاں اہلیہ آفتاب بیبین صاحب کا نپور یوپی (۴۰) مکرمه شبنم پروین صاحبہ موتی ہاری بہار نکاحوں کا اعلان جلسہ سالانہ کے آخری روز مورخہ ۲۸ / دسمبر ۱۹۹۱ء کو حضور انور کی موجودگی میں اڑتالیس نکاحوں کا اعلان کیا گیا.خدا تعالیٰ ان نکاحوں میں بے شمار برکت رکھے آمین.مسجد اقصٰی میں تہجد پڑھانے اور درس دینے والے احباب مسجد اقصیٰ قادیان میں ایام جلسہ سالانہ میں نماز تہجد پڑھانے والے اور بعد نماز فجر درس دینے والے علماء سلسلہ کے اسماء حسب ذیل ہیں: تاریخ نماز تہجد درس ۹۱ - ۱۲ - ۱۲ مکرم مولانا سلطان احمد ظفر صاحب مکرم مولانا سلطان احمد ظفر صاحب ۹۱ - ۱۲- ۱۳ مکرم حافظ صالح محمد الہ دین صاحب مکرم مولا نا غلام نبی نیاز صاحب
242 ۹۱ - ۱۲- ۱۳۴ مکرم محمد اعظم اکسیر صاحب مکرم مولانا عطاءالمجیب راشد صاحب مکرم قاری محمد عاشق صاحب مکرم مبارک مصلح الدین احمد صاحب مکرم مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ ۲۵ -۱۲ - ۹۱ ۹۱ - ۱۲.۳۶ مکرم مولا نا محمد عمر صاحب ۹۱ - ۱۲ ۲۷ مکرم مولانا سلطان محمود انور صاحب مکرم مرز امحمد دین ناز صاحب ۹۱ - ۱۲- ۲۸ | مکرم مولانا غلام باری سیف صاحب مکرم غلام باری سیف صاحب ۲۹-۱۲-۹۱ | مکرم قاری محمد عاشق صاحب مکرم مولانامحمد اعظم اکسیر صاحب ۹۱ - ۱۲- ۳۰ مکرم حافظ صالح محمد الہ دین صاحب مکرم سید میرمحمود احمد ناصر صاحب ۹۱.۱۲.۳۱ مکرم مولا نا حکیم محمد دین صاحب ( درس نہیں ہوا ) ۹۲.۱.مکرم حافظ صالح محمد الہ دین صاحب مکرم مولانا سلطان محمود انور صاحب ۹۲ - ۱- ۲ | مکرم حافظ صالح محمداله دین صاحب مکرم مولانا جمیل الرحمن رفیق صاحب شعبہ استقبال والوداع لاہور پاکستان کے اطراف سے بذریعہ ریل قادیان جانے کے لئے احباب جماعت بڑی کثرت سے لاہور تشریف لائے تھے.چنانچہ لاہور میں ان کے استقبال والوداع کے لئے جملہ انتظامات کی خاطر مکرم چوہدری حمید نصر اللہ صاحب امیر جماعت ہائے ضلع لاہور نے ایک کمیٹی ترتیب دی جس کی تفصیل درج ذیل ہے.مکرم میجر عبداللطیف صاحب نائب امیر نگران اعلی ، مکرم شیخ ریاض محمود صاحب سیکرٹری ضیافت لاہور، مکرم ملک طاہر احمد صاحب، مکرم راجہ غالب احمد صاحب، چوہدری منیر نواز صاحب مکرم جنرل ناصر احمد صاحب، مکرم رانا مبارک احمد صاحب، مکرم مبارک محمود صاحب پانی پتی ، چوہدری غلام رسول صاحب ، مکرم بشیر احمد وڑائچ صاحب، مکرم محمد عیسی در دصاحب مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب ، مکرم حفیظ گوندل صاحب ، مکرم کرنل محمد طیب صاحب مرحوم، کرم کرنل محمد اشرف صاحب ، مکرم عبدالحکیم ڈوگر صاحب ، مکرم چوہدری منیر احمد صاحب، مکرم میاں عبدالرؤف صاحب ، مکرم عبد منه
243 کڑک صاحب مکرم چوہدری محمد احمد صاحب، مکرم ملک نورالہی صاحب ، مکرم حفیظ اللہ حیدرانی صاحب، مکرم شیخ مبشر احمد دہلوی صاحب، مکرم شیخ مبشر احمد صاحب، مکرم کرنل راجہ محمد اسلم صاحب، مکرم چوہدری نوردین صاحب، مکرم امتیاز احمد بٹ صاحب، مکرم را شد رحیم صاحب، مکرم چوہدری خلیل احمد صاحب ، مکرم شیخ مطاہر احمد صاحب، مکرم نعیم اختر تقسیم صاحب، مکرم محمد مسعود اقبال صاحب، مکرم عبد الحلیم طیب صاحب، مکرم چوہدری منور علی صاحب، لجنہ اماءاللہ ضلع لاہور کی طرف سے خدمات سرانجام دینے والی منتظمات کے نام حسب ذیل ہیں.محترمہ سیدہ آپا بشری صاحبہ مرحومہ (صدر لجنہ اماءاللہ ضلع لاہور ) محترمہ صالحہ درد صاحبہ، محتر مہ انیسه حبیب صاحبہ محترمہ بشری ارشد صاحبہ محترمہ مسز ذکاءاے ملک صاحبہ محترمہ مسز منظور ایاز صاحبہ.اس کے علاوہ ماڈل ٹاؤن کڑک ہاؤس اور دارالذکر کی مقامی لجنہ اماءاللہ نے مقامی انتظام کے تحت مہمان خواتین کی خدمت کی.مکرم عبد الحلیم طیب صاحب قائد ضلع لاہور نے خدام الاحمدیہ ضلع لاہور کی ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے درج ذیل ممبران تھے :.مکرم چوہدری منور علی صاحب نائب قائد ضلع ،مکرم مقبول احمد صاحب ،کرم منصور احمد صاحب، مکرم فضل عمر ڈوگر صاحب ، مکرم منور قیصر صاحب، مکرم شیخ بشارت احمد صاحب، مکرم ڈاکٹر عبدالوحید صاحب، مکرم کریم احمد خان صاحب اس کمیٹی نے اس اہم فریضے کو خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دینے کے لئے مختلف فرائض مختلف خدام کے سپرد کئے.یہ ڈیوٹی چارٹ حسب ذیل تھا: نگران اعلیٰ مکرم چوہدری منور علی صاحب وصولی پاسپورٹ مکرم شیخ بشارت احمد صاحب امیگریشن ریلوے لاہور مکرم منصور احمد صاحب ہمکرم کریم احمد خان صاحب واپسی پاسپورٹ کلیرنس مکرم فضل عمر ڈوگر صاحب فہیم الدین جنجوعہ صاحب حصول ٹکٹ تقسیم ٹکٹ مکرم طاہر محمود صاحب، مکرم طارق محمود بھٹی صاحب
استقبال دار الذکر رہائش دارالذکر 244 مکرم مقبول احمد صاحب مکرم محمد سرور ظفر صاحب حفاظت سامان ولوڈ نگ برائے اسٹیشن مکرم اور لیس احمد صاحب اور ٹرانسپورٹ برائے واپسی مہمانان کرام مکرم محل حسین صاحب سہولت کار طعام کمیٹی دارالذکر مکرم شفیع اللہ صاحب مکرم ناصرمحمودخان صاحب کھانا پکوائی چائے ریلوے اسٹیشن مکرم منور قیصر صاحب مکرم محمد کریم صاحب، مکرم لیاقت علی صاحب، مکرم انیس مجید صاحب ، مکرم ظہیر الدین جنجوعہ صاحب، مکرم محمد ساجد علی صاحب ، مکرم محمد افضل ملک صاحب، مکرم حکیم شفیق احمد صاحب رہائش ماڈل ٹاؤن مکرم منور احمد خان صاحب،مکرم مظفراعجاز صاحب ، مظفرمحمودصاحب رہائش کڑک ہاؤس مکرم احمد لطیف فیضی صاحب، مکرم سعد احمد گوندل ، مکرم تنویر احمد خان صاحب فرسٹ ایڈ مکرم ڈاکٹر عبدالوحید صاحب حفاظت عمومی ڈیوٹی ڈیوٹی برائے لجنہ مکرم سہیل اختر صاحب، ظہیر احمد خان صاحب مکرم منیر الدین شمس صاحب آب رسانی شعبہ وصولی پاسپورٹ مکرم خالد محمودصاحب اس شعبہ کے نگران کے ساتھ مجلس وحدت کالونی اور رحمان پورہ کے خدام نے ڈیوٹی انجام دی.خدام سارا دن آنے والے مہمانوں سے پاسپورٹ وصول کر کے ان کو ایک ساپ جاری کرتے جس پر انچارج ڈیوٹی کے دستخط موجود ہوتے.یہ پاسپورٹ صرف ان مہمانوں سے اکٹھے کئے جاتے
245 تھے جنہوں نے اگلے دن قادیان جانا ہوتا تھا.اس مقصد کے لئے دارالذکر میں باقاعدہ کا ؤنٹر لگائے گئے تھے.روزانہ اس شعبہ میں کام کرنے والے خدام کی تعداد ۱۰ سے ۱۲ ہوتی تھی.امیگریشن اس شعبہ کے انچارج مکرم منصور احمد صاحب تھے.پاسپورٹ وصولی کے مرحلے سے نکل کر امیگریشن کے لئے آجاتا تھا.اس شعبہ میں ۸ تا ۰ اخدام روزانہ کام کرتے رہے.یہ کام ۲۰ / دسمبر سے لے کر ۲۵ / دسمبر تک جاری رہا.اس میں خاص طور پر انجینئر نگ یو نیورسٹی اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے طلباء ڈیوٹی ادا کرتے رہے.واپسی پاسپورٹ صبح پاسپورٹ کے ساتھ ہی ریلوے ٹکٹ بھی پیش کیا جاتا.اس شعبہ میں مکرم شعیب نیر صاحب اور فہیم ناگی صاحب کے ساتھ دیگر خدام ڈیوٹی ادا کرتے رہے.مکرم فضل عمر ڈوگر صاحب بھی اس شعبہ میں خدمت کرتے رہے.ہیلتھ کارڈز اس شعبہ کے نگران مکرم نصیر الدین جنجوعہ صاحب اور مکرم ظہیر الدین جنجوعہ صاحب تھے.چوہدری منورعلی صاحب نے ایک با قاعدہ کا ؤنٹر کا اہتمام کیا تھا جہاں سے تمام مہمانوں کو ہیلتھ کارڈز جاری ہوتے رہے.تواریخ روانگی اضلاع برائے قادیان تقسیم کار کو آسان کرنے کی خاطر تمام امراء اضلاع کو مختلف تواریخ مقرر کر کے اطلاع بھجوادی گئی تھی.تا کہ ان مقررہ تا بیخوں پر مقررہ اضلاع کے مہمان ہی وفود کی صورت میں تشریف لائیں.جسکی وجہ سے ان کو رہائش و طعام وغیرہ کی سہولت بہتر طور ہم پہنچانے میں آسانی رہی.اس کا شیڈول درج ذیل تھا.۲۰ / دسمبر : ۲۱ / دسمبر : ربوہ اور متفرق.لاہور، ٹو بہ ٹیک سنگھ ، سرگودہا ، فیصل آباد، جھنگ ، چکوال، اوکاڑہ، خانیوال، گوجرانوالہ، اٹک، پشاور، بھکر ،خوشاب،ساہیوال
246 ۲۲ دسمبر :.۲۳/ دسمبر :.۲۴ / دسمبر:- استقبال دارالذکرور ہائش کراچی ،سندھ، کوہاٹ ، بلوچستان، راجن پور مظفر گڑھ، میانوالی ،لودھراں، بہاولپور، لیہ، بہاول نگر، مردان، رحیم یارخان جہلم، ملتان، قصور، وہاڑی، سیالکوٹ، گجرات، راولپنڈی، اسلام آباد آزاد کشمیر، شیخوپورہ ، نارووال اس شعبہ کے تحت دارالذکر میں ایک کاؤنٹر کھولا گیا تھا.جس میں تمام مہمانوں کا با قاعدہ اندراج کیا جاتا تھا اور دارالذکر میں قیام کے علاوہ ماڈل ٹاؤن اور کڑک ہاؤس میں بھی رہائش کا انتظام کیا گیا تھا.چنانچہ دارالذکر میں گنجائش نہ ہونے کی بناپر بقیہ مہمان کڑک ہاؤس اور ماڈل ٹاؤن میں پہنچا دئیے جاتے تھے.مہمانوں کی کثرت کے باعث ان تینوں قیام گاہوں میں جگہ کم پڑ جانے کی وجہ سے بہت سے مہمان لاہور جماعت کے بہت سے گھروں میں بھجوائے گئے جن کو احباب جماعت خود اپنی سواری پر لے کر جاتے اور دوبارہ قادیان روانگی کے لئے خود ہی ریلوے اسٹیشن چھوڑ جاتے.جن کے پاس اپنی سواری نہیں تھی ، انہیں باقاعدہ ٹرانسپورٹ مہیا کی جاتی تھی.دارالذکر میں روزانه تقریباً ۴۰۰ تا ۵۰۰ مہمانوں کا انتظام کیا جاتا تھا.جبکہ باقی سنٹر ز ماڈل ٹاؤن اور کڑک ہاؤس میں بھی انداز ا۱۵۰ تا ۲۰۰ مہمانوں کا انتظام کیا جاتا تھا.حفاظت و وصولی سامان یہ شعبہ سامان کی بحفاظت وصولی اور تقسیم کا کام انجام دیتا رہا.اس طرح شاہدرہ ٹاؤن اور فیکٹری ایریا کے خدام ڈیوٹی انجام دیتے رہے.سامان پر با قاعدہ سلپ جاری کر کے لگا دی جاتی.اور اسی ساپ کے ذریعہ واپسی عمل میں آتی.طعام کمیٹی دارالذکر اس شعبہ کے ذمہ مہمانوں کو کھانا کھلانا اور پھر ساتھ جاتے وقت پیکٹ کی شکل میں کھانا تیار کر کے مہیا کرنا تھا.اس شعبہ کے ماتحت بہت سارا کام ہوتا تھا.جو کہ خدام نے بحسن و خوبی انجام دیا.اس شعبہ میں دارالذکر کے خدام ڈیوٹی ادا کرتے رہے.جن کی تعداد مختلف اوقات میں ۳۳
247 تک رہی.اس میں کھانے کے علاوہ چائے بھی مہمانوں کی خدمت میں پیش کی جاتی رہی.کھانے کی پکوائی یہ شعبہ مکرم منور قیصر صاحب کی نگرانی میں کام کرتا رہا.مکرم انیس مجید صاحب قائد مجلس سلطان پورہ ، مکرم لیاقت علی صاحب بھی ان کی معاونت کرتے رہے.کھانے کی پکوائی کڑک ہاؤس میں ہوتی رہی.جبکہ ٹرک کے ذریعہ اس کی ترسیل دارالذکر میں ہوتی تھی.اس شعبہ میں ۵ تا۶ خدام ہر وقت ڈیوٹی پر موجودر ہے.استقبال ریلوے اسٹیشن اس شعبہ کے ذمہ تمام مہمانوں کو بغیر کسی تکلیف کے اور سامان کو بھی بحفاظت ٹرین میں سوار کروانے کا انتظام تھا.اس میں مختلف مجالس مثلاً بھاٹی گیٹ.دھلی گیٹ اور شاہدرہ وغیرہ کے خدام ڈیوٹی دیتے رہے.جن کی تعداد ۱۴۰ تا ۱۵۰ تھی.تقسیم چائے ریلوے اسٹیشن ریلوے اسٹیشن پر بھی سخت سردی کی وجہ سے چائے کا انتظام کیا گیا تھا.یہ انتظام ٹرین کی روانگی تک جاری رہتا.اس کی نگرانی مکرم حکیم شفیق احمد صاحب اور کریم احمد صاحب کرتے رہے.اسی طرح اس شعبہ میں ۱۵ سے ۲۰ خدام ڈیوٹی ادا کرتے رہے.طبی امداد جلسہ کے دوران تمام دن دارالذکر اور ریلوے اسٹیشن پر ابتدائی طبی امداد کا با قاعدہ انتظام کیا گیا تھا.اس کی نگرانی مکرم ڈاکٹر عبدالوحید صاحب کرتے رہے.پرائیویٹ رہائش وٹرانسپورٹ مہمانوں کی تعداد کے پیش نظر دارالذکر ، ماڈل ٹاؤن، کڑک ہاؤس ، بیت التوحید کے علاوہ لوگوں سے ذاتی مکانات اور رہائش اور اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ مہیا کرنے کا انتظام کیا گیا تھا.اس سلسلہ میں احباب جماعت کی خدمت میں ایک جائزہ فارم تقسیم کر کے واپس لیا جا تا تھا.جس میں وہ مہمانوں کو دارالذکر سے لے جا کر گھروں میں رہائش مہیا کرنے کے علاوہ صبح اُن کو ناشتہ کے بعد ریلوے اسٹیشن پہنچانے کی خدمت کیلئے خود کو پیش کرنے کا اقرار کرتے تھے.چنانچہ وہ شام کے وقت
248 دارالذکر سے مہمانوں کو لے جاتے ، انہیں رہائش مہیا کرتے اور صبح حسب پروگرام ناشتہ کے بعد انہیں لا ہور کے ریلوے اسٹیشن پر الوداع کرنے جاتے اس سارے کام میں جماعت احمد یہ لا ہور نے خاص طور پر ضیافت اور ایثار کا اعلیٰ نمونہ قائم کیا اور بیسیوں گھروں کو اس لت ہی خدمت کی توفیق ملی.قادیان سے واپسی ۲۹؍ دسمبر کو قادیان سے واپسی شروع ہوگئی تو واپسی پر بھی تمام مہمانوں کو بحفاظت واپس پہنچانے کے لئے خدام کی خاطر خواہ تعداد میں ڈیوٹی لگائی گئی تھی.اس میں مختلف شعبہ جات بنائے گئے تھے.چنانچہ تمام انتظام انتہائی خوبصورتی کے ساتھ سرانجام پایا.ٹرانسپورٹ کمپنی اس کی نگرانی مکرم لعل حسین صاحب کے ذمہ تھی جو کہ بسیں بک کروا کر اسٹیشن پر لے آتے اور مختلف اضلاع کے مہمانوں کو ان کے سامان سمیت بسوں میں سوار کرواتے اور اس طرح یہ الجھا ہوا اور مشکل کام بڑی خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے.اس کام میں مجلس گلشن راوی کے ۶۰ خدام مختلف اوقات میں ڈیوٹی دیتے رہے.اس کے علاوہ مجلس بھائی گیٹ ، دھلی گیٹ اور مختلف مجالس کے خدام بھی ڈیوٹی ادا کرتے رہے.اس شعبہ میں مختلف اوقات میں ۱۰۰ سے لے کر ۱۳۰ تک خدام نے ڈیوٹی دی.واپسی پر بھی جو مہمان دارالذکر میں قیام کرنا چاہتے ان کو دارالذکر پہنچا دیا جاتا.ریلوے اسٹیشن پر واپسی پر بھی چائے وغیرہ کا انتظام کیا گیا.قادیان روانگی کے وقت سیکیورٹی وغیرہ کے پیش نظر ایک مرتبہ رات کے وقت گاڑی کو چیک کیا جاتا اور دوسری مرتبہ صبح مہمانوں کے سوار ہونے سے پہلے ہی ساری ٹرین کی نگرانی کی جاتی.اور واپسی پر بھی ٹرین کو مکمل طور پر چیک کیا جاتا.اس کام میں ۱۵ تا ۲۰ خدام ڈیوٹی ادا کرتے رہے.اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود ال کے مہمانوں کی خدمت کرنے والے تمام احباب جماعت کو بہترین جزا عطا فرمائے اور اس جذ بہ خدمت و مہمان نوازی کو ہمیشہ قائم رکھے.آمین.
249 اهلا وسهلا و مَرْحَبًا صد سالہ جلسہ سالانہ مبارک ہو عظیم روحانی اجتماع ہزاروں برکات اپنے دامن میں رکھتا ہے.ترتیب و پیشکش نظامت تربیت جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۱ء شائع کردہ دفتر مجلس انصاراللہ بھارت قادیان پروگرام صد ساله جلسه سالانه ۱۹۹۱ء بروز جمعرات ۲۶.دسمبر.پہلا اجلاس ۱۰۰۰تا ۱۱۰ تلاوت قرآن کریم.پرچم کشائی نظمیں.۱۰۰۰ تا ۱۰۴۰ افتتاحی خطاب سید نا حضور ایدہ اللہ ۴۵_۱۰ تا ۱۵_۱۲ (اندازاً) ۱۲-۱۵ تا ۱۲۳۰ تقریر مولانا سلطان محمود انور صاحب ربوہ بعنوان جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کے سوسال ۱۲-۳۰ تا ۱۱۰ ۲۶ دسمبر ۹۱ء دوسرا اجلاس ۳۰-۲ تا ۱۵-۵ تلاوت قرآن کریم ونظم ۲۳۰ تا ۲۵۰ تقریر مکرم مولانا محمد عمر صاحب مبلغ انچارج کیرالہ بعنوان جماعت احمد یہ پر اعتراضات کے جواب.۲۵۰ تا ۳۰_۳ غیر ملکی معززین کی تقاریر اور نواحمدی احباب کے تاثرات ۳۰_۳ تا ۱۵-۵ بروز جمعۃ المبارک ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء پہلا اجلاس تلاوت قرآن کریم و نظم ۱۰۰۰ تا ۱۰۲۰
250 تقریر مکرم صاحبزادہ مرز وسیم احمد صاحب ناظر اعلی قادیان بعنوان سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعاؤں کے آئینہ میں.۲۰_۱۰ تا ۱۱۰۰ روشنی میں.تقریر مکرم حافظ مظفر احمد صاحب ربوہ.سیرت حضرت مسیح موعود حقوق العباد کی ادائیگی کی ۰۰.۱۱تا ۱۱۴۰ نواحمدی احباب کے تاثرات ۱۱۴۰تا ۱۲۰۰ تیاری جمعه ۱۲۳۰ تا ۱۰۰ ( نماز جمعه و عصر ۱۰۰ تا ۲۳۰) بروز جمعۃ المبارک ۲۷ / دسمبر ۹۱ء دوسرا اجلاس ۳۰-۲ تا ۱۵-۵ تلاوت قرآن کریم ونظم ۲۳۰ تا ۲۵۰ تقریر مکرم مولا نا محمد کریم الدین صاحب شاہد بعنوان عصر حاضر کی برائیوں سے بچنے کے ۲۵۰ تا ۳۰_۳ طریق.مستورات سے سیدنا حضرت ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب ( جومردانہ جلسہ گاہ میں بھی سنا جائیگا ) ۳۰_۳ تا ۱۵-۵ انداز ا بروز ہفتہ ۲۸ دسمبر ۹۱ء پہلا اجلاس ۱۰۰۰ تا ۱۰۰ تلاوت قرآن کریم ونظم ۱۰۰۰ تا ۳۰-۱۰ تقریر مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ بعنوان دعوت الی اللہ کے شیریں ۳۰_۱۰تا ۱۰.۱۱ تقریر مکرم مولانا عطاء المجیب صاحب را شد امام مسجد لندن بعنوان حالات حاضرہ اور آسمانی ثمرات.پیشگوئیاں نظر ۱۰_۱۱تا ۱۱۵۰ ۵۰_۱۱تا ۰۵-۱۲ تقریر مکرم مولانا محمد انعام غوری نائب ناظر دعوة و تبلیغ بعنوان برکات خلافت اور جماعت احمدیہ کی روز افزوں ترقی ۱۲-۰۵ تا ۱۲۴۵
251 غیر ملکی مہمانوں کے تاثرات ۴۵_۱۲ تا ۱۰۰ دوسرا اور آخری اجلاس ۲۳۰ تا ۳۰-۵ تلاوت قرآن کریم اور نظمیں ۲۳۰ تا ۳۳۰ اختتامی خطاب اور دُعا سید نا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ ۳۰_۳ تا ۳۰-۵ ۲۹ ؍ دسمبر ۱۹۹۱ء دیگر پروگرام مجلس مشاورت بھارت بمقام جلسہ گاہ پہلا اجلاس ۱۰۰۰تا ۱۰۰ دوسرا اجلاس ۲۳۰ تا ۰۰_۵ ۳۰ دسمبر ۱۹۹۱ء تبلیغی سیمنار پہلا اجلاس ۱۰۰۰ تا ۱۲۰۰ دوسرا اجلاس ۲۳۰ تا ۰۰_۵ مسجد اقصیٰ میں شبیہ اجلاسات کے خصوصی پروگرام ۱۲۸ دسمبر ۱۹۹۱ء ۸۰۰ تا ۱۰۰۰ مختلف زبانوں میں دلچسپ تقاریر ۲۹ ۳۰ دسمبر ۱۹۹۱ء ۸۰۰ تا ۱۰۰۰ بیرونی ممالک کی ایمان افروز ویڈیو کیسٹس دکھائی جائیں گی.
252 لا الهام الله محمد رسول الله توجی ماہر سمجھے دور دراز علاقوں سے بداد ملے قادیان دارالامان میں جماعت احمدیہ سوال عظیم ان تی ام ال تی ام می باشد بوٹے یا پتہ پرستی در خواهد بود ان یا کیسته جلسه اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت ہیں اور میرا سلام فرماتے ہیں.اس جیسہ کو عنوان عیسوں کی طرف خیال نہ کریں.یہ وہ امر ہے میں کی خا تانی دین اور اعلائے کلمہ اسلم کے بنیاد ہے.اس سلسلہ کی تیاری پینٹ ہ تعالی نے اپنے ہاتھ سے ہی ہے اور اس کے نئے تو میں تیاری ہیں جو تقریب ر اس میں آئیں گی کیو پی وی سی نہیں کی یہ بھی یہ مس تاور کا میں ہے میں کے آگے کوئی بات انہوق نہیں: و اشتهار در ایران ت استند یک ترسید در بات اگر این بار ان کی اداروں کی نامہ بتاريخ *1370 28 دسمبر 1991 وز جمعرات جمعہ ہفتہ معلوم کرنے بہترین موقعہ کا پیشوایان مذاہب کی تعظیم اور ان والا کے نام کے تعلق تقاریر کا حضرت امام جماعت احمنہ کے کی پرواہ کے علاویں کے بھائی والی مومنوں پر جماعت احمدیہ کے علما کرام تقاریر ر ہیں گے.!! ا سیرت مینا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و سلم انیوں کے آنے جماعت احمدیہ پر اختر انسات کے جوابات.سیرت حضرت و شو یا علی سر کی برائیوں سے بچنے کے طریق.کے بارشیں خدرات - ہم دعوت الی اللہ کا طریق اور اس کے بشیر کی ممات.اس کے علاوہ غیر ملکی زائرین کے تاثرات اور د حالات جانترہ اور آسمانی پیشت کو کیوں.به کانت خلافت در مناسب اتحادیه کی روز مروان انسان مستانہ جماعت احمدیہ کے سوسال بیریا کی بندر فران لم اره ای مقبول احمد نیت کے ایک نوٹ میر ان ہند سے ہی بہترین سے تشریف لانے کی توقع ہے.اور بہار کے نرالے کسی کو سوال کرنے کی اجازت د رنگی با ما این نام روانی اور نا ہی بله ہے.ساتویر کی سیاست کوئی تعلق نہیں.(۳) بہانوں کے کام کو عام میں ر وانها استلام من این میت کے دور میرا راستہ موسم سے نا ہی پست مردہ امینی مردانه ماست مکان کا پروگرام زنانه ملیت کا میں اتنا ماست گوارا میتر ر میان دایی متصور اس کا اپنا الگ پر گرام ہو گا به 21
253 EN HU HU H ਜਮਾਤ ਅਹਿਮਦੀਆਂ ਦੇ ਕੇਂਦਰ ਕਾਦੀਆ 上 ਵਿਚ ਅਹਿਮਦੀਆ ਦਾ 100ਵਾਂ 土 # ਸਾਲਾਨਾ ਜਲਮੀ WH 26, 27, 28 ਦਸੰਬਰ –997 ਦਿਨ ਵੀਰਵਾਰ, ਸ਼ੁਕਰਵਾਰ ਅਤੇ ਸ਼ੰਨੀਵਾਰ ਸਚਾਈ ਦੀ ਖੋਜ, ਅਤੇ ਪਰਖ ਦਾ ਅਨਮੋਲ ਮੌਕਾ ਜਮਾਅਤ ਅਹਿਮਦੀਆਂ ਦੋ ਚੌਖੇ ਉੱਤਰ ਅਧਿਕਾਰੀ ਦੇ ਭਾਨ ਤੋਂ ਇਲਾਵਾ ਧਾਰਮਿਕ ਆਗੂਆਂ ਦੇ ਮਾਣ, ' ਸਤਿਕਾਰ, ਏਕਤਾ ਤੇ ਵਿਸ਼ਵ ਸ਼ਾਂਤੀ ਬਾਰੇ ਭਾਸ਼ਨ ਸੁਣ ਕੇ ਲਾਭ ਉਠਾਓ । ਨੋਟ – ਜਲਸੇ ਵਿਚ ਕਿਸੇ ਨੂੰ ਪ੍ਰਧਾਨ ਭਰਨ ਦੀ ਆਗਿਆ ਨਹੀਂ ਚੌਥੇਗੀ । ਨੂੰ ਨਿਵੇਦਰ ਨੂੰ ਨਾਜ਼ਿਰ ਦਾਵਤ-ਤਬਲੀਗ਼, ਸਦਰ ਅੰਜੁਮਨ ਅਹਿਮਦੀਆ ਕਾਦੀਆਂ ਜ਼ਿਲਾ ਗੁਰਦਾਸਪੁਰ (ਪੰਜਾਬ) ਭਾਰਤ ਵਾਪਸ :- ਬੱਬਲ ਪ੍ਰਿੰਟਿੰਗ ਅੱਜ ਸ਼ਾਦੀਆਂ ਫੋਨ : 121
254 Ahmedia Imam in India The The day after Christmas there will be a historic meeting of hundreds of thousands of Ahmedia Muslims at Qadian in District Ourdaspur.It will be historic bac MIL for the first time since independence, the head of the Jamaal, Hazrat Mirza Tahir Ahmed, will be visiting India.Amongst the celebrities expected is Nobel Laureate Dr Abdus Salam.The 'Ahmedia movement wu launched in 1889 by Mirza Ghulam Ahmed of Qadian.As it began Lo catch on, they opened centres in 130 countries, carried on * vigorous conversion campaign among African Blacki and built mosques and madrassas in all countries of Europe and the Middle East including Israel.Amongst the most celebrated members of the community was Chaudhury Sir Zafrullah Khan and now Dr Abdus Salam.Their success raised the ire of orthodox Sunni Mullahs.They felt that by proclaiming a new messiah, the Ahmedias, also known ** Qedians and pejoratively as Mirzais, denied a basic tenet of Islam, viz..that Mohammed was the last messiah and seal of prophethood.However much the Ahmedias denied the charge, the and-Ahmedia campaign caught on, particularly in Pakistan where they have large and flourishing township at Rabwah, 顱 The persecution of Ahmedias in Pakistan has come up before Human Rights Organization many times.First, they were declared non- Muslims by the Supreme Court of Pakistan.Following the judgement, they were forbidden to call for prayer from their mosques and not allowed to greet other Muslims with the usual As Salaam u Walackum (peace be upon you), 1, a Sikh, can use the greeting an Ahmedia Muslim may not.By contrast secular India, despite its communal upheavals, will welcome the arrival of Mirza Tahir Ahmed and Ahmédias from all countries of the world.
255 Telephone: 680001 PRESS-CLIPPING SERVICE "Hari Bhari", C-48, East of Kallash-1, New Delhi-110006 Name of the Paper: DECCAN CHRONICLE Published at Dated | SECUNDERABAD 23 DEC 1991 (City Edition) The Punjab again L Mirza Tahir Ahmed Ahmedia Imam in India THE day after Christmas there will be a historic meeting of hundreds of thousands of Ahmadia Muslims at Qadian in district Gurdaspur.It will be historic beacuse for the first tirbe since Independence that the head of the James, Hazrat Mirza Tahir Ahmed, will be visiting India.Amongst the celebrities expected is Nobel Laureate Dr.Abdus Salam.The Ahmadia movement was launched in 1996 by Mirma Ghalem Ahmed of Qadian.As it began to catch on they opened centres in 130 countr- married on vigoros conversion campaign among African blacks, bu and madrass in all counties of Europe and the Middle East inchating lareal.Amongst mont calebrated members of the community was Chaudhry Str Zafrullah Khan and now Dr..Abdus Salam.Their cord the tre of orthodox Sunni Mullahs.They fall that by proclaiming a new mah, the Ahmadias, also known as Ondland and pejoratively an Mirais, they denied a basic of blam viz.that Mohammed was the Just meish and seal of proph sthood.However much the Almedies denied the charge, the anti-Ahmedia campaign caught da, particularly in Pal- stan where they have a large and Sourising township at Ra Erwah The persecution of Ahmad- in Pakistan has come up before Human Rights Organis ation many times.First, they were declared non-Muslims by the Supreme Court of Pakian Following the judgm en they were forbidden to call for prayer from that monques and not allowed to great other Mustion with the usual As Salamu Waleikum (peace be upon you).I.a Sikh, can use tha greeting; an Ahmadia Musli may not By contrast secular Indla, despite its communal apheavals, will welcome the arrival of Mira Tahir Ahined and Ahmadias from all countr- les of the world.
256 MADHYA PRADESH CHRONICLE Bhopal 27 Dec 1991 Ahmediyya sect chief calls for peace QADIAN (PUNJAB): The three-day convention or Annual the Ahmediyya sect onded here on Saturday morning with a call by its chief Mirza Tahir Ahmed for communal peace, reports UNI.He said a region, if it preached hatred among mankind was not worth its name Religious leaders must work for harmony among differeul religions, he stated.He advised the Sikn externists to present their case before the people in India instead of resorting to terrorist activibes.Mirzǝ Ahmed was bom WAB the Tahir here and 09 Ahmediyya sect and then migrated to Pakistan.He lett Pakistan for London when Gen.Zla Haq began persecution of AMedyas.He sad his coming back to his birth place after so many years gave hiin a heavenly feeling Ahmedkyyas from NATIONAL HERALD Lucknow 29 Dec 1991 from about 50 countries attended the ยกท่านย Convention.which 780 acquired importance חב added 배드 year Tahir because of Muza Ahmed's presence.Also, this convention took place against the background of continuing persecution of Ahmedlyyas.In Pakistan in that country.They were declared to be non Muslime through 8 constitutional amendment in 1975 and ten years later Gen Zia ul Haq, while on a tour of Singh, shouted, "I Bend with a of cursa on Ahmedlyyas" when asked if he, 100, was an Almediyya.He followed up his curse order asking Ahmedlyyas not to call their places worship Mosques Since then no government in Pakistan has been bald enough to tak c: Ahmadiyyas' human rights.in Tact human nights organisations, too, avold laking up the Ahmediyya Себе Annual convention of Ahmediyyas ends QADIAN (PUNJAB), Dec 28 (UNI) The three-day Annual convertion of the Ahmadiyya sect ended here on Saturday moming with a colt by its chict Mir Tahir Alimed for communal peace.He said a religion, if it preached houred BUNCHIL mankind was not worth its name.Religious leaders must work for harmony different religions, be stated.He advised the Sikb extremiss to present their case before the people in India instead of resorting 10 emorial activities.Mirza Tallir Ahmed was born.liere and to was the Ahmedyys sect and then migrated to Paicista He left Pakistan for London when Gen.Zia ul Haq began persecution of Ahmediyyas.He said his coming back to his birth place after so many years gave him a heavenly feeling.Ahmediyyas frim Ar from abou 50 countries allended the convention, which acquired an added importance this year because of Mirza Tahir Ahmed's presence.In Pakis they were declared to be non-Muslim 3 through constitutional amendment in 1975 and ten years later (en Zia ul Haq, while on In of Sindh, shouted, "send a curse on Abmediya" when asked if he, too, was an Ahmediyya He followed up lies use with auurder asking, Ahmedlyyas not to call their places of worship moaques.Since then no goventment in Pakis JUS bean bald enough bo Of عالم fact Abmediyya buman rights, in humach rights organisadoco, boo void taking up the Aundiyya
257 THE HINDU Gurgaon 29 Dec 1991 New Delhi Edition Leaders asked to work for religious harmony QADIAN (Punjab): Dec 28 The three-day annual convention of the Ahmediyya sect ended here this morning with a call by its chief Mirza Tahir Ahmed for communal peace.He said a religion, if it preached hatred among mankind was not worth its name.Religious leaders must work for harmony among different religions, he added.He advised Sikh extremists to present their case before the people in India instead of resorting to terrorist activities.Mirza Tahir Ahmed was born here and so was the Ahmediyya sect and then migrated to Pakistan.He left Pakistan for London when Gen.Zia ul Haq began "persecution" of Ahmediyyas.He said his returning to his birth place after so many years gave him a heavenly feeling.Ahmediyyas from about 50 countries attended the annual convention, which had acquired an added importance this year because of Mirza Tahir Ahmed's presence.Further, this convention took place against the background of "continuing persecution" of Ahmediyyas in Pakistan.In that country they were declared to be non-Muslim through a constitutional amendment in 1975 and 10 years later Gen Zia ul Haq, while on a tour of Sindh, shouted, "I send a curse on Ahmediyyas" when asked if he, too, was an Ahmediyya.He followed up his "curse" with an order asking Ahmediyyas not to call their places of worship mosques.- UNI
258 INDIAN EXPRESS Chandigarh 29 Dec 1991 City Edition Ahmediyya chief calls for commugat peace QADIAN (Punjab) : "The three-day annual convention of the Ahmediyyn sect ended here on Saturday morning with call by its chief Mira Tahir Ahmed for commDAY! peace.He said H religion, if it preached hatred ZUMICH mankind was not worth its name.Religious leaders must work for harmony among different religions, he stated.He advised the Sakh extremists to present their case before the people in India instead of resorting to militant activities.Mirza Tahir Ahmed was bann here and then migrated to Pakistan.He lef Pakistan for London when Gen.Zia ul Haq began persecution of Ahmediyyas.He said his coming back to his birth place after so many years gave him heavenly a Ahmediyyas from from about attended convention, feeling.SO countries the which annual bad acquired an added importance this year because of Mirza Tahir Ahmed's presence.Also, this convention took place against the background of continuing persecution of Ahmediyyas in Pakistan.that country, they In were declared to be non-Muslims through a constitutional Sincndment in 1975 and ten years later Gen Zin ul Haq.while on our of Sindh.shouted, "I send a curse on Alimediyyas" when asked if tic, too, was an Abmediyya.He followed up his curse with an ordea asking Almediyyes not to call their places of worship mosques.Since then no government in Pakistan hæs been bold enough La lalk of Ahmediyyas human rights, in humen rights organisations, ம0.avoid taking up the Ahmediyya case.UNI fact DECCAN CHRONICLE Secunderabad 29 Dec 1991 City Edition Ahmediyyas want communal peace QADIAN (Punjab) Dec 28 (UNI) of The three-day annual convention the Ahmediyya sect ended here on Saturday morning with a call by Its chief Mirza Tahir Ahmed for communal peace He said a religion, if it preached hatred among mankind was not worth its name Religious leaders must work for harmony among different religions.he stated.He advised the Sikh extremists to present their case before the people in India instead of resorting to terrorist activities.Mirza Tahir Ahmed was born here and so was the Ahmeciyya sect and then migrated to Pakistan.He left Pakistan for London when Gen.Zia ul Haq Degan persecution of Ahmediyyas.He said his coming back to his birth place after so many years gave him a heavenly feeling.NATIONAL HERALD New Delhi 29 Dec 1991 City Edition Ahmediyyas for communal amity QADIAN (Punjab): Dec 23 (UNI) The three-day annual convention of the Ahmediyya sect ended here on Saturday morning with a call by its chief Mirza Tahir Ahmed for communal peace, reports UNI.He said a religion, if it preached hpkred among mankind was not worth it name Religious leaders must work for harmony among different religions, he stated.He advised the Sikh extremists to present their case before the people in India instead of resorting to terrorist activities.Mirza Tahir Ahmed was hom here and so was the Almediyya sect and then migrated to Pakistan.He left Pakistan for London when Gen Zia ul Haq began persecution Ahmediyyas.He said his coming back to his birth place after so marly years gave him heavenly recting.8 Ahmediyyas from آن about 50 the countries annual had from attended convention, which acquired an added importance this year because of Mirza Tahir Ahmed's presence.Also, this convention took place against the background of continuing persecution of Ahmediyyas in Pakistan in that country.2 was an They were declared to be non-Muslims a through constitutional amendment in 1975 and ten years later Gen Zia ul Haq, while on a tour of Sindh, shouted, " send curse on Ahmediyyas" when asked if he.100, Ahmediyya.He followed up his curse with an order asking Ahmediyyas nol to call their places of worship mosques.Since then no government in Pakistan has been bold enougn talk of Ahmediyyas' human rights, in Facl human to organisations.too, rights avoid taking up the Ahmediyya case.
259 Telegram: ( Cilpping < TF 630091 t New Delhi-65 Telephone 1 830091 PRESS-CLIPPING SERVICE "Hari Bhari", C-46, East of Kallash-I, New Delhi-110065 Name of the Paper : Published by Dated EIND SAMACHAR JALI NUHA fi 29 DEC 1991 انسان جماعت احمدیہ جشن صد سالہ کی تقریبات میں احمدیہ چیف مرزا طاہر احمد کی د چھوڑ کر عوام کے ہیں.تلقین وفان امر شده 28 دسمبر د کنانه سوالی کی جماعت محمدید کا سید احمد سم سوال.بعد از این کار ماشین صاحب نے تلاوت قرآن | مہمان آئے تو سامان رسا آپ نے کہا کہ ہم سالہ جشن کی سے بدن تقریبات کا آغاز 25 دسمبر کی صبح 10 کی.مرزا امام احمد سلید اظطرار انیکس اور سفید طرہ دار کھڑی جس کے مہمان ہیں وہ ہی مہندی مہربانی کرے گا.چنانچہ ے باہر ہیں ضلع کہیں باس پور میں ہوا.یہ پہلا موقع تھا جب پہونے اپنے روائتی کہ اس میں تھے.انہوں نے اپنی تقریر میں اسی روز چٹھی رساں چار پانچ معنی آوار لے کر آ گیا.جو ان جماعت کے عیلہ مراد نظام احمد احسان سے ہو ہاں دار گامان اپنی آنے کی فرض رعایت اور کر کرتے ہوئے فرمایا کہ 27 دسمبر کے مردوں نے مختلف مقامات سے بھجوائے تھے.اس کرتے تھے.انہوں 842 سے پاکستان سے خود با 1991 کو قاریوں مگر مرزا محمد صاحب مسلط جماعت احمدیہ طرح مسمانوں کی تواضع کا سبب پیدا ہو گیا.بعد از این وقت وطنی اختیار کر رکھی ہے.جشن کے موقع پر پاکستان کے آریا کی بنیاد رکھی تھی.میں وقت صرف 75 اصحاب جماعت آیا کہ انہوں نے مسمانوں کے شنکر کا کم کئے.اور آج حالت کہا کہ وہ یہیں کہیٹ والی چین سے 20 ہزار سے الا در ژانر کہتے کے اجلاس میں شریک ہوئے تھے.اور یقتل خدا اب یہ یہ ہے کہ دنیا کے 230 ممالک میں جماعت سے نظر ائم اور مند نہین نے شرکت کرنے میں میں برطانیہ کی بار کمیت تعمدا والا کھوں میں ہے.کے تعمیر ہم کس اور گھنا کی ہیے ہم کیوٹ کے ڈینٹس مسٹر جضرت الن والی اس قدر تنگدست ہے کہ مسمانوں کی مرزا طاہر احمد نے پاکستان کی سرکار سے شکوہ کیا جاری انکی کے نام مخصوصی طور پر قابل ذکر تھا.خدمت نہیں کر سکتے تھے.ایک بار انہوں نے اپنی بیوی کا کہ ربوہ کے نظر کو بند کرا دیا گیا ہے.جہاں سارا دن جلن کے آنے سے پہلے خلیفہ المسیح نے پرچم کشائی زہر فروخت کر کے مساموں کی تواضع کی.چند روز بعد کچھ مہمانوں کو خوراک ملا کرتی تھی.اور لندن کے نظر پر سالانہ ایک کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں.موصوف نے فرمایا کہ آج کا جلسہ ایک تواریخی اہمیت رکھتا ہے.اگر یہا ہمیں ملاقات نہ ہو تو بعیت ہے معنی ہے.؟ رہم ہے.جلسہ طاقت کا ایک وسیلہ ہے.اور بھارت سر کار شکریہ کی مستحق ہے.جس نے احمدیوں کے جذبات کی محض قدر کرتے ہوئے سوشل ریل گاڑیاں چلانے کا انجام کیا.حضرت مرزا نے فرمایا کہ جماعت احمد یہ ایک سو سالہ پرانی جماعت نہیں بلکہ 1400 سالہ پرانی جماعت ہے.سے حضرت رسول اللہ نے خود قائم کیا تھا.وہ جماعتیں جو اللہ سے حقیقی محبت رکھتی ہیں لیکن خدا کی مخلوق سے نفرت کو کرتی ہیں.میرے نزدیک ان کا کہ آپ جھوٹا ہے.میں با رہا اظہار کر چکا ہوں کہ خالق سے محبت کرنی ہے تو اس کی مخلوق سے بھی محبت کرو.جس طرح ایک مصور کی تو تعریف کی جاتی ہے لیکن اس کی تیار کردہ تصویر میں پسند نہیں کی جاتیں یا جنس طرح ایک مگر کار سے تو محبت کی جاتی ہے اور اس کی موسیقی سے نہیں.جماعت احمدیہ خدا کے بندوں کی مدد گار جماعت گذشتہ دنوں کا وہاں ہیں احمدیہ جماعت کے میں سالہ چاہتے ہیں جماعت کے جو مجھے ظیفہ ہے.احمد دی امن پسند انسان دوست اور درد مند انسان مرزا طاہر احمد اختصاصی تقریر کرتے جیسے زہر بھین باجوہ) زبانی ملو نمبر کا کالم نمبر 8 ما
260 حلقہ احمدیہ اجلاس ہیں.خو خدا اور اس کی مخلوق سے محبت کرتے ہیں.حضرت مرزا نے کہا کہ گذشتہ دنوں بہار میں فسادات ہوئے.ہندو بھی اجڑے اور مسلمان بھی.حالات کا جائزہ لینے کے بعد مظاہوم لوگوں کی امداد کے لئے رقم منظور کی گئی.جو ہندو ہیں اور مسلمانوں کو بلا امتیاز تقسیم کی گئی تھی.مراہ صاحب نے فسادات کی ایک اور مثال دیتے ہوئے کہا کہ کچھ میلہ یوں نے تجویز رکھی کہ وہ طاہر آباد بنانا چاہتے ہیں.تو انہیں کہا گیا کہ وہ کرشن نگر بھی بنائیں.چنانچہ اس تجویدی محمل ہوا.ظاہر آباد بھی دینا اور کرشن مگر بھی.انسانی خدمت کا تذکرہ کرتے ہوئے خلیفہ موصوف نے کہا کہ انسانوں کا رکھ دور کرنے کے لئے کوشش ہونی چاہئے.اگر بھارت پاکستان اپنا د کافی خرچ کم کر کے غریبوں کی بہور کے کاموں پر خرچ کریں تو یہ سب سے بڑا وناع ہوگا.کیونکہ تفریق ہر جگہ ہے.اور غریب بھی ہیں.جن کے درد کا علان ہونا چاہئے.یہ احمدی ہے وہ غیر احمدی.یہ ہندو ہے اور وہ سکھ عیسائی.کوئی بھی مذہب ہو اس کا احترام کیا جائے اور اس کے پیرو کاروں کو ایک انسان خیال کرتے ہوئے ان کے دکھ درد میں شریک ہونا چا ہئے.مذہبی طور پر کسی سے انتظام الغنا النساء کرنا گناہ ہے.اور قرآن میں بھی کہیں نہ ہی انجام کا حکم میں ہے.جب کبھی فرقہ وارانہ فساد ہوتا ہے تو اس میں طرفین کی خوب نہیں ہیں اور بچے یتیم ہوتے ہیں ت دکھ ہوتاہے ان میں امامت سے کہا ہوں.من مظلوموں کی تلاش کرو.جو یہ یاد ہوئے ہیں.اویر طالحافظ اظہ انسان کی مدد کرو.روحانیت کی ہے کہ سب سے پہلے انسانوں کی خدمت مرزا صاحب نے فرما یا کہ سب سے بڑا نہ جب انسانیت ہے.پہلے آدمی تو ہو پھرف سب کی بات کرو.انسان ہوناہی بہت ہوئی بات ہے.خیر کا جواب شرسے نہ دو.اے لوگو! انسان بنوا اور کچھ خود محبت خلق کر لو.اس میں نجات ہے.خلیفہ المسیح نے عوام کو تلقین کی کہ جو لوگ رہائہ یا بوڑھے ہو گئے ہیں وہ اپنے بیکار وقت کو یونہی ضائع نہ کریں بکہ دوسرے لوگوں کی خدمت کے لئے خود کو وقف کر دیں.اس میں ان کا کدہ ہے..جلسہ گلہ میں ہندی میں لکھا ہے " ہے کہ شن رور کو پالا شمیری فرین گیت ہیں لکھی ہوتی ہے ".کلمہ طیر - خليف المسيح یح کی ہے اور دوسرے پیٹر کئے ہوئے تب تیبا 20 فرامر کی آبادی والے کا دیاں میں اتنی ہی تعداد میں زائرین کی آمد پر ایک نیا نیاد یہاں آباد ہو گیا برای خر چ انہاں کیا گیا.اور دو گائیں تحرید و فروخت کے لئے کھلی رہیں.سی آر پی ایف.اور پولیس کے جوانوں کی بہت بڑی جمعیت تعینات تھی.سه روزه اجلاس آج الله در سر القیام باہر ہو گیا.پاکستان کے زائرین نے خصوصی طور پر بھارت سرکار کا شکر یہ ادا کیا.کہ انہیں کافی تعداد میں دیر با جاری کئے گئے.اور کائیل دیں گاڑیاں بھی چلائی گئیں.تاریاں کے بازاروں میں لاکھوں روپے کے سامان کی فریدہ فروخت ہوئی سب سے زیادہ خرید و فروخت دھار یوال کی اونی اور اس کی ہوئی.پاکستان کے زائرین نے بڑی تعداد میں جا کر میں خرید کیس اور اس میں پسند ہو گی ظاہر کی.انہوں نے پنجاب کے عملی نیٹوں کو مشورہ دیا کہ وہ لی ٹینسی کی تشدد آمیز سرگرمیوں کو چھوڑ کر قوام کے سامنے اپنا کیس پیش کریں.اور نہ ہی اپنا اس کو مشورہ دیا کی جائے.ان کے نظم کو اپنا غم اور ان کی خوشی کو اپی فریکی کیا که ده فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے کام کریں.کیونکہ جو چائے.مذہب کی اور انسان کے درمیان بکرے کا پر پیار کرتا ہے اور وہ مذہب تذہب کہلانے کا حقدار نہیں.اس کنویشن میں 50 سے زائد ممالک کے احمدیوں نے شرکت کی.Пло
از ڈاکٹر عبدالکریم خالد 261 ہجرت ، ہجر اور وصال ایک تاریخی سفر کا حال ہجرت اور ہجر دو ایسے الفاظ ہیں جن کا آپس میں ایسا ہی گہرا تعلق ہے جیسا جسم اور روح کا ہجر ہجرت کے اندر سانس لیتا ہے اور اس کے سارے کرب کو سمیٹ لیتا ہے.اسباب ،حالات اور واقعات اس طور عمل پذیر ہوں کہ کسی ایسے مقام کو چھوڑ نالازم ٹھہرے جس سے انسان کا گہرا ربط ہو، دل کا رشتہ ہو ، جذباتی تعلق ہو، جہاں کی خاک میں اس کے احساس کی نمو ہو، جہاں کی مٹی میں اس کا بچپن اور زندگی کا ایک طویل زمانہ گزرا ہو تو اس لمحے انسان پر جو گذرتی ہے ،اس کے دل کی جو کیفیت ہوتی ہے اور اس کی آنکھ جس طور پر اشک بار ہوتی ہے ، حیطہء بیان سے باہر ہے.اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا غم الگ، اپنی خاک ، اپنی زمین سے جدا ہونا الگ سوہان روح ہے.دنیا دار لوگوں کا اپنا تجربہ ہے.لیکن وہ جن کی دنیا عام لوگوں سے مختلف ہوتی ہے ، جن کی زندگی کسی اور ہی دائرے میں گردش کرتی ہے، اس صورت حال کو کسی اور آن دیکھتے ہیں.ان کے صبر کے پیمانے بھی دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں کہ بھر کر بھی چھلکتے نہیں.ان کی نگاہ زمین کے عارضی ٹھکانوں کے بجائے عرش کی طرف اٹھتی ہے.اپنے رب کے ساتھ ایک تعلق خاص ان کے لرزیدہ قدموں کو ثبات اور شکستہ حوصلوں کو استواری بخشتا ہے.ایک غیبی طاقت انہیں سہارا دیتی ہے.ایک دست مہربان کا حرارت آفریں لمس ان کے غموں کو تحلیل کر دیتا ہے اور وہ ساعت نامہربان سے ساعت مہربان میں قدم رکھتے نئے عزم حوصلے کے ساتھ جادہ بیمار ہتے ہیں.الہبی جماعتوں پر ایسا وقت آیا ہی کرتا ہے جب مخصوص حالات کے پیش نظر انہیں ہجرت کا مرحلہ در پیش ہوتا ہے اور اپنے مرکز سے جدا ہو کر نئے مقامات کی طرف کوچ کرنا پڑتا ہے.یہ ہجرت چونکہ خاص الہی منشا کے تحت ہوتی ہے اس لئے غیب سے ایسے اسباب بھی مہیا ہوتے ہیں جو ہجرت میں اٹھنے والے ہر قدم کو نئے امکانات کی خبر دیتے اور کامیابی و کامرانی کی راہیں کشادہ کرتے چلے جاتے ہیں.
262 قادیان دارالامان سے ہجرت، جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے.یہ ہجرت اگر محض ہجرت ہوتی تو وقت اس زخم کو مندمل کرنے کے لئے کافی تھا لیکن یہ تو ہجر کا ایسا آزار تھا جس نے ہجر زدوں کو ہمیشہ تڑپائے رکھا.حضرت مصلح موعودؓ نے افراد خاندان مبارکہ اور دیگر افراد جماعت کے ہمراہ سرزمین قادیان کو الوداع کہا تو اس کے بعد اس پاک بستی کے دیدار کے لئے اپنی پرسوز اور جاں گداز کیفیتوں کا اظہار فرماتے رہے قادیان سے جدائی ایک مسلسل کرب تھا جو ایک پھانس بن کر دلوں میں اٹک گیا.میسیج پاک کی پیاری بستی اہل دل کے خوابوں کی بستی بن گئی.ہر چند کہ جماعت کے مرکز ثانی ربوہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے آسودگی دل اور راحتِ جاں کا ساماں عطا فرما دیا لیکن قادیان کی کشش دلوں کو کھینچتی تو آہیں فریاد بن کر لبوں پر آجاتیں.خاک ارض قادیاں کے گوہر تاب ذرے آنسو بن کر نگاہوں میں فروزاں ہونے لگتے.سوز نہاں بے قراری دل میں اضافہ کر دیتا اور سوتے سوتے بھی یہ کہہ اٹھتا ہوں ہائے قادیاں“ کی کیفیت اپنے حصار میں لے لیتی.ان دلی کیفیتوں کا اظہار جماعت کے شعراء اور اہل قلم نے اپنے مضامین نظم ونثر میں جس اثر انگیز پیرائے میں کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قادیان سے جدائی کا واقعہ ایسا غیر معمولی واقعہ تھا جس نے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا.قادیان سے ہجرت کے سفر میں شامل اکثر ہستیاں اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کے جذبات آج بھی زندہ ہیں.ان کا یہ سرمایہ احساس احمدیت کی نئی نسل کو منتقل ہو چکا ہے جن کی عقیدت ومحبت نے اس مقدس سرزمین کی تصویر اپنے بزرگوں کی نگاہوں میں دیکھی اور اس کا نقشہ اپنے تصور کی آنکھ میں محفوظ کر لیا ہے.اللہ تعالیٰ کے عجیب تصرفات ہیں کہ وہ اپنی جماعتوں اور مقرب بندوں کو امتحان میں ڈالتا اور ان کی قلبی صفائی اور ذہنی تربیت کا خود اہتمام فرما تا ہے.چنانچہ ہجرت اول کے بعد ہجرت ثانی بھی جماعت کے مقدر میں لکھی گئی.جب حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کے نامساعد حالات کے سبب دارالہجرت ربوہ سے ہجرت کر کے لندن میں ورود فرمایا.در دو الم کی یہ داستان دہرانے کے لئے حوصلہ اور ہمت درکار ہے.اپنے محبوب امام سے جدائی کی ان کیفیتوں کو اہل ربوہ سے زیادہ کون محسوس کر سکتا ہے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی پون صدی پر محیط
263 متحرک اور فعال زندگی اور اکیس سالہ عظیم الشان دور خلافت کا ایک ایک لمحہ گواہ ہے کہ آپ اپنی آخری سانس تک خدمت دین میں مصروف رہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی کرشماتی شخصیت کے ذریعے جماعت احمدیہ کو معجزانہ رنگ میں ایسی حیرت انگیز ترقیات سے نوازا جن کے بارے میں ایک عام ذہن محض سوچ کر رہ جاتا ہے اور ان کی اتھاہ تک مشکل سے رسائی پاتا ہے.آپ کے ہجر کا غم بھولنے والا نہیں لیکن آپ کی ہجرت کا فیضان اتنا زیادہ ہے کہ اس غم کو آسودہ کرنے کے لئے بہت ہے.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا دور خلافت اللہ تعالیٰ کے لئے بے پایاں احسانات ، ابر باراں کی طرح برستے ہوئے انعامات ، تائیدات اور فراواں نصرتوں کا دور ہے.جن کا مشاہدہ ہم اپنی آنکھوں.ނ کر چکے ہیں.آپ کے دور خلافت کی ایک اہم اور نمایاں خصوصیت چوالیس برس کی طویل جدائی کے بعد قادیان کی طرف آپ کا سفر ہے.۱۹ دسمبر ۱۹۹۱ ء کا دن احمدیت کی تاریخ میں وہ روشن دن ہے جب سوسالہ جشن احمدیت کے موقع پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے قادیان کی سرزمین پر اپنے مبارک قدم رکھے.اس مسرت آگیں لمحے کی تصویر کشی کرتے ہوئے مکرم ہادی علی چوہدری صاحب لکھتے ہیں:.یہ ایک ایسی خوشی تھی جو تاریخ کے افق پر صدیوں کے بعد بھرتی ہے.اور پھر صدیوں تک اپنے نقوش چھوڑ جاتی ہے.قادیان کے درویش جو اپنے آقا ومطاع کے صرف ایک اشارے پر اس مقدس بستی کی حفاظت اور مقامات مقدسہ کے پاسبان بن کر اور نصف صدی سے اوپر ایک لمبی جدائی کی سوزش کے ساتھ اس کے منتظر رہے.آج ان کی آنکھیں خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے وجود باجود کو سرزمین قادیان میں دیکھ کر جذبات حمد و تشکر کے موتی گرانے لگیں اور دلوں کی اندرونی تلاطم کا کچھ اندازہ تو امدے ہوئے جذبات اور بے قرار نعروں سے ہو رہا تھا.ایک طویل ہجر کے بعد وصل کے یہ لمحات دیدنی تھے.جب اہل وفائے قادیاں کی بے قرار نگاہیں پروانوں کی طرح شمع رخ انور کو چومنے کے لئے بے تاب تھیں.برادرم مکرم ہادی علی چوہدری صاحب نے جنہیں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہم رکابی کا شرف حاصل ہوا اور اس تاریخی روحانی سفر کی لمحہ لمحہ داستان قلم بند کر کے گویا ہندوستان کی سرزمین کی طرف چلنے والی ہوائے عطر بیز کو اسیر قلم کیا ہے.ہمارے دل ان کے لئے ممنونیت کے جذبات سے لبریز ہیں کہ انہوں نے اس سفر کے دوران میں ہر
264 لمحے اور واقعے کی اس خوبصورت اور حقیقی انداز میں عکس نمائی کی ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے ہم خود اس با برکت سفر میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہم سفر رہے ہوں.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی مجالس عرفان ،خطبات ،صد سالہ جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ کی تقاریر دل پذیر کی دل نشیں تفاصیل کے ساتھ قادیان کے ان گلی کوچوں کا حال عجیب وارفتگی کا عالم طاری کر دیتا ہے.جن کے ساتھ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کو ایک جذباتی وابستگی تھی.لکھنے والے کا کمال یہ ہے کہ اس نے قادیان کی گلیوں ، راستوں سے گزرتے ہوئے معمولی جزئیات اور بظاہر سرسری واقعات کو بھی اپنی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیا.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے راہ میں انتظار کرنے والے بوڑھوں ، بچوں اور عورتوں کے جذبات ،ان کی دلی کیفیات ، حضور سے ان کی ملاقات حضور کی گفتگو اور مکالمے ، ان سے پیارو محبت کا سلوک ، یہ سب باتیں مصنف کے نوک قلم پر آکر تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے عجیب گداز دل عطا فر مایا تھا.قادیان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی آپ کے دل کی جو کیفیت تھی اسے محسوس کرتے ہوئے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ قادیان میں جو پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اس سے حضور کی اس کیفیت کی بخوبی عکاسی ہوتی ہے.حضور نے فرمایا:.یہ وہ دن ہیں کہ جب سے ہم یہاں آئے ہیں ، خواب سامحسوس ہو رہا ہے.یوں لگتا ہے جیسے خواب دیکھ رہے ہیں.حالانکہ جانتے ہیں کہ یہ خواب نہیں بلکہ خوابوں کی تعبیر ہے.ایسے خوابوں کی تعبیر جو مدتوں ، سالہا سال ہم دیکھتے رہے اور یہ تمنا دل میں کلبلاتی رہی.بلبلاتی رہی کہ کاش ہمیں قادیان کی زیارت نصیب ہو.کاش ہم اس مقدس بستی کی فضا میں سانس لے سکیں جہاں میرے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کامل غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام سانس لیا کرتے تھے.“ (خطبہ جمعہ ۲۰/ دسمبر ۱۹۹۱ء) حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا سفر قادیان تاریخ احمدیت کا ایک شاندار باب ہے، جو ہجر کے بعد وصل کے پر لطف ذائقے سے آشنا کرتا ہے.اس میں محبتوں کا والہانہ پن بھی ہے اور عقیدتوں کا وفور بھی.برسوں سے بچھڑے ہوئے محبوب سے اچانک ملاقات ہو جائے تو دل سے ایک شعلہ سالپکتا
265 ہے جس کی آگ میں جی جان سے جل جانے کو جی چاہتا ہے ، پروانے کی طرح.سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی حسین یادیں احمدیت کا ایک لازوال سرمایہ ہیں.آپ سے محبت کا تقاضا ہے کہ ان یادوں کو زندہ اور تر و تازہ رکھا جائے.آپ کے ان گنت احسانات کو یاد رکھنا اور اپنی نسلوں تک پہنچانا اہل قلم کا فریضہ ہے.مکرم ہادی علی چوہدری صاحب نے نہایت محبت اور اخلاص سے یہ فرض ادا کیا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے آمین.
266 نے فرمایا کہ حرف آخر دائی مرکز احمد بہت کو واپسی کے سلسلہ میں حضرت امیر المونین فاریہ امسیح الرابع رحمہ اللہ بہت سے مخلصین جذبات کی رو میں بہہ کر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ قادیان واپسی کے سامان ہو چکے ہیں اور وہ دن قریب ہیں یہ جذباتی کیفیت کا پھل تو ہے لیکن حقیقت شناسی نہیں ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کی طرف میں آپکو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.دنیا میں مذاہب کی تاریخ میں جہاں جہاں بھی ہجرت ہوئی ہے اور واپسی ہوئی ہے وہاں ہجرت سے واپسی ہمیشہ اس بات کو مشروط رہی کہ پیغام کی فتح ہوئی اور اس دین کو غلبہ نصیب ہوا جس دین کی خاطر بعض مذہبی قوموں کو اپنے وطنوں سے علیحدگی اختیار کرنی پڑی.مذہب کی دنیا میں جغرافیائی فتح کی کوئی حیثیت نہیں اور کسی پہلو سے بھی جغرافیائی فتح کا میں نے مذہب کی تاریخ میں کوئی نشان نہیں دیکھا مگر جغرافیائی فتح صرف اس جگہ مذکور ہے جہاں پیغام کے غلبہ کے ساتھ وہ فتح نصیب ہوئی ہے.حقیقت میں قرآن کریم نے اس مضمون کو سورہ نصر میں خوب کھول کر بیان فرما دیا ہے اور ہمیشہ کے لئے راہنمائی فرما دی کہ اللہ کے نزدیک حقیقی فتح اور حقیقی نصر کیا ہوتی ہے.فرمایا: - إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجَانٌ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا کہ جب تو دیکھے کہ اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ اللہ کی فتح آگئی.وَالْفَتْحُ اور اس کی طرف سے فتح عطا ہوئی تو کیا نظارہ دیکھے گا.یہ نہیں کہ تم فوج در فوج علاقوں کو فتح کرتے ہوئے دندناتے ہوئے ان علاقوں پر قبضہ کر لو گے بلکہ یہ نظارہ تم دیکھو گے کہ فوج در فوج وہ جو اس سے پہلے تمہارے غیر تھے ، جو اس سے پہلے تم سے دشمنی رکھتے تھے وہ اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں گویا دین میں فوج در فوج داخل ہونے کا نام فتح ہے نہ کہ غیر لوگوں کے علاقے میں فوج در فوج داخل ہونے کا نام فتح ہے.پس فتح کا جو اسلامی تصور اور دائی تصویر جسمیں کوئی تبدیلی نہیں ہے قرآن کریم کی اس سورۃ نے
267 پیش فرمایا یہی وہ تصور ہے جو حقیقی ہے، دائمی ہے، جو خدا کے نزدیک معنی رکھتا ہے.اس کے سوا باقی سب تصورات انسانی جذبات سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں.پس اگر جماعت احمد یہ چاہتی ہے اور واقعہ تمام دنیا کی جماعت یہ چاہتی ہے کہ قادیان دائگی مرکز سلسلہ میں واپسی ہو تو ایسے نہیں ہوگی کہ تمام علاقہ تو احمدیت سے غافل اور دور رہا ہو اور تمام علاقہ اسلام سے نابلد اور نا واقف رہے اور ہم میں سے چند لوگ واپس آکر یہاں بیٹھ رہیں.اس کا نام قرآنی اصطلاح میں نصرت اور فتح نہیں ہے.اس لئے اگر کسی دل میں یہ وہم پیدا ہوا ہے تو اس و ہم کو دل سے نکال دے.پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی اور ہندوستان کے احمدیوں کے لئے بھی میرا یہ پیغام ہے کہ آپ خدا سے وہ فتح مانگیں اُس نصرت کے طلب گار ہوں جس کا ذکر قرآن کریم کی اس چھوٹی سی سورۃ میں بڑی وضاحت کے ساتھ فرما دیا گیا.إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًان کہ دیکھو تمھیں ایک عجیب اور ایک عظیم فتح عطا ہونے والی ہے.تم ان لوگوں کے گھروں پر جا کر قبضہ نہیں کرو گے تم لوگوں کے ممالک اور وطنوں پر جا کر فتح کے نقارے نہیں بجاؤ گے بلکہ فوج در فوج لوگ تمہارے دین میں داخل ہونگے اور یہی وہ فتح ہے یہی وہ نصرت ہے جو خدا کے نزدیک کوئی قیمت اور معنے رکھتی ہے.پس خصوصیت کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان کے احمدیوں کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بھی ہے، ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے جسے سمجھنا اور قبول کرنا آج کے وقت کا تقاضا ہے.آئندہ ایک سوسال محنت کے لئے تیار ہونا پڑیگا اور محنت کا آغاز کرنا ہوگا.ایسی محنت جس کے نتیجہ میں روحانی انقلابات برپا ہونے شروع ہوں.پاکستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی کثرت کے ساتھ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پھیلے اور کثرت کے ساتھ فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہونا شروع ہوں.یہی وہ حقیقی فتح ہے جس کے نتیجہ میں قادیان کی اس واپسی کی داغ بیل ڈالی جائے گی جس واپسی کی خوا ہیں آج سب دنیا کے احمدی دیکھ رہے ہیں لیکن وہ خوا ہیں تب تعبیر کی صورت میں ظاہر ہونگی جب ان خوابوں کی تعبیر کا حق ادا ہوگا.“ ( خطبه جمعه فرموده ۱۰ جنوری ۱۳۷۱۶۱۹۹۲ هش بمقام مسجد اقصی قادیان) اللہ تعالیٰ ہمیں اس پیغام پر کار بند ہونے اور اپنی تدبیروں کو الہی تقدیروں کے ہم آہنگ کرنے کی توفیق بخشے تا کہ الہی نوشتے اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ پورے ہوں.آمین اللھم آمین
84.34 230 44.35 44 244 166.164.36 116.114.107 244 227.43 52 1 | اشاریہ <29 احسن رضا احمد مرزا احمد الیاس ماسٹر احمد حسنی آدم عثمان احمد مرزا آر.ایل بھاٹیہ مسٹر 137،43،34 احمد عبدالمنيب 98 احمد لطیف فیضی آر.این ابرول 157 احمد مختار چوہدری آسام 94 احمد یہ محلہ قادیان آسٹریلیا آگرہ حضرت آصفہ بیگم صاحبہ (حرم محترم خلیفة امسح الرابع) آفتاب احمد چوہدری آفتاب احمد خان (امیر جماعت یوکے) 227.75 <34 136 135.132.83.46 اور لیس احمد اردن ارشاد احمد 39.40.38.2 191.167.115 اڑیسہ اسد اللہ خان.34.32 اسلام آباد اسماعیل موہن 223 173 121.111.109.107.87 44.35 246.103.102 44 177.162.143.43.38.34 98 233.160 240 103 44.35 35 36 44 52 اشفاق احمد ملک اشو فی سیکھی صاحب اصحاب احمد از ملک صلاح الدین اعجاز احمد اعجاز احمد رؤف 137 136-134.75.43.36 222.220.217.170.168.155 240 173 166 121.88.47 آفتاب یاسین آندھراپردیش اباجہ صاحبہ حضرت ابو ہریرہ اٹک 44 اعجاز احمد طارق 196،195 اعجاز احمد قریشی 245 اعجاز نصر اللہ چوہدری افتخار احمد جاوید افتخار الدین قمر 161 اجیت ( پنجابی اخبار ) احسن الدین پیر
445 104 100 168.137 2 افریقہ افریقہ جنوبی 214.129.124.92.76 انبالہ 227 اشاریو (Ontario) (کینیڈا کا صوبہ ) امرتسر 138،137،132،47،46،45،43،42،9، انچومی ضلع میرٹھ اندرا گاندھی 201 186 164 162 161 153 138 201،186،164،162،161،153 ، اندر کمال گجرال $124.92.87.79.76.52.43 226-221-220-135.129 اندر ملہوترا انڈونیشیا امریکہ افضال احمد رؤف اقبال الدین اقرار احمد اکبر بادشاه اللہ بخش صادق السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا (رسالہ) الفرقان (رساله) الفضل (اخبار) اللہ رکھا امة الباسط بشری امة الباسط شیدا امتہ الحکیم لمت الرؤف امه السلام امة الشافی امة العزيز امة العزيز نيم 104 52 240 39 222-158 134 18 215.149.31.19.13 52 95 44 158 155.84 44 131 100.44 54 امة القدوس صاحبہ حضرت (صدر لجنہ اماءاللہ بھارت ) 45، امة المصور امتیاز احمد بٹ امینہ مرزا 232.51 انڈیا انڈیمان 167 134 227.220.89 134 133.99.86.43.39 167.137.136 88 134 102.79 انڈین ایکسپریس (اخبار) صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب.129.122.73.68.67.57.43 انگلستان 214.192 191 190 172 171.134 226 <221 اننت ناگ (کشمیر) انوپ سنگھ بیری انور حسین چوہدری امیر ضلع شیخوپورہ انیس مجید انیل کمارا برول ڈاکٹر اوکاڑہ او ما واسو د ایوا (Uma Vasud Ewa) ایاز ایڈمسن مسٹر ایران ایشیاء 44 243 اے.عبدالسلیم 44 | ایکن مسٹر جسٹس منسٹر ( گھانا ) 241 81 81 244 157 157 245 134 121 238 226.99 221.214.92 240 94
228 107 229-106 106.12.10.8 206 151 17 16 230 231 16 بشیر احمد بشیر احمد خادم 3 ایم.برین مولرونی (Brain Mulroney.10 ایم.کے ملک 104 230 بشیر احمد چوہدری 240 بشیر احمد سید 237 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بشیر احمد خواجہ بشیر احمد طاہر بشیر احمد میجر بشیر احمد خان رفیق ایڈیشنل وکیل التصنيف 34 بشیر احمد دہلوی مولانا 238.169.151.38 بشیر احمد شاد درویش بشیر احمد شیخ امیر مقامی جماعت لاہور بشیر احمد شیدا بشیر احمد طاہر مولوی بشیر احمد ملک در ولیش 37 153 146 44 160 53 بشیر احمد ڈاکٹر درویش 113،112،107،99،53 240 236-235 231 ایم.علی کنجو ایوب احمد ایوب بیگ مرزا 233 201.99.93.46.16.10.6 238-236-235.234 194.120 159 29 124 158.157 یا بونند باسط احمد خان باسط رسول بٹالہ بخاری صحیح بدرالدین عامل چوہدری بدر (اخبار) قادیان بدھا بڑھامل لالہ براہین احمدیہ تصنیف حضرت مسیح موعود ) 150،148 برطانیہ برکت علی انعام مولوی برکت علی حکیم برلن برہان احمد ظفر مولوی بشارت احمد بشارت احمد اعوان بشارت احمد شیخ بشری ارشد 169 156 240 76 40.38 104 36.35 243 243 بشیر احمد ناصر ڈاکٹر بشیر احمد بانگر وی مولوی در ویش بشیر احمد وڑائچ 147 54 242 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ( حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی) €10.8.7.6 54.53.40 19.18.14.13 152 133.95 91.79.74.73 قسیم ہند کے وقت حالات کی سنگینی اور بشری سیدہ آپا 243 خطرات کے پیش نظر آپ کی جماعت کو ہدایات 7
226.43 72.60.53 آپ کا منظوم کلام ہے رضائے ذات باری اب رضائے قادیاں 92 بیوت الحمد کالونی قادیان آپ کا قادیان اور ضلع گورداسپور کی رپ 51.48.43.31.21.18.14.7.5 115 113.108.102.98-87.86.80 141.130 129 128 127 126.122 175 172 171.165.163.146.142 $209 208-200 199.198.191.190 <222 221 220-218 217 216-214 258 253.242.240.226.225c 241 35 45 110 53 227 240 131.87 35 133 245.104 جماعتوں کو الوداعی پیغام 10 تا 13 آپ کی قادیان کی جدائی میں سفر یورپ کے دوران پاکستان تحریر فرموده نظم آپ کی قادیان سے روانگی کا ذکر بلال اللنسن بلال احمد مرزا بلوچستان بمبئی بنگال بنگلور بنگلہ دیش 20 14 35 84.34 246.103 111.38 241 240.94 47.36 111 227.94 بہار 241.167.136.87.84.36 بھارت 72،49،48،45،37،36 ،95،73، | پرتگال 167.132.114.108.107.98 232-226-213.186.168 بہاولپور بہاول نگر بھاٹی گیٹ (لا ہور ) بھکر بھگیلو میاں بهنيشور بھو پندرسنگھ عرف ماسٹر پی 246.104 246 248.247 245 240 109 131.107 پاکیزہ بیگم پال ہیچر مسٹر پانی پت پٹنہ پرتاپ دیورانا پرسونی (نیپال) پرم ویر سنگھ پروین رفیع محتار پر یما وشواناتھ پشاور پنجاب پوچھ 104 103.87.86 84.70 42 11 201 190 173 172.161.132 240 235 207.206-205-204 113 106 154 153 157 94 پھگلہ 153 پھیر و پیچی لالہ سیٹھ پیارے لال 154 بھوٹان بھینی ( گاؤں نزد قادیان) بھیم سنگھ قلعہ
234 +91 79.75 44 43 41 39 37.35 221 214 191.135.113 جانکی ناتھ جرمنی جسونت سنگھ 5 169 240 پیر محمد عالم پی کے علی یار تاریخ احمدیت جلد 10 (مصنفہ مولانا دوست محمد شاہد ) جعفر علی ڈاکٹر تامل ناڈو 234 151.148 147.135 10،7،6 ، 18 حضرت مولانا جلال الدین شمس قادیان سے 149 بوقت روانگی آپ کے درد بھرے الفاظ 88 جموں 18 87 167 جمیل الرحمان رفیق وكيل التصنيف 242،47،36 تاریخ احمدیت (مقدمہ دیوار کا ذکر ) تبرہ پورہ (بہار) تلے والی 154 جنم ساکھی تجلیات الہیہ (تصنیف حضرت مسیح موعود ) 4 238 جواہر لال نہرو پنڈت وزیر اعظم ہندوستان 7 ، 11 ،234 تذکرہ ( مجموعہ الہامات و رویا و کشوف حضرت مسیح موعود (5،1 ، جواہری لال 157 113 246 245 136 45 104 154 245 113.27 41 240 جوزف کو نڈالر جھنگ جے نارائن سینئر ایڈووکیٹ 150 138 124.77.19.15 219-203 40 153 106 244 36 ،110 چرن سنگھ کا نشیبل 226 چک 96 گ ب ضلع فیصل آباد چک شریف چکوال چمن سنگھ سردار چندر گپت موریہ حافظ آباد 174.103 94.35 245 تعلیم الاسلام کالج ( قادیان) تغلق آباد طغل والا (گاؤں) تقی محمد تنویر احمد خان تنویر احمد سید تھائی لینڈ تھر پارکر نام کا کس برطانوی ممبر پارلیمنٹ ٹو بہ ٹیک سنگھ 227.220.191.74 201.131.94.84.45 جاپان جالندھر
حافظ الحق حامد علی شیخ حامد محمود ڈاکٹر حبیب اللہ شاہ سید حبیب اللہ طارق حبیب اللہ شاہ مرحوم حسرت صاحب ماموں رانا پرتاب دیو حسن ابراهیم حسن ملا حفیظ اللہ حیدرانی حفیظہ بی بی حفیظ گوندل حقیقۃ الوحی (تصنیف حضرت مسیح موعود ) حلیمہ بی بی حمید احمد خالد حمیدالدین شمس مولوی 240 CO 6 خانیوال 237 خشونت سنگھ سردار ( جرنلسٹ) 104 خلیل احمد پر سونی ڈاکٹر 53 خلیل احمد چوہدری 44.35 خورشید احمد انور 241 خورشید سلمی 53 98 241 243 241 242 157.150 241 232 38 حمید اللہ چوہدری وکیل الا علی تحریک جدید 47،39،36، 222 217 216.171.115.83.79 228 226 225 224 حمید نصر اللہ چوہدری امیر ضلع لاہور 242،44،36 حنیف احمد محمود 232 حیدر آباد دکن 223 106 100.36 (خ) خالد محمود خالد مرزا خالد نبیل ارشد خالدہ سونگی 244 102 169.155.137.106.34 103 245 134 240 243 231 168 45 36 100 خوشاب 245 دار الانوار محله قادیان داؤ د احمد ناصر داود مظفر شاہ سید صاحب دہی (نیپال) دلاور خان ڈاکٹر دوالمیال دھرم چند (ہیڈ کانسٹیبل ) 53 91 106 240 156 103.14 44 دہلی 83.38 37 36 35 34 33 32.11 166.164.162.161.154.94.84.222.205.186.173.168.167 248.247 104 240 دہلی گیٹ لاہور ) دین محمد حکیم دیور بانه (نیپال) ذکاءاے ملک مستر ذکر حبیب از حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق ذوالفقار احمد ذوالفقار احمد شیخ 243 150 160 158
ڈلہوزی ڈیرہ با وانا تک راٹھور (کشمیر) راج پورہ (گاؤں) را جستهان را جن پور را شد رحیم را مبیر سنگھ ہیڈ کانسٹیبل رام رتن شر ما پنڈت رام سنگھ صو بیدار رام نارائن سیٹھ راولپنڈی 154 238.237 240 140 160.87 246 243 44 98 107 157 246.104.83 7 رشید احمد چغتائی مولوی رشید احمد چوہدری انچارج پریس رشید احمد زیروی رشید احمد ملکانه رشید الدین رضوان احمد رضوانه حمید رضیه در د صاحبه رضیه موہن رفع احمد قریشی رفیق احمد ثاقب رفیق احمد حیات رفیق احمد میاں رمیش چند کانسٹیبل روس را ویل بخاراییو ( تا تاری روسی احمدی ) 114،35 ،238 ریاض احمد ربوہ 68،52،48،47،39،38،36،31،23،2، 102 100 95.90.89.83-81.80.79 109 108 107 106 105 104 103.152.146 147 131 127.115.112 <226-223-217-216-215.191.156 258-257-250-249-245-232.228 رحمان پور (لاہور) رحمت اللہ شیخ رحمت علی خان چوہدری رحمت اللہ گجراتی شیخ رحیم یارخان ریاض بیگم ریاض محمود شیخ ریتی چھلہ محلہ قادیان زائر زین العابدین 244 36 زین الدین حامد زینب صاحبہ 229 زینب بیگم 237 246 ساہیوال 100 34 232 160 240 230 83 95 44 167 166 165.163.162 231 169 223 44 227.105.76 240 99 242 113.82 160 44 229 44 241 245.103.98
240 241.100.47 53 247 <47.36 249.242.107 40 161 88.86 8 سپین ست بچن ( تصنیف حضرت مسیح موعود ) ستنام سنگھ باجوہ سردار سٹھیالی سٹیفنسن پروفیسر سراج الحق سراج الدین سرحد صوبہ سردار علی سرگودها 227،124،44 سکوئی جمنیاں (نیپال) 238 113 154 206 240 52 سلطان احمد ظفر مولانا حضرت مرز ا سلطان احمد سلطان پورہ (لاہور) سلطان محمود انور مولانا حضرت سلیم الدین 87 سمنت کمار گوئیل 44 سمیرا احمد صاحبزادی 245،223،104،83 | سنبر سه (نیپال) سرمه چشم آریہ ) تصنیف حضرت مسیح موعود ) 149 سنڈے ٹائمنز انڈیا سر ہند 84 حضرت سید سرور شاہ صاحب 223،219،72،54 سری لنکا سرینگر سجاد حسین کیپٹن سجاری صاحب سعادت احمد جاوید سعد احمد گوندل سعد یه نیم سندھو سنگاپور 227،88 سنگم ویار (دہلی) 240 133 246 163 162.87.86 220.89.44.43 133 240 سورن سنگھ حکیم میونسپل کمشنر قادیان 147،113،23 99.52 44 229.155.138 سوشل کٹی (Sushal Kutty) سوئٹزرلینڈ 134 227 سویڈن 227،137،107،44،43،38،35،34 244 | سہیل اختر 244 246.10.9.7 44 44 44 41 56 240 233 سعید احمد جسوال سعید احمد مرحوم مرزا سفیر احمد مرزا سیکم سکندر آباد سکندره سکینڈے نیویا 106 سیالکوٹ سید الہادی 238 169 155.43.34 53 83.46.34 سید حفیظ سید علی 241،240،94 | مسیر روحانی (تصنیف حضرت مصلح موعود ) 109 39.38.2 83 سیزر سیکھواں سیواسنگھ ڈاکٹر 167 166 165.163.162
9 شالے کے پین شاہجہان ( مغل بادشاہ) شاہجہان صاحب شاہجہانپور شاہد صاحب شاہدرہ ٹاؤن (لاہور) ش شاہد محمود فرائس ڈچ احمدی 154 40 240 240 44 صالح محمد الہ دین حافظ امیر جماعت آندھراپردیش 36 صالحہ صاحبہ صالحه درد صباح الدین سید 246 247 صباح الدین نجم 44.41.35 44.34.32 241.106.47 44 243 230-155 137 حضرت ملک صلاح الدین صد ر وقف جدید قادیان 47 44 صوفیہ بیگم 233.160 84 41 136.36 228 231 243 35 230 160 44 4<2 ضامن امام 179.52 241 231 112.107.87 169 152 245 طارق احمد سید طارق احمد ڈاکٹر طارق احمد جاوید 244 طارق محمود بھٹی طارق محمود گلفام طفیل احمد سید طالب یعقوب مبلغ سلسلہ زائر طه قزق امیر جماعت احمد یہ اردن حضرت مرزا طاہر احمد ( حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) 46.43 40 39 38 37 34 30.28 81 80 79 78.76 71 55 51.50 106 103 100.98.95.93.89.83 130-116.114.113.111.109 247-244 11 88.86.85 44 137.83.46.34 240 155 44 246.81.7 241 شاہد محمود ملک شاه دین پهلوان بابا شاہنواز چوہدری صاحب شبنم پروین شریف احمد حضرت ڈپٹی شریف احمد شریف احمد اشرف شریف احمد ڈوگر در ولیش شعیب نیر شفیع اللہ شفیق احمد حکیم شملہ شمیم احمد صاحبزادہ مرزا شمیم احمد خالد کیپٹن شوکت جہاں صاحبزادی شوکت علی شهامت علی سید در ولیش شیانکا صاحبہ شیخوپورہ شیر کشمیر کالونی (کشمیر)
10 137 136 135 134 133 132 153 152 151.147.146.138 222 217 216-215-155 154 241.226.225.224.223 2 کارکنان جلسہ سے خطاب آپ کا جلسہ سالانہ پر تاریخی افتتاحی خطاب آپ کا لجنہ کو خطاب اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو قادیان واپسی کے ذکر والی آپ کی رؤیا آپ کی دعاؤں سے برٹش ایئر ویز کی دہلی کیلئے گھر تھا نئی پرواز کا آغاز آپ کی قادیان کے لئے لندن سے روانگی 80 93 98 102.101 33 آپ کا معرکۃ الآرا تاریخی افتتاحی خطاب 110 33 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جنوری 1992 کا مکمل متن 116 درویشان قادیان سے آپ کی اجتماعی ملاقات 156 آپ کی خواجہ بختیار کا کئی کے مزار پر دعا بذریعہ ٹرین دہلی سے امرتسر کے لئے روانگی آپ کی قادیان سے روانگی اور اجتماعی دعا 41 42 نظم ”اپنے دیس میں اپنی بستی میں“ کی ٹرین یا رب یہ گدا تیرے ہی درکا ہے سوالی 159 163 کے سفر کے دوران آمد بذریعہ میلہ ٹرین امرتسر سے قادیان روانگی ہادی علی کو حسین بٹالوی کے بارہ میں تحقیق کرنے کا ارشاد مینارة مسیح دکھائی دینے پر گاڑی کا روک دیا جانا اور آ پکی اجتمائی دعا آپ کا قادیان دارالامان میں ورود مسعود قادیان میں آپ کا والدہ ماجدہ کے مکان میں قیام مزار مسیح موعودا ور دیگر قبروں پر دعا 43 45 46 46 47 51 <72.53 159 136 131.116.88.86-85.82.78 جماعتہائے بھارت و قادیان کی طرف سے قادیان میں آپ کا پہلا تاریخی خطبہ جمعہ استقبالیہ تقریب اور پیش کردہ سپاسنامه کل چلی تھی جو لیکھو پر تیغ دعا ( منظوم کلام حضرت خلیفہ مسیح الرابغ ) 55 73 75 آپ کا الہام Friday the 10th 162،138، خطبہ جمعہ 10 جنوری 1992 کا مکمل متن خطبه جمعه فرمودہ 17 جنوری 1992 کا متن خطبه جمعه فرمودہ 24 جنوری 1992 کا متن جلسه سالانہ قادیان 1990 پر آپ کا پیغام طاہر احمد چغتائی طاہر احمد چیمه مولوی طاہر احمد صاحبزادہ مرحوم (اوّل) طاہر احمد خواجہ طاہر احمد عارف طاہر احمد ملک طاہر محمود طیبه سیده 166.163 139 170 193 213 103 230-158 53 229 229 242 243 106 آپ کے دور خلافت کی پانچ خصوصیات 75 76 ظفر احمد آپ کا استقبالیہ تقریب کو خطاب 77 تا 78 ظفر احمد صاحبزادہ مرزا 99.88 88 18
237 229 103 11 عبدالرحیم شیخ بھائی جی عبد السلام عبدالرشید 223 230 244 244 245 عبدالرشید چوہدری آرکیٹیکٹ 106،82،36،34ء ظہور الدین انجینئر ظفر اللہ ناصر ظہیر احمد خان ظہیر الدین جنجوعہ عاشق حسین عباس احمد خاں نوابزادہ عبدالاحد صدیقی آئی.پی.الیس عبد الباسط مرزا عبدالباسط خان ڈاکٹر عبدالباقی ارشد عبدالجبار عبد الحفيظ عبد الحق چوہدری در ولیش حضرت مرزا عبدالحق عبدالحکیم ڈوگر عبد الحليم سحر عبد الحليم طیب عبدالحئی شاہ سید ناظر اشاعت عبدالشکور چوہدری عبدالرحمان حضرت مولوی عبدالرحمان جٹ عبدالرحمن چوہدری ایڈووکیٹ عبدالرحمان قادیانی بھائی عبدالرحمان محمود قریشی عبدالرحیم بیگ مرزا 240 14 136 169.137 111 169.106 103 113 159 102 242 23 243-242 152.47 229 240 155 عبدالرشید رانا عبدالرشید مرزا عبدالرؤف میاں عبدالریحان سید 225.224 52 137.43 39.38.34 242 167 حضرت سید عبدالستارشاه (نانا جان حضرت خلیفہ مسیح ارابی) 53، عبد السلام (لاہور) عبد السلام عبد السميع عبدالشکور اسلم عبدالشکورصدر جماعت دہلی عبدالعزیز عابدین عبدالعظیم در ولیش عبد المغنی خان مولوی چوہدری عبد القدیر در ولیش مرحوم عبد القدیر نیاز عبدالقيوم عبد القیوم رشید 105،81 حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی 151.54 44.35 36 عبداللطیف گیانی 159.114.88 106 229 103 44 37 241 167.152 53 159 228 240 106 237 103 98 154 232-156 عبداللطیف ستکوہی حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کابل حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحبزادہ 54 عبداللطیف گیانی درویش
12 عبداللطیف میجر حضرت مولوی عبد اللہ سنوری عبدالماجد طاہر عبدالمجید 242 | عطية المجیب طوبی صاحبزادی حضرت خلیفة المسیح الرائع 149 169 علی احمد طارق سید ایڈووکیٹ 103 علی حیدر عبدالحمید ٹاک امیر جماعت کشمیر 155،111، علی گنج (یوپی) عبدالحمید چوہدری عبدالحمید قاضی در ولیش عبدالمجیدکھوکھر عبدا نعم کڑک عبد المومن خواجہ عبد الواحد چوہدری عبدالوحید ڈاکٹر عبدالهادی سید عثمان صاحب 160.158 44.36 156 44.35.34 242 35 100 247.244.243 52 44 عدنان احمد صاحبزادہ مرزا169،155،137،43،34 169.159.88.43.34 عمات صاحب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ عمر علی مولوی در ولیش عمان فارغ کن غالب احمد راجہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام 165.164.163 103 240 44 15 156 227 242 <4<3 46.37 24 23 18 16 15 14 13.5 78.77.75 72.645756«53 52.47 عجم عذرا محی الدین عرب عزیز احمد اسلم حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد عزیز اللہ شاہ سید عزیز علی عطاء اللہ شاہ بخاری عطاء اللہ ملک کیپٹن 94.93 91 90 89 88-86-85.82.81 131 118 116 115 106 105 100 149 148 147 145 139 138.136 4 241 4 180 175 174.159.157.151.150 260 250 201-200.197 231 53 53 2 157 رویا میں آپ کا تذکرہ 148.147 حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی قادیان واپسی والی 234 آپ کی دعا سے ملا وامل کے شفایاب ہونا 18،16،14 آپ یا آپ کے کسی خلیفہ کے عطاءالمجیب راشد مولانا 169 ،242 250 ہجرت کرنے والی آپ کی رؤیا 14 عطاء الواحد عطاء الہی منصور ڈاکٹر 104 آپ کا سرخی کے چھینٹوں والا کشف 149 آپ کا کافی رقم دے کر چولہ باوا نانک دیکھنا 238
ہے شکر رب عز و جل خارج از بیاں اہل وقار ہویں فخر دیار ہوویں 90 214 13 فضل احمد سید سابق ڈی آئی جی پی بہار 36 ،110،84، 155.137.136.111 الہامات حضرت مسیح موعود 23،17،16،6،5،1، 157.150.138.106.93.77.75 218 171 47.36 غلام احمد مرزا صاحبزاده غلام احمد فرخ سید غلام باری سیف مولانا فضل اللہ قریشی 229.154 فضل الہی خان درویش 155،152، 233، 238 فضیل صاحب 222، 225 | فوزیہ صاحبہ 104 فہیم الدین جنجوعه 242 فہیم ناگی 156 فیروز خان انجینئر 44 44 243 245 م حسین درویش غلام.غلام رسول چوہدری 242 غلام قا در فصیح منشی غلام محمد خادم فیصل آباد 237 فیض اللہ چک فیکٹری ایریا (لاہور) غلام نبی نیاز مولانا مبلغ دہلی غیاث الدین تغلق طرف) فاروق احمد فاطمہ رضیہ فائزہ بی بی 100 37 40 223 245.104 6 246 قادیان 13،12،11،10،9،8،7،6،5،4،3،2 صاحبزادی فائزہ بیگم صاحبہ 34 ،137،135،88،43، فتح پور سیکری حضرت چوہدری فتح محمد سیال فتح محمد نانبائی درویش فنجی فرانس فرزانہ بشیر فضل عمر ڈوگر فضل احمد چوہدری 23 22 21 19 18 17 16 15 14 46 45 44 43 42.39 36 25 24 55.54.53 52 51 50 49 48.47 79 78 77 74 73 72 69 68 67 90.89-88-86-85 84 83-82.80 102 100.99.95 94 93 92 91 108 107 106 105 104 103 114 113 112 111 110.109 124.121 120 118.116.115 136 135 134-131-126 125 145 141 140 139 138 137 152 141 149 148 147 146 158 157 156 155 154 153 164 163 162 161.160.159 172 171 170-168 167 166 231 241 241 169.155 39.38.2 8 153 227.74 227 106 245.243 181 180 179 178 177.175 229
100 230 44 15 14 قمر الدین منشی قمر سلیمان سید میر قمرالعارفین سید قیصر روم 189 186 185 184 183 182 200 199 198.197.191.190 206 205 204 203 202.201 214 213.210 209 208 207 223 222 221.217.216.215 234-233-230-228-226-225 242.241.239.238-236-235 253-252-249.248.246.245 کابلی مل 256 257 258 259 260 کارل ہربرٹ رچھولڈ (امریکن) کانپور قادیان واپسی والی حضرت خلیفہ ایسیح الرابع کی رویا 2 قادیان کی جماعتوں کو حضرت مصلح موعودؓ کا الوداعی کا وا شیری ( کیرالہ ) پیغام 10 تا 13 کبیرا ( بنگال) حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے ہجرت قادیان کا تذکرہ کشک 14 تا16 کثیر چھیتری کراچی قادیان سے بوقت روانگی مولانا جلال الدین شمس کے درد بھرے الفاظ 18 237 44 241 240 109 240 241.240 111 241.165.164.106.103.102.36 قادیان کی جدائی میں سفر یورپ کے دوران مصلح حضرت کرشن جی مہاراج موعودؓ کی تحریر فرمودہ نظم 20 کرشن لال 246 191 174.167.166 105 157 110 109 108.88 کرناٹک 45 19 دسمبر 1928 کو پہلی با رقاد یان ٹرین کی آمد چوالیس سال کے بعد قادیان پر خلیفہ اسیح کا کریم احمد خان ورود مسعود قادیان کی استقبالیہ کمیٹی 55 کریم احمد مولوی 49 کریم بخش حکیم سورن سنگھ کی قادیان واپسی کی پیشگوئی کے کسری ایران سچا ہونے کی گواہی قاسم احمد سید قرطبی ( مفسر قرآن) قصور قطب الدین بختیار کا کی خواجہ 147 231 196 246 42.41 247-243 231 113 15 130 112 111.87.47.36.12 *209.186.183.173.160.158.155 246.242.240 20 238.236 134 کلام محمود ( مجموعہ کلام حضرت مصلح موعودؓ ) کلدیپ سنگھ بیدی حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی آپ کے مزار پر لمبی دعا 41 | کلدیپ نیئر ( جرنلسٹ)
کلیم احمد مرزا صا حبزاده کلیم احمد دہلی کلیولینڈ (امریکہ) کمال یوسف سید کنج بهاری لعل کنچن پور(نیپال) کنری کوٹ ٹوڈرمل کوکب منیره كولمبو کو ہاٹ کھارا (گاؤں) 15 72 ، 100 گل محمد مرحوم مرزا 107.43.41.36 گنگا رام سر 44 147 83 235 240 174.103 154 103 241 246 154 گنگٹوک (سکم) گوٹھ علم دین (سندھ) گوجرانوالہ گورداسپور 53 83 241.240 174 245.105.44 237 161 154.12.5 ضلع گورداسپور کی جماعتوں کو حضرت مصلح موعود کا الوداعی پیغام گھانا گھوڑے واہ (گاؤں) گیمبیا ال کے 236 لاکھ سنگھ فخر لاہور 249.241.240.173.121.88 107 226 221 220.104.75 226 234 کے.ایم ٹامس کیرالہ کیرنگ کینیڈا کینیا کیوں کرشن نگر وال گجرات گلاب سنگھ راجہ گلبرگ (لا ہور ) گلزار احمد چنه گلشن راوی (لا ہور ) گلفام ملک 10 94 153 226 82 36 18 17 15 14.11.10.9.7 240 108 106 103 102.99.44 260-248-246-245-243-242 لدھیانہ لطیف احمد قریشی ڈاکٹر لعل حسین 214.45.30 228.115 248.244 صاحبزادہ مرزا لقمان احمد 88،85،52،43،34،2، 134.116 94 246.87 <75.54.52.42.37.34.33<32<2 لکش دیپ لندن 135-133 146 137 131.115.108.106.76 240 216.193.170.169 168 167.151 165 258-250-239-238-224-221.217 248 246 246 لودھراں لیہ 44
لیاقت علی مادھو پوره ماڈل ٹاؤن (لاہور) ماریشس مالدیپ مامون الرشید ڈوگر ما باد بوس مستر (مصری) مبارک احمد بیرسٹر مبارک احمد رانا مبارک احمد ساقی مبارک احمد شیخ حضرت مولانا شیخ مبارک احمد مبارک احمد کھوکھر مبارک احمد مرزا صا حبزاده مبارک احمد میر ڈاکٹر مبارک محمود پانی پتی مبارک مصلح الدین احمد مبار که بیگم سیده در ولیش 247-244 154 247.246.244.243 225 191 74.44.43 88 44.35 35 36 242.52 221.217.169 228 250 52 14 115.52 242 242 167.152 97.95.72 16 مجیب الرحمان ایڈووکیٹ 242 حضرت محمد مصطفے خاتم الانبیاء 14،3،2، کہ 97.71.65 54.49.48.32 159 131 117.115.108.107 195.194.165.163.162.160 199 198 197 185 184.197.196 آپ کی اطاعت امیر والی حدیث آپ کا دوررس اور لامتناہی احسان آپ کے وسیلہ ہونے کی حقیقت 12 61.59.58 58 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کی آپ پر درود پڑھنے کی تحریک محمد ابراہیم ماسٹر در ولیش محمد ابراہیم مرحوم حضرت مولوی سید محمد احسن امروہی محمد احمد جسوال محمد احمد چوہدری محمد اسحاق ناصر محمد اسلم محمد اسلم بھروانہ 58 159 241 237 169.155.43 34 243 44 35 242 حضرت سیدہ نواب مبارکه بیگم محمد اسلم شاد منگلہ پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ 228،52 محمد اسلم شریف سیدا ہے آپ کو شوق لقائے قادیاں ( آپ کی نظم) 96 محمد اسلم کرنل راجہ پھر دکھادے مجھے مولا مرا شاداں ہونا ( آپ کی نظم ) 97 محمد اسمعیل میر 104 243 237.82 232 مبشر احمد ڈوگر چوہدری 44،35 محمد اسماعیل منیر مبشر احمد دہلوی شیخ 243 محمد اشرف کرنل مبشر احمد بٹ 228 محمد اعجاز قریشی مبشر مجید باجوہ 232 محمد اعظم اکسیر مبشر احمد شیخ 243 محمد افضل ملک 242 44 242-232 244
159 112.107.95.87.79 160 17 104 محمد شریف احمد امینی 228 محمد شریف ڈپٹی 104 محمد شریف گجراتی (مرحوم) محمد افضل میاں محمد اکبر محمد اکرم حافظ محمد انعام ذاکر 159 محمد شفیع محمد انعام غوری ( حال ناظر اعلی قادیان و امیر مقامی) 36،25 ، محمد شفیع اللہ وامیر 250.159.155.148.108.49.47 محمد انور ندیم محمد ایوب بٹ مولوی در ولیش محمد شفیع عابد قریشی در ویش حضرت مفتی محمد صادق 104 محمد شکیل محمد ایوب سا جد مولوی محمد بن تغلق حضرت محمد حسین مولوی سبز پگڑی والے ( صحابی حضرت مسیح موعود ) 151.83 160 محمد صادق پونچھی 41 مولوی محمد صدیق گورداسپوری 105.90.89 محمد طیب کرنل 229 111.110.108 159.155 82 150 131 229 242 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان 79، 107،102،80، محمد حسین بٹالوی مولوی 236،235،234،233،93، محمد عارف منگلی محمد حسین بٹالوی کے بارہ میں معلومات کی تلاش 233 محمد عاشق قاری حضرت خلیفۃ امسیح الرابع کا پتہ کرنے کا ارشاد 46 محمد حسین چیمہ کیپٹن محمد حفیظ (ہالینڈ) مولوی محمد حفیظ بقاپوری محمد حفیظ ڈوگر محمد خالد شیخ مولانا محمد دین حکیم محمد دین ملک محمد دین ناز مرزا 190-131 35 159 44 محمد عبدالباقی محمد عبدالسمیع چوہدری محمد عبد اللہ مولوی در ولیش محمد عثمان چینی محمد عزیز 240 محمد علی جناح مسٹر 242-232 131 حضرت نواب محمد علی خان 98 مولوی محمد عمر علی در ولیش حضرت نواب محمد دین محمد ساجد علی محمد سرور ظفر 242 17 244 244 محمد عمر مولانا محمد عمر قمر محمد علیم الدین محمد عیسی درد محمد سعید شیخ ( نواسه محمد حسین بٹالوی) محمد سلیم 240 93 محمد فتح الله محمد کریم 113.112 232 242.90 167 223 152 169 113 11.7 219.79.53 156 249.242 99 102 242 240 244
152 230 98 87 197.196.194.55 18 محمود علی سید مختار احمد مدراس مدھیہ پردیش مدینہ منورہ مردان محمد کریم الدین شاہد صدر عمومی محمد لطیف با بواسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری 250.231.49 52 243 82 240 131 محمد مسعود اقبال محمد موسی در ولیش محمد مہتاب عالم محمد نذیر مبشر مولوی محمد نعیم چوہدری محمد یسین 246 106 حضرت سیدہ ام طاہر مریم بیگم 116،87،53،51 240 حضرت ام متعین مریم صدیقہ 14.7 حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی 232 165 47.36 52 155.137 60 60 124.12 98 47 76 137.44.38.35.34 45 102 243 250.228.36 102 244 232 246 244 مسرت حسین صاحب مسعود احمد سید میر مسعود احمد مقصود مسعود حیات 231 232.104 230 159 106 محمد یعقوب جاوید محمد یوسف محمد یوسف انور محمد یوسف کھڑا محمود احمد سید محمود احمد میجر چیف سیکیورٹی آفیسر 38،36،34 ، مسلم صحیح محمود احمد بٹ ڈاکٹر محمود احمد خادم محمود احمد خان محمود احمد شاد مربی سلسله محمود احمد شیخ محمود احمد عارف 169.155.137.43 151.135.84.83 231 مسیح ناصری مشتاق احمد ملک مشرق علی ماسٹر امیر بنگال 43 مشرق وسطی 108 مشهود الحق 230 مصری لال کانسٹیبل مصلح الدین مطاہر احمد یح مظفر احمد حافظ مظفر احمد مرزا مظفر اعجاز مظفر اقبال چیمه مظفر گڑھ مظفر محمود 115.36 45 44.34 242.104.47 103 228 102 43 محمود احمد عباسی محمود احمد گلزار محمود احمد ناصر میرسید مدثر احمد ملک ڈاکٹر محمود احمد ملکانه محمود اکبر محمود خان
19 مظہر علی اظہر مولوی معین الدین سیٹھ مقبول احمد مقبول اللہ 234 167.98 244.243 منور احمد مرزا ڈاکٹر صاحبزادہ فرزند حضرت مصلح موعود ) 14 منور احمد خان منور احمد بھٹی 240 منور علی چوہدری مقصود الحق صدر مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی 44،41،39 | منور قیصر ملا وامل لاله ملتان ملفوظات جلد 4 ملیحہ صباحت احمد مکه مکرمه 157 158 منوہر لال شرم 246 106.104 منهاج ملا شر ما 42،15 منیر احمد بسمل مکیریاں ممتاز احمد بٹ ممتاز احمد ہاشمی درویش منجو چھیتری بیگم منصور احمد منصور احمد چغتائی منصور احمد سید منصور احمد چیمہ چوہدری 244 103 245.243 247.244.243 98.27.26 241 84.34 194.119.18 154 منیر احمد جاوید لنڈن منیر احمد چوہدری منیر احمد حافظ آبادی 35 منیر احمد خادم صدر مجلس خدام الاحمدیہ بھارت 159 منیر الدین شمس لنڈن 241 منیر الدین شمس از لاہور 243، 245 موتی ہاری (بہار) 103 حضرت موسیٰ علیہ السلام 84.36 229 حضرت مرزا منصور احمد ( ناظر اعلی ربوہ ) 39،36،17 ، 131.89.79.47 حضرت سیدہ منصورہ بیگم ( حرم حضرت خلیفہ امسح الثالث) منصوره سلام 14.7 106 159.158 مہاراشٹر میانوالی میرٹھ میمونه صاحبه نارووال ناروے 229 169 242 110.45.36 49.36 169 244 241 81.6 109.87 246 99 44 246.6 44.43.35 منظور احمد چیمہ چوہدری درویش منظور احمد گجراتی افسر جلسہ سالانہ قادیان 79،36، 228-223 ناصر آباد ( محله قادیان) 88،86،85،72،53 حضرت مرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث 17،14، 87.72.18 99 ناصر احمد 155.54 243 منظور احمد گھنو کے در ولیش منظور ایاز مسز
240 232.99.80 20 20 242 نگینہ صاحب 223 نواب احمد قاری ناصر احمد جنرل ناصر احمد راجہ (سرگودھا) ناصر احمد قریشی پروفیسر 162 165،163 166 167 نوراحمد چوہدری حضرت سید نا صر شاه ناصر علی عثمان ناصر محمود خان حضرت میر ناصر نواب 54 100.91.90.72 244 نورافشاں صاحبہ 102 241 حضرت حکیم نورالدین خلیلہ اسی الاول 86،82،53، مسیح : 237 نورالدین صاحب (آندھرا ) نانک گورو بابا رحمتہ اللہ 105 ،236 237 238 239 نورالدین چراغ نائیجیریا شار یوسف سید نجمہ صدیقہ نداء النصر صاحبزادی نذیر احمد پشاوری ملک نذیر احمد ڈار نذیر احمد ریحان حکیم نذیر احمد سولنگی نذیر احمد میجر جنرل نذیر محمد پونچھی 227،76 | نورالٹی ملک 44،35،34، 83 | نور دین چوہدری 44 137.43.34 نورسانه صاحبہ نور سداح صاحبه 155 نیپال 169 230 103 17.16 131 وجاہت احمد وحدت کالونی (لاہور) وحیدالدین شمس و دیا نا تھ حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم * 151،51،7 159.131.116 240 230 243 243 44 44 240.227.94 169.137.44.35 244 54 136 حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد ناظر اعلی قادیان 28 ،36 84.79.73.52.50.45.44.41 155 152 138 137 136-134 223.216.172.168.161.158 250-249-232-228 230 229 82.43.38.34 169.137.134 231 وسیم احمد انور 245 | وسیم احمد جسوال 229 ولی احمد شاہ ڈاکٹر امیر (لندن) 53 243 حضرت ولی اللہ شاہ وہاڑی 52 238.67.43 37.34 169 53 246 نصیر احمد راجہ نصیر احمد چوہدری نصیر احمد قمر پرائیویٹ سیکرٹری نصیر الحق نصیر الدین جنجوعہ نصیر الدین سید نظام الدین مرزا نعیم اختر قسم
21 240 یاری پورہ 111 ہادی عبدالغفور خان ہادی علی چوہدری ایڈیشنل وکیل التبشیر ،32،29،4،3، یاسمین رحمان مونا صاحبزادی حضرت خلیفة المسیح الرائع 34 ، ہالینڈ حبة الاعلى ہدایت اللہ 142.125.121.104.72 40.38 238،233،154،143 | یوپی 227.43.44.35 155 یورپ 44 یوگنڈا 169.159.155.137.97 88.43 241.87 127 123.96.93.76-29-20 231.221.220 226 ہدایت اللہ بنگوی صاحب افسر جلسہ سالانہ یو کے 192،170،80،69،44،43،35،34،32 ہر چووال ہر دیال سنگھ سردار ہر دیال سنگھ کھڑ بندا ہریانہ ہر یندرسنگھ باجوہ سردار ہماچل پردیش ہمبرگ ہمت سنگھ سردار ہندوستان A (از مسٹر ایڈمسن ) 217 A Man of God 154 38.37 135 86 22 86 191 135.37 64.45.35.28.21.11.5 108 107 105.95<94.77.76 123 122 120 119.115.109 134 132 127 126 125 124 169.155.146.143.141.140 180.176 175 172 171 170 205 204 201.191.190.187 232 231-210-209-208-206 238