Christianity Facts To Fiction Urdu

Christianity Facts To Fiction Urdu

مسیحیت ۔ایک سفر حقائق سے فسانہ تک

Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR
عیسائیت

’مسیحیت ۔ ایک سفر حقائق سے فسانہ تک‘ کتاب <a href="https://new.alislam.org/library/books/christianity-journey-facts-fiction/info" target="_blank" rel="noopener">Christianity - A Journey from Facts to Fiction</a> کا اردو ترجمہ ہے ۔حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی یہ تصنیف عیسائیت کے بنیادی عقائد کا عقلی و نقلی دلائل کے ذریعہ محاکمہ ہے جس میں ابنیّت مسیح، کفارہ، تثلیث اور دیگر اہم موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور ان عقائد کا غلط ہونا ثابت کیا ہے۔ انگریزی میں یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۹۴ء میں انگلستان سے طبع ہوئی تھی اور اس کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی طبع ہوچکے ہیں۔ زیر نظر اردو ترجمہ محترم مسعود احمد خان دہلوی صاحب مرحوم (سابق ایڈیٹر روزنامہ الفضل) نے تیار کیا تھا جو قبل ازیں بالاقساط الفضل انٹرنیشنل میں طبع ہوچکاہے اور اب اس کی کتابی شکل میں طباعت کی جارہی ہے۔


Book Content

Page 1

مسیحیت ايك سفر حقائق سے فسانه تک حضرت مرزا طاہر احمد

Page 2

مسیحیت ایک سفر حقائق سے فسانہ تک Christianity A Journey from Facts to Fiction سید نا حضرت مرزا طاہر احمد خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی معرکہ آراء انگریزی تصنیف کا اردو ترجمہ از مکرم مسعود احمد خان صاحب دہلوی ( سابق ایڈیٹر روزنامہ الفضل)

Page 3

ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک (Maseebiyyat-Eik Safar Haqaaiq sei Afsanah tak) An Urdu rendering of Christianity A Journey from Facts to Fiction by Hazrat Mirza Tahir Ahmadta Khalifatul-Masih IV Translated by: Masood Ahmad Khan Dehlavi First published in English in the UK, 1994 Present Urdu translation published in the UK, 2021 © Islam International Publications Limited Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey, GU9 9PS United Kingdom Cover designed by Waqas Ahmad Printed in the UK at: Raqeem Press, Farnham ISBN: 978-1-84880-247-6 10987654321

Page 4

vii.ix.....1 1….2.4....6.6.7.10..17 17............18.19.22 25.27.30 37.42.44.48.49 51.53.54.55.فہرست مضامین عرض ناشر.پیش لفظ باب اوّل..انیت مسیح کی اصل حقیقت ماں باپ بننے کی سائنسی بنیاد.کیا خدا کا کوئی حقیقی بیٹا ہونا ممکن ہے؟.ہر یا فروڈٹ ازم (Hermaphroditism)..یار تھینو جینیس (Parthenogenesis) معجزات کیا ہوتے ہیں؟.مسیح کی اہنیت سے پیدا ہونے والے اشکال (مسیح خدا کا بیٹا ).باب دوم.گناہ اور کفارہ......بنی نوع انسان کی طرف سے کفارہ کی ادائیگی آدم اور حو اکا گناہ.انسانی دکھوں کے تسلسل کا جاری رہنا.ورثہ میں ملنے والا گناہ.گناہوں کا آئندہ نسلوں میں منتقل ہونا.سزایابی کے سلسلہ کا جاری رہنا..عدل اور معاف کر دینے کی صفت مسیح کے لئے کفارہ ادا کرنا ممکن نہ تھا مجبوری اور بے دلی کی آئینہ دار قربانی قربان کسے کیا گیا؟.قدرتی طور پر مسیح کو لاحق ہونے والی تشویش.کیا ”باپ خدا نے بھی دکھ جھیلا؟ آگ کی سزا.خدا کی قربانی اور روحانی عظمت.مسیح کے تعلق میں موت کا مفہوم و مطلب.

Page 5

iv 57...59.61 61 63.65 69 69...............71 73.75 87 87.99 103 105 109 110 115.115 117.117.119 123 128 133 133 134...غیر محدود گناہوں کی برائے نام سزا..کفارہ نے تبدیلی کیا پیدا کی؟.باب سوم..روح القدس کا عمل و کردار...روح القدس اور تخلیق کا آسمانی.سر بستہ راز یا مهمل و متناقض اچنبه باب چهارم صلیب اور اس سے متعلقہ امور.یونس نبی کا نشان مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک منصوب اسرائیل کے گھرانہ سے صحیح کا وعدہ یا پیمان.صلیب دیے جانے کے واقعات باب پنجم..زندگی کی بحالی یا احیائے موتی؟ خدا کے مقدس نبی کے خلاف جگر پاش زبان درازی آسمان کی طرف اٹھایا جاتا.مسیح کے جسم کے ساتھ کیا گزری ؟ احمدی مسلمانوں کا نقطۂ نظر قریب المرگ لوگوں میں زندگی بحال ہونے کے بعض واقعات.باب ششم تثلیث.تثلیث کے عناصر ترکیبی کے باہمی رشتہ کی نوعیت.ایک ہی یعنی اکیلی ہستی کی مختلف حیثیتیں یا مختلف پہلو ابدیت میں شریک مختلف ہستیاں : مختلف خصائص و کردار رکھنے والی شخصیتیں یکساں اور مساوی خصوصیات رکھنے والی مختلف ہستیاں.باب ہفتم..مسیحیت کا ارتقا مسیح پر ایمان لانے والے اور ابتدائی پیرو

Page 6

137.139.142 143 147.147 147 152 158.166 173 پولوس کا کردار.مسیح کی اصل حقیقت.مذہب کا تسلسل.مذہبی ترقی کی معراج باب هشتم.مسیحیت آج کے دور میں.مسیحیت اور نو آبادیاتی نظام.مسیح کی بعثت ثانی.بعثت مسیح موعود علیہ السلام.اختتامی الفاظ.فہرست مضامین V

Page 7

Page 8

عرض ناشر کتاب Christianity-A Journey from Facts to Fiction کا اردو ترجمہ مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک کا اردو ترجمہ قارئین کے ہاتھوں میں ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی یہ تصنیف عیسائیت کے بنیادی عقائد کا عقلی و نقلی دلائل کے ذریعہ محاکمہ ہے جس میں ابنیت مسیح، کفارہ، تثلیث اور دیگر اہم موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور ان عقائد کا غلط ہو نا ثابت کیا ہے.انگریزی میں یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۹۴ء میں انگلستان سے طبع ہوئی تھی اور اس کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی طبع ہو چکے ہیں.زیر نظر اردو ترجمہ محترم مسعود احمد خان دہلوی صاحب مرحوم ( سابق ایڈیٹر روزنامہ الفضل) نے تیار کیا تھا جو قبل ازیں بالا قساط الفضل انٹر نیشنل میں طبع ہو چکا ہے اور اب اس کی پہلی مرتبہ کتابی شکل میں طباعت کی جارہی ہے.کتاب ہذا کی پروف ریڈنگ و فارمیٹنگ کے سلسلہ میں مکرم سید تنویر مجتبی صاحب نے تعاون کیا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازے.آمین خاکسار منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف مئی ۲۰۲۱ء

Page 9

Page 10

پیش لفظ موجودہ دنیا کے تناظر میں مسیح کی ذات کو بوجوہ غیر معمولی اہمیت حاصل ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی ذات کی یہ غیر معمولی اہمیت صرف مسیحی دنیا تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دوسرے مذاہب اور ان میں سے علی الخصوص یہودیت اور اسلام کے نزدیک بھی مسیح کی ذات کچھ کم اہمیت کی حامل نہیں.اگر مسیح کی ذات کی نوعیت و ماہیت اور اس کی آمد اول اور موعودہ آمد ثانی کے بارہ میں وسیع اثر ورسوخ رکھنے والے یہ مقتدر مذاہب کسی ایک مشترکہ تفہیم یا نظریہ پر باہم متفق ہو جائیں تو اس سے ان بہت سے مسائل کے حل ہونے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے جس سے فی زمانہ نوع انسانی دوچار ہے.بد قسمتی یہ ہے کہ مسیح کی زندگی سے تعلق رکھنے والے حقائق، اس کی آمد کے مقصد ، اس کی نظریاتی بنیاد اور اس کی شخصیت یا ذات کو صحیح طور پر سمجھا ہی نہیں گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس کی زندگی کے ان جملہ پہلوؤں کو عجیب و غریب معانی پہنا دیئے گئے ہیں.یہاں تک کہ مسیح کی ذات اور زندگی کے ان سب پہلوؤں کے متعلق جملہ مذاہب کے ادراک و نظریات میں اس قدر شدید اختلاف پایا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے خود مذاہب کے مابین گہری رقابت اور مخاصمت کا پید اہونا ناگزیر ہے.جب ہم مسیح کو صلیب دیے جانے کے حقائق و واقعات پر نظر ڈالتے ہیں اور جو کچھ وقوع پذیر ہوا اس غور کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ ایسا کیوں اور کس طرح ہوا.اور پھر نجات کے مسیحی نظریہ اور اس کی فلاسفی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں مختلف ابتدائی ماخذوں سے ان سب امور کے مختلف اور بسا اوقات متضاد جو اب ملتے ہیں.میں نے کتاب ہذا میں اس سارے معاملہ کا منطقی نقطۂ نظر سے جائزہ لینے کی کوشش کی ہے.کیونکہ منطقی نقطہ نظر ہی ذہنی اور فکری لحاظ سے ایک ایسا پلیٹ فارم یا مقام اتصال کی حیثیت رکھتا ہے جو سب کے مابین مشترک ہے.اسے تعمیری اور با مقصد تبادلہ خیالات کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے.بصورت دیگر محض انا جیل کے بیانات اور ان کی متعدد تشریحات کی بنیاد پر کئے جانے والا کوئی بھی تبادلہ خیال مباحثہ و مجادلہ کی ایسی الجھن میں ڈالنے کا موجب بنے گا کہ اس گنجلک سے باہر نکلنا بہت مشکل ہو جائے گا.دو ہزار سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اناجیل اربعہ کو بنیاد بنانے اور ان پر ہی حصر کرنے سے مذکورہ بالا امور کا کوئی ایسا حل سامنے نہیں آسکا جو سب کے لئے یکساں طور پر قابل قبول ہو.اس بارہ میں اشکال یہ در پیش ہے کہ پر

Page 11

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک X انا جیل کے بعض دعاوی ان کی مختلف النوع تشریحات کی وجہ سے مزید تصفیہ طلب بنے بغیر نہیں رہتے.پھر ایک مشکل باہم ٹکر انے والی ان توجیحات کی وجہ سے بھی پیش آتی ہے جو مرور زمانہ کے ساتھ رونما ہوتی اور پنپتی رہی ہیں.وقتاً بعد وقت ابھرنے اور پنپنے اور ایک دوسرے کے ساتھ ٹکر انے والی ان توجیحات نے بھی مسیح کی شخصیت کو اپنی زد اور لپیٹ میں لے کر اسے چیستاں بنا چھوڑا ہے.اس طرح تاریخی پس منظر دھندلا جاتا اور یکسر مہم ہو کر رہ جاتا ہے.کسی بھی معیار اور پیمانہ کی روسے کیوں نہ دیکھا اور پر کھا جائے دور مسیح کے زمانہ بعید سے تعلق رکھنے والے واقعات کو جانچنے اور پر کھنے کی راہ میں دو ہزار سال کے فاصلہ کا حائل ہونا کوئی معمولی رکاوٹ نہیں ہے.انسانی منطق اور استدلال کو (جبکہ نئے سائنسی علوم کی معاونت بھی اسے حاصل ہو چکی ہے) ایک ایسی منطق اور استدلال کی حیثیت حاصل ہے جس کا نہ کوئی عقیدہ ہے اور نہ کسی مذہبی ملک کا وہ پابند ہے اور نہ ہی کسی مخصوص رنگ و نسل کی آمیزش کا دخل اس میں ممکن ہے.اسی لئے جملہ اقوام اور مذاہب کے مابین اسے ایک مشترکہ قدر کی حیثیت حاصل ہے.لہذا ایک ایسے متفقہ نظریہ تک پہنچنے کے لئے جو سب کے نزدیک قابل قبول ہو صرف اور صرف منطقی استدلال ہی واحد بنیاد کا کام دے سکتا ہے.میں مسئلہ کا متعدد جہتوں سے جائزہ لینے کی کوشش کروں گا تا کہ اس کے مختلف پہلو پورے طور پر نگاہ میں آسکیں.میں اپنی اس کوشش کا پہلے مسیحیت کے نقطۂ نظر سے ہی آغاز کرتا ہوں.میں مسئلہ کا پہلے اسی نقطۂ نظر سے جائزہ لوں گا جس نقطۂ نظر سے مسیحی حضرات اسے دیکھنے کے عادی ہیں.پھر میں عقل کے محدب شیشہ کی مدد سے اس نقطۂ نظر کا تنقیدی تجزیہ پیش کروں گا.تاہم میں یہ بات بہمہ طور پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ تنقیدی تجزیہ پیش کرنے کے دوران اس امر کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا کہ میں کسی لحاظ سے بھی مسیحی حضرات یا خود یسوع مسیح کی شخصیت کے ادب و احترام کو مجروح کرنے کا خیال بھی دل میں لا سکوں.وجہ اس کی ظاہر وباہر ہے اور وہ یہ کہ میں ایک مسلمان ہوں اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے یسوع مسیح کی صداقت پر ایمان لانا اور انہیں غیر معمولی عزت و احترام کا حامل پیغمبر تسلیم کرنا اور انبیائے بنی اسرائیل میں انہیں فی ذاتہ لاثانی درجہ و مقام رکھنے والا نبی یقین کرنامیرے عقائد کا ایک بنیادی جزو ہے.لیکن اس امر کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ جب سچائی کھل جائے اور حق بات واضح ہو کر سامنے آجائے تو پھر منطقی استدلال، عقل عمومی اور فہم و ادراک کا پورا پورا لحاظ رکھتے ہوئے ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ

Page 12

xi پیش لفظ مروجہ مسیحیت کے بارہ میں اپنے نظریات کا نظر ثانی کے رنگ میں از سر نو جائزہ لے سکتا ہے.اپنے اس حق کی رُو سے وہ نظریات کو مختلف زاویہ نگاہ سے جانچنے اور پرکھنے سے رک نہیں سکتا.میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں ہر گز مسیحیوں اور مسیح کے مابین کوئی ایسی روک یا پچر حائل نہیں کرنا چاہتا کہ جو انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنے والی ہو.برخلاف اس کے میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ مسیحی حضرات مسیح کی اصل ماہیت و حقیقت کے قریب آکر اس کا صحیح عرفان حاصل کریں اور اس کی ذات کے گرد جو افسانوی خول چڑھادیا گیا ہے اسے اتار ڈالیں.اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ مرور زمانہ سے حقیقت بگڑ کر افسانوں اور قصے کہانیوں کارنگ اختیار کر لیتی ہے.ایسے قصے اور افسانے انسان کو زندگی کے اصل حقائق سے دور لے جانے کا موجب بن جایا کرتے ہیں.اس کے نتیجہ میں مذہب یکسر ایسے خیالی اور تصوراتی روپ میں ڈھل جاتا ہے جس کا اصل حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہو تا.برخلاف اس کے حقیقی اور اصلی مذہب کی جڑیں تاریخی حقائق اور سچائیوں میں پیوست ہوتی ہیں اسی لئے اصلی اور حقیقی مذہب انسانی معاشرہ میں نمایاں تبدیلیاں لانے کی اہلیت اپنے اندر رکھتا ہے.اس لحاظ سے مسیح کے اہل مذہب اور اس کی تعلیم کو جاننے اور سمجھنے کے لئے حقیقت کو کہانیوں سے سچائی کو افسانوی قصوں سے جدا اور پاک کرناضروری ہے.میری اس کوشش اور کاوش کا اصل مقصد بھی تلاش کر کے حق تک پہنچنا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ مسیحی حضرات ٹھنڈے دل اور پوری توجہ سے میری اور بات سنیں گے اور یہ بات سمجھ جائیں گے کہ میں ہر گز کسی کے عقائد یا جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں چاہتا.افسوس کی بات یہ ہے کہ عیسائیت اخلاقی گراوٹ کے چنگل میں پھنسنے کے بعد اس لحاظ سے مسلسل پستی کی طرف جارہی ہے اور اس اخلاقی گراوٹ کو روک کر اسے دوبارہ اخلاقی بلندیوں کی سمت میں گامزن کرنا خود مسیحیوں کے لئے کارِ دارد بنا ہوا ہے.اس ناگوار صورت حال سے نکلنے کی خاطر عیسائی دنیا کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس صورت حال کی اصل وجوہات کا تنقیدی نظر سے جائزہ لے.میرے تجزیہ کے مطابق اس زمانہ کے نوجوانوں کا خدا کی ہستی پر سے ایمان تیزی سے اٹھتا جارہا ہے.ایک وقت تھا کہ جب سائنس دانوں میں خدا سے انحراف کا رجحان اس لئے پیدا ہوا کہ انہوں نے دیکھا اور اس امر پر غور کیا کہ نیچر اور کائنات کے متعلق بائبل میں جو کچھ درج ہے اس کا اصل حقائق سے کوئی واسطہ نظر نہیں آتا.انہوں نے محسوس کیا کہ بائبل پر ایمان رکھنے والے عیسائیوں کی تفہیم حقیقت پسندانہ نہیں ہے.وہ یہ دیکھ

Page 13

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک xii کر بہت حیران ہوئے کہ بائبل سے مستنبط ہونے والی تفہیم اور سائنسی دریافتوں پر مبنی حقائق ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متضاد واقع ہوئے ہیں.یہ سب سائنسی حقائق اس وقت منظر عام پر آئے جب دنیائے عیسائیت میں نشاۃ ثانیہ کے رنگ میں اصلاح عیسائیت یعنی کی Reformation کی تحریک شروع ہو چکی تھی.سائنسی ترقی کی رفتار تیز ہونے اور اس طرح نیچر کی اصل ماہیت کو سمجھنے میں انقلابی تبدیلی آنے کے ساتھ ساتھ کائنات کے بارہ میں بائبل اور جدید طبیعاتی دریافتوں کے منظر ناموں میں اختلاف وسیع سے وسیع تر ہو تا چلا گیا.بعض دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ اس اختلاف نے معاشرہ کے سمجھ بوجھ رکھنے والے طبقوں میں سرے سے خدا کی ہستی ہی کے انکار کے مہلک رجحان کو جنم دیا.بعد ازاں جب تعلیم کا دور دورہ ہوا اور اس کی روشنی دور دور تک پھیلی.بڑی بڑی یونیورسٹیاں، جامعات اور مراکز علوم افزائش دہریت کے مراکز میں تبدیل ہوتے چلے گئے کائنات اور اس کے نظام کو سمجھنے میں یہودیوں اور عیسائیوں کو جس الجھن سے دوچار ہونا پڑاوہ یہ تھی کہ خدا کے قول (بائبل) اور خدا کے فعل (نیچر اور اس کے نظام میں تضاد واضح سے واضح تر ہو تا چلا جارہا تھا.خدا کی ہستی کے خلاف دماغوں میں جڑ پکڑنے والے استدلال نے یہ نوعیت اختیار کی کہ اگر کائنات اور اس میں پائے جانے والے جملہ اجسام و اجرام کا خالق خدا ہے اور انسانی دماغ کے دریافت کردہ قوانین قدرت کو وضع کرنے اور نظام قدرت چلانے والا بھی وہی ہے تو وہ ان تمام چیزوں کا خالق ہوتے ہوئے ان حقائق سے خود اس قدر نابلد اور لاعلم کیوں تھا کہ وہ بائبل کے ذریعہ یکسر متضاد با تیں انسانوں پر ظاہر کرتا چلا گیا.جب ہم بائبل میں درج شدہ یہ باتیں پڑھتے ہیں کہ زمین و آسمان کس طرح پیدا کئے گئے اور یہ کہ آدم کو مٹی سے کیسے تخلیق کیا گیا اور پھر آدم کی پسلی سے حوا کو کیونکر معرض وجود میں لا یا گیا؟ (خدا کے قول یعنی بائبل اور اس کے فعل یعنی نیچر میں تضاد کی بے شمار مثالوں میں سے ہم نے یہاں ان دو مثالوں کے ذکر پر ہی اکتفا کیا ہے ) تو ابتدائے آفرینش سے متعلق سائنسی نظریات اور اس بارہ میں عہد نامہ قدیم کے باب ائش میں درج شدہ تفصیلات کے مابین واضح، بین اور کھلے کھلے تضاد کو دیکھ کر حیرت کی انتہا نہیں رہتی.سائنسی دریافتوں سے میل نہ کھانے والی بائبل کی ایسی بے جوڑ اور متضاد باتوں نے کلیسیا کو اس کے کلی اور ہمہ جہتی سیاسی اقتدار کے زمانہ میں ظالمانہ روش اپنانے کی طرف مائل کر دیا.اس کی جانی پہچانی ایک معروف مثال وہ قضیہ ہے جو کلیسیا اور گلیلیو (Galileo) نامی سائنس دان کے مابین رونما ہو کر بہت ناگوار

Page 14

xiii پیش لفظ صورت حال پر منتج ہوا.جب گلیلیو (Galileo) (۱۵۶۴ء تا۱۶۴۲ء) نے نظام شمسی سے متعلق اپنی دریافت پر مبنی نظریات شائع کیے تو اس پر کلیسیا بھڑک اٹھا کیونکہ اس کے دریافت کردہ نظریات نظام شمسی سے متعلق کلیسیا کے اعتقاد و تصورات سے متصادم تھے.قید و بند اور انتہائی شدید دباؤ اور دھاندلی و دھونس کے تحت اسے اپنی سائنسی دریافتوں کی علی الاعلان خود تردید کرنے پر مجبور کیا گیا حتی کہ اس کے لئے تردید کرنے کے سوا چارہ نہ رہا.اگر وہ ایسا نہ کرتا تو اسے عذاب دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا.اس کے باوجود اسے پابند کر دیا گیا کہ وہ بقیہ زندگی خود اپنے گھر میں نظر بند رہ کر گزارے.عرصۂ دراز کے بعد کہیں ۱۵۹۱ء میں جاکر کلیسیا گلیلیو (Galileo) کے خلاف نظر بندی کا فیصلہ واپس لینے پر آمادہ ہوا اور آمادہ بھی ہو ا پوپ جان پال ثانی کی قائم کردہ ایک کمیٹی کے بارہ سال تک جاری رہنے والے طویل غور و خوض کے بعد کی جانے والی سفارش پر.بنابریں ابتدا میں سائنس اور بائبل کے درمیان رونما ہونے والے یہ تضادات معاشرہ کی عوامی سطح تک سرایت نہ کر سکے اور عوام میں ان کا کوئی اثر ظاہر نہ ہو سکا.ایک عرصہ تک یہ تضادات دانشوروں کے مختصر سے حلقہ تک محدود رہے.بالآخر سیکولر علم کی روشنی پھیلنے کے ساتھ ساتھ اس وقت کے مروجہ مسیحی عقائد کی نام نہاد روشنی مدھم پڑنا شروع ہوئی اور ایک متقابل ظلمت واند ھیرے میں تبدیل ہوتی چلی گئی.پندرھویں صدی میں شروع ہونے والی کلیسیا کی اصلاحی تحریک کے ابتدائی زمانہ میں سائنس دانوں کی تحقیقی سرگرمیاں بالعموم خود اپنے ہی روشن خیال حلقوں کے اندر جاری رہیں.ان حلقوں سے باہر دوسروں کو ان کی ہوا بھی نہیں لگنے دی گئی.وہ وسیع رابطہ اور تعلق جو سائنس دانوں اور عوام الناس کے در میان آج ہمیں نظر آتا ہے وہ اس زمانہ میں ناپید تھا اس لئے سائنس دانوں کے دہریت پر مبنی ملحدانہ خیالات بحیثیت مجموعی معاشرہ کو زیادہ متاثر نہ کر سکے لیکن جب بین الا قوامی سطح پر تعلیم کا چرچا عام ہوا اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونے والی قوموں کے نوجوانوں نے بکثرت تعلیم حاصل کرنی شروع کی تو پھر مذہبی صورت حال متاثر ہونے لگی اور رونما ہونے والی تبدیلی غلط سمت اختیار کرتی چلی گئی.اس کے نتیجہ میں خالصہ فلسفے اور عقلیت پسندی کے دور کا آغاز ہوا.سائنس کے ساتھ ساتھ معاشرتی زندگی اور انسانی نفسیات سے تعلق رکھنے والے فلسفیانہ خیالات بھی اُبھرتے اور عوام میں پھیلتے چلے گئے.خاص طور پر اُنیسویں اور بیسویں صدی میں ان نت نئے فلسفوں نے خوب زور پکڑا.مادی فلسفے ،

Page 15

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک xiv سیکولر ازم کی ترقی اور سیکولر خیالات کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ایک دوسرے میں مدغم ہوتے رہے.اس نئی صورت حال نے مذہب کی اصل بنیاد یعنی خدا کی ہستی پر ایمان کو ہلا کر رکھ دیا اور اس طرح مغربی معاشرہ میں خدا پر ایمان تباہی کی نذر ہو گیا.انسان میں اخلاقی اقدار کی پاسداری اور احترام کا اس کے ایمان باللہ سے براہ راست تعلق ہو تا ہے.یہ ایمان باللہ ہی ہوتا ہے جو انسان کی اخلاقی حالت کو سنوار تا اور پھر اس کی حفاظت کرتا ہے.اگر ایمان باللہ کمزور یا ناقص ہو یا اس میں کوئی خامی پائی جاتی ہو تو اسی نسبت سے انسان کی اخلاقی حالت بھی متاثر ہو رہی ہوتی ہے.مثال کے طور پر اگر ایک طرف ایمان باللہ اور دوسری طرف نظام قدرت سے متعلق دی جانے والی سیکولر تعلیم یا عقل عمومی کے تقاضوں میں تصادم کی کیفیت رو نما ہورہی ہو تو پھر رفتہ رفتہ اور درجہ بدرجہ ایسے لوگوں کے ایمان باللہ کی کیفیت کو گھن لگنا شروع ہو جاتا ہے اور اسی نسبت سے ان کی اخلاقی حالت پر بھی منفی اثر پڑنے لگتا ہے اور لگتا چلا جاتا ہے.اندریں صورت اس امر کے باوجود کہ ان میں سے بعض افراد کا ایمان باللہ سلامت بھی ہو بالعموم اجتماعی بگاڑ کے زیر اثر ہوتے ہوتے من حیث المجموع عملاً پورا معاشرہ دہریت کے رنگ میں رنگین ہو جاتا ہے.نوع انسانی کی زندگیوں میں کار فرما اس اصول کے پیش نظر کسی بھی معاشرہ یا سوسائٹی کے ایمان باللہ کی کیفیت کا اندازہ لگا کر اس کی اخلاقی حالت کے بارہ میں فیصلہ کرنا یا اخلاقی حالت کی روشنی میں ایمان باللہ کی کیفیت کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے.ایمان باللہ جتنا کمزور یا ناقص ہوتا ہے لوگوں کے اخلاقی کردار پر اس کی گرفت اتنی ہی زیادہ کمزور پڑ جاتی ہے.جب ان دونوں کے تقاضوں میں تصادم کی کیفیت رونما ہوتی ہے تو کمزور ایمان باللہ غیر اخلاقی رجحانات کی کشش کے آگے بند باندھنے میں ناکام رہتا ہے اور ان رجحانات کو کھل کھیلنے کا راستہ دے دیتا ہے.دنیا بھر میں کہیں بھی کسی مذہبی سوسائٹی یا معاشرہ پر اس اصول یا معیار کا اطلاق کر کے ہم اس کے ایمان باللہ اور اخلاقی حالت کے بارہ میں صحیح اور قابل اعتماد نتائج اخذ کر سکتے ہیں.بظاہر خدا کی ہستی پر یقین رکھنے والی کسی عیسائی سوسائٹی کو امتحان کے رنگ میں اگر جانچنا ہو تو صرف اتنا ہی دیکھنا اور معلوم کرنا کافی ہے کہ آیا اس سوسائٹی میں عملاً مسیحی اقدار کا دور دورہ ہے یا نہیں.مثال کے طور پر کیا ان لوگوں کا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سلوک اور بر تاؤ بالکل ویسا ہی ہے کہ جیسے سلوک کا توریت کے دس احکام ان سے تقاضا کرتے ہیں ؟ کیا جنگ یا جھگڑے وغیرہ کی صورت میں کسی قومی بحران کے وقت وہ اپنے حریفوں سے معاملہ

Page 16

XV پیش لفظ کرنے میں مسیحی اقدار کو ملحوظ رکھتے ہیں؟ کیا تشد د اور حملہ کا نشانہ بننے والے معصوم اور بے گناہ عیسائی ایک گال پر تھپڑ کھانے کے بعد تشدد کرنے والے کے سامنے اپنا دوسرا گال بھی پیش کر دیتے ہیں ؟ سوچنے اور جاننے والی بات یہ ہوتی ہے کہ زندگی میں ایک شخص اپنے عمل و کردار کے روپ میں اپنے ایمان کی کیا تصویر دکھاتا ہے یا اس کی کیا جھلک پیش کرتا ہے.اگر اس کا عمل و کردار اس کے ایمان کی عکاسی نہیں کرتا تو یہ بعینہ ہمارے اس قول کی بڑی معنی خیز تصدیق ہو گی کہ اس کا ایمان باللہ انسانی حوائج اور ان کے پرکشش تقاضوں سے متصادم ہے.اگر ان کے مابین تصادم کے وقت ایمان باللہ بہر طور سر بلند رہتا ہے یعنی وہ نفسانی خواہشات اور میلانات کو اس کی خاطر قربان کر دیتا ہے تو پوری دیانت داری سے کہا جاسکتا ہے کہ اس کا ایمان باللہ کسی بھی نوعیت کا ہو وہ بہر حال اپنی جگہ مستحکم ہے اور خلوص اور اصلیت و حقیقت سے ہرگز عاری نہیں ہے.اگر دنیائے عیسائیت کی موجودہ حالت پر نظر ڈالی جائے اور مذکورہ بالا امتحان میں سے گزار کر اس کے ایمان باللہ کی کیفیت کو جانچا جائے تو ایسی کوشش بہت ہی افسوس ناک اور دل شکن تجربہ ثابت ہوئے بغیر نہیں رہتی.اس کوشش کے نتیجہ میں سابقہ جس صورت حال سے پڑتا ہے وہ خدا پر ایمان سے کھلی کھلی بغاوت کے مترادف نظر آتی ہے.اور عجیب بات یہ ہے کہ بعض اوقات یہ بغاوت اس قدر خاموش اور غیر محسوس نوعیت کی ہوتی ہے کہ اسے کھلا انکار قرار دینا بھی مشکل ہوتا ہے.وجہ یہ کہ نظر یہ بظاہر محسوس یہ ہو رہا ہو تا ہے کہ یہ صورت حال ایمان باللہ کے اقرار اور عمل میں تضاد کی وجہ سے رونما ہوئی ہے.اس لئے دھو کہ یہ لگتا ہے کہ وہ خدا پر ایمان رکھنے والے لوگوں کا ہی معاشرہ ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہوتی ہے.کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات بڑی حد تک دوسرے معاشروں پر بھی صادق آتی ہے لیکن اس معاملہ میں اصل غور طلب بات یہ ہے کہ ہر ایسے معاشرہ کے معاملہ میں ایک ہی وجہ کار فرما نہیں ہوتی، ہر معاشرہ کی بظاہر یکساں صورت حال کی وجہ مختلف ہوتی ہے.مزید برآں ہر معاشرہ کی صورت حال کو اس کے اپنے مخصوص احوال و کوائف کی روشنی میں جانچنا ضروری ہوتا ہے.اسی لئے تو اس امر کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے کہ مختلف معاشروں کے افراد کے عقائد و اعمال میں پائے جانے والے تضادات کا ان کے اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر جدا گانہ انداز میں ٹھنڈے دل و دماغ سے بغور تجزیہ کیا جائے.پھر اس امر کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ کسی مخصوص معاشرہ کا عقیدہ خود اپنی ذات میں پیچیدہ اور غیر فطری ہو تا ہے.مثال کے طور پر غیر یہودی اقوام اور لوگوں کے بارہ میں طالمود کی تعلیم کے بعض حصے اور اسی طرح اچھوت اقوام کے بارہ

Page 17

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک xvi میں منوسمرتی کی ہند و تعلیمات ایسی ہیں کہ ان معاشروں کے لئے ان پر عمل نہ کر نا ہی ان کے حق میں نیک فال کی حیثیت رکھتا ہے.نیز بعض معاشروں کا عقیدہ توفی ذاتہ اچھا ہوتا ہے اور اس پر کما حقہ عمل پیراہونا فائدہ مند ہوتا ہے لیکن خود لوگوں کے اندر بے اعتدالیوں کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ عقیدہ کو مشکل اور مالا يطاق سمجھ کر اس کے بارہ میں سنجیدہ نہیں رہتے اور اسے عملا ترک کر بیٹھتے ہیں.مسیحیت کے موضوع کی طرف واپس لوٹتے ہوئے ہم جس بات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ مسیحیت کے بنیادی عقائد ہی نظام قدرت کی اصل حقیقتوں سے متصادم ہیں.بنابریں وہ معقولیت پسندی اور عقل عمومی پر مبنی انسانی توقعات سے مطابقت نہیں رکھتے.اس صورت حال کے تناظر میں مسیحیوں کے لئے یہ ناگزیر تھا کہ وہ رفتہ رفتہ اپنے عقائد کو سنجیدگی سے لینے کی روش اور ان عقائد کے وضع کردہ سانچوں کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے کے عزم سے منحرف اور بیگانہ ہوتے چلے جائیں.سو ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا.

Page 18

باب اوّل ابنیتِ مسیح کی اصل حقیقت مسیحیت میں خدا اور یسوع مسیح کے درمیان ”باپ بیٹے کے رشتہ کو بنیادی اور مرکزی اہمیت حاصل ہے.آئیے پہلے ہم یہ جانے اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ ”حقیقی بیٹا ہونا کس مفہوم کا حامل ہے ، یعنی یہ کہ حقیقی بیٹا ہونے کے معانی کیا ہیں؟ جب ہم حقیقی باپ کا حقیقی بیٹا ہونے کے معانی پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں تو اس کی بعض ایسی تفاصیل ابھر کر سامنے آتی ہیں جو ہمیں ابنیت مسیح کے بارہ میں اپنی رائے یا نظریہ کا نظر ثانی کے رنگ میں دوبارہ جائزہ لینے پر مجبور کر دیتی ہیں.ہم پہلے اس امر کو لیتے ہیں کہ حقیقی بیٹا کیا ہوتا ہے ؟ اس زمانہ میں جب کہ ابھی سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی اور یہ حقیقت ابھی دریافت نہیں ہوئی تھی کہ ایک بچہ کی تخلیق یا پیدائش کیسے اور کس طرح ظہور میں آتی ہے؟ اس سوال کا بہت مبہم اور غیر واضح جواب دیا جا سکتا تھا.ازمنہ قدیم کے لوگوں کے نزدیک یہ بات عین ممکنات میں سے تھی کہ انسان کے ہاں نئے بچوں کی پیدائش کے مانند خدا کا بھی اپنا نسلی اور اصلی بیٹا ہو سکتا ہے.یہ نظریہ یا اعتقاد دنیا کے مختلف حصوں میں آباد قریباً تمام ملحدانہ سوسائٹیوں اور معاشروں میں ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر عام پھیلا ہوا تھا.اگر یونانی علم الاصنام پر نظر ڈالیں تو وہ دیوی دیوتاؤں کی اولادوں کی پیدائش کے دیو مالائی قصے کہانیوں سے بھر اپڑا ہے.اور اسی طرح ہندو دیو مالائی سلسلہ بھی اس بارہ میں یونانی علم الاصنام سے کسی لحاظ سے بھی پیچھے نہیں ہے.اس قدیم زمانہ کے انسانوں کا نظریہ یہ تھا کہ ان کے نام نہاد دیوی دیوتا جتنی تعداد میں چاہیں اپنے بیٹے بیٹیوں کو انسانوں کی طرح ہی خود جنم دے سکتے ہیں.اس زمانہ میں انسانی دماغ نے اپنے اس نظریہ کے مالہ وماعلیہ کے بارہ میں کبھی سوچا ہی نہ تھا اور نہ کبھی اس پر کسی اعتراض کی گنجائش کا سوال ہی پیدا ہوا تھا.اسے پہلے سے مروج ایک مسلمہ حقیقت کی حیثیت حاصل تھی لیکن اب تو سائنس نے اس درجہ ترقی کر لی ہے کہ بچوں کی شکل میں نئے انسانوں کی تخلیق اور پیدائش کے پورے نظام اور طریق کار کو کسی ابہام کے بغیر اتنے حتمی اور واشگاف انداز میں پوری تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے کہ قبل ازیں انسان کے لئے اس کا تصور بھی ممکن نہ تھا.جدید تحقیق کی رُو سے حتمی طور پر ثابت شدہ یہ سارا نظام اپنی جملہ

Page 19

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک تفاصیل کے ساتھ بہت باریکیوں کا حامل ہے.جو لوگ اب بھی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ خدا خود اپنے وجود سے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو جنم دے سکتا ہے ان کا اس بارہ میں بہت ہی گھمبیر اور پیچیدہ مسائل سے دو چار ہو نانا گزیر ہے.اور ان پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے سوالات کا حل پیش کریں اور نت نئے اشکال دور کر کے دکھائیں.ماں باپ بننے کی سائنسی بنیاد اولاً تو اس امر کو ذہن میں مستحضر رکھنا ضروری ہے کہ ایک بچہ کو معرض وجود میں لانے کا ذریعہ بننے میں ماں اور باپ دونوں کو اس پورے عمل میں مساوی حیثیت سے شریک ہونا اور حصہ دار بنا پڑتا ہے.انسانی جسم کے خلیوں (Cells) میں بعض مخصوص نوعیت کے بنیادی اجزاء ہوتے ہیں جو کروموسومز (Chromosomes) کہلاتے ہیں.ان کی تعداد 46 ہوتی ہے.ان کروموسومز نے تواثری عنصر یا جینز (Genes) کو اپنے اندر سنبھالا ہوا ہوتا ہے.یہ تو اثری عصر انسانی کردار کو تشکیل دینے والے موروثی خصائل کا حامل ہوتا ہے اور یہ ہوتا بھی ہے انتہائی مہین اور باریک دھاگوں کی شکل میں.اسی عصر کے ذریعہ موروثی خصائل اگلی نسل میں منتقل ہوتے ہیں.قدرت نے ایسا انتظام کیا ہے کہ جب انسانی ماں کا افزائشی جرثومه یا بیضه تولید تشکیل پاتا ہے تو تمام دوسرے خلیوں کے برخلاف اس میں پورے 46 کروموسومز نہیں ہوتے.اس میں ان کی تعداد صرف 23 ہوتی ہے.سو گو یا بیضہ مادر میں جو کروموسومز ہوتے ہیں وہ ہر آدمی اور ہر عورت کے خلیوں میں موجود 46 کروموسومز کا نصف ہوتے ہیں.جب مرد کے ساتھ ملاپ کے نتیجہ میں مرد کا نطفہ بیضئہ مادر میں جاشامل ہوتا ہے اور بیضہ مادر تخم کے طور پر اسے اپنے اندر قبول کر لیتا ہے تو مرد کا نطفہ بقیہ 23 کروموسومز کی کمی کو پورا کر کے بیضہ مادر میں کروموسومز کی تعداد کو 46 کر دیتا ہے.دونوں کے تئیں تئیس کروموسومز کے باہم ملنے سے بیضہ مادر میں زرخیزی پیدا ہو جاتی ہے اور بچہ بننے کی اہلیت سے وہ ہمکنار ہو جاتا ہے.بیٹے کی شکل میں ایک نئے وجود کے پیدا ہونے کا یہ ہے خدائی منصوبہ.اگر خدا ایسا نظام وضع نہ کرتا تو ہر نئی نسل کی پیدائش میں کروموسومز کی تعد اپہلے سے دو گنا ہوتی چلی جاتی یعنی دوسری نسل میں 46 کی بجائے 92 کروموسومز ہوتے اور نتیجہ نسل در نسل ہوتے ہوتے انسان دیو ہیکل وجود میں تبدیل ہوتے چلے جاتے.الل ٹپ اور بے حساب نمو پانے، بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا یہ سلسلہ بے قابو ہو کر نہ جانے تباہی و بربادی کی شکل میں کیا گل کھلاتا.بقائے نوع انسانی کے 2

Page 20

3 انیت صحیح کی اصل حقیقت پورے منصوبے کو خدا نے ایسی عمدگی، حسن و خوبی اور پر حکمت انداز میں وضع کیا ہے کہ افزائش نسل کی سطح پر آتے ہی زندگی کو جنم دینے والے خلیوں میں کروموسومز کی تعداد یک دم نصف ہو جاتی ہے.یعنی بیضہ مادر میں کروموسومز کی تعداد 23 تک محدود رہتی ہے اور اسی طرح باپ کے نطفہ میں بھی ان کی تعداد 23 سے آگے نہیں بڑھنے پاتی.اس لحاظ سے باقتضائے معقولیت توقع کے رنگ میں باور کیا جاسکتا ہے کہ نوزائیدہ بچہ میں تو راثی خصائل کے حامل آدھے عناصر (Genes) ماں کی طرف سے مہیا ہوتے ہیں اور آدھے مر د شریک حیات کی طرف سے.ثابت شدہ سائنسی حقائق کے رُو سے یہ ہیں معنے اصلی اور حقیقی بیٹا ہونے کے.حقیقی بیٹا ہونے کی کوئی اور تعریف ایسی نہیں ہے جسے انسانی پیدائش پر چسپاں کیا جاسکتا ہو.اس میں شک نہیں کہ رد عمل آنے اور طریق کار کے انداز میں کسی قدر تبدیلی یا اختلاف کی گنجائش تو ہوتی ہے لیکن قدرت کے وضع کردہ جن اُصولوں اور قواعد وضوابط کا سطور بالا میں ذکر کیا گیا ہے ان میں کسی استثنا کی گنجائش نہیں ہے.اپنی توجہ کو مسیح کی پیدائش کے واقعہ پر ہی مرکوز رکھتے ہوئے ہم اس امر کو ذرا تصور میں لاتے ہیں کہ مسیح کی ذات کے معرض وجود میں آنے کے سلسلہ میں واقعہ ہوا کیا ہو گا اور پھر تصور میں آنے والے ممکنات کی بنا پر ایک خیالی منظر نامہ کا خاکہ تیار کرتے ہیں.پہلا امکان جسے سائنسی بنیادوں پر زیر غور لایا جاسکتا ہے یہ ہو سکتا ہے کہ مریم کے غیر زرخیز شدہ افزائشی جرثومہ یا بیضه تولید نے بچہ بننے والے لو تھڑے یا بالفاظ دیگر جنین کی تیاری میں ماں کے حصہ کے طور پر 23 کروموسومز مہیا کر دیئے ہوں گے.اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ایسا ہو ا ہو گا تو سوال یہ پید اہو گا کہ بیضہ مادر میں زرخیزی کیسے پیدا ہوئی؟ اور اس زرخیزی کو ممکن بنانے کے لئے لازمی اور اہم بقیہ 23 کروموسومز کہاں سے آئے؟ یہ کہنا یا فرض کرنا ناممکنات میں سے ہے کہ مسیح کے جسمانی خلیوں میں صرف 23 ہی کروموسومز کہاں سے آئے؟ یہ کہنا یا فرض کرنا ناممکنات میں سے ہے کہ مسیح کے جسمانی خلیوں میں صرف 23 ہی کروموسومز تھے.23 کا عدد تو کروموسومز کی اصل تعداد کا ہے ہی نصف اس کا تو ذکر ہی کیا کوئی انسانی بچہ 45 کروموسومز کے ساتھ بھی زندہ پیدا نہیں ہو سکتا؟ اگر کسی انسان کو 46 کروموسومز میں سے ( جن کا انسانی جسم کی ساخت اور بناوٹ کے لئے موجود ہونا لازمی اور ضروری ہے) صرف ایک کروموسوم سے محروم کر دیا جائے تو اس کے جسم میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ظاہر ہونے سے اس کا جو حشر ہو گا اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے.یہ ظاہر ہے کہ مریم اکیلی 46 کے 46 کروموسومز مہیا نہیں کر سکتی تھی.ضروری تھا کہ 23 کروموسومز کہیں اور سے آتے.

Page 21

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک اگر یہ مان لیا جائے کہ خدا خود مسیح کا باپ تھا تو کئی امکان ابھر کر سامنے آتے ہیں.ایک امکان یہ ہو سکتا ہے کہ خدا بھی انسانوں جیسے کروموسومز اپنے وجود میں رکھتا ہے اور اس کے یہ کروموسومز کسی نہ کسی طور مریم کے رحم میں منتقل کیے گئے ہوں گے.ایسا ہونا اس درجہ نا قابل یقین ہے کہ اسے کسی صورت بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا.اگر یہ مان لیا جائے کہ خدا انسانوں والے کروموسومز رکھتا ہے اور وہ اس کے وجود کا حصہ ہیں تو ایسا وجود خدا نہیں کہلا سکتا.کیونکہ جسے انسانی مجبوری لاحق ہو وہ خدا ہو ہی نہیں سکتا.بنابریں اس بات پر ایمان لانے یا یہ اعتقاد رکھنے سے کہ مسیح خدا کا حقیقی بیٹا ہے خود باپ کی الوہیت معرض خطر میں پڑے بغیر نہیں رہتی.دوسر ا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ خدا نے مطلوبہ تعداد کو پورا کرنے کی غرض سے زاید یا بقیہ کروموسومز اپنی صفت خلق کے ایک غیر معمولی مظہر کے طور پر پیدا کر دکھائے تھے.دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ کروموسومز خدا کی اپنی ذات یا وجود کا حصہ نہ تھے بلکہ اس نے انہیں معجزانہ طور پر پیدا کیا تھا.یہ امکان از خود ہمیں اس امر کا مستلزم ٹھہراتا ہے کہ ہم خدا اور مسیح کے درمیان حقیقی معنوں میں باپ بیٹے کے رشتہ کو یکسر مسترد کر دیں اور نتیجہ یہ اخذ کریں کہ پوری کائنات کا جو ہمہ گیر رشتہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کے ساتھ ہے وہی رشتہ مسیح کا بھی خدا کے ساتھ تھا اور یہ ایسا عمومی رشتہ ہے جو جملہ مخلوقات کا اپنے خالق کے ساتھ پہلے ہی ابتداء سے چلا آرہا ہے.کیا خدا کا کوئی حقیقی بیٹا ہونا ممکن ہے؟ یہ امر ظاہر وباہر ہے کہ کسی کا خدا کے ساتھ حقیقی ابنیت کا رشتہ قائم ہونا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ حقیقی بیٹا ماں اور باپ دونوں کے وجودوں سے حصہ لے کر معرض وجود میں آتا ہے.حقیقی بیٹے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا اپنا امتیازی کردار آدھا باپ کے کردار کا عکس ہو اور آدھاماں کے کردار کا آئینہ دار.اندریں صورت خدا کے ساتھ حقیقی ابنیت کے تعلق کے نتیجہ میں یہ مشکل سر اٹھائے بغیر نہیں رہتی کہ ایسا بیٹا لازماً آدھا انسان ہو گا اور آدھا خدا.اس واضح اور کھلی حقیقت کے باوجود جو لوگ مسیح کی حقیقی ابنیت کے قائل ہیں وہ باصرار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسیح کامل انسان اور ساتھ ہی کامل خدا بھی تھا.ابنیت کا تصور اس دعوے کو از خود باطل کر دیتا ہے.اگر یہ مان لیا جائے کہ جو کروموسومز مسیح کی پیدائش میں کام آئے وہ اصل مطلوبہ تعداد سے نصف یعنی صرف 23 ہی تھے تو ثابت شدہ سائنسی حقیقت کی رو سے مسئلہ کوئی رہتا ہی نہیں کیونکہ ایسی صورت میں

Page 22

5 انیت مسیح کی اصل حقیقت بچہ کے پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا.تاہم بعض ممکنہ پہلوؤں کی وضاحت کی خاطر ہم فرض کر لیتے ہیں کہ واقعہ ایسا ہی ہو ا یعنی محض 23 کروموسومز کے ساتھ ہی بچے نے جنم لیا تو صاف ظاہر ہے کہ کروموسومز کی تعداد نصف ہونے کے باعث ایسا بچہ پورا نہیں بلکہ صرف آدھا انسان ہو گا.پھر سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ 23 مکمل کروموسومز کا کم ہونا تو بہت بڑی بات ہے میڈیکل سائنس کی رو سے صرف ایک کروموسوم کا ایک ناقص توارثی جرثومہ ( جسے انگریزی میں "جین “ کہتے ہیں) بچہ میں پیدائشی نقص کا موجب بن کر اس کے حق میں قیامت ڈھا سکتا ہے.ایسا بچہ اندھا یا گونگا بہرایا اعضا کی وجہ سے اپاہج ہو سکتا ہے.ایسے افسوس ناک حادثہ کے ساتھ وابستہ خطرات کا کوئی شمار ممکن نہیں.انسان کو حقیقت پسندی سے کام لینا چاہیے جس طرح 23 کروموسومز سے بچہ نہیں بن سکتا اسی طرح یہ سمجھنا کہ خدا کے بھی کروموسومز ہوتے ہیں خدا کی شان اقدس میں بہت بڑی گستاخی ہے.مسیح کی پیدائش میں خدا کی ذاتی اور جسمانی شرکت بہر طور خارج از مکان قرار پاتی ہے.اور اگر بچہ صرف اور صرف مریم کے جسم میں موجود انسانی خصائل کے حامل توارثی جینز کے ساتھ ہی پیدا ہوا تو وہ خدا کا بیٹا نہیں ہو سکتا تھا.مزید بر آں وہ پورا نہیں بلکہ محض آدھا انسان ہی قرار پاسکتا تھا اس سے زیادہ اور کچھ نہیں.سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایسے نامکمل انسان نما عجوبہ کو خدا کا بیٹا کہا جاتا تو یہ کیسا مکروہ فعل شمار ہوتا.اب رہا یہ سوال کہ پھر مسیح محض یک طرفہ طور پر مریم کے بطن سے پیدا ہوا کیسے ؟ اس بارہ میں ہم سب جانتے ہیں کہ مرد کی شرکت کے بغیر ایک کنواری ماں کا اکیلے ہی بچہ کو جنم دینا ایک ایسا معاملہ ہے جس کے متعلق فی زمانہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں ریسرچ ہو رہی ہے.تاہم اس بارہ میں انسانی علم ابھی تک ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے اور تحقیق سر دست اس فیصلہ کن مرحلہ تک نہیں پہنچی ہے کہ اس امر کے ناقابل تردید دلائل و شواہد فراہم ہو سکیں کہ فی الواقعہ مرد کی شرکت کے بغیر کنواری ماؤں کے بطن سے از خود بچے پیدا ہو سکتے ہیں.البتہ یہ سارا معاملہ ہنوز زیر تحقیق ہے اور ہر قسم کے امکانات کا راستہ کھلا ہے.ابھی محققین اس کے حق میں یا خلاف کسی حتمی یا آخری نتیجہ پر نہیں پہنچے ہیں.عین ممکن ہے کہ یہ معاملہ بھی سائنسی بنیادوں پر دو اور دو چار کی طرح پایہ ثبوت کو پہنچ جائے.زندگی کی نچلی سطح پر یعنی کیڑوں مکوڑوں وغیرہ کی افزائش کے بارہ میں قدرت کے دو مظاہر ایسے ہیں جنہیں ثابت شدہ سائنسی حقائق کے طور پر تسلیم کیا جاچکا ہے.ان میں سے افزائش نسل کا ایک طریق ہر مافروڈٹ ازم (Hermaphroditism) کہلاتا ہے اور دوسرے طریق کے لئے پار تھینو جینس

Page 23

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک (Parthenogenesis) کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے.اس لحاظ سے مریم کے بطن سے مسیح کی معجزانہ پیدائش ایسے ہی بہت کمیاب نوعیت کے کسی غیر معمولی مظہر قدرت کے ذیل میں آتی ہے.ذیل میں افزائش نسل کے ثابت شدہ دو مظاہر قدرت (1) ہر مافروڈٹ ازم (2) پار تھینو جینیس کی کسی قدر وضاحت درج کی جارہی ہے ایسے قارئین جو اس موضوع کی سائنسی بنیادوں پر مزید وضاحت میں دلچسپی رکھتے ہوں وہ کتاب ہذا کے ضمیمہ سے صفحہ 2 سے استفادہ کر سکتے ہیں.6 ہر ما فروڈٹ ازم (Hermaphroditism) یہ اصطلاح بعض جانوروں میں ایسی غیر معمولی صورت حال پر دلالت کرتی ہے کہ جب اکیلی مادین (مؤنث) میں نر اور مادہ دونوں کے جنسی اعضا قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں اور کروموسومز میں نر اور مادہ دونوں کی خصوصیات پہلو بہ پہلو ایک ساتھ موجود ہوتی ہیں.لیبارٹری میں کیے جانے والے تجربات سے ظاہر ہوا کہ ایک خرگوش نے جس کے اندر نر اور مادہ دونوں کے جنسی اعضا موجود تھے.بہت سی مادین خرگوشوں کی جنسی خواہش کو پورا کیا اور اس طرح وہ نر اور مادہ دونوں جنسوں کے 250 خرگوشوں کا مورث اعلیٰ بنا اور پھر ایک مرحلہ ایسا آیا کہ علیحدگی میں خود اس خرگوش کو حمل ٹھہر گیا اور اس نے نر اور مادہ دونوں جنسوں کے سات صحت مند خرگوش بچوں کو جنم دیا.اب جب بعد از مرگ اس کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو پتہ چلا کہ حالت حمل میں اس کی دو کارآمد بیضہ دانیاں اور غیر زرخیز اور بانجھ قسم کے دو خصیے تھے.جدید مطالعہ و مشاہدہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ قدرت کی طرف سے ایسا غیر معمولی وقوعہ شاذ کے طور پر انسانوں میں بھی ظہور میں آسکتا ہے.یار تھینو جینیس (Parthenogenesis) تھینو جینیس “ کی اصطلاح افزائش نسل سے متعلق قدرت کے غیر معمولی نوعیت کے اس نظام کے لئے بولی جاتی ہے جس کے تحت کسی جنسی اختلاط کے بغیر ہی مادین ( مؤنث ) کا بیضہ تولید از خود زرخیز ہو کر نسل کی افزائش کا موجب بن جاتا ہے.افزائش نسل کا یہ غیر معمولی طریق زندگی کی کمتر در جوں کی شکلوں جیسے کھٹمل ، پسو وغیرہ نیز مچھلیوں میں کار فرما نظر آتا ہے.اس بات کے بھی شواہد ملے ہیں کہ یہ نظام کم بارش والے علاقوں اور ایسے خطوں میں جن کے موسمی حالات غیر یقینی ہوں اور بارش وغیرہ کے متعلق کسی قسم کی پیش بینی ممکن نہ ہو چھپکلیوں اور اسی نوع کے دوسرے جانوروں میں افزائش نسل کے ایک "

Page 24

7 ابنیت صحیح کی اصل حقیقت کارگر ذریعہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے.مزید برآں اس بارہ میں لیبارٹریز (سائنسی تجربہ گاہوں) میں بھی بعض تجربات کیے گئے ہیں.مثال کے طور پر چوہیوں اور مادہ خرگوشوں میں جنسی عمل کے بغیر مصنوعی طریقہ سے جنین پیدا کر کے اس کو نصف مدت حمل تک نشو و نمادی گئی اور بعد ازاں حمل کا اسقاط کر دیا گیا.حالیہ ریسرچ کے مطابق کبھی کبھی انسانی جنین کو بھی غیر جنسی عمل افزائش کے رنگ میں Calcium Ionophore کو اضافی مادہ کے طور پر استعمال کر کے متحرک کیا جا سکتا ہے.ایسی تحقیقات سے اس بات کا امکان ظاہر ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم کے انسانی اسقاط حمل بیضہ کے مصنوعی طریق پر جنین پیدا کرنے کی صلاحیت کے ارتقا کا سبب ہے.جدید تجرباتی تحقیق کے مطابق اس بات کا امکان ثابت ہے کہ کنواری سے بچہ کی پیدائش ممکن ہے.Nature Geneticsاکتوبر 1995ء کی ایک حیران کن رپورٹ کے مطابق ایک تین سالہ بچے کی پیدائش ایک ایسے بیضہ سے ہوئی جس کا جنسی اختلاط نہیں ہوا تھا.DNA کی تحقیق سے یہ پتہ چلا کہ بچے کی جلد اور خون میں موجود x کروموسوم والدہ ہی کی طرف سے تھے.اسی طرح خون میں موجود دیگر بائیں کر و موسوم کے دونوں جوڑے والدہ کے کروموسوم سے مشابہ تھے اور مکمل طور پر والدہ سے ودیعت ہوئے تھے.معجزات کیا ہوتے ہیں ؟ جب کسی مرد سے ملاپ کے بغیر کسی کنواری ماں کے بطن سے ولادت کا ہو سکنا قوانین قدرت کی رُو سے ناممکن نہیں بلکہ ایسا ہو نا عین ممکنات میں سے ہے تو یہ سارا معاملہ قوانین قدرت سے ماورا اور بالکل ناممکن کیسے قرار پاسکتا ہے اور اس امر کی گنجائش ہی کہاں باقی رہتی ہے کہ ولادتِ مسیح کو ضرور مافوق الفطرت قرار دیا جائے.اور پھر اس معاملہ کو اس انتہا تک پہنچایا جائے کہ مسیح کی انسانی ولادت کو خدا کے حقیقی بیٹے کی ولادت یقین کیا جائے اور اس کے حقیقی ابن اللہ ہونے پر باقاعدہ ایمان بھی لایا جائے.جب قوانین قدرت کی ایک زندہ حقیقت کے طور پر اس نوع کی ولادت کے بعض شواہد منظر عام پر آچکے ہیں تو پھر اس بات پر یقین کرنے میں قباحت ہی کیا ہے کہ مسیح کی ولادت ایک غیر معمولی واقعہ تو ضرور ہے لیکن یہ رونما ہوا ہے قدرت کے بعض ایسے قوانین کے تحت جن پر سے ابھی پورے طور پر پردہ نہیں اُٹھا ہے.مریم میں درآنحالیکہ کسی مرد نے اسے چھوا تک نہ تھا خاص خدائی منصوبہ اور تصرف کے تحت اندرونی طور پر

Page 25

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 8 کوئی نہ کوئی ایسی قدرتی تبدیلی ضرور واقع ہوئی جو اس کے ہاں ہونے والی ولادت کو ایک معجزانہ ولادت بنانے کا موجب بنی اور یہ تبدیلی قوانین قدرت کے تحت ہی وقوع میں آئی.ولادت مسیح کے بارہ میں احمدی مسلمانوں کا بعینہ یہی عقیدہ ہے اور یہ ایک ایسا پختہ عقیدہ ہے جس میں کوئی جھول یا کمزوری نہیں.کوئی سائنس دان اسے نامعقول یا معلومہ قوانین قدرت کی خلاف ورزی قرار دے کر اسے مسترد نہیں کر سکتا.یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اسلام کی رُو سے جو واقعات معجزات قرار پاتے ہیں وہ قوانین قدرت سے ماورا اور مافوق الفطرت نہیں ہوتے.وہ قدرت کے ایسے غیر معمولی واقعات ہوتے ہیں کہ اس وقت تک ان کے اسباب و علل تک انسانی علم کی رسائی نہیں ہوئی ہوتی.اگر ایسا نہ ہو تا تو اس کی حکمت و دانائی پر کئی طرح کے اعتراضات کا وارد ہونا ناگزیر ٹھہر تا.ظاہر ہے کہ اگر قوانین قدرت خود خدا کے وضع کردہ ہیں تو پھر اُس نے اِس امر کی بھی گنجائش رکھی ہے کہ وہ انہیں توڑے بغیر کسی بھی مسئلہ کا مطلوبہ حل نکال لیتا ہے.پھر اس امر کر ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ انسان کا علم تمام قوانین قدرت پر محیط نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے.اسے قوانین قدرت کا رفتہ رفتہ علم ہوتا چلا آرہا ہے.اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قوانین قدرت کئی درجوں میں منقسم ہیں اور بلند ہوتی ہوئی مختلف سطحوں اور درجوں میں ان کی کار فرمائی جاری وساری ہے.بعض اوقات انسان کو صرف ایک سطح پر رو بعمل آنے والے قوانین کا علم ہو پاتا ہے.اس سے آگے اس کی نگاہ کام نہیں کر رہی ہوتی.جوں جوں وقت گزرتا اور آگے بڑھتا ہے انسان کے علم میں اضافہ ہو تا چلا جاتا ہے اور اسی نسبت سے ایسے قوانین قدرت میں جھانکنے اور انہیں دریافت کرنے کی اہلیت اس میں بڑھتی رہتی ہے جو پہلے اس کے لئے پوشیدہ ہوتے ہیں.سائنسی ترقی کے ہر نئے دور میں نئی دریافتوں کی وجہ سے بعض ایسے مزید قوانین قدرت انسان کے علم میں آتے ہیں جو گروپس کی شکل میں جاری و ساری رہ کر اپنی کار فرمائی دکھارہے ہوتے ہیں.اس طرح انسان نہ صرف ان کے وسیع پیمانہ پر متحرک رہنے کو بہتر رنگ میں سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے بلکہ یہ امر بھی اس کے علم میں آجاتا ہے کہ کس طرح باہم ایک دوسرے پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں.انسانی علم میں رفتہ رفتہ اضافہ کی وجہ سے جو واقعات ابتدائی ادوار میں معجزے نظر آتے ہیں بعد ازاں وہ انسان کی نظر میں معجزے نہیں رہتے کیونکہ ان کے اسباب کا اسے علم ہو جاتا ہے.ایک مخصوص زمانہ میں انسان نے علم میں جس حد تک ترقی کی ہوئی ہوتی ہے اس کی نسبت سے ہی بعض واقعات معجزہ قرار پاتے

Page 26

9 ابنیت مسیح کی اصل حقیقت ہیں.خد اتعالیٰ جب اپنی قدرت کاملہ کی کوئی نئی بجلی ظاہر کرتا ہے تو اس وقت انسان کو بظاہر کسی معلومہ قانون قدرت کی خلاف ورزی ہوتی نظر آتی ہے لیکن فی الاصل ایسا نہیں ہو رہا ہوتا وہ نئی تجلی ایک ایسے قانون قدرت کے تحت ظہور میں آتی ہے جو ظہور کے وقت ان معنوں میں انسان کی نظر سے پوشیدہ ہوتا ہے کہ ابھی اسے اس کا علم نہیں ہوا ہو تا.خدا تعالیٰ اپنے ارادہ، حکم اور تصرف سے اس قانون قدرت کو رو بعمل لے آتا ہے.اس زمانہ کے لوگ اسے سمجھ نہیں پاتے کیونکہ وہ اس وقت تک ان کے فکر اور علم کی رسائی سے بالا ہوتا ہے.مثال کے طور پر چند ہزار سال پہلے تک انسان کو مقناطیسی قوت کا کوئی علم نہ تھا.اگر اس زمانہ میں کوئی شخص اسے اتفاقی طور پر دریافت کر لیتا اور کوئی ایسی ترکیب نکال لیتا جس سے وہ بعض چیزوں کو ہوا میں کھینچ کر دکھا سکتا.اور دوسرے لوگوں کو بظاہر اس کا کوئی ایسا سبب نظر نہ آتا جسے وہ اپنی نگی آنکھ سے دیکھ سکتے تو وہ شخص سب لوگوں کو یہ کہہ کر دیکھو! میں تمہیں ایک معجزہ دکھاتا ہوں ورطہ حیرت میں ڈال سکتا تھا.آج ایسے کر تب سب کو معمولی نظر آتے ہیں اور وہ انہیں روز مرہ مشاہدہ میں آنے والی عام چیزیں محسوس ہوتی ہیں.انسان کا علم بظاہر خواہ کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو بہر حال محدود ہوتا ہے جبکہ علم الہی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی.اس لئے جب کوئی ایسا قانون قدرت رو بعمل آجائے جو انسان کے اپنے محدود دائرہ علم سے باہر ہو تو وہ اسے معجزہ کی طرح ہی نظر آتا ہے.لیکن جب بعد ازاں مزید علم حاصل ہونے پر ہم پیچھے مڑ کر انہی چیزوں پر دوبارہ نظر ڈالتے ہیں تو ہم قوانین کی ایسی تمام نام نہاد خلاف ورزیوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ وہ سب تو قدرتی مظاہر تھے جنہیں اس زمانہ کے لوگ اپنی لا علمی سے سمجھ نہیں سکے تھے اسی لئے میں نے کہا کہ مسیح کی بن باپ ولادت قدرت خداوندی کا ایک مظہر ہی تھی.یعنی بعض قوانین قدرت کی کار فرمائی کے نتیجہ میں ہی ایسا ظہور میں آیا تھا جن کا اس زمانہ کے لوگوں کو قطعا کوئی علم نہ تھا اور آج کے زمانہ کے لوگوں کو بھی جزوی علم کے سوا اس کا پورا علم ابھی حاصل نہیں ہو سکا ہے.البتہ سائنسی بنیادوں پر اس سمت میں مسلسل پیش رفت ہو رہی ہے اور معلومات میں مسلسل اضافہ ہو تا چلا آرہا ہے.اس لحاظ سے ایک وقت ایسا آسکتا ہے کہ جب کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ مسیح کی پیدائش قانون قدرت سے ماورا ایک معجزہ کی حیثیت رکھتی تھی.جو لوگ آج یہ کہتے ہیں انہیں بالآخر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ شاذ کے طور پر رونما ہونے والا ایک قدرتی واقعہ تھا یعنی تھا تو یہ ایک قدرتی واقعہ ہی لیکن تھا اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایسا کمیاب کہ انسانی تجربہ کی رُو سے ایسا بہت کم ہوا کرتا ہے.

Page 27

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 10 مسیح کی ابنیت سے پیدا ہونے والے اشکال ( مسیح خدا کا بیٹا) یسوع مسیح کی ذات، مقام اور خدا سے اس کے تعلق کے بارہ میں عیسائی حضرات کی تفہیم کچھ اس نوعیت کی ہے کہ اسے تسلیم کرنے سے کئی لاینحل مسائل سر اٹھائے بغیر نہیں رہتے.مسیحی عقیدہ کے مزید تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ سے جو بات ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا کا ایک بیٹا ہے جو بیک وقت مکمل انسان اور مکمل خدا دونوں کی خصوصیات اپنے اندر رکھتا ہے.یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ عیسائیوں کے عقیدہ کی رو سے اگر دیکھا جائے تو باپ بعینہ بیٹے جیسا نہیں ہے.باپ اپنی ذات میں ایک مکمل خدا ہے لیکن وہ مکمل انسان نہیں ہے.جبکہ بیٹا مکمل خدا بھی ہے اور مکمل انسان بھی.اس لحاظ سے اس کی رو و شخصیتیں ہیں اور بلحاظ خصوصیات دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں.یہ بات قابل غور ہے کہ یہ خصوصیات ایسی ہیں جو باہم ایک دوسرے میں منتقل نہیں ہو سکتیں.بعض مادوں میں ایسے خواص ہوتے ہیں جو قابل انتقال ہونے کے باعث مختلف شکلوں میں منقلب ہو سکتے ہیں.مثال کے طور پر پانی ہی کو لے لیں.یہ اپنی اصلیت اور اجزائے ترکیبی میں کوئی فرق لائے بغیر برف اور اسی طرح بخارات میں تبدیل ہو سکتا ہے لیکن خدا اور مسیح کے امتیازی اوصاف (جبکہ ان دونوں میں سے ایک میں بعض اوصاف کا اضافہ کر دیا گیا ہے) باہم ایک دوسرے سے آگ اور پانی کی طرح میل کھا ہی نہیں سکتے.ان میں سے ایک کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ دوسرے جیسی قلب ماہیت اختیار کر سکے یا اس کی طرح اپنی کا یا پلٹ سکے اور پھر بھی مسیحی عقیدہ کی رو سے یہ ماننا ضروری ہے کہ دونوں باہم اس طرح ایک جیسے ہیں کہ ان میں فرق کرنا ممکن نہیں.ایک مسئلہ اور بھی ہے اور وہ فی ذاتہ ہے بھی بہت گھمبیر.وہ یہ ہے کہ کیا واقعی مسیح مکمل خدا ہونے کے ساتھ ساتھ مکمل انسان بھی تھا.یہ سوال اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ واقعی ایسا ہی تھا تو اننا پڑتا ہے کہ وہ باپ سے مختلف تھا کیونکہ باپ نے تو بیٹے کی طرح کبھی مکمل انسان کا روپ اختیار کرنے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوا.یہ کس قسم کی رشتہ داری تھی دونوں کے مابین؟ کیا بیٹا درجہ میں باپ سے بھی بڑا تھا ؟ اگر بیٹے کو مکمل انسان ہونے کے اضافی وصف نے کسی بڑائی یا فضیلت سے ہمکنار نہیں کیا تو پھر یہ اضافی وصف، وصف نہ رہا بلکہ ٹھہرا ایک نقص.اس لحاظ سے بیٹا خدا کے مقابلہ میں ناقص ثابت ہوئے بغیر نہیں رہتا.یہ امر ظاہر و باہر ہے کہ خدا کے ناقص بیٹے کا تصور نہ صرف مسیحی عقیدہ اور دعویٰ کے بر خلاف ہے بلکہ خود خدا کے بیٹے

Page 28

11 انیت صحیح کی اصل حقیقت کا تصور ہی خدا کی ہستی کے عالمگیر تصور یا نظریہ سے قطعاً کوئی میل نہیں کھاتا.پس عیسائیت کے ایسے سراسر متناقض عقیدہ کو کوئی کیسے درست سمجھ سکتا ہے جو ہم سے اس بات پر ایمان لانے کا تقاضا کرتا ہے کہ ”ایک میں تین“ اور ”تین میں ایک“ کے درمیان کوئی فرق نہیں بلکہ یہ دونوں ہو بہو ایک ہی ہیں.ایسا اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب کسی عقیدہ کی تمام تر بنیاد حقیقت کی بجائے سراسر بے اصل قصے کہانیوں پر اٹھائی جائے.اسی پر بس نہیں حل طلب مسئلہ ایک اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر مریم کے بطن سے پیدا ہونے کی وجہ سے مسیح خدا کا بیٹا بن گیا تھا تو اس نئی پیدائش سے قبل اس کی حیثیت کیا تھی ؟ اگر وہ مریم کے بطن سے پیدا ہونے سے پہلے بھی خدا کا ازلی بیٹا تھا تو اسے جسمانی جسم میں مقید کر کے ولادت کے چکر میں ڈالنا کیوں ضروری تھا؟ اور اگر ایسا ہو نا ضروری تھا تو یہ اس امر پر دال ہے کہ اس کے بیٹا ہونے کی کیفیت و ماہیت ازلی نہ تھی بلکہ جب وہ انسانی جسم کو خیر باد کہہ کر آسمان کی طرف واپس لوٹ گیا تو وہ اضافی وصف بھی جاتارہا.پس اگر دیکھا اور غور کیا جائے تو اس مسیحی عقیدہ سے ایک نہیں کئی الجھنیں جنم لیتی ہیں اور ان الجھنوں کی وجہ سے عقل عمومی اسے رد کیے بغیر نہیں رہتی.میں پھر سب مسیحی حضرات کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ان الجھنوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے ولادت مسیح کے ایک باعزت اور حقیقی منظر نامہ کو قبول کر لیں اور اس کی رو سے وہ اس حقیقت پر ایمان لے آئیں کہ خدا نے اپنے بعض مخفی قوانین قدرت کو بروئے کار لا کر تخلیق کے ایک غیر معمولی اور خاص ذریعہ سے مسیح کو ولادت بخشی.مسیح تمثیلی اور استعارہ کے رنگ میں خدا کا بیٹا تھانہ کہ حقیقی رنگ میں.حقیقی بیٹے کا تصور اس کی الوہیت اور وحدانیت کے سراسر منافی ہے.تمثیلی رنگ میں اس کا بیٹا ہونے کی وجہ سے خدا نے اسے اپنی محبت خاص کا سزاوار ٹھہرایا.اپنے اس امتیاز کے باوصف وہ ایک انسان ہی تھانہ کہ خدا.رہا اس کا ابن اللہ ہونے کا تصور سو اس کی حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ مسیح کے قریبا تین سو سال بعد اس تصور کو اس کی ذات کے ساتھ اس لئے منسلک کیا گیا تا کہ ایک مافوق الفطرت طلسماتی داستان کے طور پر اس کا تذکرہ آئندہ بھی زندہ رہے.حیات مسیح کے اس پہلو پر ہم بعد میں روشنی ڈالیں گے.باپ خدا اور مریم کے درمیان ازدواجی رشتہ کا سوال ایک ایسا ناگوار سوال ہے جس پر کھلے بندوں بحث کرنے سے کون ہے جو کراہت محسوس نہ کرے تاہم باپ اور بیٹے کے مابین مریم کی درمیانی واسطہ والی حیثیت کو سمجھنے کی کوشش ایک ایسا معاملہ ہے کہ اس کے ذکر کو نا پسندیدہ ہونے کے باوجود یکسر نظر انداز

Page 29

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 12 کرنا بھی مشکل ہے.غالباً یہی وہ سوال تھا جو مشہور جرمن فلاسفر نطشے (Nietzsche) کے لئے بہت خلجان کا موجب بنا اور آخر کار اس نے اس بارہ میں اپنی گھٹی اور دبی ہوئی بے اطمینانی کے اظہار کا ذریعہ ان الفاظ کو بنایا: زر تشت جب جادو گر سے مخلصی حاصل کر چکا تو ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ اس نے دیکھا کہ جس راستہ پر وہ جارہا ہے اس کے ایک طرف پھر کوئی بیٹھا ہوا ہے وہ کالے رنگ والا ایک لمبے قد کا آدمی تھا جس کے تکان سے اترے ہوئے چہرہ کا رنگ زرد پڑ رہا تھا.اس نے دل میں کہا ” افسوس انسان کے روپ میں یہ ایک اور آفت میر اراستہ روکے کھڑی ہے.وضع قطع سے معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ کوئی پادری یا راہب قسم کا آدمی ہے.اس یعنی زرتشت نے کہا ”اے راہ گیر ! تو جو کوئی بھی ہے ایک ایسے شخص کی مدد کر جو راستہ سے بھٹک کر ادھر آنکلا ہے یعنی مجھ ایسے بوڑھے کی جو اپنے آپ کو دکھ اور مصیبت میں مبتلا کرنے یہاں آوارد ہوا ہے.“ راہ میں بیٹھے اس تھکے ماندے بوڑھے نے کہا ”یہاں کی دنیا مجھ بوڑھے کے لئے دور دراز کی ایک اجنبی دنیا ہے.یہاں جنگلی جانوروں کی آوازیں مجھے سنائی دے رہی ہیں.وہ جو مجھے پناہ دے سکتا تھا وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے.میں ایک آخری پارسا انسان، روحانی بزرگ اور راہب کو تلاش کر رہا تھا جس نے اس جنگل میں رہنے کی وجہ سے وہ کچھ نہیں سنا جو ساری دنیا جانتی ہے.“ زرتشت نے پوچھا ”ساری دنیا کیا جانتی ہے ؟ کیا تو یہ کہنا چاہتا ہے کہ وہ قدیم خدا جس پر ساری دنیا ایمان رکھتی تھی اب زندہ نہیں رہا.“ بوڑھے نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ”ہاں بات یہی ہے.میں نے اس قدیم خدا کی اس کے آخری لمحات تک خدمت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.اب میں اپنے آقا کی عدم موجودگی کے باعث خدمت گزاری کے فریضہ سے ریٹائر ہو چکا ہوں لیکن آزاد میں اب بھی نہیں ہوں اور نہ گھنٹہ بھر کے لئے بھی خوشی میرے قریب پھٹکتی ہے سوائے اس کے کہ میں پرانی یادوں میں ہی مگن رہتا ہوں.میں ان پہاڑوں پر اس لئے چڑھ آیا تھا کہ میں آخر میں ایک بار پھر روحانی جشن منالوں کیونکہ ایک بوڑھے پوپ اور کلیسیا کے فادر کو یہی زیب دیتا ہے کہ وہ نیک یادوں اور مقدس عبادتوں کا جشن منائے

Page 30

ابنیت مسیح کی اصل حقیقت لیکن یاد رکھو! میں آخری پوپ ہوں.“ مگر انسانوں میں سے سب سے پارسا انسان اور وہ روحانی بزرگ جو اس جنگل میں گنگنا گنگنا کر خدا کی حمد کے ترانے گایا کرتا تھا ( اور جس کی تلاش میں میں یہاں آیا تھا) وہ بھی اب مر چکا ہے.“ ”جب تلاش بسیار کے بعد مجھے اس کی جھونپڑی ملی تو میں نے اسے اس میں موجود نہ پایا.اس میں اگر کوئی ملا تو دو بھیڑیے ملے.وہ آوازیں نکال نکال کر اس کی موت پر رورہے تھے کیونکہ جانور اس سے بہت محبت کرتے تھے.میں جلدی سے وہاں سے نکل آیا.“ کیا میں ان جنگلوں اور پہاڑوں میں یونہی بے کار بھٹکنے اور مارا مارا پھرنے کے لئے آیا تھا؟ اس خیال کے آنے پر میرے دل نے فیصلہ کیا کہ میں ان تمام لوگوں میں سے جو خدا پر ایمان نہیں رکھتے ایک اور سب سے زیادہ پارسا انسان کو تلاش کروں یعنی زرتشت کو ڈھونڈ نکالوں.“ اس بوڑھے آدمی نے یہ کہا اور گھنے اور اندر اتر جانے والی نظروں سے اسے گھورنے لگا جو اس کے سامنے کھڑا تھا.زرتشت نے اس بوڑھے پوپ کا ہاتھ تھام لیا اور احتراماً دیر تک اس کی تعریف کرتا رہا.پھر اس نے کہا: ”اے محترم شخص دیکھ تیر ا ہاتھ کیسا لمبا اور خوبصورت ہے لیکن اب اس ہاتھ نے اسے مضبوطی سے تھاما ہوا ہے جس کا تو متلاشی تھا یعنی تو نے مجھ زرتشت کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے رکھا ہے.“ ”یہ میں ہی ہوں خدا کی ہستی پر یقین نہ رکھنے والا زر تشت !وہی زرتشت جو یہ کہتا ہے کہ مجھ سے زیادہ خدا کا منکر اور کون ہے کہ میں اس کی تعلیم میں مگن اور خوش رہوں.“ زرتشت نے یہ کہا اور پھر اپنی گہری اور اندر اتر جانے والی نظر سے اس بوڑھے پوپ کے خیالات اور مخفی جذبات کو بھانپنے اور جاننے کی کوشش کی.آخر کار اس (بوڑھے پوپ) نے کہنا شروع کیا: ”جو اس کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرتا تھا اور جس نے اس کو سب سے زیادہ اپنایا ہوا تھا اسی نے اب اس کو سب سے زیادہ گمشد شد کر کے فراموش کر دیا ہے.“ دیکھو! کیا اب میں ہم دونوں میں سے زیادہ خدا کا منکر نہیں ہوں.“ 13

Page 31

14 میسحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک زرتشت نے گہری خاموشی کے بعد بڑے فکر انگیز لہجے میں کہا: ”تم نے آخر تک اس کی خدمت کی.کیا تمہیں پتہ ہے کہ اس کی موت کیسے واقع ہوئی ؟ کیا وہ جو لوگ کہتے ہیں، صحیح ہے کہ اس کی رحم دلی نے خود اس کا اپنا گلا گھونٹ کر رکھ دیا.اور یہ کہ اس نے دیکھا کہ آدمی کیسے صلیب پر ٹنگا ہوا تھا.وہ اس تکلیف کو برداشت نہ شخص کی کر سکا.لوگوں سے محبت اس کے لئے جہنم بن گئی اور آخر کار اس کی موت پر منتج ہوئی.“ بوڑھے پوپ نے کوئی جواب نہ دیا.وہ اس حال میں کہ چہرے پر دکھ اور ملال کے آثار ہو یدا تھے خفت کے رنگ میں ایک اور ہی سمت گھورنے لگا.زر تشت نے کافی غور وفکر میں ڈوبے رہنے کے بعد جس کے دوران وہ بوڑھے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھور تا رہا تھا.آخر کار کہا اب مجھے چلنا چاہیے.“ ”اسے جانے دو وہ کبھی کا ختم ہو چکا.اور یہ امر تیرے معزز ہونے پر دلالت کرتا ہے کہ تو اس مرے ہوئے خدا کو اچھے رنگ میں یاد کرتا ہے.ویسے تو بھی جانتا ہے اور میں بھی جانتا ہوں کہ وہ کون اور کیا تھا اور یہ کہ اس نے عجیب راہوں کی پیروی کی.“ بوڑھے پوپ نے خوشی کے عالم میں کہا: ” یہ آپس کی بات ہے اور میں آنکھوں تلے کہہ سکتا ہوں (کیونکہ وہ ایک آنکھ سے اندھا تھا) مقدس روحانی امور میں خود زرتشت سے زیادہ روشن ضمیر ہوں اور اے کاش ایسا ہی ہو.“ میں نے از راہ محبت بہت سالوں تک اس کی خدمت کی اور اپنی مرضی کو اس کی مرضی کے تابع کر کے میں اس کی رضا کی تمام راہوں پر چلا.تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک اچھا خدمت گزار سب کچھ جانتا ہے اور وہ کچھ بھی جانتا ہے جسے اس کا آقا خود اپنے آپ سے چھپایا کرتا تھا.“ وہ ایک پوشیدہ خدا تھا اور سربستہ راز کی حیثیت رکھتا تھا.وہ اپنے ایک بیٹے کے روپ میں آیا اور آیا بھی خفیہ اور بالواسطہ ذرائع سے.اس پر ایمان لانے کی راہ کے دروازہ میں بدکاری ایستادہ ہے.“ جو کوئی محبت کے خدا کی حیثیت سے اس کی تعظیم کرتا ہے وہ خود محبت کو عظیم درجہ نہیں دیتا

Page 32

انیت مسیح کی اصل حقیقت اور محبت کا اچھے لفظوں میں ذکر نہیں کرتا.کیا یہ خدا یہ نہیں چاہتا کہ خود اس کا بھی محاسبہ کیا جائے ؟ لیکن محبت کرنے والا تو جزا سزا کے خیالات سے بالا ہو کر محبت کرتا ہے.“ یہ مشرقی خدا جب حیوان تھا تو یہ بہت سخت گیر اور منتقم مزاج تھا.اس نے اپنے پسندیدہ لوگوں کی خوشی کی خاطر خود ایک جہنم تیار کی.“ لیکن آخر کار وہ خدا بوڑھا ہو گیا اور اس عمر میں وہ باپ سے زیادہ ایک دادا کے مانند بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایک لڑکھڑاتی اور ہپاتی بوڑھی دادی کی طرح بہت نرم خو ، شیریں و دلکش اور محبت کرنے والا بن گیا.“ ” پھر وہ خدا اپنے کمرے کی چمنی کے ایک کو نہ میں جرمر اور حلوہ حریسہ ہو کر بیٹھ رہا اور اپنی کمزور ٹانگوں پر اپنے آپ کو سنبھالے بیٹھا جھنجھلا تارہا.وہ دنیا اور اس کے کاروبار سے تھک ہار کر اس حال کو پہنچا تھا اور اپنی مرضی چلانے سے اکتا چکا تھا اور پھر آخر ایک دن اپنے حد سے زیادہ بڑھے ہوئے رحم کے ہاتھوں دم گھٹنے سے مر گیا.“ 15 1 (Thus Spoke Zarathustra by Friedrich Nietzsche p.271-273.Translation published by Penguin Books (1969) 1969 - ترجمہ شائع کردہ پنگوئن بکس 2716273( " زرتشت یوں گویا ہوا" مصنفہ فریڈرک نطشے، صفحات

Page 33

Page 34

باب دوم گناہ اور کفارہ اب ہم مسیحیت کے دوسرے بہت ہی اہم رکن کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.تاہم میں ایک بات شروع میں ہی واضح کر دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اس دوسرے رکن کی جو تفصیل یہاں بیان ہو گی وہ ہوگی تو مستند عیسائی کتب سے ماخوذ لیکن اب سارے کے سارے عیسائی حضرات اس پر من و عن اسی طرح ایمان نہیں رکھتے.بعض جداگانہ کلیسیائی نظاموں سے تعلق رکھنے والے فرقے ایسے بھی ہیں جو اس بارہ میں اصل کلیسیا کی درشت اعتقادی روش سے متفق نہ ہوتے ہوئے اس روش سے قدرے ہٹ گئے ہیں اور انہوں نے اپنے رویہ میں کسی قدر نرمی پیدا کر لی ہے.اس کے باوصف یہ بات اپنی جگہ سولہ آنے درست ہے کہ ”گناہ اور کفارہ “ کے عقیدہ میں کار فرما فلاسفی کو مسیحی مذہب میں راسخ الاعتقادی کے اعتبار سے بنیادی اصول یار کن رکین کی حیثیت حاصل ہے.گناہ اور کفارہ " کی مسیحی تفہیم اور اس کی تشریح کے اجزائے ترکیبی میں سے پہلا جزو یہ ہے کہ خدا بہر حال منصف مزاج اور عدل پرور ہے.وہ کانٹے کی تول پورے اور بہر طور پر مکمل انصاف کا نفاذ ضرور عمل میں لاتا ہے.وہ ازروئے عدل پوری سزا دیئے اور عدل کا تقاضا عملاً پورا کیے بغیر انسانوں کے گناہ معاف نہیں کیا کرتا کیونکہ اگر وہ ایسانہ کرے یعنی سزا دیئے بغیر ہی گناہ بخش دیا کرے تو اس کا یہ فعل عدل کا خون کرنے کے مترادف ہو گا.مسیحیوں کے نزدیک خدا تعالیٰ کی صفت عدل اس امر کو ناگزیر اور لائڈی بنادیتی ہے کہ کفارہ اور مسیحی نظریہ کو سو فیصد درست تسلیم کیا جائے.گناہ اور کفارہ کی مسیحی توجیہ کا دوسرا جزو یہ ہے کہ انسان گناہ گار ہے یعنی وہ پیدا ہی گناہ گار ہوتا ہے.وجہ اس کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ آدم اور حوا کے پہلے اور ابتدائی گناہ کی وجہ سے ان کی نسل کو گناہ ورثہ میں ملنا شروع ہوا اور اس وقت سے ملتا چلا آرہا ہے.یعنی نسل آدم کے توارثی جرثوموں(Genes) میں گناہ منتقل ہو تا چلا گیا.یہی وجہ ہے کہ اس وقت سے ہی آدم کی تمام اولاد فطر تا گناہگار پیدا ہوتی چلی آرہی ہے.اس عقیدہ کا تیسرا جزو یہ ہے کہ ایک گناہ گار انسان دوسرے گناہ گار انسان کا کفارہ ادا نہیں کر سکتا.

Page 35

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 18 کفارہ صرف اور صرف وہ ادا کر سکتا ہے جو فی نفسہ گناہ سے پاک ہو.کفارہ کی اس بنیاد سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عیسائیوں کی اپنی سمجھ اور تفہیم کے مطابق خدا کا کوئی نبی یار سول خواہ وہ نیکی اور پارسائی میں درجہ کمال کے کتنا ہی قریب پہنچا ہوا تھا بنی نوع انسان کو گناہ سے پاک نہیں کر سکتا تھا.بالفاظ دیگر وہ انہیں گناہ اور اس کے نتائج و عواقب سے چھٹکارا نہیں دلا سکتا تھا.وہ نبی یار سول ہونے کے باوجو د بیٹا تو بہر حال آدم ہی کا ہو تا تھا اس لئے وہ خود فطرت میں رچے ہوئے گناہ کے اثر سے بچا ہوا نہیں ہو تا تھا.جب وہ پیدا ہو تا تھا تو گناہ کا بیچ اس کے اندر پہلے سے موجود ہو تا تھا.سادہ الفاظ میں یہ ہے اس سارے عقیدہ کا لب لباب.اب رہا یہ سوال کہ پھر انسان گناہ سے نجات کیسے حاصل کرے؟ سو مسیحی عالموں کی طرف سے اس کا جو حل پیش کیا جاتا ہے اب ہم اس کی طرف آتے ہیں.بنی نوع انسان کی طرف سے کفارہ کی ادائیگی اس عقدہ لا نخل کو حل کرنے کے لئے مسیحی عقیدہ کی رُو سے خدا نے بالکل ایک نئی ایچ کا آئینہ دار منصو بہ اختیار کیا.یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس نے اس بارہ میں اپنے ” بیٹے“ سے بھی مشورہ کیا تھا یا نہیں یا یہ کہ ”باپ بیٹا دونوں کو ایک ساتھ ہی یہ منصوبہ سوجھا یا پھر یہ کہ یہ منصوبہ تمام تر ” بیٹے “ ہی کی سوچ کا نتیجہ تھا اور بعد میں باپ خدا نے اسے قبول کر لیا.اس منصوبہ کے جو نمایاں خدو خال مسیح کے اس دنیا میں آنے پر منکشف ہوئے وہ یہ ہیں.دو ہزار سال پہلے خدا کے بیٹے نے جو ازلی ہونے میں اس کا برابر کا شریک تھا ایک انسانی ماں کے بطن سے جنم لیا.”خدا کا بیٹا ہونے کی حیثیت میں وہ کامل انسان اور کامل خدا ہر دو کی جملہ خصوصیات کو اپنے وجود میں جمع رکھتا تھا.مزید بر آس ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ایک پاکدامن اور پار ساخاتون جس کا نام مریم تھا خدا کے بیٹے کی ماں بننے کے لئے منتخب کی گئی.وہ خدا کے اشتراک سے حاملہ ہوئی.اس لحاظ سے خدا کا حقیقی بیٹا ہونے کی حیثیت میں مسیح گناہ کے بغیر پیدا ہوا.اس کے باوجود کسی نہ کسی طرح اس نے اپنی انسانی شخصیت کو بر قرار رکھا.اور پھر اس نے رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کو پیش کر دیا کہ وہ تمام انسان جو اس پر ایمان لے آئیں گے اور اسے اپنا نجات دہندہ تسلیم کر لیں گے وہ ان کے موروثی گناہ کا تمام تر بوجھ خود اٹھالے گا.دعوی یہ کیا جاتا ہے کہ ذہانت کی آئینہ دار اس پر حکمت تدبیر سے خدا کو اپنے کامل عادل ہونے کی ازلی صفت کے بارہ میں مفاہمت کے رنگ میں کسی تخفیف و تنقیص سے دوچار نہ ہونا پڑا.

Page 36

19 گناہ اور کفارہ یہ یاد رہے کہ اس طریقہ واردات اور طرز عمل کے اختیار کرنے کے نتیجہ میں اصلاً یہ صورت حال پھر بھی قائم رہتی ہے کہ انسان خواہ کسی درجہ کا گنہگار ہو وہ بہر حال سزا کا مستوجب ٹھہرے گا اور خدا اپنے عدل کے تقاضوں میں سر مو فرق لائے بغیر گناہ گار سے اس کے گناہ کا بدلہ لینے کا مجاز رہے گا.پہلی صورت حال میں اور ڈرامائی تبدیلی لانے والی بعد کی صورت حال میں فرق صرف یہ ہے کہ سزا تو ملی مگر آدم کے بیٹوں اور بیٹیوں کو نہیں بلکہ ”خدا کے بیٹے " مسیح کو ملی اور یہ مسیح کی رضا کارانہ قربانی ہی ہے جو اولاد آدم کا کفارہ ادا کرنے میں آلہ کار ثابت ہوئی.ورنہ نسل انسانی کے لئے خدائے منتقم کی مقرر کردہ سزا سے بچنے کا کوئی امکان نہ تھا.یہ منطق کتنی ہی عجیب کیوں نہ نظر آئے عقیدہ اور اس کی تشریح کے مطابق واقعہ ہوا یہی کہ مسیح نے رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کو پیش کر دیا جس کے نتیجہ میں نسل آدم تو سزا سے بچ گئی لیکن مسیح کو ان گناہوں کی سزا بھگتنا پڑی جن کا اس نے سرے سے ارتکاب ہی نہیں کیا تھا.آدم اور حوا کا گناہ آئیے ہم اس عقیدہ کی روشنی میں آدم اور حوا کے قصہ پر دوبارہ نظر ڈال کر اس کا شروع سے ایک دفعہ پھر جائزہ لیں.اس عقیدہ کا کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں ہے جسے انسانی ضمیر اور منطق قبول کر سکے.سب سے اول تو نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ آدم اور حوا نے گناہ کیا اس لئے ان کی اولاد نسلاً بعد نسل ابد الآباد تک کے لیے گناہ گار قرار پاتی چلی گئی.گویا آدم اور حوا کا گناہ حیاتیات کے قدرتی نظام کے تحت یکدم ہی اگلی نسلوں میں منتقل ہونا شروع ہو گیا اور نسلاً بعد نسل منتقل ہو تا چلا گیا.ابتدائے آفرینش سے جاری سلسله توالد و تناسل (Genetics) کی سائنس کی رو سے فوری طور پر ایسا ہو نا ممکن نہیں ہے.اس سائنس نے اس امر کا انکشاف کیا ہے کہ اگر ایک انسان زندگی بھر نیک یا بد خیالات و اعمال کا پوری طرح پابند رہے اور اس میں کوئی فرق نہ آنے دے تو بھی وہ خیالات و اعمال نسل انسانی کی افزائش کے تناسلی نظام میں من و عن منتقل ہو کر اس میں اپنا دائمی نقش قائم نہیں کر سکتے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر انسان کا اپنا انفرادی عرصۂ حیات اتنا مختصر ہوتا ہے کہ وہ توالد و تناسل کے قدرتی نظام میں یکدم گہری اور انمٹ تبدیلیاں نہیں لا سکتا.انسانوں کے توارثی جرثومے یا عنصر Gene میں نئے خواص مرتسم ہونے اور پھر ان کے دائمی جڑ پکڑنے کے لئے لاکھوں سال در کار ہوتے ہیں.

Page 37

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 20 اسی پر بس نہیں اگر تخیل کی کسی انتہائی نا معقول اور نا قابل قبول کھینچا تانی کے ذریعہ انسان اس امر کو ذہن میں لے ہی آئے کہ ایسا عجیب و غریب اور بے ڈھب واقعہ حقیقتاً رو نما ہوا تھا تو اسی انوکھی منطق کی رو سے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس سے الٹ اور یکسر متضاد واقعہ بھی رونما ہو سکتا ہے.یعنی اگر گناہ اس قدر فوری اور دیر پا اثر دکھا کر ابد الآباد تک کی نسلوں کو گناہگار بنا سکتا ہے تو پھر اس کے بالمقابل نیکی کو ایسے انقلاب انگیز اثر سے عاری کیوں قرار دیا جائے.اسی طرح یہ بھی تو تسلیم کرنا چاہیے کہ اگر ایک گناہ گار انسان تو بہ کر کے نیکی کے راستہ پر پوری استقامت کے ساتھ گامزن ہو جائے اور انجام کار صحیح معنوں میں پاک صاف اور مطہر ہو جائے تو اس کی یہ نیکی نظام توالد و تناسل میں یک دم ریکارڈ ہو کر نوع انسانی کے تمام سابقہ گناہوں کے اثرات کو ہمیشہ ہمیش کے لئے محو کر سکتی ہے.اگرچہ سائنسی طور پر تو ایسا ہونا ممکن نہیں لیکن یہ خلاف حقیقت ہونے کے باوجود ایک نسبتاً متوازن تصور ہے اور زیادہ منطقی ہے بہ نسبت اس نظریہ کے کہ صرف گناہ کے میلان میں ہی یہ قوت اور تاثیر ہے کہ وہ نظام توالد و تناسل میں منتقل ہو کر اپنے اثر کو دوام بخش سکتا ہے جبکہ نیکی کا میلان قوت تاثیر سے عاری ہے.دوسرے یہ امر بھی قابل غور ہے کہ آدم اور اس کی ایک لغزش کا مسئلہ حل کرنے کی خاطر تجویز یہ کیا گیا کہ آدم کا گناہ سلسلہ توالد و تناسل کے ذریعہ آدم کی نسل میں منتقل ہو تا چلا گیا اور پھر خدا نے ہزاروں سال بعد اپنے بیٹے کی قربانی کے ذریعہ اس کا کفارہ ادا کر کے انصاف اور عدل کے تقاضا کو پورا کیا.سزا دہی اور کفارہ کے اس سلسلہ دراز سے حاصل کیا ہوا؟ اس پر غور کیا جائے تو اس کا ماحصل یہ نکلتا ہے کہ اس سے گناہ اور کفارہ کی اصل بنیاد از خود منہدم ہو جاتی ہے.سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر خدا کامل عادل اور پورا پورا انصاف کرنے والا ہے تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آدم اور حوا نے جو عارضی اور وقتی نافرمانی کی اور پھر دونوں اس سے تائب بھی ہوئے اس کی پاداش کے طور پر ان کی بعد میں آنے والی تمام نسلوں کو مردُود بنا چھوڑا.جو گناہ آدم اور حوا نے کیا تھا اس پر انہوں نے ندامت کا اظہار کر کے تو بہ بھی کر لی تھی اور پھر اپنے اس گناہ کی انہیں سزا بھی مل گئی تھی اور وہ سزا تھی بھی بہت سخت کیونکہ انہیں بڑی ذلت کے ساتھ جنت سے نکال دیا گیا تھا.اب یہ کہاں کا اور کیسا انصاف ہے خدا کا کہ آدم اور حوا کے ذاتی گناہ کی انہیں سزا دینے کے باوجود اس کا انتقام کا جذبہ اس وقت تک ٹھنڈا نہیں پڑتا جب تک کہ پوری نسل انسانی کو کمال بے بسی سے دو چار کر کے انہیں اس قعر مذلت میں نہیں گرا دیتا کہ نظام توالد و تناسل کے تحت بلا استثنا سب کے

Page 38

21 گناہ اور کفارہ سب گناہ گار پیدا ہوتے چلے جائیں.کون سا موقع یا امکان باقی چھوڑا گیا تھا نسل آدم کے لئے کہ وہ گناہ اور اس کے اثر سے بچ سکے ؟ اگر والدین کوئی غلطی کرتے ہیں تو ان کے معصوم بچے کیوں ہمیشہ کے لئے دکھ اٹھائیں اور ابد الآباد تک کے لئے خُسران مبین میں مبتلا ر ہیں ؟ جب یہ صورت احوال ہو تو کہنے والے کیوں نہ کہیں کہ خدا کیسے ناقص جذبۂ انصاف کا مالک ہے کہ وہ ان لوگوں کو بھی سزا دیتا ہے جنہیں اس نے بنایا ہی ایسا ہے کہ وہ خواہ گناہ سے کتنی ہی نفرت کریں وہ گناہ کے ار تکاب سے بچ ہی نہیں سکتے.گناہ کو تو ان کی خلقت اور ساخت و پرداخت کا جز ولا ینفک بنا دیا گیا ہے.آدم کے کسی بچے کے لئے کوئی موقع یا امکان ہے ہی نہیں کہ وہ معصوم بن سکے.اگر گناہ ایک جرم تھا تو منطق کی رو سے یہ مخلوق کا نہیں خالق کا جرم شمار ہونا چاہیے.ایسی صورت میں وہ کیسا انصاف ہے جو جرائم کو دوام بخشنے والے کی بجائے معصوموں کو سزا دینے کا تقاضا کرتا ہے؟ گناہ اور اس کے نتائج و عواقب کی مسیحی تفہیم سے کس قدر مختلف ہے قرآن کا اعلان جو کہتا ہے.وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى (فاطر :19) اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی.لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا شخصية (البقرة:287) اللہ کسی رسوائے اس ( ذمہ داری) کے جو اس کی طاقت میں ہو کوئی ذمہ داری نہیں ڈالتا.گناہ اور کفارہ کے مسیحی نظریہ سے اگر موازنہ کیا جائے تو قرآن مجید کے یہ اعلانات روح انسانی کیلئے سرمدی نغمگی سے کسی طرح کم نہیں ہیں.اب ہم بائبل کے اس بیان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جس کا تعلق آدم اور حوا کے گناہ اور بطور پاداش انہیں ملنے والی سزا سے ہے.چنانچہ بائبل میں لکھا ہے.” پھر اس نے عورت سے کہا کہ میں تیرے درد حمل کو بہت بڑھاؤں گا.تو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا.اور آدم سے اس نے کہا چونکہ تو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور اس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھے حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا اس لئے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی.تکلیف دہ مشقت

Page 39

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک ( پیدائش باب 3 آیات 16 تا 19) 22 کے ساتھ تو اپنی عمر بھر اس کی پیداوار کھائے گا.وہ تیرے لئے کانٹے اور اونٹ کٹارے اگائے گی اور تو کھیت کی سبزی کھائے گا.تو اپنے منہ (چہرہ) کے پسینہ کی روٹی کھائے گا جب تک کہ تو پھر زمین میں لوٹ نہ جائے اس لئے کہ تو اس سے نکالا گیا ہے.تو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائے گا.“ اس کے بالمقابل جدید تحقیق کی رو سے جب آدم اور حوا پیدا ہوئے اس سے بہت پہلے سے بنی نوع انسان زمین پر موجود تھے.خود مغربی سائنس دانوں نے زمانہ قبل از تاریخ سے تعلق رکھنے والے انسانوں کی بعض نعشیں یا ان کے بچے کھچے حصے دریافت کیے ہیں اور انہیں بعض نام دیئے ہیں تاکہ وہ ان کی شناخت اور امتیاز کا ذریعہ بن سکیں.ان میں سے سب سے معروف وہ انسان ہیں جنہیں ننڈر تھل (Neanderthal) کا نام دیا گیا ہے جو آج سے ایک لاکھ سال قبل سے لے کر 35 ہزار سال قبل کے زمانہ میں اس زمین پر آباد تھے.ان کی آبادیاں زیادہ تر یورپ، مشرق قریب اور وسطی ایشیا کے علاقوں میں پھیلی ہوئی تھیں.اسی طرح پوری نشو و نما پا کر بڑا ہونے والے ایک انسانی وجود کا ڈھانچہ دریافت ہوا ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب آدم اور حوا نے جنت میں اپنے عارضی اور مختصر قیام کا آغاز کیا وہ اس زمانہ سے بھی ۲۹ ہزار سال قبل اس زمین پر گھومتا پھرتا تھا.اس زمانہ کے انسان جسمانی ساخت کے لحاظ سے بالکل ہماری طرح کے تھے اور وہ یورپ، افریقہ اور ایشیا میں رہتے تھے.بعد ازاں زمانہ برف Ice age میں وہ شمالی اور جنوبی امریکہ میں بھی پھیل گئے.اسی طرح آسٹریلیا میں وہاں کے قدیم باشندوں کی مستند ثقافتی زندگی کا سراغ چالیس ہزار سال قبل کے زمانہ تک ملتا ہے.یہ تو ہمارے اپنے زمانہ سے نسبتاً قریب کے زمانوں کا ذکر ہے ورنہ حبشہ کے مقام پر ہیڈار Hedar سے ایک عورت کا ڈھانچہ ملا ہے جو ہمیں لاکھ نوے ہزار سال پرانا ہے.بائبل کے بیان کردہ سلسلہ وار تاریخی ادوار کی رو سے آدم اور حوا آج سے چھ ہزار سال پہلے گزرے تھے.آدمی جب پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھتا ہے تو اپنے ہی جیسے انسانوں کی جنہیں سائنس کی مخصوص اصطلاح میں ہومو سیسپیئنز Homo Sapiens کہا جاتا ہے تاریخ قدامت دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے.انسانی دکھوں کے تسلسل کا جاری رہنا اس بارہ میں کہ آدم اور حوا کو کیوں اور کس طرح سزا ملی تھی انسان بائبل کا بیان پڑھ کر حیران ہوئے

Page 40

23 گناہ اور کفارہ بغیر نہیں رہتا اور گہری سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کیا واقعی آدم اور حوا کا دور شروع ہونے سے قبل عور تیں بچے کی پیدائش کے وقت اٹھنے والی در دوں اور دیگر متعلقہ تکلیفوں سے بالکل نا آشنا تھیں اور کیا واقعی ان در دوں اور تکلیفوں کا آغاز آدم اور حوا کو ملنے والی سزا کے وقت سے ہوا.کوئی سائنس دان ایسا نہیں مل سکتا جو تخیل کی ایسی بے تکی پرواز پر یقین رکھتا ہو.سائنسی دریافتوں کے بعد سے ہمارے پاس اس امر کی وافر اور نا قابل تردید شہادتیں موجود ہیں کہ آدم اور حوا سے بہت پہلے ہی انسان کرہ ارض کے تمام بر اعظموں حتی کہ بحر الکاہل کے دور دراز جزیروں پر قابض ہو چکا تھا اور وہ اپنی بقا کے لئے سخت مشقت اٹھارہا تھا.لہذا یہ کہنا کہ آدم اور حوا اس زمین پر سکونت اختیار کرنے والے پہلے انسان تھے اور یہ کہ انہوں نے گناہ کیا اور اس کی پاداش کے طور پر یہ سزا مقرر ہوئی کہ عورت دکھ درد میں مبتلا ہو کر بچہ جنے تاریخی طور پر غلط ثابت ہو چکا ہے.کرہ ارض پر زندگی کے آغاز اور اس کے بعد کے ادوار کے بارہ میں جو بہت گہری اور وسیع ریسرچ منظر عام پر آچکی ہے اس نے اس نظریہ کی تردید کا کافی مواد مہیا کر دیا ہے.بچہ کی پیدائش کے وقت دکھ اٹھانا ایک بدیہی امر ہے حتی کہ جانور بھی جو زندگی کی درجہ بندی میں بہت کمتر درجہ کی مخلوق شمار ہوتے ہیں درد کی کیفیت میں سے گزر کر بچے جنتے ہیں.اگر انسان گائے بچھڑا جنتے دیکھے تو وہ مشاہدہ کر سکتا ہے کہ جس تکلیف میں سے وہ گزر رہی ہوتی ہے وہ بچہ جننے والی عورت کی تکلیف کے عین مشابہ ہوتی ہے.اب کون ہے جو یہ نہیں جانتا کہ ایسے بہت سے جانور آدم اور حوا سے لاکھوں لاکھ سال پہلے اس زمین پر آباد تھے ؟ اب رہا محنت اور مشقت سے روزی کمانے کی سزا کا معاملہ.سو اس بارہ میں بھی روئے زمین کے انسانوں کا بہ تسلسل روز مرہ یہ مشاہدہ ہے کہ انسان شروع ہی سے محنت اور مشقت سے روزی کماتا چلا آرہا ہے.یہ کسی کے لئے بھی قطعا کوئی اچنبہ کی بات نہیں ہے.عورتیں بھی اپنے گزر اوقات کے لئے محنت کی اول دن سے عادی ہیں اور ان سے بھی پہلے ہر زندہ شے اپنی خوراک محنت کے ذریعہ ہی حاصل کرتی چلی آرہی ہے.محنت سے روزی کمانا یا خوراک حاصل کرنا ایک ایسی مبرہن حقیقت ہے جو زندگی کے ارتقا میں بنیادی محرک کی حیثیت رکھتی ہے.تنازع للبقا یعنی زندگی کو قائم اور بر قرار رکھنے کی جد و جہد غالباً زندگی کا ابتدائی اور پہلا امتیازی نشان ہے جو اسے از قسم جمادات جملہ بے جان چیزوں سے ممیز و ممتاز کرنے والا ہے.یہ امتیازی نشان کار خانہ قدرت کا ایک نمایاں اور درخشندہ مظہر ہے.اس کا گناہ اور اس کی سزا کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق یا واسطہ ہے ہی نہیں.

Page 41

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 24 پھر یہ امر بھی غور طلب ہے کہ اگر یہ سب کچھ آدم اور حوا کے گناہ کی سزا کے طور پر ظہور میں آیا تھا تو انسان اس تحیر آمیز سوچ میں پڑے بغیر نہیں رہتا کہ کفارہ ادا ہونے کے بعد ہزاروں سال قبل مقرر کی جانے والی سزا کا کیا بنا؟ اگر مسیح نے گناہگار انسانوں کا کفارہ ادا کر دیا تھا تو کیا وہ سزا جو گناہ کی پاداش کے طور پر مقرر کی گئی تھی مسیح کے صلیب پانے کے بعد موقوف کر دی گئی ؟ جو لوگ مسیح کے خدا کا بیٹا ہونے پر ایمان لے آئے تھے ان میں سے جو عورتیں تھیں کیا انہوں نے دردوں کی تکلیف میں سے گزرے بغیر ہی بچے جننے شروع کر دیئے تھے ؟ اور اسی طرح کیا ایمان لانے والے مردوں کے لئے یہ ممکن ہوا کہ وہ جسمانی مشقت اٹھائے بغیر روزی حاصل کر سکیں؟ کیا مستقبل میں آنے والی نسلوں میں گناہ کی طرف میلان کا سلسلہ بند ہوا؟ اور ماؤں کے ہاں واقعی منزه عن الخطا معصوم بچے پیدا ہونے لگے ؟ اگر ان تمام سوالوں کا جواب اثبات میں دینا ممکن ہے تو پھر یقینا اس امر کا کچھ نہ کچھ جواز ضرور مہیا ہو جاتا ہے کہ گناہ اور کفارہ کی مسیحی فلاسفی پر سنجیدگی سے غور کیا جائے لیکن کیا کیا جائے ان سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ نہیں نہیں اور بالکل نہیں.اگر مسیح کے مصلوب ہونے کے بعد عیسائی دنیا اور غیر عیسائی دنیا دونوں کے ہاں اس نوعیت کی کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی پھر کفارہ ادا ہونے کا مطلب کیا ہوا؟ مسیح کے مصلوب ہونے کے بعد بھی عقل عمومی روئے زمین کے تمام انسانوں کی یہی رہنمائی کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی سزا بھی اسی شخص کو ملے گی کسی اور کو ہر گز نہیں.ضروری ہے کہ ہر شخص اور ہر عورت الغرض سب اپنے اپنے گناہوں کے نتائج خود بھگتیں.بچے ہمیشہ ہی معصوم پیدا ہوتے ہیں.اگر یہ سچ نہیں تو خدا کی صفت عدل رغت ربو د ہوئے بغیر نہیں رہتی.ہم مسلمان ہونے کی حیثیت میں اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ تمام آسمانی کتابیں ازلی صداقتوں پر مبنی ہوتی ہیں.کوئی بھی اس کے بر خلاف دعوی نہیں کر سکتا.کسی ایسی کتاب میں جس کے متعلق اس کے ماننے والوں کا دعوی یہ ہو کہ وہ خدا کی طرف سے نازل شدہ ہے جب ہمیں خامیاں یا متضاد باتیں نظر آتی ہیں تو ہم اس بارہ میں یہ رویہ اختیار نہیں کرتے کہ اسے منجانب اللہ نازل شدہ تسلیم نہ کرتے ہوئے یکسر مستر د کر دیں.ہم محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے ہمدردانہ غور و فکر سے کام لیتے ہیں.عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید کی بہت سی باتیں اور بیانات ہمیں نیچر کی ثابت شدہ حقیقتوں سے متصادم نظر آتے ہیں تو ہم ان کتابوں کو کلی مسترد نہیں کرتے.اول تو ہم بعض پیچیدہ و مہم عبارتوں نیز تمثیلوں اور استعاروں پر مبنی پیغامات میں طور پر

Page 42

25 گناہ اور کفارہ نظر آنے والے تضادات کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اگر تضادات کے دور ہونے کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو ہم متن کے ایک حصہ کو انسانی دست برد کا نتیجہ سمجھ کر رد کر دیتے ہیں.ابتداء عیسائیت فی ذاتہ صداقت کی آئینہ دار تھی.یہ منجانب اللہ ہونے کی وجہ سے خلاف عقل باتوں ، نا قابل قبول حقائق یا نیچر کو جھٹلانے والے عقائد پر مشتمل نہیں ہو سکتی تھی.یہی وجہ ہے ہم نے بائبل کے متن پر بحث کی بجائے ان بنیادی اعتقادات سے گفتگو کا آغاز کیا ہے جنہیں کئی صدیوں کے سوچ بچار کے دوران مسیحی فلاسفی کے متفق علیہ اجزائے ترکیبی کا درجہ حاصل ہو چکا ہے.ان میں سے بنیادی اہمیت رکھنے والا ابتدائی مسئلہ گناہ اور کفارہ کی بابت مسیحی تفہیم سے تعلق رکھتا ہے.مجھے یقین ہے کہ مسیحی تاریخ کے کسی نہ کسی دور میں، کہیں نہ کہیں کسی نے بعض باتوں کو غلط نقطۂ نظر سے دیکھا اور انہیں سمجھنے میں اس نے لغزش کھائی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے اپنے علم اور سمجھ کے مطابق انہیں غلط معانی پہنا کر ان کی بالکل نئی توجیہات پیش کرنے کی کوشش کی اور اس طرح وہ بعد میں آنے والی نسلوں کو گمراہ کرنے کا موجب بنا.ورثہ میں ملنے والا گناہ بحث و تمحیص جانچنے اور پر کھنے کی خاطر ہم فرض کر لیتے ہیں کہ عہد نامہ قدیم کے رو سے آدم اور حوا گناہ کے مرتکب ہوئے اور اس کی انہیں پوری پوری سزادی گئی جیسا کہ بائبل میں مذکور ہے سزا ان دونوں کو ہی نہیں دی گئی بلکہ مقررہ حد سے تجاوز کر کے بعد میں آنے والی پوری کی پوری نسل آدم کو سزا کا مستوجب ٹھہرایا گیا.سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب قرار واقعی سزا کا نفاذ عمل میں آگیا تھا تو پھر سزا کو مزید بڑھانے اور طول دینے کی سرے سے ضرورت ہی کیوں محسوس کی گئی.جب کسی گناہ کی سزا دے دی جاتی ہے تو باز پرس، جواب طلبی اور سزا دہی کا معاملہ اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے.جب فیصلہ سنا کر سزا کا اعلان کر دیا جاتا ہے تو کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اعلان کردہ سزا میں مزید سزاؤں کا اضافہ کرتا چلا جائے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آدم و حوا کے معاملہ میں بات اتنی ہی نہیں ہے کہ انہیں سخت سرزنش کی گئی اور یہ کہ جو گناہ انہوں نے کیا تھا اس سے کہیں زیادہ انہیں سزادی گئی بلکہ اس سے بڑھ کر محل نظر بات یہ بھی ہے کہ ان کی تمام نسلوں کو گنہگار قرار دے کر انہیں جو سزا دی گئی اس کی نوعیت خود اپنی جگہ بے انتہا قابل اعتراض ہے.اس بارہ میں ہم پہلے ہی بہت کچھ لکھ چکے ہیں.سر دست ہم جس پہلو کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اس انتہائی قابل اعتراض سزا کی نوعیت حقیقی عدل کی ظالمانہ خلاف ورزی پر دلالت کرتی ہے.

Page 43

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 26 ہمارے آبا و اجداد کے گناہوں کی پاداش میں ہمیں مسلسل سزا ملتے چلے جانا ایک قابل اعتراض بات ہے لیکن کسی کو اس کے آباو اجداد کی غلطیوں کی وجہ سے اس مجبوری میں مبتلا کرنا کہ وہ مسلسل گناہوں کا ار تکاب کرتا چلا جائے محض قابل اعتراض ہی نہیں بلکہ بدیہی طور پر نا قابلِ نفرین بھی ہے.ہمیں انسانی تجربہ کی ٹھوس حقیقوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اس لئے ضروری ہے کہ ہم روز مرہ کے تجربہ کی رو سے جرم اور سزا کی مسیحی فلاسفی کو پرکھنے کی کوشش کریں.ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ایک مجرم کے خلاف فیصلہ سنایا جاتا ہے جو جرم کے تناسب سے کہیں بڑھ کر سختی اور شدت کا حامل ہے.ہر سمجھدار انسان ایسی حد سے بڑھی ہوئی سراسر غیر متوازن سزا کی مذمت کرے گا.اس واضح حقیقت کے پیش نظر ہمارے لئے یہ تسلیم کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ آدم کو جو سزاملی وہ ایک منصف خدا کی طرف سے دی گئی تھی.یہ تو ایک ایسی غیر محدود سزا تھی جو خدائی طرز عمل کے مسیحی تفہیم کے مطابق آدم اور حوا کے عرصۂ حیات سے بھی متجاوز ہو کر نسلاً بعد نسل آگے بڑھائی جاتی رہی یہاں تک کہ ابد الآباد تک پیدا ہونے والی تمام نسلوں پر محیط کر دی گئی.آباو اجداد کے گناہوں کی سزا بھگتے پر آنے والی نسلوں کو بھی مجبور کر نا عدل کی خلاف ورزی کو عدل کی آخری اور انتہائی حدود سے بھی ماورا ممتد کرتے چلے جانے کے مترادف ہے.ہم عدل کی ایسی بے مثال خلاف ورزی سے زیادہ اس کے نتیجہ میں رونما ہونے والی بد قسمتی کی آئینہ دار صورت حال کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں.اس صورت حال کو ذہن میں مستحضر رکھتے ہوئے ذرا تصور میں لائیے کہ موجودہ زمانہ کا ایک حج فیصلہ سناتا ہے کہ مجرم کے علاوہ اس کے بیٹوں، پوتوں پڑ پوتوں اور علی ہذا القیاس ان کے بعد آنے والی نسلوں کے تمام مردوں اور عورتوں کو از روئے قانون اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ تا ابد گناہوں اور جرائم کا ارتکاب کرتے اور اس کی سزائیں بھگتے چلے جائیں.تو سوچئے ہم عصر معاشرہ جو تہذیب و تمدن میں ترقی کے طفیل عدل و انصاف کے ایک عالمگیر تصور اور اس کے بھر پور شعور سے بہرہ ور ہو چکا ہے ایسے فیصلہ کے خلاف کس رد عمل کا اظہار کرے گا؟ قاری کو یہاں باور کروانا ضروری ہے کہ ورثہ میں گناہ کا ملنا پولوس کی گھڑت ہے.اس کو عہد نامہ قدیم کے ساتھ جوڑا نہیں جاسکتا کیونکہ اس تصور کے برعکس بہت سارا مواد عہد نامہ قدیم میں موجود ہے.پانچویں صدی عیسوی میں ہیپو (Hippo) کے بشپ آگسٹائن (Augustine) اور بلیکئن تحریک (Pelagian Movement) کے مابین زبر دست تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا.آگسٹائن نے اس تحریک کو ایک بدعتی تحریک قرار دے کر اس کی شدید مذمت کی.اس تحریک کے بانی اور اس کے پیروؤں کا کہنا یہ تھا کہ

Page 44

27 گناہ اور کفارہ آدم کا گناہ ایک شخص گناہ تھ اس گناہ کا اثر اس کی ذات تک محدود تھا.اس سے پوری نوع انسانی ہر گز متاثر نہیں ہوتی تھی.وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ہر شخص گناہ سے پاک پیدا ہوتا ہے اور ہر شخص کے اندر یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ اگر چاہے تو گناہ سے پاک زندگی بسر کر سکے اور ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے گناہ سے پاک زندگی بسر کی.اس تحریک کے تمام لوگوں کو بدعتی قرار دے کر اسے کچلنے کی پوری کوشش کی گئی.سو گویا انہوں نے دن کو رات قرار دے کر اسے ملامت کا سزاوار ٹھہر آیا اور رات ان کے نزد یک دن قرار پا کر قابل ستائش ٹھہری.بدعت حق قرار پائی اور حق کو بدعت کا درجہ دے دیا گیا.گناہوں کا آئندہ نسلوں میں منتقل ہونا اب ہم اس نظریہ کا دوبارہ جائزہ لیتے ہیں کہ خدا گناہگار کو سزا دیئے بغیر معاف نہیں کرتا کیونکہ سزا دیئے بغیر معاف کرنا اس کے کانٹے کی تول پر پورا اترنے والے جذبۂ عدل کے منافی ہے.انسان یہ دیکھ کر دل گرفتہ اور خوف زدہ ہوئے بغیر نہیں رہتا کہ صدیوں پر صدیاں گزرتی چلی آرہی ہیں اور مسیحیوں نے ایک ایسی بات کو اپنا جزو ایمان بنارکھا ہے جو یقینی اور حتمی طور پر انسانی فہم و ادراک سے بالا اور انسانی ضمیر سے یکسر مخالف و متضاد ہے.دنیا ہو یا آخرت ایسا عادل خدا کس طرح محض اس بنا پر ایک گناہگار کو بخش سکتا ہے کہ ایک بے گناہ اور معصوم انسان نے اس گناہگار کے گناہوں کی سزا کو بھگتنے کے لئے اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر پیش کر دیا ہے.جو نہی خدا ایسی رضا کارانہ پیشکش کو قبول کر کے اس بے گناہ و معصوم انسان کو سزا دینے پر آمادہ ہو گا وہ خود انصاف کے بنیادی اصولوں کو پامال کرنے والا بن جائے گا.یہ ایک عام فہم بات ہے اور ہے بھی عین قرین انصاف کہ ایک گناہ گار کو ہی اس کے اپنے گناہوں کی سزاملنی چاہیے اور سزا خود گنہگار کو بھگتنی چاہیے نہ کہ اس کی بجائے ایک بے گناہ اور معصوم کو.اگر سزا کو گنہگار کی بجائے کسی بے گناہ کی طرف منتقل کر دیا جائے تو بے شمار پیچیدہ مسائل اور الجھنیں اٹھ کھڑی ہوں گی.مسیحی دینیات کے ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ سزا کی اس منتقلی سے انصاف کے کسی اصول کی خلاف ورزی اس لئے لازم نہیں آتی کہ بے گناہ انسان پر کسی گنہ گار شخص کی سز از بردستی ٹھونسی نہیں جارہی ہے بلکہ وہ معصوم رضا کارانہ طور پر از خود اسے قبول کر رہا ہے.وہ کہتے ہیں یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے.اس کی مثالیں دنیا میں بھی عام دیکھنے میں آتی ہوں.یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص پر اتنا قرض چڑھا ہوا ہے کہ اسے ادا کرنا اس کے بس میں نہیں ہے.فلاحی کاموں میں پیش پیش رہنے والا ایک خدا ترس انسان فیصلہ کرتا ہے کہ وہ

Page 45

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 28 اس کا تمام قرضہ ادا کر کے اسے قرض کے بوجھ سے نجات دلا دے.اب بتائیے اس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے ؟ ہمارا جواب یہ ہے کہ اگر بات اتنی ہی ہو تو ہم ہمدردی، فراخدلی اور سخاوت کے ایسے کام کی یقیناً داد دیں گے.لیکن اگر ایک آدمی آپ کے سامنے یہ سوال کرتا ہے کہ کسی شخص نے لاکھوں کروڑوں پاؤنڈ کا قرضہ ادا کرنا ہے اور وہ سرے سے اس قابل نہیں ہے کہ اس کی ادائیگی کر سکے.فلاحی کام کرنے والے ایک صاحب تشریف لاتے ہیں اور کمال ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک بینی کا سکہ نکالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ از راہ مہربانی پیش کی جانے والی اس پینی کے عوض اس مقروض کو اس کے بھاری بھر کم قرضہ کی ادائیگی سے بری الذمہ قرار دیا جائے.اپنے مذکورہ بالا جواب کی روشنی میں اب فرمائیے اس پیشکش پر آپ کا رد عمل کیا ہو گا؟ اگر دیکھا جائے تو مسیح کا تمام بنی نوع انسان کے گناہوں کی مجموعی سزا کو بھگتنے کے لئے اپنے اکیلے وجود کو پیش کرنا کروڑوں پاؤنڈ کا قرضہ بے باق کرنے کے لئے محض ایک پینی پیش کرنے سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے.کہاں تمام کے تمام بنی نوع انسان کے بے حد و بے حساب گناہوں کا کفارہ اور کہاں ان سب کے عوض ایک اکیلے انسان یعنی تن تنہا فرد واحد کا اپنی جان کا نذرانہ ! فلک بوس و ہیبت ناک سلسلہ ہائے کوہ اور رائی کے ایک ننھے سے دانہ کے درمیان کبھی کسی تناسب و توازن کا سوال پیدا ہو سکتا ہے؟ یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہاں کسی مقروض یا ایک نسل کے مقروضوں کی بات نہیں ہو رہی بلکہ بات ہو رہی ہے ان کھرب باکھرب، پدم با پدم قرضہ نادہندگان کی جو ابتدائے آفرینش سے پیدا ہو ہو کر راہی ملک عدم ہوتے چلے جارہے ہیں اور پھر بات ہو رہی ہے ان نادہندگان کی جنہوں نے ابھی قیامت تک پیدا ہونا اور ہوتے چلے جانا ہے.کوئی اندازہ لگا سکتا ہے اللہ کی اس مخلوق نا پیدا کنار ہے.حقیقت یہ ہے کہ در پیش مسئلہ اپنی بے انداز گہرائی و گیرائی کی وجہ سے ایسا نہیں ہے کہ جس پر ایک نادار د نادہند مقروض اور ایثار کا مظاہرہ کرنے والے ایک ہمدرد مالدار کی بے حیثیت مثال صادق آسکے.جرم و سزا کے زیر غور معاملہ میں مسیحی عالموں کا ایک ایسے نادار مقروض کی مثال پیش کرنا جو قرضہ ادا کرنے کے قابل نہیں ہے بہت سادہ لوحی کا مظاہرہ کرنے کے مترادف ہے.سادگی کی آئینہ دار ایسی بے جوڑ مثال شاید ہی پہلے کبھی پیش کی گئی ہو.جس صورت حال کا یا منظر نامہ کی ایک بے جوڑ مثال کے ذریعہ وضاحت کی گئی ہے وہ اس امر کی متقاضی ہے کہ ہم جرم و سزا کے بعض دوسرے پہلوؤں کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے ابھی اپنی توجہ کو مزید کچھ وقت نادہند مقروض والی مثال پر مرکوز رکھیں.

Page 46

29 گناہ اور کفارہ آئیے ہم ذرا غور کریں قرضے اور اس کی واپسی کے ایک مفروضہ پر.فرض کیجیے ایک مقروض نے جس کا نام الف ہے ایک ب نامی شخص کے ایک لاکھ پونڈ دینے ہیں.اگر عوامی فلاح کے کاموں میں حصہ لینے کا ایک خواہش مند مالدار شخص جس کے ہوش و حواس درست ہیں اور جو واقعی اس مقروض کو قرض کے بوجھ سے نجات دلانے میں سنجیدہ ہے تو ہر جگہ کے مروجہ قانون اور عام دستور کا تقاضا یہ ہے کہ ب نے جور قم الف سے لینی ہے وہ مالدار شخص پوری کی پوری وہ رقم ب کو اپنے پاس سے ادا کر دے.فرض کیجئے غریبوں اور ناداروں کا وہ بہی خواہ کو قرضہ کی پوری رقم دینے کی بجائے آگے آکر کہتا ہے الف نے ب کو قرضہ کی جو رقم ادا کرنی ہے اس کے بوجھ سے الف کو تو سبکدوش کر دیا جائے لیکن اس کے عوض مجھ سے اتنی ہی رقم کا مطالبہ کرنے کی بجائے مجھے مارنے پیٹنے کی شکل میں کچھ جسمانی سزا دے دی جائے یازیادہ سے زیادہ مجھے تین دن رات کے لئے قید خانہ میں ڈال دیا جائے.یہ تو ہے ایک فرضی قصہ لیکن اگر ایسا واقعہ حقیقتاً اس دنیا میں پیش آہی جائے تو کیا حیرت زدہ حج اور بھونچکا ہو جانے والے غریب قرض خواہ ب کی حالت دیکھنے والی نہ ہو گی لیکن غریبوں کے جس بہی خواہ اور ہمدرد کا قصہ ہم بیان کر رہے ہیں اس کی گزارش ابھی مکمل نہیں ہوئی.وہ مزید مطالبہ پیش کرتے ہوئے کہتا ہے اے میرے آقا! اپنی اس قربانی کے عوض میں یہی کچھ نہیں مانگنا چاہتا بلکہ میری گزارش یہ بھی ہے کہ اے آقا! تیری مملکت میں جتنے بھی مقروض موجود ہیں یا آئندہ آخری زمانہ تک مزید پیدا ہونے ہیں ان سب کو میری تین دن رات کی دکھ تکلیف کے عوض قرضوں کی ادائیگی سے بری الذمہ قرار دے دے.کیسا انوکھا مطالبہ ہے! اسے سن کر دماغ گھوم نہ جائے تو اور کیا ہو.گناہ اور کفارہ کی مسیحی تفہیم پر یہ سارا معاملہ ہو بہو صادق آتا ہے.اس پر غور کر کے جی چاہتا ہے کہ مسیحیوں کے عادل اور منصف خدا سے عرض کیا جائے کہ جن لوگوں کو ان کی محنت کے ثمرات سے محروم کر دیا گیا تھا اور جن سے ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی چھین لی گئی تھی انہیں پورا نہ سہی کچھ نہ کچھ معاوضہ تو ملنا چاہیے تھا.لیکن معمولاً ایسا ہوتا ہے کہ مسیحی خدا ان معصوموں کے مقابلہ میں جو مجرموں کے ہاتھوں دُکھ اٹھاتے اور صدمے سہتے ہیں الٹا مجرموں پر زیادہ مہربان اور رحم کرنے والا ہے.بلاشبہ یہ بہت ہی عجیب و غریب تصور ہے عدل کا جس کے نتیجہ میں ڈاکوؤں، بچوں سے نارواسلوک کرنے والوں، معصوموں کو اذیتیں دینے والوں اور انسانیت کے خلاف ہر قسم کے وحشیانہ جرائم کا ارتکاب

Page 47

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 30 کرنے والوں کو معافی دے دی جاتی ہے بشر طیکہ وہ مرتے وقت زندگی کے آخری لمحوں میں یسوع مسیح پر ایمان لے آئیں.انہوں نے جن انسانوں کو بے انداز ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اس کا حساب چکانے کا کوئی ذکر نہیں.نسل در نسل جاری رہنے والے زندگی بھر کے وحشیانہ جرائم اور خطاؤں سے انہیں پاک وصاف اور مظہر بنانے کے لئے مسیح کے دوزخ میں گزارے ہوئے چند لمحے کافی سمجھ لئے گئے.سزایابی کے سلسلہ کا جاری رہنا آیئے اب ہم ایک اور جرم اور اس کی نہایت خطرناک نوعیت پر غور کریں.یہ جرم ایسی خطرناک نوعیت کا ہے کہ جس کے نتائج و عواقب کے بارہ میں انسانی فطرت یہ تسلیم ہی نہیں کر سکتی کہ وہ آگے بھی منتقل ہو سکتے ہیں.مثال کے طور پر ایک شخص بڑی بے دردی سے ایک بچہ کے ساتھ زیادتی کرتا ہے.وہ اس کے ساتھ بد فعلی کا مرتکب ہوتا ہے اور پھر اسے قتل کر ڈالتا ہے.یقینا یہ ایسا مکر وہ اور بھیانک جرم ہے جس سے انسانی احساسات و جذبات کو ناقابل برداشت صدمہ اور اذیت پہنچے گی.فرض کر لیں کہ ایک ایسا بد کردار اور سفاک شخص ہر طرف اس سے بھی بڑھ کر قبیح جرائم کے ارتکاب سے لوگوں کو اذیتیں پہنچاتا پھر تا ہے.وہ پکڑا نہیں جاتا اور اس طرح از روئے عدل اس کے کیفر کردار کو پہنچنے کی نوبت نہیں آتی.وہ انسانی ہاتھوں سے سزا پائے بغیر اس دنیا میں زندگی گزار کر اس کے اختتام کے قریب پہنچ جاتا ہے.وہ جزا سزا کے دن کی جواب دہی اور مہیب تر سزا سے بچ نکلنے کا تہیہ کرتے ہوئے زندگی کے آخری لمحوں میں مسیح کے نجات دہندہ ہونے پر ایمان لے آتا ہے.کیا آخری لمحات میں ایمان لے آنے سے اس کے تمام گناہ یکدم کالعدم ہو کر رہ جائیں گے ؟ کیا اسے آزاد چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ ایک نوزائیدہ بچہ کی طرح گناہوں سے یکسر مبرا ہونے کی حالت میں بڑی سہولت اور آرام سے اگلے جہان کی طرف رحلت کر جائے؟ اس طرح تو ایسا شخص جو مسیح پر ایمان لانے کو موت کا وقت آنے تک ٹالتا چلا جاتا ہے اس شخص کی نسبت زیادہ سمجھ دار اور عقل مند ثابت ہو گا جو زندگی کے اوائل حصہ میں ہی ایمان لے آتا ہے.ایمان لانے میں جلدی کرنے والے کے لئے یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ایمان لانے کے بعد کہیں شیطان کی خفیہ ترغیبات کے جال میں پھنس کر گناہوں کا ارتکاب نہ کرنے لگے.بائیں صورت حال انسانوں کو یہ ترغیب ملتی ہے کہ کیوں نہ ہم موت کا وقت قریب آنے تک رکے رہیں اور اس طرح شیطان کو یہ موقع ہی نہ دیں کہ وہ ہمارے ایمان پر ڈاکہ ڈال کر اسے لوٹ لے.وہ سوچ سکتے ہیں کہ یہ کیا ہی ستا سودا ہے کہ اس دنیا میں عیش و آرام

Page 48

31 گناہ اور کفارہ کی زندگی گزار و اور اس کے باوجو د آخر وقت میں ایمان لا کر اگلے جہان میں نجات یافتہ کے طور پر دوبارہ جنم لے لو.کیا یہی ہے حکیمانہ عدل کی وہ صفت جسے مسیحی صاحبان خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں ؟ عدل کا ایسا تصور بلکہ ایسا خد اخود خدا ہی کے پیدا کر دہ انسانی ضمیر کے لئے یکسر نا قابل قبول ہے یا پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ افسوس ! خود خدا نے انسانی ضمیر کو صحیح اور غلط یا نیکی اور بدی میں تمیز کی اہلیت سے عاری بنایا ہے.اس سارے معاملہ کا انسانی فہم و ادراک کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو انسان محسوس کرتا ہے کہ اسے ایسی مسیحی فلاسفی کو بے معنی اور بے اصل قرار دے کر مسترد کرنے کا پورا حق حاصل ہے.حقیقت یہی ہے کہ گناہ اور کفارہ کی اس فلاسفی کی نہ کوئی حقیقت ہے اور نہ کوئی ٹھوس بنیاد.انسانی تجربہ ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ دوسروں کے ہاتھوں دکھ اور تکلیف اٹھانے اور مصائب جھیلنے والے مظلوموں کا ہمیشہ سے خصوصی استحقاق چلا آرہا ہے کہ مواخذہ کے وقت اگر چاہیں تو ظلم ڈھانے والوں کو معاف کر دیں اور ایسا نہ کرنا چاہیں تو معاف نہ کریں.بعض مواقع پر حکومتیں قومی خوشی کے طور پر جشن مناتی ہیں.ایسے مواقع پر یا اس سے ملتی جلتی بعض اور وجوہات کی بنا پر وہ بلا تفریق و امتیاز مجرموں کے لئے عام معافی کا اعلان کیا کرتی ہیں.ایسا خصوصی حالات کی وجہ سے کیا جاتا ہے لیکن ایسے خصوصی حالات خود اپنی ذات میں اس امر کا جواز مہیا نہیں کرتے کہ ان لوگوں سے جو بے گناہ شہریوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے اور دائمی مصائب میں مبتلا کرنے کا موجب بنتے ہیں ان سے باز پرس نہ کی جائے اور انہیں معاف کر دیا جایا کرے.یہ بات فراموش یا نظر انداز کرنے والی نہیں ہے کہ بعض مخصوص حالات میں حکومتوں کا بلا تفریق و امتیاز سب مجرموں کے لئے معافی کا اعلان کرنا کسی نہ کسی معیار کی رو سے جائز قرار پاتا ہے.خود مسیحی علما حکومتوں کے ایسے اعلانوں کو انصاف کے تقاضوں کے منافی نہیں سمجھتے تو پھر ایسا ہی حسن ظن وہ خدا کے متعلق روا ر کھنے کے کیوں قائل نہیں ہیں.اور اس کے اس اختیار کو کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ اگر وہ چاہے تو خطا کاروں کو معاف بھی کر سکتا ہے.بہر حال وہ تو سب حاکموں سے بڑا حاکم اور ہر شے کا خالق و مالک ہے.اگر وہ کسی کا ایسا جرم معاف کر دیتا ہے جو اس نے اپنے ساتھیوں کے خلاف کیا ہو تو اس آقاؤں کے آقا اور سب مالکوں کے مالک کو یہ غیر محدود قوت و قدرت بھی حاصل ہے کہ جنہیں دکھ دیا گیا ہے ان کے ساتھ ایسے جو دوسخا کا سلوک کرے اور ایسے رنگ میں انہیں اپنے فضلوں سے نوازے کہ اس کے فیصلہ سے وہ بھی پوری طرح مطمئن ہو جائیں.اندریں حالات اس امر کی کہاں ضرورت باقی رہتی ہے کہ وہ اپنے معصوم ” بیٹے کو قربان

Page 49

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 32 کرے.یہ تو بذات خود انصاف کا مذاق اڑانے والی بات ہے.ہم خدائی صفات کے پر تو کے زیر اثر انہی کی ہم رنگ یا ملتی جلتی صفات کے ساتھ پیدا کئے گئے ہیں.خود مسیحیوں کے عقیدہ کی رو سے بھی خدا نے یہی بتایا ہے اور بائبل میں اس امر کا ہی اعلان کیا ہے.چنانچہ بائبل میں آتا ہے: ” پھر خدا نے کہا ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں گے “ اور اسی تعلق میں خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ( پیدائش باب اول آیت 26) (الروم:31) تو اللہ کی پیدا کی ہوئی فطرت کو اختیار کر.(وہ فطرت) جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے.یہ عقیدہ جو عیسائیوں اور مسلمانوں میں مشترک ہے بتاتا ہے کہ انسانی ضمیر کسی بھی موقع پر خدائی فعل کو اپنے اندر منعکس کرنے والا بہترین آئینہ ہے.یہ ہمارے روز مرہ کے تجربہ کا ایک حصہ ہے کہ بہت دفعہ ہم انصاف کے تقاضے میں خفیف سا رخنہ ڈالے بغیر قصور واروں کو معاف کر دیا کرتے ہیں.اگر ذاتی طور پر ہمیں دکھ پہنچایا گیا ہے تو ایسے جرم میں جو ہمارے خلاف روار کھا گیا ہے ہم معاف کرنے میں جتنا چاہیں آگے بڑھ سکتے ہیں اور اپنے معاف کرنے کے جذبہ کو اونچے سے اونچے معیار تک لے جاسکتے ہیں.اگر کوئی بچہ اپنے ماں باپ کی نافرمانی کر کے یا گھر کی بعض قیمتی چیزیں خراب کر کے یا اپنی بعض حرکتوں سے ان کے لئے بدنامی کا موجب بن کر انہیں دکھ پہنچاتا ہے تو وہ ان کی نگاہ میں خطا کار اور ان کا قصور وار ہو تا ہے.اس کے والدین چاہیں تو وہ اسے معاف کر سکتے ہیں.اور جب وہ معاف کر دیتے ہیں تو ایسا کرنے میں وہ اپنے ضمیر میں کوئی کھٹک محسوس نہیں کرتے اور نہ ان کا ضمیر انہیں ملامت کرتا ہے کہ انہوں نے کسی لحاظ سے بھی انصاف کے تقاضے کی خلاف ورزی کی ہے.برخلاف اس کے اگر ان کا بچہ کسی ایسی چیز کو توڑ پھوڑ کر تباہ کر دیتا ہے جو ان کے پڑوسی کی ملکیت ہے یاوہ کسی اور شخص کے بچہ کو زخمی کر دیتا ہے تو وہ اپنے بیٹے کے اس فعل کو جس کی رو سے وہ دوسروں کو دکھ پہنچانے کا موجب ہوا ہے خود کیسے معاف کر سکتے ہیں.اگر وہ ایسا کریں تو ان کا ضمیر خود ان کے اس فعل کو نا انصافی قرار دے گا.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جرم اور سزا کے درمیان پائے جانے والے تعلق یارشتہ کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے.ان دونوں کے درمیان پائے جانے والے تعلق کی نوعیت علت اور معلول کے باہمی تعلق کے عین

Page 50

33 گناہ اور کفارہ مطابق ہوتی ہے.ضروری ہوتا ہے کہ دونوں کے مابین کسی نہ کسی حد تک توازن و تناسب موجو د ہو.جرم اور سزا میں توازن و تناسب کے پہلو کو ہم قبل ازیں بھی خاصی تفصیل سے بیان کر چکے ہیں.اگر چہ ہم نے مالی قرضوں سے متعلق کی جانے والی بے ضابطگیوں کے ضمن میں اس پہلو پر روشنی ڈالی تھی لیکن تناسب و توازن کی دلیل ایک ایسی محکم دلیل ہے جو دوسرے جرائم مثلاً بے گناہ شہریوں کو زخمی یا اپانچ کرنا یا انہیں قتل کرنا یا کسی لحاظ سے بھی انہیں بے عزت کرنا وغیرہ جرائم پر اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ اطلاق پاتی ہے.جرم جتنازیادہ شدید نوعیت کا ہو گا متوقع سزا کی نوعیت اور شدت بھی اسی کے مطابق ہو گی.جرم وسزا کے ایک پہلو کا تعلق معافی سے بھی ہے.میں اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ خدا اگر چاہے تو انسانوں کو تمام خطائیں معاف کر سکتا ہے.اس پہلو سے اگر دیکھا جائے تو ایک بے گناہ اور سراسر معصوم انسان کو سزا دینے کے ذریعہ جملہ بنی نوع انسان کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہو تا.تاہم اگر اس پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک مجرم کی سزا کو کسی دوسرے معصوم انسان کی طرف منتقل کرنا مقصود ہو اور سزا کے انتقال کے لئے اس امر کو بنیاد بنایا گیا ہو کہ اس معصوم نے رضاکارانہ طور پر اس سزا کو قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے تو یقیناً ایسی صورت میں انصاف کا تقاضایہ ہو گا کہ سزا میں تخفیف کیسے یا اس میں معمولی سی بھی نرمی پیدا کیے بغیر پوری کی پوری سزا کو اس دوسرے شخص کی طرف منتقل کیا جائے.اس بارہ میں بھی ہم پہلے ہی بہت کچھ روشنی ڈال چکے ہیں.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسیحی حضرات اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ”باپ خدا“ نے اپنے بیٹے " مسیح کے معاملہ میں انصاف کے تقاضے کو بھر پور انداز میں پورا کیا؟.اگر پورا کیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیائے عیسائیت کے وہ تمام مجرم جو مسیح کے وقت میں پیدا ہوئے اور وہ تمام مجرم بھی جو بعد کے زمانوں میں پیدا ہوئے اور جو جزا سزا کے دن تک پیدا ہوتے چلے جائیں گے ان سب کو جو سزاملنی چاہیے تھی اسے مجتمع اور مر تکز کر کے اس میں جہنم کی سی شدت کو اس درجہ تک پہنچا دیا گیا تھا کہ مسیح کو محض تین دن رات جو اذیت اٹھانا پڑی اس میں ان تمام سزاؤں کی تعذیب بھی سموئی ہوئی تھی جس کے تمام کے تمام مذکورہ بالا گناہگار سزاوار تھے.اگر واقعہ ایسا ہی ہوا تو پھر کسی عیسائی حکومت کو نہیں چاہیے کہ وہ کسی عیسائی کو کسی بھی جرم کی کوئی سزادے کیونکہ کفارہ کی ادائیگی کے باوجود سزا دینا انتہائی نا انصافی کے مترادف ہو گا.تمام قانونی عدالتوں کو معاملہ کی تہہ تک پہنچنے نیز جرم اور مجرم کی نشاندہی اور تصدیق کرنے کے بعد فیصلہ یہ

Page 51

میسحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 34 دینا چاہیے کہ مجرم کا فرض ہے کہ وہ اپنی نجات اور مخلصی کے لئے ”خدا کے بیٹے یعنی خداوند یسوع مسیح سے دعا کرے.اس کے بعد مقدمہ ختم کر کے معاملہ کو وہیں ٹھپ کر دینا چاہیے.عدالت گستری کا سارا کام ایک کھانہ کے مندرجات کو دوسرے کھانہ میں منتقل کرنے تک محدود قرار دینا چاہیے.اس لحاظ سے مجرم کے کھاتے میں سے اس کی سزا کا حساب کتاب مسیح کے کھاتے میں منتقل ہو جائے گا.آیئے ہم بات واضح کرنے کی خاطر اپنی توجہ کو کچھ وقت کے لئے ریاست متحدہ امریکہ پر مرکوز کریں.وہاں جرائم کی جو صورت حال ہے اسے ذرا ذہن میں لائیں.راہ گیروں کو زدو کوب کرنے انہیں لوٹنے اور قتل کرنے واقعات اس درجہ عام ہیں کہ روزانہ ہی اس کثرت سے رونما ہو رہے ہوتے ہیں کہ انہیں شمار کرنا بھی ممکن نہیں ہے.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے نیویارک میں ریڈیو کا بٹن گھمایا، سوئی ایک ایسے سٹیشن پر جانکی جو لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے واقعات نشر کرنے کے لئے وقف تھا.ان نشریات کو سننا انتہائی دہشت ناک تجربہ سے کسی طرح کم نہ تھا.اچانک پیش آنے والا یہ تجربہ اتنادر دناک اور تکلیف دہ تھا کہ میں اسے آدھ گھنٹہ سے زیادہ برداشت نہ کر سکا.اس کے بعد مزید کچھ سننا میرے لئے ممکن نہ تھا.امریکہ میں قریباً ہر پانچ منٹ کے بعد ایک قتل ہو رہا تھا.اور پے درپے ہونے والے قتل کے ان واقعات کی خبریں مسلسل نشر ہو رہی تھیں.بعض رپورٹر تو جو قتل کے واقعات کو خود مشاہدہ کر رہے ہوتے تھے بہت ہی دہشت ناک رپورٹنگ کر رہے ہوتے تھے.ہمارا یہ ارادہ نہیں ہے کہ ہم امریکہ میں کیسے جانے والے جرائم کا منظر کشی کے رنگ میں تفصیلی نقشہ یہاں پیش کریں.کون نہیں جانتا کہ جو ممالک جرائم کی بھر مار کے لئے مشہور ہیں امریکہ ان میں سر فہرست ہے.خاص طور پر بڑے شہروں جیسے شکاگو، نیو یارک، واشنگٹن وغیرہ میں جرائم کی کوئی انتہا نہیں.ان میں سے بالخصوص نیو یارک میں راہ گیروں کو زدو کوب کر کے لوٹنے کے واقعات بہت ہی عام ہیں.جو بے گناہ شہری لٹیروں کا مقابلہ کرنے کی جرات کرتے ہیں ان کے ہاتھ پاؤں توڑ کر انہیں اپانج کر دینے کے واقعات کی بھی کمی نہیں.روز مرہ کے واقعات پر یکجائی نظر ڈالی جائے تو معمولی فائدہ کی خاطر انسانوں کے اعضا کاٹ پھینکنے اور بے گناہوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتار دینے کی بہت مکروہ اور گھناؤنی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے.آج کل کی دنیا میں جرائم کے بڑھتے ہوئے رجحان سے صرف نظر کرتے ہوئے اکیلے امریکہ میں ہی جرائم کی صورت حال کی وجہ سے انسان حیران و پریشان اور ششدر ہوئے بغیر نہیں رہتا.یہ پریشانی اور

Page 52

35 گناہ اور کفارہ حیرانی لاحق ہوتی ہے اس تعلق کی بنا پر جو ایک طرف گناہ اور کفارہ“ کے مسیحی تصور نیز دوسری طرف روزانہ بکثرت سرزد ہونے والے گناہوں کے مابین پایا جاتا ہے.اہل امریکہ عملی طور پر مسیحی اقدار سے کتنے ہی دور کیوں نہ ہو چکے ہوں یہ بات ماننی پڑتی ہے کہ وہ تمام تر گناہوں میں ملوث ہونے کے باوجود گناہ اور کفارہ “ کے مسیحی عقیدہ پر زبانی کلامی ہی سہی ایمان ضرور رکھتے ہیں.اور اب بھی عقیدہ ان کا یہی ہے کہ مسیح ان کا نجات دہندہ ہے.لیکن افسوس صد افسوس! یہ اور ان کے دوسرے عقائد ان کے کسی کام نہ آسکے.امریکہ میں جرائم کا بے محابہ ارتکاب کرنے والوں کی اکثریت ایسے ہی نام نہاد عیسائیوں پر مشتمل ہے.یہ صحیح ہے کہ مسلمان اور دوسرے لوگ بھی جرائم سے یکسر مبرا نہیں ہیں لیکن ان کا معاملہ دوسرا ہے کیونکہ وہ کفارہ پر ایمان ہی نہیں رکھتے.سوال یہ ہے کہ ایسے مجرم جو مسیحی ہیں اور مسیح کی رضا کارانہ قربانی پر ایمان رکھتے ہیں کیا ان سب کو خدا کی طرف سے معافی مل جائے گی ؟ اگر مل جائے گی تو ملے گی کس طرح؟ ظاہر ہے مسیحی مجرموں میں سے ایک بڑی تعداد ایسے مجرموں کی ہو گی جو انجام کار اسی دنیا میں پکڑے جائیں گے اور ملکی قانون کے تحت سزا پا کر کیفر کردار کو پہنچ جائیں گے.بہت سے لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اس دنیا میں قانون کی گرفت میں آنے سے بچ جائیں گے یا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ سالہا سال تک وہ جو گناہ کرتے رہے تھے انہیں ان میں سے صرف بعض گناہوں کی سزا مل جائے اور باقی گناہوں کی سزا سے وہ بیچ رہیں.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح کی رضا کارانہ قربانی کے باوجود کلی یا جزوی سزا تو انہیں اسی دنیا میں مل گئی.حل طلب بات یہ ہے کہ جو مسیحی مجرم ملکی قانون کے تحت سزا پالیتے ہیں مسیحیت ان کے لئے موعودہ معافی کی تلافی کس طرح کرے گی ؟ نیز جو مجرم اسی دنیا میں قانون کی گرفت میں آنے سے بچ جاتے ہیں مسیحیت انہیں مزید معافی کے کس وعدے سے نوازے گی ؟ اس تعلق میں ایک معمہ اور بھی سامنے آتا ہے اور وہ معمہ ایک غیر متعین، غیر واضح اور مبہم صورت حال کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.وہ صورت حال یہ ہے کہ مثال کے طور پر ایک مسیحی شخص ایک بے قصور غیر مسیحی کے خلاف جرم کا ارتکاب کرتا ہے.اس میں شک نہیں کہ مسیحی اعتقاد کی رو سے اس مسیحی مجرم کو تو مسیح پر ایمان رکھنے کے انعام کے طور پر معاف کر دیا جائے گا اور اس کی سزا مسیح کے کھاتہ میں منتقل ہو کر وہاں محسوب ہو جائے گی لیکن اس بے چارے غیر مسیحی مظلوم کے نفع و نقصان کی صورت کیا بنے گی ؟ اگر دیکھا جائے تو بیچارا مسیح خود اور ظلم کا شکار ہونے والا وہ بے چارہ غیر مسیحی دونوں ہی گھاٹے میں رہیں گے.

Page 53

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 36 دونوں ہی کو ایسے جرم کی سزا بھگتنا پڑے گی جو انہوں نے کیا ہی نہیں.اگر ہم ان تمام مختلف النوع گناہوں کی کثرت کو تصور میں لانے کی کوشش کریں جو میسحیت کے آغاز سے لے کر کرہ ارضی پر حیات انسانی کے انجام و اختتام تک کے زمانہ میں بنی نوع انسان سے آج تک سرزد ہوئے ہیں اور آئندہ سرزد ہوتے چلے جائیں گے تو بے انداز و بے حساب گناہوں کے غیر مختم سلسلہ ہائے دراز کی نا پیدا کنار کیفیت سے انسانی دماغ چکرا کر رہ جاتا ہے.کیا گناہوں کے یہ تمام طول و طویل سلسلے مسیح کے کھاتہ میں منتقل کر اس بے چارے کے نام محسوب کر دیئے گئے ہیں؟ کیا گناہوں کے یہ سب انبار کوزہ میں دریا کی طرح ان تین دن اور تین راتوں میں مرکوز و مرتکز کر دیئے گئے تھے جنہیں عیسائیوں کے اعتقاد کے بموجب مسیح نے اذیتیں برداشت کرنے میں گزارا؟ انسانی دماغ یہ سوچ سوچ کر ورطۂ حیرت میں پڑے بغیر نہیں رہتا کہ گناہگاروں کا نا پیدا کنار سمندر جو گناہوں کے مہلک اثر سے زہر ہلاہل میں تبدیل ہو چکا ہے کس طرح ان گناہگاروں کے مسیح پر ایمان لانے سے ایکا ایکی ٹھنڈے اور میٹھے آب زلال میں تبدیل ہو جائے گا؟ ایک دفعہ پھر انسانی تصور ماضی بعید کے دور دراز زمانہ کی طرف لوٹ جاتا ہے جو بے چارے آدم و حوا سے انجانے میں پہلا گناہ سرزد ہوا اور ہوا بھی اس لئے کہ شیطان نے بڑی ہوشیاری اور عیاری سے انہیں دھوکا دے کر اپنے جال میں پھنسا لیا.سوچنے والی بات ہے ان بے چاروں کا گناہ کیوں نہ ڈھل سکا؟ کیا وہ خدا کی ہستی اور اس کی قدرتوں پر ایمان نہیں رکھتے تھے ؟ کیا ”باپ خدا پر ایمان لانا ایک کمتر درجہ کی نیکی تھی ؟ کیا ان کا ایمان باللہ گناہ کے اثر کو زائل کرنے کے لئے کافی تھا؟ اور کیا یہ بھی ان کا قصور شمار ہو گا کہ انہیں کبھی بتایا ہی نہیں گیا کہ خدا کا ایک بیٹا بھی ہے جو اپنے باپ خدا کے ساتھ ازل سے قائم و دائم چلا آرہا ہے ؟ اس ” آسمانی مقدس بیٹے نے ان پر کیوں رحم نہ کھایا اور ”باپ خدا“ سے کیوں التجا نہ کی کہ ان کے گناہ کی پاداش کے طور پر خود اسے یعنی ” بیٹے کو سزا دے کر انصاف کا تقاضا پورا کر لیا جائے ؟ انسانی دماغ میں رہ رہ کر یہ خیال اٹھتا ہے کہ اے کاش! ایسا ہی ہوا ہوتا.یہ کتنا مبنی بر انصاف، آسان اور سہل ہو تا کہ جب آدم اور حوا نے پہلی لغزش کھائی تھی انہیں اسی لمحہ سزا دے کر بات قصہ زمین بر سر زمین کے طور پر وہیں کے وہیں ختم کر دی جاتی.یقیناً ایسی صورت میں خود مسیحیوں کے نزدیک بھی کتاب التقدیر میں نوع انسان کی کہانی بالکل اور انداز سے لکھی جاتی.اس کی بجائے ایک جنت ارضی کی تخلیق عمل میں آتی اور آدم و حوا کی اپنی نامعلوم نسلوں سمیت جنت سے ہمیشہ ہمیش کے لئے نکالا نہ ملتا.اسی زمانہ قدیم میں آدم و حوا کے

Page 54

37 گناہ اور کفارہ پہلے گناہ کی پاداش کے طور پر مسیح کو تین دن اور تین رات کے لئے جنت سے نکال دیا جاتا اور اسی دم بات آئی گئی ہو کر قصہ تمام ہو جاتا.افسوس ! نہ باپ خدا کو اس بات کا خیال آیا اور نہ ”باپ خدا“ کے ” بیٹے مسیح کو یہ بات سو جھی.سوچنے کا مقام ہے کہ مسیح کی مقدس اور محبت انگیز حقیقت کو بد قسمتی سے کیسے مضحکہ خیز اور سراسر نا قابل یقین دیو مالائی قصہ کا روپ دے دیا گیا اور آنے والی نسلیں بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ گئیں.عدل اور معاف کر دینے کی صفت جزا سزا کی مسیحی فلاسفی ہر قسم کے تعصبات سے پاک یعنی صاف و شفاف انسانی ذہن کے لئے نہ صرف الجھاؤ اور پریشانی کا موجب ہے بلکہ اس کی وجہ سے بعض ایسے متعلق سوال بھی سامنے آتے ہیں جو خود اپنی جگہ ذہن کو کچھ کم گنجلک میں مبتلا نہیں کرتے.مثال کے طور پر کفارہ کی مسیحی فلاسفی کو ہی لے لیں اس کے نتیجہ میں عدل اور معافی کے باہمی تعلق کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ خدا خو د انسانوں کے گناہوں کو کیوں معاف نہیں کر سکتا.اس فلاسفی کا سارا استدلال عدل کے یکسر غلط اور یک طرفہ تصور پر مبنی ہے.اس کی رو سے طے شدہ حقیقت کے طور پر تسلیم یہ کر لیا گیا ہے کہ عدل اور معافی کا باہم یکجا اور اکٹھا ہو نا ممکن نہیں ہے.انہیں بلاوجہ ایک دوسرے کی ضد قرار دے دیا گیا ہے.اگر یہ واقعی ایک دوسرے سے یکسر مختلف اور باہم متناقض ہیں تو پھر عہد نامہ جدید میں انسانی رشتوں اور تعلق داری کا ذکر کرتے ہوئے باہم معاف کر دینے اور در گزر سے کام لینے پر بہت زور کیوں دیا گیا ہے.میں نے کسی بھی مذہب کے مقدس آسمانی صحیفوں میں ایسی تعلیم نہیں دیکھی جس میں معاف کر دینے کی صفت کی اہمیت پر یکطرفہ اور غیر متوازن انداز میں اس درجہ زور دیا گیا ہو جتنا کہ عہد نامہ جدید میں دیا گیا ہے.کس قدر اختلاف اور تضاد ہے انجیل کی اس تعلیم اور انصاف کی اہمیت سے متعلق یہودیت کی پر زور روایتی تعلیم میں.آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت کی تعلیم ایسے سادہ اور کھردرے انصاف کی آئینہ دار ہے جو ضروری تراش خراش اور تہذیب و تصویب سے مبرا ہے.اس کے بالمقابل کیسی ڈرامائی تبدیلی کی آئینہ دار ہے یہ مسیحی تعلیم کہ اگر کوئی شخص تیرے ایک گال پر تھپڑ رسید کرے تو تو دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دے.یہ بعد میں عطا ہونے والی تعلیم کس نے دی جو قبل ازیں دی گئی توریت کی تعلیم کے بالکل بر خلاف ہے ؟.انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کیا توریت والی پہلی تعلیم واقعی ”باپ خدا کی عطا کردہ تعلیم تھی.اگر واقعی توریت کی

Page 55

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 38 خداہی کی عطا کردہ تھی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ”مقدس بیٹے نے باپ کی دی ہو ئی تعلیم سے غایت درجہ مختلف و متضاد روش کیوں اختیار کی؟ کیا ایسے مخاصمانہ اختلاف کو توارثی نقص سمجھا جائے یا یہ کہ اسے ارتقائی تبدیلی سے تعبیر کیا جائے یا پھر یہ کہ مکمل معافی اور در گزر کے مسیحی رجحان کو (جو انتقام پر یہودیت کے حتمی اصرار سے یکسر متضاد ہے) ”باپ خدا کی روش اور طرز عمل میں بنیادی تبدیلی پر محمول کیا جائے ؟ معلوم ایسا ہو تا ہے کہ اس نے ( یعنی ”باپ خدا“ نے) موسیٰ کو اور اس کے ذریعہ اہل کتاب کو جو تعلیم دی تھی اس پر وہ دل سے متاسف تھا اور اپنی غلطی کی بہر طور تلافی کرنا چاہتا تھا اسی لئے ” بیٹے“ نے اس سے یکسر مختلف و متضاد تعلیم دے کر تلافی کی صورت پیدا کی.یہودیت اور مسیحیت کی تعلیم میں سزا کی نوعیت پر زور دینے سے متعلق متذکرہ بالا تبدیلی اور اختلاف میں ہم مسلمانوں کو کوئی تضاد اس لئے محسوس نہیں ہو تا کہ ہم ایسے خدا پر ایمان رکھتے ہیں کہ جس کے وجود میں عدل اور مغفرت (یعنی بخشش و معافی) کی ہر دو صفات پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہیں اور یہ دونوں صفات باطنی طور پر باہم کسی لحاظ سے بھی متصادم نہیں ہیں.ہمارے ایمان وایقان اور تفہیم و ادراک کی رو سے یہودی تعلیم اور مسیحی تعلیم میں پائے جانے والے فرق کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہودی تعلیم ناقص تھی اور مسیح نے آکر اس نقص کو دور کیا بلکہ نقص اس تعلیم پر یہودیوں کے عمل پیرا ہونے کے طریق میں تھا.ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ خدا صرف عادل و منصف ہی نہیں ہے بلکہ وہ غفور در حیم اور رؤف و محسن بھی ہے یعنی وہ اپنے بندوں کو اگر چاہے تو معاف کر کے انہیں اپنے رحم کا مورد بھی بناتا ہے اور ان کے ساتھ حسن و احسان کا سلوک بھی کرتا ہے.گناہوں کو بخشنے اور گناہگاروں کو اپنی بخشش سے نوازنے کے لئے وہ کسی بھی نوعیت کی بیرونی مدد کی احتیاج سے پاک ہے.برخلاف اس کے اگر مسیحی نقطۂ نگاہ سے جائزہ لیا جائے تو مسئلہ پیچ در پیچ کی شکل اختیار کر کے الجھتا ہی چلا جاتا ہے.نظریہ آتا ہے کہ توریت کے خدا کو صرف عدل سے ہی سروکار تھا اور وہ اس احساس سے عاری تھا کہ ترس کھانا اور رحم کا سلوک کرنا بھی کوئی صفت ہوتی ہے.بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی پر رحم کرنا بھی چاہتا تو ایسا کر نہیں سکتا تھا کیونکہ ترس کھانا اور رحم کرنا اس کے بس میں ہی نہ تھا.آخر زمانہ دراز اور مدت مدید کے بعد عجیب ماجرا ہوا.ہوا یہ کہ اس کا ”بیٹا“ جو خود اپنی ذات میں خدا تھا اس کی مدد کو آیا.جس جہنم آسا مشکل اور الجھن میں ”باپ خدا “پھنسا ہوا تھا اس میں سے ”بیٹے خدا نے اسے نکالا.معلوم یہ ہو تا ہے کہ اپنے منتقم ”باپ“ کے مقابلہ میں ”بیٹا سراسر ترس اور ترحم کے جذبہ سے بھرا ہوا تھا.” بیٹے“ کے متعلق اس تصور کی نامعقولیت

Page 56

39 گناہ اور کفارہ انسانی ضمیر میں صرف خلش ہی پیدا نہیں کرتی بلکہ ”باپ “ اور ”بیٹے“ کے کردار میں پائے جانے والے تضاد کے سوال کو ابھار کر ایک دفعہ پھر اسے بڑی شدت سے نمایاں کر دیتی ہے اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ مسیح ”باپ خدا کا صحیح نقش نہ ہونے کی وجہ سے اس کا ناخلف بیٹا ہے.شاید یہ بھی توارثی غلطی کا ہی ایک شاخسانہ ہو !.اس بارہ میں تحقیق کا ایک اور میدان بھی ہے.اس کا تعلق اس امر سے ہے کہ گناہ اور اس کے نتائج و عواقب کے بارہ میں دنیا کے دوسرے مذاہب کا نقطۂ نظر اور رویہ کیا ہے.یہ امر ظاہر ہے کہ صرف مسیحیت ہی ایسا مذہب نہیں ہے جو انسانوں کو من جانب اللہ عطا ہوا ہو.دنیا میں بلحاظ تعداد غیر مسیحی اقوام و افراد مسیحیوں سے کہیں زیادہ ہیں.معلومہ تاریخ کے ہزاروں سال کے دوران یسوع مسیح کی آمد سے قبل و قتا بعد وقت متعدد مذاہب رو نما ہوئے.ان مذاہب نے دنیا کے مختلف علاقوں میں آباد انسانوں میں جڑ پکڑی اور نشو و نما پائی.دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا ان مذاہب نے بھی کبھی گناہوں کی بخشش یا معافی کی ایسی فلاسفی کو اپنا یا یا اس کا ذکر کیا جس کا کفارہ کے مسیحی عقیدہ سے دور کا بھی کوئی تعلق بنتا ہو.خدا کے متعلق یا اگر وہ کئی خداؤں کی موجودگی پر یقین رکھتے تھے تو اپنے ان مزعومہ خداؤں کے متعلق ان کا کیا نظریہ یا تصور تھا.مراد یہ کہ ان کے نظریہ کے مطابق گناہوں میں ملوث نوع انسانی کے بارہ میں خدا یا ان کے مزعومہ خداؤں کا طرز عمل یا سلوک کس نوعیت کا تھا؟ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے مذاہب عالم کی برادری میں جو مذہب نظریاتی لحاظ سے مروجہ مسیحیت کے قریب ترین نظر آتا ہے وہ شاید ہندومت ہے لیکن اس کی یہ قربت بھی محض جزوی ثابت ہوئے بغیر نہیں رہتی.ہندو بھی ایک کٹر اور ضدی قسم کے عادل خدا کو مانتے ہیں.اس کا جذبہ عدل یہ تقاضا کرتا ہے کہ جو فرد بھی گناہ کا مرتکب ہوا سے وہ کسی نہ کسی شکل میں کوئی نہ کوئی سزا ضرور دے لیکن مسیحیت اور ہندو منت کے مابین پائی جانے والی یہ نظریاتی مماثلت آگے نہیں چلتی بلکہ یہیں ختم ہو جاتی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندومت میں اس امر کا دور دور کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا کہ خدا کے بیٹے نے نسل انسانی کے تمام گناہگاروں کے گناہوں کے جملہ اثرات اور سزاؤں کا سارے کا سارا بار اپنے کندھوں پر اٹھا لیا ہو.بر خلاف اس کے ہندومت میں بتایا یہ جاتا ہے کہ گناہوں کے ارتکاب کے سبب سنسار میں جرم و سزا کا ایک لامتناہی اور نا پید اکنار سلسلہ جاری وساری ہے.اس کے نتیجہ میں انسانی روحیں مختلف جانوروں اور حشرات الارض کے روپ میں جو نہیں بدلتی چلی آرہی ہیں.کفارہ تک رسائی صرف اس وقت ہوتی ہے جب بار بار جو نیں

Page 57

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 40 بدلنے کے بعد روح اتنی سزا بھگت لیتی ہے جو ان تمام گناہوں کے مجموعہ کے عین مطابق ہوتی ہے جو جو نوں کی مسلسل تبدیلیوں کے تباہ کن تجربہ کے دوران اس سے سرزد ہوئے ہوتے ہیں.یقیناً بہت سے لوگوں کو جرم و سزا کی یہ عجیب و غریب فلاسفی بھی یکسر نا قابل فہم پر اسراری کے باوجود اس انوکھی فلاسفی میں جبلی انصاف کی جھلک ضرور موجود ہے.اس میں ایسے توازن اور یکسانیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے جو گھڑے جبلی انصاف کے تصور سے پوری پوری مطابقت رکھتی ہے.ہندومت ہی نہیں بعض دوسرے مذاہب بھی علت و معلول کی تمام تر پیچیدگیوں کے باوصف مختلف جونیوں کی شکل میں بار بار پیدائش کے لامتناہی سلسلہ کے قائل ہیں.ان مذاہب سے صرف نظر کرتے ہوئے اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا کے تمام دوسرے چھوٹے بڑے مذاہب کے نزدیک انسانوں کی طرف سے ارتکاب معاصی کی صورت میں من جانب اللہ بخشش یا معافی کے تصور کا کیا عمل دخل ہے.ہندومت اور اس کی طرح کے دوسرے مذاہب سمیت دیگر چھوٹے بڑے مذاہب کے ایک ارب سے زیادہ پیر و دنیا میں پائے جاتے ہیں.وہ سب کفارہ کے دیو مالائی مسیحی تصور سے یکسر نا آشنا ہیں.ان کے ہاں اس کا کوئی نام و نشان نہیں ہے.یہ صورت حال انسانی ذہن کو بہت خلجان میں مبتلا کرنے والی ہے.اندریں صورت اس سوال کا پید اہو ناناگزیر ہے کہ دنیائے عیسائیت کے ماسوا دنیا کے دیگر علاقوں میں جولوگ آباد چلے آرہے تھے ان کے اور عالم بالا کے مابین رابطہ کی نوعیت کیا تھی؟ اگر مسیحی عقیدہ کے بموجب ”باپ خدا“ سے ان کا تعلق نہیں تھا تو کیا یسوع مسیح کے سواد نیا کی ساری مذہبی قیادت شیطان کی شاگردی کے جال میں پھنسی ہوئی تھی ؟ ”باپ خدا “ کہاں تھا اور کیا کر رہا تھا؟ جب بقیہ نوع انسانی کو شیطان اس کے نام پر گمراہ کرنے میں مصروف تھا تو وہ بنی نوع انسان کو اس کے دام تزویر سے نجات دلانے کی غرض سے ان کی مدد کو کیوں نہ آیا؟ کیا ماسوا مسیحیوں کے قبل ازیں تمام دیگر بنی نوع انسان نام نہاد ”باپ خدا“ کے علاوہ کسی اور ہستی کے پیدا کر دہ تھے ؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ سوتیلے باپ والا سلوک روار کھ کر انہیں طاغوت کے ظالمانہ اقتدار کے حوالے کیوں کیا گیا؟.آئیے اب ہم اپنی توجہ کو ایک اور نقطہ نگاہ سے اس مسئلہ کی طرف پھیرتے ہیں اور نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ ہم عام انسانی تجربہ کی روشنی میں اس مسئلہ کا از سر نو جائزہ لینے کی کوشش کریں.اب یہ تجربہ اور مشاہدہ میں آنے والی ایک عام بات ہے کہ معافی اور عدل با ہم متوازن بھی ہو سکتے ہیں اور یہ کہ ان کا ایک ساتھ بروئے کار

Page 58

41 گناہ اور کفارہ آنا عین ممکن ہے.ایسا نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ ہی باہم ضد کے طور پر ایک دوسرے کی تردید کرتے نظر آئیں.بعض اوقات خود عدل کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ معاف کر دینا ضروری ہے اور بر خلاف اس کے بعض حالتوں میں خود عدل اس امر کا متقاضی ہوتا ہے کہ معافی نہ دی جائے.اگر ایک بچہ کے ساتھ ہمیشہ ہی معافی کا سلوک روارکھا جائے اور اس طرح مزید جرائم کے مرتکب ہونے میں اس کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے تو ایسی صورت میں معافی خود اپنی ذات میں جرائم کی افزائش اور حاشیہ آرائی کا موجب ہو گی.ظاہر ہے ایسا کرنا عدل کی روح کے سراسر منافی ہو گا.اگر ایک عادی مجرم کو معاف کر کے اسے مزید جرائم کے ارتکاب کا موقع دیا جائے اور اس طرح معافی کے ذریعہ گردو پیش دکھوں اور مصیبتوں کی افزائش کے سلسلہ میں اس کی حوصلہ افزائی کرنے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھا جائے تو ایسا طرز عمل تقاضائے عدل کے برخلاف ہوتے ہوئے معصوم شہریوں کے خلاف ایک ظالمانہ اقدام کے مترادف قرار پائے گا.اب اگر دیکھا جائے تو اسی قماش کے لاتعداد اور بے شمار مجرم ایسے ہیں جن کے حق میں مسیح کا کفارہ ایک پناہ گاہ ہی نہیں کمین گاہ کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے.ظاہر ہے یہ ناگوار صورت حال عدل کے سراسر منافی ہے.بہر صورت و بہر حال کفارہ پر زور دینا نیز پشیمانی اور معافی کو سرے سے کوئی اہمیت نہ دینا درست نہیں ہے.اس کا درست نہ ہونا ایک مثال سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے اور وہ مثال یہ ہے کہ اگر بچہ پشیمان ہو کر اپنے کیے پر افسوس کا اظہار کرتا ہے اور ماں کو یقین ہو جاتا ہے کہ بچہ اس جرم کا دوبارہ ارتکاب نہیں کرے گا اس کے باوجود بچہ کو سزا دینا عدل کی روح کے برخلاف ہو گا.جب ایک پشیمان شخص پشیمانی کی اذیت میں سے گزرتا ہے تو ایسی پشیمانی خود اپنی جگہ سزا سے کسی طرح کم نہیں ہوتی.بعض حالتوں میں تو ایسی پشیمانی بجائے خود باہر سے عائد کردہ سزا سے کہیں بڑھ کر اذیت ناک بن جاتی ہے.جن لوگوں کا ضمیر زندہ ہو اور ان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ پشیمانی کے زیر اثر بہت دکھ محسوس کرتے ہیں.وہ اندر ہی اندر کچھ کم اذیت نہیں اٹھاتے.بسا اوقات ضمیر کے مسلسل کچوکوں کی اذیت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ قوت برداشت کی آخری حد کو چھونے لگتی ہے.ایسی صورت میں عین ممکن ہو جاتا ہے کہ خدا ایسے بار بار قصور کرنے اور بار بار پشیمان ہونے والے کمزور بندہ پر رجوع بر حمت ہو اور اس کے گناہ بخش دے.عدل اور معافی کے اس باہمی تعلق میں ایک ایسا عام فہم سبق مضمر ہے جسے ایک ہمہ گیر انسانی تجربہ کی حیثیت حاصل ہے.اس کا ادراک کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا اعلیٰ ذہنی صلاحیتیں رکھنے والوں کے لئے ہی نہیں بلکہ عام سمجھ بوجھ والے انسانوں کے لئے

Page 59

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 42 چنداں مشکل نہیں ہے.کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ مسیحی حضرات اپنے اس عقیدہ کی نامعقولیت پر معترض ہوئے بغیر اس سے چھٹے رہنے کی غفلت سے بیدار ہوں.اگر وہ اپنے اس عقیدہ کا عقل عمومی کی روشنی میں از سر نو جائزہ لے کر اس کی نامعقولیت کو محسوس کر لیں گے تو وہ اچھے با عمل عیسائی پھر بھی رہیں گے لیکن وہ ایک مختلف اور حقیقت پسندانہ نوعیت کے عیسائی ہوں گے.اندریں صورت وہ اور زیادہ محبت اور گہری وابستگی کے ساتھ مسیح کی انسانی حقیقت پر یقین رکھنے والے ہوں گے بہ نسبت اس خیالی مسیح پر ایمان رکھنے کے جو محض ان کے اپنے تخیل کی پیداوار ہے اور ایک فسانہ سے زیادہ جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے.مسیح کی بڑائی اور عظمت روایتی داستان میں نہیں بلکہ اس عظیم قربانی میں مضمر ہے جو اس نے ایک انسان اور خدا کے ایک پیغمبر کی حیثیت سے پیش کی.یہ ایک ایسی قربانی تھی جو دل پر زیادہ قوت اور گہرائی کے ساتھ اثر انداز ہوتی ہے بہ نسبت اس دیو مالائی قصہ کے کہ وہ صلیب پر مرنے اور دوزخ میں چند دہشت ناک گھنٹے گزارنے کے بعد مردوں میں سے دوبارہ جی اٹھا تھا.فسانہ ، فسانہ ہی ہو تا ہے حقیقت کے آگے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی.مسیح کے لئے کفارہ ادا کرنا ممکن نہ تھا آخر میں پیش کیا جانے والا ایک اور سوال بھی کچھ کم اہم نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ مسیح پیدائشی طور پر گناہ سے پاک اور معصوم کیسے ہو سکتا تھا جبکہ وہ پیدا ہی ایک انسان ماں کے بطن سے ہوا؟ اگر آدم اور حوا کے ابتدائی گناہ نے اس بد قسمت جوڑے کی آئندہ آنے والی تمام نسلوں کو موروثی طور پر گناہ سے آلودہ کر دیا تھ تو ایک ناگزیر نتیجہ کے طور پر یہ امر لازم آتا ہے کہ نسل آدم کے تمام بچے کیا ذکور و کیا اناث سب ہی گناہ کے طبعی میلان کا عورتوں میں منتقل ہونے کا امکان اس لئے زیادہ تھا کہ یہ حوا ہی تو تھی جس نے شیطان کے آلہ کار کی حیثیت سے آدم کو ورغلا کر گناہ میں ملوث ہونے پر آمادہ کیا تھا.اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو از روئے انصاف ارتکاب گناہ کی ذمہ داری آدم کی بہ نسبت حوا کے کندھوں پر زیادہ عائد ہوتی ہے.مسیح کی پیدائش کے معاملہ میں یہ بات ظاہر وباہر ہے کہ وہ اس حوا کی ایک بیٹی کے بطن سے سے پیدا ہوا تھا جو ابتدائے آفرینش میں سرزد ہونے والے گناہ کی زیادہ ذمہ دار تھی.اس ضمن میں یہ سوال بڑی شدت سے ابھر کر سامنے آتا ہے کہ آیا مسیح کو انتقال ورثہ کے مخصوص خلیوں (Chromosomes) کے ساتھ کوئی توارثی عصر (Gene) اپنی انسانی ماں سے پیدائشی طور پر ورثہ میں ملا تھا یا نہیں؟ اگر ملا تھا تو موروثی گناہ کی

Page 60

43 گناہ اور کفارہ ناگزیر آلودگی سے اس کا بچنا ممکن ہی نہ تھا اور اگر اس نے اپنی ماں سے کوئی تو راثی عنصر انتقال ورثہ کے مخصوص خلیوں کے ساتھ ورثہ میں پیدائشی طور پر نہیں پایا تھا تو پھر اس کی پیدائش یقیناً ایک معجزانہ پیدائش قرار پائے گی کیونکہ ایک معجزہ ہی ایسے بچہ کو معرض وجود میں لا سکتا تھا جو ماں کے بطن سے پیدا ہونے کے باوجود نہ باپ کی طرف منسوب ہو سکتا تھا اور نہ ماں کی طرف.یہ بات پھر بھی فہم سے بالا ہوتے ہوئے مخمصہ کا موجب رہتی ہے کہ موروثی خواص کے حامل خیلیے جو نسل در نسل منتقل ہوتے ہوئے حوا کی طرف سے مسیح کو ورثہ میں ملے وہ گناہ کے ناگزیر باطنی میلان سے کیسے مبرا ر ہے ؟ چلیے فرضی طور پر ہم مان لیتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ایسا وقوع میں آہی گیا اور مسیح اس معصومیت کا حامل بن گیا جس کی بنا پر اس میں ان انسانوں کے گناہوں کا بار اٹھانے کی اہلیت پید اہو گئی جو اس کی اس معجزانہ حیثیت پر ایمان لے آئیں اور جو ایمان نہ لائیں ان کے گناہوں کا بار خود انہی کی گردن پر رہے.اس مفروضہ پر ایک اور مسئلہ اٹھ کھڑ اہو گا.پوچھنے والے پوچھ سکتے ہیں کہ ایسی صورت میں آدم اور حوا کی ان نسلوں پر کیا بیٹے گی جو بے چاری ظہور عیسائیت سے پہلے ہو گزری تھی.ظہور عیسائیت سے قبل نسلاً بعد نسل کھرب ہا کھرب انسان پیدا ہوتے اور کرہ ارض کے پانچوں براعظموں میں پھیلتے اور ان کے مختلف حصوں میں آباد ہوتے چلے گئے.وہ پیدا ہونے اور اس زمین پر زندہ رہنے کے بعد مرتے اور اس جہان سے گزرتے چلے گئے.ان کے لیے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ کسی طور پر سن یا جان سکتے کہ ان کا اصل نجات دہندہ مسیح ہے کیونکہ وہ نجات دہندہ تو ان کے وقت میں پیدا ہی نہ ہوا تھا.اس طرح تو آدم کی پیدائش سے لے کر ظہورِ مسیح تک کے درمیانی زمانہ میں جتنی بھی نسل آدم پیدا ہوئی وہ محروم ازلی ہی قرار پائی اور خسر انِ مبین میں مبتلا ہونا ان کا مقدر ٹھہر.ان بے چاروں کا کیا قصور تھا کہ انہیں بخشش یا نجات کا خفیف سے خفیف موقع عطا ہونے کا حق دار نہ سمجھا گیا؟ کیا صحیح کی عطا کردہ نجات از منہ گزشتہ سے نافذ العمل قرار پائے گی ؟ اگر یہ درست ہے تو ایسا کیوں اور کیسے ہو گا؟ پھر سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ خود مسیح کے اپنے زمانہ میں یہودیہ (Judea) کے چھوٹے سے علاقہ کے بالمقابل دنیا کے دیگر وسیع و عریض علاقوں میں بھی نسل آدم آباد تھی.ان لوگوں نے عیسائیت اور مسیح کا نام بھی نہ سنا تھا، ان سب پر کیا بیتی اور ان کا کیا بنا؟ وہ مسیح کے ابن اللہ ہونے پر ایمان نہ لائے تھے.عدم علم کی بنا پر ان کے لئے ایمان لانا ممکن ہی نہ تھا.کیا وہ سزا کے بغیر ہی نجات پا جائیں گے.یا یہ کہ انہیں بھی ان کے گناہوں کی سزا ملے گی اور وہ نجات سے محروم قرار پائیں گے ؟ اگر انہیں سزا دیئے بغیر ہی چھوڑ دیا

Page 61

میسحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 44 جائے گا تو کس دلیل کی رو سے ایسا ہو گا؟ اور اگر انہیں ان کے گناہوں کی سزا دی جائے گی تو پھر یہی سوال پیدا ہو گا کہ کس منطق کی رو سے انہیں گرفت اور پکڑ کا سزاوار ٹھہرایا جائے گا؟ انہیں مسیح پر ایمان لانے اور نجات سے ہمکنار ہونے کا موقع ہی کب نصیب ہوا تھا؟ وہ تو یکسر بے بس ولا چار تھے.یہ بہر طور کانٹے کی تول پورا اترنے والے حتمی اور بار یک در باریک انصاف کی کیسی مسخ شدہ اور مضحکہ خیز تصویر ہے! مجبوری اور بے دلی کی آئینہ دار قربانی اب ہم مسیح کو صلیب دیئے جانے کے واقعہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.خو داس واقعہ کی تفصیلات پر غور کرتے ہوئے بھی ہم ایک عقد و لا یخل سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہتے.جیسا کہ ہمیں بالاصرار بتایا جاتا ہے یہ مسیح ہی تھا جس نے خود اپنی مرضی سے اپنے آپ کو قربانی کے لئے ”باپ خدا کے حضور پیش کیا.اور یہ کہ اس لئے اسے پوری نوع انسانی کے گناہوں کے کفارہ کے طور پر قربانی کا بکرا بنایا گیا البتہ اس کفارہ سے فیض پانے کے لئے یہ شرط عائد کی گئی کہ لوگ اسے برحق تسلیم کرتے ہوئے اس پر ایمان لائیں.لیکن حقیقت الا مر کے طور پر ایک بالکل مختلف منظر ہماری آنکھوں کے سامنے ابھرتا ہے.ہم دیکھتے یہ ہیں کہ جب مسیح کی خواہش کے پورا ہونے کا وقت قریب آتا ہے اور بالآخر گناہوں میں ملوث بنی نوع انسان کو نئے دن کے چڑھنے والے سورج کی طرح امید کی کرن پھوٹتی محسوس ہوتی ہے تو تاریخ انسانی کے اس اہم موقع پر جب ہم اس توقع کے ساتھ مسیح کی طرف نظر اٹھاتے ہیں کہ بنی نوع انسان کی خاطر قربانی پیش کرنے میں اس کی خوشی و مسرت، روحانی کیف و سرور اور اس کے عالم وارفتگی کا نظارہ کریں تو ہمیں بے حد مایوسی کے عالم میں فریب خوردگی کا شکار ہونا پڑتا ہے.بے صبری اور بے چینی سے اس لمحہ مسرت کا انتظار کرنے والے مسیح کی بجائے ہمارا واسطہ پڑتا ہے ایک رونے ، چلانے اور دہائی دینے والے مسیح سے جو اپنے ”باپ خدا سے بصد منت یہ التجا کر رہا ہے کہ اے باپ ! موت کے اس کڑوے پیالہ کو مجھ سے ٹال دے.بلکہ انجیل سے پتہ لگتا ہے کہ واقعۂ صلیب سے قبل مسیح نے ایک فیصلہ کن اور دور رس نتائج کا حامل طویل دن گزارا اور اس کے بعد آنے والی ایک سیاہ اور اذیت ناک رات جو در دناک انجام پر منتج ہونے والی تھی دعائیں کرتے ہوئے گزاری.ایسے کڑے دن کے بعد آنے والی کڑی رات کی بے چین گھڑیوں میں جب مسیح نے اپنے ایک شاگرد کو اونگھتے ہوئے پایا تو اسے بہت ڈانٹا اور برا بھلا کہا.اس سارے واقعہ کو بائبل نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

Page 62

45 گناہ اور کفارہ اس وقت مسیح ان (یعنی شاگردوں) کے ساتھ گتسمنی نام ایک جگہ میں آیا اور اپنے شاگردوں سے کہا یہیں بیٹھے رہنا جب تک میں وہاں جاکر دعا کروں اور پطرس اور زبدی کے دونوں بیٹوں کو ساتھ لے کر غمگین اور بے قرار ہونے لگا.اس وقت اس نے ان سے کہا میری جان نہایت غمگین ہے یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے.تم یہاں ٹھہرو اور میرے ساتھ جاگتے رہو.پھر ذرا آگے بڑھا اور منہ کے بل پر گر کر یوں دعا کی کہ اے میرے باپ! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے مل جائے.تو بھی نہ جیسا میں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تو چاہتا ہے ویسا ہی ہو.پھر شاگردوں کے پاس آکر ان کو سوتے پایا اور پطرس سے کہا کیا تم میرے ساتھ ایک گھڑی بھی نہ جاگ سکے ؟ جاگو اور دعا کرو تا کہ آزمائش میں نہ پڑو.روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے.پھر دوبارہ اس نے جا کر یوں دعا کی کہ اے میرے باپ! اگر یہ میرے پئے بغیر نہیں مل سکتا تو تیری مرضی پوری ہو.اور آکر انہیں پھر سوتے پایا کیونکہ ان کی آنکھیں نیند سے بھری تھیں.اور ان کو چھوڑ کر پھر چلا گیا اور پھر وہی بات کہہ کر تیسری بار دعا کی.“2 جیسے جیسے یہ عیسائی داستان آگے بڑھتی ہے تو وائے افسوس کہ نہ ہی مسیح اور نہ ہی اس کے حواریوں کی دعائیں خدا اور باپ کے ہاں قبولیت پاتی ہیں اور زبر دستی با وجود شدید احتجاج کے آخر کار اس لیے صلیب پر چڑھا دیا جاتا ہے کہ یہ وہی انسان تھا ؟ وہی مصومیت کا شہزادہ قربانی کی علامت جس نے رضا کارانہ طور پر بنی نوع انسان کے بوجھ کو اٹھانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا یا پھر یہ کوئی اور انسان تھا؟ آپ کارویہ صلیب کے وقت اور اس کے دوران ہی آپ کی شخصیت اور آپ کی ذات کے گرد گھڑی گئی کہانی میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے.اب ہم اس تنقیدی جائزے کی طرف لوٹتے ہیں.پھر صلیب پر لٹکی ہوئی حالت میں مسیح کی زبان سے غم میں ڈوبی ہوئی جو آخری چیخ ( یعنی اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا) نکلی اس کے متعلق کئی سوال ذہن میں ابھرتے ہیں.پہلا اور بنیادی سوال تو یہی ہے کہ وہ انتہائی غم ناک اور درد انگیز الفاظ کس نے کہے تھے ؟ مراد یہ ہے ان الفاظ کو اپنی زبان سے ادا کرنے والا ”انسان مسیح “ تھا یا ابن اللہ کی حیثیت سے ”خدا مسیح نے یہ الفاظ کہے تھے ؟ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کسے چھوڑ دیا گیا؟ کس نے چھوڑا؟ اور چھوڑا تو کیوں چھوڑا؟ اگر یہ الفاظ ”انسان صحیح “ نے کہے تھے تو پھر ایک طے شدہ امر کے طور پر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ”انسان مسیح“ نے بحیثیت انسان اپنی اکیلی اور 2 ( متی باب 26 آیات 36 تا 44)

Page 63

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 46 آزاد شخصیت کو آخری سانس تک برقرار رکھا اور وہ شخصیت اپنی اکیلی ذات میں ایسی تھی کہ وہ سوچ بھی سکتی تھی اور محسوس بھی کر سکتی تھی.جب اس انسانی جسم سے جس میں ابن اللہ کی حیثیت سے خدا سمایا ہوا تھا خدا کی روح نے اپنا رشتہ منقطع کیا تو مرا کون؟ اگر روح کے رخصت ہونے کے بعد یہ انسانی جسم ہی تھا جس پر موت وارد ہوئی تو پھر سوچنا اور غور کرنا چاہیے کہ جب خدا کی روح اس میں دوبارہ واپس آئی تو وہ کون تھا جو مردوں میں سے جی اٹھا؟ ظاہر ہے کہ انسانی جسم ہی دوبارہ زندہ ہوا.یہ صورت حال ہمیں باور کراتی ہے کہ صلیب پر خدا کے بیٹے نے دکھ نہیں اٹھایا.یہ ”انسان مسیح “ ہی تھا جو صلیب پر دکھ جھیل رہا تھا اور انتہائی تکلیف کی حالت میں ”انسان مسیح“ کا مادی جسم ہی بے اختیار پکار اٹھا تھا کہ اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ اس کے بالمقابل ابن اللہ ہونے کی حیثیت سے ”خدا مسیح عمال لا تعلقی اور سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ”انسان مسیح کی تکلیف اور اذیت کا نظارہ کرتا رہا.ایسی صورت میں اس دعوی کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے کہ نوع انسانی کے دکھوں کے ازالہ کے لئے ”انسان مسیح نے نہیں بلکہ خدا کے بیٹے نے خود دکھ اٹھایا.دوسری امکانی صورت یہ ہے کہ ہم یہ فرض کریں کہ یہ ” ابن اللہ صحیح “ ہی تھا جو صلیب پر چلا اٹھا تھا جبکہ اس کی ذات میں موجود ”انسان صحیح غالباً نئی زندگی شروع کرنے کی امید میں سب کچھ وقوع پذیر ہوتا دیکھ رہا تھا اور دیکھ بھی رہا تھا اس موہوم توقع اور مذبذب احساس کے زیر اثر کہ ”ابن اللہ مسیح کی قربانی کے ساتھ ساتھ خود اسے ( یعنی ”انسان مسیح کو بھی خواہ وہ اسے پسند کرے یا نہ کرے اپنے باہم دگر ایک ساتھ زندگی بسر کرنے والے معصوم و بے خطا ساتھی کو قربان گاہ پر ذبح کر دیا جائے گا.غالباً یہ ایک اور سربستہ راز ہے کہ عدل کا وہ کون سا مفہوم تھا جس نے خدا کو دو پرندوں کا ایک ہی پتھر سے شکار کرنے پر ابھارا؟ اگر یہ سب ماجرا خدا کے بیٹے کے ساتھ گزرا ( اور جملہ عیسائی فرقوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ یہ سب بیتی خدا کے بیٹے پر ہی تھی تو پھر پہلے سوال کے جواب میں ہی سے دوسراسوال یہ ابھرتا ہے کہ متی باب 26 آیات 39 تا 42 کی رو سے مسیح صلیب پر ہم کلامی کے وقت کس سے مخاطب تھا؟ اس ضمن میں دو ہی امکانی صورتیں ہو سکتی ہیں.پہلی صورت یہ ہے کہ مسیح اس وقت ”باپ خدا“ سے ہم کلام تھا اور اس سے شکوہ کر رہا تھا کہ عین ضرورت کے وقت میں اسے اکیلا چھوڑ دیا گیا.اندریں صورت یہ باور کرنے کے سوا چارہ نہیں کہ باپ اور بیٹا دو علیحدہ علیحدہ وجو د تھے جو باہم کسی ایک وجود میں مدغم ہو کر ایک ایسے وجود واحد کے طور پر موجود نہیں ہو سکتے تھے کہ وہ جملہ صفات میں برابر کے شریک ہوں اور ساتھ کے ساتھ ان صفات کو

Page 64

47 گناہ اور کفارہ بروئے کار لانے میں بھی ان کا برابر کا حصہ ہو.ان میں سے ایک مختار کل نظر آتا ہے جسے ثالث و حکم کے طور پر آخری اور حتمی فیصلے کرنے اور انہیں عملاً نافذ کرنے کی پوری قدرت حاصل ہے.دوسر ا بے چارہ ہے تو اس کا بیٹا ( یعنی ابن اللہ ) لیکن اس غریب کو خواہ عارضی طور پر ہی سہی غلبہ کے آئینہ دار ان تمام قادرانہ اوصاف سے محروم کر دیا گیا ہے جو اس کے باپ کو بلا توقف حاصل ہیں.جس مرکزی نکتہ پر نظر اور توجہ کو بہر طور مر تکز رکھنا ضروری ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ ”باپ “ اور ” بیٹے کی باہم متخالف و متقابل خواہشات اور تمنائیں کسی اور معاملہ میں ایک دوسرے سے اس درجہ متصادم دکھائی نہیں دیتیں جتنی کہ ڈرامہ صلیب کے آخری سین (اختتامی منظر ) میں ان کا باہمی ٹکراؤ اپنے عروج پر نظر آتا ہے.دوسری امکانی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ مسیح ابن اللہ ہونے کی حیثیت سے خود اپنے آپ سے ہم کلام تھا اور خود کردہ راچہ علاج کے باوجود خود اپنے آپ سے ہی شکوہ سنجی میں مصروف تھا.ایسی صورت میں یہ اشکال سامنے آئے بغیر نہیں رہے گا کہ اگر وہ ”دو ہونے کے باوجود ایک “ (یعنی دو میں ایک تھے اور ساتھ ہی ” ایک ہونے کے باوجود دو ( یعنی ایک میں دو) بھی تھے تو کیا یہ ایک دوسرے سے ممیز و ممتاز شخصیتیں رکھنے والے وجو د اپنے اپنے ذاتی خیالات، ذاتی اقدار اور ذاتی اوصاف رکھتے ہوئے درد بھی محسوس کرتے تھے اور اذیتیں بھی جھیلتے تھے.اس کی رو سے ایک اور سوال ماہرین دینیات کے مابین طویل بحث و مباحثہ کا موضوع بنے بغیر نہ رہے گا اور وہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ خداد کھ اٹھائے ، درد کی تکلیف برداشت کرے اور سزا بھی بھگتے.اور اگر ایسا ممکن ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ صرف نصف خدا یہ سب کچھ بھگتے گا جبکہ دوسر ا نصف خدا اپنی وضع فطرت یا اپنی منفر د خاصیت کے زیر اثر ایسا کرنے سے مبرا یعنی بری الذمہ ہو گا.جب ہم اس تہہ در تہہ اور پیچ در پیچ الجھی ہوئی فلاسفی کے گہرے ہوتے ہوئے وسعت پزیر سایوں کی دنیا میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو بچی کچھی روشنی بھی مدھم سے مدھم ہوتی چلی جاتی ہے اور پراگندگی کے انبار پر انبار لگتے چلے جاتے ہیں.مزید بر آں اس ضمن میں کہ اگر مسیح خود خدا تھا تو وہ صلیب پر ہم کلامی کے وقت کس سے مخاطب تھا ایک اور اشکال کا پیدا ہونا بھی ناگزیر ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمیں بتایا یہ جاتا ہے کہ جب اس نے باپ کو مخاطب کیا تو وہ خدا کا اٹوٹ انگ یا بالفاظ دیگر اس کے وجود کا غیر منفک جزو تھا اور جزو بھی ایسا کہ جس کی بنا پر اسے خود بھی خدا کا درجہ حاصل تھا تو طبعاً سوال یہ پیدا ہو گا کہ وہ کہہ کیا رہا تھا اور کہہ کس سے رہا تھا؟ اس سوال کا جواب محض پہلے سے موجود عقیدہ کا سہارا لئے بغیر عقل و شعور اور فطری طور پر آزاد ضمیر کی روشنی

Page 65

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 48 میں دینا ضروری ہے.کوئی نظریہ اعتقاد کا روپ اس وقت دھارتا ہے کہ جب اسے انسانی فہم و ادراک کی گرفت میں لانے والے الفاظ و کلمات اور مروجہ اصطلاحات کی رُو سے واضح نہ کیا جاسکے.بائبل کے بیان کی رو سے جب مسیح کی روح قفس عصری سے پرواز کرنے لگی تو مسیح نے ”باپ خدا کو مخاطب کرتے ہوئے بآواز بلند کہا ”تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ہے “ یہ معمہ حل طلب ہے کس نے کس کو چھوڑا تھا؟ کیا خدا نے خدا کو چھوڑ دیا تھا؟ قربان کیسے کیا گیا؟ اس سارے معاملہ کا ایک اور پہلو جسے ذہن میں لانا اور جس پر توجہ مر تکز رکھنا ضروری ہے یہ ہے کہ مسیح کی دُہری شخصیت میں جو انسان پوشیدہ تھا فی الاصل اسے بھی سزا نہیں دی گئی اور نہ اسے سزا دی جانی چاہیے تھی کیونکہ وہ کسی بھی منطق کی رو سے سزا کا مستحق نہیں بنتا تھا.بنتا کیسے جبکہ اس نے جملہ بنی نوع انسان کے گناہوں کا بار اٹھانے پر کبھی آمادگی ظاہر نہ کی تھی.ہماری اس بحث میں معاملہ کے اس پہلو نے ابھر کر ہمیں مخصوص نوعیت کی ایک نئی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے جس پر ہم نے پہلے غور نہیں کیا.جب انسان اس پر غور کرتا ہے تو یہ سوچ کر حیرت میں پڑے بغیر نہیں رہتا کہ مسیح کی شخصیت میں جو انسان پوشیدہ تھا وہ بھی تو آدم اور حوا کی نسل کے تمام دوسرے انسانوں کی طرح گناہ کے موروثی رجحان و میلان کا حامل تھا.مسئلہ زیر بحث کے اس پہلو پر غور کرنے والا شخص زیادہ سے زیادہ یہ یقین کرنے کی طرف مائل ہو سکتا ہے کہ ”ابن اللہ “ کے دُہری شخصیت اختیار کرنے کی وجہ سے ایک ہی جسم میں خدا کا بیٹا اور انسان دونوں سمائے ہوئے تھے.ان دونوں میں سے صرف خدا کا بیٹا ہی معصوم تھا.لیکن اس ایک ہی مادی جسم کے اندر ”ابن اللہ“ کے پہلو بہ پہلو جو انسان موجود تھا اس کے متعلق کیا سمجھا اور کیا نظریہ قائم کیا جائے.یعنی یہ کہ کیا وہ بھی تو ارثی اجزا (Genes) اور ان کے نتیجہ میں تشکیل پانے والے کردار کی ہی پیداوار تھا جو براہ راست خدا نے مہیا کیے تھے ؟ اگر ایسا ہی تھا تو پھر اسے مسیح کے وجود میں سمویا ہوا ہونے کی حالت میں اُلوہیت کے آئینہ دار طرز عمل اور روش کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا.اگر وہ بار بار فرض ناشناسی اور کمزوری کا مظاہرہ کرتا ہوا نظر آتا ہے تو یہ عذر کہ اس سے فرض ناشناسی اور کمزوری اس لئے سرزد ہوئی کہ وہ ایک انسان تھا قابل قبول نہ ہو گا.اگر مسیح کی ذات میں موجود انسان کے اندر الوہیت کا کوئی جز یا اس کی کوئی رمق تک نہ تھی تو پھر ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ محض ایک عام انسان تھا بلکہ شاید انسان بھی تھا ادھورا.تاہم

Page 66

49 گناہ اور کفارہ وہ انسانی شخصیت جو مسیح میں مدغم تھی اس کا اس حد تک انسان ہونا ضروری تھا کہ وہ گناہ کے موروثی میلان کا حصہ دار ٹھہر سکتا.اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ گناہ کے موروثی میلان کا ورثہ پانے سے بری تھا تو لازماً سوال پیدا ہو گا کہ ایسا کیوں ہوا اور اگر ہوا تو ہوا کیسے؟ یہ امر ظاہر وباہر ہے اور اسے بیان کرنے کی چنداں ضرورت بھی نہیں کہ مسیح کی شخصیت میں موجود انسان اپنے الوہیت کے حامل ساتھی سے یکسر مختلف ہونے کے باعث اپنی آزاد حیثیت میں ضرور گناہ کرتا اور اپنے کردہ گناہ کی تمام تر ذمہ داری خود اپنے انسانی کندھوں پر اٹھاتا.یہ تمام روداد یا منظر نامه مکمل قرار نہیں پائے گا جب تک کہ ہم مسیح ابن اللہ کو اس طور پر پیش نہ کریں کہ وہ نوع انسان کی خاطر مرنے اور جان دینے میں باطنی خلش سے یکسر مبرا نہ تھا.اس کو اپنے ادھورے بھائی کی جو اس کی شخصیت میں موجود تھا ضرور فکر لاحق ہوئی ہوگی کہ وہ بے چارہ اس کے ساتھ بلاوجہ دکھ اٹھا رہا ہے.اس تمام و قوعہ کو اس کی لا یخل پیچیدگیوں کے باعث عقلی اور ذہنی طور پر ہضم کرنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل اور غایت درجہ محال ضرور ہے.اس کے بالمقابل ہمارے نقطۂ نگاہ سے فی الحقیقت جو کچھ ظہور میں آیا امر واقعہ کے طور پر اس میں قطعا کوئی قباحت نہیں.اور وہ نقطہ نظر یہ ہے کہ کسی دوئی یا دہری شخصیت کے مخمصہ میں پھنسے بغیر مسیح بہر حال ایک انسان تھا اور صلیب پر اس معصوم انسان کے منہ سے حیرت اور الم و کرب میں ڈوبی ہوئی جو چیخ نکلی وہ اس وقت کی مخصوص اور پریشان کن صورت حال کا ایک لازمی تقاضا تھی.قدرتی طور پر مسیح کو لاحق ہونے والی تشویش میں ایک دفعہ پھر یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ (نعوذ باللہ) میں مسیح علیہ السلام پر ایمان نہیں رکھتا.میں یقیناً ان کے منجانب اللہ ہونے پر ایمان رکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ کے مبعوث کر دہ ایک پیغمبر کی حیثیت سے ان کا بے حد احترام کرتا ہوں اور ان سے گہری عقیدت رکھتا ہوں اور کیوں نہ رکھوں جبکہ وہ ایک ایسے نبی تھے جنہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں غیر معمولی قربانیاں دینا پڑیں.میرے ایمان اور اعتقاد کی رو سے مسیح اپنی تمام تر پاک بازی اور تقدس کے باوجو د تھے ایک انسان.انہیں ابتلا اور آزمائش کے ایک طویل دور میں سے گزرنا پڑا.اس وضاحت کے بعد میں جس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ خود انجیل کے بیان کی رو سے واقعۂ صلیب کی جو تفاصیل ہمارے سامنے آتی ہیں اور پھر جس رنگ میں یہ واقعہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے اس تمام صورت حال کے پیش نظر یہ باور کرنے کے سوا چارہ نہیں رہتا کہ مسیح نے

Page 67

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 50 صلیب پر جان دینے کے لئے اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر پیش نہیں کیا تھا.جس روز اس کے دشمنوں نے اسے صلیب دے کر جان سے مار دینے کی کوشش کی ہم دیکھتے ہیں وہ طلوع ہونے سے قبل مسیح نے ساری رات اپنے شاگردوں کے ہمراہ دعا کرنے میں بسر کی.وہ رات بھر دعا کر تا رہا اور اس لئے کرتا رہا کہ اس کڑے وقت میں اس کے اپنے دعوئی مسیحیت کی صداقت کے لوگوں کی نگاہ میں مشتبہ ہونے کا زبر دست خطرہ پیدا ہو گیا تھا.وہ اس لیے کہ عہد نامہ قدیم میں یہ بات درج ہے کہ اگر ایک مفتری خدا کی طرف ایسی باتیں منسوب کرے گا جو خدا نے نہیں کہیں اسے درخت سے ٹانگ دیا جائے گا اور وہ ایک لعنتی موت مرے گا.چنانچہ عہد نامہ قدیم کی پانچویں کتاب میں لکھا ہے: لیکن جو نبی گستاخ بن کر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اس کو حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کچھ کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے“.(استثناء باب 18، آیت 20) اور اگر کسی نے کوئی ایسا گناہ کیا ہو جس سے اس کا قتل واجب ہو اور تو اسے مار کر درخت سے ٹانگ دے تو اس کی لاش رات بھر درخت پر لٹکی نہ رہے بلکہ تو اسی دن اسے دفن کر دینا کیونکہ جسے پھانسی ملتی ہے وہ خدا کی طرف سے ملعون ہے“ استثناء باب 21 آیات 232 مسیح جانتا تھا کہ اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا ( یعنی اسے صلیب پر لٹکا کر مار دیا گیا) تو یہودی وجد میں آکر خوشی سے جھوم اٹھیں گے اور بڑی مسرت کا اظہار کریں گے.وہ اسے (یعنی مسیح کو) مفتری قرار دے کر کہیں گے کہ اس کا مفتری ہونا مقدس صحیفوں کی رو سے اس طور پر ثابت ہو گیا ہے کہ اس میں شبہ کی ذرہ بھر گنجائش نہیں رہی.یہ تھی وہ بات جس کی وجہ سے مسیح موت کے کڑوے پیالے سے بچنا چاہتا تھا.وہ بزدلی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس خدشہ کے زیر اثر اس وقت موت سے بچنے کو ضروری سمجھتا تھا کہ اگر موت کا پیالہ نہ ٹلا اور وہ صلیب پر مارا گیا تو اس کی قوم کے لوگ (یہودی) گمراہ ہو جائیں گے اور وہ اس کی صداقت کو شناخت کرنے میں ناکام رہیں گے.چنانچہ تمام رات وہ اس قدر بے بسی اور بیکسی کی حالت میں دعا کر تا رہا کہ اس کے کرب واضطراب اور اذیت کا حال پڑھ کر دل شق ہو جاتا ہے.جب زندگی کا یہ اصلی ڈرامہ اپنے انجام اور اختتام کی طرف بڑھتا ہے تو مسیح کی جذباتی الم انگیزی، یاسیت اور ناامیدی کی کیفیت اس کی آخری ایلی ایلی لما شبقتي سے پورے طور پر عیاں ہو جاتی ہے.پکار

Page 68

51 گناہ اور کفارہ یہ بات توجہ کے لائق ہے کہ وہ آخری چیخ یا پکار صرف دکھ اور اذیت میں ہی نہیں ڈوبی ہوئی تھی بلکہ خوف کی حدوں کو چھونے والا استعجاب بھی اس میں رچا ہوا تھا.اس کے بعض مخلص و وفادار شاگردوں کی تگ و دو اور کاوش سے اسے ہوش میں لایا گیا.انہوں نے اس کے زخموں پر ایک مرہم لگایا یہ مرہم انہوں نے مسیح کو صلیب پر لٹکائے جانے سے قبل ہی تیار کر لیا تھا.اس مرہم میں وہ جملہ ادویہ اور دیگر اجزا شامل کیے گئے تھے جو درد کی تکلیف کو کم کرنے اور زخموں کو مندمل کرنے کی خاصیت اور تاثیر کے حامل تھے.اپنے آپ کو زندہ پا کر اور زخموں کو مندمل ہوتا دیکھ کر مسیح کو کس قدر مسرت انگیز حیرت ہوئی ہو گی اور محبت کرنے والے اپنے صادق الوعد خدا پر اس کا ایمان کس شان سے اور بھی زیادہ پختہ ہو گیا ہو گا.اس وقت ایسی گہرائی اور گیرائی کی حامل بے انتہا خوشی شاید ہی کسی اور شخص کے حصہ میں آئی ہو.یہ حقیقت کہ مرہم پہلے ہی تیار کر لیا گیا تھا خود اپنی ذات میں ایک زبر دست ثبوت ہے اس امر کا کہ مسیح کے شاگر دیقینا توقع رکھتے تھے کہ مسیح صلیب سے زندہ حالت میں اتر آئے گا اور اسے طبی امداد بہم پہنچا کر اس کے لئے علاج معالجہ کی سہولتیں مہیا کرنا ہوں گی.چنانچہ وہ اس متوقع صورت حال کے لئے پوری طرح تیار تھے.مذکورہ بالا حقائق سے یہ بات آسانی سے واضح ہو جاتی ہے کہ موروثی گناہ اور صلیب کے ذریعہ کفارہ کا تصور بعد میں آنے والے مسیحی عالموں کی قیاس آرائیوں اور خوش فہمیوں کی پیداوار ہے.عین ممکن ہے کہ یہ تصور زمانہ قبل از مسیح سے تعلق رکھنے والے اسی نوع کے دیو مالائی قصوں سے اخذ کیا گیا ہو.مسیح کو جو حالات پیش آئے جب انہیں ان دیو مالائی قصوں کی روشنی میں جانچا گیا ہو گا تو ان دونوں میں بہت سی مماثلتیں ڈھونڈ نکالی گئی ہوں گی.لگتا یہی ہے کہ ایسی ہی ایک دیو مالائی کہانی واقعہ صلیب کے متعلق بھی گھڑ لی گئی اور اسے جزو ایمان بنالیا گیا.اس عجیب و غریب اور پر اسرار تصور کی وجہ کچھ بھی ہو ایک بات ظاہر و باہر ہے کہ اس امر کا سرے سے کوئی ثبوت موجود نہیں کہ گناہ اور کفارہ کی مسیحی فلاسفی مسیح کے قول یا فعل پر مبنی ہو یا اس نے خود اس کی تعلیم دی ہو.وہ کوئی ایسی تعلیم نہیں دے سکتا تھا جو نہ صرف انسانی فہم و ادراک سے بالا ہو بلکہ جو اس قدر گنجلک اور الجھی ہوئی ہو کہ اس میں اور انسانی فہم و ادراک میں بعد المشرقین پایا جاتا ہو.کیا ”باپ خدا“ نے بھی دکھ جھیلا ؟ جہاں تک بیٹے کی فطرت کا تعلق ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ باور نہیں کر سکتے کہ اس اکیلے کو

Page 69

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 52 ہی جہنم رسید کر کے آگ میں جھونک دیا گیا ہو کیونکہ یہ بات خود اپنی ذات میں ایک بہت بڑے تضاد کی حامل ہے.ہم ذرا مسیحیت کے اصل بنیادی تصور کی طرف لوٹ کر اس معاملہ کا جائزہ لیتے ہیں.اس تصور کی روسے کہا یہ جاتا ہے کہ ”خدا“ اور ”بیٹا ہیں تو دوا قنوم لیکن ان کی فطرت اور مادہ ایک ہی ہے.یہ ناممکن ہے کہ دونوں میں سے ایک تو ایک تجربہ سے گزرے اور دوسرا اس تجربہ میں سرے سے شریک ہی نہ ہو.ہم یہ کیسے باور کر سکتے ہیں کہ ”خدا“ کے ایک رخ یا ہیئت “ یعنی اس کے ” بیٹے کو تو عذاب دیا جارہا تھا جبکہ وہ خود اس طرح اس عذاب سے محفوظ تھا کہ گویا اسے خراش تک نہ آئی.اگر یہ کہا جائے کہ ” بیٹے “ کے ساتھ خدا نے دکھ نہیں جھیلا تو یہ خدا کی وحدانیت پر ضرب لگانے اور اسے پاش پاش کرنے کے مترادف ہو گا.اس طرح تو ایک شخصیت میں تین شخصیتوں کا ادغام اور بھی ناقابل فہم بن کر رہ جاتا ہے کیونکہ تثلیث کے ہر اقنوم کا تجربہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف نظر آئے گا.ان میں سے ایک ”خدا“ تو بھڑکتی ہوئی آگ میں جل رہا ہو گا جبکہ بیک وقت دوسرا ”خدا“ اس سے مکمل طور پر اس طرح الگ تھلک ہو گا کہ آگ نے اسے چھوا بھی نہ ہو گا.اس زمانہ میں عیسائیوں کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ یا تو وہ خدا کی عجیب و غریب اپنی خود ساختہ وحدانیت سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور زمانہ قبل از مسیح کے اہل روما اور اہل یونان کی طرح تین مختلف خداؤں کا علیحدہ علیحدہ وجود تسلیم کر لیں یا پھر ضمیر کی آواز پر پورے اترتے ہوئے اس بات پر ایمان لے آئیں کہ خدا واحد ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں حتی کہ یہ بھی ممکن نہیں کہ اس کے کوئی سے بھی دور یا ہیئتیں ہوں جو ایک دوسرے سے متضاد ہوں.سوچنے والی بات ہے کہ جب ایک بچہ تکلیف میں ہوتا ہے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کی ماں کو بھی ساتھ ہی تکلیف محسوس نہ ہو اور وہ ہر طرح سے بے حس و پر سکون رہے.لازماً وہ بچہ ہی کی طرح خود بھی تکلیف محسوس ہونے والی تکلیف بچہ کی تکلیف سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے.جب ”باپ خدا نے اپنے ” بیٹے کو تین دن تک اذیت سہنے اور دکھ جھیلنے کے لیے جہنم رسید کیا تھا تو ”باپ “ ہونے کی حیثیت میں خود اس پر کیا بیت رہی تھی؟ اور بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑے ہوئے ”فرزند خدا“ پر کیا گزر رہی تھی؟ کیا خدا دو علیحدہ علیحدہ شکلیں اور جداگانہ مادے رکھنے والی دو شخصیتوں میں منقسم ہو گیا تھا؟ ”خدا“ کی ایک ہیئت تو دوزخ کی آگ میں جل بھن رہی تھی اور دوسری ہلیت دوزخ سے باہر ہونے کے باعث ہر قسم کی تکلیف اور اذیت سے یکسر مبرا تھی؟ اگر یہ سمجھا جائے کہ ”باپ خدا “ بھی ساتھ ہی دکھ اٹھا رہا تھا تو پھر ” بیٹے کو پیدا کرنے اور اسے مصیبت میں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی ”خدا خود ہی دکھ اٹھا سکتا اور مصیبت جھیل سکتا تھا؟ ایک سیدھا سادہ براہِ راست سوال ہے اور

Page 70

53 گناہ اور کفارہ اس کا دوٹوک جواب دینا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اس نے خود کیوں نہ دکھ جھیلا؟ گناہ کی معافی کا قدیمی مسئلہ حل کے کے لئے ایسا پیچیدہ اور مشکل منصوبہ بنانے کی آخر ضرورت ہی کیا تھی؟ آگ کی سزا دوزخ کا معاملہ ذرا نازک معاملہ ہے.یہ اس امر کا متقاضی ہے کہ اس کا زیادہ قریب سے اور پوری توجہ سے جائزہ لیا جائے.یہاں ہماری مراد اس دوزخ سے ہے جس میں عیسائیوں کے عقیدہ کی رو سے مسیح کو ڈالا گیا تھا.دیکھنا یہ چاہیے کہ وہ کس قسم اور نوعیت کی دوزخ تھی.کیا یہ وہی دوزخ تھی جس کا ذکر عہد نامہ جدید میں آتا ہے اور خود انجیل یعنی عہد نامہ جدید کے الفاظ میں یہ ہے: ”ابن آدم اپنے فرشتوں کو بھیجے گا اور وہ سب ٹھو کر کھلانے والی چیزوں اور بدکاروں کو اس کی بادشاہی میں سے جمع کریں گے اور ان کو آگ کی بھٹی میں ڈال دیں گے.وہاں رونا اور دانت پینا ہو گا.“ (متی باب 13 آیت 42،41) اس بارہ میں مزید غور کرنے سے قبل بغیر کسی ابہام کے واضح طور پر یہ بات سمجھ لینی ضروری ہے کہ عہد نامہ جدید کی رو سے آگ کی سزا یا بالفاظ دیگر دوزخ کی سزا سے کیا مراد ہے.کیا یہ ایک ایسی آگ ہے جو روح کو جلاتی ہے یا یہ ایک ایسی مادی آگ ہے جو جسم کو بھسم کر کے رکھ دیتی ہے.کیا مسیحی حضرات اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ موت کے بعد ہم اسی جسم میں دوبارہ اٹھائے جائیں گے جسے روح اس کے مٹی میں مل کر مٹی ہو جانے یا راکھ بن جانے کے بعد پیچھے چھوڑ جاتی ہے یا یہ کہ موت کے بعد روح کے لئے ایک نیا جسم پیدا کیا جائے گا اور دوبارہ جی اٹھنے والا شخص ایک نیا جسم عطا ہونے کے تجربہ میں سے گزرے گا؟ اگر دوزخ کی آگ مادی اور جسمانی آگ ہے اور یہ بدنی سزا پر دلالت کرتی ہے تو پھر ہمیں اپنے خیال اور تصور کو پھیلا کر ایک خاص حد تک لے جانا ہو گا اور وہ حد یہ ہے کہ ہمیں سوچنا پڑے گا کہ مسیح کے معاملے میں (جبکہ اسے دوزخ میں ڈالا گیا) کیا ہوا ہو گا اور اس پر کیا بیتی ہو گی ؟ کیا آگ میں پڑنے سے قبل مسیح کی روح اسی مادی جسم میں پھر مقید کر دی گئی تھی جو دنیا میں زندگی بھر اس پر مسلط رہ کر اس کا ساتھ دیتی رہی تھی؟ یا ایسا ہوا تھا کہ کسی نہ کسی طرح اسے غیر مرئی نوعیت کے آسمانی جسم میں منتقل کر دیا گیا تھا؟ اگر اس مؤخر الذکر بات کو درست مانا جائے تو یہ بھی ماننا ہو گا کہ وہ آسمانی جسم جہنم کی مادی آگ کی پہنچ سے باہر رہا ہو گا یعنی وہ جلنے ، سزا پانے اور بھسم ہو جانے سے محفوظ رہا ہو گا؟ بر خلاف اس کے اول الذکر صورت میں

Page 71

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 54 ہوا یہ ہو گا کہ مسیح نے مرنے کے بعد جس انسانی جسم میں بسیرا کیا ہو گا اسے مسیح کے لیے دوبارہ جسم کی شکل دی گئی ہو گی تا کہ وہ جسم دوزخ کی اذیت جھیلنے میں مسیح کے لیے ذریعہ اور واسطہ کا کام دے سکے.اگر اس صورت حال کو ہم درست تسلیم کر لیں تو پھر اس امر کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا کہ ایسا کرنا آسمانی یا الو ہی اصول انصاف کو ایک اور دھچکا پہنچانے کے مترادف ہو گا.پہلی بات تو یہ سامنے آئے گی کہ ایک اجنبی روح نے اس مادی جسم کو زندگی بھر کے لئے اغوا کیا اور اسے مجبور کیا کہ وہ اسے ( یعنی اس اجنبی کو ) اپنے اندر سکونت پذیر ہونے دے.اس بے چارے جسم کو اس فراخ دلی اور مہمان نوازی کا صلہ جس کی ذمہ داری اس پر زبر دستی تھوپی گئی تھی یہ ملا کہ اس امر کے باوجود کہ اس نے سرے سے کوئی گناہ ہی نہیں کیا دوزخ کی آگ میں جلے.اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ اس بے قصور جسم نے طوعاً و کرہاجو قربانی پیش کی اس کا سہرا اس جسم پر قبضہ جمانے اور اس میں زبر دستی سکونت پذیر ہونے والے نے باندھ لیا اپنے سر.پھر سوال یہ پیدا ہو گا کہ جس انسان کا وہ جسم تھا اس کی روح کا کیا بنا؟ پھر شاید یہ ماننا پڑے کہ اس کی اپنی کوئی روح تھی ہی نہیں.اگر واقعی اس کی اپنی کوئی روح نہ تھی تو پھر مسیح کی شخصیت میں موجود انسان اور خدا دونوں کو ایک ہی وجود ماننا پڑے گا اور یہ نظریہ کہ کبھی تو مسیح سے انسانی جذبوں کے تحت اعمال سر زد ہوتے تھے اور کبھی وہ خدا کی مرضی و منشا کے مطابق اعمال بجالاتا تھا مداری کا کھیل بن کر رہ جائے گا.ذہن کے لئے قابل قبول فارمولا یہی ہے کہ ایک روح اور ایک جسم کے باہم یکجا ہونے سے ایک انسان وجو د میں آتا ہے.سو گویا ایک روح اور ایک جسم کے مجموعے کا انسان ہے.ایک جسم میں بیک وقت دو روحیں موجود ہونے کا نظریہ ایک انوکھا نظریہ ہے.ایسے انوکھے نظریہ کو وہی لوگ تسلیم کر سکتے ہیں جو ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں کہ جن بھوت اور اسی نوع کی دوسری بلائیں لوگوں پر اپنا تسلط جما کر ان سے عجیب و غریب حرکات کرواتی ہیں.خدا کی قربانی اور روحانی عظمت عین ممکن ہے کہ دوسری صورت مسیحی عالموں کے نزدیک زیادہ قابل قبول ہو یعنی یہ کہ مسیح کی روح ہی دوزخ میں داخل ہوئی تھی اور وہ دوزخ بھی مادی نہیں بلکہ روحانی نوعیت کی تھی.اگر ایسا ہی تھا تو بادی النظر میں تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ہم اس نظریہ کو نا معقول قرار دے کر مسترد کر دیں.لیکن ذرا تدبر سے کام لیا جائے تو یہ مشکل آڑے آئے بغیر نہیں رہتی کہ روحانی نوعیت کی دوزخ تو ضمیر کے کچوکوں

Page 72

55 گناہ اور کفارہ اور ان کی وجہ سے رونما ہونے والی دردانگیز کیفیت یا احساس جرم کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.مسیح پر تو ان دونوں میں سے کوئی بات بھی صادق نہیں آتی.اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ خود معصوم اور بے گناہ ہوتے ہوئے کسی اور شخص کے جرم کی سزا کو خود اپنے لئے قبول کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں تو پھر ضمیر کے کچوکوں اور ان کی درد انگیز کیفیت کے ابھرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا بلکہ ہوتا یہ ہے کہ اس سے یکسر متضاد صورت حال ابھر کر سامنے آتی ہے.نیکی کمانے والے ایسے آدمی کی روح میں تو قربانی و ایثار کے ذاتی اور شخصی مظاہرہ کے زیر اثر طمانیت بخش سعادت میسر آنے کا پر مسرت احساس جنم لیا کرتا ہے.اور یہ احساس خود اپنی جگہ دوزخ پر نہیں روحانی جنت پر دلالت کرتا ہے.اب ہم ذرا اس جسم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جسے مسیح نے اپنے لیے اختیار کیا اور ایسا اختیار کیا کہ خود اس کے اندر سما گیا.اس ضمن میں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس جسم کے تعلق میں موت کے کیا معنی ہوں گے اور اس کے دوبارہ جی اٹھنے کا کیا مطلب لیا جائے گا.عقل و شعور اور علم کا تقاضا تو یہ ہے کہ مسیح کے جسم کو ” ابنیت مسیح کا جزولاینفک ہونا چاہیے.بصورت دیگر اس امر کی کوئی مشتر کہ بنیاد بنتی ہی نہیں کہ جس کی روسے اس کی الوہیت اور انسانی حیثیت دونوں باہم مجتمع ہو کر ایک دوسرے میں مدغم ہوں اور پھر ساتھ کے ساتھ بعض مخصوص حالات میں امتیازی طور پر ایک دوسرے سے مختلف نوعیت کے کردار ادا کریں.بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسیح کے وجود میں موجود انسان تمام معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے کر انہیں کنٹرول کر رہا ہے جس سے یہ لازم آتا ہے کہ اس جسم کی اپنی ایک علیحدہ روح ہے.برخلاف اس کے بعض اوقات ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اُلوہیت خود براہ راست اثر انداز ہو کر انسان کے دل و دماغ اور صلاحیتوں کو ایک خاص نہج پر چلا رہی ہے.لہذا ہم باصرار یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ایسا اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب ایک دوسرے سے ممیز و ممتاز دو علیحدہ علیحدہ شخصیتیں باہم ایک ہی وجود میں مقید ہو کر ایک دوسرے کا جز ولا ینفک بن گئی ہوں.مسیح کے تعلق میں موت کا مفہوم و مطلب اس امر کی مختلف امکانی صورتوں کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد کہ مسیح کی شخصیت میں الوہیت اور انسانیت نے باہم دگر کیا کیا کردار ادا کیے ہوں گے.اب ہم صحیح کے بارہ میں لفظ ”موت“ کے اطلاق اور پوری جامعیت کے ساتھ اس کے ہمہ گیر معانی کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.

Page 73

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 56 مسیحیوں کے عقیدہ کے بموجب اگر مسیح تین دن رات کے لئے مر گیا تھا تو موت کا یہی مطلب لینا ہو گا کہ ان تین دنوں اور تین راتوں میں روح نے جسم سے اپنا تعلق منقطع کر لیا تھا اور روح اس میں سے پرواز کر گئی تھی.اس کا صاف اور واضح مطلب یہی بنتا ہے کہ روح نے پرواز کر کے جسم سے اپنا تعلق ایسے حتمی رنگ میں منقطع کر لیا تھا کہ پیچھے صرف ایک مردہ لاش ہی باقی رہ گئی تھی.سو گویا اس طرح مسیح کو ایک مادی اور فانی جسم میں مقید رہنے سے بالا آخر خلاصی مل گئی لیکن قید سے اس رہائی کو کسی صورت میں بھی سزا قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ دینا چاہیے.”بیٹے کی مقدس روح کی اپنی پر جلال و پر جمال شان و شکوہ کی طرف مراجعت کو کسی لحاظ سے سے بھی عام انسانی موت پر محمول نہیں کیا جاسکتا.انسانی موت کے ساتھ خوف وابستہ تو ہو تا ہے لیکن اس خوف کا روح کی جسم سے علیحدگی اور جدائی سے کوئی تعلق نہیں ہو تا.روح تو ایک نئے شعور اور نئی آگاہی سے ہمکنار ہو کر جسم سے علیحدگی اختیار کر رہی ہوتی ہے بلکہ موت کے خوف اور دہشت کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ مرنے والے کا اپنے پیچھے چھوڑے جانے والے بہت سے عزیزوں، پیارے وجو دوں اور مرغوب و دل پسند چیزوں یعنی کل پسماندگان سے ہمیشہ کے لیے تعلق منقطع ہو جاتا ہے.اسی لیے بسا اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایسا شخص جس کے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہتا اور اس کے عزیز واقارب ہی حیات ہوتے ہیں کہ جن کی خاطر وہ زندہ رہے وہ کھو کھلی قسم کی بے کیف زندگی بسر کرنے پر موت کو ترجیح دینے لگتا ہے.زندگی میں اس کی دلچسپی اس حد تک ختم ہو جاتی ہے کہ وہ مر جانا چاہتا ہے.جہاں تک مسیح کا تعلق ہے اس امر کا کوئی امکان نہ تھا کہ اسے زندگی میں یاموت کے وقت کسی قسم کی ندامت یا پشیمانی سے دوچار ہونا پڑا ہو.اس کے لئے تو موت کی کھڑ کی صرف ایک سمت میں کھلتی تھی اور وہ سمت کسی خسارہ کی نہیں بلکہ سراسر نفع اور خیر و فلاح کی سمت تھی.پھر جسم سے اس کے علیحدہ ہونے یا اس میں سے کوچ کرنے کو ایک انتہائی قابل رحم اور اذیت ناک تجربہ سے کیوں تعبیر کیا جائے؟ مزید بر آس جیسا کہ عیسائی صاحبان ہمیں باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں مسیح نے محض تمثیلی رنگ میں جان نہیں دی تھی بلکہ فی الحقیقت ایک دفعہ موت کا مزہ چکھا تھا اور مرنے کے بعد وہ پھر اسی جسم میں لوٹ آیا تھا.ایسی صورت میں اسی جسم کے اندر واپس لوٹ آنے کا مطلب اس کے سوا کیا ہو گا کہ ایک سراسر ناممکن اور خلاف عقل بات کو اس کی طرف منسوب کیا جائے.موت کے وقت جسم کو چھوڑ دینے اور اس سے کلیۂ کنارہ کش ہو جانے کے بعد جب وہ اسی جسم میں واپس لوٹا تو کیا اس کی اس مراجعت کو نئی پیدائش سے تعبیر کیا جائے

Page 74

57 گناہ اور کفارہ گا؟ اگر اس پورے عمل کو مسیح کے جی اٹھنے اور از سر نو زندہ ہو جانے سے ہی تعبیر کرنا ہے تو پھر یہ بھی لازم آتا ہے کہ اس کے ساتھ اس کے جسم کو بھی دوام حاصل ہو گیا ہو گا.لیکن بائبل میں ہم جو کچھ پڑھتے ہیں وہ بالکل ہی مختلف کہانی ہے.اس کہانی کے مطابق مسیح اسی جسم میں جس میں کہ صلیب دی گئی تھی دوبارہ داخل ہو کر مردوں میں سے جی اٹھا تھا اور اسی جی اٹھنے کو ہی مرنے کے بعد دوبارہ زندگی پانے کا نام دیا جاتا ہے.اگر ایسا ہی ہوا تھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسی جسم کو دوبارہ ترک کرنے کو کیا معنی پہنائے جائیں گے ؟ کیا اسے دوبارہ ترک کرنا دوسری موت کے مترادف نہ ہو گا؟ اگر مسیح کا جسم سے پہلی بار کوچ کرنا موت کی آغوش میں جانا تھا تو پھر اسے دوسری بار ترک کرنے کے بارہ میں تسلیم کر لینا چاہیے کہ وہ ہمیشہ کے لئے مر چکا ہے.جب روح پہلی بار جسم کو چھوڑ جاتی ہے تو تم اسے موت قرار دیتے ہو.جب وہ دوبارہ اسی جسم میں واپس آتی ہے تو تم اسے موت کے بعد کی زندگی قرار دیتے ہو.لیکن جب وہ اسی جسم کو دوبارہ چھوڑ جاتی ہے اور چھوڑ بھی جاتی ہے کبھی واپس نہ آنے کے لئے تو اس کے ہمیشہ کے لئے چلے جانے کو تم کیا نام دو گے ؟ کیا اسے فہم و ادراک سے بلا مسیحیت کی چیستانی زبان میں دائی موت کہا جائے گا یا پھر ایسی دائمی موت کو بھی دائمی حیات کا نام دیا جائے گا؟ موت، موت ہی ہوتی ہے یہ دائی موت ہی کہلائے گی اس کے سوا اور کچھ نہیں.اس سارے معاملہ پر جتنا بھی غور کیا جائے ایک تضاد کے بعد دوسرا تضاد نکلتا چلا آتا ہے اور تضاد پر تضاد سے واسطہ پڑتا چلا آتا ہے.یقیناً اس پر غور و فکر ایک اعصاب شکن تجربہ سے کسی طرح کم نہیں! اب اگر یہ کہا جائے کہ دوسری مرتبہ جسم کو ترک نہیں کیا گیا تو بہت ہی عجیب و غریب صورت حال ابھر کر سامنے آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ”باپ خدا “ تو ایک لا محدود اور غیر فانی روحانی وجود کے طور پر اپنے موجود ہونے کا ثبوت دے رہا ہے جبکہ ”بیٹا ایک فنا ہو جانے والی ہستی کی حدود و قیود میں مقید چلا آرہا ہے.غیر محدود گناہوں کی برائے نام سزا مسیحیوں کی طرف سے خیال آفریں انداز میں کہنے کو یہ بھی کہا جاسکتا ہے اور بعض کہتے بھی ہیں کہ یہ ہمیشہ ضمیر کے باطنی کچوکے اور ان کے نتیجہ میں اٹھنے والی ٹیسیں ہی نہیں ہو تیں جو ان لوگوں کو انتہائی تکلیف دہ حالات سے دو چار کرتی ہیں جو اپنے قصوروں اور گناہوں کے بارہ میں بہت حساس واقع ہوتے ہیں.بر خلاف اس کے دوسروں کے دکھوں اور مصائب پر انتہائی ہمدردی اور غم خواری کا جذبہ بھی کسی انسان کو جو خود مکمل یا جزوی طور پر معصوم و بے خطا ہو روحانی اذیت میں مبتلا کر دیتا ہے اور ان کی یہ حالت مسلسل

Page 75

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 58 سوہان روح کی شکل اختیار کرتی چلی جاتی ہے.ایسا شخص دوسروں کی خاطر خود دکھ اٹھانے کے وصف سے متصف ہو تا ہے.اس کی یہ حالت بسا اوقات بڑھتے بڑھتے جہنم کی اذیت ناک کیفیت سے مشابہت اختیار کر لیتی ہے.ہر کوئی جانتا ہے کہ مائیں اپنے بیمار اور معذور بچوں کے لئے کچھ کم دکھ نہیں اٹھا تیں.انسانی تجربہ اس امر پر گواہ ہے کہ ایک دائمی طور پر معذور اور اپاہج بچے کا دکھ اس کی ماں کے لئے ایک دہکتی ہوئی اصلی جہنم کی شکل اختیار کر لیتا ہے.بنابریں ہم دوسروں کی خاطر دکھ جھیلنے کے اس اعلیٰ روحانی وصف کو مسیح کے تعلق میں کیوں تسلیم نہیں کر سکتے ؟ آخر ہم کیوں نہ تسلیم کریں کہ یہ ارفع و اعلیٰ روحانی وصف مسیح کو بدرجہ اولی حاصل تھا اور وہ یقیناً اس سے پوری طرف متصف تھا لیکن مسیح کے ضمن میں سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس کے اس ارفع وصف کی کار فرمائی صرف تین دن رات تک ہی کیوں محدود رہی؟ اس وصف نے مسیح کے اپنے پورے زمینی عرصہ حیات میں بلکہ اس سے بھی پہلے اور بعد کے زمانوں میں بھی اپنی تاثیر اور اثر انگیزی کا کیوں ثبوت نہ دیا.شرف اور بزرگی رکھنے والے روحانی وجود دوسروں کی خاطر صرف چند گھنٹوں یا دنوں پر مشتمل محدود وقت کے لیے ہی برائے نام دکھ نہیں اٹھایا کرتے.ان کے دکھ اور کرب مسلسل کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ ان کے دل تسلی نہیں پکڑتے اور انہیں چین نہیں آتا جب تک وہ دوسروں کے دکھ کو یکسر نابود ہوتے اور اسے سکھ میں تبدیل ہوتے نہ دیکھ لیں.جس قسم اور نوعیت کی دوزخ سر دست ہمارے زیر غور ہے اسے اپنے پر وارد کرنا صرف معصوم صفت اور خدا رسیدہ لوگوں کا ہی خصوصی استحقاق نہیں ہے.اس میں شک نہیں کہ یہ اعلیٰ وصف ہے لیکن یہ ہے ایک ایسا وصف جس سے متصف ہونے سے جنگل کے درندے بھی بکلی محروم نہیں ہیں.وہ بھی ایک حد تک اس سے متصف ہوتے ہیں اسی لیے وہ بھی اپنے قریبی ساتھیوں کا دکھ درد محسوس کرتے ہیں.میں اظہارِ رائے کے طور پر چند مزید فقروں پر اکتفا کرتے ہوئے اس بحث کو سمیٹنا اور ختم کرنا چاہتا ہوں لیکن ایک اور اہم موضوع بھی میرے پیش نظر ہے اس پر بھی اختصار سے روشنی ڈالنا ضروری ہے.وہ موضوع یہ ہے ے کہ خدا نے مسیح کے لئے جو سزا مقرر کی وہ صرف تین دن اور تین رات جاری رہی جبکہ ان گناہگاروں نے جن کے گناہوں کی پاداش میں اسے سزادی گئی اتنے لمبے عرصہ اور زمانہ دراز تک ایسے ایسے بھیانک گناہ کئے تھے کہ خود بائبل کی رو سے وہ مستحق تھے دوزخ کے دائگی عذاب کے.قابل غور امر یہ ہے کہ یہ کس قماش کا عادل خدا تھا کہ جب وہ ان لوگوں کو سزا دینے لگا جنہیں اس نے خود پیدا تو کیا تھا لیکن وہ

Page 76

59 گناہ اور کفارہ اس کے اپنے بیٹے اور بیٹیاں نہیں تھے تو اس نے انہیں ہمیشہ ہمیش جاری رہنے والی سزا دینے کا فیصلہ کیا لیکن جب وہ انہی ان گنت گناہوں کی سزا خود اپنے بیٹے کو دینے لگا کیونکہ ان تمام گناہوں کا بار اس نے رضا کارانہ طور پر خود اپنے کندھوں پر لے لیا تھا کبھی ختم نہ ہونے والی دائمی سزا میں یکدم تخفیف کر دی گئی اور تخفیف بھی اتنی زیادہ کی گئی کہ دائمی سزا گھٹ گھٹا کر صرف تین دن اور تین رات کے انتہائی قلیل عرصہ تک محدود ہو کر رہ گئی ؟ گویا کہ دونوں سزاؤں میں کوئی نسبت ہی باقی نہ رہی.اگر انصاف کے نام پر سے کچھ کرنا تھا تو پھر ایسے انصاف کا ڈھونگ رچانے کی ضرورت ہی کیا تھی.بنی نوع انسان کو خدا نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے.اگر وہ بھی اسی طرح کا انصاف کرنے لگیں جس طرح کا انصاف کرنا انہوں نے خود اسی سے سیکھا ہے تو عدل گستری میں وہ ان کے طرز عمل اور کردار پر کیسے ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار کرے گا.اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ اپنے بچوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں اور پیمانے اور دوسروں کے ساتھ پیش آنے میں پیمانے بالکل ہی اور.اگر خدا کے بندے بھی عدل گستری میں اس کے اپنے اس بے انداز تفاوت کی نقل کریں تو کیا وہ ان کی اس ہو بہو نقل کو خوشی اور مسرت کے عالم میں جھوم جھوم کر دیکھے گا یا غصہ اور دہشت زدگی کے عالم میں اس کا مشاہدہ کرے گا؟ لاریب بہت مشکل ہے اس سوال کا جواب دینا! کفارہ نے تبدیلی کیا پیدا کی؟ جہاں تک اس مسیحی عقیدہ کا تعلق ہے کہ مسیح کا صلیب پانا گناہ کی سزا پر اثر انداز ہوا ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں کہ یسوع مسیح پر ایمان لانے کے نتیجہ میں گناہ کی سزا میں کسی لحاظ سے بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی.ہماری مراد اس سزا سے ہے جو خدا نے ابتدائی گناہ کی پاداش کے طور پر آدم و حوا اور ان کی تمام آئندہ نسلوں کے لئے مقرر کی تھی.تمام انسانی مائیں آج تک درد زہ کی تکلیف اٹھا کر بچے جنتی چلی آرہی ہیں اور اسی طرح آج بھی مرد محنت و مشقت کے ذریعہ اپنا پسینہ بہا کر روزی کما رہا ہے.آئیے ہم ایک اور زاویہ نگاہ سے اس معاملہ کا جائزہ لیں.وہ زاویہ نگاہ یہ ہے کہ اس بارہ میں عیسائی دنیا کا غیر عیسائی دنیا سے موازنہ کر کے دیکھیں کہ زمانہ مسیح کے بعد سے عیسائی دنیا میں کیا امتیاز رونما ہوا ہے.مسیح پر ایمان لانے والا کوئی شخص بھی تاریخ کے کسی بھی دور میں کسی قابل ذکر تبدیلی کی نشاندہی نہیں کر سکتا.کیا کسی دور میں بھی ایسا ہوا ہے کہ ان کی (یعنی عیسائیوں کی ) عورتوں نے دردِ زہ کے بغیر ہی بچے جنے

Page 77

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 60 ہوں.اور ان کے مردوں نے مشقت جھیلے بغیر ہی روزی کمائی ہو.اس بارہ میں وہ غیر عیسائی دنیا کے بالمقابل اپنے ہاں کسی تبدیلی کا رونما ہونا ثابت نہیں کر سکتے.گناہ کے طبعی میلان کے بارہ میں بھی عیسائی دنیا میں تبدیلی کے کوئی آثار کبھی ظاہر نہیں ہوئے.مسیح پر ایمان رکھنے والوں اور ایمان نہ رکھنے والوں کا باہم موازنہ کرنے سے اس امر کی کوئی شہادت سامنے نہیں آتی کہ مسیح پر ایمان رکھنے والوں میں ارتکاب گناہ کا میلان کلی طور پر نا پید ہو گیا ہو.مزید بر آں یہ امر بھی حیران کن ہے کہ ”خدا کے بیٹے“ پر ایمان کے بالمقابل خدا پر ایمان کو کمتر درجہ کیوں دیا جاتا ہے.خاص طور پر اس زمانہ کے متعلق کیا کہا جائے گا جبکہ یہ گہر ا قدیمی راز کہ خدا کا کوئی بیٹا بھی تھا ابھی نوع انسان پر منکشف نہ ہوا تھا.یقیناً اس وقت بھی ایسے لوگ موجود تھے جو خدا کی ہستی اور اس کی وحدانیت پر ایمان رکھتے تھے.اسی طرح خود مسیح کے اپنے زمانہ میں اور اس کے بعد کے زمانوں میں بھی ہر خطہ ارض میں اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں میں بے شمار لوگ ایسے پیدا ہوئے جو خدا کی ہستی پر اور اس کے احد ہونے پر ایمان رکھتے تھے.اس زمانہ میں ایمان باللہ گناہ اور اس کی سزا پر کیوں اثر انداز نہ ہوا؟ یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ”باپ خدا نے گناہگاروں کے لئے اس عظیم دکھ کا مظاہرہ کیوں نہ کیا جس کا مظاہرہ اس کے ”بزرگ تر“ بیٹے کی طرف سے دیکھنے میں آیا؟ یقینا ظاہر یہی ہوتا ہے کہ ( نعوذ باللہ ) کم مہذب باپ کے مقابلہ میں بیٹا بلند تر اخلاقی اقدار کا حامل تھا.اگر کوئی یہ پوچھتا ہے تو وہ ایسا کرنے میں حق بجانب ہے کہ کیا ( نعوذ باللہ الوہیت ابھی ارتقائی مراحل میں سے گزر رہی ہے اور اس کے پایۂ تکمیل کو پہنچنے کا عمل ہنوز جاری ہے ؟

Page 78

باب سوم رُوح القدس کا عمل و کردار اب تک ہم نے جس مسئلہ کے بارہ میں بات کی ہے اس کا تعلق خدا کے نام نہاد بیٹے مسیح سے تھایا پھر اس مفروضہ سے کہ خدا مسیح کا حقیقی باپ ہے لیکن اس ضمن میں ایک تیسری ہستی کا ذکر بھی ضروری ہے اور اس ہستی کا نام ہے روح القدس.مسیحی عقیدہ کی رو سے روح القدس اپنی علیحدہ اور جداگانہ شخصیت بھی رکھتا ہے اور اس کے باوجود وہ ”باپ “ اور ”بیٹے“ کے ساتھ پیوست بھی ہے اور پیوست بھی ہے اس طرح کہ ازلی طور پر ان میں مدغم ہے اور اس انداز سے مدغم ہے کہ ان تینوں کا ایک دوسرے میں ادغام ”تین میں ایک “ والی کیفیت یعنی ان تینوں کی باہم ایک اور اکیلی حیثیت کو اجاگر کر دکھاتا ہے.چنانچہ اب ہم اپنی توجہ کو بطور خاص اس نئے مسئلہ کی طرف پھیر کہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا خدا اور مسیح کی اپنی اپنی خودی سے علیحدہ روح القدس کی بھی اپنی کوئی علیحدہ خودی ہے.یہاں خودی سے مراد فی الاصل وہ شعور ذات ہے جو آخری اور حتمی تجزیہ کی رو سے غیر منقسم ہوتے ہوئے اپنی انفرادی حیثیت میں ہر فرد کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے.اگر دیکھا جائے تو ہر فرد کا دوسرے تمام افراد سے الگ اور ممیز ہونے کا شعور ہی غائب و حاضر اور مخاطب و متکلم کی الگ الگ حیثیتوں میں وہ “ اور ”اس کا نیز ”تم “ اور ”تمہارا“ کے بالمقابل ”میں“ اور ”میرا“ کی تمیز کو جنم دیتا ہے اور اس طرح ان کے درمیان پایا جانے والا امتیاز بین طور پر نمایاں ہوئے بغیر نہیں رہتا.تثلیث کے تینوں اجزا یا اقانیم پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ہمیں یہ امر طے کرنا ہے کہ آیا تینوں اقانیم اپنی جداگانہ خودی یعنی اپنی اپنی ہستی کا علیحدہ علیحدہ شعور رکھتے ہیں یا نہیں.اگر وہ اپنی ذات کا الگ الگ شعور نہیں رکھتے تو پھر ان سے ان کی علیحدہ علیحدہ شخصیتوں کو منسوب کر نانا قابل فہم بنے بغیر نہیں رہتا.ہر شخص دوسرے شخص یا ہستی کے کتنا ہی قریب کیوں نہ ہو اس کا اس انتہائی قربت کے باوجود اپنی ذات کے علیحدہ شعور سے متصف ہونا ضروری ہوتا ہے.تثلیث کے بارہ میں اکثر کلیسیائی فرقوں کا اپنا سر کاری یعنی با قاعدہ طور پر اختیار کردہ مشتر که موقف

Page 79

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 62 معین الفاظ میں منضبط ہے اور الفاظ کی حد تک وہ ہے بھی بالکل واضح.خود ان کے اپنے دعوی کے بموجب وہ نظریہ یا موقف یہ ہے کہ خدا کے وجود کی تین ہستیوں یا اقانیم میں سے ہر ایک کی اپنی اپنی علیحدہ شخصیت.سو یہ صرف ”تین میں ایک “ والی بات نہیں ہے بلکہ یہ عقیدہ ایک شخصیت میں تین شخصیتوں کی موجودگی پر دلالت کرتا ہے.اس لحاظ سے یہ امر ظاہر وباہر ہے کہ مسیح نے جب موت اور اس کے جملہ دور رس نتائج و عواقب کا سامنا کیا تھا تو اس کے اس پورے فعل میں روح القدس بھی برابر کا شریک رہا ہو گا کیونکہ مسیح نے جو قربانی دی اس میں تثلیث کے ایک اقنوم کی حیثیت سے روح القدس کی برابر کی شرکت ناگزیر تھی.مزید بر آں یہ بھی لازم آتا ہے کہ مسیح اور ”باپ خدا کی ہمراہی میں اس نے بھی دوزخ کا عذاب جھیلا ہو گا.اگر کہا جائے کہ ایسا نہیں ہوا تو کوئی بھی اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ تینوں اقانیم ( باپ، بیٹا اور روح القدس) ایک دوسرے سے مختلف و ممیز الگ الگ شخصیتوں کے ہی مالک نہ تھے بلکہ دل و دماغ سے تعلق رکھنے والے ان کے جذبات و خیالات اور ان کی استعدادیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہو نگی اور ایک دوسرے کے مابین انفعال کی کیفیت بھی موجو د ہو گی.تثلیث کے عقیدہ کو سمجھنے کی کوشش میں ہمیں اس منظر کو ذہن میں لانا ہو گا کہ تین علیحدہ علیحدہ شخصیتیں ایک دوسرے میں اس طرح گتھی ہوئی اور مدغم ہیں کہ ازل سے وجود واحد کے طور پر موجود چلی آرہی ہیں.ہم اپنے تخیل کو وسیع کرنے اور جلا دینے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں ہم یہ سمجھنے میں ہمیشہ ناکام رہیں گے کہ وہ تینوں شخصیتیں اپنے اپنے مختلف جذبات و احساسات کے ترقی پزیر عمل کے باوجود کس طرح باہم مدغم ہو سکتی تھیں اور ازلی طور پر وجود واحد کی حیثیت سے اپنی ہستی کو کس طرح بر قرار رکھ سکتی تھیں.اندریں حالات ایک ہی امکانی صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ ہے جسمانی طور پر ایک دوسرے میں مدغم ہونے کی صورت.اس امکانی صورت کو ذہن میں لانے سے قوی ہیکل بے شمار سروں والے اس عفریت نما اژدھے کی خیالی تصویر پر وہ ذہن پر ابھر نے لگتی ہے جس کا ذکر یونانی علم الاصنام کے دیو مالائی قصوں میں آتا ہے اور جس کے متعلق بیان یہ کیا جاتا ہے کہ اس کا ایک کئی سر قلم کر دینے سے فورا ہی نئے سر نکل آتے تھے.یہ بات یقینا اپنی جگہ صحیح ہے کہ انسان اس حقیقت کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے کہ خدا کس طرح کا اور کس فطرت کا ہے اور یہ کہ اس کی صفات خود اس میں کس طرح بروئے کار آتی ہیں.لیکن ایک ایسی واحد اور اکیلی ہستی پر جس کے ساتھ سر، دل، گردوں اور دیگر اعضا کی طرح کے علیحدہ علیحدہ جسمانی حصوں اور ان کی مخصوص کار کردگی کا کوئی تصور وابستہ نہ ہو ایمان لانا بہت سادہ اور آسان ہے.اس

Page 80

63 روح القدس کا عمل و کردار لئے کہ جدا گانہ شخصی خیالات و اوصاف والی ہستیوں کے برائے نام ادغام کا خیالی منظر نامہ متذ کرہ بالا واحد ولا شریک ہستی کے منظر نامہ سے یکسر مختلف و متغائر ہے.مختلف ہستیوں کے فرضی ادغام والے خیالی منظر نامہ کے نتیجہ میں ایک ایسے خدا کا تصوراتی ہیولا ابھرتا ہے جس کو سمجھنا اور جس پر ایمانالا نانوع انسان کے لئے بے حد مشکل اور وقت طلب ہے.اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں بہت سے انسان زمانہ دراز تک اس مسیحی عقیدہ پر کوئی اعتراض کیے بغیر اس کے ساتھ بلا حیل و حجت چھٹے رہے ہیں.حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی عطا کردہ عقل و دانش اور فہم و فراست کی ایسی کھلی کھلی خلاف ورزیوں کو عمداً آنکھیں بند کر کے نہ جانے کیسے نظر انداز کیے رکھا.روح القدس اور تخلیق کا آسمانی منصوبہ جہاں تک تخلیق کے خدائی منصوبہ اور اس ضمن میں یسوع مسیح کی تخلیق و پیدائش کا تعلق ہے ہمیں اس میں روح القدس کا کوئی عمل دخل نظر نہیں آتا.خود توریت میں لکھا ہے: ”خدا نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا.“ ( پیدائش باب 1 آیت 1) ظاہر ہے عہد نامہ قدیم میں مسیح یا روح القدس کی طرف کوئی اشارہ کیے بغیر خالق کے طور پر صرف ”باپ خدا “ کا ہی ذکر کیا گیا ہے.مسیح سے قبل کے پورے زمانہ میں جتنے بھی یہودی ہو گزرے تھے انہوں نے عہد نامہ قدیم کی اس آیت کو لکھو کھہا دفعہ پڑھا یا سنا ہو گا.ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے تخلیق کائنات کے ضمن میں مسیح یا روح القدس کا کبھی کوئی تذکرہ سنا ہو.البتہ عہد نامہ جدید میں ایک آدھ جگہ اشاروں کنایوں میں ایک امر کا مبہم ساذ کر ملتا ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ گویا تخلیق کائنات کے عمل میں میسی کا بھی کچھ دخل تھا.چنانچہ یوحنا نے اپنی انجیل میں مسیح کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کلام “ 3 کا لفظ استعمال کیا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ اناجیل اربعہ کے چار الگ الگ مصنفین میں سے صرف ایک مصنف نے اپنی رقم کر دہ انجیل میں ایسے اہم موضوع کو چھیڑا ہے اور غالباً اسے چھیڑا بھی ہے یوحنا نامی کسی ایسے شخص نے جو مسیح کا شاگر د (حواری) ہی نہ تھا.اگر اس شخص کے اختیار کردہ لفظ ”کلام “کو خدا کا کلام تسلیم کیا جائے تو بھی اس سے مراد خدا کی مرضی ہی لی جائے گی کیونکہ یہ ایک ایسا تصور یا نظریہ ہے جو تخلیق کائنات کے ضمن میں بہت سے مذاہب میں قدر مشترک کے طور پر پایا جاتا ہے.ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا.(انجیل یوحنابات 1 آیت 1)

Page 81

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 64 تعجب انگیز بات یہ بھی ہے کہ یہ امر کہ تخلیق کائنات کے پورے عمل میں خدا کے ساتھ مسیح اور روح القدس بھی شریک تھے ابتدائے آفرینش سے لے کر اس وقت تک پردہ راز میں ہی رہا جب تک کہ مسیح دنیا میں نہ آیا.بلکہ ہم دیکھتے ہی کہ خود مسیح نے بھی اس راز پر سے پردہ نہ اٹھایا اور اسے اپنے سینہ میں ہی دفن کیے رکھا کیونکہ ہمیں یسوع مسیح کا کوئی قول ایسا نہیں ملتا.جس میں اس نے اپنے آپ کو دعویٰ کے رنگ میں کلام“ قرار دیا ہو.لہذا یہ بات واضح ہے کہ دونوں ( مسیح اور روح القدس) میں سے کسی کا بھی کائنات کی تخلیق یا اس کی وضع قطع اور صورت گری میں کوئی عمل دخل سرے سے تھا ہی نہیں.پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ صرف یہ ”باپ خدا ہی تھا جس نے انسان کو اپنے ہاتھوں سے مٹی سے بنایا.میں نے عیسائی لٹریچر میں کہیں یہ نہیں پڑھا کہ جن ہاتھوں نے انسان کو بنایا وہ مسیح اور روح القدس کے ہاتھ تھے.ہر چیز خدا نے مسیح یا روح القدس کی خفیف سی مدد یا شرکت کے بغیر خود ہی پیدا کی.ان حالات میں مسیحی علما سے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ تخلیق کائنات کے ضمن میں خدا جو کچھ کر رہا تھا کیا مصیح اور روح القدس دونوں خاموش مبصروں کا کر دار ادا کر رہے تھے یا پھر اس کے برعکس صورت حال یہ تھی کہ تخلیق کے عمل میں وہ دونوں بھی برابر کے شریک تھے ؟ اگر مؤخر الذکر صورت حال ان کے نزدیک زیادہ قابل قبول ہے تو پھر لازماً یہ سوال پید اہوتا ہے کہ کیا ان میں سے ہر ایک اپنی انفرادی حیثیت میں کسی اور کی مدد کے بغیر تخلیق کرنے کی قدرت رکھتا تھا یا پھر یہ کہ وہ اجتماعی حیثیت میں ہی باہمی اشتراک سے ایسا کرنے پر قادر تھے ؟ اور اگر تخلیق کرنے کے لئے ضروری تھا کہ وہ تینوں اپنے فرائض اور کاموں کو باہمی اشتراک سے یکجائی طور پر انجام دیں تو کیا ان میں سے ہر ایک کی شرکت مساوی حیثیت کی تھی یا تخلیق کے کام میں جو محنت درکار تھی اس میں ایک کا حصہ دوسروں کے حصہ سے زیادہ تھا؟ کیا وہ تینوں ہستیاں نوعیت اور کیفیت و کمیت کے اعتبار سے مختلف طاقتوں کی حامل تھیں؟ ہر کسی کو ماننا پڑتا ہے کہ دونوں امکانی صورتوں میں سے جس کو بھی درست مانا جائے بہر صورت و بہر حال تثلیث کا ہر اقنوم اپنی اکیلی حیثیت میں از خود کوئی چیز تخلیق کرنے کا نا اہل ثابت ہوئے بغیر نہیں رہتا.اگر اس استدلال کو پھیلا کر دوسرے خدائی کاموں پر بھی اس کا اطلاق کیا جائے تو پھر یہی سوال بار بار آڑے آکر عیسائی علما کے لئے وبال جان بنا رہے گا.انجام کار دنیائے عیسائیت کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ایسے واحد خدا پر ایمان نہیں رکھتی جس کے اقتدار اعلیٰ، مرکزی قوت و جبروت اور عظمت و جلال کے تین مظہر ہیں بلکہ عیسائیت خدا کی ہستی کو مکمل کرنے والے تین علیحدہ علیحدہ اجزائے ترکیبی پر ایمان رکھتی ہے جو اس کے جسم یا ہستی

Page 82

65 روح القدس کا عمل و کردار کے تین حصوں کی حیثیت رکھتے ہیں.خدا کی ہستی کی ایسی تقسیم و تفریق کی صورت میں اجزائے ترکیبی کے با ہم مساوی یا غیر مساوی ہونے کا معاملہ نسبتاً کم تر درجہ کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے.سر بسته راز یا مهمل و متناقض اچنبه ایک انسان کے لئے یہ بات قابل قبول ہوتی ہے کہ جس چیز یا امر کے ناقابل تردید شواہد موجود ہوں وہ اس کی گنہ و کیفیت کو جانے اور پوری طرح سمجھے بغیر اسے حتمی اور یقینی قرار دے دے.ناقابل تردید شواہد کی موجودگی میں اس کے لئے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ اس چیز کا محض اس لئے انکار کر دے کہ اس کی کنه و کیفیت اور اصل حقیقت اس کی سمجھ یا ادراک سے بالا ہے.مثال کے طور پر لوگ قدرت کے ان مظاہر کی گنہ و کیفیت سے آگاہ نہیں ہوتے جو باہم مل کر ریڈیو ٹرانسمیشن (یعنی ریڈیائی پیغامات کی غیر مرئی ترسیل) اور ان پیغامات کو وصول کرنے والے آلات کو معرض وجود میں لانے کا موجب بنتے ہیں.یہ پیچیدہ و نازک آلات ریڈیائی لہروں میں محفوظ آوازوں اور مناظر کو دور دور تک پہنچانے والی کائناتی نبضوں اور دھڑکنوں کو کنٹرول کر کے ان میں محفوظ آوازوں اور مناظر کو ایسی کیفیت سے ہمکنار کر دکھاتے ہیں کہ انہیں ٹیلی کاسٹ کرنا یعنی گرہ ارض کے گرد دور دور تک ٹیلی ویژن سیٹس (Television Sets) میں منتقل کر کے انہیں سنا اور دیکھا بھی جاسکتا ہے.کائناتی لہروں کو کنٹرول کرنے اور ان سے کام لینے کے اس پورے نظام کے حقائق سے نابلد ہونے کے باوجود چٹے ان پڑھ لوگوں کو بھی انہیں تسلیم کرنا پڑتا ہے اور اس لئے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی صورت میں ان غیر مرئی حقائق کے ناقابل تردید شواہد ہمہ وقت ان کے سامنے موجود ہوتے ہیں.اسی طرح ہم میں سے بہت سے لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ کمپیوٹرز کس طرح کام کرتے ہیں.اس کے باوجود عصر حاضر میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو محض اپنے عدم علم کی بنا پر کمپیوٹروں کے نظام کی موجودگی کا انکار کرنے کی جرات کر سکیں.ایسے امور یا معاملات کو سربستہ رازوں سے تو تعبیر کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی موجودگی سے انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا.اسی طرح جو لوگ عدم علم کی وجہ سے ایسے سربستہ رازوں پر یقین نہیں رکھتے انہیں بے عقل سمجھنے یا ان کا تمسخر اڑانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی.ہم اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ اسی نوعیت کے بہت سے رازوں کے متعلق جو مذہبی عقائد کی شکل میں موجود ہوتے ہیں حلیمی اور بردباری کا رویہ اختیار کیا جا سکتا ہے اور کیا بھی جاتا ہے.بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں جو اس نوعیت کے عقائد پر

Page 83

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 66 ایمان رکھتے ہیں در آنحالیکہ وہ عقائد ان کی سمجھ سے بالا ہوتے ہیں اور وہ خود ان کی وضاحت کرنے سے قاصر ہوتے ہیں.ایسے عقائد انہیں نسلاً بعد نسل ورثہ میں مل رہے ہوتے ہیں اور ان کا عام رویہ یہ ہوتا ہے کہ یہ تو پہلے سے تسلیم شدہ عقائد ہیں.لہذا ان کے بارہ میں بحث یا غور کرنا بے فائدہ ہے لیکن ایسے رازوں پر مبنی عقائد کو درست تسلیم کرنے اور ان پر ایمان لانے کا معاملہ دیگر ہے کیونکہ ایسے رازوں کو نا قابل تردید حتمی شواہد کی پوری پوری تائید حمایت حاصل ہوتی ہے لیکن جب مذہبی عقائد میں مہمل و متناقض اچنبے اور عجوبے راہ پا جائیں تو پھر ان کے بارہ میں یہ عذر قبول نہیں کیا جاسکتا کہ قدرت کے بعض فہم و ادراک سے بالا رازوں پر ایمان لانا اس امر کا جواز پیدا کرتا ہے کہ مہمل و متناقض اچنبوں اور یکسر انہونی باتوں پر بھی آنکھ بند کر کے ایمان لے آیا جائے.ایسا انوکھا جواز پیچیدگیوں، الجھنوں اور گنجلکوں کو جنم دینے کا موجب بنتا ہے.میں بعض واضح شواہد کی موجودگی میں ایک ایسی بات پر ایمان لا سکتا ہوں جس کی کُنہ و کیفیت کو میں سمجھتا نہیں لیکن میں کسی ایسی بات یا مبینہ واقعہ پر ایمان نہیں لا سکتا جو اپنی ذات میں تضادات کا مجموعہ ہو.اور نہ ہی کوئی اور شخص جس کے ہوش و حواس قائم و بر قرار ہوں فی ذاتہ ایسی متناقض و متضاد بات پر ایمان لانے پر آمادہ ہو سکتا ہے.مثال کے طور پر میرے لیے یہ چیز تو سمجھ سے بالا ہو سکتی ہے کہ ایک گھڑی کس طرح بنتی ہے لیکن اپنے اس عدم علم کی بنا پر مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں از خود یا کسی کے کہنے میں آکر اس بات پر بھی یقین کرلوں یا ایمان لے آؤں کہ وقت بتانے والی گھڑی ساتھ کے ساتھ ایک جیتا جاگتا بھونکنے والا شور مچانے والا کتا بھی ہے.ایسا سمجھنا کسی ایسے عقیدہ پر ایمان لانا نہیں ہے جو پردہ راز میں لپٹا ہوا ہو بلکہ یہ تو ایک کھلا کھلا مبرهن تناقض ہے اور تمام تر ناگواری کے باوجود جیتی مکھی کھانے کے مترادف ہے.جب خدا کی طرف منسوب کی جانے والی دو یا دو سے زیادہ صفات میں باہم تناقض و تضاد ہو اور جب خدا کا قول اور فعل مبینہ طور پر اس درجہ بے میل اور بے جوڑ ہو کہ دونوں میں واضح تبائن ظاہر ہوئے بغیر نہ رہے تو پھر ان پر ایمان لانا بھید اور راز کی حدوں کو پھاند نے اور اس سے بہت آگے اور دور نکل جانے کے مترادف ہے.ایسا انسان راز اور بھید کے دائرہ سے نکل کر سر اسر تو ہمات کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے.جب بعض لوگوں کا اپنے عقائد کی بنا پر توہمات کے چکر میں پھنسنا ثابت ہو جائے تو پھر توقع کے رنگ میں ان سے یہ مطالبہ کرنا ایک لازمی اور قدرتی امر ہے کہ وہ اپنے عقائد پر نظر ثانی کریں اور اپنے اعتقادات کی اصلاح کرنے پر آمادہ ہوں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب عیسائی پادریوں اور منادوں سے سمجھانے

Page 84

67 روح اللہ س کا عمل و کردار کے رنگ میں بحث کی جائے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ واضح اور کھلے تضاد کے باوجود اس بات پر مصر رہتے ہیں کہ مسیح خدا ہونے کے ساتھ ساتھ انسان بھی تھا.انہیں اس میں سرے سے کوئی تضاد ہی نظر نہیں آتا.اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ اس میں بھی کوئی تناقض محسوس نہیں کرتے کہ ایک شخص بیک وقت تین اشخاص بھی ہو سکتا ہے اور پھر طرفہ تماشا یہ کہ ان تین اشخاص کے کرداروں میں حبہ برابر بھی فرق واقع نہیں ہو تا.وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ایک خدا پر ایمان لانا اور ساتھ کے ساتھ سہ شاخہ الوہیت (یعنی باپ، بیٹا اور روح القدس کی الوہیت) پر ایمان لانا کوئی ایسا اچنبہ یا عجوبہ نہیں ہے جو فی ذاتہ مہمل و متناقض ہو بلکہ اس کی حیثیت محض ایک راز یا غیب کی ہے.یہ کہہ کر وہ سمجھتے ہیں کہ اس بارہ میں کسی مزید دلیل کی ضرورت نہیں.وہ آنکھیں بند کر کے نچنت ہو جاتے ہیں اسی لئے انہیں اپنے اس دعوی میں کوئی تناقض نظر نہیں آتا.ان کے نزدیک ”باپ خدا کی ذات، اس کے اپنے بیٹے مسیح کی ذات سے اور روح القدس کی ذات سے واضح طور پر مختلف بھی ہے اور تینوں کی الوہیت یعنی تثلیث پر ایمان لانے کے باوجود بھی اس کی وحدانیت قائم و برقرار رہتی ہے.ان کی اس نرالی منطق پر حیرت زدہ ہو کر جب ہم انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو اور بھی زیادہ حیرت سے دوچار ہونا پڑتا ہے.ہم انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم ایک ہی شخصیت کے مختلف پہلوؤں ، مزاجوں اور صفات کی نہیں بلکہ تین علیحدہ علیحدہ شخصیتوں کی اور اس امر متناقض کی بات کر رہے ہیں کہ خدا تین میں ایک اور ایک میں تین ہے.پھر ہم انہیں بتاتے ہیں کہ ایسے امر متناقض پر ایمان لانا ہر گز کسی را ز یا غیب پر ایمان لانے کے مترادف نہیں ہے بلکہ یہ تو کھلے کھلے تضاد کو آنکھیں بند کر کے درست تسلیم کرنے والی بات ہے.اس پر ان کی طرف سے ایک عجیب رد عمل ظاہر ہوتا ہے.وہ اظہار ہمدردی کے طور پر اپنے سر کو ایک خاص انداز میں جنبش دیتے ہیں اور پھر بڑے نرم لہجے میں ہم سے کہتے ہیں کہ تضادات پر بحث کرنی ہے تو کسی اور موضوع پر بات کریں.مراد اس سے ان کی یہ ہوتی ہے کہ غیب“ کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے تضادات کو درمیان میں نہ لائیں.وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پہلے ہم نا قابل یقین پر آنکھ بند کر کے ایمان لائیں اور پھر ایمان لانے کے بعد اس راہ میں آگے قدم بڑھائیں تاکہ ان تضادات پر (جنہیں وہ قدرت کے بھید قرار دینے کے خواہاں ہیں) ایمان کی از خود نشو و نما ہو سکے.اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ پہلے سمجھے بغیر ایمان لائے اور پھر ایمان میں ترقی کرنے کی کوشش کرے.سو گویا اگر وہ سمجھے بغیر ایمان نہیں لاتا تو وہ مسیحی عقائد کے

Page 85

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 68 ان ”ظاہری“ تضادات کی اہمیت کو سمجھ نہیں سکتا.خلاصہ یہ کہ جس بات کا یقین ہی نہیں آسکتا پہلے بلا سوچے سمجھے اس پر ایمان لاؤ اور پھر ایمان لانے کے بعد ایمان کی مدد سے اسے سمجھنے کی کوشش کرو.یہ ہے مسیحی تو ہمات اور لایعنی تخیلات کی دنیا جس میں داخل ہونے کی ہم غیر مسیحیوں کو نصیحت کی جاتی ہے.لیکن جب ہم غیر مسیحی افراد جادو کے زور پر اڑنے والے اس تو ہماتی قالین پر قدم رکھتے ہیں تو یہ اڑنے سے ہی انکاری ہو جاتا ہے کیونکہ قدم رکھتے ہی عقل کے بالمقابل تو ہمات کا جادو باطل ہوئے بغیر نہیں رہتا.

Page 86

باب چهارم صلیب اور اس سے متعلقہ امور مسیح اور اسے صلیب دیئے جانے سے متعلق حقائق پر اپنی توجہ مرکوز کرنے سے قبل غالباً یہ بات بے محل نہ ہو گی کہ اس امر کا ذکر کر دیا جائے کہ مسیح کو صلیب دیئے جانے کے وقت اور اس کے بعد جو واقعات رونما ہوئے احمدی مسلمانوں کے نزدیک ان کی اصل حقیقت کیا ہے اور وہ ان سب واقعات کو کس نقطہ نظر سے دیکھتے اور جانچتے ہیں.یہاں اس موضوع پر اختصار سے روشنی ڈالی جائے گی.اس پر مفصل بحث کا مرحلہ بعد میں آئے گا.ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مسیح کو صلیب دینے کا مقصد کسی بھی قتل عمد کی طرح اسے جان بوجھ کر جان سے مار دینے کی ایک کوشش کے سوا اور کچھ نہ تھا.قتل عمد میں خود صلیب کی حیثیت ایک ہتھیار یا آلہ قتل ہی کی تھی.لیکن فی الاصل صلیب دینے اور اسے جان سے مار دینے کی یہ کوشش اس پر موت وارد کرنے میں ناکام رہی.بالفاظ دیگر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مسیح کے مخالف و معاند اسے فی الحقیقت صلیب دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے.ہمارا یہ کہنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ قتل کی کسی اور ناکام کوشش کے متعلق بالعموم کہا جاتا ہے.مراد یہ کہ اگر کسی کو مارنے کی کوشش کی جائے اور وہ کوشش ناکام رہے تو محض کوشش سے یہ مطلب نہیں نکالا جاسکتا کہ جسے نشانہ بنایا گیا تھا اسے محض نشانہ بنانے سے ہی موت کے گھاٹ بھی اتار دیا گیا.مثال کے طور پر اگر کسی کو تلوار کے ذریعہ قتل کرنے کی کوشش کی جائے اور وہ کوشش ناکام رہے تو کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جسے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی اس کا کام تمام ہو گیا.سواحمدی مسلمانوں کی حیثیت میں ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ مسیح کو جان سے مار دینے کی کوشش ضرور کی گئی تھی لیکن صلیب کی حیثیت اس ارادہ قتل کو بروئے کار لانے والے ایک ہتھیار یا ایک ذریعہ سے زیادہ نہ تھی.صلیب پر چند گھنٹے کی شاید اذیت برداشت کرنے کے بعد قبل اس کے کہ اس کی موت واقع ہوئی اسے گہری بیہوشی کی حالت میں صلیب پر سے اتار لیا گیا.صلیب پر سے اتارے جانے کے بعد رفتہ رفتہ وہ ہوش میں آگیا.اب ظاہر ہے کہ کسی ایسے شخص کو جسے موت کی سزا کا حق دار قرار دیا گیا ہو اور وہ کسی نہ کسی طرح موت کی سزا

Page 87

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 70 70 پانے سے بیچ نکلے تو حکومت وقت ایسے ”مجرم کو قانونی تحفظ فراہم نہیں کر سکتی.اسی طرح رومی قانون کے تحت مسیح صلیب سے بچ نکلنے کے بعد کسی لحاظ سے بھی قانونی تحفظ کا حق دار قرار نہیں پاسکتا تھا.اس صورت حال نے مسیح کے لئے بجز اس کے کوئی راہ نہ چھوڑی کہ وہ رومی علاقہ سے نکل کر کسی ایسے علاقے میں چلا.جائے جہاں وہ آزادی سے رہ سکے.لیکن صرف جان کی حفاظت ہی تو مسیح کا مقصد نہیں تھا.خدا تعالیٰ کی طرف سے تفویض کردہ ایک فرض کی ادائیگی بھی اس کے ذمہ تھی.پہلے سے کی گئی پیش گوئی کی رو سے وہ فرض اسی کے ذریعہ پورا ہونا تھا.اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑیں (مراد بعض یہودی قبائل ہیں) بابلی اور رومی حملوں کے بعد ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئی تھیں اور بکھر کر متعدد مشرقی علاقوں کی زمینوں میں پھیل گئی تھیں اور وہ بھی اپنی جگہ مسیح کی آمد ثانی کی منتظر تھیں.یہ ایک اور بڑی وجہ تھی جس کی رو سے مسیح کے لئے ضروری تھا کہ وہ یہودیہ کی سر زمین کو خیر باد کہہ کر ان سب علاقوں اور سر زمینوں کی طرف ہجرت کر جائے جہاں جہاں گزشتہ کئی صدیوں کے دوران یہود قبائل جا آباد ہوئے تھے.احمد یہ نقطہ نظر کے بارہ میں سر دست اتنا ہی بیان کر دینا کافی ہو گا.بعض لوگ ہم احمدیوں سے دریافت کرتے ہیں کہ اس امر کا کیا ثبوت ہے کہ مسیح صلیبی موت سے بیچنے کے بعد طبعی موت سے فوت ہوا تھا.اب یہ امر ظاہر وباہر ہے کہ وہ کوئی جواز پیدا کیے بغیر ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری بلاوجہ ہم پر عائد کر رہے ہیں.قدرت کے بعض مظاہر ایسے ہوتے ہیں جن سے ہما شاہر کوئی واقف ہوتا ہے.حتی کہ روئے زمین کے تمام انسانوں کے مشاہدہ میں وہ آرہے ہوتے ہیں اور ان کے لیے سرے سے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی.یہ ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا میں ایک انسان کا عرصہ حیات حد سے حد ڈیڑھ صد سال یا اس کے لگ بھگ سے زیادہ نہیں ہو تا.یقیناً اس ضمن میں ہزار سال یا اس سے زیادہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.زمین پر کسی بھی انسان واحد کے عرصہ حیات سے متعلق شخص عمومیت کا حامل یہ ایک ایسا تجربہ ہے جس میں جملہ بنی نوع انسان برابر کے شریک ہیں.اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ استثناء کے رنگ میں اس قاعدہ کلیہ سے ہٹ کر کوئی بات واقع ہوئی ہے تو اس کا بار ثبوت اس استثناء پر یقین رکھنے والے کے کندھوں پر ہو گا نہ کہ اس کے کندھوں پر جو بہر طور مسلمہ قاعدہ کلیہ پر پورا پورا یقین رکھتا ہے اور کسی استثنا کا سرے سے قائل ہی نہیں ہے.بار ثبوت کا اطلاق تو اس مخصوص صورت حال پر ہونا چاہیے جس نے عیسائیوں کے عقیدہ کی رو سے مسیح کی زندگی اور موت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے.جو لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ آج تک فوت نہیں ہوا ان پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ اس کا ثبوت مہیا

Page 88

71 صلیب اور اس سے متعلقہ امور کریں.برخلاف اس کے جن لوگوں کا دعوی یہ ہے کہ وہ لازمی طور پر فوت ہو گیا ہو گا ان کے اس دعویٰ کو قوانین قدرت کی تائید و حمایت حاصل ہے.ان سے پہلے سے جاری و ساری قوانین قدرت سے بڑھ کر کسی اور ثبوت کا مطالبہ کر ناسر اسر بے معنی ہو گا.بصورت دیگر جس کا جی چاہے گا وہ یہ دعویٰ کر بیٹھے گا کہ اس کے دادا کے دادا کا دادا مرا ہی نہیں.اگر ایسا دعوی کرنے والا ہر کسی کو چیلنج دیتا پھرے کہ وہ اس کے اس دعوے کو جھوٹا ثابت کر دکھائے تو اس پر مسیحی صاحبان کا کیار د عمل ہو گا؟ سوچنے والی بات ہے کہ ایک سننے والا ایسے نرالے اور عجیب و غریب چیلنج کا کیا جواب دے گا؟ اس کا ایک ہی جواب ہے جو وہ دے سکتا ہے اور یقینا دے گا کہ قوانین قدرت کا ہر انسان پر لاگو ہونا ایک لازمی امر ہے.کسی کا ان سے بچ نکلنا ممکن ہی نہیں.اگر کوئی ایسے دعوے کر رہا ہے جو قوانین قدرت کے خلاف ہیں تو ثبوت مہیا کرنے کا وہ خود ذمہ دار ہے نہ کہ کوئی اور.سو مسیحی صاحبان کے اعتراض یا مطالبہ کا پہلا جواب تو یہ ہے اور یہ ہے بھی واضح اور نا قابل تردید.تاہم میں ایک دوسرے نقطۂ نگاہ سے اس سارے معاملہ کو واضح کرنے کی ایک اور کوشش کرتا ہوں.خدا کے ساتھ مسیح کا جو بھی رشتہ تھا ( یعنی عیسائیوں کے بقول وہ خدا کا بیٹا بھی تھا اور ازل سے اس میں مدغم ہونے کے باعث اپنی ذات میں خود خدا بھی تھا) سوال یہ ہے کہ کیا اس رشتہ کی رو سے مسیح مرنے اور موت کا مزہ چکھنے سے بالا تھا؟ مسیحی صاحبان کا خود اس بات پر ایمان ہے کہ مسیح فوت ہوا اور اس نے موت کا مزہ چکھا.خدا کا بیٹا اور خود خدا ہونے کی حیثیت میں اگر مرنا اس کی فطرت کے خلاف تھا تو پھر دوٹوک بات یہ ہے کہ اسے مرنا نہیں چاہیے تھا.لیکن ہم سب (یعنی مسیحی بھی اور ہم ایسے غیر مسیحی بھی) اس بات پر متفق ہیں کہ خواہ ایک بار سہی وہ مرا ضرور.تحقیق طلب امر صرف یہ ہے کہ وہ کب مرا؟ اس کی موت صلیب پر واقع ہوئی یا بعد میں کسی اور وقت.اس کے مرنے اور موت کا مزہ چکھنے میں کسی کو کوئی شبہ نہیں نہ خود مسیحیوں کو اور نہ ہم جیسے غیر مسیحی مسلمانوں کو.یونس نبی کا نشان اب ہم بائبل کے رو سے ثابت کرتے ہیں کہ خدا نے مسیح کو بے آسرا نہیں چھوڑا اور اسے صلیبی موت سے بہر طور بچائے رکھا.یہ ایک ایسا واضح امر ہے کہ اس کا مطالعہ جیسا کہ عہد نامہ جدید میں مذکور ہے صلیب دیئے جانے سے پہلے کے زمانہ سے تعلق رکھنے والے حقائق کی روشنی میں بھی کیا جاسکتا ہے اور اسی

Page 89

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 72 طرح خود مسیح کو صلیب دیئے جانے اور اس کے معابعد کے حقائق کی روشنی میں اسے اچھی طرح جانچا اور پر کھا جاسکتا ہے.واقعۂ صلیب سے بہت پہلے ہی مسیح نے وعدہ کے رنگ میں کہا تھا کہ یونس نبی کے نشان کے سوا اس زمانہ کے لوگوں کو اور کوئی نشان نہیں دکھایا جائے گا.چنانچہ عہد نامہ جدید میں مذکور ہے: اس پر بعض فقیہوں اور فریسیوں نے جواب میں اس سے کہا اے استاد ! ہم تجھ سے ایک نشان دیکھنا چاہتے ہیں.اس نے جواب دے کر ان سے کہا اس زمانہ کے برے اور زناکار لوگ نشان طلب کرتے ہیں مگر یوناہ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا.کیونکہ جیسے یوناہ (یونس) تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین دن رات زمین کے اندر رہے گا.نینوں کے لوگ عدالت کے دن اس زمانہ کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کو مجرم ٹھہرائیں گے کیونکہ انہوں (نینوں کے لوگوں) نے یوناہ کی منادی پر توبہ کر لی اور دیکھو یہاں وہ ہے کہ جو یوناہ سے بھی بڑا ہے.“ متی باب 12 آیات 38 تا 41) سو قبل اس کے کہ ہم یہ طے کریں کہ مسیح کے ساتھ کیا گزری ہمیں پہلے یہ جانا اور سمجھنا چاہیے کہ یونس نبی پر کیا بیتی تھی.کیونکہ مسیح نے یہ دعوی کیا تھا کہ اب بھی وہی معجزہ دہرایا جائے گا.یونس نبی کو جو نشان دیا گیا تھاوہ کیا تھا؟ کیا وہ مچھلی کے پیٹ میں مر گیا تھا اور بعد ازاں مرکر دوبارہ جی اٹھا تھا؟ تمام کے تمام عیسائی، یہودی اور مسلمان علماء اس بات پر متفق ہیں کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں مرا نہیں تھا وہ زندگی اور موت کے درمیان امید و بیم کی حالت میں معلق رہا.اس خطر ناک صورت حال سے اسے معجزانہ طور پر بیچا لیا گیا وگرنہ کوئی اور شخص ہو تا تو ایسی حالت میں موت سے نہ بچ سکتا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا.خدائی حکم کے تحت انسانی فہم و ادراک سے بالا بعض قوانین قدرت کی کار فرمائی نے اسے موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا.یاد رہے اس وقت یہ امر زیر بحث نہیں ہے کہ ایسا ہونا ممکن تھا یا نہیں.ہم صرف یہ بتارہے ہیں کہ مسیح نے جب یہ کہا تھا کہ اس کے اپنے ساتھ بھی وہی کچھ ہو گا جو یونس کے ساتھ ہوا تھا تو اس سے اس کی مراد یہی ہو سکتی تھی کہ ہر شخص کی نگاہ میں جو یونس کے ساتھ ہوا تھا وہی کچھ مسیح کے معاملہ میں بھی ہو گا.پوری دنیائے یہودیت میں (اس سے مراد خواہ یہودیہ کی سرزمین لے لیں اور خواہ اس میں ان تمام علاقوں کو بھی شامل کر لیں جن میں پھیل کر یہودی جا آباد ہوئے تھے) کسی ایک یہودی نے بھی مسیح کے اس

Page 90

73 صلیب اور اس سے متعلقہ امور دعوے کا کوئی اور مطلب نہیں لیا ہو گا.وہ سب اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ یونس کسی نہ کسی طرح معجزانہ طور پر مچھلی کے پیٹ میں تین دن رات زندہ رہا اور اس عرصہ میں ایک لمحہ کیلئے بھی اس پر موت وارد نہیں ہوئی.یہ صحیح ہے کہ ہم اس یہودی نظریہ کے بارہ میں اپنے تحفظات رکھتے ہیں اور اسے حرف بحرف درست تسلیم نہیں کرتے کیونکہ قرآن میں یونس نبی کا جو واقعہ بیان ہوا ہے اس میں کہیں بھی اس امر کا ذکر نہیں ہے کہ یونس نبی تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں آزمائشوں میں سے گزر تا اور دکھ جھیلتا رہا.بہر حال اب ہم زیر غور نقطہ یا مسئلہ کی طرف لوٹتے ہیں اور ان مشابہتوں کی طرف آتے ہیں جو مسیح اور یونس کے درمیان پائی جاتی ہیں اور جن کی طرف مسیح نے اپنی پیش گوئی میں اشارہ کیا تھا.ان مشابہتوں کے ضمن میں واضح طور پر تین دن رات نہایت تشویش انگیز اور تکلیف دہ حالات میں گزارنے اور قریب قریب موت کی سی حالت سے معجزانہ طور پر زندہ بچ نکلنے کا ذکر کیا گیا تھا.ایک دفعہ مرنے اور پھر دوبارہ جی اٹھنے کا اس میں سرے سے کوئی ذکر نہ تھا.مسیح نے صرف یہی دعوی کیا تھا کہ اس کے اپنے ساتھ بھی وہی کچھ ہو گا جو یونس کے ساتھ ہوا تھا.اسرائیل کے گھرانہ سے مسیح کا وعدہ یا پیمان شہادت کا دوسرا اہم جزو یہ ہے کہ مسیح نے اپنے لوگوں کو بتایا تھا کہ اسرائیل کے گھرانے کی صرف وہی بھیڑیں نہیں ہیں جو یہودیہ میں اور اس کے ارد گرد آباد ہیں اور یہ کہ وہ خدا کی طرف سے صرف ان بھیڑوں کیلئے ہی نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ ان دوسری بھیڑوں کی طرف بھی بھیجا گیا ہے جو یہودیہ اور اس کے آس پاس کے علاقہ میں نہیں بلکہ دور دراز کے علاقوں میں آباد ہیں لیکن وہ ہیں اسی گلہ کی بھیڑیں.جس طرح وہ ان کی (یعنی یہودیہ اور اس کے آس پاس رہنے والی بھیڑوں کی) نجات اور بحالی کیلئے آیا ہے اسی طرح وہ بنی اسرائیل کی ان دوسری بھیٹروں کے پاس بھی جائے گا اور ان کی نجات اور بحالی کے سامان بھی کرے گا.چنانچہ انجیل میں مسیح کا یہ قول مذکور ہے: ”اور میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں.مجھے ان کو بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سنیں گی.پھر ایک ہی گلہ ہو گا اور ایک ہی چرواہا ہو گا.“ (یوحنا باب 10 آیت 16) یہ بات ہر کسی کے علم میں ہے کہ مسیح نے اپنے اس وعدے اور واقعہ صلیب کے درمیانی عرصہ میں کسی اور علاقہ میں جانے کیلئے یہودیہ کی سر زمین کو کبھی خیر باد نہیں کہا.وہ وہیں رہا تاوقتیکہ صلیب دیئے

Page 91

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 74 جانے کا واقعہ پیش نہ آگیا.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسیح کو دائمی طور پر آسمان کی طرف اٹھالیا گیا تھا تو کیا بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑیں پہلے ہی آسمان کی طرف اٹھائی جا چکی تھیں؟ عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ صلیب پر سے مردہ حالت میں اتارے جانے کے بعد تین دن اور تین راتیں گزارنے پر اس کی روح اس کے جسم میں واپس آئی اور پھر وہ بادلوں میں چڑھتا ہوا نظر آیا اور اس طرح آسمان کے نہاں خانوں میں واپس لوٹ کر غائب ہو گیا.تا کہ بالآخر اپنے باپ کے تخت تک پہنچ کر دائمی طور پر اس کے دائیں ہاتھ جاکر براجمان ہو.اگر یہ بات صحیح ہے تو ہم یقینا بہت ہی پیچیدہ نوعیت کی دوہری مشکل میں پھنسے بغیر نہ رہیں گے.ہمیں دو موقفوں میں سے ایک موقف یا بالفاظ دیگر پیش آمدہ حالات کی دو صورتوں میں سے ایک صورت کا انتخاب کرنا ہو گا.ایک صورت حال تو وہ ہے جو خود صحیح نے اختیار کی.دوسری صورت حال وہ ہے جسے اس کے پیروؤں یا ماننے والوں نے اختیار کیا اور اپنایا.احوال و واقعات کی دونوں صورتیں ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہیں کہ کیسا ہی مفاہمانہ انداز کیوں نہ اختیار کیا جائے دونوں میں مطابقت کی کوئی راہ نکل ہی نہیں سکتی.اگر ہم دونوں صورت ہائے احوال میں سے ایک کو اختیار کرتے ہیں تو دوسری صورت کی نفی لازم آئے بغیر نہیں رہتی.اگر مسیح اپنے وعدہ میں سچا تھا اور ہم ایمان رکھتے ہیں کہ وہ یقینا سچا تھا تو پھر آسمان پر چڑھنے سے پہلے اسے اپنے وعدہ کا پاس کرنا چاہیے تھا.اسے اپنے باپ خدا سے مزید وقت طلب کرنا چاہیے تھا تا کہ وہ زمین پر اتناطویل عرصہ مزید گزار سکے کہ وہ ان ممالک میں جاسکے جہاں بنی اسرائیل کے بعض قبائل قبل ازیں جا کر آباد ہو گئے تھے.وہ اپنے وعدہ کو توڑے اور اعتماد کو خاک میں ملائے بغیر اور بیک وقت مکمل خدا اور مکمل انسان ہونے کی اپنی حیثیت کو داغدار کئے اور اسے نا قابل تلافی نقصان پہنچائے بغیر آسمان پر جاہی نہیں سکتا تھا.برخلاف اس کے اگر عیسائی علماء کی بات کو درست تسلیم کر لیا جائے کہ مسیح واقعی اپنے اس عہد و پیمان کو اس نے جو اسرائیل کے گھرانے سے کیا تھا بھلا بیٹھا اور سب کچھ نسیانسیا کر کے سیدھا آسمان کی طرف روانہ ہو گیا تو ایسی صورت میں بڑے بو جھل دل اور مجرم ضمیر کے ساتھ ہمیں مسیحی علماء کو سچامانا پڑے گا.ہماری اس مجرمانہ تائید سے مسیحی علماء تو بزعم خود کچے بن جائیں گے لیکن افسوس !صد افسوس! اندرین صورت بائبل اور مسیحیت دونوں جھوٹے ثابت ہوئے بغیر نہ رہیں گے.وجہ ظاہر ہے.اگر مسیح کا اپنے وعدے میں جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے تو عیسائیت کسی طور بھی صداقت پر مبنی نہیں ہو سکتی.ہم احمدی مسلمان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ مسیح خدا کا سچا نبی تھا.وہ جھوٹا وعدہ یا جھوٹا عہد و پیمان کرہی نہیں سکتا تھا.کھوئی ہوئی بھیڑوں سے مراد بنی اسرائیل کے وہ دس قبائل تھے جو بہت پہلے یہودیہ سے

Page 92

75 صلیب اور اس سے متعلقہ امور ہجرت کر کے دور دراز کے مشرقی خطوں میں جا آباد ہوئے تھے.لہذا اس کے وعدہ میں یہ بات اشارۃ النص کے طور پر مضمر تھی کہ وہ صلیب پر نہیں مرے گا بلکہ اسے لمبی زندگی عطا کی جائے گی تاکہ وہ اپنے مشن اور غرض بعثت کو پورا کر سکے اور یہ کہ وہ صرف بنی اسرائیل کے ان دو قبائل کی طرف ہی نبی بنا کر نہیں بھیجا گیا تھا جو خود اس کے گردونواح میں رہ رہے تھے بلکہ اسے دور دراز علاقوں میں پھیلے ہوئے جملہ بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا تھا.مذکورہ بالا دونوں شہادتیں مجموعی طور پر بہت مثبت انداز میں اس امر کی حتمی نشان دہی کرتی ہیں کہ واقعہ صلیب کے بعد مسیح پر کیا گزرنا تھی اور اس کے ساتھ کیا کچھ پیش آنا تھا.صلیب دیئے جانے کے واقعات جہاں تک مسیح کو صلیب دیئے جانے کے واقعات کا تعلق ہے ان کے ضمن میں ایک نکتہ خاص طور پر قابل غور ہے.اس نکتہ کا تعلق اس امر سے ہے کہ پیلاطوس نے مسیح کو صلیب دینے کے لئے دن اور وقت کیا مقرر کیا.مزید بر آں دن اور وقت مقرر کیے جانے سے قبل بعض ایسی باتیں اور امور مطالعہ میں آتے ہیں جن سے ایک انسان بآسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ ان باتوں اور امور نے اس کے آخری فیصلہ میں اہم کردار ادا کیا ہو گا.خود عہد نامہ جدید کی رو سے سب سے پہلی بات تو ہمارے علم میں یہ آتی ہے کہ پیلاطوس کی بیوی ایک خواب کی بناء پر جو اس نے ایک رات قبل ہی دیکھا تھا اس بات کی شدید خلاف تھی کہ اس کا شوہر مسیح کو مجرم گردان کر اس کے خلاف فیصلہ دے.وہ اپنے اس خواب کی وجہ سے بہت خوف زدہ تھی.اسے پورا یقین تھا کہ مسیح سراسر بے گناہ اور بے قصور ہے.اسے اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ وہ خواب کے پیغام کو اپنے شوہر تک پہنچانے کے لئے عدالت کی کاروائی میں مداخلت کرئے.(متی باب 27 آیت 19).غالباً یہ اس کی بیوی کا فوری احتجاج ہی تھا جس کے زیر اثر اس نے ( پیلاطوس نے) مسیح کو صلیب دیئے جانے کی ذمہ داری سے اپنے آپ کو علی الاعلان بری ظاہر کرناضروری سمجھا.چنانچہ بائبل میں مذکور ہے : ”جب پیلاطوس نے دیکھا کہ کچھ بن نہیں پڑتا بلکہ الٹا بلو ا ہوتا جاتا ہے تو پانی لے کر لوگوں کے روبرو اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا میں اس راستباز کے خون سے بری الذمہ ہوں تم جانو“.یعنی اس نے کہا اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے “ (متی باب 27 آیت 24) پیلاطوس کا ایسا کرنا اس اعتراف کے مترادف تھا کہ مسیح یقیناً بے گناہ ہے اور اسے ایسے بے گناہ کے خلاف جو فیصلہ دینا پڑا ہے وہ یہودیوں کے ناجائز دباؤ میں آکر دینا پڑا ہے.عہد نامہ جدید سے یہ بات بالکل

Page 93

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 76 واضح ہے کہ طاقتور یہودی جمعیت نے مسیح کے خلاف گندی ذہنیت اور بری نیت کا آئینہ دار در پردہ ایک محاذ قائم کر رکھا تھا اور وہ اسے بہر حالت سزا دلوانے پر تلے ہوئے تھے.اندریں صورت اگر پیلاطوس کوئی ایسا فیصلہ دیتا جو حق و انصاف کے عین مطابق ہونے کے باوجود یہودیوں کی مرضی اور خواہش کے خلاف ہو تاتو امن و امان کے نقطۂ نگاہ سے بہت سنگین صورت پیدا ہو سکتی تھی.یہ تھی مجبوری جس نے ایک طرح سے پیلاطوس کے ہاتھ باندھ کر رکھ دیئے.چنانچہ اس کے ہاتھ دھونے سے اس کی یہ مجبوری اظہر من الشمس ہوئے بغیر نہیں رہتی.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ پیلا طوس نے مسیح کو بچانے کی ایک کوشش اور بھی کی.اس نے یہودیوں کے بھرے ہوئے غضب ناک مجمع کے سامنے ایک متبادل تجویز رکھی اور وہ یہ تھی کہ وہ اپنی عید فسخ کی وجہ سے یا تو بد نام زمانہ مجرم بر ابانامی کی جان بخشی کرالیں یا مسیح کو موت کے منہ میں جانے سے بچالیں ( متی باب 27 آیت 16 تا17).یہ بات ایک کھلا اشارہ مہیا کرتی ہے جس سے یہ امر واضح ہوئے بغیر نہیں رہتا کہ اس وقت پیلاطوس ایک ذہنی خلجان میں مبتلا تھا.وہ واضح طور پر مسیح کو سزا دینے کے خلاف تھی اس کی نفسیاتی حالت جس کے تحت اس نے صلیب دیئے جانے کے لئے ایک تو جمعہ کا دن مقرر تھا..کیا اور لکھا کہ اسے اس روز سہ پہر کے وقت صلیب پر لٹکایا جائے.فی الحقیقت جو کچھ وقوع میں آیا اس سے یہ یقین کرنے کے سوا چارہ نہیں رہتا کہ تاریخ اور وقت کی تعین اس نے ایک خاص مقصد کے پیش نظر کی کیونکہ سبت کی رات جمعہ کی سہ پہر سے زیادہ دور نہیں تھی اور قانون کے محافظ کی حیثیت سے وہ اس بات سے اچھی طرح باخبر تھا کہ سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی سبت کا دن شروع ہو جاتا ہے اور سبت کا دن شروع ہونے سے پہلے پہلے مسیح کے جسم کو صلیب سے اتار نالازمی ہو گا اور من وعن ہوا بھی یہی.ایک سزا یافتہ مجرم کو عذاب دے دے کر مارنے کے لیے بالعموم تین دن رات کا عرصہ درکار ہو تا تھا.یہ طریق اختیار کرنے سے ( یعنی جمعہ کا دن اور سہ پہر کا وقت مقرر کرنے کی وجہ سے صلیب پر لٹکے رہنے کے عرصہ کو مسیح کے لئے زیادہ سے زیادہ چند گھنٹوں تک محدود کر دیا گیا.ایک انسان حیرت میں پڑے بغیر نہیں رہتا کہ مسیح جیسے صحت مند انسان کی جان لینے کے لیے جسے سخت اخلاقی حدود قیود کی پابندی اور سادہ طرز معاشرت نے جسمانی طور پر بہت مضبوط بنادیا تھا چند گھنٹے کب کافی ہو سکتے تھے.مسیح کے ساتھ یہ جو کچھ ہوا کیا یہ یونس نبی کے تمثیل نما عقدہ کو حل کرنے کے لئے ایک کنجی یا مفتاح کا کام نہیں دے سکتا؟ اس زمانہ میں موت کی سزا پانے والے کے لئے عام دستور یہ تھا کہ وہ تین دن رات مسلسل صلیب پر لٹکار ہے.اس بات سے ایک خیال انسان کے ذہن میں ابھر کر گھنٹی کی آواز کی طرح گونج

Page 94

77 صلیب اور اس سے متعلقہ امور اٹھتا ہے کہ اس سے تو مسیح اور یونس نبی کے مابین پائی جانے والی مماثلت کی اصل نوعیت ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہتی.یونس نبی کے متعلق فرض یہ کر لیا گیا ہے کہ وہ تین دن رات مچھلی کے جسم کے اندر رہا.عین ممکن ہے کہ اسے بھی مسیح کی طرح خدا کی مخفی تدبیر کے بموجب تین دن کی بجائے تین گھنٹے میں چھٹکارامل گیا ہو.پس جو کچھ مسیح پر بیتی یا اس کے ساتھ ہوا اس کی حیثیت ایک آئینہ کی سی ہے جس میں ہم یونس نبی کے واقعہ کو عملاً دہرائے جانے کے رنگ میں منعکس ہوتا دیکھ سکتے ہیں.اب ہم مسیح کو صلیب دیئے جانے کے دوران پیش آنے والے واقعات کی طرف لوٹتے ہیں.یہ امر ظاہر و باہر ہے کہ مسیح آخری لمحہ تک ایک رنگ میں اپنے اس احتجاج پر قائم رہا کہ ”ایلی ایلی لما شبقتنی “ یعنی اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.کتنا گہرا المناک اور کتنا پر درد اظہار ہے اس غلط فہمی کا جس میں مسیح مبتلا تھا.مسیح کے اس پر درد اظہار میں کس قدر دقیقہ سنجی اور باریک بینی کے رنگ میں کسی ایسے وعدہ اور یقین دہانی کی طرف اشارہ مضمر ہے جو ”باپ خدا“ نے کسی وقت ” بیٹے“ سے کیا ہو گا.بصورت دیگر افسوس اور ملال کا یہ اظہار بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے.اگر اسے محض اظہار ملال قرار دیا جائے تو اس سے دو باتوں کی نفی لازم آتی ہے.اول اس امر کی کہ مسیح نے خود اپنی خواہش اور مرضی سے رضا کارانہ طور پر دوسرے لوگوں کے گناہوں کا بوجھ اپنے کندھوں ہر اٹھایا.دوسرے نفی لازم آتی ہے اس امر کی بھی کہ دکھ اور مصیبت کی اس گھڑی میں اس نے مردانگی اور خوش دلی سے موت کا سامنا کیا.اس سارے معاملہ کا جائزہ لیا جائے تو پہلی بات جو ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب مسیح نے سزا بھگتنے پر بخوشی آمادگی کا اظہار کر کے اس سزا کے لئے خود اپنے آپ کو پیش کیا تھا تو گہری آہ کے رنگ میں اس کے منہ سے یہ یاس انگیز چیچ کیوں نکلی؟ پھر مزید یہ کہ ایسی صورت میں شکوہ سنجی اور طعنہ زنی کی نوبت کیوں آئی؟ اور پھر اس مصیبت سے چھٹکارے کے لئے دعا ہی کیوں مانگی؟ برضاور غبت رضا کارانہ طور پر پیش کی جانے والی قربانی کے پیش نظر اس کی تو سرے سے نوبت ہی نہیں آنی چاہیے تھی.اور صلیب دیئے جانے سے قبل جو کچھ وقوع میں آیا اس کے سیاق و سباق میں بھی دیکھا جائے تو بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تمام وقت خدا سے مسلسل یہی دعا مانگتا رہا کہ تلخ پیالہ اس سے ٹل جائے اور یہ کڑوا گھونٹ اسے حلق سے نہ اتارنا پڑے.ہم احمدی ہونے کی حیثیت میں اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ مسیح ایک مقدس، نیک اور پارسا انسان تھا.یہ ناممکن تھا کہ اس کڑے وقت میں مصیبت سے چھٹکارے کے لئے اس نے جو دعا مانگی تھی خدا اسے

Page 95

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 78 قبول نہ فرماتا.خدا کی طرف سے اسے ضرور بتادیا گیا ہو گا کہ اس کی دعا قبول کر لی گئی ہے.میں اس بات کو قطعاً تسلیم نہیں کرتا کہ آخری سانس مسیح نے صلیب پر لیا اور صلیب پر لٹکی ہوئی حالت میں اس نے جان دی.میرے نزدیک اس سارے واقعہ میں جیسا کہ میں سمجھتا ہوں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ اس میں پوری پوری ہم آہنگی اور مکمل مطابقت پائی جاتی ہے.مسیح کی مزعومہ موت کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ موقع پر موجود ایک شخص نے یہ تاثر لیا کہ گویاوہ مر گیا ہے.جس شخص نے اس کی طرف دیکھا اور یہ تاثر لیا وہ کوئی معالج یا حکیم نہ تھا اور نہ اسے مسیح کے جسم کا طبی نقطہ نگاہ سے معائنہ کرنے کا موقع ملا.ایک شخص جو وہاں کھڑا دیکھ رہا تھا اور جسے یہ فکر اور تشویش لاحق تھی کہ کہیں اس کے محبوب آقا کو موت نہ آلے اس نے دیکھا کہ مسیح کا سر ایک طرف ڈھلک گیا ہے اور اس کی ٹھوڑی اس کے سینہ پر آنکی ہے تو یک لخت یہ تاسف بھرا کلمہ اس کے منہ سے نکلا کو دیکھو اس نے جان دے دی لیکن جیسا کہ ہم پہلے واضح کر چکے ہیں کہ ہماری معروضات کی حیثیت کسی ایسے مقالہ کی نہیں ہے جس میں ہم اسناد کی رو سے بائبل کے بیان پر جرح کریں اور اس کے اصلی یا موضوع ہونے پر بحث کریں یا اس کی کسی تشریح و توضیح کو موضوع بحث بنائیں.ہمارا مقصد تو مسیحی فلاسفی اور عقیدہ کا عقل اور منطق کی رو سے صرف تنقیدی جائزہ لینا ہے.اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو دونوں صورتوں میں یعنی اس صورت میں بھی کہ مسیح پر بے ہوشی طاری ہوئی اور اس صورت میں بھی کہ موت نے اسے آلیا ایک بات بالکل واضح ہے کہ بنظر ظاہر جو کچھ ہونے والا تھا اس پر مسیح کا دکھ بھرے دل کے ساتھ حیران ہونا اس امر پر دال ہے کہ جو کچھ ہو رہا تھا وہ اس کی توقع کے خلاف تھا.اس کے نزدیک تو ماسوا اس کے کچھ اور ہی متوقع تھا.اگر وہ برضاور غبت موت کا ہی متلاشی تھا اور بہر صورت و بہر حال مرنا ہی اس کے مد نظر تھا تو پھر اس نے جس حیرت کا اظہار کیا اس کا سرے سے کوئی جواز بنا ہی نہیں.احمدی مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے نزدیک اس تمام صورت حال کی تشریح و توضیح ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اس وقت حیران ہونے کی وجہ یہ تھی کہ واقعۂ صلیب سے قبل کی رات اس کی مناجاتوں اور التجاؤں کے نتیجہ میں خدا نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اسے صلیبی موت سے بچایا جائے گا اور وہ اس سے محفوظ رہے گا.اس وعدہ کے باوصف خدا کی وراء الورا تدبیر کچھ اور تھی.اس نے صلیب پر لٹکی ہوئی حالت میں مسیح پر بے ہوشی طاری ہونے دی تا کہ پہرہ دار جنہیں وہاں خاص طور پر متعین کیا گیا تھا وہ مغالطہ میں پڑ جائیں اور یہ سمجھ بیٹھیں کہ وہ مر گیا ہے اور اس کی نعش کو یوسف آف آرمتیاہ نامی شخص کے حوالہ کر دیں کہ وہ اس نعش کو اس کے عزیزوں اور دوستوں تک پہنچا دے.اس موقع

Page 96

79 صلیب اور اس سے متعلقہ امور پر حیرت جو ہمارے مشاہدہ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب مسیح کی موت کی خبر پیلا طوس کو پہنچائی گئی تو اس نے بھی مسیح کی طرح ہی تعجب کا اظہار کیا وہ بہت حیران ہو کر بولا کہ ہائیں وہ اتنی جلدی مر گیا ( مرقس باب 15 آیت 44).یہودیہ میں اپنی گورنری کے عرصہ کے دوران اسے مجرموں کو صلیب دیئے جانے اور صلیب پر لٹکی ہوئی حالت میں ان کے مرنے کا کافی لمبا تجربہ ہو گا.وہ حیرت کا اظہار نہیں کر سکتا تھا جب تک کہ اسے یقین نہ ہو تا کہ چند گھنٹوں کے اندر اند ہی ایک مصلوب پر موت کا وار د ہونا ایک غیر معمولی بات ہے.اس کے باوجود پر اسرار حالات کے تحت ہی اسے نعش یوسف آف آرمتیاہ کے سپر د کرنے کی درخواست منظور کرنا پڑی.اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ شروع ہی سے اس پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا کہ وہ مسیح کو سزا سے بچانے کی سازش میں شریک تھا.الزام اس پر یہ لگایا گیا تھا کہ اپنی بیوی کے اثر میں آکر اس نے اس بات کا بطور خاص خیال رکھا کہ مسیح کو صلیب پر ایسے وقت میں لٹکایا جائے جو سبت کا دن شروع ہونے کے بہت قریب ہو.دوسرے یہ کہ اس نے مسیح کی موت بہت جلد واقع ہونے کی مشکوک اطلاعات ملنے کے باوجود اس کی نعش ورثا کے حوالہ کرنے کی فوراً منظوری دے دی.پیلاطوس کے اس فیصلہ پر یہودیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی.انہوں نے اس کی خدمت میں ایک خدمت گزاری جس میں مسیح کے فی الواقعہ وفات پا جانے کے متعلق شکوک و شبہات کا ذکر کیا گیا تھا.متی باب 27 آیت 62 تا 66) بائبل کے بیان سے ہمیں یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ جب مسیح کا جسم صلیب پر سے اتارا گیا تو عام دستور کے خلاف اس کی ٹانگیں نہیں توڑی گئیں بر خلاف اس کے جن دو چوروں کو مسیح کے ساتھ صلیب دی گئی تھی ان کی ٹانگیں توڑ کر باقاعدہ تسلی کی گئی کہ فی الحقیقت ان کی موت واقع ہو گئی تھی اور ان کے زندہ رہنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا تھا ( یوحنا باب 19 آیت 31 تا 32) مزید بر آں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ بائبل کی رو سے جب مسیح کے پہلو میں پھلا گھونپا گیا تو یکدم ہی خون اور پانی تیزی سے بہہ نکلا.چنانچہ خود انجیل میں لکھا ہے: لیکن جب انہوں نے یسوع کے پاس آکر دیکھا کہ وہ مر چکا ہے تو اس کی ٹانگیں نہ توڑیں مگر ان میں سے ایک سپاہی نے بھالے سے اس کی پہلی چھیدی اور فی الفور اس سے خون اور پانی بہہ نکلا“ (یو حناباب 19 آیات 34،33) اگر مسیح واقعی مر چکا تھا اور اس کے دل کی دھڑکن مکمل طور پر بند ہوگئی تھی تو خون کی ایسی روانی کہ

Page 97

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 80 جس کے نتیجہ میں خون فی الفور فوارہ کی طرح بہہ نکلے ممکن ہی نہ ہوتی.زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا تھا کہ منجمد خون اور خون کے خلیے سنبھالنے والا سیال مادہ بہت آہستگی اور سست رفتاری سے رستا ہوا باہر نکلتا.لیکن عہد نامہ جدید سے تو یہ تصویر نہیں ابھرتی.انجیل تو کہتی ہے کہ خون اور پانی تیزی سے فی الفور باہر ابل پڑے.جہاں تک پانی کے نکلنے کا تعلق ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ صلیب پر انتہائی کشیدہ حالت اور تکلیف دہ آزمائش کے ان گھنٹوں کے دوران پلور سی ( یعنی ذات لجنب یعنی سینہ کے اعضا اور پھیپھڑوں کی جھلی میں سوزش کی وجہ سے پانی بھرنے کی بیماری) رونما ہو گئی ہو.عین ممکن ہے کہ صلیب پر لٹکے رہنے کے جسمانی دباؤ کی وجہ سے جھلی میں جمع شدہ پانی بھی ساتھ ہی باہر نکل آیا ہو.یہ صورت حال عام حالات میں بہت تکلیف دہ اور خطر ناک ہوتی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے لیے یہ صورت ایک لحاظ سے مفید ثابت ہوئی کیونکہ جب اس کے پہلو کو بھالے سے چھیدا گیا تو سوجی ہوئی اور پانی سے بھری ہوئی جھلی نے ایک نرم گدی کا کام دیا ہو گا اور اس طرح سینہ کے اعضا چھیدے جانے سے محفوظ رہے ہوں گے.خون کی آمیزش والا پانی بڑی تیزی سے اس لیے بہہ نکلا کہ دل صحیح طور پر کام کر رہا تھا.مسیح کے اس وقت زندہ ہونے کی ایک شہادت اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ بائبل کے بیان کے مطابق جب صحیح کا جسم یوسف آف آرمتیاہ کے سپرد کیا گیا تو اسے فوراً ایک خفیہ جگہ میں منتقل کر دیا گیا.وہ مر قد نما ایک کشادہ جگہ تھی.اس کے اندر نہ صرف مسیح کے جسم کو رکھنے کی گنجائش تھی بلکہ اس کے اندر اتنی وافر جگہ اور بھی موجود تھی کہ دو اور آدمی بھی اس کے پاس بیٹھ کر اس کی خبر گیری کر سکتے تھے.چنانچہ انجیل میں لکھا ہے: پس تب شاگر د اپنے گھروں کو واپس چلے گئے لیکن مریم مقبرہ کے باہر کھڑی روتی رہی اور جب روتے روتے مقبرہ کی طرف جھک کر اندر نظر کی تو دوفرشتوں کو سفید پوشاک پہنے ہوئے دیکھا جہاں یسوع کی لاش پڑی تھی.“ (یوحنا باب 20 آیت 10 تا 12) بات اتنی ہی نہیں ہے.عہد نامہ جدید کی عبارت ہمیں اس امر سے بھی مطلع کرتی ہے کہ ایک مرہم جو پہلے سے تیار کیا ہوا تھا مسیح کے زخموں پر لگایا گیا.( یوحنا باب 19 آیت 40,39) یہ جسے مسیح کے شاگردوں نے تیار کیا تھا مختلف دواؤں کے ایسے اجزا پر مشتمل تھا جو زخموں کو مندمل کرنے اور درد کی تکلیف کو دور کرنے کی خاصیت اپنے اندر رکھتے تھے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دواؤں کے دوچار نہیں بارہ اجزا جمع

Page 98

81 صلیب اور اس سے متعلقہ امور کرنے کی یہ مشقت طلب دوڑ دھوپ آخر کس لئے تھی؟ آخر اس کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی ؟ اس وقت جو نسخہ استعمال کیا گیا تھا وہ طب سے متعلق بو علی سینا کی مشہور کتاب "القانون“ میں درج ہے.(ایسی کتابوں کی فہرست کے لئے ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر 1).سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایک مردہ جسم کے زخموں پر مرہم لگانے کی ضرورت ہی کیا تھی.یہ بات صرف اس صورت میں قابل فہم قرار پاسکتی ہے کہ شاگردوں کے لئے یہ یقین کرنے کی مضبوط وجوہات موجود تھیں کہ مسیح کو صلیب پر سے مردہ حالت میں نہیں بلکہ زندہ حالت میں اتار لیا جائے گا.مسیح کے حواریوں میں سے اکیلا یو حناہی ایک ایسا حواری ہے جس نے مرہم تیار کرنے اور اسے مسیح کے جسم پر ملنے کے جواز کے رنگ میں کچھ نہ کچھ وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی ہے.اس سے بھی اس امر کی مزید تائید ہوتی ہے کہ مردہ جسم پر مرہم لگانے کا عمل ایک عجیب و غریب حرکت کے مترادف تھا.اور جس کی کوئی تو جیہہ ان لوگوں کے سامنے پیش نہیں کی جاسکتی تھی جنہیں یقین تھا کہ جب مرہم لگایا گیا تو مسیح مر چکا تھا.یہی وجہ ہے کہ یوحنا حواری کو لوگوں کو مطمئن کرنے کی خاطر وضاحت پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی.وضاحت تو کیا کر سکتا تھا اس نے باور یہ کرانے کی کوشش کی ہے کہ یہودیوں میں یہ رسم رائج تھی کہ وہ فوت ہو جانے والوں کے مردہ جسم پر مرہم یا اس قسم کی کوئی اور دو املا کرتے تھے.یہ بات توجہ طلب ہے اور ہے بھی بہت اہم کہ زمانہ جدید کے تمام سکالرز جنہوں نے اس بارہ تحقیق کی ہے اس بات پر متفق ہیں کہ یوحنا یہودی النسل نہیں تھا اور اس کی مذکورہ بالا وضاحت سے ہی اس امر کی تصدیق ہو جاتی ہے.یہ بات یقینی طور پر سب کو معلوم ہے کہ یہودیوں یا اسرائیل کی اولاد اور نسل میں یہ طریق ہی رائج نہیں تھا کہ وہ اپنے مرنے والوں کے مردہ جسموں پر مرہم یا سرے سے کوئی اور چیز ملیں.جبھی تو محققین کا نظریہ یہ ہے کہ یوحنا حواری لازما یہودی النسل نہ تھا.اگر وہ یہودی النسل ہو تا تو یہودیوں کے رسم و رواج سے اس درجہ نابلد نہ ہوتا.اس سے ظاہر ہے کہ مرہم لگانے کی یقینا کوئی اور وجہ تھی.مرہم فی الاصل لگایا ہی اس لئے گیا تھا تا کہ مسیح کو جو قریب المرگ نظر آتا تھا زندہ حالت میں بچایا جاسکے.مرہم لگانے کی وضاحت صرف ایک ہی ہے اور وہ اس حقیقت پر مبنی ہے کہ نہ حواریوں کو یہ توقع تھی کہ مسیح مر جائے گا اور نہ فی الحقیقت صلیب پر اس کی موت واقع ہوئی.صلیب پر سے اتارے جانے والے مسیح کے جسم پر زندگی کے مثبت آثار ظاہر ہوئے ہوں گے.بصورت دیگر ان لوگوں کی طرف سے جنہوں نے مردہ جسم پر مرہم لگایا ایسا لایعنی کام کرنا انتہائی نامعقول، سر اسر نار وا اور لغو کام قرار پائے بغیر نہ

Page 99

میسحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 82 رہے گا.یہ قطعا ممکن نہیں ہے کہ جنہوں نے پیش بندی کے طور پر پہلے ہی مر ہم تیار کر لیا تھا انہوں نے کسی قابل اعتماد اور مضبوط اشارہ کے بغیر ہی ایسا کیا تھا.وہ قابل اعتماد اور مضبوط اشارہ یہی ہو سکتا ہے کہ مسیح صلیب پر مرے گا نہیں بلکہ زخمی حالت میں اسے زندہ اتار لیا جائے گا اور اسے اس وقت زخموں کو مندمل کرنے والی بہت ہی مؤثر اور طاقتور دوا کی ضرورت ہو گی.یہ بات بھی ذہن نشین ہونی ضروری ہے کہ جس قبر یا مقبرہ میں مسیح کو رکھا گیا تھا اس کی جائے وقوع کے بارہ میں بہت راز داری سے کام لیا گیا تھا.اس کے صرف چند شا گر دوں کو ہی اس کا علم تھا.راز داری سے کام لینے کی وجہ ظاہر تھی اور وہ یہی تھا کہ وہ ہنوز زندہ تھا اور راز فاش ہونے پر اس کے دوبارہ پکڑ لیے جانے کا خطرہ موجود تھا.جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ مقبرہ نما جگہ کے اندر کیا کچھ واقع ہوا اس پر کئی لحاظ سے بحث ہو سکتی ہے.لیکن یہ بات تنقیدی جائزہ کے آگے ٹھہر نہیں سکتی اور اسے کسی صورت ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ جو وجودیا با شخص خود اپنے پاؤں اور قدموں سے چلتا ہوا اس مقبرہ نما جگہ سے باہر نکلا وہ فی الواقعہ مر گیا تھا اور مر کر پھر جی اٹھا تھا.اس بارہ میں ایک ہی شہادت پیش کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ خود عیسائی صاحبان کا اپنا ایمان ہے کہ مسیح جب چلتا ہوا مقبرہ نما جگہ سے باہر آیا تو اسی جسم کے ساتھ باہر آیا جسے صلیب دی گئی تھی اور انہی خراشوں اور زخموں کے ساتھ باہر آیا جو صلیب پر لٹکنے کی وجہ سے لگے تھے.خود مسیحیوں کے اپنے ایمان اور عقیدہ کی رو سے وہ اسی جسم کے ساتھ باہر آیا تو از روئے عقل ایک ہی منطقی نتیجہ اس کا نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ مراہی نہ تھا.مسیح کے بلا توقف مسلسل زندہ رہنے کی ایک شہادت اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ تین دن اور تین راتوں کے بعد وہ پبلک یا عوام الناس کو تو کہیں نظر نہ آیا اور نظر آیا تو صرف اپنے شاگردوں کو.اس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ظاہر ہی ان لوگوں پر کیا جن پر اسے پورا اعتماد تھا کہ وہ اس کے ہنوز زندہ ہونے کا راز فاش نہیں کریں گے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ دن کے اجالے میں باہر نکلنے اور لوگوں کے سامنے آنے سے گریز کرتا ہے اور اپنے قابل اعتماد شاگر دوں سے بھی ملتا ہے تو رات کی تاریکی کے سائے میں ملتا ہے.بائبل کے بیان سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ راز کو راز ہی رکھنے کی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر وہ خطرہ کے مقام سے دور رہتا تھا اور خطرہ کے مقام سے جلد ہی غائب ہو جاتا تھا.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک دفعہ مرنے کے بعد اسے نئی زندگی عطا کر دی گئی تھی اور وہ نئی زندگی تھی بھی دائمی یعنی

Page 100

83 صلیب اور اس سے متعلقہ امور اس نے پھر کبھی مرنا ہی نہ تھا تو پھر وہ اپنے دشمنوں کی نگاہوں میں آنے سے بچتا کیوں پھر تا تھا یعنی حکومت کی ایجنسیوں اور عوام دونوں سے کترانے اور بچنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اسے تو چاہیے تھا کہ وہ اپنے آپ کو یہودیوں اور سلطنت روما کے نمائندوں کے سامنے ظاہر کرتا اور ان سے کہتا ”لو دیکھو! میں اپنی ابدی زندگی کے ساتھ تمہارے سامنے موجود ہوں.اگر تم میں ہمت ہے اور چاہتے ہو تو مجھے دوبارہ مار دو، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ تم ایسا کرنے پر کبھی قادر نہیں ہو سکو گے لیکن ہوا کیا ایسا کرنے کی بجائے اس نے چھپے رہنے اور چھپتے پھرنے کو ترجیح دی.پھر بات یہ بھی نہ تھی کہ کسی نے اسے یہ تجویز پیش نہ کی یا یہ ترکیب نہ سمجھائی کہ وہ اپنے آپ کو بے دھڑک عوام کے سامنے پیش کر دے بلکہ بر خلاف اس کے ہوا یہ کہ با قاعدہ طور پر اس کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی کہ اپنے آپ کو دنیا پر ظاہر کر دے اور دنیا کو علی الاعلان بتادے کہ وہ زندہ موجود ہے لیکن اس نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا.بر خلاف اس کے وہ اپنے آپ کو یہودیہ سے دور سے دور تر کرتا چلا گیا تا کہ کوئی اس کا تعاقب نہ کر سکے.چنانچہ لکھا ہے: ”یہودا (جو اسکر یوطی تھا) نے اس سے کہا کہ اے خداوند ! یہ کیا بات ہے کہ تو اپنے آپ کو ہم پر تو ظاہر کیا چاہتا ہے مگر دنیا پر نہیں.“ (یوحنا باب 14 آیت 22) لو قاباب 24 آیت 28، 29) اتنے میں وہ اس گاؤں کے نزدیک پہنچ گئے جہاں جانا چاہتے تھے اور اس کے (یعنی مسیح کے) ڈھنگ سے ایسا معلوم ہوا کہ گویا وہ آگے جانا چاہتا ہے.انہوں نے اسے یہ کہہ کر مجبور کیا کہ ہمارے ساتھ رہ کیونکہ شام ہو ا چاہتی ہے اور دن اب ڈھل گیا ہے پس وہ اندر گیا تا کہ ان کے ساتھ رہے.“ یہ صورت حال تو ایک ایسے فانی انسان کا نقشہ پیش کر رہی ہے جو موت کی پہنچ سے باہر نہیں ہے اور نہ ہی اس امر سے مبرا ہے کہ اسے کوئی جسمانی طور پر گزند پہنچا سکے.اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان معنوں میں مرا نہیں تھا کہ وہ بقول عیسائی صاحبان) اس میں موجود انسانی جزو یا اپنی عام انسانی حیثیت سے مخلصی پالے بلکہ اس کی فطرت جو کچھ بھی تھی علی حالہ قائم رہی.موت سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی جو نئی فطرت سے پرانی فطرت کے جد اہونے کا سوال پیدا ہو تا.انسانی تجربہ کی رو سے ہم اس کو زندگی کا تسلسل ہی قرار دیتے ہیں.ایک ایسی روح جس کا تعلق اگلے جہان سے ہو یقیناً اس طرح کا رویہ اختیار نہیں کرتی جس طرح کا رویہ مسیح نے رات کی تاریکی میں خفیہ ملاقاتوں کے دوران اپنے قریبی دوستوں اور پیر وؤں کے ساتھ روار کھا.

Page 101

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 84 عیسائیوں کے بقول رہا یہ سوال کہ مسیح مرنے اور پھر جی اٹھنے کے بعد شاگردوں کے روبہ رو روحانی وجود میں ظاہر ہو تا رہا اس کی تردید اور نفی کسی اور نے نہیں بلکہ خود مسیح نے کی اور کی بھی بڑے ہی پر زور انداز میں.جب وہ اپنے شاگردوں کے سامنے ظاہر ہوا تو وہ اس کے بارہ میں اپنے خوف کو چھپا نہیں سکے کیونکہ یہ پر خوف مغالطہ ان میں سے بعض کو لاحق تھا کہ یہ مسیح خود نہیں ہے بلکہ اس کی روح ہے جو ان کے سامنے آموجود ہوئی ہے.ان کی اس الجھن کو اچھی طرح بھانپتے ہوئے مسیح نے ان کے اس خوف کو یہ کہہ کر دور کیا کہ وہ روح نہیں ہے.( یعنی روحانی وجود میں ظاہر نہیں ہوا ہے) اس نے بہ اصرار کہا کہ وہ وہی مسیح ہے جسے صلیب دی گئی تھی.اس نے انہیں اپنے زخم دکھائے جو ابھی تازہ ہی تھے.(یوحنا باب 20 آیات 19 تا27).اس کے اپنے شاگردوں کے روبرو ظاہر ہونے سے یہ امر کسی طور پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتا کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھا تھا.اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد زندہ بچ رہا تھا.ایسا معلوم ہو تا ہے کہ شاگردوں میں سے اگر کسی کے ذہن میں غلط فہمی کا کوئی شائبہ تھا بھی تو مسیح نے خود اپنے فعل سے اسے دور کر دیا.اس نے اپنے شاگردوں کو اس وقت کچھ کھاتے ہوئے دیکھا تو ان سے پوچھا وہ کیا کھارہے ہیں؟ جب اسے بتایا گیا کہ وہ روٹی اور مچھلی کھارہے ہیں تو اس نے کھانے کے لئے کچھ مانگا کیونکہ اس وقت اسے خود بھی بھوک لگ رہی تھی.چنانچہ اس نے اپنی بھوک دور کرنے کے لئے اس میں سے کچھ کھایا.اس کا روٹی اور مچھلی مانگ کر کھانا اور اپنی بھوک دور کرنا اس خیال عقیدہ کے خلاف ایک بین ثبوت ہے کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھا تھا اور اس جی اٹھنے کی وجہ سے اس کی انسانی فطرت میں جو ایک دفعہ مرگئی تھی دوبارہ زندگی عود کر آتی تھی.اس سارے عقیدہ کے غلط ہونے کا یہ ایک ایسا پختہ اور حتمی ثبوت ہے کہ اس میں شک وشبہ کی حبہ برابر بھی گنجائش نہیں.لو قاباب 24 آیت 41 تا 42) مسیح کے دوبارہ جی اٹھنے کا اگر یہ مفہوم لیا جائے تو دہری نوعیت کے مسائل سر اٹھائے بغیر نہیں رہتے.جیسا کہ جی اٹھنے سے پہلے اس کے متعلق دعویٰ کیا جاتا تھا اس کے مطابق جی اٹھنے کے بعد بھی وہ خدا اور انسان کے ملغوبہ سے معرض وجود میں آنے والی ایک نئی نوع سے تعلق رکھتا تھا تو اس کے وجود میں آنے والی ایک نئی نوع سے تعلق رکھتا تھا تو اس کے وجود میں موجود انسان سے چھٹکارا تو اسے حاصل نہ ہوا.اس سے تو بہت ہی الجھی ہوئی پیچیدہ اور مشکوک و مشتبہ صورت حال پیدا ہو کر عجب جنجال میں مبتلا کر دیتی ہے.

Page 102

85 صلیب اور اس سے متعلقہ امور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب موت واقع ہوئی تو اس کے ساتھ بلکہ کہنا یہ چاہیے کہ ان دونوں یعنی خدا اور اس کے اندر موجود انسان مسیح کے ساتھ کیا کیا؟ کیا موت وارد ہونے پر انسان اور خدا دونوں کی روحیں قبض کر لی گئی تھیں اور پھر اکٹھی ہی دوزخ میں رہنے کے بعد اسی سفلی جسم میں واپس لوٹ آئی تھیں؟ یا کیا بصورت دیگر ہوا یہ تھا کہ صرف خدا کی روح جو مسیح میں در آئی تھی وہ انسانی روح کے بغیر ہی انسانی جسم میں عود کر آئی ؟ اگر ایسا ہی ہوا تو پھر انسان استعجاب میں ڈوبے بغیر نہیں رہتا کہ وہ دوسری روح (یعنی مسیح کی انسان روح) کہاں جا غائب ہوئی؟ کیا اس روح کا دوزخ میں سفر ایک لامتناہی سفر تھا اور جس سے واپسی ممکن نہ تھی ؟ پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو خدائی روح اس کے اندر صرف تین دن رات مقید رہی وہ مسیح کے باپ خدا کی روح تھی یا یہ کہ وہ روح تھی اس بیٹے مسیح کی؟ صحیح صورت حال ہمارے سامنے آنے اور ہمیں اس سے آگاہ کرنے کے لئے اس سوال کا ایک ہی دفعہ یعنی حتمی طور پر ہمیشہ ہمیش کے لئے حل ہونا ضروری ہے کہ کیا مسیح کا جسم جزوی طور پر خدا کا جسم تھا اور جزوی طور پر وہ تھا انسان کا جسم؟ عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید ہر دو کا مطالعہ ہمیں خدا کے جس تصور یا تخیل سے ہمکنار کرتا ہے وہ ایک غیر مجسم اور غیر محدود ازلی ابدی ہستی کا تصور ہے.اس کی ہستی یا وجود میں مادہ کا سرے سے کوئی عمل دخل ہے ہی نہیں.یہ بات سمجھ لینے اور ذہن نشین کر لینے کے بعد ہم پھر پلٹ کر مسیح کی طرف دیکھتے ہیں یعنی مریم کے رحم میں جنین کی حالت کے بعد اس کے مختلف مراحل میں سے گزر کر اس کی نشو و نما کا تخیلی جائزہ لیتے ہیں.وہ تمام مادہ جو مسیح کے بنے اور معرض وجود میں آنے کا موجب بنا تھا اسے انسان ماں نے مہیا کرنا تھا اور ایک چپہ بھی مادہ کا خدا کی طرف سے اس میں شامل نہ ہونا تھا.یقیناً خدا اسے معجزانہ طور پر پیدا کر سکتا تھا لیکن میرے نزدیک تخلیق خواہ معجزانہ طور پر ظہور میں آئے یا وہ خدا کے مقرر کردہ عام قدرتی ذرائع کے مطابق ظہور پذیر ہو بہر صورت و بہر حال وہ ہوتی تخلیق ہی ہے.ہم کسی کو صرف اس صورت میں ہی کسی کا باپ تسلیم کر سکتے ہیں جبکہ اسے وجود میں لانے کے عمل میں باپ کا جو ہر اور ماں کا جوہر مساویانہ حیثیت میں یا جزوی طور پر حصہ لیتے ہیں تاکہ بیٹے کے جسم کا کچھ نہ کچھ جوہری جزو باپ کے جو ہر سے بھی ماخوذ قرار پاسکے.اس عام فہم بات سے ایک قاری پر یہ امر بالکل واضح ہو جانا چاہیے کہ انسانی جنین کی پیدائش کے مرحلہ وار قدرتی طریق کار میں خدا نے باپ والا کر دار قطعاً ادا نہیں کیا.عناصر میں ظہور ترتیب یعنی خلیوں

Page 103

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 86 سے عضلات کی تشکیل سلسلہ تنفس اور قلب کی کار کردگی نیز رگوں، نسوں، پٹھوں اور اعصاب کی کار فرمائی سے متعلق باہم ایک دوسرے سے مربوط نظاموں کے قیام سمیت پورے کے پورے جسمانی کارخانہ کا کسی اور کی معاونت کے بغیر ماں کے اپنے اکیلے وجود سے آغاز ہوا تھا.اس میں مسیح کی ابنیت ( یعنی جسمانی طور پر ابن اللہ ہونے) کی سرے سے کوئی گنجائش تھی ہی کہاں.مسیح کو تو صرف اور صرف خدا کی روح کو اپنے اندر جذب کرنے کا ظرف عطا ہوا تھا.اس ضمن میں اس بات کی اس سے زیادہ کوئی حقیقت نہ تھی.خدا اور مسیح کے درمیان پائے جانے والے رشتہ کی اس تفہیم کو کوئی بھی قابل فہم نام دے لیں اسے باپ بیٹے کے رشتہ کا نام کسی طور نہیں دیا جاسکتا.

Page 104

باب پنجم زندگی کی بحالی یا احیائے موتی؟ مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کے عقیدہ سے جو منظر نامہ تشکیل پاتا یا جو صورت حال ابھرتی ہے وہ ایک نہیں بہت سے مسائل کو جنم دینے کا موجب بنتی ہے.ہم ان مسائل میں سے بعض پر گزشتہ باب میں پہلے ہی روشنی ڈال چکے ہیں.اب ہم اپنی توجہ بعض نئے امور اور ان کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی نئی پیچیدگیوں اور الجھنوں کی طرف پھیرتے ہیں.فی الوقت ہمارے مد نظر جو امر ہے وہ یہ ہے کہ صلیب دیئے جانے سے قبل اور پھر مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد مسیح کے ذہن کی حالت یا کیفیت کیا تھی.تین دن رات ذہن کے یکسر ماؤف و معطل رہنے یعنی اس پر مکمل مردنی چھا جانے کے بعد (کہا یہ جاتا ہے کہ ) ذہن کو دوبارہ زندگی سے ہمکنار کیا گیا اور اس نے یکدم از سر نو کام کرنا شروع کر دیا.اس ضمن میں جس سوال کو اہمیت حاصل ہے وہ یہ ہے کہ جب انسان پر موت وارد ہوتی ہے تو اس وقت مرنے والے کے دماغ پر کیا گزرتی ہے اور اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ کم از کم ایک امر یہ نکتہ (جو چاہیں اس کو نام دے لیں) ایسا ہے جس کے بارہ میں جملہ طبی ماہرین وہ مسیحی ہوں یا غیر مسیحی بلا استثناسب کے درمیان مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر چند منٹوں یا اس سے ذرا ہی کچھ زیادہ وقت دماغ پر مردنی چھائی رہے اور اس کا ردِ عمل ہونا موقوف ہو جائے تو وہ ہمیشہ کے لئے مردہ ہو کر بلحاظ کار کردگی معدوم ہو کر رہ جاتا ہے.جو نہی خون کی بہم رسائی موقوف ہوتی ہے دماغ کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جاتا ہے.دماغ باطنی طور پر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اس کے اجزا اندر ہی اندر بکھر نے اور تتر بتر ہونے لگتے ہیں.اگر مسیح واقعی صلیب پر مر گیا تھا تو اس کے مالہ وماعلیہ کو اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے.اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس کے دل نے کام کرنا بند کر دیا تھا اور اس کے نتیجہ میں اس کے دماغ کو خون کی بہم رسانی کا سلسلہ یکسر منقطع ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس کے دماغ پر بھی مکمل مردنی چھا گئی تھی.اس کے معنے یہ ہیں کہ زندگی کو سہارا دینے والے پورے نظام نے جام ہو کر کام کرنا بند کر دیا تھا.بصورت دیگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ مر گیا تھا.اس لحاظ سے ہم مسیح کی زندگی اور موت کی تفہیم

Page 105

ނ میسحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 88 سے متعلق بہت سے پیچیدہ مسائل سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہتے.مسیح کی موت واقع ہونے کو جس طرح پیش کیا جاتا ہے اس کا ایک ہی مطلب بنتا ہے اور وہ یہ کہ اس کا روحانی جسم یا یوں کہہ لیں کہ اس کی روح اس کے انسانی جسم کے مادی پنجرہ سے آزاد ہو کر اس میں سے پرواز کر گئی تھی.اگر یہ سچ ہے اور ایسا ہی ہوا تھا تو اس کے زندہ ہونے کا یہ مطلب لینا ہو گا کہ اس کا روحانی وجود اسی مادی جسم میں پھر لوٹ آیا تھا جسے اس نے تین دن پہلے چھوڑ کر اس سے اپنا تعلق منقطع کر لیا تھا.مادی زندگی کو اگر وقت بتانے والی گھڑی سے تشبیہ دی جائے تو مردہ جسم میں روح کی ایسی واپسی مادی زندگی کی گھڑی کو دوبارہ چالو کرنے اور اس کی مسلسل جاری رہنے والی تک تک کو از سر نو بحال کرنے کے مترادف ہو گی.اگر ایسا ہی وقوع میں آیا تھا تو مانا پڑے گا کہ مردہ دماغ کے بکھر جانے اور تتر بتر ہو جانے والے منتشر خلیے یکدم دوبارہ مجتمع ہو کر زندہ ہو گئے ہوں گے.اور ٹوٹ پھوٹ کے تیز رفتاری سے فوری طور پر جاری ہو جانے والے پورے عمل کو ایکا ایکی الٹا چکر کھا کر پھر معدوم ہو جانے والی اسی گمشدہ نہج پر واپس لوٹنا پڑا ہو گا.اگر عقیدہ کے طور پر اس بات کو درست مان لیا جائے تو عمل اور رد عمل نیز اسباب و علل کے نقطۂ نگاہ سے ایک بہت ہی گھمبیر اور مہیب مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے.یہ گھمبیر اور مہیب مسئلہ علم حیاتیات کے عیسائی کیمیا دانوں کے لئے ہمیشہ ایک چیلنج بنارہے گا کہ وہ اس عقدہ کو حل کرنے کی خاطر ایسا ہونے یا ہو سکنے کے عملی اور تجرباتی ثبوت مہیا کر کے دکھائیں.مرکزی اعصابی نظام میں زوال و انحطاط اور ٹوٹ پھوٹ کے پورے عمل کا یکدم پالٹا کھا جانا اور زندگی کی آئینہ دار اصل حالت کا پھر عود کر آنا ایک ایسا عقد ہ لا یخل ہے جو طبی ماہرین اور سائنسدانوں کے تخیل کی انتہائی بلند پروازی اور اس کے پھیلاؤ کی ممکنہ ہمہ گیری کی رسائی سے باہر ہے.بفرض محال اگر کبھی ایسا ہونا اور ایسا ہو سکنے کے امکان کو درست تسلیم کیا گیا تو اس سے سائنس کی تغلیط ہی لازم نہیں آئے گی بلکہ خدا کے خود اپنے بنائے ہوئے قوانین قدرت مذاق بنے بغیر نہ رہیں گے.بایں ہمہ یہ ایک ایسا معجزہ ہو گا جس سے پیش آمدہ مسئلہ پھر بھی حل نہ ہو سکے گا اور جوں کا توں عقد ہ لا یخل بنا رہے گا.سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایسے رنگ میں دوبارہ زندہ ہو جانے کا مطلب کیا ہو گا؟ یہ مطلب ہو گا کہ مرکزی اعصابی نظام کے ٹوٹ پھوٹ جانے والے خلیے از سر نو زندہ ہو گئے اور ان کے مابین نئی ترتیب و تشکیل نے ظہور میں آکر انہیں دوبارہ متحرک کر دکھایا.دوبارہ تعمیر و تشکیل اور ان میں قائم ہونے والی نئی

Page 106

89 زندگی کی بحالی یا احیائے موتی؟ ترتیب اس امر پر دال ہو گی کہ ان خلیوں کی حیثیت بالکل نئے خلیوں کی ہو گی اور وہ نئے ہونے کی وجہ سے سابقہ یاد داشتوں سے عاری ہوں گے اس لئے مسیح کی سابقہ حیات سے تعلق رکھنے والے جملہ امور و واقعات کو جو مسیح کے وفات یافتہ ذہن سے محو ہو گئے تھے ان نئے تعمیر کر دہ خلیوں میں داخل کرنا پڑا ہو گا.یہ ایک ایسا طولانی سلسلہ عمل ہے جس کا از روئے سائنس و قوع میں آنا ممکن ہی نہیں.علم حیاتیات کی رو سے مردہ اجسام کے بالمقابل زندگی مشتمل ہوتی ہے دماغ میں پائے جانے والے ب ہا ارب اقل ترین بنیادی ذرات میں حواس خمسہ کی طرف سے مسلسل موصول ہونے اور ان میں سمانے والی اطلاعات کے احساس و شعور پر.یہ اطلاعات اپنی جگہ ان بنیادی ذرات کی بے حد پیچیدہ اور باہم ایک دوسرے سے مربوط ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی ہوتی ہیں.یہ اطلاعات حواس خمسہ میں سے ہر حس کی طرف سے موصول ہو ہو کر ان ٹکڑیوں میں شماریات کی طرح محسوب و محفوظ ہو رہی ہوتی ہیں.اگر محفوظ ہونے والا یہ سارا حساب کتاب یکسر صاف ہو کر محو ہو جائے تو اس کے ساتھ ہی زندگی بھی معدوم ہو جاتی ہے.لہذا مسیح کے دوبارہ زندہ ہو جانے کا مطلب یہ ہوا کہ پورے ساز و سامان کے ساتھ ایک نرم و نازک آلہ کے طور پر ایک نیا دماغی کمپیوٹر معرض وجود میں آکر روبہ عمل ہوا.اسی پیچیدگی کا مسیح کے جسم کے تمام دوسرے حصوں کی کیمیاوی حالت کے ساتھ بھی پیش آنا لازمی ٹھہرا.پورے مردہ جسم کو زندہ کرنے کے لئے بہت بڑے اور وسیع پیمانہ پر از سر نو تعمیر کے پورے کیمیاوی سلسلہ اور طریق کار کو دوبارہ حرکت میں لا کر اسے رو بعمل کرناضروری ہو گا تا کہ جو گوشت پوست اور دوسرا عضلاتی ساز و سامان انحطاط اور عمل تحلیل کے دوران ضائع ہوا ہے اسے اس کی اصل حالت پر واپس لایا جا سکے.ایسا عظیم معجزہ ظاہر ہونے پر ایک الجھن سے بھی واسطہ پڑے گا.سوال پیدا یہ ہو گا کہ زندہ کون ہوا اور کیا اثر ظاہر ہوا اس کا؟ کیا یہ سب کچھ اس انسان کے ساتھ ہواجو مسیح کی ذات میں پوشیدہ تھا یا اس خدا کے ساتھ ہوا جو انسان کے پہلو بہ پہلو مسیح کے اندر موجود تھا.بحیثیت انسان مسیح کی ذات اور ہستی کی اہمیت کو سمجھنے پر ہم اسی لئے تو زور دے رہے ہیں تا کہ اس نوعیت کی لامنجل الجھنیں سرے سے پیدا ہی نہ ہوں.مسیح کے حالات زندگی میں جب کبھی اور کہیں یہ نظر آتا ہے کہ خدا کا بیٹا ہونے کے باوجود وہ اعلیٰ و برتر طاقتوں اور قدرتوں کے اظہار میں ناکام رہا اور وہ کچھ نہیں کر سکا جو خدا کا بیٹا ہونے کی حیثیت میں اسے کرنا چاہیے تھا تو عیسائی صاحبان اپنے اس دعویٰ اور عقیدہ کی آڑ میں پناہ لے لیتے ہیں کہ وہ خدا ہونے کے ساتھ ساتھ انسان بھی تو تھا سو اس سے جب کمزوری کا اظہار یا غلطی کا ارتکاب ہوا تو خدا ہونے کی حیثیت

Page 107

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 90 میں نہیں بلکہ انسان ہونے کی حیثیت میں ہوا.اندریں صورت ہمیں یہ حق پہنچتا ہے کہ ان سے پوچھیں کہ صاف اور واضح طور پر نشان دہی کریں اور بتائیں کہ مسیح کی ذات میں کون ساحصہ انسان ہونے کا تھا اور کون ساحصہ وہ تھا جو اس کی الوہیت کا آئینہ دار تھا؟ تاکہ دونوں علیحدہ علیحدہ حصوں کے اعمال و افعال کو الگ الگ پر کھا جا سکے.مسیح کی دو حیثیتوں کا عقدہ مسیح صاحبان کا اپنا پیدا کردہ ہے اسے اور اس کی الجھنوں کو وہ جانیں اور وہی انہیں حل کریں.بظاہر حالات تو ہم یہی کہیں گے کہ جب دماغ زندہ ہوا تو انسانی عنصر ہی زندہ ہوا کیونکہ خدا کی ہستی اپنے آپ کو بر قرار رکھنے کے لیے مادی دماغ کی حاجت سے مبرا ہے.مسیحیوں کے عقیدہ کے مطابق جہاں تک مسیح کی خدائی ہستی کا تعلق ہے زمین پر اپنے سابقہ عارضی قیام کے دوران اس نے اپنے اندر کسی مادی شے کو سنبھالنے اور سہارا دینے والے کا کر دار ادا کیا اسی کو دوسرے الفاظ میں ذریعہ یا واسطہ بننا کہتے ہیں.لہذا مسیح کے دوبارہ جی اٹھنے سے مراد یہ ہوگی کہ اس کے اندر موجود انسان جی اٹھا.اس کے بغیر اس کی روح کا دوبارہ اسی جسم میں واپس آنا ممکن ہی نہیں ہو سکتا تھا گویا کہ انسان ہی مرا اور (اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین قدرت کے برخلاف انسان ہی جی اٹھا اور جی اٹھا بھی مسیحیوں کے اعتقاد کی حد تک ! اس کے بغیر اس کی روح کا دوبارہ اسی جسم میں واپس آنا ممکن ہی نہیں ہو سکتا تھا.اگر مسیحی صاحبان کے نزدیک یہ منظر نامہ (کہ انسان ہی مرا اور انسان ہی کے جی اٹھنے سے انسان ہی کی روح اس کے جی اٹھنے والے جسم میں دوبارہ واپس آئی) قابل قبول نہیں ہے تو پھر ہمیں ایک اور مسئلہ سے دو چار ہونا پڑے گا اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ یہ ماننا پڑے گا کہ زمین پر زندگی کے دوران مسیح کے دوز ہن تھے اور وہ تھے بھی ایک دوسرے سے مختلف اور آزاد.مراد یہ ہے کہ مسیح میں ایک ذہن انسان کا تھا اور دوسرا ذہن خدا کا.یہ دونوں ذہن ایک ہی محدود جگہ میں سمائے ہوئے تھے ورنہ تھے ایک دوسرے سے غیر متعلق اور آزاد.ایسی صورت میں یہ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ انسانی ذہن کے لئے گنجائش پیدا کرنے کی خاطر مر جانے والے انسانی دماغ کی از سر نو تعمیر و تشکیل ضروری تھی.بس اتنا ہی تصور کرنا کافی ہے کہ مسیح اپنی دوہری شخصیت کے ساتھ ذہنی اعتبار سے اسی کھوپڑی میں دوبارہ آموجود ہوا جو پہلے میزبان نما جسم کے انحطاط شدہ بچے کھچے بوسیدہ دماغی عضلات سے بھری ہوئی تھی.جتنازیادہ گہرائی میں جاکر ہم اس مسئلہ کا جائزہ لیتے اور اسے غور و فکر کا مرکز بناتے ہیں تو تحقیق و تدقیق کے ہر ہر مرحلہ پر اتنے ہی زیادہ نئے سے نئے مسائل سر اٹھا کر الجھن میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں.کسی مزید الجھن کی طرف اشارہ کرنے سے پہلے اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ خیالات و تصورات کا منبع و مخرج

Page 108

91 زندگی کی بحالی یا احیائے موتی؟ انسانی ذہن کو بنایا گیا ہے.خیالات کے تسلسل کو قائم رکھنے اور اسے آگے بڑھانے کے لئے ذہن انسانی کو ایک آلہ کار کے طور پر دماغ کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح مادی جسم کی حرکات و سکنات اور افعال و اعمال کا تعلق بھی ذہن سے ہی ہوتا ہے.اگر ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں اور اسے تسلیم کرتے ہیں کہ ذہن کی بھی ایک علیحدہ ہستی ہے اور وہ اپنی ہستی کو از خود بر قرار رکھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ذہن اور روح دراصل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.ہم اسے کسی نام سے بھی پکاریں اسے ذہن کہیں یا روح جب اس کا دماغ سے تعلق منقطع ہو جاتا ہے تو اس میں اپنی ہستی کو علیحدہ طور پر بر قرار رکھنے کی اہلیت موجود ہوتی ہے.لیکن اگر ذہن یا روح سے یہ کام لینا مقصود ہو کہ وہ انسانی جسم کو کنٹرول کرے یا یہ کہ اس کے گردو پیش کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا اثر قبول کرے تو پھر ذہن اور دماغ کے درمیان یا بالفاظ دیگر روح اور دماغ کے درمیان گہرے رابطہ اور تعلق کا ہونا ضروری ہے.اس تعلق اور رابطہ کے بغیر ذہن یاروح انسانی جسم پر نہ اثر انداز ہو سکتے ہیں اور نہ اسے متحرک کر سکتے ہیں.اور اسی طرح نہ ہی جسمانی، فکری اور جذباتی تحریکات اور ان کے طریق کار اور ان کے پورے سلسلہ کو کنٹرول کرنا ان کے لئے ممکن رہتا ہے.یہ ایک ایسا بد یہی امر ہے کہ بحث و تمحیص سے بالا ہے.تسلسل کا اب یہ بدیہی امر ہمیں ایک اور سنجیدہ مسئلہ سے دوچار کرنے کا موجب بن جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا خدا کا نام نہاد بیٹا کسی انسانی جسم کو دماغ کے ذریعہ کنٹرول کرنے کا محتاج تھا؟ اور کیا خود اسے اپنے ذہن اور فکری نظام کو چلانے اور اس میں تسلسل برقرار رکھنے کے لئے ایک مادی دماغ کے سہارے اور مدد کی ضرورت تھی اور اس کے واسطے ایک مادی دماغ پر انحصار ناگزیر تھا ؟ اگر وہ خدا کا بیٹا ہونے کی حیثیت میں ہر قسم کی جسمانی حدود و قیود سے بالا ہے اور اگر وہ اپنے ایک آزاد فکری نظام اور حسب منشا اس میں تسلسل کا مالک و مختار ہے اور اس کی اپنی پیدا کردہ کائنات میں ایسے آزاد فکری نظام اور حسب منشا اس میں مالک و مختار ہے اور اس کی اپنی پیدا کردہ کائنات میں ایسے آزاد و خود مختار فکری نظام کی کوئی اور مثال موجود نہیں ہے تو پھر خدا کی روح کا ایک مادی ذہن کے ساتھ انسانی جسم میں لوٹنا ایک انوکھی قسم کی دہری شخصیت اور اس کی وجہ سے رونما ہونے والی عجیب و غریب صورت حال کو جنم دینے کے مترادف ہے اور پھر وہ دہری شخصیت ہے بھی وہ باہم متصادم فکری طریقہ ہائے کار کی مالک کیونکہ انسانی ذہن اور انسانی روح کے لئے خدا کی ذات اور اس کے ذہن کے ساتھ مکمل طور پر یکساں اور یک جان ہو نا ممکن ہی نہیں ہے.ایسی صورت میں دو فکری طریقہ ہائے کار اور ان کے جدا گانہ تسلسل میں اختلاف رونما ہونا اور ہر دو کی دماغی

Page 109

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 92 لہروں میں ہیجان انگیز تصادم کا بر پا ہونا ناگزیر ہے.ایسی صورت حال کے لئے تو نفسیاتی امراض کے ایک ماورائی اور مافوق البشر معالج کی ضرورت ہو گی.کیونکہ یہ صورت حال اغلبا فکر و عمل میں تضاد کی ایک عجیب نوعیت کی روحانی بیماری (Schizophrenia) پر دلالت کرتی ہے.اس امر کے ذکر کے بعد اب ہم ایک اور زاویہ نگاہ سے ایک اور منظر نامہ یا صورت احوال کا نقشہ تیار کرتے ہیں.مسیحیت کا کسی قدر گہری نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مسیحی کلیسیا کے ہاں اور اس کے زیر اثر خود مسیحیوں میں بعض اصطلاحات کے نتائج و عواقب کا خیال کیے بغیر انہیں بعض ایسے واقعہ یا صورت حال پر چسپاں کر دیا جاتا ہے جہاں ان کا فی الحقیقت اطلاق پانا ممکن ہی نہیں ہو تا.یہی وجہ ہے کہ صلیب اور اس کے بعد کے واقعات سے متعلق مسیحی نظریہ ذہنی الجھاؤ اور غیر منطقی طور پر منطق کی جانے والی اصطلاحات کی دھند میں بری طرح لپٹا ہوا ہے.ان میں سے ایک اصطلاح ہے revival.اس کے لغوی معانی ہیں مختل و معطل ہوش نیز حد درجہ مضمحل اور قریب الاختتام زندگی کی وایسی و بحالی.ایک اور اصطلاح ہے resurrection ( دوبارہ جی اٹھنا) از روئے اصطلاح استعمال ہوتی ہے مر جانے اور اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد حشر نشر کے طور پر دوبارہ زندہ ہونے کے معنوں میں.ان دونوں اصطلاحوں (یعنی بحالی اور حشر نشر) میں زمین و آسمان کا فرق ہے.ہم نے سطور بالا میں مسیح کے دوبارہ زندہ ہونے کے امکان کا ذکر کرتے ہوئے عمداً revival (بحالی) کی اصطلاح استعمال کی ہے.جیسا کہ ہم نے اب تک دیکھا ہے revival یا بحالی کے معنی ہیں کہ گویا مرنے کے بعد اسی انسانی جسم کے جملہ اعضائے رئیسہ کے مقررہ فرائض و وظائف ( حرکات و سکنات اور اعمال و افعال) کی بحالی.بر خلاف اس کے resurrection ( حشر نشر ) کی اصطلاح کے بالکل اور معنے ہیں جن کی وجہ سے یہ اصطلاح قدرت کے بالکل ایک الگ مظہر پر دلالت کرتی ہے.افسوس کی بات یہ ہے کہ خود عیسائی کلیسیا ان اصطلاحوں کو ان کے معانی باہم ادل بدل کر غلط رنگ میں استعمال کرتا رہا ہے.سو اس ضمن میں مسیحیوں کے ذہنوں میں الجھاؤ اور ژولیدگی پیدا کرنے کا ذمہ دار کلیسیا خود ہی ہے.اکثر مسیحی صاحبان مسیح کی نام نہاد صلیبی موت اور اس کے بعد جی اٹھنے کو مسیح کے resurrection (حشر نشر ) سے تعبیر کرتے ہیں اور اس حشر نشر سے مراد وہ یہ لیتے ہیں کہ مسیح اپنی نام نہاد موت کے وقت جس جسم کو خیر باد کہہ کر چھوڑ گیا تھا اسی جسم میں زندگی دوبارہ عود کر آئی تھی.ہم یقینا اس سے اتفاق نہیں کرتے اور نہ حشر نشر کی اصطلاح ان معنوں کی متحمل ہے.اس وقت کی معروضی صورت

Page 110

93 زندگی کی بحالی یا احیائے موتی؟ حال کے پیش نظر ہم یہ حق رکھتے ہیں کہ مسیح کی اس وقت کی حالت کو سکتہ کی حالت قرار دیں نہ کہ اسے موت سے تعبیر کریں.اگر صحیح معنوں کو ذہن میں مستحضر رکھ کر اس اصطلاح کو استعمال کیا جائے تو مسیح کے resurrection ( دوبارہ جی اٹھنے) کے معنے ہر گز یہ نہیں ہو سکتے کہ اس کی روح اسی انسانی جسم میں واپس لوٹ آئی جسے وہ موت کے وقت چھوڑ کر اس سے علیحدہ ہو گئی تھی.Resurrection(حشر نشر ) کی اصطلاح مرنے کے بعد جس نئی زندگی کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے اس سے مراد صرف ایک نئے آسمانی جسم کی تخلیق کے ہیں.ایسا جسم اپنی فطرت کے لحاظ سے روحانی جسم ہوتا ہے جو اس مصفا اور لطیف روح کے لئے جو اس کے اندر ہوتی ہے ایک کٹھالی نما خول کا کام دیتا ہے.یہ جسم مرنے کے بعد دائگی زندگی کے تسلسل کو بر قرار رکھنے کے لیے پیدا کیا جاتا ہے.بعض اسے قائم مقام ضمنی جسم کہتے ہیں.بعض کے نزدیک یہ آسمانی جسم ہوتا ہے اور بعض اس کے لئے آتما کا لفظ استعمال کرتے ہیں.نام اس کا آپ کچھ ہی رکھ لیں بنیادی معنی اس کے ایک ہی رہتے ہیں.پس resurrection جسے اُردو میں حشر نشر کہتے ہیں کی اصطلاح اس نئے جسم کے لئے استعمال ہوتی ہے جسے روح کے لئے پیدا کیا جاتا ہے اور جو اپنی فطرت اور نوعیت کے لحاظ سے بہت لطیف ہوتا ہے.اور یہ اصطلاح یعنی resurrection کی اصطلاح روح کی اسی تحلیل و تبدیل شدہ جسم میں دوبارہ واپس لوٹ آنے کے معنوں میں ہر گز ہر گز ( اور ہم ہر گز کا لفظ باصر ار استعمال کر رہے ہیں ) استعمال نہیں ہوتی.سینٹ پال (پولوس) نے مسیح کے جی اٹھنے کے تعلق میں بالکل انہی اصطلاحوں کو ان معنوں میں (جن کا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں ) بڑی تفصیل سے استعمال کیا ہے.وہ نہ صرف مسیح کے جی اٹھنے پر ایمان رکھتا تھا بلکہ بالعموم ان سب مر جانے والے لوگوں کے جی اٹھنے پر بھی ایمان رکھتا تھا جن کو خدا اس کا اہل سمجھتا تھا کہ انہیں بھی ایک نئی ہستی اور نئی زندگی عطا کی جائے.روح کی ہستی وہی رہتی ہے لیکن وہ وجود جس میں وہ بسیرا کرتی ہے بدل جاتا ہے.پولوس کے نزدیک ایسا ہونا مظاہر قدرت میں سے ایک عام مظہر کی حیثیت رکھتا ہے.بصورت دیگر اگر یہ عام نہ ہو تو عیسائیت بلکہ ہر مذہب کا تصور بے معین ہو کر رہ جاتا ہے.گر نتھیوں کے نام سینٹ پال (پولوس) کے خطوط کا بہت عمیق نظر سے مطالعہ کرناضروری ہے کیونکہ زیر غور مسئلہ کے تعلق میں ان خطوط کو مرکزی اہمیت حاصل ہے.کم از کم میرے نزدیک تو اس امر میں شبہ کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی کہ جب پولوس نے صلیب دیئے جانے کے بعد مسیح کے زندہ نظر آنے کا ذکر کیا ہے اس نے کسی ابہام کے بغیر واضح طور پر صرف اور صرف resurrection(حشر نشر کے طور پر

Page 111

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 94 نیا جسم عطا ہونے) کا ذکر کیا ہے.یہ بات تو کبھی اس کے ذہن میں آئی ہی نہ تھی کہ مسیح کی روح اس کے اسی فانی جسم میں لوٹ آئی تھی اور یہ کہ مرنے کے بعد وہ عام جسمانی اصطلاح کی رو سے مادی طور پر دوبارہ جی اٹھا تھا.سینٹ پال (پولوس) کو جس طرح میں نے سمجھا ہے اگر مسیحی دینیات کے بعض ماہرین کے نزدیک وہ قابل قبول نہیں ہے تو بھی انہیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پولوس نے (اس کے بر خلاف کچھ اور کہہ کر) واضح طور پر اپنی تردید آپ کی ہے کیونکہ اس کے اپنے بعض بیانات اس بارہ میں شبہ کا کوئی شائبہ تک باقی رہنے ہی نہیں دیتے کہ مسیح کی زندگی resurrection ( یعنی حشر نشر کے طور پر حاصل ہونے والے نئے جسم) کی آئینہ دار تھی اور اس فانی انسانی جسم کے دوبارہ جی اٹھنے پر دلالت نہیں کرتی تھی جس میں پہلے اس کی روح مقید تھی.بعض متعلقہ اقتباسات درج ذیل ہیں جو فی ذاتہ بالکل واضح ہیں اور مزید کسی وضاحت کے محتاج نہیں ہیں.” اور خدا نے خداوند کو بھی جلایا اور ہم کو بھی اپنی قدرت سے جلائے گا.“ (1.کرنتھیوں باب 6 آیت 14) ”مردوں کی قیامت بھی ایسی ہی ہے.جسم فنا کی حالت میں بویا جاتا ہے جو جسم زندہ اٹھایا جاتا ہے وہ فنا نہیں ہوتا.جسم بے حرمتی کی حالت میں بویا جاتا ہے اور جلال کی حالت میں جی اٹھتا ہے.کمزوری کی حالت میں بویا جاتا ہے اور قوت کی حالت میں جی اٹھتا ہے.نفسانی جسم بویا جاتا ہے اور روحانی جسم جی اٹھتا ہے.“ : (1 کرنتھیوں باب 15 آیت 42 تا 44) کیونکہ نرسنگا پھونکا جائے گا اور مردے غیر فانی حالت میں اٹھیں گے اور ہم بدل جائیں گے کیونکہ ضرور ہے کہ یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہنے اور یہ مرنے والا جسم حیات ابدی کا جامہ پہنے.اور جب یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہن چکے گا اور یہ مرنے والا جسم حیات ابدی کا جامہ پہن چکے گا تو وہ قول پورا ہو گا جو لکھا ہے کہ موت فتح کا لقمہ ہو گئی.“ (1 کرنتھیوں باب 15 آیات 52 تا54) الغرض ہماری خاطر جمع ہے ( یعنی ہم مطمئن ہیں) اور ہم کو بدن کے وطن سے جدا ہو کر خداوند کے وطن میں رہنا زیادہ منظور ہے.(2.کرنتھیوں باب 5 آیت 8) سینٹ پال (پولوس) کے مندرجہ بالا اقتباس کے تعلق میں ایک مسئلہ پھر بھی حل طلب رہتا ہے.وہ

Page 112

95 زندگی کی بحالی یا احیائے موتی؟ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم اس کا موازنہ اس امر سے کرتے ہیں کہ مسیح صلیب کے بعد جب جلد ہی نظر آیا تو ابتدائی مسیحیوں نے اپنی اس رؤیت کا کس رنگ میں ذکر کیا.اگر پولوس سمجھتا تھا کہ مسیح حشر نشر کے طور پر جی اٹھا تھا تو اس نے جب مسیح کو دیکھا اور اس سے باتیں کیں تو اس کی اس رؤیت کو اسی رنگ کی رؤیت سمجھا جاسکتا تھا جس طرح کہ ایک وفات یافتہ شخص کی روح دوسری دنیا سے آکر اس دنیا میں ایک سائے یا ایسی شکل و شباہت کے طور پر نظر آتی ہے جیسی کہ مرنے سے پہلے اس کی ہوتی تھی لیکن ابتدائی مسیحیوں کی رؤیت اور اس نوع کی رؤیت میں بہت فرق ہے.اس طرح دو قسم کی شہادتوں کے باہم اکٹھا ہو جانے سے عجب الجھاؤ سا پیدا ہو جاتا ہے کہ کس کو صحیح مانا جائے اور کس کو غلط.ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے اس شہادت کو زیر غور لائیں جو خود مسیح کے شاگردوں نے دی اور ان لوگوں نے دی جو اگر چہ مسیحیت میں داخل نہ بھی ہوئے ہوں لیکن جو اس سے محبت کا تعلق رکھنے اور اس کا بہت احترام کرنے والے تھے.اولیت اور فوقیت کا درجہ رکھنے والی اس شہادت کو پولوس نے غلط رنگ میں سمجھا ہو گا کیونکہ یہ شہادت تو مسیح کے اپنے مادی جسم کے ساتھ زندہ انسانی شکل میں نظر آنے کا ذکر کرتی ہے.ایسی حالت کو حشر نشر کے طور پر جی اٹھنے سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا.اس کے ثبوت کے طور پر اس اصل واقعہ کا ذکر ہی کافی ہے کہ جب مسیح نے واقعۂ صلیب کے بعد جلد ظاہر ہو کر اپنے بعض شاگردوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا.چنانچہ لکھا ہے: ”انہوں ( یعنی شاگردوں) نے گھبرا کر اور خوف کھا کر یہ سمجھا کہ کسی روح کو دیکھتے ہیں.اس نے (یعنی مسیح نے) ان سے کہا تم کیوں گھبراتے ہو ؟ اور کس واسطے تمہارے دل میں شک پیدا ہوتے ہیں؟ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں دیکھو کہ میں ہی ہوں.مجھے چھو کر دیکھو کیونکہ روح کے گوشت اور ہڈی نہیں ہوتی جیسا مجھ میں دیکھتے ہو.اور یہ کہہ کر اس نے انہیں اپنے ہاتھ اور پاؤں دکھائے.جب مارے خوشی کے ان کو یقین نہ آیا اور تعجب کرتے تھے تو اس نے ان سے کہا کیا یہاں تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ انہوں نے اسے بھنی ہوئی مچھلی کا قبلہ دیا.اس نے لے کر ان کے روبرو کھایا.“ (لوقا باب 24 آیات 37 تا 43) یہ واقعہ حشر نشر کے طور پر جی اٹھنے کے نظریہ کی واضح اور قطعی طور پر تردید کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ مسیح نے ضروری سمجھا کہ انہیں کسی ابہام کے بغیر واضح طور پر مشاہدہ کرائے کہ میں وہی شخص یعنی مسیح ہوں اور ہوں بھی بعینہ اپنے اسی جسم کے ساتھ.محض روح کے روپ میں نہیں ہوں اور نہ ہی میں ایسا وجو د ہوں

Page 113

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 96 جسے زندہ رہنے کے لئے خوراک کی احتیاج نہ ہو.اس وقت کی معروضی صورت حال سے یہ بھی ظاہر ہو تا ہے کہ ابتدائی زمانہ کے مسیحی عجب گومگو کی حالت میں مبتلا تھے.وہ مسیح کے زندہ بچ رہنے کو خفیہ رکھنے کی خاطر دو طرح کی باتیں کرنے پر مجبور تھے.جب وہ یہ کہتے تھے و مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ہے تو انہیں شکی مزاج لوگوں سے بھی واسطہ پڑتا تھا اور وہ کسی مردہ جسم کے دوبارہ زندہ ہو جانے کو احمقانہ نظریہ قرار دیتے تھے.ایسی صورت میں ابتدائی زمانہ کے مسیحی مجبور ہو جاتے تھے کہ حشر نشر کے رنگ میں زندہ ہونے کا سہارا لیں کیونکہ اس کی فلسفیانہ اور منطقی توجیہہ پیش کی جاسکتی تھی.کر نتھیوں کے نام پولوس کا خط خاص طور پر بیک وقت دو کشتیوں میں پاؤں رکھنے کی حالت گو مگو کا مطالعہ کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے.واقعہ صلیب کے بعد مسیح کے متعلق ابتدائی مسیحیوں کے بیانات کا جائزہ لینے سے امر واقعہ کی دوصور تیں ابھر کر سامنے آتی ہیں جن میں سے ایک ہی قابل قبول قرار پاسکتی ہے.وہ مسیح جو واقعۂ صلیب کے بعد جلد ہی اپنے شاگردوں اور دوستوں کو نظر آیا جس نے ان سے باتیں کیں، جو ان کے ساتھ رہا اور جو اکثر و بیشتر رات کی تاریکی میں چلتا اور سفر کرتا ہو اصلیب والے علاقہ سے رفتہ رفتہ دور ہو تا چلا گیا وہ یقیناً ایسا شخص نہیں تھا جو حشر نشر کے طور پر احیائے موتی کے رنگ میں زندہ کیا گیا ہو بلکہ وہ ایک ایسا شخص تھا جو یا تو مردہ جسم میں زندگی کے عود کرنے یا بحال ہونے کی وجہ سے جی اٹھا تھا.یا پھر وہ ایسا شخص تھا جو مرا ہی نہ تھا بلکہ معجزانہ طور پر قریب المرگ حالت سے باہر آکر موت کے منہ میں جانے سے بچ گیا تھا.وہ موت کے یقینا اس قدر قریب تھا کہ اس کی حالت یونس نبی کی اس حالت کے مشابہ ہوگئی تھی جو اس کی مچھلی کے پیٹ میں ہوئی تھی.اس بارہ میں ہمارے ذہن میں قطعاً کوئی شبہ نہیں ہے کہ مؤخر الذکر صورت ہی ہر لحاظ سے واحد قبول صورت ہو سکتی ہے.اس خاطر کہ مسیحی صاحبان ہمارے نقطہ نظر کو آسانی سے سمجھ سکیں میں ایسا ہی یعنی اس سے ملتا جلتا ایک فرضی واقعہ بیان کرتا ہوں.فرض کیجئے یہی کہانی زندگی میں حقیقی طور پر آج بھی دہرائی جاتی ہے جو مفروضہ فی الوقت پیش نظر ہے اس کی رو سے کسی شخص کو صلیب دے کر جان سے مارنے کی کوشش کی جاتی ہے اور نتیجہ اسے مردہ قرار دے دیا جاتا ہے یعنی سمجھ یہ لیا جاتا ہے کہ اس کا کام تمام ہوا.بعد میں وہی شخص اپنے بعض ساتھیوں کو گھومتا پھرتا نظر آتا ہے.وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس کے ہڈیوں اور گوشت پوست کے جسم پر صلیب کے نشان بھی موجود ہیں اور ان نشانوں کے ساتھ ہی وہ چل پھر رہا ہے.اسے دوبارہ پکڑ کر قانون کی گرفت میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے.ہوتا یہ ہے کہ اسے عدالت میں پیش کر کے

Page 114

97 زندگی کی بحالی یا احیائے موتی؟ استغاثہ کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ یہ شخص صلیب دینے کی پہلی کوشش میں کسی نہ کسی طرح موت سے بچ نکلا ہے سو اس کے خلاف جو سزا سنائی گئی تھی اس کے حتمی اور یقینی نفاذ کے لئے اسے ایک دفعہ پھر صلیب دی جائے.وہ شخص آگے آتا ہے اور اپنا دفاع کرتے ہوئے اپنے استدلال کی بنیاد اس بات پر اٹھاتا ہے کہ وہ یقیناً صلیب پر ایک دفعہ مر گیا تھا اور اس طرح قانون اور انصاف کے تقاضا کو پورا کر کے اس کا مقصد من كل الوجوہ حاصل کر لیا گیا تھا لیکن خدا کے ایک خاص اقتداری حکم کے تحت وہ مردوں میں سے پھر جی اٹھا ہے.موت کے پہلے فیصلہ کو اب دوبارہ نافذ نہیں کیا جاسکتا.پہلی زندگی ختم ہو جانے کے بعد وہ نئی مہلت عطا ہونے پر دنیا میں ایک نئی زندگی گزار رہا ہے.اس نئی زندگی میں اس نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا ہے.اگر عدالت اس کے اس مؤقف کو تسلیم کر لیتی ہے تو ظاہر ہے اسے ایک ایسے جرم کی دوبارہ سزا نہیں دی جائے گی جس کا بھگتان وہ پہلے ہی بھگت چکا ہے.اگر ایک عیسائی ملک میں ایک عیسائی حج اور جیوری کے عیسائی ارکان کے سامنے ایک ایسا ہی مقدمہ پیش ہونے کا واقعہ رونما ہوتا ہے تو سوچنے والی بات یہ ہے کہ آج کی دنیا میں کتاب کا ایک قاری کیا رائے قائم کرے گا اس بارہ میں کہ وہ حج یا جیوری کے ارکان کیا فیصلہ دیں گے یا یہ کہ انہیں کیا فیصلہ دینا چاہیے ؟ جس شخص کے خلاف مقدمہ کی سماعت ہو رہی ہے اگر اس کے مؤقف کو رد کر دیا جاتا ہے اور اس کے خلاف علی الاعلان یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اسے دوبارہ صلیب پر لٹکا کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے تو کن بنیادوں اور کیسے اس فیصلہ کو منصفانہ قرار دیا جائے گا؟ یہ امر ظاہر وباہر ہے اور اسے عقل سلیم کی پوری پوری تائید حاصل ہے کہ حج کوئی بھی ہو، عیسائی ہو یا غیر عیسائی اور جیوری کے ارکان بھی صحیح الدماغ ہوں وہ اس مؤقف کو کہ ملزم ایک دفعہ مرجانے کے بعد دوبارہ جی اٹھا ہے پر کاہ کے برابر بھی وقعت نہیں دیں گے اور ان کا فیصلہ یہی ہو گا کہ ملزم مذکور کا موقف ناقابل قبول ہے اس لئے اسے دوبارہ صلیب دی جائے.ایسا فیصلہ کلیسیائی، مذہبی، نسلی اور لسانی تعصبات سے یکسر بالا ہو گا اور آفاقی نوعیت کا حامل ہو گا.سچ بات یہ ہے کہ کوئی شخص بھی جس کے ہوش و حواس درست ہوں اور جو بہر طور سمجھ بوجھ کا مالک ہو وہ اس فیصلہ کے سوا کوئی اور فیصلہ دے ہی نہیں سکتا.الغرض انسانی فہم و ادراک کی آفاقی ہم آہنگی جی اٹھنے اور زندہ ہو جانے کے موقف کو مسترد کر دے گی اور یہی فیصلہ دے گی کہ وہ کسی نہ کسی طرح موت سے بچ نکلنے میں کامیابی ہو گیا تھا.بعینہ یہی کچھ یسوع مسیح کے معاملہ میں بھی ہوا.نہ یہ مردہ جسم کے جی اٹھنے کا معاملہ تھا اور نہ یہ معاملہ تھا حشر نشر کے رنگ میں دوبارہ جی

Page 115

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 98 98 اٹھنے کا.بلکہ جیسا کہ عقل عمومی کا تقاضا ہے یہ محض موت سے بچ نکلنے کا واقعہ تھا.مسیح کے مردہ جسم کے زندہ ہو جانے کو مسیحیت کی بقا کے لئے بے انتہا اہم قرار دیا جاتا ہے.اس مسئلہ کی اس قدر اہمیت کے پیش نظر ہر کسی کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اس اہمیت کے پس پردہ کار فرما اصل وجوہات کا پتہ لگائے.ان وجوہات کا پتہ لگانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ امر ظاہر وباہر ہے کہ یہ سارے کا سارا واقعہ اپنے جملہ مشمولات کے ساتھ منطق سے یکسر عاری ہے.آخر خدا کا ایک نام نہاد بیٹا ایک دفعہ انسانی جسم کے پنجرہ سے آزاد ہونے کے بعد اس قید خانہ میں دوبارہ جا داخل ہونے کو کیوں ترجیح دے؟ اس امر کو کہ وہ واقعی مر گیا تھا اور یہ کہ اس کا مردہ جسم دوبارہ زندگی سے ہمکنار ہو گیا تھا شبہ سے مبرا کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے ؟ اس پہلو پر ہم پہلے بھی کافی حد تک غور کر چکے ہیں.انہیں نکات کو دہرانا اور ان پر زور دینا فی الوقت میرے مد نظر نہیں ہے.البتہ میں اس تعلق میں کتاب کے قاری کی توجہ ایک بہت اہم سوال کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں.وہ سوال یہ ہے کہ ایسے نامعقول خیال نے مسیحی دینیات میں جڑ کیوں پکڑی؟ اور مسیح کے بعد چند صدیوں کے اندر اندر اس نامعقول خیال نے عیسائی اعتقادات کی عمارت کے ستونوں میں سے ایک ایسے مرکزی ستون کی شکل کیوں اختیار کی کہ اس کے قائم رہے بغیر عیسائی دینیات کی پوری کی پوری عمارت دھڑام سے زمین پر آرہتی ہے ؟ ہمیں اس کے لئے ابتدائی زمانہ کے مسیحیوں کے ذہنوں میں جھانک کر اور ان میں اتر کر اصل حقیقت کا پتہ لگانا ہو گا.وہ دراصل اس وقت کے معروضی حالات کی وجہ سے عجب گومگو کی حالت میں تھے اور جو الجھن انہیں در پیش تھی اس کا انہیں کوئی حل نظر نہ آرہا تھا.وہ یہ کہہ نہیں سکتے تھے کہ مسیح کو صلیب پر سے زندہ اتار لیا گیا تھاور نہ پکڑ دھکڑ کا سلسلہ پھر شروع ہو جاتا.انہوں نے حالات کو موڑنا اور انہیں ایک اور ہی سانچہ میں ڈھالنا شروع کیا.اس کوشش میں رفتہ رفتہ مسیحیت کو ایک ایسی شکل دے دی گئی جو حقیقت سے بہت مختلف تھی.ان کی اصل الجھن اور مشکل کو جان لینے سے مسیحیت کے بننے اور بگڑنے کے عمل کو زیادہ گہرائی میں جاکر سمجھنا ہمارے لئے آسان ہو جائے گا.اس ضمن میں وہ ٹھوس حقیقت جس پر توجہ کو مرکوز کرنا ضروری ہے محض یہ ہے کہ اگر مسیح (علیہ السلام) فی الواقعہ صلیب پر مر گئے تھے تو یہودیوں کی نگاہ میں واضح طور پر جھوٹے اور فریبی قرار پائیں گے.یہ تھی وہ الجھن جس میں سے نکلنے کی کوشش میں وہ سر گرداں تھے.

Page 116

99 زندگی کی بحالی یا احیائے موتی؟ خدا کے مقدس نبی کے خلاف جگر پاش زبان درازی جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جاچکا ہے صحیفوں میں یہ پیش گوئی موجود تھی کہ اگر کوئی جھوٹا مدعی نبوت خدا کی طرف کوئی ایسی بات منسوب کرے گا جو اس نے کہی نہ ہو گی تو اسے درخت کے ساتھ لٹکایا جائے گا.اس لحاظ سے مسیح کا صلیب پر مرنا میسحیت کی موت کے مترادف ٹھہر تا تھا.یہی وجہ ہے کہ یہودیوں کا مستند مذہبی لٹریچر مسیح کی صلیبی موت کے متعلق انتہائی دل آزار طعن و تشنیع اور خرافات سے بھرا پڑا ہے.مسیح کے ہم عصر مخالف بالخصوص بائبل کے مذکور حوالہ کی رو سے ڈنکے کی چوٹ کہا کرتے تھے کہ وہ بلاشبہ جھوٹا ثابت ہو چکا ہے.اس کے جھوٹا ہونے میں شک وشبہ کے کسی شائبہ کی بھی گنجائش نہیں.ان کے دلوں میں مسیح کے لئے حبہ برابر بھی احترام باقی نہیں رہا تھا.وہ اس کے خلاف بہت ہی گندی اور اہانت آمیز زبان استعمال کرتے تھے.ہر شخص جو مسیح سے محبت رکھتا تھا ایسی گندہ دہنی برداشت نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہم برداشت کر سکتے ہیں کیونکہ ہم اسے خدا کا ایک سچا اور برگزیدہ رسول مانتے ہیں اور اس کے اس مرتبہ کی وجہ سے اس سے محبت رکھتے ہیں.ہر کوئی یہودیوں کے طعن و تشنیع اور گندہ دہنی پر ابتدائی مسیحیوں کی کربناک اذیت اور دلی دکھ درد کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے.وہ کیوں اذیت محسوس نہ کرتے جبکہ وہ اسے خدا کا سچا پاک و مقدس اور پار سارسول سمجھتے تھے اور اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ وہ مسیحا کے اعلیٰ منصب پر فائز اور ان کا نجات دہندہ ہے.وہ ایسی گندی زبان کے خلاف اپنا دفاع کیسے کریں گے جبکہ اسے اس گندی اور ناپاک زبان کے بالمقابل پڑھا جائے جو ہمیں آج کے زمانہ میں سلمان رشدی کی بدنام زمانہ کتاب The 'Satanic Verses میں ملتی ہے اور ہمارے دلوں کو بری طرح زخمی کرتی ہے.دونوں کی طرف سے شرافت اور شائستگی کا ایسا مکمل فقدان انسانیت کی پستی اور گراوٹ کی اتھاہ گہرائیوں میں اترنے اور اسفل السافلین میں جا داخل ہونے پر دلالت کرتا ہے.آگے ہم قدیمی یہودی لٹریچر سے جو اقتباسات درج کریں گے ان سے قارئین کتاب کچھ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جب پاک و مطہر اور مقدس ہستیوں کے ہلکائے ہوئے جنونی مخالف جھپٹ جھپٹ کر انہیں انتہائی گستاخانہ اخلاق سوز حملوں کا نشانہ بناتے ہیں تو شرافت و نجابت کی انسانی اقدار کا جنازہ نکلنے سے معتقدین کے دلوں پر کیا بیتی ہے.طالمود یہودیوں کی وہ کتاب ہے جس میں ان کے عقائد درج ہیں اور ان کے مذہبی علوم کو جس میں بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے اس میں یہ امر ذہن نشین کرایا گیا ہے کہ نعوذ باللہ نہ صرف یہ کہ مسیح

Page 117

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 100 ولد الحرام تھابلکہ اس کی ماں مریم کے ایام حیض میں اس کا حمل ٹھہر ا تھا اور ٹھہر ا بھی تھا ایک خبیث روح کی وساطت سے اس لئے وہ بلحاظ ولادت دوغلا تھا.اس کتاب میں مزید واضح کیا گیا ہے کہ اس کے اندر ESAU کی روح تھی.وہ احمق، شعبدہ باز اور عورتوں کو ورغلانے والا تھا.بالآخر اسے صلیب دی گئی اور دوزخ اس کا آخری ٹھکانہ بنی.اس کے ماننے والوں نے اس کے بت نصب کر رکھے ہیں جن کی وہ پرستش کرتے ہیں.یہودی لٹریچر کے جو اقتباسات ذیل میں درج کیے جارہے ہیں وہ ریورنڈ آئی.بی.پرانا ئٹس کی کتاب (The Talmud Unmasked by J.B.Pranaitis) سے ماخوذ ہیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں: Kallah “ نامی ٹریکٹ کے صفحہ 16 پر درج ہے: ایک دن ایسا ہوا کہ دینی اکابر (یہودی فقہی اور فریسی) ہیکل کے دروازہ پر بیٹھے تھے، دو نوجوان وہاں سے گزرے.ان میں سے ایک نے اپنا سر ڈھانپ رکھا تھا اور دوسرا ننگے سر تھا.ربی الائزر (Eliezer) نے کہا وہ جو ننگے سر تھا وہ ولد الزنا ہے.ربی جیہو شوا(Jehoshua) نے کہا مجھے یقین ہے کہ وہ ایام حیض کے دوران استقرار حمل کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا.ربی اکیباه (Akibah) بولا دونوں باتیں درست ہیں.اس پر دوسروں نے ربی اکیباہ سے کہا کہ وہ اپنے ساتھی علما کو جھٹلانے اور ان کی تردید کرنے کی کیسے جرآت کر رہا ہے.اس نے جواب دیا وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اسے ثابت کر سکتا ہے.چنانچہ وہ لڑکے کی ماں کے پاس گیا جو منڈی میں بیٹھی سبزی بیچ رہی تھی.اس نے عورت کو مخاطب کر کے کہا ”اے میری بیٹی ! میں تجھ سے جو کچھ پوچھنے لگا ہوں اگر تو سچ بولے گی اور اس کا صحیح جواب دے گی تو میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگلی زندگی میں تو بچائی جائے گی اور نجات یافتہ قرار پائے گی.“ اس عورت نے مطالبہ کیا کہ وہ قسم کھا کر کہے کہ اپنے وعدہ پر قائم رہے گا.ربی اکیباہ نے ایسا ہی کیا لیکن اس نے اپنی قسم کو اپنے ہونٹوں کی حرکت تک ہی محدود رکھا اور اپنے قلب پر اس کا کوئی اثر قبول نہ کیا.اس کے بعد اس نے پوچھا ” مجھے یہ بتا تیرا بیٹا پیدا کیسے ہوا تھا؟“ اس پر اس عورت نے جواب دیا ”جس روز میری شادی ہوئی اس روز مجھے حیض آرہا تھا اس پر میرا خاوند مجھ کو اکیلا چھوڑ کر چلا گیالیکن ایک بدروح آئی اور میرے ساتھ ہم بستر ہوئی اور اس مجامعت کے نتیجہ میں میرے ہاں یہ بیٹا پیدا ہوا.اس طرح یہ بات ثابت ہو گئی کہ وہ نوجوان نہ صرف ولد الزنا تھا

Page 118

101 زندگی کی بحالی یا احیائے موتی؟ بلکہ اس کا حمل بھی ایام حیض میں ٹھہرا تھا.جب معترضین نے یہ سنا تو انہوں نے کہا بلاشبہ ربی اکیباہ عظیم ہے اس نے تو اپنے بڑوں کی غلطی دور کر دکھائی.“ پھر انہوں نے بڑے جذبہ سے کہا ”اسرائیل کے خداوند خدا کی تقدیس بلند ہو جس نے ربی اکیباہ بن یوسف پر اپنا غیب ظاہر کیا.“ اب رہا یہ امر کہ یہودیوں کے نزدیک اس کہانی کا تعلق مسیح اور اس کی ماں مریم سے ہے تو اس کا صاف اور واضح الفاظ میں ذکر ان کی کتاب Toldath Jeshu ( مسیح کی نسل) میں موجود ہے.اس میں ہمارے نجات دہندہ (یسوع مسیح کا ذکر قریباً انہی الفاظ میں کیا گیا ہے." (The Talmud Unmasked by Rev.I.B.Pranaitis Part I, Chapter 1, Page 30) مسیح کے مخالف و معاند یہودیوں نے اپنے لٹریچر میں مسیح کے مقدس نام اور ذات پر جس طرح کیچڑ اچھال اچھال کر عفونت و غلاظت اور گندگی کی بھر مار کی ہے اس پر انسانی شرافت و شائستگی گھن کھاتی اور سر پیٹ کر رہ جاتی ہے.یقیناً مسیح مریم نامی ایک پاک دامن ، مقدس و مظہر خاتون کے حاملہ ہونے سے تولد ہوا اور اس حمل کے ٹھہر نے میں ہمارے خداوند قدوس کی لامتناہی تخلیقی قدرتوں کے سوا کسی اور کا کوئی دخل یا تعلق نہ تھا.کسی بدروح کی مجامعت سے ایام حیض میں حمل ٹھہرنے کا نظریہ اس عفونت بھرے دماغ پر زیادہ موزونیت کے ساتھ صادق آتا ہے جس میں اس شر عظیم کا خیال پیدا ہوا.افسوس ! ان بد باطن اور بد قماش لوگوں کی زبانیں اور قلمیں جو یکساں زہر اگلتی اور غلاظت بکھیرتی ہیں نہ مقدس و مظہر خاوندوں کی ازواج کو متہم کرنے سے باز آتی ہیں اور نہ ان کی ماؤں پر تہمتیں لگانے میں عار محسوس کرتی ہیں.اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ایسا گالیاں دینے والا اور گند بکنے والا دو ہزار سال پہلے گزرا تھا یا عصر حاضر کی دنیا میں پیدا ہوا.کس قدر حیران کن ہے یہ امر آج کی مہذب کہلانے والی سوسائٹیاں اور معاشرے ایسی بہیمیت پر اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ قلم اور زبان کی آزادی کے نام پر ایسی بھیانک اور سنگین دل آزاریوں کی اجازت دینے اور ان کی تصدیق کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے.سلمان رشدی نے بادی اسلام حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی ازواج مطہرات کے خلاف جو زبان استعمال کی ہے وہ اس گندہ دہنی سے مختلف نہیں ہے جو مسیح کی پارسا پاک دامن اور مطہر والدہ کے لیے یہود نے استعمال کی تھی.پھر ریورنڈ پر انا کٹس نے اپنی مذکورہ کتاب میں طالمود کی بعض اور عبارتیں بھی درج کی ہیں.وہ

Page 119

لکھتے ہیں: مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 102 "(Sanhedrin (67a میں یہ بھی لکھا ہے: یہ ہے وہ کچھ جو انہوں نے لد (Lud) میں ستادا (Stada) عورت کے بیٹے کے ساتھ کیا.انہوں نے عید فسح کی شام کو اسے صلیب پر نکا دیا.ستادا کا یہ لڑکا فرزند تھا پنڈیرا (Pandira) کا.ربی چاسدا (Chasda) ہمیں بتاتا ہے کہ پنڈیرا، ستاد ا کا خاوند تھا، وہی ستادا جو اس آدمی کی ماں تھی اور وہ یہودا کے بیٹے پافس (Paphus) کے زمانہ میں وہاں رہتا تھا“.- Sanhedrin (67a) مندرجہ بالا فقرات درج کرنے کے بعد ریورنڈا آئی بی پر انائٹس نے اپنی مذکورہ کتاب ”دی طالمود ان ماسکڈ میں یہ تبصرہ کیا ہے: ” ان فقرات کا مطلب یہ ہے کہ یہ مریم ہی تھی جو ستاد کہلاتی تھی.ستادا کہتے ہیں کچھی کو کیونکہ بمبارتا (Pambadita) میں جو کچھ پڑھا جاتا تھا اس کی رو سے اس عورت نے اپنے خاوند کو چھوڑ دیا اور زنا کی مرتکب ہوئی.یہی بات یروشلم، طالمود اور میمونائڈز Jerusalem) (Talmud & Maimonides میں بھی لکھی ہے.جو لوگ ایسی شیطانی کذب بیانیوں میں یقین رکھتے ہیں وہ زیادہ نفرت اور ملامت کے سزاوار ہیں یا زیادہ رحم کے.اس بارہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا.“ یہ تبصرہ بلاشبہ ایک بے بس اور بے چارے مظلوم دل کی کرب و اذیت کی آئینہ دار ایک پیچ یا پکار ہے.یہ مظلوم دل اس کے اپنے محبوب آقا کے خلاف ایک کٹر جنونی مخالف کی طرف سے کیسے جانے والے تمسخر اور استہزا اور اہانت پر بے اختیار تڑپ اٹھا ہے.ابتدائی مسیحیوں کو تو اس زمانہ کے سنگدل یہود کی طرف سے روار کھے جانے والے تمسخر و استہزا اور اہانت وذلت پر اس سے کہیں زیادہ اذیت اٹھانا پڑی ہوگی حتی کہ ان مظلوموں کی زندگی تو ان کے لئے جہنم بن گئی ہو گی.انہیں تو ان دشنام طرازیوں اور دل پاش و جگر خراش گندہ دہنیوں کی اذیت سہنا پڑی ہو گی جن کا نشانہ کسی ایسے پیارے وجود کو نہیں بنایا جار ہا تھا جس کی یاد ماضی بعید کے دھندلکوں میں مدھم پڑ گئی ہو بلکہ وہ تو اس مقدس وجود کے خلاف دشنام طرازیوں اور استہز اؤں کی نا قابل بیان اذیت سہ رہے تھے جس کی یادیں ابھی تازہ اور زندہ تھیں، جیسے انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جس کی دل نواز باتوں کو اپنے کانوں سے سنا تھا اور جس کی پاک تریاق صحبت میں

Page 120

103 زندگی کی بحالی یا احیائے موتی؟ انہوں نے اپنی زندگی کے بعض بہت ہی حسین اور بیش قیمت لمحات گزارے تھے.اس میں کیا شک ہے کہ انہیں ایک درد ناک عذاب میں مبتلا کر دیا گیا ہو گا کیونکہ محض گھناؤنا استہز اہی نہیں تھا جو انہیں اذیت پہنچارہا تھا بلکہ وہ اس سے کہیں بڑھ کر تعزیر و تعذیب کے بظاہر نہ ختم ہونے والے سلسلہ سے دوچار تھے کیونکہ یسوع مسیح کے خلاف شکایتوں، مؤاخذے، پکڑ دھکڑ ، باز پرس، عدالتی کارروائی کے چکر اور صلیب پر مار ڈالنے کی کوشش کے طویل عمل نے اسے بے عزتی اور بے حرمتی کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی تھی.میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ اس زمانہ کے آزاد مغرب کے عیسائی ضمیر کروڑوں کروڑ مسلمانوں کو پہنچنے والی اذیت اور کرب کو سمجھنے اور اس کا احساس کرنے کی کچھ تو کوشش کریں جنہیں ان کے جان و دل سے عزیز آقا محمد رسول اللہ صلی الی ایم کی ذات اقدس اور ان کے قدسی صفات صحابہ کے خلاف ایسی ہی غیر انسانی اور سر اسر اخلاق سوز زبان استعمال کر کے کچھ کم مبتلائے عذاب نہیں کیا جاتا.ابتدائی مسیحیوں کو یہ سب دکھ ، اذیت اور عذاب جھیلنا پڑا اور اس امر کے باوجود جھیلنا پڑا کہ یہ بات ان کے ذاتی علم میں تھی اور اس کے ناقابل تردید ثبوت موجود تھے کہ مسیح زندہ تھا اور اس کی موت کے بارہ میں یہودیوں کے فخریہ ڈھنڈورا پیٹنے اور آسمان سر پر اٹھانے کے علی الرغم صلیب پر مرا نہ تھا.ان ابتدائی مسیحیوں نے مسیح کے صلیب پر سے اترنے کے بعد خود اپنے ہاتھوں سے اس کے زخموں کا علاج کیا تھا.اس کا جسم اس حال میں کہ اس پر بے ہوشی اور سکنہ کا عالم طاری تھا ان کے حوالہ کیا گیا تھا.انہوں نے اسے اس گہری بے ہوشی اور سکنہ کی حالت سے باہر آتے اور معجزانہ طور پر شفایاب ہوتے دیکھا تھا.انہوں نے اسے سائے، بھوت پریت یا روح کی شکل میں نہیں بلکہ اسی کمزور اور نقاہت زدہ انسانی جسم کی شکل میں دیکھا تھا جس نے خدا کی راہ میں حق و صداقت کی خاطر بے انتہا دکھ اٹھائے تھے.ان بظاہر جان لیوا دکھوں اور تکلیفوں کے باوجو د وہ موت کے منہ سے بچ نکلا تھا.انہوں نے اس سے باتیں کی تھیں، اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا تھا اور اسے راتوں کو چھپتے چھپاتے ، قدم بقدم چلتے اور صلیب والی جگہ سے دور سے دور تر ہوتے اور اس علاقہ کو خیر باد کہہ کر وہاں سے ہجرت کرتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا.آسمان کی طرف اٹھایا جانا سینٹ منی (St Matthew) اور سینٹ جان St.John) نے اپنی انجیلوں میں مسیح کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر تک نہیں کیا ہے.اگر واقعی مسیح آسمان پر اٹھایا گیا تھا تو ایسے اہم واقعہ کا ان انا جیل میں

Page 121

میسحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 104 ذکر نہ پاکر انسان حیرت میں پڑے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ایسی فروگزاشت ان سے ہو کیسے سکتی تھی.اور اگر ہوئی تو کیوں ہوئی ؟ دوسری دو نسبتا مختصر انا جیل جن میں آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر ملتا ہے وہ ہیں مرقس اور لوقا کی انا جیل: 1.غرض خداوند یسوع مسیح ان سے کلام کرنے کے بعد آسمان پر اٹھایا گیا اور خدا کی دہنی طرف بیٹھ گیا.“ (مرقس باب 16 آیت 19) 2.”جب وہ انہیں برکت دے رہا تھا تو ایسا ہوا کہ ان سے جدا ہو گیا اور آسمان پر اٹھایا گیا.“ (لو قاباب 24 آیت 51) 4 تاہم ٹھوس سائنسی بنیادوں پر کی جانے والی فاضلانہ تحقیق کے نتیجہ میں یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ ان دونوں اناجیل میں آسمان پر اٹھائے جانے کا جو ذکر آتا ہے وہ الحاقی ہے یعنی بعد کے زمانہ میں کسی نے اس کا ان میں اضافہ کر دیا.ابتداء میں مرقس اور لوقا نے خود جو اصل متن مرتب کیا تھا اس میں یہ آیات سرے سے موجود ہی نہیں تھیں.وہ مخطوطہ جو کو ڈیکس سینی آئیکس(Codex Siniaticus) کہلاتا ہے چوتھی صدی عیسوی کا ہے اور اسے عہد نامہ قدیم و جدید کا قدیم ترین متن تسلیم کیا جاتا ہے.یہ مخطوطہ خود اپنی ذات میں اس حقیقت پر گواہ ہے کہ مرقس اور لوقا دونوں کی اناجیل میں مذکورہ آیات آغاز کار مرتب ہونے والے اصل اور مستند نسخہ میں شامل نہ تھیں اور یقیناً کسی کاتب یا نقل نویس نے بہت بعد کے زمانہ میں اپنی مرضی سے ان کا اضافہ کر دیا.Codex Siniaticus کے مخطوطہ میں مرقس کی انجیل باب 16 کی آیت 8 پر ختم ہو جاتی ہے.اب تو اس حقیقت کو بائبل کے بعض جدید ایڈیشنوں میں بھی تسلیم کر لیا گیا ہے.5 اس قدیم ترین مخطوطہ میں لوقا کی انجیل کے باب 24 کی آیت 51 میں ”آسمان پر اٹھالیا گیا“ کے الفاظ موجود نہیں ہیں.متن کے محقق اور تجزیہ نگار سی.ایس.سی.ولیمز (C.S.C.Williams) کے نزدیک اگر (Codex Siniaticus) کے مخطوطہ میں ان کا موجود نہ ہونا درست ہے تو انا جیل کے اصل ابتدائی متون میں مسیح کے آسمان پر اٹھائے جانے کا سرے سے کوئی ذکر ہی موجود نہ تھا.6 4 Pg.18, Jesus: the Evidence by Ian Wilson (1984) 5 (Holy Bible New International Version (1984) by International Bible Society p.1024) 6 (Secrets of Mount Sinai, The Story of Finding the World's Oldest Bible-Codex Sinaiticus by James Bentley p.131)

Page 122

105 زندگی کی بحالی یا احیائے موتی؟ حتی کہ Jehovah's Witnesses کو بھی (جو ایک عیسائی فرقہ کے افراد ہیں اور جو مسیح کی ابنیت اور اپنے باپ خدا کی طرف اس کے اٹھائے جانے کے بڑے پر جوش حامی ہیں) بالاآخر تسلیم کرنا پڑا ہے کہ مرقس اور لوقا کی انا جیل میں آسمان پر اٹھائے جانے کی آیات الحاقی ہیں، ان کی سرے سے کوئی بنیاد نہیں ہے کیونکہ ابتدائی اصل متن میں وہ سرے سے موجود نہیں ہیں 7.مسیح کے جسم کے ساتھ کیا گزری؟ عقل عمومی اور منطقی استدلال کی رو سے جب قریبی نظر سے بغور جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ آسمان پر اٹھائے جانے کے سلسلہ وار واقعات کو آج کل کے مسیحی کسی انداز میں پیش کرتے ہیں تو ان واقعات میں پوشیدہ اور ان کے ساتھ وابستہ مزید نا معقولیتیں آشکار ہوئے بغیر نہیں رہتیں.جہاں تک مسیح کے اسی انسانی جسم میں واپس لوٹ آنے کے سوال کا تعلق ہے اس کے بارہ میں پہلے ہی بہت کچھ روشنی ڈالی جاچکی ہے.ہم اس میں صرف ایک بات کا اضافہ اور کرنا چاہتے ہیں.اور وہ یہ ہے کہ اگر بفرض محال آخر میں مسیح آسمان پر اٹھا ہی لیا گیا تھا تو جس مادی جسم کے ساتھ وہ آسمان پر اٹھایا گیا تھا وہاں اس جسم پر نہ جانے کیا گزری ہو گی.جب مسیحیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا جاتا ہے کہ آسمان پر مسیح کے مادی جسم کا کیا بنا اور اس پر کیا بیتی تو بعض مسیحی کہہ دیا کرتے ہیں کہ جب وہ اپنے آسمانی باپ کے پاس پہنچا تو اس کا گوشت پوست کا مادی جسم منتشر ہو کر ایک شعلہ نما چکار میں بھک سے اڑ کر نابود ہو گیا.اس سے بنیادی نوعیت کا ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسانی جسم سے مسیح کی علیحدگی نے ایسے دھما کہ خیز واقع پر منتج ہونا تھا تو انسانی جسم کے ساتھ یہ دھما کہ اس وقت کیوں نہ رونما ہوا جب اولاً مبینہ طور پر یہ کہا گیا تھا کہ وہ مر گیا ہے.مسیح کی موت کا جو حوالہ ہمیں بائیل میں ملتا ہے وہ اس موقع سے تعلق رکھتا ہے کہ جب وہ صلیب پر لٹکا ہو اتھا، منتی کے الفاظ میں وہ حوالہ یہ ہے کہ ”اس نے جان دے دی“ اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ کہنے والے کے نزدیک روح اس کے جسم میں سے پرواز کر گئی.ظاہری طور پر تو بجز اس کے اور کچھ وقوع میں نہ آیا کہ روح آہستگی سے جسم سے نکل گئی.یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ وہ صلیب پر مرا نہ تھا کیونکہ روح کے انسانی جسم کو چھوڑنے کی صورت میں اس وقت بھی اس کا جسم اسی انداز میں بھک سے اڑ کر ختم ہو سکتا تھا.ایسا اس وقت کیوں ہوا 7 (New World Translation)

Page 123

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 106 جب مسیح نے دوسری مرتبہ جسم سے علیحدگی اختیار کی.اندریں حالات پر غور و فکر اور تحقیق کے دو ہی امکانی راستے کھلتے ہوئے نظر آتے ہیں:.1.اول یہ کہ جب مسیح کی روح انسانی جسم میں دوبارہ واپس آئی تو مسیح کی شخصیت دائمی طور پر اس کے ساتھ وابستہ نہ رہی اور یہ کہ اس نے آسمان پر اٹھائے جانے کے دوران انسانی جسم کو پرے پھینک دیا اور وہ خالص خدا کی روح کے طور پر آسمان پر چڑھ گیا.اس صورت حال کا نہ تو حقائق ساتھ دیتے ہیں اور نہ ہی یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ ایسا ہو ا ہو گا کیونکہ ایسا تصور ایک ایسی بند گلی میں پہنچانے کا موجب بنتا ہے کہ جہاں یہ تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں رہتا کہ مسیح پر ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ موت وارد ہوئی.پہلی مرتبہ وہ صلیب پر مرا اور دوسری مر تبہ اسے پھر آسمان پر اٹھائے جانے کے دوران موت کے منہ میں جانا پڑا.2.دوسرا رستہ یہ ہے کہ یہ مانا جائے کہ مسیح انسانی جسم کے خول میں دائمی طور پر محد ودو مقید رہا.اس صورت حال کو بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا.یہ ہے ہی کلی طور پر گھناؤنی اور یک قلم رد کر دینے کے قابل کیونکہ ایسی صورت حال خدا کی ہستی کی شان اور جلال و جبروت سے قطعا کوئی مناسبت نہیں رکھتی.اس کے بالمقابل ایک عقل عمومی کا نقطۂ نظر بھی ہے لیکن یہ سمجھنا بھی غلط ہو گا کہ مسیح کے آسمان پر اٹھائے جانے کو ایک قدیمی خلائی سفر تصور کیا جائے اور آسمان کو سورج، چاند اور کہکشاؤں سے بھی پرے واقع کوئی جگہ مانا جائے، سچائی نہ یہاں ہے نہ وہاں.8 ایسی انوکھی کہانی گھڑنے کا محرک وہ عقد ولا یخل ہوا ہو گا جس کا مسیحیوں کو مسیحیت کی نوزائیدگی اور ناپختہ کاری کے زمانہ میں واسطہ پڑا ہو گا.جب مسیح نظروں سے غائب ہو گیا تو قدرتی طور پر یہ سوال اٹھایا گیا ہو گا کہ وہ کہاں غائب ہو گیا اور اس کے ساتھ ہوا کیا؟ ابتدائی مسیحی اس حیرانی اور سرگشتگی کو علی الاعلان یہ کہہ کر تو دور نہ کر سکتے تھے کہ چونکہ وہ مرا نہیں تھا اس لیے پیچھے جسم چھوڑ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ وہ کہہ سکتے تھے کہ وہ اپنے زندہ جسم کے ساتھ یہاں سے ہجرت کر گیا ہے.اس اقرار سے جسم کے غائب ہو جانے کا معاملہ آسانی سے حل ہو سکتا تھا لیکن یہ اقرار کرنا ان کے لئے ممکن ہی نہ تھا.ان میں سے جو بھی اس امر کا اقرار کرنے کی جرات کرتے کہ مسیح زندہ نظر آیا تھا اور رفتہ رفتہ وہ یہودیہ کی حدود سے نکل 8 The Lion Handbook of Christian Belief, Lion London (1982), p.120.

Page 124

107 زندگی کی بحالی یا احیائے موتی؟ کر کہیں دور چلا گیا تو وہ رومن قانون کی گرفت میں آئے بغیر نہ رہتے کہ مسیح کے انصاف سے بچ نکلنے کے جرم میں وہ اس کے ممد و معاون ہوئے.آسمان پر اٹھائے جانے کی کہانی گھڑنے کا خیال خواہ کتنا ہی انوکھا اور نرالا کیوں نہ ہو اس راہ کو اختیار کرنے اور اس کی آڑ میں پناہ لینے کا راستہ نسبتاً محفوظ ضرور تھا لیکن اس میں شک نہیں کہ اس طرح جھوٹ میں ملوث ہونا پڑتا تھا.ہمیں مسیح کے ابتدائی شاگردوں کی امانت و دیانت کی صلابت کو خراج تحسین پیش کرنا پڑتا ہے کہ انہوں نے نہایت پر خطر صورت حال سے دوچار ہونے کے باوجود کسی جھوٹے اور خلاف واقعہ بیان یا من گھڑت کہانی میں پناہ نہیں لی.اناجیل اربعہ کے چاروں مصنفین نے غلط بیانیوں کے دھند کے پردہ کے پیچھے پناہ لینے کی بجائے اس بارہ میں خاموشی اختیار کرنے کی راہ اپنائے رکھی.اس میں شک نہیں کہ اس طرح انہیں اپنے مخالفین و معاندین کے تمسخر و استہزا اور ایذارسانیوں کا نشانہ بنا پڑا ہو گا لیکن انہوں نے یہ سب کچھ خاموشی اور صبر سے برا داشت کرنے کو ترجیح دی.ان لوگوں کی طرف سے جنہیں اندرونی کہانی یا یوں کہہ لیں کہ اصل حقیقت کا علم تھا پر اسرار خاموشی کا ایک اثر اس رنگ میں ظاہر ہوا کہ بعد کے زمانوں میں آنے والی عیسائی نسلوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے اور پہنچتے چلے گئے.صلیب پر مر جانے کی عام یہودی روایت کے زیر اثر وہ ضرور حیران ہوئے ہوں گے کہ یہ کیا بات ہے کہ جب مسیح کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی تھی تو پیچھے اس کے جسم کے باقی رہ جانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا.وہ سوچتے ہوں گے کہ آخر جسم کہاں غائب ہو گیا اور اس کا بنا کیا؟ اگر یہ سمجھا جائے کہ مسیح کی روح اس کے جسم میں واپس لوٹ آئی تھی تو وہ واپس آئی کیوں اور اس کے واپس آنے میں کیا راز پوشیدہ تھا؟ ان بنیادی سوالات کا خاطر خواہ جواب نہ ملنے کے نتیجہ میں نت نئے سوالات کا ذہنوں میں پیدا ہونا ایک قدرتی امر تھا.اگر زندگی بحال ہونے سے مراد یہ تھی کہ مسیح اسی جسم میں پھر واپس لوٹ آیا تو مادی انسانی ڈھانچہ کی قید میں دوبارہ لوٹ آنے کے بعد یسوع مسیح کے ساتھ کیا کچھ پیش آیا اور اسے دوسری مرتبہ کن حالات میں سے گزرنا پڑا؟ کیا اب کے وہ اس جسم میں دائمی طور پر مقید و مقفل ہو کر رہ گیا تھا اور اس سے دوبارہ رہائی ممکن نہ رہ تھی؟ بر خلاف اس کے اگر مسیح کی روح ایک دفعہ پھر اس جسم سے رخصت ہوئی تو وہ زندگی کی بحالی عارضی تھی یا مستقل؟ اگر وہ اس جسم میں مقید و مقفل نہ رہا تھا تو دوسری بار موت واقع ہونے پر اس جسم کا بنا کیا؟ اسے دفنا یا کہاں گیا؟ کیا اس کی تدفین کا تاریخی دستاویزات یا قدیم مخطوطات میں کوئی ذکر ملتا ہے؟

Page 125

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 108 ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اور اس قسم کی بعض اور سوالات ابتدائی زمانہ میں پیدا نہ ہوئے ہوں تو بعد کی صدیوں میں جبکہ از روئے تاریخ مسیح کی پر اسرار زندگی کے بارہ میں مسیحی علما اور ماہرین دینیات کے مابین فلسفیانہ بحثوں کا سلسلہ چھڑا تو ذہنوں میں اس قسم کے سوالات نے کچھ کھلبلی نہیں مچائی ہو گی.لگتا یہ ہے کہ بعض بے اصول اور غیر ذمہ دارانہ کا تبوں اور نقل نویسوں نے اس مشکل میں سے نکلنے اور اس جھنجھٹ سے جان چھڑانے کے لئے سینٹ مرقس کی انجیل میں تصرف سے کام لیتے ہوئے آخری بارہ آیات کا اپنی طرف سے اضافہ کر دیا ہو گا اور اس کی طرف یہ جھوٹا بیان منسوب کر یا ہو گا کہ آخر میں مسیح اس جسم کے ساتھ آسمان سے بلند ہو تا اور اوپر کی طرف چڑھتا ہوا نظر آیا.جھوٹی باتیں گھڑنے والے ذہنوں نے سینٹ لوقا کی انجیل کو بھی نہیں بخشا ہو گا اور اس میں بھی تحریف کر ڈالی ہو گی اور اس کے باب 24 کی آیت 51 میں بڑی ہوشیاری سے کیے گئے ان الفاظ کے اضافہ نے کہ ”اس کو آسمان پر اٹھالیا گیا تحریف کرنے کے مقصد کو پورا کر دکھایا ہو گا.اس طرح اس نے سوالات کی بھر مار کے طویل سلسلہ کو ہمیشہ کے لئے بند کرنے کا بند وبست کر دیا ہو گا.اور مسیحی عقیدہ کا کم از کم ایک بھید حل ہونے کی راہ نکل آئی ہو گی.لیکن یہ راہ نکالی بھی تو کس قیمت پر ؟ ظاہر ہے راہ نکالی یسوع مسیح کی مقدس شخصیت سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ و پر و قار حقائق کی قربانی دے کر.سو گویا اتنی بھاری قیمت ادا کی کہ حقائق کی قربانی دے کر.سو گویا اتنی بھاری قیمت ادا کی کہ حقائق کو فسانہ طرازی اور داستاں سرائی کی بھینٹ چڑھا ڈالا.بس پھر کیا تھا چل سو چل حقائق سے فسانے کی طرف مسیحیت کا سفر ایسا شروع ہوا کہ بلاروک ٹوک اور بے دھڑک آگے سے آگے ہی چلتا چلا گیا.ہمارے علم کی رُو سے یہ بات یقینی ہے ( اور ایسا ہو نانا گزیر تھا) کہ مسیح کے مردہ جسم کو نہ پاکر یہودی بہت برہم اور پریشان ہوئے.(متی باب 28 آیات 11 تا 15).وہ مسیح کی موت کا حتمی اور یقینی ثبوت حاصل کرنا چاہتے تھے اس کے لئے انہیں ہمہ گیر نوعیت کا مسلمہ ثبوت در کار تھا اور وہ تھا مر دہ جسم کا موجود اور دستیاب ہونا.حتمی ثبوت کے ناپید ہونے پر ان کا پیلاطوس کے پاس شکایت لے جانا ان کی بے چینی اور بے کلی کو واضح طور پر آشکار کر دکھاتا ہے.(متی باب 27 آیات 62 تا64) اگر دیکھا جائے تو سادہ اور حقیقی جواب اس حقیقت میں پنہاں تھا کہ چونکہ مسیح اس طور پر نہیں مرا تھا جس طور پر یقین کر لیا گیا تھا اس لئے جسم کے غائب ہونے کا سوال تھا ہی سرے سے بے محل.اس نے تو یقیناً اپنے وعدہ پر قائم رہتے ہوئے اسرائیل کے گھرانے کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں یہودیہ کو خیر باد کہہ دینا تھا.ظاہر ہے وہاں سے ہجرت کر جانے کے بعد وہ دوبارہ وہاں نظر نہیں آسکتا تھا.

Page 126

109 زندگی کی بحالی یا احیائے موتی؟ احمدی مسلمانوں کا نقطۂ نظر مسیح کے مفقود الخبر ہو جانے اور اس کے اتنہ پسند کے متعلق احمدی مسلمانوں کا نقطۂ نظر بالکل واضح ہے اس لئے کہ وہ منطقی استدلال پر پورا اتر نے والا اور حقائق پر مبنی ہے.یہ نقطۂ نظر مسیح کی شخصیت کو اور جو کچھ اس کے ساتھ پیش آیا اسے حقائق کی روشنی میں پیش کرتا ہے.اس کے گرد حق و صداقت کا نورانی ہالہ بناہوا ہے.یسوع مسیح کی حقیقت خود اپنی ذات میں اس قدر حسین ہے کہ اس کے گرد کسی بھید اور راز کا سجا سجایا مرصع سنہری جال بننے کی ضرورت ہی نہیں.زندگی بھر وہ گنہگار اور خطاکار انسانوں کو راہ راست پر لانے کی خاطر دکھ اٹھاتا اور مصیبتیں جھیلتا رہا حتی کہ اس کا دکھ اٹھانا صلیب پر لٹکائے جانے کی صورت میں اپنے عروج کو جا پہنچا.جیسا کہ خدائے قادر و کریم نے وعدہ کیا تھا اسے صلیب کی مصیبت سے نجات ملی یعنی وہ صلیب سے اس حال میں اتارا گیا کہ ہنوز زندہ تھا.بعد ازاں وہ اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا اور وہاں سے ہجرت کر گیا.اس طرح اس نے خدا کا پیغام نہ صرف ان قبائل تک پہنچایا جن سے وہ واقعۂ صلیب سے قبل ہم کلام ہوا بلکہ وہ اسرائیل کے تمام دوسرے قبائل تک بھی پہنچا اور اس طرح خدا کی طرف سے جو ذمہ داری سونپی گئی تھی اسے کما حقہ ادا کر دکھایا.جب یہ ذمہ داری پورے طور پر ادا ہو گئی تب کہیں جاکر اس کی بعثت کی غرض یہ تمام و کمال پوری ہوئی.یہ ہیں مستحسن اور رفیع الشان حقیقتیں مسیح کی زندگی کی جو خدا کے ایک بچے رسول کی حیثیت سے اس کی عظمت و صداقت کی آئینہ دار ہیں.بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے آج سے قریباً ایک سو سال قبل اس امر کا اعلان فرمایا کہ مسیح خدا کا ایک سچار سول تھا.جیسا کہ اس نے اپنے ابتدائی مواعظ میں اشارہ کیا تھا وہ صلیبی موت سے بچایا گیا.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے جنہیں خدائی رہنمائی کا شرف حاصل تھا اسلام کی تاریخ میں پہلی بار مسیح کی زندگی کے روشن حقائق پر پڑے ہوئے پر اسرار پر دوں کو اٹھایا.یہ آپ ہی تھے جنہوں نے فرسودہ اور دور از کار خیالات و نظریات رکھنے والے مسلمانوں کی طرف سے اظہار ناپسندیدگی و ناراضگی کے علی الرغم بر ملا یہ اعلان کیا کہ مسیح نہ تو صلیب پر فوت ہوا تھا اور نہ ہی جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھایا گیا تھا بلکہ خدائی وعدہ کے عین مطابق اسے معجزانہ طور پر صلیب پر سے زندہ بچالیا گیا تھا.اس کے بعد جیسا کہ اس نے خود وعدہ کیا تھا وہ اسرائیل کے گھرانے کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں وہاں سے ہجرت کر گیا.اسرائیلی قبائل کی ہجرت کے ممکنہ راستہ ذہن میں رکھتے اور اس کا تعاقب

Page 127

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 110 کرتے ہوئے بڑی صحت کے ساتھ یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ کشمیر اور ہندوستان کے بعض دوسرے علاقوں کی طرف جاتے ہوئے وہ افغانستان میں سے بھی گزرا ہو گا کیونکہ ان سب علاقوں میں ان قبائل کی موجودگی کی اطلاعات پہلے سے موجود تھیں.اس امر کی بڑی پختہ تاریخی شہادت موجود ہے کہ افغانستان اور کشمیر دونوں میں آباد قومیں یہودیوں کے ہجرت کر جانے والے قبائل کی نسل سے ہیں.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے اس امر کا انکشاف فرمایا کہ بالاآخر مسیح نے کشمیر میں وفات پائی اس کے شہر سری نگر میں مدفون ہوا.جب احمدی حضرات اس علاقہ سے جہاں مسیح پیدا ہوا تھا جس مسیح کے غائب ہو جانے کا حقائق پر مبنی معقول اور اثر آفریں حل پیش کرتے ہیں تو اکثر ان کی بات کو یہ کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ مان بھی لیا جائے کہ مسیح صلیب پر سے زندہ اتر آیا تھا پھر بھی یہ انتہائی بعید از قیاس ہے کہ اس نے یہودیہ سے کشمیر تک کا جان جوکھوں میں ڈالنے والا پر خطر سفر اختیار کیا ہو.تردیدی رنگ میں دیئے جانے والے اس عجیب جواب پر احمدی حیران رہ جاتے ہیں کہ فلسطین سے کشمیر تک کا فاصلہ اور زمین سے لے کر آسمان کی انتہائی دور دراز کی پہنائیوں تک کا فاصلہ.ان دونوں میں سے کون سا فاصلہ زیادہ لمبا ہے.پھر احمد ی اس بات پر بھی حیران ہوئے بغیر نہیں رہتے کہ مسیح کے اس وعدہ کا کیا بنا کہ وہ اسرائیل کے گھرانے کی گمشدہ بھیٹروں کی تلاش میں ضرور جائے گا.اگر وہ فلسطین سے سیدھا روانہ ہو کر اپنے ”باپ خدا“ کے دائیں ہاتھ جا بیٹھا تو کیا وہ اپنے اس عہد و پیمان کو بھول گیا تھا یا کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ اپنے اس وعدہ کو نبھانا اور پورا کرنا اس کے لئے ناممکنات میں سے تھا ؟ ماننا پڑے گا کہ یا تو یہ بات تھی یا پھر (جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں) توقع کے رنگ میں یہ سمجھ لیا جائے کہ اسرائیل کے گھرانے کی گمشدہ بھیڑیں پہلے ہی آسمان پر جاچڑھی تھیں اور ان کی تلاش میں پیچھے پیچھے مسیح بھی وہاں جا پہنچا؟ قریب المرگ لوگوں میں زندگی بحال ہونے کے بعض واقعات جو لوگ اس منظر نامہ کو کہ مسیح صلیب پر سے زندہ اتر آیا دور از قیاس قرار دے کر اسے ناقابل قبول سمجھتے ہیں ہم ان کی توجہ اس حقیقت کی طرف دلاتے ہیں کہ تاریخ میں بہت سے ایسے لوگوں کا ذکر آتا ہے جو انتہائی خطرناک صورت حال پیدا ہو جانے کے باوجود خلاف توقع موت کے منہ سے بچ نکلے اور زندہ سلامت رہے.مسیح کو پیش آمدہ جو صورت حال ہم نے بیان کی ہے وہ نہ تو نو کھی اور نرالی ہے اور نہ ایسی کہ اسے قبول کرنا نا ممکنات میں سے ہو.طبی نقطۂ نگاہ سے ریکارڈ شدہ ایسے بہت سے مصدقہ واقعات موجود ہیں

Page 128

111 زندگی کی بحالی یا احیائے موتی؟ جن میں لوگ قریباً نا ممکن صورت حال کے باوجود موت کے منہ میں سے بچ نکلے اور پھر عرصہ تک زندہ سلامت موجود رہے.ایسے واقعات کی بے شمار شہادتیں عام ملتی ہیں.تقسیم برصغیر سے پہلے کے زمانہ میں ایک چھوٹی سی ریاست کے مہاراجہ کا بعینہ اسی طرح کا ایک مصدقہ اور ریکارڈ شدہ واقعہ اس قابل ہے کہ اسے یہاں بیان کیا جائے.اس مہاراجہ کو قریباً ایسی ہی ناممکن صورت حال سے دوچار کر دیا گیا تھا اور بظاہر حالات اس سے بچ نکلنے کا بہت ہی کم امکان ہو سکتا تھا.اس مہاراجہ کی بیوی نے اسے زہر دے دیا تھا اور یوں محسوس ہو تا تھا کہ گویاوہ مر گیا ہے لیکن کالھیث ہونے کے باوجود فی الاصل اس میں جان موجود تھی.اس کے بیٹے نے اس کی میت چنتا پر رکھ کر آگ لگائی اور جب وہ بھڑ کنے لگی تو اچانک زبر دست طوفان بادوباراں نمودار ہوا.نتیجی نہ صرف یہ کہ آخر کار وہ موت کے منہ سے بچ نکلا بلکہ قانونی چارہ جوئی کی شکل میں ایک طویل جدوجہد کے بعد اپنے تخت پر وہ دوبارہ متمکن ہوا.اس کے بیچ رہنے کی روداد اس طرح بیان کی گئی ہے.بھوال اسٹیٹ کا کمار رامیند را نرائن راؤ ریاست جودھ پور کی زیر ولایت تھا.اس کے بارہ میں اس الزام کا چرچا عام سننے میں آیا تھا کہ اسے زہر دے دیا گیا تھا.اس کی حالت غیر ہوتی چلی گئی اور بالآخر اسے مردہ قرار دے دیا گیا اور مئی 1909ء میں اس کے بظاہر مردہ جسم کو کر یا کرم کے لئے مردہ جلائے جانے والے گھاٹ کے احاطہ میں چتا پر رکھ دیا گیا.حالات سے اس امر کی نشان دہی ہوتی تھی کہ اس قتل عمد میں اصل کردار اس کی بیوی نے ادا کیا تھا.جلتی چتا پر کر یا کرم مکمل ہونے سے پہلے پہلے یکدم زبر دست طوفان بادوباراں نمودار ہوا.جو لوگ اس کے جسم کو جلا کر راکھ کر دینے پر مقرر تھے اس زبر دست طوفان کی زد میں آنے سے بچنے کے لئے اس بظاہر مردہ جسم کو چھوڑ کر وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے.بارش نے چتا کی آگ کو بجھا دیا.سادھوؤں کا ایک گروہ وہاں سے گزر رہا تھا.انہوں نے دیکھا کہ چتا پر پڑے ہوئے آدمی میں زندگی کے آثار موجود ہیں.اس طرح اسے بچالیا گیا.اگلے روز جب سازشیوں کو پتہ چلا کہ کمار کا جسم تو غائب ہو چکا ہے تو انہوں نے کسی اور مرے ہوئے آدمی کے جسم کو جلا کر اور اس کا کر یا کرم کر کے ظاہر یہ کیا کہ کمار واقعی مر چکا ہے.سادھو اس کمار کو اپنے ساتھ جگہ جگہ لئے پھرے.قریب المرگ ہو جانے کے تجربہ میں گزرنے کے باعث کمار اپنی یاد داشت کھو بیٹھا تھا.طاقت بحال ہونے کے ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ اس کی یاد داشت لوٹنے

Page 129

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 112 لگی.وہ بارہ سال کے بعد جودھ پور واپس پہنچا.اپنے ہی شہر کے مانوس ماحول اور قرب و جوار میں پہنچ کر بھولی بسری باتیں یاد آتی چلی گئیں اور اس طرح اس کی یادداشت پورے طور پر بحال ہو گئی.جب کمار نے اپنی اسٹیٹ دوبارہ حاصل کرنے کے لئے سر کار بالا میں جس کی ولایت اس کی اسٹیٹ تھی سول مقدمہ دائر کیا تو اس کی بیوی اور بعض دوسرے لوگوں نے اس کو جھوٹا ثابت کے لئے جوابی کارروائی کی.طرفین کی طرف سے بڑی زبر دست مقدمہ بازی ہوئی.ایک ہزار سے زائد لوگوں نے کمار کے کے حق میں اور چار سو لوگوں نے اس کی بیوی کے حق میں گواہیاں دیں.اصل مابہ النزاع معاملہ کمار کی شناخت کا تھا کیونکہ عام طور پر لوگوں کے علم میں یہ بات تھی کہ وہ بارہ سال قبل مر گیا تھا.کمار نے جب اپنی بیوی کے جسم پر ایسی علامتوں کی نشاندہی کی جن کا علم صرف خاوند کو ہی ہو سکتا تھا تو مقدمہ کا فیصلہ اس کے حق میں کر دیا گیا اور اس کی اسٹیٹ اس کے حق میں بحال کر دی گئی.9 اسی نوعیت کے اور اس سے ملتے جلتے سینکڑوں چھوڑ ہزاروں واقعات ایسے ہوئے ہوں گے جن کی رپورٹ درج نہیں ہوئی اور وہ ضبط تحریر میں نہیں آئے.جدید طبی سہولتوں ، اخبارات ورسائل اور ابلاغ عامہ کے دیگر وسائل کے طفیل اب تو ایسے بہت سے واقعات علم میں اور ضبط تحریر میں آکر محفوظ ہوتے رہتے ہیں.اگر معاشرہ کے تمام طبقوں اور مختلف مذاہب اور اخلاقی پس منظر رکھنے والے عام لوگوں کے معاملہ میں یہ بات عقل کے مطابق اور عین قرین قیاس قرار پاسکتی ہے تو ایسا مسیح کے ساتھ ہونا کیوں ممکن نہیں ہو سکتا.اگر محال کا درجہ رکھنے والی قریباً نا ممکن صورت احوال میں کسی دوسرے کے زندہ بچ نکلنے کا امکان ہو سکتا ہے تو مسیح کے ارد گرد جو مخصوص حالات موجود تھے اور جن میں سے وہ گزر رہا تھا ان کے پیش نظر مسیح کے زندہ بچ نکلنے کا امکان نسبتا زیادہ تھا.بہت تعجب انگیز ہے یہ امر کہ متشکلک مزاج لوگ اس بات کو تو فورار د کر دیتے ہیں کہ مسیح صلیب پر عمداً قتل کیے جانے کی کوشش سے زندہ بچ نکلا تھا لیکن اس کے بالمقابل وہ حتمی اور قطعی موت واقع ہونے کے بعد اس کے دوبارہ جی اٹھنے کی انوکھی و نرالی اور سراسر غیر حقیقی اور غیر قدرتی کہانی پر جھٹ ایمان لے آتے ہیں اور پھر وہ حقیقی موت بھی ان کے اپنے اعتقاد کے مطابق ایسی تھی جو پورے تین دن رات طاری رہی.میڈیکل ریسرچ کے شعبہ نے بھی قریب المرگ حالات کو پہنچنے کے واقعات میں دلچسپی لی ہے.ایک (مقدمہ بھوال “مرتبہ ہے.ایم.مترا اور آر.سی.چکر اور تی.شائع کردہ پیر اینڈ سنز کلکتہ )

Page 130

113 10 زندگی کی بحالی یا احیائے موتی؟ تحقیق کے دوران موت کے قریب پہنچنے کے تجربات پر مشتمل 78 قریب المرگ مریضوں کے متعلق رپورٹوں کا گہری نظر سے جائزہ لیا گیا.ان میں 80 فیصد مریض ایسے تھے جن کا قریب المرگ حالت کے تجربات کے دوران ڈاکٹری عملہ خود موجود تھا یا ان کے تجربات کے اختتام پر فورا ہی وہاں پہنچ گیا تھا.دلچسپ بات یہ ہے کہ 41 فیصد لوگوں نے یہ رپورٹ دی کہ قریب المرگ حالت کے تجربہ کے دوران انہیں مردہ قرار دے دیا گیا تھا.تمام تر طبی آلات اور مشینوں کی موجودگی اور ان سے کام لینے کے باوجود اگر طبی ماہرین غلطی سے ایک زندہ آدمی کو مردہ سمجھ کر اس کی موت واقع ہونے کا اعلان کر سکتے ہیں تو کتنی قابل اعتماد ہو سکتی ہے ایک فکر مند اور پریشان حال مبصر کی گواہی جس نے مسیح کو اس کے ہوش گم ہو جانے کی حالت میں دیکھا اور نتیجہ اس سے یہ نکال لیا کہ وہ مر گیا ہے ؟ اس پر مستزاد یہ کہ اس کو دوبارہ دیکھنے کے بعد یہ نتیجہ نکالنا کہ مرنے کے بعد وہ پھر زندہ ہو گیا قطعی بلا جواز ہے.10 (The Phenomenology of Near-Death Experiences by Bruce Greyson M.D.& Ian Stevenson M.D., The American Journal of Psychiatry 137: 10 October 1980)

Page 131

Page 132

باب ششم تثلیث اب تک ہم نے در پردہ اثر انداز ہونے والی ان مجبوریوں کا جائزہ لیا جو قصوں، کہانیوں اور اساطیر کے رنگ میں مسیح کو خدا کا درجہ دینے پر منتج ہوئیں.اور یہی مجبوریاں موجب بنیں خدا کے بیٹے کی حیثیت سے تثلیث میں مسیح کے نام نہاد کر دار اور عمل دخل کو متعین کرنے کا.لیکن اگر دیکھا جائے تو مسیحیت کے عقیدہ تثلیث کا ایک پہلو اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب اور انو کھاو نرالا ہے.وہ پہلو یہ ہے کہ مسیح کو تو خدا کے بیٹے کی حیثیت دے کر خدا کی الوہیت میں شامل کیا گیا لیکن روح القدس کو کس مجبوری یا مصلحت کے تحت یہ درجہ دیا گیا.آخر کس بنا پر اسے تیسرے اقنوم کی حیثیت دے کر تثلیث میں شرکت کا حق دار ہر ایا گیا.اس کی یہ حیثیت اور ہستی بھی اپنی جگہ ایک معمہ یا چیستاں سے کم نہیں ہے.سوال پیدا ہو تا ہے کہ ”باپ، بیٹے کی حیثیت سے ”ایک میں دو“ کا نظریہ کیوں ناکافی تھا؟ الوہیت کے بارہ میں مسیحیت کے بنیادی عقیدہ میں ایک تیسری ہستی کو بھی متعارف کرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی.دوسری کی طرح اس عقیدہ میں ایک تیسری ہستی کے آداخل ہونے اور اس میں اپنا مقام بنانے کا بھی کوئی منطقی جواز نہیں بنتا.اس نظریہ یا عقیدہ کے ایک تبصرہ نگار ہار نیک (Harnack) کے نزدیک تو شروع شروع میں جب عقائد میں جدت کے عمل دخل کا آغاز ہوا تو مسیحیت خدا اور مسیح کے باہمی اشتراک یا ان کی دو عملی سے ہی عبارت تھی.اس چکر یا گرداب میں کلیسیا بعد میں پڑا کہ روح القدس کو بھی الہی صفات کا حامل قرار دے کر اُلوہیت کو تثلیث کی شکل دی جائے.خطرہ یہ تھا کہ ایسانہ کیا گیا تو بہت سے معتقدوں کے نزدیک وہ بھی اپنی جگہ ایک لایعنی اور مجہول قسم کی الوہیت کا حامل بنے بغیر نہ رہے گا.ایسا لگتا ہے کہ یہودیوں سے اپنے آپ کو الگ اور م ، اور ممتاز کرنے کے لئے تثلیث کو ایک امتیازی عقیدہ کے طور پر اختیار کیا گیا اور ان کے مقابلہ کے لئے اسے ایک ہتھیار سمجھ لیا گیا.11 جہاں تک تثلیث کے عقیدہ کی بنیاد کا تعلق ہے اس کے بارہ میں ایک مسیحی مقالہ نگار ریورنڈ 11 (The Constitution and Law of the Church in the First Two Centuries by Adolf Harnack.p.264)

Page 133

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 116 کے.ای.کرک (Rev.K.E.Kirk) عقیدہ تثلیث کے زیر عنوان اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: قدرتی طور پر ہم اس زمانہ (یعنی جس زمانہ میں عقیدہ تثلیث نے معین شکل اختیار کی) کے لکھنے والوں اور ان کی تحریرات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تاکہ معلوم کر سکیں کہ وہ اپنے عقیدہ کی بنیاد اور وجوہات کیا بیان کرتے ہیں.ہم حیران ہوئے بغیر نہیں رہتے اور ہمارے لئے یہ تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں رہتا کہ ان کے ہاں نہ اس عقیدہ کی بنیاد کا کوئی پتہ ملتا ہے اور نہ استدلال کے رنگ میں اس کی وجوہات کا بیان کہیں نظر آتا ہے.وہ جس سوال سے دوچار ہوئے وہ یہ نہیں تھا کہ تین اقنوم کیوں ہوں؟ بلکہ سوال در پیش صرف یہ تھا کہ تین اقنوم کیوں نہ ہوں ؟“ ریورنڈ کرک نے اپنے اس مضمون میں اس امر کی بطور خاص نشان دہی کی ہے کہ مسیحی دینیات اپنے عقیدہ تثلیث کا منطقی جواز پیش کرنے میں قطعی ناکام نظر آتی ہے.مسیحیت کی سہ رکنی الوہیت کے بارہ میں کہا جاسکتا ہے کہ اصل میں تو یہ دور کنی الوہیت ہی کی تھی.اس میں بعد ازاں ایک اور ہی نوعیت کی ہستی کو بھی تزئین یا آرائش کے طور پر ٹانک دیا گیا تا کہ تصویر یایوں کہہ لیں کہ تصور کے مکمل ہونے کا احساس ابھر سکے.12 ہمیں یقین ہے کہ تیسرے اقنوم کے تصور نے نشو و نما ان ملحدانہ فلسفوں اور قصوں کہانیوں سے پائی جو سلطنت روما میں عام پھیلے ہوئے تھے.ان ملحدانہ فلسفوں کے زیر اثر رفتہ رفتہ اس تیسرے اقنوم نے عقیدہ تثلیث میں جگہ پائی.اس زمانہ میں دوسروں کے ساتھ تبادلہ خیالات نے مسیحی ماہرین دینیات کو اس طرف مائل کیا ہو گا کہ وہ بھی تیسرے اقنوم کی حیثیت سے تثلیث میں روح القدس کا مقام متعین کریں.چونکہ اس زمانہ میں ایسے عقیدوں اور مسلکوں کی موجودگی کے کافی ثبوت ملتے ہیں جن کی روسے خدا کو تین علیحدہ علیحدہ ہستیوں پر مشتمل ایک ہستی تصور کیا جاتا تھا اس لئے کسی قدر کھوج لگا کر مسیحی عقیدہ تثلیث کے اصل منبع و ماخذ تک پہنچنا چنداں مشکل نہیں ہے.بہر حال جب از روئے عقیدہ دو وجود باہم مل کر ایک ہو سکتے تھے اور ایک وجود کو فی ذاتہ دو متصور کیا جاسکتا تھا تو دوسروں کے زیر اثر ”تین کو بھی ”ایک تصور کرنے میں کیا قباحت ہو سکتی تھی.یہ تو خیر محققین کا کام ہے کہ وہ تحقیق کر کے حتمی طور پر پتہ لگائیں کہ مسیحی دیو مالائی عقیدہ کے طور اُلوہیت کے تصور میں تیسرے اقنوم نے کب اور کس طرح جڑ پکڑی اور پھر یہ جڑ کیسے 12 (Essays on the Trinity and the Incarnation by A.E.J.Rawlinson, Longmans, London, 1923)

Page 134

117 تثلیث مضبوطی اختیار کرتی چلی گئی.اس سارے معاملہ کا پتہ لگانا ہماری موجودہ بحث کے دائرہ کار سے باہر ہے.ہم فی الوقت صرف ایسے دعاوی اور عقائد کی نا معقولیت کا جائزہ لینا چاہتے ہیں جو انسانی فہم و فراست اور ادراک سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے کیونکہ انسانی فطرت ایسے خیالات و نظریات کو جو خود اپنی ذات میں باہم متناقض و متباین ہوں یکسر مستر د کر دیتی ہے.تثلیث کے عناصر ترکیبی کے باہمی رشتہ کی نوعیت جب ہم مسیحی خدا اور اس کی الوہیت کے تین عناصر ترکیبی یا اقانیم (باپ، بیٹا اور روح القدس) کے باہمی تعلق کو تصور میں لانے کی کوشش کرتے ہیں تو احوال کی جو ممکنہ صورتیں یا منظر نامے ابھر کر سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں: ا.وہ تینوں عناصر ایک ہی ہستی کی مرحلہ وار رو نما ہونے والی حالتوں اور حیثیتوں یا اس کے مختلف پہلوؤں کے آئینہ دار تھے.ب.وہ تین مختلف ہستیاں تھیں جو باہمی طور پر ابدیت میں دائمی طور پر شریک تھیں.ج.وہ تین ہستیاں تھیں اور انفرادی حیثیت میں اپنی بعض امتیازی صفات یا خصوصیات رکھتی تھیں اور شریک نہیں تھیں.د.وہ تھیں تو تین ہی ہستیاں لیکن وہ تینوں ایک ہی ہستی میں سمائی ہوئی تھیں.وہ مکمل طور پر ایک ہی نوعیت کی صفات و خصوصیات اور ایک ہی نوعیت کی یکساں طاقتوں اور قدرتوں اور اختیارات کی مالک تھیں.اور وہ ایک دوسرے میں اس طرح پیوست و مدغم تھیں کہ ان کے علیحدہ علیحدہ کاموں کی تخصیص ممکن نہ تھی.اب ہم مندرجہ بالا چاروں امکانی صورتوں یا منظر ناموں کو سلسلہ وار باری باری اسی ترتیب سے زیر غور لاتے ہیں.ایک ہی یعنی اکیلی ہستی کی مختلف حیثیتیں یا مختلف پہلو جہاں تک امکان مندرجہ عنوان بالا کا تعلق ہے اس پر لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں کیونکہ آج کے زمانہ میں شاید ہی کوئی عیسائی ایسا ہو جو مسیح کو ایک علیحدہ شخصیت کا مالک سمجھنے کی بجائے اس کی ہستی کو خدا کے کسی ایک پہلو یا کسی ایک حالت و حیثیت کا آئینہ دار یقین کرتا ہو.تثلیث پر ایمان رکھنے والے تین مختلف شخصیتوں کے علیحدہ علیحدہ وجود پر اصرار کرتے ہیں جو باہم مدغم ہو کر ایک ہستی میں بھی ڈھلی ہوئی تھیں.

Page 135

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 118 جس لمحہ بھی ایک انسان اس صورت احوال یا منظر نامہ کو تسلیم کرتا ہے کہ ہستی تو ایک ہی تھی پر اس کے مختلف پہلو بیک وقت ظاہر ہو کر اپنا جلوہ دکھا رہے تھے اسی لمحہ تثلیث یعنی ”ایک میں تین “ علیحدہ علیحدہ خداؤں کے موجود ہونے کا تصور دھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے اور تثلیث سرے سے باقی ہی نہیں رہتی.ایک ہی ہستی کے مختلف پہلوؤں کی ایک ساتھ جلوہ گری کی ممکنہ صورت میں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ ایک یا اکیلا ہی ”باپ خدا تھا جس کا جذبہ رحم جوش میں آیا اور خدا ہوتے ہوئے اس نے انسانی گناہوں کی پاداش میں خود ہی موت کو گلے لگا لیا اور مرکز خس کم جہاں پاک ہوا.اس صورت میں اس اکیلی ہستی کا یہ فعل ایک عارضی مرحلہ یا دور کے مترادف ہو گا جو آیا اور گزر گیا.کسی ایک وجود کے مختلف پہلو خود اپنی ذات میں علیحدہ وجودوں کی حیثیت نہیں رکھتے.مختلف پہلو تو ادلتے بدلتے اور آتے جاتے رہتے ہیں.اسی طرح مختلف حیثیتیں یا مر حلہ وار ظاہر ہونے والے ادوار اپنی اپنی جگہ علیحدہ علیحدہ وجودوں کی حیثیت نہیں رکھتے.وہ ظاہر ہوتے ہیں اور گزر جاتے ہیں.کوئی بھی انسان دو یا تین علیحدہ علیحدہ شخصیتوں میں تقسیم ہوئے بغیر لا تعداد مزاجی کیفیتوں اور ان گنت پہلو وار حالتوں میں سے گزر سکتا ہے.اس لحاظ سے اگر خدا نے گناہوں میں ملوث انسانیت کی نجات کی خاطر مرنے کا فیصلہ کیا تو اس کا بجز اس کے اور کوئی مطلب نہیں ہو سکتا کہ خود خدا نے موت کو قبول کیا نہ کہ اس کے کسی ایک پہلو یا حیثیت نے ایسا کیا.سو جہاں تک زیر نظر معاملہ کا تعلق ہے اس کی رو سے اگر خدا کے ایک پہلو نے گناہگار انسانیت کو گناہ کی آلودگی سے نجات دلانے کے لیے اہم کردار ادا کیا تو اس کا ایک ہی مطلب لیا جاسکتا ہے کہ خدا کی صفات میں سے ایک صفت یعنی صفت رحم کا ظہور عمل میں آیا اور اس کا ظہور انسانیت کی نجات پر منتج ہوا لیکن اگر خدا کے ایک پہلو یا اس کی ایک صفت یعنی صفت رحم کو ایک مجسم شخصیت قرار دے کر اس کا نام یسوع مسیح رکھ دیا جائے اور کہا یہ جائے کہ اس نے جان کی قربانی دے کر گناہ گار انسانیت کو نجات دلائی تو جان دینے کے نتیجہ میں موت وارد ہو گی خود خدا کی صفت رحم پر.کیسا عجیب تضاد ہے یہ کہ خدا کے رحم نے گناہ گار انسانیت پر اچھا ترس کھایا کہ اس ترس کھانے کے نتیجہ میں خود کشی کا ارتکاب کر ڈالا.اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تین رات تک ( یعنی جب تک مسیح مرارہا) خدا میں کوئی رحم باقی نہ رہا تھا.یہ امر یاد رہے کہ اس منظر نامہ میں یسوع کو ایک جداگانہ آزاد شخصیت کے طور پر پیش نہیں کیا جارہا بلکہ اسے پیش کیا جارہا ہے خدا کے ایک پہلو یا اس کی ایک صفت کے طور پر.اس لحاظ سے اس منظر نامہ میں

Page 136

119 تثلیث وہ ایک مجسم رحم کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے یعنی یہ کہ خدا کی صفت رحم نے یسوع کی شکل میں جسم اختیار کر لیا.خدا کی صفت رحم کے کسم اختیار کرنے کی وجہ سے وہ شخص بنارہا خدا کی ایک اور اکیلی غیر منقسم تجسم ہستی.سو اس ترس کھانے اور قربانی دینے کے نتیجہ میں اگر کسی کی جان گئی تو خود خدا کی اپنی ہستی کی گئی یا کم از کم اس کی صفت رحم کی گئی جس نے کہ اس سارے معاملہ میں بنیادی اہمیت کا کردار ادا کیا.پس ان دو باتوں میں سے ایک بات پر ایمان لائے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ یا تو خدا کی صفت رحم پر موت وارد ہوئی یا خود خدائے رحیم و کریم کی اپنی ذات پر.اس دعویٰ کو درست تسلیم کرنے سے کہ ایک اکیلی شخصیت کے مختلف پہلو عارضی طور پر یا مستقل طور پر مٹ کر محو ہو سکتے ہیں بہت سی پیچیدگیوں کا پیدا ہونا لازمی ہے.اس منظر نامہ کو انسانی تجربہ پر منطبق کر کے ہی سمجھا جاسکتا ہے.ایک آدمی اپنی بینائی یا سماعت سے عارضی یا مستقل طور پر محروم ہو سکتا ہے.اس محرومی یا نقص کے باوجود وہ رہے گا پہلے ہی کی طرح ایک زندہ اور جان دار انسان.سو گویا ایک صلاحیت یا استعداد کی موت اس انسان کی جزوی موت ہوتی ہے.آخری تجزیہ کی رو سے کسی ایک صلاحیت سے محروم ہو جانے والا شخص اپنی اسی واحد ہستی کا مالک رہتا.ابدیت میں شریک مختلف ہستیاں دوسرا منظر نامہ یہ ہے کہ تثلیث کے اقانیم تین مختلف وجود تھے جو بیک وقت ابدیت میں یکساں طور پر شریک تھے.تو پھر سوال پیدا ہو گا کہ ان کا آپس میں تعلق یا رشتہ کیا ہے.اگر وہ دوامی حیثیت رکھنے والے تین وجود تھے اور انہوں نے مل کر ایک خدا کی حیثیت اختیار کر رکھی تھی تو پھر مانا پڑے گا کہ وہ اپنی اپنی جگہ ذاتی انا اور خودی کے بھی مالک تھے.اس لحاظ سے ایک کا دکھ اٹھانا(اگر دکھ اٹھانا ان کے لئے ممکن مانا جائے) اس کا اپنا ذاتی تجربہ ہو گا.باقی دو شخصیتیں اس کے ساتھ ہمدردی تو کر سکتی ہیں لیکن دکھ اٹھانے میں فی الحقیقت اس کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتیں.یقینا خدا کے خیالات اور ان کے بروئے کار آنے کے طریق کار نیز خدا کے فیصلہ کرنے کے انداز کو سمجھنا قریب نا ممکن ہے.لیکن یہ دعوی کہ تین ہستیاں ایک ہستی کے طور پر ڈھلی ہوئی ہیں اس امر کا جواز پیدا کر دیتا ہے کہ تینوں کے ایک دوسرے سے آزاد طریقہ ہائے خیالات میں باہمی ربط جاننے کی کوشش کی جائے.اس نظریہ سے کہ تینوں آزاد طریقہ ہائے خیالات کی تین ہستیاں ایک ہستی میں ڈھلی ہوئی ہیں جو

Page 137

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 120 منظر نامہ اُبھرتا ہے وہ ایک ایسے بچہ کی پیدائش کے منظر نامہ سے ملتا جلتا ہے جس کے تین سر ہوں.ایک سر، دو ہاتھ اور دو ٹانگیں وغیرہ، ایک دھڑ کی طرف منسوب ہو سکتے ہیں لیکن ایک دھڑ پر تین سروں کا موجود ہونا مسئلہ پیدا کر دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ان تین سروں کی اُفتاد طبع اور فطرت طبیعی کا پتہ لگایا جائے.اگر قدرت کے یہ عجوبے اتنا لمبا عرصہ زندہ رہتے ہیں کہ خود بول سکیں اور جو ان پر بیت رہی ہے اس کا اظہار کر سکیں تب ہی ہم ان سے دریافت کر سکتے ہیں کہ ان کے سروں کے اندر فکری لحاظ سے کیا کچھ ہو رہا ہے اور ہر سر میں الگ الگ کیا کیا افکار وخیالات جنم لے کر اپنے ایک ہی یا اکیلے جسم پر اثر انداز ہو رہے ہیں.یہ جانے اور معلوم کیے بغیر یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ وہ تینوں مل کر ایک ہی شخص ہیں اور یہ کہ وہ ایک شخص تین دماغوں میں شریک ہے.اسی طرح یہ کہنا بھی ممکن نہیں ہے کہ تین شخص ایک ہی جسم میں شریک ہیں.یہ بہت عجیب بات ہے کہ مسیحی اعتقاد کے اس اہم پہلو ( تثلیث اور اس کے اقانیم کے باہمی ربط و ضبط) کی صحائف میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے.جہاں تک مسیح اور روح القدس کے ذکر یا حوالہ کا تعلق ہے ان کو ہر جگہ دو ایسی مختلف شخصیتوں کے طور پر پیش کیا گیا ہے جن کا نہ خیالات کا طریق ایک تھا اور نہ ہی ان کے جذبات و احساسات بالکل یکساں نوعیت کے تھے.اگر ایسا نہ ہوتا تو روح القدس کو مسیح سے علیحدہ وجود کے طور پر تصور میں لانا ممکن ہی نہ ہوتا.خاص طور پر اس عرصہ میں تو جبکہ مسیح انسانی جسم میں محید و دو مقید تھا ان کے علیحدہ وجو دوں کو تصور میں لانا بدرجہ اولیٰ ناممکن ہو تا.مسیح کے ایک انسان کے طور پر عبسم اختیار کرنے کے دوران تثلیث کے دوسرے عناصر ترکیبی کے ساتھ رابطہ سے متعلق جن سوالات کا یقینی طور پر پیدا ہونالازمی ہے وہ یہ ہیں: 1.کیا بقیہ دو عناصر ترکیبی یعنی ”باپ خدا " اور روح القدس کسی لحاظ سے یسوع مسیح کے جسم اور جسم سے متعلق تجربات میں باہم مل کر اکٹھے شریک تھے ؟ 2.کیا اس انسانی جسم میں مسیح اکیلا ہی سمایا ہوا تھا اور جسم سے تعلق رکھنے والے تجربات میں اس نے تثلیث کے بقیہ دو عناصر ترکیبی کو شریک نہ کیا تھا؟ اول الذکر سوال کے شاخسانوں پر ہم پہلے ہی روشنی ڈال چکے ہیں.البتہ مؤخر الذکر سوال کے سلسلہ میں ایک مزید پیچیدگی پیدا ہوتی ہے اور اس نئی پیچیدگی کا تعلق ہے اس امر سے کہ اس دوران تثلیث کے باقی دو اجزائے ترکیبی سے مسیح کے رشتہ کی نوعیت کیا تھی اور ان کے درمیان کوئی رابطہ تھا یا نہیں.کیا اس عرصہ کے دوران مسیح نے از خود بالکل ایک علیحدہ شخصیت اختیار کر لی تھی یا وہ اس دوران بھی دوسرے

Page 138

121 تثلیث اجزائے ترکیبی کا جزولاینفک بنارہا اور محض ایک اضافی مصروفیت کے رنگ میں وہ اپنے طور پر انسانی جسم میں بھی سمایا رہا.یہاں ایک اور سوال کا جواب حاصل کرناضروری ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے: 3.کیا انسانی جسم میں اس کی پوری کی پوری مقدس خدائی ہستی سمائی ہوئی تھی یا اس خدائی ہستی کا جس میں ( باپ خدا) اور روح القدس بھی برابر کے شریک تھے صرف ایک حصہ (انسانی جسم میں سمانے کے لئے ) اسی طرح آگے کو جھک گیا تھا جس طرح پانی میں پائے جانے والی امیبا (Amoeba) نامی زندہ کیڑے کی ایک انگلی اس کے باقی وجود سے باہر نکلی ہوئی ہوتی ہے؟ منظر نامہ کے طور پر ابھرنے والی اس صورت حال میں ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس دور میں مسیح اپنے دو شریک ساتھیوں ( ”باپ خدا اور روح القدس دونوں) سے بھی عظیم تر تھا کیونکہ وہ اپنے باپ ” اور روح القدس کے ساتھ ایک ہی خدائی شخصیت میں شریک بھی تھا اور ایمی با کیڑے کی باہر نکلی ہوئی انگلی کی طرح اپنی ایک علیحدہ ہستی بھی رکھتا تھا جس میں ”باپ ” اور روح القدس شریک نہ تھے.اس صورت حال اور اس کی مختلف کیفیات کو سمجھانے کی خاطر ہم بعض مفروضات کو ذہن میں لا کر اس صورت حال میں پوشیدہ تناقضات اور نامعقولیتوں کو ازراہِ امثال بیان کرتے ہیں.قارئین کو ان مثالوں کو زیر نظر صورت حال پر لفظاً لفظا چسپاں کرنے اور اسے صحیح سمجھنے کی غلطی میں مبتلا نہیں ہو نا چاہیے.مفروضے محض سمجھانے کے لئے بیان کیے جاتے ہیں تاکہ اصل حقائق کو پر کھنے میں مددمل سکے.اصل مسئلہ ہمارے سامنے یہ ہے کہ شخص ایک ہی ہے اور اس سے مختلف قسم کے اعمال و افعال اور احوال و عواقب ظاہر ہو رہے ہیں.دیکھنا یہ ہے کہ آیا ان کے ذریعہ وہ اپنی مختلف صفات کا اظہار کر رہا ہے یا یہ احوال و عواقب اس کے سلسلہ وار مختلف حالتوں اور حیثیتوں میں سے گزرنے پر دال ہیں.اس مسئلہ کی روشنی میں ہم نے تین ہستیوں کے ایک “ اور ” ایک ہستی کے تین “ ہونے کے مسیحی عقیدہ کا جائزہ لینا ہے اور جائزہ بھی لینا ہے اس زاویہ نگاہ سے کہ ”ایک میں تین“ اور ”تین میں ایک “ کی کیفیت اس امر کے مترادف بھی تو ہو سکتی ہے کہ ایک ہی ہستی سے اس کی مختلف حیثیتوں یا مختلف ادوار میں اس کے اپنے مختلف اوصاف اور مزاجوں کا اظہار ہو رہا ہے.یعنی ہستی ایک ہی ہے لیکن اس کی صفات ، اس کی حیثیتیں، اس کی حالتیں اور اس کے مزاج مختلف ہیں جنہیں نام دے دیا گیا ہے علیحدہ علیحدہ ہستیوں کا.اس صورت حال پر ہم ایک گزشتہ باب میں خاصی تفصیل سے غور کر چکے ہیں.یہاں ہم صرف اس نکتہ پر زور دینا چاہتے ہیں کہ ایک شخص یا ایک ہستی جب مختلف حیثیتوں کا اظہار کرتی ہے تو وہ اپنے آپ کو مختلف حصوں میں تقسیم کیے

Page 139

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 122 بغیر ان مختلف حیثیتوں کا بیک وقت اظہار نہیں کر سکتی.مثال کے طور پر ایک خاص پیمانہ یا مقدار میں پانی ہی کو لے لیں.اس پانی کی ہستی کی اکائی یا وحدانیت پر اثر انداز ہوئے بغیر اسے مکمل طور پر بخارات یا برف میں تبدیل کیا جاسکتا ہے.لیکن اگر اسے ان مختلف شکلوں اور حیثیتوں میں بیک وقت دیکھنا مطلوب ہو تو پھر اسے تقسیم کرنا ضروری ہو جائے گا تاکہ اس کا ایک تہائی برف بن سکے.ایک تہائی بخارات میں تبدیل ہو سکے اور ایک تہائی اپنی سیال شکل ہی بر قرار رکھے.ہر شکل دوسری شکل سے مختلف ہو گی اور کوئی ایک شکل بھی بیک وقت بقیہ دوسری شکلوں یا حیثیتوں میں شریک نہیں ہو سکے گی.پانی کی مقدار کو تین حصوں اور ان کی تین حالتوں میں تقسیم کر دیا جائے گا لیکن ہر ایک کا حجم پانی کی مقدار سے کم یا چھوٹاہو گیا.کوئی ان کو ”تین میں ایک اور ”ایک میں تین ” نہیں کہہ سکتا.اسی طرح مسیح کا یسوع کی انسانی شکل میں تجسم اختیار کرنا اور پھر انسان یسوع اور ”باپ خدا کے درمیان تعلق میں فرق نہ آنے دینا اور اس بندھن کو پورے طور پر بر قرار رکھنا ایک ایسی بات ہے جسے تصور میں لانا ممکن نہیں ہے.تمام بنی نوع انسان ایک ہی قسم کے عناصر سے بنے ہوئے ہیں لیکن بلحاظ عناصر ان کی باہمی یکسانیت اور بلحاظ نوع ان کی یکساں حیثیت انہیں ایک ہی شخص یعنی فرد واحد یا ایک ہی شخصیت میں نہیں ڈھال دیتی.باہمی یکسانیت کے باوجود وہ باہم ہوتے ایک دوسرے سے الگ ہی ہیں.اگر چہ وہ بنیادی طور پر ایک ہی مادہ کے بنے ہوئے ہوتے ہیں لیکن ان کے کردار، ان کی انفرادیتیں اور ان کی جداگانہ حیثیتیں انہیں لا تعداد شخصیتوں میں بانٹ دیتی ہیں.اس کے باوجود کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ ” پانچ ارب میں ایک “ اور ”ایک میں پانچ ارب “ ہیں.آئیے اب ہم اسی سوال کا ایک اور زاویہ نگاہ سے جائزہ لیتے ہیں.اگر وقت یا زمانہ کی ایک مقررہ مدت میں یسوع ایک طرف ”باپ خدا سے اور دوسری طرف روح القدس سے یکسر مختلف تھا اور ان کے درمیانی امتیاز قطعی واضح تھا تو مسیح کی امتیازی رنگ میں واضح اور قطعی طور پر وہ علیحدہ اور جداگانہ ہستی اور موجودگی کس حساب کتاب میں شمار ہو گی اور کس جدا گانہ کھاتہ میں ڈالی جائے گی ؟ یاد رہے کہ اس حالت میں مسیح کو ”باپ ” اور روح القدس سے اس قدر کلی طور پر مختلف علیحدہ اور بے تعلق سمجھنا پڑتا ہے کہ کوئی نسبت اور مماثلت ہی باقی نہیں رہتی.اور ایسا اس لئے سمجھنا پڑتا ہے تاکہ بنی نوع انسان ( یایوں کہہ لیں کہ اپنے جزوی انسانی بھائیوں) کی خاطر اس کی جانی قربانی کلی طور پر اس کا اپنا ذاتی تجر بہ شمار ہو سکے.اس کے بغیر یہ نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا کہ ہم یہ باور کریں کہ مسیح نے اکیلے ہی اپنے ذہن یا سلسلہ خیالات اور اس کے

Page 140

123 تثلیث طریقہ کار کو یسوع کے مادی جسم میں منتقل کیا.بالفاظ دیگر مسیح تن تنہا اور اکیلا ہی ایک ایسے تجربہ میں سے گزرا جس میں مسیحی تثلیث کے دوسرے دو اجزائے ترکیبی ( ”باپ خدا اور روح القدس) سرے سے شامل ہی نہ تھے.کیا یہ ایسا گورکھ دھندا نہیں ہے جس سے ذہن ٹھٹک ٹھٹک کر ضغطہ میں پڑے بغیر نہیں رہتا ! مختلف خصائص و کردار رکھنے والی شخصیتیں ،، اگر وہ (یعنی تثلیث کے تینوں اجزائے ترکیبی) تین علیحدہ علیحدہ ہستیاں تھیں اور اپنے علیحدہ علیحدہ ذاتی خصائص و اوصاف کی مالک تھیں اور ایک دوسرے کے خصائص و اوصاف اور صفات میں باہم شریک نہ تھیں تو پھر انہیں ” ایک میں تین اور تین میں ایک قرار نہیں دیا جاسکتا.تثلیث کے تینوں اقانیم کے وحدانیت کی آئینہ دار اکیلی ہستی میں ڈھل جانے کو صرف اسی صورت میں متصور کیا جاسکتا ہے کہ جب ان کے خصائص و اوصاف اور تمام صلاحیتیں بھی ایک دوسرے سے بکلی مطابقت اختیار کر لیں اور کوئی ایسے امتیازی پہلو باقی نہ رہیں جو انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ کر دکھانے والے ہوں.اس سے ایک منظر نامہ ابھرتا ہے جو کسی حد تک مشابہت رکھتا ہے پیدائشی طور پر ایسے تین جڑواں وجودوں سے جن کے ذہن ، دل، دیگر اعضا اور جذبات و احساسات اور اسی طرح جن کی حرکات و سکنات اور اعمال و افعال میں ایسی مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے تجربہ میں دوسرے دو بھی برابر کے شریک رہتے ہیں.اگر ایسا ہی وقوع میں آتا ہے تو ”باپ خدا“ بیٹے اور روح القدس کی تثلیث ایسی شکل اختیار کر لیتی ہے جسے کسی نہ کسی حد تک قابل فہم قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ان کے تین علیحدہ علیحدہ جسموں اور ان کے علیحدہ علیحدہ شخصیتوں کے مالک ہونے کا مسئلہ پھر بھی موجو د رہے گا.اس لحاظ سے یہ بات بھی یقیناً عیسائی عقیدہ تثلیث پر صادق نہیں آتی.دوبارہ غور کرنے سے انسان ایک ایسی اکیلی شخصیت کا تصور کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو تین شناختوں کی مالک ہے.ایسے نام نہاد تین جڑواں وجودوں کی شناخت اسی صورت میں متصور ہو سکتی ہے جب تین علیحدہ علیحدہ وجودوں کی بجائے ایک ہی شخص اپنے اندر تین شخصیتوں کا حامل ہو.یہ صورت حال خود اپنی ذات میں کئی مسائل اور الجھنیں کھڑی کرنے کا موجب بنتی ہے.یہ کہا جاسکتا ہے کہ خدا کا کوئی جسم نہیں ہے اس لئے یہاں انسانی جسم سے مماثلت کے اطلاق کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا.یقیناً ہم خوب جانتے ہیں کہ انسانی اصطلاح کے مطابق خدا کا کوئی جسم نہیں ہے لیکن یکسانیت کی حامل

Page 141

میسحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 124 تین جڑواں روحانی ہستیوں کا مسئلہ تو پھر بھی قائم رہے گا.اپنی انفرادی حیثیت میں وہ علیحدہ علیحدہ ہستیاں ہوں گی اور اس کے باوجود ہر لحاظ سے وہ ہوں گی ایک اور اکیلی ہستی کے مترادف.مفروضہ کے طور پر ایک جیسی تین جڑواں ہستیوں کی موجودگی تسلیم کرنے کی صورت میں ایک مسئلہ اور بھی پید اہو گا اور وہ ہو گا عبادت کے معاملہ میں ان تینوں کے باہمی رشتہ اور تعلق کا.کیا خدا کی ہستی میں موجود ” ایک میں تین“ کی مصداق روحانی شخصیتیں بھی ایک دوسرے کی عبادت کریں گی؟ اگر یہ کہا جائے کہ ان میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ خدا ہوتے ہوئے باہم ایک دوسرے کی عبادت سے مبرا ہوں گی تو پھر سوال پیدا ہو گا کہ کیا وہ ایک دوسرے کی عبادت سے مبرا ہوتے ہوئے اس بات کی سزاوار ہوں گی کہ ان کی مخلوق ہستیاں ان کی عبادت کریں ؟ اگر چہ عہد نامہ جدید میں بار بار اس بات کا ذکر آتا ہے کہ مسیح خدا کی عبادت کر تا تھا اور دوسروں کو بھی خدا ہی کی عبادت کرنے کی تلقین کیا کرتا تھا لیکن روح القدس کے بارہ میں ایسا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ وہ بھی ”باپ خدا کی عبادت کرتا تھا.مزید بر آس عہد نامہ جدید میں بار بار اس امر کا بھی کوئی ذکر موجود نہیں ہے کہ مسیح نے کبھی دوسروں کو یہ تلقین کرنے کی کوشش کی ہو کہ وہ خود اس کی یا روح القدس کی عبادت کریں.”باپ خدا کی عبادت کے سوا کسی اور کی عبادت کے ذکر کا سرے سے مفقود ہونا ایک ایسا امر ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے اندر خدائے واحد کی عبادت کا ایک شوق آفریں جذبہ محسوس کرتا ہے.ہر چند کہ ایک عام رواج کے طور پر اب عیسائیوں کا دستور العمل یہی ہے کہ وہ ”باپ خدا“ کے ساتھ اس کے بیٹے کی بھی عبادت کرتے ہیں تاہم اس کی ضبط تحریر میں آئی ہوئی ریکارڈ شدہ کوئی مثالیں یا واقعاتی شہادتیں موجود نہیں ہیں کہ یسوع مسیح کے شاگردوں میں سے کبھی کسی نے اس کی (یعنی مسیح کی ) عبادت کی ہو یا یہ کہ مسیح نے زمین پر اپنے عارضی قیام کے دوران انہیں ایسا کرنے کی ترغیب دلائی ہو.اگر اس نے ایسا کیا ہو تا تو ایسے سوال ضرور پید اہوتے جن کا کوئی جواب نہ بن پڑتا.یہی بات روح القدس کے بارہ میں بھی صادق آتی ہے یعنی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ روح القدس نے بھی کیوں کسی سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اس کی عبادت کریں.اس معاملہ پر کہ وہ بایں معنی ایک میں تین تھے کہ ان کا اپنی ہستی کا شعور ایک ہو گیا تھا پہلے ہی خاصی تفصیلی بحث ہو چکی ہے.ایسی صفات کے حامل وجودوں کو جو اپنی علیحدہ ہستی کا شعور رکھتے ہوں منطقی طور پر ایک میں تین شخصیتوں“ کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا.مزید بر آں نہ ایک ہستی کے مختلف پہلوؤں

Page 142

125 تثلیث اور حیثیتوں کی عبادت کی جاتی ہے اور نہ وہ باشعور مختلف پہلو اور حیثیتیں خود اپنی مرکزی خودی کی آپ عبادت کرتے ہیں.ان مختلف پہلوؤں اور حیثیتوں کو علیحدہ ہستیاں تصور کرنے کے لئے بہر حال ان کی اپنی علیحدہ خودی اور انا کی شکل میں ان کی اپنی آزاد انفرادی شناخت ہونی چاہیے.یہ مخصوص انفرادیت ہی ہوتی ہے جو کسی کو اپنی علیحدہ شخصیت کے شعور سے بہرہ ور کرتی ہے اور اس کی اپنی علیحدہ شخصیت کے شعور سے بہرہ ور کرتی ہے اور اس کی اپنی علیحدہ شخصیت کو دوسروں پر آشکار کرنے والے حوالہ کا کام دیتی ہے.بصورت دیگر اپنے یا دوسروں کے ذکر کے لیے ” میں “ ” تم “ اور ”وہ“ وغیرہ کے استعمال کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا.تثلیث کے لفظ کو ایک وجود کے لیے استعمال کرنا اس کی مختلف صفات کو ظاہر کرنے کے لیے ہی ہو سکتا ہے.اس سے زیادہ اس کا اور کوئی مطلب ممکن نہیں.اور جہاں تک صفات کا تعلق ہے وہ تین تک محدود نہیں.خواہ ہمیں ان کا علم ہو یا نہ ہو خدا کی بے شمار صفات ہو سکتی ہیں اور فی الحقیقت اس کے بے شمار صفات ہیں.خلاصہ اور اختصار کے طور پر اس بحث کو انجام تک پہنچانے کے لیے ہم دوبارہ اس بات پر زور دینا چاہتے ہیں کہ تثلیث کے مختلف اجزائے ترکیبی کے مابین ایک دوسرے کی عبادت کا سوال اس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب وہ تینوں ہستیاں ایک دوسرے سے مختلف ہوں اور مرتبہ میں ایک دوسرے کی ہم پلہ نہ ہوں یعنی ان کے مرتبے اور ان کے خصائص ایک دوسرے سے مختلف ہوں.اس صورت یعنی تفاوت مراتب کی صورت میں تینوں میں سے صرف ایک ہی عبادت کے لائق ٹھہرے گا اور باقی دو درجہ میں کمتر ہونے کی وجہ سے اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ بھی اس کی عبادت کریں.ہر چند کہ جواب دو اور دو چار کی طرح واضح ہے لیکن اس کو قبول اسی صورت میں کیا جاسکتا ہے کہ ” تثلیث “ میں وحدانیت کے تصور کو دل و دماغ سے محو کر دیا جائے.اس کی سرے سے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ آپ بیک وقت ” ایک میں تین “ اور ”تین میں ایک “دونوں پر ایمان رکھتے ہوں.اس صورت حال کے پیش نظر مجھے ایک مزاحیہ واقعہ یاد آگیا ہے.میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس سے لطف اندوز ہوں اس لیے اسے یہاں درج کرنا مناسب سمجھتا ہوں.بیان کیا جاتا ہے کہ بغداد میں جو ہا نامی ایک درباری مسخرا تھا جو اپنے فن میں بہت طاق اور شہرہ آفاق تھا.جب تیمور لنگ نے بغداد پر حملہ کیا.وہاں وہ اس کے مزاح اور پر لطف باتوں کے پیرایہ سے بہت خوش ہوا.اس نے فیصلہ کیا کہ وہ جو ہا کو بھی مال غنیمت کے طور پر اپنے ساتھ لے جائے گا اور اسے اپنے ہاں دربار کے مسخرہ اعلیٰ کے طور پر مقرر

Page 143

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 126 کرے گا.بیان کیا جاتا ہے کہ ایک روز جو ہا کے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اکیلا بیٹھ کر بھنا ہوا گوشت کھائے اور کھائے بھی خوب جی بھر کے.اشتہا اتنی تیز تھی وہ اسے دبانہ سکا.وہ سیدھا بازار گیا اور وہاں سے بہترین قسم کا دو کلو گوشت خرید لایا.گوشت کو اپنی بیوی کے حوالہ کرتے ہوئے اسے ہدایت کی کہ وہ اس سے بھنے ہوئے گوشت کا بہترین اور لذیذ ترین کھانا تیار کرے.کوئی اور اسے ہاتھ نہ لگائے اور پورے کا پورا اس کے لئے مخصوص رہے.حتی کے اس نے بیوی کو بھی منع کر دیا کہ وہ خود اس میں سے ایک آدھ بوٹی چکھنے کی بھی جرات نہ کرے.بد قسمتی یہ ہوئی کہ جو نہی اس کی بیوی گوشت بھوننے سے فارغ ہوئی اس کے چند بھائی اپنی بہن سے ملنے کے لئے آوارد ہوئے.اس کے اپنے لئے تو اچانک بھائیوں کا آنا بہت خوش گوار حیرت اور پر مسرت اچنبہ کا موجب تھا لیکن جو ہا کے لیے ان کا یوں آدھمکنا بد قسمتی کے پیش خیمہ سے کسی طرح کم نہ تھا.تازے بھنے ہوئے لذیذ گوشت کی خوشبو پر ان نو وار د مہمانوں کا دل ایسا للچایا کہ بے چین ہو ہو کر لگے ہونٹوں پر زبان پھیر نے.پھر وہی کچھ ہوا جس کا ہونا منطقی نتیجہ کے طور پر ناگزیر تھا.مزے لے لے کر گوشت چٹ کرنے اور اس کا اس طرح صفایا کرنے کے بعد اس کا کوئی بھورا اور ذرہ بھی باقی نہ رہا.انہوں نے پریشان حال فکر مند بہن سے رخصت ہونے کی اجازت لی اور وہاں سے چلتے بنے.جو ہا کے آنے سے پہلے پہلے اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور ہوش بجا کر کے ایسا بہانہ تراشا کہ اس کے نزدیک جس کا کوئی توڑ ممکن نہ تھا.مگر جو ہا بھی اپنی جگہ کچھ کم چالاک و ہو شیار اور عیار نہ تھا.جب وہ گھر میں داخل ہوا تو ابھی بھنے ہوئے گوشت کی بچی کچھی اور فضا میں رچی بسی خوشبو باقی تھی.اس نے بڑے اشتیاق سے مطالبہ کیا کہ اس کا بھنا ہوا دو کلو گوشت اس کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ وہ کھا کر مونچھوں پر تاؤ دے سکے.بیوی نے اس کی لاڈلی بلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا اگر ہو سکے تو مطلوبہ گوشت اپنی اس پیاری اور لاڈلی بلی کے پیٹ میں سے نکال لو.میں جب گھر کے دوسرے کام کاج میں مصروف تھی تو اس نے گوشت پر ایسا دھاوا بولا کہ صفایا کر ڈالا.جو ہا کچھ نہ بولا.خاموشی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور بلی کو ترازو میں رکھ کر لگا اس کو تولنے.بلی کا وزن پورے دوسیر نکلا.اس نے اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر بڑی نرمی سے جس میں در پردہ گرمی سموئی ہوئی تھی کہا میری پیاری بیوی مجھے تمہاری بات کا پورا یقین ہے لیکن اگر یہ دو کلو گوشت میرا ہے تو میری بلی کہاں گئی ؟ اور اگر یہ میری بلی ہے (اور واقعہ بھی یہی ہے کہ یہ ہے میری بلی) تو میر الا یا ہوا دو کلو گوشت کہاں گیا؟ یہ تو ہے ایک لطیفہ جس میں مسئلہ زیر غور کی سراسر غیر منطقی صورت حال کی طرف ایک لطیف

Page 144

127 تثلیث اشارہ مضمر ہے.کہنا مجھے اب یہ ہے کہ میں اس مسئلہ پر مسیح کی اصل اور حقیقی تعلیم کی رُو سے بحث کرنا نہیں چاہتا.اس مقالہ میں موجودہ زمانہ کے عیسائی عقائد پر تنقیدی نظر ڈالنے اور انہیں پر کھنے کی کوشش کی گئی ہے.ان عقائد کے بارہ میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہ عقائد مسیح کی اصل تعلیم سے بہت دور ہٹ کر کچھ اور ہی شکل اختیار کر چکے ہیں.میری طرف سے اس انکار کے بعد کہ بائبل میں ایسا کوئی حوالہ یا اشارہ موجود نہیں ہے جس کی رو سے یہ ثابت ہو سکے کہ خدا کے علاوہ مسیح کی بھی باقاعدہ عبادت کی جاتی تھی میرے لئے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ میں لوقا کی انجیل کے باب 24 کی آیت 52 میں پوشیدہ ایک اس نوعیت کے حوالہ کی وضاحت کروں.بعض مسیحی یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ آیات اس امر کا ثبوت مہیا کرتی ہیں کہ مسیح نے خود اپنے پیروؤں کو تلقین کی کہ وہ اس کی بھی عبادت کیا کریں.عصر حاضر کے عیسائی سکالرز اس امر سے خوب باخبر ہیں کہ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ یہ آیات اصلی نہیں بلکہ وضعی ہیں اور اس بات کی ہر گز حق دار نہیں ہیں کہ انہیں سینٹ لوقا کی انجیل کا اصلی اور مستند حصہ شمار کیا جائے.اب ہم مسیحی صاحبان کے عام مروجہ طریق اور عمل کی طرف آتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ آیا ان کے اس مروجہ طریق اور عمل کو انجیل کی تائید حاصل ہے یا نہیں.فی زمانہ بہت سے مسیحی فرقوں کے طرزِ عمل کی رُو سے خدا کے بیٹے کی حیثیت سے مسیح کی یقیناً پرستش کی جارہی ہے.بایں ہمہ وہ سب فرقے اس بات پر بھی متفق ہیں کہ وہی مسیح جس کی وہ پرستش کرتے ہیں وہ خود صرف ”باپ خدا کی اور صرف اور صرف اسی کی عبادت کیا کرتا تھا.میں نے بار ہا مسلمہ عیسائی سکالرز سے اس بات کی وجہ پوچھی ہے کہ اگر مسیح خود خدا کا جز ولا نیفک تھا اور اس طرح کامل اور مکمل طور پر اس میں مدغم تھا کہ تین علیحدہ علیحدہ شخصیتیں موجود ہونے کے باوجود ان کے باہم مدغم ہونے سے خودان میں وحدانیت کا تصور ابھرے بغیر نہ رہتا تھا تو پھر مسیح کے ”باپ خدا کی عبادت کرنے کی وجہ کیا تھی اور وہ کیوں اس کی عبادت کر تا تھا لیکن کوئی ایک سکالر بھی مجھے اس کا جواب نہیں دے سکا اور میری یہ کوشش ہمیشہ رائیگاں ہی گئی.ایک نہیں، اس بارہ میں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں.کیا مسیح نے کبھی تثلیث کے تیسرے جزو یعنی روح القدس کی بھی عبادت کی؟ کیا وہ کبھی اس امر کا بھی مر تکب ہوا کہ اپنی پرستش آپ کرے؟ کیا روح القدس نے کبھی مسیح کی پرستش کی؟ کیا ”باپ خدا“ نے کبھی تثلیث کے بقیہ دوا قائیم کولا ئق عبادت گر دانا اور اپنے لئے خود ان کی عبادت کو

Page 145

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 128 لازم پکڑا؟ اگر نہیں تو کیوں؟ شاید یہ سوال اور ان کے واضح اور غیر مہم جواب کبھی نہ کبھی عیسائیوں کو اس اقرار پر مجبور کر دیں گے کہ ”باپ خدا کو تثلیث کے بقیہ دو اجزا پر یقیناً بر تری اور بالا دستی حاصل ہے.اس سے یہ امر ثابت ہوئے بغیر نہیں رہتا کہ تثلیث کے تین اجزا یا اقانیم بلحاظ مر تبہ ہم پلہ نہیں ہیں.لہذا اگر وہ تین ہی ہیں تو لاز م وہ تین میں تین ہیں اور یقیناوہ ”ایک میں تین “ نہیں ہیں.بعض اوقات جب مسیحی صاحبان کو مسیح کے متعلق جسے وہ خدا کا بیٹا یقین کرتے ہیں اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ تو خود ”باپ خدا کی عبادت کیا کرتا تھا تو پھر آپ لوگ کیوں مسیح کی عبادت کرتے ہیں تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ وہ تو ”انسان مسیح تھا جو خدا کی عبادت کرتا تھا، ” بیٹے“ نے اپنے ”باپ خدا کی کبھی عبادت نہیں کی.یہ جواب ہمیشہ پھر اسی بحث کی طرف لے جاتا ہے جو ہم پہلے بھی کر چکے ہیں.اور وہ یہ ہے کہ کیا دو باشعور ہستیوں نے مسیح کے اکیلے جسم پر قبضہ جمایا ہوا تھا.ان دو ہستیوں میں سے ایک انسانی شعور کی حامل تھی اور دوسری ہستی اس شعور کی حامل تھی کہ وہ خدا کا بیٹا ہے؟ پھر یہ سوال بھی پیدا ہو گا کہ اس جسم میں موجود انسان نے اسی میں بیک وقت موجود ” خدا کے بیٹے“ کے ساتھ ایک ہی جسم میں موجود تھا، تیسرے اقنوم یعنی روح القدس کی بھی عبادت کرنی چاہیے تھی جو اس نے کبھی نہیں کی.عبادت فی الاصل ذہن اور روح کے باطنی عمل سے عبارت ہوتی ہے جس کا بعض اوقات جسمانی حرکات و سکنات کی مرکی علامتوں سے بھی اظہار کیا جاتا ہے.اس نظر آنے والی مرئی اظہار کے باوجود عبادت انسان کے ذہنی اور جذباتی وجود یا ہستی میں جڑ کی طرح پیوست ہوتی ہے لہذا یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ جب مسیح خدا کی عبادت کرتا تھا تو عبادت کا عمل کس سے سرزد ہوتا تھا؟ ہم اس منظر نامہ کو اس کی تمام تر باریکیوں اور پیچیدگیوں کے ساتھ قبل ازیں اچھی طرح کرید اور کھنگال کر ثابت کر چکے ہیں کہ یہ ”خدا کا بیٹا ہی تھا جو خدا کی عبادت کرتا تھا اور اس نے انسان ہوتے ہوئے اپنے ساتھی اور شریک مسیح کی کبھی عبادت نہیں کی.تو پھر عیسائی صاحبان زمین پر خود یسوع کے اس پاک نمونہ اور اُسوہ کی کیوں خلاف ورزی کرتے ہیں؟ جبکہ انسان یسوع نے اپنے شریک کار مسیح کی اس کے ساتھ اپنی انتہائی قربت کے باوجود کبھی عبادت نہیں کی تو وہ ( یعنی عیسائی صاحبان ) خدا کے ساتھ ساتھ مسیح کی بھی عبادت کیوں کرنے لگتے ہیں؟ یکساں اور مساوی خصوصیات رکھنے والی مختلف ہستیاں تثلیث کے اندر ”ایک میں تین“ کے فارمولا کا اب ہم ایک اور زاویہ نگاہ سے جائزہ لیتے ہیں.اس

Page 146

129 تثلیث وقت ہم جس منظر نامہ کی رو سے اس فارمولہ کا جائزہ لینا چاہتے ہیں.وہ یہ ہے کہ تثلیث کے تینوں اجزا یا اقانیم باہم ایک جیسے اور ایک دوسرے کے ہم پلہ ہیں.ان کے مابین کسی لحاظ سے بھی کوئی فرق ہے ہی نہیں.اس منظر نامہ میں ہم ایک ایسی شخصیت کی بات نہیں کر رہے جس میں مختلف نوعیت کے خدوخال، خطوط واقواس، نقش و نگار اور اعضا و قوی آجمع ہوئے ہوں بلکہ وہ تین جڑواں بچوں کی طرح تین علیحدہ علیحدہ شخصیتوں کے مالک ہیں.یہ اس قسم کی تین جڑواں شخصیتیں ہیں کہ ان میں مکمل یکسانیت پائی جاتی ہے.مکمل یکسانیت سے مراد یہ ہے کہ ان کے مابین پائی جانے والی یکسانیت ان کی شکل و صورت اور بناوٹ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کی یکسانیت سوچ بچار ، افکار و خیالات اور جذبات و احساسات کے پورے طریق عمل و طریق کار بلکہ ان کو باہم منضبط کرنے والے پورے سلسلہ ہائے نظام تک ممتد ہے.وہ اپنے افکار و خیالات ، احساسات و جذبات اور تجربات میں الغرض ہر چیز اور ہر بات اور ہر کام میں پوری یکسانیت کے ساتھ برابر کے شریک ہیں.ایسی صورت میں ہر شخص یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہے گا کہ تثلیث کے تین اجزائے ترکیبی میں سے دو کا وجود محض فالتو ہے.اگر ان میں سے دو کو ختم بھی کر دیا جائے تو تثلیث میں باقی رہ جانے والا یک جز و یا اقنوم باقی دو کے ختم ہو جانے سے خفیف سا بھی متاثر نہیں ہو گا کیونکہ وہ خود اپنی ذات میں مکمل ہے اور مکمل رہے گا.قرآن مجید نے بھی ایک رنگ میں اس سوال کو اٹھایا ہے.جب وہ توجہ دلا تا ہے کہ اگر خدا یسوع مسیح اور روح القدس کو ہلاک اور نابود کرنا چاہے تو کیا فرق پڑ سکتا ہے اس کے جلال و جبروت، اس کی ابدیت اور اس کے کمال لازوال پر اور کون روک سکتا ہے اس کو اگر وہ ایسا کرنا چاہے (18:5) اس سے مراد یہ ہے کہ صفات الہیہ دائمی اور ابدی طور پر اپنا جلوہ ظاہر کرتی رہیں گی.ان کی جلوہ گری میں کوئی رخنہ یار کاوٹ کبھی اور کسی حال میں پڑ ہی نہیں سکتی.اس لحاظ سے تثلیث کا نظریہ جو اس منظر نامہ میں پیش کیا گیا ہے سراسر نا معقول اور بلاضرورت ثابت ہوئے بغیر نہیں رہتا.ہاں اگر فرض یہ کیا جائے کہ نظریہ تثلیث میں پائی جانے والی تین شخصیتیں تین علیحدہ علیحدہ کام انجام دیتی ہیں ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ خدا کی خداوندی کو پورا اور مکمل کرنے کے لئے تینوں اجزا کا وجود لازمی اور ضروری ہو گا لیکن واضح طور پر اس کے ساتھ تین خداؤں کی موجودگی کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا اور یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہوں گے اور باہم خوب گھل مل کر رہ رہے ہوں گے لیکن ایسی صورت میں انہیں ”تین میں تین“ خدا ہی مانا جائے گا نہ کہ مروجہ عیسائی عقیدہ کی رو

Page 147

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 130 سے ”ایک میں تین خدا.“ اب اگر اس مشکل سے بچنے کے لیے یہ تجویز کیا جائے کہ کہنے کو یہ ہے تو ” تثلیث “ لیکن فی الاصل یہ ہے ایک ایسی اکیلی شخصیت کی طرح جس کے تین مختلف نامیاتی کام ہیں اور وہ سب ایک ہی شخصیت کے ساتھ وابستہ ہونے کے باعث اسی کی ذات میں مجتمع ہیں.ایسی صورت میں یقیناً وحدانیت کو تو بر قرار رکھا جاسکتا ہے لیکن تثلیث کا کوئی نام و نشان باقی نہیں رہتا لیکن یہاں بہت سے نامیاتی کام انجام دینے والی ایک واحد ہستی کی بات نہیں ہو رہی ہے.بات ہو رہی ہے اس منظر نامہ میں تین مساوی الحیثیت ہستیوں کی.ان میں سے ہر ایک بعینہ وہی کام انجام دے رہی ہے جو اس کے دوسرے ساتھی دے رہے ہیں اور بعینہ ایک ہی کام انجام دینے کے باوجود ان میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہوئی ہے.جو کچھ ہم یہاں بیان کر رہے ہیں اس سے دراصل تو ایک یعنی اکیلی ہستی کا تصور ہی ابھرتا ہے لیکن وہ ایک ایسی ہستی ہے جس کے مختلف اعضا ہیں.یہاں تک اتنا ضرور ہے کہ ایسی اکیلی ہستی کے تصور میں کوئی غیر منطقی بات محسوس نہیں ہوتی لیکن جب اس ہستی کے اعضا میں سے ہر عضو کو ایک علیحدہ ہستی یا شخصیت قرار دیا جائے اور ساتھ ہی یہ بھی یقین کیا جائے کہ ان میں سے ہر عضو کی شخصیت اپنی ذات میں ہر طرح مکمل ہے اور ان معنوں میں واحد ، اکیلی اور مکمل ہے کہ وہ کسی احتیاج سے مبرا ہے تو پھر اس سے ایک ایسی صورت حال ابھرتی ہے جہاں منطق اور عقل کی کچھ پیش نہیں جاتی.اس کی حدود یکسر ختم ہو کر رہ جاتی ہیں اور یہ بحث از اول تا آخر نا قابل قبول بن جاتی ہے.یہ صحیح ہے کہ اعضا کی بھی اپنی ایک ہستی اور انفرادیت ہوتی ہے لیکن ان کی یہ انفرادیت ایک بڑی شخصیت کا جزو ہوتی ہے کیونکہ اس بڑی شخصیت کا ایک عضو نہیں ہو تا بلکہ اس کے اور بہت سے دوسرے اعضا بھی ہوتے ہیں.جب ہم کسی انسان کی شخصیت کا ذکر کرتے ہیں.تو اس کے سارے اعضا اپنی مجموعی حیثیت میں انسان کہلاتے ہیں.بے شک ان میں سے بعض اعضا چھوٹے اور نسبتاً کم اہم کام کرتے ہیں اور ایک انسان ان اعضا کے بغیر بھی انسان رہ سکتا ہے.لیکن ایسا انسان اپنی ذات میں نقص اور خامی کا حامل ہوتا ہے.ایک مکمل انسان کے لئے ضروری ہے کہ اس کے وہ تمام اعضا صحیح حالت میں موجود ہوں جو ایک عام انسان کے ہوتے ہیں.اور ان کی کارگزار و کار آمد حالت کی مجموعی ہیئت اسے ایک مکمل انسان کہلانے کا مستحق بناتی ہے.اگر ہم ایک انسان کو بطور مثال لے کر مذکورہ بالا منظر نامہ کی رو سے ابھرنے والی ہستی کو واضح کرنا

Page 148

131 تثلیث چاہیں تو ہم فرض کر لیتے ہیں ایک شخص ہے جس کا نام پال (Paul) ہے.اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ پال کا جگر اور دل اور اسی طرح اس کے پھیپڑے اور گردے اپنی انفرادیت رکھتے ہیں اور اپنے اپنے مفوضہ کام انجام دیتے ہیں تو وہ بھی اپنی اپنی جگہ اپنی ذات میں پاؤل ہی کی طرح اس جیسے انسان ہیں.ان اعضا میں سے ہر ایک عضو کی پورے اور مکمل انسان کے ساتھ یکسانیت صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے کہ ہم از راہ امتثال یہ کہیں کہ اکیلے گردے اپنی جگہ کلیۂ وہ سارے امور انجام دے رہے ہیں جو پاؤل کو مکمل انسان ہونے کی حالت میں انجام دینا ہوتے ہیں.اور اسی انداز سے اس کے دوسرے اعضا کے بارہ میں بھی یہی کچھ کہا جا سکتا ہے.اس صورت میں تو یہ بھی کہنا پڑے گا کہ ہر عضو کی غیر موجودگی پاؤل کے کاموں اور کردار میں سر مو کوئی فرق نہ ڈالے گی.بالفاظ دیگر مطلب یہ ہوا کہ پاؤل کے پھیپھڑے ، دل، گر دے اور دماغ بلکہ اس کے تمام اعضا بھی نکال باہر کیے جائیں تو پاؤل پھر بھی اپنی ذات میں مکمل رہے گا یعنی اس کے مکمل ہونے میں کوئی فرق نہیں آئے گا.ایسا اس لیے ہو گا کہ آخری تجزیہ کی رُو سے تمام اعضا کے مابین اپنی اپنی جگہ مکمل یکسانیت موجود ہوگی اور باہم ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے کی صورت میں بھی ان کے درمیان کوئی فرق آئے گا ہی نہیں.اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو پاؤل کی اپنی شخصیت بھی ان اعضا کی عدم موجودگی کے باوجود صحیح سالم رہے گی.اگر تین میں ایک کا یہی منظر نامہ بننا ہے تو پھر منطق کی روسے مسیحی عقائد پر تنقید کرنا ہی کار بے مقصد ٹھہرے گا.موجودہ زمانہ کے مسیحی اعتقاد پر جو منطق صادق آئے گی وہ میکبتھ (Macbeth) کی جادو گرنیوں والی الٹی منطق ہوگی جو یہ کہتی ہے کہ ”خوب ناخوب ہے اور ناخوب ہے خوب “ جس کا ہے کہ نیکی فی الاصل بدی کے مترادف ہے اور بدی اپنی ذات میں نیکی

Page 149

Page 150

باب ہفتم مسیحیت کا ارتقا مسیحی ایمانیات میں تثلیث کے عقیدہ کو بنیادی عقائد میں سے ایک مرکزی عقیدہ کی حیثیت حاصل ہے بایں ہمہ حقیقت یہ ہے کہ مسیح کے اپنے زمانہ حیات میں اس نام نہاد عقیدہ کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں ملتا.زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ واقعۂ صلیب کے بہت بعد اس عقیدہ نے رفتہ رفتہ مختلف شکلیں اختیار کرناشروع کیں.اسے آخری اور معین شکل دینے میں کئی صدیاں لگ گئیں لیکن پھر بھی یہ ایک ایسا معمہ بنا رہا اور ہنوز بنا ہوا ہے کہ جسے واضح طور پر حل کرنا ممکن نہ ہو سکا اور نہ آج تک ہو سکا ہے.یہ عقیدہ ایک مابہ النزاع امر کی حیثیت سے مسیحی ماہرین دینیات اور مسیحی فلسفیوں کے مابین بہت طویل اور تلخ بحث و تمحیص کا موضوع بنا رہا.اس بحث میں حصہ لینے والے مسیحی ماہرین دینیات اور فلسفی وغیرہ مختلف مذہبی ، ثقافتی اور روایتی پس منظروں اور ان کے ناگزیر اثرات کے حامل تھے چنانچہ وہ اپنے اپنے رنگ میں اس بحث ۱ پر اثرانداز ہوتے رہے.یہ عقیدہ مختلف سر زمینوں کے دیومالائی قصوں کہانیوں، رسوم و رواج اور روایتوں وغیرہ سے بڑی حد تک متاثر ہو تا رہا ہے.یہ وہ سر زمینیں تھیں جنہوں نے شروع زمانہ میں عیسائیت کو اپنے ہاں آنے دیا، اسے برداشت کیا اور ایک رنگ میں اس کی میزبانی کے فرائض انجام دیئے.مسیحیت کی شاخ فی الاصل شجر یہودیت کے تنے سے ہی پھوٹی تھی اس لئے قدرتی طور پر اس کے ابتدائی دور میں جس حد تک بھی ممکن ہو سکا اس کی خبر گیری اور تشکیل و صورت گری میں اسی نے حصہ لیا.مسیحی تاریخ کے تمام تر ابتدائی حصہ میں خود یہودیوں کی طرف سے مخالفت کے پہلو بہ پہلو مسیحیت پر یہودی اثر ہی غالب رہا.مسیح کے شاگردوں نے مسیحیت کا درس براہ راست خود مسیح سے ہی لیا اور اس کے معانی و مفہوم اور مالہ وماعلیہ کو تمام تر اسی سے سمجھ کر اسے اپنے دل میں جگہ دی.پھر یہی نہیں بلکہ جو کچھ سیکھا خود مسیح کی ذات میں اس کا عملی نمونہ مشاہدہ کیا.مسیح کے وہ سب شاگر دیہودیوں میں سے ہی آئے تھے.آغاز کار ہی آشامل ہونے کی وجہ سے وہ مسیحیت کے ابتدائی محافظ تھے.مسیحیت پر ان کے ایمان کی جڑیں مسیح کی مقدس ہدایات اور اس کی

Page 151

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 134 زندگی کے طور طریق اور عملی نمونہ میں پیوست تھیں.پھر وہی تھے جنہوں نے مسیح کے واقعۂ صلیب کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور قتل کیے جانے کی عملی کوشش سے ان کے زندہ بچ نکلنے کا بچشم خود مشاہدہ کیا تھا.صحیح پر ایمان لانے والے اور ابتدائی پیرو معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی زمانہ کے مسیحیوں میں آگے چل کر دو امور کے متعلق اختلاف پید اہو گیا تھا اور وہ امور یہ تھے (1) مسیح کا مرتبہ و مقام کیا ہے؟ (2) آیا موسوی شریعت سے وابستہ رہتے ہوئے اس کی پیروی کی جائے یانہ کی جائے ؟ ہوا یہ کہ آگے چل کر جسے ہم مسیحیت کی نشوونما اور ترقی کے دوسرے دور سے تعبیر کر سکتے ہیں سینٹ پال (پولوس) نے مسیحیت کو ایک نیا فلسفہ اور نیا نظریہ دینے میں مرکزی کردار کی حیثیت حاصل کر لی.پولوس اور جیمز کے درمیان جو راستباز جیمز (James the Righteous) کے نام سے موسوم تھا، بنیادی نوعیت کے نظریاتی اختلافات پیدا ہو گئے تھے.جیمز یروشلم کے کلیسیا کا نگہبان اور سربراہ تھا جبکہ پولوس مغربی سرزمینوں میں عیسائیت کا پرچار کر رہا تھا اور کر بھی رہا تھا غیر یہودی اقوام میں.سویروشلم کے کلیسیا کے بالمقابل مغربی کلیسیا نے خاص طور پر پولوسی عقائد کے انداز میں نشو نما پائی جبکہ یروشلم کا کلیسیا مسیح کی اصل تعلیم پر ہی قائم رہا جس میں توحید باری کو مرکزی حیثیت حاصل تھی.جیمز نے اپنے دور امارت میں مسیح کی جس تعلیم کو عام کیا اسی کے زیر اثر آگے چل کر ایونائٹس (Ebionites) کے نام سے ایک فرقہ بنا.اس کا نام عبرانی لفظ ایونم (Ebionim) سے ماخوذ تھا جس کے معنے تھے ”غریب “ اس سے مراد تھی فقر کو ترجیح دینے والے دل کے غریب.وہ دراصل یہودی مسیحی تھے.یسوع ان کے نزدیک مسیح کی حیثیت سے ظاہر ہوا تھا.اور یہ کہ اس کا ظہور ”خدا کے بیٹے کے طور پر نہیں تھا.وہ بڑے جذ بہ وجوش کے ساتھ موسوی شریعت پر عمل پیرا تھے.ان کی اپنی ایک انجیل تھی جو مختلف نسبتوں کے اعتبار سے عبرانیوں کی انجیل“ (Gospel of Hebrews) ، " یونائٹس کی انجیل“ (Gospel of Ebionites) اور ”ناضرینز کی انجیل “ (Gospel of Nazarenes) کہلاتی تھی.تاریخ کلیسیا کے نام سے جو کتاب سیز اریا (Caesarea) میں لکھی گئی تھی اس کے مصنف یو سیبس Eusebius نے اس کی تیسری کتاب ”ویسیا سیئن ٹوٹر اجن“ (Vespasian to Trajan) میں ایونائٹس کا ذکر کیا ہے.وہ ان کے نظریات کا ذکر کرتے ہوئے تضحیک سے کام لیتا ہے.وہ کہتا ہے کہ ان کا

Page 152

135 مسیحیت کا ارتقا نام اس لیے یبیو نا ئٹس کہلاتا ہے کہ وہ مسیح کے بارہ میں بہت گھٹیا اور ذلت آمیز خیالات کے حامل تھے.حالانکہ ایونائٹس مسیح کو تمام دوسرے انسانوں کی طرح ایک فانی انسان سمجھتے تھے.وہ اس کی نیکی اور راستبازی کو جو اس نے اپنی بلند کر داری اور اخلاقی رفعت کی وجہ سے حاصل کی تھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے.یہودی ہونے کی وجہ سے وہ سبت کے دن کا احترام کرتے تھے.شریعت کی ہر تفصیل پر عمل پیرا تھے اور اس پولوسی نظریہ کے قائل نہ تھے کہ نجات صرف ایمان کے وسیلہ سے نصیب ہوتی ہے.اس نے ایبیو نا ئٹس کے ایک گروہ کا بھی ذکر کیا ہے.اس گروہ کے لوگ مسیح کے کنواری کے بطن سے جنم لینے کے قائل تھے.وہ روح القدس پر بھی ایمان رکھتے تھے لیکن اس نظریہ کے قائل نہیں تھے کہ مسیح پیدائش سے قبل خدا کے کلام اور اس کی حکمت بالغہ کے روپ میں پہلے سے موجود تھا.وہ ہیبریوز کی انجیل کی پیروی کرتے تھے.وہ ممکنہ طور پر متی کی انجیل ہو سکتی تھی.وہ سبت کا دن مناتے تھے اور یہودی طور طریق پر عمل پیرا تھے.البتہ وہ صیح کے جی اٹھنے کا دن بھی مناتے تھے اور اس پر خوشی کا اظہار کرتے تھے.(The History of the Church by Eusebius, p.90-91 Penguin, 1989) آر آئزن مین (R.Eisenman) نے اپنی کتاب The Dead Sea Scrolls Uncovered (یعنی بحر مردار کی گولائی میں لیٹے ہوئے صحائف کے مندرجات کا انکشاف ) میں ایونائٹس فرقہ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جیمز دی رائیٹیٹس پہلی صدی عیسوی کے وسط میں (قریباً 40 تا 46 بعد از مسیح) کلیسیائے یروشلم کا سربراہ تھا.یہ کلیسیا کی وہ شاخ تھی جو ماضی قریب کی نسبت سے فلسطین میں ”یہودی مسیحیت “ کہلاتی تھی.ایبیونائٹس نے اسی شاخ سے ابھر کر ایک فرقہ کی شکل اختیار کی تھی.(The Dead Sea Scrolls Uncovered by R.Eisenman & M.Wise, p.186, Element Books, 1992) جو جماعت جیمزدی رائیٹیٹس کی پیرو تھی اس کے افراد ”غربا ( یعنی دل کے غریب“ کہلاتے تھے.(سلتیوں کے نام خط باب 2 آیت (10) نیز (یعقوب کا خط باب 2 آیت 3 تا 5).یہ ایک ایسا لقب ہے جو مسیح کے پہاڑی وعظ میں بھی آتا ہے اور ”ڈیڈسی سکرولز“ (بحر مردار کے لیٹے ہوئے صحیفوں) میں بھی آتا ہے.مذکورہ مصنف آئزن مین کا احساس یہ ہے کہ کئی لحاظ سے ایبیو نائٹس ڈیڈ سی سکرولز (بحر مردار کے صحیفوں) کے مصنفوں سے ملتے جلتے لوگ تھے.وہ جیمز دی رائیٹس کا بہت احترام کرتے تھے اور یسوع کا اپنا مسیحا یقین کرتے تھے لیکن سمجھتے تھے اسے دوسرے انسانوں کی طرح ایک فانی انسان.ان کے نزدیک پولوس نے شریعت موسوی سے ارتداد اختیار کر لیا تھا.وہ خود شریعت موسوی پر پوری طرح عمل کرتے

Page 153

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 136 تھے نیز سبت کا بھی بڑے جذبہ و جوش سے احترام کرتے تھے اور اس کی پوری طرح پابندی کے دل سے قائل تھے.جیمز کو وہ بہت اونچا مقام اور مرتبہ دیتے تھے جبکہ پولوس کو اصل مسیحیت کا دشمن گردانتے تھے.متی باب 13 آیت 25 تا40) Ibid.p.233-34 بیجنٹ (Baigent)، لائیگ (Leigh) اور لنکن (Lincoln) کے نزدیک ابتدائی زمانہ کے مسیحی فرقے ایونائٹس (Ebionites)، نوسٹکس (Gnostics) انیچینز (Manicheans)، مانڈینز (Mandeans)، سائنز (Sabians)، نستور ینز (Nestorians)، ایلکا سائٹس (Elkasites) وغیرہ ناضر ینز (Nazarene) فلاسفی کے ماننے والے تھے.مذکورہ بالا سب مصنفین ناضر ینز کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ : ناضرینز کے طور طریق اور اقوال سے اخذ کردہ یسوع اور اس کی بیان کردہ اصل تعلیم کی طرف اپنے رخ کو قائم رکھنا اور اس سے ادھر ادھر نہ ہونا ضروری ہے.اور یہ وہی تعلیم تھی جسے جیمز، جیوڈاز اور تھامس اور ان کے ساتھیوں نے تبلیغ کے ذریعہ پھیلایا اور عام کیا.ناضرینز کی تقلید میں ان سب فرقوں کے عقائد یہ تھے..1.2.3.4 موسوی شریعت کے ساتھ پوری وابستگی اور اس کی مکمل پابندی.یسوع کے متعلق یہ یقین رکھنا کہ وہ مسیح تھا.اس امر کو تسلیم کرنا کہ مسیح عام انسانوں کی طرح ہی پید ا ہوا تھا.پولوسی نظریات کو غلط سمجھنا اور ان کی مخالفت کرنا.استنبول کی لائبریری میں عربی مخطوطات کا ایک مجموعہ رکھا ہوا ہے جو ایک اور قدیمی مخطوطہ کے متن کے اقتباسات پر مشتمل ہے.یہ متن ”النصاری کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور پانچویں یا چھٹی صدی عیسوی کے زمانہ سے تعلق رکھتا ہے.یہ ملک شام کی ایک قدیمی زبان میں لکھا ہوا ہے.مخطوطات کا یہ مجموعہ ایران عراق سرحد کے قریب جنوب مغربی ایران کے علاقہ میں واقع خوزستان کی ایک خانقاہ سے ملا تھا.اس مجموعہ مخطوطات سے ناضر ینز (Nazarene) کے مذہبی پیشواؤں کے عقائد و نظریات کی عکاسی ہوتی ہے.یہ 66 عیسوی میں رونما ہونے والی تباہی کے بعد یروشلم سے بیچ بچا کر یہاں پہنچا تھا.اس میں یسوع کا

Page 154

137 مسیحیت کا ارتقا ایک انسان کے طور پر ذکر کیا گیا ہے اور یہودی قانون شریعت کو اس میں بہت اہمیت دی گئی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پولوس کے ماننے والوں نے مسیح کے مذہب کو ترک کر دیا تھا اور وہ اہل روما کے مذہبی عقائد کی طرف مائل ہو گئے تھے.“ ('The Messianic Legacy' M.Baigent, R.Leigh, H.Lincoln.p.135-138, Corgi Books) مسیحی عقائد کی تشکیل کے مراحل میں جو عقائد ابھر کر سامنے آئے ان میں سے صرف ناضرینز (Nazarene) کے عقائد ہی اس بات کے سزاوار ہیں کہ انہیں دوسروں کے عقائد پر ترجیح دی جائے.یہ ابتدائی مسیحی وہ تھے جنہیں مسیحیت کی تعلیم کے معانی و مفہوم سے خود مسیح نے آگاہ کیا تھا.پولوس کا کردار ظاہر ہے اس وقت وہاں (یروشلم اور اس کے گردو نواح میں ) پولوس اور اس کے مکتب فکر کا کوئی نام و نشان نہ تھا.بعد میں جب پولوس میسحیت میں داخل ہوا تو اس وقت سے مسیحیت بیرونی سرزمینوں اور خاص طور پر سلطنت روما کے مغربی علاقوں میں پھیلنی شروع ہوئی جہاں ملحدانہ مذاہب نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے تھے.یہ نئے نئے علاقوں میں پہلے سے پھیلی ہوئی ثقافتوں اور ان کے دیومالائی قصوں کہانیوں کا زبر دست اثر قبول کرتی اور ان کی طرف مائل ہوتی چلی گئی.اس طرح یہ اپنی قدرتی ماہیت اور ابتدائی پاکیزگی سے محروم ہو کر اس سے دور سے دور تر ہوتی چلی گئی.ادھر خود پولوس نے بھی جو ان علاقوں میں عیسائیت کا پرچار کر رہا تھا خود اپنی پر اسرار ضعیف الاعتقادی کا کچھ نہ کچھ عنصر اس میں متعارف کرایا اور اس طرح وہ خود بھی مسیحی خیالات و نظریات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر اثر انداز ہو تا چلا گیا.اس طرح مسیحی نظریات میں انحطاط کی کیفیت کا رونما ہونا ایک قدرتی امر تھا.پولوس نہ تو خود یہودی النسل تھا اور نہ اس کا مسیح سے براہ راست کوئی رابطہ یا تعلق قائم ہوا تھا سوائے اس کے کہ اس کے اپنے دعوئی کے بموجب وہ مسیح سے خواب میں ملا تھا.معلوم ایسا ہوتا ہے کہ وہ پہلے ہی سے اجنبی ثقافتوں کے زیر اثر تھا اور ان کا زبر دست اثر قبول کرتارہا تھا.پولوس کے سامنے دو ہی راستے تھے کہ وہ سلطنت روما میں خدا جانے کب سے پھیلے ہوئے تو ہمات، دیو مالائی قصوں اور روایتی داستانوں کے خلاف زبر دست تبلیغی جہاد کرتا اور بحث و تمحیص کا سلسلہ شروع کر کے ان سے پوری طرح نبرد آزما ہوتا یا پھر وہ ان کے آگے ہتھیار ڈال دیتا اور ان کی ضرورتوں اور خواہشوں کے عین مطابق عیسائیت کو نیا روپ اختیار کرنے دیتا.یہ مؤخر الذکر راہ ایسی تھی

Page 155

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 138 کہ ان سر زمینوں اور علاقوں کے لوگوں کے لئے اس پیغام کی حامل تھی کہ مسیحیت ان کی روایتی داستانوں اور دیو مالائی قصوں سے چنداں مختلف نہیں ہے.پولوس کو دوسرا طریق کار زیادہ مفید اور آسان نظر آیا چنانچہ اس نے عیسائیت کو ایسے روپ میں ڈھالنے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھا جوان آرزوؤں، تمناؤں اور فلسفیانہ خیالات سے پوری مناسبت رکھتا ہو جو اس زمانہ کی غیر یہودی دنیا میں عام پھیلے ہوئے تھے اور لوگوں پر اثر انداز ہو رہے تھے.پولوس کی یہ حکمت عملی“ اس لحاظ سے بہت کامیاب رہی کہ اس کے نتیجہ میں اس نئے مذہب میں لوگوں نے بڑی تعداد میں شامل ہو نا شروع کر دیا.بصورت دیگر ان کے لئے اس نئے مذہب کو قبول کرنا اتنا آسان نہ ہو تا.اپنی اس پالیسی سے پولوس نے لوگوں کے لئے اس نئے مذہب میں دھڑا دھڑ داخل ہونے کی راہ ہموار کر دکھائی.مگر راہ ہموار کر دکھائی کسی قیمت پر ؟ بد قسمتی یہ ہے کہ اس طرز عمل کے نتیجہ میں مقابلہ آپڑا ایک طرف پاکیزگی کی آئینہ دار مسیحی اقدار اور دوسری طرف ملحدانہ قصوں اور زمین و آسمان کے قلابے ملانے والی داستانوں کے مابین.تبدیلی پولوس نے صرف یہ کی کہ ملحدوں کے خداؤں کو مسیح ”باپ خدا اور روح القدس کے نام دے ڈالے.اس نے ان پر انے خداؤں کی بجائے ان نئے ناموں والے خداؤں کو لوگوں سے متعارف کرا دیا.فی الحقیقت یہ پولوس نہیں تھا جس نے تثلیث کی دیو مالائی کہانی خود اپنے دماغ سے اختراع کی اور اسے ملحدوں کی دنیا میں عیسائیت کے نام سے رواج دیا.بر خلاف اس کے اس نے یہ کیا کہ تثلیث کی دیو ملائی کہانی ملحدوں کے علم الاصنام سے مستعار لے کر اور اسے مسیحیت پر چسپاں کر کے اس کا حلیہ بدل ڈالا.اس کے بعد جو کچھ ہوا اور ہو تا چلا گیا وہ یہ تھا کہ الحاد تو علی حالم قائم رہا البتہ وہ نئے ناموں اور نئے چہروں کے ساتھ پنپتا رہا اور پھر پنپتا ہی چلا گیا.اس لحاظ سے سے اگر دیکھا جائے تو پولوسی مسیحیت دنیائے الحاد کے ملحدانہ عقائد اور دیو ملائی داستانوں کو بدلنے میں کامیاب نہ ہو سکی.اس ناکامی سے دوچار ہونے پر اس نے الٹا یہ کیا کہ انجام کار خود مسیحیت کو ان کے مطابق بدل کر رکھ دیا.اگر آواز دینے پر پہاڑ حرکت میں آکر اس کے پاس نہ آیا تو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود چل کر پہاڑ تک جاپہنچے.مراد یہ ہے کہ جب مسیحیت کے مطابق دوسروں کو بدلنے میں کامیاب نہ ہو سکا تو خود کو بدل ڈالا اور اپنے ساتھ میسحیت کو بھی بدل کر رکھ دیا.

Page 156

139 مسیحیت کا ارتقا مسیح کی اصل حقیقت پولوس کے منظر عام پر آنے اور اس کے مغربی سرزمینوں میں مسیحیت کا پرچار کرنے کے بعد مسیحیت واضح طور پر دو حصوں میں منقسم ہو گئی تھی.ایک تو تھی پولوسی مسیحیت اور دوسری تھی وہ اصل مسیحیت جس پر جیمز دی رائیٹیٹس اور اس وقت کے دوسرے عیسائی لیڈر (جو مسیح کے شاگرد بھی تھے) ایمان رکھتے تھے.بلا شبہ ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ ان دونوں کے مسیحی مسلکوں میں سے جس کے مسلک کو چاہے اختیار کرے لیکن ہم یہاں یہ بات بطور خاص واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ان میں سے جو اصل مسیحیت تھی وہ وحدانیت کے خطوط پر ہی پنپتی رہی اور اس نے اپنے آپ کو ان جدت طرازیوں سے الگ تھلگ اور پاک رکھا جو آگے چل کر مسیحی ایمانیات میں بے سروپا باتوں اور عجیب در عجیب گنجلکوں کا اضافہ کرنے کا موجب ہوئیں.ایسی بے سروپا باتوں میں بیٹے کی حیثیت سے مسیح کی اپنی الوہیت ، تثلیث ، موروثی گناہ، کفارہ، نجات اور جسمانی طور پر مسیح کے دوبارہ جی اٹھنے کے عجیب و غریب مسائل شامل ہیں.کلیسیا کے ابتدائی لیڈروں کے مذہبی نظریات ( جنمیں جیمز دی رائیٹیٹس کو نمایاں حیثیت حاصل ہے ) بہت سہل اور عام فہم تھے اور ان تضادات کی گنجلکوں سے پاک تھے جو پر اسرار دھند اور دھوئیں کی تہہ کے پیچھے چھپے ہوئے تھے.کلیسیا میں خدائے واحد پر ایمان رکھنے والے مسلک کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت ثابت ہوئے بغیر نہیں رہتی کہ تثلیث کے نعرہ سے یکسر مبرا توحید خالص کا عقیدہ سرکاری سطح پر اس وقت کے حقیقی کلیسیا کا طرہ امتیاز بنا رہا.ہم واضح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس مختصر مقالہ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ عیسائیوں کو خود مسیح کے اپنے عقیدہ سے منحرف کر کے انہیں کسی اور عقیدہ کا معترف بنایا جائے.اس مقالہ کی حیثیت محض ایک پر خلوص کوشش کی ہے اور وہ کوشش یہ ہے کہ مسیحی بھائیوں کو اس خالص مذہب اور طریق عمل کی طرف دعوت دی جائے جو مسیح کا اپنا مذ ہب اور طریق عمل تھا.کلیتہ اخلاص پر مبنی ہماری یہ درد مندانہ کوشش ہے کہ مسیحی بھائیوں کی توجہ قصے کہانیوں سے ہٹا کر ان کا رخ پھر عیسائیت کے اصل حقائق کی طرف پھیر دیا جائے.یہ حقائق صاف ستھری اور نکھری ہوئی اصلیت کے آئینہ دار ہونے کے باعث اتنے حسین ہیں کہ ان سے آگاہ ہو کر قلوب و اذہان کو عجب تسکین و طمانیت کا احساس ہوتا ہے.یہ مسیح کی حقیقت کے گرد دو ہزار سالہ قصے کہانیوں کے بنے ہوئے جال کی بدولت نہیں ہے کہ جس

Page 157

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 140 نے مسیحیت کے وجود کو مجتمع حالت میں بر قرار رکھا ہوا ہے اور نہ ان قصے کہانیوں نے اسے عقل اور سائنس کی بڑھتی ہوئی علمی روشنی کے نت نئے چیلنجوں سے بچانے میں اس کی مدد کی ہے اور نہ ہی عجیب و غریب دھندلکوں میں لیٹے ہوئے تثلیث کے عقیدہ نے اسے باقی رکھنے میں کوئی کردار ادا کیا ہے.جو چیز میسحیت میں پوشیدہ صداقت اور اس کی روح کو بر قرار رکھنے کا موجب ہوئی ہے وہ ہے خود یسوع مسیح کی شخصیت کی دلآویزی اور اس کی حقیقی تعلیم کا باطنی حسن.یہ بعد میں گھڑی جانے والی مصنوعی اُلوہیت کی آئینہ دار شخصیت نہیں بلکہ یہ انسان مسیح کے حسین اور مقدس و مطہر عمل و کردار کی کشش ہے جو اس کے ساتھ دلوں کی وابستگی کا موجب ہوئی ہے.نیک مقاصد اور مقدس اُصولوں کی خاطر دکھ اٹھانا اس راہ میں صبر کا اعلیٰ نمونہ پیش کرنا غیر متزلزل عزم و استقلال کا مظاہرہ کرنا اور اصولوں پر سودا بازی نہ کرنے میں تمام آمرانہ اور ظالمانہ کو ششوں کو پر کاہ کے برابر بھی وقعت نہ دینا مسیح کے یہ وہ اعلیٰ و ارفع اوصاف ہیں جنہوں نے مسیحیت کے وجود کے حق میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کیا اور جو اس کی پشت پناہ بن کر اسے قائم وبر قرار رکھنے کا موجب ہوئے.یہ اوصاف آج بھی اسی طرح حسین اور دلکش ہیں جس طرح کہ پہلے تھے.ان اوصاف نے عیسائیوں کے قلوب و اذہان کو اس قوت سے متاثر کیا کہ وہ آج بھی مسیح کے دامن سے وابستہ چلے آرہے ہیں.وہ عقائد کی بحثوں میں منطقی استدلال کی واضح خامیوں سے صرف نظر کر سکتے ہیں لیکن مسیح سے تعلق توڑنے پر آمادہ نہیں ہو سکتے.مسیح کی اصل عظمت کا راز اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ اس نے تاریکی کی زبر دست قوتوں کو جنہوں نے اسے ختم کرنے کی سازش کی تھی اور جو اسے کالعدم کرنے پر تلی ہوئی تھیں انہیں محض اور محض ایک انسان ہوتے ہوئے نہ صرف زیر کیا بلکہ ان پر زبردست فتح حاصل کی.مسیح کی یہ عظیم الشان فتح اس قابل ہے کہ اولاد آدم اس پر فخر کرے اور اس میں اپنے آپ کو شریک سمجھے.جب ہم اس تمام صورت حال پر وسیع تر اسلامی نقطۂ نگاہ سے نظر ڈالتے ہیں تو مسیح اولاد آدم کے بہت قابل احترام وجو دوں میں سے ایک نظر آتا ہے جس نے اپنے عملی نمونہ سے مصائب و شدائد کا نہایت پامردی اور ہمت و استقلال سے مقابلہ کرنے کا درس دیا.آزمائشوں اور ابتلاؤں میں گھرے ہوئے ہونے کے باوجود ہمت نہ ہارنا اور حق و صداقت پر مبنی اپنے موقف پر ڈٹے رہنا اور پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آنے دینا وہ عظیم الشان کارنامہ ہے جو مسیح نے انجام دے کر اپنے رنگ میں دنیا کے سامنے ایک مثال قائم کر دکھائی.یہ اس کی دکھوں بھری زندگی ہی

Page 158

141 مسیحیت کا ارتقا تھی جو انسانیت کو چار چاند لگانے کا موجب بنی اور جس نے اسے موت پر فتح بخش کر کامیابی کے ساتھ جینے اور مقصد حاصل کرنے کا ڈھنگ سکھایا.اگر وہ مقصد حیات کو فراموش کر کے رضا کارانہ طور پر مرنا قبول کر لیتا تو ایسا فعل مصائب و شدائد سے فرار کے مترادف ہوتا.کوئی اسے کس طرح بہادری اور شجاعت کے اقدام سے تعبیر کرتا.کیا جو لوگ نامساعد و پر مصائب حالات کے دباؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے خود کشی کے مر تکب ہوتے ہیں ان کے اس فعل کو بزدلی قرار نہیں دیا جاتا؟ زندہ رہ کر مصائب و شدائد کی چکی میں پسنے کو تر جیح دینا اور حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنا، مصائب سے چھٹکارے کی خاطر موت کو گلے لگانے اور زندگی کی بازی ہارنے سے بدرجہا افضل ہوا کرتا ہے.اس لحاظ سے انسانیت کے گناہوں کی خاطر موت قبول کرنے کی شکل میں مسیح کی بظاہر عظیم قربانی کا انسانیت کے گناہوں کی خاطر موت قبول کرنے کی شکل میں مسیح کی بظاہر عظیم قربانی کا تصور کھو کھلی اور بے وزن جذباتیت سے زیادہ اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتا.ہم پھر باصرار و به تکرار اس بات پر زور دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ مسیح کی عظمت اس امر میں پوشیدہ ہے کہ اس نے صرف ایک بار قربانی پیش کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ زندگی بھر مسلسل عظیم قربانی دیتا چلا گیا.زندگی بھر اس نے اس ترغیب و تحریص کا بڑی پامر دی اور بے جگری سے مقابلہ کیا کہ وہ دکھوں اور مسلسل پہنچنے والی تکلیفوں سے جان چھڑا کر سکھ چین اور آرام کی زندگی بسر کرے.ہر دن جو چڑھتا تھا اور ہر رات جو گزرتی تھی اسے موت در پیش ہوتی تھی کہ وہ اس کی آغوش میں جاکر دکھوں سے نجات حاصل کرے.لیکن اس نے بزدلی نہیں دکھائی بلکہ مصائب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ زندہ رہا اور زندہ رہتا چلا گیا تا کہ جان جوکھوں میں ڈال کر گناہگاروں کو گناہوں سے پاک کرے اور اس طرح انہیں روحانی حیات سے ہمکنار کرتا چلا جائے.اس نے اپنے آپ کو موت کے حوالہ کرنے سے انکار کر کے اور اس کے آگے جھکنے اور گھٹنے ٹیکنے سے منہ موڑ کر موت پر فتح پائی.اس نے لوگوں کو گناہوں کے ذریعہ ہلاک کرنے والی موت کو چاروں طرف سے گھیر کر اسے چاروں شانوں چت کر دکھایا اور اس طرح اس کے شکنجے سے بہتوں کو نکالنے میں کامیاب رہا.اس سے کم ہمت کوئی اور ہوتا تو دوسروں کو بچانا تو کجا خود تباہ ہوئے بغیر نہ رہتا.اس طرح اس نے اپنی صداقت کو آشکار کر دکھایا اور اپنے وعدے کو پورا کر کے چھوڑا.یہی تو اس کی وہ خوبی ہے جس کی وجہ سے ہم اس کی عزت کرتے ہیں اور اس سے اس قدر محبت رکھتے ہیں.وہ اپنی مرضی اور اپنی خواہش سے نہیں بولتا تھا بلکہ خدا کے کہے سے بولتا تھا اسی لئے اس کی آواز خدا کی آواز تھی.اس نے وہی کچھ کہا جس کے کہنے پر وہ مامور کیا گیا تھا.اس میں کمی بیشی کیے بغیر بعینہ وہی اس نے کہہ دکھایا اور پھر

Page 159

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 142 اسے پورا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھار کھی.زندگی بھر اس نے صرف اور صرف خدا کی عبادت کی اور کسی فانی انسان سے اس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ اس کے اپنے آگے یا اس کی ماں کے آگے یاروح القدس کے آگے جھکے اور ان کی عبادت کرے.یہ ہے مسیح کی اصل حقیقت جس کی طرف ہم تمام فرقوں اور گوناگوں عقیدوں کی طرف منسوب ہونے والے مسیحیوں کو واپس لوٹنے کی دعوت دیتے ہیں.مذہب کا تسلسل ہم مذہب کے تسلسل اور اس کی آفاقیت پر ایمان رکھتے ہیں اور مذہب کی اس آفاقیت کی وجہ سے ہی ہم مقام نبوت کو ایک آفاق گیر مظہر حقیقت یقین کرتے ہوئے اس کی اہمیت پر بہت زور دیتے ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے نزدیک خدا کی طرف سے مبعوث ہونے والے تمام نبیوں کو تسلیم کرنا اور ان پر ایمان لانا ضروری ہے.زمرہ انبیاء میں سے کسی ایک نبی کا انکار جملہ انبیاء کے انکار کے مترادف ہوتا ہے.در حقیقت انسان نبیوں کے آگے سر تسلیم و اطاعت اس لئے خم کرتا ہے کہ وہ سب ایک ہی خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ صرف اور صرف اس کی عبادت کی طرف نوع انسانی کو بلاتے ہیں.اس سیاق و سباق میں تسلسل ” کے لفظ کو بایں معنی سمجھنا چاہیے کہ جیسا کہ دو چیزوں میں ایک جیسی کیفیت اور بنیادی نوعیت کی یکسانیت پائی جاتی ہے.مذہب کے اس تسلسل سے زندگی یعنی حیات میں پائی جانے والی ارتقائی کیفیت ہر گز مراد نہیں ہے.ہم تمام شعبوں میں انسانی جد وجہد کی عمومی ترقی کے مطابق قدم بہ قدم ملنے والے پیغام کی ترقی پذیر کیفیت کے قائل ہیں.ظاہر یہ ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے آنے والے مذاہب کی ابتدائی شکلیں اگر چہ ایک ہی نوعیت کی بنیادی تعلیمات پر مشتمل ہوتی تھیں لیکن تفصیلی ہدایات کے اعتبار سے وہ حسب حالات و حسب ضرورت نسبتا چھوٹے دائروں پر محیط ہوتی تھیں.کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حسب ضرورت اوامر و نواہی کی تعداد محدود ہوا کرتی تھی.پھر رفتہ رفتہ ان اوامر و نواہی کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور یہ انسانی جہد و عمل اور جدوجہد کے وسیع تر حلقوں یا میدانوں پر محیط ہوتی چلی گئی.مزید بر آں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جن مذاہب کا تعلق قدیمی تہذیبوں سے تھا ان کے مخاطب خاص قبیلوں یا برادریوں یا علاقوں کے لوگ ہوتے تھے.ان کے لائے ہوئے پیغام کی نوعیت بھی علاقے ، وقت اور زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق محدود ہوتی تھی.اس لحاظ سے انہیں قبائلی، گروہی یا قومی مذہب قرار دیا جاسکتا ہے.بنی اسرائیل اور دیگر یہودیوں کو جو تعلیمات ملیں ان کا معاملہ ایک بہت مناسب اور کار آمد مثال کی

Page 160

143 مسیحیت کا ارتقا حیثیت رکھتا ہے جس سے اس کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے.الہذا مذ ہب کے تعلق میں تاریخی رجحان کی ترقی کو دو حلقوں کی نسبت سے مختصر آیوں بیان کیا جا سکتا ہے: 1.نازل ہونے والی تعلیموں کی درجہ بدرجہ ترقی پذیر تفصیل و توضیح اور اپنے محدود دائرہ میں نسبتی لحاظ سے ان کی مرحلہ وار تکمیل.2.تعلیم کے نسبتاً چھوٹے درجہ سے بڑے اور وسیع تر درجہ کی طرف ترقی پذیر منتقلی اور اس کا تکمیلی مرحلہ مذہب کے تسلسل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو مذہب آدم پر ظاہر کیا گیا تھا وہی مذہب گرہ ارض پر پھیلنے والے تمام بنی نوع انسان کو مخاطب کرتا چلا گیا اور اس میں درجہ بدرجہ ترقی پذیر تبدیلی آتی چلی گئی اور اس طرح اس کے دائرہ ہدایت اور دائرہ خطابت میں وسعت پیدا ہوتی رہی بلکہ مذکورہ تسلسل سے مطلب یہ ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں جو تہذیبیں جڑ پکڑتی اور پنپتی رہیں وہاں الہام الہی کے نتیجہ میں ایسے مذاہب معرض وجود میں آتے رہے جو دنیا کے ان حصوں میں انسان کی معاشرتی ترقی سے ہدایت و رہنمائی کے رنگ میں مناسبت رکھتے تھے.ایسے تمام مذاہب حسب ضرورت جہاں جہاں بھی معرض وجود میں آئے وہ اسی انداز اور اسی سمت میں ترقی کرتے رہے.مذہبی ترقی کی معراج ہمارے یقین اور ایمان کے مطابق متعدد حیثیتیں رکھنے والے ایسے ہی مذاہب میں سے ایک مذہب مشرق وسطی کے علاقہ میں پرورش پارہا اور پنپ رہا تھا.جو ایسے بڑے بڑے مذاہب کو معرض وجود میں لانے کا موجب بنا جنہوں نے دنیا میں مذہبی عروج و ارتقا کے حق میں بنیاد کا کام دینا تھا.مذہبی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ یہودیت کے بعد عیسائیت اور پھر اسلام کا یکے بعد دیگرے آنا مذہبی تعلیم کے ارتقا کی سمت کو اجاگر کیسے بغیر نہیں رہتا.ان مذاہب کے مطالعہ سے ان کی تعلیموں میں آگے کی سمت یا پیچھے کی سمت حرکت (یعنی پیش قدمی یا پسپائی کا بآسانی پتہ لگایا جاسکتا ہے اور ان میں پائے جانے والے باہمی ربط کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے.لہذا سلسلہ وار رونما ہونے والے احوال و واقعات کے اس عظیم منصوبہ کے مالہ وماعلیہ کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے جس نے ان تعلیموں کو درجہ کمال تک پہنچانے پر منتج ہونا تھا اور جو فی الحقیقت ان تعلیموں کی معراج کے طور پر ایک عالمگیر مذہب یعنی اسلام کے ظہور پر منتج ہو کر رہا.اس سیاق و سباق کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات یہودیوں کے اپنے حق میں ہے کہ وہ ہر قسم کے

Page 161

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 144 تعصبات سے بالا ہو کر پوری سنجیدگی سے یسوع مسیح کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کریں.اسے شناخت کرنے میں ناکام رہ کر یہود کا معاملہ ان بے شمار انواع و اقسام کی نامیاتی مخلوق جیسا ہو جاتا ہے جو تاریخ ارتقا کی اتھاہ گہرائیوں میں مدفون پڑی ہیں اور اب وہ درخت حیات کے بڑھنے اور اس کے چوٹی تک پہنچنے کے ارتقائی عمل میں کوئی اہم اور نمایاں کردار ادا نہیں کر رہیں.اپنی اس حالت میں وہ تاریخ کے ایک بچے کھچے غیر اہم حصہ کے طور پر شمار تو ہوتی ہیں لیکن وہ اپنے وجود کے ایک بہت تنگ دائرہ میں ہی زندہ و موجود رہنے پر مجبور ہیں.پھر مسیحیوں کا معاملہ بھی یہودیوں کے معاملہ سے چنداں مختلف نہیں ہے.وہ ان سے صرف ایک قدم آگے ہیں.اور تاریخی و زمانی ترتیب کے لحاظ سے اسلام کے ذرا زیادہ قریب ہیں.بایں ہمہ یہ بات اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ یسوع مسیح کے اصل راستہ سے منحرف ہونے کے بعد انحطاط کی طرف لے جانے والے اس راستہ پر پڑ کے جو ابتدا پولوس نے متعین کیا تھا اس راستہ نے مسیحیوں کو یہودیوں سے بھی کہیں زیادہ اسلام سے دور کر دیا.یہودیوں نے اپنے وجود میں آنے پر چار ہزار سال گزارنے کے باوجود اور کچھ نہ سہی کم از کم توحید کا سبق بڑی پختگی سے سیکھ لیا ہے جو کسی بھی مذہب میں روحانی زندگی کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے.لیکن بعض بنیادی عقائد میں اسلام سے اس قربت کے باوجود بعض دوسرے عوامل ایسے ہیں جنہوں نے انہیں بہت بڑی تعداد میں قبول اسلام سے انکار پر مصر رہنے میں سنگ خارا بنا چھوڑا ہے.غور و فکر کے آئینہ دار اس مطالعہ کے نتیجہ میں میں یہ یقین کرنے پر مجبور ہوں کہ جب تک یہود اپنی افتاد طبع اور طرز فکر میں وہ تبدیلی پیدا نہیں کریں گے جس کا پیدا کرنا مسیح کی آمد اول کو سمجھنے اور شناخت کرنے کے لئے ضروری ہے وہ بعض عقائد میں مسلمانوں کے ساتھ یکسانیت کے باوجود اسلام سے مسیحیوں سے بھی زیادہ دور اور پرے رہیں گے.انہوں نے اپنے اور حضرت محمدصلی ا ظلم کی بعثت کے درمیان تعلق یا رابطہ قائم کرنے والی نہایت اہم کڑی یسوع مسیح کو ہی اپنے ہاتھ سے گنوادیا.آسمانی صداقت کے اس انکار اور صریح استر داد نے انہیں ایسا پتھر دل بنا دیا ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر کوئی نیا پیغام قبول کرنے کی صلاحیت سے ہی بے بہرہ ہو چکے ہیں.مسیح آکر جا بھی چکا ہے اور وہ ہیں کہ ہنوز مسیح کی آمد کا انتظار کیے جارہے ہیں.ایک دفعہ اسے شناخت کرنے میں ناکام رہنے کے بعد اس کا بہت ہی کم امکان ہے کہ وہ اس کی آمد ثانی میں اسے شناخت کر لیں گے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقدر ہی یہ ہے کہ وہ خوابوں میں بسے ہوئے اپنے مسیحا کا ابد تک انتظار کرتے رہیں.

Page 162

145 مسیحیت کا ارتقا مسیح نے ارفع تر مذہب یعنی اسلام کی پیروی کے لئے راستہ ہموار کرنا تھا.ہمارے اس بیان کو پتھر کی لکیر سمجھ کر اس سے غلط مطلب اخذ کرنا نہیں چاہیے.ہمارے کہنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ یہودی پہلے عیسائیت کو قبول کریں اور پھر اسلام کی طرف قدم بڑھائیں.اگر ایسا سمجھا جائے تو مذہبی صداقتیں ظاہر ہونے اور ان کے منظر عام پر آنے کے طریق سے متعلق ایسی سمجھ انتہائی سادہ لوحی کی آئینہ دار ہو گی.ہم جو کچھ کہنے یا بتانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک قوم جس نے ایک ایسے نبی یا پیغمبر کا انکار کر دیا جو ایک عام نبی نہیں تھا بلکہ جس نے ایک ارفع ترصداقت کے ظاہر ہونے سے پہلے اس قوم کی ذہنی اور روحانی تربیت کا اہم کام انجام دینا تھا اس کا ایسے نبی کو مسترد کر دینا اس بات کی علامت ہے کہ وہ قوم ایک گہری نفسیاتی اور روحانی بیماری میں مبتلا ہے.سو جب تک اس کا یہ مرض دور نہیں ہوتا اور جب تک صداقت کے بارہ میں اس کے بگڑے ہوئے رویہ اور کج روی کی آئینہ دار روش کی اصلاح نہیں ہوتی اس قوم کے بارہ میں اس امر کا امکان بہت کم ہے کہ وہ ایک ایسے نبی کی پیروی کرے جو تعلق جوڑنے والی اس کڑی کے بعد مبعوث ہوا ہے جس کڑی کو وہ پہلے ہی خود اپنے ہاتھوں گنوا بیٹھی ہے.جہاں تک مسیحیوں کے اپنے رجحان اور طرزِ عمل کا تعلق ہے حضرت محمد رسول اللہ صلی ال نیم کی صداقت تک ان کی رسائی اسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے کہ وہ مسیح کی اصل حقیقت اور صداقت کی طرف واپس لوٹیں.مسیح انسانوں کو خدا تک پہنچانے والا راستہ ہی نہ تھا بلکہ تمام دوسرے نبیوں کی طرح اس عظیم الشان نبی کی بھی راہ دکھانے والا تھا جس کا اس کے اپنے بعد آنا مقدر تھا.مسیح کی بیان کردہ تاکستان (انگوروں کے باغ) کی تمثیل میں خود مسیح کی اپنی حیثیت ایک درمیانی کڑی تھی.اس کی رو سے خدا کی راہ دکھانے والے خدا کے آخری کامل نمونہ ( یعنی مظہر اتم الوہیت) نے ابھی آنا تھا.پس جب تک عیسائی صاحبان مسیح کے جھوٹ موٹ کے خیالی اور دیو مالائی تصور کو خیر باد کہہ کر اپنے روحانی آقا کی رفیع اور عظیم حقیقت کی طرف واپس نہیں آتے ان کی رسائی اس راستہ تک نہیں ہو سکتی جس راستہ پر چل کر مسیح کی محمد رسول اللہ صلی الی یوم تک رسائی ہوئی تھی.محمد رسول اللہ صلی ا یکم ایک زندہ و تابندہ حقیقت تھے کہانی یا قصہ نہیں تھے.اور حقیقتیں ہی دوسری حقیقتوں تک پہنچا سکتی ہیں.اس لئے مسیح کی کہانی نہیں بلکہ ان کی حقیقت ہی مسیحیوں کو محمد رسول اللہ صلی علی کم کی صداقت کو شناخت کرنے کی سعادت سے بہرہ ور کرے گی.

Page 163

Page 164

باب ہشتم مسیحیت آج کے دور میں آج مسیحیت کو جس سب سے بڑے مسئلہ کا سامنا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ لوگوں میں صداقت کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رہی یا اس میں کمی آرہی ہے بلکہ اصل مسئلہ اسے یہ در پیش ہے کہ لوگوں میں صداقت کو قبول کرنے کی خواہش اور امنگ ہی مفقود ہوتی جارہی ہے.در اصل بات یہ ہے کہ فی زمانہ مسیحیت (اس کی حیثیت افسانوی ہو یا حقیقی ) مغربی تہذیب کا جز ولا ینفک بنی ہوئی ہے.مغربی تہذیب کے نو آبادیاتی نظام کے قیام اور اس کی سامراجی فتوحات میں سب سے زیادہ عمل دخل اسی کا ہے.یہ ان کے سیاسی اور اقتصادی نظام کے لئے سہارے اور تائید و حمایت کا کام دے رہی ہے اور انہیں باہم اکٹھا رکھنے کی قوت مہیا کر کے انہیں ایک طاقتور اور متحدہ اکائی کی حیثیت سے قائم و بر قرار رکھنے کا موجب بنی ہوئی ہے.مغرب کے پیچیدہ سماجی، سیاسی اور اقتصادی نظام کی تعمیر اور اس کے استحکام میں بنیادی کردار عیسائیت نے ہی ادا کیا ہے.مغربی تہذیب یا مغربی سامراجی نظام اور اس کے اقتصادی غلبہ کی عملی شکل و صورت اور ہیئت اجتماعی میں مسیحی عناصر سرایت کیے ہوئے ہیں.اپنی موجودہ حالت میں میسحیت روحانی مقصدیت سے کہیں بڑھ کر مغرب کے مادی مفادات کا آلہ کار بنے کی طرف زیادہ مائل ہے اور اس جانب اس کے جھکاؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے.برخلاف اس کے از منہ گزشتہ میں اس کا جھکاؤ مسیحی عقائد اور ان کی روحانی اقدار کو آگے بڑھانے کی طرف تھا اور معلوم یہ ہوتا تھا کہ یہی اس کا مقصد حیات ہے.لیکن اگر دیکھا جائے تو تاریخی اہمیت کے اعتبار سے مسیحیت کا اصل کردار جس شکل میں ظاہر ہو اوہ یہی ہے کہ وہ فی زمانہ مغربی سامراجیت کو آگے بڑھانے کا موجب ثابت ہوئی ہے.مشرق کو فتح کرنے کی مہم مذہبی جذبہ وجوش کے ساتھ انجام دی گئی.بالخصوص وہ جنگیں جو مسلم سلطنت کے خلاف لڑی گئیں ان کا پر جوش جذبہ محرکہ ایک ہی تھا اور وہ تھا اسلام کے خلاف مسیحی بغض و عناد اور نفرت و حقارت کے دیرینہ جذبات.مسیحیت اور نو آبادیاتی نظام جب استعماری حکمرانی اور فرمانروائی نے امریکہ اور افریقہ کے پورے براعظم کو اپنے زیر نگیں کر لیا

Page 165

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 148 اور وہاں کی پوری آبادی کو اس نے سر سے پاؤں تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر بے بس کر دیا تو پھر ان کے ہاتھوں اور پیروں میں اقتصادی غلامی کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈالنے میں بھلا کیا دیر لگتی تھی.سیاسی غلامی کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے اقتصادی غلامی بھی ان پر مسلط کر دی گئی.اگر مفتوحہ علاقوں کے لوگوں کو اقتصادی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا نہ جائے تو سامراجی فتوحات بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں.افریقہ میں سیاسی اور اقتصادی غلامی کے پیچھے پیچھے ان پادریوں کی آمد کا مقصد ان کے سیاسی اور اقتصادی پیش رو فاتحین کے مقصد سے بالکل متضاد نظر آتا تھا.انہوں نے آکر اعلان یہ کیا کہ وہ غلام بنانے کے لئے نہیں بلکہ افریقہ کی روحوں کو آزادی کی نعمت سے مالا مال کرنے آئے ہیں.یہ امر واقعی تعجب انگیز ہے کہ اہل افریقہ نے ان کو بظاہر نیک نظر آنے والے اس ارادہ پر کوئی اعتراض نہ کیا.انہوں نے کلیسیا کے ان نووارد مشفق و مہربان خادمان خلق سے بصد ادب یہ کیوں نہ دریافت کیا کہ انہیں صرف اور صرف ان کی روحوں پر ہی کیوں ترس آرہا ہے؟ کیا خود انہیں نظر نہیں آرہا تھا کہ ان کے جسموں کو بڑی بے رحمی سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے؟ کیسے اندھادھند ظالمانہ طریق پر ان کی سیاسی آزادی کو لوٹ کر انہیں بے دست و پا کر دیا گیا ہے ؟ ان مشفق و مہربان اور سراپا حسن و احسان پادریوں کو ان کی جسمانی غلامی کی حالت زار پر کیوں رحم نہ آیا؟ اور ان کی ہمدردی غلام بنائے جانے والے بے بس لوگوں کی روحوں کو آزادی سے ہمکنار کرنے تک ہی کیوں محدود ہو کر رہ گئی ؟ یہ امر ظاہر و باہر تھا کہ یہ صورت حال ایک واضح تضاد کی حامل تھی لیکن افسوس ! یہ تضاد ان لوگوں کی نظر سے اوجھل رہا جو ان مسیحی منصوبوں اور سازشوں کا شکار ہوتے چلے گئے.آج بھی افریقہ اتناہی بھولا اور سادہ لوح ہے جتنا آج سے دو سو سال پہلے تھا.اہل افریقہ ابھی تک اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ ایک نئے قسم کے نو آبادیاتی نظام کے بظاہر دور از کار لیکن اپنے قابو میں لانے اور زیر تسلط رکھنے کے خفیہ اور پُر اسرار طریق کار کے ذریعہ ان کی اقتصادی غلامی کو دوامی حیثیت دینے کی کوشش کی جارہی ہے.وہ ابھی تک اس احساس سے عاری ہیں کہ انہیں مغرب کے زیر نگیں اور مغلوب رکھنے کا ایک ذریعہ مسیحیت بھی ہے.یہ ذریعہ ایک ایسی افیون آمیز دوا کی حیثیت رکھتا ہے جس نے لوریاں دے دے کر اور گہری نیند سلا کر ان پر خود فراموشی کی کیفیت طاری کر دی ہے.مسیحیت اگر وہ دیکھیں اور غور کریں ، ان کے اپنے اندر یہ جھوٹا احساس پیدا کرنے کا ذریعہ ہے کہ وہ اپنے حاکموں کے ساتھ کسی نہ کسی حد تک برابری کی سطح پر آکر ان

Page 166

149 مسیحیت آج کے دور میں جیسے ہی بن گئے ہیں.کہنے کو اس میں اپنائیت کا جذبہ مضمر ہے لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ اپنائیت ہے کس نوعیت کی؟ اپنائیت کے اس جذبہ نے انہیں نہایت مہنگے مغربی انداز زیست کی نقل کرنے کی ترغیب دلائی ہے.اگر اس کو ایک اور نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ درخت اب بھی اجنبی زمینوں میں ہی لگے ہوئے ہیں لیکن ان کے پھل سمندر پار سر زمینوں میں پہنچا کر وہاں کے لوگوں کو ان کے مزے اور ذائقہ کا نشہ کے رنگ میں چسکا لگا دیا گیا ہے.یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے اس امر کی کہ تیسری دنیا پر مغربی سامراج کا اقتصادی غلبه بر قرار رکھنے کے لئے عیسائیت ہمیشہ میٹھی چھری کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے.خود مغرب میں ایک عام آدمی اس امر کا کوئی لحاظ کیے بغیر کہ وہ مسیحی عقائد کی پیچیدگیوں اور الجھنوں کو سمجھتا ہے یا نہیں وہ مسیحیت کو اپنی ثقافت اور اپنی تہذیب کا ایک لازمی جزو سمجھتا ہے.یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مسیحی اقدار جہاں کہیں بھی پائی جاتی ہیں ان کی اصل جڑ دیو مالائی کہانیوں پر مبنی مخصوص نوعیت کے عقائد میں پیوست نہیں ہے اس کی بجائے ان کا تمام تر انحصار کرم نوازی، ہمدردی، دکھی انسانیت کی خدمت اور اسی طرح کی دوسری مسلمہ اقدار کو اہمیت دینے پر ہے.یہ عام انسانی اقدار ہیں اور ان کی اہمیت بین الا قوامی طور پر مسلم ہے.کلیسیا کی طرف سے منظم طور پر کئے جانے والے زبر دست پر اپیگنڈہ کی وجہ سے یہ اقدار میسحیت کے مترادف سمجھی جانے لگی ہیں.ہر چند کہ یہ دنیا کے تمام مذاہب کی مشتر کہ اقدار ہیں اور ہر مذہب میں ان اقدار کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور یہ خدا کی طرف سے اس لئے مقرر کی گئی ہیں کہ تمام بنی نوع انسان انہیں اپنا ئیں اور ان پر عمل پیرا ہوں تاہم بڑی ہوشیاری اور سمجھ داری سے عیسائی بہت منظم پر اپیگنڈے کے ذریعہ مسلسل اس امر پر زور دیتے چلے آرہے ہیں کہ یہ اقدار صرف مسیحیت کا خاصہ ہیں اور وہ لوگوں کو اس کا قائل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں.ہمدردی، مہربانی، خدا ترسی اور شرافت کا رویہ رسیلی نغمگی کی طرح دوسروں کو سحر زدہ کرنے کا موجب بنتا ہے.ان اقدار پر زور دینے کا یہ رومانوی انداز ہی ہے جو لوگوں کو زیادہ تر مسیحی مذہب کی طرف کھینچتا ہے.اس کے پہلو بہ پہلو اس رومانویت سے ماورا مغربی اند از زیست کی کشش، اہل مغرب کی سیاسی اور اقتصادی برتری نیز باقی دنیا کو اپنے زیر نگیں لانے کی روش یہ ساری باتیں بھی اپنا تاثر دکھا رہی ہوتی ہیں اور مسیحی منادا نہیں میسجیت کو تقویت پہنچانے میں استعمال کر رہے ہوتے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی عقائد کے تضادات جو ان کے دینی مزاج میں رچ بس گئے ہیں کسی نہ کسی

Page 167

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 150 طور پر ان کے عام دنیوی طرز عمل میں بھی راہ پاتے اور منتقل ہوتے رہے ہیں.اسی لئے مہربانی، عاجزی، رواداری، قربانی و ایثار اور اسی طرح کے دوسرے نیک الفاظ کی زبانی اور عملی بازگشت کے پہلو بہ پہلو ظلم و زیادتی، دھونس و دھاندلی، انتہائی نا انصافی اور دنیا کی نہتی و کمزور قوموں کو بڑے پیمانہ پر اپنے زیر نگیں لانے کانارواسلسلہ بھی جاری ہے.بالعموم قانون کی حکمرانی، عدل پروری، باہمی تعلقات میں صاف ستھری روش، اور حسن سلوک کو سکہ رائج الوقت کی طرح صرف مغربی معاشروں میں اندرونی طور پر ہی روار کھا جاتا ہے بر خلاف اس کے بین الا قوامی تعلقات کے شعبہ میں ان مسلمہ اوصاف و اقدار کو احمقانہ ، گھسی پٹی اور ناقابل عمل روش تصور کرتے ہوئے چنداں اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ انہیں عمد ا پامال کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا.سیاست، حکمت عملی، سفارت کاری اور اقتصادی روابط میں عدل و انصاف اور مساوات کی نہیں بلکہ صرف اپنے قومی مفادات کی پاسداری اور حکمرانی چلتی ہے.انسانی اقدار کو (جنہیں مسیحی اقدار کا نام دے کر کچھ کم فخر و مباہات کا اظہار نہیں کیا جاتا) مغربی سیاست اور اقتصادیات کے دائروں کی طرف آنے اور ان میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی.اس زمانہ کے دور جدید کا یہ سب سے زیادہ المناک تضاد ہے.جب تعریفوں کے پل باندھ کر مسیحیت کو متعارف کرانا ہو تا ہے تو اسے بڑے فخر سے دلکش مغربی تہذیب و ثقافت کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے اور اس طرح مشرقی دنیا کو تفکرات سے مبرا پر آزمائش اور آزاد زندگی کے سبز باغ دکھا کر ان کو دعوت دی جاتی ہے اور اس کا مشرق کے زوال پذیر معاشروں کے بالعموم غیر لچکدار قواعد و ضوابط سے مقابلہ کر کے مسیحیت کی برتری کے گیت گائے جاتے ہیں.تیسری دنیا کے نیم خواندہ عوام جو نام نہاد آزادی کے اس پیغام کی اصل حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں انہیں اس میں بڑی کشش محسوس ہوتی ہے.اس پر مستزاد یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عیسائیت کی شکل میں مذہب سے وابستگی بھی بر قرار رہ سکتی ہے اور ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ اپنائیت کا نفسیاتی فائدہ بھی حاصل ہو سکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ مسیحیت اس حربہ کے ذریعہ کچلے ہوئے طبقوں اور ظلم و دباؤ کا شکار اچھوت قسم کے لوگوں کو جو اپنے معاشروں کے انتہائی نچلے طبقوں میں شمار ہوتے ہیں بڑی تعداد میں اپنی طرف مائل کرنے اور انہیں اپنا حلقہ بگوش بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں.مسیحی عقائد اور ان کی نا معقول پیچیدگیوں کو سمجھنا ایسے لوگوں کی استعداد سے بالا ہوتا ہے.مسیحیوں کا یہ حربہ انہیں ان کے سماجی مرتبہ کو بلند کرنے کے خواب دکھاتا ہے جو

Page 168

151 مسیحیت آج کے دور میں کبھی شر مندہ تعبیر نہیں ہوتے.مندرجہ بالا تصریح سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ہم جس مسیحیت کی بات کر رہے ہیں وہ یسوع مسیح کی سکھائی ہوئی مسیحیت سے کس قدر مختلف ہے.مغربی ثقافت کو مسیحیت سمجھنا یا قرار دینا بالبداہت غلط ہے.مروجہ مسیحیت اور اس کے مختلف شعبوں کو مسیح کی طرف منسوب کرنا اس کی کھلی کھلی تو ہین کے مترادف ہے.یقیناً ہر قاعدہ قانون میں استثنا کی گنجائش ہوتی ہے.انسانوں کے کسی بڑے گروپ یا سوسائٹی پر کسی وضاحتی بیان کو اس کی پوری تفاصیل کے ساتھ چسپاں کرنا ممکن نہیں ہوا کرتا.بلاشبہ دنیائے عیسائیت میں زندگی اور امید کے حامل انفرادی نوعیت کے بعض چھوٹے چھوٹے جزیرے بھی ملتے ہیں جہاں مسیحیت محبت اور قربانی و ایثار کے اصولوں پر فی الحقیقت عمل کیا جاتا ہے.لیکن یہ وہ نھے منھے جزیرے ہیں جن کے گرد بے دینی، بے عملی اور بد قماشی کے سمندر ٹھاٹھیں مار رہے ہیں اور وہ آہستہ آہستہ ان کے کناروں میں کٹاؤ ڈال ڈال کر انہیں اپنے اندر ہڑپ کرتے جارہے ہیں.اگر دنیائے عیسائیت میں کہیں کہیں ایک دوسرے سے بہت دور فاصلہ پر واقع ہیروں جیسی چمک دکھانے والے یہ چھوٹے چھوٹے جزیرے بھی (جن میں مسیحیت پر اس کی اصل روح کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے ) نہ ہوں تو مغرب کا افق مکمل تاریکی کی لپیٹ میں آجائے.اس رہی سہی اور بچی کھچی مسیحیت کے بغیر مغربی تہذیب میں فی ذاتہ روشنی کی کوئی رمق بھی موجود نہیں ہے.لیکن افسوس ! اب یہ مدھم روشنی بھی مدھم تر بلکہ معدوم ہوتی جارہی ہے.دنیائے عیسائیت کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ مسیح کی اصل حقیقت کی طرف واپس لوٹے اور وہ اپنی بکھر نے اور تتر بتر ہونے والی شناخت اور باطنی منافقت سے پیچھا چھڑانے اور اس طرح روحانی طور پر شفایاب ہونے کی کوشش کرے.دیو مالائی قصے کہانیوں اور ماورائی داستانوں کی خیالی دنیا میں زندگی بسر کرنا اور کرتے چلے جانا مہیب خطرات میں گھرتے چلے جانے کے مترادف ہے.ہماری اس کوشش اور کاوش کا مقصد یہی ہے کہ ہم دنیائے عیسائیت کو ان حقیقی خطرات سے آگاہ کریں جو عقیدہ اور عمل کے مابین پائی جانے والی خلیج کے وسیع اور وسیع تر ہوتے چلے جانے کی وجہ سے مسلسل بڑھتے چلے جارہے ہیں.دیو مالائی کہانیاں اس وقت تک ہی حسین لگتی ہیں جب تک وہ معاشرہ کے نچلے طبقوں کو مذہبی پیشوائیت کے نظام کے تابع رکھنے میں ممد ثابت ہو رہی ہوتی ہیں.انہیں قابو میں رکھنے والا یہ نظام ان کی جہالت سے فائدہ اٹھا کر انہیں سحر آفریں، سراسر غیر حقیقی روحانیت کے نشہ میں مدہوش بنائے رکھتا ہے.لیکن جب ناگزیر حالات کے پیش نظر یہ مرحلہ آتا ہے کہ حقیقی عقائد روحانی مردوں کو زندہ کرنے میں پھر اہم کردار ادا کریں اور

Page 169

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 152 تیزی سے گرتی ہوئی اخلاقی اقدار کو پھر بحالی سے ہمکنار کریں تو پھر دیو مالائی کہانیاں کسی کام نہیں آیا کرتیں.ان کی حیثیت خیالی پلاؤ یا سہانے سپنوں سے زیادہ نہیں ہوتی.ایسے خیالی پلاؤ اور سہانے سپنے انسانی معاملات میں کبھی کوئی معنی خیز کردار ادا نہیں کر سکتے.بالآخر ایک وقت آتا ہے کہ جب ان سے جان چھڑائے بغیر چارہ نہیں رہتا.مسیح کی بعثت ثانی اب ہم ایک ایسے مرحلہ پر پہنچ چکے ہیں کہ جائزہ کے طور پر یہ بتا اور دکھا سکیں کہ ہم نے اب تک تبصرہ اور تجزیہ کے رنگ میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ عملی اعتبار سے کس حد تک موزوں، بر محل اور بر وقت ہیں.اس زمانہ میں انسانیت کی بقا کے اہم معاملہ کا یسوع مسیح کی شخصیت سے بہت گہرا تعلق ہے.اس لئے اس امر کو بے انتہا اہمیت حاصل ہے کہ ہم مسیح کی شخصیت کی اصل حقیقت کو پہچا نہیں.وہ کیا تھا اور جب پہلی بار وہ آیا تھا تو اس نے یہودیت کے بگڑے ہوئے اور انحطاط پذیر معاشرہ میں کیا کردار ادا کیا؟ اب آخری زمانہ میں اس کے دوبارہ آنے کے وعدہ کو کس قدر سنجیدگی سے لینا اور اسے اہمیت دینا ضروری ہے ؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن پر غور کر کے صحیح نتائج تک پہنچنا بہت ضروری ہے.بالفرض اگر یسوع مسیح کی شخصیت حقیقی نہیں تھی بلکہ وہ تھی ہی انسانی تخیل کی پیداوار تو پھر اس کی آمد ثانی کو تصور میں لانا ہی ممکن نہیں رہتا.اس امر کا تذکرہ ہم نے اس لئے کیا ہے کہ مسیح خواب و خیال کی یداوار نہ تھا.وہ ایک حقیقی انسان تھا.انسان ہونے کے ناطے وہ اپنی آمد ثانی کے زمانہ میں بھی ایک انسانی بچہ کے طور پر ہی پیدا ہو سکتا ہے.نہ یہ کہ کسی بھوت پریت یا ماورائی مخلوق کے طور پر ظاہر ہو محض خواب و خیال میں یہی ہو ئی ہستیاں انسانی زندگی اور اس کے حقائق کا روپ کبھی نہیں دھارا کر تھیں.جولوگ خواب و خیال اور قصے کہانیوں کی دنیا میں جی رہے ہوتے ہیں ان کے لئے ممکن نہیں ہو تا کہ جب ان کے درمیان کوئی نجات دہندہ مبعوث ہو تو وہ اسے شناخت کر لیں.پیدا اگر عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق یسوع واقعی خدا کا بیٹا تھا تو پھر اس کی آمد ثانی کے بارہ میں یہی سمجھا جائے گا کہ وہ بڑی شان اور جاہ و جلال کے ساتھ اپنے فرشتوں کے جلو میں ان پر ہاتھ رکھے واپس آئے گا.لیکن اگر یہ محض ایک رومانوی خیال آفرینی اور تصور کا نیرنگ کمال ہے تو ایسی صورت میں بڑی شان اور جاہ و جلال کے ساتھ واپس آنے کا واقعہ کبھی پیش نہیں آئے گا.دنیا اس انوکھے واقعہ کو رونما ہوتے ہوئے کبھی نہ

Page 170

153 مسیحیت آج کے دور میں دیکھے گی.خدا انسان کے روپ میں اس شان سے اتر رہا ہے کہ فرشتوں کے ایک جم غفیر نے اسے سہارا دیا ہوا اور ساتھ کے ساتھ وہ اس کی حمد کے ترانے بھی گارہے ہیں.یہ پورا تصور ہی ایسا ہے کہ انسانی عقل و دانش اور منطق نیز انسانی ضمیر ان میں سے ہر ایک اس سے کراہت محسوس کرتا اور اسے دھتکار دیتا ہے.یہ پریوں کی کہانیوں کی طرح سراسر لا یعنی ایک ایسی کہانی ہے جو انسانی استعدادوں اور صلاحیتوں کو تھپک تھپک کر سلا دینے کے لئے پہلے شاید ہی کبھی گھڑی گئی ہو.بر خلاف اس کے اگر یسوع مسیح کی حیثیت اور مقام کے متعلق فہم و ادراک پر پورے اترنے والے جماعت احمد یہ کے نظریہ اور عقیدہ کو تسلیم کر لیا جائے تو سہانے خوابوں کی پوری تخیلاتی صورت حال حقیقت کے آئینہ دار ایک ایسے منظر نامہ میں بدل جاتی ہے جو نہ صرف انسانی فہم کے لئے قابل قبول ہے بلکہ وہ جسے نوع انسانی کو پوری تاریخ کی زبر دست تائید و حمایت حاصل ہے ایسی صورت میں ہم ایک ایسے نجات دہندہ کے منتظر ہوں گے جو بعثت اولی کے مسیح سے ہر گز مختلف نہیں ہو گا.ہم ایک ایسے عاجز انسان کے مبعوث ہونے کی توقع کر رہے ہوں گے جو بعثت اولی کے مسیح کی طرح عام انسانوں کے مانند پید اہو اہو گا اور جو اپنی اصلاحی مہم کا اسی انداز سے آغاز کرے گا جیسے کہ پہلے مسیح نے کیا تھا.وہ مذہبیا انہی لوگوں میں سے ہو گا جو اپنے اعمال و کر دار اور حال احوال کی رو سے یہودیہ (Judea) کے یہودی باشندوں سے مماثلت رکھتے ہوں گے اور وہ لوگ اس کے موعود مصلح ہونے کے دعوی کو جھٹلا کر نہ صرف اس سے لا تعلقی کا اعلان کریں گے بلکہ اسے اور اس کے مشن کو ملیامیٹ کرنے کے لیے وہ سب حربے استعمال کریں گے جنہیں استعمال کرنا ان کے بس میں ہو گا.دوسری بار آنے والا مسیح وہ پوری زندگی دوبارہ بسر کرے گا جو پہلی بار آنے والے نے اس سر زمین پر بسر کی تھی اور اس کے ساتھ بھی پہلے جیسا ہی نفرت بھرا، اہانت آمیز اور کبر و غرور کا آئینہ دار سلوک کیا جائے گا.وہ اپنے لوگوں کے ہاتھوں دکھ نہیں اٹھائے گا بلکہ ایسی ہی معاند طاقتوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے گا جنہوں نے بعثت اولی کے وقت پہلے مسیح کی مخالفت کی تھی اور اسے ظلم و ستم کا تخیر مشق بنایا تھا.وہ نیا آنے والا اس عظیم بیرونی حکمران طاقت کے ہاتھوں بھی دکھوں میں مبتلا کیا جائے گا جس کے زیر تسلط وہ محکوم لوگوں میں پید ا ہوا ہو گا.بیسویں صدی کے اوائل زمانہ کے ایک ممتاز روسی صحافی پی.ڈی.آؤں پنسکی.P.D) (Ouspensky نے مسیح کی آمد ثانی کے موضوع پر لکھتے ہوئے اپنی کتاب میں اس جیسے ہی نظریہ کا اظہار کیا ہے.وہ لکھتا ہے :-

Page 171

154 مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک یہ کسی لحاظ سے بھی کوئی نیا نظریہ نہیں ہے کہ اگر بعد میں آنے والے کسی زمانہ میں پید اہو ا تو نہ صرف یہ کہ وہ اس وقت کے مسیحی کلیسیا کا سر براہ نہیں بن سکے گا بلکہ اغلبا اس کا مسیحی کلیسیا سے کوئی تعلق یا واسطہ ہی نہ ہو گا.ہو گا یہ کہ کلیسیا کے بہت ہی پر شکوہ اور قوت و اقتدار کے دور میں اس نو وارد مدعی مسیحیت کے ملحد ہونے کا اعلان کر دیا جائے گا اور اسے تعذ یہی ستون یا کھمبے سے باندھ کر نذر آتش کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی.خود ہمارے انتہائی روشن خیال زمانہ میں کلیسیا نے اپنے مخالف مسیح کے خدوخال اور خصائص کو اگر ترک کیا بھی ہے تو ظاہر ی لحاظ سے کیا ہے ( فرق یہ پڑا ہے کہ اب وہ انہیں چھپانے لگے ہیں.شاید مسیح فقیہوں اور فریسیوں کے ہاتھوں دکھ اٹھائے اور ظلم سے بغیر ( آبادیوں سے دور ) صرف روسی راہب خانہ میں ہی زندگی گزار سکتا تھا.“ (P.D.Ouspensky, ‘A New Model of the Universe' p.149-150.Kegan paul, Trench, Trubener & Co.Ltd.1938) یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے مطابق خدائی پیغمبر اور آسمانی مصلح دنیا میں بھیجے جاتے ہیں.اس کے سوانبیوں اور مصلحین کے مبعوث کیے جانے کا جو بھی تصور یا نظریہ ہے وہ محض بناوٹی اور جعلی ہے اور اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتا.ہمیشہ یہی ہوتا ہے اور ہمیشہ یہی ہوتا چلا آرہا ہے کہ جب آسمانی پیشگوئیوں کے مطابق خدائی ماموروں کی بعثت ظہور میں آتی ہے تو وہی لوگ جن کی اصلاح اور نجات کے لئے ان ماموروں کو بھیجا جاتا ہے انہیں شناخت کرنے میں ناکام رہتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ تاریخ کے اس مرحلہ میں وہ پہلے ہی اپنے آنے والے مصلح اور نجات دہندہ کی ہستی کو حقیقت کی بجائے تصوراتی سانچے میں ڈھال چکے ہوتے ہیں.وہ تو قع یہ کر رہے ہوتے ہیں کہ آنے والے مصلح کا ان کے خواب و خیال میں جو نقشہ بسا ہوا ہے اس کے مطابق ہی کوئی مصلح ان کی نجات کے لئے مبعوث ہو گا.جبکہ تاریخی حقیقت اسی انداز میں اپنے آپ کو دہراتی ہے جس انداز میں وہ سب سے پہلے مصلح کی بعثت کے وقت سے اپنے آپ کو دہراتی چلی آرہی ہے.آسمانی مصلح ہمیشہ عاجز انسانوں کی حیثیت سے ظاہر ہوتے ہیں.وہ انسانی ماؤں کے بطن سے ہی جنم لیتے ہیں اور اپنی زندگی میں وہ ہمیشہ انسان ہی تصور کیے جاتے ہیں اور انسانوں والا سلوک ہی ان کے ساتھ روار کھا جاتا ہے.ان کی وفات کے بہت بعد ایسا ہوتا ہے کہ لوگ انہیں خدائی صفات سے متصف کرنے اور انہیں رفتہ رفتہ خدا کا

Page 172

155 مسیحیت آج کے دور میں درجہ دینے کی مساعی کا آغاز کرتے ہیں.اسی لئے ان کی بعثت ثانیہ کے وقت یہ ناممکن ہو جاتا ہے کہ لوگ انہیں آسانی سے قبول کر لیں.جب اپنے خیالات کی دنیا میں مگن رہنے والے اس طرح کے مذہبی لوگوں کو آسمانی مصلحین کی صداقتوں کی حقیقتوں سے واسطہ پڑتا ہے جو ہمیشہ عام انسانوں کی طرح ظاہر ہوتے ہیں تو وہ انہیں فی الفور مستر د کر دیتے ہیں.جب کوئی کسی پری کے آنے یا بھوت پریت کے ظاہر ہونے کا منتظر ہو وہ اس کی بجائے کسی عام انسان کے ظاہر ہونے کو کیسے قبول کر سکتا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ دنیا مسیح کی بعثت ثانی کو جو پہلے ہی ظہور میں آچکی ہے مشاہدہ کرنے اور پہچاننے میں ناکام رہی.اس نے ظاہر ہونے والے مسیح کی طرف کوئی توجہ نہیں دی.شاید بعض لوگوں کے نزدیک یہ ایک بہت بڑا دعوی ہو ( کہ مسیح کی بعثت ثانی پہلے ہی ظہور میں آچکی ہے پر بعثت اولی کی طرح اب کے بھی اسے پہچاننے میں ناکام رہی) اور عین ممکن ہے کہ اکثر قارئین اس دعوی کو یکدم مسترد کر دیں اور سوچیں کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ مسیح آیا بھی اور چلا بھی گیا اس حال میں کہ دنیا کو اس کے آنے کی کوئی خاص خبر نہ ہوئی اور اس نے اتنے اہم واقعہ کی طرف کوئی توجہ ہی نہ کی؟ وہ اس طرح کیسے آسکتا اور آنے کے بعد واپس جا سکتا تھا کہ پوری دنیائے عیسائیت اور سارے عالم اسلام نے اس کی طرف کوئی دھیان ہی نہ دیا؟ از منہ جدید نے ایسے بہت سے مدعی دیکھے ہیں جنہوں نے وقتی ہلچل مچائی لیکن آج وہ کہاں ہیں اور کون انہیں جانتا ہے؟ یہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ اس میں بہت سے ملکوں میں خودرو پودوں کی طرح نئے نئے مسلک پھوٹ نکلتے ہیں اور اسی طرح وقفہ وقفہ سے مسیح کے واپس آنے کے بڑے ہی انوکھے دعوے یا اس کے عنقریب آنے کا اعلان کرنے والے نقیبوں کے دعوے سننے میں آتے رہتے ہیں.شاید یہ دعویٰ بھی ایسے ہی دعووں میں سے ایک دعویٰ ہو سکتا ہے اس لئے ایک سنجیدہ مزاج شخص اس کے متعلق غور اور سوچ بچار سے کام لے کر اپنا وقت کیوں ضائع کرے؟ یہ صحیح ہے کہ اس بارہ میں بڑے ہی گہرے شبہات پیدا ہوں گے اور لوگوں کو ایک عجیب الجھن در پیش آئے گی لیکن ہم ایسے قاری کی توجہ ایک خاص امر کی طرف مبذول کرانے کی جسارت کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ وہ ذرا اس صورت حال کو ذہن میں لائیں اور ذہنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کریں کہ جب مسیح فی الحقیقت دنیا میں آجائے گا لیکن اس سے پہلے ذہنی طور پر یہ فیصلہ کرناضروری ہے کہ کیا اس کا آنا محض ایک خیال یا تصور کی حیثیت رکھتا ہے وہ بنفس نفیس یا اپنے کسی نمائندے کے ذریعہ فی الحقیقت دنیا میں دوبارہ آسکتا ہے؟ قبل اس کے کہ ہم لوگوں کے مندرجہ بالا شبہات کے ازالہ کے رنگ میں کچھ عرض کرنے اور جواب دینے کی

Page 173

میسحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک کوشش کریں اس سوال کو حل کرنا از بس ضروری ہے.156 کیا دنیا ( خواہ وہ عیسائی دنیا ہو یا مسلم دنیا) نفسیاتی طور پر اس ذہن اور مزاج کی حامل ہے کہ وہ یسوع کی آمد ثانی کو قبول کرنے کے لئے بے تاب بیٹھی ہو ؟ اگر وہ اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ کس شکل اور انداز میں اس کے آنے اور اسے قبول کرنے پر آمادہ ہے؟ جب مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کے واضع اور غیر مبہم نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو ان کے نزدیک اگر یسوع نے واپس آنا ہی ہے تو بڑی شان و شکوہ کے انداز میں اور بڑے ہی روشن نشانوں کے ساتھ آئے گا.وہ بقول ان کے دن کے روشن اُجالے میں آسمان سے، اپنے فرشتوں کا سہارا لیے اس طور سے نازل ہو گا کہ انتہائی شکی مزاج انسان کے لئے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کرنا ممکن نہ رہے گا.افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کی دنیا کے لئے محض خوابوں کی دنیا میں بسا ہوا ایک خیالی یسوع ہی قابل قبول ہے.ایسا یسوع نوع انسان کی پوری تاریخ میں پہلے کبھی ظاہر نہیں ہوا.اگر مذہبی تاریخ کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا جائے تو بیسیوں مثالیں ایسی نظر آتی ہیں کہ بانیان مذاہب یا دوسری مقدس ہستیوں کے بارہ میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ سب آسمان کی طرف صعود کر گئے تھے.ایسے دعاوی اس قدر وسیع پیمانہ پر اور اس قدر زیادہ تعداد میں ملتے ہیں کہ ان کا شمار بھی مشکل ہے.معلوم ایسا ہوتا ہے کہ عالمگیر سطح پر انسان میں یہ رحجان پایا جاتا ہے کہ اپنے مذہبی رہنماؤں کا مرتبہ بلند کرنے اور انہیں انسانیت کی حدود و قیود سے بالا ہستی کا حامل قرار دینے کے لئے وہ ایسی بے سر و پا کہانیاں ضرور گھڑ لیتے ہیں.سوال یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ ہم اس نوعیت کی مبینہ باتوں کو جنہیں دنیا کے اربوں انسان آج بھی درست تسلیم کرتے ہیں کیسے جھٹلا سکتے ہیں؟ صرف ان مسلمانوں اور عیسائیوں کی تعداد جو ان یا ان جیسے دوسرے انوکھے واقعات پر ایمان رکھتے ہیں اور انہیں دل سے سچا جانتے ہیں دو ارب سے بھی زیادہ ہے سو ایک قاری یہ پوچھ سکتا ہے کہ ہمیں یاد نیا میں کسی اور کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وسیع پیمانہ پر مسلمہ ایسے عقائد کو غیر حقیقی اور تصوراتی قرار دے کر ان کا انکار کر دیا جائے.ہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایسے دعاوی کو جھٹلانے اور یہ ثابت کرنے کے لئے کہ خود ان مذاہب کے صحائف (اور بالخصوص ان کے قدیم نسخوں) سے ان دعاوی کی تائید نہیں ہوتی، بے انتہا محنت و مشقت در کار ہو گی.ایک دفعہ مماثل و متبادل تو جیبات و تشریحات کی دھند میں قدم رکھنے کے بعد معاملہ آکر ختم ہو جاتا ہے انتخاب و ترجیحات پر یعنی کوئی کسی تشریح کو پسند کرتا ہے اور کوئی کسی اور تشریح یا توجیہ کو باقی تمام دوسری تشریحات و توجیہات پر ترجیح دیتا ہے.اس کے نتیجہ میں صحائف یا مر قومہ مذہبی

Page 174

157 مسیحیت آج کے دور میں تاریخ کو لفظاً لفظاً صحیح مانے یا اسے استعارہ کے رنگ میں تمثیلی حیثیت دینے کا مشغلہ ہر کسی کے لیے ایک کھیل بن کر رہ جاتا ہے.اندریں حالات باہم مخالف و متناقض تشریحات کی دلدل میں قدم رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ اس طرح یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے.اس بھاری مشقت سے بچنے اور الجھن سے نکلنے کا ایک راستہ ہم قارئین کو دکھا سکتے ہیں سو ہم انہیں اس راستہ کی طرف دعوت دیتے ہیں.اب یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے کہ چاہیں تو اس راستہ کو اختیار کریں اور چاہیں تو اسے رد کر دیں.بحث و تمحیص اور استدلال کی خاطر آئیے ہم ایسے تمام مذہبی رہناؤں کے بارہ میں دعاوی کو کہ وہ آسمان پر چڑھ گئے تھے درست تسلیم کر لیتے ہیں اور انہیں جس طرح کہ وہ بیان کیے جاتے ہیں لفظاً لفظاً درست مان لیتے ہیں.اگر یسوع مسیح کے آسمان پر جانے کے مبینہ واقعہ کو سطحی انداز میں جوں کا توں تسلیم کر لیا جائے اور اس کی آمد ثانی کو بھی لفظاً لفظاً مبنی بر حقیقت مان لیا جائے تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم دنیا میں بیان کیے جانے والے اسی طرح کے دوسرے واقعات کو درست تسلیم کرنے سے انکار کر دیں.الیاس، شاہ عالم یا اسلام میں شیعہ فرقہ کے بارہویں امام یا ہندوؤں کے خداؤں یا دوسری مقدس ہستیوں کے آسمان پر جانے کو ( جن کے متعلق گمان کیا جاتا ہے کہ خدا نے ان کی شخصیت میں کبسم اختیار کیا تھا) آخر کیوں درست تسلیم کرنے سے مستثنیٰ قرار دیا جائے.لہذا محفوظ اور بہتر طریق یہی ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ جو ایسی بے سروپا باتوں پر اعتقاد رکھتے ہیں بے مقصد بحثوں میں الجھنے سے پر ہیز کیا جائے.خیالی پلاؤ کے رنگ میں بے سروپا تصوراتی باتوں پر ایمان رکھنے والے ایسے بھولے اور ضعیف الاعتقاد لوگوں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا وہ ان لوگوں میں سے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ آسمان پر چڑھ کر بہت دور دراز واقع اپنی آسمانی آرام گاہوں میں جا چھپے اور وہیں غائب ہو گئے کسی ایک کے متعلق بتا سکتے ہیں کہ وہ کبھی زمین پر واپس آیا تھا.کیا پوری انسانی تاریخ میں سے ایک مثال ایسی پیش کی جاسکتی ہے کہ کوئی شخص جو مبینہ طور پر جسدِ عصری کے ساتھ آسمان پر گیا تھا وہ جسمانی طور پر واپس بھی آیا ہو ؟ اگر کوئی ایسی مثال ہے تو ہمیں بھی دکھائی جائے.ایسے دعاوی کے کبھی پورا نہ ہو سکنے اور پورا ہونے کی کسی ایک مثال کے بھی موجود نہ ہونے کے پیش نظر ہمارے لیے دوراہوں میں سے ایک منتخب کرنے کے سوا چارہ نہیں رہتا.یا تو ہم ایسے دعاوی کو دھو کے یا مغالطہ پر مبنی قرار دے کر یک قلم مسترد کر دیں یا انہیں استعارہ قرار دے کر تمثیلی رنگ میں انہیں قبول

Page 175

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 158 کریں جیسا کہ خود مسیح نے الیاس کی آمد ثانی کے بارہ میں اس کے برنگ استعارہ پورا ہونے کا ذکر کیا ہے.اس سے یہ امر ظاہر ہو جاتا ہے کہ جو لوگ مسیح کے لفظی معنوں میں آسمان سے نازل ہونے کے منتظر ہیں انہوں نے اپنے اور مسیح کی اصل حقیقت کے درمیان ایک رکاوٹ حائل کر دی ہے.اگر مسیح دوبارہ آئے گا تو اپنے سے پہلے آنے والے تمام مقدس مصلحین کی طرح ایک انسان کے طور پر ہی آئے گا.اگر وہ ایک عاجز انسان کے روپ میں آج آجاتا ہے اور ایک ایسی سر زمین میں پیدا ہوتا ہے جو فلسطین میں واقع یہودیہ کی سر زمین جیسی ہے اور اسے اس امر پر مامور کیا جاتا ہے کہ وہی کردار پھر ادا کرے جو اس نے اپنی پہلی بعثت کے وقت ادا کیا تھا تو کیا اس بار اس نئی سر زمین کے رہنے والے اس کے ساتھ ایسے طریق اور انداز کا سلوک کریں گے جو اس طریق اور انداز کے سلوک سے مختلف ہو گا جو اس کے ساتھ پہلے یہودیہ میں روار کھا گیا تھا؟ بعثت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے ایمان اور یقین کی رو سے مسیح کی آمد ثانی کی اصل حقیقت وہی ہے جسے ہم نے اوپر بیان کیا.ٹھیک آج سے ایک سو سال قبل کی بات ہے کہ خدا کے ایک عاجز بندہ کو جس کا نام مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہے خدا کی طرف سے بتایا گیا کہ مریم کا بیٹا مسیح ناصری جس کے بجنسہ آمد ثانی کا عیسائی اور مسلمان دونوں یکساں طور پر انتظار کر رہے ہیں خدا کا ایک خاص نبی تھا، تمام دوسرے نبیوں کی طرح وہ بھی وفات پاچکا ہے.مرزا غلام احمد صاحب نے اعلان کیا کہ یسوع جسمانی طور پر زندہ نہیں ہے اور نہ اسے کبھی جسمانی طور پر آسمان پر واقع کسی جگہ اٹھایا گیا کہ جہاں قیام کر کے وہ زمین پر دوبارہ نازل ہونے کا انتظار کرے.وہ تمام دوسرے نبیوں کی طرح وفات پا گیا تھا، وہ صرف خدا کا ایک نبی تھا، اس سے بڑھ کر اسے کوئی اور درجہ یا مقام حاصل نہیں تھا.آپ کو منجانب اللہ بتایا گیا کہ مسیح کی آمد ثانی (جس کے عیسائی اور مسلمان یکساں طور پر انتظار کر رہے ہیں) سے مراد اس کی روحانی آمد ہے نہ کہ جسمانی آمد.پھر خدا نے آپ پر یہ بھی انکشاف فرمایا کہ خدا نے آمد ثانی کی پیشگوئی کو پورا کرنے کی غرض سے اس آخری زمانہ میں آپ کو مسیح بنا کر بھیجا ہے.مرزا غلام احمد صاحب کا پنجاب کے ایک معزز گھرانے سے تعلق تھا.آپ کے خاندان کی تمام تر جد و جہد خاندان کی دولت اور عزت و وجاہت کو بڑھانے اور اضافہ کرنے کے لئے وقف تھی.آپ نے اپنے آپ کو اس دوڑ دھوپ اور عام دنیوی مشاغل سے دور رکھا.آپ کا اکثر وقت اللہ تعالی کی عبادت کرنے یا مذ ہبی

Page 176

159 مسیحیت آج کے دور میں کتب کے زیر مطالعہ رکھنے میں گزرتا تھا.آپ ایک ایسے شخص کی طرح زندگی گزار رہے تھے کہ جس کی دنیا اور دنیوی مشاغل سے قریباً کوئی تعلق باقی نہ رہا تھا حتی کہ آپ کو اس چھوٹے سے قصبہ میں بھی جہاں آپ پیدا ہوئے تھے کوئی نہ جانتا تھا.پھر یوں ہوا کہ رفتہ رفتہ آپ ہندوستان کے مذہبی افق پر اسلام کے بطل جلیل اور فتح نصیب جرنیل کی حیثیت سے ابھر ناشروع ہوئے اور ایک پاک باز اور مقدس و مطہر انسان کی حیثیت سے آپ کی شہرت پھیلنے لگی اور اس شہرت میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا حتی کہ صرف مسلمانوں میں ہی آپ کو عزت و احترام کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی آپ کا احترام کرنے اور آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگے.لوگ بالعموم یہ محسوس کرنے لگے کہ آپ ایک ایسے مرد خدا ہیں جس کا خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق ہے اور خد ا جس سے ہم کلام ہو تا ہے.جس کی دعاؤں کو وہ سنتا ہے اور ان دعاؤں کے جواب سے جس کو وہ نوازتا ہے اور یہ کہ نوع انسان کے دکھوں کے ازالہ کے لیے جس کی پر خلوص تڑپ ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے.بد قسمتی سے اس زمانہ میں اسلام ہندوستان میں بہت قابل رحم حالت میں تھا.عیسائی مشنریوں نے اسے اپنے تابڑ توڑ حملوں کا نشانہ بنایا ہوا تھا اور سلطنت برطانیہ کے طے شدہ اصولی طرز عمل کے مطابق انہوں نے نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف بلکہ مقدس بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھی ایک دل خراش و جگر پاش مہم کا آغاز کر رکھا تھا.مزید بر آں ہندوستان کے سب سے با اثر مذہب ہندومت میں بھی دو مقاصد کے پیش نظر انتہائی پر جوش و پر ولولہ تحریکیں سر اٹھا رہی تھیں.ان کا ایک مقصد تو ہندو ثقافت اور تہذیبی و تمدنی روایات کا از سر نو احیا تھا اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کی سر زمین سے اسلام یہ اور مسلمانوں کا صفایا کر دیا جائے.وہ تحریکیں اسلام اور مسلمانوں کی تصویر کشی اس رنگ میں کر رہی تھیں کہ گویا ہندوستان میں باہر سے آوارد ہونے والے ناقابل برداشت اجنبی ہیں اور انہیں اس سر زمین میں جڑ پکڑنے اور یہاں پھلنے پھولنے حتی کہ قائم رہنے کا کوئی حق نہیں ہے.ان میں سے سب سے زیادہ جارحانہ تحریک آریہ سماج کی تحریک تھی.جس کی بنیاد پنڈت سوامی دیانند سرسوتی (1824ء تا 1883ء) نے 1875ء میں ڈالی تھی.حضرت مرزا غلام احمد کے لئے شاید یہ صورت حال مزید محرک ثابت ہوئی اس امر کی کہ آپ دفاع اسلام کی غرض سے مذاہب کے تقابلی مطالعہ اور اس بارہ میں تحقیق و تدقیق کی طرف خاص توجہ دیں.اس وسیع مطالعہ اور تحقیق و تدقیق نے اسلامی تعلیمات کی حقانیت اور برتری و بالا دستی پر آپ

Page 177

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 160 کے مضبوط و مستحکم ایمان کو مزید جلا بخشی.آپ انسانی مسائل کی گہرائی تک قرآن کی رسائی اور ان کے انتہائی شافی اور کافی حل سے بے حد مسرور ہوئے.آپ نے محسوس کیا کہ اسلام انسان کی عادات واطوار اور چال چلن و کردار کی اصلاح کے لئے لائحہ عمل پیش کرنے میں ازراہ تحکیم ہدایات دینے پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ ان ہدایات کی حکمت واضح کرنے کے لئے نہایت مضبوط منطقی دلائل بھی دیتا چلا جاتا ہے اور وہ دلائل بھی ایسے ہیں جو اس امر کی واقعات اور عملی شہادت کی تائید کے حامل ہیں کہ کسی بھی موضوعی پر صورت حال اور اس کے سیاق و سباق میں اسلام کا تجویز کردہ لائحہ عمل ہی موقع محل کے مطابق ہونے کے باعث بہترین راہ عمل ثابت ہوتا ہے اور یہ کہ کوئی اور لائحہ عمل اس کا متبادل ہو ہی نہیں سکتا.اس کد و کاوش اور انتھک جدوجہد کے نتیجہ میں آپ نے اسلام کا جو اس وقت بالکل بے یار و مددگار نظر آتا تھا اس شان سے دفاع کیا کہ آپ اسلام کے بطل جلیل اور فتح نصیب جرنیل ثابت ہوئے بغیر نہ رہے.اس طرح اس کڑے وقت میں آپ نے ہندوستان میں دفاع اسلام کے انتہائی اہم تقاضوں کو کمال حسن و خوبی اور مہارت سے پورا کر دکھایا.آپ نے ملکی اور قومی سطح پر اسلام کی خدمت کا آغاز نسبتاً چھوٹے حلقہ میں بحث مباحثوں اور مناظروں کے انعقاد سے کیا.پھر یہ جد و جہد وسیع تر حلقوں تک ممتد ہوتی چلی گئی.چنانچہ اسلام کے دفاع میں سب سے زیادہ پیش پیش رہنے والے اور غایت درجہ اہل اور طاقتور و جری مرد میدان کی حیثیت سے دور دور تک آپ کی شہرت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا.اسی زمانہ میں آپ نے ادب عالیہ کے انداز کی عظیم ترین مذہبی تصنیف کے ایک طویل سلسلہ کا آغاز کیا.آپ کی اس زیر تصنیف کتاب براہین احمدیہ کے متعلق آپ کا منصوبہ یہ تھا کہ آپ اسے پچاس جلدوں میں پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے لیکن آپ اس کی پہلی پانچ جلد میں ہی شائع کر سکے.دریں اثنا بہت سے ہنگامہ خیز واقعات کی طرف آپ کو متوجہ ہونا پڑا.اس کے بعد آپ کے لئے ممکن نہ رہا کہ آپ اس نہایت گہرے اور وقیع علمی کام کو اس کے انجام تک پہنچا سکیں.تاہم بعد ازاں آپ نے ضرورت وقت کے تقاضوں کے پیش نظر بہت سی دوسری کتب تصنیف فرمائیں.آپ کی یہ کتابیں ان پورے اور مکمل مضامین پر مشتمل تھیں جن کا آپ اپنی ابتدائی تصنیف میں احاطہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے بلکہ اور بہت سے دیگر مضامین بھی ان کتب میں بیان ہوتے چلے گئے.حقیقت یہ ہے کہ آپ نے نہ صرف اپنے وعدہ کو پورا کیا بلکہ اسلام کی تائید و حمایت میں وعدوں سے بڑھ کر تصنیفی کام کر دکھایا اگر چہ ابتداء امقرر کردہ نام اور عنوان میں تبدیلی

Page 178

161 مسیحیت آج کے دور میں آتی رہی.یہ بہت حیران کن بات ہے کہ آپ نے کسی منشی اور کارندہ کی مدد کے بغیر قریباً اکیلے تن تنہا اتنا وسیع لٹریچر کیسے پیدا کر دکھایا؟ جو کتابیں، مکتوبات، مقالہ جات اور رسالے آپ نے تصنیف کیسے ان کی تعداد ایک سو دس کے لگ بھگ ہے.یہ آپ کے تصنیفی کارنامے ہی نہیں تھے جو پورے بر صغیر میں آپ کی شہرت اور ناموری کا موجب بنے بلکہ آپ کے روحانی اوصاف اور تاثیرات نے بھی وسیع پیمانہ پر آپ کو حاصل ہونے والی شہرت اور عزت و احترام میں بنیادی اہمیت کا کردار ادا کیا.13 بلند و بالا اور وسیع سے وسیع تر ہونے والی شہرت کے جھٹپٹے میں آپ کو خدا کی طرف سے اس امر پر مامور کیا گیا کہ آپ آخری زمانہ کے مصلح کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائیں.جس کی بعثت کے تمام مذاہب منتظر ہیں.چنانچہ مسلمانوں کے نقطۂ نگاہ کے رو سے آپ المہدی یعنی خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ مصلح تھے.نیز عیسائیوں اور مسلمانوں ہر دو کے نقطۂ نگاہ کے رو سے آپ مسیح کی بعثت ثانیہ سے متعلق پیشگوئیوں کو پورا کرنے والے مسیح موعود تھے.تاہم خدا کی طرف سے اس عظیم منصب پر فائز کیے جانے کے نتیجہ میں آپ کو اس تمام شہرت اور مقبولیت سے ہاتھ دھونا پڑے جو آپ کو عند الناس حاصل ہوئی تھی.آخری زمانہ کے لئے خدا کی طرف سے مبعوث کردہ مصلح حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے دعوی ماموریت کو نہ صرف دوسرے مذاہب کے ماننے والوں نے فورا ہی مستر د کر دیا بلکہ خود ہندوستان کے مسلمان یک دم آپ کا ساتھ چھوڑ کر زیادہ شدت کے ساتھ آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے حالانکہ آپ اسلام اور ان کے مفادات کی کمال درجہ جرآت و دلیری اور مہارت سے وکالت کر رہے تھے.آپ کے لئے عملاً یہ ایک نئی روحانی پیدائش تھی جیسا کہ آپ دنیا میں اکیلے آئے تھے اسی طرح آپ کو مذہب کی دنیا میں بھی اکیلے تن تنہا انسان کی حیثیت سے زندگی کا آغاز کرنا پڑا.وہ تمام لوگ جو پہلے حمایتی کی حیثیت سے آپ کے ارد گرد جمع تھے آپ کا ساتھ چھوڑ کر الگ ہو گئے.لیکن خدا نے آپ کو نہیں چھوڑا.لوگوں کی طرف سے انتہائی شدید مخالفت کے باوجود آپ کو خدا کی طرف سے بار بار نازل ہونے والے الہاموں کے ذریعہ یہ یقین دلایا گیا کہ وہ آپ کی تائید و نصرت فرمائے گا.خدا نے اپنے ایک الہام میں فرمایا: دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ 13 اس تعداد میں وہ ہزاروں خطوط شامل نہیں جو آپ نے اپنے معتقدین کو لکھے.پبلشر

Page 179

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 162 ایک اور موقع پر خدا نے آپ کو الہاماً بتایا: ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“ یہ ہیں بعض ابتدائی الہامات جو مخالفوں کی طرف سے رد کیے جانے اور اکیلا چھوڑ دیئے جانے کے دوران آپ کے لئے خاص سہارے اور تقویت کا موجب ہوئے.اس وقت سے اب ایک سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس عرصہ میں آہستہ آہستہ لیکن کمال تقویت اور دلجمعی کے انداز میں صورت احوال کی جو تصویر ابھری ہے وہ آپ کے دعاوی، پیش گوئیوں اور الہامات کی صداقت کو پوری طرح آشکار کر رہی ہے.وہ اکیلا شخص بڑھ کر دنیا کے پانچ بر اعظموں میں پھیلے ہوئے 134 ممالک میں اب ایک کروڑ انسانوں کی حیثیت اختیار کر چکا ہے.اس کا پیغام کیا مشرق اور کیا مغرب ہر طرف زمین کے آخری کناروں تک پہنچ چکا ہے.امریکہ، یورپ، افریقہ اور ایشیا میں نیز بحر الکاہل کے جنوب مشرقی حصہ میں واقع دور و دراز جزیروں جیسے نجی، توالو، سولومن وغیرہ میں اسے مہدی اور بعثت ثانیہ کے رنگ میں ظاہر ہونے والا مسیح موعود تسلیم کرنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں.اس کے باوجود ابھی اس کے ماننے والوں کے بلحاظ جسامت دنیائے عیسائیت کے سمندر کے بالمقابل ایک بے حیثیت چھوٹا سا تالاب قرار دیا جاسکتا ہے.حضرت مرزا غلام احمد کی قائم کردہ جماعت کی کامیابیوں کو تفصیل سے بیان کرنے کی اس مختصر مقالہ میں گنجائش نہیں لیکن اس امر کی طرف بطور خاص توجہ دلانا ضروری ہے کہ موجودہ زمانہ میں کوئی اور مذہبی تحریک ایسی نہیں ہے جس نے آپ کی جماعت کی طرح مضبوط قدم اٹھاتے ہوئے اس تیزی سے ترقی کی ہو.آپ کی جماعت کی حیثیت نہ کسی مسلک کی ہے اور نہ یہ مقبول عوام پر شوق مشغلہ کی آئینہ دار ہے.یہ ایک نہایت سنجیدہ اور اہم پیغام کی حامل ہے اور اس پیغام پر عمل پیرا ہونے کے لئے انتھک جد وجہد اور نظم وضبط کی ضرورت ہے.اور اس میں کامیابی سے ہمکنار ہونا پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کے مترادف ہے.جو لوگ اس پیغام پر عمل پیرا ہونے کے لئے آمادہ ہوتے ہیں وہ اپنے اندر عظیم ذمہ داریاں ادا کرنے کا پختہ عزم پیدا کر کے زندگی بھر ان ذمہ داریوں کو نبھاتے چلے جاتے ہیں.یہ پاکیزگی و طہارت اور اخلاقی اصولوں کی اسی طرح پابندی کی قائل ہے جس طرح ابتدائی ایسین سوسائٹی (Essene Society) کے افراد ان کے پابند تھے.مسیح موعود علیہ السلام کی حیثیت سے حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے دعوی کو تسلیم کرنا رومانوی انداز کے کسی بے قید مشغلہ کی طرح ہنسی کھیل نہیں ہے بلکہ یہ آئینہ دار ہے ایک پختہ عہد کو زندگی

Page 180

163 مسیحیت آج کے دور میں بھر نبھانے اور مسلسل نبھاتے چلے جانے کے عزم مصم کا.اور پھر اس عزم مصمم کو عملاً پورا کر دکھانے کا جو لوگ صدق دل سے آپ کے دعوی کو قبول کر کے اس پر ایمان لاتے اور اس طرح آپ کی قائم کردہ جماعت میں داخل ہوتے ہیں انہیں دنیوی زندگی کے بے مقصد عیش و آرام کو خیر باد کہنا پڑتا ہے لیکن تارک الدنیاراہبوں کی طرح وہ دنیا سے بالکل لا تعلقی اختیار نہیں کرتے.انہیں پورے یقین، پختہ ایمان اور دلی بشاشت وطمانیت کے ساتھ زندگی کے صرف بے مقصد مشاغل سے علیحدگی اختیار کرنی پڑتی ہے.یہی چیز انہیں مسلسل قربانیاں کرنے اور اپنے مقصد میں حقیقی کامیابی حاصل کرنے کے قابل بناتی ہے.آپ نے اپنی قوت قدسیہ کے زیر اثر ایک ایسی عالمگیر جماعت قائم کر دکھائی جو بڑھ چڑھ کر مسلسل مالی قربانیاں پیش کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتی.اس میدان میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے.اس جماعت کے روزی کمانے اور آمد پیدا کرنے والے افراد کو یہ پختہ عہد باندھنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی آمدنی کا کم از کم سولہواں حصہ غلبہ اسلام کے مقدس مقصد کی خاطر باقاعدگی سے ادا کرتے چلے جائیں گے.دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اس جماعت کے افراد میں رضا کارانہ قربانی کے جذبے اور رضا کارانہ بے انداز عملی خدمت انجام دینے کی روح دیکھ کر دنیا والے ورطہ حیرت میں پڑے بغیر نہیں رہتے اور یہ سب کچھ کسی بھی نوعیت کے خفیف سے خفیف جبر کے بغیر خود کار مشینوں کے متحرک پرزوں کی طرح ظہور میں آتا ہے.جو اراکین جماعت مالی قربانی اور رضا کارانہ عملی خدمت میں حصہ لینے کی سعادت سے بہرہ ور ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ انہیں ایسا کرنے کی توفیق نصیب ہوئی.یہ ایک ایسی جماعت ہے جو اپنے مالی معاملات میں کلی طور پر آزاد اور خود کفیل ہے.رضا کارانہ حصہ لینے کا یہ عالمی نظام کمال تقدس اور پورے استحکام کے ساتھ استواری کی شرط پر پورا اترتے ہوئے قائم و دائم چلا آرہا ہے.ایک صدی سے زاید عرصہ گزرنے کے باوجود اس کا خارجی اثرات سے مکمل طور پر محفوظ رہنے کا تمام راز اس کے اس بے نظیر نظام میں ہی مضمر ہے.یہ جائزہ تو صرف ایک زاویہ نگاہ سے اس کے صرف ایک پہلو تک محدود ہے.اس جماعت کے اراکین کی کار کردگی کی کیفیت اور معیار کا دوسرے زاویہ ہائے نگاہ سے جائزہ لینے کے نتیجہ میں جو منظر نامہ ابھرتا ہے وہ کچھ کم دل موہ لینے والا نہیں ہے.یہ ایک ایسی جماعت ہے جو اپنے اخلاق، پر امن بقائے باہمی، ایک دوسرے سے محبت اور انسانی اقدار کے احترام میں دوسروں کے بالمقابل نمایاں حیثیت کی حامل نظر آتی ہے.یہ ایک ایسی مذہبی جماعت ہے جس کی قانون کے احترام نیز بلا امتیاز مذہب و ملت اور بلا تفریق رنگ و نسل مہذبانہ انسانی تعلقات کی خصوصی پاسداری کی

Page 181

وجہ سے ساری دنیا میں تعریف کی جاتی ہے.مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 164 ایک قاری شاید محسوس کرے کہ ہم جماعت احمدیہ کے اس تفصیلی ذکر کی وجہ سے ایک ایسی سمت کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں جس کا موضوع زیر بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے.میں نہایت ادب سے عرض کروں گا کہ اگر کسی قاری کو ایسا گمان گزرتا ہے تو اصل نکتہ تک اس کی رسائی نہیں ہو سکی اس بحث کے ربط کو یسوع مسیح کے ایک ارشاد کی روشنی میں بخوبی سمجھا جاسکتا ہے اور وہ ارشاد یہ ہے.درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.یا تو درخت کو بھی اچھا کہو اور اس کے پھل کو بھی اچھا، یا درخت کو بھی برا کہو اور اس کے پھل کو بھی برا، کیونکہ درخت پھل ہی سے پہچانا جاتا ہے.“ (متی باب 12 آیت 33) آج اگر کوئی حضرت مرزا غلام احمد کے دعوی کی صداقت کو پر کھنا چاہتا ہے تو بہترین اور سب سے زیادہ قابل اعتماد و یقین معیار صداقت یہی ہے کہ دیکھا جائے کہ اس درخت کا پھل کیسا ہے ؟ اس معیار کے رو سے اس امر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آیا آپ ہی وہ موعود مسیح ہیں جس کے آنے کی پیش گوئی نہ صرف خود یسوع مسیح نے کی تھی بلکہ مقدس بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جس کے ظہور کی بشارت سے نوازا تھا.یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنا کہ آپ نے کس قسم کے پیرو پیدا کئے اور گزشتہ ایک صدی نے ان پر کیا اثر ڈالا ہے بہت مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہوئے بغیر نہ رہے گا سوال یہ بھی پیدا ہو گا کہ کیا زمانہ کے لوگوں نے ان کے ساتھ ویسا سلوک کیا ہے جیسا کہ پہلی صدی عیسوی میں یسوع مسیح کے ماننے والوں کے ساتھ کیا گیا تھا؟ پھر یہ سوال بھی ضرور ابھر کر سامنے آئے گا کہ جب آپ کو اور آپ کی جماعت کو صفحہ ہستی سے نابود کرنے کی کوششیں کی جارہی تھیں تو آپ کے ساتھ خدا کا سلوک کیسا تھا؟ کیا خدا کا سلوک آپ کی مظلوم جماعت کے حق میں تھا یا کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ خدا کا سلوک آپ کی جماعت کے خلاف تھا؟ کیا حضرت مرزا غلام احمد کے ماننے والوں نے ابتدائی مسیحیوں کی طرح تمام نامساعد حالات اور مشکلات و مصائب کے دوران خدا کی زبر دست تائید و نصرت کو اپنے حق میں نازل ہوتے مشاہدہ کیا؟ اگر ایسا ہوا کہ جب بھی انہیں مصائب و شدائد کی چکی میں پیسا گیا تو پیسے جانے اور سفوف میں تبدیل کیے جانے کی بجائے وہ اس میں سے اور ابھی زیادہ تعداد میں اور پہلے سے بھی بڑھ کر طاقتور بن کر نکلے اور دنیا کے سامنے اور زیادہ نمایاں ہو کر آئے اور زیادہ معزز ٹھہرائے گئے تو پھر یقیناً ایسے مدعی کے دعوی کو معمولی سمجھ کر نظر انداز

Page 182

165 مسیحیت آج کے دور میں نہیں کیا جاسکتا.ایسے دعوی کو نہ کسی مجنون کی بڑ قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے خوابوں کی دنیا میں کھو جانے والے کسی شیخ چلی کے خیالی پلاؤ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے.احمدیت ایک ایسی حقیقت ثابتہ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے کہ آج ایک صدی کے بعد اس کا مشاہدہ ایک ایسے افق پر کیا جاسکتا ہے جو پہلی صدی عیسوی کے اختتام کے افق سے کہیں زیادہ وسیع تر اور نمایاں تر واقع ہوا ہے.یہ ہے معاملہ اور حال احوال ایک ایسے مسیح کا کہ جو کسی فسانہ کا کردار نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت کے طور پر آج سے دو ہزار سال پہلے مبعوث ہوا تھا اور اس زمانہ میں پھر ایسے مسیح کا معاملہ در پیش ہے جس کی بعثت ثانیہ اتنی ہی حقیقی ہے جتنی کہ ایک مامور من اللہ کی حیثیت سے اس کی پہلی بعثت حقیقی تھی.اب یہ کلیڈ اس زمان کے لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ اگر چاہیں تو قصوں، کہانیوں اور تخیلات کی دنیا میں اپنی زندگی جاری رکھیں اور اپنے اپنے مذہب اور عقیدہ کے مطابق اپنے اپنے موعود مصلح کا ابد تک انتظار کرتے رہیں یا پھر تخیلات کی دنیا سے باہر آکر اس زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کو قبول کریں.ایک بات ایسی ہے جس سے سب کو ضرور اتفاق کرنا چاہیے کہ ایک نہیں بہت سے مذہبی رہنما ایسے گزرے ہیں جن کا مرتبہ عام انسانی درجہ سے بڑھا کر انہیں معبود قرار دے دیا گیا.پھر ایک دفعہ نہیں بلکہ بہت مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ مذہبی رہنماؤں کے متعلق یہ تصور کر لیا گیا کہ وہ مرے نہیں بلکہ زندہ ہی آسمان پر چلے گئے اور وہاں کہیں دور خلاؤں میں واقع اپنی آرام گاہوں میں انتظار کر رہے ہیں کہ وہ وقت آنے پر دوبارہ کرہ ارض پر نازل ہوں.اس کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے کہ کوئی کیوں ان جملہ دعاوی میں سے ایک دعوی کو قبول کرے اور دوسرے کو مسترد کر دے کیونکہ یہ محض دعاوی ہیں.ان کی تائید میں کوئی مثبت ، حتمی اور سائنسی ثبوت پیش نہیں کیا جاتا اور نہ پیش کیا جا سکتا ہے.لہذا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ یا تو سب دعاوی کو قبول کیا جائے یا سب کو ہی مجموعی طور پر مسترد کر دیا جائے.یہی ایک منصفانہ اور دیانت دارانہ طرز عمل ہو گا.خیالی طور پر آسمان پر زندہ پہنچائے جانے والے مذہبی رہنماؤں کے متعلق ایک بات یقینی ہے کہ ایک دفعہ اپنی زمینی زندگی ختم کر کے یہاں سے جانے کے بعد ( بلالحاظ اس کے کہ ان کے ماننے والوں کے نزدیک وہ کس طریق پر یہاں سے رخصت ہوئے ) نوع انسانی کی پوری تاریخ میں ان میں سے کوئی ایک بھی زمین پر واپس نہیں آیا.مزید بر آں ایک اور بات بھی حتمی اور یقینی ہے کہ وہ سب مقدس روحانی رہنما جنہیں خداؤں کا درجہ دیا گیا یا جنہیں خدا کا شریک ٹھہرایا گیا انہوں نے اپنی زندگیاں عام عاجز انسان کی زندگی ہی گزاری یہاں تک کہ موت نے انہیں آلیا.یہ صرف ان کے پیروکار ہی تھے جنہوں نے بعد میں انہیں خدا قرار

Page 183

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 166 دے ڈالا.مگر یاد رکھیے ان میں سے کبھی کسی ایک نے بھی قدرت کے نظام کو چلانے میں کسی قسم کا کوئی کر دار ادا کرنے کا مظاہرہ نہیں کیا.ہمیشہ سے ایک ہی ہاتھ قوانین قدرت پر حکمرانی کرتا چلا آرہا ہے.آسمانوں اور قوانین کے آئینہ میں ہر سطح پر صرف اور صرف ایک خدا کا چہرہ منعکس ہو کر اپنی جلوہ نمائی کر رہا ہے.قرآن مجید کہتا ہے: وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا- لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِذَا تَكَادُ السَّمَوَاتُ يَتَفَكَّرْتَ مِنْهُ وَتَنْشَقُ الْأَرْضُ وَتَخِرُ الْجِبَالُ هَذَا أَن دَعَوُا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا - وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمَنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا.(مریم:89-93) ترجمہ : اور یہ (لوگ) کہتے ہیں کہ (خدائے ) رحمان نے بیٹا بنالیا ہے.( تو کہہ دے) تم ایک بڑی سخت بات کہہ رہے ہو.قریب ہے کہ (تمہاری بات سے ) آسمان پھٹ کر گر جائیں اور زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر (زمین پر) جاپڑیں اس لئے کہ ان لوگوں نے (خدائے) رحمان کا بیٹا قرار دیا ہے.اختتامی الفاظ جہاں تک تحقیق و تدقیق کا تعلق ہے ہم نے اپنی طرف سے اس کا حق ادا کرنے میں پوری دیانتداری اور انصاف سے کام لیا ہے لیکن قبل اس کے کہ ہم اس بحث کو یہیں لپیٹ دیں ہم عیسائی دنیا سے بڑے خلوص کے ساتھ پر زور اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ زندگی کے ٹھوس حقائق کا سامنا کرنے کے لئے اپنے گھڑے ہوئے بناوٹی عقیدہ کے گنبد بے در یا تنہائی کے خول سے باہر نکلیں.یسوع مسیح اپنے دور اور زمانہ کے لحاظ سے بہر طور ایک کامل انسان تھا، انسان سے بڑھ کر کچھ اور نہ تھا.وہ خدا کے ایک خاص پیغمبر کی حیثیت سے جسے مسیح کے لقب سے ملقب کیا گیا تھا ان رفعتوں تک پہنچا جن تک پہنچنا اس کے لئے مقدر تھا.ان رفعتوں نے اسے موسی علیہ السلام سے لے کر اپنی بعثت تک کے درمیانی زمانہ کے تمام نبیوں میں ایک لاثانی مقام کا حامل بنادیا.یقیناً ہر نبی کے سپر د ایک بہت مشکل کام کیا جاتا ہے اور ایک اہم مشن اسے سر انجام دینا ہو تا ہے.اسے مکمل طور پر بگڑے ہوئے اور قسم ہا قسم کی برائیوں میں ملوث انسانوں کی اصلاح کے اہم اور

Page 184

167 مسیحیت آج کے دور میں ظیم الشان کام پر مامور کیا جاتا ہے.جہاں تک مسیح کا تعلق ہے اس کے سپر د جو کام کیا گیا تھا وہ اور ابھی زیادہ مشکل تھا کیونکہ اس نے معاشرہ میں عام پائی جانے والی برائیوں اور بدیوں کے خلاف زبر دست اصلاحی مہم کا ہی آغاز نہیں کرنا تھا بلکہ اس نے یہودی قوم کے رویہ ، رجحان اور طرزِ عمل میں ایک بنیادی تبدیلی لانا تھی.جیسا کہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ ہوتا ہے وہ زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ صداقت کے راستہ سے ہٹنے لگتے ہیں حتی کہ گمراہی و ضلالت اور گناہ کے ویرانہ میں بھٹکنا شروع کر دیتے ہیں.یہودی قوم کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا.مسیح کے مبعوث ہونے تک وہ حقیقی معنوں میں روحانی طور پر مردہ ہو چکے تھے.روحانی زندگی کا پانی جزر کی حالت اختیار کر کے کم ہوتے ہوتے بالکل معدوم ہو گیا تھا حتی کہ وہ پورے طور پر پتھر دل بن گئے تھے.مسیح کے سپر د جو کام کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ وہ ان پتھر دلوں کو روحانی طور پر دوبارہ دھڑکتے ہوئے انسانی دلوں میں تبدیل کر کے انہیں اس قابل بنادے کہ ان میں سے ہمدردی کے چشمے پھوٹنے لگیں.یہ وہ عظیم معجزہ تھا جو مسیح کے ذریعہ رونما ہوا اور اس معجزہ میں ہی اس کی عظمت پنہاں ہے.آج دنیائے اسلام اور دنیائے عیسائیت مشترکہ طور پر مسیح کی آمد ثانی کا انتظار کر رہی ہیں.مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کو یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جس مسیح کا اس آخری زمانہ میں آنا مقدر تھا اس نے اپنی خوبو، اوصاف و کر دار اور مقصد بعثت کی امتیازی شان کے لحاظ سے لازمی طور پر اسی طرح اور انداز کا مسیح ہونا تھا جیسا مسیح پہلے مبعوث ہوا تھا.تاہم بانی اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے مطابق اس مسیح نے اپنی بعثت ثانیہ کے وقت دنیائے عیسائیت میں نہیں بلکہ دنیائے اسلام میں مبعوث ہونا تھا بایں ہمہ جو عظیم معجزہ اس نے دکھانا تھا وہ وہی تھا جو اس نے اپنی پہلی بعثت کے وقت دکھایا تھا لیکن اس مرتبہ اس کے سپر د ہونا تھا آخری زمانہ کے مسلمانوں کے دلوں کو بدلنے کا کام.اس کی بعثت ثانیہ کے مقصد کی اس تفہیم کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض دوسری احادیث سے بھی ہوتی ہے.آپ صلی ا ہم نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں مسلمانوں کی حالت بگڑے ہوئے زمانہ کے یہودیوں کی حالت سے اس درجہ مشابہ و مماثل ہو گی کہ جس طرح جو تیوں کے جوڑے کی ایک جوتی دوسری جوتی کے عین مشابہ ہوتی ہے.پس اگر پہلے جیسی بیماری ہی لاحق ہونا تھی تو علاج بھی بعینہ پہلے جیسا ہی ہونا تھا.مراد یہ کہ مسیح کو واپس آنا تھا اسی عاجزانہ طریق کے مطابق جس عاجزانہ طریق کے مطابق وہ پہلے آیا تھا لیکن اس بار بھی اللہ تعالیٰ

Page 185

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 168 کی سنت قدیمہ کے مطابق جسمانی طور پر نہیں بلکہ روحانی طور پر آنا تھا.یعنی اسی خو بو ، انہیں اوصاف اور اسی امتیازی کردار کے ساتھ ایک دوسرے وجود کے طور پر آنا تھا.چنانچہ یہی کچھ ہوا اور ظہور میں آیا ہے.دنیا میں انقلاب برپا کرنے والی مقدس ہستیاں غیر معروف اور عاجز انسانوں کی طرح ہی پیدا ہوتی ہیں اور عاجزانہ زندگی بسر کرتی ہیں.ایسے مقدس لوگ دوبارہ دنیا میں آتے ہیں لیکن آتے ہیں روحانی طور پر البتہ آتے ہیں اسی پہلے والے انداز سے اور پھر ان کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے جو پہلے ہوا تھا.دنیا ویسی ہی درشتی، قساوت قلبی، عصبیت اور جنون کی حد کو پہنچی ہوئی دشمنی کا مظاہرہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی.انہیں کبھی آسانی سے شناخت نہیں کیا جاتا کہ یہ انہیں کے نمائندہ ہیں جنہوں نے ان کی دوبارہ آمد کا وعدہ کے رنگ میں ذکر کیا تھا.اپنی بعثت اولی میں مسیح کو یہودیوں کی طرف سے جس سلوک کا سامنا کرنا پڑا تھا لازمی طور پر وہی سلوک اس کے ساتھ اس کی آمد ثانی کے وقت ہو نا تھا.لیکن اس دفعہ ہو نا تھا مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کی طرف سے کیونکہ دونوں ہی اس کا انتظار کر رہے تھے.اس کو اپنے دوبارہ آنے سے متعلق دونوں کی سراسر لا یعنی اور غیر حقیقی تو قعات کا سامنا کرنا تھا.دنیوی کامیابیوں کے انہیں خیالی مقاصد کے حصول کی تمناؤں سے اس کا واسطہ پڑنا کرنا تھا، اور خود اپنے بارہ میں انہی غیر حقیقی کارناموں کی انجام دہی کے نرالے نظریات سے اس کو دو چار ہونا تھا جن کا مظاہرہ یہودیوں نے یسوع مسیح کی بعثت کے وقت کیا تھا.بعثت ثانیہ کے وقت مسلمانوں اور عیسائیوں نے اسی کردار کا اعادہ کرنا تھا.یہ امر مقدر تھا کہ تاریخ اپنے آپ کو بعینہ پھر اسی طرح دہرائے.پیچھے مڑ کر دیکھنے اور تاریخ کے گزرے ہوئے اس دور میں جھانکنے سے اس امر کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ یہودی اپنے مسیح کو شناخت کرنے میں کیوں ناکام رہے تھے.ہم ان کی مشکل کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں اور ان کے المیہ سے سبق حاصل کر سکتے ہیں.صحائف کی لفظی اور یکسر سطحی تفہیم نے انہیں گمراہ کیا.ان سب باتوں پر پہلے گفتگو ہو چکی ہے لیکن اس مسئلہ پر زور دینے کی خاطر ہم اس کا دوبارہ حوالہ دیناضروری سمجھتے ہیں.تاریخ شاہد ہے کہ متوقع مذہبی مصلحین کے بارہ میں ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ اکثر لوگ انہیں شناخت کرنے میں ناکام رہتے ہیں کیونکہ ان کی نشانیوں کو غلط رنگ میں لیا جاتا ہے اور ان کے غلط معنی نکالے جاتے ہیں.حقیقتوں کو کہانیوں کا درجہ دے دیا جاتا ہے اور استعاروں کے اصل مفہوم سے صرف نظر کر کے انہیں ظاہری الفاظ تک محدود سمجھ لیا جاتا ہے.

Page 186

169 مسیحیت آج کے دور میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے وجود میں مسیح کی آمد ثانی کے وقت وہی کہانی پھر دہرائی گئی.آسمان سے ایلیا نبی کے نزول کے عقیدہ کے مطابق (جس کا مسیح کے وقت میں یہود انتظار کر رہے تھے) خیال یہ کیا جارہا تھا کہ ایک شخص اپنے انسانی جسم کے ساتھ آسمان سے اترے گا لیکن اس مر تبہ خود یسوع مسیح کے متعلق یہی توقع کی جارہی تھی کہ وہ جسمانی طور پر آسمان سے نازل ہو گا.جہاں تک یہود کا تعلق ہے وہ یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ مسیح بڑی شان و شوکت اور جاہ و جلال کے ساتھ آئے گا اور وہ آتے ہی ایک ایسے دور کا آغاز کرے گا کہ جس میں انہیں اپنے رومی آقاؤں پر غلبہ و تسلط حاصل ہو جائے گا.مسیح ناصری کے آنے کے بعد ان کی یہ من مانی توقعات خاک میں ملے بغیر نہ رہیں.مسیح کی آمد کی جو خیالی تصویر یہودیوں کے ذہنوں میں صدیوں سے بنتی اور نکھرتی چلی آرہی تھی اس سے آنے والے مسیح کا دور کا بھی کوئی تعلق واسطہ نہ تھا.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے وجود میں مثیل مسیح کی آمد کے وقت مسیح کی بعثت اولیٰ کے واقعات سے ملتے جلتے واقعات کا نمایاں طور پر پھر اعادہ ہوا.آپ کے مخالفین نے بالکل وہی کر دار ادا کیا جو پہلے مسیح کے...نے ادا کیا تھا.فرق صرف ناموں ہی کا تھا.مسلمانوں اور عیسائیوں کی غالب اکثریت نے یکساں طور پر مسیح اول کے زمانہ کے یہودیوں کا ہو بہو کر دار اپنا لیا.اعتراضات میں یکسانیت ہے اور دعوی کو مسترد کرنے کی منطق بھی بعینہ وہی ہے لیکن خدا نے اپنے اس عاجز بندہ کے لیے سابقہ مسیح کے زمانہ کے بالمقابل اپنی تائید و نصرت کے زیادہ عظیم الشان نشان ظاہر فرمائے اور اس کے پیغام کو دنیا کے تمام بر اعظموں کے کثیر التعداد ملکوں میں مقابلہ بہت زیادہ تیزی اور سرعت سے پھیلایا.یہ ایسے مبرہن حقائق ہیں جو اپنی دلیل آپ ہیں لیکن انہی کے لیے جو سننے کے واسطے تیار ہوں.یہ وہ حقائق ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ نمایاں اور اجاگر ہوتے جارہے ہیں.لیکن انہی کے لیے جو دیکھنے پر آمادہ ہوں.مزید بر آں ہم عصر مسلمانوں اور عیسائیوں کے طرز عمل کے متعلق میں مسیحیائی کے آئینہ دار پیغام کی روح بھی مختلف نہیں ہے لیکن اثر وہی قبول کریں گے جو اپنی آنکھیں اور کان بند نہیں رکھتے بلکہ ان کو کھلا رکھتے ہیں.ہم آخر میں عیسائیوں اور مسلمانوں کو جو گزشتہ کئی صدیوں سے مسیح کے دوبارہ ظاہر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں اس دور آکر کے لئے خدا کے مقرر کردہ صحیح مرزا غلام احمد قادیانی کے پیش گوئی پر مشتمل الفاظ میں خبر دار کرتے ہیں: یاد رکھو کوئی آسمان سے نہیں اترے گا.ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام

Page 187

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر ان کی اولا د جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر اولاد کی اولاد مرے گیاور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی علیہ السلام اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہو گی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بد ظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑ دیں گے.“ (تذکرة الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 ص67) 170 پس آپ لوگ انتظار کریں یہاں تک کہ ایک نئی نسل پیدا ہو جائے.اور اس نئی نسل کے لوگ ابھی انتظار کریں گے تاکہ آنکہ ان کی حیات کا عرصہ بھی پورا ہو جائے گا اور ایک نئی نسل ان کی جگہ لے لے گی.انتظار کی یہ کیفیت چاہے دنیا کے اختتام تک جاری رہے آسمان سے کوئی صحیح جسمانی طور پر نازل نہیں ہو گا.وہ کتنی ہی تمنا کریں اس کی شخصی اور جسمانی واپسی کی لیکن ان کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو گا.وہ بھی اپنے لئے ایک دیوار گریہ بنالیں جیسے کہ یہود نے تین ہزار سال پہلے ایک دیوار گریہ بنائی تھی لیکن جو چھ یہود کے معاملہ میں ہوا اب بھی وہی ہو گا.ان کے مسلسل یعنی نسلاً بعد نسل گریہ وزاری کرنے اور انتظار کی اذیت اٹھاتے چلے جانے کے باوجود وہ کسی مسیح کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھیں گے.مستقبل میں مسیح کی آمد کے متعلق امیدوں اور توقعات کے وہ خواہ کتنے ہی ہوائی قلعے کیوں نہ تعمیر کریں کبھی ختم نہ ہونے والی خلا اور جوف غیر مختتم کے سوا ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا.ان مسیحیوں کے لئے جو پوری سنجیدگی کے ساتھ مسیح کو خدا کا حقیقی بیٹا یقین کرتے ہیں ہم اس بحث کا اختتام قرآن مجید کے اس انذار پر کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللهُ وَلَدًا - مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِأَبَائِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْان يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا (الكهف:6،5)

Page 188

مسیحیت آج کے دور میں ترجمہ: اور (نیز اس نے اس لئے اسے اتار ہے کہ) تا وہ ان لوگوں کو ( آنے والے عذاب سے آگاہ کرے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے (فلاں شخص کو بیٹا بنالیا ہے.انہیں اس بارہ میں کچھ بھی تو علم (حاصل) نہیں اور نہ ان کے بڑوں کو (اس بارہ میں کوئی علم تھا).یہ بہت بڑی خطر ناک بات ہے جو ان کے مونہوں سے نکل رہی ہے ( بلکہ ) وہ محض جھوٹ بول رہے ہیں.“ 171

Page 189

Page 190

ضمیمه پارتھینو جینیس Parthenogenesis کی اصطلاح افزائش نسل کے اس نظام کے لیے بولی جاتی ہے.جس کے تحت کسی جنسی اختلاط کے بغیر ہی مادین (مؤنث) کا بیضہ تولید از خود زرخیز ہو جاتا ہے.یہ نظام تولید حشرات اور مچھلیوں میں بہت عام ہے اور دیگر بھی جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے.جیسا کہ تیلی (Aphid) میں.جہاں تک رینگنے والے جانوروں کا تعلق ہے تو یہ عمل چھپکلیوں میں جہاں کم اور غیر متوقع بارشیں ہوتی ہیں وہاں اس کے یقینی ثبوت ملتے ہیں.1955ء میں Lancet میں یہ واقعہ رپورٹ ہوا کہ ایک عورت نے ایک بیٹی کو جنم دیا اور اس عمل میں پار تھینو جینس کے عمل کو رد نہیں کیا جاسکتا.یہ عمل ممالیہ (Mammals) میں بھی بطور تجربہ استعمال ہوا ہے.لیکن ابھی تک ممالیہ میں ایسی کسی پیدائش کا بین ثبوت نہیں ہے.اب تک اس حد تک یہ تجربہ کامیاب ہوا ہے کہ چوہے اور خرگوش اس عمل سے حاملہ ہو جاتے ہیں لیکن مدت حمل کے دوران ہی وہ مردہ ہو جاتے ہیں اور ان کا اسقاط حمل ہو جاتا ہے.اس تحقیق میں یہ عمل دھرایا گیا کہ تازہ انسانی بیضہ اور پہلے سے موجود غیر بار آور بیضہ کو الکوحل اور کیلشیم Ionophore کے ساتھ ملایا گیا اور اس کے متحرک ہونے کا مشاہدہ کیا گیا.اس عمل سے یہ بات ابھری کہ انسانی بیضہ کو کیلشیم Ionophore استعمال کرتے ہوئے Parthenogenetically متحرک کیا جاسکتا ہے لیکن یہ تناسب چوہوں میں پائے جانے والے تناسب سے کم ہے.انسانی بیضہ آٹھ خلیوں کی تقسیم تک خود باور ہو سکتا ہے.ان اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم میں ممکن ہے کہ ایسے بہت سارے انسانی استقاط حمل ہوئے ہوں جو اس عمل کی وجہ سے زرخیز ہوئے ہوں.انسانوں میں جزوی Parthenogenesis کا ایک واقعہ New Scientist کے 7اکتوبر 1995 کے مضمون ”The boy whose blood has no father“ کے تحت بیان ہوا.مرد کی صورت میں تمام خلیوں میں لا کروموسوم کا ہونا لازم ہے.لیکن اس تین سالہ بچے کے سفید خون کے خلیوں میں صرف XX کروموسوم موجود تھے.اس خبر کے رپورٹر کے مطابق بعض اوقات chromosomal مادہ کے X کروموسوم میں ہی مردانہ جین موجود پایا گیا.تب محقیقن کا خیال تھا ان کا یہ کیس شاید اسی(Syndrome) کی مثال ہے.لیکن جب انھوں نے DNA کی باریک بین تکینک استعمال کی

Page 191

مسیحیت.ایک سفر حقائق سے فسانہ تک 174 تو ان کے علم میں آیا کہ اس لڑکے کے خون کے سفید خلیوں میں Yکروموسوم موجود ہی نہ تھے.جبکہ بچے کی جلد جینیاتی طور سے اس کے خون سے مختلف تھی اس میں XY دونوں کروموسوم موجود تھے.ایک مزید گہری تحقیق سے ثابت ہوا کہ بچے کے جلد اور خون میں موجود X کروموسوم والدہ سے مشابہ اور والدہ ہی کی طرف سے آئے تھے.اسی طرح خون میں موجود دیگر 22 کروموسوم کے جوڑے مشابہ تھے اور تمام والدہ کی طرف سے آئے تھے.اس کی توجیہہ محقیقین نے یہ پیش کی کہ غیر زرخیز بیضہ خود ہی متحرک ہو کر مشابہ خلیوں میں تقسیم ہونے لگ گیا اور ان میں سے ایک سیل والد کے نطفہ سے متحرک ہوا اور اس کے نتیجہ میں بننے والے خلیوں کے آمیزے سے نیا embryo جنم لینے لگ گیا.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ممالیہ میں جو خلیے parthenogenetically پیدا ہوتے ہیں لازم " نہیں کہ وہ معذور ہوں.اس بچے کے کیس میں وہ ایک معمول کا نظام خون پیدا کرنے کے قابل تھے.Hermaphroditism ایک ایسی معمول سے ہٹ کر جنس ہے.جس میں نر اور مادہ دونوں اندرونی جنسی اعضاء موجود ہوں.اور بیرونی اعضاء دونوں جنسی اعضاء کی خصوصیات ظاہر کرتے ہوں اور کروموسوم نر اور مادہ (Mosaicism xxxy ظاہر کرتے ہوں.1990 میں ہالینڈ میں ہونے والی گھریلو خرگوشوں پر کی گئی ایک تحقیق جس کو Combined Hermaphroditism and Auto-fertilization کا نام دیا گیا محقیقین کے مطابق ایک حقیقی hermaphrodite خرگوش نے بہت سی مادہ خرگوشوں کے ساتھ اختلاط کیا اور جس میں سے دونوں جنس کے 250 بچے پیدا ہوئے.اگلے breeding موسم میں ایک ایسی مادہ خرگوش حاملہ ہوئی جس کو تنہار کھا گیا تھا اور اس نے دونوں جنس کے 7 صحت مند بچوں کو جنم دیا.اُس کو بالکل علیحدگی میں رکھا گیا اور جب Autopsy's کی گئی تو اس میں دو متحرک بیضہ دانیاں اور دو غیر زرخیز testes موجود تھے.جب کروموسوم کا معائنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ Autosomes کی تعداد دوگنی تھی اور دو جنسی کروموسوم غیر یقینی ترتیب کے ساتھ موجود تھے.اس تحقیق میں lymphocytes16, fibroblasts17, red cell antigens18 اور انسانی 14 جب کسی شخص میں جینیاتی طور پر دو مختلف خلیوں کا گروپ پایا جاتا ہو.15 وفات کے بعد لاش کا طبعی معائنہ.انون میں پایا جانے والا سفید لمفی خلیہ.17 ایسا خلیہ جو جڑے ہوئے ریشوں سے بنا ہو.18 کوئی بیرونی مادہ خصوص زہریلا جو جسم میں داخل ہو کر مدافعاتی نظام کو متحرک کر دے.

Page 192

175 ضمیمه سرخ خون کے، خون کے سفید خلیوں کے کروموسوم اور Y-chromosome کی موجودگی اور deoxyribonucleic acid کا مطالعہ کیا گیا.نتائج کا موازنہ والدین اور بہن بھائیوں کے خون کے گروپ کے data کے ساتھ کیا گیا.اس مطالعہ سے یہ ظاہر ہوا کہ ہمارا مریض ایک 19 Chimera ہے.ایک ایسا جاندار جس میں کم از کم دو قسم کے ٹشوز موجود ہوں اور ان کی جنیاتی ساخت مختلف ہو.اگر چہ ماں اور باپ دونوں کا حصہ موجو د ہو.اس کے باوجود کہ اس میں ovotestis موجود ہوں حمل ٹھہر ا اور اس نے بچے کو جنم دیا.19 کوئی نامیاتی جسم جس میں کئی طرح کی جینیائی نسیجیں پائی جاتی ہوں.

Page 192